Khutbat-eMahmud V37

Khutbat-eMahmud V37

خطبات محمود (جلد 37)

خطبات جمعہ ۱۹۵۶ء
Author: Hazrat Mirza Bashir-ud-Din Mahmud Ahmad

Language: UR

UR
Miscellaneous

حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے خطبات علوم و معارف کا ایک انمول خزانہ ہیں اور پیش گوئی کے الہامی الفاظ ’’وہ علوم ظاہری و باطنی سے پُر کیاجائے گا‘‘ پر شاہدناطق ہیں۔ آپؓ کا دور خلافت نصف صدی سے زیادہ عرصہ پر محیط ہے جو ایک تاریخ ساز دور تھا۔ اس نہایت کامیاب اور طویل دور میں آپؓ نے اپنے خطبات جمعہ کے ذریعہ جماعت کی تعلیم و تربیت میں نہایت اہم کردار ادا کیا۔ سیاسی، سماجی اور مذہبی افقوں پر نمودار ہونےوالے ہر معاملے پر بروقت اور درست رہنمائی عطافرمائی۔ الغرض یہ خطبات جمعہ جماعت احمدیہ کا ایک بہت ہی قیمتی خزانہ اور سرمایہ ہیں۔ جسے فاؤنڈیشن نے یکجا کرکے کتابی شکل دی ہے۔


Book Content

Page 1

خطبات خطبات جمعہ) ود 1956 فرموده سیدنا حضرت مرزا بشیر الدین محمد احمد اصلح الموعود خلیفة اريج الثانی ح البلد

Page 2

KHUTBAT-I-MAHMUD by HADRAT MIRZA BASHIR-UD-DIN MAHMUD AHMAD KHALIFATUL MASIH II Published by: Printed by:

Page 3

بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ پیش لفظ اللہ تعالیٰ کے فضل و احسان سے فضل عمر فاؤنڈیشن کو حضرت مصلح موعود کے خطبات کی سینتیسویں جلد احباب کی خدمت میں پیش کرنے کی سعادت نصیب ہو رہی ہے.الْحَمْدُ لِلَّهِ عَلَى ذَلِک.اس جلد میں 1956 ء کے 51 خطبات جمعہ شامل ہیں.حضرت فضل عمر سلطان البیان کے خطبات علوم و معارف کا انمول خزانہ ہیں اور پیشگوئی کے الہامی الفاظ " وہ علومِ ظاہری و باطنی سے پر کیا جائے گا “ پر شاہد ناطق ہیں.حضرت مصلح موعود کا دور خلافت جو کم و بیش 52 سال پر محیط ہے ایک تاریخ ساز دور تھا.اس نہایت کامیاب طویل دور میں حضور کے خطبات نے جماعت کی علمی و روحانی ترقی اور تعلیم وتربیت میں نہایت اہم کردارادا کیا.حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ فرماتے ہیں:.حضرت مصلح موعود کے خطبات آپ کے قریب بیٹھ کر سننے کا موقع ملتا تھا.تمام دنیا کے مسائل کا آپ کے خطبات میں مختلف رنگ میں ذکر آتا چلا جاتا تھا.دین کا بھی ذکر ہوتا اور دنیا کا بھی.پھر ان کے باہمی تعلقات کا ذکر ہوتا تھا.سیاست جہاں مذہب سے ملتی ہے یا جہاں مذہب سے الگ ہوتی ہے غرضیکہ ان سب مسائل کا ذکر ہوتا تھا.چنانچہ قادیان میں یہی جمعہ تھا جس کے نتیجہ میں ہر کس و ناکس ، ہر بڑے چھوٹے اور ہر تعلیم یافتہ و غیر تعلیم یافتہ کی ایک ایسی تربیت ہو رہی تھی جو بنیادی طور پر سب میں قدر مشترک تھی.یعنی پڑھا لکھا یا ان پڑھ، امیر یا غریب اس لحاظ سے کوئی فرق نہیں رکھتا تھا کہ بنیادی طور پر احمدیت کی تعلیم اور احمدیت کی تربیت کے علاوہ دنیا کا شعور بھی حاصل ہو جایا کرتا تھا.چنانچہ بہت

Page 4

سے احمدی طلباء جب مقابلہ کے مختلف امتحانات میں اپنی تعداد کی نسبت زیادہ کامیابی حاصل کرتے تھے تو بہت سے افسر ہمیشہ تعجب سے اس بات کا اظہار کیا کرتے تھے کہ احمدی طلباء میں کیا بات ہے کہ ان کا دماغ زیادہ روشن نظر آتا ہے ان کو عام دنیا کا زیادہ علم ہے.“ ( خطبات طاہر جلد نمبر 7 صفحہ 10 ) ہمارا یہ روحانی وعلمی ورثہ سلسلہ کے لٹریچر میں بکھرا پڑا تھا اور جماعت کے دوستوں کو اس سے استفادہ کرنا مشکل تھا.فضل عمر فاؤنڈیشن اس جماعتی ضرورت کو پورا کرنے کیلئے ان خطبات کو کتابی شکل میں شائع کر رہی ہے.یہ جواہر پارے اب آپ کے ہاتھوں میں ہیں.ان کی زیادہ سے زیادہ اشاعت سے جہاں ادارہ کے لئے اس کام کو جلد پایہ تکمیل تک پہنچانا آسان ہوگا وہاں نئی نسل کی تربیت کے لئے بھی یہ بہت مُمد و معاون ہوں گے.اس جلد کی تیاری کے سلسلہ میں جن دوستوں نے ادارہ کی عملی معاونت فرمائی ان میں مکرم عبدالرشید صاحب اٹھوال، مکرم حبیب اللہ صاحب باجوہ، مکرم فضل احمد صاحب شاہد، مکرم عبد الشکور صاحب با جوه مکرم، عدیل احمد صاحب گوندل ، مکرم ظہور احمد صاحب مقبول ، مربیان سلسله قابل ذکر ہیں.خاکسار ان سب کا دلی شکر یہ ادا کرتا ہے اور دعا گو ہے کہ خدا تعالیٰ ان کے علم و فضل میں برکت عطا فرمائے اور اپنے فضلوں اور رحمتوں سے نوازے.آمین

Page 5

(i) فہرست مضامین خطبات محمود جلد 37 خطبه نمبر تاریخ بیان فرموده 1 ( خطبات جمعہ 1956ء) موضوع خطبه 6 جنوری 1956ء اپنے دوستوں میں صداقت معلوم کرنے کی ایک لگن اور سنجیدگی کے ساتھ غور و فکر کرنے کی عادت ڈالنے کی کوشش کرو اپنے آپ کو سلسلہ کے لیے مفید وجود بناؤ اور مختلف پیشوں خصوصاً تجارت کو اختیار کرنے کی طرف توجہ دو 2 13 جنوری 1956ء یورپ کے سائنسدان اب حضرت مسیح علیہ السلام کی بن باپ پیدائش کو ان کی الوہیت کی دلیل قرار نہیں دیتے.یہ خدا تعالیٰ کا خاص فضل اور نشان ہے کہ دنیا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیان فرموده صداقتوں کو تسلیم کرنے پر مجبور ہو رہی ہے صفحہ 1 13 20 جنوری 1956 ء خدمت اسلام کے لیے آگے آؤ تا تمہیں بھی اسلام کی ترقی کا دن دیکھنا نصیب ہو میری صحت کے لیے پھر خصوصیت سے دعائیں کرو تا اللہ تعالیٰ بیماری کا بقیہ حصہ بھی اپنے فضل سے دور فرمائے 18 4 27 جنوری 1956ء وہ کونسے ذرائع ہیں جن سے خدمت دین اور علمی ترقی کا جذبہ دائمی طور پر جماعت میں قائم رہے؟ جماعت کے نوجوان خصوصیت کے ساتھ اس سوال پر غور کریں اور پھر جس نتیجہ پر پہنچیں اُس سے مجھے بھی اطلاع دیں 32 32

Page 6

€ خطبه نمبر تاریخ بیان فرموده موضوع خطبه 3 فروری 1956ء اگر تم خلوص نیت سے دین کی خدمت کرو گے تو اللہ تعالیٰ خود تمہاری ساری ضروریات کا کفیل ہو جائے گا دنیا اس وقت اسلام کی طرف مائل ہے.پس آگے آؤ اور دیوانہ وار تبلیغ میں لگ جاؤ 6 10 فروری 1956ء زمین بدل سکتی ہے آسمان بدل سکتا ہے لیکن قرآن مجید کبھی نا کام نہیں ہوسکتا.ہماری جماعت اسلام کی خاطر جو مالی قربانی کر رہی ہے اس کی مثال اور کہیں نہیں مل سکتی 7 17 فروری 1956 ء خدمت دین کرنے والے نوجوانوں سے خطاب 9 شادی ، اولاد اور دیگر معاملات میں سلسلہ کے مفاد کو بہر حال مقدم رکھو پاکستانی احمدیوں کی طرح بیرونی ممالک کی احمدی جماعتوں کو بھی مالی قربانی میں با قاعدگی کے ساتھ حصہ لینا چاہیے 24 فروری 1956ء دین کے لیے زندگی وقف کرنے والے نوجوانوں سے خطاب.اس امر کو اچھی طرح سمجھ لو کہ تمہارا مطمح نظر اللہ تعالیٰ کی رضا اور خوشنودی ہونا چاہیے 2 مارچ 1956ء تحریک جدید جس کا مقصد دنیا میں اسلام کی اشاعت کرنا ہے کوئی نئی تحریک نہیں ہے.یہ تحریک گزشتہ بائیس سال.جاری ہے اور اگر دو ہزار سال تک بھی جاری رہے گی تو اس کا نام تحریک جدید ہی رہے گا صفحہ 45 2 62 88 82 100 107

Page 7

(iii) خطبه نمبر تاریخ بیان فرموده 10 موضوع خطبه 9 مارچ 1956ء دین کے لیے زندگی وقف کرنے کی تحریک کو جماعت میں کس طرح کامیاب بنایا جائے بعض دوستوں کی اہم تجاویز 11 16 مارچ 1956ء شادی کی بنیاد اخلاق، نیکی اور تقوی پر قائم ہونی چاہیے تاجو اولاد پیدا ہو وہ بھی نیک متقی اور اللہ تعالیٰ کے نام کو بلند کرنے والی ہو 12 23 مارچ 1956ء یوم جمہوریہ بلاشبہ سارے ملک کے لیے ایک خوشی کا دن ہے.تم جہاں خوشی مناؤ وہاں یہ بھی دعائیں کرو کہ پاکستان صفحہ 114 137 کے باشندوں میں ہمیشہ ہمیش کے لیے نیکی کا عنصر غالب رہے 143 13 | 30 مارچ 1956ء احباب دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ افغانستان کے احمدیوں کے لیے امن کی صورت پیدا فرمائے.میرا تجربہ یہ ہے کہ اسلامی ممالک میں اسلام کے اثر کے ماتحت خدا ترسی اور اخلاق کا زیادہ بہتر نمونہ پایا جاتا ہے 14 6 1 اپریل 1956ء میری صحت کے لیے خاص طور پر دعائیں کریں جن دوستوں کو اچھی خوا ہیں آتی ہیں انہیں دعاؤں سے غافل نہیں ہونا چاہیے 1 13 را پریل 1956 ء موجودہ ایام میں خصوصیت کے ساتھ دعائیں کرو کہ اللہ تعالیٰ مجھے صحت والی اور کام کرنے والی زندگی عطا فرمائے.اگر اللہ تعالیٰ کوئی بشارت دے تو مومن کا فرض ہوتا ہے کہ وہ اپنی دعاؤں اور جد وجہد کو اور بھی تیز کر دے 159 169 174

Page 8

(iv) خطبه نمبر تاریخ بیان فرموده موضوع خطبه 2016 اپریل 1956 ء حکومت سپین تبلیغ اسلام کو قانون کے زور سے بند کرنے کی کوشش کر رہی ہے.تمام مسلمان حکومتوں کا فرض ہے کہ وہ اس کے خلاف آواز بلند کریں اور سپین اور دیگر عیسائی حکومتوں سے احتجاج کریں 17 27 اپریل 1956 ء نہ صرف اپنے بھائیوں سے بلکہ غیروں سے بھی محبت، ہمدردی اور شفقت کا سلوک کرو.یہی وہ روح ہے جس سے جماعتیں 18 19 زندہ رہتی اور ترقی کرتی ہیں 4 مئی 1956ء دوستوں کو چاہیے کہ وہ رمضان کے باقی ایام سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اُٹھانے کی کوشش کریں 11 مئی 1956 ء اللہ تعالیٰ یوں تو ہر وقت دعائیں سنتا ہے لیکن بعض بابرکت ایام کا قبولیت دعا سے خاص تعلق ہوتا ہے 20 18 مئی 1956 ء ہماری جماعت کو موجودہ ایام میں کثرت کے ساتھ درود پڑھنا چاہیے 21 25 مئی 1956ء اگر دل میں کوئی نیک تحریک پیدا ہو تو فورا اس کے لیے تیاری شروع کر دو.تیاری کا بہترین طریق یہ ہے کہ اپنے بیوی بچوں کو اس تحریک میں تعاون اور مدد کے لیے آمادہ کرو 22 یکم جون 1956ء ہماری جماعت کے نوجوان دعاؤں، ذکر الہی اور درود کی برکت سے رویا اور کشوف کی عظیم الشان نعمت حاصل کر سکتے ہیں 23 15 جون 1956 ء خواہ ساری دنیا مخالفت کرے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حکومت دنیا میں بہر حال قائم ہو کر رہے گی.اللہ تعالیٰ چاہتا صفحہ 186 196 210 214 219 224 230 ہے کہ ہم بھی اسلام کی ترقی میں حصہ لے کر ثواب حاصل کریں 237

Page 9

(v) خطبه نمبر تاریخ بیان فرموده موضوع خطبه 24 22 جون 1956 ء اللہ تعالیٰ کی حفاظت میں رہنے کے لیے ضروری ہے کہ انسان ہر وقت اُسی کی طرف جھکا رہے اور اُسی سے استعانت طلب کرے 25 | 29 جون 1956 ء ہمارا خدا زندہ اور قادر خدا ہے جو پہلے کی طرح آج بھی اپنی زندگی اور قدرت کے غیر معمولی نشان ظاہر کر رہا ہے صفحہ 249 259 26 6 جولائی 1956ء جماعت میں جب تک اخلاص قائم رہے گا اللہ تعالیٰ اپنی نصرت و تائید کے ذریعہ اپنے زندہ ہونے کا ثبوت دیتا رہے گا 277 27 13 جولائی 1956 ء مومن کو اپنی ذات میں بھی معجزات دیکھنے کی کوشش کرنی چاہیے تا کہ اللہ تعالیٰ کی ذات پر اسے نیا یقین اور نئی معرفت حاصل ہو.دعائیں کرنے ، درود پڑھنے اور ذکر الہی کرنے کی عادت ڈالو اور تقوی وطہارت اپنے اندر پیدا کرنے کی کوشش کرو 28 20 جولائی 1956 ء لَبِنْ شَكَرْتُمْ لَأَزِيدَنَّكُمْ وَلَبِن كَفَرْتُمْ إِنَّ عَذَابِي لَشَدِيدٌ خدا تعالیٰ ہمیشہ میرے ساتھ رہا ہے وہ اب بھی میری مدد کرے گا اور منافقت دکھانے والوں کو ذلیل ورسوا کرے گا 29 27 جولائی 1956 ء اللہ تعالیٰ نے نظام خلافت کے ذریعہ تمہارے درمیان اتحاد پیدا کیا ہے اس کی قدر کرو اور مضبوطی کے ساتھ اسے قائم رکھو حضرت عثمان کے وقت میں منافقین کے فتنہ کو معمولی سمجھنے کے نتیجہ میں ہی اتحاد اسلام بر باد ہو گیا تھا 279 293 309

Page 10

صفحہ 323 336 345 350 367 376 (vi) خطبه نمبر تاریخ بیان فرموده موضوع خطبہ 30 3 اگست 1956ء، اگر تم اللہ تعالیٰ کی طرف جھکو اور اُسی سے مدد طلب کرو تو منافقین کی شرارتیں هَبَاءً منبٹا ہو جائیں گی سوچو اور غور کرو کہ اگر خلافت مٹ جائے تو کیا احمدیت کے ذریعہ اسلام کے غلبہ کا کچھ بھی امکان باقی رہ سکتا ہے؟ 31 10 راگست 1956 ء اشتعال انگیزی کا الزام سراسر غلط اور بے بنیاد ہے میں نے جو کچھ کہا تھا وہ قرآن مجید کی تعلیم کے عین مطابق ہے 35 اگر کوئی ناجائز دخل اندازی کرتا ہے تو قانون کے ذریعہ اُسے مداخلت سے روکنا ہمارا حق ہے 17 اگست 1956 ء تمہارا فرض ہے کہ تم ہمیشہ استغفار سے کام لیتے رہو تا کہ تمہارا استغفار فرشتوں کے استغفار سے مل کر تمہاری بخشش اور مغفرت کا ذریعہ بن جائے 24 اگست 1956 ء قرآن کریم کے ترجمہ کا عظیم الشان کام مکمل ہو گیا الْحَمدُ لِلهِ عَلى ذلِكَ محض اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ اس نے بیماری کے باوجود تھوڑے سے عرصہ میں ہی مجھے یہ کام سرانجام دینے کی توفیق عطا فرمائی 3 31 اگست 1956 ء حضرت خلیفہ مسیح الاول کی اپنے ہاتھ سے لکھی ہوئی وصیت اس وصیت سے حضرت خلیفہ اول کی اولاد کے اعتراضات اور غیر مبائعین کے خیالات کی واضح تردید ہو جاتی ہے 7 ستمبر 1956ء 1950 ء کی ایک رویا میں بتایا گیا کہ خلافت کے خلاف ایک فتنہ اٹھایا جائے گا.اور فتنہ اٹھانے والوں میں میرے بعض رشتہ دار بھی شامل ہوں گے جو میری بیوی کی طرف.ہوں گے.

Page 11

صفحہ 399 412 419 433 448 463 (vii) خطبه نمبر تاریخ بیان فرموده موضوع خطبہ 36 14 ستمبر 1956ء سورۃ فاتحہ میں اللہ تعالیٰ نے ہر قوم اور ہر زمانہ کے لوگوں کے لیے ہدایت اور راہنمائی کا سامان مہیا فرما دیا ہے.موجودہ فتنہ میں حصہ لینے والوں کے لیے صحیح رستہ یہ تھا کہ وہ اللہ تعالیٰ سے دعائیں کرتے اور مخالف اخبارات کے بیانات کی تردید شائع کراتے 37 21 ستمبر 1956ء اگر تم قرآن مجید پر ایمان لاؤ اور پھر سچے دل سے اس پر عمل کرنے کی کوشش کرو تو اللہ تعالیٰ تمہارے دلوں سے بدی کی رغبت مٹادے گا یا تمہاری کمزوری کی پردہ پوشی فرمائے گا 38 28 ستمبر 1956 ء اگر تم قرآن کریم کو اس یقین سے پڑھو کہ اس میں ہر اعتراض کا جواب موجود ہے تو اس کے مطالب تم پر آپ ہی آپ کھلتے چلے جائیں گے اور تمہیں اللہ تعالیٰ کی راہنمائی حاصل ہو جائے کی را 39 5 اکتوبر 1956 ء اللہ تعالیٰ کا یہ وعدہ ہے کہ وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت و حرمت کی ہر زمانہ میں خود حفاظت فرمائے گا 40 12 اکتوبر 1956 ء يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا مَنْ يَّرْتَدَّ مِنْكُمْ عَنْ دِينِهِ فَسَوْفَ يَأْتِي اللهُ بِقَوْمِ.یہ آیت بتاتی ہے کہ دینی نظام سے الگ ہونے والوں کے مقابلہ میں اللہ تعالیٰ مومنین سے کیا سلوک فرماتا ہے 41 19 اکتوبر 1956 - كُنتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ یہ آیت ہر مسلمان کا فرض قرار دیتی ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کے احکام کی پیروی کرتے ہوئے ہر پہلو سے بنی نوع انسان کی خدمت کرے

Page 12

(viii) خطبه نمبر تاریخ بیان فرموده موضوع خطبہ 42 26 اکتوبر 1956ء صدیوں کے بعد تمہارے لیے یہ موقع پیدا ہوا ہے کہ تم تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ کے قرآنی حکم کو پورا کر کے الہی انعامات کے وارث بن جاؤ 43 2 نومبر 1956 ء چندہ تحریک جدید کے نئے سال میں پہلے سے بھی زیادہ جوش اخلاص اور قربانی سے حصہ لو اور بڑھ چڑھ کر وعدے لکھواؤ 44 فتنہ منافقین کے متعلق پینتیس برس قبل کی شائع شدہ ایک پیشگوئی آج لفظ لفظ پوری ہو رہی ہے 9 نومبر 1956 ء جلسہ سالانہ کے موقع پر پہلے سے کئی گنا زیادہ تعداد میں آؤ اور اپنے رشتہ داروں اور دوستوں کو بھی ہمراہ لانے کی کوشش کرو چندہ جلسہ سالانہ جلد سے جلد بھجوانے کی کوشش کرو تا کہ مہمانوں کے لیے خوراک اور رہائش کے انتظامات میں دقت نہ ہو 45 16 نومبر 1956ء قبولیت دعا کا ایک القائی نسخہ ہم قدم قدم پر خدا تعالیٰ کی طرف توجہ کرتے ہیں اور اس کی رضا کی جستجو کرتے ہیں ان فقروں میں قبولیت دعا کے اہم گر صفحہ 479 497 512 بتائے گئے ہیں.دوستوں کو چاہیے کہ ان سے فائدہ اُٹھائیں 528

Page 13

صفحہ 537 546 563 568 585 604 (ix) خطبه نمبر تاریخ بیان فرموده موضوع خطبه 46 23 نومبر 1956 ء دوست تحریک جدید کے وعدے بھجوانے میں سستی سے کام نہ لیں اور پہلے سے بڑھ چڑھ کر وعدے لکھوائیں خدا تعالیٰ نے ہمارے لیے خوشیوں کے دن مقدر کر رکھے ہیں ان کو قریب لانے کے لیے ہمیں زیادہ سے زیادہ قربانی کرنی چاہیے 47 30 نومبر 1956 ء إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَ اِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ میں خدا تعالیٰ نے یہ گر بتایا ہے کہ مومن ہمیشہ اور ہر حال میں خدا تعالیٰ پر توکل 48 49 50 50 رکھتے ہیں جماعت سے الگ ہونے والوں نے اپنے عمل سے ظاہر کر دیا ہے کہ وہ خدا تعالیٰ سے منہ پھیر کر دوسروں کی طرف دیکھ رہے ہیں 7 دسمبر 1956ء دوست دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ میری صحت میں برکت دے تا کہ میں اسلام اور احمدیت کی اور زیادہ خدمت کرسکوں 14 دسمبر 1956 ء جب بھی کوئی مصیبت آئے تم فوراً خدا تعالیٰ کے سامنے جھکو اور یقین رکھو کہ وہ ضرور تمہاری مدد کرے گا 21 دسمبر 1956 ء يَايُّهَا الَّذِينَ امَنُوا أَطِيعُوا اللهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنْكُمْ یہ آیت بتاتی ہے کہ امام کی کامل اطاعت نظام کو قائم رکھنے اور کامیابی حاصل کرنے کا بڑا بھاری گر ہے 51 28 دسمبر 1956 ء ہمیشہ یہ دعا کرتے رہو کہ دنیا میں اللہ تعالیٰ کا نام بلند ہو اور دینِ اسلام کی عزت قائم ہو

Page 14

$1956 1 1 خطبات محمود جلد نمبر 37 اپنے دوستوں میں صداقت معلوم کرنے کی ایک لگن اور سنجیدگی کے ساتھ غور و فکر کرنے کی عادت ڈالنے کی کوشش کرو اپنے آپ کو سلسلہ کے لیے مفید وجود بناؤ اور مختلف پیشوں خصوصاً تجارت کو اختیار کرنے کی طرف توجہ دو (فرموده 6 جنوری 1956ء بمقام رتن باغ لاہور ) تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: چند دن ہوئے یہاں کے مبلغ ربوہ گئے تھے اور انہوں نے مجھ سے ذکر کیا تھا کہ لاہور کی جماعت کے جو سر کردہ ممبران ہیں وہ تبلیغ کی طرف توجہ نہیں کرتے.اُن سے تو میں کہا تھا کہ میرے لاہور جانے پر اگر آپ اُن لوگوں کے سامنے مجھ سے بات کرتے تو میں آپ کی موجودگی میں اُن لوگوں سے دریافت کرتا.اب اکیلے بات کرنے سے کیا فائدہ؟ لیکن حقیقت یہ ہے کہ واقعات اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ لاہور کے سرکردہ احباب کو تبلیغ کی طرف بہت کم توجہ ہے.حالانکہ یہاں اللہ تعالیٰ کے فضل سے جو سر کردہ احباب ہیں اُن میں

Page 15

$1956 2 خطبات محمود جلد نمبر 37 سے اکثر گورنمنٹ کے ملازم نہیں.اور گورنمنٹ نے جو اعلان کیا تھا اور اس کی ہم نے تصدیق کی تھی وہ گورنمنٹ کے ملازمین کے ساتھ تعلق رکھتا ہے.لیکن یہاں کے امیر چودھری اسد اللہ خان صاحب بیرسٹر ہیں جو گورنمنٹ کے ملازم نہیں.وہ اگر اپنے دوستوں اور تعلقات رکھنے والے لوگوں سے اپنے خیالات کا اظہار کریں تو نہ گورنمنٹ کی طرف سے ان پر کوئی اعتراض وارد ہوتا ہے اور نہ پبلک کی طرف سے ان پر کوئی اعتراض ہو سکتا ہے.ان سے پہلے شیخ بشیر احمد صاحب لاہور کی جماعت کے امیر تھے.وہ بھی گورنمنٹ کے ملازم نہیں.وہ یاب پریکٹشنر (PRACTITIONER) ہیں اور ان کا حلقہ اثر بہت وسیع ہے.وہ بھی اپنے ساتھ تعلق رکھنے والے لوگوں کو سنجیدگی سے اپنے خیالات پہنچا سکتے ہیں اور پھر اُن کو احمدیت کے متعلق تحقیق کی تحریک ہو سکتی ہے ہے.کسی زمانہ میں چودھری ظفر اللہ خان صاحب لاہور کی جماعت کے امیر تھے اور میں جب کبھی یہاں آتا تھا تو انہی کے گھر ٹھہرتا تھا.مجھے یاد ہے کہ اُن دنوں جب بھی میں یہاں آتا تھا ملنے والوں کا برابر تانتا بندھا رہتا تھا.لوگ میری باتیں سننے کے لیے آ جاتے تھے اور یہ بہر حال چودھری ظفر اللہ خان صاحب کی سنجیدگی کا اثر تھا کہ لوگ اُن کی باتیں سنتے تھے اور جب کبھی میں یہاں آتا تھا تو اُن کے دوستوں کو خیال آتا تھا کہ وہ مجھ سے مل لیں.لیکن اب ایسا نہیں ہوتا.اب مجھے یہاں پہلے کی نسبت زیادہ عرصہ تک ٹھہرنے کا موقع ملتا ہے لیکن میں نے اپنے قیام کے دوران میں کبھی بھی سنجیدہ اور تعلیم یافتہ لوگوں کو نہیں دیکھا کہ وہ میری ملاقات کے لیے آئے ہوں اور انہوں نے مجھ سے احمدیت کے متعلق کوئی بات پوچھی ہو یا قرآن کریم کے متعلق کوئی سوال دریافت کیا ہو یا مذہب کے متعلق گفتگو کی ہو یا وقتی ضروریات کی کے متعلق کوئی بات دریافت کی ہو.حالانکہ کراچی میں جب بھی میں جاتا ہوں وہاں پر ہر قسم کے لوگ میری ملاقات کے لیے آتے ہیں.اُن میں نہ صرف پبلک کے سرکردہ لوگ ہوتے ہیں بلکہ گورنمنٹ کے اعلیٰ ملازم بھی ہوتے ہیں.اس دفعہ جب میں کراچی گیا تو میں بیمار تھالیکن اس سے قبل جب میں وہاں گیا تھا تو مجھے یاد ہے کہ سول سکریٹریٹ کے دس گیارہ ممبر اور سنٹرل سکریٹریٹ کے بہت سے لوگ مجھے ملنے کے لیے آئے تھے.میرے خیال میں اُن

Page 16

$1956 3 خطبات محمود جلد نمبر 37 کی تعداد دو تین درجن ہو گی.دنیا میں رہنے کے لیے ایک دوسرے سے بھائی چارا کی ضرورت ہوتی ہے اور یہ بھائی چارا سنجیدگی سے ہونا چاہیے.اگر کسی سے صرف ہنسی مذاق کر لیا جائے اور جب وہ جُدا ہو تو اُس کا خیال دل سے نکال دیا جائے تو اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوسکتا.اگر اپنے دوستوں اور ملنے جلنے والوں سے سنجیدہ باتیں کی جائیں اور اُن کے اندر صداقت معلوم کرنے اور اس کے متعلق غور اور فکر کرنے کی لگن پیدا کی جائے تو خود بخود اُن کے اندر یہ خواہش پیدا ہو گی کہ وہ تمہاری باتیں سنیں.اور جب کبھی تمہارا مبلغ یا امام یہاں آئے تو اُس سے بھی ملاقات کریں اور اُس کی باتیں سنیں.پس یہاں کے احباب کو اپنی اس ذمہ داری کو نہیں بھلانا چاہیے.لاہور ایک اہم جگہ ہے اور اب اسے اور بھی زیادہ اہمیت حاصل ہو گئی ہے کیونکہ مغربی پاکستان کے ایک یونٹ بن جانے پر یہ اس کا دارالخلافہ ہو گیا ہے.اس وقت پاکستان میں کراچی سے اُتر کر لاہور اور ڈھاکہ کو جو پوزیشن حاصل ہے وہ کسی اور شہر کو حاصل نہیں.اس لیے یہاں کی جماعت کے جو ذمہ دار لوگ ہیں انہیں خصوصیت سے ان امور کی طرف توجہ کرنی چاہیے.دنیا میں انسان کی زندگی محدود ایام کی ہے.اگر اس کو بھی ضائع کر دیا جائے تو دنیا میں انسان نے دوبارہ تو نہیں آنا.موت کے آنے تک اُس نے جو کچھ کر لیا سو کر لیا.اس کے بعد اعمال کا زمانہ ختم ہو جاتا ہے.اس لیے انسان کو چاہیے کہ وہ اپنی مختصر زندگی سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اُٹھانے کی کوشش کرے اور اس مختصر وقت کو کسی صورت میں بھی ضائع نہ کرے.پس یہاں کے تمام احباب کو چاہیے کہ وہ اس امر کی طرف توجہ کریں اور اپنے دوستوں کے ساتھ سنجیدگی کے ساتھ باتیں کیا کریں اور اس طرز سے باتیں کیا کریں کہ اُن میں سچائی معلوم کرنے کی لگن پیدا ہو جائے.جب اُن میں سچائی معلوم کرنے کی لگن پیدا ہوتی جائے گی تو جہاں بھی انہیں سچائی نظر آئے گی وہ اُسے قبول کر لیں گے.ضرورت صرف اس ت کی ہے کہ انسان کے اندر لگن پیدا ہو جائے کیونکہ جب کسی کے اندر لگن پیدا ہو جاتی ہے تو وہ کسی کے روکنے کی وجہ سے رُکتا نہیں بلکہ وہ تحقیق حق کے لیے دوڑتا ہے اور خود اس کے متعلق سوالات کرتا ہے..

Page 17

خطبات محمود جلد نمبر 37 4 $1956 دیکھو! مدینہ کے لوگ مکہ آتے تھے تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بعض دفعہ انہیں ملنے کے لیے تشریف لے جاتے تھے.اُن میں سے کچھ لوگ ایسے بھی تھے جن پر آپ کی باتوں کا اثر ہوا اور انہوں نے واپس جا کر اپنے شہر والوں سے ان باتوں کا ذکر کیا.چنانچہ اگلے سال اور زیادہ تعداد میں مدینہ کے لوگ مکہ آئے.وہ مکہ کی گلیوں میں پھرتے رہے.مکہ والوں نے انہیں دھوکا میں رکھنا چاہا اور حقیقت پر کئی پردے ڈالے لیکن آخر انہوں نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تلاش کر ہی لیا.آپ نے اُن سے باتیں کیں اور ان باتوں کے نتیجہ میں مدینہ والوں نے حق کو قبول کر لیا لیکن پہلی دفعہ یہی فیصلہ ہوا تھا کہ شہر سے باہر نکل کر کسی علیحد جگہ میں ملاقات کی جائے کیونکہ وہ لوگ ڈرتے تھے کہ کہیں مکہ والے اُن کی مخالفت نہ کریں لیکن جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُن سے باتیں کیں اور اُن پر حق کھل گیا تو انہوں نے بلند آواز سے نعرہ تکبیر بلند کیا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم نے اتنی بلند آواز سے نعرہ تکبیر کہا ہے کہ ممکن ہے مکہ والوں کو پتا لگ جائے کہ تم کس نیت سے یہاں آئے ہو.انہوں نے کہا یا رَسُول اللہ ! جب تک ہمیں حقیقت کا صحیح طور پر پتا نہیں تھا اُس وقت تک ہم بھی اسے چھپانے کی کوشش کرتے تھے لیکن اب جبکہ حقیقت ہم پر واضح ہو گئی ہے ہم اسے چھپا نہیں سکتے.پس جب انسان کے اندر صداقت کے معلوم کرنے کی لگن پیدا ہو جاتی ہے تو وہ آپ ہی آپ صداقت معلوم کرتا رہتا ہے.مجھے یاد ہے کہ نواب محمد دین صاحب مرحوم نے جب بیعت کی تو اُس وقت وہ ریاست مالیر کوٹلہ میں ملازم تھے اور کونسل آف سٹیٹ کے ممبر بھی تھے.بیعت کے وقت آپ نے کہا میں یہاں سے ریٹائر ہو جاؤں تو مجھے ملازمت کے لیے کسی اور ریاست میں جانا پڑے گا.اس لیے آپ مجھے ابھی اپنی بیعت مخفی رکھنے کی اجازت دیں.چنانچہ میں نے انہیں بیعت رکھنے کی اجازت دے دی.بیعت کے بعد وہ شملہ چلے گئے.مجھے بھی اُن دنوں چند دنوں کے لیے تبدیلی آب و ہوا کی خاطر شملہ جانے کا موقع ملا.نواب صاحب نے مجھ سے کہا آپ روز بروز کہاں شملہ آتے ہیں، میں اور تو کوئی خدمت نہیں کر سکتا ہاں ! اتنا کر سکتا ہوں کہ بڑے بڑے لوگوں کو چائے پر بلا کر آپ کا اُن سے تعارف کرا دوں.چنانچہ انہوں نے

Page 18

$1956 5 خطبات محمود جلد نمبر 37 ایک دعوت کا انتظام کیا.میں بھی وہاں چلا گیا.انہوں نے بڑے بڑے آدمی وہاں بلائے ہوئے تھے.میں اس انتظار میں تھا کہ کوئی اعتراض کرے تو میں اس کا جواب دوں کہ نواب صاحب کھڑے ہو گئے اور انہوں نے حاضرین کا شکریہ ادا کرنے کے بعد اس طرح بات شروع کی کہ یہ بڑی خوشی کی بات ہے کہ امام جماعت احمد یہ یہاں تشریف لائے ہیں.جو شخص کسی قوم کا لیڈر ہوتا ہے ہمیں اُس کا احترام کرنا چاہیے.وہ ہمیں دین کی باتیں سنائیں گے خواہ ہم مانیں یا نہ مانیں ان سے ہمیں فائدہ پہنچے گا.اس کے بعد وہ تقریر کرتے ہوئے یکدم جوش میں آگئے اور کہنے لگے اس زمانہ میں خدا تعالیٰ نے اپنے ایک بندہ کو مبعوث کیا ہے اور اُس نے دعوی کیا ہے کہ میں خدا تعالیٰ کی طرف سے مامور ہوں.یہ دعوی کوئی معمولی دعوای نہیں.اگر وہ اپنے اس دعوی میں سچا ہے اور ہم نے اسے قبول نہ کیا تو لازماً ہم خدا تعالیٰ کے مجرم ہوں گے اور اُس کا عذاب ہم پر آئے گا.اس لیے آپ لوگوں کو سنجیدگی سے اس کے پر غور کرنا چاہیے.جب نواب صاحب اپنی تقریر ختم کر کے بیٹھ گئے تو میں نے اُن سے کہا آپ نے تو اپنی بیعت کو مخفی رکھنے کی اجازت لی تھی اور میں نے آپ کو اجازت دے دی تھی.لیکن اس وقت آپ نے خود ہی اسے ظاہر کر دیا ہے.انہوں نے کہا مجھے تقریر کرتے کرتے جوش آ گیا تھا اس لیے میں ضبط نہیں کر سکا.غرض دوستوں کو چاہیے کہ وہ تبلیغ کی طرف توجہ کریں اور دوسروں تک سنجیدگی سے اپنے خیالات کو پہنچائیں.ا مجھے یاد ہے کہ پہلے پہلے جب میں لاہور آیا کرتا تھا تو گھٹی والی مسجد میں نماز ہوتی تھی.اس وقت اگلی صف میں جتنے دوست بیٹھے ہیں اُس وقت سارے لاہور میں قریباً اتنے ہی احمدی ہوتے تھے لیکن اب جمعہ کی نماز میں بعض دفعہ یہاں پندرہ پندرہ سو دوست جمع ہوتی جاتے ہیں بلکہ ان کی تعداد اس سے بھی بڑھ جاتی ہے.ممکن ہے آج بھی اس قدر لوگ موجود و ہوں لیکن کھلی جگہ ہونے کی وجہ سے وہ زیادہ معلوم نہ ہوتے ہوں.بہر حال جمعہ کی نماز میں اڑھائی اڑھائی سو کی تعداد میں سائیکل ہی ہوتے ہیں.ابھی مجھے کسی نے بتایا ہے کہ پچھلے جمعہ کے موقع پر بارہ موٹریں اور ایک بڑی تعداد میں سائیکلیں اور موٹر سائیکلیں جمع ہو گئی تھیں.غرض جب گمٹی والی مسجد میں نماز ہوتی تھی اُس وقت جماعت کی تعداد یہاں بہت تھوڑی تھی لیکن اس

Page 19

$1956 6 خطبات محمود جلد نمبر 37 اللہ تعالیٰ نے اس کی تعداد بہت بڑھا دی ہے اور اب موجودہ جماعت کو خیال کرنا چاہیے کہ اُس وقت کے پچاس ساٹھ احمدیوں نے اپنی زندگیوں کو سدھارا اور دوسروں تک اپنے خیالات کو سنجیدگی سے پہنچایا.نتیجہ یہ ہوا کہ صرف جمعہ کی نماز میں آنے والے احمدیوں کی تعداد پچاس سے بڑھ کر پندرہ سو تک پہنچ گئی.اگر تم بھی ان لوگوں کی طرح اپنی زندگیوں کو سدھارتے اور اپنے خیالات سنجیدگی سے دوسروں تک پہنچاتے تو تم پندرہ سو سے پینتالیس ہزار بن جاتے.دوست لا ہور کے شہر کو اللہ تعالیٰ نے احمدیت کے ابتدائی زمانہ سے ہی اس کی تبلیغ کا مرکز بنایا ہے.میں ابھی بچہ ہی تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام لاہور تشریف لایا کرتے تھے.ایک دفعہ آپ یہاں تشریف لائے، میں بھی ساتھ تھا.مسجد وزیر خان کے قریب ایک کی کے ہاں آپ کی دعوت تھی.میری عمر اُس وقت بہت چھوٹی تھی.صرف سیر کی وجہ سے میں ساتھ آ گیا تھا.دعوت سے فارغ ہو کر جب ہم باہر نکلے تو دہلی دروازہ سے نکلتے وقت اس کی زمانہ میں دائیں طرف ایک پیپل کا درخت تھا.اُس درخت کے پاس ہجوم بہت زیادہ تھا.ہمیں دیکھ کر لوگوں نے گالیاں دینی شروع کر دیں اور بہت شور بلند کیا.جب ہم پیپل کے پاس سے گزرے تو اُس وقت جو لوگ جمع تھے اُن میں سے کسی نے کہا کہ تم یہ کہو کہ ہائے ہائے“.گویا مرزا صاحب فوت ہو گئے ہیں.میں بہت حیران تھا کہ لوگ اتنا شور کیوں کرتے ہیں اور ہمیں کیوں گالیاں دیتے ہیں.مجھے یہ نظارہ خوب یاد ہے کہ اُس وقت ایک شخص جو مولوی طرز کا معلوم ہوتا تھا اور ٹھنڈا تھا وہ اپنا دوسرا ہاتھ ٹنڈ پر مار کر ہائے ہائے کی تی آواز بلند کر رہا تھا.بچپن کی وجہ سے مجھے یہ عجیب تماشا معلوم ہوتا تھا اور میں اسے شوق سے دیکھتا تھا لیکن بعد میں مجھے کسی نے بتایا کہ یہ ہجوم حضرت صاحب کی مخالفت کی وجہ سے جمع ہو گیا تھا اور اپنی اس مخالفت کی وجہ سے آپ کو گالیاں دے رہا تھا.گویا کسی وقت وہ زمانہ تھا کہ یہاں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام تشریف لایا کرتے تو آپ کو گالیاں دینے کے لیے لوگ رستوں پر جمع ہو جاتے تھے.لیکن اُس وقت کے احمدیوں کا ایمان تازہ تھا، اُن میں اخلاص اور جوش پایا جاتا تھا، وہ سچے دل سے باہر نکلے اور انہوں نے تبلیغ کے رستہ میں سچا جذ بہ دکھایا اور خدا تعالیٰ نے بھی ان کی کوششوں میں برکت دی اور ان کی تعداد کو ہزاروں تک پہنچا دیا.

Page 20

خطبات محمود جلد نمبر 37 7 $1956 نیلا گنبد کو ہی لے لو اس وقت اس علاقہ میں بہت سے احمدی آباد ہیں لیکن کسی زمانہ میں یہاں مستری محمد موسی صاحب اکیلے آئے تھے.اب اللہ تعالیٰ نے ان کی اولاد میں ہی اتنی برکت دی ہے کہ ان کی تعداد پچاس سے زیادہ ہے اور پھر انہوں نے اعلیٰ تعلیم حاصل کر لی ہے.اسی طرح منشی محبوب عالم صاحب ان کے کلرک تھے.ان کا خاندان بھی احمدی ہو گیا.ب خدا تعالیٰ کے فضل سے ان دونوں کی اولاد اتنی ہے کہ اس کی تعداد لاہور کی پرانی جماعت کی تعداد سے زیادہ ہے.تو یاد رکھو! کہ نہ صرف اللہ تعالیٰ مومنوں کی کوششوں کو ضائع نہیں کرتا بلکہ وہ ان کی اولادوں کو بھی بڑھاتا ہے.پس تم اپنے آپ کو سلسلہ کے لیے مفید وجود بناؤ اور ایسا مفید وجود بناؤ کہ اللہ تعالیٰ آپ کے دوستوں، رشتہ داروں اور ملنے والوں کو ایک سے ہزار کر دے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے دعا فرمائی تھی کہ اک سے ہزار ہوویں“.1 یہ دعا آپ کی صرف جسمانی اولاد کے متعلق نہیں ہو سکتی کیونکہ جسمانی اولاد ایک سے ہزار بہت کم ہوتی ہے.ایک سے ہزار روحانی اولاد ہوتی ہے.سو یہ دعا تمہارے لیے ہے کہ اللہ تعالیٰ تمہیں توفیق دے کہ تم ایک سے ہزار ہو جاؤ.لیکن جس طرح لاہور کی جماعت کے سرکردہ احباب کام کر رہے ہیں اس کے نتیجہ میں تو وہ ایک سے دو بھی نہیں ہو سکتے.اگر تم ایک سے ہزار ہو تے تو اس وقت لاہور میں جماعت احمدیہ کی تعداد پندرہ لاکھ ہوتی.اس وقت لاہور کی کل آبادی دس لاکھ ہے.گویا اگر جماعت کی تعداد ایک سے ہزار کی صورت میں ترقی کرتی تو وہ لاہور کی موجودہ تعداد سے ڈیوڑھی ہوتی.پھر تم اپنے کاموں میں بھی توسیع کرو.سارے لوگوں کو نوکریوں کے پیچھے نہیں پڑنا چاہیے.بلکہ انہیں دوسرے کاموں کی طرف بھی توجہ کرنی چاہیے.مثلاً تجارت کا پیشہ بہت اہم ہے.لیکن ہماری جماعت کی اس طرف بہت کم توجہ ہے.میں نے رویا میں دیکھا ہے کہ میرے ہاتھ میں ایسے لوگوں کا فائل ہے جو سلسلہ کے مخالف ہیں.اُس فائل میں کچھ باتیں ہمارے خلاف ف لکھی ہیں.میں کہتا ہوں یہ باتیں انہوں نے اپنا بجٹ بننے کے بعد لکھی ہیں.

Page 21

$1956 8 خطبات محمود جلد نمبر 37 پھر میں کہتا ہوں ہماری جماعت کو بھی چاہیے کہ وہ تجارت میں لگ جائے.اس کے بعد میں کہتا ہوں یا کسی اور دوست نے مجھ سے کہا ہے کہ تاجر لوگ بہت کم چندہ دیتے ہیں.میں کہتا ہوں کہ تاجروں کو شروع سے ہی تحریک کر کے چندہ کی عادت ڈالنی چاہیے.رویا میں میں دیکھتا ہوں کہ گویا کوئی شخص مجھ سے کہتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ میں تو احمدی تاجروں نے بڑی قربانی کی تھی.چنانچہ اُس زمانہ میں سیٹھ عبدالرحمان صاحب مدراسی اور شیخ رحمت اللہ صاحب نے بہت بڑی خدمت کی تھی.میں کہتا ہوں کہ تاجر طبقہ کو شروع سے ہی چندہ دینے کی عادت ڈالنی چاہیے تا کہ جوں جوں ان کی تجارت بڑھے چندے بھی بڑھیں اور سلسلہ کی مالی حالت مضبوط ہو.پس جماعت کے جو امیر ہوتے ہیں ان کا صرف یہی کام نہیں ہوتا کہ وہ امیر کہلائیں.بلکہ امیر بن جانے کے بعد اُن پر بہت سی ذمہ داریاں عائد ہو جاتی ہیں.مثلاً میں خلیفہ ہوں بظاہر میرا کام یہ نہیں کہ میں جماعت کے لوگوں کو یہ کہوں کہ تم زراعت کرو، تجارت کرو یا تعلیم حاصل کرو لیکن جماعت کے مستقبل کو مضبوط بنانے کے لیے میں وقتاً فوقتاً ایسی تحریکیں کرتا رہتا ہوں.امیر کا بھی یہی کام ہے کہ وہ محض امیر نہ کہلائے بلکہ وہ ہر وقت یہ سوچتا رہے کہ جماعت کی اقتصادی، معاشی، دینی، تمدنی، تعلیمی اور اخلاقی حالت کو کس طرح ترقی دی جا سکتی ہے.اس میں خدمت خلق کی عادت کو کس طرح بڑھایا جا سکتا ہے.امیر کی مثال گویا ایک چوراہا کی سی ہے جس سے دوسری سڑکیں پھٹتی ہیں.جس طرح ایک چوراہا سے مختلف رستے علیحدہ ہوتے ہیں اور اس سے لوگ مختلف رستوں میں بٹ جاتے ہیں.اسی طرح ہر جماعت کے امیر کو بھی چاہیے کہ وہ جماعت کے بعض لوگوں کو نوکریوں کی طرف لے جائے ، بعض کو تجارت پر لگائے ، بعض کو صنعت و حرفت کی طرف متوجہ کرے، بعض کو اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے پر زور دے اور مجموعی طور پر جماعت میں خدمت خلق کی عادت پیدا کرے.گویا امیر صرف چوراہا ہی نہیں بلکہ وہ دس رہا، ہمیں راہا، پچاس راہا یا سو راہا ہو.وہ جماعت کے دوستوں کو سینکڑوں طرف پھر اتا رہے.امیر کی حیثیت ایک جرنیل کی سی ہے.اور جرنیل کا صرف یہی کام نہیں ہوتا کہ دیکھے کہ سپاہی کس طرح چلتا ہے بلکہ وہ سپاہی کو مناسب طریق پر چلاتا ہے.اسی طرح امیر کا بھی

Page 22

$1956 9 خطبات محمود جلد نمبر 37 یہی کام ہے کہ وہ اپنی جماعت کے لوگوں کو مناسب اور مفید کاموں پر لگائے.بعض کو نوکریوں پر لگا دے، بعض کو تجارتوں میں لگا دے، بعض کو صنعت و حرفت میں لگا دے.غرض وہ جماعت کی اس طور پر تنظیم کرے کہ نہ صرف موجودہ جماعت کی مالی حالت سو گنا ترقی کر جائے بلکہ اس کی تعداد بھی سو گنا بڑھ جائے تا آئندہ آنے والا سال انہیں ایک مضبوط ستون کی طرح بنات دے.پچھلے دنوں مجھے یہ پتا لگا تھا کہ لاہور کی جماعت کا چندہ چھیانوے ہزار روپے سالانہ ہے اور کراچی کا چندہ ایک لاکھ روپیہ.لیکن اب مجھے بتایا گیا ہے کہ لاہور کی جماعت کا چندہ تو ایک لاکھ سے کچھ اوپر ہے اور کراچی کی جماعت کا چندہ ڈیڑھ لاکھ روپیہ سالانہ تک پہنچ چکا ہے.اس سے تم اندازہ لگا سکتے ہو کہ اللہ تعالیٰ کس طرح کوشش کرنے والوں کی مدد کرتا ہے.پس تم جماعت کی اخلاقی، تمدنی اور مالی حالت کو زیادہ سے زیادہ مضبوط کرنے کی کوشش کرو.ہماری جماعت کی توجہ تجارت کی طرف بہت کم ہے حالانکہ یہی ایک چیز ہے جو کسی جماعت یا قوم کو پھیلنے میں مدد دیتی ہے.ہمارے کچھ آدمی جو باہر ہیں وہ تاجر ہی ہیں.اس وقت انگلینڈ میں ڈیڑھ سو کے قریب ایسے لوگ ہیں جو پھیری وغیرہ کا کام کرتے ہیں.ملازم ہر جگہ نہیں جا سکتا.لیکن تجارت میں پھیلنے اور ایک جگہ سے دوسری جگہ جانے کی گنجائش ہے.تاجر کا کیا ہے اگر لوگ اُسے دکھ دیں تو وہ اپنا بیگ اُٹھاتا ہے اور کہتا ہے اچھا! ہم آگے چلے جاتے ہیں.نوکر یہ نہیں کر سکتا کیونکہ اُس کی نوکری جاتی ہے.اسی طرح زمیندار لوگ بھی ایسا نہیں کر سکتے کیونکہ ان کی زمین پیچھے پڑی ہوئی ہوتی ہے لیکن تاجر اور پیشہ ور لوگ آزاد ہوتے ہیں.وہ جہاں چاہیں اور جس وقت چاہیں جا سکتے ہیں.دنیا میں جہاں جہاں بھی چھوٹے پیشوں اور تجارتوں کو بُرا نہیں سمجھا جاتا وہاں انہیں بہت زیادہ اہمیت حاصل ہوتی ہے.دیکھو! چند دن ہوئے فرانس میں عام انتخابات ہوئے ہیں.ان میں چھوٹے تاجروں کی جماعت ہی میاب رہی ہے اور اس کی وجہ یہی ہے کہ تاجر کسی کا دباؤ نہیں مانتا.پس جماعت میں تجارت کی تحریک کرنی چاہیے.چاہے وہ تجارت کتنی ہی چھوٹی کیوں نہ ہو.یورپ میں تو بڑے بڑے تعلیم یافتہ لوگ پھیری کا کام کر لیتے ہیں اور پھر آہستہ آہستہ اس سے ترقی کر لیتے ہیں لیکن ہمارے ملک میں ہر کوئی یہی کہتا ہے کہ وہ تھانیدار ہو جائے.ہمارے ایک دوست تھے

Page 23

10 $1956 خطبات محمود جلد نمبر 37 جو بعد میں ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ پولیس ہو کر فوت ہوئے ہیں.وہ ڈبل ایم.اے تھے.انہوں نے ای.اے سی کے لیے کوشش کی اور جب انہیں اس میں کامیابی کی امید ہوئی تو وہ اپنی والدہ ان کے پاس گئے اور اُسے کہا کہ اگر آپ اجازت دیں تو میں ای.اے سی ہو جاؤں.والدہ نے کہا نہ بیٹا! جب سے تم نے ہوش سنبھالا ہے میری یہی خواہش رہی ہے کہ تم تھانیدار ہو جاؤ.وہ بھی بڑے سعید تھے انہوں نے پولیس میں درخواست دی اور تھانیدار ہو گئے.وہ مالی لحاظ سے اکثر بڑی تکلیف میں رہتے تھے اور جب کبھی وہ اس کی شکایت کرتے میں انہیں یہی کہتا ہے کہ آپ اپنے شوق کی وجہ سے پولیس میں ملازم ہوئے تھے اب ان تکالیف کو برداشت کریں.آخر میں خدا تعالیٰ نے فضل کیا اور وہ ڈی.ایس.پی ہو گئے.وہ لاہور کے ضلع سے ہی ریٹائر ہوئے تھے.ریٹائرمنٹ کے وقت وہ قصور میں مقرر تھے.غرض خدا تعالیٰ نے دنیا میں مختلف قسم کے پیشے بنائے ہیں جن میں سے ایک ملازمت بھی ہے لیکن ملازمت میں ترقیات بہت محدود ہوتی ہیں.دوسرے پیشوں میں ترقی کی بہت زیادہ گنجائش ہے.مثلاً تجارت ہے اسے چھوٹے پیمانہ سے بھی شروع کیا جائے تب بھی اس میں ترقی کے بہت زیادہ امکانات ہوتے ہیں.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ شروع شروع میں تکلیف ہوتی ہے لیکن آخر ایک وقت آتا ہے جب تجارت بڑھ جاتی ہے اور تکلیف کی بجائے کشائش اور فراوانی میسر آ جاتی ہے.پس جماعت کے دوستوں کو صرف نوکریوں کے پیچھے نہیں پڑنا چاہیے بلکہ تجارت کی طرف بھی توجہ کرنی چاہیے.ہمارے تعلیم یافتہ طبقہ کو چھوٹی چھوٹی تجارتوں سے گھبرانا نہیں چاہیے کیونکہ ان چھوٹی چھوٹی تجارتوں سے ہی ترقی کر کے انسان بڑی تجارتوں کا مالک بن جاتا ہے.لارڈ نفیلڈ 2 کو لے لو اس نے شروع شروع میں سائیکل مرمت کرنے کی معمولی سی دکان کھولی تھی.پھر اس سے ترقی کی اور بعد میں ”لور پس کار نکالی اور ایک وقت ایسا آیا کہ اس کی مالی حالت اتنی مضبوط ہو گئی کہ پچھلی جنگِ عظیم میں اس نے حکومت کو دولاکھ پونڈ بطور امداد دیئے حالانکہ شروع شروع میں اس نے سائیکل مرمت کرنے کی ایک معمولی سی دکان کھولی تھی.

Page 24

خطبات محمود جلد نمبر 37 11 $1956 غرض اللہ تعالیٰ کے فضل سے تجارت میں بہت برکت ہے.اس لیے دوستوں کو زیادہ سے زیادہ اس کی طرف توجہ کرنی چاہیے اور اپنی اولاد کی اس رنگ میں تربیت کرنی چاہیے کہ وہ کسی چھوٹے سے چھوٹے پیشہ کو بھی حقارت کی نظر سے نہ دیکھے.اور یاد رکھیں کہ یہ چھوٹے چھوٹے پیشے ہی انسان کو بڑی بڑی تجارتوں کی عقل سکھاتے ہیں.مثلاً ایک آدمی سائیکلوں اور موٹروں کی مرمت کا کام کرے تو کچھ عرصہ بعد وہ سائیکلیں اور موٹریں رکھنے میں کامیاب ہو جاتا ہے.کیونکہ اسے پتا ہوتا ہے کہ ہر ایک پرزہ کی کیا کیا قیمت ہے اور اسے کس طرح سنبھال کر رکھا جا سکتا ہے اور پھر آہستہ آہستہ ترقی کر جاتا ہے.مجھے یاد ہے حضرت نانا جان کو مستری محمد موسی صاحب سے بہت محبت تھی.آپ جب بھی لاہور تشریف لاتے اُنہی کے ہاں ٹھہرتے.ایک دفعہ آپ لاہور تشریف لائے تو میں بھی ساتھ تھا.آپ مستری صاحب کے مکان پر ہی ٹھہرے.وہ ہمارے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ یکدم باہر نکلے.چٹھی رساں آیا تھا اور اس نے ایک تار انہیں دی تھی.وہ پھر اندر آئے اور نانا جان سے کہنے لگے نانا جان ! مجھے پانچ منٹ کی اجازت دیں میں نے ایک ضروری کام کرنا ہے.چنانچہ انہوں نے سائیکل لیا اور جلدی سے باہر چلے گئے.تھوڑی دیر کے بعد واپس آئے تو سانس پھولا ہوا تھا اور جسم پسینہ سے شرابور تھا.آتے ہی کہنے لگے نانا جان! ایک منٹ کی دیر کی وجہ سے پندرہ بیس ہزار روپیہ ہاتھ سے نکل گیا.آپ نے دریافت فرمایا مستری صاحب! یہ کیسے؟ تو مستری صاحب نے بتایا کہ فلاں سائیکل کی قیمت یکدم بڑھ گئی تھی.مجھے تار کے ذریعہ اس کی اطلاع ملی.تار مجھے دوسرے سائیکل کے تاجروں سے پہلے مل جاتا ہے.میں نے خیال کیا کہ انہیں اطلاع ملنے سے پہلے پہلے میں ان میں سے کسی کے پاس چلا جاؤں اور اُس سے سارے سائیکلوں کا سودا کر لوں.چنانچہ میں فوراً سائیکل لے کر ایک تاجر کے پاس گیا اور اُسے پہلی قیمت پر ایک روپیہ زیادہ آفر (Offer) کیا تو وہ سارے سائیکلوں کا سودا کرنے پر تیار ہو گیا.سائیکل کی قیمت پہلے مثلاً پچانوے روپے تھی تو وہ ایک سو میں روپے ہو گئی تھی.لیکن وہ چھیانوے روپے پر سودا کرنے پر راضی ہو گیا.لیکن ابھی وہ بیع نامہ تحریر کر ہی رہا تھا کہ اُسے بھی اطلاع مل گئی اور اس نے سودا کرنے سے

Page 25

$1956 12 خطبات محمود جلد نمبر 37 انکار کر دیا.اگر ڈا کیا وہاں ایک منٹ بعد آتا تو آج مجھے پندرہ بیس ہزار روپیہ کا فائدہ ہو.جاتا.اب یہ واقفیت اُنہیں اس چھوٹے کام کی وجہ سے ہی ہوئی جو انہوں نے شروع کیا تھا.پھر اللہ تعالیٰ نے اس میں ترقی دے دی اور اب ان کی اولاد میں بھی بہت سے اچھے کمانے والے پیدا ہو گئے ہیں.پس تجارت کی وجہ سے شروع شروع میں اگر چہ وقت ہوتی ہے لیکن بالآخر انسان ترقی کر جاتا ہے.ہماری جماعت کو بھی اس طرف توجہ کرنی چاہیے.اس وقت جو لوگ لاکھ پتی ہیں ان میں سے اکثر چھوٹی چھوٹی تجارتوں سے ہی ترقی کر کے اس حالت تک پہنچے ہیں.الفضل 28 جنوری 1956ء) 1 : در مشین اُردو صفحہ 38 2 : لارڈ نفیلڈ (William Morris,Ist Viscount Nuffield) 10/ اکتوبر 1877ء کو برطانیہ میں پیدا ہوا اور 22 اگست 1963ء کو فوت ہوا.اس نے 15 سال کی عمر میں ایک سائیکلوں کی دکان پر کام شروع کیا.9ماہ بعد اس نے اپنا سائیکل کا کاروبار شروع کر دیا.اس کام میں ترقی کی تو دکان بنالی.اس نے پہلے موٹر سائیکل بنائی اور پھر لور پس نامی کار تک بنا ڈالی.

Page 26

$1956 13 2 خطبات محمود جلد نمبر 37 یورپ کے سائنسدان اب حضرت مسیح علیہ السلام کی بن باپ پیدائش کو ان کی الوہیت کی دلیل قرار نہیں دیتے یہ خدا تعالیٰ کا خاص فضل اور نشان ہے کہ دنیا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیان فرموده صداقتوں کو تسلیم کرنے پر مجبور ہو رہی ہے (فرمودہ 13 جنوری 1956ء بمقام ربوہ ) تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: " آج مجھے لندن سے ایک خط ملا ہے جو میر داؤ د احمد کی طرف سے آیا ہے.اس میں انہوں نے ذکر کیا ہے کہ اب ہماری مسجد میں خدا تعالیٰ کے فضل سے علمی طبقہ کے لوگ آنے لگ گئے ہیں.چنانچہ حال ہی میں مس پیری نے (غالباً ڈاکٹر ہیں کیونکہ آگے چل کر خط میں ذکر آتا ہے کہ انہوں نے کہا میں جس کالج میں پڑھاتی ہوں اور جس ہسپتال میں کام کرتی ہوں اس میں کام کرنے والے ڈاکٹروں نے مجھے اس بات پر مبارکباد دی ہے اور مجھ پر رشک کیا ہے کہ مجھے مسجد لندن میں لیکچر کے لیے بلایا گیا ہے ہماری مسجد میں اس بات پر لیکچر دیا ہے کہ عورت کے ہاں بغیر مرد کے بھی بچہ پیدا ہوسکتا ہے.

Page 27

خطبات محمود جلد نمبر 37 14 $1956 اب دیکھو! وہی انگلستان جو دنیا میں عیسائیت کی تبلیغ کا مرکز تھا اس میں ایسے لوگ پیدا ہونے لگ گئے ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی باتوں کی تصدیق کر رہے ہیں.بغیر باپ کے بچہ پیدا ہونا غیروں کے لیے تو الگ رہا خود احمدیوں کے ایک طبقہ کے لیے بھی نا قابل تسلیم امر تھا اور وہ اسے سنة الله کے خلاف خیال کرتے تھے.گو اس عتراض کا جواب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے یہ دیا ہے کہ وہ کونسا انسان ہے جس نے ساری سنة الله کا احاطہ کر لیا ہو؟ جب کسی انسان کو بھی خدا تعالیٰ کی ساری سنتوں کا علم نہیں تو تم یہ نہ کہو کہ یہ امر سنة الله کے خلاف ہے بلکہ یہ کہو کہ سنۃ اللہ کا جس قدر ہمیں علم ہے یہ بات اس کے خلاف معلوم ہوتی ہے.مگر اب اسی بات کو جو آج سے کئی سال قبل حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے پیش کی تھی خود عیسائی مان رہے ہیں.اس سے تم اندازہ لگا سکتے ہو کہ احمدیت کے مخالفوں پر کتنی ضر میں پڑتی ہیں.پہلی ضرب تو عیسائیت پر پڑتی ہے کیونکہ عیسائیوں کا یہ عقیدہ ہے کہ مسیح چونکہ ین باپ پیدا ہوئے تھے اس لیے وہ انسان نہیں بلکہ خدا تعالیٰ کے بیٹے تھے.لیکن اب عیسائی ڈاکٹر ہی کہہ رہے ہیں کہ کسی بچہ کا بغیر باپ کے پیدا ہونا کوئی معجزہ نہیں کیونکہ سائنس نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ بغیر مرد کے بھی عورت کے ہاں بچہ پیدا ہو سکتا ہے.اور جب عورت بغیر مرد کے بھی بچہ بن سکتی ہے تو اس وجہ سے کہ مسیح بغیر باپ کے پیدا ہوئے اُن کا خدا تعالیٰ کے بیٹے ہونے کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا.پس سائنسدانوں کا یہ انکشاف عیسائیت پر ایک عمر ہے.پھر یہ انکشاف اُن مسلمانوں پر بھی ایک نہر ہے جو کہتے تھے کہ مسیح علیہ السلام جبریل کے نفخ روح سے پیدا ہوئے تھے.جب بچہ بغیر باپ کے بھی پیدا ہو سکتا ہے تو جبریل کو حضرت مریم میں نفخ روح کرنے کی کیا ضرورت تھی.آخر بات وہی نکل آئی جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے کہی تھی کہ انسان کی پیدائش بغیر باپ کے بھی ممکن.اور بغیر باپ کے پیدا ہونے والا انسان انسان ہی رہتا ہے خدا تعالیٰ کا بیٹا نہیں بن جاتا.اور پھر اس سے قانونِ قدرت بھی نہیں ٹوٹتا.ہے گویا سائنس کے اس انکشاف سے عیسائیوں، غیر احمدیوں اور غیر مبائعین تینوں پر

Page 28

$1956 15 خطبات محمود جلد نمبر 37 بڑی بھاری ضرب پڑتی ہے.عیسائیوں پر اس لیے کہ وہ کہتے ہیں مسیح علیہ السلام چونکہ باقی تی انسانوں کے خلاف بغیر باپ کے پیدا ہوئے ہیں اس لیے وہ خدا تعالیٰ کے بیٹے ہیں.غیر احمد یوں پر اس لیے کہ اُن کا عقیدہ ہے کہ مسیح علیہ السلام جبریل کے نفخ روح سے پیدا وئے تھے.غیر مبائعین پر اس لیے کہ اُن کا خیال ہے کہ مسیح کا بغیر باپ کے پیدا ہونا قانونِ قدرت کے خلاف ہے.گویا اس نئے انکشاف نے مسیح علیہ السلام کی پیدائش سے متعلق تمام تھیوریوں کو غلط ثابت کر دیا اور صرف وہی تھیوری باقی رہ گئی جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے پیش کی تھی کہ حضرت مسیح علیہ السلام کی پیدائش کے لیے نہ خدا تعالیٰ کو یہ ضرورت ا کہ جبریل علیہ السلام کو حضرت مریم کے پاس نفخ روح کے لیے بھیجے ، نہ ان کا بغیر باپ کے پیدا ہونا ان کی خدائی کا ثبوت ہے اور نہ حضرت مسیح علیہ السلام کا بغیر باپ کے پیدا ہونا قانونِ قدرت کے خلاف ہے.بیشک کہنے والے بعض دفعہ کہہ دیتے ہیں کہ یہ زمانہ کی ایک رو تھی جس کے باعث یہ بات پیش کی گئی تھی لیکن اگر یہ بات زمانہ کی ایک رو کا ہی نتیجہ ہوتی ز خود حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے بعض مُرید بھی اس نظریہ کا کیوں انکار کر دیتے.مولوی محمد علی صاحب نے اس تھیوری کے خلاف نہایت سخت مضمون لکھا ہے لیکن اب خود سائنسدانوں نے ان کے عقیدہ کو غلط ثابت کر دیا ہے.اس سے پہلے مجھے ڈھاکہ سے بھی ایک اخبار کا کٹنگ آیا تھا جس میں یہی ذکر تھا اور اب لندن سے خط آیا ہے کہ ایک ڈاکٹر نے تقریر کی ہے کہ بغیر باپ کے پیدا ہونا کوئی اچنبھے کی بات نہیں.پہلے یہی سائنس دان اس بات پر ہنسی اُڑایا کرتے تھے کہ مسیح علیہ السلام بغیر باپ کے کس طرح پیدا ہو گئے.وہ حضرت مسیح علیہ السلام کو خدا نہیں مانتے تھے بلکہ سمجھتے تھے کہ مسیح علیہ السلام کی بغیر باپ کے پیدائش کا قصہ ہی غلط ہے لیکن اب خدا تعالیٰ نے خود سائنسدانوں کا دماغ اس طرف پھیر دیا ہے کہ وہ بغیر باپ کے پیدائش کو ممکن کہنے لگ گئے ہیں.مجھے یاد ہے شروع شروع میں حضرت خلیفہ اسی الاول کو بھی اس بارہ میں تردد تھا اور آپ فَتَمَثَّلَ لَهَا بَشَرًا سَوِيًّا 1 سے یہ مراد لیتے تھے کہ ممکن ہے حضرت مریم علیہا السلام نے کسی نیک اور فرشتہ سیرت انسان سے شادی کر لی ہو جس کے نتیجہ میں

Page 29

$1956 16 خطبات محمود جلد نمبر 37 حضرت مسیح علیہ السلام پیدا ہوئے ہوں.ایک دفعہ بچپن کے زمانہ میں میں نے ایک مضمون لکھا جس میں میں نے اس تھیوری کا ذکر کر دیا.میں نے لکھا کہ خدا تعالی کی کئی قدرتیں ہیں جن کا ظہور اس دنیا میں وقتاً فوقتاً ہوتا رہتا ہے.میں نے اُس وقت کسی قدر علم حیوانات کا مطالعہ کر لیا تھا اس لیے میں نے مثال دی کہ تجربہ سے پتا لگتا ہے کہ بعض جانور ایسے ہیں جو درمیان سے کٹ جائیں تو اُن کا ہر حصہ علیحدہ علیحدہ ترقی کرنا شروع کر دیتا ہے.اس پر حضرت خلیفہ امسیح الاول نے مجھے فرمایا میاں! تم ابھی بچے ہو تم ان باتوں میں مت پڑو.لیکن اب جوں جوں سائنس ترقی کرتی جاتی ہے دنیا انہی باتوں کی طرف آ رہی ہے جو خدا تعالیٰ نے اور اس کے دیئے ہوئے علم کے نتیجہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے آج سے کئی سال قبل بیان فرمائی تھیں.حضرت مسیح علیہ السلام کے بغیر باپ کے پیدا ہونے کا واقعہ قرآن کریم میں موجود ہے مگر اس سے علماء نے یہ دھوکا کھایا کہ انہوں نے مسیح علیہ السلام کو ایسا وجود قرار دے دیا جو باقی انبیاء سے ممتاز اور مس شیطان سے پاک تھا.حالانکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے کہ سارے انبیاء ہی مسّ شيطان سے پاک ہوتے ہیں.پس حضرت مسیح علیہ السلام کو اس لحاظ سے دوسرے انبیاء پر کوئی امتیاز حاصل نہیں.لیکن بعض مسلمان علماء نے اسے اچنبھے کی پیدائش قرار دے دیا اور عیسائیوں نے باپ پیدائش کو اُن کی خدائی کا ثبوت قرار دے دیا.پھر بعض لوگ ایسے پیدا ہوئے جنہوں نے یہ کہنا شروع کر دیا کہ بن باپ پیدائش قانونِ قدرت کے خلاف ہے.لیکن اب جو نئی رو چلی ہے وہ اُس بات کی تصدیق کرتی ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بیان فرمائی تھی.اور یہ خدا تعالیٰ کا خاص فضل اور نشان ہے کہ وہ دنیا کو آپ کی بیان فرمودہ صداقتوں کی طرف لا رہا ہے.آپ نے فرمایا تھا:.آ رہا ہے اس طرف احرار یورپ کا مزاج 2 چنانچہ اب احرار یورپ میں سے کچھ تو آہستہ آہستہ اپنے بلند بانگ دعاوی کو چھوڑ رہے ہیں اور کچھ ان باتوں کو جو اس سے قبل انہیں غیر قدرتی نظر آتی تھیں قانون قدرت میں شامل کر کے مذہب کی طرف آ رہے ہیں.گویا ثُمَّ دَنَا فَتَدَثْی 3 کی سی کیفیت پیدا

Page 30

خطبات محمود جلد نمبر 37 17 $1956 ہو رہی ہے.یعنی سائنسدان اوپر کی طرف چڑھ رہا ہے اور مولویوں نے جو مبالغہ کا رنگ مذہب پر چڑھا دیا تھا وہ اُتارا جا رہا ہے.بہر حال یہ خدا تعالیٰ کا بہت بڑا نشان ہے جو اُس نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی وفات کے تھوڑا عرصہ بعد ہی جبکہ آپ کے دیکھنے والے ابھی موجود ہیں ظاہر کیا ہے.جو خیالات سینکڑوں سال سے چلے آ رہے تھے انہیں اب مٹایا جا رہا ہے اور حیرت آتی ہے کہ کس طرح دنیا خدائی باتوں کی تصدیق کے لیے تیار ہو رہی ہے.یہی خبر اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ان الفاظ میں دی تھی کہ وَازْ لِفَتِ الْجَنَّةُ لِلْمُتَّقِينَ 4 کہ آخری زمانہ میں جنت متقیوں کے قریب کر دی جائے گی.یعنی اللہ تعالیٰ ایسے سامان پیدا کر دے گا کہ مذہبی باتیں لوگوں کی سمجھ میں آنے لگ جائیں گی اور سائنس مذہب کی جو مخالفت کر رہی ہے وہ آپ ہی آپ ختم ہو جائے گی.اس طرح متقی لوگوں کے لیے جنت کا حصول بہت آسان (الفضل 3 فروری 1956ء) ہو جائے گا.1 : مریم : 18 2 : در مشین اُردو صفحہ 130.زیر عنوان مناجات اور تبلیغ حق 3 : النجم : 9 4 : الشعراء : 91

Page 31

$1956 18 3 خطبات محمود جلد نمبر 37 خدمت اسلام کے لیے آگے آؤ تا تمہیں بھی اسلام کی ترقی کا دن دیکھنا نصیب ہو میری صحت کے لیے پھر خصوصیت سے دعائیں کرو تا اللہ تعالیٰ بیماری کا بقیہ حصہ بھی اپنے فضل سے دور فرمائے (فرموده 20 جنوری 1956ء بمقام ربوہ) تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: ”جب میں کراچی سے یہاں پہنچا تھا تو چند دن تک تو آرام رہا لیکن اس کے بعد پھر تکلیف شروع ہو گئی اور یہ تکلیف شدید قسم کی تھی مگر جماعت کے دوستوں کی دعاؤں سے اور ان کی گریہ و زاری کی وجہ سے خدا تعالیٰ نے ایسا فضل فرمایا کہ بعض دن ایسے گزرے بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ بعض ہفتے ایسے گزرے کہ جن میں یوں معلوم ہوتا تھا کہ طبیعت بالکل ساکن اور ہے.اس کے بعد جلسہ سالانہ آیا.چونکہ یہ جلسہ سالانہ بیماری کے حملہ کے بعد پہلا جلسہ تھا اس لیے محض اس خیال سے کہ اس موقع پر احباب کے سامنے مجھے تقریریں کرنی پڑیں گی اور اس کے ساتھ ساتھ دوستوں سے ملاقاتیں بھی کرنی پڑیں گی طبیعت پر ایک بوجھ سا مطمئن

Page 32

$1956 19 خطبات محمود جلد نمبر 37 محسوس ہوا اور کچھ گھبراہٹ بھی پیدا ہو گئی اور گھبراہٹ سے ہی ڈاکٹروں نے منع کیا ہے مگر خدا تعالیٰ نے فضل کیا.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ تقریروں اور ملاقاتوں کی وجہ سے طبیعت میں کسی قدر بے اطمینانی پیدا ہوئی لیکن جلسہ سالانہ کے دن خیر و عافیت سے گزر گئے.ایک یا دو دن تکلیف رہی اس کے بعد طبیعت میں سکون اور اطمینان پیدا ہو گیا.پھر ہم لاہور گئے.لاہور سے آنے کے بعد ایک یا دو دن تکلیف رہی.اس کے بعد جلد ہی طبیعت میں اطمینان اور سکون پیدا ہو گیا اور چھ سات دن تو میں نے نہایت آرام کے گزارے.مگر پرسوں طبیعت دوبارہ نہایت خطرناک طور پر خراب ہو گئی.بعض اوقات تو یوں معلوم ہوتا تھا کہ ساری بیماری کے دوران میں اس قدر شدید حملہ کبھی نہیں ہوا.نسیان کی اتنی حد ہو گئی کہ نہایت ہی قریب کی نمایاں چیز بھی مجھے بھول جاتی تھی.پہلے بھی نماز میں نسیان ہوتا تھا مگر بعد میں خدا تعالیٰ نے فضل کر دیا تھا اور وہ دور ہونا شروع ہو گیا تھا.مگر ان دنوں تو یہ حالت ہوگئی کہ بارہا مجھے گھر والے بتاتے کہ آپ نے فلاں بات کہی تھی یا آپ نے فلاں دوائی پی تھی تو میں اُس کا انکار کر دیتا اور کہتا یہ بالکل غلط بات ہے.میں نے یہ بات ہرگز نہیں کہی یا میں نے فلاں دوائی نہیں پی.لیکن بعد میں گواہوں کی شہادت کی وجہ سے مجھے ماننا پڑتا کہ مجھے ہی بات بھول گئی تھی.میں دوستوں سے پھر کہتا ہوں کہ وہ دعا کریں کہ خدا تعالیٰ میری بیماری کے بقیہ حصہ کو بھی دور فرمائے اور طبیعت میں سکون اور اطمینان پیدا کرے کیونکہ وہی زندگی کارآمد ہو سکتی ہے جس میں انسان عمدگی سے کام کر سکے.اگر انسان اچھی طرح سے کام نہ کر سکے، اُسے اطمینانِ قلب نصیب نہ ہو، اُس کے دل پر خدا تعالیٰ کی خوشنودی کی بارش نہ ہوتی رہے تو اُس کی زندگی ایک قسم کا عذاب بن جاتی ہے.آج اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ تکلیف میں کسی قدر افاقہ ہے.میری اس تکلیف کی یہ وجہ معلوم ہوئی ہے کہ میری انتڑیوں میں خرابی پیدا ہو گئی تھی جس کی وجہ سے قبض ہو گئی اور قبض بھی ایسی کہ میں نے دن میں دو دفعہ یعنی صبح اور شام جلاب لیا لیکن پھر بھی اجابت نہ ہوئی.کل کیلومل‘ 1 لیا اور خدا تعالیٰ نے فضل کیا کہ آج صبح اجابت ہو گئی ہے.اس لیے آج طبیعت نسبتاً بہتر ہے.گو اتنی بہتر نہیں جیسا کہ میں نے بتایا ہے کہ کچھ عرصہ قبل ہو گئی تھی.اُس وقت تو دماغ بالکل ساکن ہو جاتا تھا اور طبیعت مطمئن ہو جاتی تھی

Page 33

$1956 20 20 خطبات محمود جلد نمبر 37 اور یوں معلوم ہوتا تھا کہ بیماری ہے ہی نہیں.سوائے اس کے کہ پاؤں اور ہاتھ میں کسی قدر کھچاوٹ محسوس ہوتی تھی لیکن اتنی کھچاوٹ کچھ زیادہ تکلیف دہ معلوم نہیں ہوتی.آخر تندرستی کی حالت میں بھی انسان بیٹھے بیٹھے تھک جاتا ہے.لیکن اگر اس کے ساتھ ساتھ دماغ کی پریشانی بھی ہو تو وہ بیماری خطرناک نظر آنے لگ جاتی ہے.پس آج طبیعت میں نسبتاً سکون ہے.گو اس حد تک سکون نہیں جیسے کچھ عرصہ پہلے پیدا ہو گیا تھا.آج میں مختصر طور پر جماعت کو اس امر کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ دو دن ہوئے میرے ایک عزیز نے مجھ سے بیان کیا کہ سندھ کے بعض احمدیوں کو ریل میں سفر کرتے ہوئے بعض آدمی ملے جنہوں نے اُن پر متعدد سوالات کیے جن کی وجہ سے احمدی دوستوں کو وہم ہوا کہ وہ سی.آئی.ڈی کے آدمی ہیں.مگر میرے خیال میں یہ صرف وہم ہی ہے.کیونکہ سی.آئی.ڈی کے آدمیوں کے ماتھے پر تو سی.آئی.ڈی کے الفاظ نہیں لکھے ہوتے.لیکن جب کوئی شخص عجیب قسم کے سوالات کرتا ہے تو لوگ خیال کر لیتے ہیں کہ یہ سی.آئی.ڈی سے تعلق رکھتا ہے.لیکن پھر بھی یہ بہتر ہوتا ہے کہ مرکز کو اطلاع کر دی جائے کیونکہ چاہے وہم ہی ہو اس سے مرکز کو اطلاع دے دینا نہایت اہم چیز ہے.لیکن جس واقعہ کے متعلق میرے اس عزیز نے مجھ سے ذکر کیا ہے اُس کے متعلق میں سمجھتا ہوں کہ وہ محض وہم ہے.کیونکہ مثلاً اگر ایک شخص کسی احمدی دوست سے یہ سوال کرتا ہے کہ تمہاری جماعت کی آمد کتنی ہے؟ جماعت کا چندہ کس قدر ہوتا ہے؟ جماعت کی تعداد کیا ہے اور وہ کہاں کہاں ہے؟ امریکہ سے تمہیں کس قدر مدد ملتی ہے؟ مودودیوں کے ساتھ تمہارے کیا تعلقات ہیں؟ احرار سے تمہارا کیا تعلق ہے؟ تو یہ ساری باتیں ایسی ہیں کہ ان کے لیے گورنمنٹ کو کسی سی.آئی.ڈی کے مقرر کرنے کی ضرورت نہیں کیونکہ اسے ان باتوں کا پہلے سے ہی علم ہے.اگر ہمیں امریکہ سے مدد آئے گی تو وہ منی آرڈر یا بینک کے ذریعہ سے ہی آئے گی اور ڈاک کا محکمہ تو گورنمنٹ کے ماتحت پھر اسے اس کے لیے سی.آئی.ڈی مقرر کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ ہماری جو جماعت پھیلی ہوئی ہے اس کا گورنمنٹ کو علم ہی ہے.پھر اسے یہ بھی پتا ہے کہ جماعت کے کام چلتے ہیں.مثلاً زنانہ کالج ہے، مردانہ کالج ہے، دینیات کالج ہے، دینیات کا مدرسہ ہے، لڑکوں کا

Page 34

خطبات محمود جلد نمبر 37 21 $1956 سکول ہے، لڑکیوں کا سکول ہے، اتنے تعلیمی ادارے کوڑیوں پر نہیں چلتے بلکہ لاکھوں روپے کے خرچ سے چلتے ہیں.آخر جماعت کی تعداد لاکھوں کی ہے.تبھی اتنے کالج اور سکول چل رہے ہیں.گورنمنٹ اِس امر سے ناواقف نہیں ہو سکتی.خدا تعالیٰ کے فضل سے جماعت پاکستان کے ہر حصہ میں موجود ہے.کراچی میں بھی جماعت موجود ہے، سابق سندھ کے مختلف شہروں میں بھی جماعت موجود ہے، سابق بلوچستان کے مختلف شہروں میں بھی جماعت موجود ہے، پشاور ڈویژن میں بھی جماعت موجود ہے، ڈیرہ اسماعیل خاں کے ڈویژن میں بھی جماعت موجود ہے، ہزارہ کے علاقہ میں بھی جماعت ہے، لاہور، ملتان اور راولپنڈی کی کمشنریوں میں بھی جماعت پائی جاتی ہے.پھر بعض شہروں میں اتنی بڑی اور مضبوط جماعت ہے کہ اُس کا سالانہ چندہ لاکھ روپیہ سالانہ سے بھی اوپر ہے.پھر مشرقی پاکستان میں بھی جماعت ہے، ہندوستان میں بھی جماعت ہے ، انڈونیشیا میں بھی جماعت ہے، امریکہ میں بھی جماعت اگر اتنی بڑی تعداد میں جماعت موجود ہے اور وہ مجھتی ہے کہ یہ اُس کا دینی کام ہے اور وہ اس ہے.کے لیے چندے دیتے ہیں تو اس میں تعجب کی کونسی بات ہے کہ روپیہ کہاں سے آتا ہے.امریکہ کی جماعت کے متعلق مجھے وہاں کے مبلغ خلیل احمد صاحب ناصر نے بتایا تھا کہ اس کا سالانہ چندہ چالیس ہزار ڈالر یعنی دولاکھ روپیہ سالانہ تک پہنچ گیا ہے.میں نے چودھری غلام یسین صاحب سے جو امریکہ میں عرصہ تک بطور مبلغ کام کر چکے ہیں اس بات کا ذکر کیا تو انہوں نے کہا خلیل احمد صاحب ناصر کو غلطی لگی ہے.امریکہ کی جماعت کا چندہ دس ہزار ڈالر کے قریب ہے چالیس ہزار ڈالر نہیں.میں نے خلیل احمد صاحب ناصر کو لکھا کہ آپ تو کہتے تھے کہ جماعت امریکہ کا سالانہ چندہ چالیس ہزار ڈالر ہے لیکن آپ کا ایک نائب کہتا ہے کہ یہ بات درست نہیں.جماعت امریکہ کا چندہ چالیس ہزار ڈالر نہیں بلکہ دس ہزار ڈالر سالانہ ہے.اس پر خلیل احمد صاحب ناصر نے تحریر کیا کہ میں نے جو کچھ کہا تھا وہی درست ہے اور رجسٹروں میں جو چندہ کا حساب درج ہے یہ رقم اس کے مطابق ہے.میرے نائب کو غلطی لگی ہے.دراصل بات یہ ہے کہ انہوں نے صرف چندہ کے اُس حصہ کا اندازہ لگایا ہے جو مرکز کے زیر انتظام خرچ ہوتا ہے.حالانکہ یہاں چندہ کئی مدات میں تقسیم ہوتا ہے.اس میں سے کچھ تو

Page 35

$1956 22 22 خطبات محمود جلد نمبر 37 ملک لوکل چندہ ہوتا ہے جس سے ہم تبلیغی جلسوں اور دوسرے اجتماعوں کے لیے ہال کرایہ پر لیتے ہی ہیں اور مقامی تبلیغ پر خرچ کرتے ہیں.کچھ حصہ چندہ کا مساجد پر خرچ ہوتا ہے.پھر چندہ کا کچھ حصہ امریکہ کی مرکزی انجمنوں پر خرچ ہوتا ہے اور کچھ حصہ تابع مرضی مرکز ہوتا ہے.غرض انہوں نے لکھا کہ امریکہ کی جماعت کا چندہ یقیناً چالیس ہزار ڈالر سالانہ ہے.میں نے رجسٹروں سے چیک کر لیا ہے اور خدا تعالیٰ کے فضل سے اس میں روز بروز ترقی ہو رہی ہے.پھر ان لوگوں کو خدا تعالیٰ نے ایسی ہمت دی ہے کہ کل ہی مجھے امریکہ سے ایک نوجوان کا خط آیا.وہ ان دنوں وہاں کسی کالج میں تعلیم حاصل کر رہا ہے.اس نوجوان نے تحریر کیا ہے کہ میں نے سنا ہے آپ امریکہ سے دو مبلغ واپس بلا رہے ہیں اور یہ بہت افسوسناک امر ہے.ہمارے ہاں تو دو سو مبلغ بھی ہوں تو وہ کافی نہیں.کیونکہ امریکہ اتنا وسیع ملک ہے کہ چار پانچ ہزار میل کی لمبائی میں پھیلا ہوا ہے اور ہندوستان سے قریباً دُگنا ہے.اتنے بڑے میں آپ نے صرف آٹھ مبلغ بھیجے ہیں.بھلا ان آٹھ مبلغوں سے یہاں کیا بنتا ہے.یہاں تو کم سے کم دو سو مبلغ ہوں تب کہیں جا کر سارے ملک میں اسلام اور احمدیت کی آواز پہنچ سکتی ہے.پس آپ کو تو یہاں دو سو مبلغ بھیجنا چاہیے لیکن میں نے سنا ہے کہ آپ ان آٹھ مبلغین میں سے بھی دو کو واپس بلا رہے ہیں.پھر اس نوجوان نے لکھا ہے کہ میں مانتا ہوں کہ جماعت پر اخراجات کا بوجھ ہے لیکن بجائے اس کے کہ ہم مبلغین کی تعداد کو کم کریں ہمیں ان اخراجات کے بوجھ کو ہلکا کرنے کی تدابیر کرنی چاہیں.پھر وہ لکھتا ہے کہ آپ ہمارے ملک کا قیاس پاکستان پر نہ کریں کیونکہ ہمارے ملک میں اقتصادی حالت اتنی ترقی یافتہ ہے کہ مجھے ذاتی طور پر پتا ہے کہ یہاں بعض افراد نے پانچ سو ڈالر کے ساتھ کام شروع کیا اور آج ان کی آمد دس ہزار ڈالر سالانہ ہے.پانچ سو ڈالر کے یہ معنے ہیں کہ اُنہوں نے پچیس سو روپیہ سے کوئی تجارت یا صنعت شروع کی تھی اور آج ان کی سالانہ آمد پچاس ہزار روپیہ سالانہ تک پہنچ گئی ہے.اس نوجوان نے مزید لکھا ہے کہ آپ ہمیں منظم کریں اور ہمیں کاموں پر لگائیں.جب ہماری آمد میں بڑھیں گی تو چندے آپ ہی آپ بڑھیں گے.چنانچہ وہاں اس قسم کی ہے کوشش جاری ہے کہ جماعت کو منظم کر کے اُن کی آمد کو بڑھایا جائے اور اِنشَاءَ اللهُ یہ بات

Page 36

$1956 23 خطبات محمود جلد نمبر 37 بعید نہیں کہ چند سالوں میں امریکن جماعتوں کے چندے پاکستان کے چندوں سے بھی بڑھ جائیں گے.اور یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ وہ ایسی تدبیریں کر رہا ہے کہ جن کے نتیجہ میں جیسے مالدار ملک میں لوگوں کو اسلام کی طرف توجہ ہو رہی ہے.پاکستانیوں کو تو اس بات.مدد پر خوش ہونا چاہیے کہ جس ملک کے آگے انہیں مدد کے لیے ہاتھ پھیلانا پڑ رہا ہے وہ ملک.لینے کے لیے ہماری طرف اپنا ہاتھ پھیلا رہا ہے، جس ملک کے لوگ عیسائیت پھیلا رہے ہیں س میں اب ہمارے ذریعہ ایسے لوگ کھڑے ہو گئے ہیں جو اسلام کی اشاعت کے لیے ناب ہیں اور یہ بڑی خوشی کی بات ہے.اس کے متعلق فکر کرنے کی ضرورت نہیں.جہاں تک گورنمنٹ کی مدد کا سوال ہے اخبارات میں پاکستان کے بعض وزراء کی تقریریں چھپی ہیں کہ حکومت امریکہ نے حکومت پاکستان کو اتنی مدد دی ہے.ہمیں مدد دینے کے متعلق تو نہ کبھی گورنمنٹ نے اعلان کیا ہے اور نہ گورنمنٹ کے رسل و رسائل کے ذرائع نے کبھی اعلان کیا ہے کہ گورنمنٹ نے اس قدر مدد احمدیوں کو دی ہے.لیکن جہاں تک پاکستان کو مدد ملنے کا سوال ہے اس کے متعلق خود پاکستان کے وزراء نے اعلانات کیے ہیں جو اخبارات میں بھی چھپ چکے ہیں.بلکہ گورنر جنرل نے بھی کہا ہے کہ حکومت امریکہ نے حکومت پاکستان کو اس قدر مدد دی ہے.پس جہاں تک گورنمنٹ امریکہ کا تعلق ہے وہ ہم سے ایسی ہی جدا ہے جیسے دوسرے ممالک کی غیر مسلم حکومتیں جُدا ہیں.اور جہاں تک امریکن لوگوں کا سوال ہے ان کی اکثریت اب بھی عیسائی ہے.مگر اب خدا تعالیٰ کے فضل سے اُن میں ایک ایسی جماعت پیدا ہو چکی.جو اسلام لے آئی ہے اور خدا تعالیٰ کے فضل سے وہ روز بروز بڑھ رہی ہے.اس کے اندر اسلام کی خدمت کا بڑا جوش پایا جاتا ہے اور ہم امید رکھتے ہیں کہ ترقی کرتے کرتے جب اس کی تعداد ایک خاص حد تک پہنچ جائے گی تو ہزاروں اور لاکھوں ڈالر کا سوال ہی پیدا نہیں ہوگا بلکہ ان کا چندہ اربوں تک پہنچ جائے گا.جیسا کہ میں نے ابھی بتایا ہے امریکہ کے انچارج مبلغ ہی خلیل احمد صاحب ناصر نے مجھ سے بیان کیا تھا کہ ہماری جماعت کا چندہ چالیس ہزار ڈالر سالانہ تک پہنچ گیا ہے.یہ رقم بہت بڑی ہے لیکن ہم اسے کچھ بھی نہیں سمجھتے بلکہ ہم تو امید

Page 37

$1956 24 خطبات محمود جلد نمبر 37 رکھتے ہیں کہ وہاں کے مبلغ ہمیں یہ اطلاع دیں گے کہ امریکہ کی جماعت کا چندہ چالیس ہزار ڈالر سالانہ نہیں، چالیس لاکھ ڈالر سالانہ نہیں، چالیس کروڑ ڈالر سالانہ نہیں، چالیس ارب ڈالر سالانہ نہیں بلکہ چالیس کھرب ڈالر سالانہ ہے.یعنی پاکستان کی موجودہ سالانہ آمد سے بھی دس ہزار گنا زیادہ ہے.اُس وقت ہم سمجھیں گے کہ امریکہ آج اسلام کے قریب ہوا ہے.جب امریکہ اپنا کلیجہ نکال کر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں پیش کر دے گا تب ہم سمجھیں گے کہ امریکہ آج اسلام لایا ہے.تھوڑے بہت روپے کو ہم کچھ نہیں سمجھتے.یہ روپیہ کیا ہے؟ امریکہ کے لحاظ سے تو یہ اُس کے ہاتھ کی میل ہے بلکہ اُس کے ہاتھ کی میل بھی نہیں.جس دن امریکہ اربوں ارب روپیہ بطور چندہ اسلام کی اشاعت کے لیے دے گا، جس دن امریکہ میں لاکھوں مسجدیں بن جائیں گی، جس دن امریکہ میں لاکھوں میناروں پر اذان دی جائے گی، جس دن امریکہ میں لاکھوں امام، مساجد میں پانچ وقت نماز پڑھایا کریں گے اُس دن ہم سمجھیں گے کہ آج امریکہ اپنی جگہ سے ہلا ہے.پس دوستوں کو یاد رکھنا چاہیے کہ اگر اُن پر کوئی شخص اس قسم کا سوال کرے تو وہ اُسے ہنس کر یہ جواب دیا کریں کہ میاں! تم کون ہو پوچھنے والے؟ یہ تو ایسی بات ہے جس کا گورنمنٹ کو بھی علم ہے.سارے منی آرڈر اُس کی معرفت آتے ہیں اور بینکوں پر اُس کا تسلط ہے.معلوم ہوتا ہے تمہیں کوئی دھوکا لگ گیا ہے یا تم سے کسی افسر نے مذاق کیا ہے کہ احمدیوں کو امریکہ سے امداد آتی ہے ورنہ اسے کیا ضرورت تھی کہ وہ یہ بات تمہارے ذریعہ دریافت کرتا.وہ تو بڑی آسانی سے ڈاکخانوں سے اس بات کے متعلق معلومات حاصل کر سکتا تھا، وہ بینکوں سے اس کا علم لے سکتا تھا.بھلا گورنمنٹ سے یہ باتیں چُھپ سکتی ہیں؟ ڈاک کا محکمہ گورنمنٹ کے ماتحت ہے.اس لیے ڈاکخانوں کی معرفت جو روپیہ ملتا ہے گورنمنٹ کے افسران کو اُس کا علم ہوتا ہے.ہاں! بعض اوقات گورنمنٹیں مصلحتاً کہہ دیا کرتی ہیں کہ ہمیں فلاں بات کے متعلق پتانہیں حالانکہ اُنہیں اُس کا علم ہوتا ہے.پس ایسی باتیں بعض لوگ برسبیل تذکرہ کر دیا کرتے ہیں.اس لیے یہ خیال کر لینا کہ ایسی باتیں کرنے والا ضرور گورنمنٹ کا جاسوس ہے فضول بات ہے.اگر کوئی شخص

Page 38

$1956 25 25 خطبات محمود جلد نمبر 37 اس قسم کی باتیں کرتا ہے تو مومن کو چاہیے کہ بجائے اس کے کہ وہ وہم کرے کہ وہ گورنمنٹ کا آدمی ہے وہ خدا تعالیٰ سے استغفار کرے.ہاں! اگر وہ مرکز کو خبر دے دیتا ہے تو اس میں کوئی حرج نہیں.دراصل یہ باتیں ایسی ہیں کہ ان کے لیے گورنمنٹ کو سی.آئی.ڈی مقرر کرنے کی ضرورت نہیں.اگر کسی کو کسی بیرون ملک کی معرفت روپیہ آتا ہے تو حکومت کو اُس کا علم ہوتا ہے کیونکہ وہ روپیہ اُسی کے محکمہ کے ذریعہ آتا ہے.پھر یہ بات بھی قابل غور ہے کہ اس وقت دنیا کی سب سے زیادہ عقلمند قوم امریکہ ہے اور اس کا حکومتی مذہب عیسائیت ہے.اب وہ کون پاگل حکومت ہو گی جو اپنے مذہب کے خلاف دوسروں کو روپیہ دے.ہم تو حکومت امریکہ کے مذہب عیسائیت کے خلاف لڑتے ہیں اور اُن کے عقائد کو باطل قرار دیتے ہیں.یہ تو ایسی ہی بات ہے کہ جیسے حضرت مسیح علیہ السلام کو یہود نے کہا کہ تمہیں بعل سکھاتا ہے ( بعل ایک بُت کا نام تھا جس سے یہودی لوگ عقیدت رکھتے تھے ) تو مسیح علیہ السلام نے جواب دیا کہ اے نادانو! میں تو بعل کے خلاف تعلیم دیتا ہوں.پھر وہ مجھے اپنے خلاف باتیں کیوں سکھاتا ہے؟ کیا کوئی دوسرے کو اپنے مذہب کے خلاف باتیں سکھاتا ہے؟ پھر تم میرے متعلق یہ خیال کیسے کر سکتے ہو کہ بعل مجھے سکھاتا ہے جبکہ میں اُس کے خلاف تعلیم دیتا ہوں.2 اب دیکھو! یہ کتنی موٹی دلیل ہے.اسی طرح ہم بھی کہتے ہیں.مگر کیا امریکہ کی عقل ماری گئی ہے کہ وہ ہمیں روپیہ دے حالانکہ ہم اس کے مذہب کے خلاف تبلیغ کر رہے ہیں.اور وہ دن دور نہیں جب ہم اس کے مذہب کو توڑ کے رکھ دیں گے.وہ دن دور نہیں جب احمدیہ کے ذریعہ امریکہ میں عیسائیت پاش پاش ہو جائے گی اور اسلام قائم ہو جائے گا.وہ دن دور نہیں جب مسیح کو امریکہ کے تخت سے اُتار دیا جائے گا اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تخت پر بٹھا دیا جائے گا.جب وہ زمانہ آجائے گا تو حکومت امریکہ بیشک ہمیں امداد دے گی اور نہ ی صرف ہمیں حکومت امریکہ امداد دے گی بلکہ وہ ہمارے آگے ہاتھ جوڑے گی کہ خدا کے لیے ہم سے مدد لو اور ہمیں ثواب سے محروم نہ رکھو.مگر آج وہ ہمیں مدد نہیں دے سکتی.کیونکہ آج کی اُسے نظر آ رہا ہے کہ ہم اُس کے مذہب کے خلاف تقریریں کرتے ہیں اور کتابیں لکھتے ہیں.

Page 39

$1956 26 خطبات محمود جلد نمبر 37 بیشک انفرادی طور پر بعض اچھے افراد بھی ہوتے ہیں مثلاً امریکہ کے بعض آدمیوں نے ہماری کتب پر ریویو لکھے ہیں اور وہ بہت زبردست ہیں لیکن یہ سب انفرادی مثالیں ہیں.حکومت تو مجموعہ افراد کا نام ہوتا ہے اور مجموعہ افراد میں اکثریت عیسائیوں کی ہے.اور جب اکثریت ائیوں کی ہے تو وہ ہماری مدد کیوں کریں گے؟ وہ جب بھی کریں گے مخالفت ہی کریں گے.ہاں ! جس دن اُن پر اسلام کی حقانیت واضح ہو جائے گی اُس دن وہ اسلام کی تائید کریں گے اور تائید بھی چوری چھپے نہیں کریں گے بلکہ گھٹوں کے بل گر اور ہاتھ جوڑ کر درخواستیں کریں گے کہ اُن سے اسلام کی اشاعت کے لیے امداد قبول کر لی جائے اور اس طرح ان کو ثواب میں شریک کر لیا جائے.اُس دن یہ سوال نہیں ہو گا کہ کوئی حکومت تحقیقات کرے کہ کون کس کو مدد دیتا ہے.بلکہ اُس دن وہ اس بات پر فخر کریں گے کہ اسلام ہمارا مذہب ہے اور یہ لوگ ہمارے ہم مذہب ہیں.ہم انہیں مالی امداد دے کر فخر محسوس کرتے ہیں.اور جب وہ دن آ جائے گا تو سارے مسلمان کیا حنفی، کیا شافعی، کیا شیعہ اور کیا سنی خوش ہوں گے.بلکہ میں تو سمجھتا ہوں وہ دن آ گیا تو مودودی بھی خوش ہوں گے اور کہیں گے کہ اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ آج امریکہ بھی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مدد کے لیے تیار ہو گیا ہے.یہ لوگ اُسی وقت تک ہی ناراض ہیں جب تک ظاہری شان و شوکت غیر کے ہاتھ ہے.جب ظاہری شان و شوکت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ میں ہو گی تو اُس دن کمزور دل لوگ بھی جو آج تبلیغ اسلام کی مخالفت کرتے ہیں اس بات پر فخر کریں گے کہ اللہ تعالیٰ نے سب لوگوں کے دلوں کو اسلام کی طرف پھیر دیا ہے.گو اُس دن کے آنے میں ابھی دیر ہے مگر تم لوگوں کی قربانیوں ہی کی دیر ہے، تم لوگوں کی اصلاح کی ہی دیر ہے.اگر تم خدا تعالیٰ کے حضور گر جاؤ، اُس کے آگے رو رو کر دعائیں کرو اور اپنی قربانیوں کے معیار کو بڑھا دو تو وہ دن قریب تر آجائے گا.جیسا کہ میں نے بتایا ہے کہ امریکہ سے ایک نوجوان نے مجھے لکھا دوسو مبلغ بھیج دیں تو ہمارے ملک میں اسلام کی گونج پیدا ہو جائے گی.وہ لکھتا ہے کہ امریکہ اتنا وسیع ملک ہے کہ ایک ایک شہر دوسرے شہر سے ہزار ہزار، دو دو ہزار میل کے فاصلہ پس تم قربانیاں کرو تا وہ دن قریب آ جائے جب عیسائیت پاش پاش ہو جائے ہے

Page 40

$1956 27 خطبات محمود جلد نمبر 37 اور اسلام کا جھنڈا ہر جگہ گاڑ دیا جائے.میں نوجوانوں سے کہتا ہوں کہ دیکھو کہ اس وقت امریکہ میں جس مبلغ کے ذریعہ گوری قوم میں اسلام پھیلنا شروع ہوا ہے وہ صرف میٹرک پاس ہے.وہ گریجویٹ بھی نہیں، وہ شاہد بھی نہیں بلکہ وہ ایف.اے بھی نہیں.وہ میٹرک پاس کر کے ہمارے پاس آ گیا، اُس نے دین کی کی خدمت کے لیے زندگی وقف کی.ہمیں اُس وقت ایسے آدمیوں کی ضرورت تھی جنہیں تبلیغ کے لیے باہر بھجوایا جائے.چنانچہ ہم نے اسے امریکہ بھیج دیا.اگر تم بھی اپنی زندگیوں کو سنوارو اور انہیں کھیل کود میں ضائع نہ کرو تو تم بھی اُس جیسا کام کر سکتے ہو بلکہ اس سے بڑھ کر کام کر سکتے ہو.آج ہی مجھ سے کسی نے ذکر کیا ہے کہ آج نصف ربوہ کرکٹ کا میچ دیکھنے لاہور گیا ہے.میں کھیلوں کا مخالف نہیں ہوں بلکہ میں تو سمجھتا ہوں کہ نوجوانوں کو کھیلوں میں حصہ لینا چاہیے تا اُن کی صحت اچھی رہے لیکن محض کھیلوں میں ساری زندگی گزار دینا درست نہیں.ہم ی بچپن میں مختلف کھیلیں کھیلا کرتے تھے.میں عموماً فٹبال کھیلا کرتا تھا.جب قادیان میں بعض ایسے لوگ آگئے جو کرکٹ کے کھلاڑی تھے تو انہوں نے ایک کرکٹ ٹیم تیار کی.ایک دن وہ میرے پاس آئے اور کہنے لگے کہ جاؤ حضرت صاحب سے عرض کرو کہ وہ بھی کھیلنے کے لیے تشریف لائیں.چنانچہ میں اندر گیا.آپ اُس وقت ایک کتاب لکھ رہے تھے.جب میں نے اپنا مقصد بیان کیا تو آپ نے قلم نیچے رکھ دی اور فرمایا تمہارا گیند تو گراؤنڈ سے باہر نہیں جائے گا لیکن میں وہ کرکٹ کھیل رہا ہوں جس کا گیند دُنیا کے کناروں تک جائے گا.اب دیکھ لو کیا آپ کا گیند دنیا کے کناروں تک پہنچا ہے یا نہیں؟ اس وقت امریکہ، ہالینڈ، انگلینڈ، سوئٹزرلینڈ، مڈل ایسٹ، افریقہ، انڈونیشیا اور دوسرے کئی ممالک میں آپ کے ماننے والے موجود ہیں.فلپائن کی حکومت ہمیں مبلغ بھیجنے کی اجازت نہیں دیتی تھی لیکن پچھلے دنوں وہاں سے برابر بیعتیں آنی شروع ہو گئی ہیں.ابھی تین چار دن ہوئے ہیں فلپائن سے ایک شخص کا خط آیا ہے جس میں اُس نے لکھا ہے کہ اسے میری بیعت کا خط ہی سمجھیں اور مجھے زید لٹریچر بھجوائیں.مجھے جس مقام کے متعلق بھی علم ہوتا ہے کہ وہاں کوئی اسلام کی

Page 41

خطبات محمود جلد نمبر 37 لکھا 28 $1956 خدمت کرنے والا ہے میں وہاں خط لکھ دیتا ہوں.چنانچہ اُس نے لکھا ہے کہ میں نے انجمن اشاعتِ اسلام لاہور کو بھی ایک خط لکھا ہے.میں نے مسجد لندن کے پتا پر بھی ایک خط ہے.میں نے واشنگٹن امریکہ کے پتا پر بھی ایک خط لکھا ہے.اب دیکھ لو! فلپائن میں ہمارا کوئی مبلغ نہیں گیا لیکن لوگوں میں آپ ہی آپ احمدیت کی طرف رغبت پیدا ہو رہی ہے.یہ وہی گیند ہے جسے قادیان میں بیٹھ کر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ہٹ ماری تھی اور آج سے کوئی 69 سال پہلے ہٹ ماری تھی.اب وہ گیند گھومتا گھومتا فلپائن جا پہنچا ہے اور وہاں سے ایک شخص خط لکھتا ہے کہ میں مسلمان ہونا چاہتا ہوں.پس میں نوجوانوں سے کہتا ہوں کہ یہ دن تمہارے کام کے دن ہیں.یورپ اور امریکہ اسلام کی اشاعت کے لیے مبلغ مانگ رہے ہیں.اگر شاہدوں پر انحصار کیا جائے تو وہ شاید ہمیں چھپیں ہوں گے حالانکہ صرف امریکہ اس وقت دوسو مبلغ مانگ رہا ہے.مگر کل وہ دو سو مبلغ نہیں مانگے گا بلکہ دو ہزار مبلغ مانگے گا.پرسوں وہ دو ہزار مبلغ نہیں مانگے گا بلکہ دو لاکھ مبلغ مانگے گا.اترسوں وہ دو لاکھ مبلغ نہیں مانگے گا بلکہ دو کروڑ مبلغ مانگے گا اور دو کروڑ شاہد تیار کرنے کے لیے دوسو سال چاہیں.آخر تمہیں پرانے صحابہ والا طریق ہی اختیار کرنا پڑے گا کہ ادھر کسی نے کلمہ پڑھا اور احمدی ہوا اور اُدھر وہ مبلغ بن گیا.حضرت ابو بکر اور حضرت عمرؓ کو دیکھ لو وہ شاہد نہیں تھے.انہوں نے کلمہ ہی پڑھا تھا کہ اسلام کے مبلغ ہو گئے.تم بھی وہی طریق اختیار کرو.احمدیت سمجھ آتے ہی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کتب جو اردو میں ہیں پڑھنی شروع کر دو.اگر تم انہیں غور سے پڑھو تو تھوڑے دنوں میں ہی تم ایسے مبلغ بن جاؤ گے کہ بڑے بڑے عالم بھی تمہارا مقابلہ نہیں کرسکیں گے.ہمارے ابتدائی مبلغ جنہوں نے ہندوستان اور اس کے باہر تبلیغ کا کام کیا ہے یا انہوں نے اسلام کی تائید میں کتابیں لکھی ہیں، انہوں نے عربی زبان کی باقاعدہ تحصیل نہیں کی تھی لیکن پھر بھی انہوں نے بڑا کام کیا.مولوی محمد علی صاحب کو ہی لے لو انہوں نے عربی زبان کی با قاعدہ تحصیل نہیں کی تھی.لیکن تجربہ بتاتا ہے کہ ان کی کتابوں نے بڑا اثر پیدا کیا.پھر خواجہ کمال الدین صاحب کو لے لو انہوں نے لندن میں مشن قائم کیا تھا حالانکہ ان لوگوں نے

Page 42

$1956 29 29 خطبات محمود جلد نمبر 37 ނ صرف حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کتابوں کو غور پڑھا تھا.تم بھی حضرت مسیح موعود کی کتابوں کو غور سے پڑھو اور پھر اپنی انگریزی کو ٹھیک کرو.غیر ممالک میں لریزی بڑا کام دیتی ہے.پس تم اپنی انگریزی کو ٹھیک کرو اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کتب کوغور سے پڑھو اور جو بات تمہیں متضاد نظر آئے یا مشکل معلوم ہو وہ علماء سے پوچھ لو.بس اتنی بات ہے.اس سے تھوڑے ہی دنوں میں تم اتنے زبردست مبلغ بن جاؤ گے کہ دنیا کے بڑے بڑے عالم تمہارا مقابلہ نہیں کر سکیں گے اور اُس وقت تم اس قابل ہو جاؤ گے کہ تمہیں امریکہ یا یورپ کے کسی ملک میں بطور مبلغ بھیج دیا جائے.کچھ دن ہوئے مجھے کینیڈا سے بھی ایک شخص کا خط آیا تھا.اُس نے بھی تحریر کیا تھا کہ یہاں کوئی مبلغ بھیجیں.ہمیں یہاں مبلغ کی سخت ضرورت ہے.پس دوسرے ممالک میں لوگوں میں اسلام کے لیے تڑپ اور جوش پیدا ہو رہا ہے.کل ہی ایک مبلغ کا خط آیا تھا کہ مجھے ایک جی وزیر نے جس کے سپرد امور مذہبی کا محکمہ ہے لکھا ہے کہ تم مجھے احمدیت کے تفصیلی حالات لکھتے رہا کرو.تا میں بھی احمدیت سے پوری واقفیت حاصل کر لوں اور اس کے بعد خود تبلیغ کا کام کر سکوں.اب دیکھ لو! آہستہ آہستہ اللہ تعالیٰ خود ہی اسلام کی اشاعت کے سامان پیدا کر رہا ہے.اور وہ دن دور نہیں جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا یہ الہام پورا ہو گا کہ بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گئے.3 بادشاہتیں تو آہستہ آہستہ ختم ہو رہی ہیں لیکن ملک کا پریذیڈنٹ اور صدر بھی بادشاہ ہی ہوتا ہے.اگر روس کا صدر اور وزیر اعظم مسلمان ہو جائیں تو وہ بھی بادشاہ سے اپنی حیثیت میں کم نہیں اور وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے.لیکن وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے کپڑوں سے اُسی وقت برکت ڈھونڈیں گے جب تم آپ کی کتابوں سے برکت ڈھونڈنے لگ جاؤ.جب تم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کتب سے برکت ڈھونڈنے لگ جاؤ گے تو خدا تعالیٰ ایسے بادشاہ پیدا کر دے گا جو آپ کے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے.لیکن ابھی تک تو صدرانجمن احمدیہ نے یہ بھی انتظام نہیں کیا کہ کس طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے کپڑوں کو محفوظ رکھا جائے.آخر بادشاہ برکت

Page 43

$1956 30 30 خطبات محمود جلد نمبر 37 ڈھونڈیں گے تو کہاں سے ڈھونڈیں گے؟ صدرانجمن احمدیہ کو چاہیے تھا کہ وہ بعض ماہر ڈاکٹر بلاتی جو اس بات پر غور کرتے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے کپڑے کس طرح محفوظ رکھے جا سکتے ہیں اور ان کپڑوں کو شیشوں میں بند کر کے اس طرح رکھا جاتا کہ وہ کئی سو سال تک محفوظ رہتے یا انہیں ایسے ممالک میں بھجوایا جاتا جہاں کپڑوں کو کیڑا نہیں لگتا.مثلاً امریکہ ہے وہاں یہ کپڑے بھیج دیئے جاتے تا انہیں محفوظ رکھا جا سکتا اور آئندہ آنے والی نسلیں ان سے برکت حاصل کرتیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی وفات کے بعد والدہ صاحبہ کی خواہش تھی کہ عمر میں بڑا ہونے کی وجہ سے آپ کی الیسَ اللهُ بِكَافٍ عَبْدَهُ والی انگوٹھی مجھے ملے.ہم تین بھائی تھے اور تین ہی انگوٹھیاں تھیں مگر باوجود خواہش کے آپ نے قرعہ ڈالا اور عجیب بات یہ ہے کہ تین بار قرعہ ڈالا گیا اور تینوں دفعہ ہی اَليْسَ اللهُ بِكَافٍ عَبُدَهُ والی انگوٹھی میرے نام نکلی.غَرَسُتُ لَكَ بِيَدِى رَحْمَتِی وَقُدْرَتِی والی انگوٹھی میاں بشیر احمد صاحب کے نام نکلی اور تیسری انگوٹھی جو وفات کے وقت آپ کے ہاتھ میں تھی اور اُس پر مولا بس لکھا ہوا تھا تینوں دفعہ میاں شریف احمد صاحب کے نام نکلی.اب دیکھو کہ کتنا خدائی تصرف ہے ایک بار قرعہ ڈالنے میں غلطی ہو سکتی تھی ، دوسری بار قرعہ ڈالنے میں بھی غلطی ہو سکتی تھی لیکن تین بار قرعہ ڈالا گیا اور تینوں دفعہ میرے نام الیس اللهُ بِكَافٍ عَبْدَهُ والی انگوٹھی نکلی، میاں بشیر احمد صاحب کے نام غَرَسْتُ لَكَ بِيَدِی رَحْمَتِي وَ قُدْرَتِی والی انگوٹھی اور میاں شریف احمد صاحب کے حصہ میں وہ انگوٹھی آئی جس پر ”مولا بس“ لکھا ہوا تھا.میں نے نیت کی ہوئی ہے کہ میں اَليْسَ اللهُ بِكَافٍ عَبْدَهُ والی انگوٹھی جماعت کو دے دوں لیکن میں اُس وقت تک اسے کس طرح دے دوں جب تک کہ وہ اس کی نگرانی کی ذمہ داری نہ لے.اگر وہ انگوٹھی میرے بچوں کے پاس رہے تو وہ کم سے کم اسے اپنی ملکیت سمجھ کر اس کی حفاظت تو کریں گے.لیکن میرا دل چاہتا ہے کہ میں یہ انگوٹھی اپنے بچوں کو نہ دوں بلکہ جماعت کو دوں.اس کے لیے میں نے ایک اور تجویز بھی کی ہے کہ اس انگوٹھی کا کاغذ پر عکس لے لیا جائے اور اُسے زیادہ تعداد میں چھپوایا لیا جائے.پھر نگینہ والی انگوٹھیاں تیار کی جائیں لیکن نگینہ لگانے سے پہلے گڑھے میں اس عکس کو دبا دیا جائے.

Page 44

$1956 31 خطبات محمود جلد نمبر 37 اس طرح ان انگوٹھیوں کا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی انگوٹھی سے براہ راست تعلق ہو جائے گا.گویا الیسَ اللهُ بِكَافٍ عَبْدَهُ نگ بھی ہوگا اور وہ عکس بھی نگ کے نیچے دبایا ہوا ہو پھر اس قسم کی انگوٹھیاں مختلف ممالک میں بھیج دی جائیں.مثلاً ایک انگوٹھی امریکہ میں رہے، ایک انگلینڈ میں رہے، ایک سوئٹزر لینڈ میں رہے، اسی طرح ایک ایک انگوٹھی دوسرے ممالک میں بھیج دی جائے تا اس طرح ہر ملک میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا تبرک محفوظ رہے.پچھلے دنوں مجھے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی ایک پرانی تحریر ملی تھی.میں نے وہ تحریر انڈونیشیا بھیج دی ہے تا اس امانت کو وہاں محفوظ رکھا جائے اور اس سے وہاں کی جماعت برکت حاصل کرے.مگر الہام میں کپڑوں کا ذکر ہے یعنی خدا تعالیٰ نے آپ کو یہ الہام فرمایا تھا کہ بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے.“ اس لیے چاہیے کہ ہم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے کپڑوں کو ایسی جگہوں پر بھجوا دیں جہاں کیڑا نہیں لگتا.تا کہ وہ زیادہ لمبے عرصہ تک محفوظ رہیں.بہر حال نوجوانوں کو چاہیے کہ وہ آگے آئیں اور اپنی ذمہ داری کو سمجھیں اور اسلام کی خدمت کریں تا کہ ان کو بھی یہ دن دیکھنا نصیب ہو کہ ان کے ذریعہ سے ملکوں کے ملک محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان لے آئیں اور اسلام کا جھنڈا وہاں گاڑ دیا جائے.یہ معمولی بات نہیں.یہ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو جذب کرنے والی اور بڑی خوشی کی بات 1 کیلومل : ایک جلاب آور مرکب 2 متی باب 12 آیات 24 تا 27 3 : تذکرہ صفحہ 10 ،195 طبع چہارم الفضل 8 فروری 1956ء)

Page 45

$1956 4 32 32 خطبات محمود جلد نمبر 37 وہ کونسے ذرائع ہیں جن سے خدمت دین اور علمی ترقی کا جذ بہ دائمی طور پر جماعت میں قائم رہے؟ جماعت کے نوجوان خصوصیت کے ساتھ اس سوال پر غور کریں اور پھر جس نتیجہ پر پہنچیں اُس سے مجھے بھی اطلاع دیں فرموده 27 جنوری 1956ء بمقام ربوہ) تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: یوں تو کئی دنوں کے بعد آج صبح کے وقت طبیعت اچھی تھی اور اصل بیماری میں نمایاں فرق نظر آتا تھا لیکن اچانک مجھے پیچش کی شکایت ہو گئی.یہ پیچش صبح کی نماز کے وقت سے شروع ہے جس کی وجہ سے مجھے آج بھی خطبہ کو مختصر رکھنا پڑے گا.میں آج جماعت کے نوجوانوں سے بالعموم اور مبلغین کلاس کے طلباء سے بالخصوص یہ کہنا چاہتا ہوں کہ کچھ باتیں ایسی ہیں جو انہیں ہمیشہ سوچنی چاہیں.آخر دنیا میں دو ہی قسم کے نظارے نظر آتے ہیں.ایک تو خدائی نظام ہے اور دوسرا دنیوی نظام ہے.دین کے ماہرین ہیں کہ یہ دنیا سات ہزار سال سے چل رہی ہے.اور سائنس کے ماہرین کے نزدیک

Page 46

$1956 33 33 خطبات محمود جلد نمبر 37 سات ہزار سال تو الگ رہا سات ارب کا اندازہ بھی کم ہے.بلکہ ان کے نزدیک یہ دنیا سات کھرب سال سے چلتی چلی آ رہی ہے.بہر حال اس دنیا میں جو سات ہزار یا سات کھرب سال سے چلتی چلی آ رہی ہے ہم دیکھتے ہیں کہ خدائی قانون کے ماتحت ایک بیل مرتا ہے تو کچھ اور بیل پیدا ہو جاتے ہیں، ایک بھینسا مرتا ہے تو کچھ اور بھینسے پیدا ہو جاتے ہیں، فاختائیں مرتی ہیں تو کچھ اور فاختائیں پیدا ہو جاتی ہیں، کبوتر مرتے ہیں تو کچھ اور کبوتر پیدا ہو تی جاتے ہیں، مُرغیاں مرتی ہیں تو کچھ اور مرغیاں پیدا ہو جاتی ہیں.اسی طرح انسان مرتے ہیں تو اُن کی جگہ کچھ اور انسان پیدا ہو جاتے ہیں.ابتدائے آفرینش سے تو تاریخ محفوظ نہیں لیکن سینکڑوں سال تک کی تاریخ محفوظ ہے اور ان سینکڑوں سال کی تاریخ پر جب ہم نظر دوڑاتے ہیں تو ہمیں یہی نظارہ نظر آتا ہے کہ ہر زمانہ میں انسان ایک دوسرے کی جگہ لینے کے لیے آتے رہے ہیں.کسی وقت اگر رومی بادشاہ نظر آتے ہیں تو ان کے بعد ایرانی بادشاہ آ جاتے ہی ہیں.جب ایرانی بادشاہ مٹ جاتے ہیں تو یونانی بادشاہ نظر آنے لگ جاتے ہیں.جب یونانی بادشاہ مٹ جاتے ہیں تو مغل بادشاہ نظر آنے لگ جاتے ہیں.جب مغل بادشاہ مٹ جاتے ہیں تو پٹھان بادشاہ نظر آنے لگ جاتے ہیں.پھر یورپ کو دیکھ لو وہاں بعض جگہ ہزاروں سال سے بادشاہت کا ایک تسلسل نظر آتا ہے.اسی طرح روس کو لوگ ظالم کہتے ہیں اور اُس نے فی الواقع بڑے ظلم کیسے ہیں لیکن اس میں بھی حکومت کا ایک تسلسل قائم تھا اور آج تک قائم چلا ہے.مثلاً دیکھو زار مٹ گیا تو اُس کی جگہ لین آ گیا، لینن مر گیا تو اُس کی جگہ سٹالن نے لے لی، جب سٹالن مر گیا تو حکومت کی باگ ڈور مالنکوف نے سنبھال لی اور مالنکوف کے بعد بلگان آگے آ گیا.بہر حال ہمیں روس میں بھی یہ نظر آتا ہے کہ ہے کہ جب ایک لیڈر مرتا یا استعفی دیتا ہے تو دوسرا اُس کی جگہ لینے کے لیے آ جاتا ہے لیکن کیا وجہ ہے کہ مسلمانوں میں حکومت کا یہ تسلسل نظر نہیں آتا.بیشک شروع شروع میں کچھ عرصہ تک ایک تسلسل نظر آتا ہے لیکن تھوڑے ہی عرصہ کے بعد وہ ٹوٹ جاتا ہے.مثلاً رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے وفات پائی تو آپ کی جگہ حضرت ابوبکر نے لے لی.حضرت ابوبکر فوت ہوئے تو حضرت عمرؓ نے آپ کی جگہ لے لی.حضرت عمر فوت ہوئے تو چاہے آتا

Page 47

$1956 34 =4 خطبات محمود جلد نمبر 37 حضرت عثمان اُس شان کے خلیفہ نہیں تھے جس شان کے حضرت عمرؓ تھے لیکن بہر حال انہوں نے حضرت عمرؓ کی وفات کے بعد کام سنبھالا اور اُن کی جگہ لے لی.جب حضرت عثمان شہید ہوئے تو حضرت علیؓ نے اُن کی جگہ لے لی.اور جب حضرت علی شہید ہوئے تو بنوامیہ نے اُن کی کی جگہ لے لی.بنوامیہ کے زوال کے بعد بنوعباس برسر اقتدار آ گئے اور انہوں نے اسلامی حکومت کی باگ ڈور سنبھالی.لیکن اس کے بعد یہ تسلسل قائم نہیں رہا.اس کے مقابلہ میں ہم دیکھتے ہیں کہ یورپ میں ہزار ہزار سال تک بعض خاندان برسر اقتدار رہے ہیں.روس اور چین میں بھی اس قسم کا تسلسل نظر آتا ہے.لیکن مسلمانوں میں یہ تسلسل نظر نہیں آتا.مثلاً دیکھو عربوں کے بعد ایرانی غالب آئے اور ایرانیوں کے انحطاط کے بعد مغل آگے آئے.جب مغل مٹ گئے تو پٹھانوں نے زمام حکومت سنبھالی اور پٹھانوں کے بعد دوسری قومیں آئیں لیکن ایک ہی قوم یا ایک ہی خاندان میں مسلسل حکومت نہیں چلی.میرے نزدیک اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ یورپین لوگوں کو اپنے نفسوں پر قابو ہے لیکن ہمیں وہ قابو حاصل نہیں.ان میں سے جو لوگ قابل ہوتے ہیں وہ اُن کی قابلیت قبول کرتے ہیں اور اُن کے پیچھے چلتے ہیں.اُن میں یہ نہیں ہوتا کہ وہ قابل لوگوں کو نیچے گرا دیں اور اُن کی جگہ خودسنبھال لیں.لیکن مسلمانوں میں یہ بات نہیں پائی جاتی.وہ قابل لوگوں کی قدر نہیں کرتے اور نہ ان کے پیچھے چلتے ہیں بلکہ انہیں گرا کر خود ان کی جگہ سنبھال لیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم قابلیت اور نا قابلیت کو نہیں جانتے ہمیں صرف اس بات کی ضرورت ہے کہ کسی طرح جگہ خود سنبھال لیں اور اس مقصد کی خاطر اگر دوسرا شخص قابل بھی ہو تب بھی اُسے گھسیٹنا چاہیے اور اُس کی جگہ خود لینی چاہے.مجھے ایک دفعہ شیخ بشیر احمد صاحب نے بتایا کہ بنگال کے ایک بہت بڑے لیڈر لاہور آئے تو میں نے اُن سے کہا کہ جناب آجکل بنگال میں کیا ہو رہا ہے.اگر یہی فتنہ جاری رہا تو پاکستان کا امن مخدوش ہو جائے گا.اُس بنگالی لیڈر نے کہا شیخ صاحب! یہ تو درست ہے کہ بنگالی لڑائی نہیں کر سکتے لیکن ہم میں ایک اور خصوصیت بھی ہے اور وہ یہ ہے کہ چاہے کوئی آجائے ہم اُس کے لیے اپنی کرسی چھوڑ دیتے ہیں اور کہتے ہیں آ جاؤ اور اس جگہ کو سنبھال لو.

Page 48

$1956 35 خطبات محمود جلد نمبر 37 لیکن اس کے ساتھ ہی ہم میں یہ وصف بھی ہے کہ ہم اسے اطمینان سے بیٹھنے نہیں دیتے بلکہ اسے اتنا گھسیٹتے ہیں کہ وہ مجبور ہو کر کرسی چھوڑ دیتا ہے اور چلا جاتا ہے.یہی مسلمانوں کی عادت ہے کہ وہ نہ خود حکومت کی کرسی پر بیٹھتے ہیں اور نہ کسی اور کو بیٹھنے دیتے ہیں.اس کا نتیجہ یہ ہے اور باوجود اس کے کہ اعلیٰ تعلیم ہمیں ملی ہے دنیا میں ہمارا کوئی اثر نہیں.حالانکہ اس تعلیم فائدہ اُٹھا کر یورپین اقوام نے بڑی لمبی حکومت کی ہے.تم دیکھو ابنِ رُشد پین میں پیدا ہوا تھا.سپین میں اس کی کتابیں صرف ہیں چھپیں سال تک پڑھائی گئیں لیکن فرانس میں اس کی کتابیں چار سو سال تک پڑھائی گئیں.گویا اُس کی اپنی قوم اور اپنے ہم مذہب لوگوں نے تو اُس کی کتابوں کو بیس پچیس سال کے بعد چھوڑ دیا لیکن یورپین اقوام اب بھی اُس کا نام بڑے ادب اور احترام سے لیتی ہیں اور تسلیم کرتی ہیں کہ ہمارے کالجوں میں ابن رشد کی کتابیں چار سو سال تک پڑھائی جاتی رہی ہیں.آخر ہمیں سوچ کہ کیا نقص ہے جس کی وجہ سے مسلمانوں میں یہ بات پائی جاتی ہے کہ وہ ہمیشہ قابل وگوں کو گرانے کی کوشش کرتے ہیں؟ اور پھر کیا وجہ ہے کہ مسلمانوں میں قابل لوگوں کا سلسلہ بہت کم ہے حالانکہ اس سلسلہ کو بہت وسیع ہونا چاہیے تھا؟ ایک مسلمان ایک دن میں کئی بار دعا کرتا ہے کہ اَللَّهُمَّ صَلَّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ اللَّهُمَّ بَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا بَارَكْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ حضرت ابراہیم علیہ السلام پر چار ہزار سال کا عرصہ گزر چکا ہے یعنی حضرت مسیح علیہ السلام سے اس زمانہ تک اُنیس سو سال اور حضرت مسیح علیہ السلام سے حضرت موسی علیہ السلام تک اٹھارہ سو سال اور حضرت موسی علیہ السلام سے حضرت ابراہیم علیہ السلام تک دوسو سال، گل انتالیس سو سال ہو گئے اور کم از کم اندازہ ہے.عیسائیوں کے اندازے تو اس سے زیادہ ہیں.اُن کے اندازہ کے مطابق حضرت ابراہیم علیہ السلام پر چار ہزار سال سے بھی زیادہ عرصہ گزر چکا ہے.بہر حال ہم دعا تو یہ کرتے ہیں کہ اے اللہ ! تو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر اور آپ کی آل پر وہی برکات نازل فرما جو تو نے حضرت ابراہیم علیہ السلام اور آپ کی آل پر نازل کی تھیں اور عملاً

Page 49

$1956 36 خطبات محمود جلد نمبر 37 پایا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے چند سال بعد ہی آپس میں لڑنے لگ جاتے ہیں.حضرت عثمان کی خلافت کا عرصہ بارہ سال ہے لیکن ان کی خلافت کے ابتدائی دو سال گزر جانے کے بعد ہی مسلمانوں میں اختلافات پیدا ہو گئے.حضرت عثمان نے ایک دفعہ فرمایا کہ میرا اور تو کوئی قصور نہیں صرف اتنی بات ہے کہ میری عمر زیادہ ہو گئی ہے جس کی وجہ سے ی خلافت کا عرصہ زیادہ لمبا ہو گیا ہے اور لوگوں پر گراں گزرتا ہے حالانکہ آپ کی ساری خلافت صرف بارہ سال کی تھی.غرض ہمیں سوچنا چاہیے کہ جو بات دنیا کی دوسری اقوام میں پائی جاتی ہے وہ مسلمانوں میں کیوں نہیں پائی جاتی.پھر یہ بات آدمیوں تک ہی محدود نہیں بلکہ علوم کے بارہ میں بھی ہم میں یہی نقص جاتا ہے.ابن سینا اور ابن رشد نے جس حد تک ترقی کی تھی ہم نے اُس پر دھرنا مار لیا ہے.مگر یورپ نے انہی کے علوم کو ترقی دے کر دنیا میں علمی طور پر بلند مقام پیدا کر لیا ہے.یورپ کے مصنفین مسلمانوں کے علوم کی ہی نقل کرتے ہیں اور خود اس بات کا اقرار کرتے ہیں کہ ہم نے مسلمانوں کے علوم کو ترقی دے کر اس مقام کو حاصل کیا ہے.لیکن ہم نے بجائے قی کرنے کے یہ فیصلہ کر لیا کہ جو شخص ارسطو اور سقراط کے خلاف کوئی بات کہتا ہے وہ کافری ہے.گویا ایک طرف تو ہم اپنے پرانے بزرگوں کے اس قدر قائل ہیں کہ اُن کے خلاف رائے دینے والے کو گردن زدنی قرار دیتے ہیں.اور دوسری طرف اپنے موجودہ بزرگوں کو گرانے کی کوشش کرتے ہیں.پس تم اس کے متعلق غور کرو اور مجھ سے بھی مشورہ کرو.طلباء کو مجھ سے ملاقات کرنے کا اُسی طرح حق ہے جس طرح بڑوں کو ہے.حضرت سیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے پاس بھی طلباء آتے تھے اور آپ سے مختلف مسائل پر گفتگو کیا کرتے تھے.حضرت خلیفہ اسی الاول کا بھی یہی طریق تھا.ہم طالبعلم آپ کے پاس چلے جاتے اور مختلف علمی سوالات دریافت کرتے اور آپ اُن کے جوابات دیا کرتے تھے.صرف آپ اعتراض کرنے کی اجازت نہیں دیتے تھے.حافظ روشن علی صاحب کو تنقید کرنے اور سوالات کرنے کی بڑی عادت تھی.اُنہیں دیکھ کر ایک دن میں نے بھی بعض سوالات کر دیئے تو آپ نے فرمایا میاں! حافظ روشن علی کو دیکھ کر تمہیں بھی سوالات کرنے کا شوق پیدا ہوا.ہے.

Page 50

$1956 37 خطبات محمود جلد نمبر 37 اس کے بعد آپ نے فرمایا میں علم کے بارہ میں بخیل نہیں ہوں.مجھے جو کچھ آتا ہے وہ میں بتا دیتا ہوں.لیکن جو مجھے نہیں آتا وہ میں کیسے بتاؤں؟ اگر یہ باتیں مجھے معلوم ہوتیں تو کیا یہ ہوتی سکتا تھا کہ تمہیں نہ بتا تا؟ پس تم حافظ روشن علی کی نقل نہ کرو بلکہ خود بھی سوچو اور غور کرو.آخر قرآن کریم میرا ہی نہیں تمہارا بھی ہے.اگر مجھے کوئی بات نہیں آتی تو تمہارا بھی فرض ہے کہ تم خود قرآن کریم کی آیات پر غور کرو اور ان پر جو اعتراضات وارد ہوتے ہیں اُن کا جواب دو.میں بھی طلباء سے یہی کہتا ہوں کہ وہ خود غور کرنے کی عادت ڈالیں اور جو باتیں میں نے بیان کی ہیں اُن کے متعلق سوچیں اور پھر دوسرے لوگوں میں بھی انہیں پھیلانے کی کوشش کریں.یاد رکھو! صرف کتابیں پڑھنا ہی کافی نہیں بلکہ ان میں جو کمی تمہیں نظر آتی ہے اُسے دور کرنا بھی تمہارا فرض ہے.مثلاً تفسیر کبیر کو ہی لے لو.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے قرآن کریم کا بہت کچھ علم دیا ہے لیکن کئی باتیں ایسی بھی ہوں گی جن کا ذکر میری تفسیر میں نہیں آیا.اس لیے اگر تمہیں تفسیر میں کوئی بات نظر نہ آئے تو تم خود اُس بارہ میں غور کرو اور سمجھ لو کہ شاید اس کا ذکر کرنا مجھے یاد نہ رہا ہو اور اس وجہ سے میں نے نہ لکھی ہو یا ممکن ہے وہ میرے ذہن میں ہی نہ آئی ہو اور اس وجہ سے وہ رہ گئی ہو.بہر حال اگر تمہیں اس میں کوئی کمی دکھائی دے تو تمہارا فرض ہے کہ تم خود قرآن کریم کی آیت پر غور کرو اور ان اعتراضات کو دور کرو جو ان پر وارد ہوتے ہیں.پھر تم اس بات کے متعلق بھی غور کرو کہ انگلینڈ اور امریکہ کو کیوں لائق آدمی مل جاتے ہیں اور ہمیں کیوں نہیں ملتے ؟ تم میں سے بعض سمجھتے ہوں گے کہ اس کی وجہ شاید یہ ہے کہ انہیں تنخواہیں زیادہ ملتی ہیں حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ وہاں گورنمنٹ کی تنخواہوں اور فرموں کی تنخواہوں میں بہت زیادہ فرق ہے.لیکن پھر بھی گورنمنٹ کو اچھے کارکن مل جاتے ہیں.مجھے یاد ہے انگلستان کا ایک وزیر خزانہ تھا جسے دوسرے وزراء سے زیادہ تنخواہ ملتی تھی.لیکن اس نے اپنے عہدہ سے اس لیے استعفی دے دیا کہ اُسے کوئی فرم تین گنا زیادہ تنخواہ پیش کر رہی تھی.اُسے اُن دنوں دس ہزار پونڈ یعنی ڈیڑھ لاکھ روپیہ سالانہ تنخواہ ملتی تھی.لیکن ایک فرم نے اُسے اس سے تین گنا یعنی ساڑھے چار لاکھ روپیہ پیش کر دیا.تو وہاں کی گورنمنٹ کی تنخواہوں

Page 51

$1956 38 88 خطبات محمود جلد نمبر 37 اور فرموں کی تنخواہوں میں بہت زیادہ فرق ہے.لیکن پھر بھی ایک وزیر ہرتا یا اپنے عہدہ سے استعفی دیتا ہے تو انہیں دوسرا وزیر مل جاتا ہے.پھر ہم پر یہ کیا آفت ہے کہ ہمیں کسی کارکن کا قائم مقام ملنا مشکل ہو جاتا ہے.حالانکہ تمہاری تنخواہوں اور گورنمنٹ کی تنخواہوں میں اتنا فرق نہیں جتنا انگلینڈ اور امریکہ میں گورنمنٹ اور پرائیویٹ فرموں کی تنخواہوں میں فرق ہے.اسی طرح تمہارے علماء کو کتابیں تصنیف کرنے کا کوئی شوق نہیں لیکن انگلینڈ اور امریکہ میں ایسے لوگ پائے جاتے ہیں جنہوں نے پچاس پچاس سال تک فاقہ میں رہ کر زندگی بسر کی لیکن اس کے باوجود انہوں نے کئی کتابیں لکھی ہیں.انگلستان کا ایک مشہور مصنف ہے جس نے انگریزی زبان کی ڈکشنری لکھی ہے.کئی دفعہ ایسا ہوا ہے کہ اُسے مالک مکان نے مکان سے نکال دیا اس لیے کہ اُس نے کرایہ نہیں دیا تھا لیکن وہاں کے بڑے بڑے لوگ بھی جب اُس کا نام لیتے ہیں تو بڑی عزت سے لیتے ہیں.شکسپیئر کو ہی لے لو جس کے ڈرامے تمام دنیا میں مشہور ہیں.اس کے متعلق بھی مشہور ہے کہ بعض اوقات اس پر قرضہ ہو جاتا ہے سے فاقہ میں رہنا پڑتا تو وہ کسی امیر کے ہاں چلا جاتا اور اُس سے کہتا کہ وہ اُسے کچھ دے تا وہ اپنا قرضہ اتار سکے یا فاقہ سے نجات حاصل کر سکے.غرض وہ لوگ فاقوں کی پروا نہیں کرتے اور علم کو بڑھاتے چلے جاتے ہیں.پھر کیا وجہ ہے کہ یہاں علم کو بڑھانے کی طرف کوئی رغبت نہیں؟ یہاں جو بھی عالم ہوتا ہے اُس کی قلم کو زنگ لگ جاتا ہے.اور پھر اگر کوئی کتاب لکھتا ہے تو ساتھ ہی مجھے درخواست پہنچ جاتی ہے کہ حضور! جماعت کے پاس میری سفارش کریں کہ ہ میری یہ کتاب خرید لے.لیکن انگلستان اور امریکہ میں یہ رواج نہیں.وہاں لوگ کتابیں لکھتے ہیں اور کسی مطبع یا فرم کو دے دیتے ہیں کہ تم اسے شائع کر دو نفع اور نقصان تمہارا.تم اسے بیچو مجھے یہی فائدہ کافی ہے کہ دنیا تک میرا علم پہنچ جائے گا.اگر وہ ایسا کرتے ہیں تو تم ایسا کیوں نہیں کرتے ؟ تمہیں بھی چاہیے تھا کہ کتابیں تصنیف کرتے اور کسی ادارہ کو دے دیتے کہ وہ انہیں شائع کر دے.اور سمجھتے کہ میرے لیے یہی معاوضہ کافی ہے کہ میں اپنے ملک اور قوم میں علم کی اشاعت کا موجب بنا ہوں.پس تم ان امور پر غور کرو اور جس نتیجہ تک تم پہنچو اُس سے مجھے بھی اطلاع دو.

