Language: UR
حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے خطبات علوم و معارف کا ایک انمول خزانہ ہیں اور پیش گوئی کے الہامی الفاظ ’’وہ علوم ظاہری و باطنی سے پُر کیاجائے گا‘‘ پر شاہدناطق ہیں۔ آپؓ کا دور خلافت نصف صدی سے زیادہ عرصہ پر محیط ہے جو ایک تاریخ ساز دور تھا۔ اس نہایت کامیاب اور طویل دور میں آپؓ نے اپنے خطبات جمعہ کے ذریعہ جماعت کی تعلیم و تربیت میں نہایت اہم کردار ادا کیا۔ سیاسی، سماجی اور مذہبی افقوں پر نمودار ہونےوالے ہر معاملے پر بروقت اور درست رہنمائی عطافرمائی۔ الغرض یہ خطبات جمعہ جماعت احمدیہ کا ایک بہت ہی قیمتی خزانہ اور سرمایہ ہیں۔ جسے فاؤنڈیشن نے یکجا کرکے کتابی شکل دی ہے۔
خطبات مود (خطبات جمعہ) 1957ء فرموده سیدنا حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد الصلح الموعود خلیفہ آیح الثانی حه دل
KHUTBAT-I-MAHMUD by HADRAT MIRZA BASHIR-UD-DIN MAHMUD AHMAD KHALIFATUL MASIH II Published by: Printed by:
بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلّى عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ پیش لفظ اللہ تعالیٰ کے فضل و احسان سے فضل عمر فاؤنڈیشن کو حضرت مصلح موعود کے خطبات کی اڑتیسویں جلد احباب کی خدمت میں پیش کرنے کی سعادت نصیب ہو رہی ہے.الْحَمْدُ لِلَّهِ عَلَی ذَلِکَ.اس جلد میں 1957ء کے 34 خطباتِ جمعہ شامل ہیں.حضرت فضل عمر سلطان البیان کے خطبات علوم و معارف کا انمول خزانہ ہیں اور پیشگوئی کے الہامی الفاظ وہ علوم ظاہری و باطنی سے پر کیا جائے گا“ پر شاہد ناطق ہیں.حضرت مصلح موعود کا دور خلافت جو کم و بیش 52 سال پر محیط ہے ایک تاریخ ساز دور تھا.اس نہایت کامیاب طویل دور میں حضور کے خطبات نے جماعت کی علمی و روحانی ترقی اور تعلیم و تربیت میں نہایت اہم کردارادا کیا.حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ فرماتے ہیں:.حضرت مصلح موعود کے خطبات آپ کے قریب بیٹھ کر سنے کا موقع ملتا تھا.تمام دنیا کے مسائل کا آپ کے خطبات میں مختلف رنگ میں ذکر آتا چلا جاتا تھا.دین کا بھی ذکر ہوتا اور دنیا کا بھی.پھر ان کے باہمی تعلقات کا ذکر ہوتا تھا.سیاست جہاں مذہب سے ملتی ہے یا جہاں مذہب سے الگ ہوتی ہے غرضیکہ ان سب مسائل کا ذکر ہوتا تھا.چنانچہ قادیان میں یہی جمعہ تھا جس کے نتیجہ میں ہر کس و ناکس ، ہر بڑے چھوٹے اور ہر تعلیم یافتہ و غیر تعلیم یافتہ کی ایک ایسی تربیت ہو رہی تھی جو بنیادی طور پر سب میں قدر مشترک تھی.یعنی پڑھا لکھا یا ان پڑھ، امیریا غریب اس لحاظ سے کوئی فرق نہیں رکھتا تھا کہ بنیادی طور پر احمدیت کی تعلیم اور احمدیت کی تربیت کے علاوہ دنیا کا شعور بھی حاصل ہو جایا کرتا تھا.چنانچہ بہت
سے احمدی طلباء جب مقابلہ کے مختلف امتحانات میں اپنی تعداد کی نسبت زیادہ کامیابی حاصل کرتے تھے تو بہت سے افسر ہمیشہ تعجب سے اس بات کا اظہار کیا کرتے تھے کہ احمدی طلباء میں کیا بات ہے کہ ان کا دماغ زیادہ روشن نظر آتا ہے ان کو عام دنیا کا زیادہ علم ہے.“ ( خطباتِ طاہر جلد نمبر 7 صفحہ 10) ہمارا یہ روحانی وعلمی ورثہ سلسلہ کے لٹریچر میں بکھرا پڑا تھا اور جماعت کے دوستوں کو اس سے استفادہ کرنا مشکل تھا.فضل عمر فاؤنڈیشن اس جماعتی ضرورت کو پورا کرنے کیلئے ان خطبات کو کتابی شکل میں شائع کر رہی ہے.یہ جواہر پارے اب آپ کے ہاتھوں میں ہیں.ان کی زیادہ سے زیادہ اشاعت سے جہاں ادارہ کے لئے اس کام کو جلد پایہ تکمیل تک پہنچا نا آسان ہوگا وہاں نئی نسل کی تربیت کے لئے بھی یہ بہت ممد و معاون ہوں گے.اس جلد کی تیاری کے سلسلہ میں جن دوستوں نے ادارہ کی عملی معاونت فرمائی ان میں مکرم عبدالرشید صاحب اٹھوال ، مکرم حبیب اللہ صاحب باجوہ، مکرم فضل احمد صاحب شاہد، مکرم عبد الشکور صاحب باجوہ، مکرم عدیل احمد صاحب گوندل ، مکرم ظہور احمد صاحب مقبول ، مربیان سلسله قابل ذکر ہیں.خاکساران سب کا دلی شکریہ ادا کرتا ہے اور دعا گو ہے کہ خدا تعالیٰ ان کے علم وفضل میں برکت عطا فرمائے اور اپنے فضلوں اور رحمتوں سے نوازے.آمین
صفحہ 1 i فہرست مضامین خطبات محمود جلد 38 خطبه نمبر تاریخ بیان فرموده 1 ( خطبات جمعہ 1957ء) موضوع خطبه 4 جنوری 1957 ء دعا کرو کہ نیا سال ہمارے لیے گزشتہ سال سے بہت زیادہ با برکت ثابت ہو.چاہیے کہ جوں جوں اللہ تعالیٰ کے انعامات تم پر زیادہ ہوں تم انکسار اور انابت الی اللہ میں بڑھتے چلے جاؤ 2 11 جنوری 1957ء اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو احرار یورپ کے اسلام کی طرف رجحان کی جو خبر دی تھی وہ پوری ہورہی ہے 4 18 جنوری 1957ء ایک نہایت مبارک رؤیا.دنیا خواہ کچھ کہے لیکن ہمیں یقین ہے کہ ہمارے خدا کی ظاہر کر دہ باتیں بہر حال پوری ہو کر رہیں گی 25 جنوری 1957ء ایک اور مبارک رؤیا.اللہ تعالیٰ کی برکات حاصل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے نقش قدم پر چلیں یکم فروری 1957 ء رؤیا کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ مومن اپنے تو کل اور اُمید کو بڑھائے اور یقین رکھے کہ خدا ضرور کچھ ظاہر کرے گا.تعبیر الرؤیا بڑا نازک اور اہم علم ہے.رؤیا کی حقیقی تعبیر اس کے پورا ہونے پر ہی ظاہر ہوتی ہے 7 14 22 22 31
صفحہ 42 49 49 57 63 86 98 ii خطبه نمبر تاریخ بیان فرموده 6 موضوع خطبہ 8 فروری 1957 ء دعائیں کریں کہ اللہ تعالیٰ کشمیر کے مسلمانوں کو اپنے منشا کے مطابق فیصلہ کرنے اور اس پر کار بند ہونے کی توفیق دے.کشمیر کے متعلق صلح کرانے کی پیشکش کرنے والے ممالک ہر گز پاکستان کے ساتھ خیر خواہی نہیں کر رہے 7 15 فروری 1957 ء اپنے فرض کی اہمیت کو محسوس کر و ا تم اللہ تعالیٰ کی برکتیں حاصل کر سکو.تمہارے قلوب میں لوگوں کی اتنی ہمدردی ہونی 00 8 9 10 چاہیے کہ ہر شخص تمہیں اپنا سچا خیر خواہ سمجھے 15 مارچ 1957 ء قرآنی دعائیں اپنے اندر بڑی بھاری برکات رکھتی ہیں اُن سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کرو.اللہ تعالیٰ پر توکل کرو اور سمجھ لو کہ تمہیں جو بھی برکت اور کامیابی حاصل ہوئی ہے خدا تعالیٰ کی مدد سے ہی حاصل ہوئی ہے 22 مارچ 1957 ء لَقَدْ أَنْزَلْنَا أَيْتِ مُّبَيِّنَتٍ وَاللهُ يَهْدِى مَنْ يَشَاء إلى صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍ - اگر انسان حقیقی مومن بن جائے تو اللہ تعالیٰ اُس کے ایمان کی تازگی کے سامان پیدا کرتا رہتا ہے 29 مارچ 1957ء ایک اہم رؤیا اور اس کی تعبیر.دوستوں کو چاہیے کہ بکثرت استغفار کو اپنا شعار بنائیں اور دعائیں کریں کہ اللہ تعالیٰ جماعت کو ہر شر سے محفوظ رکھے ، اپنے فضل سے اسے کامیابی بخشے اور اس کی تائید و نصرت فرمائے
خطبه نمبر تاریخ بیان فرموده موضوع خطبه 11 12 اپریل 1957 ء اللہ تعالیٰ اَصْدَقُ الصَّادِقِينَ ہے.وہ ہمیشہ سچوں کا ساتھ دیتا ہے.جب کسی فرد یا قوم کے خلاف متواتر جھوٹ بولا جائے تو خدا تعالیٰ کی مدد اور نصرت اسے پہلے سے بھی زیادہ حاصل ہو جاتی ہے 12 19 اپریل 1957 ء مختلف ممالک میں اسلام اور احمدیت کی ترقی کے آثار.تبلیغ کے جو نئے رستے کھل رہے ہیں دعا کرو کہ اللہ تعالیٰ اُن میں ہمیں کامیابی بخشے.313 مئی 1957 ء ، افریقہ، امریکہ اور یورپ میں نئی مساجد کی تعمیر اور ان کی اہمیت.پاکستان کی احمدی جماعتوں کو بھی چاہیے کہ وہ اپنے 14 15 اپنے مقامات پر نئی مساجد تعمیر کرنے کی کوشش کریں 10 مئی 1957 ء ایک اٹالین عورت کی اسلام سے متعلق ایک اہم کتاب 17 مئی 1957 ء دوست دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ترجمہ قرآن کریم کا کام جلد مکمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے.قرآن کریم معارف کا ایک بڑا بھاری خزانہ ہے اس سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانے کی کوشش کرو 16 31 مئی 1957 ء اللہ تعالیٰ ہمارے ساتھ ہے اور اس کا ہمارے ساتھ ہونا یقیناً ہماری صداقت کی دلیل ہے.ہمارا اصل مقصود خدا ہے اگر 17 صفحہ 91 107 114 126 129 وہ ہمیں مل گیا ہے تو پھر دنیا کی مخالفت کوئی حقیقت نہیں رکھتی 135 14 جون 1957 ء اگر انسان پورے یقین کے ساتھ خدا تعالیٰ کو پکارے تو اس کی یکار کبھی ضائع نہیں جاتی اور خدا اُس کی مدد کے لیے دوڑا چلا آتا ہے 140
iv خطبه نمبر تاریخ بیان فرموده 18 موضوع خطبہ 21 جون 1957 ء سچا مومن وہ ہے جو خدا کے مقام اور اس کے رسول کے درجہ میں فرق کو ہمیشہ ملحوظ رکھے 19 12 جولائی 1957 ء مومن کو چاہیے کہ وہ ہر حالت میں میانہ روی سے کام لے 20 19 جولائی 1957 ء مشکلات و مصائب عارضی چیزیں ہیں تم اللہ تعالیٰ پر توکل کرتے ہوئے اس یقین پر قائم رہو کہ بالآ خر تم ہی کامیاب ہو گے 21 26 جولائی 1957 ء جب بھی مشکلات پیش آئیں صبر سے کام لو اور دعاؤں میں لگ جاؤ 22 9 اگست 1957 ء دعا کرو کہ اسلام مغربی ممالک میں جلد ترقی کرے اور اس طرح اللہ تعالیٰ کی پیشگوئیاں پوری ہوں 23 16 اگست 1957ء جب انسان یہ سمجھتا ہے کہ خدائی تقدیر مصیبت اور عذاب کے رنگ میں جاری ہو چکی ہے اللہ تعالیٰ اُس وقت بھی دعا کرنے پر اُسے ٹال سکتا ہے 24 23 اگست 1957 - إِنَّ قُرآنَ الْفَجْرِ كَانَ مَشْهُودًا کی پر معارف 25 30 اگست 1957 ء دنیا میں جب سے انبیاء وخلفاء کا سلسلہ جاری ہے صداقت کی ہمیشہ مخالفت ہوتی رہی ہے حالانکہ اُن کی لائی ہوئی تعلیم ہی 26 26 صفحه 148 154 158 165 170 174 180 بنی نوع انسان کو فلاح اور کامیابی تک پہنچانے والی ہوتی ہے 189 6 ستمبر 1957ء اُدْعُ إِلى سَبِيلِ رَبَّكَ بِالْحِكْمَةِ وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ - انسان کو فائدہ پہنچانے والی اصل چیز یہ ہے کہ دل کو پاک کیا جائے اور اس میں خدا تعالیٰ کی محبت اور خشیت پیدا کی جائے 194
صفح 199 203 207 215 226 242 247 252 V خطبه نمبر تاریخ بیان فرموده موضوع خطبہ 27 20 ستمبر 1957ء ایک حقیقی مومن رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے نقش قدم پر چل کر خدا تعالیٰ کا مقرب بن سکتا ہے 28 4 اکتوبر 1957 ء قرآن مجید کی رُو سے الہی جماعتوں کا مقام.جو شخص اللہ تعالیٰ کی راہ میں ہجرت کرے اُسے وہ وافر جگہ اور ہر قسم کی کشائش عطا فرماتا ہے 29 25 /اکتوبر 1957 ء رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیغام کو دنیا کے کونے کونے تک پہنچانا ہمارا نصب العین ہونا چاہیے 30 یکم نومبر 1957 ء رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ کے دو دور.اللہ تعالیٰ نے کمزوری اور بے بسی کے دور میں بھی آپ کی مدد 31 کی اور طاقت کے زمانہ میں بھی اپنی تائید ونصرت سے نوازا.اگر ہم صحیح معنوں میں آپ کی اتباع کریں تو اللہ تعالیٰ ہمارے ساتھ بھی یہی سلوک کرے گا 8 نومبر 1957 ء مساجد تعمیر کرنا اللہ تعالیٰ کی برکتوں اور اس کے فضلوں کو حاصل کرنے کا ایک اہم ذریعہ ہے 2 22 نومبر 1957 ء ربوہ کے دوستوں کو چاہیے کہ وہ جلسہ سالانہ کے مہمانوں کے لیے اپنے زیادہ سے زیادہ مکانات پیش کریں 33 29 نومبر 1957 ء سورۃ فاتحہ حسن کلام اور طبعی ترتیب کی ایک اعلیٰ مثال ہے.اس سال ہمارے جلسہ سالانہ کو بعض ایسی خصوصیتیں حاصل ہوں گی جو پہلے کسی جلسہ کو حاصل نہیں ہوئیں 34 20 دسمبر 1957 ء احباب کثرت کے ساتھ جلسہ سالانہ پر آئیں اور جلسہ کی برکات سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اُٹھائیں
$1957 1 1 خطبات محمود جلد نمبر 38 دعا کرو کہ نیا سال ہمارے لیے گزشتہ سال سے بہت زیادہ با برکت ثابت ہو چاہیے کہ جوں جوں اللہ تعالیٰ کے انعامات تم پر زیادہ ہوں تم انکسار اور انابت ائی اللہ میں بڑھتے چلے جاؤ (فرمود 40 جنوری 1957ء بمقام ربوہ ) تشہد ،تعو ذاورسورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: گزشتہ سال ہمارے لیے دورنگ میں واقعات کا ظہور ہوا.ایک تو جماعت میں منافقت کا نی فتنہ اُٹھا اور دوسرے جماعت کی ترقی کے خدا تعالیٰ کے فضل سے بہت سے سامان پیدا ہوئے.چنانچہ جماعت کئی نئے ملکوں میں بڑھی ہے اور کئی پرانے ملکوں میں پھیلی ہے.پاکستان میں بھی جماعت پھیلی ہے، ہندوستان میں بھی پھیلی ہے اور پھر ہندوستان اور پاکستان سے باہر بھی کئی علاقوں میں جماعت کے پھیلنے کے سامان پیدا ہوئے ہیں.ڈچ گی آنا میں نئی جماعت قائم ہوئی ہے.اسی طرح جرمنی میں نئے احمدی ہوئے ہیں.پس جہاں جماعت میں ارتداد کا فتنہ پیدا ہوا وہاں اس کے جواب میں جماعت کے لیے کامیابی کے کئی راستے بھی کھلے ہیں.
خطبات محمود جلد نمبر 38 2 $1957 آج یہ جمعہ نئے سال کا پہلا جمعہ ہے.28 دسمبر کو جو جمعہ آیا تھا وہ پچھلے سال کا آخری جمعہ تھا اور یہ 1957 ء کا پہلا جمعہ ہے.میں جماعت سے کہتا ہوں کہ وہ خصوصیت سے دعائیں مانگے کہ خدا کرے یہ سال ہمارے لیے برکتیں اور رحمتیں تو اس سے بھی زیادہ لائے جو گزشتہ سال ہمیں ملیں.لیکن فتنوں کے سلسلہ کو ختم کر دے اور اسے یکسر مٹادے.کیونکہ برکتیں تو بہر حال برکتیں ہیں اور ان کا ہمیں شکر یہ ادا کرنا چاہیے.لیکن اگر ان میں ابتلا ہل جائیں تو وہ ایسا ہی ہوتا ہے جیسے شہر میں کوئی کڑوی چیز ملا دی جائے.بے شک شہد میٹھی چیز ہے اور اس کا کوئی انکار نہیں کر سکتا.لیکن اس کا بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ اس میں کڑوی چیز مل جائے تو اس کا ذائقہ خراب ہو جاتا ہے.پس دوست دعا کریں کہ نیا سال ہمارے لیے گزشتہ سال سے بہت زیادہ با برکت ہو اور اس سال گزشتہ سال سے بیسیوں نہیں سینکڑوں گنا زیادہ ترقی کے سامان جماعت کے لیے پیدا ہوں.اور فتنہ قطعی طور پر مٹ جائے کیونکہ فتنہ چاہے کتنا ہی چھوٹا ہوا سے کم نہیں کہا جاسکتا.برکتوں کے لیے ہم کہہ سکتے ہیں کہ وہ سینکڑوں نہیں ہے ہزاروں گنا زیادہ ہو جائیں لیکن فتنہ کے لیے ہم نہیں کہہ سکتے کہ وہ سینکڑوں گنا کم ہے.کیونکہ فتنہ بہر حال فتنہ ہی ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نصیحت فرمائی ہے کہ کبھی اپنے لیے امتحان نہ مانگو 1 کیونکہ امتحان چاہے کتنا کم ہو وہ خطرناک ہی ہوتا ہے.پس دوست دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ موجودہ فتنہ کو یکسر مٹا دے اور اس سال خفیف سے خفیف فتنہ بھی جماعت میں پیدا نہ ہو.لیکن برکات گزشتہ سال سے سینکڑوں نہیں ہزاروں گنا زیادہ ہوں تا کہ اللہ تعالیٰ کے انعامات سے بہرہ ور ہونے کا ہمیں اور بھی موقع ملے.پھر یہ بھی دعا کریں کہ خدا تعالیٰ کے انعامات بڑھنے کے ساتھ ساتھ ہم سرکش نہ ہوں بلکہ جتنا بھی ہم بڑھیں اور ترقی کریں اُتنا ہی ہم میں انکسار اور انابت الی اللہ زیادہ ہو.اور اللہ تعالیٰ کے احسانات کو دیکھ کر ہم متکبر نہ ہوں اور یہ نہ کہیں کہ یہ ہمارا کام ہے بلکہ جتنا جتنا خدا کا فضل ہم پر نازل ہو اتنا ہی ہمیں یقین ہو کہ ہم ناکارہ اور بے بس ہیں.جو کچھ ہمیں ملا ہے یہ محض خدا تعالیٰ کے فضل کے نتیجہ میں ملا ہے اور جتنازیادہ فضل ہم پر نازل ہو اتناہی زیادہ ہم خدا تعالیٰ کا شکر یہ ادا کرنے والے ہوں.سردی کے یکدم بڑھ جانے کی وجہ سے مجھے شدید نزلہ کی تکلیف ہوگئی ہے، گلا بیٹھ گیا ہے اور ناک سے بھی پانی آتا ہے.اس لیے میں خطبہ جمعہ کو مختر کرتا ہوں تا ایسانہ ہو کہ تکلیف زیادہ ہو جائے.
$1957 3 خطبات محمود جلد نمبر 38 جوانی کے زمانہ میں بھی سردی کے نتیجہ میں مجھے نزلہ اور کھانسی کی تکلیف ہو جاتی تھی.اس سال سردی شروع ہونے کے معا بعد تو مجھے نزلہ کی تکلیف نہیں ہوئی لیکن کل عصر کے بعد یکدم نزلہ کی تکلیف ہو گئی اور ناک سے پانی اس قدر بہنے لگا کہ دو الگانے کے دو تین سیکنڈ بعد پھر وہی حالت ہو جاتی تھی.اس لیے بیماری کے لمبا ہو جانے کے خیال سے میں بات زیادہ لمبی نہیں کرتا.احباب دعا کریں کہ خدا تعالیٰ مجھے صحت دے اور پھر کام کرنے کی توفیق عطا فرمائے.ابھی قرآن کریم کا بہت سا کام پڑا ہے اور اسے ختم کرنا ہے.خدا کرے سردی ختم ہو تو یہ کام دوبارہ شروع کیا جائے.اور اللہ تعالیٰ توفیق دے کہ قرآن کریم کو ہم دنیا کے گوشہ گوشہ میں پھیلا سکیں.ابھی دنیا کی سینکڑوں زبانیں ایسی ہیں جن میں ہم نے قرآن کریم کا ترجمہ کرنا ہے.یہ ترجمہ میں نے تو نہیں کرنا کیونکہ میں وہ زبانیں نہیں جانتا.ترجمہ دوسرے لوگوں نے کرنا ہے.ہاں میں نے اس کام کی نگرانی کرنی ہے اور نگرانی کا کام میں خدا تعالیٰ کے فضل سے کر سکتا ہوں.ابھی تک دنیا کی صرف تیرہ زبانوں میں قرآن کریم کا ترجمہ ہوا ہے اور دنیا کی تیرہ سوز بانیں ہیں.گویا ابھی سو گنا کام پڑا ہے جو ہم نے کرنا ہے اور بارہ سو ستاسی زبانیں ایسی ہیں جن میں ہم نے قرآن کریم کا ترجمہ کرنا ہے.کیونکہ قرآن کریم تمام انسانوں کے لیے نازل ہوا ہے اور دنیا کا کوئی فردا ایسا نہیں جسے قرآن کریم مخاطب نہیں کرتا.اس لیے دنیا کا کوئی فردا ایسا نہیں ہونا چاہیے جس کی پہنچ تک ہم قرآن کریم نہ پہنچا سکیں اور اس کی زبان میں اس کا ترجمہ نہ کر دیں.تاکہ کوئی فرد یہ نہ کہہ سکے کہ اے اللہ ! تو نے مجھے فلاں زبان بولنے والے لوگوں میں پیدا کیا تھا اور قرآن کریم عربی زبان میں ہے پھر میں قرآن کریم کس سے سیکھتا.میں سمجھتا ہوں یہ بھی مسلمانوں کے لیے ایک امتحان تھا کہ قرآن کریم عربی زبان میں نازل ہواتی تا کہ اللہ تعالیٰ دیکھے کہ وہ اسے ہر جگہ پہنچاتے ہیں یا نہیں.لیکن بد قسمتی سے مسلمانوں نے یہ کہنا شروع کر دیا کہ قرآن کریم کا ترجمہ کرنا کفر ہے.گویا دوسرے لفظوں میں اس کا یہ مطلب تھا کہ ہر جگہ پر قرآن کریم کا پہنچانا کفر ہے.اللہ تعالیٰ نے یہ کام ہمارے لیے محفوظ رکھا تھا.چنانچہ اس نے حضرت سیح موعود علیہ السلام کے طفیل ہمیں سمجھ دی کہ قرآن کریم کا ترجمہ کرنا کفر نہیں بلکہ ضروری ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے قرآن کریم کا بالاستیعاب ترجمہ تو نہیں کیا.آپ کے زمانہ میں بعض احمدیوں نے ترجمہ کیا ہے.ہاں! آپ نے اپنی کتابوں میں اس کی اتنی آیتوں کا ترجمہ کر دیا ہے
$1957 4 خطبات محمود جلد نمبر 38 کہ وہ قرآن کریم کا قریباً نصف ہو جاتا ہے.بعض آیتوں کا آپ نے ترجمہ کر دیا ہے اور بعض کا مفہوم بیان کر دیا ہے.مخالفین نے آپ پر جو اعتراضات کیے ہیں ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ آپ قرآن کریم کی مختلف آیات کو ایک جگہ جوڑ کر مضمون بیان کر دیتے ہیں حالانکہ قرآن کریم کے احکام متفرق مقامات میں درج ہیں اور اگر ان کو جوڑا نہ جائے تو انہیں سمجھا نہیں جاسکتا.پرانے لوگ اس بات کو سمجھتے تھے.چنانچہ ریاض الصالحین کے مصنف اپنی کتاب میں جو احادیث جمع کرتے ہیں تو ان کے ساتھ ساتھ وہ قرآن کریم کی آیات بھی لاتے ہیں.لیکن ریاض الصالحین کے مصنف نے ایک چھوٹا کام کیا ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ان آیات کو اتنا جمع کیا ہے کہ آپ کی کتابیں پڑھنے سے یوں معلوم ہوتا ہے کہ گویاوہ ایک سلک ہیں جن میں تمام آیات کو پرو دیا گیا ہے.بہر حال قرآن کریم کا بہت بڑا کام ابھی باقی ہے.خدا تعالیٰ ہمیں اس سال توفیق دے کہ ہم اس میں ہے سے زیادہ حصہ پورا کر دیں اور آئندہ بھی وہ ہمیں توفیق دیتا چلا جائے تا کہ دنیا کی کوئی زبان ایسی نہ توی رہے جس میں قرآن کریم کا ترجمہ نہ ہو اور دنیا کا کوئی فرد ایسا نہ رہے جو اپنی زبان میں قرآن کریم نہ پڑھ سکے.آج ہی میں اخبار پڑھ رہا تھا کہ اس میں میں نے پڑھا کہ ایک روسی مستشرق نے ایک کتاب لکھی ہے جس میں اس نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ قرآن کریم رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ کا نہیں.بلکہ اسے نَعُوذُ بِالله خلفاء کے زمانہ میں تصنیف کیا گیا تھا اور یہ که قرآن کریم محض فرسودہ داستانوں کا مجموعہ ہے.پھر اس مصنف نے لکھا ہے کہ قرآن کریم کے متعلق جو یہ کہا جاتا ہے کہ یہ فوق البشر کلام ہے اور اسی طرح تقدس کا نظریہ پیدا کیا گیا ہے یہ سائنسی معلومات کی راہ میں حائل ہے اور قرآن کریم ترقی کے منافی ہے حقیقت میں قرآن کریم بنیادی طور پر اُن پرانی داستانوں کا مجموعہ ہے جو بائبل اور دوسری مقدس کتابوں میں شامل تھیں اگر اس مصنف تک ہماری تفسیر پہنچ جائے تو اس کی آنکھیں کھل جائیں.ایک ترک پروفیسر نے مجھے لکھا ہے کہ آپ دنیا کے سامنے جو پیغام پیش کر رہے ہیں وہ آپ کی تصنیف دیباچہ انگریزی ترجمہ القرآن کے ذریعہ مجھ تک پہنچا ہے.یہ دیباچہ ایک نہایت عالمانہ کتاب ہے جو خاص خدائی تائید کے ماتحت لکھی گئی ہے.اس کا مطالعہ بہت سے امور کے متعلق
$1957 5 خطبات محمود جلد نمبر 38 میرے شبہات دور کرنے کا موجب ہوا ہے.پھر ایک اور پروفیسر کو دیباچہ انگریزی ترجمۃ القرآن دیا تاوی گیا تو وہ اسے گھر لے گیا اور اسے پڑھنے کے بعد کہنے لگا میں آج سے پھر مسلمان ہوا ہوں.میں اگر چہ مسلمان تھا مگر مجھے اسلام پر پورا یقین نہیں تھا.اب میں اس کتاب کو پڑھ کر دوبارہ مسلمان ہوا ہوں اور کیا تعجب ہے کہ لاکھوں نہیں کروڑوں آدمی ایسے ہوں جو تر جمہ پڑھ کر دوبارہ مسلمان ہوں.میری ایک خواب ہے جو الفضل میں چُھپ چکی ہے.اس میں میں نے دیکھا کہ میں ترکی سے روس کی طرف گیا ہوں.پس کوئی تعجب نہیں کہ اگر ہم روسی زبان میں قرآن کریم کا ترجمہ کریں تو ترکی سے ایسا رستہ مل جائے جس کے ذریعہ وہ روس میں پہنچ جائے.پھر میں نے اس خواب میں دیکھا کہ جہاں میں گیا ہوں وہاں کچھ جھونپڑیاں ہیں جن کی پھوس کی دیوار میں اور پھوس کی چھتیں ہیں اور ان میں غریب لوگ رہتے ہیں.ممکن ہے ہمارا ترجمۃ القرآن پہلے روس کے غریب خاندانوں میں پھیلے اور وہ اس سے فائدہ اٹھائیں.پھر اس خواب میں اُن لوگوں سے میں نے حالات دریافت کرنے شروع کیے اور اس طرح مذہب کی باتیں شروع ہو گئیں تو ان میں سے ایک شخص نے میرے سوالات کا جواب دینا شروع کیا اور مجھے بتایا کہ ہم چند لوگ احمدی ہیں.2 پس کوئی تعجب نہیں کہ ہمارے ذریعہ روس میں قرآن کریم پھیلے اور ہم ان لوگوں کے خیالات کی اصلاح کریں.عیسائیت انہیں خدا تعالیٰ سے وابستہ نہیں رکھ سکی.لیکن اب اسلام یہ کام کرے گا اور انہیں خدا تعالیٰ کی طرف لے آئے گا.آجکل روسی بائیس کروڑ ہیں.اگر وہ ہمیں مل گئے تو چین کے پچاس کروڑ باشندے بھی کہیں نہیں جاسکتے.اور اگر یہ دونوں ملک اسلام میں آ جائیں تو ہندوستان کا پینتالیس کروڑ آدمی بھی کہیں نہیں جاتا.یہ سارے مل کر ایک ارب سترہ کروڑ بن جاتے ہیں.پھر آٹھ کروڑ پاکستانی ملالیں اور اٹھارہ کروڑ امریکن آ جائیں تو یہ ایک ارب تینتالیس کروڑ بن جاتے ہیں.پھر یورپ کے تمہیں کروڑ باشندے آجائیں تو یہ ایک ارب تہتر کروڑ بن جاتے ہیں.پھر چالیس کروڑ باشندے افریقہ کے ملا لیے جائیں تو یہ دوارب تیرہ کروڑ بن جاتے ہیں اور پھر اس میں انڈونیشیا اور بعض دوسرے علاقوں کے آدمی ملا لیے جائیں تو یہ دو ارب پچاس کروڑ بن جاتے ہیں اور یہ تقریباً دنیا کی کی کل آبادی کے برابر ہو جاتے ہیں.اور وہی بات ہو جاتی ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بیان فرمائی ہے کہ تین سو سال کے اندر میری جماعت اس قدر بڑھ جائے گی
خطبات محمود جلد نمبر 38 6 $1957 کہ دوسری اقوام کی حیثیت اس کے سامنے بالکل ادنی اقوام کی سی ہو جائے گی 3 اور شاید اس خبر میں بھی اسی طرف اشارہ ہے کہ اس زمانہ میں بڑے چھوٹے کیے جائیں گے اور چھوٹے بڑے کیے جائیں گے.جماعت احمد یہ جو تعداد میں آجکل تھوڑی ہے ایک دن آنے والا ہے کہ یہ چند لاکھ سے چند ارب ہو جائے گی اور باقی اقوام جو کروڑوں کی تعداد میں ہیں وہ کروڑوں سے چند لاکھ بن جائیں گی اور اس طرح بڑے چھوٹے اور چھوٹے بڑے کیے جائیں گئے.خطبہ ثانیہ کے بعد فرمایا: نماز کے بعد میں ایک جنازہ پڑھاؤں گا جو باہر پڑا ہے.یہ جنازہ چودھری محمد عبد اللہ کی صاحب کنری سندھ کا ہے جو اس سال جلسہ پر ربوہ آئے تھے.29 دسمبر کو انہیں نمونیہ ہو گیا اور اسی مرض سے فوت ہو گئے.دوست میرے ساتھ نماز جنازہ میں شامل ہوں“.الفضل 5 فروری 1957 ء) 1 ترمذی کتاب الدعوات باب ما جاء في عقد التسبيح باليد 2 : الفضل 27 اپریل 1945ء : تذکرہ صفحہ 539 ایڈیشن چہارم
$1957 7 2 خطبات محمود جلد نمبر 38 اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو احرار یورپ کے اسلام کی طرف رجحان کی جو خبر دی تھی وہ پوری ہو رہی ہے (فرموده 11 جنوری 1957 ء بمقام ربوہ) تشہد ، تعوّ ذاورسورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: پچھلے ہفتہ تبلیغ اسلام کے متعلق بعض ایسی خبریں ملی ہیں جو ہیں تو ابھی اپنی ابتدائی صورت میں لیکن اللہ تعالیٰ ان کو بڑھا دے تو وہ عظیم الشان تبدیلیوں کا ایک پیج بن سکتی ہیں.ایک خط ایک آزادحکومت کے ایک مبلغ کی طرف سے آیا ہے.اس نے لکھا ہے کہ حکومت کا پریذیڈنٹ جو جمہوریت میں بادشاہ کے برابر ہوتا ہے اس کے ایک سیکرٹری یعنی وزیر نے اسلام کے متعلق زیادہ قریبی واقفیت بہم پہنچانے کے لیے مجھ سے خواہش کی ہے کہ میں باقاعدہ ان کے گھر جا کر انہیں قاعدہ یسر نا القرآن پڑھاؤں تا کہ اس کے ذریعہ سے وہ عربی زبان اور قرآن کریم پڑھنے کے قابل ہو سکیں.ہے تو یہ ایک معمولی خبر لیکن اگر قاعدہ یتر نا القرآن کے ذریعہ اللہ تعالیٰ ان پر
$1957 8 خطبات محمود جلد نمبر 38 قرآن کریم آسان کر دے اور وہ مسلمان ہو جائیں تو اس سارے علاقہ میں احمدیت کے پھیلنے کے امکانات روشن ہو جاتے ہیں.دوسری خبر بھی اس وقت تو بظاہر معمولی ہے مگر تمام حالات جو ہیں ان میں اگر وہ بڑھنا شروع کر دے تو وہ بھی بڑی ترقی کا پیش خیمہ ہو سکتی ہے.اور وہ یہ ہے کہ اس ہفتہ جرمنی سے ایک خط آیا ہے کہ ایک جرمن نوجوان نے جو ابھی احمدی نہیں ہوا احمدیت سے دلچسپی لینی شروع کر دی ہے.وہ نوجوان جرمنی کے ایک بہت بڑے خاندان کا فرد ہے اور اس کا باپ نائسیوں کا ایک لیڈر تھا.اور اتنا بڑا لیڈر تھا کہ جب پچھلی جنگ میں ہٹلر کو شکست ہوئی اور اتحادیوں نے فیصلہ کیا کہ ہٹلر کے ماتحت جو بڑے بڑے لیڈر تھے اُن پر مقدمہ چلایا جائے تو جو لوگ اس غرض کے لیے انہوں نے پچھنے اُن میں سے ایک وہ بھی تھا.چنانچہ اتحادی کورٹ میں اس پر مقدمہ چلایا گیا اور اسے تین سال کے لیے قید کیا گیا اور اس قید میں اس کے بیوی بچوں کو بھی شامل کیا گیا.تین سال کے بعد جب وہ قید سے رہا ہوا تو اتحادیوں نے جرمن حکومت سے کہا کہ گو ہم نے اسے چھوڑ دیا ہے لیکن کچھ مدت تک تم بھی اسے اپنی نگرانی میں رکھو.چنانچہ تین سال تک جرمن حکومت نے بھی اسے قید رکھا.جب وہ قید سے رہا ہوا تو چونکہ وہ ملک اور قوم میں بہت اثر و رسوخ رکھتا تھا اس لیے اُسے شمالی جرمنی کے بنگ کا مینجر بنادیا گیا.ب وہ فوت ہو چکا ہے لیکن اس کا لڑکا اسلام کی طرف مائل ہو گیا ہے اور وہ کہتا ہے کہ اگر اسلام میری سمجھ میں آ گیا تو میں جرمنی کے بڑے طبقہ کے لوگوں میں جو میرے خاندان سے تعلق رکھتے ہیں تبلیغ اسلام شروع کر دوں گا.پھر پہلے مجھے علم نہیں تھا لیکن وکالت تبشیر نے مجھ سے ذکر کیا تو معلوم ہوا کہ پروفیسر ٹلٹاک بھی نازی تھے.وکالت نے مجھے بتایا کہ پروفیسر ٹلٹاک نے ان سے ذکر کیا ہے کہ وہ بھی نائسی تھے اور نائسیوں میں وہ ایک بڑے عہدہ پر تھے.انہوں نے بتایا ہے کہ میں ایڈ منسٹر یٹو لائن میں تھا، پرو پیگنڈا لائن یا ملٹری میں افسر نہیں تھا اس لیے شکست کے بعد اتحادیوں نے مجھ پر مقدمہ نہیں چلا یا ورنہ میں ایسا اہم مبر تھا کہ مجھ پر بھی مقدمہ چلایا جاتا.وہ گزشتہ پیر کو واپس گئے ہیں اور اتوار کی شام کو انہوں نے مجھ سے بھی ذکر کیا کہ میرا ناسیوں میں بہت بڑا اثر تھا.مجھے تنظیم دفاتر کے کام کا ہیڈ مقرر کیا گیا تھا.پھر دوسرے نوجوان کے متعلق ذکر ہوا تو انہوں نے کہا کہ اگر اس کے خاندان کے نام کا پتا لگ جائے کی
$1957 9 خطبات محمود جلد نمبر 38 تو میں اسے پہچان سکوں گا (خط میں اس کا نام نہیں دیا گیا تھا ).بہر حال پروفیسر ٹلٹاک نے کہا کہ سارے نائسی لیڈروں سے میرے تعلقات تھے.میں واپس جا کر اس نوجوان کا پتا کروں گا اور اس سے تعلقات قائم کرنے کی کوشش کروں گا.وہ نوجوان مسلمان تو نہیں ہوا لیکن وہ اس خاندان سے تعلق رکھتا ہے جس کی ہٹلر کی حکومت میں اتنی عظمت تھی کہ اس کے باپ کو اتحادیوں نے خاص آدمیوں میں شمار کیا.اس پر مقدمہ چلایا اور اسے قید رکھا.اس سے پتا لگتا ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ چاہے اور نائسی لوگ جو کسی وقت جرمنی کے بادشاہ تھے ان میں اسلام پھیل جائے.تو چونکہ وہ ملک میں بڑا رسوخ رکھتے ہیں اس لیے بعید نہیں کہ ان میں سے چند آدمیوں کے احمدی ہو جانے کے بعد سارے جرمنی میں اسلام ترقی کرنے لگ جائے.پچھلے سال جب میں مری میں تھا تو میں نے ایک رؤیا دیکھا کہ جرمنی کے مبلغ کا ایک خط آیا ہے کہ جرمنی کا ایک بہت بڑا آدمی احمدی ہو گیا ہے.بعد میں رویا میں ہی مجھے تار بھی آئی اور اس میں بھی یہ لکھا تھا کہ وہ احمدی ہو گیا ہے اور اُمید ہے کہ اس کے ذریعہ جرمنی میں جماعت کا اثر و رسوخ بڑھ جائے گا.یہ دونوں واقعات بتاتے ہیں کہ یہ اسی رؤیا کی تائید میں ہیں.گوا بھی ان کی حیثیت ایک گٹھلی کی سی ہے شگوفہ اور پھل نہیں نکلا.لیکن ان سے اُمید پیدا ہوتی ہے کہ جس خدا نے مئی میں مجھے یہ باتیں بتائی تھیں اور اب جنوری میں اس کی تائید میں باتیں نکلنی شروع ہوئی ہیں وہ اس کو پورا کرنے کے سامان بھی پیدا کر دے گا.اور کوئی بعید نہیں کہ جلد ہی جرمنی کے بااثر خاندانوں میں ایسے لوگ پیدا ہو جائیں جو اسلام سے محبت رکھتے ہوں اور سارے جرمنی میں اس کی ترقی کے لیے کوشش کرنے والے ہوں.اُسی دن پروفیسر ٹلٹاک نے ایک اور بات بھی بیان کی جو بڑی تکلیف دہ تھی اور مرکزی دفتر کی سستی پر دلالت کرتی تھی.پروفیسر ٹلٹاک نے سرسری طور پر باتوں باتوں میں کہا کہ لطیف بڑا کارآمد شخص ہے اور بڑی اچھی تبلیغ کر رہا ہے لیکن اسے دیکھ کر رحم آتا ہے.اس کے پیٹ میں بیماری ہے ، در داٹھتی ہے تو اس کے ہاتھ مروڑے جاتے ہیں.ڈاکٹر نے اسے کچھ گولیاں دی ہوئی ہیں.ان کی سے ایک دو گولیاں وہ کھا لیتا ہے تو اُسے آرام آ جاتا ہے.پروفیسر ٹلٹاک نے مجھے کہا کہ آ.
$1957 10 خطبات محمود جلد نمبر 38 اسے دو تین ہفتہ تک ہسپتال میں داخل کیوں نہیں کرواتے تا کہ وہ ڈاکٹروں کی زیر نگرانی رہے اور اس مرض سے چھٹکارا حاصل کرلے؟ میں نے کہا دو تین ہفتے تو کیا میں تو اسے دو تین مہینہ تک بھی ہسپتال میں رکھنے کے لیے تیار ہوں بشرطیکہ ڈاکٹر کہیں کہ اتنے عرصہ تک اسے ہسپتال میں رکھنا مفید ہو سکتا ہے.پروفیسر ٹلٹاک کہنے لگے یہ تو بڑا لمبا عرصہ ہے آپ اسے دو تین ہفتہ تک ہی ہسپتال میں ڈاکٹروں کی زیر نگرانی رکھیں.اسے دیکھ کر بڑا رحم آتا ہے.موٹر میں بیٹھا ہوتا ہے اور یکدم اسے درد کا دورہ ہوتا ہے تو اس کا ہاتھ مروڑا جاتا ہے.وہ اُسی وقت ڈبیہ سے دو گولیاں نکالتا اور کھا لیتا ہے جس سے کچھ افاقہ ہو جاتا ہے.مجھے یہ سن کر بڑا افسوس ہوا کہ مرکزی دفتر نے اس طرف توجہ نہیں کی.اب میں نے دفتر کو حکم دیا ہے کہ خرچ کا اندازہ تو لگاؤ.وہ وہاں اکیلا ہے اور مبلغ کو یہ بھی احساس ہوتا ہے کہ اگر وہ ہسپتال میں داخل ہو گیا تو اس کے بعد تبلیغ کا کام کون کرے گا؟ اس لیے میں نے یہ بھی کہا ہے کہ جرمنی میں ایک اور مبلغ بھجوانے کا انتظام کریں اور دوسرے اخراجات کا اندازہ لگوائیں.میں نے جب اپنی ایک بیٹی کو وہاں علاج کے لیے بھجوایا تو وہاں تین پونڈ روزانہ خرچ ہوتا تھا.اگر لطیف ایک ماہ بھی ہسپتال میں رہے تو اس حساب سے توے پونڈ بن جاتے ہیں اور اتنی رقم ایک بڑی جماعت کے لیے اپنے ایک مخلص مبلغ کی جان بچانے کے لیے خرچ کرنا کوئی بڑی بات نہیں.یہ ساری رقم قریباً بارہ سو روپے بنتی ہے اور ایک مخلص مبلغ جو ایک اہم جگہ پر تبلیغ کر رہا ہے اور بڑی محنت سے کام کر رہا ہے اس کے لیے بارہ سو روپے کی رقم خرچ کرنا کوئی بڑی بات نہیں.اگر تحریک پر اس رقم کا خرچ کرنا بوجھ ہو تو خدا تعالیٰ کے فضل سے اتنی رقم میں بھی دے سکتا ہوں اور میں نے انہیں اسی نیت سے لکھا تھا کہ وہ اخراجات کا اندازہ لگائیں تو رقم میں ہی دے دوں گا.باہر مبلغ بھیج کر دفتر کا بے پروائی سے بیٹھ جانا نہایت افسوسناک ہے آج ہی مجھے تحریک جدید کے ایک کارکن کی طرف سے اطلاع آئی ہے کہ فلاں ضروری دفتر نے اطلاع دی ہے کہ انہوں نے عبداللطیف صاحب کو لکھا ہے کہ وہ خرچ کا اندازہ بھجوائیں لیکن ساتھ ہی لطیف صاحب کی بھی تار آ گئی ہے کہ میں بیمار نہیں اچھا ہوں.لیکن معلوم ہوتا ہے کہ یہ تارانہوں نے مرکز کی تسلی کے لیے دی ہے اور محض ان کی قربانی اور اخلاص پر دلالت کرتی ہے.ورنہ جیسا کہ گواہیوں سے ثابت ہے وہ بیمار ہیں.
$1957 11 خطبات محمود جلد نمبر 38 کام کے متعلق میں نے تحریک جدید کو کئی دفعہ لکھا ہے اور کئی دفعہ ربوہ بھی جا چکا ہوں مگر ابھی تک مجھے کوئی جواب نہیں ملا.میں نے اس کے متعلق بھی دفتر کو لکھا ہے.اس کا جواب آئے گا تو پتا لگے گا کہ کیا بات ہے.بہر حال یہ بات میرے علم میں ہے کہ لطیف پہلے بھی بیمار تھا.جب وہ جرمنی گیا ہے تب بھی بیمار تھا.لیکن اُس نے کام چھوڑا نہیں بلکہ برابر کرتا رہا.ایسے آدمی کے لیے چاہیے تھا کہ اگر میں نہ بھی لکھتا تب بھی خرچ مہیا کیا جاتا اور اسے ہسپتال میں داخل کرایا جاتا تاکہ وہ اپنا چی علاج کراسکتا.بہر حال جرمنی میں خدا تعالیٰ کے فضل سے احمدیت اور اسلام کی ترقی کے امکانات پیدا ہو رہے ہیں.اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ گیارہ سال ہوئے 1945 ء کی بات ہے.میں نے رویا میں دیکھا کہ ہٹلر ہمارے گھر میں آیا ہے.پہلے مجھے پتا لگا کہ ہٹلر قادیان میں آیا ہوا ہے اور مسجد اقصٰی میں گیا ہے.میں نے اُس کی طرف ایک آدمی دوڑ ایا اور کہا کہ اسے بلالا ؤ.چنانچہ وہ اسے بلالا یا.میں نے اسے ایک چارپائی پر بٹھا دیا اور اس کے سامنے میں خود بیٹھ گیا.میں نے دیکھا کہ وہ بے تکلف وہاں بیٹھا تھا اور ہمارے گھر کی مستورات بھی اُس کے سامنے بیٹھی تھیں.میں حیران تھا کہ ہماری مستورات نے اُس سے پردہ کیوں نہیں کیا.پھر مجھے خیال آیا کہ ہٹلر چونکہ احمدی ہو گیا ہے اور میرا بیٹا بن گیا ہے اس لیے ہمارے گھر کی مستورات اس سے پردہ نہیں کرتیں.پھر میں نے اسے دعا دی اور کہا اے خدا! تو اس کی حفاظت کر اور اسے ترقی دے.پھر میں نے کہا وقت ہو گیا ہے میں اسے چھوڑ آؤں.چنانچہ میں اسے چھوڑنے کے لیے گیا.میں اس کے ساتھ جارہا تھا اور یہ خیال کر رہا تھا کہ میں نے تو اس کی ترقی کے لیے دعا کی ہے اور ہم انگریزوں کے ماتحت ہیں اور اُن کے ساتھ اس کی لڑائی ہے.یہ میں نے کیا کیا ہے؟ لیکن پھر مجھے خیال آیا کہ وہ ہٹلر عیسائی ہے اور یہ ہٹلر احمدی ہو چکا ہے.اس لیے اس کے لیے دعا کرنے میں کوئی حرج نہیں.یہ رویا بھی بتاتی ہے کہ نائسی قوم اسلام کی طرف توجہ کرے گی اور ایک ہی ہفتہ میں اس بات کا پتا لگنا کہ ایک بڑے ناکسی لیڈر کا لڑکا اسلام کی طرف مائل ہے اور اس میں دلچسپی لے رہا ہے اور پھر پر وفیسر ٹل ٹاک کا بتانا کہ وہ خود بھی نائسیوں کے بڑے لیڈر تھے بتا رہا ہے کہ اللہ تعالیٰ ایک رو چلا رہا ہے اور اس نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی زبان سے جو یہ بات نکلوائی تھی کہ
خطبات محمود جلد نمبر 38 12 آ رہا ہے اس طرف احرار یورپ کا مزاج نبض پھر چلنے لگی مُردوں کی ناگہ زندہ وار 1 $1957 وہ پوری ہو رہی ہے.احرار یورپ آہستہ آہستہ ایک ایک، دو دو، تین تین، چار چار، پانچ کر کے اسلام میں داخل ہو جائیں گے اور دنیا حیران ہو گی کہ وہ قوم جو اسلام کی شدید دشمن تھی اس کی حمایت کیوں کرنے لگی ہے.اور وہ قوم جو اسلامی حکومتوں کو نقصان پہنچایا کرتی تھی وہ ایک ایک، دو دو کر کے اسلامی حکومتوں کو قائم کیوں کرنے لگی ہے.غرض یہ حضرت مسیح موعود لمیہ الصلوۃ والسلام کی پیشگوئیاں ہیں جو پوری ہورہی ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام تو فوت ہو گئے.آپ نے اپنی زندگی میں یہ نظارے نہیں دیکھے لیکن دنیا میں یہی ہوتا ہے کہ باپ درخت لگاتا ہے اور بیٹے اُس کے پھل کھاتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ایک درخت لگایا اور اب آپ کے روحانی بیٹے یعنی احمدی اس کے پھل کھائیں گے.دوسرے لوگ آپ کو کافر کہتے ہیں.لیکن جب یورپ احمدی ہو گیا تو اس درخت کا پھل کھانے کے لیے وہ بھی آجائیں گے.جیسے کوئی شخص پھلدار درخت لگاتا ہے تو ی جس وقت اُس کا پھل پکتا ہے تو وہ خود پھل کھائے یا نہ کھائے منگتے پہلے ہی آ جاتے ہیں.اسی طرح جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی پیشگوئی پوری ہوگی اور احرار یورپ اسلام قبول کر لیں گے تو جو مولوی اس وقت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو گالیاں دے رہے ہیں وہ بھی اپنا ٹھوٹھا لے کر آجائیں گے اور کہیں گے ہمیں بھی کچھ دو.حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام فرماتے ہیں: اے دل تو نیز خاطر ایناں نگاہ دار کا خر کنند دعوای حبّ پیمبرم 2 اُس وقت حضرت صاحب کا یہ شعر یاد کر کے وہ کہیں گے کہ آپ کے سلسلہ کے بانی نے خود کہا ہوا ہے کہ ان لوگوں کا بھی خیال رکھو.آخر یہ بھی تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت کا دعوا می کرتے ہیں.پھر تمہارا دل چاہے نہ چاہے بہر حال تمہیں کچھ نہ کچھ انہیں دینا پڑے گا.اگر تم انہیں نہیں دو گے تو دوسرے لفظوں میں تم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو جھوٹا قرار دو گے.
$1957 13 خطبات محمود جلد نمبر 38 پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی صداقت اور آپ کے الہامات کو سچا ثابت کرنے کے لیے چاہے تمہیں ان کی گالیاں کتنی بھی یاد آئیں تم کہو گے کہ اپنا ٹھوٹھالا ؤ تا کہ ہم اس میں تمہارا حصہ ڈال دیں بلکہ تمہیں کہنا پڑے گا کہ پہلے تم کھاؤ پھر ہم کھائیں گئے.(الفضل 8 فروری 1957ء) 1 : در مشین اردو صفحه 130 زیر عنوان ” مناجات اور تبلیغ حق» 2 : در تمثین فارسی صفحه 107
$1957 14 3 خطبات محمود جلد نمبر 38 ایک نہایت مبارک رویا دنیا خواہ کچھ کہے لیکن ہمیں یقین ہے کہ ہمارے خدا کی ظاہر کر دہ باتیں بہر حال پوری ہو کر رہیں گی (فرموده 18 جنوری 1957ء بمقام ربوہ) تشهد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: میں بھی حضرت یعقوب علیہ السلام کی طرح یہی کہنے پر مجبور ہوں کہ جو کچھ میں کہوں گا اُس پر خواہ کوئی شخص سن کر یہ کہے کہ بڑھا سٹھیا گیا ہے اور اس کو ایسی باتیں نظر آنے لگ گئی ہیں پھر بھی میں اس کے کہنے سے باز نہیں رہ سکتا.حضرت یعقوب علیہ السلام نے بھی یہی کہا تھا کہ اِنّى لَاَجِدُ رِيحَ يُوسُفَ لَوْلَا أَن تُفْسِدُونِ 1 کہ اگر تم مجھے پاگل قرار نہ دو تو میں یہ بات کہنے سے باز نہیں رہ سکتا کہ مجھے یوسف کی خوشبو آ رہی ہے.پس حضرت یعقوب علیہ السلام نے بھی اس بات سے خوف نہیں کھایا تھا کہ لوگ انہیں پاگل کہیں گے کہ ایک بچہ جو چھوٹی عمر میں کہیں گم ہو گیا تھا اور اب وہ اُدھیڑ عمر کا ہو چکا ہو گا باپ اُس کے متعلق اپنے دوسرے بیٹوں سے کہتا ہے کہ تم اپنے بھائی کو تلاش کرو کیونکہ مجھے اُس کی خوشبو آ رہی ہے اور اس کے ملنے کے دن قریب آ گئے ہیں.گو پھر بھی حضرت یعقوب علیہ السلام اور حضرت یوسف علیہ السلام کے ملنے میں کئی سال لگ گئے تھے لیکن دنیا جس طرح ان کے دوبارہ ملنے سے مایوس ہو چکی تھی وہ مایوسی دور ہوگئی.
15 $1957 خطبات محمود جلد نمبر 38 میں بھی جو بات کہوں گا اس کی وجہ سے لوگ کہیں گے کہ اس کا دماغ خراب ہو گیا ہے لیکن نہ حضرت یعقوب علیہ السلام ڈرے تھے اور نہ میں ڈرتا ہوں.حضرت یعقوب علیہ السلام نے کی باوجود یہ بات جاننے کے کہ لوگ انہیں پاگل کہیں گے وہ بات کہہ دی تھی.اسی طرح میں بھی یہ بات جاننے کے باوجود کہ لوگ مجھے پاگل قرار دیں گے اور میری بات کو جھوٹا کہیں گے یہ بات کہنے سے باز نہیں رہ سکتا.آج رات میں نے رویا میں دیکھا کہ میں قادیان گیا ہوں اور مسجد مبارک کی چھت پر ہوں.وہاں خوب چہل پہل ہے اور لوگ آتے جاتے ہیں.میں نے دیکھا کہ دو آدمی میرے پاس بیٹھے ہوئے ہیں.ہیں تو وہ اُدھیڑ عمر کے لیکن توانائی اور طاقت کی وجہ سے وہ جوانی کے زیادہ قریب معلوم ہوتے ہیں.ان میں سے ایک کا نام عبد الحق ہے اور دوسرے کا نام نوراحمد ہے.عبد الحق بات کر رہا ہے اور نور احمد پہلو میں بیٹھا ہوا ہے.عبدالحق نے مجھ سے کہا کہ فلاں شخص گواہی دے رہا ہے اور اس سے فلاں نے کہا ہے کہ اس طرح گواہی نہ دو بلکہ اس طرح گواہی دو کہ عبدالحق یا نور احمد کو فائدہ پہنچ جائے.اس وقت میرے ذہن میں یہ نہیں کہ وہ گواہی عدالت میں ہے یا سلسلہ کے محکمہ قضاء میں ہے.پھر یہ بھی مجھے یاد نہیں کہ اس شخص سے عبد الحق کے متعلق گواہی دینے کے لیے کہا جا رہا ہے یا نوراحمد کے متعلق کہا جا رہا ہے.بہر حال میں نے کہا کہ مجھے اس بات سے کوئی غرض نہیں کہ وہ گواہی عبدالحق یا نور احمد کے خلاف ہے یا ان کے حق میں ہے.مجھے صرف اس بات سے غرض ہے کہ وہ سچ بولے اور جو کہے ٹھیک کہے.یہ کہ وہ عبد الحق یا نور احمد کے فائدہ کے لیے گواہی دے اس کی ذمہ داری مجھ پر نہیں.میں صرف یہ کہتا ہوں کہ وہ جو کہے سچ کہے کیونکہ سچ میں ہی برکت ہے.چاہے اس کی گواہی عبدالحق یا نور احمد کے خلاف ہو یا ان کے حق میں ہو.ان باتوں کے بعد مجھے یکدم یوں محسوس ہوا جی کہ مجھے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی یاد آئی ہے اور میں نے خیال کیا کہ گھر جاؤں اور ہے حضرت صاحب کو دیکھوں.ہمارے مکان کا وہ حصہ جو مسجد مبارک کی اوپر کی چھت سے ملحق.اور اُسی کے دروازہ سے میں مسجد میں نماز کے لیے آیا کرتا تھا میں اُس حصہ سے گز را اور پھر چھت کو پار کر کے سیڑھی سے اترا اور اُس دالان میں گیا جہاں حضرت مسیح موعود علیہ السلام رہا کرتے تھے.میں جب اُس دالان میں گیا تو وہاں میں نے دیکھا کہ ایک بڑا شاندار پلنگ رکھا ہے اور اُس پر ایک
$1957 16 خطبات محمود جلد نمبر 38 اعلیٰ درجہ کا بستر بچھا ہوا ہے.میں نے دیکھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اس پلنگ پر لیٹے ہوئے ہیں.اس پلنگ کے پہلو میں ایک چھوٹا سا میز پڑا ہوا ہے.وہ میز ایسا ہے جیسے مہمانوں کے آگے کھانا رکھنے کا میز ہوتا ہے.اُس کے اوپر کھانا بھی رکھا ہوا ہے.اس کھانے کی ایک چیز پلاؤ تھی مگر اس کے چاول بہت ہی اعلیٰ درجہ کے تھے.اس سال بدوملہی کے ایک مخلص دوست نے کچھ چاول بھجوائے ہیں.وہ چاول ہم نے گھر میں پکائے تو میری بیوی نے ان کی بہت تعریف کی کہ وہ بڑی اچھی قسم کے چاول ہیں.جب ہم جابہ گئے تو ان میں سے کچھ چاول وہاں بھی اپنے ساتھ لے گئے.لیکن میں نے دیکھا کہ وہ چاول ان سے بھی بہتر تھے.وہ پکنے کے بعد لمبے ہو گئے ہیں اور پھر الگ الگ رہے ہیں اور ٹوٹے بھی نہیں.یہی اچھے چاولوں کی علامت ہوتی ہے.بدوملہی کے دوست جو چاول لائے تھے وہ بھی پکانے کے بعد لمبے ہو جاتے ہیں اور الگ الگ رہتے ہیں لیکن یوں معلوم ہوتا ہے کہ پکانے کے بعد کچھ گھر درے سے ہو جاتے ہیں.بہر حال اُس پلاؤ کے چاول ان چاولوں سے زیادہ اچھے تھے اور وہ پلاؤ بڑے اعلیٰ درجہ کا تھا.اس پلاؤ کے اوپر بڑے اعلیٰ درجہ کا قورمہ بھی پڑا ہوا تھا.پھر میں نے دیکھا کہ پلاؤ کے ساتھ ہی ایک پلیٹ میں میٹھا کھانا پڑا ہوا ہے جو کچھ فرنی سے اور کچھ حریرہ سے مشابہ ہے.حریرہ وہ چیز ہے جس کو نشاستہ سے تیار کیا جاتا ہے.اس میں میٹھا اور گھی ڈالتے ہیں.پھر اس میں پستے اور بادام کی ہوائیاں ڈالتے ہیں.بعض دفعہ کشمش بھی ڈال لیتے ہیں اور دماغ کی طاقت کے لیے استعمال کرتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بھی اپنی زندگی میں بعض اوقات حریرہ استعمال فرمایا کرتے تھے تا کہ دماغ کو طاقت حاصل ہو.یہ جو پستہ وغیرہ کے باریک ٹکڑے ہوتے ہیں اور جن کو اُردو میں ہوائیاں کہتے ہیں ان کو حریرہ میں بھی ڈالتے ہیں اور زردہ میں بھی ڈالتے ہیں.چونکہ وہ اتنے باریک ہوتے ہیں کہ اگر زور سے ہوا چلے تو انہیں اڑا کر لے جائے اس لیے انہیں ہوائیاں کہتے ہیں.مجھے یاد نہیں کہ اس میٹھے کھانے میں ہوائیاں تھیں یا نہیں لیکن وہ اعلیٰ درجہ کا حریرہ تھا جسے دیکھ کر کھانے کی رغبت ہوتی تھی.یوں معلوم ہوتا تھا جیسے کوئی مہمان آ رہا ہے جس کے لیے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے یہ کھانا رکھوایا ہے.تب میں نے چاہا کہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے ملوں.جس جگہ میز پڑی ہے اس کا چکر کاٹ کر میں چار پائی کے سرہانے کی طرف گیا جدھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا سر تھا.میں نے دیکھا کہ آپ کا
خطبات محمود جلد نمبر 38 17 $1957 چر روش تھا، داڑھی مہندی سے لگی ہوئی تھی اورنہایت خوشم تھی اور یوں معلوم ہوتا تھا جیسے بالوں میں لنگھی کی ہوئی ہے.آخری عمر میں آپ مہندی میں خضاب ملا لیا کرتے تھے جس کی وجہ سے بالوں میں کچھ سیاہی آ جاتی تھی.لیکن ابتدا میں آپ صرف مہندی لگایا کرتے تھے.یہ خضاب کا نسخہ میر حامد شاہ صاحب کسی سے سیکھ کر آئے تھے.وہی خضاب صحت کی حالت میں میں بھی لگایا کرتا تھا.لیکن آپ مہندی زیادہ ملایا کرتے تھے.اس لیے سیاہی کم ہوتی تھی اور سرخی زیادہ لیکن میں مہندی کم ڈالا کرتا تھا اس لیے سیاہی زیادہ ہوتی تھی اور سُرخی کم.ابتدا میں حضرت صاحب صرف مہندی لگایا کرتے تھے.بہر حال آپ کی داڑھی مہندی سے رنگی ہوئی تھی جو چمکتی تھی.میں نے جھک کر آپ کا چہرہ دیکھا.جب میں آپ کے قریب ہوا تو آپ نے اپنے دونوں ہاتھ اُٹھائے.ایک ہاتھ آپ نے کی میرے دائیں کھتے پر رکھ لیا اور دوسرا ہاتھ میرے بائیں کھتے پر رکھ لیا اور میرے سر کو جھکایا اور پیار سے میرے ہونٹوں کو یہ کہتے ہوئے بوسہ دیا کہ بیٹا! تم اِس طریق پر عمل کرو گے یا اُس پر ؟ میں نے جواب دیا کہ مجھے نہ اس طریق سے غرض ہے اور نہ اُس طریق سے غرض ہے.مجھے تو حضور کے ارشاد - غرض ہے.حضور جوارشاد فرمائیں گے میں وہی کروں گا.مجھے اس طریق سے یا اُس طریق سے کوئی تعلق نہیں.آپ نے میری اس بات کا کوئی جواب نہیں دیا.لیکن میں نے دیکھا کہ آپ کے چہرہ پر رونق آ گئی ہے.پھر آپ نے خوشی سے کہا میں نے تمہیں ٹرنک کال کی تھی.میں نے کہا حضور ! آپ نے ٹرنک کال کی ہو گی لیکن مجھے وہ نہیں ملی.میں تو مسجد مبارک کے اوپر تھا اور وہاں ٹیلیفون نہیں.بہر حال آپ کی ٹرنک کال مجھے نہیں ملی.میرے دل میں خود ہی خواہش پیدا ہوئی کہ میں حضور کو دیکھوں اس لیے میں آ گیا.اس کے بعد آنکھ کھلی تو میرا ذہن اس طرف گیا کہ معلوم ہوتا ہے خدا تعالیٰ نے اگلے جہان میں بھی ٹرنک کال کا طریق جاری کیا ہوا ہے.جب اگلے جہان میں روحیں دنیا کے لوگوں سے ملنا چاہتی ہیں تو فرشتے ٹیلیفون لگا دیتے ہیں.صرف فرق یہ ہوتا ہے کہ یہاں کی ٹرنک کال کانوں سے سنی جاتی ہے اور وہاں کی ٹرنک کال دل سے سنی جاتی ہے.اگلے جہان میں جب کسی روح کا دل چاہتا ہے کہ وہ دنیا میں اپنے کسی پیارے کو دیکھے یا کسی رشتہ دار سے ملے تو فرشتے اسے ٹیلیفون پر کھڑا کر دیتے ہیں اور ادھر اُس کے رشتہ دار کو رغبت دلا دیتے ہیں اور جو کچھ وہ روح کہتی ہے خواب میں اُس کے سامنے آ جاتا ہے.تو گویا ٹرنک کال کا طریق وہاں بھی جاری ہے.
18 $1957 خطبات محمود جلد نمبر 38 اس کے بعد پھر غنودگی کی حالت طاری ہوئی اور فارسی کے کچھ شعر میری زبان پر جاری ہوئے.فارسی میں نے درسی طور پر نہیں پڑھی صرف مثنوی رومی حضرت خلیفہ اول نے پڑھائی تھی اس لیے فارسی اشعار بہت کم زبان پر آتے ہیں لیکن عربی کے وہ اشعار جو پرانے شاعروں نے کہے تھے وہ زبان پر آ جاتے ہیں.بہر حال میں نے دیکھا کہ فارسی کے کچھ شعر میری زبان پر آگئے ہیں لیکن وہ مجھے یاد نہیں رہے.آخر سوچتے سوچتے میرے ذہن میں آیا کہ وہ شعر جو میری زبان پر جاری ہوئے تھے ان کے اندر آر پار تار جیسے کچھ الفاظ تھے.اس کے بعد میں نے سوچنا شروع کیا کہ کوئی شعر ایسے ہوں جو میں نے سنے ہوں اور جن میں ایسے الفاظ آتے ہوں.اس پر یکدم مجھے یاد آیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے مجھے فارسی کے دو شعر سنائے تھے اور وہی میری زبان پر جاری ہوئے تھے وہ شعر سرمد رحمۃ اللہ علیہ کے ہیں اور وہ یہ ہیں کہ جانان مرا بمن بیارید ایس مُردہ تنم باو سپارید چوں بوسہ دہد بریں لبانم گرزنده شوم عجب مدارید اس میں بھی وہی بیار آرسیار کا وزن تھا.اس لیے اس وزن نے میری راہنمائی کی کہ وہ کونسے شعر ہیں جو میری زبان پر جاری ہوئے تھے.سرمد عشق الہی کی وجہ سے بعض ایسے الفاظ کہہ جاتے تھے جن کی وجہ سے علماء سمجھتے تھے کہ یہ بے دین ہے اور وہ کہتے تھے کہ اسے پھانسی دی جائے.چنانچہ عالمگیر بادشاہ نے ان کے فتووں کی وجہ سے سرمد کو پھانسی دینے کا حکم دے دیا.لیکن در حقیقت ان کا عشق مجازی نہیں تھا بلکہ حقیقی تھا.جب سرمد کو پھانسی کا حکم ہو گیا تو انہوں نے کہا:.جانان مرا بمن بیارید ایس مُردہ تنم باو سپارید کہ جب میں مرجاؤں تو میرے محبوب کو میرے پاس لانا اور میرا مُردہ جسم اُس کے حوالے کر چوں بوسہ دہد بریں لبانم گر زنده شوم عجب مدارید پھر اگر وہ میرے لبوں پر بوسہ دے اور میں زندہ ہو جاؤں تو اس پر تعجب نہ کرنا.
$1957 19 خطبات محمود جلد نمبر 38 لوگوں نے یہ قصہ بنایا ہوا ہے کہ سرمد کو ایک لڑکے سے عشق تھا.چنانچہ پھانسی کے بعد وہ لڑکا لایا گیا.اس نے جب سرمد کے لبوں پر بوسہ دیا تو وہ زندہ ہو گئے.حالانکہ اُن کا عشق مذہبی رنگ کا تھا اور اُن کے اندر روحانی والہیت پائی جاتی تھی جس کی طرف ان شعروں میں اشارہ تھا.میں نے جو الہی تصرف سے یہ شعر پڑھا تو اس میں اس طرف اشارہ تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو میرے پاس لاؤ اور اگر وہ میرے ہونٹوں کو بوسہ دیں گے تو پھر ایک نئی زندگی مجھ میں پیدا ہو جائے گی اور ترقی سلسلہ اور ترقی اسلام کے ایسے سامان پیدا ہو جائیں گے کہ میرے جیسا مردہ یا میرے کام جیسا مردہ پھر زندہ ہو جائے گا اور ایسی شان سے زندہ ہوگا کہ لوگ تعجب کریں گے کہ ایسا مُردہ کس طرح زندہ ہو گیا.مگر یہ خدائی تقدیر ہوگی اس پر تعجب کرنا غلط ہوگا.پس اس کے معنے میں یہ سمجھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ چاہے تو مجھے اسلام کی خدمت اور اس کی اشاعت کی اور زیادہ توفیق ملنی شروع ہو جائے گی یا ممکن ہے اس میں میری صحت کی طرف اشارہ ہو.دونوں باتیں ہو سکتی ہیں.یہ بھی ہو سکتا ہے کہ مجھے دینی خدمت کی زیادہ توفیق ملنی شروع ہو جائے اور اسلام کی اشاعت کے جو کام باقی ہیں وہ میرے ذریعہ یا میرے اتباع کے ذریعہ پورے ہو جا ئیں.ور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ مجھے ظاہری صحت دے دے اور دین کے کام اچھی طرح ہونے لگ جائیں.اور یہ بھی اس خواب سے اشارہ ہو سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ قادیان جانے کے سامان لوگوں کے لیے پیدا کر دے.بہر حال میں نے اس رویا میں اپنے آپ کو مسجد مبارک قادیان میں دیکھا ہے اور پھر میں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو دیکھا کہ آپ نے میرے سر کو جھکایا اور میرے ہونٹوں پر بوسہ دیا اور پھر یہ شعر مجھ پر نازل ہوئے.پس میں نے چاہا کہ اس خوشی میں میں دوسرے دوستوں کو بھی شریک کروں.اس لیے خطبہ میں میں نے اس رؤیا کو بیان کر دیا ہے.اپنے آپ کو مسجد مبارک قادیان میں دیکھنا اور پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو دیکھنا وہی حضرت یعقوب علیہ السلام والی بات ہے کہ اگر تم مجھے پاگل قرار نہ دو تو میں یہ کہنے پر مجبور ہوں کہ مجھے پوسٹ کی خوشبو آ رہی ہے.مجھے بھی اس رؤیا کے ذریعہ یوست کی خوشبو آئی ہے اور میں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو دیکھا ہے جن کا ایک نام
$1957 20 خطبات محمود جلد نمبر 38 یوسٹ بھی ہے.بیشک کہنے والے کہیں گے کہ ان کا دماغ خراب ہو گیا ہے اور یہ ایسی خواہیں دیکھنے لگ گئے ہیں.لیکن ہمیں اپنے خدا پر یقین ہے اور ہم سمجھتے ہیں کہ جو باتیں اس کی طرف سے ظاہر کی جاتی ہیں وہ پوری ہو کر رہتی ہیں.دیکھو! قادیان سے نکلنے کے متعلق جو میری رؤیا تھی اس کے متعلق کون کہ سکتا تھا کہ ایسا ہو جائے گا.لیکن پھر ویسا ہی ہو گیا.اسی طرح کثرت سے ایسی رویا ہوئیں جو پوری ہوئیں.روس کے متعلق رویا ہوئیں، انگلستان کے متعلق رویا ہوئیں، جرمنی کے متعلق رویا ہوئیں اور وہ پوری ہوئیں.پس بیشک کہنے والے ہمیں پاگل کہتے رہیں لیکن الہی منشا یہی ہے کہ وہ ہمارے لیے برکت کے سامان پیدا کرے اور جماعت سے اشاعت اسلام کا کام کرائے تا کہ پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام زندہ ہوں اور ہمیں بوسہ دیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا زندہ ہونا اور آپ کا بوسہ دینا کوئی ہے معمولی بات نہیں.اگر خدا تعالیٰ کے چھوٹے ہوئے نے (مسیح کے معنے یہی ہیں) کسی کو چھوا تو تم یہ سمجھو کہ گویا خدا تعالیٰ نے ہی اسے چھوا.دیکھو! بجلی جب کسی تار میں آجاتی ہے تو کتنی روشنی ہو جاتی ہے.پھر یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ خدا تعالیٰ کسی کو چھوئے تو اُس کا چھو نا آگے چلتا نہ چلا جائے.خدا تعالیٰ نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو چھوا اور خدا تعالیٰ کا وہ ہاتھ اب تک تیرہ سو سال سے برکت دیتا چلا آ رہا ہے اور قیامت تک دیتا چلا جائے گا.اسی طرح اُس نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو چھوا اور ان کے بوسہ دینے اور چھونے سے ہمارے اندر سینکڑوں اور ہزاروں سال تک برکت چلتی چلی جائے گی.یہی بات اس شعر میں بیان کی گئی ہے کہ:.گر زنده شوم عجب مدارید اگر میں ان کے بوسہ سے زندہ ہو جاؤں تو لوگو! اس پر تعجب نہ کرنا.پس اس رؤیا کے ریعہ بتایا گیا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا پیغام دنیا میں پھر زندہ ہونے والا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بعثت کی یہی غرض تھی کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم دوبارہ زندہ ہو جائیں.اور میری زبان پر یہ جاری ہونا کہ گر زنده شوم عجب مدارید بتا تا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دوبارہ زندہ ہونے والے ہیں اور ان کے ذریعہ اسلام کا نور پھر زندہ ہو جائے گا.بے شک لوگ
$1957 21 خطبات محمود جلد نمبر 38 اسے پاگلوں والی بڑ کہیں گے اور کہیں گے کہ ایک کھوئی ہوئی چیز انہیں کیسے مل جائے گی ؟ ایک مُردہ کیسے زندہ ہو جائے گا؟ لیکن گر زنده شوم عجب مدارید اگر خدا تعالیٰ اس شخص کو جس پر اُس نے یہ کلام نازل کیا ہے یا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو زندہ کر دے تو دنیا اس پر تعجب نہ کرے.کیونکہ یہ خدا تعالیٰ کا فیصلہ ہے اور خدا تعالیٰ جس بات کا فیصلہ کر لیتا ہے وہ ہو کر رہتی ہے.خطبہ ثانیہ کے بعد حضور نے فرمایا: بارش اور سردی کی وجہ سے میری طبیعت خراب رہی ہے.ہم جابہ گئے تو اگر چہ وہاں سردی زیادہ تھی مگر دھوپ نکلی رہی جس کی وجہ سے باوجود سردی زیادہ ہونے کے طبیعت اچھی رہی.یہاں آئے تو پھر بادل آگئے جس کی وجہ سے طبیعت میں ضعف اور کمزوری محسوس ہوتی ہے.بہر حال وہ اول موسم قریب آ رہا ہے جب بادل ہٹ جاتے ہیں.اس لیے اُمید ہے کہ تغیر و تبدل کے ماتحت روشنی اور نور کا موسم آ جائے گا.اس کمزوری کی وجہ سے باوجود اس ارادہ کے کہ میں کھڑے ہو کر خطبہ پڑھوں گا آج میں نے بیٹھ کر خطبہ پڑھا ہے اور طبیعت میں کمزوری محسوس ہوتی ہے لیکن زیادہ اثر بادلوں اور موسم (الفضل 24 جنوری 1957ء) کا ہی معلوم ہوتا ہے“.1 : يوسف : 95
$1957 22 4 خطبات محمود جلد نمبر 38 ایک اور مبارک رؤیا اللہ تعالیٰ کی برکات حاصل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے نقش قدم پر چلیں (فرمودہ 25 جنوری 1957ء بمقام ربوہ) تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: میں نے پچھلے جمعہ میں اپنی ایک رؤیا سنائی تھی اور برسبیل تذکرہ قرآن کریم کی ایک آیت بھی اس کے ساتھ ملا کر بیان کی تھی.اس کے بعد شمس صاحب نے تذکرہ میں سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا ایک الہام نکال کر بھیجا جس میں اُسی آیت کا ذکر آتا ہے جو میں نے پڑھی تھی اور اُس کے آگے یہ بھی ذکر ہے کہ اس کے بعد قادیان جانا ہو گا.1 اسی طرح بعض اور لوگوں کو بھی اس کے بعد رؤیا ہوئی ہیں.ایک ہی مضمون کے متعلق اتنی جلدی جلدی رؤیا مجھے کم ہوتی ہیں.لیکن غالبا بدھ اور جمعرات کی درمیانی رات کو میں نے پھر دیکھا کہ میں قادیان میں ہوں.مگر اس دفعہ میں نے اپنے آپ کو مسجد مبارک کی چھت پر نہیں دیکھا بلکہ مسجد مبارک کے مسقف حصہ میں دیکھا ہے.میں جب اس کے اندر گھسا تو مجھے یوں معلوم ہوا جیسے مولوی عبدالکریم صاحب مرحوم خطبہ پڑھ رہے ہیں مگر میں نے
$1957 23 خطبات محمود جلد نمبر 38 ، مسجد جس شکل میں دیکھی ہے وہ وہ بھی جو اب ہے اور مولوی عبد الکریم صاحب مرحوم کے وقت میں مسجد کی یہ شکل نہیں تھی بلکہ صرف اتنا ہی حصہ تھا جو کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بنایا ہوا تھا.مولوی عبدالکریم صاحب 1905ء میں فوت ہوئے تھے اور 1907ء میں اس مسجد کی توسیع ہوئی تھی.یہ توسیع میر ناصر نواب صاحب نے کی تھی اور اس پر انجمن کا اور میر ناصر نواب صاحب کا جھگڑا بھی ہوا تھا جس پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ایک تحریر لکھ کر دی تھی جس کو ہمیشہ پیغامی اس بات کی دلیل میں پیش کیا کرتے ہیں کہ انجمن ہی خلیفہ ہے.تو وہ حصہ مولوی عبد الکریم صاحب مرحوم کی وفات کے بعد بنا ہے.لیکن میں نے اس وقت دیکھا کہ وہ حصہ بھی مسجد میں شامل ہے.مولوی عبدالکریم صاحب کھڑے تھے اور غالباً خطبہ دے رہے تھے.اُن کا منہ مشرق کی طرف تھا.میں جب مسجد کے اندر گھسا تو میرے ساتھ ایک دو ساتھی اور بھی تھے.معلوم ہوتا ہے جیسے مسجد میں گنجائش کم ہے اور آدمی زیادہ ہیں.انہوں نے جب ہمیں آتے ہوئے دیکھا تو کہا لوگو! بارش ہورہی ہے ذرا سمٹ جاؤ اور رستہ دے دو.میں گزر کر اپنے ساتھیوں سمیت اُس کو ٹھڑی میں کھس گیا جس میں پہلے مولوی محمد علی صاحب رہا کرتے تھے اور بعد میں مولوی محمد اسماعیل صاحب اس میں رہتے رہے ہیں.اور پھر سیڑھی پر چڑھ کر گول کمرہ کی چھت پر چلا گیا.اس کے ساتھ ہی وہ مکان ہے جس میں امتہ الحی مرحومہ رہا کرتی تھیں.اس کی کھڑکی باہر چوک کی طرف کھلتی ہے.اگر اس میں کھڑے ہو جائیں تو مسجد مبارک کے آگے کا چوک اور وہ سیٹرھیاں جو نئی بنی ہیں اور وہ دکا نہیں جو مر ز ا نظام الدین اوی صاحب کی ہوتی تھیں وہ سب نظر آتی ہیں.میں نے دیکھا کہ ایک عورت اس کھڑکی کے پیچھے چھپی ہوئی ہے.میں سمجھتا ہوں کہ وہ یہ بتانا چاہتی ہے کہ ہم پردہ دار عورتیں یہاں بیٹھی ہیں.اس وقت بارش ہو رہی ہے اور ہم نماز پڑھنا چاہتے ہیں مگر بارش کی وجہ سے چونکہ کیچڑ ہے ہم نماز پڑھ نہیں سکتے.اور اُس جگہ جو چھت ہے وہ بالوں والی نہیں ہے بلکہ لوہے کی سلاخوں کی ہے جس میں سے پانی گر سکتا ہے.تب میں نے کسی چیز کا سہارا لے کر جو پاس کی چھت پر لوگ بیٹھے تھے ان سے کہا کہ پاس کے کمرہ میں عورتوں سے کہہ دو کہ پردہ کر لیں تا کہ ہم کمرہ میں نماز پڑھ سکیں کیونکہ باہر بارش کی وجہ سے کیچڑ ہے.پھر میں نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ میرا منشا تھا کہ اس جگہ مکان کو وسیع کیا جائے اور کچھ اور چھت ڈال لی جائے تا کہ نمازی اس میں آسکیں.اس کے بعد آنکھ کھل گئی.
خطبات محمود جلد نمبر 38 24 $1957 غرض اس دفعہ میں نے اپنے آپ کو مسجد مبارک کے نچلے حصہ میں دیکھا ہے لیکن حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو نہیں دیکھا بلکہ مولوی عبد الکریم صاحب کو دیکھا ہے کہ وہ کھڑے ہیں اور میں قیاس کرتا ہوں کہ وہ خطبہ پڑھ رہے ہیں اور مشرق کی طرف ان کا منہ ہے.پھر میں کوٹھڑی میں گھسی کے گول کمرہ کی چھت پر چڑھ گیا اور وہاں جا کر میں نے اپنے ساتھیوں کے ذریعہ سے عورتوں سے کہلوایا کہ پردہ کر لو ہم لوگ اندر نماز پڑھانا چاہتے ہیں.یہ جو مسجد کی تنگی دیکھی ہے یہ بھی بتاتی ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ چاہے گا تو قادیان میں احمدیوں کی تعداد بڑھتی چلی جائے گی.یہاں تک کہ وہی مسجد مبارک جو اس وقت وہاں کے لوگوں کے لیے بعض دفعہ جلسہ کے لیے بھی کافی ہو جاتی ہے عام نماز کے لیے بھی ناکافی ہوگی کیونکہ مولوی عبد الکریم صاحب نے بہت ہجوم کو دیکھ کر کہا لوگو! سمٹ جاؤ ، رستہ چھوڑ دو کیونکہ باہر بارش ہو رہی ہے.غرض اس رویا میں بھی قادیان جانے کا ذکر ہے.گو زیادہ تفصیل نہیں.پہلی رؤیا میں زیادہ تفصیل تھی.مگر بہر حال یہ بھی ایک مبارک رؤیا ہے اور مسجد مبارک کا دیکھنا بھی اچھا ہے.پھر کئی احمد یوں نے بھی جو قادیان سے آئے ہیں بتایا ہے کہ وہاں بھی بہت سے لوگوں نے اس قسم کے نظارے دیکھے ہیں.چنانچہ ایک شخص نے ایک دوست کے متعلق بتایا کہ انہوں نے خواب دیکھی ہے کہ کسی نے کہا ہے کہ خلیفتہ اسی مسجد اقصٰی میں آئے ہوئے ہیں اور لوگ اُن کو دیکھنے کے لیے وہاں جارہے ہیں.اسی طرح ایک اور دوست کا سیالکوٹ سے خط آیا کہ میں نے خواب دیکھا ہے کہ آپ نے اعلان کیا ہے کہ کشمیر کے لیے اپنے آپ کو والنٹیئر ز کے طور پر پیش کرو.بہر حال یہ تو اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے کہ مناسب راستہ کونسا ہو گا جس سے ہمیں قادیان جانا ہو گا.مگر ایک رؤیا مجھے پچھلے سال ہوئی تھی جس سے پتا لگتا ہے کہ امرتسر کا رستہ ہوگا.کیونکہ میں نے دیکھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام ہیں اور آپ کے ساتھ حضرت اماں جان ہیں.حضرت اماں جان ایک زیور حضرت مسیح موعود امی علیہ الصلوۃ والسلام کو دکھا رہی ہیں اور کہتی ہیں یہ محمود نے میرے لیے بنوایا ہے اور ایک آدمی آج کل پتا لینے کے لیے کہ کیا حالات ہیں روزانہ امرتسر آتا جاتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس کے جواب میں فرمایا کہ محمود کو میری طرف سے کہہ دینا (حالانکہ میں بھی وہاں ہوں
$1957 25 خطبات محمود جلد نمبر 38 پ مخاطب حضرت اماں جان سے ہوتے ہیں ) کہ جب تم کو لے جائے تو اچھی گاڑی میں لے کر جائے.عام معمولی گاڑی میں لے کر نہ جائے.ނ یہ رؤیا اگر ظاہر پر محمول کیا جائے تو اس سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ جانا امرتسر کی طرف.ہوگا.لیکن رستے اصل چیز نہیں.اصل چیز تو یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ پھر ان علاقوں کو آپس میں ملا دے اور مسلمان عزت اور احترام کے ساتھ وہاں جائیں.ہمارا ظاہری طور پر بھی ہمیشہ یہی خیال رہا ہے.چنانچہ گاندھی جی نے اپنے مارے جانے سے پہلے میرے پاس لاہور میں اپنا ایک نمائندہ بھیجا تھا.اور وہ مس مرد ولا سارا بائی 2ے تھیں.انہوں نے مجھ سے ذکر کیا کہ گاندھی جی کہتے ہیں کہ آپ کیوں چلے گئے.ہم تو آپ کو اپنے علاقہ میں رکھنا چاہتے تھے.میں نے کہا میں نے تو پنڈت نہر وصاحب سے مل کر بھی واضح کیا تھا کہ اس علاقہ میں امن قائم ہو تو ہم رہنے کو تیار ہیں لیکن وہ امن قائم نہیں کر سکے.انہوں نے کہا گاندھی جی کہتے ہیں اب وقت آ گیا ہے کہ ہم امن قائم کر سکیں.وقت آیا تو وہ بیچارے آپ ہی مارے گئے.میں نے کہا میں آنے کو تیار ہوں مگر قیدی کے طور پر نہیں بلکہ شرط یہ ہے کہ سارے مسلمانوں کو اجازت ہو اور سب مسلمانوں سے کہو کہ وہ آزادی سے اُسی طرح رہیں گے جیسے انگریزوں کے زمانہ میں رہتے تھے اور پاکستان اور ہندوستان کے درمیان کوئی باؤنڈری نہیں ہوگی.ہر مسلمان جو اب پاکستان میں ہے وہ اپنی جائیداد کو وہاں جا کر سنبھال سکے گا اور وہاں امن سے رہ سکے گا.میں ایک تبلیغی جماعت کا امام ہوں میں وہاں قید میں نہیں رہ سکتا.میں صرف اسی طرح آنے کو تیار ہوں کہ سب مسلمانوں کو کھلی اجازت ہو کہ وہ جائیں اور امرتسر میں ، گورداسپور میں، ہوشیار پور میں، فیروز پور میں ، لدھیانہ میں، جالندھر میں اور انبالہ میں آزادی سے اپنی جائیدادوں پر قبضہ کر لیں.اگر آپ یہ آزادی دے دیں تو پھر بے شک میں اس پر غور کر سکتا ہوں.وہ کہنے لگیں یہ تو امشکل ہے.ہندو بڑا مخالف ہے.میں نے کہا ہندو بڑا مخالف ہے تو ہوتا رہے میں قیدی کے طور پر نہیں آ سکتا.میں تو جب آؤں گا ایسی شکل میں ہی آؤں گا کہ سارے مسلمان اُدھر آ سکیں اور ہر شخص آزادانہ طور پر وہاں رہ سکے اور سمجھے کہ یہ ملک میرا ہے.یہ کہ مسلمانوں کو غلام کے طور پر رکھا جائے یہ میں برداشت نہیں کر سکتا.اور ایسی صورت میں میں مسلمانوں کو ہرگز یہ مشورہ نہیں دے سکتا کہ وہ جائیں اور نہ میں خود جا سکتا ہوں.اب تو خود مس مرد ولا سارا بائی نہرو جی کی زیر عتاب ہیں بلکہ میں
$1957 26 خطبات محمود جلد نمبر 38 نے سنا ہے کہ انہیں نظر بند کر دیا گیا ہے مگر انہیں گاندھی جی نے میرے پاس بھیجا تھا.پس ظاہر میں بھی ہم لوگوں کو ہمیشہ یہی احساس رہا ہے کہ اگر ہم جائیں تو آزادانہ طور پر جائیں اور سارے مسلمانوں کے لیے رستہ کھلا ہو.صرف چند آدمیوں کا چلے جانا اور اُن کا قیدی کے طور پر رہنا اور ہندوؤں کی ٹھوکریں کھانا یہ ہم برداشت نہیں کر سکتے.مسلمان جائے تو ایسے رنگ میں جائے کہ اُسے آزادی نصیب ہے پھر جب سارے مسلمان جائیں گے تو چونکہ ہم بھی اُن کے ساتھ ہیں اس لیے ہم بھی جائیں گے.لیکن اگر اس رنگ میں کوئی شخص ہمارے سامنے پیشکش کرے کہ چند آدمی وہاں چلے جائیں اور رہیں تو یہ غلامی ہے اور اس غلامی کو ہم برداشت نہیں کر سکتے.پس اللہ تعالیٰ سے یہی دعا ہے کہ وہ ایسا رستہ کھولے جس میں سب مسلمان آزادی کے ساتھ اس ملک میں جاکر رہ سکیں.جہاں تک میرا عقیدہ ہے میں اس بات کا قائل ہوں کہ ہم اس قسم کی کوئی قید ہندوؤں پر بھی نہیں لگائیں گے.فرض کرو اگر خدا تعالیٰ کے مد نظر یہ ہو کہ وہ فاتح کے طور پر مسلمانوں کو اُدھر لے جائے تب بھی اگر کوئی مجھ سے پوچھے گا تو میں یہی کہوں گا کہ وہی حق جو مسلمانوں کو حاصل ہیں ہندوؤں کو بھی دو اور سکھوں کو بھی دو.اگر تم ہندوؤں اور سکھوں میں فرق کرتے ہو تو تم سچے مسلمان نہیں.کیونکہ ہمارے آقا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلم اور غیر مسلم میں سیاست میں کبھی کوئی فرق نہیں کیا.پس جہاں یہ درست ہے کہ اگر ہم جائیں گے تو اسی صورت میں جاسکتے ہیں جب باقی مسلمان بھی جائیں وہاں یہ بھی صحیح ہے کہ اگر ہم باقی مسلمانوں کے ساتھ جائیں تو خواہ فاتحانہ رنگ میں جائیں ہمارا معاملہ ہندوؤں اور سکھوں سے بھی ایسا ہی ہوگا جیسے مسلمانوں سے ہوگا.ہم اُن کو بھی پوری آزادی دیں گے اور نہیں پورے حقوق دیں گے کیونکہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی کوئی امتیاز این سیاست میں مسلم اور غیر مسلم میں روا نہیں رکھا.اور نہ عجمی اور عرب میں رکھا تھا بلکہ سب کو برابر حقوق دیئے تھے.وہی طریق ہمارا ہو گا.دوسرے مسلمانوں میں تو ابھی یہ احساس نہیں پایا جاتا.لیکن اُمید ہے کہ آہستہ آہستہ ان میں بھی یہ احساس پیدا ہو جائے گا اور جب یہ احساس اُن میں پیدا ہو جائے گا کہ وہ ساری قوموں سے انصاف کریں تو اُس وقت اللہ تعالیٰ ان کے لیے برکت کے سامان بھی پیدا کر دے گا اور وہ باتیں جو آج ناممکن نظر آتی ہیں وہ اُس وقت ممکن ہو جائیں گی.تنگدلی کو دیکھ کر
$1957 27 خطبات محمود جلد نمبر 38 خدا تعالیٰ کی برکتیں بھی رُک جاتی ہیں.اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ اُس کے ایسے بندے زمین پر ہوں جو محمد رسول اللہ علیہ وسلم کے نقش قدم پر چلنے والے ہوں، انصاف کرنے والے ہوں ، ، رحم دل ہوں کی اور مساوات نسلی اور سیاسی اور مذہبی کے قائل ہوں.وہ لوگ جو کہتے ہیں کہ دوسرے ملک کے لوگوں یا دوسری نسل کے لوگوں یا دوسری قوم کے لوگوں کو مار ڈالا جائے یا انہیں تباہ کر دیا جائے وہ اللہ تعالیٰ کے محبوب نہیں.اللہ تعالیٰ کے وہی محبوب ہیں جو کہیں کہ سب کو برابر رکھو اور سب کے ساتھ یکساں سلوک کرو کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ترقیات کے بڑے رستے کھلے رکھے ہوئے ہیں.یہ تنگدلی ہوتی ہے کہ انسان کہے کہ میں فلاں کو حق دیتا ہوں اور فلاں کو نہیں دیتا.ترقی کے اتنے رستے کھلے ہیں کہ اس قسم کی تنگدلی دکھانے کی ضرورت ہی نہیں ہوتی.دیکھو! پاکستان میں لوگ تنگدلی برتتے ہیں اور دوسروں کو آگے نہیں بڑھنے دیتے.لیکن امریکہ میں جہاں لوگ ایک دوسرے کو آگے بڑھنے دیتے ہیں باوجود اس کے کہ وہاں کی آبادی اس کی ملک سے زیادہ ہے پھر بھی وہاں اتنے رستے ترقیات کے کھلے ہیں کہ اُن کا ادنیٰ سے ادنیٰ امیر بھی ہمارے بڑے سے بڑے امیر سے بھی بڑا ہے.اس کی وجہ یہی ہے کہ انہوں نے تنگدلی چھوڑ دی ہے.وسیع الحوصلگی اختیار کر لی ہے.اس لیے اللہ تعالیٰ کی مدد اُن کو حاصل ہوتی ہے.اُن کے چھوٹے بڑے کیے جا رہے ہیں اور بڑے اور بھی بڑے کیے جا رہے ہیں.اگر مسلمان بھی اس سبق کو سیکھ لیں اور یہ فیصلہ کر لیں کہ وہ ہندوؤں، سکھوں اور عیسائیوں کے ساتھ نرمی اور محبت کا برتاؤ کریں گے اور ان کی ترقی کے لیے بھی اُسی طرح کوشش کریں گے جس طرح مسلمانوں کی ترقی کے لیے وہ کوشش کرتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ان کے لیے ایسی برکتوں کے سامان پیدا کرے گا کہ جو بڑائیاں اور عزتیں ان کو آج کی خواب میں بھی نصیب نہیں ہوتیں وہ سچ سچ اُن کو مل جائیں گی.اور اللہ تعالیٰ اُن کے قدم کو اتنا اونچا ہے کر دے گا کہ دیکھنے والی دنیا کو اُن کے پیروں کو دیکھنے کے لیے بھی اپنی گردنیں اس طرح اٹھانی پڑیں گی کہ ان کی پگڑیاں گر جائیں گی.خدا تعالیٰ جب کسی کو دیتا ہے تو اسی طرح دیتا ہے.اس نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت میں بھی اسی طرح دیا تھا، اس نے حضرت عیسی علیہ السلام کے وقت میں بھی اسی طرح دیا تھا اور حضرت موسی علیہ السلام کے وقت میں بھی اسی طرح دیا تھا.لر اس وقت مسلمان بھی اللہ تعالیٰ کی برکات کو حاصل کرنا چاہتے ہیں تو وہ اسی صورت میں ان کو اگر
$1957 28 خطبات محمود جلد نمبر 38 دے گا کہ وہ وسیع الحوصلگی اختیار کریں.غیر قوموں کے آگے محبت کا ہاتھ بڑھائیں اور اُن کو کہیں کہ آؤ اور جو عظمتیں ہم کو حاصل ہیں اُن میں تم بھی شریک ہو جاؤ.اب تو یہ حالت ہے کہ مجھے پڑھ کے شرم آئی کہ مرکزی وزیر تجارت ابوالمنصور احمد جو بنگال کے رہنے والے ہیں اُن کے علاقہ میں کوئی خاص شہد ہوتا ہے وہ نئی دہلی گئے تو اپنے ساتھ اُس شہد کے دو مٹکے بھارت کے صدر راجندر پرشاد اور وزیر اعظم پنڈت نہرو کو دینے کے لیے بھی لے گئے.اتنی سی بات پر یہاں اخباروں میں شور پڑ گیا کہ ابوالمنصوراحمد اتنا بے حیا ہے کہ وہ ان کو تحفہ دینے کے لیے شہد لے گیا.اُس نے واپس آکر بڑی دلچسپ تقریر کی اور کہا میں صدر راجندر پرشاد اور وزیراعظم پنڈت نہرو کے لیے شہد تو لے گیا تھا لیکن یہاں کے لوگوں نے اپنی تنگدلی کی وجہ سے میرے اس شہد پر اتنی ہی تنقید کی کہ وہاں جاتے جاتے شہد کی مٹھاس ہی ختم ہو گئی.مطلب یہ کہ یہاں اس طرح نیش زنی کی گئی کہ اس نیش زنی کے بعد ان کو شہر زہر معلوم ہوا ہوگا میٹھا معلوم نہیں ہوا ہوگا.تو ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم تنگدلی چھوڑ دیں اور اپنے دامن کو سب کے لیے وسیع کریں.اگر ہم ایسا کریں گے تو خدا تعالیٰ کی رحمت بھی ہمارے لیے وسیع ہو جائے گی.خدا تعالیٰ کے ہاں اتنی بڑائیاں ہیں کہ ان بڑائیوں کو ہندوؤں سکھوں اور عیسائیوں میں تقسیم کر کے بھی ہمارا حصہ اتنا زیادہ بچ جاتا ہے کہ جس حصہ کے برابر دنیا کے کسی بڑے سے بڑے آدمی کو بھی نہ ملا ہو.دیکھو! خدا تعالیٰ جنت کا مالک ہے اور خدا تعالیٰ اس دنیا کا بھی مالک ہے.اور جنت کے متعلق اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ ایک ادنیٰ سے ادنی مومن کو بھی جو جنت ملے گی وہ اتنی بڑی ہوگی کہ اُس کا پھیلاؤ زمین و آسمان کے پھیلاؤ جیسا ہوگا.3 اب کیا خدا تعالیٰ کو اگلے جہان کی میں ہی طاقت حاصل ہے اس جہان میں حاصل نہیں؟ جس خدا نے اگلے جہان میں ایسی جنت بنائی ہے وہ یقیناً اس دنیا میں بھی ایسی جنت بنا سکتا ہے اور ہر مسلمان کو اتنا بڑا حصہ دے سکتا ہے کہ عیسائیوں، ہندوؤں اور سکھوں کو دینے کے بعد بھی اس کا حصہ اتنا زیادہ ہو کہ زمین و آسمان کا پھیلاؤ بھی اس سے چھوٹا رہ جائے.پس اللہ تعالیٰ پر توکل کرو اور اُسی سے مانگو.بہت سے مسلمانوں کو میں نے دیکھا ہے کہ وہ اِس وجہ سے مایوس ہیں کہ ہماری آبادی بہت تھوڑی ہے اور ہمارے پاس روپیہ نہیں.ہندوستان کے پاس بہت روپیہ ہے اور اس کی آبادی
$1957 29 خطبات محمود جلد نمبر 38 بھی بہت ہے.حالانکہ اگر ہم خدا تعالیٰ سے تعلق رکھیں تو آبادی بھی اسی کے ہاتھ میں ہے.دیکھو! خدا تعالیٰ کے دینے کے طریق یہی ہوتے ہیں کہ کبھی بچے زیادہ دے دیتا ہے اور کبھی دوسروں کے بچے مارڈالتا ہے.حضرت موسی علیہ السلام کے متعلق یہی آتا ہے کہ اُن کے زمانہ میں فرعونیوں کے پلو ٹھے مارے گئے.4 تو خدا تعالیٰ میں یہ بھی طاقت ہے کہ ایک ایک پاکستانی کے ہاں اتنے بچے پیدا ہو جائیں کہ وہ گھبرایا پھرے کہ ان کو کھلاؤں کہاں سے.اور خدا تعالیٰ میں یہ بھی طاقت ہے کہ وہ ہندوستان کی آبادی کو کم کر دے.پس اللہ تعالیٰ کو یہ دونوں طاقتیں حاصل ہیں.وہ اگر چاہے تو کسی کو زیادہ بچے دے دے اور اگر چاہے تو کسی کے بچے مار دے.اس لیے ہماری آٹھ کروڑ کی آبادی آستی کروڑ بھی بن سکتی ہے اور ہندوستان کی پینتالیس کروڑ کی آبادی پانچ کروڑ یا اڑھائی کروڑ بلکہ پانچ لاکھ بھی بن سکتی ہے.پس خدا تعالیٰ کے اختیار میں سب کچھ ہے.جو خدا تعالیٰ کو اپنا بنالے گا خدا تعالیٰ اُس کی مدد کرنی شروع کر دے گا.اگر ہندوستانی خدا تعالیٰ کو اپنا بنا لیں گے تو اُن کی چیزوں میں برکت پیدا ہو جائے گی.اور اگر پاکستانی خدا تعالیٰ کو اپنا بنالیں گے تو پاکستان کی ہر چیز میں برکت پیدا ہونی شروع ہو جائے گی اور یہ چھوٹا سا ملک اتنی بڑی طاقت پکڑلے گا کہ دنیا کی بڑی بڑی طاقتیں اس سے لرزیں گی.نہرو جی تو اس بات پر خوش ہیں کہ روس کا وزیر اعظم اور سیکرٹری ہمارے پاس آئے ہیں لیکن تمہارے لیے اس سے بڑی گنجائش باقی ہے.تمہارے لیے یہ گنجائش باقی ہے کہ خدا تعالیٰ اور اُس کا جبریل تمہارے پاس آجائیں.اب تم بتاؤ کہ روس کے کمانڈر انچیف اور اس کے سیکرٹری کی خدا تعالیٰ اور اُس کے جبریل کے سامنے حیثیت ہی کیا ہے.اگر ایسا ہو جائے تو نہرو جی کی خوشی کتنی حقیر ہو جاتی ہے.وہ اس بات پر خوش ہیں کہ روس کے کمانڈر انچیف اور کمیونسٹ پارٹی کے چیف سیکرٹری اُن کے ہاں آئے لیکن ہر پاکستانی اس امید سے پُر ہے کہ کسی دن خدا تعالیٰ چاہے گا تو خدا اور جبریل اُس کے گھر آ جائیں گے.اور جس دن خدا اور اس کا جبریل اس کے گھر آئے اُس دن روس کے کمانڈر انچیف اور کمیونسٹ پارٹی کے چیف سیکرٹری کو بھاگتے ہوئے رستہ بھی نہیں ملے گا بلکہ وہ اپنی جو تیاں چھوڑ کر بھاگ جائیں گے کیونکہ خدا تعالیٰ اور جبریل کے مقابلہ میں کوئی چیز نہیں ٹھہر سکتی.غرض اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کے لیے ترقیات کا ایک بہت بڑا رستہ کھلا رکھا ہے.محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس دنیا میں پیدا ہونے کے بعد خدا تعالیٰ کے ساتھ وہ وفاداری کی
30 $1957 خطبات محمود جلد نمبر 38 کہ خدا تعالیٰ نے اُن سے وعدہ کیا کہ اب آئندہ خدا تعالیٰ اور اس کے جبریل کا تعلق انہی لوگوں سے ہو گا جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے تعلق رکھنے والے ہوں گے.اس لیے مسلمانوں کے لیے ڈرنے کی کوئی وجہ نہیں.جو شخص محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سچا تعلق پیدا کر لے گا اُس کا خدا تعالیٰ سے پکا تعلق ہو جائے گا.اور جب اُس کا خدا تعالیٰ سے پکا تعلق ہو جائے تو خدا تعالیٰ اور جبریل ہمیشہ مسلمانوں کے گھر میں اُتریں گے وہ کسی غیر مسلم کے گھر میں نہیں اتریں گے“.(الفضل یکم فروری 1957 ء ) 1 : تذکرہ صفحہ 657 ایڈیشن 2004ء 2 مرد ولا سارا بائی: (MIRDULA SARABHAI) (1911 تا 1974ء) احمد آباد انڈیا میں پیدا ہوئیں.ہندوستان کی تحریک آزادی کی سرگرم رکن تھیں.: سَابِقُوا إلى مَغْفِرَةٍ مِّنْ رَّبِّكُمْ وَجَنَّةٍ عَرْضُهَا كَعَرْضِ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ (الحديد: 22) 4 خروج باب 12 آیت 29، 30
$1957 31 LO 5 خطبات محمود جلد نمبر 38 رؤیا کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ مومن اپنے تو کل اور اُمید کو بڑھائے اور یقین رکھے کہ خدا ضرور کچھ ظاہر کرے گا تعبیر الر 5 یا بڑا نا زک اور اہم علم ہے.رؤیا کی حقیقی تعبیر اس کے پورا ہونے پر ہی ظاہر ہوتی ہے (فرموده یکم فروری 1957 ء بمقام ربوہ) تشهد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: ” میں نے پچھلے خطبہ میں کہا تھا کہ یہ عجیب بات ہے کہ گزشتہ ہفتہ میں قریب قریب وقت میں مجھے ایک ہی مضمون کے متعلق دو دفعہ رویا ہوئی ہیں.اس کے بعد اس ہفتہ میں میں نے پھر دیکھا ہے کہ میں قادیان میں ہوں.لیکن اس دفعہ میں نے اپنے آپ کو مسجد مبارک میں نہیں دیکھا بلکہ اس صحن میں دیکھا ہے جس میں پارٹیشن کے وقت ام ناصر رہا کرتی تھیں اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اپنی وفات کے قریب عرصہ میں گرمیوں میں وہاں سویا کرتے تھے.اس صحن میں ایک دروازہ کھلتا.جو نیچے ڈیوڑھی سے آتا ہے جو اُس گلی کے ساتھ ملتی ہے جو میاں بشیر احمد صاحب کے مکان کے پہلو میں گزرتی تھی.ایک طرف حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا پرانا مکان تھا، دوسری طرف ہے
$1957 32 خطبات محمود جلد نمبر 38 میاں بشیر احمد صاحب والا مکان تھا اور بیچ میں سے گلی آتی تھی اور اس کا رستہ مسجد مبارک کے نیچے سے ہوتا تھا.پھر وہ گلی مرزا سلطان احمد صاحب والے مکان کی طرف چلی جاتی تھی اور رستہ میں اُس کے دائیں طرف ڈیوڑھی آتی تھی.اس کے اندر داخل ہونے کے بعد سیڑھیاں آتی تھیں جن کے اوپر ہمارے گھر میں راستہ ہوتا تھا.میں نے دیکھا کہ ان سیڑھیوں میں کچھ حرکت ہوئی ہے.ایسا معلوم ہوتا ہے کہ کچھ لوگ ہیں جو ملنے آئے ہیں.اس پر میں نے جا کر گنڈی کھولی.گنڈی کھولنے پر ایک ہاتھ آگے نکلا جیسے کوئی مصافحہ کرنا چاہتا ہے.میں نے اُس شخص کی شکل تو نہیں دیکھی لیکن ہاتھ سے میں یہ سمجھا کہ یہ چودھری رحمت خان صاحب کا ہاتھ ہے.چودھری رحمت خان صاحب ایک مخلص احمدی نوجوان ہیں ( اب تو شاید وہ نو جوان نہیں رہے بلکہ اُدھیڑ عمر کے ہوں گے ) گجرات میں رہتے ہیں.ان کے بھائی چودھری غلام رسول صاحب یہاں اسکول میں ماسٹر ہیں.1922ء میں جو میں نے درس دیا تھا اس میں وہ بڑے شوق کے ساتھ قادیان آ کر شامل ہوئے تھے.اس کے بعد میں برابر سنتا رہا ہوں کہ انہوں نے اس درس سے پورا فائدہ اٹھایا اور اپنی سروس کے دوران میں انہیں جہاں جہاں بھی جانے کا موقع ملا وہ درس دیا کرتے تھے اور لوگوں کو قرآن کریم کے مضامین سے واقف کیا کرتے تھے.بہر حال میں نے رویا میں سمجھا کہ یہ ہاتھ چودھری رحمت خان صاحب کا ہے.میں نے اُن کا ہاتھ پکڑ لیا اور کہا میں کتنی ہی دیر سے آپ کی تلاش کر رہا تھا آج آپ کو پکڑا ہے.اور پھر اس خیال سے کہ انہیں علمی ذوق ہے اور قرآن کریم کے مضامین سے وہ فائدہ اٹھاتے رہے ہیں اور درس دیتے رہے ہیں میں نے کہا اندر آ جاؤ تا کہ ہم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کتابوں کے متعلق باتیں کریں.چنانچہ میں نے ان کا ہاتھ پکڑا اور ان کو اندر کھینچ کر لے آیا.اُس وقت چند اور آدمی بھی اس صحن میں ہیں لیکن اُس وقت وہ مجھے نظر نہیں آتے.بعد میں اُن میں سے بعض آدمی مجھے نظر آئے.بہر حال میں ان کو لے کر صحن میں آ گیا اور میں نے اُن کو اپنے پہلو میں کھڑا کر لیا اور کہا حضر مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جو کتابیں ہیں ان میں سے چشمہ معرفت میں بہت لطیف مضامین ہیں اور وہ مجھے بہت پسند ہے.اُس وقت میں نے دیکھا کہ سامنے ڈاکٹر شاہ نواز صاحب بیٹھے ہیں.انہوں نے اس سال جلسہ سالانہ پر تقریر بھی کی تھی.ڈاکٹر شاہ نواز صاحب کہتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتاب براہین احمدیہ کوکوئی کتاب نہیں پہنچتی.میں نے کہا براہین احمدیہ
$1957 33 خطبات محمود جلد نمبر 38 اپنی جگہ پر اچھی کتاب ہے اور بعض اور کتابیں بھی ہیں جن میں اپنی جگہ پر بڑے اعلیٰ درجے کے مضامین ہیں.چنانچہ اُس وقت میرے ذہن میں آئینہ کمالات اسلام بھی آتی ہے لیکن چشمہ معرفت کی یہ خوبی ہے کہ اس میں بہت سے مضامین چند سطروں میں آ جاتے ہیں اور ی چند چند سطروں کے بعد مضمون بدلتا چلا جاتا ہے.پس ” براہین احمدیہ اپنی جگہ پر اعلیٰ ہے اور بعض اور کتابیں اپنی جگہ پر اعلیٰ ہیں.مگر ان سب میں لمبے لمبے مضامین آتے ہیں لیکن چشمہ معرفت میں بہت سے مضامین کی تشریح آجاتی ہے اور چند سطروں میں آتی ہے.اس لیے میں نے خاص طور پر اس کا ذکر کیا کہ اپنے رنگ میں وہ اعلیٰ درجہ کی کتاب ہے.اس کے بعد میری آنکھ کھل گئی.اس رؤیا میں بھی میں نے اپنے آپ کو قادیان میں دیکھا اور یہ بھی اتنی جلدی دیکھا کہ ابھی پچھلے ہفتہ میں میں نے ایک رؤیا سنائی تھی کہ میں مسجد مبارک میں پھر رہا ہوں اور مولوی عبد الکریم صاحب خطبہ پڑھ رہے ہیں.اتنا تو اتر جو خوابوں میں ہو رہا ہے اس کی بناء پر خیال آتا ہے کہ الہی منشاء کے مطابق آسمان پر کوئی تحریک ہورہی ہے.مگر ایک بات ہے جو میں کہہ دینا ضروری سمجھتا ہوں اور وہ یہ ہے کہ رؤیا کے متعلق بہت سے لوگوں کا نقطہ نظر جدا گانہ ہوتا ہے.بعض لوگ جب کوئی رؤیا سنتے ہیں تو ساتھ ہی اُس رؤیا کی بناء پر وقت کی تعیین بھی کر دیتے ہیں اور تفصیل کی بھی تعیین کر دیتے ہیں.اور بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں جو ر و یا سنتے ہیں تو پھر بھی ان کی مایوسی دور نہیں ہوتی اور وہ کہتے ہیں رویا ر طلب ہوتی ہے معلوم نہیں اس کا کیا مطلب ہوگا.یہ دونوں نقطہ نگاہ اپنی اپنی جگہ پر غلط ہیں.حقیقت یہ ہے کہ رؤیا کا اصل مقصد یہ نہیں ہوا کرتا کہ لوگ تفصیل یا وقت کی تعیین کر لیں بلکہ رؤیا کا اصل مقصد یہ ہوتا ہے کہ لوگ اپنی اُمید اور تو کل بڑھا لیں.اس میں کوئی طبہ نہیں کہ رویا تعبیر طلب ہوتی ہیں مگر آخر کچھ تعبیر تو ان کی ہوتی ہے.تعبیر کے تو محض یہ معنے ہیں کہ جن الفاظ میں رویا دکھائی گئی ہے ممکن ہے ان میں وہ رویا پوری نہ ہو لیکن اس کا یہ مطلب تو نہیں کہ کچھ بھی ظاہر نہیں ہو گا.دیکھو! جب مکہ والوں کی تکلیفیں بڑھ گئیں تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے رویا میں دیکھا کہ آپ نے ایک ایسی جگہ کی طرف ہجرت کی ہے جو کھجوروں اور چشموں والی ہے.آپ نے رؤیا کے ظاہری الفاظ کے مطابق یہ تعبیر کی کہ آپ کو یمامہ یا ھجر کی طرف ہجرت کرنی پڑے گی.1 مگر جب ہجرت ہوئی تو مدینہ ہوئی جو خود کھجوروں کی جگہ ہے.لیکن ہجرت سے پہلے آپ نے فرمایا تھا کہ میں نے رویا
$1957 34 خطبات محمود جلد نمبر 38 سے یہ سمجھا تھا کہ ہم یمامہ یا ھجر کی طرف ہجرت کریں گے.لیکن جو تعبیر ظاہر ہوئی وہ یہ تھی کہ مدینہ کی کی طرف آپ نے ہجرت فرمائی.اب یہ تو نہیں کہ کوئی بھی ہجرت نہیں ہوئی.اگر ہجرت یمامہ یا ھجر کی طرف نہیں ہوئی تو مدینہ کی طرف تو ہو گئی.پس وہ لوگ جو یہ سمجھ لیتے ہیں کہ رویا چونکہ تعبیر طلب ہوتی ہیں اس لیے ہمیں کسی رد عمل کی ضرورت نہیں غلطی پر ہیں.تعبیر طلب کے معنے یہ ہیں کہ رویا کی تعبیر تو ضرور ہوتی ہے اور وہ پوری ہوتی ہے لیکن جو ظاہر میں شکل دکھائی جاتی ہے اس میں وہ اور ہوتی ہے.اب ہمیں نہیں پتا کہ وقت پر اللہ تعالیٰ کیا شکل دکھائے.لیکن یہ تو پتا ہے کہ ضرور کچھ دکھائے گا.پس ان متواتر رویا ہونے کے یہ معنے نہیں کہ رویا میں جو چیز دکھائی گئی ہے بعینہ اسی شکل میں پوری ہوگی.بعض دفعہ رو یا بعینہ اسی شکل میں پوری ہوتی ہے جس میں وہ دکھائی جاتی ہے اور بعض دفعہ کسی اور شکل میں پوری ہوتی ہے جو بعض دفعہ ایک تسلسل کے ماتحت ہوتی ہے جس کے مطابق تعبیر نامہ والے اپنی کتابوں میں تعبیر میں لکھ دیتے ہیں.تعبیر نامہ والوں نے یہی کیا ہے کہ مختلف لوگوں کی خواہیں انہوں نے جمع کیں اور پھر پوچھا کہ تمہاری خواب کس طرح پوری ہوئی تھی ؟ اور جب انہیں معلوم ہوا کہ ایک کثیر تعداد نے یہ خواب دیکھی تھی اور پھر اس رنگ میں پوری ہوئی تو انہوں نے لکھ لیا کہ اس کی یہ تعبیر ہے.مثلا کتا ہے.ایک شخص نے کہا کہ میں نے گتا دیکھا.دوسرے شخص کو تلاش کیا.اُس نے بھی کہا میں نے گنا دیکھا.تیسرے کو تلاش کیا.اُس نے بھی کہا میں نے گنا دیکھا.اس طرح انہوں نے پچاس ساٹھ آدمی جمع کر لیے.جب پچاس ساٹھ آدمیوں کی خوا ہیں معلوم ہو گئیں تو پھر انہوں نے اُن سے پوچھا کہ اس کے بعد کیا ہوا تھا؟ انہوں نے کہا ہم کو غم پہنچا تھا.اس پر انہوں نے لکھ لیا کہ اگر کوئی خواب میں گنا دیکھے تو اُسے غم پہنچتا ہے.یا مثلاً خواب میں بلی دیکھنا ہے.انہوں نے بہت سے ایسے آدمی جمع کیے جنہوں نے خواب میں بلی دیکھی تھی اور پھر اُن سے دریافت کیا کہ اس کے بعد کیا ہوا؟ تو انہوں نے بتایا ہم بیمار ہو گئے تھے.اس پر انہوں نے تعبیر الرویا میں لکھ لیا کہ اگر کوئی خواب میں بلی دیکھے تو بیماری آتی ہے.اسی طرح پکنا ہے.انہیں پچاس، ساٹھ سو آدمی خواب میں چنا دیکھنے والے ملے تو پوچھا اس کے بعد کیا ہوا تھا ؟ تو انہوں نے بتایا ہمیں کچھ غم پہنچا تھا.اس پر انہوں نے لکھ لیا کہ اگر کوئی خواب میں پنا دیکھے تو اسے غم پہنچتا ہے.پھر انہیں خواب میں بادام اور کشمش دیکھنے والے ملے اور انہوں نے کہا ہم نے خواب میں
$1957 35 خطبات محمود جلد نمبر 38 بادام اور کشمش دیکھے ہیں تو انہوں نے دریافت کیا کہ بادام اور کشمش دیکھنے کا نتیجہ کیا ہوا تھا ؟ انہوں نے کہا بعد میں ہمیں کوئی خوشی پہنچی تھی.اس پر انہوں نے لکھ لیا کہ اگر کوئی خواب میں بادام اور کشمش دیکھے تو اُسے خوشی پہنچتی ہے.تو بعض رویا ایسی ہوتی ہیں جن کی تعبیر تسلسل کے قاعدہ کے ماتحت ہوتی ہے.یعنی مسلسل لوگوں کو ایسی خوا میں آئی ہوئی ہوتی ہیں.پس ان کا جو تجربہ ہوتا ہے اس کو لے کر معتبرین اپنی کتابوں میں درج کر لیتے ہیں.مگر بعض ایسی رؤیا ہیں کہ جن کو فہم الہی سے حل کیا جاتا ہے.مثلاً حضرت یوسف علیہ السلام نے جو خواب کی تعبیر بیان کی وہ تعبیر الرؤیا کی کسی کتاب میں نہیں نکلے گی.گو قرآن شریف کو دیکھ کر تعبیر الرؤیا والوں نے بھی اسے لکھ لیا ہے.لیکن حقیقت یہ ہے کہ حضرت یوسف علیہ السلام کے پاس تو قرآن کریم نہیں تھا.حضرت یوسف علیہ السلام نے فہیم الہی سے اس کی تعبیر کی اور وہ پوری ہوگئی.تو رؤیا کا جو علم ہے وہ بڑا نازک اور اہم ہے.نہ تو عام طور پر رؤیا کے وہ لفظ پورے ہوتے ہیں جو انسان دیکھتا ہے اور نہ وقت اور تفصیل کی تعیین ہوتی ہے لیکن ہوتا کچھ نہ کچھ ضرور ہے.اور بعد میں پتا لگ جاتا ہے کہ اس کا کیا مقصد تھا.گویا رویا پوری ہو کر اپنی حقیقی تعبیر کرتی ہے.یا جو پہلے لوگوں کی رویا میں انہیں نقل کر کے معتبرین نے اپنی کتابوں میں درج کر دیا ہے.اگر اس قسم کی رؤیا پوری ہو کر معبرین نے اپنی کتابوں میں درج کر دیا ہے.اگر اس قسم کی رؤیا پہلے لوگوں کو نہیں ہوئیں تو تعبیر الرویا میں ان کے متعلق کچھ نہیں نکلے گا.تعبیر الرؤیا کی کتابیں اس پر خاموش ہوں گی.لیکن مومن یہ ضرور سمجھے گا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے جو چیز دکھائی ہے وہ میرے ایمان کی زیادتی کے لیے دکھائی ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کوئی فضول کام نہیں کرتا.قرآن کریم سے پتا لگتا ہے کہ خدا تعالیٰ عبث کام نہیں کرتاہے اور جب وہ کوئی عبث کام نہیں کرتا تو جب وہ کسی کو کوئی رؤیا دکھاتا ہے تو اس کی کچھ نہ کچھ ضرور تعبیر ہوتی ہے.پس مومن کو اس رؤیا سے اپنے تو کل کو بڑھانا چاہیے اور یہ یقین رکھنا چاہیے کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے جب کوئی خبر خوشی پر دلالت کرتی ہے یعنی ایسے مضمون پر دلالت کرتی ہے جس سے خوشی پہنچتی ہے تو وہ یقین رکھے کہ اللہ تعالیٰ مجھے خوشی پہنچائے گا.اور اگر کسی ایسے مضمون پر دلالت کرتی ہے جو غم کا موجب ہے تو پھر وہ یہ سمجھ لے کہ اگر چہ تعبیر الرویا سے اس کی تعبیر کا پتا نہیں لگا لیکن مجھے کوئی ایسا ر پہنچنے والا ہے جو میرے لیے غم کا موجب ہو گا.لیکن قادیان کا دیکھنا ہر احمدی کے لیے خوشی کا
$1957 36 خطبات محمود جلد نمبر 38 جب ہے.اب یہ کہ ہم قادیان کب دیکھیں گے اور آیا اسی کو ٹھے پر جا کے دیکھیں گے یا کسی باہر کے علاقہ میں دیکھیں گے یہ ساری باتیں تفصیل طلب ہیں.ان کے متعلق تعیین کر لینا درست نہیں.لیکن اس کے ساتھ ہی رؤیا کو نظر انداز کر دینا بھی غلط ہے.کیونکہ رویا جب دکھائی جاتی ہے تو جیسا کہ میں نے بتایا ہے وہ ایمان اور تو کل بڑھانے کے لیے ہوتی ہے.مگر چاہیے کہ مومن وقت اور تفصیل کے پیچھے نہ پڑے.ہاں ! یہ یقین کر لے کہ اللہ تعالیٰ میرے لیے غیب سے کوئی خوشخبری ظاہر کرنے والا ہے.جب مومن ایسا یقین پیدا کر لیتا ہے تو خدا تعالیٰ فرماتا ہے اَنَا عِندَظَنِ عَبْدِى ئی.جیسا بندہ میرے متعلق گمان کرتا ہے میں بھی اس سے ویسا ہی سلوک کرتا ہوں.وہ جب خدا تعالیٰ پر توکل کرتا ہے اور کہتا ہے خدا تعالیٰ نے مجھے خوشخبری دکھائی ہے اس لیے وہ میرے لیے ضرور خوشخبری پیدا کرے گا تو پھر خدا تعالیٰ بھی اس کے ساتھ ویسا ہی معاملہ کرتا ہے اور اس کے لیے کی خوشخبری کے سامان پیدا کرتا ہے.اس رویا میں جو نام ہیں وہ بھی قابل غور ہیں.کیونکہ معتبر مین نے لکھا ہے کہ ناموں کے ساتھ بھی تعبیر کا تعلق ہوتا ہے.اس رویا میں جو آدمی مجھے دکھائے گئے ہیں اُن میں سے ایک نام رحمت خاں ہے اور پھر وہ چودھری ہیں.چودھری کا لفظ ہمارے ملک میں اعزاز کے لیے بولا جاتا ہے ہے.پس چودھری رحمت خاں کے معنے ہوئے کہ بڑی رحمت.دوسرا نام شاہ نواز ہے اور شاہ نواز کے معنے ہیں کہ جس کی خدا تعالیٰ نے قدر کی.کیونکہ نواز نے کے معنے ہوتے ہیں کہ اُس کی قدر کی اور اُس کا رتبہ بڑھایا.ہمارا شاہ تو خدا تعالیٰ ہی ہے.پس شاہ نواز کے معنے ہوئے ایسا وجود جسے خدا تعالیٰ نے پسند کر لیا اور جس کو خدا تعالیٰ پسند کرے اگر اُس کو دیکھا جائے گا تو اس سے لازماً خوشی اور فرحت ہی پہنچے گی.اور دوسری طرف رحمت بھی نظر آئے گی.تو اس میں بھی خوشی ہو گی.چنانچہ رویا میں میں نے چودھری رحمت خاں صاحب کا پنجہ پکڑا اور کہا میں آپ کی دیر سے تلاش کر رہا تھا.اس میں گویا وہی مضمون آ گیا جوانی لَاَجِدُرِيحَ يُوسُفَ لَوْلَا أَن تُفَنِدُونِ 4 میں آتا ہے.یعنی مجھے یوسف کی خوشبو آ رہی ہے اگر تم مجھے دیوانہ قرار نہ دو.حضرت یعقوب علیہ السلام کو حضرت یوسف کی تلاش تھی.اور میں نے بھی رویا میں چودھری رحمت خاں صاحب سے یہی کہا کہ میں دیر سے آپ کی تلاش کر رہا تھا.آج میں نے آپ کو پکڑ لیا ہے.چنانچہ اس پر میں نے اُن کا ہاتھ مضبوطی سے پکڑ لیا اور
$1957 37 خطبات محمود جلد نمبر 38 انہیں اندر لے گیا.ہمیں بھی رحمت الہی کی ہمیشہ تلاش رہتی ہے.مگر جب سے ہجرت ہوئی ہے ہمیں قادیان کی بھی تلاش رہتی ہے.پس خواب میں یہ کہنا کہ مجھے رحمت خاں کی دیر سے تلاش تھی اور پھر اپنے آپ کو قادیان میں دیکھنا بتاتا ہے کہ وہ رحمت الہی جس کا قادیان سے تعلق ہے اس کو میں نے پکڑ لیا ہے.پھر چشمہ معرفت کے الفاظ بھی بڑے اچھے ہیں.یعنی اللہ تعالیٰ اس کے ذریعہ سے معرفت اور ایمان کو بڑھائے گا اور عرفان کو ترقی دے گا.اور یہ صحیح بات ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ کوئی ایسے رستے کھول دے کہ جس سے احمدیوں کو قادیان جانے اور دیکھنے کا موقع نصیب ہو جائے تو اس سے ان کی معرفت بھی بڑھ جائے گی اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی خوابوں اور بعد میں آنے والے بھائیوں اور میری خوابوں پر بھی ان کا یقین بڑھے گا کہ دیکھو ! خدا تعالیٰ نے جو خبر دی تھی اس نے اُسے پورا کر دیا.باقی رہ وقت اور تفصیل کی تعیین یہ ہمارا کام نہیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دیکھا تو ایک رات میں ہی تھا کہ آپ نے ہجرت کی ہے مگر وہ ہجرت ایک عرصہ کے بعد جاکے ہوئی تھی.پس ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ یہ بات کب ہو.مگر یہ چیز ضرور نظر آتی ہے کہ جس دن سے یہ رویا ہوئی ہیں اُسی دن سے روزانہ دنیا کی سیاسیات میں ایسے تغیر ہو رہے ہیں کہ یوں معلوم ہوتا ہے کہ جیسے معاملہ قریب کیا جا رہا ہے.مثلاً اس کے بعد کشمیر کا معاملہ یو.این.او میں پیش ہوا.اور یو.این.او نے پاکستان کی تائید میں فیصلہ کیا اور اب وہ معاملہ دوبارہ پیش ہو رہا ہے.اس کے بعد ویسٹ پاکستان کی تمام پارٹیوں نے متفقہ طور پر ریزولیوشن پاس کیا اور یو.این.او پر زور دیا کہ آپ لوگوں کو فوری طور پر کشمیر کے معاملہ کا فیصلہ کرنا چاہیے.اور کشمیر کا معاملہ اور گورداسپور کا معاملہ دونوں ملے ہوئے ہیں.پھر بعض اخباروں نے لکھا کہ کشمیر کے متعلق تو پنڈت نہرو اور پالیسی استعمال کر رہے ہیں لیکن دوسری ریاستیں جو اسلامی تھیں جیسے جونا گڑھ اور حیدر آباد وغیرہ ان کے متعلق ان کی پالیسی اور ہے.اسی طرح آج ہی میں نے پڑھا ایک اخبار نے لکھا ہے کہ بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ چین ہندوستان کے ساتھ ہے لیکن تبت میں چین اپنا رسوخ بڑھا رہا ہے اور اس کی وجہ سے ہندوستان کے ساتھ اس کے تعلقات خراب ہونے لازمی ہیں.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ چو این لائی نے اپنی الی ایک تقریر میں کہا ہے کہ پنڈت نہرو خیر سگالی کے دورہ پر جو امریکہ گئے تھے جنرل آئزن ہاور نے
$1957 38 خطبات محمود جلد نمبر 38 اس کا بہت بُرا بدلہ دیا ہے اور پنڈت نہرو نے صلح کی طرف جو قدم اٹھایا تھا کشمیر میں پھر رائے شماری ہی کے متعلق قرار داد پیش کر کے امریکہ نے اُسے ٹھکرا دیا ہے.مگر چو این لائی صاحب کو یہ خیال نہ آیا کہ وہ ابھی تھوڑے دن ہوئے پاکستان ہو کر گئے ہیں اور پاکستان میں وہ بھی گڈول (GOOD WILL مشن پر آئے تھے.یہاں اُن کی بڑی عزت ہوئی.تمام پاکستان میں اُن کی پارٹیاں ہوئیں، بڑے بڑے نعرے لگے ، بڑے بڑے جلوس نکلے مگر انہوں نے واپس جا کر اس کا نہایت بُر ابدلہ دیا.امریکہ پر جو انہوں نے اعتراض کیا ہے کہ پنڈت نہر ووہاں گئے تھے لیکن آئزن ہاور نے اُن کی قدر نہ کی.اس کے متعلق یہی کہا جا سکتا ہے کہ چو این لائی صاحب آپ بھی پاکستان آئے تھے تو پاکستان نے آپ کی بڑی قدر کی لیکن آپ نے اس عزت کی جو اُس نے آپ کی کی قدر نہ کی.پاکستان نے آپ کے اعزاز میں بہت کچھ کیا ، بہت سے جلوس نکالے لیکن آپ نے اس کی بے قدری کی.اور یہاں تو اس کی تعریفیں کرتے رہے لیکن اس ملک سے باہر گئے تو کہہ دیا کہ کشمیر کے معاملہ میں ہندوستان سے بڑی بے انصافی ہوئی ہے.یہ ایک سیاسی چال ہے جو آپ نے چلی ہے اور اگر آپ کو سیاسی چال چلنے کا حق حاصل ہے تو جنرل آئزن ہاور کو کیوں یہ حق حاصل نہیں؟ یو.این.اوکو کیوں یہ حق حاصل نہیں ؟ اگر آپ ایک ملک کی دعوتیں کھا کر اور اس میں جلوس نکلوا کر اور اس کے تعریفی نعرے سننے کے بعد اپنے ملک میں واپس جا کر ایک ایسی بات کہہ سکتے ہیں جو اُس کی دل شکنی کا موجب ہو تو کیا وجہ ہے کہ جنرل آئزن ہاور یہ بات نہیں کر سکتا ؟ کیا وجہ ہے کہ یو.این.اور یہ بات نہیں کہہ سکتی جو کچھ آپ کر سکتے ہیں؟ وہ وہ بھی کر سکتے ہیں.جو کچھ آپ نے کہا تھا وہی کچھ انہوں نے کہا ہے.اس میں کوئی فرق نہیں.آپ نے بھی اپنے دورہ کا نام مکڈول مشن رکھا اور یہاں پاکستان کی تعریفیں کیں.اور پھر اس ملک سے باہر جا کر اس کی مذمت کی اور کشمیر کا لی معاملہ جو اس کے لیے زندگی اور موت کا سوال ہے اس میں ہندوستان کی تائید کی اور جنرل آئزن ہاور کو گالیاں دیں کہ اس نے پنڈت نہرو کے امریکہ جانے کی قدر نہیں کی.مگر یہ ساری بات ایک سیاسی چال ہے اور سیاسیات کے لحاظ سے ایسا ہو جاتا ہے دین کے لحاظ سے ایسا نہیں ہوتا.آپ نے اپنے فعل سے صرف یہی ثابت کیا ہے کہ آپ دیندار نہیں ہیں محض سیاسی آدمی ہیں.جنرل آئزن ہاور نے بھی یہ دعوای کبھی نہیں کیا کہ وہ دیندار ہے.وہ بھی یہی کہتا ہے کہ میں سیاسی آدمی
خطبات محمود جلد نمبر 38 39 $1957 ہوں.تو جو سیاسی چال آپ نے چلی وہی آئزن ہاور نے چلی.اگر یہ چیز آپ کے لیے جائز تھی کی تو جنرل آئزن ہاور کے لیے کیوں جائز نہیں ؟ یہ عجیب بات ہے کہ یہی کام آپ کے لیے تو نہایت اعلیٰ درجہ کا ہے لیکن آئزن ہاور اگر وہی کام کرے، یو.این.او وہی کام کرے تو وہ بہت برا ہے.تو یہ سیاسی چالیں ہیں مگر ان سے پتا لگتا ہے کہ خدا واقعات کو دھکے دے رہا ہے.وہ دھکے دے دے کے ایسے حالات پیدا کر رہا ہے کہ جن سے قوموں میں آپس میں بگاڑ پیدا ہو.اگر خدا تعالیٰ کی طرف سے یہ دھکا نہ ہوتا تو اس وقت بڑے بڑے سمجھدار لوگ جو سیاسی طور پر اپنی زبانوں کو سنبھال کر رکھنے کے عادی ہیں اُن کے مونہوں سے یکدم ایسی باتیں کیوں نکلنی شروع ہو جاتیں ؟ ہندوستان کے لیڈر ہیں تو متواتر اُن کے مونہوں سے ایسی باتیں نکلی ہیں جن کی وجہ سے ہندوستان کی بین الاقوامی شہرت کو نقصان پہنچا ہے.پنڈت نہرو کلکتہ جاتے ہیں تو وہاں کہتے ہیں کہ کشمیر کا معاملہ بالکل حل ہو چکا ہے، دتی میں تقریر کرتے ہیں تو کہتے ہیں اگر کشمیر پاکستان کی طرف گیا تو ہندوستان کے چار کروڑ مسلمانوں کی خیر نہیں.یہ فقرہ جہاں بھی یورپ میں پڑھا گیا وہاں نفرت کا اظہار کیا گیا اور کہا گیا پنڈت نہرو ہندوؤں کو اشتعال دلاتے ہیں کہ مسلمانوں کو مارو.تو یہ چیزیں جو پے در پے ظاہر ہورہی ہیں بتاتی ہیں کہ اللہ تعالیٰ زمین میں حرکت پیدا کر رہا ہے.اس نے جبریل کو کوئی اشارہ فرمایا ہے اور اس نے دنیا میں اس اشارہ کے ماتحت حرکتیں پیدا کرنے کا حکم دے دیا ہے.اب پنڈت نہرو جیسا آدمی بھی بے بس ہے اور اس کی ہوشیاری ختم ہو جاتی ہے اور وہ عقل کے خلاف باتیں کرنا شروع کر دیتا ہے.چواین لائی جیسا ہوشیار آدمی بھی بے بس ہو جاتا ہے اور اُس کی عقل ماری جاتی ہے.غرض دنیا کے جتنے سیاستدان ہیں وہ اپنی سیاستیں بھولنے لگ جاتے ہیں.یہ عقلمند لوگوں کا بھولنا بتا تا ہے کہ یہ خدا تعالیٰ کی طرف سے بھلوایا جارہا ہے.اگر خدا تعالیٰ کا ہاتھ نہ ہوتا تو اتنے سمجھدار لوگ ایسی بیوقوفی کی باتیں کیوں کرتے ؟ آخر پچھلے پانچ چھ سال سے وہ اپنی زبان رو کے ہوئے تھے.اب کیا وجہ ہے کہ وہی زبان ان کی چل پڑی؟ جو زبان پہلے انہوں نے روکی ہوئی تھی وہ اب بھی روک سکتے تھے.مگر اب معلوم ہوتا ہے کہ خدائی منشاء تھا کہ نہ روکیں.بلکہ وہ بولیں تاکہ ان کے الفاظ غیر ملکوں میں جا کر اُن کی ہمدردی اُن سے
$1957 40 خطبات محمود جلد نمبر 38 روستان چھین لیں.چنانچہ رات ہی کو یو.این.او میں فلپائن کے نمائندہ کی جو سلامتی کونسل کے صدر بھی ہیں ایک تقریر شائع ہوئی ہے اس میں انہوں نے کہا ہے کشمیر کے مسئلہ کو پنڈت نہر وصرف اور پاکستان کا مسئلہ نہ سمجھے.کشمیر کا مسئلہ صرف ہندوستان اور پاکستان کا ہی نہیں بلکہ ساری دنیا کا مسئلہ ہے.اور چونکہ اس سے ہمارا امن بھی قائم نہیں رہتا اس لیے فلپائن الگ نہیں رہ سکتا.اگر اس قسم کی کوئی حرکت ہوئی اور کشمیر کو ہندوستان نے اپنے ساتھ ملایا تو فلپائن یہ سمجھے گا کہ یہ ہم پر حملہ ہے کیونکہ یہ مسئلہ ایسا ہے جو کسی ایک قوم کا مسئلہ نہیں.اور پھر یہ تقریر اتنے اہم موقع پر انہوں نے کی.جب اُن سے سوال کیا گیا کہ ہنگری میں روس کی دخل اندازی اسرائیل کا معاملہ اور کشمیر کا جھگڑا یہ سب یو.این.او میں پیش ہیں.ان میں سے زیادہ اہمیت کس کو حاصل ہے؟ انہوں نے کہا ان میں سب سے زیادہ اہمیت کشمیر کے مسئلہ کو حاصل ہے کیونکہ اس کا اثر ساری دنیا پر پڑے گا.اور چونکہ اس کا اثر فلپائن پر بھی پڑے گا، اس لیے فلپائن اور اس کے اردگرد کے ملک کشمیر کے معاملہ میں چپ کر کے نہیں بیٹھ سکتے.اب لازماً دنیا کی حکومتوں کو اس کے متعلق کوئی فیصلہ کرنا پڑے گا.اور اگر وہ کوئی فیصلہ نہیں کریں گی تو ساری دنیا میں ایسی آگ لگے گی کہ اس کا بجھانا ان کی طاقت سے باہر ہوگا.غرض اللہ تعالیٰ متواتر اِن لوگوں کے مونہوں سے جو باتیں نکلوا رہا ہے ان سے پتا لگتا ہے کہ الہی تدبیر کام کر رہی ہے اور وہ دنیا کو دھکیل دھکیل کر کسی طرف لے جارہی ہے.یہ کہ اس کا آخری نتیجہ کس شکل میں نکلے گا؟ یہ ابھی غیب میں ہے.خواہیں ایک حد تک غیب سے پردہ اٹھاتی ہیں گلی طور پر پردہ نہیں اٹھا تیں.ہاں! شاذ طور پر ایسا بھی ہو جاتا ہے کہ وہ کلی طور پر غیب سے پردہ اُٹھا دیتی ہیں.جیسے ایک دفعہ مجھے رویا ہوئی تھی کہ سٹالن کو خون کی قے آئی ہے اور معا بعد اُسے خون کی قے آئی.اور پھر مجھے یہ رویا ہوئی تھی کہ لیبر پارٹی انگلستان میں جیت جائے گی اور اسے ماریسن کے ماتحت ایسی فتح نصیب ہوگی کہ اسے پہلے کبھی نصیب نہیں ہوئی.چودھری ظفر اللہ خاں صاحب انگلستان گئے اور وہاں انہوں نے مسٹر ایٹلی (Attlee) سے جو ان دنوں لیبر پارٹی کے لیڈر تھے اس کا ذکر کیا تو انہوں نے کہا تم تو کہتے ہو کہ ہمیں بڑی شاندار فتح نصیب ہوگی لیکن جو اس وقت پوزیشن ہے اُس کو دیکھتے ہوئے ہم سمجھتے ہیں کہ اگر ہم برابر بھی رہ جائیں تو سمجھیں گے بڑی بات ہے.لیکن اس کے بعد
$1957 41 خطبات محمود جلد نمبر 38 لیبر پارٹی کو ایسی فتح ہوئی کہ نوے فیصدی لیبر آئے اور دس فیصدی کنزرویٹو.تو ایسا بھی بعض دفعہ ہو جاتا ہے.لیکن ہمیشہ ایسا نہیں ہوتا.ہاں ! یہ ضرور ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے جور دیا دکھائی جاتی ہے اُس کا مفہوم ضرور پورا ہو جاتا ہے.باقی جو تعبیریں ہوتی ہیں وہ اپنے وقت پر جا کر پوری ہوتی ( الفضل 12 فروری1957ء) ہیں.1 : صحیح بخاری کتاب التعبير باب اذا رَأَى بَقَرًا تُنْحَرُ 2 : أَفَحَسِبْتُمْ أَنَّمَا خَلَقْنَكُمْ عَبَثًا المومنون : 116) رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ هَذَا بَاطِلًا ( آل عمران : 192) 3 : صحیح بخاری کتاب التوحيد باب قول الله تعالى وَيُحَذِرَكُم الله نَفْسَهُ..4 : يوسف : 95 66
$1957 42 CO 6 خطبات محمود جلد نمبر 38 دعائیں کریں کہ اللہ تعالیٰ کشمیر کے مسلمانوں کو اپنے منشا کے مطابق فیصلہ کرنے اور اس پر کار بند ہونے کی توفیق دے کشمیر کے متعلق صلح کرانے کی پیشکش کرنے والے ممالک ہرگز پاکستان کے ساتھ خیر خواہی نہیں کر رہے (فرمودہ 8 فروری 1957ء بمقام ربوہ) تشهد تعو ذاور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ جب کوئی نبی کسی کام کا ارادہ کرتا ہے تو شیطان اس کے کام میں رکاوٹیں ڈالتا ہے تا کہ وہ کامیاب نہ ہو اور فساد لمبا ہوتا چلا جائے.1.گو قرآن کریم میں نبی کا کی لفظ استعمال ہوا ہے لیکن نبی کے اتباع بھی اسی میں شامل ہوتے ہیں.کیونکہ شیطان کی اصل غرض صرف نبی کی مخالفت کرنا نہیں ہوتا بلکہ اس کی اصل غرض یہ ہوتی ہے کہ دنیا میں نیکی اور امن قائم نہ ہو.چونکہ نبیوں کے ذریعہ دنیا میں نیکی اور امن قائم ہوتا ہے اس لیے وہ نبیوں کا دشمن ہوتا ہے.ورنہ جو بھی نیکی اور امن کے قیام کی کوشش کرے وہ اسے بُرا لگتا ہے اور وہ اُسی کے رستہ میں رکاوٹیں پیدا کرنے اور فساد پیدا کرنے کی کوشش کرتا ہے.
خطبات محمود جلد نمبر 38 43 $1957 میں دیکھتا ہوں کہ پچھلے دنوں سے جہاں الہی تدبیر اس بات کے لیے ظاہر ہورہی ہے کہ دنیا میں امن کا قیام ہو اور صلح کی صورت پیدا ہو وہاں بعض لوگوں نے بعض دوسرے لوگوں میں ایسی تحریکیں شروع کر دی ہیں کہ جن سے وہ امن اور نیکی کے قائم ہونے میں روک بنیں.مثلاً پچھلے دنوں میں نے کی پڑھا کہ شام یہ ارادہ کر رہا ہے کہ ہندوستان اور پاکستان کو یہ پیشکش کرے کہ ہم کشمیر کا فیصلہ کرا دیتے ہیں.اور آج میں نے پڑھا ہے کہ سیلون کے وزیر اعظم بندرا نائکے نے کہا ہے کہ میں ارادہ کر رہا ہوں کہ پاکستان اور ہندوستان کو پیشکش کروں کہ کشمیر کے بارہ میں ہماری موجودگی میں اور ہمارے ذریعہ سے صلح ہو جائے.یہ خبریں بتاتی ہیں کہ شیطان نے لوگوں کو دھوکا دینے کی کوشش شروع کر دی ہے.بیشک اس میں ذریعہ تو آدمی ہی بنے ہیں جیسا کہ ہمیشہ سے آدمی ہی اس کا ذریعہ بنتے چلے آئے ہیں.شیطان خود ظاہری طور پر دنیا میں نہیں آتا بلکہ وہ ہمیشہ بعض آدمیوں کو چن لیتا ہے.چنانچہ اس وقت بھی اُس نے بعض آدمی چن لیے ہیں.کسی جگہ اُس نے ہندوستان کے ایمبیسیڈ رکو چن لیا ہو گا کہ وہ کی شام کے پریذیڈنٹ سے کہے کہ آپ کوشش کریں کہ کسی طرح ہمارے اور پاکستان کے درمیان صلح ہو جائے.لیکن دیکھنے والی بات یہ ہے کہ اگر واقع میں ان کے دلوں میں پاکستان کی خیر خواہی ہے تو وہ نوسال تک کہاں سوئے رہے.1947ء میں کشمیر کا جھگڑا کھڑا ہوا تھا اور اب 1957 ء شروع ہے.گویا اس جھگڑے پر 9 سال گزرے چکے ہیں.9 سال کی خاموشی کے بعد آج صلح کی پیشکش کیوں ہو رہی ہے؟ اور پھر یہ پیشکش اُس وقت ہو رہی ہے جب یو.این.او نے کشمیر کے متعلق قدم اٹھایا ہے.جب یو.این.او نے ایسا قدم اٹھایا ہے جس کے ذریعہ اُمید کی جاسکتی ہے کہ کشمیر کے لوگوں کو حق خودارادیت مل جائے تو اُسی وقت دو ممبروں نے یہ ارادہ ظاہر کیا کہ ہم پاکستان اور ہندوستان میں صلح کرا دیتے ہیں.ہمارے ملک کے سیاستدانوں کو اس کے متعلق سوچنا چاہیے اور یہ خیال رکھنا چاہیے کہ کہیں وہ دھوکا میں نہ آجائیں.ہم کوئی سیاسی جماعت نہیں صرف مذہبی لوگ ہیں لیکن چونکہ ہم بھی پاکستانی ہیں اس لیے ہمارا حق ہے کہ ہم بھی اپنی رائے ظاہر کریں.اگر ہماری رائے دوسرے لوگوں کی سمجھ میں آ جائے گی تو وہ اسے اختیار کر لیں گے اور اس طرح اس میں زور پیدا ہو جائے گا.اور اگر ہماری رائے دوسرے لوگوں کی سمجھ میں نہ آئی اور ہماری جماعت دعاؤں میں لگی رہی تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہمارے سیاستدانوں کے دلوں میں ایسی تحریک پیدا ہوگی کہ وہ اس قسم کی چالا کیوں میں
خطبات محمود جلد نمبر 38 نہیں آئیں گے.44 $1957 آخر یہ موٹی بات ہے کہ شام نیا پیدا نہیں ہوا.شام پاکستان کے بننے سے سینکڑوں سال پہلے سے موجود ہے.کم از کم اس کی حکومت پاکستان بننے سے کئی سال پہلے سے قائم شدہ ہے.سیلون کی حکومت بھی پاکستان بننے سے پہلے سے قائم ہے.لیکن کشمیر کا جھگڑا 1947 ء سے چلا آ رہا تھا اور یہ دونوں حکومتیں خاموش رہیں.اب ان کے دلوں میں یہ تحریک کیسے پیدا ہوئی کہ یہ نیک کام ہے.چلو! ہم کشمیر کے بارے میں ہندوستان اور پاکستان کے درمیان صلح کرا دیں.جب یو.این.او نے یہ قدم اٹھایا کہ کشمیر کا جھگڑا طے ہو اور پاکستان نے تحریک کی کہ وہ اپنی فوج بھیج کر کشمیر کے لوگوں سے ووٹ لیں اور ووٹ لے کر یہ فیصلہ کریں کہ کشمیر کے لوگ کس طرف جانا چاہتے ہیں.آیا وہ پاکستان کی طرف جانا چاہتے ہیں یا ہندوستان کی طرف جانا چاہتے ہیں؟ تو معا سیلون کے وزیر اعظم کے دل میں خیال کی پیدا ہوا کہ چلو! ہم صلح کرا دیتے ہیں اور سیریا کے پریذیڈنٹ کے دل میں سوال پیدا ہوا کہ ہم صلح کرا دیتے ہیں.یہ امر صاف طور پر بتاتا ہے کہ یہ تحریک کرنے والے ایسے لوگ ہیں جو پاکستان کے خیر خواہ نہیں.ہم ان پر الزام نہیں لگاتے.بندرا نائکے کے متعلق جہاں تک ہمارا علم ہے وہ اچھے آدمی ہیں.اسی طرح شکری القوتلی 2 کے متعلق جہاں تک ہمارا علم ہے وہ اچھے آدمی ہیں لیکن اچھے آدمیوں کو بھی گمراہ کرنے والے گمراہ کر لیتے ہیں.پھر عین اس وقت جبکہ یو.این.او قدم اُٹھا رہی ہے اور جب پاکستان نے ایسی فراخ دلی کا ثبوت دیا ہے کہ اس کی مثال دنیا میں اور کہیں نہیں ملتی ان ملکوں کے چوٹی کے لیڈروں کا صلح کرانے کا ارادہ کرنا پاکستان کی خیر خواہی پر دلالت نہیں کرتا.پنڈت نہرو تو کشمیر پر قبضہ کیے بیٹھے ہیں.لیکن اس کے باوجود پاکستان نے یہ نہیں کہا کہ ہم لڑائی کے ذریعہ کشمیر واپس لیتے ہیں بلکہ اس نے یہ کہا ہے کہ یو.این.او اپنی فوجیں کشمیر میں بھیجے اور ان فوجوں کے ذریعہ رائے کی شماری کرائے.اس رائے شماری کے نتیجہ میں کشمیر کے لوگ جس طرف جانا چاہیں جائیں.ہم یہ نہیں کہتے کہ کشمیر ہمیں ملے اور نہ ہم یہ چاہتے ہیں کہ کشمیر ہندوستان کو ملے.ہم صرف یہ چاہتے ہیں کہ کشمیریوں کی اکثریت جو چاہتی ہے وہی ہو.تو یہ ایسی غیر جانبدارانہ اور منصفانہ رائے ہے کہ سیاسی دنیا میں ایسی مثال بہت کم ملتی ہے.پس ہمارے سیاستدانوں کو اس بات کے متعلق خوب غور کر لینا چاہیے اور سوچ سمجھ کر کوئی قدم اٹھانا چاہیے.ایسا نہ ہو کہ وہ کوئی دھوکا کھا جائیں.
خطبات محمود جلد نمبر 38 45 $1957 جیسا کہ میں نے بتایا ہے ہماری جماعت مذہبی جماعت ہے.ہمارا ان باتوں سے اس سے زیادہ کوئی تعلق نہیں کہ ہم ان کے متعلق اپنا خیال ظاہر کر دیں.میرے ذہن میں ایک بات آئی تھی جو میں نے کہہ دی ہے.اگر ملک کی سیاسی پارٹیوں کو نظر آئے کہ اس کی طرف گورنمنٹ کو توجہ دلائی ہے چاہیے تو میں انہیں کہتا ہوں کہ وہ اس موقع کو ضائع نہ کریں اور گورنمنٹ کو توجہ دلائیں کہ وہ دھوکا میں نہ آئے.خدا تعالیٰ نے جس طرف قدم چلا دیا ہے وہ اُسی پر قائم رہے کیونکہ اس میں مستقبل کی جھلک نظر آ رہی ہے.اگر خدانخواستہ ہمیں ہمارے اقدام میں ناکامی ہوئی تو بعد میں ان حکومتوں کی امداد پر غور کر لیا جائے گا.لیکن جب تک یو.این.او کوئی فیصلہ نہیں کر لیتی ہمیں اپنی موجودہ کوشش میں لگے رہنا چاہیے.اگر ہمیں ناکامی ہوئی اور پھر یہ حکومتیں صلح کرانے کے لیے آگے آئیں تو ہم سمجھیں گے کہ ان کے دلوں میں ہماری خیر خواہی تھی اور ہمیں یقین ہو جائے گا کہ یہ حق پر ہیں.لیکن اس وقت جبکہ یو.این.او فیصلہ کر رہی ہے ان قوموں کا صلح کرانے کا ارادہ ظاہر کرنا صاف بتاتا ہے کہ ان کا مقصود صلح کرانا نہیں بلکہ در حقیقت ان کا مقصود پاکستان کو گرانا ہے.باقی جہاں تک ہماری جماعت کا تعلق ہے میں یہی کہتا ہوں کہ ہماری کوشش اور سعی صرف دعاؤں تک ہی محدود ہے.ہمارے ملک کی ایک بڑی لطیف مثال ہے کہ ملاں دی دوڑ مسیتے.یعنی ملاں کو اگر کوئی مصیبت آتی ہے تو وہ دوڑ کر مسجد میں گھس جاتا ہے.یہ بات بڑی سچی ہے.مسجد سے زیادہ امن اور کہاں ہوگا؟ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام کو مسجد اقصی کے متعلق الہام ہوا کہ مَنْ دَخَلَهُ كَانَ آمِنًا 3 اور قرآن کریم میں خانہ کعبہ کے متعلق بھی یہی آتا ہے کہ مَنْ دَخَلَهُ كَانَ آمِنًا 4 بلکہ حقیقت یہ ہے کہ ساری مساجد ہی امن والی ہوتی ہیں.پس یہ بالکل سچی بات ہے جو اس مثال میں بیان کی گئی ہے لیکن ملاں" کی جگہ مومن کے الفاظ رکھ لینے چاہیں.یعنی مصیبت کے وقت ہر مومن کی دوڑ مسجد تک ہوتی ہے اور اُس کا فرض ہوتا ہے کہ وہ دعائیں کرے اور اللہ تعالیٰ سے مدد مانگے.کیونکہ وہ دعائیں سنتا اور انہیں قبول کرتا ہے.پس ہماری جماعت کے دوستووں کو دعائیں کرنی چاہیں کہ کشمیر کے قریباً نصف کروڑ مسلمانوں کو اللہ تعالیٰ اپنے منشا کے مطابق فیصلہ کرنے اور اس پر کار بند ہونے کی توفیق دے.اور ایسے سامان پیدا کرے کہ یہ لوگ جبری غلامی میں نہ رہیں بلکہ اپنی مرضی سے جس ملک کے ساتھ
$1957 46 خطبات محمود جلد نمبر 38 چاہیں مل جائیں.اور اگر کوئی تحریک اس بات میں روک بنتی ہو تو خدا تعالیٰ اسے کامیاب نہ کرے.پھر اللہ تعالیٰ ہمارے اہلِ مملکت کو بھی ایسی سمجھ عطا فرمائے کہ وہ وقت پر ہوشیار ہو جائیں اور دیکھیں کہ کون کی شخص انہیں سیدھے رستہ سے ہٹا رہا ہے.اور ہمیشہ وہ طریق اختیار کریں جو پاکستان کی عزت اور سرفرازی کا بھی موجب ہو اور کشمیر کی عزت اور سرفرازی کا بھی موجب ہو.ہم کسی کے بدخواہ نہیں.ہم ہندوستان کے لیے بھی بددُعا نہیں کرتے.ہاں پاکستان اور کشمیر کے لیے دعائیں ضرور کرتے ہیں کہ خدا تعالیٰ ان کا سراو نچا کرے.اگر کوئی شخص پاکستان کے سر اونچا ہونے میں یا کشمیر کے سر اونچا ہونے میں اپنی ذلت اور اپنا ناک کشادیکھتا ہے تو یہ اُس کا اپنا قصور ہے ورنہ ہم کسی کے خلاف بد دعا نہیں کرتے.ہم تو اپنے خیر خواہوں اور دوستوں کے لیے دعا کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اُن کا سر اونچا کرے اور اپنے ملک کے لیے دعا کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اس کا سر اونچا کرے.کشمیری بھی ہمارے بھائی ہیں اور چونکہ کشمیر میں مسلمانوں کی اکثریت ہے.اس لیے کشمیر بھی ہمیں بہت پیارا ہے.پھر کشمیر ہمیں اس کی لیے بھی پیارا ہے کہ وہاں قریباً اسی ہزار احمدی ہیں.اور بعض ایسے علاقے جن کی رائے کے مطابق شمیر یا ہندوستان میں جاسکتا ہے یا پاکستان میں جاسکتا ہے ان میں احمدیوں کی اکثریت ہے.پس ان دونوں وجوہ سے یعنی اس لحاظ سے بھی کہ کشمیر میں مسلمانوں کی اکثریت ہے اور اس لحاظ سے بھی کہ جس علاقہ کے ووٹ کشمیر کے ہندوستان یا پاکستان میں جانے کے متعلق فیصلہ کریں گے وہاں احمدیوں کی اکثریت ہے ہمیں کشمیر بہت پیارا ہے.اگر وہ علاقہ یہ فیصلہ کر دے کہ ہم پاکستان کی طرف جانا چاہتے ہیں تو کشمیر اور ہندوستان کا تعلق کٹ جاتا ہے کیونکہ وہی علاقہ کشمیر اور ہندوستان کو آپس میں ملاتا ہے.پس ہمیں دعائیں کرتے رہنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ ہمارے کشمیری بھائیوں کی مدد کرے.آخر کشمیر وہ ہے جس میں مسیح اول دفن ہیں اور مسیح ثانی کی بڑی بھاری جماعت وہاں موجود ہے.گویا دونوں مسیحوں کا وہاں قبضہ ہے.پہلے مسیح کا جسم وہاں دفن ہے اور دوسرے مسیح کی روح وہاں دفن ہے یعنی احمدی وہاں رہتے ہیں.پس کشمیر دونوں مسیحوں کا ہے.پہلے مسیح کا اس طرح کہ اس کا جسم وہاں دفن ہے.وہ مسیح اب عیسائیوں کا تو رہا نہیں کیونکہ عیسائیوں نے تو اسے خدا بنالیا ہے اور اگر اس کا جسم وہاں دفن ہے تو وہ انسان ہے خدا نہیں.پس پہلے میچ کے لحاظ سے لوتو ، اور دوسرے مسیح کے لحاظ سے لو تو کشمیر مسلمانوں کا بنتا ہے.وہ نہ عیسائیوں کا بنتا ہے اور نہ ہندوؤں کا بنتا ہے کیونکہ مسیح اول نہ ہندو
$1957 47 خطبات محمود جلد نمبر 38 تھے اور نہ عیسائی تھے اور مسیح ثانی بھی نہ ہندو تھے اور نہ عیسائی تھے بلکہ وہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خادم تھے اور اسلام کی عزت ظاہر کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے انہیں مبعوث کیا تھا.پس جس ملک میں دو مسیحوں کا دخل ہے وہ ملک بہر حال مسلمانوں کا ہے اور مسلمانوں کو ہی ملنا چاہیے.اس لیے ہمیں دعائیں کرتے رہنا چاہیے.دیکھو! اس میں ہماری کتنی ذلت ہے کہ مسیح اوّل جس کو ہم خدا تعالیٰ کا ایک نبی مانتے ہیں اُس کا مقدس روضہ ہندوؤں کے ہاتھ میں چلا جائے.پھر اس میں بھی ہماری کتنی ذلت ہے کہ مسیح ثانی جس کو ہم اسلام کا سچا خادم اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا غلام سمجھتے ہیں اور اس زمانہ کا مصلح سمجھتے ہیں اُس کی جماعت کی بڑی تعداد جو اپنے ملک میں اہم پوزیشن رکھتی ہے ہندوؤں کی طرف چلی جائے.کشمیر کی ساری آبادی جموں کو ملا کر چالیس لاکھ کی ہے.صرف کشمیر کی آبادی بائیس لاکھ کی ہے.ممکن ہے اب فرق ہو گیا ہو.اس بائیس لاکھ میں سے اگر اسی ہزار احمدی ہیں تو اس کے معنے یہ ہیں کہ قریبی 1/22 فیصدی احمدی ہیں اور اتنی بڑی اکثریت احمدیوں کی اور کسی ملک میں نہیں.پس اسی ہزار بھائیوں کا حق خودارادیت سے محروم ہو جانا بہت بڑے صدمہ کی بات ہے.ہمیں ہر وقت خدا تعالیٰ سے دعائیں کرتے رہنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ انہیں اپنے مستقبل کے متعلق خود فیصلہ کرنے کی توفیق بخشے.اور جس طرح کہتے ہیں ”جہاں کی مٹی تھی وہیں آ لگی وہ جہاں کی مٹی ہیں وہیں آ لگیں اور ان کے رستہ میں کوئی منصوبہ اور کوئی سازش روک نہ بنے.خطبہ ثانیہ کے بعد حضور نے فرمایا: نماز جمعہ کے بعد میں بعض جنازے پڑھاؤں گا.ایک جنازہ تو بی صاحبہ چاہ بھا گو والا ضلع ملتان کا ہے.اطلاع دینے والے نے لکھا ہے کہ مرحومہ نیک سیرت اور مخلص خاتون تھیں.دوسرا جنازہ والدہ صاحبہ شیخ عبدالحق صاحب ایگزیکٹو انجنیئر کراچی کا ہے.مرحومہ صحابیہ اور موصیہ تھیں.تیسرا جنازہ حکیم عبدالرحمان صاحب تاندلیا نوالہ کا ہے جو فضل دین صاحب عرف عبداللہ کے لڑکے تھے.فضل دین صاحب لنگر خانہ قادیان میں باورچی تھے اور اس سے پہلے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے نائی تھے.وہ
48 $1957 خطبات محمود جلد نمبر 38 میں یہ سب جنازے پڑھاؤں گا.دوست میرے ساتھ نماز جنازہ میں شریک ہوں“.الفضل 23 فروری 1957 ء ) 1: وَمَا أَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ مِنْ رَّسُولٍ وَلَا نَبِيَّ إِلَّا إِذَا تَمَنَّى أَلْقَى الشَّيْطَنُ فِي 道 أمنيته (الحج: 53) 2 : شکری القوتلی: (SHUKRI AL-QUWATLI ( 1891ء - 1967 ء) شام کے پہلے صدر تھے.آپ شام کی جدو جہد آزادی میں شامل اہم شخصیات میں سے تھے.وکی پیڈیا آزاد دائرہ معارف زیر عنوان شکری القوتلی) 3 : تذکرۃ صفحہ 426.الہام 9 / اپریل 1904 ء ایڈیشن چہارم 2004 ء 4 : آل عمران: 98
49 $1957 7 خطبات محمود جلد نمبر 38 اپنے فرض کی اہمیت کو محسوس کر و تا ئم اللہ تعالیٰ کی برکتیں حاصل کرسکو تمہارے قلوب میں لوگوں کی اتنی ہمدردی ہونی چاہیے کہ ہر شخص تمہیں اپنا سچا خیر خواہ سمجھے (فرموده 15 فروری 1957ء بمقام ناصر آبادسندھ ) تشہد ،تعو ذاورسورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: مکہ مکرمہ میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کے صرف ایک بیٹے گئے تھے جن سے صرف نسلی ترقی کے ذریعہ دو ہزار سال کے عرصہ میں تین لاکھ افراد عرب میں پھیل گئے تھے.ہمارے احمدی جوتی یہاں سندھ میں رہائش رکھتے ہیں وہ ساری اسٹیٹیوں وغیرہ کو ملا کر اس وقت دس ہزار کے قریب ہیں اور ی ہمیں یہاں آئے ہوئے قریباً پچاس سال ہو گئے ہیں.اگر دو ہزار سال کے عرصہ کو تقسیم کر کے دیکھا ہے جائے اور اس میں سے اتنی کمی کر دی جائے جتنے عرصہ میں ان کی تعداد ہماری تعداد کے قریب پہنچی تھی تو معلوم ہوتا ہے کہ سوسال میں وہ پندرہ ہزار اور قریباً 67 سال میں دس ہزار ہوئے تھے اور اُن کی یہ ترقی صرف نسل کے ذریعہ ہوئی تھی لیکن ہماری جماعت ایک مذہبی جماعت ہے اور مذہبی جماع
$1957 50 خطبات محمود جلد نمبر 38 صرف نسلی طور پر ہی نہیں بڑھتیں بلکہ تبلیغ سے بھی بڑھتی ہیں.چونکہ اس وقت ہمارے یہاں دس ہزار آدمی ہیں اس لیے اگر دس ہزار آدمی ایک ایک آدمی کو بھی سلسلہ میں داخل کرے تو اگلے سال ان کی تعداد میں ہزار ہو جائے گی.اُس سے اگلے سال چالیس ہزار ہو جائے گی.اُس سے اگلے سال آتی ہزار ہو جائے گی اور اس طرح دس سال میں پینتیس لاکھ میں ہزار تک ان کی تعداد پہنچ جائے گی جو سندھ کی آدھی آبادی ہے اور یہ ترقی صرف تبلیغ کے ذریعہ ہوگی.نسل کے ذریعہ ان کی جو ترقی ہوگی وہ اس سے علیحدہ ہوگی.اور اگر ہر احمدی ایک ایک نہیں بلکہ دو دو آدمیوں کو سلسلہ میں داخل کرے تو ان کی تعداد دس ہزار سے تہیں ہزار ہو جائے گی، دوسرے سال نوے ہزار ہو جائے گی، تیسرے سال دولاکھ ستر ہزار ہو جائے گی، چوتھے سال آٹھ لاکھ دس ہزار ہو جائے گی ، پانچویں سال چوبیس لاکھ میں ہزار ہو جائے گی، چھٹے سال بہتر لاکھ نوے ہزار ہو جائے گی اور ساتویں سال دو کروڑ اٹھارہ لاکھ ستر ہزار ہو جائے گی جو سندھ کی آبادی سے تین گنا سے بھی زیادہ ہے.اگر گزشتہ سالوں میں بھی جماعت کے تمام دوست اس رنگ میں اپنی کوشش جاری رکھتے اور ہر سال دو دو افراد کو اپنے اندر شامل کرنے کی کوشش کرتے تو سارے سندھ میں اس وقت احمدی ہی احمدی ہوتے.بلکہ اگر وہ ہر سال صرف ایک ایک احمدی کرتے تب بھی ان کی تعداد گزشتہ سالوں کو مد نظر رکھتے ہوئے اتنی بڑھ جاتی کہ صرف سندھ ہی نہیں بلکہ مغربی پاکستان کی آبادی کے برابر ان کی تعداد پہنچ جاتی.در حقیقت اپنے آپ کو ڈ گنا کرتے چلے جانا ایسا ہی ہوتا ہے جیسے مشہور ہے کہ جس شخص نے شطرنج کی کھیل ایجاد کی تھی اُس نے یہ کھیل بادشاہ کو بھی دکھائی.بادشاہ کو یہ کھیل بڑی پسند آئی اور اس نے کہا کہ تم نسخہ بیچ ڈالو اور دس ہزار روپیہ انعام کے طور پر لے لو.وہ اچھا حساب دان آدمی تھا کہنے لگا حضور! میں دس ہزار روپیہ لینے کے لیے تیار نہیں.میں یہ چاہتا ہوں کہ آپ اس کے ایک خانہ میں ایک کوڑی رکھوائیں، دوسرے خانہ میں دو کوڑیاں رکھوائیں، تیسرے خانہ میں چار کوڑیاں رکھوائیں، چوتھے خانہ میں آٹھ کوڑیاں رکھوائیں، پانچویں خانہ میں سولہ کوڑیاں رکھوائیں اور اس طرح آخر تک دُگنا کرتے چلے جائیں اور پھر جو کچھ بنے مجھے انعام کے طور پر دے دیں.شطر نج کے کل چونسٹھ خا.ہوتے ہیں.بادشاہ نے کہا میں نے تو سمجھا تھا کہ تم بڑے عقل مند ہومگر معلوم ہوتا ہے کہ تم جاہل آدمی ہو کہ دس ہزار روپیہ لینے کی بجائے مجھ سے کوڑیاں مانگتے ہو.وہ کہنے لگا حضور! مجھے تو یہی چاہیے.
$1957 51 خطبات محمود جلد نمبر 38 اس نے وزیر خزانہ کو بلایا اور کہا کہ کوڑیوں سے شروع کرو اور ہر اگلے خانہ میں دگنی کوڑیاں رکھتے جاؤ اور پھر جتنی رقم بنے وہ اسے انعام کے طور پر دے دو.وہ تھوڑی دیر کے بعد ہی دوڑتا ہوا آیا اور کہنے لگا حضور! ہمارا سارا خزانہ ختم ہو گیا ہے اور ابھی اس کے کئی خانے خالی پڑے ہیں.چنانچہ دیکھ لو پہلے خانہ میں اس نے ایک کوڑی رکھی ، دوسرے خانہ میں دو کوڑیاں ہوئیں ، تیسرے خانہ میں چار کوڑیاں، چوتھے خانہ میں آٹھ کوڑیاں، پانچویں خانہ میں سولہ کوڑیاں، چھٹے خانہ میں بیٹیس کو ڑیاں، ساتویں خانہ میں چونسٹھ کوڑیاں.پرانے زمانہ میں چار پیسے کا ایک گنہ آیا کرتا تھا جس میں چونسٹھ کوڑیاں ہوتی تھیں.لیے ساتویں خانہ میں ہم ایک آنہ رکھ لیتے ہیں.اب آٹھویں خانہ میں دو آنے ہوئے ، نویں خانہ میں چار آنے ہوئے ، دسویں خانہ میں آٹھ آنے ، گیارھویں میں ایک روپیہ، بارھویں خانہ میں دو روپے، تیرھویں خانہ میں چار روپے، چودھویں خانہ میں آٹھ روپے، پندرھویں خانہ میں سولہ ے، سولہویں خانہ میں بیس روپے، ستر ہوئیں خانہ میں چونسٹھ روپے، اٹھارہویں خانہ میں ایک سو اٹھائیس روپے، انیسویں خانہ میں دو سو چھپن روپے، بیسویں خانہ میں پانچ سو بارہ روپے، اکیسویں خانہ میں ایک ہزار چوبیس روپے، بائیسویں خانہ میں دو ہزار اڑتالیس روپے، ہیئسو میں خانہ میں چار ہزار چھیانوے روپے چوبیسویں خانہ میں آٹھ ہزار ایک سو بانوے روپے، پچیسویں خانہ میں سولہ ہزار تین سو چوراسی روپے، چھبیسویں خانہ میں بتیس ہزار سات سو اڑسٹھ روپے، ستائیسویں خانہ میں پینسٹھ ہزار پانچ سو چھتیس روپے، اٹھائیسویں خانہ میں ایک لاکھ اکتیس ہزار بہتر روپے، انیسو میں خانہ میں دولاکھ باسٹھ ہزار ایک سو چوالیس روپے، تیسویں خانہ میں پانچ لاکھ چوبیس ہزار دو سا اٹھاسی روپے، اکتیسویں خانہ میں دس لاکھ اڑتالیس ہزار پانچ سو چھہتر روپے، بتیسویں خانہ میں ہیں لاکھ ستانوے ہزار ایک سو باون روپے تینتیسویں خانہ میں اکتالیس لاکھ چورانوے ہزار تین سو چار روپے، چونیو میں خانہ میں تر اسی لاکھ اٹھاسی ہزار چھ سو آٹھ روپے، پینتیسویں خانہ میں ایک کروڑ ستاسٹھ لاکھ ستر ہزار دو سو سولہ روپے، چھتیسویں خانہ میں تین کروڑ پینتیس لاکھ چون ہزار چارسو بتیس روپے، سینتیسویں خانہ میں چھ کروڑ اکہتر لاکھ آٹھ ہزار آٹھ سو چونسٹھ روپے، اٹھتیو میں خانہ میں تیرہ کروڑ بیالیس لاکھ سترہ ہزار سات سو اٹھائیس روپے، انتالیسویں خانہ میں چھبیس کروڑ چوراسی لاکھ پینتیس ہزار چار سو چھین روپے، چالیسویں خانہ میں ترین کروڑ اڑسٹھ لاکھ ستر ہزار نوسو بارہ روپے اور اکتالیسویں
$1957 52 خطبات محمود جلد نمبر 38 خانہ میں ایک ارب سات کروڑ سینتیس لاکھ اکتالیس ہزار آٹھ سو چو بیس روپے اور ابھی تیئیس خانے باقی رہتے ہیں.ہم نے ایک دفعہ حساب لگایا تو معلوم ہوا کہ چونسٹھویں خانہ میں نو پدم اکہتر کھرب نانوے ارب تک رقم پہنچ جاتی ہے اور یہ اتنی بڑی رقم ہے کہ امریکہ جو بڑا دولتمند ملک ہے وہ بھی اتنا رو پیدا دا نہیں کرسکتا.تو اگر ہر احمدی کوشش کرتا اور سال بھر میں ایک ایک شخص کو ہی احمدی بنانے کی کوشش کرتا تو چند سال کے اندراندر سارا سندھ احمدی ہو جاتا مگر میں دیکھتا ہوں کہ دوستوں کے اندر وہ تڑپ نہیں پائی جاتی جو ان کے اندر پائی جانی چاہیے.بے شک نسلی بڑھوتی بھی ایک قابلِ قدر چیز ہے اور اس کے ذریعہ بھی قو میں دنیا میں ترقی کیا کرتی ہیں.مگر وہ ترقی اس طرح نہیں ہوتی جس طرح تبلیغ کے ذریعہ ہوتی ہے.نسلی ترقی کے لیے کہیں ہیں سال میں لڑکا جوان ہوگا اور اُس کی شادی ہوگی اور پھر اُس کے ہاں اولاد پیدا ہو گی لیکن روحانی بڑھوتی کے لیے ہیں سال کے انتظار کی ضرورت نہیں ہوتی بلکہ وہ ہر سال بڑھتی چلی جاتی ہے.آپ لوگوں کے ہاں اگر ہر سال بھی ایک ایک بچہ پیدا ہو تب بھی وہ آگے بچہ رہنے کے قابل تب ہو گا جب کم سے کم پندرہ سال کا ہو گا.اور پھر اُس کا بچہ تب بچہ پیدا کر سکے گا جب وہ بھی پندرہ سال کی عمر کو پہنچے گا.گویا میں سال میں نسلی طور پر ایک سے تین بنتے ہیں.لیکن اگر ہر شخص ایک ایک دو دو احمدی بناتا چلا جائے تو تمہیں سال میں سارے سندھ اور سارے مغربی پاکستان کے برابر احمدی ہو جاتے ہیں.مگر افسوس ہے کہ جو احساس حضرت اسماعیل علیہ السلام کی اولاد میں پایا جاتا تھا کہ انہیں ایک وادی غیر ذی زرع میں اس لیے رکھا گیا ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کا ذکر کریں اور اُس کے خانہ کعبہ کی خدمت بجالائیں وہ احساس ہماری جماعت کے دوستوں میں نظر نہیں آتا.بے شک ہم اس علاقہ کو وادی غیر ذی زرع نہیں کہہ سکتے کیونکہ زراعت کے لحاظ سے یہ بڑا زرخیز علاقہ ہے لیکن اسے غیر آباد ضرور کہہ سکتے ہیں.وادی غیر ذی زرع مکہ کی وادی تھی جہاں گھانس کی ایک پتی تک بھی نہیں ہوتی تھی مگر اس کے باوجود نسل اسماعیل نے اپنے فرض کو سمجھا اور اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ تک اُن کی تین لاکھ تعداد ہوگئی اور اب تیرہ سو سال میں وہاں کی آبادی ایک کروڑ تک پہنچ چکی ہے بلکہ شاید کچھ زیادہ ہی ہو.تو نسلی لحاظ سے بھی بے شک ترقی ہوتی ہے لیکن جو ترقی مذہبی اور روحانی رنگ میں ہوتی ہے وہ بہت زیادہ ہوتی ہے.چنانچہ دیکھا
$1957 53 خطبات محمود جلد نمبر 38 حضرت اسماعیل علیہ السلام کی اولا دصرف نسلی لحاظ سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ تک تین لاکھ تک پہنچی.لیکن حضرت عیسی علیہ السلام کی جو روحانی نسل چلی اس کی تعداد آج ایک ارب سے بھی زیادہ ہے.اگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت بھی تبلیغ پر زور دیتی اور ہر شخص ایک دو اور دو سے چار ہونے کی کوشش کرتا تو ساری دنیا پر آج مسلمان ہی مسلمان ہوتے اور ہر لحاظ سے انہیں غلبہ واقتدار حاصل ہوتا.تم بھی اگر صحیح طریق پر کام کرو گے اور تبلیغ کو وسیع کرتے چلے جاؤ گے تو اللہ تعالیٰ تمہیں بڑھوتی بخشے گا اور تمہیں ترقی عطا کرے گا لیکن اگر غفلت سے کام لو گے تو تم وہ برکتیں حاصل نہیں کر سکو گے جو بچے خدمت گزاروں کو حاصل ہوا کرتی ہیں.خدا کے لیے اپنے رشتہ داروں اور بہن بھائیوں کو چھوڑ دینا کوئی معمولی قربانی نہیں ہوتی.اسی طرح خواہ کوئی ایک آنہ فی روپیہ چندہ دے رہا ہو تب بھی یہ ایک بڑی قربانی ہے.گاندھی جی نے ایک دفعہ حساب لگا کر بتایا تھا کہ ہندوستان میں ایک فرد کی فی سال صرف چھ پیسے آمد ہے لیکن ہماری جماعت کو اگر تم دس لاکھ سمجھ لو تب بھی بارہ لاکھ روپیہ سالانہ تو صرف صدر انجمن احمدیہ کا چندہ ہوتا ہے اور تحریک جدید کا چندہ ملا کر سترہ اٹھارہ لاکھ رو پیر تک پہنچ جاتا ہے.جس کے معنے یہ ہیں کہ بجائے چھ پیسے کے ہر احمدی ڈیڑھ روپیہ سے پونے دو روپیہ تک دے رہا ہے.گویا جماعت میں داخل ہو کر انہیں رشتہ داروں کو بھی چھوڑنا پڑا اور مالی لحاظ سے بھی بوجھ برداشت کرنا پڑا.اگر ان قربانیوں کے باوجود کوئی شخص سستی سے کام لیتا ہے اور خدا تعالیٰ کے دین کی اشاعت کی طرف توجہ نہیں کرتا تو اس سے زیادہ بد قسمت اور کون ہو سکتا ہے.اس کو تو چاہیے کہ وہ ایسے طور پر اپنی زندگی بسر کرے اور خدا تعالیٰ کے دین کی اشاعت میں اس سرگرمی اور جوش سے حصہ لے کہ وہ سمجھے کہ اگر میں نے یہ کام نہ کیا تو میری زندگی میں کوئی مزا نہیں رہے گا.1935ء میں ہم نے یہاں زمینیں خریدی تھیں اور اب 1956 ء گزر چکا ہے.گویا ہمیں یہاں آئے ہوئے اکیس سال ہو چکے ہیں اور بعض اس سے بھی پہلے سے موجود ہیں.چنانچہ بعض صحابی ایسے ہیں جو اڑتالیس اڑتالیس سال سے یہاں رہائش رکھتے ہیں.اگر وہ سارے کے سارے پنے فرض کو ادا کرتے تو اب تک سندھ میں ہماری جماعت کی تعداد کروڑوں تک پہنچ چکی ہوتی.اور اگر ہر سال پہلے سال سے دُگنا ہونے کی کوشش کرتے تو اکیس سالوں میں وہ کئی ارب تک پہنچ جاتے.پس دوستوں کو اپنے اس فرض کی اہمیت کا احساس کرنا چاہیے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان پر عائد
$1957 54 خطبات محمود جلد نمبر 38 کیا گیا ہے اور اپنے دوستوں ، عزیزوں اور رشتہ داروں کو جنہیں حق بات پہنچانا کسی فساد اور لڑائی کا موجب نہیں ہوسکتا حق پہنچانے کی کوشش کرنی چاہیے.آخر ہر رشتہ دار کا اپنے رشتہ دار پر اور ہر دوست کا اپنے دوست پر اور ہر بھائی کا اپنے بھائی پر حق ہوتا ہے.دنیا میں کوئی بیوی ایسی نہیں ہوسکتی جو یہ کہے کہ میرا خاوند خواہ جہنم میں چلا جائے مجھے اُس کی کوئی پروانہیں اور نہ کوئی خاوند ایسا ہوسکتا ہے جو کہے کہ خواہ میری بیوی جہنم میں چلی جائے مجھے اس کی پروا نہیں.پس خاوند کا اپنی بیوی کو یا بیوی کا اپنے خاوند کو حق بات پہنچانا تبلیغ کرنا نہیں بلکہ اپنے فرض کو ادا کرنا ہے.اسی طرح بھائی کا اپنے بھائی کو حق پہنچانا تبلیغ نہیں کہلا سکتا.بلکہ بھائی کا اپنے بھائی کو حق پہنچانا اس کا فرض ہے.اسی طرح دوست کا اپنے دوست کو حق پہنچانا تبلیغ نہیں بلکہ اُس کا فرض ہے اور اگر وہ اپنے اس فرض کو ادا نہیں کرتا تو وہ دوست نہیں بلکہ دشمن سمجھا جائے گا اور اُس کا دوست بھی اُسے اپنا خیر خواہ نہیں بلکہ بدخواہ قرار دے گا کہ اُس نے اُسے سچائی سے محروم رکھا.اگر اس رنگ میں ہر رشتہ دار اپنے رشتہ دار کو اور ہر دوست اپنے دوست کو اپنا فرض سمجھتے ہوئے حق پہنچائے تو میں سمجھتا ہوں کہ کوئی انسان ایسا نہیں ہو سکتا جس کے چار چار پانچ پانچ دوست نہ ہوں اور پھر اُن دوستوں کے آگے چار چار، پانچ پانچ دوست نہ ہوں.اگر ایک شخص اپنے دوستوں کے پاس جاتا اور انہیں صداقت سے آگاہ کرتا ہے اور وہ اس صداقت کو آگے اپنے دوستوں تک پہنچاتے ہیں تو تھوڑے دنوں میں ہی احمدیت کی آواز لاکھوں افراد تک پہنچ سکتی دنیا میں عام طور پر انسان دوسروں کے حالات کا اندازہ اپنے حالات سے کیا کرتا ہے اور جس حالت میں وہ اپنے آپ کو دیکھتا ہے اُسی حالت میں وہ ساری دنیا کو سمجھنا شروع کر دیتا ہے.جیسے کہتے ہیں کہ کوئی نائی تھا جسے کسی امیر آدمی نے خوش ہو کر دو ہزار اشرفی انعام دے دی.وہ مہینہ بھر میں مشکل سے آٹھ دس روپے کمایا کرتا تھا.اسے یکدم جو میں ہزار روپیل گیا تو اس کا دماغ خراب ہو گیا.وہ جہاں بھی جاتا تھیلی اپنے ساتھ لیے پھرتا.چونکہ امیروں کا نائی تھا اُسے یہ خطرہ نہیں تھا کہ کوئی اُسے اُٹھالے گا اس لیے وہ بے دھڑک اُسے اپنے ساتھ رکھتا.اور جب لوگ اس سے پوچھتے کہ بتاؤ شہر کا کیا حال ہے؟ تو کہتا حضور ! کوئی کمبخت ایسا نہیں ہوگا جس کے پاس تیس ہزار روپیہ بھی نہ ہو.ایک دن انہوں نے آپس میں مشورہ کر کے مذاق کے طور پر اُس کی تھیلی اٹھالی تھیلی کے گم ہو جانے سے
$1957 55 خطبات محمود جلد نمبر 38 اُس کا بُرا حال ہو گیا اور بھوکا مرنے لگا.ایک دن وہ کسی امیر کی حجامت بنانے لگا تو اس نے پوچھا بتاؤ! شہر کا کیا حال ہے؟ وہ کہنے لگا حضور! شہر کا کیا پوچھتے ہیں؟ سب بھو کے مرتے ہیں.اس پر جس شخص نے تحصیلی چھپائی تھی اس نے تھیلی لا کر اس کے سامنے رکھ دی اور کہا تم سارے شہر کو بھوکا نہ مارو اپنی تھیلی واپس لے لو.تو حقیقت یہ ہے کہ ہر انسان اپنے اوپر ہی دوسرے کا قیاس کیا کرتا ہے.اگر کسی شخص کو اپنے دوستوں پر حسن ظنی ہے تو اُسے سمجھ لینا چاہیے کہ ان دوستوں کے بھی آگے ایسے دوست ہو سکتے ہیں جن پر انہیں حسنِ ظنی ہو.اور اگر اس کے چار پانچ مخلص دوست ہیں تو اُن کے بھی چار چار، پانچ پانچ مخلص دوست ہو سکتے ہیں.اگر اس ذریعہ کو ہی اختیار کر لیا جائے اور ہر شخص اپنے پانچ دوستوں تک حق پہنچائے اور ان پانچ دوستوں میں سے ہر شخص اپنے پانچ پانچ دوستوں کے پاس جائے اور انہیں صداقت سے روشناس کرے اور پھر وہ پچھپیں آدمی آگے اور پانچ پانچ دوستوں کا انتخاب کریں اور انہیں سچائی سے آگاہ کریں تو ایک آدمی صرف تین واسطوں میں سوا سو آدمیوں تک اپنے خیالات پہنچا سکتا ہے.ہمارا اس وقت یہاں دس ہزار آدمی ہے.اگر دس ہزار آدمی اسی طریق پر کوشش کرے تو سال بھر میں یہاں کی جماعت ساڑھے بارہ لاکھ تک پہنچ سکتی ہے اور اس سے اگلے سال ساڑھے بارہ کروڑ بن سکتی ہے.مگر یہ طریق اسی صورت میں کامیاب ہو سکتا ہے جب تمہارے دل میں لوگوں کی اتنی ہمدردی ہو کہ ہر شخص جو تمہارے محلہ کا یا تمہارے علاقہ کا یا تمہاری تحصیل کا یا تمہارے ضلع کا ہو وہ تمہیں اپنا دوست اور یار غار سمجھے.اور اُس کا دل اس یقین سے پُر ہو کہ تم اس کے بچے خیر خواہ ہو.اگر تم اس کے دل میں یہ یقین پیدا کر دو تو حق پہنچانے پر کسی لڑائی جھگڑے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوگا.بلکہ وہ خود تمہارے پاس آئے گا اور کہے گا کہ مجھے اپنے سلسلہ کے حالات بتاؤ.اور تمہارا اُسے سلسلہ کے حالات بتانا اسے تبلیغ کرنا نہیں ہوگا بلکہ اپنا فرض ادا کرنا ہوگا.بلکہ اگر تم اُسے حق نہیں پہنچاؤ گے تو وہ تم پر ناراض ہو گا کہ تم میرے اچھے دوست ہو کہ مجھے حق بھی نہیں پہنچاتے اور اپنے فرض کی ادائیگی میں کوتاہی سے کام لیتے ہو.بعض لوگ کہا کرتے ہیں کہ تبلیغ سے فساد پیدا ہوتا ہے.مگر ان میں سے کوئی نہیں جو یہ کہے کہ حق ادا کرنے سے فساد پیدا ہوتا ہے.اگر تم نے کسی کے سو روپے دینے ہوں اور تم وہ روپے دینے
$1957 56 خطبات محمود جلد نمبر 38 کے لیے اُس کے پاس جاؤ تو کیا یہ فساد سمجھا جائے گا یا اسے حق کا ادا کرنا قرار دیا جائے؟ اسی طرح اگر دوسرا شخص تمہارا سچا دوست ہے اور وہ حق کی قدر و قیمت کو سمجھتا ہے تو بجائے اس کے کہ وہ تم سے لڑائی کرے وہ تمہارا ممنون ہوگا کہ تم نے اسے حق پہنچایا.جس طرح وہ شخص جس کے تم نے سو روپے دینے ہوں جب تم اُس کے سو روپے ادا کرنے کے لیے اُس کے پاس جاؤ تو وہ تمہارا ممنون ہوتا ہے.پس صحیح طور پر اپنی ذمہ داری ادا کر و اور اپنی تعداد کو بڑھانے کی کوشش کرو.اس میں کوئی طبہ نہیں کہ جب پہلے پہل یہاں ہمارے دوست آئے تو اُس وقت وہ صرف تین چارسو تھے مگر اب میر پور خاص تک ان کی تعداد آٹھ ہزار تک پہنچ چکی ہے.اور اگر وہ ہمت کریں تو اگلے چند سالوں میں لاکھوں بلکہ کروڑوں تک بھی پہنچ سکتے ہیں.اللہ تعالیٰ تم کو اپنے حق ادا کرنے اور اپنے فرائض کو سمجھنے کی تو فیق عطا فرمائے“.الفضل 26 فروری 1957ء)
$1957 57 00 8 خطبات محمود جلد نمبر 38 قرآنی دعائیں اپنے اندر بڑی بھاری برکات رکھتی ہیں اُن سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کرو اللہ تعالیٰ پر توکل کرو اور سمجھ لوکہ تمہیں جو بھی برکت اور کامیابی حاصل ہوئی ہے خدا تعالی کی مدد سے ہی حاصل ہوئی ہے فرمودہ 15 مارچ1957ء) تشهد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے مندرجہ ذیل آیت قرآنیہ کی تلاوت فرمائی: رَبَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوبَنَا بَعْدَ إِذْ هَدَيْتَنَا وَهَبْ لَنَا مِنْ لَدُنكَ رَحْمَةً إِنَّكَ انْتَ الْوَهَّابُ - 1 اس کے بعد فرمایا: قرآن کریم کی تمام دعائیں اپنے اندر بڑی بھاری حکمتیں رکھتی ہیں.افسوس ہے کہ مسلمان اس اجازت سے ناجائز فائدہ اُٹھا کر کہ انسان اپنی ضرورتوں کو اپنی زبان میں اور اپنے طور پر بھی خدا تعالیٰ سے مانگ سکتا ہے قرآن کریم کی دعاؤں سے غافل ہو گئے.حالانکہ قرآن کریم کی دعائیں خواہ ہماری وقتی ضرورتوں کو بعض اوقات پورا نہیں کر سکتیں ( گو یہ بھی پوری طرح صحیح نہیں کہا جاسکتا).
$1957 58 خطبات محمود جلد نمبر 38 لیکن ان کی برکت سے انکار نہیں کیا جاسکتا.مثلاً ایک شخص ملازم ہے وہ دعا کر رہا ہے کہ یا اللہ ! میری ترقی ہو جائے.یا اللہ! میری ترقی کی راہ میں جو دشمن روک بنے ہوئے ہیں اُن کو تو نا کام کرد.یا اللہ ! میرے بیٹا نہیں ہوتا تو مجھے بیٹا عطا فرما.میری شادی نہیں ہوتی تو میرے لیے شادی کی کوئی صورت پیدا کر دے.میری تجارت گھاٹے میں ہے اس میں ترقی دے دے.تو ایسی وقتی ضرورتیں بے شک آتی رہتی ہیں لیکن جو دائمی ضرورتیں ہیں جن کا کسی خاص انسان سے تعلق نہیں بلکہ اُس کی آئندہ نسلوں سے بھی تعلق نہیں وہ قرآن کریم سے ہی معلوم ہوتی ہیں.قرآن کریم کی جو دعا میں نے اس وقت پڑھی ہے اُس میں بھی انسان کی دائی ضرورتوں کا ذکر کیا گیا ہے.عام طور پر لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ہمیں اگر ہدایت مل گئی تو آئندہ ہمارے گمراہ ہونے کی کوئی صورت نہیں اور نہ ہماری اولاد کے گمراہ ہونے کی کوئی صورت ہے.حالانکہ یہ بات درست نہیں.انسانی دماغ اس قسم کا ہے کہ وہ مختلف حالات میں ڈانواں ڈول رہتا ہے.کبھی وہ اخلاص میں ترقی کر جاتا ہے اور کبھی وہ اتنا گر جاتا ہے کہ حیرت آتی ہے کہ کسی زمانہ میں یہ شخص ایسے دعوے کرتا تھا اور اب یہ اتنا کمزور ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں کاتب وحی کی مثال ایک نمایاں مثال ہے.ی شخص رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا اتنا مقرب ہو گیا تھا کہ آپ اس سے اپنی وحی لکھوایا کرتے تھے.لیکن ایک موقع پر قرآن کریم کی عبارت کے ساتھ جو اُس کو القا ہوا اور اُس کی زبان سے کچھ فقرے نکل گئے تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہی لکھ لو یہی وحی ہے تو وہ مرتد ہو گیا ہے اور اُس نے سمجھ لیا کہ آپ نے میرے لکھانے سے ہی وحی لکھ دی ہے، ضرور یہ انسانی کلام ہے.اُس نے یہ نہ سمجھا کہ زبان پر جو فقرہ جاری ہوا تھاوہ قرآن کریم کی وجہ سے ہوا تھا.قرآنی عبارت ایسی ہے کہ وہ اگلے فقرے آپ ہی آپ انسان کے منہ سے نکلوا دیتی ہے.شاعروں کو دیکھ لو کہ داد دینے والے بعض دفعہ ایسی اچھی دادی دیتے ہیں کہ شاعر نے ابھی آدھا مصرعہ پڑھا ہوتا ہے کہ وہ اگلا آدھا مصرعہ خود پڑھ دیتے ہیں.اب اگر شعر کی وجہ سے کوئی انسان مصرعہ کا اگلا حصہ پڑھ سکتا ہے تو قرآن کریم جو خدا تعالیٰ کا کلام ہے اس کی وجہ سے کیوں کوئی انسان اگلا فقرہ نہیں پڑھ سکتا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے کاتب وحی نے بھی قرآنی عبارت سے متاثر ہو کر اگلا فقرہ پڑھ دیا اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہی وحی ہے اسے لکھ لو.اس پر اُس نے خیال کر لیا کہ قرآن کریم انسانی کلام ہے الہی کلام نہیں اور وہ مرتد ہو گیا.
$1957 59 خطبات محمود جلد نمبر 38 اب دیکھو! یہ شخص ایک زمانہ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا اتنا مقرب تھا کہ آپ اس سے وحی لکھوایا کرتے تھے.لیکن بعد میں وہ اسلام سے مرتد ہو گیا اور قرآن کریم کا منکر ہو گیا.جب تنے پایہ کا آدمی مرتد ہوسکتا ہے تو دوسرے انسان کا کیا اعتبار ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں جو صحابہ تھے اُن پر آپ کتنا اعتماد کرتے تھے.قرآن کریم نے بھی اُن کو رَضِيَ اللهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ 3 کہا ہے.مگر اُن کی اولا د اور اُن کے شاگرد آجکل دنیا میں موجود ہیں.ان کے ہاتھ میں اسلام کا کتنا حصہ باقی رہ گیا ہے.آہستہ آہستہ وہ اسلام کا سب کچھ کھو بیٹھے ہیں.اگر ان کی اولا د اخلاص کے ساتھ رَبَّنَا لَا تُزِعُ قُلُوبَنَا بَعْدَ إِذْ هَدَيْتَنَا وَهَبْ لَنَا مِنْ لَدُنْكَ رَحْمَةً إِنَّكَ أَنْتَ الْوَهَّابُ پڑھتی رہتی اور اس بات پر مغرور نہ ہوتی کہ ہم کسی صحابی، کسی بزرگ کی اولاد ہیں اور ہمیں کوئی نقصان نہیں پہنچ سکتا تو شاید اُن کی دعاؤں کی وجہ سے خدا تعالیٰ ان کو ہدایت دے دیتا اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ کی ہدایت آج تک موجود رہتی اور اب بھی ہم اس سے فائدہ اٹھاتے.مگر اس تیرہ سو سال کے عرصہ میں کئی نسلیں ایسی آئیں جو مغرور ہوگئیں.جنہوں نے یہ سمجھنا شروع کر دیا کہ ہم ایسے پایہ کے لوگ ہیں کہ ہمارے پاس گمراہی نہیں آسکتی.وہ نہیں جانتے تھے کہ شیطان ہر وقت تاڑ میں رہتا ہے.اور کبھی دائیں سے بھی بائیں سے کبھی آگے سے اور کبھی پیچھے سے انسان کو گمراہ کر دیتا ہے.اسی غفلت کی وجہ سے لوگ رہ گئے اور ان کی اولادیں بھی ماری گئیں.اگر وہ ہوشیار رہتے اور شیطان کی چالاکیوں سے باخبر رہتے تو اپنے لیے خدا تعالیٰ سے دعائیں کرتے رہتے اور یہ مانتے کہ ہدایت دینا یا ہدایت پر قائم رکھنا صرف خدا تعالیٰ کا کام ہے.ہدایت پا نا خدا کا کام نہیں.ہدایت پر رہنا بھی انسان کا کام نہیں ہے.اگر خدا تعالیٰ ہی ایسا کرے تو ہو سکتا ہے.اس لیے اگر اللہ تعالیٰ ہماری مدد کرے گا تو ہم ہدایت پر قائم رہیں گے اور اگر خدا تعالیٰ ہماری مد نہیں کرے گا تو ہم ہدایت پر قائم نہیں رہیں گے.اگر وہ اس طرح دعائیں کرتے رہتے تو دنیا میں اسلام کی وہ خراب حالت نہ ہوتی جو آج نظر آتی ہے.اسی طرح ہماری جماعت میں بعض مخلص دوست جب دیکھتے ہیں کہ ہم اپنی آمدنی کا دسواں چندہ میں دے دیتے ہیں اور اس کا نام وصیت رکھتے ہیں یا دسواں حصہ جائداد کا چندہ میں
$1957 60 خطبات محمود جلد نمبر 38 دے دیتے ہیں یا بعض لڑکے جوش میں آکر اپنے آپ کو دین کے لیے وقف کر دیتے ہیں یا بعض والدین اپنے بچوں کو وقف کر دیتے ہیں تو وہ سمجھتے ہیں کہ اب ہم اس راستہ سے منحرف نہیں ہو سکتے.چنانچہ کل ہی ایک باپ کا خط آیا ہے کہ میرے ہاں بیٹا ہوا ہے اور میں نے اسے پہلے ہفتہ میں ہی وقف کر دیا ہے.مگر ہمارے سامنے مثالیں موجود ہیں کہ بعض واقفین وقف سے بھاگ گئے اور بعض مرتد ہو گئے اور بعض واقفین اب بھی چٹھیاں لکھتے رہتے ہیں کہ انہیں وقف سے فارغ کر دیا جائے.غرض نہ والدین کا کیا ہوا وقف کام آتا ہے اور نہ ان کا کیا ہوا وقف کام آتا ہے.اگر وہ رَبَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوْبَنَا بَعْدَ إِذْ هَدَيْتَنَا وَهَبْ لَنَا مِنْ لَدُنكَ رَحْمَةً إِنَّكَ أَنْتَ الْوَهَّابُ والی دعا کرتے رہتے تو شاید وہ وقف پر قائم رہتے اور ماں باپ کا ارادہ پورا ہو جاتا.مگر انہوں نے یہ سمجھا کہ ہم بڑے قابل آدمی ہیں.ہم اپنی وقف کی روح کو ہمیشہ قائم رکھ سکتے ہیں.ہم اپنے ماں باپ کے وعدہ کو ہمیشہ یادرکھ سکتے ہیں.لیکن ان کا یہ دعوی غلط تھا.شیطان نے اُن کے دماغ پر ایسی غفلت طاری کی کہ ایک وقت آیا کہ وہ اپنے وقف کو بھول گئے اور اپنے والدین کے وقف کو بھی بھول گئے اور نشوز اور نافرمانی کا طریق اختیار کر لیا.پس ہمیشہ یہ دعا کرتے رہو کہ رَبَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوبَنَا بَعْدَ إِذْ هَدَيْتَنَا وَهَبْ لَنَا مِنْ لَدُنْكَ رَحْمَةً إِنَّكَ أَنْتَ الْوَهَّابُ - ا خدا! ہدایت تو ہمیں نصیب ہو گئی ہے لیکن ہم خالی ہدایت نہیں چاہتے بلکہ ہم دائگئی ہدایت چاہتے ہیں.ہم اپنے دل پر ایمان کا عارضی غلبہ نہیں چاہتے بلکہ یہ چاہتے ہیں کہ ہمارا دل کبھی بھی ایمان سے نہ پھرے.تا کہ ہم اور ہماری اولا دیں تجھ سے چھٹی رہیں اور تو ہم سے چمٹا ر ہے اور تجھ کو دیکھ کر شیطان بھاگے اور ہمارے قریب نہ آئے.پس دائمی ہدایت کے حصول کا اصل ذریعہ یہی ہے جو رَبَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوبَنَا بَعْدَ إِذْ هَدَيْتَنَا وَهَبْ لَنَا مِنْ لَدُنْكَ رَحْمَةً إِنَّكَ أَنْتَ الْوَهَّابُ میں بیان فرمایا گیا ہے.تم اس نکتہ کو یاد رکھو اور ہمیشہ اس طریق پر دعا کیا کرو.پھر اگر تمہارے اندر کمزوریاں بھی ہوں گی تو اللہ تعالیٰ ان کو دور فرما دے گا.بے شک ایک کہنے والا کہہ سکتا ہے کہ جب میں نے اپنی زندگی وقف کی تھی یا جب نیا نیا احمدی ہوا تھا تو اُس وقت میں نے بڑے اخلاص کے ساتھ قدم اُٹھایا تھا.پھر وہ اخلاص ضائع کیوں ہو گیا؟ اس کا جواب یہ ہے کہ بے شک اُس وقت تم نے اخلاص نے سے
خطبات محمود جلد نمبر 38 61 $1957 کام لیا مگر اس کے بعد جو تم پر حالت آئی خدا تعالیٰ اُس کو بھی تو دیکھتا تھا.جب بعد میں تم بگڑ گئے تو جی خدا تعالیٰ نے بھی تمہیں چھوڑ دیا.لیکن اگر تم دعا کرتے رہو گے تو اللہ تعالیٰ تمہاری اس موجودہ حالت کو دیکھ کر دوبارہ فضل نازل کر دے گا.اور جب اس کے بعد تم اس دعا کی تکرار کرتے رہو گے تو فضل کی تکرار بھی ہوتی رہے گی.جس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ ہر دفعہ کا فضل تمہیں ایمان پر اور زیادہ مستحکم کر دے گا.اور اگر پھر کچھ کمزوری نفس کی حالت پیدا ہوگی تو پھر دعاؤں کی وجہ سے اس کا فضل نازل ہوگا اور انسان اور زیادہ ایمان پر مستحکم ہو جائے گا اور اس طرح قیامت تک ہدایت کا سلسلہ جاری رہے گا.پس تم خدا تعالیٰ سے دعاؤں میں خصوصاً قرآنی دعائیں مانگنے میں کبھی سستی نہ کرو کیونکہ ان کے اندر بڑی بھاری برکات ہیں اور ان میں ایسے ایسے مضامین بیان کیے گئے ہیں جو بعض دفعہ انسان کی کے ذہن میں بھی نہیں آسکتے.مثلاً ایک مومن جب خدا تعالیٰ سے دعا کرتا ہے تو اُسے خدا تعالیٰ پر اتنا یقین ہوتا ہے کہ وہ یہ نہیں کہتا کہ اے خدا! تو مجھے مرتد نہ کیجیو بلکہ وہ سمجھتا ہے کہ میں مرتد ہو ہی نہیں سکتا میں بڑا پکا مومن ہوں.لیکن قرآن کریم کہتا ہے وَتَوَفَّنَا مَعَ الْأَبْرَارِ - 4 تو ہمیں نیکوں کے ساتھ موت دیجیو.یعنی انسان کو چاہیے کہ وہ یہ کہے کہ اے اللہ ! میں مسلمان تو ہو گیا ہوں مگر تو میرا انجام بھی بخیر کیجئیو.میں مروں بھی تو نیکوں میں مروں.یہ نہ ہو کہ مجھ پر ایسی حالت طاری ہو کہ میں مرتے وقت گمراہ ہو جاؤں بلکہ میرے مرنے کی جو ساعت ہے اُس وقت بھی تیرا فضل ایسا نازل ہو کہ تیرے فرشتے مجھ پر نازل ہوں اور میرا دل ایمان سے پر ہو.اب دیکھو! کیا کوئی مومن ایسی دعا خود اپنے ذہن سے تجویز کر سکتا ہے؟ یہ دعا خدا تعالیٰ ہی سکھا سکتا ہے جو دلوں کو جانتا ہے.ورنہ انسان تو یہ کہتا کہ میں یہ کیسے کہوں کہ یا اللہ! مجھے بے ایمان کر کے نہ ماریو.میں بے ایمان ہو ہی کیسے سکتا ہوں.میں تو اتنا پختہ ایمان والا ہوں کہ میں سچائی کو بالکل نہیں چھوڑ سکتا.اگر مجھے آروں سے بھی چیر دیا جائے تب بھی میں سچائی کو نہیں چھوڑ سکتا.وہ سمجھتا تو یہی ہے مگر حقیقت یہ ہوتی ہے کہ آروں سے چیرا جانا تو الگ رہا بعض اوقات وہ سوئی کی چھن بھی برداشت نہیں کر سکتا اور ایمان کو چھوڑ جاتا ہے اور بے ایمانی پر قدم مار دیتا ہے.لیکن اگر وہ دُعا کرتا رہے تو اُس کا حرج بھی کوئی نہیں.اگر اس کا ایمان واقع میں انتناریکا ہے کہ وہ کبھی نہیں بدل سکتا تب بھی اگر خدا تعالیٰ کی مدد آئے گی تو اُس کا ایمان اور زیادہ پکا ہوگا کمز ور تو نہیں ہوگا.پس انسان کو یہ گمان نہیں کرنا چاہیے کہ میرا ایمان بڑا مضبوط ہے میں ٹھو کر نہیں کھا سکتا.
62 $1957 خطبات محمود جلد نمبر 38 خدا تعالیٰ کی مدد آئے گی تو اُس کا ایمان اور زیادہ مضبوط ہو جائے گا.اور اگر اُس کا ایمان اور زیادہ مضبوط ہو جائے تو اس میں اُس کا کیا نقصان ہے.اس میں تو اس کا فائدہ ہی فائدہ ہے.پس دعائیں کرو اور اپنے نفس پر غرور مت کرو.اللہ تعالیٰ پر توکل کرو اور مجھ لو کہ تمہیں جو کچھ برکت حاصل ہے خدا تعالیٰ کی مدد سے ہی حاصل ہے.اگر اللہ تعالی مدد کرے تو یہ برکت قیامت تک جاسکتی ہے اور اگر اللہ تعالی مدد نہ کرے تو ہمارے ایمان کی موجودہ حالت میں بھی وہ برکت ضائع ہو سکتی ہے کیونکہ ایمان کی حالت خدا تعالیٰ کے فضل سے قائم رہتی ہے ہماری کوششوں سے قائم نہیں رہتی“.الفضل 13 اکتوبر 1965ء) 1 : آل عمران: 9 :2 معالم التنزيل فى تفسير القرآن تفسير بغوى سورة الانعام آیت 94 لقد جئْتُمُوْنَا فُرَادى كما خلقناكم.....3 : التوبة 100 4 : آل عمران: 194
$1957 63 9 CO خطبات محمود جلد نمبر 38 لَقَدْ اَنْزَلْنَا ايةٍ مُّبَيِّنَتِ وَاللهُ يَهْدِى مَنْ يَشَاءُ إِلى صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍ اگر انسان حقیقی مومن بن جائے تو اللہ تعالیٰ اس کے ایمان کی تازگی کے سامان پیدا کرتارہتا ہے (فرمودہ 22 مارچ 1957ء بمقام ربوہ ) تشهد تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے لَقَدْ أَنْزَلْنَا ايةٍ مُّبَيِّنَتٍ وَاللهُ يَهْدِى مَنْ يَشَاءُ إِلَى صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍ 1 یعنی ہم نے ایسی آیتیں اتاری ہیں جو حقیقت حال کو کھول کر رکھ دیتی ہیں اور جو لوگ اللہ تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کر لیتے ہیں وہ انہیں سیدھا راستہ دکھا دیتا ہے.حقیقت یہ ہے کہ مذہب ایسی باتوں کی طرف اشارہ کرتا ہے جو زیادہ ترغیب میں ہوتی ہیں.اس لیے وہی مذہب انسان کو فائدہ دے سکتا ہے اور وہی مذہب انسان کو ہدایت دے سکتا ہے جس میں آیات بینات ہوں.یعنی ایسے نشان ہوں جو کہ غیب کو کھول کر رکھ دیں اور چھپی ہوئی باتوں کو ظاہر کر دیں.اگر غیب غیب ہی رہے اور چھپی ہوئی بات ظاہر نہ ہو تو پھر مذہب نے کیا فائدہ دیا؟ جہاں تک غیب کی باتوں کا سوال ہے سارے لوگوں کے لیے وہ غیب ہی غیب ہے.مذہب ظاہر ہوتا یا نہ ہوتا وہ غیب ہی ہوتا.مثلاً اللہ تعالیٰ کی ہستی اور اس کی توحید غیب میں تھی.اگر مذہب نہ آتا تب بھی اللہ تعالیٰ کی ہستی اور اس کی تو حید غیب میں ہی رہتی.مذہب کا فائدہ تو تبھی ہوسکتا ہے کہ وہ اللہ تعالی کی ہستی کو غیب.