Page 52

$1956 39 خطبات محمود جلد نمبر 37 آخر اس جماعت نے قیامت تک چلنا ہے اور اگر اسے کام کرنے والے نہ ملے تو یہ قیامت تک چلے گی کیسے؟ ہمارے ہاں تو چاہیے تھا کہ اگر ایک کارکن ریٹائر ہوتا یا فوت ہوتا تو اُس کی جگہ ہیں ہیں کام کرنے والے مل جاتے اور اس طرح کام جاری رہتا.لیکن اب یہ حالت.کہ ایک ناظر مرتا ہے تو دو دو نسل تک اُس کا قائم مقام نظر نہیں آتا.آخر تم سوچو کہ اس کی کیا وجہ ہے؟ وہ کونسا گناہ ہے جو ہم نے کیا ہے اور عیسائیوں نے نہیں کیا؟ وہ کونسی کو تا ہی ہے جو ہم سے سرزد ہوئی ہے لیکن عیسائیوں سے وہ سرزد نہیں ہوئی؟ اُن کے ہاں جب کوئی کارکن ریٹائر ہوتا ہے یا مرتا ہے تو قوم کے بیسیوں نوجوان اُس کی جگہ لینے کے لیے آ جاتے ہیں مگر ہماری جماعت میں ایسا نہیں.یہاں بیسیوں سال تک قائم مقام نہیں ملتا.مثلاً انگلستان میں چار سو سال سے فوج کے بڑے بڑے عہدوں پر نواب مقرر ہوتے ہیں جن کی تنخواہوں سے زیادہ اُن کی پرائیویٹ آمد نہیں ہوتی ہیں اور اُن سے وہ اپنے اخراجات پورے کرتے ہیں.ہمارے ہاں بھی ایسے امیر لوگ ہیں جو اپنی اولاد کو قومی خدمت میں لگا سکتے ہیں اور پھر اُن کے اخراجات بھی مہیا کر سکتے ہیں لیکن یہاں امراء کو وقف کی طرف توجہ ہی نہیں ہوتی.اور اگر کوئی غریب خاندان میں سے زندگی وقف کر کے آجاتا ہے تو امراء اُس کی عزت نہیں کرتے.وہ یہ نہیں سمجھتے کہ یہ تو قابل فخر بات تھی کہ جب کوئی کام کرنے والا موجود نہ تھا تو یہ لوگ آگے آگئے اور انہوں نے دین کا کام سنبھال لیا.پس میں نوجوانوں سے کہتا ہوں کہ وہ ان باتوں پر غور کریں اور نہ صرف اپنی اصلاح کریں بلکہ اپنے دوستوں کی بھی اصلاح کریں.یورپ میں یہ قاعدہ ہے کہ نوجوان کسی ایک خیال کو لے لیتے ہیں اور پھر اُس کی تحریک دوسرے نوجوانوں میں کر کے ایک سوسائٹی بنا لیتے ہیں.اسی طرح یہاں بھی ہونا چاہیے.انصار اللہ اور خدام الاحمدیہ کے سپرد تو اور بھی کئی اہم کام ہیں.یہ تمہارا فرض ہے کہ تم غور کرو اور سوچو اور اس کے بعد کسی ایک خیال کو لے کر اپنی سوسائٹی بنا لو.اور اُس خیال کو دوسرے نوجوانوں میں رائج کرنے کی کوشش کرو اور انہیں بتاؤ کہ تمہارا فرض ہے کہ تم جماعت کے کاموں کو رُکنے نہ دو بلکہ انہیں پوری طرح جاری رکھنے کی کوشش کرو.یہ کہنا کہ یہاں تنخواہ کم ملتی ہے درست امر نہیں.یورپ میں گورنمنٹ کی تنخواہوں اور پرائیویٹ فرموں کی تنخواہوں

Page 53

$1956 40 خطبات محمود جلد نمبر 37 میں بہت زیادہ فرق ہے.لیکن پھر بھی حکومت کو کام کرنے والے آدمی ملتے رہتے ہیں.ہمارے ہاں تو کھانا بہت سادہ ہوتا ہے لیکن وہاں شراب کے ہی ایک گلاس پر اتنا خرچ آ جاتا ہے کہ ہم اُسی خرچ میں ہفتوں گزارہ کر سکتے ہیں لیکن اس کے باوجود وہاں لوگ قومی کاموں کے لیے اپنی زندگیاں وقف کرتے ہیں.پس تم ان باتوں پر غور کرو اور پھر مجھے بتاؤ کہ تم نے غور کرنے کے بعد کونسی صورت نکالی ہے کہ جس کے ذریعہ جماعت میں قومی خدمت کا جذبہ قیامت تک قائم رہے.اسی طرح جامعتہ المبشرین کے وہ طلباء جو آئندہ شاہد بننے والے ہیں انہیں چاہیے کہ وہ دوسرے کالجوں کے طلباء سے بھی دوستی پیدا کریں تا کہ اُن کے خیالات میں تنوع پیدا ہو.کیمبرج، آکسفورڈ اور قرطبہ کے کالجوں کو یادریوں اور مولویوں نے ہی شروع کیا تھا اور وہی ابتدا میں پڑھایا کرتے تھے لیکن اب ہمارے علماء یونیورسٹیاں اور کالج بنانے کی طرف توجہ نہیں کرتے.اب وہ لوگ کالج بنا رہے ہیں جن کا صرف تنظیم سے تعلق ہے علم سے تعلق نہیں.اگر علماء اپنے فرائض کی طرف توجہ کرتے تو یہ اُن کا کام تھا کہ کالج بناتے اور لوگوں میں تحریک کر کے ان میں جوش پیدا کرتے.یہ کوئی نئی بات نہیں جو میں اس وقت کہہ رہا ہوں.مسلمانوں میں ایسے علماء گزرے ہیں جنہوں نے باقاعدہ کالج چلائے اور قوم میں ایسے نوجوان تیار کیے جنہوں نے بعد میں اسلام کی بڑی خدمت کی.ایران کے ایک عالم نے اپنے شاگردوں میں سے چھ سو مبلغ ہندوستان میں تبلیغ کے لیے بھجوائے تھے.پھر خواجہ معین الدین صاحب چشتی نے سینکڑوں آدمی تبلیغ اسلام کے لیے تیار کیے جنہوں نے ہندوستان میں اسلام کی اشاعت کی.آخر کیا وجہ ہے کہ تم میں یہ روح نہیں پائی جاتی اور کیا وجہ ہے کہ تم اس روح کو دائمی طور پر قائم رکھنے کے لیے ایسے شاگرد پیدا نہیں کرتے جو دین کی خدمت کے لیے آگے آئیں حالانکہ تمہارا بھی فرض تھا کہ تم ایسے بزرگوں کے نقشِ قدم پر چل کر ایسے شاگرد تیار کرتے جو اسلام کا جھنڈا اکناف عالم میں بلند کرتے اور اشاعتِ علوم کا فریضہ بجالاتے.یاد رکھو! جماعت میں علوم کو جاری رکھنا اور علمی کتب کی تصنیف کا سلسلہ جاری رکھنا تمہارا فرض ہے.میں نے یہاں اشاعتِ کتب کے لیے دو کمپنیاں بنائی تھیں مگر وہ کام کو

Page 54

$1956 41 خطبات محمود جلد نمبر 37 پوری طرح ادا نہیں کر رہیں.ایک دو کتابیں شائع کرنے کے بعد سو جاتی ہیں.جو کتابیں اس وقت تک لکھی جا چکی ہیں وہ بھی ابھی تک شائع نہیں ہوسکیں.یورپ والے دوسو سال کی پرانی کتاب بھی شائع کر دیتے ہیں اور اس بات کی پروا نہیں کرتے کہ اُسے کوئی خرید تا ہے یا نہیں.اُن کا صرف یہ مقصد ہوتا ہے کہ وہ کتاب دنیا میں موجود رہے.لیکن ہمارے ہاں رواج ہے کہ جو کام بھی کوئی شخص کرے گا تجارتی نقطہ نگاہ سے کرے گا.مثلاً اگر اس کے سپرد دین کی کوئی خدمت کی جائے گی تو وہ فوراً کہے گا اس کے بدلہ میں مجھے کیا ملے گا؟ اگر وہ کوئی کتاب لکھے گا تو پہلے یہ سوچے گا کہ اس سے مجھے کتنا منافع ملے گا.لطیفہ مشہور ہے کہ کوئی سرد ملک کا آدمی تیز دھوپ میں بیٹھا ہوا تھا کہ اُس کے پاس سے کوئی شخص گزرا.اُس نے اُسے دھوپ میں بیٹھے ہوئے دیکھ کر کہا میاں! اتنی تیز دھوپ میں کیوں بیٹھے ہوئے ہو؟ پاس ہی سایہ ہے یہاں آ کر بیٹھ جاؤ.اُس نے اپنے ہاتھ پھیلا دیئے اور کہا اگر میں سایہ میں بیٹھ جاؤں تو تم مجھے کیا دو گے؟ یہی حالت ہمارے لوگوں کی ہے کہ وہ جو کام بھی کریں گے کسی دنیوی فائدہ کے پیش نظر کریں گے اور کہیں گے کہ آپ ہمیں دیں گے کیا؟ حالانکہ ان کی کسی خدمت کے نتیجہ میں یا کسی کتاب کی تصنیف کے نتیجہ میں جو فائدہ قوم کو پہنچے گا وہ کوئی کم فائدہ نہیں.اگر کوئی شخص اپنی قوم کے بعض افراد کو پڑھاتا ہے اور انہیں تعلیم دیتا ہے اور اس کی کوشش کے نتیجہ میں قوم میں تعلیم کی اشاعت ہوتی ہے تو اس سے زیادہ تنخواہ اور کیا ہو گی.پس میں نوجوانوں سے کہتا ہوں کہ وہ جماعت میں اشاعت علوم کی روح کو قائم رکھیں اور سوچیں کہ ہماری کمزوریوں کے دور کرنے کے کیا ذرائع ہیں.اور ایسی سکیمیں تیار کریں جن پر عمل پیرا ہو کر جماعت کے کاموں کو ترقی دی جا سکتی ہو.کل کو وہ بھی کی بڑے بننے والے ہیں.اگر آج ان کا استاد پچاس سال کا ہے اور وہ تمہیں سال کے نوجوان ہیں تو میں سال گزرنے کے بعد وہ بھی پچاس سال کے ہو جائیں گے اور ان کے کندھوں پر جماعت کا بوجھ آ پڑے گا.اگر آج سے انہوں نے اس کام کے لیے تیاری شروع نہ کی تو پچاس سال کی عمر میں ان کے دل بھی ویسے ہی گڑھیں گے جیسے اب میرا

Page 55

$1956 42 خطبات محمود جلد نمبر 37 دل گڑھ رہا ہے.پھر اس کام کے لیے دنیوی تدابیر اور دعاؤں کی بھی ضرورت ہے.اس کی طرف بھی تمہیں توجہ کرنی چاہیے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو اللہ تعالیٰ نے ایک دفعہ الہاما فرمایا کہ سکتا ہوں.1 اگر تمام لوگ منہ پھیر لیں تو میں زمین کے نیچے سے یا آسمان کے اوپر سے مدد کر مگر یہ مدد دعاؤں کے بغیر حاصل نہیں ہو سکتی.اگر تم بھی دعائیں کرو اور خدا تعالیٰ کی طرف سے خواب یا الہام کے ذریعہ تمہیں اطمینان دلا دیا جائے کہ تم کامیاب ہو گے تو تمہارے دل کتنے خوش ہوں گے.جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر یہ الہام نازل ہوا ہو گا کہ اگر تمام لوگ منہ پھیر لیں تو میں زمین کے نیچے سے یا آسمان کے اوپر سے مدد کر سکتا ہوں.تو آپ کا دل کتنا مضبوط ہوا ہو گا اور آپ کس طرح ہر قسم کی مشکلات کے باوجود دنیا کے مقابلہ کے لیے کھڑے ہو گئے ہوں گے.پس تم بھی دعائیں کرو اور اپنے طور پر کوششیں جاری رکھو اور مجھ سے بھی اپنی کوششوں کا ذکر کرتے رہو اور مجھے بتاتے رہو کہ تم نے میری اس نصیحت سے کیا فائدہ اُٹھایا ہے.میں نے ایک دفعہ تعلیم الاسلام کالج میں تقریر کی اور نو جوانوں کو تحریک کی کہ انہیں اپنی زندگیاں خدمت دین کے لیے وقف کرنی چاہیں اور پروفیسروں کو بھی توجہ دلائی کہ وہ اپنے شاگردوں کو وقف کی رغبت دلائیں مگر اتنے دن ہو گئے ابھی تک کالج کے کسی لڑکے نے اپنی زندگی وقف نہیں کی.اسی طرح چار پانچ سال ہوئے میں نے کالج کے ایک پروفیسر کو اس کام پر مقرر کیا لیکن اُس نے بھی کوئی رپورٹ نہ دی.اب تم ہی بتاؤ کہ اگر اس طرح کام کیا جائے تو جماعت کی آئندہ ترقی کی کیا امید کی جا سکتی ہے.اگر جماعت نے قیامت تک چلنا ہے تو ہمیں بہر حال اپنے آپ کو اُن ذمہ داریوں کے اُٹھانے کے لیے تیار کرنا ہو گا جو ہم پر عائد ہوتی ہیں.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اللہ تعالیٰ کا کام پورا ہو کر رہے گا.اگر تم اس کام کو سرانجام نہ دو گے تو خدا تعالیٰ کسی اور ملک کے افراد کو اس کام

Page 56

$1956 43 خطبات محمود جلد نمبر 37 کے لیے کھڑا کر دے گا.لیکن اگر بیرونی ممالک کے افراد نے یہ کام سرانجام دیا تو اس.مجھے اتنی خوشی نہیں ہو سکتی جتنی تمہاری وجہ سے خوشی ہو سکتی ہے.تم میرے حقیقی بیٹے تو نہیں ہولیکن اُس قُرب کی وجہ سے جو مجھے تم سے ہے تم مجھے دوسروں سے زیادہ عزیز ہو.اگر بیرونی ممالک کے نوجوان آگے آگئے تو بیشک یہ اُن کے لیے اور اُن کے والدین کے لیے بڑی خوشی اور برکت کا موجب ہو گا.لیکن تم اس سے محروم رہ جاؤ گے.پس تم ان امور پر غور کرو اور مجھے بتاؤ کہ تم نے اس بارہ میں غور کر کے کیا حل تلاش کیا ہے؟ کیا تم نے اپنی اصلاح کر لی ہے؟ کیا تم نے اپنے اندر دعاؤں کی عادت پیدا کر لی ہے؟ کیا تم میں اور دوسرے نوجوانوں میں نماز کی پابندی اور دین کی خدمت کی رغبت پیدا ہوگئی ہے؟ کیا تمہیں اس بات کی تحریک ہو گئی ہے کہ تم مختلف مسائل کے متعلق علمی کتابیں تصنیف کرو؟ ہمیں شرم محسوس ہوتی ہے جب ہم دیکھتے ہیں کہ کئی ضروری باتیں مسلمانوں کی تصنیف کردہ کتابوں میں نہیں ملتیں لیکن عیسائی مصنفین کی کتب میں اُن کا ذکر مل جاتا ہے.تفسیر لکھتے ہوئے میں نے بعض باتوں کی تحقیق کی تو مجھے معلوم ہوا کہ اُن کا ذکر ہماری تفسیروں میں نہیں لیکن عیسائیوں نے اُن کا ذکر کیا ہوا ہے.گویا اسلام کے تباہ کرنے والے لوگوں نے تو ہماری کتابیں پڑھیں لیکن خود مسلمانوں نے اُن کا مطالعہ نہیں کیا.پس تم علوم کی طرف توجہ کرو اور دنیا کے سامنے نئی چیزیں پیش کرو.اور یاد رکھو کہ زمانہ کی نئی رو اور نئی ضرورتوں کے ساتھ تعلق رکھنا نہایت ضروری ہوتا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو دیکھ لو آپ نے باقاعدہ تعلیم حاصل نہیں کی تھی لیکن آپ کی کتب کا مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے جس قدر انکشافات فرمائے ہیں وہ دنیا کی نئی کرو اور ضرورت کے مطابق ہیں.پس تم بھی زمانہ کی رو اور ضرورت کو ملحوظ رکھو اور یورپین مصنفین کی کتب کا مطالعہ کرو اور دیکھو کہ اُن کے دماغ کس طرف جا رہے ہیں.اگر تم نے اس طرح کام کرنا شروع کر دیا تو تم دیکھو گے کہ خدا تعالیٰ تمہارے کاموں میں کس طرح برکت ڈالتا ہے اور سلسلہ کا کام کس طرح چلتا ہے.لیکن یاد رکھو! تمہاری کتابیں حقیقی طور پر اُس وقت مفید کہلائیں گی جب خود عیسائی مصنفین یہ لکھیں کہ ہمیں

Page 57

خطبات محمود جلد نمبر 37 44 $1956 اس وقت جو مشکلات پیش آ رہی ہیں اُن کا حل ہمیں انہی کتابوں میں ملا ہے“.(الفضل 11 فروری 1956ء) 1 : تذکرہ صفحہ 112 طبع چہارم

Page 58

$1956 45 LO 5 خطبات محمود جلد نمبر 37 اگر تم خلوص نیت سے دین کی خدمت کرو گے تو اللہ تعالی خود تمہاری ساری ضروریات کا کفیل ہو جائے گا دنیا اس وقت اسلام کی طرف مائل ہے.پس آگے آؤ اور دیوانہ وار تبلیغ میں لگ جاؤ (فرموده 3 فروری 1956ء بمقام ربوہ ) تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: میں نے پچھلے خطبہ جمعہ میں یہ بات کہی تھی کہ ہمارے جامعتہ المبشرین کے طلباء اور دوسرے نوجوان اس بات پر خاص طور پر غور کریں کہ جماعت کے دوستوں کو اشاعت اسلام کے لیے اپنی زندگیاں وقف کرنے کی طرف کیوں اتنی توجہ نہیں جتنی کہ ہونی چاہیے.میں نے بتایا تھا کہ عیسائیوں میں پادریوں کا سلسلہ ایک لمبے عرصہ سے چلا آ رہا ہے.حالانکہ حضرت مسیح کی السلام پر اُنیس سو سال سے زیادہ عرصہ گزر چکا ہے اور پھر ان کا دین بھی ایسی باتوں پر مشتمل ہے کہ بعض اوقات ان کے بیان کرنے سے بھی انسان کو شرم آتی ہے.اس کے مقابلہ میں اسلام کتنا پر حکمت مذہب ہے اور اس کی تعلیم کتنی اعلیٰ ہے لیکن کیا وجہ ہے کہ مسلمانوں کو متواتر خدمت کی توفیق نہیں ملتی اور عیسائیوں کو اپنے غلط اور کمزور عقیدہ کے باوجود دنیا کی علیہ

Page 59

$1956 46 خطبات محمود جلد نمبر 37 خدمت کی توفیق مل رہی ہے.اگر کسی جگہ ایک پادری مارا جاتا ہے تو اُسی دن تبلیغی انجمن کے مرکزی دفتر میں سینکڑوں تاریں پہنچ جاتی ہیں کہ ہم اُس کی جگہ پر جانے کے لیے تیار ہیں.میں نے کئی دفعہ سنایا ہے کہ ایک دفعہ چین میں کوئی مشنری عورت بُری طرح قتل کر دی گئی.جب یہ خبر اخبارات میں چھپی تو اُسی دن شام تک ہزاروں عورتوں کی تاریں پہنچ گئیں کہ ہم اس عورت کی جگہ جانے کے لیے تیار ہیں، ہمیں اُس علاقہ میں بھجوا دیا جائے.لیکن کیا وجہ ہے کہ مسلمانوں میں یہ روح نہیں پائی جاتی.اسی طرح میں نے بتایا تھا کہ بعض دوسرے ممالک میں دنیوی حکومتیں بھی ایک ایک خاندان یا قوم میں سینکڑوں سال تک چلی جاتی ہیں لیکن ہمارے ہاں سب انتظام عارضی ہوتے ہیں اور جلد ٹوٹ جاتے ہیں.جہاں تک گزارے کا سوال ہے عیسائی پادریوں نے بھی وہی تعلیم حاصل کی ہوئی ہوتی ہے جو اُن کے دنیوی عہدیداروں نے حاصل کی ہوئی ہوتی ہے لیکن پھر بھی پادریوں کو کم گزارے ملتے ہیں اور دنیوی عہدہ داروں کو اُن سے بہت زیادہ تنخواہیں ملتی ہیں لیکن باوجود گزارہ کم ملنے کے پادریوں کی تعداد میں کمی نہیں آتی.اس وقت پروٹسٹنٹ اور کیتھولک دونوں فرقوں کے ڈیڑھ لاکھ کے قریب پادری ہیں.ہم عیسائیوں کو خواہ کتنا ہی دنیا دار کہیں اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ انہیں اپنے دین کی اشاعت کے لیے ڈیڑھ لاکھ پادری میسر آ رہا ہے لیکن مسلمانوں میں یہ روح نہیں پائی جاتی.میں نے جماعت کے نوجوانوں کو بالعموم اور جامعتہ المبشرین کے طلباء کو بالخصوص یہ توجہ دلائی تھی کہ وہ اس امر کے متعلق غور کریں اور سوچیں اور اپنی رائے سے مجھے بھی اطلاع دیں.چنانچہ میرے اُس خطبہ کے بعد جامعتہ المبشرین کے دو طلباء مجھ سے ملے اور انہوں نے اپنی رائے پیش کی.میں نے خیال کیا چلو شکر ہے میرے خطبہ کے نتیجہ میں کم از کم دو طلباء کو تو اس امر کی طرف توجہ پیدا ہوئی ہے.لیکن اُن دونوں طلباء نے جو باتیں پیش کیں وہ اس سوال کا جواب نہیں تھیں جو میں نے ان کے سامنے پیش کیا تھا.انہوں نے جو باتیں کہیں وہ وہی تھیں جو میں نے خطبہ میں بیان کی تھیں.میں نے کہا تھا کہ اگر گزارہ کی کمی کی وجہ سے ہمیں واقفین زندگی نہیں ملتے تو عیسائیوں میں بھی دنیوی عہدیداروں کی تنخواہیں پادریوں ނ

Page 60

$1956 47 خطبات محمود جلد نمبر 37 دسیوں گنا زیادہ ہوتی ہیں.پھر وجہ کیا ہے کہ عیسائیوں کو پادری مل جاتے ہیں اور ہمیں نہیں ملتے.وہ اپنے مذہب کی خاطر اپنی نوکریاں ترک کر دیتے اور دین کی اشاعت میں لگ جاتے ہیں اور اُنیس سو سال کے لمبے عرصہ میں انہیں ہر زمانہ میں ایسے لوگ ملتے چلے آئے ہیں.پھر وجہ کیا ہے کہ ہمیں مشکلات پیش آ رہی ہیں؟ اس پر اُن طلباء میں سے ایک نے کہا کہ شاہدین کے گزارے بڑھا دیئے جائیں تو جماعت کے نوجوان وقف کی طرف آنے لگ جائیں گے حالانکہ خطبہ میں میں نے یہی کہا تھا کہ باوجود اس کے کہ اسلام کی تعلیم نہایت اعلیٰ ہے اور اس میں روحانیت بھی پائی جاتی ہے یہاں گزارہ کا سوال کیوں باقی رہتا ہے اور عیسائیوں میں کیوں یہ سوال پیدا نہیں ہوتا ؟ یا تو یہ ثابت کیا جائے کہ عیسائیوں کو پادری اس لیے مل جاتے ہیں کہ اُن کے ہاں پادری کو دنیوی عہدیداروں سے زیادہ گزارہ ملتا ہے اور اگر یہ ثابت نہ کیا جا سکے تو پھر اس اصول کو پیش نہیں کیا جا سکتا.میں نے بتایا کہ جن کالجوں میں پادری پڑھتے ہیں انہی کالجوں میں دنیوی عہد یدار پڑھتے ہیں لیکن اگر کوئی شخص کسی دنیوی عہدہ پر فائز ہو جاتا ہے مثلاً وہ ڈی سی بن جاتا ہے تو اسے دو تین ہزار روپیہ ماہوار مل جاتا ہے.بعد میں گورنر بن جائے تو اُس کی تنخواہ مثلاً آٹھ ، دس ہزار روپیہ ماہوار ہو جاتی ہے لیکن پادریوں کو اتنا گزارہ نہیں ملتا.حالانکہ بعض دفعہ پادری ان عہد یداروں سے تعلیم میں زیادہ ہوتے ہیں.پھر ہمارے ایڈمنسٹریٹو عُہد یداروں اور مبلغین کی تنخواہوں میں اتنا فرق نہیں جتنا فرق یورپ اور امریکہ میں ایڈمنسٹریٹو عہد یداروں اور پادریوں کی تنخواہوں میں پایا جاتا ہے لیکن اس کے باوجود ایک پادری جاتا ہے تو اُس کی جگہ دوسرا آ جاتا ہے.غرض اُن دو طلباء نے وہی بات دہرا دی جو میں خطبہ میں بیان کر چکا تھا یعنی آپ مبلغین کا گزارہ بڑھا دیں، واقفین خود بخود آنے لگ جائیں گے.حالانکہ اگر گزارہ بڑھا دیا جائے تو ہندوؤں اور عیسائیوں میں سے بھی لوگ تبلیغ کیلئے آجائیں گے.ایک طالب علم نے کہا کہ میری رائے تو یہ ہے کہ چونکہ جامعتہ المبشرین کے طلباء اور تعلیم الاسلام کالج کے طلباء کے وظائف میں فرق کیا جاتا ہے اس لیے جامعتہ المبشرین میں تعلیم حاصل کرنے کے لیے طلباء

Page 61

$1956 48 خطبات محمود جلد نمبر 37 نہیں آتے.زیادہ وظیفہ ملنے کی وجہ سے وہ تعلیم الاسلام کالج میں چلے جاتے ہیں.جامعة المبشرین میں ایک طالب علم کو چالیس روپے ماہوار وظیفہ ملتا ہے اور تعلیم الاسلام کار میں وظیفہ کا معیار پچھتر روپے ماہوار فی طالبعلم ہے.اگر وظیفہ کا معیار ایک کر دیا جائے نہ جامعة المبشرین میں طلباء کثرت سے آنے لگیں گے.میں نے کالج کے پرنسپل کو بلایا اور اُن سے دریافت کیا تو انہوں نے کہا کہ یہ بات سرے سے ہی غلط ہے.تعلیم الاسلام کالج کے طلباء کو وظیفہ ملتا ہی نہیں.جو لڑ کا زندگی وقف کر کے آتا ہے اور تحریک جدید اُس کے لیے تعلیمی وظیفہ منظور کرتی ہے اُسے جامعتہ المبشرین میں بھیج دیا جاتا ہے وہ کالج میں داخلہ کے لیے آتا ہی نہیں.اس لیے یہ سوال ہی باقی نہیں رہتا کہ کالج کے طلباء کو پچھتر روپے ماہوار کے حساب سے وظیفہ دیا جاتا ہے اور جامعتہ المبشرین کے طلباء کو چالیس روپے ماہواری کے حساب سے.میں نے جامعتہ المبشرین کے ایک اُستاد کو اس بات کے لیے مقرر کیا ہے کہ وہ وکالت تعلیم میں جائے اور اُن سے وظائف کی لسٹ لائے تا میں معلوم کر سکوں کہ وہ کونسے طلباء ہیں جن کو زیادہ وظیفہ دیا جاتا ہے.درحقیقت اس قدر وظیفہ یہاں کسی کو دیا ہی نہیں کی جاتا.سب سے زیادہ وظائف غالباً یونیورسٹی میں فرسٹ اور سیکنڈ آنے والوں کو جو بلی فنڈ ނ دیئے جاتے ہیں اور وہ بھی پچھتر روپیہ ماہوار نہیں بلکہ چالیس یا پچاس روپے ماہوار ہیں.پس سوال تو پھر بھی باقی رہا کہ عیسائیوں میں یہ کیوں سوال پیدا نہیں ہوتا کہ انہیں یڈمنسٹریٹو سائڈ والوں سے کم تنخواہیں یا وظائف ملتے ہیں حالانکہ ایڈمنسٹریٹو سائڈ والے ملازمین بھی عموماً اُنہی کالجوں کے فارغ التحصیل ہوتے ہیں جن میں پادری تعلیم حاصل کرتے ہیں اور انہیں پادریوں کے مقابلہ میں دس دس گنا زیادہ تنخواہیں ملتی ہیں.پس ان دونوں طلباء نے وہی بات دُہرا دی جو میں نے خطبہ میں بیان کی تھی کوئی نئی بات انہوں نے پیش نہیں کی.بہر حال ہمیں سوچنا چاہیے کہ اس نقص کی وجہ کیا ہے؟ آخر پہلے ہمیں بلا تنخواہ کام کرنے والے ملتے رہے ہیں یا نہیں؟ مثلاً حضرت ابو بکر کو کونسی تنخواہ ملتی تھی؟ حضرت عمرؓ کو کونسی تنخواہ ملتی تھی؟ پھر باوجود کوئی تنخواہ نہ ملنے کے انہوں نے عظیم الشان کام کیا.ہمارے سلسلہ کی ابتدائی تاریخ کو بھی دیکھا جائے تو ایسی کئی مثالیں مل جاتی ہیں.میں نے بتایا تھا کہ مولوی محمد علی صاحب کو

Page 62

$1956 49 خطبات محمود جلد نمبر 37 غالباً سو روپیہ ماہوار ملتا تھا.حالانکہ وہ ایم.اے تھے اور پھر وکیل بھی تھے اور ایک کالج میں پروفیسر کے طور پر کام بھی کر چکے تھے.لیکن انہوں نے کبھی تنخواہ کم ہونے کی شکایت نہیں کی تھی.پھر کیا وجہ ہے کہ اب نوجوانوں میں تنخواہ کا زیادہ احساس پیدا ہو گیا ہے.پھر ایک طالبعلم نے یہ بات بھی کہی کہ چونکہ بڑے آدمیوں کے بچے زندگی وقف کر کے نہیں آتے اس لیے جماعت کے نوجوانوں کو وقف کی طرف کم توجہ ہے.میں نے کہا تمہارے نزدیک بڑے ہونے کا کیا معیار ہے؟ میں اس وقت خلیفہ ہوں اور جماعت میں سب سے بڑا آدمی ہوں.میرے بائیس بچے اور داماد واقف زندگی ہیں.اگر انہیں دیکھ کر بھی نو جوانوں کو وقف کی طرف توجہ پیدا نہیں ہوئی تو یہ کس طرح تسلیم کیا جا سکتا ہے کہ چودھری اسد اللہ خاں یا عبداللہ خاں کا لڑکا اگر زندگی وقف کرے تو نوجوانوں کو وقف کی طرف توجہ ہو جائے گی.غرض بات چکر کھا کر پھر وہیں آجاتی ہے کہ نوجوانوں کو وقف کی طرف کیوں توجہ نہیں جبکہ اس وقت دنیا تبلیغ کی محتاج ہے.اور یہی وہ سوال تھا جس کے متعلق میں نے نو جوانوں کو توجہ دلائی تھی کہ انہیں اس پر غور کرنا چاہیے.مگر انہوں نے اس پر صحیح طور غور نہیں کیا.میں اس موقع پر ہائی سکول کے طلباء سے بھی کہتا ہوں کہ انہیں ایسے خیالات سے متکثر نہیں ہونا چاہیے.اسکول کے طلباء میں خدا تعالیٰ کے فضل سے بڑا اخلاص پایا جاتا ہے اور ان کی اخلاص بھری چٹھیاں میرے پاس آتی رہتی ہیں.لیکن پھر بھی میں انہیں نصیحت کرتا ہوں کہ وہ ان باتوں کی نقل نہ کریں جن کا نمونہ بعض شاہدین نے دکھایا ہے.مجھے یاد پڑتا ہے کہ جامعة المبشرین کے بعض اساتذہ نے بھی مجھے لکھا تھا کہ شاہدین کی تنخواہیں بڑھا دی جائیں پھر دیکھیں کہ جماعت میں وقف کی کتنی رغبت پیدا ہو جاتی ہے حالانکہ یہ بات غلط ہے.دین کی خدمت کرنے والوں نے اپنے اپنے زمانہ میں بڑا کام کیا ہے لیکن سلسلہ کی طرف سے انہیں کوئی تنخواہ نہیں ملا کرتی تھی.تم حضرت خلیفہ اسیح الاول کی زندگی کو دیکھ لو، حضرت مولوی عبدالکریم صاحب کو دیکھ لو.اِن لوگوں کو کوئی گزارہ نہیں ملتا تھا مگر پھر بھی انہوں نے دین کی عظیم الشان خدمت کی.مولوی عبدالکریم صاحب اتنے پایہ کے عالم تھے کہ سارے ضلع

Page 63

$1956 50 50 خطبات محمود جلد نمبر 37 سیالکوٹ میں آپ کے شاگرد پائے جاتے تھے مگر اُن کا یہ حال تھا کہ وہ جب ہجرت کر کے قادیان آئے تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ایک کمرہ میں پڑے رہتے تھے.لنگر سے دو وقت کا کھانا آ جاتا تھا اور اُس پر گزارہ کرتے تھے.کوئی تنخواہ نہیں لیتے تھے.بعض دفعہ اُن کی حالت دیکھ کر کوئی دوست انہیں کوٹ اور دوسرے کپڑے بنا دیتے اور وہ پہن لیتے.گویا بغیر کسی تنخواہ کے ساری عمر گزارہ کرتے رہے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے پرائیویٹ سیکرٹری بنے رہے.اسلام کی ابتدائی تاریخ کو دیکھا جائے تو وہاں بھی ایسے لوگ نظر آتے ہیں جو دنیا کو چھوڑ کر دین کے ہو گئے تھے.اور عیسائیوں میں تو اب تک یہ نمونہ موجود ہے اور میں نے جماعت کے نوجوانوں سے یہی دریافت کیا تھا کہ اب وہ نمونہ کیوں قائم نہیں رہا.میں سمجھتا ہوں کہ جماعت کے لوگوں کو صرف ان لوگوں سے نمونہ حاصل کرنا چاہیے جو سادہ ہیں اور دعائیں کرنا جانتے ہیں.یہی وہ لوگ ہیں جن سے مسلمانوں کا احیاء وابستہ ہے.پرانے زمانہ کے بزرگوں میں سے مولوی محمد قاسم صاحب نانوتوی کو لے لو.انہیں کونسی تنخواہ ملتی فی لیکن اس کے باوجود انہوں نے دیوبند کا کالج بنایا.اس کے مقابلہ میں ہمارے شاہدین میں سے کتنے ہیں جنہوں نے اسکول بنائے ہیں؟ اگر وہ دیوبند جیسا اسکول نہیں بنا سکتے تو اس سے ہزارواں حصہ کم حیثیت کا اسکول ہی بنا دیں.مگر ہمارے شاہدین میں اس قسم کی کوئی مثال نہیں ملتی.اس کی وجہ یہی ہے کہ ان لوگوں کی نظر پیسوں پر ہے اور مولوی محمد قاسم صاحب نانوتوی کی نظر پیسوں پر نہیں بلکہ خدا تعالیٰ پر تھی اور وہ سمجھتے تھے کہ اسلام کی تعلیم پھیلانے سے انہیں ثواب ملے گا اور خدا تعالیٰ کی رضا انہیں حاصل ہو گی.اس کی وجہ سے خدا تعالیٰ خود ان کے گزارے کا سامان پیدا کر دیتا تھا.حضرت خلیفة المسیح الاول ایک بزرگ کا واقعہ سنایا کرتے تھے کہ ایک دفعہ اُن کے پاس ایک شخص آیا اور اُس نے کہا کہ فلاں رئیس نے آپ کو نذرانہ بھیجا ہے اور اُس نے مثلاً تین سو روپیہ انہیں دیا انہوں نے کہا یہ میرا نذرانہ نہیں ہوسکتا کیونکہ یہ قرض خواہ پاس کھڑا ہے اور اسے میں نے تین سو تیرہ روپے دینے ہیں.اگر خدا تعالیٰ نے مجھے کوئی رقم دینی ہے تھی تو وہ تین سو تیرہ روپے ہونی چاہیے تھی تین سو کیوں ہوئی.اس نے گھبرا کر جیب میں

Page 64

خطبات محمود جلد نمبر 37 51 $1956 ہاتھ ڈالا اور کہا مجھ سے غلطی ہو گئی ہے، وہ نذرانہ آپ کا نہیں بلکہ یہ ہے.اور دوسرے نذرانہ میں تین سو تیرہ روپیہ کی ہی رقم تھی.در اصل بات یہ ہوئی کہ اُس نے دو مختلف اشخاص کو روپے بھجوائے تھے.پیغامبر نے غلطی سے دوسرے کا روپیہ انہیں دے دیا.انہوں نے گنا تو واپس کر دیا اور کہا کہ یہ میرا روپیہ نہیں ہوسکتا.مجھے اس سے زیادہ کی ضرورت ہے.چنانچہ اُس نے گھبرا کر پھر جیب میں ہاتھ ڈالا تو اُن کا نذرانہ نکل آیا جو عین ان کی ضرورت کے مطابق تھا.تو جو لوگ خدا تعالیٰ کے ہو جاتے ہیں انہیں تنخواہوں کی ضرورت نہیں ہوتی.اللہ تعالیٰ انہیں غیب سے روزی بھیجتا ہے اور اُن کی خود مدد کرتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو بھی اللہ تعالیٰ نے فرمایا تھا کہ يَنصُرُكَ رِجَالٌ نُوحِي إِلَيْهِمُ مِنَ السَّمَاءِ 1 کہ تیری مدد وہ لوگ کریں گے جنہیں ہم آسمان سے وحی کریں گے.پس جو شخص خدا تعالیٰ کے دین کا کام کرتا ہے اللہ تعالیٰ اُس کی ضرورت کو خود پورا کرتا ہے.پس اگر تم ایماندار بن جاؤ تو اس بات کا سوال ہی پیدا نہیں ہو گا کہ تمہیں زیادہ تنخواہ ملے.تم ایماندار بن جاؤ گے تو خدا تعالیٰ تمہیں اپنے پاس سے رزق بھجوائے گا اور تمہاری ضروریات کا خود کفیل جائے گا.ہو میں نے بتایا ہے کہ حضرت خلیفۃالمسیح الاول قادیان میں ہجرت کر کے آگئے تو باوجود اس کے کہ آپ کو کوئی تنخواہ نہیں ملتی تھی خدا تعالیٰ خود آپ کو غیب سے رزق بھیج دیتا تھا اور اتنا بھیجتا تھا کہ آپ کو یہ خیال پیدا ہو گیا کہ میں بڑا امیر ہوں.ایک دن بھائی شیر محمد صاحب جو مولوی عبدالرحمان صاحب جٹ (امیر جماعت احمدیہ قادیان) کے ہم زُلف ہیں امرتسر گئے اور وہاں سے بچوں کے لیے کھلونے لے آئے.حضرت خلیفة المسیح الاول کا لڑکا عبدالحی مرحوم بازار گیا تو اُس نے بھائی شیر محمد صاحب سے ایک کھلونا لے لیا.ایک دن بھائی شیر محمد صاحب حضرت خلیفۃ المسیح الاول کے پاس گئے اور کہنے لگے کہ میاں عبدالحی مجھ سے ایک کھلونا لائے تھے اُس کی قیمت چاہیے.حضرت خلیفۃ المسیح الاول نے میری طرف دیکھا اور فرمایا میاں! یہ لوگ مجھے کوٹنے کے لیے اس قسم کی اشیاء لے آتے ہیں ورنہ یہاں میرے سوا اور کون ایسا شخص ہے جس کے بچے اس قسم کی چیزیں خرید سکتے ہیں.گویا اللہ تعالیٰ

Page 65

$1956 52 59 خطبات محمود جلد نمبر 37 آپ کو غیب سے اس قدر دیتا تھا کہ آپ کے دل میں بھی اپنے امیر ہونے کا احساس پیدا ہو گیا تھا حالانکہ آپ خدا تعالیٰ کے لیے اپنا سب کچھ چھوڑ کر قادیان آگئے تھے.پس تم اللہ تعالیٰ پر توکل کرو اور یہ فکر نہ کرو کہ تمہاری تنخواہیں تھوڑی ہیں.اللہ تعالیٰ توکل - کرو گے تو تمہاری ضروریات کو پورا کرنے کے لیے وہ خود غیب سے سامان کر دے گا.مومن مانگا نہیں کرتا مگر اُس کی ضروریات اللہ تعالیٰ کسی نہ کسی طرح پوری کر دیتا ہے.میرا شروع سے ہی یہ طریق رہا ہے کہ میں کسی سے مانگتا نہیں.جماعت کے امیر اور تاجر بعض دفعہ میرے پاس آتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہماری دلی خواہش ہے کہ آپ کو آپ کی پسند کی کوئی چیز بطور نذرانہ دیں اس لیے آپ اپنی پسند کی کوئی چیز بتائیں تا کہ ہم اپنی خواہش کے مطابق وہ چیز آپ کی خدمت میں پیش کر سکیں.میں انہیں یہی کہتا ہوں کہ یہ بات غلط ہے کہ میں آپ کو کوئی چیز لانے کے لیے کہوں.یہ تو ایک قسم کا مانگنا ہو جائے گا اور مومن کسی سے مانگتا نہیں.اگر میں آپ کو اپنی پسند کی کوئی چیز لانے کے لیے کہوں گا تو آپ کو مجھ سے اس کی قیمت لینی پڑے گی.لیکن باوجود اس کے کہ میں نے لوگوں سے کبھی نہیں مانگا خدا تعالیٰ مجھے غیب دیتا ہے.تقسیم ملک کے بعد ہم قادیان سے نکلے تو میری سب جائیداد وہیں رہ گئی اور بظاہر گزارہ کی کوئی صورت نظر نہیں آتی تھی لیکن یہ خدا تعالیٰ کا کتنا بڑا فضل ہے کہ اُس نے 1915ء میں مجھے خواب میں اشارہ کیا کہ میں سندھ میں زمین خریدوں.سندھ میں جب زمین نکلی تو میرے پاس رقم نہیں تھی لیکن خدا تعالیٰ نے جماعت کے دو پنشنر دوست میرے پاس بھیج دیئے اور انہوں نے کہا کہ ہمیں ریلوے ڈیپارٹمنٹ یا پوسٹ آفس سے اس قدر رقم ملی ہے.ہم چاہتے ہیں کہ آپ یہ رقم کچھ عرصہ کے لیے استعمال کر لیں.چنانچہ میں نے وہ رقم لے لی.اس وقت زمین بہت سستی تھی.میں نے اُس روپیہ سے سندھ میں زمین خرید لی.اب بیماری میں بعض دفعہ گھبراہٹ ہوتی ہے کہ اُس زمین کو کون سنبھالے گا کیونکہ مجھے بچوں میں اتنی قابلیت نظر نہیں آتی کہ وہ اُس کو پوری طرح سنبھال سکیں لیکن اللہ تعالیٰ کے سامان دیکھو کہ اُس نے ایک طرف تو زمین خریدنے کی طرف رؤیا کے ذریعہ توجہ دلائی اور

Page 66

$1956 53 خطبات محمود جلد نمبر 37 دوسری طرف دو دوست بھیج دیئے جنہوں نے کچھ عرصہ تک استعمال کرنے کے لیے مجھے روپیہ دے دیا اور بعد میں خدا تعالیٰ نے انہی زمینوں میں اتنی برکت دی کہ تقسیم ملک کے بعد جب گزارہ کی کوئی اور صورت نہیں تھی تو ان کی آمد سے خدا تعالی تمام ضروریات پوری کرتا رہا.ب دیکھ لو! یہ يَنْصُرُكَ رِجَالٌ نُّوْحِيَ إِلَيْهِمُ مِّنَ السَّمَاءِ والا ہی معاملہ ہے.جب ہم قادیان سے آئے تو میں نے اپنے گھر والوں سے کہہ دیا تھا کہ تمہیں لنگر سے اُسی قدر کھانا ملے گا جس قدر دوسروں کو ملتا ہے.اُن دنوں میں نے یہ ہدایت دی ہوئی تھی کہ مالی تنگی کی وجہ سے صرف ایک ایک روٹی فی کس دی جائے اور گھر والوں کو بھی میں نے کہا کہ تمہیں بھی ایک ایک روٹی فی کس ملے گی.ایک دن میرا پوتا انس احمد روتا ہوا میرے پاس آیا اور مجھے بتایا گیا کہ یہ کہتا ہے ایک روٹی سے میرا پیٹ نہیں بھرتا.میں نے کہا میں نے تو ایک ہی روٹی دینی ہے.اگر اس کا پیٹ ایک روٹی سے نہیں بھرتا تو مجھے آدھی روٹی دے دیا کرو اور میری آدھی روٹی اسے دے دیا کرو.اس طرح میں آدھی روٹی میں گزارہ کر لیا کروں گا اور یہ ڈیڑھ روٹی کھا لیا کرے گا.جب مہمانوں کے لیے ایک روٹی کی شرط اُڑ جائے گی تو پھر میں گھر والوں کے لیے بھی فی گس روٹیوں کی تعداد بڑھا دوں گا.لیکن جب تک مہمانوں کے لیے ایک روٹی کی شرط نہیں اُڑتی اسے میری روٹی کا نصف حصہ دے دیا کریں.لیکن پھر اللہ تعالیٰ نے فضل کر دیا اور نہ صرف سندھ کی زمینوں کی پیداوار اچھی ہو گئی بلکہ خدا تعالیٰ نے آمد کے اور رستے بھی کھول دیئے.پھر دیکھ لو یہاں آئے تو شروع شروع میں صدرانجمن احمدیہ نے کچے مکانات بنا کر دیئے لیکن مجھے اپنے خاندان کے لیے مستقل مکانات کی ضرورت تھی.چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فضل کیا اور اُس نے غیب سے روپیہ کا انتظام کر دیا.اس وقت میرے دس پخته مکان بن ہیں.میری چار بیویاں ہیں، تیرہ لڑکے ہیں اور نو لڑکیاں ہیں.اس لیے مجھے چھیں مکانات کی ضرورت ہے.صدر انجمن احمدیہ نے ناظروں کے لیے آٹھ مکانات بنوانے ہیں لیکن وہ ابھی تک نہیں بنا سکی.لیکن میں نے چھپیں بنانے ہیں اور میں جانتا ہوں کہ خدا تعالیٰ اس قدر رقم مجھے کہیں نہ کہیں سے دے دے گا جس سے چھیں مکانات بن جائیں گے.کیونکہ وہ بغیر

Page 67

$1956 54 خطبات محمود جلد نمبر 37 حساب کے دیتا ہے.میں جب بھی اپنے اخراجات اور آمد کا حساب لگاتا ہوں تو معلوم ہوتا ہے کہ اگلے ماہ کے اخراجات کے لیے روپیہ نہیں.لیکن پھر استغفار کرتا ہوں اور اعداد و شمار کا خیال دل سے نکال دیتا ہوں تو خدا تعالیٰ روپیہ بھیج دیتا ہے.پس تم مومن بنو اللہ تعالیٰ تمہیں اپنے پاس سے رزق دے گا ورنہ لالچی کا پیٹ دنیا میں کوئی نہیں بھر سکتا.ہاں! لالچ کو دل سے نکال دو تو اللہ تعالیٰ تمہاری ضروریات پوری کرنے کا سامان غیب سے کر دے گا.صدرانجمن احمدیہ کسی کا پیٹ نہیں بھر سکتی.پیٹ خدا تعالیٰ ہی بھرتا ہے اور وہ بھی اِس طرح کہ وہ دل سے لالچ کو دور کر دیتا ہے.جیسا کہ میں نے بتایا ہے میرے آٹھ دس سال کی عمر کے پوتے کا پیٹ ایک روٹی سے نہیں بھرتا تھا لیکن میرا پیٹ آدھی روٹی سے بھر جاتا تھا.اس کی وجہ یہی تھی کہ اللہ تعالیٰ میری اشتہا 2 آدھی روٹی میں ہی پوری کر دیتا تھا.غرض خدا تعالیٰ کے طریق نرالے ہیں.حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جب وفات پائی تو میرے گھر میں سوائے نصف وسق جو کے اور کوئی چیز کھانے کی نہیں تھی مگر اُسی نصف وسق جو میں اللہ تعالیٰ نے اس قدر برکت پیدا کی کہ میں ایک عرصہ دراز تک اُس میں سے کھاتی چلی گئی.آخر ایک دفعہ مجھے خیال آیا کہ تول کر دیکھوں کہ کتنے جو ہیں.جب میں نے انہیں تو لا تو اُس کے بعد وہ جو ختم ہو گئے.3 حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ساتھ بھی اس قسم کے واقعات پیش آتے رہے ہیں.آپ اکثر مشک استعمال فرمایا کرتے تھے.میں نے بھی اخبار میں اعلان شائع کرایا ہے کہ مجھے خالص مشک کی ضرورت ہے.وہ لوگ جو ایسے علاقوں میں رہتے ہیں جہاں مشک دستیاب ہوسکتا ہے اگر وہ خالص مشک کے تین چار نافے 4 خرید کر بھجوا دیں اور مجھے قیمت کی اطلاع دے دیں تو میں اُن کو قیمت بھجوا دوں گا کیونکہ آجکل مجھے شدید سردی محسوس ہوتی ہے اور اس کی وجہ سے مشک کھانے کی ضرورت محسوس ہوتی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو بھی سردی محسوس ہوتی تھی.اس لیے آپ بھی مشک کھایا کرتے تھے.آپ مشک کی ایک شیشی بھر کر جیب میں رکھ لیتے اور ضرورت کے وقت استعمال کر لیا کرتے.آپ فرمایا کرتے تھے کہ ایک شیشی دو دو سال تک چلی جاتی ہے لیکن جب خیال آتا ہے کہ مشک تھوڑی رہ گئی ہے

Page 68

خطبات محمود جلد نمبر 37 ہوگی اور شیشی دیکھتا ہوں تو وہ ختم ہو جاتی ہے.55 $1956 پس اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو غیب سے رزق بھیجتا ہے اور اس کے رزق بھیجنے کے طریق نرالے ہیں.پس تم اس ذات سے مانگو جس کا خزانہ خالی نہیں ہوتا.انجمن سے کیوں مانگتے ہو جس کے پاس اتنی رقم ہی نہیں کہ وہ تمہارے گزارے بڑھا سکے.پس تم خدا پرست بن جاؤ خدا تعالیٰ غیب سے تمہیں رزق بھیج دے گا.صدرانجمن احمدیہ کے پاس اتنا روپیہ نہیں کہ وہ تمہیں زیادہ گزارے دے سکے.آخر اس کے پاس جو روپیہ آتا ہے وہ جماعت کے چندوں سے ہی آتا ہے اور وہ اس قدر زیادہ نہیں ہوتا کہ شاہدین کو زیادہ گزارے دیئے جاسکیں.پھر صدرانجمن احمد یہ کیمیا گر نہیں اور نہ ہی وہ ملمع ساز ہے کہ خود سکہ کو سونا بنالے یا مع کر کے روپیہ دے دے.خدا تعالیٰ روپیہ بھیجے گا تو اس نے اسے خزانہ میں محفوظ نہیں رکھنا.اس نے بہر حال اسے خرچ کرنا ہے.اس لیے جب اس کے پاس کافی روپیہ آئے گا تو وہ تمہارے گزارے بھی بڑھا دے گی لیکن پھر بھی اصل طریق یہی ہے کہ تم خدا تعالیٰ سے مانگو جس کے خزانے کبھی ختم نہیں ہوتے.خدا تعالیٰ جماعت کے خزانہ میں روپیہ لائے گا تو وہ تمہیں بھی گزارے دے گی.آخر وہ کون بیوقوف ہے جو خزانہ میں روپیہ ہوتے ہوئے بھی کارکنوں کو اچھے گزارے دینے میں کوتاہی کرے گا.پچھلے دنوں میں نے اندازہ لگایا تو جماعت کے دو سو مبلغ تھے اور دوسو کے قریب یہاں کلرک وغیرہ ہیں اور انجمن کی گل آمدنی دس لاکھ روپیہ سالانہ ہے.اس دس لاکھ میں سے اس نے چار سو کارکنوں کو گزارے دینے ہیں.پھر دوسرے ادارے بھی ہیں جن کے اخراجات اسے برداشت کرنے پڑتے ہیں.مثلاً کالج ہیں، اسکول ہیں، لنگر خانہ ہے، ہسپتال ہے.اگر صدرانجمن احمد یہ اپنے چار سو کارکنوں کو پچاس پچاس روپیہ ماہوار بھی دے تو اسے صرف تنخواہوں کے لیے ہیں ہزار روپیہ ماہوار چاہیے.گزارے بڑھانے کی یہی صورت ہے کہ چندے بڑھیں.اور چندے اس صورت میں بڑھ سکتے ہیں کہ چندہ دینے والوں کی تعداد میں اضافہ ہو.میں نے ایک دفعہ مبلغوں سے دریافت کیا کہ اُن کے ذریعہ سال میں کتنے افراد احمدیت میں داخل ہوئے ہیں.تو ان میں سے اکثر ایسے تھے جن کے ذریعہ سال بھر میں کوئی

Page 69

$1956 56 خطبات محمود جلد نمبر 37 فرد بھی احمدیت میں داخل نہیں ہوا تھا یا پھر ایک ایک آدمی نے اُن کے ذریعہ بیعت کی تھی.اب اگر ایک مبلغ سال میں ایک آدمی احمدیت میں داخل کرے تو صرف پاکستان کی آبادی آٹھ کروڑ ہے جس کے لیے ہمیں آٹھ کروڑ مبلغین کی ضرورت ہو گی اور ان مبلغین میں سے ہر ایک کو اگر پچاس روپے ماہوار دیے جائیں تو اس کے لیے چار ارب روپیہ درکار ہو گا اور صدر انجمن احمدیہ کی گل آمد دس لاکھ روپیہ سالانہ ہے.پھر سیدھی طرح یہ کیوں نہیں کہہ دیتے کہ ہم تبلیغ نہیں کر سکتے ہمیں صرف روپیہ کی ضرورت ہے.اگر ہمیں روپیہ ملے گا تو ہم تبلیغ کریں گے ورنہ نہیں.غرض دو باتوں میں سے کوئی بات قبول کر لو.یا تو کہہ دو کہ ہمیں دین سے کوئی غرض نہیں اور یا پھر تنخواہوں کی پروا نہ کرتے ہوئے کام کرتے چلے جاؤ.اور یاد رکھو کہ اگر تم دین کی خدمت نہیں کرو گے تو خدا تعالیٰ اپنے دین کی خدمت کے لیے اُن سیدھے سادے لوگوں کو کھڑا کر دے گا جو شاہدین میں سے نہیں لیکن انہیں خدا اور اُس کے رسول سے چی محبت ہے اور وہ اُن سے کام لینا شروع کر دے گا.میں نے کئی بار سنایا ہے کہ ہماری جماعت میں ایک دوست شیر محمد صاحب تھے جو ا کا چلایا کرتے تھے.وہ ضلع جالندھر کے رہنے والے تھے.تعلیمی لحاظ سے اُن کی یہ حالت تھی کہ نہ انہیں پڑھنا آتا تھا اور نہ وہ لکھنا جانتے تھے.لیکن اُن کے ذریعہ چالیس پچاس آدمی احمدیت میں داخل ہوئے تھے حالانکہ اس وقت بعض مبلغ صرف ایک ایک آدمی سال میں احمدیت میں داخل کرتے ہیں.گویا ایک مبلغ کو ہم پانچ چھ سال تک پڑھا ئیں اور پھر اُسے پچاس روپیہ ماہوار دیں اور چالیس سال تک اسے اس حساب سے تنخواہ دیتے چلے جائیں تب کہیں اس کے ذریعہ اُتنے آدمی احمدیت میں داخل ہوں گے جتنے ایک ان پڑھ شیر محمد کے ذریعے احمدیت میں داخل ہوئے تھے.اُن کا طریق یہ تھا کہ وہ ”الحکم خرید لیتے اور اگا کی سواریوں میں سے اگر کوئی تعلیم یافتہ اور لکھا پڑھا آدمی نظر آتا تو اُسے وہ اخبار دے دیتے اور کہتے کہ بھائی! آپ پڑھے لکھے ہیں ذرا یہ اخبار مجھے سنا دو.وہ ”الحکم“ لے لیتا اور شیر محمد کو سناتا جاتا اور دل ہی دل میں احمدیت کا قائل ہوتا جاتا.کئی دفعہ ایسا ہوا کہ مسافر اپنے گاؤں پہنچا اور اس نے شیر محمد صاحب سے دریافت کیا کہ بھائی! مجھے اس اخبار کا پتا لکھا دو، کہاں.ނ

Page 70

$1956 57 خطبات محمود جلد نمبر 37 نکلتی ہے اور یہ کن لوگوں کی اخبار ہے، اس میں بڑی اچھی باتیں لکھی ہیں.اور اکثر ایسا ہوتا کہ وہ ان سے پتا حاصل کر کے بیعت کا خط لکھ دیتا.اسی طرح میں نے مولوی محمد عبد اللہ صاحب کا واقعہ سنایا تھا.خود وہ بہت سادہ تھے اور زمیندار تھے.ایک دفعہ میں نے جلسہ میں تقریر کی کہ جماعت کا ہر شخص سال میں ایک ایک حمدی بنائے.اس کے بعد ملاقات کا وقت آیا تو مولوی محمد عبد اللہ صاحب نے مجھ سے کہا آپ نے تقریر میں ایک ایک احمدی بنانے کی تحریک کی تھی لیکن میں ایک احمدی نہیں بناؤں گا بلکہ ایک سو احمدی بناؤں گا.میں نے کہا بہت اچھا! سال بھر کے بعد وہ دوسرے جلسہ پر آئے تو اُن کے ساتھ ایک آدمی تھا.اُس کی طرف اشارہ کر کے کہنے لگے حضور ! دفتر سے دریافت فرمائیں نانوے احمدی میں پہلے بنا چکا ہوں اور اب یہ سواں احمدی ہے، اس کی بیعت قبول فرمائیں.اب دیکھو! ایک سادہ زمیندار تو سال میں سوسو احمدی بناتا ہے اور مبلغ جو تنخواہ دار ان ہے اور پھر تنخواہ کم ہونے کا شاکی ہے سال میں صرف ایک احمدی بناتا ہے.اگر یہی صورت رہی تو جیسا کہ میں نے بتایا ہے صرف پاکستان کے لیے ہمیں آٹھ کروڑ مبلغین کی ضرورت ہوگی.اور یہ آٹھ کروڑ ہم کہاں سے لائیں گے.آج ہی ایک امریکن نوجوان کا خط آیا ہے.وہ لکھتا ہے کہ ہر ملک میں تبلیغ کے لیے وقسم کے آدمیوں کی ضرورت ہوتی ہے.ایک تو وہ لوگ ہوتے ہیں جو پاؤ نیر“ (Pioneer) ہوتے ہیں.اور ایک وہ ہوتے ہیں جو تعلیم و تربیت کا کام کرتے ہیں.ہمارے ملک میں ابھی ایسے لوگوں کی ضرورت ہے جو پاؤ نیر" یعنی ابتدائی طور پر زمین صاف کرنے والے ہوں.جیسے مفتی محمد صادق صاحب تھے یا صوفی مطیع الرحمان صاحب تھے.یہ لوگ احمدیت کے لیے کی زمین ہموار کرنے والے تھے.پھر اُس نے لکھا کہ یہاں اس وقت رومن کیتھولک فرقہ کے لوگوں میں تبلیغ کا بڑا جوش پایا جاتا ہے.ویسے پروٹسٹنٹ فرقہ کی تعداد زیادہ ہے.لیکن کیتھولک عیسائی لوگوں کے دروازوں پر جاتے ہیں اور دروازے کھٹکھٹا کر پمفلٹ دے آتے ہیں اور اس مہم کے نتیجہ میں پچھلے چند مہینوں میں لاکھوں لوگ اس فرقہ میں داخل ہو گئے ہیں.وہ لکھتا ہے کہ ہمیں ایسے لوگوں کی ضرورت نہیں جو آرام سے مسجد میں بیٹھ جائیں اور ہمیں کہیں آؤ اور

Page 71

خطبات محمود جلد نمبر 37 58 $1956 ہم سے پڑھو.ہمیں وہ آدمی بھیجیں جو لوگوں کے مکانوں پر جا جا کر تبلیغ کریں.ایسے آدمی نہ بھیجیں جو مدرس ٹائپ کے ہوں اور وہ یہاں آ کر کرسیوں پر بیٹھ جائیں.اس وقت اگر تبلیغی مہم کو تیز کیا جائے تو ہزاروں لوگ اسلام کی طرف متوجہ ہو سکتے ہیں.لیکن رومن کیتھولک ہو جانے کے بعد انہیں واپس لانا مشکل ہو گا.یہاں چودھری فتح محمد صاحب نے بھی تبلیغ کا بڑا اچھا کام کیا ہے.وہ تھوڑے ہی عرصہ میں سات آٹھ سو احمدی بنا چکے ہیں اور یہ سب لوگ زمیندار ہیں اور خدا تعالیٰ کے فضل سے ان کا کام روز بروز بڑھ رہا ہے.دوسرے مبلغ بھی لوگوں کے گھروں پر جائیں، اُن سے دوستیاں قائم کریں اور انہیں جماعت کا لٹریچر دیں تو کوئی وجہ نہیں کہ وہ کامیاب نہ ہوں.میں ایک دفعہ ڈلہوزی گیا تو میں نے دیکھا کہ وہاں پادری فرگوسن صاحب آئے ہوئے تھے.انہوں نے سیالکوٹ شہر میں ”مرے کالج قائم کیا تھا اور خود ایم.اے تھے اور اس وقت ان کی عمر پچھتر سال کی تھی.مگر اس عمر میں بھی وہ ایک ہاتھ میں سوئی پکڑ لیتے اور دوسرے ہاتھ میں پمفلٹ اُٹھا لیتے اور سارا دن بازاروں اور محلوں میں گھوم کر ٹریکٹ وغیرہ تقسیم کرتے رہتے.ہمیں ابھی سے اس قسم کے آدمیوں کی ضرورت ہے.چنانچہ امریکہ نے یہی مطالبہ آیا ہے کہ ہمیں پاؤ نیرز (Pioneers) کی ضرورت ہے.وہ کہتے ہیں ہمیں مدرسوں کی ضرورت نہیں، مدرسوں کی ضرورت کچھ عرصہ بعد ہو گی.اب وقت ہے کہ جتنے آدمیوں کو مسلمان بنایا جا سکے بنا لیا جائے ورنہ انہیں دوسرے مذاہب والے لے جائیں گے.مفتی محمد صادق صاحب شروع سے ہی کمزور صحت کے تھے لیکن انہیں یہ خصوصیت حاصل رہی ہے کہ وہ جہاں بھی گئے خدا تعالیٰ نے ان کے کام میں برکت دی اور جو کام بھی ان منی کے سپرد کیا گیا وہ انہوں نے بڑے شوق سے کیا.مجھے یاد ہے ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہمیں ایک ایسے دوست کی ضرورت ہے جو عبرانی پڑھا ہوا ہو، تا کہ عبرانی تورات کا بھی مطالعہ کیا جا سکے.مفتی صاحب نے فوراً عبرانی سیکھنے کا تہیہ کر لیا.انہوں نے لا ہور شہر میں عبرانی جاننے والے کی تلاش کی تو انہیں معلوم ہوا کہ ایک یہودی طوائف کا بھائی عبرانی پڑھا ہوا ہے.چنانچہ مفتی صاحب اس یہودی طوائف کے پاس گئے اور اس کی ނ

Page 72

$1956 59 خطبات محمود جلد نمبر 37 معرفت اس کے بھائی سے دوستی پیدا کی اور اس سے عبرانی پڑھنے لگ گئے.ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے انہیں فرمایا کہ مفتی صاحب! مجھے بھی کسی کاغذ پر عبرانی کے کچھ الفاظ لکھ دیں تا کہ میں بھی انہیں سیکھنے کی کوشش کروں.غرض بعض لوگوں میں خصوصیت ہوتی ہے کہ وہ مجنونوں کی طرح کام کے پیچھے لگ جاتے ہیں.تم بھی اسی طرح کام کرو.پھر دیکھو تمہارے کاموں میں خود بخود برکت پیدا ہو جائے گی اور خدا تعالیٰ تمہیں غیب سے رزق دینا شروع کر دے گا.لوگوں کے قلوب اس وقت دین کی طرف مائل ہیں اور وہ ہم سے مبلغین مانگ ہیں.لیکن ایسے مبلغین کی ضرورت ہے جو دنیا کے پیچھے نہ پڑیں بلکہ دیوانہ وار تبلیغ کا کام کریں.مجھے درد صاحب کا ایک خط اُن کی وفات سے کچھ دن پہلے ملا جو اُن کا آخری خط تھا.اس میں انہوں نے لکھا تھا کہ میری ہمیشہ سے یہ خواہش رہی ہے کہ میں اپنا کوئی بیٹیا مدمت دین کے لیے وقف کروں.لیکن افسوس ہے کہ اس وقت تک ان میں سے کوئی بھی قابل نظر نہ آیا.اب میں اپنے فلاں بچے کو وقف کرتا ہوں.اس کے بعد وہ فوت ہو گئے.لیکن ان کی وفات کے بعد ان کے دس گیارہ بچوں اور بچیوں کی طرف سے خطوط آگئے کہ ہمیں وقف میں قبول فرمائیں.ہمارے والد صاحب کی یہ انتہائی خواہش تھی کہ ہم اپنی زندگی وقف کریں.اس لیے ہم ان کی خواہش کا احترام کرتے ہوئے اپنی زندگیاں دین کی خدمت کے لیے پیش کرتے ہیں.گویا ایک ہی گھر سے دس گیارہ درخواستیں وقف کی آگئیں.کیا ان لوگوں کی ضروریات نہیں؟ خود درد صاحب کو دیکھ لو جیسا کہ میں نے بتایا تھا وہ ایم.اے تھے اور سب جی کے لیے انہیں آفر (Offer) آچکی تھی لیکن پھر بھی وہ سلسلہ کی خدمت کے لیے آ گئے.ان کے والدین کی حیثیت اکثر طلباء کے والدین کی حیثیت سے اچھی تھی.لیکن اس کے باوجود انہوں نے اپنی ساری زندگی غربت میں گزار دی اور دین کی خدمت میں مصروف رہے.پھر فوت ہونے سے قبل انہوں نے اس خواہش کا اظہار کیا کہ میں اپنی اولاد کو وقف کرنا چاہتا ہوں اور ان کی وفات کے معا بعد ان کے قریباً سب بچوں نے زندگیاں وقف کر دیں.پس اللہ تعالیٰ کا کام تو ہو کر رہے گا.سوال یہ ہے کہ کون شخص السَّابِقُونَ الْأَوَّلُونَ

Page 73

$1956 60 خطبات محمود جلد نمبر 37 میں شامل ہوتا ہے اور کون مصائب کا عرصہ گزر جانے کے بعد آتا ہے.اگر قربانیوں کا دور گزر جانے کے بعد کوئی شخص آتا ہے تو اسے وہ برکت نہیں مل سکتی جو مصائب اُٹھا کر آنے والوں کو ملے گی.میری عمر تیرہ چودہ سال کی تھی کہ میں نے ایک رؤیا دیکھی.اُس رؤیا کا نظارہ اب بھی میرے سامنے ہے.میں نے دیکھا کہ اُس گلی میں جو اس وقت مدرسہ احمدیہ اور دکانوں کے درمیان ہے لوگ کبڈی کھیل رہے ہیں.ایک طرف احمدی ہیں اور دوسری طرف غیر احمدی ہیں.احمدیوں کی جو سائیڈ ہے اُس کا کپتان میں ہوں اور غیر احمدی کھلاڑیوں کے کپتان مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی ہیں.جب کبڈی شروع ہوئی تو میں نے دیکھا کہ غیر احمدیوں کا جو آدمی بھی آتا احمدی اُسے پکڑ کر اپنی طرف رکھ لیتے.اس طرح یکے بعد دیگرے اُن کا ایک ایک آدمی مرتا چلا گیا یہاں تک کہ صرف مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی رہ گئے.آخر میں نے دیکھا کہ اُس طرف جدھر اب مدرسہ احمدیہ ہے رُخ کر کے اور دیوار کے ساتھ منہ لگا کر ایک پہلو پر ٹیڑھے ہو کر انہوں نے چلنا شروع کیا اور وہ لکیر جو دونوں پارٹیوں کے درمیان حد فاصل کے طور پر حائل تھی اُس طرف بڑھنے لگے.جب وہ اُس لکیر کے پاس پہنچ گئے تو کہنے لگے ”ہن سارے لوگ آگئے ہین تے میں بھی آجاناں ایں.یعنی جب سارے آ گئے تو میں بھی آجاتا ہوں اور یہ کہہ کر وہ بھی ہماری طرف آ گئے.اس طرح تو سب لوگ اس سلسلہ میں آجائیں گے بلکہ وہ لوگ بھی آجائیں گے جو اس وقت مخالف ہیں.لیکن برکت والا وہ ہے جو مصیبت کے وقت میں آگے آئے اور پھر اس کے ذریعہ دوسرے لوگ جماعت میں شامل ہوں.خدا تعالیٰ ایسے شخص کو ہی اپنا بہادر سپاہی سمجھتا ہے کیونکہ اس نے اپنے آپ کو اُس وقت پیش کیا جب دینی خدمت کے ساتھ کوئی مادی امید وابستہ نہیں تھی.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ وہ دن بھی آئیں گے جب خدمت دین کے ساتھ مادی مفاد بھی وابستہ ہوں گے لیکن مبارک ہے وہ جو اُس دن سے پہلے آتا اور اُن لوگوں میں شامل ہوتا ہے جو پہلی رات کے چاند کو دیکھتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرمایا کرتے تھے کہ جو شخص مجھے آج قبول کرتا ہے وہ اُس شخص کی طرح ہے جس.

Page 74

$1956 61 خطبات محمود جلد نمبر 37 پہلی رات کا چاند دیکھا ورنہ جب میں بدر بن گیا تو پھر وہ لوگ بھی ایمان لے آئیں گے جو اس وقت مخالف ہیں مگر اُس وقت ان کا ایمان لانا قابلِ فخر نہیں ہو گا.قابلِ فخر وہی ہے جو پہلی رات کے چاند کو دیکھتا اور لوگوں کے لیے راہنمائی کا باعث بنتا ہے.1 : تذکرہ صفحہ 50 ایڈیشن چہارم 2 : اشتہا: بھوک (فیروز اللغات اردو جامع فیروز سنز لاہور ) 3 : بخاری کتاب الرقاق باب فضل الفقر ( الفضل 18 فروری 1956ء) 4 : نافے : مشک کی تھیلیاں.مفرد نافہ (فیروز اللغات اردو جامع فیروز سنز لاہور )

Page 75

$1956 CO 6 29 62 خطبات محمود جلد نمبر 37 زمین بدل سکتی ہے آسمان بدل سکتا ہے لیکن قرآن مجید کبھی ناکام نہیں ہو سکتا ہماری جماعت اسلام کی خاطر جو مالی قربانی کر رہی ہے اس کی مثال اور کہیں نہیں مل سکتی (فرموده 10 فروری 1956ء بمقام ربوہ) تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: آج چونکہ میں خطبہ میں ایک سے زیادہ باتیں کہنی چاہتا ہوں.اس لیے میں و وہ باتیں اختصار سے بیان کرتا جاؤں گا.(1) پچھلے خطبہ جمعہ میں میں نے جامعتہ المبشرین کے طلباء کے متعلق ایک امر کا ذکر کیا تھا.اس خطبہ کے بعد طلباء نے متفقہ طور پر مولوی ابوالعطاء صاحب کے ہاتھ مجھے ایک درخواست بھیجی ہے جس میں انہوں نے اس بات کا ذکر کیا ہے کہ ہمارے اس قسم کے خیالات نہیں.اگر ہم میں سے کسی طالبعلم نے اس قسم کے خیالات کا اظہار کیا ہے تو ہم سب اس پر افسوس کا اظہار کرتے ہیں اور اس کی معافی چاہتے ہیں.غرض وہ بات تو ختم ہو گئی.اب اس کے متعلق

Page 76

$1956 63 خطبات محمود جلد نمبر 37 میں مزید کچھ کہنا نہیں چاہتا.اس طرح ایک لڑکے کے متعلق مجھے معلوم ہوا تھا کہ خطبہ کے بعد اس کے باپ نے اس سے پوچھا کہ تم نے تو اس قسم کی کوئی بات نہیں کہی ؟ تو اس نے جواب دیا کہ میں اکیلا ہی تو مجرم نہیں ہمارے شاہدین ہی ایسے ہیں.اب اس لڑکے نے کہا ہے کہ میری غرض اس بات کے بیان کرنے سے یہ نہیں تھی کہ ہم سب کا خیال ہے کہ شاہدین کو کم گزارہ ملتا ہے بلکہ میری غرض یہ تھی کہ جب حضور نے سب کو جھاڑا ہے تو میں اکیلا ہی مجرم نہیں.جامعۃ المبشرین کے سب طلباء مجرم ہیں.آخر حضور نے ہم سب کو ڈانٹا ہے تو غلط طور پر تو نہیں ڈانٹا.اس کے والد نے بھی اس بات کی تصدیق کی ہے کہ واقع میں اُس کا یہی منشا تھا.اب چاہے یہ غلط ادب ہی کیوں نہ ہو بہر حال اُس طالبعلم نے میری بات کو سچا ثابت کرنے کی کوشش کی اور پھر وضاحت بھی کر دی کہ اُس کا کیا منشا تھا.بہر حال جامعۃ المبشرین کے طلباء کے متعلق جو غلط فہمی پیدا ہوگئی تھی اُس کا ازالہ ہو گیا ہے.مگر پھر بھی میں جماعت کے دوستوں کو اس امر کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ جس طرح کوئی دنیوی حکومت بغیر فوج کے نہیں چل سکتی اسی طرح کوئی دینی جماعت بغیر علماء کے نہیں چل سکتی.دیکھو! دنیا کی اکثر حکومتیں فوج کی جبری بھرتی کی قائل ہیں اور وہ یہی کہتی ہیں کہ اگر قوم کے نوجوان یہ کہیں کہ فوج میں چونکہ زیادہ تنخواہ نہیں ملتی اس لیے ہم فوج میں نہیں ہے جاتے تو ملک کیسے بچ سکتا ہے.ملک صرف اسی طرح بچ سکتا ہے کہ اگر نو جوان والنٹئیر کے طور پر فوج میں شامل نہ ہوں تو انہیں جبری طور پر اس میں بھرتی کر لیا جائے.اس اصول کے مطابق اکثر دنیوی حکومتوں نے ضرورت کے وقت جبری بھرتی کا قانون تسلیم کیا ہے.دینی جماعتوں کی فوج اُن کے علماء ہیں.اگر کسی دینی جماعت کے علماء شوق سے دین کی خدمت کے لیے آگے نہیں آتے اور اگر وہ شوق سے دین کی خاطر اپنی زندگیاں وقف نہیں کرتے تو اُس جماعت کا حق ہے کہ وہ اپنے افراد سے کہے کہ اگر تم اس جماعت میں رہنا چاہتے ہو تو تمہیں لازماً اپنی زندگی وقف کرنی پڑے گی اور اس بات کو کوئی شخص ظلم نہیں کہ سکتا.دنیا میں ہر ملک کی حکومت ضرورت کے وقت جبری بھرتی کرتی ہے.امریکہ میں بھی جبری بھرتی ہو رہی ہے، فرانس میں بھی جبری بھرتی ہو رہی ہے، جرمنی میں بھی جبری بھرتی ہو رہی ہے، روس اور

Page 77

$1956 64 خطبات محمود جلد نمبر 37 دوسرے اکثر ممالک میں بھی جبری بھرتی ہو رہی ہے.انگلستان میں پہلے جبری بھرتی کا قانون نہیں تھا لیکن اب اس میں بھی جبری بھرتی درست تسلیم کی جاتی ہے کیونکہ وہ کہتے ہیں ملک کے جاؤ کے لیے فوج کا ہونا ضروری ہے.اگر ملک کے نوجوان اس وجہ سے کہ فوج میں تنخواہیں کم ہیں فوج کی ملازمت کے لیے آگے نہیں آتے تو ملک کی حفاظت کیسے ہو گی اور حکومت کے پاس اس کے بغیر اور کیا چارہ ہے کہ وہ انہیں جبری طور پر فوج میں بھرتی کرے.اور جو شخص فوج میں بھرتی ہونے سے انکار کرے اسے جیل خانہ میں ڈال دے.ہماری جماعت کو بھی فوجی کی ضرورت ہے اور وہ فوج علماء اور مبلغین ہیں.اگر ہماری جماعت کے نوجوان دینی علوم کے حصول کے لیے اور پھر اس کے بعد دینی خدمت کے لیے آگے نہیں آتے تو مجبوراً ہمیں بھی انہیں جبر سے اس طرف لانا پڑے گا.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ہمارے پاس دنیوی جیل خانے نہیں اور نہ ہمارے پاس حکومت ہے کہ ہم انہیں اس قسم کی کوئی سزا دے سکیں.لیکن محبت اور تعلق کا جیل خانہ تو ہمارے پاس موجود ہے.اگر کوئی شخص وقف میں نہیں آئے گا تو ہم کہیں گے اچھا آئندہ ہم تم سے کوئی تعلق نہیں رکھیں گے.آخر جو شخص مسلمان ہوتا ہے وہ کسی جبر کی وجہ سے مسلمان نہیں ہوتا وہ اپنی مرضی سے مسلمان ہوتا ہے، وہ اپنی مرضی سے احمدی ہوتا ہے.اور جو شخص اپنی مرضی سے احمدیت کو قبول کرتا اور جماعت کا ایک فرد بن جاتا ہے اُس کی نظر میں جماعت کے تعلق کی کوئی نہ کوئی قیمت ضرور ہوتی ہے.اس لیے ہم اسے کہہ سکتے ہیں کہ اگر تمہارے خیال میں جماعتی تعلق کی کوئی قیمت ہے تو تم اس کی خدمت کے لیے اپنی زندگی پیش کرو.اور اگر تم اس کی خدمت کے لیے آگے نہیں آؤ گے تو ہم تم سے اپنی محبت کے تعلق کو توڑ دیں گے.اگر دنیوی حکومتوں نے اپنی ضروریات کے وقت جبری بھرتی کا قانون جائز رکھا ہے تو ہم اپنے نوجوانوں کو وقف کے لیے کیوں مجبور نہیں کر سکتے ؟ آخر تمہاری اُمنگیں کی در تمہارے جذبات امریکہ کے نوجوانوں کی اُمنگوں اور جذبات سے زیادہ نہیں، تمہاری اُمنگیں اور جذبات انگلستان کے نوجوانوں کی اُمنگوں اور جذبات سے زیادہ نہیں ، تمہاری اُمنگیں اور جذبات یورپ کے نوجوانوں کی اُمنگوں اور جذبات سے زیادہ نہیں.اگر ان ممالک کی کے نوجوان کم گزارہ پر ملک کی خدمت کے لیے آگے آجاتے ہیں اور اگر وہ آگے نہیں آتے کی

Page 78

$1956 65 خطبات محمود جلد نمبر 37 تو انہیں جبراً آگے لایا جاتا ہے تو دین کی خدمت کے لیے زندگی وقف کرانے کے لیے جماعت کے نوجوانوں پر روحانی دباؤ سے کام کیوں نہیں لیا جاسکتا.انگلستان میں فوجی سپاہیوں کو کھانے کے علاوہ جو رقم دی جاتی ہے اُس سے زیادہ رقم وہ اپنے چوڑھوں کو دے دیتے ہیں.اور اس قدر رقم بھی تھوڑے عرصہ سے ملنی شروع ہوئی ہے ورنہ ایک زمانہ ایسا تھا جب وہاں ایک سپاہی کو اُس کے کھانے کے اخراجات کے علاوہ صرف دو شلنگ یعنی ڈیڑھ روپیہ ماہوار دیا جاتا تھا.گویا ایک سپاہی کی تنخواہ چھ روپے ماہوار تھی.اب اس تنخواہ کو بڑھا دیا گیا ہے لیکن پھر بھی وہ تنخواہ ایسی زیادہ نہیں.پس اگر دنیوی حکومت فوجی بھرتی کے لیے جبر کا استعمال کرتی ہے اور کوئی شخص اس پر اعتراض نہیں کرتا تو دینی سلسلہ، علماء تیار کرنے کے لیے اپنے نوجوانوں کو روحانی دباؤ ڈال کر کیوں آگے نہیں لا سکتا.اور حکومتوں کو جانے دو پاکستان کی حکومت کو ہی لے لو.اگر اسے ملک کی حفاظت کے لیے کافی نوجوان فوج میں بھرتی کرنے کے لیے نہ ملیں تو لازماً وہ اس بات پر مجبور ہو گی کہ اس کے لیے جبری بھرتی کرے اور کسی شخص کو اس پر اعتراض کرنے کا حق نہیں ہو گا.اور پھر ملک جو تنخواہ بھی ان نوجوانوں کو دے گا وہ انہیں منظور کرنی پڑے گی.اس وقت بھی جبکہ ہماری حکومت فوجی بھرتی کے لیے جبر کا استعمال نہیں کرتی ایک سپاہی کی تنخواہ علاوہ راشن کے بتیں تینتیس روپے سے زیادہ نہیں.لیکن ایک معمولی چپڑاسی کی تنخواہ اس سے کہیں زیادہ.حالانکہ سپاہی ملک کے لیے اپنی جان پیش کرتا ہے اور اس پر بہت کچھ پابندیاں عائد ہوتی ہیں لیکن چپڑاسی کو نہ اپنی جان پیش کرنا پڑتی ہے اور نہ اُس پر اتنی پابندیاں عائد ہوتی ہیں.گویا ای تنخواہ کے لحاظ سے فوج کا سپاہی معمولی چپڑاسی سے کم ہے لیکن محض اس لیے کہ اُس کے وجود کی ملک کو ضرورت ہوتی ہے اس پر کوئی اعتراض نہیں کرتا.انگلستان میں ایک دفعہ ایسا ہوا تھا کہ بعض لوگوں نے جبری بھرتی پر اعتراض کیا تھا اور کہا تھا کہ ایسا کرنا آزادی ضمیر کے خلاف ہے لیکن جب جرمنی کے مقابلہ میں انگلستان کو لڑنا پڑا تو حکومت نے ملک میں جبری بھرتی کا قانون پاس کر دیا.پھر جیسا کہ میں نے بتایا ہے امریکہ میں بھی جبری بھرتی کا قانون نافذ ہے.حال ہی میں مجھے ایک امریکن احمدی نوجوان

Page 79

$1956 66 خطبات محمود جلد نمبر 37 نے لکھا ہے کہ میں دین کے لیے اپنی زندگی وقف کرتا ہوں لیکن میں فوری طور پر اپنے آپ کو پیش نہیں کر سکتا کیونکہ جبری بھرتی کے قانون کے ماتحت میں آئندہ پانچ سال تک فارغ نہیں ہوسکتا.چونکہ اس عرصہ کے ختم ہونے سے پہلے حکومت مجھے آنے نہیں دے گی اس لیے جب یہ مدت ختم ہو جائے گی تو پھر میں کام کے لیے آ جاؤں گا.پس جماعت کے نوجوانوں کو یہ یاد رکھنا چاہیے کہ سلسلہ کا کام علماء نے کرنا ہے اور اگر علماء کی صف میں رخنہ پیدا ہوا تو سلسلہ ختم ہو جائے گا.پس تم اس نقطہ نگاہ سے نہ سوچا کرو کہ ہمیں کیا گزارہ ملتا ہے بلکہ تم اس نقطہ نگاہ سے سوچا کرو کہ کیا تمہارے بغیر دین باقی رہ سکتا ہے.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ سلسلہ احمد یہ روحانی طور پر ہمیشہ قائم رہے گا.اگر تم اپنے آپ کو آگے نہیں لاؤ گے تو خدا تعالیٰ دوسرے نوجوانوں کو اس کام کے لیے کھڑا کر دے گا.لیکن یہ تو اتی روحانی مسئلہ ہے.اگر جسمانی طور پر دیکھا جائے تو جس طرح فوج کے بغیر کسی دنیوی حکومت کا برقرار رہنا ممکن نہیں اسی طرح علماء نہ ہوں تو دین قائم نہیں رہ سکتا.دینی جماعت کی فوج کی اُس کے علماء ہیں.اگر علماء ہی نہ ہوں گے تو تبلیغ کیسے وسیع ہو گی، اسلام کی اشاعت کیسے ہو گی.اس وقت حالت یہ ہے کہ ہمارے پاس جو مبلغ ہیں وہ بہت تھوڑے ہیں اور دنیا ہم سے مبلغین مانگ رہی ہے.امریکہ والے مبلغ مانگ رہے ہیں، یورپ والے مبلغ مانگ رہے ہیں، ویسٹ افریقہ والے مبلغ مانگ رہے ہیں، ایسٹ افریقہ والے مبلغ مانگ رہے ہیں لیکن مالی لحاظ سے ہماری یہ حالت ہے کہ ہم ان مبلغین کو بھی جو اس وقت ہمارے پاس ہیں اور ان کی تعداد بہت تھوڑی ہے گزارہ نہایت قلیل مقدار میں دے رہے ہیں.بلکہ جو گزارہ ہم دے رہے ہیں بعض اوقات اُس کی ادائیگی بھی مشکل ہو جاتی ہے کیونکہ خزانہ میں روپیہ نہیں ہوتا مثلاً پیچھے سال میرے یورپ جانے پر جماعت نے بہت بڑی قربانی کی لیکن پھر بھی ہماری.ت تھی کہ تحریک جدید کے کارکنوں کو دو ماہ تک گزارہ نہیں مل سکا.اور اس کی وجہ یہی تھی کہ چندہ نہیں آیا تھا اور خزانہ میں روپیہ نہیں تھا.اب اگر نئے علماء پیدا ہوتے رہیں تو ہم مبلغین کی تعداد بھی بڑھا سکیں گے اور مبلغین کی تعداد بڑھے گی تو وہ جماعت میں بھی بیداری پیدا

Page 80

$1956 67 خطبات محمود جلد نمبر 37 کریں گے، ان میں اخلاص پیدا کریں گے اور والدین کو مجبور کریں گے کہ وہ اپنی اولاد کی کی تربیت اس رنگ میں کریں کہ وہ بڑے ہو کر اچھے کام کر سکیں ، زراعت اچھی کر سکیں ،تجارت اچھی کرسکیں ،صنعت و حرفت میں ترقی کریں.اس طرح جماعت کی آمدنی بڑھے گی اور جب جماعت کی آمدنی بڑھے گی تو چندہ بھی زیادہ آئے گا اور اس طرح نہ صرف مبلغین کے گزارے بڑھائے جاسکیں گے بلکہ مبلغین کی تعداد بڑھانے سے جماعت کی تعداد میں بھی اضافہ ہو گا بلکہ ایک وقت وہ بھی آئے گا جب تمہیں لاکھوں مبلغ پیدا کرنے ہوں گے اور اگر تم لاکھوں مبلغ ی پیدا نہیں کرو گے تو تم دنیا کو مسلمان کیسے بنا سکو گے؟ بہر حال یہ روحانی پہلو تھا جو میں نے بیان کر دیا ہے.ورنہ طلباء کی طرف سے متفقہ طور پر درخواست آگئی ہے کہ ہمارے یہ خیالات نہیں.پس اُن کے متعلق جو غلط فہمی پیدا ہو گئی تھی وہ دور ہو گئی ہے لیکن پھر بھی میں انہیں بتانا چاہتا ہوں کہ اسلام اور احمدیت کی تبلیغ کی تمہارے ساتھ وابستہ ہے.اس لیے تم اس کام کو خدا تعالیٰ کی خاطر کرو اور دو طرف سے بدلہ لینے کی کوشش نہ کرو.یعنی ایک طرف تو تم تحریک جدید سے اعلیٰ سے اعلیٰ گزارے مانگو اور دوسری طرف خدا تعالیٰ سے بھی ثواب اور برکت کی امید رکھو.اگر تمہیں تحریک جدید سے حسب خواہش اپنا بدلہ مل گیا تو خدا تعالیٰ سے تم کس ثواب کے امیدوار ہو گے.بہر حال تمہیں یاد رکھنا چاہیے کہ اسلام اور احمدیت کی اشاعت تمہارے ہاتھ میں ہے.اس لیے تمہارا فرض ہے کہ تم اپنے آپ کو اور اپنی نسلوں کو سدھارتے چلے جاؤ تا کہ دینی کی خدمت کے لیے زیادہ سے زیادہ آدمی آگے آئیں.اگر تم دین کی خدمت کے لیے آگے نہیں آؤ گے اور اپنی نسلوں کو اس کام کے لیے تیار نہیں کرو گے تو خدا تعالیٰ اس کام کے لیے اور لوگ کھڑے کر دے گا کیونکہ یہ سلسلہ خدا تعالیٰ کا قائم کردہ ہے کسی انسان کا قائم کردہ نہیں.تمہیں سوچنا چاہیے کہ کیا تمہاری نظر میں احمدیت کی کوئی قیمت ہے یا تم اسے چند روپوں کے بدلہ میں بیچنے کے لیے تیار ہو؟ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے یہودا اسکر یوطی پر کتنا مذاق اُڑایا ہے کہ اُس نے حضرت عیسی علیہ السلام کو تمیں سکوں میں یہودیوں کے ہاتھ بیچ دیا تھا.اسلام تو حضرت عیسی علیہ السلام سے بہت زیادہ قیمتی ہے.اگر تم احمدیت کو

Page 81

$1956 68 خطبات محمود جلد نمبر 37 حقیقی اسلام ہے سو یا دو سو کے پھیر میں آکر بیچنے کے لیے تیار ہو تو کیا حضرت مسیح موعود الصلوۃ والسلام کا وہی مذاق جو آپ نے یہودا اسکر یوطی سے کیا تھا تم پر چسپاں ہوتا ہے یہ نہیں؟ بہر حال میں ان چند فقرات پر اپنے پچھلے خطبہ کے مضمون کو ختم کرتا ہوں.دوسری بات میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ آج ہی ایک خبر آئی ہے جس سے پتا لگتا ہے کہ اب یورپ کی حکومتیں براہِ راست اسلام کی اشاعت میں دخل دے رہی ہیں.آج ہی سپین کے مبلغ کا خط آیا ہے جس میں اُس نے لکھا ہے کہ پانچ سات نئے احمدی میرے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے کہ خفیہ پولیس آگئی اور اُس نے اُن احمدی دوستوں سے کہا کہ تم حکومت کے باغی ہو کیونکہ حکومت کا مذہب تو رومن کیتھولک ہے لیکن تم نے اسلام کو قبول کر لیا ہے.اللہ تعالیٰ نے ان احمدیوں کو ثابت قدمی دکھانے کی توفیق دی.انہوں نے کہا ہم حکومت کے باغی نہیں کی ہم حکومت کے فرمانبردار ہیں.بلکہ تم سے زیادہ فرمانبردار ہیں.لیکن اس بات کا مذہب کے ساتھ کیا تعلق ہے؟ جہاں تک حکومت کے قانون کا سوال ہے ہم اس کی پابندی کرنے کے لیے ر وقت تیار ہیں لیکن جہاں تک مذہب کا سوال ہے حکومت کا اس کے ساتھ کوئی تعلق نہیں.جب ہمیں یہ بات سمجھ آگئی ہے کہ اسلام سچا مذہب ہے اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خدا تعالیٰ کے سچے رسول ہیں تو تم اس سے روکنے والے کون ہوتے ہو؟ چنانچہ وہ لوگ واپس چلے گئے.لیکن اس سے پتا لگتا ہے کہ اب بعض جگہوں پر حکومتوں میں بھی یہ احساس پیدا نے لگ گیا ہے کہ اسلام پھیل رہا ہے، اسے کسی نہ کسی طرح روکنا چاہیے.اور جہاں بھی اسلام پھیلے گا یہ احساس ضرور پیدا ہو گا کیونکہ مُلا ہر جگہ موجود ہیں.صرف فرق یہ ہے کہ کسی جگہ اسلام کے ماننے والے ملا ہیں اور کسی جگہ حضرت مسیح علیہ السلام کو خدا تعالیٰ کا بیٹا ماننے والے مُلا ہیں.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ سارے مُلا بُرے نہیں ہوتے.عیسائیوں میں بھی کئی نیک فطرت پادری ہیں جو لوگوں کی اصلاح اور خدمت خلق کا کام کرتے ہیں اور ہم انہیں بُرا کہتے بلکہ انہیں قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں.اسی طرح مسلمانوں کے علماء میں سے بھی وہ لوگ جو دوسروں کی اصلاح کی طرف متوجہ ہیں اور خدمت خلق کا کام کرتے ہیں ہم اُن کی ی عزت کرتے ہیں بلکہ ہمیں تو اس بات پر حیرت آتی ہے کہ مسلمان ملا کے لفظ سے چڑتے

Page 82

$1956 69 خطبات محمود جلد نمبر 37.کیوں ہیں حالانکہ یہ لفظ تعظیم کے لیے بنایا گیا تھا اور ہمارے کئی بزرگوں کے ناموں سے پہلے ملا کا لفظ آتا ہے.در حقیقت یہ لفظ مولائی کا مخفف ہے جس کے معنے ہیں ” میرے آقا با ” میرے سردار.اسی کے خلاصہ کے طور پر ملا کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے اور بعض جگہ مولوی کے لفظ سے اس کا مفہوم ادا کیا جاتا ہے.بہر حال اگر کسی عالم دین کو اصلاح اخلاق اور خدمت خلق کی توفیق ہے تو چاہے وہ مسلمان ہو، پادری ہو، پنڈت ہو، ہمارے نزدیک وہ بزرگ ہے کیونکہ وہ مذہب کا اصل کام کر رہا ہے.مگر باوجود یہ تسلیم کرنے کے کہ دنیا کے ہر ب میں نیک اور صالح علماء پائے جاتے ہیں یہ ایک حقیقت ہے کہ جب عالم لوگ دیکھتے ہیں کہ اب ہمارے ہاتھ سے رستہ نکل رہا ہے تو وہ مخالفت کرنے لگ جاتے ہیں.جیسا کہ میں نے بتایا ہے سپین میں یہ احساس پیدا ہو رہا ہے کہ اسلام کے پھیلنے کی وجہ سے اب وقت آ گیا کی ہے کہ اسے پوری طاقت کے ساتھ دیا دیا جائے.اس کا یہی علاج ہے کہ ہمارے پاس زیادہ ہوں تا کہ وہ بڑی تعداد میں وہاں جائیں اور اسلام کی اشاعت کریں اور لوگوں کے شکوک و شبہات کو دور کریں.دوسری صورت اِس کے علاج کی یہ ہے کہ اس ملک میں کثرت سے دینی لٹریچر بھیجا جائے تا کہ اس کا مطالعہ کرنے کے بعد وہاں کے لوگ حق و باطل میں امتیاز کر سکیں.سپین کو ہی لے لو وہاں ہماری بعض کتابوں کا ترجمہ شائع کیا جا رہا تھا لیکن حکومت نے اس کی اشاعت روک دی.اور جو کتابیں چھپ چکی تھیں اُن کے متعلق حکم دے دیا کہ انہیں ملک میں تقسیم نہ کیا جائے.لیکن خدا تعالیٰ نے اور راستے کھول دیئے.اب وہی تراجم انگلستان میں شائع کرنے کے بعد وہاں پہنچ رہے ہیں اور جو کتابیں وہاں براہ راست فروخت نہیں ہو سکتی تھیں انہیں انگلستان کی جماعت منگواتی ہے اور پھر ڈاک کے ذریعہ سپین میں بھیج دیتی ہے.اس طرح وہاں اشاعت اسلام کا کام ہو رہا ہے.تیسری بات جو میں آج بیان کرنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ حال ہی میں کراچی میں بہائیوں کا ایک جلسہ ہوا ہے جس میں ایک ایسی بات کہی گئی ہے جو فتنہ پھیلانے کا موجب ہے.اگر چہ وہاں گورنمنٹ کے بھی آدمی ہوں گے اور انہوں نے اسے افسرانِ متعلقہ تک پہنچا دیا ہو گا لیکن میں بھی اپنا فرض سمجھتا ہوں کہ اس کی تردید کروں.وہاں سے ایک

Page 83

$1956 70 خطبات محمود جلد نمبر 37 دوست نے مجھے رپورٹ بھجوائی ہے کہ بہائی بیرسٹر آسانند صاحب نے اپنی تقریر میں چودھری محمد علی صاحب وزیراعظم پاکستان سے اپنی ایک ملاقات کا ذکر کیا اور کہا کہ میں اُن ملا اور کہا کہ آپ نے جو کانسٹی ٹیوشن بنائی ہے وہ اسلامی نہیں کیونکہ اسلام تو فیل ہو چکا ہے.ہاں! آپ نے بہائی تعلیم کا خلاصہ پیش کر دیا ہے.اس پر چودھری محمد علی صاحب نے کہا کہ ہم نے تو اسلامی دستور بنانے کی کوشش کی تھی یہ علیحدہ بات ہے کہ ہم اس میں کامیاب نہیں ہو سکے.یہ بات چونکہ ہمیں کئی واسطوں سے پہنچی ہے اس لیے ہم اس کا تعین تو نہیں کر سکتے.لیکن تاہم اگر اس کا یہ مطلب ہے کہ چودھری محمد علی صاحب نے یہ کہا کہ انہیں قرآن کریم سے تو کوئی دستور نہیں ملا کیونکہ وہ تو پہلے ہی فیل ہو چکا تھا.ہاں! انہوں نے بہائی تعلیم کا خلاصہ پیش کر دیا ہے.تو میں سمجھتا ہوں یہ محض جھوٹ اور افترا ہے.میں چودھری محمد علی صاحب کو ان کی کی طالبعلمی کے زمانہ سے جانتا ہوں.چاہے وہ احمدی نہیں اور عقیدہ کے لحاظ سے انہیں مجھ سے کتنا ہی اختلاف ہو لیکن میں جانتا ہوں کہ انہیں بچپن سے قرآن کریم اور اسلام سے محبت اور اخلاص رہا ہے.اس لیے میں یہ بات ماننے کے لیے ہرگز تیار نہیں کہ انہوں نے یہ کہا ہو کہ اسلام فیل ہو چکا ہے اس لیے ہم اسلامی دستور تو نہیں بنا سکے.ہاں! ہم نے بہائیت کی تعلیم کا نچوڑ لے لیا ہے.یہ بات محض جھوٹ ہے اور ان کے منہ سے ہرگز نہیں نکل سکتی.کیونکہ انہیں قرآن کریم اور اسلام سے محبت ہے.اور جس شخص کو بچپن سے ہی قرآن کریم اور اسلام سے محبت اور اخلاص رہا ہو اس قسم کی بات وہ اپنے منہ سے نہیں نکال سکتا.قرآن کریم میں خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ جب حضرت عائشہ کے متعلق افک کیا گیا تو سننے والوں نے کیوں نہ کہہ دیا کہ یہ صریح بہتان ہے 1 کیونکہ ہم حضرت عائشہ کو جانتے ہیں، اُن کے اخلاق اور حالات سے واقف ہیں.اُن کے سابق کیریکٹر کو دیکھتے ہوئے ہم یہ بات ماننے کے لیے ہرگز تیار نہیں کہ انہوں نے اس قسم کی حرکت کی ہو.اسی طرح قرآن کریم میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق آتا ہے کہ آپ نے کفار سے کہا کہ دیکھو کہ میں ایک لمبا عرصہ تم میں رہا ہوں اور تم جانتے ہو کہ میں نے کبھی جھوٹ نہیں بولا اور جب میں نے اتنے لمبے عرصہ میں بندوں کے متعلق کبھی جھوٹ نہیں بولا تو یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ میں یکدم خدا تعالیٰ

Page 84

خطبات محمود جلد نمبر 37 71 $1956 پر جھوٹ بولنے لگ جاؤں 2 گو ان آیات میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت کا ایک معیار بیان کیا گیا ہے مگر اس میں ایک عام قانون کا بھی ذکر ہے جسے ہر شخص پر چسپاں کیا جا سکتا ہے.اس قانون کے مطابق میں کہہ سکتا ہوں کہ چونکہ میں چودھری محمد علی صاحب وزیر اعظم پاکستان کو بچپن سے جانتا ہوں اور اُن کے کیریکٹر سے پوری طرح واقف ہوں اس لیے میں یہ اظہار کیے بغیر نہیں رہ سکتا کہ جہاں تک قرآن کریم اور اسلام کا سوال ہے وہ ایک نہایت پُر جوش اور اخلاص رکھنے والے شخص ہیں.اس لیے میں اُن کے متعلق یہ بات ماننے کے لیے تیار نہیں کہ انہوں نے اس قسم کی کوئی بات کہی ہو کہ قرآن کریم فیل ہو چکا ہے اس لیے ہمیں اسلامی دستور بنانے کے سلسلہ میں اس سے راہ نمائی حاصل نہیں ہوئی اور ہم نے بہائیت کی تعلیم کا خلاصہ کر دیا ہے.اگر کوئی شخص ان کے متعلق یہ بات کہتا ہے تو میں اُس سے کہوں گا کہ تم جھوٹ بولتے ہو.قرآن کریم کہتا ہے کہ اگر تم سے کوئی شخص کسی کے ذاتی کیریکٹر کے خلاف کوئی بات کہے تو تم اُس کا فوراً انکار کر دو اور یہ بات چونکہ چودھری محمد علی صاحب کے کیریکٹر کے خلاف ہے اس لیے میں کہوں گا کہ یہ بالکل جھوٹ ہے.جہاں تک قرآن کریم کے فیل ہو جانے کا سوال ہے اگر قرآن کریم فیل ہو گیا ہوتا تو پاکستانی لیڈر اسلامی دستور بنانے کی کیوں کوشش کرتے.ہاں ! جواب کا آخری حصہ ایسا ہے کہ اس کے متعلق خیال کیا جا سکتا ہے کہ ممکن ہے چودھری محمد علی صاحب نے بات ٹالنے کے لیے کہہ دیا ہو کہ ہم جس حد تک کام کر سکے ہیں اسے قوم کے سامنے پیش کر دیا ہے اس سے زیادہ ہم کیا کر سکتے تھے.پھر یہ کہنا بھی بالکل غلط ہے کہ اسلامی دستور کا جو خاکہ پیش کیا گیا ہے وہ بہائیت کی تعلیم کا نچوڑ ہے.بہائیت کی ایک تعلیم یہ ہے کہ ساری دنیا کی ایک زبان ہونی چاہیے مگر عجیب بات یہ ہے کہ بہاء اللہ کے دعوی سے پہلے ایک زبان جاری کرنے کی تحریک پیدا ہو چکی تھی اور اُس وقت اسپرانٹو (ESPRANTO) زبان بنائی گئی تھی جس کے متعلق تجویز کیا گیا تھا کہ اسے ہر ملک میں پھیلایا جائے.بہاء اللہ نے اس تحریک سے متاثر ہو کر اپنی کتابوں میں یہ لکھ دیا کہ ساری دنیا میں ایک ہی زبان ہونی چاہیے اور بہائی اس پر بڑا فخر کرتے ہیں کہ دیکھو!

Page 85

$1956 72 خطبات محمود جلد نمبر 37 بہاء اللہ نے ساری دنیا میں ایک زبان جاری کرنے کی تحریک کی تھی حالانکہ یہ بات بالکل غلطی ہو ہے.ایک زبان کے رواج کا خیال بہاء اللہ سے پہلے ہی موجود تھا اور اسی خیال سے متاثر کر بہاء اللہ نے اسے اپنی کتابوں میں شامل کر لیا مگر اب پاکستان کے دستور کو دیکھو تو اس میں بنگالی اور اردو دونوں کو سرکاری زبانیں قرار دے دیا گیا ہے.پھر یہ بہائیت کا نچوڑ کیسے ہو گیا.بہائیت تو یہ کہتی ہے کہ ساری دنیا میں ایک ہی زبان ہونی چاہیے یہاں صرف پاکستان کے ملک میں دوسرکاری زبانیں قرار دے دی گئی ہیں.اب جس دستور میں دو زبانیں سرکاری قرار دے دی گئی ہوں وہ بہائیت کی تعلیم کا نچوڑ کیسے ہوا.اسی طرح اور بہت سی باتیں ہیں جو بہائیت کی تعلیم کے خلاف ہیں.پس اسلام فیل کہاں ہوا ؟ ہم تو بہائیوں سے آج تک یہ پوچھتے رہے ہیں کہ وہ بتائیں کہ اسلام کہاں فیل ہوا ہے مگر وہ اب تک اس کا کوئی جواب نہیں دے سکے.1924ء میں جب میں انگلستان گیا تو وہاں میرے پاس ایک امریکن بنکر آیا جو بہائی تھا.اُس کے ساتھ اُس کی بیوی کے علاوہ دو عورتیں اور بھی تھیں جن میں سے ایک انگریز تھی اور دوسری ایرانی.انگریز بہائی عورت بہت متعصب تھی.اُس نے مجھے کہا کہ آپ بہائی کیوں نہیں ہو جاتے؟ میں نے اسے جواب دیا کہ جب کوئی انسان کسی خاص منزل پر پہنچ جاتا ہے تو ی اُس کے لیے اُس منزل سے آگے جانے کے لیے کوئی وجہ ہونی چاہیے.میں نے قرآن کریم کا ای بغور مطالعہ کیا ہے اور میں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ وہ سچا ہے.اور جب مجھ پر یہ بات واضح ہو گئی ہے کہ قرآن کریم سچا ہے اور قیامت تک اس کی تعلیم جاری رہے گی تو مجھے اسے چھوڑ کر کسی اور طرف جانے کی کیا ضرورت ہے.وہ کہنے لگی جب پہلی تمام تعلیمیں بدل چکی ہیں تو قرآن کریم کیوں نہیں بدل سکتا؟ میں نے اُسے کہا کہ محض اس خیال سے کہ پہلی تعلیمیں بدل چکی ہیں قرآن کریم کے متعلق بھی یہ بات مان لینا کہ وہ بدل سکتا ہے درست نہیں.ہمیں کی بحث کرنی چاہیے.اس کے بعد اگر ہم کسی نتیجہ پر پہنچ جائیں تو اُس پر عمل کرنا چاہیے.آپ اسلام کی پندرہ ہیں باتیں مجھے ایسی بتا دیں جن پر اب عمل کرنا ناممکن ہو ؟ بہائیت کی اعلیٰ درجہ کی تعلیم میں سے پندرہ میں باتیں ایسی پیش کریں جو قرآن کریم میں موجود نہ ہوں.اگر آپ ایسا کریں تو میں بہائیت کی تعلیم کو مان لوں گا ورنہ اسے چھوڑ کر کسی اور تعلیم حقیق

Page 86

$1956 73 خطبات محمود جلد نمبر 37 کے ماننے کی ضرورت ہی کیا ہے.وہ کہنے لگی بہائیت کہتی ہے جھوٹ نہ بولو.میں نے کہا دنیا ہا کون سا مذہب ہے جو کہتا ہے جھوٹ بولو.ہر مذہب یہی کہتا ہے کہ سچ بولو اور یہی قرآن کریم نے کہا ہے.پھر اُس نے کہا بہاء اللہ نے کہا ہے کہ عورتوں کے لیے تعلیم ضروری ہے.میں نے کہا یہ تعلیم بھی قرآن کریم میں موجود ہے.مثلاً قرآن کریم کہتا ہے کہ عورتیں بھی جنت میں جائیں گی 3 اور جنت میں وہ اُسی وقت جا سکتی ہیں جب وہ نمازیں پڑھیں گی، روزے رکھیں گی، زکوۃ دیں گی، حج کریں گی اور یہ کام بغیر تعلیم کے کیسے ہو سکتے ہیں؟ اگر انہیں یہ پتا ہی نہیں ہو گا کہ قرآن کریم کیا کہتا ہے، عبادات کیا ہیں، اخلاق فاضلہ کیا ہیں تو وہ جنت میں کیسے جائیں گی اور یہ تمام باتیں تعلیم کے ساتھ وابستہ ہیں.اس پر اُس عورت نے کہا دیکھیے بہائیت کہتی ہے کہ ایک سے زیادہ بیویاں نہیں کرنی چاہیں لیکن قرآن کریم تعد دازدواج کی تعلیم دیتا ہے جو بہت بڑا ظلم ہے.میں نے کہا یہ بحث کہ ایک بیوی پر کفایت کرنا بہتر ہے یا ضرورت کے وقت ایک سے زیادہ بیویاں کرنا مناسب ہے بہت لمبی ہے.میں صرف یہ پوچھنا چاہتا ہوں کہ اگر ایک سے زیادہ شادیاں کرنا ظلم ہے تو خود بہاء اللہ نے ایک سے زائد بیویاں کیوں رکھیں؟ اُس عورت نے کہا قرآن کریم تو چار بیویوں کی اجازت دیتا ہے.میں نے کہا اصل اعتراض تو ایک سے زیادہ بیویاں کرنے پر ہے تین یا چار بیویاں کرنے پر نہیں.اگر اصل اعتراض ایک سے زائد بیویاں کرنے پر ہے تو جس طرح یہ اعتراض چار بیویوں پر وارد ہوتا ہے اُسی طرح دو اور تین پر بھی وارد ہوتا ہے.اس پر اُس انگریز عورت نے ایرانی عورت سے دریافت کیا کہ بہاء اللہ کی کتب میں اس کے متعلق کیا لکھا ہے؟ پہلے تو ہے س نے حقیقت بیان کرنے سے گریز کیا لیکن بعد میں اصرار کرنے پر بتایا کہ کہ بہاء اللہ کی ایک سے زائد بیویاں تھیں.مگر ساتھ ہی کہنے لگی کہ بہاء اللہ نے کہا تھا کہ میری تعلیم کی جو تشریح عباس کرے گا وہی درست ہوگی اور عباس نے یہی کہا ہے کہ مرد ایک سے زائد بیویاں نہ کرے.میں نے کہا جب بہاء اللہ نے عملی طور پر تعد دازدواج کو تسلیم کیا ہے اور اُس نے خود ایک سے زیادہ بیویاں کی ہیں تو اب کون شخص یہ بات مان سکتا ہے کہ بہائیت کی تعلیم یہ ہے کہ مرد ایک سے زیادہ بیویاں نہ کرے.آخر وہ کہنے لگی اصل بات یہ ہے

Page 87

$1956 74 خطبات محمود جلد نمبر 37 کہ اُس نے دوسری شادی دعوی سے پہلے کی تھی دعوی کے بعد اس نے کوئی شادی نہیں کی.میں نے کہا بہائیوں کا یہ عقیدہ ہے کہ امام کو بچپن سے ہی غیب کا علم حاصل ہوتا ہے.اس عقیدہ کے ماتحت جب بہاء اللہ کو بچپن سے ہی پتا تھا کہ تعد دازدواج ناجائز ہو جائے گا تو اُس نے ایک سے زائد بیویاں کیوں کیں؟ اس پر وہ پھر گھبرا گئی اور مختلف بہانے بنا کر اُس نے پیچھا چھڑانے کی کوشش کی لیکن جب میں نے مجبور کیا تو اُس نے کہا دعوی کے بعد بہاء اللہ نے اپنی ایک بیوی کو بہن قرار دے دیا تھا.میں نے کہا جب اُسے بچپن سے غیب کا علم تھا اور وہ جانتا تھا کہ یہ چیز ناجائز ہونے والی ہے تو اُس نے یہ کھیل کھیلا کیوں؟ آخر اس تماشا کی ضرورت کیا تھی ؟ پھر تمہارا یہ کہنا بھی درست نہیں کہ اس نے اپنی ایک بیوی کو بہن قرار دے دیا تھا.کیونکہ اگر اس نے اپنی ایک بیوی کو بہن قرار دے دیا تھا تو اس بہن کے ہاں بہاء اللہ سے اولاد کیوں ہوئی ؟ محمد علی جو بہاء اللہ کا دوسرا نائب تھا اُس کی دوسری بیوی سے ہی تھا.میں نے کہا تم محمد علی سے ہی پوچھ لو کیا وہ دوسری بیوی سے نہیں؟ اُس وقت وہ زندہ تھا اور میں نے اُس عورت کو بتایا تھا کہ میں انگلستان آتا ہوا اُسے مل کر آیا ہوں.اِس پر اُس عورت نے کہا ہاں! آپ کی یہ بات درست ہے کہ محمد علی دوسری بیوی سے ہی پیدا ہوا تھا اور دعوی کے بعد پیدا ہوا تھا.لیکن پھر بھی یہ بات قابلِ اعتراض نہیں کیونکہ وہ دوسری بیوی سے شادی دعوی سے قبل کر چکے تھے.میں نے کہا اگر دعوی کے بعد بھی اس کے ہاں اولاد ہوئی ہے تو وہ بہن تو نہ ہوئی.امریکن عورت زیادہ معقول تھی.میری اس گفتگو پر وہ کھڑی ہوگئی اور کہنے لگی کہ اگر یہ بات ہے تو پھر میں مسلمان ہوں بہائی نہیں ہوں.غرض قرآن کریم کے متعلق یہ کہنا کہ وہ فیل ہو گیا ہے ایک بالکل جھوٹا دعوی ہے.ان کا یہ دعوی تب سچا سمجھا جا سکتا تھا جب بہائی لوگ اس میں سے پندرہ ہیں باتیں ایسی نکال کر پیش کرتے جن پر عمل نہ ہو سکتا.یا بہائیت کی تعلیم میں سے پندرہ ہیں باتیں ایسی دکھاتے جو قرآن کریم میں موجود نہ ہوتیں اور اس کی تعلیم سے بہتر ہوتیں.یا بہاء اللہ کے دعوی کے بعد کوئی حکومت ایسی قائم ہوتی جو بہائیت کی تعلیم پر عمل کرتی.مگر حالت یہ ہے کہ جس قرآن کے متعلق بہائی لوگ کہتے ہیں کہ وہ فیل ہو چکا ہے اُس کی تعلیم پر عمل کرنے والوں کو

Page 88

$1956 75 خطبات محمود جلد نمبر 37 تو چند سال کے بعد ہی حکومت مل گئی تھی اور پھر انہوں نے سینکڑوں سال تک دنیا پر حکمرانی کی چی اور بہائیوں کو ابھی تک اتنی توفیق بھی نہیں ملی کہ وہ اپنا بیت العدل ہی بنا سکیں.جس طرح ہمارے ہاں بیت المال ہے بہائیوں کے ہاں بیت العدل ہوتا ہے.انہوں نے مقامی طور پر تو بیت العدل بنایا ہوا ہے لیکن وہ ابھی تک عالمی بیت العدل کا قیام عمل میں نہیں لا سکے اور اب وہ علی الاعلان اس بات کا اظہار کرتے رہتے ہیں کہ ان کی ناکامی کی سب سے بڑی وجہ یہی ہے کہ وہ ابھی تک عالمی بیت العدل نہیں بنا سکے.پھر قرآن کریم کہاں فیل ہوا ؟ قرآن کریم کی تعلیم پر عمل کرنے والوں نے تو نہ صرف ماضی میں سینکڑوں سال تک حکومت کی ہے بلکہ اب بھی پاکستان نے اسلامی دستور مرتب کر لیا ہے.پس قرآن کریم نہ فیل ہوا ہے نہ آئندہ کبھی فیل ہو گا بلکہ یہ قیامت تک فیل نہیں ہو گا.زمین بدل سکتی ہے، آسمان بدل سکتا ہے، ایک قوم کی جگہ دوسری قوم آ سکتی ہے، ایک حکومت میٹے تو اُس کی جگہ دوسری حکومت آسکتی ہے، زبانیں مٹ سکتی ہیں لیکن قرآن کریم کبھی فیل نہیں ہو سکتا.یہ خدا تعالیٰ کا نازل کردہ قانون ہے جو ہمیشہ قائم رہے گا.اور جو شخص یہ کہتا ہے کہ یہ فیل ہو گیا ہے وہ جھوٹ بولتا ہے اور ہم اب بھی اُسے چیلنج کرتے ہیں کہ وہ قرآن کریم کے چند ایسے احکام پیش کرے جو نا قابلِ عمل ہوں یا وہ کچھ باتیں ایسی پیش کرے جو نہایت مفید اور اعلیٰ درجہ کی تعلیمات پر مشتمل ہوں اور بہائیت میں ہوں قرآن کریم میں نہ ہوں.رنگون سے ایک دفعہ ایک بہائی نے ایک کتاب شائع کی جس میں اُس نے ذکر کیا کہ بہائیت نہایت اعلیٰ درجہ کی تعلیمات پر مشتمل ہے.بہائیت کہتی ہے کہ عورت سے نیک سلوک کرو، لڑکیوں کو تعلیم دو ظلم نہ کرو، چوری نہ کرو، جھوٹ نہ بولو.میں نے اس کے جواب میں لکھا کہ تم کوئی ایک مذہب ہی ایسا بتا دو جو یہ کہتا ہو کہ عورت سے نیک سلوک نہ کرو، لڑکیوں کو تعلیم نہ دو، ظلم کرو، چوری کرو، جھوٹ بولو.دنیا میں کوئی مذہب ایسا نہیں جو اس قسم کی تعلیم دیتا ہو.دراصل بات یہ ہے کہ بہائیوں نے قرآن کریم کی تعلیم میں سے بعض پوائنٹ لے کر انہیں ایک علیحدہ تعلیم کے رنگ میں پیش کر دیا ہے ورنہ ہر سچائی قرآن کریم میں

Page 89

$1956 76 خطبات محمود جلد نمبر 37 موجود ہے.بہر حال چودھری محمد علی صاحب کے متعلق جس شخص نے یہ بات کہی ہے اس نے جھوٹ بولا ہے.میں چودھری محمد علی صاحب کو سالہا سال سے جانتا ہوں اور میں سمجھتا ہوں کہ اُن کے دل میں قرآن کریم اور اسلام کی سچی محبت پائی جاتی ہے اور پھر وہ نہایت ذہین ہیں.اگر اُن کے سامنے کوئی شخص یہ کہتا کہ قرآن کریم فیل ہو گیا ہے تو وہ کبھی خاموش نہیں رہ سکتے.پس اُن کی طرف اس قسم کی بات منسوب کرنا محض لوگوں کو حکومت سے بدظن کرنا ہے.بیشک عقائد کے لحاظ سے وہ ہم سے اختلاف رکھتے ہیں لیکن میں اس کا اظہار کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ اُن کی طرف اس قسم کی باتیں منسوب کرنا سخت ظلم ہے.اگر یہ باتیں چودھری ظفر اللہ خاں صاحب کی طرف منسوب ہوتیں اور ہم اُن کی تردید کرتے تو کہا جا سکتا تھا کہ چونکہ وہ احمدی ہیں اس لیے انہیں بچانے کے لیے اس قسم کی تردید کی جا رہی ہے لیکن چودھری محمد علی صاحب تو احمدی نہیں.اس لیے یہاں یہ شبہ پیدا نہیں ہو سکتا.ہاں! انصاف کہتا ہے کہ میں اس کی تردید کروں کیونکہ میں انہیں سالہا سال سے جانتا ہوں.وہ اسلام کے شیدائی ہیں، قرآن کریم سے انہیں محبت ہے.اس لیے یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ اُن کے منہ سے کوئی ایسی بات نکلے جس سے اسلام کی ہتک اور تنقیص ہوتی ہو.پس اگر کسی نے اُن کی طرف اس بات کو منسوب کیا ہے تو محض فتنہ کھڑا کرنے کے لیے ایسا کیا ہے.اول تو ہو سکتا ہے کہ اس قسم کا کوئی واقعہ ہوا ہی نہ ہو.لیکن اگر کوئی ایسا واقعہ ہوا ہے تو چودھری محمد علی صاحب کی طرف جو بات منسوب کی گئی ہے وہ بالکل جھوٹ ہے.اور یہ صرف میں ہی نہیں کہتا بلکہ جو شخص بھی چودھری محمد علی صاحب کے کیریکٹر سے واقف ہے وہ اسے جھوٹ قرار دے گا.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ آجکل مسلمانوں میں بعض ایسے لوگ بھی پائے جاتے ہیں جو اسلام اور قرآن کریم کے خلاف باتیں سن کر چپ ہو جاتے ہیں.لیکن چودھری محمد علی صاحب اسلام اور قرآن کریم کی محبت رکھتے ہیں، ان کے اندر جوش اور اخلاص پایا جاتا ہے، ان کا ایسی بات کو سن کر چپ رہنا ناممکن ہے.پس یا تو یہ واقعہ ہوا ہی نہیں اور یا پھر کسی نے آدھی بات بیان کر دی ہے اور چودھری محمد علی صاحب نے جو منہ توڑ جواب اُس شخص کو دیا ہو گا اس کا ذکر نہیں کیا.آخر وہ وزیر اعظم ہیں، تعلیم یافتہ آدمی

Page 90

$1956 77 خطبات محمود جلد نمبر 37 ہیں انہوں نے اسے ڈنڈا تو نہیں مارنا تھا.بہر حال تہذیب اور شرافت کے ساتھ انہوں نے اس کے اعتراض کا ضرور جواب دیا ہو گا لیکن بیان کرنے والے نے آدھی بات بیان کر دی اور ان کے جواب کا ذکر نہیں کیا اور اس طرح اُس نے انہیں بدنام کرنے کی کوشش کی ہے.حالانکہ جو شخص بھی چودھری صاحب کو جانتا ہے وہ اس قسم کی بات اُن کی طرف منسوب کرنے والے کو جھوٹا ہی کہے گا کیونکہ وہ اسلام اور قرآن کریم سے بڑی محبت رکھتے ہیں.اس کے علاوہ ایک یہ بات بھی بیان کی گئی ہے کہ ایک پارسی نے ایک لاکھ روپیہ چندہ دیا اور اس پر بڑے فخر کا اظہار کیا گیا ہے.حالانکہ اس میں فخر کی کونسی بات ہے.ہماری جماعت میں بہت سے ایسے آدمی ہیں جنہوں نے لاکھ لاکھ روپیہ سے زیادہ کی مالی قربانی کی ہے.مثلاً چودھری ظفر اللہ خان صاحب کو ہی لے لو انہوں نے مجھے اپنی زمین کا ایک حصہ بطور نذرانہ پیش کیا تھا تا کہ میں اپنا علاج کرا سکوں.میں نے وہ زمین تحریک جدید کو دے دی اور وہ ڈیڑھ لاکھ روپیہ میں پکی.اب دیکھ لو چودھری ظفر اللہ خان صاحب تاجر نہیں.وہ پارسی تو تاجر ہو گا اور اُس کی آمد چودھری ظفر اللہ خان صاحب سے یقیناً بہت زیادہ ہو چودھری ظفر اللہ خان صاحب تو ملازم ہیں اور انکم ٹیکس ادا کرنے کے بعد ان کی تنخواہ میں سے دو ہزار یا اکیس سو ماہوار بچتے ہیں.لیکن پھر بھی انہوں نے ڈیڑھ لاکھ روپیہ ایک وقت میں دے دیا.اسی طرح میں نے ایک دفعہ حساب لگایا تو معلوم ہوا کہ میں نے جو چندے اور عطیے جماعت کو دیئے ہیں اُن کو ملایا جائے تو دولاکھ ستر ہزار کے قریب رقم بنتی ہے.اگر انہیں ایک تاجر نے ایک لاکھ روپیہ دے دیا تو اس میں فخر کی کونسی بات ہے.ہماری جماعت میں اس کی کئی مثالیں پائی جاتی ہیں.میں نے ایک مثال چودھری ظفر اللہ خان صاحب کی ہی دی ہے.وہ اگر چہ غریب آدمی ہیں مگر انہوں نے ڈیڑھ لاکھ روپیہ دیا.اس کے علاوہ بھی اور بعض رقوم ہیں جو مختلف مدات میں انہوں نے دیں.اگر اُن کو بھی شامل کر لیا جائے تو ان کا چندہ اڑھائی لاکھ روپیہ کے قریب بن جاتا ہے.پھر اس کی مثالیں گزشتہ زمانہ کے مسلمانوں میں بھی پائی جاتی ہیں.دہلی میں چاندنی چوک کو ہی دیکھ لو اس علاقہ میں لاکھوں روپیہ کے

Page 91

$1956 78 خطبات محمود جلد نمبر 37 وقف موجود ہیں.پس اگر کوئی کروڑ پتی تاجر ایک لاکھ روپیہ چندہ دے دیتا ہے تو اس میں فخر کی کون سی بات ہے.ہماری جماعت میں تو چوبیس روپے ماہوار کمانے والا بھی ڈیڑھ روپیہ ماہوار چندہ دے دیتا ہے اور یہ ایسی قربانی ہے جس کی مثالیں یورپ اور امریکہ میں بھی نہیں پائی جاتیں.اب میں نے امریکہ میں وصیت کی تحریک کی ہے اور ہمارے مبلغ نے لکھا ہے کہ وہاں اس تحریک کو سنتے ہی تین امریکنوں نے وصیت کر دی ہے.غرض ہماری جماعت کے افراد جس قدر مالی قربانی کر رہے ہیں اس کی مثال اور کہیں نہیں مل سکتی.ایک آدمی پندرہ ہیں روپے کماتا ہے اور اس رقم میں اُس کے گھر کا گزارہ بھی نہیں چلتا.وہ خود فاقے رہتا ہے لیکن روپیہ ڈیڑھ روپیہ چندہ دے دیتا ہے.پھر کسی کروڑ پتی کے لیے صرف ایک دفعہ ایک لاکھ روپیہ دے دینا کونسی مشکل بات ہے؟ میں نے لارڈ نفیلڈ کے متعلق ایک خطبہ میں بیان کیا تھا کہ اُس نے پچھلی جنگ میں ایک لاکھ پونڈ بطور چندہ دیا تھا.اس پر چودھری ظفر اللہ خان صاحب نے مجھے بتایا کہ ایک انگریز نے مجھ سے ذکر کیا کہ آپ اسے کوئی بڑا کمال نہ سمجھیں.اُن دنوں گورنمنٹ کی طرف سے ہمارے ملک میں ایک پونڈ پر ساڑھے انیس شلنگ ٹیکس لگتا تھا.اس لیے اگر کوئی شخص ایک پونڈ چندہ دیتا تو اس کے معنے یہ ہوتے کہ اُس نے صرف چھ پنس چندہ دیا ہے کیونکہ پونڈ کا باقی حصہ بہر حال ٹیکس میں جانا تھا.لارڈ نفیلڈ نے بھی خیال کیا کہ چلو اتنے ہزار پونڈ تو میں نے ٹیکس دینا ہی تھا کچھ اور ڈال کر ایک لاکھ پونڈ چندہ دے دو تا کہ ملک میں میری شہرت ہو جائے اور میں لیڈر بن سکوں.بہر حال اس تاجر کا ایک لاکھ روپیہ چندہ دے دینا کوئی بڑی بات نہیں.اس سے زیادہ چندہ دینے والے ہماری جماعت میں بھی پائے جاتے ہیں.بلکہ ہم میں سے اکثر با وجود کم آمد ہونے کے اپنی حیثیت سے بہت بڑھ کر چندہ دیتے ہیں.مجھے ہی دیکھ لو اگر پنے چندے گناؤں تو ایک قسم کی تعلمی ہو جاتی ہے.لیکن پھر بھی اس بیماری کے باوجود جتنی رقم چندہ میں میں دے رہا ہوں اُس کے مقابلہ میں اس پارسی کی قربانی کوئی حیثیت نہیں رکھتی.حال ہی میں میں نے اپنی ایک زمین جو تھل میں تھی تحریک جدید کو دی.یہ زمین 650 ایکڑ تھی جس میں سے صرف 140 ایکڑ مجھے ملی باقی زمین حکومت نے

Page 92

$1956 79 خطبات محمود جلد نمبر 37 لے لی.یہ زمین میں نے پچاس ہزار روپیہ میں خریدی تھی.میں نے وکیل اعلیٰ تحریک جدید کو کہا کہ میری طرف سے یہ زمین وقف ہے.چاہے تم اس سے فائدہ اُٹھاؤ یا اسے بیچ دو.پس ہماری جماعت میں ایسے قربانی کرنے والے لوگ پائے جاتے ہیں کہ جن کے مقابلہ میں اُس پاری تاجر کی قربانی کوئی حیثیت نہیں رکھتی اور یہ خدا تعالیٰ کا فضل ہے کہ اس نے ہمیں اس قربانی کی توفیق دی ہے.مخالفین ہم پر اعتراض کرتے ہیں کہ ہم مرزا صاحب کو نَعُوذُ بِاللهِ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑا سمجھتے ہیں حالانکہ یہ بالکل جھوٹ ہے.ہم تو خدا تعالیٰ کو سے بڑا سمجھتے ہیں.اگر ہم مرزا صاحب کو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑا سمجھتے تو ہم انہیں سجدہ بھی کرتے لیکن ہم تو خدا تعالیٰ کے سوا کسی کے آگے سجدہ کرنا حرام سمجھتے ہیں.لیکن بہائیوں کی ہے کہ جب عباس آفندی امریکہ سے واپس آیا تو اُس نے لکھا ہے کہ میں سب ، پہلے بہاء اللہ کی قبر پر نماز پڑھنے گیا اور میں نے وہاں سجدہ کیا.اس قدر شرک میں ملوّث ہوتے ہوئے یہ لوگ کہتے ہیں کہ قرآن کریم فیل ہو گیا ہے اور اس کی جگہ بہائیت نے لے لی ہے.حالانکہ قرآن کریم وہ کتاب ہے جس نے عرب سے بُت شکنی کا قلع قمع کر دیا تھا اور ان کے بڑے بڑے بُت اس نے تڑوا دیئے تھے.لیکن بہائیوں نے دوبارہ بُت پرستی شروع کر دی ہے.کون عقلمند سمجھ سکتا ہے کہ قبر کی مٹی پر سجدہ کرنا کسی کو فائدہ ނ پہنچا سکتا ہے.تم حضرت ابراہیم علیہ السلام کا قول یاد کرو.حضرت ابراہیم علیہ السلام کے چابیوں کی دکان کرتے تھے اور وہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو بھی دکان پر بٹھا دیا کرتے تھے.ایک دن حضرت ابراہیم علیہ السلام دکان پر بیٹھے تھے کہ ایک بوڑھا آیا اور اس نے کہا میں نے ایک بت خریدنا ہے.حضرت ابراہیم علیہ السلام نے فرمایا سارے بُت آپ کے سامنے پڑے ہیں، آپ ان میں سے کوئی پسند کر لیں.اس نے تمام جھوں پر نظر دوڑائی اور بالآخر ایک بت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا بیٹا! وہ بُت لاؤ اور مجھے دو.وہ بُت اونچا پڑا ہوا تھا.حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کسی بکس پر چڑھ کر اُس کو اُتارا اور پھر ہنس پیڑ

Page 93

$1956 80 خطبات محمود جلد نمبر 37 اس بوڑھے نے کہا تم ہنسے کیوں ہو؟ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے فرمایا یہ بُت ابھی کل مستری بنا کر لایا ہے اور پھر یہ نہ بولتا ہے نہ کسی کو کوئی فائدہ پہنچا سکتا ہے.تمہاری عمر 80 سال کے قریب پہنچ چکی ہے اور تمہارے بال سب سفید ہو چکے ہیں، تم اس بُت کے آگے سجدہ کرو گے تو کیا یہ جنسی والی بات نہیں ہو گی؟ اُس پر ایسا اثر ہوا کہ وہ اُس بُت کو وہیں چھوڑ کر چلا گیا.لیکن بہائیوں کے بزرگوں کو دیکھ لو عباس امریکہ سے آیا تو اس نے سب سے پہلے بہاء اللہ کی قبر پر نماز پڑھی اور اسے سجدہ کیا.کیا ایسا مذہب اسلام کے آگے ٹھہر سکتا ہے جس نے عرب ، شرک کو کلی طور پر مٹا دیا اور اس کا ایسا تمہیں نہیں کیا کہ دشمن بھی اس کا اقرار کیے بغیر نہیں رہ سکتا.ایسے عظیم الشان مذہب کے متعلق بہائیوں کا یہ کہنا کہ اسلام فیل ہو گیا ہے کتنے تعجب کی بات ہے.خطبہ ثانیہ کے بعد حضور نے فرمایا: نماز کے بعد میں بعض جنازے پڑھاؤں گا.(1) غلام جنت صاحبہ علی پور ملتان کے بیٹے حکیم عزیز الدین صاحب لکھتے ہیں کہ میری والدہ مجھے خواب میں ملیں تو انہوں نے کہا کہ تم نے حضرت صاحب سے میرا جنازہ کیوں نہیں پڑھوایا؟ اس لیے ایک تو ان کا جنازہ پڑھاؤں گا.(2) چودھری کھیڑے خاں نمبر دار ریاست جموں حال موضع بھلور ضلع سیالکوٹ فوت ہو گئے ہیں.وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے صحابی تھے.(3) ملک امام الدین صاحب سمبڑیال ضلع سیالکوٹ 25 جنوری کو کراچی میں فوت ہو گئے ہیں.27 جنوری کو ان کا جنازہ یہاں لایا گیا لیکن زیادہ دیر ہو جانے کی وجہ سے میں نماز جنازہ نہ پڑھا سکا.یہ بہت مخلص تھے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے صحابی بھی تھے.(4) مولوی عبد الرحمان صاحب جٹ امیر جماعت احمدیہ قادیان اطلاع دیتے ہیں کہ اُن کی خوشدامن صاحبہ فوت ہو گئی ہیں.بریلی میں دو تین گھر ہی احمدی ہیں اس لیے نماز جنازہ عمل مسودہ میں یہاں پر نام واضح نہیں.

Page 94

$1956 81 خطبات محمود جلد نمبر 37 میں بہت تھوڑے دوست شامل ہوئے.میں نماز جمعہ کے بعد یہ چاروں جنازے پڑھاؤں گا“.الفضل 26 فروری 1956ء) 1: وَلَوْلَا إِذْ سَمِعْتُمُوهُ قُلْتُمْ مَّا يَكُونُ لَنَا اَنْ نَتَكَلَّمَ بِهَذَا سُبْحَنَكَ هذَا بُهْتَانُ عَظِيمٌ (النور: 17) :2 : فَقَدْ لَبِثْتُ فِيكُمُ عُمَرَ ا مِنْ قَبْلِهِ أَفَلَا تَعْقِلُونَ (يونس: 17) 3: وَعَدَ اللهُ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَتِ جَنْتٍ تَجْرِى مِنْ تَحْتِهَا الأَنْه نْهرُ خُلِدِينَ فِيهَا وَمَسْكِنَ طَيِّبَةً فِى جَنْتِ عَدْنٍ وَرِضْوَانٌ مِّنَ اللهِ أَكْبَرُ ذَلِكَ هُوَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ (التوبة: 72)

Page 95

$1956 (7 82 88 خطبات محمود جلد نمبر 37 خدمت دین کرنے والے نو جوانوں سے خطاب شادی، اولاد اور دیگر معاملات میں سلسلہ کے مفاد کو بہر حال مقدم رکھو پاکستانی احمدیوں کی طرح بیرونی ممالک کی احمدی جماعتوں کو بھی مالی قربانی میں با قاعدگی کے ساتھ حصہ لینا چاہیے (فرموده 17 فروری 1956ء بمقام ربوہ) تشهد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: میں نے گزشتہ خطبات میں جامعہ المبشرین کے طلباء کو اس امر کی طرف توجہ دلائی تھی کہ انہیں اپنے دماغوں سے کام لے کر سلسلہ سے تعاون کرنا چاہیے اور پھر یہ بھی بتایا تھا کہ طلباء کے متعلق بعض غلط فہمیاں پیدا ہو گئی تھیں جو دور ہو گئی ہیں.کیونکہ طلباء نے متفقہ طور پنے پرنسپل کی معرفت ایک درخواست دی ہے جس میں انہوں نے اس قسم کے خیالات سے براءت کا اظہار کیا ہے.پس جہاں تک اس معاملہ کا تعلق تھا وہ تو ختم ہو چکا ہے لیکن اسی سلسلہ میں میں آج طلباء کو ایک اور بات کی طرف توجہ دلانا ضروری سمجھتا ہوں.طلباء کو یہ امر اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ ان کے تعاون کے بغیر تبلیغ کامیاب نہیں ہوسکتی.آج وہ اپنے آ وہ اپنے آپ کو لڑکا سمجھتے ہیں لیکن چونکہ ہماری جماعت ایک مذہبی جماعت ہے

Page 96

$1956 83 خطبات محمود جلد نمبر 37 اس لیے ایک وقت آئے گا کہ جو طالبعلم اب دین سیکھیں گے اور اپنے اندر تقوای پیدا کریں کی گے مرکز کی کلیدی آسامیاں انہی کے پاس جائیں گی اور انہی کا کام ہو گا کہ وہ مرکز کے اہم ترین کام سرانجام دیں.چاہے انہیں وہ کام ملک کے اندر رہ کر سرانجام دینے پڑیں یا ملک سے باہر رہ کر.اِس وقت ہمارے جو مبلغ ہیں وہ مرکز سے باہر رہ کر تبلیغ کا فریضہ ادا کر رہے ہیں.لیکن ایک وقت آئے گا جب مرکز کو ان کی ضرورت ہوگی اور باہر تبلیغ کرنے کی بجائے ان کا مرکز میں رہ کر خدمات بجا لانا زیادہ مفید ہو گا.اُس وقت انہیں مرکز میں بلا کر سلسلہ کے کلیدی کام سپرد کیے جائیں گے.اس سلسلہ میں میں غور کر رہا تھا تو مجھے خیال آیا کہ جو مبلغین باہر جاتے ہیں اُن پر وہاں شادی کے بغیر رہنا گراں گزرتا ہے.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ہمارے بعض مبلغ دس دس گیارہ گیارہ سال باہر رہ کر کام کرتے رہے ہیں اور اُن کے بیوی بچے ساتھ نہیں تھے اور انہوں نے کام بھی نہایت شاندار کیا ہے.لیکن معلوم نہیں اس وقت یہ حالت کیوں پیدا ہو گئی ہے کہ مبلغین پر بغیر بیویوں کے باہر رہنا گراں گزرتا ہے.بہر حال سب لوگ ایک ہی رنگ کے نہیں ہو سکتے.بعض مبلغ ایسے تھے جنہوں نے بیوی بچوں سے جدا رہ کر سالہا سال تک کامیاب طور پر تبلیغ کا کام کیا لیکن اس وقت جو مبلغ باہر ہیں ان میں سے بعض زیادہ دیر تک بغیر شادی کے رہنا برداشت نہیں کر سکے.ویسے وہ بہت اچھے مبلغ ہیں اور انہوں نے عمدہ کام کیا ہے.چنانچہ ان میں سے بعض نے مرکز سے اجازت لے کر امریکہ اور یورپ میں شادیاں کر لی ہیں.جہاں تک شادی کا سوال ہے یہ قرآن وسنت کے عین مطابق ہے.لیکن یورپ کی میں شادی کرنا دو لحاظ سے خطرناک طور پر مضر ہے.ایک تو اس لحاظ سے کہ یورپین عورتیں کی پردہ نہیں کرتیں.جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ دیکھنے والوں پر اُن کا بُرا اثر پڑتا ہے.چنانچہ وہ مبلغ جنہوں نے یورپ میں شادیاں کی تھیں میرے وہاں جانے پر بعض لوگوں نے اُن کے متعلق عتراض کیا کہ جب مبلغوں کی اپنی عورتیں پردہ نہیں کرتیں تو دوسروں پر ان کا کیا اثر ہو گا.بلکہ انہوں نے یہاں تک کہا کہ یہ مبلغ خود بیویوں کے اثر کے نیچے مغربیت کے رنگ میں رنگین ہو رہے ہیں.جہاں تک پردہ کا سوال ہے ہم اس کا جواب دے سکتے ہیں کہ اگر

Page 97

$1956 84 خطبات محمود جلد نمبر 37 روحانی لحاظ سے طاقتور ہوگا تو وہ بیوی کی کم پروا کرے گا اور خدا تعالیٰ کی زیادہ کرے گا اور اگر کوئی مبلغ ایسا ہے جو بیوی کی زیادہ پروا کرتا ہے اور خدا تعالیٰ کے کام کی کم پروا کرتا ہے تو ایسا شخص مبلغ کہلانے کا مستحق ہی نہیں.لیکن اس سے قطع نظر ایک اور سوال ہے جو مجھے متفکر کر رہا ہے اور وہ یہ کہ ہمیں کچھ عرصہ کے بعد مرکز میں کام کرنے کے لیے کارکنوں کی ضرورت ہو گی اور بیرونی ممالک میں کام کرنے والے مبلغ ہی زیادہ تجربہ کار ہوں گے.اس لیے اُنہی کو یہاں بلا کر مرکزی کاموں پر لگانا پڑے گا.اگر مبلغوں نے باہر شادیاں کر لیں تو اُن کی بیویاں یہاں نہیں آئیں گی.وہ اڑ بیٹھیں گی اور کہیں گی کہ ہم اس ملک میں نہیں رہ سکتیں، ہم کچے مکانوں میں گزارہ نہیں کہ سکتیں، ہمیں وہاں کا تمدن پسند نہیں ، ہمیں فلش سسٹم کی ضرورت ہے لیکن وہاں اس کا رواج نہیں.پھر وہاں اچھے اخراجات والی کمیٹی نہیں جو ہر وقت شہر کو بقعہ نور بنائے رکھے.آخر اُس نے زندگی وقف نہیں کی.اُس نے صرف ایک واقف زندگی سے شادی کی ہے.اس لیے اُسے یہاں آنے پر مجبور بھی نہیں کیا جا سکتا.پس میرے نزدیک جتنے مبلغ یورپ میں شادیاں کریں گے وہ مرکز کے کسی کام نہیں آ سکتے.وہ مرکز سے یقیناً کھوئے جائیں گے.حالانکہ واقفین کا اصل کام یہ ہے کہ وہ مرکز کے کاموں کو سنبھالیں.اور جو واقف زندگی یورپ میں شادی کر لیتا ہے وہ مرکز میں رہ کر کام نہیں کر سکتا.اس لیے میرے نزدیک جن مبلغین نے یورپ میں شادیاں کی ہیں وہ مرکز سے کھوئے گئے ہیں.ہاں! جن مبلغین نے عرب ممالک میں شادیاں فلسطین کی ہیں اُن کے لیے مرکز میں رہ کر کام کرنا مشکل نہیں.مثلاً مولوی محمد شریف صاحب فہ سے شادی کر کے لائے ہیں.میں سمجھتا ہوں کہ انہیں یہاں رہنے میں کوئی دقت نہیں ہو گی.جہاں تک اُن کی بیوی کے متعلق مجھ پر اثر ہے میں یہی سنتا ہوں کہ وہ یہاں کی جماعت میں ملتی جلتی ہیں اور یہاں کے تمدن کو وہ اختیار کر رہی ہیں.لیکن یورپین عورتوں کے لیے اس تمدن میں رہنا بہت مشکل ہے اس لیے مبلغین کا یہ خیال کر لینا بالکل غلط ہے کہ وہ مرکز کے بُلانے پر اپنی بیوی کو ساتھ لے کر آجائیں گے اور وہ انہیں یہاں ناظر، نائب ناظر، وکیل یا نائب ولی وکیل کے طور پر کام کرنے دے گی.ان کا یہ خیال نہ صرف خیالِ خام ہے بلکہ میں انہیں

Page 98

$1956 59 85 خطبات محمود جلد نمبر 37 چیلنج کرتا ہوں کہ ان میں سے کوئی ایسا کر کے دکھا دے.یہ اس کے اختیار کی بات نہیں بلکہ اُس کی بیوی کے اختیار کی بات ہے.اور یورپین عورت ہمارے ملک میں رہنے کے لیے کبھی تیار نہیں ہو سکتی.پس اگر ہم مبلغین کو یورپ میں شادیاں کرنے کی اجازت دیں تو وہ ہمارے کام کے نہیں رہیں گے.ہم انہیں صرف تبلیغ کے لیے ہی تیار نہیں کرتے بلکہ اس غرض کے لیے بھی تیار کرتے ہیں کہ وہ ضرورت کے وقت مرکز کے اہم کاموں کو سنبھالیں گے کیونکہ مرکز کی حیثیت ایک دماغ کی سی ہے اور تبلیغ بطور ہاتھ کے ہے.اگر دماغ ہی ماؤف ہو گیا تو ہاتھ کیا کام کریں گے.اس لیے دماغ کی حفاظت کی زیادہ ضرورت ہے.اور جو مبلغ باہر شادی کر لیتا ہے اُس کا دماغ ماؤف ہو جاتا ہے اور وہ مرکز میں رہ کر کام نہیں کر سکتا.چنانچہ ہمارے بعض مبلغین جنہوں نے باہر شادیاں کی ہیں اگر چہ وہ اچھے مبلغ ہیں لیکن جہاں تک مرکزی کاموں کا تعلق ہے وہ ہمارے کام کے نہیں رہے کیونکہ ہمارا سابق تجربہ بتا رہا ہے کہ یورپین عورتیں یہاں آکر گزارہ نہیں کر سکتیں.چنانچہ مفتی محمد صادق صاحب کو دیکھ لو ان کی طبیعت کسی قدر نرم ہے اور وہ کس قدر محبت اور پیار کرنے والے ہیں.اُن سے بڑھ کر نرم طبیعت اور کون شخص ہو گا.انہوں نے ایک ڈچ عورت سے شادی کی لیکن وہ یہاں آ کر گزارہ نہ کر سکی اور وہ انہیں چھوڑ کر بھاگ گئی.چودھری فتح محمد صاحب سیال نے انگلینڈ میں شادی کی لیکن انہیں اپنی وی بیوی کو وہیں طلاق دے کر آنا پڑا.پس مبلغین کا یہ خیال کر لینا کہ اُن کی بیویاں اُن کے کاموں میں رکاوٹ پیدا نہیں کریں گی بالکل جھوٹ ہے.جب ہمارا تجربہ یہ بتاتا ہے کہ یورپین عورتوں کے لیے یہاں آکر رہنا مشکل ہے تو ان کی بیویوں کو کو نسے لعل لگے ہوئے ہیں کہ وہ یہاں آ کر گزارہ کر لیں گی.سابق تجربہ کی بناء پر یہی کہا جا سکتا ہے کہ جب بھی انہیں واپس بلایا جائے گا وہ اڑ بیٹھیں گی اور پھر انہیں یا تو وقف چھوڑنا پڑے گا اور یا بیوی چھوڑنی پڑے گی.اور اگر بالفرض وہ یہاں آ جائے گی تو وہ اُسے ایسے لوہے کے چنے چبوائے گی کہ وہ پنی اس حرکت پر پچھتائے گا اور ربوہ والے بھی چیخ اٹھیں گے کہ اس عورت سے ہمیں بچاؤ.وہ جس مجلس میں بھی جائے گی ناک بھوں چڑھائے گی اور کہے گی کہ یہ کیسا گندہ ملک ہے.یہاں یہ رواج ہے کہ عورتیں بڑے خاندان کی ہوں یا چھوٹے خاندان کی وہ غریب عورتوں

Page 99

$1956 86 خطبات محمود جلد نمبر 37 سے نفرت نہیں کرتیں بلکہ انہیں پاس بٹھاتی ہیں لیکن یورپین عورت کے پاس اگر کوئی غریب عورت آئے گی تو وہ نفرت کا اظہار کرتے ہوئے کہے گی اس کے کپڑے گندے ہیں.اس لیے اسے پاس بٹھانا میری شان کے خلاف ہے.پس طلباء کے سامنے یہ بڑا اہم سوال ہے کہ اگر وہ باہر جاتے ہیں تو ان کے لیے نہایت مشکل امر ہے کہ شادی کے بغیر لمبا عرصہ وہاں رہ سکیں.اور اگر وہاں شادی کرتے ہیں تو ہمارے کام کے نہیں رہتے..پھر اس کے ساتھ ہی یہ سوال بھی قابل غور ہے کہ اگر اُن کے بیوی بچوں کو ان کے ہمراہ بھیجا جائے تو اخراجات اتنے زیادہ ہو جائیں گے کہ مرکز معطل ہو کر رہ جائے گا.خدا تعالیٰ نے وقف کے ساتھ کچھ ایسی برکت رکھی ہے کہ جس واقف زندگی کے متعلق بھی پوچھو اُس کے سات آٹھ سے کم بچے نہیں ہوتے.میں نے انڈونیشیا کے ایک مبلغ کے متعلق پوچھا تو مجھے بتایا گیا کہ اُس کے گیارہ بچے ہیں.اب اگر گیارہ بچوں کو مبلغ کے ساتھ بھیجا جائے تو مرکز کا دیوالہ نکل جائے گا.پس تم اس بات کو یاد رکھو کہ شادی کرنا ایک مسلمان کے لیے بہر حال ضروری ہے لیکن زیادہ بچے پیدا کرنا ضروری نہیں.قرآن کریم نے ضبط تولید سے صرف اس صورت میں منع کیا ہے جب کسی شخص کا یہ فعل خشیت اطلاق کی وجہ سے ہو.1 یہ کہیں نہیں لکھا کہ تم دین کی خاطر بھی ضبط تولید نہیں کر سکتے.اگر تم خشیت اطلاق کی وجہ سے بچے پیدا کرنے میں احتیاط سے کام لیتے ہو تو قرآن کریم اس سے منع کرتا ہے ن اگر تم یہ احتیاط اس لیے کرتے ہو کہ اس سے تمہاری تبلیغ میں آسانی ہو گی اور سلسلہ زیادہ بار نہیں پڑے گا تو قرآن کریم اس سے منع نہیں کرتا.قرآن کریم صرف اُس وقت منع کرتا ہے جب ایسا کرنا تنگی رزق کے خوف کی وجہ سے ہو.لیکن اگر کوئی واقف اس لیے بچے پیدا کرنے میں احتیاط کرتا ہے کہ تبلیغ میں آسانی ہو تو یہ بات نہ صرف منع نہیں بلکہ اس کے لیے ثواب کا موجب ہے.اسی طرح جب سے ہوائی جہاز نکل آئے ہیں مبلغین نے مرکز سے لڑنا شروع کر دیا ہے کہ ہمارے لیے ہوائی جہاز میں سیٹ ریزرو ہونی چاہیے.نتیجہ یہ ہوا کہ ایک سال تو ایسا گزرا کہ مبلغین کے سفر کے اخراجات زیادہ ہو جانے کی وجہ سے بجٹ ہی ختم ہو گیا

Page 100

$1956 87 خطبات محمود جلد نمبر 37 اور کارکنوں کو دو دو ماہ تک تنخواہیں نہ مل سکیں.میں نے دفتر والوں سے کہا کہ پہلے تو مبلغ کی سمندری جہاز پر جاتے تھے اور وہ بھی تھرڈ کلاس میں سفر کرتے تھے.اب ہوائی جہاز کے سفر پر کیوں زور دیا جاتا ہے؟ انہوں نے کہا کہ اب ہوائی جہاز میں سفر کرنے کی رسم پڑ گئی ہے.نے انہیں کہا کہ اس رسم کو ہٹانا چاہیے.ورنہ اخراجات بہت بڑھ جائیں گے.چنانچہ اب مبلغین دوباره سمندری جہاز کے ذریعہ جانے لگ گئے ہیں.بہر حال یہ ایسے امور ہیں جن پر تمہیں خود بھی غور کرنا چاہیے اور وکالت تبشیر کے افسروں سے ملاقات کر کے اُن سے بھی ان امور کے متعلق باتیں کرنی چاہییں.میں تمہیں شادیوں سے منع نہیں کرتا لیکن میں یہ تمہیں کہے بغیر نہیں رہ سکتا کہ اگر تم یورپ میں شادیاں کرو گے تو وہ عورتیں تمہارے گلے کا ہار ہی نہیں ایک زنجیر بن جائیں گی اور تمہیں ہلنے بھی نہیں دیں گی.وہ یا تو تمہیں مرتد کر کے رہیں گی اور یا تم انہیں چھوڑنے پر مجبور ہو جاؤ گے اور بعد میں اپنے کانوں کو ہاتھ لگاؤ گے اور کہو گے کہ اس شادی کی مصیبت سے تو بغیر شادی کے رہنا زیادہ اچھا تھا.پس تم شادیاں کرو مگر یورپ میں نہیں بلکہ اپنے ملک میں کرو اور پھر اس بات کا خیال رکھو کہ اگر سات سات، آٹھ آٹھ بچے تمہارے ساتھ جائیں گے تو ایک مبلغ کے سفر پر میں تمہیں مشنوں کا خرچ آجائے گا اور اس طرح تبلیغ ختم ہو جائے گی.پس تم ایسے وقت میں شادیاں کرو کہ جب تم تبلیغ کے لیے باہر جاؤ تو یا تو تمہارا کوئی بچہ نہ ہو اور اگر ہو تو صرف ایک بچہ ہو اور جب واپس آؤ تو صرف دو یا تین بچے ہوں تا کہ مرکز پر تمہارے آنے جانے کی وجہ سے زیادہ اخراجات نہ پڑیں.مگر اب یہ حالت ہے کہ میں نے انڈونیشیا کے ایک مبلغ کے متعلق پوچھا کہ کیا اُس کے سات بچے ہیں؟ تو مجھے بتایا گیا کہ آپ کو غلطی لگی ہے اُس کے سات نہیں گیارہ بچے ہیں.اب بظاہر یہ تعجب کی بات معلوم ہوتی ہے اصل بات یہ ہے کہ چونکہ وہ دُور رہتے ہیں اور اُن کے بچوں کی پیدائش کی خبر ہمیں بہت دیر بعد ملتی ہے اس لیے اس دوران میں اُن کے پہلے بچے بھول جاتے ہیں.پھر خدا تعالیٰ نے بعض عورتوں میں ایسا مادہ رکھا ہے کہ وہ زچگی کے بعد خاوند سے ملیں تو فوراً حاملہ ہو جاتی ہیں.اگر اس قسم کی کوئی عورت ہو تو اٹھارہ ماہ میں اُس کے ہاں دو بچے ہو جائیں گے اور اگر

Page 101

خطبات محمود جلد نمبر 37 88 $1956 اٹھارہ ماہ میں دو بچے پیدا ہوں تو نو سال میں بارہ بچے ہو جائیں گے.اب اگر وہ مبلغ نو سال کے بعد اپنے بارہ بچوں سمیت ہوائی جہاز میں سفر کرے تو قریب سے قریب ملک کا کرایہ بھی ایک طرف کا بارہ سو روپیہ لگتا ہے.میاں بیوی کو ملا کر چودہ افراد ہو گئے.اگر ایک شخص کا بارہ سو روپیہ کرایہ لگے تو چودہ افراد کے ایک طرف کے سفر پر سترہ ہزار روپیہ خرچ آئے گا اور اتنا خرچ سلسلہ کے پاس کہاں ہے کہ وہ ہر مبلغ کے آنے جانے پر سترہ سترہ ہزار روپیہ خرچ کرتا پھرے.پس تم ان امور پر غور کرو اور اپنے افسروں سے بھی بحث کیا کرو.تمہاری بحث کے نتیجہ میں وہ افسر بھی محسوس کریں گے کہ وہ تمہیں ایسے وقت میں باہر بھیجیں کہ ابھی تمہاری شادی کو پانچ چھ ماہ ہی ہوئے ہوں.آخر جب بیوی نے تمہارے ساتھ ہی جانا ہے تو پھر زیادہ عرصہ تک انتظار کرنے کی کیا ضرورت ہے.زیادہ عرصہ تو تب انتظار کیا جائے جب مبلغ نے اکیلے جانا ہو.اور اگر اس کی بیوی نے ساتھ جانا ہے تو چاہے وہ دوسرے ماہ ہی بھیج دیا جائے اس پر اعتراض نہیں ہوسکتا.بلکہ اگر اس کی شادی پر ایک سال گزر جائے تب بھی زیادہ سے زیادہ اُس کا ایک بچہ ہو گا اور اس کی وجہ سے سلسلہ پر زیادہ مالی بوجھ نہیں پڑے گا.لیکن اگر گیارہ گیارہ بچے ہوں تو پھر سلسلہ ان کے اخراجات کو برداشت کرنے کی طاقت نہیں رکھے گا.پس مبلغین کو باہر بھیجنے کا پروگرام ایسے طور پر بنانا چاہیے کہ سلسلہ پر زیادہ بوجھ نہ پڑے.اسی طرح تمہیں اپنی بیویوں کو بھی سمجھانا چاہیے کہ بچے بیشک خدا تعالیٰ کی نعمت ہیں لیکن اگر تم زیادہ بچے جنو گی تو نہ صرف سلسلہ کو نقصان ہو گا بلکہ تمہاری صحت بھی خراب ہو جائے گی.پس بچوں کی پیدائش کی وجہ سے سلسلہ کے لیے بوجھ مت بنو.خدا تعالیٰ نے بچوں کی پیدائش میں احتیاط کرنے سے صرف اُس وقت منع کیا ہے جب فاقہ کے ڈر سے ایسا کیا جائے لیکن اگر خدا تعالیٰ کے نام کو بلند کرنے کے لیے ایسا کیا جائے تو منع نہیں.میں نے دیکھا ہے کہ عموماً دو قسم کی عورتیں ہوتی ہیں.بعض تو اس قسم کی ہوتی ہیں کہ ادھر اُن کے ہاں بچہ پیدا ہوا اور اُدھر اُن کے رقعے آنے شروع ہوئے کہ حضور! دعا فرمائیں اللہ تعالیٰ ہمیں اور بچہ دے.اور بعض عورتیں ایسی ہوتی ہیں کہ اُن کے رقعے آتے ہیں

Page 102

$1956 89 خطبات محمود جلد نمبر 37 کہ حضور! دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ بچوں کی پیدائش کو روکے.مجھے معلوم نہیں کہ تمہارا ان میں سے کس قسم کی عورت سے واسطہ پڑے گا.بہر حال تم اپنی بیویوں کو سمجھاؤ کہ وہ بچے پیدا کرنے میں احتیاط سے کام لیں.اسی طرح اپنے وکیلوں سے بھی باتیں کرتے رہو.وہ بھی اکثر اوقات غلطی کا ارتکاب کر جاتے ہیں.اگر مبلغ کو شادی کی ابتدا میں ہی باہر بھیج دیا جائے تو سلسلہ پر بچوں کا بوجھ نہیں پڑ سکتا.لیکن یہ لوگ انتظار کرتے رہتے ہیں اور جب اس کے ہاں پوری کرکٹ ٹیم جاتی ہے تو پھر اُسے باہر بھیجتے ہیں.حالانکہ اگر وہ اسے آٹھ دس سال پہلے بھیجتے تو نہ صرف وہ اس وقت تک پورا مبلغ بن جاتا بلکہ اخراجات کے لحاظ سے ہمیں بھی سہولت ہوتی.کیونکہ اُس کے ہاں صرف ایک یا دولڑ کے ہوتے.غرض اگر غور کر کے مبلغین کا پروگرام بنایا جائے اور پھر نو جوانی کی عمر میں ہی مبلغ کو باہر بھیج دیا جائے تو زیادہ سے زیادہ دو تین افراد کا خرچ سلسلہ پر پڑے گا اور پھر جب اسے واپس بلایا جائے گا تب بھی اُس کے ہاں دو یا تین بچے ہوں گے.اسی طرح جتنا خرچ اس وقت صرف ایک مبلغ کے واپس بلانے یا بھیجنے پر ہوتا ہے اس سے پانچ مبلغین کے آنے جانے کا خرچ پورا ہو سکے گا اور سب مبلغین کو ایک وقت تک مرکز میں رہنے اور اس سے ہدایات لینے کا موقع مل جائے گا.شروع شروع میں جو لوگ سلسلہ کی خدمت کے لیے آگے آئے وہ بھی بڑی عمر کے نہیں تھے بلکہ چھوٹی عمر کے ہی تھے.مثلاً مولوی عبدالکریم صاحب سیالکوٹی جب قادیان آئے تو چھوٹی عمر کے ہی تھے.پھر وہیں رہ کر انہوں نے ترقی کی اور سلسلہ میں خاص مقام حاصل کر لیا.حضرت خلیفہ اول بھی جب قادیان آئے تو آپ کی عمر زیادہ نہیں تھی.پھر مولوی محمد علی صاحب آئے، مولوی شیر علی صاحب آئے ، مفتی محمد صادق صاحب آئے ، ماسٹر عبدالرحمان صاحب جالندھری آئے (جن کی کتاب ہے میں مسلمان ہو گیا بھائی عبدالرحمان صاحب قادیانی آئے ، بھائی عبدالرحیم صاحب آئے یہ سب چھوٹی عمر کے تھے.پھر آہستہ آہستہ انہیں بڑی پوزیشن حاصل ہو گئی.اسی طرح درد صاحب بھی چھوٹی عمر میں ہی آئے تھے.

Page 103

خطبات محمود جلد نمبر 37 90 $1956 پس میرے نزدیک اخراجات بچانے کا صحیح طریق یہ ہے کہ مبلغین کو نو جوانی کی عمر میں باہر بھیجا جائے اور پھر ایسے وقت میں بھیجا جائے جبکہ ان کی نئی نئی شادی ہوئی ہو اور ان کے صرف ایک یا دو بچے ہوں اور جب واپس آئیں تب بھی دو تین سے زیادہ ان کے بچے نہ ہوں.اسی طرح جب تم اپنی بیویوں کو ساتھ لے جاؤ تو ایسا نہ ہو کہ تم سارا دن اپنی بیویوں کے پاس ہی بیٹھے رہو اور تبلیغ کے لیے باہر نہ نکلو.یورپ کے سفر میں مجھے بعض یورپین مشنوں میں کام کرنے والے مبلغوں کے متعلق بتایا گیا کہ ان کے لیے گھر سے نکلنا مشکل ہوتا ہے.وہ سارا سارا دن بیویوں کے پاس بیٹھے رہتے ہیں.جن مبلغین کی بیویاں اُن کے ساتھ گئی ہیں اُن میں سے میں نے صرف ایک مبلغ دیکھا ہے جو ہر وقت تبلیغ کے کام میں لگا رہتا ہے اور وہ چودھری عبداللطیف صاحب ہیں جو اس وقت ہیمبرگ مشن (جرمنی) میں کام کر رہے ہیں.وہ نہایت نیک اور مخلص نوجوان ہیں اور ان کی بیوی ان کے ساتھ ہے.لیکن پھر بھی دین کے متعلق ان کے اندر اس قدر فدائیت پائی جاتی ہے کہ وہ دینی کاموں کے وقت ان کی ذرا بھی پروا نہیں کرتے اور ایک منٹ کے نوٹس پر باہر جانے کے لیے تیار ہو جاتے ہیں.پچھلے دنوں جب ہالینڈ مشن میں خرابی پیدا ہوئی اور ہمیں دوسرا مبلغ بھیجنے کی ضرورت پیش آئی تو اُس وقت لر پاکستان سے مبلغ بھیجا جاتا تو اُس پر پانچ چھ ہزار روپے خرچ آ جاتا.ہم نے چودھری عبداللطیف صاحب کو لکھا کہ تم فوراً ہالینڈ پہنچ جاؤ.اس پر باوجود اس کے کہ اُن کے بیوی بچے کی ایک غیر ملک میں تھے وہ انہیں اکیلا چھوڑ کر فوراً ہالینڈ روانہ ہو گئے اور دوسرے ہی دن اُن کی ی تار آگئی کہ وہ ہالینڈ پہنچ گئے ہیں.پھر وہ ایک ماہ تک وہاں رہے اور کام کرتے رہے اور اب اُن کا خط آیا ہے کہ چونکہ حافظ قدرت اللہ صاحب ہالینڈ پہنچ گئے ہیں اس لیے مجھے اجازت دی جائے کہ میں اپنے ملک میں واپس جا کر تبلیغ کا کام سنبھالوں.گویا اب بھی انہوں نے یہ شکایت نہیں کی کہ اُن کے بیوی بچے جرمنی میں ہیں اس لیے انہیں وہاں جلد پہنچنا چاہیے.پھر اس خط کے ساتھ ہی انہوں نے ایک جرمن ڈاکٹر کی بیعت کی اطلاع بھی بھیجی ہے.کہتے ہیں اللہ تعالیٰ جب دیتا ہے تو چھپر پھاڑ کر دیتا ہے.وہ ہالینڈ گئے تو اللہ تعالیٰ نے انہیں خالی

Page 104

$1956 91 خطبات محمود جلد نمبر 37 نہیں رہنے دیا.بلکہ وہاں بھی ایک جرمن ڈاکٹر کو جو میڈیسن کے ڈاکٹر ہیں ان کے ذریعہ احمدیت میں داخل کرا دیا.اب دیکھو! یہ الہی فضل ہے جو ان کے اخلاص کی وجہ سے ان پر نازل ہوا ورنہ چودھری عبداللطیف صاحب کی بیوی شروع میں غیر احمدی تھی اور مجھے یہ بات پسند نہیں تھی کہ ان کی شادی اس جگہ ہو.لیکن چونکہ ان کے ماں باپ نے اصرار کیا اس لیے میں نے بھی اجازت دے دی لیکن خدا تعالیٰ نے اس عورت کو اسلام کی خدمت کی توفیق و اور وہ اس طرح کام کر رہی ہے کہ اسے دیکھ کر حیرت آتی ہے.میں سمجھتا ہوں کہ کام کی جتنی توفیق اسے ملی ہے اتنی کسی پرانی احمدی عورت کو بھی نہیں ملی.پھر چودھری عبداللطیف صاحب بھی بڑے نیک نوجوان ہیں.میں نے پہلے بھی ذکر کیا تھا کہ میں جرمنی میں ایک ڈاکٹر سے مشورہ لینے موٹر پر جا رہا تھا کہ میرے ساتھ ہی اگلی سیٹ پر ایک ہندو ڈاکٹر بیٹھا تھا.جو ہیں سال سے جرمنی میں رہتا ہے.وہ مڑ کر کہنے لگا میں دہر یہ ہو چکا تھا لیکن آپ کے مبلغ کے ساتھ رہنے کی وجہ سے میں دین کا قائل ہو گیا ہوں.میں نے کہا میں تو اُس وقت تک یہ بات نہیں مانوں گا جب تک تم پورے مسلمان نہ ہو جاؤ.وہ کہنے لگا اللہ تعالیٰ لطیف صاحب کو سلامت رکھے.اگر اُن کے ساتھ اُٹھتا بیٹھتا رہا تو میں پورا مسلمان بھی ہو جاؤں گا.پھر ان کی بیوی کے اندر تبلیغ کا اس قدر احساس پایا جاتا ہے کہ وہاں ایک عورت ہے جو مرتد ہو چکی ہے.ایک دن جس ہوٹل میں ہم ٹھہرے تھے اس میں وہ بھی آ گئی.لیکن جونہی وہ عورت ہوٹل میں آئی عبداللطیف صاحب کی بیوی اُس سے بڑی محبت کے ساتھ ملی اور اُس کی خاطر تواضع کرنے لگ گئی.جب وہ واپس چلی گئی تو ہماری عورتوں نے اس سے کہا کہ تم تو کہتی تھیں کہ یہ عورت مرتد ہو گئی ہے اور سلسلہ کی مخالفت کرتی ہے اور اب وہ آئی ہے تو تم نے اُس کی خاطر تواضع شروع کر دی ہے.وہ کہنے لگی کہ اگر ہم اس طرح نہ کریں تو یہ لوگ مسلمان کیسے ہوں.غرض ان کی بیوی بھی تبلیغ کے کام میں ان کا پورا پورا ہاتھ بٹا رہی ہیں لیکن افسوس ہے کہ ان کی صحت اچھی نہیں.دوست دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ انہیں صحت دے تا کہ جرمنی میں تبلیغ کا کام اور بھی زیادہ وسیع ہو سکے.اس وقت وہ سلسلہ کے چوٹی کے مخلص نوجوانوں میں سے ہیں اور ابھی تک چودھری

Page 105

خطبات محمود جلد نمبر 37 92 92 میرے علم میں ان کی کوئی مالی یا تبلیغی کو تا ہی نہیں آئی.$1956 میرا اس سے یہ مطلب نہیں کہ دوسرے مبلغ مخلص اور سلسلہ سے محبت رکھنے والے نہیں.اگر کوئی ایسا نتیجہ نکالتا ہے تو غلطی کرتا ہے.میں اس وقت دوسروں کی تنقیص نہیں کر رہا بلکہ صرف ایک مبلغ کی خوبی بیان کر رہا ہوں ورنہ ہمارے کئی دوسرے مبلغ بھی بڑا اچھا کام کرنے والے ہیں.مثلاً خلیل احمد صاحب ناصر ہیں.وہ بھی اچھے مبلغ ہیں.گو اب شکایت آ رہی ہے کہ امریکہ کا مشن کمزور ہو رہا ہے.شاید میرا خطبہ اُن کے پاس پہنچے تو وہ اپنی اصلاح کر لیں.اسی طرح مولود احمد صاحب ہیں وہ بھی خدا تعالیٰ کے فضل سے ترقی کر رہے ہیں.انہوں نے انگلستان کے مشن کا کام خوب سنبھالا ہے.پھر جہاں تک تبلیغ کا سوال ہے شیخ ناصر احمد صاحب بھی بڑے اچھے مبلغ ہیں اور ان میں اس قدر اخلاص پایا جاتا ہے کہ جب بھی انہیں لکھا جاتا ہے کہ فلاں دوائی بھیج دو تو چند دن میں ہی وہ دوائی آجاتی ہے.معلوم نہیں کہ وہ اپنے کاموں سے ان باتوں کے لیے کس طرح وقت نکال لیتے ہیں.چودھری عبد اللطیف صاحب کا بھی یہی حال ہے ادھر انہیں خط لکھا جاتا ہے اور اُدھر دوائی آ جاتی ہے.یہ دونوں نہایت اخلاص سے کام کر رہے ہیں.لیکن شیخ ناصر احمد صاحب کے متعلق میں سمجھتا ہوں کہ چونکہ انہوں نے وہاں شادی کر لی ہے اس لیے اب وہ مرکز میں کام کرنے کے قابل نہیں رہے.ہاں وہاں وہ بہت اچھا کام کر رہے ہیں.وہ جرمن زبان میں ایک رسالہ نکالتے ہیں جس کے متعلق رپورٹ آئی ہے کہ اس رسالہ کی دور دور سے مانگ آ رہی ہے.یونیورسٹی کے طلباء انہیں بلا بلا کر تقریریں کراتے ہیں اور اُن سے اسلام کی تعلیم سیکھنے کی کوشش کرتے ہیں.لیکن جہاں تک مرکز میں رہ کر کام کرنے کا سوال ہے ہم سمجھتے ہیں کہ انہیں وہاں شادی کر لینے کی وجہ سے مشکل پیش آئے گی.ہر مرد کو اپنی بیوی پر حسن ظنی ہوتی ہے.اس لیے ممکن ہے کہ جب میرا یہ خطبہ اُن کے پاس پہنچے تو وہ ہنس پڑیں اور کہیں حضرت صاحب کو میری بیوی کے متعلق کیا علم ہے کہ وہ کیسی مخلص ہے.میں مرکز کی طرف ایک قدم جاؤں گا تو وہ ہمیں قدم جائے گی.لیکن ہمارا تجربہ یہی بتاتا ہے کہ وہ مرکز کی طرف ایک قدم آئیں گے تو اُن کی بیوی ہیں قدم پیچھے جائے گی اور ایک دن انہیں یہ فیصلہ کرنا ہو گا کہ وہ اپنی بیوی کو رکھیں یا مرکز میں رہیں.ہاں

Page 106

$1956 93 خطبات محمود جلد نمبر 37 خدا تعالیٰ اُن کی بیوی کو اس امر کی توفیق دے دے تو یہ اُس کا احسان ہے.ویسے وہ ایک مخلص نوجوان ہیں اور اگر انہوں نے وہاں شادی کر لی ہے تو انہوں نے اسلام کی تعلیم کے خلاف نہیں کیا.اس لیے دعا ہے کہ خدا تعالیٰ اُن کی بیوی کو توفیق دے کہ وہ اُن کے دینی کاموں میں روک نہ بنے.لیکن جہاں تک ہمارا پہلا تجربہ ہے وہ یہی ہے کہ یورپین عورتیں دینی کاموں میں روک بن جایا کرتی ہیں.اور قرآن کریم بھی کہتا ہے کہ تمہاری بیویاں اور تمہاری اولاد میں بعض دفعہ فتنہ بن جاتی ہیں.2 ہاں! عرب ممالک میں شادی اس قسم کے نتائج پیدا نہیں کرتی.عرب ممالک میں سے سادہ ترین ملک فلسطین ہے.ویسے دوسرے علاقوں میں بھی ایسی عورتیں مل جاتی ہیں جو ہمارے تمدن کو برداشت کر لیتی ہیں.لیکن یورپین عورتیں اس طرح نہیں کر سکتیں.صرف ایک عورت میں نے ہالینڈ میں ایسی دیکھی ہے جس نے ایک مصری نوجوان سے شادی کی ہوئی ہے اور اسلامی تمدن کی فضیلت پر پادریوں سے بخشیں کرتی رہتی ہے.وہ مجھے ملی تو اُس نے جی بتایا کہ میں پادریوں کو کہا کرتی ہوں کہ تم اسلام پر تعد دازدواج کی وجہ سے اعتراض کیا کرتے ہو.لیکن اگر سوکن آئے گی تو ہم پر آئے گی مردوں پر تو نہیں آئے گی.پھر تم ناراض کیوں ہوتے ہو؟ تمہیں تو خوش ہونا چاہیے کہ تم مرد ہو اور سوکن تم نے لانی ہے.تمہیں اس بارہ میں گھبرانے کی کیا ضرورت ہے.پھر لطیفہ کے طور پر اُس نے بتایا کہ میں ان سے کہا کرتی ہوں کہ ہمارے ہاں لمبے عرصہ تک ملاقاتوں کے بعد شادیاں ہوتی ہیں لیکن پھر بھی بیویوں اور خاوندوں میں لڑائیاں ہوتی رہتی ہیں.اگر دس گیارہ سال کی ملاقاتوں اور سینما دیکھنے کے بعد بھی کسی کی شادی ہو جائے اور پھر گھر میں اُن کی لڑائی ہو جائے تو ایسی صورت میں اُس عورت کو سارا دن اپنے خاوند کا غصہ بھرا چہرہ دیکھنا پڑے گا.لیکن اسلام نے مرد کو ایک سے زیادہ شادیاں کرنے کی اجازت دی ہے اور اس کے ساتھ ہی یہ حکم دیا ہے کہ ہر بیوی کو نان و نفقہ کے علاوہ علیحدہ مکان بھی دیا جائے.اس صورت میں میں دو پہر تک تو اُس کا منہ دیکھوں گی لیکن اس کے بعد اسے دوسرے گھر میں دھکیل دوں گی اور اپنی سوکن سے کہوں گی کہ اتنی دیر تک تو میں نے

Page 107

$1956 94 خطبات محمود جلد نمبر 37 اس کا منہ دیکھا ہے.اب شام تک تو اس کا منہ دیکھ.پھر اُس نے کہا کہ ہمارے ملک میں سب سے زیادہ مصیبت یہ ہے کہ یہاں اچھے خاوند نہیں ملتے.اگر اچھے خاوند مل جائیں چاہے وہ آٹھ آٹھ بیویاں کریں ہمیں اس کی پروا نہیں.میں نے لندن میں وہاں کے ایک بہت بڑے آدمی کو جو ایک بہت بڑے او پیرا 3 کے انچارج ہیں اور بارہ چودہ سو پونڈ ماہوار کماتے ہیں یہ واقعہ سنایا تو انہوں نے کہا آپ ہالینڈ کی بات کر رہے ہیں میں لندن میں دس ہزار ایسی عورتیں دکھا سکتا ہوں جو سوکنوں کو برداشت کرنے کے لیے تیار ہیں بشرطیکہ انہیں اچھے خاوند مل جائیں.مشکل صرف یہ ہے کہ ہمارے ہاں اچھے خاوند نہیں ملتے.اگر اسلامی تعلیم کے مطابق خاوند مل جائیں تو عورتوں کو تعد دازدواج کے مسئلہ پر کوئی اعتراض نہیں ہوسکتا.پس اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اسلامی تعلیم کے متعلق یورپین لوگوں کے دماغوں میں بہت بڑا تغیر پیدا ہو رہا ہے.لیکن یہ ضروری نہیں کہ اس تغیر کے نتیجہ میں اگر تم وہاں شادی کروانی تو وہ شادی بھی تمہارے لیے مفید ہو.ایک میراثی کا لطیفہ مشہور ہے.وہ کوئی کام نہیں کرتا تھا اور گھر میں بیکار بیٹھا رہتا تھا.اس کی بیوی نے اس سے بارہا کہا کہ تم کوئی کام کرو.لیکن وہ اسے ہر دفعہ یہ کہہ کر ٹال دیا کرتا تھا کہ کام ملتا ہی نہیں.ایک دفعہ ایسا ہوا کہ اُس ملک کی کسی اور ملک سے لڑائی ہوگئی اور بادشاہ نے فوج میں بھرتی شروع کر دی.اُس وقت تنخواہ اگر چہ پانچ چھ روپیہ ہی تھی لیکن بیکار رہنے کی نسبت اس قدر قلیل تنخواہ بھی غنیمت تھی.چنانچہ اس کی بیوی نے کہا کہ تم فوج میں ملازم ہو جاؤ.میراثی نے کہا تم عجیب عورت ہو.بیویاں تو اپنے خاوندوں کی بڑی خیر خواہ ہوتی ہیں اور تم مجھے مروانے کے لیے بیٹھی ہو.اس پر اس کی بیوی نے کی کہا میں تمہیں بتاتی ہوں کہ ہر شخص جو فوج میں جاتا ہے وہ مر نہیں جاتا بلکہ بعض ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں جو بچ کر آ جاتے ہیں.چنانچہ اس نے چکی لی اور اس میں دانے ڈال کر آٹا پیسنا شروع کیا تو کچھ دانے صحیح و سالم نکل آئے.اس نے اپنے خاوند کو بلایا اور کہا دیکھو جن کو خدا تعالیٰ نے بچانا ہوتا ہے وہ اسی طرح چکی کے پاٹوں سے بھی صحیح و سالم نکل آتے ہیں.اس پر میراثی نے کہا مجھے تو پسے ہوئے دانوں میں ہی سمجھ لے.پس تم بھی یہ خیال نہ کرو

Page 108

$1956 95 خطبات محمود جلد نمبر 37 کہ جو تغیر مغربی ممالک میں ہو رہا ہے اس کے نتیجہ میں وہاں کی عورتیں تمہیں اسی طرح اسلام کی خدمت کرنے دیں گی جس طرح تم اب کر رہے ہو.بلکہ وہ تمہارے کاموں میں روک بنیں گی اور تمہیں مرکز میں کام کرنے کے بالکل نا قابل بنا دیں گی.پس میں طلباء سے کہتا ہوں کہ تم خود بھی ان امور پر غور کرو اور وکالت تبشیر کے افسروں سے بھی تبادلہ خیالات کرو اور انہیں کہو کہ وہ تمہیں ایسے وقت میں باہر بھیجا کریں جب تمہاری شادی پر زیادہ عرصہ نہ گزرا ہو.بلکہ یا تو تمہارا کوئی بچہ نہ ہو اور اگر ہو تو صرف ایک بچہ ہو اور واپسی پر بھی دو یا تین بچے ہوں تا کہ سلسلہ پر زیادہ بار نہ پڑے.دوسرے اس بات پر اصرار نہ کرو کہ تمہارے سفر کا انتظام ہوائی جہاز میں ہی کیا جائے.میں نے دیکھا ہے ہندو تاجر تجارت کے لیے باہر جاتے ہیں تو وہ عموماً ڈیک پر سفر کیا کرتے ہیں.1924ء میں جب میں نے انگلستان کا سفر کیا تو جماعت کے دوستوں نے مجھے مجبور کیا کہ خلیفہ ہونے کی وجہ سے میں سیکنڈ کلاس میں سفروں کروں.میرے علاوہ صرف حافظ روشن علی صاحب کے لیے بوجہ اُن کی صحت کی خرابی کے اپر کلاس میں انتظام کیا گیا تھا.باقی سارے ساتھیوں نے جن میں خان صاحب ذوالفقار علی خاں صاحب جیسے دوست بھی شامل تھے تھرڈ کلاس میں سفر کیا.اسی طرح جب میں نے حج کیا تو میں نے دیکھا کہ بعض نواب بھی ڈیک پر سفر کر رہے تھے.اب تو مبلغین کو کمرے مل جاتے ہیں لیکن پھر بھی انہیں یہ اصرار ہوتا ہے کہ انہیں ہوائی جہاز پر بھیجا جائے.اس نقص کو دور کرو اور سمندری جہازوں میں سفر کرنے کی عادت ڈالو.پھر شادیوں کا پروگرام ایسی طرز پر بناؤ کہ اگر تمہاری بیویوں کو ساتھ بھیجا جائے تو اخراجات کا زیادہ بوجھ نہ پڑے اور وہاں بھی بچے پیدا کرنے میں احتیاط سے کام لو تا تمہارے واپس بلانے پر زیادہ خرچ نہ ہو.اگر تم اس طرح کرو تو ہم مبلغین کو جلدی جلدی مرکز میں بلا سکیں گے اور جماعت پر بھی زیادہ بوجھ نہیں پڑے گا.یہ باتیں ہیں جن کو تم خود بھی سوچو اور پھر دلیری سے ان کے متعلق اپنے افسروں سے بھی مشورہ کرو مگر یاد رکھو! افسر بھی کئی قسم کے ہوتے ہیں.بعض افسر ایسے ہوتے ہیں جو جلد اُکتا جاتے ہیں.اس لیے اگر تمہارے افسر ترش روئی سے کام لیں تو بُرا نہ مناؤ بلکہ ہنس کر کھڑے ہو جاؤ اور کہو کہ اگر آپ کو اس وقت فرصت نہیں تو میں

Page 109

$1956 96 خطبات محمود جلد نمبر 37 پھر کسی وقت حاضر ہو جاؤں گا.گو بعض لوگ غلطی سے آتے ہی ایسے وقت میں ہیں : تھکا ہوا ہوتا ہے اور وہ اُن کی طرف توجہ نہیں کر سکتا.مثلاً اِسی لاہور کے سفر میں ایک دن کالج کے طلباء مجھ سے ملنے کے لیے آگئے.جن کے سامنے مجھے تقریر کرنی پڑی.پھر سی.ایس پی کے کئی نوجوانوں سے گفتگو کرتا رہا اور اس قدر تھک گیا کہ مجھے آرام کی ضرورت محسوس ہوئی مگر ابھی میں فارغ ہی ہوا تھا کہ ایک نوجوان آ گیا اور اُس نے کہا کہ مجھے آپ سے ضروری کام ہے.میں نے سمجھا کہ وہ سیڑھیوں میں ت کر لے گا.مگر وہ میرے کمرے کے اندر پہنچ چکا تھا.اُسے ہرڑ پوپو 4 بننے کا شوق ہے اور وہ اس سلسلہ میں بہت سے کاغذات اپنے ساتھ لایا تھا.میں کمرہ میں گیا تو اُس نے کہا میں آپ سے ایک بات کہنا چاہتا ہوں اور اس کے بعد اس نے ہاتھ کی لکیروں کے متعلق گفتگو شروع کر دی اور مجھے کہنے لگا آپ یہ لکیر دیکھیں وہ لکیر دیکھیں.میں نے کہا میری نظر کمزور ہے اور میں رات کو پڑھ نہیں سکتا مگر وہ پھر بھی یہی کہتا رہا کہ اچھا آپ یہ لکیر دیکھیں اور دیر تک ان کے متعلق باتیں کرتا رہا.میں اُٹھنے لگا تو کہنے لگا میں تو آپ سے اس علم کے بارہ میں اپنی مشکلات حل کرانے آیا تھا.میں نے کہا میں تو اس علم سے واقف ہی نہیں.پھر اگر صحت اچھی ہوتی تو میں مطالعہ کر کے کچھ معلومات حاصل کر سکتا لیکن اب تو بیماری کی وجہ سے مطالعہ بھی نہیں کر سکتا.اس پر وہ بڑا مایوس ہو کر کہنے لگا کہ پھر تو کچھ بھی نہ ہوا.میں نے کہا پھر میں کیا کرسکتا ہوں اور میں معذرت کر کے آ گیا.اسی طرح اگر تم بھی اپنے افسروں کے پاس جاؤ اور وہ کسی وقت توجہ سے کام نہ لیں تو گھبراؤ نہیں بلکہ کہو کہ معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت آپ کو فرصت نہیں میں پھر کسی وقت آجاؤں گا.بہر حال اس سے تمہیں معلوم ہو جائے گا کہ تمہارے افسروں کو اس بارہ میں کیا کیا مشکلات کی پیش آ رہی ہیں.ایک دفعہ وکیل التبشیر صاحب نے مجھ سے کہا کہ مبلغین کی بیویاں اُن کے ساتھ جانی چاہیں.اس سے اخراجات میں بہت کمی ہو جائے گی.لیکن دوسرے سال جب کارکنوں کو تنخواہیں نہ ملیں تو میں نے ان سے دریافت کیا کہ آپ تو کہتے تھے کہ مبلغین کی بیویاں ساتھ بھجوانے سے اخراجات کی کمی ہو گی لیکن اب یہ حالت ہو گئی ہے کہ کارکنوں کو

Page 110

$1956 97 خطبات محمود جلد نمبر 37 تنخواہیں بھی نہیں مل سکیں تو انہوں نے کہا اصل میں اندازہ میں غلطی ہو گئی تھی.پس انہیں بھی سوچنے کا موقع دو اور خود بھی غور کر کے ان سے اس بارہ میں تبادلہ خیالات کرو.میں نے جو سکیم بنائی ہے وہ یہ ہے کہ شادی کے معاً بعد مبلغ کو بھیج دیا جائے یا پھر اس کی شادی پر صرف اتنا عرصہ ہی گزرا ہو کہ اُس کا ایک بچہ ہو یا دو بچے ہوں لیکن دفتر والوں نے پرانے مبلغین کو اہل وعیال کے ساتھ بھیجنا شروع کر دیا.نتیجہ یہ ہوا کہ بجٹ ختم ہو گیا اور مجھے مہینوں لکھتے رہے کہ خطبہ پڑھیں کہ دوست تحریک جدید میں حصہ لیں تا کہ آمد ہو اور اس سے تنخواہیں ادا ہوسکیں.میں نے کہا مصیبت تو تمہاری اپنی پیدا کی ہوئی ہے اور خطبے میں پڑھوں.بہر حال میں نے خطبے پڑھے، دوستوں نے چندے دیئے اور یہ مصیبت ٹل گئی.پس اگر مبلغ کو ایسی عمر میں باہر بھیجا جائے کہ اُس کے دس گیارہ بچے ہوں تو نہ صرف ان کے اخراجات سفر ہی اتنے زیادہ ہوں گے جو ناقابلِ برداشت ہوں گے بلکہ اُس ملک میں قیام کے اخراجات بھی بہت زیادہ ہوں گے.لیکن اگر شادی کے معاً بعد مبلغین کو باہر بھیج دیا جائے مشکل پیش نہیں آئے گی.کرایہ بھی تھوڑا لگے گا اور وہاں قیام کے اخراجات بھی زیادہ نہیں ہوں گے.اور پھر خرچ کم ہو گا تو دفتر انہیں جلدی جلدی مرکز میں بلا سکے گا.پھر بعض مبلغ باہر بیٹھ کر یہ سمجھتے ہیں کہ وکلاء کو کیمیا آتا ہے اور وہ جب چاہتے ہیں سکتے تیار کر لیتے ہیں کیونکہ وہ جاتے ہی لکھنا شروع کر دیتے ہیں کہ اتنا روپیہ بھیج دو، اتنا خرچ بھیج دو حالانکہ پہلی بات تو یہی ہے کہ اگر پاکستانی چندہ دیتے ہیں تو ہالینڈ، انگلستان، جرمنی اور امریکہ والے کیوں چندہ نہیں دیتے؟ اب تو مبلغین کو کسی قدر چندہ لینے کی طرف توجہ پیدا ہو گئی ہے کیونکہ میں نے انہیں کہہ دیا ہے کہ ہم اُس وقت تک کوئی بیعت قبول نہیں کریں گے جب تک تم اُس کے ساتھ چندہ بھی نہ بھیجو.چنانچہ جیسا کہ میں نے بتایا ہے کہ چودھری عبداللطیف صاحب مبلغ جرمنی نے ایک ڈاکٹر کی بیعت بھیجی تو اُس کے ساتھ چار پے چندہ کی وصولی کی اطلاع بھی بھیجی.اور لکھا کہ ابھی ان کا کاروبار اچھا نہیں اس لیے آمد کم ہے ابھی انہوں نے صرف اتنا وعدہ کیا ہے کہ میں ہر ماہ چار روپے چندہ دوں گا لیکن جب امد زیادہ ہو جائے گی تو چندہ کی مقدار بھی بڑھا دوں گا.انگلستان میں بھی ایسے لوگ رو.