$1957 64 خطبات محمود جلد نمبر 38 نکال کر ظاہر میں ہمارے سامنے رکھ دے.اگر وہ ایسا کر دے تب تو وہ مذہب ہے لیکن اگر وہ ایسا نہ کرے تو وہ ایک بے فائدہ چیز ہے کہ جس کے آنے سے ہمیں کوئی فائدہ نہیں پہنچا اور جس کے نہ آنے سے ہم کو کوئی نقصان نہیں پہنچ سکتا تھا.دیکھو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے خدا تعالیٰ نے اس وعدہ کو کس طرح پورا کیا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سخت دشمنوں میں سے ایک ہندہ بھی تھی.وہ اتنی شدید دشمن تھی کہ جنگِ اُحد کے موقع پرلوگوں کو شعر پڑھ پڑھ کر بھڑکاتی تھی کہ جاؤ اور اسلامی لشکر پر حملہ کرو اور جب ایک خطرناک موقع مسلمانوں کے لیے آیا تو اس نے کہا جو آدمی حضرت حمزہ کا جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے چا تھے اور ان سے اسے عداوت تھی کلیجہ نکال کر میرے پاس لے آئے.اسی طرح ان کے کان کاٹ کر لے آئے تو میں اسے انعام دوں گی.لوگوں میں یہ غلط طور پر مشہور ہو گیا ہے کہ اس نے کلیجہ چبایا تھا.کسی صحیح سند سے اس کا ثبوت معلوم نہیں ہوتا.درحقیقت اس نے انعام مقرر کیا تھا کہ جو شخص ان کا کلیجہ نکال کر لائے اور کان کاٹ کر لائے تو میں اس کو انعام دوں گی.گویا یہ ثبوت ہو گا اس بات کا کہ وہ واقعی میں مارے گئے ہیں.جنگ کے بعد جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ بات معلوم ہوئی کہ آپ کے چچا کی ایسی بے حرمتی کی گئی ہے تو طبعی طور پر آپ کے دل میں جوش آیا اور آپ نے فرمایا میں بھی ان ان لوگوں کے ساتھ ایسا ہی کروں گا.جب انہوں نے ابتدا کر دی ہے اور مسلمان شہداء کے ساتھ اس قسم کا سلوک کیا ہے تو میں بھی اُن کے ساتھ ایسا ہی سلوک کروں گا.تب اللہ تعالیٰ کی طرف سے وحی نازل ہوئی اور اس میں بتایا گیا کہ تمہیں اس قسم کی باتیں نہیں کرنی چاہیں.2 اب دیکھو! اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد کتنا حکمت والا تھا.ہندہ بے شک لڑائی کرنے والوں میں سے نہیں تھی.وہ پیچھے رہنے والی عورتوں میں سے تھی جو مردوں کو لڑائی کے لیے اکساتی تھی مگر اُس کے ساتھ وہ لوگ بھی تھے جو بعد میں اسلامی لڑائیوں میں مارے گئے یا مارے جانے کے قریب پہنچے.اگر ان کے ساتھ بھی وہی سلوک کیا جاتا جو ہندہ نے حضرت حمزہ کی لاش کے ساتھ کیا تھا تو بعد میں جو نشانات ظاہر ہوئے وہ کیسے ظاہر ہوتے.مثلاً انہی لوگوں میں ابو جہل کا بیٹا عکرمہ بھی تھا.انہی لوگوں میں خالد بن ولید بھی تھے.انہی لوگوں میں عمر و بن عاص بھی تھے.فرض کرو یہ سب لوگ مارے جاتے اور ان کے ساتھ وہی سلوک ہوتا جو ہندہ نے حضرت حمزہ کی نعش کے ساتھ کیا تھا تو بعد میں ان لوگوں
$1957 65 خطبات محمود جلد نمبر 38 نے جو قربانیاں کیں اور ان کی وجہ سے جو عزت اسلام کو پہنچی وہ کیسے پہنچتی ؟ اللہ تعالیٰ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بتادیا تھا کہ آپ کو مستقبل کا علم نہیں ہمیں مستقبل کا علم ہے.جن لوگوں پر آپ کو اس وقت غصہ آ رہا ہے ان میں سے بعض مستقبل میں اسلام کے لیے بڑی بڑی قربانیاں کرنے والے ہوں گے.چنانچہ حضرت عکرمہ کی مثال ہی لے لو.وہ ابو جہل کے بیٹے تھے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو رویا میں دکھایا گیا تھا کہ ایک فرشتہ انگوروں کا ایک خوشہ آپ کے پاس لایا ہے.آپ نے دریافت فرمایا کہ یہ خوشہ کس کے لیے لائے ہو؟ تو اس نے جواب دیا میں یہ خوشہ ابو جہل کے لیے لایا ہوں.آپ گھبرا گئے اور اس گھبراہٹ میں آپ کی آنکھ کھل گئی.آپ نے کہا خدا تعالیٰ کا رسول اور خدا تعالیٰ کا دشمن کیا ایک ہی صف میں کھڑے ہیں کہ اس کے لیے بھی جنت سے انگوروں کا خوشہ آ رہا ہے اور اس کے لیے بھی جنت سے انگوروں کا خوشہ آ رہا ہے.جب بعد میں عکرمہ مسلمان ہوا تو آپ نے فرمایا اب میری خواب کی تعبیر مجھ پر کھل گئی ہے.ابو جہل سے مُراد اُس کا بیٹا عکرمہ تھا جو اسلام لایا.پھر عکرمہ اپنے اسلام میں اتنا ترقی کر گیا کہ جب بعد میں عیسائیوں سے جنگیں ہوئیں تو ایک موقع پر بہت سے صحابہ شہید ہو گئے.صحابہ نے خیال کیا کہ یکدم دشمن کے قلب لشکر پر حملہ کیا جائے تا کہ وہ آئندہ مسلمانوں پر حملہ کرنے کی جرات نہ کر سکے.جو لوگ اس غرض کے لیے چنے گئے ان میں عکرمہ بھی تھے.آپ نے اس کام کے لیے اپنا نام پیش کیا.تاریخ میں آتا ہے کہ جس طرح عقاب چڑیا پر جھپٹا مارتا ہے اسی طرح یہ لوگ دشمن پر حملہ کر کے قلب لشکر میں پہنچ گئے لیکن دشمن کا لشکر تعداد میں بہت زیادہ تھا اور یہ لوگ صرف ساتھ تھے.دشمن کا لشکر دس ہزار کا تھا.اس لیے یہ لوگ قلب لشکر میں تو پہنچ گئے اور جرنیل مرعوب ہو کر بھاگ گیا.لیکن چونکہ یہ لوگ دس ہزار تلواروں میں سے گزر رہے تھے اس لیے زخمی ہو کر گر گئے.جب جنگ کے بعد مسلمان ان لوگوں کی خبر لینے کے لیے گئے تو انہوں نے ان میں سے آٹھ دس زخمیوں کو میدانِ جنگ میں پڑے پایا.باقی شاید دشمن کے دھکیلنے کی وجہ سے ادھر اُدھر ہو گئے تھے.بہر حال مسلمانوں نے ان میں سے آٹھ دس آدمی زخمی ہونے کی صورت میں میدانِ جنگ میں پڑے دیکھے.ملک گرم تھا اور شاید وقت بھی گرمی کا تھا اور پھر دس ہزار آدمیوں میں سے رستہ نکالنے اور تلواریں مارتے چلے جانے سے ان کے جسموں سے پسینہ بھی نکلا جس کی وجہ سے انہیں پیاس بڑی شدت سے لگی ہوئی تھی، زبانیں اُن کی باہر نکلی ہوئی تھیں اور وہ پانی کے لیے نڈر ا
خطبات محمود جلد نمبر 38 66 $1957 رہے تھے.ایک مسلمان سپاہی نے عکرمہ کو پہچان لیا اور پانی کی چھا گل لے کر ان کے پاس گیا اور کہا تی آپ کو پیاس لگی ہوئی ہے پانی پی لیں.عکرمہ نے اُس کے ہاتھ سے چھا گل لے لی اور اُس سے پانی پینے لگے لیکن دوسری طرف نگاہ ڈالی تو دوسرے مسلمان بھی پیاس کی وجہ سے تڑپ رہے تھے.انہوں نے پانی کا کوئی قطرہ پیے بغیر چھا گل اُس مسلمان سپاہی کو واپس کر دی اور کہا وہ دیکھو! دوسرے مسلمان پیاس کی وجہ سے تڑپ رہے ہیں اُن لوگوں نے اسلام کے لیے مجھ سے زیادہ خدمت کی ہے اور اس کے لیے قربانیاں کی ہیں اس لیے وہ لوگ مجھ سے زیادہ مستحق ہیں.چنانچہ وہ مسلمان سپاہی دوسرے مسلمان کے پاس گیا اور اُس سے پانی کے لیے کہا مگر اُس نے بھی انکار کر دیا اور کہا دوسرے زخمی مسلمان کو پانی پلا ؤ وہ مجھ سے زیادہ مستحق ہے.چنانچہ وہ اگلے مسلمان کے پاس گیا لیکن اُس نے بھی انکار کر دیا اور دوسرے مسلمان کو پانی پلانے کے لیے کہا.الغرض وہ مسلمان سپاہی چھا گل لے کر ان لاین میں سے ہر ایک کے پاس گیا لیکن ان میں سے ہر ایک نے پہلے دوسرے کو پانی پلانے کے لیے کہا.جب وہ آخری مسلمان کے پاس پہنچا تو وہ مر چکا تھا.پھر وہ مکرمہ کی طرف واپس کو ٹا تو ان کی جان بھی نکل چکی تھی.4 تو دیکھو! یہ کتنی بڑی قربانی تھی جو عکرمہ نے کی.یہ دیکھنے والوں کے لیے ایک نشان تھا.جب مسلمانوں نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے منہ سے یہ سنا ہو گا کہ میں نے رویا میں دیکھا کہ ایک فرشتہ انگوروں کا ایک خوشہ لایا ہے اور میں نے دریافت کیا کہ یہ خوشہ کس کے لیے ہے؟ تو اس نے جواب دیا یہ ابوجہل کے لیے ہے جس کی وجہ سے میں گھبرا گیا اور اس گھبراہٹ کی وجہ سے میری آنکھ کھل گئی اور میں نے کہا کیا خدا تعالیٰ کا دشمن اور اس کا رسول برابر ہو سکتے ہیں؟ اور بعد میں انہوں نے یہ واقعہ دیکھا ہوگا کہ کس طرح عکرمہ نے خطرناک حالات میں اپنی جان کی قربانی پیش کی.وہ پانی کے ایک قطرہ کے لیے تڑپتے ہوئے فوت ہو گئے لیکن پانی کو اس لیے نہیں چھڑا کہ جب تک میرے دوسرے مسلمان بھائی سیر نہ ہو جائیں میں پانی نہیں پیوں گا.تو ان کا ایمان کس طرح بڑھا ہوگا اور انہوں نے کہا ہوگا کہ اول تو عکرمہ کا اسلام لانا ہی ناممکن تھا.پھر اس کا اسلام لانے کے بعد اتنی بڑی قربانی کرنا ناممکن تھا مگر خدا تعالیٰ نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جو ر و یا دکھایا تھا اس نے وہ پورا کر کے دکھا دیا اور یہ واقعہ آیات بینات میں سے تھا جسے دیکھ کر مسلمانوں کے ایمان خدا تعالیٰ پر اور اسلام
$1957 67 خطبات محمود جلد نمبر 38 کی سچائی پر اور زیادہ پختہ ہو گئے.چونکہ لوگ تاریخ کے واقعات نہیں پڑھتے اس لیے انہیں معلوم نہیں ہوتا کہ ان میں سے بعض واقعات کو کیا اہمیت حاصل ہے.یہ تو بہتوں کو پتا ہے کہ کس طرح عکرمہ نے پیاس کی وجہ سے تڑپتے ہوئے جان دے دی اور کہا کہ جب تک اس کے ساتھی سیر نہ ہو لیں وہ پانی نہیں پی سکتے.پھر ابو جہل کے واقعات کا بھی ان کو علم ہے مگر اس بات کا بہت کم لوگوں کو علم ہے کہ خود عکرمہ کے دل میں ایمان لانے سے پہلے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق کتنا بغض تھا اور ایمان لانے کے بعد وہ آپ کی محبت میں اس طرح بدلے کہ آپ کی ذات تو الگ رہی وہ آپ کے صحابہ کی خاطر قربانی کرنے کے لیے تیار ہو گئے.تاریخ میں آتا ہے کہ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ فتح کیا تو آپ نے فرمایا مسلمانوں کے ان بڑے بڑے دشمنوں کو جو انہی تکلیف دیتے تھے گرفتار کیا جائے اور قتل کیا جائے انہیں لوگوں میں عکرمہ بھی تھے.فتح مکہ کے بعد عکرمہ جان بچانے کے لئے حبشہ کی طرف بھاگ گئے.ان کی بیوی دل سے مسلمان ہو چکی تھی وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی اور کہا يَا رَسُولَ الله ! میرا خاوند عکرمہ اپنا ملک چھوڑ کر بھاگ گیا ہے اور حبشہ کی طرف چلا گیا ہے.يَا رَسُولَ اللہ ! کیا یہ اچھا ہے کہ آپ کے چا کا بیٹا آپ کے ماتحت رہے یا یہ اچھا ہے کہ وہ غیروں کی حکومت میں رہے؟ آپ نے فرمایاوہ بھا گا کیوں ہے؟ ہم نے تو اُسے ملک سے باہر نہیں نکالا.عکرمہ کی بیوی نے کہايَا رَسُولَ الله ! وہ جانتا تھا کہ آپ نے چند ایسے لوگوں کو قتل کرنے کا حکم دیا ہے جو مسلمانوں کو دکھ دیا کرتے تھے اور چونکہ وہ بھی مسلمانوں کو دکھ دیا کرتا تھا اس لیے وہ جانتا تھا کہ اگر وہ یہاں رہا تو مارا جائے گا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہمارا تو کوئی ارادہ نہیں تھا کہ اُسے قتل کیا جائے.اُس نے مکہ سے بھاگ کر چلے جانے کی غلطی کی ہے.عکرمہ کی بیوی نے کہا یا رَسُولَ اللہ ! اب اس کے واپس آنے کی اور تو کوئی صورت نہیں یہی ہو سکتا ہے کہ میں بندرگاہ پر خود جاؤں اور اُس کو سمجھا کر واپس لاؤں.کیا آپ مجھے ایسا کرنے کی اجازت دیتے ہیں؟ آپ نے فرمایا ہاں! میری طرف سے ایسا کرنے کی اجازت ہے.عکرمہ کی بیوی نے کہا یا رَسُولَ اللہ ! آپ جانتے ہیں کہ وہ ابو جہل کا بیٹا ہے اور ابو جہل اپنی قوم کا سردار تھا.ابھی اسلام کی سچائی کا اسے علم نہیں.اس نے صرف یہی نشان دیکھا ہے کہ آپ فاتح
$1957 68 خطبات محمود جلد نمبر 38 ہو گئے ہیں اور مکہ والوں پر غالب آگئے ہیں جس کی وجہ سے وہ جان کے خوف کے مارے مکہ سے بھاگ گیا ہے.يَا رَسُولَ اللہ ! میں بندرگاہ پر جا کر اُس کو واپس آنے کے لیے کہوں گی لیکن اگر اُس کی نے یہ کہا کہ میں نے اسلام کو کبھی بھی قبول نہیں کرنا.ہاں ! اگر اس کی حقانیت میرے دل پر ظاہر ہوگئی تو ی میں اسے قبول کرلوں گا اس سے پہلے میں قبول نہیں کروں گا تو يَا رَسُولَ الله ! پھر کیا بنے گا ؟ آپ نے فرمایا اسے کہ دینا کہ اگر وہ اسلام قبول نہ بھی کرے پھر بھی ہم اُسے کچھ نہیں کہیں گے.وہ اپنی مرضی سے اسلام کو قبول کرے تو کرے ہم اُس پر کوئی جبر نہیں کریں گے.چنانچہ وہ بندرگاہ پرگئی.جہاز چلنے ہی والا تھا اور اس طرح عکرمہ عرب کو ہمیشہ کے لیے چھوڑنے کے لیے تیار تھے کہ پراگندہ سر اور پریشان بیوی اُن کے پاس پہنچی اور کہا اے میرے چچا کے بیٹے ! ( عرب عورتیں اپنے خاوندوں کو چا کا بیٹا کہا کرتی تھیں) تو مجھے یہ بتا کہ اپنی قوم کے آدمی کی غلامی میں رہنا اچھا ہوتا ہے یا کسی غیر کی غلامی میں؟ عکرمہ نے کہا اپنی قوم کے کسی شخص کی غلامی میں رہنا بہر حال بہتر ہے.اس پر اُن کی بیوی نے کہا پھر تو حبشہ کو چلا ہے.حبشہ والے تو غیر ہیں اور محمد ( رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تمہارے قریبی رشتہ دار ہیں اور ہم قوم ہیں.پھر اگر محمد ( رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) تمہارے ہم مذہب نہیں تو حبشہ والوں کا مذہب بھی تو اور ہے.تو کیوں اپنے ملک میں واپس نہیں چلا جاتا ؟ عکرمہ نے کہا بیوی! میں تو اس لیے بھاگا ہوں کہ محمد ( رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھے مار ڈالنا تھا.بیوی نے کہا یہ بات غلط ہے اور تمہاری بدظنی ہے.میں خود محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کومل کر آئی ہوں اور آپ نے کہا ہے کہ میرا عکرمہ کو مارنے کا کوئی ارادہ نہیں.وہ بے شک اپنے ملک میں واپس آ جائے.پھر اُسے جو طبہ تھا وہی ہوا.عکرمہ نے کہا بیوی! میں واپس تو چلا جاؤں لیکن وہ مجھے مسلمان ہونے پر مجبور کریں گے اور میں نے اسلام قبول نہیں کرنا.ہاں ! اسلام کی صداقت میرے دل پر واضح ہوگئی تو مجھے اس کے قبول کرنے میں کوئی عذر نہیں ہو گا.لیکن اُس وقت تک کہ اسلام کی صداقت مجھ پر واضح ہو جائے میں اپنے باپ دادا کے مذہب پر قائم رہوں گا.اگر وہ مجھے اس بات کی اجازت دے دیں تو میں واپس آ جاؤں گا ورنہ نہیں.بیوی نے کہا میں یہ بات بھی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کر آئی ہوں.انہوں نے کہا تھا کہ ہم اس پر کوئی جبر نہیں کریں گے.وہ جس مذہب پر چاہے قائم رہے ہم اُسے ہرگز اسلام قبول کرنے پر مجبور نہیں کریں گے اور یہ نہیں کہیں گے کہ وہ اپنا مذ ہب ترک کر دے اور اس کے ساتھ محبت کا
$1957 69 خطبات محمود جلد نمبر 38 سلوک کریں گے.عکرمہ کو اپنی بیوی کی باتوں کی وجہ سے اطمینان ہو گیا اور وہ مکہ واپس آ گیا.مکہ واپس آ کر عکرمہ نے اپنی بیوی سے کہا مجھے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس لے چل.چنانچہ وہ انہیں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس لے گئی.جب وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس حاضر ہوئے تو عرض کیا اے محمد ! ( ابھی رسول اللہ کہنے کی انہیں تو فیق نہیں ملی تھی ) میری بیوی میرے پاس گئی تھی اور کہتی تھی کہ آپ نے کہا ہے عکرمہ بے شک واپس آ جائے ہم اُسے قتل نہیں کریں گے اور نہ اس کے کسی قصور پر گرفت کریں گے کیا یہ سچ ہے؟ آپ نے فرمایا ہاں! تمہاری بیوی سچ کہتی ہے.عکرمہ نے پھر کہا اے محمد ! ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) میں نے اسے کہا تھا کہ میں واپس تو چلا جاؤں مگر وہ مجھے مسلمان ہونے کے لیے مجبور کریں گے اور میں ابھی اسلام کی صداقت کا قائل نہیں.اس لیے میں اسلام کے قبول کر لینے کے لیے تیار نہیں.اگر انہوں نے ایسا کیا اور میں نے اسلام قبول نہ کیا تو پھر مجھے دوبارہ بھاگنا پڑے گا.تو میری بیوی نے کہا تھا کہ میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بات کر آئی ہوں.انہوں نے کہا ہے کہ وہ بے شک جس مذہب پر چاہے رہے ہم اسے کچھ نہیں کہیں گے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تمہاری بیوی ٹھیک کہتی ہے.میں نے یہی کہا تھا.عکرمہ نے کہا پھر میں بے شک مشرک رہوں اور اپنے باپ دادا کے مذہب پر قائم رہوں آپ مجھے کچھ نہیں کہیں گے؟ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہر گز نہیں.تم بے شک اپنے باپ دادا کے مذہب پر قائم رہو ہم تمہیں مسلمان ہونے کے لیے مجبور نہیں کریں گے تمہیں پوری آزادی دیں گے اور تمہارے ساتھ حسن سلوک کریں گے.یہ پہلا موقع تھا کہ عکرمہ کے دل میں اسلام کی صداقت آئی.جب اُس نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ حوصلہ دیکھا تو اس نے سمجھ لیا کہ خدا تعالیٰ کے رسول کے سوا ایسی بات کوئی نہیں کہہ سکتا اور بے اختیار ہو کر کہنے لگا میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ ایک ہے اور اس کا کوئی شریک نہیں.اور میں گواہی دیتا ہوں کہ اے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ اس کے بندے اور اس کے رسول ہیں.اور پھر شرم سے اپنا سر جھکا لیا.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کی حیا کی حالت کو دیکھ کر اُن کے دل کی تسلی کے لیے فرمایا.عکرمہ ! ہم نے تمہیں صرف معاف ہی نہیں کیا بلکہ اس سے زائد یہ بات بھی ہے کہ ہم تمہیں بڑے بڑے انعامات دیں گے.عکرمہ نے کہا يَا رَسُولَ الله ! مجھے انعاموں کی ضرورت نہیں.مجھے صرف اس بات کی ضرورت ہے کہ اللہ تعالیٰ
$1957 70 خطبات محمود جلد نمبر 38 میرے گناہ بخش دے.آپ خدا تعالیٰ سے یہ دعا کریں کہ میں نے جو آپ کی دشمنیاں کی ہیں وہ مجھے معاف کر دے.اس پر آپ نے اس کے لیے دعا فرمائی 5.اب دیکھو! عکرمہ اتنا سخت بغیض دشمن اسلام تھا لیکن اس کے باوجود وہ اسلام لایا اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات کے لیے نہیں، حضرت ابوبکر کے لیے نہیں، حضرت عمرؓ کے لیے نہیں بلکہ معمولی مسلمانوں کے لیے جنہوں نے عیسائیوں کے مقابلہ میں شہادت حاصل کی تھی.اُس نے اتنی بڑی قربانی کی کہ وہ پیاس کی وجہ سے تڑپتے ہوئے مر گیا لیکن اُس نے یہ برداشت نہ کیا کہ اس کے منہ میں پانی کا قطرہ پڑ جائے اور اُس کے مسلمان بھائی پیاس کی وجہ سے تڑپتے رہیں.اب یہ کتنا بڑا نشان تھا اُن لوگوں کے لیے جنہوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے آپ کا رویا سنا تھا کہ ابو جہل کے لیے جنت سے انگوروں کا ایک خوشہ آیا ہے.آپ نے فرمایا میں اُس وقت تو سخت گھبرا گیا کہ خدا تعالیٰ کا رسول اور اُس کا دشمن دونوں برابر کیسے ہو سکتے ہیں.لیکن جب عکرمہ مسلمان ہوا تو اس رویا کی تعبیر سمجھ میں آگئی اور معلوم ہوا کہ اس سے مُراد عکرمہ تھا.در حقیقت عکرمہ اُس زمانہ میں اپنے دلی بغض کے لحاظ سے ابو جہل کا مثیل تھا.اس لیے آپ نے جو یہ دیکھا کہ ابو جہل کے لیے جنت کے انگوروں کا خوشہ آیا ہے تو یہ ٹھیک تھا.عکرمہ ابو جہل کا مثیل تھا اس لیے رویا میں اسے ابو جہل ہی کہا گیا.پھر وہ اسلام لایا اور اسلام کے لیے اس قدر قربانیاں کیں کہ انسان انہیں دیکھ کر حیرت میں پڑ جاتا ہے.اب جس شخص نے یہ نشان دیکھا اُس کے دل میں کتنی خوشی ہوئی ہو گی.انہی نشانات کے متعلق اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے لَقَدْ أَنْزَلْنَا أَیتِ مُبَيِّنَتٍ.ہم نے قرآن کریم کے ذریعہ ایسے نشانات نازل کر دیئے ہیں جو خدا تعالیٰ کو ننگا کر کے انسان کے سامنے کھڑا کر دیتے ہیں.غیروں کے لیے تو خدا تعالیٰ ایک پوشیدہ چیز ہے مگر مسلمانوں کے لیے وہ پوشیدہ چیز نہیں.کیونکہ وہ نشانات کے ذریعہ سے ان کے سامنے کھل کر آ جاتا ہے.دوسری مثال رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ میں حضرت عمرو بن عاص کی ہے.حضرت عبداللہ بن عمرو ابتدائی صحابہ میں سے تھے اور اپنے باپ سے بہت پہلے مسلمان ہو گئے تھے.آپ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ مدینہ کی طرف ہجرت کی.آپ مسجد میں بیٹھے رہتے تھے تا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم گھر سے باہر نکلیں اور کوئی بات کریں تو اُسے لکھ لیں
71 $1957 خطبات محمود جلد نمبر 38 اور ان کو لکھنا آتا تھا اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی احادیث لکھا کرتے تھے مگر بعد میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں ایسا کرنے سے منع کر دیا اور فرمایا میں قرآن کریم لکھواتا ہوں اس لیے ایسا نہ ہو کہ کوئی لکھی ہوئی چیز دیکھ کر لوگوں کو یہ محبہ پیدا ہو کہ وہ بھی قرآن کریم کا ہی حصہ ہے.جب ان کے والد عمرو بن عاص فوت ہونے لگے تو یہ ان کی خبر لینے کے لیے گئے.موت کے وقت اُن کی حالت کرب اور گھبراہٹ کی تھی.کبھی آپ ادھر کروٹ بدلتے اور کبھی اُدھر کروٹ لیتے اور کہتے یا اللہ! مجھے معاف کر.مجھے معلوم نہیں میں نے کیا کیا گناہ کیے ہیں.عبداللہ بن عمرو نے کہا باپ! آپ گھبراتے کیوں ہیں؟ آپ کا انجام تو اچھا ہی ہے.اللہ تعالیٰ نے آپ کو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان لانے کی توفیق دی اور اب تک اسلام پر قائم رکھا.پھر آپ کو فکر کرنے کی کیا ضرورت ہے.حضرت عمرو بن عاص کہنے لگے میرے بیٹے ! تم ٹھیک کہتے ہو خدا تعالیٰ نے فضل کیا اور مجھے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان لانے کی توفیق دی لیکن کاش! میں اُسی وقت ما را جاتا اور مجھے شہادت نصیب ہو جاتی.میرے بیٹے ! رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات کے بعد حضرت علی اور حضرت معاویہ میں لڑائیاں ہوئیں اور میں ان میں حضرت معاویہؓ کی طرف سے حصہ لیتا رہا.مجھے پتا نہیں کہ ان لڑائیوں میں مجھ سے کیا کیا غلطیاں ہوئیں.اس خیال کے آنے پر مجھے گھبراہٹ ہوتی ہے کہ معلوم نہیں خدا تعالیٰ مجھے معاف بھی کرے گا یا نہیں.پھر آپ نے فرمایا میرے بیٹے ! جب میں اسلام کا دشمن تھا تو میری دشمنی کا یہ حال تھا کہ اگر مجھے پتا لگتا کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سامنے گلی میں آرہے ہیں تو میں اپنی آنکھیں بند کر لیتا تا مجھے نَعُوذُ بِاللهِ آ.کی منحوس شکل نظر نہ آئے.اور اگر کوئی مجھ سے پوچھتا کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ کے رشتہ دار ہیں اُن کا حلیہ کیا ہے؟ تو میں آپ کا حلیہ نہیں بتا سکتا تھا.کیونکہ جب ان کی شکل سامنے آتی تھی میں آنکھیں بند کر لیتا تھا.پھر جب میں ایمان لایا تو خدا تعالیٰ نے مجھے ایسا ایمان بخشا کہ آپ کی محبت اور رعب کی وجہ سے میں آپ کے چہرہ پر نظر نہیں ڈالتا تھا بلکہ آپ کے سامنے میں ہمیشہ اپنی آنکھیں بند رکھتا.میں خیال کرتا تھا کہ آپ اتنے معزز اور اتنے اعلیٰ مقام پر ہیں کہ میرے جیسے ذلیل آدمی کو آپ کا چہرہ دیکھنے کا کوئی حق نہیں.اے میرے بیٹے ! کفر کی حالت میں بھی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میرے سامنے آئے اور ایمان کی حالت میں بھی
$1957 72 خطبات محمود جلد نمبر 38 محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میرے سامنے آئے لیکن اگر اب بھی مجھ سے کوئی پوچھے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا حلیہ کیا ہے تو میں نہیں بتا سکتا 6 کیونکہ کفر میں بغض کی وجہ سے میں نے آپ کی شکل نہیں دیکھی اور ایمان میں محبت اور رعب کی وجہ سے میں نے آپ کی شکل نہیں دیکھی.اب دیکھو! عاص جیسے شدید دشمن اسلام کا بیٹا جو ایمان لانے سے پہلے خود بھی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سخت بغض رکھتا تھا اللہ تعالیٰ نے اس کو ایمان لانے کی سعادت بخشی اور اسے ایسا مقام دیا کہ اس نے اسلام کے لیے بڑی بڑی جنگیں لڑیں اور مصر کو اسلام کے لیے فتح کی کیا.حضرت عمرو بن عاص اُن لوگوں میں سے تھے جنہوں نے حضرت خالد بن ولید سے مل کر جنگِ اُحد کے موقع پر مسلمانوں پر حملہ کیا تھا اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم زخمی ہو کر دوسرے زخمیوں پر گر گئے تھے اور مسلمانوں کو شبہ ہو گیا تھا کہ آپ شہید ہو گئے ہیں.ایسے شدید دشمن اسلام کو خدا تعالیٰ نے ایمان نصیب کیا.تو یہ کتنی بڑی بات تھی.قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ کیا تم دیکھتے نہیں کہ ہم زمین کو اُس کے کناروں سے سمیٹتے چلے آرہے ہیں.یعنی ان بڑے بڑے کافروں کی اولاد میں مسلمان ہورہی ہیں.مسلمان جب پڑھتے ہوں گے کہ اسلام کے شدید دشمنوں ولید اور عاص کی اولا داسلام کی گود میں آگئی اور ان کے بیٹوں نے اسلام لانے کے بعد بڑی بڑی قربانیاں کیں تو ان کا ایمان کس قدر بڑھتا ہوگا.پھر میں نے ہندہ کا واقعہ سنایا تھا.اس کے بغض کی یہ کیفیت تھی کہ اس نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چچا حضرت حمزہ کا کلیجہ نکلوایا اور آپ کے کان کٹوائے.جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مکہ فتح کیا تو آپ نے جن لوگوں کے گرفتار کرنے اور قتل کرنے کا حکم دیا تھا ان میں ہندہ بھی شامل تھی کیونکہ اُس نے بھی کئی مسلمانوں کو قتل کروایا تھا.آپ نے فرمایا ہندہ بھی پکڑی تھی جائے اور قتل کی جائے.آپ نے سات آٹھ آدمی بتائے تھے کہ اُن سب کو پکڑ لیا جائے اور قتل کیا جائے.ان میں آپ نے ہندہ کا نام بھی لیا تھا.جب عورتوں کی بیعت کا وقت آیا اور آپ نے بیعت لینی شروع کی تو ہندہ بھی منہ چھپائے ان میں جا بیٹھی اور بیعت میں شامل ہو گئی.جب قرآنی ہدایت کے مطابق رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ اقرار لیا کہ ہم چوری نہیں کریں گی ، زنانہیں کریں گی، جھوٹ نہیں بولیں گی، شرک نہیں کریں گی تو اس آخری فقرہ پر کہ ہم شرک نہیں کریں
$1957 73 خطبات محمود جلد نمبر 38 گی ہندہ بول اُٹھی کہ يَا رَسُولَ اللہ ! آپ کیا کہتے ہیں؟ کیا ہم اب بھی شرک کریں گی؟ ہم مکہ والے متحد ہوکر آپ کے مقابلہ پر آئے.سارا عرب ہمارے ساتھ تھا اور آپ اکیلے تھے.ہم نے آپ کے ساتھ لڑائی کی.آپ نے کہا خدا تعالیٰ میرے ساتھ ہے اور وہ میری مدد کرے گا اور ہم نے کہا آپ کا خدا جھوٹا ہے وہ آپ کی مدد نہیں کرے گا.ہمارے بُت آپ کے خدا سے زیادہ طاقتور ہیں وہ آپ کے خلاف ہماری مدد کریں گے.لیکن ہوا کیا ؟ ہوا یہ کہ باوجود اس دعوی کے ہم ہار گئے اور آپ جیتے.اگر ہمارے بچوں میں کوئی طاقت ہوتی تو ہم جیت نہ جاتے.باوجود اس کے کہ انسانی طاقت ہمارے ساتھ تھی، قوم ہمارے ساتھ تھی ، عرب کے تمام سردار ہمارے ساتھ تھے، تجربہ کار جرنیل ہمارے ساتھ تھے، اگر ہمارے بُت کمزور بھی ہوتے تب بھی ہمارے پاس اتنی طاقت تھی کہ ہم آپ کو شکست دے دیتے لیکن ہم ہارے.اس سے صرف یہی پتا نہیں لگتا کہ ہمارے بچوں میں کوئی طاقت نہیں تھی بلکہ یہ بھی پتا لگتا ہے کہ آپ کے خدا میں طاقت تھی اور اس نے ایک اکیلے اور کمزور آدمی کو ہمارے سروں پر لا کے بٹھا دیا.اب ہم شرک کیسے کر سکتے ہیں؟ اب تو یہ بات ہم پر واضح ہو گئی ہے.تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے لَقَدْ اَنْزَلْنَا آیت مُّبَيِّنت.ہم نے ایسے نشانات ظاہر کیے ہیں کہ جو حقیقت حال کو کھول کر رکھ دیتے ہیں.اب دیکھو ! فتح مکہ ہندہ جیسی ظالم عورت کی آنکھیں کھولنے کا موجب ہوگئی اور اس طرح اس کو نظر آ گیا کہ خدا تعالیٰ اور اسلام کی سچائی میں کوئی حبہ نہیں.جب ہندہ کی آواز رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سنی تو آخر یہ لوگ آپ کے رشتہ دار تھے اور آپ اُن کی آواز میں پہچانتے تھے.آپ نے فرمایا ہندہ! ہندہ دو پٹا اوڑھے عورتوں میں چھپی ہوئی بیٹھی تھی اور بجھتی تھی کہ مجھے کون دیکھتا ہے.جب آپ نے ہندہ کہا تو اس نے سمجھا اس کا مطلب یہ ہے کہ میں نے تو تمہارے متعلق اعلان کیا تھا کہ جہاں پکڑی جاؤ قتل کی جاؤ.اب تو یہاں بیٹھی ہے؟ اس لیے اب تمہیں پکڑا جائے گا.وہ جھٹ بول پڑی کہ یارسول اللہ میں اب آپ کی حکومت سے باہر نکل چکی ہوں.اب میں مسلمان ہوگئی ہوں اور مسلمان پر نہ آپ کا قبضہ ہے اور نہ کسی اور کا قبضہ ہے.بلکہ اس پر خدا تعالیٰ کا قبضہ ہے اور خدا تعالیٰ نے اسلام لانے پر میرے سارے گناہ معاف کر دیئے ہیں.اب میں نے آپ کی بیعت کر لی ہے اور مسلمان ہو گئی ہوں اس لیے اب آپ مجھے کچھ نہیں کہہ سکتے.آپ نے فرمایا ہندہ! تو ٹھیک کہتی ہے.واقع میں اب میں تمہیں کچھ نہیں کہہ سکتا.کیونکہ اسلام نے تمہارےسارے پچھلے گناہوں کو
$1957 74 خطبات محمود جلد نمبر 38 معاف کر دیا ہے.جیسے ہندہ کے لیے فتح مکہ آیات مبینات میں سے تھی.اسی طرح اس کی یہ گفتگو ہمارے لیے آیات مبینات میں سے ہے کہ ایسی شدید دشمن اسلام عورت کو خدا تعالیٰ نے ہدایت دے دی اور اُس کا دل کھل گیا.اور پھر ایسا دل کھلا کہ وہ بعد میں عیسائیوں کے مقابلہ میں لڑی جانے والی جنگوں میں شامل ہوئی.اس کا ایک لڑکا یزید 9 جو حضرت معاویہ سے بڑا تھا اور نہایت مخلص تھا اور اس کا خاوند ابوسفیان جو اسلام لانے سے پہلے اسلام کا شدید دشمن تھا دونوں عیسائیوں کے ساتھ لڑنے کے لیے ایک جنگ میں شامل ہوئے.عیسائیوں کا لشکر بہت بڑا تھا اور مسلمانوں کی تعداد اس کے مقابلہ میں بہت کم تھی.اس جنگ میں ایک موقع پر اسلامی لشکر پیچھے کو بھا گا.بھاگنے والوں میں ابوسفیان اور ان کے بیٹھے یزید بھی تھے.پیچھے عورتیں کھڑی تھیں.اگر اُس وقت مسلمانوں کے قدم نہ جمتے تو مدینہ تک دشمن کے راستہ میں کوئی روک نہیں تھی.عیسائی لشکر آگے بڑھتا چلا آ رہا تھا.ہندہ نے مسلمان سپاہیوں کو بھاگتے ہوئے دیکھا تو اس نے عورتوں کو جمع کیا اور کہا مردوں کے پاؤں اکھڑ گئے ہیں.آؤ! اب ہم اسلام کے لیے لڑائی کریں.انہوں نے کہا ہم کیا کر سکتی ہیں؟ ہمارے پاس کیا سامان ہے؟ ہندہ نے کہا سامان تو نہیں ہے لیکن ایک چیز ہے.خیموں کی چوبیں اتار لو اور ہاتھ میں لے لو.مسلمان سپاہی جو دوڑتے ہوئے آ رہے ہیں اُن کے اونٹوں کو ان چوبوں سے مارو اور کہو بے شرمو ! تم کافروں سے بھاگ رہے ہو؟ چنانچہ عورتوں نے چوہیں اُتار لیں اور ہندہ نے بھی ایک چوب اتار لی اور سب عورتوں کو ساتھ لے کر بھاگتے ہوئے اسلامی لشکر کے آگے کھڑی ہوگئی.سب سے آگے اُس کا خاوند ابوسفیان اور اُس کا بیٹا یزید تھے.عورتوں نے اُن کے اونٹوں کے مونہوں پر چومیں ماریں اور کہا بے شرمو! تمہیں شرم نہیں آتی ؟ تم کافروں کے مقابلہ میں شکست کھا کر پیچھے بھاگے چلے آ رہے ہو؟ اس موقع پر ہندہ نے ابوسفیان کو مخاطب کر کے کہا جب تو کافر تھا تو بہادری کے ساتھ اونٹ پر سوار ہو کر تو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لشکر پر حملہ کرنے جایا کرتا تھا.اب تو مسلمان ہو گیا ہے اور اسلام کی خاطر تمہیں جنگ لڑنی پڑی ہے تو تو عیسائیوں کو پیٹھ دکھا رہا ہے اور بھاگ رہا ہے.تمہیں ایسا کرتے ہوئے شرم نہیں آتی؟ اس کا ابوسفیان پر ایسا اثر ہوا کہ اُس نے اپنے بیٹے کی طرف مڑ کر دیکھا اور کہا بیٹا ! ان عورتوں کے سونٹے عیسائیوں کی تلواروں سے زیادہ خطرناک ہیں.چلو ! واپس لوٹو.اس کے نتیجہ میں
$1957 75 خطبات محمود جلد نمبر 38 چاہے ہم مر جائیں یا جیئیں اس کی پروا نہیں.بہر حال ہمیں ان عورتوں کے سونٹے کھانا مناسب نہیں.ہم ان کے طعنے نہیں برداشت کر سکتے.عیسائیوں کی تلوار میں کھانا ان سے سہل امر ہے.چنانچہ وہ دونوں واپس کو ٹے.اسی طرح اسلامی لشکر بھی واپس لوٹا اور بعد میں مسلمانوں کو عیسائیوں کے مقابلہ میں فتح حاصل ہوئی.ی تھی وہ ہندہ جو ایک وقت میں اسلام کی اتنی شدید دشمن تھی کہ وہ شعر پڑھ پڑھ کر کفار کو مسلمانوں سے جنگ کے لیے اُکساتی تھی.فتح مکہ کے بعد اس کے قتل کا فتویٰ جاری کیا گیا.لیکن قبل اس کے کہ اسے گرفتار کیا جاتا وہ عورتوں میں چھپ کر بیعت میں شامل ہو گئی.کیا اس کے متعلق اس وقت کوئی انسان یہ خیال کر سکتا تھا کہ کسی وقت یہ عورت اسلام کے لیے قربانی کرے گی ؟ لیکن وہی ہندہ جو اسلام کی شدید دشمن تھی اسلام لانے کے بعد اسلامی فتوحات میں حصہ دار بن گئی.غرض تاریخ اسلامی کا ایک ایک واقعہ پڑھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ لَقَدْ اَنْزَلْنَا ایت مُبيِّنت کے مطابق ایک ایسا نشان ہے جس نے حقیقت حال کو کھول کر سامنے رکھ دیا ہے.اور بتایا ہے کہ اے مسلمانو! تم پر اسلام میں داخل ہونا کوئی بوجھ نہیں کیونکہ دوسرے لوگوں کے لیے ان کے مذہب غیب ہیں لیکن تمہارا مذہب وہ ہے جو خدا تعالیٰ کی غیبی طاقتوں کو ظاہر کر دیتا ہے اور اس کے مقابلہ میں کوئی اور مذہب نہیں ٹھہر سکتا.پھر دیکھ لو! یہ نمونہ آج تک چلا آ رہا ہے.اسلام میں ہر زمانہ میں ایسے لوگ پیدا ہوئے جو لَقَدْ اَنْزَلْنَا آیتِ مُبَيِّنَتِ کے ذریعہ اسلام کی روشنی کو ثابت کرتے رہے.ابتدائی زمانہ میں حضرت جنید بغدادیؒ تھے ، سید عبد القادر جیلانی تھے، شبلی تھے اور ابراہیم ادھم ” تھے ، ابن تیمیہ تھے، ابن قیم تھے ، امام غزالی تھے اور ان کے علاوہ کئی اور بزرگ تھے.پھر آخری زمانہ میں حضرت شاہ ولی اللہ ہوئے ، خواجہ باقی باللہ ہوئے، معین الدین چشتی ” ہوئے ، نظام الدین اولیاء ہوئے، قطب الدین بختیار کا کی "ہوئے ، فرید الدین شکر گنج " پاک پٹن والے ہوئے.یہ سب لوگ خدا تعالیٰ کا قرب پا کر آیات بینات کا مقام حاصل کر گئے تھے.ان میں سے ہر شخص کو دیکھ کر لوگ اپنا ایمان تازہ کرتے تھے.جب ان کا نور دُھندلا ہوا تو خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو ہمارے اندر پیدا کیا اور ان کا وجود ہمارے لیے آیات بینات بن گیا.جو شخص بھی آپ کے پاس بیٹھا
$1957 76 خطبات محمود جلد نمبر 38 اُس کو قرآن کریم اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سچائی نظر آ گئی اور کوئی چیز اس کو اسلام سے ہٹانے والی نہ رہی.ہمارے منشی اروڑے خاں صاحب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ایک پرانے صحابی تھے.انہوں نے مجھے بتایا کہ ایک دفعہ میں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کی خدمت میں کپورتھلہ آنے کے لیے لکھا اور کہا آپ ہمارے ہاں تشریف لائیں تو یہاں کے رہنے والے بھی آپ کی زیارت کریں اور آپ کی باتیں سنیں.منشی صاحب سنایا کرتے تھے کہ ایک دن میں ایک دکان پر بیٹھا ہوا تھا.کپورتھلہ میں ایک شخص تھا جو کسی مجسٹریٹ کا کلرک تھا اور احمدیت کا بڑا دشمن تھا.اس نے تی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو یکہ پر سے اُترتے ہوئے دیکھ لیا تو بھاگتا ہوا میرے پاس آیا اور کہنے لگامنشی صاحب آپ یہاں بیٹھے ہیں اور آپ کا پیراڈے پر یکہ پر سے اتر رہا ہے.منشی صاحب سنایا کرتے تھے کہ میں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی خدمت میں کپورتھلہ آنے کی درخواست تو کی تھی اور آپ نے میری اس درخواست کو قبول فرما کر کپورتھلہ آنے کا وعدہ بھی کیا تھا مگر میرا خیال تھا کہ آپ کو کپورتھلہ آنے کی فرصت ہی کہاں مل سکتی ہے.اس لیے جب اُس کلرک نے مجھے آپ کی آمد کی اطلاع دی تو مجھے اُس کی بات پر یقین نہ آیا اور میں نے سمجھا کہ یہ مجھ سے مذاق کر رہا ہے.چنانچہ مجھے اس پر سخت غصہ آیا.میں نے غصہ میں اپنی جوتیاں تو دکان پر چھوڑیں اور ننگے پاؤں اس شخص کے پیچھے بھاگا اور اس کو مغلظ گالیاں دیتے ہوئے کہا خبیث ! تو جھوٹ بولتا ہے، تو محول کرتا ہے اور میرا دل دُکھاتا ہے.وہ میرے آگے بھاگتا چلا جارہا تھا.ایک جگہ اس نے ذرا ٹھہر کر مجھے مخاطب کرتے ہوئے کہا میں نے جو کچھ کہا ہے سچ کہا ہے.تم مجھے گالیاں دیتے رہو گے اور مرزا صاحب کسی اور گھر میں چلے جائیں گے.چنانچہ میں اڈے کی طرف گیا تو آپ تشریف لا رہے تھے.انہی منشی صاحب کا یہ واقعہ ہے کہ ایک دفعہ مولوی ثناء اللہ صاحب کپورتھلہ گئے.لوگ آپ کو ان کے پاس لے گئے.مولوی ثناء اللہ صاحب تقریر کرنے لگے.تقریر میں انہوں نے بہت سی دلیلیں دیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نَعُوذُ باللهِ جھوٹے ہیں.منشی صاحب بہت والے تھے.وہ مولوی شاء اللہ صاحب کو مخاطب کر کے کہنے لگے.مولوی صاحب ! ابھی تو
$1957 77 خطبات محمود جلد نمبر 38 شروع رات ہے اگر آپ ساری رات بھی دلیلیں دیتے رہیں تو اُن کا مجھ پر کوئی اثر نہیں ہوگا.میں نے تو حضرت مرزا صاحب کو نہیں چھوڑنا.کیونکہ میں نے کتابیں پڑھ کر انہیں نہیں مانا.بلکہ انہیں دیکھ کر اُن پر ایمان لایا ہوں آپ ساری رات کیا سارا سال بھی دلیلیں دیتے رہیں اور ساری دلیلیں دے لیں میں نے ان کی شکل دیکھی ہے اور میں جانتا ہوں کہ وہ منہ جو میں نے دیکھا ہے جھوٹا نہیں ہوسکتا.میرے دل اور میری آنکھوں نے اس مبارک شکل کو دیکھ کر یقین کر لیا ہے کہ یہ شخص جھوٹا نہیں ہوسکتا.جس شخص کی سچائی کو میرا دل مان چکا ہے، جس شخص کی سچائی کو میری آنکھیں مان چکی ہیں آپ کی باتیں مجھے اس سے ہٹا نہیں سکتیں.آپ کہیں تو میں ساری رات یہاں بیٹھتا ہوں بلکہ سارا سال یہاں بیٹھتا ہوں.اگر آپ میرے ایمان کو ذرا سا بھی ڈگمگالیں تو آپ بچے اور میں جھوٹا.لیکن میں جانتا ہوں کہ آپ ایسا نہیں کر سکتے کیونکہ میں نے نشان دیکھ لیا ہے.میں نے آپ کی شکل دیکھ لی ہے اور میں جانتا ہوں کہ وہ شخص جھوٹ نہیں بول سکتا ہے.یہ تو منشی اروڑے خان صاحب کی شہادت ہوئی.ابھی حال ہی میں سر ڈگلس فوت ہوئے ہیں جو جزائر انڈمان (ANDAMAN) میں کمشنر تھے اور ایک زمانہ میں ضلع گورداسپور کے ڈپٹی کمشنر تھے.انہوں نے ایک دفعہ کہا کہ ایک شخص قادیان میں بیٹھا لکھتا ہے کہ میں مسیح ہوں اور اس طرح وہ ہمارے خدا کی ہتک کر رہا ہے.آج تک اس شخص کو کسی نے پکڑا کیوں نہیں؟ اتفاقاً ایک منافق احمدی نے ایک پادری سے کچھ پیسے لیے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر الزام لگایا کہ آپ نے اسے ڈاکٹر ہنری مارٹن کلارک کو قتل کرنے کے لیے بھیجا ہے.ڈاکٹر ہنری مارٹن کلارک اور اس کے ساتھیوں نے ڈپٹی کمشنر ضلع امرتسر کے پاس نالش کر دی اور انہوں نے آپ کے نام وارنٹ جاری کر دیا.لیکن اتفاقا وہ وارنٹ کسی کا پی میں پڑا رہا.کچھ عرصہ کے بعد جب ان لوگوں نے ڈپٹی کمشنر کو توجہ دلائی کہ اتنی دیر سے مقدمہ پیش ہے آپ نے ایکشن کیوں نہیں لیا ؟ تو اُس نے ڈپٹی کمشنر ضلع گورداسپور کو لکھا کہ میں نے اتنا عرصہ ہوا فلاں شخص کے نام وارنٹ جاری کیا تھا لیکن مجھے اس کا جواب نہیں آیا.اس پر ڈپٹی کمشنر ضلع گورداسپور ( سر ڈگلس ) نے جواب دیا کہ میرے پاس وارنٹ آیا ہی نہیں.دوسرے میں آپ کو توجہ دلاتا ہوں کہ ملزم مذکور کے نام وارنٹ جاری کرنے کا اختیار آپ کو حاصل نہیں.وہ میرے علاقہ میں رہتا ہے اس لیے اگر اس کے نام وارنٹ جاری کر سکتا تھا تو میں کر سکتا تھا.اس پر ڈپٹی کمشنر ضلع امرتسر نے ساری مسل اُس کے پاس
$1957 78 خطبات محمود جلد نمبر 38 بھیج دی.یہ شخص جیسا کہ میں نے بتایا ہے اتنا متعصب تھا کہ اس مقدمہ سے چند دن پہلے اُس نے کہا تھا کہ قادیان میں ایک شخص نے مسیح کا دعوی کیا ہے اور اس طرح وہ ہمارے خدا کی ہتک کر رہا ہے.اُس کو آج تک کسی نے پکڑا کیوں نہیں؟ جب مسل آئی تو مسل خواں نے کہا جناب والا ! یہ کیس وارنٹ کا نہیں بلکہ سمن کا کیس ہے اس لیے وارنٹ جاری نہیں کیا جا سکتا سمن بھیجا جا سکتا ہے.اُن دنوں جلال الدین ایک انسپکٹر پولیس تھے جو احمدی تو نہیں تھے لیکن بڑے ہمدرد انسان تھے.انہوں نے بھی ڈپٹی کمشنر کو توجہ دلائی کہ بڑے ظلم کی بات ہے کہ وارنٹ جاری کیا جا رہا ہے.یہ وارنٹ کا کیس نہیں سمن کا کیس ہے.لہذا وارنٹ کی بجائے سمن بھیجنا چاہیے.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے نام سمن جاری کیا گیا اور انہی جلال الدین صاحب کو اس کی تعمیل کرنے کے لیے قادیان بھیجا گیا.چنانچہ بعد میں مقررہ تاریخ پر آپ بٹالہ حاضر ہوئے جہاں ڈپٹی کمشنر صاحب دورہ پر آئے ہوئے تھے.جب آپ عدالت میں پہنچے تو وہی ڈپٹی کمشنر جس نے چند دن پہلے کہا تھا کہ یہ شخص خداوند یسوع کی ہتک کر رہا ہے اس کو کوئی پکڑتا کیوں نہیں؟ اُس نے آپ کا بہت اعزاز کیا اور عدالت میں گرسی پیش کی اور کہا آپ بیٹھے بیٹھے میری بات کا جواب دیں.اس مقدمہ میں مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی بھی بطور گواہ مدعی کی طرف سے پیش ہوئے.عدالت کے باہر ایک بڑا ہجوم تھا اور لوگ بڑے شوق سے مقدمہ سننے کے لیے آئے ہوئے تھے.جب مولوی محمد حسین صاحب عدالت میں پہنچے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو کرسی پر بیٹھے دیکھا تو انہیں آگ لگ گئی.وہ سمجھتے تھے کہ میں جاؤں گا تو عدالت میں مرزا صاحب کو ہتھکڑی لگی ہوئی ہوگی اور بڑی ذلت کی حالت میں وہ پولیس کے قبضہ میں ہوں گے.اب دیکھو یہ مقدمہ ایک انگریز ڈپٹی کمشنر کی عدالت میں پیش ہوا تھا اور مدعی بھی ایک انگریز پادری تھا ( ڈاکٹر مارٹن کلارک کے متعلق مشہور تھا کہ وہ انگریز ہے لیکن در حقیقت وہ کسی پٹھانی کی نسل میں سے تھا جس نے ایک انگریز سے شادی کی ہوئی تھی) اور مولوی محمد حسین صاحب جیسے مشہور عالم بطور گواہ پیش ہو رہے تھے.مگر پھر بھی دشمن ناکام و نامراد رہا اور جہاں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام کا اعزاز کیا گیا وہاں آپ کے مخالفین کو ذلت و رسوائی کا منہ دیکھنا پڑا.مولوی محمد حسین صاحب نے جب دیکھا کہ آپ کو کرسی پیش کی گئی ہے تو انہوں نے کہا بڑی عجیب بات ہے کہ میں گواہ ہوں مگر مجھے کٹہرے میں کھڑا کیا گیا ہے اور مرزا صاحب ملزم ہیں مگر انہیں کرسی دی گئی ہے اور اس طرح ان کا -
خطبات محمود جلد نمبر 38 79 $1957 وہ اعزاز کیا گیا ہے.ڈپٹی کمشنر کو یہ بات بُری لگی.اُس وقت انگریز مولویوں کو بہت ذلیل سمجھتے تھے.و کہنے لگا ہماری مرضی ہے ہم جسے چاہیں کرسی پر بٹھا ئیں اور جسے چاہیں کرسی نہ دیں.ان کے متعلق میں نے دیکھا ہے کہ ان کا خاندان کرسی نشین ہے اس لیے میں نے انہیں کرسی دی ہے.تمہاری حیثیت کیا ہے؟ مولوی محمد حسین صاحب کہنے لگے کہ میں اہلِ حدیث کا ایڈووکیٹ ہوں اور میں گورنر کے پاس جاتا ہوں تو وہ بھی مجھے کرسی دیتے ہیں.ڈپٹی کمشنر کہنے لگا تو بڑا جاہل آدمی ہے.ملنے جانے اور گواہی کے طور پر عدالت میں پیش ہونے میں بہت فرق ہے.ملنےکو تو کوئی چوڑھا بھی آئے تو ہم اس کو کرسی دیتے ہیں اور تو تو اس وقت عدالت میں پیش ہے.اس پر بھی مولوی محمد حسین صاحب کو تسلی نہ ہوئی.وہ کچھ آگے بڑھے اور کہنے لگے نہیں نہیں مجھے کرسی دینی چاہیے.ڈپٹی کمشنر کو غصہ آ گیا اور اس نے کہا بگ بگ مت کر! پیچھے ہٹ اور جوتیوں میں کھڑا ہو جا.چپڑاسی تو دیکھتے ہی ہیں کہ ڈپٹی کمشنر صاحب کی نظر کس طرف ہے.چپڑاسی نے جب ڈپٹی کمشنر صاحب کے الفاظ سنے تو اس نے مولوی محمد حسین صاحب کو بازو سے پکڑ کر جوتیوں میں لا کھڑا کیا.جب مولوی صاحب نے دیکھا کہ میری ذلت ہوئی ہے باہر ہزاروں آدمی کھڑے ہیں.اگر انہیں میری اس ذلت کا علم ہوا تو وہ کیا کہیں گے.تو کمرہ عدالت سے باہر نکلے.برآمدہ میں ایک کرسی پڑی تھی.مولوی صاحب نے سمجھا کہ ذلت کو چھپانے کا بہترین موقع ہے جھٹ کرسی کھینچی اور اُس پر بیٹھ گئے اور خیال کر لیا کہ لوگ کرسی پر بیٹھے دیکھیں گے تو خیال کریں گے کہ مجھے اندر بھی کرسی ملی تھی.چپڑاسی نے دیکھ لیا.وہ ڈپٹی کمشنر صاحب کا انداز دیکھ چکا تھا.اُس نے مولوی محمد حسین صاحب کو کرسی پر بیٹھے دیکھ کر خیال کیا کہ اگر ڈپٹی کمشنر صاحب نے انہیں یہاں بیٹھا دیکھ لیا تو وہ مجھے پر ناراض ہوں گے.اس خیال کے آنے پر اس نے مولوی صاحب کو وہاں سے بھی اُٹھا دیا اور کہا کہ کرسی خالی کر دیں.چنانچہ برآمدہ والی کرسی بھی چھوٹ گئی.باہر آ گئے تو لوگ چادریں بچھائے انتظار میں بیٹھے تھے کہ مقدمہ کا کیا فیصلہ ہوتا ہے.ایک چادر پر کچھ جگہ خالی دیکھی تو وہاں جا کر بیٹھ گئے.یہ چادر میاں محمد بخش صاحب مرحوم بٹالوی کی تھی جو مولوی محمد حسین صاحب بی سلسلہ کے والد تھے اور اُس وقت غیر احمدی تھے بعد میں وہ احمدی ہو گئے ، انہوں نے مولوی محمد حسین صاحب کو اپنی چادر پر بیٹھے دیکھا تو غصہ میں آگئے اور کہنے لگے.میری چادر چھوڑ ! تُو نے تو میری چادر پلید کر دی ہے.تو مولوی ہو کر عیسائیوں کی تائید میں گواہی دینے آیا ہے.چنانچہ
$1957 80 خطبات محمود جلد نمبر 38 اُس چادر سے بھی انہیں اٹھنا پڑا.اور اس طرح ہر جگہ اللہ تعالیٰ نے انہیں ذلیل کیا.تو دیکھو! یہ آیات بینات ہیں کہ کس طرح خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو ایک دشمن کے ہاتھوں سے بری فرمایا.پھر اس پر ہی بس نہیں سر ڈگلس کو خدا تعالیٰ نے اور نشانات بھی دکھائے جو مرتے دم تک انہیں یادر ہے اور انہوں نے خود مجھ سے بھی بیان کیے.1924ء میں جب میں انگلینڈ گیا تو انہوں نے یہ سارا قصہ مجھ سے بیان کیا.سرڈگلس کے ایک ہیڈ کلرک تھے جن کا نام غلام حیدر تھا وہ راولپنڈی کے رہنے والے تھے بعد میں وہ تحصیلدار ہو گئے تھے.معلوم نہیں وہ اب زندہ ہیں یا نہیں.اور زندہ ہیں تو کہاں ہیں.پہلے وہ سرگودھا میں ہوتے تھے.انہوں نے خود مجھے یہ قصہ سنایا اور کہا جب ڈاکٹر ہنری مارٹن کلارک والا مقدمہ ہوا تو میں ڈپٹی کمشنر صاحب گورداسپور کا ہیڈ کلرک تھا.جب عدالت ختم ہوئی تو ڈپٹی کمشنر صاحب نے کہا ہم فوراً گورداسپور جانا چاہتے ہیں.تم ابھی جا کر ہمارے لیے ریل کے کمرہ کا انتظام کرو.چنانچہ میں مناسب انتظامات کرنے کے لیے ریلوے اسٹیشن پر آ گیا.میں اسٹیشن سے باہر نکل کر برآمدہ میں کھڑا تھا تو میں نے دیکھا کہ سر ڈگلس سڑک پر ٹہل رہے ہیں.وہ کبھی ادھر جاتے ہیں اور کبھی اُدھر.اُن کا چہرہ پریشان ہے.میں اُن کے پاس گیا اور کہا صاحب ! آپ باہر پھر رہے ہیں میں نے ویٹنگ روم میں کرسیاں بچھائی ہوئی ہیں آپ وہاں تشریف رکھیں.وہ کہنے لگے منشی صاحب! آپ مجھے کچھ نہ کہیں میری طبیعت خراب ہے.میں نے کہا کچھ بتا ئیں تو سہی آخر آ کی طبیعت کیوں خراب ہوگئی ہے تا کہ اس کا مناسب علاج کیا جا سکے.اس پر وہ کہنے لگے جب سے میں نے مرزا صاحب کی شکل دیکھی ہے اُس وقت سے مجھے یوں نظر آتا ہے کہ کوئی فرشتہ مرزا صاحب کی طرف ہاتھ کر کے مجھ سے کہہ رہا ہے کہ مرزا صاحب گنہگار نہیں ، ان کا کوئی قصور نہیں.پھر میں نے عدالت کو ختم کر دیا اور یہاں آیا تو اب ٹہلتا ٹہلتا جب اُس کنارے کی طرف نکل جاتا ہوں تو وہاں مجھے مرزا صاحب کی شکل نظر آتی ہے اور وہ کہتے ہیں میں نے یہ کام نہیں کیا یہ سب جھوٹ ہے.پھر میں دوسری طرف جاتا ہوں تو وہاں بھی مرزا صاحب کھڑے نظر آئے ہیں اور وہ کہتے ہیں یہ سب جھوٹ ہے میں نے یہ کام نہیں کیا.اگر میری یہی حالت رہی تو میں پاگل ہو جاؤں گا.میں نے کہا صاحب! آپ چل کر ویٹنگ روم میں بیٹھیے.سپر نٹنڈنٹ پولیس بھی آئے ہوئے ہیں.وہ بھی انگریز ہیں اُن کو بلا
خطبات محمود جلد نمبر 38 81 $1957 لیتے ہیں.شاید اُن کی باتیں سن کر آپ تسلی پا جائیں.سپرنٹنڈنٹ صاحب پولیس کا نام لیمار چنڈ تھا.سر ڈگلس نے کہا انہیں بلوا لو.چنانچہ میں انہیں بلالا یا.جب وہ آئے تو سر ڈگلس نے اُن سے کہا دیکھو! یہ حالات ہیں.میری جنون کی سی حالت ہورہی ہے.میں اسٹیشن پر ٹہلتا ہوں اور گھبرا کر اُس طرف جاتا ہوں تو وہاں کنارے پر مرزا صاحب کھڑے نظر آتے ہیں اور اُن کی شکل مجھے کہتی ہے کہ میں بے گناہ ہوں مجھ پر جھوٹا مقدمہ کیا گیا ہے.پھر دوسری طرف جاتا ہوں تو وہاں کنارے پر مجھے مرزا صاحب کی شکل نظر آتی ہے اور وہ کہتی ہے کہ میں بے گناہ ہوں یہ سب کچھ جھوٹ ہے جو کیا جا رہا ہے.میری یہ حالت پاگلوں کی سی ہے.اگر تم اس سلسلہ میں کچھ کر سکتے ہو تو کرو ورنہ میں پاگل ہو جاؤں گا.لیمار چنڈ نے کہا اس میں کسی اور کا قصور نہیں آپ کا اپنا قصور ہے.آپ نے گواہ کو پادریوں کے حوالے کیا ہوا ہے.وہ لوگ جو کچھ اُسے سکھاتے ہیں وہ عدالت میں آکر بیان کر دیتا ہے.آپ اُسے پولیس کے حوالے کریں اور پھر دیکھیں کہ وہ کیا بیان دیتا ہے.چنانچہ اُسی وقت سر ڈگلس نے کاغذ قلم منگوایا اور حکم دے دیا کہ عبدالحمید کو پولیس کے حوالہ کیا جائے اور حکم کے مطابق عبد الحمید کو پادریوں سے لے لیا گیا اور پولیس کے حوالے کر دیا گیا.دوسرے دن یا اُسی دن اُس نے فوراً اقرار کر لیا کہ میں جھوٹ بولتا رہا ہوں.لیمار چنڈ کا بیان ہے کہ میں نے اُسے سچ سچ بیان دینے کے لیے کہا تو اُس نے پہلے تو اصرار کیا کہ واقعہ بالکل سچا ہے.مرزا صاحب نے مجھے ڈاکٹر ہنری مارٹن کلارک کے قتل کرنے کے لیے بھیجا تھا.لیکن میں نے سمجھ لیا کہ یہ شخص پادریوں سے ڈرتا ہے.چنانچہ میں نے کہا میں نے ڈپٹی کمشنر صاحب سے حکم لے لیا ہے کہ اب تمہیں پادریوں کے پاس نہیں جانے دیا جائے گا.اب تم پولیس کی حوالات میں ہی رہو گے.تو وہ میرے پاؤں پر گر گیا اور کہنے لگا صاحب! مجھے بچا لو.میں اب تک جھوٹ بولتا رہا ہوں.اس نے مجھے بتایا کہ صاحب ! آپ دیکھتے نہیں تھے کہ جب میں گواہی کے لیے عدالت میں پیش ہوتا تھا تو میں ہمیشہ ہاتھ کی طرف دیکھتا تھا.اس کی وجہ یہ تھی کہ جب پادریوں نے مجھے کہا کہ جاؤ اور عدالت میں بیان دو کہ مجھے مرزا صاحب نے ہنری مارٹن کلارک کے قتل کے لیے بھیجا تھا اور امرتسر میں مجھے فلاں مستری کے گھر میں جانے کے لیے ہدایت دی تھی یہ دوست مستری قطب الدین صاحب تھے جن کا ایک پوتا اس وقت جامعہ احمدیہ میں پڑھتا ہے ) تو میں نے کہا میں تو وہاں کے احمدیوں کو جانتا بھی نہیں.مجھے اس کا نام یاد نہیں رہے گا اس پر مستری صاحب کا نام کوئلہ کے ساتھ
$1957 82 خطبات محمود جلد نمبر 38 میری ہتھیلی پر لکھ دیتے تھے.جب میں گواہی دینے آتا تھا اور ڈپٹی کمشنر صاحب مجھ سے دریافت کرتے تھے کہ تمہیں امرتسر میں کس کے گھر بھیجا گیا تھا.تو میں ہاتھ اُٹھاتا تھا اور اُس پر سے نام دیکھ کر کہ دیتا تھا کہ مرزا صاحب نے مجھے فلاں احمدی کے پاس بھیجا تھا.غرض اُس نے ساری باتیں بتا دیں اور سر ڈگلس نے اگلی پیشی پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو بری کر دیا.تو دیکھو! یہ سب واقعات ہمارے لیے آیات بینات ہیں لیکن اللہ تعالیٰ نے سر ڈگلس کے لیے اور آیات بینات بھی پیدا کیں.ایک آیت پینہ یہ تھی کہ انہیں ٹہلتے ٹہلتے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تصویر نظر آتی تھی اور وہ تصویر کہتی تھی کہ میں بے گناہ ہوں.میرا کوئی قصور نہیں.پھر انہوں نے خود مجھے سنایا کہ ایک دن میں گھر میں بیٹھا ہوا تھا اور ایک ہندوستانی آئی سی.ایس آیا ہوا تھا.اس نے مجھ سے دریافت کیا کہ آپ اپنی زندگی کے عجیب حالات میں سے کوئی ایک واقعہ بتا ئیں تو میں نے اسے یہی مرزا صاحب والا واقعہ سنایا.میں یہ واقعہ سنا رہا تھا کہ بیرے نے ایک کار ڈلا کر دیا اور کہا باہر ایک آدمی کھڑا ہے جو آپ سے ملنا چاہتا ہے.میں نے کہا اُس کو اندر بلا لو.جب وہ شخص اندر آیا تو میں نے کہا نوجوان ! میں آپ کو جانتا نہیں.آپ کون ہیں؟ اس نوجوان نے کہا آپ میرے والد کو جانتے ہیں.آپ ان کے واقف ہیں.ان کا نام پادری وارث دین تھا.میں نے کہا ہاں! میں ابھی ان کا ذکر کر رہا تھا.وہ نوجوان کہنے لگا ابھی تار آئی ہے کہ وہ فوت ہو گئے ہیں.وارث دین ایک پادری تھا جس نے ڈاکٹر مارٹن کلارک کو خوش کرنے کے لیے اُس کی طرف سے یہ ساری کارروائی کی تھی.مگر خدا تعالیٰ نے ڈپٹی کمشنر صاحب پر حق کھول دیا اور خود جو گواہ تھا.اُس نے بھی اقرار کر لیا کہ جو کچھ کیا جا رہا ہے یہ سب جھوٹ ہے.مگر عین اُس وقت جب سر ڈگلس وارث دین کا ذکر کر رہے تھے اُس کے بیٹے کا وہاں آنا اور اپنے والد کی وفات کی خبر دینا عجیب اتفاق تھا.سر ڈگلس اپنی موت تک جس احمدی کو بھی ملتے رہے اُسے یہ واقعہ بتاتے رہے.انہوں نے مجھے بھی یہ واقعہ سنایا.چودھری فتح محمد صاحب اور چودھری ظفر اللہ خاں صاحب کو بھی یہ واقعہ سنایا.1924ء میں جب میں وہاں گیا تھا تو اُن کی صحت اچھی تھی.یہ بتیس سال قبل کی بات ہے.اب وہ ترانو.سال کی عمر میں فوت ہوئے ہیں.اس لحاظ سے 1924ء میں ان کی عمر اکسٹھ سال تھی.اس دفعہ جب میں انگلینڈ گیا تو میں نے انہیں بلایا تو انہوں نے معذرت کر دی اور کہا میں اب بڑھا ہو گیا ہوں اور
$1957 83 خطبات محمود جلد نمبر 38 بہت کمزور ہوں.اب میرے لیے چلنا پھرنا مشکل ہے.اب سنا ہے کہ وہ فوت ہو گئے ہیں.تو مجھے افسوس ہوا کہ موٹر ہمارے پاس تھی.ہم موٹر میں ہی انہیں منگوا لیتے یا ان کے گھر چلے جاتے.تو یہ آیات بینات ہیں جن کے ذریعہ اللہ تعالیٰ دنیا میں اپنے انبیاء کی سچائی ظاہر کرتا رہتا ہے.مومن کو چاہیے کہ وہ بچے معنوں میں مومن بننے کی کوشش کرے.اگر وہ حقیقی مومن بنے تو اللہ تعالیٰ ضرور غیب سے ایسے حالات پیدا کرتا ہے جن سے اُس کا ایمان تازہ ہوتا رہتا ہے.اور درحقیقت ایسے ایمان کے بغیر کوئی مزہ بھی نہیں.جس ایمان نے آنکھیں نہ کھولیں اور انسان کو اندھیرے میں رکھا اسکا کیا فائدہ.جو اِس جہاں میں اندھا رہے گا وہ دوسرے جہاں میں بھی اندھا رہے گا.اور جسے اس جہان میں آیات بینات نظر نہیں آتیں اُس کو اگلے جہان میں بھی آیات بینات نظر نہیں آئیں گی.اس دنیا میں آیات بینات نظر آئیں تو دوسری دنیا میں بھی آیات بینات نظر آتی ہیں.پس مومن کو ہمیشہ دعاؤں اور ذکر الہی میں لگے رہنا چاہیے کہ وہ دن اُسے نصیب ہو.اللہ تعالی اسلام اور اپنی ذات کی سچائی اُس کے لیے کھول دے اور اُس کو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا منور چہرہ اور خدا تعالیٰ کا نورانی چہرہ نظر آ جائے.جب یہ ہو جائے تو پھر رات اور دن اور سال، تکلیف کے سال ہوں یا خوشی کے سال ہوں اس کے لیے برابر ہو جاتے ہیں.اور چاہے کچھ بھی ہو ایسا آدمی ہمیشہ خوش رہتا ہے اور مطمئن رہتا ہے وہ کسی سے ڈرتا نہیں.جیسے حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر جب کرم دین بھین والا مقدمہ ہوا تو مجسٹریٹ ہندو تھا.آریوں نے اُسے ورغلایا اور کہا کہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو ضرور کچھ سزا دے اور اُس نے ایسا کرنے کا وعدہ بھی کر لیا.خواجہ کمال الدین صاحب نے یہ بات سنی تو وہ ڈر گئے.وہ کہنے لگے حضور ! بڑے فکر کی بات ہے.آریوں نے مجسٹریٹ سے کچھ نہ کچھ سزا دینے کا وعدہ لے لیا ہے.آپ کسی طرح قادیان تشریف لے چلیں اور گوداسپور میں مزید عرصہ نہ ٹھہر ہیں.اگر آپ گورداسپور میں ٹھہرے تو مجسٹریٹ نے کل آپ کو کوئی نہ کوئی سزا ضرور دے دینی ہے.حضرت صاحب نے فرمایا خواجہ صاحب! اگر میں قادیان چلا جاؤں تو وہاں سے بھی مجھے پکڑا جا سکتا ہے.پھر میں کہاں جاؤں گا ؟ مجسٹریٹ کو اختیارات حاصل ہیں.اگر قادیان گیا تو وہاں بھی
$1957 84 خطبات محمود جلد نمبر 38 وارنٹ آ سکتے ہیں.اور وہاں سے کسی دوسری جگہ گیا تو وہ بھی محفوظ جگہ نہیں ہوگی وہاں بھی وارنٹ کی جاری کیے جا سکتے ہیں.پھر میں کہاں کہاں بھاگتا پھروں گا ؟ خواجہ صاحب کہنے لگے حضور ! آریوں نے مجسٹریٹ سے کچھ نہ کچھ سزا دینے کا وعدہ لے لیا ہے.اُس وقت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام لیٹے ہوئے تھے.آپ اٹھ کر بیٹھ گئے اور فرمایا خواجہ صاحب ! آپ کیوں پریشان ہو گئے ہیں؟ خدا تعالیٰ کے شیر پر کون ہاتھ ڈال سکتا ہے؟ چنانچہ یہی ہوا.دو مجسٹریٹ تھے جن کی عدالت میں مقدمہ پیش ہوا.اُن دونوں کو بڑی سخت سزا ملی.ان میں سے ایک تو معطل ہوا اور ایک کا بیٹا ہو گیا اور چھت پر سے چھلانگ مار کر مر گیا.پھر اُس پر یہ اثر تھا کہ میں دتی جا رہا تھا کہ وہ لدھیانہ کے اسٹیشن پر مجھے ملا اور کہنے لگا.دعا کریں میرا ایک اور بیٹا ہے خدا تعالیٰ اُسے بچالے.مجھ سے بہت غلطیاں ہوئی ہیں.غرض حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وہ بات پوری ہوئی کہ خدا تعالیٰ کے شیر پر کون ہاتھ ڈال سکتا ہے.اور آریوں کو اُن کے مقصد میں کامیابی نہ ہوئی.پس اگر انسان اللہ تعالیٰ کا ہو جائے تو پھر دنیا کی ہر شے اُس کی ہو جاتی ہے.جیسے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو اللہ تعالیٰ.الهاماً فرمایا کہ جے توں میرا ہو رہیں سب جگ تیرا ہو 10 یعنی اگر تو خدا تعالیٰ کا ہو جائے تو سب جہاں تیرا ہو جائے گا دنیا کی کوئی چیز تمہیں ضر نہیں با سکے گی اور کوئی دشمن تمہارے خلاف کوئی شرارت نہیں کر سکے گا.پس تم اللہ تعالیٰ کے بنو اور دعا کرتے رہو تا کہ تم اللہ تعالیٰ کے ہو جاؤ اور اس طرح تم بھی امن میں آ جاؤ اور تمہاری اولاد اور دوسرے عزیز اور دوست بھی امن میں آجائیں.یاد رکھو! جب تک جماعت امن میں نہیں رہے گی تم بھی امن میں نہیں رہ سکتے.اور جماعت اُسی وقت امن میں رہ سکتی ہے جب تمہاری آئندہ نسل امن میں ہو.پس تم سب کے لیے دعائیں کرو.جماعت کے لیے ہی دعائیں نہ کرو بلکہ تمام بنی نوع انسان کے لیے بھی دعائیں کرو.پھر سب سے زیادہ مستحق دعا کے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہیں.اگر سب لوگ آپ پر ایمان لے آئیں تو دنیا نجات پا جائے.پس وہ دعا کریں جس سے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی فائدہ پہنچے
$1957 85 خطبات محمود جلد نمبر 38 اور آپ پر ایمان لانے والوں کی تعداد زیادہ ہو اور تا خدا تعالیٰ دنیا میں اسلام قائم کر دے اور ہر جگہ اسلام کی عزت اور توقیر ہو.1 : النور : 47 الفضل 30 مارچ 1957ء) 2 : السيرة النبوية لابن هشام - الجزء الثانی صفحه 875، 876 حزن الرسول على حمزة و توعده المشركين بالمثلة.دمشق 2005ء 3 : السيرة الحلبية جلد 3 صفحه 198 مطبوعه بيروت 1433ه 4 : الاستيعاب في معرفة الاصحاب جلد 3 صفحه 191 مطبوعه بيروت 1995ء 5 : السيرة الحلبية الجزء الثالث صفحہ 198 مطبوعہ بیروت 2012ء 6 : مسلم کتاب الایمان باب كَوْنِ الإِسْلَامِ يَهْدِمُ مَا قَبلَهُ 2 أوَلَمْ يَرَوْا أَنَا نَأْتِي الْأَرْضَ نَنْقُصُهَا مِنْ أَطْرَافِهَا (الرعد: 42) 8 تفسیر رازی جلد 29 صفحہ 307 مطبوعہ طہران 1328ھ 9 : يزيد: اسد الغابة کے مطابق حضور کے دور میں 100 افراد کا نام یزید تھا.ان میں سے ایک حضرت ابوسفیان کے بیٹے بھی تھے.یہ حضرت معاویہ کے بھائی اور حضرت ابوسفیان کے خاندان میں بہترین آدمی تھے.انہیں یزید الخیر کہتے تھے.ان کی کنیت ابو خالد تھی.فتح مکہ کے بعد ایمان لائے.غزوہ حنین میں شریک تھے.(اسد الغابة اردو جلد سوم صفحه 364 مطبوعہ لاہور 2011ء) 10 : تذکرہ صفحہ 390.ایڈیشن چہارم 2004 ء
$1957 86 10 خطبات محمود جلد نمبر 38 ایک اہم رؤیا اور اس کی تعبیر دوستوں کو چاہیے کہ بکثرت استغفار کو اپنا شعار بنا ئیں اور دعائیں کریں کہ اللہ تعالیٰ جماعت کو ہر شر سے محفوظ رکھے ، اپنے فضل سے اسے کامیابی بخشے اور اس کی تائید ونصرت فرمائے فرموده 29 مارچ 1957ء بمقام ربوہ ) تشهد ، تعو ذاور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: پرسوں یا اترسوں رات میں نے ایک ایسی رویا دیکھی ہے جو اپنے اندر ایک انذاری پہلو رکھتی ہے.لیکن ساتھ ہی اس کے انجام بخیر بھی معلوم ہوتا ہے.میں نے دیکھا کہ میں قادیان میں ہوں اور اپنے گھر کے اُس صحن میں ہوں جو مسجد مبارک کی اوپر کی چھت کے ساتھ ہے.جہاں امتہ الحی مرحومہ رہا کرتی تھیں اور جس میں میں نے پہلے بھی ایک دفعہ رویا میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو دیکھا تھا.اُس وقت دروازہ کے سامنے ٹاٹ کا کپڑا لٹکا کرتا تھا.رویا میں میں نے وہی ٹاٹ کا کپڑا لٹکا ہوا دیکھا مگر ٹاٹ کا وہ کپڑا ایک طرف کھسکا ہوا ہے.میں نے دیکھا کہ کچھ لوگ کھڑے ہیں جن کے متعلق میں سمجھتا ہوں کہ وہ غیر احمدی مخالف ہیں اور اُن کی نیت اچھی نہیں.اُس وقت میں نے ایسا محسوس کیا کہ گویا انہی غیر احمدیوں نے پہلے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر حملہ کیا تھا یا میں نے یہ سمجھا کہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا خلیفہ ہوں مجھ پر حملہ کیا تھا.بہر حال ذہن میں یہی
$1957 87 خطبات محمود جلد نمبر 38 آتا ہے کہ انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر حملہ کیا تھا.تب میں نے بلند آواز سے کہا کہ اے احمد یو! تمہاری نادانی اور غفلت میں یہ لوگ ایک دفعہ پہلے حملہ کر چکے ہیں.اب تم کو پتا ہے کہ یہ لوگ حملہ کی نیت سے آئے ہیں؟ اگر اب تم ان لوگوں کے شر کو دور کرنے کے لیے آگے نہ آئے تو تم خدا تعالی کی گرفت میں آؤ گے اور تمہیں سزا ملے گی.کیونکہ پہلی دفعہ تو تمہیں اس لیے معاف کر دیا گیا کہ انہوں نے تمہاری غفلت اور نادانی میں حملہ کیا تھا.مگر اب تم دیکھ رہے ہو کہ یہ لوگ تم پر حملہ کرنے کے لیے آئے ہیں اور بار بار میں اونچی آواز سے کہتا ہوں.اے احمد یو! آگے بڑھو.اے احمد یو! آگے بڑھو.میرے اس کہنے پر چند غیر احمدی کود کر اندر آگئے اور اُن میں سے ایک میرے پیچھے کی طرف چلا گیا اور دو میرے سامنے آگئے.جو شخص میرے پیچھے کی طرف گیا.اس نے اپنے ہاتھ میری کمر کے گرد ڈال لیے ہیں جسے پنجابی میں چٹھا مارنا کہتے ہیں.اس نے مجھے جتھا مارا ہوا ہے یعنی اس نے میری کمر کو بھی پکڑا ہوا ہے اور میرے ہاتھ بھی پکڑے ہوئے ہیں.اُس وقت میرے ہاتھ میں ایک پستول ہے.ان لوگوں کے گودنے سے پہلے میں نے پستول چلانے کی کوشش کی مگر لبلبی دبی نہیں.میں نے اُس کو دبانے کے لیے بہتیرا زور لگایا مگر وہ نہیں دبی.جب میرے زور لگانے کے باوجود بھی لہلی نہیں دبی تو میں نے رویا میں ہی سمجھا کہ یہ اصلی گولی والا پستول نہیں بلکہ کھلونا ہے لیکن ایسا کھلونا ہے جو آجکل نئے بنے ہوئے ہیں.یعنی وہ ایسا بھاری بنا ہوا تھا کہ بڑے بھاری پستول کے برابر معلوم ہوتا تھا.پس میں نے اپنے دل میں سمجھا کہ اگر لبلبی دبی نہیں تو کوئی حرج نہیں.میں اُس کا گند 11 جو بڑا بھاری ہے اُن کے سر پر ماروں گا اور یہ بے ہوش ہو جائیں گے.چنانچہ میں نے پستول کا گندا ان غیر احمدیوں کے سر پر مارنے کی کوشش کی جو گود کر میرے سامنے آگئے تھے.مگر چونکہ ایک دوسرے شخص نے میری کمر اور میرے ہاتھ پیچھے کی طرف سے پکڑے ہوئے تھے اس لیے جب میں گند امارتا تھا.تو چوٹ اچھی ہو طرح نہیں لگتی تھی.اس طرح وہ بیہوش ہو کر گرے تو نہیں مگر یوں معلوم ہوا جیسے نیم بیہوشی کی حالت طاری ہوگئی ہے.پیچھے کی طرف سے ہاتھ پکڑے ہوئے ہونے کی وجہ سے میرا ہاتھ کبھی کبھی اچٹ بھی جاتا ہے اور اس طرح اُن دو چار احمدیوں کو بھی جا لگتا ہے جو گو دکر اندر آگئے ہیں.میں اُن کو بچانے کی کوشش کرتا ہوں مگر بوجہ اس کے کہ میرے ہاتھ پکڑے ہوئے ہیں انہیں پستول کا گندا جا لگتا ہے جس کی وجہ سے وہ بھی بیہوش سے ہیں لیکن غیر احمدیوں سے کم بیہوش ہیں.غیر احمدی تو نیم بیہوش ہیں لیکن
$1957 88 خطبات محمود جلد نمبر 38 احمدیوں کی ایسی حالت ہے جیسے کوئی شخص پریشان سا ہوتا ہے.ان کو بھی چوٹ لگتی ہے مگر بہت ہلکی لگتی ہے ہے.اس رویا میں یہ دیکھنا کہ بعض غیر احمدیوں نے حملہ کا ارادہ کیا ہے اور وہ پہلے بھی حملہ کر چکے ہیں اپنے اندر خطرہ کا پہلو رکھتا ہے.پھر پستول کا نہ چلنا بھی خطرہ کا پہلو لیے ہوئے ہے.بعد میں ان غیر احمدیوں کا اندر گو دکر آ جانا اور ان میں سے ایک کا مجھے پیچھے سے پکڑ لینا اور اُس کی وجہ سے میں نے جو گند امارنے کی کوشش کی ہے اس میں کامیاب نہ ہونا یہ بھی خطرہ کا پہلو رکھتا ہے.پھر اس گندا کا کبھی کبھی کسی احمدی کو بھی لگ جانا یہ بھی خطرہ کا پہلو رکھتا ہے کہ اسی کشمکش میں بعض احمد یوں کو بھی دکھ پہنچ گیا.مگر آخر یہ انجام کہ وہ لوگ اپنے حملہ میں کامیاب نہ ہو سکے اور واپس چلے گئے یہ خوشی کا پہلو ہے.اس کے معنے یہ ہیں کہ جو مفسد لوگ حملہ کا ارادہ کریں گے وہ ناکام رہیں گے اور اس کا خمیازہ انہیں بھگتنا پڑے گا اور انہیں احمدیوں سے زیادہ تکالیف پہنچیں گی.پس اس موقع پر جماعت کے دوستوں کو چاہیے کہ وہ دعا کریں اور خدا تعالیٰ کے حضور میں استغفار کریں اور اُس سے کہیں کہ اے اللہ ! ہماری غفلت کی وجہ سے اگر دشمن احمدیت پر حملہ کرنے کی کوشش کرے تو تو خود اس کے بچانے کے سامان پیدا کر.اگر ہم اپنی کمزوری کی وجہ سے احمدیت کا پوری طرح دفاع نہ کر سکیں تو تو ہمیں معذور سمجھ اور اس دفاع کو خود مکمل کر دے.پھر انہیں یہ بھی دعا کرتے رہنا چاہیے کہ جو تھوڑا بہت شتر اس خواب میں بتایا گیا ہے اس سے بھی وہ ہمیں محفوظ رکھے اور فضل سے جماعت کو کامیابی بخشے اور اس کی نصرت اور تائید فرمائے.اور نہ قادیان میں کہ میں نے رویا میں اپنے آپ کو قادیان میں دیکھا اور نہ ربوہ میں کسی جگہ بھی کسی قسم کی اذیت احمدیت کو نہ پہنچے بلکہ دونوں طرف احمدی محفوظ رہیں.اور خواب میں جو کمزور سی چوٹ احمد یوں پر دکھائی گئی ہے وہ اور بھی کمزور ہو جائے بلکہ غائب ہی ہو جائے.اور وہ کسی قسم کے صدمہ کے بغیر دشمن کو بھگانے اور اسے ناکام رکھنے میں کامیاب ہو جائیں.اور خواب میں دشمن کو جو چوٹیں لگی ہیں اور ان کی وجہ سے وہ نیم بیہوش ہو گئے ہیں خدا تعالیٰ اسے بدل کر انہیں پورا بیہوش کر دے.گویا احمدی تو حملہ سے پوری طرح محفوظ ہو جائیں مگر خواب میں بعض غیر احمدیوں کا حملہ جو دکھایا گیا ہے اور وہ ناکام سا رہا ہے.خدا تعالیٰ اُس کو ظاہر میں بھی ایسا ہی کر دے.ہمارا حملہ تو کوئی چیز نہیں.حملہ تو فرشتوں نے کرنا ہے.خواب میں
$1957 89 خطبات محمود جلد نمبر 38 فرشتہ کام کیا کرتا ہے.اس لیے خواب میں جو میں نے دیکھا کہ میں حملہ آوروں کو پوری طرح ضرب لگانے میں کامیاب نہیں ہوا.اس کے معنے یہ ہیں کہ فرشتے ناکام رہے ہیں.اور فرشتوں کے ناکام ہونے کے معنے یہ ہیں کہ بعض دفعہ کچھ لوگ ایسے بھی نکل آتے ہیں جو تو بہ اور استغفار کرنے والے ہوتے ہیں اور وہ اپنے اس تو بہ اور استغفار کی وجہ سے بچ جاتے ہیں.لیکن جب اللہ تعالیٰ یہ دیکھتا ہے کہ اگر اس نے ان لوگوں کی تو بہ اور استغفار کو قبول کیا تو اس کے ماننے والے اور معتقدین کو زیادہ نقصان پہنچے گا تو وہ ان کی تو بہ اور استغفار کو نظر انداز کر دیتا ہے.وہ اپنے ماننے والوں کو مدد دیتا ہے اور نہ ماننے والوں کے لیے جو امن کا موقع ہوتا ہے اُسے ضائع کر دیتا ہے.پس اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ جماعت کی مدد کرے اور اگر اس کے اوپر کوئی حملہ ہونے والا ہے تو اُسے اس حملہ سے بچالے.اور ان کی تائید ایسے رنگ میں کرے کہ وہ کامیاب و کامران ہونے کی صورت میں نکلیں.اور اگر تھوڑی بہت اذیت احمدیوں کے لیے مقد رہے تو وہ اسے دور کر دے“.خطبہ ثانیہ کے بعد فرمایا: وو کچھ جنازے ہیں جو میں نماز جمعہ کے بعد پڑھاؤں گا.ایک جنازہ تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی ایک پرانی صحابیہ امام بی بی صاحبہ اہلیہ محمد اکبر صاحب ٹھیکیدار آف بٹالہ کا باہر پڑا ہے.وہ نماز کے بعد مسجد سے باہر جا کر پڑھاؤں گا.جو جنازے میں نماز کے بعد مسجد میں پڑھاؤں گا اُن میں سے ایک جنازہ فضل بی بی صاحبہ اہلیہ الہ بخش صاحب سکنہ قلعہ لال سنگھ ضلع گورداسپور کا ہے.مرحومہ صحابیہ تھیں اور جلسہ سالانہ کے موقع قادیان جانے والے پیدل قافلہ کا کھانا پکایا کرتیں اور ان کی خدمت کیا کرتی تھیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ میں سیالکوٹ کی طرف سے لوگ پیدل قادیان آیا کرتے تھے اور رستہ میں پڑنے والے دیہات کی جماعتیں ان کی ضیافت کیا کرتی تھیں.شکار ما چھیاں کی جماعت اس بات میں خاص طور پر مشہور تھی.دوسرا جنازه داروغه ابتہاج علی صاحب زبیری شاہجہان پوری کا ہے.مرحوم پرانے مخلص احمدی تھے.ان کے بیٹے احتجاج علی صاحب بھی جو لائلپور میں رہتے ہیں بڑے مخلص ہیں.تیسرا جنازہ حاجی فضل محمد صاحب کابلی اور ان کی بیوی اور بچہ کا ہے.حاجی صاحہ
$1957 90 خطبات محمود جلد نمبر 38 پشاور میں رہتے تھے.دشمن کسی بہانہ سے انہیں کا بل لے گیا اور وہاں جا کر انہیں اور ان کی بیوی اور بچہ کو شہید کر دیا.چوتھا جنازہ بابو فضل احمد صاحب ولد چودھری علی بخش صاحب ساکن بھینی پسوال کا ہے.یہ بھوپال والا ضلع سیالکوٹ کی جماعت کے پریذیڈنٹ تھے.تین چار سال ہوئے ربوہ آئے تو ان پر فالج کا حملہ ہوا.پھر وہ بھوپال والا واپس چلے گئے.وہاں ان پر دوبارہ حملہ ہوا اور اسی بیماری سے وہ فوت ہو گئے.میں نماز کے بعد ان سب کا جنازہ غائب پڑھاؤں گا.دوست میرے ساتھ شامل ہو جائیں.نماز کے بعد مسجد سے باہر جا کر دوسرا جنازہ پڑھاؤں گا.دوست اُس میں بھی شامل ہوں“.(الفضل 4 /ابريل 1957 ء ) 1 : كُندا: بندوق کا پچھلا حصہ
$1957 91 11 خطبات محمود جلد نمبر 38 اللہ تعالٰی اصْدَق الصادقین ہے وہ ہمیشہ سچوں کا ساتھ دیتا ہے جب کسی فرد یا قوم کے خلاف متواتر جھوٹ بولا جائے تو خدا تعالیٰ کی مدد اور نصرت اسے پہلے سے بھی زیادہ حاصل ہو جاتی ہے (فرمودہ 12 اپریل 1957ء بمقام ربوہ ) تشہد ،تعو ذاورسورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ کمزور ایمان لوگوں کے متعلق فرماتا ہے کہ يَحْسَبُونَ كُلَّ صَيْحَةٍ عَلَيْهِم - 1 ہر مصیبت کی آواز جو انہیں سنائی دیتی ہے اس کے متعلق وہ یہی سمجھتے ہیں کہ یہ مصیبت ان کے خلاف پڑے گی اور انہیں تباہ کر دے گی.اس کے مقابلہ میں ایک مومن کے سامنے جب بھی کوئی مصیبت آتی ہے وہ سمجھتا ہے کہ یہ غیر کے اوپر پڑے گی مجھ پر نہیں پڑے گی.میرے ساتھ تو میرا خدا ہے اور جب میرا خدا میرے ساتھ ہے تو مجھے کیا ڈر ہو سکتا ہے اور یہ مصیبت میرے اوپر کیوں پڑے گی؟ اگر کوئی ماں ڈنڈا لے کر باہر نکلے تو ہر عقلمند سمجھ سکتا ہے کہ وہ اپنے بچوں کو کیوں مارے گی.وہ تو اُن کے دشمنوں کو ہی مارے گی.بچے اگر روتے ہیں تو وہ بیوقوفی سے روتے ہیں ورنہ انہیں