Page 111

$1956 98 خطبات محمود جلد نمبر 37 موجود ہیں.مجھے قیام انگلستان کے دوران میں بتایا گیا کہ فلاں شخص جس نے پچھلے سال بیعت کی ہے اڑھائی پونڈ یعنی ساڑھے سینتیس روپے ماہوار چندہ دیتا ہے.بہرحال اب میں نے قانون بنا دیا ہے کہ اُس وقت تک کوئی بیعت قبول نہ کی جائے جب تک کہ اُس کے متعلق یہ نہ بتایا جائے کہ وہ چندہ دینے لگ گیا ہے کیونکہ اگر اس نے اسلام کو سچا سمجھ کر قبول کیا ہے تو کیا وجہ ہے کہ وہ اس کے لیے مالی قربانی نہ کرے.آخر یہ کونسی معقولیت ہے کہ پاکستانی تو سلسلہ کا بوجھ اُٹھا ئیں اور دوسرے ممالک کے لوگ بوجھ نہ اُٹھائیں.یہاں غریب غریب آدمی اپنا اور اپنے بیوی بچوں کا پیٹ کاٹ کر چندہ دے رہے ہیں.پھر کیا وجہ ہے کہ دوسرے ممالک کے لوگ قربانی نہ کریں اور وہ سلسلہ کا ہاتھ نہ بٹائیں.اس وقت بیرونی جماعتوں میں سے ایسٹ افریقہ ویسٹ افریقہ اور انڈونیشیا اپنا بوجھ آپ اُٹھا رہے ہیں.امریکہ کو ابھی پورا بوجھ اُٹھانے کی توفیق نہیں ملی.لیکن اگر کوشش کی ئے تو کوئی وجہ نہیں کہ چند سالوں میں وہ اپنے سب اخراجات برداشت نہ کر سکے.میں سمجھتا ہوں کہ اس بارہ میں افریقیائی اور ایشیائی ممالک کے بعد امریکہ کا نمبر آتا ہے.ایشیا کے مشن قریباً سارے کے سارے اپنے اخراجات برداشت کر رہے ہیں.مثلاً دمشق کی کی جماعت ہے وہ چندہ کی بہت پابند ہے.وہاں کے امیر سید منیر الحصنی صاحب تو اس قدر تندہی اور اخلاص کے ساتھ چندہ کی وصولی کا کام کرتے ہیں کہ گویا ہم نے انہیں یہاں سے اکاؤنٹنٹ بنا کر بھیجا ہے.وہ اپنے خطوط میں بڑی باقاعدگی کے ساتھ اپنی آمد اور اخراجات کا حساب درج کرتے ہیں کہ اتنی رقم آئی تھی، اتنی فلاں جگہ خرچ ہوئی ، اتنی فلاں جگہ خرچ ہوئی ہی اور اس وقت ہمارے پاس اس قدر روپیہ ہے.اسی طرح عدن کی جماعت بھی چندہ کی ادائیگی میں باقاعدہ ہے.ویسٹ اور ایسٹ افریقہ کی جماعتیں بھی اپنا خرچ خود برداشت کر رہی ہیں.انڈونیشیا بھی اپنا بوجھ خود اٹھا رہا ہے.سیلون کی جماعت بھی اچھی ہے.برما بھی اب منظم ہو رہا ہے.بہر حال چندہ کے سلسلہ میں افریقہ اور ایشیا کے ممالک سے اُتر کر امریکہ کا نمبر آتا ہے.اگر اسی طرح آہستہ آہستہ سب ممالک نے اپنا بوجھ اُٹھا لیا تو امید ہے کہ کام میں آسانی پیدا ہو جائے گی.

Page 112

$1956 99 خطبات محمود جلد نمبر 37 پس ان کاموں کے لیے دعائیں کرو اور خود بھی سوچو کہ مبلغین کو کس وقت اور کس عمر میں باہر بھیجنا چاہیے تا کہ جماعت پر زیادہ بوجھ نہ پڑے اور اس کے لیے کیا کیا تدابیر اختیار کرنا سلسلہ کے لیے ضروری ہیں“.(الفضل یکم مارچ 1956ء) 1: لَا تَقْتُلُوا أَوْلَادَكُمْ خَشْيَةَ إِمْلَاقٍ (بنی اسرائیل: 32) 2 : يَا يُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّ مِنْ اَزْوَاجِكُمْ وَأَوْلَادِكُمْ عَدُوا لَّكُمْ 置 فَاحْذَرُوهُمْ وَإِنْ تَعْفُوا وَتَصْفَحُوا وَتَغْفِرُوا فَإِنَّ اللهَ غَفُورٌ رَّحِيمُ إِنَّمَا اَمْوَالُكُمْ وَاَوْلَادُكُمْ فِتْنَةٌ وَاللَّهُ عِنْدَةَ أَجْرٌ عظيم (التغابن : 15، 16) 3 : اوپیرا (OPERA) : ایسا ڈرامہ جس میں موسیقی کا عنصر غالب ہو.اوپیرا میں ہر مکالمہ گایا جاتا ہے.4 : ہرڑ پوپو: فال دیکھنے والا، رمال، نجومی نیز جعلی پیر، جعلی سادھو.(اردو لغت تاریخی اصول پر.جلد 21 صفحہ 806 کراچی 2007)

Page 113

$1956 100 00 8 خطبات محمود جلد نمبر 37 دین کے لیے زندگی وقف کرنے والے نوجوانوں سے خطاب اس امر کو اچھی طرح سمجھ لو کہ تمہارا مطمح نظر اللہ تعالیٰ کی رضا اور خوشنودی ہونا چاہیے (فرمودہ 24 فروری 1956ء بمقام ربوہ) تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: ”میں نے پیچھے خطبات جمعہ میں وقف کے متعلق بعض باتیں بیان کی تھیں.ان کے متعلق باہر سے بھی جماعت کے دوستوں کے خطوط آ رہے ہیں اور ربوہ سے بھی بعض خطوط آ رہے ہیں اور کچھ نوجوان ان سے متاثر ہو کر اپنی زندگیاں دین کی خدمت کے لیے وقف بھی کر رہے ہیں.چنانچہ باہر سے بھی بعض گریجوایٹوں کی درخواستیں وقف زندگی کے متعلق آئی ہیں اور یہاں سے بھی بعض ایسے نوجوانوں نے زندگیاں وقف کی ہیں جو بی.اے بی.ایس سی کلاسز میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں اور کچھ ایسے نوجوان بھی ہیں جو عربی پڑھ کر جامعۃ المبشرین میں آنا چاہتے ہیں.اسی سلسلہ میں ایک خط ایک واقف زندگی مبلغ کی طرف سے آیا ہے جس میں اُس نے لکھا ہے کہ میں نے اس بات پر غور کیا ہے کہ واقفین زندگی میں بددلی کیوں پیدا ہو رہی ہے.اور غور کرنے کے بعد میں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ اس کا موجب خود واقفین زندگی ہیں.

Page 114

$1956 101 خطبات محمود جلد نمبر 37 بعض واقفین زندگی ایسے ہیں جنہوں نے اپنے فرائض کو پوری طرح ادا نہیں کیا اور سلسلہ نے انہیں فارغ کر دیا.وہ اپنی عزت بچانے کے لیے لوگوں میں کہتے پھرتے ہیں کہ واقفین زندگی سے اچھا سلوک نہیں ہوتا اور وہ اس قدر پرو پیگنڈا کرتے ہیں کہ دوسرے نوجوان بھی اس.متاثر ہو جاتے ہیں اور وہ سمجھتے ہیں کہ یہ جو کچھ کہہ رہے ہیں سچ ہے.وہ یہ نہیں سمجھتے کہ یہ لوگ اپنی عزت بچانے اور اپنی نااہلیت پر پردہ ڈالنے کے لیے ایسا کہہ رہے ہیں.یہ اطلاع دینے والے مبلغ ایک ایسے شہر میں رہتے ہیں جہاں ملازمت کے خواہشمند اکثر جاتے رہتے ہیں.انہوں نے لکھا ہے کہ ایسے واقفین زندگی جو اپنی بعض غلطیوں کی وجہ سے وقف فارغ کر دیئے گئے ہیں اور وہ تلاش روزگار کے سلسلہ میں اس شہر میں آتے ہیں، وہ دھکے کھاتے پھرتے ہیں اور انہیں کوئی اچھی ملازمت نہیں ملتی.وہ لوگ اپنی اس ذلت کو چھپانے کی کے لیے کہ انہیں جھک مارنے کے بعد بھی کچھ نہیں ملا اس قسم کا پروپیگنڈا کرتے رہتے ہیں کہ مرکز میں اُن سے اچھا سلوک نہیں ہوا.لوگ انہیں دیکھتے ہیں تو کہتے ہیں یہ لوگ دین کی خدمت سے بھاگے تھے اس لیے انہیں یہاں بھی کچھ نہیں ملا.اس پر وہ اپنی غلطیوں پر پردہ ڈالنے کے لیے کہتے ہیں کہ دراصل مرکز میں واقفین زندگی سے اچھا سلوک نہیں ہوتا.چنانچہ اس مبلغ نے لکھا ہے کہ غور کرنے کے بعد میں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ لوگوں میں وقف سے بددلی کا اصل موجب انہی لوگوں کا پرو پیگنڈا ہے.میرا اپنا تجربہ بھی یہی ہے کہ بعض وقف سے بھاگنے والے نوجوان ایسا کرتے ہیں.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ بعض نوجوانوں کو ہدایت بھی مل جاتی ہے لیکن بعض ایسے بھی ہوتے ہیں جو ہدایت سے محروم رہتے ہیں.پھر اس میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ بعض ایسے نوجوان بھی ہیں جنہوں نے وقف توڑا اور باہر انہیں اچھی ملازمتیں مل گئیں.اور کئی ایسے نوجوان ہیں جو وقف سے بھی بھاگے لیکن باہر جا کر بھی انہیں کوئی ملازمت نہ ملی اور وہ جوتیاں چٹخاتے پھرتے ہیں.دونوں مثالیں موجود ہیں.بہر حال اگر کسی کو وقف سے بھاگنے کے بعد اچھا چانس (Chance) مل جاتا ہے تو اسے قانون نہیں سمجھنا چاہیے.لطیفہ مشہور ہے کہ کسی کی کوئی خادمہ تھی.پنجاب کے دیہات میں عموماً ایندھن

Page 115

$1956 102 خطبات محمود جلد نمبر 37 خریدا نہیں کرتے بلکہ لوگ باہر سے گوبر اُٹھا لاتے ہیں اور اُس کے اوپلے بنا کر جلا لیتے ہیں.کوئی آسودہ حال دیہاتی تھا.اس نے ایک دن اپنی ایک خادمہ کو گوبر اکٹھا کرنے کے لیے باہر بھیجا.اُس دن شدید سردی تھی اور رات اتنا پالا 1 پڑا تھا کہ بعض جانور بیہوش ہو کر گر گئے تھے.وہ نوکرانی گوبر اکٹھا کرنے کے لیے گئی تو اُسے سردی سے ٹھٹھرا ہوا ایک خرگوش نظر آیا.وہ اُسے اُٹھا کر گھر لے آئی.گھر کے سب افراد نے اُسے خوب شاباش دی اور کہا تم بڑی ہوشیار ہو.تو گوبر اکٹھا کرنے گئی تھی اور شکار مار لائی.شام تک گھر میں اس نوکرانی کی تعریف ہوتی رہی.وہ نوکرانی ہوشیار بھی تھی لیکن اس کے ساتھ ہی وہ بیوقوف بھی تھی.صبح ہوئی تو وہ مالک بی بی! ” میں گوہیاں نوں جاواں یا سئیاں نوں یعنی میں گوبر اُٹھانے جاؤں خرگوش پکڑنے جاؤں؟ اس پر سب گھر والے ہنس پڑے کہ اس کا یہ خیال ہے کہ اسے ہر روز خرگوش مل جایا کرے گا حالانکہ ہر روز خرگوش نہیں ملا کرتا.اسے کل مل گیا تھا تو یہ ایک اتفاقی بات تھی.اسی طرح بعض ایسے واقف زندگی بھی ہیں جن کے ساتھ اسی قسم کا اتفاق ہوا.وہ وقف توڑ کر گئے تو انہیں اچھی ملازمتیں مل گئیں لیکن ہر ایک کو اچھی ملازمت نہیں ملی.کئی ایسے بھی ہیں کہ وہ وقف سے بھاگے لیکن ابھی تک ملازمت کی تلاش میں جوتیاں چٹخاتے پھرتے ہیں.پس دونوں قسم کے لوگ موجود ہیں.جن کو اچھی ملازمتیں مل جاتی ہیں وہ اپنی کامیابی کو یہ طور پر بیان کرتے ہیں کہ دیکھا وقف توڑ کر آئے تھے تو ہمیں اچھی ملازمتیں مل گئیں.جن لوگوں کو اچھی ملازمتیں نہیں ملتیں اور وہ روزگار کی تلاش میں دھکے کھاتے پھرتے ہیں وہ اپنی شرمندگی کو چھپانے کے لیے یہ پروپیگنڈا کرتے رہتے ہیں کہ مرکز میں واقفین زندگی کی سے اچھا سلوک نہیں ہوتا.ان کی مثال ایسی ہی ہے جیسے کوئی خانساماں تھا وہ روزانہ لاف زنی تانی ا کرتا تھا کہ صاحب اُس کی بڑی عزت کرتا ہے اور اپنے اہم کاموں میں اُس کا مشورہ لیتا ہے.ایک دن صاحب غصہ میں تھا.اُس نے خانساماں کو اندر بلایا اور اُسے خوب مارا.گھونسوں اور طمانچوں کی آواز باہر بھی سنائی دی جس کی وجہ سے اُس کا سارا بھانڈا پھوٹ گیا.اُس نے خیال کیا کہ اب کیا ہو گا.میں تو روزانہ کہا کرتا تھا کہ صاحب میری بڑی عزت کیا

Page 116

$1956 103 خطبات محمود جلد نمبر 37 کرتا ہے اور اپنے ذاتی کاموں میں بھی مجھ سے مشورہ لیتا ہے.لیکن آج اس نے مجھے خوب مارا ہے اور مار پیٹ کی آواز دوسرے لوگوں نے بھی سن لی ہے، وہ لوگ میرے متعلق کیا خیال کریں اور گے.چنانچہ وہ باہر آیا اور اس نے اپنی شرمندگی چھپانے کے لیے اپنے ایک ہاتھ کو دوسرے ہاتھ پر زور سے مارا اور پھر ہا ہا ہا ہا کرنا شروع کر دیا جس کا مطلب یہ تھا کہ دوسرے لوگ یہ خیال کریں کہ صاحب میری تعریف کر رہا تھا اور میں ہاہا کر رہا تھا اور ہاتھ پر ہاتھ مار کر آوازیں نکال رہا تھا.اسی طرح وہ واقف زندگی اپنی عزت محفوظ رکھنے کے لیے جھوٹے بہانے بناتے ہیں.میں نے اس مبلغ کا خط پڑھا تو مجھے خیال آیا کہ ہمارے بعض نوجوان روایتی گید جتنی بھی سمجھ نہیں رکھتے.اگر انہوں نے روایتی گیدڑ کا قصہ سنا ہوتا تو وہ ان لوگوں کے پرو پیگنڈا سے کوئی اثر نہ لیتے.کہتے ہیں کوئی ہوشیار گیدڑ تھا.وہ ایک دن شکار کے لیے باہر گیا.وہ بڑی عمر کا تھا اور اپنے تجربہ کو ظاہر کرنے کے لیے اکثر مبالغہ آمیز باتیں کیا کرتا تھا.لیکن اُس دن ایسا ہوا کہ وہ پھنس گیا.ہم بچپن میں شکار کیا کرتے تھے تو ہم ایک قسم کی گرکی 2 بنایا کرتے تھے اور اُس سے فاختائیں وغیرہ پکڑا کرتے تھے.بعض بڑے سائز کی گردگیاں ہوتی ہیں جن کے ذریعہ لوگ گیدڑ اور اس قسم کے جانور پکڑتے ہیں.وہ گیدڑ شکار کی تلاش میں گیا تو اس کی دُم ایک کُرسی میں پھنس گئی جو شکار کی غرض سے کسی نے لگا رکھی تھی.اس کڑکی میں پھنس جانے کی وجہ سے اس کی دُم کٹ گئی.جب وہ اپنے ساتھیوں میں گیا تو چونکہ وہ اس سے پہلے اپنی ہوشیاری کی بڑی داستانیں سنایا کرتا تھا اور آج وہ خود دُم کٹوا آیا تھا تئی اس لیے اُس نے اپنی شرمندگی کو چھپانے کے لیے دوسرے گیدڑوں کے سامنے یہ تقریریں کرنی شروع کیں کہ ہماری ساری مصیبت دُم کی وجہ سے ہے.شکاری گتوں کو ہماری دم نظر آ جاتی ہے اور وہ ہمیں پکڑ لیتے ہیں.پھر شکاری کڑکیاں لگاتے ہیں تو اُن میں ہماری دُم پھنس جاتی ہے.اس مصیبت کا بہترین علاج میرے خیال میں یہی ہے کہ ہم سب کو اپنی دُم کٹوا دینی چاہیے.اس طرح ہم گلی طور پر مصیبت سے نجات حاصل کر لیں گے.دوسرے گیدڑوں میں ایک ہوشیار گیدڑ بھی تھا.اُس نے کہا تم ذرا ہماری طرف پیٹھ پھیر کر کھڑے ہو جاؤ تو ہم یہ فیصلہ کر سکیں گے کہ تم ہمیں نصیحت کرنے میں کس قدر حق بجانب ہو.اگر تمہاری دُم ہے تو

Page 117

$1956 104 خطبات محمود جلد نمبر 37 تمہاری نصیحت ٹھیک ہے لیکن اگر تمہاری دُم نہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ تم ہمیں بھی اپنے جیسا بنانا چاہتے ہو.دوسرے گیدڑوں نے کسی نہ کسی طرح اس گیدڑ کی پیٹھ اُس کی طرف پھیر دی تو انہوں نے دیکھا کہ اس کی اپنی دُم کٹی ہوئی ہے.یہی حال اُن واقفین کا ہے جو اپنی غلطیوں کی وجہ سے وقف سے فارغ کر دیئے جاتے ہیں یا وہ خود وقف توڑ کر بھاگ جاتے ہیں.وہ چاہتے ہیں کہ دوسرے نو جوان بھی اس طرف نہ آئیں اور اس طرح ان کی ذلت پر پردہ پڑا رہے.پس اس مبلغ نے جو کچھ لکھا ہے وہ بالکل درست ہے.میں خود بھی جانتا ہوں کہ ایسے واقفین باہر جا کر اس قسم کا پروپیگنڈا کرتے رہتے ہیں کہ ان سے مرکز میں اچھا سلوک نہیں ہوا.اس مبلغ نے لکھا ہے کہ میں ایسے شہر میں رہتا ہوں جس میں ملازمت کے متلاشی لوگ آتے رہتے ہیں اور مجھے اس بات کا علم ہے کہ جو لوگ وقف تو ڑ کر آتے ہیں انہیں اس گزارہ جتنی بھی تنخواہ نہیں ملتی جو جماعت انہیں دیتی تھی.چنانچہ وہ دھکے کھاتے پھرتے ہیں.پھر اگر کسی کو باہر آ کر کچھ زیادہ تنخواہ بھی مل جاتی ہے تو وہ ہے بھی دھوکا ہی ہوتا ہے.مثلاً کراچی میں کسی کو سو روپیہ مل جائے اور یہاں اسے اتنی روپیہ ملتے تھے تو یہاں کے اسی روپے کراچی کے سو روپیہ سے زیادہ ہوتے ہیں کیونکہ وہاں بعض اوقات ستر استی روپے تو مکان کا کرایہ ہی ہوتا ہے.پھر کھانا بھی نہایت مہنگا ہوتا ہے.غرض ظاہری طور پر کسی کو یہاں کے گزارہ سے زیادہ بھی مل جائے تو یہ محض دھوکا ہوتا ہے کیونکہ اس کے مقابلہ میں اخراجات بھی زیادہ ہوتے ہیں.پس اس مبلغ نے لکھا ہے کہ وقف توڑ کر بھاگ جانے والے نوجوانوں کے پروپیگنڈا کی وجہ سے دوسروں میں وقف کے متعلق بددلی پائی جاتی ہے.اور اگر یہ بات درست ہے تو میرے نزدیک اس پرو پیگنڈا کی وجہ سے بددل ہونے والے نوجوان اس روایتی گیدڑ سے بھی کم عقل رکھنے والے ہیں.اس روایتی گیدڑ نے تو دوسرے گیدڑ کی تقریر سن کر یہ کہہ دیا تھا کہ تم میری طرف اپنی پیٹھ پھیر و.اگر تمہاری دُم موجود ہوئی تو میں سمجھوں گا کہ تم اس نصیحت میں حق بجانب ہو لیکن اگر تمہاری دُم کٹی ہوئی ہے تو تم ہمیں بھی اپنے جیسا بنانا چاہتے ہو لیکن ہمارے نوجوان ان لوگوں کی باتوں کی وجہ سے دھوکا میں آ جاتے ہیں.پس اصل حقیقت یہی ہے کہ بعض لوگ غلطی کرتے ہیں تو بعد میں اُس.

Page 118

$1956 105 خطبات محمود جلد نمبر 37 پردہ ڈالنے کے لیے دوسروں کو اسی غلطی میں مبتلا کرنا چاہتے ہیں تا کہ سب ایک جیسے ہو جائیں.لطیفہ مشہور ہے کہ کوئی بیکار آدمی تھا.اس کی گزارے کی کوئی صورت نہیں تھی.اس کی نے کسی سے مشورہ لیا تو اس نے اُسے کہا کہ یہاں میلہ لگا کرتا ہے تم اس میلہ پر ایک خیمہ لگا دینا اور اس خیمہ کے اندر بیشک گوبر کا ڈھیر لگا دینا اور باہر ڈگڈگی بجا کر اعلان کرنا کہ بڑا عمدہ تماشا ہے اور روپیہ روپیہ ٹکٹ لگا دینا لیکن یہ نہ بتانا کہ اندر کیا ہے.جو ایک دفعہ اندر جائے گا وہ دوسروں کو بھی ضرور بلائے گا.چنانچہ اُس نے اس مشورہ پر عمل کیا اور ایک خیمہ لگا کر اُس کے اندر گوبر رکھ دیا.خیمہ کے باہر کھڑے ہو کر اُس نے ڈگڈگی بجا کر یہ اعلان کرنا شروع کر دیا کہ اندر بڑا اچھا تماشا ہو رہا ہے.لوگوں نے بھی خیال کیا کہ جب ایک روپیہ ٹکٹ ہے تو تماشا بھی اچھا ہو گا.چنانچہ بعض لوگ ٹکٹ لے کر خیمہ کے اندر گئے لیکن وہاں انہوں نے تماشا کی بجائے گوبر پڑا دیکھا تو بہت شرمندہ ہوئے.انہوں نے خیال کیا کہ دوسرے لوگ ہمارے متعلق کیا خیال کریں گے.چنانچہ اپنی اس شرمندگی کو چھپانے کے لیے انہوں نے بھی باہر نکل کر یہ کہنا شروع کر دیا کہ بڑا اچھا تماشا ہے.ان کی باتوں سے متاثر ہو کر دس بارہ آدمی اور اندر گئے.وہ بھی گوبر دیکھ کر سخت شرمندہ ہوئے اور اپنی اس شرمندگی کو چھپانے کے لیے انہوں نے بھی یہ کہنا شروع کیا کہ اس جیسا تماشا انہوں نے پہلے کبھی نہیں دیکھا.اس پر ایک ہجوم تماشا دیکھنے کے لیے دوڑ پڑا اور اس طرح اُس شخص کو کافی آمد ہو گئی.پس دنیا میں اس قسم کے لوگ بھی پائے جاتے ہیں جو اپنی ذلت چھپانے کے لیے طرح طرح کی باتیں بناتے ہیں اور دوسرے لوگوں کو بھی اپنی بیوقوفی میں شامل کرنا چاہتے ہیں.اس قسم کی باتیں بنانے کی وجہ سے اُس کی اپنی عزت تو رہ جاتی ہے لیکن دین کے کاموں میں رخنہ پیدا ہو جاتا ہے.حالانکہ اصل علاج یہ تھا کہ وہ تو بہ کرتے اور کہتے ہم سے غلطی ہو گئی ہے، ہم اپنی کمزوری کی وجہ سے وقف کو برداشت نہیں کر سکے.لیکن اگر کوئی اپنے پروپیگنڈا کی وجہ سے دوسروں کو بددل کرے گا تو خدا تعالیٰ کے سامنے وہ کیا کہے گا کہ میں تو وقف سے بھاگا تھا لیکن میں نے دوسروں کو بھی زندگیاں وقف نہیں کرنے دیں اور سپاہیوں سے تیرا دین خالی ہو گیا.پس واقفین میں سے ہر ایک کو سمجھنا چاہیے کہ اُس کا معاملہ خدا سے ہے.اگر و وہ

Page 119

$1956 106 خطبات محمود جلد نمبر 37 کوئی کوتاہی کرتا ہے تو اس کی وجہ سے وہ کسی دوسرے کو نقصان نہیں پہنچا تا بلکہ اپنے آپ کو نقصان پہنچاتا ہے.اور اس کی ایسی ہی مثال ہے جیسے کہتے ہیں کہ کوئی بیوقوف تھا.ایک دفعہ نمبر دار اُس کا برتن مانگ کر لے گیا مگر اس نے وہ برتن وعدہ کے مطابق واپس نہ کیا.ایک دن وہ اپنا برتن واپس لینے گیا تو اُس نے دیکھا کہ نمبردار اس میں ساگ ڈال کر کھا رہا ہے.وہ غصہ میں آکر کہنے لگا کہ نمبردار! تو میرا برتن مانگ کر لایا تھا اور اب تو اس میں ساگ ڈال کر کھا رہا ہے.مجھے بھی ایسا ویسا نہ سمجھنا.اگر میں تیرا برتن نہ لے جاؤں اور اس میں پاخانہ ڈال کر نہ کھاؤں.اس بیوقوف نے یہ نہ سمجھا کہ وہ پاخانہ کھائے گا تو نمبر دار کو کیا نقصان ہو گا.وہ اپنا نقصان آپ کرے گا.پس اگر وقف سے بھاگے ہوئے نوجوان اس قسم کی باتیں کرتے ہیں تو اس کا نقصان انہی کو پہنچتا ہے کیونکہ وہ اس قسم کی باتوں کی وجہ سے خدا تعالیٰ سے بگاڑ پیدا کر لیتے ہیں.ان کی کے لیے بہتر یہی تھا کہ وہ تو بہ کرتے.پھر چاہے وہ وقف میں واپس نہ آتے لیکن اس قسم کی تھی باتیں بنا کر کم از کم دوسروں کے لیے بدنمونہ پیش نہ کرتے.اگر وہ ایسا کرتے تو ممکن تھا کہ خدا تعالیٰ انہیں معاف کر دیتا اور اُن سے اچھا سلوک کرتا.خدا تعالی بڑا رحیم اور کریم ہے.انسان سے کئی قسم کی غلطیاں ہوتی رہتی ہیں کیونکہ وہ کمزور طاقتوں والا وجود ہے لیکن جب وہ خدا تعالیٰ کی طرف توجہ کرتا ہے تو اگر اُس کی اصلاح ممکن ہو تو خدا تعالیٰ اُس کی اصلاح کر دیتا ہے اور اگر اس کی اصلاح ممکن نہ ہو تب بھی وہ اپنی توبہ اور انابت سے خدا تعالیٰ کے عفو کو بہت کچھ کھینچ لیتا ہے.الفضل 8 مارچ 1956ء) 1 : پالا : سخت سردی، گہر (فیروز اللغات اردو جامع.فیروز سنز لاہور ) 2 : گرگی : وہ آلہ جس سے لڑکے چھوٹے چھوٹے چڑیاں یا چوہیا پکڑتے ہیں.( اردو لغت تاریخی اصول پر جلد 14 صفحہ 883 کراچی 1992ء)

Page 120

$1956 107 9 CO خطبات محمود جلد نمبر 37 تحریک جدید جس کا مقصد دنیا میں اسلام کی اشاعت کرنا ہے کوئی نئی تحریک نہیں ہے یہ تحریک گزشتہ بائیس سال سے جاری ہے اور اگر دو ہزار سال تک بھی جاری رہے گی تو اس کا نام تحریک جدید ہی رہے گا (فرمودہ 2 مارچ 1956ء بمقام ربوہ) تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: پچھلے جمعہ کا خطبہ تو میں نے مختصر ہی پڑھا تھا لیکن پھر بھی خطبہ کے بعد بہت زیادہ ضعف ہو گیا.دماغ پر بھی کافی اثر معلوم ہوتا تھا اور اضطراب میں بھی زیادتی ہو گئی تھی اور پھر یہ تکلیف چلتی چلی گئی.جمعہ سے ہفتہ آیا، ہفتہ سے اتوار آیا اور اتوار سے پیر آیا لیکن اس تکلیف میں کمی واقع نہ ہوئی.پیر کے روز ہم لاہور گئے.وہاں جا کر شام کے وقت کسی قدر افاقہ ہونا شروع ہوا.میں نے وہاں ڈاکٹروں سے مشورہ لیا تو انہوں نے کہا بیماری کے بعد جتنا کام کرنے کی اجازت ہم نے آپ کو دی تھی اُس میں کمی کر دیں اور اچھی غذا کا استعمال کریں تا کہ جسم میں طاقت پیدا ہو.اگر جسم میں طاقت پیدا ہو گئی تو امید ہے کہ آپ جس قدر کام

Page 121

$1956 108 خطبات محمود جلد نمبر 37 پہلے کیا کرتے تھے اتنا یا اُس کے قریب قریب یا اُس سے مشابہہ مقدار میں کام کر سکیں گے.پھر انہوں نے کہا دراصل ہم سے ہی غلطی سرزد ہوئی تھی کہ ہم نے آپ کو پوری مقدار میں کام کرنے کی اجازت دے دی اور یہ کہہ دیا اب آپ کی صحت اچھی ہے.لیکن تجربہ سے پتالگا ہے کہ آپ کے جسم میں اتنی طاقت نہیں کہ آپ جتنا کام پہلے کرتے تھے اتنا یا اس کے قریب کام کر سکیں.بہر حال اس وقت ہمارا یہی مشورہ ہے کہ آپ کام کی مقدار میں فوراً کمی کر دیں.لیکن ڈاکٹروں کو کیا علم ہے کہ میں کسی تکلیف میں مبتلا ہوں.اگر اخبار میں یہ خبر شائع ہو جاتی ہے کہ میری طبیعت خراب ہے تو دوست مصیبت میں مبتلا ہو جاتے ہیں اور گھبرا جاتے ہیں.اور اگر اخبار میں یہ خبر چھپ جائے کہ میری طبیعت اچھی ہے تو پچاس آدمی روزانہ ملاقات کے لیے آجاتے ہیں اور اُس وقت تک دم نہیں لیتے جب تک کہ وہ مجھے بیمار نہ کر دیں.گویا میری مثال ایسی ہی بن جاتی ہے جیسے پہلی جنگِ عظیم کے وقت برطانیہ کے وزیر اعظم مسٹر لائڈ جارجی نے کہا تھا کہ ہم جرمنی کو نارنگی کی طرح اس طرح نچوڑیں گے کہ اس میں کوئی قطرہ باقی نہ ای رہے.بہرحال اس دفعہ میں لاہور گیا تو ڈاکٹروں نے کہا دراصل غلطی ہم سے ہی ہوئی تھی کہ ہم نے آپ کو کام کرنے کی اجازت دیتے ہوئے آپ کی عمر کا اندازہ نہ لگایا.حالانکہ عمر کی ایک حد پر جا کر کام کی مقدار کو کم کرنا پڑتا ہے.اس لیے آپ کو بھی اپنی عمر کا لحاظ رکھتے ہوئے کام کی مقدار کو کم کرنا پڑے گا.اس عمر میں اگر آپ یا آپ کی جماعت یہ خیال کرے کہ آپ جیسا کام کر سکیں گے تو یہ درست نہیں.آپ کو اس عمر میں کام کی مقدار بہر حال کم کرنی چاہیے اور پھر غذا کا بھی خاص لحاظ رکھنا چاہیے تا کہ جسم میں طاقت پیدا ہو.ڈاکٹر مشورہ تو دے دیتے ہیں کہ میں خوب کھاؤں تا کہ جسم میں طاقت پیدا ہو لیکن مشکل یہ ہے کہ مجھے بھوک ہی نہیں لگتی اور جب میں یہ کہتا ہوں کہ مجھے بھوک نہیں لگتی تو ڈاکٹر ہیں کہ میں خوب چلوں پھروں تا کہ بھوک لگے.لیکن میں زیادہ چلوں پھروں تو میری ٹانگیں تھک جاتی ہیں.پس میری عجیب حالت ہے کہ اگر آرام کروں تو بھوک نہیں لگتی اور اگر چلوں پھروں تو ٹانگیں تھک جاتی ہیں.بہر حال ڈاکٹروں نے کہا ہے کہ مجھے طبیعت پر جبر کرنا اہیے اور طبیعت چاہے یا نہ چاہے مجھے خوب کھانا پینا چاہیے تا جسم میں طاقت پیدا ہو

Page 122

$1956 109 خطبات محمود جلد نمبر 37 اور موجودہ اعصابی کمزوری دور ہو.اس کے بعد میں اختصار کے ساتھ دوستوں کو ایک واقعہ کی طرف توجہ دلاتا ہوں جو مجھے لاہور میں پیش آیا.میں ایک دوست کو ملنے کے لیے اُس کے مکان پر گیا تو اتفاقاً وہاں حکومت مغربی پاکستان کے ایک ذمہ دار افسر بھی بیٹھے ہوئے تھے.وہ میرے پرانے واقف تھے.اس لیے جب میں وہاں گیا تو وہ کھڑے ہو گئے اور بڑی محبت سے ملے.اس کے بعد بیٹھے تو انہوں نے اپنی گفتگو کے دوران میں بتایا کہ میں چند دن ہوئے حکومت مغربی پاکستان کے ایک دوسرے ذمہ دار افسر کو ملنے کے لیے گیا تھا.انہوں نے باتوں باتوں میں اس بات کا ذکر کیا کہ میرزائی بھی آرام سے نہیں بیٹھتے.وہ روزانہ نئی نئی باتیں نکالتے رہتے ہیں جس کی و وجہ سے دوسرے مسلمانوں کو اشتعال آ جاتا ہے.چنانچہ انہوں نے کہا کہ اب میرزائیوں نے ایک نئی تحریک شروع کر دی ہے جس کی وجہ سے دوسرے مسلمان چڑتے ہیں.آپ بتائیں کہ یہ کیا بات ہے؟ میں نے انہیں بتایا کہ ہم نے کوئی نئی تحریک شروع نہیں کی.ہاں 1934ء میں ایک تحریک جاری کی گئی تھی جس پر بائیس سال گزر چکے ہیں اور چونکہ اس کا نام تحریک جدید ہے اس لیے مخالفوں کو موقع مل گیا ہے کہ وہ بالا افسروں سے کہیں کہ ہم نے اب ایک نئی تحریک شروع کر دی ہے.اس پر وہ ہنس پڑے اور کہنے لگے 1934 ء والی تحریک کا تو مجھے بھی علم ہے.میں بھی اُسی سال مذہبی جوش میں احرار کے جلسہ میں شمولیت کے لیے قادیان گیا تھا اور مجھے یاد ہے کہ آپ نے اُن دنوں ایک نئی تحریک جاری کی تھی.پھر میں نے انہیں بتایا کہ اول تو جیسا کہ آپ جانتے ہی ہیں یہ تحریک نئی نہیں بلکہ 1934 ء سے جاری ہے اور اس پر بائیس سال کا عرصہ گزر چکا ہے.دوسرے اگر یہ تحریک نئی بھی ہو تب بھی مسلمانوں کے لیے کی اس پر چڑنے کی کوئی وجہ نہیں ہو سکتی.کیونکہ اس تحریک کا مقصد یورپ اور امریکہ میں تبلیغ اسلام کرنا ہے.اور اگر یورپ اور امریکہ میں اسلام کی تبلیغ کی جائے تو اس میں پاکستانی مسلمانوں کو چڑانے کی کیا ضرورت ہے.اس پر انہوں نے بتایا کہ وہ کئی دفعہ حکومت کی طرف سے غیر ممالک کے دورہ پر گئے ہیں اور وہاں انہوں نے ہمارے مبلغوں کو دیکھا ہے اور ان کا تاثر یہ ہے کہ وہ بہت عمدہ کام کر رہے ہیں.بہر حال میں نے انہیں بتایا کہ ہم نے کوئی

Page 123

$1956 110 خطبات محمود جلد نمبر 37 نئی تحریک جاری نہیں کی بلکہ یہ تحریک 1934ء سے جاری ہے اور پھر آپ خود بھی بتا رہے ہیں کہ کہ جب یہ تحریک جاری کی گئی تھی تو آپ احراریوں کے جلسہ میں شمولیت کے لیے قادیان گئے تھے اور آپ کو علم ہے کہ اُس وقت یہ تحریک جاری کی گئی تھی.پھر اس تحریک کا مقصد امریکہ اور یورپ میں اسلام کی اشاعت ہے اور آپ نے اپنے سرکاری دوروں میں بھی دیکھا ہے کہ ہمارے مبلغ باہر کام کر رہے ہیں.اور اگر امریکہ اور یورپ کے لوگوں کو کلمہ پڑھایا جائے تو اس میں دوسرے مسلمانوں کو غصہ دلانے والی کونسی بات ہے.میں نے انہیں بتایا کہ دراصل بات یہ ہے کہ پہلے جماعت کے دوست صرف اپنے ملک میں اسلام کی اشاعت کے لیے چندہ دیتے تھے یا لنگر خانہ ، سکول اور جماعت کے دوسرے اداروں کے لیے چندہ دیتے تھے.1934ء میں جماعت سے ایک نیا چندہ طلب کیا گیا تا کہ اس کے ذریعہ دوسرے ممالک میں بھی اسلام کی اشاعت کی جائے.اور چونکہ یہ چندہ پہلے چندہ کے علاوہ تھا اور نیا تھا اس لیے اس کا نام تحریک جدید رکھ دیا گیا.اب آپ دیکھ لیجیے کہ صرف تحریک جدید نام کی وجہ سے یہ کہنا کہ ہم نے کوئی نئی تحریک جاری کی ہے اور یورپ اور امریکہ میں اسلام کی اشاعت کے کام کے متعلق یہ کہنا کہ ہم نے اسے دوسرے مسلمانوں کو چڑانے کے لیے شروع کیا ہے کتنا بڑا ظلم ہے.اگر وہ احمدی ہوتے تو دوسرے ذمہ دار افسر کو یہ جواب دے سکتے تھے لیکن جیسا کہ میں بتا چکا ہوں وہ احمدی نہیں ہیں بلکہ بعض امور میں انہیں ہم سے سخت اختلاف ہے.لیکن وہ ایک شریف انسان ہیں اور ہر بات کو صحیح نقطہ نگاہ سے دیکھنے کے عادی ہیں اور انہیں مجھ سے تعلق بھی ہے.ان کے سامنے جب دوسر سے ذمہ دار افسر نے یہ بیان کیا کہ احمدیوں نے ایک نئی تحریک جاری کر دی ہے تو انہیں بھی غلطی لگ گئی لیکن چونکہ انہیں خیال تھا کہ ممکن ہے ان افسر صاحب کو غلطی لگ گئی ہو انہوں نے ملاقات کے موقع پر اس بات کا مجھ سے بھی ذکر کر دیا اور میں نے انہیں بتا یا کہ یہ بات غلط ہے.بہرحال ہمارے مخالفوں نے تحریک جدید کے نام سے فائدہ اُٹھا کر بالا افسروں کو دھوکا دینے کی کوشش کی ہے اور ان میں سے بعض کو اس نام سے غلطی لگ گئی ہے اور پھر یہ غلطی

Page 124

$1956 111 خطبات محمود جلد نمبر 37 اس طرح پھیلتی چلی جاتی ہے کہ ہمارے ایک دوست نے تحریک جدید کے چندہ کی لسٹ بھیجی تو معلوم ہوا کہ اُن کا وہ لفافہ ضبط ہو گیا ہے اور سی.آئی.ڈی کے پاس پہنچا دیا گیا ہے.سی.آئی.ڈی کا ایک افسر اُن کے پاس آیا اور اُس نے دریافت کیا کہ یہ کیا تحریک ہے؟ اُس کا مقصد کیا ہے اور پھر یہ روپیہ کہاں سے آئے گا؟ وہ دوست کہتے ہیں کہ اس افسر کے سوالات سے مجھے محسوس ہوا کہ انہیں میری ارسال کردہ لسٹ سے شبہ ہوا ہے کہ کوئی نئی تحریک جاری کی تانی گئی ہے جو ممکن ہے حکومت اور ملک کے مفاد کے لیے مضر ہو.چنانچہ میں نے اسے جدید کے متعلق پوری معلومات مہیا کیں جن کی وجہ سے اسے تسلی ہو گئی اور وہ واپس چلا گیا.وہ لسٹ چونکہ دفتر میں پہنچ گئی ہے اس لیے معلوم ہوتا ہے کہ سی.آئی.ڈی نے اسے ضبط نہیں کیا بلکہ آگے روانہ کر دیا ہے.ہاں! شبہ کو دور کرنے کے لیے اُس کا ایک افسر لسٹ بھیجنے والے دوست کے پاس گیا اور اُس سے متعدد سوالات کیے.معلوم ہوتا ہے کہ سی.آئی.ڈی کو یہ شبہ پیدا ہوا کہ کوئی ذمہ دار افسر اپنے ماتحتوں سے جبری چندہ لے رہا ہے.ورنہ پولیس اس غلطی کا ارتکاب نہیں کر سکتی کہ کسی جماعت کے ممبر جماعتی کاموں کے لیے چندہ دیں اور وہ ان کی نگرانی کرنے لگ جائے.بہر حال جیسا کہ میں نے بتایا ہے تحریک جدید کے نام کی وجہ سے بالا افسروں کو دھوکا میں ڈالا جا رہا ہے حالانکہ یہ تحریک بائیس سال سے جاری ہے اور اگر دو ہزار سال تک بھی.تحریک جاری رہے تب بھی اس کا نام تحریک جدید ہی رہے گا.افسروں کو محض دھوکا دیا جا رہا ہے کہ ہم دوسرے مسلمانوں کو چڑانے کے لیے نئی نئی باتیں نکالتے ہیں.انہوں نے اس بات کا خیال نہیں کیا کہ یہ تحریک صرف نام کی وجہ سے نئی ہے ورنہ اور کوئی بات نہیں.اس کی ایسی ہی ہی مثال ہے جیسے ہمارے ملک میں ایک گاؤں کو آباد ہوئے بعض دفعہ سینکڑوں سال کا عرصہ گزر چکا ہوتا ہے لیکن اُس کا نام ”نواں پنڈ ہی ہوتا ہے.اب نواں پنڈ ہونے کی وجہ سے کوئی شخص یہ شکایت نہیں کرتا کہ حکومت کی زمین پر فلاں شخص نے ایک نیا گاؤں آباد کر لیا ہے.کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ سکھوں اور مغلوں کے عہدِ حکومت میں بھی اس کا نام ” نواں پنڈ ہی تھا.انگریز آئے تب بھی اُس کا نام ” نواں پنڈ ہی تھا پاکستان بنا تب بھی اس کا نام

Page 125

$1956 112 خطبات محمود جلد نمبر 37 نواں پنڈ ہی تھا.اور اگر پاکستان ہزار سال تک بھی چلا جائے تب بھی اس کا نام نواں پنڈ ہی رہے گا.قادیان کے پاس بھی ایک گاؤں ” نواں پنڈ تھا.وہ گاؤں ہمارے دادا نے بسایا تھا اور اس پر اسی نوے سال کا عرصہ گزر چکا تھا لیکن ابھی تک اس کا نام نواں پنڈ ہی ہے.پھر لاہور کے ضلع میں بھی ایک گاؤں نواں پنڈ ہے.اگر محض نواں" نام ہونے کی وجہ سے کوئی شخص یہ شکایت کرے کہ کسی نے سرکاری زمین پر نیا گاؤں آباد کر لیا ہے تو اس سے زیادہ احمق اور کون ہو گا.ہمارے ہاں ایک بچہ تھا جس کی والدہ فوت ہو چکی تھی.اُس نے غور کرنے کے بعد سمجھا کہ گھر کی آبادی کے لیے ضروری ہے کہ میرا والد دوسرا نکاح کرے.مگر اسے یہ بھی نظر آتا تھا کہ لوگ اُس کے والد کی عمر بڑی بتلاتے ہیں.اُس نے دوسروں سے کہیں ”نوجوان کا لفظ سنا ہوا تھا مگر غلطی سے وہ اصل لفظ صرف ”جوان سمجھتا تھا ”نو کو 9 کا ہندسہ قرار دیتا تھا.ایک دن کہنے لگا لوگ کہتے ہیں کہ میرے باپ کی عمر بڑی ہے حالانکہ وہ ابھی آٹھ جوان ہے.جس طرح اُسے ”نو“ کے لفظ سے غلطی لگ گئی اور اُس نے اسے 9 کا ہندسہ قرار دے دیا تھا اسی طرح "جدید" کے لفظ سے ہمارے مخالف بھی اس تحریک کو کوئی نئی تحریک سمجھنے لگ گئے ہیں.عربی میں بھی ایک لطیفہ مشہور ہے کہ ایک بادشاہ دورہ کرتے ہوئے ایک گاؤں کے پاس سے گزرا.اُس نے پوچھا کہ اس گاؤں کا کیا نام ہے؟ اسے بتایا گیا کہ اس کا نام قم ہے اور عربی زبان میں ”قم “ کے معنے ہوتے ہیں کھڑا ہو جا.اُسے یہ نام بہت پسند آیا.اُس نے فوراً ایک کاغذ پر یہ حکم لکھ کر شہر کے قاضی کو بھیج دیا کہ يَا قَاضِيَ القُم عَزَلْتُكَ فَقُمْ یعنی اے قسم کے قاضی ! تو کھڑا ہو جا اور یہاں سے نکل جا.میں نے تجھے معزول کر دیا ہے.جب اُس کی معزولی کی خبر لوگوں میں مشہور ہوئی تو اُس کے دوست اُس کے پاس آئے اور نہوں نے دریافت کیا کہ یہ حکم کس قصور کی بناء پر نافذ ہوا ہے؟ اُس نے کہا کہ میرا قصور تو کوئی نہیں.صرف اتنی بات ہے کہ بادشاہ کو یہ قافیہ پسند آ گیا ہے اور اُس نے یہ حکم لکھ کر مجھے بھیج دیا ہے.

Page 126

خطبات محمود جلد نمبر 37 113 $1956 تو بعض نام بھی اپنے اندر ایک عجوبہ رکھنے والے ہوتے ہیں.یہی حال تحریک جدید کا ہے.اگر اس پر دو ہزار سال بھی گزر جائیں تب بھی اس کا نام تحریک جدید ہی رہے گا حالانکہ یہ پرانی چیز ہو گی.پس اس نام سے دوسرے مسلمانوں کو چڑنے کی ضرورت نہیں اور پھر جیسا کہ میں بتا چکا ہوں اس کا مقصد یورپ اور امریکہ میں اسلام کی اشاعت کرنا ہے.اگر یورپ اور امریکہ کے لوگوں کو کلمہ پڑھایا جائے تو اس میں مسلمانوں کے لیے گھبراہٹ کی کوئی بات نہیں ہو سکتی.بہر حال جماعت کے دوستوں کا فرض ہے کہ وہ لوگوں کی غلط فہمیوں کو دور کریں اور ساتھ ہی دعاؤں سے بھی کام لیں کیونکہ ہمیں کیا پتا ہے کہ دوسروں کے دلوں میں کیا زہر بھرا ہوا ہے اور انہیں کیا کچھ دھوکا دیا گیا ہے.مثلاً اسی واقعہ کو ہی لے لو اور اس کا مجھے اتفاقای پتا لگ گیا اور پتا بھی ایک ایسے شخص سے لگا جو جماعت کا ممبر نہیں.ہاں! وہ منصف مزاج ہے بات کو صحیح نقطہ نگاہ سے دیکھتا ہے.اگر میں وہاں نہ جاتا اور وہ افسر مجھے نہ ملتے تو اس بات کا مجھے علم نہ ہوتا.پس جو زہر دوسروں کے دلوں میں بھرا ہوا ہے اُس کا علاج سوائے خدا تعالیٰ کے اور کوئی نہیں کر سکتا.اس لیے آپ لوگ دعائیں کریں کہ خدا تعالیٰ آپ کے راستہ سے ہر قسم کی روکوں کو دور کرے اور وہ آپ کو اس طرح کام کرنے کی توفیق دے کہ آپ کسی کا دل دُکھانے کا موجب نہ بنیں بلکہ لوگوں کی دلجوئی اور دنیا میں امن قائم کرنے کا موجب بنیں ور یہ بات خدا تعالیٰ کے اختیار میں ہے آپ کے اختیار میں نہیں کیونکہ وہی دلوں کے بھید جانتا ہے اور اگر وہ چاہے تو سب کچھ کر سکتا ہے“.( الفضل 15 مارچ1956ء)

Page 127

$1956 114 10 خطبات محمود جلد نمبر 37 دین کے لیے زندگی وقف کرنے کی تحریک کو جماعت میں کس طرح کامیاب بنایا جائے بعض دوستوں کی اہم تجاویز فرموده 9 مارچ 1956ء بمقام ربوہ ) تشهد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: ”وقف زندگی کے متعلق جو خطبات میں نے پڑھے ہیں اور اخبار میں شائع ہوئے ہیں اُن پر باہر کے لوگوں کو بھی غور کرنے کا موقع ملا ہے.چنانچہ متعدد دوستوں کی طرف سے مجھے خطوط آئے ہیں جن میں انہوں نے بعض تجاویز لکھی ہیں.ان تجاویز میں سے بعض تو معقول ہیں اور بعض ایسی ہیں جن کا ذکر میرے گزشتہ خطبات میں بھی آچکا ہے.اور بعض ایسی ہیں جو اظہارِ جوش اور فکر پر تو دلالت کرتی ہیں لیکن وہ قابلِ عمل نہیں ہیں.اور بعض ایسی ہیں جو درست ہی نہیں.بہر حال ان خطوط میں سے میں نے بعض امور نوٹ کیے ہیں تاکہ دوستوں کے سامنے اُن کے متعلق اپنے خیالات کا اظہار کر دوں.اب میں اختصاراً اپنے خیالات کے اظہار کرتا ہوں.

Page 128

خطبات محمود جلد نمبر 37 115 $1956 ایک دوست نے لکھا ہے کہ بچوں کو بچپن سے ہی اس امر کی طرف توجہ دلانی چاہیے کہ انہوں نے بڑے ہو کر دین کی خدمت کرنی ہے اور اس غرض کے لیے ماں باپ کا فرض ہے کہ وہ بچپن سے ہی بچوں کے دلوں میں یہ بات ڈالتے رہیں کہ بڑے ہو کر انہوں نے دین کا خادم بننا ہے.میرے نزدیک ان کی یہ بات بالکل درست ہے اور اس پر دوستوں کو عمل کرنا چاہیے.اس نوجوان نے اپنا تجربہ لکھا ہے کہ میں چھوٹا تھا تو میرے ماں باپ اکثر کہا کرتے تھے کہ ہم اس انتظار میں ہیں کہ تو پڑھ لکھ کر بڑا افسر بنے.میرے کان میں متواتر یہ بات پڑتی رہی.چنانچہ ایسا ہی ہوا.میں بڑا ہوا، اعلیٰ تعلیم حاصل کی اور میں ملازمت کے لیے کراچی پہنچ گیا.اب دین کی خدمت کا خیال آتا ہے تو ساتھ ہی افسوس ہوتا ہے کہ یہ خیال اُس وقت کیوں نہ آیا جب میں دین کی خدمت کے لیے مفید وجود ہو سکتا تھا.مگر یہ سب کچھ اس وجہ سے ہوا کہ میرے والدین نے بچپن سے ہی میرے کانوں میں یہ بات ڈالی تھی کہ میں نے بڑے ہو کر افسر بنا ہے.انہوں نے یہ بات میرے کانوں میں نہ ڈالی کہ میں نے بڑے ہو کر دین کی خدمت کرنی ہے.حقیقت یہ ہے کہ ماں باپ کی تعلیم بڑے بھاری نتائج پیدا کرتی ہے.مثل مشہور ہے کہ کوئی چور تھا.وہ چوری کے لیے کسی گھر میں گیا.اتفاقاً گھر والے جاگ رہے تھے.انہوں نے اُس چور کو گھیر لیا.چور کو ڈر پیدا ہوا کہ اگر میں پکڑا گیا تو مجھے جیل خانہ میں بھیج دیا جائے گا اور عدالت سے مجھے سزا ملے گی.اس لیے بہتر ہے کہ محفوظ نکل جانے کی کوئی صورت پیدا کروں.چنانچہ اُس نے گھر والوں سے لڑائی شروع کر دی جس میں ایک آدمی مارا گیا.آخر وہ پکڑ لیا گیا اور عدالت سے اُسے پھانسی کی سزا ملی.عام طور پر مشہور ہے معلوم نہیں ایسا ہوتا بھی ہے یا نہیں کہ جیل خانہ کا یہ قاعدہ ہے یا کسی زمانہ میں قاعدہ ہوا کرتا تھا کہ جب کسی کی پھانسی کا وقت قریب آئے تو جیل کے ملازم اُس سے دریافت کرتے ہیں کہ اگر کوئی خواہش ہو تو وہ بیان کر دے.اگر وہ خواہش قانون کے لحاظ سے جائز ہوتی تو وہ اسے پورا کر دیتے.اسی دستور کے ماتحت اُس چور سے بھی دریافت کیا گیا کہ اس کی کوئی خواہش ہو تو بیان کر دے.اُس نے کہا میں اپنی ماں سے ملنا چاہتا ہوں.جیل خانہ والوں نے اس کی

Page 129

خطبات محمود جلد نمبر 37 116 $1956 ماں کو بلایا اور اس کی ملاقات کا انتظام کر دیا.اس نے کہا میں نے اپنی ماں کو علیحدگی میں ملنا کی ہے.چنانچہ پردہ ڈال دیا گیا تا وہ اپنی ماں سے علیحدگی میں بات کر لے.جب اس کی ماں اُس سے علیحدگی میں ملنے کے لیے گئی تو اُس نے کہا میں تمہارے کان میں کچھ کہنا چاہتا ہوں.چنانچہ اس نے اپنا کان اس کی طرف کر دیا.اُس کا اس طرف کان جھکانا تھا کہ یکدم وہ چیخنے لگ گئی اور اس نے کہنا شروع کر دیا ہائے! میں مرگئی.ہائے! میں مرگئی.پولیس نے آواز سنی تو وہ دوڑ کر اندر آئی اور اس نے دیکھا کہ اس نے اپنی ماں کا کان دانتوں سے کاٹ لیا ہے اور اس کا تمام جسم اور کپڑے خون سے لت پت ہیں.یہ نظارہ دیکھ کر پولیس کے آدمیوں نے اسے ملامت کی اور کہا کہ تجھ سے بڑا ظالم اور کون ہو گا کہ تو نے موت کے وقت اپنی والدہ سے اتنی ظالمانہ حرکت کی.پھر اگر پھانسی سے بڑھ کر کوئی اور سزا ہوتی تو تم اس کے قابل تھے.اس پر اُس نے کہا تمہیں کیا پتا؟ پھانسی کی سزا دراصل مجھے میری والدہ نے ہی دلائی ہے.بچپن میں مجھے عادت تھی کہ میں سکول جاتا تو کسی لڑکے کی پنسل یا دوات پُر الا تا اور گھر آ کر والدہ کو دے دیتا.جب پنسل اور دوات کے مالک گھر آتے تو بجائے اس کے کہ وہ مجھے ڈانٹتی اُلٹا آنے والوں سے لڑنا شروع کر دیتی اور کہتی کہ میرا بچہ چور نہیں حالانکہ اسے علم ہوتا تھا کہ میں وہ چیزیں چرا کر لایا ہوں.اس پر میں دلیر ہو گیا اور بڑی بڑی چوریاں شروع کر دیں لیکن میری والدہ ان پر بھی پردہ ڈالتی رہی.پھر میں نے چوروں کی صحبت اختیار کی اور گھروں کو لوٹنا شروع کیا لیکن اُس وقت بھی میری والدہ کو خیال نہ آیا کہ وہ مجھے منع کر.ہر دفعہ میرے قصور کو چھپانے کی کوشش کرتی اور اگر کوئی شخص آکر پوچھتا تو اُس سے لڑتی اور کہتی کہ میرا لڑکا چور نہیں.نتیجہ یہ ہوا کہ ایک چوری کے دوران میں لڑائی ہو گئی اور مجھ سے ایک شخص قتل ہو گیا جس کی پاداش میں آج مجھے پھانسی پر لٹکایا جا رہا ہے.اگر میری والدہ شروع میں ہی مجھے چوری سے باز رکھتی اور میری چوریوں پر پردہ نہ ڈالتی تو مجھے بڑی چوریوں کے لیے دلیری نہ ہوتی اور مجھے یہ دن دیکھنا نصیب نہ ہوتا.پس حقیقت یہی ہے کہ ماں باپ کی تربیت بچوں پر بڑا گہرا اثر ڈالتی ہے.جن بچوں کے والدین بچپن سے ہی اُن کے کانوں میں یہ بات ڈالتے رہتے ہیں کہ انہوں نے وہ

Page 130

$1956 117 خطبات محمود جلد نمبر 37.بڑے ہو کر دین کی خدمت کرنی ہے وہ دینی ماحول سے الگ ہو کر بھی اس بات کو بھلاتے نہیں بلکہ اسے ہمیشہ یاد رکھتے ہیں.چند دن ہوئے شیخو پورہ کے ایک افسر نے جنہوں نے بی.سی.جی کا کورس مکمل کیا ہوا ہے مجھے خط لکھا کہ میں دین کے لیے اپنی زندگی وقف کرنا چاہتا ہوں.میں نے کہا بہت اچھا! ہم غور کریں گے کہ آپ کی خدمات سے سلسلہ کس رنگ میں فائدہ اُٹھا سکتا ہے.لیکن آپ یہ بتائیں کہ آپ کا کس خاندان سے تعلق ہے؟ انہوں نے کہا آپ نے صوفی عبدالخالق صاحب جالندھر والوں کا نام سنا ہو گا.میں نے کہا میں خوب جانتا ہوں.وہ جالندھر کے مشہور پیر تھے اور ان کی ایک بیٹی قادیان آیا کرتی تھی.انہوں نے کہا وہ میری والدہ ہی تھیں.میرے نانا تو احمدیت کے سخت مخالف تھے لیکن میری والدہ نے آخری عمر میں احمدیت قبول کر لی تھی اور فوت ہونے کے بعد وہ بہشتی مقبرہ قادیان میں دفن ہوئی ہیں.پھر انہوں نے لکھا مجھے زندگی وقف کرنے کی تحریک اس لیے ہوئی ہے کہ جب میں پیدا ہوا تھا اُس وقت سے میری والدہ نے میرے کانوں میں یہ بات ڈالنی شروع کی تھی کہ میں نے تمہاری زندگی خدمت دین کے لیے وقف کرنی ہے.میں چار پانچ سال کا ہی تھا کہ وہ فوت ہوگئیں لیکن اُن کی وہ بات میرے دل میں ایسی گڑی ہے کہ اب جبکہ میں بڑا ہو گیا ہوں میں نے اعلیٰ تعلیم حاصل کر لی ہے اور بی سی.جی کا ڈپلومہ بھی حاصل کر لیا ہے.میرے دل میں ہمیشہ یہ خلش رہتی ہے کہ میری والدہ نے تو یہ خواہش کی تھی کہ میں دین کی خدمت کے لیے اپنی زندگی وقف کروں لیکن میں دنیا کے کاموں میں مشغول ہوں.انہوں نے بیان کیا کہ میں نے اس بات کا ذکر اپنے والد سے بھی کیا تھا.انہوں نے بھی کہا تھا کہ جب تمہاری والدہ کی یہ خواہش تھی کہ تم دین کی خدمت کے لیے اپنی زندگی وقف کرو تو تم زندگی وقف کر دو.اب دیکھو! ماں فوت ہو گئی.اُس کا بیٹا دوسرے ماحول میں چلا گیا.اُس نے اعلیٰ تعلیم حاصل کی.بی سی.جی کا ڈپلومہ حاصل کیا اور اب اُسے ایک اچھی ملازمت ملی ہوئی ہے.لیکن پھر بھی اُس کے دل میں یہ جلن رہتی ہے کہ میری ماں کہتی تھی کہ میں نے تمہیں دین کی خدمت کے لیے وقف کرنا ہے لیکن میں دنیا کمانے میں لگا ہوا ہوں.

Page 131

خطبات محمود جلد نمبر 37 118 $1956 پس ماں باپ کی باتیں بڑا اثر پیدا کرتی ہیں اور اُن کی عدم توجہی کے نتیجہ میں بہت سی خرابیاں پیدا ہو جاتی ہیں.لیکن توجہ بھی اُسی وقت اثر کرتی ہے جب ماں باپ کو کسی عارضی جوش کے نتیجہ میں دین کی خدمت کا احساس نہ ہوا ہو بلکہ مستقل طور پر یہ فرض انہیں بے چین رکھتا ہو اور وہ ہمیشہ اپنی اولاد کو اس طرف توجہ دلاتے رہتے ہوں.ورنہ جو ماں باپ صرف وقتی جوش کے نتیجہ میں اس طرف توجہ کرتے ہیں وہ بعد میں نہ صرف اپنے عہد پر قائم نہیں رہتے بلکہ اُن کی اولاد میں بھی دین کی خدمت کا احساس نہیں رہتا.میں نے عموماً دیکھا ہے کہ جب کسی کا چھوٹا بچہ شدید بیمار ہو جاتا ہے تو وہ کہتا ہے کہ اے اللہ! تو اسے شفا دے دے.اگر تُو اپنے فضل سے اُسے شفا دے دے گا تو میں اسے دین کی خدمت کے لیے وقف کر دوں گا.مگر جب وہ بڑا ہو جاتا ہے تو انہیں یاد ہی نہیں رہتا کہ انہوں نے خدا تعالیٰ سے کیا عہد کیا تھا اور وہ اسے دنیا کے کاموں پر لگا دیتے ہیں.اسی طرح بعض والدین مجھے ملتے ہیں کہتے ہیں ہمارے سب بچے دین کے لیے وقف ہیں مگر جب وہ بچے جوان ہو جاتے ہیں تو انہیں دنیوی کاموں پر لگا دیتے ہیں.میں شمار کرنے لگوں تو باوجود اس کے کہ بیماری کی وجہ سے میرا حافظہ کمزور ہو گیا ہے اب بھی میں بیس پچپیس آدمیوں کا نام لے سکتا ہوں جنہوں نے اپنے بچوں کو دین کی خدمت کے لیے وقف کیا تھا لیکن اب وہ سب کے سب دنیا کمانے میں لگے ہوئے ہیں اور انہیں یاد ہی نہیں آتا کہ کسی وقت انہوں نے اپنے سب بچوں کو دین کی خدمت کے لیے وقف کیا تھا.پھر بعض ایسے بھی ہوتے ہیں جو کہتے ہیں حضور! ہمارے دو بچے ہیں اور وہ دونوں وقف ہیں.لیکن جب وہ بڑے ہو جاتے ہیں اور دین کی خدمت کرنے کے قابل ہو جاتے ہیں تو اُن کا خط آ جاتا ہے کہ ہم نے اپنے دو بچوں کو وقف کیا تھا لیکن ان میں سے جو کچھ ہوشیار ہے وہ تو ہماری بات ہی نہیں مانتا.اور جو ہوشیار نہیں وہ ہماری بات تو مانتا ہے لیکن چونکہ اس کی صحت کمزور ہے اس لیے اُس کی زندگی وقف کرنے کا بظاہر کوئی فائدہ نہیں.پھر سالہا سال گزر جاتے ہیں نہ اُن کا ہوشیار لڑکا دین کی خدمت کے لیے آگے آتا ہے اور نہ کمزور کو دین کی خدمت میں لگایا جاتا ہے.ان کا یہ طریق عمل ایسا ہی ہوتا ہے جیسے لطیفہ مشہور ہے کہ کوئی پٹھان تھا.وہ ایک

Page 132

خطبات محمود جلد نمبر 37 119 $1956 کھجور کے درخت پر چڑھ گیا.کھجور کا درخت ستر اسی فٹ اونچا ہوتا ہے اور پھر اس کی کوئی چی شاخ بھی نہیں ہوتی کہ اُس کا سہارا لے کر اُس پر چڑھا جا سکے یا اُس سے اُترا جا سکے.وہ کسی نہ کسی طرح اُس پر چڑھ تو گیا لیکن جب اُس نے نیچے دیکھا تو ڈر گیا اور اس نے سمجھا کہ اگر میں گر گیا تو میری ہڈی پسلی ٹوٹ جائے گی.اس پر کہنے لگا کہ اے خدا! اگر تو مجھے بحفاظت نیچے اُترنے کی توفیق دے دے تو میں ایک اونٹ کی قربانی کروں گا.اور یہ کہہ کر اس نے نیچے اترنا شروع کیا.جب وہ ایک تہائی کے قریب نیچے اتر آیا تو اتفاقاً وہاں کوئی چھوٹی سی شاخ تھی.اُس پر سہارا لے کر پھر اُس نے نیچے کی طرف دیکھا تو زمین اب قریب تھی اور اُسے پہلے کی طرح بھیانک دکھائی نہیں دیتی تھی.اُس کا ڈر کچھ کم ہوا تو کہنے لگا اتنے فاصلے کے لیے اونٹ کی قربانی تو بہت زیادہ ہے.اگر میں نیچے چلا گیا تو بطور شکرانہ ایک گائے نے ضرور قربان کروں گا.اور پھر اُترنا شروع کیا.جب وہ ایک تہائی فاصلہ اور نیچے آ گیا تو اُس نے زمین کی طرف دیکھا.اب زمین اُسے پہلے سے بھی زیادہ قریب دکھائی دی اور اُس نے خیال کیا کہ گائے کی قربانی تو بہت زیادہ ہے.اگر میں نیچے پہنچ جاؤں تو ایک بکری کی قربا ضرور کروں گا اور پھر اُتر نا شروع کیا.جب وہ زمین سے صرف تین چار گز کے فاصلہ پر آ گیا کہنے لگا اتنے فاصلہ کے لیے ایک بکری کی قربانی بھی بہت زیادہ ہے.اگر نیچے پہنچ گیا تو ایک مرغی کی قربانی ضرور کروں گا.جب وہ ایک دو گز اور نیچے آ گیا تو اُسے مرغی کی قربانی بھی بڑی معلوم ہوئی اور کہنے لگا مرغی نہ سہی ایک انڈا تو خدا تعالیٰ کی راہ میں دے ہی دوں گا.جب وہ زمین پر پہنچ گیا تو اُس نے اپنی شلوار میں سے ایک جُوں نکالی اور اُسے مار کر کہنے لگا جان کے بدلے جان.چلو! قربانی ہو گئی.یہی حال اُن لوگوں کا ہے جو اپنے بچوں کو چھوٹی عمر میں تو وقف کر دیتے ہیں لیکن اگر ان میں سے کوئی ہوشیار ہو تو کہہ دیتے ہیں یہ تو ہماری بات نہیں مانتا، دوسرے بچہ کو وقف کر دیں گے.لیکن پھر دوسرے کے متعلق خط آ جاتا ہے کہ اس کی صحت کمزور ہے اس کے وقف کا کوئی فائدہ نہیں.کئی لوگ ایسے ہیں جن کے چھ چھ بچے تھے اور انہوں نے کہا کہ یہ چھ کے بچے دین کی خدمت کے لیے وقف ہیں لیکن اب وہ چھ کے چھ دنیا کے کاموں میں ا "

Page 133

$1956 120 خطبات محمود جلد نمبر 37 لگے ہوئے ہیں.پس اس دوست کی یہ بات بالکل درست ہے کہ والدین کو چاہیے کہ وہ بچپن سے ہی اپنے بچوں کے دلوں میں یہ بات ڈالنا شروع کر دیں کہ بڑے ہو کر انہوں نے دین کی خدمت کرنی ہے.اس نے یہ بھی کہا ہے کہ اس کام میں عورتیں بہت مدد دے سکتی ہیں.اس وقت مسجد میں عورتیں بھی بیٹھی ہیں.میں انہیں بھی توجہ دلاتا ہوں کہ وہ اس بات کا خیال رکھیں اور بچپن سے ہی بچوں کے کانوں میں یہ ڈالنا شروع کر دیں کہ بڑے ہو کر انہوں نے دین کی خدمت کرنی ہے.اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ بڑے ہو کر انہیں دین کی خدمت کا احساس رہے گا.کچھ عرصہ ہوا کالج کی ایک سٹوڈنٹ ہمارے گھر آئی اور اس نے مجھے ایک رقعہ دیا جس میں لکھا تھا کہ میں دین کی خدمت کے لیے اپنی زندگی وقف کرنا چاہتی ہوں.میں نے کہا بی بی! لڑکیاں زندگی وقف نہیں کر سکتیں کیونکہ واقف زندگی کو تبلیغ کے لیے گھر سے باہر رہنا کی ہے بلکہ بعض دفعہ اُسے ملک سے بھی باہر جانا پڑتا ہے اور لڑکیاں اکیلی باہر نہیں جاسکتیں.ہاں! اگر تم زندگی وقف کرنا چاہتی ہو تو کسی واقف زندگی نوجوان سے شادی کر لو.وہ خاموش ہو کر چلی گئی.میری بیوی کی ایک ہم جماعت کو یہ بات معلوم ہوئی تو وہ کہنے لگی میں نے اس سے پہلے کی نیت کی ہوئی تھی کہ میں اپنی زندگی دین کے لیے وقف کروں گی لیکن اس نے پہل کر لی.پھر اللہ تعالیٰ نے ایسے سامان کیے کہ اس کی شادی ایک غیر ملکی واقف زندگی نوجوان سے ہو گئی.اب دیکھو! نیک نیتی کیسے اچھے پھل لاتی ہے.پھر ایک دن ایک اور لڑکی روتی ہوئی میرے پاس آئی اور اُس نے کہا کہ میں کسی واقف زندگی نوجوان سے شادی کرنا چاہتی ہوں لیکن میرے والد اس میں روک بنتے ہیں اور وہ میری شادی واقف زندگی سے نہیں کرنا چاہتے.میں حیران ہوا کہ اس کے اندر کس قسم کا اخلاص پایا جاتا ہے.میں نے مولوی ابوالعطاء صاحب کو کہا کہ وہ اس کے والد کو سمجھا ئیں.آخر چند دنوں کے بعد وہ پھر آئی اور اس نے کہا کہ میرا والد ایک واقف زندگی سے میری شادی کرنے پر آمادہ ہو گیا ہے.چنانچہ اُس کی شادی ہو گئی.شادی کے بعد وہ پھر ایک دن روتی ہوئی میرے پاس آئی اور کہنے لگی کہ میرا باپ کہتا ہے کہ اگر تو اپنے خاوند کے ساتھ ملک سے

Page 134

$1956 121 خطبات محمود جلد نمبر 37 باہر گئی تو میں تمہاری شکل تک نہیں دیکھوں گا.میں نے کہا میں بیمار ہوں.تمہارے رونے کی وجہ سے میرا دل گھبراتا ہے.اس لیے تم خود ہی کچھ کرو اور اپنے والد کو کسی نہ کسی طرح راضی کر لو.بعد میں میں نے پھر مولوی ابوالعطاء صاحب سے کہا اور انہوں نے کوشش کر کے سمجھوتا کرا دیا.دیکھو! وقف زندگی ایک جہاد ہے اور جہاد کا عورتوں کو براہِ راست حکم نہیں.واقف زندگی نوجوانوں کو غیر ممالک میں جانا پڑتا ہے اور لڑکیاں اکیلی باہر نہیں جاسکتیں.اس لیے اس قسم کی قربانی کا انہیں براہِ راست حکم نہیں.لیکن جب لڑکیوں میں دین کی خدمت کا جوش پیدا ہو جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ اُن کے لیے ایسے سامان پیدا کر دیتا ہے کہ ان کی خواہش پوری ہو جاتی ہے.پس ضروری ہے کہ ماں باپ بچپن سے ہی اپنی اولاد کے کانوں میں یہ بات ڈالنی شروع کر دیں کہ انہوں نے بڑے ہو کر دین کی خدمت کرنی ہے.اور پھر اگر اپنے بچوں کو وقف کرنے کا عہد کریں تو اُن لوگوں کی طرح نہ بنیں جو شروع شروع میں تو کہتے ہیں کہ ہم نے سب بچے دین کی خدمت کے لیے وقف کر دیئے ہیں لیکن جب عملی طور پر وقف کا سوال پیدا ہوتا ہے تو یوں معلوم ہوتا ہے کہ کبھی انہوں نے وقف کا نام ہی نہیں لیا تھا.پھر ایک دوست نے لکھا ہے کہ جماعت کے احباب کو توجہ دلائی جائے کہ و واقفین زندگی کی قدر کیا کریں اور یہ سمجھیں کہ دین کا خادم ہونا نہایت اعلیٰ اور قابلِ قدر مقام ہے اور اس کی جتنی بھی عزت کی جائے کم ہے.میرے نزدیک یہ ایک نہایت ضروری امر ہے وہ اور جماعت کے دوستوں کو اس طرف توجہ کرنی چاہیے.اس غرض کے لیے جماعت میں طریق جاری کیا گیا ہے کہ جو واقف زندگی تبلیغ کے لیے باہر جاتا ہے یا ایک وقت تک کام کرنے کے بعد واپس آتا ہے اُسے الوداع یا خوش آمدید کہنے کے لیے کثرت سے لوگ اسٹیشن پر جاتے ہیں اور اُس کا اعزاز کرتے ہیں.لیکن اس طرف بھی پوری توجہ نہیں.میرے نزدیک واقفین زندگی کے اعزاز کو بڑھانے کے لیے ضروری ہے کہ جب وہ باہر جائیں تو ہزاروں کی تعداد میں جماعت کے دوست انہیں الوداع کہنے جائیں اور جب وہ واپس آئیں تو ہزاروں کی تعداد میں لوگ انہیں خوش آمدید کہنے جائیں.ایک طرف مردوں کا ہجوم ہو اور دوسری طرف عورتیں گروہ در گروہ کھڑی ہوں تا کہ دوسروں کو بھی خیال آئے کہ کاش! ان کے بچے بھی

Page 135

$1956 122 خطبات محمود جلد نمبر 37 پہنچا تبلیغ کے لیے باہر جاتے اور وہ بھی اس قسم کی خوشی کا دن دیکھتے.اسی طرح دوسری جماعتوں کو بھی اس کام میں حصہ لینا چاہیے.مثلاً لاہور، شیخو پورہ، لائکپور یا کسی دوسرے اسٹیشن پر گاڑی پہنچے تو وہاں کی جماعتیں الوداع یا خوش آمدید کہنے کے لیے بڑی بھاری تعداد میں اسٹیشن پر بیا کریں بلکہ جماعت کے دوستوں کو چاہیے کہ وہ ایسے موقعوں پر اپنے غیر احمدی دوستوں کو بھی ساتھ لایا کریں کیونکہ اس طرح بھی انہیں تبلیغ ہو جاتی ہے.اس کے ساتھ ہی میں یہ بھی بیان کر دینا چاہتا ہوں کہ اگر جماعت واقفین کی قدر نہیں کرتی تو اس میں ایک حد تک نقص واقفین زندگی کا بھی ہے.انہیں یاد رکھنا چاہیے کہ سارے کام صرف مسائل دینیہ سیکھ لینے سے ہی نہیں ہوتے بلکہ انہیں اپنے اندر کچھ نہ کچھ انتظامی قابلیت بھی پیدا کرنی چاہیے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ لو.جب آپ کسی صحابی کو کسی کام کے لیے مقرر فرماتے تھے تو آپ اُس کی انتظامی قابلیت کو بھی دیکھتے تھے.پ کے پاس بڑے بڑے عالم صحابہ بھی ہوتے لیکن آپ اُس عہدہ پر اسی شخص کو مقرر فرماتے چاہے علمی قابلیت کے لحاظ سے دوسروں سے کم ہی ہو لیکن اس میں انتظامی قابلیت پائی جاتی ہو.ہمارے مبلغین کو بھی چاہیے کہ وہ اپنے اندر انتظامی قابلیت پیدا کریں تا انہیں ضرورت کے وقت اُن کاموں پر بھی لگایا جا سکے.سلسلہ کو صرف مبلغین کی ہی ضرورت نہیں ہ ایسے لوگوں کی بھی ضرورت ہے جو انتظامی کام سنبھال سکیں.مثلاً اس وقت نو کے قریب ناظر ہیں، نو کے قریب وکیل ہیں اور اٹھارہ کے قریب نائب ناظر اور نائب وکیل ہیں.چھتیں تو یہی بن گئے.اگر انتظامی قابلیت رکھنے والے لوگ ہمیں میسر نہ آئیں تو اس تعداد کو کس طرح پورا کیا جا سکتا ہے.لیکن اگر واقفین علمی قابلیت کے ساتھ ساتھ اپنے اندر انتظامی قابلیت بھی پیدا کریں، غیر ملکی زبانیں سیکھیں، ان میں مختلف مضامین پر لکھی ہوئی کتابوں کا مطالعہ کریں اور اچھی اور مفید باتوں کو اخذ کرنے کی کوشش کریں تو مرکز کے انتظامی عہدوں پر بھی انہیں لگایا ہے.عیسائیوں کو دیکھ لو اُن میں اکثر انتظامی عہدے پادریوں کے ہی سپرد ہوتے ہیں.اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اُن کی تعلیم کا معیار بھی وہی ہوتا ہے جو انتظامی محکموں میں

Page 136

خطبات محمود جلد نمبر 37 123 $1956 کام کرنے والے عہدیداروں کا ہوتا ہے.یورپ کی تاریخ پڑھو تو تمہیں معلوم ہو گا کہ پرانی حکومتوں میں وزیر اعظم ، وزیر جنگ اور وزیر خزانہ کے عہدوں پر پادری ہی مقرر کیے جاتے تھے.جب فرانس کی طاقت پورے جو بن پر تھی اُس کا وزیر خزانہ ایک پادری تھا.جب بھی مالی لحاظ سے بادشاہ کو کوئی دقت پیش آتی وزیر خزانہ اُسے دور کرتا تھا اور مشکلات کو دور کرنے کی وہ کوئی نہ کوئی صورت نکال لیتا تھا.اسی طرح اور بھی کئی بادشاہ گزرے ہیں جن کی حکومتوں کے نظم ونسق میں پادریوں کو خاص دخل حاصل تھا.جب انتظامی محکموں کے افسر فیل ہو جاتے تھے تو پادری حکومت کو قائم رکھنے میں مدد دیتے تھے.پس اگر واقفین اپنے اندر انتظامی قابلیت پیدا کر لیں تو اس کی وجہ سے جماعت میں ان کا اعزاز خود بخود بڑھ جائے گا.انگلستان کے عیسائی اگر چہ پروٹسٹنٹ ہیں کیتھولک نہیں لیکن پھر بھی وہاں پادریوں کے اثر کی یہ کیفیت ہے کہ ایڈورڈ ہشتم نے جب ایک مطلقہ عورت سے شادی کا ارادہ کیا تو گو وہ عورت پہلے بھی شاہی دعوتوں میں شریک ہوا کرتی تھی اور سب کو اس کا علم تھا لیکن پادریوں نے اس پر اعتراض کرنا شروع کر دیا اور کہا کہ یہ بات چرچ کے دستور کے خلاف ہے.ان پادریوں کا اتنا اثر تھا کہ باوجود اس کے کہ مسٹر چرچل بادشاہ کی تائید میں تھے ، تمام وزراء نے کی یہ نوٹس دے دیا کہ اگر بادشاہ نے اس عورت سے شادی کی تو ہم استعفیٰ دے دیں گے.نتیجہ یہ ہوا کہ بادشاہ اس بات پر مجبور ہو گیا کہ تخت کو چھوڑ دے.حالانکہ وہ اپنی رعایا کو انتہائی محبوب تھا.پس ہمارے مبلغین کو بھی چاہیے کہ وہ اپنے اندر انتظامی قابلیت پیدا کریں تا کہ انہیں ی عہدوں پر لگایا جا سکے.اگر ان میں قابلیت پیدا ہو جائے تو جب انہیں ناظر نائب ناظر کے عہدہ پر مقرر کیا جائے گا تو وہ بڑے بڑے وزراء کو بھی بے دھڑک مل سکیں گے.اسی طرح انہیں اخبارات کا بھی مطالعہ کرنا چاہیے لیکن دوسروں سے خریدے ہوئے اخبارات نہ ہوں بلکہ قربانی کر کے خود اخبارات خریدا کریں اور اُن کا مطالعہ کیا کریں.یہ نہیں کہ دفتر گئے اور وہاں اخبار پڑی دیکھی تو اُس کو پڑھنا شروع کر دیا.انہیں چاہیے کہ خواہ کتنا ہی گزارہ کیوں نہ کرنا پڑے اخبار خود خرید کر پڑھیں.میں اپنے بچپن کے زمانہ میں بھی

Page 137

124 $1956 خطبات محمود جلد نمبر 37 اخبار خود خریدا کرتا تھا.حالانکہ اُس وقت مجھے صرف تین روپیہ ماہوار جیب خرچ ملا کرتا تھا.مجھے انگریزی زبان سے دلچسپی بھی انہی اخبارات کے مطالعہ کی وجہ سے ہوئی.میں اپنا سارا یب خرچ اخبارات خریدنے میں لگا دیتا تھا کیونکہ مجھے اپنی معلومات کو وسیع کرنے کا شوق تھا.ان دنوں سکول میں اخبارات آتے تھے اور میرے لیے ممکن تھا کہ میں وہاں جا کر اُن کا مطالعہ کرسکوں.لیکن میری غیرت برداشت نہیں کر سکتی تھی کہ میں دوسری جگہ سے اخبارات لے کر پڑھوں.پس واقفین کو چاہیے کہ وہ خود اخبارات خریدیں اور اُن کا مطالعہ کریں تا کہ ان کی معلومات وسیع ہوں.انہیں یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ وہ اخراجات کہاں سے لائیں گے انہیں معمولی گزارہ ملتا ہے.بلکہ انہیں کسی نہ کسی طرح اخبارات کے لیے اخراجات مہیا کرنے چاہیں.مثلاً یہ ہو سکتا ہے کہ وہ کپڑے دھوبی سے نہ دھلوائیں بلکہ خود دھو لیں اور جو رقم بچے اُس سے کوئی اخبار خرید لیں.اسی طرح انہیں انتظامی کاموں کی اہلیت پیدا کرنی چاہیے تا کہ.انہیں ایسے عہدوں پر مقرر کیا جائے وہ اپنے کام کو خوش اسلوبی سے سرانجام دے سکیں.در دصاحب کو دیکھ لو جب وہ مرکز میں خدمت کے لیے آئے تو اُن کی عمر اٹھارہ انیس سال کی تھی مگر اُس وقت بھی وہ سلسلہ کے کاموں کے لیے بڑے بڑے سرکاری افسروں حتی کہ وزراء کو بھی بے دھڑک مل لیتے تھے.اور اب بعض لوگ ایسے ہیں جو پینتالیس پینتالیس سال کے ہیں اور در دصاحب سے تعلیم میں بھی زیادہ ہیں لیکن انہیں کسی افسر سے ملنے کے لیے بھیجا جائے تو اول تو وہ افسر کی ملاقات سے پہلے ہی کانپنے لگ جاتے ہیں اور پھر اوٹ پٹانگ باتیں کر کے آ جاتے ہیں.حالانکہ احراری علماء نے بھی اس قسم کی قابلیت اپنے اندر پیدا کر لی تھی کہ خواجہ ناظم الدین صاحب اُن سے ملا کرتے تھے.پس کوئی وجہ نہیں کہ ہمارے واقفین اپنے اندر قابلیت پیدا نہ کریں.اگر واقفین اپنے اندر یہ قابلیت پیدا کر لیں تو جماعت کے دوست خود بخود ان کا اعزاز کرنے لگ جائیں گے.پس اگر واقفین چاہتے ہیں کہ ان کا جماعت میں اعزاز ہو تو انہیں بھی اس کے لیے کچھ نہ کچھ کرنا چاہیے.انہیں موجودہ سیاست اور تنظیم سے واقفیت پیدا کرنی چاہیے.پچھلے سال جو مجھے بیماری کا حملہ ہوا وہ صرف اس وجہ سے ہوا کہ میں نے بجٹ کی

Page 138

$1956 125 خطبات محمود جلد نمبر 37 تیاری کے سلسلہ میں بہت زیادہ محنت کی تھی.اس دفعہ پھر تحریک جدید کے وکیل اعلیٰ میرے پاس آئے اور کہا کہ بجٹ کی تیاری کے سلسلہ میں جو مشکلات ہیں اُن کے دور کرنے میں رہے ہماری راہنمائی فرمائیں.حالانکہ وہ خود مالیات کے ماہر ہیں اور گورنمنٹ کے سیکرٹری ، ہیں.میں نے انہیں کہا کہ میں بیماری کی وجہ سے مجبور ہوں میں آپ کی کوئی مدد نہیں کر سکتا.آپ قریشی عبدالرشید صاحب کو ساتھ لے لیں اور بجٹ پر غور کر کے ان مشکلات کا حل تلاش کر لیں.چنانچہ وہ واپس چلے گئے اور قریشی عبدالرشید صاحب سے مل کر انہوں نے بجٹ پر غور کیا اور آخر تمام مشکلات حل ہو گئیں.اسی طرح صدر انجمن احمدیہ میں اختر صاحب آئے.انہیں سرکاری ملازمت کا تجربہ تھا.انہوں نے چند نوجوانوں سے مل کر عملہ میں کانٹ چھانٹ شروع کی اور اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ بہت سے اخراجات کم ہو گئے.پس اگر نوجوان اپنے اندر انتظامی قابلیت پیدا کریں تو کوئی وجہ نہیں کہ ان کا جماعت میں اعزاز نہ ہو اور انہیں مرکز میں اہم عہدوں پر نہ لگایا جائے.اس کے علاوہ خود واقفین کو بھی اپنے وقار اور عزت نفس کا خیال رکھنا در چاہیے.مجھے ایک دوست نے بتایا کہ میں کسی دوسرے ملک میں جا رہا تھا کہ مجھے ایک عالم نے کہا کہ مانگنا تو بُری بات ہے لیکن اگر آپ میرے لیے کوئی تحفہ لانا چاہیں تو فلاں چیز لے آئیں.حالانکہ ہمیں تو غیرت کا ایسا نمونہ دکھانا چاہیے کہ اگر کسی وقت ہمارے منہ سے غلطی سے ایسی بات نکل بھی جائے اور دوسرا ہمارے لیے کوئی چیز لے آئے تب بھی ہم وہ چیز قبول نہ کریں اور کہیں کہ مجھ سے غلطی ہو گئی تھی کہ میں نے آپ سے اس کا ذکر کر دیا.اب آپ یہ چیز کسی دوسرے کو دے دیں.میں یہ لینے کے لیے تیار نہیں.اور اگر پھر بھی وہ دینے پر اصرار کرے تو اُسے اس کی قیمت ادا کر دی جائے.میرے ساتھ حال ہی میں یہ واقعہ ہوا ہے کہ ہمارے ایک دوست بجلی کا پنکھا لینے کے لیے گئے.وہاں کوئی شخص ایک خاص قسم کے پنکھے کا آرڈر دے رہا تھا.ہمارے اس دوست کے دریافت کرنے پر اُس نے بتایا کہ میں یہ پنکھا اپنے پیر کے لیے بنوا رہا ہوں.انہوں نے کہا میرے پیر کے لیے بھی ایک پنکھا بنوا دیں.چنانچہ وہ ایک پنکھا بنوا کر

Page 139

$1956 126 خطبات محمود جلد نمبر 37 میرے پاس لے آئے.میں نے انہیں کہا اسے فوراً واپس کر دو کیونکہ تم نے خود مانگا ہے اور سوال کر کے میری بے عزتی کی ہے.میں اسے ہرگز قبول نہیں کر سکتا.پس اگر تم میں سے کسی کے پاس کوئی کپڑا نہیں، کوٹ نہیں اور کسی دوست سے بات کرتے ہوئے تمہارے منہ سے نکل جاتا ہے کہ میرے لیے فلاں چیز لیتے آنا اور وہ لے آئے تو تم اُسے کہو یہ کسی اور کو دے دو کیونکہ میرے منہ سے غلطی سے ایسی بات نکل گئی تھی.یہ سوال ہے اور سوال کرنا منع ہے.اگر کوئی ایسا کرتا ہے تو یقیناً اُس کی عزت بڑھے گی اور لوگ اُسے قدر کی نگاہ سے دیکھنا شروع کر دیں گے.اس دوست نے اس بات کی کہ واقفین کو جماعت میں بنظر استحسان نہیں دیکھا جاتا ایک مثال یہ دی ہے کہ انہیں کوئی لڑکی نہیں دیتا.مگر یہ بات بالکل غلط ہے.میری یہ عادت نہیں کہ میں کسی کا نام لے کر بات کروں لیکن جہاں اس کے بغیر چارہ نہ ہو وہاں مجبوری ہوتی ہے ہے.میرے نزدیک ہماری جماعت میں ایسی کئی مثالیں پائی جاتی ہیں کہ معززین جماعت نے واقفین کو اپنی لڑکیاں دیں.مثلاً ہمارے ایک مبلغ عبدالحی صاحب ہیں.وہ صرف میٹرک پاس ہیں.انہیں جماعت کے ایک ڈاکٹر نے جن کی پریکٹس ڈیڑھ دو ہزار روپیہ ماہوار کی ہے اپنی کی لڑکی کا رشتہ دے دیا.لیکن عبدالحی صاحب نے اُسے طلاق دے دی.پھر ہم نے وہاں ایک اور مبلغ بھیجا تو باوجود اس کے کہ ڈاکٹر صاحب کو اس لڑکی کی وجہ سے صدمہ پہنچ چکا تھا انہوں نے اس لڑکی کا نکاح پھر نئے مبلغ سے کر دیا.گویا انہوں نے اپنی لڑکی کی دو دفعہ شادی کی اور دونوں دفعہ واقفین زندگی سے کی حالانکہ اُن کے پہلے داماد نے اس بات کا خیال تک نہ کیا کہ اگر میں واقف زندگی ہوں اور مجھ میں کوئی خوبی ہے تو وہ خدا تعالی کی نظر میں ہے.یہ شخص دنیوی لحاظ سے نہایت معزز ہے اور ڈیڑھ دو ہزار روپیہ ماہوار پریکٹس کے ذریعہ کما لیتا ہے.اس نے اگر مجھے محض واقف زندگی ہونے کی وجہ سے لڑکی دے دی ہے تو مجھے اس کی قدر کرنی چاہیے.پھر ایک اور واقف زندگی ہے اُس کے لیے پانچ سات رشتے تلاش کیے گئے لیکن اُس نے ہر دفعہ انکار کر دیا اور کہا کہ میری بہن جہاں چاہے گی میرا رشتہ کرے گی اور اُس کی

Page 140

$1956 127 خطبات محمود جلد نمبر 37 انہیں بہن بھی وہی رشتے لاتی ہے جن کے متعلق ہمیں علم ہے کہ اُس نے پسند نہیں کرنے.پس واقفین زندگی کو بھی اپنی حیثیت دیکھنی چاہیے.بیشک ان میں دینی قابلیت پائی جاتی ہے لیکن اپنا معیار اتنا بلند بھی نہیں کر لینا چاہیے کہ کوئی کمشنر اپنی لڑکی انہیں دے تو وہ قبول کریں گے ورنہ نہیں.آخر وہ ایسا رنگ اپنے اندر کیوں پیدا نہیں کرتے جو خدا تعالیٰ کو بھی پسند ہو.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مثال ہمارے سامنے ہے.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ حضرت ابو بکر مالدار شخص تھے اور انہوں نے اپنی لڑکی آپ کی خدمت میں پیش کر دی تھی لیکن آپ کی دوسری بیویاں اکثر ایسی ہی تھیں کہ ان میں سے کوئی مطلقہ تھی اور کوئی بیوہ تھی.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُن کو برداشت کیا ہے یا نہیں؟ پھر واقفین کو کون سے سُرخاب کے پر لگے ہوئے ہیں کہ انہیں کسی بڑے رئیس کی لڑکی ملے تو وہ شادی کریں گے ، ورنہ نہیں.اگر تم اپنے آپ کو بڑا سمجھتے ہو تو لڑکی والے اپنے آپ کو کیوں بڑا نہ سمجھیں.پس واقفین کو چاہیے کہ وہ ان باتوں کو ترک کر دیں اور جو چیز بھی خدا تعالی کی طرف سے ملے اُس کی قدر کریں.بہر حال یہ بات بالکل غلط ہے کہ واقفین کو رشتے نہیں ملتے.میرے باڈی گارڈوں کی تنخواہ پینسٹھ روپے ماہوار ہے.لیکن پچھلے چند دنوں میں ان میں سے پانچ کی شادیاں ہوئی ہیں.واقفین کو ان سے زیادہ تنخواہ ملتی ہے.مثلاً مبلغین کی تنخواہ پچھتر روپے سے ڈیڑھ سو روپیہ ماہوار ہے.اگر پینسٹھ روپے ماہوار لینے والے کو رشتہ مل جاتا ہے تو انہیں کیوں نہیں مل سکتا ؟ وجہ صرف یہی ہے کہ باڈی گارڈ تو یہ سمجھتے ہیں کہ اگر انہیں کسی شریف گھرانے کی لڑکی مل جائے تو کافی ہے لیکن واقف زندگی کہتا ہے کہ مجھے کوئی جرنیل یا گورنر جنرل لڑکی دے تب میں شادی کروں گا ورنہ نہیں.اور جب وہ اپنی قیمت حد سے زیادہ لگاتا ہے تو خدا تعالیٰ بھی اسے نا کام کرتا ہے.پس جب باڈی گارڈوں کو بھی رشتے مل جاتے ہیں تو کوئی وجہ نہیں کہ واقفین کو شتے نہ ملیں.کیونکہ ایک واقف کی حیثیت باڈی گارڈ سے بہت زیادہ ہے.وہ عربی کا گریجوایٹ ہوتا ہے اور اُس کا اعزاز باڈی گارڈ سے سو گنے زیادہ ہوتا ہے.پھر اس کی آمد بھی زیادہ ہوتی ہے.باڈی گارڈ کی تنخواہ میں ترقی بھی ہو گی تو وہ پچھتر روپے سے زیادہ نہیں

Page 141

$1956 128 خطبات محمود جلد نمبر 37 بڑھے گی لیکن واقفین کی تنخواہیں ڈیڑھ سو روپیہ ماہوار تک جا سکتی ہیں.پھر اگر ان میں سے کسی کا بیرونی مبلغ کے طور پر انتخاب ہو گیا یا مرکز میں ناظر یا نائب ناظر کے عہدہ پر تقرر ہو گیا ہے تو ان کی تنخواہ تین تین، چار چار سو روپیہ تک بھی جاسکتی ہے.پس حقیقت یہی ہے کہ واقفین کو رشتے ملتے ہیں لیکن بعض اوقات وہ اپنی نادانی کی وجہ سے خود انہیں رڈ کر دیتے ہیں.پھر ایک دوست نے لکھا ہے کہ جماعت کے امراء کو تحریک کی جائے کہ وہ اپنے ایک ایک لڑکے کی زندگی دین کی خدمت کے لیے وقف کریں.اس سے بھی جماعت میں واقفین کا اعزاز بڑھے گا اور نوجوانوں کو وقف کی تحریک ہو گی.اس بات کا جواب میں پہلے بھی دے چکا ہوں کہ یہ بالکل غلط ہے.جماعت میں مجھ سے زیادہ ادب اور کس شخص کا ہے؟ میں نے اپنے سب بیٹوں کی زندگیاں وقف کر دی ہیں.اگر اس سے واقفین کا اعزاز نہیں بڑھا اور جماعت کو وقف کی طرف توجہ نہیں ہوئی تو اور کونسا احمدی ہے جو اپنا لڑ کا دین کی خدمت کے لیے وقف کر دے تو جماعت میں واقفین کا اعزاز بڑھ جائے گا اور لوگوں کو وقف کی طرف توجہ پیدا ہو جائے گی.پھر ایک شخص نے اس بات کی تحریک کی ہے کہ عیسائیوں کی طرح تبلیغ کی خاطر ایسے نو جوانوں کو لیا جائے جو مجر دانہ زندگی بسر کرنے کے لیے تیار ہوں.مگر یہ جائز نہیں.اس لیے ہم اسے اختیار نہیں کر سکتے.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ شادی کے بعد عورتیں بعض اوقات ایسے مطالبات کر دیتی ہیں جو مبلغ پورا نہیں کر سکتے اور اس کے نتیجہ میں ازدواجی زندگی تلخ ہو جاتی ہے لیکن ہم اس تجویز پر عمل نہیں کر سکتے.اسلام نے تجرد کی زندگی بسر کرنے سے منع کیا ہے 1 اور جس کام کو اسلام نے جائز قرار نہیں دیا اُسے ہم اسلام کی خدمت کے لیے کس طرح جاری کر سکتے ہیں.پھر ایک دوست نے لکھا ہے کہ واقفین کو کوئی نہ کوئی فن سکھانا چاہیے.یہ بات نہایت معقول ہے.میں نے بعض واقفین کو زمیندارہ کام سکھانے کی ہدایت دی ہے اور مجھے معلوم ہوا ہے کہ وہ اچھا کام کر رہے ہیں.اگر انہوں نے اپنے اندر قابلیت پیدا کر لی تو نہ صرف جماعت میں ان کا وقار بڑھے گا بلکہ یہ فن بھی ترقی کرے گا.جب انہیں جماعتوں میں

Page 142

$1956 129 خطبات محمود جلد نمبر 37 بھیجا جائے گا تو وہ تبلیغ کے ساتھ جماعت کے زمینداروں کی اقتصادی حالت کو بھی بہتر بنا سکیں گے.اسی طرح ڈرائیونگ کا پیشہ بہت مفید ہے.کالج والوں کو چاہیے کہ وہ ہر واقف کو ڈرائیونگ کا کام سکھا دیں.جن لوگوں کو شوق ہوتا ہے وہ بڑی آسانی سے یہ فن سیکھ لیتے ہیں.پھر ڈرائیونگ کا کام سکھانے کے بعد انہیں موٹر مکینک کا کام سکھانا چاہیے.غیر ملکوں میں ڈرائیونگ کا کام جاننے والے کی بہت قدر ہوتی ہے.وہاں ڈرائیور ملنا مشکل ہوتا ہے.اس لیے اگر کوئی خود ڈرائیونگ جانتا ہو تو اُسے کوئی مشکل پیش نہیں آتی.یورپ کے سفر کے دوران میں میں نے ایک موٹر ڈرائیور سے دریافت کیا کہ یہاں گھروں میں کام کرنے والے ڈرائیوروں کی کیا تنخواہ ہے؟ تو اس نے بتایا کہ یہاں ان کی تنخواہیں نو سو روپیہ ماہوار تک ہیں.پھر میں نے دریافت کیا کہ ٹیکسی ڈرائیوروں کی کیا تنخواہ ہے؟ تو اس نے بتایا ٹیکسی ڈرائیوروں کی تنخواہ پانچ سو روپیہ ماہوار تک ہے.میں نے کہا گھر کے ڈرائیور کو تو دن میں کسی وقت ڈرائیونگ کرنی پڑتی ہے اور تمہیں سارا دن ڈرائیونگ کرنی پڑتی ہے.پھر تمہاری اور گھر کے ڈرائیوروں کی تنخواہوں میں اس قدر فرق کیوں ہے؟ تو اُس نے بتایا کہ ہمیں وقتاً فوقتاً انعام بھی ملتے رہتے ہیں اور انعاموں کو ملا کر ہماری تنخواہ ہزار روپے ماہوار سے بھی زیادہ ہو جاتی ہے.لیکن گھر کے ڈرائیور کو کوئی انعام نہیں ملتا.اس لیے اس کی تنخواہ ٹیکسی ڈرائیور سے زیادہ ہوتی ہے.پس ڈرائیونگ اور مستری کا کام بہت مفید پیشہ ہے اور کالج والوں کو چاہیے کہ وہ اپنے طلباء کو ان پیشوں کی تعلیم دیں.ہمارے علماء نے پچھلے بزرگوں کی کتابیں پڑھی ہیں.اُن میں عموماً یہ لکھا ہوتا ہے کہ فلاں بزرگ جو بہت بڑے عالم تھے اور دنیا کے کناروں سے لوگ اُن کے پاس آتے تھے موزوں کی مرمت کیا کرتے تھے یا جوتیاں گانٹھ کر روزی کمایا کرتے تھے.فلاں بزرگ ٹوکریاں بنایا کرتے تھے.غرض ہر شخص کوئی نہ کوئی پیشہ جانتا تھا.اس چیز اہل عرب پر اتنا اثر ہوا کہ آج تک وہ اپنے پیشے گناتے ہیں.ان میں چاہے کوئی وزیر اعظم ہو تب بھی وہ اپنے نام کے ساتھ اپنا پیشہ لگائے گا اور اُسے وہ بالکل بُرا نہیں سمجھے گا.پس طلباء کو مختلف پیشے سکھانے چاہیں.اسی طرح اگر علماء مختلف پیشے سیکھ لیں تو جماعت میں بھی ان پیشوں کی قدر ہو جائے گی.

Page 143

خطبات محمود جلد نمبر 37 130 $1956 ހނ پھر ایک دوست نے لکھا ہے کہ عورتوں کو ڈاکٹری پڑھا کر اُن کی واقفین زندگی شادی کر دینی چاہیے.مگر یہ عجیب بات ہے کہ ایک طرف تو یہ کہا جاتا ہے کہ واقفین زندگی کو جماعت میں بنظر استحسان نہیں دیکھا جاتا اور دوسری طرف یہ کہا جاتا ہے کہ عورتوں کو ڈاکٹری ھا کر اُن کی واقفین زندگی سے شادی کر دینی چاہیے.اگر جماعت کے لوگ اپنی ان پڑھ یا عام تعلیم یافتہ لڑکیاں بعض دوستوں کے خیال کے مطابق واقفین زندگی کو دینے پر تیار نہیں تو وہ ڈاکٹری پاس لڑکیاں اُن کے نکاح میں کیسے دے دیں گے؟ لیکن میں پھر کہوں گا کہ تالی و دونوں ہاتھوں سے بجتی ہے.جہاں جماعت کا فرض ہے کہ وہ واقفین زندگی کا اعزاز کرے وہاں واقفین کا بھی فرض ہے کہ وہ اپنے حالات کو دیکھیں اور جو کچھ اللہ تعالیٰ انہیں دے اُس پر قناعت کریں.یہ نہ سمجھیں کہ کسی جرنیل یا وزیر کی بیٹی ہی انہیں ملے گی تو شادی کریں گے ورنہ نہیں.پھر ایک دوست نے لکھا ہے کہ جماعت کے نوجوان مولوی کہلانے سے ڈرتے ہیں.اس لیے وہ اس طرف نہیں آتے.اس کا جواب یہ ہے کہ جہاں تک ظاہر کا تعلق ہے ہم نے اس کا علاج کر دیا ہے.چنانچہ ہم نے ان کی ڈگری کا نام شاہد رکھ دیا ہے.وہ مولوی.کہلائیں شاہد کہلا لیں.لیکن اس میں کوئی شبہ نہیں کہ لوگوں کو مولوی کہنے کی عادت پڑی ہوئی ہے اور اب اس عادت کو دور کرنا بہت مشکل ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو بھی کر مولوی کہا جاتا تو آپ پڑ جایا کرتے تھے.مولوی محمد حسین بٹالوی آپ کو چڑانے کے لیے ہمیشہ مولوی غلام احمد کہا کرتا تھا جس پر آپ کو غصہ آ جاتا تھا اور آپ فرمایا کرتے تھے کہ میں ہے نے کئی بار اسے کہا ہے کہ مجھے مولوی نہ لکھا کرو لیکن یہ مجھے چڑانے کے لیے ہمیشہ یہی لکھتا.کہ مولوی غلام احمد کی یہ بات ہے.مگر مولوی کہنے کے بغیر کوئی چارہ بھی نہیں کیونکہ دینی علوم کی طرف توجہ دلانے کے لیے مولوی کے سوا ہمارے پاس اور کوئی لفظ نہیں.بہر حال ہم نے علماء کی ڈگری کا نام شاہد رکھا ہوا ہے.اس سے بھی کسی حد تک مولویت پر پردہ پڑ جاتا ہے.پھر ایک دوست نے لکھا ہے کہ ایسے واقفین زندگی کو منتخب کیا جائے جو ساری عمر کے لیے باہر رہیں اور نہ صرف ساری عمر کے لیے باہر رہیں بلکہ اپنی جائیداد بھی جماعت کو

Page 144

$1956 131 خطبات محمود جلد نمبر 37 دے دیں.یہ بات بھی قابل عمل نہیں کیونکہ جو شخص اپنی زندگی وقف کرنے کے لیے تیار نہیں اُس سے یہ مطالبہ کرنا کہ وہ اپنی جائیداد بھی وقف کر دے کہاں تک درست ہوسکتا ہے.پھر ایک دوست نے لکھا ہے کہ کچھ عرصہ کے وقف کا دستور رائج کیا جائے مگر بات بھی قابلِ عمل نہیں کیونکہ ایک واقف زندگی کے تیار کرنے پر بڑی بھاری رقم خرچ ہو.ہے.اگر تعلیم سے فارغ ہونے کے بعد کسی واقف زندگی کو صرف تین چار سال کے لیے رکھا جائے اور پھر اُسے فارغ کر دیا جائے تو اس سے جماعت کو مالی نقصان پہنچے گا.اور نہ صرف ނ جماعت کو مالی نقصان پہنچے گا بلکہ اُس واقف زندگی کو بھی نقصان پہنچے گا کیونکہ جب وہ تبلیغ.واپس آئے گا تو اُس کی ملازمت والی عمر نہیں رہے گی.گویا کچھ عرصہ کے وقف کا طریق رائج کرنے سے نہ صرف سلسلہ کا روپیہ ضائع ہو گا بلکہ واقف زندگی بھی کسی سرکاری ملازمت کے حصول کے قابل نہیں رہے گا.پس یہ تجویز گو بظاہر ٹھیک نظر آتی ہے لیکن در حقیقت معقول غرض یہ مختلف تجاویز ہیں جو میرے خطبات کے بعد باہر کے بعض احمدی دوستوں نے لکھی ہیں اور ان کے متعلق میں نے اپنے خیالات کا اظہار کر دیا ہے.اصل بات یہ ہے کہ جس شخص کی قسمت میں یہ لکھا ہو کہ وہ دین کی خدمت کرے گا اُسے اس کی توفیق مل جاتی ہے اور اگر اس خدمت میں اس کی جان بھی چلی جائے تو وہ اس کی پروا نہیں کرتا.اسلامی تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ جنگِ حسنین کے موقع پر جب ہزاروں تیر اندازوں نے تیروں کی بوچھاڑ شروع کر دی تو مسلمانوں کی سواریاں بدک کر میدانِ جنگ سے بھاگ پڑیں.در حقیقت اس کی وجہ یہ ہوئی کہ جب اسلامی لشکر روانہ ہوا تو مکہ والوں نے خواہش کی کہ چونکہ ہم حدیث العہد ہیں اور اس سے قبل کسی لڑائی میں شامل نہیں ہوئے اس لیے اس موقع پر ہمیں بھی قربانی پیش کرنے کی اجازت دی جائے.چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اجازت دے دی اور دو ہزار نو مسلم بھی اسلامی لشکر کے ساتھ چل پڑے.یہ لوگ کفار کے اچانک اور دو چی طرف حملہ کی برداشت نہ کر سکے اور واپس مکہ کی طرف بھاگے.صحابہ گو اس قسم کی تکالیف اُٹھانے کے عادی تھے مگر جب دو ہزار گھوڑے اور اونٹ اُن کی صفوں میں سے

Page 145

$1956 132 خطبات محمود جلد نمبر 37 بے تحاشا بھاگتے ہوئے نکلے تو ان کے گھوڑے اور اونٹ بھی ڈر گئے اور سارے کا سارا لشکر بے تحاشا پیچھے کی طرف دوڑ پڑا.یہاں تک کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اردگرد صرف بارہ صحابی رہ گئے اور تین اطراف سے قریباً چار ہزار تیر انداز تیر برسا رہے تھے.ایک صحابی کہتے ہیں کہ ہماری سواریاں اس قدر ڈرگئی تھیں کہ ہمارے ہاتھ باگیں موڑ تے موڑتے زخمی ہو گئے.لیکن اونٹ اور گھوڑے واپس مڑنے کا نام نہیں لیتے تھے.بعض دفعہ ہم باگیں اس زور سے کھینچتے تھے کہ اونٹ یا گھوڑے کا سر اُس کی پیٹھ کو لگ جاتا مگر پھر جب ہم اُسے پیچھے کی طرف موڑتے تو وہ بجائے پیچھے مُڑنے کے اور بھی تیزی کے ساتھ آگے کی طرف بھاگ پڑتا.اُس وقت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عباس کو بلایا اور اُن سے فرمایا عباس! بلند آواز سے کہو کہ اے وہ لوگو جنہوں نے حدیبیہ کے موقع پر بیعت رضوان کی تھی اور اے وہ لوگو جو سورۃ بقرہ کے زمانہ کے مسلمان ہو! خدا تعالیٰ کا رسول تمہیں بلاتا ہے.حضرت عباس نے جب یہ آواز دی تو وہ صحابی کہتے ہیں کہ ہمیں یوں محسوس ہوا کہ گویا ہم مر چکے ہیں، قیامت کا دن آ گیا ہے اور اسرافیل بگل بجا کر ہمیں بلا رہا ہے.تب ہم میں سے جو اپنی سواریاں موڑ سکے انہوں نے اپنی سواریاں موڑ لیں اور جو سواریاں نہ موڑ سکے انہوں نے تلواروں سے اپنے اونٹوں اور گھوڑوں کی گردنیں کاٹ دیں اور خود دوڑتے ہوئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف یہ کہتے ہوئے چل پڑے کہ لَبَّيْكَ يَا رَسُولَ الله لَبَّيْكَ يَا رَسُولَ الله - اے رسول اللہ ! ہم حاضر ہیں.اے رسول اللہ ! ہم حاضر ہیں اور چند منٹ میں ہزاروں کا لشکر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اردگرد جمع ہو گیا.2 دیکھو! صحابہؓ میں کس قدر جوش اور ایمان پایا جاتا تھا کہ انہوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اس آواز پر کہ خدا تعالیٰ کا رسول تمہیں بلاتا ہے اپنی سواریوں کی گردنیں ٹاٹ دیں اور دوڑتے ہوئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جمع ہو گئے.اور انہوں نے کہا يَا رَسُولَ اللہ ! ہم اسلام کی خدمت کے لیے حاضر ہیں.پس جن لوگوں کی قسمت میں دین کی خدمت کرنا ہوتا ہے وہ خود بخود اس کے لیے آگے آ جاتے ہیں.لیکن جن لوگوں کی قسمت میں یہ نیکی نہیں انہیں نہ میرے خطبات کام دے سکتے ہیں، نہ دوسروں کی مثالیں انہیں

Page 146

خطبات محمود جلد نمبر 37 133 $1956 کوئی فائدہ پہنچا سکتی ہیں، نہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی باتیں انہیں دین کی خدمت کے لیے نی آگے لا سکتی ہیں اور نہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی باتیں انہیں اس طرف توجہ دلا سکتی ہیں.وہ ازلی محروم ہیں.ان کو برکت کون دے؟ برکت اُسی کو ملے گی جس کی قسمت میں وہ پہلے سے لکھی ہوئی ہے.ایک لطیفہ مشہور ہے کہ مرزا غالب کو آم بہت پسند تھے.ایک دن وہ بادشاہ کو ملنے گئے تو وہ انہیں اپنے باغ میں لے گیا.پرانے زمانہ میں درباریوں کو یہ ادب سکھایا جاتا تھا کہ وہ ہمیشہ بادشاہ کی طرف اپنا منہ رکھا کریں لیکن مرزا غالب بار بار آموں کی طرف دیکھتے.بادشاہ نے کہا مرزا غالب! یہ کیا بات ہے تم بار بار اُدھر کیوں دیکھتے ہو؟ انہوں نے کہا حضور! میں نے سنا ہوا ہے کہ جب خدا تعالیٰ اپنے کسی بندے کو اس دنیا میں بھیجتا ہے تو وہ رزق پر اُس کا نام لکھ دیتا ہے.میں دیکھ رہا ہوں کہ شاید کسی آم پر میرا یا میرے باپ دادا کا بھی نام لکھا ہوا ہو.بادشاہ ہنس پڑا اور اُس نے اپنے ایک نوکر کو حکم دیا کہ وہ مرزا غالب کے گھر آم ا دے آئے.پس جس کی قسمت میں خدا تعالیٰ نے دین کی خدمت لکھی ہے اُس کے راستہ میں خواہ دس میل تک زہریلے سانپ ہوں وہ انہیں کچلتا ہوا آگے آجائے گا.اور خواہ بنگی تلوار میں کھڑی ہوں اور اس بات کا خوف ہو کہ اگر وہ آگے بڑھا تو اُس کی گردن کٹ جائے گی تب بھی وہ دین کی خدمت کے لیے آ جائے گا.بلکہ دین کی خدمت تو بڑی چیز ہے.ہم دیکھتے ہیں کہ باطل کے ساتھ محبت رکھنے والے بھی کسی مصیبت کی پروا نہیں کرتے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ کی بات ہے ایک میراثی کا لڑکا رسل کی مرض میں مبتلا ہو گیا.اُس کی ماں اُسے علاج کے لیے قادیان لائی.وہ لڑکا عیسائی ہو چکا تھا اور اُس کی والدہ کی خواہش تھی کہ وہ کسی طرح دوبارہ اسلام قبول کر لے.اُس نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے درخواست کی کہ آپ نہ صرف اس کا علاج کریں بلکہ اسے تبلیغ بھی کریں تا کہ یہ دوبارہ اسلام میں داخل ہو جائے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اُسے بہت سمجھایا وہ نہ سمجھا.آخر ایک رات بیماری کی حالت میں ہی وہ بٹالہ کی طرف بھاگ نکلا

Page 147

$1956 134 خطبات محمود جلد نمبر 37 تاکہ وہاں عیسائیوں کے مرکز میں چلا جائے.اُس کی ماں کی آنکھ کھلی اور اُس نے چار پائی ہی خالی دیکھی تو وہ رات کے اندھیرے میں اکیلی بٹالہ کی طرف دوڑ پڑی اور کئی میل کے فاصلہ سے اُسے پکڑ کر لے آئی.پھر وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی خدمت میں حاضر ہوئی اور روتی ہوئی کہنے لگی حضور! میرا یہ اکلوتا بیٹا ہے.اگر یہ مرجائے تو مجھے اس کی کوئی پروا نہیں.لیکن میری صرف اتنی خواہش ہے کہ جس طرح بھی ہو یہ مرنے سے پہلے دوبارہ کلمہ پڑھ لے.اللہ تعالیٰ نے اُس عورت کے اخلاص کو دیکھ کر یہ فضل کیا کہ دو تین دن کے بعد اُس نے اسلام قبول کر لیا اور پھر وہ فوت ہو گیا.پس اگر باطل کے ساتھ محبت کرنے والے بھی بڑی بڑی قربانیاں کر سکتے ہیں تو دین کے ساتھ سچی محبت رکھنے والے کسی قسم کی قربانی سے کس طرح دریغ کر سکتے ہیں.بہر حال دوستوں نے جو باتیں لکھی ہیں اُن میں سے بعض بہت اچھی ہیں.مثلاً یہ کہ واقفین کو کوئی نہ کوئی پیشہ سکھانا چاہیے اور پھر یہ کہ جماعت کے دوستوں کو چاہیے کہ وہ واقفین کا اعزاز کریں.مگر جیسا کہ میں نے بتایا ہے خود واقفین کے اندر انتظامی قابلیت ہونی چاہیے.اگر ان میں انتظامی قابلیت ہو گی تو انہیں مرکز میں ذمہ داری کے عہدے مل سکیں گے.انگریزی دانوں سے ہماری کوئی دوستی نہیں اور نہ عربی والوں سے ہماری کوئی دشمنی ہے.اگر واقفین انتظامی قابلیت پیدا کر لیں تو در حقیقت مرکز کے سارے اہم عہدے اُنہی کے لیے ہیں اور وہی اس کے اصل حق دار ہیں.پھر سب سے بڑی بات یہ ہے کہ آپ لوگ دعا کریں کہ خدا تعالیٰ آپ لوگوں کو سچا ایمان بخشے، آپ کے اندر دین کی خدمت کی خواہش پیدا کرے تا آپ اپنی جان اور مال سب کچھ اپنے خدا کے سامنے پیش کر دیں.اور جب مریں تو ایسی حالت میں مریں کہ آپ کے دلوں میں یہ حسرت نہ ہو کہ کاش! ہم دین کی خدمت کرتے.اللہ تعالیٰ ہماری کوتاہیوں کو دور فرمائے اور ہماری خدمات کو قبول کرے اور حضرت ابوبکر کی طرح ہمیں اس بات کی توفیق دے کہ تھوڑا یا بہت جو کچھ بھی ہمارے پاس ہے وہ ہم اُس کی راہ میں قربان کر دیں.ایک دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مالی قربانی کا مطالبہ کیا تو حضرت ابوبکر

Page 148

خطبات محمود جلد نمبر 37 135 $1956 اپنا سارا اثاثہ حتی کہ لحاف اور چار پائیاں بھی اُٹھا کر لے آئے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اُن کے سامان کو دیکھ کر فرمایا ابوبکر ! کچھ گھر میں بھی چھوڑا ہے؟ حضرت ابوبکر نے عرض کیا يَا رَسُول اللہ ! میں نے گھر میں صرف خدا اور اُس کے رسول کا نام چھوڑا ہے.حضرت عمر فرماتے ہیں کہ مجھے ہمیشہ یہ تڑپ رہتی تھی کہ میں کسی نہ کسی طرح مالی قربانی میں حضرت ابو بکر سے بڑھ جاؤں مگر میں اس میں کامیاب نہ ہو سکا تھا.اس موقع پر میرے پاس اتفاقاً زیادہ مال تھا.میں نے کہا چلو! رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مطالبہ پر میں اس مال کا نصف حصہ دے دیتا ہوں.چنانچہ میں نصف مال لے کر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا.جب میں وہاں پہنچا تو میں نے سنا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ابو بکر سے دریافت فرما رہے تھے کہ ابوبکر ! تم نے اپنے گھر میں بھی کچھ چھوڑا ہے؟ اور حضرت ابوبکر جواب دے رہے تھے یا رَسُول اللہ ! میں گھر میں خدا اور اُس کے رسول کا نام چھوڑ کر آیا ہوں.حضرت عمر فرماتے ہیں جب میں نے یہ الفاظ سنے تو میں نے کہا یہ بڑھا نہیں ہارتا.میں کتنی قربانی بھی کروں یہ مجھ سے آگے نکل جاتا ہے.3 پس اپنے لیے بھی اور باقی احمدیوں کے لیے بھی یہ دعا کرو کہ جب بھی دنیا چھوڑنے کا وقت آئے تم کہہ سکو کہ اے خدا! تو نے ہمیں جو مال دیا تھا یا جان دی تھی ہم نے کی اسے تیرے رستہ میں قربان کر دیا ہے اور تیرے نام کے سوا ہمارے پاس کچھ نہیں رہا.اب تو اپنے نام کی عزت کی وجہ سے ہمارے گناہ بخش دے اور ہمیں اپنا قرب نصیب فرما.خطبہ ثانیہ کے بعد حضور نے فرمایا: نماز جمعہ کے بعد میں بعض جنازے پڑھاؤں گا.(1) حکیم غلام حسین صاحب پاڑہ چنار فوت ہو گئے ہیں.حکیم صاحب پرانے احمدی تھے.درمیان میں انہیں ابتلا بھی آ گیا تھا لیکن پھر اللہ تعالیٰ نے انہیں احمدیت کے قبول کرنے کی توفیق دے دی.(2) عذرا بیگم صاحبہ اہلیہ ایم عبدالرحمان صاحب ڈھا کہ فوت ہو گئی ہیں.انہوں نے نواب صاحب کے گھر میں ہی پرورش پائی تھی.ان کے والد افریقہ میں رہتے تھے.

Page 149

$1956 136 خطبات محمود جلد نمبر 37 (3) منیر الدین صاحب واقف زندگی جامعتہ المبشرین کی اہلیہ کراچی میں اچانک فوت ہوگئی ہے ہیں.پچھلے جلسہ پر یہاں آئی تھیں.بیچاری نہانے کے لیے بیٹھی تھیں کہ اچانک دل پر ایسا اثر پڑا کہ بیہوش ہو گئیں.انہیں اُٹھا کر باہر لایا گیا تو تھوڑی ہی دیر میں فوت ہو گئیں.(4) صوفی عبدالرحیم صاحب پراچہ فوت ہو گئے ہیں.آپ صوفی عبدالغفور صاحب.ہانگ کانگ کے بہنوئی تھے.1924ء میں مولوی نعمت اللہ خاں صاحب کی شہادت کے موقع پر کابل میں موجود تھے.اس شہادت سے ہی متاثر ہو کر انہوں نے احمدیت قبول کی تھی.نماز کے بعد میں چاروں جنازے پڑھاؤں گا.الفضل 25 مارچ 1956ء) 1 تفسیر روح البیان زیر آیت سورۃ الحدید 28 ثم قفينا على اثارهم برسلنا وقفَّينا بِعِيْسَى ابْنِ مَرْيَمَ وَاتِينَاهُ الْإِنْجَيْلَ....الخ) 2 : سیرت ابن ہشام جلد 4 صفحہ 87 مطبوعہ مصر 1936ء 3 : ترندی ابواب المناقب باب رجاءه ان يكون ابوبكر ممن يدعى من جميع ابواب الجنة

Page 150

$1956 137 11 خطبات محمود جلد نمبر 37 شادی کی بنیاد اخلاق، نیکی اور تقوی پر قائم ہونی چاہیے تاجو اولاد پیدا ہو وہ بھی نیک ، متقی اور اللہ تعالیٰ کے نام کو بلند کرنے والی ہو (فرمودہ 16 مارچ 1956ء بمقام لاہور ) تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: چونکہ کل رات مجھے انتڑیوں میں شدید درد کی تکلیف ہو گئی تھی اور ساری رات اسہال آتے رہے اور پھر سفر بھی ایسی حالت میں ہوا جبکہ بادلوں اور بارش کی وجہ سے فضا میں غبار اور اندھیرا تھا جس سے طبیعت میں سخت گھبراہٹ اور اضطراب کی کیفیت رہی.اس لیے ہے آج میں زیادہ لمبا خطبہ نہیں پڑھ سکتا.گو اللہ تعالیٰ کے فضل سے آج مجھے نسبتاً افاقہ پیٹ میں درد کی شکایت ابھی باقی ہے.بہر حال میں نے مناسب سمجھا کہ کچھ نہ کچھ خطبہ بیان کر دوں.آج رات میں نے رویا میں دیکھا کہ ایک تعلیم یافتہ عورت کہہ رہی ہے کہ مہ

Page 151

$1956 138 خطبات محمود جلد نمبر 37 اور عورت کے تعلقات کی بنیاد بد اخلاقی پر ہے.گویا وہ اس بات پر طعن کرتی ہے کہ اسلام نے ی جو شادی بیاہ جائز رکھا ہے یہ کوئی اچھی بات نہیں.اُس وقت یہ معلوم نہیں ہوتا کہ وہ عیسائیت کی تائید کر رہی ہے اور اُس کی رہبانیت کی تعلیم کو ترجیح دیتی ہے یا محض عقلی طور پر وہ ان تعلقات پر اعتراض کرتی ہے.میں نے اُسے جواب میں کہا کہ اصل بات یہ ہے کہ مرد اور عورت کے تعلقات کی بنیاد بد اخلاقی پر رکھے جانے کا خیال اس لیے پیدا ہوا ہے کہ نرومادہ کے تعلقات صرف انسان کے ساتھ مخصوص نہیں بلکہ جانوروں میں بھی پائے جاتے ہیں.چونکہ جانور کسی شریعت کے حامل نہیں بلکہ کسی بڑی اخلاقی تعلیم کے بھی حامل نہیں اس لیے اُن کے سارے کام بہیمیت کے ماتحت ہوتے ہیں اور اُن کو دیکھ کر بعض لوگ یہ خیال کر لیتے ہیں کہ مرد وعورت کے تعلقات کی جو اسلام نے اجازت دی ہے وہ بھی اس قسم کی چیز ہے حالانکہ مردوعورت کے تعلقات کی بنیاد بہیمیت پر نہیں بلکہ خالص اخلاق اور تقوی پر ہے.جیسے اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ یا يُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّكُمُ الَّذِى خَلَقَكُم مِّنْ نَّفْسٍ وَاحِدَةٍ وَخَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا وَبَثَّ مِنْهُمَا رِجَالًا كَثِيرًا وَ نِسَاءً ع وَاتَّقُوا اللهَ الَّذِي تَسَاءَلُونَ بِهِ وَالْأَرْحَامَ إِنَّ اللهَ كَانَ عَلَيْكُمْ رَقِيبًا - 1 پس بے شک جانوروں کے نرومادہ بھی آپس میں ملتے ہیں اور مرد و عورت بھی آپس میں ملتے ہیں مگر دونوں میں فرق یہ ہے کہ جانوروں کے نرومادہ آپس میں ملتے ہیں تو اُس کے میں صرف جانور پیدا ہوتے ہیں کوئی اخلاقی یا روحانی تغیر دنیا میں رونما نہیں ہوتا.لیکن جب مرد و عورت آپس میں ملتے ہیں تو دنیا میں ایسے انسان پیدا ہوتے ہیں جو تقوی اللہ کی بنیاد رکھنے والے ہوتے ہیں.اور تقوی اللہ کی بنیاد بہیمیت پر نہیں بلکہ اعلیٰ درجہ کی اخلاقی اور روحانی کیفیت پر ہے.بہر حال یہ شبہ اسی لیے پیدا ہوتا ہے کہ بظاہر جانور اور انسان اس فعل میں اشتراک رکھتے ہیں اور لوگ غلطی سے یہ سمجھ لیتے ہیں کہ جس طرح جانوروں کا یہ جذبہ بہیمیت ہے اُسی طرح انسان بھی بہیمیت کے ماتحت ایسا کرتا ہے.حالانکہ جانوروں کے آپس میں ملنے کے نتیجہ میں صرف بہیمیت پیدا ہوتی ہے اور مردو عورت کے اختلاط کے نتیجہ میں ایسی پاکیزہ نسلیں پیدا ہوتی ہیں جو خدا کے نام کو بلند کرنے والی اور ذکر الہی کو قائم کرنے والی

Page 152

139 $1956 خطبات محمود جلد نمبر 37 ہوتی ہیں.پس ان تعلقات کی بنیاد بداخلاقی پر نہیں بلکہ ایک اعلیٰ درجہ کے روحانی مقصد رکھی گئی ہے اور جانوروں کے نرومادہ کے تعلقات کو دیکھ کر اس پر اعتراض کرنا نادانی کی بات کی ہے.یہ اشتراک محض سطحی ہے جو دونوں میں پایا جاتا ہے ورنہ حقیقت کے لحاظ سے ان دونوں کی آپس میں کوئی نسبت ہی نہیں.غرض ایک لمبی تقریر تھی جو میں نے خواب میں کی.وہی خواب میں نے آج خطبہ میں بیان کر دی ہے.درحقیقت اس رویا میں یہ سبق دیا گیا ہے کہ لوگوں کو چاہیے کہ وہ اپنی اولادوں کی اچھی تربیت کریں اور ایسی پاکیزہ نسلیں دنیا میں پیدا کریں کہ ہر شخص کو دیکھ کر یہ ماننا پڑے کہ ان تعلقات کی بنیاد بد اخلاقی پر نہیں بلکہ اعلیٰ درجہ کے اخلاق اور روحانیت پر رکھی گئی ہے.اگر ان تعلقات کی بنیاد کسی بلند مقصد پر نہیں تو جس طرح گائے پیدا ہو جاتی ہے یا بیل پیدا ہو جاتا ہے اور وہ دنیا میں کسی قسم کے روحانی یا اخلاقی تغیر کا باعث نہیں بنتے.اسی طرح انسان بھی ہے پیدا ہوتے رہتے ہیں لیکن ہم تو دیکھتے ہیں کہ مرد و عورت کے اختلاط کے نتیجہ میں بسا اوقات ایسی اعلیٰ نسلیں پیدا ہوتی ہیں جو دنیا میں اخلاق کو قائم کرنے والی اور خدا تعالیٰ کے نام کو بلند کرنے والی ہوتی ہیں.اگر اس کی بنیاد بہیمیت پر ہوتی تو ان تعلقات کا ایسا شاندار نتیجہ کس طرح پیدا ہوتا.مامون کے متعلق ہی لکھا ہے کہ اُس نے اپنے دو بیٹوں کو فراء کے پاس جو ایک مشہور نحوی گزرے ہیں تعلیم حاصل کرنے کے لیے بٹھایا.ایک دن فقراء کسی کام کے لیے اُٹھا تو دونوں شہزادے دوڑ پڑے تا کہ استاد کے سامنے اُس کی جوتیاں سیدھی کر کے رکھیں مگر چونکہ دونوں اکٹھے پہنچے تھے اس لیے اُن کا آپس میں جھگڑا شروع ہو گیا.ایک کہتا تھا میں ان کے آگے جوتیاں رکھوں گا اور دوسرا کہتا تھا میں رکھوں گا.آخر دونوں نے ایک ایک جوتی اٹھا کر اُس کے سامنے رکھ دی.جب مامون کو اس واقعہ کی اطلاع ہوئی تو اُس نے فراء سے کہا کہ مَا هَلَكَ مَنْ خَلَفَ مِثْلُک جس نے آپ کی مانند اپنے شاگرد دنیا میں چھوڑے ہوں وہ کبھی فنا نہیں ہو سکتا.یعنی آپ نے دنیا میں ایسی اخلاقی بنیاد قائم کر دی ہے اور ایسے اپنے شاگرد پیدا کر دیئے ہیں جو آپ کے کام کو ہمیشہ جاری رکھیں گے اور اس طرح آپ کے نام کو زندہ

Page 153

$1956 140 خطبات محمود جلد نمبر 37 رھیں گے.تو تربیت اولاد ثابت کر دیتی ہے کہ مرد و عورت کا اختلاط بہیمیت کی بناء پر نہیں بلکہ اعلیٰ درجہ کے اخلاق اور تقوی کو قائم کرنے کے لیے ہے.پس جو شخص اس فرض کو بجا لاتا ہے اور اپنی اولاد کی نیک تربیت کرتا ہے وہ درحقیقت تمام مذاہب سے اس اعتراض کو دور کرتا ہے کہ ان مذاہب نے مرد و عورت کے تعلقات کی اجازت دے کر بہیمیت کو قائم کیا ہے.دنیا میں اس وقت جس قدر مذاہب پائے جاتے ہیں ان میں سے بعض نے تو شادی بیاہ کو پسند کیا ہے اور بعض نے شادی نہ کرنے کو اچھا فعل قرار دیا ہے.عیسائیت نے شادی نہ کرنے کو اچھا قرار دیا ہے اور یہودیت نے شادی بیاہ کرنے کو پسند کیا ہے.لیکن اگر کوئی شادی نہ کرے تو یہودیت اُسے ملامت نہیں کرتی.لیکن اسلام نے شادی بیاہ کرنے کو اچھا ہی قرار نہیں دیا بلکہ شادی بیاہ نہ کرنے کو سخت ناپسند قرار دیا ہے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہاں تک فرمایا ہے کہ جس شخص نے شادی نہ کی اور وہ اسی حالت میں مر يا فَهُوَ بَطَّالٌ.اُس نے اپنی عمر کو ضائع کر دیا.کیونکہ ایک اعلیٰ درجہ کی نیکی کا بیج اُس نے نہ بویا اور آنے والی دنیا کئی فوائد سے محروم ہو گئی.در حقیقت شادی بیاہ کی مثال ایسی ہی ہے جیسے کہتے ہیں کہ کوئی بڑھا ایک ایسا درخت لگا رہا تھا جو کئی سال کے بعد پھل دیتا تھا.اتفاقاً وہاں سے اُس ملک کا بادشاہ گزرا.اس نے بڑھے کو ایک ایسا درخت لگاتے دیکھا جس کا پھل کئی سال کے بعد پیدا ہونا تھا تو وہ اُسے کہنے لگا کہ تم یہ کیا کر رہے ہو؟ تمہاری عمر اسی نوے سال کی ہو گئی ہے اور تم ایسا درخت لگا رہے ہو جو کئی سال کے بعد پھل دیتا ہے.کیا تمہیں یہ امید ہے کہ تم اس کا پھل کھاؤ گے ؟ وہ کہنے لگا بادشاہ سلامت! اگر ہمارے باپ دادا بھی یہی خیال کرتے اور وہ اپنی زندگیوں میں پھلدار درخت لگا کر نہ جاتے تو آج ہم کہاں سے پھل کھاتے ؟ انہوں نے درخت لگائے اور ہم نے ان کا پھل کھایا.آج ہم درخت لگائیں گے تو ہمارے پوتے پڑپوتے ان کا پھل کھائیں گے.بادشاہ کو اُس کی یہ بات بڑی پسند آئی اور اُس نے کہا زہ.یعنی تو نے کیا ہی اچھی بات کہی ہے.اور بادشاہ کا یہ حکم تھا کہ جب میں کسی کی بات سے خوش ہو کر زہ کہہ دوں

Page 154

141 $1956 خطبات محمود جلد نمبر 37 تو فوراً اُسے تین ہزار روپیہ انعام دے دیا جایا کرے.بادشاہ نے خوش ہو کر زہ کہا تو وزیر نے فوراً تین ہزار روپے کی تھیلی اُس بڑھے کے سامنے رکھ دی.وہ روپوں کی تھیلی اپنے ہاتھ میں لے کر کہنے لگا بادشاہ سلامت! لوگ درخت لگاتے ہیں تو کئی کئی سال کے بعد انہیں اس کا پھل کھانا نصیب ہوتا ہے مگر مجھے دیکھیے کہ میں نے درخت لگاتے لگاتے اس کا پھل کھا لیا.بادشاہ پھر اُس کی بات سے خوش ہوا اور کہنے لگا زہ.اس پر وزیر نے جھٹ ایک دوسری تحصیلی اس کے سامنے رکھ دی.یہ دیکھ کر بڑھا کہنے لگا حضور ! آپ تو کہہ رہے تھے کہ تو مر جائے گا اور اس درخت کا پھل نہیں کھا سکے گا.مگر دیکھیے لوگ تو کہیں سال میں ایک دفعہ درخت کا پھل کھاتے ہیں اور میں نے اس درخت کے لگاتے لگاتے دو دفعہ اس کا پھل کھا لیا.بادشاہ پھر اس کی بات سے خوش ہوا اور کہنے لگا زہ.اس پر وزیر نے فوراً ایک تیسری تحصیلی اُس کے سامنے رکھا دی.اس کے بعد وزیر کہنے لگا بادشاہ سلامت! یہاں سے چلیے ورنہ اس بڑھے نے تو ہمیں کوٹ لینا ہے.یہی مثال شادی بیاہ کی ہے.جو شخص شادی بیاہ کرتا اور پھر اپنی اولاد کی اعلیٰ تربیت کرتا ہے وہ دنیا میں نیکی اور تقوی کی بنیاد رکھتا ہے.اس کے متعلق یہ کہنا کہ اس نے بہیمیت اور بداخلاقی کی بناء پر ان تعلقات کو قائم کیا ہے بہت بڑی نادانی اور حماقت ہے.دنیا میں جتنے اولیاء اللہ گزرے ہیں سب انہی تعلقات کے نتیجہ میں پیدا ہوئے ہیں، جتنے موجد اور سائنسدان گزرے ہیں سب انہی تعلقات کے نتیجہ میں پیدا ہوئے ہیں.مثلاً نیوٹن کو ہی لے لو اگر اُس کے ماں باپ آپس میں نہ ملتے تو نیوٹن کس طرح پیدا ہوتا ؟ پھر جب ان کے تعلقات کے نتیجہ میں نیوٹن جیسا انسان پیدا ہو گیا تو ان تعلقات کی بناء بہیمیت پر کس طرح ہوئی؟ اسی طرح دنیا میں جتنے بڑے بڑے جرنیل گزرے ہیں سب انہی تعلقات کے نتیجہ میں پیدا ہوئے ہیں.نپولین کو لے لو، ہٹلر کو لے لو اگر ان کے ماں باپ بھی یہ کہتے کہ ہم ان تعلقات کو اختیار نہیں کر سکتے کیونکہ ان کی بنیاد بہیمیت پر ہے تو نپولین اور ہٹلر کہاں سے پیدا ہوتے.اسی طرح جتنے بڑے بڑے آئمہ گزرے ہیں سب انہی تعلقات کے نتیجہ میں پیدا ہوئے ہیں.حضرت امام ابوحنیفہ حضرت امام شافعی ، حضرت امام مالک، حضرت امام احمد بن حنبل

Page 155

142 $1956 خطبات محمود جلد نمبر 37 اور صوفیاء میں سے سید عبدالقادر صاحب جیلانی، شہاب الدین صاحب سهروردی، بہاء الدین صاحب نقشبندی، معین الدین صاحب چشتی، محی الدین صاحب ابن عربی حضرت جنید بغدادیؒ ان تمام بزرگوں کے ماں باپ بھی اگر یہی خیال کر لیتے تو یہ پاک لوگ جنہوں نے دنیا میں ایک روحانی انقلاب پیدا کیا ہے کس طرح ظاہر ہوتے.در حقیقت تمام مدار نیت پر ہوتا ہے.اگر بہیمیت کی نیت سے کوئی شخص ان تعلقات کو قائم کرتا ہے تو وہ انسانیت کی توہین کرتا ہے.اور اگر اخلاق اور تقوی اللہ پر بنیاد رکھتا ہے تو وہ اخلاق اور تقوی اللہ کو قائم کرنے والا ہوتا ہے.اس کی ایسی ہی مثال ہے جیسے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کوئی شخص اس لیے شادی کرتا ہے کہ فلاں عورت بڑے خاندان کی ہے، کوئی اس لیے شادی کرتا ہے کہ فلاں عورت بڑی مالدار ہے، کوئی اس لیے شادی کرتا ہی ہے کہ فلاں عورت بڑی حسین ہے.مگر فرمایا عَلَيْكَ بِذَاتِ الدِّينِ تَرِبَتْ يَدَاكَ 2 تیرے ہاتھوں کو مٹی لگے ! تو نیک اور دیندار عورت کو ترجیح دے تا کہ ان تعلقات کی بنیاد نیکی اور تقوی پر قائم ہو اور اس کے نتیجہ میں ایسی نسلیں پیدا ہوں جو خدا تعالیٰ کے نام کو بلند کرنے والی اور اُس کے ذکر کو قائم کرنے والی ہوں.بہر حال یہ مضمون تھا جو میں نے رویا میں بیان کیا اور میں نے مناسب سمجھا کہ اس کا ذکر خطبہ میں بھی کر دوں.(الفضل یکم اپریل 1956ء) 1 : النساء :2 2 : صحیح البخاری کتاب النكاح باب الاكفاء في الدين میں ” فَاظُفُرُ بِذَاتِ الدِّينِ تَرِبَتْ يداک“ کے الفاظ ہیں.

Page 156

$1956 143 12 خطبات محمود جلد نمبر 37 یوم جمہوریہ بلاشبہ سارے ملک کے لیے ایک خوشی کا دن ہے تم جہاں خوشی مناؤ وہاں یہ بھی دعائیں کرو کہ پاکستان کے باشندوں میں ہمیشہ ہمیش کے لیے نیکی کا عنصر غالب رہے (فرمودہ 23 مارچ 1956ء بمقام ربوہ ) تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: " آج میں خطبہ جمعہ میں دو امور کا ذکر کرنا چاہتا ہوں.ایک امر تو یہ ہے کہ جامعہ احمدیہ کے ایک طالبعلم نے صدر انجمن احمدیہ کے وظائف کی تقسیم کے متعلق میرے پاس شکایت کی ہے.چونکہ شکایت کرنے والے نے مومنانہ جرات سے کام لے کر اپنا نام بھی اس میں لکھ دیا ہے اس لیے میں نے اس کے متعلق تحقیقات کرنے کا حکم دے دیا ہے.میرا قاعدہ ہے کہ چاہے دس لاکھ عرضیاں بغیر نام کے آجائیں میں اُن کے متعلق کوئی کارروائی نہیں کرتا کیونکہ یہ سخت بزدلانہ حرکت ہے کہ کوئی شخص شکایت پیش کرے اور پھر اپنا نام چھپائے.معلوم نہیں کس حکمت کے ماتحت کسی نے یہ کہا ہے کہ انظُرُ إِلَى مَا قَالَ وَلَا تَنْظُرُ إِلَى مَنْ قَالَ تُويه

Page 157

$1956 144 خطبات محمود جلد نمبر 37 دیکھ کہ کہنے والے نے کیا کہا ہے اور یہ نہ دیکھ کہ کہنے والا کون ہے.اگر بات معقول ہے تو چاہے وہ کسی کے منہ سے نکلے معقول ہو گی اور اگر وہ غیر معقول ہے تو چاہے کسی کے منہ سے نکلے وہ غیر معقول ہو گی.بظاہر یہ اصول بڑا اچھا معلوم ہوتا ہے لیکن قرآن کریم یہ ہدایت دیتا ہے کہ تم گواہی میں ہمیشہ یہ دیکھو کہ گواہ عادل ہو اور اُس کی سچائی مشہور ہو.1 کیونکہ وہ شخص جس کی سچائی مشہور نہ ہو وہ جھوٹ بھی بول سکتا ہے.پس قرآن کریم کہتا ہے کہ تم صرف یہ نہ دیکھو کہ کوئی کیا کہہ رہا ہے.بلکہ یہ بھی دیکھو کہ کون کہہ رہا ہے اور آیا اس کی گواہی قبول بھی کی جاسکتی ہے یا نہیں.پس یہ درست نہیں کہ صرف اُس بات کی طرف دیکھا جائے جو کہی جاتی ہے اور کہنے والے کی طرف نہ دیکھا جائے.اگر ہم دیکھیں کہ کہنے والا کون ہے تو جھوٹ بولنے والے کو ہم پکڑ سکتے ہیں لیکن اگر ہم اُس کی طرف نہ دیکھیں تو ہم اُس کو پکڑ نہیں سکیں گے.پس قرآن کریم نے گواہ کے لیے عدل کی شرط لگا کر اس مقولہ کو رڈ کر دیا ہے کہ تم یہ دیکھو کہ کوئی کیا کہتا ہے اور یہ نہ دیکھو کہ کہنے والا کون ہے.ایک مشہور قضائی کا واقعہ ہے کہ کسی قاضی کے سامنے امام ابن تیمیہ کے خلاف ایک مقدمہ پیش ہوا.امام ابنِ تیمیہ اُسے اتفاقاً ملنے چلے گئے.وہ کہنے لگا اچھا ہوا آپ آ گئے.میرے پاس آپ کے خلاف ایک مقدمہ آیا ہے اور اُس کے متعلق میں نے آپ کے خلاف جاری کر دیا ہے.امام ابنِ تیمیہ نے فرمایا آپ کا اس مقدمہ میں میرے خلاف سمن جاری کرنا شرعاً جائز نہیں.کیا آپ جانتے نہیں کہ میں کس قسم کا آدمی ہوں؟ اگر قرائن کو دیکھتے ہوئے آپ سمجھتے کہ یہ مقدمہ جائز طور پر دائر کیا گیا ہے تو آپ کو میرے نام سمن جاری کرنا کی چاہیے تھا لیکن اگر قرائن خلاف تھے تو آپ کو یہ حق حاصل نہیں تھا.مثلاً کسی شخص کے پاس ایک لاکھ روپیہ ہو.پولیس اُسے پکڑ لے اور کہے تمہارے پاس یہ روپیہ کہاں سے آیا ہے؟ معلوم ہوتا ہے کہ تم نے کسی سے چُرایا ہے.اور وہ کہے کہ میں نے روپیہ پھرایا نہیں بلکہ فلاں فقیر نے مجھے یہ روپیہ دیا ہے.تو کوئی جاہل مجسٹریٹ ہی ہو گا جو اس فقیر کے نام سمن جاری کر دے.سیدھی بات ہے کہ فقیر کے پاس روپیہ ہوتا ہی نہیں.وہ دوسرے کو دے گا کہاں سے؟ اسی کے مطابق امام ابنِ تیمیہ نے اُس قاضی کو کہا کہ میں تمہارا دوست ہوں اور نم

Page 158

خطبات محمود جلد نمبر 37 وہ 145 $1956 چال چلن سے واقف ہو.تمہارا فرض تھا کہ پہلے ذاتی طور پر تم تحقیقات کرتے اور اگر اس کے نتیجہ میں تمہیں نظر آتا کہ مقدمہ جائز طور پر دائر کیا گیا ہے تو میرے نام سمن جاری کرتے.ور نہ اس کو رڈ کر دیتے.اس پر قاضی نے اپنی غلطی کو تسلیم کیا اور امام ابن تیمیہ اپنے گھر آگئے.اس طالبعلم نے جو شکایت کی ہے اس کے متعلق مجھے ابتدائی تحقیقات سے پتالگا ہے کہ صدرانجمن احمدیہ کو اطمینان ہے کہ اس کی رقم صحیح طور پر خرچ ہوئی ہے اور جب دینے والے کو اطمینان ہو تو دوسرے کو اعتراض کرنے کا کوئی حق نہیں رہتا.مثلاً میں ایک شخص کو کچھ پیسے دوں کہ بازار سے مولیاں لاؤ اور وہ مولیاں خرید لائے تو اگر پاس ہی ایک اور شخص کھڑا ہو اور کہے کہ اس شخص نے آپ سے دھوکا کیا ہے، بازار میں گاجریں اچھی ملتی تھیں اسے گاجریں خریدنی چاہیے تھیں تو اُس کا اعتراض درست نہیں ہو گا.کیونکہ مجھے مولیوں کی ضرورت تھی جو وہ خرید لایا ہے.دوسرے شخص کو اس پر اعتراض کرنے کا کوئی حق نہیں.اسی طرح اس معاملہ میں صدر انجمن احمدیہ کو تسلی ہے کہ اُس کے روپیہ کو ٹھیک طور پر خرچ کیا گیا ہے اس لیے شکایت کی جہ ختم ہو گئی.لیکن پھر بھی میں نے ابھی آخری فیصلہ نہیں کیا بلکہ مزید تحقیقات کے لیے ایک افسر کو مقرر کیا ہے.بہر حال میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ وہ طالبعلم قابل تعریف ہے کیونکہ اس نے بزدلی نہیں دکھائی بلکہ جرات سے کام لے کر اپنا نام ظاہر کر دیا ہے.بزدل آدمی کا اسلام میں کوئی مقام نہیں.اس نے دلیری اور مومنانہ جرات سے کام لیتے ہوئے شکایت کی ہے.اگر یہ شکایت غلط ثابت ہوئی تو وہ قابل سزا نہیں ہو گا.بلکہ ہم اسے سمجھا دیں گے کہ تمہاری شکایت درست نہیں.ہاں! اگر وہ شکایت کرتا اور اپنا نام ظاہر نہ کرتا تو وہ بزدل تھا اور اگر اس کا پتا لگ جاتا تو ہم اُسے ضرور سزا دیتے.لیکن اب اگر اس کی شکایت غلط ثابت ہوئی تو ہم سمجھیں گے وہ مومن ہے.اس نے جان بوجھ کر غلط شکایت نہیں کی بلکہ کسی وجہ سے اسے دھوکا لگ گیا ہے اور اس نے اپنے علم کے مطابق مومنانہ جرات دکھاتے ہوئے شکایت کی اس لیے وہ اس پوزیشن میں ہے کہ اُس کے خلاف کوئی ایکشن نہ لیا جائے بلکہ شکایت غلط ثابت ہو تو اسے سمجھا دیا جائے کہ اس کی شکایت درست نہیں تھی.میں اپنے طریق کے مطابق یہ دیکھتا رہوں گا کہ کوئی افسر اس طالبعلم کے خلاف کوئی کارروائی تو نہیں کرتا کیونکہ اس نے ہے.

Page 159

$1956 146 خطبات محمود جلد نمبر 37 مومنانہ جرات سے کام لیا ہے.اگر ہم اس قسم کی شکایت کرنے والوں کے خلاف کارروائی کی کرنی شروع کر دیں تو قوم میں بزدلی پیدا ہو جائے گی.پس قوم کو بزدلی سے بچانے کے لیے ضروری ہے کہ مومنانہ جرات سے کام لینے والوں کو تنگ کرنے کی کوشش نہ کی جائے.دوسری بات جو میں بیان کرنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ آج کا دن حکومت پاکستان نے ملک کی کانسٹی ٹیوشن بننے پر خوشی منانے کے لیے مقرر کیا ہے اور اس میں کیا شبہ ہے کہ یہ خوشی کا دن ہے.1947 ء میں میں نے جو لیکچر دیئے تھے اُن میں میں نے یہ بیان کیا تھا کہ مسلمان جو بھی آئین بنائیں وہ اسلامی ہی ہو گا.آخر یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ ایک سچا مسلمان کوئی آئین بنائے اور وہ غیر اسلامی ہو.مسلم کے معنے ہی فرمانبردار کے ہیں، مسلم کے معنے ہی خدا اور اُس کے رسول کے ماننے والے کے ہیں.اور اگر کوئی شخص خدا اور اس کے رسول کو ماننے والا ہے اور سچے طور پر ان کا فرمانبردار ہے تو وہ ایسا قانون بنائے گا ہی کیوں جو غیر اسلامی ہو گا.پس ایسی اسمبلی جو سچے مسلمانوں پر مشتمل ہو غیر اسلامی دستور بنا ہی نہیں سکتی.ہماری کانسٹی ٹیوشن تو پہلے سے ہی قرآن کریم میں موجود ہے اور اس کی توضیح و تشریح کے لیے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی احادیث موجود ہیں.لیکن اس پر غیر مسلموں کو تسلی نہیں تھی.وہ سمجھتے تھے کہ قرآن کریم میں کانسٹی ٹیوشن کے لیے پورا مصالحہ موجود نہیں.دوسرے ہر قاضی اور ہر افسر قرآن کریم سے صحیح بات نہیں نکال سکتا.اس لیے ضروری تھا کہ پورے طور پرغور کر کے قانون کو ایک معین شکل دے دی جاتی تا کہ جو لوگ قرآن کریم پر غور نہیں کر سکتے وہ اس سے فائدہ اُٹھا سکیں.پھر دوسرے ممالک کے مقابل پر بھی پاکستان کا آئین تیار ہونا نہایت ضروری تھا.سو خدا تعالیٰ کا فضل ہے کہ قریباً نو سال میں ہمارا دستور تیار ہو گیا.اگر دستور کے بننے میں مزید دیر ہوتی تو بہت سی خرابیاں پیدا ہونے کا اندیشہ تھا.ملک میں عام طور پر مایوسی پیدا ہو گئی تھی اور لوگ سمجھتے تھے کہ ہمارے لیڈر اس اہم مسئلہ پر بھی سر جوڑ کر بیٹھنے اور غور وفکر کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کرتے.سو آج جبکہ دستور بن کر قوم کے سامنے آ گیا ہے اللہ تعالیٰ نے ہمارے لیڈروں کو پبلک کے عائد کردہ الزامات سے بچا لیا ہے.باقی جو لوگ اس آئین پر اعتراضات کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اس میں

Page 160

خطبات محمود جلد نمبر 37 147 $1956 فلاں غلطی ہے، فلاں نقص ہے.انہیں بھی یہ سمجھ لینا چاہیے کہ یہ دستور بہر حال انسانوں کا بنایا ہوا ہے اور انسانوں کے بنائے ہوئے دستور میں غلطیوں کا احتمال ہو سکتا ہے.اس لیے اگر دستور میں کوئی غلطیاں رہ بھی گئی ہوں تو ان کی بعد میں اصلاح ہوتی رہے گی.ہمیں ان چند غلطیوں کی وجہ سے سارے دستور پر اعتراض نہیں کرنا چاہیے.قرآن کریم ہمارے سامنے ہے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی احادیث ہمارے پاس موجود ہیں.اگر کسی معاملہ میں ہمیں محسوس ہو کہ ہم نے اس بارہ میں صحیح قدم نہیں اُٹھایا تو اسے ہر وقت بدلا جا سکتا ہے.حضرت علی کو دیکھ لو آپ فرماتے تھے کہ جب مسح کے احکام نازل ہوئے تو میں تر قد میں پڑ گیا.میں نے سوچا کہ اللہ تعالیٰ نے پاؤں کے اوپر مسح کرنے کا حکم دیا ہے حالانکہ مٹی تو پاؤں کے نچلے حصہ کو لگتی ہے لیکن پھر میں نے سمجھا کہ جب خدا تعالیٰ نے اوپر مسح کرنے کا حکم دیا ہے تو یہی درست ہے میرا خیال درست نہیں.2 پس خدا تعالیٰ کے مقابلہ میں انسانی عقل کی کوئی حیثیت نہیں بلکہ بڑے بڑے برگزیدہ لوگوں کی عقلیں بھی اس کے سامنے بیچ ہیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بڑھ کر اور کون ہوسکتا ہے.آپ کو بھی اللہ تعالیٰ نے یہی تعلیم دی ہے کہ ہر وقت یہی دعا کیا کرو کہ اے اللہ! میرے علم کو بڑھا.3 گویا ایک ایسا شخص جو علم کی انتہا کو پہنچا ہوا تھا، جسے فَكَانَ قَابَ قَوْسَيْن او ادنی 4 کا مقام حاصل تھا، جس کے متعلق اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا کہ ہم نے اسے وہ علم دیا ہے جو کسی اور کو نہیں دیا.اسے بھی ربِ زِدْنِي عِلْمًا کی دعا سکھائی گئی.پس خدا خدا ہی ہے اور بندہ بندہ ہی ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم باوجود اس کے کہ افضل الرسل اور خاتم النبین تھے پھر بھی علم حاصل کرنے کے محتاج تھے.اگر آپ علم حاصل کرنے کے محتاج نہ ہوتے تو خدا تعالیٰ آپ پر قرآن کریم کیوں نازل کرتا؟ یہی فرما دیتا کہ تم خود ہی غور کر کے انسانوں کے لیے ایک لائحہ عمل بنا دو.لیکن خدا تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا بلکہ خود قرآن کریم نازل کیا اور بسم اللہ کی ”ب“ سے لے کر والناس کی ”س“ تک ایک مفصل کتاب نازل کر دی.پس جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جیسا انسان بھی یہ دعا کرتا رہتا تھا کہ الہی! میرا علم بڑھا.تو پاکستان کی کانسٹی ٹیوشن پر یہ شور مچانا کہ چونکہ اس میں وو

Page 161

$1956 148 خطبات محمود جلد نمبر 37 بعض غلطیاں رہ گئی ہیں اس لیے یہ قابل قبول نہیں کونسی معقول بات ہے.یہ کانسٹی ٹیوشن خدا تعالیٰ کی تیار کردہ نہیں بلکہ انسانوں کی بنائی ہوئی ہے.اور انسانوں کے کاموں میں بہر حال غلطیاں رہ جاتی ہیں.اس لیے اس پر جھگڑنا اور شور مچانا بے معنی بات ہے.میں اس موقع پر ایک بات اپنی جماعت سے بھی کہنا چاہتا ہوں.اللہ تعالیٰ سورۃ التین میں فرماتا ہے کہ ہم نے انسان کو اعلیٰ درجہ کی قوتیں دے کر دنیا میں بھیجا ہے.لیکن بعض دفعہ اس میں ایسا بگاڑ پیدا ہو جاتا ہے کہ وہ جہنم کے سب سے نچلے حصہ میں گر جاتا ہے.5 یہی حال قوموں کا ہوتا ہے.بعض اوقات جب قوموں پر غلامی کا دور ہوتا ہے تو وہ کہتی ہیں کہ کاش! ہمیں آزادی حاصل ہوتی تو ہم ملک کی خاطر کوئی اہم کام کرتیں.لیکن جب انہیں آزادی ملتی ہے اور انہیں طاقت اور دولت میسر آ جاتی ہے تو ان کے اخلاق خراب ہو جاتے ہیں، وہ اپنوں اور ہمسایہ قوموں کا جانی اور مالی نقصان کرنے لگ جاتی ہیں اور قتل و غارت کو اپنا شیوہ بنا لیتی ہیں.چنانچہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ ایک دوسری جگہ فرماتا ہے کہ بعض لوگوں کو جب ملک میں کوئی اقتدار حاصل ہوتا ہے تو وہ مظالم پر اُتر آتے ہیں اور اقتصادی اور نسلی طور پر دوسروں کو کچلنے کی کوشش کرتے ہیں.6 پس جہاں اللہ تعالیٰ نے ہمیں آزادی دی ہے وہاں ہمارے لیے یہ خطرہ بھی ہے کہ ہم کہیں اس آزادی کا غلط استعمال نہ کرنے لگ جائیں اور بنی نوع انسان کو چاہے وہ ہمارے ملک کے ہوں یا دوسرے ممالک کے کسی مصیبت میں نہ ڈال دیں.حدیثوں سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ میں بھی صحابہ سے بعض غلطیاں ہوئیں مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جب بھی ان کا علم ہواتی نے فوراً ان کا تدارک کر دیا.مثلاً ایک دفعہ آپ نے کچھ صحابہ کو باہر خبر رسانی کے لیے بھجوایا.دشمن کے کچھ آدمی اُن کو حرم کی حد میں مل گئے.صحابہ نے اس خیال سے کہ اگر ہم نے ان کو زندہ چھوڑ دیا تو یہ جا کر مکہ والوں کو خبر دیں گے اور ہم مارے جائیں گے اُن پر حملہ کر دیا اور اُن میں سے ایک شخص لڑائی میں مارا گیا.جب یہ خبریں دریافت کرنے والا قافلہ مدینہ واپس آیا تو پیچھے پیچھے مکہ والوں کی طرف سے بھی ایک وفد شکایت لے کر آ گیا کہ انہوں نے

Page 162

خطبات محمود جلد نمبر 37 149 $1956 حرم کے اندر ایک آدمی مار دیا ہے.جو لوگ حرم کے اندر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ظلم کرتے رہتے تھے اُن کو جواب تو یہ ملنا چاہیے تھا کہ تم نے کب حرم کا احترام کیا ہے کہ تم ہم سے حرم کے احترام کا مطالبہ کرتے ہو.مگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ جواب نہ دیا بلکہ فرمایا ہاں بے انصافی ہوئی ہے کیونکہ ممکن ہے اس خیال سے کہ حرم میں وہ محفوظ ہیں انہوں نے اپنے بچاؤ کی پوری کوشش نہ کی ہو.اس لیے آپ لوگوں کو خون بہا دیا جائے گا.چنانچہ آپ نے قتل کا وہ فدیہ جس کا عربوں میں رواج تھا اُس کے ورثاء کو ادا کیا.Z اسی طرح ایک دفعہ میدانِ جنگ میں آپ نے ایک عورت کی لاش دیکھی تو آپ کا چہرہ سرخ ہو گیا اور آپ نے فرمایا یہ بہت بُری بات ہے.ایک صحابی کہتے ہیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اُس وقت ایسی ناراضگی کی حالت میں تھے کہ میں نے کبھی آپ کو ایسی حالت میں نہیں دیکھا.8 اسی طرح ایک اور واقعہ ہوا.لڑائی ہو رہی تھی کہ کفار میں سے ایک شخص نے بلند آواز سے کہہ دیا کہ میں صابی بنتا ہوں.اُس زمانہ میں مسلمانوں کو عام طور پر صابی کہا جاتا تھا جیسے بعض لوگ ہمیں قادیانی کہتے ہیں.اب اگر کوئی نا واقف شخص وفات مسیح کا مسئلہ سمجھ کر احمدیت اختیار کر لے اور کہے کہ میں قادیانی ہو گیا ہوں تو ہم اُسے یہ نہیں کہہ سکتے کہ تو ہماری جماعت میں سے نہیں.مگر ایک صحابی نے اس کی کوئی پروا نہ کی اور اُسے قتل کر دیا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جب اس کی اطلاع ہوئی تو آپ اُس صحابی پر سخت ناراض ہوئے اور مایا جب اُس نے توبہ کر لی تھی تو تم نے اُسے کیوں قتل کیا.اُس صحابی نے عرض کیا يَارَسُولَ الله! وہ شخص ڈر کے مارے اسلام کا اظہار کر رہا تھا.ورنہ حقیقتا وہ مسلمان نہیں تھا.آپ نے فرمایا کیا تو نے اُس کا سینہ پھاڑ کر دیکھ لیا تھا کہ وہ ڈر کے مارے اسلام کا اظہار کر رہا ہے؟ وہ صحابی کہتے ہیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ناراضگی کا مجھ پر اس قدر اثر ہوا کہ میں نے خواہش کی کہ کاش! میں آج مسلمان ہوا ہوتا، تا میرے سارے پچھلے گناہ معاف ہو جاتے.9 پس قو میں بعض اوقات دولت اور طاقت کے نشہ میں دوسروں پر ظلم بھی کرنے لگ

Page 163

$1956 150 خطبات محمود جلد نمبر 37 جاتی ہیں.اس لیے بیشک تم خوشیاں مناؤ اور خوشیاں منانا تمہارا حق ہے کیونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں حُبُّ الْوَطَنِ مِنَ الْإِيْمَانِ - 10- وطن سے محبت کرنا بھی ایمان کی میں داخل ہے.لیکن اس کے ساتھ ہی میں نصیحت کروں گا کہ تم اپنے لیے اور دوسروں کے لیے استغفار بھی کرو اور دعا کرو کہ تم میں سے کسی سے کوئی ایسی غلطی سرزد نہ ہو کہ اس کی وجہ سے اسلام پر اعتراض عائد ہو جائے.لوگ مانیں یا نہ مانیں خدا تعالیٰ تمہیں ایک دن دنیا پر غلبہ عطا فرمائے گا.اُس نے خود حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو الہاماً فرمایا ہے کہ بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گئے.11 اور جب وہ وقت آئے گا کہ بادشاہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے تو وہ کون سے احمق ہوں گے جو تم سے برکت حاصل نہیں کریں گے.کپڑے تو بے جان چیز ہیں اور تم جاندار ہو.جب وہ وقت آئے گا کہ بادشاہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے تو آپ کے صحابہ اور تابعین اور پھر تبع تابعین سے بھی اُن کے درجات کے مطابق برکت حاصل کی جائے گی.کیا تم نے دیکھا نہیں کہ حضرت امام ابوحنیفہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے کتنے فاصلہ پر تھے لیکن بغداد کے بادشاہ ان سے برکت ڈھونڈتے تھے.بلکہ صرف انہیں سے برکت نہیں ڈھونڈتے تھے بلکہ ان کے شاگردوں سے بھی برکت ڈھونڈتے تھے.پس تم اللہ تعالیٰ سے دعائیں کرتے رہو کہ طاقت مل جانے کے بعد تم کہیں ظلم نہ کرنے لگ جاؤ اور تمہاری امن پسندی عصمت بی بی از بے چارگی والی نہ ہو.اگر تم طاقت ملنے پر ظالم بن جاؤ گے تو تمہاری آج کی نرمی بھی ضائع ہو جائے گی اور خدا تعالیٰ کہے گا کہ اپنے تو تمہارے ناخن ہی نہیں تھے اس لیے تم نے سر کھجلانا کیسے تھا.اب میں نے تمہیں ناخن دیئے ہیں تو تم نے سر کھجلانا بھی شروع کر دیا ہے.پس تم خوشی منانے کے ساتھ ساتھ استغفار بھی کرتے رہو اور اپنے لیے بھی اور دوسروں کے لیے بھی دعائیں کرو کہ وہ اس آزادی کو سب کے لیے مبارک کرے.پھر جن لوگوں کے ہاتھ میں اس وقت ملک کی باگ ڈور ہے اُن کے لیے بھی دعائیں کرو کہ اللہ تعالیٰ نہیں سچی نیکی اور تقوی اور انکسار عطا کرے جو ایک مومن کا خاصا ہے.صحابہ کرام کو دیکھ لو

Page 164

$1956 151 خطبات محمود جلد نمبر 37 باوجود اس کے کہ انہیں ہر قسم کی بڑائی حاصل تھی اُن میں حد درجہ کا انکسار پایا جاتا تھا اور غرور سے وہ کوسوں دور رہتے تھے.حضرت خالد بن ولید کو ہی دیکھ لو.انہوں نے چند آدمیوں کے ساتھ رومی حکومت سے ٹکر لے لی تھی حالانکہ اُس وقت کی رومی سلطنت اس وقت کی ہندوستانی حکومت سے بہت زیادہ طاقتور تھی اور خالد کے ساتھی خواہ اُس وقت کتنے بھی زیادہ ہوں بہر حال پاکستان کی طاقت سے کم طاقت رکھتے تھے.لیکن انہوں نے رومی حکومت سے ٹکر لی اور پھر اس جنگ میں حاصل کی.اسی خالد کو بعض وجوہات کی بناء پر حضرت عمرؓ نے کمانڈر انچیف کے عہدے سے برطرف کر دیا.ان کی برطرفی کا آرڈر حضرت ابو عبیدہ بن الجراح کے ذریعہ بھیجا گیا تھا اور اُنہی کو آپ کا قائم مقام مقرر کیا گیا تھا.حضرت ابوعبیدہ نے حضرت خالد کے ماتحت کام کیا تھا اور وہ جانتے تھے کہ اسلامی فتوحات میں ان کا بہت بڑا دخل ہے.انہیں خیال گزرا کہ شاید خالد کو برطرفی کا حکم بُرا لگے اس لیے انہوں نے فوری طور پر اس کا اعلان نہ کیا لیکن بعض لوگوں کو اس کا پتا لگ گیا اور انہوں نے خالد کو بھی بتا دیا.یہ سن کر خالد حضرت ابو عبیدہ کے پاس آئے اور کہنے لگے مجھے معلوم ہوا ہے کہ میری برطرفی کے احکام آچکے ہیں لیکن آپ نے مجھے نہیں بتایا.جس دن آپ کے پاس میری برطرفی کے احکام آئے تھے آپ کو چاہیے تھا کہ اُسی دن مجھے اطلاع دے دیتے تا کہ میں فوری طور پر خلیفہ وقت کے احکام کی تعمیل کر دیتا.یہ میرا استعفی ہے.اسے حضرت عمر کے پاس بھجوا دیں اور فوج کا کام سنبھال لیں.حضرت ابوعبیدہ نے فرمایا میں حضرت عمرؓ کو بھی لکھوں گا مگر آپ سے بھی کہتا ہوں کہ میں سپہ سالاری کا عہدہ اُس وقت قبول کروں گا جب آپ وعدہ کریں کہ آپ حسب سابق میر.ساتھ مل کر کام کرتے رہیں گے.حضرت خالد نے کہا میں آپ کی ایک سپاہی سے بھی بڑھ کر اطاعت کروں گا.میں نے جو خدمت کی ہے وہ کسی مرتبہ اور عزت کے لیے نہیں کی بلکہ میری ساری خدمت خدا تعالیٰ کی خاطر تھی.تو دیکھو خالد کی بڑائی انتہا کو پہنچ چکی تھی لیکن پھر بھی ان میں کس قدر انکسار پایا جاتا تھا.لیکن آج کل ایک وزیر کسی وجہ سے وزارت سے ہلتا ہے تو وہ اپنی علیحدہ پارٹی بنا لیتا ہے.پس تم دعائیں کرو کہ آزادی کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ ایسی

Page 165

$1956 152 خطبات محمود جلد نمبر 37 روح پیدا کرے کہ جوں جوں ملک و قوم کو طاقت اور قوت ملتی جائے ، تم رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لائے ہوئے دین اور خدا تعالیٰ کی نازل کی ہوئی کتاب قرآن کریم کو قائم کرنے کی کوشش کرتے چلے جاؤ.اور ایسا نمونہ دکھاؤ کہ ہند و خود تمہارے پاس آئیں اور کہیں کہ ہم مسلمان بننا چاہتے ہیں.اور یہ کوئی بعید بات نہیں.آخر حضرت ابوبکر اور حضرت عمرؓ کو کس تلوار نے جیتا تھا؟ پھر حضرت عثمانؓ اور حضرت علی کو کس تلوار نے جیتا تھا ؟ یہ سب لوگ قرآن کریم کی تعلیم سے متاثر ہو کر ایمان لائے تھے.اسی طرح اب بھی قرآن کریم کی تعلیم ہندوؤں کے دلوں کو اسلام کی طرف مائل کر سکتی ہے.ایک مشہور عیسائی مصنف کارلائل نے ایک کتاب لکھی ہے جس میں اُس نے دنیا کے مشہور آدمیوں کا ذکر کیا ہے جن میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا نام بھی شامل ہے.اس کتاب میں وہ ایک جگہ لکھتا ہے عیسائی مصنف اپنی کتابوں میں لکھتے ہیں کہ اسلام تلوار کے زور سے پھیلا ہے لیکن وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب دعوای کیا تھا تو اُس وقت آپ اکیلے تھے اور پھر آہستہ آہستہ لوگ اسلام میں داخل ہوئے.پس سوال یہ ہے کہ جن لوگوں نے بعد میں اسلام کے لیے تلوار چلائی انہیں کسی تلوار سے اسلام کی طرف کھینچا گیا تھا؟ اُن لوگوں کو صرف دلائل اور براہین سے ہی اسلام کی طرف مائل کیا گیا تھا.پھر جب بڑے بڑے لوگوں کو دلائل اور براہین سے اسلام میں داخل کیا گیا تھا تو کمزور اور ادنیٰ لوگوں کو دلائل اور براہین سے کیوں داخل نہیں کیا جا سکتا تھا.پس ضرورت اس بات کی ہے کہ اسلام کی تعلیم کو ہم زیادہ سے زیادہ بہتر رنگ میں پھیلائیں اور اپنے اخلاق فاضلہ سے انہیں متاثر کریں.اگر پاکستان اس ذمہ داری کو احسن طریق پر ادا کرے تو انگلستان، امریکہ، جرمنی، اٹلی، فرانس، سپین، آسٹریا، سوئٹزر لینڈ ، ہالینڈ، روس اور جاپان بلکہ ساری دنیا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کلمہ پڑھ کر آپ کے حلقہ بگوشوں میں شامل ہو جائے گی اور وہ آپ کی غلامی پر فخر کرے گی.اسلام جہاں حکومت کرنے والوں کو یہ تعلیم دیتا ہے کہ وہ جبر و اکراہ سے کام نہ لیں وہاں آپ ہی آپ ماتحتی قبول کرنے والوں کو بھی ماتحتی قبول کرنے سے روکتا نہیں.چنانچہ دیکھ لو زید رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم

Page 166

$1956 153 خطبات محمود جلد نمبر 37 کے غلام تھے اور ان کے والد اور دوسرے رشتہ دار رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور انہوں نے درخواست کی کہ آپ زید کو آزاد کر دیں تو وہ ہمارے ساتھ چلا جائے.آپ نے کی مکہ کے دستور کے مطابق خانہ کعبہ میں جا کر اعلان فرما دیا کہ میں نے زید کو آزاد کر دیا ہے اور وہ اب جہاں چاہیے جا سکتا ہے.اس پر حضرت زید کھڑے ہو گئے اور انہوں نے کہا آپ نے تو مجھے آزاد کر دیا ہے لیکن میں آپ سے علیحدہ نہیں ہو سکتا.بلکہ ہمیشہ آپ کی غلامی میں ہی رہوں گا.12 اس طرح فقہاء نے بھی اس مسئلہ پر بحث کی ہے اور لکھا ہے کہ غلام کو یہ حق حاصل ہے کہ جب اُس کا مالک اُسے آزاد کرنا چاہے تو وہ آزادی قبول کرنے سے انکار کر دے.مثلاً ایک ایسا غلام جس کا مالک اُس پر ہزاروں روپیہ خرچ کرتا ہے.وہ اگر آزاد ہو تو اس کے معنے یہ ہوں گے کہ وہ اُن ہزاروں روپوں سے محروم ہو جائے.اس لیے اگر وہ آزاد ہونے سے انکار کر دے تو یہ اُس کا حق ہوگا.پس اسلام نے اس بات سے تو منع کیا ہے کہ کسی کو غلام بنایا جائے لیکن اگر کوئی شخص خود کسی کی غلامی قبول کرے تو اسلام نے اس سے منع نہیں کیا.اس نقطہ نگاہ کے ماتحت اگر تم دیکھو تو تمہیں معلوم ہوگا کہ حضرت آدم علیہ السلام کے بھی غلام تھے اور حضرت نوح علیہ السلام کے بھی غلام تھے، حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بھی غلام تھے، حضرت موسی علیہ السلام کے بھی غلام تھے، حضرت عیسی علیہ السلام کے بھی غلام تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بھی غلام تھے.لیکن یہ غلام وہی لوگ تھے جنہوں نے آپ ہی آپ غلامی کو قبول کر لیا تھا.کسی نے انہیں غلام بننے پر مجبور نہیں کیا تھا.آخر حضرت ابوبکر، حضرت عمرؓ، حضرت عثمان اور دوسرے صحابہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام ہی تو تھے بلکہ یہ لوگ غلاموں سے بھی بڑھ کر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت کرتے تھے.مگر انہوں نے خود اپنے آپ کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی کے لیے پیش کیا تھا کسی نے ان کو جبراً غلام نہیں بنایا تھا.صلح حدیبیہ کے موقع پر جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہؓ کے ہمرا ہ کے لیے تشریف لے گئے تو مکہ والوں نے اپنے ایک بڑے آدمی کو آپ کے پاس سفیر عمرہ

Page 167

$1956 154 خطبات محمود جلد نمبر 37 بنا کر بھیجا.اُس نے واپس جا کر اُن سے کہا کہ اے میری قوم! تم مانو یا نہ مانو میری نصیحت یہی ہے کہ تم مسلمانوں سے جنگ نہ کرو.کفار نے کہا تمہیں تو ہم نے مسلمانوں سے شرائط طے کرنے کے لیے بھیجا تھا اور تم ہمیں یہ نصیحت کر رہے ہو.اُس نے کہا اے میری قوم! میں نے قیصر و کسری کے دربار بھی دیکھے ہیں.لیکن میں نے کسی قوم میں اتنی فدائیت نہیں پائی جتنی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ میں پائی جاتی ہے.اتفاق ایسا ہوا کہ جب وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو نماز کا وقت تھا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نماز کے لیے وضو فرمانے لگے تو آپ کی گہیوں سے جو پانی گرتا تھا صحابہ کرام دوڑ دوڑ کر اسے ہاتھوں میں لیتے اور تبرک کے طور پر منہ میں ڈال لیتے یا اپنے جسموں پر مل لیتے.اس نظارہ کا اُس پر ایسا اثر ہوا کہ وہ کہنے لگا میں نے اس قسم کی اطاعت کا رنگ قیصر و کسری کے درباروں کی میں بھی نہیں دیکھا.13 اسی طرح فتح مکہ کے موقع پر جب ابوسفیان گرفتار ہوا تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عباس سے فرمایا اسے صبح لانا.چنانچہ صبح حضرت عباس ابوسفیان کو اپنے ساتھ لائے.اُس وقت نماز ہو رہی تھی.ابوسفیان نے جب یہ نظارہ دیکھا کہ ہزاروں آدمی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز پر کبھی کھڑے ہو جاتے ہیں، کبھی رکوع میں چلے جاتے ہیں اور کبھی سجدہ میں گر جاتے ہیں تو وہ گھبرا گیا اور کہنے لگا عباس! کیا میرے قتل کی کوئی سکیم بنائی گئی ہے؟ حضرت عباس نے فرمایا گھبراؤ نہیں تمہارے قتل کی کوئی سکیم نہیں.یہ تو نماز ہو رہی ہے.ابوسفیان نے کہا یہ نظارہ دیکھ کر میرا تو دل گھٹنے لگ گیا تھا.میں نے سمجھا کہ شاید میرے قتل کی کوئی سکیم بنائی گئی ہے.غرض اطاعت کا جو عظیم الشان مادہ مسلمانوں میں پایا جاتا تھا اس کا نمونہ قیصر و کسرای کے درباروں میں بھی نہیں ملتا تھا.پس جو شخص اپنی مرضی سے کسی کی غلامی اختیار کرتا ہے اُس کو اس غلامی سے کوئی نکال نہیں سکتا.کیا تم سمجھتے ہو کہ اگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ابوبکر سے یہ فرماتے کہ میں تمہیں آزاد کرتا ہوں تو وہ آپ کو چھوڑ کر جاتے یا آپ حضرت عمرؓ کو آزاد کرتے تو وہ اس آزادی کو قبول کرتے؟ وہ تو یہ کہتے کہ ہمیں

Page 168

$1956 155 خطبات محمود جلد نمبر 37 یہ غلامی بادشاہت سے بھی پیاری ہے.ہم نے آپ کو اپنا آقا اور مطاع تسلیم کیا ہے.کسی کا نے ہم پر جبر نہیں کیا.اگر جبر کیا ہے تو خود ہم نے اپنے نفس پر کیا ہے.پس اب جبکہ خدا تعالیٰ نے ہمارے ملک کو آزادی دی ہے تو جہاں خوشی مناؤ وہاں.بھی دعائیں کرو کہ خدا تعالی پاکستان میں رہنے والوں کو اس بات کی توفیق عطا فرمائے کہ ان میں ہمیشہ ہمیش کے لیے نیکی کا عنصر غالب رہے.اور ایمان اور تقوی رکھنے والے لوگ آگے آئیں اور اپنے نمونہ کی وجہ سے ایسا نیک اثر پیدا کریں کہ ان کے ہمسایہ میں رہنے والے غیر مذاہب کے لوگ بھی انہیں کہیں کہ ہم اسلام قبول کرنا چاہتے ہیں، تم ہمیں اپنے مذہب میں شامل کر لو.تاریخوں میں لکھا ہے ایک دفعہ قیصر نے اپنا ایک سفیر حضرت عمرؓ کے پاس بھیجا.وہ مسلمانوں کے نمونہ کو دیکھ کر اس قدر متاثر ہوا کہ حضرت عمر سے کہنے لگا آپ مجھے اسلام میں داخل کر لیں.حضرت عمرؓ نے فرمایا تم یہاں سفیر بن کر آئے ہو.اگر میں تمہیں اسلام میں داخل کر لوں تو اس کا یہ مطلب سمجھا جائے گا کہ ہم نے تم پر جبر کیا ہے.اس لیے میں اس وقت تمہیں اسلام میں داخل نہیں کر سکتا.اگر تم پر اسلام کی صداقت کھل چکی ہے تو اپنے ملک میں واپس جا کر اسلام قبول کر لینا.پس دعائیں کرو کہ خدا تعالیٰ نے جو ہمیں احسن تقویم بخشی ہے وہ قیامت تک قائم رہے اور لَهُمْ أَجْرُ غَيْرُ مَمْنُونٍ 14 کے ماتحت ہمیں وہ انعام ملیں جو کبھی منقطع نہ ہوں.ہماری مملکت مٹنے والی نہ ہو.ہماری قوم تباہ ہونے والی نہ ہو بلکہ خدا تعالیٰ ہمیں اُن کی لوگوں میں رکھے جن پر وہ اپنا سایہ رکھتا ہے اور ہم میں سے ہر فرد اس طریق کو اختیار کرے جس طریق کے اختیار کرنے والے پر خدا تعالیٰ نے اپنی رحمت اور برکت نازل کرنے کا وعدہ کی 66 فرمایا ہے.خطبہ ثانیہ کے بعد فرمایا: نماز جمعہ کے بعد میں بعض جنازے پڑھاؤں گا.(1) ملک علی بخش صاحب آف بھوپال حال لاہور.87 مارچ کی درمیانی شب کہ

Page 169

$1956 156 خطبات محمود جلد نمبر 37 وفات پاگئے ہیں.8 مارچ کو ان کا جنازہ یہاں لایا گیا اور میں نے وعدہ بھی کیا کہ میں جنازہ پڑھاؤں گا لیکن خطبہ جمعہ کے بعد میں بھول گیا اور گھر چلا گیا.آج میں ان کا جنازہ پڑھاؤں گا.ملک صاحب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے صحابی تھے اور ہم ابھی بچے ہی تھے کہ وہ ہجرت کر کے قادیان آ گئے تھے اور پھر وہاں کئی سال تک رہے.اُس وقت وہ اوورسیئر تھے.آجکل تو اوور سیئر معمولی عہدہ سمجھا جاتا ہے لیکن اُس زمانہ میں اس کی بہت زیادہ قدر و منزلت تھی.قادیان آکر انہوں نے ایک مکان خریدا اور کافی سرمایہ صرف اس لیے خرچ کی کیا کہ الحکم کو روزانہ کیا جائے تا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی باتیں لوگوں تک پہنچتی رہیں.ملک صاحب پرانے احمدی تھے.اللہ تعالیٰ ان کے مدارج بلند کرے اور ان کی مغفرت فرمائے.(2) ساره بیگم صاحبه والده عبدالرحمان صاحب اتالیق ربوہ فوت ہو گئی ہیں.بوجہ بارش جنازہ میں بہت کم لوگ شریک ہوئے.(3) شاه محمد صاحب چک نمبر 213 ضلع رحیم یار خاں فوت ہو گئے ہیں.جنازہ میں کوئی احمدی بھی شریک نہ ہو سکا.(4) چوتھا جنازہ جو بہت تکلیف دہ ہے کابل کے ایک احمدی دوست داؤد جان صاحب کا یه مخلص دوست جلسہ پر ربوہ آئے تھے.واپس گئے تو بعض لوگوں نے ان کی شکایت ہے.حکام کے پاس کر دی.انہوں نے بلا کر دریافت کیا کہ کیا تم ربوہ گئے تھے؟ تو انہوں نے کہا ہاں میں ربوہ گیا تھا.اس پر انہیں قید کر دیا گیا مگر ان کی قوم کی اس سے تسلی نہ ہوئی.چنانچہ ایک بہت بڑے ہجوم نے قید خانہ پر حملہ کر دیا اور اس کے دروازے اور کھڑکیاں توڑ دیں اور پھر انہیں نکال کر باہر لے گئے اور کھلے میدان میں انہیں کھڑا کر کے شہید کر دیا.مرنا تو سب نے ہے لیکن اس قسم کی موت بہت دکھ اور تکلیف کا موجب ہوتی ہے اور مارنے والوں کو بھی اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا مستحق بناتی ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ اُنصُرُ أَخَاكَ ظَالِمًا اَوْ مَظْلُومًا 15 کہ تو اپنے بھائی کی مدد کر خواہ وہ ظالم ہو یا مظلوم - ایک صحابی نے پوچھا یا رسول اللہ ! مظلوم کی مدد تو سمجھ میں آ گئی لیکن ظالم کی مدد کیسے کی جائے؟

Page 170

$1956 157 خطبات محمود جلد نمبر 37 آپ نے فرمایا ظالم کو ظلم سے روکو.یہی اُس کی مدد ہے.پس تم دعائیں کرو کہ اللہ تعالیٰ ہماری جماعت کی حفاظت فرمائے اور جن لوگوں نے یہ غلطی کی ہے انہیں بھی ہدایت دے تا بجائے اس کے کہ وہ احمدیوں کے خلاف تلوار اُٹھائیں اُن کے دل احمدیت کے نور سے منور ہو جائیں اور انہیں نیکی کی راہوں پر چلنے کی توفیق نصیب ہو.الفضل 13 ابريل 1956ء ) :1 يَا يُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا شَهَادَةُ بَيْنِكُمْ إِذَا حَضَرَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ حِيْنَ الْوَصِيَّةِ اثْنَنِ ذَوَا عَدْلٍ مِنْكُمُ أَوْ أَخَرُنِ مِنْ غَيْرِكُمْ اِنْ انتُمْ ضَرَبْتُمْ فِي الْأَرْضِ فَأَصَابَتْكُمْ مُّصِيبَةُ الْمَوْتِ تَحْبِسُوْنَهُمَا مِنْ بَعْدِ الصَّلوةِ فَيُقْسِمُنِ بِاللهِ اِنِ ارْتَبْتُمْ لَا نَشْتَرِئُ بِهِ ثَمَنًا وَلَوْ كَانَ ذَا قُرْ لي وَلَا نَكْتُمُ شَهَادَةَ اللهِ إِنَّا شَهَادَةَ اللهِ إِنَّا إِذَا لَمِنَ الْأَثِمِينَ فَإِنْ عُثِرَ عَلَى أَنَّهُمَا اسْتَحَقَّاً إِثْمًا فَأَخَرْن يَقُوْمِنِ مَقَامَهُمَا مِنَ الَّذِيْنَ اسْتَحَقَّ عَلَيْهِمُ الْأَوْلَيْنِ فَيَقْسِمُنِ بِاللهِ لَشَهَادَتُنَا أَحَقُّ مِنْ شَهَادَتِهِمَا وَمَا اعْتَدَيْنَا إِنَّا إِذَا لَمِنَ الظَّلِمِينَ (المائدة: 107 ، 108) فَإِذَا بَلَغْنَ أَجَلَهُنَّ فَأَمْسِكُوهُنَّ بِمَعْرُوفٍ أَوْ فَارِقُوْهُنَّ بِمَعْرُوْفِ وَأَشْهِدُوا ذَوَىٰ عَدْلٍ مِّنْكُمْ (الطلاق : 3) 2 : سنن ابی داؤد کتاب الطهارة باب كَيْفَ المسح :3 قُل رَّبِّ زِدْنِي عِلْمًا ( طه : 115) 4 : النجم : 10 :5 لَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنْسَانَ فِي أَحْسَنِ تَقْوِيمٍ لا ثُمَّ رَدَدْتُهُ أَسْفَلَ سفِلِينَ في (التين : 5 ، 6) : وَاِذَا تَوَلَّى سَعَى فِي الْأَرْضِ لِيُفْسِدَ فِيهَا وَ يُهْلِكَ الْحَرْثَ وَالنَّسْلَ (البقرة : 206) 7 : جامع الترمذی ابواب الديات باب ماجاء في حكم ولي القتيل في القصاص بخاری كتاب الجهاد باب قتل الصبيان في الحرب

Page 171

$1956 158 خطبات محمود جلد نمبر 37 :9 : مسلم كتاب الايمان باب تحريم قتل الكافر بعد ان قال لا اله الا الله 10 : تفسیر روح البیان زیر آیت سورۃ القصص : 85 "ان الذي فرض عليك القرآن 66 11 : تذکرۃ صفحہ 10 ایڈیشن چہارم 12 : اسد الغابة في معرفة الصحابة - جلد 2 صفحہ 239 - زيد بن حارثة - بيروت لبنان 2001ء 13 : صحیح البخاری کتاب الشروط باب الشروط في الجهاد والمصالحة مَعَ اهل العرب....14 : التين: 7 15 : صحیح البخارى كتاب المظالم باب أَعِنُ أَخَاكَ ظَالِمًا أَوْ مَظْلُومًا

Page 172

$1956 159 13 خطبات محمود جلد نمبر 37 احباب دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ افغانستان کے احمدیوں کے لیے امن کی صورت پیدا فرمائے میرا تجربہ یہ ہے کہ اسلامی ممالک میں اسلام کے اثر کے ماتحت خدا ترسی اور اخلاق کا زیادہ بہتر نمونہ پایا جاتا ہے.(فرمودہ 30 مارچ1956ء بمقام ربوہ ) تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: ” میں نے اپنے ایک گزشتہ خطبہ میں جو 25 مارچ کے الفضل میں شائع ہو چکا ہے جنازوں کا اعلان کرتے ہوئے ایک واقعہ کا ذکر کیا تھا.جن صاحب سے اس واقعہ کا تعلق تھا.چونکہ انہوں نے اس کی تردید بھیجی ہے اس لیے میں بھی آج اس کی تردید کر دیتا ہوں.میں اپنے خطبہ میں صوفی عبدالرحیم صاحب بھیرہ والوں کے متعلق ذکر کیا تھا کہ وہ مولوی نعمت اللہ خان صاحب کی شہادت کے موقع پر کابل میں موجود تھے اور اسی شہادت سے متأثر ہو کر انہوں نے احمدیت قبول کی تھی.اب ان کے ایک رشتہ دار شیخ فضل کریم صاحب پراچہ نے لکھا ہے کہ صوفی عبدالرحیم صاحب جو میرے ماموں زاد بھائی تھے انہوں نے نے

Page 173

$1956 160 خطبات محمود جلد نمبر 37 خود اپنی زندگی میں مجھے یہ واقعہ سنایا تھا اور میں نے یہ واقعہ لکھ کر اُسی وقت الفضل میں بھی شائع کرا دیا تھا.صحیح واقعہ یہ ہے کہ وہ ان دنوں افغانستان میں رہتے تھے اور غیر احمدی تھے.جس دن مولوی نعمت اللہ خان صاحب کو شہید کیا گیا اُس دن وہ کہیں باہر گئے ہوئے تھے اور اُس موقع پر موجود نہیں تھے.اس کے چند ہفتے بعد دو اور احمدیوں کو سنگسار کرنے کا حکم دیا گیا اور وہ ملا عبدالحلیم صاحب اور قاری نور علی صاحب تھے.ان کی شہادت میں صوفی صاحب شامل تھے.اُس وقت وہ غیر احمدی تھے اور سمجھتے تھے کہ انہیں پتھر مار کر ہلاک کرنا ثواب کا کام ہے.اس لیے انہوں نے نہ صرف خود پتھر مارے بلکہ اپنے اُن رشتہ داروں کو جو بھیرہ میں رہتے تھے ثواب میں شریک کرنے کے لیے اُن کی طرف سے بھی پتھر مارے مگر ان دونوں احمدیوں کا ایمان اور ثابت قدمی دیکھ کر وہ بہت متاثر ہوئے.انہوں نے دیکھا کہ وہ کس طرح پتھر کھانے کے بعد بھی اپنے عقائد کے سچے ہونے کی شہادت دیتے جاتے ہیں.نتیجہ یہ ہوا کہ وہ ہندوستان پہنچے تو انہوں نے بیعت کر لی اور سلسلہ احمدیہ میں شامل ہو گئے.یہ واقعہ قریباً بتیس سال پہلے کا ہے جو مجھے زیادہ پرانا ہونے کی وجہ سے اور بیماری کی وجہ سے ٹھیک طور پر یاد نہ رہا اور میں نے خطبہ میں یہ بیان کر دیا کہ صوفی صاحب مولوی نعمت اللہ خان صاحب کی شہادت کے موقع پر کابل میں موجود تھے.وہ مولوی صاحب کی شہادت کے موقع پر موجود نہیں تھے.بلکہ دوسرے دو احمدیوں کی شہادت کے موقع پر موجود تھے اور انہوں نے اپنے خیال میں ثواب کی غرض سے ان کو سنگسار کرنے میں حصہ لیا تھا.جیسا کہ میں پہلے خطبہ میں بیان کر چکا ہوں افغانستان میں ہمارے ایک اور احمدی دوست بھی شہید کر دیئے گئے ہیں.یہ گزشتہ جلسہ سالانہ کے موقع پر ربوہ بھی آئے تھے.جب لوگوں کو اس بات کا علم ہوا کہ وہ ربوہ گئے تھے تو انہیں پکڑ لیا گیا اور علاقہ کے حاکم سے کہا گیا کہ اسے موت کی سزا دو مگر علاقہ کا حاکم کوئی شریف آدمی تھا اُس کے دل میں رحم تھا.اُس نے کہا کہ میں اس کے قتل کی کوئی وجہ نہیں دیکھتا.ہمارے ملک میں مذہبی آزادی ہے.جب لوگوں نے دیکھا کہ حاکم علاقہ اسے مارنے کے لیے تیار نہیں تو انہوں نے قید خانہ پر حملہ کر دیا.اس کے دروازے توڑ دیئے اور اس احمدی کو قید خانہ سے نکال کر لے گئے.اس کے بعد

Page 174

$1956 161 خطبات محمود جلد نمبر 37 ا ان سے دریافت کیا گیا کہ کیا وہ گزشتہ جلسہ سالانہ کے موقع پر ربوہ گئے تھے؟ انہوں نے کہ ہاں میں جلسہ کے موقع پر ربوہ گیا تھا.اس پر انہیں کھلے میدان میں کھڑا کر کے گولی مار کر شہید کر دیا گیا.اس کے علاوہ 13 اور احمدیوں کے متعلق بھی خبر آئی تھی کہ انہیں شہید کر دیا گیا ہے مگر بعد میں معلوم ہوا کہ یہ بات درست نہیں.ان 13 احمدیوں کو چھوڑ دیا گیا ہے.اس سے پتا لگتا ہے کہ گو وہاں ہماری جماعت کی شدید مخالفت پائی جاتی ہے جس طرح یہاں بھی ہماری مخالفت کی جاتی ہے لیکن پھر بھی مسلمانوں میں کچھ نہ کچھ خداترسی ضرور پائی جاتی ہے.چنانچہ گزشتہ فسادات کے دنوں میں مجھے کئی مثالیں ایسی معلوم ہیں کہ جب عوام نے جوش میں آکر احمدیوں کے مکانوں پر حملہ کرنا چاہا تو غیر احمدی عورتیں اُن کے مکانوں کے سامنے لیٹ گئیں اور انہوں نے کہا کہ پہلے ہمیں مار لو، پھر بیشک احمدیوں پر بھی حملہ کر لینا.نتیجہ یہ ہوا کہ لوگ شرمندہ ہو کر واپس چلے گئے.پس بیشک مسلمانوں کے ایک طبقہ میں ہماری مخالفت پائی جاتی ہے لیکن اس کے ساتھ ہی اسلامی تعلیم کے نتیجہ میں ان میں خدا ترسی کے نظارے بھی نظر آتے رہتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ میں جب صاحبزادہ عبداللطیف صاحب کو شہید کیا گیا اور ملک میں احمدیوں کے خلاف جوش پیدا ہو گیا تو کچھ احمدی وہاں سے بھاگ کر ہندوستان آگئے.مجھے یاد ہے جب امان اللہ خان سابق شاہ افغانستان تخت پر بیٹھا تو اُس نے انگریزوں سے لڑائی کی اور اتفاق ایسا ہوا کہ اس لڑائی میں پٹھانوں کا پلہ بھاری رہا.عام طور پر سمجھا جاتا تھا کہ انگریزوں کے مقابلہ میں پٹھانوں کی طاقت کچھ بھی نہیں.لیکن میں نے اُن دنوں رویا میں دیکھا کہ اگر انگریزوں نے اس محاذ جنگ پر اپنے چوٹی کے افسر نہ بھیجے تو انہیں شکست ہو گی.نادرشاہ جو موجودہ شاہ افغانستان کے والد تھے وہ افغان فوج کے جرنیل تھے.انہیں خدا تعالیٰ نے توفیق دی اور انہوں نے کامیابی کے ساتھ انگریزوں کو پیچھے دھکیلنا شروع کر دیا.اتفاق کی بات ہے کہ اس لڑائی کے کچھ عرصہ بعد میں شملہ گیا تو وہاں گورنمنٹ آف انڈیا کے ہوم سیکرٹری نے مجھے چائے پر بلایا.اُس وقت کے چیف آف دی جنرل سٹاف بھی ان کے ساتھ تھے.باتوں باتوں میں میں نے انہیں اپنی رؤیا سنائی.اس پر

Page 175

خطبات محمود جلد نمبر 37 162 $1956 چیف آف دی جنرل سٹاف بے اختیار بول اُٹھے کہ آپ کی رؤیا بالکل درست ہے اور میں اس کا گواہ ہوں.میں اُن دنوں اُس فوج کا کمانڈر تھا جو پٹھانوں سے لڑ رہی تھی.ایک دن پٹھان فوج ہمیں دھکیل کر اتنا پیچھے لے گئی کہ ہماری شکست میں کوئی شبہ باقی نہ رہا تھا اور ہمیں مرکز کی طرف سے یہ احکام موصول ہو گئے تھے کہ فوجیں واپس لے آؤ.چنانچہ ہم نے اپنا سامان ایک حد تک واپس بھی بھیج دیا تھا.لیکن اتفاق ایسا ہوا کہ پٹھان فوج کو ہماری فوجی طاقت کے متعلق غلطی لگ گئی اور وہ آگے نہ بڑھی.اگر وہ آگے بڑھ آتی تو افغان فوج ڈیرہ اسماعیل خان تک ہمیں دھکیل کر لے آتی اور ہمارے ہاتھ سے پنجاب بھی نکل جاتا.اس لڑائی کے بعد افغانستان کا ایک وفد منصوری آیا.میں نے اپنا ایک وفد منصوری بھیجا تاکہ وہ افغان نمائندوں سے گفتگو کر سکے.انہوں نے ان سے کہا کہ آخر ہمارا کیا قصور ہے کہ آپ کے ملک میں ہمارے آدمی مارے جاتے ہیں.نیک محمد خاں صاحب جو غزنی کے گورنر میراحمد خاں صاحب کے بیٹے ہیں اُس وفد کے ایک ممبر تھے جو ہم نے منصوری بھیجا.افغان وفد میں محمود طرزی صاحب بھی تھے جو امان اللہ خاں کے سر تھے اور حکومت افغانستان کی طرف سے پیرس میں سفیر بھی رہ چکے تھے اور ایک ہندو وزیر تھے جو اُس وقت حکومت افغانستان کے وزیر خزانہ تھے.ہندو وزیر نے نیک محمد خاں صاحب کو دیکھتے ہی کہا تم تو پٹھان ہو تم یہاں کیسے آئے ہو؟ انہوں نے کہا میں احمدی ہوں.آپ کے ملک میں امن نہیں تھا اس لیے میں یہاں آ گیا.وزیر نے کہا تم کہاں کے رہنے والے ہو؟ انہوں نے کہا میں غزنی کا رہنے والا ہوں اور وہاں کے گورنر میر احمد خاں صاحب کا بیٹا ہوں.ہندو وزیر روتے ہوئے نیک محمد خاں صاحب سے بغلگیر ہو گیا اور کہنے لگا تم میر احمد خاں کے بیٹے ہو اور یہاں پھر رہے ہو!! میر احمد خاں تو میرا بھائی تھا.تمہیں افغانستان میں کون کچھ کہہ سکتا ہے.تم پنے وطن میں واپس آ جاؤ.میں تمہاری حفاظت کروں گا.محمود طرزی صاحب نے بھی کہا کہ اگر تم افغانستان آ جاؤ تو تم پر کوئی سختی نہیں ہو گی.میں خود نگرانی کروں گا.تم ایک درخواست بھیج دو تو میں تمہاری واپسی کا انتظام کر دوں گا.چنانچہ ہم نے مولوی نعمت اللہ خاں صاحب کو سے افغانستان میں موجود تھے محمود طرزی صاحب سے ملنے کے لیے کہا اور انہوں نے

Page 176

$1956 163 خطبات محمود جلد نمبر 37 حسب وعدہ احمدیوں کی بعض تکالیف کا ازالہ کر دیا.اس موقع پر ہمارے مبلغ نے اپنے آپ کو جس طرح گورنمنٹ کے سامنے ظاہر کر دیا تھا پبلک پر بھی ظاہر کر دیا.شروع میں تو امان اللہ خاں نے دلیری دکھائی اور جہاں کہیں احمدیوں پر سختی ہوتی تھی وہ خود فون کے ذریعہ اُسے روکتا اور کہتا کہ ہمارے ملک میں ہر شخص کو مذہبی آزادی حاصل ہے.لیکن بعد میں مولویوں سے ڈر گیا اور مولوی نعمت اللہ خاں کو سنگسار کرنے کا حکم جاری کر دیا گیا.لیکن خدا تعالیٰ نے بھی امان اللہ خاں کو بغیر سزا کے نہ چھوڑا.جب نادر شاہ نے برسر اقتدار آنا چاہا تو لازماً ہمیں اُس سے ہمدردی تھی مگر نادر شاہ کو فوج نہیں ملتی تھی.اُس نے خیال کیا کہ اگر وزیری اُس کے ساتھ مل جائیں تو اُسے فتح کی امید ہو سکتی ہے.چنانچہ وہ سرحد پر آیا اور اُس نے وزیریوں کو ساتھ ملانے کی کوشش کی لیکن انہوں نے اُس کا ساتھ دینے سے انکار کر دیا.وہاں ایک احمدی حکیم تھے جن کا وزیریوں پر اثر تھا.انہوں نے نادر شاہ کے حق میں وزیر یوں میں پیگنڈا کیا.چنانچہ آہستہ آہستہ وزیری اس کے ساتھ شامل ہو نے لگے اور تھوڑے عرصہ میں ہی ایک بڑا لشکر تیار ہو گیا.ایک اور احمدی نوجوان بھی وہاں تھے جو خوست کے رہنے والے تھے.انہوں نے بھی اس کی مدد کی.چنانچہ نادر شاہ نے ان دونوں کو محبت کی نگاہ سے دیکھا اور وزیریوں کے اس لشکر کے ذریعہ شاہی فوج کو شکست دی اور افغانستان کے تخت پر قابض ہو گیا.فتح کے بعد اُس نے احمدیوں سے کہا کہ تم افغانستان واپس چلو.میں تمہیں آزادی دوں ہا.لیکن جب کچھ مدت تک انتظار کرنے کے باوجود احکام جاری نہ ہوئے تو احمدی دوست نادرشاہ سے ملے اور اُسے اُس کا وعدہ یاد دلایا.نادرشاہ نے کہا مجھے اپنا وعدہ خوب یاد ہے لیکن اگر موجودہ مخالفت کے دور میں میں نے احکام جاری کر دیئے تو مجھے خوف ہے کہ افغان کہیں مجھے ہی نہ مار ڈالیں.آپ کچھ دیر صبر کریں.مناسب موقع ملنے پر میں احکام جاری کر دوں گا.پھر چند ماہ اور گزر گئے لیکن پھر بھی حکومت کی طرف سے کوئی احکام جاری نہ ہوئے.اس پر ہمارے احمدی دوست پھر نادر شاہ سے ملے اور کہا کہ اب تو ہم تنگ آچکے ہیں.آخر آپ کب احکام جاری فرمائیں گے؟ کچھ دیر سوچنے کے بعد نادرشاہ نے کہا مجھے ایک ترکیب سوجھی میں تمہارے خلاف حکومت کے پرانے حکم کی تائید کر دیتا ہوں لیکن اس کے ساتھ ہی

Page 177

خطبات محمود جلد نمبر 37 164 $1956 میں یہ حکم بھی دے دیتا ہوں کہ اگر کسی نے دوسرے شخص پر کوئی ایسا الزام لگایا جس کی سزا موت ہوئی اور وہ تحقیقات کے بعد جھوٹا ثابت ہوا تو الزام لگانے والے کو بھی موت کی سزا دی جائے گی.اُس نے عام لوگوں پر قیاس کرتے ہوئے خیال کیا کہ جب کسی شخص کو یہ پتا لگ جائے گا کہ اب اسے موت کی سزا ملنے والی ہے تو وہ احمدی ہونے سے انکار کر دے گا اور دوسری طرف الزام لگانے والا ڈرے گا کہ اگر تحقیقات پر اُس نے احمدی ہونے سے انکار کر دیا تو مجھے موت کی سزا ملے گی.چنانچہ واقع میں ایسا ہی ہوا.اس اعلان کے نتیجہ میں لوگ ڈر گئے کہ اگر ہم کسی کو قادیانی کہیں گے اور وہ موقع پر قادیانی ہونے سے انکار کر دے تو ہمیں موت کی سزا ملے گی.اس کے نتیجہ میں احمدی بے دھڑک وہاں رہنے لگ گئے.انہیں کوئی کچھ نہیں کہتا تھا.ظاہرشاہ کے وقت میں بھی ایسا ہوا کہ اگر کسی والی نے احمدیوں کو پکڑ لیا اور اُن مالی سے رشوت طلب کی تو بادشاہ نے نہ صرف انہیں آزاد کروا دیا بلکہ والی نے اگر کچھ روپیہ لے لیا تھا تو وہ بھی واپس دلوا دیا.میں سمجھتا ہوں کہ یہ سب کچھ اسلام کے اثر کی وجہ سے ہے.چاہے ان کے ملک میں کتنی غیر آئینی ہے مگر چونکہ وہ مسلمانوں کی نسل سے ہیں اس لیے ان میں کسی حد تک نیکی کا مادہ موجود ہے.اب بھی یہ خبر ملی ہے کہ 13 احمدی جو گرفتار کیے گئے تھے حکومت نے انہیں رہا کر دیا ہے.یہ چیز بتاتی ہے کہ چاہے مسلمانوں میں کتنی خرابیاں ہوں اسلامی تعلیم کا ان پر اس قدر اثر ضرور ہے کہ وہ انہیں نیکی کی طرف مائل کر دیتا ہے.میں نے دیکھا.ہم خوشی اور افسوس کے مواقع پر حکومتوں کو تاریں دیتے ہیں تو غیر احمدی اسلامی حکومتیں ہماری تعداد کم ہونے کی وجہ سے ہماری تاروں اور پیغامات کی پروا بھی نہیں کرتیں لیکن اسلامی حکومتیں ان کی قدر کرتی ہیں.مجھے یاد ہے ابن سعود کو ایک دفعہ کسی موقع پر تار دی گئی تو انہوں نے فوراً اپنے نام سے جماعت کا شکریہ ادا کیا.پھر ایک دفعہ اردن کے شاہ عبداللہ کو میں نے خط لکھا تو انہوں نے اس کے جواب میں اپنے دستخطوں سے ایک مفصل خط بھجوایا.شاہ ایران کو ایک دفعہ ہمدردی کی تار دی تو انہوں نے حسین اعلیٰ کے ذریعہ جو اُس وقت وزیر دربار تھے شکریہ کی تار بھیجی.غرض میں نے دیکھا ہے کہ اسلامی حکومتوں میں بہت سے اسلامی اخلاق

Page 178

$1956 165 خطبات محمود جلد نمبر 37 ابھی باقی ہیں.مثلاً مصر میں ہماری جماعت کے امیر فوت ہوئے تو خود جنرل نجیب اور کرنل ناصر نے ہمدردی کی تاریں اُن کے خاندان کو دیں.بلکہ ان میں سے ایک نے دو تاریں دیں.ایک تار ان کے اپنے خاندان کے رئیس ہونے کی وجہ سے اور ایک تار ان کے جماعت کے امیر ہونے کی حیثیت سے.لیکن یہ باتیں اُن علاقوں میں نہیں پائی جاتیں جو ہندو اثر کے نیچے ہیں.مثلاً یہی دیکھ لو جب میں لاہور جاتا ہوں تو وہاں ہماری بڑی جماعت ہے اور اسمبلی کے پچیس تمیں ممبر ایسے ہوتے ہیں جو ہمارے ووٹوں سے ممبر بنے ہوتے ہیں لیکن چونکہ وہ ہندو اثر کے نیچے رہے ہیں اس لیے وہ ملنے سے گھبراتے ہیں.لیکن جب میں پشاور گیا تو اُس وقت جو پارٹی بھی مجھے دی گئی اُس میں صوبائی وزیر اعظم خان عبدالقیوم خاں صاحب اور دو تین اور وزیر اور جوڈیشل کورٹ کے جج بھی شریک ہوئے.اس کے مقابلہ میں لاہور میں بعض چھوٹے چھوٹے رئیس بھی ہماری پارٹیوں میں آنے سے گھبراتے ہیں.حالانکہ اُن پر ہمار- بھی ہوتے ہیں.اور اس کی وجہ یہی ہے کہ لاہور کا علاقہ ہندو اثر کے نیچے رہا ہے اور پشاور اسلامی اثر کے نیچے ہے اس لیے وہاں ابھی تک اسلام کا اثر پایا جاتا ہے.افغانستان میں جو 13 احمدیوں کو رہا کیا گیا ہے اس کو بھی میں اسلام کے اثر کا ہی نتیجہ سمجھتا ہوں بلکہ داؤد جان صاحب کو بھی جو شہید کر دیئے گئے ہیں علاقہ کے گورنر نے بچانے کی پوری کوشش کی لیکن ہجوم نے حملہ کر کے انہیں باہر نکال لیا اور گولی مار کر شہید کر دیا.وہاں ہر شخص کے پاس ہتھیار ہوتے ہیں اور جب لوگ جوش میں آ جاتے ہیں تو حاکم بھی ڈر جاتے ہیں.بہر حال میرا تجربہ یہی ہے کہ جن ممالک میں اسلامی اثر پایا جاتا ہے وہاں کے رہنے والوں میں زیادہ اچھے اخلاق پائے جاتے ہیں اور ان میں زیادہ تواضع ہوتی ہے اور ان میں زیادہ انکسار پایا جاتا ہے.لیکن جن لوگوں پر اسلامی اثر نہیں یا وہ غیر قوموں کے ساتھ رہ رہ کر اپنی اسلامی روایات کو بھول گئے ہیں اُن میں اب اسلام والی باتیں نہیں پائی جاتیں.بلکہ ان میں غرور زیادہ پایا جاتا ہے.ورنہ اسلام کی برکت سے اسلامی ممالک میں بھی اگر چہ ہماری جماعت کی مخالفت کی جاتی ہے مگر تعلقات کے بارہ میں ان کی حالت دوسروں کی نسبت بہت زیادہ اچھی ہے.ابھی پچھلے دنوں مجھے ایران کے ایک مذہبی لیڈر کا خط آیا جس میں اُس نے

Page 179

$1956 166 خطبات محمود جلد نمبر 37 لکھا کہ آئیں ہم مل کر اسلام کی خدمت کریں.میں نے اُسے یہی لکھا ہے کہ ہم تو اس کے لیے تیار ہیں مگر تم خود غور کر لو کہیں بعد میں لوگوں کی مخالفت پر پیچھے نہ ہٹ جانا.ہمارے ملک میں تو لوگوں کی یہ کیفیت ہے کہ جب مسلم لیگ قائم ہوئی تو اس کی مالی حالت اتنی کمزور تھی کہ انہیں اپنے جلسے منعقد کرنے کے لیے بھی روپیہ نہیں ملتا تھا اور ہمیشہ میں انہیں مدد دیا کرتا تھا.لیکن اب یہ پروپیگنڈا کیا جاتا ہے کہ ہمارا مسلم لیگ کے ساتھ کوئی تعلق نہیں رہا.مجھے لاہور میں ایک دفعہ لکھنؤ کے ایک وکیل ملے.انہوں نے کہا کہ میں قریباً 9 سال مولانا محمد علی صاحب کا سیکرٹری رہا ہوں اور مجھے خوب یاد ہے کہ جب کبھی مسلم لیگ کا جلسہ ہوتا تھا آپ کو اُس میں بلایا جاتا تھا اور آپ سے مشورہ لیا جاتا تھا.میں نے کہا کہ دوسرے مسلمان تو یہی کہتے ہیں کہ ہمارا مسلم لیگ سے کوئی تعلق نہیں رہا.وہ کہنے لگے کہ کوئی شخص جو حالات سے واقف ہو ایسا نہیں کہہ سکتا.میں خود مسلم لیگ کے جلسوں میں شریک ہوتا رہا ہوں اور مجھے خوب یاد ہے کہ آپ کو اُن جلسوں میں بلایا جاتا تھا اور جب روپیہ کی وجہ سے جلسہ نہ ہوسکتا تھا سے مالی امداد لی جاتی تھی.ہم لوگ جو ابھی تک زندہ موجود ہیں اس بات کے گواہ ہیں.میں نے کہا کمرہ میں بیٹھ کر آپ کے گواہی دینے سے کیا بنتا ہے.اگر آپ میں جرات ہے اور آپ سمجھتے ہیں کہ آپ حق بات کہہ رہے ہیں تو اخباروں میں بھی اپنا بیان شائع کروائیں.پس حقیقت یہی ہے کہ جن ممالک میں اسلامی اثر پایا جاتا ہے اُن میں ہمیں اخلاق ، تواضع اور انکسار نظر آتا ہے اور انہیں خدا تعالیٰ سے بھی محبت ہوتی ہے.اسی طرح سکھوں میں میں نے دیکھا ہے اُن میں بھی خدا تعالیٰ کی محبت پائی جاتی ہے.میں نے عام طور پر دیکھا ہے کہ سکھ ملنے آتے تھے تو وہ ہاتھ جوڑ کر رونے لگ جاتے تھے اور کہتے تھے کہ دعا کریں ہمیں خدا مل جائے.اسی طرح ہندوؤں میں بھی ایک طبقہ ایسا ہے جس میں خدا تعالیٰ سے ملنے کی تڑپ پائی جاتی ہے.بدقسمتی ہماری ہے کہ ہم نے اُن میں تبلیغ بند کر دی ہے اور خدا تعالیٰ کی نعمت کو تالے لگا دیئے ہیں.اگر ہم انہیں تبلیغ کریں تو وہ ضرور اثر قبول کر لیں.مجھے ایک دعوت کے موقع پر کراچی کے انڈین ہائی کمشنر ملے.انہوں.

Page 180

$1956 167 خطبات محمود جلد نمبر 37 باتوں باتوں میں بتایا کہ مجھے اسلام کی کتابیں پڑھنے کا بڑا شوق ہے اور آپ کا لٹریچر بھی میں نے پڑھا ہے.اسی طرح تصوف کی طرف مجھے رغبت ہے اور فارسی اور عربی کی قابلیت جس قدر میں پیدا کر سکا ہوں اس کے مطابق تصوف کی کتابوں کا مطالعہ کرتا رہتا ہوں.غرض بڑے بڑے ہندوؤں میں بھی خدا تعالیٰ کا خوف پایا جاتا ہے.مدراس کے مشہور کانگرسی لیڈر شری راج گوپال اچاریہ کے متعلق میں نے دیکھا ہے کہ اُن میں بھی خدا تعالیٰ کا خوف پایا جاتا ہے اور اُن کا دل چاہتا ہے کہ ہندوستان میں عدل و انصاف قائم رہے اور مسلمانوں کو کوئی نقصان نہ پہنچے.لیکن ہم ان لوگوں تک اسلام کی تعلیم مناسب طریق سے نہیں پہنچاتے.بہر حال یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ حکومت افغانستان نے ہمارے 13 احمدیوں کو چھوڑ دیا.جو دوست شہید کر دیئے گئے ہیں ان کی شہادت میں بھی گورنمنٹ کا کوئی دخل نہیں.لوگ انہیں زبردستی قیدخانہ سے نکال کر لے گئے اور شہید کر دیا.بہرحال دوست دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ اس ملک میں احمدیوں کے لیے امن کی صورت پیدا کرے اور جن لوگوں نے وحشیانہ نمونہ دکھایا ہے انہیں ہدایت دے.آخر وہ بھی ہمارے بھائی ہیں اور خدا تعالیٰ چاہے تو وہ انہیں ہدایت دے سکتا ہے.ابوسفیان کو ہی دیکھ لو وہ اسلام کا کتنا مخالف تھا.لیکن خدا تعالیٰ نے اسے ہدایت دے دی اور اُس نے اسلام کو قبول کر لیا.پھر یہ تو پہلے سے مسلمان کہلاتے ہیں ان کو ہدایت دینا اس کے لیے کونسا مشکل امر ہے.پس دعا کرو کہ اللہ تعالیٰ انہیں احمدیت کے قبول کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ان کی وحشت کو دور کرے.اسی طرح حکومت افغانستان کے لیے بھی دعائیں کرو.آخر اس نے بھی بعض مواقع پر انصاف کا نمونہ دکھایا ہے.جب صاحبزادہ عبداللطیف ہے.جب صاحبزادہ عبداللطیف صاحب شہید کیے گئے تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے لکھا ہے کہ امیر حبیب اللہ خاں سے پہلا پتھر چلانے کے لیے کہا گیا.اس پر اُس نے پتھر مارنے سے انکار کر دیا.گویا اُس نے آخری وقت تک اپنے آپ کو بچانے کی کوشش کی.اس کے معنے یہ ہیں کہ اُس کے دل میں خدا تعالیٰ کا خوف پایا جاتا تھا.ہم چاہتے ہیں کہ ان لوگوں میں خدا تعالیٰ کا مزید خوف پیدا ہو

Page 181

$1956 168 خطبات محمود جلد نمبر 37 پاکستان اور افغانستان کے درمیان جو اختلاف پیدا ہو رہا ہے وہ دور ہو اور دونوں ممالک کے رہنے والے سیاسی اور دینی لحاظ سے بھائی بھائی بن کر رہنے لگ جائیں“.(الفضل 14 جون 1956ء)

Page 182

$1956 169 14 خطبات محمود جلد نمبر 37 میری صحت کے لیے خاص طور پر دعائیں کریں جن دوستوں کو اچھی خوا میں آتی ہیں انہیں دعاؤں سے غافل نہیں ہونا چاہیے (فرمودہ 6 اپریل 1956ء بمقام ربوہ) تشهد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: در مجلس شورای سے چند دن پہلے میری طبیعت بحال ہو گئی تھی اور معلوم ہوتا تھا کہ اگر اللہ تعالیٰ کی مشیت کے مطابق ابھی میری کچھ اور زندگی باقی ہے تو میں اُس کی چی دی ہوئی توفیق کے مطابق سلسلہ کا کچھ کام کر سکوں گا لیکن مجلس شورای کے کام نے میری طبیعت پر بوجھ ڈال دیا ہے.پھر اس کے بعد ملاقاتیں بھی کرنی پڑیں اور لاہور کا سفر بھی کی ہوا جس کی وجہ سے اور بھی کوفت ہوئی.اِن سب وجوہ کی وجہ سے میری صحت اس قدر برباد ہوئی اور کل صبح تو ایسی حالت تھی کہ میرا خیال تھا کہ اب دو دن کی زندگی بھی میرے لیے ناممکن ہے.دماغ اتنا پریشان تھا کہ کسی کل بھی سکون نصیب نہیں ہوتا تھا.کمرہ میں ٹہلتے ٹہلتے پاؤں مشکل ہو جاتے تھے اور کسی چیز کی طرف ذرا سا دیکھنے سے بھی سر چکرا جاتا تھا.میرے کمرہ میں گھڑی لگی ہوئی ہے.پہلے عینک لگا کر ٹہلتے ٹہلتے وقت معلوم کر لیتا تھا.لیکن کل صبح یہ حالت تھی کہ ہر چیز تاریک معلوم ہوتی تھی اور وقت

Page 183

$1956 170 خطبات محمود جلد نمبر 37 دوسرے دیکھنا بھی مشکل تھا.رات نہایت کرب اور گھبراہٹ میں گزری.سفر کی وجہ سے پیٹ میں بھی خرابی پیدا ہو گئی جس کی وجہ سے اجابت بھی صحت والی نہیں ہوئی.صبح جو اجابت کی ہوئی وہ اتنی سبز تھی جیسے درخت کے تازے پتے ہوتے ہیں.اس کے معنے یہ تھے کہ جگر بالکل کام نہیں کر رہا.جیسا کہ میں نے پہلے بھی اپنے خطبات میں بتایا ہے جن دنوں دوست زیادہ دعائیں کرتے ہیں میری طبیعت سنبھلنے لگ جاتی ہے اور جب وہ دعاؤں میں کوتاہی کرتے ہیں تو طبیعت بگڑنے لگ جاتی ہے.میں نے دیکھا ہے کہ دو چیزیں میری صحت کے راستہ میں روک بنتی ہیں.پہلی چیز تو یہ ہے کہ جب میں کام شروع کر دیتا ہوں تو دوست سمجھتے ہیں کہ میں اب اچھا ہو گیا ہوں.وہ دعاؤں میں غفلت سے کام لینا شروع کر دیتے ہیں.رے وہ مجھ پر کام کا زیادہ بوجھ ڈال دیتے ہیں جس کی وجہ سے میرا زیادہ سے زیادہ کی وقت مصروف رہتا ہے اور نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ میرا دماغ تھک جاتا ہے اور اس کا صحت پر بُرا اثر پڑتا ہے.اس طرح دل پر سے قبضہ جاتا رہتا ہے اور گھبراہٹ اور خفقان کی صورت پیدا ہو جاتی ہے.پچھلے دنوں جب میری طبیعت اچھی تھی میں سمجھتا تھا کہ اگر میری طبیعت ایک دو ماہ ایسی ہی رہی تو شاید میرا دل قابو میں رہے.طبیعت متواتر کچھ عرصہ تک ایک ہی طرح رہے تو جسم کو اس کی عادت ہو جاتی ہے لیکن کچھ عرصہ طبیعت اچھی رہنے کے بعد کوئی نہ کوئی ایسا سبب پیدا ہو جاتا ہے جس کی وجہ سے پھر کوئی خرابی پیدا ہو جاتی ہے.عادتیں ایک ایک، دو دو ماہ میں پڑتی ہیں صرف چند دن ایک ہی ڈگر پر چلنے سے عادت پیدا نہیں ہوتی.بلکہ بیماری کے بار بار آنے سے جسم میں بیماری کی عادت پیدا ہوتی ہے اور صحت کا احساس کم ہو جاتا ہے.بہر حال مجھے اس وقت ایسی تکلیف ہے جس کی وجہ سے کوئی کام کرنا بھی ناممکن ہے.نہ کسی کام کی طرف میں پوری توجہ دے سکتا ہوں ، نہ قرآن کریم کا ترجمہ کر سکتا ہوں اور نہ کوئی نوٹ لکھوا سکتا ہوں.جس وقت اللہ تعالی طبیعت بحال کرے گا میں کچھ کام کر سکوں گا.آج جو میری حالت ہے اُس سے تو یہ معلوم ہوتا تھا کہ میں ایک منٹ کے لیے بھی کوئی کام نہیں کر سکتا لیکن اس سے قبل ایک ایک گھنٹہ بلکہ دو دو گھنٹے بھی کام کر سکتا تھا.

Page 184

$1956 خطبات محمود جلد نمبر 37 171 اس کی وجہ سے بیشک کچھ وقت تک کمزوری محسوس ہوتی تھی لیکن تھوڑی دیر کے بعد طبیعت کی بحال ہو جاتی تھی.مگر آج میری یہ کیفیت ہے کہ کسی جگہ ذرا دیر بھی نظر ڈالنے سے دماغی بوجھ محسوس کرتا ہے.ٹہلتے ٹہلتے گھڑی پر نظر ڈالتا ہوں یا باہر دیکھتا ہوں تو یہ دماغ کی تھکان کے لیے کافی سبب ہو جاتا ہے.پس جو دوست سمجھتے ہیں کہ جو کام میں نے اپنے ذمہ لگایا ہے اور باوجود بیماری کے میں کر رہا ہوں وہ اسلام اور سلسلہ کے لیے مفید ہے وہ میری صحت کے لیے خاص طور پر دعائیں کریں.پچھلے اکتوبر اور نومبر میں دوستوں نے جو دعائیں کی تھیں اُن کی وجہ سے میری طبیعت یکدم بحال ہو گئی تھی.کراچی سے جب میں آیا تو میری طبیعت سخت خراب ہو گئی تھی لیکن دعاؤں کے نتیجہ میں وہ صورت جاتی رہی.جب میں یورپ گیا تو وہاں کے ڈاکٹروں نے نی بھی کہا تھا کہ آپ کی صحت معجزانہ ہے اور جب میں واپس آیا تو شروع شروع میں تو میری طبیعت خراب رہی اور یوں معلوم ہوتا تھا کہ میں کوئی کام بھی نہیں کر سکتا لیکن جب دوستوں نے دعائیں شروع کیں تو میری طبیعت اتنی بحال ہو گئی کہ میں دسمبر میں کام بھی کرتا رہا اور پھر جلسہ پر تقریریں بھی کیں اور کئی سفر بھی مجبوراً کرنے پڑے.جنوری کا مہینہ بھی اسی حالت میں گزر گیا.فروری میں طبیعت خراب ہونے لگی.مارچ میں کام کرنا پڑا.اس لیے اپریل میں طبیعت بہت زیادہ خراب ہو گئی ہے.جس وقت اس قسم کی کوفت ہوتی ہے ڈاکٹر کہتے ہیں کہ آپ اپنی طبیعت پر زور ڈال کر اسے سمجھائیں لیکن یہ بات غلط ہوتی ہے.مجھے اپنے آپ کو سمجھانے کی بھی طاقت نہیں ہوتی بلکہ سمجھانے سے اور زیادہ گھبراہٹ ہو جاتی ہے.یہاں تک کہ طبیعت گھبرا کر سمجھانا چھوڑ دیتی ہے.پس طبیعت کو سمجھانا بھی اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے.سے بعض دوستوں نے بڑی اچھی خواہیں دیکھی ہیں لیکن ان خوابوں کی وجہ سے بہت سے دوست غلط فہمی میں بھی مبتلا ہو جاتے ہیں حالانکہ جب انبیاء کی خوابوں کی بھی تعبیریں ہوتی ہیں تو مومنوں کی خوابوں کی کیوں تعبیر نہ ہو.پس یہ طریق غلط ہے کہ کوئی اچھا خواب دیکھا تو بیٹھ گئے اور یہ سمجھ لیا کہ اب اچھے ہو جائیں گے اور اس کی وجہ سے دعاؤں میں کمی کر دی.بلکہ

Page 185

$1956 172 خطبات محمود جلد نمبر 37 خواب دیکھنے کے بعد انسان کی ذمہ داری اور بھی بڑھ جاتی ہے اور اس کا فرض ہوتا ہے کہ وہ اور زیادہ دعائیں کرے تاکہ خدا تعالیٰ اس کی خواب کو سچا کر دے.دعاؤں میں کمزوری دکھانے کے تو یہ معنے ہیں کہ وہ اپنی خواب یا خدا تعالیٰ کے وعدہ کو جھوٹا ثابت کرنا چاہتا ہے.اگر وہ دعائیں کرنے لگ جائے تو اس کے یہ معنے ہیں کہ وہ اپنی خواب اور خدا تعالیٰ کے وعدہ کو سچا کرنے کی کوشش کرتا ہے.پس جن دوستوں کو اچھی خوابیں آتی ہیں انہیں دعاؤں سے غافل نہیں ہو جانا چاہیے.کیونکہ غفلت اللہ تعالیٰ کے فضل میں کمی کر دیتی ہے.بہر حال ان دنوں بہت سے دوستوں نے اچھی خواہیں دیکھی ہیں اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ الْمُؤْمِنُ يَرَى اَوْ يُرى لَهُ 1 مومن یا تو خود اچھی خواہیں دیکھتا ہے یا اُس کے متعلق دوسروں کو اچھی خواہیں دکھائی جاتی ہیں.اور یہ اُس کے ایمان کی تقویت کا موجب ہوتی ہیں.نومبر کے آخر میں جو دعاؤں کی تحریک کی گئی تھی اُس کا یہ نتیجہ نکلا کہ دوستوں کی خوابوں کے ساتھ ساتھ مجھے بھی خدا تعالیٰ نے بشارتیں دینی شروع کیں.اور یہ صاف بات ہے کہ دوسرے ص کی بشارتوں اور اپنی بشارتوں میں فرق ہوتا ہے.اپنی بشارتیں براہِ راست حاصل ہوتی ہیں اور وہ ایمان کی تقویت کا زیادہ موجب ہوتی ہیں.دوسرے کی بشارتوں کے متعلق دل میں شبہ رہتا ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ بلی کو چھیچھڑوں کی خوابوں والا معاملہ ہو.اُن کی یہ خواہش ہو کہ میں اچھا ہو جاؤں اور وہ اس کے مطابق خوابیں دیکھنے لگ گئے ہوں.پس براہِ راست بشارتیں ملنے کی وجہ سے میرے دل کو بہت تقویت حاصل ہوتی تھی لیکن کچھ دنوں سے پھر طبیعت خراب ہو رہی ہے.دوستوں نے مجھے شوری میں کام کرتے دیکھا تو انہوں نے خیال کر لیا کہ اب میں اچھا ہو گیا ہوں اور اپنا نفس بھی کسی حد تک کام کرنے کی وجہ سے مغرور ہوا اور اس سے دعاؤں میں سُستی پیدا ہوئی.نتیجہ یہ ہوا کہ خود مجھے براہ راست جو بشارتیں مل رہی تھیں اُن میں بھی کمی آگئی اور اس کے نتیجہ میں بھی طبیعت میں افسردگی پیدا ہو گئی.درحقیقت شورای کے بعد سے طبیعت بہت زیادہ خراب ہے.پھر سفر پر گئے اور ربوہ سے باہر تین چار دن رہے.اُس وقت بھی طبیعت خراب رہی اور پھر یہ خرابی بڑھتی چلی گئی اور آج وہ اپنی انتہا کو پہنچ گئی.آج میرا ہر عضو کام کرنے سے جواب دینے لگ گیا تھا، نظر کمزور ہو گئی تھی،

Page 186

$1956 173 خطبات محمود جلد نمبر 37 معدہ اور انتڑیوں میں بھی خرابی پیدا ہو گئی تھی اور اعصاب میں بھی نقص واقع ہو گیا تھا.غرض را کوئی عضو صحیح طور پر کام نہیں کر سکتا تھا“.- الفضل 19 اپریل 1956 ء ) 1 : ترندى ابواب الرؤيا باب ذهبت النبوة وبقيت المبشرات ( مفهوماً)

Page 187

$1956 174 15 خطبات محمود جلد نمبر 37 موجودہ ایام میں خصوصیت کے ساتھ دعائیں کرو کہ اللہ تعالیٰ مجھے صحت والی اور کام کرنے والی زندگی عطا فرمائے اگر اللہ تعالیٰ کوئی بشارت دے تو مومن کا فرض ہوتا ہے کہ وہ اپنی دعاؤں اور جد وجہد کو اور بھی تیز کر دے (فرموده 13 را پریل 1956ء بمقام ربوہ) تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: " کراچی سے آنے کے بعد پہلے ستمبر اور اکتوبر کے کچھ دن طبیعت خراب رہی.اس کے بعد اچھی ہونی شروع ہو گئی اور دسمبر میں تو بہت ہی اچھی ہو گئی مٹی کہ جلسہ سالانہ پر میں نے کئی گھنٹہ تک تقریریں کیں.پھر جنوری میں بھی طبیعت اچھی رہی لیکن فروری کے آخر میں خراب ہونی شروع ہوئی اور اس کا سلسلہ چلتا چلا گیا.یہاں تک کہ مارچ میں شورای ہوئی اور اس کے بوجھ کی وجہ سے طبیعت ایسی بگڑی کہ فالج کے حملہ کے بعد بھی پہلے دو چار دن چھوڑ کر اتنی طبیعت نہیں بگڑی تھی جتنی اس وقت بگردی.زیادہ تر یہ خیال ہے کہ میرے معالج ڈاکٹر کی مجھے ایک چٹھی آئی تھی جس میں اُس نے لکھا تھا کہ آپ تقریریں جتنی چاہیں کریں

Page 188

$1956 175 خطبات محمود جلد نمبر 37 لیکن ایسی جگہ نہ بیٹھیں کہ لوگ آپ سے اونچی آواز سے باتیں کر رہے ہوں اور آپ کو اُن کا لی ، اونچی آواز میں جواب دینا پڑتا ہو.اور شورای کی یہی کیفیت ہوتی ہے.انگریزی میں ایک نجی محاورہ ہے کہ راؤنڈ دی ٹیبل ٹاک Round The Table Talk) یعنی میز کے اردگرد لوگ بیٹھے ہوں اور اُن سے باتیں کی جا رہی ہوں اور مسائل پر غور و فکر جاری ہو.اور ایسی جگہ بیٹھنے سے اُس نے مجھے منع کیا اور کہا کہ میں تقریروں سے نہیں روکتا.چنانچہ جلسہ سالانہ پر میں نے ایک تقریر متواتر دو گھنٹے تک کی اور اس سے پہلے بھی دو دن تقریریں کرتا رہا.مگر خدا تعالیٰ کے فضل سے مجھے کوئی کوفت نہ ہوئی.لیکن شورای کے بعد طبیعت ایسی بگڑی کہ یوں معلوم ہوتا تھا کہ میرے ہوش و حواس جاتے رہے ہیں اور جسم بالکل بیکار ہو گیا ہے.کچھ یہ بھی خیال ہے کہ اُس وقت گرمی کا موسم آچکا تھا اور پھر شورای کی کیفیت راؤنڈ دی ٹیبل ٹاک والی تھی.یعنی لوگ بولتے تھے اور مجھے اُن کی باتوں پر غور کرنا پڑتا تھا اور پھر مجھے بولنا پڑتا تھا.اور ڈاکٹر نے لکھا تھا کہ یہ سخت مضر ہے.پھر بعد میں معلوم ہوا کہ ان ایام میں گرمی کی وجہ سے انتڑیوں اور معدہ پر بھی بُرا اثر پڑا.شوری سے پہلے ہی میری بھوک بند تھی لیکن پھر اور بھی بند ہو گئی.اس طرح انتریوں کی یہ کیفیت ہو گئی کہ اسہال روکنے کی دوا دی جاتی تو بالکل قبض ہو جاتی اور اجابت والی دوا دی جاتی تو اسہال شروع ہو جاتے.غرض طبیعت اس قدر منقلب ہو گئی کہ وہ ای انتہا کی طرف جاتی تھی.اگر قبض کی طرف جاتی تو کئی کئی دن تک اجابت کی طرف مائل ہی نہیں ہوتی تھی اور اگر اسہال کی طرف جاتی تو دن میں کئی کئی دفعہ اسہال آ جاتے.گویا انتڑیاں اور معدہ بالکل خراب ہو گیا.گو اللہ تعالیٰ کا یہ فضل ہو گیا کہ پہلے ڈاکٹروں کی توجہ ادھر نہیں گئی ہے تھی.لیکن اس بیماری کی وجہ سے انہیں انتڑیوں کے علاج کا خیال پیدا ہوا.چنانچہ ابھی چار پانچ دن سے ہی ادھر توجہ ہوئی ہے تو پھر خدا نے ایک نئی طاقت بخش دی ہے.باقی وہ جو احساس تھا کہ گرمی کی وجہ سے طبیعت خراب ہوئی ہے اس کے لیے انجمن نے ایک کثیر رقم خرچ کر کے کراچی میں کوٹھی بنوائی تھی اور اس سے غرض یہ تھی کہ وہاں مبلغ رہے اور اس کے ساتھ جماعت کی لائبریری اور ریڈنگ روم بھی ہو تاکہ وہاں سلسلہ کی اعلی درجہ کی نمائندگی ہو سکے.یہ کوٹھی پچھلے سال سے بن رہی تھی.میں انگلستان سے بھی

Page 189

$1956 176 خطبات محمود جلد نمبر 37 بار بار انہیں توجہ دلاتا رہا کہ جلدی کوٹھی بناؤ اور وہ ہمیشہ یہی کہتے کہ آپ کے آنے تک بن جائے گی.جب میں واپس آیا تو کو کوٹھی بن چکی تھی مگر اُس میں پانی اور بجلی کا انتظام نہیں تھا.اسی وجہ سے مجھے جلدی ربوہ آنا پڑا.یہاں گرمی زیادہ تھی اور اس کا طبیعت پر بُرا اثر ہوا.بہر حال میں نے پھر وہاں کے دوستوں سے کہنا شروع کیا کہ کوشش کرو کہ بجلی لگ جائے اور روشنی اور پنکھے کا انتظام ہو جائے.انہوں نے وعدہ کیا کہ ستمبر میں لگ جائیں گے.مگر ستمبر کا سارا مہینہ گزر گیا اور پنکھے نہ لگے.پھر اکتوبر میں خط لکھے تو جواب آیا کہ اگلے ہفتہ لگ جائیں گے.مگر اگلا ہفتہ بھی خالی گزر گیا.پھر خط لکھے تو جواب آیا بس اگلے ہفتے لگ جائیں گے مگر پھر بھی نہ لگے اور اس طرح اکتوبر کا مہینہ بھی گزر گیا.پھر انہوں نے کہنا شروع کیا کہ نومبر میں لگ جائیں گے اور ہر بار یہی کہتے کہ اگلے ہفتہ لگ جائیں گے مگر نومبر بھی گزر گیا اور ان کا اگلا ہفتہ نہ آیا.پھر دسمبر کا مہینہ شروع ہو گیا اور پھر انہوں نے یہی کہنا شروع کر دیا کہ بس اگلے ہفتے لگ جائیں گے.آخر جلسہ پر وہاں سے دوست آئے تو میں نے اُن سے کہا کہ اگلے ہفتہ کے کوئی معنے ہونے چاہیں.اتنا عرصہ گزر گیا اور آپ نے کوئی کام نہیں کیا.کہنے لگے بس اب جنوری میں بجلی آ جائے گی اور پنکھے لگ جائیں گے.چنانچہ جنوری میں پھر ان سے خط و کتابت شروع ہوئی اور جواب آیا کہ بس لگ گئی.میں نے پوچھا کہ لگ گئی سے مراد کیا ہے؟ کہنے لگے لگ گئی سے مراد یہ ہے کہ محکمہ والوں نے بجلی لگانے کا پکا وعدہ کر لیا ہے.غرض انہی وعدوں میں جنوری کا مہینہ گزرا.پھر فروری کا مہینہ گزر گیا اور مارچ شروع ہو گیا.مارچ میں جب وہ مجلس شورای پر آئے تو میں نے کہا کہ خدا کا خوف کرو.اتنا معمولی کام بھی تم سے نہیں ہو سکا.اس پر شیخ عبدالحق صاحب انجنیئر جنہوں نے بڑی محنت سے کوٹھی کا کام کیا ہے اور گو اُن سے بعض غفلتیں بھی ہوتی رہی ہیں مگر وہ ہمارے شکریہ اور دعا کے مستحق ہیں انہوں نے کہا کہ اب واپس جاتے ہی کام مکمل ہو جائے گا اور آپ کو تار بھجوا دوں گا.چنانچہ اتنی بات تو سیچ نکلی کہ اُن کی طرف سے تار آ گیا کہ بجلی لگ گئی ہے.مگر ساتھ ہی ایک دوسرا تار آ گیا کہ جماعت کو کوٹھی کی سخت ضرورت ہے ہمیں استعمال کرنے کی اجازت دی جائے.مگر یہ نہ لکھا کہ کتنے کمروں کی ضرورت ہے اور کب تک ضرورت ہے.گویا وہ جو خیال تھا کہ شورای کے بعد

Page 190

$1956 177 خطبات محمود جلد نمبر 37 طبیعت کی بحالی کے لیے میں کہیں چلا جاؤں وہ پورا نہ ہو سکا.گرمی تو کراچی میں بھی ہے لیکن وہاں ہوا چلتی رہتی ہے اور پھر پنکھے لگے ہوئے ہوں تو پھر گرمی سے تکلیف محسوس نہیں ہوتی مگر انہوں نے کہا بجلی تو ہم نے لگا دی ہے مگر آپ کی خاطر نہیں لگائی اپنی خاطر لگائی ہے.اس لیے عارضی طور پر ہمیں اس کوٹھی کے استعمال کی اجازت دی جائے.اب میں ایسا بے حیا تو نہیں ہوسکتا تھا کہ دو سال سے جو لوگ کوٹھی بنوا رہے تھے اُن کو بھی استعمال کرنے کی اجازت نہ دیتا.میں نے لکھ دیا کہ تم استعمال کر سکتے ہو.مگر یہ بتاؤ کہ عارضی کا مفہوم کیا ہے؟ آیا دس دن مُراد ہیں یا دس سال مراد ہیں یا دس صدیاں مراد ہیں؟ مگر وہاں سے کوئی جواب نہیں آتا حالانکہ اس کوٹھی میں سولہ کمرے ہیں اور اتنے کمرے گورنر جنرل کی کوٹھی میں بھی نہیں ہیں اور ہماری جماعت کا کوئی بڑے سے بڑا امیر آدمی بھی وہاں ایسا نہیں جس کی کوٹھی کے سولہ کمرے رے ہوں.رامہ صاحب کی وہاں کوٹھی ہے جو ہماری اس کوٹھی کے تیسرے حصہ کے برابر ہے اور نوسو روپیہ ماہوار پر چڑھی ہوئی ہے.اگر انہیں کوٹھی کے تیسرے حصہ کی بھی ضرورت ہوتی تو دو تہائی میں ہم گزارہ کر سکتے تھے مگر بار بار پوچھنے کے باوجود وہاں سے کوئی جواب آیا اگر وقت پر جواب آ جاتا تو مجھے بڑی رقم خرچ کر کے چاروں طرف پہاڑوں پر انتظام کرنے کے لیے آدمی دوڑانے کی ضرورت نہ ہوتی.اب جواب ایسے وقت میں آیا ہے کہ نہ تو ی میں رمضان کی وجہ سے کراچی جا سکتا ہوں اور نہ تھوڑے دنوں کے لیے ہزاروں روپیہ خرچ کر کے پہاڑ پر جا سکتا ہوں.صرف یہی چیز باقی رہ گئی ہے کہ ربوہ میں رہوں اور میری صحت برباد ہو.کسی نے سچ کہا ہے خدا ایسے دوستوں سے بچائے.بہر حال موسم کی خرابی کی وجہ سے میری صحت سخت بگڑ گئی ہے.پیچھے تو ایسی حالت ہو گئی تھی کہ مایوسی کی حد تک پہنچ گئی تھی.اور پچھلے سال فالج کے شدید حملہ کے بعد بھی طبیعت اتنی خراب نہیں ہوئی تھی جتنی اس سال ہوئی.مگر اللہ تعالیٰ کا فضل ہوا اور اس نے ڈاکٹروں کا اس طرف پھیرا کہ معدہ اور انتڑیوں کی طرف توجہ کرو.چنانچہ اس توجہ کے نتیجہ میں اب پہلے سے افاقہ محسوس ہوتا ہے گو پورا آرام تو نہیں آیا.مگر اتنی طاقت پیدا ہو گئی ہے گواب ہزار خرابی کے بعد اور میری صحت برباد کر دینے کے بعد جواب آیا کہ کوٹھی خالی ہے آ جائیں لا

Page 191

$1956 178 خطبات محمود جلد نمبر 37 کہ میں بات کر سکوں حالانکہ نومبر دسمبر میں یہ کیفیت تھی کہ میں نے سیر روحانی کے پانچ سو کالم کی نظر ثانی کی جو کتابی صورت میں تین سو صفحات پر شائع ہو رہی ہے.اسی طرح قرآن کریم کی آخری سورتوں کا مضمون سوا سو کالم تک دیکھا.پھر جلسہ پر تقریریں بھی کیں مگر اب یہ حالت تھی کہ ایک سطر بھی نہیں دیکھ سکتا تھا.ذرا بھی نظر ڈالتا تو سر چکرانے لگ جاتا.اتر سوں تو طبیعت اتنی خراب ہو گئی کہ میں گھر میں نماز سے پہلے سنتیں پڑھنے لگا تو سنتیں پڑھنے کے لیے جھکتے ہوئے مجھے ایسا محسوس ہوا جیسے کسی دیو نے مجھے اٹھا کر پانچ سات فٹ پرے پھینک دیا ہے.آخر میری بیوی دوڑتی ہوئی آئی اور اس نے مجھے پیچھے سے پکڑا مگر ایک عورت کیا کرسکتی ہے.میں پھر بھی زمین پر منہ کے بل گر گیا مگر اس کے بعد میں نے غلطی کی کہ نماز پڑھانے کے لیے آ گیا.اس خیال سے کہ کہیں باجماعت نماز نہ رہ جائے مگر اس کا نتیجہ ہوا کہ بعد میں کئی دن طبیعت بہت خراب رہی.بہر حال ان دنوں طبیعت اس طرح خراب رہی ہے کہ بعض دفعہ تو زندگی سے نفرت پیدا ہو جاتی تھی کہ ایسی زندگی کو کیا کرنا ہے.بعض دوستوں کو بیشک اچھی خوابیں بھی آئی ہیں مگر وہ اس امر کو مد نظر نہیں رکھتے کہ خواہیں ہمیشہ تعبیر طلب ہوتی ہیں.ایک دوست میرے پاس آئے اور کہنے لگے میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ میری بیوی کے منہ پر داڑھی اور مونچھیں ہیں اور اُس کے جسم پر بال بھی اُگے ہوئے ہیں.مجھے اس خواب سے بڑی گھبراہٹ پیدا ہو گئی ہے.میں نے کہا گھبراہٹ کی کوئی چی بات نہیں.تمہارے ہاں لڑکا پیدا ہو گا.اسی طرح مجھے یاد آیا کہ ابن سیرین جوحسن بصری کے داماد تھے اور جن کا مقام تصوف میں حضرت علیؓ کے بعد سمجھا جاتا ہے اُن کے پاس ایک شخص ہرایا ہوا آیا اور کہنے لگا میں تو اپنی بیوی کو طلاق دینا چاہتا ہوں.میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ وہ ننگی لیٹی ہوئی ہے اور دو مینڈھے اُس کے سامنے آپس میں ٹکریں مار رہے ہیں.آپ کی مجھے اجازت دیں کہ میں اُسے طلاق دے دوں.آپ نے فرمایا تم بیوقوفی نہ کرو تمہاری بیوی نے قینچی کے ساتھ صفائی کی ہے جاؤ اور جا کر پوچھو.وہ گیا اور تھوڑی دیر کے بعد آ کر کہنے لگا کہ حضور! آپ نے تو جان بچا لی.واقعہ یہی ہے کہ اُس نے قینچی کے ساتھ صفائی کی تھی.تو خواب میں جو کچھ دکھایا جاتا ہے اول تو اس کی تعبیر ہوتی ہے.دوسرے لوگ یہ نہیں سمجھتے

Page 192

$1956 179 خطبات محمود جلد نمبر 37 کہ ہر چیز کا ایک وقت ہوتا ہے.اگر وہ دیکھیں گے کہ شفا ہو گئی ہے تو پھر اُسی وقت شفا کا انتظار کرنے لگ جائیں گے حالانکہ ایسا کبھی نہیں ہوا کہ کسی کو خدا نے یہ دکھایا ہو کہ اُس کے ہاں بیٹا ہوا ہے اور اُسی وقت اندر سے بیوی کی آواز آ جائے کہ الْحَمْدُ لِلہ بیٹا پیدا ہو گیا ہے.پھر خدا تعالیٰ جو کچھ رویا میں دکھاتا ہے اُس کو پورا کرنے کے لیے ظاہری تدابیر کو بھی کام میں.لانا ضروری ہوتا ہے.قصہ مشہور ہے کہ ایک بزرگ کے پاس ایک سپاہی آیا اور کہنے لگا دعا کیجیے کہ میرے ہاں بیٹا پیدا ہو.اس کے بعد وہ اُٹھ کر چل پڑا مگر بجائے اُس طرف جانے کے جس طرف سے آیا تھا وہ دوسری طرف روانہ ہو گیا.اُس بزرگ نے اُسے آواز دی اور پوچھا کہ کہاں جاتے رہے ہو؟ تم آئے تو ادھر سے تھے اور جا اُدھر رہے ہو.وہ کہنے لگا حضور! میں چھاؤنی جا رہا ہوں.انہوں نے کہا اگر تم چھاؤنی جا رہے ہو تو میری دعا سے کچھ نہیں بن سکتا.اگر تم نے بیٹا ی لینا ہے تو گھر کی طرف جاؤ.بہر حال جس طرح دعاؤں کی قبولیت کے لیے ظاہری تدابیر سے کام لینا بھی ضروری ہوتا ہے اسی طرح خوابوں کے بعد بھی دعاؤں اور جدو جہد کو تیز کرنے کی ضرورت ہوتی ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ یہ نہیں چاہتا کہ سب کام وہ خود کرے بلکہ وہ یہ بھی چاہتا ہے کہ بندے بھی اس میں حصہ لیں.حضرت خلیفہ اسیح الاول کا ہمیشہ یہ طریق تھا کہ جب بھی آپ کسی مریض کی نبض پر ہاتھ رکھتے فوراً دعا کرنا شروع کر دیتے کہ یا اللہ ! مجھے نہیں پتا کہ اس شخص کو کیا مرض ہے.اس کی بیماری اس کے اندر چھپی ہوئی ہے اور تو ہی اس کو دور کر سکتا ہے.اس کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ آپ کو سمجھا دیتا اور آپ مریض کو علاج بتا دیتے.پھر بعض دفعہ تعبیر یہ ہوتی ہے کہ ڈاکٹروں کی طرف توجہ کرو ہم انہیں علاج سمجھا دیں گے اور بعض دفعہ یہ مراد ہوتی ہے کہ دعائیں کرتے رہو آخر ان دعاؤں کے نتیجہ میں شفا ہو جائے گی.مگر ناواقف اور روحانیت سے نابلد انسان سمجھتا ہے کہ جب خدا نے ایک نظارہ دکھا دیا ہے تو مجھے کسی دعا یا مزید جدوجہد کی کیا ضرورت ہے.مجھے اب تک حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام کے زمانہ کا ایک واقعہ

Page 193

خطبات محمود جلد نمبر 37 180 $1956 نہیں بھولتا (ضمنا میں یہ بھی کہہ دینا چاہتا ہوں کہ کئی لوگ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ کی روایات مجھ سے پوچھتے رہتے ہیں مگر اُس وقت کوئی خاص بات یاد نہیں آتی.اب موقع پر ایک بات یاد آ گئی ہے.جن کو شوق ہو وہ لکھ لیں).حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جب آتھم کے متعلق پیشگوئی کی اور اس کی میعاد کا آخری دن آیا تو اُس دن ایک احمدی پٹھان کی زور زور سے رونے اور چیخیں مارنے کی آوازیں آنی شروع ہوئیں کہ یا اللہ ! اپنے مسیح کو سچا کر دے.یا اللہ ! آج دن ختم نہ ہو جب تک کہ آٹھم مر نہ جائے.یہ حضرت خلیفۃ اصیح الاول کے مطب کے ساتھ والے کمرے کا واقعہ ہے جو مسجد مبارک کے سامنے تھا اور جس میں اُن دنوں مہمان ٹھہرا کرتے تھے.حضرت خلیفہ امسیح الاول جس کمرہ میں مطب فرمایا کرتے تھے وہ ایک لمبا سا کمرہ ہوا کرتا تھا اور اُس میں حکیم مولوی قطب ا کے کمپاؤنڈر(COMPOUNDER) کے طور پر کام کیا کرتے تھے.جب حضرت خلیفہ اول کی وفات ہو گئی تو پھر وہ خود طبیب بن گئے اور اسی کمرہ کے ایک حصہ میں مطب کرنے لگ گئے.دوسرے حصہ میں ہمارے موٹر کا گیراج (GARAGE) بن گیا تھا.حضرت خلیفہ اول کے اس مطب کے ساتھ ایک اور کمرہ ہوا کرتا تھا جسے اُس وقت مہمان خانہ کے طور پر استعمال کیا جاتا تھا اور جس میں وہ پٹھان بھی ٹھہرا ہوا تھا.جب آتھم کی پیشگوئی کا آخری دن آیا تو اُس نے اور اُس کے بعض ساتھیوں نے مل کر شور مچانا شروع کر دیا کہ یا اللہ ! اپنے مسیح کو جھوٹا نہ کیجئیو.یا اللہ ! آج دن ختم نہ ہو جب تک کہ آتھم مر نہ جائے.اُن دنوں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام عصر کے بعد مسجد میں بیٹھ جاتے اور شام تک وہیں تشریف رکھا کرتے تھے آپ نے یہ شور سنا تو فرمایا انہیں جا کر سمجھاؤ کہ کیا خدا کو نہیں پتا کہ اُس نے کوئی پیشگوئی کی ہوئی ہے.تم کیوں گھبرا رہے اور خوامخواہ چیچنیں مار رہے ہو.مگر ادھر تو بعض لوگوں کی یہ کیفیت تھی اور اُدھر چاچڑاں شریف والے غلام فرید صاحب جو ایک بہت بڑے بزرگ گزرے ہیں اور جن کے مریدوں میں نواب صاحب بہاولپور بھی شامل تھے ایک دفعہ اُن کے سامنے بعض لوگوں نے آتھم کی پیشگوئی کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام کا مذاق اُڑانا شروع کر دیا کہ مرزا صاحب نے کہا تھا کہ وہ اتنے عرصہ میں مر جائے گا

Page 194

$1956 181 خطبات محمود جلد نمبر 37 مگر نہ مرا اور مرزا صاحب کی پیشگوئی جھوٹی نکلی.یہ مذاق جاری رہا.یہاں تک کہ نواب صاحب بھی اس ہنسی میں شریک ہو گئے.اس پر غلام فرید صاحب جوش میں آ گئے اور انہوں نے کہا چپ رہو! تمہیں شرم نہیں آتی کہ تم اُس شخص کا مذاق اُڑا رہے ہو جس نے ایک عیسائی کے مقابلہ میں اپنی غیرت کا اظہار کیا.اُس عیسائی نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دجال کہا تھا جس پر مرزا صاحب کو جوش آگیا اور وہ اس کے مقابلہ کے لیے نکل کھڑے ہوئے.تمہیں شرم نہیں آتی کہ تم اس عیسائی کی تو تائید کر رہے ہو جس نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دقبال کہا تھا اور مرزا صاحب کا مذاق اُڑا رہے ہو حالانکہ انہوں نے اسلام کے لیے اپنی غیرت کا اظہار کیا تھا.پھر انہوں نے کہا تم کہتے ہو آتھم نہیں مرا.آتھم مر چکا ہے اور اُس کی لاش میری آنکھوں کے سامنے پڑی ہے.چنانچہ تھوڑے ہی عرصہ کے بعد آتھم اس پیشگوئی کے مطابق مر گیا.اب دیکھ لو! چاچڑاں والے بزرگ سمجھ گئے کہ پیشگوئی پوری ہو چکی ہے مگر نواب بہاولپور نہ سمجھے اور انہوں نے سمجھا کہ پیشگوئی غلط نکلی ہے.اسی طرح خوابوں کی بھی تعبیریں ہوتی ہیں اور وہ اپنے وقت پر ظاہر ہوا کرتی ہیں.ابھی چند دن ہوئے میں نے رویا میں دیکھا کہ مفتی فضل الرحمان صاحب آئے ہیں.جہاں میں سوتا ہوں اُس کے قریب ہی ایک قالین نماز کے لیے بچھا ہوا ہے.میں نے دیکھا کہ مفتی صاحب آئے اور اُس پر بیٹھ گئے.اس پر میں بھی اپنی چار پائی سے اُتر کر اُن کے پاس بیٹھ گیا اور میں نے انہیں کہا کہ آپ نے حضرت خلیفہ اول کی صحبت میں بڑا وقت گزارا ہے اور آپ اُن کے کمپاؤنڈ ر ( COMPOUNDER) رہے ہیں.حضرت خلیفہ اول کو فالج کے علاج کا بڑا دعوی تھا.آپ کو اُن کے تجربات کا علم ہو تو مجھے بھی بتائیں.اس پر انہوں نے بڑی لمبی باتیں شروع کر دیں.مگر مجھے کوئی نسخہ یاد نہ رہا اور آنکھ کھل گئی.مفتی فضل الرحمان صاحب چونکہ طبیب تھے اس لیے میں نے سمجھا کہ اب اللہ تعالیٰ اپنی رحمانیت کے نتیجہ میں فضل نازل فرمائے گا.چنانچہ اس رؤیا کے پانچ سات دن کے بعد ڈاکٹروں کی سمجھ میں بھی بات آگئی کہ معدہ اور انتڑیوں کا علاج کرنا چاہیے اور طبیعت سنبھل گئی ورنہ یہ پانچ سات دن ایسے گزرے ہیں جیسے کوئی جہنم میں پڑا ہوا ہو.مگر میں سمجھتا تھا

Page 195

$1956 182 خطبات محمود جلد نمبر 37 کہ رحمان کا ضرور فضل ہو گا.چنانچہ اُس کا فضل ہوا اور بیماری سمجھ میں آ گئی.اگر ادھر خواب دیکھتا اور اُدھر سمجھتا کہ فوراً شفا ہو جائے گی تو غلطی ہوتی.دیکھ لو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے فرمایا تھا اِنَّ الَّذِی فَرَضَ عَلَيْكَ الْقُرْآنَ لَرَآتُكَ إلى مَعَادٍ - 1 یعنی وہ خدا جس نے تجھ پر اپنی شریعت کاملہ نازل کی ہے وہ ضرور تجھے مکہ میں واپس لے آئے گا مگر جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لے گئے تو اُس کے دوسرے ہی دن واپس نہیں آگئے ، دوسرے سال بھی واپس نہیں آئے بلکہ کئی سال کے بعد آئے.تو ہر چیز کا ایک وقت مقدر ہوتا ہے مومن کو چاہیے کہ وہ اللہ تعالیٰ سے یہ دعا کرے کہ جو خوا ہیں دکھائی گئی ہیں اُن کو وہ جلدی پورا کر دے.جیسا کہ خدام کے جلسہ میں میں نے کہا تھا بعض لوگ صرف یہ دعا کرتے ہیں کہ خدا اُن کو لمبی زندگی دے حالانکہ بیماری میں یہ دعا کرنا کہ لمبی زندگی ہو اس کے معنے یہ ہوتے ہیں کہ تکلیف اور بھی لمبی ہو جائے.دعا یہ کرو کہ اللہ تعالیٰ صحت والی زندگی دے اور کام کرنے والی زندگی دے.ایک دوست نے لکھا ہے کہ میں نے خواب میں دیکھا کہ آپ جمعہ یا عید کا خطبہ پڑھا رہے ہیں اور میں اللہ تعالیٰ سے یہ دعا کر رہا ہوں کہ یا اللہ ! تیرے پاس تو بڑے بڑے خلیفے ہیں اور تو اگر چاہے تو اچھے سے اچھے خلیفے دے سکتا ہے لیکن ہم نے چونکہ ان کے ساتھ م کیا ہے اس لیے ہمیں ان سے محبت ہے.تو اپنے فضل سے ان کو صحت دے.پھر القاء ہوا کہ تم یہ دعا کرو کہ یا اللہ! تو ان کو صحت والی زندگی دے اور کام کرنے والی زندگی دے.چنانچہ میں نے یہ دعا کی.اس پر دوبارہ الہام ہوا کہ ایسا ہی ہو گا.ہم انہیں صحت والی زندگی بھی دیں گے اور کام والی زندگی بھی دیں گے.پس ایسی خوابوں کے بعد انسان کو یہ دعا کرنی چاہیے کہ الہی! اگر یہ خواہیں پوری نہ ہوئیں تو ہم جھوٹے ثابت ہوں گے.اس لیے تو اپنا فضل فرما اور ان خوابوں کو پورا فرما دے.میں نے جو مفتی فضل الرحمان صاحب والی خواب دیکھی تھی اُس کے پانچویں ساتویں دن صحت ہونی شروع ہو گئی تھی.پس خواب آجانے کے یہ معنے نہیں ہوتے کہ اب اس کام کا کرنا خدا کے ذمہ ہے.خدا تعالیٰ کے ذمہ تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا بھی کام نہیں تھا.اس کے لیے بھی

Page 196

$1956 183 خطبات محمود جلد نمبر 37 آپ کو محنت اور جدوجہد کرنی پڑتی تھی.جب بدر کی جنگ ہوئی تو صحابہ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا یا رَسُولَ اللہ ! ہم نہیں کہہ سکتے کہ ہمیں فتح ہوگی یا شکست.اگر خدانخواستہ شکست ہوئی تو يَا رَسُولَ اللہ ! ہمیں اپنی کوئی پروا نہیں.ہم مارے جائیں گے تو اور ہزاروں مل جائیں گے.خود مدینہ میں ایسے لوگ موجود ہیں جو اسلام کے فدائی ہیں اور وہ آپ کے آگے بھی لڑیں گے اور پیچھے بھی لڑیں گے اور دشمن کو آپ کے قریب پہنچنے نہیں دیں گے لیکن يَارَسُولَ الله ! اگر آپ کو کچھ ہو گیا تو آپ دوبارہ دنیا کو نہیں مل سکتے.پھر چونکہ وہ جانتے تھے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد اسلام کو سنبھالنے والے حضرت ابوبکر ہیں اس لیے انہوں نے کہا يَا رَسُولَ اللہ ! یہ دو تیز رفتار اونٹنیاں ہم نے باندھ دی ہیں.اگر ہم مارے جائیں تو يَا رَسُولَ الله! ایک اونٹنی پر آپ بیٹھ جائیے اور ایک پر ابوبکر بیٹھ جائیں اور پھر ایڑی لگا کر فوراً مدینہ پہنچ جائیں.وہاں ہمارے بھائی موجود ہیں جو اسلام کے لیے اپنی جانیں قربان کرنے کے لیے تیار بیٹھے ہیں.مگر جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اِس سے گریز کیا تو انہوں نے علیحدہ ایک اونچی جگہ بنادی اور کہا یا رَسُولَ اللہ ! آپ اسی مقام پر تشریف رکھیں تا کہ دشمن آسانی سے آپ تک نہ پہنچ سکے.آپ نے اُس جگہ بیٹھ کر اللہ تعالیٰ سے دعائیں کرنی شروع کر دیں 2 اور کہا اے اللہ ! یہ ایک چھوٹی سی جماعت ہے جو دنیا میں تیرا نام بلند کرنے کے لیے کھڑی ہوئی ہے.اگر یہ چھوٹی سی جماعت آج ہلاک ہو گئی تو دنیا میں تیرا نام لینے والا کوئی باقی نہیں رہے گا.حضرت ابو بکر نے جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس تضرع کے ساتھ دعائیں کرتے دیکھا تو انہوں نے کہا يَا رَسُولَ اللہ ! آپ کیا کر رہے ہیں.کیا خدا کے وعدے نہیں کہ وہ ہمیں فتح دے گا؟ آپ نے فرمایا بیشک خدا کے وعدے ہیں لیکن ہمارا بھی فرض ہے کہ ہم اس سے دعائیں کریں.3 پس اگر کسی کو کوئی خواب آ جاتی ہے تو اس کی ذمہ داری کم نہیں ہو جاتی بلکہ زیادہ ہو جاتی ہے اور اس کا فرض ہوتا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ سے کہے کہ یا اللہ ! تو جانتا ہے کہ یہ خواب میں نے نہیں بنائی.تو نے خود مجھے یہ خواب دکھائی تھی.اب اگر یہ خواب پوری نہیں ہوتی تو تیرے ساتھ میں بھی جھوٹا ہو جاتا ہوں.تو فضل کر اور اس خواب کو پورا فرما تاکہ میں

Page 197

$1956 184 خطبات محمود جلد نمبر 37 جھوٹا نہ بنوں.پھر بعض دفعہ خواب کی یہ بھی غرض ہوتی ہے کہ عقلی طور پر علاج سوچے جائیں اور خدا تعالیٰ نے حصولِ مقصد کے لیے جو ذرائع پیدا کیے ہیں اُن سے فائدہ اُٹھایا جائے.اسی طرح دعاؤں کے نتیجہ میں بعض دفعہ اتنا وقت مل جاتا ہے کہ انسان کئی قسم کے کام کر سکتا ہے.اچانک موت آ جائے تو سب کام ادھورے رہ جاتے ہیں لیکن اگر وقت مل جائے تو انسان دعائیں بھی کر سکتا ہے اور علاج بھی کر سکتا ہے اور اپنے کئی کاموں کو بھی مکمل کر لیتا ہے.بہر حال جب خدا تعالیٰ کی طرف سے کوئی خواب دکھایا جائے تو انسان کا فرض ہوتا ہے کہ وہ اس کے لیے دعاؤں سے کام لے اور یہ نہ سمجھ لے کہ اب یہ کام اللہ تعالیٰ ہی کرے گا مجھے اس میں دخل دینے کی ضرورت نہیں.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ بعض دفعہ خدا تعالیٰ ہی بندے کا سارا کام اپنے ذمہ لے لیتا ہے.مگر ایسا شاذ و نادر کے طور پر ہوتا ہے.مجھے یاد ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ایک دفعہ بیمار ہوئے اور آپ کو خطرناک کھانسی شروع ہو گئی.رات اور دن آپ کھانستے رہتے تھے اور یہ کھانسی اتنی بڑھ گئی کہ حضرت خلیفہ اول کو شبہ ہوا کہ کہیں آپ کو سل نہ ہو گئی ہو.چونکہ آپ کو دوائیں پلانے کا کام میرے سپرد تھا اس لیے بچپن کے لحاظ سے میں بھی کو مشورہ دینے کا اہل سمجھنے لگ گیا.ایک دفعہ باہر سے کوئی دوست آئے اور وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے لیے کوئی پھل لائے.غالبا کیلے تھے جو انہوں نے پیش کیے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے دیکھتے ہی فرمایا کہ لاؤ اور مجھے کیلا دو.چونکہ کیلے میں بھی تھوڑی سی خوشی ہوتی ہے اور میں سارا دن دوائیں پہلا پلا کر اپنے آپ کو بھی مشورہ دینے کا اہل سمجھتا تھا میں نے کہا کہ کیلا آپ کے لیے مناسب نہیں.آپ نے فرمایا جانے دو، لاؤ کیلا.خدا نے مجھے کہا ہے کہ اچھے ہو جاؤ گے.اس لیے اب کسی علاج کی ضرورت نہیں.انچہ واقع میں اس کے بعد آپ کو صحت ہو گئی.اب دیکھو! وہی چیز جو کھانسی پیدا کرنے والی تھی اللہ تعالیٰ کی خاص مشیت کے ماتحت کھانسی نہ پیدا کر سکی اور آپ اچھے ہو گئے.بلکہ میں نے جب زیادہ اصرار کیا تو آپ نے فرمایا جاؤ جاؤ پرے جا کر بیٹھو.ابھی الہام ہوا ہے

Page 198

$1956 185 خطبات محمود جلد نمبر 37 کہ کھانسی دور ہو گئی.اس لیے اب کسی علاج اور احتیاط کی ضرورت نہیں.پس کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ مومن کا کام اپنے ذمہ لے لیتا ہے.مگر زیادہ تر ایسا ہی ہوتا ہے کہ مومن کو خود بھی دعاؤں اور جدوجہد سے کام لینا پڑتا ہے.پس دعائیں کرو اور پہلے سے زیادہ کرو.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرمایا کرتے تھے کہ جسم میں بیماری کا تلاش کرنا ایسا ہی ہوتا ہے جیسے تاریک مکان میں سوئی تلاش کرنا.اگر بیماری نظر آ جائے تو یہ بھی خدا تعالیٰ کے فضل کی علامت ہوتی ہے.پس جن دوستوں کو خوابیں آتی ہیں انہیں مایوس نہیں ہونا چاہیے بلکہ ان کو سمجھنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو بشارت دی ہے کہ اگر تم دعائیں کرو گے تو یہ اچھے ہو جائیں گے.گویا اللہ تعالیٰ نے ان کا حوصلہ بڑھا دیا ہے اور حوصلہ بڑھ جائے تو یہ بھی بڑی اچھی بات ہوتی ہے.حوصلہ اگر جائے تو اچھے بھلے آدمی کی جان نکل جاتی ہے.1 : القصص : 86 2 : سیرت ابن ہشام جلد 2 صفحہ 271، 272 مصر 1936ء (الفضل 25 اپریل 1956ء) 3 : سیرت ابن ہشام جلد 2 صفحہ 279 مصر 1936 ء، وصحیح مسلم كتاب الجهـاد بـاب ، الامداد بالملائكة فى غزوة بدر و اباحة الغنائم

Page 199

$1956 186 16 خطبات محمود جلد نمبر 37 حکومت سپین تبلیغ اسلام کو قانون کے زور سے بند کرنے کی کوشش کر رہی ہے تمام مسلمان حکومتوں کا فرض ہے کہ وہ اس کے خلاف آواز بلند کریں اور سپین اور دیگر عیسائی حکومتوں سے احتجاج کریں (فرمودہ 20 را پریل 1956ء بمقام ربوہ) تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: گزشتہ جمعہ کے خطبہ میں میں نے اپنی بیماری کی شکایت کی تھی.مگر ساتھ ہی میں نے کہا تھا کہ اس بیماری کی وجہ سے ڈاکٹروں کی توجہ معدہ اور انتڑیوں کے علاج کی طرف ہوئی اور اس کے نتیجہ میں خدا تعالیٰ کے فضل سے آثار صحت شروع ہو گئے.چنانچہ اس ہفتہ کا اکثر حصہ اچھا گزرا اور طبیعت ٹھیک رہی.مگر پھر گرمی کے بڑھ جانے کی وجہ سے طبیعت خراب ہو گئی دور قبض کی تو ایسی سخت شکایت پیدا ہوئی کہ باوجود قبض کشا دوا کھانے کے اجابت نہ ہوئی.اسی طرح چکروں کی بھی شکایت رہی.گو اس قسم کے چکر نہیں آتے جیسے پہلے آیا کرتے تھے مگر درمیان میں جو آرام اور سکون حاصل ہوا تھا وہ گرمی کے وقت جاتا رہتا ہے.

Page 200

خطبات محمود جلد نمبر 37 187 $1956 یہ بات بھی میں افسوس سے کہنا چاہتا ہوں کہ اگرچہ میری نظر خدا تعالیٰ کے فضل سے کمزور نہیں مگر زیادہ دیر تک پڑھنا میرے لیے مشکل ہوتا ہے.گو اس وجہ سے کہ مجھے قرآن کریم کے پڑھنے کی عادت ہے اب بھی میں ڈیڑھ پونے دو بلکہ دو سپارے بھی روزانہ پڑھ لیتا ہوں لیکن جن چیزوں کی عادت نہیں ان کا پڑھنا میرے لیے مشکل ہوتا ہے.جمعہ کا خطبہ پہلے میں خود دیکھا کرتا تھا مگر پھر اپنی بیماری کی وجہ سے میں نے کہہ دیا کہ محکمہ اپنی ذمہ داری پر شائع کر دیا کرے.لیکن پچھلے جمعہ کا خطبہ میں نے منگوا کر دیکھا تو مجھے تعجب ہوا کہ اس میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ کا ایک واقعہ لکھنے میں پوری احتیاط سے کام نہیں لیا گیا تھا.میں نے بیان کیا تھا کہ جب آٹھم کی پیشگوئی کا آخری دن آیا تو ایک احمدی پٹھان کی زور زور سے رونے اور چیچنیں مارنے کی آوازیں آنی شروع ہوئیں کہ یا اللہ! اپنے مسیح کو سچا کر دے.یا اللہ ! آج دن ختم نہ ہو جب تک کہ آتھم مر نہ جائے مگر میں نے خطبہ دیکھا تو اس میں یہ لکھا تھا کہ ایک شخص روتے اور چیچنیں مارتے ہوئے یہ کہتا چلا جا رہا تھا کہ یا اللہ ! اپنے مسیح کو سچا کر دے.یا اللہ ! آج دن ختم نہ ہو جب تک کہ آتھم مر نہ جائے.گویا گلی میں سے کسی ہندو یا سکھ کی آوازیں آ رہی تھیں حالانکہ یہ ایک احمدی پٹھان کا ذکر تھا اور میں نے کہا تھا کہ جس جگہ حضرت خلیفہ اول مطب کیا کرتے تھے اُس کے ساتھ ایک کمرہ تھا جس میں مہمان ٹھہرا کرتے تھے.اُس میں ایک جوشیلا احمدی پٹھان رہتا تھا.اُس نے بعض دوسرے ساتھیوں کے ساتھ مل کر یہ شور مچانا شروع کر دیا کہ یا اللہ ! اپنے مسیح کو جھوٹا ہی نہ کیجئیو.یا اللہ ! آج دن ختم نہ ہو جب تک کہ آتھم مر نہ جائے مگر اس کو غلط رنگ میں لکھ دیا گیا.اسی طرح جلسہ سالانہ کی ایک تقریر کے متعلق شکایت آئی ہے کہ اُس میں ایک ایسی بات لکھ دی گئی جس کی وجہ سے غیر احمدیوں نے اعتراضات کیے اس کے بعد میں اپنے ایک رؤیا کا ذکر کرنا چاہتا ہوں جو حال ہی میں میں نے دیکھا ہے.گو میں نے اپنے ایک خطبہ میں کہا تھا کہ غیر مامورین کے لیے اپنی خوابوں کا بیان کرنا ضروری نہیں ہوتا.مگر چونکہ وہ ایک ایسا رویا ہے جو اپنے اندر اہمیت رکھتا ہے اور سلسلہ کی خدمت اور اس کا کام کرنے والوں کے ساتھ اس کا تعلق ہے اس لیے میں سمجھتا ہوں کہ اس کا

Page 201

$1956 188 خطبات محمود جلد نمبر 37 بیان کرنا سلسلہ کے کارکنوں کے لیے ضروری ہے.ہمارے ایک مبلغ کرم الہی صاحب ظفر ہیں جو سپین میں کام کر رہے ہیں.اُن کے والد حال ہی میں فوت ہوئے ہیں.اگر میں پہلے اُن کا جنازہ نہیں پڑھا چکا تو آج جمعہ کے بعد میں اُن کا جنازہ پڑھاؤں گا.اللہ بخش اُن کا نام تھا.یہ ایک عجیب بات ہے کہ کوئی شخص اتنے قریب عرصہ میں فوت ہوا ہو اور پھر وہ اتنی جلدی خواب میں مجھے نظر آ گیا ہو.بہر حال میں نے رویا میں دیکھا کہ وہ مجھے ملنے آئے ہیں اور انہوں نے میرے سامنے انگریزی میں ایک درخواست پیش کی ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ اگر کرم الہی ظفر کو وہاں کی گورنمنٹ نکال دے اور واقعہ بھی یہی ہے کہ کرم الہی ظفر کو گورنمنٹ کی طرف سے نوٹس دیا گیا ہے کہ ہمارے ملک میں اسلام کی تبلیغ کی اجازت نہیں ہے.چونکہ تم لوگوں کو اسلام میں داخل کرتے ہو جو ہمارے ملک کے قانون کی خلاف ورزی ہے اس لیے تمہیں وارننگ دی جاتی ہے کہ تم اس قسم کی قانون شکنی نہ کرو ورنہ ہم مجبور ہوں گے کہ تمہیں اپنے ملک سے نکال دیں.ہمارا ملک اسلامی ملک کہلاتا ہے لیکن یہاں عیسائی پادری دھڑنے سے اپنے مذہب کی تبلیغ کرتے ہیں اور کوئی انہیں عیسائیت کی تبلیغ سے نہیں روکتا.لیکن وہاں ایک مبلغ کو اسلام کی تبلیغ سے روکا جاتا ہے اور ی پھر بھی ہماری حکومت اُس کے خلاف کوئی پروٹسٹ نہیں کرتی.وہ کہتے ہیں میں نے پاکستان کے ایمبیسیڈر (AMBASSADOR) سے کہا کہ تمہیں تو ہسپانوی حکومت سے لڑنا چاہیے تھا اور کہنا چاہیے تھا کہ تم اسلامی مبلغ پر کیوں پابندی عائد کرتے ہو جبکہ حکومتِ پاکستان نے اپنے کی ملک میں عیسائی پادریوں کو تبلیغ کی اجازت دے رکھی ہے اور وہ ان پر کسی قسم کی پابندی عائد نہیں کرتی.اُس نے کہا یہ تو درست ہے مگر سپین کی وزارتِ خارجہ کا سیکرٹری یہ کہتا تھا کہ تم پنے ملک میں لوگوں کو جو بھی آزادی دینا چاہتے ہو بیشک دو ہمارے ملک کی کانسٹی ٹیوشن اس سے مختلف ہے اور ہمارے ملک کا یہی قانون ہے کہ یہاں کسی کو اسلام کی تبلیغ کی اجازت نہیں دی جا سکتی.بہر حال یہ ایک افسوس کا مقام ہے کہ ہماری حکومت دوسری حکومتوں سے اتنا ڈرتی ہے کہ وہ اسلام کی حمایت بھی نہیں کر سکتی حالانکہ اس کا فرض تھا کہ جب ایک اسلامی مبلغ کو ہسپانوی حکومت نے یہ نوٹس دیا تھا تو وہ فوراً پروٹسٹ کرتی اور اُس کے خلاف اپنی آواز

Page 202

$1956 189 خطبات محمود جلد نمبر 37 چاہا بلند کرتی.مگر پروٹسٹ کرنے کی بجائے ہسپانوی حکومت نے یہ نوٹس بھی ہمارے مبلغ پاکستانی نمائندہ کے ذریعہ ہی دیا ہے.وہ لکھتے ہیں کہ میں نے ایک وزیر سے کہا کہ مجھے یہ نوٹس براہِ راست کیوں نہیں دیا گیا؟ تو اُس نے کہا یہ نوٹس براہ راست تمہیں اس لیے نہیں دیا گیا کہ اگر ہم تمہیں نکال دیں تو پاکستانی گورنمنٹ ہم سے خفا ہو جائے گی.پس ہم نے کہ پاکستانی سفیر تمہیں خود یہاں سے چلے جانے کے لیے کہے تا کہ ہمارے خلاف حکومت پاکستان کو کوئی خفگی پیدا نہ ہو.بہر حال میں نے رویا میں دیکھا کہ ان کے والد آئے ہیں اور انہوں نے میرے سامنے ایک درخواست پیش کی ہے.اُس کا کاغذ ایسا ہے جیسے پرانے زمانہ میں عدالتوں میں استعمال ہوا کرتا تھا اور درخواست انگریزی میں لکھی ہوئی ہے.جس کا مفہوم یہ ہے کہ اگر حکومت کرم الہی ظفر کو سپین سے نکال دے تو اسے دو سال تک کسی اور جگہ رکھیں اور اس کا کام دیکھیں.اگر اچھا ہو تو اسے رہنے دیں ورنہ اسے فارغ کر دیں.بہر حال اتنی مدت تک دین کا کام کرنے کے بعد اسے فوراً فارغ نہ کریں.اس پر میں نے اُس درخواست پر انگریزی میں یہ فقرہ لکھا کہ I recommend to Tahrik-i-Jadid to consider it and not to reject it out of hand یعنی میں یہ درخواست تحریک جدید کو اپنی اس سفارش کے ساتھ بھجواتا ہوں کہ وہ اس پر غور کرے.یہ نہ ہو کہ وہ اسے فوری طور پر رڈ کر دے.یہ رویا چونکہ ایک مبلغ کے متعلق ہے اس لیے میں نے مناسب سمجھا کہ اسے بیان کر دوں اور پھر جیسا کہ میں بتا چکا ہوں واقعہ بھی یہی ہے کہ پاکستانی گورنمنٹ کے نمائندے کے ذریعہ ہسپانوی گورنمنٹ کی طرف سے ہمارے مبلغ کو یہ نوٹس دیا گیا ہے کہ چونکہ تم اسلامی مبلغ ہو اور ہمارے ملک کے قانون کے ماتحت کسی کو یہ اجازت نہیں کہ وہ دوسرے کا مذہب تبدیل کرے اس لیے تم اسلام کی تبلیغ نہ کرو.ورنہ ہم مجبور ہوں گے کہ تمہیں اپنے ملک سے نکال دیں.شاید کوئی محبت اسلام رکھنے والا سرکاری افسر میرے اس خطبہ کو پڑھ کر اس طرف توجہ ے اور وہ اپنی ایمبیسی سے کہے کہ تم ہسپانوی گورنمنٹ کے پاس اس کے خلاف کرے

Page 203

خطبات محمود جلد نمبر 37 190 $1956 پروٹسٹ کرو اور کہو کہ اگر تم نے اسلام کے مبلغوں کو اپنے ملک سے نکالا تو ہم بھی عیسائی مبلغوں کو اپنے ملک سے نکال دیں گے.بیشک اسلام ہمیں مذہبی آزادی کا حکم دیتا ہے مگر اسلام کی ایک یہ بھی تعلیم ہے کہ جَزَ و سَيِّئَةِ سَيِّئَةٌ مِثْلُهَا 1 یعنی اگر تمہارے ساتھ کوئی غیر منصفانہ سلوک کرتا ہے تو تمہیں بھی حق ہے کہ تم اس کے بدلہ میں اس کے ساتھ ویسا ہی سلوک کرو.پس اگر کوئی حکومت اپنے ملک میں اسلام کی تبلیغ کو روکتی ہے تو مسلمان حکومتوں کا بھی حق ہے کہ وہ اُس کے مبلغوں کو اپنے ملک میں تبلیغ نہ کرنے دیں.اسی طرح چاہیے کہ ہماری گورنمنٹ انگلستان کی حکومت کے پاس بھی اس کے خلاف احتجاج کرے اور کہے کہ یا تو سپین کی حکومت کو مجبور کرو کہ وہ اپنے ملک میں اسلام کی تبلیغ کی اجازت دے، نہیں تو ہم بھی اپنے ملک میں عیسائیت کی تبلیغ کو بالکل روک دیں گے.اسی طرح وہ امریکہ کے پاس احتجاج کرے اور کہے کہ وہ ہسپانوی گورنمنٹ کو اپنے اس فعل سے رو کے ورنہ ہم بھی مجبور ہوں گے کہ عیسائی مبلغوں کو اپنے ملک سے نکال دیں.بہر حال یہ ایک نہایت ہی افسوسناک امر ہے کہ ایک ایسا ملک جو پاکستان دوستانہ تعلقات رکھتا ہے ایک اسلامی مبلغ کو نوٹس دیتا ہے کہ تم ہمارے ملک میں اسلام کی تبلیغ کیوں کرتے ہو.ایک دفعہ پہلے بھی پانچ سات نوجوان ہمارے مبلغ کے پاس بیٹھے ہوئے باتیں کر رہے تھے کہ سی.آئی.ڈی کے کچھ آدمی وہاں آ گئے اور انہوں نے کہا کہ تم حکومت کے باغی ہو کیونکہ حکومت کا مذہب رومن کیتھولک ہے اور ہم نے سنا ہے کہ تم مسلمان ہو گئے ہو.اُن نوجوانوں نے کہا ہم حکومت کے تم سے بھی زیادہ وفادار ہیں لیکن اس امر کا مذہب کے ساتھ کیا تعلق ہے؟ انہوں نے کہا دراصل پادریوں نے حکومت کے پاس شکایت کی ہے کہ یہاں اسلام کی تبلیغ کی جاتی ہے اور گورنمنٹ نے ہمیں حکم دیا ہے کہ ہم تمہاری نگرانی کریں.انہوں نے کہا تم ہمیں دوسرے کی باتیں سننے سے نہیں روک سکتے.اگر ہمارا دل چاہا تو ہم مسلمان ہو جائیں گے.لیکن تمہیں کوئی اختیار نہیں کہ تم دوسروں پر جبر سے کام لو.اُس وقت سے یہ مخالفت کا سلسلہ جاری تھا جو آخر اس نوٹس کی شکل میں ظاہر ہوا.بہر حال یہ ایک نہایت افسوسناک امر ہے کہ بعض عیسائی ممالک میں اب اسلام کی تبلیغ پر بھی پابندیاں عائد کی کی ہی

Page 204

191 $1956 خطبات محمود جلد نمبر 37 جا رہی ہیں.پہلے عیسائی ممالک محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خلاف رات اور دن جھوٹ بولتے رہتے تھے.ہم نے اُن افتراؤں کا جواب دینے اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حقیقی شان دنیا پر ظاہر کرنے کے لیے اپنے مبلغ بھیجے تو اب ان مبلغوں کی آواز کو قانون کے زور سے دبانے کی کوشش کی جا رہی ہے اور اسلام کی تبلیغ سے انہیں جبراً روکا جاتا ہے.مسلمان حکومتوں کا فرض ہے کہ وہ اسلام اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نام کی بلندی کے لیے عیسائی حکومتوں پر زور دیں کہ وہ سپین کو اس سے روکیں ورنہ ہم بھی مجبور ہوں گے کہ ہم عیسائی مبلغوں کو اپنے ملکوں سے نکال دیں.دیکھو! سویز کے معاملہ میں مصر کی حکومت ڈٹ گئی اور آخر اس نے روس کو اپنے ساتھ ملا لیا.اگر سویز کے معاملہ میں مصر ڈٹ سکتا ہے تو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نام کی بلندی کے لیے اگر پاکستان کی حکومت ڈٹ جائے تو کیا وہ دوسری اسلامی حکومتوں کو اپنے ساتھ نہیں ملا سکتی ؟ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عزت یقینا کروڑ کروڑ سویز سے بڑھ کر ہے.اگر ایک سویز کے لیے امریکہ اور برطانیہ کے مقابلہ میں مصر نے غیرت دکھائی اور وہ ڈٹ کر کھڑا ہو گیا تو کیا دوسری اسلامی حکومتیں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے اتنی ہی غیرت بھی نہیں دکھا سکتیں.انہیں عیسائی حکومتوں سے صاف صاف کہہ دینا چاہیے کہ یا تو تم سلامی مبشرین کو اجازت دو کہ وہ تمہارے ملکوں میں اسلام کی اشاعت کریں ورنہ تمہارا بھی کوئی حق نہیں ہو گا کہ تم ہمارے ملکوں میں عیسائیت کی تبلیغ کرو.اگر تم ہمارے ملک میں عیسائیت کی تبلیغ کر سکتے ہو تو تمہارا کیا حق ہے کہ تم کہو کہ ہم اسلام کی باتیں نہیں سن سکتے.بیشک ہمارے مذہب میں رواداری کی تعلیم ہے مگر ہمارے مذہب کی ایک یہ بھی تعلیم ہے کہ اگر کوئی تمہارے ساتھ بے انصافی کرے تو تم بھی اُس کے ساتھ ویسا ہی سلوک کرو.یہ ایک نہایت صاف اور سیدھا طریق ہے.مگر افسوس ہے کہ مسلمان حکومتوں کا ذہن اِدھر نہیں جاتا اور وہ اسلام کے لیے اتنی بھی غیرت نہیں دکھاتیں جتنی کرنل ناصر نے سویز کے متعلق غیرت دکھائی.اگر مسلمان حکومتیں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے سویز جتنی غیرت بھی دکھائیں تو سارے جھگڑے ختم ہو جائیں اور اسلام کی تبلیغ کے راستے کھل جائیں.

Page 205

$1956 192 خطبات محمود جلد نمبر 37 اور جب اسلام کی تبلیغ کے رستے کھل گئے تو یقیناً سارا یورپ اور امریکہ ایک دن مسلمان ہو جائے گا.مجھے یاد ہے جن دنوں میں رتن باغ میں مقیم تھا امریکہ کا قونصل جنرل مجھ سے ملا اور میں نے اُس سے کہا کہ تمہارے مبلغ ہمارے ملک میں آزادی سے اپنے مذہب کی تبلیغ کرتے پھرتے ہیں اور ہم انہیں کچھ نہیں کہتے لیکن تمہاری حکومت ہمارے مبلغوں پر پابندی عائد کرتی اور انہیں اپنے ملک میں آنے سے روکتی ہے.یہ کہاں کا انصاف ہے؟ وہ کہنے لگا بات یہ ہے کہ ہمارے ملک میں عام طور پر جو ہندوستانی جاتے ہیں وہ ارڈر پوپو 2 ہوتے ہیں یعنی لوگوں کے ہاتھ دیکھ دیکھ کر پیسے بٹورتے پھرتے ہیں.اس وجہ سے ہمارے ملک میں عام طور پر یہ خیال پایا جاتا ہے کہ عیسائیوں کے سوا اور کسی قوم میں مبلغ نہیں ہوتے کیونکہ وہاں جو بھی آتے ہیں مانگنے کے لیے آتے ہیں.لیکن یہاں آکر میں نے دیکھا ہے کہ آپ اپنے مبلغوں کو با قاعدہ خرچ دیتے ہیں اور وہ اسلام کی تبلیغ کے سوا کوئی اور کام نہیں کرتے.پس میں اپنی حکومت کو لکھوں گا کہ یہ لوگ چونکہ مانگنے والوں میں سے نہیں ہیں بلکہ اپنے مبلغوں کو با قاعدہ خرچ دیتے ہیں اس لیے ان کے آنے پر کوئی پابندی عائد نہیں ہونی چاہیے.چنانچہ اس نے اپنی حکومت کو لکھا اور کچھ دنوں کے بعد اُس نے ہمیں اطلاع دی کہ حکومت امریکہ کی طرف سے ہدایت کر دی گئی ہے کہ آئندہ احمدی مبلغوں کو نہ روکا جائے کیونکہ انہیں با قاعدہ خرچ ملتا ہے.یہ 1948ء کی بات ہے.اس کے بعد گورنمنٹ امریکہ نے ہمارے کسی مبلغ پر پابندی عائد نہیں کی.وہ قونصل جنرل بہت ہی شریف انسان تھا اور اُس سے ملاقات بھی اتفاقی ہی ہو گئی.ایک دعوت کے موقع پر گورنر کے پاس امریکہ کا قونصل جنرل بیٹھا ہوا تھا.اُس کے پاس میں بیٹھا ہوا تھا اور میرے پاس ایک عورت بیٹھی ہوئی تھی جو روسی تھی اور اس قونصل جنرل کی بیوی تھی.اس نے میرے نام کی چٹ کے ساتھ مرزا کا لفظ دیکھا تو حیران ہو کر کہنے لگی کہ آپ مرزا کس طرح ہو گئے؟ میں نے کہا میں واقع میں مرزا ہوں.کہنے لگی مرزا تو روسی ہوتے ہیں.ہمارے کا کیشیا 3 میں بڑی کثرت سے مرزا پائے جاتے ہیں.پھر وہ کہنے لگی میں نے جب آپ کے نام کے ساتھ مرزا کا لفظ پڑھا تو مجھے تعجب ہوا کہ پاکستان میں ا

Page 206

$1956 193 خطبات محمود جلد نمبر 37 یہ مرزا کہاں سے آگئے.اس کے بعد وہ اپنے خاوند کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر کہنے لگی دیکھو! یہ مرزا بیٹھے ہیں.پھر وہ بھی آ گیا اور مجھ سے ملا اور اُس سے باتیں شروع ہو گئیں.اُس نے میرے توجہ دلانے پر اپنی گورنمنٹ کو لکھا کہ یہ ہمیں طعنہ دیتے ہیں کہ جب عیسائی مبلغ ہمارے ملک میں آ سکتے ہیں تو اسلامی مبلغ آپ کے ملک میں کیوں نہیں جا سکتے.بہر حال اُسے اس بات کا احساس ہوا کہ یہ حکومت کی غلطی ہے اور اُس نے کوشش کی جس پر حکومت نے ہدایت دے دی کہ آئندہ احمدی مبلغوں کو نہ روکا جائے.اس طرح اُس نے اسلام کی دانستہ یا نادانستہ ایسی خدمت کی جس کی وجہ سے ہمارے دل میں اُس کی بڑی قدر ہے.اور ہم دعا کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اسے ہدایت دے اور اُس کے اس فعل کو اسلام کی اشاعت کا موجب بنائے“.خطبہ ثانیہ میں حضور نے فرمایا: نماز کے بعد میں چند جنازے پڑھاؤں گا.پہلا جنازہ تو چودھری اللہ بخش صاحب ننکانہ صاحب ضلع شیخوپورہ کا ہے جن کے متعلق ابھی میں نے خواب سنائی ہے.یہ کرم الہی صاحب ظفر مبلغ سپین کے والد تھے.دوسرا جنازہ ڈاکٹر پیر بخش صاحب کا ہے جو ڈاکٹر پیرزادہ گل حسن صاحب مانچسٹر کے والد تھے.یہ سرطان کے مرض سے فوت ہوئے ہیں.ان کا لڑکا ڈاکٹر پیزادہ گل حسن مانچسٹر میں ڈاکٹڑی پڑھ رہا ہے.پیچھے ہی اُن کے والد فوت ہو گئے.ان کا ایک اور لڑکا بھی ڈاکٹڑی پڑھ رہا ہے.تیسرا جنازه سعیدہ بیگم صاحبہ شرقپور خورد ضلع شیخوپورہ کا ہے.یہ چودھری عبدالکریم صاح شرقپور خورد کی لڑکی تھیں اور گاؤں میں صرف دو ہی احمدی تھے.حکیم محمد صدیق صاحہ ان کے متعلق اطلاع بھجوائی ہے.چوتھا جنازہ خواجہ غلام نبی صاحب سابق ایڈیٹر الفضل کا ہے.کچھ عرصہ ہوا ان کے ایک بیٹے نے کسی غلط فہمی کی بناء پر مجھے لکھا کہ انہیں ربوہ آنے کی اجازت دی جائے.ان پر فالج کا حملہ ہوا ہے.میں نے اُسی وقت جواب لکھوایا کہ ان کو ربوہ میں آنے سے ہرگز کوئی روکنے والا نہیں.بلکہ میں تو ان کے لیے مکان کا بھی انتظام کر دوں گا.مگر اس کے بعد وہ انہیں

Page 207

$1956 194 خطبات محمود جلد نمبر 37 ربوہ نہیں لائے.اگر وہ انہیں یہاں لے آتے تو ممکن ہے ان کا علاج ہو سکتا یا ممکن ہے ان کے آخری وقت میں اگر ان کے کچھ پرانے دوست اور صحابہ وغیرہ ان سے ملتے تو یہ امر ان کے دل کے اطمینان اور تسلی کا موجب ہوتا.مگر افسوس ہے کہ وہ انہیں ربوہ نہ لائے.تھوڑے ہی دن ہوئے میں نے پھر توجہ دلائی تھی کہ ابھی تک وہ انہیں کیوں نہیں لائے.مگر معلوم ہوتا ہے میرا وہ خط انہیں نہیں پہنچا اور وہ وفات پا گئے.اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے.الفضل کے ابتدائی اسٹنٹ ایڈیٹر در حقیقت وہی تھے.ایڈیٹر میں خود ہوا کرتا تھا اور اسٹنٹ ایڈیٹر وہ تھے.ان کی تعلیم زیادہ نہیں تھی صرف مڈل پاس تھے مگر بہت ذہین اور ہوشیار تھے.میری جس قدر پہلی تقریریں ہیں وہ ساری کی ساری انہی کے ہاتھ کی لکھی ہوئی ہیں.وہ بڑے اچھے زودنو لیس تھے اور ان کے لکھے ہوئے لیکچروں اور خطبات میں مجھے بہت کم اصلاح کرنی پڑتی ی.پھر وہ اخبار کے ایڈیٹر ہوئے اور ایسے زبر دست ایڈیٹر ثابت ہوئے کہ در حقیقت پیغامیوں سے زیادہ تر ٹکر انہوں نے ہی لی ہے.”پیغام صلح کے وہ اکثر جوابات لکھا کرتے تھے.اسی طرح وہ میرے ابتدائی خطبات وغیرہ بھی لکھتے رہے جو ا انہی کی وجہ سے محفوظ ہوئے.میں سمجھتا ہوں کہ ان کا جماعت پر یہ ایک بہت بڑا احسان ہے اور جماعت ان کے لیے جتنی بھی دعائیں کرے اس کے وہ مستحق ہیں.آخر میں حضور نے فرمایا: ” میں نے پچھلے خطبہ میں کراچی کی جماعت کے متعلق بعض باتیں بیان کی تھیں اس کے بعد اُن کی طرف سے تار آگئی کہ کوٹھی خالی کر دی گئی ہے.اگر وہ پہلے ہی لکھ دیتے کہ کوٹھی کے اتنے کمرے لیے گئے ہیں اور اتنے خالی ہیں تو مجھے تردّد نہ ہوتا.بہر حال اب وہ بات تو ی ختم ہو گئی مگر ان کی تار ایسے وقت میں آئی ہے کہ رمضان کی وجہ سے میں کراچی نہیں جا سکتا کیونکہ دو دن رستہ میں لگ جاتے ہیں.اب میں مری جانے کی کوشش کر رہا ہوں جہاں مہینہ ڈیڑھ مہینہ میرا قیام ہوگا.(الفضل 15 مئی 1956ء) 1 : الشورى: 41 2 : ارڈ پوپو : ( ہرڑ پوپو ) فال دیکھنے والا ، رمال، نجومی نیز جعلی پیر، جعلی سادھو.

Page 208

خطبات محمود جلد نمبر 37 195 اردو لغت تاریخی اصول پر جلد 21 صفحہ 806.کراچی 2007ء) $1956 3 : کاکیشیا: (CAUCASUS/CAUCASIA) یورپ اور ایشیا کی سرحد پر واقع خطہ جو بحیرہ اسود اور بحیرہ قزوین کے درمیان واقع ہے.سیاسی اعتبار سے اس خطے کو شمالی اور جنوبی دو حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے.وکی پیڈیا - آزاد دائرۃ المعارف زیر لفظ قففاز CAUSASUS)

Page 209

$1956 196 (17 خطبات محمود جلد نمبر 37 نہ صرف اپنے بھائیوں سے بلکہ غیروں سے بھی محبت، ہمدردی اور شفقت کا سلوک کرو یہی وہ روح ہے جس سے جماعتیں زندہ رہتی اور ترقی کرتی ہیں فرموده 27 را پریل 1956ء بمقام مری) تشهد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: ”جیسا کہ میں نے پچھلے سے پچھلے خطبہ میں بیان کیا تھا جو اخبار میں بھی چھپ چکا ہے کہ گرمی کی وجہ سے میری طبیعت کچھ خراب ہو گئی تھی لیکن ڈاکٹروں نے پتا لگا لیا کہ دراصل انتڑیوں اور معدہ کی خرابی اس کا اصل باعث ہے.چنانچہ ان کے علاج سے طبیعت بحال ہوئی.لیکن جب جسم پر کوئی خاص اثر پڑتا ہے تو باقی تمام اعصاب بھی مضمحل ہو جاتے ہیں.نب میں ربوہ سے چلا ہوں تو میری طبیعت بڑی خراب تھی لیکن جب ہم پیل پہنچے تو باوجود اس کے کہ ایک پچھلے مقام پر جہاں ہم نے کچھ دیر کے لیے قیام کرنا تھا ہماری ایک موٹر جس میں مستورات سوار تھیں غلطی سے آگے نکل گئی اور اس کی وجہ سے طبیعت میں سخت گھبراہٹ اور تشویش پیدا ہوئی، پھر بھی پیل پہنچتے ہی طبیعت اتنی اچھی ہو گئی کہ یوں معلوم ہوتا تھا

Page 210

خطبات محمود جلد نمبر 37 197 $1956 کہ مجھے کوئی تکلیف نہیں مگر یہاں پہنچنے پر چونکہ سخت سردی تھی طبیعت پھر خراب ہو گئی.گولوگ کہتے ہیں کہ کچھ دنوں کے بعد سردی کی یہ کیفیت جاتی رہے گی اور موسم اچھا ہو جائے گا.چنانچہ آج ویسی سردی نہیں اور دھوپ بھی نکلی ہوئی ہے.مگر میری طبیعت پر سے ابھی سردی کے حملہ کا اثر گیا نہیں.بہر حال اب تو ہم آگئے ہیں اور ہمیں کچھ نہ کچھ برداشت کرنا ہی پڑے گا.پھر ممکن ہے جیسا کہ دوستوں کا خیال ہے مئی میں سردی کم ہو جائے اور طبیعت ٹھیک ہو جائے.قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ محض ہمارا انعام ہے کہ ہم نے لوگوں کے دلوں میں تیری محبت پیدا کر دی ہے اور مسلمانوں کے دلوں میں ایک دوسرے کی محبت پیدا کر دی ہے.اگر یہ انعام ہماری طرف سے نہ ہوتا تو خواہ تم کتنا بھی خرچ کرتے لوگوں کے قلوب میں ایسی محبت پیدا نہ کر سکتے.1 یہ آیت بتاتی ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے مسلمانوں کا محبت رکھنا یا آپ کی وفات کے بعد جو بھی اسلام کا مرکز ہو اس سے محبت رکھنا ایمان کی علامت ہے.اسی طرح بھائیوں بھائیوں کی جو آپس میں محبت ہے یہ بھی انسان کے ایمان کی علامت ہے اور یہ کہ یہ محبت محض اللہ تعالیٰ کے دین سے پیدا ہوتی ہے دنیوی اموال سے پیدا نہیں ہوتی.اس زمانہ میں اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو پیدا کر کے اور پھر ایک مرکز بنا کر ایک نئے سرے سے اس آیت پر عمل کرنے کا ہماری جماعت کے لیے موقع پیدا کر دیا ہے اور میں دیکھتا ہوں کہ جن لوگوں کو اس پر عمل کرنے کا موقع ملتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے وارث ہوتے ہیں.مجھے یاد ہے 1953 ء میں جب فسادات ہوئے تو بعض احمدی دوسرے احمدیوں کی خبر لینے کے لیے پچاس پچاس میل تک خطرہ کے علاقہ میں سے گزر کر گئے اور انہوں نے ی یوں کی مدد کی.ایک عورت ہمارے پاس سیالکوٹ کے علاقہ سے آئی اور اس نے بتایا کہ ہمارے گاؤں میں دو تین احمدی ہیں جن کو لوگ باہر نکلنے نہیں دیتے اور اگر نکلیں تو ان کو مارتے ہیں.آخر میں نے سوچا کہ میں خود ان کے حالات سے آپ کو اطلاع دوں.چنانچہ میں پیدل چل کر سیالکوٹ پہنچی اور پھر سیالکوٹ سے ربوہ آئی.اِس پر میں نے اُسی وقت ایک قافلہ

Page 211

$1956 198 خطبات محمود جلد نمبر 37 تیار کیا جس میں کچھ ربوہ کے دوست تھے اور کچھ باہر کے.اور میں نے انہیں کہا کہ جاؤ اور ان دوستوں کی خبر لو.اسی طرح سیالکوٹ کی جماعت سے بھی کہو کہ وہ ان کا خیال رکھے.اس یہ اس باہمی محبت کا ہی نتیجہ تھا جو اللہ تعالیٰ نے ہمارے دلوں میں پیدا کر دی ہے.بظاہر یہ ایک معمولی چیز نظر آتی ہے لیکن اس کے اثرات بڑے بھاری ہوتے ہیں.پھر یہی نہیں کہ احمدیوں کے دلوں میں ایک دوسرے کی محبت پائی جاتی ہے بلکہ غیر احمدیوں میں بھی ایسی مثالیں پائی جاتی ہیں کہ ان کا ایک طبقہ تو احمدیوں کو مارتا پھرتا تھا اور دوسرا طبقہ احمدیوں کی جانیں بچانے کے لیے آگے آ جاتا تھا.لاہور میں ہی ایک گھر پر غیر احمدی حملہ کر کے آگئے اور انہوں نے فیصلہ کیا کہ ہم نے اس مکان کو جلا دینا اور احمدیوں کو مار ڈالنا ہے.اس پر ایک غیر احمدی عورت اُس مکان کی دہلیز کے آگے لیٹ گئی اور کہنے لگی پہلے مجھے ٹکڑے ٹکڑے کر لو پھر بیشک آگے بڑھ کر احمدیوں کو مار لینا.ورنہ جب تک میں زندہ ہوں میں تمہیں آگے نہیں بڑھنے دوں گی.اسی طرح ایک دوست نے سنایا کہ اُن کے گھر پر حملہ ہوا اور مخالفین کا ایک بہت بڑا ہجوم اُن کے مکان کی طرف آیا.وہ اُس وقت برآمدہ میں بیٹھے ہوئے تھے.اتنے میں وہ کیا دیکھتے ہیں کہ جب حملہ کرنے والے قریب آئے تو ایک نوجوان جو اُن کے آگے آگے تھا گالیاں دیتے ہوئے مکان کی طرف بڑھا اور کہنے لگا ان کی مرزائیوں کو مار دو.مگر جس وقت وہ لوگ مکان کے پاس پہنچتے تھے تو وہ نو جوان سب کو مُڑ نے کے لیے کہہ دیتا اور اُس کے مُڑ جانے کی وجہ سے دوسرے لوگ بھی مڑ جاتے تھے.آخر کچھ دیر کے بعد وہ سب لوگ واپس چلے گئے.اتنے میں ان کے دوسرے پھاٹک کی طرف سے ایک مستری داخل ہوا جو اُن کے ماتحت کام کرتا تھا اور جسے انہوں نے ہی ملازم کروایا تھا تو انہوں نے اس سے پوچھا کہ ان لوگوں کے آگے آگے کون نوجوان تھا.میں نے دیکھا ہے کہ پہلے وہ گالیاں دیتے ہوئے آگے بڑھتا مگر پھر وہ اور اُس کا ایک ساتھی دونوں مڑ جاتے اور اُن کے مڑ جانے کی وجہ سے باقی ہجوم بھی مڑ جاتا.وہ کہنے لگا یہ دونوں میرے بیٹے تھے.میں نے انہیں بلا کر کہا تھا کہ مجھے پتا ہے کہ کل ان کے مکان پر حملہ ہونا ہے مگر انہوں نے مجھ پر یہ احسان کیا ہوا ہے کہ انہوں نے مجھے بھی ملازم کرایا ہے اور تمہیں بھی.اب تمہارا فرض

Page 212

199 $1956 خطبات محمود جلد نمبر 37 کہ تم اس احسان کا بدلہ اُتارو.یہ لڑکے ہوشیار تھے.انہوں نے پتا لگا لیا کہ کس وقت حملہ ہونا ہے اور خود ان میں شامل ہو کر آگے آگے ہو گئے اور کہنے لگے چلو! ہم بتائیں کہ تم نے کسی گھر پر حملہ کرنا ہے.مگر جب وہ گالیاں دیتے ہوئے قریب آتے تو کہتے اس مرزائی کے گھر میں کیا رکھا ہے.چلو! ہم تمہیں اور گھر بتاتے ہیں جس کے سیف روپوں سے بھرے پڑے ہیں اور جہاں بڑا سامان ہے.اس طرح وہ اُن کو واپس لے گئے اور آپ کا گھر بچ گیا.غرض قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ ہمارا احسان ہے کہ ہم نے مومنوں کے دلوں میں تیری محبت پیدا کر دی ہے اور ان کے دلوں میں ایک دوسرے کی محبت پیدا کر دی ہے.مگر جیسا کہ میں نے بتایا ہے ہمیں اس قسم کے نظارے بھی نظر آتے ہیں کہ نہ صرف مومنوں کے دلوں میں ایک دوسرے کی محبت ہوتی ہے بلکہ جو مومن نہیں اللہ تعالیٰ اُن کے دلوں میں بھی مومنوں کی محبت پیدا کر دیتا ہے.جب احزاب کی جنگ ہوئی تو ایک عرب سردار نعیم بن مسعود اشجعی جو اسلام لا چکے تھے لیکن کفار کو ابھی اس کا علم نہیں تھا رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آئے اور کہنے لگے میں چاہتا ہوں کہ اس موقع پر کوئی خدمت کروں.آپ مجھے اجازت دیں.آپ نے فرمایا تمہیں اجازت ہے.چنانچہ اس کے بعد وہ یہودیوں کے پاس گئے اور انہیں کہنے لگے تمہیں پتا ہے میں عربوں کا سردار ہوں اور ان کی مجالس میں ہمیشہ شامل ہوتا ہوں.میں تمہیں یہ بتانے آیا ہوں کہ قریش سمجھتے ہیں کہ یہودیوں نے ہم سے غداری کرنی ہے اور وہ چاہتے ہیں کہ تم اپنے ستر آدمی چن کر انہیں ضمانت کے طور پر دے دو تاکہ اگر تم غداری کرو تو وہ انہیں قتل کر دیں.میں تمہیں یہ مشورہ دینے آیا ہوں کہ اگر وہ تم سے یہ مطالبہ کریں تو تم بھی کہنا کہ تم اپنے ستر آدمی ہمیں دے دو تاکہ اگر تم غداری کرو تو ہم انہیں مار سکیں.اور اگر وہ صرف تم سے مطالبہ کریں اور اپنے ستر آدمی تمہارے حوالے نہ کریں تو تمہیں سمجھ لینا چاہیے کہ اُن کی نیت خراب ہے اور وہ تمہارے ساتھ ضرور غداری کریں گے.اس کے بعد وہ عربوں کے پاس پہنچا ہ اور اُس نے اُن کے کان میں یہ بات ڈالی کہ یہودی مدینہ میں رہتے ہیں اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اندر ہی اندر مل چکے ہیں.وہ تمہارے ساتھ غداری.