$1957 92 خطبات محمود جلد نمبر 38 سمجھنا چاہیے کہ یہ اگر ہماری ماں ہے اور ڈنڈا لے کر آئی ہے تو ہمارے دشمنوں کے لیے لے کر آئی ہے ہمارے لیے نہیں.میں دیکھتا ہوں کہ کچھ دنوں سے ایسے کمزور ایمان لوگ اول تو اپنی عادت مستمرہ کے مطابق ہمارے خلاف جھوٹ بناتے ہیں اور پھر آپ ہی یہ نتیجہ بھی نکال لیتے ہیں کہ اگر کوئی نا پسندیدہ بات ہوئی ہو تو اس سے ڈر بھی ہونا چاہیے.چنانچہ پھر وہ ڈر اور خوف بھی ہماری طرف منسوب کر دیتے ہیں.مثلاً پچھلے دنوں ایک اخبار نے لکھا کہ ربوہ کے خزانہ پر پولیس نے چھاپا مارا ہے جس سے وہاں کے ذمہ دار قادیانیوں میں کافی تشویش پائی جاتی ہے اور ہر فر گھبرایا ہوا محسوس ہوتا ہے.اب تم سارے جانتے ہو کہ یہ اس نے صریح جھوٹ بولا ہے.نہ یہاں کوئی چھاپا مارا گیا ہے اور نہ کوئی ڈر رہا ہے.تم آرام سے آتے ہو.روزانہ درس سنتے ہو اور اطمینان سے واپس چلے جاتے ہو.مگر وہ لکھتا ہے کہ ربوہ کے لوگوں ن میں بڑی تشویش پھیلی ہوئی ہے.اور پھر لکھتا ہے کہ ان کا خلیفہ اسی پریشانی کی وجہ سے جابہ اور ربوہ کے درمیان چکر کاٹ کر دل بہلا رہا ہے.اب بتاؤ میں جابہ میں ہوں یا تمہارے اندر کھڑا ہوں.غرض وہ اپنی بات کو پکا کرنے کے لیے اپنے دل کا ڈر ہماری طرف منسوب کر رہے ہیں.حالانکہ اول تو یہ جھوٹ ہے کہ خزانہ پر کوئی چھاپا مارا گیا ہے.لیکن فرض کرو مارا گیا ہو تو جب ہم نے کوئی قانون شکنی ہی نہیں کی تو ہمیں ڈر کس بات کا ہو سکتا ہے.اگر کوئی ناجائز طور پر چھاپا مارنے والا ہے تو وہ گورنمنٹ کے ہاتھوں خود پکڑا جائے گا ہمیں ڈرنے کی کیا ضرورت ہے.ڈر تو کمزور مومنوں اور یا پھر بے ایمان لوگوں کے اندر پیدا ہوتا ہے.چنانچہ دیکھ لو! جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جنگِ اُحد میں تشریف لے گئے تو ایک موقع پر مسلمانوں کی بعض غلطیوں کی وجہ سے دشمن کو اس طرح ضرب لگانے کا موقع مل گیا کہ رسول کریمی صلی اللہ علیہ وسلم زخمی ہو کر اُن صحابہ کی لاشوں پر جا گرے جو آپ کی حفاظت کرتے ہوئے شہید ہوئے تھے اور پھر کچھ اور لاشیں آپ کے اوپر بھی آگریں.صحابہ نے اُس وقت گھبراہٹ میں یہ سمجھا کہ شاید آپ بھی شہید ہو گئے ہیں.چنانچہ یہ خبر فوراً مشہور ہو گئی.جب یہ خبر اپنوں اور بیگانوں میں پھیلی تو ابوسفیان نے بڑی خوشی منائی کہ چلو ! ہمارا یہ ایک ہی دشمن تھا جو مارا گیا ہے اور اس نے ایک بلند جگہ پر رے ہو کر کہا کہ کہاں ہے محمد ؟ اُس کا مطلب یہ تھا کہ ہم نے ان کو مار ڈالا ہے.اُس وقت تک
خطبات محمود جلد نمبر 38 93 $1957 صحابہ کوشش کر کے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشانی سے خود کا کیل نکال چکے تھے اور آپ کو ہوش آ چکی تھی اور انہیں یقین ہو چکا تھا کہ آپ زندہ ہیں اور وہ ابوسفیان کی بات کا جواب دے سکتے تھے.مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا چپ رہو.آپ نے خیال فرمایا کہ ایسا نہ ہو کہ دشمن پھر حملہ کر.جب اسے کوئی جواب نہ ملا تو کہنے لگا کہاں ہے ابوبکر ؟ حضرت ابو بکر کو بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اشارہ سے فرمایا کہ خاموش رہو.چنانچہ آپ بھی خاموش رہے.پھر ابوسفیان اپنے اس جوش میں کہنے لگا کہاں ہے عمر؟ حضرت عمر بڑے جو شیلے تھے.وہ جھٹ کہنے لگے کہ میں تمہارا سر توڑنے کے لیے یہاں موجود ہوں لیکن رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا عمر ا خاموش رہو.چنانچہ حضرت عمرؓ بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کی تعمیل میں خاموش رہے.اس پر ابوسفیان نے بلند آواز سے کہالَنَا عُزّى وَلَا عُزّى لَكُمُ اے مسلمانو! دیکھو مری بت ہمارے پاس ہے اور تمہارے پاس کوئی غربڑی نہیں.اب تمہیں کون بچا سکتا ہے؟ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب یہ بات سنی تو آپ نے فرمایا اب کیوں نہیں بولتے ؟ چونکہ آپ صحابہ کو بار بار حکم دے چکے تھے کہ اس وقت ہم کمزور اور زخمی ہیں اس لیے خاموش رہو تا ایسا نہ ہو کہ کفار مسلمانوں پر دوبارہ حملہ کر دیں اس لیے وہ اس بات پر بھی خاموش رہے.لیکن جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اب بولتے کیوں نہیں؟ تو صحابہ نے عرض کیا یا رَسُولَ اللہ ! ہم کیا جواب دیں؟ آپ نے فرمایا تم کہولَنَا مَوْلى وَلَا مَوْلَى لَكُمْ ابوسفیان نے کہا ہمارے پاس عربی بہت ہے مگر تمہارے پاس کوئی محب ہی نہیں.تم کہو ہمارے ساتھ ہمارا خدا ہے مگر تمہارے ساتھ کوئی خدا نہیں.2 غرض مومن کسی حالت میں بھی نہیں گھبراتا اور وہ ہر حالت میں اپنے خدا پر بھروسہ رکھتا ہے.چنانچہ دیکھ لو جنگِ اُحد میں بظاہر مسلمانوں کو شکست ہوئی تھی اور کفار کو فتح ہوئی تھی.لیکن نتیجہ کیا نکل آیا؟ مسلمان گھبرائے یا کفار گھبرائے؟ تاریخ اس بات پر شاہد ہے کہ مکہ والے ایسے گھبرائے کہ ابوسفیان اپنا سارالشکر لے کر مکہ جا پہنچا.ادھر مسلمان جو زخمی ہوئے تھے اور ایک موقع پر انہیں یہ خیال پیدا ہو گیا تھا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم شہید ہو گئے ہیں اُن کی یہ حالت ہوئی کہ چونکہ اُحد مدینہ کے قریب تھا ( اُحد اور مدینہ کے درمیان قریباً آٹھ میل کا فاصلہ تھا ) اس لیے جب یہ خبر مدینہ والوں کو پہنچی تو مدینہ کی عورتیں اور بچے میدانِ جنگ کی طرف بھاگے.گویا کفار کا جرنیل ابوسفیان جومردتھاوہ تو ڈر
$1957 94 خطبات محمود جلد نمبر 38 کر اپنے لشکر سمیت مکہ کی طرف جو تین سو میل کے فاصلہ پر تھا بھاگ گیا لیکن مسلمان عورتیں اور بچے میدانِ جنگ کی طرف دوڑ پڑے.یہ پتا لینے کے لیے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا کیا حال ہے؟ تو دیکھو! کتنا بڑا فرق ہے.چاہیے تو یہ تھا کہ مسلمانوں کی شکست کی خبر سن کر مدینہ کا شہر خالی ہو جاتا اور لوگ وہاں سے بھاگ جاتے لیکن بھاگا ابوسفیان.وہ اپنے لشکر کو لے کر مکہ جا پہنچا.اور بھا گا بھی اس ڈر کے مارے کہ کہیں مسلمان اسے مارنہ دیں اور اس کے مقابلہ پر مسلمان عورتیں دلیری سے اپنے بچوں کو لے کر میدانِ جنگ میں جا پہنچیں.غرض مسلمانوں کے حوصلے دیکھو اور کفار کی بزدلی دیکھو.اس کی وجہ یہی تھی کہ جو مسلمان نہیں تھے وہ تو یہ سمجھتے تھے کہ اس کا بُرا نتیجہ ہمارے لیے ہی نکلنا ہے لیکن مسلمان یہ سمجھتے تھے کہ یہ جو بظاہر شکست ہوئی ہے اس کا نتیجہ ہمارے لیے اچھا ہی نکلے گا.چنانچہ ان کی عورتیں اپنے بچوں کو ساتھ لے کر میدانِ جنگ میں پہنچ گئیں.تاریخ میں آتا ہے کہ ایک عورت جب دوڑتی ہوئی میدانِ جنگ کی طرف آ رہی تھی تو رستہ میں اسے ایک آدمی ملا جو اس کا واقف تھا.اُس عورت نے اس سے دریافت کیا کہ بتاؤ! رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا کیا حال ہے؟ اس عورت کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زندہ ہونے کی خبر نہیں پہنچی تھی.لیکن وہ صحابی میدانِ جنگ سے آ رہے تھے اور انہیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زندہ ہونے کا یقین تھا اُس لیے انہوں نے بجائے رسول کریمی صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق کوئی بات کہنے کے اس عورت سے کہا کہ بی بی ! مجھے بہت افسوس ہے کہ تیرا باپ اور تیرا خاوند اور تیرا بھائی تینوں اس جنگ میں شہید ہو گئے ہیں.اس پر وہ کہنے لگی میں نے کب تجھ سے اپنے باپ کے متعلق پوچھا تھایا میں نے کب تجھ سے اپنے بھائی کے متعلق سوال کیا تھایا میں نے کب تجھ سے اپنے خاوند کے متعلق دریافت کیا تھا.میں نے تو تجھ سے یہ دریافت کیا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا کیا حال ہے؟ مگر اس صحابی نے پھر وہی جواب دیا.آخر اس عورت نے تجھے خدا تعالیٰ کی قسم! تو کوئی اور بات نہ کر تو میری اس بات کا جواب دے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا کیا حال ہے؟ اُس نے کہا رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تو خدا تعالیٰ کے فضل سے خیریت سے ہیں.یہ جواب سن کر اُس عورت نے کہا جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خیریت سے ہیں تو باقی سب مصیبتیں اس خوشی کے مقابلہ میں بالکل بیچ ہیں.3 پھر وہ کہنے لگی بھائی ! مجھے یہ
$1957 95 خطبات محمود جلد نمبر 38 تو بتاؤ کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں کہاں؟ آپ لشکر سے ذرا ایک طرف ہٹ کر کھڑے تھے.اس صحابی نے اس طرف اشارہ کر کے کہا آپ اُدھر کھڑے ہیں.اس پر وہ عورت دوڑتی ہوئی ہے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچی اور محبت کے جوش میں آپ کے پاؤں میں گر گئی اور آپ کا دامن پکڑ کر اپنی آنکھوں سے لگا کر کہنے لگی کہ يَا رَسُولَ اللہ ! آپ بھی کیا کرتے ہیں؟ یہ فقرہ تو تھا تو مہمل اور بے معنی لیکن عورتیں غم کے موقع پر اس قسم کے فقرے بول لیا کرتی ہیں.اس سے اُس کا مطلب یہ تھا کہ آپ کی وفات کی خبر جو مشہور ہوئی ہے یہ گویا آپ نے ہی مشہور کرائی تھی حالانکہ یہ حادثہ اتفاقی طور پر پیش آیا تھا.لیکن وہ اپنے غم میں سب کچھ بھول گئی اور کہنے لگی يَارَسُولَ الله !.بھی کیا کرتے ہیں؟ اب دیکھو! خطرہ کی خبر سن کر مسلمانوں کا دل کتنا بڑھ گیا لیکن جو لوگ مومن نہیں تھے ان کا دل اتنا گھٹا کہ فتح پانے کے بعد بھی مکہ پہنچ گئے.یہی کیفیت ان لوگوں کی ہے.ان کے قول کے مطابق چھا پا تور بوہ پر مارا گیا ہے اور گھبرا یہ رہے ہیں اور پھر اس گھبراہٹ کو ربوہ والوں کی طرف منسوب کرتے ہیں حالانکہ وہ روزانہ اطمینان سے درس سنتے ہیں اور اب ہزاروں کی تعداد میں جمعہ میں بھی بیٹھے ہیں.مگر آپ لوگوں کو تو ربوہ میں رہنے کے باوجود اس خبر کا علم تک نہیں.اور ان لوگوں کو لاہور میں اس بات کا علم ہو گیا کہ ربوہ والے گھبرا رہے ہیں.اور میں یہاں مسجد میں خطبہ دے رہا ہوں اور وہ خبر شائع کرتے ہیں کہ احمدیوں کا خلیفہ پریشانی کی وجہ سے جابہ اور ر بوہ کے درمیان چکر کاٹ کر دل بہلا رہا ہے.حالانکہ حالت یہ ہے کہ میں طبیعت کی خرابی کے باوجود آج کل قرآن کریم کے ترجمہ کی اصلاح کر رہا ہوں.پھر دوسرے کاموں کے علاوہ قرآن کریم کی تلاوت بھی کرنی پڑتی ہے جس کی وجہ سے کوفت ہوتی ہے اور اس کا تقاضا ہے کہ میں کسی جگہ جا کر چند دن آرام کروں لیکن میں آرام نہیں کرتا تا کہ رمضان کے دنوں سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھایا جاسکے.مگر اس اخبار کا معتبر راوی ربوہ سے لکھتا ہے کہ خلیفہ صاحب بھاگ کر جابہ چلے گئے ہیں.تم جو یہاں بیٹھے ہو معتبر راوی نہیں.لیکن اس اخبار کا نامہ نگار معتبر راوی ہے.ان کی مثال بالکل اُس شخص کی سی ہے جو کسی عدالت میں چپڑاسی تھا.ایک دن وہ مجسٹریٹ کے پاس گیا اور کہنے لگا حضور ! مجھے دس دن کی رُخصت عطا کی جائے.مجسٹریٹ کہنے لگا آجکل
$1957 96 خطبات محمود جلد نمبر 38 کام کے دن ہیں کچھ دن ٹھہر جاؤ.پھر چھٹی مل جائے گی.اس پر وہ کہنے لگا حضور! مجھے کئی سال چھٹی مانگتے ہو گئے لیکن مجھے چھٹی نہیں ملی.جب بھی چھٹی مانگتا ہوں.یہی جواب دیا جاتا ہے کہ آجکل کام کے دن ہیں چند دن ٹھہر جاؤ.لیکن میں اب زیادہ انتظار نہیں کرسکتا.مجسٹریٹ نے کہا کیوں؟ میں بھی تو یہاں کام کر رہا ہوں.اگر تم چند دن کام کر لوتو کیا حرج ہے؟ اس پر وہ کہنے لگا بات یہ ہے کہ میری بیوی بیوہ ہو گئی ہے اور میرے بچے یتیم ہو گئے ہیں.آپ مجھے چھٹی کیوں نہیں دیتے ؟ ایسی نوکری کو میں نے کیا کرنا ہے کہ بیوی بیوہ ہو جائے اور بچے یتیم ہو جائیں اور پھر بھی چھٹی نہ ملے ؟ مجسٹریٹ کہنے لگا تیری عقل ماری گئی ہے.بیوی تو تب بیوہ ہوتی ہے جب اُس کا خاوند مر جائے مگر تو تو یہاں زندہ موجود ہے اور پھر بچے اس وقت یتیم ہوتے ہیں جب ان کا باپ مر جائے اور تو یہاں زندہ موجود ہے اور خود اپنے منہ سے کہہ رہا ہے کہ میرے بچے یتیم ہو گئے ہیں یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ تو زندہ موجود ہو اور پھر تیرے بچے بھی یتیم ہو جائیں اور تیری بیوی بھی بیوہ ہو جائے.چپڑاسی کہنے لگا میں اتنا بیوقوف تو نہیں ہوں یہ بات میری سمجھ میں بھی آتی ہے لیکن گھر سے ایک معتبر نائی آیا ہے اور اس نے بتایا ہے کہ میری بیوی بیوہ ہو گئی ہے اور میرے بچے یتیم ہوگئے ہیں.اسی طرح ربوہ سے بھی اس اخبار کا معتبر نامہ نگار لکھتا ہے کہ خلیفہ صاحب بھاگ کر جابہ پہنچ گئے ہیں اور بوہ والے تشویش اور گھبراہٹ کی وجہ سے دوڑے پھر رہے ہیں.انہیں چھپنے کے لیے کوئی جگہ نظر نہیں آتی.گویا ان کے پاس بھی معتبر نائی آگیا ہے.وہ معتبر نائی تو محض روایتی تھا مگر یہ سچ مچ کا معتبر نائی ہے جس کی رپورٹ اخبار میں چھپی ہے کہ ربوہ میں بڑی سخت تشویش پیدا ہو گئی ہے.ربوہ والے بھاگے پھر رہے ہیں اور خلیفہ صاحب جاہ میں پہنچ گئے ہیں.یہ بالکل اُسی معتبر نائی والا قصہ ہے.حالانکہ مومن کا طریق تو وہ ہوتا ہے جو صحابہ نے جنگِ اُحد کے موقع پر دکھایا کہ بجائے گھبراہٹ کے ان کا ایمان اور بھی بڑھ گیا اور عورتیں اور بچے دوڑتے ہوئے میدانِ جنگ میں پہنچ گئے.ایک اور صحابی حضرت انس بن نضر کی نسبت آتا ہے کہ جب مسلمانوں کو پہلے پہل جنگِ اُحد میں فتح نصیب ہوئی تو چونکہ انہوں نے رات سے کھانا نہیں کھایا تھا وہ ذرا پیچھے کی طرف ہٹ گئے.ان کے پاس دس بارہ کھجور میں تھیں انہوں نے خیال کیا کہ وہ ایک طرف ہو کر کھجوریں کھا لیں.چنانچہ وہ ٹہلتے بھی جاتے تھے اور کھجور میں بھی کھاتے جاتے تھے.وہ اس بات سے بے خبر تھے کہ بعد میں
$1957 97 خطبات محمود جلد نمبر 38 ہے ثمن نے مسلمانوں کی پشت پر سے حملہ کر کے ان کی فتح کو شکست میں تبدیل کر دیا ہے.لیکن حضرت عمر ان لوگوں میں سے تھے جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بچارہے تھے اور آپ کی کے آگے کھڑے ہو کر لڑ رہے تھے.صرف بارہ تھے جو اُس وقت رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس تھے اور اُن میں حضرت ابوبکر اور حضرت عمر بھی شامل تھے.جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نیچے گرے اور آپ کی شہادت کی خبر مشہور ہوئی اس صدمہ میں یہ خیال کر کے کہ شاید اس خبر کو سن کر مدینہ سے کچھ اور لوگ پہنچیں اور ان کے ساتھ مل کر ہم آپ کا بدلہ لیں حضرت عمرؓ میدانِ جنگ سے باہر آگئے اور ایک چٹان پر بیٹھ کر رونے لگ گئے.حضرت انس بن نضر اُس وقت ٹہلتے ٹہلتے کھجور میں کھا رہے تھے انہوں نے جب حضرت عمرؓ کو روتے دیکھا تو آگے بڑھ کر کہا عمر ! اسلام کو فتح ہوئی.اور تم رور ہے ہو؟ یہ رونے کا کونسا موقع ہے؟ یہ تو خوشی کا موقع ہے.حضرت عمرؓ کہنے لگے انس! شاید تمہیں پتانہیں کہ بعد میں کیا ہوا؟ انس نے کہا مجھے تو معلوم نہیں.حضرت عمرؓ نے جواب دیا کہ دشمن نے پے سے اچانک حملہ کر دیا اور اس حملہ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی شہید ہو گئے ہیں.حضرت انس کے پاس اُس وقت صرف ایک ہی کھجور تھی جو منہ میں ڈالنے کے لیے تیار تھے مگر انہوں نے جب یہ بات سنی تو کہا عمر! اگر یہ واقعہ جو تم نے بیان کیا ہے درست ہے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم شہید ہو گئے ہیں تب بھی یہ رونے کا کونسا وقت ہے.جدھر ہمارا محبوب گیا ہے اُدھر ہی ہمیں بھی جانا چاہیے.اگر ہمارا محبوب اس دنیا میں نہیں تو ہم نے اس دنیا میں رہ کر کیا کرنا ہے؟ ہمارا محبوب اگلے جہان چلا گیا ہے تو ہم بھی وہیں جائیں گے اس دنیا میں ہمارا کوئی کام نہیں.پھر انہوں نے اس کھجور کو جو اُن کے ہاتھ میں تھی نیچے پھینکا اور کہنے لگے میرے اور جنت کے درمیان سوائے تیرے اور کونسی روک ہے؟ اس کے بعد انہوں نے تلوار سونت لی اور میدانِ جنگ میں چلے گئے.کفار کا لشکر پیچھے ہٹ چکا تھا مگر ابھی میدانِ جنگ میں کھڑا تھا تا کہ موقع دیکھ کر دوبارہ حملہ آور ہو سکے.انس اس لشکر پر جا پڑے.وہ تین ہزار کا لشکر تھا اور یہ اکیلے تھے.انہوں نے غصہ میں انس پر اتنی ضر میں لگائیں کہ جب خدا تعالیٰ نے دوبارہ مسلمانوں کو فتح دی تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مسلمانوں کو جمع کر کے کہا جاؤ اور انس کو تلاش کرو.چنانچہ کچھ لوگ تلاش کے لیے گئے.لیکن انس نہ ملے.انہوں نے واپس آکر كها يَا رَسُولَ اللہ ! انس نہیں ملے، اُن کا کوئی پتا نہیں چلتا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے
$1957 98 خطبات محمود جلد نمبر 38 فرمایا پھر جاؤ اور تلاش کرو.چنانچہ وہ پھر گئے اور انس کو تمام میدانِ جنگ میں تلاش کیا.مگر پھر بھی وہ نہ ملے.وہ واپس آگئے اور انہوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا کہ يَارَسُولَ اللہ ! انس کا کوئی پتا نہیں لگا.آپ نے فرمایا: پھر جاؤ اور تلاش کرو.انس کے جسم کے اُس وقت ستر ٹکڑے ہو چکے تھے جو پہچانے نہیں جاتے تھے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اُن کے کسی قریبی رشتہ درا کو ساتھ لے جاؤ جو اُن کی لاش کو پہچان سکے.اس ارشاد کی تعمیل میں صحابہ انس کی بہن کو ساتھ لے گئے.ایک جگہ ایک انگلی کٹی پڑی تھی.اُن کی بہن نے اُسے پہچان لیا اور کہا یہ میرے بھائی کی انگلی ہے.آپ کی کٹی ہوئی انگلیاں بکھری پڑی تھیں، ٹانگیں الگ پڑی تھیں، ہا تھا الگ پڑے تھے اور دھڑا الگ کٹا پڑا تھا.آپ کی انگلی پر کوئی پر ان زخم تھا جس کی وجہ سے آپ کی بہن نے پہچان لیا کہ یہ میرے بھائی کی انگلی ہے.غرض لاش کے ٹکڑوں کو جمع کر لیا گیا اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو خبر دی گئی کہ انس کی لاش مل گئی ہے.4 تو مومن کو اول تو ایسے واقعات پیش نہیں آتے.لیکن اگر پیش آجائیں تو وہ خوش ہوتا ہے.گھبرا کر ادھر اُدھر بھاگا نہیں پھرتا.بلکہ مومن تو ایسے واقعات کو اللہ تعالیٰ کی نعمت سمجھتا ہے اور اس انتظار میں رہتا ہے کہ یہ نعمت آتی کب ہے.جنگِ اُحد میں دیکھ لو دشمن نے اپنی طرف سے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو مار دیا تھا مگر خدا تعالیٰ نے آپ کو بچالیا.اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر دشمنوں نے کئی حملے کیے.آپ کے خلاف عدالت میں نالشیں کیں اور آپ کو قتل کروانے کے منصوبے کئے اور کئی آدمی قتل کرنے کے لیے بھیجے مگر آپ خدا تعالیٰ کے فضل سے ہر دفعہ محفوظ رہے.میرے ساتھ بھی ایسے دس بارہ واقعات ہوئے ہیں.ایک دفعہ ایک عیسائی مجھے قتل کرنے کے لیے آیا.بعد میں اُس نے عدالت میں اقرار کیا کہ میں مرزا صاحب کو قتل کرنے کے لیے گیا تھا مگر آپ پھیرو پیچی گئے ہوتے تھے قادیان میں نہیں تھے.میں پھیرو پیچی گیا تا وہیں آپ کو قتل کر دوں.مگر وہاں جا کے میں نے دیکھا کہ ان کے پاس کوئی مہمان آیا ہوا ہے اور وہ ایک جگہ بیٹھا بندوق صاف کر رہا ہے (وہ مہمان نہیں تھا بلکہ میرے ایک کلرک بیٹی خاں صاحب مرحوم تھے.اس وقت میرے دفتر میں جو عبد اللطیف خاں کلرک ہے اور نھا کہلاتا ہے اس کے والد تھے ).میں اس نظارہ کو دیکھ کر حملہ کرنے کی جرات نہ کر سکا اور واپس آ گیا اور خیال کیا کہ پھر کوئی کی
$1957 99 خطبات محمود جلد نمبر 38 موقع ملا تو انہیں قتل کر دوں گا.لیکن جب میں واپس اپنے گاؤں گیا تو مجھے اپنی بیوی کی بدکاری کی خبر ملی ہے جس پر غصہ میں میں نے اُسے قتل کر دیا اور پولیس نے مجھے گرفتار کر لیا.تو اب دیکھو! وہ شخص مجھے قتل کی کرنے کے لیے آیا تھا لیکن خدا تعالیٰ نے خود میری حفاظت کی اور بچالیا اور عدالت نے جب اُس سے دریافت کیا تو کیوں مرزا صاحب کو قتل کرنے گیا تھا؟ تو اُس نے کہا میں نے مولوی ثناء اللہ صاحب امرتسری کی ایک تقریرینی تھی.اس میں انہوں نے کہا تھا کہ مرزا صاحب حضرت عیسی علیہ السلام اور دوسرے بزرگوں کی بڑی بہتک کرتے ہیں.اس پر مجھے جوش آ گیا اور میں انہیں قتل کرنے کے لیے چلا گیا.پھر یہاں اسی مسجد میں ایک شخص نے چاقو سے مجھ پر دو دفعہ وار کیا اور اب تک اس کے چاقو کا ایک ٹکڑا میرے جسم میں موجود ہے.ولایت میں ڈاکٹروں نے جو میرا ایکسرے لیا تھا اُس سے یہ بات ثابت ہے مگر اللہ تعالیٰ نے مجھے اس حملہ میں بھی محفوظ رکھا.یہاں جو ڈاکٹر علاج کے لیے آئے تو انہوں نے کہا تھا کہ چاقو کا کوئی حصہ جسم میں نہیں رہا مگر جرمنی کے ایک ڈاکٹر سے میں نے اس بات کا ذکر کیا تو اُس نے کہا یہ درست نہیں.چاقو کا سرا آب تک آپ کی کمر میں موجود ہے.میں نے کہا کیا آپ یہ بات لکھ کر دے سکتے ہیں؟ اس نے کہا مجھے لکھ کر دینے کی کیا ضرورت ہے میں ایکسرے آپ کو دے دوں گا.آپ اسے شائع کر دیں.پھر حقیقت خود بخو دظاہر ہو جائے گی.اسی طرح قادیان میں ہمارے گھر کی دیوار پر ایک شخص چڑھتا ہوا پکڑا گیا جو مجھ پر حملہ کرنے کی نیت سے آیا تھا.دیوارٹوٹی ہوئی تھی اور وہ اُس پر چڑھ رہا تھا کہ پکڑا گیا اور بعد میں اس نے اقرار کر لیا کہ اُسے بہکا کر بھیجا گیا تھا.اسی طرح ایک دفعہ دارالانوار کی کوٹھی میں میرے ایک بچے نے مجھے کہا کہ باہر ایک آدمی آپ کو ملنا چاہتا ہے.جب میں اس سے ملنے کے لیے باہر گیا تو عبدالاحد صاحب پٹھان جو اس وقت قادیان میں درویش ہیں وہاں موجود تھے وہ پہرہ پر مقر نہیں تھے.پہرہ پر خان میر صاحب ہوا کرتے تھے مگر وہ کہیں گئے ہوئے تھے.بہر حال عبدالاحد خان صاحب وہاں موجود تھے.جب وہ آدمی میری طرف بڑھا تو انہوں نے جھپٹ کر اُسے پکڑ لیا اور کہا یہ شخص قتل کی نیت سے آیا ہے.چنانچہ اُس کی تلاشی لی گئی تو اُس کی شلوار میں سے پھر انکلا.میں نے کہا خان صاحب! آپ کو کیسے پتا لگ گیا کہ اس کی شلوار میں چھرا ہے؟ وہ کہنے لگے ہم پٹھان لوگ عام طور پر اپنی شلوار میں ہی چھرارکھا کرتے ہیں
100 $1957 خطبات محمود جلد نمبر 38 اور جب وہ ہماری ٹانگ کو پچھتا ہے تو ہم اپنی ٹانگ کو اس طرح ہلاتے ہیں.اس شخص نے بھی اسی طرح کی حرکت کی تھی جس سے مجھے محبہ ہوا کہ اس کی شلوار میں پھر اہے اور میں نے اسے پکڑ لیا.تو اب دیکھو لوگ مجھے قتل کرنے کے لیے میرے گھر پر بھی آئے.دیواروں پر بھی انہوں نے چڑھنے کی کوشش کی، پھیر و پیچی میں بھی میرے پیچھے ایک شخص پستول لے کر پہنچا لیکن خدا تعالیٰ میری حفاظت کرنے والا تھا.اُس نے مجھے ہر دفعہ محفوظ رکھا.تو جن کی حفاظت خدا تعالیٰ خود کر رہا ہو اُن کو کس بات کی گھبراہٹ ہو سکتی ہے؟ گھبراہٹ تو کمزور ایمان والے کو اور یا پھر بے ایمان کو ہوتی ہے.جس شخص کو یہ یقین ہو کہ خدا تعالیٰ اس کی حفاظت کرتا ہے اُس کو گھبراہٹ نہیں ہوسکتی.وہ تو ہر وقت مطمئن رہتا ہے اور اسے تسلی ہوتی ہے کہ خدا تعالیٰ کے فرشتے رات دن اُس کی حفاظت کر رہے ہیں.پھر وہ کی اپنے چلن کو بھی اس طرح رکھتا ہے کہ کبھی قانون شکنی نہیں کرتا.آخر زیادہ خطرہ تو قانون شکن کو ہی ہو سکتا ہے لیکن مومن ہمیشہ قانون شکنی سے بچتا ہے اور خدا تعالیٰ کا بھی اسے یہی حکم ہے.اور جب وہ ہر وقت قانون شکنی سے بچتا ہے تو وہ جانتا ہے کہ اگر کوئی شخص اُس پر حملہ کرے گا تو جھوٹا ہی کرے گا.اور اگر وہ جھوٹا حملہ کرے گا تو میر اسچا خدا اُس کو پکڑلے گا اور دشمن مجھے نقصان نہیں پہنچا سکے گا.غرض قرآن کریم نے ہمیں پہلے سے بتا دیا ہے کہ يَحْسَبُونَ كُلَّ صَيْحَةٍ عَلَيْهِمْ.کمز ور ایمان والے لوگ دنیا کی ہر مصیبت کو اپنے اوپر سمجھ لیتے ہیں لیکن مومن ہر مصیبت کو غیر کے لیے سمجھتا ہے.جیسے ایک دفعہ مدینہ میں شدید بارش ہوئی تو لوگ گھبرائے ہوئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچے اور کہا یا رسول الله ! شدید بارش ہو رہی ہے اور اس کی وجہ سے ہماری جانیں اور ہمارے جانور اور ہماری فصلیں خطرہ میں ہیں.اگر بارش نہ کی تو تباہی آ جائے گی.آپ دعا فرمائیں کہ بارش رک جائے.اس پر آپ نے دعا فرمائی کہ اللهُمَّ حَوَالَيْنَا وَلَا عَلَيْنَا کہ اے اللہ! یہ بارش ہمارے اردگرد پڑے ہمارے اوپر نہ پڑے.چنانچہ خدا تعالیٰ نے وہاں سے بادلوں کو ہٹا دیا اور بارش مدینہ کے اردگرد پڑنے لگی.5 تو اب دیکھو! مومن میں تو یہ بھی طاقت ہے کہ وہ خدا تعالیٰ سے دعا کرے تو اس کی بلا کسی اور کے گلے پڑ جائے.جیسے مشہور ہے کہ طویلے 6 کی بلا بندر کے سر.جب کوئی شخص اس پر بلاء مسلط کرنا چاہتا ہے تو وہ چونکہ خدا تعالیٰ کی حفاظت میں ہوتا ہے اس لیے خدا تعالیٰ وہ بلا ء اس کے دشمن
$1957 101 خطبات محمود جلد نمبر 38 کے سر پر ڈال دیتا ہے اور وہ محفوظ ہو جاتا ہے.پس مومنوں کو ہمیشہ خدا تعالیٰ پر توکل کرنا چاہیے.خصوصاً رمضان کے مہینہ میں کیونکہ یہ دن یسے ہیں جن سے انسان زیادہ سے زیادہ فائدہ اُٹھا سکتا ہے اور خدا تعالیٰ کا قرب حاصل کر سکتا ہے.خدا تعالیٰ خود فرماتا ہے کہ میں اس مہینہ میں اپنے بندوں کے قریب ہو جاتا ہوں اور وہ جو دعا مجھ سے مانگیں میں اُسے سنتا ہوں.پس جو دن دعاؤں کے لیے مخصوص ہیں ان میں تو خصوصیت سے کسی قسم کی گھبراہٹ بھی مومن کے قریب نہیں آ سکتی.ضرورت صرف اس بات کی ہوتی ہے کہ انسان مصلی پر گر جائے اور اُس وقت تک سجدہ سے سر نہ اُٹھائے جب تک اُسے یقین نہ ہو جائے کہ خدا تعالیٰ میری اس دعا کو ضائع نہیں کرے گا.اور جب کوئی شخص خدا تعالیٰ پر اس قسم کا تو کل کر لیتا ہے تو خدا تعالیٰ بھی اس کی دعا کو قبول فرمالیتا ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ خدا تعالیٰ نے مجھے کہا ہے کہ أَنَا عِنْدَ ظَنِّ عَبْدِى بئی - 7 یعنی جب میرا کوئی بندہ مجھ پر پورا اعتبار کر کے میرے آگے گرتا ہے تو میں وہی کچھ کرتا ہوں جو وہ کہتا ہے.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ میں حاکم ہوں مگر پھر بھی جب میرا بندہ مجھے پر اس قسم کا تو کل کرتا ہے تو میں اُس کی بات مانے کو تیار ہو جاتا ہوں کیونکہ اُس نے اپنا سب کچھ میرے حوالہ کر دیا ہوتا ہے.پس رمضان کے دنوں میں دوستوں کو خاص طور پر دعائیں کرنی چاہیں.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ مخالفوں کی ناکامی ایک یقینی بات ہے لیکن کم سے کم اتنا نتیجہ تو ضرور پیدا ہوتا ہے کہ جو لوگ ہمارے ساتھ نہیں.اُن کے دلوں میں جماعت کے متعلق نفرت کے جذبات پیدا ہو جاتے ہیں.پس ہمیں خدا تعالیٰ سے دعائیں کرنی چاہیں کہ دشمن تو لوگوں میں ہمارے متعلق نفرت پھیلانے کی کوشش کر رہا ہے لیکن اے خدا! تو نفرت کی بجائے لوگوں کے دلوں میں ہماری محبت پیدا کر دے.قریباً ایک ماہ کی بات ہے میں نے مسجد میں آ کر نماز پڑھائی.تو ایک آدمی آگے آیا اور اس نے کہا میں نے بیعت کرنی ہے.میں نے دریافت کیا کہ آپ کہاں سے آئے ہیں؟ اس نے بتایا کہ میں ڈھاکہ سے آیا ہوں.میں نے کہا آپ تو پنجابی معلوم ہوتے ہیں.اُس نے کہا یہ درست ہے.میں رہنے والا تو قصور کا ہوں اور تاجر قوم میں سے ہوں لیکن اپنی ملازمت کے سلسلہ میں ڈھا کہ میں مقیم ہوں.میں ہوائی فوج میں ملازم ہوں اور فلائیٹ افسر ہوں.وہاں سے میں بیعت کرنے کے لیے آیا ہوں.بعد میں معلوم ہوا کہ اس کی تجارت بھی اچھی خاصی ہے.کیونکہ اب کے میں کراچی گیا تو وہ
$1957 102 خطبات محمود جلد نمبر 38 وہاں مجھے ملا اور اس نے مجھے بتایا کہ میری ایک بڑی مشین ہے.میں چاہتا ہوں کہ نوکری چھوڑ کر اپنا نی کاروبار کروں.آپ اس بارہ میں مجھے مشورہ دیں.میں نے کہا کہ اگر تو تمہاری مشین ایسی ہے کہ تم سمجھتے ہو کہ اس سے ملازمت سے زیادہ آمدن ہو سکتی ہے تو کچھ عرصہ تک رُخصت لے کر کام شروع کر دو.بعد میں استعفی دے دینا.بہر حال بیعت کے وقت میں نے اُس سے دریافت کیا کہ تمہیں بیعت کرنے کی تحریک کیسے ہوئی ؟ تمہارا شہر تو سخت مخالف ہے.وہ کہنے لگا مجھے بیعت کی تحریک ایک احراری لیکچرار لال حسین صاحب اختر کی ایک تقریر کی وجہ سے ہوئی ہے.میں نے کہا وہ تو سلسلہ کا سخت مخالفت ہے اُس کی تقریر کی وجہ سے آپ کو بیعت کی تحریک کیسے ہوئی ؟ وہ کہنے لگا میں تو اس کی تقریر کی وجہ سے احمدی ہوا ہوں.میں نے اس کی ایک تقریر سنی تھی.اس تقریر میں اُس نے احمدیت کو سخت گالیاں دیں.جب وہ گالیاں دے چکا تو میں نے سوچا کہ اب ان لوگوں کے پاس صرف گالیاں ہی رہ گئی لی ہیں.اگر کوئی دلیل ہوتی تو وہ دلیل بھی دیتا.چونکہ اس نے تقریر میں کوئی دلیل نہیں دی اس لیے وہ سچا تھی نہیں ہوسکتا.اس پر میں نے فیصلہ کر لیا کہ جب بھی مجھے پنجاب جانے کا موقع ملا میں آپ کی بیعت کر لوں گا.تو دیکھو اس مخالف لیکچرار نے تو چاہا تھا کہ ہمارے خلاف لوگوں میں نفرت پھیلائے لیکن ہوا یہ کہ اُس کی تقریر کی وجہ سے ایک فوجی افسر احمدی ہو گیا.اور اس نے سمجھ لیا کہ اس شخص کا گالیاں دینا ہی اس بات کی دلیل ہے کہ احمدیت کے خلاف اس کے پاس کوئی دلیل نہیں.اسی طرح ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے پاس ایک مولوی صاحب آئے.وہ شاعر بھی تھے اور بڑے مشہور ادیب بھی تھے.نواب صاحب رام پور نے انہیں اردو محاورات کی لغت لکھنے پر مقرر کیا ہوا تھا.انہوں نے بتایا کہ نواب صاحب رام پور کے پاس مشہور شاعر مینائی کے مسودات پڑے ہوئے تھے.انہوں نے اردو کی ایک بڑی بھاری لغت لکھی تھی.مگر ابھی اسے مکمل نہیں کیا تھا کہ وہ وفات پاگئے.نواب صاحب رام پور نے وہ مسودات مجھے دیئے ہیں اور کہا ہے کہ تم انہیں مکمل کرو.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے پوچھا کہ رام پور میں تو ہماری بڑی مخالفت ہے اور آپ وہاں کے رہنے والے ہیں.آپ کو بیعت کرنے کی طرف توجہ کیسے ہوئی ؟ وہ کہنے لگے مجھے کسی نے در نمین دی تھی.میں چونکہ خود شاعر ہوں میں نے آپ کا کلام پڑھا جس کی وجہ سے میں بہت متاثر ہوا کیونکہ اس میں محبت رسول بھری پڑی تھی.اس کے بعد مولوی ثناء اللہ صاحب وہاں آئے اور انہوں
103 $1957 خطبات محمود جلد نمبر 38 نے ایک تقریر کی.اس تقریر میں انہوں نے بتایا کہ مرزا صاحب اسلام کے سخت دشمن ہیں اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہتک کرتے ہیں.میں نے اُن کی تقریرین کر سمجھا کہ مرزا صاحب ضرور بچے ہیں ورنہ ان مولوی صاحب کو آپ کے متعلق اتنا جھوٹ بولنے کی کیا ضرورت تھی.جس شخص کے کی اندر اس قدر محبت رسول ہے کہ اُس کا کلام اس سے بھرا پڑا ہے اُس کے متعلق اگر کوئی مولوی کہتا ہے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا سخت دشمن ہے تو وہ یقیناً جھوٹا ہے.اور جس شخص پر وہ ہتک رسول کا الزام لگاتا ہے وہ سچا ہے ورنہ اس تقریر کرنے والے کو جھوٹے دلائل دینے کی کیا ضرورت تھی.وہ سچی بات کہتا کہ اگر چہ اس شخص نے در مشین میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بڑی تعریف کی ہے، خدا تعالیٰ کی بڑی تعریف کی ہے مگر ہے جھوٹا.اگر وہ ایسا کہتا تو پھر تو کوئی بات بھی تھی.لیکن اس نے سچائی کو بالکل ترک کر دیا اور کہا کہ یہ شخص خدا تعالیٰ اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق بدگوئی کرتا ہے.میں نے اس کی تقریر سنی تو فوراً سمجھ لیا کہ مرزا صاحب اپنے دعوے میں بچے ہیں اور میں آپ کی بیعت کے لیے تیار ہو گیا.تو حقیقت یہ ہے کہ بسا اوقات دشمن تو یہ کوشش کرتا ہے کہ مومنوں کے خلاف لوگوں میں جوش پیدا کرے لیکن بجائے جوش اُبھرنے کے وہ بات مومنوں کے حق میں مفید ہو جاتی ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ کا بھی ایک واقعہ ہے جو اس کی سچائی کی شہادت دیتا ہے.ایک شخص کسی ایسے قبیلے کا تھا جو اسلام کا سخت دشمن تھا وہ مسلمان ہو گیا تو لوگوں نے اس سے پوچھا کہ تو مسلمان کیسے ہو گیا ہے؟ تو وہ کہنے لگا اصل بات یہ ہے کہ میری فلاں قوم سے رشتہ داری تھی.ایک دفعہ میں اپنے ان رشتہ داروں کو ملنے کے لیے گیا.اُس قوم نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کچھ واعظ بھیجنے کی درخواست کی تھی اور درخواست میں یہ بھی کہا تھا کہ ہم مسلمان ہونا چاہتے ہیں.آپ نے چالیس حفاظ قرآن نے بھیجوا دئیے جن میں سے ایک حضرت ابو بکر کے وہ غلام بھی تھے جو ہجرت میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکر کے ساتھ تھے.وہ شخص کہنے لگا کہ جب میں اپنے رشتہ داروں کے پاس بطور مہمان ٹھہرا ہوا تھا تو یہ حفاظ بھی وہاں پہنچ گئے.ان لوگوں میں سے جس شخص نے حفاظ بھیجنے کے لیے کہا تھا اور عرب کا بڑار ئیس تھا وہ تو دیانتدار تھا اور بعد میں مسلمان بھی ہو گیا تھا لیکن اُس کے دوسرے رشتہ دار مخالف تھے.جب حفاظ وہاں پہنچے تو انہوں نے لوگوں کو جمع کر لیا ( جس طرح ہمارے ہاں گندم کی کٹائی
$1957 104 خطبات محمود جلد نمبر 38 کے موقع پر لوگ جمع کر لیے جاتے ہیں ) تا کہ سب مل کر ان حفاظ کو قتل کر دیں.وہ شخص کہنے لگا کہ میرے رشتہ دار میرے پاس بھی آئے اور انہوں نے کہا کہ آج ثواب کا موقع ہے ، ہم نے ان صابیور کو مارنا ہے ( مسلمان کو وہ صابی کے نام سے پکارا کرتے تھے ).میں نے کہا چلو! میں اُس وقت اسلام کو جانتا بھی نہیں تھا.سینکڑوں آدمی ان مسلمانوں کو قتل کرنے کے لیے جمع ہو گئے اور مقابلہ میں وہ صرف چالیس افراد تھے.کفار نے اُن پر تیر چلانے شروع کر دیے.مسلمان اپنے بچاؤ کے لیے ایک ہاڑی ٹیلہ پر چڑھ گئے.کفار نے جب دیکھا کہ اُن کے تیر رائیگاں جا رہے ہیں تو انہوں نے تجویز کی کہ کسی طرح انہیں دھوکا دے کر نیچے اُتارا جائے.چنانچہ ان کے افسر نے مسلمانوں کو پکار کر کہا کہ تم نیچے اتر آؤ ہم قسم کھاتے ہیں کہ تمہیں کچھ نہیں کہیں گے.جو صحابی ان حفاظ کے سردار تھے وہ تو اپنی جگہ پر اڑے رہے اور انہوں نے کہا کہ کفار کی قسم کا کوئی اعتبار نہیں ہوتا لیکن حضرت ابوبکر کے غلام دھوکا جی میں آگئے اور وہ نیچے آگئے.وہ مطمئن تھے کہ قسم کھانے کے بعد کفار انہیں کچھ نہیں کہیں گے.لیکن انہوں نے غداری کی اور انہیں اُترتے ہی نیزہ مار دیا.جب وہ اس نیزے کی وجہ سے نیچے گرے تو بے اختیار ان کی زبان سے یہ فقرہ نکلا کہ فُرتُ وَرَبِّ الكَعْبَةِ 8 - کعبہ کے رب کی قسم ! میں کامیاب ہو گیا.وہ شخص کہنے لگا مجھے یہ بات بہت عجیب معلوم ہوئی کہ اس شخص کو اپنے رشتہ داروں اور عزیزوں سے سینکڑوں میل دور ایک اجنبی ملک میں کسمپرسی کی حالت میں قتل کیا جارہا ہے اور اس کے ساتھ قسمیں کھانے کے باوجود دھوکا بازی کی گئی ہے.لیکن جب یہ زمین پر گرتا ہے تو کہتا ہے فُرْتُ وَرَبِّ الكعبة.کعبہ کے رب کی قسم !میں کامیاب ہو گیا.یہ کیا بات ہے؟ بہر حال اُس وقت تو میں خاموش رہا.مگر میرے دل میں یہ بات گڑ گئی.اس کے بعد میرے رشتہ داروں نے ان حفاظ کو باری باری قتل کیا اور ان میں سے جو شخص بھی نیچے گرا اُس نے یہی الفاظ کہے کہ فُزْتُ وَرَبِّ الكَعْبَةِ- کعبہ کے رب کی قسم ! میں کامیاب ہو گیا.جب میں گاؤں میں واپس آیا تو میں نے اپنے ایک رشتہ دار سے دریافت کیا کہ تم نے ان لوگوں کو باری باری نہایت بے رحمی سے قتل کیا ہے.وہ ایک اجنبی علاقہ کے رہنے والے تھے.ان کے بیوی بچے اور دوسرے رشتہ دار اُن سے سینکڑوں میل دور تھے مگر اُس وقت بجائے ہائے میری بیوی ! ہائے میرے بچو! کہنے کے وہ فُرْتُ وَرَبِّ الكَعْبَةِ کہتے ہیں.میں اس کا مطلب نہیں سمجھ سکا.میرے اُس رشتہ دار نے کہا یہ لوگ پاگل ہیں اور خیال کرتے ہیں کہ مرنے کے بعد انہیں بڑا
$1957 105 خطبات محمود جلد نمبر 38 انعام ملے گا اس لیے جب وہ اپنے دین کی تائید کرتے ہوئے مارے جاتے ہیں تو سمجھتے ہیں کہ ہم کامیاب ہو گئے.وہ شخص کہنے لگا اس نظارہ کا تصور کر کے میرے رونگٹے کھڑے ہو گئے اور میں نے ارادہ کر لیا کہ میں اب مدینہ جا کر ان لوگوں کے سردار کو دیکھوں گا.چنانچہ میں راستہ پوچھتا ہوا مدینہ آ پہنچا اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ کی بیعت کر لی.9 تاریخوں میں لکھا ہے کہ اُس پر اس واقعہ کا اتنا اثر تھا کہ جب بھی کسی مجلس میں وہ اس واقعہ کو بیان کرتا تو اُس کے بدن کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے.چنانچہ ایک دفعہ جب وہ یہ واقعہ بیان کر رہا تھا اُس نے کہا کہ تم اس وقت بھی میری قمیص اُٹھا کر دیکھ سکتے ہو کہ میرے جسم کے بال کھڑے ہیں.چنانچہ جب اُس کی قمیص اٹھائی گئی تو واقع میں اُس کے بال کھڑے تھے.تو دیکھو! اُس شخص کے رشتہ دار تو اُسے اپنے ساتھ اس غرض سے لے گئے تھے کہ اس کے اندر اسلام سے نفرت پیدا کریں.لیکن وہ سیدھا مدینہ پہنچا اور وہاں جا کر مسلمان ہو گیا.تو مومن ڈر اور خوف کی باتوں سے پریشان نہیں ہوتا بلکہ وہ اور زیادہ دلیر ہو جاتا ہے اور سمجھتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی مدد اور نصرت اور بھی زیادہ زور سے میرے شامل حال ہوگی.اس لیے اگر کوئی شخص جھوٹ بولتا ہے تو اس سے مجھے کوئی نقصان نہیں پہنچ سکتا.جیسا کہ میں نے بتایا ہے کہ ایک اخبار نے یہ خبر شائع کی ہے کہ صدرانجمن احمدیہ کے خزانہ پر حکومت نے چھاپا مارا ہے اور اس نے ضروری کاغذات اپنے قبضہ میں کر لیے ہیں جس کی وجہ سے ربوہ کے احمدی سخت گھبرائے پھرتے ہیں اور خلیفہ ڈر کے مارے جا بہ چلا گیا ہے.حالانکہ میں تمہارے درمیان خطبہ دے رہا ہوں.یہی اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ لوگ جھوٹ بول رہے ہیں اور جب وہ جھوٹ بول رہے ہیں تو اُن کی کسی جھوٹی خبر پر ہمیں گھبرانے کی کیا ضرورت ہے.خدا تعالیٰ ہمیشہ بچوں کے ساتھ ہوتا ہے.پس وہ بچے کامددگار بنے گا جھوٹے کا نہیں کیونکہ وہ اَصْدَقُ الصَّادِقِينَ ہے اور ہمیشہ سچوں کا ساتھ دیتا ہے.پھر جب کسی فرد یا قوم کے خلاف متواتر جھوٹ بولا جائے اور اس کی طرف غلط باتیں منسوب کی جائیں تو لازمی بات ہے کہ خدا تعالیٰ کی مدد اور نصرت بھی اُسے پہلے سے بہت زیادہ حاصل ہونی شروع ہو جائے گی.کیونکہ خدا تعالیٰ کہے گا کہ میری خاطر اور مجھ پر ایمان لانے کی وجہ سے ان لوگوں پر یہ مصیبت آئی ہے.اب میرا فرض ہے کہ میں ان کو بچاؤں.آخر تم نے کوئی
$1957 106 خطبات محمود جلد نمبر 38 چوری نہیں کی قتل نہیں کیا، خونریزی نہیں کی.صرف اتنا ہی کہا ہے کہ رَبُّنَا اللهُ اللہ ہمارا رب ہے اور اسی وجہ سے کہیں تم مارے جاتے ہوں.کہیں تمہارا پانی بند کر دیا جاتا ہے.کہیں تمہارے خلاف اخبارات جھوٹ بولتے ہیں.اور جب تمہیں صرف اس بات کی سزامل رہی ہے کہ تم نے کہا اللہ ہمارا رب ہے تو خدا تعالیٰ بے غیرت تو نہیں کہ چپ کر کے بیٹھ رہے.وہ کہے گا کہ ان لوگوں کو چونکہ میرا نام لینے کی وجہ سے سزا مل رہی ہے اس لیے انہیں دشمن سے بدلہ لینے کی ضرورت نہیں.میں خود ان کا بدلہ لوں گا کیونکہ یہ سزا ان کے اپنے کسی قصور کی وجہ سے نہیں بلکہ میرے ساتھ تعلق رکھنے کی وجہ سے ہے.پس میں خود ان کی حفاظت کروں گا اور ان کے اور ان کے دشمن کے درمیان حائل ہو جاؤں گا“.(الفضل 21 اپریل 1957 ء ) 1 : المنافقون : 5 " :2 صحیح بخاری کتاب المغازی باب غزوة احد میں ” الله مَوْلَانَا وَلَا مَولیٰ لَكُم" کے الفاظ ہیں.3 : سیرت ابن هشام جلد 3 صفحہ 105 مطبوعہ 1936ء 4 : السيرة النبوية لابن هشام الجزء الثاني صفحه 862شأن انس بن النضر دمشق 2005 ء 5 : صیح بخارى كتاب الاستسقاء باب الدعاء اذا كثر المطر حوالينا ولا علينا 6 : طویلے: اصطبل ، چوپاہوں کے باندھنے کی جگہ طویلے کی سزا بندر کے سر“ کہاوت یعنی قصور کسی کا اور مارا کوئی جائے.مصیبت کسی اور کی اور سر پڑی کسی دوسرے کے ( اردو لغت تاریخی اصول پر جلد 3 صفحہ 205 کراچی 2008ء) 7 : صحیح بخاری کتاب التوحيد باب قول الله تعالى ويُحَذِّركم اللهُ نَفْسَهُ 8 : صحیح بخاری کتاب المغازی باب غزوة الرجيع (الخ) 9 : سیرت ابن هشام جلد 2 صفحہ 971 مطبوعہ دمشق 2005ء
$1957 107 12 خطبات محمود جلد نمبر 38 مختلف ممالک میں اسلام اور احمدیت کی ترقی کے آثار تبلیغ کے جو نئے رستے کھل رہے ہیں دعا کرو کہ اللہ تعالیٰ اُن میں ہمیں کامیابی بخشے (فرموده 19 را پریل 1957ء بمقام ربوہ) تشهد ، تعو ذاور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: پچھلے ہفتہ میں نے پھر رویا میں اپنے آپ کو قادیان میں دیکھا ہے اور آج رات بھی میں نے ایسا ہی نظارہ دیکھا.آج رات جو نظارہ میں نے دیکھا ہے اس میں کچھ انذار کا بھی پہلو تھا.لیکن وہ انذار کا پہلو احمدیوں اور دوسرے مسلمانوں کے لیے نہیں بلکہ وہ انذار کا پہلو غیر مسلموں کے لیے تھا.مگر چونکہ اس کے بیان کرنے سے بات لمبی ہو جاتی ہے اس لیے میں اس بات کو آج بیان نہیں کرتا کیونکہ رمضان کی وجہ سے کچھ تو سارا دن قرآن کریم کی تلاوت کرنی پڑتی ہے اور جمعہ کے سوا باقی دنوں میں دوسرے کاموں کے علاوہ قرآن کریم کے ترجمہ پر نظر ثانی کرنے کا کام بھی ہوتا ہے اس سے بہت کوفت ہو جاتی ہے.پھر آج جمعہ پر آنے سے تھوڑی دیر قبل ہی ایک خاتون نے اپنی مصیبتوں کا ذکر شروع کر دیا.چونکہ اُس خاتون کا ہمارے خاندان سے پرانا تعلق ہے اس لیے مجھے اُس کی باتیں سننی پڑیں جس کی وجہ سے طبیعت میں اور بھی کوفت پیدا ہوئی.اس لیے آج میں مختصر آ ہی بتا تا ہوں.جیسا کہ میں نے پہلے بھی ایک خطبہ میں کہا تھا کہ تم بعض لوگوں کے مرتد ہو جانے سے گھبراؤ
$1957 108 خطبات محمود جلد نمبر 38 نہیں.قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ صاف فرماتا ہے کہ اگر تم سچے مومن ہو اور تم سے نکلنے والا واقعی مرتد ہے.تو اللہ تعالیٰ اس کے بدلے میں تمہیں ایک جماعت دے گا 1 اور میں نے بتایا تھا کہ چند لوگوں کے مرتد ہو جانے کے بعد اللہ تعالیٰ نے جماعت کو خاص طور پر ترقی دینی شروع کی ہے.چنانچہ فلپائن سے بہت سی بیعتیں آئی ہیں.اُس وقت میں نے بتایا تھا کہ 72 بیعتیں آچکی ہیں.اس کے بعد اور بیعتیں آئیں اور پھر نئی جگہوں سے آئیں.چنانچہ اب ان کی تعداد 78 ہو چکی ہے.اسی طرح ڈچ گی آنا سے اطلاع آئی ہے کہ وہاں ایک نئے شہر میں احمدی جماعت قائم ہوگئی ہے اور ان لوگوں میں اسلام اور احمدیت کے متعلق تعلیم حاصل کرنے کا بہت شوق ہے.پھر آج کیپ ٹاؤن (جنوبی افریقہ ) سے ایک یز عورت کی بیعت کا خط آیا ہے جو بہت لائق عورت ہے اور کئی کالجوں میں پڑھاتی رہی ہے.وہ لکھتی ہے کہ میں دیر سے اسلام لائی ہوئی تھی لیکن اس کے اظہار کا مجھے موقع نہیں ملا تھا.اب میں نے لوگوں کو بتادیا ہے کہ میں مسلمان ہوگئی ہوں اور میں نے اسلام کی تبلیغ بھی شروع کر دی ہے.اسی طرح وی آنا سے ایک تعلیم یافتہ عورت کا خط آیا ہے کہ وہ اسلام کی تحقیق کر رہی ہے.وہ عورت غالباً ڈاکٹر ہے.اسی طرح اور مختلف ممالک سے خدا تعالیٰ کے فضل سے احمدیت اور اسلام کی ترقی کی خبریں آ رہی ہیں.پچھلے ہفتے کوئی آٹھ دس بیعتیں امریکہ سے بھی آئی ہیں اور لکھا تھا کہ ایک نئی جگہ سے بھی بعض بیعتیں آئی ہیں جہاں حال ہی میں جماعت قائم ہوئی ہے.لیکن ہم ابھی تک امریکہ سے خوش نہیں کیونکہ گو وہاں نئی جماعتیں قائم ہورہی ہیں لیکن نے مبلغ نہیں جار ہے اور وہاں کا رئیس التبلیغ یہ شکوہ کرتا رہتا ہے کہ ہمیں کوئی چندہ نہیں آتا.حالانکہ اُن سے پہلے اس چندے سے دُگنا چندہ آتا تھا جو آب آتا ہے.یہ نئے رئیس التبلیغ 1944ء میں گئے ہیں اور جب سے یہ گئے ہیں کچھ ایسی نحوست پڑی ہے کہ وہاں کے مشن کے چندے کم ہو گئے ہیں اور احمدیوں کی تعداد بھی کم ہو گئی ہے.جب مفتی محمد صادق صاحب امریکہ گئے تھے تو اُس وقت سات ہزار سے زیادہ احمدی ہوئے تھے.پھر ان کے بعد ماسٹر محمد دین صاحب کے زمانہ کے بعض مخلص احمدی اب بھی شکا گو میں موجود ہیں.اب کچھ دنوں سے پھر کچھ حبشی نو مسلموں کے خطوط آنے شروع ہوئے ہیں کہ ان کے علاقہ میں احمدیت کی ترقی ہورہی ہے.لیکن میں نے یہ تجویز کیا ہے کہ امریکہ اتنا بڑا ملک ہے کہ کوئی انچارج مبلغ ایک جگہ بیٹھ کر نہیں کر سکتا.اس لیے اس ملک کے سب مشنوں کو الگ الگ کر دیا جائے.تمام مشنوں پر
$1957 109 خطبات محمود جلد نمبر 38 اور رئیس التبلیغ کا جھگڑا ختم کر دیا جائے.رئیس التبلیغ صاحب اپنے علاقہ میں تبلیغ کریں اور بتائیں کہ ان کی تبلیغ کی وجہ سے کتنے نئے احمدی ہوئے ہیں اور کتنا چندہ آیا ہے.اس سے پتا لگ جائے گا کہ ان کی کامشن چلنے لگ گیا ہے یا نہیں.اس وقت کام دوسرے مبلغ کرتے ہیں اور اُن کے مشنوں کی آمد رئيس التبليغ صاحب پر خرچ ہو جاتی ہے.پس میں نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ ہر مشن اپنے چندے سے اپنا کام چلائے.وہ اپنا چندہ اپنے علاقہ سے باہر نہیں بھیجے گا اور براہِ راست ہم سے تعلق رکھے گا.ہم اُس کی نگرانی کریں گے تا ہمیں ہر مشن کے متعلق پتا لگتا ر ہے کہ وہ کیا کام کر رہا ہے.اور براہ راست مرکز سے تعلق کی وجہ سے مشنوں کو بھی احساس ہو کہ ان کے کام کی نگرانی ہو رہی ہے.آخر امریکہ ہندوستان سے تین گنا وسیع ملک ہے اور اتنے بڑے ملک میں ایک جگہ بیٹھ کر سارے ملک پر نگرانی نہیں ہوسکتی.اور اگر ان کے لیے سارے ملک پر نگرانی کرنا مشکل ہے اور ہمارے لیے بھی نگرانی کرنا مشکل ہے.تو پھر ہم خود کیوں نگرانی نہ کریں.کیوں مبلغین میں سے ایک کا نام رئیس التبلیغ رکھ کر دوسروں کے اندر رقابت کا جذبہ پیدا کریں.وہ اپنی جگہ کا انچارج مشنری رہے.ہاں ! اگر ہمیں موجودہ انچارج مشنری یا کسی دوسرے مشنری کو اُس کے علاقہ سے باہر بھیجنا پڑے تو وہ چلا جائے.ورنہ ہر شخص اپنی اپنی جگہ کام کرے.بہر حال مختصر میں نے بتایا ہے کہ بیرونی ممالک میں خدا تعالیٰ کے فضل سے احمدیت کی ترقی کے آثار پیدا ہورہے ہیں اور اب کیپ ٹاؤن میں بھی ایک عورت نئی احمدی ہوئی ہے.ہم یہ تو نہیں کہ سکتے کہ وہاں یہ پہلی عورت احمدی ہوئی ہے کیونکہ اس سے پہلے بھی وہاں دو بھائی احمدی ہوئے تھے.ان میں سے ایک تو چند سال ہوئے فوت ہو گیا ہے اور دوسرا ابھی زندہ ہے اور مجھے پچھلے سفر یورپ میں لندن میں ملا تھا.ان میں سے ایک کا نام یوسف سلیمان تھا اور دوسرے کا نام عمر سلیمان ہے.یوسف سلیمان جو پرانے احمدی تھے وہ فوت ہو گئے ہیں.عمر سلیمان ابھی زندہ ہیں.جب میں انگلستان گیا تو مجھے معلوم ہوا کہ انہوں نے اپنے پاس سے خرچ دے کر اپنے مرحوم بھائی کی یادگار میں ہماری لندن مسجد کی ایک دیوار بنوائی ہے اور اس پر جلی حروف میں یہ لکھوایا ہوا ہے کہ یوسف سلیمان کی یاد میں یہ کتبہ لگایا جاتا ہے.یوسف سلیمان بہت مخلص تھے.عمر سلیمان اتنے مخلص نہیں تھے.لیکن اب وہ زیادہ تعلق رکھنے لگ گئے ہیں اور مخلص احمدی ہیں.غرض جیسا کہ میں نے بتایا ہے یہ دو بھائی
خطبات محمود جلد نمبر 38 110 $1957 کیپ ٹاؤن کے پرانے احمدی تھے.ان کے والد احمدی نہیں تھے.مگر یہ دونوں انگلستان میں احمدی ہوئے تھے.اب ایک انگریز عورت احمدی ہوئی ہے.اسے گویا تیسرا احمدی کہنا چاہیے لیکن چونکہ اب وہاں کوئی اور احمدی نہیں ہے اس لیے یہ کہا جا سکتا ہے کہ وہ پہلی احمدی عورت ہے.یوسف سلیمان صاحب 1946ء میں قادیان میں میرے پاس آئے تھے اور انہوں نے کہا تھا کہ میں کلکتہ سے ہو کر ساؤتھ افریقہ جاؤں گا.وہاں ہماری جائیداد ہمارے غیر احمدی رشتہ داروں کے قبضہ میں ہے اُس کی بھی نگرانی کروں گا اور تبلیغ بھی کروں گا.مگر وہ جاتے ہی فوت ہو گئے اور تبلیغ نہ کر سکے.یہ ساؤتھ افریقہ کے اُس خاندان سے تھے جس نے سب سے پہلے وہاں آزادی کی تحریک چلائی تھی.عمر سلیمان نے مجھے بتایا تھا کہ جب گاندھی جی ساؤتھ افریقہ گئے اور پہلی دفعہ انہیں سیاسی کام کرنا پڑا تو وہ میرے باپ کے پاس ہی ٹھہرے تھے اور انہی سے مل کر انہوں نے ایک انجمن بنائی تھی.اس کے بعد وہ ہندوستان آگئے اور یہاں آ کر وہ ایک بڑے لیڈر بن گئے.بہر حال جیسا کہ میں نے کی بتایا ہے وہاں اب ایک انگریز عورت احمدی ہوئی ہے اور اس نے لکھا ہے کہ میں نے تبلیغ شروع کر دی ہے.خدا کرے کہ اس کے ذریعہ وہاں ایک بڑی جماعت پیدا ہو جائے.وہاں ہندوستانیوں کی تعداد بہت زیادہ ہے.اگر وہ عورت ہندوستانیوں میں تبلیغ کرے تو اسے زیادہ کامیابی ہو سکتی ہے.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ہندوستانیوں کے دلوں میں انگریزوں کی حقارت پائی جاتی ہے اور انگریزوں کے دلوں میں ہندوستانیوں کی حقارت پائی جاتی ہے مگر انگریزوں کا ہندوستانیوں پر ابھی تک رُعب قائم ہے.اگر کوئی انگریز ہندوستانیوں میں تبلیغ کرے تو وہ فوراً ماننے کو تیار ہو جائیں گے.پس اگر وہ عورت ہندوستانیوں میں تبلیغ کرے تو ممکن ہے وہ کامیاب ہو جائے.مغربی افریقہ سے ایک اور خوشکن اطلاع یہ آئی ہے کہ وہاں کے ایک احمدی دوست جو بڑے رئیس ہیں اسمبلی کی ممبری کے لیے کھڑا ہونے کا ارادہ رکھتے ہیں.پہلے بھی وہ اسمبلی کے ممبر تھے مگر آب وہ اسمبلی ٹوٹ گئی ہے.نئے انتخاب ہونے والے ہیں.اس دفعہ ان کی پارٹی کو ان پر اتنا اعتبار ہے کہ وہ یہ بھی خیال کرتے ہیں کہ شاید وہ وزیر ہو جائیں.دوست ان کے لیے دعا کریں کہ وہ اپنے اس ارادہ میں کامیاب ہو جائیں.یہاں پاکستان میں تو ہمیں خالی ممبریاں ملنی بھی مشکل ہیں مگر ان علاقوں میں ہمارے دوست اگر چہ تعداد میں تھوڑے ہیں مگر وہ وزارتوں پر بھی ہاتھ مارنے کا ارادہ رکھتے ہیں.
$1957 111 خطبات محمود جلد نمبر 38 اگر وزارت میں ہمارا کوئی آدمی آ جائے تو وہ بڑا مفید ہو سکتا ہے.مثلاً آج ہی شائع ہوا ہے کہ غانا کیا حکومت نے ساری افریقی حکومتوں کو دعوت دی ہے کہ ہم سب ایک مشترکہ اجلاس کریں.اگر ہمارا کوئی کی آدمی وزارت میں آجائے تو دوسرے ممالک سے تعلقات پیدا کرنے کا موقع نکل سکتا ہے.اور بالکل ممکن ہے کہ ہمارے تعلقات سوڈان کے وزراء سے بھی ہو جائیں ، لیبیا کے وزراء سے بھی ہو جائیں، حبشہ کے وزراء سے بھی ہو جائیں، لائبیریا کے وزراء سے بھی ہو جا ئیں اور ان سارے علاقوں میں تبلیغ کے نئے رستے گھل جائیں.وہ لوگ ہیں تو بہت وسیع الخیال مگر لوگوں سے ڈرتے ہیں.مثلاً لیبیا کے بادشاہ نے وعدہ کیا تھا کہ میں اپنے ملک میں آپ لوگوں کا مبلغ آنے دوں گا.لیکن بعد میں لوگوں سے ڈر گیا.پس دعا کرو کہ تبلیغ کے جو نئے رستے گھل رہے ہیں.اللہ تعالیٰ ان میں ہمیں کامیابی بخشے اور ان کے علاوہ اور بھی نئے راستے کھولے.پھر دوست یہ بھی دعا کریں کہ ہمارا اردو ترجمہ القرآن عمدگی کے ساتھ شائع ہو جائے اور پھر تفسیر بھی لکھی جائے.قرآن کریم کے تراجم میں سے روسی زبان میں ترجمہ ہو چکا ہے اور اب امریکہ میں اس پر نظر ثانی ہورہی ہے.انگریزی میں بھی ترجمہ شائع ہو چکا ہے.ڈچ زبان میں بھی ترجمہ شائع ہو چکا ہے، جرمن میں بھی شائع ہو چکا ہے، پینش زبان میں بھی ترجمہ ہو رہا ہے.یہ پانچ تراجم ہو گئے.ان کے علاوہ پرتگیزی اور اٹالین زبانوں میں بھی تراجم ہور ہے ہیں.یہ دونوں ملا کر سات تراجم ہیں جو ہماری طرف سے یورپین زبانوں میں ہو چکے ہیں یا ہورہے ہیں.پھر ہندی اور گورکھی زبانوں میں بھی تراجم ہو رہے ہیں.اردو ترجمہ مکمل ہو جائے تو یہ دس تراجم ہو جائیں گے.انڈونیشین زبان میں بھی قرآن کریم کا ترجمہ ہو رہا ہے، سواحیلی زبان میں ترجمہ شائع ہو چکا ہے، لو گنڈ ا زبان میں بھی ترجمہ ہو رہا ہے ، اسی طرح اب مشرقی افریقہ سے یہ اطلاع آئی ہے کہ ٹانگا نیکا کے علاقہ کی زبان چونکہ دوسرے علاقوں سے مختلف ہے اس لیے وہاں کی زبان میں بھی ترجمہ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے.یہ سارے تراجم شائع ہو گئے تو پندرہ بیس تراجم ایسے ہوں گے جو ہماری جماعت کی طرف سے شائع ہوں گے اور ان کے ذریعہ سے جو لوگ مسلمان ہوں گے ان کا ثواب ساری جماعت کو پہنچے گا.کیونکہ یہ کام اسی طرح ممکن ہوا ہے کہ ہمارے ایک غریب سے غریب آدمی نے بھی اپنی تھوڑی بہت پونجی لا کے دے دی.
خطبات محمود جلد نمبر 38 112 $1957 ہماری جماعت کی حالت اُس بڑھیا عورت کی سی ہے جو سوت کی دوائیاں لے کر حضرت یوسف کو خریدنے کے لیے آئی تھی.قصہ مشہور ہے کہ جب حضرت یوسف علیہ السلام بازار میں فروخت ہونے کے لیے آئے تو ایک بڑھیا بھی آئی اور اس نے کہا میں نے بھی بولی دینی ہے.کسی نے کہا بی بی! بولی دینے کے لیے تیرے پاس روپیہ بھی ہے؟ اُس نے کہا روپیہ تو میرے پاس موجود نہیں.یہ دوسوت کی آٹیاں ہیں.اس نے کہا جب تیرے پاس روپیہ ہی نہیں ہے تو تو بولی دینے کے لیے کیوں آئی ہے؟ اس نے جواب دیا میں نے یہ سمجھا تھا کہ شاید اور کوئی بولی دینے والا نہ ہو اور مجھے ان دوسوت کی اٹیوں کے بدلہ میں ہی یوسف مل جائے.تمہاری مثال بھی اس عورت کی سی ہے.تم نے بھی اپنی سوت کی اٹیاں پیش کر دی ہیں.مگر یوسف کی خریدار بڑھیا عورت تو اپنی دوائیاں لے کر واپس چلی گئی تھی.اسے یوسف نہیں ملا تھا.مگر خدا نے تمہاری آئٹیوں کو قبول کر لیا ہے اور تم کو یوسف قرآن ملی گیا ہے.گو تمہارے چندے اور تمہاری قربانیاں یوسف کو خرید نے والی بڑھیا کی طرح ہی تھیں مگر خدا تعالیٰ نے تمہاری اٹیوں کو قبول کر لیا اور قرآن کریم کا یوسف تمہیں مل گیا لیکن اس بڑھیا کی آٹیوں کو ول نہ کیا گیا اور یوسف بادشاہ کے ایک وزیر کے گھر میں پہنچ گئے.مگر تمہارا یوسف تمہیں ایسا ملا ہے کہ مصر کے ایک شدید مخالف اخبار نے بھی لکھا کہ گزشتہ تیرہ سو سال سے مسلمان بادشاہ بھی موجود تھے، سلامی حکومتیں بھی تھیں مگر ان میں سے کسی کو اسلام پھیلانے کی وہ توفیق نہ ملی جو اس غریب جماعت کو ملی ہے.یہ محض اللہ تعالیٰ کا احسان ہے ورنہ من آنم کہ من دانم “ ہم اپنی حقیقت اور اپنی کمزوریوں کو خوب جانتے ہیں.اگر اللہ تعالیٰ کا فضل نہ ہوتا تو جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام نے فرمایا ہے کہ پھر خدا جانے کہاں یہ پھینک دی جاتی غبار 2 ہم ایک ذلیل مٹی کی طرح ہوتے یا کوڑا کرکٹ کی طرح ہوتے جس کو اُٹھا کر باہر پھینک دیا جاتا.مگر اللہ تعالیٰ نے اس مٹی اور کوڑا کرکٹ کو قبول کر لیا اور اسلام کی خدمت کی ذمہ داری اس غریب جماعت پر ڈال دی.اور پھر اس کو اس کام کی توفیق دی اور اسے کامیاب بھی کر دیا.اور پھر بڑے بڑے شدید دشمنوں سے یہ اقرار بھی کرالیا کہ در حقیقت اسلام کی خدمت کرنے والے یہی لوگ ہیں.مجھے ایک اور بات بھی یاد آ گئی کہ امریکہ سے وہ کتاب بھی آگئی ہے جس کا ذکر
$1957 113 خطبات محمود جلد نمبر 38 چودھری ظفر اللہ خان صاحب نے اپنی جلسہ سالانہ کی تقریر میں کیا تھا کہ ایک اٹالین عورت نے اسلام کے متعلق ایک ایسی کتاب لکھی ہے کہ کسی مسلمان نے بھی ویسی کتاب نہیں لکھی.اب اس کا ترجمہ انگریزی زبان میں ہوا ہے اور وہ چھپ کر آٹھ دس دن ہوئے یہاں پہنچ گیا ہے.ابھی اس کی ایک ہی جلد آئی ہے.اگر وہ لائبریریوں میں رکھی جائے اور انگریزی دان لوگ اسے پڑھیں تو ہوسکتا ہے کہ اور کتابیں بھی منگوالی جائیں اور پھر پاکستان میں اس کی اشاعت کی صورت نکل آئے.خطبہ ثانیہ کے بعد فرمایا: نماز کے بعد میں کچھ جنازے پڑھاؤں گا.(1) منظور احمد صاحب پٹواری مال لا ہور تپ دق سے ہسپتال میں فوت ہو گئے ہیں اور ہسپتال والوں نے انہیں لاوارث سمجھ کر نہ تو ان کا جنازہ پڑھا اور نہ ہی ان کی قبر بنائی.پیدائشی احمدی تھے.(2) عبدالحفیظ خان صاحب ابن عبد الغفور خاں صاحب پشاور.تپ دق سے ڈاڈر سینی ٹوریم میں بیمار تھے.وہیں فوت ہوئے.لکھنے والا لکھتا ہے کہ ہمیں یہ بھی علم نہیں کہ اُن کا جنازہ کسی نے پڑھا بھی ہے یا نہیں.(3) عبدالغفور خاں صاحب ریٹائرڈ ہیڈ ماسٹر کراچی فوت ہو گئے ہیں.دیر سے بیمار تھے.رمضان المبارک کی وجہ سے جنازہ میں بہت کم لوگ شریک ہو سکے.(4) والدہ صاحبہ سلطان محمود صاحب انور کھاریاں ضلع گجرات فوت ہوگئی ہیں بارش کی وجہ سے زیادہ احباب جنازہ میں شریک نہ ہو سکے.میں ان چاروں کا جنازہ جمعہ کی نماز کے بعد پڑھاؤں گا.سب دوست میرے ساتھ الفضل 27 اپریل 1957 ء ) نماز جنازہ میں شریک ہوں“.1 : يَا يُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا مَنْ تَرْتَدَّ مِنْكُمْ عَنْ دِينِهِ فَسَوْفَ يَأْتِي اللهُ بِقَوْمٍ يُحِبُّهُمْ وَيُحِبُّونَةٌ (المائدة: 55) 2 : در مشین اردو.زیر عنوان "مناجات اور تبلیغ حق
$1957 114 13 خطبات محمود جلد نمبر 38 افریقہ، امریکہ اور یورپ میں نئی مساجد کی تعمیر اور ان کی اہمیت پاکستان کی احمدی جماعتوں کو بھی چاہیے کہ وہ اپنے اپنے مقامات پرنئی مساجد تعمیر کرنے کی کوشش کریں (فرموده 3 مئی 1957ء بمقام ربوہ ) تشهد ، تعو ذاور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: اس ہفتہ جو خبریں باہر سے آئی ہیں ان میں سے بعض تو ابھی ایسی حالت میں ہیں کہ ان کے ذکر کرنے کا ابھی موقع نہیں آیا.لیکن خوشخبریاں ایسی ہیں کہ ان کے ذکر کرنے میں کوئی حرج نہیں.مشرقی افریقہ میں ہماری کچھ مساجد بنی تھیں.میں نے شیخ مبارک احمد صاحب رئیس التبلیغ کو ان کے فوٹو بھیجنے کے لیے لکھا تھا.چنانچہ انہوں نے ان مساجد کے فوٹو بھیج دیئے ہیں.ان میں سے ایک مسجد ایسی ہے جس کے متعلق مجھے یاد پڑتا ہے کہ وہ ساٹھ سال کی بنی ہوئی ہے جبکہ سید محمود اللہ شاہ صاحب مرحوم وہاں رہتے تھے.مگر معلوم نہیں شیخ مبارک احمد صاحب کو کیا ہوا کہ اب تک انہوں نے اس کا فوٹو نہیں بھیجا تھا.لکھنے پر انہوں نے اس کا فوٹو بھیجا ہے.مساجد کے جو فوٹو مشرقی افریقہ سے آئے ہیں اُن میں سے ایک نیروبی کی مسجد کا -
$1957 115 خطبات محمود جلد نمبر 38 ایک مسجد ممباسہ میں بنی ہے جس کا فوٹو ہے.یہ مسجد ایک عورت نے بنوائی ہے جو بیوہ ہے.اُس نے کی ساٹھ ہزار روپیہ اس کی تعمیر کے لیے دیا ہے.یہ عورت ہمارے سابق امیر کی جواب فوت ہو چکے ہیں بیوہ ہے.اس نے اپنی ساری پونچھی جو اُس کے خاوند نے اپنے بعد چھوڑی تھی اس سے ممباسہ کی مسجد بنوا دی ہے.چونکہ مسجد پر اس سے زیادہ رقم خرچ ہوتی تھی اس لیے بعض اور احمدیوں نے بھی اپنا چندہ اس کی مد میں جمع کرایا اور بعض لوگوں نے قرضہ دے دیا.اس طرح ممباسہ میں ایک بڑی عالی شان مسجد بن گئی.پھر ان میں دار السلام کی مسجد کا فوٹو بھی ہے جو نئی بنی ہے.یہ مسجد بھی لوکل احمد یوں نے مقامی طور پر چندہ جمع کر کے بنوائی ہے.یہ بہت ہی شاندار مسجد ہے.فوٹو بتاتا ہے کہ مسجد کے افتتاح کے موقع پر انگریز، سکھ، ہندو اور عیسائی لوگ اس کے صحن میں بیٹھے شیخ مبارک احمد صاحب کی تقریرین رہے ہیں.جس میں انہوں نے بتایا کہ ہم اس مسجد کا افتتاح کرتے ہیں تا کہ اس میں خدا تعالیٰ کا نام لیا جائے.ہمارے مبلغ امری عبیدی جو یہاں سے پڑھ کر گئے ہیں وہ بھی وہاں موجود ہیں.شیخ مبارک احمد صاحب بھی فوٹو میں ہیں، مولوی محمد منور صاحب، مولوی محمد ابراہیم صاحب کمپالہ والے بھی ہیں.غرض سارے مبلغ نظر آ رہے ہیں.جو لوگ صحن میں بیٹھے ہوئے ہیں فوٹو سے ان کی تعداد سینکڑوں کی معلوم ہوتی ہے.بہت سے لوگ تو کرسیوں پر بیٹھے ہیں اور بعض آدمی شوق سے زمین پر بیٹھے ہوئے ہیں اور مسجد کی عمارت بڑی عالی شان نظر آ رہی ہے.کل ایک خبر یہ بھی آئی ہے کہ کمپالہ میں بھی ایک مسجد تیار کی جا رہی ہے.اس مسجد کے بننے میں دیر ہوئی تو میں نے مبلغ انچارج سے دریافت کیا تھا کہ یہ بنتی کیوں نہیں؟ جس کے جواب میں انہوں نے یہ اطلاع بھجوائی ہے کہ وہاں گورنمنٹ نے ایک قطعہ زمین مسجد کی تعمیر کے لیے احمدیوں کو دیا تھا اور حسب قاعدہ گورنمنٹ نے رسمی طور پر اس کی قیمت بھی طلب کی تھی.وہ قیمت احمدیوں نے ادا کر دی تھی لیکن اس کے بنانے میں دیر ہوگئی تو جماعت کے دوستوں نے مجھے لکھا کہ یہ ٹکڑا زمین کا اچھی قیمت پر پک سکتا ہے.اگر اجازت دیں تو اس کو بیچ کر کوئی اور قطعہ زمین حاصل کرنے کی کوشش کی جائے.میں نے کہا فروخت کر دو اور اس کی قیمت سے اور زمین لے کر مسجد بنا لو.اب انہوں نے اطلاع دی ہے کہ مسجد کے لیے زمین مل گئی ہے اور نقشہ بنا کر پیش کر دیا گیا ہے.منظوری کے بعد مسجد کی تعمیر شروع کر دی جائے گی.یہ مسجد مل کر مشرقی افریقہ میں چار مشہور شہروں میں چار بڑی مساجد ہو جاتی ہیں.
خطبات محمود جلد نمبر 38 6 116 $1957 نیروبی میں ایک ممباسہ میں ایک، دار السلام میں ایک کمپالہ میں ایک ، ان کے علاوہ کئی اور چھوٹی چھوٹی مساجد بھی ہیں.ویسٹ افریقہ میں بھی ہماری کئی مساجد ہیں مگر معلوم ہوتا ہے کہ وہاں شاندار مساجد بنانے کا رواج نہیں.البتہ سالٹ پانڈ میں جہاں ہمارا گولڈ کوسٹ کا انچارج مبلغ رہتا ہے ہماری جو مسجد ہے وہ بہت بڑی اور شاندار ہے.ملک کا وزیر اعظم اس کے افتتاح کی تقریب میں آیا تھا اور اس نے کہا تھا کہ جس قلیل رقم میں احمدیوں نے یہ مسجد بنالی ہے گورنمنٹ بھی نہیں بنا سکتی اور ایسی شاندار مسجد ہمارے سارے ملک میں کوئی نہیں.اس کی وجہ یہ تھی کہ ہمارے مبلغوں نے خود پاس کھڑے ہو کر کام کی نگرانی کی تھی اور مزدوروں کے ساتھ مل کر کام کیا تھا اور ان سے کام کروایا تھا جس کی وجہ سے وہ مسجد بہت تھوڑی رقم میں بن گئی.اب بعض اطلاعات سے پتا چلتا ہے کہ سیرالیون میں بھی بعض جگہوں پر مساجد بن رہی ہیں.امریکہ سے بھی اطلاع آئی ہے کہ وہاں غالباً ڈیٹائیٹ میں ایک مسجد بن رہی ہے.وہاں کوئی نومسلم جوڑا تھا.انہوں نے اس مسجد کے لیے اپنی زمین دی تھی اور کچھ جائیداد بھی دی تھی کہ اسے فروخت کر کے مسجد کی تعمیر کر لی جائے.کل اطلاع آئی ہے کہ یہ مسجد تکمیل کو پہنچنے والی ہے.کاش! ہمارے ملک میں بھی لوگوں کو مساجد بنانے کا شوق ہوتا.یہاں مساجد بنانے کا بہت کم شوق ہے.اس کی وجہ یہ معلوم ہوتی ہے کہ ملک کے چپہ چپہ پر پرانے بادشاہوں اور امراء نے اتنی مساجد بنادی ہیں کہ اب مسلمانوں کونئی مساجد تعمیر کرنے کا شوق نہیں رہا.وہ مساجد کو ویران پڑا دیکھتے ہیں تو کہتے ہیں پہلی مساجد ہی ویران پڑی ہیں ہم اور کیا بنا ئیں.حالانکہ ہماری جماعت کے سامنے یہ سوال نہیں.ہمارے پاس جو پہلے مساجد تھیں وہ بھی لوگوں نے چھین لی ہیں.مثلاًا لا ہور میں گمٹی والی مسجد احمدیوں سے چھین لی گئی.بعد میں بڑی مصیبت سے قریشی محمد حسین صاحب مرحوم مفرح عنبری والوں نے احمدیوں سے پیسہ پیسہ چندہ جمع کر کے دہلی دروازہ کے باہر ایک مسجد بنوائی.اب وہ مسجد بھی اتنی چھوٹی ہو گئی ہے کہ اس میں ساری جماعت ساتی نہیں.بلکہ جب میں جایا کرتا تھا تو میں دیکھتا تھا کہ لوگوں نے دور دور تک سائیکل رکھے ہوئے ہوتے تھے اور دوست سڑکوں پر نماز پڑھ رہے ہوتے تھے.میں نے جماعت کو تحریک کی کہ اور مسجد بناؤ.گو وہ مسجد ابھی تک بنی نہیں لیکن اس کے لیے زمین خرید لی گئی ہے.اس کے ساتھ کچھ اور زمین بھی نکلی تھی جس کے خریدنے کے لیے صدر انجمن احمدیہ سے
$1957 117 خطبات محمود جلد نمبر 38 کوئی سمجھوتا کیا جا رہا تھا کہ اس کے خریدنے کے لیے قرضہ دے دیا جائے لیکن معلوم ہوتا ہے وہ سمجھوتا ہوا نہیں کیونکہ میرے پاس کوئی ایسی رپورٹ نہیں آئی.مساجد کی تعمیر کے سلسلہ میں ہمارے ملک میں اب تک یہ مرض باقی ہے کہ جب تک شاہی مسجد کی طرح شاندار مسجد نہ ہو لوگ بناتے نہیں.حالانکہ مسجد کے لیے تو ایک چھتر ہی کافی ہے.اگر جماعت احمد یہ لاہور ایک چھتر ہی بنالیتی تو مسجد بن جاتی.لیکن انہوں نے ابھی تک چھتر بھی نہیں بنایا.امیر صاحب آہستہ آہستہ خطبات میں چندہ کی تحریک کرتے رہے اور روپیہ جمع کرتے رہے.کل مجھے ایک دوست نے بتایا ہے کہ لاہور کے ایک دوست نے اس کے لیے بیس ہزار روپیہ چندہ دیا ہے.اس دوست کے پاس جب کارکن چندہ لینے کے لیے گئے تو انہوں نے دریافت کیا کہ ان سے کس قدر رقم کی اُمید کی جاتی ہے؟ چندہ لینے والوں نے سمجھا کہ یہ امیر آدمی ہیں اگر ہم نے تھوڑا مانگا تب بھی جی غلطی ہوگی اور زیادہ مانگا تب بھی غلطی ہوگی.آخر کار انہوں نے دس ہزار کی رقم طلب کی.اس متمول احمدی دوست نے فوراً چیک بک نکالی اور بیس ہزار روپے کا چیک دے دیا اور کہا میری طرف سے اتنی رقم اس مد میں شامل کر لو.ہمارے ملک میں یہ ایک مثال ملتی ہے کہ متمول لوگوں میں سے ایک دوست نے خاصی رقم مسجد کی تعمیر کے لیے دی ہے.میں سمجھتا ہوں کہ ہماری جماعت میں ایسے بہت سے دوست ہیں جن کے لیے ایک وقت میں پندرہ پندرہ ، ہمیں نہیں ہزار روپیہ دینا کوئی مشکل امر نہیں.اس وقت خدا تعالیٰ کے فضل سے ڈھا کہ، کراچی اور پنجاب میں ہیں تھیں تاجر ایسے ہیں جو ایک وقت میں پندرہ پندرہ ، بیس بیس ہزار چندہ دے سکتے ہیں اور سارے مل کر تین چار لاکھ روپیہ دے سکتے ہیں اور اس طرح بڑے بڑے شہروں میں مساجد بن سکتی ہیں.یوں مقامی طور پر بھی اگر جماعتیں جدو جہد کریں تو اپنے اپنے مقامات پر مسجدیں بنا سکتیں ہیں.چنانچہ راولپنڈی میں پچھلے فسادات یعنی 1953 ء میں لوگوں نے ہماری مسجد کو جلا دیا تھا.بعد میں پتا لگا کہ مقامی جماعت نے قریبا سترہ ہزار روپیہ خرچ کر کے اسے دوبارہ تعمیر کرلیا ہے اور نئی مسجد کے لیے زمین بھی خرید لی ہے.تو مقامی طور پر بھی لوگوں میں تحریک کی جائے تو ان میں بڑا جوش پیدا ہو جاتا ہے.ایک دفعہ میں اسی جگہ بیٹھا ہوا تھا کہ ایک غریب بیوہ عورت کا لڑکا مجھے ملا.یہ ولایت سے آنے کے بعد کی بات ہے.اس نے مجھے دو سو روپیہ کے نوٹ دیئے اور کہا یہ رقم میری ماں نے
$1957 118 خطبات محمود جلد نمبر 38 بھیجی ہے اور کہا ہے کہ میں نے اپنے کپڑے بیچ کر یہ رقم مہیا کی ہے اس کو کسی مسجد میں لگا دیا جائے.اس سے میں نے سمجھا کہ مسجدوں کے لیے لوگوں کے حوصلے بہت وسیع ہوتے ہیں.اگر اس ذریعہ سے جماعت میں تحریک کی جائے تو یقیناً بڑی مدد حاصل ہوسکتی ہے.بلکہ ہماری جماعت پر دوسرے لوگوں کو بھی اعتبار ہے جس کی وجہ سے اگر احمدی دوست اپنے غیر احمدی احباب سے بھی رقوم حاصل کرنا چاہیں ہی تو وہ ایسا کر سکتے ہیں.مجھے یاد ہے ایک دفعہ میں نے غیر ملکوں میں مساجد تعمیر کرنے کی تحریک کی.جب میں مسجد سے باہر نکلا تو ایک احمدی دوست ایک غیر احمدی کو میرے پاس لائے اور کہا یہ دوست باہر سے آئے ہیں.انہوں نے آپ کی غیر ملکوں میں مساجد بنانے کی تحریک سنی تھی اور اس کے نتیجہ میں یہ تیرہ سو روپیہ جمع کر کے لائے ہیں اور کہتے ہیں کہ میں اور بھی دوں گا.تو اس طرز پر اگر خدا تعالیٰ چاہے تو دوسرے لوگوں کے دلوں میں بھی تحریک پیدا ہو جاتی ہے.لیکن یہ تحریک انفرادی ہونی چاہیے جماعت کی طرف سے نہیں ہونی چاہیے.کیونکہ جماعت کے لیے یہ مناسب نہیں کہ وہ سر نیچا کر کے کسی اور سے مانگے.لیکن افراد اگر اپنے غیر احمدی دوستوں سے چاہیں تو وہ بیشک ایسا کر سکتے ہیں.جیسا کہ میں نے بتایا ایک غیر احمدی دوست خود آئے اور ایک بڑی رقم دے گئے کہ اسے کسی مسجد میں لگا دیا جائے.اس کی ذمہ داری نہ جماعت پر آتی ہے اور نہ اس سے جماعت کا سر نیچا ہوتا ہے.لیکن اگر دوست جماعت کے نام پر مانگنے لگ جائیں تو یہ غلط طریق ہوگا.ہماری جماعت خدا تعالیٰ کے فضل سے اتنی بڑی ہے کہ اگر وہ اپنی ذمہ داری کو سمجھے تو مسجدوں کے تمام کام خود آسانی سے کر سکتی ہے.جیسا کہ میں نے بتایا ہے ہماری جماعت میں خدا تعالیٰ کے فضل سے پندرہ ہیں آدمی ایسے ہیں جو ایک وقت میں پندرہ پندرہ ، بیس بیس ہزار روپیہ دے سکتے ہیں اور اسے آسانی کے ساتھ دو تین سالوں پر پھیلا سکتے ہیں.میں یہ نہیں کہتا کہ اس سے ان کے سرمایہ پر اثر نہیں پڑے گا.لیکن وہ اسے اس طرح پھیلا سکتے ہیں کہ اس کا اثر کئی سالوں پر پڑ جائے.ہندوستان میں بھی بعض ایسے احمدی دوست ہیں لیکن وہاں کے لوگوں پر ہندوستان کی حکومت نے ظلم کر کے اتنے بڑے ٹیکس لگا دیئے کہ انہیں اپنی تجارتیں نیلام کرنی پڑیں.ایک احمدی دوست کے متعلق مجھے معلوم ہوا کہ ان کے ایک بھائی جو اب فوت ہو گئے ہیں ان پر حکومت نے
119 $1957 خطبات محمود جلد نمبر 38 دو لاکھ روپیہ ٹیکس لگایا اور اسے وصول کر لیا.پھر ان کے مرنے کے بعد ان کے اس بھائی سے جو زندہ ہیں پونے دولاکھ اور وصول کرلیا اور یہ کہہ دیا کہ پہلا ٹیکس گزشتہ پانچ سال کا تھا اور اس سے پہلے پانچ سالوں کا یہ ٹیکس ہے جو اب لیا جا رہا ہے.اس طرح ان کی تجارت کو بالکل کچل کر رکھ دیا.اپنے پاس سے ہی بناوٹی حساب بنالیا اور اس کے نتیجہ میں اس قدر رقم بطور انکم ٹیکس حاصل کر لی کہ اس بیچارے کو اپنی تجارت نیلام کرنا پڑی.ہندوستان میں بھی اور پاکستان میں بھی انکم ٹیکس والوں کو وسیع اختیارات حاصل ہیں جن کی وجہ سے وہ ایسا کر لیتے ہیں.بہر حال اس ظلم کے باوجود ہندوستان میں بھی بعض متمول دوست ایسے ہیں جو پندرہ پندرہ ، ہمیں نہیں ہزار چندہ ایک وقت میں دے سکتے ہیں.ان کی تجارت بہت اچھی ہے.اور پاکستان میں تو ہیں ہی.کراچی میں ایک دوست نے باتوں باتوں میں مجھے سے ذکر کیا کہ دو چار لاکھ روپیہ تو میں بھی لگا سکتا ہوں اور کہا کہ کراچی میں جو میری جائیداد ہے اسے میں ٹھیک طرح استعمال کروں تو پچاس ہزار روپے ماہوار آ سکتا ہے.گویا اس کی سالانہ آمد چھ لاکھ روپیہ ہو جاتی ہے اور تین سال میں اٹھارہ لاکھ روپیہ آ جاتا ہے.تو دیکھ لو اس دوست کے لیے پندرہ بیس ہزار ایک وقت میں دے دینا کونسا مشکل امر ہے.ہماری جماعتوں کو چاہیے کہ وہ اس رقم کی متمول دوستوں میں تحریک کر کے چندہ اکٹھا کریں اور مساجد کی تعمیر کریں.بعض بڑے بڑے شہروں کے دوستوں میں بخل بھی پایا جاتا ہے.مثلاً سیالکوٹ ہے اس میں اب تک ہماری نئی مسجد بن جانی چاہیے تھی.لیکن انہوں نے نہیں بنائی.اسی طرح لاہور میں نئی مسجد بن جانی چاہیے تھی لیکن وہ ابھی تک بننے میں نہیں آئی.ملتان سے بھی جماعت کے امیر آئے تھے اور انہوں نے مجھے بتایا تھا کہ میں تو مسجد بنانے کے لیے تیار ہوں لیکن مجلس عامہ کے ممبران میرے ساتھ متفق نہیں ہوئے.میں نے بڑی کوشش کر کے ایک مکان کا انتظام کر لیا ہے لیکن ممبران مجلس عاملہ کے تائید نہ کرنے کی وجہ سے میں مجبور ہوں.پریذیڈنٹ ہونے کی وجہ سے مجھے اس کے اتفاق کی ضرورت ہے.میں نے کہا مجبور میں بھی ہوں.قانون شکنی میں بھی نہیں کر سکتا.ناظر اعلیٰ سے بات کرو ممکن ہے وہ کوئی صورت نکال دیں.مسجد تو ضرور بنی چاہیے.اسکے متعلق اگر کوئی قانون ہے تو اگر چہ وہ مجھے یاد نہیں لیکن اس کو توڑنا میرا کام نہیں.اس میں سے راستہ نکالنا ناظر اعلی کا کام ہے.ان کے پاس چلے جاؤ.امید ہے وہ کوئی رستہ نکال دیں گے اور تمہاری خواہش پوری ہو جائے گی اور مسجد بن جائے گی.