Page 213

$1956 200 خطبات محمود جلد نمبر 37 کرنے والے ہیں.اس کا علاج یہی ہے کہ تم ان سے ستر آدمی ضمانت کے طور پر مانگو تا کہ اگر وہ غداری کریں تو تم ان کو قتل کر سکو.چنانچہ اس مشورہ کے مطابق عربوں نے یہودیوں کی طرف پیغام بھجوا دیا کہ بیشک تم اس وقت ہمارے ساتھ ہو لیکن ہوسکتا ہے کہ تم کسی وقت غداری کرو اس لیے پہلے اپنے ستر آدمی ہمارے حوالے کرو تا کہ اگر تم غداری کرو تو ہم انہیں سزا دے سکیں.انہوں نے جواب بھجوایا کہ پہلے تم اپنے ستر آدمی ہمارے حوالے کرو تا کہ اگر تم غداری کرو تو ہم انہیں سزا دے سکیں.اس سے قریش کو یقین آگیا کہ یہودیوں کے دلوں میں بدنیتی ہے اور یہود کو قریش پر بدظنی ہو گئی.2 جب دونوں میں پھوٹ پڑ گئی تو عربوں نے سوچا کہ مسلمانوں پر حملہ کرنے کا ہمارے پاس ایک ہی ذریعہ تھا کہ جس طرف یہود ہیں اُس طرف سے ہم مدینہ میں داخل ہو جائیں مگر اب تو یہود بھی بدنیت ہو گئے ہیں.اس لیے اب ہماری کامیابی کا کوئی امکان نہیں.اب ہمیں واپس چلنا چاہیے.چنانچہ رات کو انہوں نے واپسی کا فیصلہ کیا اور ایسا خفیہ فیصلہ کیا کہ بڑے بڑے افسروں کو بھی اس کی اطلاع نہ ہوئی.ابوسفیان جو عربوں کا سردار تھا اُس کو بھی انہوں نے نہ بتایا.ساتھ ہی ان کے دلوں میں یہ خیال بھی پیدا ہو گیا کہ مسلمانوں نے آج ہم پر شب خون مارنا ہے.چنانچہ راتوں رات انہوں نے خیمے اکھیڑے اور بھاگنا شروع کر دیا.ابوسفیان رات کو اُٹھا تو وہ حیران ہو کر کہنے لگا کہ خیمے کہاں گئے؟ کسی نے کہا کہ سارے قبیلے بھاگے جا رہے ہیں.کہنے لگا عجیب بات ہے مجھے کسی نے بتایا ہی نہیں.اس کے بعد وہ خود بھی بھاگ کھڑا ہوا.مگر اس قدر گھبرایا ہوا تھا کہ اونٹنی پر سوار ہو کر سے ایڑیاں مارنے لگ گیا حالانکہ وہ بندھی ہوئی تھی اور دم کی طرف منہ کر کے بیٹھ گیا.آخر کسی نے کہا کہ کیا کر رہے ہو؟ اونٹنی تو ابھی بندھی ہوئی ہے اور تم دم کی طرف منہ کر کے بیٹھے ہو.3 جب صبح ہوئی تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے صحابہ کو آواز دی اور فرمایا کوئی ہے؟ حذیفہ ایک صحابی تھے وہ کہتے ہیں میں بول پڑا اور میں نے کہا یا رَسُول اللہ ! میں حاضر ہوں.آپ نے فرمایا تم نہیں کوئی اور.مگر اُس رات اتنی سخت سردی پڑی تھی کہ صحابہ کہتے ہیں ہم رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آواز تو سن رہے تھے مگر ہمارے اندر بولنے کی طاقت نہیں تھی.کیونکہ ہماری ہڈیاں اُس وقت برف کی بنی ہوئی تھیں.پھر دوبارہ

Page 214

$1956 201 خطبات محمود جلد نمبر 37 رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کوئی ہے؟ اس پر پھر وہی صحابی بولے کہ یا رَسُول اللہ ! میں حاضر ہوں.آپ نے فرمایا تم نہیں کوئی اور.صحابہ پھر کہتے ہیں کہ ہم اس وقت رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آواز سن رہے تھے مگر سردی اتنی شدید تھی کہ ہمارے اندر جواب دینے کی ہمت نہیں تھی.پھر تیسری بار رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہی بات پوچھی اور اس صحابی نے پھر کہا کہ یا رَسُول اللہ ! میں حاضر ہوں.آپ نے فرمایا تم جاؤ اور دیکھو کہ دشمن کا کیا حال ہے.وہ باہر گیا اور واپس آکر کہنے لگا کہ یا رَسُول اللہ ! وہاں تو دشمن کا نام و نشان بھی نہیں ہے.سب بھاگ گئے ہیں.4 تو دیکھو ایک آدمی جو دشمنوں میں سے تھا اُس کے دل میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کی محبت پیدا کر دی اور اُس نے ایک ایسی تدبیر کی جس کے نتیجہ میں دشمنوں میں پھوٹ پڑ گئی.ہمارے ہاں بھی فساد کے دنوں میں بعض لوگوں نے جو ہمارے دشمن تھے بڑی بڑی قربانیاں کر کے احمدیوں کو بچانے کی کوشش کی ہے جس سے پتا لگتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے یہ جو فرمایا ہے کہ ہم نے انسان کی فطرت کو پاکیزہ بنایا ہے یہ بالکل درست ہے.انہی مخالفوں میں سے ایسے لوگ کھڑے ہو گئے جو احمدیوں کی جانیں بچانے کے لیے آگے آگئے.اس سے پتا لگتا ہے کہ چاہے مذہبی یا سیاسی لیڈر لوگوں کو دھوکا دے کر اُن کی فطرت کو کتنا ہی مسخ کر دیں پھر بھی نیکی ضائع نہیں جاتی.شکار پور (سندھ) سے اُنہی دنوں مجھے ایک پٹھان کا خط آیا جس میں اُس نے لکھا کہ میں دل سے احمدیت کی طرف مائل تھا مگر مجھے جرات نہیں ہوتی تھی کہ میں اس کا اظہار کروں.اب پنجاب کے واقعات کی خبریں یہاں پہنچیں تو میں نے اپنے دل سے کہا کہ کمبخت ! تجھے ہمیشہ شہادت کی خواہش رہتی تھی اب خدا تعالیٰ نے ایک موقع پیدا کر دیا ہے.اگر یہ موقع گزر گیا تو پھر تجھے کب شہادت نصیب ہو گی؟ پس اگر تو نے شہادت حاصل کرنی ہے تو آج ہی احمدیت کو قبول کر.تا کہ اگر تیری قسمت میں شہادت ہو تو وہ تجھے مل جائے.غرض اللہ تعالیٰ نے یہ ایک برکت رکھی ہوئی ہے کہ مومنوں کے دلوں کو وہ آپس میں جکڑ دیتا ہے اور مومنوں کے دلوں میں اپنے رسول کی محبت پیدا کر دیتا ہے.میور اسلام کا شدید ترین دشمن ہے مگر وہ بھی مسلمانوں کی فدائیت اور ان کی

Page 215

$1956 202 خطبات محمود جلد نمبر 37 قربانی کے جذبہ کو تسلیم کرنے سے نہیں رہ سکا.احزاب میں دشمن کا لشکر چوبیس ہزار تھا.مگر وہ وی گھٹا کر اسے پندرہ سولہ ہزار بتاتا ہے اور مسلمانوں کی تعداد صرف بارہ سو تھی مگر وہ اسے بڑھا کر دس ہزار بتاتا ہے.اور پھر لکھتا ہے کہ حیرت آتی ہے کہ اتنا زبردست لشکر جمع ہوا اور پھر بھی وہ شکست کھا گیا.اس کے بعد وہ اس پر بحث کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ اصل بات یہ ہے کہ مکہ والوں اور یہود سے ایک غلطی ہو گئی اور وہ یہ کہ انہوں نے یہ اندازہ نہیں لگایا کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ماننے والوں کو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کتنی محبت ہے.وہ چاہتے تھے کہ کسی طرح خندق کو عبور کر جائیں.یہ خندق جو چند دنوں میں کھودی گئی زیادہ سے زیادہ دو اڑھائی گز چوڑی ہو گی اور گھوڑے بعض دفعہ چار چار گز تک بھی ای چھلانگ لگا لیتے ہیں.پس اس خندق کو عبور کرنا ان کے لیے کوئی مشکل نہیں تھا.چنانچہ کئی دفعہ ایسا ہوا کہ ان کے گھوڑے اس خندق پر سے گود جاتے مگر ان سے غلطی یہ ہوئی کہ وہ سیدھے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خیمہ کی طرف جاتے تھے اور سمجھتے تھے کہ اگر ہم نے ان کو مارلیا تو سب کو مار لیا.لیکن جس وقت وہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خیمہ کی طرف رُخ کرتے تھے مسلمان پاگل ہو جاتے تھے اور وہ بھیڑوں اور بکریوں کی طرح اپنا سر کٹانے کے لیے آگے نکل آتے تھے.چنانچہ باوجود جیتنے کے کفار کو اپنے گھوڑے دوڑا کر واپس آنا پڑتا تھا.بلکہ بعض دفعہ ان کے گھوڑے بھی اس خندق میں گر جاتے تھے.پس انہوں نے غلطی یہ کی کہ وہ سب سے پہلے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر حملہ کرتے تھے.حالانکہ مسلمانوں کے دلوں میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اتنا عشق تھا کہ اس موقع پر ان کا بچہ بچہ مقابلہ کے لیے نکل کھڑا ہوتا تھا.یہ وہ محبت تھی جو اللہ تعالیٰ نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی لوگوں کے دلوں میں پیدا کر دی تھی.اور پھر ان کی جو آپس میں محبت تھی اُس کا نمونہ بھی ہمیں ان لوگوں میں نظر آتا ہے.بلکہ ہم میں بھی جو مومن ہیں وہ بھائیوں کی طرح آپس میں محبت رکھتے ہیں.گو بعض ایسے بھی نالائق ہیں جو کہیں اکٹھے ہو جاتے ہیں تو باقی بھائیوں سے لڑنے لگ جاتے ہیں.زیادہ تر ہمیں تاجروں میں یہ نقص نظر آتا ہے.ان کے پاس ہی کسی اور بھائی کی

Page 216

$1956 203 خطبات محمود جلد نمبر 37 دکان ہو تو وہ اُس کو گرانے کی کوشش کرتے ہیں.اور یا پھر ملازمتوں میں ترقی کا سوال ہو تو بعض دفعہ ایک بھائی اپنے دوسرے بھائی کے مقابلہ میں کھڑا ہو جاتا ہے.گو ایسے بھی مخلص پائے جاتے ہیں جو دوسروں کے لیے ہر قسم کی قربانی کرنے کے لیے تیار ہو جاتے ہیں.مجھے یاد ہے ایک بہت بڑے عہدہ کے لیے ایک دفعہ دو احمدیوں میں مقابلہ ہو گیا.ایک کو خیال تھا کہ مجھے عہدہ ملے اور دوسرا چاہتا تھا کہ میں اس عہدہ پر جاؤں.ایک دن ان دونوں میں سے ایک شخص کی بیوی مجھے ملنے کے لیے آئی اور کہنے لگی دعا کریں کہ دونوں میں سے کسی ایک کو یہ عہدہ مل جائے.میں نے سمجھا کہ اُس کے دل میں حقیقی ایمان پایا جاتا ہے یہ بجھتی ہے کہ گو میرا خاوند اس بات کا مستحق ہے کہ اُسے یہ عہدہ ملے لیکن اگر اُسے نہیں ملتا تو بہر حال یہ عہدہ دوسرے احمدی کو ملنا چاہیے کسی اور کے پاس نہیں جانا چاہیے.تو اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ ایسے مخلص بھی ہماری جماعت میں پائے جاتے ہیں.جب تک یہ اخلاص قائم رہے گا جماعت ترقی کرتی چلی جائے گی.لیکن اگر وہ بغض جو غیروں میں پایا جاتا ہے احمدیوں میں بھی پیدا ہو گیا اور ان کی آپس کی محبت جاتی رہی تو ان کی طاقت ٹوٹ جائے گی.جیسے قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم آپس میں تنازع نہ کرو ورنہ تمہاری طاقت جاتی رہے گی اور تمہارا رعب زائل ہو جائے گا.5 پس ہماری جماعت کے دوستوں کو چاہیے کہ وہ ہمیشہ اس امر کو یاد رکھیں کہ عارضی فائدہ کے لیے وہ کبھی اپنے بھائی کی مخالفت نہ کریں کیونکہ اگر وہ آپس میں لڑے تو غیر اُن کی اس مخالفت سے فائدہ اُٹھا لے گا اور سلسلہ کو نقصان پہنچ جائے گا.لیکن اگر ایک کو فائدہ پہنچتا ہے اور دوسرا محروم رہتا ہے تو وہ کہے کہ چلو مجھے اگر فائدہ نہیں ہوا تو نہ سہی سلسلہ کی طاقت تو بڑھ گئی ہے.پس آپس میں اس قسم کی محبت پیدا کرنے کی کوشش کرو جس کی مثال سگے بھائیوں میں بھی نہ پائی جاتی ہو.صحابہ کو دیکھ لو دین کے معاملہ میں وہ اپنے عزیزوں اور رشتہ داروں کی بھی پروانہیں کیا کرتے تھے.کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ ہمارے اصل بھائی وہی ہیں جو ہمارے ساتھ شامل ہیں.ایک روز حضرت ابوبکر گھر میں بیٹھے ہوئے باتیں کر رہے تھے کہ ان کا ایک :

Page 217

$1956 204 خطبات محمود جلد نمبر 37 جو بعد میں مسلمان ہوا تھا کہنے لگا ابا جان! اُحد کے موقع پر میں ایک پتھر کے پیچھے چھپا ہوا تھا تی کہ آپ وہاں سے گزرے.اُس وقت اگر میں چاہتا تو آپ کو مار سکتا تھا.مگر میں نے خیال کیا کہ اپنے باپ کو کیا مارنا ہے.حضرت ابوبکر نے یہ بات سنی تو فرمایا خدا نے تجھے ایمان نصیب کرنا تھا اس لیے تو بچ گیا ورنہ خدا کی قسم ! اگر میں تجھے دیکھ لیتا تو تجھے ضرور مار ڈالتا.کیونکہ تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ کے صحابہ کے مقابلہ میں نکلا تھا.اور یہ چیز ایسی تھی جو نا قابل برداشت تھی.پس اگر میں تجھے دیکھتا تو میں نے تجھے وہیں قتل کر دینا تھا.6 پھر دیکھو ! رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ایک شخص نے ہتک کی اور اُس کے بیٹے کو بھی یہ خبر جا پہنچی کہ میرے باپ نے ایسا فقرہ کہا ہے جو سخت گندہ اور ناپاک ہے.وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہنے لگا یا رَسُول اللہ! اس فقرہ کے بعد میرے باپ کی ایک ہی سزا ہے کہ آپ اُسے قتل کر دیں اور غالباً ! آپ یہی سزا اُس کے لیے تجویز کریں گے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا نہیں نہیں.ہم نہیں چاہتے کہ اُسے کوئی سزا دیں تا کہ لوگ یہ نہ کہیں کہ محمد رسول اللہ اپنے ساتھیوں کو مارتا پھرتا ہے.اُس نے کہا یا رَسُولَ اللہ ! میرے باپ کی یہی سزا ہے کہ اُسے قتل کیا جائے.اور میں اس لیے حاضر ہوا ہوں کہ اگر آپ نے اُس کے قتل کا کسی اور مسلمان کو حکم دیا تو ممکن ہے میرا نفس مجھے کسی وقت دھوکا دے اور میں اپنے اس مسلمان بھائی کو دیکھ کر غصہ میں آ جاؤں اور اسے مار دوں اور اس طرح کا فر ہو جاؤں.اس لیے یا رَسُولَ الله! آپ مہربانی فرما کر مجھے ہی حکم دیں کہ میں اپنے باپ کو اپنے ہاتھ سے قتل کروں تا کہ کسی مسلمان بھائی کا بغض میں دل میں پیدا نہ ہو.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پھر فرمایا کہ ہم اُسے کوئی سزا نہیں دینا چاہتے.اس پر وہ واپس چلا گیا.مگر اس نے اپنے دل میں یہ نیت کر لی کہ میں نے اپنے باپ کو مدینہ میں داخل نہیں ہونے دینا جب تک کہ وہ اپنے فقرہ کو واپس نہ لے لے.چنانچہ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مدینہ میں داخل ہو گئے تو وہ جھٹ تلوار لے کر مدینہ کے دروازہ پر کھڑا ہو گیا اور اپنے باپ سے کہنے لگا کہ اونٹ سے اُتر آ ( اُس نے یہ الفاظ کہے تھے کہ مجھے مدینہ پہنچ لینے دو.پھر وہاں کا سب سے زیادہ معزز شخص یعنی وہ کمبخت خود مدینہ کے

Page 218

$1956 205 خطبات محمود جلد نمبر 37 سب سے زیادہ ذلیل آدمی یعنی نَعُوذُ بِاللهِ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مدینہ سے نکال دے گا.اُس نے تلوار نکال لی اور اپنے باپ سے کہنے لگا تم نے یہ فقرہ کہا تھا اب اونٹ سے اُتر و) اور جس زبان سے تم نے یہ الفاظ کہے تھے اُسی زبان سے یہ کہو کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سب سے زیادہ معزز ہیں اور میں سب سے زیادہ ذلیل ہوں.اگر تو نے یہ الفاظ نہ کہے تو خدا کی قسم! میں اسی تلوار سے تیری گردن اڑا دوں گا.باپ نے اُس کی شکل پہچان کر سمجھ لیا کہ یہ بغیر اس اقرار کے مجھے مدینہ میں داخل نہیں ہونے دے گا.چنانچہ وہ اونٹ سے اُترا اور اُس نے کہا میں اقرار کرتا ہوں کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سے زیادہ معزز ہیں اور میں سب سے زیادہ ذلیل ہوں.جب اُس نے یہ الفاظ کہے تب اُس کے بیٹے نے رستہ چھوڑا اور کہا اب جاؤ.جب خدا کے رسول نے تمہیں معاف کر دیا ہے تو میں بھی تمہیں کچھ نہیں کہتا.Z اس سے پتا لگ سکتا ہے کہ ان کے دلوں میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا کتنا عشق تھا کہ جب تک اُس نے پہلے فقرہ کے بالکل اُلٹ فقرہ نہ کہلوا لیا کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سب سے زیادہ معزز ہیں اور میں سب سے زیادہ ذلیل ہوں اُس وقت تک اُس نے اُسے مدینہ میں داخل نہ ہونے دیا.مجھے یاد ہے ہماری جماعت میں ایک مخلص مگر نیم پاگل شخص تھا جسے لوگ فلاسفر کہا کرتے تھے.اصل میں وہ مداری تھا اور لوگوں کو ہتھکنڈے دکھایا کرتا تھا مگر چونکہ ذہین اور ہوشیار آدمی تھا.لوگ اُسے فلاسفر کہا کرتے تھے.کبھی وہ غصے میں آ جاتا تو نیم پاگل بھی ہو جایا ہے کرتا تھا.جب کبھی مالی لحاظ سے اُسے تنگی محسوس ہوتی تھی وہ لاہور چلا جاتا اور لنڈے بازار میں تماشے دکھانا شروع کر دیتا.ایک دفعہ وہ بازار میں پھر رہا تھا کہ کسی نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی ہتک کر دی.اس پر اُسے غصہ آگیا اور اس نے اس دکاندار کو پیٹا.یہ دیکھ کر لوگ اکٹھے ہو گئے اور انہوں نے فلاسفر کو مارنا شروع کر دیا.ایک دفعہ خواجہ کمال الدین صاحب لاہور سے آئے تو انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی خدمت میں عرض کیا کہ اس شخص نے ہمیں ذلیل کر دیا ہے.یہ لوگوں کو مارتا ہے اور پھر لوگ اس کو مارتے ہیں اور جماعت کی بدنامی ہوتی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اسے بلایا اور فرمایا میں

Page 219

$1956 206 خطبات محمود جلد نمبر 37 نے سنا ہے کہ تم لوگوں پر سختی کرتے ہو، اسلام نے سختی کرنے سے منع کیا ہے.اگر کوئی شخص اتنی مجھے گالی دے تو تمہیں صبر کرنا چاہیے.میں نے بتایا ہے کہ وہ نیم پاگل سا تھا.جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے یہ نصیحت کی تو وہ بڑے جوش سے کہنے لگا کہ بس بس ! رہنے دیجیے.میں یہ نصیحت ماننے کے لیے تیار نہیں.اگر آپ کے پیر کو کوئی شخص گالی دے تو آپ اُس سے مباہلہ کرنے کے لیے تیار ہو جاتے ہیں اور میرے پیر کو کوئی گالی دے تو آپ کہتے ہیں صبر کرو میں اس کے لیے تیار نہیں ہوں.اس کا مطلب یہ تھا کہ جب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کوئی شخص گالی دیتا ہے تو آپ کو غصہ آ جاتا ہے مگر جب میرے پیر کو کوئی گالی دیتا ہے تو آپ کہتے ہیں صبر کرو.یہ کس طرح ہو سکتا ہے.غرض یہ اُس کی کیفیت تھی.جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر وہ مقدمہ ہوا جس میں عدالت نے آپ کو جرمانہ کی سزا دی تھی تو گو میں اُس وقت چھوٹا تھا مگر مجھے یاد ہے کہ وہ فیصلہ والے دن پتھر اُٹھائے پھرتا تھا اور کہتا تھا کہ میں نے یہ پتھر چُھپا کر عدالت میں لے جانا ہے اور اگر مجسٹریٹ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو سزا دی تو میں نے اُسے زندہ نہیں چھوڑنا اس پتھر سے اُس کا سر پھوڑ دینا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کو اس کا علم ہوا تو آپ نے کچھ دوست مقرر کر دیئے جنہوں نے اُس کو پکڑ لیا اور آپ نے فرمایا جب تک ہم عدالت سے باہر نہ آ جائیں اور پھر گھر نہ پہنچ جائیں اس کو نہ چھوڑا جائے.مگر اُس کی یہ حالت تھی کہ وہ کانپتا تھا اور کہتا تھا کہ مجھے چھوڑ دو.میں نے اُسے آج مار کر چھوڑنا ہے.تو جب بھی خدا تعالیٰ کی طرف سے کوئی شخص آتا ہے اُس کی محبت لوگوں کے دلوں میں پیدا کر دی جاتی ہے.اور اُس کی جماعت کی یہ خصوصیت ہوتی ہے کہ وہ آپس میں محبت رکھتے ہیں.جب یہ محبت ختم ہو، سمجھ لو کہ تمہارا ایمان بھی ختم ہو گیا ہے.اگر کوئی شخص اپنے دل یہ محسوس نہیں کرتا کہ اگر کسی احمدی پر ظلم ہو تو میں اپنی جان دے کر بھی اُس کو بچانے کی کوشش کروں گا تو اُسے سمجھ لینا چاہیے کہ اُس کا ایمان کمزور ہے.اگر ملازمتوں میں ترقی کا سوال آتا ہے اور تم سمجھتے ہو کہ افسر تمہاری طرف ہے لیکن اگر تمہیں حق ملے

Page 220

$1956 207 خطبات محمود جلد نمبر 37 تو تمہارے دوسرے بھائی کی حق تلفی ہوتی ہے تو جب تک تم پورا زور نہ لگاؤ کہ اُسے اُس کا حق مل جائے اُس وقت تک تم سچے مومن نہیں کہلا سکتے.کیونکہ ایمانِ کامل کی علامت ہی یہی ہے کہ دل ایک دوسرے کی محبت سے پر ہوں.اور یہی بات اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں بیان فرمائی ہے کہ ہم نے تمہارے دلوں کو آپس میں جوڑ دیا ہے اور تم میں باہم محبت اور اخوت پیدا کی کر دی ہے.اور یہ ایسی چیز ہے کہ اگر تم ساری دنیا کے اموال خرچ کر کے بھی اُسے حاصل کرنا چاہتے تو نہ کر سکتے.حقیقت یہ ہے کہ جب کسی قوم میں یہ خوبی پیدا ہو جائے کہ اُس کے افراد ایک دوسرے کے لیے اپنی جانیں قربان کرنے کے لیے تیار ہوں اور انہیں اپنے مفاد سے اپنے بھائیوں کا مفاد زیادہ عزیز ہو تو اُس کا مقابلہ کرنا کوئی آسان کام نہیں ہوتا.وہ تھوڑے ہوتے ہوئے بھی دوسروں پر غالب آ جاتے ہیں اور کمزور ہوتے ہوئے بھی بڑے بڑے طاقتوروں کو بھگا دیتے ہیں.ایک دفعہ سرگودھا کے ایک گاؤں میں لڑائی ہوئی.اُس میں احمدی صرف تین تھے اور اُن کے مقابلہ میں سارا گاؤں تھا مگر تین آدمیوں نے سارے گاؤں کو بھگا دیا.مجھے جب یہ خبر پہنچی تو میں نے پوچھا کہ صرف تین آدمیوں نے سارے گاؤں کو کس طرح بھگا دیا؟ انہوں نے کہا کہ جب لوگوں نے باہر نکل کر ہمیں مقابلہ کے لیے للکارا اور کہا کہ کوئی احمدی ہے تو ہمارے مقابلہ میں آجائے تو ہم تینوں اُن کے مقابلہ میں نکل کھڑے ہوئے اور اس طرح مقابلہ کیا کہ سارا گاؤں بھاگ کھڑا ہوا.اور ہم اُس وقت تک واپس نہ آئے جب تک کہ انہوں نے اپنے گھروں میں داخل ہو کر گنڈیاں نہ لگا لیں.بلکہ اس کے بعد گاؤں کے بڑے بڑے آدمی ہمارے پاس آئے.وہ ہمارے آگے ہاتھ جوڑتے اور منتیں کرتے کہ ہم پر پھر حملہ نہ کرنا.اسی طرح ایک اور گاؤں میں صرف دس احمدی تھے.مگر جب لوگوں نے مخالفت کی تو وہ دس آدمی گاؤں کے گاؤں کو شکست دے کر آگئے.یہ ایمان اور سلسلہ کی محبت کا ہی نتیجہ تھا کہ وہ ایک دوسرے کی مدد کے لیے اکٹھے ہو گئے.اگر ان کے دلوں میں ایمان نہ ہوتا تو اتنی جرات ان میں کس طرح پیدا ہوتی.

Page 221

خطبات محمود جلد نمبر 37 208 $1956 اسی طرح قادیان میں ایک دفعہ سکھوں نے حملہ کیا جن کے مقابلہ کے لیے مدرسہ احمدیہ کے لڑکے پہنچ گئے.میر محمد اسحاق صاحب جو اُس مدرسہ کے افسر تھے وہ بھی وہاں جا پہنچے.میں نے حکم دے دیا تھا کہ کوئی احمدی اُن سے نہ لڑے.مگر سکھوں نے حملہ کر دیا.اس پر لڑ کے آخر لڑ کے ہی ہوتے ہیں.انہوں نے بھی اُن کا مقابلہ شروع کر دیا اور تھوڑی دیر کے بعد ہی سکھوں نے بھاگنا شروع کر دیا.مولوی سید محمد سرور شاہ صاحب سنایا کرتے تھے کہ ایک سکھ جو بڑے لمبے قد کا تھا اور مجھ سے بھی ایک فٹ اونچا تھا اور جو خود ایک فوجی خاندان میں سے تھا اور اُس کا باپ اور بھائی بھی فوج میں ملازم تھے ڈر کے مارے بھاگتا چلا آ رہا تھا اور اُس کے پیچھے مدرسہ احمدیہ کا ایک چھوٹا سا لڑکا تھا جس نے اپنے ہاتھ میں صرف ایک کا نا پکڑا ہوا تھا.میرے قریب پہنچ کر وہ سکھ بڑی لجاجت سے مجھے کہنے لگا کہ مولوی صاحب ! میری اس لڑکے سے جان بچائیے.مجھے اُس وقت حیرت ہوئی کہ یہ لڑکا اُس کی ٹانگ سے بھی چھوٹا ہے اور اس نے ہاتھ میں صرف ایک کا نا پکڑا ہوا ہے مگر یہ اتنا ڈر رہا ہے کہ اس کے حواس بھی بجا نہیں.وہ سمجھتا ہے کہ میری جان خطرے میں ہے.بہر حال میں نے اُس لڑکے کو روک دیا کہ جانے دو.تو جب ایمان پیدا ہوتا ہے تو ساتھ ہی دلیری بھی پیدا ہو جاتی ہے مگر ایمان کو ہمیشہ جائز طور پر استعمال کرنا چاہیے ناجائز طور پر نہیں.قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے ہابیل اور قابیل کا قصہ بیان کیا ہے اور بتایا ہے کہ جب ایک بھائی نے دوسرے بھائی کو مارنا چاہا تو اُس نے کہا تو بیشک مار لے.میں تجھے مارنے کے لیے اپنے ہاتھ نہیں بڑھاؤں گا.لوگوں نے اس آیت سے یہ غلط استدلال کیا ہے کہ اگر کوئی مارنا چاہے تو انسان اُسے نہ مارے.حالانکہ اصل معنے اس کے یہ ہیں کہ میں اس طرح ہاتھ نہیں اُٹھاؤں گا کہ اس کے نتیجہ میں تو مر جائے.یعنی میری اصل کوشش یہی ہوگی کہ تیرا حملہ دور ہو جائے.گویا مومن ایسے حالات میں بھی جبکہ اُس کی جان خطرے میں ہو صرف اتنا چاہتا ہے کہ شر دور کر دے یہ نہیں چاہتا کہ دوسرے کو کوئی ناجائز تکلیف پہنچے.پس اپنے اندر ایمان پیدا کر و، اپنے بھائیوں کی سچی محبت پیدا کرو اور اس امر کو

Page 222

خطبات محمود جلد نمبر 37 فَارْ 209 $1956 اچھی طرح سمجھ لو کہ مومن وہی ہے جو دوسروں کے لیے اپنی جان دینے کے لیے بھی تیار ہو اور آپ نیچے ہو کر بھی اپنے بھائی کو اونچا کرنے کی کوشش کرتا ہو.جیسے قرآن کریم میں ستَبِقُوا الْخَيْرَتِ و کے الفاظ میں مومن کا یہ خاصہ بیان کیا گیا ہے کہ وہ بھلائی کے کاموں میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرتے ہیں اور جو اِن سے نیچے ہوں اُن کی کو کھینچ کر آگے لاتے ہیں.پس ہمیشہ اپنے بھائیوں سے بلکہ اگر ممکن ہو تو غیروں سے بھی نیکی اور حسن سلوک کرو اور اُن کے مفاد کو اپنے مفاد پر ترجیح دو.اور انہیں اونچا کرنے اور ترقی کے میدان میں آگے لے جانے کی کوشش کرو کیونکہ جو دوسرے کے حق میں نیکی کرتا ہے اللہ تعالیٰ اُسے بھی نیکیوں کے میدان میں ترقی کرنے کی توفیق عطا فرما دیتا ہے.الفضل 28 جون 1956ء) 1: وَالَّفَ بَيْنَ قُلُوبِهِمْ لَوْ اَنْفَقْتَ مَا فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا مَّا أَلَّفْتَ بَيْنَ قُلُوبِهِمْ وَلَكِنَّ اللَّهَ أَلَّفَ بَيْنَهُمْ (الانفال : 64) 2 سیرت ابن هشام جزء 2 صفحه 1015 تا 1017 شأن نعيم في تخذيل المشركين عن المسلمين دمشق 2005ء 3 سیرت ابن هشام جزء 2 صفحه 1017 تا 1019 دبيب الفرقة بين المشركين دمشق 2005ء 4 سیرت ابن هشام جزء 2 صفحه 1019،1018 ارسل الرسول حذيفة ليتعرف ماحل بالمشركين و رجوع حذيفة الى الرسول بتخاذل المشركين | دمشق 2005ء 5 : وَلَا تَنَازَعُوا فَتَفْشَلُوْاوَ تَذْهَبَ رِيحُكُمْ (الانفال: 47) 6 : مستدرک حاکم جلد 3 صفحه 475 بيروت 1978ء 7 : جامع الترمذی ابواب تفسير القرآن عن رسول الله باب سورة المنافقين : لَبِنْ بَسَطتَ إِلى يَدَكَ لِتَقْتُلَنِى مَا أَنَا بِبَاسِطٍ يَدِى إِلَيْكَ لِأَقْتُلَكَ (المائدة: 29) 9: البقرة: 49

Page 223

$1956 210 18 خطبات محمود جلد نمبر 37 دوستوں کو چاہیے کہ وہ رمضان کے باقی ایام سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اُٹھانے کی کوشش کریں (فرمودہ 4 مئی 1956ء بمقام مری) تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: ” یہاں پہنچنے پر شاید بلندی کی وجہ سے یا سردی کی وجہ سے یا اس وجہ سے کہ پانی موافق نہیں آیا میری طبیعت پہلے تین چار دن بہت خراب رہی لیکن آج سے خدا تعالیٰ کے فضل سے افاقہ شروع ہوا ہے.یہ رمضان کے دن ہیں اور رمضان کی فضیلت جو قرآن کریم میں بیان ہوئی ہے ؟ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث میں بیان ہوئی ہے نہایت اہم ہے.قرآن کریم سے لگتا ہے کہ رمضان کے دنوں میں مومنوں کی دعائیں خاص طور پر قبول کی جاتی ہیں.1 اسی طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان کے دنوں کی فضیلت بہت کثرت سے بیان فرمائی ہے.پس دوستوں کو چاہیے کہ اب جو تھوڑے سے دن باقی رہ گئے ہیں ان میں وہ خاص طور پر دعائیں کریں تا اللہ تعالیٰ کا فضل ان پر نازل ہو اور وہ رمضان کی برکات سے پورا فائدہ

Page 224

$1956 211 خطبات محمود جلد نمبر 37 اُٹھا سکیں.روزوں کا اکثر حصہ تو گزر چکا ہے اور جن کو خدا تعالیٰ نے توفیق دی ہے وہ اس سے فائدہ بھی اٹھا چکے ہیں.لیکن جو تھوڑا سا حصہ باقی ہے اس میں بھی روزوں اور دعاؤں کے ریعہ سے انہیں خدا تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے.حضرت مسیح ناصری سے ایک دفعہ لوگوں نے سوال کیا کہ ہم دیو کیوں نہیں نکال سکے؟ درحقیقت یہ ان کی ایک اصطلاح تھی.وہ بیماریوں اور مختلف قسم کی خرابیوں کو دیو کہا کرتے تھے اور حضرت مسیح ناصرتی کے پاس آکر کہا کرتے تھے کہ یہ دیو نکال دیں.ان کا مطلب یہ ہوتا تھا کہ یہ بیماریاں یا خاص قسم کی دماغی خرابیاں نکال دی جائیں.اسی قسم کے بعض بیمار تھے جن کا حضرت مسیح ناصری نے علاج کیا اور پھر اپنے حواریوں سے فرمایا کہ یہ دیو روزوں اور دعاؤں کے بغیر نہیں نکلتے.2 یعنی کمالات روحانیہ کا حصول روزوں اور دعاؤں کے ذریعہ ہی ہو سکتا ہے.لیکن عجیب بات یہ ہے کہ وہی مسیح ناصری جنہوں نے یہ کہا تھا کہ بڑی بڑی بیماریاں روزوں اور دعاؤں کے بغیر نہیں جاسکتیں انہی کی امت آج روزوں سے اتنی بے خبر ہے اور وہ اتنا کھاتے ہیں کہ شاید ایشیائی ہفتہ بھر میں بھی اتنا نہیں کھاتے جتنا وہ ایک دن میں کھا جاتے ہیں.پس انہوں نے روزہ کیا رکھنا ہے وہ تو روزوں کے قریب بھی نہیں جاتے.سال بھر میں صرف تین دن ایسے ہوتے ہیں جن میں وہ روزہ رکھتے ہیں لیکن ہندوؤں کی طرح مانی جیسے وہ روزہ میں صرف چولھے کی پکی ہوئی چیز نہیں کھاتے.مثلاً وہ پھل کا نہیں کھائیں گے لیکن دودھ دو دوسیر پی جائیں گے.عیسائی بھی صرف چند چیزوں سے پر ہیز کرتے ہیں.باقی کی سب کچھ کھاتے رہتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ روزے ہو گئے حالانکہ حضرت مسیح یہودیوں میں سے تھے اور یہودیوں میں روزہ بڑا مکمل ہوتا ہے.اور پھر حضرت مسیح خود مانتے ہیں کہ کئی قسم کے دیو یعنی روحانی یا جسمانی بیماریاں ایسی ہیں جو روزہ رکھنے والے کی دعا سے دور ہوتی ہیں اس کے بغیر نہیں ہوتیں.بہر حال یہ دن ایسے ہیں جن کی فضیلت کسی ایک مذہب سے تعلق نہیں رکھتی.بلکہ تمام مذاہب میں روزوں کی فضیلت تسلیم کی گئی ہے.چنانچہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے یا يُّهَا الَّذِينَ مَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصَّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِيْنَ

Page 225

$1956 212 خطبات محمود جلد نمبر 37 مِن قَبْلِكُمْ - یعنی اے مومنو! تم پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے روزے رکھنے اُسی طرح فرض کی کیے گئے ہیں جس طرح پہلی امتوں پر روزے رکھنے فرض کیے گئے تھے.اس آیت سے پتا لگتا ہے ہے کہ جس طرح مسلمانوں پر روزے رکھنے فرض ہیں اسی طرح عیسی کی امت پر بھی فرض تھے ، موسق کی امت پر بھی فرض تھے، ابراہیم کی امت پر بھی فرض تھے اور نوح کی امت پر بھی فرض تھے.اسی طرح اور انبیاء جو مختلف اوقات میں دنیا میں گزرے ہیں اُن کی امتوں پر بھی فرض تھے.پس یہ ایک ایسا روحانی ترقی کا ذریعہ ہے جو سب نبیوں میں مشترک طور پر نظر آتا ہے اور تمام امتیں روزوں سے برکتیں حاصل کرتی رہی ہیں.لیکن اسلام کو دوسرے مذاہب پر یہ فضیلت حاصل ہے کہ وہ تمام مذاہب کا جامع ہے.یعنی پہلے تمام نبیوں کی خوبیاں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات میں جمع ہیں بلکہ اُن سے بھی بڑھ کر خوبیاں آپ میں پائی جاتی ہیں.اور پہلے سارے مذاہب کی خوبیاں اسلام میں جمع ہیں بلکہ اُن سے بھی بڑھ کر خوبیاں اسلام میں پائی جاتی ہیں.اور پہلی ساری الہامی کتابوں کی اچھی تعلیمیں قرآن کریم میں جمع ہیں بلکہ اُن سے بھی بڑھ کر اچھی تعلیمیں قرآن کریم میں پائی جاتی ہیں.پس مسلمانوں کا فرض ہے کہ وہ ان ایام میں روزوں سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اُٹھائیں کیونکہ یہ ان کا اپنا مال ہے اور باقی مذاہب نے ظلی طور پر اس تعلیم کو حاصل کیا ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ آدم ابھی پانی اور مٹی میں تھے کہ خدا نے مجھے خاتم النبین بنا دیا تھا.4- پس رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم چونکہ روحانی طور پر تمام انبیاء ہوئے ہیں اس لیے پہلے نبیوں کو جو بھی اچھی تعلیمیں ملی ہیں در حقیقت ظلّی طور پر ہیں کیونکہ وہ تمام تعلیمیں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے تھیں.پس ان کی کتابوں میں اگر کوئی اچھی تعلیم پائی جاتی ہے تو وہ ہمارا مال ہے.اگر آدم نے کوئی اچھی بات بیان کی ہے نوح نے کوئی اچھی بات بیان کی ہے یا ابراہیم کے صحف میں کوئی اچھی تعلیم ہے یا موسق کی کتاب میں کوئی اچھی تعلیم ہے یا دائڈ کی زبور میں کوئی اچھی تعلیم ہے یا حز قیل" کے صحیفوں میں کوئی اچھی تعلیم ہے یا مسیح کی انجیل میں کوئی اچھی تعلیم ہے تو درحقیقت وہ سب مال مسلمان کا ہی ہے.کیونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: كَلِمَةُ الحِكْمَةِ ضَالَّةُ الْمُؤْمِن

Page 226

$1956 213 خطبات محمود جلد نمبر 37 أخَذَهَا حَيْثُ وَجَدَهَا 5 یعنی علم اور حکمت کی ہر بات مسلمان کی کھوئی ہوئی چیز ہے وہ جہاں سے بھی ملے اُسے لے لینی چاہیے.یعنی جو بھی اچھی تعلیم ابراہیم کے صحف میں پائی جاتی.یا مونٹی کی کتاب میں پائی جاتی ہے یا داؤڈ کے اقوال میں پائی جاتی ہے یا مسیح کے اقوال میں پائی جاتی ہے در حقیقت ظلی پر تو ہیں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مال کا.پس وہ مسلمان کا مال ہے اور وہ جہاں بھی ملے اسے لے لینا چاہیے.اگر کسی کی بکری گم ہو جائے اور وہ اُسے جنگل میں مل جائے تو کیا کوئی شخص ہے جو اسے چھوڑ دے؟ وہ فوراً اسے کان سے پکڑ کر اپنے میں لے آئے گا کیونکہ وہ اُس کا مال ہے.اسی طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ كَلِمَةُ الْحِكْمَةِ ضَالَّةُ الْمُؤْمِنِ ہر اچھی بات جو کسی مذہب میں پائی جاتی ہے اصل میں وہ تمہاری ہے.وہ کسی غیر کی چیز نہیں بلکہ تمہاری اپنی کھوئی ہوئی چیز ہے اور تمہارا فرض ہے کہ تمہیں جہاں بھی کوئی ایسی چیز ملے اُسے فوراً لے لو.روزوں کے متعلق بھی گو قرآن کریم سے پتا لگتا ہے کہ سارے نبیوں کو اس کا حکم دیا گیا تھا مگر در حقیقت پہلے نبیوں کو یہ حکم اس لیے ملا تھا کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ حکم ملنے والا تھا.پس یہ بھی محمدی مال ہے اور مسلمانوں کا فرض قرار دیا گیا ہے کہ انہیں جو بھی اچھی چیز ملے خواہ یہودیت میں ملے یا عیسائیت میں ملے، چین میں ملے یا جاپان میں ملے وہ اسے لے لیا کریں.کیونکہ اصل میں وہ مال محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کی امت کا ہے.پس ہماری جماعت کے دوستوں کو چاہیے کہ وہ ان دنوں سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اُٹھائیں، زیادہ سے زیادہ خدا تعالیٰ کا قرب حاصل کریں اور زیادہ سے زیادہ اس کی برکات حاصل کرنے کی کوشش کریں.1 : بخاری کتاب الصوم باب هل يقال رمضان او شهر رمضان 2 : متی باب 17 آیت 21 3 : البقرة: 184 الفضل ومئى 1956ء) 4: کنز العمال كتاب الفضائل في قسم الاقوال حدیث نمبر 1740 5 : ترندی ابواب العلم باب ما جاء في فضل الفقه على العبادة

Page 227

$1956 214 19 خطبات محمود جلد نمبر 37 اللہ تعالیٰ یوں تو ہر وقت دعا ئیں سنتا ہے لیکن بعض بابرکت ایام کا قبولیت دعا سے خاص تعلق ہوتا ہے (فرمودہ 11 مئی 1956ء بمقام مری) تشهد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: دنیا میں اکثر چیزیں ایسی ہیں کہ ایک حد تک بے موسم بھی مل جاتی ہیں اور پھر موسم میں بھی ملتی ہیں لیکن فرق یہ ہوتا ہے کہ جب ان کا موسم ہوتا ہے تو چیز اچھی ہوتی ہے، وہ زیادہ لطیف بھی ہوتی ہے، اس کا ذائقہ بھی اچھا ہوتا ہے اور پھر سستی بھی ہوتی ہے لیکن جب بے موسم تلاش کی جائے تو چیز بھی خراب ملتی ہے اور پیسے بھی زیادہ خرچ ہوتے ہیں.مثلاً آم ہیں.ہمارے ملک کے لحاظ سے ان کا اصل موسم جون جولائی ہے لیکن لاہور وغیرہ میں مارچ کے مہینہ میں بھی روپے کے دو دو آم مل جاتے ہیں لیکن چکھو تو کچھ کھٹے ہوں گے اور کچھ پھیکے.یہی حال اور چیزوں کا ہے.مجھے یاد ہے بچپن میں جب ہم حضرت خلیفہ اول سے پڑھتے تھے تو جہاں آپ کا مطب ہوا کرتا تھا اُس کے پاس ہی امام دین ماٹا جو ایک غریب آدمی تھا پھل وغیرہ لے کر

Page 228

$1956 215 خطبات محمود جلد نمبر 37 وو بیٹھ جاتا اور حضرت خلیفہ اول کے پاس جو لوگ علاج کرانے کے لیے آتے وہ اس کی امداد کے خیال سے خرید لیتے.چونکہ عام طور پر خربوزے زیادہ سستے ہوتے ہیں اس لیے وہ وہی لے کر بیٹھ جاتا تھا.بیچنے والوں نے عام طور پر کچھ قافیہ دار فقرات تجویز کیے ہوئے ہوتے ہیں اور وہ بلند آواز سے اُن کو دہراتے رہتے ہیں.میں نے دیکھا کہ جب ابھی خربوزوں کا موسم نہیں آتا تھا تو وہ کہا کرتا تھا لے لو خربوزے مشری دے کوزے.اس طرح وہ لوگوں کو رغبت دلاتا تھا کہ شاید اس طرح وہ اُس سے خربوزے خرید نے لگ جائیں.مگر جب موسم ابھی شروع نہیں ہوتا تھا تو وہ آٹھ آنے ونی خربوزے دیا کرتا تھا اور وہ بھی پھیکے سے ہوتے تھے اور جب موسم شروع ہو جاتا تو دو آنے ونی ایک آنہ ونی بلکہ دو پیسے وتی بھی خربوزے مل جاتے تھے.تو چیز وہی ہوتی ہے لیکن موسم میں آکر چیز مل بھی جاتی ہے اور سستی بھی ملتی ہے.یہی حال دینی چیزوں کا ہے.مثلاً دعا ہے اللہ تعالیٰ سمیع و خبیر ہے اور وہ دعائیں سنتا ہی رہتا ہے.مگر کوئی کوئی وقت ایسے بھی آتے ہیں جب وہ زیادہ دعائیں سنتا ہے.چنانچہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو بھی الہام ہوا چل رہی ہے نسیم رحمت کی جو دعا کیجیے قبول ہے آج 1 حالانکہ دن بھی خدا کے ہیں اور راتیں بھی خدا کی ہیں اور دعائیں بھی وہ ہمیشہ سنا کرتا ہے مگر اس دن کی خصوصیت کی وجہ سے اللہ تعالیٰ بھی اس بات پر تیار ہو گیا کہ بندے اس سے مانگیں اور وہ ان کی دعاؤں کو قبول کرے.چنانچہ اُس نے کہا کہ جو دعا کیجیے قبول ہے آج یا مثلاً رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ تہجد کے اوقات میں خدا تعالیٰ دعائیں زیادہ سنتا ہے 2 اور رمضان کی بھی آپ نے بڑی تعریف فرمائی ہے.خصوصاً آخری عشرہ کی.پھر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ جمعہ کے دن ایک گھڑی ایسی آتی کہ جس میں اللہ تعالیٰ سے جو دعا بھی مانگی جائے وہ قبول ہو جاتی ہے 3 اور آج 3 ہے

Page 229

$1956 216 خطبات محمود جلد نمبر 37 یہ ساری باتیں جمع ہیں.جمعہ کا دن بھی ہے جس میں وہ گھڑی آتی ہے جس میں بندہ اللہ تعالیٰ سے جو کچھ مانگے اسے مل جاتا ہے اور رمضان بھی ہے اور پھر آخری عشرہ بھی ہے.کوئی کہہ سکتا ہے کہ کیا دوسرے دنوں میں وہ نہیں سنتا؟ ہم کہتے ہیں وہ سنتا ہے مگر وہ فَعَالُ لِمَا يُرِيدُ 4 بھی ہے.جب اس نے فیصلہ کر دیا ہے کہ میں جمعہ کے دن اور پھر رمضان کے آخری عشرہ میں دعائیں زیادہ سنوں گا تو کون اس میں روک بن سکتا ہے.ہمارا خدا اپنے بندوں کو دیتا ہے اور بہانے بنا بنا کر دیتا ہے.حدیثوں میں آتا ہے ایک بڑا گنہگار ہو گا.قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اسے بلائے گا اور کہے گا تیرے کچھ گناہ میں سناتا ہوں.تو نے فلاں گناہ کیا، فلاں گناہ کیا، فلاں گناہ کیا.میں ہر گناہ کے بدلہ میں تجھے دس دس نیکیاں دیتا ہوں مگر وہ اس کے چھوٹے چھوٹے گناہ ہوں گے بڑے بڑے گناہ اللہ تعالیٰ نہیں گنائے گا.تب وہ دلیر ہو کر کہے گا کہ الہی ! میرے بڑے بڑے گناہ تو آپ نے گنے ہی نہیں.میں نے فلاں گناہ بھی کیا ہے، فلاں بھی کیا ہے، فلاں بھی کیا ہے.اس پر اللہ تعالیٰ ہنس پڑے گا اور فرمائے گا دیکھو! میرا بندہ میرے عفو کو دیکھ کر کتنا دلیر ہو گیا ہے کہ وہ اپنے گناہ آپ گنانے لگ گیا ہے.پھر فرمائے گا جاؤ میں نے ان گناہوں کے بدلہ میں بھی تجھے یہ یہ نیکیاں دیں.5 غرض دینے والا جب دینے پر آئے تو بندہ کیوں نہ لے.یہ تو اس کے دینے کے راہی ہیں.گو ان میں حکمتیں بھی ہیں.مثلاً ! جمعہ کے دن سارے شہر کے مسلمان ایک جگہ جمع ہوتے ہیں اور جب مومن خدا تعالیٰ کی عبادت کے لیے جمع ہوں تو خدا تعالیٰ کو یہ بات بڑی پسند آتی ہے کہ اس کے بندے اپنے کام کاج چھوڑ کر اس کے ذکر کے لیے جمع ہوئے ہیں.یوں تو ی روزانہ ہر نماز میں محلہ کے مسلمان جمع ہوتے ہیں مگر جمعہ کے دن وہ کہتا ہے کہ سارے شہر کے مسلمان ایک جگہ جمعہ ہوں.اور چونکہ سارے مومن ایک جگہ اکٹھے ہوتے ہیں اس لیے اللہ تعالیٰ کی رحمت بھی جوش میں آتی ہے اور وہ کہتا ہے کہ جس طرح یہ لوگ آج نہا دھو کر آئے ہیں اسی طرح میں بھی آج انہیں زیادہ انعام دے دیتا ہوں.پھر رمضان شروع ہوتا ہے تو وہ رات کو خاص طور پر دعائیں سنتا ہے.کہتا ہے سارا دن میرا بندہ بھوکا رہا ہے.چلو رات کو

Page 230

$1956 217 خطبات محمود جلد نمبر 37 میں اس پر زیادہ انعام کر دوں.اسی طرح آخری عشرہ آتا ہے تو کہتا ہے میرا بندہ ہیں دن بھوکا رہا ہے.آج میں چاہتا ہوں کہ اس پر زیادہ احسان کروں.غرض یہ دن ایسے ہیں جیسے بچپن میں بعض دیہاتی کھلائیاں ہمیں کھلایا کرتی تھیں تو وہ سناتی تھیں کہ ایک دیو تھا.اُس کے پاس ایک غریب آدمی پہنچا جس نے اُسے دبانا شروع کر دیا.اس پر وہ اُٹھ کر بیٹھ گیا اور کہنے لگا مانگ جو مانگنا ہے.آج میں ٹھٹھہ پیا ہاں.اس کے معنے تو مجھے معلوم نہیں مگر مفہوم یہ ہے کہ آج میں دینے پر آیا ہوا ہوں اس لیے مانگ جو کچھ مانگنا ا ہے.اسی طرح اللہ تعالیٰ بھی بعض دفعہ اس خیالی دیو کی طرح ٹھٹھہ پیا ہوتا ہے اور وہ کہتا ہے مجھ سے مانگو کہ میں تمہیں دوں اور تم پر اپنے انعامات نازل کروں.پس آج ایسی برکت کا دن ہے کہ مومنوں کو چاہیے کہ وہ اُس سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اُٹھانے کی کوشش کریں.پھر آج دعا کا بھی وقت مقرر ہے.گو بیماری کی وجہ سے میں زیادہ دیر نہیں بیٹھ سکتا.مگر پھر بھی میں کوشش کروں گا کہ اس موقع سے فائدہ اُٹھاؤں.کسی زمانہ میں تو میری یہ حالت تھی کہ دعا کرتے کرتے مغرب کی اذان ہو جاتی اور روزہ بھی وہیں گھلتا.مگر اب تھوڑی دیر بیٹھنے سے ہی کچھ غنودگی سی آنے لگتی ہے اور خیالات کا تسلسل پراگندہ ہو جاتا ہے.بہر حال ہم اس مبارک موقع کو ضائع نہیں ہونے دیں گے اور دوستوں سے مل کر دعائیں کریں گے کہ اللہ تعالیٰ اپنا فضل نازل فرمائے اور ہماری دعائیں قبول کر کے احمدیت کو ترقی عطا فرمائے.آخر یہ دین ہمارا نہیں بلکہ ہمارے خدا کا ہے.قرآن خدا نے نازل کیا ہے اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو خدا تعالیٰ نے مبعوث فرمایا ہے.محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہم نے کھڑا نہیں کیا اور نہ قرآن ہم نے نازل کیا ہے.پس اُس کو اپنے دین اور اپنے رسول اور اپنے کلام کی ہم سے زیادہ غیرت ہونی چاہیے.اگر ہمارے دلوں میں اسلام کی بے کسی اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مظلومیت کی وجہ سے درد پیدا ہوتا ہے تو جس نے انہیں بھیجا ہے اُس کو کیوں درد نہیں ہو گا.مگر وہ ہمارا بھی امتحان لینا چاہتا ہے اور خواہش رکھتا ہے کہ ہم کو بھی اس کام میں شریک کرے.مائیں بعض دفعہ اپنے بچوں کا دل بڑھانے کے لیے جب میز یا چار پائی اُٹھانے لگتی ہیں تو بچے سے بھی کہتی ہیں کہ تو بھی ہاتھ بٹا اور وہ اس پر اپنا ہاتھ

Page 231

خطبات محمود جلد نمبر 37 218 $1956 رکھ دیتا ہے.اس پر ماں باپ بڑے خوش ہوتے ہیں اور وہ اُسے خوب شاباش دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ تو نے ہی یہ چیز اٹھائی ہے.اسی طرح یہ کام خدا کا ہے اور اُسی نے کرنا ہے.اگر دنیا میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نام بلند ہوگا تو خدا کرے گا اور اگر قرآن کریم کی شریعت قائم ہو گی تو خدا تعالیٰ قائم کرے گا ہم نے تو صرف ہاتھ رکھنا ہے ورنہ کرنا اُسی نے ہے.سو اس وقت بھی دعا کرو اور عصر کے بعد بھی جب دوست جمع ہوں گے تو اُس وقت بھی هم إِنْشَاءَ اللہ دعا کریں گے.میں نے اس وقت بتا دیا ہے کہ آج جمعہ ہے اور جمعہ کا دن بھی مبارک ہے.پھر رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ بھی فرمایا ہے کہ جمعہ کے دن ایک وقت ایسا آتا ہے کہ اُس میں بندے جو بھی مانگیں انہیں مل جاتا ہے.پھر یہ رمضان کا مہینہ ہے اور آخری عشرہ کے ایام ہیں.گویا یہ دن ہر قسم کی برکات کا مجموعہ ہے.اس کو ضائع نہیں کی کرنا چاہیے بلکہ اس سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اُٹھانے کی کوشش کرنی چاہیے.الفضل 23 مئی 1956 ء ) 1 : نزول المسیح روحانی خزائن جلد نمبر 18 صفحہ 603.نظارت اشاعت ربوہ 2 : صحيح مسلم كتاب الصَّلاةِ باب الترغيب في الدُّعاء والذكر في آخر الليل والاجابة فيه 3 : ترندی ابواب الجمعة باب في الساعة التي ترجي في يوم الجمعة 4 : البروج: 17-هود : 108 5 : صحیح مسلم کتاب الایمان باب ادنى اهل الجنة منزلةً فِيهَا میں "فَلَقَدْ رَأَيْتُ رسول الله ضَحِكَ حَتَّى بَدَتْ نَوَاجِذُهُ“ کے الفاظ ہیں.

Page 232

$1956 219 20 خطبات محمود جلد نمبر 37 ہماری جماعت کو موجودہ ایام میں کثرت کے ساتھ درود پڑھنا چاہیے (فرموده 18 مئی 1956ء بمقام خیبر لاج مری) تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: اسلام کا بھیجنے والا تو اللہ تعالیٰ ہے لیکن اس دنیا پر اس کا مرکزی نقطہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اور آجکل جو دنیا میں چاروں طرف اسلام کے خلاف فتنے پیدا ہو رہے ہیں اور مسلمانوں کے مٹانے کی کوششیں ہو رہی ہیں ان سارے حملوں کا مرکز بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات ہی کو بنایا جاتا ہے.عیسائیت کی دشمنی تو درحقیقت اسلام سے ہونی چاہیے کیونکہ وہ ایک مذہب ہے لیکن اگر عیسائیوں کو دیکھا جائے تو ان کی زیادہ تر کتابیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات کے خلاف ہی لکھی گئی ہیں.پس ان فتنوں کے ایام میں ہماری جماعت کو کثرت سے درود پڑھنا چاہیے تا کہ اللہ تعالیٰ کی زیادہ سے زیادہ برکات رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوں اور یہ فتنے دنیا سے مٹ جائیں.تھوڑے ہی دن ہوئے صبح کے قریب اللہ تعالیٰ کی کتاب قرآن مجید کی یہ آیت

Page 233

$1956 220 خطبات محمود جلد نمبر 37 میری زبان پر الہاما نازل ہوئی کہ اِنَّ اللهَ وَمَلَكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ ، يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا 1 اس کے بعد متواتر ایک لمبے عرصہ ނ تک میری زبان پر درود جاری رہا.میں نے دیکھا ہے اور بعض احمدی نوجوانوں کی طرف.بھی مجھے ایسے خطوط ملے جن سے معلوم ہوتا ہے کہ انہیں درود پڑھنے کی عادت ہے اور وہ رات کو کثرت سے اس کا ورد کرتے ہیں اور اس کے نتیجہ میں انہیں اعلیٰ درجہ کی خواہیں نظر آتی ہی ہیں.گویا یہ ایک نقد بہ نقد انعام ہے جو انہیں خدا تعالیٰ کی طرف سے مل رہا ہے.پس موجودہ فتنوں کو دیکھتے ہوئے اور تفرقوں کو دیکھتے ہوئے اور دشمنوں کو دیکھتے ہوئے تمام احمدیوں کو عموماً اور نوجوانوں کو خصوصاً اس بات کی عادت ڈالنی چاہیے کہ وہ کثرت سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات پر درود بھیجیں.کیونکہ درود ایک دعا ہے اور اس میں اللہ تعالیٰ سے درخواست کی جاتی ہے کہ وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر اپنی برکتیں اور رحمتیں نازل فرمائے اور آپ کے مدارج کو بلند فرمائے.آجکل سب سے بڑا فتنہ اسلام کے خلاف عیسائیت کا ہے اور عیسائیت اس بات کی مدعی ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اولاد میں سے تھے اور درود میں بھی یہی کہا گیا ہے کہ اَللَّهُمَّ صَلِّ عَلى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَّجِيدٌ یعنی اے خدا! یہ جتنی ترقیاں عیسائیت کو مل رہی ہیں یہ درحقیقت حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ان وعدوں کی وجہ سے ہیں جو تو نے ان سے کیے تھے.ہم تجھ سے درخواست کرتے ہیں کہ ابراہیمی وعدوں کی وجہ سے اس کی ایک شاخ جو اسحاق سے تعلق رکھتی تھی اُس پر جو تو نے فضل کیے ہیں اُس سے بڑھ کر اسمعیل کی نسل یعنی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ سے تعلق رکھنے والوں پر نازل فرما.اگر اُدھر سے اللہ تعالیٰ اپنی برکتیں ہٹا لے اور اُن کا رُخ ادھر پھیر دے تو عیسائیت ایک دن میں ختم ہو جاتی ہے.عیسائیت کا سارا زور محض اس وجہ سے ہے کہ ابراہیم کے وعدے الحق کی نسل سے پورے ہو رہے ہیں.اب ہمارا فرض ہے کہ ہم اتنے زور سے درود پڑھیں کہ وہ پرنالہ بند ہو ائے اور اسمعیلی پر نالہ بہنے لگے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی روحانی اور جسمانی آل ہے

Page 234

$1956 221 خطبات محمود جلد نمبر 37 اس سے کہیں زیادہ فضل نازل ہونے شروع ہو جائیں جو اسحاق کی نسل پر نازل ہوئے ہیں.اگر ایسا ہو جائے تو جس طاقت پر آج عیسائی ناچ رہے ہیں وہ بالکل ختم ہو جائے.کہتے ہیں کوئی مسافر کسی شہر میں آیا اور ایک آدمی کے پاس مہمان ٹھہرا.گھر کے لوگوں نے اُس سے کہا کہ ہم آپ سے ایک مشورہ لینا چاہتے ہیں.ہمارے گھر میں ایک چوہا ہے جو ، کسی چیز کو نہیں چھوڑتا.ہم چھینکے پر بھی رکھتے ہیں اور اُسے چھت کے ساتھ لٹکا دیتے ہیں تو وہ گود کر وہاں پہنچ جاتا ہے.اگر ڈھک کر رکھیں تو وہ کسی نہ کسی طرح ڈھکنے کے نیچے پہنچ جاتا ہے اور اگر مارو تو اُسے چوٹ نہیں لگتی.مسافر کہنے لگا اُس کے سوراخ کو کھود میں اندر سے ضرور روپیہ نکلے گا.کیونکہ روپیہ ہی ایک ایسی چیز ہے جس کی وجہ سے طاقت پیدا ہوتی ہے.انہوں نے سوراخ کھودا تو اُس میں سے اشرفیوں کی ایک تحصیلی نکلی جسے وہ کہیں سے کھینچ کر اندر لے گیا تھا.انہوں نے وہ تھیلی اپنے پاس رکھ لی.اس کے بعد چوہا نکلا اور اُس نے چاہا کہ وہ گود کر چھینکے پر پہنچ جائے مگر ذرا اُچھلے تو زمین پر گر جائے.اسی طرح عیسائی دنیا جو آج طاقت پکڑ رہی ہے اس کے پیچھے ابراہیمی وعدے ہیں جو الحلق کی نسل سے پورے ہوئے ہیں.اس کا علاج یہی ہے کہ ہم یہ سونے کی تحصیلی نکال لیں اور درود پڑھ پڑھ کر اسحاق کی نسل کے ساتھ تعلق رکھنے والے وعدے اسمعیل کی نسل کی طرف لے آئیں.اس کے نتیجہ میں یہ چوہا اتنا کمزور ہو جائے گا کہ ایک فٹ بھی نہیں گود سکے گا اور اسمعیلی نسل جس میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے اتباع شامل ہیں انہیں طاقت مل جائے گی اور وہ ایسے ایسے عظیم الشان کام کرنے لگ جائیں گے جو عیسائیت بھی نہیں کر سکی.پس یہ دن ایسے ہیں جن میں کثرت سے درود پڑھنا چاہیے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر خدا تعالی کی سلامتیوں اور برکتوں اور رحمتوں کا نزول مانگنا چاہیے.حضرت ابراہیم علیہ السلام کی پیشگوئیاں صرف ایک بیٹے کے لیے نہیں تھیں بلکہ دونوں بیٹوں کے لیے تھیں.ان کی اولاد میں اسحاق بھی تھے جن کی روحانی اور جسمانی اولاد میں عیسائی اور یہودی پیدا ہوئے لیکن ان کی اولاد میں اسماعیل بھی تھے.اگر وہ برکتیں ادھر منتقل ہو جائیں اور ان کا راستہ بند ہو جائے تو وہ ساری برکتیں جن وجہ سے وہ اپنی شان دکھا رہے ہیں ختم ہو جائیں اور اس چوہے کی طرح جس کے.

Page 235

خطبات محمود جلد نمبر 37 222 $1956 سوراخ سے اشرفیوں کی تھیلی نکال لی گئی تھی وہ بھی دل برداشتہ اور کمزور ہو جائیں.پس آجکل خصوصیت سے درود پڑھنا چاہیے.اس کے نتیجہ میں یقیناً اللہ تعالیٰ کے فضل نازل ہوں گے اور خود درود پڑھنے والے کی روحانیت میں بھی ترقی ہو گی.جب کوئی شخص درود پڑھتا ہے تو خدا تعالیٰ کی غیرت جوش میں آتی ہے اور وہ کہتا ہے کہ جب میرا یہ کمزور بندہ میرا کام کر رہا اور میرے رسول کے لیے دعائیں کر رہا ہے تو میں طاقتور خدا ہو کر اس کی کیوں مدد نہ کروں.پس جو کچھ وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے مانگتا ہے اس میں وہ خود بھی حصہ دار ہو جاتا ہے.اس کے علاوہ وہ درود کی دعا میں بھی شامل ہوتا ہے چنانچہ جب وہ کہتا ہے اَللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدِ تو جو بھی سچا مسلمان ہے وہ آلِ رسول میں شامل ہو جاتا ہے.اور جب وہ دعائیں کرتا ہے تو ساری دنیا کی آل محمد کے لیے کرتا ہے جس میں وہ خود بھی شامل ہوتا ہے.پس یہ دعا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے اتنی نہیں جتنی اپنے لیے ہے.اس کے علاوہ اور کوئی دعا ایسی نہیں جس میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی شامل ہوں اور امت محمدیہ بھی شامل ہو.صرف درود ایسی دعا ہے جس میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ساری امت محمدیہ شامل ہے.یوں تو کوئی مسلمان انڈونیشیا میں رہ رہا ہے، کوئی مصر میں رہ رہا ہے، کوئی شام میں رہ رہا ہے، کوئی لبنان میں رہ رہا ہے، کوئی فلسطین میں رہ رہا ہے، کوئی سعودی عرب میں رہ رہا ہے، کوئی افغانستان میں رہ رہا ہے، کوئی یورپ میں رہ رہا ہے اگر نام لے لے کر دعا کی جائے تو انسان کس کس کے لیے دعا کر سکتا ہے.لیکن جب ہم درود پڑھتے ہیں تو بغیر نام لیے ہم تمام مسلمانوں کو اپنی دعا میں شامل کر لیتے ہیں.جب ہم کہتے ہیں اَللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ تو ہم ہر انڈونیشین مسلمان کے لیے دعا کرتے ہیں، ہر چینی مسلمان کے لیے دعا کرتے ہیں، ہر فلمی مسلمان کے لیے دعا کرتے ہیں، ہر ملائی مسلمان کے لیے دعا کرتے ہیں.اسی طرح ہر امریکن، ہر انگریز، ہر جرمن، ہر سوس اور ہر ڈچ مسلمان کے لیے دعا کرتے ہیں، ہر ہندوستانی مسلمان کے لیے دعا کرتے ہیں، ہر پاکستانی مسلمان کے لیے دعا کرتے ہیں، ہر ایرانی مسلمان کے لیے دعا کرتے ہیں، ہر پٹھان کے لیے دعا کرتے ہیں.غرض دنیا کے کسی ملک

Page 236

$1956 223 خطبات محمود جلد نمبر 37 اور کسی علاقہ کے مسلمان کو بھی ہم اپنی دعا سے محروم نہیں کرتے.یہ کتنا عظیم الشان فائدہ.جو اس دعا کے نتیجہ میں حاصل ہوتا ہے.کسی نے کہا ہے کہ كُلُّ صَيْدِ فِي جَوْفِ الفَرَاءِ فَرَاء 2 کے پیٹ میں سارے شکار شامل ہیں.اسی طرح یہ دعا ایسی ہے کہ نہ آقا اس سے باہر رہتا ہے اور نہ اُمت محمدیہ کا کوئی اور فرد باہر رہتا ہے.پس یہ ایک نہایت ہی اعلیٰ درجہ کا حربہ ہے جس کے استعمال میں غفلت نہیں کرنی چاہیے.اور اتنی کثرت کے ساتھ دعائیں کرنی چاہیں کہ اللہ تعالیٰ کی غیرت بھڑک اُٹھے اور وہ مسلمانوں کی ترقی کے سامان پیدا فرمائے.اور جس طرح اُس نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وقت میں کیا تھا اُسی طرح وہ اب بھی کرے.چنانچہ دیکھ لو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پہلے موسی آئے جو اسحاق کی نسل میں سے تھے.اسی طرح داؤد آئے ، سلیمان آئے ، حز قیل آئے ، یرمیاہ آئے ، یسعیاہ آئے ، زکریا آئے ، عیسی آئے.یہ سارے کے سارے حضرت اسحاق کی نسل میں سے تھے.پھر جس طرح کہتے ہیں سُنار کی ایک لوہار کی اللہ تعالیٰ نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بھیج دیا جو اِن ساروں سے بڑھ گئے.اسی طرح یورپین قوموں کو جو اب طاقت حاصل ہے یہ ان وعدوں کی وجہ سے ہے جو اسحاق کی نسل سے کیے گئے تھے.اگر اب اسمعیل کی نسل سے اُس کے وعدے پورے ہونے شروع ہو جائیں تو یہ اس طرح ختم ہو جائیں جس طرح حزقیل ، یرمیاہ ، یسعیاہ ، کریا اور بیچی وغیرہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے آنے کے ساتھ ختم ہو گئے تھے اور کو وہ شان و شوکت حاصل ہو جائے گی جو مسلمانوں کے خواب و خیال میں الفضل 29 مئی 1956ء) اسلام بھی نہیں ہے.1 : الاحزاب : 57 2 : الْفَرَاءُ: حمار الوحش : جنگلی گدھا (لسان العرب جلد 7 صفحہ 46 زیر لفظ " الْفَرَةُ)

Page 237

$1956 224 (21) خطبات محمود جلد نمبر 37 اگر دل میں کوئی نیک تحریک پیدا ہو تو فوراً اس کے لیے تیاری شروع کر دو تیاری کا بہترین طریق یہ ہے کہ اپنے بیوی بچوں کو اس تحریک میں تعاون اور مدد کے لیے آمادہ کرو (فرموده 25 مئی 1956ء بمقام خیبر لاج مری) تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: خدا تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے يَا يُّهَا الَّذِينَ امَنُوا إِذَا نُودِيَ لِلصَّلوة مِنْ يَوْمِ الْجُمُعَةِ فَاسْعَوْا إِلَى ذِكْرِ اللهِ 1 کہ اے مومنو! جب نماز جمعہ کے لیے اذان کا وقت آ جائے تو تم اس کے لیے اچھی طرح تیاری کر لیا کرو.یہاں فَاسْعَوْا إلى ذِكْرِ اللہ کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں اور بظاہر اس کے یہ معنے معلوم ہوتے ہیں کہ دوڑ کر ذکر الہی کی طرف جاؤ لیکن حدیثوں میں صاف طور پر آتا ہے کہ نماز کے لیے دوڑ کر جانا منع ہے.پس ہمیں غور کرنا چاہیے کہ کیا قرآن کریم میں سعی کا لفظ کسی اور مفہوم میں بھی استعمال ہوا ہے یا نہیں؟ اس غرض کے لیے جب ہم قرآن کریم پر نظر دوڑاتے ہیں تو ہمیں اس میں یہ آیت نظر آتی ہے کہ وَمَنْ اَرَادَ الْآخِرَةَ وَسَعَى لَهَا سَعْيَهَا وَهُوَ

Page 238

$1956 225 خطبات محمود جلد نمبر 37 مُؤْمِنٌ فَأُولَبِكَ كَانَ سَعْيُهُمْ مَّشْكُورًا 3 جو شخص مرنے کے بعد کی زندگی کا ارادہ کرتا ہے یعنی اپنے دل میں اُس زندگی کی خواہش رکھتا ہے وَسَعَى لَهَا سَعْيَهَا اور پھر اس کے مطابق اس کے لیے کوشش اور تیاری بھی کرتا ہے اُس کی کوشش رائیگاں نہیں جائے گی بلکہ وہ قدر کی نگاہ سے دیکھی جائے گی.اب اگر سعی کے معنے دوڑنے کے لیے جائیں تو اس آیت کے یہ معنے ہوں گے کہ جو شخص آخرت کے لیے دوڑتا ہے حالانکہ آخرت کے لیے.دوڑنے کا دنیا میں کوئی طریق ہے ہی نہیں.اسی طرح فَاسْعَوْا إِلى ذِكْرِ اللہ کے یہ نہ نہیں کہ ذکر الہی کی طرف دوڑ کر آؤ بلکہ اس کے یہ معنے ہیں کہ تم ذکر الہی کے لیے اپنے نفس کو تیار کرو اور ذکر الہی کی محبت اور اُس کا شوق اپنے دلوں میں پیدا کرو.جیسے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جمعہ کے دن غسل کرو، کپڑے بدلو اور وضو کر کے مسجد میں آؤ 4 اور یہ جو فرمایا کہ اِذَا نُودِی یہ ہے تو ماضی کا صیغہ اور اس کے معنے یہ ہیں کہ بلایا جائے.مگر قرآن کریم میں ماضی کا صیغہ قطعی فیصلہ پر دلالت کرنے کے لیے بھی استعمال کیا جاتا ہے.چنانچہ بچوں کو دودھ پلانے کے متعلق اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ تمہارے لیے یہ جائز ہے کہ تم اپنے بچوں کو کسی دوسری عورت سے دودھ پلوا لو مگر اس شرط کے ساتھ کہ اِذَا سَلَّمْتُمْ مَّا أَتَيْتُمْ بِالْمَعْرُوفِ 5 وہ معاوضہ جو تم نے دینا کیا ہے مناسب طور پر ادا کر دو.اس جگہ ایم کا لفظ استعمال کیا گیا ہے جس کے لفظی معنے ہیں " تم نے دے دیا ہے یا " تم دے چکے ہو، لیکن اس صورت میں اس کے معنے یہ بنتے ہیں کہ ”جب تم دے دو جو تم دے چکے ہو اور ظاہر ہے کہ یہ ایک بے معنی فقرہ بن جاتا ہے.پس اسیتم کو ماضی کا صیغہ ہے مگر مراد یہ ہے کہ جو تم دینے کا فیصلہ کر چکے ہو.ورنہ جو ایک دفعہ دے چکے اُسے دوبارہ دینے کا کیا مطلب ہے.مراد یہی ہے کہ اگر تم اپنے بچوں کو کسی دوسری عورت.پلوانا چاہو تو تم پر کوئی گناہ نہیں.بشرطیکہ وہ معاوضہ جو تم نے اُسے دینے کا فیصلہ کیا ہے وہ اُسے مناسب طور پر ادا کر دو.اور اگر اس کے یہ معنے نہ کیے جائیں تو آیت کا یہ مطلب نکلتا ہے کہ پہلا روپیہ جو تم اُسے دے چکے ہو وہ اُسے دے دو.یعنی پہلے اگر سو روپیہ دے چکے تھے تو پھر اور سودے دو.اس طرح تو ایک غیر متناہی سلسلہ شروع ہو جاتا ہے جو ختم ہونے میں ہی دودھ

Page 239

226 $1956 خطبات محمود جلد نمبر 37 نہیں آتا.درحقیقت اس کے یہی معنے ہیں کہ تم نے اُسے جو کچھ دینے کا فیصلہ کیا ہے وہ اُسے ادا کر دو.اس طرح اِذَا نُودِيَ لِلصَّلوةِ مِن يَوْمِ الْجُمُعَةِ فَاسْعَوْا إِلى ذِكْرِ الله کے یہ معنے ہیں کہ جب وہ وقت قریب آ جائے جس میں جمعہ کے لیے اذان دینی ہو.تو فَاسْعَوْا إلى ذِكْرِ الله کے تمہارا فرض ہے کہ تم ذکر الہی کے لیے پوری طرح تیاری کرو اور اپنے دماغ میں وہ کیفیت پیدا کرو جو ذکر الہی کے لیے ہونی چاہیے.مثلاً جمعہ کے دن غسل کرو، کپڑے بدلو اور خوشبو وغیرہ لگاؤ.بہر حال اس آیت سے ایک تو یہ پتا لگتا ہے کہ ہر کام جو انسان نے کرنا ہو اُس کے لیے اُسے تیاری کرنی چاہیے.دوسرے یہ بھی پتا لگتا ہے کہ قرآن کریم يُفَسِرُ بَعْضُهُ بَعْضًا کے مطابق اپنی ایک آیت کی دوسری جگہ تفسیر کر دیتا ہے.یہاں بھی فرمایا تھا کہ یا تھا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا نُودِيَ لِلصَّلوة مِنْ يَوْمِ الْجُمُعَةِ فَاسْعَوْا إِلى ذِكْرِ الله اور بظاہر اس سے یہ مفہوم اخذ کیا جا سکتا تھا کہ جمعہ کی اذان کے بعد دوڑ کر مسجد میں پہنچنا چاہیے.مگر دوسری جگہ اللہ تعالیٰ نے نُودِی کو بھی حل کر دیا اور سعی کے معنوں پر روشنی ڈال دی.یعنی ایک جگہ ماضی کا صیغہ استعمال کیا گیا ہے مگر مراد اس سے قطعی فیصلہ ہے.اسی طرح دوسری جگہ سعی کا لفظ استعمال کیا گیا ہے مگر اس کے معنی تیاری کرنے کے ہیں.اگر فَاسْعَوْا کے معنے دوڑنے کے کیے جائیں تو حدیث اس کی مخالف ہے کیونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ دوڑ کر مسجد میں نہ آؤ.پس ان معنوں کو تسلیم کرنے سے قرآن کریم اور حدیث میں تضاد نظر آتا ہے.لیکن جب ہم نے قرآن کریم کو ہی بعض دوسرے مقامات سے دیکھا تو معلوم ہوا کہ سعی کے معنی دوڑنے کے ہی نہیں بلکہ کوشش اور تیاری کرنے کے بھی ہیں.پس تضاد کا شبہ دور ہو گیا کیونکہ ہمیں معلوم ہو گیا کہ اس لفظ کے ایسے معنے بھی ہیں جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے معنوں کی تصدیق کرتے ہیں.پھر ان معنوں سے یہ بھی نکل آیا کہ قرآن کا ایک حصہ اس کے دوسرے حصہ کی تفسیر کرتا ہے اور یہ بھی پتا لگا کہ ہر کام کے لیے ایک تیاری کی ضرورت ہوتی ہے.مثلاً اگر ہم چندے کا وعدہ کریں لیکن ہم اپنا خرچ نہ گھٹائیں تو ہم چندہ کس طرح دے سکیں گے.اور اگر ہم اپنا خرچ گھٹائیں گے تو لازماً اس کام میں

Page 240

$1956 227 خطبات محمود جلد نمبر 37 ہماری بیویاں بھی شامل ہوں گی اور ہمارے بچے بھی شامل ہوں گے.ہم اپنی بیوی کو کہیں گے کہ میری اتنی آمدن ہے اگر تو نے خرچ کم کیا تو میں چندہ دے سکوں گا ورنہ نہیں.اسی طرح ہم اپنے بچوں سے کہیں گے کہ تم ہمارے ساتھ تعاون کرو اور اخراجات کا کم مطالبہ کرو تاکہ چندہ دیا جا سکے.اگر بیوی تعاون نہ کرے یا بچے تعاون نہ کریں تو چندہ میں حصہ لینے کی کوئی صورت نہیں رہتی.پس ہر نیک کام کے لیے تیاری کی ضرورت ہوتی ہے کیونکہ ہر نیک کام کے لیے ساتھیوں کا تعاون ضروری ہوتا ہے.اگر وہ تعاون نہ کریں تو کوئی کام نہیں ہو سکتا.مثلاً روزے رکھنا کتنا نیک کام ہے.لیکن جب تک بیوی ساتھ نہ دے اور وہ سحری پکانے کے لیے تیار نہ ہو انسان کس طرح روزے رکھ سکتا ہے.اسی طرح زکوۃ کو لو تب بھی ، چندوں کو لوتب بھی اور تبلیغ کو لوتب بھی ہر کام میں دوسروں کے تعاون کی ضرورت ہوتی ہے.ہماری جماعت میں بعض ایسے مبلغ ہیں جو فلسطین اور انگلینڈ وغیرہ میں دس دس سال رہے ہیں.اسی طرح بعض مبلغ افریقہ میں گیارہ گیارہ بارہ بارہ سال رہے ہیں.اگر اُن کی بیویاں اُن کے ساتھ تعاون نہ کرتیں یا ان بیویوں کے رشتہ دار اُن کے ساتھ تعاون نہ کرتے تو وہ کبھی دلجمعی کے ساتھ تبلیغ نہ کر سکتے.ان کے لیے اطمینان کے ساتھ تبلیغ کرنا اسی لیے ممکن ہوا کہ ان کی بیویوں نے اور ان کے رشتہ داروں نے ان سے تعاون کیا.پس ہر نیک کام کے لیے تیاری کی ضرورت ہوتی ہے.اگر تیاری ہو تو کام ہو سکتا ہے ورنہ اس میں کئی قسم کی مشکلات پیش آ جاتی ہیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک دفعہ جہاد کا اعلان کیا.یہ اعلان بالکل.اچانک تھا کیونکہ یکدم دشمن کے حملہ کی خبر آئی تھی اور اس کے لیے زیادہ انتظار نہیں کیا جا سکتا تھا.ایک صحابی کچھ دنوں کے لیے باہر گئے ہوئے تھے.اُن کے پیچھے ہی اسلامی لشکر جہاد کے لیے روانہ ہو گیا.چند دنوں کے بعد وہ واپس آئے.چونکہ انہیں اپنی بیوی کو دیکھے کئی دن گزر چکے تھے وہ سیدھے گھر پہنچے اور اپنی بیوی کے پاس اسے پیار کرنے کے لیے گئے.اس نے انہیں دیکھتے ہی دھکا مار کر پرے پھینک دیا اور کہا تمہیں شرم نہیں آتی کہ خدا کا رسول اپنی ای جان دینے کے لیے باہر گیا ہوا ہے اور تمہیں اپنی بیوی سے پیار کرنے کی سوجھ رہی ہے.

Page 241

$1956 228 خطبات محمود جلد نمبر 37 وہ اُسی وقت گھوڑے پر سوار ہوئے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس پہنچ گئے.اب دیکھو! اُن کو یہ نیکی کی توفیق اسی لیے ملی کہ اُن کی بیوی نے تعاون سے کام لیا.اگر ان کی بیوی بے ایمان ہوتی تو وہ کہتی کہ تم تھکے ہوئے آئے ہوٹھہرو اور آرام کرو اور اس طرح وہ جہاد سے محروم ہو جاتے مگر اُس نے اپنے خاوند کو دھگا دے کر پرے کر دیا کہ شرم کرو خدا کا رسول اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر باہر گیا ہوا ہے اور تمہیں پیار کرنے کی سوجھی ہے.یہ بیوی کی مدد ہی جس نے اُسے جہاد میں شامل کیا.اور درحقیقت جب اُس نے جہاد کیا ہو گا تو اللہ تعالیٰ نے اس کے ثواب میں اس کی بیوی کو بھی شریک کیا ہو گا کیونکہ اگر وہ اسے تحریک نہ کرتی تو وہ اس ثواب سے حصہ نہ لے سکتا.اسی طرح اور بھی کئی واقعات حدیثوں میں بیان ہوئے ہیں.ایک اور صحابی جن سے بول چال بند تھی اور جن کا قرآن کریم میں بھی ذکر آتا ہے اُن می کے متعلق بھی آتا ہے کہ اُن کی بیوی انہیں نصیحت کرتی رہتی تھی اور کہا کرتی تھی کہ تم اس اس طرح کرو تو بیویاں اور بچے بھی انسان کے ساتھ اُس کی نیکی میں شریک ہوتے ہیں لیکن بعض دفعہ وہ اس کے لیے ٹھوکر کا بھی موجب بن جاتے ہیں.اسی لیے قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تمہاری بیویاں اور بچے تمہارے لیے آزمائش کا ایک ذریعہ ہیں.6 یہ تمہاری ٹھوکر کا بھی موجب ہو سکتے ہیں اور تمہاری نیکیوں میں ترقی کا بھی موجب ہو سکتے ہیں.پس اگر کسی کے دل میں نیکی کی کوئی تحریک اُٹھے تو اُسے اُس کے لیے تیاری کرنی چاہیے.اور تیاری کا بہترین طریق یہی ہے کہ اپنے بیوی بچوں کو تیار کیا جائے.اگر وہ تیار ہوں تو وہ اس کام کو کر لے گا اور اگر وہ تیار نہیں ہوں گے تو وقت پر وہ اس نیک کام میں حصہ لینے سے محروم الفضل 6 جون 1956ء) رہ جائے گا.1 : الجمعة : 10 2 : صحیح مسلم کتاب المساجد باب استحباب إتيان الصلاة بوقار و سكينة والنهي عن إتيانها سعيًا.3 : بنی اسرائیل : 20 4 : بخارى كتاب الجمعة باب فَضْلِ الْغُسُلِ يَوْمَ الْجُمُعَةِ وَبَاب يَلْبَسُ اَحْسَنَ مَا يَجِدُ

Page 242

$1956 229 خطبات محمود جلد نمبر 37 5: البقرة: 234 ي: وَاعْلَمُوا أَنَّمَا أَمْوَالُكُمْ وَاَوْلَادُكُمْ فِتْنَةٌ (الانفال: 29) إِنَّمَا أَمْوَالُكُمْ وَاَوْلَادُكُمُ فِتْنَةٌ (التغابن: 16)

Page 243

$1956 230 (22) خطبات محمود جلد نمبر 37 ہماری جماعت کے نوجوان دعاؤں، ذکر الہی اور درود کی برکت سے رؤیا اور کشوف کی عظیم الشان نعمت حاصل کر سکتے ہیں فرموده یکم جون 1956ء بمقام مری) تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے قرآن کریم کی اس آیت کی تلاوت کی : وَاللَّهُ يَهْدِي مَنْ يَشَاءُ إِلَى صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍ - 1 اس کے بعد فرمایا: 1- " کہنے کو تو مسلمان کہتا ہی رہتا ہے کہ اُس کو صراط مستقیم کی خواہش ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ صراط مستقیم اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہی ملتا ہے اور اس فضل کو کھینچنے کے لیے خدا کوئی نہ کوئی ذریعہ بنا دیتا ہے.میں سوچا کرتا ہوں کہ کسی شاعر نے کیا سچ کہا ہے کہ خدا شترے برانگیزد که خیرے مادر آن باشد یعنی خدا تعالی بعض وقت شر میں سے بھی ہمارے لیے خیر اور بھلائی اور برکت کے

Page 244

$1956 231 خطبات محمود جلد نمبر 37 سامان پیدا کر دیتا ہے.میں نے دیکھا ہے کہ میری بیماری سے پہلے جماعت کے نوجوان وہی تھے جو اب ہیں اور ان کے تعلقات بھی ویسے ہی تھے جیسے اب ہیں لیکن دعاؤں اور درود کی طرف ان کی زیادہ توجہ نہیں تھی.لیکن جب میری بیماری کی خبریں شائع ہوئیں اور انہوں نے اپنے بزرگوں کو دیکھا کہ وہ دعائیں کر رہے ہیں تو انہوں نے بھی دعائیں کرنی شروع کر دیں.پھر انہوں نے سنا کہ درود سے دعائیں زیادہ سنی جاتی ہیں اس پر انہوں نے بھی درود پڑھنا شروع کر دیا.نتیجہ یہ ہوا کہ وہ تھے تو پچھیں چھپیں، چھتیس چھتیس سال کے لیکن پہلے انہیں کبھی رویا و کشوف ہوتے تھے لیکن ان دعاؤں اور درود کی کثرت کی وجہ سے میں دیکھتا ہوں کہ درجنوں احمدیوں کو بڑی اعلیٰ درجہ کی خواہیں آنی شروع ہو گئی ہیں اور ہر ڈاک میں ایسے کئی خطوط نکل آتے ہیں جن میں خوابیں درج ہوتی ہیں.بعض دفعہ روزانہ پانچ پانچ ، چھ چھ خط اکٹھے آ جاتے ہیں اور بعض دفعہ ایک دو خط آ جاتے ہیں جن میں خوابیں درج ہوتی ہیں اور ان میں سے بعض اتنی شاندار ہوتی ہیں کہ اُن کے پڑھنے سے صاف پتا لگتا ہے کہ یہ خدائی رویا ہیں.یہ اسی بات کا نتیجہ ہے کہ چاہے میری بیماری کی وجہ سے وہ خدا تعالیٰ کی طرف متوجہ ہوئے لیکن بہر حال اُن کو خدا تعالیٰ کی طرف توجہ پیدا ہوئی.اور چاہے انہوں نے دعا کی قبولیت کے لیے ہی درود پڑھا مگر درود کی برکات سے انہیں حصہ مل گیا.چنانچہ ان دعاؤں اور درود اور خدا تعالیٰ کی طرف توجہ کرنے کے نتیجہ میں ایسی ایسی خواہیں دوستوں کو آ رہی ہیں کہ انہیں پڑھ کر حیرت آتی ہے اور ان کا لفظ لفظ بتا رہا ہوتا ہے کہ ہم سچی ہیں اور خدا تعالیٰ کی طرف سے ہیں.اگر یہ تحفہ جو اُن کو خدا تعالیٰ کی طرف سے ملا ہے اس سے ان کے اندر حقیقی لذتِ ایمان پیدا ہو گئی اور انہوں نے دعاؤں اور درود اور ذکر الہی کی عادت کو ترک نہ کیا تو یہ رؤیا و کشوف کا سلسلہ ان کے لیے مستقل طور پر جاری ہو جائے گا اور اللہ تعالیٰ کے فضل ان پر متواتر نازل ہونے شروع ہو جائیں گے.ایک دفعہ ایک دوست جو ہماری جماعت کے ذریعہ ہندوؤں سے مسلمان ہوئے تھے ملنے کے لیے آئے اور انہوں نے کہا کہ میں آپ سے ایک بات پوچھنا چاہتا ہوں.

Page 245

$1956 232 خطبات محمود جلد نمبر 37 میں نے کہا پوچھیں.کہنے لگے جب میں پہلے پہل احمدیت کی طرف مائل ہوا تھا تو مجھے بڑے بڑے روحانی انکشافات ہوا کرتے تھے مگر اب وہ بات نہیں رہی.میں نے کہا کبھی آپ بازار گئے ہیں؟ آپ نے دیکھا ہوگا کہ جب کوئی مٹھائی والے کی دکان پر جا کر کھڑا ہوتا ہے تو دکاندار اسے کہتا ہے کہ خان صاحب یا شاہ صاحب ! آپ تھوڑی سی زندگی لے لیں.چنانچہ وہ تھوڑی سی مٹھائی اُسے چکھنے کے لیے دے دیتا ہے اور اس کی غرض یہ ہوتی ہے کہ یہ مٹھائی چکھے تو خرید لے.اسی طرح اللہ تعالیٰ بھی حلوائی کی طرح شروع شروع میں وندگی دیا کرتا ہے جیسے دکاندار کہتا ہے کہ ذرا جلیبیاں چکھ لیں یا لڈو چکھیں اور اگر کوئی ناواقف ہاتھ کھینچے تو وہ کہتا ہے نہیں نہیں ! یہ میری طرف سے تحفہ ہے.یہی کیفیت روحانیات میں بھی ہوتی ہے.لیکن اگر کوئی شخص روزانہ دکان پر جا کر کھڑا ہو جائے اور یہ امید رکھے کہ اُسے ہر روز وندگی ملتی چلی جائے تو دکاندار سمجھے گا کہ یہ بڑا بے حیا ہے اور وہ اسے چکھنے کے لیے بھی مٹھائی نہیں دے گا.اسی طرح جب کوئی شخص اللہ تعالیٰ کی طرف اپنا قدم بڑھاتا ہے تو اللہ تعالیٰ بھی اپنے بندے کو وندگی دیتا ہے اور اُس کی زندگی یہی ہوتی ہے کہ کبھی الہام نازل کر دیا یا کشف دکھا دیا یا سچی خواب دکھا دی.مگر اس کے بعد انسان کو خود کوشش اور جدوجہد کرنی پڑتی ہے.اگر وہ درود پڑھے، تسبیح و تحمید کرے، قرآن کریم کی تلاوت کرے اور اللہ تعالیٰ سے دعائیں کرتا رہے کہ الہی! میرے دل کو صاف کر دے تا کہ میں تیری آواز کو سن سکوں تو پھر بعد میں بھی مستقل طور پر یہ سلسلہ جاری رہ سکتا ہے اور اللہ تعالیٰ اپنے بندہ سے خوش ہوتا ہے.جیسے مٹھائی فروش جو پہلے دن صرف وندگی دیتا ہے اگر اُس سے دوسرے دن کوئی سو روپیہ کی مٹھائی لے لے تو وہ بہت خوش ہوتا ہے.مگر جسے مٹھائی کی عمدگی کا کچھ پتا ہی نہیں ہوتا دکاندار اسے ابتدا میں تھوڑی سی مٹھائی چکھاتا ہے اور اس کی غرض یہ ہوتی ہے کہ وہ اس کا خریدار بن جائے.اسی طرح خدا تعالیٰ بھی کبھی وحی و الہام مفت دے دیتا ہے اور چاہتا ہے کہ اُس کے مزے کو چکھ کر بندہ اُس کو خریدنے کی کوشش کرے.اگر وہ نہیں خریدتا تو خدا تعالیٰ کہتا ہے یہ مفت خور ہے.اگر اسے اس چیز کی اہمیت کا احساس ہوتا تو یہ اس کی قیمت بھی ادا کرتا.اگر یہ قیمت ادا کرنے کے لیے تیار نہیں تو میں اسے یہ نعمت مستقل طور پر کیوں دوں؟ خدا تعالیٰ کے الہام کی قیمت

Page 246

$1956 233 خطبات محمود جلد نمبر 37 پیسے نہیں ہوتے بلکہ اس کی قیمت نفس کی قربانی ہوتی ہے.اسی طرح دعائیں اور درود اس کی قیمت سمجھے جاتے ہیں.غرض میں نے دیکھا ہے کہ یہ شر ہماری جماعت میں سے بعض کے لیے بڑی خیر اور برکت کا موجب ہوا ہے.اگر انہوں نے مستقل طور پر اللہ تعالیٰ کے ساتھ اپنے تعلق کو قائم رکھا تو جیسے ہمارے سلسلہ میں بیسیوں ایسے لوگ پائے جاتے ہیں جن کو سچی خوا ہیں آتی اور الہامات ہوتے ہیں اسی طرح ان سے بھی فیض اور برکت کا سلسلہ جاری ہو جائے گا اور وہ جماعت کی روحانی زندگی کا موجب بنیں گے.حقیقت یہی ہے کہ جب تک ایسے لوگ قائم رہتے ہیں جماعتیں زندہ رہتی ہیں اور خدا تعالیٰ سے ملنے اور اس سے تعلق پیدا کرنے کی تڑپ دلوں میں تازہ رہتی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو دیکھ لو آپ اس امر پر کتنا زور دیا کرتے تھے کہ پرانے نبیوں کی باتیں اب قصوں سے زیادہ حقیقت نہیں رکھتیں.اگر تم تازہ نشانات دیکھنا کی چاہتے ہو تو میرے پاس آؤ اور میرے نشانات کو دیکھو.2 اگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں لوگ نئے نشانات کے محتاج تھے تو اب بھی محتاج ہیں.اور اگر ایسے نوجوان ہماری جماعت میں ترقی کرتے چلے جائیں اور وہ بیسیوں سے سینکڑوں اور سینکڑوں سے ہزاروں ہو جائیں تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے قیامت تک یہ سلسلہ جاری رہ سکتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ میں ماسٹر عبدالرحمان صاحب جالندھری کی یہ عادت ہوا کرتی تھی کہ ذرا کسی آریہ یا اور کسی مخالف سے بات ہوتی تو وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نقل میں بڑی دلیری سے کہہ دیتے کہ اگر تمہیں اسلام کی صداقت میں شبہ ہے تو آؤ اور مجھ سے شرط کر لو.اگر پندرہ دن کے اندر اندر مجھے کوئی الہام ہوا او اور وہ پورا ہو گیا تو تمہیں مسلمان ہونا پڑے گا اور پھر اشتہار لکھ کر اُس کی دکان پر لگا دیتے.چنانچہ کئی دفعہ اُن کا الہام پورا ہو جاتا اور پھر وہ آریہ اُن سے چھپتا پھرتا کہ اب یہ میرے پیچھے پڑ جائیں گے اور کہیں گے کہ مسلمان ہو جاؤ.تو اگر یہ نمونے قائم رہیں تو غیر مذاہب پر ہمیشہ کے لیے اسلام اور احمدیت کی فوقیت ثابت ہو سکتی ہے.اور اگر یہ نمونے نہ رہیں یا ہماری جماعت کے دوست اس عارضی دھگا کو جو میری بیماری کی وجہ سے انہیں پہنچا ہے

Page 247

$1956 234 خطبات محمود جلد نمبر 37 پنی مستقل نیکی اور توجہ الی اللہ کا ذریعہ نہ بنا لیں تو ہو سکتا ہے کہ اس میں وقفہ پڑ جائے.جیسے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد وقفہ پڑا اور اسلام لوگوں کو صرف ایک قصہ نظر آنے لگا.لیکن اگر انہوں نے اس انعام کو مستقل بنا لیا تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے قیامت تک سلسلہ برکات جاری رہے گا.اور ایک سے دوسرے اور دوسرے سے تیسرے تک یہ سلسلہ اُسی طرح پہنچے گا جیسے بچپن میں ہم کھیلا کرتے تھے تو اینٹوں کی ایک لمبی قطار کھڑی کر دیتے تھے.پھر ایک اینٹ کو دھکا دیتے تو وہ دوسری پر گرتی، وہ تیسری پر گرتی اور اس طرح سو دوسو مینٹیں جو ایک قطار میں کھڑی ہوتی تھیں گرتی چلی جاتی تھیں.اگر ہمارے نوجوانوں میں بھی یہ روح قائم رہے اور پھر ان سے اگلے نوجوانوں میں بھی یہی روح پیدا ہو جائے اور پھر ان سے اگلوں میں یہ روح منتقل ہو جائے تو قیامت تک ہماری جماعت میں رویا وکشوف اور الہامات کا سلسلہ جاری رہے گا اور سارا ثواب اُن نوجوانوں کو ملے گا جو اس سلسلہ کو شروع کرنے والے ہوں گے اور ہمیشہ ہمیش کے لیے اسلام دنیا میں سربلند ہوتا چلا جائے گا.دیکھو ! عیسائیت کتنا ناقص مذہب ہے مگر پچھلے دنوں عیسائیوں کا ایک وفد امریکہ.آیا جو لوگوں سے کہتا پھرتا تھا کہ آؤ اور ہم سے دعائیں کراؤ.ہماری دعاؤں سے مریض اچھے ہو جاتے ہیں.چونکہ کئی وہمی ایسے ہوتے ہیں جنہیں اگر کہہ دیا جائے کہ تم اچھے ہو جاؤ گے تو وہ بھی کہنے لگ جاتے ہیں کہ ہمیں بڑا فائدہ ہوا.اس لیے انہوں نے اس سے فائدہ اُٹھانا شروع کر دیا.حالانکہ قبولیت دعا کا اصل معیار وہ ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام پیش فرمایا کرتے تھے.آپ فرماتے تھے کہ سو دو سو ایسے مریض لے لیے جائیں جو شدید امراض میں مبتلا ہوں یا جنہیں ڈاکٹروں نے لاعلاج قرار دے دیا ہو اور پھر قرعہ کے ذریعہ اُن کو آپس میں تقسیم کر لیا جائے اور اُن کی شفاء کے لیے دعا کی جائے.پھر جس کی دعا سے زیادہ مریض اچھے ہو جائیں وہ سچا سمجھا جائے.لیکن یہ کوئی طریق نہیں کہ ایک شخص کو بلایا اور اُسے کہہ دیا اچھے ہو گئے ہو.کیونکہ کئی وہمی طبائع ہوتی ہیں وہ صرف اتنی بات سے ہی کہنے لگ جاتے ہیں کہ ہمیں بڑا فائدہ ہوا.پس کسی مذہب کی صداقت اور راستبازی معلوم کرنے کا صحیح طریق یہی ہے کہ ڈاکٹروں کے لاعلاج قرار دیئے ہوئے مریضوں کو قرعہ اندازی کے ذریعہ

Page 248

$1956 235 خطبات محمود جلد نمبر 37 آپس میں تقسیم کیا جائے اور پھر دیکھا جائے کہ کس کی دعا سے زیادہ مریض شفایاب ہوتے ہیں.بہرحال اس طریق کو جاری رکھنے کی کوشش کرنی چاہیے تا کہ ہمیشہ اسلام کی زندگی کا ثبوت مہیا ہوتا رہے اور ہمارے نوجوان اس بات پر فخر کر سکیں کہ ہمارے ذریعہ سے پہلے انبیاء کی روحانیت دنیا میں زندہ ہو رہی ہے اور ہم وہ بلب ہیں جن سے بجلی روشن ہوتی ہے.خطبہ ثانیہ میں حضور نے فرمایا: ”نماز کے بعد میں چند جنازے پڑھاؤں گا.پہلا جنازہ نعیمہ بیگم صاحبہ اہلیہ میر حمید اللہ صاحب برج انسپکٹر کراچی کا ہے.یہ خاتون اپنے اندر چند خصوصیتیں رکھتی تھیں.ایک تو یہ کہ جب میں پہلی دفعہ ولایت سے واپس آیا تو میں نے اپنی بیوی امتہ الحی مرحومہ کی یادگار میں عورتوں کے لیے ایک مدرسہ جاری کیا جس میں میں بھی پڑھاتا تھا، مولوی شیر علی صاحب بھی پڑھاتے تھے ، سید ولی اللہ شاہ صاحب بھی پڑھاتے تھے اور بعض اور دوست بھی پڑھاتے تھے.اس مدرسہ میں نعیمہ بیگم صاحبہ نے بھی پڑھا اور اس کا ان پر اتنا اثر ہوا کہ برابر وفات تک وہ عورتوں کو قرآن وغیرہ پڑھاتی رہیں.ان کی وفات بھی اسی حالت میں ہوئی.چنانچہ کوئٹہ میں وہ قرآن کریم کا درس دینے لگیں کہ اُن کا ہارٹ فیل ہو گیا اور وہ فوت ہو گئیں.دوسری خصوصیت ان کی یہ تھی کہ عبدالشکور کنڑے جب جرمنی سے آئے تھے مجھے خیال آیا کہ اُن کا کہیں رشتہ کر دیا جائے.لوگ عموماً غیر ملکی لوگوں کو رشتہ دینے سے گھبراتے ہیں لیکن جب میں نے میر حمید اللہ صاحب کو اس کے متعلق کہلا بھیجا تو انہوں نے کہا میں اپنی بیوی سے مشورہ کر کے آپ کو اطلاع دوں گا.چنانچہ انہوں نے اپنی بیوی سے ذکر کیا.ان کی بیوی کہنے لگیں کہ ہماری اس سے زیادہ خوش قسمتی اور کیا ہو سکتی ہے کہ ہماری لڑکی سلسلہ کے ایک مبلغ سے بیاہی جائے.چنانچہ انہوں نے رشتہ کر دیا.اس وقت وہ لڑکی شکاگو میں ہے اور وہیں اُسے اپنی والدہ کی وفات کی اطلاع پہنچی ہے.دوسرا جنازہ سید محمودشاہ صاحب کلانوری کا ہے.یہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابی تھے اور 1907ء میں انہوں نے بیعت کی تھی.غالباً وہ دوست جن حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے امرتسر میں الیسَ اللهُ بِكَافٍ عَبْدَهُ والی انگوٹھی بنوائی تھی سے

Page 249

236 $1956 خطبات محمود جلد نمبر 37 وہ ان کے ماموں تھے.سید مسعود شاہ صاحب ہو میو پیتھ ربوہ والے ان کے بیٹے ہیں.تیسرا جنازه منشی چراغ الدین صاحب کا ہے جو مولوی نورالدین صاحب منیر مبلغ مشرقی افریقہ کے والد تھے.یہ بہت پرانے احمدی تھے.ملازمت سے فارغ ہو کر قادیان میں ہی آ گئے تھے اور کافی عرصہ تک سلسلہ کی خدمت کرتے رہے.ملک سیف الرحمان صاحب پروفیسر جامعتہ المبشرین کے خسر تھے.نماز کے بعد میں یہ تینوں جنازے پڑھاؤں گا.1 : النور : 47 2 : آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن جلد 5 صفحہ 277 278 ( الفضل 22 جون 1956ء) 3 : بركات الدعا روحانی خزائن جلد 6 صفحہ 31 32 ، چشمہ معرفت روحانی خزائن جلد 23 صفحہ 428

Page 250

$1956 237 23 خطبات محمود جلد نمبر 37 خواہ ساری دنیا مخالفت کرے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حکومت دنیا میں بہر حال قائم ہو کر رہے گی اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ ہم بھی اسلام کی ترقی میں حصہ لے کر ثواب حاصل کریں (فرمودہ 15 جون 1956ء بمقام خیبر لاج مری) تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: پچھلے جمعہ میں میں خطبہ کے لیے نہیں آسکا جس کی وجہ یہ تھی کہ مجھ پر بیماری کا پھر حملہ ہوا.اور یہ حملہ کسی ایسی شکل میں ہوا جو مجھے معلوم نہیں کیونکہ دیکھنے والے بتاتے نہیں کہ حملہ کس شکل میں ہوا تھا.وہ کہتے ہیں کہ اگر ہم نے بتا دیا تو اس سے آپ کو گھبراہٹ ہو گی حالانکہ نہ بتانے سے اور زیادہ گھبراہٹ پیدا ہوتی ہے کہ نامعلوم بیماری کس شکل میں ظاہر ہوئی تھی.بہر حال مجھ پر اُس روز سے بیماری کا شدید حملہ ہوا اور اس کا محرک یہ ہوا کہ تحریک جدید کے مشنوں کو جو خرچ جاتا ہے اُس کے متعلق مجھے بعض غلطیوں کا علم ہوا اور میں نے وکیل المال کو ربوہ سے بلوایا.میں نے یورپ کے سفر میں غیر ممالک کی جماعتوں اور مختلف غیر ملکی دوستوں میں تحریک کر کے جن کا اپنا پاؤنڈ ہے اور جن کے روپیہ پر پاکستان کو کوئی حق

Page 251

$1956 238 خطبات محمود جلد نمبر 37 نہیں ایک بڑی رقم جمع کر کے اُن کو دی تھی اور میں سمجھتا تھا کہ اُس روپیہ سے دو سال تک مسجدیں بھی بن جائیں گی اور بیرونی ممالک کے مبلغین کا خرچ بھی نکل آئے گا.اس سال کا زچ ہم گورنمنٹ سے لے چکے ہیں.پس میں سمجھتا تھا کہ یہ اتنی بڑی رقم ہمارے پاس محفوظ ہے کہ اس میں سے مبلغین کا خرچ بھی نکل آئے گا اور بیرونی ممالک میں مساجد بھی بن جائیں گی.مگر جب میں نے وکیل المال کو بلایا تو مجھے معلوم ہوا کہ بجائے کئی ہزار پونڈ موجود ہونے کے جو میں نے اُن کو اکٹھے کر کے دیئے تھے اب صرف پینتیس پونڈ اُن کے پاس باقی ہیں اور چھ سو پونڈ ماہوار ہمارا بیرونی مشنوں کا خرچ ہے.اس کا مجھے ایسا صدمہ ہوا کہ معاً میرے حافظہ پر اثر پڑ گیا اور مجھے ہر چیز بھولنے لگ گئی.اور ابھی مجھے معلوم نہیں کہ بیماری نے کیا شکل اختیار کر لی تھی کیونکہ گھر میں میں جس سے بھی پوچھتا ہوں وہ کہتا ہے آپ کو بتانا نہیں کیونکہ اس سے آپ کی بیماری بڑھ جائے گی حالانکہ یہ بیوقوفی کی بات ہے.وہ اتنا نہیں سمجھتے کہ جب وہ مجھے بتائیں گے نہیں تو اس سے مجھے اور گھبراہٹ ہو گی کہ معلوم نہیں مجھے کیا و گیا تھا.بہر حال اس وجہ سے مجھ پر بیماری کا صدمہ ہوا اور وہ حملہ اتنا شدید تھا کہ پانچ دن تک میں کوئی کام نہیں کر سکا.پچھلے جمعہ کو اس کا حملہ ہوا تھا اور آج پھر جمعہ ہے.گویا سات دن گزر چکے ہیں.مگر چونکہ دودن سے میں نے پھر ترجمہ قرآن کا کام شروع کر دیا ہے اس لیے پانچ دن ایسے گزرے ہیں کہ جن میں میں بالکل کام نہیں کر سکا اور بہت آہستہ آہستہ اس کا اثر دور ہوا.اب بھی جب خیال آتا ہے کہ پینتیس پونڈ میں سارا سال کس طرح گزرے گا، ہمارا تو ماہوار خرچ ہی چھ سو پاؤنڈ ہے تو دل کانپنے لگتا ہے اور طبیعت میں سخت اضطرار جاتا ہے.یہ محض تحریک جدید کے افسروں کی بیوقوفی تھی کہ وہ روپیہ خرچ کرتے چلے گئے ا انہوں نے یہ نہ سوچا کہ آئندہ کیا ہو گا.آج ہی وکیل المال کی پیٹھی آئی ہے کہ ہم ان ان مقامات پر خرچ کیا ہے.بتائیے اس میں کونسا خرچ ناجائز ہے.حالانکہ اصل اعتراض یہ ہے کہ تم نے اتنے دنوں میں اور آمد کیوں نہ پیدا کی اور کیوں تمہیں یہ خیال نہ آیا کہ ہمیں آئندہ بھی اخراجات کی ضرورت ہوگی اور ہمیں اس کے لیے ابھی سے کوئی تدبیر اختیار روپیه کرنی چاہیے.یہ سیدھی بات ہے کہ جو خرچ ہوتا ہے وہ تو بہر حال ہو گا مگر یہ کونسی عقل.ہے

Page 252

$1956 239 خطبات محمود جلد نمبر 37 کہ انسان روپیہ خرچ کرتا چلا جائے اور یہ نہ سوچے کہ کل کو کیا بنے گا.اگر میں نے دس گیارہ ہزار پونڈ ان کو دیا تھا تو اُن کو چاہیے تھا کہ وہ اس کا دسواں حصہ خرچ کرتے اور اس خرچ کے معاً بعد اس سے دوگنا اور جمع کرنے کی کوشش کرتے.پھر دسواں حصہ خرچ کر لیتے اور دو حصے اور جمع کر لیتے.اگر وہ ایسا کرتے تو جتنا روپیہ میں نے ان کو دیا تھا اس سے سوا ہے رو پید ان کے پاس موجود ہوتا.مگر انہوں نے میرا اتنا بُرا حال کر کے کہ میں موت کے قریب پہنچ گیا بلکہ شاید فالج کے حملہ کے بعد میں اتنا موت کے قریب کبھی نہیں پہنچا جتنا اس وقت پہنچا تھا.اب آ کر لکھ دیا ہے کہ فلاں ترکیب سے بھی کام ہو سکتا ہے اور فلاں ترکیب سے بھی پونڈ جمع ہو سکتا ہے.کوئی ان بیوقوفوں سے پوچھے کہ تم نے ان تدبیروں کو سال بھر کیوں استعمال نہ کیا اور کیوں ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھے رہے؟ حالانکہ اسی ترکیب سے میں نے یہ رقم اکٹھی کی تھی.ہماری کئی جماعتیں خدا تعالیٰ کے فضل سے بیرونی ممالک میں موجود ہیں اور وہ اپنے اندر بڑا اخلاص اور دین کا جوش رکھتی ہیں.انہوں نے سفر یورپ کے موقع پر بہت سے پونڈ بھجوا دیئے جن سے ہمارا کام چلتا چلا گیا اور اس روپیہ پر پاکستان کو بھی کوئی اعتراض نہیں تھا.چنانچہ اسٹیٹ بنک آف پاکستان نے جب ہمیں کچھ روپیہ کی اجازت دی تو ہم نے اُس پوچھا کہ بیرونی ممالک میں بھی ہماری جماعتیں ہیں.اگر وہ ہماری امداد کے لیے کچھ یہ بھجوائیں تو کیا اس پر تو آپ کو کوئی اعتراض نہیں ہو گا ؟ انہوں نے کہا کہ وہ آپ کو جتنا روپیہ بھجوانا چاہیں بھجوا سکتی ہیں ہمیں اس پر کوئی اعتراض نہیں.چنانچہ انہوں نے روپیہ بھجوایا اور اس سے بیماری اور کھانے وغیرہ کے اخراجات پورے ہوئے.روپیه پھر وہاں میں نے ایک موٹر بھی خریدا.جب میں آنے لگا تو سوال پیدا ہوا کہ کہیں پاکستان گورنمنٹ اعتراض نہ کر دے کہ ہم نے تو تمہیں اتنا روپیہ نہیں دیا تھا تم نے یہ موٹر کہاں سے خرید لیا؟ اس پر ہمیں پتا لگا کہ حکومتِ پاکستان اس روپیہ پر کوئی اعتراض نہیں کرتی جو باہر کے ممالک سے حاصل کیا گیا ہو.چنانچہ ہم نے وہاں کے بنک کو لکھا کہ بتاؤ یہ باہر کا روپیہ ہے یا نہیں؟ اس نے ہمیں سرٹیفکیٹ دے دیا کہ یہ روپیہ انہیں افریقہ سے آیا ہے.

Page 253

خطبات محمود جلد نمبر 37 240 $1956 چنانچہ جب ہم کراچی پہنچے تو گورنمنٹ نے ہمیں فوراً اجازت دے دی اور کہہ دیا کہ بیشک موٹر لے جاؤ کیونکہ یہ ہمارے روپیہ سے نہیں بلکہ بیرونی ملک کے روپیہ سے خریدی گئی ہے.اسی طرح اسٹیٹ بنک سے پوچھا گیا تو اس نے کہا کہ باہر سے جو روپیہ آپ کو ملا ہے وہ بیشک آپ بنک میں جمع کرا دیں.اگر باہر کی جماعتیں آپ کو چندہ یا امداد کے طور پر کچھ روپیہ بھیجتی ہیں تو وہ آپ کا مال ہے ہمارا اُس پر کوئی حق نہیں.غرض اس طرح میں نے ان کو روپیہ اکٹھا کر کے دیا تھا.وہ بھی اگر چاہتے تو ایسا کر سکتے تھے مگر عین اُس وقت جب چھ سو پونڈ ماہوار کے حساب سے سات ہزار دو سو پونڈ کی سال بھر کے لیے ضرورت تھی انہوں نے آکر کہہ دیا کہ ہمارے پاس اب صرف پینتیس پونڈ باقی ہیں.اس کا مجھے ایسا صدمہ ہوا کہ پھر مجھ پر بیماری کا شدید حملہ ہو گیا.پھر انگریزی میں ایک ضرب المثل ہے کہ مصیبتیں ہمیشہ اکٹھی آتی ہیں اکیلی نہیں آتیں.1 اس کے دوسرے ہی دن میرے ایک دانت میں شدید درد شروع ہو گیا اور ایک عصبہ کے متعلق معلوم ہوا کہ وہ گل گیا ہے.آخر راولپنڈی سے ڈاکٹر بلوائے گئے.خدا تعالیٰ کا شکر ہے کہ ہمارے آدمی ہر جگہ موجود ہیں.اسی طرح لاہور فون کیا گیا اور وہاں سے ڈاکٹر عبدالحق صاحب آ گئے اور وہ دانت نکال دیا گیا.اس کی درد بھی تین چار دن رہی اور چونکہ میں پہلے ہی بیمار تھا یہ تکلیف بھی لمبی ہو گئی ورنہ جلدی آرام آ جاتا.اب ڈاکٹری لحاظ سے تو زخم اچھا ہو گیا ہے مگر مجھے اب بھی کبھی کبھی ٹھیس پڑتی ہے مگر اُس جگہ نہیں جہاں سے دانت نکلوایا گیا ہے بلکہ اس سے اوپر کے تندرست دانت میں ٹیس محسوس ہوتی ہے.ڈاکٹر کہتے ہیں کہ ریفرڈ پین (REFERRED PAIN) ہے یعنی درد تو اُسی عصبہ میں ہوتی ہے جو ماؤف تھا ہی مگر محسوس دوسری جگہ ہوتی ہے.بہر حال یہ ایک ایسی مصیبت آئی کہ جس کی وجہ سے وہ سارا فائدہ جو اب تک حاصل ہوا تھا جاتا رہا اور پھر نئے سرے سے طبیعت کو بحال کرنا پڑا.بیشک دانت کی تکلیف ایک زائد تکلیف تھی جو کسی کے اختیار میں نہیں تھی مگر اس بیماری کا اصل محرک تحریک جدید کے افسروں کی نالائقی تھی.وہ روپیہ خرچ کرتے چلے گئے اور انہوں نے سمجھا کہ خلیفہ بے ایمان ہے.مبلغ مریں یا جیئیں اور مشن خواہ سارے کے سارے بند ہو جائیں

Page 254

$1956 241 خطبات محمود جلد نمبر 37 اس کو کوئی تکلیف نہیں پہنچے گی.حالانکہ وہ یہ نہیں جانتے کہ اگر ان کا بیٹا مر جائے یا ان کی بیوی مر جائے تو انہیں اس کے مرنے کا اتنا صدمہ نہیں ہو سکتا جتنا یورپ کے ایک مشن کے بھی خطرہ میں پڑنے سے مجھے ہوتا ہے.انہوں نے سمجھا کہ جب ہم یہ بات پیش کریں گے تو وہ ی ہنستے ہنستے کہہ دیں گے کہ جب روپیہ ہی نہیں رہا تو اب سال بھر مشن بیشک بند رکھو مبلغ خود بخود کہیں سے قرض لے کر واپس آ جائیں گے اور ہم بھی ہنس کر کہہ دیں گے کہ ہم کیا کریں، غلطی ہوگئی ہے، روپیہ تو سب خرچ ہو گیا ہے.اصل بات یہ ہے کہ ہمارے مشن اب اتنے پھیل چکے ہیں کہ ان کی نگرانی بڑی مشکل ہے.جب تک پوری مضبوطی سے کام نہ کیا جائے اُس وقت تک مشکلات دور نہیں ہو سکتیں.میں نے بعض افسروں کو نکال کر اپنے بیٹے کو اس کام پر مقرر کیا تھا مگر میں نے جو اُس سے امیدیں وابستہ کی ہوئی تھیں وہ مجھے پوری ہوتی نظر نہیں آئیں.میں نے سمجھا تھا کہ اس کے دل میں بھی وہی درد ہو گا جو میرے دل میں ہے.مگر کیفیت یہ ہے کہ میں جب بھی کوئی بات پوچھوں مجھے کہا جاتا ہے کہ ہم پتا لے کر بتائیں گے حالانکہ مجھے چھ مہینے بلکہ سال بھر پہلے سب باتوں کا پتا ہوتا ہے اور گو میرا دماغ اب کمزور ہو گیا ہے مگر پھر بھی سب باتیں میرے دماغ میں موجود ہوتی ہیں.مگر ان سے پوچھو تو جواب یہ ملتا ہے کہ اب پتا لیں گے.حالانکہ دیانتداری یہ ہوتی ہے کہ افسر کو ہر چیز کا پتا ہو اور اسے معلوم ہو کہ چھ مہینے یا سال کے بعد یہ حال ہوتا ہے.مثلاً افریقہ کے دوست ہیں وہاں بڑی بھاری مخلص جماعت ہے.میرا یورپ کا سارا سفر انہیں کی امداد کی وجہ سے ہوا.پچھلی دفعہ بھی افریقہ اور عرب کے لوگوں نے مدد کی تھی اور اب بھی زیادہ تر افریقہ کے دوستوں نے ہی مدد کی.پھر ایک اور دوست کے ذریعہ بھی بڑی بھاری رقم حاصل کی گئی مگر انہوں نے ستمبر سے لے کر اب تک وہ ساری کی ساری رقم خرچ کر دی اور اب صرف پینتیس پونڈ باقی رہ گئے ہیں حالانکہ جب میں لندن سے چلا تھا اُس وقت چھتیں سو پونڈ موجود تھا اور گورنمنٹ کی طرف سے بھی چار ہزار پونڈ مل چکا تھا.روپیہ کا حساب دے دینا تو کوئی بڑی بات نہیں.حساب ہر ایک دے سکتا ہے.اگر ایک ڈاکو سے پوچھو تو وہ ہے کہ اُس نے کہاں کہاں روپیہ خرچ کیا ہے.اب بھی میں نے پوچھا بھی بتا.سکتا

Page 255

$1956 242 خطبات محمود جلد نمبر 37 تو انہوں نے کہہ دیا کہ ہالینڈ کی مسجد پر اتنا خرچ ہوا ہے حالانکہ سوال یہ ہے کہ کیا ہالینڈ میں آج مسجد بنی ہے؟ کیا تمہیں پتا نہیں تھا کہ مسجد بنے گی تو روپیہ بھی خرچ ہوگا ؟ یا تمہارا یہ خیال تھا کہ ہالینڈ کے انجنیئر اور راج اور معمار سب مفت کام کریں گے؟ یا تم یہ سمجھتے تھے کہ وہ لکڑی مفت دیں گے؟ یا سیمنٹ کی ضرورت ہو گی تو وہ کوئی قیمت وصول نہیں کریں گے ؟ اگر تمہیں پتا ہی تھا کہ یہ اخراجات ہوں گے تو تم نے کیوں اُسی وقت سے کام شروع نہ کر دیا اور کیوں روپیہ کے جمع کرنے کی فکر نہ کی؟ مگر بجائے اس کے کہ وہ روپیہ جمع کرنے کی فکر کرتے وہ چُپ کر کے بیٹھے رہے.یہاں تک کہ مجھے بھی نہیں بتایا کہ جو تم روپیہ جمع کر کے آئے تھے اُس کا بھی ہم نے بیڑا غرق کر دیا ہے.آخر انسان جس کی بیعت کرتا ہے اُس کے متعلق اُسے یہ بھی کی احساس ہوتا ہے کہ میں کوئی ایسی بات نہ کروں جس سے اُسے تکلیف ہو.مگر بجائے اس کے کہ وہ مجھے تشویش اور فکر سے بچاتے انہوں نے چاہا کہ اسے موت کے قریب کر کے جلدی قبر میں پھینک دو تا کہ یہ مصیبت ہمارے سر سے ٹلے.اب تو یہ روز روز ہم سے پوچھتا ہے کہ تم نے دین کا فلاں کام کیوں نہیں کیا، فلاں کام کیوں نہیں کیا.یہ مر جائے گا تو ہم آزاد ہو جائیں گے اور پھر ہمیں کوئی پروا نہیں ہوگی.اب لکھتے ہیں کہ ہمارے لیے دعا کریں ہمارا دل اس تصور سے دُکھا جا رہا ہے کہ کہیں آپ کے منہ سے ہمارے لیے بددعا نہ نکل جائے.مگر سوال یہ ہے کہ تمہارے لیے دعا طرح نکلے.کیا تم نے خدا کا گھر آباد کر دیا ہے؟ یا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نام تم نے بلند کر دیا ہے؟ اگر تم نے کوشش یہ کی ہے کہ تمہاری اس غفلت کے نتیجہ میں بیرونی مشن بند ہو جائیں اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نام یورپ میں نہ پھیلے تو خدا کے گھر کو اُجاڑنے والے اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نام کی بلندی میں روک ڈالنے والے کے لیے خواہ میں اپنے نفس کو کتنا بھی روکوں نکلے گی تو بددعا ہی.چاہے ایسی حالت میں بھی میں اپنے نفس کو روکوں اور یہی کہوں کہ الہی! یہ تیرے کمزور بندے ہیں تو ان پر رحم فرما.مگر دل سے تو بددعا ہی نکلے گی کیونکہ جب نظر یہ آتا ہے کہ روپیہ نہ ہونے کی وجہ سے ایک سال کے اندراندر ہمیں یورپ کے سارے مشنوں کو ختم کرنا پڑے گا تو دعا کس طرح

Page 256

$1956 243 خطبات محمود جلد نمبر 37 نکل سکتی ہے.سوائے اس کے کہ اللہ تعالیٰ خود غیر معمولی حالات پیدا کر دے اور پھر باہر کی جماعتوں کو توفیق عطا فرما دے کہ وہ اس غرض کے لیے ہمیں روپیہ بھجوا دیں.میں سمجھتا ہوں کہ اس میں یہاں کی جماعتوں کا بھی قصور ہے.جب مساجد کی تعمیر کے لیے میں نے چندہ کی تحریک کی تو ہماری ساری کی ساری مجلس شورای کھڑی ہو گئی اور لوگوں نے کہا کہ یہ بڑی آسان ترکیب ہے اس میں ہم ضرور حصہ لیں گے.اُس وقت ہمارا اندازہ یہ تھا کہ اگر جماعتیں اس میں پوری طرح حصہ لیں تو ایک لاکھ ستر ہزار روپیہ سالانہ اکٹھا ہو سکتا ہے مگر رپورٹ آئی ہے کہ صرف سو ڈیڑھ سو ماہوار آ رہا ہے.گویا اس طرح سال بھر میں صرف بارہ سو روپیہ آتا ہے.اگر سال میں بارہ سو روپیہ آئے تو ایک مسجد بنانے کے لیے ہمیں قریباً پانچ سو سال کا عرصہ درکار ہو گا.اور اگر پانچ سو سال میں ہم نے ایک مسجد بنائی تو دنیا میں اسلام کی تبلیغ کس طرح ہو گی.حالانکہ دنیا اس وقت اسلام کی پیاسی ہے اور وہ ہم سے مبلغین اور لٹریچر کا مطالبہ کر رہی ہے.کل ہی ایک ایسے ملک سے چٹھی آئی ہے جہاں مسلمانوں کی بڑی بھاری تعداد ہے.وہاں ایک شخص نے قرآن کریم کا دیباچہ جو میرا لکھا ہوا ہے جرمنی میں پڑھا اور پھر اُس نے لکھا کہ میں نے آپ کا دیباچہ پڑھا ہے اور میں اس سے بڑا متاثر ہوا ہوں.اگر ہماری زبان میں آپ اسے شائع کر دیں تو ہمارے ملک میں ہیں لاکھ مسلمان ہیں.ان کے متعلق آپ سمجھ لیں کہ وہ فوراً آپ کی جماعت میں شامل ہو جائیں گے.مگر سوال یہ ہے کہ جو کام شروع ہیں اگر وہی پورے نہ ہورہے ہوں تو ہم نئے کام کس طرح شروع کر سکتے ہیں.ورنہ دنیا میں ایسے حالات پیدا ہو رہے ہیں جن سے یقینی طور پر معلوم ہوتا ہے کہ کئی ممالک جن میں اس وقت عیسائیت کو غلبہ حاصل ہے اگر ان میں تبلیغ کی جائے اور لٹریچر پھیلا یا جائے تو وہ بہت جلد احمدی ہو جائیں گے.گو مسلمان علماء کے لیے یہ بڑے افسوس کی بات ہو گی.چنانچہ آج ہی کراچی سے چٹھی آئی ہے کہ سپین نے جو تبلیغ اسلام کو بند کرنے کا فیصلہ کیا ہے اس پر وہاں کے علماء نے لکھا ہے کہ یہ بڑا نیک کام ہے اور ہمیں تعریف کرنی چاہیے کہ وہ اسلامی مبلغ کو اپنے ملک سے نکال رہے ہیں.مگر ان باتوں سے کچھ نہیں بن سکتا.اسلام نے دنیا میں پھیل کر رہنا ہے.چاہے مسلمان محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی کرسی کو کھینچیں یا عیسائی

Page 257

خطبات محمود جلد نمبر 37 244 $1956 محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی کرسی کو کھینچیں یا ہند و محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی کرسی کو کھینچیں، محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی کرسی بلند سے بلند تر ہوتی چلی جائے گی اور وہ عرش تک پہنچ کر رہے گی.اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حکومت دنیا میں قائم کی جائے گی خواہ ساری عیسائی دنیا زور لگا لے، ساری ہندو دنیا زور لگا لے، ساری یہودی دنیا زور لگالے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی کرسی کو کھینچنے والا کوئی انسان پیدا نہیں ہوا.وہ آسمان کی بلندیوں کی طرف اُڑتی چلی جائے گی.اور اگر زمین کے لوگ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس کرسی پر نہیں بیٹھنے دیں گے تو آسمان سے خدا اُترے گا اور وہ خود آپ کو اس کرسی پر بٹھائے گا.یہ خدائی قضا ہے جو بہر حال پوری ہو کر رہے گے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا شعر ہے کہ طاقت قضائے آسمان است ایس بہر حالت شود پیدا 2 یہ آسمان کی قضا ہے اور اس نے ہو کر رہنا ہے نہ امریکہ کی طاقت ہے نہ اسرائیل ہے نہ روس کی طاقت ہے نہ انگلستان کی طاقت ہے کہ وہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس کرسی سے اُتار سکے.سپین کی بھلا حیثیت ہی کیا ہے.پچھلے پندرہ سال میں وہاں تین حکومتیں بدل چکی ہیں لیکن پھر بھی اگر بعض حکومتیں فرض شناسی سے کام نہیں لیں گی اور ظلم کرنا شروع کر دیں گی تو اللہ تعالیٰ اس ظلم کو برداشت نہیں کرے گا اور خدا خود انہیں مجبور کرے گا کہ وہ اسلام کے راستہ سے روکیں دور کریں.بلکہ اللہ تعالیٰ ہمارے مبلغوں کو اگر عقل دے تو اب بھی وہ ایسے سامان پیدا کر رہا ہے جن سے فائدہ اُٹھایا اسکتا ہے.پچھلے دنوں تیونس کا ایک شہزادہ جو تخت کا وارث تھا مصر میں آیا اور احمدی ہو کر چلا گیا مگر ہمارے مبلغوں نے یہ غلطی کی کہ اُس سے تعلق نہیں رکھا.اسی طرح الجزائر کا ایک نمائندہ پچھلے دنوں آیا اور مجھے ملا اور کہنے لگا کہ مولوی آپ کی مخالفت کیوں کرتے ہیں؟ میں نے تو خود احمدیت کا مطالعہ کیا ہے اور مجھے اس کی تعلیم بڑی اچھی نظر آتی ہے.میں نے کہا یہ اُن سے پوچھو کہ وہ کیوں مخالفت کرتے ہیں.کہنے لگا کہ میری سمجھ میں یہ بات نہیں آتی

Page 258

$1956 245 خطبات محمود جلد نمبر 37 کہ وہ ایسی اچھی باتوں کی کیوں مخالفت کرتے ہیں.اسی طرح زیکو سلو یکیا کا ایک نمائندہ مجھے زیورک میں ملا اور کہنے لگا کہ میں احمدی ہونا چاہتا ہوں.میں نے کہا جلدی نہ کرو.پہلے مولویوں کی باتیں سن لو ایسا نہ ہو کہ بعد میں ان کی باتیں سن کر کہنے لگ جاؤ کہ اب میں مرتدی ہونا چاہتا ہوں.پھر میں نے اُسے اختلافات بتائے اور کہا کہ ہم حضرت عیسی علیہ السلام کی وفات کے قائل ہیں اور وہ انہیں آسمان پر زندہ سمجھتے ہیں.ہم قرآن کی کسی آیت کو منسوخ نہیں سمجھتے مگر وہ کئی آیات کو منسوخ قرار دیتے ہیں.اسی طرح ہم سمجھتے ہیں کہ اسلام کی اشاعت کے لیے تلوار کی ضرورت نہیں.مگر وہ جہاد کا یہی مفہوم سمجھتے ہیں کہ تلوار کے ساتھ غیر مسلموں کی گردنیں کاٹ دی جائیں.وہ ہنس پڑا اور کہنے لگا کہ آپ کیا باتیں کر رہے ہیں.ہمارے ملک کے لوگ پہلے ہی ان باتوں کو مانتے ہیں.ہمارے ملک میں تعلیم زیادہ ہے.اس لیے کوئی شخص بھی ایسا نہیں جو حضرت عیسی علیہ السلام کو آسمان پر زندہ سمجھتا ہو.پھر ہمارے ملک پر ٹیٹو کی حکومت ہے.اگر ہم لوگوں کو یہ مسئلہ بتا ئیں گے کہ غیر مسلموں کو قتل کرنا جائز ہے تو ٹیٹو پہلے ہماری گردنیں کاٹے گا اور کہے گا کہ تمہیں تو جب تلوار ملے گی دیکھائی جائے گا پہلے میں تمہاری گردنیں اُڑاتا ہوں.ہماری عقل ماری ہوئی ہے کہ ہم اس مسئلہ کو تسلیم کریں.باقی رہا قرآن میں منسوخی کا سوال، سو یہ بات بھی بالکل واضح ہے.اگر مان لیا لایا جائے کہ قرآن میں بعض منسوخ آیات ہیں تو اس کے معنے یہ ہیں کہ سارا قرآن ہی قابلِ اعتبار نہیں.ہم ایسے بیوقوف نہیں کہ ان باتوں کو مان لیں.آپ بیشک تسلی رکھیں مولویوں کا نہ ہم پر اثر ہو سکتا ہے اور نہ میرے ملک کے دوسرے لوگوں پر.آپ بیشک لٹریچر بھیجیں ہمارے نوجوان ان مسائل کو خوش آمدید کہیں گے اور وہ خوش ہوں گے کہ آپ نے ان کو گمراہی سے بچا لیا.غرض اللہ تعالیٰ کے فضل سے غیر ملکوں میں اسلام کے پھیلنے کے سامان پیدا ہو رہے ہیں اور چند ممالک تو ایسے نظر آ رہے ہیں کہ اگر ان میں صحیح طور پر تبلیغ کی جائے تو وہ لوگ عیسائیت کو چھوڑ کر بہت جلد اسلام میں داخل ہو جائیں گے.کیونکہ اُن کے دلوں میں خواہش پیدا ہو رہی ہے کہ اسلام کی تعلیم اُن تک پہنچے اور وہ اسے قبول کریں.بیشک سپین کی گورنمنٹ

Page 259

$1956 246 خطبات محمود جلد نمبر 37 ہمارے مبلغ کو نکال دے اور مولوی اس پر خوشیاں منا لیں مگر الہی تدبیر کا وہ کہاں مقابلہ کر سکتے ہیں.چنانچہ ادھر سپین کی گورنمنٹ نے ہمارے مبلغ کو نوٹس دیا اور اُدھر مراکش کے مسلمانوں نے خط و کتابت شروع کر دی ہے کہ ہم تمہارے ساتھ ہیں.گویا اگر ایک ملک ٹانگ کھینچتا ہے تو دوسرا کرسی بچھانے کے لیے تیار ہو جاتا ہے.بہر حال اللہ تعالیٰ اسلام کے پھیلنے کے خود سامان کر رہا ہے.شروع میں بھی جب اسلام پھیلا تھا تو خدا نے ہی پھیلایا تھا بندوں نے کہاں پھیلایا تھا.کارلائل جو ایک بہت بڑا عیسائی مؤرخ ہے اُس نے ایک کتاب HEROES" AND HERO WORSHIP لکھی ہے.اس میں وہ ایک جگہ لکھتا ہے کہ عیسائی مؤرخ اپنی کتابوں میں بڑے زور سے لکھتے ہیں کہ اسلام تلوار کے زور سے پھیلا ہے.میں اس امر کا انکار نہیں کرتا کہ اُس وقت لڑائیاں ہوئی ہیں مگر ایک بات ہے جو ہمیشہ میرے دل میں کھٹکتی ہے اور جس کا کوئی جواب مجھے کسی عیسائی پادری کی طرف سے نہیں ملا کہ اگر اسلام تلوار کے زور سے پھیلا ہے تو وہ مجھے یہ بتائیں کہ وہ آدمی جن کی تلواروں سے اسلام پھیلا اور سارا عرب فتح ہوا اُن کو کس تلوار نے مسلمان بنایا تھا.پھر کہتا ہے جس نے بغیر تلوار کے ایسے بہادر فتح کر لیے جنہوں نے سارے عرب اور ایران اور استنبول کی حکومتوں تک کو اڑا دیا، جس نے بغیر تلوار کے ایسے بہادر پیدا کر دیئے جنہوں نے ایران اور استنبول کو بُھون ڈالا اُس کے لیے بزدلوں اور بھگوڑوں کو فتح کرنا کونسا مشکل کام تھا کہ اسے تلوار کی ضرورت محسوس ہوتی.اگر بغیر تلوار کے اس نے بہادروں کو فتح کر لیا تھا تو بغیر تلوار کے کمزوروں کو فتح کرنا اُس کے لیے کونسا مشکل کام تھا.3 بہر حال اسلام نے کمزوری کی حالت میں ترقی کی اور وہ ساری دنیا پر چھا گیا مگر پھر اسلام پر ضعف کا زمانہ آگیا اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ بات پوری ہوئی کہ بَدَءَ الْإِسْلَامُ غَرِيبًا وَ سَيَعُودُ غَرِيبًا 4 یعنی اسلام شروع بھی کمزوری کی حالت میں ہوا جبکہ وہ مسافر تھا اور کوئی اس کا گھر بار نہ تھا اور آئندہ بھی ایک زمانہ میں وہ ایسا ہی کمزور اور بے حقیقت ہو جائے گا جیسے ابتدا میں تھا.چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی

Page 260

$1956 247 خطبات محمود جلد نمبر 37 یہ پیشگوئی پوری ہوئی اور مسلمان کمزور ہو گئے.مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے ساتھ ہی یہ بھی خبر دی تھی کہ جب اسلام مسافر ہو گا اور دنیا میں اس کا کوئی ٹھکانا نہیں ہو گا اُس وقت پھر اللہ تعالیٰ آسمان سے مسلمانوں کی ترقی کے سامان پیدا کرے گا اور پھر اسلام کو عروج اور غلبہ حاصل ہو گا.پس امریکہ کیا اور انگلستان کیا اور جرمنی کیا اور روس کیا اُن کی طاقت نہیں کہ خدا کے مقابلہ میں کھڑے ہوسکیں.جب اسلام کی ترقی کا دور دورہ تھا اُس وقت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خبر دی تھی کہ ایک زمانہ میں اسلام کمزور ہو جائے گا.چنانچہ وہ واقع میں کمزور ہو گیا.پھر آپ نے یہ بھی خبر دی کہ اس ضعف کے بعد پھر اسلام غالب آئے گا اور دنیا پر چھا جائے گا.5 تم غور کرو اور سوچو کہ جس وقت اسلام دنیا پر غالب تھا کیا اُس وقت کسی کے ذہن میں بھی آسکتا تھا کہ اسلام کمزور ہو جائے گا ؟ مگر جس خدا نے کی اتنی بڑی حکومت کو کمزور کر دیا جو اناطولیہ سے شروع ہو کر چین کی سرحدوں تک پھیلی ہوئی تھی اور پھر وہ حکومت برما میں بھی تھی، ملایا میں بھی تھی ، فلپائن میں بھی تھی ، انڈونیشیا میں بھی تھی، چائنا میں بھی تھی، ایران میں بھی تھی ، عرب میں بھی تھی ، الجزائر میں بھی تھی ، مراکش میں بھی تھی ، مگر پھر ایک ہوا چلی اور یہ تمام حکومتیں بالکل کمزور اور بے حقیقت بن کر رہ گئیں اور وہ قومیں جو ان کے ماتحت ہوا کرتی تھیں وہی ان پر حکومت کرنے لگ گئیں.اسی خدا نے یہ بھی کہا ہے کہ جب مسلمان بالکل کمزور ہو جائیں گے اُس وقت پھر مسلمانوں کو طاقت بخشی جائے گی اور وہ دنیا کے بادشاہ بنا دیئے جائیں گے.پس کسی کی کیا طاقت ہے کہ وہ خدا کے آگے کھڑا ہو سکے.پہلے بھی خدا نے ہی اسلام کو بڑھایا تھا اور اب بھی خدا ہی اس کو بڑھائے گا.لیکن وہ چاہتا ہے کہ ہمیں بھی کچھ ثواب حاصل کرنے کا موقع دے ورنہ حقیقت یہی ہے کہ قضائے آسمان است ایں بہر حالت شود پیدا پس ہمیں صرف اس نقطہ نگاہ سے غور کرنا چاہیے کہ خدا تعالیٰ کی اس قضا کے پورا کرنے میں ہمیں بھی کوئی حصہ ملتا ہے یا نہیں.اگر ہماری جماعت کے دوست عقل سے تو دس ملک میرے ذہن میں ایسے ہیں کہ اگر قربانی کرنے والے نوجوان

Page 261

$1956 248 خطبات محمود جلد نمبر 37 وہاں چلے جائیں تو تھوڑے عرصہ میں ہی وہ لکھ پتی بن سکتے ہیں بلکہ شاید اس صدی کے اندر اندر اُن کی اولاد میں بادشاہ ہو جائیں گی اور ہمیشہ کی عزت پائیں گی.ابھی شیخ بشیر احمد صاحب ملف نے بتایا ہے ہائیکورٹ کے ایک حج یورپ گئے تھے انہوں نے واپسی پر بتایا کہ سپین کے مبہ کو دیکھ کر مجھے یوں معلوم ہوا کہ جیسے پرانے زمانہ کے مبلغین ہوا کرتے تھے.یہ حج احمدی نہیں بلکہ غیر احمدی ہیں اور پھر پاکستانی علماء کے زیر اثر ہیں مگر ہائیکورٹ کا حج ہونے کی وجہ سے چونکہ ان میں صحیح فیصلہ کرنے کا ملکہ پیدا ہو چکا ہے اس لیے جب انہوں نے ہمارے سپین کے مبلغ کو کام کرتے دیکھا تو ان پر ایسا اثر ہوا کہ انہوں نے کہا کہ اس مبلغ کو دیکھ کر پرانے اسلامی مبلغین کا نظارہ آنکھوں کے سامنے آ گیا ہے.اگر ہماری جماعت کے نوجوان اس طرح بیرونی ممالک میں کام کرنا شروع کر دیں تو خدا تعالیٰ کے فضل سے نئے نئے رستے کھل سکتے ہیں اور نئی نئی ترقیوں کے سامان ہو سکتے ہیں.(الفضل 20 جون 1956ء) (Collins English Dictionary)IT NEVER RAINS IT POURS : 1 2 : درشین فارسی صفحه 119 نظارت اشاعت و تصنیف ربوہ On Heroes Hero - Worship by Thomas Carlyle: 3 Lecture II.The Hero as Prophet.Mahomet: Islam :4 صحیح مسلم كتاب الايمان باب بيان ان الإسلامَ بَدَءَ غَرِيبًا وَ سَيَعُودُ غَرِيبًا وانه يأرز بين المسجدين 5 : صحیح البخارى كتاب التفسير - تفسير سورة الجمعة -

Page 262

$1956 249 24 خطبات محمود جلد نمبر 37 اللہ تعالیٰ کی حفاظت میں رہنے کے لیے ضروری ہے که انسان ہر وقت اُسی کی طرف جُھکا رہے اور اُسی سے استعانت طلب کرے (فرمودہ 22 جون 1956ء بمقام خیبر لاج مری) تشهد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ بعض مسلمان کہلانے والوں کی نسبت فرماتا ہے کہ وَ اِذَا جَاءُوكَ حَيَّوْكَ بِمَا لَمْ يُحَيْكَ بِهِ الله 1 یعنی جب وہ تیرے پاس آتے ہیں تو تجھے ایسی دعائیں دیتے اور ایسے تعریفی کلمات تیرے حق میں کہتے ہیں جو اللہ تعالیٰ نے نہیں کہے.حالانکہ رسول کو رسالت کے مقام پر جو اس کا اصل روحانی مقام ہوتا ہے خدا تعالیٰ خود کھڑا کرتا ہے کوئی انسان کھڑا نہیں کرتا لیکن بعض بیوقوف سمجھتے ہیں کہ ہم اگر کوئی تعریفی کلمہ کسی کے متعلق کہہ دیں گے تو اس سے اُس کی شان بڑھ جائے گی.وہ نادان یہ نہیں جانتے کہ تمہارے کہنے سے کیا بنتا ہے.قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ بتوں کی نسبت فرماتا سے

Page 263

$1956 250 خطبات محمود جلد نمبر 37 کہ وہ نہ نفع اپنے اختیار میں رکھتے ہیں اور نہ ضرر 2 یہی حال انسانوں کا ہے.وہ کسی کی تعریف کر کے اگر اسے آسمان پر بھی چڑھا دیں تو وہ آسمان پر نہیں چڑھ سکتا اور اگر زمین پر.گرا دیں تو وہ زمین پر گر نہیں سکتا.پس ان کا کچھ کہنا بیوقوفی ہوتا ہے.اس آیت سے ظاہر ہے کہ بعض لوگ کہلاتے تو مسلمان تھے مگر ہوتے منافق تھے.اور وہ بعض دفعہ تعریفی الفاظ بولتے تھے مگر اُن کی مراد مذمت کرنا ہوتی تھی.جیسے قرآن کریم میں آتا ہے کہ یہودی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آتے تھے اور کہتے تھے کہ رَاعِنَا - 3 اب رَاعِنَا کے لفظا یہ معنے ہوتے ہیں کہ ہم بھی آپ کی بڑی عزت کریں گے آپ بھی ہماری رعایت کریں اور ہمیں اپنی باتیں سننے کا موقع دیں.مگر مفسرین لکھتے ہیں کہ وہ ذرا لہجہ بدل کر رَاعِنَا کی بجائے رَاعِيُنَا کہہ دیا کرتے تھے.جس کا مطلب یہ ہوتا تھا کہ تو بڑا متکبر اور مغرور ہو گیا ہے.اب بظاہر تو یہی دکھائی دیتا کہ وہ یہی کہہ رہے ہیں کہ آپ بڑے معزز ہیں.آپ ہمیں بھی موقع دیں کہ ہم آپ کی باتیں سنیں مگر وہ کہتے یہ تھے کہ اس شخص کا دماغ خراب : گیا ہے اور یہ بڑا متکبر اور مغرور ہو گیا ہے.ہو اسی طرح بعض دفعہ وہ اور الفاظ استعمال کرتے جو بظاہر تعریفی نظر آتے تھے مگر در حقیقت ان کا مقصد رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مذمت کرنا ہوتا تھا.اور پھر وہ کہتے تھے کہ اگر یہ خدا کی طرف سے ہے تو ہم نے اس سے جو یہ چالا کی کی ہے اس کی اللہ تعالیٰ ہمیں سزا کیوں نہیں دیتا 4 مگر خدا کی شان دیکھو کہ آدمی بھی وہی ہے، اُس کا درجہ بھی وہی ہے، اُس کی شان بھی وہی ہے، اس کو بھیجنے والا خدا بھی وہی ہے لیکن ایک زمانہ میں مسلمان کہلانے کی والے اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مرید کہلانے والے آپ کی ایسی تعریف کرتے تھے جو جھوٹی ہوتی تھی اور گو وہ ظاہر یہ کرتے تھے کہ وہ آپ کے بڑے معتقد اور جاں نثار ہیں مگر اپنے دل میں مختلف قسم کی کپٹ اور کینہ وغیرہ رکھتے تھے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اُن کا ظاہری اخلاص اُن کے کسی کام نہیں آ سکتا کیونکہ وہ منافق ہیں اور ظاہر کچھ کرتے ہیں اور ان کے باطن میں کچھ اور ہے.مگر اب امت بھی وہی ہے، نام بھی وہی ہے، رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے وابستگی کا دعوی بھی وہی ہے مگر زمانہ کا نقشہ کیسا بدل گیا ہے.اُس زمانہ میں منافق منہ

Page 264

$1956 251 خطبات محمود جلد نمبر 37 تعریف کرتا تھا اور دل میں مذمت اور تحقیر کے جذبات رکھتا تھا اور سمجھتا تھا کہ میں غلط تعریف کر رہا ہوں مگر اب مسلمانوں میں سے بعض لوگ ایسے ہیں جو یہاں تک کہتے ہیں کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بشر کہنا آپ کی بڑی ہتک ہے.وہ بشر نہیں تھے بلکہ خدا تعالیٰ کی طرح عالم الغیب تھے اور دل میں بھی سمجھتے ہیں کہ یہی بات سچ ہے.گویا کہ اس زمانہ میں منافق جب کوئی غلط اور بے جا تعریف کرتا تھا تو دل میں سمجھتا تھا کہ میں غلط تعریف کر رہا ہوں.یہ اس تعریف کے مستحق نہیں.مگر آج مسلمان آپ کی تعریف بھی بے جا کرتا ہے اور پھر دل میں بھی یہ سمجھتا ہے کہ میں جو کچھ کہہ رہا ہوں سچ کہہ رہا ہوں بلکہ وہ یہاں تک زور دیتا ہے کہ جو شخص رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بشر سمجھتا ہے وہ کافر ہے.غرض زمانہ کیسا بدل گیا ہے اور کتنا بڑا تغیر دنیا میں واقع ہو چکا ہے.محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب اپنے زمانہ میں زندہ تھے، جب آپ کی شان اور عظمت سارے عالم پر ظاہر تھی، جب آپ کے ہاتھ پر بڑے بڑے معجزات ظاہر ہو رہے تھے اُس وقت منافق آپ کے متعلق ایسے الفاظ بولتے تھے جو بظاہر تعریفی ہوتے تھے مگر دل میں وہ سمجھتے تھے کہ یہ بات نہیں.ہم آپ کی جھوٹی تعریف کر رہے ہیں.گویا کبھی تو وہ ایسی تعریف کرتے تھے جو خدا نے نہیں کی اور آپ کے متعلق ایسے الفاظ استعمال کرتے تھے جو خدا نے نہیں کیے.اور کبھی وہی لفظ بولتے تھے جو خدا نے بولے.لیکن دل میں نہ انہیں اپنی تعریف کی سچائی کا یقین ہوتا تھا اور نہ وہ خدائی الفاظ کی کوئی حقیقت سمجھتے تھے.مثلاً قرآن کریم میں آتا ہے کہ منافق رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آتے اور آ کر کہتے تھے کہ ہم خدا کی قسم کھا کر کہتے ہیں کہ آپ اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں.5 گویا وہ لفظ وہ بولتے تھے جو مومن بھی بولا کرتے تھے مگر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے یہ تو درست ہے کہ تو ہمارا رسول ہے مگر مجھے اپنی ذات ہی کی قسم کہ یہ لوگ جھوٹ بولتے ہیں 6 کیونکہ یہ دل میں تجھے خدا کا رسول نہیں سمجھتے.گویا تین گروہ ہو گئے.ایک گروہ وہ تھا جو وہی لفظ بولتا تھا جو خدا نے بولے مگر پھر بھی خدا تعالیٰ نے کہا کہ وہ جھوٹ بولتے ہیں کیونکہ وہ الفاظ تو درست استعمال کرتے تھے مگر دل میں ایمان نہیں رکھتے تھے.

Page 265

خطبات محمود جلد نمبر 37 252 $1956 دوسرے وہ لوگ تھے جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ایسے الفاظ استعمال کرتے تھے جن کے متعلق وہ اپنے دل میں تو سمجھتے کہ ان کے بُرے معنے ہیں لیکن بظاہر وہ ایسے الفاظ ہوتے تھے جن سے مسلمان یہ سمجھنے لگ جاتے تھے کہ یہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعریف کر رہے ہیں.اب اس زمانہ میں ایک تیسری قسم کے لوگ پیدا ہو گئے ہیں جو دل میں بھی سمجھتے ہیں ہم سچے ہیں اور لفظ وہ بولتے ہیں جو خدا نے نہیں بولے اور آپ کی ایسی تعریف کرتے ہیں جو درحقیقت آپ میں نہیں پائی جاتی اور پھر یقین رکھتے ہیں کہ وہ جو کچھ کہہ رہے ہیں سچ کہہ رہے ہیں.مثلاً کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بشر نہیں تھے یا کہتے ہیں کہ آپ کو کامل علم غیب حاصل تھا.اس بارہ میں مجھے ایک لطیفہ یاد آ گیا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ میں جب ہم نے حضرت خلیفہ اول سے پڑھنا شروع کیا تو میرے ساتھ میر محمد اسحاق صاحب بھی شامل ہو گئے.ہم دونوں اُس وقت بہت چھوٹی عمر کے تھے.ان کی عمر کوئی دس سال کی تھی اور میری عمر بارہ سال کی تھی.اُس زمانہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ایک پرانے صحابی کے ایک بیٹے ہوا کرتے تھے جو پرانی طرز کے مولوی تھے اور اُن کے خیالات بھی جاہلی مولویوں والے تھے.کبھی بات ہوئی اور ہم نے کہنا کہ علم غیب تو خدا کو حاصل ہے تو انہوں نے یہ کہنا شروع کر دینا کہ یہ بالکل جھوٹ ہے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی عالم الغیب تھے.ہمیں چونکہ بچپن سے ہی شرک کے خلاف تعلیم ملی تھی اس لیے ہم اُن سے بحث شروع کر دیتے.میری طبیعت میں تو شرم اور ہچکچاہٹ تھی اس لیے میں لمبی بحث نہ کرتا مگر میر محمد اسحاق صاحب اُس کے پیچھے پڑ جاتے مگر وہ بار بار یہی کہتا کہ نہ نہ یہ نہ کہو کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو علم غیب حاصل نہیں تھا.ایک دن میر محمد اسحاق صاحب نے اپنے سر سے ترکی ٹوپی اتاری اور اُسے چکر دیا.جب انہوں نے ٹوپی گھمائی تو اُس کا پھندنا ہلا.اُ اس پر انہوں نے پوچھا کہ بتاؤ کیا رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پتا ہے کہ اس کا پھندنا ہلا ہے؟ کہنے لگا ہاں رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو علم ہے کہ اس کا پھندنا ہلا ہے.اس پر ہ

Page 266

$1956 253 خطبات محمود جلد نمبر 37 ہم سب ہنس پڑے مگر وہ بڑی سنجیدگی سے یہی سمجھتا تھا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو آدم سے لے کر اپنے زمانہ تک اور اپنے زمانہ سے لے کر قیامت تک واقع ہونے والی ہر - بات کا علم ہے.یہاں تک کہ اگر ٹوپی کا پھند نا ہلا ہے تو اس کا بھی آپ کو پتا ہے.غرض ایک زمانہ وہ تھا کہ قرآن کریم فرماتا ہے بعض لوگ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آتے اور لفظ وہی بولتے جو خدا نے کہے تھے مگر دل میں وہ ایمان نہیں رکھتے تھے.وہ کہتے کہ آپ اللہ کے رسول ہیں اور اللہ تعالیٰ بھی اس بات کو جانتا تھا کہ آپ اس کے رسول ہیں مگر فرمایا کہ وہ بالکل جھوٹ بولتے ہیں دل میں آپ کو رسول نہیں سمجھتے.پھر فرماتا ہے کہ کچھ اور لوگ ایسے ہیں جو آتے ہیں اور ایسے الفاظ استعمال کرتے ہیں جو بظاہر تعریف والے ہوتے ہیں مگر اُن کی مراد بُری ہوتی ہے.جیسے قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ مومنوں کو نصیحت کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ تم راعنا نہ کہا کرو بلکہ انظرنا کہا کرو.گویا وہ لفظ تو تعریفی بولتے مگر ایسے الفاظ میں تعریف کرتے جو خدا نے نہیں بولے.اور پھر خدا تو کسی سے فریب نہیں کرتا، کسی سے دھوکا اور مکاری نہیں کرتا مگر ان کا مقصد بظاہر تعریفی الفاظ استعمال کر کے بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تنقیص کرنا اور آپ کی تحقیر کرنا ہوتا تھا صرف دھوکا دینے کے لیے وہ اس کی شکل بدل دیتے تھے.اب اس زمانہ میں ایک تیسری قسم کے لوگ پیدا ہو گئے ہیں جو مسلمان کہلاتے ہوئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے متعلق وہ الفاظ استعمال کرتے ہیں جو خدا نے نہیں بولے اور پھر دل میں سمجھتے ہیں کہ وہ جو کچھ کہہ رہے ہیں سچ کہہ رہے ہیں.پہلے منافق وہ تھے جو بولتے تو وہی الفاظ تھے جو خدا نے بولے مگر دل میں انہیں تسلیم نہیں کرتے تھے.منافق وہ تھے جو وہ لفظ بولتے تھے جو خدا نے نہیں بولے مگر دوسروں کو دھوکا دینے کے لیے وہ ان الفاظ کو ایسے رنگ میں ادا کرتے تھے کہ بظاہر یہ سمجھا جاتا کہ وہ بڑی تعریف کر رہے ہیں حالانکہ اُن کا اصل مقصد تحقیر اور تذلیل کرنا ہوتا تھا.اب ان کے مقابلہ میں ایک تیسرا گروہ پیدا ہو گیا ہے جو وہ الفاظ استعمال کرتا ہے جو خدا نے استعمال نہیں کیے.خدا کہتا ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صرف ایک انسان تھے.8 مگر وہ کہتے ہیں کہ جو شخص آپ کو

Page 267

خطبات محمود جلد نمبر 37 254 $1956 بشر سمجھتا ہے وہ کافر ہے.اور پھر وہ کہتے ہیں کہ آپ کو علم غیب حاصل تھا.حالانکہ قرآن کریم میں آتا ہے کہ اے محمد رسول اللہ ! تو لوگوں سے کہہ دے کہ اگر میں عالم الغیب ہوتا تو ساری ئیر اپنے لیے حاصل کر لیتا اور مجھے کسی قسم کی تکلیف نہ پہنچتی.9 آخر سب لوگ جانتے ہیں کہ سول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر مخالفین کی طرف سے سینکڑوں حملے ہوئے.یہاں تک کہ آپ کو اپنا شہر بھی چھوڑنا پڑا.اور پھر آپ کے پیارے اور جاں نثار صحابہ آپ کے سامنے مارے گئے.اگر آپ کو علم غیب ہوتا تو یہ واقعات کیوں ہوتے اور اتنی تکالیف آپ کو کیوں پہنچتیں؟ مگر یہ لوگ کہتے ہیں کہ جو شخص رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے متعلق اس بات کا قائل نہیں کہ آپ عالم الغیب تھے وہ کافر ہے.بلکہ کہتے ہیں کہ آج تک جس قدر واقعات ہوئے ہیں اور ہو رہے ہیں ان سب کا رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو علم ہے.یہاں تک کہ ایک ایسے ہی شخص کے سامنے جب رومی ٹوپی گھمائی گئی اور اُس کا پھندنا ہلا اور اُس.پوچھا گیا کہ کیا رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس کا علم ہے کہ رومی ٹوپی کا پھند نا ملا ہے؟ تو وہ کہنے لگا ہاں ! آپ کو علم ہے اور جو اس کا انکار کرتا ہے وہ کافر ہے.غرض مختلف زمانوں میں مختلف شکلیں بدلتی چلی گئیں.کوئی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے وہی لفظ استعمال کرتا تھا جو خدا نے استعمال کیے ہیں مگر دل میں وہ آپ کو جھوٹا سمجھتا تھا.کوئی ایسا لفظ بولتا تھا جو بظاہر پسندیدہ ہوتا تھا مگر اندرونی طور پر اُس کا مقصد اس لفظ کے استعمال سے آپ کی تحقیر اور تنقیص کرنا ہوتا تھا.اور کوئی وہ الفاظ استعمال کرتا ہے جو خدا نے نہیں کہے اور پھر دل میں بھی سمجھتا ہے کہ وہ جو کچھ کہہ رہا ہے سچ کہہ رہا ہے.اس سے پتا لگتا ہے کہ جب انسان اگر نے لگتا ہے تو وہ گر کر کہاں سے کہاں چلا جاتا ہے.اس کا علاج ایک ہی ہے کہ انسان سچے دل سے خدا تعالیٰ سے یہ دعا کرتا رہے کہ اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ 10 کہ خدایا! تو ہمیں سیدھا راستہ دکھا.ورنہ انسان اپنی زبان سے سچے الفاظ نکالے تب بھی وہ اسے بعض دفعہ گمراہی کی طرف لے جاتے ہیں اور اگر ناواجب تعریف اپنی زبان سے کرے تب بھی وہ اسے گمراہی کی طرف لے جاتی ہے.اللہ ہی ہے جو انسان کو ہدایت دیتا ہے.اگر اُس کا فضل انسان کے شامل حال ہو اور اُس کی

Page 268

$1956 255 خطبات محمود جلد نمبر 37 رہنمائی اُسے حاصل ہو تو وہ ہدایت پر قائم رہتا ہے اور اگر اُس کا فضل شاملِ حال نہ ہو تو خواہ وہ اچھے لفظ بولے پھر بھی وہ گمراہ ہو جاتا ہے.پس انسان کی نجات کی یہی صورت ہے کہ ہر وقت اُسے خدا تعالیٰ کی تائید اور نصرت حاصل ہو.اگر یہ نہ ہو تو کوئی انسان صداقت پر قائم نہیں رہ سکتا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کسی صوفی کا یہ فقرہ سنایا کرتے تھے جو وہ چلتے پھرتے اور اُٹھتے بیٹھتے کہا کرتا تھا کہ ”جو دم غافل سو دم کافر.جب خدا سے انسان غافل ہو جاتا ہے تو جس لمحہ میں بھی وہ غفلت اختیار کرتا ہے روحانی لحاظ سے کافر ہو جاتا ہے.بعض دفعہ وہ رسول کی تعریف کرتا ہے اور اپنی زبان سے وہی الفاظ نکالتا ہے جو خدا تعالیٰ نے کہے ہوتے ہیں مگر چونکہ وہ دل میں ایمان نہیں رکھتا اس لیے ایمان کا اظہار کرنے کے باوجود وہ کافر ہوتا ہے.پھر بعض دفعہ وہ دوسرے کی تعریف میں ایسے الفاظ اپنی زبان سے نکالتا ہے جو بظاہر بڑے اچھے معلوم ہوتے ہیں مگر چونکہ دل میں وہ ان الفاظ کا کچھ اور مفہوم سمجھتا ہے اور تعریف کی بجائے دوسرے کی تنقیص اس کے مد نظر ہوتی ہے.اس لیے وہ بھی اچھے الفاظ استعمال کرنے کے باوجود اپنے اندر کفر کا رنگ پیدا کر لیتا ہے.چنانچہ قرآن کریم سے پتا لگتا ہے کہ آیات الہیہ پر سچے دل سے ایمان نہ لانا بھی انسان کو اللہ کی ناراضگی کا مستحق بنا دیتا ہے ہے 11 اور یہ ناراضگی بعض دفعہ اتنی بڑھتی ہے کہ قرآن کریم کے بعض الفاظ کو دیکھ کر لوگ یہ دھوکا کھا جاتے ہیں کہ ایسے انسان کی تو بہ بھی قبول نہیں ہوتی مگر یہ درست نہیں.قرآن کریم نے صاف طور پر فرمایا ہے کہ خواہ کوئی کتنا گنہگار ہو اللہ تعالیٰ اس کی توبہ قبول کر لیتا ہے 12 صرف ایک فرق ہے جس کو لوگوں نے سمجھا نہیں اور وہ یہ کہ بعض گناہ جن کے متعلق خدا تعالیٰ نے یہ کہا ہے کہ وہ معاف نہیں ہو سکتے اُس کے معنے یہ ہیں کہ وہ گناہ ایسے ہیں جو تو بہ کے بغیر معاف نہیں ہو سکتے.بعض گناہ ایسے ہوتے ہیں کہ تو بہ کے بغیر بھی جب انسان کی عام حالت سُدھر جائے معاف ہو جاتے ہیں اور بعض گناہ ایسے ہیں جو تو بہ کے بعد معاف ہوتے ہیں.ور نہ کوئی گناہ نہیں جو معاف نہ ہو سکتا ہو.سارا قرآن اس سے بھرا پڑا ہے کہ اللہ تعالیٰ گنا ہوں کو معاف کرنے والا ہے.صرف اتنی بات ہے کہ بعض گناہ تو بہ سے معاف ہوتے ہیں صرف

Page 269

$1956 256 خطبات محمود جلد نمبر 37 اصلاح اور تغیر پیدا کر لینے سے معاف نہیں ہوتے.اور بعض گناہ بغیر تو بہ کے بھی معاف : جاتے ہیں.مثلاً ایک انسان پہلے نمازیں نہیں پڑھتا تھا لیکن پھر اس کے دل میں ندامت پیدا ہوئی اور اُس نے نمازیں پڑھنی شروع کر دیں.تو اس کے دل میں اپنی پہلی حالت پر ندامت کا پیدا ہو جانا اور آئندہ کے لیے اُس کا نمازیں شروع کر دینا اس کی معافی کے لیے کافی ہے.لیکن بعض گناہ ایسے ہیں جن کی معافی کے لیے تو بہ ضروری ہے مثلاً شرک کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ یہ ایسا گناہ ہے جو اللہ تعالیٰ معاف نہیں کر سکتا.13 اس کے یہ معنے نہیں کہ اللہ تعالیٰ شرک کو کسی صورت میں بھی معاف نہیں کر سکتا بلکہ اس کے معنے یہ ہیں کہ اس گناہ کی معافی کے لیے تو بہ بھی ضروری ہے.یعنی صرف یہی کافی نہیں کہ انسان شرک کرنا چھوڑ دے بلکہ یہ بھی ضروری ہے کہ وہ ساتھ تو بہ بھی کرے.پس جن گناہوں کے متعلق یہ آتا ہے کہ وہ معاف نہیں ہو سکتے اُس کا یہی مطلب ہے کہ وہ بغیر تو بہ کے معاف نہیں ہو سکتے ورنہ سارے گناہ ہی معاف ہو سکتے ہیں.اس بات کے نہ سمجھنے کی وجہ سے دنیا میں کئی لوگ ٹھوکریں کھاتے پھرتے ہیں.چنانچہ عیسائیوں نے یہ ٹھوکر کھائی کہ انہوں نے تو بہ کو ناجائز قرار دے دیا اور مسلمانوں نے یہ ٹھوکر کھائی کہ انہوں نے اباحت کا رستہ کھول دیا اور یہ سمجھ لیا کہ اگر یونہی منہ سے ایک لفظ کہہ دیا جائے تو تو بہ ہو جاتی ہے حالانکہ تو بہ کے اصل معنے یہ ہیں کہ اُس کام سے بچنے کی پوری کوشش کی جائے جو خدا تعالیٰ نے ممنوع قرار دیا ہے.اور اُس کے حضور اپنے گناہوں کا بار بار اقرار کیا جائے.مگر ہر گروہ اپنے اپنے رنگ میں چل رہا ہے.کسی نے شریعت کو باطل کر دیا ہے، کسی نے عمل کو باطل کر دیا ہے اور کسی نے ایمان کو باطل کر دیا ہے اور اس طرح ہر ایک نے اپنی ایک نئی شریعت بنا لی ہے.جیسا کہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ كُل حِزْبٍ بِمَا لَدَيْهِمْ فَرِحُونَ 14 ہر گروہ اپنی اپنی تعلیم لے کر بیٹھ گیا ہے اور سمجھتا ہے کہ وہی ں ہے.حالانکہ سچی بات وہی ہوتی ہے جو خدا کہتا ہے.پس انسان کو چاہیے کہ وہ ہر وقت خدا تعالیٰ کی طرف جھکا رہے اور اُس سے تو بہ کرتا رہے اور اُسے کہے کہ الہی ! اگر تو میرے ساتھ نہیں ہوگا تو میں گمراہ ہو جاؤں گا کیونکہ میرا ہر قدم تیری رہنمائی کا محتاج ہے.اگر تو اپنی

Page 270

$1956 257 خطبات محمود جلد نمبر 37 رہنمائی میں میرا قدم نہیں اُٹھائے گا تو ہو سکتا ہے کہ میں گمراہ ہو جاؤں اور کسی خطرناک گڑھے میں جا گروں.اگر ہر وقت تو بہ بھی انسان کے ساتھ رہے اور ایمان بھی اس کے ساتھ رہے اور نیک عمل بھی اس کے ساتھ رہے تو پھر ایسے انسان کو خدا اپنی حفاظت میں لے لیتا ہے اور وہ ہر قسم کی مصیبت اور مشکلات سے نجات پا جاتا ہے.الفضل 5 جولائی 1956ء) 1 : المجادلة: 9 2: وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللهِ مَا لَا يَنْفَعُهُمْ وَلَا يَضُرُّهُمْ (الفرقان: 56) 3 : النساء : 47 :4 وَيَقُوْلُوْنَ فِى أَنْفُسِهِمْ لَوْلَا يُعَذِّبُنَا اللهُ بِمَا نَقُولُ (المجادلة: 9) 5: إِذَا جَاءَكَ الْمُنْفِقُونَ قَالُوا نَشْهَدُ إِنَّكَ لَرَسُولُ اللهِ المنافقون: 2) :5 : وَاللهُ يَشْهَدُ إِنَّ الْمُنْفِقِينَ تَكْذِبُونَ (المنافقون : 2) 7 : البقرة: 105 8 : قُلْ إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِثْلُكُمْ (الكهف : 111) و : لَوْ كُنْتُ أَعْلَمُ الْغَيْبَ لَاسْتَكْثَرْتُ مِنَ الْخَيْرِ ۚ وَمَا مَسَّنِيَ السوء (الاعراف : 189) 10 : الفاتحة : 6 11 : إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا بِأَيْتِ اللهِ لَهُمْ عَذَابٌ شَدِيدٌ وَاللَّهُ عَزِيزٌ ذُوانْتِقَامٍ (آل عمران: 5) 12 : إِنَّ اللهَ لَا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ وَيَغْفِرُ مَا دُونَ ذَلِكَ لِمَنْ يَشَاءُ (النساء: 49) وَهُوَ الَّذِي يَقْبَلُ التَّوْبَةَ عَنْ عِبَادِهِ وَيَعْفُوا عَنِ السَّيَّاتِ وَيَعْلَمُ مَا تَفْعَلُونَ (الشورى: 26) 13 : اِنَّ اللهَ لَا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ (النساء: 49) 14 : المومنون: 54

Page 271

$1956 258 25 خطبات محمود جلد نمبر 37 ہمارا خدا زندہ اور قادر خدا ہے جو پہلے کی طرح آج بھی اپنی زندگی اور قدرت کے غیر معمولی نشان ظاہر کر رہا ہے (فرمودہ 29 جون 1956ء بمقام مری) تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: " آج میں اس مضمون پر خطبہ دینا چاہتا ہوں کہ ہمارا خدا ایک زندہ خدا ہے.یہ مضمون در حقیقت سورۃ فاتحہ کا حصہ ہے مگر مسلمانوں کی توجہ اس کی طرف نہیں پھری.مثلاً جب م اَلْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِینَ 1 کہتے ہیں تو پرانے مفسرین بھی اس تفسیر میں لگ جاتے ہیں اور ہم بھی یہی تفسیر شروع کر دیتے ہیں کہ ہمارا خدا انسانوں کا بھی خدا ہے اور جانوروں کا بھی خدا ہے اور کیڑوں مکوڑوں کا بھی خدا ہے.اسی طرح وہ ہندوستانیوں کا بھی خدا ہے اور ایرانیوں کا بھی خدا ہے اور امریکنوں کا بھی خدا ہے.اور ہمیں یہ بھول جاتا ہے کہ الْعَلَمِيْنَ میں جن جہانوں کا ذکر کیا گیا ہے وہ زمانہ کے لحاظ سے بھی ہو سکتے ہیں.

Page 272

$1956 259 خطبات محمود جلد نمبر 37 پس اس کے ایک معنے یہ بھی ہیں کہ وہ خدا آدم علیہ السلام کے زمانہ کے لوگوں کا بھی خدا تھا اور وہ خدا نوح علیہ السلام کے زمانہ کے لوگوں کا بھی خدا تھا اور وہ خدا ابراہیم علیہ السلام کے زمانہ کے لوگوں کا بھی خدا تھا اور وہ خدا موسی علیہ السلام کے زمانہ کے لوگوں کا بھی خدا تھا اور وہ خدا عیسی علیہ السلام کے زمانہ کے لوگوں کا بھی خدا تھا اور وہ خدا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ کے لوگوں کا بھی خدا تھا اور وہ خدا ہمارے زمانہ کے لوگوں کا بھی خدا ہے اور وہ خدا بعد میں آنے والے لوگوں کا بھی خدا ہو گا.اور جو خدا آدم علیہ السلام کے زمانہ کے لوگوں کا بھی خدا تھا اور ہمارے زمانہ کے لوگوں کا بھی خدا ہے اور بعد میں آنے والے لوگوں کا بھی خدا ہو گا صاف ثابت ہوتا ہے کہ وہ ایک زندہ خدا ہے.اگر وہ زندہ خدا نہ ہوتا تو آدم سے لے کر اب تک ہر زمانہ کے لوگوں کا وہ کس طرح خدا ہو سکتا ہے.پس اَلْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعَلَمِيْنَ میں اس بات پر بھی زور دیا گیا ہے کہ قرآن جس خدا کو پیش کرتا ہے وہ ایک زندہ خدا ہے اور ہر زمانہ کے لوگ اس سے ویسا ہی فائدہ اُٹھا سکتے ہیں جیسے پہلے لوگ فائدہ اٹھاتے رہے ہیں.چنانچہ اس ہفتہ میں مجھے ایک مبلغ کی طرف سے ایک چٹھی آئی ہے جس سے پتا لگتا ہے کہ کس طرح ہمارا خدا ایک زندہ خدا ہے.اس کے بعد اپنا ایک ذاتی واقعہ اس کے ثبوت کے طور پر بیان کروں گا.وہ لکھتے ہیں کہ ہم نے یہاں اخبار جاری کیا اور چونکہ ہمارے پاس کوئی پریس نہیں تھا اس لیے عیسائیوں کے پریس میں وہ اخبار چھپنا شروع ہوا.دو چار پر چوں تک تو وہ برداشت کرتے چلے گئے لیکن جب یہ سلسلہ آگے بڑھا تو پادریوں کا ایک وفد اس پریس کے مالک کے پاس گیا اور انہوں نے کہا تمہیں شرم نہیں آتی کہ تم اپنے پریس میں ایک احمدی اخبار شائع کر ہو جس نے عیسائیوں کی جڑوں پر تبر رکھا ہوا ہے.چنانچہ اُسے غیرت آئی اور اُس نے کہہ دیا کہ آئندہ میں تمہارا اخبار اپنے پریس میں نہیں چھاپوں گا کیونکہ پادری اس پر بُرا مناتے جب اخبار چھپنا بند ہو گیا تو عیسائیوں کو اس سے بڑی خوشی ہوئی اور انہوں نے ہمیں جواب دینے کے علاوہ اپنے اخبار میں بھی ایک نوٹ لکھا کہ ہم نے تو احمدیوں کا اخبار چھاپنا بند کر دیا ہے.اب ہم دیکھیں گے کہ اسلام کا خدا ان کے لیے کیا سامان پیدا کرتا ہیں.ہے.

Page 273

$1956 260 خطبات محمود جلد نمبر 37 یعنی پہلے ان کا اخبار ہمارے پر لیس میں چھپ جایا کرتا تھا.اب چونکہ ہم نے انکار کر دیا ہے اور ان کے پاس اپنا پریس کوئی نہیں اس لیے اب ہم دیکھیں گے کہ یہ جو مسیح کے مقابلہ میں اپنا خدا پیش کیا کرتے ہیں اس کی کیا طاقت ہے.اگر اس میں کوئی قدرت ہے تو وہ ان کے لیے خود سامان پیدا کرے.وہ مبلغ لکھتے ہیں کہ جب میں نے یہ پڑھا تو میرے دل کو سخت تکلیف محسوس ہوئی اور میں نے سمجھا کہ گو ہماری یہاں تھوڑی سی جماعت ہے لیکن بہر حال میں انہی کے پاس جا سکتا ہوں اور کہہ سکتا ہوں کہ اس موقع پر وہ ہماری مدد کریں تا کہ ہم اپنا پریس چنانچہ وہ لکھتے ہیں میں نے لاری کا ٹکٹ لیا اور پونے تین سو میل پر ایک احمدی کے پاس گیا تا کہ اُسے تحریک کروں کہ وہ اس کام میں حصہ لے.یہ شخص جس کے پاس ہمارا مبلغ گیا کسی زمانہ میں احمدیت کا شدید مخالف ہوا کرتا تھا.اتنا سخت مخالف کہ ایک دفعہ کوئی احمدی اُس کے ساتھ دریا کے کنارے جا رہا تھا کہ اُس احمدی نے اسے تبلیغ شروع کر دی.وہ دریا کی طرف اشارہ کر کے کہنے لگا کہ دیکھو! یہ دریا ادھر سے اُدھر بہہ رہا ہے.اگر یہ دریا یکدم اپنا رُخ بدل لے اور نیچے سے اوپر کی طرف اُلٹا بہنا شروع کر دے تو یہ ممکن ہے لیکن میرا احمدی ہونا ناممکن ہے.مگر کچھ دنوں کے بعد ایسا اتفاق ہوا کہ کوئی بڑا عالم فاضل نہیں بلکہ ایک لوکل افریقن احمدی اُس سے ملا اور چند دن اُس سے باتیں کیں تو وہ احمدی ہو گیا.پھر اللہ تعالیٰ نے بھی اس کی مدد کی اور اس کی مالی حالت پہلے سے بہت اچھی ہو گئی.وہ افریقن اپنے گاؤں کا چیف یعنی رئیس ہے.مگر ہمارے ملک کے رئیسوں اور ان کے رئیسوں میں فرق ہوتا ہے.اُن کے رئیس اُن کے رئیس اور چیف عموماً ایسے ہی ہوتے ہیں جیسے ہمارے ہاں نمبردار اور سفید پوش ہوتے ہیں.گو بعض چیف بڑے بڑے بھی ہوتے ہیں.مثلاً لندن میں میری ریسپشن (RECEPTION) کے موقع پر جو افریقن چیف آیا اُس کے ماتحت تین لاکھ آدمی تھا.گویا ریاست پٹیالہ سے بھی بڑی ریاست اس کے ماتحت تھی.پس بے شک بعض بڑے بڑے چیف بھی ہوتے ہیں لیکن عموماً وہ ایسے ہی ہوتے ہیں جیسے نمبردار اور سفید پوش ہوتے ہیں.جب ہم ان کے متعلق چیف کا لفظ استعمال کرتے ہیں تو بعض احمدی اس سے دھوکا کھا جاتے ہیں اور وہ سمجھتے ہیں کہ اس سے کوئی بہت بڑا رئیس مراد ہے حالانکہ

Page 274

$1956 261 خطبات محمود جلد نمبر 37 اس کے معنے صرف ایک چھوٹے نمبردار کے ہوتے ہیں.وہاں قاعدہ یہ ہے کہ لوگ اپنے کی چیف کا خود انتخاب کرتے ہیں.گاؤں والے اپنے چیف کا انتخاب کرتے ہیں اور شہروں والے اپنے چیف کا انتخاب کرتے ہیں.گاؤں کا چیف چھوٹا چیف ہوتا ہے.قصبہ کا چیف اس سے بڑا چیف ہوتا ہے اور شہروں کے چیف ان سے بڑے ہوتے ہیں.پھر ہر ضلع کے الگ الگ چیف ہوتے ہیں جنہیں پیرامونٹ چیف کہتے ہیں یعنی راجوں کا راجہ.بہر حال وہ مبلغ لکھتے ہیں کہ میں اس چیف کی طرف گیا جو ابھی تھوڑا ہی عرصہ ہوا احمدیت میں داخل ہوا تھا اور جو کسی زمانہ میں احمدیت کا اتنا مخالف ہوا کرتا تھا کہ اُس نے یہ کہا تھا کہ دریا اپنا رُخ بدل سکتا ہے اور وہ نیچے سے اوپر کی طرف بہہ سکتا ہے لیکن میں احمدی نہیں ہو سکتا.اللہ تعالیٰ کی شان دیکھو کہ جو نہی وہ احمدی ہوا اُس کی زمین میں سے ہیروں کی کان نکل آئی اور گو قانون کے مطابق گورنمنٹ کی نے اُس پر قبضہ کر لیا مگر اُسے کچھ رائلٹی (ROYALTY) وغیرہ دینی پڑی جس سے یکدم اس کی مالی حالت اچھی ہونی شروع ہو گئی اور جماعتی کاموں میں بھی اس نے شوق سے حصہ لینا شروع کر دیا.بہر حال وہ لکھتے ہیں کہ میں اس کی طرف جا رہا تھا کہ خدا تعالیٰ نے ایسا فضل کیا کہ ابھی اس کا گاؤں آٹھ میل پرے تھا کہ وہ مجھے ایک دوسری لاری میں بیٹھا ہوا نظر آ گیا اور اُس نے بھی مجھے دیکھ لیا.اُس وقت وہ اپنے کسی کام کے سلسلہ میں کہیں جا رہا تھا.وہ مجھے دیکھتے ہی لاری سے اتر پڑا اور کہنے لگا کہ آپ کس طرح تشریف لائے ہیں؟ میں نے کہا کہ اس طرح ایک عیسائی اخبار نے لکھا ہے کہ ہم نے تو ان کا اخبار چھاپنا بند کر دیا ہے.اگر مسیح کے مقابلہ میں ان کے خدا میں بھی کوئی طاقت ہے تو وہ کوئی معجزہ دکھا دے.وہ کہنے لگا آپ یہیں بیٹھیں میں ابھی گاؤں سے ہو کر آتا ہوں.چنانچہ وہ گیا اور تھوڑی دیر کے بعد ہی اُس کی نے پانچ سو پونڈ لا کر ہمارے مبلغ کو دے دیا.پانچ سو پونڈ وہ اس سے پہلے دے چکا تھا.گویا تیرہ ہزار کے قریب روپیہ اُس نے دے دیا اور کہا کہ میری خواہش ہے کہ آپ پریس کا جلدی انتظام کریں تا کہ ہم عیسائیوں کو جواب دے سکیں کہ اگر تم نے ہمارا اخبار چھاپنے سے انکار کر دیا تھا تو اب ہمارے خدا نے بھی ہمیں اپنا پر لیس دے دیا ہے.ایک ہزار پونڈ ہمارے ملک کی کے لحاظ سے تیرہ ہزار روپیہ بنتا ہے اور یہ اتنی بڑی رقم ہے کہ بڑے بڑے تاجر بھی اتنا

Page 275

$1956 262 خطبات محمود جلد نمبر 37 روپیہ دینے کی اپنے اندر توفیق نہیں پاتے.وہ بڑے مالدار ہوتے ہیں مگر اتنا چندہ دینے کی ان میں ہمت نہیں ہوتی.انہوں نے یہ بھی لکھا کہ اس سے پہلے جب اس چیف نے پانچ سو پونڈ چندہ دیا تھا تو میں ایک شامی تاجر سے بھی ملا تھا.میں نے اُسے تحریک کی کہ وہ بھی اس کام میں حصہ لے.اور میں نے اُسے کہا کہ فلاں گاؤں کا جو رئیس ہے اُس نے پانچ سو پونڈ چندہ دیا ہے.وہ کہنے لگا کہ میری طرف سے بھی آپ پانچ سو پونڈ لکھ لیں اور پھر کہا کہ میں اس وقت پانچ سو پونڈ لکھواتا ہوں مگر میں دوں گا اُس چیف سے زیادہ.- یہ کتنا بڑا ثبوت ہے اس بات کا کہ ہمارا خدا ایک زندہ خدا ہے.ایک معمولی گاؤں کا چیف ہے اور پھر احمدیت کا اتنا مخالف ہے کہ کہتا ہے کہ اگر دریا اُلٹا چلنے لگے تو یہ ممکن ہے لیکن یہ ممکن ہی نہیں کہ میں احمدی ہو سکوں.مگر پھر خدا تعالیٰ اسے احمدیت میں داخل ہونے کی توفیق عطا فرماتا ہے اور نہ صرف احمدیت میں داخل ہونے کی توفیق عطا فرماتا ہے بلکہ یکدم اسے کی ہزاروں روپیہ سلسلہ کو پیش کرنے کی توفیق مل جاتی ہے.یہ تو ایک بیرونی ملک کی مثال ہے جو بتاتی ہے کہ ہمارا خدا کس طرح ایک زندہ خدا ہے اور وہ اپنے بندوں کی کیسے معجزانہ رنگ میں تائید اور نصرت فرماتا ہے.اب میں اپنی مثال بیان کرتا ہوں.میں نے پچھلے دنوں تحریک جدید کے بیرونی مشنوں کے متعلق ایک خطبہ پڑھا تھا جس میں میں نے ذکر کیا تھا کہ تحریک جدید کے پاس بیرونی مشنوں کے لیے اتنا کم روپیہ رہ گیا ہے کہ شاید اب ہمیں اپنے مشن بند کرنے پڑیں مگر ادھر میں نے یہ خطبہ پڑھا اور اُدھر اللہ تعالیٰ کا فضل دیکھو کہ ایک دن میں نے ڈاک کھولی تو اس میں ہمارے ایک مبلغ کا خط نکلا جس میں اُس نے لکھا کہ ایک جرمن ڈاکٹر نے احمدیت کے متعلق کچھ لڑیچر پڑھا تو اُس نے ہمیں لکھا کہ مجھے اور لٹریچر بھجواؤ.چنانچہ اس پر میں نے آپ کا لکھا ہوا دیباچہ قرآن اُسے بھجوا دیا.دیباچہ پڑھ کر اُس نے لکھا کہ میں چاہتا ہوں کہ اس کو اپنے ملک میں چھاپا جائے اور بڑی کثرت سے یہاں پھیلایا جائے اور میں اس بارہ میں آپ کی ہر طرح مدد کرنے کے لیے تیار ہوں.پھر اُس نے لکھا کہ یہاں ہیں لاکھ جرمن نسل کے مسلمان پائے جاتے ہیں.اگر دیباچہ کا یہاں کی زبان میں ترجمہ ہو جائے تو ہیں لاکھ مسلمان عیسائیوں کے ہاتھ میں جانے

Page 276

$1956 263 خطبات محمود جلد نمبر 37 سے بچ جائے گا اور وہ احمدیت کو قبول کر لے گا.گویا ہم تو یہ ڈر رہے تھے کہ کہیں خدا نخواستہ ہمارے پہلے مشن بھی بند نہ ہو جائیں اور اللہ تعالیٰ نے ہماری تبلیغ کے لیے نئے راستے کھول دیئے.پھر جب خطبہ شائع ہوا تو باہر سے بھی اور اندر سے بھی ہمارے خدا کے زندہ ہونے کی کثرت سے مثالیں ملنی شروع ہو گئیں.ایک غیر احمدی کا خط آیا کہ میں نے آپ کا خطبہ پڑھا تو میرا دل کانپ گیا کہ آپ کو اسلام اور مسلمانوں کی تکلیف کی وجہ سے کس قدر دُکھ ہوا ہے.میں سو روپیہ کا چیک آپ کو بھجوا رہا ہوں آپ اس روپیہ کو جس طرح چاہیں خرچ کریں.پھر ایک اور خط کھولا تو وہ ایک احمدی کا تھا اور اُس میں یہ لکھا تھا کہ میں سو روپیہ بھجوا رہا ہوں تاکہ بیرونی مشنوں کے اخراجات میں جو کمی آئی ہے وہ اس سے پوری ہو سکے.پھر ایک عورت کا خط آیا کہ میں پچاس روپے بھجوا رہی ہوں تا کہ جو نقصان ہوا ہے اُس کا ازالہ ہو سکے.پھر چوتھا خط میں نے کھولا تو اس میں ایک ترکی پروفیسر کا ذکر تھا.ہمارا ایک احمدی ان دنوں ایک ٹر کی پروفیسر سے ترکی زبان سیکھ رہا ہے اور ایک سو بیس روپیہ ماہوار اُسے ٹیوشن دیتا ہے.وہ تحرکی پروفیسر اسلام کا دشمن تھا اور رات دن اسلام اور ہستی باری تعالیٰ پر اعتراض کرتا رہتا تھا.وہ احمدی لکھتا ہے کہ میں نے ایک دن فیصلہ کیا کہ چاہے میری پڑھائی ضائع ہو جائے میں نے ہی آج اس سے مذہبی بحث کرنی ہے.چنانچہ میں اس سے بحث کرتا رہا اور پھر میں نے اُسے آپ کا لکھا ہوا دیباچہ قرآن دیا کہ وہ اسے پڑھے.وہ دیباچہ لے گیا اور پڑھنے کے بعد مجھے کہنے لگا کہ میں آج سے پھر مسلمان ہو گیا ہوں.پھر جب مہینہ ختم ہوا اور میں اسے روپیہ دینے کے لیے گیا تو وہ کہنے لگا کہ تم مجھے پر یہ مہربانی کرو کہ یہ روپیہ میری طرف سے اپنے امام کو بھجوائی دو اور انہیں کہو کہ وہ جس طرح چاہیں اس روپیہ کو خرچ کریں.اب دیکھو ایک دہر یہ انسان ہے، خدا تعالیٰ پر رات دن ہنسی اُڑاتا رہتا ہے، اسلام سے کوئی دلچسپی نہیں رکھتا لیکن اس پر ایسا اثر ہوتا ہے کہ جب اسے ٹیوشن کی فیس پیش کی جاتی ہے تو وہ کہتا ہے کہ یہ روپیہ مجھے نہ دو بلکہ اپنے امام کے پاس بھیج دو اور انہیں کہو کہ وہ اسے جس طرح چاہیں خرچ کریں.اس کے بعد میں نے جو پانچواں خط کھولا وہ ایک احمدی دوست کا تھا جو انڈونیشیا سے

Page 277

$1956 264 خطبات محمود جلد نمبر 37 بھی پرے رہتے ہیں.انہوں نے لکھا کہ یہ اطلاع ملتے ہی کہ بیرونی مشنوں کو جو روپیہ بھجوایا جاتا تھا اُس میں کمی آگئی ہے میں نے اڑھائی سو پونڈ لندن بنک میں تحریک جدید کے حساب میں جمع کروا دیا ہے.میری خواہش تھی کہ میں چھ سو پونڈ جمع کراؤں مگر سر دست فوری طور پر میں نے اڑھائی سو پونڈ بنک میں جمع کرا دیا ہے.پھر چھٹا خط میں نے کھولا تو وہ ایک ایسے دوست کی طرف سے تھا جو پاکستان سے باہر کے رہنے والے ہیں.انہوں نے لکھا کہ آپ اس فکر میں اپنی صحت کیوں برباد کر رہے ہیں.ہماری جائیدادیں اور ہمارے بیوی بچے کس غرض کے لیے ہیں.ہم ان سب کو قربان کرنے کے لیے تیار ہیں.آپ پونڈوں کا فکر نہ کریں جتنے پونڈ چاہیں ہم جمع کر دیں گے اور اس بارہ میں آپ کو کسی قسم کی تکلیف نہیں ہونے دیں گے.غرض اِس طرح متواتر خطوط آنے شروع ہو گئے ہیں کہ صاف معلوم ہوتا ہے اس خطبہ کے پہنچتے ہی تمام جماعتوں میں ایک آگ سی لگ گئی ہے اور لوگ انتہائی بیتابی کے ساتھ اس کمی کو پورا کرنے کے لیے آگے بڑھ رہے ہیں.اسی طرح پشاور سے ایک دوست کا خط آیا جس میں انہوں نے لکھا کہ یہ خطبہ پڑھ کر مجھے سخت تکلیف ہوئی ہے.اگر تمام احمدی کوشش کریں تو کیا وہ سات ہزار دوسو پونڈ بھی جمع نہیں کر سکتے ؟ ہم خدا تعالیٰ کے فضل سے اس کام کے لیے پوری طرح تیار ہیں اور ہم خود اس روپیہ کو جمع کریں گے.آپ اس بارہ میں کسی قسم کی تشویش سے کام نہ لیں.یہ تو گل اور پرسوں کی ڈاک کا ذکر تھا.آج ڈاک آئی اور میں نے اسے کھولا تو اس میں سے ایک شہر کی خدام الاحمدیہ کی مجلس کی طرف سے خط نکلا جس میں ذکر تھا کہ ہم نے آپ کا خطبہ تمام خدام کو پڑھ کر سنایا جس پر فوراً مقامی خدام نے دوسو روپیہ چندہ کے وعد لکھوا دیئے اور ہم کوشش کر رہے ہیں کہ یہ روپیہ وصول کر کے بہت جلد مرکز میں بھجوا دیں.انہوں نے یہ چندہ گو ہیمبرگ کی مسجد کے لیے جمع کیا ہے مگر بہر حال وہ بھی اسی کام میں شامل ہے.غرض دیکھو! ہمارا خدا کیسا زندہ خدا ہے کہ جو کام ہم نہیں کر سکتے تھے اس کے لیے وہ سامان مہیا کر رہا اور خود لوگوں کے دلوں میں تحریک کر رہا ہے.چنانچہ ایک طرف

Page 278

$1956 265 خطبات محمود جلد نمبر 37 ایک لڑکی پروفیسر کے دل میں تحریک پیدا ہوتی ہے کہ وہ اپنی کمائی کا روپیہ اپنی ذات پر خرچ کرنے کی بجائے تبلیغ اسلام کے لیے بھجوا دے تو دوسری طرف ایک جرمن ڈاکٹر کے دل میں تحریک پیدا ہوتی ہے کہ ہم خود اسلام کی اشاعت میں حصہ لینے کے لیے تیار ہیں.آپ دیباچہ کا ترجمہ ہماری ملکی زبان میں کروا دیں تو لاکھوں لوگ احمدی ہونے کے لیے تیار ہیں.اسی طرح جو پاکستان سے باہر احمدی رہتے ہیں اُن کے دل میں تحریک پیدا ہوتی ہے اور وہ لکھتے ہیں کہ آپ کیوں فکر کرتے ہیں.آپ ہمیں حکم دیں تو ہم اپنے بیوی بچے بھی اس راہ میں قربان کرنے کے لیے تیار ہیں اور جتنے پونڈ چاہیں گے ہم جمع کر دیں گے مگر ہم سے یہ تکلیف نہیں دیکھی جاتی کہ آپ فکر اور تشویش سے اپنی صحت کو بھی برباد کر لیں.غرض اللہ تعالیٰ نے اپنے زندہ اور قادر ہونے کا ایک نمایاں ثبوت ہمارے سامنے پیش کر دیا ہے اور بتا دیا ہے کہ وہ کتنی بڑی طاقتیں رکھنے والا خدا ہے.پھر دیکھو ایک عیسائی اخبار نے چیلنج دیا کہ تم نے عیسائیت کا مقابلہ شروع کر رکھا تھا.اب جبکہ عیسائی پریس نے تمہارا اخبار شائع کرنے سے انکار کر دیا ہے ہم دیکھیں گے کہ تمہارا خدا تمہاری کیا مدد کرتا ہے.ادھر اس نے یہ چیلنج دیا اور ادھر فوراً اللہ تعالیٰ نے ایک معمولی درجہ کے رئیس کے دل میں غیرت پیدا کر دی اور اس نے تیرہ ہزار اسلامی پریس کے لیے چندہ دے دیا.یہ اللہ تعالیٰ کے بڑے بھاری نشانات ہیں جن سے اُس کی ہستی کا ثبوت ملتا ہے اور اس سے پتا لگتا ہے کہ وہ جہاں چاہتا ہے لوگوں کے دلوں میں قربانی اور ایثار کا مادہ پیدا کر دیتا ہے جس کے نتیجہ میں وہ ایسی ایسی قربانیوں کے لیے تیار ہو جاتے ہیں کہ انہیں دیکھ کر حیرت کی آتی ہے.پس ہماری جماعت کو ہمیشہ وہ سبق یاد رکھنا چاہیے جو اَلْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ میں دیا گیا ہے اور اس بات کو کبھی نظر انداز نہیں کرنا چاہیے کہ خدا تعالیٰ کی تعریف اسی وجہ سے ہے کہ وہ ہر زمانہ کے لوگوں کے لیے ایک زندہ خدا ہے.اگر یہ نہ ہوتا تو ہم اَلْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ کس طرح کہہ سکتے تھے.اگر وہ صرف آدم کے زمانہ میں زندہ خدا تھا تو نوح کے زمانہ میں لوگ اس کی کیوں تعریف کرتے ؟ اور اگر وہ صرف نوح کے زمانہ میں زندہ خدا تھا تو ابراہیم کے زمانہ میں لوگ اس کی کیوں تعریف کرتے؟ اور اگر وہ صرف

Page 279

$1956 266 خطبات محمود جلد نمبر 37 ابراہیم کے زمانہ میں زندہ خدا تھا تو موسی کے زمانہ میں لوگ اس کی کیوں تعریف کرتے ؟ اور اگر وہ صرف موسی کے زمانہ میں زندہ خدا تھا تو عیسی کے زمانہ میں لوگ اس کی کیوں تعریف کرتے ؟ اور اگر وہ صرف عیسی کے زمانہ میں زندہ خدا تھا تو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ میں لوگ اس کی کیوں تعریف کرتے؟ اور اگر وہ صرف محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ میں زندہ خدا تھا تو آج کے زمانہ کے لوگ اس کی کیوں تعریف کرتے؟ وہ زندہ ہے اور زندہ رہے گا اور ہر زمانہ کے لوگ اس کی تعریف کرتے چلے جائیں گے اور اس کے نشانات سے اپنے ایمانوں کو تازہ کرتے رہیں گے.اور جب بھی اُس کے بندے مشکلات میں پھنسیں گے اور اس کے دین پر تکلیف کا زمانہ آئے گا وہ اپنے مخفی الہام سے انسانوں کے دلوں میں تحریک کرے گا کہ اُٹھو اور میرے دین کے جھنڈے کے نیچے جمع ہو جاؤ اور سچے مومن لبیک کہتے ہوئے اس کے جھنڈے کے نیچے جمع ہو جائیں گے اور دین کو مشکلات سے نکال لیں گے.یہاں تک کہ دنیا حیران ہو جائے گی اور شیطان مایوسی سے مر جائے گا.جب 1953ء میں فسادات ہوئے تو اُس وقت میں نے بڑے زور سے اعلان کیا کہ اے احمد یو! تم گھبراؤ نہیں میں دیکھتا ہوں کہ خدا ہماری مدد کے لیے دوڑا چلا آ رہا ہے.اور میرے اس اعلان کے معاً بعد لاہور میں مارشل لاء نافذ ہو گیا.اُس وقت بعض افسروں نے کہا کہ آپ کے اس فقرہ سے اشتعال پیدا ہوتا ہے.میں نے اُن کو جواب دیا کہ جب مجھے خدا آتا ہوا نظر آتا ہے تو کیا میں جھوٹ بولوں؟ خدا تعالیٰ ہمیشہ ہی اپنے سچے بندوں کی ما کے لیے آیا کرتا ہے اور اب بھی آئے گا اور ہمیشہ ہی آتا رہے گا.اگر یہ سلسلہ جاری نہ ہو تو خدا تعالیٰ کے دین کے خادم تباہ ہو جائیں اور ان کے دل غم سے ٹوٹ جائیں..مدد غرض اللہ تعالیٰ اپنی قدرت کے نشانات ہمیشہ دکھاتا چلا آیا ہے اور دکھاتا چلا جائے گا.اور جب وہ دکھاتا ہے تو بڑے بڑے سخت دل لوگوں کو بھی اقرار کرنا پڑتا ہے کہ ہمارا خدا ایک زندہ خدا ہے.بیسیوں نہیں سینکروں غیر احمدی ایسے ہیں جو فسادات کے بعد مجھے ملے اور نہوں نے کہا کہ ہمیں آپ کا وہ فقرہ اب تک یاد ہے کہ تم مت گھبراؤ میں دیکھ رہا ہوں کہ خدا ہماری مدد کے لیے دوڑا چلا آ رہا ہے.جب مارشل لاء نافذ ہوا اور فوجیں لاہور میں

Page 280

$1956 267 خطبات محمود جلد نمبر 37 داخل ہو گئیں تو ہم نے سمجھ لیا کہ آپ کی وہ پیشگوئی پوری ہو گئی ہے اور خدا تعالیٰ نے اس کو لفظاً ہوگا لفظاً سچا ثابت کر دیا ہے.غرض ہمارا خدا ایک زندہ خدا ہے اور ہمیشہ زندہ رہے گا.وہ آدم کے زمانہ میں بھی زندہ تھا، وہ نوح کے زمانہ میں بھی زندہ تھا، وہ ابراہیم کے زمانہ میں بھی زندہ تھا، وہ موسق کے زمانہ میں بھی زندہ تھا، وہ عیسی کے زمانہ میں بھی زندہ تھا، وہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ میں بھی زندہ تھا، اور وہ آج بھی زندہ ہے.اور اگر دنیا اور ہزار سال تک قائم رہے گی تو ہزار سال تک اور اگر ایک کروڑ سال تک قائم رہے گی تو کروڑ سال تک اور اگر ایک ارب سال تک قائم رہے گی تو ایک ارب سال تک وہ اپنی زندگی کے نشانات دکھاتا چلا جائے گا کیونکہ وہ تی وقوم خدا ہے اور وہ لَا تَأْخُذُهُ سِنَةٌ وَلَا نَوْمٌ 2 کا مصداق ہے.اُس پر جب اونگھ اور نیند بھی نہیں آتی تو اس کے زندہ نشانات کا سلسلہ کس طرح ختم ہو سکتا ہے.جب ایسے خدا سے انسان اپنا تعلق پیدا کر لیتا ہے تو اُس کی ساری ضرورتوں کا وہ آپ کفیل ہو جاتا ہے اور ہمیشہ اس کی تائید کے لیے اپنے غیر معمولی نشانات ظاہر کرتا ہے.ہم نے دیکھا ہے حضرت خلیفہ اول کے پاس اکثر لوگ اپنی امانتیں رکھواتے تھے اور آپ اُس میں سے ضرورت پر خرچ کرتے رہتے تھے.آپ فرمایا کرتے تھے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اس طرح رزق دیتا رہتا ہے.بعض دفعہ ہم نے دیکھا کہ امانت رکھوانے والا آپ کے پاس آتا اور کہتا کہ مجھے روپیہ کی ضرورت ہے میری امانت مجھے واپس دے دی جائے.آپ کی طبیعت بڑی سادہ تھی اور معمولی سے معمولی کاغذ کو بھی آپ ضائع کرنا پسند نہیں فرماتے تھے.جب کسی نے مطالبہ کرنا تو آپ نے رڈی سا کاغذ اُٹھانا اور اُسی پر اپنی بیوی کو لکھ دینا کہ امانت میں سے دوسو روپیہ بھجوا دیا جائے.اندر سے بعض دفعہ جواب آتا کہ روپیہ تو خرچ ہو چکا ہے یا اتنے روپے ہیں اور اتنے روپوں کی کمی ہے.آپ نے اُسے فرمانا کہ ذرا ٹھہرو ابھی روپیہ آ جاتا ہے.اتنے میں ہم نے دیکھنا کہ کوئی شخص دھوتی باندھے ہوئے جونا گڑھ یا بمبئی کا رہنے والا چلا آ رہا ہے اور اُس نے آ کر اُتنا ہی روپیہ آپ کو پیش کر دیا ہے.ایک دن لطیفہ ہوا کسی نے اپنا روپیہ مانگا اُس دن آپ کے پاس کوئی روپیہ نہیں تھا.

Page 281

خطبات محمود جلد نمبر 37 268 $1956 مگر اُسی وقت ایک شخص علاج کے لیے آ گیا اور اُس نے ایک پڑیا میں کچھ رقم لپیٹ کر آپ کے سامنے رکھ دی.حافظ روشن علی صاحب کو علم تھا کہ روپیہ مانگنے والا کتنا روپیہ مانگتا ہے.آپ نے حافظ صاحب سے فرمایا کہ دیکھو اس میں کتنی رقم ہے؟ انہوں نے سنا تو کہنے لگے بس! اتنی ہی رقم ہے جتنی رقم کی آپ کو ضرورت تھی.آپ نے فرمایا یہ اس قارض کو دے دو.اسی طرح آپ ایک پرانے بزرگ کا قصہ سنایا کرتے تھے کہ ایک دفعہ ایک قرض خواہ اُن کے پاس آ گیا اور اُس نے کہا کہ آپ نے میری اتنی رقم دینی ہے اور اس پر اتنا عرصہ گزر چکا ہے.اب آپ میرا روپیہ ادا کریں.انہوں نے کہا کہ میرے پاس تو ہے نہیں جب آئے گا تمہیں دے دوں گا.وہ کہنے لگا تم بڑے بزرگ بنے پھرتے ہو اور قرض لے کر ادا نہیں کرتے، یہ کہاں کی شرافت ہے.اتنے میں وہاں ایک حلوا بیچنے والا لڑکا آ گیا.انہوں نے اسے کہا کہ آٹھ آنے کا حلوا دے دو.لڑکے نے حلوا دے دیا اور انہوں نے وہ حلوا اُس قارض کو کھلا دیا.لڑکا کہنے لگا کہ میرے پیسے میرے حوالے کیجیے.وہ کہنے لگے کہ تم آٹھ آنے مانگتے ہو اور میرے پاس تو دو آنے بھی نہیں.وہ لڑکا شور مچانے لگ گیا.یہ دیکھ کر وہ قرض خواہ کہنے لگا کہ یہ کیسی بے حیائی ہے کہ میری رقم تو ماری ہی تھی اس غریب کی اٹھنی بھی ہضم کر لی ہے.غرض وہ دونوں شور مچاتے رہے اور وہ بزرگ اطمینان سے اپنی جگہ بیٹھے رہے.اتنے میں ایک شخص آیا اور اُس نے اپنی جیب میں سے ایک پڑیا نکال کر انہیں پیش کی اور کہا کہ یہ فلاں امیر نے آپ کو نذرانہ بھیجا ہے.انہوں نے اُسے کھولا تو اُس میں روپے تو اتنے ہی تھے جتنے قرض خواہ مانگتا تھا مگر اس میں اٹھتی نہیں تھی.کہنے لگے یہ میری پڑیا نہیں اسے واپس لے جاؤ.یہ سنتے ہی اُس کا رنگ فق ہو گیا اور اس نے جھٹ اپنی جیب سے ایک دوسری پڑیا نکالی اور کہنے لگا کہ مجھ سے غلطی ہو گئی ہے.آپ کی پڑیا یہ ہے.انہوں نے اُسے کھولا تو اُس میں اُتنے ہی روپے تھے جو قارض مانگ رہا تھا اور ایک اٹھتی بھی تھی.انہوں نے دونوں کو بلایا اور وہ روپے انہیں دے دیئے.غرض زندہ خدا اپنے بندوں کی تائید میں ہمیشہ اپنے نشانات دکھاتا ہے.انسان بعض دفعہ اپنی بیماری یا کمزوری ایمان کی وجہ سے گھبرا جاتا ہے لیکن جس کے ساتھ خدا ہوتا ہے

Page 282

طور 269 $1956 خطبات محمود جلد نمبر 37 وہ اُس کی غیب سے مدد کرتا ہے.میرے لیے یہ سخت صدمہ اور رنج کی بات تھی کہ تحریک جدید کے بیرونی مشنوں کے لیے ہمارے پاس کوئی خرچ نہیں رہا.چنانچہ کچھ دن میں خطرناک طور بیمار رہا.بلکہ ابھی تک طبیعت پوری طرح سنبھلی نہیں لیکن نشانِ الہی دیکھو کہ ادھر مجھے فکر پیدا ہوا اور اُدھر اللہ تعالیٰ نے ساری دنیا میں لوگوں کے دلوں میں تحریک پیدا کرنی شروع کر دی.جن میں احمدی بھی تھے اور غیر احمدی بھی تھے اور پاکستانی بھی تھے اور غیر پاکستانی بھی تھے.کسی نے سو پیش کیا، کسی نے سواسو، کسی نے ڈیڑھ سو ، کسی نے اڑھائی سو پونڈ اور کسی نے غیر معین ر پر لکھ دیا کہ جتنے پونڈ آپ کہیں گے ہم جمع کر دیں گے.آپ فکر نہ کریں.دیکھو یہ خدا تعالیٰ کی قدرتوں کا کیسا عظیم الشان ثبوت ہے کہ اُس نے آپ ہی آپ سامان پیدا کرنے شروع دیئے اور لوگوں کے دلوں میں اخلاص اور محبت کی ایک لہر پیدا کر دی ورنہ انسان کے اندر کیا طاقت ہے کہ وہ کچھ کر سکے.ہمارے لیے بس اتنا ہی کافی ہے کہ ہمیں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے طفیل ایک زندہ اور قادر خدا کا دامن پکڑنے کی توفیق مل گئی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ہمیشہ اپنے والد صاحب کا ایک قصہ سنایا کرتے تھے.میاں بدرمحی الدین صاحب جو بٹالہ کے رہنے والے تھے ان کے والد جن کا نام غالباً پیر غلام محی الدین تھا ہمارے دادا کے بڑے دوست تھے.اُس زمانہ میں کمشنر موجودہ زمانہ کے گورنر کی طرح سمجھا جاتا تھا اور وہ امرتسر میں اپنا دربار لگایا کرتا تھا.جس میں علاقہ کے تمام بڑے بڑے رؤساء شامل ہوا کرتے تھے.ایک دفعہ امرتسر میں دربار لگا تو ہمارے دادا کو بھی دعوت آئی اور چونکہ انہیں معلوم تھا کہ پیر غلام محی الدین صاحب بھی اس دربار میں شامل ہوں گے اس لیے وہ گھوڑے پر سوار ہو کر بٹالہ میں اُن کے مکان پر پہنچے.وہاں انہوں نے دیکھا کہ ایک غریب آدمی پیر غلام محی الدین صاحب کے پاس کھڑا ہے اور وہ اس سے کسی بات پر بحث کر رہے ہیں.جب انہوں نے دادا صاحب کو دیکھا تو کہنے لگے مرزا صاحب! دیکھیے ! یہ میراثی کیسا بیوقوف ہے.کمشنر صاحب کا دربار منعقد ہو رہا ہے اور یہ کہتا ہے کہ وہاں جا کر کمشنر صاحب سے کہا جائے کہ گورنمنٹ نے اس کی چھپیں ایکٹر زمین ضبط کر لی ہے، یہ زمین

Page 283

$1956 270 خطبات محمود جلد نمبر 37 اسے واپس دی جائے.بھلا یہ کوئی بات ہے کہ دربار کا موقع ہو اور کمشنر صاحب تشریف لائے ہوئے ہوں اور ایک میراثی کو اُن کے سامنے پیش کر دیا جائے اور کہا جائے کہ اس کی چھپیں ایکٹر زمین ضبط ہوگئی ہے وہ اسے واپس دلا دی جائے.چونکہ وہ پیر تھے گو درباری بھی تھے اس لیے انہیں یہ بات بہت عجیب معلوم ہوئی.دادا صاحب اُس میراثی سے کہنے لگے کہ تم میرے ساتھ چلو.چنانچہ وہ اُسے ساتھ لے کر امرتسر پہنچے.جب دربار لگا اور کمشنر صاحب آ گئے تو ہمارے دادا اُٹھ کر کمشنر کے پاس چلے گئے اور اپنے ساتھ اُس میراثی کو بھی لے لیا.اور کمشنر ا سے کہنے لگے کہ کمشنر صاحب! ذرا اس کی بانہہ پکڑ لیں.وہ کہنے لگا مرزا صاحب! اِس کا کیا ، مطلب؟ انہوں نے کہا مطلب میں پھر بتاؤں گا پہلے آپ اس کی بانہہ پکڑ لیں.چنانچہ ان کے کہنے پر اُس نے میراثی کی بانہہ پکڑ لی.اس پر ہمارے دادا صاحب کہنے لگے ہماری پنجابی زبان میں ایک مثال ہے کہ "بانہہ پھڑے دی لاج رکھنا.کمشنر پھر حیران ہوا اور کہنے لگا اس کا کیا مطلب؟ وہ کہنے لگے اس کا مطلب یہ ہے کہ جب آپ نے ایک شخص کا بازو پکڑا ہے تو پھر اس بازو پکڑنے کی لاج بھی رکھنا اور اسے چھوڑنا نہیں.وہ کہنے لگا مرزا صاحب! آپ یہ بتائیں کہ آپ کا اس سے مقصد کیا ہے؟ انہوں نے کہا اس کی چھپیں ایکٹر زمین تھی جو گورنمنٹ نے ضبط کر لی ہے.آپ لوگ مغل بادشاہوں کے قائم مقام ہیں اور مغل بادشاہوں کا یہ طریق تھا کہ وہ ہزاروں ایکڑ زمین لوگوں کو انعام کے طور پر دے دیا کرتے تھے.اب یہ غریب حیران ہے کہ ہم پر عجیب لوگ حاکم بن کر آ گئے ہیں کہ میرے پاس جو پہلے پچپیس ایکٹر زمین تھی وہ بھی انہوں نے ضبط کر لی ہے.اُس پر ایسا اثر ہوا کہ اُس نے اُسی وقت اپنے میر منشی کو بلایا اور اُسے کہا کہ ابھی یہ بات نوٹ کر لو اور آرڈر دے دو کہ اس شخص کو زمین واپس د دی جائے.اسی طرح خدا تعالیٰ کے ساتھ تعلق رکھنا بھی "ہاتھ پھڑے دی لاج رکھنے والی بات ہوتی ہے جس طرح کمشنر نے اُس میراثی کی بانہہ پکڑنے کے بعد اُس کی لاج رکھی اسی طرح خدا جس کی بانہہ پکڑے اُس کی بھی وہ لاج رکھ لیتا ہے.صرف اتنی بات ہے کہ انسانی اپنی کم حوصلگی کی وجہ سے بعض دفعہ گھبرا جاتا ہے ورنہ اللہ تعالیٰ جب دینے پر آتا ہے تو ایسے

Page 284

خطبات محمود جلد نمبر 37 271 $1956 ނ ایسے رستوں سے دیتا ہے کہ حیرت آتی ہے.اب تو ہماری جماعت خدا تعالیٰ کے فضل بڑی ترقی کر گئی ہے اور ہماری مثال حضرت عائشہ والی ہو گئی ہے.جب مدینہ میں پہلی دفعہ ہوائی چکیاں آئیں اور باریک آٹا پیسنے لگا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حکم دیا کہ ازواج مطہرات میں سے سب سے پہلے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو یہ آٹا تحفہ پیش کیا جائے.چنانچہ مدینہ میں سب سے پہلے یہ آٹا حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے گھر بھجوا دیا گیا اور اُس کے پھلکے تیار کیے گئے.حدیثوں میں آتا ہے کہ اس سے پہلے پتھر پر دانے کوٹ کر دلیہ سا بنا لیا جاتا تھا اور اس کی روٹی تیار کی جاتی تھی.جب پہلی دفعہ نرم اور ملائم آٹے کی روٹی پکا کر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے سامنے پیش کی گئی تو آپ نے اس میں سے ایک لقمہ توڑ کر اپنے منہ میں ڈالا اور پھر آپ کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگ گئے.ایک عورت جو پاس بیٹھی ہوئی تھی وہ کہنے لگی بی بی! آپ روتی کیوں ہیں؟ روٹی تو بڑی ملائم اور نرم ہے اور ہم نے اس آٹے کی بڑی تعریف سنی ہے.حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا میں اس لیے نہیں روئی کہ آٹا خراب ہے بلکہ مجھے اس روٹی کو دیکھ کر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ یاد آ گیا ہے.ہم اس زمانہ میں دانوں کو پتھروں سے کچل کر دلیہ سا بنا لیتی تھیں اور اس کی روٹیاں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو کھلایا کرتی تھیں.آخری عمر میں جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ضعیف ہو گئے تو آپ کے لیے روٹی چبانا بڑا مشکل ہو گیا تھا.پس مجھے اس روٹی کو دیکھ کر رونا آگیا اور مجھے خیال آیا کہ اگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں بھی یہ چکیاں ہوتیں تو میں آپ کو اس آٹے کی روٹی پکا کر کھلاتی.ہمارا بھی یہی حال ہے اب تو ہمارا صدرانجمن احمدیہ کا بجٹ چودہ پندرہ لاکھ کا ہے اور تحریک جدید کا بجٹ بھی بارہ تیرہ لاکھ کا ہو گیا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ میں یہ کیفیت تھی کہ کئی مقامات پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے یہ لکھا ہے کہ اب تو ہم پر اتنا بوجھ ہے کہ پندرہ سو روپیہ ایک مہینہ کا خرچ ہے.گویا اُس زمانہ میں اٹھارہ ہزار روپیہ کا سالانہ خرچ تھا اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اسے بڑا بوجھ قرار دیتے تھے.لیکن اس زمانہ میں بعض ایسے احمدی ہیں کہ اُن میں سے ایک ایک اس بوجھ کو آسانی کے ا

Page 285

$1956 272 خطبات محمود جلد نمبر 37 ساتھ اُٹھا سکتا ہے.اُس وقت بعض دفعہ ایسی حالت ہوتی تھی کہ لنگر میں آٹا نہیں ہوتا تھا اور منتظمین کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی خدمت میں روپیہ کے لیے درخواست کرنی پڑتی تھی.1905ء میں جب زلزلہ آیا اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کچھ عرصہ کے لیے باغ میں تشریف لے گئے تو مجھے خوب یاد ہے ایک دن آپ باہر سے آئے تو اللہ تعالیٰ کی بڑی حمد وثنا کر رہے تھے.اُس وقت آپ نے حضرت اماں جان کو بلایا اور فرمایا یہ گھڑی لے لو اور دیکھو کہ اس میں کتنی رقم ہے؟ حضرت اماں جان نے کمرہ سے باہر نکل کر بتایا کہ اس کپڑے میں چار سو یا پانچ سو کی رقم ہے.آپ نے فرمایا آج ہی لنگر والے آٹے کے لیے روپیہ مانگ رہے تھے اور میرے پاس کوئی روپیہ نہیں تھا اور میں حیران تھا کہ اس کا کیا انتظام ہوگا.اتنے میں میں کیا دیکھتا ہوں کہ ایک غریب آدمی جس نے میلے سے کپڑے پہنے ہوئے تھے آیا اور اس نے یہ گٹھڑی مجھے دے دی.میں نے سمجھا کہ اس میں پیسے ہی ہوں گے.لیکن اب معلوم ہوا کہ روپے تھے.اس پر آپ دیر تک اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا کرتے رہے کہ اُس نے کیسا فضل نازل فرمایا ہے.بیشک اس وقت ہماری نگاہ میں چار سو روپیہ کوئی حقیقت نہیں رکھتا لیکن اُس وقت ہم ان چیزوں کو دیکھتے تو ہمارا ایمان تازہ ہوتا تھا اور اب ہمیں اس سے سینکڑوں گنے زیادہ روپیہ ملتا ہے اور وہ روپیہ ہمارے ایمانوں کو بڑھاتا ہے.میں نے دیکھا ہے مجھے اپنی عمر میں بعض غیر احمدیوں نے دو دو، تین تین، چار چار ہزار روپیہ نذرانہ کے طور پر دیا ہے لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ میں یہ حالت تھی کہ آپ کو چار سو روپیہ ملا تو آپ نے سمجھا کہ شاید اس میں پیسے ہی ہوں گے.ورنہ اتنا روپیہ کون دے سکتا ہے.آج اگر وہی زمانہ ہوتا تو وہ لوگ جو اس وقت افسوس کر رہے ہیں اُن کو بھی قربانی موقع مل جاتا اور ہر شخص قربانی کر کے سمجھتا کہ مجھے خدا نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت کا موقع عطا فرما کر مجھ پر احسان فرمایا ہے لیکن وہ زمانہ تو گزر گیا.اب پھر ایک دوسرا زمانہ آ گیا ہے جس میں خدا تعالیٰ اپنے بندوں کے لیے دین کی خدمت کے زیادہ سے زیادہ مواقع پیدا کر رہا ہے.

Page 286

خطبات محمود جلد نمبر 37 273 $1956 بہر حال ہر زمانہ کے لحاظ سے خدا اپنی زندگی کا ثبوت دیتا چلا آیا ہے.اُس زمانہ میں چار سو روپیہ کا مل جانا خدا تعالیٰ کے زندہ ہونے کا ایک ثبوت تھا اور اس زمانہ میں کبھی کبھی ای چالیس پچاس ہزار روپے دے کر اُس نے اپنی زندگی کا ثبوت دیا ہے.اور آج خدا تعالیٰ کے زندہ ہونے کا ثبوت دو اڑھائی سو پونڈ ہیں جو ایک دوست نے اطلاع ملتے ہی لندن بنک میں جمع کروا دیئے.اسی طرح اس ترکی پروفیسر کا وہ روپیہ بھی زندہ خدا کا ایک نشان ہے جو اُس نے اپنے اوپر خرچ کرنے کی بجائے مجھے دین پر خرچ کرنے کے لیے بھجوا دیا.اور یا پھر خدا تعالیٰ کے زندہ ہونے کا ثبوت اُس حبشی چیف کا واقعہ ہے جس نے احمدیہ پریس کے لیے ، ہزار پونڈ دو قسطوں میں دے دیا.اور یا پھر خدا تعالیٰ کے زندہ ہونے کا ثبوت افریقہ کے اس دوست کا خط ہے جنہوں نے یہ لکھا کہ آپ پریشان کیوں ہوتے ہیں.آپ روپیہ کے متعلق کسی قسم کی فکر نہ کریں.بیرونی مشنوں کے لیے جتنے پونڈوں کی ضرورت ہو ہمیں لکھیں ہم کسی نہ کسی طرح جمع کر دیں گے.غرض خدا تعالیٰ ہر زمانہ میں اپنے زندہ ہونے کا ثبوت مہیا کرتا ہے اور اس طرح وہ اپنے مومن بندوں کے ایمانوں کو بڑھاتا رہتا ہے.مجھے وہ زمانہ خوب یاد ہے جب اشتہار چھپوانے کے لیے بھی ہمارے پاس کوئی روپیہ نہیں ہوتا تھا.میں جب خلیفہ ہوا اور غیر مبائعین کے مقابلہ میں میں نے پہلا اشتہار لکھا تو اُس وقت ہماری مالی حالت اتنی کمزور تھی کہ اس اشتہار کے چھپوانے کے لیے بھی ہمارے پاس کوئی روپیہ نہیں تھا.ہمارے نانا جان میر ناصر نواب صاحب مرحوم کو اس کا علم ہوا جو اُس وقت ہسپتال اور مسجد کے لیے چندہ جمع کر رہے تھے.انہوں نے اڑھائی سو روپیہ کی پوٹلی لا کر میرے سامنے رکھ دی اور کہا کہ آپ اس روپیہ کو استعمال کر لیں.جب آپ کے پاس روپیہ آئے گا تو وہ مجھے دے دیں.چنانچہ پہلا اشتہار ہم نے انہی کے روپیہ سے شائع کیا.پھر اللہ تعالیٰ نے وہ دن دکھایا کہ یا تو دوسو اور اڑھائی سو کے لیے ہمارے کام رُکے ہوئے تھے اور یا آب ایک ایک شخص ہی ہیں ہیں ہزار روپیہ دینے کے لیے تیار ہو جاتا ہے.مثلاً پچھلے سال میں بیمار ہوا تو ڈاکٹروں نے مجھے ولایت جانے کا مشورہ دیا.اس پر اللہ تعالیٰ نے ہماری جماعت کو یہ تو فیق عطا فرمائی کہ اس نے ایک لاکھ سے زیادہ روپیہ اس غرض کے لیے جمع کر دیا.

Page 287

خطبات محمود جلد نمبر 37 274 $1956 غرض زمانے ہمیشہ بدلتے رہتے ہیں اور بدلتے چلے جائیں گے.ایک زمانہ میں لوگ اربوں ارب روپیہ دیں گے اور انہیں پتا بھی نہیں لگے گا کہ اُن کے مال میں سے کچھ کم ہوا ہے کیونکہ دینے والے کھرب پتی ہوں گے اور جب وہ ہیں یا تمھیں یا پچاس ارب روپیہ دیں گے تو انہیں پتا بھی نہیں لگے گا کہ اُن کے خزانہ میں کوئی کمی آئی ہے.اُس وقت اُنہیں یاد بھی نہیں رہے گا کہ کسی زمانہ میں پچاس روپیہ کی ضرورت ہوتی تھی تو اس کے لیے بھی دعائیں کرنی پڑتی تھیں.تم تذکرہ پڑھو تو تمہیں اس میں یہ لکھا ہوا دکھائی دے گا کہ ایک دفعہ ہمیں پچاس روپیہ کی ضرورت پیش آئی اور جیسا کہ اہل اللہ پر کبھی کبھی ایسی حالت گزرتی ہے.اس وقت ہمارے پاس کچھ بھی نہیں تھا.تب ہم نے وضو کیا اور جنگل میں جا کر دعا کی.اس پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے الہام نازل ہوا کہ :.”دیکھ میں تیری دعاؤں کو کیسے جلد قبول کرتا ہوں“ 3 اس کے بعد ہم واپس آئے تو بازار سے گزرے اور ڈاکخانہ والوں سے پوچھا کہ کیا ہمارے نام کوئی منی آرڈر آیا ہے یا نہیں ؟ انہوں نے ایک خط دیا جس میں لکھا تھا کہ پچاس روپے آپ کے نام بھجوا دیئے گئے ہیں.چنانچہ اُسی دن یا دوسرے دن وہ روپیہ ہمیں مل گیا.غرض ایک زمانہ ایسا گزرا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو پچاس روپوں کے لیے بھی فکر ہوتا تھا کہ وہ کہاں سے آئیں گے.اور یا اب یہ حالت ہے کہ سندھ میں جو میری اور سلسلہ کی زمینیں ہیں اُن پر تین ہزار روپیہ ماہوار تک تنخواہوں کا ہی دینا پڑتا ہے.گویا کجا تو یہ حالت تھی کہ پندرہ سو روپیہ ماہوار کا خرچ ساری جماعت کے لیے بوجھ سمجھا جاتا تھا اور پچاس روپیہ کی ضرورت کو اتنا شدید سمجھا جاتا تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس کے لیے خاص طور پر علیحدگی میں دُعا کرنا ضروری سمجھا اور گجا یہ حالت ہے کہ اُسی شخص کا بیٹا سینکڑوں روپیہ ماہوار اپنے کارکنوں کو تنخواہیں دیتا ہے اور انجمن کے افسروں کو ملا کر وہ رقم ہزاروں روپیہ کی بن جاتی ہے اور ربوہ کے دفتروں کو ملا کر کوئی نوے ہزار ماہوار کی رقم بن جاتی یہ کتنا عظیم الشان فرق ہے جو ہر شخص کو دکھائی دے سکتا ہے.مگر ابھی کیا.

Page 288

خطبات محمود جلد نمبر 37 275 $1956 ابھی تو صرف ہزاروں روپیہ خرچ ہو رہا ہے.پھر کوئی وقت ایسا آئے گا کہ صدرانجمن احمد یہ اور تحریک جدید کا تین تین ارب کا بجٹ ہو گا.پھر ایسا زمانہ آئے گا کہ ان کا تین تین کھرب کا بجٹ ہو گا.یعنی صدر انجمن احمدیہ اور تحریک جدید کا سالانہ بجٹ بہتر کھرب کا ہو گا.پھر یہ بجٹ پدم پر جا پہنچے گا.کیونکہ دنیا کی ساری دولت احمدیت کے قدموں میں جمع ہو جائے گی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے صاف طور پر لکھا ہے کہ مجھے یہ فکر نہیں کہ روپیہ کہاں سے آئے گا.مجھے یہ فکر ہے کہ اُس روپیہ کو دیانتداری کے ساتھ خرچ کرنے والے کہاں سے آئیں گے؟ 4 چنانچہ دیکھ لو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے وصیت کا نظام جاری فرمایا تو اللہ تعالیٰ نے اس میں ایسی برکت رکھ دی کہ باوجود اس کے کہ انجمن کے کام ایسے ہیں جو دلوں میں جوش پیدا کرنے والے نہیں پھر بھی صدر انجمن احمدیہ کا بجٹ تحریک جدید کے بجٹ سے ہمیشہ بڑھا رہتا ہے کیونکہ وصیت ان کے پاس ہے.اس سال کا بجٹ بھی تحریک جدید کے بجٹ سے دوتین لاکھ روپیہ زیادہ ہے.حالانکہ تحریک کے پاس اتنی بڑی جائیداد ہے کہ اگر وہ جرمنی میں ہوتی یا یورپ کے کسی اور ملک میں ہوتی تو ڈیڑھ ڈیڑھ، دو دو کروڑ روپیہ سالانہ ان کی آمد ہوتی.مگر اتنی بڑی جائیداد اور بیرونی ممالک میں تبلیغ اسلام کرنے کی جوش دلانے والی صورت کے باوجود محض وصیت کے طفیل صدر انجمن احمدیہ کا بجٹ تحریک جدید سے بڑھا رہتا ہے.اسی لیے اب وصیت کا نظام میں نے امریکہ اور انڈونیشیا میں بھی جاری کر دیا ہے اور وہاں سے اطلاعات آ رہی ہیں کہ لوگ بڑے شوق سے اس میں حصہ لے رہے ہیں.گو امریکہ کے مبلغ اس معاملہ میں بہت سستی سے کام لے رہے ہیں.میں نے سمجھا کہ چونکہ یہ خدا تعالیٰ کا قائم کردہ ایک نظام ہے اگر اس نظام کو بیرونی ملکوں میں بھی جاری کر دیا جائے تو وہاں کے مبلغوں کے لیے اور مشنوں کے لیے اور مسجدوں کی تعمیر کے لیے بہت بڑی سہولت پیدا ہو جائے گی.غرض یہ خدا کا ایک بہت بڑا نشان ہے جو اُس نے اپنے زندہ ہونے کے ثبوت کے طور پر تمہارے سامنے ظاہر کیا ہے.اب تمہارا کام ہے کہ تم ان نشانات سے فائدہ اُٹھاؤ اور خدا تعالیٰ کے دامن کو ایسی مضبوطی سے پکڑ لو کہ وہ تم سے کبھی جدا نہ ہو تمہیں اگر ایک

Page 289

خطبات محمود جلد نمبر 37 276 $1956 چھوٹی سے چھوٹی چیز بھی مل جائے تو تم اسے ضائع کرنا کبھی پسند نہیں کرتے.اگر تمہیں دو آ نے مل جائیں تو تم ان دو آنوں کا ضائع ہونا بھی برداشت نہیں کر سکتے ، اگر تمہیں کہیں می سے ایک روپیہ مل جائے تو تم اُس ایک روپیہ کا ضیاع بھی برداشت نہیں کر سکتے ، اگر تمہارے پاس ایک زئیل 5 اور مریل گھوڑا ہو تو تم اُس مریل گھوڑے کو ضائع کرنا بھی پسند نہیں کرتے پھر یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ تمہارے پاس ایک زندہ خدا ہو اور تم اُس سے غافل ہو.جب تم اُس کا ہاتھ پکڑ لو گے تو وہ تمہیں کبھی نہیں چھوڑے گا.بلکہ ہر موقع پر تمہاری غیر معمولی نشانات سے تائید فرمائے گا.اگر تمہارے جاہل باپ دادا نے یہ ضرب المثل بنائی ہوئی تھی کہ ”ہتھ پھڑے دی لاج رکھنا اور وہ جس کا ہاتھ پکڑ لیتے تھے اُسے کبھی نہیں چھوڑتے تھے تو کیا تم سمجھتے ہو کہ اگر تم نے مضبوطی کے ساتھ اپنے خدا کے دامن کو پکڑ لیا تو وہ تمہاری لاج نہیں رکھے گا؟ وہ ایسی لاج رکھے گا کہ دنیا میں کسی نے ایسی لاج نہ رکھی ہو گی.اور وہ تمہارا اس طرح ساتھ دے گا کہ تمہارے ماں باپ نے بھی تمہارا اُس طرح کبھی ساتھ نہیں دیا ہو گا“.الفضل 10 جولائی 1956ء 1 : الفاتحة : 2 2 : البقرة: 256 3 : تذکرہ صفحہ 119 طبع چہارم 4 : رسالہ الوصیت روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 319.نظارت اشاعت ربوہ 2008ء 5 : زٹیل : گھٹیا، نکما ، جو کوئی کام نہ آ سکے (اردو لغت تاریخی اصول پر.جلد 11 صفحہ 56 - کراچی 1990ء)

Page 290

$1956 277 26 خطبات محمود جلد نمبر 37 جماعت میں جب تک اخلاص قائم رہے گا اللہ تعالیٰ اپنی نصرت و تائید کے ذریعہ اپنے زندہ ہونے کا ثبوت دیتا رہے گا (فرمودہ 6 جولائی 1956ء بمقام مری) تشهد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: ” میں نے پچھلے خطبہ میں بیان کیا تھا کہ ہمارا خدا اپنے زندہ ہونے کے ثبوت دیتا چلا جاتا ہے.چنانچہ اس ہفتہ بھی برابر اس کی تائید میں خطوط آتے رہے.ایک تو پھر اُس غیر ملک سے جس کا میں نے پچھلے خطبہ میں ذکر کیا تھا خط آیا ہے کہ ہم ایک اور احمدی کے پاس گئے اور اُس نے پریس کے لیے سو پونڈ دے دیا.اس طرح اور لوگ بھی چندہ دے رہے ہیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ پریس کا معاملہ اب جلدی سمجھ جائے گا.اسی طرح پاکستان سے بھی غیر ملکی مشنوں کے متعلق امدادی خطوط آتے رہے.ایک خط باہر سے آیا ہے جس میں ایک دوست نے اطلاع دی ہے کہ انہوں نے پانچ سو پونڈ غیر ملکی مشنوں کی امداد کے لیے میں جمع کرا دیئے ہیں.گویا اس وقت تک بیرونی ملکوں سے قریباً بارہ سو پونڈ تک

Page 291

$1956 278 خطبات محمود جلد نمبر 37 بیرونی مشنوں کے لیے آچکا ہے اور اطلاعیں آ رہی ہیں کہ دوست کوشش کر رہے ہیں کہ اس کی فنڈ کو مضبوط کر کے سال بھر کے اخراجات پورے کر دیں.پس اللہ تعالیٰ خود ہی اپنے سلسلہ کا حافظ ہوتا ہے اور جہاں سے بظاہر کوئی امداد کی امید نہیں ہوتی وہیں سے اللہ تعالی امداد کی صورت پیدا کر دیتا ہے.مثلاً یہی اطلاع ملنے پر کہ بیرونی مشنوں کا روپیہ خرچ ہو چکا ہے اب تک کوئی ساڑھے گیارہ سو پونڈ باہر کی جماعتوں نے جمع کیے ہیں اور کچھ پاکستان کی جماعتوں نے بھی دیا ہے.اس کے معنے یہ ہیں کہ قریباً سولہ ہزار روپیہ چند دنوں میں جمع ہو گیا ہے.آجکل پونڈ کی قیمت تیرہ روپے سے اوپر ہے.پس ایک ہزار پونڈ کے معنے کم سے کم سوا تیرہ ہزار روپیہ کے ہیں اور ڈیڑھ سو پونڈ جو اس سے اوپر ہے اُس کا کوئی دو ہزار روپیہ بن جاتا ہے.پھر کچھ رقوم پاکستانی جماعتوں کی طرف سے بھی خزانہ میں آئی ہیں.مگر وہ اُسی وقت استعمال ہوسکیں گی جب گورنمنٹ ان کے بدلہ میں ہمیں پونڈ دے گی.بہر حال ایک رقم تو جمع ہی ہو گئی ہے جس سے فائدہ اُٹھایا جا سکتا ہے..پس اللہ تعالیٰ اپنے زندہ ہونے کا ثبوت ہمیشہ دیتا چلا آیا ہے اور قیامت تک دیتا چلاتی جائے گا اور یہ سلسلہ اُس وقت تک جاری رہے گا جب تک ہماری جماعت میں مخلصوں کا گروہ موجود رہے گا.اللہ تعالیٰ کے فضل دو قسم کے ہوتے ہیں.ایک وہ فضل ہوتے ہیں جو جماعتی طور پر نازل ہوتے ہیں.اور ایک وہ فضل ہوتے ہیں جو افراد پر نازل ہوتے ہیں.افراد کے لحاظ سے اللہ تعالیٰ کے فضل اُس وقت تک نازل ہوتے رہتے ہیں جب تک مخلص وجود دنیا میں قائم رہتے ہیں اور جماعتی طور پر اُس کے فضل اُس وقت تک نازل ہوتے رہتے ہیں جب تک افراد کی اکثریت کم سے کم ادنی درجہ اخلاص کا قائم رکھتی ہے.جب کسی جماعت کی اکثریت اخلاص کا ادنی درجہ قائم رکھتی ہے تو اللہ تعالیٰ اپنے فضل اُس پر نازل کرتا رہتا ہے اور جب بعض افراد اپنے اخلاص کی وجہ سے خاص درجہ حاصل کر لیتے ہیں تو اللہ تعالیٰ اُن پر بھی فضل نازل کرتا ہے اور اُن کی خاطر ساری جماعت پر بھی فضل نازل کرتا ہے اور یہ سلسلہ اسی طرح چلتا چلا جاتا ہے.(الفضل 13 جولائی 1956ء)

Page 292

$1956 279 27 خطبات محمود جلد نمبر 37 مومن کو اپنی ذات میں بھی معجزات دیکھنے کی کوشش کرنی چاہیے تا کہ اللہ تعالیٰ کی ذات پر اسے نیا یقین اور نئی معرفت حاصل ہو دعائیں کرنے ، درود پڑھنے اور ذکر الہی کرنے کی عادت ڈالو اور تقوی وطہارت اپنے اندر پیدا کرنے کی کوشش کرو (فرمودہ 13 جولائی 1956ء بمقام مری) تشهد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: میں نے ایک گزشتہ خطبہ جمعہ میں جو ابھی چند دن ہوئے پڑھا تھا بیان کیا تھا کہ سورۃ فاتحہ ہمیں اس امر کی طرف توجہ دلاتی ہے کہ ہمارا خدا ایک زندہ خدا ہے.میرے اس خطبہ کے بعد تحریک جدید کے چندہ کے متعلق مختلف جماعتوں کی طرف سے جو رپورٹیں آئی ہیں اُن سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہماری جماعت کو اپنے وعدے پورا کرنے کی خاص لور پر توفیق عطا فرمائی ہے.چنانچہ آج کی رپورٹ میں لکھا تھا کہ جس طرح جولائی کے

Page 293

$1956 280 خطبات محمود جلد نمبر 37 6* مہینہ میں دوستوں نے تحریک جدید کے وعدوں کی ادائیگی کی طرف توجہ کی ہے اگر اسی طرح انہوں نے اگست میں بھی توجہ کی تو ہمیں امید ہے کہ ہم اگست کے آخر تک اپنے بجٹ کا تمام روپیہ پورا کرنے کے قابل ہو جائیں گے.اسی طرح پاکستان سے باہر کی جماعتوں نے بھی اس چندہ میں خاص طور پر حصہ لیا ہے.چنانچہ اس وقت تک نو سو پاؤنڈ کے قریب بیرونی جماعتوں نے جمع کر دیا ہے اور ابھی بہت سی جماعتوں کے چندے ایسے ہیں جو اس میں شامل نہیں.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ خود ہی اپنی جماعت کے کاموں کو سدھارتا ہے.لیکن جہاں مجھے دوستوں کی اس توجہ سے خوشی ہوئی وہاں مجھے ایک رنج بھی پہنچا.آخر وہ لوگ جنہوں نے جولائی میں اپنے وعدے پورے کیے ہیں اُن کے پاس کوئی روپے تو جمع نہیں تھے.انہوں نے بہر حال اس کے لیے قرضے لیے ہیں.اگر ان کے پاس روپیہ جمع ہوتا تو وہ کی پہلے کیوں نہ دے دیتے.پس اب اِس ادائیگی کی وجہ سے اُن پر یقینا قرض کا ایک بوجھ آ پڑا ہے.اس لیے میں نے پہلے بھی جماعت کے دوستوں کو بارہا توجہ دلائی ہے اور اب پھر توجہ دلاتا ہوں کہ آپ لوگ اپنے اخراجات کو ایسے رنگ میں کم کرنے کی کوشش کریں کہ جماعتی چندے سہولت کے ساتھ ادا کر سکیں ورنہ کسی خاص مہینہ میں آکر اپنے اوپر بوجھ ڈالنے کے معنے ہوتے ہیں کہ پانچ چھ مہینے اس قرض کے ادا کرنے کی وجہ سے اپنے بیوی بچوں کی صحت کو خراب کر دیا جائے کیونکہ جو شخص کسی سے قرض لے کر چندہ دے گا اُس نے خود روپیہ پس انداز نہیں کیا ہو گا.اسے قرض خواہ چھوڑے گا نہیں.نتیجہ یہ ہوگا کہ اُسے غیر معمولی طور پر اپنے اخراجات کم کرنے پڑیں گے اور اس طرح اپنی اور اپنے بیوی بچوں کی صحت کو وہ نقصان پہنچائے گا.اگر اپنی آمد میں سے ہی وہ چندہ ادا کرنے کی کوشش کرتا اور غیر ضروری اخراجات کو ی کم کر دیتا تو جلدی ادا کرنے کی وجہ سے اُسے ثواب بھی زیادہ ملتا اور قرض کی مصیبت سے بھی جاتا.لیکن جب وہ قرض لے کر چندہ ادا کرتا ہے تو بیشک اس میں نیکی تو ہوتی ہے لیکن اسے ذلیل بھی ہونا پڑتا ہے.کیونکہ قرض دینے والا بعض دفعہ بختی پر اتر آتا ہے اور کہتا ہے کہ میرا قرض جلد واپس کرو.پھر بعض لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جو قرض لینے میں تو دلیر ہوتے ہیں مگر واپس کرنے میں سُست ہوتے ہیں.گو مومن ایسی حالت میں صبر سے کام لیتا

Page 294

$1956 281 خطبات محمود جلد نمبر 37 اور اپنے نفس پر تنگی برداشت کر کے خاموش ہو جاتا ہے.چنانچہ ابھی ایک دوست نے لکھا کہ مسجد ہیمبرگ کے لیے میں نے کچھ چندہ دیا تھا لیکن میں نے یہ نیت کی ہوئی تھی کہ ایک سو پچاس روپیہ اور بھی دوں گا اور یہ نیت میں نے اس لیے کی تھی کہ ایک دوست نے مجھے.ایک سو پچاس روپے قرض لیا تھا.میں سمجھتا تھا کہ وہ وصول ہو گئے تو مسجد ہیمبرگ کے لیے دے دوں گا.لیکن انہوں نے ادا نہ کیے.اس ہفتہ میں میں نے سمجھا کہ مجھے ابھی سے اُن کا کرنا چاہیے اور تنخواہ ملنے پر فوراً اُن کے پاس پہنچ جانا چاہیے تا کہ وہ روپیہ ادا کر چنانچہ میں ان کے پاس گیا مگر جب میں وہاں پہنچا تو مجھے معلوم ہوا کہ وہ پہلے ہی تنخواہ خرچ کر چکے ہیں.اب میں نے ارادہ کر لیا ہے کہ کسی اور دوست سے قرض لے کر مسجد کے لیے دے دوں تاکہ میں نے جو نیت کی ہوئی ہے وہ پوری ہو جائے.گویا اس طرح ان پر دُہری مصیبت آ گئی.ایک طرف تو انہیں یہ کوشش کرنی پڑے گی کہ جس نے اُن سے قرض لیا تھا اُس سے وہ اپنا قرض وصول کریں اور دوسری طرف جس سے اب قرض لیں گے وہ ان کی پر سوار ہو گا اور کہے گا کہ میرا قرض جلد ادا کریں اور اس طرح خوامخواہ ان کی گردن جان ہلکان ہو گی.پس اصل طریق یہی ہے کہ انسان اپنے اخراجات کو ایسے رنگ میں کم کرے کہ خود بخود بچت ہوتی چلی جائے اور وہ آسانی سے سلسلہ کے چندے ادا کر سکے.لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ اپنے بیوی بچوں کو بھی ساتھ شامل کیا جائے اور انہیں کہا جائے کہ میں نے اتنا خدا کا حق دینا ہے تم بھی میرا ساتھ دو اور مل کر اخراجات کو کم کرنے کی کوشش کرو تا کہ یہ بوجھ اُتر جائے.پھر اپنے اُن دوستوں تک بھی جو ابھی ہماری جماعت میں شامل نہیں یہ بات برابر پہنچاتے رہو کہ غیر ممالک میں ہماری جماعت کے ذریعہ اسلام کی عظیم الشان خدمت ہو رہی ہے اور مساجد تیار کی جارہی ہیں تم بھی مسلمان ہو اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نام کو بلند کرنا چاہتے ہو، اگر تم ثواب لینا چاہتے ہو تو تم بھی اس نیک کام میں شریک ہو جاؤ اور ہمیں چندہ دو تا کہ خدا کا نام بلند ہو اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان دنیا پر ظاہر ہو.

Page 295

خطبات محمود جلد نمبر 37 282 $1956 میں نے دیکھا ہے بعض لوگ جب عمدگی سے اپنے دوستوں کو سمجھاتے ہیں اور اُن پر حقیقت واضح کرتے ہیں تو وہ اس غرض کے لیے کافی روپیہ دینے کے لیے تیار ہو جاتے ہیں.چنانچہ ایک دوست نے مساجد کے متعلق اپنے حلقہ اثر میں تحریک کی تو تین چار دن کے اندر اندر چھ ہزار کے وعدے ہو گئے.پس اگر ہماری جماعت کے دوست انفرادی طور پر دوسروں کو تحریک کرتے رہیں تو اِس طرح بھی ہزاروں روپیہ آ سکتا ہے.ہاں! جماعتی طور پر مانگنا درست نہیں کیونکہ اس طرح جماعت کی ذلت ہوتی ہے اور پھر ہو سکتا ہے کہ مولوی انہیں جوش دلا دیں یا وہ جماعت کو طعنہ دینے لگ جائیں.لیکن اگر ایک دوست اپنے دوست کو انفرادی طور پر تحریک کرے تو وہ بالکل اور بات ہو گی.فرض کرو زید اپنے دوست کو تحریک کرتا ہے اور اسے کہتا ہے کہ فلاں مسجد کے لیے چندہ ہو رہا ہے اگر تم نے بھی ثواب لینا ہے تو اس میں شریک کی ہو جاؤ تو چندہ مانگنے کا وہ خود ذمہ دار ہوتا ہے.وہ اس کو تو طعنہ دے سکتا ہے مگر سلسلہ کو نہیں دے سکتا اور سلسلہ کو بہر حال ہر قسم کے طعنہ سے بچانا ہمارے لیے ضروری ہے.اور اگر ذاتی طور پر وہ اسے کوئی طعنہ دے گا تو وہ اُسے کہہ دے گا کہ تم کوئی مسجد بنانے لگے تو مجھ سے چندہ لے لینا.مثلاً روس میں تم مسجد بناؤ گے تو اُس وقت میرے پاس بھی آ جانا میں بھی تمہیں چندہ دے دوں گا.لیکن اگر سلسلہ مانگے تو وہ طعنہ دے سکتا ہے بلکہ مخالف علماء بھی کہہ سکتے ہیں کہ یہ لوگ دعوای تو یہ کرتے ہیں کہ ہم ساری دنیا میں اسلام کی تبلیغ کر رہے ہیں لیکن روپیہ ہم سے بھی مانگ لیتے ہیں اور سلسلہ کو اُن کے طعنوں سے بچانا ضروری ہے ورنہ پاکستان کے مختلف دیہات میں جہاں جہاں بھی احمدی زیادہ ہیں اور وہاں مسجدیں ہیں اُن مسجدوں کے بنوانے میں احمدیوں نے ہی سب سے زیادہ حصہ لیا ہے.گزشتہ فسادات کے دنوں میں ہی لائکپور کے ضلع میں ایک واقعہ ہوا.ایک جگہ ہمارے ایک آسودہ حال احمدی تھے.انہوں نے مسجد بنوا دی.جب فساد ہوا تو تمام لوگ اکٹھے ہو گئے اور انہوں نے اُس احمدی سے کہا کہ ہم تمہیں اس مسجد میں نماز نہیں پڑھنے دیں گے کیونکہ مولوی کہتے ہیں کہ تم کافر ہو.وہ کہنے لگا کہ جو تمہاری مسجد ہے خدا کی نہیں.اس مسجد میں میں بھی نماز پڑھنے کے لیے تیار نہیں.چنانچہ اُسی دن سے اُس نے گھر میں نماز پڑھنی

Page 296

خطبات محمود جلد نمبر 37 283 $1956 شروع کر دی.پولیس کے افسروں کو اس بات کا علم تھا کہ یہ مسجد اس نے بنوائی ہے اور اب اس کو مسجد میں نماز پڑھنے سے روکا جا رہا ہے.چنانچہ انہیں یہ بات بُری معلوم ہوئی اور انہوں نے مسلمانوں کو سمجھایا کہ تمہیں شرم نہیں آتی کہ تم اس شخص کو نماز پڑھنے سے روک رہے ہو جس نے خود یہ مسجد بنوائی ہے.اب جاؤ اور اس سے معافی مانگو.چنانچہ وہ آئے اور انہوں نے معافی مانگی مگر اس نے پھر یہی کہا کہ جو مسجد تمہاری ہے خدا کی نہیں ہے اُس مسجد میں میں نماز پڑھنے کے لیے تیار نہیں.اس پر دوسری دفعہ پھر تمام مسلمان اور پولیس کے بڑے بڑے افسر اس احمدی کے پاس گئے اور اسے کہنے لگے کہ ہم سارے مل کر آپ سے معافی مانگتے ہیں.آپ چلیں اور مسجد میں نماز پڑھیں.تو خدا تعالیٰ کے فضل سے جہاں بھی ہماری جماعت کی تعداد زیادہ ہوتی ہے اور وہاں مسجدیں بنتی ہیں اُن مسجدوں کے بنانے میں زیادہ تر حصہ ہماری جماعت کے افراد کا ہی ہوتا ت پس بیشک پہلے بھی ہماری جماعت کے افراد مساجد کی تعمیر میں حصہ لیتے رہتے ہیں لیکن اگر انفرادی طور پر کوئی شخص طعنہ دے تو اُسے ہماری جماعت کے دوست کہہ دیا کریں کہ جب تم کوئی مسجد بنانے لگو تو ہم سے چندہ لے لینا.اس طرح فرد کو بھی طعنہ نہیں ملے گا اور جماعت کو بھی نہیں ملے گا.وہ کہے گا میں یہ چندہ تم سے ذاتی طور پر اپنی دوستی اور محبت کی بناء مانگ رہا ہوں اور دوسرا شخص بھی سمجھے گا کہ اس نے دوستی کے رنگ میں مجھ سے ایک چندہ مانگا ہے اور ساتھ ہی کہہ دیا ہے کہ اس کا بدلہ مجھ سے مانگنا میں تمہیں دینے کے لیے تیار ہوں.اس لیے اس پر بھی کوئی اعتراض نہیں ہو سکتا.غرض اگر ہماری جماعت کے دوست اس طریق پر عمل کریں تو میں سمجھتا ہوں کہ چار پانچ بلکہ چھ لاکھ روپیہ تک سالانہ اکٹھا ہوسکتا.اور ہماری جماعت ہر سال دو دو مسجدیں بھی یورپ میں بنا سکتی ہے.ہے یورپ کے جو منظم اور مشہور ملک ہیں وہ ہیں بائیس ہی ہیں.لندن میں ہم پہلے ہی مسجد بنا چکے ہیں، ہالینڈ میں بھی بنا چکے ہیں، نیورمبرگ میں مسجد بنانے کی تجویز ہے.رہ گیا فرانس، سوئٹزر لینڈ، زیکو سلویکیا، آسٹریلیا اور اٹلی.یہ پانچ ملک ہیں جن میں ہم نے مساجد بنانی ہیں لیکن جیسا کہ میں نے بتایا ہے اگر ہمارے احمدی دوست عقل سے کام کریں دوست

Page 297

$1956 284 خطبات محمود جلد نمبر 37 تو میرے خیال میں پہلے سال ہی یہ پانچ مسجد میں بن سکتی ہیں اور صرف بارہ یا چودہ باقی جاتی ہیں.ره پھر امریکہ کی باری آ جائے گی.امریکہ چونکہ ایک وسیع ملک ہے اس لیے اس میں شاید ایک ہزار مسجد کی ضرورت ہوگی.لیکن اللہ تعالیٰ کی سنت ہے کہ جب کوئی شخص کسی نیک کام کا آغاز کرتا ہے تو پھر اُس میں ایسی برکت پیدا ہو جاتی ہے کہ وہی لوگ جو ابتدا میں اس کی طرف متوجہ نہیں ہوتے وہ خود بڑے شوق سے اس میں حصہ لینے کے لیے تیار ہو جاتے ہیں.جب مسلمان مختلف اخبارات میں یہ خبریں پڑھیں گے کہ فلاں ملک میں بھی مسجد بن گئی وی ہے، فلاں ملک میں بھی مسجد بن گئی ہے اور انہیں بتایا جائے گا کہ تم نے تو تھوڑا سا چندہ دیا تھا روپیہ ہم نے اپنے پاس سے دیا تھا اور اس طرح یورپ میں ہیں مسجدیں بن گئی ہیں.اب ایک سو مسجد امریکہ میں بنانے کا ارادہ ہے تو وہ شخص جس نے پہلے صرف ایک روپیہ دیا تھا پھر تمہیں سو روپیہ دینے کے لیے بھی تیار ہو جائے گا.میں نے دیکھا ہے پچھلے دنوں جب میں ولایت سے واپس آیا تو ایک سنار عورت نے دو ہزار روپیہ مجھے مساجد کے لیے بھجوا دیا.اُس سے میں نے سمجھا کہ مسجدیں چونکہ خدا کا گھر ہیں اس لیے خدا خود لوگوں کے دلوں میں مساجد بنوانے کی تحریک پیدا کرتا رہتا ہے.یہی حال حج کا ہے.آجکل گیارہ بارہ سو میں حج ہو جاتا ہے.مگر حج پر جانے والے اکثر غرباء ہی ہوتے ہیں.وہ امراء جو گیارہ گیارہ بارہ بارہ سو روپیہ ایک ایک پارٹی پر خرچ کر دیتے ہیں وہ حج کے لیے نہیں جاتے.جانے والے وہی ہوتے ہیں جو دال روٹی کھا کر گزارہ کرتے اور تھوڑا بہت روپیہ بچاتے رہتے ہیں یا اپنی بھینسیں فروخت کرتے ہیں، دو تہیاں 1 بیچتے ہیں، مکان اور زمین فروخت کرتے ہیں اور روپیہ لے کر حج کو چلے جاتے ہیں.پس وہی شخص جو آج مساجد کے لیے صرف ایک روپیہ دیتا ہے جب مسجدوں کی تصویریں شائع ہوں گی اور اخبارات میں چرچا ہو گا تو اگلی مساجد کے لیے وہ پہلے سے بہت زیادہ روپیہ دینے کے لیے تیار ہو جائے گا.اور جب اُسے بتایا جائے گا کہ اگر اُس نے معقول مقدار میں چندہ دیا تو اُس کا نام بھی مسجد پر لکھا جائے گا تو اُس کا شوق اور زیادہ تیز ہو

Page 298

خطبات محمود جلد نمبر 37 285 $1956 جائے گا اور وہ چاہے گا کہ میں بھی اس میں حصہ لے کر اپنا نام ایک مستقل یادگار کے طور پر ی محفوظ کروا دوں.پس انفرادی طور پر دوسروں سے چندہ لینے کی کوشش کرنی چاہیے اور انہیں تحریص دلانی چاہیے کہ اگر تم معقول چندہ دو گے تو ہم مسجد بنوانے والوں سے لڑ جھگڑ کر تمہارا نام بھی مسجد پر لکھوانے کی کوشش کریں گے.پھر جب تم اُسے دکھاؤ گے کہ فلاں مسجد پر اتنے لوگوں کا نام لکھا ہوا ہے اگر تم روپیہ دو تو تمہارا نام بھی لکھوا دیا جائے گا تو وہ تمہیں ہزار روپیہ بھی آسانی کے ساتھ دینے کے لیے تیار ہو جائے گا کیونکہ لوگوں کے دلوں میں ایک شوق اور ایمان پایا جاتا ہے.سستی صرف ہماری جماعت کے افراد کی ہے کہ وہ ان کی طرف توجہ نہیں کرتے اور انہیں ایسے ثواب میں حصہ لینے کی تحریک نہیں کرتے.ہماری جماعت کے ایک بڑے تاجر ہیں.وہ 9 بھائی تھے جن میں سے سات آٹھ احمدی تھے اور ایک غیر احمدی تھے.ان کے غیر احمدی بھائی ہمیشہ مجھے قادیان میں آکر ملا کرتے تھے.ایک دفعہ قادیان میں وہ مسجد مبارک میں مجھے آ کر ملے اور کہنے لگے کہ بڑی مصیبت ہے مبائعین اور غیر مبائعین کا آپس میں جھگڑا شروع ہے اور کچھ سمجھ میں نہیں آتا کہ انسان کدھر جائے.میں نے کہا آپ کے لیے تو بڑی آسانی ہے.مولوی محمد علی صاحب نے ایک رستہ کھول دیا ہے آپ شوق سے جائیں اور اُن کی بیعت کر لیں.آخر آپ کو کفر و اسلام اور نماز اور جنازہ وغیرہ کے مسائل کی وجہ سے ہی دقت پیش آ سکتی ہے سو یہ دِقت مولوی محمد علی صاحب نے دور کر دی ہے.اب مصیبت کس بات کی ہے.آپ جائیں اور اُن کی بیعت کر لیں.اس پر وہ ہنس کر کہنے لگے یہی تو مصیبت ہے ”ادھواڑے وچہ نہیں رہیا جاندا.یعنی آدھے راہ میں کھڑے ہو جانے کو جی نہیں چاہتا.میں نے کہا جب آپ مانتے ہیں کہ وہ آدھا راستہ ہے تو سیدھی طرح اصل مقام پر ہی کیوں نہیں پہنچ جاتے.تو لوگوں کے دل ہمارے سلسلہ کی صداقت کو تسلیم کرتے ہیں صرف ہماری جماعت کے افراد کی یہ سستی ہے کہ وہ اس جذبہ سے فائدہ اُٹھانے کی کوشش نہیں کرتے.آج ہی ایک غیر احمدی کا خط آیا ہے.وہ لکھتے ہیں کہ میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ میرے لیے پھانسی کی سزا تجویز ہوئی ہے اور ایک گڑھا کھودا گیا ہے جس میں میں

Page 299

$1956 286 خطبات محمود جلد نمبر 37 کھڑا ہوں اور میں سمجھتا ہوں کہ یہیں مجھے پھانسی دی جائے گی اور لوگ مجھ پر مٹی ڈال کر چلے جائیں گے.میں خواب میں سخت ڈر رہا ہوں کہ اب کیا کروں.اتنے میں مجھے دو گروہ نظر ئے.ایک غیر احمدیوں کا تھا اور ایک احمدیوں کا تھا.پہلے غیر احمدیوں کی طرف سے میرے پاس ایک آدمی آیا اور اُس نے کہا ہم تمہارے لیے دعا کرتے ہیں بشرطیکہ تم اس بات پر راضی ہو جاؤ کہ احمدیت کی طرف توجہ کرنا تم چھوڑ دو گے.اس پر میرے دل میں کمزوری پیدا ہوئی اور میں نے کہا اچھا تم دعا کرو.چنانچہ انہوں نے بھی دعا کے لیے ہاتھ اُٹھائے اور میں نے بھی ہاتھ اُٹھا لیے مگر لمبے عرصہ تک دعا کرنے کے باوجود میں سمجھتا رہا کہ میری سزا اب تک قائم ہے.اس کے بعد میں نے دیکھا کہ احمدی گروہ میں سے ایک شخص میرے پاس آیا اور اس نے کہا کہ کیا ہم تمہارے لیے دعا کریں کہ خدا تمہیں اس مصیبت سے بچائے؟ میں نے کہا ضرور کریں.چنانچہ انہوں نے بھی دعا کے لیے ہاتھ اُٹھا لیے.وہ کہتے ہیں ابھی احمدیوں کو دعا کرتے ہوئے پانچ منٹ بھی نہیں گزرے تھے کہ میں نے دیکھا ایک سائیکل سوار اپنے سائیکل کو دوڑاتا چلا آ رہا ہے اور اُس کے ہاتھ میں ایک کاغذ ہے.جب وہ قریب پہنچا تو اس نے آ کر کہا کہ تمہیں بری کر دیا گیا ہے.دیکھو! یہ خدا کا کیسا تصرف ہے کہ اُس نے ایک غیر احمدی کو رؤیا کے ذریعہ بتا دیا کہ احمدیت کچی ہے.اب خواہ وہ کمزوری دکھا کر احمدیت کو قبول کرنے سے ہچکچائے اللہ تعالیٰ نے اس پر جو حقیقت کھول دی ہے اس سے وہ انکار نہیں کر سکتا.یہاں ایک بڑا فوجی افسر ہے ایک دن اُس کے ایک ماتحت افسر نے اُس سے کہا کہ میں نے خواب دیکھی ہے کہ احمدیت کچی کی ہے.اُس بڑے افسر نے یہ بات سن کر کہا کہ تم تو خواب دیکھ کر بھی ایمان نہیں لائے اور میں نے تو کوئی خواب بھی نہیں دیکھی پھر تم مجھے کس طرح کہتے ہو کہ میں احمدیت کو قبول کر لوں.تو حقیقت یہی ہے کہ جب کوئی شخص احمدیت کی صداقت کے متعلق خواب دیکھ لیتا ہے تو اُس کے بعد خواہ وہ اپنی کمزوری کی وجہ سے بیعت نہ کرے وہ احمدیت کی صداقت کا اپنی ذات میں ایک ثبوت بن جاتا ہے اور جب بھی وہ کسی کے سامنے اپنی خواب بیان کرتا ہے دوسرا اُسے شرمندہ کرتا ہے کہ تو بڑا بزدل ہے کہ اتنی واضح خواب دیکھنے کے بعد بھی تو ایمان نہیں لایا.

Page 300

287 $1956 ت مہیا خطبات محمود جلد نمبر 37 بہر حال یہ اللہ تعالیٰ کے تصرفات ہیں اور انہی ذرائع سے وہ اپنے زندہ ہونے کا ثبوت کرتا رہتا ہے.اور جب تک لوگ خدا تعالیٰ سے اپنا تعلق قائم رکھیں گے یہ سلسلہ چلتا چلا جائے گا اور احمدیت ”دن دونی اور رات چوگنی ترقی کرتی جائے گی.ابھی آپ لوگوں نے الفضل میں پڑھا ہوگا کہ افریقہ کے وہ حبشی جن کے ماتحت عام طور پر لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ شاید انہیں عبادت کرنی بھی نہیں آتی وہ تہجد تک باقاعدگی سے ادا کرتے ہیں.چنانچہ اس میں ذکر آتا ہے کہ فلاں دوست نماز تہجد کے بعد کچھ دیر کے لیے لیٹ گئے تو انہوں نے یہ نظارہ دیکھا جس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ باقاعدگی سے تہجد کی نماز پڑھتے ہیں.پھر انہوں نے ایسی ایسی سچی خواہیں دیکھی ہیں کہ پڑھ کر حیرت آتی ہے.ایک دوست بیان کرتے ہیں کہ ایک رات جب کہ میں نماز تہجد کے بعد کچھ دیر کے لیے لیٹ گیا.میں نے رویا میں دیکھا کہ دو شخص جنہوں نے لمبے لمبے چوغے پہنے ہوئے ہیں آئے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم مشرق سے آئے ہیں اور تمہیں بشارت دیتے ہیں کہ جس مہدی کا دیر سے انتظار کیا جا رہا تھا وہ آ چکا ہے.چنانچہ کچھ عرصہ کے بعد ہمارے شہید مولوی نذیر احمد صاحب علی (جو اس وجہ سے کہ خدا تعالیٰ کے راستہ میں اُس کے دین کی خدمت کرتے ہوئے فوت ہوئے ہیں یقیناً شہید ہیں) وہاں آئے.انہوں نے اس وقت ویسا ہی لباس پہنا ہوا تھا جیسے خواب میں انہیں دکھایا گیا تھا.چنانچہ ان کی تبلیغ پر اس دوست نے بیعت کر لی.اسی طرح ایک اور دوست لکھتے ہیں کہ ان کے پیر نے انہیں بتایا ہوا تھا کہ مہدی ظاہر ہو چکا ہے لیکن یہاں نہیں بلکہ کسی اور ملک میں ظاہر ہوا ہے اور عنقریب اس کے ظہور کی خبر اس ملک میں بھی پہنچنے والی ہے.اس کے چند سال بعد مولوی نذیر احمد صاحب علی وہاں گئے جنہوں نے احمدیت کی تبلیغ کی اور وہ ایمان لے آیا.ایک اور دوست نے بیان کیا کہ میں نے خواب میں دیکھا کہ میں مسجد کے اردگرد سے گھاس اُکھیٹر رہا ہوں.پھر کچھ دیر آرام کرنے کے لیے میں ایک درخت کے نیچے کھڑا ہو گیا.اتنے میں میں نے کیا دیکھا کہ ایک اجنبی شخص قرآن کریم اور بائبل ہاتھ میں پکڑے ہوئے میری طرف آیا اور اُس نے مجھ سے باتیں شروع کر دیں.اس خواب کے

Page 301

$1956 288 خطبات محمود جلد نمبر 37 ایک ہفتہ بعد ٹھیک اسی طرح میں کدال ہاتھ میں لے کر مسجد کی صفائی کر رہا تھا کہ میں نے تھکان محسوس کی اور ایک درخت کے نیچے چلا گیا.ابھی چند منٹ ہی گزرے تھے کہ سامنے سے مولوی نذیر احمد صاحب علی آگئے اور انہوں نے مجھے سے رہائش وغیرہ کے لیے جگہ دریافت کی.میں نے انہیں دیکھتے ہی پہچان لیا کہ یہی وہ شخص تھے جو مجھے خواب میں دکھائی دیئے تھے.چنانچہ میں نے انہیں اپنا گھر رہائش کے لیے پیش کر دیا.اس کے بعد میں نے اور لوگوں کو بتایا کہ میں نے جو خواب دیکھا تھا وہ پورا ہو گیا ہے اور اب وہی دوست جنہیں میں نے رویا میں دیکھا تھا میرے گھر میں رہتے ہیں.چنانچہ ان کی تبلیغ پر اکثر لوگوں نے احمدیت قبول کر لی.غرض وہ ممالک جہاں کسی زمانہ میں عیسائیت غلبہ پا رہی تھی اب وہاں خوابوں کے ذریعہ اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کو کھڑا کر رہا ہے جو سلسلہ کے لیے بڑی بڑی قربانی کرنے کے لیے تیار کی ہو جاتے ہیں.چنانچہ ان خوابیں دیکھنے والوں میں سے بعض ایسے ہیں جو ہمارے سلسلہ کے مستقل مبلغ ہیں.اسی طرح ایک اور افریقن نوجوان کا میں نے ذکر کیا تھا کہ اُس نے یہ الفاظ کہے تھے کہ یہ تو ممکن ہے کہ دریا اپنا رستہ چھوڑ دے اور جس طرف بہہ رہا ہے اُس طرف کی بجائے اُلٹا بہنا شروع ہو جائے مگر یہ ممکن نہیں کہ میں احمدی ہوسکوں.مگر پھر وہی شخص احمدی ہوا اور و اس نے ایسا اخلاص دکھایا کہ جب ایک عیسائی اخبار نے اعلان کیا کہ ہم تمہارا اخبار اپنے پریس میں چھاپنے کے لیے تیار نہیں.اگر تمہارے خدا میں ہمارے خدا سے بڑھ کر طاقت ہے تو وہ اپنی طاقت کا کوئی کرشمہ دکھائے.تو باوجود اس کے کہ وہ پانچ سو پونڈ پہلے دے چکا تھا اس چیلنج پر اُس کی غیرت بھڑک اُٹھی اور اس نے ہمارے مبلغ سے کہا کہ آپ یہیں بیٹھیں میں ابھی واپس آتا ہوں.چنانچہ وہ اپنے گاؤں میں گیا اور اسی وقت پانچ سو پونڈ لا کر اس نے دے دیا.اب ہمارے مبلغ کے تازہ خط سے معلوم ہوا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے زندہ ہونے کا ایک اور ثبوت بھی دے دیا اور وہ یہ کہ وہی پر لیس والا جس نے ہمارے مبلغ کو لکھا تھا کہ ہم تمہارا اخبار اپنے پریس میں چھاپنے کے لیے تیار نہیں.اسی پریس والے کا ہمارے مبلغ کو خط

Page 302

$1956 289 خطبات محمود جلد نمبر 37 آیا ہے کہ آپ ہمارے پہلے خط کو منسوخ سمجھیں اور اسی پریس میں اپنا اخبار چھپوا لیا کریں.غرض اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی ہمیشہ مدد کرتا چلا آیا ہے اور مدد کرتا چلا جائے گا.دوستوں کو چاہیے کہ وہ دعائیں کرنے، درود پڑھنے اور ذکر الہی کرنے کی عادت ڈالیں اور تقوی وطہارت اپنے اندر پیدا کرنے کی کوشش کریں.وہ خدا جو حبشیوں کو سچی خوا ہیں دکھا سکتا اور اُن پر الہام نازل کر سکتا ہے جن کے متعلق انگریزی کتابوں میں یہاں تک لکھا ہے کہ بعض حبشی ایسے گند ذہن ہوتے ہیں کہ پندرہ پندرہ ہیں بیس سال تک انہیں پڑھایا جاتا ہے مگر وہ پچیس سال کی عمر کو پہنچتے ہیں تو سب کچھ بھول جاتے ہیں.وہ تمہیں کیوں سچی خوا ہیں نہیں دکھائے گا اور تم پر اپنا الہام کیوں نازل نہیں کرے گا.مگر یہ اسی طرح ہو سکتا ہے کہ جب تم بھی تہجد پڑھو اور درود پر زور دو اور دعاؤں اور ذکر الہی کی عادت ڈالو.میں نے پچھلے دنوں جماعت کے نوجوانوں کو اس امر کی طرف توجہ دلائی تھی جس پر میں نے دیکھا کہ بیسیوں نوجوانوں کے مجھے خط آنے شروع ہو گئے کہ ہم نے فلاں خواب بھی یا فلاں کشف دیکھا ہے یا فلاں الہام ہم پر نازل ہوا ہے.پس اگر آپ لوگ تقوی و طہارت اپنے اندر پیدا کریں اور دعاؤں اور ذکر الہی کی عادت ڈالیں اور تہجد اور درود پر التزام رکھیں تو اللہ تعالیٰ یقیناً آپ لوگوں کو بھی رویائے صادقہ اور کشوف سے حصہ دے گا اور اپنے الہام اور کلام سے مشرف کرے گا اور زندہ معجزہ در حقیقت وہی ہوتا ہے جو انسان کی اپنی ذات میں ظاہر ہو.بیشک حضرت ابراہیم علیہ السلام کے معجزے بھی بڑے ہیں، حضرت موسی علیہ السلام کے معجزے بھی بڑے ہیں، حضرت عیسی علیہ السلام کے معجزے بھی بڑے ہیں اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزے بھی بڑے ہیں.مگر جہاں تک انسان کی اپنی ذات کافی سوال ہوتا ہے اس کے لیے وہی معجزہ بڑا ہوتا ہے جس کا وہ اپنی ذات میں مشاہدہ کرتا ہے.دوسرے معجزات کے متعلق تو وہ خیال کر سکتا ہے کہ شاید ان کے بیان کرنے میں کوئی غلطی ہو گئی ہومگر جو خواب اُس نے آپ دیکھی ہو یا جو کشف اس نے خود دیکھا ہو اس کے متعلق وہ کوئی بہانہ نہیں بنا سکتا.اسے بہر حال ماننا پڑتا ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کی طرف سے تھا.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ چونکہ پہلے تمام انبیاء ہمارے بزرگ ہیں اور ان کے معجزات کی تعداد

Page 303

$1956 290 خطبات محمود جلد نمبر 37 بہت زیادہ ہے ہم ان کے معجزات کو بڑے معجزات کہتے ہیں لیکن حقیقتا وہ نشان جو اللہ تعالیٰ ہمیں براہ راست دکھاتا ہے اور جس کا ہم اپنی ذات میں مشاہدہ کرتے ہیں وہ ہمارے نقطہ نگاہ سے زیادہ شاندار ہوتا ہے کیونکہ ہمیں اپنی خوابوں یا کشوف یا الہامات کے متعلق کوئی شبہ نہیں ہو سکتا مگر دوسروں کے متعلق شبہ ہو سکتا ہے کہ شاید اس کا کوئی حصہ راوی بھول گیا ہو.یا اگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کسی اشتہار کا حوالہ دیا ہو اور اس میں اپنے کسی نشان کا ذکر کیا ہو تو کہنے والا کہہ سکتا ہے کہ وہ اشتہار میرے پاس نہیں.معلوم نہیں اس میں وہ بات درج بھی ہے یا نہیں.مثلاً حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا ایک مشہور کشف ہے جس میں میاں عبداللہ صاحب سنوری کے کپڑوں پر سرخی کے چھینٹے گرے تھے.اب خواہ یہ کتنا بڑا معجزہ ہو دوسرے کے دل میں شبہ پیدا ہو سکتا ہے کہ کہیں میاں عبداللہ صاحب ستوری نے جھوٹ نہ بولا ہو یا سرخی کے یہ چھینٹے کسی اور وجہ سے پڑ گئے ہوں اور انہوں نے اپنے پیر کی طرف منسوب کر دیا ہو.پس دوسروں کے معجزات خواہ کتنے بڑے ہوں انسان کو ان کے متعلق شبہ ہو سکتا ہے لیکن جو نشان اپنی ذات میں ظاہر ہوتا ہے اس کے متعلق کوئی شبہ نہیں ہوسکتا.دوسرے کے متعلق تو کہ سکتا ہے کہ ممکن ہے اس نے جھوٹ بولا ہو مگر اپنے متعلق وہ کس طرح کہہ سکتا ہے کہ شاید میں نے جھوٹ بولا ہو.یہ تو ایسی ہی بات ہے جیسے انسان اپنے متعلق شبہ کرنے لگے کہ میرا وجود کوئی نہیں یا یہ خیال کرنے لگے کہ میں کوئی اور آدمی ہوں.جس طرح اس میں کوئی شبہ نہیں ہو سکتا اسی طرح وہ خواب جو انسان نے خود دیکھا ہو یا وہ نشان جو خود اس کی ذات میں ظاہر ہوا ہو اس کے متعلق وہ یہ نہیں کہہ سکتا کہ شاید وہ جھوٹا ہو یا شاید اس کے متعلق مجھے کوئی غلط فہمی ہو گئی ہو.کل ہی ہم ہنس رہے تھے کہ ”نوائے وقت“ کے نمائندہ نے چودھری محمد علی صاحب وزیر اعظم پاکستان کی طرف منسوب کر کے کوئی بات کہی جس کی وزیر اعظم نے تردید کر دی مگر لطیفہ یہ ہے کہ نوائے وقت“ نے اس تردید کو شائع کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ہمارے نامہ نگار نے کہا ہے کہ اسے کوئی غلط فہمی ہو گئی ہے حالانکہ اس میں غلط فہمی کا کیا سوال تھا.صاف بات تھی کہ یا تو ”نوائے وقت“ کا نمائندہ چودھری محمد علی صاحب کو ملا تھا یا نہیں ملا تھا.

Page 304

خطبات محمود جلد نمبر 37 291 $1956 اگر نہیں ملا تھا اور جیسا کہ وزیر اعظم نے کہا ہے وہ اُن سے نہیں ملا تو اس میں غلط فہمی کی کونسی بات ہو گئی.غلط فہمی تو تب ہوتی جب مثلاً اُسے اُن کی شکل کے متعلق طبہ پڑ جاتا.وہ کسی کی اور شخص سے جا کر ملتا اور اُسے غلط فہمی ہو جاتی کہ میں چودھری محمد علی صاحب سے ملا ہوں جب وہ چودھری محمد علی صاحب سے ملا ہی نہیں اور جب انہوں نے نوائے وقت کے نمائندہ سے کوئی بات ہی نہیں کی تو اسے غلط فہمی کس بات میں ہو گئی.تو نبی خواہ کتنا بڑا ہو اُس کے معجزات کے متعلق انسان کو کچھ نہ کچھ شبہ ہو سکتا ہے مگر اپنے متعلق اسے کوئی شبہ نہیں ہو سکتا.چنانچہ دیکھ لو حضرت نوح علیہ السلام اور حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت عیسی علیہ السلام کتنے بڑے نبی ہوئے ہیں اور انہوں نے کتنے بڑے معجزات دکھائے ہیں مگر قرآن کریم بتاتا ہے کہ جب بھی کفار نشانات کا ذکر سنتے وہ یہی کہا کرتے تھے کہ اِن هَذَا إِلَّا أَسَاطِيرُ الْأَوَّلِينَ 2- یہ تو وہی کہانیاں ہیں جو ہم.اپنے باپ دادا سے سنی ہوئی ہیں.ہمیں کیا پتا کہ یہ درست بھی ہیں یا نہیں.لیکن درحقیقت یہ ان کی بے عقلی کی بات ہوتی ہے کیونکہ جب انہیں یہ کہا جائے کہ تم خدا تعالیٰ کے کلام پر ایمان لاؤ تو وہ کہتے ہیں ہم تو اپنے ماں باپ کے طریق کو نہیں چھوڑ سکتے اور جب ان کے سامنے خدا تعالیٰ کی آیات اور اس کے نشانات پیش کیے جائیں تو وہ کہتے ہیں کہ ہمارے باپ دادا بھی ایسی ہی باتیں کیا کرتے تھے اور اس طرح وہ اُن نشانات کو ماننے کے لیے تیار نہیں ہوتے تھے.لیکن اگر نوح اور ابراہیم اور موسیقی اور عیسی سے ہزارویں حصہ کے برابر بھی ان کو خوابیں آ جاتیں تو کیا وہ انہیں جھوٹا کہہ سکتے تھے؟ وہ کہتے ہم نے خود خواہیں دیکھی ہیں یہ جھوٹ کس طرح ہوسکتی ہیں.صاحبزادہ عبداللطیف صاحب شہید کو دیکھ لو انہوں نے جب احمدیت قبول کی اور وہ قادیان میں کچھ عرصہ ٹھہر نے کے بعد کا بل واپس گئے تو وہاں کے گورنر نے انہیں بلایا اور کہا کہ تو بہ کر لو.انہوں نے کہا میں تو بہ کس طرح کروں جب میں قادیان سے چلا تھا تو اُسی وقت میں نے رویا میں دیکھا تھا کہ مجھے ہتھکڑیاں پڑی ہوئی ہیں.پس جب مجھے خدا نے کہا تھا کہ تمہیں اس راہ میں ہتھکڑیاں پہنی پڑیں گی تو اب میں ان ہتھکڑیوں کو اُتروانے کی

Page 305

$1956 292 خطبات محمود جلد نمبر 37 کس طرح کوشش کروں.یہ ہتھکڑیاں میرے ہاتھوں میں پڑی رہنی چاہیں تا کہ میر رب کی بات پوری ہو.اب دیکھو! انہیں یہ وثوق اور یقین اسی لیے حاصل ہوا کہ انہوں نے خود ایک خواب دیکھا تھا.اسی طرح خواہ کوئی کتنا ہی قلیل علم رکھتا ہو اگر وہ کوئی خواب دیکھ لے تو بزدلی کی وجہ سے وہ اُس کو چھپا لے تو اور بات ہے ورنہ اپنی جھوٹی خواب پر بھی اسے اس سے زیادہ یقین ہوتا ہے جتنا اسے نوح اور ابراہیم اور موسیٰ اور عیسی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزات پر یقین ہوتا ہے.بیشک سب مسلمان قرآن کریم کی سچائی پر اپنے دل سے ایمان رکھتے ہیں مگر جسے خود کوئی خواب آ جائے یا وہ کوئی کشفی نظارہ دیکھ لے اسے اس خواب اور کشف پر دوسرے معجزات اور الہامات سے زیادہ یقین ہوتا ہے.پس ی اللہ تعالیٰ کے زندہ معجزات انسان کے ایمان کو بہت زیادہ تازہ کرتے ہیں یہ نسبت اُن معجزات اور نشانات کے جو بہت بڑے بڑے ہوتے ہیں اور پہلے صلحاء واولیاء اور اللہ تعالیٰ کے مامورین نے دکھائے ہوتے ہیں.پس مومن کو اپنی ذات میں بھی معجزات دیکھنے کی کوشش کرنی چاہیے تا کہ اللہ تعالیٰ اس کے ایمان کو بڑھائے اور اس کے اندر ایک نیا یقین اور نئی معرفت پیدا کرئے“.( الفضل 22 جولا ئی 1956ء) 1 : دو تہیاں: ( دو تہی ) ایک قسم کا دوہرا دو عرض کا موٹا کپڑا جس کے کنارے نیلے سرخ ہوتے ہیں اور جو دری کے اوپر یا چادر کے نیچے بچھایا جاتا ہے.استر والا کپڑا.2 : الانعام: 26 (اردو لغت تاریخی اصول پر جلد 9 صفحہ 587 کراچی دسمبر 1988ء )

Page 306

$1956 293 28.خطبات محمود جلد نمبر 37 لَبِنْ شَكَرْتُمْ لَأَزِيدَنَّكُمْ وَلَبِنْ كَفَرْتُمْ إِنَّ عَذَابِي لَشَدِيدُ ا خدا تعالیٰ ہمیشہ میرے ساتھ رہا ہے وہ اب بھی میری مدد کرے گا اور منافقت دکھانے والوں کو ذلیل و رسوا کرے گا (فرمودہ 20 جولائی 1956ء بمقام ربوہ) تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور نے مندرجہ ذیل آیت کی تلاوت فرمائی: يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا نُودِيَ لِلصَّلوة مِنْ يَوْمِ الْجُمُعَةِ فَاسْعَوْا إلَى ذِكْرِ اللَّهِ وَذَرُوا الْبَيْعَ 2 اس کے بعد فرمایا: اللہ تعالیٰ اس آیت میں فرماتا ہے اے مومنو! جب تم کو جمعہ کے دن نماز کے لیے پکارا جائے تو تم تجارت وغیرہ چھوڑ کر اللہ تعالیٰ کے ذکر کے لیے بھا گو.اس آیت کے الفاظ تو بظاہر یہی ہیں کہ جب تمہیں جمعہ کے دن پکارا جائے تو تم تجارت وغیرہ کو چھوڑ کر نماز کے لیے آ جاؤ لیکن در حقیقت جمعہ کے معنے اجتماع کے ہیں.اور اس آیت میں اس طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ جب کسی قوم کے افراد کی تعداد تھوڑی ہوتی ہے اور اس پر مصیبت کے دن ہوتے ہیں تو ان میں دین کی طرف رغبت اور اللہ تعالیٰ کی محبت زوروں پر ہوتی ہے.لیکن جب ان کی مصیبت

Page 307

$1956 294 خطبات محمود جلد نمبر 37 ہے.کے دن ختم ہو جاتے ہیں، ان کی تعداد بڑھ جاتی ہے اور قوت اور طاقت انہیں حاصل ہو جاتی ہے تو ان میں منافقت پیدا ہو جاتی ہے.پس اس آیت کا بظاہر تو یہ مفہوم ہے کہ اے مومنو! تمہیں جمعہ کے دن پکارا جائے تو تم تجارت وغیرہ چھوڑ کر نماز کے لیے آ جاؤ.لیکن درحقیقت اس میں یہ اشارہ کیا گیا ہے کہ اے مسلمانو! جب تم پر طاقت اور عظمت کا زمانہ آ جائے تو ایسا نہ ہو کہ تم سُست ہو جاؤ، تم میں منافقت پیدا ہو جائے اور تم دنیا کو دین پر مقدم کرنے لگ جاؤ.تم پہلے سے بھی زیادہ دین کی خدمت میں لگ جاؤ.حقیقت یہ ہے کہ جب کسی قوم کو طاقت اور قوت حاصل ہو جاتی ہے تو عام طور پر انہیں اپنی پہلی حالت بھول جاتی دس سال کی بات ہے کہ ہندوؤں نے قادیان پر حملہ کر کے احمدیوں کو وہاں سے نکلنے پر مجبور کر دیا اور وہ بے سروسامانی کی حالت میں پاکستان میں ہجرت کر کے آ گئے.اُس وقت لاکھوں آدمیوں کو رستہ میں ہی مار دیا گیا.ایک اندھیر مچا ہوا تھا اور ہر طرف چیخ و پکار بلند کی جا رہی تھی.اُس وقت میں لاہور آیا اور یہاں آ کر میں نے ایسا انتظام کیا کہ قادیان کے رہنے والوں کے لیے لاریاں میسر آ گئیں.چنانچہ میں نے اُس وقت حکم دے دیا کہ کوئی شخص پیدل چل کر نہ آئے.اگر کوئی شخص پیدل چل کر آیا تو وہ میرا نافرمان ہو گا.چنانچہ قادیان کے رہنے والے پوری حفاظت کے ساتھ لاریوں پر پاکستان آئے.صرف وہ لوگ جنہوں نے میرا حکم ہیں مانا تھا اور وہ لاریوں کا انتظار کیے بغیر قافلوں کے ساتھ پیدل چل پڑے تھے انہیں بٹالہ یا اس کے قریب دیہات کے پاس حملہ آوروں نے مار ڈالا.لیکن جن لوگوں نے صبر کا نمونہ دکھایا اور میرے حکم کے مطابق انہوں نے اُس وقت تک قادیان نہ چھوڑا جب تک کہ لاہور سے لا ریاں وہاں نہ پہنچ گئیں وہ برات کی طرح پاکستان آ گئے.پھر میں نے انہیں ربوہ میں لا کر بسایا اور اب ربوہ ایک شہر بن گیا ہے اور یہاں مختلف صنعتیں بھی شروع ہو گئی ہیں اور ہر ایک شخص کو نظر آ رہا ہے کہ خدا تعالیٰ اسے کس طرح ترقی دے رہا ہے.پاکستان کا ایک اخبار نویس جو لیڈر بھی ہے اور مسلم لیگ کا ممبر ہے 51 1950ء میں ربوہ آیا اور واپس جا کر اُس نے ایک مضمون لکھا کہ ایک طرف لاہور کے پاس امپروومنٹ ٹرسٹ ایک نئی بستی آباد کر رہا ہے اور دوسری طرف مرزائی ربوہ کا

Page 308

$1956 خطبات محمود جلد نمبر 37 غلام 295 شہر بسا رہے ہیں دونوں فریق اپنی اپنی جگہ پورا زور لگا رہے ہیں.اب ہم دیکھیں گے کہ ان دونوں بستیوں میں سے کونسی بستی پہلے آباد ہوتی ہے.اُس وقت میں نے درد صاحب کو کہا آپ اسے جواب میں ایک چٹھی لکھیں اور اس پر صرف ربوہ کا لفظ لکھ دیں اور کہیں کہ تمہارے مضمون کا یہی جواب ہے.اب دیکھ لو کہ لاہور اب بھی ٹوٹا پڑا ہے بلکہ جب وہاں سیلاب آیا اور متعدد مکانات گر گئے تو میں نے یہاں سے تین سو معمار وہاں بھیجا اور انہوں نے وہاں مکانات تعمیر کیے لیکن وہاں سے کوئی ایک معمار بھی یہاں نہیں آیا.پس ربوہ تو شہر کی حیثیت اختیار کر گیا لیکن لاہور ابھی ٹوٹا پڑا ہے.در حقیقت کسی قوم کا غلبہ اُسی وقت مفید ہوتا ہے جب وہ اپنے ماضی کو نہ بھلائے.طاقت اور قوت حاصل ہونے پر منافقت شروع نہ کر دے.تم دیکھو جب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لائے تھے اُس وقت مدینہ کے سارے باشندے یہودیوں کے تھے.یہودیوں نے پورے شہر پر قبضہ کر رکھا تھا لیکن محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے طفیل مدینہ والوں کو دوبارہ عزت ملی اور پھر انہوں نے دور دور کے علاقے فتح کر کے ان پر حکومت کی.لیکن ایک وقت وہ بھی آیا جب مدینہ کے ایک منافق نے یہ کہا تم مجھے مدینہ میں واپس لوٹنے دو.پھر تم دیکھو گے کہ مدینہ کا سب سے زیادہ معزز شخص یعنی وہ کم بخت خود سب سے زیادہ ذلیل شخص یعنی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو شہر سے نکال دے گا.3 وہ خبیث خود سے زیادہ ذلیل تھا اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سب سے زیادہ معزز تھے لیکن وہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سب سے زیادہ ذلیل قرار دینے لگ گیا.گویا ایک وقت تو یہ تھائی کہ سارا مدینہ یہودیوں کا غلام تھا لیکن جب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے طفیل اُن کی غلامی دور ہوئی، انہیں آزادی نصیب ہوئی تو ان میں سے ایک شخص کے دماغ میں یہ خیال پیدا ہو گیا کہ وہ آپ کو مدینہ سے نکال دے گا.لیکن خدا تعالیٰ کو بھی اپنے رسول کے لیے غیرت تھی.اس نے اس شخص کو فوراً سزا دی.اس کا بیٹا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا.وہ مخلص مسلمان تھا.اس نے عرض کیا يَا رَسُولَ اللہ ! آپ کو میرے باپ کے متعلق کوئی خبر پہنچی ہے ہے؟ آپ نے فرمایا ہاں پہنچی ہے.اس نے عرض کیا یارَسُولَ اللہ ! میرے باپ کے لیے قتل

Page 309

خطبات محمود جلد نمبر 37 296 $1956 مسلمان کے سوا اور کوئی سزا ہو سکتی ہے.يَارَسُولَ اللہ ! اگر آپ نے میرے باپ کو قتل کی سزا دینی ہو تو میں درخواست کرتا ہوں کہ آپ مجھے اجازت دیں کہ میں اُسے قتل کر دوں کیونکہ اگر اُسے کسی اور مسلمان نے قتل کیا تو ممکن ہے کسی وقت مجھے شیطان ورغلا دے اور میں اس مسلمان کو اپنے باپ کا قاتل ہونے کی وجہ سے مار دوں.آپ نے فرمایا ہمارا تمہارے باپ کو سزا دینے کا کوئی ارادہ نہیں.اس پر اُس نے کہا يَا رَسُولَ اللہ ! پھر بھی میری یہ درخواست ہے کہ اگر آپ میرے باپ کو قتل کی سزا دینا چاہیں تو اس کام کے لیے مجھے حکم دیا جائے تا آئندہ کسی وقت شیطان مجھے اس کے قاتل کے متعلق ورغلا نہ سکے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر فرمایا ہمارا اُسے قتل کرنے کا کوئی ارادہ نہیں لیکن اسے پھر بھی تسلی نہ ہوئی.جب واپس آیا اور مدینہ کے اندر داخل ہونے لگا تو وہ نوجوان اپنے گھوڑے پر سے گود کر دروازہ کے سامنے کھڑا ہو گیا اور اپنے باپ کو کہنے لگا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمہیں بیشک معاف کر دیا ہے لیکن میں نے تمہیں معاف نہیں کیا.میں جب تک رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہتک کا ازالہ نہ کر لوں گا تمہیں شہر میں داخل نہیں ہونے دوں گا.گھوڑے سے نیچے اتر اور اپنی زبان سے سب لوگوں کے سامنے یہ اقرار کر کہ میں مدینہ میں سب سے زیادہ ذلیل ہوں اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سب سے زیادہ معزز ہیں اور اگر تم نے ایسا نہ کیا تو میں تلوار سے ابھی تمہارا سر قلم کر دوں گا.چنانچہ وہ ڈر گیا اور گھوڑے سے نیچے اُتر آیا اور اس نے سب لوگوں کے سامنے کھڑے ہو کر اقرار کیا کہ میں مدینہ میں سب سے زیادہ ذلیل ہوں اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سب سے زیادہ معزز ہیں.اس کے بعد اُس کے بیٹے نے کہا چونکہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمہیں معاف کر دیا ہے اس لیے میں بھی تمہیں معاف کرتا ہوں.اب تو شہر کے اندر داخل ہو سکتا ہے.4 مدینہ والوں کو عزت تو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے طفیل ملی تھی لیکن ابھی تھوڑے ہی دن گزرے تھے کہ چوہے بلوں سے باہر نکل آئے اور کہنے لگے ہم رئیس ہیں، ہم معزز اور سردار ہیں.حالانکہ کچھ دن قبل وہ یہودیوں کے غلام تھے اور اگر وہ اب رئیس گئے تھے تو صرف محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے طفیل بنے تھے.بالکل اُسی طرح اب

Page 310

$1956 297 خطبات محمود جلد نمبر 37 بھی ہوا ہے.قادیان پر ہندوؤں نے حملہ کر کے احمدیوں کو باہر نکال دیا تو خدا تعالیٰ انہیں میرے ذریعہ پوری حفاظت کے ساتھ پاکستان لایا.ورنہ اُس وقت یہ حالت تھی کہ ہر طرف مسلمانوں کو قتل کیا جا رہا تھا اور ان کے اموال اور عزتوں کو لوٹا جا رہا تھا.اُن دنوں فیروز پور سے ایک قافلہ آیا جو لاکھوں افراد پر مشتمل تھا اور پاکستان کے بارڈر کے بالکل قریب آ کر ان میں سے ایک لاکھ افراد کو حملہ آوروں نے قتل کر دیا لیکن قادیان کے کسی احمدی کو خراش تک بھی نہیں آئی.اُس وقت بھی بعض منافقوں نے کہا تھا کہ خلیفہ دوڑ کر پاکستان چلا گیا ہے او انہیں یہ خیال تک نہ آیا کہ وہ ان کی جانیں بچانے کے لیے انتظام کر رہا ہے اور وہاں سے ان کے لیے ان کے بیوی بچوں کے لیے لاریاں بھجوا رہا ہے.اب ذرا ہوش آئی ہے تو یہاں بھی کی منافق پیدا ہو رہے ہیں جو کئی باتیں بناتے ہیں.جب میں تندرست تھا تو یہ لوگ خاموش تھے کیونکہ جانتے تھے کہ میں انہیں جماعت سے جوتیاں لگواؤں گا.لیکن اب میں بیمار ہو گیا ہوں تو چوہے اپنے بلوں سے باہر نکل آئے ہیں اور انہوں نے خیال کر لیا ہے کہ بیماری کی وجہ سے میں ان کا مقابلہ نہیں کر سکوں گا اور وہ میری ٹانگیں آسانی سے کھینچ سکیں گے لیکن وہ بیوقوف یہ نہیں جانتے کہ میں آج سے نہیں بلکہ 1908ء سے خدا تعالیٰ کے ہاتھ میں ہوں اور خدا تعالیٰ نے اس وقت سے لے کر اب تک ہر جگہ میری مدد کی ہے.تم جانتے ہو کہ جب میں خلیفہ ہوا تو مولوی محمد علی صاحب کا جماعت میں بہت زیادہ اثر تھا اور مالدار طبقہ اُن کے ساتھ تھا.حضرت خلیفۃ اصح الاول جب فوت ہوئے اور مولوی محمد علی صاحب اور ان کے ساتھی لاہور چلے گئے تو جماعت کے خزانہ میں صرف اٹھارہ روپے تھے اور اب خدا کے فضل سے ہمارا سالانہ بجٹ اٹھارہ لاکھ کے قریب ہے.اگر میں خدا تعالیٰ کے ہاتھ میں نہ ہوتا تو تم مجھے 1908ء میں مار دیتے.اور اگر اُس وقت میں کسی وجہ سے بچ گیا تھا تو تم مجھے 1914ء میں مار دیتے جب جماعت کا بااثر اور مالدار طبقہ ایک طرف تھا اور میں دوسری طرف تھا.پس خدا تعالیٰ میرے ساتھ ہمیشہ رہا ہے.اُس نے اُس وقت بھی میری مدد کی جب میں جوان تھا اور طاقتور اور تندرست تھا اور اب بھی وہ میری مدد کرے گا جبکہ میں بوڑھا اور بیمار ہوں.اس وقت کسی نے منافقت دکھائی تو یاد رکھو! خدا تعالیٰ کی تلوار اسے نیست و نابود کر دے گی

Page 311

$1956 298 خطبات محمود جلد نمبر 37 اور اس کی آئندہ سات پشت تک کی نسل اُس پر لعنت بھیجے گی کہ اس کی وجہ سے انہیں ذلت و رسوائی حاصل ہوئی.پس خدا تعالیٰ فرماتا ہے اے مومنو! جب تمہیں یوم الجمعہ نصیب ہو اور تمہیں طاقت اور قوت حاصل ہو جائے تو تم مغرور نہ ہو جاؤ تم دین کی خدمت میں سستی اور غفلت سے کام نہ لینے لگ جاؤ بلکہ اُس وقت تم پہلے سے بھی بڑھ کر دین کی خدمت کرو.ربوہ کی زمین کو دیکھ لو اسے بھی میں نے ہی خرید کر دیا تھا.پھر مکانات بنانے کا سوال آیا تو اکثر احمدی اس حالت میں نہیں تھے کہ وہ مکانات بنا سکیں اور بعض ایسے تھے جو ایمان کا بہانہ بنا کر مکان بنانے سے ہچکچا رہے تھے.وہ کہتے تھے کہ جب ہم نے جلد ہی قادیان چلے جانا ہے تو یہاں مکانات بنانے کا کیا فائدہ.لیکن میں ہمت سے اپنے ارادہ پر قائم رہا یا یوں کہو کہ خدا تعالیٰ نے مجھے قائم رکھا.میں نے خطبات اور تقاریر میں احمدیوں کو یہاں آ کر بسنے کے لیے بار بار کہا.چنانچہ وہ آئے اور انہوں نے مکانات تعمیر کیے اور اب یہ ایک شہر بن گیا ہے.یہاں پہلے صرف تین خیمے تھے اور اب یہاں پونے چار ہزار مکان بن گیا ہے اور جس رفتار سے مکانات بن رہے ہیں اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آئندہ چند سال میں دس بارہ ہزار مکانات اور بن جائیں گے.پھر میں نے خطبہ پڑھا اور جماعت کے دوستوں کو کہا کہ وہ یہاں انڈسٹریاں جاری کریں.چنانچہ جماعت اس طرف بھی توجہ کر رہی ہے.برف کا کارخانہ بن چکا ہے اور بعض دوسری انڈسٹریاں بھی جاری ہو چکی ہیں.ایک مستری نے مجھے ایک سلیٹ بھیجی اور کہا کہ میں نے سلیٹ بنانے کا کام شروع کیا ہے اور میں نے دیکھا کہ وہ سلیٹ نہایت اعلیٰ تھی.گویا اب خدا تعالیٰ جماعت کے دوستوں کو ایک طرح الہام کر رہا ہے کہ یہاں آ کر صنعتیں جاری کریں اور اس طرح میری وہ بات بھی پوری ہو گئی جو میں نے یہاں پہلے جلسہ پر اپنی افتتاحی تقریر میں کہی تھی کہ ہمیں حضرت اسماعیل علیہ السلام کا مقام حاصل ہے.اس لیے جو ثمرات ابراہیمی دعاؤں کے نتیجہ میں مکہ والوں کو ملے وہ یہاں کے رہنے والوں کو بھی حاصل ہوں گے.اب دیکھ لو! ایک مستری جو سائنسدان نہیں اسے خدا تعالیٰ نے عقل دی اور اس نے سلیٹ بنانے کی صنعت شروع کر دی اور انہی خشک پہاڑوں کے پتھروں سے کام لینا شروع کر دیا.پھر جن لوگوں کو میں نے اس کام پر مقرر کیا ہے وہ کئی اور

Page 312

$1956 299 خطبات محمود جلد نمبر 37 صنعتیں جاری کرنے کے لیے بھی سکیمیں تیار کر رہے ہیں اور اس طرح اللہ تعالیٰ ربوہ والوں کے لیے رزق کے سامان پیدا کر رہا ہے.اب غور کرو کہ یہ کس کا کام ہے؟ یہ کسی انسان کا کام نہیں بلکہ خدا تعالیٰ ہی ہے جو سب کچھ کر رہا ہے.یہ اعتراض کرنے والے اُس وقت کہاں تھے جب قادیان پر ہندوؤں نے حملہ کیا تھا.یہ اُس وقت چھینیں مار رہے تھے اور پکار پکار کر کہہ رہے تھے کہ خلیفہ کی دہائی ہے.ہمیں یہاں سے جلد نکالو.اب یہاں امن سے بس گئے تو وہی لوگ اس خلیفہ کے خلاف ہو گئے.وہ یہ بھول گئے کہ میں ان میں سے ایک ایک آدمی کو لاریوں میں بٹھا کر ہندوؤں سے بچا لایا تھا اور ان میں سے کسی کو میں نے پیدل نہیں چلنے دیا تھا.بلکہ میں نے حکم دے دیا تھا کہ کوئی شخص پیدل چل کر نہ آئے.چنانچہ جن لوگوں نے میری بات مان لی وہ لاریوں میں بیٹھ کر لاہور پہنچ گئے اور جنہوں نے میری بات نہیں مانی ان میں سے اکثر فتح گڑھ چوڑیاں اور بٹالہ کے پاس قتل کر دیئے گئے.پھر لاہور میں میں نے ان کے کھانے اور رہنے کا انتظام کیا.اس کے بعد میں نے ربوہ کی زمین خریدی اور انہیں یہاں لے آیا.پہلے انہیں کچھ مکانات بنا کر دیئے گئے.پھر پختہ مکانات بنائے گئے اور ربوہ کو شہر کی حیثیت حاصل ہو گئی.جب یہ کی سب کچھ ہو گیا اور انہیں امن میسر آ گیا تو ان میں سے بعض منافق اب میرے خلاف کھڑے گئے ہیں.حالانکہ انہیں اس طاقت اور قوت اور جتھا کے وقت اپنے ماضی کو نہیں بھلانا چاہیے تھا اور یہی وہ بات ہے جس کی طرف اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں جو ابھی میں نے پڑھی ہے توجہ دلائی ہے.فرماتا ہے اے مسلمانو! جب تمہیں طاقت اور قوت مل جائے، تمہاری تعداد بڑھ جائے اور تمہیں عزت نصیب ہو جائے اُس وقت تم خدا تعالیٰ کو بھول نہ جاؤ بلکہ تم اُس وقت یہ خیال کرو کہ جو عزت اور دولت تمہیں ملی ہے وہ سب اس کے طفیل ہے.اگر تم طاقت اور قوت کے وقت خدا تعالیٰ کو بھول جاؤ گے اور اتحاد میں رخنہ ڈالو گے تو یہ ناشکری ہو گی اور اس ناشکری کی عبرتناک مزا تمہیں ملے گی.اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے لَبِنْ شَكَرْتُمْ لَأَزِيدَنَّكُمْ وَ لَبِنْ كَفَرْتُمْ اِنَّ عَذَابِي لَشَدِيدٌ که اگر تم میری نعمتوں کے شکر گزار بنو گے میں تمہیں اور بھی زیادہ انعام دوں گا اور اگر تم نے کفرانِ نعمت کیا تو یاد رکھو! میرا عذاب ہو تو

Page 313

$1956 300 خطبات محمود جلد نمبر 37 بہت سخت ہے.میں تمہیں ایسی سزا دوں گا کہ تم حسرت سے کہو گے کہ خدا کرے ہمیں نعمتیں دوبارہ میسر آ جائیں جو ہمیں پہلے ملی تھیں.وہ پس بدقسمت ہے وہ انسان جو یوم الجمعہ کے وقت خدا تعالیٰ کو بھول جاتا ہے اور یہی خیال نہیں کرتا کہ یہ یوم الجمعہ بھی خدا تعالیٰ لایا ہے اور اگر اس نے ناشکری کی اور غرور میں آ گیا تو وہ اسے سخت سزا دے گا.تم دیکھ لو جب مسلمان تھوڑی تعداد میں تھے تو انہوں نے اُس وقت کی معلومہ دنیا فتح کر لی.لیکن جب ان کی تعداد بڑھ گئی تو وہ خدا تعالیٰ کو بھول گئے اور انہوں نے یہ خیال کیا کہ انہیں جو کچھ ملا ہے وہ ان کی عقل اور ان کے تدبر کے نتیجہ میں ملا ہے.آخر وہ رُسوا ہو کر رہ گئے.اگر انسان طاقت اور قوت کے مل جانے پر غرور نہ کرے بلکہ خدا تعالیٰ کا شکر گزار بندہ بن جائے تو خدا تعالیٰ اس کی طاقت میں روز بروز زیادتی کرتا چلا جاتا ہے.لیکن اگر وہ اس طاقت وقوت کا غلط استعمال کرنے لگ جائے اور اسے خدا تعالیٰ کی بجائے اپنے نفس کی طرف منسوب کرنا شروع کر دے تو اسے یاد رکھنا چاہیے کہ اگر خدا تعالیٰ کو دینا آتا ہے تو اُسے چھینا بھی آتا ہے.اور کسی نعمت کا نہ ملنا اتنا بڑا عذاب نہیں جتنا نعمت دے کر چھین لینا عذاب ہے.یہی وجہ ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مسلمانوں کو یہ دعا سکھائی ہے کہ اے اللہ ! فراخی کے بعد ہم پر تنگی کا زمانہ نہ آئے کیونکہ فراخی کے بعد تنگی آئے تو تکلیف زیادہ ہوتی ہے.جب کچھ بھی پاس نہ ہو تو تکلیف کا احساس کم ہوتا کوئی نعمت دے کر اللہ تعالیٰ واپس لے لے تو انسان اسے بہت زیادہ محسوس کرتا ہے.تم دیکھ لو ہے ،مسلمانوں کی تعداد کم تھی تو اُس وقت ان کے صدمات بھی زیادہ نہیں تھے.لیکن اب چونکہ مسلمانوں کی تعداد بڑھ گئی ہے اور انہوں نے ایک وقت تک طاقت اور قوت کی لذت بھی اٹھائی ہے اس لیے اپنی موجودہ رُسوائی کو دیکھ کر انہیں بہت زیادہ صدمہ محسوس ہوتا ہے.وہ چین کو دیکھتے ہیں تو حسرت کے ساتھ کہتے ہیں کہ چین ہمارا تھا.وہ روس کو دیکھتے ہیں تو حسرت کے ساتھ کہتے ہیں کہ روس ہمارا تھا.وہ یورپ کو دیکھتے ہیں تو حسرت کے ساتھ کہتے ہیں کہ یورپ ہمارا تھا.وہ اپنی گزشتہ شان و شوکت پر آنسو بہاتے ہیں اور سوچتے ہیں کہ ہم کیا سے کیا ہو گئے.یا تو ہم ساری دنیا پر حکمران تھے اور یا اب ہماری یہ حالت ہے کہ

Page 314

$1956 301 خطبات محمود جلد نمبر 37 ہم اپنا ہاتھ دوسرے ملکوں کے آگے پھیلائے ہوئے ہیں اور اگر کوئی ٹھڈا بھی مارتا ہے تو ہم کچھ نہیں کہہ سکتے.ایک وقت تھا جب انگلستان پر سپین کی فوج چڑھ آئی تو انگلستان کی ملکہ نے ترکوں کو خط لکھا کہ میں نے مسلمانوں کی روایات سنی ہیں کہ وہ عورتوں کی مدد کیا کرتے ہیں.اس وقت دشمن نے میرے ملک پر حملہ کر دیا ہے.میں آپ کو اسلام کی غیرت دلاتی ہوں اور درخواست کرتی ہوں کہ میری اس بے بسی اور بے کسی کی حالت میں میری مدد کی جائے.میں نے یورپ کے سفر کے دوران میں وہ مکان دیکھا ہے جس میں ترک جرنیل اُترے.وہاں اب بھی دیواروں پر لَا اِلهَ إِلَّا اللہ لکھا ہوا ہے.انگریزوں کو علم نہیں تھا کہ یہ کیا لکھا ہے.وہ اسے سنگھار کی بیلیں خیال کرتے ہیں.میں نے انہیں بتایا کہ یہ سنگھار کی بیلیں نہیں بلکہ لَا اِلهَ اِلَّا الله لکھا ہوا ہے.اب کہاں یہ حالت کہ ایک وقت جب انگلستان پر دشمن کی فوجیں چڑھ آئیں تو اس کی ملکہ ترکوں سے مدد کی درخواست کرتی ہے اور لکھتی ہے کہ مسلمان عورتوں کی مدد تے چلے آئے ہیں.میں بھی ایک بے بس اور بے کس عورت ہوں آپ لوگ میری مدد ہیں.اور کہاں یہ حالت کہ وہ یوربین طاقتوں کے سامنے ہاتھ پھیلائے پھرتے ہیں.پھر ایک وقت تھا کہ جب ترکوں کو چین سے نکال دیا گیا لیکن پھر ایک زمانہ آیا جب انہوں نے دوسرے ممالک کے علاوہ روس کو بھی فتح کر لیا.اب پھر انہیں روس دھمکاتا ہے تو وہ ڈر جاتے ہیں.جب ان کے پاس کچھ بھی نہیں تھا تو انہیں اس قدر تکلیف نہیں تھی جتنی اب ہے کیونکہ اب یہ چیزیں ایک دفعہ مل کر ان سے چھین لی گئی ہیں.جب وہ دیکھتے ہیں کہ ایک زمانہ میں روس بھی ان کے ماتحت تھا اور اب وہ انگلستان، ترکی، پاکستان، عراق اور ایران سے مل کر بغداد پیکٹ 5 میں شامل ہوئے ہیں تا کہ وہ سب مل کر روس کا دفاع کر سکیں تو انہیں کتنی تکلیف ہوتی ہو گی حالانکہ ایک وقت وہ بھی تھا جب ان سے ڈر کر پانچ سو میل کے فاصلہ پر بیٹھے ہوئے روس کے بادشاہ کا پیشاب خطا ہو جاتا تھا.پس زمانہ بدلتا رہتا ہے.جب انسان کے پاس نعماء نہیں ہوتیں تو وہ زیادہ دکھ محسوس نہیں کرتا لیکن جب ایک دفعہ نعمتیں مل جاتی ہیں اور پھر چھین لی جاتی ہیں تو اسے بہت زیادہ دکھ ہوتا ہے.پس اللہ تعالیٰ نے يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا نُودِيَ لِلصَّلوة مِنْ يَوْمِ

Page 315

302 $1956 خطبات محمود جلد نمبر 37 الْجُمُعَةِ فَاسْعَوْا إِلى ذِكْرِ اللهِ وَذَرُوا الْبَيْعَ میں مسلمانوں کو یہ سبق دیا ہے کہ جب تمہیں طاقت اور قوت میسر آ جائے تو اپنے ماضی کو نہ بھولو تا کہ اللہ تعالیٰ تمہاری اس طاقت کو قائم رکھے.لیکن اگر تم اپنے ماضی کو بھول گئے اور تم نے یہ خیال کر لیا کہ یہ سب طاقت اور رعب تمہیں اپنے علم اور عقل کی بناء پر حاصل ہوا ہے تو خدا تعالیٰ تمہارے شیرازہ کو توڑ کر رکھ دے گا.تم بیشک تجارتیں کر لو گے اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ دو تین سو روپے تمہارے گھر آ جائیں لیکن یہ کوئی بڑی چیز نہیں.کسی قوم کے پاس بیشک دولت ہو لیکن اُسے دنیا میں کوئی عزت اور وقار حاصل نہ ہو تو وہ زندہ قرار نہیں دی جا سکتی.انگریزوں کے زمانہ میں بعض ہندوؤں کے پاس کروڑوں روپیہ ہوا کرتا تھا لیکن وہ معمولی چپڑاسیوں سے بھی ڈر جایا کرتے تھے.میں ایک دفعہ کراچی گیا تو مجھے ایک بنک والے نے بتایا کہ ہمیں فلاں ہندو کو ایک کروڑ روپیہ تک اوور ڈرا (Overdraw) دینے کی اجازت ہے.پھر ایک دفعہ اُس ہندو کو میرا ایک ایجنٹ ملاقات کے لیے لے آیا وہ بٹھنڈا کا رہنے والا تھا اور بٹھنڈا کی زبان بڑی کرخت ہوا کرتی ہے.وہاں کے لوگ آپ کی بجائے منوں“ کا لفظ استعمال کیا کرتے ہیں.ایجنٹ نے خیال کیا.یہ بہت بڑا تاجر ہے چلو اسے ملا لاؤں.جب وہ میرے پاس آیا تو اس نے بیٹھتے ہی کہا تمنوں یہاں آئے ہوئے تھے ہمنوں کا جی چاہا کہ تمنوں سے مل لیں.اس پر ایجنٹ گھبرا گیا اور اس نے خود گفتگو شروع کر دی اور کہا کہ آپ یہاں تشریف لائے تو میں نے خیال کیا کہ چونکہ یہ بڑے تاجر ہیں اور بنک بھی ان کو ایک کروڑ روپیہ تک اوور ڈرا(Overdraw) دیتا ہے اس لیے میں انہیں آپ کی خدمت میں ملاقات کے لیے لے آؤں.اُس کا خیال تھا کہ شاید وہ ہندو سنبھل جائے اور آپ کا لفظ استعمال کرنے لگ جائے لیکن پھر جب اس نے گفتگو کی تو شمنوں اور ہمنوں کہنا شروع کر دیا.اس پر ایجنٹ سے برداشت نہ ہو سکا اور اُس نے کہا آپ ہمیں واپسی کی اجازت دیں کیونکہ آپ کا وقت بڑا قیمتی.اب دیکھو! اس ہندو کے پاس بظاہر بڑی دولت تھی.لیکن پھر بھی وہ جاہل اور ان پڑھ تھا اور بات کرنے کا سلیقہ تک اسے نہیں آتا تھا.اسی طرح پیر منظور محمد صاحب سنایا کرتے تھے کہ ایک دفعہ میں نے کسی شہزادہ ނ

Page 316

$1956 303 خطبات محمود جلد نمبر 37 بندوق مانگی اور شکار کے لیے باہر گیا.ایک بنیا نے مجھ سے کہا کہ میں بھی آپ کے ساتھ جاؤں گا.میں نے کہا بہت اچھا.میں نے بندوق کندھے پر رکھ لی.اس پر اُس بنیا نے کہا یہ تم کیا کرتے ہو؟ تم نے بندوق کا منہ میری طرف کر دیا ہے.میں نے کہا ڈرو نہیں.اس میں کارتوس نہیں ہیں.اُس نے کہا کارتوس نہ ہوں تب بھی یہ بندوق انسان کو مار دیتی ہے.انگریزی چیز بڑی خطرناک ہوتی ہے.اب دیکھو اگر کسی انسان میں اس قدر کم عقل ہو تو دولت کا کیا فائدہ؟ در حقیقت طاقت اور قوت بھی اُسی وقت مفید ہوتی ہے جب عقل پائی جاتی ہو.عقل کے بغیر اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا.مسلمانوں کو دیکھ لو اسلام لانے سے پہلے ان کی حالت کس قدر گری ہوئی تھی.وہ لوگ گو ہیں کھاتے تھے اور ماؤں سے نکاح کر لیا کرتے تھے.جب مسلمانوں نے ایران پر حملہ کیا تو بادشاہ نے اپنے درباریوں سے کہا کہ میں یقین نہیں کر سکتا کہ عرب کے رہنے والے میر.ملک پر حملہ آور ہوئے ہوں.وہ تو نہایت ذلیل لوگ ہیں.انہیں میرے ملک پر حملہ آور ہونے کی جرات کیسے ہو سکتی ہے.تم ان کے جرنیل کو پیغام دو کہ مجھ سے آ کر ملے.چنانچہ اس کا پیغامبر اسلامی جرنیل کے پاس پہنچا.انہوں نے اپنے ایک صحابی افسر کو ایک دستہ کے ہمراہ بادشاہ ایران کے پاس بھیج دیا.اُس صحابی کے ہاتھ میں نیزہ تھا اور دربار میں لاکھوں روپیہ کی قالینیں بچھی ہوئی تھیں.وہ صحابی قالین پر اپنا نیزہ مارتے ہوئے گزر گئے.بادشاہ کو سخت غصہ آیا کہ لاکھوں روپیہ.روپیہ کے قالین ہیں لیکن یہ شخص ان پر نیزہ مارتے ہوئے آ رہا ہے.جب وہ صحابی قریب پہنچ گئے تو بادشاہ نے انہیں مخاطب کرتے ہوئے کہا تم لوگوں کو مجھ پر حملہ آور ہونے کی کس طرح جرات ہوئی ہے.تم لوگ تو اس قدر ذلیل تھے کہ تم گوہ کا گوشت کھایا کرتے تھے اور اپنی ماؤں سے نکاح کر لیا کرتے تھے.میں تمہارا لحاظ کرتے ہوئے تمہارے ہر سپاہی کو ایک اشرفی اور ہر افسر کو دو اشرفی دوں گا.تم واپس چلے جاؤ اور حملے کا ارادہ چھوڑ دو.اُس صحابی نے جواب دیا.بادشاہ تم ٹھیک کہتے ہو.ہماری یہی حالت تھی ہم گو ہیں کھاتے تھے اور ماؤں سے نکاح کر لیا کرتے تھے لیکن اب ہماری وہ حالت نہیں رہی.اب خدا تعالیٰ نے ہم میں اپنا ایک رسول مبعوث کیا ہے جس نے ہمارا نقشہ بدل کر رکھ دیا ہے اور اس نے ہمیں

Page 317

$1956 304 خطبات محمود جلد نمبر 37 حلال و حرام کی تمیز سکھا دی ہے.اب وہ زمانہ چلا گیا.جب لوگ ہمیں رشوت دے کر اپنی نی بات منا لیتے تھے.اب جب تک ہم تمہارا تحت فتح نہ کر لیں گے پیچھے نہیں ہٹیں گے.بادشاہ نے کہا یاد رکھو! میں تمہیں اس گستاخی کی سزا دوں گا.اس پر اُس نے اپنے ایک سپاہی کو بلایا اور اسے حکم دیا کہ ایک بورامٹی سے بھر کر لاؤ.جب وہ مٹی کا بورا لے آیا تو اس نے مسلمان افسر سے کہا آگے آؤ.وہ آگے آگئے.اس نے کہا نیچے جھکو.اس پر وہ نیچے جھک گئے.اس نے مٹی کا بورا ان کی پیٹھ پر رکھ دیا اور کہنے لگا جاؤ میں اب اس بورے سے زیادہ تمہیں کچھ دینے کے لیے تیار نہیں.میں نے تمہیں اشرفیاں پیش کی تھیں لیکن تم نے انہیں قبول نہ کیا.تمہیں اس بورے کے سوا اور کچھ نہیں مل سکتا.وہ صحابی بورا اُٹھا کر جلدی سے باہر نکل گئے اور گھوڑے پر سوار ہو کر انہوں نے اپنے ساتھیوں سے کہا آ جاؤ.بادشاہ ایران نے ایران کی زمین خود ہمارے سپرد کر دی ہے.اس کے بعد انہوں نے اپنے گھوڑوں کو ایڑ لگائی اور لشکر کی طرف روانہ ہو گئے.مشرک تو وہمی ہوتا ہے.بادشاہ نے جب یہ بات سنی تو اس نے لوگوں سے کہا جلدی جاؤ اور اس مسلمان افسر سے مٹی کا بورا لے آؤ لیکن وہ اُس وقت بہت دور نکل چکے تھے.اب دیکھو گو ہیں کھانے والوں اور ماؤں سے نکاح کر لینے والوں میں کس قدر عقل آ گئی تھی.پہلے تو وہ قالینوں پر نیزہ مارتے ہوئے آگے گزر گئے اور پھر بادشاہ نے جب ان کی پیٹھ پر مٹی کا بورا رکھا تو وہ کہنے لگے.بادشاہ ایران نے ایران کی زمین خود ہمارے سپرد کر دی ہے اور پھر فی الواقع مسلمانوں نے ایران کو فتح کر لیا.6 پس جماعت کو یوم جمعہ کی قدر کرنی چاہیے کیونکہ غلبہ بھی خدا تعالیٰ کی طرف سے ہی آتا ہے اور جہاں وہ غلبہ اور قوت دیتا ہے وہاں وہ جب چاہے اُسے چھین بھی سکتا ہے.کوئی دن تھا کہ قادیان کے ارد گرد دیہات میں بھی ہمارا کوئی مبلغ نہیں تھا لیکن اب دنیا کے ہر علاقہ میں ہمارے مبلغ موجود ہیں اور آئندہ وہ وقت آئے گا جب ہر قصبہ اور ہر شہر میں ہمارا مبلغ ہے گا.پس یہ غلبہ جو تمہیں حاصل ہوا ہے یہ بھی خدا تعالیٰ نے ہی تمہیں دیا ہے تم اس کی قدر کرو.اگر تم اس کی ناشکری کرو گے، اگر تم منافق بنو گے اور ورغلانے والوں کو اپنے گھروں میں بٹھاؤ گے تو خدا تعالیٰ کی گرفت سے تم محفوظ نہیں رہ سکو گے.اگر تم میں ایمان تھا تو تم نے اس ہو

Page 318

$1956 305 خطبات محمود جلد نمبر 37 قسم کے لوگوں کو کیوں نہ کہہ دیا کہ تم منافق ہو اور تم نے ان کی زبان بندی کیوں نہ کی.کیا تم نہیں جانتے کہ یہ یوم جمعہ تمہیں خدا تعالیٰ نے ہی دیا ہے.کبھی وہ دن تھا کہ تم ماریں کھاتے تھے.مگر آج ساری دنیا تمہاری طاقت کی معترف ہے.مجھے یاد ہے ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام دہلی تشریف لے گئے.وہاں ایک شخص مرزا حیرت آپ کے رشتہ داروں میں سے تھا.وہ شخص بہت چالاک اور ہوشیار تھا.اس نے بعد میں ایک اخبار بھی نکالا تھا.اسے شرارت سوجھی اور وہ انسپکٹر پولیس بن کر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے پاس آ گیا اور کہنے لگا میں گورنمنٹ کی طرف سے یہ پوچھنے آیا ہوں کہ آپ یہاں کیوں آئے ہیں؟ چنانچہ بعض احمدی اُس کی اس شرارت کی وجہ سے ڈر بھی گئے.لیکن بعد میں پتا لگ گیا کہ اس نے فریب کیا ہے اور بعض احمدیوں نے اسے ڈانٹا بھی.اس کے بعد ندوہ کے ایک پروفیسر نے جو پٹھان تھا تقریر کی اور کہا کہ مرزا مسیح موعود بنا پھرتا ہے.وہ دتی گیا تو مرزا حیرت انسپکٹر پولیس بن کر اس کے پاس چلا گیا.وہ کوٹھے پر بیٹھا ہوا تھا (حالانکہ یہ بات بالکل جھوٹ تھی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نیچے دالان میں بیٹھے ہوئے تھے) ڈر کے مارے جلدی سے نیچے اُترا تو سیڑھی سے پاؤں پھسل گیا اور منہ کے بل زمین پر آ گرا.اللہ تعالیٰ کو اس کی کذب بیانی پر غیرت آئی.وہ شخص رات کو اپنے مکان کی چھت پر سویا ہوا تھا کہ سوتے سوتے اُس کا دماغ خراب ہوا.وہ نیند میں ہی اُٹھا اور کو ٹھے سے زمین پر گر کر ہلاک ہو گیا.غرض ہمارا خدا ایک زندہ خدا ہے.اگر وہ فوری طور پر کسی کی خبر لے سکتا ہے تو دس سال بعد بھی اس کی خبر لے سکتا ہے.عبد اللہ آتھم کو ہی دیکھ لو.جب اس نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دجال کہا اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اسے فرمایا کہ تم نے خدا تعالیٰ کے ایک راستباز کو دجال کہا ہے.تم یہ نہ سمجھو کہ وہ اس وقت فوت ہو چکے ہیں.بلکہ یاد رکھو! رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا خدا اب بھی زندہ ہے اور وہ تمہیں اس گستاخی کی وجہ سے کچل کر رکھ دے گا تو اس پر عبداللہ آتھم سخت گھبرایا اور اُس نے کانوں پر ہاتھ رکھ کر کہا میری توبہ میں نے اس قسم کی کوئی گستاخی نہیں کی.اب دیکھو! رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فوت ہوئے

Page 319

$1956 306 خطبات محمود جلد نمبر 37 تیرہ سو سال ہو چکے تھے.ملک پر انگریزوں کی حکومت تھی اور عبداللہ آتھم انگریزی حکومت کا ایک افسر تھا.اُس نے آپ کی شان میں گستاخی کی تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اُسے کہا دیکھو! رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا خدا اب بھی زندہ خدا ہے اور وہ تمہیں اس گستاخی کی سزا دے گا تو وہ کہنے لگا میری توبہ میں نے ایسی گستاخی نہیں کی.پس یاد رکھو! اسلام کا خدا ایک زندہ خدا ہے اور وہ ہمیشہ زندہ رہے گا.اور پھر اس امر کو بھی اچھی طرح یاد رکھو کہ اللہ تعالیٰ نے جو تمہیں طاقت عطا کی ہے یہ سب کچھ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے طفیل ہے.پھر اس نے اکثر کام میرے ہاتھ کرائے ہیں لیکن جماعت کے بعض لوگوں نے اس کی قدر نہیں کی بلکہ جب خدا تعالیٰ نے انہیں تعداد میں زیادہ کر دیا تو وہ منافق بن گئے.وہ نہیں جانتے کہ اگر انہوں نے راستی کو چھوڑا تو اللہ تعالیٰ ان کو کچل کر رکھ دے گا اور ستر ستر نسل تک ان کی اولاد ان پر لعنت کرے گی اور کہے گی کہ ان کے آباء و اجداد فتنہ پرداز تھے جنہوں نے منافقت دکھائی اور ہمیں بدنام کر دیا.اگر وہ اپنے وعدوں پر قائم رہتے اور خدا تعالیٰ کی نعمتوں کی ناشکری نہ کرتے تو وہ منافقت نہ دکھاتے.کیا یہ حقیقت نہیں کہ تم تعداد میں بہت تھوڑے تھے پھر اللہ تعالیٰ نے تمہیں میرے ذریعہ سے بڑھایا؟ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ میں جو آخری جلسہ سالا نہ ہوا اُس میں شامل ہونے والوں کی تعداد سات سو تھی اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اس کو دیکھ کر اس قدر خوش ہوئے کہ فرمایا اب تو جماعت اس قدر بڑھ گئی ہے کہ معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہمارے سپرد جو کام تھا وہ پورا ہو گیا ہے.پھر حضرت خلیفہ اول کے زمانہ خلافت کے آخری جلسہ سالانہ پر دس گیارہ سو دوست جمع ہوئے مگر اب عیدین کے موقع کی پر بلکہ بعض اوقات جمعہ کی نماز میں ہی دو دو ہزار دوست آ جاتے ہیں.یہ ترقی خدا تعالیٰ نے ہی تمہیں عطا کی ہے.اگر تم نے اس کی ناشکری کی تو یاد رکھو! جو خدا تمہیں بڑھا سکتا ہے وہ گھٹا بھی سکتا ہے.تمہارا کام تھا کہ تم اس وقت تو بہ کرتے خدا تعالیٰ سے اپنے گناہوں کی معافی طلب کرتے اور کہتے اے خدا! تو نے ہی ہمیں بڑھایا ہے اور ہم تیری اس نعمت کا فی شکر ادا کرتے ہیں اور تجھ سے التجا کرتے ہیں کہ تو ہمیں کم نہ کرنا بلکہ ہمیشہ بڑھاتے چلے.