$1957 120 خطبات محمود جلد نمبر 38 انکپور میں دوستوں نے ہمت کر کے بہت بڑی مسجد بنائی ہے.میں جس وقت اس مسجد کے افتتاح کے لیے گیا تھا تو لائکپور میں تمھیں، چالیس احمدی تھے اور مسجد تین چار سو آدمیوں کے لیے بنائی گئی تھی.اب سنا ہے وہ بھی جماعت کو کفایت نہیں کرتی.اب ان کو بھی اور مسجد بنانے کی ضرورت ہوگی.پھر سرگودھا ہے.اس میں بھی ایک چھوٹی سی مسجد ہے.وہاں بھی کوشش کی جائے تو بڑی مسجد بن سکتی ہے.کم از کم ہر بڑے شہر میں ایک مسجد بن جانی چاہیے.مجھے پتا ہے کہ بعض جگہوں پر بہت تھوڑے احمدی ہیں لیکن انہوں نے مسجد بنالی ہے.مثلاً کیمبل پور ہے.ایک دفعہ نوائے پاکستان میں کسی غیر احمدی کا نوٹ چھپا تھا کہ تم شور مچارہے ہو کہ یہاں سے احمدیوں کو نکال دو.لیکن یہاں تو احمدی حکومت کر رہے ہیں.پہلے یہاں انہیں کوئی مسجد بنانے کی اجازت نہیں دیتا تھا.لیکن پاکستان بننے کے بعد انہوں نے یہاں ایک بڑی بھاری مسجد بنالی ہے.اب وہ اس میں اذانیں دیتے ہیں اور تقریریں کرتے ہیں حالانکہ کیمبل پور میں بہت چھوٹی سی جماعت ہے.تو ہمت کی بات ہوتی ہے.جہاں جہاں دوستوں میں احساس پیدا ہوا ہے انہوں نے اپنی مسجدیں بنالی ہیں.اگر یہی احساس باقی جگہوں پر بھی پیدا ہو جائے تو کم سے کم ہیں مسجدیں پنجاب کے بڑے بڑے شہروں اور قصبات میں ہو جاتی ہیں اور تمیں مسجد میں سابق صوبہ سرحد میں ہونی چاہیں اور بیس پچیس مسجدیں سابق صوبہ سندھ میں ہونی چاہیں.کراچی اور لا ہور اب اتنے بڑے شہر ہیں کہ ان میں سے ہر ایک شہر میں پانچ پانچ ، چھ چھ اور مسجد میں ہونی چاہیں.ڈھا کہ میں اگر چہ مسجد بن گئی ہے مگر اس میں اور مساجد بھی بنی چاہیں.پھر اس کے اردگرد کے علاقہ میں بھی مساجد کی ضرورت ہے.پاکستان بننے سے پہلے ڈھا کہ میں صرف چند احمدی دوست تھے مگر اب خدا تعالیٰ کے فضل سے وہاں بڑی اچھی جماعت ہے (سارے ایسٹ اور ویسٹ ) پاکستان میں میرے خیال میں پانچ سات سو مساجد کی گنجائش ہے.پس ہر جماعت کو چاہیے کہ وہ اپنی مسجد بنائے.سیالکوٹ میں دیہات کی جو امارتیں ہیں ان میں سے بعض میں سارے کے سارے احمدی بستے ہیں.میلوں میل تک کوئی غیر احمدی نظر نہیں آتا.ان امارتوں میں احمدیوں نے اپنی مساجد بنالی ہیں.وہ شہروں والی مساجد تو نہیں دیہات اور قصبات کے مناسب حال مساجد ہی ہیں.لیکن بہر حال انہوں نے نماز پڑھنے کی جگہیں بنالی ہیں.وہ اگر اُن کو پھیلائیں تو صرف ضلع سیالکوٹ میں ہی پانچ سات مزید مسجدوں کی گنجائش ہے.گو وہ چھوٹی چھوٹی
$1957 121 خطبات محمود جلد نمبر 38 مسجد میں ہوں گی مگر علاقہ کے لحاظ سے وہ مناسب ہوں گی کیونکہ چھوٹی چھوٹی جگہوں پر چھوٹی مسجدیں ہی مناسب ہوتی ہیں.بہر حال جماعتوں میں مسجدیں بنانے کی طرف توجہ ہو رہی ہے اور غیر ملک تو بڑی جلدی جلدی آگے بڑھ رہے ہیں.لیکن پاکستان اس کام میں ذرا پیچھے ہے.پاکستان بیرونی ممالک میں تو بعض بڑی بڑی مساجد بنا چکا ہے لیکن اپنے ملک میں مساجد بنانے کی طرف اس کی توجہ بہت کم ہے.بیرونی ممالک میں مساجد بنانے میں بڑی دقت یہی ہے کہ ہمیں ایچینج نہیں ملتا.اگر ایکھینچ مل جائے تو خدا تعالیٰ کے فضل سے ہم اور بھی مسجدیں بنا سکتے ہیں.اس وقت ہیمبرگ میں مسجد بن چکی ہے ،لندن میں بن چکی ہے، ہیگ میں بن چکی ہے.اب نیورمبرگ (Nuremberg) میں بنانے کی تجویز ہے.ایچینج کے متعلق گورنمنٹ کو مولویوں کا کچھ ایسا ڈر ہے کہ اس نے ہمارے لیے کچھ ا منظور کیا تھا.ہمارا آدمی اُن کے پاس پہنچا اور اُس نے کہا ہمیں جو ایکسچینج آپ دیتے ہیں وہ بہت تھوڑا ہوتا ہے.ہمارے مبلغ بہت زیادہ ہیں اور دوسری انجمنوں کے مبلغ بہت کم ہیں.ہمارے مبلغ اس وقت یورپ میں ہیں کے قریب ہیں اور اُن کے صرف تین مبلغ ہیں.آپ مبلغوں کے اعتبار سے اینج تقسی کریں.ان کے تین مبلغ ہیں انہیں تین مبلغوں کا حصہ دیا جائے اور ہمارے ہیں مبلغ ہیں ہمیں ہیں مبلغوں کا حصہ دیا جائے.انہوں نے کہا ہم ایسا نہیں کر سکتے.اگر ہم کریں تو ملک میں شور پڑ جائے گا.ہم آپ کو صرف تیسرا حصہ ہی دیں گے.چاہے آپ کے بیس مبلغ ہوں اور اُن کے تین مبلغ ہوں.اگر ایکسچینج آسانی سے مل جائے تو میں سمجھتا ہوں اس ملک میں مسجدیں بنانے کے علاوہ ہمارے امراء کو باہر کے ممالک میں بھی مسجدیں بنانے کی توفیق مل جائے گی.اس طرح میرے خیال میں باہر کے ممالک میں بھی ہیں پچیس مسجدیں بن سکتی ہیں.ایکسچینج کی وقتیں دور ہونے کی دو ہی صورتیں ہیں.ایک تو یہ کہ گورنمنٹ کے افسران کے دلوں سے مولویوں کا ڈر جاتا رہے اور وہ ہمیں ایکسچینج میں سے ہمارا مناسب حصہ دیں.دوسرے خدا تعالیٰ ہمارے ملک کی ایکسچینج کی حالت کو درست کر دے یعنی اس وقت جو وہ دوسرے ممالک کا مقروض ہے وہ حالت جاتی رہے اور اس کا غیر ممالک میں پونڈ کا ذخیرہ زیادہ ہو جائے اور اس طرح وہ ہمیں یہ افراط اینچ دے سکے.اگر یہ آسانی پیدا ہو جائے تو میرا اپنا خیال ہے کہ بارہ مساجد تو جرمنی میں ہی بننی چاہیں.ہیمبرگ میں بن گئی ہے.پھر جب خدا تعالی اینج دے گا
$1957 122 خطبات محمود جلد نمبر 38 تو نیورمبرگ میں بن جائے گی.پھر جب خدا تعالیٰ اور ایکسچینج دے گا تو فرینکفورٹ (Frankfurt) میں یا ڈول ڈارف Dussel Darf) میں بن جائے گی.یہ تین ہو جائیں گی.پھر خدا تعالیٰ توفیق دے گا تو ہنور (Hanover) میں بن جائے گی.پھر خدا تعالیٰ توفیق دے گا تو انز بروک (Innsbruck) میں بھی بن جائے گی.پھر توفیق دے گا تو ایک منشن (Munchen) میں جسے میونچ (Munich) بھی کہتے ہیں بن جائے گی جہاں سے ہٹلر نکلا تھا.یہ چھ ہو جائیں گی.پھر تو فیق دے گا توکیل (Keil) میں بن جائے گی جو جرمن کا بڑا بھاری پورٹ (بندرگاہ) ہے.یہ سات ہو جائیں گی.ان کے علاوہ بون (Bons) بڑا شہر ہے جو جرمنی کا دارالخلافہ ہے.پھر کولون (Cologne) بڑا شہر ہے.انہیں ملا کر نو مساجد بن جاتی ہیں.میں نے ایک دن رکنا تھا کہ صرف جرمنی میں دس بارہ مساجد کی ضرورت ہے.اگر اتنی مساجد وہاں بن جائیں تو تھوڑے ہی عرصہ میں وہاں کئی ہزار مسلمان ہو جائیں.جرمنی میں انگلستان اور دوسرے یورپین ممالک کے مقابلہ میں میں نے یہ خوبی دیکھی ہے کہ وہاں جو احمدی ہوتا ہے وہ چندہ بھی دیتا ہے.یہ بات دوسرے ملکوں میں نہیں.مثلاً سوئٹزر لینڈ میں دس دس سال سے بعض احمدی ہوئے ہیں لیکن وہ چندے نہیں دیتے.لیکن جرمنی میں جب میں گیا تو ایک شخص مجھے ملنے آیا.اب وہ فوت ہو گیا ہے.اس کے پاس شراب کا ایک بڑا کارخانہ تھا جو اسے باپ کی طرف سے ورثہ میں ملا تھا.اس نے مجھ سے فتویٰ پوچھا کہ میرے پاس شراب کا ایک کارخانہ ہے کیا میں اسے چھوڑ دوں؟ میں نے کہا وہ کارخانہ تم نے تو نہیں بنایا تمہارے باپ کی طرف سے ورثہ میں تم کو ملا ہے.تم آہستہ آہستہ اس سے اپنا روپیہ نکالو اور اسے کسی اور کارخانہ میں لگاتے جاؤ.فورانہ چھوڑو.ہمارے مبلغ نے اس کے متعلق بتایا کہ وہ دو پونڈ ماہوار با قاعدہ چندہ دیتا ہے.اب وہ فوت ہو گیا تو خدا تعالیٰ نے وہاں پھر ایک نیا احمدی بنایا.اس کے متعلق بھی اطلاع آئی ہے کہ وہ ایک پونڈ ماہوار چندہ دیتا ہے.اب وہ یہاں اپنی بیوی سمیت آ رہا ہے اور اس نے لکھا ہے کہ وہ ایک اور احمدی دوست کے ساتھ ترکی اور ایران سے ہوتا ہوا پاکستان آئے گا.شاید ستمبر میں وہ یہاں پہنچ جائے.کہتے ہیں کہ اس کے اندر اتنا اخلاص ہے کہ آنے سے پہلے اُس نے اپنی جگہ پر انتظام کر دیا ہے کہ اُس کے دوست اور رشتہ دار اس کا باقاعدہ چندہ دیتے رہیں.گویا وہ چھ ماہ کا عرصہ جو باہر رہے گا اس
123 $1957 خطبات محمود جلد نمبر 38 میں اس نے انتظام کر دیا ہے کہ ایک پونڈ ماہوار چندہ با قاعدہ جماعت کو ملتا رہے.ایک پونڈ ماہوار کی بظاہر کوئی حیثیت نہیں مگر دس بیس ہزار احمدی ہو جائیں اور اس طرح دس بیس ہزار پونڈ ماہوار چندہ آ جائے تو اس سے ہر ماہ ایک مسجد بن سکتی ہے.خدا کرے یہ نو مسلم یہاں آ جائے اور ہر ابتلا سے محفوظ رہے.یورپ کے لوگوں خصوصاً جرمنی کے لوگوں کے آنے میں ابتلا کا خطرہ رہتا ہے.جرمنی کے لوگ اگر چہ امارت میں بہت کم ہیں لیکن ان میں نزاکت زیادہ پائی جاتی ہے.ویسے لڑائی میں وہ بہت مضبوط ہیں لیکن طبیعت کے لحاظ سے بڑے صفائی پسند ہیں اور جرمنی میں بہت زیادہ صفائی کا خیال پایا جاتا ہے.لندن میں جاؤ تو ہر جگہ کا غذات پڑے ہوئے نظر آئیں گے.جہاں کسی نے کوئی چیز کھائی وہیں کاغذ پھینک دیا.لیکن سوئٹزر لینڈ میں ہم رہے ہیں وہاں صفائی کا بڑا خیال رکھا جاتا ہے.سارے شہر میں پھر جاؤ ایک کاغذ بھی کسی سڑک پر پڑا نہیں ملے گا.ہمارا ملک تو گندا ہے ہی.جرمنی کا ایک احمدی زندگی وقف کر کے لندن گیا اور وہاں سے مرتد ہو کر واپس آ گیا.صرف اس وجہ سے کہ لندن بڑا گندہ کی شہر ہے.تو جس کولندن گند اشہر نظر آیار بوہ اُسے کیسا نظر آئے گا.جہاں ہر جگہ پر بکروں کی آنتیں پڑی ہوئی ہوتی ہیں.چنانچہ پروفیسر ٹلٹاک صاحب نے جب ربوہ آنے کا ارادہ ظاہر کیا تو چودھری ظفر اللہ خان صاحب نے مجھے منع کیا کہ اُسے ابھی نہ بلاؤ، میں اپنا مکان بنالوں اور اس میں فلش والا پاخانہ بنا لوں تب بلائیں.ورنہ اس کو ابتلاء آ جائے گا.چنانچہ پچھلے سال جب چودھری صاحب کا مکان بن گیا تو وہ یہاں آگئے.ورنہ انہوں نے بہت عرصہ پہلے آ جانا تھا.اب ڈر آتا ہے کہ یہ دونوں میاں بیوی آ رہے ہیں خدا تعالیٰ ان کے ایمانوں کو سلامت رکھے.ہماری عدم صفائی کی وجہ سے ان کو کوئی ٹھوکر نہ لگے کیونکہ جرمن لوگ بڑے صفائی پسند ہیں.جب تک انہیں صفائی نظر نہ آئے اور یہ نہ دیکھیں کہ سب لوگ مشینوں کی طرح کام میں لگے ہوئے ہیں انہیں ٹھوکر لگنے کا خطرہ ہوتا ہے.ہم ہیمبرگ میں رہتے تھے.ہم دیکھتے کہ ہمارے سامنے گلی میں ایک مکان ٹوٹا ہوا ہے مگر دوسری صبح دیکھتے کہ لوگ دیوؤں کی طرح اُس مکان کے بنانے میں لگے ہوئے ہیں اور شام تک اُسے مکمل کر دیتے.مجھے ایک وزیر نے بتایا کہ ہم سب سے زیادہ اہمیت تعمیر کے کام کو دیتے ہیں.انگریزوں نے ہمارے شہر کو بموں سے اڑایا تھا.اب ہم خود اسے تعمیر کر رہے ہیں.محلہ والے سب لوگ آ جاتے ہیں اور مزدور بن کر مکان تعمیر کرا دیتے ہیں اور ایک پیسہ بھی اجرت کے طور پر نہیں لیتے.اس طرح ہم ہر روز تین چار مکانات بنا لیتے
$1957 124 خطبات محمود جلد نمبر 38 ہیں اور سال میں ہم نے سارا ہیمبرگ بنالیا ہے.ہماری جماعت کے ایک نوجوان جرمنی میں تعلیم حاصل کرنے کے لیے گئے تھے.جب و وہ واپس آئے تو میں نے اُن سے اِس بات کا ذکر کیا.انہوں نے بھی میری اس بات کی تائید کی اور کہا میں بھی وہاں سے آیا ہوں.وہاں یہی حال تھا.میں اپنے مکان کی کھڑکی میں سے دیکھتا تو ایک مکان گرا ہوا ہوتا تھا.مگر دوسرے دن دیکھتا تو وہ مکان تعمیر ہو چکا ہوتا.سارے کے سارے لوگ آپ ہی آ جاتے تھے اور مفت مکان بنا دیتے تھے اور کہتے تھے ہمارا شہر انگریزوں نے توڑا ہے اب ہم اسے خود تعمیر کریں گے.میں وہاں ایک یونیورسٹی کے ہسپتال میں اپنے معائنہ کے لیے گیا تو میں نے دیکھا کہ یو نیورسٹی ٹوٹی ہوئی ہے اور جو چھتیں بنی ہوئی ہیں وہ تازہ تعمیر کردہ ہیں اور اُن سے تازہ پینٹ کی بُو آ رہی ہے.میں نے ڈاکٹروں میں سے ایک سے دریافت کیا تو اس نے بتایا کہ ہماری یو نیورسٹی بمباری کی وجہ سے ٹوٹ پھوٹ گئی تھی.جو حصہ بنا ہوا آپ دیکھ رہے ہیں یہ ہم نے اور طالبعلموں نے مل کر بنایا ہے.میں نے کہا ہمارے ملک میں تو کوئی ڈاکٹر ایسے کام کو ہاتھ نہ لگائے.اُس نے کہا ہم تو پروا نہیں کرتے.ہماری یہ یونیورسٹی بہت مشہور تھی.بمباری کی وجہ سے اس میں بڑے بڑے غار بن گئے تھے.چنانچہ اُس نے مجھے ایک کمرہ دکھایا اور ایک غار کی طرف اشارہ کر کے کہا کہ اتنے بڑے بڑے غار تھے.ہم نے فیصلہ کر لیا کہ ہم خود کام کریں گے اور یو نیورسٹی کی عمارت بنائیں گے.چنانچہ سارے ڈاکٹر اور طالبعلم کام میں لگ گئے اور یہ عمارت بنالی.میں نے کہا واقعی یہ تمہاری ہی ہمت ہے.ہمارے ملک میں تو استاد ایک باورچی خانہ بنانے کو بھی تیار نہیں.اگر انہیں ایسا کام کرنے کے لیے کہا جائے تو وہ کہیں گے کہ کیا ہم اتنے ہی ذلیل ہیں کہ یہ کام کریں؟ تو یاد رکھو! باہر سے لوگ یہاں آ رہے ہیں ان کو مر تذ کر کے نہ بھیجنا.صفائی رکھو.ایک امریکن آدمی ایک دفعہ یہاں آیا تھا.میں نے پہلے بھی اس کا ذکر کیا تھا.جب وہ واپس گیا تو اُس نے ہمارے مبلغ کو بتایا کہ ربوہ بڑا اچھا شہر ہے مگر ایک نقص میں نے یہ دیکھا ہے کہ وہاں افسردگی سی چھائی ہوئی ہے.تمہیں چاہیے تھا کہ وہاں درخت لگاتے ، روشیں 1 بناتے ، پختہ سڑکیں بناتے.یوں تو بڑی ہمت کی ہے کہ غیر آباد پہاڑوں کو آباد کر لیا ہے لیکن شہر میں جانے سے یوں معلوم ہوتا ہے کہ اس پر افسردگی سی طاری ہے.میں نے سنا ہے کہ جلسہ سالانہ کے بعد میجر مرزا امیراحمد صاحب
$1957 125 خطبات محمود جلد نمبر 38 نے ایک ماہ کا عرصہ وقف کیا تھا اور کہا تھا کہ میں یہاں رہ کر شہر کی صفائی کا انتظام کروں گا اور کسی نے کی مجھے بتایا تھا کہ ان کی کوشش کی وجہ سے شہر کافی حد تک صاف ہو گیا ہے.انہوں نے ایک نوجوان مرزا محمد صادق بیگ صاحب کو بھی کام سکھا دیا ہے.اب وہ ان کی غیر حاضری میں کام کر رہے ہیں.مگر ہم نے تو اپنی آنکھوں سے کبھی صفائی دیکھی نہیں.کالج کو جاتے ہوئے جہاں سے بھی موٹر پر گزرتے ہیں گند ہی گند نظر آتا ہے.ممکن ہے ان لوگوں کو صفائی نظر آتی ہوگی جنہوں نے مجھ سے بیان کیا ہے لیکن باہر سے آنے والے لوگوں کو بھی صفائی نظر آنی چاہیے 1 : روش: باغ کی پٹری (فیروز اللغات اردو جامع فیروز سنز لاہور ) الفضل 11 مئی 1957 ء )
$1957 126 14 خطبات محمود جلد نمبر 38 ایک اٹالین عورت کی اسلام سے متعلق ایک اہم کتاب.(فرموده 10 مئی 1957ء بمقام ربوہ ) تشهد ، تعوذ اورسورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: رمضان کے آخری دنوں میں میری طبیعت خراب ہو گئی تھی.چونکہ اس ماہ تلاوتِ قرآن کریم پر زیادہ زور دینا پڑا اور اس کے ساتھ ساتھ قرآن کریم کے اردو ترجمہ کا کام بھی کرنا پڑا.اس وجہ سے طبیعت میں جو ضعف پیدا ہوا تھا وہ اور بھی بڑھ گیا.طبیعت اتنی کمزور ہو گئی ہے کہ یہاں کی گرمی اب مجھ سے برداشت نہیں ہوسکتی.19 را پریل کے خطبہ میں میں نے ذکر کیا تھا کہ امریکہ سے وہ کتاب آ گئی ہے جو ایک اٹالین عورت نے اسلام کے متعلق لکھی تھی.اس کے انگریزی ترجمہ میں کچھ مضمون چودھری ظفر اللہ خاں صاحب نے بھی لکھا تھا اور چودھری صاحب نے بتایا تھا کہ یہ کتاب نہایت اعلیٰ درجہ کی ہے.بلکہ ان کا ای خیال تھا کہ اس قسم کی اعلیٰ کتاب اسلام کے متعلق اب تک کسی مسلمان نے بھی نہیں لکھی.میں نے گھر سے اس کتاب کے متعلق دریافت کیا کہ کہاں ہے؟ تو بتایا گیا کہ یہ کتاب گھر میں نہیں آئی.دفتر سے دریافت کیا تو انہوں نے بھی بتایا کہ دفتر میں یہ کتاب موجود نہیں.لائبریری سے پتا کیا تو انہوں نے بھی بتایا کہ یہ کتاب ابھی تک لائبریری میں نہیں آئی.آج اتفاقا میں اپنے دفتر میں کوئی چیز
$1957 127 خطبات محمود جلد نمبر 38 تلاش کرنے گیا تو اس کتاب کا ایک نسخہ جو امریکہ سے آیا تھا اور جس کا میں نے خطبہ میں ذکر کیا تھا وہاں پڑا تھا.گھر والوں کو جب میں نے بتایا تو انہوں نے کہا میرا خیال تھا کہ شاید اس کتاب کا مسودہ ہے.یہاں آیا ہے.حالانکہ مسودہ تو اُس کتاب کا آیا تھا جو امریکہ کے مشن کی طرف سے لکھی جا رہی ہے میں نے ایک خطبہ میں بتایا تھا کہ امریکہ میں ایک کتاب ایسی چھپی ہے جس میں اسلام کی بہتک کی گئی ہے اور میں نے کہا تھا کہ امریکہ کی جماعت اس کذب کا جواب لکھے.چنانچہ امریکہ کے ایک احمدی مبلغ کی نے اس کتاب کا جواب لکھا ہے اور اس کا مسودہ ہمارے پاس پہنچ چکا ہے.اب ہمیں اس کی اس طرح اصلاح کرنی ہے کہ اس میں اس کتاب کا نام نہ آئے.کیونکہ اس سے فتنہ اور زیادہ بڑھ جائے گا.اور پھر اس کتاب کے شائع کرنے والوں نے معافی بھی مانگ لی ہے.یہ کتاب جو ایک اٹالین عورت نے لکھی ہے بڑی اعلیٰ ہے.میں نے ساری تو نہیں پڑھی.اس کی تمہید کی چند سطروں پر نظر پڑی تو وہاں لکھا تھا کہ قرآن کریم ہی ایک ایسی کتاب ہے جو اب تک اُسی طرح موجود ہے جس طرح نازل ہونے کے وقت تھی.اب تک اسلام کے دشمن عیسائی، یہودی اور دوسرے مذاہب والے بھی اسے اسی طرح لیتے آئے ہیں اور مسلمان بھی اسے اسی طرح لیتے آئے ہیں.یہی ایک کتاب ہے جس میں نہ غیروں کو کوئی تبدیلی کرنے کا موقع ملا ہے اور نہ اپنوں کو.یہ چند تمہیدی سطور پڑھنے سے معلوم ہوا کہ کتاب کی مصنف قرآن کریم کی صداقت کی قائل ہے.اس کتاب کو چھپوا کر دو تین لاکھ کی تعداد میں امریکہ کے رؤساء اور بڑے بڑے عہد یداروں میں تقسیم کیا جائے تو اس کا بہت فائدہ ہو سکتا ہے.اگر اسے شروع شروع میں ایک ہزار کی تعداد میں بھی تقسیم کیا جائے تو اس پر قریباً پانچ ہزار ڈالر خرچ آئے گا.مجھے اس کی صحیح قیمت کا تو علم نہیں میں نے خود ہی اندازہ لگایا ہے.ویسے ہم امریکہ سے پتا کریں گے کہ اس کی قیمت کیا ہے اور اس کی اشاعت پر کیا خرچ آئے گا.اگر اس کتاب کی اشاعت کی جائے تو عیسائیوں کو پتا لگ جائے گا کہ ان کی اپنی ایک عورت جو نہایت قابل اور تعلیم یافتہ تھی اور کالج میں پروفیسر تھی اسلام کے متعلق کیا خیال رکھتی ہے.مجھے یاد پڑتا ہے کہ اس کتاب کے مترجم نے یا کسی اور نے اس عورت کو خط لکھا کہ اگر تمہارے اسلام کے متعلق وہ خیالات درست ہیں جو اس کتاب میں لکھے گئے ہیں تو تم ابھی تک مسلمان کیوں نہیں ہوئیں؟ تو اس عورت نے جواب دیا کہ اگر میں مسلمان ہو جاتی تو میری اس کتاب کا
$1957 128 خطبات محمود جلد نمبر 38 عیسائیوں پر زیادہ اثر نہ ہوتا.اب تو وہ سمجھتے ہیں کہ میں انہی میں سے ایک ہوں اور اسلام کا مجھ پر اتنا اثر ہے کہ میں یہ خیالات ظاہر کرنے پر مجبور ہو گئی ہوں.یہ کتاب 1925 ء میں لکھی گئی تھی.میں سمجھتا ہوں کہ اگر اس کتاب کی خوب اشاعت کی جائے تو امریکہ میں اسلام کا اچھا اثر پڑے گا بلکہ امریکہ تو الگ رہا میں سمجھتا ہوں وہ وقت دور نہیں جب ساری دنیا میں اسلام پھیل جائے گا اور وہ اسلام کی سچائی اور عظمت کی قائل ہو جائے گی“.خطبہ ثانیہ کے بعد فرمایا: میں نماز جمعہ کے بعد کچھ جنازے پڑھاؤں گا.صاحبزادہ عبداللطیف صاحب ٹوپی ضلع مردان جو صوبہ سرحد کے پرانے اور مخلص احمدی تھے اور بہت بڑے خاندان سے تھے وفات پاگئے ہیں.ان کا خاندان پیروں کا خاندان تھا اور صاحبزادہ عبدالقیوم صاحب جو ان کے رشتہ کے بھائی تھے پندرہ میں سال تک صوبہ سرحد میں وزارت اور دوسرے بڑے عہدوں پر رہے تھے.ملک عبدالجبار خاں صاحب پسر ملک عبد القادر خاں صاحب آف فیض اللہ چک ضلع گورداسپور حال کراچی.مرحوم موصی اور پابند صوم و صلوۃ تھے.روزہ کی حالت میں حرکت قلب بند ہو جانے کی وجہ سے فوت ہو گئے.غلام محمد صاحب کوٹ کا ناضلع گجرات 313 صحابہ میں سے تھے.بہت تھوڑے احباب جنازہ میں شریک ہو سکے.چودھری فضل خاں صاحب کھوکھر تحصیل بٹالہ ضلع گورداسپور حال چک 60 تحصیل جڑانوالہ ضلع لائکپور مخلص احمدی تھے.جنازہ میں بہت تھوڑے دوست شریک ہوئے.نماز جمعہ کے بعد میں یہ چاروں جنازے پڑھاؤں گا.دوست میرے ساتھ شریک ہوں“.الفضل 18 مئی 1957 ء )
$1957 129 15 خطبات محمود جلد نمبر 38 دوست دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ترجمہ قرآن کریم کا کام جلد مکمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے قرآن کریم معارف کا ایک بڑا بھاری خزانہ ہے اس سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانے کی کوشش کرو (فرمودہ 17 مئی 1957ء بمقام ربوہ ) تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: عمر اور بیماری کے ساتھ انسان کی کیفیتیں بدلتی چلی جاتی ہیں.مجھے یاد ہے 1922ء میں میں نے سارے رمضان میں درس دیا تھا.اگست کا مہینہ تھا اور گرمی بڑی سخت تھی.لیکن مجھے یاد ہے کہ میں ساری رات درس کے نوٹ لکھا کرتا تھا اور صبح روزہ رکھ کر درس دیتا تھا.دوپہر کے بعد جب میں باہر نکلتا تو گرمی کی شدت کی وجہ سے حکیم محمد عمر صاحب جو اب بہت بڑھے ہوگئے ہیں مسجد کے کنویں سے پانی بھر لاتے اور میرے سر پر ڈالتے.اس کے بعد میں پھر واپس جا کر درس دینا شروع کر دیتا.ظہر آ جاتی ، عصر آ جاتی، پھر شام آ جاتی میں درس دیتا چلا جاتا.کئی دفعہ ایسا ہوا کہ درس دیتے دیتے روزہ کھل جاتا.غرض کوئی بارہ تیرہ گھنٹے ہم درس دیتے تھے.تفسیر کبیر کی جو جلد پہلے چھپی تھی وہ اس درس کے نوٹوں کی وجہ سے ہے.لیکن اب بیماری کی وجہ سے جسم میں وہ برداشت نہیں رہی.پھر
خطبات محمود جلد نمبر 38 130 $1957 عمر کا تقاضا بھی ہے.قرآن کریم کا اردو ترجمہ جو ابھی جاری ہے اور جس کی نظر ثانی ہو چکی تھی اس پر اب نظر ثالث ہو رہی ہے.لیکن مجھے ڈر ہے کہ مولوی محمد یعقوب صاحب جنہیں میں ترجمہ ڈکٹیٹ کراتا ہوں اور کی مولوی نورالحق صاحب مجھ سے نظر ثالث کے بعد نظر رابع بھی کروائیں گے اور نظر رابع کے بعد کہیں گے نظر خامس کر دیجیے.پھر نظر خامس ہو جائے گی اور جلسہ سالانہ کے دن قریب آجائیں گے تو کہیں گے نظر سادس بھی کر دیجیے.اس کے بعد نظر سابع ہوگی اور مجھے ڈر ہے کہ اس طرح اگلا سال بھی کہیں گزر نہ جائے.کیونکہ نظر ثانی کے وقت ہم ایک ایک دن میں دو دوسی پارے کر لیتے تھے.لیکن اب دو دودن میں ایک سیپارہ ختم ہوتا ہے اور اسی طرح نظریں بڑھتی گئیں تو بڑی مشکل ہو جائے گی.میں نے انہیں کہا ہے اور تاکید کی ہے کہ وہ کام جلدی ختم کرنے دیں.1938ء میں میں نے کسی قدر ترجمہ کر لیا تھا.پھر جا بہ اور مری میں پچھلے سال باقی ترجمہ ختم کیا اور اس سال رمضان میں اس کی نظر ثانی شروع کی تھی جو یہیں ختم کر لی تھی.اُن دنوں بعض دفعہ دو دوسی پارے ایک دن میں ہو جاتے تھے.اگر نظرِ ثالث بھی اسی اختصار سے ہوتی تو سات دنوں میں چودہ سیپارے ختم ہو جانے چاہیں تھے لیکن ہوئے صرف تین چارسیپارے ہیں.گو مولوی محمد یعقوب صاحب اور مولوی نورالحق صاحب نے مجھے تسلی دلائی تھی کہ شروع کے پارے نظر ثانی کے وقت بھی مشکل سے ہوئے تھے بعد کے سیپارے جلدی ہو گئے تھے اور یہ بات بھی ٹھیک ہے.لیکن کہتے ہیں کہ جب تک پیالہ ہونٹوں کو نہ لگ جائے اور پانی پی نہ لیا جائے انسان کو تسلی نہیں ہوتی.مجھے بھی تسلی نہیں ہوتی.ہاں ! اگر اگلے سیپارے عملاً جلدی ہو جائیں تو دیکھیں گے.فی الحال تو یہ صرف وعدہ ہی وعدہ ہے.بہر حال ہماری یہ کوشش ہے کہ تمبر یا اکتوبر میں سارا قرآن کریم چھپ جائے.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق دے.بیچ میں آرام کی ضرورت پیش آ جاتی ہے.کیونکہ لمبا کام کرنا پڑتا ہے.جن دنوں میں ہم نظر ثانی کر رہے تھے اُن دنوں بعض اوقات ہمیں آٹھ آٹھ ، نو نو گھنٹے متواتر کام کرنا پڑا اور اُن دنوں دو دوسیپارے بھی ہو جاتے تھے لیکن عام دنوں میں ایک ایک سیپارہ یا ڈیڑھ ڈیڑھ سیپارہ ہی ہوتا تھا اور اُن دنوں میں بھی ہم چار چار گھنٹے روز کام کرتے تھے.اب بھی تین تین گھنٹے روزانہ کام ہوتا رہا ہے.
$1957 131 خطبات محمود جلد نمبر 38 بیماری لبی ہو جانے کی وجہ سے قدرتا کوفت زیادہ ہوتی ہے.پہلے اتنی کوفت محسوس نہیں ہوتی تھی.مگر آب شدید بیماری کو دوسال کے قریب عرصہ ہو چکا ہے اور چونکہ بیماری زیادہ عرصہ جسم پر طاری رہی ہے اس لیے جلد ہی کوفت کی وجہ سے جسم گر جاتا ہے.بہر حال ہمارا ارادہ یہ ہے کہ چاہے کوفت ہی ہو کام ختم ہو جائے.اب بھی بعض اوقات کام کرتے کرتے بیماری کی وجہ سے مدہوش ہو جاتا ہوں.اور بعض دفعہ یوں محسوس ہوتا ہے کہ میں نیچے گر جاؤں گا.سامنے سے مولوی محمد یعقوب صاحب کہہ دیتے ہیں کہ حضور ! کام بہت زیادہ ہو گیا ہے اب بس کر دیں.مگر میں اس بیہوشی میں بھی کہتا ہوں کہ کام کرتے چلے جاؤ چاہے رات کے بارہ بج جائیں.پس اللہ تعالیٰ نے ہمیں توفیق دی.گو ہم کام کریں گے.باقی چھاپنے والوں کی بات ہے.یہ لوگ بھی وقت پر چھاپ دیں.اگر انہوں نے اس ترجمہ کو وقت پر نہ چھاپا تو خدا تعالیٰ کے سامنے وہ ذمہ دار ہوں گے ہم ذمہ دار نہیں ہوں گے.ہم تو اِنشَاءَ اللهُ واپس جاتے ہی کام میں تیزی پیدا کر دیں گے اور اگلے ہفتہ سے زیادہ سے زیادہ کام انہیں بھیجنا شروع کر دیں گے.باقی چھاپنا ان کا کام ہے.اگر یہ لوگ اس ترجمہ کو وقت پر شائع کر دیں تو اُمید ہے تمبر اکتوبر میں کام ختم ہو جائے گا.شمس صاحب نے بھی جو جلد قرآن کریم کے حجم کا اندازہ بتانے کے لیے مجھے دکھائی ہے وہ مجھے بہت بوجھل نظر آئی ہے.لیکن بدقسمتی سے ہمارے ملک کے پاس ایکھینچ نہیں اور ہلکا کاغذ فارن(FOREIGN) سے ملتا ہے اور گورنمنٹ اسے امپورٹ کرنے کی اجازت نہیں دیتی.اس لیے میں نے کہا ہے چاہے جلد بوجھل ہی ہے لیکن اس سال ترجمہ چھپ جائے تا لوگ اس سے فائدہ اٹھا نا شروع کر دیں ورنہ دل میں یہ بوجھ رہتا ہے کہ ابھی کام ختم نہیں ہوا.خدا کی قدرت ہے کہ پہلے سیپارے ترجمہ کے لحاظ سے بڑے مشکل ہیں اور یہی میں نے پیر منظور محمد صاحب مرحوم کے کہنے پر 1938ء میں کر لیے تھے.انہوں نے جب قاعدہ میسر نا القرآن مجھے ہبہ کیا اور اس خواہش کا بھی اظہار کیا کہ اگر میں اردو میں قرآن کریم کا ترجمہ بھی کر دوں تو وہ اسے یسرنا القرآن کی طرز پر شائع کر دیں گے.چنانچہ میں نے اُس وقت کام کرنا شروع کر دیا اور سات آٹھ سیپارے مکمل کر لیے.اس کے بعد یہ کام رک گیا.پچھلے سال جابہ اور مری میں میں نے اس کام کو ختم کیا.لیکن دس بارہ ماہ تک اس پر نظر ثانی نہ ہو سکی.گزشتہ رمضان میں اس پر نظر ثانی ہوئی اور اب نظر ثالث ہو رہی ہے.اگر یہ ترجمہ چھپ جائے تو جس قسم کا یہ ترجمہ ہے یہ بات سمجھ میں آتی
خطبات محمود جلد نمبر 38 132 $1957 ہے کہ جتنے ترجمے اس وقت تک ہو چکے ہیں اُن سب سے یہ زیادہ مکمل ہے.مگر پورا پتا اُسی وقت لگے گا جب تھوڑی عربی جاننے والے اسے دیکھیں گے.جن کے دلوں میں قحبہ بھی پیدا ہو اور وہ دیکھیں کہ ان کا وہ شبہ اس ترجمہ سے دور ہو گیا ہے یا نہیں.اگر کسی کو عربی بالکل ہی نہ آتی ہو تو اُسے یہ ترجمہ سمجھ نہیں آئے گا.کیونکہ اس کے دل میں تو مجبہ پیدا ہوگا ہی نہیں.اور اگر عربی زیادہ آتی ہو تو پھر بھی اس کو شبہ نہیں ہوگا کیونکہ اُسے کوئی شبہ ہوگا تو وہ خود تحقیقات کر کے اس کو دور کر لے گا.غرض صرف درمیانی درجہ کا علم رکھنے والا ہی اس ترجمہ پر جرح کر سکتا ہے نہ میں کرسکتا ہوں اور نہ کوئی اور عالم کرسکتا ہے.کیونکہ ہم جو جرح کریں گے وہ ہمارے نزدیک پہلے ہی حل ہے.اگر ترجمہ میں کوئی مشکل پیدا ہوگی تو ہمارا عربی کا علم حل کر دے گا.اس لیے ہم کوئی رائے قائم نہیں کر سکتے.رائے وہی قائم کرے گا جس کو کچھ عربی بھی آتی ہو اور وہ دیکھے کہ جو کچھ عربی میں لکھا گیا ہے وہ ٹھیک ہے یا نہیں.اور پھر وہ کوئی بڑا عالم بھی نہ ہو کہ اُس کا دماغ خود ہی مشکل حل کرلے مگر بہر حال یہ ترجمہ وقت پر چھپ جائے تو لوگوں کے مختلف گروہ اس پر غور کریں گے اور وہ غور کر کے بیسیوں اعتراضات کریں گے.اور پھر جب ہم کو موقع ملے گا تو اگلے ایڈیشن میں اس کی اصلاح کر دیں گے کیونکہ قرآن شریف علم کا ایک بڑا بھاری خزانہ ہے اور اس کے اوپر حاوی ہونا کسی انسان کا کام نہیں.کہتے ہیں کوئی سائیس 1 تھا ایک دفعہ اس کے مالک نے جو کوئی نواب زادہ تھا.اس سے کہا تم یوں کرو تو وہ کہنے لگا.سائیسی کا علم ایک دریا ہے تمہیں اس کا علم کیسے ہو سکتا ہے.تو اگر سائیسی کا علم دریا ہے تو قرآن کریم کا علم تو سمندر سے بھی کئی ہزار گنا زیادہ ہو گا.خدا تعالیٰ خود فرماتا ہے کہ قرآن کریم میں جو مضامین بیان ہوئے ہیں اگر ساتوں سمندر سیاہی بن جائیں اور سات سمندر اور اُن میں ڈال دیئے جائیں تب بھی وہ مضامین ختم نہیں ہوں گے.اور پھر ان کو کوئی انسان ترجمہ کے اندر کیسے لا سکتا ہے.وہ تو اپنی طرف سے یہی کرے گا کہ ایک ناقص چیز پیش کر دے.لوگ اُس پر اعتراض کرتے جائیں اور اصلاح ہوتی جائے.کیونکہ قیامت تک لوگوں کو نئے نئے مضامین سو جھیں گے اور وہ اس کے مطابق قرآن کریم کا ترجمہ کرنے کی کوشش کریں گے.اس طرح زمانہ گزرتا چلا جائے گا لیکن سینکڑوں، لاکھوں، کروڑوں بلکہ اربوں سال میں بھی قرآن کریم کے معارف ختم نہیں ہوں گے.اس لیے یہ بات تو سرے سے ہی غلط ہے کہ میں کوئی کامل ترجمہ قرآن کریم کا کروں گا.کیونکہ
$1957 133 خطبات محمود جلد نمبر 38 میں جانتا ہوں کہ کامل وہی ہے جو عربی زبان میں خدا تعالیٰ نے اُتارا ہے.میں جو ترجمہ کروں گا وہ بہر حال ناقص ہی ہوگا اور مجھ سے پہلوں نے جو کچھ کیا ہے وہ بھی ناقص ہے.مجھے ان کے تراجم میں نقائص نظر آتے ہیں اور ہزار سال بعد آنے والوں کو میرے ترجمہ میں نقص نظر آئیں گے.قرآن کریم کے مقابلہ میں جو کچھ بھی ہو گا وہ ناقص ہی ہوگا.یہ کوئی مسیح کے پرندے تھوڑے ہی ہیں جو رل مل جائیں گے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرمایا کرتے تھے کہ مولویوں کا خیال ہے کہ مسیح علیہ السلام پرندے پیدا کیا کرتے تھے.میں نے ایک مولوی سے پوچھا کہ آپ کا خیال ہے کہ مسیح علیہ السلام پرندے پیدا کیا کرتے تھے.یہ جو پرندے ہوا میں اُڑ رہے ہیں اُن میں خدا تعالیٰ کے پرندے کونسے ہیں اور مسیح علیہ السلام کے بنائے ہوئے پرندے کو نسے ہیں؟ مولوی صاحب پنجابی تھے وہ کہنے لگے ” مرزا صاحب! میں تہانوں کی دستاں اوہ تے ہن رل مل گئے ہن.یعنی میں آپ کو کیا بتاؤں وہ تو اب مل جل گئے ہیں.پس حضرت مسیح علیہ السلام کے پرندے تو رل مل جاتے ہیں لیکن خدا تعالیٰ کا کلام رل مل نہیں سکتا.وہ بہر حال اس بات کا ہر وقت مقتضی رہے گا کہ اس میں سے نئے نئے مضامین نکالے جائیں.پس ہم اِنشَاءَ اللہ کوشش کریں گے کہ ترجمہ کا کام جلد ختم ہو جائے.چھاپنے والے ماپنے کی کوشش کریں گے اور خدا تعالیٰ چاہے تو یہ ترجمہ تمبر یا اکتوبر میں چھپ جائے گا.چھاپنے والوں کے پیسے تو خرچ نہیں ہوں گے اور نہ انہیں محنت کرنی پڑتی ہے.ترجمہ بھی ہم کریں گے اور پیسے بھی ہم دیں گے.لیکن انہیں مفت میں ثواب مل جائے گا.ہزاروں آدمی اسے پڑھیں گے اور اس سے فائدہ اٹھائیں گے.اتنا آسان ثواب کسے مل سکتا ہے.اگر اس کی بھی کوئی ناقدری کرے تو وہ بہت بڑا بدقسمت ہے.چاہیے کہ کیا کاتب اور کیا چھاپنے والے اور کیا منتظم اور پھر کیا وہ لوگ جن کو میں ترجمہ ڈکٹیٹ کرواتا ہوں وہ رات دن ایک کر کے اس کام کو ایک دفعہ پورا کر دیں تا لوگ اس سے فائدہ اُٹھانا شروع کر دیں اور ان کے لیے ثواب کا ایک رستہ کھل جائے.زندگی کا کوئی اعتبار نہیں.اگر ترجمہ چھپ جانے سے پہلے کوئی ہم میں سے مر گیا تو وہ ثواب سے محروم ہو جائے گا.اگر ترجمہ مکمل ہو جائے اور وہ چھپے نہیں تو چھاپنے والا ثواب سے محروم ہو جائے گا.اور اگر وہ چھپ جائے اور لوگ اسے
$1957 134 خطبات محمود جلد نمبر 38 پڑھیں اور اس سے فائدہ اٹھا ئیں تو قیامت تک ہم لوگوں کے لیے یعنی ترجمہ کرنے والے کے لیے، ترجمہ لکھنے والوں کے لیے، چھاپنے اور چھپوانے والوں کے لیے ثواب جاری رہے گا.تھوڑی سی اور چند ماہ کی محنت کا سوال ہے.اس کے بعد قیامت تک ثواب کا رستہ کھلا رہے گا.ہمیں کوشش کرنی چاہیے کہ ثواب کا وہ رستہ ضائع نہ ہو“.(الفضل 31 مئی 1957 ء ) 1 : سائیں : گھوڑے کی خدمت اور دیکھ بھال کرنے والا ( فیروز اللغات اردو جامع فیروز سنز لاہور ) 2 : قُل لَّوْ كَانَ الْبَحْرُ مِدَادَ الْكَلِمَتِ رَبِّي لَنَفِدَ الْبَحْرُ قَبْلَ أَنْ تَنْفَدَ كَلِمَتُ رَبِّي وَلَوْ جِئْنَا بِمِثْلِهِ مَدَدًا (الكهف: 110)
$1957 135 16 خطبات محمود جلد نمبر 38 اللہ تعالیٰ ہمارے ساتھ ہے اور اس کا ہمارے ساتھ ہونا یقیناً ہماری صداقت کی دلیل ہے ہمارا اصل مقصود خدا ہے اگر وہ ہمیں مل گیا ہے تو پھر دنیا کی مخالفت کوئی حقیقت نہیں رکھتی (فرمودہ 31 مئی 1957ء) تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے الہامات میں ایک یہ بھی الہام ہے کہ خدا دو مسلمان فریق میں سے ایک کا ہوگا.پس یہ پھوٹ کا ثمرہ ہے.1 تعجب ہے کہ مبائعین اور غیر مبائعین اس امر پر بحث کرتے رہے ہیں کہ ہم میں سے مسلمان ن ہے.حالانکہ جہاں تک مسلمان ہونے کا سوال ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا الہام موجود ہے.اگر مبائعین کو غیر مبائعین میں سے کوئی غیر مسلم قرار دیتا ہے یا غیر مبائعین کو مبائعین میں سے کوئی غیر مسلم قرار دیتا ہے تو اس الہام کے ماتحت وہ مجرم ہے.اصل چیز جس پر بحث ہونی چاہیے تھی وہ یہ ہے کہ خدا کس کے ساتھ ہے؟ ور نہ یہ کہنا کہ ہم ہیں تو مسلمان لیکن خدا ہمارے ساتھ نہیں ایک بے معنی بات بن جاتی ہے اور ایسے اسلام کو لے کر کسی نے کرنا کیا ہے.اصل بات جسے دیکھنا چاہیے
$1957 136 خطبات محمود جلد نمبر 38 وہ یہ ہے کہ خدا کس کے ساتھ ہے.اور یہ بات محمد حسن چیمہ کے مضمون سے حل ہو جاتی ہے.اس نے پیغام صلح میں ہمارے متعلق لکھا کہ چونکہ ان لوگوں میں تنظیم پائی جاتی ہے اس لیے یہ ترقی کر رہے ہیں.اب اس الہام میں کوئی وجہ تو خدا نے معتین نہیں کی کہ میں کس وجہ سے ایک فریق کا ساتھ دوں گا.اور جب خدا نے کوئی وجہ نہیں بتائی تو بہر حال ترقی کرنے کی کوئی بھی وجہ ہو وہ ہر حالت میں قابلِ قدر ہوگی.اگر چیمہ کہتا ہے کہ مبائعین تنظیم کی وجہ سے ترقی کر رہے ہیں تو دوسرے الفاظ میں اس کے یہ معنے ہیں کہ چونکہ ان لوگوں میں تنظیم پائی جاتی ہے اس لیے خدا ان کے ساتھ ہے.اب چاہے تنظیم کی وجہ سے خدا ہمارے ساتھ ہو یا مسجدیں بنوانے کی وجہ سے ساتھ ہو یا کسی اور وجہ سے ساتھ ہو بہر حال اُس کا ہمارے ساتھ ہونا ہماری صداقت کی دلیل ہے.ہمیں اس سے کیا غرض ہے کہ ہم یہ بحث کرتے پھریں کہ غیر ممالک میں مسجدیں بنانے کی وجہ سے خدا ہمارے ساتھ ہے یا اپنے اندر تنظیم پیدا کرنے کی وجہ سے خدا ہمارے ساتھ ہے.اصل بات تو یہ ہے کہ خدا ہمارے ساتھ ہے اور جب وہ ہمارے ساتھ ہے تو لوگ اس طرف کیوں جائیں گے جس طرف خدا نہیں.وہ تو لازماً اُس طرف جائیں گے جدھر خدا ہوگا.جیسے ایک پرانے احمدی کا میں نے بارہا واقعہ بیان کیا ہے کہ وہ مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کے پاس گئے اور کہنے لگے کہ آپ مجھے قرآن کریم کی وہ دس آیتیں لکھ دیں جن سے حضرت مسیح کا آسمان پر زندہ جانا ثابت ہوتا ہے.اُن دنوں حضرت خلیفہ اول سے مولوی محمد حسین صاحب بحث کے لیے شرطیں طے کر رہے تھے.حضرت خلیفہ اول فرماتے کہ قرآن سے دلائل پیش ہوں گے اور مولوی محمد حسین صاحب کہتے کہ حدیث سے دلائل دیئے جائیں گے.آخر بحث کو لمبا ہوتے دیکھ کر حضرت خلیفہ اول نے اتنا مان لیا کہ بخاری بھی پیش کی جاسکتی ہے.مولوی محمد حسین صاحب اِس پر بڑے خوش تھے کہ میں آخر انہیں حدیث کی طرف لے آیا.جب یہ اُن کے پاس پہنچے اور کہنے لگے کہ مولوی صاحب! مجھے قرآن کی وہ آیتیں لکھ دیجیے جن سے حضرت مسیح کی حیات ثابت ہوتی ہو.تو مولوی محمد حسین صاحب کو غصہ آ گیا اور کہنے لگے میں اتنی دیر تک نور الدین سے بحث کرتا رہا.وہ کہتا تھا قرآن سے اس مسئلہ پر بحث ہونی چاہیے اور میں کہتا تھا حدیث سے.آخر میں نے اُس سے منوالیا کہ حدیث بھی پیش کی جاسکتی ہے مگر تو پھر اس بحث کو قرآن کی طرف لے گیا ہے.وہ آدمی
$1957 137 خطبات محمود جلد نمبر 38 نیک تھا.اس نے مولوی صاحب کا یہ جواب سنا تو اس پر سکتہ کی سی حالت طاری ہو گئی اور تھوڑی دیر خاموش رہنے کے بعد کہنے لگا کہ مولوی صاحب! اچھا! پھر جدھر قرآن ہے اُدھر ہی میں ہوں.اور یہ کہہ کر وہاں سے واپس آ گیا اور اس نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت کر لی.اسی طرح ایک مخلص انسان کہے گا کہ جب خدا مبائعین کیسا تھ ہے تو پھر جدھر خدا ہے اُدھر ہی میں ہوں.وہ اس فریق کے ساتھ کیوں ملے گا جو مسلمان تو ہو مگر خدا اس کے ساتھ نہ ہو.پس اصل چیز جو دیکھنے کے قابل ہے وہ یہ ہے کہ خدا کس کے ساتھ ہے.اور جب کوئی شخص اس نقطہ نگاہ سے غور کرے گا تو اسے ہمارے متعلق اقرار کرنا پڑے گا بلکہ ایک ہندو تک کو بھی ماننا پڑے گا کہ خدا ان لوگوں کے ساتھ ہے اور انہوں نے ہمیشہ ترقی کی ہے.1953ء میں مخالفت کا ایک عظیم الشان طوفان اُٹھا مگر اُس وقت اللہ تعالیٰ نے ہمیں ہی کامیابی عطا فرمائی.پھر انکوائری کمیشن میں خود جوں نے پیغامیوں کے متعلق کہا کہ ان کا مقام احراریوں کے ساتھ ہے.پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا یہ الہام کہ خدا دو مسلمان فریق میں سے ایک کا ہوگا.پس یہ پھوٹ کا ثمرہ ہے“.مبائعین اور غیر مبائعین کے درمیان ایک فیصلہ کن الہام ہے.یہ سوال کہ اختلاف کیوں ہوا اور اس کی کیا وجوہ تھیں؟ یہ ایک لمبا سوال ہے.اصل بات جو دیکھنے والی ہے وہ یہ ہے کہ اس اختلاف کے نتیجہ میں خدا دو مسلمان فریق میں سے ایک کے ساتھ ہو گیا اور جب خدا ایک کے ساتھ ہو گیا تو جس کے ساتھ خدا ہے اسے کوئی گھبراہٹ نہیں ہوسکتی.اگر خدا غیر مبائعین کے ساتھ ہے تو ان کے لیے کوئی گھبراہٹ کی بات نہیں اور اگر خدا ہمارے ساتھ ہے تو ہمارے لیے کوئی گھبراہٹ کی بات نہیں.اب چاہے کسی غیر سے پوچھ لیا جائے کہ خدا غیر مبائعین کے ساتھ نظر آتا ہے یا مبائعین کے ساتھ تو وہ یہی جواب دے گا کہ ہمیں تو خدا مبائعین کے ساتھ ہی نظر آتا ہے اور 1914ء سے لے کر اب تک وہ جو کام بھی کرتا ہے جماعت مبائعین کی تائید میں کرتا ہے.بلکہ اب تو ”پیغام صلح نے بھی مان لیا کہ ہماری ترقی تنظیم کی وجہ سے ہے.حالانکہ یہ ترقی خواہ کسی وجہ سے ہو اس سے اتنا تو ثابت ہو گیا کہ خدا تعالیٰ ہمارے ساتھ ہے.ہمیں اس سے کیا غرض ہے کہ تنظیم کی وجہ سے خدا نے ہمارا ساتھ دیا ہے یا کسی اور وجہ سے.ہمیں تو خدا سے غرض ہے.
خطبات محمود جلد نمبر 38 138 $1957 جیسے مشہور ہے کہ ایک بڑھیا یوسف کی خریداری کے لیے سوت کی ایک آٹی لے کر آئی.کسی نے اس سے کہا کہ یوسف تو بڑی قیمتی چیز ہے اس کی تو لاکھوں روپے قیمت پڑے گی اور تو سوت کی ایک آٹی لے کر اُس کو خریدنے کے لیے آگئی ہے.اس نے کہا خبر نہیں لاکھوں والے نہ آئیں اور اس کی آٹی کے بدلے میں مجھے یوسف مل جائے.جس طرح اس بُڑھیا کو صرف یوسف کی خریداری کی ضرورت تھی ، اس امر کی اُس کی نگاہ میں کوئی حقیقت نہ تھی کہ وہ لاکھوں سے ملتا ہے یا انسی سے، اسی طرح ہمیں تو خدا کی ضرورت ہے.اگر ہمیں وہ آئی سے مل گیا تب بھی وہ خدا ہے اور اگر وہ کروڑوں سے مل گیا تب بھی وہ خدا ہے، اگر وہ مسجدوں سے ملا ہے تب بھی خدا ہے اور اگر وہ تنظیم سے ملا ہے تب بھی خدا ہے.پس یہ الہام ہماری صداقت کا ایک بہت بڑا ثبوت ہے اور اس میں خدا تعالیٰ نے ہمیں اس امر کی طرف توجہ دلائی ہے کہ تم اس بحث میں نہ پڑو کہ کون مسلمان ہے اور کون نہیں.تم یہ دیکھو کہ خدا کس کے ساتھ ہے.ایک مصری اخبار الفتح “ نے ایک دفعہ لکھا کہ تیرہ سو سال میں بڑے بڑے مسلمان بادشاہ گزرے ہیں مگر ان میں سے کسی کو اسلام کی اشاعت کی وہ توفیق نہیں ملی جو اس چھوٹی سی جماعت کومل رہی ہے.پس ہمیں اس سے کیا کہ علماء ہمیں کافر کہتے ہیں.اگر وہ ہمیں کافر کہتے ہیں تو بیشک کہتے رہیں ہمیں تو خدا چاہیے کیونکہ اس کی ہمیں ضرورت ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام لطیفہ سنایا کرتے تھے کہ ایک راجہ نے ایک دفعہ بینگن کی بھیجیا کھائی جو اُ سے بڑی مزیدار معلوم ہوئی.وہ دربار میں آیا اور کہنے لگا کہ بینگن بڑی اچھی چیز ہے.آج میں نے اس کی بھیجیا کھائی ہے جو بڑی مزیدار تھی.اس پر ایک درباری کھڑا ہو گیا اور کہنے لگا حضور ! بینگن تو عجیب چیز ہے.جس وقت یہ پودے کے ساتھ لٹکا ہوا ہوتا ہے تو بالکل یوں معلوم ہوتا ہے جیسے کوئی صوفی ایک کو نہ میں سر نیچے اور پیر اونچے کر کے خدا کی عبادت میں مشغول ہو اور پھر حضور ! اگر طب کی کتابوں کا مطالعہ فرمائیں تو حضور کو معلوم ہوگا کہ اس میں بڑی بڑی خوبیاں ہیں.چنانچہ اس نے ایک ایک کر کے بینگن کی خوبیاں بیان کرنی شروع کر دیں.اس کے بعد چند دن متواتر جو راجہ.بینگن استعمال کیے تو اُسے بواسیر ہوگئی.اس پر وہ دربار میں آ کر کہنے لگا کہ میں تو سمجھتا تھا کہ بینگن بڑی اچھی چیز ہے مگر معلوم ہوتا ہے اس میں بھی نقص ہیں.میں نے چند دن بینگن کھائے تو مجھے بواسیر
$1957 139 خطبات محمود جلد نمبر 38 ہوگئی ہے.اس پر وہی درباری پھر کھڑا ہو گیا اور کہنے لگا حضور! بینگن بڑی خراب چیز ہے.طب کی ا کتابوں میں اس کا یہ نقص بھی لکھا ہے ، وہ نقص بھی لکھا ہے.طب کی کتابوں میں آخر ہر چیز کے فوائد کا بھی ذکر ہوتا ہے اور نقصانات کا بھی.اس نے نقصانات بتانے شروع کر دئیے کہ اس میں یہ بھی خرابی ہوتی ہے اور وہ بھی خرابی ہوتی ہے.اور پھر کہنے لگا حضور! اس کی شکل بھی دیکھیے کتنی منحوس ہوتی ہے.جس وقت یہ کمبخت پودے کے ساتھ لٹکا ہوا ہوتا ہے تو بالکل یوں معلوم ہوتا ہے جیسے کسی چور کے ہاتھ منہ کالے کر کے اسے صلیب پر لٹکا یا ہوا ہے.درباریوں نے بعد میں اُسے بڑی ملامت کی اور کہا تو بڑا بے حیا ہے.اُس دن تو بینگن کی اتنی تعریف کر رہا تھا اور آج تو نے اس کی مذمت شروع کر دی.وہ کہنے لگا میں راجہ کا نوکر ہوں بینگن کا نہیں.اسی طرح ہم بھی خدا کے نوکر ہیں مولویوں کے نہیں.اگر خدا کسی وجہ سے ہمارا ساتھ دینے لگتا ت ہے تو چاہے وہ کتنی چھوٹی وجہ ہو ہمیں اس سے کوئی غرض نہیں ہوگی کہ وہ چھوٹی وجہ ہے.اگر ایک چھوٹی نی وجہ سے ہی خدا ہمارے ساتھ ہو گیا ہے اور اس کی تائید ہمارے شامل حال ہوگئی ہے تو ہمیں اس وجہ کے چھوٹا ہونے کی کوئی پروا نہیں ہوگی کیونکہ ہمارا اصل مقصود خدا ہے اور ہم خدا کے نوکر ہیں مولویوں کے نہیں.جب خدا ہمارے ساتھ ہو گیا تو ہماری غرض پوری ہوگئی.اب ہمیں اس سے کوئی غرض نہیں کہ دنیا ہمیں اچھا کہتی ہے یا بُرا کہتی ہے.اگر خدا ہمارے ساتھ ہے تو دنیا کی مخالفت ہماری نگاہ میں الفضل 8 جون 1957 ء ) ایک ذرہ بھر بھی حقیقت نہیں رکھتی.1 : تذکرہ صفحہ 604.ایڈیشن چہارم 2004 ء
$1957 140 (17 خطبات محمود جلد نمبر 38 اگر انسان پورے یقین کے ساتھ خدا تعالیٰ کو پکارے تو اس کی پکار کبھی ضائع نہیں جاتی اور خدا اس کی مدد کے لیے دوڑا چلا آتا ہے فرمودہ 14 جون 1957ء) تشہد ، تعوذ ، سورۃ فاتحہ کے بعد حضور نے قرآن کریم کی اس آیت کی تلاوت فرمائی کہ:.وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّي فَإِنِّي قَرِيبٌ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ فَلْيَسْتَجِبْوَالِى وَلْيُؤْمِنُوا بِي لَعَلَّهُمْ يَرْشُدُونَ 1 اس کے بعد فرمایا: اس آیت میں دعا کی قبولیت کا اللہ تعالیٰ نے ایک عظیم الشان گر بتایا ہے.میں تو آج خطبہ پڑھ رہا ہوں یا اس سے پہلے بھی بعض دفعہ اس آیت کے متعلق خطبات پڑھ چکا ہوں لیکن یہ آیت تیرہ سو سال سے قرآن کریم میں موجود ہے.پس یہ آج کا نسخہ نہیں بلکہ تیرہ سو سال سے اللہ تعالی کا بتایا ہوا نسخہ ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّى فَإِنِّي قَرِيبٌ کہ جب کبھی
$1957 141 خطبات محمود جلد نمبر 38 حمد میرے بندے انسانی خداؤں سے ڈر کر پوچھیں کہ ہمارا آسمانی خدا کہاں ہے؟ ہم پر تو فرعون نے اور نمرود نے اور شدّاد نے اتنا تصرف کر لیا ہے کہ ہماری سمجھ میں نہیں آتا کہ ہم کہاں جائیں اور کس طرح مصائب اور آفات سے رہائی حاصل کریں.وہ تو عرش پر بیٹھا ہوا ہے اور ہمیں نظر نہیں آتا.تو تو انہیں کہہ دے کہ تمہیں میرے پاس آنے کی ضرورت نہیں.فَانّی قَرِيْبٌ میں خود تمہارے قریب آیا ہوا ہوں.اگر تمہارا باپ تمہارے کام آسکتا یا تمہارا چا تمہاری مدد کر سکتایا اور کوئی رشتہ دار تمہارے قریب ہوتا تو تمہیں دوڑ کر اُس کے پاس جانا پڑتا مگر اب تمہیں کہیں جانے کی ضرورت نہیں.میں آپ دوڑ کر تمہارے قریب آیا ہوا ہوں.پس تمہاری فریاد کے سنے جانے میں کوئی وقت نہیں لگ سکتا.دنیا میں تو تمہیں مدد حاصل کرنے کے لیے اپنے رشتہ داروں کے پاس دوڑنا پڑتا ہے مگر یہاں یہ کیفیت نہیں بلکہ یہاں میں آپ دوڑ کر تمہارے قریب آ گیا ہوں.پھر تمہیں کیا مشکل پیش آسکتی ہے.اُجِيْبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ جو شخص بھی کامل طور پر دعا کرنے والا ہو میں اُس کی دعا کو قبول کیا کرتا ہوں اور اُسے کبھی خالی ہاتھ اپنی بارگاہ سے واپس نہیں لوٹا تا.مگر شرط یہ ہے کہ فَلْيَسْتَجِيبُوالين آخر تمہاری میرے ساتھ کوئی رشتہ داری تو نہیں.نہ میں تم میں سے کسی کا باپ ہوں اور نہ میں کسی کا بیٹا ہوں.میرے ساتھ تمہارا تعلق تو دوستی اور محبت سے ہی قائم ہے.اور دوستی میں یہی ہوتا ہے کہ ایک دوسرے کی باتیں مانی جاتی ہیں.پس بے شک میں ان کی دعائیں سننے کے لیے تیار ہوں مگر وہ بھی تو میری سنیں اور میری باتیں مانیں.آخر یہ کیا بات ہے کہ وہ تو چاہتے ہیں کہ میں اُن کی سنوں مگر وہ میری بات ماننے کے لیے تیار نہ ہوں.اگر وہ چاہتے ہیں کہ میں اُن کی سنوں تو وہ میری بھی سنیں اور میرے احکام پر چلیں.آگے فرماتا ہے ولیو منو ابی اب یہ سیدھی بات ہے کہ اللہ تعالیٰ کے احکام وہی مانے گا جو اُن پر ایمان لائے گا.آخر ایک ہندو کیوں حج کرے گا؟ ایک ہندو کیوں روزہ رکھے گا ؟ ایک ہندو کیوں زکوۃ دے گا ؟ یا ایک عیسائی کیوں روزہ رکھے گا؟ وہ کیوں حج کرے گا ؟ وہ کیوں زکوۃ دے گا؟ ایک عیسائی یا ہند و تبھی روزہ رکھے گا اور تبھی حج کرے گا اور تبھی زکوۃ دے گا جب وہ مسلمان ہو جائے گا.پس جب خدا تعالیٰ نے پہلے کہہ دیا کہ فَلْيَسْتَجِواری انہیں چاہیے کہ وہ میری باتیں بھی مانیں تو ایمان اس کے اندر آ گیا.پھر ولی منوالی کیوں کہا؟ اس کے متعلق یا درکھنا چاہیے کہ فَلْيَسْتَجِنیوالی میں تو احکام پر عمل کرنے کی ہدایت ہے اور وَلْيُؤْمِنُوالی میں
142 $1957 خطبات محمود جلد نمبر 38 اس طرف توجہ دلائی گئی ہے کہ تم صرف احکام پر ہی عمل نہ کرو.بلکہ اس بات پر بھی یقین رکھو کہ میں تمہاری دعائیں سن سکتا ہوں اور ان کے مطابق دنیا میں تغیرات پیدا کر سکتا ہوں.اگر تم یہ یقین نہیں رکھتے تو پھر تمہارا دعا کرنا بنسی اور تمسخر ہے.جیسے اگر کوئی شخص بُت کے آگے روتا بھی رہے اور چنیں مار مار کر دعائیں بھی کرتا رہے تو بت نے کیا کر لینا ہے.اسی طرح اگر ایک شخص خدا تعالیٰ کے سامنے کی بیٹھ جاتا ہے اور اس سے دعائیں مانگنے لگ جاتا ہے.لیکن دل میں یہ یقین نہیں رکھتا کہ خدا اُس کی دعاؤں کو سن سکتا ہے تو وہ خدا تعالیٰ کی بہتک کرتا اور اسے ایک بُت کا درجہ دیتا ہے.لیکن اگر وہ پورے یقین کے ساتھ خدا تعالیٰ کو پکارتا ہے تو اس کی پکار کبھی ضائع نہیں جاسکتی.خدا تعالیٰ اس کی مدد کے لیے دوڑا چلا آتا ہے.حضرت ابو ہریرہ کی ایک رشتہ دار عورت جو غالباً اُن کی پھوپھی تھیں اُن کی کسی دوسری عورت سے لڑائی ہوگئی.جوش میں اُن کی پھوپھی نے اُس عورت کو تھپڑ مارا جس سے اُس کا دانت ٹوٹ گیا.اس عورت کا بیٹا یا بھتیجا مسلمان تھا.اُس نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس دعوا می دائر کر دیا اور کہايَا رَسُولَ اللہ ! جس طرح میری والدہ یا بچی کا دانت توڑا گیا ہے اسی طرح ابو ہریرہ کی پھوپھی کا بھی دانت توڑا جائے.چونکہ حضرت ابو ہریرہ ایک مخلص صحابی تھے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اُسے سمجھایا کہ معاف کر دو مگر اس نے کہا یا رَسُولَ اللہ ! میں معاف نہیں کر سکتا.میرے دل میں بڑی تی آگ ہے.جب تک ان کی پھوپھی کا بھی دانت نہیں نکالا جائے گا مجھے تسلی نہیں ہوگی.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اُسے پھر سمجھایا اور فرمایا کہ جانے دو.مگر وہ نہ مانا.جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سمجھانے کے باوجود وہ نہ مانا تو حضرت ابو ہریرہ نے سمجھ لیا کہ جو انسانی زور ہو سکتا تھا وہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک ہی ہو سکتا تھا.جب اس نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات ماننے سے بھی انکار کر دیا ہے تو اب خدا ہی باقی رہ گیا ہے.اُس کے سامنے مجھے اپنا ہاتھ پھیلانا چاہیے.چنانچہ وہ جوش میں آگئے اور انہوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کر کے کہا کہ خدا کی قسم! میری پھوپھی کا دانت نہیں تو ڑا جائے گا.اس فقرہ کا اُن کے منہ سے نکلنا تھا کہ وہی مسلمان جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سفارش کو بھی رڈ کر چکا تھا خدا کا نام سن کر ڈر گیا اور کہنے لگایا رَسُولَ اللہ ! میں معاف کرتا ہوں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا دنیا میں
$1957 143 خطبات محمود جلد نمبر 38 بعض آدمی ایسے بھی ہوتے ہیں جن کے سر میں مٹی پڑی ہوئی ہوتی ہے اور جن کے کپڑے میلے کچیلے ہوتے ہیں مگر جب وہ کسی معاملہ میں خدا تعالیٰ کی قسم کھا کر کوئی بات کریں تو خدا آسمان سے ان کی قسم کو پورا کرنے کا فیصلہ کر دیتا ہے.2 اب دیکھو! ابو ہریرہ ایک غریب آدمی تھے.مگر جب انہوں نے قسم کھائی تو خدا آسمان سے ان کی مدد کے لیے اتر آیا.اور وہی مسلمان جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سفارش کو بھی رڈ کر چکا تھا.اس نے بدلہ لینا ترک کر دیا.تو مومن کی دعا خدا تعالیٰ کے عرش کو بھی ہلا دیتی ہے اور اس کے فرشتے انسان کی مدد کے لیے آسمان سے اترنے لگ جاتے ہیں.مجھے اس خطبہ کی ضرورت اس لیے پیش آئی کہ پچھلے دنوں متواتر مجھے مختلف مقامات سے احمدیوں کے خطوط پہنچے ہیں کہ مخالف انہیں دق کر رہے ہیں.بعض نے اپنے افسروں کے متعلق لکھا ہے، بعض نے اپنے علاقہ کے رئیسوں کے متعلق لکھا ہے ، بعض نے علماء کے متعلق لکھا ہے اور بعض نے اور بعض صاحب اثر لوگوں کے متعلق لکھا ہے کہ وہ انہیں احمدیت کی وجہ سے تنگ کر رہے ہیں.میں ان سب سے کہتا ہوں کہ میں اُنہی جیسا ایک انسان ہوں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی فرماتے ہیں کہ میں ایک بشر رسول ہوں اور میں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خادموں کا بھی خادم ہوں.پھر میرے بشر ہونے میں کیا محبہ ہو سکتا ہے.پس میں ان کی ضرورت پوری نہیں کر سکتا.ان کی ضرورت خدا ہی پوری کر سکتا ہے.پس ان کو چاہیے کہ وہ خدا تعالیٰ سے دعا کریں اور اُنہی الفاظ میں کریں جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سکھائے ہیں اور وہ یہ ہیں کہ اَللَّهُمَّ إِنَّا نَجْعَلُكَ فِی نُحُورِهِمُ وَنَعُوذُ بِكَ مِنْ شُرُورِهِمْ - 3 یعنی اے خدا ہمارے دشمن اتنے طاقتور ہو گئے ہیں کہ ہم ان کا ی مقابلہ نہیں کر سکتے.ہم ان کی چھاتیوں کے آگے تجھے کھڑا کرتے ہیں تا کہ وہ شر جو دشمن ہمیں پہنچانا ہے چاہتے ہیں اُن سے ہم محفوظ رہیں اور تیری تائید اور نصرت ہمارے شاملِ حال رہے.ہم نے تجربہ کیا ہے کہ اس دعا کے نتیجہ میں بڑے سے بڑے طاقت ور آدمی بھی اپنے ہتھیار پھینک دیتے ہیں اور ان کی تمام تدبیریں خاک میں مل جاتی ہیں.پس میں جماعت سے کہتا ہوں کہ وہ قرآن کریم کی اس آیت اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت پر غور کریں اور ان حالات میں خدا تعالیٰ سے دعا کیا کریں کہ اَللَّهُمَّ إِنَّا نَجْعَلُكَ فِی نُحُوْرِهِمْ وَنَعُوذُ بِكَ مِنْ شُرُورِهِمُ.اگر تم ان الفاظ میں خدا تعالیٰ
$1957 144 خطبات محمود جلد نمبر 38 سے دعا کرتے رہو گے تو میں تمہیں یقین دلاتا ہوں کہ اگر تمہارے دشمن آسمان سے بھی اونچے چلے جائیں گے تو خدا کے فرشتے ان کی ٹانگیں پکڑ کر اس طرح کھینچیں گے کہ ان کے جسم کا ذرہ ذرہ ہوا میں اُڑ جائے گا.1953ء میں جب فسادات ہوئے تو جھنگ کا ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ پولیس میرے پاس آیا اور کہنے لگا کہ گستاخی تو ہوگی مگر میں حکم پہنچانے پر مجبور ہوں.ہوم سیکرٹری کی طرف سے گورنر صاحب کا آپ کے نام حکم آیا ہے کہ آپ احرار کے متعلق کوئی بات نہ کہیں اور نہ اخبار میں اس کے متعلق کچھ لکھیں کیونکہ اس طرح جوش پیدا ہوتا ہے.میں نے کہا ظلم احرار کر رہے ہیں یا ہم کر رہے ہیں؟ ہمارے آدمیوں کا بائیکاٹ کیا جارہا ہے یا احرار کا بائیکاٹ کیا جا رہا ہے؟ ہمارے آدمی قتل ہورہے ہیں یا احرار کے آدمی قتل ہورہے ہیں؟ اگر ہماری جماعت کے افراد مارے جارہے ہیں.اگر ہماری جماعت کے افراد کا بائیکاٹ کیا جا رہا ہے اور اگر ہماری جماعت کے افراد کے گھروں کو جلایا جارہا ہے تو چاہیے تھا کہ نوٹس اُن کو دیا جاتا.مجھے کیوں نوٹس دیا گیا ہے.وہ کہنے لگا میں تو نوکر ہوں.گورنر صاحب کا آرڈر آیا تھا جسے میں پہنچانے پر مجبور تھا.ورنہ میں نے تو پہلے ہی معذرت کر دی ہے کہ مجھے اس گستاخی کی معافی دی جائے.جب وہ اٹھنے لگا تو میں نے کہا تم نے تو اپنا فرض ادا کر دیا ہے.اب مجھے بھی اپنا فرض ادا کرنے دو.تمہارے گورنر کو یہ دعوی ہے کہ وہ حکومت پاکستان کا نمائندہ ہے اور مجھے یہ دعوی ہے کہ میں رب العرش کا نمائندہ ہوں.تم اپنے آپ کو اسی لیے محفوظ سمجھتے ہو کہ تم حکومت کی طرف سے آئے ہو اور تم سمجھتے ہو کہ اگر میری بہتک ہوئی تو گورنمنٹ خود ہتک کرنے والے کو پکڑلے گی.پس اگر تم کو یہ یقین ہے کہ میری ہتک پر یہ گورنر میری مدد کو پہنچے گا.تو اگر میں خدا کا گورنر ہوں تو کیا خدا میری مدد کے لیے نہیں آئے گا ؟ اس کے بعد میں نے اسے کہا کہ جاؤ اور اپنے افسروں سے کہہ دو کہ قریب ہی میرا خدا ان کی گردنیں پکڑلے گا اور جس طرح تمہارے گورنر نے اپنا حکم بھیج کر میری گردن مروڑی ہے.اسی طرح میرا خدا اُس کی گردن مروڑ کر رکھ دے گا.چنانچہ سات دن کے اندراندر گورنر کو برطرف کر دیا گیا اور اُسے واپس بلالیا گیا.اس واقعہ کا اتنا اثر تھا کہ بعد میں جب سپرنٹنڈنٹ پولیس میری تلاشی کے لیے آیا (اب چونکہ وہ پنشن لے چکا ہے اس لیے اس بات کے بیان کرنے میں کوئی حرج نہیں ) تو اُس نے کہا
$1957 145 خطبات محمود جلد نمبر 38 کہ مجھے تو یہ حکم ہے کہ میں زنانے میں بھی گھس کر تلاشی لوں.مگر میرے دل میں آپ کا بڑا ادب ہے.آپ مجھے صرف اپنی دہلیز میں پیر رکھنے دیں.میں لکھ دوں گا کہ میں نے تلاشی لے لی ہے.میں نے کہا یہ نہیں ہوسکتا.اگر گورنمنٹ نے مجھ سے پوچھا تو میں یہی کہوں گا کہ میری کوئی تلاشی نہیں لی گئی.اس لیے میرے ساتھ چلو اور تلاشی لو.پھر میں اُسے اپنے ساتھ لے گیا اور میں نے کہا یہ کا غذات موجو ہیں ان کو دیکھ لو.وہ بار بار معذرت کرتا اور کہتا کہ حکم پورا ہو گیا.مگر میں نے کہا اس طرح نہیں پہلے سارے کاغذات دیکھ لو پھر حکم پورا ہو گا.اُس نے ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ پولیس کو بھی اندر بلا لیا تھا.چنانچہ سارے کاغذات اُسے دکھائے گئے تا کہ گورنمنٹ کا حکم پورا ہو جائے.اس طرح خدا نے فوراً وہ بات پوری کر دی جو میری زبان سے نکلی تھی.اب گجا گورنر اور گجا میری ذات.مگر سات دن کے اندر اندر اُسے گورنری سے رُخصت کر دیا گیا اور اب تک وہ وکالتیں کرتا پھرتا ہے.پس دعائیں کرو اور اللہ تعالیٰ سے اپنی مشکلات کا ازالہ چاہو اور یا درکھو کہ خواہ تمہاری مخالفت کرنے والے تمہارے ہمسائے ہوں یا علمائے دین ہوں، یا بڑے بڑے تاجر اور کارخانہ دار ہوں یا قوم کے لیڈر اور رئیس ہوں.اگر تم اخلاص سے یہ دعا کرو گے کہ اَللَّهُمَّ إِنَّا نَجْعَلُكَ فِی نُحُوْرِهِمْ وَنَعُوذُ بِكَ مِنْ شُرُورِهِمْ.تو میں تمہیں یقین دلاتا ہوں کہ اگر تم ان کے پاؤں کی خاک بھی ہو گے تو اللہ تعالیٰ آسمان سے اپنا ہاتھ بڑھا کر اُن کی گردنیں مروڑ دے گا.کیونکہ خدا تعالیٰ صرف كُنُ کہتا ہے اور زمین و آسمان میں تغیر پیدا ہونا شروع ہو جاتا ہے.اگر تم اخلاص سے اُس سے دعا کرتے رہو گے تو خدا تعالیٰ کہے گا کہ اے زمین و آسمان! میں تمہیں حکم دیتا ہوں کہ تمہارا ذرہ ذرہ اس شخص کی تائید میں لگ جائے.بے شک تمہارا مخالف پانی چھان چھان کر پیئے.رات اور دن پر ہیز کرتا رہے.خدا تعالیٰ کہے گا کہ اے ہیضہ کے کیڑو! تم اتنی تعداد میں اس شخص کے اندر داخل ہو جاؤ کہ دنیا کی کوئی دوائی اس پر اثر نہ کر سکے.اے انفلوئنزا کے کیڑو! تم اتنی تعداد میں اس شخص کے اندر داخل ہو جاؤ کہ دنیا کی کوئی دوائی اس پر اثر نہ کر سکے.اے طاعون کے کیٹر و ! تم اتنی تعداد میں اس شخص کے اندر داخل ہو جاؤ کہ دنیا کی کوئی دوائی اس پر اثر نہ کر سکے اور یہ تڑپ تڑپ کر مر جائے اور میرا مومن بندہ خوش ہو جائے کہ میں نے اس کی تائید کی ہے.پس میں تمہیں یہی نصیحت کرتا ہوں بیشک مجھے خط لکھ دینا بھی ایک مفید بات ہے.اس سے
146 $1957 خطبات محمود جلد نمبر 38 مجھے تحریک ہوتی ہے اور میں دعا کر دیتا ہوں.مگر اصل طریق یہی ہے کہ تم خود بجز و انکسار سے خدا تعالیٰ کے آگے جھکو اور اس سے دعائیں کرو کہ وہ تمہیں دشمنوں کے شر سے محفوظ رکھے.آخر یہ کس طرح مانا جانتی سکتا ہے کہ تم نے تو خدا تعالیٰ کے مامور کو مان لیا مگر خدا تعالیٰ بات نہیں مانے گا.اللہ تعالیٰ کسی کا احسان پنے سر پر نہیں رکھتا.قرآن کریم میں آتا ہے کہ اعراب کہتے ہیں کہ ہم نے اسلام قبول کر کے خدا تعالیٰ پر احسان کیا ہے.خدا تعالیٰ اس کے جواب میں فرماتا ہے کہ تم احسان مت جتاؤ.خدا نے تم پر یہ احسان کیا ہے کہ اس نے تمہیں اسلام قبول کرنے کی توفیق دی ہے.4 پس جب کوئی شخص خدا تعالیٰ کے مامور کو قبول کرتا ہے تو چونکہ خدا تعالیٰ یہ برداشت نہیں کرتا کہ اس پر کوئی احسان رکھے اس لیے وہ فوراً اُسے اپنے انعامات سے نواز نا شروع کر دیتا ہے.اسی طرح اگر تم کو تکلیف دی جاتی ہے تو اللہ تعالیٰ جلد ہی کی ایسے سامان پیدا کر دے گا کہ تمہاری تکلیف دور ہو جائے گی.کیونکہ اگر وہ تکلیف دور نہ ہوئی تو قیامت کے دن تم خدا تعالیٰ سے کہہ سکتے ہو کہ لوگوں نے ہمیں دنیا میں یہ یہ تکلیفیں دی تھیں.اے خدا! تو بتا کہ ٹو نے ہمارے ساتھ کیا سلوک کیا ؟ اللہ تعالیٰ اس کا یہی جواب دے سکتا ہے کہ تمہارے بڑے بڑے دشمن تھے جن کو میں نے ہلاک کر دیا اور تمہیں انکی شرارتوں سے محفوظ رکھا.آخر صحابہ کو بھی بڑی بڑی تکلیفیں پہنچی تھیں.جب مرنے کے بعد وہ خدا تعالیٰ سے کہیں گے کہ الہی ! تیری خاطر ہم نے اپنا وطن چھوڑا، بہن بھائیوں اور رشتہ داروں کو چھوڑا لڑائیاں کیں ، مالی اور جانی قربانی کی تو خدا تعالیٰ انہیں کہے گا کہ تمہیں یاد ہے تم سوکھی روٹیاں کھاتے تھے اور تمہیں تن کے پورے کپڑے بھی میسر نہیں تھے.یہاں تک کہ بعض دفعہ تمہارا امام نماز پڑھاتا تو سجدہ میں جاتے وقت وہ ننگا ہو جاتا تھا مگر پھر میں نے سارے عرب کا تمہیں بادشاہ بنادیا اور مکہ کے وہ بڑے بڑے سردار جو تمہیں جو تیاں مار لیتے تھے وہ تمہارے سامنے غلاموں کی طرح پھرنے لگے.اب بتاؤ! میں نے تم پر کتنا بڑا احسان کیا تھا.اور یقیناً انہیں ماننا پڑے گا کہ خدا نے جو اُن پر احسان کیا تھا اگلے جہان میں جو نعمتیں انہیں ملیں گی ان کو جانے دو.اس جہان کا انعام ہی اس خدمت کے مقابلہ میں بہت زیادہ تھا جو انہوں نے خدا تعالیٰ کے دین کے لیے کی.پس خدا تعالیٰ سے دعائیں مانگو اور یقین رکھو کہ وہ تمہاری سنے گا.پھر دیکھ لینا کہ بڑی سے بڑی طاقت بھی تمہارا مقابلہ نہیں کر سکے گی.
$1957 147 خطبات محمود جلد نمبر 38 دیکھو! مفتی محمد صادق صاحب جب امریکہ گئے تو سرکاری عملہ نے انہیں روک لیا اور امریکہ کی میں داخل ہونے کی اجازت نہ دی.اُس وقت میں نے ایک نظم لکھی جو " کلام محمود میں ہے اور جس کا شعر یہ ہے کہ غم اپنے دوستوں کا بھی کھانا پڑے ہمیں اغیار کا بھی بوجھ اٹھانا پڑے ہمیں اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ حکومت جس نے انہیں روکا تھاٹوٹ گئی اور اب جو دوسری حکومت قائم ہوئی ہے اُس نے حکم دے دیا ہے کہ احمدی مبلغوں کے آنے میں کوئی روک نہ پیدا کی جائے.بلکہ اب صرف احمدی مبلغوں کو ہی اجازت نہیں دی جاتی بلکہ ہر سال پاکستانیوں اور ہندوستانیوں کی ایک بہت بڑی تعداد کو بھی اجازت دی جاتی ہے.پہلے صرف جرمن اور انگریز وہاں جا سکتے تھے مگر اب پاکستانی اور ہندوستانی بھی بڑی تعداد میں وہاں جا سکتے ہیں.پس خدا تعالیٰ کے فضلوں سے مایوس نہیں ہونا ہے چاہیے اور انسانوں کی طرف نہیں دیکھنا چاہیے.یہ انسان تمہارے پاؤں کی انگلی کی میل سے بھی زیادہ حیثیت نہیں رکھتے اور جب خدا چاہے گا انہیں کچل کر رکھ دے گا.مخالفتیں ایک عارضی چیز ہیں.تمہیں اصل تو کل خدا پر رکھنا چاہیے کہ وہی مدد کرنے والا اور دشمنوں پر غلبہ دینے والا ہے.1 : البقرة: 187 اله 66 الفضل 22 جون 1957 ء ) : صحیح بخاری که ) كتاب التفسير باب " و الجروح قصاص“ میں حضرت انس بن مالک کی پھوپھی کا ذکر ہے.3 : سنن ابی داؤد کتاب الصلاة (كتاب الوتر باب ما يقول الرّجلُ اذا خاف قومًا :4 يَمُتُّوْنَ عَلَيْكَ أَنْ أَسْلَمُوا قُل لَّا تَمُنُّوا عَلَى إِسْلَامَكُمْ بَلِ اللهُ يَمُنُ عَلَيْكُمُ أنْ هَدَيكُمْ لِلْإِيْمَانِ إِن كُنتُمْ صَدِقِينَ (الحجرات : 18)
$1957 148 18 خطبات محمود جلد نمبر 38 سچا مومن وہ ہے جو خدا کے مقام اور اس کے رسول کے درجہ میں فرق کو ہمیشہ ملحوظ رکھے (فرمودہ 21 جون 1957ء) تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: قرآن کریم میں ایک لفظ ربانی کا آتا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے كُونُوا رَبَّنِينَ - 1- تم ربانی بن کے رہو.مختلف صحابہ نے مختلف اوقات میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے جو باتیں سنی ہیں ان کے مطابق بعض نے تو یہ کہا ہے کہ ربانی وہ ہیں جو چھوٹے علوم پہلے پڑھاتے ہیں اور بڑے بعد میں.اور بعض نے کہا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں ہدایت دی تھی کہ ہم ہ شخص کو اس کے درجہ کے مطابق جگہ دیں.اگر ہم ہر شخص کو اُس کے درجہ کے مطابق جگہ دیتے ہیں تب تو ہم خدا تعالیٰ کے حضور نیک سمجھے جاسکتے ہیں ورنہ نہیں.جہاں تک مجھے یاد ہے الفاظ یہ ہیں کہ اُمِرْنَا أَنْ نُنَزِلَ النَّاسَ عَلَى مَنَازِلِهِمْ - 2 یعنی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں یہ حکم دیا تھا کہ ہر شخص کا درجہ اور مقام ہے اس کو مد نظر رکھتے ہوئے ہم اس کے ساتھ سلوک کریں.ان الفاظ میں درحقیقت اس طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ سچا مومن وہ ہے جو خدا کو خدا کا، رسول کو رسول کا اور صحابی کو صحابی کا
$1957 149 خطبات محمود جلد نمبر 38 مقام دیتا ہے.بعض لوگ جو اس حقیقت کو مد نظر نہیں رکھتے مبالغہ سے کام لیتے ہوئے رسول کو خدا کا مقام دے دیتے ہیں جن سے خدا تعالیٰ کی ہتک ہوتی ہے اور بعض دفعہ رسول کی شان میں ایسے الفاظ استعمال کرنے لگ جاتے ہیں جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے لیے جائز نہیں سمجھتے تھے.مثلاً رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تو لوگوں سے کہہ دے کہ هَلْ كُنْتُ إِلَّا بَشَرً ا رَسُولاً -3 میں تو صرف ایک بشر رسول ہوں.مگر مسلمانوں میں سے بعض ایسے ہیں جو کہتے ہیں کہ آپ بشر نہیں تھے بلکہ آپ کو بشر کہنا حرام ہے اور جو شخص آپ کو بشر کہتا ہے وہ گناہ کا ارتکاب کرتا ہے.گویا انہوں نے رسول کو خدا کا مقام دیا ہے.حالانکہ خود رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی وفات کے وقت فرمایا تھا کہ خدا یہود پر لعنت کرے کہ انہوں نے اپنے نبیوں کی قبروں کو عبادت گاہ بنالیا ہے اور انہیں خدائی کا درجہ دے دیا ہے.4 یہ تو آپ کا فتویٰ ہے جو آپ نے یہود کے متعلق دیا مگر مسلمانوں نے یہ فتویٰ دے دیا کہ آپ کو بشر کہنا بھی ناجائز ہے.حالانکہ اصل نیکی یہ تھی کہ خدا کو خدا کا، رسول کو رسول کا اور صحابی کو صحابی کا درجہ دیا جا تا.جو شخص ایسا نہیں کرتا اور در جے گھٹا تا بڑھا تا رہتا ہے وہ خدا تعالیٰ کے حضور مجرم ہو جاتا ہے.اور ایسا آدمی کبھی عزت نہیں پاتا، نہ خدا تعالی کی نگاہ میں اور نہ رسول کی نظر میں.کیونکہ وہ رسول کو خدا کے مقابلہ میں لا کر کھڑا کر دیتا ہے.مثلا مسیح ناصری کی امت نے حضرت مسیح ناصرتی کو خدا کا درجہ دے دیا ہے.مگر قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ قیامت کے دن جب حضرت مسیح سے اس بارہ میں پوچھا جائے گا تو وہ کہیں گے کہ خدایا! میں نے تو کبھی ایسی بات نہیں کہی تھی.انہوں نے جو کچھ کیا ہے میرے مرنے کے بعد کیا ہے.اب آپ کا اختیار ہے کہ چاہیں تو انہیں معاف کر دیں اور چاہیں تو سزا دے دیں.5 گویا جس کو کی انہوں نے خدا کا بیٹا بنا رکھا ہے.بجائے اس کے کہ وہ اپنی امت کے اس فعل پر فخر کرتا وہ خدا سے یہی کہے گا کہ خدایا! اس میں میرا کوئی قصور نہیں.انہوں نے جو کچھ کہا ہے میرے مرنے کے بعد کہا ہے.اب تیرا اختیار ہے کہ تو اُن سے جو چاہے سلوک کرے.یہ تیرے بندے ہیں تو چاہے تو انہیں معاف کر دے اور چاہے تو سزا دے دے.مگر مسلمانوں نے اس سے بھی بڑھ کر کمال کر دیا.حضرت خلیفہ اول کی ایک بہن ایک پیر صاحب کی مُرید تھیں.وہ قادیان میں آئیں اور انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بیعت کر لی.جب واپس گئیں تو ان کے
خطبات محمود جلد نمبر 38 150 $1957 صاحب کہنے لگے کہ تجھے کیا ہو گیا کہ تو نے مرزا صاحب کی بیعت کر لی ہے.معلوم ہوتا.نور الدین نے تجھ پر جادو کر دیا ہے.وہ آئیں تو حضرت خلیفہ اول سے انہوں نے اس کا ذکر کیا.آپ نے فرمایا اگر پھر بھی پیر صاحب سے ملنے کا اتفاق ہو تو انہیں کہنا کہ آپ کے عمل آپ کے ساتھ ہیں اور میرے عمل میرے ساتھ ہیں.میں نے تو مرزا صاحب کو اس لیے مانا ہے کہ اگر آپ کو نہ مانا تو ہے قیامت کے دن مجھے جوتیاں پڑیں گی.آپ بتائیں کہ آپ اس دن کیا کریں گے؟ جب وہ واپس گئیں تو انہوں نے پیر صاحب سے جا کر یہی بات کہہ دی.وہ کہنے لگا یہ نورالدین کی شرارت معلوم ہوتی ہے.اُس نے تجھے یہ بات سمجھا کر میرے پاس بھیجا ہے مگر تمہیں اس بارہ میں کسی گھبراہٹ کی ضرورت نہیں.جب قیامت کا دن آئے گا اور پلِ صراط پر سب لوگ اکٹھے ہوں گے تو تمہارے گناہ میں خود اُٹھا لوں گا اور تم دگڑ دگر کرتے ہوئے جنت میں چلے جانا.انہوں نے کہا پیر صاحب ! ہم تو جنت میں چلے گئے پھر آپ کا کیا بنے گا؟ وہ کہنے لگا جب فرشتے میرے پاس آئیں گے تو میں انہیں کی لال لال آنکھیں نکال کر کہوں گا کہ کیا ہمارے نانا امام حسین کی شہادت کافی نہیں تھی کہ آج قیامت کے دن ہمیں بھی ستایا جاتا ہے.بس یہ سنتے ہی فرشتے دوڑ جائیں گے اور ہم دگڑ دگر کرتے ہوئے جنت میں داخل ہو جائیں گے.غرض عیسائی جس کو خدا قرار دیتے ہیں وہ تو کہتا ہے کہ خدایا! یہ تیرے بندے ہیں.آپ چاہیں تو انہیں سزا دے دیں اور چاہیں تو معاف کر دیں.مگر مسلمان کہتے ہیں کہ ہم فرشتوں کو لال لال آنکھیں دکھا ئیں گے جس سے وہ ڈر کر بھاگ جائیں گے اور ہم دگر دگڑ کرتے ہوئے جنت میں داخل ہو جائیں گے.غرض مسلمان اس معاملہ میں عیسائیوں سے بھی آگے نکل گئے اِلَّا مَا شَاءَ اللہ.وہ بزرگ جنہوں نے خدا تعالیٰ کی توحید کی اشاعت کے لیے رات دن کوششیں کیں اور اسلام کا جھنڈا بلند رکھا میں ان کا ذکر نہیں کر رہا.جیسے حضرت ولی اللہ شاہ صاحب دہلوی ہیں یا حضرت احمد صاحب سرہندی ہیں یا حضرت سید احمد صاحب بریلوی ہیں.یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے توحید کی خاطر اپنی جانیں قربان کر دیں.میں صرف ان بدبختوں کا ذکر کر رہا ہوں جنہوں نے دین کو نسی بنا دیا اور اسلام کی طرف ایسی باتیں منسوب کر دیں جو اُ سے بد نام کرنے والی ہیں.ایک قصہ مشہور ہے کہ معراج کی رات اللہ تعالیٰ نے جبریل کو بھیجا کہ جاؤ اور محمد رسول اللہ کو
$1957 151 خطبات محمود جلد نمبر 38 لے آؤ.وہ آپ کے پاس آئے اور عرض کیا کہ خدا نے آپ کو یاد فرمایا ہے.جب آپ چل پڑے تو راستہ میں کوہ قاف آ گیا.گویا کوہ قاف آسمان کے رستہ میں آتا ہے.اب جبریل کو رستہ نظر نہ آئے کہ کدھر جانا ہے.کبھی دائیں جائیں، کبھی بائیں جائیں کبھی ادھر جائیں، کبھی ادھر جائیں مگر کچھ پتا نہ چلے کہ رستہ کونسا ہے.اُدھر آسمان سے خدا تعالیٰ نے آواز میں دینی شروع کر دیں کہ جبریل! انہیں اتے کیوں نہیں؟ آخر گھبرا کر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جلدی رستہ تلاش کرو.جبریل نے کہا کر تو رہا ہوں مگر کچھ پتا نہیں چلتا.آخر چلتے چلتے کچھ بھنگی چرسی فقیر نظر آئے جو حضرت علی اور امام حسین کے ماننے والے تھے.جبریل اُن کے پاس پہنچے اور کہا کہ ہمیں تو کوئی رستہ نظر نہیں آتا آپ ہی بتائیں کہ اب ہم آسمان پر کس طرح جائیں؟ وہ کہنے لگے کہ آرام سے بیٹھ جاؤ.پہلے ہم بھنگ گھوٹ لیں پھر تمہیں بتائیں گے.چنانچہ انہوں نے بڑے اطمینان سے بھنگ گھوٹنی شروع کر دی.وہ پھر گھبرائے اور کہا کہ جلدی بتائیں بہت دیر ہو رہی ہے.انہوں نے کہا آرام سے بیٹھو، ابھی ہم بھنگ گھوٹ رہے ہیں.جب بھنگ گھوٹ چکے تو انہوں نے بھنگ کے نَغْدَہ 6 کا ایک گولہ سا بنایا اور یا مولا علی“ کہہ کر زور سے کوہ قاف پر مارا.اُس گولے کا لگنا تھا کہ پہاڑ پھٹ گیا اور رستہ بن گیا.جبریل نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہاتھ پکڑا اور دوڑتے ہوئے خدا کے پاس پہنچے.اللہ تعالی عرش پر بیٹھا ہوا تھا اس نے آپ سے باتیں کیں.جب باتیں ہو چکیں تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا کہ الہی ! آپ نے جو اتنی تکلیف فرمائی ہے تو اب ذرا اپنا دیدار بھی کرا دیں.اللہ تعالیٰ نے پردہ ہٹایا تو وہ کیا دیکھتے ہیں کہ حضرت علی بیٹھے ہیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ الہی ! یہ دیدار تو زمین پر روزانہ ہو جاتا ہے.یہاں بلانے کی آپ نے کیوں تکلیف فرمائی.اللہ تعالیٰ نے کہا اس میں بھی رم تھی.گویا نَعُوذُ باللہ حضرت علی خدا تھے اور معراج پر جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم گئے تو اس میں بھی ایک رمز تھی.یہ آجکل کے مسلمانوں کی کیفیت ہے مگر وہ متقی اور پر ہیز گار جو امت محمدیہ میں لاکھوں لاکھ گزرے ہیں انہوں نے کبھی ایسا نہیں کہا.میں صرف اُن بھنگیوں اور چرسیوں کا ذکر کر رہا ہوں جن کا کام لوگوں سے بھیک مانگنا ہوتا ہے اور جو رات دن نشہ میں مدہوش رہتے ہیں اور اسلام کی طرف ایسی باتیں منسوب کرتے ہیں جو اسے اعتراضات کا نشانہ بنانے والی ہوتی ہیں.حضرت خلیفہ اول فرمایا کرتے تھے کہ مجھے عمر بھر میں صرف ایک دفعہ ایک بھنگی فقیر.ނ
152 $1957 خطبات محمود جلد نمبر 38 شکست کھانی پڑی.وہ میرے پاس آیا اور کہنے لگا "دلا کچھ دستگیر دے نام دا“.میں اُس وقت جوان تھا اور نیا نیا پڑھ کر نکلا تھا.میں نے کہا میں دستگیر کے نام پر کچھ نہیں دے سکتا.وہ بڑا ہوشیار تھا.کہنے لگا ہے کوئی خدا دے سواد نگیرد؟ یعنی کیا خدا کے سوا کوئی اور بھی دستگیر ہے؟ اس پر مجھے خاموش ہونا پڑا.پس جاہل فقیروں نے اسلام کو بدنام کرنے کے لیے عجیب و غریب باتیں بنا رکھی ہیں.مگر جو ای دو حقیقی موجد تھے انہوں نے اپنی جانیں دے دیں، قید و بند کی مصیبتیں برداشت کیں، دشمنوں سے مار میں کھائیں مگر اپنے عقائد میں انہوں نے تبدیلی نہیں آنے دی.مثلاً خلق قرآن کے مسئلہ پر بحث ہوئی تو امام احمد بن حنبل نے مار کھا کر اپنے ہاتھ نڑ والیے مگر بادشاہ سے دبے نہیں.وہ یہی کہتے رہے کہ قرآن مخلوق نہیں منقول ہے.یعنی یہ خدا تعالیٰ کا قول ہے.کوئی ایسی چیز نہیں جو پیدا کی گئی ہو.ایسا ہی کئی اور بزرگوں نے لوگوں سے ماریں کھائیں ، جیل خانے دیکھے مگر پروا نہیں کی.یہی وہ لوگ ہیں جن کی روشنی سے آج ساری دنیا منور ہورہی ہے.یہ لوگ گو بعد میں آئے مگر در حقیقت یہ بھی صحابی ہی ہیں اور ان پر وہ حدیث صادق آتی ہے جس میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما یا أَصْحَابِی كَالنُّجُومِ بِأَتِهِمُ اقْتَدَيْتُمُ اهْتَدَيْتُمُ کہ میرے سب صحابہ ستاروں کی مانند ہیں تم ان میں سے جس کے پیچھے بھی چلو گے ہدایت پا جاؤ گے.یہ لوگ بھی گو بعد میں آئے مگر اپنے قرب اور محبت کی وجہ سے صحابہ کے مقام کو پہنچ گئے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اس حدیث کی بناء پر ستارے بن گئے جن سے ایک دنیا راہنمائی حاصل کر رہی ہے.ان لوگوں کی برکتوں اور رحمتوں سے جولوگوں کو فیض پہنچا ہے اس کے مقابلہ میں عوام کی کفر اور الحاد کی باتیں بالکل حقیر ہو جاتی ہیں.اور یہی وجہ ہے کہ کفر اور الحاد کے باوجود جو حقیقی موجد تھے اُن کی برکت سے خدا تعالیٰ کی باتیں دنیا میں قائم ہوتی رہتی ہیں اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت بڑھتی رہتی ہے.ملحد فقیر اپنے اعمال کے متعلق آپ جواب دہ ہیں.اور وہ لوگ جنہوں نے خدا تعالیٰ کے دین کی اشاعت کے لیے اپنی جانیں دے دیں قیامت کے دن بڑے بڑے درجے حاصل کریں گئے.الفضل 27 جون 1957 ء ) 1 : آل عمران: 80 2 صحیح مسلم مقدمة الكتاب للامام مسلم میں "أَمَرَنَا رَسُولُ اللَّهِ أَنْ نُنَزِلَ النَّاسَ مَنَازِلَهُمْ“ کے الفاظ ہیں.
$1957 153 خطبات محمود جلد نمبر 38 3 : بنی اسرائیل :94 صلى الله رض 4 : صحیح بخاری کتاب الجنائز باب ماجاء في قبر النبي علم و ابي بكر و عمر :5: مَا قُلْتُ لَهُمْ إِلَّا مَا أَمَرْتَنِي بِه أَنِ اعْبُدُوا اللهَ رَبِّي وَرَبَّكُمُ وَكُنتُ عَلَيْهِمْ شَهِيدًا مَّا دُمْتُ فِيهِمْ ۚ فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِي كُنْتَ اَنتَ الرَّقِيبَ عَلَيْهِمْ وَأَنْتَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ شَهِيدٌ إِنْ تُعَذِّبُهُمْ فَإِنَّهُمْ عِبَادَكَ وَاِن تَغْفِرُ لَهُمْ فَإِنَّكَ أَنْتَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ (المائدة: 118 119) 6 نغده: گھوٹی ہوئی بھنگ یا کسی دوا یا بوٹی کا پھوک (اردولغت تاریخی اصول پر جلد 20 صفحہ 170 کراچی 2005ء) 7 : تفسیر الرازی زیر آیت سورة البقرة آيت 1
$1957 154 19 خطبات محمود جلد نمبر 38 مومن کو چاہیے کہ وہ ہر حالت میں میانہ روی سے کام لے (فرمودہ 12 جولائی 1957ء) تشہد ،تعوّ ذاورسورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: انسان کی پیدائش خدا تعالیٰ نے ایسی بنائی ہے کہ افراط اور تفریط دونوں ہی اس کے لیے مضر ہوتی ہیں.یہاں تک کہ ظاہری موسم کی افراط اور تفریط بھی اسے نقصان پہنچاتی ہے.زیادہ گرمی ہو تو وہ بھی صحت کو خراب کر دیتی ہے اور زیادہ سردی ہو تو وہ بھی صحت کو خراب کر دیتی ہے.یہی کیفیت اخلاقی اور روحانی امور کی بھی ہے.چنانچہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ ایک جگہ مالی معاملات کے متعلق ہدایت دیتے ہوئے فرماتا ہے کہ اگر تم اپنے ہاتھ کوگردن سے باندھ رکھو یعنی بخل سے کام لو تو یہ بھی بُرا ہے اور اگر تم اسے بالکل کھول دو یعنی حد سے زیادہ خرچ کرنا شروع کر دو تو یہ بھی بُرا ہے.1 اصل طریق یہی ہے کہ تم میانہ روی سے کام لو اور صحیح رنگ میں اپنا مال خرچ کرو.جس میں نہ تو نکل پایا جائے اور نہ ہی اسراف کا پہلو پایا جائے.اسی طرح صدقہ وخیرات جو بظاہر ایک نہایت اعلیٰ درجہ کی نیکی ہے اس میں بھی اسلام نے اس ہدایت کو محوظ رکھا ہے.چنانچہ احادیث میں آتا ہے کہ ایک صحابی فوت ہونے لگے تو انہوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بلایا اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! میں چاہتا ہوں اپنا سارا مال صدقہ دوں.آپ نے فرمایا یہ خدا تعالیٰ کو پسند نہیں
$1957 155 خطبات محمود جلد نمبر 38 کیونکہ اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ تمہارے مرنے کے بعد تمہارے بیوی بچے دوسروں کے آگے دستِ سوال دراز کرتے پھریں گے.انہوں نے کہا يَا رَسُولَ اللہ ! پھر میں دو تہائی کی وصیت کرتا ہوں.آپ نے فرمایا یہ بھی زیادہ ہے.انہوں نے کہا يَا رَسُولَ الله ! پھر مجھے نصف مال صدقہ کرنے کی اجازت دی جائے.آپ نے فرمایا یہ بھی زیادہ ہے.انہوں نے کہا يَا رَسُولَ اللہ ! پھر میں کتنے حصہ کی وصیت کروں؟ آپ نے فرمایا تم ایک تہائی کی وصیت کرو اور دو تہائی اپنے رشتہ داروں کے لیے رہنے دو.2 غرض صدقہ و خیرات جو ایک بہت بڑی نیکی ہے اس میں بھی اسلام نے میانہ روی سے کام خص لینے کی ہدایت فرمائی ہے اور اپنا سارا مال خرچ کرنے کی اجازت نہیں دی.ہاں! اگر کوئی شخص اپنی زندگی میں ہبہ کرنا چاہے تو کر سکتا ہے.اس لیے کہ ہبہ کی تکلیف خود اُسے بھی پہنچتی ہے.مثلاً ایک می جس کی سالانہ آمد ایک لاکھ روپیہ ہے وہ اگر اس آمد کو ہبہ کرنا چاہے تو کر سکتا ہے.اس لیے کہ وہ خود بھی اپنے آپ کو تکلیف میں ڈالتا ہے.وہ ہبہ سے پہلے اگر آٹھ ہزار یا چار ہزار یا تین ہزار روپیہ ماہوار میں گزارہ کر رہا تھا تو ہبہ کے ذریعہ اس نے اپنے آپ کو بھی اس آمد سے محروم کر لیا.پس ہبہ ایک علیحدہ چیز ہے اور اسلام نے اسے جائز رکھا ہے.کیونکہ ہبہ میں انسان اپنی بیویوں اور اپنے بچوں کو ہی اپنی جائیداد سے محروم نہیں کرتا بلکہ اپنے آپ کو بھی اس سے فائدہ اٹھانے سے محروم کر لیتا ہے.اور اگر کوئی شخص اپنی خوشی سے قربانی کرنے کے لیے تیار ہو تو شریعت اس کے جذبہ قربانی میں روک نہیں بنتی.لیکن اگر وہ اپنی زندگی میں تو ایک لاکھ روپیہ سالانہ آمد اپنے نفس پر خرچ کرتارہتا ہے اور مرتے وقت چاہتا ہے کہ اپنا سارا مال خدا کی راہ میں دے دے تو اس کے معنے یہ ہیں کہ وہ خود تو سارے روپیہ سے فائدہ اٹھاتا رہا لیکن جب مرنے لگا تو اس نے چاہا کہ اب اس کے بیوی بچے اور دوسرے رشتہ دار جس طرح چاہیں گزارہ کریں اور ان کے لیے کوئی روپیہ باقی نہ رہے.پس رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما دیا کہ مرنے والا صرف ایک تہائی تک کی وصیت کرے.یعنی اگر کسی کی ایک لاکھ روپیہ آمد ہو تو وہ اس کے لیے 1/3 حصہ یعنی تینتیس ہزار کی وصیت کر سکتا ہے.ہاں! اگر وہ اپنی زندگی میں اسے ہبہ کرنا چاہے تو کر سکتا ہے.اس لیے کہ اس نے اپنے عمل سے ثابت کر دیا ہے کہ وہ خود بھی اپنے آپ کو تکلیف میں ڈالنے کے لیے تیار ہے.اور جو شخص خود اپنے آپ کو تکلیف میں ڈالنے کے لیے تیار ہو اس کا حق ہوتا ہے کہ وہ اپنے بیوی بچوں کو بھی اسی قسم کے حالات میں سے ا
$1957 156 خطبات محمود جلد نمبر 38 گزرنے دے.غرض میانہ روی ہر حالت میں ایک ضروری چیز ہے.جسمانیات میں بھی یہی بات چلتی ہے اور اخلاق میں بھی یہی بات چلتی ہے اور روحانیات میں بھی یہی بات چلتی ہے.بہر حال ایک مومن کے لیے ہر حالت میں اقتصاد کو لوظ رکھنا ضروری ہوتا ہے.اگر اُسے مال ملے تب بھی اسے اپنا چی مال نہ تو حد سے زیادہ لگانا چاہیے اور نہ بخل سے کام لینا چاہیے.اسی طرح نہ حد سے زیادہ نمازیں پڑھنی چاہیں اور نہ نمازوں کو بالکل چھوڑ دینا چاہیے.ایک دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم گھر میں آئے تو آپ نے دیکھا کہ ایک رستی لٹک رہی ہے.آپ نے حضرت زینب سے جو آپ کی بیوی تھیں اور بڑی عابدہ زاہدہ تھیں دریافت فرمایا کہ یہ رشی کیسی ہے؟ انہوں نے کہا يَا رَسُولَ اللہ ! مجھے نمازیں پڑھتے پڑھتے اونگھ آنے لگتی ہے تو میں اس رتی سے سہارا لے لیتی ہوں.آپ نے فرمایا اسے اتار دو.یہ کوئی عبادت نہیں.عبادت اُسی حد تک کرنی چاہیے جب تک کہ دل میں بشاشت قائم رہے.جب اونگھ آنے لگ جائے تو سمجھ لو کہ اب خدائی فیصلہ یہی ہے کہ اس وقت عبادت کو چھوڑ دیا جائے.پس یہ رستی اتار دو اور آئندہ اُسی وقت تک نماز پڑھا کرو جب تک تمہارا جسم اسے برداشت کر سکے.3 اسی طرح دیکھ اور وزہ کتنی اعلیٰ درجہ کی نیکی ہے.مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ عید کے دن روزہ رکھنے والا شیطان ہے.4 اسی طرح آپ نے فرمایا کہ جمعہ کا دن خاص طور پر مقرر کر کے روزہ نہ رکھا کرو.5 گویا نماز میں بھی شرط رکھ دی ، روزہ میں بھی شرط رکھ دی ، ذکر الہی میں بھی شرط رکھ دی اور ہدایت دے دی کہ ہر کام میں میانہ روی ملحوظ رکھو.حضرت شاہ ولی اللہ صاحب کی ایک ہمشیرہ تھیں جو بڑی کثرت سے ذکر الہی کرنے والی تھیں.ایک دن وہ اپنی بہن سے ملنے گئے تو وہ کہنے لگیں بھائی ! اچھا ہو گیا کہ آپ آگئے.میں آپ سے ایک بات پوچھنا چاہتی تھی.انہوں نے کہا کیا بات ہے؟ وہ کہنے لگیں میں جب نماز پڑھتی ہوں تو مجھے نماز میں اتنا مزہ نہیں آتا جتنا ذکر الہی میں آتا ہے.وہ کہنے لگے بہن! یہ دوزخ کی طرف پہلا قدم ہے.اگر تم نے جلدی اپنی اصلاح نہ کی تو شیطان کا دوسرا قدم یہ ہوگا کہ وہ تمہیں ورغلا کر کہے گا کہ نوافل میں فرائض سے بھی زیادہ مزا ہے اور اس طرح آہستہ آہستہ تمہاری فرض نماز بھی چھوٹ جائے گی.پھر انہوں نے اپنی بہن کو لا حول پڑھنے کی تاکید کی تاکہ شیطانی وساوس دور ہوں.ایک دن اُن کی بہن ای آکر کہنے لگیں کہ بھائی ! تمہاری بات بالکل ٹھیک نکلی.میں نے وظیفہ کرنا شروع کیا تو ایک دن میں نے
$1957 157 خطبات محمود جلد نمبر 38 رویا میں دیکھا کہ شیطان بندر کی شکل میں میرے سامنے بیٹھا ہے اور مجھے کہہ رہا ہے کہ میرا پہلا قدم یہ کی تھا کہ میں ذکر الہی میں مشغول رکھ کر تجھے نمازوں میں سُست کروں اور دوسرا قدم یہ تھا کہ تم سے فرض نماز بھی چھڑا دوں.مگر تمہارا بھائی چالاک نکلا اور اس نے تمہیں بچالیا.تو کسی چیز کی زیادتی بھی انسان کے لیے مفید نہیں ہوتی.نہ ذکر الہی کی زیادتی مفید ہوتی ہے، نہ نمازوں کی زیادتی مفید ہوتی ہے، نہ روزوں کی زیادتی مفید ہوتی اور نہ صدقہ و خیرات کی زیادتی مفید ہوتی ہے.اگر انسان اِن امور میں حد سے زیادہ نکل جائے تو یہی زیادتی اُس کے لیے مضر ہو جاتی ہے.پس ان سب باتوں سے انسان کو بچنے کی کوشش کرنی چاہیئے“.الفضل 25 جولا ئی 1957 ء ) 1 وَلَا تَجْعَلْ يَدَكَ مَغْلُولَةً إِلى عُنُقِكَ وَلَا تَبْسُطْهَا كُلَّ الْبَسْطِ فَتَقْعُدَ مَلُوْمًا مَّحْسُورًا (بنی اسرئیل: 30) 2: صحیح بخاری کتاب الوصايا باب ان يترك و رتْتَهُ اغنیاء خَيْرٌ مِن اَنْ يتكففُوا الناس 3 : صحیح بخاری كتاب التهجد باب ما يكره من التشديد في العبادة.4 : صحیح بخاری كتاب الصوم باب صوم يوم الفطر میں " نهى رسولُ الله عن صیامھما“ کے الفاظ ہیں.5 : صحیح بخاری کتاب الصوم باب صوم يوم الجمعة واذا اصبح صائمًا يوم الجمعة - فعلَيهِ أَنْ يُفطر
$1957 158 20 خطبات محمود جلد نمبر 38 مشکلات و مصائب عارضی چیزیں ہیں تم اللہ تعالیٰ پر تو کل کرتے ہوئے اس یقین پر قائم رہو کہ بالآ خرتم ہی کامیاب ہو گے (فرمودہ 19 جولائی 1957ء) تشہد ،تعو ذاورسورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: عربی زبان میں ایک مثل ہے کہ مَنْ جَرَّبَ الْمُجَرَّبَ حَلَّتْ بِهِ النَّدَامَةُ که جوشخص کسی ایسی چیز کا جس کا بار بار تجربہ ہو چکا ہو دوبارہ تجربہ کرنا چاہے اُسے ہمیشہ ندامت لاحق ہوتی ہے.اس مثل کا مفہوم در حقیقت یہی ہے کہ جو چیزیں ثابت شدہ ہوں اور متواتر اُن کا تجربہ کیا جا چکا ہو ان کے متعلق کسی قسم کا شبہ دل میں پیدا کرنا اور پچھلے تجربہ کے خلاف عمل کرنا نقصان دہ ہوتا ہے.اب دنیا میں انسان نا معلوم ہزاروں سال سے ہے یا لا کھوں سال سے ہے یا جیالوجسٹوں کے خیال کے مطابق اربوں سال سے ہے.بہر حال جب سے اس نے بشر کی حیثیت سے اپنے آپ کو محسوس کیا ہے موت اس کے ساتھ لگی چلی آ رہی ہے.جو لوگ ڈارون کی تھیوری کے قائل ہیں اور درحقیقت وہی ہیں جو دنیا
159 $1957 خطبات محمود جلد نمبر 38 کی عمر کروڑوں اور اربوں سال قرار دیتے ہیں اُن کا خیال ہے کہ انسان سے پہلے ایک اور مسنگ لنگ (MISSING LINK) تھا جس کے متعلق زیادہ تر یہ خیال کیا جاتا ہے کہ وہ گوریلا کی قسم میں سے تھا.لیکن اگر انسان کو دیکھو تو وہ بھی مرتا چلا آتا ہے.اور اگر گوریلا کو دیکھو تو وہ بھی مرتا چلا آتا ہے.اسی طرح گوریلا سے سینکڑوں سال پہلے جو جانور تھے وہ بھی مرتے چلے آئے ہیں.غرض دنیا میں جتنے قسم کے ایسے جانور ہیں جو انسان سے ملتے ہیں اور جو پیدائش انسانی سے سینکڑوں سال پہلے پائے جاتے تھے اور جنہیں ڈارون تھیوری کے ماتحت نسلِ انسانی کے باپ دادا قرار دیا جاتا ہے وہ بھی مرتے چلے آئے ہیں اور انسان بھی مرتا چلا آیا ہے.اگر اتنے لمبے تجربہ کے بعد بھی کوئی شخص موت کو بھول جاتا ہے تو وہ یقیناً ہدایت سے دور چلا جاتا اور شیطان کے قریب ہو جاتا ہے.لیکن اس کے مقابلہ میں ایک نی دوسرا تجربہ بھی ہے اور وہ بھی ہزاروں سال سے چلا آ رہا ہے.اور وہ یہ کہ جو شخص خدا پر توکل کرتا اور اس پر سچا یقین رکھتا ہے وہ آخر کامیاب ہو جاتا ہے.چنانچہ دیکھ لو آدم نے تو کل کیا اور وہ کامیاب ہو گئے.نوح نے تو کل کیا اور وہ کامیاب ہو گئے.ہوڑ نے تو کل کیا اور وہ کامیاب ہو گئے، ابراہیم نے تو گل کیا اور وہ کامیاب ہو گئے، لوظ نے تو کل کیا اور وہ کامیاب ہو گئے ،شعیب نے تو کل کیا اور وہ کامیاب ہو گئے ، موسی نے تو کل کیا اور وہ کامیاب ہو گئے ہیسٹی نے تو کل کیا اور وہ کامیاب ہو گئے، محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تو کل کیا اور وہ کامیاب ہو گئے ، اسی طرح بعد میں امت محمدیہ میں ہزاروں ہزار اولیاء ایسے گزرے ہیں جنہوں نے تو کل کیا اور وہ کامیاب ہو گئے.قرآن کریم میں اسی حقیقت کو ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے کہ لَا تَايْتَسُوْا مِنْ رَّوْحِ اللَّهِ إِنَّهُ لَا يَايْسُ مِنْ زَوْحِ اللَّهِ إِلَا الْقَوْمُ الْكَفِرُونَ - 1- کہ خدا کی رحمت سے کبھی مایوس مت ہو.کیونکہ اُس کی رحمت سے وہی مایوس ہوتا ہے جو کافر ہو.اصل بات یہ ہے کہ جو شخص خدا تعالیٰ پر سچا ایمان رکھتا ہو اس کے سامنے لازماً محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی رہیں گے ، موسیقی بھی رہیں گے، عیسی بھی رہیں گے ، الیاس بھی ہیں گے، زکریا بھی رہیں گے، شعیب بھی رہیں گے ، لوظ بھی رہیں گے، ابراہیم بھی رہیں گے، نوح بھی رہیں گے، آدم بھی رہیں گے اور ان کی زندگیوں کو دیکھ کر وہ کبھی مایوس نہیں ہو سکتا.کیونکہ ان کی زندگیوں میں ہزاروں واقعات ایسے ہوئے ہیں کہ کوئی انسان یہ تصور بھی نہیں کر سکتا تھا کہ وہ کامیاب
$1957 160 خطبات محمود جلد نمبر 38 ہو جائیں گے مگر پھر وہ کامیاب ہو گئے.غرض دنیا میں ہمیں یہ دونوں باتیں نظر آتی ہیں کہ جب لوگ موت کو بھول جاتے ہیں.تب بھی وہ خدا سے دور ہو جاتے ہیں اور شیطان سے قریب ہو جاتے ہیں.اور جب وہ خدا تعالیٰ پر توکل ترک کر دیتے ہیں اور اس کی نصرت اور تائید کے واقعات کو بھول کر اُمید چھوڑ بیٹھتے ہیں تب بھی وہ خدا تعالیٰ سے دور ہو جاتے اور شیطان کے قریب ہو جاتے ہیں.ورنہ جو شخص خدا تعالیٰ پر سچا تو کل رکھتا ہے ہے اُس کی اُمید بڑی مضبوط ہوا کرتی ہے اور وہ کسی حالت میں بھی مایوسی کو اپنے قریب نہیں آنے دیتا.دنیا میں خدا تعالیٰ کے ہزاروں فرستادے ایسے گزرے ہیں جنہوں نے انتہائی مشکلات میں بھی خدا تعالیٰ پر اُمید نہیں چھوڑی اور آخر خدا نے انہیں کامیاب کر دیا.حضرت نظام الدین صاحب اولیاء کا واقعہ ہے کہ ان کے زمانہ کا بادشاہ ان کا مخالف ہو گیا.وہ اس وقت بہار کی طرف کسی جنگ پر جارہا تھا.اُس نے کہا کہ جب میں واپس آؤں گا تو انہیں سزا دوں گا.اُن کے مُریدوں نے یہ بات سنی تو وہ بڑے گھبرائے اور انہوں نے شاہ صاحب سے آ کر کہا کہ حضور! جو لوگ شاہی دربار میں رسوخ رکھتے ہیں اگر اُن کے ذریعہ بادشاہ کے پاس سفارش ہو جائے تو بہتر ہوگا.آپ نے فرمایا ہنوز دلی دور است“.ابھی تو اس نے لڑائی کے لیے جانا ہے اور پھر دشمن سے جنگ کرنی ہے.ابھی سے کسی فکر کی کیا ضرورت ہے.اس وقت تو وہ دتی میں موجود ہے اور لڑائی کے لیے گیا بھی نہیں.پھر آٹھ دس دن اور گزر گئے تو مرید پھر گھبرائے ہوئے آپ کے پاس آئے اور کہا حضور ! اب تو آٹھ دس دن گزر چکے ہیں اور بادشاہ لڑائی کے لیے جا چکا ہے اب تو کوئی علاج سوچنا چاہیے.مگر آپ نے پھر یہی جواب دیا کہ ہنوز دتی دور است“.آخر جس جنگ پر وہ گیا تھا اُس کے متعلق خبر آ گئی کہ اس میں بادشاہ کو فتح حاصل ہو گئی ہے اور وہ واپس آ رہا ہے.مُرید پھر گھبرائے ہوئے آپ کے پاس پہنچے اور بادشاہ کی واپسی کی خبر دی.مگر آپ نے پھر یہی جواب دیا کہ ” ہنوز دتی دور است“.ابھی تو وہ دو چار سو میل کے فاصلہ پر ہے ابھی کسی فکر کی کیا ضرورت ہے؟ جب وہ آٹھ دس منزل کے فاصلہ پر پہنچ گیا تو وہ پھر آئے اور انہوں نے کہا کہ اب تو وہ بہت قریب آ گیا ہے.آپ نے فرمایا هنوز دتی دور است.جب وہ اور زیادہ قریب آ گیا اور دو تین منزل پر پہنچ گیا تو پھر آپ کے مُرید سخت گھبراہٹ کی حالت میں آپ کے پاس پہنچے مگر آپ نے پھر یہی جواب دیا کہ ہنوز دتی دور است“.
$1957 161 خطبات محمود جلد نمبر 38 آخر ایک دن پتالگا کہ بادشاہ کی فوجیں فصیلوں کے باہر ٹھہر گئی ہیں.اُن کے مُرید یہ خبر سن کر پھر آپ کے پاس آئے اور کہا کہ حضور! اب تو وہ دتی کی فصیلوں تک آپہنچا ہے.آپ نے فرمایا ” ہنوز دلی دور است.ابھی تو وہ فصیل کے باہر ہے اندر تو داخل نہیں ہوا کہ ہمیں گھبراہٹ ہو.اسی رات ولیعہد نے فتح کی خوشی میں ایک بہت بڑی دعوت کی اور شاہانہ جشن منایا.ہزاروں لوگ اس دعوت اور رقص و سرود کی محفل میں شریک ہوئے.ولیعہد نے اس دعوت کا انتظام ایک بہت بڑے محل کی چھت پر کیا تھا.چونکہ چھت پر بہت زیادہ لوگ اکٹھے ہو گئے تھے اس لیے اچانک چھت نیچے آ گرا اور بادشاہ اور اس کا ولیعہد دونوں دب کر ہلاک ہو گئے.صبح جب بادشاہ کی موت کی خبر آئی تو انہوں نے کہا کیا میں تمہیں نہیں کہتا تھا کہ ہنوز دلی دور است؟ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ میں بھی ہم نے ایسے کئی واقعات دیکھے ہیں.ایک دفعہ خواجہ کمال الدین صاحب بڑے گھبرائے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے پاس آئے اور انہوں نے کہا کہ حضور ! فلاں ہندو مجسٹریٹ جس کے سامنے آپ کا مقدمہ ہے اُس پر آریوں نے بڑا زور ڈالا ہے کہ یہ قوم کی خدمت کا موقع ہے تم جس طرح بھی ہو سکے مرزا صاحب کو قید کر دو اور سنا ہے کہ مجسٹریٹ نے بھی ان سے وعدہ کر لیا ہے.اس لیے بہتر ہے کہ کوئی انگریز وکیل مقرر کر لیا جائے.اس طرح کچھ مدت کے لیے حضور کسی دوسرے ضلع میں چلے جائیں اور ڈاکٹری سرٹیفکیٹ عدالت میں بھجوا دیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ سنا تو آپ اٹھ کر بیٹھ گئے اور بڑے جوش سے فرمایا کہ خواجہ صاحب! آپ کیسی باتیں کر رہے ہیں؟ کس کی طاقت ہے کہ وہ خدا کے شیر پر ہاتھ ڈال سکے.چنانچہ خدا کی شان ہے کہ ابھی وہ فیصلہ سنانے نہیں پایا تھا کہ تبدیل ہو گیا.غرض خدا تعالیٰ کی نصرت اور اُس کی تائیدات کے کرشمے ہمیشہ ہماری نظروں کے سامنے رہتے ہیں.کچھ کہانیوں اور قصوں کے ذریعہ اور کچھ اپنے مشاہدات اور تجربات کے ذریعہ.ہارون الرشید کے زمانہ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک نواسے کو جو حضرت فاطمہ کی اولاد میں سے تھے اور جن کا نام غالباً موسی رضا تھا بادشاہ نے لوگوں کی شکایتوں پر قید کر دیا اور آخر مختلف مقامات سے بدلتے ہوئے انہیں مکہ بھجوا دیا.اُس نے سمجھا کہ چونکہ وہاں کے لوگوں پر شیعیت کا اثر نہیں اس لیے انہیں مکہ میں بھجوانا زیادہ مناسب ہوگا.ایک دن بادشاہ نے رات کے وقت
162 $1957 خطبات محمود جلد نمبر 38 جیل خانہ کے افسروں کو کہلا بھیجا کہ میں فلاں قیدی کو دیکھنا چاہتا ہوں تم جیل کے دروازے کھلے رکھو.جب بادشاہ وہاں پہنچا تو اس نے دیکھا کہ وہ قید خانہ میں رسیوں سے جکڑے پڑے ہیں.وہ بڑی احتیاط سے ان رسیوں کو کھولتا جاتا اور ساتھ ساتھ روتا جاتا تھا.پھر ان کے جسم پر ان رسیوں کے جو نشانات پڑ گئے تھے ان کو اپنے ہاتھ سے ملتا جاتا تھا.انہوں نے کہا ہارون ! یہ کیا بات ہے؟ کل تک تو تمہارے جیلر مجھ پر بڑی بڑی سختیاں کرتے تھے مگر آج تم خود رسیوں کے بند کھول رہے اور رور ہے ہو.ہارون الرشید نے کہا میں بھی اس سال حج کو آیا تھا.آج رات جب میں محل میں سورہا تھا تو میں نے رویا میں دیکھا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے ہیں.آپ میرے کمرہ میں آئے اور آپ نے زور سے مجھے ٹھوکر ماری اور فرمایا او بد بخت ! تجھے شرم نہیں آتی کہ میرا بیٹا جیل خانہ میں پڑا ہوا ہے، اس کے ہاتھوں میں رسیاں بندھی ہیں اور اس کے جسم کو جکڑا گیا ہے اور تو اپنے محل میں آرام سے ہے سورہا ہے؟ اس پر میں نے اُسی وقت اٹھ کر جیل والوں کو اطلاع بھجوائی کہ میں آ رہا ہوں دروازے کھلے رکھے جائیں.یہ ایک واقعہ نہیں ایسے ہزاروں واقعات ہیں جن سے پتا لگتا ہے کہ اللہ تعالیٰ جب مدد دینے پر آتا ہے تو وہ ایسے ذرائع سے مدد دیتا ہے جو انسان کے وہم اور گمان میں بھی نہیں ہوتے.ہماری جماعت کے لیے بھی اللہ تعالیٰ نے بڑے بڑے وعدے فرمائے ہیں.چنانچہ حضرت مسیح موعود لیہ الصلوۃ والسلام کو اللہ تعالیٰ نے ایک دفعہ الہاما فرمایا کہ ” خدا تیرے نام کو اُس روز تک جو دنیا منقطع ہو جائے عزت کے ساتھ قائم رکھے گا اور تیری دعوت کو دنیا کے کناروں تک پہنچا دے گا.اور ایسا ہوگا کہ سب وہ لوگ جو تیری ذلت کی فکر میں لگے ہوئے ہیں اور تیرے نا کام رہنے کے درپے اور تیرے نابود کرنے کے خیال میں ہیں وہ خود ناکام رہیں گے اور نا کامی اور نامرادی میں مریں گے.لیکن خدا تجھے بکی کامیاب کرے گا اور تیری ساری مراد یں تجھے دے گا.میں تیرے خالص اور دلی محبوں کا گروہ بھی بڑھاؤں گا اور اُن کے نفوس و اموال میں برکت دوں گا اور ان میں کثرت بخشوں گا.اور وہ مسلمانوں کے اس دوسرے گروہ پر تا بروز قیامت غالب رہیں گے جو حاسدوں اور
خطبات محمود جلد نمبر 38 163 معاندوں کا گروہ ہے.خدا انہیں نہیں بھولے گا اور فراموش نہیں کرے گا اور وہ على حَسْبِ الإخلاص اپنا اپنا اجر پائیں گے“.2 $1957 مگر اللہ تعالیٰ کے ان وعدوں کے باوجود میں دیکھتا ہوں کہ تھوڑی سی مصیبت بھی آتی ہے تو جماعت کے بعض دوست گھبرانے لگ جاتے ہیں.وہ یہ نہیں سوچتے کہ یہ مشکلات آدم کے وقت میں بھی تھیں، نوح کے وقت میں بھی تھیں، ابراہیم کے وقت میں بھی تھیں ، موسی کے وقت میں بھی تھیں، عیسی کے وقت میں بھی تھیں اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت میں بھی تھیں.جب آج بھی وہی خدا موجود ہے جو اُن کے زمانہ میں تھا تو کیا وجہ ہے کہ ہم مایوس ہو جائیں.کیا ہمارے ایمان اتنے بھی نہیں جتنے موسٹی کے ماننے والوں کے تھے یا عیسی کے ماننے والوں کے تھے یا شعیب اور زکریا اور ہوڈ کے ماننے والوں کے تھے یا ابراہیم کے ماننے والوں کے تھے یا نوح کے ماننے والوں کے تھے ، یا آدم کے ماننے والوں کے تھے؟ ان کے ماننے والوں نے اللہ تعالیٰ پر اپنی اُمید قائم رکھی اور آخر انہیں کامیابی حاصل ہوئی.بلکہ اُن پر وہ زمانہ بھی آیا جب کفار نے یہ خیال کر لیا کہ ان پر کوئی عذاب نہیں آئے گا اور جو خبریں اللہ تعالیٰ کے انبیاء نے ان کی تباہی کے متعلق دی تھیں وہ بالکل جھوٹی تھیں.چنانچہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے حَتَّى إِذَا اسْتَيْسَ الرُّسُلُ وَظَنُّوا أَنَّهُمْ قَدْ كُذِبُوا جَاءَهُمُ نَصْرُنَا - 3 غلطی سے بعض لوگ اس آیت کے یہ معنے کرتے ہیں کہ جب رسول اللہ تعالیٰ کی رحمت سے ناامید ہو گئے اور مومنوں نے خیال کر لیا کہ اُن سے جو فتوحات کے دعوے کیے گئے تھے وہ جھوٹے تھے تو اچانک اُن کے کے پاس ہماری مدد آ گئی.حالانکہ نہ خدا تعالیٰ کے فضل سے مایوسی نبیوں کی طرف منسوب کی جاسکتی ہے اور نہ مومنوں کے متعلق یہ خیال کیا جا سکتا ہے کہ انہوں نے یہ سمجھنا شروع کر دیا ہو کہ خدا تعالیٰ نے اُن سے جھوٹے وعدے کیے تھے.در حقیقت اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ جب لوگ شرارت میں بڑھتے چلے گئے تو ایک طرف تو رسول اُن کی ہدایت سے مایوس ہو گئے اور دوسری طرف کفار بھی مطمئن ہو گئے اور انہیں یقین ہو گیا کہ ان سے جو عذاب کے وعدے کیے گئے ہیں وہ پورے نہیں ہوں گے اور نبیوں کی پیشگوئیاں غلط تھیں.تب خدا تعالیٰ کی نصرت آگئی اور اُس نے ائمۃ الکفر کو تباہ کر کے رستہ صاف کر دیا.
خطبات محمود جلد نمبر 38 164 $1957 غرض جو کچھ پہلوں سے ہوا ہے وہی ہم سے بھی ہو گا.خدا بدل نہیں گیا بلکہ جو خدا پہلے تھا، وہی اب بھی موجود ہے.خود حضرت مسیح موعود علیہ السلام ایک جگہ فرماتے ہیں کہ میں اُسی خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں جس کی جھوٹی قسم کھانا لعنتیوں کا کام ہے کہ مجھے اسی خدا نے مبعوث فرمایا ہے جس خدا نے آدم اور نوح اور ابراہیم اور موسق اور عین کو مبعوث فرمایا تھا.پس ہر قسم کے وہم احمدیوں کو اپنے دل سے دور کر دینے چاہیں اور انہیں سمجھ لینا چاہیے کہ ان کے لیے عزت اور کامیابی کا مقام مقدر ہو چکا ہے.بے شک درمیانی عرصہ میں مشکلات بھی آئیں گی مگر وہ عارضی ہوں گی اور اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے ایسی ہوائیں چلائے گا جن سے وہ تمام مشکلات اُڑ جائیں گی اور اس کی برکتیں ان کو حاصل ہوں گی.سوائے ان لوگوں کے جو اُس کی رحمت سے مایوس ہو جائیں گے.کیونکہ انہوں نے خدا تعالیٰ کو جھوٹا سمجھا اور اُس کے وعدوں پر انہوں نے یقین نہ رکھا.مگر ایمان اور یقین رکھنے والے اور مشکلات میں ثبات و استقلال سے کام لینے والے لوگ کامیاب ہوں گے کیونکہ انہوں نے خدا تعالیٰ کے دامن کو مضبوطی سے پکڑے رکھا اور جو لوگ خدا کے دامن کو پکڑے رکھتے ہیں وہ ضرور کامیاب ہوتے ہیں.(الفضل 10 راگست 1957 ء ) 1 :يوسف: 88 2 : تذکرۃ صفحہ 112.ایڈیشن چہارم 2004 ء 3 : يوسف : 111
$1957 165 (21) خطبات محمود جلد نمبر 38 جب بھی مشکلات پیش آئیں صبر سے کام لو اور دعاؤں میں لگ جاؤ (فرمودہ 26 جولائی 1957ء بمقام مری) تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور نے قرآن کریم کی اس آیت کی تلاوت فرمائی: وَاصْبِرْ وَمَا صَبْرُكَ إِلَّا بِاللهِ وَلَا تَحْزَنْ عَلَيْهِمْ وَلَا تَكُ فِي ضَيْقٍ مِمَّا يَمْكُرُونَ - إِنَّ اللهَ مَعَ الَّذِينَ اتَّقَوْا وَالَّذِينَ هُمُ محْسِنُونَ - 1 اس کے بعد فرمایا: قرآن کریم کی یہ آیت اپنے اندر ایک وسیع مضمون لیے ہوئے ہے جسے ہمیشہ اپنے سامنے رکھنا مذہبی جماعتوں کے لیے ضروری ہوا کرتا ہے.اللہ تعالیٰ اس آیت میں فرماتا ہے وَاصْبِرُ.اے مخاطب ! تو صبر سے کام لے اور مخالفتوں سے گھبرا نہیں.وَ مَا صَبْرُكَ إِلَّا بِاللہ.بے شک صبر سے کام لینا بظاہر مشکل ہوتا ہے.لیکن انسان اگر دعا سے کام لے تو اسے صبر کرنے کی توفیق مل جاتی ہے.بعض دفعہ غلطی سے انسان یہ خیال کر لیتا ہے کہ میرا نفس میرے
166 $1957 خطبات محمود جلد نمبر 38 قابو میں ہے مگر فرماتا ہے تمہارا اپنے نفس پر اعتبار کرنا غلط ہے.تمہیں یہ توفیق اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہی میسر آ سکتی ہے.وَلَا تَحْزَنْ عَلَيْهِمُ پھر فرماتا ہے.اگر تم صبر سے کام لو گے اور اللہ تعالیٰ پر توکل رکھو گے تو خدا تعالیٰ خود تمہارے مخالفوں کو نا کام کر دے گا.پس یہ خیال نہ کرو کہ تمہارے صبر کی وجہ سے مخالف دلیر ہو جائے گا اور وہ تم پر چڑھ آئے گا بلکہ تمہارا صبر تمہارے مخالفوں کی تدابیر کے لیے تباہی کا باعث بنے گا.پس ان کے متعلق غم مت کر.خدائی فیصلہ یہی ہے کہ جو مومنوں کو بلا وجہ تکلیف دیتا ہے وہ تباہ کر دیا جاتا ہے.تاریخ پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ہر زمانہ میں ایسا ہی ہوا.آدم، نوح، ابراہیم ، موسی ، عیسی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ میں ان کے مخالف ہمیشہ تباہ ہوتے چلے آئے ہیں.اُمت محمدیہ کے اولیاء اور مجددین سے بھی یہی سلوک ہوتا رہا.حضرت سید احمد صاحب سر ہندی کو جہانگیر نے گوالیار کے قلعہ میں قید کر دیا مگر پھر وہی جہانگیر قلعہ میں آپ کے پاس آیا اور اس نے آپ سے معافی مانگی اور انہیں رہا کیا.غرض صبر کے نتیجہ میں ہمیشہ اللہ تعالیٰ کی تائید اور اس کی نصرت ظاہر ہوتی ہے مگر صبر کرنا آسان بات نہیں ہوتی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ میں ایک پروفیسر عبداللہ ہوا کرتے تھے.ان کی عادت تھی کہ جب بھی کوئی شخص حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو بُرا بھلا کہتا وہ اُس سے لڑ پڑتے.ایک دفعہ خواجہ کمال الدین صاحب نے ان کی شکایت کی اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے عرض کیا کہ انہیں سمجھایا جائے.آپ نے پروفیسر عبداللہ صاحب کو بلایا اور فرمایا کہ دیکھیں ! صبر سے کام لیں اور اگر مجھے کوئی بُرا بھلا بھی کہے تو اشتعال میں نہ آیا کریں.اس پر وہ بڑے جوش سے کہنے لگے کہ میں ایسی بات نہیں مان سکتا.آپ کے پیر یعنی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اگر کوئی گالی دے تو آپ اُس سے مباہلہ کرنے کے لیے تیار ہو جاتے ہیں اور میرے پیر یعنی آپ کو کوئی گالی دے تو آ کہتے ہیں صبر سے کام لو.میں ایسا کبھی نہیں کر سکتا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام یہ سن کر خاموش ہو گئے.ان کے اندر اس قدر جوش پایا جاتا تھا کہ جب کرم دین کے مقدمہ کا فیصلہ ہونے لگا جس میں مجسٹریٹ نے آپ کو سزا دینے کا ارادہ کیا ہوا تھا تو وہ ایک بڑا سا پتھر اٹھائے پھرتے تھے
167 $1957 خطبات محمود جلد نمبر 38 کہ اگر مجسٹریٹ نے سزا دی تو وہ اُسے پتھر مار کر مار ڈالیں گے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اس کا علم ہوا تو آپ نے ان کے دونوں ہاتھ پکڑنے کا حکم دے دیا تا کہ وہ جوش میں آکر حملہ نہ کر بیٹھیں.غرض صبر کی توفیق اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہی ملتی ہے اور جب کوئی صبر سے کام لیتا ہے تو اللہ تعالی کی مدد اُس کے شامل حال ہو جاتی ہے.وَلَا تَحْزَنُ عَلَيْهِمْ میں یہی پیشگوئی کی گئی ہے کہ مخالفین کے متعلق غم نہ کر.اللہ تعالیٰ فیصلہ کر چکا ہے کہ ان کو تباہ کر دے.چنانچہ دیکھ لو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں مخالفین نے کتنی شرارتیں کیں.مگر آخر وہ خائب و خاسر ہو کر رہے اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی فتح یاب ہوئے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک دفعہ صفا پہاڑی پر بیٹھے کچھ سوچ رہے تھے کہ ابو جہل آ نکلا اور اس نے بغیر کوئی بات کہے آپ کے منہ پر زور سے تھپڑ مار دیا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان صرف اتنا فرمایا کہ میں نے آپ لوگوں کا کیا بگاڑا ہے؟ میں تو صرف یہی کہتا ہوں کہ خدا ایک ہے.حضرت حمزہ کی ایک لونڈی گھر کے دروازہ میں کھڑی یہ نظارہ دیکھ رہی تھی.وہ دل ہی دل میں کڑھتی اور پیچ و تاب کھاتی رہی.شام کو حضرت حمزہ شکار سے واپس آئے اور گھر میں داخل ہوئے تو لونڈی غصہ سے کہنے لگی.تمہیں شرم نہیں آتی کہ آج تمہارے بھتیجے کے ساتھ کیا ہوا؟ وہ پتھر پر چپ کر کے بیٹھا تھا کہ ابو جہل نے اُس کے منہ پر پتھر مار دیا.حمزہ اُسی وقت خانہ کعبہ میں پہنچے جہاں تمام رؤسائے مکہ بیٹھے تھے اور ابو جہل بھی اُن میں موجود تھا.انہوں نے جاتے ہی زور سے ابو جہل کے منہ پر کمان ماری اور کہا تو نے آج میرے بھتیجے کو تھپڑ مارا ہے.اگر تجھ میں طاقت ہے تو میرا مقابلہ کر.ابو جہل پر ایسا کی رعب طاری ہوا کہ وہ کہنے لگا.بے شک میرا ہی قصور تھا کہ میں نے اسے بلا وجہ مارا.اس کے بعد حمزہ سیدھے اُس مکان پر گئے جہاں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف فرما تھے اور اسلام قبول کر لیا.2 اب دیکھو! رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تو صبر سے کام لیا تھا مگر خدا نے آپ کی طرف سے اُسی وقت بدلہ لے لیا.اسی طرح بدر میں کفار مکہ کا جو حال ہوا وہ ظاہر ہے.ابو جہل نے دعا کی تھی کہ الہی اگر محمد رسول اللہ سچا ہے تو ہم پر پتھر پڑیں.پھر ایسا ہی ہوا.ابو جہل مارا گیا اور اس کے ساتھیوں پر ایسا رُعب طاری ہوا کہ وہ شکست کھا کر بھاگ نکلے.3
168 $1957 خطبات محمود جلد نمبر 38 اسی طرح ایک دفعہ زمانہ نبوت میں ایک شخص رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس حاضر ہوا اور اس نے کہا ابو جہل نے میرا کچھ قرض دینا ہے مگر وہ دیتا نہیں.آپ حلف الفضول میں شامل تھے.آپ مجھے قرض دلا دیں.آپ اُسی وقت اُس کے ساتھ چل پڑے اور ابو جہل سے جا کر بات کی.ابو جہل فوراً اندر گیا اور اس نے روپیہ لا کر دے دیا.بعد میں جب کفارِ مکہ نے اسے طعنہ دیا تو اس نے کہا کہ جب محمد رسول اللہ میرے پاس آئے تھے تو خدا کی قسم! میں نے دیکھا کہ دو مست اونٹ اس کے دائیں بائیں کھڑے ہیں اور اگر میں نے ذرا بھی انکار کیا تو وہ مجھے کھا جائیں گے.جس پر میں ڈر گیا اور میں نے روپیہ لا کر دے دیا.4 یہ خدائی نشان تھا جس کے نتیجہ میں محمد رسول اللہ کی اس نے مدد کی اور دشمن کے دل میں اس نے رعب پیدا کر دیا.اسی طرح طائف سے واپسی پر چونکہ ملکی قانون کے مطابق آپ مکہ میں داخل نہیں ہو سکتے تھے آپ نے اپنے ایک شدید مخالف کو پیغام بھیجا کہ میں مکہ میں آنا چاہتا ہوں کیا تم اپنی پناہ میں مجھے داخل کر سکتے ہو؟ اُس نے فوراً اپنے بیٹوں کو بلایا اور کہا کہ جنگی تلوار میں لو اور اُن کے سایہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے گھر پہنچاؤ.چنانچہ وہ نگی تلوار میں لیے آپ کے آگے آگے آئے اور یہ کہتے آتے تھے کہ اگر کسی نے ذرا بھی سراٹھایا تو اسے موت کے گھاٹ اتار دیا جائے گا.اس طرح خدا نے ایک شدید ترین دشمن سے آپ کی حفاظت کروائی اور آپ سلامتی سے اپنے گھر پہنچ گئے..غرض یہ موقع پر خدائی تائید اور نصرت کے نظارے ہمیں آپ کی زندگی میں نظر آتے ہیں.اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں ایک مقام پر فرماتا ہے کہ مَا رَمَيْتَ إِذْ رَمَيْتَ وَلَكِنَّ اللهَ ری 6 یعنی اے محمد رسول اللہ ! بدر کے موقع پر جو تو نے کنکروں کی مٹھی پھینکی تھی وہ بظاہر تو نے پھینکی تھی لیکن اس کے پیچھے اللہ تعالیٰ کا ہاتھ تھا کہ ایک ہزار کا لشکر اندھا ہو گیا اور اُس نے بھاگ کر مکہ میں جا کر سانس لیا.اسی طرح غزوہ خندق کے موقع پر جبکہ کئی ہزار کا لشکر مدینہ کے ارد گرد ڈیرہ ڈالے پڑا تھا.اللہ تعالیٰ نے رات کو ایسی تیز ہوا چلائی کہ دشمن کی آگیں بجھ گئیں.عرب لوگ آگ بجھنا منحوس خیال کیا کرتے تھے.نتیجہ یہ ہوا کہ تمام جرنیل بھاگ گئے.خود ابوسفیان اس قدر گھبرایا کہ اُسے اونٹ کا گھٹنا کھولنا بھی یاد نہ رہا.وہ اسی حالت میں اُس پر سوار ہو گیا اور اُسے لاتیں مارنے لگ گیا.آخر کسی
$1957 169 خطبات محمود جلد نمبر 38 نے کہا کہ ہوش سے تو کام لو.اونٹ کا تو گھٹنا بندھا ہوا ہے.7 غرض اللہ تعالیٰ نے مخالفوں کے دلوں : میں رُعب پیدا کر دیا کہ وہ ایک وہمہ کا شکار ہوکر میدان چھوڑ کر بھاگ گئے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی میں بھی ہزاروں مشکلات آئیں مگر اللہ تعالیٰ نے ہمیشہ ان مشکلات میں آپ کی تائید کی.ایک دفعہ آپ انارکلی میں سے گزر رہے تھے کہ ایک پاگل نے زور سے آپ کو دوہنڑ مارا جس سے آپ گر گئے.شیخ رحمت اللہ صاحب کو اُس وقت جوش آیا اور انہوں نے اسے مارنا چاہا مگر حضرت مسیح موعود نے منع فرما دیا.بعد میں اس شخص کا بھائی احمدی ہو گیا.وہ ہمیشہ اس واقعہ پر رویا کرتا تھا اور حضرت مسیح موعودؓ سے عرض کرتا رہتا تھا کہ میرے بھائی کو معاف کر دیں.اُس نے آپ کی بڑی ہتک کی ہے.غرض صبر اپنے اندر بڑے شیر یں نتائج رکھتا ہے.دوستوں کو چاہیے کہ انہیں جب بھی مشکلات پیش آئیں صبر سے کام لیں اور اللہ تعالیٰ کے حضور دعاؤں میں لگی جائیں.یقینا اللہ ان کی مشکلات کو دور کر دے گا اور انہیں کامیاب و بامراد کرے گا“.1 : النحل : 128 ( الفضل 25 /اکتوبر 1961 ء ) 2 سيرة ابن هشام جلد اول صفحه 338 339 اسلام حمزة ومشق 2005 ء 3: صحیح بخاری کتاب التفسير سورة الانفال باب " وما كان الله ليعذبهم وانت فيهم 66 4 : سيرة ابن هشام جلد 1 صفحه 440 تا 442 مطبوعہ دمشق 2005ء 5 : طبقات ابن سعد جلد 1 صفحه 212 مطبوعه بيروت 1985ء 6 : الانفال : 18 7 : السيرة النبوية لابن هشام جلد 2 صفحہ 1019 زیر عنوان مناداة ابي سفيان فيهم و بالرحيل مشق 2005ء
$1957 170 22) خطبات محمود جلد نمبر 38 دعا کرو کہ اسلام مغربی ممالک میں جلد ترقی کرے اور اس طرح اللہ تعالیٰ کی پیشگوئیاں پوری ہوں (فرموده 9 اگست 1957 ء) تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: حدیثوں سے معلوم ہوتا ہے کہ آخری زمانہ میں مہدی کی علامت یہ ہوگی کہ اُس وقت سورج مغرب کی طرف سے چڑھے گا.1 اسی طرح قرآن کریم میں بھی اس بارہ میں بہت سے اشارے پائے جاتے ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اقوام جو مسیح ناصرٹی کو ماننے والی ہیں ایک دن عیسائیت سے بیزار ہو کر اسلام کی طرف مائل ہونا شروع کر دیں گی.اور پھر واقعات نے بھی ان پیشگوئیوں کو ثابت کر دیا ہے.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ میں امریکہ میں سب سے پہلے ایک انگریز نے اسلام قبول کیا.الیگزنڈررسل ویب اُس کا نام تھا اور امریکن ایمبیسی میں فلپائن میں کام کرتا تھا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے انگریزی اشتہارات کی جب یورپ اور امریکہ میں اشاعت ہوئی تو اس کے دل میں اسلام قبول کرنے کی تحریک پیدا ہوئی اور اُس نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے خط و کتابت شروع کر دی جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ مسلمان ہو گیا
$1957 171 خطبات محمود جلد نمبر 38 اور اسلام کی اشاعت کے لیے اس نے اپنی زندگی وقف کر دی.بعد میں وہ ہندوستان میں بھی آیا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے اس نے ملنے کی خواہش کی مگر مولویوں نے اُسے کہا کہ اگر تم مرزا صاحب سے ملے تو مسلمان تمہیں چندہ نہیں دیں گے.چنانچہ وہ اُن کے بہکانے کے نتیجہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے نہ ملا.مگر آخر بہت مایوسی سے وہ یہاں سے واپس گیا.کیونکہ اسے کہا گیا تھا کہ دوسرے مسلمان تمہاری بہت مدد کریں گے اور تمہیں اشاعت اسلام کے لیے بڑا چندہ دیں گے مگر دوسرے مسلمانوں نے اُس کی کوئی مدد نہ کی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی وفات کے قریب اُس نے آپ کو خط لکھا کہ میں نے آپ کی نصیحت کو نہ مان کر بہت دکھ اٹھایا ہے.آپ نے مجھے بر وقت بتا دیا تھا کہ مسلمانوں کے اندر خدمت دین کا کوئی جوش نہیں پایا جاتا.مگر میں نے اسے نہ مانا.اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ میں آپ کی ملاقات سے محروم ہو گیا.بہر حال وہ آخر وقت تک مسلمان رہا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے اس کے مخلصانہ تعلقات قائم رہے.تو سب سے پہلا مسلمان امریکہ میں ہی ہوا تھا.اب بھی میں دیکھتا ہوں کہ جماعت کی ترقی یورپین ملکوں کی نسبت امریکہ میں سب سے زیادہ ہو رہی ہے.بعض یورپین ممالک میں بھی احمدیت پھیل رہی ہے اور وہ بھی مغربی علاقے ہی ہیں مگر امریکہ میں ترقی کے زیادہ آثار پائے جاتے ہیں.پچھلے دنوں وہاں کے بعض مبلغین سے مجھے خفگی پیدا ہوئی اور میں نے جماعت پر بھی ناراضگی کا اظہار کیا کہ تم نے ان فضول باتوں کو اپنے اندر کیوں داخل ہونے دیا ہے؟ اس پر وہاں کے ایک نوجوان نے مجھے خط لکھا کہ ہم تو بالکل جماعت کے ساتھ ہیں اور کسی قسم کے تفرقہ کو پسند نہیں کرتے.میں نے کہا میں تمہاری بات کو نہیں مانتا.مجھے جماعت کی طرف سے پیغام آنا چاہیے کہ وہ خلیفہ کے پیچھے ہیں.لڑنے والے مبلغین کے ساتھ نہیں ہیں.اس پر اُس نے تار کے ذریعہ مجھے جماعت کا یہ پیغام پہنچا دیا.میں نے اُسے پھر لکھا کہ میں تار کو بھی تسلیم نہیں کرتا.تم ان سے دستخط لے کر مجھے بھجواؤ.چنانچہ اُس نے دستخط لے کر بھجوا دیئے جو مجھے پہنچ گئے ہیں.انہوں نے لکھا ہے کہ ہم نے خلیفہ کی بیعت کی ہے.اگر مبلغوں میں اختلاف بھی ہو گیا ہے تو ہم اس کی پروا نہیں کرتے.یہ ہمت جو انہوں نے دکھائی ہے بڑی بھاری ہے.بے شک فتنہ منافقین کے دوران میں پاکستان کے احمدیوں نے بھی بڑی وفاداری دکھائی ہے لیکن پاکستان کے احمدیوں اور وہاں کے
$1957 172 خطبات محمود جلد نمبر 38 احمدیوں میں فرق ہے.یہاں چالیس چالیس اور پچاس پچاس سال سے لوگ احمدی ہیں اور وہاں بعض کو احمدی ہوئے صرف ایک ایک سال ہوا ہے اور پھر وہ ہم سے بہت دور رہتے ہیں.مگر اب انہوں نے لکھا ہے کہ ہم آپ کے خطوط کی وجہ سے محسوس کرتے ہیں کہ آپ ہمارے بہت قریب ہو گئے ہیں.میں نے انہیں جواب دیا ہے کہ بے شک فتنہ تو پیدا ہو گیا تھا مگر اُس کا صرف یہی نتیجہ نہیں نکلا کہ آپ لوگ یہ محسوس کرنے لگے ہیں کہ میں آپ کے قریب ہو گیا ہوں بلکہ میں بھی محسوس کر رہا ہوں کہ آپ لوگ میرے قریب ہو گئے ہیں.غرض اللہ تعالیٰ چاہے گا تو آہستہ آہستہ وہاں کی جماعت میں ترقی ہوتی چلی جائے گی جس کے نتیجہ میں شاید سورج کا مغرب سے نکلنا امریکہ کے ذریعہ ہی پورا ہو جائے اور پھر آہستہ آہستہ یورپ کے دوسرے ممالک میں بھی اس کا ظہور شروع ہو جائے.انگلستان پر افسوس آتا ہے کہ وہاں کی جماعت نے ابھی ترقی نہیں کی.حالانکہ انگلستان میں زیادہ تر خدمت کرنے والے وہ لوگ ہیں جو ہندوستان سے گئے ہیں مگر ابھی تک انگلستان کے رہنے والوں میں سے ایسے دس ہیں آدمی بھی پیدا نہیں ہوئے جو اپنی ذات میں مخلص اور اسلام کی اشاعت کرنے والے ہوں.امریکہ میں ایسے سینکڑوں لوگ ہیں.جرمنی میں بھی دس پندرہ آدمی ہیں اور اُمید ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے جرمنی میں سینکڑوں بلکہ ہزاروں تک جماعت پہنچ جائے گی اور امریکہ میں تو بعید نہیں کہ تھوڑے عرصہ میں ہی لاکھ دو لاکھ تک جماعت پہنچ جائے.بلکہ اس سے بھی زیادہ پہنچ جائے.بہر حال ہمیں اللہ تعالیٰ پر توکل کر کے کہ اُس کی پیشگوئیاں ضرور پوری ہوں گی اُس سے دعائیں کرتے رہنا چاہیے کہ وہ اپنے فضل سے ان پیشگوئیوں کو جلد پورا فرمائے.یہ بھی انسان کے لیے برکت کی بات ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ سے یہ دعائیں کرتا رہے کہ اس کی پیشگوئیاں جلد پوری ہوں.اللہ تعالیٰ اپنے ایسے بندہ سے بہت خوش ہوتا ہے اور کہتا ہے کہ گو اس نے میری ہی پیشگوئیوں کو مجھ سے جلد پورا کرنے کی التجا کی ہے مگر اس سے ظاہر ہے کہ یہ دنیا میں میرے قول کو سچا ثابت کرنا چاہتا ہے اور اگر یہ مجھے سچا ثابت کرنا چاہتا ہے تو مجھے بھی اسے سچی اور بے عیب زندگی عطا کرنی چاہیے کیونکہ اس نے اپنے عمل سے ثابت کر دیا ہے کہ اس کی رضا میری رضا میں اور اس کی خوشی میری خوشی میں ہے.غرض ایسے معاملات میں دعا کرنا خود دعا کرنے والے کے لیے بھی مفید ہوتا ہے.
$1957 173 خطبات محمود جلد نمبر 38 جو و شخص یہ دعا کرتا ہے کہ یا اللہ ! جلد مغرب سے سورج نکل آئے یا اللہ ! جلد مغربی ممالک میں اسلام پھیل جائے وہ دوسرے لفظوں میں یہ چاہتا ہے کہ خدا تعالیٰ کی بات جلد پوری ہو جائے.اور جو شخص یہ چاہتا ہے کہ خدا تعالیٰ کا کلام پورا ہو اور اس کی پیشگوئیوں کا جلد ظہور ہو اللہ تعالیٰ کی مدد اور اس کی خوشنودی بھی اس کے شامل حال ہو جاتی ہے.(الفضل 21 راگست 1957 ء ) 1 : صحیح بخاری کتاب الفتن باب خروج النار
$1957 174 23 خطبات محمود جلد نمبر 38 جب انسان یہ سمجھتا ہے کہ خدائی تقدیر مصیبت اور عذاب کے رنگ میں جاری ہو چکی ہے اللہ تعالیٰ اُس وقت بھی دعا کرنے پر اُسے ٹال سکتا ہے فرموده 16 اگست 1957ء) تشهد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: "سورۃ انبیاء میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَجَعَلْنَا السَّمَاءَ سَقْفًا مَّحْفُوظًا وَهُمْ عَنْ ابْتِهَا مُعْرِضُونَ - 1 ہم نے آسمان کو ایک محفوظ چھت بنایا ہے لیکن لوگ پھر بھی اس کے نشانوں سے اعراض کرتے ہیں.اس جگہ اللہ تعالیٰ نے آسمان کے متعلق محافظ کا لفظ استعمال نہیں فرمایا.یعنی یہ نہیں کہا کہ آسمان دنیا کا محافظ ہے حالانکہ بظاہر کہنا چاہیے تھا کہ ہم نے آسمان کو محافظ بنایا ہے اور اس کے ذریعہ دنیا کی حفاظت ہو رہی ہے بلکہ اس کی بجائے اللہ تعالیٰ یہ فرماتا ہے کہ میں نے آسمان کو ایک محفوظ چھت بنایا ہے.محفوظ کے بظاہر معنے تو یہ ہوتے ہیں کہ وہ خود محفوظ ہے لیکن اس سے مسلمانوں کی توجہ
$1957 175 خطبات محمود جلد نمبر 38 اس امر کی طرف بھی پھرائی گئی ہے کہ کئی دوسرے مقامات پر اللہ تعالیٰ نے بڑے زور سے مسلمانوں کو تقدیر کے مسئلہ کی طرف توجہ دلائی ہے.اور تقدیر کے معنے یہ ہوتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ آسمان پر ایک فیصلہ کرتا ہے جو زمین پر نافذ ہو جاتا ہے.اگر وہ انسان کے لیے بُرا فیصلہ ہوتا ہے تو اُس کو بھی کوئی روک نہیں سکتا.اور اگر اچھا ہو تو اسکو بھی کوئی روک نہیں سکتا.ہمارے ملک میں بھی کہتے ہیں کہ جو لکھی ہے وہ تو ہو کر رپہنی ہے.مگر اس جگہ اس مسئلہ کے ایک دوسرے پہلو کو بیان فرمایا ہے کہ تقدیریل بھی سکتی ہے.آخر آسمانی تقدیر کے یہی معنے ہوتے ہیں کہ وہ تقدیر آسمان سے نازل ہوتی ہے.اب یہ بات واضح ہے کہ اگر کوئی ٹپکنے والی چھت ہو تو جب بھی برسات ہوگی پانی ٹپکنے لگ جائے گا.مگر آسمان کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم نے اسے ایک محفوظ چھت بنایا ہے.یعنی اگر تم چاہو تو آسمان کو اس طرح بند کر سکتے ہو کہ کوئی بُری تقدیر تم پر نازل ہی نہ ہو.لیکن ظاہر ہے کہ اگر کوئی ٹپکنے والی چھت ہو تو اُس چھت پر چڑھ کر ہی اُس کے سوراخ کو بند کیا جاسکتا ہے.اسی طرح اگر کوئی بُری تقدیر کو روکنا چاہے تو اُسے بھی آسمان پر چڑھ کر ہی اسے روکنا پڑے گا.پس جَعَلْنَا السَّمَاءَ سَقْفًا مَّحْفُوظًا میں اللہ تعالیٰ نے یہ بتایا ہے کہ اصل علاج یہ ہے کہ مومن اللہ تعالیٰ کی طرف توجہ کرے اور اُس سے دعائیں کرے کہ وہ اپنی بُری تقدیروں کو روک دے.یہ ظاہر ہے کہ انسان کے دل میں اچھی تقدیر رو کنے کی خواہش نہیں ہوگی.اس کے دل میں یہی خواہش ہوگی کہ بُری تقدیر میں نہ آئیں.اور بُری تقدیروں کے روکنے کا یہی طریق ہے کہ مومن اللہ تعالیٰ کے حضور جھک جائے اور اُس سے دعاؤں سے کام لے.پس اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے توجہ دلائی ہے کہ جو لوگ بُری تقدیر کے آثار دیکھ کر یہ کہنے لگ جاتے ہیں کہ اس تقدیر نے تو ٹلنا ہی نہیں غلطی پر ہیں.تقدیریل سکتی ہے.بُری تقدیر کے نازل ہونے کے یہ معنے ہیں کہ تمہارے آسمان میں کسی گناہ کی وجہ سے سوراخ ہو گیا ہے اور اس سوراخ میں سے بُری تقدیر تم پر آ گرتی ہے.اگر تم آسمان پر جاؤ یعنی اللہ تعالیٰ سے دعائیں کرو تو وہ بُری تقدیر بھی مل سکتی ہے.غرض اس آیت کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو اس طرف توجہ دلائی ہے کہ تم صرف یہ نہ سمجھا کرو کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے فلاں عذاب آ گیا ہے اب یہ کیسے مل سکتا ہے.بلکہ تمہیں سمجھنا چاہیے کہ اس نے خود ہی تمہاری کامیابی کے لیے بھی ایک راستہ کھول دیا ہے.یعنی اگر کوئی شخص آسمان پر جا کر اپنی قسمت کے آسمان کو بدلنا چاہے تو بدل سکتا ہے بلکہ اس حد تک بدل سکتا ہے کہ وہ کلی طور پر
خطبات محمود جلد نمبر 38 176 $1957 محفوظ ہو جائے اور بُری تقدیر اس پر نازل ہی نہ ہوا کرے.گویا صرف اتنا ہی تغیر نہیں ہو سکتا کہ کچھ بُری تقدیر میں آجائیں اور کچھ اچھی بلکہ فرماتا ہے وَجَعَلْنَا السَّمَاءَ سَقْفًا مَّحْفُوظًا.اگر آسمان پر جا کر کوئی شخص اُس کی مرمت کر دے اور اُس کے تمام سوراخوں کو بند کر دے.تو خواہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے کتنا بھی عذاب مقدر ہو اور خواہ کتنی بھی خطرناک تقدیریں مقدرہوں اُس کی دعا ئیں ہر قسم کی بُری تقدیروں کو روک دیتی ہیں.دیکھو! دعا تو بڑی چیز ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک دفعہ ایک شخص آیا اور اس نے کہا يَا رَسُولُ اللہ ! میرے بھائی کو اسہال آ رہے ہیں.آپ نے فرمایا جاؤ اسے شہد پلاؤ.وہ گیا اور اس نے شہد پلایا مگر اسہال زیادہ ہو گئے.وہ پھر آپ کے پاس آیا اور اس کا ذکر کیا.آپ نے پھر یہی جواب دیا کہ جاؤ اور شہد پلاؤ.وہ پھر گیا اور اس نے شہد پلایا مگر اسہال پھر زیادہ ہو گئے.اس پر وہ تیسری دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا.آپ نے فرمایا تیرے بھائی کا پیٹ جھوٹا ہے اور خدا کا کلام سچا ہے.جاؤ اور اسے شہد پلاؤ.یعنی جب خدا نے شہر کے متعلق فرمایا ہے کہ اس میں شفا ہے تو خدا تعالیٰ کی بات کس طرح غلط ہو سکتی ہے.چنانچہ اس نے پھر شہد پلایا.نتیجہ یہ ہوا کہ اس کے اندر سے ایک سخت شدہ نکلا اور اُسے شفاء ہوگئی.2 اب دیکھو! یہ بھی ایک خدائی تقدیر تھی مگر شہد دعا کا مقابلہ نہیں کر سکتا.دعا تو ایسی چیز ہے جو بڑے بڑے عذابوں کو دور کر دیتی ہے.اور دعا ایسا تریاق ہے جو قوموں کے عذابوں کو بھی دور کر دیتا ہے.بہر حال جس طرح شہد کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ اس میں شفا ہے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تیرے بھائی کا پیٹ جھوٹا ہے خدا کا کلام جھوٹا نہیں ہوسکتا.اسی طرح دعا کے متعلق اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے اُجِيْبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ 3 یعنی جب مجھ سے کوئی پکارنے والا دعا کرتا ہے تو میں اُس کی دعا کو قبول کرتا ہوں.ضرورت صرف یہ ہوتی ہے کہ انسان اپنے لیے صحیح راستہ اور نیکی کا راستہ تجویز کرے.اسی طرح فرماتا ہے کہ اَمَّنْ يُجِيبُ الْمُضْطَرَّ إِذَا دَعَاهُ 4 کہ مضطر کی اللہ تعالیٰ کے سوا اور کون دعا سنتا ہے.پس جب اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں ہر مضطر کی دعا سنتا ہوں تو یہ کس طرح کہا جاسکتا ہے کہ اس کی دعارڈ ہو جائے گی.آخر تقدیر کا زیادہ تر اثر مضطر پر ہی ہوتا ہے.کیونکہ مضطر وہی ہوتا ہے جس کو اپنی نجات اور کامیابی کہ کا
$1957 177 خطبات محمود جلد نمبر 38 کوئی رستہ نظر نہ آئے.معمولی کھانسی اور بخار ہو اور انسان ڈاکٹروں کے پاس جائے تو وہ کہتے ہیں گھبراؤ نہیں.اچھے ہو جاؤ گے.لیکن جب کسی مریض کی حالت زیادہ خطر ناک ہو جائے تو ڈاکٹر کہتے ہے ہیں کہ اب اس کا علاج نہیں ہو سکتا.یہ تقدیر بری ہو سکتی ہے.کیونکہ عام صورتوں میں تو علاج ممکن.لیکن خطر ناک صورتوں میں ممکن نہیں ہوتا.اور اُس وقت انسان مضطر ہوتا ہے اور گھبرا کر ادھر اُدھر ہاتھ پاؤں مارتا ہے اور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اَمَّن يُجِيبُ الْمُضْطَرَّ إِذَا دَعَاهُ كه جب مضطر یعنی تدبیروں سے مایوس ہو جانے والا انسان اسے پکارتا ہے تو بتاؤ اللہ تعالیٰ کے سوا کون اُس کی پکار کو سنتا اور اُس کی حاجت کو پورا کرتا ہے؟ گویا جب لوگ دنیا کے مصائب سے تنگ آ جاتے ہیں اور انسان سمجھتا ہے کہ میرے خلاف خدا کی تقدیر جاری ہو گئی ہے تب بھی اللہ تعالیٰ اُس کی دعاؤں کو سنتا اور تقدیروں کو ٹال دیتا ہے.غرض بُری تقدیر کو روکنے کا ذریعہ یہی ہے کہ انسان دعاؤں سے کام لے.ممکن ہے کوئی کہے کہ کسی انسان کی کیا طاقت ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کی تقدیر کو روک سکے.سواس کے متعلق ایک مشہور قصہ یا درکھنا چاہیے.روس کا ایک بادشاہ تھا.اُس کا ایک چپڑاسی ہوا کرتا تھا جس کا نام ٹالسٹائے تھا.اب تو وہ خاندان نواب بنا ہوا ہے لیکن شروع زمانہ میں جو روس کا بادشاہ تھا ٹالسٹائے اُس کا چپڑ اسی ہوا کرتا تھا.ایک دفعہ بادشاہ کو کوئی ضروری کام تھا.اُس نے ٹالسٹائے سے کہا کہ میں تمہیں حکم دیتا ہوں کہ آج کسی کو قلعہ میں داخل نہ ہونے دو.میں بعض مسائل پر غور کر رہا ہوں اور مجھے تخلیہ کی ضرورت ہے.ٹالسٹائے نے کہا بہت اچھا.اس نے کہا دیکھو! میں تمہیں پھر کہتا ہوں کہ آج کی قلعہ میں کوئی شخص داخل نہ ہو.وہ کہنے لگا حضور ! میں کسی کو داخل نہیں ہونے دوں گا.اتنے میں دروازہ پر کسی نے دستک دی.ٹالسٹائے نے دیکھا تو وہ شہزادہ تھا.چپڑاسی نے اُسے روکا اور کہا حضور ! آج اندر نہیں جانا.اس نے بڑے جوش سے کہا کہ تمہاری کیا طاقت ہے کہ مجھ کو جو شاہی خاندان کا فرد ہوں اندر داخل ہونے سے روکو.اس نے کہا حضور! میں کیا کروں؟ مجھے بادشاہ کی طرف سے حکم ہے کہ میں آج کسی کو اندر داخل نہ ہونے دوں.اس نے کہا اس حکم کا مجھ پر کوئی اثر نہیں ہوسکتا کیونکہ روسی کانسٹی ٹیوشن کے مطابق بادشاہ شہزادوں کے حقوق تلف نہیں کر سکتا.اس لیے آگے سے ہٹ جاؤ ورنہ میں ماروں گا.اُس نے کہا حضور! میں اندر نہیں جانے دوں گا.شہزادہ نے کوڑا اٹھایا اور اسے مارنا شروع کر دیا.وہ خاموش کھڑا رہا اور کوڑے کھاتا رہا.مارنے کے بعد اس نے سمجھا کہ اب یہ مجھے
$1957 178 خطبات محمود جلد نمبر 38 رستہ دے دے گا.مگر جب وہ آگے بڑھنے لگا تو ٹالسٹائے نے اسے پھر روک دیا اور کہا حضور ! شہزادے ہیں میں آپ کا مقابلہ نہیں کر سکتا مگر میں اندر نہیں جانے دوں گا.اتنے میں شور کی آواز بادشاہ نے بھی سن لی.اس نے اوپر سے آواز دی کہ ٹالسٹائے کون ہے؟ اس پر شہزادے نے بڑے غصے سے کہا حضور ! اس نے میری سخت ہتک کی ہے.بادشاہ نے کہا تم دونوں اوپر آ جاؤ.چنانچہ وہ دونوں اوپر چلے گئے.بادشاہ نے شہزادے سے پوچھا کہ اس نے کیا ہتک کی ہے؟ اس نے کہا میں شہزادہ ہوں مگر اس نے مجھے اندر داخل نہیں ہونے دیا.بادشاہ نے ٹالٹائے سے کہا کیا تم نے اسے روکا تھا ؟ اس نے کہا ہاں حضور ! روکا تھا.بادشاہ نے کہا تمہیں پتا نہیں تھا کہ یہ شہزادہ ہے؟ اس نے کہا حضور پتا تھا.بادشاہ نے کہا پھر تم نے کیوں روکا؟ اُس نے کہا حضور نے فرمایا تھا کہ کسی کو اندر نہیں آنے دینا.اس پر بادشاہ نے شہزادہ سے کہا میں اوپر سے دیکھتا رہا ہوں کہ یہ میرا نام لیتا رہا مگر تم پھر بھی اسے کوڑے مارتے رہے.اب اس کا ایک ہی علاج ہے کہ ٹالسٹائے تمہیں اُسی طرح کوڑے مارے جس طرح تم نے اسے مارے ہیں.چنانچہ اُس نے ٹالسٹائے سے کہا کوڑا اٹھاؤ اور اسے مارو.اس پر شہزادہ کہنے لگا روسی کانسٹی ٹیوشن کے مطابق کوئی غیر فوجی کسی فوجی کو نہیں مار سکتا.بادشاہ نے کہا ٹالسٹائے ! میں نے تم کولیفٹینٹ بنا دیا ہے.اب کوڑا لو اور اسے مارو.شہزادہ کہنے لگا حضور! یہ بھی قانون ہے کہ کوئی عام آدمی شہزادے کو نہیں مار سکتا.اُس نے کہا اچھا! کونٹ ٹالسٹائے تم اسے مارو.گویا کونٹ (COUNT) کے لفظ سے ہی اُسے نواب بنا دیا.پرانے زمانہ میں جب کسی کو نواب بناتے تھے تو بادشاہ اسے اعزاز کے طور پر اپنی سوٹی دیا کرتا تھا.اس نے بھی ٹالسٹائے کو سوٹی دی اور کہا اسے مارو.چنانچہ ٹالٹائے نے اُسے مارا.اُس دن سے وہ خاندان اب تک کونٹ چلا آتا ہے.اب دیکھو! گوروس کی کانسٹی ٹیوشن کچھ اور تھی مگر بادشاہ نے بتا دیا کہ میں اسے تو ڑ بھی سکتا ہوں.یہی بات اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں بیان فرمائی ہے کہ بے شک بُری تقدیریں بھی ہوتی ہیں مگر ان تقدیروں کو توڑنے والے ہم موجود ہیں.تم یہ کیوں کہتے ہو کہ یہ خدا کی تقدیر ہے جوٹل نہیں سکتی.جس کو بنانے کا حق ہے اُس کو توڑنے کا بھی حق ہے.چنانچہ دیکھ لو پاکستان کی کانسٹی ٹیوشن بنی تو اس میں ایک دفعہ انہوں نے یہ بھی رکھ دی کہ اتنے ممبر ہوں تو یہ کانسٹی ٹیوشن بدلی جاسکتی ہے.چونکہ آجکل جمہوریت کا دور ہے اس لیے ممبروں کی تعیین کر دی گئی ہے.ورنہ انگریز کے زمانہ میں
خطبات محمود جلد نمبر 38 179 $1957 اکیلا وائسرائے ہی کانسٹی ٹیوشن کو بدل دیتا تھا اور کسی میں طاقت نہیں ہوتی تھی کہ اس کے سامنے بول سکے.غرض اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے بتایا ہے کہ بعض تقدیر میں بے شک خطرناک ہوتی ہیں مگر ان تقدیروں کو توڑنے والی چیز بھی موجود ہے.اگر تم آسمان پر چڑھ کر اس کے سوراخوں کو بند کر دو تو کوئی بُری تقدیر تم پر نازل نہیں ہو سکتی.اس میں کوئی محبہ نہیں کہ تقدیر کہے گی ہٹ جاؤ.میں خدا کی تقدیر ہوں.مجھے آگے جانے کا راستہ دو.مگر دعا اُس کی راہ میں حائل ہو جائے گی اور کہے گی کہ چل پرے ہٹ.میں بھی خدا کی ایک تقدیر ہوں جو تمہیں روکنے پر مقرر ہوں.پس ہٹ جاؤ میں تمہیں نیچے نہیں جانے دوں گی.یہیں سے رو کر دوں گی.اس طرح بُری تقدیر ہٹ جائے گی اور انسان ضرر سے بچ جائے گا.(الفضل 30 /اگست 1957ء) 1 : الانبياء : 33 2 : جامع الترمذى ابواب الطبّ باب ماجاء في التداوي بالعسل.3 : البقرة: 187 4 : النمل: 63
$1957 180 24 خطبات محمود جلد نمبر 38 فرمائی إِنَّ قُرْآنَ الْفَجْرِ كَانَ مَشْهُودًا کی پُر معارف تفسیر فرموده 23 راگست 1957ء) تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور نے قرآن کریم کی مندرجہ ذیل آیات کی تلاوت اَقِمِ الصَّلوةَ لِدُلُوكِ الشَّمْسِ إِلى غَسَقِ الَّيْلِ وَقُرْآنَ الْفَجْرِ إِنَّ قُرْآنَ الْفَجْرِ كَانَ مَشْهُودًا - وَمِنَ الَّيْلِ فَتَهَجَّدْ بِهِ نَافِلَةً لَكَ عَلَى أَنْ يَبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَّحْمُودًا 1 اس کے بعد فرمایا: ان آیات میں اللہ تعالیٰ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی عبادت کی طرف توجہ دلاتا ہے اور فرماتا ہے کہ عبادات ہی تیرا بڑا سہارا ہیں تو ان کی طرف توجہ کر.اگر تو عبادات کی طرف توجہ کرے گا تو اللہ تعالیٰ تجھے ایک ایسے مقام پر کھڑا کرے گا جس کا نام مقام محمود ہے.مسلمانوں میں عام طور پر یہ خیال پایا جاتا ہے کہ مقام محمود جنت میں ایک بہت بلند مقام ہے جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو عطا کیا جائے گا.ہمیں اس سے انکار نہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا جنت میں مقام سب سے اعلیٰ ہو گا لیکن سوال یہ ہے کہ غیر مذاہب والے اس کو
$1957 181 خطبات محمود جلد نمبر 38 کب مان سکتے ہیں.عیسائی اور ہندو اور یہودی وغیرہ اسے کب تسلیم کر سکتے ہیں.انگلستان، امریکہ، جرمنی اور روس کے دہریہ اس سے کیا فائدہ اُٹھا سکتے ہیں.وہ تو نہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کے قائل ہیں اور نہ مرنے کے بعد جینے کے قائل ہیں.اُن کو یہ کہنا کہ ہمارے رسول سب انبیاء سے افضل ہیں اور اس کا ثبوت یہ ہے کہ انہیں جنت میں ایک بڑا اعلیٰ مقام عطا کیا جائے گا جس کا نام مقام محمود ہو گا ایک عبث بات ہے.وہ تو کہیں گے کہ ہم تو ان باتوں کے قائل ہی نہیں.ہم تو اس بات کے بھی قائل نہیں کہ تمہیں مرنے کے بعد ایک چھ گھی کا یا ایک چمچہ شکر کا بھی ملے گا.تم یہ کیا کہتے ہو کہ تمہارے رسول کو مقام محمود ملے گا.عیسائیوں نے مسلمانوں کے مقابلہ میں نسبتاً زیادہ ہوشیاری کی ہے اور انہوں نے کہا ہے کہ آخری زمانہ میں ہمارا مسیح جسمانی طور پر آسمان سے اترے گا اور بادشاہت اُسی کی ہو جائے گی.اُن پر یہ اعتراض نہیں کیا جاسکتا کہ دکھاؤ تمہارے مسیح کی بادشاہت کہاں ہے؟ وہ کہیں گے ہم تو قیامت سے قریب اس بادشاہت کے قائل ہیں، اس وقت تو نہیں.پس وہ تو پھر بھی کچھ جواب دے سکتے ہیں مگر مسلمان اگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام محمود کو جنت تک محدود رکھیں تو اُن کے اعتراض کا جواب نہیں دے سکتے.اگر ہم اُن سے کہیں کہ آؤ اور دکھاؤ کہ مسیح کی بادشاہت کہاں ہے؟ تو وہ کہیں گے کہ تم پہلے قیامت کا دن دکھاؤ.ہمارا تو یہ عقیدہ ہے کہ قیامت کے قریب اُس کی بادشاہت قائم ہو گی.اگر تم اُس کی بادشاہت دیکھنا چاہتے ہو تو قیامت کا دن بھی دکھاؤ.پھر دنیوی طور پر ہمیں وہ یہ بھی ہ سکتے ہیں کہ ہم مسیح کے ماننے والے ہیں اور ہماری حکومت اس وقت دنیا پر قائم ہے.مگر تم کہتے ہو کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جنت میں مقام محمود ملے گا.اور حالت یہ ہے کہ آج سب سے زیادہ گالیاں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہی مل رہی ہیں.ہندو ہیں، عیسائی ہیں، روس کے دہر یہ ہیں، بدھ ہیں، ان میں سے جو بھی اسلام پر کوئی کتاب لکھتا ہے وہ سیدھا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو گالیاں دینے لگ جاتا ہے.پس تمہارا جنت والا انعام تو ہمیں نظر نہیں آتا.اس دنیا میں تمہیں جو کچھ پل رہا ہے وہ تو ظاہر ہے کہ مقام محمود کے خلاف ہے.سو یا د رکھنا چاہیے کہ مقام محمود بے شک جنت میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ملے گا مگر اس دنیا میں بھی آپ کو مقام محمود عطا کرنے کا اللہ تعالیٰ نے وعدہ فرمایا ہے اور عَسَى أَنْ يَبْعَثَكَ
$1957 182 خطبات محمود جلد نمبر 38 رَبُّكَ مَقَامًا مَّحْمُودا میں اسی مقام محمود کی طرف اشارہ ہے جو دنیا میں آپ کے ملے گا.اور پھر اس مقام کے حصول کا طریق بیان گیا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اَقِمِ الصَّلوةَ لِدُلُوكِ الشَّمْسِ إِلَى غَسَقِ الَّيْلِ وَقُرْآنَ الْفَجْرِ إِنَّ قُرْآنَ الْفَجْرِ كَانَ مَشْهُودًا.ان آیات میں گو ضمیر میں مفرد کی استعمال کی گئی ہیں اور بظاہر ان آیات کا خطاب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ہے مگر مراد آپ کی امت کے افراد ہیں.قرآن کریم میں ایسی بہت سی مثالیں پائی جاتی ہیں جہاں مخاطب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو کیا جاتا ہے مگر مراد آپ کی امت کے افراد ہوتے ہیں.ان آیات میں بھی اللہ تعالیٰ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کے ہر فرد کو مخاطب کرتا اور فرماتا ہے کہ اے رسول اللہ کے امتی ! تو نمازیں قائم کر.خصوصاً سورج ڈھلنے کے وقت سے لے کر رات کے خوب تاریک ہو جانے کے وقت تک کی مختلف گھڑیوں میں.اور اسی طرح فجر کے وقت قرآن کریم بھی پڑھا کر کیونکہ فجر کے وقت قرآن کریم کا پڑھنا ایک مقبول عمل ہے.مفردات میں لکھا ہے کہ مَشْهُودًا کے یہ بھی معنے ہیں کہ ایسے آدمی کو شفا اور رحمت ملے گی.پس دوسرے معنے اس کے یہ بھی ہیں کہ اُس کو دنیوی زندگی میں اعلیٰ مقام جو خوشی والا ہو گا ملے گا.فجر کا وقت وہ ہوتا ہے جب اندھیرا جا رہا ہوتا ہے اور سورج کی روشنی نمودار ہونے والی ہوتی ہے.لیکن اس جگہ فجر سے یہ مُراد ہے کہ جب اللہ تعالیٰ کی طرف سے اسلام کا نور پھیلنے کے سامان پیدا ہورہے ہوں اور کفر و الحاد کی تاریکیاں دور ہونے کا وقت آ جائے.تو اُس وقت قرآن کریم کو خوب پھیلا ؤ اور اس کی دنیا میں اشاعت کرو.علماء کہتے ہیں کہ اس آیت کا یہ مطلب ہے کہ اگر صبح کے وقت قرآن کریم کی تلاوت کی جائے تو اُس وقت فرشتے خدا تعالیٰ کا کلام سننے کے لیے آتے ہیں.مگر یہاں پھر وہی سوال پیدا ہوتا ہے کہ فرشتے کون دیکھتا ہے اور اُن کا آنا جانا کس طرح ثابت کیا جا سکتا ہے.عیسائی تو کہہ سکتے ہیں کہ محض ڈھکو سلے ہیں لیکن میں نے جو معنے کیے ہیں اور جو لغت عربی کی کتابوں کے عین مطابق ہیں ان پر کوئی اعتراض نہیں کیا جاسکتا.بلکہ ان معنوں کو ثابت کیا جا سکتا ہے.میں نے اس آیت کے یہ معنے کیسے ہیں کہ جس وقت اللہ تعالیٰ اسلام کا نور پھیلانے کے سامان پیدا فرمائے تم قرآن کریم کی کی اشاعت کے لیے کھڑے ہو جایا کرو.تب تم کو خدا تعالیٰ کی طرف سے صحت اور رحمت ملے گی
$1957 183 خطبات محمود جلد نمبر 38 اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مقام محمود ملے گا.چنانچہ دیکھ لو یہ نظارہ ایسا ہے جو اس دنیا میں نظر آ رہا ہے.جیسے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بھی فرمایا کہ آ رہا ہے اس طرف احرار یورپ کا مزاج نبض پھر چلنے لگی مُردوں کی ناگاہ زندہ وار 2 ہمیں نظر آتا ہے کہ وہ بڑے بڑے عیسائی جو عیسائیت پر جان دیا کرتے تھے اب اسلام کی تعریف میں کلمات کہہ رہے ہیں.اور وہی عیسائی مصنف جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی پر کئی کے الزامات لگایا کرتے تھے اب ان کو غلط قرار دے کر ان کی تردید کر رہے ہیں.یہی وہ امر ہے جس کی طرف ان آیات میں توجہ دلائی گئی ہے اور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم قُرْآنَ الْفَجْرِ کو لازم پکڑو یعنی جب پھر اسلام کا نور پھیلنے لگے اور اسلام پر فجر کا زمانہ آ جائے تو تم قرآن کریم کو پھیلانے کی طرف متوجہ ہو جاؤ.مشہود کے معنے صرف یہی نہیں ہوتے کہ کوئی آکر دیکھے کہ کیا ہو رہا ہے.جیسے مسلمانوں نے کہ دیا کہ اگر صبح کی نماز کے بعد قرآن کریم کی تلاوت کی جائے تو فرشتے آ کر سنتے ہیں.بلکہ مشہور کے معنے عزت والی چیز کے بھی ہوتے ہیں.دنیا میں لوگ اُسی چیز کو دیکھنے کے لیے جایا کرتے ہیں جس کی عزت اور شہرت قائم ہو.جیسے قطب صاحب کی لاٹ ہے.لوگ اسے اکثر دیکھنے جاتے ہیں.لیے کہ اُس کی شہرت ہے اور وہ مسلمانوں کی نگاہ میں معزز ہے.اسی طرح اگر حضرت نظام الدین صاحب اولیاء کو کوئی نہ جانتا، حضرت معین الدین صاحب چشتی کو کوئی نہ جانتا، حضرت بختیار کا کی صاحب کو کوئی نہ جانتا تو لوگ ان کے مزار پر کیوں جاتے ؟ اگر حضرت فرید الدین شکر گنج والوں کو کوئی نہ جانتا تو اُن کا دروازہ دیکھنے کے لیے لوگ کیوں جایا کرتے ؟ اسی طرح کی ملتان میں کئی بزرگوں کی قبریں ہیں.اگر پہلے سے اُن کی شہرت نیک قائم نہ ہوتی تو لوگ ان بزرگوں کے مقابر دیکھنے کے لیے کیوں جاتے؟ یہی مفہوم اِنَّ قُرآنَ الْفَجْرِ كَانَ مَشْهُودًا کا ہے کہ وہ شخص جو ایسے نور کے وقت میں قرآن کریم کی اشاعت کرے گا اور اس کے علوم کو پھیلائے گا اور اس کے احکام کو رائج کرے گا اس کی اس کوشش اور جدو جہد کے نتیجہ میں جہاں قرآن کی عظمت قائم ہوگی وہاں ساتھ ہی اس کی عزت بھی قائم کر دی جائے گی.جیسے نظام الدین صاحب اولیاء کے مقبرہ کی
$1957 184 خطبات محمود جلد نمبر 38 عظمت قائم ہوئی تو ساتھ ہی ساتھ اُن کی بھی عظمت قائم ہو گئی.چنانچہ جو بھی ان کے مزار پر جاتے ہیں ان کی تعریفیں کرتے ہیں.پس اس آیت کا یہ مطلب نہیں کہ صبح کے وقت تلاوت کی جائے تو فرشتے اس تلاوت کو سننے کے لیے آتے ہیں.بلکہ مطلب یہ ہے کہ صبح کا قرآن بڑی بزرگی والا ہے یعنی جو صبح کا قرآن پڑھتا ہے اُسے روحانی بزرگی عطا کی جاتی ہے.اس جگہ صبح سے ظاہری صبح مراد نہیں.بلکہ مراد یہ ہے کہ جب قرآن کریم کی اشاعت کا زمانہ آئے گا تو وہ لوگ جو اس کی اشاعت میں حصہ لیں گے بڑی عزتیں پائیں گے.چنانچہ دیکھ لو ہمارے مبلغ غیر ممالک میں اکیلے اکیلے جاتے ہیں.پھر ان کا گھٹیا کھانا اور گھٹیا لباس ہوتا ہے.مگر بڑے بڑے وزراء اور لیڈر، ان کی عزت کرتے ہیں اور اگر کوئی شخص انہیں تحقیر سے دیکھے تو اللہ تعالیٰ خود ان کی عزت کے سامان پیدا کر دیتا ہے.پاکستان کے ایک جرنیل اپنی بیوی کے ساتھ امریکہ گئے.ان کی بیوی احمدی ہیں.ایک دن میاں بیوی دونوں ریسٹورنٹ میں کھانا کھا رہے تھے کہ اتنے میں ہمارا ایک مبلغ بھی وہاں آ گیا.ہمارے مبلغین کو چونکہ خرچ کم ملتا ہے اس لیے اُن کا لباس معمولی ہوتا ہے.وہ آیا تو اُس کے کپڑوں پر شکن پڑے ہوئے تھے اور شکن کو وہ لوگ بہت بُر اخیال کرتے ہیں.بوٹ بھی خراب سا تھا اور ٹوپی بھی ادنی قسم کی تھی.اس پاکستانی جرنیل کی بیوی نے مجھے لکھا اور بعد میں جب وہ مجھے ملی تو اس نے مجھے زبانی سنایا کہ ہمارے مبلغ کو دیکھتے ہی میرا خاوند کہنے لگا کہ دیکھو! وہ تمہارا مبلغ آ گیا ہے.وہ کہنے لگی اللہ تعالیٰ نے میری عزت رکھ لی.اُسی وقت جماعت تبلیغی کے کچھ آدمی وہاں آگئے.انہوں نے بڑے بڑے لینے پہنے ہوئے تھے.گھنٹوں تک پانچے اٹھائے ہوئے تھے اور ہاتھوں میں تھالیاں پکڑی ہوئی تھیں.میزوں پر بیٹھ کر انہوں نے ہاتھوں سے ہی کھانا کھانا شروع کر دیا اور پگڑیوں سے اپنے ہاتھ پونچھنے شروع کر دیئے.میں نے اپنے خاوند سے کہا جرنیل صاحب ! دیکھیے وہ آپ کے مبلغ بھی آگئے ہیں.اس پر وہ بڑا شرمندہ ہوا.غرض اِنَّ قُرْآنَ الْفَجْرِ كَانَ مَشْهُودًا کے یہی معنے ہیں کہ جب ترقی اسلام کا زمانہ آئے گا تو جو لوگ قرآن کی اشاعت کرنے والے ہوں گے تو خواہ وہ کتنے بھی غریب ہوں اور کیسے ہی حقیر ہوں بڑی عزتیں پائیں گے.باقی لوگ مال و دولت کے ذریعہ سے عزت حاصل
$1957 185 خطبات محمود جلد نمبر 38 کرتے ہیں مگر وہ لوگ اشاعتِ قرآن کے ذریعہ سے ترقی کریں گے اور اشاعتِ قرآن کے ذریعہ سے ہی عزت حاصل کریں گے.دیکھ لو! ربوہ سے ہمارا آدمی اگر کسی سرکاری افسر کو ملنے کے لیے جائے تو بعض دفعہ دس دس دن تک اُسے ملاقات کا موقع نہیں ملتا.مگر بیرونی ممالک کے بادشاہ اور وزرائے اعظم تک ہمارے مبلغین کا احترام کرتے اور اُن کو عزت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں.ایران کا بادشاہ لندن گیا تو اسے ہمارے مبلغ نے قرآن کریم کا انگریزی ترجمہ تحفہ کے طور پر پیش کیا.اُس نے قرآن کریم کو بوسہ دیا، اُسے سر پر رکھا اور ہمارے مبلغ سے کہا کہ میں آپ کا بڑا ممنون ہوں کہ آپ نے مجھے یہ تحفہ دیا.اب مجھے بھی اجازت دیجیے کہ میں بھی آپ کی خدمت میں کوئی تحفہ پیش کروں.چنانچہ اُس نے واپس جا کر اپنے امبیسیڈر کی معرفت ایک نہایت اعلی قسم کا قطب نما ہماری مسجد کے لیے تحفہ کے طور پر بھجوا دیا.میں جب علاج کے سلسلہ میں لندن گیا تو مجھے مولود صاحب 3 نے وہ قطب نما دکھایا تھا.نہایت قیمتی اور اعلیٰ درجہ کا قطب نما تھا اور ایک خوبصورت ڈبہ میں رکھا ہوا تھا.غرض جہاں بادشاہ ایران کے پاس بڑے بڑے دولت مندوں کی بھی رسائی نہیں ہوتی وہاں وہ ہمارے مبلغ کا شکر یہ ادا کرتا ہے اور کہتا ہے کہ مجھے بھی اجازت دیجیے کہ میں واپس جا کر آپ کی خدمت میں کوئی تحفہ بھجوا ؤں اور پھر وہ اپنے امبیسیڈر کی معرفت تحفہ بھجواتا ہے اور کہتا ہے کہ اسے میری طرف سے قبول کیا جائے.کیونکہ آپ لوگ اسلام کی اشاعت کر رہے ہیں.غرض بڑے بڑے آدمی ہمارے مبلغین سے ملنے میں اپنی عزت محسوس کرتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ ان سے اپنے تعلقات بڑھائیں.ایک مبلغ نے لکھا ہے کہ اُس نے جرمنی کے ایک پرانے شہر کے بڑے افسروں کے سامنے کی قرآن کریم تحفہ کے طور پر پیش کیا اور اُن سے خواہش کی کہ وہ سرکاری زمین میں سے کچھ زمین ہمارے کی پاس بیچ دیں.کیونکہ وہ پبلک کی زمینوں سے بہت سستی ہوتی ہے.انہوں نے اس کا وعدہ کر لیا اور اب ہم اُس جگہ پر مسجد بنانے کی تیاری کر رہے ہیں.یہ اعزاز ہمارے مبلغین کو اسی لیے حاصل ہے کہ وہ قرآن کریم کی اشاعت کر رہے ہیں اور اس کی تعلیم لوگوں میں پھیلا رہے ہیں.دوسری جگہوں پر بھی یہی حال ہے.انڈونیشیا کے پریذیڈنٹ کو قرآن کریم پیش کیا گیا تو اُس نے بڑی محبت اور خلوص کے سال اُسے چھو ما، اپنے سر پر رکھا اور پھر ہمارے مبلغ کا شکر یہ ادا کیا.سرکاری فوٹو گرافروں نے بھی
$1957 186 خطبات محمود جلد نمبر 38 اس تقریب کے فوٹو لیے جس میں ہمارا رئیس التبلیغ قرآن دے رہا ہے اور پریذیڈنٹ اُسے چوم رہا اور اپنے سر پر رکھ رہا ہے.غرض ہر جگہ اللہ تعالیٰ ہمارے مبلغین کو قرآن کریم کی وجہ سے اپنی برکتوں سے حصہ دے رہا ہے.ایک ملک جس کا نام لینا مناسب نہیں.اس کی ایک حکومت کے پریذیڈنٹ کے پاس ایک بڑا آدمی آیا اور اس نے کہا کہ آپ لوگ احمدی جماعت سے میل جول رکھتے ہیں مجھے بھی ان سے ایک قرآن تحفہ لے دیجیے.ہمارے ملک میں قرآن نہیں جاسکتا.لیکن اگر وہ مجھے تحفۂ قرآن دے دیں تو میں اسے عجائبات کے طور پر اپنے ساتھ لے جاسکتا ہوں.پھر اس نے کہا کہ انہوں نے فلاں آدمی کو قرآن کریم تحفہ کے طور پر دیا ہے لیکن میں اس سے بڑی پوزیشن کا ہوں.اگر یہ مجھے قرآن کریم دے دیں تو اس سے ہمارے ملک میں بھی قرآن کی اشاعت ہو جائے گی.اسی طرح جب مبارک احمد گیا تو تو اس نے قرآن تحفہ کے طور پر بڑے بڑے آدمیوں کو دیا اور انہوں نے اسے خوشی سے قبول کیا.بعض نے سرکاری کاموں کی وجہ سے معذوری بھی ظاہر کی مگر باقی سب نے اعزاز و اکرام کیا.ملاقات کا موقع دیا اور ہماری جماعت کا شکریہ ادا کیا.اور جو لوگ ملاقات کا موقع نہیں دیتے خود اُن کے ملک والے اُن کے خلاف ہو جاتے ہیں.1924ء میں جب میں یورپ گیا تو روم میں بھی ٹھہرا.وہاں میں نے پوپ کو لکھا کہ تم عیسائیت کے پہلوان ہو اور میں اسلام کا پہلوان ہوں.مجھے ملاقات کا موقع دوتا کہ بالمشافہ اسلام اور عیسائیت کے متعلق میں بات کر سکوں.اس کے جواب میں پوپ کے سیکرٹری کی طرف سے مجھے چٹھی آئی کہ پوپ صاحب کی طبیعت خراب ہے اس لیے وہ مل نہیں سکتے.انہی دنوں اٹلی کے ایک اخبار کا ایڈیٹر جو سوشلسٹ تھا مجھے ملنے آیا.وہ ایسا اخبار تھا جس کے دن میں بارہ ایڈیشن نکلتے تھے.ہمارے ”الفضل“ کا دن میں صرف ایک ایڈیشن نکلتا ہے اور وہ بھی صرف چند ہزار کی تعداد میں.مگر اس کے ایک دن میں بارہ ایڈیشن نکلتے تھے اور ہر ایڈیشن پچیس پچیس ہزار چھپتا تھا.باتوں باتوں میں اس نے ذکر کیا کہ میں اصل میں شنگھائی میں پروفیسر ہوں.میں نے کہا پھر تم یہاں کس طرح آئے اور اخبار کے ایڈیٹر کس طرح بن گئے ؟ اُس نے کہا کہ اس اخبار کا ایڈیٹر میرا دوست تھا.وہ ایک لمبے عرصہ تک کام کرنے کے بعد بیمار ہو گیا تو اس نے رُخصت لینی چاہی.اُس نے مجھے لکھا کہ تم میرے
$1957 187 خطبات محمود جلد نمبر 38 دوست ہو چھ ماہ کے لیے آجاؤ اور میری جگہ کام کرو.بہر حال اس نے مجھے کہا کہ آپ یہاں پہلی دفعہ می آئے ہیں یہ بڑا اچھا موقع ہے آپ پوپ سے ملاقات کی کوشش کریں.ہمیں مسلمانوں کے لیڈر کے خیالات سننے کا موقع مل جائے گا اور بالمقابل عیسائیوں کے لیڈر کے خیالات سننے کا بھی موقع مل جی جائے گا.میں نے کہا میں نے تو خود اس سے ملاقات کی کوشش کی تھی مگر اُس کے سیکرٹری کی طرف سے جواب آ گیا ہے کہ پوپ صاحب کی طبیعت اچھی نہیں.کہنے لگا آپ ایک دفعہ پھر انہیں میری خاطر لکھیں.میں نے کہا اس کے معنے تو یہ ہیں کہ تم مجھے بے عزت کروانا چاہتے ہو.کیونکہ اُس نے ملاقات کا موقع نہیں دینا.کہنے لگا ہماری نظروں میں تو اس سے آپ کی عزت بڑھے گی کم نہیں ہوگی.آپ اس ملک میں تشریف لائے ہوئے ہیں اور مناسب یہی ہے کہ پوپ سے بھی ملاقات ہو جائے.میں نے اُس کے کہنے پر پھر خط لکھ دیا.اس کے جواب میں اُس کے چیف سیکرٹری کی مجھے چٹھی آئی کہ پوپ کا محل آجکل زیر مرمت ہے اس لیے افسوس ہے کہ وہ ملاقات نہیں کر سکتے.دو چار دن کے بعد پھر وہی ایڈیٹر ملنے کے لیے آیا تو اُس نے پوچھا کہ کیا پوپ کی طرف سے کوئی جواب آیا ہے؟ میں نے کہا ہاں.اُس نے یہ جواب دیا ہے.تم پڑھ لو.اس چٹھی کو پڑھ کر اسے بڑا غصہ آیا اور کہنے لگا کہ اب میں پنے اخبار میں اس کی خبر لوں گا.میں نے کہا ایسا نہ کرو.عیسائیوں نے شور مچادینا ہے اور تمہارے اخبار پر اس کا اثر پڑے گا.کہنے لگا مجھے اس کی پروا نہیں.میرے اخبار کو زیادہ تر سوشلسٹ خریدتے ہیں اور وہ ان باتوں پر بُرا نہیں مناتے.چنانچہ دوسرے دن اخبار چھپا تو اُس میں اُس نے ایک بڑا مضمون لکھا کہ یہاں آجکل مسلمانوں کا ایک بہت بڑا لیڈر آیا ہوا ہے.اُس نے پوپ کو خط لکھا کہ میں آپ سے ملنا چاہتا ہوں مجھے ملاقات کا موقع دیا جائے تاکہ اسلام اور عیسائیت کے متعلق باہم گفتگو ہو جائے.ہم سمجھتے ہیں کہ یہ موقع بڑا اچھا تھا اور اگر ملاقات ہو جاتی تو پتا لگ جاتا کہ ہمارے لیڈرا اپنے مذہب سے کتنے واقف ہیں اور مسلمانوں کے لیڈر اپنے مذہب سے کتنی واقفیت رکھتے ہیں.مگر پوپ کے چیف سیکرٹری نے اُس کا یہ جواب دیا کہ پوپ کامل آجکل زیر مرمت ہے اس لیے وہ ملاقات نہیں کر سکتے.اس کے بعد اس نے طنزاً لکھا کہ ہم یقین کرتے ہیں کہ اب پوپ کا محل قیامت تک زیر مرمت ہی رہے گا.مطلب یہ تھا کہ یہ بہانہ محض جھوٹا ہے.اصل غرض ملاقات سے گریز کرنا ہے.اب دیکھو روم عیسائیت کا گڑھ ہے مگر وہاں کے ایک بڑے بھاری اخبار نے پوپ کے
$1957 188 خطبات محمود جلد نمبر 38 انکار پر بُرا منایا اور اس کے خلاف اپنے جذبات کا اظہار کیا اور اب تو اس واقعہ پر بتیس سال گزرے چکے ہیں اور زمانہ روز بروز ترقی کرتا جارہا ہے اور اسلام سے عیسائیت کا بغض کم ہو رہا ہے.ہم جب پہلی دفعہ گئے تھے اُس وقت لوگوں کو اسلام کی طرف اتنی توجہ نہ تھی.اُس وقت میں نے لندن میں پہلی مسجد کی بنیاد رکھی جو خدا تعالیٰ کے فضل سے جلد ہی پایہ تکمیل کو پہنچ گئی.اب میں بیماری کے علاج کے لیے گیا تو اس کی مرمت بھی کروا دی ہے.اس کے بعد اب ہیگ میں مسجد بنی ہے، ہیمبرگ میں مسجد بنی ہے اور تین چار اور مساجد بنانے کی کوشش میں ہیں.اگر خدا تعالیٰ نے ان مساجد کے بنانے کی بھی توفیق دے دی.تو یورپ کے دس بارہ مشہور مقامات میں ہماری مسجدیں بن جائیں گی.وہ مساجد جو دوستوں نے خود بنالی ہیں وہ تو بہت زیادہ ہیں.ایسٹ افریقہ میں دو بن چکی ہیں اور دو کی بنیادیں رکھی جا چکی ہیں.انڈونیشیا میں دس پندرہ سال کے عرصہ میں چھپیں چھپیں بن چکی ہی ہیں، ویسٹ افریقہ میں تو اور بھی زیادہ ہیں.اُن کو ملا کر سو سے زیادہ مسجد میں بن جاتی ہیں.امریکہ میں بھی ایک مسجد ہے اور ایک اور مسجد بنانے کا ارادہ ہے.ایک اور مسجد جو امریکہ کے ایک میاں بیوی نے اپنی جائیداد وقف کر کے بنوائی ہے وہ اس کے علاوہ ہے.غرض دنیا کے مختلف ممالک میں ہماری جماعت کے ذریعہ مساجد بن چکی ہیں اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے اور کئی مساجد تعمیر ہونے والی ہیں اور اُمید کی جاتی ہے کہ شاید چند سالوں میں ہی ہزار ڈیڑھ ہزار مسجد بن جائے گی اور یہ کیفیت نظر آنے لگے گی کہ جو شخص بھی بیرونی ممالک کے سفر کے لیے نکلے گا وہ جس ملک میں بھی جائے گا یہ کہہ سکے گا (الفضل 7 ستمبر 1957 ء) 66 کہ یہاں احمدیہ مسجد موجود ہے.1 : بنی اسرائیل : 80 2 : درثمین اردو صفحه 130 زیر عنوان " مناجات اور تبلیغ حق“ 3 : مولود صاحب ان سے مراد مولود احمد خان صاحب سابق امام مسجد لنڈن ہیں جو حضرت ماسٹر محمد آسان دہلوی کے بیٹے ہیں.( تاریخ احمدیت جلد 18 صفحہ 229)
$1957 189 25 خطبات محمود جلد نمبر 38 دنیا میں جب سے انبیاء وخلفاء کا سلسلہ جاری ہے صداقت کی ہمیشہ مخالفت ہوتی رہی ہے حالانکہ اُن کی لائی ہوئی تعلیم ہی بنی نوع انسان کو فلاح اور کامیابی تک پہنچانے والی ہوتی ہے فرموده30 /اگست 1957ء) تشهد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم نے موسی کو فرعون کی طرف بھیجا 1 لیکن بجائے اس کے کہ لوگ موسی کی پیروی کرتے انہوں نے فرعون کی پیروی کی.حالانکہ فرعون کی جو تعلیم تھی وہ صحیح راستہ دکھانے والی نہ تھی.لیکن پھر بھی جو گمراہی کی طرف لے جانے والا تھا اُس کی بات تو انہوں نے مان لی اور جو ہدایت کی طرف لے جانے والا تھا اُس کی بات نہ مانی.بدقسمتی سے یہی طریقہ ہمیشہ سے چلا آ رہا ہے.جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ظاہر ہوئے
$1957 190 خطبات محمود جلد نمبر 38 تو آپ نے جو تعلیم دی وہ بنی نوع انسان کو فلاح اور کامیابی کے مقام تک پہنچانے والی تھی.مگر آ.کے وطن کے لوگوں نے اس کا انکار کر دیا اور چلے تو ابوجہل کے پیچھے چلے جو فرعون کا ایک روحانی قائم مقام تھا اور اُس کی ہر گندی اور فساد پھیلانے والی تعلیم کو انہوں نے قبول کر لیا.مثلاً یہی کہ غریبوں اور مسکینوں کو کچھ نہ دو اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اعلیٰ درجہ کی تعلیم کو رڈ کر دیا.آپ کے بعد بھی یہی ہوا.حضرت ابو بکر خلیفہ ہوئے تو صحابہ آپ پر ایمان لے آئے.مگر سارے عرب نے بغاوت کر دی اور انہوں نے وہی طریق اختیار کیا جو ابو جہل اور اس کے ساتھیوں نے اختیار کیا تھا اور اُس وقت کے فرعون کے پیچھے چل پڑے.اُس وقت کے فرعون مسیلمہ کذاب، اسود عنسی اور سجاح وغیرہ تھے جنہوں نے جھوٹے طور پر نبوت کا دعوی کر دیا اور لوگ اُن کے متبع ہو گئے مگر جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا صحیح جانشین تھا اور لوگوں کے اندر صحیح اسلامی روح پیدا کرنے والا تھا اُس کو چھوڑ دیا.پھر آپ کے بعد حضرت عمرؓ کو خدا تعالیٰ نے خلیفہ بنایا تب بھی یہی ہوا.حضرت عمرؓ اپنی وفات کے قریب حج کے لیے گئے تو بعض کم بختوں نے یہ کہنا شروع کر دیا کہ عمر مر جائیں گے تو ہم فلاں کو خلیفہ بنائیں گے اور کسی کی کی بیعت نہیں کریں گے 2.پھر اللہ تعالیٰ کی مشیت کے ماتحت حضرت عثمان خلیفہ ہوئے تو اُن کے زمانہ میں بھی عبداللہ بن سبا جیسے لوگوں نے فتنہ کھڑا کر دیا.یہ شخص بھی مصری تھا جیسا کہ فرعون مصری تھا.اور لوگوں نے اس کی بات ماننی شروع کر دی.ان کے بعد حضرت علی خلیفہ ہوئے.تب بھی لوگوں نے یہی طریق اختیار کیا.حضرت علی کو پہلے تو خلیفہ بنے پر مجبور کیا گیا اور پھر ایک چھوٹا ساغذ رکر کے کہ معاویہ سے صلح کیوں کی ؟ انہی لوگوں نے جنہوں نے آپ کو خلافت کے لیے کھڑا کیا تھا بغاوت کر دی اور خوارج کے نام سے الگ ہو گئے.اور انہوں نے دوصدیوں تک اسلام میں وہ تہلکہ مچایا کہ لوگوں کا امن بالکل برباد ہو گیا.یہاں تک کہ تاریخوں میں آتا ہے کہ ایک دفعہ ایک صحابی سے انہوں نے پوچھا کہ بتاؤ تم علی کو کیا سمجھتے ہو؟ اُس صحابی نے کہا ایک نیک اور پاک انسان.انہوں نے کہا عمر اور عثمان کو کیا سمجھتے ہو؟ اُس نے کہا اللہ کے خلیفے.انہوں نے تلوار میان سے نکالی اور اُسے قتل کر دیا.پھر یہ فتنہ صرف دو سو سال تک ختم نہیں ہوا بلکہ آج تک خارجیوں کا وجود چلا آ رہا ہے.عمان میں زنجبار میں انہی کی حکومت ہے.میں جب انگلینڈ گیا تو کچھ مسلمان طالبعلم جوز نجبار سے وہاں تعلیم حاصل کرنے کے ! لیے
$1957 191 خطبات محمود جلد نمبر 38 گئے ہوئے تھے مجھے ملنے کے لیے آئے.انہوں نے کہا آپ بتائیں کہ مسلمانوں کا کوئی علاج بھی ہوگا یا یہ اسی طرح آپس میں لڑتے رہیں گے؟ میں نے کہا جب تک آپ لوگ اپنے ملک کے مولویوں کے پیچھے چلتے رہیں گے یہی حال رہے گا.پھر میں نے کہا ابھی مجھے اطلاع ملی ہے کہ آپ کا ایک مولوی نیروبی میں گیا اور اس نے لوگوں کو اُکسایا کہ احمدیوں کو مار ڈالو.انہوں نے کہا واقعہ اس طرح نہیں بلکہ اصل بات یہ ہے کہ نیروبی سے ہمارے ہاں ایک مولوی آیا تھا اور اس نے لوگوں کو اشتعال دلایا تھا.میں نے کہا اُدھر سے ادھر آیا ہو یا ادھر سے اُدھر گیا ہو تم نے مانی شیطان کی، خدا کی نہیں مانی.تم کہتے ہو کہ زنجبار سے مولوی نہیں گیا تھا بلکہ نیروبی سے زنجبار آیا تھا مگر اس سے اتنا تو ثابت ہو گیا کہ تم مولویوں کے پیچھے چلے.اور جب تک اس طرح کرتے رہو گے مسلمانوں کی لڑائی آپس میں جاری رہے گی.وہ لڑکے تھے کہنے لگے ابھی تو ہم تعلیم حاصل کر رہے ہیں لیکن جب ہم واپس گئے تو ہم اپنے ان ملک میں رواداری کی تعلیم پھیلانے اور ایک دوسرے کے جذبات کا خیال رکھنے کی کوشش کریں گے.اس کے بعد جب وہاں ریڈیو پر بھی ہماری جماعت کے خلاف پراپیگنڈا ہونے لگا تو ہماری جماعت کے توجہ دلانے پر زنجبار کے بادشاہ نے احمدیوں کو بلایا اور کہا کہ ریڈیو سے جو اعلانات احمدیوں کے خلاف ہورہے ہیں آئندہ کے لیے میں انہیں بند کر دوں گا.بہر حال جب سے اللہ تعالیٰ کے انبیاء و خلفاء کا سلسلہ جاری ہے.صداقت کی ہمیشہ مخالفت ہوتی چلی آئی ہے.اسی طرح جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت پر ایک لمبا عرصہ گزر گیا اور امت محمدیہ میں مختلف اولیاء پیدا ہوئے.تب بھی یہی ہوا کہ لوگوں نے ان کی نہ سنی.بلکہ ان کے دشمنوں کی سنی جو اپنے وقت کے فرعون تھے اور ان کے پیچھے چل پڑے.چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ کے صدیوں بعد حضرت سید احمد صاحب سرہندی ہوئے تو لوگوں نے جہانگیر کے کان بھرنے شروع کیسے کہ یہ شخص باغی ہے اسے جلدی سنبھالیں ورنہ سخت فتنہ پیدا ہو جائے گا.اس پر جہانگیر نے انہیں گوالیار کے قلعہ میں قید کر دیا.مگر پھر بعض لوگوں نے اُسے سمجھایا کہ یہ نیک آدمی ہے اسے رہا کر دو.ایسا نہ ہو کہ تمہارا بیڑا غرق ہو جائے.پھر ان کے بعد بھی جو بزرگ ہوئے ان سے یہی سلوک ہوا.بلکہ اس سے پہلے حضرت معین الدین صاحب چشتی ، حضرت قطب الدین صاحب بختیار کاکی ، حضرت نظام الدین صاحب اولیاء اور حضرت فرید الدین صاحب شکر گنج " وغیرہ کی بھی مخالفت ہوئی.
$1957 192 خطبات محمود جلد نمبر 38 حضرت محمد غوث صاحب جن کا مقبرہ لاہور میں ہے وہ کشمیر سے آئے تھے.یہاں آکر اُن کی بھی بڑی مخالفت ہوئی.غرض خواہ یہ بزرگ ملتان میں گزرے ہوں یا پاک پتن میں گزرے ہوں یا دتی میں گزرے ہوں یا اجمیر میں گزرے ہوں یا آگرہ میں گزرے ہوں یہ آیت ہمیشہ سچی ثابت ہوتی رہی ہے کہ ہم نے موسیٰ کو فرعون کے پاس اچھی تعلیم دے کر بھیجا تھا مگر لوگوں نے بُری تعلیم کو قبول کر لیا اور اچھی تعلیم کو قبول نہ کیا.ہم دیکھتے ہیں کہ یہ سلسلہ اب تک چل رہا ہے اور نامعلوم کب تک چلتا جائے گا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی وفات کے بعد بے شک جماعت نے ترقی کی ہے لیکن مخالفت نے بھی ترقی کی ہے.اور لوگوں کو اشتعال دلاتے ہوئے عام طور پر کہا جاتا ہے کہ یہ جماعت واجب القتل ہے اس کے افراد کو مار ڈالنا چاہیے.بلکہ بعض اخباروں میں لکھا ہوتا ہے کہ احمدی جماعت نے پاکستان کے مقابلہ میں ایک متوازی حکومت بنائی ہوئی ہے گورنمنٹ پاکستان کو اس خطرہ کے انسداد کے لیے فوری کارروائی کرنی چاہیے.لیکن دوسری طرف موجودہ سیلاب کے موقع پر ریڈیو پر اعلان کیا گیا کہ دریائے چناب پر ریلوے پل کے شگاف کو پر کرنے کے لیے خدام الاحمدیہ نے کام کیا اور آٹھ ہزار مکعب فٹ پتھر بھر کر اسے پُر کر دیا ہے.جب قادیان میں ہماری جماعت کے افراد ہندوؤں اور سکھوں کا مقابلہ کر رہے تھے اُس وقت بھی لوگ ہماری جماعت کی بڑی تعریفیں کرتے تھے.مگر پھر وہی لوگ مخالفت کرنے لگ گئے.اب بھی تم دیکھو گے کہ آج تو ریڈیو نے احمدیوں کی تعریف کر دی ہے مگر کل پھر انہی اخباروں نے لکھنا ہے کہ احمدیوں سے بچنا چاہیے.ان لوگوں نے پاکستان کے مقابلہ میں ایک متوازی حکومت بنا رکھی ہے.اور اس کی دلیل وہ یہی دیں گے کہ دیکھو! ان لوگوں نے اپنی جانوں کو خطرہ میں ڈال کر چند گھنٹوں کے اندر اندر ریلوے پل کے ایک سوفٹ لمبے شگاف کو آٹھ ہزار مکعب فٹ پتھر بھر کر پُر کر دیا.ہم پہلے ہی کہہ رہے تھے کہ حکومت کو ان لوگوں کے متعلق ہوشیار ہو جانا چاہیے.اب اس تازہ واقعہ نے ثابت کر دیا ہے کہ یہ لوگ پورے طور پر منظم ہو گئے ہیں اور ان سے سخت خطرہ درپیش ہے.اُس وقت کوئی نہیں دیکھے گا کہ ان لوگوں نے جتنی طاقت استعمال کی ہے پاکستان کے استحکام کے لیے کی ہے.کوئی نہیں دیکھے گا کہ ایسے خطر ناک موقع ہے مودودیوں نے اپنے آدمی نہیں بھجوائے، خدائی خدمتگاروں نے اپنے رضا کار نہیں بھجوائے.