Page 320

$1956 307 خطبات محمود جلد نمبر 37 تا کہ ہم تیرے نام کو بلند کرتے رہیں اور تیری توحید کو دنیا میں پھیلاتے رہیں“.خطبہ ثانیہ کے بعد فرمایا: باوجود بیماری کے میں عید پڑھانے یہاں آ گیا تھا.کل خطبہ کی وجہ سے طبیعت پر بوجھ بھی پڑا.پھر کل اتفاقاً گرمی زیادہ تیز تھی جس کی وجہ سے صحت خراب ہو گئی لیکن مجھے خوشی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے دو سال کے بعد یہاں عید پڑھانے کا موقع دے دیا.دو سال سے میرا یہاں عید نہ پڑھانا جماعت کے لیے بڑے صدمے کا موجب تھا.اس لیے میں تکلیف اُٹھا کر بھی یہاں آ گیا تا کہ دوستوں کے دل خوش ہوں.نماز کے بعد میں ایک جنازہ پڑھاؤں گا جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ایک پرانے صحابی قاضی محبوب عالم صاحب لاہور کا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی زندگی میں ان کی یہ عادت تھی کہ وہ آپ کو ہر روز دعا کے لیے خط لکھا کرتے تھے اور اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ ایک جگہ پر شادی کرنا چاہتے تھے لیکن فریق ثانی رضا مند نہیں تھا.اس لیے وہ روزانہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو لکھتے کہ حضور دعا فرمائیں کہ یا تو لڑکی مجھے مل جائے یا اللہ تعالیٰ میرا دل اُس سے پھیر دے.اب مجھے یاد نہیں رہا کہ آیا ان کا دل پھر گیا تھا یا ان کی اس لڑکی سے شادی ہو گئی تھی.بہر حال دونوں میں سے ایک بات ضرور ہو گئی تھی.پھر نہ صرف وہ خود اس نشان کے حامل تھے بلکہ ان کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے ایک اور شخص کو بھی اپنے نشان کا حامل بنایا.ہمارے ایک دوست ماسٹر عبدالعزیز صاحب تھے جنہوں نے قادیان میں طبیہ عجائب گھر کھولا ہوا تھا.اس وقت ان کا لڑکا مبارک احمد دواخانہ چلا رہا ہے اور ان کی دوائیاں بہت مقبول ہیں.انہوں نے قاضی محبوب عالم صاحب کے متعلق سنا کہ وہ ہر روز حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو اس قسم کا خط لکھا کرتے ہیں تو انہوں نے بھی روزانہ خط لکھنا شروع کر انہیں بھی ایک ذیلدار کی لڑکی سے جو اُن کے ماموں یا پھوپا تھے محبت تھی.وہ روزانہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو لکھتے اور کہتے حضور! دعا فرمائیں کہ قاضی محبوب عالم صاحب کی طرح یا تو میرا دل اس لڑکی سے پھر جائے اور یا پھر میری اس دیا.

Page 321

$1956 308 خطبات محمود جلد نمبر 37 سے شادی ہو جائے.چنانچہ ان کی وہاں شادی ہو گئی اور مبارک احمد اُسی بیوی سے ہے.گویا قاضی صاحب نہ صرف خود ایک نشان کے حامل تھے بلکہ ایک دوسرے نشان کے محرک بھی تھے.انہوں نے اپنی زندگی میں اس خواہش کا اظہار کیا تھا کہ میں ان کا جنازہ پڑھاؤں اور ان کی کا جنازہ یہاں لایا بھی گیا لیکن ان کی اولاد سے یہ غلطی ہوئی کہ وہ لنگر خانہ میں بیٹھے رہے اور جب دھوپ چمکنے لگی تو مجھے جنازہ پڑھانے کے لیے اطلاع دی حالانکہ وہ رات کے وقت مجھ سے کہہ چکے تھے کہ وہ سوائو بجے جنازہ لے آئیں گے.لیکن سوا نو بجے جب میں نے پرائیویٹ سیکرٹری سے پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ ابھی تک وہ نہیں آئے.اگر وہ اُس وقت جنازہ لے آتے تو میں جانتا ہوں ربوہ کے لوگ بہت مخلص اور ہوشیار ہیں.مسجد میں ایک دفعہ اعلان کیا جاتا تو قریب کے محلہ سے ہی ساٹھ ستر آدمی آ جاتے اور نماز شروع ہونے تک دو ہزار کا مجمع ہو جاتا لیکن وہ لنگر خانہ میں بیٹھے رہے اور اس قسم کے پرانے صحابی کے جنازہ پڑھانے میں جو مجھے لذت محسوس ہوئی تھی اُس سے بھی محروم رکھا حالانکہ میرے یہاں ٹھہرنے کی میں ایک حکمت یہ بھی تھی کہ میں ان کا جنازہ پڑھا دوں.لیکن ان کی اولاد نے نہ صرف اپنے باپ کی خواہش کو پورا نہ کیا بلکہ مجھے بھی اُس سرور سے محروم رکھا جو مجھے اُن کے جنازہ پڑھانے سے حاصل ہونا تھا.بہر حال اب نماز کے بعد میں ان کا جنازہ غائب پڑھاؤں گا“.الفضل 27 جولائی 1956ء) 1 : ابراهيم : 8 2 الجمعة : 10 :3 جامع الترمذى ابواب تفسير القرآن عن رسول الله سورة المنافقين : 4 تفسیر الطبری زیر آیت سورۃ المنافقون : 8 " يقولون لئن رجعتنا الى المدينة...5: بغداد پیکٹ (BAGHDAD PACT)1955ء میں ترکی، عراق، پاکستان اور U.K کے مابین ہو نیوالا دفاعی معاہدہ جس کا مقصد مشرق وسطی میں امن کا قیام تھا.تاریخ الطبری جلد 2 صفحہ 390 تا 392.مطبوعہ بیروت لبنان 2012ء.

Page 322

$1956 309 29 خطبات محمود جلد نمبر 37 اللہ تعالیٰ نے نظام خلافت کے ذریعہ تمہارے درمیان اتحاد پیدا کیا ہے اس کی قدر کرو اور مضبوطی کے ساتھ اسے قائم رکھو حضرت عثمان کے وقت میں منافقین کے فتنہ کو معمولی سمجھنے کے نتیجہ میں ہی اتحاد اسلام برباد ہو گیا تھا (فرمودہ 27 جولائی 1956ء بمقام مری) تشهد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: آج رات سے پھر بارش شروع ہے اور گہر چھائی ہوئی ہے اور میری طبیعت زیادہ تر بارش اور گہر سے ہی خراب ہوتی ہے اور جسم میں ضعف محسوس ہونے لگتا ہے.بعض دوست ناواقفیت سے سمجھتے ہیں کہ ٹھنڈک میں رہنا میرے لیے مفید ہے.حالانکہ ٹھنڈک گو میرے لیے مفید ہے مگر بارش اور گہر مُضر ہے.جب ہم یورپ گئے اور سوئٹزر لینڈ پہنچے تو وہاں کا موسم ایسا ہے کہ خواہ بارش ہو گہر نہیں ہوتی.اول تو بارش ہی نہیں ہوتی لیکن اگر ہے ہو

Page 323

$1956 310 خطبات محمود جلد نمبر 37 تو گہر نہیں ہوتی.اس لیے وہاں میری طبیعت بہت اچھی رہی.جب ہم لندن گئے تو چونکہ وہاں گہر بہت ہوتی ہے اس لیے ٹھنڈ کے باوجود طبیعت کی خرابی کے دورے ہوتے رہے اور جگر کی خرابی کی بھی شکایت ہو گئی.مری میں بھی ایسا ہی ہوا.بارش اور نمی کی وجہ سے نزلہ کا پانی ناک سے سینہ پر گرتا ہے اور اس سے بجائے صحت میں ترقی ہونے کے کوفت محسوس ہوتی ہے اور جگر کے مقام پر بھی درد ہونے لگتا ہے.پھر کبھی قبض کی شکایت ہو جاتی ہے اور کبھی اسہال کی.یوں نمازیں پڑھانے کے لیے میں آتا رہا ہوں اور بڑی آسانی سے بغیر کسی قسم کا بوجھ ہے محسوس کیے آتا رہا ہوں مگر پیچھے جب بارشیں ہوئیں تب بھی تکلیف ہو گئی اور آج بھی بارش ور گہر کی وجہ سے ناک سے پانی بہتا ہے اور جسم میں کوفت اور کمزوری محسوس ہوتی ہے.اب ہمارے جانے میں خدا تعالیٰ کے فضل سے صرف پانچ دن رہ گئے ہیں.جس علاقہ میں اب ہم نے جانا ہے وہاں بارش کم ہوتی ہے اور گہر تو بہت ہی کم ہوتی ہے اور ربوہ کی نسبت وہ جگہ ٹھنڈی بھی ہے.میں امید کرتا ہوں (آگے اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے ) کہ وہاں جا کر طبیعت اچھی ہو جائے گی کیونکہ وہ علاقہ بھی زیورک کے علاقہ کی طرح ہے.جیسا کہ میں نے بتایا ہے بوجہ گہر اور نمی کے میری طبیعت اس وقت کوفت محسوس کر رہی ہے تاہم مختصراً میں اس فتنہ کے متعلق کچھ کہنا چاہتا ہوں جو اس وقت پیدا ہوا ہے.کئی وست اس فتنہ کی وجہ سے گھبرا رہے ہیں اور کئی دوست ایسے ہیں جو اصل حقیقت کو نہیں سمجھتے اور اسے ایک معمولی بات سمجھتے ہیں.میں ان باتوں کے متعلق إِنْشَاءَ اللہ ایک علیحدہ مضمون لکھوں گا.مگر اس وقت بھی میں دوستوں کو اس امر کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ اس حقیقت کے نہ سمجھنے کی وجہ سے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ شہید ہوئے تھے.آج سارے مسلمان اُن فتنہ پردازوں کو بُرا سمجھتے ہیں جو حضرت عثمان کے خلاف کھڑے ہوئے تھے.مگر اُس وقت مسلمان اُن کی باتوں کو سن کر ہنستے رہے اور کسی نے نہ سمجھا کہ ایسے منافقین کا مقابلہ کرنا ان چاہیے.صرف اس لیے کہ محمد بن ابی بکر اس میں شامل تھا انہوں نے خیال کر لیا کہ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خلیفہ اول کا لڑکا اس میں شامل ہے تو اب کیا ہو سکتا ہے.حالانکہ نظام اسلام پر دس ہزار ابوبکر بھی قربان کیا جاسکتا ہے.جس طرح نظام احمدیت

Page 324

311 $1956 خطبات محمود جلد نمبر 37 دس ہزار نورالدین بھی قربان کیا جا سکتا ہے.بیشک محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوبکر کی بڑی تعریف فرمائی ہے جس طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے مولوی نورالدین صاحب کی بڑی تعریف کی ہے.مگر قرآن اس لیے نہیں اُترا تھا کہ ابوبکر کی عزت قائم کی جائے نہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے الہامات میں یہ کہیں ذکر آتا ہے کہ ہم نے تجھے اس لیے مبعوث کیا ہے کہ تو نورالدین کی عزت قائم کرے.ہاں! جو سچائی اور حقیقت تھی اُس کا آپ نے اظہار کر دیا.مثلاً آپ نے فرمایا چہ خوش بودے اگر ہر یک زامت نور دیں بودے 1 مگر یہ تو ایک سچائی ہے جو کہنی چاہیے تھی.جس نے قربانی کی ہو اُس کی قربانی کا اظہار نہ کرنا ناشکری ہوتی ہے.مجھے یاد ہے ایک دفعہ ایک مریض آیا اور اُس نے ذکر کیا کہ مولوی صاحب سے میں نے علاج کروایا تھا جس سے مجھے بڑا فائدہ ہوا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام اُس دن بیمار تھے.مگر جب آپ نے یہ بات سنی تو آپ اُسی وقت اُٹھ کر بیٹھ گئے اور حضرت اماں جان سے فرمانے لگے کہ اللہ تعالیٰ ہی مولوی صاحب کو تحریک کر کے یہاں لایا ہے اور اب ہزاروں لوگ ان سے فائدہ اُٹھا رہے ہیں.اگر مولوی صاحب یہاں نہ آتے تو ان لوگوں کا کس طرح علاج ہوتا.پس مولوی صاحب کا وجود بھی خدا تعالیٰ کا ایک بڑا احسان ہے.پس اگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے یہ فرمایا کہ چه خوش بودے اگر ہر یک زامت نوردیں بودے تو آپ اللہ تعالیٰ کی ایک نعمت کی ناشکری سے بچے.مگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے الہامات کو دیکھ لو آیا کسی الہام میں بھی یہ ذکر آتا ہے کہ اے مسیح موعود! میں نے تجھے اس لیے مبعوث کیا ہے کہ تو نورالدین کی عزت قائم کرے؟ یا قرآن میں کوئی آیت ایسی ہے جس میں یہ ذکر آتا ہو کہ اے محمد رسول اللہ ! میں نے تجھے اس لیے بھیجا ہے کہ تو ابوبکر کی عزت قائم کرے؟ بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوبکر کے حق میں جو فقرات کہے ہیں وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے مولوی نورالدین صاحب کے حق

Page 325

$1956 312 خطبات محمود جلد نمبر 37 میں نہیں کہے.مثلاً رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دفعہ فرمایا کہ لَوْ كُنتُ مُتَّخِذًا خَلِيَّلا غَيْرَ رَبِّي لَاتَّخَذْتُ اَبَا بَكْرٍ خَلِيلا 2 یعنی اگر خدا کے سوا کسی اور کوخلیل بنانا جائز ہوتا تو میں ابوبکر کو اپنا خلیل بناتا.لیکن حضرت خلیفہ اول کی نسبت تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے صرف اتنا فرمایا کہ چہ خوش بودے اگر ہر یک زامت نوردیں بودے گویا اس میں آپ کا اور امت کا مقابلہ کیا گیا ہے خدا اور نورالدین کا مقابلہ نہیں کیا گیا.مگر وہاں تو خدا اور ابوبکر کا مقابلہ کیا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ اگر خدا کے سوا کسی اور کو خلیل بنانا جائز ہوتا تو میں ابوبکر کو بناتا.پس وہ تعریف بہت بڑی ہے مگر پھر بھی ابوبکر کی بڑائی اور ابوبکر کا تقوی اُن کے لڑکے کو نہ بچا سکا.اور ہر شخص جو تاریخ میں ان واقعات کو پڑھتا ہے اُن کے لڑکے پر لعنتیں ڈالتا ہے کہ وہ حضرت عثمان کے قاتلوں میں شامل ہو گیا.تاریخوں میں لکھا ہے جب باغی دیوار پھاند کر حضرت عثمان کے گھر میں داخل ہوئے تو محمد بن ابی بکر سب سے آگے بڑھا اور اس نے حضرت عثمان کی داڑھی پکڑ کر اُسے زور سے جھٹکا دیا.جب اُس نے آپ کی داڑھی پکڑی تو حضرت عثمان نے فرمایا اگر تیرا باپ اس جگہ ہوتا تو تو کبھی یہ جرأت نہ کر سکتا.اُس کے دل میں ابھی کچھ ایمان باقی تھا.جب اُس نے یہ بات سنی تو وہ شرمندہ ہو کر پیچھے ہٹ گیا 3 مگر جب وہ مر کر ابوبکر کے سامنے گیا ہو گا تو انہوں نے اپنی جوتی اُتار کر اُسے خوب ماری ہو گی کہ کمبخت ! جس کی میں عزت کرتا تھا اور جو محمد رسول اللہ کو اتنا پیارا تھا کہ جب آپ کی دوسری لڑکی بھی جو حضرت عثمان سے بیاہی ہوئی تھی فوت ہو گئی تو آپ نے فرمایا اگر میری کوئی اور بیٹی زندہ ہوتی تو میں وہ بھی عثمان سے بیاہ دیتا.کیا تجھے شرم نہ آئی کہ تو نے اس ؟ حملہ کیا اور اس کی داڑھی کھینچی.میں نے دیکھا ہے بعض لوگ سوچنا جانتے ہیں اور بعض نہیں جانتے.آج ہی ڈاکٹر شاہ نواز صاحب کا خط آیا ہے.انہیں چونکہ سوچنے کی عادت ہے اور وہ مضامین بھی لکھتے رہتے ہیں اس لیے وہ بات کی تہہ تک جلدی پہنچ جاتے ہیں..انہوں نے لکھا ہے کہ کیا آپ.

Page 326

$1956 313 خطبات محمود جلد نمبر 37 غور نہیں کیا کہ حضرت عثمان" پر بھی ابوبکر کے لڑکے نے ہی حملہ کیا تھا.آپ کی عمر بھی چونکہ لبی ہو گئی ہے اس لیے عمر کے لمبا ہونے کی وجہ سے آپ پر بھی عثمانی زمانہ آ گیا ہے.حضرت ابوبکر خلیفہ اول سے یقیناً بڑے تھے کیونکہ وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خلیفہ تھے اور حضرت خلیفہ اول مسیح موعود کے خلیفہ تھے جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خادم اور غلام تھے مگر ان کے اس درجہ نے بھی ان کی اولاد کو نہ بیچایا اور ان میں سے ایک نے ایسا فعل کیا کہ چاہے ابو بکر کا لحاظ کر کے ہم بولیں نہیں مگر ہمارے دل اُس پر لعنت کرتے ہیں اور میں سمجھتا ہوں کہ ابوبکر بھی قیامت کے دن اُس پر لعنتیں ہی ڈالیں گے.یہ الگ بات ہے کہ محمد رسول اللہ کی مہربانی جوش میں آ جائے اور آپ کہہ دیں کہ اسے معاف کر دو.بہر حال نہ ابو بکر نے اپنے بیٹے کو بچایا اور نہ نورالدین اپنے بیٹے کو بچا سکتا ہے.خدا کی لعنت آتی ہے تو نوح جیسے عظیم الشان نبی کے بیٹے پر بھی آ گرتی ہے.دیکھو قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بیویوں کی نسبت فرماتا ہے کہ اگر تم گناہ کرو گی تو تم دہرے عذاب کی مستحق ہو گی.4 یہ نہیں کہا کہ ایک بڑے خاندان میں سے ہونے کی وجہ سے تمہارا عذاب کم کر دیا جائے گا.بلکہ فرماتا ہے کہ اگر تم اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کرو گی تو دُہرے عذاب میں مبتلا کی جاؤ گی.پس بڑے آدمی کا بیٹا ہونا اُسے سزا سے بچاتا نہیں بلکہ اور زیادہ عذاب کا مستحق بنا دیتا ہے بشرطیکہ وہ تو بہ نہ کرے.ہاں! اگر وہ توبہ کر لے تو پھر کہنے کی ضرورت نہیں.ہر شخص اس کی عزت کرتا ہے.لیکن جب خدا کسی کی عزت کو کھونا چاہے تو پھر کوئی شخص اُسے عزت نہیں دے سکتا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے الہاماً فرمایا تھا ه إِنِّي مُهِينٌ مَنْ اَرَادَ اهَانَتَكَ 5 میں اس شخص کو ذلیل کروں گا جو تیری ذلت اور اہانت کا ارادہ کرے گا.چنانچہ جب پادری مارٹن کلارک نے آپ پر قتل کا مقدمہ کیا تو مولوی محمد حسین بٹالوی کو بھی جوش آ گیا اور اُس نے بھی اپنا نام گواہوں میں لکھوا دیا اور کہا کہ مرزا صاحب فسادی آدمی ہیں کوئی تعجب نہیں کہ انہوں نے کسی آدمی کو اسے قتل کرنے کے لیے بھجوا دیا ہو.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس مقدمہ کے لیے لاہور سے ایک غیر احمدی وکیل بلوایا جو اپنے کام میں بہت ہوشیار تھا.اُس نے گریدنا شروع کیا کہ میں کیا جرح کروں

Page 327

$1956 314 خطبات محمود جلد نمبر 37 جس سے گواہ کی حیثیت مخدوش ہو جائے.آخر اُسے معلوم ہوا کہ مولوی محمد حسین بٹالوی کی ماں اخلاقی لحاظ سے اچھی شہرت کی مالک نہیں تھی.لیکن بعد میں اُس نے توبہ کر لی اور اُن کے والد نے اُس سے نکاح کر لیا.وکیل کو جب یہ بات معلوم ہوئی تو اس نے کہا اگر میں یہ ثابت کر دوں کہ مولوی محمد حسین بٹالوی کی ماں ڈومنی یا کنچنی تھی تو اس کی گواہی کی کوئی حیثیت نہیں رہے گی.لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا کہ میں اس کی اجازت نہیں دیتا.اگر ی ماں میں کوئی نقص تھا تو اس کا مولوی محمد حسین بٹالوی پر کیا الزام آتا ہے.وہ کہنے لگا اگر جرح میں اس کی حیثیت کو گرایا نہ گیا تو خطرہ ہے کہ آپ کہیں قید نہ ہو جائیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہمیں اس کی کوئی پرواہ نہیں.اگر وہ ہمارے خلاف کوئی قدم اُٹھائے گا تو خدا خود اس کو پکڑے گا اور سزا دے گا مگر یہ نہیں ہو سکتا کہ اس کی ماں کے گناہ کی وجہ سے ہم اس کو قصور وار قرار دے دیں جیسے محمد بن ابی بکر نے جو گناہ کیا اس کی وجہ سے ابوبکر" پر کوئی الزام نہیں آ سکتا یا جیسے حضرت خلیفہ اول کی اولاد اگر کوئی بُرا کام کرے تو اس کی وجہ سے حضرت خلیفہ اول پر کوئی الزام نہیں آ سکتا.بیشک یہ ان کی طرف منسوب ہوتے ہیں مگر بیٹوں کے کسی فعل کی ماں باپ پر کیا ذمہ داری ہے.آخر نوح کے بیٹے کا قرآن کریم میں بھی ذکر اتا ہے 6 مگر کیا اس کے بعد ہمارا اختیار ہے کہ ہم نوح کو بُرا بھلا کہنا شروع کر دیں.اگر ہم یں گے تو کافروں میں شامل ہو جائیں گے.بہر حال یہ واقعات ایسے ہیں جو تاریخ میں ہمیں پہلے بھی دکھائی دیتے ہیں.جیسا کہ ڈاکٹر شاہ نواز صاحب نے لکھا ہے کہ آپ کیوں گھبراتے ہیں.حضرت عثمان پر بھی ابوبکر کے بیٹے نے ہی حملہ کیا تھا اور آج تک سب مسلمان اُس پر لعنت کرتے ہیں.مجھے خوب یاد ہے جب ہم حضرت خلیفہ اول سے پڑھا کرتے تھے تو جب بھی کربلا کے واقعات کا ذکر آتا آپ آہ بھر کر فرمایا کرتے تھے کہ مجھے ہمیشہ اس بات کے تصور کا شدید صدمہ ہوتا ہے کہ امام حسین پر کس شخص کے بیٹے نے حملہ کیا.آپ پر حملہ کرنے والا اُس شخص کا بیٹا تھا جو عشرہ مبشرہ میں شامل تھا یعنی ان دس لوگوں میں سے ایک تھا جن کے متعلق رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ فرمایا تھا کہ وہ بغیر کسی حساب کے جنت میں داخل کیے

Page 328

$1956 315 خطبات محمود جلد نمبر 37 جائیں گے.چنانچہ حضرت سعد بن ابی وقاص جو عشرہ مبشرہ میں سے تھے اُن کا بیٹا عمرو بن سعد امام حسین کا قاتل بنا.پس آپ ہمیشہ فرمایا کرتے تھے کہ دیکھو وہ کس باپ کا بیٹا تھا اور اس نے کیسا ظالمانہ فعل کیا.حسینؓ کے نانا سے اس کے باپ کو عزت ملی تھی مگر بجائے اس کے کہ وہ اس عزت کی قدر کرتا اُس نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نواسہ کو قتل کر دیا.آپ فرماتے تھے میں جب بھی اس واقعہ پر غور کرتا ہوں مجھے ہمیشہ افسوس آتا ہے اور دل میں خیال آتا ہے کہ انسان کو کیا پتا ہوتا ہے کہ اُس کی اولاد کیسی بننے والی ہے.اگر کسی کے ہاں ایسی اولاد ہونے والی ہو تو اِس سے اُس کا بے اولا د رہنا ہی اچھا ہوتا ہے.اب وسعد کی سب مسلمان تعریف کرتے ہیں مگر سعد کو کیا پتا تھا کہ جب میں مر جاؤں گا تو میرا بیٹا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نواسہ کو قتل کرنے والوں میں شامل ہو جائے گا.پس آپ ہمیشہ آہ بھرتے اور فرماتے جب سعد کے ہاں یہ بٹیا پیدا ہوا ہو گا تو اُسے کیا پتا تھا کہ ایک دن یہی بیٹا میرے آقا کے نواسہ کو مارے گا.پس ان باتوں کی پروا نہیں کرنی چاہیے.تاریخ بتاتی ہے کہ پہلے بھی ایسے واقعات ہوتے رہے ہیں لیکن پھر بھی ان واقعات کو ہم نظر انداز نہیں کر سکتے.حضرت عثمان کے زمانہ میں لوگوں سے یہی غلطی ہوئی کہ بعض صحابہ نے سمجھ لیا کہ یہ یونہی ایک معمولی سا فتنہ ہے اس کا کیا مقابلہ کرنا ہے.جب حضرت عثمانؓ پر تلوار اُٹھائی گئی تو آپ نے ان لوگوں سے فرمایا کہ بختو! میں تو اسی سال کا بڑھا ہوں میں نے ایک دن مرنا ہی تھا لیکن اب جو تم مجھ پر تلوار اُٹھا رہے ہو تو یاد رکھو! میرے قتل کے بعد قیامت تک مسلمان ان دوانگلیوں کی طرح پھٹے رہیں گے اور وہ کبھی اکٹھے نہیں ہوں گے.7- تمہارے اتحاد کا واحد ذریعہ یہ تھا کہ تم خلافت کو مضبوطی کے ساتھ پکڑے رہتے.میں نے تو مر جانا تھا.اسی سال میری عمر ہو چکی تھی.اب میں اور کتنا زندہ رہتا مگر میرے قتل کے بعد تم کبھی اتحاد سے نہیں رہو گے.چنانچہ دیکھ لو حضرت عثمان کو قتل کرنے والے زیادہ تر حضرت علی سے اپنا تعلق جتاتے تھے مگر حضرت عثمان کی شہادت کے بعد حضرت علیؓ نے اُن سے کیا سکھ پایا.پہلے جنگِ جمل ہوئی جس میں ہزاروں مسلمان مارے گئے.پھر معاویہؓ نے حملہ کر دیا.اور پھر وہی لوگ جو حضرت عثمان کے

Page 329

$1956 316 خطبات محمود جلد نمبر 37 قتل کے بعد حضرت علیؓ کے ساتھ جا ملے تھے اُنہی میں سے ایک جماعت حضرت علیؓ سے الگ کی ہو گئی اور اُس نے حضرت علی کو کافر کہنا شروع کر دیا.آخر حضرت علیؓ نے ان پر تلوار اُٹھائی اور ایک ہی دن میں دس ہزار خارجی قتل کر کے رکھ دیا.گویا وہ لوگ جنہوں نے عثمان کو علی کے نام سے مارا تھا انہوں نے پھر علی کے خلاف بغاوت کر دی اور آخر حضرت علی بھی انہی کے ہاتھوں شہید ہو گئے.اس کے بعد یہ اختلاف بڑھتا چلا گیا اور مسلمان کبھی ایک ہاتھ پر جمع نہ ہوئے.اب تیرہ سو سال کے بعد خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو مبعوث فرمایا ہے کہ مسلمانوں کو پھر ایک ہاتھ پر جمع کیا جائے اور ان کے اندر اتحاد اور یک جہتی پیدا کی جائے مگر اب پھر بعض خبیث اور بد باطن چاہتے ہیں کہ اس اتحاد کو توڑ دیں اور جماعت میں افتراق اور انتشار پیدا کر دیں.مگر ان کی ان کارروائیوں کا سوائے اس کے اور کوئی نتیجہ نہیں نکلے گا کہ اللہ تعالیٰ کی لعنت ان پر برسے گی.خدا تعالیٰ کے نزدیک سلسلہ کا اتحاد دس ہزار نورالدین سے بھی زیادہ قیمتی ہے.اور گدھے ہیں وہ جو ان کا نام لے کر فتنہ پھیلاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ وہ خلیفہ اول تھے.اگر وہ خلیفہ اول تھے تو نظام سلسلہ کے قائم کرنے کے لیے نہ کہ اس کو تباہ و برباد کرنے کے لیے.اگر کوئی شخص ان کا نام لے کر اس نظام کو توڑتا ہے تو وہ خود نورالدین پر قاتلانہ حملہ کرتا ہے اور خدا تعالیٰ کے عذاب سے اسے نورالدین ہر گز بچا نہیں سکے گا.خدا تعالیٰ ان سے کہے گا کہ میں نے تجھے اس لیے عزت نہیں دی تھی کہ تیرا نام لے کر یہ لوگ میرے سلسلہ اور نظام پر حملہ کریں اور اُس وقت شرم کے مارے حضرت خلیفہ اول کی گردن جھک جائے گی جس طرح ابوبکر کی گردن شرم کے مارے جھک جائے گی جن کے بیٹے نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے داماد اور آپ کے پیارے خلیفہ پر حملہ کیا.بیشک بہانے بناے والے ہزاروں بہانے بنائیں گے مگر جیسا کہ قرآن کریم میں آتا ہے وَلَاتَ حِيْنَ مَنَاصٍ.اب ان کے بہانے ختم ہو چکے ہیں اور ان کے لیے بھاگنے کا کوئی رستہ باقی نہیں رہا.سلسلہ کی خدمت کا اب ایک ہی طریق ہے کہ وہ خلافت کو مضبوطی کے ساتھ پکڑے رکھیں.اگر وہ اپنی فتنہ پردازیوں سے باز نہیں آئیں گے تو ایک نورالدین کیا نوح اور موسی

Page 330

$1956 317 خطبات محمود جلد نمبر 37 اور عیسی بھی مل کر انہیں خدا کے عذاب سے نہیں بچا سکیں گے.بلکہ دیکھ لو خود سادات میں ایسے لوگ موجود ہیں جو دین میں تفرقہ اندازی کرتے اور خدا تعالیٰ کے احکام کی نافرمانی کرتے ہیں مگر کیا اس لیے کہ وہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نسل میں سے ہیں ان کے گناہ معاف ہو جاتے ہیں؟ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جب مخالفین کو مباہلہ کے لیے چیلنج دیئے تو ان میں کئی سادات سے تعلق رکھنے والے لوگ بھی شامل تھے.پس محض کسی بڑے آدمی کی نسل میں سے ہونا اُسے خدا تعالیٰ کے عذاب سے نہیں بچا سکتا.میں نے دیکھا ہے کئی احمقوں نے اس بات کا اظہار کیا ہے کہ حضرت خلیفہ اول کی اولاد کو ایسا کیوں کہا جاتا ہے.میں ان سے کہتا ہوں کہ کیا تم اس بات پر غور نہیں کرتے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ادھر تو یہ لکھتے ہیں کہ میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا غلام ہوں اور اُدھر آپ کی اولاد کو مباہلہ کا چیلنج دیتے ہیں.یہ مباہلہ کا چیلنج آپ نے اسی لیے دیا کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اسلام اور مسلمانوں کی تنظیم اور ان کی تقویت کے لیے کھڑے ہوئے تھے.اگر آپ کی اولاد میں سے کوئی شخص اس تنظیم کو توڑنا چاہتا ہے تو وہ ہر گز کسی ہمدردی کا مستحق نہیں ہے.اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام اللہ تعالیٰ کی طرف سے اسلام کے دوبارہ احیاء اور مسلمانوں کی تنظیم اور ان کے اتحاد کے لیے مبعوث ہوئے تھے اور یہی ایک قیمتی یادگار ہے جو ہمارے پاس محفوظ ہے.اگر تم اس اتحاد کو توڑنے لگے تو تمہاری خدا تعالیٰ کو کیا پروا ہوسکتی ہے.احمدیت نے دنیا میں پھیل کر رہنا ہے اور جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے لکھا ہے تین سو سال میں احمدیت ساری دنیا میں پھیل جائے گی.لیکن اگر احمدیت کی تنظیم ٹوٹ جائے تو تین سو سال چھوڑ کیا تین ہزار سال میں بھی احمدیت غالب آ سکتی ہے؟ کیا تین لاکھ سال میں بھی احمدیت غالب آ سکتی ہے؟ احمدیت کی تنظیم ٹوٹ جائے تو چند دنوں میں ہی احمدیت ختم ہو جائے گی اور عیسائی مصنف اپنی کتابوں میں لکھیں گے کہ قادیان میں نَعُوذُ باللهِ ) ایک کذاب پیدا ہوا تھا جو بڑے بڑے دعوے لے کر کھڑا ہوا مگر تھوڑے دنوں میں ہی اُس کا بیڑہ غرق ہو گیا اور اُس کی جماعت کا اتحاد پارہ پارہ ہو گیا.یہ بد بخت چاہتے ہیں کہ عیسائیوں کے ہاتھوں سے مرزا صاحب کو کذاب لکھا جائے.یہ بدبخت چاہتے ہیں کہ

Page 331

$1956 318 خطبات محمود جلد نمبر 37 مرزا صاحب کو ناکام و نامراد کیا جائے.کیا ایسے خبیثوں کا ہم ادب کریں گے یا ان کا مقابلہ کریں گے؟ ہم نے ان کے باپ کو اس لیے مانا تھا کہ وہ مسیح موعود کا موعود کا غلام تھا.اگر وہ مرزا صاحب کے غلام نہ ہوتے اور اگر مرزا صاحب، محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے غلام نہ ہوتے تو ہم نہ نورالدین کو مانتے اور نہ مسیح موعود کو مانتے.نورالدین کو ہم نے اس لیے مانا کہ وہ مسیح موعود کا غلام تھا اور مسیح موعود کو ہم نے اس لیے مانا کہ وہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا غلام تھا.اگر اس زنجیر کو توڑ دو تو پھر ایمان لانے کا کوئی سوال ہی باقی نہیں رہتا.خود حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے لکھا ہے کہ اگر میری وحی قرآن کے خلاف ہو تو میں اُسے تُھوک کی طرح پھینک دوں.10 پس آپ نے جب اپنی وحی کے متعلق یہ الفاظ لکھ دیئے تو اس سے صاف پتا لگتا ہے کہ محض کسی بڑے آدمی کی طرف منسوب ہونا کوئی حقیقت نہیں رکھتا.اصل بات جو دیکھنے والی ہوتی ہے وہ یہ ہوتی ہے کہ بڑا آدمی جس راستہ پر چلا تھا آیا وہی راستہ چھوٹے نے بھی اختیار کیا ہے یا نہیں کیا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو ہی دیکھ لو آپ ایک طرف تو یہ لکھتے ہیں کہ خدا کی قسم ! مجھے اپنی وحی کی صداقت اور اس کے منجانب اللہ ہونے پر ویسا ہی یقین ہے جیسے قرآن کی صداقت پر یقین ہے 11 مگر پھر دوسری طرف آپ یہ بھی فرماتے ہیں کہ اگر میری وحی قرآن کے خلاف ہو تو اُسے تُھوک کی طرح پھینک دو.اسی طرح اگر کسی بڑے آدمی کی اولا د مسیح موعود کے مشن کو توڑنا چاہے یا مسیح موعود کی اولاد محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مشن کو توڑنا چاہے تو ہم بغیر کسی ڈر کے اُس پر لعنت کرنے کے لیے کھڑے ہو جائیں نی گے اور کہیں گے کہ یہ بدبخت جس درخت کے سائے میں بیٹھا ہوا ہے.اُسی درخت کی جڑ پر تبر رکھنا چاہتا اور اسے کاٹ کر پھینک دینا چاہتا ہے.میں سمجھتا ہوں اگر یہ خبیث کامیاب ہو جائیں تو کسی اور کو کوئی فائدہ ہو یا نہ ہو مرزا صاحب نَعُوذُ بِاللہ ضرور کذاب ثابت ہوں گے اور دنیا کہے گی کہ جس مشن کے لیے کھڑے ہوئے تھے اُس میں وہ ناکام ہو گئے.پس ہمیں کم از کم تین سو سال تک تو اکٹھا رہنا چاہیے تا کہ ہم عیسائیت کا مقابلہ کر سکیں اور اسلام کو دنیا کے کونہ کونہ میں پھیلا سکیں.وہ

Page 332

خطبات محمود جلد نمبر 37 319 $1956 ہم حضرت خلیفہ اول کا بڑا ادب کرتے ہیں.مگر یہ لوگ بتائیں تو سہی کہ وہ کونسے ملک ہیں جن میں مولوی نورالدین صاحب نے اسلام کی تبلیغ کی؟ یورپ، امریکہ، افریقہ اور ایشیا میں وہ کوئی ایک ملک ہی دکھا دیں جس میں انہوں نے اسلام پھیلایا ہو.ہر ملک میں میں نے مبلغ بھجوائے.یورپ کی ہر مسجد میں نے بنوائی اور بیرونی ممالک میں ہرمشن میں نے قائم کیا.اگر اس کو ہٹا دیا جائے تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنے دعوی میں بالکل ناکام ثابت ہوتے ہیں.پس میری موت اور میری ناکامی، میری موت اور میری ناکامی نہیں بلکہ حضرت مسیح موعود کے مشن کی موت اور ناکامی ہے اور مسیح موعود کے مشن کی موت اور ناکامی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مشن کی موت اور ناکامی ہے.اب جس کا دل چاہے وہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر حملہ کر دے.مگر وہ یاد رکھے اگر وہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر حملہ کرے گا تو خدا کے ہاتھ میں بھی تلوار ہے جس سے وہ بچ نہیں سکے گا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو دیکھو آپ پر جب گورداسپور میں کرم دین کے ساتھ مقدمہ تھا تو آپ کے پاس رپورٹ پہنچی کہ آریوں نے مجسٹریٹ کو سزا دینے پر آمادہ کر لیا ہے اور ہمیں اس کے مقابلہ کے لیے کوئی تدبیر اختیار کرنی چاہیے.یہ رپورٹ لانے والے خواجہ کمال الدین صاحب تھے.آپ نے جب یہ بات سنی تو اُٹھ کر بیٹھ گئے اور فرمایا خواجہ صاحب! آپ گھبراتے کیوں ہیں؟ خدا کے شیر پر ہاتھ ڈالنا کوئی آسان کام ہے؟ میں خدا کا شیر ہوں.اگر وہ مجھ پر ہاتھ ڈالے گا تو میرا خدا اُسے سیدھا کر دے گا.پس یہ باتیں روحانی طور پر تو بے حقیقت ہیں لیکن خدا کے سامنے جواب دہی کے لحاظ سے بڑی اہم ہیں اور جماعت کو ان کی اہمیت سمجھنے کی پوری کوشش کرنی چاہیے.میں نے دیکھا ہے جماعت میں سے بعض بیوقوف ایسے ہیں جو کہہ دیتے ہیں کہ ان باتوں میں کیا رکھا ہے.ہمارے سلسلہ کا خدا حافظ ہے.وہ یہ نہیں دیکھتے کہ حضرت عثمان کے زمانہ میں ابوبکر کی اولاد میں سے ہی ایک خبیث نے کیا کیا.اور گو وہ بعد میں تائب ہو گیا مگر بہر حال وہ فتنہ پھیلانے والوں کے ساتھ شامل ہوا اور اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ مسلمانوں کا اتحاد

Page 333

خطبات محمود جلد نمبر 37 320 $1956 پارہ پارہ ہو گیا.تم بتاؤ کہ کیا خدا تعالیٰ کی نگاہ میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کم عزت تھی اسی اور مرزا صاحب کی زیادہ عزت ہے؟ انہوں نے بھی اُس وقت یہی سمجھا تھا کہ اسلام کا خدا حافظ ہے اور انہوں نے فتنوں کا مقابلہ کرنے میں سُستی دکھائی مگر اس کا جو نتیجہ نکلا اُس پر ہر مسلمان آج تک خون کے آنسو بہاتا ہے.دیکھ لو حضرت علیؓ نے گو ظاہر میں اس فتنہ میں حصہ نہیں لیا مگر فتنہ انگیزوں کا مقابلہ کرنے میں ان سے کچھ سستی ہوئی.آخر حضرت عثمان مارے گئے تو اس کے بعد حضرت علیؓ بھی مارے گئے.اور پھر حضرت حسنؓ کو معاویہ کے آگے اپنا سر جھکانا پڑا اور ان سے وظیفہ مانگنا پڑا.پھر حضرت امام حسین شہید ہوئے اور اُن کے ساتھ اہلِ بیت کے اور بھی کئی افراد شہید ہوئے.بیشک آخر میں حضرت علی نے بڑی قربانی کی تھی.چنانچہ تاریخ میں لکھا ہے کہ جب انہوں نے دیکھا کہ فتنہ بڑھتا چلا جا رہا ہے تو انہوں نے اپنے بیٹوں حضرت حسن اور حسین کو بلا کر کہا کہ تم جاؤ اور حضرت عثمان کے مکان کا پہرہ دو.لیکن چونکہ وہ بچے تھے اُن سے غلطی یہ ہوئی کہ وہ آپ کے مکان کی دیوار کے ایک طرف پہرہ دیتے رہے اور حملہ آور دوسری طرف سے گود کر اندر آ گئے اور انہوں نے حضرت عثمان کو شہید کر دیا.پس انہوں نے حضرت عثمان کی حفاظت کی کوشش تو کی مگر اس میں وہ کامیاب نہ ہو سکے.اس فتنہ کے متعلق بھی باہر سے جو خط آ رہے ہیں اُن سے معلوم ہوتا ہے کہ بعض تجربہ کار آدمی بھی اس شخص کے دھوکا میں آگئے تھے.مثلاً یہاں کے مربی نے ہی لکھا کہ اُس نے جو کہا کہ میاں بشیر احمد صاحب اور عبد الوہاب کی چٹھیاں میرے پاس ہیں تو میں نے سمجھا کہ یہ کوئی مشتبہ آدمی نہیں.حالانکہ وہ تو مربی ہے اور مربی کو بہت ہوشیار ہونا چا.راولپنڈی سے وہاں کے قائد کی جو ایک نوجوان شخص ہے رپورٹ آئی ہے کہ جب یہ میرے پاس آیا تو اُسے دیکھتے ہی میں استغفار پڑھنے لگ گیا اور سمجھ گیا کہ یہ شیطان ہے جو میرے سامنے آیا ہے.اس کے بعد وہ مجھے کہنے لگا کہ یہاں سے مری کو کوئی بسیں جاتی ہیں؟ میں نے کہا یہاں تو کئی اڈے ہیں اور بسیں آتی جاتی ہیں تم کسی اڈے پر چلے جاؤ تمہیں بس مل جائے گی.اس پر وہ شور مچانے لگ گیا اور کہنے لگا کہ کیا مجھے اس کا علم نہیں تھا.میں تو بڑ.

Page 334

$1956 321 خطبات محمود جلد نمبر 37 بڑے امیروں اور قائدوں کو دیکھتا پھرتا ہوں کہ ان کا عمل کیسا ہے اور وہ کہتے کیا ہیں اور کرتے کیا ہیں.میں نے کہا اگر تم ایسے ہی نیک ہو تو سڑک پر بیٹھ جاؤ تمہیں آپ ہی لاری مل جائے گی.غرض ایک بچہ سمجھ گیا کہ یہ فتنہ پرداز شخص ہے.مگر یہاں کے مربی صاحب دھوکے میں آ گئے اور کہنے لگے اس نے یہ عذر کر دیا تھا وہ عذر کر دیا تھا.اسی طرح آج ہی باہر سے ایک خط آیا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ شخص مردان پہنچا اور وہاں کے امیر نے اسے اپنے پاس ٹھہرا لیا.ڈاکٹرمحمد دین صاحب لکھتے ہیں کہ میں نے اسے دیکھ کر امیر صاحب سے کہا کہ یہ تو منافق ہے اور قادیان سے نکلا ہوا ہے آپ نے اسے کیوں جگہ دی ہے؟ وہ کہنے لگے مجھے تو معلوم نہیں تھا.اس نے مجھے دھوکا دیا ہے.میں نے کہا آپ امیر ہیں آپ کے دل میں خدا تعالیٰ نے ضرور کوئی خرابی دیکھی ہے جس کی وجہ سے آپ اس دھوکا میں مبتلا ہو گئے ہیں.اسی طرح یہ کو ہاٹ گیا.وہاں میاں بشیر احمد صاحب کا لڑکا ڈاکٹر مبشر احمد رہتا ہے.یہ مبشر احمد کے پاس گیا اور کہنے لگا میں احمدی ہوں اور یہاں رات رہنا چاہتا ہوں پہلے تو مبشر احمد کے دل میں کچھ نرمی پیدا ہوئی اور انہوں نے چاہا کہ اسے جگہ دے دی جائے لیکن اُن کی بیوی جو میری بھانجی ہیں وہ کہتی ہیں میں نے اسے دیکھا تو میں نے کہا یہ تو بڑا خبیث آدمی نظر آتا ہے.اسے جلدی یہاں سے نکالو.پھر انہوں نے پوچھا کہ نام کیا ہے؟ اس نے کہا اللہ رکھا.وہ کہنے لگیں کہ یہ تو قادیان سے نکالا ہوا ہے.اسے کہو کہ فوراً یہاں سے چلا جائے.چنانچہ انہوں نے اسے اپنے مکان سے نکال دیا.اس پر وہ کہنے لگا دیکھ لیا ت مسیح موعود کی اولاد کو.مجھے نہیں پتا تھا کہ ایک احمدی کے ٹھہرانے میں بھی اتنے بخل سے کام لیا جائے گا.اب دیکھو! پہلے مبشر احمد کچھ نرم ہوا مگر پھر بیوی کے کہنے پر ہوشیار ہو گیا اور جب اس نے نام لیا تو وہ سمجھ گئیں اور انہوں نے کہا کہ اس خبیث کو یہاں سے جلدی نکالو.اس کے بعد وہ چلا گیا اور اُس نے وہاں کے امیر جماعت کی معرفت انہیں گالیوں سے بھرا ہوا خط لکھا کہ مجھے پتا نہیں تھا مسیح موعود کی اولاد اتنی بے ایمان ہو چکی ہے.میں تو یہاں احمدیوں کی خدمت کرنے کے لیے آیا تھا حالانکہ درحقیقت وہ احمدیوں کی

Page 335

$1956 322 خطبات محمود جلد نمبر 37 خدمت کرنے کے لیے نہیں بلکہ احمدیوں کے دشمنوں کی خدمت کرنے کے لیے آیا تھا لیکن اللہ تعالیٰ نے اس لڑکے کو بچا لیا.الفضل 2 اگست 1956 ء ) 1 : نشان آسمانی صفحه 46 روحانی خزائن جلد نمبر 4 صفحہ 411.کمپیوٹرائزڈ 2008 ء 2 بخاری کتاب الفضائل باب قول النبى صلى الله عليه وسلم لَوْ كُنتُ مُتَّخِذَا خَلِيلًا 3 : تاریخ الطبری جلد 2 صفحہ 677 ثم دخلت سنة خمس وثلاثين ذكر الخبر عن قتل عثمان بيروت 2012ء :4 : نِسَاءَ النَّبِيِّ مَنْ يَّأْتِ مِنْكُنَ بِفَاحِشَةٍ مُّبَيِّنَةٍ يُضْعَفُ لَهَا الْعَذَابُ ضِعْفَيْنِ (الاحزاب: 31) 5 : تذکره صفحه 27 ایڈیشن چہارم 2004 ء : وَنَادَى نُوحٌ رَّبَّهُ فَقَالَ رَبِّ إِنَّ ابْنِي مِنْ أَهْلِي (هود: 46) : تاریخ الطبری جلد 2 صفحہ 678 ذكر الخبر عن قتل عثمان لبنان 2012ء 4::8 و: تذكرة الشہادتین.روحانی خزائن جلد نمبر 20 صفحہ 67.کمپیوٹرائزڈ 2008ء 10 آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن جلد نمبر 5 صفحہ 21.کمپیوٹرائزڈ 2008ء 113 حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد نمبر 22 صفحہ 220.کمپیوٹرائزڈ 2008ء

Page 336

$1956 323 30 خطبات محمود جلد نمبر 37 اگر تم اللہ تعالیٰ کی طرف جھکو اور اُسی سے مدد طلب کرو تو منافقین کی شرارتیں هَبَاءٌ مُنبَقًا ہو جائیں گی لگا سوچو اور غور کرو کہ اگر خلافت مٹ جائے تو کیا احمدیت کے ذریعہ اسلام کے غلبہ کا کچھ بھی امکان باقی رہ سکتا ہے؟ (فرموده 3 راگست 1956ء بمقام ربوہ) تشهد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: جکل ہماری جماعت میں منافقین کا فتنہ شروع ہے.چونکہ قرآن کریم میں بھی فتنوں کا ذکر آتا ہے اور ان کی ساری چالیں بیان ہوئی ہیں.اس لیے جماعت کے دوست علاوہ صحابہ کے حالات کے اگر قرآن کریم کی ان آیات کو بھی غور سے پڑھیں تو انہیں ان کی ساری باتوں کا پتا لگ جائے گا.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جب منافقوں کو ان کی باتیں سنائی جاتی ہیں تو وہ قسمیں کھاتے ہیں اور کہتے ہیں ہم نے تو کوئی ایسی بات نہیں کہی 1.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ان کا قسمیں کھانا ہی ان کی منافقت کا ثبوت ہے کیونکہ قسم ضرورت کے وقت کھائی جاتی ہے اور جو شخص بلا ضرورت قسمیں کھاتا ہے وہ منافق ہوتا ہے.

Page 337

$1956 324 خطبات محمود جلد نمبر 37 چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَلَا تُطِعْ كُلَّ حَلافٍ مَّهِيْنِ 3 کہ تو ہر قسم کھانے والے ذلیل انسان کی اطاعت نہ کر.یعنی اگر کوئی شخص تمہارے پاس آ کر قسمیں کھاتا ہے تو تو اُس کی قسموں پر اعتبار کرتے ہوئے اس بات کو نہ مان لے بلکہ تو اُس کے اعمال کی طرف دیکھ.اگر اُس کے اعمال ذلیل نظر آئیں تو اُس کی اطاعت و فرمانبرداری کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا.اگر کوئی شخص تمہارے پاس آ کر قسمیں کھاتا ہے اور اُس کے متعلق یہ معلوم ہو جائے کہ منہ اُس کے اعمال ناقص ہیں، وہ نماز، روزہ میں سُست ہے، نیکی اور تقوی سے عاری ہے تو تمہیں سمجھ لینا چاہیے کہ اس کا قسمیں کھانا اُس کی منافقت کی دلیل ہے.اسی طرح بعض لوگ کہتے ہیں کہ فلاں شہادت سے اتنی بات تو ثابت ہو گئی اب باقی کے لیے مزید ثبوت کی ضرورت ہے.حالانکہ اگر کسی کا تھوڑا سا ایمان بھی کمزور ثابت ہو جائے تو اُس کا باقی ایمان بھی کمزور ثابت ہو جاتا ہے.اگر کسی کے اندر تھوڑی سی منافقت پائی جائے کی تو معلوم ہو جائے گا کہ اُس کے اندر بہت سی منافقت پائے جانے کا بھی امکان ہے.اگر کسی کے اندر تھوڑا سا کفر ثابت ہو جائے تو اُس میں زیادہ کفر بھی پایا جا سکتا ہے.مثلاً دیکھ لو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دعوی سے پہلے بیت اللہ میں تین سو ساٹھ بت تھے.اب اگر کوئی شخص کسی ایک بُت کی پرستش کرتے پکڑا جائے تو کیا وہ کہہ سکتا ہے کہ میں نے تو صرف ایک بت کی پوجا کی ہے تین سو انسٹھ بجھوں کی پوچھا کرنے کا کوئی ثبوت نہیں؟ صاف بات ہے کہ جب اُس نے ایک بت کی پوجا کر لی تو اُس کے متعلق یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ وہ باقی تین سو انسٹھ بُھوں کی بھی پوجا کرتا ہے.اسی حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ قَدْ بَدَتِ الْبَغْضَاءُ مِنْ أَفْوَاهِهِمْ 4 اُن کے منہ سے بعض بغض کی باتیں نکلی ہیں جن سے اُن کی دشمنی ظاہر ہو گئی ہے.وَمَا تُخْفِی صُدُورُهُمْ أَكْبَرُ 5 اور جو کچھ اُن کے دلوں میں ہے وہ اس سے بہت زیادہ ہے.گویا اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر کسی کی منافقت کی بعض باتیں معلوم ہو جائیں تو اُس کے متعلق یہ کہنا کہ اُس کی دوسری باتیں ثابت نہیں ہوئیں درست نہیں ہوتا.اگر اس کی بعض منافقانہ باتیں ثابت ہو چکی ہیں تو ماننا پڑے گا کہ باقی باتیں بھی اُس کے اندر پائی جاتی ہیں.

Page 338

خطبات محمود جلد نمبر 37 325 $1956 پھر ہر چیز کا میلان ہوتا ہے.ایمان کا بھی میلان ہوتا ہے، نفاق کا بھی میلان ہوتا ہے اور کفر کا بھی میلان ہوتا ہے.اگر کوئی شخص ایک نبی کی کسی پیشگوئی کے متعلق یہ کہتا ہے کہ جھوٹی نکلی ہے تو اگر اُس کے متعلق یہ کہا جائے کہ وہ اس کی باقی پیشگوئیوں کو بھی درست تسلیم نہیں کرتا تو ہمیں اس کے ماننے میں کوئی دریغ نہیں ہو گا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق قرآن کریم میں آتا ہے کہ آپ نے اپنی قوم کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا فَقَدْ لَبِثْتُ فِيْكُمُ عُمُرًا مِّنْ قَبْلِهِ أَفَلَا تَعْقِلُونَ کہ دعوی نبوت سے پہلے میں تم میں ایک لمبی عمر 6 گزار چکا ہوں کیا تم میں عقل نہیں کہ میری اس زندگی پر غور کرو.اب اگر کوئی شخص کہہ دے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں نَعُوذُ بِاللهِ فلاں بُرائی تھی تو اس کے متعلق یہ نہیں کہا جا سکتا کہ اُس نے صرف یہ کہا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم میں فلاں برائی ہے باقی برائیوں کا کی تو اُس نے ذکر نہیں کیا.بلکہ اگر وہ آپ کی طرف ایک جھوٹ منسوب کرتا ہے تو وہ آپ کی طرف لاکھوں اور کروڑوں جھوٹ بھی منسوب کر سکتا ہے.بہر حال جو بات اُس کے متعلق معلوم ہو چکی ہے وہ قَدْ بَدَتِ الْبَغْضَاءُ مِنْ أَفْوَاهِهِمْ میں آ جائے گی اور جو بات معلوم نہیں لیکن اُس کے متعلق کہی جاتی ہے وہ وَمَا تُخْفِي صُدُورُهُمْ اَكْبَرُ من آجائے گی.یعنی اگر کسی کے اندر تھوڑا سا گند پایا جانا ثابت ہو جائے تو اُس کے اندر زیادہ گند کا پایا جانا بھی ماننا پڑے گا.پس دوستوں کو صرف اُن باتوں کی طرف ہی نہیں دیکھنا چاہیے جو منافق کہتا ہے بلکہ انہیں اُن باتوں کا بھی خیال رکھنا چاہیے جو اُس کے اندر مخفی ہوتی ہیں کیونکہ وہ ان سے بھی زیادہ خطرناک ہوتی ہیں.انہی منافقوں کو دیکھ لو جنہوں نے اب فتنہ برپا کیا ہے ان کے جھوٹ ثابت ہو رہے ہیں.ایک منافق نے میاں بشیر احمد صاحب کے متعلق ایک بات بیان کی تھی.جب ہم نے راولپنڈی کے مربی سے دریافت کیا کہ اُس نے فلاں شخص کو اپنے ہاں کیوں ٹھہرایا؟ تو اُس نے بیان کیا کہ اُس منافق نے میاں بشیر احمد صاحب کے متعلق فلاں بات بیان کی تھی جس کی وجہ سے میں نے اسے اپنے پاس ٹھہرنے کی اجازت دے دی.لیکن میاں بشیر احمد صاحب سے پوچھا گیا تو انہوں نے بتایا کہ یہ سب جھوٹ ہے.بہرحال

Page 339

$1956 326 خطبات محمود جلد نمبر 37 جب کوئی شخص ایک جھوٹ بولتا ہے تو وہ ہزار جھوٹ بھی بول سکتا ہے.صرف ایک جھوٹ ثابت کرنے کی ضرورت ہوتی ہے.اگر ایک جھوٹ ثابت ہو جائے تو باقی سارے جھوٹ خود بخود ثابت ہو جاتے ہیں.ہماری شریعت نے مختلف مجرموں کے لیے گواہوں کی مختلف تعداد رکھی ہے.کسی مجرم کے لیے دو گواہوں کی ضرورت ہوتی ہے اور کسی مجرم کے لیے چار گواہوں کی ضرورت ہوتی ہے.اگر کسی کا ایک مُجرم ثابت ہو جائے اور اُس کے لیے دو گواہوں کی ضرورت ہو اور وہ دو گواہ مل جائیں تو اُس قسم کے اور مُجرم بھی اگر اُس کے متعلق معلوم ہوں تو وہ بھی ثابت ہو جائیں گے.ان کے لیے علیحدہ گواہوں کی ضرورت نہیں ہو گی سوائے اس کے کہ باقی مجرموں کے لیے علیحدہ تعزیر ہو.مثلاً ہماری شریعت نے چوری کی سزا ہاتھ کاٹنا رکھا ہے.7 اب اگر کسی شخص پر چوری کا الزام لگایا جائے اور اس کے دو گواہ ملنے پر اُس کا ہاتھ کاٹ دیا جائے تو اُس کے دوسرے مجرم کے لیے دو اور گواہوں کی ضرورت ہو گی.کیونکہ اس کے لیے اُس کا دوسرا ہاتھ کاٹنا پڑتا ہے لیکن اگر دوسرے جُرم کی کوئی علیحدہ تعزیر نہ ہو تو علیحدہ گواہوں کی بھی ضرورت نہیں ہو گی.مثلاً ایک شخص کو کسی جُرم کی بناء پر اخراج از جماعت کی سزا دی گئی ہے تو اُس کے اس قسم کے مُجرم کے لیے مزید گواہوں کی ضرورت نہیں ہو گی کیونکہ اُس کے دوسرے جُرم کے لیے کوئی علیحدہ تعزیر نہیں.لیکن اگر کسی شخص کو ایک دفعہ کسی جرم کی بناء پر کوڑے لگائے گئے ہوں تو اُس کے اس قسم کے دوسرے جُرم کے لیے دو مزید گواہوں کی ضرورت ہو گی.ہاں! اگر دوسرے جُرم کی کوئی نئی سزا نہ ہو تو اس کے پہلے جرم کے گواہ ہی دوسرے جرم کے ثبوت کے لیے کافی ہوں گے کیونکہ قرآن کریم فرماتا ہے وَمَا تُخْفِى صُدُورُهُمُ اكْبَرُ جو ان کے دلوں میں ہے وہ اس سے بڑا ہے جو ظاہر ہو چکا ہے.اس کے لیے دوسرے گواہوں کی ضرورت نہیں.اگر کسی کا ایک جرم ثابت ہو جائے تو اس کا دوسرا جرم بھی ثابت ہو جائے گا.مثلاً اگر کسی کے نفاق اور کفر کی ایک بات ثابت ہو جائے تو اُس کی دوسری نفاق اور کفر کی باتیں بھی درست تسلیم کر لی جائیں گی.لیکن جن مجرموں کی سزا ہاتھ کاٹنا یا کوڑے لگانا ہے ان میں سے ہر نئے جُرم کے لیے علیحدہ گواہوں کی ضرورت ہوگی کیونکہ اسے پہلے جرم کی سزا دی جا چکی ہے اور نئے جرم پر اور سزا دی جائے گی.لیکن کسی کے نفاق

Page 340

$1956 327 خطبات محمود جلد نمبر 37 کفر کے لیے یا اُسے جھوٹا قرار دینے کے لیے پہلے دو گواہ ہی کافی ہوں گے.کیونکہ قرآن کریم فرماتا ہے قَدْ بَدَتِ الْبَغْضَاءُ مِنْ أَفْوَاهِهِمْ ان کے مونہوں ایک بات ظاہر ہو چکی ہے اور اس کے گواہ مل گئے ہیں.اب اسی قسم کی اور باتوں کے ثبوت کے لیے مزید گواہوں کی ضرورت نہیں.اگر اس کی طرف دس ہزار باتیں بھی منافقت کی منسوب ہو جائیں تو ہم ان پہلے دو گواہوں کی وجہ سے ہی انہیں تسلیم کرتے چلے جائیں گے.کیونکہ ان کے نتیجہ میں جو بات پیدا ہوئی ہے وہ نئی نہیں.ہاں اگر نئی بات پیدا ہوتی ہو تو اُس کے لیے اور گواہوں کی ضرورت ہو گی.جیسے مثلاً گورنمنٹ چوری کے مجرم کو سزا دیتی ہے.اگر عدالت میں کسی پر چوری کا جرم ثابت ہو جائے تو وہ اُسے قید کی سزا دے دے گی.اگر وہ شخص دوبارہ چوری کرے تو عدالت اس کے لیے مزید گواہ مانگے گی اور کہے گی کہ پہلے جرم کے دو گواہ ملے تو ہم نے اسے قید کر دیا تھا.اب اسے مزید قید کی سزا دینی ہو گی اس لیے نئے گواہوں کی ضرورت ہے.غرض سزا کے تکرار کے ساتھ گواہوں کے تکرار کا تعلق ہوتا ہے اور اگر سزا میں تکرار نہیں تو پھر گواہوں میں بھی تکرار اور اعادہ کی ضرورت نہیں ہوتی.پس جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ کسی شخص کی منافقت کے ظاہر ہونے پر ہر نئے الزام کے لیے نئے گواہوں کی ضرورت ہے وہ یاد رکھیں کہ نئے گواہوں کی اُسی وقت ضرورت ہوتی ہے جب نئی سزا دینی ہو.اگر نئی سزا نہیں ملتی تو نئے گواہوں کی بھی ضرورت نہیں.سیدھی بات ہے کہ اگر ایک شخص ایک دفعہ مُردار کھا لے تو اُس کے دوسری دفعہ مُردار کھا لینے سے کیا بنتا ہے.اس کے ایک دفعہ مردار کھا لینے سے یہ بات ثابت ہو جائے گی کہ اُس کی ذہنیت گند کی طرف مائل ہے.اگر وہ دوسری دفعہ بھی مُردار کھا لے تو ایک ہی بات ہے.ہاں! اگر ایک دفعہ مُردار کھانے کی سزا اور ملی ہو اور دوسری دفعہ مُردار کھانے کی سزا اور ہو تو ہم دوسرے الزام کے لیے نئے گواہ طلب کریں گے.پس نئے گواہوں کی اُس وقت ضرورت ہو گی جب نئی سزا ملنی ہو.بہر حال اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے وَمَا تُخْفِي صُدُورُهُمْ أَكْبَرُجو کچھ ان کے دلوں میں ہے وہ بہت بڑا ہے.اور چونکہ دلوں کی صفائی خدا تعالیٰ کے اختیار میں ہے اس لیے صرف ریزولیوشن پاس کر کے بھجوا دینے سے کچھ نہیں بنتا.کیونکہ منافق جو منصوبہ

Page 341

$1956 328 خطبات محمود جلد نمبر 37 سوچتا ہے وہ دل میں سوچتا ہے.میں نے سفر سے واپس آتے ہی دوستوں کو اپنی ایک رؤیا سنائی تھی.اُس رویا میں بھی بعض لوگوں کی منافقت کی طرف ہی اشارہ تھا.میں نے خواب میں ایک عورت کے متعلق دیکھا کہ اُس نے مجھ پر مسمریزم کا عمل کیا ہے اور اس کا اثر مجھ پر ہو گیا ہے.لیکن جب میں اُس کی اس حرکت سے واقف ہو جاتا ہوں تو میں اُسے کہتا ہوں کہ تو نے میری بے خبری کے عالم میں مجھ پر مسمریزم کا عمل کیا تھا.اب مجھے خبر ہو چکی ہے اور اب میں تیرا مقابلہ کروں گا.تو مجھ پر عمل کر کے دیکھ لے.پھر میں اُسے خواب میں ہی کہتا ہوں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق بھی حدیث میں آتا ہے کہ حضرت عائشہ فرماتی ہیں آپ کھانا کھاتے اور بھول جاتے کہ آپ نے کھانا کھایا ہے یا نماز پڑھتے تو بھول جاتے کہ آپ نے نماز پڑھی ہے یا نہیں پڑھی.حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ اُس جادو کا اثر تھا جو یہودیوں نے پر کیا تھا.8 ہم جادو کے تو قائل نہیں.ہاں! یہ ایک تدبیر تھی جو کی گئی اور مَكْرُ السَّيِّئَة بھی ایک قسم کا جادو ہی ہوتا ہے.خواب میں میں نے اُس عورت سے یہی کہا کہ تو مجھ پر اب جادو کرے تو جانوں.چنانچہ اس نے مجھ پر توجہ کی تو اُس کا کوئی اثر نہ ہوا.اس کے بعد میں نے اُس کی اُنگلی پر توجہ کی تو وہ اکڑ گئی.پھر ایک مرد آیا اور اُس نے اُس کی اس انگلی کو ٹھیک کرنا چاہا لیکن وہ ٹھیک نہ ہوئی.میں نے اُس مرد سے خواب میں کہا کہ اب یہ انگلی ٹھیک نہیں ہو گی.اُس عورت نے بے خبری کے عالم میں مجھ پر توجہ کر لی تھی.اب مجھے علم ہو گیا ہے.اب میں نے بھی اس پر توجہ کی ہے اور تم میں یہ طاقت نہیں کہ میری توجہ کے اثر کو زائل کر سکو.سو ان لوگوں نے بھی میرے ولایت جانے کو غنیمت جانا اور خیال کیا کہ اب خلیفہ کی باہر ہے ہم جو چاہیں کر سکتے ہیں.لیکن ان بیوقوفوں نے یہ نہ جانا کہ خدا تعالیٰ میرے ساتھ ہے.یہ لوگ باوجود ارادہ کے میری غیر حاضری میں کچھ نہ کر سکے.بلکہ ان کی شرارت کا وقت کھسکتے کھسکتے میری واپسی تک آ گیا.چنانچہ جو گواہیاں ملی ہیں وہ بتاتی ہیں کہ بات دراصل اُس وقت شروع ہو گئی تھی جب میں ولایت گیا تھا لیکن وہ نکلی اُس وقت جب میں واپس آ گیا تا اگر کوئی کارروائی کی جائے تو میرا وجود اور میری دعائیں بھی اس کے ساتھ شامل ہوں.

Page 342

$1956 329 خطبات محمود جلد نمبر 37 اللہ تعالیٰ کی عجیب حکمت ہے کہ جتنی گواہیاں ملی ہیں وہ بتاتی ہیں کہ یہ فتنہ اُس وقت اُٹھایا گیا تھا جب مجھ پر بیماری کا حملہ ہوا تھا.26 فروری 1955ء کو مجھ پر بیماری کا حملہ ہوا تھا اور باتیں مارچ 1955 ء کی ہیں لیکن ظاہر ہوئیں 1956ء میں آ کر.اور اب میں ان کا ہر طرح مقابلہ کرنے کے لیے تیار ہوں.گویا وہی رؤیا والی بات ہوئی جو میں نے اُس عورت سے کہی تھی کہ تم نے بے خبری میں مجھ پر حملہ کر لیا تھا.اب میں باخبر ہو چکا ہوں.اگر اب تم مجھ پر حملہ کرو تو جانوں.یہ کتنا بڑا نشان ہے جو ظاہر ہوا.پھر دیکھو یہ رویا کتنی کامل ہے.اس میں حدیث بخاری کا بھی حوالہ دیا گیا ہے کہ حضرت عائشہ فرماتی ہیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بعض دفعہ نماز پڑھتے تو فرماتے کیا میں نے نماز پڑھی ہے؟ اس پر ہم بتاتے کہ ہاں آپ نے نماز پڑھ لی ہے.یا کھانا کھاتے کی اور بعد میں دریافت فرماتے کہ کیا میں نے کھانا کھا لیا ہے.تو اس پر ہم بتاتے کہ ہاں آپ نے کھانا کھا لیا ہے.اور اس کی وجہ یہ تھی کہ آپ پر یہودیوں نے جادو کر دیا تھا.دراصل.جادو نہیں تھا بلکہ یہودیوں اور دوسرے دشمنوں نے آپ کی صحت کو خراب کرنے کے لیے توجہ ڈانی شروع کر دی تھی اور توجہ کا اثر ہو جاتا ہے.حضرت خلیفۃ اسیح الاول فرمایا کرتے تھے کہ ایک دفعہ میں جموں سے قادیان آ رہا تھا کہ ایک سکھ لڑکا مجھے ملا اور اُس نے کہا میں پہلے بڑا نیک ہوا کرتا تھا لیکن اب میرے دل میں دہریت کے خیال پیدا ہونے شروع ہو گئے ہیں.آپ مرزا صاحب سے میرا ذکر کریں اور اُن سے اِس کا علاج دریافت کر کے مجھے بتائیں.وہ سکھ لڑکا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا بڑا معتقد تھا اور آپ کی کتابیں پڑھا کرتا تھا.چنانچہ آپ فرماتے تھے کہ قادیان آکر میں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے اُس کا ذکر کیا.آپ نے فرمایا کہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اُس کے دائیں بائیں دہریت کے خیالات رکھنے والے لڑکے بیٹھتے ہیں.اُ.اُسے کہیں کہ وہ اپنی جگہ بدل لے.اُس کے خیالات درست ہو جائیں گے.حضرت خلیفتہ اسیح الاول فرمایا کرتے تھے میں نے اُس سکھ لڑکے کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا پیغام پہنچا دیا.چنانچہ اُس نے اپنی جگہ بدل لی.جب میں دوبارہ قادیان آنے لگا تو مجھے نتیجہ معلوم کرنے کا

Page 343

$1956 330 خطبات محمود جلد نمبر 37 شوق تھا.وہ میرے پاس آیا تو میں نے اُس سے دریافت کیا کہ اب کیا حال ہے؟ اُس نے کی کہا جس دن سے میں نے اپنی جگہ بدلی ہے میرے سارے وساوس دور ہونے شروع ہو گئے یہی بات یہاں ہے.اگر بعض لوگ کسی شخص کو اپنا دشمن خیال کریں اور اُس پر توجہ کرنا شروع کر دیں کہ وہ بیمار ہو جائے تو آہستہ آہستہ اس کا دماغ اثر قبول کرنا شروع کر دیتا ہے اور وہ اس وہم میں مبتلا ہو جاتا ہے کہ میں بیمار ہوں.مجھ پر بھی یہی اثر ہوا مگر 29 جولائی کو 5 بجے صبح مری میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ الفاظ میری زبان پر جاری ہوئے کہ الْحَمْدُ لِلَّهِ اللہ تعالیٰ نے تو مجھے بالکل اچھا کر دیا مگر میں اپنی بدظنی اور مایوسی کی وجہ سے اپنے آپ کو بیمار سمجھتا ہوں“.یعنی مجھے اپنے نفس پر بدظنی ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کے فضل کو پوری طرح جذب نہیں کرتا.اور بیماری کے متعلق یہ مایوسی ہے کہ وہ ابھی دور نہیں ہوئی حالانکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے مجھے بالکل صحت عطا فرما دی ہے.عجیب بات ہے کہ یہی بات مجھے جرمنی اور سوئٹزر لینڈ کے ڈاکٹروں نے کہی.ایک بہت بڑے ڈاکٹر نے مجھے کہا کہ آپ بالکل اچھے ہیں اور اس کا ثبوت یہ ہے کہ آپ میرے علاوہ یہاں کے سو اچھے ڈاکٹروں سے بھی اپنا معائنہ کرائیں تو وہ یہی کہیں گے کہ آپ بالکل اچھے ہیں مگر شرط یہ ہے کہ آپ انہیں بتائیں نہیں کہ پر فالج کا حملہ ہو چکا ہے.اگر آپ بتا دیں گے تو وہ بھی وہم کرنے لگ جائیں گے.پھر اُس نے کہا اصل بات یہ ہے کہ آپ غیر معمولی رنگ میں کام کر رہے تھے کہ یک دم آپ بیمار ہو گئے.اب اگر چہ آپ تندرست ہو گئے ہیں لیکن آپ کا دماغ بیماری کے خیال میں دب گیا ہے.اگر آپ اس خیال کو اپنے دماغ سے نکال دیں تو آپ بالکل ٹھیک ہو جائیں گے.اور یہی بات اللہ تعالیٰ نے اپنے الہام میں بتائی ہے کہ میں بدظنی اور مایوسی کی وجہ سے اپنے آپ کو بیمار سمجھتا ہوں ورنہ اللہ تعالیٰ نے مجھے بالکل صحت عطا فرما دی ہے.چنانچہ یہ بالکل و ہے.اللہ تعالیٰ کے فضل سے اب بیماری کا کوئی اثر باقی نہیں رہا.صرف کام کرنے کے بعد ایک کوفت سی میں اپنے جسم میں محسوس کرتا ہوں.لیکن یہ ایک طبعی امر ہے کیونکہ جب انسان پر کسی بیماری کا حملہ ہو چکا ہو تو وہ جسمانی طور پر کمزور ہو جاتا ہے.پھر میری عمر بھی زیادہ

Page 344

$1956 331 خطبات محمود جلد نمبر 37 ہو چکی ہے مگر یہ خدا تعالیٰ کا نشان ہی ہے کہ میں نے ان دنوں میں قرآن کریم کے بائیں پاروں کا ترجمہ مکمل کر لیا ہے اور امید ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ نے طاقت دی تو اگست کے آخر یا ستمبر کے شروع میں سارا ترجمہ ختم ہو جائے گا.اب ایک تندرست آدمی بھی اتنا علمی کام اتنے ای تھوڑے عرصہ میں نہیں کر سکتا مگر اللہ تعالیٰ نے مجھے اس کام کے کرنے کی توفیق عطا فرما دی اور یہ ثبوت ہے اس بات کا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے صحت دے دی ہے.آخر دنیا میں بڑے بڑے علماء موجود ہیں انہیں کیوں یہ توفیق نہیں ملتی کہ وہ اتنے قلیل عرصہ میں قرآن کریم کا ترجمہ کر دیں.اور پھر یہ ترجمہ معمولی ترجمہ نہیں بلکہ جب یہ چھپے گا تو لوگوں کو پتا لگے گا کہ یہ ترجمہ کیا ہے، تفسیر ہے.پس جو کام بڑے بڑے علماء پانچ سال کے عرصہ میں بھی نہیں کر سکتے تھے وہ خدا تعالیٰ کے فضل سے میں نے تھوڑے سے عرصہ میں کر لیا.یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے صحت دے دی ہے اور خدا تعالیٰ کے تازہ الہام سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے.لیکن اگر کوئی شخص مجھ سے سوال کرے کہ پھر اپنے آپ کو بیمار کیوں سمجھتے ہیں؟ تو مجھے اس کا یہی جواب دینا پڑے گا کہ میں صرف بدظنی اور مایوسی کی وجہ سے اپنے آپ کو بیمار سمجھتا ہوں ورنہ حقیقتا اللہ تعالیٰ نے مجھے تندرست کر دیا ہے.بہر حال میں جماعت کے دوستوں کو توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ انہیں اس موقع پر ہوشیار رہنا چاہیے اور چونکہ یہ معاملہ آسمانی ہے اس لیے انہیں دعاؤں میں لگے رہنا چاہیے کیونکہ منافق کا علاج سوائے خدا کے اور کوئی نہیں کرسکتا.تمہارے ریزولیوشن صرف اُس کو ہوشیار کر دیتے ہیں مگر اللہ تعالیٰ جو دلوں کا واقف ہے جانتا ہے کہ اُس کی اصلاح کیسے کی جا سکتی ہے.چنانچہ دیکھ لو جماعت کے متقی لوگ اب قسمیں کھا کھا کر منافقوں کے متعلق شہادتیں دے رہے ہیں لیکن ان سے کوئی پوچھے کہ وہ سال یا چھ ماہ تک کیوں خاموش رہے تھے؟ کیا یہ تعجب کی بات نہیں کہ کوئی لکھتا ہے سال ہوا میں نے یہ بات دیکھی تھی.اب میں ضروری سمجھتا ہوں کہ اسے ظاہر کر دوں.کوئی لکھتا ہے چھ ماہ ہوئے میں نے یہ واقعہ دیکھا تھا.اب میں ضروری سمجھتا ہوں کہ اسے ظاہر کر دوں.اس کی وجہ یہی ہے کہ اس وقت تک خدا تعالیٰ کا منشا یہ تھا کہ یہ معاملہ مخفی رہے.اب اللہ تعالیٰ نے ارادہ کیا ہے کہ اسے ظاہر کر دیا جائے.

Page 345

$1956 332 خطبات محمود جلد نمبر 37 گویا جب خدا تعالیٰ نے چاہا کہ پردے پھاڑ دیئے جائیں اور ان منافقوں کو ننگا کر دیا جائے تو وہی لوگ جو ایک ایک سال تک بزدلی دکھاتے رہے تھے دلیر ہو گئے اور جو چھ ماہ تک ان باتوں کو چھپاتے رہے اللہ تعالیٰ نے انہیں کہا اب بزدلی دور کر دو اور بھید ظاہر کر دو.بعض لوگ کہتے ہیں کہ انہوں نے گزشتہ جلسہ کے موقع پر یہ بات سنی تھی ، بعض نے کہا ہے کہ شورای کے دنوں میں یہ بات ہوئی تھی اور ایک شخص نے تو یہاں تک کہا ہے کہ 1954ء میں یہ بات ہوئی.اب دیکھ لو 1954ء والے نے دوسال یا اس سے زائد عرصہ تک ایک بات کو چھپائے رکھا.1955ء والے نے ایک سال تک بات کو مخفی رکھا.جلسہ سالانہ والے نے سات ماہ تک بزدلی دکھائی.شورای والا پانچ ماہ تک چپ رہا اور اب آ کر یہ سب لوگ بہادر بن گئے اور انہوں نے سمجھا کہ حقیقت ظاہر کر دینی چاہیے.یہ چیز بتاتی ہے کہ اس کے پیچھے خدا تعالیٰ کا ہاتھ ہے.جب اُس نے کہا منہ بند رکھو تو منہ بند رہے اور جب اُس نے منہ کھولنے کے لیے کہا تو وہ کھل گئے.اس لیے تم اس فتنہ کو دور کرنے کے لیے خدا تعالیٰ سے ہی کہو.پھر دیکھو گے کہ منافقت کی یہ سب باتیں هَبَاءَ مُسبقًا 9 ہو جائیں گی اور اللہ تعالیٰ اپنی رحمت تم پر نازل کر دے گا بشرطیکہ تم اپنے دلوں میں نیکی قائم کرو.میں تمہیں ایک چھوٹی سی بات کہتا ہوں کہ تم ایک ایک، دو دو کر کے غور کرو اور سوچو کہ اگر خلافت مٹ جائے تو کیا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی اس پیشگوئی کے پورا ہونے کا کوئی بھی امکان ہو سکتا ہے کہ تین سو سال میں احمدیت ساری دنیا پر غالب آ جائے گی؟ چاہے کوئی شخص کتنا ہی بیوقوف ہو اگر وہ پندرہ منٹ کے لیے بھی اس بات پر غور کرے اس نتیجہ پر پہنچے گا کہ اگر تین سوسال میں احمدیت ساری دنیا پر غالب نہ آئی تو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حکومت دنیا میں ہر گز قائم نہیں ہو سکتی.سیدھی بات ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تو دیس نکالا ابھی سے مل جائے گا کیونکہ یہ خدا تعالیٰ کا آخری حربہ تھا کہ اُس نے موجودہ زمانہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ذریعہ ایک نئی جماعت کو قائم کیا تا کہ وہ اسلام کو دنیا میں غالب کرے.اگر ان منافقین کی شرارتوں اور منصوبوں کے ذریعہ اس جماعت کو ناکام کر دیا گیا تو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم

Page 346

$1956 333 خطبات محمود جلد نمبر 37 کی حکومت ختم ہو جائے گی اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اپنے دعوی میں یقیناً ناکام ہو جائیں گے.پھر اس کے بعد اللہ تعالیٰ اور مامور بھیجے تو بھیجے احمدیت کے ذریعہ اسلام دنیا میں غالب نہیں آ سکتا.اب جو شخص محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دشمن ہے اور ان کی ناکامی کا متمنی ہے وہ تو اس بات کو برداشت کر لے گا لیکن جو سچا مومن ہے وہ اپنی موت تک دنیا میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حکومت قائم کرنے کے لیے تیار رہے گا اور اس کے لیے وہ کسی بڑی سے بڑی قربانی کرنے سے بھی دریغ نہیں کرے گا.میری ایک بھانجی ہے جو میاں عبداللہ خاں صاحب کی لڑکی اور نواب محمد علی خان صاحب مرحوم کی جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے داماد اور ہمارے بہنوئی تھے پوتی ہے.اس نے مجھے اپنی ایک خواب سنائی ہے.معلوم ہوتا ہے وہ خواب اس فتنہ کے متعلق ہے.اُس نے بتایا کہ میں نے خواب میں دیکھا کہ آپ قادیان میں ہیں اور ایک کھیت کے کنارے کھڑے ہیں.اُس کھیت میں ہل چلا ہوا ہے جیسے کھیتی اگنے والی ہے.قریب سے ایک سانپ نکلا ہے جسے آپ نے مار دیا ہے اور اُسے مارنے کے بعد آپ نے کہا ہے ایک سانپ تو میں نے مار دیا ہے لیکن دوسانپ مخفی ہو گئے ہیں.وہ کہتی ہے کہ پھر آپ بیٹھ گئے اور کہا یہ سانپ میٹھے ہیں.یعنی ان کے کاٹنے کا تو پتا نہیں لگتا لیکن ان کا زہر بڑا خطرناک ہے.اس وقت یوں معلوم ہوتا ہے کہ آپ کو درد ہو رہا ہے اور آپ بہت گھبرائے ہوئے ہیں.آپ کے پاس آپ کی ایک بیوی بھی بیٹھی ہیں.انہیں خیال پیدا ہوا کہ سانپ آپ کے بُوٹ میں نہ ٹھس گیا ہو.اس لیے انہوں نے آپ کے ٹوٹ اور جرابیں اُتاریں.اس کے بعد آپ نے ہمیں نصائح کرنی شروع کر دیں.نصائح سنتے سنتے ہماری توجہ دعا کی طرف پھر گئی.چنانچہ م نے دعا کرنی شروع کر دی.جو دعا میں نے کی وہ یہ ہے کہ اے خدا! تو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ساری امیدیں پوری کر دے.گویا دشمن کا یہ حملہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی امیدوں پر تھا.محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تو چاہتے تھے کہ اسلام ساری دنیا میں پھیل لیکن یہ لوگ چاہتے ہیں کہ ایسا نہ ہو.کیونکہ اگر احمدیت کمزور ہو جائے تو اسلام پھیلنے کی کوئی صورت نہیں رہتی.آخر بیالیس سال میری خلافت کو ہو گئے ہیں.

Page 347

خطبات محمود جلد نمبر 37 334 $1956 ان بیالیس سال میں ساٹھ کروڑ مسلمانوں نے اسلام کی اشاعت میں کیا کیا ہے.اسلام کی جو بھی اشاعت ہوئی ہے وہ سب خلافت کی وجہ سے ہوئی ہے.اگر خلافت مٹ جائے تو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی فتح بھی ناکامی میں تبدیل ہو جائے.دیکھ لو اگر مصر والے سویز لے لیں اور وہ فلسطین سے یہودیوں کو نکال بھی دیں تو اس سے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دین غالب نہیں آسکتا.صرف وہ ایک چھوٹی سی حکومت بن جائے گی جو جرمنی سے بھی چھوٹی ہو گی.مگر اس سے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کیا فائدہ پہنچے گا.محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فائدہ تو اس میں ہے کہ اسلام دنیا پر غالب ہو.اور یہ غلبہ میری خلافت میں اور میرے ہی ذریعہ ہوا ہے.اگر کوئی شخص خلافت کو یا مجھے ناکام بنانا چاہتا ہے تو وہ گویا اسلام کے غلبہ کو روکنا چاہتا ہے.اب دیکھو! یہ کیسی کچی خواب ہے جو اُسے دکھائی دی.اگر اُسے یہ خیال ہوتا کہ مجھے سانپ نے ڈس لیا ہے تو اُسے یہ دعا کرنی چاہیے تھی کہ اے اللہ! تو انہیں شفا دے.مگر وہ دعا یہ کرتی ہے کہ اے اللہ ! تو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ساری امیدوں کو پورا کر دے.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ الہی خواب ہے ورنہ ظاہری لحاظ سے اگر مجھے سانپ نے کاٹا تھا تو وہ یہ دعا کرتی کہ اے اللہ ! تو میرے ماموں کو شفا دے دے.مگر وہ یہ دعا کرتی ہے کہ اے اللہ ! تو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ساری امیدوں کو پورا کر دے.اس کے یہ معنی ہیں کہ ان پر جو حملہ ہوا ہے وہ درحقیقت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دین پر ہوا ہے اور اگر انہیں کچھ ہوا یا ان کی خلافت کو کوئی نقصان پہنچا تو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امیدیں بھی پوری نہیں ہوں گی“.:1 يَحْلِفُونَ بِاللهِ مَا قَالُوا ( التوبة : 74) (الفضل 8 اگست 1956ء) 2: إِذَا جَاءَكَ الْمُنْفِقُونَ قَالُوْا نَشْهَدُ اِنَّكَ لَرَسُوْلُ اللهِ (المنافقون: 2) 3 : القلم : 11 4 : آل عمران: 119 5 : آل عمران: 119

Page 348

$1956 335 خطبات محمود جلد نمبر 37 6: يونس : 17 وَالسَّارِقُ وَالسَّارِقَةُ فَاقْطَعُوا أَيْدِيَهُمَا جَزَاء بِمَا كَسَبَانَكَالًا مِّنَ اللهِ (المائدة: 39) بخاری کتاب الطب باب هل يستخرج السحر و باب السّحر 9: الواقعہ: 7 ( هَبَاء مُنْبيًّا : ہوا میں چاروں طرف اڑنے والے باریک ذرے)

Page 349

$1956 336 31 خطبات محمود جلد نمبر 37 اشتعال انگیزی کا الزام سراسر غلط اور بے بنیاد ہے میں نے جو کچھ کہا تھا وہ قرآن مجید کی تعلیم کے عین مطابق ہے اگر کوئی ناجائز دخل اندازی کرتا ہے تو قانون کے ذریعہ اُسے مداخلت سے روکنا ہمارا حق ہے (فرموده 10 راگست 1956ء بمقام ربوہ) تشهد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: میں آج ربوہ آ رہا تھا کہ رستہ میں ایک دوست نے مجھے بتایا کہ لاہور کے اخبار نوائے پاکستان میں کسی کا ایک مضمون چھپا ہے کہ امام جماعت احمد یہ ہمارے خلاف اشتعال انگیزی کر رہا ہے.گورنمنٹ اِس طرف توجہ کرے.حقیقت یہ ہے کہ ایک شخص کے بارہ میں ایک دوست نے لکھا کہ میں اُس کا ایک عرصہ تک دوست رہا ہوں.اُس نے کہا ہے کہ دو سال تک میں اتنی طاقت پکڑ جاؤں گا کہ میں ربوہ جا کر مرزا ناصر احمد کو بازو سے پکڑ کر

Page 350

$1956 337 خطبات محمود جلد نمبر 37 ربوہ سے نکال دوں گا.اور دوسری بات مری میں ایک دوست نے بتائی کہ اس شخص کا ایک کی دوست سرگودھا میں ایک وکیل کے پاس گیا اور اُس سے کہنے لگا کہ میں اپنے دوستوں کی ایک ارٹی بنا کر اس گاؤں میں جاؤں گا جہاں کا میرا دوست رہنے والا ہے.اُس کے بھائی نے ساری زمین پر زبردستی قبضہ کر لیا ہے.میں اپنے دوستوں کی مدد سے وہ زمین زبردستی چھین کر اپنے دوست کو دے دوں گا.یہ دو واقعات ہیں جو مجھے پہنچے.اب جو پہلا واقعہ ہے کہ مجھے دو سال میں اتنی طاقت نصیب ہو جائے گی کہ میں ربوہ جاؤں گا اور مرزا ناصر احمد کو بازو سے پکڑ کر ربوہ سے نکال دوں گا.اس کی دو ہی صورتیں ہو سکتی ہیں.ایک صورت یہ ہو سکتی ہے کہ فی الواقع اُس نے یہ بات کہی تھی.اور دوسری صورت یہ ہو سکتی ہے کہ اُس نے یہ بات نہیں کہی.رپورٹ کرنے والے نے کہا ہے کہ اس نے یہ بات کہی تھی اور میں نے اسے کہا تھا کہ ایسی باتیں نہیں کہنی ہے سیں.اگر اس شخص نے یہ بات نہیں کہی تھی تو اس شخص کو کہنا چاہیے تھا کہ جب میں نے اس سے کہا کہ ایسی باتیں نہیں کہنی چاہیں تو اُس نے کہا میں نے تو یہ بات نہیں کہی.میں کوئی عالم الغیب ہوں.پھر تم مجھ پر یہ الزام کیسے لگاتے ہو.میں خدا نہیں کہ ایسی بات کہوں کہ دوسال کے بعد میں اتنی طاقت پکڑ جاؤں گا کہ ربوہ جا کر مرزا ناصر احمد کو بازو سے پکڑ کر ربوہ سے نکال دوں.اور نہ ہی میں کوئی ملہم ہوں کہ میں دعوی کروں کہ مجھے الہام ہوا ہے کہ دوسال کے بعد میں اتنی طاقت پکڑ جاؤں گا کہ ربوہ جا کر مرزا ناصر احمد کو بازو سے پکڑ کر ربوہ سے نکال دوں.پھر جب میں نہ تو الہام کا دعوی کرتا ہوں اور نہ خدا ہونے کا تو میں مسلمان ہوتے ہوئے ایسی بات کیسے کہہ سکتا ہوں.لیکن اس دوست نے لکھا ہے کہ جب میں نے اُسے کہا کہ ایسی باتیں نہیں کرنی چاہیں اور اُسے سمجھایا تو اُس نے ایسا نہیں کہا.اب صاف بات ہے کہ جب کوئی شخص مستقبل کی کوئی بات کہے تو یا تو وہ الہاما کہ سکتا ہے یا پھر وہ اس بات کا دعوی کرے کہ مجھے خدا تعالیٰ کی طرح غیب کا علم ہے ورنہ مستقبل کے متعلق کوئی بات کہنی جائز کیسے ہو سکتی ہے.خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ انسان کو تو دو دن کی بات کا بھی علم نہیں ہو وہ قرآن کریم میں فرماتا ہے وَمَا تَدْرِى نَفْسٌ مَاذَا تَكْسِبُ غَدًا لـ سکتا.

Page 351

$1956 338 خطبات محمود جلد نمبر 37 کوئی جان نہیں جانتی کہ وہ کل کیا کمائے گی.اور جب خدا تعالیٰ یہ فرماتا ہے کہ کوئی جان نہیں جانتی کہ وہ کل کیا کمائے گی تو اگر کوئی شخص آئندہ دو سال بعد کی بات بتاتا ہے تو لازماً یہ بات ہوگی کہ یا تو اُسے الہام ہوا ہے اور یا وہ خدا تعالیٰ کی مانند عالم الغیب ہونے کا دعویدار ہے.اگر یہ دونوں باتیں نہیں تو اسے کہنا چاہیے تھا کہ میں مسلمان ہوں میں عالم الغیب نہیں.میں دو سال آئندہ کی بات کیسے بتا سکتا ہوں.یا پھر انسان بعض دفعہ عقلی طور پر مستقبل کی بات بیان کر دیتا ہے تو اُس کے ساتھ دلیل بھی دیتا ہے کہ فلاں فلاں وجوہات کی بناء پر مجھے پتا لگتا ہے کہ خدا تعالیٰ کی تقدیر فلاں فلاں بات سے نظر آتی ہے.مثلاً کسی شخص کو کوئی مُہلک مرض ہو جائے.فرض کرو اُسے ہیضہ ہو جائے اور ڈاکٹر نہ ملے اور کوئی علاج نہ ہو سکے تو وہ کہہ دے کہ میرا خیال تو یہی ہے کہ مریض ایک دو دن میں مر جائے گا.اُس وقت ہم یہ اعتراض نہیں کریں گے کہ وہ خدائی کا دعویدار ہے یا وہ مہم ہونے کا دعوی کرتا ہے.بلکہ جب کوئی شخص اُس سے دریافت کرے گا کہ تجھے کس طرح علم ہوا کہ مریض ایک دو دن میں مر جائے گا؟ تو وہ کہہ دے گا کہ جب خدا تعالیٰ کے پیدا کردہ علاج کے سامان میسر نہیں، ڈاکٹر ملا نہیں تو صاف پتا لگتا ہے کہ مریض مر جائے گا.اس لیے ظاہری اسباب کو دیکھتے ہوئے میں نے یہ بات کہہ دی ہے.اسی طرح وہ شخص یا تو یہ کہتا کہ فلاں فلاں دلیل کی وجہ سے میں نے مستقبل کی بات کہہ دی ہے کہ دو سال کے بعد مجھے اتنی طاقت نصیب ہو جائے گی کہ میں ربوہ جا کر مرزا ناصر احمد کو بازو سے پکڑ کر ربوہ سے نکال دوں گا تو ہم سمجھتے یہ انسانی بات ہے.یا پھر وہ یہ کہتا کہ خدا تعالیٰ نے مجھے الہاماً بتایا ہے کہ ایسا ہو گا تو ہم اُسے یہ جواب دیتے کہ ہمیں تمہارے الہام پر یقین نہیں.تم اس قسم کی اور مثالیں پیش کرو کہ تمہیں الہام ہوا ہو اور پھر وہ پورا ہو گیا ہو.اور اگر وہ خدا تعالیٰ کی طرح عالم الغیب ہونے کا دعوی کرتا تو ہم اسے جواب دیتے کہ یہ جھوٹ ہے.ہم تجھے عالم الغیب نہیں مان سکتے کیونکہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے وَمَا تَدْرِي نَفْسٌ مَاذَا تَكْسِبُ غَدًا کہ کوئی جان نہیں جانتی کہ وہ کل کیا کمائے گی اور تو کہتا ہے کہ دوسال کے بعد مجھے اتنی طاقت ہو جائے گی کہ میں ربوہ جا کر مرزا ناصر احمد کو بازو سے پکڑ کر ربوہ سے نکال دوں.تو ابھی ربوہ میں آکے دکھا دے

Page 352

$1956 339 خطبات محمود جلد نمبر 37 ہمیں آئندہ دوسال تک انتظار کرنے کی ضرورت نہیں.اور یہ اشتعال انگیزی نہیں بلکہ قرآنی آیت کا ترجمہ ہے.قرآن کریم کہتا ہے کہ کوئی جان نہیں جانتی کہ وہ کل کیا کمائے گی.اور کمائی میں سارے اعمال شامل ہیں.فرض کرو کہ وہ شخص چوری کرے اور اس کے نتیجہ میں جیل خانہ میں چلا جائے.دوسال کے بعد ہم اسے جھوٹا کرنے کے لیے جیل خانہ سے کیسے لائیں گے.یا فرض کرو اُسے بیرونی ممالک میں ترقی کے سامان نظر آئیں اور وہ مثلاً امریکہ چلا جائے.یا فرض کرو گورنمنٹ پاکستان اُس کی کسی بات پر خفا ہو کر اُسے ملک سے باہر نکال دے ہمیں اس کیا پتا ہے.پس جو بات قرآن کریم نے کہی ہے وہی میں نے کہی ہے کہ کل ہم تمہیں کہاں سے لائیں گے.اب یا تو پاکستان میں قرآن کریم سے اس آیت کو نکال دیا جائے اس لیے کی کہ اس میں دھمکی دی گئی ہے.اگر اس کا ترجمہ کرنا دھمکی ہے تو یہ آیت بھی دھمکی ہے.اسے فوراً قرآن کریم سے نکال دینا چاہیے کیونکہ یہ ہمیں دھمکی دیتی ہے اور خون ریزی سکھاتی ہے.ور نہ اس فقرہ کے کہ ”ہم تمہیں دو سال کے بعد کہاں سے لائیں گئے یہ معنے کیسے ہو سکتے ہیں کہ لوگو! تم اسے مارو.جبکہ قرآن خود فرماتا ہے کہ کسی شخص کو خود قانون ہاتھ میں لے کر مارنا منع ہے.یہ کام حکومت کا ہے نہ کہ افراد کا.خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ کوئی جان نہیں جانتی کہ وہ کل کیا کمائے گی.اس لیے ممکن ہے کہ آئندہ دو سال میں وہ مُجرم کر کے جیل خانہ میں چلانی جائے یا اُس سے کوئی ایسا فعل سرزد ہو کہ حکومت اُسے ملک بدر کر دے یا وہ خود اپنی مرضی سے باہر چلا جائے یا وہ کسی ایسے فعل کا مرتکب ہو کہ اُس سے ناراض ہو کر اُس کی قوم اُس کا بائیکاٹ کر دے جس کی وجہ سے اُس تک پہنچنا مشکل ہو جائے.پس میں نے قرآن کریم کی تی آيت وَمَا تَدْرِي نَفْسٌ قَاذَا تَكْسِبُ غَدًا كا ترجمہ کیا ہے.اس کے کوئی معنے کر لو اس میں یہ مفہوم شامل ہے کہ ہو سکتا ہے کہ وہ ہجرت کر کے کسی دوسرے ملک میں چلا جائے یا کوئی مجرم کر کے جیل خانہ میں چلا جائے یا کسی مجرم کی بناء پر حکومت اُسے ملک بدر کر دے.اس قسم کی بیسیوں باتیں اس آیت سے نکل سکتی ہیں اور میں نے اپنی تحریر میں اس کی طرف مجملاً اشارہ کیا ہے.کوئی کہہ سکتا ہے کہ انبیاء بھی تو آئندہ کے متعلق پیشگوئیاں کرتے ہیں.ہم کہتے

Page 353

$1956 340 خطبات محمود جلد نمبر 37 یہ ٹھیک ہے لیکن انبیاء پہلے قریب کی پیشگوئیاں کرتے ہیں.چنانچہ حضرت عائشہ روایت فرماتی ہی ہیں کہ شروع شروع میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر جو وحی ہوتی تھی وہ اس طرح کی تھی کہ شام کو نازل ہوتی اور صبح پوری ہو جاتی یعنی جلدی سے پوری ہو جاتی.پھر تذکرہ کو دیکھ لو اس میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے کئی الہامات اس طرح کے درج ہیں کہ الہام ہوا اتنے روپے فلاں دوست نے بھیجے ہیں اور ڈاکخانہ میں گئے تو منی آرڈر آیا ہواتی ہوتا 2 پھر خدا تعالیٰ فرماتا ہے دیکھ میں تیری کتنی جلدی سنتا ہوں.3 اب اگر ایسا شخص اس قسم کی باتیں پیش کرے کہ دو سال کے بعد یہ واقعہ ہو گا تو اُس کی بات مانی جاسکتی ہے.اور اگر کوئی اعتراض کرے تو وہ کہہ سکتا ہے کہ جب میری بعض پیشگوئیاں دومنٹ میں بھی پوری ہوئی ہیں، تین منٹ میں بھی پوری ہوئی ہیں، پانچ منٹ میں بھی پوری ہوئی ہیں اور تم نے انہیں دیکھ لیا ہے تو اس بات کو بھی انہی پر قیاس کر لو اور یقین کر لو کہ یہ بات بھی پوری ہو جائے گی.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خدا تعالیٰ سے علم پاکر پیشگوئی فرمائی تھی کہ آپ مکہ سے نکالے جائیں گے 4 اور اُس کے کئی سال بعد آپ مکہ سے نکالے گئے.پھر آپ نے یہ پیشگوئی فرمائی کہ آپ مکہ واپس جائیں گے.5 اب اگر کوئی شخص یہ اعتراض کرتا کہ ہم اس ނ بات کو کیسے مان لیں؟ ہم اتنے سالوں کے بعد حجت پوری کرنے کے لیے آپ کو کہاں لائیں گے؟ تو آپ اسے یہ جواب دیتے کہ جب میری بعض پیشگوئیاں كَفَلَقِ الصُّبح یعنی سورج چڑھنے کی مانند پوری ہو گئی ہیں اور تم انہیں دیکھ چکے ہو تو تم اس کا بھی انہی پر قیاس کر لو اور یقین کرو کہ لمبے عرصہ والی پیشگوئی بھی پوری ہو جائے گی.اب اگر کوئی شخص اس قسم کی پیشگوئیاں پیش کر کے ثابت کر دے کہ وہ پوری ہو گئی ہیں تو ہم اُس کی دو سال والی پیشگوئی بھی مان لیں گے.لیکن اگر وہ ایسی پیشگوئیاں کیسے بغیر لمبے عرصہ والی پیشگوئی بیان کرتا ہے تو ہم کہیں گے قرآن کریم تو یہ کہتا ہے کہ کوئی جان نہیں جانتی کہ کل وہ کیا کمائے گی.ہم تیری اس بات پر کیسے یقین کریں.ہم تجھے دو سال کے بعد کہاں سے لائیں.اس کے جواب میں یا تو اُسے یہ کہنا پڑے گا کہ یہ آیت جھوٹی ہے.محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو غیب کا علم

Page 354

خطبات محمود جلد نمبر 37 341 $1956 نہیں تھا مجھے غیب کا علم ہے.اگر کوئی یہ بات کہہ دے تو پھر سارے مسلمان خود اُسے جواب دے لیں گے ہمیں زیادہ فکر کرنے کی ضرورت نہیں اور ہم بھی اسے جواب دے لیں گے إِنْشَاءَ اللہ ورنہ ساری دنیا جانتی ہے کہ وہ شخص جھوٹا ہے اور ایسا دعوی کر رہا ہے جو قرآن کریم کے خلاف ہے.خدا تعالیٰ قرآن کریم میں یہ فرماتا ہے کہ کوئی جان نہیں جانتی کہ وہ کل کیا کمائے گی سوائے اس کے کہ میں اُسے بتاؤں کیونکہ وہ فرماتا ہے کہ میں جسے چاہوں غیب پر اطلاع دے دیتا ہوں.پس اگر وہ شخص یہ کہتا کہ مجھے الہاما بتایا گیا ہے کہ دوسال کے بعد مجھے اتنی طاقت حاصل ہو جائے گی کہ میں ربوہ جا کر مرزا ناصر احمد کو بازو سے پکڑ کر باہر نکال دوں گا تو ہم کہتے میاں! ہمیں تیرے اس الہام پر یقین نہیں.تم اس کا ثبوت پیش کرو.لیکن اگر وہ الہام کا لفظ نہیں بولتا اور دعوی پیش کرتا ہے تو ہم کہیں گے میاں ! ہم مجبور ہیں کہ تجھے جھوٹا کہیں.تو خدائی کا دعوی کرتا ہے.ہم دوسال تک انتظار کیوں کریں.اگر تجھ میں طاقت ہے تو اب ربوہ میں آ کر دکھا دے اور یہ بات قرآن کریم کے فرمان کے عین مطابق ہے.قرآن کریم کہتا ہے کہ کوئی جان نہیں جانتی کہ وہ کل کیا کمائے گی.اگر کوئی شخص مستقبل کے متعلق دعوی کرتا ہے تو اسے کہہ دو تم جھوٹے ہو.اگر یہ سچ ہے تو ابھی یہ بات کر دکھاؤ ہمیں اتنا لمبا انتظار کرنے کی ضرورت نہیں.مجھے خوب یاد ہے کہ ایک مولوی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے پاس آیا اور کہنے لگا میں آپ کا کوئی نشان دیکھنے آیا ہوں.آپ ہنس پڑے اور فرمایا میاں! تم میری کتاب حقیقۃ الوحی دیکھ لو تمہیں معلوم ہو گا کہ خدا تعالیٰ نے میری تائید میں کس قدر نشانات دکھائے ہیں.تم نے اُن سے کیا فائدہ اُٹھایا ہے کہ اور نشان دیکھنے آئے ہو.پس اگر اس شخص نے دومنٹ یا پانچ منٹ میں پوری ہونے والی دو چار پیشگوئیاں پیش کی ہوتیں تو ہم دو سال کیا اس کی دوسوسال والی پیشگوئی بھی مان لیتے اور کہتے جب ہم نے دو تین یا پانچ منٹ میں پوری ہونے والی پیشگوئیاں دیکھی ہیں تو یہ لمبے عرصہ والی پیشگوئی بھی ضرور پوری ہو گی.لیکن اگر کوئی شخص اس قسم کی پیشگوئیاں دکھائے بغیر لمبے عرصہ والی پیشگوئی کرے تو ہم کہیں گے یہ بات عقل کے خلاف ہے.

Page 355

خطبات محمود جلد نمبر 37 342 $1956 دوسری بات یہ ہے کہ مجھے ایک دوست نے مری میں بتایا کہ اس شخص کا ایک دوست سرگودھا میں ایک وکیل کے پاس آیا اور اس نے بیان کیا کہ اس کے بھائی نے ساری زمین پر زبردستی قبضہ کر لیا ہے.میں اپنے دوستوں کی ایک پارٹی بنا کر اس کے گاؤں میں جاؤں گا اور ساری زمین اس کے بھائی سے زبردستی چھین کر اسے دوں گا.اب اگر میں نے کہا کہ وہ اپنے گاؤں جا کے دکھا دے تو اس میں کیا اشتعال انگیزی ہے.اگر اس کے بھائی نے دیکھا کہ اس کے دوست لاٹھیاں اُٹھائے اس پر حملہ کرنے کے لیے آئے ہیں تو وہ پولیس کو اطلاع دے گا اور اس کی مدد سے انہیں گاؤں سے باہر نکال دے گا اور اگر وہ پولیس کی مدد سے گاؤں سے باہر نکال دے گا تو فساد کیسے ہو گا.اسی طرح ربوہ کی زمین صدر انجمن احمدیہ نے خرید کی ہوئی ہے اور مرزا ناصر احمد صدرانجمن احمدیہ کا عہدیدار ہے جو اس کے بنائے ہوئے مکان میں رہتا ہے.اگر مرزا ناصر احمد کو کوئی اس مکان سے باہر نکالنے آئے جو صدر انجمن احمدیہ کی ملکیت ہے تو وہ پولیس کو بلا کر اُس شخص کو ربوہ سے باہر نکلوائے گی یا نہیں؟ اور اگر وہ ایسے آدمی کو پولیس کی مدد سے ربوہ سے باہر نکلوائے گی تو یہ عین امن کا قیام ہو گا کیونکہ یہ زمین کسی سے چھینی ہوئی تو ہے نہیں بلکہ گورنمنٹ سے خرید کی ہوئی ہے اور باقاعدہ رجسٹری کرائی ہوئی ہے.اگر یہ زمین کسی سے چھینی ہوئی ہوتی تب تو کہا جا سکتا تھا کہ حکومت آپ کی مدد کیوں کرے.لیکن جب یہ زمین گورنمنٹ سے باقاعدہ خریدی ہوئی ہے اور مرزا ناصراحمد صدرانجمن احمد یہ کا عہدیدار ہے جو اس زمین کی مالک ہے اور جس مکان میں وہ رہتا ہے وہ بھی صدرانجمن احمد یہ کا بنایا ہوا ہے.تو اگر کوئی شخص یہ کہے کہ میں مرزا ناصر احمد کو ربوہ سے نکالنے آیا ہوں تو وہ پولیس کو اطلاع دے گی کہ نہیں.اور اگر وہ پولیس کی معرفت اُس آدمی کو ربوہ سے باہر نکلوائے گی تو یہ کارروائی فساد کیسے ہو جائے گی؟ یہ تو عین امن کا قیام ہو گا.ہمیشہ سے یہ ساری دنیا کا قانون ہے کہ کسی کی مملوکہ زمین یا جائیداد پر زبر دستی قبضہ کرنا مُجرم ہے.یورپ میں بھی یہ جرم ہے اور امریکہ میں بھی جرم ہے، پاکستان میں بھی مجرم ہے تو پھر ربوہ میں جو مکانات صدر انجمن احمدیہ نے بنائے ہیں اُن میں اگر کوئی شخص ناجائز دخل اندازی کرتا ہے اور ان پر زبر دستی قبضہ کرنا چاہتا ہے تو یہ مجرم کیوں نہیں ہو گا.اگر کوئی شخص بُرے ارادے سے یہاں آتا ے

Page 356

خطبات محمود جلد نمبر 37 343 $1956 اور ان مکانات کے مکینوں کو باہر نکالنے کی کوشش کرتا ہے تو صدرانجمن احمد یہ پولیس کی نی مدد سے اُسے ربوہ سے ضرور باہر نکلوائے گی کیونکہ کسی کی جائیداد میں دوسرا شخص بغیر اس کی اجازت کے دخل اندازی نہیں کر سکتا.بلکہ پولیس کا فرض ہے کہ وہ اس کی جائیداد د پر کسی کو زبردستی سے قبضہ نہ کرنے دے.پس اگر کوئی شخص ناجائز دخل اندازی کرتا ہے اور ان صدر انجمن احمدیہ کی ملکیتی زمین پر قبضہ کرنا چاہتا ہے تو اسے باہر نکالنا اور اپنی جائیداد کی حفاظت کرنا صدرانجمن احمدیہ کا قانوناً حق ہے اور یہ عین قانون ہے.اور جو شخص یہ کہتا ہے کہ یہ قانون کے خلاف ہے اُس کی عقل ماری گئی ہے اور اس پر اِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ کے سوا اور کیا کہا جا سکتا ہے.پس میں نے پہلے بھی کہا ہے اور اب پھر کہتا ہوں کہ ربوہ کی زمین صدر انجمن احمد یہ کی خرید کردہ ہے اور مرزا ناصر احمد اس کا عہدیدار ہے اور صدر انجمن احمدیہ کے بنائے ہوئے مکان میں رہتا ہے.اس لیے کوئی آئے اور اسے باہر نکال کر دکھائے.اگر کوئی ایسا کرنے کی کوشش کرے گا تو پولیس اسے ربوہ سے باہر نکال دے گی کیونکہ یہ ناجائز دخل اندازی اور زبردستی قبضہ کرنا ہے اور پولیس کا فرض ہے کہ ایسے شخص کو ربوہ سے باہر نکال دے.اگر پولیس کسی شخص کو شہر سے باہر نکال دے تو یہ فساد کا موجب کسی طرح ہو سکتا ہے.خصوصاً جبکہ گواہ بھی مل جائیں کہ وہ بد ارادہ سے یہاں آیا ہے.اگر پولیس کو پتا لگ جائے کہ کوئی شخص صدرانجمن احمدیہ کے کسی بڑے افسر کو زبردستی نکالنے آیا ہے اور وہ کوئی کارروائی نہ کرے تو خود پولیس کے خلاف کارروائی کی جا سکتی ہے اور عدالت یا حکومت کا دروازہ کھٹکھٹایا جا سکتا ہے.کیونکہ اس کی ملکیت کی حفاظت کرنا پولیس کا فرض ہے.اگر کوئی شخص اس میں دخل اندازی کرے تو یقیناً پولیس اُس کو روکے گی اور یہ قانون کے مطابق ہو گا، عقل کے مطابق ہو گا اور شریعت کے مطابق ہو گا.ورنہ جب تک ناجائز دخل اندازی کا قانون باقی ہے میرا یہ کہنا درست ہے کہ کوئی شخص ربوہ میں داخل ہو کر مرزا ناصر احمد کو نکال کر تو دکھائے.اور جو شخص کہتا ہے ہے کہ میں مکان کے مالک یا اُس کے نمائندہ کو نکال دوں گا وہ اپنی زبان سے جُرم کا اقرار کرتا ہی ہے اور تسلیم کرتا ہے کہ وہ بد ارادہ سے آیا ہے.اگر اسلامی حکومت ہوتی تو وہ مجرم کے

Page 357

خطبات محمود جلد نمبر 37 344 $1956 ارتکاب سے پہلے روکا جاتا.چونکہ انگریزی قوانین کی نقل ہو رہی ہے اور قاعدہ بنایا گیا ہے کہ وقوعہ ہولے تو پولیس کارروائی کرے گی اس لیے وہ ایک حد تک محفوظ ہے حالانکہ اگر کوئی منہ سے اقرار کرتا ہے کہ میں فلاں مجرم کروں گا تو وہ کم از کم اس تعزیز کے نیچے آ جاتا ہے کہ پولیس اس کے خلاف کارروائی کرے اور اُس سے تحریر لے کہ اُس نے اپنا ارادہ بدل لیا ہے.میں پھر کہتا ہوں کہ جو شخص اس غرض سے یہاں آئے گا کہ وہ مرزا ناصر احمد کو ربوہ سے نکال دے وہ ربوہ میں داخل نہیں ہو سکتا کیونکہ مرزا ناصر احمد صدرانجمن احمدیہ کا ملازم ہے اور اُس کے بنائے ہوئے مکان میں رہتا ہے.اگر کوئی اسے ربوہ سے نکالے گا تو اس کے معنے ہیں کہ وہ صدرانجمن احمدیہ کو اُس کی خریدی ہوئی زمین کے قبضہ سے محروم کرنا چاہتا ہے.شہر میں داخل ہونے کے یہ معنے نہیں کہ یہاں ٹھوک کر چلان جائے بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اپنی من مانی کارروائی کرئے".1 : لقمان: 39 2 : تذکرہ صفحہ 94 ایڈیشن چہارم 2004 ء 3 : تذکرہ صفحہ 94 ایڈیشن چہارم 2004 ء الفضل 14 اگست 1956ء 4: وَإِنْ كَادُوا لَيَسْتَفِزُوْنَكَ مِنَ الْأَرْضِ لِيُخْرِجُوكَ مِنْهَا وَإِذًا لَّا يَلْبَثُونَ خِلْفَكَ إِلَّا قَلِيلًا (بنی اسرائیل : 77) 5 : إِنَّ الَّذِي فَرَضَ عَلَيْكَ الْقُرْآنَ لَرَاتُكَ إِلَى مَعَادٍ (القصص: 86) : اِنَّ اللهَ عِنْدَهُ عِلْمُ السَّاعَةِ ، وَيُنزِلُ الْغَيْثَ وَيَعْلَمُ مَا فِي الْأَرْحَامِ وَمَا تَدْرِي نَفْسٌ مَّاذَا تَكْسِبُ غَدًا (لقمان: 35) : مَا كَانَ اللهُ لِيُطْلِعَكُمْ عَلَى الْغَيْبِ وَلَكِنَّ اللهَ يَجْتَبِي مِنْ رُّسُلِهِ مَنْ يَشَاءُ " (آل عمران : 180)

Page 358

$1956 345 32 خطبات محمود جلد نمبر 37 تمہارا فرض ہے کہ تم ہمیشہ استغفار سے کام لیتے رہو تا کہ تمہارا استغفار فرشتوں کے استغفار سے مل کر تمہاری بخشش اور مغفرت کا ذریعہ بن جائے (فرموده 17 راگست 1956ء بمقام جابه ) تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ ملائکہ کے متعلق فرماتا ہے کہ وَيَسْتَغْفِرُونَ لِلَّذِينَ آمَنُوا 1 وہ مومنوں کے لیے ہر وقت استغفار میں لگے رہتے ہیں.اس میں جہاں یک طرف مومنوں کے لیے یہ تسلی کا پیغام ہے کہ ملائکہ جو مقربین بارگاہِ الہی ہیں وہ ان کے لیے استغفار کرتے رہتے ہیں اور ظاہر ہے کہ ملائکہ کے لیے چونکہ نیند نہیں اس لیے وہ رات اور دن مومنوں کے لیے استغفار کرتے ہیں وہاں ان پر یہ ذمہ داری بھی رکھی گئی ہے کہ وہ اپنے گناہوں کے متعلق اللہ تعالیٰ کے حضور توبہ اور انابت الی اللہ سے کام لیتے رہیں.اگر انسان خود استغفار نہیں کرتا تو یہ کتنی عجیب بات ہو گی کہ جن کا کام ہے کہ وہ استغفار کریں وہ تو استغفار نہ کریں اور جن کا کام نہیں وہ استغفار میں لگے رہیں.قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ملائکہ وہی کام کرتے ہیں جن کا انہیں حکم دیا جاتا ہے.2 اس کے معنے یہ ہیں کہ ملائکہ گناہ نہیں کر سکتے.پس کیا یہ عجیب بات نہیں ہوگی کہ ملائکہ جو گناہ نہیں کر سکتے وہ تو اس کی طرف سے استغفار کریں اور جس کی ذمہ داری ہے

Page 359

خطبات محمود جلد نمبر 37 346 $1956 وہ استغفار نہ کرے اور توبہ اور انابت الی اللہ سے کام نہ لے.گویا وہ جن کے متعلق خدا تعالیٰ نے کہا ہے وہ خدا تعالیٰ کی نافرمانی کر ہی نہیں سکتے وہ تو دن کو بھی اور رات کو بھی ، صبح کو بھی اور شام کو بھی ، پہلی رات کو بھی اور پچھلی رات کو بھی انسان کے لیے استغفار میں لگے رہتے ہیں اور جس کا فرض ہے وہ خاموشی سے بیٹھا رہتا ہے.اگر وہ ایسا کرتا ہے تو یہ اس کے لیے کتنی شرم کی بات ہے.اس کے معنے یہ ہیں کہ وہ اپنی نادانی سے یہ سمجھتا ہے کہ فرشتوں کو میرے گناہوں کی ضرورت ہے اس لیے میرا فرض ہے کہ میں ان کے لیے گناہ کرتا رہوں.جیسے دنیا میں غریب سے غریب آدمی پر بھی اپنے گھریلو اخراجات کی ذمہ داری ہوتی ہے لیکن جب مرد کما کر لاتا ہے تو بیوی اُس کا کھانا تیار کرتی ہے.گویا انہوں نے اپنی سہولت کے لیے کام کو تقسیم کیا ہوتا ہے.مرد روپیہ کما کر بیوی کی ضرورت کو پورا کرتا ہے اور بیوی روٹی پکا کر مرد کی ضرورت کو پورا کرتی ہے.پس اگر ملائکہ استغفار کریں اور انسان چپ کر کے بیٹھا رہے تو اس کے معنے یہ ہوں گے کہ وہ اپنے دل میں یہ سمجھتا ہے کہ جس طرح مرد کو بیوی کی مدد کی اور بیوی کو مرد کی مدد کی ضرورت ہوتی ہے اسی طرح فرشتوں کو میرے گناہوں کی ضرورت ہے میں ان کی طرف سے گناہ کرتا رہوں اور وہ میری طرف سے استغفار کرتے رہیں اور اس طرح دونوں کا کام چلتا رہے حالانکہ جن کو خدا تعالیٰ نے بنایا ہی ایسا ہے کہ وہ گناہ نہیں کر سکتے انہیں انسانوں کے گناہوں کی کیا ضرورت ہے.انسان گناہ کرتا ہے تو اپنی ضروریات اور میلانات کو پورا کرنے کے لیے کرتا ہے اور ملائکہ کے خلاف کام کرتا ہے.مگر پھر بھی وہ اس کے لیے استغفار کرتے ہیں اور یہ خاموش بیٹھا خوش ہو رہا ہوتا ہے کہ ملائکہ میرا کام کر رہے ہیں.گویا اس کی مثال بالکل ویسی ہی ہوتی ہے جیسے ہمارے ملک میں مشہور ہے کہ کوئی عورت کسی دوسری عورت کے ہاں دانے لے کر گئی اور اُس سے کہا بہن! اپنی چکی دے تاکہ میں دانے پیس لوں.اُس عورت کو دوسروں کی خدمت کرنے کا بڑا شوق تھا.وہ کہنے لگی تم پر بوجھ پڑے گا تم مجھے دانے دے دو میں خود پیس دیتی ہوں.وہ اُس وقت بیٹھی روٹی پکا رہی تھی کچھ روٹیاں پکا چکی تھی اور کچھ باقی رہتی تھیں.وہ اُٹھی اور اُس نے دانے پینے شروع کر دیئے مگر درمیان میں تھوڑی تھوڑی دیر کے بعد آتی اور پھل کا پکا کر پھر دانے پینے شروع کر دیتی.

Page 360

$1956 347 خطبات محمود جلد نمبر 37 وہ عورت کچھ دیر تک تو یہ نظارہ دیکھتی رہی.آخر کہنے لگی بہن! یہ کوئی انصاف ہے کہ تو میرا کام کرے اور میں تیرا کوئی کام نہ کروں؟ تو میرے دانے پیس میں تیری روٹی کھاتی ہوں اور یہ کہہ کر وہ اُس کے پچھلکوں والی ٹوکری کے پاس بیٹھ گئی اور روٹی کھانے لگ گئی.یہی طریق ایسا انسان اختیار کرتا ہے.وہ کہتا ہے چلو! میں فرشتوں کی طرف سے گناہ کرتا رہوں اور وہ میری طرف سے استغفار کرتے رہیں حالانکہ فرشتوں کے استغفار کا فائدہ تو اسے پہنچ جاتا ہے کہ اُس پر عذاب نہیں آتا.مگر اس کے گناہوں کا انہیں کیا فائدہ ہو سکتا ہے.وہ اگر استغفار کرتے ہیں تو محض انسان کے فائدہ کے لیے.پس عقلمند انسان کو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ اگر فرشتے بھی میرے لیے استغفار میں لگے ہوئے ہیں حالانکہ وہ ہر قسم کے گناہوں سے پاک ہیں تو میں اپنے گناہوں کے لیے کیوں نہ استغفار کروں.اگر دوسرا میرے حال پر روتا ہے تو میں اپنے حال پر کیوں نہ روؤں ؟ اگر کسی کے گھر میں موت ہو جائے اور ہمسائے بھی رونے لگیں لیکن وہ خود سیر کرنے کے لیے باہر نکل جائے تو سب لوگ اُسے احمق اور بیوقوف قرار دیں گے سوائے اس کے کہ اُس نے اپنے آنسوؤں کو زبردستی روک رکھا ہو.ایک مشہور تاریخی واقعہ ہے کہ جب مکہ والے بدر کے میدان میں مارے گئے تو مکہ کے رؤساء نے یہ فیصلہ کیا کہ اگر اس وقت ہم روئیں گے اور ہمارے رونے اور پیٹنے کی خبریں مدینہ پہنچیں گی تو مسلمانوں کو خوشی ہوگی.اس لیے اگر اپنے مُردوں پر کوئی شخص رویا یا چین چیلا یا تو اُسے سو اونٹ جرمانہ کیا جائے گا.اس اعلان پر سارے مکہ والے ڈر گئے اور وہ اپنے اپنے گھروں میں خاموش ہو کر بیٹھ گئے.ایک بڑھا آدمی جس کے دو نو جوان بیٹے بدر کی جنگ میں مارے گئے تھے اُس نے جب دیکھا کہ مجھ سے صبر نہیں ہو سکتا تو وہ گھر کے دروازے بند کر کے ایک کوٹھڑی کے اندر بیٹھ گیا اور وہیں اُس نے رونا شروع کر دیا.وہ ڈرتا تھا کہ اگر میں با ہر نکل کر رویا تو سو اونٹ مجھ پر جرمانہ ہو جائے گا.ایک دن وہ اسی طرح گھر کا دروازہ بند کر کے اندر بیٹھا رو رہا تھا کہ مکہ کے قریب سے ایک شخص گزرا جو روتا جا رہا تھا.لوگوں نے اُس سے پوچھا کہ تو کیوں رو رہا ہے؟ اُس نے کہا میں فلاں جگہ سے آ رہا تھا کہ راستہ میں میری اونٹنی مرگئی اور اب میں اُس کی یاد میں رو رہا ہوں.جب اس بڑھے نے یہ بات سنی تو اس

Page 361

$1956 348 خطبات محمود جلد نمبر 37 نے فوراً اپنے گھر کا دروازہ کھول دیا اور باہر نکل کر اس نے اپنے کپڑے پھاڑ ڈالے، سینہ کوبی شروع کر دی اور بلند آواز سے چیخیں مار کر کہنے لگا ارے لوگو! یہ کتنا بڑا ظلم ہے کہ اسے اپنی پر رونے کا حق ہے اور مجھے جس کے دو نوجوان بیٹے جنگ میں مارے گئے ہیں اسے رونے کا حق نہیں ہے.اس آواز کا بلند ہونا تھا کہ مکہ کے تمام لوگ جو قانون کے ڈر سے اب تک خاموش بیٹھے تھے کیا مرد اور کیا عورتیں اور کیا بچے سب کے سب اپنے گھروں سے باہر نکل آئے اور کسی نے اپنے باپ کو، کسی نے اپنے بیٹے کو ، کسی نے اپنے بھائی کو اور کسی نے اپنے چچا اور دوسرے رشتہ دار کو پیٹنا شروع کر دیا اور انہیں یہ خیال تک نہ رہا کہ اُن سو اونٹ جرمانہ ہو جائے گا.جب سارے رونے لگ گئے تو مکہ کے رؤساء نے کہا کہ ا.کس کس پر جرمانہ کریں.چلو! سب کا جرمانہ معاف کیا جاتا ہے.3 غرض اپنی مصیبت پر رونا ایک طبعی چیز ہے.جیسے اس بڑھے نے کہا کہ اس شخص کو اپنی اونٹنی پر رونے کی اجازت ہے اور مجھے اپنے دو نوجوان بیٹوں پر رونے کی اجازت نہیں اور یہ کہتے ہوئے وہ بے تحاشا پیٹنے لگ گیا.مگر یہ بیوقوف کہتا ہے کہ فرشتے بیشک میرے گناہوں پر روئیں اور استغفار کریں میں اپنے گناہوں پر کیوں استغفار کروں؟ اگر وہ یہ کہتا کہ جب فرشتے بھی میرے لیے استغفار کرتے ہیں تو میں کیوں نہ استغفار کروں تو یہ اس کے لیے زیادہ اچھا ہوتا.مگر یہ کہتا ہے کہ جب فرشتے میرے گناہوں پر استغفار کر رہے ہیں تو میں کیوں کروں؟ حالانکہ جب دوسرے کو اس کی حالت پر رحم آ رہا ہے تو اسے اپنی حالت پر کیوں رحم نہیں آتا؟ فرشتے اس پر رحم کھاتے ہیں اور کہتے ہیں یہ مومن بندہ ہے اس سے غلطی ہو گئی ہے.آؤ! ہم اس کی طرف سے استغفار کریں مگر یہ اڑ کر بیٹھا ہے اور کہتا ہے کہ فرشتے استغفار کرتے ہیں تو کریں میں کیوں کروں.گویا یہ اتنا احمق اور بیوقوف ہے کہ بجائے اس کے کہ فرشتوں سے سبق سیکھے اور بجائے اس کے کہ وہ استغفار کر کے اپنے آپ کو فرشتوں کے ساتھ ملانے کی کوشش کرے اُلٹا اڑ بیٹھ جاتا ہے.حالانکہ اسے سمجھنا چاہیے کہ جب وہ بے گناہ ہو کر استغفار کر رہے ہیں تو میں جو گنہگار ہوں اپنے گناہوں کے لیے کیوں نہ استغفار کروں.در حقیقت اس آیت میں مومنوں کو اُن کے اس فرض کی طرف توجہ دلائی گ

Page 362

$1956 349 خطبات محمود جلد نمبر 37 کہ وہ ہمیشہ استغفار سے کام لیتے رہیں.گو اس میں یہ بشارت بھی پائی جاتی ہے کہ اگر کوئی کمی رہ جائے گی تو فرشتوں کا استغفار اس کمی کو پورا کر دے گا مگر ساتھ ہی اس طرف بھی توجہ دلائی کی گئی ہے کہ تم بھی استغفار سے کام لو.جب غیر تمہارے لیے استغفار کر رہے ہیں تو تمہیں بھی استغفار سے کام لینا چاہیے تا کہ تمہارا استغفار فرشتوں کے استغفار کے ساتھ مل کر تمہاری بخشش اور مغفرت کا ذریعہ بن جائے.غرض یہ آیت جہاں مومنوں کے لیے ایک بشارت کی حامل ہے وہاں اس میں تنبیہ بھی پائی جاتی ہے کہ بیوقوفو! فرشتے جن کا تمہارے کھانے پینے یا دوسری لذات سے کوئی تعلق نہیں وہ تو تمہارے لیے استغفار کر رہے ہیں اور تم خاموش بیٹھے ہو.حالانکہ تم اپنی کی خواہشات کی وجہ سے گناہ میں مبتلا ہوتے ہو.مثلاً کسی کی اچھی گھوڑی دیکھی اور پھرالی ، کسی کی اچھی گائے دیکھی اور چرالی.پس اس کا اگر کوئی فائدہ پہنچ سکتا ہے تو تمہیں پہنچتا ہے فرشتوں کو نہیں پہنچتا.مگر جب وہ بھی استغفار کر رہے ہیں تو تمہارا فرض ہے کہ تم اُن سے بھی زیادہ استغفار سے کام لو تا تمہارا اور فرشتوں کا استغفار مل کر تمہارے لیے اللہ تعالیٰ کی بخشش اور اس کی مغفرت کو کھینچ لائے اور تمہیں اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل ہو جائے“.1 : المومن : 8 الفضل 23 راگست 1956 ء ) 2 : يَخَافُونَ رَبَّهُمْ مِنْ فَوْقِهِمْ وَيَفْعَلُوْنَ مَا يُؤْمَرُونَ (النحل : 51) يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا قُوا أَنْفُسَكُمْ وَأَهْلِيكُمْ نَارًا وَقُودُهَا النَّاسُ | وَالْحِجَارَةُ عَلَيْهَا مَلَيْكَةٌ غِلَاظٌ شِدَادٌ لَا يَعْصُونَ اللهَ مَا أَمَرَهُمْ وَيَفْعَلُوْنَ مَا يُؤْمَرُونَ (التحريم: 7) 3 : سیرت ابن ہشام الجزء الاول صفحہ 709 تا 11 7 زیر عنوان نواح قريش على قتلاهم دمشق 2005 ء

Page 363

$1956 350 33 خطبات محمود جلد نمبر 37 قرآن کریم کے ترجمہ کا عظیم الشان کام مکمل ہو گیا الْحَمْدُ لِلَّهِ عَلَى ذَلِكَ محض اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ اس نے بیماری کے باوجود تھوڑے سے عرصہ میں ہی مجھے یہ اہم کام سرانجام دینے کی توفیق عطا فرمائی (فرمودہ 24 اگست 1956ء بمقام جابه ) تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے قرآن کریم کی ان آیات کی تلاوت فرمائی: " يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا لَقِيتُمْ فِئَةً فَاثْبُتُوا وَاذْكُرُوا الله ط كَثِيرًا لَّعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ - وَاَطِيْعُوا اللهَ وَرَسُولَهُ وَلَا تَنَازَعُوا فَتَفْشَلُوا وَتَذْهَبَ رِيحُكُمْ وَاصْبِرُوا إِنَّ اللهَ مَعَ الصُّبِرِيْنَ - وَلَا تَكُونُوا كَالَّذِيْنَ خَرَجُوا مِنْ دِيَارِهِمْ بَطَرًا وَ رِئَاءَ النَّاسِ وَيَصُدُّونَ 66 عَنْ سَبِيلِ اللهِ وَاللَّهُ بِمَا يَعْمَلُونَ مُحِيْطٌ “ - 1 اس کے بعد فرمایا: ”سب سے پہلے تو میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ جابہ کے قیام کی بڑی وجہ یہ تھی کہ قرآن شریف کا ترجمہ کرنے کی مجھے توفیق مل جائے.سو اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ آج ہم

Page 364

$1956 351 خطبات محمود جلد نمبر 37 مجھے اٹھائیسویں پارے کے آخر میں ہیں.یہ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ بعض نوٹوں اور بعض حوالوں کے لیے ابھی اور بھی کچھ وقت لگے گا.مگر تین چار مہینے کے اندراندر سارے قرآن شریف کا ترجمہ ہونا الہی مدد کے بغیر نہیں ہوسکتا.یاد ہے جب 1905ء میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام دہلی گئے تو خواجہ کمال الدین صاحب اور شیخ یعقوب علی صاحب، ڈپٹی نذیر احمد صاحب مترجم قرآن کو بھی ملنے گئے.انہوں نے آ کر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو سنایا کہ ڈپٹی صاحب نے اپنے اردگرد کاغذوں کا ایک بڑا ڈھیر لگا رکھا تھا.ایک مولوی بھی انہوں نے ملازم رکھا ہوا تھا اور خود بھی انہیں عربی زبان سے کچھ واقفیت تھی.پھر وہ کہنے لگے میں نے بڑی کتابیں لکھی ہیں مگر ساری کتابیں ملا کر بھی مجھے اتنی مشکل پیش نہیں آئی جتنی مشکل مجھے قرآن کریم کے ترجمہ میں پیش آئی ہے.چنانچہ دیکھیے میں نے ردی کاغذوں کا ڈھیر لگا رکھا ہے.لکھتا ہوں اور پھاڑتا ہوں، لکھتا ہوں اور پھاڑتا ہوں.چنانچہ سات سال انہیں اس ترجمہ کے مکمل کرنے میں لگے.مگر میں نے یہ ترجمہ خدا تعالیٰ کے فضل سے بہت تھوڑے عرصہ میں کر لیا.پہلے آٹھ پاروں یعنی سورۃ انعام کے آخر تک کا ترجمہ پہلے ہو چکا تھا اور سورۃ یونس سے کہف تک کا ترجمہ 1939,40ء میں ہوا اور آخری پارے کا ترجمہ پچھلے آٹھ دس سالوں میں ہوتا رہا.پہلے آٹھ سیپاروں میں سے سورۃ مائدہ کی چند آیتیں جو قرآن کریم کی مشکل ترین آیات میں سے ہیں اور اسی طرح سورۃ انعام کی چند آیتیں رہتی تھیں.اسی طرح سورۃ اعراف، انفال اور سورۃ توبہ کا ترجمہ اور آخری چودہ پارے باقی تھے.گویا قریباً سترہ پاروں کا ترجمہ ابھی رہتا تھا.ہم 23 را پریل کو ربوہ سے مری گئے تھے.پہلے آخری پارہ کی چند سورتیں باقی تھیں ان کی ہم تفسیر کرتے رہے.اس کے بعد ترجمہ کا کام جون میں شروع ہوا اور اب اگست کا آخر ہے.بیچ میں دس دن بخار بھی چڑھتا رہا اور قریباً دس دن مری سے جابہ اور پھر جابہ سے مری اور پھر مری سے ربوہ اور ربوہ سے مری آنے جانے میں لگے اور اس طرح دو مہینے اور کچھ دن رہ جاتے ہیں جن میں سارے قرآن کریم کے ترجمہ کا کام خدا تعالیٰ کے فضل - چنانچہ 25 راگست کی شام تک خدا تعالیٰ کے فضل سے قرآن شریف کا سارا ترجمہ ختم ہو گیا - ނ

Page 365

خطبات محمود جلد نمبر 37 352 $1956 ختم ہو گیا.اس ترجمہ کے متعلق لوگوں کی رائے کا تو اُس وقت پتا لگے گا جب یہ ترجمہ چھپے گا لیکن میری رائے یہ ہے کہ اس وقت تک قرآن کریم کے جتنے ترجمے ہو چکے ہیں ان میں سے کسی ترجمہ میں بھی اردو محاورے اور عربی محاورے کا اتنا خیال نہیں رکھا گیا جتنا اس میں رکھا گیا ہے.یہ محض اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ اُس نے اتنے تھوڑے سے عرصہ میں ایسا عظیم الشان کام سرانجام دینے کی مجھے توفیق عطا فرما دی ورنہ مجھ پر وہ زمانہ گزر رہا تھا جب بعض نوجوانوں نے یہ کہنا شروع کر دیا تھا کہ خلیفہ اب بڑھا ہو گیا ہے اور وہ معزول کیے جانے کے قابل ہے.اللہ تعالیٰ نے اس بڑھے اور کمزور انسان سے وہ عظیم الشان کام کروا لیا جو بڑے بڑے طاقتور بھی نہ کر سکے.گزشتہ تیرہ سو سال میں بڑے بڑے قوی نوجوان گزرے ہیں مگر جو کام اللہ تعالیٰ نے مجھے سرانجام دینے کی توفیق عطا فرمائی ہے اس کی اُن میں سے کسی کو بھی توفیق نہیں ملی.در حقیقت یہ کام خدا کا ہے اور وہ جس سے چاہتا ہے کروا لیتا ہے.چنانچہ اُس نے یہ کام اُس شخص سے کروا لیا جس کے متعلق جماعت میں سے بعض منافقین نے یہ کہنا شروع کر دیا تھا کہ اب یہ ضعیف اور بڑھا ہے اسے کام سے الگ کر کے بٹھا دینا چاہیے یا اسے دو نائب دے دینے چاہیں ، خود یہ کام کرنے کے قابل نہیں.یہ دوسری توجیہہ امریکہ سے آئی ہے.چنانچہ وہاں سے رپورٹ پہنچی ہے کہ جب عبدالمنان سے کہا گیا کہ تمہارے بھائی نے یہ الفاظ کہے ہیں تو اُس نے کہا کہ میرے بھائی کا تو یہ مطلب تھا کہ چونکہ خلیفہ وقت کمزور اور بوڑھے ہو چکے ہیں اس لیے اب انہیں دو مددگار دے دینے چاہیں.وہ لکھتے ہیں کہ عبدالمنان ہمارے پاس جتنی دیر بیٹھا رہا یہی بحث کرتا رہا اور عبدالوہاب سے الزام دور کرنے کی کوشش میں نئی نئی تشریحیں کرتا رہا.وہ خط اس وقت میرے سامنے نہیں مگر اُس کا مفہوم یہی تھا.جب وہ چھپ جائے گا تو دوسرے لوگ بھی اسے پڑھ لیں گے.یہ آیتیں جو میں نے ابھی پڑھی ہیں ان میں اللہ ہمیں ایک زبردست نصیحت کرتا ہے.فرماتا ہے یا يُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا لَقِيتُمْ فِئَةً فَاثْبُتُوا وَاذْكُرُوا الله كَثِيرً ا لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ اے مومنو! دنیا میں انسان کو مختلف مقابلے پیش آتے رہتے ہیں

Page 366

$1956 353 خطبات محمود جلد نمبر 37 کوئی مقابلہ بڑا ہوتا ہے اور کوئی چھوٹا ہوتا ہے، کسی مقابلہ کے وقت انسان قائم رہتا ہے اور کسی مقابلہ کے وقت پہلے ہی اپنا دل چھوڑ بیٹھتا ہے.مگر مومن کی یہ حالت ہوتی ہے کہ جب وہ کسی جنگ میں جاتا ہے خواہ وہ ظاہری جنگ ہو یا علوم کی جنگ ہو تو محض خدا کے لیے جاتا ہے.اور جب وہ خدا کے لیے جاتا ہے تو اپنا دل چھوڑتا نہیں بلکہ دشمن کے مقابلہ میں پوری مضبوطی سے قائم رہتا ہے.چونکہ تمہارا طریق یہ ہے کہ تم بحث بھی خدا کے لیے کرتے ہو اور دلیل بازی وی بھی خدا کے لیے کرتے ہو، تبلیغ بھی خدا کے لیے کرتے ہو اس لیے تم مضبوطی سے اپنی جگہ پر قائم رہا کرو.اور یاد رکھو کہ اگر تم خدا کے لیے اس تکلیف کو برداشت کرو گے تو خدا یہ کب برداشت کر سکتا ہے کہ تم اُس کی طرف سے بحث کرتے جاؤ اور وہ تمہیں ہرا دے.آجکل ہماری جماعت میں منافقین کا جو فتنہ اُٹھا ہوا ہے یہ نصیحت اس پر بھی چسپاں کی ہوتی ہے اور ہر مومن کا فرض ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کے اس حکم کو اپنے سامنے رکھے کہ فَاثْبُتُوا یعنی اے مومنو! جب تم دشمن کے مقابلہ میں کھڑے ہو تو ثابت قدم رہو ڈگمگاؤ نہیں.اس لیے کہ مومن کہتے ہی اُسے ہیں جس نے دلیل سے مانا ہو.قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے فرماتا ہے کہ تو لوگوں سے کہہ دے کہ عَلَى بَصِيرَةٍ أَنَا وَمَنِ اتَّبَعَنِي 2 میں نے اور میرے متبعین نے جن باتوں کو مانا ہے انہیں دلیل سے مانا ہے اور جس نے کسی بات کو دلیل سے مانا ہو اُسے کون ور غلا سکتا ہے.مثلاً ایک اندھا سورج کو اس لیے مانتا ہے کہ لوگ کہتے ہیں کہ سورج موجود ہے یا وہ سورج کو اس لیے مانتا ہے کہ اُسے دھوپ محسوس ہوتی ہے اور اسے خیال آتا ہے کہ کوئی سورج بھی ہوگا.لیکن بینا اس لیے مانتا ہے کہ اُس نے خود سورج کو دیکھا ہے.اب خواہ کوئی کتنی بھی دلیلیں دے کہ سورج کوئی نہیں کیا یہ ممکن ہے کہ کوئی آنکھوں والا شخص سورج کا انکار کر دے؟ ہمارے منشی اروڑے خاں صاحب جو کپورتھلہ کے رہنے والے تھے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے نہایت پرانے مخلصوں اور آپ کے عاشقوں میں سے تھے.انہوں نے مجھے خود سنایا کہ ایک دفعہ ہمارے علاقہ میں مولوی ثناء اللہ صاحب آ گئے.میرے بعض دوست

Page 367

$1956 354 خطبات محمود جلد نمبر 37 میرے پاس آئے اور انہوں نے کہا کہ آجکل بڑا عمدہ موقع ہے.مولوی ثناء اللہ صاحب آئے ہوئے ہیں آپ بھی چلیں اور اُن کی کچھ باتیں سن لیں.وہ کہنے لگے میں نے پہلے تو انکار کیا مگر وہ اصرار کرتے چلے گئے اور آخر ان کے اصرار پر میں مولوی صاحب کے پاس چلا گیا.مولوی صاحب آدھ گھنٹہ تک حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خلاف دلیلیں دیتے رہے.جب وہ خاموش ہوئے تو میں نے کہا مولوی صاحب! آپ بیکار گلا پھاڑ رہے ہیں.آپ دلیلیں دے رہے ہیں اور میں نے مرزا صاحب کا منہ دیکھا ہوا ہے.اُن کا منہ دیکھنے کے بعد میں اُن کو جھوٹا کہہ ہی نہیں سکتا.آپ خواہ رات اور دن دلیلیں دیتے رہیں آپ کی ان دلیلوں کا اثر مجھ پر نہیں ہو سکتا.کیونکہ آپ کی باتیں سب سنی سنائی ہیں اور میری دیکھی ہوئی ہیں.میں نے جس شخص کے متعلق تجربہ کر لیا ہے کہ وہ جھوٹ نہیں بول سکتا اگر اس کے متعلق آپ مانی لاکھ دلیلیں بھی دیں گے تو میں آپ کو ہی جھوٹا کہوں گا انہیں جھوٹا نہیں کہہ سکتا.یہی بات اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں بیان فرمائی ہے کہ یا يُّهَا الَّذِينَ امَنُوا إِذَا لَقِيتُمْ فِئَةً فَاثْبُتُوا اے مومنو! جب دشمن سے تمہارا مقابلہ ہو تو اگر تم نے دلیل سے مانا ہے تو تمہارے لیے گھبرانے کی کونسی بات ہے.میں نے دیکھا ہے کئی لوگ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر خواب دیکھ کر ایمان لائے تھے.اب اگر کوئی شخص کسی مولوی کی تقریر سن کر آپ کو چھوڑ دیتا ہے تو وہ خود اپنے عمل سے اس بات کا اعلان کرتا ہے کہ وہ شیطان کا چیلا تھا جس نے اسے غلط راستہ پر چلا دیا.اسی طرح ہماری جماعت میں ہزاروں لوگ ایسے ہیں جو خواہیں دیکھ کر میری بیعت میں شامل ہوئے.اب اگر کوئی شخص کسی نالائق بھکاری اور فقیر کی باتیں سن کر دھوکا میں آ جاتا ہے یا اس لیے دھوکا میں آ جاتا ہے کہ خلیفہ اول کا بیٹا ایسا کہہ رہا ہے تو ہر انسان اسے کہے گا کہ اے بیوقوف! کیا تجھے خدا نے نہیں کہا تھا کہ یہ شخص سچا ہے؟ اے بیوقوف ! اگر صداقت وہی ہے جس کا تو اب اظہار کر رہا ہے تو تو نے اپنی خواب کیوں شائع کرائی تھی؟ اے کذاب! جب تو نے مجھے یا الفضل والوں کو خواب بھجوائی تھی تو صرف اس لیے بھجوائی تھی کہ تجھے یقین تھا کی خواب تجھے خدا نے دکھلائی ہے.اے کذاب! اب تو اپنے خدا کو جھوٹا کہتا سے

Page 368

355 $1956 خطبات محمود جلد نمبر 37 اور خلیفہ اول کی اولاد کو سچا سمجھتا ہے.خلیفہ اول تو خود خدا کے غلام تھے.تجھے شرم نہیں آتی یانی کہ تو خدا کے مقابلہ میں کس کو پیش کر رہا ہے.خدا کے مقابلہ میں تو مرزا صاحب کی بھی کوئی حیثیت نہیں، خدا کے مقابلہ میں تو نوح اور ابراہیم اور موسی کی بھی کوئی حیثیت نہیں.اگر وہ خواب خدا کی طرف سے تھی تو اے نالائق ! تو اب اسے رڈ کیوں کرنے لگا ہے اور کیوں اپنے کی خدا کے حکم کی خلاف ورزی کرنے لگا ہے؟ مجھے خوب یاد ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرمایا کرتے تھے کہ ہماری جماعت میں تین قسم کے آدمی پائے جاتے ہیں.ایک تو وہ ہیں جنہوں نے مولوی صاحب ( یعنی حضرت خلیفہ اول) کی وجہ سے مجھے مانا ہے وہ مولوی صاحب سے عقیدت رکھا کرتے تھے.انہوں نے جب دیکھا کہ مولوی صاحب احمدی ہو گئے ہیں تو وہ بھی احمدی ہو گئے اور انہوں نے بیعت کر لی.اور ایک وہ طبقہ ہے جو تعلیم یافتہ ہے.اس نے جب دیکھا کہ ایک منظم جماعت موجود ہے تو اس نے کہا آؤ! ہم بھی اس جماعت میں داخل ہو جائیں تا کہ ان کی وجہ سے سکول اور کالج کھولے جائیں.اور تیسرے وہ لوگ ہیں جنہوں نے میرے دلائل اور نشانات کو دیکھ کر میری صداقت کو تسلیم کیا ہے.میں صرف ان لوگوں پر اعتبار کرتا ہوں جو میرے الہامات اور نشانات کو دیکھ کر مجھ پر ایمان لائے ہیں.جنہوں نے مولوی صاحب کی وجہ سے مجھے مانا ہے وہ اگر مولوی صاحب کی کوئی ایسی بات دیکھیں گے جو انہیں ناپسند ہو گی تو ہو سکتا ہے کہ وہ مرتد ہو جائیں.اسی طرح وہ لوگ جو اس لیے ہماری جماعت میں داخل ہوئے ہیں کہ یہ ایک منظم جماعت ہے، ہم مل کر سکول اور کالج کھولیں گے وہ جس دن یہ دیکھیں گے کہ میرے بچے متبع کسی حکمت کے ماتحت سکولوں اور کالجوں پر کسی اور چیز کو ترجیح دے رہے ہیں تو ہو سکتا ہے کہ وہ مرتد ہو جائیں.میں صرف اُن کو ترجیح دیتا ہوں جو خدا تعالیٰ کی رضا کے لیے میرے دلائل اور نشانات کو دیکھ کر مجھ پر ایمان لائے ہیں.جو لوگ مولوی صاحب کی وجہ سے ایمان لائے ہیں اُن کا ایمان مولوی صاحب پر ہے مجھ پر نہیں.جو لوگ یک تنظیم اور جتھا بندی کو دیکھ کر جماعت میں داخل ہوئے ہیں اُن کا ایمان بھی واسطے کا ایمان ہے اور مجھے واسطے کے ایمان کی ضرورت نہیں.میں ایسے لوگوں کو اپنی جماعت میں نہیں سمجھتا.