193 $1957 خطبات محمود جلد نمبر 38 صرف یہ شور مچانا شروع کر دیں گے کہ یہ لوگ منظم ہو گئے ہیں اور ایک دن پاکستان کو توڑ دیں گے.کیونکہ خدا تعالیٰ نے یہی سنت قرار دی ہے اور وہ فرماتا ہے کہ ہم نے موسی کو فرعون اور اس کے ساتھیوں کی طرف بھیجا مگر وہ لوگ فرعون کے متبع ہوئے اور انہوں نے یہ نہ سوچا کہ فرعون جن باتوں کی تعلیم دیتا ہے وہ بُری ہیں یا اچھی.وہ صرف طاقت اور جتھے پر مغرور ہو گئے اور انہوں نے کہا کہ ہم فرعون کی باتیں مانیں گے کیونکہ اُس کے ساتھ جتھا ہے.الفضل 16 ستمبر 1957 ء ) 1 : وَلَقَدْ اَرْسَلْنَا مُوسَى بِايْتِنَا إِلَى فِرْعَوْنَ (الزخرف : 47) 2 : تاريخ الخلفاء للسيوطى صفحہ 46،45 مطبوعہ لا ہور 1892ء
$1957 194 26 خطبات محمود جلد نمبر 38 اُدْعُ إِلَى سَبِيلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ انسان کو فائدہ پہنچانے والی اصل چیز یہ ہے کہ دل کو پاک کیا جائے اور اس میں خدا تعالیٰ کی محبت اور خشیت پیدا کی جائے (فرمودہ 6 ستمبر 1957ء) تشهد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور نے قرآن کریم کی اس آیت کی تلاوت فرمائی کہ:.أدْعُ إِلَى سَبِيْلِ رَبَّكَ بِالْحِكْمَةِ وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ وَ جَادِلْهُمْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ إِنَّ رَبَّكَ هُوَ اَعْلَمُ بِمَنْ ضَلَّ عَنْ سَبِيْلِهِ وَ هُوَ أَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِينَ - 1 اس کے بعد فرمایا: قرآن کریم کی اس آیت میں اللہ تعالیٰ نصیحت کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ تم سے جولوگ
$1957 195 خطبات محمود جلد نمبر 38 بحث کرنے کے لیے آئیں خصوصا وہ لوگ جو اہل کتاب ہیں تو تم دلائل کے ساتھ اُن سے بحث کیا کرو اور دلوں پر اثر کرنے والی باتیں ان کے سامنے پیش کیا کرو.شاید اللہ تعالیٰ اس ذریعہ سے ان کو ہدایت دے دے.گویا بحث سے تمہاری غرض یہ نہیں ہونی چاہیے کہ تم دشمن کو ذلیل کرو یا اپنے دلائل پر ر کا اظہار کرنے لگ جاؤ.جیسے آجکل کے مسلمانوں کی حالت ہے کہ اگر ان کے مولوی کوئی معقول بات کہہ دیں یا معقول بات کے قریب قریب بھی کوئی بات کہہ دیں تو وہ فور نعرے لگانا شروع کر دیتے ہیں.قرآن کریم یہ نہیں کہتا کہ تم ایسے موقع پر نعرے لگایا کرو یا اپنے دشمن کو ذلیل کرنے کی کوشش کیا کرو بلکه قرآن یہ کہتا ہے کہ جس شخص سے تمہاری بحث ہو جائے خصوصاً ایسی صورت میں جب و اہل کتاب میں سے ہونے کا مدعی ہو تو اُس سے بحث کرتے وقت حکمت اور موعظت سے کام لیا کرو.یعنی ہر بات کی معقولیت دلائل کے ساتھ اُس پر واضح کیا کرو اور اس کی غرض و غایت اور حکمت پر بھی روشنی ڈالا کرو.اور بتایا کرو کہ ہم یہ مسائل اس لیے بیان کرتے ہیں کہ ان سے فلاں فلاں فائدہ ہوسکتا ہے.اور ساتھ ساتھ نصیحت کرتے جاؤ کہ خالی بحث کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا.اصل چیز جو انسان کو فائدہ پہنچانے والی ہے وہ یہ ہے کہ اپنے دل کو پاک کیا جائے اور خدا تعالیٰ کی محبت اور اس کی خشیت پیدا کی جائے.اگر ایسا کیا جائے تو ہو سکتا ہے کہ دوسر سے کو ہدایت مل جائے.میں نے ہمیشہ دیکھا ہے کہ یہ وہ ریق بڑا کارگر اور مؤثر ہوتا ہے.میں ایک دفعہ کراچی گیا تو جماعت کے بعض دوست ایک عرب کو میری ملاقات کے لیے لے آئے.اس نے کہا مجھے آپ کی جماعت سے بڑی محبت ہے.کیونکہ آپ لوگ دین کی خدمت کر رہے ہیں اور تمام دنیا میں آپ نے مبلغ پھیلا رکھے ہیں.لیکن ایک بات مجھے بہت بُری لگتی ہے اور وہ یہ کہ آپ کروڑوں مسلمانوں کو کافر کہتے ہیں.میں اپنے دوستوں کی طرف متوجہ ہوا اور میں نے کہا بتاؤ کیا میں نے تمہیں کبھی کہا ہے کہ تم مسلمانوں کو کا فرکہا کرو؟ انہوں نے کہا آپ نے ہمیں ایسا کبھی نہیں کہا.مسلمان کو کافر کہنے والا تو خود کافر ہوتا ہے.کہنے لگا میرا مطلب یہ ہے کہ آپ کلمہ گو لوگوں کو کافر کہتے ہیں.میں نے پھر اپنے دوستوں سے پوچھا کہ بتاؤ میں نے کبھی کہا ہے کہ جو شخص کلمہ پڑھے اُسے کافر کہو؟ انہوں نے کہا بالکل نہیں.اس پر وہ گھبرا گیا اور کہنے لگا میرا مطلب یہ ہے کہ جو آپ سے اختلاف کرے اُسے آپ کا فر کہتے ہیں.میں نے پھر دوستوں سے کہا کہ بولو میں نے تمہیں کبھی کہا ہے
196 $1957 خطبات محمود جلد نمبر 38 کہ جو تم سے اختلاف کرے اسے کافر کہا کرو؟ اختلاف پر کافر کہنے کے تو یہ معنے ہیں کہ جس قسم کی شلوار میں نے پہنی ہوئی ہے اگر اس قسم کی شلوار کوئی دوسرا شخص نہ پہنے یا جس قسم کی پگڑی میں نے پہنی ہوئی ہے اگر اس قسم کی پگڑی کوئی دوسرا شخص نہ پہنے یا جس قسم کی جوتی میں نے پہنی ہوئی ہے اگر اس قسم کی جھوٹی کوئی دوسرا شخص نہ پہنے تو میں اُسے کا فرکہ دوں.بتاؤ کیا میں نے کبھی کہا ہے کہ ایسا شخص کافر ہے؟ انہوں نے کہا ہر گز نہیں.آپ نے ہمیں کبھی ایسا نہیں کہا.اس پر وہ اور زیادہ گھبرایا اور اس نے اپنی بات کو درست کرنے کی کوشش کی اور کہا میں نے سنا ہے کہ آپ ایسے لوگوں کو جو مسلمان کہلاتے ہیں اور نمازیں بھی پڑھتے ہیں اور روزے بھی رکھتے ہیں کا فر کہتے ہیں.میں نے کہا اب میں آپ کو بتاتا ہوں کہ بات کیا ہے.اصل بات یہ ہے کہ کافر کا لفظ تو میں ان میں سے کسی کے لیے نہیں بولتا.مگر مسلمانوں میں سے کچھ لوگ ایسے ہیں جو انبیاء علیہم السلام پر مختلف قسم کے الزامات عائد کرتے ہیں.مثلاً کہتے ہیں کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ( نَعُوذُ بِاللهِ ) تین جھوٹ بولے تھے 2ے.یا بعض کہتے ہیں کہ حضرت داؤد کی ننانوے بیویاں تھیں.اس کے بعد ایک جرنیل جس کا نام اور یا بن حتان تھا اُس کی بیوی آپ کو پسند آ گئی اور حضرت داؤد نے اُس کی بیوی پر قبضہ کرنے کے لیے اس جرنیل کو ایک خطر ناک مقام پر بھجوا دیا اس ارادہ سے کہ اگر یہ مارا جائے تو اُس کی بیوی سے شادی کرلوں.سو اس ارادہ کی برائی ظاہر کرنے کے لیے دوفرشتے آپ کے پاس آئے اور ان میں سے ایک نے یہ جھوٹا قصہ گھڑ کر بیان کرنا شروع کر دیا کہ یہ میرا بھائی ہے اور اس کی ننانوے دُنبیاں ہیں اور میری صرف ایک دنبی ہے.مگر پھر بھی یہ کہتا ہے کہ اپنی دُنبی مجھے دے دے.گویانعُوذُ بِاللهِ فرشتوں نے حضرت داؤد پر الزام لگایا کہ ان کا فعل درست نہیں تھا اور ایک جھوٹا قصہ گھڑ کر ان کے سامنے بیان کر دیا.3 میں ایسے لوگوں کے متعلق کہتا ہوں کہ یہ پکے مسلمان نہیں ہیں.اس پر وہ عرب بے اختیار کہنے لگا کہ پکے مسلمان ہونے کا کیا سوال ہے ایسے لوگ تو پکے کا فر ہیں.میں نے کہا آپ بے شک پکے کا فر ہیں مگر میں نے تو ہمیشہ یہی کہا ہے کہ ان لوگوں کے اسلام میں کمزوری پائی جاتی ہے.پھر میں نے دوستوں کی طرف دیکھا اور کہا کیا میں نے تمہیں کبھی کہا ہے کہ یہ لوگ پکے کافر ہیں؟ انہوں نے کہا آپ نے ایسا کبھی نہیں کہا.وہ کہنے لگا آپ بے شک ان کو کافر نہ کہیں لیکن میرا تو عقیدہ ہے کہ ایسے لوگ جو نبیوں پر الزام لگانے سے دریغ نہیں کرتے پکے کافر ہیں.میں نے اُسے کہا آپ بے شک جو چاہیں کہیں
$1957 197 خطبات محمود جلد نمبر 38 میں نے کبھی ان لوگوں کو پکے کا فرنہیں کہا.میں صرف یہ کہا کرتا ہوں کہ جتنی جتنی کمزوری کسی میں پائی جاتی ہے اُتنی ہی اُس کے اسلام میں کمی ہے.پھر میں نے کہا یہ عجیب بات ہے کہ آپ خود انہیں پکے کافر کہتے ہیں اور مجھ سے آ کر اس بات پر بحث کرتے ہیں کہ آپ اور آپ کی جماعت کے افراد کی سرے مسلمانوں کو کافر کہتے ہیں.حالانکہ نہ ہم مسلمانوں کو کافر کہتے ہیں، نہ یہ کہتے ہیں کہ وہ قرآن کے منکر ہیں یا کلمہ کے منکر ہیں یا کعبہ کے منکر ہیں.ہاں ! جو ان کی غلطی ہے وہ انہیں بتا دیتے ہیں.مثلاً یہی کہ وہ کہتے ہیں کہ قرآن کریم کی اتنی آیتیں منسوخ ہیں یا انبیاء پر وہ مختلف قسم کے الزامات لگاتے ہیں.مثلاً حضرت سلیمان علیہ السلام کے متعلق کہتے ہیں کہ ایک دفعہ انہوں نے پاخانہ میں جاتے ہوئے انگوٹھی اُتاری اور اپنی بیوی کو دے دی.شیطان نے اُن کی شکل اختیار کر کے اُس بیوی سے وہ انگوٹھی مانگی اور اُس نے اُن کو سلیمان سمجھ کر وہ انگوٹھی دے دی.جب حضرت سلیمان علیہ السلام پاخانہ سے واپس آئے تو انہوں نے اپنی بیوی سے کہا کہ میری انگوٹھی کہاں ہے؟ اس نے کہا میں نے تو آپ کو دے دی ہے.حضرت سلیمان نے کہا یہ جھوٹ ہے.مجھے کوئی نہیں دی.اس کے بعد حضرت سلیمان کی شکل میں کوئی ایسا تغیر واقع ہوا کہ جدھر نکلتے تھے لوگ اُن پر ہنسی اڑاتے تھے اور حضرت سلیمان بھی بڑے متعجب تھے کہ یہ کیا ہو رہا ہے.گھر میں جاتے اور نوکروں سے روٹی مانگتے تو وہ کبھی دے دیتے اور کبھی انکار کر دیتے.کیونکہ سمجھتے تھے کہ یہ سلیمان نہیں.ایک دن ایک بیوی نے رحم کر کے ان کو روٹی دی اور ساتھ مچھلی بھی دے دی.وہ مچھلی انہوں نے کھائی تو اس میں سے انگوٹھی نکل مالی آئی جو انہوں نے پہن لی اور اُس سے یکدم تغیر واقع ہو گیا اور سب جن و انس ان کی اطاعت کرنے لگے.لوگوں کو اس لیے بھی ان کے سلیمان ہونے پر یقین آگیا کہ جب حضرت سلیمان نے اصرار سے یہ دعوای جاری رکھا کہ اصل سلیمان میں ہوں تو لوگوں کے دل میں مشبہ پیدا ہوا اور انہوں نے ان کی بیویوں کے پاس عور تیں بھیجیں کہ کیا اس شخص یعنی شیطان کے اندر آنے کے بعد کوئی چیز آپ کو ایسی نظر آئی ہے جو سلیمان کے طریق کے خلاف ہو؟ انہوں نے کہا ایک فرق ہے کہ سلیمان ہمیشہ حیض کے ایام میں ہمارے قریب نہیں آیا کرتا تھا مگر یہ خص یعنی شیطان آ جاتا ہے.اس پر لوگوں پر یہ بات واضح ہو گئی کہ سلیمان کی شکل اختیار کر کے شیطان سلیمان بنا ہوا ہے.یہ روایت مجاہد کی طرف منسوب کی گئی ہے جو حضرت ابن عباس کے نہایت مقرب شاگرد تھے.
خطبات محمود جلد نمبر 38 198 $1957 جولوگ خدا تعالیٰ کے انبیاء کے متعلق اس قسم کے گندے عقائد رکھتے ہوں اُن کے ایمان کو کس طرح کامل کہا جا سکتا ہے.پس میں صرف یہ کہا کرتا ہوں کہ اتنی اتنی کمزوری مسلمانوں میں پائی جاتی ہے اور ان سے فلاں فلاں غلطی ہوئی ہے.اگر خدا تعالیٰ ان کی غلطیوں کو دور کر دے تو یہ لوگ ٹھیک (الفضل 27 ستمبر 1957ء) ہو جائیں گئے.1 : النحل : 126 2 : بخاری کتاب احادیث الانبياء باب قول الله تعالى وَاتَّخَذَ اللَّهُ إِبْرَاهِيمَ خَلِيَّلًا 3 : تفسیر کبیر فخرالدین رازی جلد 13 صفحہ 447،446 مطبوعہ قاہرہ 2012ء
$1957 199 (27) خطبات محمود جلد نمبر 38 ایک حقیقی مومن رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے نقش قدم پر چل کر خدا تعالیٰ کا مقرب بن سکتا ہے (فرموده 20 ستمبر 1957ء بمقام ربوہ ) تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: دَنَا فَتَدَلَّى - فَكَانَ قَابَ قَوْسَيْنِ أَوْ ادنی 1 یعنی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خدا تعالیٰ سے ملنے کے لیے اس کے قریب ہوئے اور خدا تعالیٰ بھی آپ کی ملاقات کے لیے اوپر سے نیچے آ گیا.اس آیت میں تدلی “ کا جو لفظ استعمال کیا گیا ہے یہ دلو “ سے نکلا ہے جس کے معنے ڈول کے ہیں.عربی زبان میں بعض اوقات واؤ ، یاء سے بدل جاتی ہے اور لغت میں ”دلی“ کے معنے ” اَرْسَلَ الدَّلْوَ فِی الْمِثْرِ " 2 کے لکھے ہیں.اُس نے ڈول کو کنویں میں لٹکایا.گو یا اس لفظ سے اوپر سے نیچے جانے کے معنے نکلتے ہیں.اسی طرح تدلی کے معنے لغت میں تواضع کے لکھے ہیں.3 یعنی باوجود بلندشان ہونے کے دوسرے کے آگے جھک گیا.یا دوسرے لفظوں میں یہ کہ اپنی مرضی کو اس کی مرضی کے تابع کر دیا.پس تدلی“ کے معنے یہ ہوئے کہ خدا تعالیٰ بہت بلند اور اعلیٰ شان رکھنے کے باوجود محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملنے
$1957 200 خطبات محمود جلد نمبر 38 کے لیے نیچے کی طرف جھکا.اسی مضمون کو ایک اور آیت بھی واضح کرتی ہے اور وہ یہ ہے کہ وَالْعَمَلُ الصَّالِحُ فَعُهُ - 4 یعنی جب کوئی شخص اعمال صالحہ بجا لاتا ہے تو وہ اس کو اونچا کر دیتے ہیں.یعنی مومن عمل صالحہ کے ذریعہ خدا تعالیٰ کے قریب ہونے کی کوشش کرتا ہے جس کے نتیجہ میں خدا تعالیٰ عرش سے اتر کر اُس کی طرف آ جاتا ہے.جیسے رمضان المبارک کے ذکر میں قرآن کریم کے ایک دوسرے مقام میں آتا ہے کہ وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّى فَاِنّي قَرِيبٌ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ -5 یعنی جب میرے بندے تجھ سے میرے متعلق سوال کریں تو تو انہیں کہہ دے کہ میں اُن کے قریب ہوں اور میں ہر پکارنے والے کی پکار کوسنتا ہوں.یہ وہی تدلی ہے جس کا دَنَا فَتَدَتی ، میں ذکر آتا ہے.گویا خدا تعالیٰ تو عرش پر بیٹھا ہے.لیکن جب کوئی انسان اُس سے دلو“ کرتا ہے اور اعمال صالحہ کے ساتھ خدا تعالیٰ کے قریب ہوتا ہے اور اُس سے دعائیں کرتا ہے تو خدا تعالیٰ بھی اس کے نزدیک آ جاتا ہے اور اس طرح وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا روحانی رنگ میں شاگرد ہو جاتا ہے.66 غرض دَنَا فَتَدَلی “ نے ہمیں اس طرف توجہ دلائی ہے کہ ایک سچے مسلمان کے لیے یہ راستہ کھلا ہے کہ وہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نقش قدم پر چل کر خدا تعالیٰ کے قریب ہو اور پھر خدا تعالیٰ بھی اُس کے نزدیک آ جائے.گویا جس طرح کنویں پر کھڑے ہو کر جب کوئی شخص ڈول لڑکا تا ہے تو وہ نیچے آ جاتا ہے.اسی طرح خدا تعالیٰ بھی اپنے آپ کو انسان کے قریبی کر دیتا ہے.مگر جب کوئی ڈول کنویں میں لڑکا تا ہے تو ڈول صرف پانی کے قریب ہی نہیں ہوتا بلکہ وہ پانی سے بھر بھی جاتا ہے.اسی طرح انسان صرف خدا تعالیٰ کے قریب ہی نہیں ہوتا بلکہ وہ خدائی نور سے بھی بھر جاتا ہے.آخر جب کوئی شخص ڈول کو کنویں میں لٹکا تا ہے تو اُس کی یہ غرض تو نہیں ہوتی کہ وہ اُسے کنویں سے خالی نکال لے.بلکہ اس کی غرض یہ ہوتی ہے کہ اس میں پانی بھر جائے.اسی طرح خدا تعالیٰ جب اپنے آپ کو کسی انسان کے قریب کر دیتا ہے تو وہ صرف قریب ہی نہیں ہوتا بلکہ اُسے اپنے اندر جذب کر لیتا ہے.پھر جس طرح ڈول نیچے جا کر پانی اپنے اندر
$1957 201 خطبات محمود جلد نمبر 38 لے لیتا ہے اور پھر اوپر کو اٹھتا ہے.اسی طرح خدا تعالیٰ بھی ایسے انسان کو بھی مار کر آسمان کی طرف لے جاتا ہے.گویا اس پر وہی مثال صادق آتی ہے جو انجیل میں حضرت مسیح علیہ السلام کے متعلق بیان ہوئی ہے کہ وہ آسمان پر اٹھایا گیا اور خدا کی داہنی طرف بیٹھ گیا.6 کیونکہ جب خدا تعالیٰ کسی انسان کو عرش پر لے جائے گا تو وہ اُس کے داہنی طرف ہی بیٹھے گا مگر انجیل میں تو صرف حضرت مسیح علیہ السلام کے متعلق آتا ہے کہ وہ آسمان پر اُٹھائے گئے اور خدا تعالیٰ کی داہنی طرف بیٹھ گئے.لیکن اسلام کہتا ہے کہ ہر مومن جو خدا تعالیٰ کے قریب ہو گا وہ اُس کی دائیں جانب عرش پر جا بیٹھے گا.یا یوں کہو کہ وہ اُس کی گود میں بیٹھ جائے گا.اور جو شخص خدا تعالیٰ کی گود میں ہو ظاہر ہے کہ اُسے کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا.نقصان اُسی کو پہنچایا جا سکتا ہے جو خدا تعالیٰ سے دور ہو.اگر کوئی دشمن اُس شخص پر حملہ کرنے کی کوشش کرے جو خدا تعالی کی گود میں ہے تو دوسرے لفظوں میں وہ خدا تعالیٰ پر حملہ کرے گا لیکن خدا تعالیٰ پر کسی صورت میں بھی حملہ نہیں کیا جاسکتا.پس جو خدا تعالیٰ کی گود میں ہو اُسے نقصان پہنچانے کی خواہ کوئی لاکھ کوشش کرے وہ ناکام رہے گا اور ذلیل اور رسوا ہوگا.پس اس آیت کے ذریعہ ہر مومن کو خوشخبری دی گئی ہے کہ اسے خدا تعالیٰ کے قرب کا انتہائی مقام حاصل ہو سکتا ہے.چنانچہ یہی آیت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر بھی الہاما نازل ہوئی ہے 7 اور پھر آپ کو یہ بھی الہام ہوا ہے کہ سَمَّيْتُكَ الْمُتَوَكَّلَ - 8 یعنی میں نے تیرا نام متوکل رکھا ہے.متوکل کے معنے ہوتے ہیں وہ شخص جو اپنا سارا کام خدا تعالیٰ کے سپر د کر دے.اور دَنَا فَتَدَلّی میں بھی ایسا شخص اُس مقام تک پہنچ جاتا ہے جہاں وہ ہر قسم کے حملوں سے محفوظ ہو جاتا ہے اور خدا تعالیٰ اُسے اپنی گود میں اٹھا لیتا ہے.گویا اس آیت میں حقیقی مقام تو کل کی طرف اشارہ کیا گیا ہے.لیکن یہ مقام عام تو کل کے مقام سے بہت بلند ہے.اس لیے کہ عا متور کل تو خود کہتا ہے کہ میں اپنے سارے کام خدا تعالیٰ کے سپرد کرتا ہوں.مگر دَنَا فَتَدَٹی میں جس مقام تو کل کا ذکر ہے اُس کے متعلق خدا تعالیٰ کہتا ہے کہ میں اس کے سارے کام اپنے ذمہ لے لیتا ہوں اور ظاہر ہے کہ ان دونوں میں بہت بڑا فرق ہے.اچھا متور کل بہر حال وہی ہوگا جس کے متعلق خدا تعالیٰ خود کہے کہ میں نے اس کے سارے کام اپنے ذمہ لے لیے ہیں کیونکہ اس کے
خطبات محمود جلد نمبر 38 کسی کام میں بھی روک واقع نہیں ہو سکتی“.1 : النجم : 9، 10 202 2 : المنجد صفحه 224 مطبوعه بيروت 1973ء 3 : المنجد صفحه 223 مطبوعه بيروت 1973ء 4 : فاطر: 11 5 : البقرة:187 6 : مرقس باب 16 آیت 19 7 : تذکرہ صفحہ 54 ایڈیشن 2004ء تذکرہ صفحہ 196 ، 197 ایڈیشن 2004 ء $1957 الفضل 6 /اکتوبر 1957 ء )
$1957 203 28.خطبات محمود جلد نمبر 38 قرآن مجید کی رُو سے الہی جماعتوں کا مقام جو شخص اللہ تعالیٰ کی راہ میں ہجرت کرے اُسے وہ وافر جگہ اور ہر قسم کی کشائش عطا فرماتا ہے فرموده 4 /اکتوبر 1957ء) تشهد ، تعو ذاور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جب ہم نے شیطان کو حکم دیا کہ تم آدم کو سجدہ کرو تو اُس نے اِس حکم کو ماننے سے انکار کر دیا اور کہا کہ اَنَا خَيْر مِنْهُ - 1 میں آدم کو کس طرح سجدہ کر سکتا ہوں.میں تو اُس سے بہتر ہوں.کیوں بہتر ہوں؟ اس لیے کہ خَلَقْتَنِی مِنْ نَّارٍ وَخَلَقْتَهُ مِنْ طِين - 2 میری فطرت میں تو نے آگ پیدا کی ہے اور اس کی فطرت میں تو نے طینی مادہ رکھا ہے.طین اُس مٹی کو کہتے ہیں جس میں پانی ملا ہوا ہو.اور جس مٹی میں پانی ملا ہوا ہو اُس سے جو چاہو بنالو.لوگ ایسی مٹی سے قسم قسم کے کھلونے اور گھوڑے وغیرہ بناتے ہیں اور جس شکل میں چاہتے ہیں اُسے ڈھال لیتے ہیں.پس اُس نے کہا کہ آدم کو تو تو نے گیلی مٹی سے پیدا کیا ہے اور میری فطرت میں تو نے آگ کا مادہ رکھا ہے.یعنی آدم کو تو جو بات بھی کہی جائے وہ مان لیتا ہے اور اطاعت اور فرمانبرداری کا اظہار کرنے لگ جاتا ہے.مگر میرے اندر سرکشی کا مادہ اور غصہ پایا جاتا ہے.میں کسی دوسرے کی اطاعت کرنے کے لیے تیار نہیں ہو سکتا.پھر میرا اور اس کا جوڑ کیا ہے؟
204 $1957 خطبات محمود جلد نمبر 38 اس واقعہ پر غور کر کے ہر شخص معلوم کر سکتا ہے کہ وہ لوگ جو احمدیت کے خلاف مختلف رنگوں کی میں غیظ و غضب کا اظہار کرتے رہتے ہیں اور کہتے رہتے ہیں کہ ہم احمدیوں کے گھر جلا دیں گے ، ان کا ای کھانا پینا بند کر دیں گے اور انہیں ہر قسم کی تکلیفیں پہنچائیں گے اُن کا کیا مقام ہے اور ہمارا کیا مقام ہے؟ کوئی بتائے کہ کبھی احمدیوں نے بھی ایسا کہا کہ ہم غیر احمدیوں کے گھر جلا دیں گے اور اُن پر اُن کی زندگی تنگ کر دیں گے؟ لیکن ہمارے مخالف ہمیشہ یہی کہتے ہیں.بلکہ 1953 ء میں انہوں نے عملاً ایسا کیا اور کئی احمدیوں کے گھر جلا دیئے.اور اب تک یہی کہتے رہتے ہیں کہ ہم ان کی زندگی ان پر ایسی تنگ کر دیں گے کہ ملک میں رہنا ان کے لیے مشکل ہو جائے گا.جیسا پہلے انبیاء کے مخالف کہا کرتے تھے کہ ہم ان لوگوں کو اپنے ملک سے نکال دیں گے اور ان کے لیے جینا دوبھر کردیں گے.3 بعض منافق آجکل کہتے ہیں کہ ربوہ والے بھی بعض لوگوں کے لیے اتنی مشکلات پیدا کر دیتے ہیں کہ اُن کا وہاں رہنا مشکل ہو جاتا ہے.حالانکہ اگر یہ درست ہے تو اس کا علاج آسان تھا.قرآن کریم سے پتا لگتا ہے کہ اگر مومن کو کسی مقام پر شدائد میں مبتلا کیا جائے تو وہ وہاں سے ہجرت کر جاتا ہے 4 اور ہجرت کرنے والے کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وَمَنْ يُهَاجِرُ فِي سَبِيلِ اللهِ يَجِدُ فِي الْأَرْضِ مُرْغَمًا كَثِيرًا وَسَمَةً - 5 جو شخص اللہ تعالیٰ کی راہ میں ہجرت کرے اُسے رہائش کے لیے وافر جگہ اور ہر قسم کی کشائش رزق حاصل ہوگی.پس اگر کسی کو ربوہ کے رہنے والے مشکلات میں مبتلا کرتے ہیں تو ربوہ پاکستان کا نام نہیں.وہ ربوہ کو چھوڑ کر لا ہور جا سکتا ہے، ملتان جاسکتا ہے، گجرات جاسکتا ہے، بہاولپور جا سکتا ہے، کراچی جا سکتا ہے، کوئٹہ جا سکتا ہے.اسی طرح دوسرے مقامات پر جاسکتا ہے اور قرآنی وعدہ کے مطابق کشائش رزق حاصل کر سکتا ہے.پھر اُس کے لیے کسی تشویش اور فکر کا کونسا مقام ہے.پس یہ اعتراض محض قرآن کریم کو نہ سمجھنے کی وجہ سے پیدا ہوا ہے ورنہ خدا تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ اگر وہ مومن ہوں گے اور کسی مقام سے ہجرت کریں گے تو اللہ تعالیٰ پنی برکتوں کے دروازے اُن کے لیے کھول دے گا اور ہر قسم کی کشاکش انہیں حاصل ہو گی.اگر خدا تعالیٰ کے اس واضح ارشاد کے باوجود وہ ربوہ کو چھوڑ کر نہیں جاتے تو وہ خدا تعالیٰ کے نافرمان ہیں.اور اگر ہجرت کے بعد خدا تعالیٰ ہر جگہ اُن کی عزت کے سامان پیدا نہیں کرتا اور ان کے لیے برکتوں کے دروازے نہیں کھولے جاتے تب بھی وہ مومن نہیں کہلا سکتے.کیونکہ قرآن کریم نے صرف
$1957 205 خطبات محمود جلد نمبر 38 دو اصول بیان فرمائے ہیں.ایک تو یہ کہ اگر وہ مومن ہیں اور کسی مقام پر ان کو شدید تکالیف میں مبتلا کیا جاتا ہے تو انہیں ایسے شہر میں نہیں رہنا چاہیے بلکہ اسے چھوڑ دینا چاہیے.اور دوسرا اصول یہ بیان فرمایا ہے کہ اگر ہجرت کے وقت ان کے دل میں یہ سوال پیدا ہو کہ ہمارا مستقبل کیا ہوگا ؟ تو انہیں یاد رکھنا چاہیے کہ خدا نے زمین میں بڑی وسعت رکھی ہے.وہ جہاں بھی جائیں گے خدا تعالیٰ اُن کے لیے ہر قسم کی کشائش کے سامان پیدا فرما دے گا اور ان کی کامیابی کے رستے کھول دے گا.پس اس قسم کا اعتراض کرنے والے دونوں صورتوں میں مجرم ہیں.اگر واقع میں ربوہ والے مشرکین مکہ جیسے مظالم کرتے ہیں تو اُن کا ربوہ کو نہ چھوڑ نا انہیں مجرم بناتا ہے.کیونکہ خدا تعالیٰ کہتا ہے کہ ایسی بستی سے مومن کو ہجرت کر جانی چاہیے.اور اگر ربوہ چھوڑنے کے بعد باہر کی دنیا میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے انہیں ترقی اور عزت نہیں ملتی تب بھی وہ مومن نہیں کہلا سکتے کیونکہ خدا کہتا ہے کہ جو شخص سچی ہجرت کرتا ہے اسے عزت ملتی ہے اور اُس کی ترقی اور کامیابی کے دروازے کھل جاتے ہیں.اور اگر خدا تعالیٰ کے کہنے کے باوجود ان کو عزت نہیں ملتی تو پھر دوصورتوں میں سے ایک صورت ضرور ہے یا تو نَعُوذُ بِاللهِ خدا تعالیٰ کو جھوٹا کہنا پڑے گا یا پھر ان کو جھوٹا کہنا پڑے گا.اور یہ ظاہر ہے کہ خدا تعالیٰ کو جھوٹا نہیں کہا جا سکتا.یہی ماننا پڑے گا کہ خود اُن کے اندر کوئی ایمان باقی نہیں رہا.مثلاً انہی لوگوں کو دیکھ لو جو ہم سے پچھلے دنوں علیحدہ ہوئے ہیں.وہ منہ سے تو نہیں مانتے لیکن عملاً یہی صورت ہے کہ پیغامی ان کی مددکر رہے ہیں.مگر دیکھنے والی بات یہ ہے کہ ابھی ان کی علیحدگی پر پورا سال بھی نہیں گزرا.گزشتہ اکتو بر میں میں نے ان کے اخراج کا اعلان کیا تھا.گویا صرف ایک سال ہوا ہے.اس تھوڑے سے عرصہ پر قیاس کرتے ہوئے فرض کر لینا کہ انہیں ہمیشہ کے لیے عزت حاصل ہو گئی ہے محض خام خیالی ہے.کم از کم تین چار سال تک وہ باہر رہیں اور خدا تعالیٰ ان کی ہر قدم پر مدد کرتا رہے تو پھر بے شک کوئی بات بھی ہے ورنہ عارضی طور پر تو شیطان بھی بھترے 6 دے دیتا ہے.آخر پیغامیوں نے ہی ان کو ورغلا یا تھا.اگر وہ اس وقت ان کی کوئی مدد نہ کریں تو انہیں اپنی بدنامی کا ڈر ہے.اس اصل مدد کا پتا اُسی وقت لگے گا جب تین چار سال گزر جائیں گے.پھر اندازہ لگایا جا سکے گا کہ ان کی مدد عارضی تھی یا مستقل.مصری صاحب کو دیکھ لو! پیغا میوں نے کس زور شور سے انہیں اپنے سر چڑھایا تھا.مگر اب ان کی کوئی عزت ان میں باقی نہیں رہی.وہ اس اُمید میں اُن کے پاس گئے تھے کہ مولوی محمد علی صاحب کا
خطبات محمود جلد نمبر 38 206 $1957 قائم مقام ہو کر میں اُن کا سردار بن جاؤں گا.مگر ہوا یہ کہ مولوی محمد علی صاحب نے اپنی وفات کے قریب جن لوگوں کے متعلق وصیت کی کہ انہیں میرے جنازے کو بھی ہاتھ نہ لگانے دیا جائے ان میں مصری صاحب کا بھی نام تھا.یہ باتیں بتاتی ہیں کہ صبر کے ساتھ ایک مدت تک انتظار کرنا چاہیے اور پھر دیکھنا چاہیے کہ ان کے ساتھ کیا سلوک ہوتا ہے.جو کچھ مصری صاحب کے ساتھ ہوا وہی سلوک ان سے بھی کیا جائے گا.بلکہ ممکن ہے مولوی صدرالدین صاحب بھی اعلان کر دیں کہ میرے مرنے کے بعد رازی وغیرہ میری شکل دیکھنے کے لیے نہ آئیں اور اس طرح ان کو پتا لگ جائے گا کہ وہ خدائی الفضل 22 اکتوبر 1957 ء ) مدد سے محروم ہیں.1 : الاعراف : 13 2 : الاعراف : 13 لَنُخْرِ جَنَّكَ يُشْعَيْبُ وَالَّذِينَ آمَنُوا مَعَكَ مِنْ قَرْيَتِنَا (الاعراف : 89) 4 : وَالَّذِينَ هَاجَرُوا فِي اللهِ مِنْ بَعْدِ مَا ظُلِمُوا (النحل : 42) 5 : النساء : 101 6 : به : بھرا : دھوکا.فریب (فیروز الغات جامع فیروز سنز لاہور )
$1957 207 29.خطبات محمود جلد نمبر 38 رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیغام کو دنیا کے کونے کونے تک پہنچانا ہمارا نصب العین ہونا چاہیے (فرمودہ 25 را کتوبر 1957 ء بمقام ربوہ) تشهد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور نے مندرجہ ذیل آیت قرآنیہ کی تلاوت فرمائی: لَقَدْ جَاءَكُمْ رَسُولٌ مِّنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَءُوفٌ رَّحِيمُ - 1 اس کے بعد فرمایا: اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے پہلے تو مسلمانوں کو اس طرف توجہ دلائی ہے کہ تمہارا اور عیسائیوں کا کوئی جوڑ نہیں.تمہاری طرف رسول بھیجا گیا ہے جو مِنْ اَنْفُسِكُمْ ہے.یعنی وہ تمہارے جیسا ہی ہے.اس لیے تم کبھی اپنے دل میں یہ خیال بھی نہ لاؤ کہ ہم اس کی نقل نہیں کر سکتے.وہی جذبات اس کے دل میں ہیں جو تمہارے دلوں میں ہیں.وہی خواہشات اس کے دل میں ہیں جو تو تمہارے دلوں میں ہیں.اُسی قسم کے ارادے اور اُسی کام کرنے کی خواہش اس کے دل میں پیدا ہوتی ہے جیسی تمہارے دلوں میں پیدا ہوتی ہے.لیکن ایک عیسائی کے لیے قدم قدم پر مشکل.ہے.
$1957 208 خطبات محمود جلد نمبر 38 جب اس سے کہا جائے کہ وہ مسیح علیہ السلام کی طرح کوئی نیک کام کرے تو وہ فورا رک جاتا ہے اور کہتا ہے ہے کہ میں تو یہ کر ہی نہیں سکتا کیونکہ جس کی نقل کرنے کے لیے مجھے کہا گیا ہے وہ خدا تعالیٰ کا بیٹا ہے اور میں بندہ ہوں.اور پھر میں ایک ایسے آدمی کی اولاد ہوں جس سے ورثہ میں مجھے گناہ ملا ہے.یعنی میرے عقیدہ کے مطابق آدم بھی گنہگار تھے.اُن کی اولاد بھی گنہ گار ہے.پھر میں کیسے نیکی کر سکتا ہوں؟؟ تو دیکھو کتنا بڑا فرق ہے ایک مسلمان اور ایک عیسائی میں؟ ایک مسلمان تو ہر نیکی کے بعد خوش ہوتا ہے کہ میں نے نیکی کی اور وہ سمجھتا ہے کہ میں اس لیے بھی نیکی کے قابل ہوں کہ خدا تعالیٰ نے پیدائش سے میری فطرت میں پاکیزگی رکھی ہے اور اس لیے بھی نیکی کے قابل ہوں کہ جس کی نقل کرنے کا مجھے حکم دیا گیا ہے وہ میرے جیسا ہی ایک انسان ہے.پس اپنے متبوع کے لحاظ سے بھی یعنی جس کی میں نے نقل کرنی ہے میں اس قابل ہوں کہ اس کی نقل کر سکوں.اور اس لحاظ سے بھی میں قابل ہوں کہ میرے اندر ذاتی قابلیت پائی جاتی ہے.لیکن ایک عیسائی جانتا ہے کہ جہاں تک قابلیت کا سوال ہے میں نیکی کے ناقابل ہوں.اور جہاں تک نقل کا سوال ہے میرے لیے یہ بھی ناممکن ہے کیونکہ جس کی نقل کرنے کے لیے مجھے کہا گیا ہے وہ خدا کا بیٹا ہے.غرض وہ دونوں طرح نیکی سے محروم رہتا ہے اور مسلمان دونوں طرح نیکی سے محروم نہیں بلکہ نیکی کے قابل ہے اور اس پر قادر ہے.پھر اس آیت میں اللہ تعالیٰ اس امر کی طرف توجہ دلاتا ہے کہ عَزِيزٌ عَلَيْهِ مَا عَنِتُّمْ.تمہارا کسی تکلیف میں مبتلا ہونا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نہایت شاق گزرتا ہے.دنیا میں ہم دیکھتے ہیں کہ جب انسان کو کسی کے متعلق یہ معلوم ہو کہ وہ اس کی خاطر بہت تکلیف اٹھا رہا ہے تو وہ اس سے محبت کرنے لگ جاتا ہے اور اس کی قدر اور عظمت اس کے دل میں پیدا ہو جاتی ہے اور وہ اس کی مدد کے لیے انتہائی جوش کے ساتھ کھڑا ہو جاتا ہے.یہی کیفیت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق ہمارے دلوں میں پیدا ہونی چاہیے اور آپ کی مدد کو ہمیں اپنا نصب العین بنالینا چاہیے.جس کا صحیح طریق یہ ہے کہ آپ کے دین کی اشاعت کی جائے اور آپ جس پیغام کو دنیا تک پہنچانا چاہتے ہی تھے اُسے دنیا کے کونے کونے تک پہنچایا جائے.اسی مضمون کو دوسری جگہ قرآن کریم میں اس طرح بیان کیا گیا ہے کہ لَعَلَّكَ بَاخِعٌ ، اَلَّا يَكُونُوا مُؤْمِنِينَ - 2 یعنی جب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ دیکھتے ہیں
209 $1957 ނ خطبات محمود جلد نمبر 38 کہ لوگ خدا تعالیٰ پر ایمان نہیں لاتے تو انہیں اتنا درد ہوتا ہے کہ جیسے کسی کی گردن پر چھری رکھ کر اسے دوسرے سرے تک لے جائیں.یا جیسے کسی بکرے کی گردن پر چھری رکھ کر اسے اتنے زور سے چلائیں کہ اُس کی گردن کا پچھلا حصہ بھی کٹ جائے.یہی بحع کے معنے ہوتے ہیں.غرض فرماتا ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دل پر تمہارا دکھ اتنا گراں گزرتا ہے کہ اس کی زندگی اس پر حرام ہو جاتی ہے.اور جس شخص کی زندگی محض ہماری تکلیف کی وجہ سے حرام ہو جاتی ہو ہمیں کیوں نہ جوش آئے گا اور ہم اس کی خاطر ہر قسم کی تکالیف برداشت کریں.پھر وہ کوئی بُری بات بتا تا تب بھی کوئی بات تھی.وہ تو ہمیں یہ کہتا ہے کہ دنیا میں سچائی پھیلا ؤ.وہ تو ہمیں یہ کہتا ہے کہ امن اور راستی کے ساتھ دنیا کے ساتھ دنیا میں رہو.پس اُس کی خاطر تکلیف اٹھانا تو ایسی چیز ہے جو خود ہمیں فائدہ اٹھانے والی بات ہے.جب ہم دیکھتے ہیں کہ وہ ہماری خاطر اتنی تکلیف اٹھاتا ہے کہ اپنی جان کو ہلاکت کے قریب پہنچا دیتا ہے تو ہمیں کیوں نہ احساس ہوگا کہ ایسے محسن اور محبت کرنے والے انسان کے لیے اور زیادہ قربانی کریں.یہاں تک کہ دنیا میں صداقت ہی صداقت پھیلتی چلی جائے.لیکن افسوس ہے کہ اکثر مسلمان اس بات سے غافل ہیں.بس اپنے کاموں میں لگے رہتے ہیں لیکن خدا کے کام کو کوئی نہیں کرتا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اسی بات کو ایک جگہ یوں بیان فرمایا ہے کہ بیکسے شد دین احمد بیچ خویش و یار نیست ہر کسے درکار خود با دین احمد کار نیست 3 یعنی ہر شخص اپنے کام میں مشغول ہے لیکن محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کی اشاعت کا اسے کوئی فکر نہیں.اس شعر میں اسی آیت کا نقشہ کھینچا گیا ہے جس کی میں نے ابھی تلاوت کی ہے اور بتایا ہے کہ چاہیے تو یہ تھا کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اتنا خیر خواہ دیکھ کر کہ ہماری ذراسی تکلیف پر بھی ان کی کی جان گھٹنے لگ جاتی ہے اور مرنے کے قریب پہنچ جاتے ہیں مسلمان اپنی ساری زندگی اُن کے دین کی اشاعت میں صرف کر دیتے.لیکن بجائے اپنی ساری زندگی اس کام میں لگانے کے وہ ایسے کاموں میں پڑ گئے ہیں جو سراسر دنیوی ہیں اور اُن کا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دین سے کوئی واسطہ نہیں.حالانکہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جو ہم پر احسانات ہیں اُن کے مقابلہ میں بادشا ہوں کے احسانات بھی بے حقیقت ہیں.
خطبات محمود جلد نمبر 38 210 $1957 محمود غزنوی اور ایاز کا واقعہ بڑا مشہور ہے.تاریخوں میں لکھا ہے کہ محمود جو کچھ آپ کھاتا تھا وہ کی ایاز کے لیے بھی بھجواتا تھا.اور جب کوئی اچھا کپڑا آتا تھا تو کہتا تھا جاؤ یہ ایاز کو دے آؤ.دوسرے رباریوں کو محمود کا یہ فعل بُرا لگتا تھا.ایک دن سب درباریوں نے مل کر کہا کہ حضور ! آپ تو اُس کی اتنی خاطر کرتے ہیں لیکن وہ آپ کا خزانہ چراپچر اکر گھر لے جاتا ہے.ایاز جرنیل بھی تھا اور خزانہ کا افسر بھی تھا.محمود نے کہا میں ہرگز نہیں مان سکتا.درباریوں نے کہا حضور ! آپ اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں.چنانچہ محمود ایک دن آدھی رات کو خزانہ میں گیا اور اس نے پہرہ داروں سے کہا کہ خبردار! اگر کسی کو میرے آنے کا پتا لگا.ورنہ میں تمہیں سخت سزا دوں گا.پھر خزانہ کے محافظ سے کنجی لے لی اور اُسے کہا کہ تم اس وقت چلے جاؤ تھوڑی دیر کے بعد آنا.اور خود تالہ کھول کر اندر چلا گیا.اندر دوسرا دروازہ تھا اُس کو کھولا.پھر تیسرے دروازہ کو کھولا.جب اندر پہنچا تو کیا دیکھتا ہے کہ ایاز موجود ہے.اُس کے دل میں خیال آیا کہ ضرور چور ہے.آخر آدھی رات کو یہاں اس کا کیا کام ہے؟ پھر اُس نے دیکھا کہ ایاز اُٹھا اور اس نے خزانہ کا جو صندوق تھا اور اُس میں ہیرے اور جواہرات رکھے جاتے تھے اُس کا تالا کھولا.پھر اس کا دوسرا تالا کھولا، پھر تیسرا تالا کھولا.پھر اُس کے اندر سے ایک چھوٹا سا بکس نکالا جس میں ہیرے اور جواہرات تھے.اب تو محمود کو بالکل یقین ہو گیا اور دل میں کہنے لگا میں نے بڑی بیوقوفی کی کہ ایسے شخص کو اپنا در باری مقرر کیا.یہ ایک غلام تھا جسے میں نے غلطی سے اتنی عزت دے دی.اس کے بعد ایاز نے ایک اور بکس اندر سے نکالا اور اُس بکس کو کھولا تو اُس کے اندر سے نہایت سڑے ہوئے چیتھڑے نکلے.اُس وقت ایاز نے اپنا شاہی لباس اُتارا اور وہ چیتھڑے پہن لیے.پھر وضو کیا اور نماز کے لیے کھڑا ہو گیا اور نماز میں خدا تعالیٰ کو مخاطب کر کے اور رو رو کر دعا کرنے لگا کہ الہی ! میں اس شہر میں ان چیتھڑوں میں داخل ہوا تھا.یہ حض تیرا ہی احسان ہے کہ ان چیتھڑوں سے ترقی کر کے تو نے مجھے جرنیل اور درباری بنا دیا.اگر تیرا فضل نہ ہوتا تو میرا یہ اعزاز کیسے ہوتا؟ اور میں اس کا کب مستحق تھا؟ یہ سب تیرا ہی فضل ہے.جب محمود نے یہ سنا تو اُس نے اُٹھ کر ایاز کو گلے لگا لیا اور کہنے لگا میری بدگمانی معاف کرنا.مجھے پتا نہیں تھا کہ تم ایسا اچھا کام کر رہے ہو؟ مجھے لوگوں نے تمہارے متعلق بدگمان کر دیا تھا.میری بدگمانی معاف کر دو.اب مجھے پتا لگ گیا ہے کہ تم کیسے نیک آدمی ہو.یہ کہہ کر باہر چلا گیا اور باہر جا کر باقی سب درباریوں کو جھٹلایا.
خطبات محمود جلد نمبر 38 211 $1957 اب دیکھو! ایاز نے محمود کی کتنی خدمت کی تھی مگر اس نے اتنی تکلیف نہیں اٹھائی تھی جتنی ہے ہماری خاطر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اٹھائی تھی.یہاں تک کہ آپ کی ایک بیوی کہتی ہیں کہ آپ رات کو امت کے لیے اتنی دعائیں کرتے تھے اور اتنی دیر نماز میں کھڑے رہتے تھے کہ آپ کے پاؤں سوج جاتے تھے.میں نے کہا يَا رَسُولَ اللہ ! آپ اتنی تکلیف کیوں اٹھاتے ہیں؟ آپ کو تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ آپ کے اگلے اور پچھلے سب گناہ معاف ہو گئے ہیں.آپ نے فرمایا اگر میرے اگلے اور پچھلے سب گناہ خدا تعالیٰ نے معاف کر دیئے ہیں تو کیا میرا حق نہیں کہ اُس کے احسان کاشکر ادا کروں.4 ایاز کی خدمتیں لی جائیں تو وہ صرف چند نکلیں گی جو مشہور اور تاریخی ہیں.مثلاً جب ہندوستان سے محمود واپس جا رہا تھا تو ایک جگہ اس نے ایک پہاڑ کی طرف دیکھا.اس پر ایاز نے جھٹ اپنے گھوڑے کو ایڑ لگائی اور اُس طرف بھاگ گیا.دوسرے درباری ایاز پر حسد کرتے تھے.انہوں نے کہا دیکھیے ! ایسے نازک موقع پر ایاز نے غداری کی ہے اور وہ محمود کو چھوڑ کر چلا گیا.حالانکہ یہ درہ خطرناک تھا.اُسے چاہیے تھا کہ وہ یہاں رہتا.ہم پہلے ہی کہتے تھے کہ ایاز غدار ہے.اب دیکھ لیجیے ! ایسے نازک موقع پر وہ آپ کو چھوڑ کر بھاگ گیا ہے.محمود نے اس بات کو سنا تو کہنے لگا تمہیں پتا نہیں.میں ایاز کو جانتا ہوں.ایاز کوئی بات بلا وجہ نہیں کیا کرتا.واپس آنے پر جب میں اُس سے پوچھوں گا تو پتا لگ جائے گا کہ اُس کے اُس طرف جانے کی کیا وجہ تھی.چنانچہ جب ایاز واپس آیا تو بادشاہ نے پوچھا تم کیوں مجھے چھوڑ کر بھاگ گئے تھے؟ یہ تو خطرہ کا وقت تھا؟ کہنے لگا حضور! میں نے یہ سمجھا تھا کہ محمود کوئی بات بلا وجہ نہیں کر سکتا.یہ بڑا عقلمند آدمی ہے.اُس نے پہاڑ کی طرف دیکھا ہے تو ضرور وہاں کچھ ہوا کی گا.چنانچہ میں اپنے ساتھیوں کو لے کر وہاں پہنچا تو وہاں میں نے دیکھا کہ کچھ ہندو جرنیل اپنی ہی سواریاں لے کر حملہ کرنے کے لیے بیٹھے ہیں تا کہ جو نہی بادشاہ پہاڑی کے پاس پہنچے وہ اوپر سے پتھر دھکیل دیں.بادشاہ نے مُڑ کر اپنے ساتھیوں سے کہا دیکھو! کیا میں نے نہیں کہا تھا کہ یہ شخص مجھ سے اتنی محبت رکھتا ہے کہ میری ہر حرکت کا خیال رکھتا ہے.اس نے محض میرے دیکھنے سے معلوم کر لیا کہ ضرور وہاں کچھ ہوگا.لیکن تم کو پتا نہیں لگا.یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ یہ میرے ساتھ بہت محبت کرتا ہے اور تمہاری میرے ساتھ اتنی محبت نہیں.
212 $1957 خطبات محمود جلد نمبر 38 تو تاریخوں میں ایاز کے اس قسم کے صرف چند واقعات آتے ہیں مگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کو دیکھیں تو وہ اتنی بڑھی ہوئی ہے کہ جس کی مثال دنیا میں کہیں نظر نہیں آسکتی.مثلاً رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ایک دفعہ مدینہ میں رات کو شور کی آواز سنائی دی.اُن دنوں مشہور تھا کہ قیصر اپنی فوجوں سمیت مدینہ پر حملہ کرنے والا ہے.قیصر کی بادشاہت اُن دنوں ایسی ہی تھی جیسے آجکل روس اور امریکہ کی ہے.صحابہ دوڑ کے مسجد میں جمع ہو گئے.تھوڑی دیر کے بعد پتالگا کہ کوئی سوار اس طرف سے آ رہا ہے جدھر سے شور کی آواز آئی تھی صحابہ باہر گئے تو دیکھا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم گھوڑے پر سوار تشریف لا رہے ہیں 5.آپ ایک مخلص آدمی کا گھوڑالے گئے تھے.جب آپ واپس آئے تو فرمایا تم لوگ یہاں کیوں جمع ہو؟ صحابہ کہنے لگے يَارَسُولَ الله ! ہم نے کھڑ کے کی آواز سنی تھی.اس پر کچھ لوگ تو اپنے گھروں میں چلے گئے اور کچھ مسجد میں جمع ہو گئے تا کہ اکٹھے ہو کر دشمن کا مقابلہ کر سکیں.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو لوگ مسجد میں جمع ہوئے ہیں انہوں نے درست کیا.ہمیشہ یہی طریق ہونا چاہیے کہ اگر کبھی خطرہ کا وقت ہو تو مسجد میں جمع ہو جایا کرو اور وہاں اکٹھے ہو کر دشمن کا مقابلہ کرنے کی تدبیر کیا کرو.اب دیکھو! کہ سارے مسلمان مسجد میں اکٹھے ہو کر انتظار کر رہے تھے مگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اکیلے رات کو گئے اور واپس آئے تو فرمایا میں خبر لینے گیا تھا کہ کہیں قیصر کا لشکر تو نہیں ا رہا.غرض آدھی رات کے وقت ہیں ہزار آدمی کے مقابلہ کے لیے اکیلے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم گئے.محض اس لیے کہ اُن کی امت پر کوئی اچانک حملہ نہ کر دے.بھلا اس کے مقابلہ میں ایاز کی جو قربانی تھی وہ ہے ہی کیا چیز ! اسی طرح غزوہ احزاب کے موقع پر لوگوں نے کہا کہ يَا رَسُولَ الله ! یہودیوں نے کافروں سے معاہدہ کر کے ارادہ کر لیا ہے کہ مسلمان عورتوں پر حملہ کریں.آپ نے فرمایا ان عورتوں کو فور أفلاں جگہ پر جمع کر دو.اُس وقت آپ کا لشکر گل بارہ سو کا تھا.مگر آپ نے فرمایا سات سو آدمی میرے پاس رہنے دو اور پانچ سو آدمی عورتوں کی حفاظت کے لیے لے جاؤ.پھر اللہ تعالیٰ نے پنے احسان کے ساتھ فتح دے دی.مگر اُس وقت جو آپ نے مسلمانوں کے لیے قربانی کی وہ بہت بڑی تھی کہ پانچ سو کا لشکر عورتوں کی حفاظت کے لیے بھیج دیا اور صرف سات سو کا لشکر اپنے پاس رہنے دیا.صحابہ نے کہا کہ يَا رَسُولَ اللہ ! یہ لشکر تو بہت تھوڑا ہے.آپ نے فرمایا مسلمان دلیر ہوتے ہیں.
$1957 213 خطبات محمود جلد نمبر 38 اس لیے وہ تھوڑے بھی زیادہ ہیں.تم عورتوں کی حفاظت کرو.چنانچہ صحابہ نے آپ کی اس محبت کو محسوس کیا اور غزوہ احزاب میں اس دلیری سے مقابلہ کیا کہ دشمن کے اوسان خطا ہو گئے.6 میور جو بڑا بھاری عیسائی مصنف ہے اور کسی زمانہ میں یو.پی کا گورنر بھی رہ چکا ہے.اُس نے اسلام پر ایک کتاب لکھی ہے.اس نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ لوگ حیران ہوتے ہیں کہ جنگ احزاب میں کفار کا لشکر تو چودہ ہزار تھا اور مسلمانوں کا لشکر صرف بارہ سو تھا.پھر بات کیا ہوئی کہ کا فرہار گئے اور مسلمان جیت گئے؟ وہ کہتا ہے کہ میں نے اس پر غور کیا تو یہ بات میری سمجھ میں آگئی.اس نے لکھا ہے کہ غزوہ احزاب کے موقع پر کفار کے بڑے سے بڑے سردار لوگوں کو جوش دلانے کے لیے کہتے تھے کہ جو لوگ خندق پار کر کے حملہ کریں گے ہم انہیں اپنی بیٹی دے دیں گے اپنا گھوڑا دے دیں گے، اپنی تلوار میں دے دیں گے.چنانچہ کئی دفعہ دشمن کے سردار خندق کو پار کرنے میں کامیاب بھی ہو گئے مگر اُن سے غلطی یہ ہوئی کہ جب خندق میں رستہ بن جاتا اور کافر سردار گود کر دوسری طرف چلے جاتے تو وہ سیدھے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خیمہ کی طرف چلے جاتے.اگر وہ یہ غلطی نہ کرتے تو ضرور جیت جاتے.کیونکہ جب وہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خیمہ کی طرف جاتے تھے تو مسلمان پاگلوں کی طرح خیمہ کے گردا کٹھے ہو جاتے تھے اور ایسی دلیری سے لڑتے تھے کہ بعض دفعہ کفار ڈر کے مارے خندق میں کود گئے اور اُن کی گردنیں ٹوٹ گئیں.وہ گئے تو مسلمانوں سے لڑنے کے لیے تھے لیکن جب خندق کے پاس کوٹ کر آئے تو اتنے گھبرائے کہ انہوں نے خندق میں لانگیں مار دیں اور وہ مارے گئے.وہ لکھتا ہے کہ یہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے صحابہ کا عشق ہی تھا جس کی وجہ سے کفار کو شکست ہوئی.اگر ان کے دلوں میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا عشق نہ ہوتا تو وہ کبھی کامیاب نہ ہو سکتے.چھلا اب دیکھو! صحابہ نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اہمیت کو سمجھ لیا.مگر افسوس ہے کہ باوجود اس کے کہ اب ظاہری لڑائیاں نہیں ہیں صرف روحانی لڑائیاں لڑنی پڑتی ہیں پھر بھی ہم کمزوری دکھاتے ہیں اور ہمارے بھائی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کی اشاعت سے جن میں ان کے اپنے بچوں کی زندگی ہے، ان کی بیویوں کی زندگی ہے، ان کے پوتوں پڑ پوتوں کی زندگی ہے بلکہ ان کی اپنی زندگی ہے غفلت کر جاتے ہیں.مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں صحابہ نے یہ قربانی کی
خطبات محمود جلد نمبر 38 214 $1957 کہ انہوں نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت کے لیے اپنی جانیں تک لڑا دیں اور کہا کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پیاری چیز اور کوئی نہیں.ہم دشمن کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خیمہ تک نہیں جانے دیں گے.تو دیکھو! یہ قربانی ہے جو صحابہ نے کی.مگر اس کے مقابلہ میں اب روحانی تبلیغ کا کام ہے.اس میں نہ اپنی جان جاتی ہے نہ بیوی کی جان جاتی ہے اور نہ بیٹوں کی جان جاتی ہے پھر بھی ہم سستی کر جاتے ہیں.اس غفلت کی ہم کو اصلاح کرنی چاہیے اور ایسا رویہ اختیار کرنا چاہیے کہ ہم صحابہؓ کا نمونہ بن جائیں اور ان کی نقل میں خدا تعالیٰ ہمیں اس ثواب میں شریک کر لے جو اُس نے صحابہ کو دیا ہے.الفضل 12 نومبر 1957 ء ) 1 : التوبة: 128 2 : الشعراء : 4 :3 درثمین فارسی صفحه 147 ضياء الاسلام ربوه :4 : صحيح بخارى كتاب التهجد باب قيام النبي اليل 5 : بخارى كتاب الجهاد باب اذا فَرْعُوْا بِالَّيْل 6 السيرة الحلبية جلد 2 صفحه 349 350 مطبوعہ مصر 1935ء
$1957 215 30.30 خطبات محمود جلد نمبر 38 رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ کے دو دور اللہ تعالیٰ نے کمزوری اور بے بسی کے دور میں بھی آپ کی مدد کی اور طاقت کے زمانہ میں بھی اپنی تائید و نصرت سے نوازا اگر ہم صحیح معنوں میں آپ کی اتباع کریں تو اللہ تعالیٰ ہمارے ساتھ بھی یہی سلوک کرے گا (فرمودہ یکم نومبر 1957ء بمقام ربوہ) تشهد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور نے مندرجہ ذیل آیات قرآنیہ کی تلاوت فرمائی: إذَا جَاءَ نَصْرُ اللهِ وَالْفَتْحُ - وَرَأَيْتَ النَّاسَ يَدْخُلُونَ فِي دِينِ اللهِ أَفْوَاجًا فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ وَاسْتَغْفِرْهُ إِنَّهُ كَانَ تَوَّابًا - 1 اس کے بعد فرمایا: یہ قرآن کریم کی ایک مختصر سی سورۃ ہے اور بظاہر یہ حمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق ہے لیکن چونکہ آپ کے اتباع بھی قرآن کریم کے احکام کے مطابق آپ کے ماتحت ہیں اس لیے اس سے آپ کے تمام اتباع اور آپ سے محبت رکھنے والے چاہے وہ احمدی ہوں یا غیر احمدی فائدہ اُٹھا سکتے ہیں.
$1957 216 خطبات محمود جلد نمبر 38 اس سورۃ سے ظاہر ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر دوزمانے آئے ہیں.ایک تو وہ زمانہ تھا جب نصر اللہ اور فتح نہیں آئی تھی اور ایک اُس زمانہ کے آنے کی پیشگوئی کی گئی ہے جب نصر اللہ اور فتح آئے گی.اور وہ نصر اللہ اور فتح اس طرح آئے گی کہ رَأَيْتَ النَّاسَ يَدْخُلُونَ فِي دِينِ اللهِ أَفَوَاجًا گا کہ لوگ فوج در فوج اسلام میں داخل ہورہے ہیں.گویا یہ چیز علامت ہوگی نصر اللہ اور فتح کی.جب لوگ فوج در فوج اسلام میں داخل ہونے شروع ہو جائیں گے تو مجھے نظر آ جائے گا کہ نصراللہ اور فتح آ گئی ہے.دوسری بات اس سورۃ میں یہ بتائی گئی ہے کہ ایسے وقت میں تجھے خدا تعالیٰ کی بہت تسبیح کرنی چاہیے اور استغفار سے کام لینا چاہیے.اور اللہ تعالیٰ سے بخشش اور اُس کی مدد طلب کرنی چاہیے کیونکہ تیرا خدا بہت بخشنے والا اور بار بار رحم کرنے والا ہے.دنیا میں اگر ہم کسی سے یہ کہیں کہ فلاں شخص بڑا مالدار ہے تو اس میں یہ اشارہ مخفی ہوتا ہے کہ اگر کسی وقت تمہیں مدد کی ضرورت ہو تو اس سے مدد مانگو.یا اگر کہا جائے کہ فلاں شخص شہر کا بڑا رئیس ہے تو اس کے معنے یہ ہوتے ہیں کہ اگر شہر میں فساد ہو جائے تو اس کے پاس جاؤ اور اس سے مدد طلب کرو.اسی طرح اللہ تعالیٰ کو تو اب کہ کر اس طرف توجہ دلائی گئی ہے کہ تمہارا خدا اپنے بندوں کی طرف بار بار فضل کے ساتھ رجوع کرنے والا ہے.اس لیے جب بھی تمہیں مشکلات پیش آئیں تمہارا کام یہ ہونا چاہیے کہ تم خدا تعالیٰ کی طرف جھکو اور اُس سے سے مدد چا ہو.وہ اپنے فضل سے تمہاری ہر قسم کی خرابیوں اور نقائص کی اصلاح کے سامان پیدا فرمادے گا.غرض ان آیات میں اللہ تعالیٰ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کر کے فرماتا ہے کہ تجھ پر پہلے وہ زمانہ گزرا ہے کہ جب فتح اور نصرت تیرے پاس نہیں آئی تھی.لیکن اب میں تجھے وہ زمانہ دکھاؤں گا جس میں تجھے نصرت اور فتح میسر آجائے گی اور تو دیکھے گا کہ لوگ فوج در فوج اسلام میں داخل ہو رہے ہیں.گویا نصرت اور فتح کا ظاہری نمونہ اشاعتِ مذہب ہوگا.اور استغفار اور حمد کی قبولیت کا ظاہری نمونہ خدا تعالیٰ کی رحمت کا ظہور ہو گا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی غربت کی اور کمزوری کی حالت تو ان واقعات سے ظاہر ہے جو آپ کے دعوی نبوت کے ابتدائی سالوں میں آپ سے پیش آئے.ایک دفعہ آپ خانہ کعبہ کے قریب صفا پہاڑی پر بیٹھے ہوتے تھے اور کسی فکر میں تھے.شاید آپ اس فکر میں ہوں کہ خدا تعالیٰ نے میرے سپرد اتنا بڑا کام کیا ہے اسے میں کس طرح انجام دوں گا.آپ نے اپنا سر جھکایا ہوا تھا کہ اتنے میں آپ کے پاس سے ابو جہل گزرا اور اُس نے آپ
$1957 217 خطبات محمود جلد نمبر 38 کو گندی گالیاں دینی شروع کر دیں.اور پھر اُس نے یہیں تک بس نہ کی بلکہ اس بد بخت نے اپنے پاؤں سے آپ کے کندھے پر ٹھوکر ماری اور اس طرح آپ کو جسمانی رنگ میں بھی سخت اذیت پہنچائی مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اُسے کوئی جواب نہ دیا اور خاموشی سے اٹھ کر اپنے گھر چلے گئے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خاندان کی ایک پرانی بڑھیا لونڈی تھی جس نے گھر کے کئی بچوں کو پالا تھا جو اب بڑی عمر کے ہو چکے تھے.وہ لونڈی دروازہ میں کھڑی یہ سب نظارہ دیکھ رہی تھی.حضرت حمزہ اُس وقت شکار کو گئے ہوئے تھے.جب وہ واپس آئے تو وہ لونڈی بڑے غصہ سے کہنے لگی کہ تم بڑے بہادر بنے پھرتے ہو اور ہر وقت اسلحہ سے مسلح رہتے ہو تمہیں شرم نہیں آتی کہ ابھی میں نے دیکھا کہ تیرا بھتیجا حمد ( صلی اللہ علیہ وسلم) سامنے پتھر پر بیٹھا ہوا تھا کہ اتنے میں ابو جہل آیا اور اُس نے اُسے گندی گالیاں دینی شروع کر دیں اور اپنے پاؤں سے اُسے ٹھو کر ماری اور خدا کی قسم ! جب اُس نے اُسے گالیاں دیں اور ٹھوکر ماری اُس وقت میں سامنے کھڑی تھی.اُس نے ایک لفظ بھی منہ سے نہیں نکالا اور خاموشی سے اُس کی گالیاں سنتا رہا اور تکلیف برداشت کرتا رہا.حضرت حمزہ کو یہ سن کر غیرت آئی.وہ وہیں سے اُلٹے پاؤں لوٹے اور خانہ کعبہ میں گئے.وہاں اتفا قار و سائے مکہ کے سامنے بیٹھا ابو جہل بڑا فخر کر رہا تھا کہ میں نے آج محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کو گالیاں دیں اور وہ بالکل ڈر گیا اور آگے سے بول بھی نہیں سکا.اتنے میں حضرت حمزہ وہاں پہنچ گئے اور انہوں نے اپنی کمان زور سے اُس کے سر پر مار کر کہا کمبخت ! اگر تجھے بہادری کا دعوی ہے تو آ اور میرے ساتھ لڑ.ورنہ شرم کر کہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) نے تو تجھے کچھ نہیں کہا مگر پھر بھی تو نے اُسے گالیاں دیں اور بُرا بھلا کہا.میں نے اب سارے مکہ والوں کے سامنے تجھے مارا ہے.اگر تجھ میں ہمت ہے تو میرا مقابلہ کر.مکہ کے رؤساء جوش میں اٹھے اور انہوں نے مقابلہ کرنا چاہا مگر ابو جہل ایسا گھبرایا کہ وہ کہنے لگا.تم حمزہ سے کچھ نہ کہو.مجھ سے ہی آج زیادتی ہوگئی ہے اور قصور میرا ہی ہے.2 اب دیکھ لو! ایک زمانہ وہ تھا کہ ایک شخص نبوت کا دعوی کرتا ہے اور خدا اُسے یہ کہتا ہے کہ اے محمد ! (صلی اللہ علیہ وسلم) جا اور دنیا میں میرا نام پھیلا.لیکن اُس کا حال یہ ہے کہ ایک شخص خود اُس کے گھر کے سامنے اُسے گالیاں دیتا ہے اور وہ اتنا بھی نہیں کر سکتا کہ اسے کوئی جواب دے.مگر حکم یہ ہے کہ ساری دنیا میں جا کر خدا تعالیٰ کا نام پھیلا.دیکھو! عہدہ کتنا بڑا دیا گیا ہے اور آپ کی حیثیت کتنی کمز ور اور قابلِ رحم تھی.تو اس سورۃ میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اے محمد ! (صلی اللہ علیہ وسلم ) تجھ
$1957 218 خطبات محمود جلد نمبر 38 پر وہ زمانہ بھی گزرا ہے جب تو بالکل فقیر ، غریب اور یتیم تھا اور دنیا کی مددکا محتاج تھا لیکن اب تجھ پر وہ زمانہ آنے والا ہے.جب ہزاروں ہزار لوگ تیری بیعت کریں گے اور تیرے قدموں پر اپنی جانیں قربان کریں گے.تو اُس زمانہ کو بھی دیکھ اور اس زمانہ کو بھی دیکھ جب تیری پیشگوئیاں پوری ہو رہی ہیں.تجھے بتایا گیا تھا کہ ایک دن تیری تبلیغ کے رستے کھل جائیں گے.چنانچہ اب وہ رستے کھل گئے ہیں.اب تو سمجھ لے کہ تیرا خدا کتناز بردست ہے.جب تو کچھ بھی نہیں تھا اُس وقت بھی اُس نے تیری مدد کی اور اب جو تُو طاقتور ہو گیا ہے اور ساری دنیا میں تیری تبلیغ کے رستے کھل گئے ہیں تب بھی وہ خدا تیری مددکو آئے گا اور تیری تائید کرے گا.دوسرا واقعہ آپ کی کمزوری کا تاریخوں میں یہ آتا ہے کہ ہجرت کے قریب آپ اپنے ایک غلام کو ساتھ لے کر خدائے واحد کا نام پھیلانے کے لیے طائف تشریف لے گئے.مکہ کا قانون یہ تھا کہ جب تک کوئی شخص مکہ میں رہے اُس وقت تک وہ مکہ کی پناہ میں ہوتا تھا لیکن اگر وہ وہاں سے چلا جائے تو وہ دوبارہ مکہ میں داخل نہیں ہوسکتا تھا.کیونکہ یہ سمجھ لیا جاتا تھا کہ وہ مکہ کا شہری نہیں رہا اور پھر جب تک مکہ کا کوئی بڑا رئیس اسے پناہ نہ دے.وہ شہر میں داخل نہیں ہوسکتا تھا.جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم طائف سے واپس تشریف لا رہے تھے تو آپ کے غلام نے آپ سے کہا کہ آپ ایک دفعہ مکہ سے باہر چلے گئے تھے اور ملکہ کے قانون کے مطابق اب آپ اس شہر کے نہیں رہے.اس لیے آپ مکہ میں اُس وقت داخل ہو سکتے ہیں جب وہاں کا کوئی رئیس آپ کو پناہ دے.اس پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص سے کہا کہ میں مکہ والوں میں سے مطعم بن عدی کو جانتا ہوں کہ وہ شریف الطبع انسان ہے.تم اُس کے پاس جاؤ اور اُس سے جا کر کہو کہ محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) مکہ کے دروازہ پر کھڑا ہے اور وہ کہتا ہے کہ تم مجھے پناہ دو.میں خانہ کعبہ میں خدا تعالیٰ کی پرستش کرنا چاہتا ہے ہوں اور اس غرض سے آیا ہوں کہ تم مجھے پناہ دینے کے لیے تیار ہو.وہ مطعم بن عدی کے پاس گیا اور اُسے آپ کا پیغام دیا.مطعم بن عدی نے اُسی وقت اپنے بیٹوں کو بلایا اور کہا اپنی تلوار میں سونت لو.شہر کے دروازہ پر محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کھڑا ہے اور وہ شہر میں آنا چاہتا ہے.اور اُس کے شہر میں آنے کی غرض محض خدا تعالیٰ کی عبادت ہے اور یہ ایسا مقدس کام ہے کہ اس کے لیے اگر ہم اپنی جانیں بھی لڑا دیں تو کم ہے.چنانچہ اُس کے بیٹے اُس کے ساتھ چل پڑے اور وہ دروازہ پر آیا.
$1957 219 خطبات محمود جلد نمبر 38 محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وہاں کھڑے تھے.مطعم بن عدی نے کہا آئیے اور ہمارے آگے آگے چلیے.ہم آپ کے پیچھے پیچھے چلتے ہیں.اور اگر کسی نے آپ کو ذرا بھی چھیڑا تو ہم اُس کی گردن اڑادیں گے.چنانچہ وہ آپ کو اپنے بیٹوں کی حفاظت میں آپ کے گھر چھوڑ آیا.3 غرض یہ بھی ایک تنگی کا وقت تھا کہ آپ مکہ کے قانون کے مطابق شہر بدر کر دیئے گئے تھے اور آپ سوائے اس کے کہ کوئی کافر رئیس آپ کو پناہ دے مکہ میں داخل نہیں ہو سکتے تھے.پھر تیسرا واقعہ آپ کے ضعف کا وہ آتا ہے جب کہ ہجرت کا وقت آیا اور کفار نے مشورہ کیا کہ آپ رات کو گھر میں لیٹے ہوئے ہوں تو آپ کو قتل کر دیا جائے.اُس وقت بھی آپ میں کوئی طاقت نہیں تھی.اگر دشمن چاہتے تو آپ کو بڑی آسانی سے قتل کر سکتے تھے.یہ خدا تعالیٰ کا ہی نشان تھا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بڑی دلیری سے گھر سے باہر نکلے.آپ نے دیکھا کہ کافر چاروں طرف کھڑے ہیں مگر اللہ تعالیٰ نے ایسا تصرف کیا کہ آپ ان کے درمیان سے نکل گئے اور وہ آپ کو دیکھ نہ سکے.اُن کی خود اپنی روایت ہے کہ ہمیں محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) نظر ہی نہیں آیا.اگر وہ ہمیں نظر آتا ہے تو ہم اُسے مار نہ ڈالتے ؟ آپ سیدھے حضرت ابو بکر کے گھر تشریف لے گئے اور اُن کو ساتھ لے کر غار ثور کی طرف چلے گئے.پھر تاریخوں میں آتا ہے کہ کفار نے آپ کا پیچھا کیا اور وہ غار ثور کے منہ تک پہنچ گئے اور جب حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ ان کو دیکھ کر گھبرائے تو آپ نے فرمایا لَا تَحْزَنْ اِنَّ اللهَ مَعَنَا 4 - ابوبکر ! ڈرو نہیں اللہ تعالیٰ ہمارے ساتھ ہے.مکہ والوں نے اعلان کیا تھا کہ جو شخص محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) کو زندہ یا مردہ واپس لائے ہم اُسے سو اونٹ انعام دیں گے.اس لالچ میں ہر طرف آپ کی تلاش شروع ہو گئی اور جب آپ مدینہ کی طرف تشریف لے جارہے تھے تو ایک شخص سُراقہ نامی انعام کے لالچ میں آپ کے پیچھے پیچھے آیا.اور جب اُس نے آپ کو دیکھ لیا تو آپ نے پر حملہ کرنے کے لیے آگے بڑھا.اب دیکھو! یہ کتنی بے دست و پائی کی بات ہے کہ ایک کا فرحملہ کرنے کے لیے آگے بڑھتا ہے اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بچانے والا کوئی نہیں.مگر خدا تعالیٰ نے آپ کو اس موقع پر بھی بچالیا.چنانچہ جب وہ حملہ کی نیت سے آپ کے پاس پہنچا تو اُس کے گھوڑے کے پاؤں زمین میں دھنس گئے.اُس نے بہت کوشش کی مگر اُس کے پاؤں نہ نکلے.اس بات کا اُس کی طبیعت پر ایسا اثر ہوا کہ اس نے سمجھ لیا کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ضرور بچے ہیں.چنانچہ وہ آ.
خطبات محمود جلد نمبر 38 220 $1957 کے پاس آیا اور کہنے لگا کہ میں آپ کو پکڑنے کی نیت سے آیا تھا مگر اب میں سمجھتا ہوں کہ آپ واقعی میں خدا تعالیٰ کے رسول ہیں اور وہ آپ کو ایک دن سارے عرب پر قبضہ بخشے گا.آپ مہربانی فرما کر مجھے ایک پروانہ لکھ دیں کہ جب خدا تعالیٰ آپ کو بادشاہ بنائے گا تو مجھے امن دیا جائے گا.چنانچہ آپ نے حضرت ابوبکر کے غلام عامر بن فہیرہ سے فرمایا کہ اسے میری طرف سے یہ تحریر دے دو.5 وہ بعد میں ہمیشہ یہ تحریر لوگوں کو دکھاتا تھا اور بڑے فخر کے ساتھ کہا کرتا تھا کہ میں نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے ہی معافی حاصل کی ہوئی ہے.گویا اُس شخص نے محسوس کر لیا کہ جس شخص کی حفاظت اس صورت میں ہوئی ہے کہ جب میں حملہ کرنے لگا تو میرے گھوڑے کے پاؤں زمین میں جنس گئے.وہ جھوٹا نہیں ہو سکتا.غرض رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ضعف اور کمزوری کے ایسے زمانے گزرے ہیں جن کی مثال دنیا میں اور کہیں نہیں مل سکتی.ایک دفعہ آپ خانہ کعبہ میں نماز پڑھ رہے تھے کہ کفار نے اونٹ کی اوجھڑی لا کر آپ کی گردن پر رکھ دی اور اس کا بوجھ اتنا زیادہ تھا کہ آپ اس کی وجہ سے سجدہ سے سر نہیں اٹھا سکتے تھے.جب زیادہ دیر ہو گئی تو کسی نے حضرت فاطمہ کو اطلاع دے دی.وہ دوڑتی ہوئی آئیں اور بڑا زور لگا کر انہوں نے اُس اوجھڑی کو آپ کی گردن سے اُتارا.6 پھر ایک دفعہ لوگوں نے آپ کے گلے میں پڑکا ڈال کر کھینچنا شروع کیا.یہاں تک کہ آپ کی آنکھیں باہر نکل آئیں.اتنے میں حضرت ابو بکر" کو خبر ہوگئی.وہ وہاں آئے اور انہوں نے آپ کو چھڑایا اور کہا اے ظالمو! تمہیں شرم نہیں آتی کہ تم اس شخص پر محض اس لیے ظلم کر رہے ہو کہ یہ کہتا ہے کہ میرا خدا ایک ہے.آخر اس نے کوئی چوری کی ہو، ڈا کا مارا ہو یاقتل کیا ہو تو کوئی بات بھی تھی لیکن خانہ کعبہ میں جو امن کی جگہ ہے تم نے اس شخص پر ظلم کیا ہے اور تم اس کے گلے میں پڑ کا ڈال کر کھینچ رہے ہو.7 اب تم سمجھ سکتے ہو کہ خانہ کعبہ میں جو کفار کے نزدیک بھی امن کی جگہ تھی ایک شخص کے سر پر جبکہ وہ عبادت کر رہا ہو، اونٹ کی اوجھڑی لا کر رکھ دینا اور اس کے گلے میں پڑکا ڈالنا اُسی وقت ہو سکتا ہے ب یہ سمجھا جائے کہ یہ شخص بالکل بے حیثیت ہے.ورنہ اگر وہ کسی کا رشتہ دار نہ بھی ہوتا تب بھی مکہ کے لوگ تلوار میں لے کر آ جاتے اور کہتے کہ خانہ کعبہ کو امن حاصل ہے.تم کون ہوتے ہو کہ خانہ کعبہ میں آکر اس طرح ظلم کرتے ہو.
خطبات محمود جلد نمبر 38 221 $1957 پھر آپ کی کمزوری کی ایک مثال یہ ملتی ہے کہ آپ کی ایک بیٹی مکہ میں تھی جسے آپ نے مدینہ بلوایا.جب وہ مدینہ جا رہی تھیں تو ایک شریر شخص نے ان کی اونٹنی کا تنگ توڑ دیا.پھر وہ شخص خانہ کعبہ میں گیا اور اُس نے خوب قہقہہ لگا کر رؤساء کے سامنے کہا جا کے دیکھو محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کی بیٹی کا کیا حال ہے؟ وہ مدینہ جارہی تھی کہ میں نے اس کے اونٹ کا تنگ کاٹ دیا اور وہ زمین پر گر گئی.اُس وقت ہندہ بھی وہاں موجود تھی.یہ وہی ہندہ تھی جس نے حضرت حمزہ کا کلیجہ نکلوا دیا تھا اور جنگ بدر اور دوسری لڑائیوں میں کفار کو مسلمانوں کے خلاف اُکسایا کرتی تھی اور کہتی تھی جاؤ اور لڑو، ور نہ ہم عورتیں تمہارے قبضہ میں نہیں آئیں گی.ہم تمہارے پاس تبھی آئیں گی جب تم مسلمانوں سے لڑو گے اور انہیں قتل کرو گے.وہ فورا کھڑی ہوگئی اور کہنے لگی مکہ والو ! تم کو شرم نہیں آتی.تم وہ لوگ ہو جن کے باپ دادے اپنی بہادری پر فخر کیا کرتے تھے اور اب تمہاری یہ حالت ہے کہ تم نے ایک ایسی عورت کے اونٹ کا ننگ کاٹ دیا جس کا باپ کئی سو میل کے فاصلہ پر تھا اور اُس کو نیچے گرا دیا.تمہیں اس حرکت پر شرم کرنی چاہیے.اب اس واقعہ کا ہونا بھی آپ کی کمزوری کی وجہ سے ہی تھا ورنہ بعد میں اللہ تعالیٰ نے جب آپ کو طاقت دی تو آپ کے متبعین نے قیصر و کسرای کی حکومتوں تک کو پاش پاش کر دیا اور قیصر و کسری کے مقابلہ میں مکہ والوں کی اتنی حیثیت بھی نہ تھی جتنی ایک نمبر دار کے سامنے کسی چوڑھے کی ہوتی ہے.پس ان کا مکہ میں ایسی حرکت کرنا یعنی آپ کی بیٹی کی سواری کا تنگ کاٹ کر اسے نیچے گرا دینا بتا تا ہے کہ وہ اُس وقت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو انتہائی بے کس اور بے بس سمجھتے تھے.غرض تاریخ میں کثرت سے ایسے واقعات آتے ہیں جن سے پتا لگتا ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایک وقت ایسا آیا جو آپ کی نہایت درجہ کمزوری اور بے بسی پر دلالت کرتا تھا.مگر اس کے بعد پھر وہ زمانہ آیا جب نصر اللہ اور فتح آگئی اور لوگ فوج در فوج اسلام میں داخل ہونے شروع ہو گئے.اُس زمانہ کی تاریخ کو جب ہم پڑھتے ہیں تو پھر ہمیں اور رنگ کے واقعات دکھائی دیتے ہیں.چنانچہ نصر اللہ اور فتح کا زمانہ آیا تو ہمیں یہ نظارہ نظر آتا ہے کہ صلح حدیبیہ کے بعد جب مکہ والوں نے معاہدہ کی خلاف ورزی کرتے ہوئے خزاعہ پر حملہ کر دیا تو انہیں خطرہ محسوس ہوا کہ مسلمان اپنے حلیف قبیلہ کی مدد کے لیے کہیں مکہ پر حملہ نہ کر دیں.چنانچہ انہوں نے ابوسفیان کو مدینہ روانہ کیا تا کہ وہ کسی طرح مسلمانوں کو حملہ سے باز رکھے.جب حدیبیہ کی صلح ہوئی ہے اُس وقت ابوسفیان مکہ میں نہیں
222 $1957 خطبات محمود جلد نمبر 38 تھا.انہوں نے ابوسفیان سے کہا تو اب مدینہ میں جا اور مسلمانوں سے کہہ کہ اُس معاہدہ کے وقت چونکہ میں مکہ میں موجود نہیں تھا اس لیے وہ معاہدہ میری تصدیق کے ساتھ اب شروع ہوگا.اور پھر دس سال کی میعاد بھی تھوڑی ہے اسے بھی بڑھا دیا جائے.وہ مدینہ پہنچا اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی ملا اور حضرت ابوبکر اور حضرت عمرؓ سے بھی ملا.مگر کسی نے اُس کی طرف توجہ نہ کی.آخر وہ حضرت علیؓ کے پاس گیا اور اُن سے مشورہ طلب کیا.حضرت علیؓ نے مذاقاً کہا کہ تم مسجد میں جا کر یہ اعلان کر دو کہ میں چونکہ اپنی قوم کا سردار ہوں اور معاہدہ پر میرے دستخط نہیں اس لیے آج سے وہ معاہدہ کیا جاتا ہے اور اس کی اتنی مدت بھی بڑھائی جاتی ہے.اُس نے اِس مذاق کو مان لیا اور مسجد میں سب کے سامنے کھڑے ہو کر اعلان کر دیا کہ مدینہ والو! تم نے ایسے لوگوں سے معاہدہ کر لیا تھا جن کی کوئی ذمہ داری نہیں.ذمہ داری میری ہے اور میں اپنی ذمہ داری کو پورا کرنے کے لیے چاہتا ہوں کہ معاہدہ کی مدت بھی بڑھ جائے اور میرے دستخط بھی ہو جائیں.سو وہ معاہدہ آج سے شروع ہوتا ہے کیونکہ اب اس پر میری تصدیق ہے اور معاہدہ کی مدت بھی اتنی بڑھا دی گئی ہے.اس اعلان پر سب صحابہ اس کی حماقت کی وجہ سے ہنس پڑے اور اس کو سخت ذلت محسوس ہوئی.بعد میں وہ بڑے غصہ میں حضرت علی کو مخاطب کر کے کہنے لگا تم نے جان بوجھ کر مجھے ذلیل کروایا ہے اور تم لوگ ہمیشہ ہمار.دشمن رہے ہو.8 اس کے بعد وہ ناکام واپس چلا آیا.اس سفر میں اللہ تعالیٰ نے ابوسفیان کو ایک اور زک بھی پہنچائی.اُس کی ایک لڑکی اُم حبیبہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیوی تھیں.ابو سفیان کو خیال آیا کہ مدینہ آیا ہوں تو اپنی لڑکی سے بھی مل وں.چنانچہ ابوسفیان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر گیا.حضرت اُمّ حبیبہ نے بستر پر ایک چارپائی بچھائی ہوئی تھی.ابوسفیان اُس پر بیٹھنے لگا تو حضرت اُم حبیبہ نے وہ چادر جلدی سے اُس کے نیچے سے کھینچ لی.ابوسفیان یہ دیکھ کر کہنے لگا کہ بیٹی ! کیا بات ہے؟ کیا یہ چادر اس قابل نہیں کہ تیرا باپ اس پر بیٹھ سکے یا میں اس قابل نہیں ہوں کہ میں اس پر بیٹھوں ؟ حضرت اُمّ حبیبہ نے کہا تم ہی اس قابل نہیں ہو کہ اس چادر پر بیٹھو.ابوسفیان نے کہا بیٹی ! تم نے یہ کیا کہا؟ کیا میں تیرا باپ نہیں ہوں؟ حضرت اُم حبیبہ نے کہا یہ ٹھیک ہے کہ تم میرے باپ ہو لیکن اس کے باوجود میں یہ پسند نہیں کرتی کہ جس چادر پر خدا کا رسول بیٹھتا ہے اُس پر تم جو خدا اور اُس کے رسول کے دشمن ہو بیٹھو.9 اب دیکھو ! جب نصر اللہ اور فتح کا زمانہ آیا تو کس طرح ابوسفیان کو خود اس کی لڑکی نے ذلیل
$1957 223 خطبات محمود جلد نمبر 38 کیا.اُس کی لڑکی کی نظر میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اتنی عزت اور عظمت تھی کہ اس نے یہ بھی پسند نہ کیا کہ جس چادر پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھتے تھے اس پر ابوسفیان بیٹھے.پھر وہ دن بھی آ گیا جب اللہ تعالیٰ نے آپ کو مکہ والوں پر کامل فتح عطا فرمائی.ابوسفیان جب اپنے مشن میں کامیاب نہ ہوا بلکہ الٹا ذلیل ہوا تو وہ مکہ کی طرف دوڑا تا کہ مکہ والوں کو صورت حال سے باخبر کر دے.مکہ والوں نے پھر آپس میں مشورہ کیا اور ابوسفیان سے کہا کہ وہ مکہ سے باہر نکل کر پتا تو لے کہ مسلمان کیا کرنا چاہتے ہیں؟ ابوسفیان ایک منزل ہی باہر گیا تھا کہ اس نے سارا جنگل روشن پایا.یہ آگ جو تمام خیموں کے آگے جلائی گئی تھی ایک ہیبت ناک نظارہ پیش کر رہی تھی.حضرت عباس کی ابوسفیان سے پرانی دوستی تھی.انہوں نے ابوسفیان کو دیکھ لیا اور اُسے آواز دے کر کہا سامنے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا لشکر خیمہ ڈالے پڑا ہے.جلدی سے میرے پیچھے سواری پر بیٹھ جاؤ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں چلو کیونکہ حضرت عباس ڈرتے تھے کہ حضرت عمرؓ پہرہ پر مقرر ہیں انہوں نے اسے دیکھ لیا تو وہ کہیں اسے قتل نہ کر دیں.چنانچہ ابوسفیان حضرت عباس کے پیچھے بیٹھ گیا اور وہ سواری کو ایڑ لگا کر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں جاپہنچے اور ابوسفیان کو دھکا دے کر آگے کیا اور کہا کم بخت ! آگے بڑھ اور بیعت کر لے.اُس وقت دہشت اور خوف کی وجہ سے ابوسفیان سخت مبہوت ہو چکا تھا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اُس کی یہ حالت دیکھی تو فرمایا عباس! ابوسفیان کو اپنے ساتھ لے جاؤ اور رات کو اپنے پاس رکھو اور صبح میرے پاس لانا 10.جب صبح وہ حضرت عباس کے ساتھ باہر نکلا تو نماز کا وقت تھا.اُس نے دیکھا کہ ہزاروں مسلمان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے ہاتھ باندھے صف میں کھڑے ہیں.جب آپ رکوع کرتے ہیں تو وہ سب کے سب رکوع کرتے ہیں، جب آپ سجدہ کرتے ہیں تو وہ سب کے سب آپ کے ساتھ سجدہ میں چلے جاتے ہیں.پھر آپ سجدے سے سر اٹھاتے ہیں تو وہ بھی آپ کے ساتھ سراٹھا لیتے ہیں.پھر آپ سجدہ میں جاتے ہیں تو تمام لوگ آپ کے ساتھ سجدہ میں چلے جاتے ہیں.پھر تشہد میں بیٹھتے ہیں تو تمام لوگ آپ کے ساتھ تشہد میں بیٹھ جاتے ہیں.ابوسفیان نے یہ نظارہ دیکھا نی تو اُس نے خیال کیا کہ یہ سب کچھ اس کے مارنے کے لیے کیا جارہا ہے.اُس نے حضرت عباس سے ڈرتے ڈرتے پوچھا کہ عباس ! یہ کیا ہورہا ہے؟ کہیں میرے قتل کی تدبیر تو نہیں ہو رہی؟ حضرت عباس
$1957 224 خطبات محمود جلد نمبر 38 نے کہا کہ ابوسفیان ! تیری کیا حیثیت ہے کہ دس ہزار مسلمان تیرے لیے سازش کریں.یہ تو نماز ہو رہی ہے.ابوسفیان کہنے لگا عباس! میں نے کسری کا دربار بھی دیکھا ہے اور قیصر کا دربار بھی دیکھا ہے.لیکن میں نے اُن کی رعیت کو بھی اس قسم کی اطاعت کرتے نہیں دیکھا جس قسم کی اطاعت یہ لوگ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم) کی کر رہے ہیں.11.یہ لوگ تو سکے والوں کو کھا جائیں گے.تم مجھے اجازت دو کہ میں واپس جا کر سکے والوں کو بتا دوں کہ کیا کچھ ہونے والا ہے تا کہ وہ اپنے بچاؤ کی کوئی صورت کر لیں.پھر حضرت عباس اُسے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے آئے.ابوسفیان آپ سے کہنے لگا.محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کیا یہ ہو سکتا ہے کہ کسی طرح مکہ والے بچ جائیں؟ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں! جو شخص خانہ کعبہ میں داخل ہو جائے گا وہ بچ جائے گا.ابوسفیان نے کہا خانہ کعبہ تو بہت چھوٹی جگہ ہے وہاں سکے والے تو نہیں آ سکیں گے.آپ نے فرمایا اچھا جو لوگ تیرے گھر میں داخل ہو جائیں گے وہ بھی بچائے جائیں گے.ابوسفیان نے کہا يَا رَسُولَ الله ! میرا گھر بھی تو چھوٹا سا ہے وہاں بھی ہر شخص پناہ نہیں لے سکے گا.آپ نے فرمایا جو اپنے گھر کے دروازے بند کر لے گا اُسے بھی کچھ نہیں کہا جائے گا 12.ابوسفیان نے کہا يَا رَسُولَ اللہ ! اگر مکہ والوں کو وقت پر یہ خبر نہ مل سکی تو وہ اپنے اپنے گھروں میں کیسے پہنچ سکیں گے؟ اس کے علاوہ بھی کوئی رعایت ہونی چاہیے.آپ نے ایک چادر منگوائی اور اُس کا ایک جھنڈ بنوایا اور فرمایا یہ بلال کا جھنڈا ہے.آپ نے وہ جھنڈا حضرت بلال کے ایک انصاری بھائی کو دیا اور فرمایا جو شخص بلال کے جھنڈے کے نیچے آ جائے گا اُسے بھی پناہ دی جائے گی.13 شخص آپ کے اس حکم میں بھی ایک لطیف حکمت تھی.مکہ والے حضرت بلال کے پاؤں میں رتی ڈال کر انہیں گلیوں میں گھسیٹا کرتے تھے.وہ سخت تیز گرمی میں گرم ریت پر لٹا کر جوتوں سمیت اُن کے سینہ پر ناچتے اور گرم پتھروں پر انہیں گھیٹتے ہوئے کہتے تھے کہ کہو ایک خدا نہیں بلکہ بُت بھی خدا ہیں.اس پر وہ کہتے اَشْهَدُ اَنْ لَّا اِلهَ إِلَّا اللهُ وَ اَشْهَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُولُ الله - 14 رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خیال فرمایا کہ آج بلال کا دل انتقام کی طرف بار بار مائل ہوتا ہوگا.اگر میں نے انہیں معاف کر دیا تو وہ کہے گا کہ ماریں تو میں کھاتا رہا لیکن جب میرے انتقام کا وقت آیا تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مکے والوں کو معاف کر دیا.اس خیال کے آنے پر
$1957 225 خطبات محمود جلد نمبر 38 رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت بلال کے نام کا ایک جھنڈا بنا کر کہا کہ آج جو شخص بلال کے جھنڈے کے نیچے کھڑا ہوگا اُسے بھی پناہ دی جائے گی.اس طرح مکہ والے اکثر محفوظ رہے.صرف اس طرف کچھ لوگ مارے گئے جس طرف سے حضرت خالد نے حملہ کیا تھا.اور اس کی وجہ یہ تھی کہ اُن لوگوں کو صحیح اطلاع نہیں پہنچ سکی تھی اور انہوں نے حضرت خالد کا مقابلہ شروع کر دیا تھا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو جب یہ خبر پہنچی تو آپ نے فرمایا اس میں ہمارا کوئی قصور نہیں تم لوگوں نے ہی اپنے آدمیوں کو خبر نہیں پہنچائی تھی.ورنہ وہ مقابلہ کر کے موت کے منہ میں نہ جاتے - 15 (الفضل 22 نومبر 1957ء) 1 : النصر : 2تا4 2 سیرت ابن هشام جلد 1 صفحہ 312،311 مطبوعہ مصر 1936ء 3 : طبقات ابن سعد جلد 1 صفحہ 212 مطبوعہ بیروت 1985ء 4 كنز العمال جلد 16 صفحہ 661 تا 664 مطبوعہ دمشق 2012 ء 5 سیرت ابن هشام جلد 1 صفحہ 547،546 مطبوعہ دمشق 2005 ء 6 : بخارى كتاب الصلواة باب المرأة تطرح عن المصلى شيئًا من الأذى 7 بخاری کتاب فضائل اصحاب النبى الله الله باب قول النبي.: متخذا خليلا 8 : سیرت ابن هشام جلد 2 صفحہ 1188 تا1190 9: سیرت ابن هشام جلد 2 صفحه 1189 مطبوعہ دمشق 2005ء 10 : سیرت ابن هشام جلد 2 صفحه 1196 مطبوعہ دمشق 2005ء 11 : السيرة الحلبية جلد 3 صفحه 92 مطبوعه مصر 1935ء 12 : سیرت ابن هشام جلد 2 صفحہ 1197 مطبوعہ دمشق 2005ء 13 : السيرة الحلبية جلد 3 صفحه 93 مطبوعه مصر 1935ء 14 : سیرت ابن هشام جلد 1 صفحہ 366 مطبوعہ دمشق 2005 ء 15 : السيرة الحلبية جلد 3 صفحه 97 مطبوعه مصر 1935ء صلى الله لو كنت
$1957 226 31 خطبات محمود جلد نمبر 38 مساجد تعمیر کرنا اللہ تعالیٰ کی برکتوں اور اس کے فضلوں کو حاصل کرنے کا ایک اہم ذریعہ ہے (فرمودہ 8 نومبر 1957ء بمقام دارالذکر لا ہور ) تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: ” جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہجرت فرمائی تو آپ کے چچا حضرت عباس مکہ میں ہی رہ گئے تھے.بیعت عقبہ ثانیہ کے موقع پر جب ہجرت کے متعلق مشورہ ہوا تو حضرت عباس رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ اس مشورہ میں شامل تھے.یوں تو وہ آپ کو مانتے تھے لیکن دوسروں سے اپنے اسلام کو خفی رکھتے تھے.حج کے موقع پر حاجیوں کو پانی پلانے کا کام بھی ان کے سپرد تھا.ایک دفعہ کسی بات پر حضرت علی کا حضرت عباس سے جھگڑا ہو گیا تو انہوں نے کہا ہم تو خدا تعالیٰ کے رسول اور اس کے دین کی خدمت کرتے رہے ہیں اور اس سلسلہ میں ہم نے اپنی جانوں کی بھی پروا نہیں کی.چنانچہ ہم نے اسلام کی خاطر لڑائیاں لڑیں اور بڑی بڑی قربانیاں کیں.ہمارے سامنے آپ لوگوں کی حیثیت ہی کیا ہے؟ آپ تو اُس وقت مکہ میں بیٹھے تھے.اس پر حضرت عباس نے کہا یہ ٹھیک ہے کہ میں ہجرت کے وقت مکہ میں رہ گیا اور آپ لوگ خدا تعالیٰ کے دین کی خاطر جہاد کرتے رہے
$1957 227 خطبات محمود جلد نمبر 38 لیکن ہم وہاں حاجیوں کو پانی پلایا کرتے تھے اور ہماری یہ خدمت بھی کچھ کم خدمت نہیں.اس کا ذکر کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ بے شک حاجیوں کو پانی پلانا بھی ایک نیکی ہے مگر خدا اور اُس کے رسول پر ایمان لانا اور اس کی راہ میں جہاد کرنا زیادہ افضل ہے اور یہ دونوں ہرگز برابر نہیں ہو سکتے 1.اسی ذکر کے ساتھ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ مساجد کو وہی شخص آباد کرتا ہے جو خدا اور اس کے رسول پر ایمان لائے اور ان کی تعلیم پر عمل کرے.2 مگر ظاہر ہے کہ مسجد تبھی آباد ہو سکتی ہے جب وہ بنی ہوئی بھی ہو.جب کوئی مسجد بنی ہی نہ ہوتو وہ آباد کیسے ہوگی.اس بارہ میں تم اپنی مثال دیکھ لو پہلے لاہور میں ہماری صرف گمٹی والی مسجد ہوا کرتی تھی جو خواجہ کمال الدین صاحب مرحوم نے غیر احمدیوں سے معاہدہ کر کے چھوڑ دی.اس کے بعد بڑی دیر تک یہاں کوئی مسجد نہ بنی.جب خلافت کا جھگڑا شروع ہوا تو میں نے قریشی محمد حسین صاحب مفرح عنبری والوں سے کہا کہ یہاں مسجد بنانے کی کوشش کریں.وہ بڑی ہمت والے آدمی تھے.انہوں نے کی سترہ مرلہ زمین کے ایک ٹکڑا پر قبضہ کر لیا اور فوری طور پر مسجد کی بنیا درکھ دی.اور بعد میں اس پر چالیس پینتالیس ہزار روپیہ خرچ کر کے ایک عمارت کھڑی کر دی.یہ وہی مسجد ہے جو بیرون دہلی دروازہ میں ہے.پھر اس نے بھرنا شروع کیا اور ایک وقت ایسا آیا جب اس میں ہزار ہزار ، ڈیڑھ ڈیڑھ ہزار نمازی آ جاتے تھے.جب خلافت کا جھگڑا شروع ہوا تو لاہور میں صرف چند احمدی تھے جن کا خلافت ثانیہ سے تعلق تھا.ایک شمس الدین صاحب تھے اور ایک ان کے بھائی تھے اور یا پھر میاں فیملی کے افراد تھے جو سیاں چراغ الدین صاحب کے تعلق کی وجہ سے خلافت کے ساتھ رہے.میاں چراغ الدین صاحب کے ایک لڑکے حکیم محمد حسین صاحب مرہم عیسی بھی پیغامیوں میں شامل ہو گئے تھے.ان کے متعلق میں نے ایک دفعہ دعا کی تو میں نے رویا میں دیکھا کہ وہ قادیان آئے ہیں اور میں نے انہیں ایک چار پائی پر لٹایا ہے اور کپڑا اُٹھا کر میں نے اُن کے پیٹ پر چھری پھیر دی ہے.پھر خواب میں ہی مجھے ایسا محسوس ہوا کہ انہوں نے تو بہ کر لی ہے.میں نے یہ رویا میاں چراغ الدین صاحب کو سنایا تو وہ بہت خوش ہوئے.اس رؤیا کے چند دن بعد ہی حکیم محمد حسین صاحب نے بیعت کر لی.اب تو خدا تعالیٰ کے فضل سے میاں چراغ الدین صاحب کی ساری اولاد خلافت سے وابستہ ہے لیکن شروع شروع میں جیسا کہ میں نے بتایا ہے حکیم محمد حسین صاحب مرہم عیسی پیغامیوں میں شامل ہو گئے تھے اور کچھ
$1957 228 خطبات محمود جلد نمبر 38 عرصہ تک اخبار پیغام صلح کے ایڈیٹر بھی رہے.بہر حال پہلی مسجد احمد یہ جو بیرون دہلی دروازہ میں قریشی محمد حسین صاحب مفرح عنبری والوں کی برکت سے بنی سترہ مرلہ زمین میں تھی.اس کے بعد ہم ہجرت کر کے یہاں آئے تو ایک عرصہ تک رتن باغ میں نماز جمعہ پڑھتے رہے.پھر میں نے جماعت احمد یہ لاہور کو بڑے زور سے تحریک کی کہ لاہور میں ایک اور مسجد بنانے کی کوشش کرو جو بہت بڑی ہو.لیکن کافی عرصہ تک اس پر کوئی عمل نہ ہوا.اس کے بعد خدا تعالیٰ نے جماعت احمد یہ لا ہور کو تو فیق دی اور انہوں نے زمین کا ایک ٹکڑا خرید لیا.اس کے متعلق مجھے بتایا گیا ہے کہ ساڑھے چھ کنال ہے.اب دیکھو! گجا سترہ مرلہ زمین اور گجا ساڑھے چھ کنال.گویا ہماری موجودہ مسجد پہلی مسجد سے قریباً آٹھ گنا بڑی ہوگی.وہ صرف سترہ مرلہ میں تھی اور یہ ایک سو تھیں مرلہ میں ہو گی.اور اگر گمٹی والی مسجد سے اس کا مقابلہ کیا جائے تو یہ اس سے کئی گنا زیادہ ہے.گٹی والی مسجد میں تو سات آٹھ نمازی ایک وقت میں نماز پڑھ سکتے تھے.مولوی غلام حسین صاحب مرحوم اس مسجد کے امام تھے.وہ احمدی ہو گئے تو انہوں نے اپنی مسجد جماعت کو وقف کر دی جو بعد میں خواجہ کمال الدین صاحب نے غیر احمدیوں سے معاہدہ کر کے چھوڑ دی.مولوی غلام حسین صاحب مرحوم بہت ہی نیک انسان تھے.لیکن غریب بہت تھے.ان کی عادت تھی کہ وہ کسی سے مصافحہ نہیں کرتے تھے.مجھے یاد ہے ایک دفعہ میں ان کی مسجد میں گیا تو میں نے ان سے مصافحہ کرنا چاہا لیکن انہوں نے اپنا ہاتھ پیچھے کیچ لیا.مگر یہ ابتدائی زمانہ کی بات ہے.پھر انہوں نے اخلاص میں بہت ترقی کی.1905 ء یا 1906ء میں مجھے بخار ہوا تو ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے عرض کیا کہ اسے فوراً کسی پہاڑ پر بھیج دیا جائے.چنانچہ میں اپنے نانا جان حضرت میر ناصر نواب صاحب کے ساتھ شملہ چلا گیا.مولوی غلام حسین صاحبہ مرحوم بھی وہاں آگئے.انہوں نے مجھے بتایا کہ ایک نوجوان مجھ سے پڑھتا تھا.وہ کہنے لگا کہ میں شملہ جات رہا ہوں.اس لیے میں اپنی تعلیم جاری نہیں رکھ سکتا.میں نے کہا میں بھی شملہ چل پڑتا ہوں وہاں تمہیں پڑھایا کروں گا.اور روپیہ کی فکر نہ کرو.میں اپنا کر ا یہ اپنی جیب سے ادا کروں گا.غرض وہ بہت ہی نیک انسان تھے اور پڑھانے کا انہیں بے حد شوق تھا.گمٹی والی مسجد کے وہی امام تھے اور بڑا اخلاص رکھتے تھے.لیکن بعد میں اللہ تعالیٰ نے ہمیں دوسری مسجد دے دی جو پہلی مسجد سے بہت بڑی تھی اور اب ایک
خطبات محمود جلد نمبر 38 229 $1957 اور مسجد بنانے کی توفیق دے دی ہے جو دوسری مسجد سے بھی بڑی ہے.بہر حال جوں جوں مسجدیں بنتی گئیں اللہ تعالیٰ جماعت کو بھی برکت دیتا گیا.آج مجھے بتایا گیا ہے کہ جمعہ کی نماز میں تین ساڑھے تین ہزار مرد اور عورت شامل ہوئے ہیں.حالانکہ پہلی مسجد میں ہزار ڈیڑھ ہزار آدمی جمعہ کے لیے آتا تھا اور جیسے جامن کو ڈبہ میں ڈال کر اور نمک ملا کر ہلایا جاتا ہے اُسی طرح اس مسجد میں نمازیوں کا حال ہوتا تھا.پھر دواڑھائی سو سائیکل ہوتا تھا اور کاریں اور بسیں بھی آتی تھیں.تو دیکھو! یہ اللہ تعالیٰ کا کتنا بڑا احسان ہے تم اُس کو یاد کرو اور اُس کے شکریہ کے طور پر خدا تعالیٰ کے گھر کو تعمیر کرنے کے لیے زیادہ سے زیادہ قربانی کرو.اب مجھے لاہور آنے کا موقع ملا تو میں نے شیخ بشیر احمد صاحب اور چودھری اسد اللہ خان صاحب کو تحریک کی کہ بائیں کنال زمین اور ملتی ہے وہ بھی خرید لی جائے اور اس کے ساتھ چھ کنال کا ایک اور ٹکڑا ہے وہ بھی خرید لیا جائے.یہ ساری مل کر کوئی 35 کنال زمین ہو جائے گی جو قریباً ساڑھے چارا یکٹر بن جاتی ہے.اگر ساری زمین میں مسجد بن جائے تو لاہور میں اور کوئی مسجد اس جتنی بڑی نہیں ہوگی.در حقیقت ہماری مثال ویسی ہی ہے جیسے مشہور ہے کہ کسی چڑی مار، نے جال بچھایا ہوا تھا اور کوئی شخص پاس سے شور مچاتا جا رہا تھا جس کی وجہ سے جانور جال میں پھنستے نہیں تھے.چڑی مارنے اسے پکڑ لیا اور خوب مارا اور کہنے لگا کہ تم شور ڈالنے کی بجائے یہ کہو کہ آتے جاؤ اور پھنستے جاؤ.چنانچہ اُس نے یہ فقرہ کہنا شروع کر دیا اور آگے چل پڑا.رستہ میں اسے کچھ چور ملے.انہوں نے جب اسے نرہ کہتے سنا تو انہیں بڑا غصہ آیا اور انہوں نے اسے خوب مارا اور کہا تو ہمیں یہ فقرہ کہ کر پھنسانا چاہتا ہے.اُس نے کہا پھر اور کیا کہوں؟ انہوں نے کہا تم یہ کہو کہ لاتے جاؤ اور رکھتے جاؤ.چنانچہ اس نے کی یہی فقرہ کہنا شروع کر دیا.تھوڑی دور جا کے اُسے ایک جنازہ ملا.اُس نے اونچی آواز سے یہ فقرہ کہہ دیا.اس پر جنازہ والوں نے اُسے پکڑ لیا اور مارا.اُس نے پوچھا کہ میں اور کیا کہوں؟ انہوں نے کہا تم یہ کہو کہ للہ تعالیٰ یہ دن کسی کو نہ دکھائے.وہ وہاں سے گزرا تو آگے سے ایک برات آ رہی تھی.وہ ان کے پاس سے گزرتے ہوئے کہنے لگا اللہ تعالیٰ یہ دن کسی کو نہ دکھائے.اس پر انہوں نے اسے مارنا شروع کر دیا.غرض جس طرح اسے اپنے الفاظ بدلنے پڑے اسی طرح ہمیں بھی ہر تبدیلی پر ایک نیا قدم اٹھانا چاہیے.
خطبات محمود جلد نمبر 38 35 230 $1957 پس جماعت کوشش کرے کہ چندہ کر کے اس ساری زمین کو مسجد میں شامل کرلے.اس طرح یہ مسجد اتنی بڑی ہو جائے گی کہ لاہور کی اور کوئی مسجد اس کے برابر نہیں ہو گی.شاہی مسجد بھی اس سے چھوٹی ہوگی کیونکہ وہ زیادہ سے زیادہ آٹھ نو کنال میں ہو گی.پھر نہ صرف یہ مسجد ہی لاہور میں سب سے بڑی ہوگی بلکہ چونکہ مسجد خدا تعالیٰ کا گھر ہوتا ہے اس لیے تمہاری جماعت بھی لاہور میں سب سے بڑی جماعت ہو جائے گی.کیونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جو کوئی دنیا میں مسجد بناتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے لیے جنت میں گھر بناتا ہے.3 اب یہ سیدھی بات ہے کہ جب پانچ چھ کنال زمین مسجد بنے گی تو جنت میں بھی تمہارے لیے ایک کوٹھی بن جائے گی.لیکن جب یہ مسجد بنے گی جو 3E کنال میں ہوگی تو خدا تعالیٰ تمہارے لیے جنت میں ایک عظیم الشان محل بنائے گا.اور تم یہ نہ سمجھو کہ تمہیں اتنی بڑی مسجد بنانے کی توفیق نہیں.اتنی بڑی مسجد بنانے کی طاقت تم میں موجود ہے.مجھے بتایا گیا ہے کہ اس وقت جمعہ میں تین ساڑھے تین ہزار احمدی موجود ہیں.اگر تین ہزار بھی فرض کر لیے جائیں اور ان میں سے ہر ایک پچاس روپیہ مسجد کے لیے دے تو ڈیڑھ لاکھ روپیہ جمع ہو جاتا ہے.پھر شہریوں کی مالی حالت گاؤں والوں کی نسبت بہت اچھی ہوتی ہے اس لیے بعض دوست پچاس روپیہ سے بھی زیادہ دے سکتے ہیں اور اس طرح بہت زیادہ رقم جمع ہوسکتی ہے.میں نے سنا ہے کہ شیخ بشیر احمد صاحب ایک شخص کے پاس مسجد کے لیے چندہ لینے گئے تو اُس نے پوچھا آپ میرے متعلق کیا خیال کرتے ہیں کہ میں کتنی رقم دے سکتا ہوں ؟ انہوں نے خیال کیا کہ اگر میں نے تھوڑی رقم مانگی تو میرے دل میں خلش رہے گی کہ شاید میں اس سے زیادہ رقم مانگتا تو یہ اتنی رقم بھی دے دیتا اور اگر میں نے زیادہ روپیہ مانگا تو شخص خیال کرے گا کہ مجھ پر بہت زیادہ بوجھ ڈال دیا گیا.ہے.آخر سوچ بچار کے بعد میں نے کہا آپ پانچ ہزار روپیہ دے دیں.اس پر اُس نے بیس ہزار روپیہ کا چیک کاٹ کر دے دیا.پس یہ خدا تعالیٰ کے فضل سے بعید نہیں کہ یہاں اتنی بڑی مسجد بن جائے.یہ مرکزی جگہ ہے اور سارے پاکستان سے لوگ یہاں آتے ہیں.ساری جماعت کا چندہ پچاس لاکھ کے قریب ہوتا ہے.اس لیے اس مسجد کے لیے دو تین لاکھ روپیہ دے دینا جماعت کے لیے کوئی مشکل نہیں.اول تو یہاں کے احمدی ہی اتنا چندہ دے دیں گے.لیکن اگر وہ نہ دے سکیں تو سارے پاکستان والے
$1957 231 خطبات محمود جلد نمبر 38 جو یہاں آتے ہیں وہ کہیں گے کہ ہم بھی تو اس شہر میں جاتے ہیں اور مسجد میں نماز پڑھتے ہیں ہم بھی چندہ دیتے ہیں.اس لیے مایوسی کی کوئی وجہ نہیں.آپ لوگ کوشش کریں گے تو خدا تعالیٰ بھی مدد دے پس کوشش کرو کہ اس ساری زمین میں مسجد بن جائے.مجھے امید ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہمیں زمین کا کوئی حصہ بیچنے کی ضرورت پیش نہیں آئے گی اور لاہور کی جماعت اپنی کوشش سے ہی ایک عالیشان مسجد بنالے گی.اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ایک دو سال کے بعد صدرانجمن احمد یہ بھی کچھ روپیہ تمہیں قرض کے طور پر دے دے اور اس طرح تمہیں مددمل جائے.لیکن میں سمجھتا ہوں کہ خود لاہور کی جماعت میں اتنی طاقت ہے کہ وہ اس مسجد کو بنا سکتی ہے.کراچی کی جماعت دو مسجدیں بنا چکی ہے.ایک اُس نے وکٹوریہ روڈ پر بنائی اور دوسری مارٹن روڈ پر.مارٹن روڈ والی مسجد کی عمارت گو زیادہ ہے شاندار نہیں لیکن بہر حال اُس جماعت نے دو مساجد بنالی ہیں.بے شک کراچی کی جماعت لاہور کی جماعت کی نسبت زیادہ مالدار ہے اور اُس کی تعداد بھی اس سے زیادہ ہے.مگر ایمان تعداد کو نہیں دیکھا کرتا.مجھے یاد ہے پچھلے سال میں مسجد میں بیٹھا ہوا تھا کہ چنیوٹ کا ایک سنارلر کا میرے پاس آیا.اُس کے ہاتھ میں ململ کے کپڑے میں بندھی ہوئی کوئی چیز تھی.وہ اُس نے مجھے دے دی اور پھر کہا کہ اس پوٹلی میں سونے کے دو کڑے ہیں جو میری والدہ نے مجھے دیئے ہیں.میری والدہ کہتی ہے کہ یہ کڑے میں نے کسی خاص مقصد کے لیے رکھے ہوئے تھے.لیکن اب میں چاہتی ہوں کہ آپ انہیں بیچ کر کسی دینی کام میں لگالیں.چنانچہ میں نے انہیں بیچ کر اُن کی قیمت مسجد ہیگ میں دے دی.میرا خیال ہے کہ وہ چار پانچ سو کے ہوں گے.اسی طرح اب بھی جب میں ربوہ سے چلا ہوں ایک شخص نے مجھے لکھا کہ میرا بچہ بیمار ہو گیا تھا اور میری بیوی نے منت مانی تھی کہ اگر میرا بچہ بچ گیا تو میں فلاں زیور سلسلہ کو دے دوں گی.غرض عورتیں بھی بہت کچھ چندہ میں دے دیتی ہیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دفعہ مردوں میں کسی چندہ کی تحریک کی.اس کے بعد آپ نے فرمایا عورتوں سے کہہ دو وہ پردہ کر لیں میں انہیں بھی تحریک کرنا چاہتا ہوں.چنانچہ پردہ کر لیا گیا اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان میں تشریف لے گئے.آپ نے فرمایا میں نے ابھی
$1957 232 خطبات محمود جلد نمبر 38 مردوں میں دین کی خدمت کے لیے چندہ کی تحریک کی ہے اور انہوں نے اس میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ہے.اب میں تمہارے پاس بھی آیا ہوں کہ تم بھی اس تحریک میں حصہ لو.اس پر ایک عورت نے اپنے ہاتھ سے ایک کڑا اتار کر آپ کی طرف پھینک دیا اور عرض کیا يَا رَسُولَ اللہ ! یہ میری طرف سے قبول فرمائیے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے عورت! تیرا ایک ہاتھ تو دوزخ کی آگ سے بچ گیا.اب دوسرا ہاتھ بھی کہہ رہا ہے کہ تو اسے بھی دوزخ کی آگ سے بچا.اس پر اُس عورت نے اپنا دوسرا کڑا بھی آپ کی طرف پھینک دیا.تو خدا تعالیٰ کے فضل سے عورتوں کے اندر بھی قربانی کا جذبہ پایا جاتا ہے.آپ لوگ عورتوں کا تعاون حاصل کریں.ممکن ہے کہ وہ مردوں سے آگے نکل جائیں.دیکھ لیں ! ہیگ میں جو مسجد بنی ہے وہ صرف عورتوں کے چندہ سے ہی بنی ہے.اُس پر ایک لاکھ چوہتر ہزار روپیہ خرچ آیا تھا جس میں سے ستانوے ہزار روپیہ عورتوں نے ادا کر دیا ہے اور صرف ستر ہزارا دا کرنا باقی ہے.انہوں نے کہا ت ہے کہ ہم یہ رقم جلسہ تک یا اُس کے کچھ دیر بعد دے دیں گی.پس صرف ارادہ اور ہمت کی ضرورت ہے.اگر عورتیں اور مر دسب مل کر زور لگائیں تو مسجد کے لیے رقم جمع کرنا کوئی مشکل امر نہیں ہے.مجھے یاد ہے ایک دفعہ میں کشمیر گیا.سری نگر کے پاس ایک چھوٹی سی جھیل ہے جو ڈل“ کہلاتی ہے.اس کے پاس سے ہی دریائے جہلم گزرتا ہے.اور دریا میں سے ایک نہر کاٹ کر اس ڈل“ کے سامنے سے گزاری گئی ہے.اس ڈل“ میں اس نہر کا دروازہ کھلتا ہے.بعض دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ دریا کا پانی اونچا ہو جاتا ہے جس کے نتیجہ میں نہر کا پانی بھی اونچا ہو جاتا ہے اور ”ڈل میں زور سے پانی گرنے لگ جاتا ہے.اُس وقت کشتی نیچے سے اوپر لے جانی بڑی مشکل ہوتی ہے اور بعض دفعہ دریا کا پانی نیچا ہو جاتا ہے اور ڈل کا پانی اونچا ہو جاتا ہے.جب دریا اور ڈول کا پانی برابر ہوتب تو کشتیاں آسانی سے ادھر ادھر آتی رہتی ہیں لیکن جب ایک طرف کا پانی اونچ نیچا ہو جاتا ہے تو انہیں کشتی چلانے میں بڑی دقت محسوس ہوتی ہے.میں نے ایک دفعہ دیکھا کہ ایک کشتی آئی جس میں کشمیری مرد اور عورتیں اور بچے بیٹھے ہوئے تھے اور ایک طرف کا پانی اونچا تھا.انہوں نے بہت زور لگایا مگر وہ اُس کشتی کو آگے لے جانے میں کامیاب نہ ہو سکے.آخر کچھ آدمی کشتی سے اُتر گئے اور انہوں نے رستے ڈال کر کشتی کو کھینچنا شروع کیا اور یہ نعرہ لگا نا شروع کر دیا لا پلاةَ بِلَّ الله یعنی لَا إِلَهَ إِلَّا الله لیکن کشتی
$1957 233 خطبات محمود جلد نمبر 38 پھر بھی نہ نکلی.جب انہوں نے دیکھا کہ اللہ کا نام لے کر ہمارا کام نہیں بنا تو انہوں نے یا شیخ ہمدان کا نعرہ لگایا.شیخ ہدان ایک بزرگ تھے جنہوں نے کشمیر میں اسلام پھیلایا تھا لیکن کشتی اس نعرہ پر بھی باہر نہ نکلی.تب انہوں نے آخری نعرہ یا پیر دستگیر کا لگایا.اس نعرہ کا لگنا تھا کہ کیا عورتیں اور کیا مرد دیوانہ وار گود کر کشتی سے نیچے اتر آئے اور سب نے مل کر زور لگانا شروع کر دیا اور آخر وہ کشتی کو کھینچ کر آگے لے جانے میں کامیاب ہو گئے.تم بھی یا پیر دستگیر کا نعرہ لگا کر اس کام کو شروع کرو.لیکن یاد رکھو! پیر دستگیر سے حضرت سید عبدلقادر صاحب جیلانی مُراد نہیں بلکہ اس سے خدا تعالیٰ کا اپنا وجود مراد ہے جو حقیقی دستگیر ہے.حضرت خلیفہ المسح الاول سنایا کرتے تھے کہ ایک دفعہ میرے پاس ایک فقیر آیا اور اس نے کہا پیر دستگیر کے نام پر کچھ دو.آپ فرمایا کرتے تھے میں اُس وقت وہاں تھا اس لیے میں نے اُس فقیر کو ڈانٹا کہ تم شرک کرتے ہو.لیکن وہ فقیر بہت ہوشیار تھا.اُس نے جھٹ کہا آپ تو یونہی ناراض ہوتے ہیں کیا خدا تعالیٰ کے سوا بھی کوئی دستگیر ہے؟ دراصل اس کی مراد تو حضرت سید عبد القادر جیلانی سے ہی تھی لیکن حضرت خلیفہ اول کے ناراض ہونے پر اُس نے بات بدل دی اور حضرت خلیفہ اول نے چپ کر کے اُسے کچھ دے دیا.اسی طرح تم بھی اپنے دستگیر خدا کا نعرہ مارو اور سب مل کر اس کام میں لگ جاؤ.پھر تم دیکھو گے کہ اس عمارت کی بنیاد بھی رکھ دی جائے گی اور باقی عمارت کے لیے روپیہ بھی مہیا ہو جائے گا.جب انسان کسی کام کا پختہ ارادہ کرلے تو خدا تعالیٰ خود ایسے سامان پیدا کر دیتا ہے جن سے انسان ایسے کام میں کامیاب ہو جاتا ہے.مجھے بعض اوقات علاج اور دوسرے کاموں کی غرض سے کراچی جانا پڑتانی ہے.وہاں صدر انجمن احمدیہ کی ایک بلڈنگ ہے.میں اس بلڈنگ میں ٹھہرتا ہوں جس کی وجہ سے وہ سے کرایہ پر نہیں دے سکتے.میں نے خیال کیا کہ اگر وہاں میرا اپنا مکان بن جائے تو اس مکان میں میں ٹھہرا کروں اور انجمن اس مکان کو کرایہ پر دے دیا کرے تا کہ اس سے کچھ آمد پیدا ہو.میں نے کراچی میں گیارہ سو گز زمین خریدی ہوئی تھی.لیکن مکان بنانے کی کوئی صورت نہیں تھی کیونکہ میرے پاس روپیہ نہیں تھا.لیکن خدا تعالیٰ نے اُس کا بھی سامان کر دیا.ربوہ کے قریب میری کچھ زمین تھی جسے میں نے فروخت کر دیا اور اس طرح میری ضرورت پوری ہوگئی.اگر ایک فرد کی خدا تعالیٰ اس
خطبات محمود جلد نمبر 38 234 $1957 طرح مدد کرتا ہے تو وہ جماعت کی کیوں مدد نہیں کرے گا.جماعت تو اس کی مدد کی بہت زیادہ مستحق ہے.لاہور میں بھی 1941ء میں میں نے کچھ زمین سمن آباد میں خریدی تھی اور میں نے شروع سے یہ نیت کی ہوئی تھی کہ اس زمین پر کوٹھی بنا کر میں صدر انجمن احمدیہ کو دے دوں گا.اس کے بعد میں نے گلبرگ میں بھی زمین خرید لی.اب میرا ارادہ ہے کہ سمن آباد والی زمین بیچ کر گلبرگ والی زمین پر کوٹھی تعمیر کروں.اور گلبرگ والی کوٹھی صد را انجمن احمدیہ کو دے دوں.اگر میں نے پہلے سے یہ نیت نہ کی ہوتی کہ میں یہ کوٹھی صدر انجمن احمدیہ کو دے دوں گا تو میں لاہور کی جماعت کو دے دیتا.لیکن اب میں ایسا نہیں کرسکتا.کیونکہ میں شروع سے ہی یہ نیت کر چکا ہوں کہ میں یہ کوٹھی صد را مجمن احمدیہ کو دے دوں گا.یہاں جب کبھی میں آتا ہوں ہمشیرہ کے الاٹ شدہ مکان میں ٹھہر جاتا ہوں.قیام چونکہ مختصر ہوتا ہے اس لیے کوئی تکلیف بھی نہیں ہوتی.کراچی میں زیادہ دیر قیام کرنا پڑتا ہے اس لیے وہاں ذاتی مکان کی ضرورت تھی تا کہ صدر انجمن احمدیہ کا مکان خالی ہو اور وہ کرایہ پر چڑھ سکے.صدرانجمن احمدیہ کا یہ مکان چھ فلیٹ پر مشتمل ہے اور اگر ایک فلیٹ پانچ سو روپیہ ماہوار پر بھی چڑھے تو تین ہزار روپیہ ماہوار اور چھتیس ہزار روپیہ سالانہ مل جاتا ہے.بہر حال میں نے کراچی والی جائیداد کو اپنے پاس اس لیے رکھا کہ صدر انجمن احمدیہ کی جائیداد آزاد ہو جائے.یہاں صدر انجمن احمدیہ کی اس وقت تک کوئی جائیداد نہیں.یہاں میں چند دن کے لیے آتا ہوں اور ہمشیرہ کے پاس ٹھہر جاتا ہوں.اور اگر بالفرض یہاں کوئی مکان نہ بھی ملے تو ہم کسی اچھے ہوٹل میں ٹھہر سکتے ہیں یا جو کوٹھی میں صدرا انجمن احمدیہ کو دینے کا ارادہ رکھتا ہوں وہ ہم کرایہ پر لے سکتے ہیں.غرض تم اس مسجد کے بنانے کی کوشش کرو تا کہ جنت میں تمہارا گھر بنے.تم نے دیکھا کہ پچھلے دنوں لاہور میں کس قدر گھر جلے ہیں.ہمارے ایک اکٹر نور احمد صاحب تھے جو بڑی مدت سے لاہور میں رہتے تھے اور انہوں نے یہاں اپنا مکان بھی بنایا ہوا تھا لیکن فسادات میں ان کا گھر جلا دیا گیا.وہ بیمار تھے.اب سنا ہے کہ فوت ہو گئے ہیں.تو دنیا کی سب چیزیں فانی ہیں.وہی چیز انسان کے کام آتی ہے جو نیک کاموں پر خرچ کی جاتی ہے.حضرت خلیفتہ المسیح الاول سنایا کرتے تھے کہ ایک غریب عورت تھی وہ محنت مزدوری کر کے
$1957 235 خطبات محمود جلد نمبر 38 اپنا گزارہ کیا کرتی تھی.وہ گاؤں والوں کا سوت کا تا کرتی اور اُس سے جو آمد ہوتی اُسی سے وہ اپنی خوراک کا خرچ بھی چلاتی ، کپڑے بھی بناتی اور کچھ روپیہ بھی جمع کرتی.اُس جمع شدہ روپیہ سے اس نے سونے کے کڑے بنوائے.ایک دن ایک چور اُس کے گھر آیا اور وہ کڑے چرا کر لے گیا.وہ عورت اس کا مقابلہ تو نہ کر سکی لیکن اُس نے اُس چور کو پہچان لیا.کچھ عرصہ کے بعد اس عورت نے پھر مزدوری کی اور روپیہ جمع کر کے اُس نے اور کڑے بنوا لیے.ایک دن وہ عورت گلی میں بیٹھی چرخہ کات رہی تھی کہ چور پاس سے گزرا اور اُس عورت کو دیکھ کر بھاگ پڑا.عورت نے اُسے پہچان لیا اور آواز دی کہ ذرا ٹھہر جاؤ.میں کسی کو نہیں بتاؤں گی کہ تم نے میرے کڑے پرائے تھے.میں تم سے صرف ایک بات کرنا چاہتی ہوں.چنانچہ وہ چور کھڑا ہو گیا.اُس عورت نے اُسے مخاطب کر کے کہا دیکھو! میں نے محنت مزدوری کر کے کچھ رقم جمع کی تھی اور اس سے کڑے بنوائے تھے.مگر تو وہ کڑے چُرا کر لے گیا.میں نے پھر محنت مزدوری کر کے کڑے بنوا لیے ہیں لیکن تیرے جسم پر اب بھی وہی لنگوٹی ہے جو اس تی وقت تھی.تو جو شخص نیکی اور تقوی پر قائم ہو اور خدائی احکام پر عمل کرنے والا ہوا گر اُسے کوئی نقصان بھی پہنچ جائے تو خدا تعالیٰ اُس کا ازالہ کر دیتا ہے اور اُسے سونے کے کڑے مل جاتے ہیں اور نقصان پہنچانے والے کے جسم پر لنگوٹی ہی رہتی ہے.مجھے بتایا گیا ہے کہ اس مسجد کے سلسلہ میں ایک شخص مخالفت کر رہا تھا.وہ کہتا تھا کہ میں یہ مسجد نہیں بننے دوں گا.لیکن اب وہ کہتا ہے کہ میری چھ کنال زمین بھی لے لو.اسی طرح خدا تعالیٰ کی راہ میں جو شخص کام کرتا ہے اللہ تعالیٰ اُس کی مدد کے سامان پیدا کر دیتا ہے.پس تم اس بات سے نہ گھبراؤ کہ تم بے بس ہو اور غریب ہو.خدا تعالیٰ جس کے ساتھ ہوتا ہے وہ بے بس اور غریب نہیں ہوتا.بلکہ جو شخص اپنے آپ کو بے بس اور غریب سمجھے اُس سے زیادہ جاہل اور کوئی نہیں ہوتا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام جب کرم دین کے مقدمہ کے سلسلہ میں گورداسپور تشریف لے گئے تو جس مجسٹریٹ کے پاس مقدمہ تھا وہ آریہ تھا.آریہ سماج نے ریزولیوشن پاس کر کے اُس مجسٹریٹ کے پاس بھیجا کہ یہ شخص ہمارا دشمن ہے اور ہمارے لیڈ لیکھرام کا قاتل ہے.اب اس کا کیس آپ کے ہاتھ میں ہے اور ساری قوم کی نظر آپ پر ہے.اگر آپ نے اس کو جانے دیا تو آپ قوم کے دشمن ہوں گے.چنانچہ اس مجسٹریٹ نے وعدہ کرلیا کہ میں مرزا صاحب کوضر ورسزا دوں گا.
$1957 236 خطبات محمود جلد نمبر 38 ڈاکٹر محمد اسماعیل صاحب گوریانی ایک مخلص آدمی تھے.انہیں کسی نے اس ریزولیوشن کی اطلاع دے دی اور انہوں نے دوسرے دوستوں کو بتا دیا.مولوی سید سرورشاہ صاحب نے یہ سارا واقعہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کو جا کر سنا دیا.آپ اُس وقت لیٹے ہوئے تھے.جب مولوی صاحب نے آپ کو یہ واقعہ سنایا تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام یک لخت اُٹھ کر بیٹھ گئے.آپ کا چہرہ سرخ ہو گیا اور آپ نے فرمایا میں اُس کا شکار نہیں ہوں.میں خدا کا شیر ہوں.وہ خدا کے شیر پر ہاتھ تو ڈال کر دیکھے.یہ الفاظ کہتے ہوئے آپ کی آواز اس قدر بلند ہوگئی کہ کمرہ کے باہر کے لوگ بھی چونک اٹھے.بعد میں اسی مجسٹریٹ کو ایسی سزاملی کہ وہ ایک دفعہ لدھیانہ کے اسٹیشن پر مجھے ملنے کے لیے آب اور اُس نے روتے ہوئے مجھ سے معافی مانگی اور کہا میں سخت دکھ میں ہوں.میں نے مرزا صاحب کے پاس معافی مانگنے کے لیے جانا تھا.لیکن وہ تو اب فوت ہو چکے ہیں اس لیے میں آپ کے پاس آیا ہوں.آپ میرے لیے دعا کریں کہ خدا تعالیٰ مجھے اس عذاب سے نکال لے.اگر یہ عذاب کچھ اور عرصہ تک قائم رہا تو میں پاگل ہو جاؤں گا.اب دیکھو! کجا یہ دعوای کہ میں مرزا صاحب کو قید کر کے چھوڑوں گا اور گجا یہ حالت کہ وہ عاجزانہ طور پر کہتا ہے کہ میرے لیے دعا کی جائے کہ خدا تعالیٰ مجھے دکھوں سے نجات دے.تو دیکھو جو لوگ خدا تعالیٰ کے ہو جاتے ہیں خدا تعالیٰ اُن کی مدد کرتا ہے اور انہیں ایسے نشانات دکھاتا ہے جن سے اُن کا ایمان اور زیادہ مضبوط ہوتا ہے.قادیان ایک گاؤں تھا وہاں کئی قسم کی چیزیں دستیاب نہیں ہوتی تھیں.اس لیے لوگ باہر سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو پھل اور دوسرے تھے بلٹی یا پارسل کر کے بھیج دیا کرتے تھے.چنانچہ میرے دفتر کے کارکن عبد اللطیف خاں کے دادا انوار حسین خاں صاحب لکھنؤ سے بڑے بڑے آم چن کر قادیان بھجوایا کرتے تھے.میں نے اُن آموں میں پانچ پانچ سیر کا آم بھی دیکھا ہے.اس قسم کا جو سامان ریل کے ذریعہ آتا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اُسے سے لانے کے لیے اپنے ایک خادم پیرا نامی کو بٹالہ بھجوایا کرتے تھے.مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کی عادت تھی کہ وہ ہمیشہ بٹالہ اسٹیشن پر آیا کرتے اور اگر انہیں کوئی ایسا آدمی مل جاتا جو کہتا ہے کہ میں نے قادیان
$1957 237 خطبات محمود جلد نمبر 38 جانا ہے تو وہ اُس کے پیچھے پڑ جاتے.اور مکہ کے مخالفوں کی طرح کہتے کہ میں تو مرزا صاحب کا بچپن کا دوست ہوں مجھ سے پوچھو کہ بات کیا ہے.اُس نے تو محض ایک دکان بنائی ہوئی ہے.اگر ایمان بچانا ہو تو واپس چلے جاؤ وہاں تمہیں کفر والیا داور جھوٹ کے سوا اور کچھ نہیں ملے گا.میرے اپنے خسر مولوی عبدالماجد صاحب بھی ایک دفعہ قادیان آ رہے تھے کہ مولوی صاحب انہیں ریلوے اسٹیشن پر ملے اور انہیں واپس بہار بھیج دیا.مولوی صاحب نے انہیں کہا ہم جانتے ہیں کہ یہ محض دکانداری ہے اور کچھ نہیں.بعد میں وہ ہمیشہ اس بات پر افسوس کیا کرتے تھے اور کہا کرتے تھے کہ اگر مجھ سے یہ غلطی نہ ہوتی اور میں مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کی بات مان کر واپس نہ چلا جاتا تو میں بھی صحابی ہوتا.مجھے مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی نے خراب کیا ہے.تو مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کی عادت تھی کہ وہ روزانہ اسٹیشن پر آتے اور اگر کوئی قادیان جانے والا انہیں مل جاتا تو اُسے ورغلاتے.ایک دن اتفاقا انہیں قادیان جانے والا کوئی شخص نہ ملا.پیر بلٹی چھڑانے گیا ہوا تھا.وہ ایک جگہ بیٹھا ہوا تھا کہ مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی اُسے جاملے.پیرے نے واپس آکر بتایا کہ میں بلٹی کے انتظار میں بیٹھا ہوا تھا اور مولوی محمد حسین بٹالوی میرے پاس آئے اور کہنے لگے پیرے ! سناؤ تم نے قادیان میں کیا دیکھا ہے کہ وہاں بیٹھے ہو.مفت میں تمہارا ایمان خراب ہو رہا ہے.میں نے انہیں جواب دیا کہ مولوی صاحب! میں پڑھا ہوا تو نہیں ہوں.میں نے صرف ایک چیز دیکھی ہے جو میں آپ کو بتا دیتا ہوں.میں آٹھ دس سال سے بلٹیاں چھڑا نے بٹالہ آیا کرتا ہوں اور میں نے دیکھا ہے کہ آپ روزانہ اسٹیشن پر آتے ہیں اور لوگوں کو بہکاتے ہیں.شاید آپ کی یہاں آتے جاتے کئی جوتیاں بھی گھس گئی ہوں گی لیکن لوگ پھر بھی قادیان جاتے ہیں اور مرزا صاحب کی بیعت کر لیتے ہیں.وہ بعض اوقات بیماری کی وجہ سے مسجد میں بھی نہیں آتے مگر لوگ دو دو گھنٹہ تک باہر بیٹھے رہتے ہیں.اس سے پتا لگتا ہے کہ مرزا صاحب ضرور بچے ہیں.اب دیکھو! جب خدا تعالیٰ کسی کی مددکرتا ہے تو وہ کیسے حیرت انگیز طریق پر اُس کی مدد کرتا ہے.مجھے یاد ہے ایک دن ایک امریکن اور اُس کی بیوی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو ملنے کے لیے قادیان آئے.مولوی محمد علی صاحب باہر تھے اور قادیان میں اور کوئی انگریزی جاننے والا
$1957 238 خطبات محمود جلد نمبر 38 نہیں تھا.پہلے میرا خیال تھا کہ اُس وقت مفتی محمد صادق صاحب نے ترجمانی کا کام کیا تھا.لیکن بعدی میں میرے داماد میاں عبدالرحیم احمد کے والد پروفیسر علی احمد صاحب نے جو پچھلے سال فوت ہوئے ہیں بتایا کہ اُس دن میں قادیان میں تھا اور میں نے ایم.اے پاس کیا ہوا تھا.میں نے اُس وقت ترجمان کی کے فرائض سرانجام دیئے تھے.بہر حال وہ دونوں میاں بیوی قادیان آئے.ملاقات کے دوران میں اس امریکن نے کہا کہ آپ نے مسیح موعود ہونے کا دعوی کیا ہے لیکن پہلے مسیح نے تو کئی نشانات دکھائے تھے.آپ بھی ہمیں کوئی ایسا نشان دکھا ئیں جو آپ کی صداقت کا ثبوت ہو.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنی انگلی اٹھائی اور اُن کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا آپ دونوں میاں بیوی میرا ایک نشان ہیں.اُس امریکن نے کہا ہم دونوں کیسے نشان ہو سکتے ہیں، ہم تو عیسائی ہیں اسلام کو ماننے والے نہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا آپ میری فلاں کتاب لے جائیں اور کسی سے پڑھا کر دیکھیں.اس میں میرا ایک الہام چھپا ہوا ہے کہ يَأْتِيكَ مِنْ كُلِّ فَجٍّ عَمِيقٍ يَأْتُونَ مِنْ كُلِّ فَجٍّ عَمِيقٍ 4 یعنی دنیا کے ہر گوشہ سے لوگ تیری زیارت کے لیے آئیں گے.اب امریکہ بھی دنیا کا ایک گوشہ ہے جہاں سے آپ دونوں آئے ہیں.اب آپ بتائیں کہ آپ دونوں کو کس طاقت نے یہاں بھیجا ہے؟ قادیان میں تو کوئی دیکھنے والی چیز نہیں.اگر محض سیر کے لیے کسی شہر میں آپ نے جانا ہوتا تو آپ بمبئی اور کلکتہ وغیرہ شہروں میں جاسکتے تھے.پھر آپ بتائیں کہ پ جب قادیان آرہے تھے تو رستہ کیسا تھا ؟ وہ کس قدر خراب اور شکستہ ہے اور یہ محض لوگوں کثرت سے آنے کی وجہ سے ہی ہوا ہے اور خدا تعالیٰ نے اس الہام میں مجھے اس بات کی چالیس سال قبل خبر دے دی تھی.وہ امریکن بہت گھبرایا اور کہنے لگا یہ بات تو سچ ہے کہ رستہ بڑا خراب تھا.اسی طرح ایک دفعہ ایک پادری قادیان آیا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام اُس وقت وہاں بیٹھے ہوئے تھے جہاں آجکل مدرسہ احمدیہ کی عمارت ہے.شاید کوئی جلسہ تھا یا کوئی اور بات تھی.وہ جی پادری احمدیت کا بہت بڑا دشمن تھا.اُس نے بعد میں ایک کتاب بھی لکھی جس کا نام ”مائی وزٹ ٹو قادیان (My Visit To Qadian ہے.اُس سے بھی اس پیشگوئی کا ذکر ہوا تو وہ کھڑا ہو گیا اور کہنے لگا آپ نے ٹھیک کہا ہے میں اسی طرح کی سڑک چل کر آیا ہوں.تو دیکھو! اللہ تعالیٰ کی مدد کے رستے کیسے عجیب ہوتے ہیں.جب وہ دینے پر آتا ہے تو اس طرح دیتا ہے کہ اس کا پہلے خیال
خطبات محمود جلد نمبر 38 بھی نہیں کیا جاسکتا.239 $1957 مجھے یاد ہے میں ابھی بچہ ہی تھا کہ کا ٹھگڑا ضلع ہوشیار پور کے ایک دوست عبد السلام صاحب میرے ساتھ پڑھا کرتے تھے.وہ کا ٹھگڑ ھ واپس گئے تو انہوں نے ایک پرائمری اسکول بنایا.بعد میں وہ مڈل اسکول ہو گیا.ان کے دو بیٹے اس وقت ربوہ میں ملازم ہیں.عبدالسلام صاحب کے والد کی زمین تو بہت تھوڑی تھی لیکن ان کے تایا بڑے زمیندار تھے.انہیں ایک تو ورثہ میں زمین ملی تھی اور پھر کچھ زمین انہوں نے خود بھی خریدی تھی.ایک دفعہ میں کا ٹھگڑ ھ گیا.میں جب وہاں سے چلنے لگا تو میرے اردگرد بہت سے لوگ جمع تھے.وہ کہنے لگے حضور ! اس طرف سے نہ جائیں.اس طرف فلاں آدمی رہتا ہے اور سخت دشمن ہے.وہ گالیاں دیتا ہے اور مارنے کو آتا ہے.اس لیے ڈر ہے کہ وہ کہیں حملہ نہ کر دے.لیکن میں نے ان کی اس بات کی پروا نہ کی اور اُسی رستہ پر چل پڑا.جب اُس شخص نے کی مجھے دیکھا تو وہ دوڑ کر میری طرف آیا.میرے ساتھیوں نے خیال کیا کہ شاید وہ حملہ کرنے آ رہا ہے اس لیے وہ لاٹھیاں لے کر ا کٹھے ہو گئے.لیکن وہ شخص انہیں دھگا دیتے ہوئے آگے بڑھا اور کہنے لگا.یہ صرف تمہارے ہی پیر نہیں ہمارے بھی پیر ہیں.کیا ہم نے ان کی زیارت نہیں کرنی ؟ پھر اُس نے ایک روپیہ نکال کر مجھے نذرانہ دیا اور کہا کہ یہ میری طرف سے نذر ہے اسے قبول فرما ئیں.اب دیکھ لو خدا تعالیٰ نے اس کے دل پر کیسا تصرف کیا.لوگ تو اس بات سے ڈر رہے تھے کہ وہ حملہ نہ کر دے اور وہ نذرانہ پیش کر رہا تھا.پس اگر آپ لوگ کمر ہمت کس لیں اور اس کام میں لگ جائیں تو خدا تعالیٰ لوگوں کے دل کھول دے گا اور وہ تین چار لاکھ روپیہ بڑی آسانی سے دے دیں گے جس سے آپ لوگ مسجد بنالیں گے.گھبرانے کی کوئی وجہ نہیں.صرف ہمت کی ضرورت ہے.اگر آپ لوگ ہمت اور ارادہ کر لیں گے تو خدا تعالیٰ خود آپ لوگوں کا حافظ و ناصر ہو گا.لیکن یہ اُسی وقت ہوسکتا ہے جب آپ سب اس کام کی طرف متوجہ ہو جائیں.قرآن کریم میں خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ اِنَّهُ كَانَ تَوَّابًا - 5 وہ یقیناً تو اب ہے.لیکن جب تک لوگ اُس کی طرف رجوع نہیں کرتے وہ بھی اُن کی طرف رجوع نہیں کرتا.اور جب لوگ اُس کی طرف رجوع کر لیتے ہیں تو وہ بھی اُن کی طرف رحمت کے ساتھ رجوع کرتا ہے.احادیث میں آتا ہے کہ جب دوزخ میں سے آخری آدمی نکالا جائے گا تو وہ خدا تعالیٰ.ނ
$1957 240 خطبات محمود جلد نمبر 38 کہے گا کہ اے خدا ! تو نے مجھے دوزخ سے تو نکال دیا ہے.اب تو مجھے پر مزید مہر بانی فرما اور مجھے اپنے فضل سے جنت کے دروازہ پر کھڑا کر دے.خدا تعالیٰ اُس کی دعا کو سنے گا اور اُسے جنت کے دروازہ پر لا کر کھڑا کر دے گا.جب وہ اُس کے دروازہ پر کھڑا ہوگا تو وہ کہے گا خدایا! جب میں دُور تھا تو جنت کی مجھے صرف رغبت محسوس ہوتی تھی لیکن اب تو میں دروازہ میں کھڑا ہوں اور جنت کی نعماء بھی دیکھ رہا ہوں.اب تو جنت کی نعماء دیکھ کر مجھ میں برداشت کی طاقت بالکل نہیں رہی.تو مجھے جنت کے دروازہ سے کچھ تھوڑی دور آگے کر دے تا کہ میں ان نعمتوں سے حظ اُٹھا سکوں.اللہ تعالیٰ فرمائے گا دیکھو ! میرا یہ بندہ کتنا حریص ہے.اور اس کے بعد کہے گا جنت کے سات دروازوں میں سے تو جس دروازہ میں سے چاہے جنت میں داخل ہو جا.تو دیکھو! جس شخص کو خدا تعالیٰ نے سینکڑوں سال تک دوزخ میں رکھا اس کو بھی وہ کہتا ہے کہ تو جس دروازہ سے چاہے جنت میں داخل ہو جا.6 پس تم خدا تعالیٰ سے اپنا تعلق بڑھاؤ اور اس کی طرف توجہ کرو.وہ تم کو بڑی عزت بخشے گا.ایک دفعہ تم مسجد بنانے کا عزم کر لو تو مسجد یقیناً بن جائے گی.اگر تم مسجد بنانے سے پہلے مر گئے تو بنی ہوئی مسجد دیکھنے کا مزا تمہیں حاصل نہیں ہوگا.لیکن اگر تم اپنی زندگی میں مسجد بنا گئے تو یہ مزا بھی پالو گے اور تمہاری مثال ایسی ہی ہوگی جیسے لطیفہ مشہور ہے کہ کسی دفتر میں کوئی کلرک تھا جسے سل ہو گئی.محکمہ کی طرف سے اُسے ہسپتال میں داخل کر دیا گیا.جب وہ ڈسچارج ہوا تو ہسپتال والوں نے کہا کہ اسے وزیر آباد اور سیالکوٹ کی سڑک پر چھوڑ آؤ وہاں سے یہ سواری لے کر اپنے گاؤں میں چلا جائے گا.چنانچہ اُسے سڑک پر لا کر چھوڑ دیا گیا.وہ سڑک پر چلا جا رہا تھا کہ اُسے ایک پہلوان نظر آیا جس کا سر منڈا ہوا تھا اور اُس نے اپنے سارے جسم پر تیل ملا ہوا تھا اور اکٹڑ اکٹر کر چل رہا تھا.اس مسلول کلرک کو شرارت سوجھی اور اُس نے پیچھے سے آ کر اُس کے سر پر ٹھینگا مارا.پہلوان پیچھے مڑا تو اُس نے اس مسلول شخص کو دیکھا.اُسے بڑا غصہ آیا اور اُس نے اُسے نیچے گرا کر خوب مارا.جب وہ مار مار کر تھک گیا تو وہ مسلول شخص کہنے لگا پہلوان صاحب ! آپ نے مجھے خوب مارا ہے اور اگر اور بھی مارنا چاہو تو بے شک مارلو لیکن جو مزا مجھے ٹھینگا مارنے میں آیا ہے وہ آپ کو مار میں نہیں آسکتا.اسی طرح اگر تم میں کوئی فوت ہو گیا اور مسجد اس کی زندگی میں نہ بنی تو جنت میں تو اُسے مکان مل جائے گا لیکن اُسے وہ مزا نہیں آئے گا جو اس دوسرے شخص کو آئے گا جس نے اپنی زندگی میں بنی ہوئی مسجد بھی دیکھ لی ہوگی.
$1957 241 خطبات محمود جلد نمبر 38 وہ خدا تعالیٰ سے کہے گا خدایا! تو بڑی قدرتوں والا ہے.تو جو چاہے کر سکتا ہے.تیری عطا کردہ جنت بھی بڑی اچھی ہے.لیکن دنیا میں جب ہم نے تیرا گھر بنایا تھا تو اُس کی لذت بھی کچھ کم لذت نہیں تھی.پس مسجد بناؤ اور یاد رکھو کہ اگر تم خدا تعالیٰ کی مدد کرو گے تو خدا بھی تمہاری مدد کرے گا“.( الفضل 29 نومبر 1957ء) :1 اجَعَلْتُمْ سِقَايَةَ الْحَاجَ وَعِمَارَةَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ كَمَنْ آمَنَ بِاللهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَ جَهَدَ فِي سَبِيلِ اللهِ لَا يَسْتَوْنَ عِنْدَ اللهِ وَاللهُ لَا يَهْدِى الْقَوْمَ الظَّلِمِينَ (التوبة: 19) 2: إِنَّمَا يَعْمُرُ مَسْجِدَ اللهِ مَنْ مَن بِاللهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَأَقَامَ الصَّلوةَ وَأَتَى الزَّكوة وَلَمْ يَخْشَ إِلَّا اللَّهَ فَعَلَى أُولَكَ أَنْ يَكُونُوا مِنَ الْمُهْتَدِينَ (التوبة: 18) :3 مسلم کتاب الزهد باب فضل بناء المساجد 4 : تذکرہ صفحہ 356 ایڈیشن چہارم 5 : النصر : 4 6 : بخاری کتاب الاذان باب فَضْل السُّجُوْد
$1957 242 32 خطبات محمود جلد نمبر 38 ربوہ کے دوستوں کو چاہیے کہ وہ جلسہ سالانہ کے مہمانوں کے لیے اپنے زیادہ سے زیادہ مکانات پیش کریں فرموده 22 نومبر 1957ء بمقام ربوہ ) تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: اب نومبر کی آخری تاریخیں چل رہی ہیں اور دسمبر میں اِنشَاءَ اللہ تعالیٰ ہمارا جلسہ سالانہ ہوگا.جلسہ سالانہ میں مہمانوں کے کھانے پینے کا جو انتظام ہوتا ہے وہ تو بہر حال صدر انجمن احمدیہ کے افسروں کے سپرد ہے اور وہ ہمیشہ اسے سرانجام دیتے چلے آئے ہیں اور اب بھی اسے وہی سرانجام دیں گے لیکن مکانوں کی بہت دقت پیش آئی ہے.لوگ عموماً اپنے مکانات میں اپنے رشتہ داروں کو جگہ دے دیتے ہیں اور اس طرح دوسرے لوگوں کو مناسب جگہ نہ ملنے کی وجہ سے تکلیف ہوتی ہے.میں نے صدر انجمن احمدیہ سے کہا تھا کہ وہ جلسہ سالانہ کے لیے تین پختہ بیر کیں بنوا دے.لیکن اس نے ابھی تک یہ پیر کیں نہیں بنوائیں.اگر یہ بیر کیں بن جائیں تو ایک حد تک دقت دور ہو جاتی.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اب ربوہ میں کافی مکانات بن گئے ہیں لیکن ابھی وہ اتنی تعداد میں نہیں بنے جلسہ کے تمام مہمانوں کو سنبھال سکیں.بعض لوگ یہ غلطی کرتے ہیں کہ وہ پہلے سے ہی منتظمین کو
$1957 خطبات محمود جلد نمبر 38 243 لکھنا شروع کر دیتے ہیں کہ ہمیں کوئی علیحدہ مکان دیا جائے ہم دوسرے لوگوں کے ساتھ نہیں رہ سکتے.اگر باہر سے آنے والے لوگ علیحدہ مکانات نہ مانگیں اور سب جلسہ سالانہ کے انتظام کے ماتحت یں اور وہ مکانات جو عموماً الگ ٹھہر نے والوں کو دیئے جاتے ہیں وہ بھی ایک انتظام کے ماتحت عام مہمانوں کو دے دیئے جائیں تو میرے نزدیک ساری دقت دور ہوسکتی ہے.پس میں دوستوں کو ہدایت کرتا ہوں کہ جن کے پاس دو کمرے ہوں وہ جلسہ سالانہ کے ایام میں ایک کمرہ میں سمٹ کر گزارہ کر لیں اور ایک کمرہ جلسہ سالانہ کے مہمانوں کے لیے دے دیں.اور جن کے پاس پانچ چھ کمرے ہوں وہ دو تین کمرے مہمانوں کو دے دیں اور باقی کمروں میں خود سمٹ جائیں.لیکن ان مکانات کے علاوہ صدر انجمن احمدیہ کی اپنی عمارتیں بھی ہیں.مثلاً لجنہ اماءاللہ کا ہال ہے، اسی طرح کالج، اسکول اور جامعہ احمدیہ کی عمارات ہیں.ان سے بھی جلسہ سالانہ کے ایام میں فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے.لجنہ اماءاللہ کے ہال اور دفتر میں تو عورتیں ٹھہرتی ہیں لیکن کالج ، ہائی اسکول اور جامعہ احمدیہ کی عمارتوں میں ہمیشہ مرد ٹھہرا کرتے ہیں.پھر اب تو انصار اللہ کا دفتر اور ہال بھی بن گیا ہے.ان ساری عمارتوں کو ملا کر دیکھا جائے تو مہمانوں کی ایک بہت بڑی تعداد کے قیام کا بخوبی انتظام ہوسکتا ہے.پچھلے سال ہمارے جلسہ سالانہ پر ساٹھ ہزار آدمی آئے تھے.اگر اس جلسہ پر بھی اسی قدر لوگ آئیں تو بڑی آسانی سے ان کے قیام کا انتظام ہو سکتا ہے.بہر حال آپ سب لوگوں کا فرض ہے کہ مل کر کوشش کریں اور خود تکلیف اُٹھا کر بھی مہمانوں کے لیے جگہ نکالیں کیونکہ یہ گاڑی کسی انسان نے نہیں چلائی بلکہ خدا تعالیٰ نے چلائی ہے اور اس کے پہلے گاڑی بان اسی کے حکم کے مطابق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام مقرر ہوئے ہیں.اس گاڑی کو چلانا اور منزل مقصود تک پہنچانا ہم میں سے ہر شخص کا فرض ہے.اگر ہم اس فرض کو پورا کرنے سے گریز کرتے ہیں تو ہم احمدیت کو بدنام کرتے ہیں.ہمیں اس غرض کے لیے کسی قسم کی قربانی سے بھی دریغ نہیں کرنا چاہیے.درحقیقت اصل قربانی تو باہر والے کرتے ہیں.وہ سردی کے موسم میں اپنا گھر بھی چھوڑتے ہیں، راستہ کے اخراجات بھی ادا کرتے ہیں، چندے بھی دیتے ہیں اور پھر یہاں آکر زمین پر سوتے ہیں.اگر وہ لوگ اتنی قربانی کرتے ہیں تو ربوہ والوں کو بھی اپنی ذمہ داری سمجھنے کی کوشش کرنی چاہیے.انہیں تو صرف
244 $1957 خطبات محمود جلد نمبر 38 دو تین دن تکلیف اٹھانی پڑتی ہے.لیکن باہر والے لوگ کئی کئی دن تک تکلیف اٹھاتے ہیں.پس اصل تکلیف انہی کی ہوتی ہے.ان کے مقابلہ میں ہماری ایک دو دن کی تکلیف کوئی حقیقت نہیں رکھتی.اگر ہم اپنے فرائض کو سمجھیں اور جو گاڑی خدا تعالیٰ نے چلائی ہے اس کو منزل مقصود تک پہنچا دیں تو اللہ تعالیٰ کی رضا ہمیں حاصل ہوگی اور وہ ہمارے ساتھ وہی سلوک کرے گا جو ہمیشہ سے اپنے مقربین کے ساتھ کرتا چلا آیا ہے..حضرت خلیفۃ اسیح الاول سنایا کرتے تھے کہ ایک بزرگ تھے اُن کی عادت تھی کہ وہ ضرورت مندوں کو دوسروں سے قرض لے کر دے دیا کرتے تھے اور جب وہ قرض واپس کرتے تو اصل روپیہ والوں کو پہنچا دیتے.ایک دن ایسا ہوا کہ کسی نے اپنا روپیہ واپس مانگا لیکن اُن کے پاس روپیہ موجود نہیں تھا.انہوں نے اُس شخص کو اپنے پاس بٹھا لیا اور کہا تم بیٹھ جاؤ.اللہ تعالیٰ کوئی سامان پیدا کر دے گا.تھوڑی دیر کے بعد وہاں سے ایک لڑکا گزرا جو حلوہ بیچ رہا تھا.اُس بزرگ نے لڑ کے سے حلوہ خرید کر اُس شخص کو کھلانا چاہا جو روپیہ واپس لینے آیا تھا.اس نے کہا آپ اس غریب کو کیوں پھنساتے ہیں؟ میرا تو قرض واپس نہیں ہوا اور اس سے پھر اُدھار لے رہے ہیں؟ انہوں نے فرمایا میاں ! جہاں سے خدا تعالیٰ تمہارے لیے روپیہ بھیجے گا وہاں سے اس حلوہ کی قیمت بھی دے دے گا.چنانچہ انہوں نے حلوہ خریدا اور اُسے کھلا دیا.تھوڑی دیر کے بعد ایک شخص آیا اور اُس نے ایک پڑیا اس بزرگ کو دی اور کہا کہ فلاں شخص نے اتنا روپیہ آپ کی خدمت میں پیش کیا ہے.اس بزرگ نے پڑیا کھولی تو اس میں قرض واپس کرنے کے لیے تو روپیہ تھا لیکن حلوہ کی قیمت ادا کرنے کے لیے رقم نہیں تھی.اس پر اُس بزرگ نے پیغامبر سے کہا میاں! میں نے آٹھ آنے حلوہ والے کے بھی دینے ہیں لیکن وہ اس میں نہیں.معلوم ہوتا ہے کہ یہ روپیہ میر انہیں بلکہ کسی اور کا ہے.اس پر پیغامبر واپس گیا اور اُس نے اس بزرگ کا پیغام روپیہ بھیجنے والے کو دے دیا.اُس نے کہا اس پڑیا کے ساتھ ایک اٹھتی بھی تھی جو میں نے تمہیں دی تھی وہ کہاں گئی ؟ اُس نے اپنی جیب دیکھی تو اُسے اٹھنی مل گئی جو اس نے ان واپس آ کر اُس بزرگ کو پہنچادی اور کہا کہ یہ ٹھنی پڑیا کے ساتھ ہی تھی لیکن غلطی سے میری جیب میں ہی رہ گئی تھی.پس انسان کا اصل سہارا تو خدا تعالیٰ ہی ہے اور وہی اپنے بندوں کی ضروریات کو
$1957 245 خطبات محمود جلد نمبر 38 پورا کرتا ہے.لیکن کوشش اور جدوجہد کرنا ہمارا فرض ہے.تم دیکھ لو! حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ میں جلسہ سالانہ پر آنے والے صرف چند آدمی ہوا کرتے تھے مگر اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے تم پر کتنا بڑا فضل کیا اور اس نے تمہاری تعداد کو کس قدر بڑھایا.اس وقت جماعت کی تعداد پندرہ سولہ لاکھ کی ہے حالانکہ ایک زمانہ وہ تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی زندگی کے آخری سال کے جلسہ پر صرف سات سو آدمی آیا تھا اور آپ اُن کو دیکھ کر بڑے خوش ہوئے تھے.مگر اس وقت غالباً خطبہ میں ہی اُس سے زیادہ لوگ بیٹھے ہوں گے.آپ سیر کے لیے باہر تشریف لے گئے تو مہمان بھی آپ کے ساتھ چلے گئے.راستہ میں بھیڑ کی وجہ سے آپ کو ٹھوکر لگتی تو پاؤں سے جُوتی اُتر جاتی.لوگ آگے بڑھتے اور آپ کو جوتی پہنا دیتے.جب بار بار جوتی اُتری اور آپ کو دوبارہ پہننے کے لیے کھڑا ہونا پڑا تو آپ نے فرمایا اب واپس چلنا چاہیے.معلوم ہوتا ہے کہ اب ہماری سیر کا زمانہ ختم ہو گیا ہے.لیکن اب خدا تعالیٰ نے سات سو کے مقابلہ میں تمہاری تعداد کو کس قدر بڑھا دیا ہے.حضرت خلیفتہ امسیح الاول کے آخری جلسہ پر کوئی گیارہ بارہ سو آدمی آئے تھے لیکن ہمارے پچھلے جلسہ ر ساٹھ ہزار آدمی آیا تھا جو حضرت خلیفہ امسیح الاول کے آخری جلسہ پر آنے والوں سے قریباً ساٹھ گنا زیادہ تھا اور ہر سال جلسہ پر آنے والوں کی تعداد میں ترقی ہوتی چلی جاتی ہے.تمہیں اس فضل کی قدر کرنی چاہیے اور اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنا چاہیے.اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ لبِن شَكَرْتُمْ لَأَزِيدَنَّكُمْ - 1 اگر تم شکر کرو گے تو اللہ تعالیٰ تم پر زیادہ سے زیادہ فضل نازل کرے گا.اس وقت ہماری جماعت کی تعداد پندرہ سولہ لاکھ ہے لیکن ہمارا جی چاہتا ہے کہ یہ تعداد دو اڑھائی ارب تک پہنچ جائے اور کوئی جماعت اس کے مقابلہ میں نہ ٹھہر سکے.یہ مقام ابھی بہت دور ہے اور اس کو نز دیک لانا خدا تعالیٰ کا کام ہے لیکن ہمارا بھی فرض ہے کہ ہم اس کے لیے کوشش کریں.ہم نے یورپ میں بھی کوشش کی لیکن ابھی وہاں ہماری تعداد میں کوئی نمایاں زیادتی نہیں ہوئی.فلپائن میں خدا تعالیٰ نے خود جماعت بنائی ہے لیکن ابھی تک وہاں بھی دو اڑھائی سو افراد ہی احمدیت میں داخل ہوئے ہیں.مغربی افریقہ میں بھی کوشش جاری ہے.گو اس وقت وہاں جماعت کی ترقی کی وہ رفتار نہیں جو پہلے تھی مگر پھر بھی جماعت کافی زیادہ ہے.پہلے تو چند دنوں میں ہی جماعت کی تعداد
246 $1957 خطبات محمود جلد نمبر 38 ایک لاکھ سے اوپر نکل گئی تھی اور پھر جن دنوں مولوی نذیر احمد علی صاحب وہاں کام کرتے تھے کئی لوگوں کو احمدیت کی سچائی کے متعلق خواہیں آئیں اور وہ احمدی ہو گئے اور بعض دفعہ تو گاؤں کے گاؤں احمدی ہوئے.لیکن اب وہاں جماعت کی ترقی کی رفتار میں کسی قدر کمی آگئی ہے.مگر اس میں ہمارے لیے کوئی گھبراہٹ کی بات نہیں.اللہ تعالیٰ چاہے گا تو یہ کی بھی پوری ہو جائے گی اور دوسرے ممالک میں بھی احمدیت کی تبلیغ کے لیے رستے گھل جائیں گے.چنانچہ ڈچ گی آنا سے اطلاع آئی ہے کہ وہاں لوگ بڑی کثرت سے احمدیت کی طرف رغبت کر رہے ہیں.وہاں جماعت نے ایک چھوٹا سا اسکول بھی کھولا ہے جس میں لڑکے بڑی تعداد میں داخل ہو رہے ہیں.انڈونیشیا میں بھی ترقی کے امکانات ہیں.غرض اللہ تعالیٰ چاہے گا تو سب کچھ ہو جائے گا اور جماعت کی تعداد بڑھتی چلی جائے گی.ہمیں صرف خدا تعالیٰ پر توکل کرنا چاہیے اور اپنی قربانیوں کو بڑھاتے چلے جانا چاہیے تا که لَبِنْ شَكَرْتُمْ لَأَزِيدَ نَكُم والی بات پوری ہو جائے.1 : ابراهيم: 8 الفضل 27 نومبر 1957 ء )
$1957 247 33 خطبات محمود جلد نمبر 38 سورۃ فاتحہ حسن کلام اور طبعی ترتیب کی ایک اعلیٰ مثال ہے اس سال ہمارے جلسہ سالانہ کو بعض ایسی خصوصیتیں حاصل ہوں گی جو پہلے کسی جلسہ کو حاصل نہیں ہوئیں فرموده 29 نومبر 1957ء بمقام ربوہ ) تشهد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: اللہ تعالیٰ کی کسی مشیت کے ماتحت اس سال گرمی بھی شدید پڑی ہے اور اب سردی کا موسم آیا ہے تو اس کا بھی یہ حال ہے کہ گزشتہ دو ہفتوں میں اتنی شدید سردی پڑی ہے کہ قوی سے قومی انسان بھی ٹھٹھر ا جا رہا ہے.میں چونکہ پہلے ہی بیمار ہوں اس لیے موسم کی اس تبدیلی نے میری صحت پر بہت بُرا اثر ڈالا ہے جس کی وجہ سے میرے لیے معمولی خطبہ دینا اور تقریر کرنا بھی مشکل ہو گیا ہے مگر بہر حال جمعہ ایک دینی فرض ہے اور اس کو ادا کرنا ہمارے لیے ضروری ہے اس لیے میں مسجد میں.آگیا ہوں.میں نے ابھی سورۃ فاتحہ پڑھی ہے.اس سورۃ میں جو تمام اہم مضامین کی جامع ہے اللہ تعالیٰ کی چار صفات کا ذکر کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَ اِيَّاكَ نَسْتَعِينُ - 1 یعنی ے خدا! ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ سے ہی مدد طلب کرتے ہیں.مجھے بچپن ނ
$1957 248 خطبات محمود جلد نمبر 38 قرآن کریم کا درس دینے کا شوق رہا ہے.میری عادت تھی کہ میں دوستوں کو جمع کر لیتا اور ان سے کہتا کہ قرآن کریم کے متعلق مجھ سے کوئی سوال کرو.اور جب وہ سوال کرتے تو میں انہیں جواب دیا کرتا تھا.اُن سوالوں میں سے ایک سوال یہ بھی تھا کہ اَلْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ 2 سے لے کر مُلِكِ يَوْمِ الدِّينِ 3 تک تمام صیغے غائب کے رکھے گئے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ گویا خدا تعالیٰ انسان کی نظروں سے اوجھل ہے اور وہ اس کی تعریف کر رہا ہے.مثلا وہ کہتا ہے اَلْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعَلَمِینَ ہر قسم کی تعریف اللہ تعالیٰ ہی کا حق ہے.جو تمام جہانوں کا رب ہے.اس فقرہ سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ انسان کے سامنے نہیں بلکہ غائب ہے.پھر کہتا ہے الرَّحْمنِ الرَّحِيمِ 4 وہ بے حد کرم کرنے والا اور بار بار رحم کرنے والا ہے.اس میں بھی خدا تعالیٰ کا وجود غائب ہے.پھر کہتا ہے مُلِكِ يَوْمِ الدِّینِ وہ جزا سزا کے دن کے وقت کا مالک ہے.اس فقرہ میں بھی غائب کا صیغہ استعمال کیا گیا ہے.لیکن اس کے معا بعد اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَ اِيَّاكَ نَسْتَعِينُ آ جاتا ہے جس میں انسان خدا تعالیٰ کو اس طرح مخاطب کرتا ہے کہ گویا وہ اُس کے سامنے کھڑا ہے.اور وہ اُس سے مخاطب ہو کر کہتا ہے کہ اے خدا! ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھے سے ہی مدد طلب کرتے ہیں.یہ عبارت بظاہر بے جوڑ معلوم ہوتی ہے اور بادی النظر میں یہ طریق این حُسنِ کلام کے خلاف دکھائی دیتا ہے.میں نے اس سوال کا یہ جواب دیا کہ یہ طریق حُسنِ کلام کے خلاف نہیں بلکہ حسن کلام کی ایک اعلیٰ مثال ہے.اصل بات یہ ہے کہ جب تک کسی چیز کی کامل معرفت حاصل نہیں ہوتی وہ انسان کی نظروں سے اوجھل ہوتی ہے.چونکہ الْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ کہنے سے پہلے انسان کو خدا تعالیٰ کی کامل معرفت حاصل نہیں تھی اِس لیے الْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعَلَمِيْنَ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ ـ مُلِكِ يَوْمِ الدِّینِ میں غائب کے صیغے استعمال گئے ہیں.گویا انسان خدا تعالیٰ سے کہتا ہے کہ اے خدا! میں نے ابھی تک تجھے پہچانا نہیں.صرف میرے کان میں یہ آواز آئی ہے کہ کوئی خدا ہے جو رب العالمین ہے، رحمان ہے، ہے، مُلِكِ يَوْمِ الدِّينِ ہے لیکن جب اَلْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعَلَمِيْنَ الرَّحْمَنِ | الرَّحِيمِ مُلِكِ يَوْمِ الدِّینِ پر غور کرنے کے بعد اسے خدا تعالیٰ کا جلوہ نظر آنے لگتا ہے تو وہ بے اختیار کہہ اٹھتا ہے کہ اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَ اِيَّاكَ نَسْتَعِينُ اے خدا! میں تیری ہی عبادت
$1957 249 خطبات محمود جلد نمبر 38 کرتا ہوں اور تجھ سے ہی مدد طلب کرتا ہوں.کیونکہ میں نے تجھے دیکھ لیا ہے.پہلے میں تجھے وہ وہ کر کے بلاتا تھا اب میں تجھے تو تو کر کے بلاتا ہوں.پہلے میں نے تجھے دیکھا نہیں تھا لیکن اب میں تجھے دیکھ چکا ہوں اور میری معرفت بڑھ چکی ہے.اس لیے اب میں تجھے براہ راست مخاطب کرتا ہوں اور تجھ سے امداد طلب کرتا ہوں.غرض قرآن کریم نے ان آیات میں ایک طبعی ترتیب رکھی ہے.سورۃ فاتحہ کی پہلی آیتوں میں غائب کے صیغے استعمال کیے کیونکہ اُس وقت تک خدا تعالیٰ کی معرفت تامہ مومن کو حاصل نہیں تھی لیکن جب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وسیلہ سے اُس کی جستجو کامل ہوگئی اور خدا تعالیٰ اُسے نظر آنے لگ گیا تو بے اختیار اس کے منہ سے نکلا کہ اے خدا! میں تیری ہی عبادت کرتا ہوں اور تجھ سے ہی مدد طلب کرتا ہوں.اب تو غائب نہیں رہا بلکہ اب تو مجھے اپنی روحانی آنکھوں سے نظر آنے لگ گیا ووه ، ہے.اور جب میں نے تجھے دیکھ لیا ہے تو اب تجھے ”وہ“ سے خطاب نہیں کر سکتا.بلکہ سلو سے ہی خطاب کروں گا کیونکہ تیری معرفتِ کاملہ حاصل ہو جانے کی وجہ سے تیری محبت میرے دل میں گھر کر گئی ہے.اور چونکہ رَبِّ الْعَلَمِيْنَ الرَّحْمنِ الرَّحِيمِ مُلِكِ يَوْمِ الدِّينِ کی صفات نے مجھے بتا دیا ہے کہ تجھ میں ہی مدد دینے کی طاقت ہے اور جب تک وہ نہ آئے گی میں کامیاب نہیں ہوسکتا اس لیے اب میں تجھ سے ہی مدد کا طلب گار ہوں.جب تک مجھے کامل معرفت نہیں ہوئی تھی میں سمجھتا تھا کہ میری مدد کرنے والا کوئی نہیں.لیکن اب مجھے پتا لگ گیا ہے کہ تیری ہستی دنیا میں موجود ہے اور تو بڑی طاقتوں والا ہے.اس لیے اب میں تیری ہی عبادت کرتا ہوں اور تجھ ہی سے مدد طلب کرتا ہوں.اِيَّاكَ نَعْبُدُ در حقیقت اَلْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ کے مقابلہ میں رکھا گیا ہے اور اِيَّاكَ نَسْتَعِينُ مُلِكِ يَوْمِ الدِّینِ کے مقابلہ میں - کیونکہ عبادت دنیا میں ہوتی ہے.دنیا میں انسان میں طاقت ہوتی ہے کہ وہ کوئی کام کرے.اس لیے وہ کہتا ہے اے خدا! میں تیری ہی عبادت کرتا ہوں تا کہ اس کے نتیجہ میں تیری رضا حاصل ہو.لیکن مُلِكِ يَوْمِ الدِّینِ میں آخرت کا ذکر ہے اس لیے مُلِكِ يَوْمِ الدِّینِ کے مقابلہ میں وہ اِيَّاكَ نَعْبُدُ نہیں کہہ سکتا تھا کیونکہ عبادت کا وقت تو گزر گیا اور وہ وقت آ گیا جو جزا سزا کے لیے مقرر تھا.اس لیے اس کے مقابلہ میں وہ کہتا ہے کہ اِيَّاكَ نَسْتَعِينُ اے خدا! ہمارے کام کا زمانہ
$1957 250 خطبات محمود جلد نمبر 38 گزر گیا ہے اب ہم دنیا میں نہیں رہے جہاں کام کی طاقت ہم میں پائی جاتی تھی بلکہ ہم مر گئے ہیں اور تیرے سامنے حاضر ہیں.اس لیے ہم تجھ سے ہی مدد طلب کرتے ہیں اور درخواست کرتے ہیں کہ تو ہم پر رحم فرما.قرآن کریم میں لکھا ہے کہ جب کا فرجہنم کی تکلیف کو برداشت نہیں کر سکیں گے تو وہ خدا تعالیٰ سے کہیں گے کہ اے خدا! تو ہمیں اس آگ سے نکال لے.ہم اقرار کرتے ہیں کہ آئندہ ہم ہمیشہ نیک اعمال بجالائیں گے اور کبھی تیری نافرمانی نہیں کریں گے.اللہ تعالیٰ انہیں یہی جواب دے گا کہ کیا ہم نے اس سے پہلے تمہیں دنیا میں ایک لمبی عمر عطا نہیں کی تھی ؟ پھر تم نے اُس وقت کیوں کوئی نیک کام نہ کیا؟ اب یہ عمل کی جگہ نہیں.عمل کی جگہ دنیا تھی.اب تم اپنے بد اعمال کا نتیجہ بھکت.5 غرض رَبِّ الْعَلَمِيْنَ اور الرَّحْمَنِ الرَّحِیمِ کا تعلق چونکہ دنیوی زندگی سے تھا اس لیے انسان کہتا ہے کہ اِيَّاكَ نَعْبُدُ اے ہمارے رب! ابھی ہم دنیا میں زندہ موجود ہیں، ہم میں عمل کی طاقت ہے اور ہم اعمال کے ذریعہ تیری مددکو کھینچ سکتے ہیں.اس لیے ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں.مگر جب وہ وقت گزر گیا اور یومِ الدِّینِ کا زمانہ آ گیا تو وہ کہتا ہے اے خدا! دنیا سے ہم گئے جو عمل کی جگہ تھی.اور ہم واپس بھی نہیں جا سکتے کیونکہ تیرا قانون ہے کہ مُردے واپس دنیا میں دوبارہ زندہ نہیں ہو سکتے.اب ایک ہی صورت ہے کہ تو ہی مددفرما تا کہ ہم عذاب سے بچ جائیں.غرض یہ مضمون ہے جو اس سورۃ میں بیان کیا گیا ہے.یہ سورۃ نہایت مختصر یعنی صرف سات آیات کی سورۃ ہے لیکن اس میں بڑے بڑے لطائف اور غرائب بیان کیے گئے ہیں.ہمارا جلسہ سالانہ اب خدا تعالیٰ کے فضل سے بالکل قریب ہے.میں نے پچھلے جمعہ میں تحریک کی تھی کہ ربوہ والے جلسہ سالانہ کے مہمانوں کے لیے اپنے مکانات دیں لیکن میں سمجھتا ہوں کہ جہاں اہلِ ربوہ کا یہ فرض ہے کہ وہ مہمانوں کی خدمت کریں اور اُن کی رہائش کے لیے مکانات دیں وہاں باہر سے آنے والوں کا بھی فرض ہے کہ وہ اہلِ ربوہ کی اس قربانی کی قدر کریں جو وہ یہاں رہ کر کر رہے ہیں.یہ جلسہ سالانہ بڑی خصوصیتوں والا ہے.کیونکہ اس جلسہ پر خدا تعالیٰ کے فضل سے سارے قرآن کی ایک مکمل لیکن مختصر تفسیر شائع ہو جائے گی.حدیث کے متعلق بھی ایک کتاب شائع ہو جائے گی.اسی طرح اور بھی بعض کتابیں شائع ہوں گی.اس کے علاوہ اس موقع پر جیسا کہ میں
خطبات محمود جلد نمبر 38 251 $1957 اعلان کر چکا ہوں ایک نئی قسم کا وقف جماعت کے سامنے پیش کیا جائے گا.یہ ساری خصوصیتیں ایسی ہیں جو پہلے کسی جلسہ میں نہیں ہوئیں.اس لیے دوستوں کو کثرت کے ساتھ آنے کی کوشش کرنی ہی چاہیے.جلسہ سالانہ کے موقع پر خود آ کر میری زبان سے باتیں سنا گھر میں بیٹھ کر اخبار میں تقریریں پڑھنے کی نسبت بہت زیادہ بابرکت ہے.بہر حال جہاں ربوہ والوں نے سارے سال کے لیے اپنے آپ کو مرکز کے لیے قربان کیا ہے اور یہاں آ کر بس گئے ہیں وہاں باہر والوں کو بھی چاہیے کہ وہ سالانہ پر ربوہ آئیں.اور اگر سارا سال وہ وقف نہیں کر سکتے تو تین دن تو ربوہ کے لیے وقف کریں.اگر کوئی شخص سارا سال ربوہ میں نہیں رہا تو کم از کم تین دن کے لیے تو وہ یہاں آ جائے.ورنہ جو شخص تین دن بھی مرکز کے لیے وقف نہیں کرتا اُس کی زندگی کا کیا فائدہ؟ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ایک دفعہ جلسہ سالانہ پر آنے کی دوستوں کو تحریک کی تو بڑے درد سے فرمایا کہ:.مبائعین محض للہ سفر کر کے آویں اور میری صحبت میں رہیں اور کچھ تبدیلی پیدا کر کے جائیں کیونکہ موت کا اعتبار نہیں“.6 پس تم بھی جلسہ سالانہ کے موقع پر آؤ اور جلسہ میں شامل ہو کر اس سے فائدہ حاصل کرو اور ملاقات کر لو.کیونکہ پتا نہیں کہ پھر بعد میں ملاقات کا کوئی موقع میسر آئے یا نہ آئے“.الفضل 5 دسمبر 1957 ء ) 1 : الفاتحة: 5 2 : الفاتحة: 2 3 : الفاتحة: 4 4 : الفاتحة: 3 5 : وَهُمُ يَصْطَرِخُوْنَ فِيهَا رَبَّنَا أَخْرِجْنَا نَعْمَلْ صَالِحًا غَيْرَ الَّذِي كُنَّا نَعْمَلُ أَوَلَمْ نُعَمِّرْكُمْ مَّا يَتَذَكَّرُ فِيْهِ مَنْ تَذَكَّرَ وَجَاءَ كُمُ النَّذِيرُ فَذُوقُوا فَمَا لِلظَّلِمِيْنَ مِنْ نَّصِيرِ (فاطر: 38) 6 اشتہار التوائے جلسہ 27 دسمبر 1893 ء.مجموعہ اشتہارات جلد 1 صفحہ 361
$1957 252 34 خطبات محمود جلد نمبر 38 احباب کثرت کے ساتھ جلسہ سالانہ پر آئیں اور جلسہ کی برکات سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھائیں (فرموده 20 دسمبر 1957ء بمقام ربوہ ) تشهد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: ”جیسا کہ احباب کو معلوم ہے کہ اب ہمارا جلسہ سالانہ بالکل قریب ہے.اگلا جمعہ جو 27 دسمبر کو ہو گا جلسہ سالانہ کے عین درمیان آئے گا اور جلسہ سالانہ کا افتتاح 26 دسمبر کو ہو جائے گا اور 27، 28 دسمبر کو میری تقریریں ہوں گی جن کے بعد جلسہ سالانہ ختم ہو جائے گا.چونکہ خطبہ کے صاف کرنے اور اس پر نظر ثانی کرنے میں اور پھر اس کے الفضل میں شائع ہونے پر کئی دن لگ جاتے ہی ہیں اس لیے اگر خطبہ نویس خطبہ صاف کر کے الفضل کو اشاعت کے لیے دے بھی دے تو یہ خطبہ جلسہ سالانہ سے پہلے چھپ کر جماعتوں میں نہیں جا سکتا اور وہ اس سے پورا فائدہ نہیں اُٹھا سکتیں.اس لیے جہاں تک دنیوی سامانوں کا سوال ہے ہم اپنے جلسہ کی کامیابی کے لیے اب سوائے اس کے کچھ نہیں کر سکتے کہ ہم خدا تعالیٰ سے ہی دعا کریں کہ اے خدا ! کام کا وقت اب ہمارے ہاتھ سے نکل چکا ہے اور جلسہ سالانہ بالکل قریب آ گیا ہے.ہمارا کوئی پروپیگنڈا اب ہمیں فائدہ نہیں دے سکتا.
$1957 253 خطبات محمود جلد نمبر 38 صرف تیری اور تیرے فرشتوں کی تحریک ہی ہے جو فائدہ پہنچا سکتی ہے.اس لیے تو یہاں کے لوگوں کو تحریک کر کہ وہ اپنے فرائض کو اچھی طرح ادا کریں اور جلسہ سالانہ پر آنے والے مہمانوں کی مہمان نوازی کریں.اور باہر والوں کے دلوں میں تحریک کر کہ وہ نیک ارادوں اور نیک مقاصد کو لے کر یہاں کثرت کے ساتھ آئیں.اور پھر یہاں آ کر وہ اپنا وقت ضائع نہ کریں بلکہ جلسہ کے اوقات میں بھی اور بعد میں بھی تسبیح اور تحمید میں لگے رہیں تا کہ وہ جلسہ سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اُٹھا ئیں.اور جب وہ یہاں سے واپس جائیں تو اُن میں اس قدر تبدیلی پیدا ہو چکی ہو کہ وہ پہلے جیسے انسان نہ ہوں بلکہ وہ خدا تعالیٰ کے فرشتے ہوں جو آسمان سے اُترے ہوں.در حقیقت ہماری مثال اس وقت ویسی ہی ہے جیسے پہلی جنگ عظیم میں ایک موقع پر ایسی خطر ناک صورت پیدا ہوئی کہ شہنشاہ جرمنی کی فوج نے اتحادیوں کی فوج میں رخنہ پیدا کر دیا.لیکن اُس وقت شاید بادلوں کی وجہ سے یا اس وجہ سے کہ دھواں اُن کے سامنے آ گیا جرمن فوج کو اس رخنہ کا علم نہ ہو سکا.جب اتحادیوں کو اس رخنہ کا پتا لگا تو فرانسیسی جرنیل نے انگریزی فوج کے جرنیل کو بلایا اور کہا کہ تم اس رخنہ کو پُر کرنے کا انتظام کرو.اُس جرنیل نے کہا ہماری فوج پچاس ساٹھ میل دور ہے اور جب تک وہ فوج آئے گی جرمن فوج شہر میں داخل ہو جائے گی اس لیے اب فوج کو بلانا بیکار ہے.تب فرانسیسی جرنیل نے ایک کنیڈین جرنیل کو بلایا.وہ آرڈی نینس 1 پر مقررتھا.اُس کے ماتحت لڑا کا سپاہی نہیں تھے بلکہ نائی، دھوبی ، بڑھتی ، موچی اور نان پز وغیرہ تھے.فرانسیسی جرنیل نے اُسے کہا میں نے تمہاری بہت مشہرت سنی ہے.کیا تم کوئی ایسی صورت نہیں کر سکتے کہ کسی طرح اس رخنہ کو آٹھ دس گھنٹے تک پُر کر دو؟ پھر باقاعدہ فوج آگئی تو وہ دشمن کو روک لے گی.اُس نے کہا ہاں میں ایسا کر سکتا ہوں.چنانچہ وہ وہاں سے واپس گیا اور اُس نے اپنے سب نائیوں ، دھوبیوں، موچیوں ، بڑھیوں، لوہاروں ، باورچیوں اور نان پزوں کو اکٹھا کیا اور کہا تمہیں بھی کئی دفعہ جوش آتا ہو گا کہ کاش! ہمارے پاس بھی ہتھیار ہوتے تو ہم وطن کے لیے اپنی جانیں لڑا دیتے.تم سوچتے ہو گے کہ لڑنے والے لوگ کتنا ثواب حاصل کر رہے ہیں اور وطن کے لیے اپنی جانیں لڑا رہے ہیں.لیکن آج تمہارے لیے بھی موقع پیدا ہو گیا ہے اور آج تم بھی وہی فخر حاصل کر سکتے ہو جو انہیں حاصل ہے.لیکن یاد رکھو کہ میرے پاس اس وقت کوئی بندوق اور اسلحہ نہیں.وہ پچاس ساٹھ میل پیچھے ہے اور اسے محاذ سے دور
$1957 254 خطبات محمود جلد نمبر 38 اس لیے چھپایا گیا ہے تا کہ وہ دشمن کے ہاتھ نہ آ جائے اور اسے یہاں لانے کے لیے اب کوئی وقت نہیں.اس لیے تم میں سے ہر پیشہ والا اپنا سامان جس کے ساتھ وہ کام کرتا ہے ساتھ لے لے اور چل پڑے.لوہار اپنا ہتھوڑا لے لے، بڑھئی کلہاڑا پکڑ لے اور نان پز اپنی سلاخ ہاتھ میں لے لے اور دشمن سے مقابلہ کے لیے تیار ہو جائے.انہوں نے کہا ہم حاضر ہیں.چنانچہ وہ اپنا اپنا ہتھیار لے کر فوراً اس مقام کی طرف روانہ ہو گئے جہاں دشمن نے رخنہ پیدا کر دیا تھا اور انہوں نے اُس رخنہ کو اُس وقت تک رو کے رکھا جب تک کہ با قاعدہ فوج نہ پہنچ گئی.اس وقت تک بادلوں یا دھوئیں کی وجہ سے دشمن کو یہ پتا نہ لگ سکا کہ اُن کے سامنے با قاعدہ فوج نہیں کھڑی بلکہ صرف نائی، دھوبی ، موچی اور نان پز وغیرہ کھڑے ہیں اور اُس نے ڈر کر پیش قدمی نہ کی.بعد میں جب با قاعدہ فوج وہاں پہنچ گئی تو اُس نے اُس رخنہ کو روک لیا.اُس وقت جب رخنہ واقع ہو گیا تھا انگریزی فوج کے کمانڈر نے اُس وقت کے برطانوی وزیر اعظم مسٹر لائڈ جارج کو تار دی کہ اس وقت حالت سخت نازک ہے، دشمن نے ہماری فوج کی کے درمیان رخنہ پیدا کر دیا ہے اور اس رخنہ کو پُر کرنے کے لیے پیچھے سے فوج نہیں آ سکتی.اب ہمارے پاس صرف نائی، دھوبی، موچی، بڑھئی اور نان پر ہی ہیں جن کو ہم نے بلایا ہے اور کہا ہے کہ وہ آ کر اس رخنہ کو پُر کریں اور آپ کو پتا ہی ہے کہ نائی اور دھوبی وغیرہ لڑ نہیں سکتے.جب یہ تار گئی تو مسٹر لائڈ جارج اپنی کا بینہ سے لڑائی کے بارہ میں مشورہ کر رہے تھے.جب انہوں نے یہ تار پڑھی تو انہوں نے اپنے ساتھی وزراء سے کہا بھائیو! جس بات پر ہم غور کر رہے تھے اُس کا وقت گزر گیا ہے.اب ہمارے باہمی مشوروں کا کوئی فائدہ نہیں.اب صرف ایک ہی راہ رہ گئی ہے کہ خدا تعالیٰ ہماری مدد کرے.اس لیے آؤ! ہم اپنے گھٹنے ٹیک کر اُس کے سامنے گر جائیں اور اُس سے کہیں کہ وہ ہماری مدد کرے.چنانچہ وہ خود بھی اور باقی وزیر بھی گھٹنے ٹیک کر خدا تعالیٰ کے حضور گر گئے اور انہوں نے دعا کی کہ اے خدا! اب کوئی دنیوی تدبیر باقی نہیں رہی.اب تو خود ہمارے بچاؤ کی کوئی صورت پیدا کر اور ہمیں دشمن کے حملہ سے بچالے.چنانچہ خدا تعالیٰ نے اُن کی یہ دعا اس طرح سنی کہ نائیوں ، دھوبیوں، بڑھیوں اور لوہاروں نے وہ رخنہ روکے رکھا.یہاں تک کہ با قاعدہ فوج آگئی اور دشمن کو اُس رخنہ کا علم تک نہ ہو سکا.ہماری بھی اس وقت یہی حالت ہے.ہم بھی اب کچھ نہیں کر سکتے کیونکہ اب دنیوی تدابیر کا
$1957 255 خطبات محمود جلد نمبر 38 وقت نکل گیا ہے.نہ تو وہم وعظ و نصیحت کے ذریعہ لوگوں کو جوش دلا سکتے ہیں کیونکہ جوش دلانے کے لیے بھی وقت کی ضرورت ہوتی ہے اور نہ تحریک کرنے کے لیے باہر مبلغ بھجوا سکتے ہیں.اگر باہر مبلغ بھیجے جائیں تا کہ وہ لوگوں کو یہاں آنے کی تحریک کریں تب بھی کچھ دن لگ جائیں گے اور اُس وقت تک جلسہ آ جائے گا.جماعتوں والے خود تحریک کریں تو اس کے لیے بھی کچھ وقت درکار ہوگا.اگر یہ خطبہ چھپ بھی جائے تب بھی یہ باہر کی جماعتوں کو وقت پر نہیں مل سکتا.اس لیے اب یہی صورت ہے کہ ہم سب خدا تعالیٰ کے حضور گر جائیں اور اُس سے دعا کریں کہ اے خدا! اب ہماری تدبیر کا وقت گزر گیا.اب تو ہی لوگوں کو تحریک کر کہ وہ زیادہ سے زیادہ تعداد میں جلسہ پر آئیں اور پھر یہاں آکر جلسہ سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھائیں.انہیں جلسہ سے اتنا فائدہ پہنچے کہ وہ معمولی انسان جو یہاں آئیں فرشتے بن کر واپس جائیں اور تیری رحمتیں اور برکتیں اُن پر بھی ہوں جو یہاں آئیں.اور ان پر تنی بھی ہوں جن کا یہاں آنے کا ارادہ تو ہو لیکن وہ کسی وجہ سے نہ آ سکیں.پھر تیری رحمتیں اور برکتیں اُن کی لوگوں پر بھی ہوں جو یہاں رہتے ہیں.سب رحمتیں اور برکتیں تیرے ہی اختیار میں ہیں ہم تو محتاج ہیں.لیکن ہماری احتیاج کو پورا کرنے کی تجھ میں ہی قدرت ہے.تو ہماری احتیاج کو پورا فرما اور ہمیں اپنی برکات سے مالا مال کر.(الفضل 24 دسمبر 1957ء) 1 : آرڈی نینس : (ORDINANCE) توپ خانہ.محکمہ حرب.فوجی سامان مہیا کرنے کا محکمہ
3 LO 5 6 7 12 16 1 اٹریکس مرتبہ : مکرم فضل احمد شاہد صاحب 1- آیات قرآنیہ 2.احادیث نبویہ 3.الہامات حضرت مسیح موعود 4.اسماء 5.مقامات 6.کتابیات
3 آیات قرآنیہ رَبَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوبَنَا (91) 57 التوبة رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمُ 248 مَنْ دَخَلَهُ كَانَ آمِنًا (98) 45 (100) لَقَدْ جَاءَ كُمْ رَسُولٌ مِّنْ 59 59 أنفُسِكُمُ 61 207 (128) 159 الفاتحة الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ (2) الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ (3) 248 وَتَوَفَّنَا مَعَ الْأَبْرَارِ (194) ملِكِ يَوْمِ الدِّينِ النساء (4) إِيَّاكَ نَعْبُدُ (5) البقرة ومَن يَهَاجِرُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ يوسف 248 247 (101) الاعراف وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّي خَلَقْتَنِي مِنْ نَّارٍ 204 لَا تَيْتَسُوا مِنْ رَّوْحِ اللَّهِ (88) إِنِّي لَا جِدُ رِيحَ يُوسُفَ 36.14 163 (95) 203 حَتَّى إِذَا اسْتَيْنَسَ الرُّسُلُ 245 (111) 203 ابراهيم (13) 200-140 (187) أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ انا خير منه (13) 176 الانفال مَا رَمَيْتَ إِذْ رَمَيْتَ لَئِنُ شَكَرْتُمْ لَا زِيدَنَّكُمُ (8) 168 (18) 148 (187) آل عمران كُونُوا رَبَّانِيِّينَ (80)
النجم دَنی فَتَدَلَّی (9) المنافقون 16 يَحْسَبُونَ كُلَّ صَيْحَةٍ عَلَيْهِمْ 91 215 239 (5) النصر إِذَا جَاءَ نَصْرُ اللَّهِ (402) 63 208 4 النحل النور اُدْعُ إِلَى سَبِيلِ رَبِّكَ لَقَدْ أَنزَلْنَا ايت (126) وَاصْبِرُ وَمَا صَبْرُكَ (128) بنی اسرائیل أَقِمِ الصَّلوةَ لِدُلُوكِ الشَّمسِ (80) (47) 194 الشعراء 165 لَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَّفْسَكَ (4) النمل 180 أَمَّنْ يُجِيبُ الْمُضْطَرَّ هَلْ كُنتُ إِلَّا بَشَرًا رَّسُولًا (63) 176 إِنَّهُ كَانَ تَوَّابًا (4) الفاطر 200 194 (94) الانبياء وَجَعَلْنَا السَّمَاءَ سَقْفًا وَالْعَمَلُ الصَّالِحُ (11) 174 (33)
5 أَصْحَابِي كَالنُّجُومِ 152 احادیث تیرے احادیث کا معنی تیر ے بھائی کا پیٹ امتحان نہ مانگو جھوٹا ہے 2 کیا میں اس کے احسان کا شکریہ اللَّهُمَّ إِنَّا نَجْعَلُكَ 143 بعض آدمی خدا کی قسم کھا کر نہ ادا کروں ؟ اللَّهُمَّ حَوَالَيْنَا 100 بات کریں 142 ، 143 جولوگ مسجد میں جمع ہیں أَنَا عِنْدَ ظَنْ عَبْدِي بِي ل 101.36 تم ایک تہائی کی وصیت کرو 155 انھوں نے درست کیا رستی اُتار دو عید کے دن روزہ رکھنے والا شیطان لَنَا مَوْلَى وَلَا مَوْلَى لَكُمُ 93 جمعہ کو روزہ نہ رکھو 156 156 156 176 211 212 عورتوں کو فلاں جگہ جمع کرو 212 جو شخص خانہ کعبہ میں داخل ہو گا 224 جو کوئی دنیا میں مسجد بناتا ہے 230 اے عورت تیرا ایک ہاتھ سورج مغرب کی طرف سے 170 | دوزخ سے بچ گیا 232
6 الہامات حضرت مسیح موعود ی عربی الہامات يَأْتِيكَ مِنْ كُلَّ فَجٍّ عَمِيقٍ اردو الہامات سَمَّيْتُكَ الْمُتَوَكِّل 201 م مَنْ دَخَلَهُ كَانَ آمِنًا 45 ایک کا ہوگا 238 خدا تیرے نام کو قائم رکھے 163.162 پنجابی الہامات خدا دو مسلمان فریق میں سے جے توں میرا ہور ہیں سب جگ 135 تیرا ہو 84
18 196 212210 7 اسماء اسعلی 40 اور نگ زیب عالمگیر احتجاج علی 89 اور یا بن حنان احمد بن حنبل 152 | ایاز 150 39037 آئزن ہاور آدم علیہ السلام - حضرت 163،159، 166،164، احمد سرہندی اروڑے خان منشی.حضرت 76 77 باقی باللہ.حضرت خواجہ 75 اسد اللہ خان چودھری 229 بختیار کا گئی.حضرت خواجہ 183 208.203 89 ابتہاج علی ابراہیم علیہ السلام.حضرت بشیر احمد حضرت مرزا 32،31 163،159،49 164، اسماعیل علیہ السلام.حضرت بشیر احمد.(حضرت شیخ) 230-229 225.224 44.43 237.236 47 178.177 196.166 ابراہیم ادھم 75 اسود عنسی ابن تیمیه 75 اللہ بخش 53.52 190 89 بلال - حضرت بند را نائیکے ابن عباس 197 الیاس علیہ السلام حضرت 159 ابن قیم 75 الیگزنڈر رسل ویب ابوالمنصور 28 امام بی بی 170 89 پیرا ابوبکر حضرت 76، 93، امتہ الحی ( حرم حضرت مصلح موعود ) $220.218.190.103.97 86.23 222 ام حبیبہ - حضرت 222 خوبی صاحبہ ابو جہل 67،65،64، 70، ام ناصر حضرت سیدہ 216،190،168،167 | امری عبیدی ابوسفیان.حضرت 74 ،92 تا امیر احمد مرزا میجر 92،74 221،168،94 تا 224 انس بن نضر 31 115 124 98196 ٹالسٹائے 236 ٹلٹاک پروفیسر 8 تا 11 ،123 ابو ہریرہ.حضرت 143،142 | انوار حسین خاں
8 ث و سلطان محمود غزنوی 211،210 سلیمان علیہ السلام حضرت 197 ثناء اللہ مولوی امرتسری 76، داؤد علیہ السلام - حضرت 196 سید احمد بریلوی حضرت 150 102.99 で جلال الدین شمس.حضرت مولانا جلال الدین.انسپکٹر جنید بغدادی.حضرت جہانگیر 131.22 78 75 191.166 چ چراغ الدین میاں چواین لائی 227 39037 حامد شاہ میر 17 ڈ ڈارون 159.158 سید احمد سرہندی ش 191.166 ڈگلس.سر 77، 80 تا 82 شاہ نواز ڈاکٹر شیلی 36.32 75 شداد 141 راجندر پرشاد رازی (پیغامی) 28 206 یہ السلام - حضرت رحمت اللہ شیخ 169 شکری القوتلی رحمت خان چودھری 32، 36 ، 37 شمر شمس الدین 163.159 44 227 ز زکریا علیہ السلام حضرت 159 163 صدر الدین مولوی زینب.حضرت 156 206 حسین حضرت امام 150 151 حمزہ.حضرت $72.64 221.217.167 عاص سٹالن 40 عامر بن فهيره سجاح خ سراقہ سرمد خالد بن ولید حضرت 64، سرورشاہ حضرت مولوی 190 219 19.18 236 عباس.حضرت عبد الاحد - پٹھان 32 | عبدالجبار خان ملک 72، 225 | سلطان احمد.حضرت مرزا خان میر 113 عبد الحق شیخ 99 سلطان محمود انور مولانا も 72 220 $223 226-224 99 128 47
عبدالحمید عبدالرحمان - حکیم عبدالرحیم عبد السلام 9 166 164.162.161.151.71 183.171169.167 226.222.190 81 علی.حضرت 47 238 علی احمد پروفیسر 239 عبدالغفور خان (کراچی) 113 عبدالغفور خان (پشاور) 113 عبد القادر جیلانی.حضرت سید 228 209 201.192 238 245 243 238 235 90 251 $97.70 علی بخش.چودھری عمر حضرت 228 80 32 128 غلام حسین مولوی غلام حیدر غلام رسول چودھری غلام محمد 223 222 190 ی علیہ السلام.حضرت 53.47.46 $27 233.75 128 128 عبد القادر خاں عبد القيوم $149.136.133.99.78 166 164 163.159 33.2422 208 201 181.176 عبدالکریم سیالکوٹی.حضرت مولانا عبداللطیف.حضرت صاحبزادہ 128 غ عبداللطیف - مبلغ جرمنی 9 تا 11 عبداللطیف خان عرف ننھا غزالی.حضرت امام 98، 236 غلام احمد قادیانی.75 فاطمہ.حضرت فتح محمد صاحب چودھری فرعون 220.161 82 193189.141 فرید الدین شکر گنج ".حضرت باوا فضل احمد بابو فضل بی بی 191.183.75 90 89 عبد اللہ بن عمرو 70 71 حضرت مرزا مسیح موعود علیہ السلام فضل خاں چودھری کھوکھر 128 عبد اللہ بن سبا عبد اللہ پروفیسر عبدالماجد مولوی.خسر حضرت مصلح موعود 190 166 13 t 11 5 4 3 فضل دین 15 تا 24 ، 31، 32 ، 37 ، 45 تا فضل محمد کابلی 82.80.7875.47 102.98-89.87.86.84 237 ق 47 89 عثمان.حضرت 190 104، 112 ، 133 ، 135 ، قطب الدین بختیار کا گئی.حضرت عکرمہ حضرت 150 149 138 137 7064 191.75
10 محمد حسین قریشی مفرح عنبری محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم 228.227.116 227 108 125 قطب الدین مستری قیصر 81 224.221.212 (حضرت خاتم الانبیاء 442، محمد حسین حکیم مرہم عیسی کرم دین تھیں ،166،83 ، 235 12 ، 20 ، 21، 26، 27، 29، محمد دین.ماسٹر 30، 47،37، 53،52 ، 58 ، محمد صادق بیگ مرزا 59، 4 6 تا 74، 76، 83، محمد صادق حضرت مفتی 238.147.108 224.221 $84.83 کسرای کمال الدین خواجہ 100.98.97.9592.84 228.227.166.161 گاندھی ل 200 199.191-189 لانڈ جارج لال حسین اختر احراری 254 102 208 209، 211 تا 226، محمد عمر حلیم.لوط علیہ السلام - حضرت 159 لیکھرام محمد ابراہیم.مولوی 235 لیمار چنڈ 81 محمد اسماعیل ڈاکٹر گوریانی 236 103،101، 142، 143 ، محمد ظفر اللہ خان.حضرت.سر 156154.152148 53،26،25، 110 159، 161 تا 163 ، 166 تا محمد عبد اللہ چودھری 168، 176 ، 180 تا 183 ، محمد علی مولوی 126.123 113.82.40 6 $205.23 237.206 129 192 115 131.130 230 تا 232 ، 249 | محمد غوث.حضرت 115 | محمد منور مولوی محمد یعقوب محمد اسماعیل مولوی م محمد اکبر ٹھیکیدار محمد بخش بٹالوی مارٹن کلارک 78،77، 80 تا 82 محمد حسن چیمہ مبارک احمد مرزا.23 11.5 89 32.31.2422.18 15 79 10098.87.86.40 136 144 131129.107 $78 239.195.188.186 237.236.136.79 248.247 114 197 محمد حسین مولوی سبز پگڑی والے 79 محمود اللہ شاہ ابن حضرت مصلح موعود محمد حسین بٹالوی.مولوی 186 مبارک احمد شیخ مبلغ 114 115 مجاہد محمود احمد.حضرت مرزا بشیر الدین.مصلح موعود
11 25 نذیر احمد علی مولوی 246 ولی اللہ شاہ.حضرت مرد ولا سارا بائی مسیلمہ کذاب مطعم بن عدی 190 219.218 معاویہ - حضرت 190،74،71 نصرت جہاں بیگم.حضرت سیدہ 24 25 ولی اللہ شاہ محدث نظام الدین اولیاء 160،75 ، ولید 191.183 معین الدین چشتی یہ حضرت خواجہ نظام الدین.مرزا 23 ہارون الرشید 191،183،75 | نمرود 141 ہٹلر D 156.75 150 72 162.161 122.11.9.8 233 221.7572.64 113 نوح علیہ السلام - حضرت 159، ہمدان شیخ منظور احمد پٹواری 131 185 163 164 ،166 ہندہ 234 ہود علیہ السلام.حضرت 163،59 منظور محمد پیر نور احمد ڈاکٹر مولود صاحب نور الحق مولوی 130 ی موسی علیہ السلام - حضرت 27 یحیی خان کلرک نورالدین حضرت مولوی خلیفہ اول یزید 98 74 ب علیہ السلام - حضرت 14 36.19.15 یعقوب بیگ مرزا 228 یوسف علیہ السلام.حضرت 14 138.112.36.35.19 110.109 151149.136.18 245.244.234.233 $28.25 نہرو.پنڈت 44.40.39037 و 164 163.159.29 193 192.189 166 161 102 213 موسی رضا مینائی.شاعر میور ن ناصر نواب.حضرت میر 23، 228 | وارث دین پادری 82 | یوسف سلیمان
113 120 117.102 100.98 47 37 122.5 111 128 12 مقامات پشاور پنجاب 128.89.78 237.236 16 | تاندلیانوالہ ثبت 236 خرکی ٹانگانیکا ثوبي ج.92.21.16 131 130 105.96.95 28 122 237.160 204 90 90 بٹالہ بدو ملی 186 192 40 108.5 اٹلی اجمیر اسرائیل افریقہ 110، 111 ، 114 تا 116 ، بمبئی 245،188 بنگال امرتسر 82،81،77،25،24 ابون بہار بہاولپور بھوپال والا $38.37.27 امریکہ 112 111.109.108.52 147 128 126-116 184 1811720170 238.212 25 *99*20.11.9.1 181 172 124121 27.25.1 253.185 4643.40.38.37.29 128 انبالہ 25 جالندھر انڈمان 77 75 ، 192 | جرمنی پاک پتین انڈونیشیا 5، 185 ، 246،188 پاکستان انز بروک انگلستان 122 47 37 144 50 ، 52 ، 110، 113، 119، جڑانوالہ 122،110،109،82، 172، 122، 144 ، 171، 178 ، جموں ایران 184190،181، 192، 193، 204، جونا گڑھ 230 | جھنگ.80.40.20 185.122
13 240.120.119 116 22 14.11.76.1 44.43 31، 42، 63، 88،86، 90 تا سیرالیون 92، 95، 96، 105 ، 107 ، سیلون 47 128 126 124 123.114 44.43 89 108 228 186 ش اشام شکار پور ما چھیاں شکا گو اشمله 231 204.199.185.129 37.5 ربوه چ چاہ بھا گووالا چک 60 جڑانوالہ چنیوٹ چین 231 215 207 205 243 242 239 233 252 250-247 111.68.67 $40.29.20.5 37 روس جبشه حیدر آباد 177 212،181،178 شنگھائی 218.168 ع.73.68.49 220.146.103 190 116.111 122.108.40 245.170 غ طائف 187.186 191 190 روم زنجبار 116.115 160.84.39.28 192.161 دار السلام وہلی سالٹ پانڈ 246،108،1 | سرحد ڈچ گی آنا 122 سرگودھا ڈوسل ڈارف ڈھاکہ ڈیٹرائیٹ 120 117.101 116 116 128.120 80، 120 | عمان سری نگر سمن آباد 232 234 غانا سندھ $52.50.49.6 ف 120.53 سوئٹزرلینڈ 122 ،123 | فرینکفورٹ رام پور 102 سوڈان 111 فلپائن راولپنڈی 117،80 | سیالکوٹ.90.89.24
236.84.25 236 121.109 188.185.123 111 14 فیروز پور 29 کمپالہ 128 | کنری فیض اللہ چک 116،115 الدھیانہ 6 لکھنو مریم 204 | لندن ق کوٹ کا نا 128 قادیان 15،11، 19، کولون 122 | ليبيا 113 110108 20، 24،22، 31 تا 33، 35 تا کھاریاں 37، 47، 77، 78، 83، 86، کیپ ٹاؤن 107.99.98.89.88 کیمبل پور.34.33 120 مدینہ منورہ 100.97.93.74.70 122 219 212.168.105 222.221 128 165.130.9 مردان مری 113.32 204.128 191.166 112.72 67.52.49.33 مکه.77.37.25 94.93.75 72.69 t 235.128.89.83 168 167 161-146 226 224217.205 237.183.119.47 204.192 116.115 122 56 ل 110، 149، 192، 227، کیل 238.237 101 89 کجرات گوالیار 90 گورداسپور 239 76.101.47 قصور قلعہ لال سنگھ کابل کا ٹھ گڑھ کپورتھلہ کراچی 13 1، 117، 119، 120، لائبیریا 111 128،120،89 | ملتان 128، 195، 204، 231، لائل پور 233 234 | لاہور.95.25 24، 37 تا 40، 113 ، 116 ، 117، 119، ممباسه 43 تا 232،192،47 233 120 ، 192، 204، 226 تا منشن 238.110.39 231، 234 میر پور خاص
15 میونچ 122 DO بیگ ہیمبرگ هجر ناصر آباد نیروبی نیورمبرگ 34.33 5.1 49 43.4037.29.28.25 191.116.114 122-121 188.121.123.121 188.124 ہندوستان (بھارت) ی 44، 46، 53، 109 ، 110، یوپی 213 118، 119، 171، 172، يمامه 211 یورپ اهنگری 34.33.39.12.5 170 123 121.109 40 وزیر آباد 240 | بنور 188 186 183.172 122 وی آنا 108 | ہوشیار پور 239.25 245
, 33 138 252.186.5 201 آئینہ کمالات اسلام الفتح (اخبار) الفضل نجیل 16 کتابیات تذکره تفسير كبير 22 کلام محمود 129 مثنوی رومی چشمه معرفت 32، 37 مفردات بائیل بخاری براہین احمدیہ دیباچہ تفسیر القرآن 136 33.32 رياض الصالحين پیغام صلح (اخبار) 136 ق 137 ، 228 قاعده سیسرنا القرآن 103.102 5.4 147 18 182 نوائے پاکستان (اخبار) 120 238 131.7 انگریزی کتب MY VISIT TO QADIAN