Page 369

$1956 356 خطبات محمود جلد نمبر 37 میری جماعت میں سچے طور پر وہی لوگ داخل ہیں جنہوں نے خدا کے نشانوں کی وجہ سے اور اُس کی رضا کے لیے مجھے قبول کیا ہے.میں دیکھتا ہوں کہ اس وقت تک جن لوگوں نے اس فتنہ میں حصہ لیا ہے وہ نہایت ہی ذلیل اور گھٹیا قسم کے ہیں.ایک بھی ایسی مثال نہیں پائی جاتی کہ جماعت کے صاحب علم اور تقوی اور صاحب کشوف لوگوں میں سے کوئی شخص فتنہ میں مبتلا ہوا ہو.سارے کے سارے خدا تعالیٰ کے فضل سے اپنے پاؤں پر کھڑے رہے ہیں.صرف بعض ادنی قسم کے لوگ تھے جنہوں نے کہا کہ خلیفہ اول کی اولاد ایسا کہہ رہی ہے ہم کیا کریں؟ میں ایسے لوگوں سے کہتا ہوں کہ بیالیس سال تک جو تم نے میری بیعت کی تھی تو کیا تم نے مجھے حضرت خلیفہ اول کی اولاد کی وجہ سے مانا تھا یا اُن دلائل اور بینات کی وجہ سے مانا تھا جو قرآن اور حدیث سے ظاہر ہوئے تھے؟ اور پھر یہ بھی حساب لگا لو کہ بیالیس سال پہلے حضرت خلیفہ اول کی اولاد کی عمریں کیا تھیں؟ کوئی آٹھ سال کا تھا، کوئی چھ سال کا اور کوئی چار سال کا.جس عمر میں وہ کپڑے بھی نہیں بدلی سکتے تھے کجا یہ کہ دین کے متعلق فیصلہ کریں؟ تم نے مجھے مانا تھا تو اُن دلائل کی وجہ سے مانا تھا جو قرآن اور حدیث سے ظاہر ہوتے تھے.پس اب کسی اور بناء پر شبہ میں مبتلا ہونا اپنی حماقت یا بے ایمانی کا ثبوت بہم پہنچانا ہے.ایسے شخص کے متعلق ممکن ہے کہ آج سے پچاس سال بعد کسی احراری کے کہنے پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو گالیاں دینے لگ جائے.اُس وقت اُس کی اولاد یہی کہے گی کہ پچاس سال پہلے جن بینات سے مرزا صاحب کی صداقت ثابت ہوتی تھی آج بھی وہ قائم ہیں اور آج بھی انہی سے مرزا صاحب کی صداقت ثابت ہوتی ہے.نہ ان دلائل کو کوئی احراری پہلے رڈ کر سکا تھا اور نہ اب رڈ کر سکتا ہے.اخلاص اور ایمان تو وہ ہے جس کا اظہار ایک فوجی افسر نے کیا ہے.انہوں نے لکھا ہے کہ آپ خوامخواہ اس فتنہ سے گھبرا رہے ہیں میری تو یہ حالت ہے کہ اگر خلیفہ اول کی ساری اولاد اور سارے پیغامی مجھے سجدہ بھی کریں تو میں ان کی طرف دیکھوں بھی نہیں.آپ ان کے کسی ایک بیٹے یا اس کے کسی بھکاری اور فقیر ساتھی کا نام لے رہے ہیں.میرا تو یہ عقیدہ ہے کہ اگر خلیفہ اول کی ساری اولاد اور سارے پیغامی مجھے سجدہ کریں اور مجھے اپنے عقیدہ سے پھرانا چاہیں تو میں ان کی طرف منہ

Page 370

$1956 357 خطبات محمود جلد نمبر 37 بھی نہ کروں.حقیقتا یہی سچا ایمان ہے.جس شخص کو یہ خیال ہے کہ اگر خلیفہ اول کے ایک بیٹے کے ساتھ دوسرا بیٹا ملا اور دوسرے کے ساتھ تیسرا ملا تو اُس کا ایمان ڈانواں ڈول ہو جائے گا.اسے کبھی بھی ایمان نصیب نہیں ہوا.وہ کبھی بھی احمدی نہیں ہوا اور نہ اس یقین کے ساتھ آئندہ ہو گا.اگر وہ بیعت نہ کرتا تو اُس کی حالت آج کی حالت سے بہتر ہوتی.جب اُس نے ان خوابوں پر یقین نہیں کیا جو اُسے خود آئیں، جب اُس نے اُن نشانات کو نہ دیکھا جو خدا تعالیٰ نے میری صداقت کے لیے اُس کے سامنے ظاہر کیے، جب اُس نے اُن الہاموں سے فائدہ نہ اُٹھایا جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو میرے متعلق ہوئے ، جب اُس نے قرآن اور حدیث کے ان دلائل کو رڈ کر دیا جن سے میری صداقت ظاہر ہوتی تھی تو ایسا نالائق جو اتنی باتوں کو رڈ کر رہا ہے اُس کا ٹھکانا سوائے جہنم کے اور کیا ہوسکتا ہے.مجھے یاد ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پاس ایک دفعہ ایک زمیندار جو مولوی طرز کا تھا آ کر بیٹھ گیا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے کہنے لگا کہ میں آپ کی صداقت کا کوئی نشان دیکھنے آیا ہوں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام اُس کی یہ بات سن کر ہنس پڑے اور فرمایا خدا تعالیٰ نے میری صداقت کے لیے ہزاروں ہزار نشانات نازل کیے ہیں.تریاق القلوب اور نزول امیج کو پڑھو ان میں بیسیوں نشانات کا ذکر موجود ہے.اسی طرح اور کتابیں پڑھو.اگر اتنے نشانوں سے تم نے فائدہ نہیں اُٹھایا تو جو شخص سو نشانوں کو رڈ کر سکتا ہے اُسے اگر ایک اور نشان دکھا دیا جائے تو وہ اُس کا بھی انکار کر سکتا ہے.آخر خدا مداری تو نہیں کہ جب کوئی شخص نشان دیکھنا چاہے اُسی وقت وہ نشان ظاہر کر دے.جب وہ سونشان دکھا چکا ہے تو تم اُن سونشانوں سے فائدہ اُٹھاؤ.ایک سو ایک نشان دیکھنے کا تم کیوں مطالبہ کرتے ہو؟ اور اگر تم سونشانوں کی قدر نہیں کرتے اور یہی مطالبہ کرتے جاتے ہو کہ ایک ا نشان دکھاؤ تو خدا کہے گا کہ جب تم نے میرے سونشانوں کو جوتی ماری ہے تو اب میں تمہیں کوئی اور نشان دکھانے کے لیے تیار نہیں.کیونکہ میرے نشانات بڑی عزت والے ہیں.میں بھی تمہیں دھتکار دوں گا.غرض اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا لَقِيْتُمْ فِئَةً فَاثْبُتُوا

Page 371

$1956 358 خطبات محمود جلد نمبر 37 اے مومنو! اگر تم دلیل سے ایمان لائے تھے تو تمہیں کونسی چیز ہرا سکتی ہے.تمہارا مقابلہ کرنے کی تو دنیا میں کسی میں طاقت نہیں ہو سکتی.اگر دلیل کے مقابلہ میں کوئی اور چیز تمہیں ہرا سکتی ہے تو معلوم ہوا کہ تمہارا یہ خیال کہ تم دلیل دیکھ کر ایمان لائے تھے بالکل باطل تھا.کیونکہ خدا تعالیٰ کی طرف سے آنے والی دلیلیں آپس میں ٹکراتی نہیں.اگر پہلی دفعہ تم نے دلیل سے مانا تھا تو اب اگر اس دلیل کے خلاف تمہارے پاس کوئی بات بیان کی جاتی ہے تو اسے رڈ کر دو.میں بھی تمہیں یہی کہوں گا کہ تمہیں مجھ سے یا کسی اور مولوی سے پوچھنے کی ضرورت نہیں تم خود سوچو اور غور کرو کہ تم نے کس دلیل سے مجھے مانا تھا.اگر وہ کوئی پکی دلیل تھی تو وہی دلیل اب بھی قائم ہے تمہیں اور کسی نئی دلیل کی ضرورت نہیں.تم وہی دلیل ان لوگوں کے سامنے پیش کرو اور کہو کہ ہم تمہارے کہنے کی وجہ سے اس دلیل کو کس طرح رڈ کر سکتے ہیں.مجھے اس موقع پر ترکوں میں سے ایک مذاقیہ عالم کا قصہ یاد آ گیا.وہ کسی گاؤں میں گیا تو لوگوں نے اسے مجبور کیا کہ وہ جمعہ پڑھائے.وہ ایسا ہی تھا جیسے ہمارے ہاں فلاسفر ہوا کرتا تھا.کوئی خاص علمی ذوق نہیں رکھتا تھا مگر عالموں کی مجلسوں میں آتا جاتا تھا اور اس وجہ سے بعض دفعہ عقل کی باتیں بھی کہہ دیتا تھا.اُسے جب لوگوں نے خطبہ کے لیے مجبور کیا تو وہ اس بڑا گھبرایا کہ مجھے تو کچھ بھی نہیں آتا.میں نے خطبہ پڑھا تو ہنسی اُڑے گی.اس لیے اس نے کی انکار کر دیا اور کہا کہ میں خطبہ نہیں پڑھ سکتا.مگر لوگوں نے اصرار کیا اور کہا کہ ہم آپ سے ہی خطبہ سنیں گے.آخر وہ مجبور ہو گیا اور خطبہ کے لیے کھڑا ہو گیا.کھڑے ہو کر اس نے پہلے دائیں طرف کے لوگوں کو دیکھا اور کہا ارے لوگو! تمہیں پتا ہے کہ میں نے کیا کہنا ہے؟ انہوں نے کہا نہیں.پھر اس نے بائیں طرف کے لوگوں کو دیکھا اور کہا ارے لوگو! تمہیں پتا ہے کہ میں نے کیا کہنا ہے؟ انہوں نے بھی کہا نہیں.وہ کہنے لگا جب تمہیں میرے عقائد کا ہی پتا نہیں اور تمہیں معلوم ہی نہیں کہ میں کیا کہا کرتا ہوں تو تمہیں کچھ کہنے کا کیا فائدہ؟ اور یہ کہہ کر وہ منبر سے نیچے اُتر آیا.دوسرا جمعہ آیا تو لوگوں نے کہا کہ ہم نے اس کا وعظ ضرور سننا.اسے پھر دوبارہ خطبہ پڑھنے پر مجبور کیا جائے.اور انہوں نے فیصلہ کیا کہ اگر اب کی دفعہ بھی یہ وہی سوال کرے جو اس نے پچھلی دفعہ کیا تھا تو سب لوگ کہہ دیں کہ ہاں! ہمیں پتا - ہے ہے

Page 372

$1956 359 خطبات محمود جلد نمبر 37 کہ آپ نے کیا کہنا ہے.چنانچہ اگلے جمعے اُسے پھر خطبہ کے لیے کھڑا کر دیا گیا.وہ کھڑے ہو کر اپنے دائیں طرف کے لوگوں سے کہنے لگا ارے لوگو! تمہیں پتا ہے کہ میں نے کیا کہنا ہے؟ انہوں نے کہا ”جی ہاں.پھر وہ بائیں طرف کے لوگوں سے مخاطب ہوا اور کہنے لگا ارے لوگو! تمہیں پتا ہے میں نے کیا کہنا ہے؟ انہوں نے کہا ”جی ہاں“.وہ کہنے لگا جب تمہیں پہلے ہی پتا ہے تو تمہیں سنانے کی کیا ضرورت ہے.محض وقت ضائع کرنے والی بات ہے اور یہ کہ کر وہ منبر سے نیچے اتر آیا.لوگوں نے پھر آپس میں مشورہ کیا کہ کوئی اور تدبیر سوچو.آخر عظمند نے کہا کہ اب کی دفعہ ایک فریق کہہ دے ہاں اور دوسرا فریق کہہ دے نہیں.چنانچہ اگلے جمعے وہ پھر کھڑا ہوا اور اپنے دائیں طرف کے لوگوں سے کہنے لگا ارے لوگو! تمہیں پتا.کہ میں نے کیا کہنا ہے؟ انہوں نے کہا ہاں.پھر وہ بائیں طرف کے لوگوں سے کہنے لگا ارے لوگو! تمہیں پتا ہے کہ میں نے کیا کہنا ہے؟ انہوں نے کہا نہیں.وہ کہنے لگا بس بات آسان ہو گئی.جنہوں نے ہاں کہا ہے وہ نہ کہنے والوں کو سمجھا دیں.اسی طرح میں بھی تم لوگوں سے کہتا ہوں کہ اے لوگو! تم نے مجھے کس دلیل سے مانا تھا؟ اگر کسی دلیل کے بغیر تم نے مجھے مان لیا تھا تو چونکہ خلافت ایک مذہبی چیز ہے اس لیے جب دلیل کے بغیر تم نے مجھے مانا تھا تو تم کافر ہو گئے تھے.لیکن اگر تم نے کسی دلیل سے مجھے مانا تھا تو تم گھبراتے کیوں ہو؟ وہی دلیل ان لوگوں کے سامنے پیش کر دو.یہی قرآن کریم نصیحت کرتا ہے اور فرماتا ہے فَاثْبُتُوا اگر دلیل سے تم نے مانا تھا تو تم ہلتے کیوں ہو؟؟ مضبوطی سے قائم رہو مگر فرماتا ہے بیشک دلائل سے کسی صداقت پر قائم رہنا بھی بڑی اچھی بات ہے مگر ہم تمہیں یہ بھی نصیحت کرتے ہیں کہ وَاذْكُرُوا اللهَ كَثِيرًا لَّعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ تمہاری دلیلیں بیشک مضبوط سہی مگر اگلے آدمی کو منوانا اور اُسے قائل کر دینا تمہاری طاقت میں نہیں.یہ کام خدا ہی کر سکتا ہے.اس لیے جب دشمن کے مقابلہ میں جاؤ تو دعائیں کرتے رہو اور دل میں استغفار پڑھتے جاؤ.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے متعلق حدیثوں میں آتا ہے کہ آپ جب مجلسوں میں بیٹھتے تھے تو ستر ستر دفعہ استغفار کرتے تھے.اس کے یہ منے نہیں کہ آپ اپنے لیے استغفار کرتے تھے بلکہ مجلس میں بیٹھنے والوں کے لیے

Page 373

$1956 360 خطبات محمود جلد نمبر 37 استغفار کرتے تھے.پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جب تم دلیل دو تو یہ نہ سمجھو کہ دلیل بڑی مضبوط ہے اس کا دوسرے پر ضرور اثر ہو گا.دلیل کا اثر بھی اللہ تعالیٰ کے فضل کے بغیر نہیں ہوسکتا.اس لیے صرف دلائل پر انحصار نہ رکھو بلکہ وَاذْكُرُوا اللهَ كَثِيرًا لَّعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ اللہ تعالیٰ سے دعائیں کرتے رہو کہ خدایا! تو اپنی رحمت اور برکت سے صرف ہمیں ہی حصہ نہ دے بلکہ ہمارے دلوں میں وہ بات ڈال جس سے دوسرا شخص بھی ایمان پر قائم ہو جائے.اگر تم ایسا کرو گے یعنی ادھر سچائی پر قائم رہو گے اور اُدھر اللہ تعالیٰ کو بھی یاد کرتے رہو گے اور اُس سے دعائیں کرنا اپنا معمول بنا لو گے تو یقیناً تم کامیاب ہو جاؤ گے.لَعَلَّ کے معنے عام طور پر شاید کے ہوتے ہیں لیکن لغت میں لکھا ہے کہ جب لَعَلَّ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہو تو اس کے معنے یقینی اور قطعی چیز کے ہوتے ہیں.4 پس لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ کے یہ معنے ہیں کہ اگر تم ایسا کرو گے تو یقیناً کامیاب ہو جاؤ گے.پس ایک طرف تو شک کو اپنے پاس نہ نے دو اور دوسری طرف ذکر الہی اور دعاؤں پر زور دو.اگر تم یہ کہتے ہو کہ ہم نے آج سے دس یا ہیں یا تھیں سال پہلے بغیر کسی دلیل کے آپ کی بات مان لی تھی تو تم کافر تھے مومن نہیں تھے اور اگر تم نے دلیل سے مانا تھا تو دلیلیں باطل نہیں ہوتیں.قرآن کریم میں بار بار اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ موسی کے زمانہ میں یہ بات ہوئی تھی.اب محمد رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سچائی اُسی دلیل سے کیوں ثابت نہیں ہوسکتی.اگر ایک دلیل سے نوح کی سچائی ثابت ہوتی ہے تو اُس دلیل سے ابراہیم اور موسی کی سچائی بھی ای ثابت ہو سکتی ہے اور قیامت تک ان کی سچائی ثابت ہوتی چلی جائے گی.اسی طرح اگر میری خلافت کسی دلیل سے آج سے چالیس سال پہلے ثابت تھی تو وہ اُسی دلیل سے قیامت تک بھی ثابت رہے گی کیونکہ دلیلیں نہیں بدلا کرتیں مادی سامان بدلا کرتے ہیں.مثلاً یہ نہیں ہوسکتا کہ کسی دلیل سے حضرت عیسی علیہ السلام کو آج سے اُنہیں سو سال پہلے نبی مانا جائے اور اُسی دلیل سے ہم انہیں جھوٹا کہنے لگ جائیں.جس دلیل سے حضرت عیسی علیہ السلام آج سے اُنیس سو سال پہلے بچے ثابت ہو چکے تھے اُسی دلیل سے وہ قیامت تک سچے ثابت ہوتے چلے جائیں گے.یہی حال دوسرے انبیاء کا ہے.جن دلائل اور براہین سے اُن کی نبوت

Page 374

$1956 361 خطبات محمود جلد نمبر 37 ثابت ہو چکی ہے اُنہی دلائل اور براہین سے ان کی نبوت قیامت تک ثابت ہوتی رہے گی.اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے لَهُمْ قَدَمَ صِدْقٍ عِنْدَ رَبِّهِمْ - 5 صدق کے معنے عربی زبان میں قائم اور دائم رہنے والی چیز کے بھی ہوتے ہیں.پس اس آیت کے معنے ہیں کہ ان کے لیے ہمیشہ رہنے والی تعریف یا ہمیشہ رہنے والا مقام ہے کوئی اسے باطل نہیں کر سکتا.آخر نوح کو کسی نے بڑا تاجر کر کے نہیں مانا تھا، بڑا مالدار کر کے نہیں مانا تھا صرف نبی کر کے مانا تھا.پس جو دلیل نوح کو اُس وقت سچا ثابت کرتی تھی وہ دلیل آج بھی اس کو سچا ثابت کرتی ہے اور قیامت تک اسے سچا ثابت کرتی چلی جائے گی.جو دلیل ابراہیم کو اس وقت سچا ثابت کرتی تھی جب وہ نبی بن کر آیا وہی دلیل آج بھی اس کو سچا ثابت کرتی ہے اور قیامت تک اسے سچا ثابت کرتی چلی جائے گی.جو شخص یہ کہے کہ فلاں دلیل ابراہیم کے وقت میں تو اُسے سچا ثابت کرتی تھی مگر میرے زمانہ میں اُسے سچا ثابت نہیں کرتی تو تم سمجھ لو کہ ایسے انسان کو ہم کذاب اور مفتری کہنے کے سوا اور کیا کہیں گے.اگر واقع میں وہ کسی دلیل سے سچا ثابت ہوتا تھا تو وہ آج بھی سچا ہے اور قیامت تک سچا ثابت رہے گا.پس قرآن کریم مومنوں کو نصیحت کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ فاثبتوا جب تم نے ایک صداقت کو دلیلوں سے مانا ہے تو پھر اُس پر مضبوطی سے قائم رہو.اور چاہے کتنا بڑا ورغلانے والا تمہارے پاس آ جائے تم سمجھ لو کہ وہ شیطان ہے.اور خواہ سارے جہان کے اولیاء کا جبہ بھی اُس نے پہن رکھا ہو اُس تُھوک دو اور کہو کہ تو ہمیں ورغلانے کے لیے آیا ہے، ہم تیرے دھوکا اور فریب میں نہیں ا دیکھو! بعض ان پڑھ لوگ ہوتے ہیں مگر بڑے سمجھدار اور ہوشیار ہوتے ہیں.گجرات کے ضلع میں چک سکندر کے قریب بھاؤ گھسیٹ پور ایک گاؤں ہے جہاں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ میں چند نہایت ہی مخلص بھائی رہا کرتے تھے.میں اُس وقت چھوٹا تھا مگر مجھے خوب یاد ہے کہ وہ بڑے شوق سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی مجلس میں آ کر بیٹھا کرتے تھے اور بڑے محظوظ ہوا کرتے تھے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ایک سالے تھے جن کا نام علی شیر تھا.چونکہ خدائی منشا اور اُس کے احکام کے ماتحت آب

Page 375

$1956 362 خطبات محمود جلد نمبر 37 نے حضرت اماں جان سے شادی کر لی تھی اس لیے آپ کی پہلی بیوی کے رشتہ دار آپ سے مخالفت رکھنے لگ گئے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی پہلی بیوی ایک بہت ہی نیک عورت تھیں.میں نے دیکھا ہے وہ ہم سے اتنی محبت کرتی تھیں کہ کہنے کو تو لوگ کہتے ہیں کہ ”ماں سے زیادہ چاہے پھا پا کٹنی کہلائے، مگر واقع یہ ہے کہ ہم بچپن میں یہی سمجھتے تھے کہ وہ ہم سے ماں سے بھی زیادہ پیار کرتی ہیں.ہماری بڑی بہن عصمت جب فوت ہوئیں تو اُن کی دنوں چونکہ محمدی بیگم کی پیشگوئی پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے رشتہ داروں نے ایک مخالفانہ اشتہار شائع کیا تھا اس لیے ہمارے اور اُن کے گھر کے درمیان کا جو دروازہ تھا وہ ت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام نے بند کروا دیا تھا.حضرت اماں جان نے سنایا کہ جب عصمت بیمار ہوئی اور اُس کی حالت نازک ہو گئی تو جس طرح ذبح ہوتے وقت مرغی تڑپتی.وہ تڑپتی اور بار بار کہتی کہ میری اماں کو بلا دو.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام - انہیں بلوایا.جب وہ آئیں اور انہوں نے عصمت کے ہاتھ میں اپنا ہاتھ دیا تو اُسے آرام اور سکون حاصل ہوا اور تب اُس کی جان نکلی.غرض وہ بہت ہی نیک عورت تھیں اور اُن کو اپنی سوکن کے بچوں سے بہت زیادہ محبت تھی.خود حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے بھی وہ بڑی محبت رکھتیں اور آپ کی بڑی قدر کرتی تھیں اور آپ کے متعلق کسی سے وہ کوئی بُری بات نہیں کہتی تھیں.مگر اُن کے بھائی بڑے متعصب تھے اور وہ آنے والے احمدیوں کو ورغلاتے ہتے تھے اور کہتے تھے میں تو اس کا بھائی اور رشتہ دار ہوں میں جانتا ہوں کہ اس نے صرف ایک دکان کھول رکھی ہے اور کچھ نہیں.اور کئی کمزور لوگوں کو دھوکا لگ جاتا کہ جب بھائی یہ بات کہہ رہا ہے تو ٹھیک ہی ہو گی.، ایک دفعہ تحصیل کھاریاں کے یہی پانچوں بھائی قادیان آئے.اُس وقت تک ابھی مقبرہ بہشتی نہیں بنا تھا.یہ اس سے بہت پہلے کی بات ہے.اُس زمانہ میں جولوگ قادیان آیا کرتے تھے انہوں نے متبرک مقامات کی زیارت کے لیے یا تو مسجد مبارک میں چلے جانا یا حضرت خلیفہ اول کی مجلس میں چلے جانا اور یا پھر ہمارے دادا کے باغ میں چلے جانا.وہ سمجھتے تھے کہ چونکہ یہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے والد کا باغ ہے اس لیے یہ بھی متبرک جگہ ہے.

Page 376

$1956 363 خطبات محمود جلد نمبر 37 اس باغ کے رستہ میں وہ جگہ تھی جہاں محلہ دار الضعفاء بنا تھا.اس محلہ کے بننے سے پہلے زمین علی شیر صاحب کے پاس تھی اور وہ اس میں شوق سے باغیچہ لگایا کرتے تھے.ایک لمبی سی سیخ انہوں نے اپنے ہاتھ میں رکھی ہوئی ہوتی تھی.داڑھی بھی بڑی لمبی تھی مگر سلسلہ کے سخت تھے اور ہمیشہ اس تاڑ میں رہتے تھے کہ کوئی احمدی ملے تو اُسے ورغلاؤں.ایک دفعہ پانچوں بھائی قادیان آئے اور باغ دیکھنے کے لیے چل پڑے.ان میں سے ایک بھائی تیز قدم اُٹھاتے ہوئے سب سے آگے جا رہا تھا.مرزا علی شیر نے انہیں دیکھ کر پہچان لیا کہ یہ باہر کے آدمی ہیں اور انہوں نے زور سے آواز دی کہ بھائی صاحب! ذرا میری بات سننا.اس آواز پر وہ آ گئے.مرزا علی شیر نے اُن سے کہا آپ یہاں کس طرح آئے ہیں؟ انہوں نے کہا ہم نے سنا تھا کہ مرزا صاحب نے مہدی اور مسیح ہونے کا دعوی کیا ہے اس لیے یہاں ہم اُن کی زیارت کے لیے آئے ہیں کیونکہ ہمیں وہ اپنے دعوی میں بچے معلوم ہوتے ہیں.وہ کہنے لگا تم اُس کے دھوکے میں کس طرح آگئے.تم نہیں جانتے یہ تو اس شخص نے اپنی روزی کمانے کے لیے ایک دکان کھول رکھی ہے.یہ میرا بھائی ہے اور میں اس کے حالات کو خوب جانتا ہوں.تم تو باہر کے رہنے والے ہو تمہیں اصل حالات کا کیا علم ہوسکتا ہے.تم اس کے دھو کے میں نہ آنا ورنہ نقصان اٹھاؤ گے.وہ احمدی دوست مرزا علی شیر کی یہ بات سن کر بڑے شوق سے آگے بڑھے اور کہنے لگے کہ ذرا دست پنجہ تو لے لیں.اُس نے سمجھا کہ میری باتوں کا اس پر اثر ہو گیا ہے اور میری بزرگی کا یہ قائل ہو گیا ہے کیونکہ ان کی عادت تھی کہ وہ باتیں بھی کرتے جاتے اور ساتھ ساتھ سُبْحَانَ اللهِ اور اَسْتَغْفِرُ اللہ بھی کہتے جاتے.اُس نے بڑے شوق سے اپنا ہاتھ بڑھایا اور سمجھا کہ آج ایک اچھا شکار میرے قابو آ گیا ہے.انہوں نے زور سے اُس کا ہاتھ پکڑ لیا اور اپنے باقی چاروں بھائیوں کو زور زور سے آوازیں دینی شروع کر دیں کہ جلدی آنا ایک ضروری کام ہے.ہمارے ماموں نے سمجھا کہ اس پر میری بات کا اثر ہو گیا ہے اور اب یہ اپنے بھائیوں کو اس لیے بلا رہا ہے کہ انہیں بتائے کہ یہ ٹھیک کہہ رہا ہے اور وہ اپنے دل میں بڑے خوش ہوئے کہ آج میرا حربہ کارگر ثابت ہوا ہے.مگر جب ان کے بھائی وہاں پہنچ گئے تو وہ کہنے لگے ہم قرآن اور حدیث میں پڑھا کرتے تھے کہ دنیا میں

Page 377

خطبات محمود جلد نمبر 37 364 $1956 ایک شیطان ہوا کرتا ہے مگر وہ ہمیں ملتا نہیں تھا.آج حُسنِ اتفاق سے وہ ہمیں مل گیا ہے اور میں نے تمہیں اس لیے بلایا ہے کہ آؤ شیطان کو دیکھ لو.اب وہ زور سے اپنا ہاتھ چھڑانا چاہے مگر وہ اس کا ہاتھ نہ چھوڑیں اور کہیں اب آپ ہاتھ چھڑا کر کہاں جانا چاہتے ہیں.میں تو ساری عمر اس تلاش میں رہا کہ مجھے شیطان نظر آ جائے مگر ملتا نہیں تھا.ہم حیران تھے اور نبیوں کے وقت میں تو شیطان ہوا کرتا تھا اب مرزا صاحب کے وقت میں وہ شیطان کہاں گیا.سوشکر ہے کہ آج ہم نے بھی شیطان دیکھ لیا.اب تو میں نے نہیں چھوڑنا.غرض بڑی مشکل سے ا ہاتھ چھڑا کر وہاں سے بھاگا.پس سوال یہ ہے کہ اگر تم نے بے دلیل مانا تھا تو تم کافر ہو.تم اپنے ایمان کا فکر کرو اور پیشتر اس کے کہ کوئی شیطان تمہارے پاس پہنچے تم خود اپنی موجودہ حالت سے تو بہ کرو اور کہو کہ ہم نے بے ایمانی کی کہ اسے مان لیا.ہم نے کوئی دلیل نہیں دیکھی تھی.شیطان نے ہمیں ورغلا دیا اور ہم نے اس شخص کو قبول کر لیا.لیکن اگر واقع میں تم نے دلیل سے مانا ہے تو پھر سمجھ لو کہ جو بھی تمہارے پاس ورغلانے کے لیے آتا ہے وہ شیطان ہے.اور جیسے گجرات کے لوگوں نے مرزا علی شیر سے سلوک کیا تھا اُسی طرح جب بھی کوئی ایسا شخص تمہارے پاس آئے تم فوراً لا حَول پڑھنے لگ جاؤ اور کہو کہ ہمیں مدت سے شیطان دیکھنے کا شوق تھا آج تمہیں دیکھ کر شیطان دیکھنے کی حسرت پوری ہو گئی ہے.چنانچہ راولپنڈی اور کو ہاٹ کے بعض نوجوانوں نے لکھا ہے کہ جب اس قسم کے بعض آدمیوں کو ہم نے دیکھا تو ہمارے دل میں اُن کے متعلق بڑی نفرت پیدا ہوئی اور ہم نے سمجھا کہ یہ شیطان ہیں جو ہمیں ورغلانا چاہتے ہیں اور ہم نے لَا حَول پڑھنا شروع کر دیا.اور واقع میں اگر تم نے ایک صداقت کو دلیل کی بناء پر مانا تھا تو پھر چاہے کتنا ہی بڑا آدمی اس کے مقابلہ میں کھڑا ہو جائے لازماً وہ شیطان ہو گا.ہمیں اس کو دیکھتے ہی لَا حَول پڑھنا چاہیے اور استغفار کرنا چاہیے اور اسے کہنا چاہیے کہ ہم تجھے شیطان سمجھتے ہیں.ہم تو خدا کے ماننے والے ہیں.ہمیں خدا نے خوابوں کے ذریعہ یا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الہاموں کے ذریعہ یا اپنے تازہ معجزات اور نشانات کے ذریعہ یا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئیوں کے ذریعہ ایک صداقت پر قائم کر دیا ہے.اب اے شیطان! تیرا ہم میں کوئی حصہ نہیں.

Page 378

$1956 365 خطبات محمود جلد نمبر 37 ہم وہی مانیں گے جو خدا نے ہمیں براہِ راست سمجھایا یا جس کی خبر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنے الہاموں سے ہمیں دی یا جس کی خبر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن اور حدیث میں دی.محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے اصل آقا ہیں اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام آپ کے احکام کی تشریح اور دنیا میں ان کی اشاعت کرنے کے لیے آئے ہیں.اور ہم پر خوابوں کے ذریعہ جو کچھ ظاہر ہوا ہے یہ خدا تعالیٰ کے فضلوں میں سے ایک فضل ہے.کیونکہ وہ کہتا ہے کہ مومنوں پر خدا تعالیٰ کے فرشتے نازل ہوتے ہیں.6 پس تیری وجہ سے ہم خدا تعالیٰ کی نعمت کو کیوں ٹھوکر ماریں؟ ہم تیری وجہ سے خدا تعالیٰ کے نشانوں کو ٹھو کر نہیں ماریں گے بلکہ ہمیشہ انہیں عزت دیں گے اور انہیں اپنے سر اور اپنی آنکھوں پر رکھیں گے.تبھی ہم قیامت کے دن خدا تعالیٰ کے حضور حاضر ہو کر یہ کہہ سکتے ہیں کہ اے ہمارے ربّ! تو نے جو ہمیں خواب دکھایا تھا اُسے ہم نے اپنے سر اور آنکھوں پر رکھا.یا تو نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ ہمیں جو کچھ بتایا ہم نے اسے اپنے سر اور آنکھوں پر رکھا.یا تو نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذریعہ ہمیں جو کچھ خبر دی ہم نے اُسے سنا اور اُسے اپنے سر اور آنکھوں پر رکھا اور کسی بڑے سے بڑے آدمی کے آنے پر بھی ہم نے تیرے نشانوں کو اپنی پیٹھ کے پیچھے نہیں پھینکا، انہیں ٹھوکر نہیں ماری، اُن کی ناقدری نہیں کی.بلکہ ہمیشہ ہم نے ان کی قدر کی اور ہمیشہ انہیں اپنے دل میں رکھا، سر پر رکھا اور آنکھوں پر رکھا اور ہم نے اپنی جان دے دی مگر تیری صداقتوں کو ہم نے نہیں چھوڑا.چاہے وہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ قرآن اور حدیث میں آئی ہوں.چاہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ آپ کے الہامات میں آئی ہوں، چاہے فرشتوں کے ذریعہ ہمیں براہِ راست اُن کا علم حاصل ہوا ہو.پس جس طرح ہم نے تیری صداقتوں کو دائمی طور پر اپنے ساتھ رکھا ہے تو بھی اپنے انعامات کو دائمی طور پر ہمارے ساتھ رکھ.ہم مرنے اور فنا ہونے والے کمزور اور ناچیز بندوں نے جب تیرے نشانات کی دائمی طور پر قدر کی ہے اور کبھی ایک لمحہ کے لیے بھی ان کی کو نہیں چھوڑا تو اے حسی اور قیوم خدا! اے قادر ومقتد رخدا! کیا تو ہمیں دائمی طور پر اپنے انعامات سے نہیں نوازے گا اور ہمیں اپنے قرب میں دائمی حیات نہیں بخشے گا؟ اگر تم

Page 379

خطبات محمود جلد نمبر 37 366 $1956 ایسا کرو تو یقیناً اللہ تعالیٰ تمہاری سنے گا اور تمہیں دائی اور ابدی زندگی دے گا اور اپنے فرشتوں سے کہے گا کہ میرے اس بندے نے میری نعمت کو دائمی طور پر اپنے ساتھ رکھا.تم بھی اس کی روح کو دائمی طور پر میری جنت میں میرے پاس رکھو.ہے الفضل 31 راگست 1956 ء ) 1 : الانفال : 46 تا 48 2 : يوسف: 109 3 : ترمذی ابواب الدعوات باب ما يقول اذا قام من مجلسه میں ”مِائَةُ مَرَّةٍ“ ذکر ہے.4 لسان العرب جلد 8 صفحه 90 ، 91 لعل“ - القاهره 2013ء 5 : يونس : 3 كا : إِنَّ الَّذِيْنَ قَالُوا رَبُّنَا اللهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوا تَتَنَزَّلُ عَلَيْهِمُ الْمَلَيْكَةُ (حم السجدة: 31)

Page 380

$1956 367 34 خطبات محمود جلد نمبر 37 حضرت خلیفتہ امسیح الاول کی اپنے ہاتھ سے لکھی ہوئی وصیت اس وصیت سے حضرت خلیفہ اول کی اولاد کے اعتراضات اور غیر مبائعین کے خیالات کی واضح تردید ہو جاتی ہے (فرموده 31 راگست 1956ء بمقام ربوہ) تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: وو حال ہی میں جو فتنہ پیدا ہوا ہے اس کے متعلق ایک شہادت ڈاکٹر عبدالقدوس صاحب کی الفضل میں شائع ہوئی ہے.ڈاکٹر صاحب میاں عبدالسلام صاحب مرحوم کے ساتھ سندھ میں زمین کے ٹھیکہ میں شریک رہے ہیں.انہوں نے بیان کیا ہے کہ میاں عبدالوہاب نے کہا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے تو اپنی اولاد کے لیے دنیوی ترقیات کی دعا فرمائی تھی.لیکن ہمارے ابا نے اپنی اولاد کو خدا تعالیٰ کے سپرد کیا.یہی وجہ ہے کہ حضرت مسیح موعود لیہ السلام کی اولاد کو دین کی خدمت کی توفیق نہیں ملی.1 یہ تو عبدالوہاب کی روایت تھی.اب ایک اور روایت ان کے ایک بھتیجے یعنی میاں عبدالسلام صاحب مرحوم کے ایک لڑکے کی ملی ہے.

Page 381

$1956 368 خطبات محمود جلد نمبر 37 اس نے کہا ہے کہ ہمارے دادا جان بڑے امیر آدمی تھے.ان کی وفات کے بعد ان کی جائیداد پر حضرت صاحب کے خاندان اور صدرانجمن احمدیہ نے قبضہ کر لیا.اس روایت کے متعلق ایک احمدی دوست نے حلفیہ گواہی دی ہے.اسی طرح ان کے ایک اور بیٹے نے کہا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو تو ( نَعُوذُ بِاللهِ ) لکھنا نہیں آتا تھا.آپ کو جو شہرت نصیب ہوئی وہ ہمارے دادا جان کی وجہ سے ہوئی ہے.ہمارے دادا جان کتاب لکھتے تھے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اُس پر اپنے دستخط کر دیتے اور اسے اپنے نام سے شائع کر دیتے.یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ حضرت خلیفتہ امسیح الاول کی اپنے ہاتھ سے لکھی ہوئی وصیت مل گئی ہے.یہ وصیت آپ نے اپنی وفات سے چند دن قبل لکھی تھی.میں وہ وصیت آپ لوگوں کو پڑھ کر سنانا چاہتا ہوں.لیکن اس وصیت کے سنانے سے قبل میں نواب محمد علی خان صاحب مرحوم کی ایک تحریر سناتا ہوں.حضرت خلیفہ اسیح الاول نواب صاحب کے مکان پر ہی فوت ہوئے تھے اور آپ نے وفات سے چند دن قبل اپنی وصیت بھی انہی کے نی حوالہ کی تھی.وہ میری طرف لکھتے ہیں.سَلَّمَكُمُ اللهُ تَعَالَى السَّلَامُ عَلَيْكُمْ بِسمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ سیدی حضرت خلیفۃ امسیح علیہ السلام ثانی حضرت مولانا مولوی نورالدین صاحب مرحوم مغفور خلیفتہ امسیح علیہ السلام اول کی وصیت جو میرے سپر د حضرت موصوف نے کی تھی.اُس کا ایک حصہ پورا ہو چکا ہے.اول وصیت حضرت موصوف یعنی جو کچھ اولاد و جائیداد کے متعلق درج فرمایا اُس کا پورا کرنا ضروری ہے.میرے خیال میں ایک کمیٹی مندرجہ شخصوں کی بنائی (جاوے).خاکسار بوجہ حامل وصیت ہونے کے، مولوی سرورشاہ صاحب، پیر منظور محمد صاحب، میاں عبدالحی صاحب، مولوی شیر علی صاحب بی.اے.یہ کمیٹی مندرجہ ذیل کام کرے.اول تحقیقات جائیداد حضرت خلیفة المسيح مرحوم مغفور - دوم تمام اثاث البيت مغفور.دوم تمام اثاث البیت جس میں شرعاً دخل جائز ہو اور

Page 382

خطبات محمود جلد نمبر 37 369 $1956 کتب خانے کی حفاظت اور فہرست مرتب کرے.سوم گزارہ اہلِ بیت حضرت موصوف و اولاد کے لیے تدابیر انتظام و مقدار گزارہ کی بابت تجویز کرے.پس حضور اگر یہ مناسب تصور فرمائیں اس کی بابت مناسب حکم دیا جائے اور کمیٹی اگر یہی مناسب ہے ان کی بابت ورنہ جو مناسب ہوں ان کو مقرر فرما ئیں اور سر دست مبلغ دو سو روپے برائے اخراجات دے دیا جائے تا وقتیکہ مناسب انتظام ہو.المرقوم 21 مارچ 1914ء محمد علی خان اس چٹھی پر میری طرف سے یہ نوٹ درج ہے کہ:.السَّلَامُ عَلَيْكُمْ بہت بہتر ہے.آپ ہی ان اصحاب کو جمع کر کے کوئی فیصلہ فرما دیں.کتب خانہ کے معاملہ میں مولوی غلام نبی صاحب کو بھی مشورہ میں شامل کر لیا جائے.خاکسار مرزا محمود احمد حضرت خلیفتہ المسح الاول نے جو وصیت فرمائی تھی وہ یہ ہے بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَنُصَلِّي عَلَى رَسُوْلِهِ الْكَرِيمِ مَعَ التَّسْلِيمِ خاکسار بقائی حواس لکھتا ہے لَا إِلهَ إِلَّا اللهُ مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللهِ ـ میرے بچے چھوٹے ہیں.ہمارے گھر مال نہیں.ان کا اللہ حافظ.ان کی پرورش امدادی یا یتانی یا مساکین سے نہ ہو.کچھ قرضہ حسنہ جمع کیا جائے.لائق لڑکے ادا کریں یا کتب، جائیداد وقف علی الاولاد ہو.میرا جانشین متقی ہو، ہر دلعزیز عالم باعمل ہو.حضرت صاحب کے پرانے اور نئے احباب سلوک چشم پوشی درگزر کو کام میں لاوے.میں سب کا خیر خواہ تھا وہ بھی خیر خواہ رہے.قرآن کریم کا درس جاری رہے.والسلام نورالدین

Page 383

$1956 370 خطبات محمود جلد نمبر 37 4 مارچ بعد اعلان.گواہ شد محمد علی خان گواہ شد مرزا محمود احمد 4/3/14 - گواه شد مرزا یعقور بیگ 4/3/14.گواہ شد محمد علی 4/3/14“ حضرت خلیفتہ ایح الاول نے یہ وصیت اپنی وفات سے صرف چند دن قبل لکھی تھی اور اسے مولوی محمد علی صاحب سے آپ نے تین دفعہ پڑھوایا تھا.جب وہ ایک دفعہ پڑھ چکے تو آپ نے فرمایا پھر پڑھو.جب وہ پھر پڑھ چکے تو فرمایا پھر پڑھو.پھر فرمایا اس پر کوئی اعتراض بیان کرو.جب مولوی محمد علی صاحب نے کہا مجھے اس پر کوئی اعتراض نہیں تو آپ نے فرمایا پھر اس پر اپنے دستخط کر دو.پھر آپ نے مجھے بھی دستخط کرنے کا حکم ارشاد فرمایا.مرزا یعقوب بیگ صاحب اور محمد علی خان صاحب مرحوم کو بھی دستخط کرنے کے لیے کہا اور نواب محمد علی خاں صاحب مرحوم کو آپ نے اپنا وصی مقرر فرمایا.اس وصیت میں صاف لکھا ہوا.موجود ہے کہ.آپ کے بعد دوسرا خلیفہ ہو.لیکن اس کے باوجود سب سے پہلا کام مولوی محمد علی صاحب نے یہ کیا کہ آپ کی وفات سے تین دن پہلے ایک ٹریکٹ چھپوایا کہ آئندہ کوئی خلیفہ نہیں ہونا چاہیے اور اسے آپ کی زندگی میں چھپائے رکھا.جب آپ فوت ہو گئے تو اُسے.سارے پنجاب میں تقسیم کیا.اس وصیت میں حضرت خلیفہ المسیح الاول لکھتے ہیں کہ ”ہمارے گھر میں مال نہیں جماعت کے دوستوں سے چندہ جمع کر کے میری اولاد کی پرورش کی جائے.“ اور ان کے بیٹے یہ کہتے ہیں کہ ہمارے ابا کو خدا تعالیٰ پر اتنا تو کل تھا کہ آپ نے اپنی وفات کے وقت ہمیں خدا تعالیٰ کے سپرد کیا کسی بندہ کے سپرد نہیں کیا حالانکہ آپ نے انہیں صرف خدا تعالیٰ کے سپرد ہی نہیں کیا بلکہ یہ بھی فرمایا کہ جماعت کے دوستوں سے قرضہ لے کر ان کی پرورش کی جائے.گویا آپ نے انہیں جماعت کے سپرد بھی کیا.لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام جن کے متعلق کہا گیا ہے کہ آپ نے اپنی اولاد کے لیے صرف دنیوی ترقیات کی دعائیں کی تھیں انہوں نے کبھی بھی نہیں کہا کہ میری اولاد کے لیے چندہ جمع کرنا یا قرضہ حسنہ لے کر اُن کی پرورش کرنا.آپ اپنی اولاد کو اپنے پیچھے چھوڑ گئے لیکن اُن کے گزارہ کے متعلق آپ نے کوئی چی

Page 384

$1956 371 خطبات محمود جلد نمبر 37 وصیت نہیں کی.ہاں! جب آپ فوت ہو گئے تو حضرت خلیفۃ المسیح الاول نے آپ کے ایک الہام سے یہ سمجھا کہ آپ کے خاندان کو گزارہ دینا چاہیے اور آپ نے ہمارے لیے کچھ گزارہ کی مقرر کر دیا.جب مرزا سلطان احمد صاحب مرحوم جو ہمارے بڑے بھائی تھے قادیان آئے تو کی انہوں نے شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی کو میرے پاس بھیجا.وہ مجھے بڑی مسجد کی طرف جاتے ئے ملے.میں غالباً اُس وقت درس سننے کے لیے جا رہا تھا.انہوں نے مجھے کہا کہ مرز اسلطان احمد صاحب نے مجھے یہ پیغام آپ تک پہنچانے کے لیے دیا ہے کہ خاندان کی ہتک ہو گی آپ ہرگز کوئی گزارہ قبول نہ کریں.مجھے اس بات پر غصہ آیا کہ وہ تو غیر احمدی ہیں.انہیں کیا حق ہے کہ ہمارے متعلق کوئی بات کہیں.چنانچہ میں نے انہیں کہلا بھیجا کہ جماعت سے گزارہ لینا یا نہ لینا ہمارا کام ہے.میں اس بارہ میں آپ کا کوئی مشورہ سننے کے لیے تیار نہیں.چنانچہ اس کے بعد میں نے اپنے طور پر صدرانجمن احمدیہ سے کہہ دیا کہ ہم کوئی گزارہ لینے کے لیے تیار نہیں.لیکن حضرت خلیفہ اسیح الاول کو یہ اصرار رہا کہ ہمیں گزارہ لینا چاہیے.آپ فرماتے تھے کہ میں تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ایک الہام کو پورا کر رہا ہوں.وہ الہام وہ ہے جس میں علم الدرمان 2223 کے الفاظ آتے ہیں.اس ا سے آپ یہ نتیجہ نکالتے تھے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے خاندان کے لیے گزارہ مقرر کرنا چاہیے.بہر حال حضرت خلیفہ اسیح الاول نے اپنی اولا د کو صرف خدا تعالیٰ کے سپرد ہی نہیں کیا بلکہ آپ نے ان کی پرورش کے لیے وصیت فرمائی کہ قرضہ حسنہ جمع کیا جائے اور ان کی پرورش کی جائے.اس کے بعد لائق لڑکے اسے ادا کریں.لیکن ہم نے ان کی پرورش کے لیے کی قرضہ حسنہ جمع نہیں کیا بلکہ آج تک انہیں وظائف دے کر پڑھاتے رہے.چنانچہ آپ کے بعض بچوں کو سو سو روپیہ ماہوار وظیفہ ملتا رہا ہے.میاں عبدالسلام صاحب مرحوم کو بھی سو روپیہ ماہوار وظیفہ ملتا رہا جب وہ علی گڑھ میں تعلیم حاصل کرتے تھے.اور عبدالمنان کو بھی اتنا ہی وظیفہ ملتا تھا جب وہ علی گڑھ میں پڑھتے تھے.عبد الوہاب کے متعلق مجھے یاد نہیں کہ اسے کس قدر وظیفہ ملتا رہا ہے.بہر حال حضرت خلیفۃ المسیح الاول نے تو یہ وصیت فرمائی تھی

Page 385

$1956 372 خطبات محمود جلد نمبر 37 سید انہیں کہ ان کی اولاد کی پرورش کے لیے قرضہ حسنہ جمع کیا جائے.لیکن ہم نے قرضہ حسنہ جمع نہیں کیا توی بلکہ انہیں سلسلہ کے اموال سے وظائف دے کر پڑھایا اور اس طرح ان کی اُس مصیبت کو دور کیا جو ان ان پر آئی تھی.حضرت خلیفہ اسیح الاول نے اپنی وصیت میں جو یہ تحریر فرمایا ہے کہ جائیداد وقف على الاولاد ہو اس کے یہ معنے نہیں تھے کہ شریعت نے جو حصص مقرر کیے ہیں وہ باطل ہو جائیں گے.بلکہ آپ کا منشا یہ تھا کہ شرعی طور پر جس قدر حصہ کسی کو مل سکتا ہے وہ اُسے دیا جائے.لیکن جب میاں عبدالحی صاحب فوت ہوئے اور اُن کی بیوہ نے ید محمود اللہ شاہ صاحب سے شادی کر لی تو اُس وقت ان بچوں کی والدہ نے انہیں بلا کر کہا کہ تم پر خدا تعالیٰ کا غضب نازل ہو گا اگر تم نے اپنی بیوی کا حصہ جائیداد سے طلب کیا.اگر تم نے ایسا کیا تو میں تمہارے لیے بددعائیں کروں گی.چنانچہ وہ ڈر گئے اور انہوں نے کوئی حصہ طلب نہ کیا.جب مجھے پتا لگا تو میں نے کہا کہ وقف عَلَی الاولاد کے تو معنے ہی یہ ہیں کہ شریعت کے احکام کے مطابق جائیداد سے حصہ دیا جائے.چنانچہ میں نے خود حضرت خلیفة امسیح الاول کی زندگی میں آپ سے اس بارہ میں بات کی تھی اور آپ نے فرمایا تھا کہ وقف على الاولاد کے یہ معنے نہیں کہ شریعت کے حصے باطل ہو جائیں.بلکہ اس کے صرف یہ معنے ہیں کہ اسے اولاد میں شریعت کے مطابق تقسیم کیا جائے.میاں عبدالحی آپ کا بیٹا تھا اور آپ کے بعد فوت ہوا تھا.اس لیے اُس کا آپ کی جائیداد میں جس قدر حصہ تھا اُس میں سے جتنا حصہ اُس کی بیوی کے لیے شریعت نے مقرر کیا تھا وہ بہر حال اُسے ملنا چاہیے تھا.لیکن ان بچوں کی والدہ نے سید محمود اللہ شاہ صاحب سے کہا کہ اگر تم نے اپنی بیوی کا حصہ مانگا تو میں تمہارے لیے بددعائیں کروں گی.مولوی سید محمد سرور شاہ صاحب جو لڑکی کے والد تھے انہوں نے بھی کہا کہ اس کا حصہ شریعت نے مقرر کیا ہے اور اُسے ضرور ملنا چاہیے.لیکن سید محمود اللہ شاہ صاحب کمزور دل تھے.انہوں نے کہا اماں جی کہتی ہیں کہ میں تمہارے لیے بد دعائیں کروں گی اس لیے میں یہ حصہ نہیں لیتا.اور یہ بھی کہا کہ میں نے اپنی بیوی سے بھی اس کا ذکر کیا تھا.وہ بھی اس بات پر راضی ہو گئی ہیں کہ میں جائیداد میں سے اپنا حصہ چھوڑتی ہوں.چنانچہ انہوں نے اپنی زندگی میں جائیداد سے کوئی حصہ طلب نہیں کیا.لیکن

Page 386

$1956 373 خطبات محمود جلد نمبر 37 اماں جی نے یہاں تک کہہ دیا کہ اگر تم نے جائیداد میں سے اپنی بیوی کا وہ حصہ طلب کیا جو قرآن کریم نے اس کے لیے مقرر کیا ہے تو میں اس قرآن کے بھیجنے والے کے پاس تمہارے لیے بددعائیں کروں گی.حالانکہ جس خدا نے قرآن کریم میں اس کے لیے جائیداد میں حصہ مقرر کیا ہے وہ کسی دوسرے کی بددعائیں سنے گا کیوں؟ اگر اس نے آئندہ بددعائیں قبول کرنی ہوتیں تو وہ قرآن کریم میں حصے کیوں مقرر کرتا؟ وہ کہہ دیتا کہ چاہو تو کسی کو حصہ دو اور چاہو تو نہ دو.بہر حال یہ وہ وصیت ہے جو حضرت خلیفتہ امسیح الاول نے وفات سے قبل کی اور پھر ان کی اپنی تحریر ہے جس پر نواب محمد علی خاں صاحب، مولوی محمد علی صاحب اور ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب کے علاوہ میرے بھی دستخط ہیں.پھر نواب صاحب مرحوم کی اپنی چٹھی موجود ہے جو انہوں نے میری طرف لکھی.وفات کے وقت انہوں نے یہ تحریریں اپنی بیوی یعنی ہماری ہمشیرہ کو دے دیں اور انہوں نے میاں بشیر احمد صاحب کو دے دیں.یہ اللہ تعالیٰ کی حکمت ہے کہ اُس نے ان تحریروں کو بیالیس سال تک چُھپائے رکھا اور اب آکر ظاہر کر دیا تا کہ ان لوگوں کا جھوٹ ظاہر ہو جائے.میاں عبدالوہاب نے کہا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے نَعُوذُ بِاللهِ غلطی کی کہ آپ نے اپنی اولاد کو خدا تعالیٰ کے سپرد نہیں کیا.لیکن حضرت خلیفہ اول نے ہمیں خدا تعالیٰ کے سپرد کیا حالانکہ حضرت خلیفہ المسیح الاول اپنی وصیت میں لکھتے ہیں کہ ”ہمارے گھر میں مال نہیں.ان کا اللہ حافظ.ان کی پرورش امدادی یا یتامی یا مساکین سے نہ ہو.کچھ قرضہ حسنہ جمع کیا جائے.لائق لڑکے ادا کریں.گویا باپ تو اپنی اولاد کو خدا تعالیٰ کے ساتھ جماعت کے امراء کے بھی سپرد کرتا ہے لیکن اولاد کہتی ہے کہ ہمارے ابا نے ہمیں صرف خدا تعالیٰ کے سپرد کیا تھا.میں پہلے بھی بتا چکا ہوں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنی اولاد کے لیے صرف دنیا نہیں مانگی بلکہ دین بھی مانگا ہے.آپ فرماتے ہیں: کر ان کو نیک قسمت دے ان کو دین و دولت کر ان کی خود حفاظت ہو ان پہ تیری رحمت 3

Page 387

374 $1956 خطبات محمود جلد نمبر 37 گویا دولت کے ساتھ دین کا لفظ بھی موجود ہے.لیکن محض تعصب اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تخفیف الصلوۃ والسلام کی تخفیف اور حضرت خلیفہ اسیح الاول کا درجہ بڑھانے کے لیے یہ کہا جا رہا ہے کہ آپ نے تو اپنی اولاد کے لیے دنیا مانگی تھی حضرت خلیفۃ اسیح الاول نے اپنی اولاد کو خدا تعالیٰ کے سپرد کیا تھا.حالانکہ اپنی اولاد کو خدا تعالیٰ کے سپرد تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی کیا تھا.چنانچہ آپ کا یہ الہامی شعر ہے کہ سپردم بتو مایه خویش را تو دانی حساب کم و بیش را 4 کہ اے خدا! میں اپنی ساری پونچھی تیرے حوالہ کرتا ہوں تو کم و بیش کا اختیار رکھتا ہے.لیکن جہاں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنی اولاد کے لیے یہ کہیں نہیں لکھا کہ ان کے لیے قرضہ حسنہ جمع کیا جائے وہاں حضرت خلیفہ اسیح الاول نے خدا کے سپرد کرنے کے علاوہ اپنی اولاد کو جماعت کے امراء کے بھی سپرد کیا اور وصیت فرمائی کہ ان کی پرورش کے لیے قرضہ حسنہ جمع کیا جائے.اور خدا تعالیٰ نے ان کی اولاد کو جھوٹا کرنے کے لیے یہ کاغذات اب تک محفوظ رکھے.اب دیکھیں اس وصیت کی اشاعت پر پیغامی کیا کہتے ہیں.اس تحریر پر مولوی محمد علی صاحب کے دستخط بھی موجود ہیں.وہ دیکھ ں کہ انہوں نے آئندہ خلافت کے جاری رہنے کو تسلیم کیا ہے.پھر خلافت کے انکار کے ا معنی؟ ہمیں اُس وقت اس تحریر کو شائع کرنے کا خیال ہی نہ آیا ورنہ یہ خلافت کے جاری رہنے کا ایک بڑا بھاری ثبوت تھا.نواب صاحب مرحوم نے اسے اپنے پاس محفوظ رکھا.ان کی عادت تھی کہ وہ چھوٹے چھوٹے کاغذ کے پرزوں کو بھی محفوظ رکھا کرتے تھے.ان کی وفات کے بعد پچاس پچاس سال کے کاغذ نکلے.مثلاً کئی اس قسم کے پرانے پُرزے نکلے کہ فلاں دھوبی کو ایک آنہ دینا ہے، فلاں موچی کو پانچ پیسے دینے ہیں یا فلاں پنساری کو دو آنے دینے ہیں.پھر ان کے خاندان نے یہ تمام رقوم ادا کیں.یہ وصیت بھی انہوں نے سنبھال کر رکھی ہوئی تھی.وفات کے قریب آپ نے یہ اپنی بیوی یعنی ہماری ہمشیرہ کے سپرد کر دی.اس طرح خدا تعالیٰ کے فضل سے یہ ہمارے کام آ گئی.

Page 388

خطبات محمود جلد نمبر 37 375 $1956 چنانچہ جب حضرت خلیفۃ المسیح الاول کی اولاد نے بغاوت کی تو اللہ تعالیٰ نے خود آپ کی قلم سے ان کو جھوٹا ثابت کر دیا.1 : مفصل شہادت الفضل مؤرخہ 9 اگست 1956ء میں درج ہے.2 : تذکرہ صفحہ 572 طبع چہارم 2004 ء الفضل 5 ستمبر 1956 ء ) 3 : در مشین اردو صفحہ 36 محمود کی آمین 66 4 : تذکرہ صفحہ 673 طبع چہارم 2004 ء

Page 389

$1956 376 35.خطبات محمود جلد نمبر 37 1950ء کی ایک رویا میں بتایا گیا کہ خلافت کے خلاف ایک فتنہ اٹھایا جائے گا.اور فتنہ اٹھانے والوں میں میرے بعض رشتہ دار بھی شامل ہوں گے جو میری بیوی کی طرف سے ہوں گے.(فرمودہ 7 ستمبر 1956ء بمقام ربوہ) تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: آجکل جو طوفانِ بے تمیزی اُٹھ رہا ہے اور جس کی خدا تعالیٰ نے مجھے قبل از وقت خبر دے دی تھی اس میں ہر جھوٹ جو بولا جا رہا ہے وہ میری صداقت اور خدا رسیدہ ہونے کی کھلی شہادت اور دلیل ہے.سوائے خدا تعالیٰ کے اور کونسی ہستی ہو سکتی ہے جو ان فتنوں کی قبل از وقت اطلاع دے دے.ان فتنوں کے بعض حصے ایسے ہیں جن کی خبر مجھے آج سے اکیس سال پہلے دی گئی تھی.چنانچہ میری ایک رؤیا 1935ء کے الفضل میں چھپی ہوئی.

Page 390

$1956 377 خطبات محمود جلد نمبر 37 جس میں موجودہ فتنہ کی کئی تفاصیل بیان کی گئی ہیں.اسی طرح ایک رؤیا 1946 ء کے الفضل میں چھپی ہوئی ہے جس میں اس فتنہ میں حصہ لینے والے بعض آدمیوں کا علاقہ بھی بتایا گیا کی ہے.مثلاً ایک رؤیا میں بتایا گیا ہے کہ جماعت میں بیداری پیدا ہونے پر چاروں طرف سے لوگوں نے آنا شروع کیا اور ان جمع ہونے والے لوگوں میں میں نے شہر سیالکوٹ کے کچھ لوگوں کو پہچانا ہے.ان لوگوں کے ساتھ کچھ وہ لوگ بھی آگئے جو باغی تھے.اور اللہ رکھا بھی ضلع سیالکوٹ کا ہی رہنے والا ہے.اب یہ ساری باتیں آج سے اکیس سال پہلے کون بتا سکتا تھا؟ پھر ایک رؤیا 1950ء کی ہے.وہ بھی اس فتنہ میں حصہ لینے والوں کی خبر دیتی ہے.جب میں کوئٹہ گیا تو اتفاق سے میری ایک لڑکی امتہ الحکیم بیگم بھی میرے ساتھ تھی.اُس نے مجھے لکھا کہ آپ کوئٹہ کی خوا ہیں نکلوا کر دیکھیں.مجھے یاد ہے کہ اُن میں اس فتنہ کا بھی ذکر تھا.چنانچہ جب وہ خواہیں نکلوائی گئیں تو ان میں سے ایک خواب میں صراحتاً یہ ذکر تھا کہ خلافت کے خلاف ایک فتنہ اُٹھایا گیا ہے اور مجھے فتنہ اُٹھانے والے کا نام بھی بتایا گیا مگر میں نے کہا کہ میں اس کا نام بتاتا نہیں.صرف اتنا بتا دیتا ہوں کہ وہ شخص میرا رشتہ دار ہے.مگر اُس کی رشتہ داری میری بیویوں کی طرف سے ہے.اب بتاؤ کہ 1950ء میں یعنی آج سے چھ سال قبل خدا تعالیٰ کے سوا اور کونسی ہستی تھی جو بتا سکے کہ خلافت کے خلاف ایک فتنہ اُٹھایا جائے گا اور فتنہ اُٹھانے والوں میں میرے بعض رشتہ دار بھی شامل ہوں گے جو میری بیویوں کی طرف سے ہوں گے یعنی میرے سالے اس میں ملوث ہوں گے.پھر اس رویا میں بیویوں کا لفظ استعمال کیا گیا تھا جس میں اس طرف بھی اشارہ تھا تی کہ ایک سے زیادہ بیویوں کے رشتہ داروں کی طرف سے یہ فتنہ اٹھایا جانے والا ہے.چنانچہ میری ایک دوسری بیوی کی طرف سے بعض رشتہ داروں نے بھی اس میں حصہ لیا اور انہوں نے رؤیا کا یہ دوسرا حصہ پورا کر دیا کہ میرے بعض بیٹوں کی تعریف کی گئی ہے.مگر میں رویا میں کہتا ہوں کہ میں ایسا بیوقوف نہیں ہوں کہ اپنے بیٹوں کی تعریف سن کر دھوکا میں آ جاؤں.چنانچہ راجہ علی محمد صاحب ریٹائر ڈالی.اے سی جو بعد میں ناظر اعلیٰ بھی رہے اُن کے ایک داماد نے

Page 391

$1956 378 خطبات محمود جلد نمبر 37 لکھا کہ میری بیوی کے ایک ماموں نے (جو سید ولی اللہ شاہ صاحب کے داماد اور میری ایک دوسری بیوی اُمّم طاہر کی طرف سے رشتہ دار ہے) کہا کہ دیکھو جی! حضرت صاحب نے میاں طاہر احمد کو ولایت اس لیے بھیج دیا ہے کہ کہیں وہ ان کی جگہ خلیفہ نہ ہو جائے.گویا رویا میں جو خلافت کے خلاف فتنہ اُٹھانے والا حصہ تھا وہ میرے ایک سالے میاں عبدالوہاب کے ذریعہ پورا ہوا اور جو بیٹوں کی تعریف والا حصہ تھا وہ فیض الرحمان فیضی کے ذریعہ پورا ہوا جو راجہ علی محمد صاحب کا سالا اور میری بیوی اُم طاہر کی طرف سے میرا رشتہ دار ہے.کیا چھ سال قبل اس قدر تفصیلی واقعات کوئی انسان بتا سکتا ہے؟ اس رؤیا میں صراحتاً بتایا گیا تھا کہ خلافت کے خلاف فتنہ ہو گا اور اس میں میرا ایک رشتہ دار جو میری بیویوں کی طرف سے ہوگا میرے بعض بیٹوں کی تعریف کرے گا.جب کہ طاہر احمد کے متعلق بیان کیا گیا کہ وہ خلافت کا اہلی ہے مگر اسے ولایت اس لیے بھیج دیا گیا ہے کہ وہ کہیں خلیفہ نہ ہو جائے.گویا خلافت کے خلاف منصوبہ بھی ہو گیا اور میرے ایک بیٹے کی تعریف بھی ہو گئی.دوسری طرف میاں عبدالوہاب نے کہا کہ حضرت صاحب اب بڑھے ہو گئے ہیں ان کو معزول کر دینا چاہیے.گویا جو باتیں آج کہی گئی ہیں وہ ساری کی ساری مجھے 1950ء میں بتا دی گئی تھیں.میں اُس وقت کوئٹہ میں تھا اور میری وہ رؤیا الفضل میں چھپ چکی ہے.اب کون انسان ہے جو اس رویا کو جھوٹی کہہ سکے.مولوی محمد علی صاحب کی زندگی میں جب میں یہ کہا کرتا تھا کہ میں نے فلاں رویا دیکھی تھی جو پوری ہوگئی تو وہ کہتے کہ خوابوں کا کیا ہے حضرت صاحب نے تو لکھا ہے کہ بعض دفعہ کنجریوں کو بھی سچی خوابیں آ جایا کرتی ہیں اور یہ بات ٹھیک ہے.حضرت مسیح موعود کی علیہ الصلوۃ والسلام نے لکھا ہے کہ بعض دفعہ کنجریوں کو بھی سچی خوابیں آ جایا کرتی ہیں اور یہ بات آپ نے حقیقۃ الوحی میں لکھی ہے.1- مگر سوال یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ تو نہیں لکھا کہ کنجری کے سوا کسی کو کوئی سچی خواب آ ہی نہیں سکتی.اگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے یہ لکھا ہوتا کہ کنجری کے سوا کسی کو کوئی سچی خواب نہیں آتی تو ان کی بات معقول ہوتی مگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنی کسی کتاب میں ایسا نہیں لکھا.

Page 392

خطبات محمود جلد نمبر 37 379 $1956 اب بھی ممکن ہے کہ میری ان خوابوں کا ذکر سن کر بعض پیغامی کہنا شروع کر دیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے تو لکھا ہے کہ سچی خواہیں کنجریوں کو بھی آ جاتی ہیں.میں ایسے کی لوگوں سے کہتا ہوں کہ کیا ان میں سے کوئی شخص کنجریوں کے برابر بھی نہیں کہ اسے کچی رویا دکھائی جائیں.بلکہ میں کہتا ہوں کہ اگر تم اپنی خواہیں پیش نہیں کر سکتے تو اپنی بیویوں کی ہی کچی خوا ہیں پیش کر دو جو انہوں نے آج سے چھ سال قبل یا دس سال یا اکیس سال پہلے دیکھی ہوں اور وہ شائع بھی ہو چکی ہوں اور تم ان کے متعلق دعوی کے ساتھ کہہ سکو کہ وہ پوری ہو گئی ہیں.اگر تم اُن کی ایسی خواہیں پیش کر دو تو ہم پھر بھی یہ نہیں کہیں گے کہ چونکہ تمہاری بیویوں کی وہ خواہیں پوری ہوگئی ہیں اس لیے وہ نَعُوذُ بِاللہ کنجریاں ہیں بلکہ ہم کہیں گے کہ اللہ تعالیٰ نے تمہاری بیویوں پر اپنا فضل نازل کیا اور انہیں کچی خوا میں دکھا دیں جو پوری ہو گئیں.گویا ہم تمہارے جیسا سخت معاملہ نہیں کریں گے.بلکہ ہم شرافت سے کام لیں گے اور سمجھیں گے کہ اللہ تعالیٰ نے تمہاری بیویوں پر اپنا فضل نازل کیا اور انہیں اپنے انعام سے نوازا.بہر حال میرا مطالبہ یہ ہے کہ تم میرے مقابلہ میں کوئی ایک رؤیا ہی پیش کرو جس سے تمہاری صداقت ظاہر ہو سکے.قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ فَاتُوْا بِسُورَةٍ مِّنْ مِثْلِهِ 2 اگر تم سچے ہو تو تم کوئی ایک سورت ہی اس قرآن جیسی بنا کر دکھا دو.اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو بھی ایک دفعہ الہام ہوا کہ فَأْتُوا بِشِفَاءٍ مِنْ مِثْلِهِ 3 کہ جیسی شفا اللہ تعالیٰ نے میرے ذریعہ روحانی اور جسمانی مریضوں کو دی ہے تم اس شفا کی کوئی مثال پیش کرو.اسی طرح میں کہتا ہوں کہ اگر سچی خوابیں کنجریوں کو بھی آ جاتی ہیں تو تم میرے مقابلہ میں اپنی سہی اپنی بیویوں کی ہی کوئی ایسی خواب پیش کرو جس میں سالہا سال قبل اس قدر علم غیب کا اظہار کیا گیا ہو جس قدر اظہار غیب میری خوابوں میں موجود ہے.اگر تم کوئی ایسی مثال پیش کر ہم پھر بھی تمہاری بیویوں کے متعلق کوئی سخت لفظ استعمال نہیں کریں گے.بلکہ یہی کہیں گے کہ اللہ نے اُن پر فضل کیا کہ انہیں اپنے غیب سے اطلاع کر دی.اور اگر میرے مقابلہ میں نہ تم اپنی کوئی مثال پیش کر سکو اور نہ اپنی بیویوں کی کوئی مثال پیش کر سکو تو تمہارا یہ کہنا کہ سچی خوا میں تو کنجریوں کو بھی آ جاتی ہیں بتاتا ہے کہ تم اُن سے بھی بدتر ہو کہ جو انعام کنجریوں پر بھی

Page 393

$1956 380 خطبات محمود جلد نمبر 37 کبھی کبھی نازل ہو جاتا ہے تمہیں وہ بھی نصیب نہیں ہوتا.66 غرض یہ اللہ تعالیٰ کا ایک بہت بڑا نشان ہے کہ اُس نے اکیس سال قبل ان واقعات کے متعلق مجھے اطلاع دے دی.یعنی اُس نے 1935ء میں مجھے رؤیا کے ذریعہ ان واقعات کا علم دیا اور پھر وہ رؤیا الفضل میں شائع بھی ہو چکی ہے.اسی طرح بعض رؤیا مجھے 1914 ء اور 1915ء میں دکھائے گئے.اور بعض دوستوں نے اپنے خطوط میں ان کے حوالے بھی دیئے ہیں مثلاً میں شملہ میں تھا کہ خدا تعالیٰ نے مجھے ایک رؤیا کے ذریعہ بتایا کہ تمہارے رشتہ میں مشکلات پیش آئیں گی اور کئی لوگ تمہیں اپنی منزل سے پھرانا چاہیں گے مگر تم نے پھرنا نہیں بلکہ سیدھے چلتے چلے جانا اور یہ کہتے جانا کہ خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ ، خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ “ اور جب تم خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ کہو گے تو اللہ تعالیٰ تمام شیطانی روحوں کو ہٹا دے گا اور تمہاری سب مشکلات کو دور کر دے گا.اب یہ رویا 1914 ء : 1915ء کا ہے اور کئی دفعہ الفضل میں چھپ چکا ہے.اس رؤیا کی وجہ سے میں اپنی اہم تحریروں میں یہ لکھا کرتا ہوں کہ خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ.بہر حال اس فتنہ کا ہر پہلو میری سچائی کی دلیل ہے.خدا تعالیٰ نے آج سے اکیس سال پہلے مجھے بتا دیا تھا کہ سیالکوٹ کے بعض لوگ اس فتنہ میں حصہ لیں گے اور پھر اُس نے یہ بھی بتایا تھا کہ جہاں بعض فتنہ پردازی سیالکوٹ کے ہوں گے وہاں سیالکوٹ میں بعض مخلص لوگ بھی ہوں گے جو میری تائید میں کھڑے ہوں گے.چنانچہ دیکھ لو اسی طرح واقعات ظہور پذیر ہوئے.بلکہ اور خاندانوں میں سے مخلصوں کو تلاش کرنے کی کیا ضرورت ہے خود اللہ رکھا کے دو بھائیوں نے لکھ دیا کہ وہ منافق ہے.پھر عبدالوہاب اور فیض الرحمان فیضی کے متعلق بھی مجھے پہلے سے اطلاع دے دی گئی تھی اور بتایا گیا تھا کہ میری بعض بیویوں کے رشتہ دار فتنہ کھڑا کریں گے اور بعض تو صرف خلافت کی مخالفت کریں گے اور بعض یہ منافقت بھی کریں گے کہ میرے بعض بیٹوں کی تعریف کریں گے.چنانچہ فیض الرحمان فیضی کے متعلق اُس کی بہن کے داماد نے شہادت بھیجی ہے اور اُس پر ایک سینئر سب جج سے دستخط کروائے گئے ہیں جس نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ اُس نے یہ تحریر میرے سامنے لکھی ہے.اُس نے لکھا ہے کہ میری بیوی کے ایک ماموں

Page 394

$1956 381 خطبات محمود جلد نمبر 37 یعنی فیضی نے بیان لکھا کہ میاں طاہر احمد کو اس لیے لندن بھیج دیا گیا ہے کہ وہ حضرت صاحب کی جگہ خلیفہ نہ ہو جائے.بلکہ اُس نے یہ بھی کہا کہ سید ولی اللہ شاہ صاحب کو بھی جو اس کے خسر ہیں اس لیے دمشق بھیج دیا گیا ہے کہ وہ خلیفہ نہ ہو جائیں.حالانکہ سید ولی اللہ شاہ صاحب شاید ربوہ میں سب سے زیادہ مبغوض 4 انسان ہیں.اگر ووٹ لیے جائیں تو سب سے زیادہ ووٹ انہی کے خلاف ہو گا.میں نے انہیں دمشق کیا بھیجنا تھا ان کے فتنوں کے خط میرے پاس موجود ہیں کہ صدرانجمن احمد یہ مجھے کرایہ نہیں دیتی.مجھے جلدی کرایہ لے کر دیں تا کہ میں دمشق جاؤں اور اپنے بیوی بچوں کو واپس لاؤں.پھر ان کی بیوی کی تاریں بھی موجود ہیں کہ میرے خاوند کو جلدی بھیجیں تا کہ وہ مجھے واپس لے جائیں.گویا ایک طرف تو فیضی کی ساس منت کرتی ہے کہ میرے خاوند کو جلدی بھیجیں کہ وہ مجھے واپس لے جائیں اور دوسری طرف سید ولی اللہ شاہ صاحب منتیں کرتے ہیں کہ صدرانجمن احمدیہ کو توجہ دلائیں کہ وہ مجھے جلدی کرایہ دے مگر جب میں انہیں وہاں بھیجتا ہوں تو ان کا داماد کہتا ہے کہ انہیں اس لیے دمشق بھیج دیا گیا ہے کہ وہ کہیں خلیفہ نہ ہو جائیں.یہ کتنی بے حیائی کی بات ہے کہ ایک طرف احسان کرانا اور دوسری طرف اس کے بُرے معنے لینا.میں تو سمجھتا ہوں کہ ذلیل سے ذلیل انسانوں بلکہ چوڑھوں اور چماروں میں بھی یہ بات نہیں پائی جائے گی گجا یہ کہ ایک معزز اور شریف زمیندار خاندان کا فرد یہ باتیں کہے.اس شخص کے والد بڑے نیک اور پرانے مخلص احمدی تھے اور اپنی جماعت کے سرکردہ لوگوں میں سے تھے، اس کا بھائی بڑا مخلص ہے اور ضلع کی جماعت کا امیر ہے.ایسے خاندان کا فرد ہو کر اس قدر ذلیل بات کرنا کتنی عجیب بات ہے.جس بات کے لیے اس کی ساس نے تاریں دیں، جس بات کے لیے اس کی ساس نے خطوط لکھے، جس بات کے لیے اس کے خسر نے مجھے بار بار کہا کہ صدرانجمن احمد یہ مجھے کرایہ نہیں دیتی مجھے کرایہ لے کر دیں تا کہ میں اپنے بیوی بچوں کو واپس لاؤں اس بات کو یہ رنگ دے دینا کہ میں نے سید ولی اللہ شاہ صاحب کو اس لیے پاکستان سے باہر بھیجا ہے کہ وہ خلیفہ نہ ہو جائیں کتنی ذلیل حرکت ہے.تم سوچو کہ کیا اتنے گند کی مثال کسی ادنیٰ سے ادنیٰ قوم میں بھی دکھائی دے سکتی ہے؟ ایک نٹ 5 کو ہی لے لو.تم اُسے ایک پیسہ بھی دو تو وہ دعائیں دیتا

Page 395

$1956 382 خطبات محمود جلد نمبر 37 کہ اللہ تعالیٰ آپ کا اقبال زیادہ کرے لیکن سید ولی اللہ شاہ صاحب کے بیوی بچوں کو ان کا وطن دکھانے کے لیے صدر انجمن احمد یہ اور تحریک جدید نے تیرہ ہزار روپیہ سے زیادہ رقم دی مگر اس خاندان کا ایک فرد یہ کہتا ہے کہ میں نے انہیں اس لیے باہر بھیج دیا ہے کہ وہ کہیں خلیفہ نہ ہو جائیں.اس طرح کی اور بھی مثالیں ہیں.مگر میں ان میں نہیں پڑتا.بعض لوگوں نے یہ بھی لکھا ہے کہ دیکھو جی! ربوہ میں حکومت در حکومت قائم ہے اور اس کی مثال یہ دی ہے کہ ربوہ سے بعض لوگوں کو نکال دیا گیا ہے.حالانکہ اگر غور کیا جائے تو ނ ربوہ درحقیقت کئی چیزوں کا نام ہے.ربوہ نام ہے اُس شاہی سڑک کا بھی جو لائکپور سرگودھا کو جاتی ہے اور ربوہ میں سے گزرتی ہے.اب کیا کسی شخص کی طاقت ہے کہ وہ کسی کو اس سڑک پر چلنے سے روک سکے؟ کیا نظارت امور عامہ یہ حکم دے سکتی ہے کہ فلاں شخص اس سڑک پر نہ آئے.یقیناً نظارت امور عامہ ایسا حکم نہیں دے سکتی.پھر ربوہ نام ہے اُن بعض قطعات اراضی کا جو حکومت نے ہمارے پاس زمین فروخت کرتے ہوئے اپنے قبضہ میں رکھے.جیسے وہ سڑک ہے جو شاہی سڑک سے لنگر خانہ کی طرف آتی ہے اور پھر مسجد کی طرف نکل جاتی ہے.اس سڑک کو حکومت نے اپنے قبضہ میں رکھا ہے.اب کیا ناظر امور عامہ کسی کو اس سڑک سے باہر نکال سکتے ہیں؟ کبھی نہیں نکال سکتے.پھر ربوہ نام ہے اُن عمارتوں کا جو احمدیوں کی ملکیت ہیں یا سلسلہ کی ملکیت ہیں یا ربوہ نام ہے زمین کے ان ٹکڑوں کا جو میں نے ہیں ہزار کے قریب روپیہ خرچ کر کے اپنے بچوں کے لیے خریدے ہیں.ان ٹکڑوں میں ٹاؤن پلینز نے سڑکیں بنائی ہیں وہ بھی ذاتی ہیں گورنمنٹ کی نہیں.اب وہ سڑکیں جو میری ملکیت ہیں اور میں نے صدرانجمن احمدیہ سے قیمت دے کر خرید کی ہیں.اگر وہاں میرا کوئی دشمن آ جائے اور میں اُسے روکوں تو یہ کونسی حکومت در حکومت ہے.وہ سڑکیں تو خود حکومت نے میرے خاندان کے لیے بنائی ہیں اور میں نے اُن کی قیمت ادا کی ہے.اگر کوئی ایسا شخص جو میری دشمنی کا اظہار کرتا ہے وہاں آئے تو کیا قانوناً میرا حق نہیں کہ میں اُسے روک دوں؟ اور اگر میں اُسے وہاں آنے سے روکتا ہوں تو کیا اس کا یہ مفہوم لیا جائے گا کہ میں نے اسے ربوہ آنے سے روکا ہے؟ پھر ربوہ کا ایک حصہ احمدیوں کے مکانات کا ہے اور وہ اُن کی

Page 396

خطبات محمود جلد نمبر 37 383 $1956 ذاتی ملکیت ہیں.اب اگر وہ احمدی یا نظارت امور عامہ کسی شخص کو احمدیوں کا دشمن سمجھ کر وہاں کی آنے سے روک دے تو کوئی شخص اس کو حکومت در حکومت کس طرح کہہ سکتا ہے؟ کیا ان کی اخبار والوں کے گھروں میں کوئی دشمن گھسنے کی کوشش کرے تو وہ اُسے نہیں روکیں گے؟ اگر وہ 3 اسے روکیں گے تو کیا یہ حکومت در حکومت ہو گی؟ پھر اگر احمدی اپنے گھروں میں اپنے دشمنوں کو آنے سے روکیں تو یہ حکومت در حکومت کیسے ہو گئی؟ اگر اپنے گھروں میں دشمن کو آنے سے روکنا حکومت در حکومت ہے تو میں ان اخبار والوں سے کہتا ہوں کہ وہ اپنے اخبارات میں یہ اعلان شائع کر دیں کہ ہمارے گھروں میں رات دن جس وقت کوئی چاہے آ جائے ہم اُسے نہیں روکیں گے خواہ وہ ہمارا دشمن ہی کیوں نہ ہو.کیونکہ ہم حکومت در حکومت کے قائل نہیں.اگر وہ ایسا اعلان کر دیں تو ہم سمجھیں گے کہ وہ جو کچھ کہتے ہیں سچ کہتے ہیں.اور اگر وہ ایسا اعلان نہ کر سکیں تو نظارت امور عامہ پر اُن کا اعتراض کرنا محض تعصب کا نتیجہ ہے.بہر حال اگر امور عامہ نے کسی کو ربوہ آنے سے منع کیا ہے تو اس ربوہ سے شہر کا وہ حصہ مراد ہے جو نظارت امور عامہ کے ماتحت ہے سرکاری سڑکیں اور قطعات امور عامہ کے ماتحت نہیں بلکہ امور عامہ کے ماتحت شہر کا وہ علاقہ ہے جس کی مالک صدرانجمن احمد یہ ہے اور اس علاقہ کے متعلق نظارت امور عامہ کو پورا اختیار ہے کہ وہ کسی ایسے شخص کو جو اُس کی نظر میں مشتبہ ہو وہاں آنے سے روک دے.اب رہا وہ علاقہ جو نہ گورنمنٹ کے ماتحت ہے اور نہ صدرانجمن احمدیہ کے ماتحت بلکہ وہ احمدیوں کی ملکیت ہے تو اُس کے متعلق بھی ہر شخص سمجھ سکتا ہے کہ اگر احمدی دیکھیں کہ کوئی شخص ان کے خلیفہ کو گالیاں دیتا ہے تو لازماً وہ اُسے اپنے گھروں میں نہیں ٹھہرائیں گے بلکہ اُسے روکنے کی کوشش کریں گے.اور اگر وہ خلیفہ وقت کی کے کسی دشمن کو اپنے گھروں میں نہیں آنے دیں گے تو یہ حکومت در حکومت کیسے ہو گئی؟ یہ تو ایک ذاتی حق ہے جو ہر شہری کو حاصل ہے اور پاکستان کی حکومت نے دیا ہے.اس کا استعمال ناجائز کیونکر ہو گیا؟ میں نے دیکھا ہے قادیان میں بھی ہمارے متعلق یہی کہا جاتا تھا کہ وہاں حکومت در حکومت قائم ہے.اس کا ثبوت یہ دیا جاتا تھا کہ جماعت کا محکمہ قضاء باہمی جھگڑوں کے

Page 397

$1956 384 خطبات محمود جلد نمبر 37 فیصلے کرتا ہے.اُن دنوں احرار کا جوش زوروں پر تھا.انہوں نے شرارت شروع کی اور گورنمنٹ کے کان بھرنے شروع کر دیئے کہ قادیان میں حکومت در حکومت قائم ہے.اس پر میں نے حکم دے دیا کہ دارالقضاء صرف احمدیوں کے باہمی مقدمات کا فیصلہ کیا کرے.احمدی اور غیر احمدی کا کوئی مقدمہ نہ سنا جائے.چونکہ احمدیوں نے اقرار کیا ہوا ہے کہ وہ ایک نظام کے پابند رہیں گے اس لیے ان کے اقرار کی وجہ سے ہمارا حق ہے کہ ہم اُن کے جھگڑوں کو آپس میں نپٹانے کی کوشش کریں.لیکن تھوڑے ہی دنوں میں خدا تعالیٰ نے جھوٹ بولنے والوں کو نگا کر دیا.قادیان میں آریوں نے اپنے سکول کے لیے ایک شخص سے زمین لی مگر بعد میں اُس سے اُن کی لڑائی ہو گئی.آریوں نے بہت کوشش کی کہ انہیں زمین مل جائے مگر وہ نہ ملی.چونکہ اُس شخص پر جس سے انہوں نے زمین لی تھی ہمارا اثر تھا اس لیے آریوں نے مجھے لکھا کہ آپ حکم دیں کہ دارالقضاء ہمارا مقدمہ سنے.میں نے انہیں کہا کہ گورنمنٹ نے اسے حکومت در حکومت قرار دیا ہے جس کی وجہ سے میں نے دارالقضاء والوں کو حکم دے دیا ہے کہ وہ صرف احمدیوں کے باہمی مقدمات سنے.ایسے مقدمات نہ سنے جن میں کوئی فریق غیر احمدی ہو.اور تم تو ہندو ہو تمہارا مقدمہ ہم کیسے سن سکتے ہیں.انہوں نے کہا یہ بات حکومت نے کہی ہے ہم نے تو نہیں کہی.ہم آپ کو پوری اجازت دیتے ہیں کہ آپ ہمارا مقدمہ سنیں.میں نے کہا تم تو پوری اجازت دیتے ہو لیکن تمہارے دوسرے ساتھی شور مچائیں گے کہ یہ تو حکومت در حکومت ہے اس لیے میں دارالقضاء کو تمہارا مقدمہ سننے کی اجازت نہیں دے سکتا.آریہ پھر بھی مجھے کہتے رہے.آخر میں نے سمجھا کہ یہ لوگ شور مچائیں گے کہ ہمارا حق ہمیں مل سکتا تھا لیکن یہ لوگ ہماری مدد نہیں کرتے.مجھے اُس وقت خدا تعالیٰ نے ایک ترکیب سمجھا دی.میں نے نظارت امور عامہ کو ہدایت کی کہ وہ ڈپٹی کمشنر کو لکھے کہ یہ لوگ ہمیں چٹھیاں لکھ لکھ کر تنگ کر رہے ہیں کہ ہم ان کا مقدمہ سنیں اور آپ اس کا نام حکومت در حکومت رکھتے ہیں.کیا آپ کی طرف سے اجازت ہے کہ ہم ان کا مقدمہ سن لیں؟ اس پر اُس نے لکھا کہ ہم خود فیصلہ کریں گے آپ ان کا مقدمہ نہ سنیں.اس کے بعد جب آریہ میرے پاس آئے تو میں نے وہ چٹھی اُن کے سامنے رکھ دی کہ ڈپٹی کمشنر نے لکھا ہے کہ ہم خود فیصلہ کریں گے.

Page 398

$1956 385 خطبات محمود جلد نمبر 37 انہوں نے کہا ڈپٹی کمشنر کہتا تو ہے لیکن عملی طور پر وہ کچھ نہیں کرتا.میں نے کہا تم نے خود ہی شور مچایا تھا کہ یہاں حکومت در حکومت قائم ہے.اب ہم کیا کر سکتے ہیں.حکومت ہمیں اجازت نہیں دیتی.اس وقت بھی تین چار غیر احمدیوں کی چٹھیاں میرے پاس آئی ہوئی ہیں کہ بعض احمدیوں نے اُن کا روپیہ دینا ہے آپ ہمیں دلا دیں.ان میں سے ایک شخص نے بڑی منت کی اور کہا میں بھوکا مر رہا ہوں میری مدد کی جائے اور اصرار کیا کہ میں اس میں ضرور دخل دوں.آخر میں نے اس کی سفارش کر دی لیکن باقی درخواستوں کو میں نے روکا کیونکہ درخواست دینے والے غیر احمدی ہیں.اب میں اُن کو لکھوں گا کہ تم فلاں فلاں اخبار کو لکھو کہ وہ تمہارا روپیہ دلوا دیں ورنہ ہو سکتا ہے کہ بعد میں تم بھی کہنے لگ جاؤ کہ یہ تو حکومت در حکومت ہوتی گئی.پھر میرے لیے ایک اور مشکل یہ بھی ہے کہ اگر کوئی احمدی کسی غیر احمدی کے خلاف نالش کرے تو غیر احمدی کہے گا میں تو احمدی نہیں ہوں میں تمہارا فیصلہ کیوں مانوں ؟ اس طرح احمدی کا حق مارا جائے گا.اگر غیر احمدی، احمدی کے خلاف نالش کرے تو اُس کا حق اُسے مل جائے گا اور پھر الٹا الزام عائد کیا جائے گا کہ یہ لوگ حکومت در حکومت کرتے ہیں.اس لیے میں ان غیر احمدیوں سے جو مقدمات سننے کے لیے درخواست کرتے ہیں کہہ دیا کرتا ہوں کہ تم عدالت میں جاؤ.لیکن وہ پھر بھی یہی کہتے رہتے ہیں کہ عدالت سے ہم باز آئے آپ کا احسان ہو گا.ی ہمارا حق ہمیں دلوا دیں.مجھے یاد ہے جب لارڈ ایمرسن گورنر تھے انہوں نے ایک مقدمہ کے سلسلہ میں ڈپٹی کمشنر گورداسپور کو ہمارے متعلق لکھا کہ ان کا اپنی جماعت کے لوگوں کے مقدمات سننا حکومت در حکومت ہے.اس کے بعد وہ دورہ پر رہتک گئے اور وہاں انہوں نے ایک تقریر کی.اُس تقریر میں انہوں نے ایک پٹواری کی بڑی تعریف کی اور کہا میں سارے پنجاب میں پھرا ہوں لیکن اس جیسا اچھا آدمی میں نے نہیں دیکھا.اُس نے دیہات میں پنچائیتیں قائم کروائی ہیں جو مقدمات کا فیصلہ کرتی ہیں.چنانچہ اب تک پانچ سو مقدمات کا یہ گھر میں ہی فیصلہ کروا چکا ہے اور اس طرح لوگوں کا روپیہ ضائع ہونے سے اس نے بچا لیا ہے.مجھے جب اس تقریر

Page 399

$1956 386 خطبات محمود جلد نمبر 37 کی اطلاع ملی تو میں نے انہیں ایک چٹھی لکھی کہ آپ نے ایک پٹواری کی تو تعریف کی ہے لیکن اس بات کی وجہ سے ہمارے خلاف نوٹ لکھا ہے.ہم بھی تو مقدمات کا فیصلہ اسی لیے کرتے ہیں کہ روپیہ ضائع نہ ہولیکن آپ نے ہمارے کام کو تو حکومت در حکومت قرار دیا اور اس پٹواری کو مقدمات کا فیصلہ کرنے کی وجہ سے قابلِ تعریف قرار دیا.لارڈ ایمرسن آدمی تو غصہ والے تھے لیکن تھے شریف.انہوں نے فوراً لکھا کہ میری غلطی تھی.جو کام آپ لوگ کرتے ہیں مجھے اُس پر کوئی اعتراض نہیں.غرض بعض لوگ ہمارے نظام کو حکومت در حکومت کہتے ہیں اور دوسرے وقت آپ ہی مدد لینے کے لیے آ جاتے ہیں.ہمارے ایک احمدی دوست تھے.اُن کی بہن کی کچھ لڑکیاں سید حبیب صاحب جو لاہور کی اخبار سیاست کے ایڈیٹر تھے انہوں نے مجھے لکھا کہ جو لڑکا ان کی شادی کی تجویز کر رہا ہے وہ ان کا حقیقی ماموں ہے اور میں رشتہ میں ان کا خالو ہوں.میں پسند نہیں کرتا کہ ان لڑکیوں کا وہاں رشتہ ہو.اس لیے آپ اس میں دخل دیں اور وہاں رشتہ کرنے سے اُسے روکیں ورنہ لڑکیوں کو تکلیف ہو گی.میں نے کہا آپ خود ہی کہتے رہتے ہیں کہ یہ چیز حکومت در حکومت ہے پھر میں اُس کو کس طرح کہہ سکتا ہوں کہ اس جگہ رشتہ نہ کرے.انہوں نے کہا میں کبھی نہیں کہوں گا کہ یہ حکومت در حکومت ہے بلکہ ساری عمر آپ کا ممنونِ احسان رہوں گا.آپ اس میں ضرور دخل دیں.میں نے کہا یہ آپ کے گھر کا معاملہ ہے.حکومت موجود ہے اُس سے امداد حاصل کریں.کہنے لگے عدالت میں کون جائے؟ وہاں تو کوئی ہزاروں روپے خرچ کرے پھر کہیں ڈگری ہوتی ہے اس لیے آپ ہی اُسے سمجھا دیں.وہ نوجوان مخلص احمدی تھا، ابھی تک خدا تعالیٰ کے فضل سے زندہ ہے، بڑا ذہین ہے.اب بھی جب پیغامیوں نے کہا کہ جب بھی کوئی فتنہ اُٹھتا ہے تو اُسے خوامخواہ ہماری طرف منسوب کر دیا جاتا ہے تو اُس نے لکھا کہ جب مباہلہ اخبار شائع ہوا تو خود پیغامی مبلغ یہ اخبار لوگوں میں تقسیم کیا کرتے تھے اور میں اس کا گواہ ہوں.خیر میں نے اُسے سمجھایا اور ایک اور دوست کے لڑکوں سے جو اُن کے دُور کے رشتہ دار بھی تھے اُن لڑکیوں کی شادیاں کرا دیں.جب میں نے ان رشتوں کا سید حبیب صاحب سے ذکر کیا تو انہوں نے کہا آپ کا

Page 400

$1956 387 خطبات محمود جلد نمبر 37 احسان ہو گا اگر آپ یہاں رشتہ کرا دیں.میرے خیال میں یہ رشتے اچھے ہیں.اگر یہ لڑکیاں کہیں اور جائیں گی تو خراب ہوں گی.غرض ہماری یہ حالت ہے کہ ایک دن تو ہم پر حکومت در حکومت قائم کرنے کا الزام لگایا جاتا ہے اور دوسرے دن وہی حکومت در حکومت کہنے والے ہمارے سامنے ہاتھ جوڑتے ہیں اور کہتے ہیں ہمارا فلاں سے سمجھوتا کرا دیں.آج سے چند سال پہلے بیگم سلمیٰ تصدق حسین نے ایک دعوت کی.نواب صاحب ممدوٹ اور میاں ممتاز دولتانہ بھی اُس دعوت میں شریک تھے.میاں ممتاز دولتانہ میرے قریب آ کر بیٹھ گئے اور کہنے لگے نواب صاحب ممدوٹ آپ سے ایک ضروری بات کرنا چاہتے ہیں.میں نے کہا بڑی خوشی سے کریں اور جس وقت چاہیں کی تشریف لے آئیں.انہوں نے کہا وہ کہتے ہیں کہ ملک فیروز خان صاحب نون نے میری مخالفت شروع کر دی ہے.آپ ان کو سمجھائیں کہ وہ مخالفت نہ کریں.میں نے کہا کہ یہ تو آپ کے گھر کا معاملہ ہے.اگر میں نے یہ کام کیا تو آپ کہیں گے یہ حکومت درحکومت ہے.انہوں نے کہا نہیں آپ انہیں کہیں گے تو وہ مان جائیں گے.نواب ممدوٹ کہتے ہیں کہ میں ایک وزارت آپ کے اختیار میں دیتا ہوں.وہ بیشک آپ نون صاحب کو دے دیں لیکن انہیں چُپ کرا دیں.دوسرے دن نون صاحب میرے پاس آ گئے اور کہنے لگے نواب ممدوٹ صاحب سے میرا تصفیہ کرا دیں.میں نے کہا یہ آپ کا گھر کا معاملہ ہے میں دخل دوں گا تو حکومت در حکومت ہو جائے گی.کہنے لگے کوئی بات نہیں.56 ممبروں کے دستخط اس وقت میری جیب میں موجود ہیں جو میری تائید میں ہیں.میں نے کہا نون صاحب! آپ بڑے سادہ ہیں.سادگی کی وجہ سے آپ سمجھتے ہیں کہ اس وقت 56 ممبر میرے ساتھ ہیں لیکن موقع پر 6 ممبر بھی آپ کے ساتھ نہیں رہیں گے.میں آپ کو ایک آسان راستہ بتاتا ہوں.میاں ممتاز دولتانہ میرے پاس آئے تھے.وہ کہہ گئے ہیں کہ ممدوٹ صاحب ایک وزارت آپ کے ہاتھ میں دیتے ہیں وہ آپ نون صاحب کو دے دیں اور انہیں چپ کرا دیں.آپ وہ وزارت لے لیں.پھر جب آپ کی قابلیت ظاہر ہو گی تو آپ وزیر اعظم بھی بن سکتے ہیں.کہنے لگے آپ جانتے ہیں نواب ممدوٹ سادہ مزاج ہیں.میں نے کہا نون صاحب! آپ جانتے ہیں

Page 401

خطبات محمود جلد نمبر 37 388 $1956 میری رائے بھی آپ کے متعلق کچھ ایسی ہی ہے.کہنے لگے نہیں نہیں.میں تو آپ کا دوست ہوں.میں نے کہا نواب ممدوٹ بھی میرے دوست ہیں.اس کے بعد میں قادیان آیا تو نواب احسان علی صاحب مالیر کوٹلہ والے میرے پاس آئے اور کہنے لگے کہ مجھے نون صاحب نے بھیجا ہے.انہوں نے کہا ہے کہ آپ وعدہ کر گئے تھے کہ میرے لیے کوشش کریں گے اور تمام ممبروں کو کہیں گے کہ مجھے ووٹ دیں.میں نے کہا وہ غلط کہتے ہیں.وہ اتنی جلدی بھول گئے.میں نے انہیں کہا تھا کہ آپ نہایت سادہ ہیں.آپ کے خیال میں 56 ممبروں کے دستخط آپ کی جیب میں ہیں لیکن موقع پر چھ بھی آپ کی تائید میں کھڑے نہیں ہوں گے.اگر فی الواقع 56 ممبر آپ کی مدد کے لیے تیار ہوں تو میری مدد کی ضرورت ہی نہیں ہو گی.آپ 56 ممبروں کی تائید سے ہی جیت سکتے ہیں.لیکن میری رائے یہ ہے کہ یہ لوگ آپ کو دھوکا دے رہے ہیں.نواب احسان علی صاحب ہنس پڑے اور کہنے لگے بات تو آپ کی ٹھیک ہے.نون صاحب سادہ ہیں.یہ لوگ انہیں دھوکا دے رہے ہیں اور پہلے بھی یہی ہوتا رہا ہے.میں کہا پھر آپ انہیں سمجھائیں.اگر 56 ممبران کے ساتھ ہیں تو وہ یقیناً جیت جائیں گے اور اگر یہ محض دھوکا ہے تو جو اُن کی مدد کرے گا وہ بھی غلطی کرے گا.پس یہ حکومت در حکومت کا معاملہ ہمیشہ چلتا رہا ہے.ہندو بھی کہتے رہے ہیں، مسلمان بھی کہتے رہے ہیں، مسلم لیگ والے بھی کہتے رہے ہیں.ہاں ری پبلکن پارٹی ایسی ہے جس نے ابھی تک کچھ نہیں کہا.لیکن مسلم لیگ تو ہمیشہ یہ کہتی رہی ہے کہ ہماری فلاں سے صلح کرا دو، فلاں سے سمجھوتا کرا دو بلکہ انگریز بھی یہی کہتے رہے ہیں اور عرب بھی یہی کہتے رہے ہیں.حتی کہ جب چودھری ظفر اللہ خاں صاحب سرکاری ملازمت اختیار کرنے سے پہلے امریکہ گئے ہوئے تھے تو عربوں کے تمام نمائندوں نے جو یو.این.او میں گئے ہوئے تھے مجھے مشترکہ تار دیا کہ آپ چودھری ظفر اللہ خان صاحب کو ہدایت کریں کہ وہ ابھی واپس نہ جائیں بلکہ یہاں رہ کر ہماری امداد کریں.چنانچہ انہیں تار دے دی گئی اور وہ وہیں ٹھہر گئے.لیکن 1953ء میں تمام لوگوں نے شور مچایا کہ چودھری ظفر اللہ خاں صاحب ہیں تو گورنمنٹ کے ملازم لیکن اطاعت اپنے خلیفہ کی کرتے ہیں اور اس کی مثال میں انہوں نے یہ واقعہ پیش کیا.

Page 402

$1956 389 خطبات محمود جلد نمبر 37 حالانکہ وہ اُس وقت گورنمنٹ پاکستان کے ملازم نہیں تھے.وہ اُس وقت ریاست بھوپال کے ملازم تھے.پاکستان نے اُن پر یہ احسان کیا کہ جتنی تنخواہ وہ بھوپال سے لیا کرتے تھے اُس سے آدھی تنخواہ دے کر انہیں پاکستان بلا لیا.چودھری صاحب اُس وقت میرے پاس آئے اور کہنے لگے قائد اعظم کہتے ہیں کہ تم پاکستان آ جاؤ.میں نے کہا آپ ضرور آ جائیں.اس وقت پاکستان کو آپ کی ضرورت ہے.روپیہ کو آپ نے کیا کرنا ہے؟ آپ اپنی بڑی نوکری چھوڑ کر جائیں اور پاکستان کی خدمت کریں.چنانچہ وہ پاکستان آگئے لیکن 1953 ء میں پاکستانیوں نے انہیں یہ بدلہ دیا کہ انہیں گالیاں دیں، اُن کے خلاف جلوس نکالے اور کُتوں اور گدھوں کو جلوس کے آگے لگا کر کہا کہ یہ چودھری ظفر اللہ خان ہیں.غرض ایک وقت میں یہ لوگ ہم پر حکومت در حکومت قائم کرنے کا اعتراض کرتے ہیں اور دوسرے وقت خود منتیں کر کر کے کہتے ہیں کہ آپ فلاں معاملہ میں دخل دیں، آپ فلاں کام کر دیں.میں نہیں جانتا کہ وہ وقت کب آئے گا لیکن مجھے یقین ہے کہ تھوڑے ہی دنوں کے بعد یہی اخبار جو اب لکھ رہے ہیں کہ ربوہ میں حکومت در حکومت ہے خود یا ان کا کوئی رشتہ دار آئے گا اور کہے گا فلاں معاملہ میں دخل دیں، فلاں سے ہماری صلح کرا دیں.اور جب میں کہوں گا یہ تو حکومت در حکومت ہے تو وہ کہیں گے وہ تو کسی بیوقوف نے لکھ دیا تھا ہم تو اس بات کے قائل نہیں.غرض اس قسم کے بہت سے واقعات ہیں کہ لوگوں نے ہم پر حکومت در حکومت قائم کرنے کا الزام لگایا اور بعد میں خود ہی ہمارے پاس آئے اور کہا ہمارا فلاں کام کرا دیں، ہماری فلاں سے صلح کرا دیں.ہائیکورٹ میں ایک دفعہ لاہور کے ایک بڑے خاندان کا مقدمہ تھا.جوں نے فریقین سے کہا کہ آپ ایک معزز خاندان میں سے ہیں.کیا یہ بہتر نہیں کہ آپ اتفاق رائے سے کسی شخص کو اپنا ثالث مقرر کر لیں اور اس سے اپنے جھگڑے کا فیصلہ کروا لیں؟ اُن میں سے ایک واب صاحب نے جن کو جائز وارث قرار دیا گیا تھا میرا نام لیا اور کہا میں اُن کو ثالث مقرر کرتا ہوں.اُن کا دوسرا رشتہ دار جو اب فوت ہو چکا ہے وہ بھی نواب یا نواب زادہ کہلاتا تھا اُس نے ہوشیاری سے کام لیا.اُس نے یہ تو نہ کہا کہ میں انہیں ثالث منظور نہیں کرتا کیونکہ

Page 403

$1956 390 خطبات محمود جلد نمبر 37 اُن کے خاندان سے ہمارے پرانے تعلقات تھے اور وہ میرے نام کو بطور ثالث کے نامنظور نہیں کر سکتے تھے.انہوں نے کہا اگر وہ ثالث مقرر ہو جائیں تو بڑی اچھی بات ہے.مگر مجھے علم ہے کہ انہیں فرصت نہیں ہوتی.ہاں اگر اُن کی جگہ مرزا بشیر احمد صاحب کو مقرر کر دیا جائے تو بہتر ہو گا.بہر حال جس فریق نے میرا نام پیش کیا تھا اُسے مجھ پر زیادہ یقین تھا.گو حسابات کے معاملہ میں مرزا بشیر احمد صاحب اچھے ہیں.دوسرے فریق کی بات سن کر وہ اُس وقت تو چُپ ہو گئے مگر بعد میں وہ قادیان آئے.ملک غلام محمد صاحب قصور والے بھی ان کے دوست تھے اور اُس وقت اُن کے ساتھ تھے.وہ کہنے لگے ہائیکورٹ نے ہمیں مشورہ دیا تھا کہ ہم کسی کو ثالث مقرر کر لیں.جس پر میں نے آپ کا نام لیا تھا.میں نے کہا آپ نے بڑی غلطی کی آپ کے نام پیش کرنے کی وجہ سے فریق ثانی نے سمجھا ہو گا کہ آپ مجھ سے ملے ہوئے ہیں اس لیے آپ نے میرا نام پیش کیا ہے.میں تو وہی کروں گا جو انصاف ہو گا.لیکن اگر فیصلہ آپ کے خلاف ہوا تو آپ شور مچائیں گے کہ مرزا صاحب فریق ثانی کے ساتھ مل گئے ہیں.اور اگر فیصلہ آپ کے حق میں ہوا تو فریق ثانی کہے گا کہ وہ تو پہلے سے ہی ان کے ساتھ ملے ہوئے تھے.اسی لیے انہوں نے بطور ثالث ان کا نام پیش کیا تھا.چنانچہ بعد میں یہی ہوا.1953 ء میں جب فسادات ہوئے اُس وقت اصل نواب صاحب تو فوت ہو گئے تھے.اُن کے دوسرے بھائی نے جو اُس وقت گورنمنٹ میں وزیر تھے ہماری مخالفت میں لیڈنگ پارٹ لیا کیونکہ انہوں نے اپنے دل میں یہ خیال کر لیا تھا کہ یہ فریق ثانی کے ساتھ مل گئے ہیں.اگر یہ ثالث مقرر ہو جاتے تو انہوں نے ہماری مخالفت کرنی تھی.اس لیے آؤ ہم ان کی مخالفت کریں اور ان سے بدلہ لیں.غرض اللہ تعالیٰ جلد یا بدیر ایسا موقع پیدا کر دیتا ہے کہ وہی لوگ جو ایک وقت ہم پر حکومت در حکومت قائم کرنے کا الزام لگاتے ہیں دوسرے وقت ہمارے پاس مدد کے لیے آ جاتے ہیں.سر فضل حسین صاحب مرحوم کے ساتھ میرے بڑے اچھے تعلقات تھے.گو وہ اپنی زندگی میں مجھ سے اس بات پر ناراض رہتے تھے کہ میں سیاسیات میں دخل دے دیا کرتا ہوں.وہ کہا کرتے تھے کہ آپ مذہبی آدمی ہیں آپ مذہب سے سروکار رکھیں اور سیاسیات

Page 404

$1956 خطبات محمود جلد نمبر 37 391 وہ حسین ہمارے لیے چھوڑ دیں.آپ سیاسیات میں دخل دیتے ہیں تو ہمارا کام خراب ہو جاتا ہے.و جب زیادہ بیمار ہوئے تو مجھے اُن کا پیغام آیا کہ میری حالت بہت خراب ہے اور ڈاکٹروں نے کی مجھے مکمل آرام کرنے کا مشورہ دیا ہوا ہے.اگر میں ذرا بھی اچھا ہوتا تو خود حاضر ہوتا.مجھے آپ سے ایک ضروری کام ہے.آپ ایک منٹ کے لیے تشریف لاسکیں تو میں آپ کا بہت ممنون ہوں گا.میں نے کہا میں نے تو آپ کی عیادت کے لیے خود ہی آنا تھا.کہنے لگے آپ عیادت کے لیے جب چاہیں تشریف لائیں.اس وقت خود آپ سے مجھے کام ہے اور میں پ کو تھوڑی دیر کے لیے یہاں تشریف لانے کی تکلیف دے رہا ہوں.چنانچہ میں اُن کے بلانے پر ان کے مکان پر گیا.وہ بہت زیادہ بیمار تھے.پاس ہی پاٹ پڑا ہوا تھا.کہنے لگے میری حالت اچھی نہیں.میرا خیال ہے کہ دو تین دن میں میں مر جاؤں گا.میں نے اس وقت آپ کو اس لیے بلوایا ہے کہ چودھری شہاب الدین صاحب نے مجھے بدنام کر دیا ہے.وہ ہر جگہ یہی کہتے پھرتے ہیں کہ میں نے مرزا صاحب کو ان کا مخالف بنا یا ہے.سر صاحب نے کہا کہ سید محسن شاہ صاحب ( جو اصل میں نور پور کے رہنے والے تھے اور بعد میں لاہور آکر بس گئے تھے ایک دفعہ وہ کسی ٹربیونل (TRIBUNAL) میں حج بھی رہ چکے ہیں ان کا ایک بیٹا سی.ایس.پی میں ہے.اور ایک اور بیٹا بنکوں میں ملازم ہے.وہ اُن دنوں ڈلہوزی میں رہتے تھے.وہاں اُن کے چودھری شہاب الدین صاحب سے دوستانہ مراسم تھے اور لاہور میں بھی ان کے ان سے گہرے تعلقات تھے ) میرے پاس آئے تھے.وہ کہتے تھے میں چودھری شہاب الدین صاحب کے پاس گیا تھا.انہوں نے کہا کہ سرفضل حسین مر رہا ہے لیکن میرا پیچھا نہیں چھوڑتا.اُس نے مرزا صاحب کو کہا ہے کہ چودھری شہاب الدین کو ووٹ نہ دیا جائے اور میں صرف انہی کی مدد سے کامیاب ہو سکتا ہوں.اصل بات یہ تھی کہ میں ان ان دنوں چودھری شہاب الدین صاحب سے خفا تھا اور اس کی وجہ یہ تھی کہ 1934ء میں جب گورنمنٹ نے مجھے سیفٹی ایکٹ کے ماتحت نوٹس دیا تو وہ نوٹس اُن کا سالا لے کر آیا.خالی نوٹس لانا تو کوئی قابلِ اعتراض بات نہیں تھی کیونکہ وہ سرکاری ملازم تھا اور بالا افسروں کے حکام کی اطاعت کرنا اس کا فرض تھا.لیکن اس کا سلوک بھی گستاخانہ تھا.میں نے

Page 405

خطبات محمود جلد نمبر 37 392 $1956 چودھری شہاب الدین صاحب کو لکھا کہ آپ تو میری دوستی کا دم بھرتے ہیں لیکن آپ کے سالے نے میرے ساتھ نہایت گستاخانہ سلوک کیا ہے.انہوں نے لکھا کہ وہ بہت نالائق اور ذلیل ہے.میں بھی اُس سے خفا ہوں.میں نے کہا اگر یہ بات ہے تو آپ اُسے اپنے گھر میں نہ آنے دیں.اگر وہ آپ کے گھر آیا تو میں آپ سے کلام نہیں کروں گا.انہوں نے کہا بہت اچھا! آج سے وہ میرے گھر نہیں آئے گا اور اگر آئے تو آپ جو جی چاہے مجھ سے سلوک کریں.بعد میں مجھے پتا لگا کہ وہ انہی کے گھر پر رہتا ہے اور کئی ماہ سے وہاں ٹھہرا ہوا ہے.میں نے انہیں کہلا بھیجا کہ آپ نے تو وعدہ کیا تھا کہ آپ کا سالا آپ کے گھر نہیں ئے گا.انہوں نے کہا اصل بات یہ ہے کہ میری بیوی چونکہ فوت ہو گئی ہے.میری سالیاں میرے پیچھے پڑ گئی تھیں کہ بھائی جی بیمار ہیں آپ انہیں اپنے گھر میں بلا لیں.اس لیے میں نے مجبور ہو کر اُسے گھر بلا لیا.میں نے کہا اس مجبوری کا خیال تو آپ کو اُس وقت بھی آ سکتا ہے تھا جب آپ نے مجھ سے وعدہ کیا تھا کہ وہ آپ کے گھر نہیں آئے گا.اُس وقت آپ نے یہ کیوں کہہ دیا کہ اگر وہ میرے گھر آیا تو آپ جو سلوک مجھ سے چاہیں کریں.اس ناراضگی کی جہ سے ایک دفعہ جب انہوں نے مجھے کہلا بھیجا کہ میں آپ سے ملنے کے لیے آنا چاہتا ہوں تو میں نے کہا فلاں واقعہ یاد کر لو.آپ نے خود کہا تھا کہ اگر میرا سالا میرے گھر پر آیا تو پ جو سلوک چاہیں مجھ سے کریں یہ آپ کا اپنا فتویٰ ہے.اس لیے میں آپ سے ملنا نہیں چاہتا.انہوں نے بدظنی کے ماتحت خیال کر لیا کہ سر فضل حسین صاحب نے مجھے ان سے ملنے سے منع کر دیا ہے اور انہوں نے ان کے خلاف میرے کان بھرے ہیں.سر فضل حسین صاحب مجھ سے ملے تو انہوں نے کہا کہ سید محسن شاہ صاحب آئے تھے انہوں نے بتایا ہے کہ چودھری شہاب الدین صاحب نے شکایت کی ہے کہ مرزا صاحب کو سرفضل حسین نے میرے خلاف کر دیا ہے اور انہیں کہا ہے کہ وہ مجھے ووٹ نہ دیں.اُس وقت چودھری شہاب الدین ماحب ضلع سیالکوٹ کے کسی حلقہ سے بطور امیدوار کھڑے تھے اور ہمارے چودھری شاہ نواز صاحب جن کی لاہور میں موٹروں کی ایک بڑی دکان ہے وہ ان کے مقابلہ میں کھڑے تھے.چودھری شہاب الدین صاحب سیالکوٹ میں بہت کم جاتے تھے لیکن چودھری شاہ نواز صاحب

Page 406

$1956 393 خطبات محمود جلد نمبر 37 وہاں زیادہ جاتے تھے اور ان کا خاندان بڑا بارسوخ تھا.اس لیے چودھری شہاب الدین صاحب کو ڈر پیدا ہوا کہ اگر چودھری شاہ نواز صاحب کھڑے رہے تو میں ہار جاؤں گا.ج سر فضل حسین صاحب نے مجھ سے چودھری شہاب الدین صاحب کے متعلق ذکر کیا تو میں نے کہا آپ گھبراتے کیوں ہیں؟ میں آپ کی بات کبھی رد نہیں کر سکتا.آپ کے مجھ سے پرانے تعلقات ہیں اور آپ کے والد کے میرے والد سے دوستانہ تعلقات تھے.آپ جو کچھ کہتے ہیں میں ضرور پورا کر دوں گا.سر فضل حسین صاحب نے حیرت سے کہا کہ کیا آپ نے مان لیا ہے؟ میں نے کہا ہاں میں نے مان لیا.اس پر اُسی وقت سر فضل حسین صاحب نے اپنے پرائیویٹ سیکرٹری کو بلایا اور کہنے لگے ابھی چودھری شہاب الدین صاحب کو فون کرو کہ مرزا صاحب سے فورا مل لیں.میں نے کہا میں شام کو مل لوں گا.انہوں نے کہا کہ آپ ابھی اُن سے مل لیجیے.پتا نہیں شام تک وہ کتنے لوگوں سے بات کرے گا.چنانچہ میں نے کہا میں ابھی اپنے گھر جاتا ہوں.آپ انہیں فون کروا دیں.چنانچہ اُن کے پرائیویٹ سیکرٹری صاحب نے چودھری شہاب الدین صاحب کو فون کر دیا کہ وہ مجھے شیخ بشیر احمد صاحب کے مکان پر جہاں میں ٹھہرا ہوا تھا فوراً مل لیں.انہوں نے کہا کیا مرزا صاحب مان گئے ہیں.انہوں نے کہا ہاں وہ مان گئے ہیں؟ آپ اُن سے فوراً مل لیں.بہر حال وہ ملاقات کے لیے آ گئے.وہ ایک ہوشیار آدمی تھے.دروازہ پر آ کر کھڑے ہو گئے اور کہنے لگے میں اندر نہیں آتا.کیونکہ پ کہیں گے کہ میں کسی غرض کے لیے آیا ہوں.جب تک آپ کو یہ یقین نہ ہو جائے کہ میں بے غرض آیا ہوں اُس وقت تک میں اندر نہیں آؤں گا.میں انہیں خوب جانتا تھا.میں نے کہا چودھری صاحب! باتیں نہ بنائیے اور اندر آ جائیے.انہوں نے کہا میں ووٹ لینے نہیں آیا بلکہ یہ بتانے آیا ہوں کہ میرا سالا میرے گھر کیوں آیا ہے.جب اس کے متعلق آپ کی تسلی ہو جائے گی تو دیکھا جائے گا.میں نے کہا زیادہ باتیں نہ کریں اندر آ کر بیٹھ جائیں.میں نے اس موقع پر چودھری شاہ نواز صاحب کو بھی بلا یا ہوا تھا اور میں نے انہیں کہا تھا کہ چودھری شہاب الدین صاحب بوڑھے آدمی ہیں اور آپ نوجوان ہیں.آپ کو قربانی سے کام چاہیے.میں آپ کو نصیحت کرتا ہوں کہ ان کے گھر جائیں اور کہیں آپ میرے باپ کے

Page 407

$1956 394 خطبات محمود جلد نمبر 37 برابر ہیں میں آپ کے مقابلہ میں کھڑا نہیں ہوں گا.چودھری شہاب الدین صاحب اندر آ کر بیٹھ گئے تو میں نے کہا آپ گھبراتے کیوں ہیں؟ میں نے چودھری شاہ نواز صاحب کو کہہ دیا ہے کہ وہ آپ سے ملیں اور کہیں کہ میں آپ کے مقابلہ میں کھڑا نہیں ہوں گا.اس پر وہ کہنے لگے اچھا! انہوں نے وعدہ کر لیا ہے؟ آپ انہیں فوراً میرے پاس بھجوا دیں.اُس وقت سب پہلی باتیں بھول گئے کہ میں بغیر کسی غرض کے ملنے آیا ہوں.چنانچہ چودھری شاہ نواز صاحب ان کے مکان پر گئے اور انہیں تسلی ہو گئی.غرض اس طرز پر اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہمیشہ ہی جو شخص مجھ پر حملہ کرتا ہے خدا تعالیٰ اُس کو یا اُس کے رشتہ دار کو مجبور کر دیتا ہے کہ وہ میرے پاس آئیں اور کہیں کہ آپ ہماری مدد کریں اور ان اخباروں کے قول کے مطابق حکومت در حکومت قائم کریں.کیا کوئی غیر احمدی ایسا ہے جو یہ کہے کہ کوئی شخص میرے باپ کو گالیاں دے تو میں اُسے بڑے شوق سے ملوں گا؟ اگر ایسا نہیں ہو سکتا تو یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ کوئی مرید جو مجھے باپ سے کئی گنا زیادہ عزیز سمجھتا ہے میرے کسی دشمن کو منہ لگائے.وہ تو اُس کی شکل دیکھنا بھی پسند نہیں کرے گا.پھر اس کا نام حکومت در حکومت کیسے ہو گیا ؟ اگر کوئی شخص کسی کے باپ کو گالیاں دے تو وہ اس کے نزدیک کسی عزت کا مستحق نہیں ہو سکتا.مثلاً دیکھ لو اگر کوئی لڑکا اپنی والدہ کے ساتھ جا رہا ہو اور رستہ میں اُسے کوئی غنڈہ ملے اور وہ اُس کی ماں کے سر پر جوتیاں مارے اور لڑکا اُس سے خفا ہو جائے تو کیا کوئی کہے گا کہ یہ حکومت در حکومت ہے؟ کیونکہ اُس دن سے وہ لڑکا اُس شخص سے نہیں بولتا.حالانکہ اگر وہ لڑکا اس شخص سے بولتا تو ہم اُسے دیوث سمجھتے.اُس کا اپنی والدہ کی بے عزتی کرنے والے سے نہ بولنا بتاتا ہے کہ اس کے اندر غیرت کا مادہ پایا جاتا ہے.اس سے یہ نتیجہ نہیں نکلتا کہ حکومت در حکومت قائم ہو گئی ہے.ނ پس جیسا کہ میں نے بتایا ہے لائکپور سے سرگودھا جانے والی شاہی سڑک بھی ربوہ میں شامل ہے اور اُس سڑک پر گزرنے سے کوئی شخص کسی کو نہیں روک سکتا نہ ناظر امور عامہ اس کو روک سکتا ہے اور نہ کوئی اور شخص روک سکتا ہے.پھر ربوہ میں ایسے مکانات بھی شامل ہیں جو صدرانجمن احمدیہ کی ملکیت ہیں، احمدیوں کے مکانات ہیں، میرے مکانات ہیں یا میری

Page 408

$1956 395 خطبات محمود جلد نمبر 37 ذاتی سڑکیں ہیں میں نے ایک بڑی رقم ادا کر کے اتنی کنال زمین خریدی ہے اور اس میں جتنی سڑکیں ہیں وہ میری ملکیت ہیں.پھر صدر انجمن احمدیہ کی ذاتی زمین دوسو کنال ہے.بھی کئی سڑکیں ایسی ہیں جو صدرانجمن احمدیہ کی ملکیت ہیں.اب اگر کوئی میرا دشمن یا سلسلہ کا دشمن ان جگہوں میں سے گزرے تو ناظر امور عامہ کو قانونی طور پر حق حاصل ہے کہ اُسے روک دے.اور حکومت در حکومت نہیں بلکہ یہ ذاتی تحفظ کا قانون ہے جس پر ہر جگہ عمل کیا جاتا ہے.اگر کسی چوڑھے کے پاس بھی دو سو کنال زمین ہو اور وہ اس میں ہیں مکانات بنالے تو وہ جب چاہے اُن میں آنے سے منع کر سکتا ہے.اگر یہ حکومت در حکومت ہے تو یہی اخبار جو اس وقت شور مچا رہے ہیں اعلان کر دیں کہ دنیا کے تمام لوگوں کو خواہ وہ ہمارے شدید ترین دشمن ہوں اجازت ہے کہ وہ ہمارے گھروں میں رات دن جس وقت چاہیں آجائیں ہم انہیں نہیں روکیں گے.کیونکہ ہم حکومت در حکومت کے قائل نہیں.غرض جتنے احکام بھی نظارت امور عامه کی طرف سے دیئے گئے ہیں اُن میں ایک مثال بھی حکومت در حکومت کی نہیں.بلکہ ان میں سے ہر مثال ثابت کرتی ہے کہ نظارت امور عامہ نے جو کچھ کیا ہے اپنے اختیارات کے اندر رہ کر کیا ہے.اُس نے قطعاً ایسا کوئی حکم نہیں دیا کہ ربوہ کی سرکاری سڑکوں پر چلنا منع ہے.انہوں نے جب یہ کہا ہے کہ فلاں شخص کو ربوہ میں آنے کی اجازت نہیں تو اس ربوہ سے مراد وہ مکانات اور سڑکیں ہیں جو نظارت امور عامہ کے ماتحت ہیں یا میرے اور صدرانجمن احمدیہ کے مکانات ہیں ان میں آنے سے کسی کو روکنا ہرگز مُجرم نہیں اور کسی کو یہ کہنے کا حق حاصل نہیں یه حکومت در حکومت ہے بلکہ جو شخص ایسے علاقہ میں بغیر اجازت کے داخل ہوتا ہے وہ خود فتنہ کھڑا کرتا ہے.تمام احمدیوں نے میری بیعت کر کے اس کا اقرار کیا ہوا ہے کہ وہ میری اطاعت کریں گے.پس اُن کے اس اقرار کے ماتحت نظارت امور عامہ اگر کسی ایسے شخص پر جو خلافت یا نظام سلسلہ کا باغی ہے کسی قسم کی پابندی عائد کرتی ہے تو وہ اس پابندی کے عائد کرنے میں بالکل حق بجانب ہے.یہ حکومت در حکومت نہیں بلکہ اظہارِ غیرت ہے اور اظہار حق ہے اور یہ حق انہیں قانون اور شریعت نے دیا ہے.دیکھو خود رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک موقع پر حضرت عائشہ نے عرض کیا

Page 409

$1956 396 خطبات محمود جلد نمبر 37 کہ یارسول الله! آج فلاں وقت ایک شخص اس سوراخ سے مکان کے اندر جھانک رہا تھا.آپ نے فرمایا عائشہ ! تم نے مجھے پہلے کیوں نہ بتایا؟ میں نیزہ مار کر اُس کی آنکھ پھوڑ دیتا.6 کہتے ہیں ماں سے زیادہ چاہے کٹنی کہلائے.میں ان اخبار والوں سے پوچھتا ہوں کہ کیا وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی زیادہ آزادی پسند واقع ہوئے ہیں؟ کیا وہ آپ سے زیادہ خریت کا احساس رکھتے ہیں؟ پھر اگر نظارت امور عامہ کسی دشمن سلسلہ کو صدرانجمن احمدیہ کے مکانات میں یا میرے اور دوسرے احمدی افراد کے مکانات میں آنے سے روکے تو اس کا نام حکومت در حکومت کیسے ہو گیا؟ اگر کوئی کہے کہ نظارت امور عامہ نے یہ کہاں لکھا ہے کہ ربوہ سے مراد وہ حصہ شہر ہے جو اُس کے قبضہ میں ہے؟ تو میں کہوں گا کہ نظارت امور عامہ نے یہ کہاں اعلان کیا ہے کہ سرکاری مکانوں اور سڑکوں پر بھی نہ آؤ ؟ اگر نظارت امور عامہ نے خود اس کی وضاحت نہیں کی تو دوسرے لوگوں کو اتنا تو سمجھنا چاہیے کہ اگر کوئی شخص دعوی کرتا ہے تو وہ اپنی ملکیت اور تصرف کی چیز کے متعلق ہی کرتا ہے دوسرے کی ملکیتی چیزوں کے متعلق نہیں کرتا.اگر کوئی شخص گورنمنٹ کی ملکیتی سڑکوں پر گزرنے سے کسی شخص کو روکتا ہے تو گورنمنٹ اُسے خود پکڑ لے گی.کیا ان اخبارات کو آزادی ملک کا زیادہ پاس ہے اور گورنمنٹ کو نہیں ؟ گورنمنٹ کو ان اخبارات سے زیادہ ملک کی آزادی کا احساس ہے.پس اگر کوئی احمدی کسی غیر احمدی کو یا اپنے کسی اندرونی یا بیرونی مخالف کو گورنمنٹ کی ملکیتی سڑکوں پر سے گزرنے سے منع کرے گا تو قانون کے ماتحت وہ مجرم ہو گا اور حکومت اُسے گرفتار کرے گی.لیکن اپنے گھر سے کسی کو روکنے کا اختیار ہر شخص کو ہے چاہے کوئی سنی ہو یا شیعہ، احمدی ہو یا غیر احمدی اس میں کسی فرقہ کا سوال نہیں.اسی طرح امور عامہ کو صدرانجمن احمد یہ اور احمدیوں کی زمینوں اور مکانات سے کسی اندرونی یا بیرونی دشمن کو روکنے کا پورا اختیار حاصل ہے کیونکہ احمدیوں نے انہیں اس کا اختیار دیا ہے.تبھی تو صدر انجمن احمدیہ کا ادارہ دار القضاء ان کے مقدمات سنتا ہے اور جہاں تک ہو سکے نظکارت امور عامہ ان کی مدد کرتی ہے.جب کسی کو پولیس تنگ کرتی یا اس پر ظلم کرتی ہے تو ی وہ نظارت امور عامہ کے پاس آ جاتا ہے.اور اگر کوئی پوچھے کہ وہ یہاں کیوں آیا ہے؟ ہوا

Page 410

$1956 397 خطبات محمود جلد نمبر 37 تو وہ کہتا ہے یہ تو ہمارے مائی باپ ہیں.اب اگر کسی کے مائی باپ کسی کو اپنے مکان میں گھسنے سے روکیں تو اس پر کیا اعتراض ہوسکتا ہے.غرض کسی شکل اور کسی نہج اور کسی پہلو سے بھی دیکھا جائے یہ بات ثابت ہے کہ ربوہ میں کوئی حکومت در حکومت قائم نہیں.جو احکام بھی دیئے گئے ہیں وہ رائج الوقت قوانین کے ماتحت دیئے گئے ہیں.صرف ان کے توڑ مروڑ کر غلط معنی لیے گئے ہیں اور توڑ مروڑ کر غلط معنی تو دشمن ہمیشہ لیتا ہی رہتا ہے.اس میں تعجب کی کوئی بات نہیں.دنیا میں اس قسم کے کئی خبیث انسان گزرے ہیں.مثلاً لیکھرام کو ہی لے لو.وہ کہا کرتا تھا کہ اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ 7 میں مسلمانوں کو ( نَعُوذُ بِاللهِ ) لواطت کی تعلیم دی گئی ہے کیونکہ مستقیم اس آنت کو کہتے ہیں جو مبرز 8 کے سوراخ کے قریب ہوتی ہے.اب دیکھ لو! ایک مخالف اور خبیث انسان کس طرح ایک اعلیٰ سے اعلیٰ تعلیم کو بھی توڑ مروڑ کر کچھ سے کچھ بنا دیتا ہے.پس اگر امور عامہ کہتا ہے کہ ربوہ میں نہ آؤ تو اس کے معنی وہ ربوہ ہے جو اُس کے.قبضہ میں ہے اور اُس کو ایسا کہنے کا حق حاصل ہے اور دنیا کی کوئی طاقت اُسے اس حق سے باز نہیں رکھ سکتی.ورنہ تصرف بیجا یعنی ٹریس پاسنگ (Trespassing) کا کوئی قانون باقی نہیں رہتا حالانکہ یہ قانون نہایت اہم ہے اور اس بارہ میں سینکڑوں نہیں ہزاروں ڈگریاں ہو چکی ہیں.مثلاً اگر کوئی شخص کسی کے کھیت سے گڈا گزارے تو وہ عدالت میں اُس کے خلاف نالش کر سکتا ہے.بلکہ عدالتوں نے تو اتنی سختی کی ہے کہ ایک دفعہ کسی شخص نے ایک اور شخص کی شکایت کی کہ اُسے اس کے کھیت میں سے گڈا گزارنے سے روکا جائے.ہائیکورٹ نے یہ مقدمہ سنا تو فریق ثانی نے کہا کہ اس کے متعلق سابق فیصلہ موجود ہے اور عدالت نے ہمیں ایسا کرنے کا حق دیا ہوا ہے اور ہم دیر سے ان کے کھیت میں سے گڈا گزار رہے ہیں.دوسرے فریق نے کہا کہ پہلے زمانہ میں یہ کوئلہ والے گڈے گزارا کرتے تھے اور اب یہ روڑی کے گڈے گزارتے ہیں جس پر ہمیں اعتراض ہے.اس پر عدالت نے مالک کا حق تسلیم کیا اور کہا کہ اگر پہلے یہ کوئلہ والا گڈا گزارتا تھا اور عدالت نے اسے ایسا کرنے کا حق دیا تھا تو بھی اسے کوئلہ والا گڈا گزارنے کا حق ہے روڑی والا گڈا گزارنے کا حق نہیں.

Page 411

$1956 398 خطبات محمود جلد نمبر 37 گزرنے کا حق احسان کے طور پر ہے اور احسان کو ہمیشہ کے لیے جاری سمجھنا غلط بات ہے.اس لیے اگر اس کے کھیت میں سے کوئلہ کے سوا کوئی اور چیز گزرے گی تو ہم اسے روکیں گے.گویا قانون نے اپنی جائیداد کی حفاظت کے حق کو بڑا مقدم رکھا ہے اور شریعت نے بھی ہر شخص کو یہ حق دیا ہے.جیسا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عائشہؓ سے فرمایا عائشہ ! تم نے مجھے پہلے کیوں نہ بتایا میں سوراخ میں سے اندر جھانکنے والے کی آنکھ نیزہ سے نکال دیتا.گویا یہ اتنا بڑا حق ہے کہ اسلام نے بھی اسے تسلیم کیا ہے.اگر اس حق کو امور عامہ استعمال کرتا ہے تو اُسے حکومت در حکومت کس طرح کہا جا سکتا ہے؟ کیا یہ تعجب کی بات نہیں کہ ایک طرف تو یہ کہا جاتا ہے کہ پاکستان میں اسلامی حکومت قائم ہے اور دوسری طرف جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بنائے ہوئے قانون پر عمل کیا جاتا ہے تو اُسے حکومت در حکومت کہا جاتا ہے.گویا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام کو رائج کرنا حکومت در حکومت ہے اور پھر ساتھ ہی یہ بھی کہا جاتا ہے کہ یہ اسلامی مملکت ہے.اس پر ہم إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ پڑھنے کے سوا اور کیا کہہ سکتے ہیں.(غیر مطبوعہ مواد از خلافت لائبریری ربوہ) 1 : حقيقة الوحى روحانی خزائن جلد 22 صفحه 5 کمپیوٹرائزڈ ایڈیشن2008ء 2 : البقرة: 24 3 : تذکره صفحه 26 ایڈیشن چهارم2004ء 4 : مَبْعُوض: جس سے بغض یا کینہ رکھا جائے ، جس سے دشمنی کی جائے ، قابل نفرت ( اردو لغت تاریخی اصول پر جلد 17 صفحہ 295 کراچی 2000ء) 5 : نٹ : شعبدہ باز.بازی گر.پیچ قوم کا فرد ( اردو لغت تاریخی اصول پر جلد 19 صفحہ 774 کراچی 2003ء) 6 : صحيح البخارى كتاب الاستئذان باب الاستئذانُ مِنْ أَجْلِ الْبَصَر ( مفهومًا ) 7 : الفاتحة : 6 : مبرز: پاخانہ نکلنے کی جگہ.مقعد (فیروز اللغات اردو جامع فیروز سنز لاہور )

Page 412

$1956 399 36 خطبات محمود جلد نمبر 37 سورۃ فاتحہ میں اللہ تعالیٰ نے ہر قوم اور ہر زمانہ کے لوگوں کے لیے ہدایت اور راہنمائی کا سامان مہیا فرما دیا ہے موجودہ فتنہ میں حصہ لینے والوں کے لیے صحیح رستہ یہ تھا کہ وہ اللہ تعالیٰ سے دعا ئیں کرتے اور مخالف اخبارات کے بیانات کی تردید شائع کراتے (فرموده 14 ستمبر 1956ء بمقام مری) تشهد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: دو سورۃ فاتحہ قرآن کریم کی ایک ایسی سورۃ ہے جو ہر جگہ پر کام آ جاتی ہے.یوں تو سارا قرآن ہی ایسا ہے جو نور اور ہدایت سے معمور ہے لیکن سورۃ فاتحہ میں یہ خوبی ہے کہ یہ سات چھوٹی چھوٹی آیتوں کی سورۃ ہے اور قرآن کریم کے تمام مضامین اجمالی طور پر اس کے اندر پائے جاتے ہیں.میں ابھی بچہ تھا کہ میں نے خواب میں دیکھا کہ مجھے ایک فرشتہ نے سورۃ فاتحہ کی تفسیر سکھائی ہے.یہ خواب میں نے اپنی ناتجربہ کاری کی وجہ سے

Page 413

$1956 400 خطبات محمود جلد نمبر 37 کیونکہ در حقیقت یہ مامورین کا کام ہوتا ہے کہ وہ دوسروں کو اپنی خواہیں اور الہامات سنائیں) اپنے ساتھیوں کو بھی سکول میں سنا دی اور انہیں کہا کہ مجھے یقین ہے کہ جب بھی میں سورۃ فاتحہ پر غور کروں گا اللہ تعالیٰ مجھے اس کے نئے نئے مضامین اور مطالب سمجھائے گا.اتفاق ایسا ہوا کہ اُنہی دنوں ہمارے مدرسہ کی ٹیم کا خالصہ کالج امرتسر کی ٹیم کے ساتھ میچ مقرر ہو گیا.چنانچہ ہماری ٹیم میچ کھیلنے کے لیے امرتسر گئی.میں اگر چہ کھلاڑی تھا مگر اُس ٹیم میں شامل نہیں تھا.تاہم دوست مجھے بھی اپنے ساتھ لے گئے.جب میچ ہوا تو ہماری ٹیم نے سکھوں کے خالصہ کالج کی ٹیم کو بڑی بُری طرح شکست دی.اس پر مسلمان بڑے خوش ہوئے اور انجمن اسلامیہ امرتسر والوں نے جس کے سیکرٹری یا پریذیڈنٹ شیخ صادق حسن صاحب بھی رہے ہیں کہا کہ ہم اس خوشی میں آپ لوگوں کو ایک پارٹی دینا چاہتے ہیں.چنانچہ پارٹی ہوئی اور میرے ساتھی مجھے بھی اس میں لے گئے.ہم وہاں بیٹھے ہی تھے کہ اُن کا ایک عہدیدار میرے پاس آیا اور کہنے لگا کہ بعد میں آپ نے تقریر بھی کرنی ہے.میں حیران ہوا کہ مجھے تو نہ تقریر کی عادت ہے اور نہ اس موقع کے لیے میں نے کوئی تیاری کی ہوئی ہے.میں بغیر تیاری کے کیا تقریر کروں گا.پھر لوگوں کی عادت ہوتی ہے کہ کوئی نئی بات بیان کی جائے تو وہ اُسے پسند کرتے ہیں.لیکن اگر پرانی باتیں بیان کی جائیں تو کہتے ہیں ان باتوں کا کیا ہے یہ باتیں تو ہم نے بارہا سنی ہوئی ہیں.بہر حال میں تقریر کے لیے کھڑا ہوا اور میں نے اُس وقت سورۃ فاتحہ پڑھی.سورۃ فاتحہ کے پڑھتے ہی مجھے خیال آیا کہ ابھی میں اپنے ساتھیوں کو بتا رہا تھا کہ فرشتے نے مجھے سورۃ فاتحہ کی تفسیر سکھائی ہے اور مجھے یقین ہے کہ جب بھی اس پر غور کروں گا اللہ تعالیٰ مجھے اس کے نئے نئے مضامین سمجھائے گا.اب اگر میں نے سورۃ فاتحہ سے کوئی نئی بات بیان نہ کی تو یہ لوگ اعتراض کریں گے کہ ہم نے اس رویا کے بعد پہلی دفعہ تقریر میں آپ سے سورۃ فاتحہ سُنی اور پھر بھی آپ نے پرانے مضامین ہی دُہرا دیئے.اس خیال سے میں بڑا گھبرایا مگر معا اللہ تعالیٰ نے میرے دل میں ایک نکتہ ڈال دیا اور میں نے کہا کہ سورۃ فاتحہ ایک ایسی سورۃ ہے کہ جس کے پڑھنے سے اللہ تعالیٰ کی عظمت اور اُس کے علم غیب کا نقشہ آنکھوں کے سامنے کھینچ جاتا ہے.مفسرین کہتے ہیں کہ یہ سورۃ پہلی دفعہ مکہ میں اور دوسری دفعہ مدینہ میں

Page 414

$1956 401 خطبات محمود جلد نمبر 37 نازل ہوئی ہے.جب یہ سورۃ پہلی دفعہ مکہ میں نازل ہوئی تو اُس وقت سارا مکہ مشرک تھا.عیسائی اور یہودی نہ تھا عیسائیوں کے صرف ایک دو غلام تھے جو مکہ میں رہتے تھے اور یہودی تو وہاں کوئی تھا ہی نہیں.پھر جب آپ مدینہ تشریف لے گئے تو بیشک یہودیوں کے کچھ قبائل مدینہ میں اور کچھ خیبر میں موجود تھے مگر عرب پر اصل حکومت مشرکوں کی ہی تھی.غرض مکہ میں بھی مشرک تھے اور مدینہ میں بھی مشرک تھے.مگر دعا یہ سکھلائی گئی کہ یا اللہ! تو ہمیں یہودی بننے سے بچائیو.حالانکہ چاہیے یہ تھا کہ سب سے پہلے یہ دعا سکھائی جاتی کہ یا اللہ ! ہمیں مشرک ہونے سے بچائیو، یا اللہ ! ہمیں مکہ والوں کے دین میں داخل ہونے سے بچائی مگر کہا یہ گیا ہے کہ خدایا! ہم مغضوب اور ضات نہ ہو جائیں 1.اور جیسا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی تشریح فرمائی ہے مغضوب سے یہود اور ضالین سے نصالای مراد ہیں.2 حالانکہ جیسا کہ میں نے بتایا ہے اُس وقت مکہ میں صرف چند عیسائی تھے اور وہ بھی نہایت ادنیٰ حالت میں تھے اور مکہ کے لوہاروں کے پاس نوکر تھے باقی سارے مشرک تھے.مگر دعا سکھاتے وقت مشرکوں کا کوئی ذکر نہیں کیا گیا.اسی طرح جب مدینہ میں یہ سورۃ دوبارہ نازل ہوئی تو اُس وقت بھی مدینہ میں یہود کا کوئی زور نہیں تھا ان کے صرف ایک دو قبیلے موجود تھے.مگر زیادہ طاقت مشرکوں کو ہی حاصل تھی.بیشک روم میں عیسائیوں کی حکومت تھی مگر عرب لوگ روم کی کوئی پروا نہیں کرتے تھے.وہ سمجھتے تھے کہ ایران کی حکومت بڑی ہے اور پھر وہ بھی مدینہ سے آٹھ سو میل دور تھی.غرض مکہ اور مدینہ اور عرب کے دوسرے شہروں میں یہودیوں اور عیسائیوں کا کوئی زور نہیں تھا سارا زور مشرکوں کو حاصل تھا.مگر اللہ تعالیٰ نے کہا تم دعا یہ کرو کہ ہم عیسائی نہ ہو جائیں جن کے مکہ میں صرف ایک دو غلام تھے.اور دعا یہ کرو کہ ہم یہودی نہ ہو جائیں حالانکہ مدینہ میں اگر چہ کچھ یہود موجود تھے مگر وہ مشرکوں کے تابع تھے خود ان کو کوئی طاقت حاصل نہیں تھی.غرض جن کو طاقت حاصل تھی اور جن کا ملک تھا اُن کا تو کوئی ذکر نہیں کیا گیا اور یہودیوں اور عیسائیوں کا ذکر کیا گیا ہے اور ان کے فتنہ سے بچنے کی دعا سکھائی گئی ہے.یہ کتنی عجیب بات ہے.یہ سوال تھا جو میں نے اپنی تقریر میں اُٹھایا.اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے مجھے اس کا جواب بھی سمجھا دیا اور میں نے کہا اس کی وجہ یہ تھی کہ یہودیوں اور

Page 415

$1956 402 خطبات محمود جلد نمبر 37 عیسائیوں نے دنیا میں قائم رہنا تھا.لیکن مکہ کا مذہب اُس وقت تباہ ہو جانے والا تھا.پس اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ تم مکہ والوں کی پروا نہ کرو تم یہ دعا کرو کہ ہم یہودی اور عیسائی نہ ہو جائیں کیونکہ انہوں نے قائم رہنا ہے.میری اس تقریر کا ان لوگوں پر بڑا اثر ہوا اور بعد میں بھی وہ میرا شکر یہ ادا کرنے کے لیے میرے پاس آئے.غرض سورۃ فاتحہ اور اِھدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ 3 کی اپنے اندر بڑی بھاری برکات رکھتی ہے اور جو شخص بھی التزام کے ساتھ یہ دعا کرتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کی مدد سے محروم نہیں رہتا.مجھے یاد ہے ایک دفعہ ایک غیر احمدی مولوی جو ہوشیار پور کا رہنے والا تھا میرے پاس آیا اور کہنے لگا کہ مرزا صاحب کی صداقت کا آپ قرآن سے کوئی ثبوت پیش کریں.حدیث میں نہیں مانتا صرف قرآن کو تسلیم کرتا ہوں.اس لیے آپ قرآن سے مرزا صاحب کی صداقت ثابت کریں.میں نے کہا اگر میں کوئی آیت پیش کروں گا تو ممکن ہے اس سے آپ کی تسلی نہ ہو.اس لیے آپ خود قرآن کریم کی کوئی آیت پڑھ دیں میں اُسی سے حضرت مرزا صاحب کی صداقت ثابت کر دوں گا.اس سے پہلے وہ یہ سوال اُٹھا چکا تھا کہ قرآن کریم کے ہوتے ہوئے مرزا صاحب کی کیا ضرورت ہے.جب میں نے کہا کہ آپ قرآن کریم کی کوئی آیت پڑھ دیں میں اُسی سے ثابت کر دوں گا کہ حضرت مرزا صاحب سچے ہیں تو اس نے سورۃ بقرہ کے دوسرے رکوع کی یہ آیت پڑھ دی کہ وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَقُولُ آمَنَّا بِاللهِ وَبِالْيَوْمِ الْآخِرِ وَمَا هُمْ بِمُؤْمِنِينَ - يُخْدِعُونَ اللهَ وَالَّذِينَ آمَنُوا ۚ وَمَا يَخْدَعُونَ إِلَّا أَنْفُسَهُمْ وَمَا يَشْعُرُونَ فِي قُلُوبِهِمْ مَّرَضٌ فَزَادَهُمُ اللهُ مَرَضًا وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ بِمَا كَانُوا يَكْذِبُونَ.4 اس میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ صرف منہ سے کہہ دینا کہ ہم ایمان لائے کافی نہیں ہوتا بلکہ کئی لوگ ایسے ہوتے ہیں جو منہ سے تو کہتے ہیں کہ ہم اللہ اور یوم آخر پر ایمان لائے ہیں لیکن خدا کے نزدیک وہ مومن نہیں ہوتے.وہ اپنے دعوی کے ذریعہ مومنوں کو اور اللہ کو دھوکا دینا چاہتے ہیں.لیکن ان کے دھو کے کا نتیجہ ان کی اپنی جانوں کو ملتا ہے.ان کے دلوں میں مرض ہے اور

Page 416

$1956 403 خطبات محمود جلد نمبر 37 اللہ تعالیٰ نے ان کی انہی باتوں کی وجہ سے ان کی مرض کو بڑھا دیا ہے اور اللہ تعالیٰ ایسی تدبیر کرے گا کہ ان کے جھوٹ بولنے کی وجہ سے ان کو دردناک عذاب پہنچے گا.دوسری طرف قرآن کریم فرماتا ہے کہ وَمَا كُنَّا مُعَذِّبِينَ حَتَّى نَبْعَثَ رَسُولًا 5 جب تک ہم رسول نہ بھیج لیں قوم پر عذاب نازل نہیں کیا کرتے.اب بتائیے کہ اللہ تعالیٰ تو یہ فرماتا ہے کہ بسا اوقات لوگ کہتے ہیں کہ ہم ایمان لا رہے ہیں لیکن درحقیقت وہ مومن نہیں ہوتے.اللہ تعالیٰ ان کی مرض کو بڑھاتا چلا جاتا ہے اور آخر ان کو عذاب دینے کے لیے رسول مبعوث کرتا ہے.اب آپ خود ہی بتائیں کہ تمیں سیپاروں میں سے آپ نے آیت پڑھی تھی اور اس نیت سے پھٹی تھی کہ مرزا صاحب بچے ثابت نہ ہوں لیکن یہی آیت آپ کی صداقت کا ثبوت ہے.اس پر وہ سخت حیران ہوا اور کہنے لگا کہ بیشک اس آیت سے تو میرا اعتراض حل ہو جاتا ہے.غرض سورة فاتحہ میں اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِم 6 والی دعا بڑی جامع دعا ہے لیکن افسوس ہے کہ لوگ اس کی طرف توجہ نہیں کرتے ورنہ ہدایت کا میسر آنا ان کے لیے کوئی مشکل نہ رہے.قادیان میں ایک دفعہ ایک ہندو میرے پاس آیا اور کہنے لگا کہ مجھے میرے آقا نے آپ کے پاس بھجوایا ہے اور دریافت کیا ہے کہ کیا نٹور ملنے کا بھی کوئی طریق ہے؟ پہلے تو اُس نے یہ نہ بتایا کہ کون اُس کا آتا ہے اور وہ کہاں رہتا ہے اور بات کو چھپانا چاہا مگر جب میں نے جرح کی تو کہنے لگا کہ وہ بڑے ٹھیکے دار ہیں.ان کے پاس عمارتوں اور نہروں کا ٹھیکہ ہوتا ہے اور ہندوستان میں ان کا ایک بڑا بھاری کارخانہ بھی ہے.آخر بہت سی باتوں کے بعد نتیجہ نکلا کہ سردار بلد یو سنگھ صاحب جو ہندوستان کے ڈیفنس منسٹر رہے ہیں ان کے والد نے سے بھجوایا تھا.ٹاٹانگر کے پاس ان کا بڑا بھاری کارخانہ ہے.میں نے اس سے پوچھا کہ وہ تو سکھ ہیں اور تم ہندو ہو.تمہارا اُن کے ساتھ کیسے تعلق ہوا؟ اِس پر اُس نے کہا کہ میں اور وہ بچپن میں اکٹھے پڑھتے رہے ہیں اور ان کے ساتھ میری بڑی دوستی ہے.اب انہوں نے اس دوستی کی وجہ سے ایک دفتر کا مجھے انچارج بنایا ہوا ہے اور مذہبی خیالات کا تبادلہ مجھ سے

Page 417

$1956 404 خطبات محمود جلد نمبر 37 7 کرتے رہتے ہیں.انہوں نے مجھ سے کہا تھا کہ تم مرزا صاحب سے جا کر پوچھو کہ کیا نور ملنے کی بھی کوئی تدبیر ہے؟ میں نے کہا یہ ہماری تو اصطلاح نہیں سکھوں کا ایک محاورہ ہے جو ان میں رائج ہے.مگر بہر حال ہم جس چیز کو ہدایت کہتے ہیں وہ اس کا نام نور رکھتے ہیں اور ہدایت ملنے کا راستہ میں بتانے کے لیے تیار ہوں.مگر چونکہ اُس نے شروع میں ہی کہہ دیا تھا کہ وہ بڑے مالدار ہیں اور کروڑ پتی ہیں اس لیے میں نے ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ گو میں عیسائی نہیں مگر حضرت عیسی علیہ السلام کی بزرگی کا قائل ہوں اور آپ فرماتے ہیں کہ اونٹ کا سُوئی کے ناکہ ہیں سے گزر جانا آسان ہے لیکن دولتمند کا خدا کی بادشاہت میں داخل ہونا مشکل ہے.اب خواہ میں عیسائی نہیں مگر پھر بھی میرے مسلمہ بزرگوں میں سے ایک بزرگ حضرت عیسی علیہ السلام کہہ چکے ہیں کہ دولتمند کو ہدایت ملنی ناممکن ہے.اس لیے گو میں تمہیں نور حاصل کرنے کا راستہ بتا دوں گا مگر میں سمجھتا ہوں کہ وہ نور کو قبول نہیں کریں گے.کہنے لگا یہ کسی طرح ہو سکتا ہے کہ نور مل بھی جائے اور پھر بھی انسان اس کو چھوڑ دے؟ میں نے کہا حضرت مسیح نے ایسا ہی کہا ہے.اس لیے میں سمجھتا ہوں کہ انہوں نے نور دیکھنے کے باوجود نور کو قبول کرنے کی کوشش نہیں کرنی.خیر باتیں ہوتی رہیں.میں نے اس سے کہا کہ مجھے تو خود مسلمان بھی کافر کہتے ہیں.پھر تم میرے پاس کیوں آئے ہو؟ کہنے لگا میرا آقا کہتا تھا کہ ہم مسلمان پیروں کے پاس بھی گئے ہیں، ہندوؤں کے پاس بھی گئے ہیں اور سکھوں کے پاس بھی گئے ہیں مگر ہمیں کہیں نور نہیں ملا.اب چلو! ان کے پاس بھی جا کر دیکھ لیں.میں نے کہا میں نور دکھانے کا ذمہ دار ہوں.مگر مسیح کی بات پوری ہو کر رہنی ہے کہ تم نے اسے ماننا نہیں.کہنے لگا یہ تو عجیب بات ہے کہ نور مل بھی جائے اور پھر بھی انسان اسے قبول نہ کرے.میں نے کہا ایک خدارسیدہ انسان نے ایسا کہا ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ یہ بالکل درست ہے اس نے کہا آپ ہمیں نور ملنے کا راستہ بتا ئیں وہ اسے ضرور قبول کریں گے.اس پر میں نے بى اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ والی دعا لکھوا کر دے دی اور میں نے کہا کہ تم اس کے معنے پہلے اچھی طرح سمجھ لو.اس میں یہ نہیں لکھا کہ الہی ! میں مسلمان ہو جاؤں.اگر یہ دعا سکھائی جاتی تو تم کہہ سکتے تھے کہ میں تو ہندو ہوں میں مسلمان ہونے کی دعا کس طرح

Page 418

$1956 405 خطبات محمود جلد نمبر 37 مانگ سکتا ہوں.تمہارا آقا کہہ سکتا تھا کہ میں تو سکھ ہوں میں مسلمان ہونے کی دعا کس طرح مانگ سکتا ہوں.اگر میں یہ دعا کروں تو اس کے معنے یہ ہیں کہ پہلے اپنے مذہب کی سچائی پر شک کروں اور میں اس کے لیے تیار نہیں.میں سمجھتا ہوں کہ میرا مذہب ہی سچا ہے.اور مذہب کے قبول کرنے کی ضرورت نہیں.پس اگر اس میں مسلمان ہونے کی دعا سکھلائی جاتی تو تمہیں اس پر اعتراض ہو سکتا تھا.لیکن اس میں دعا یہ سکھائی گئی ہے الہی! مجھے سیدھا راستہ دکھا.اور سیدھے راستہ کی دعا ہر شخص کر سکتا ہے اور ہر شخص اس کا محتاج ہوتا ہے.تمہارے آقا کو سکھ ہونے کے باوجود ضرورت ہے کہ اُسے سیدھا راستہ نظر آئے اور تمہیں ہندو ہونے کے باوجود ضرورت ہے کہ تمہیں سیدھا راستہ نظر آئے.پس یہ دعا ایک بڑی جامع دعا ہے اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت کا ایک بڑا زبردست ثبوت ہے کیونکہ اس میں یہ دعا نہیں سکھائی گئی کہ الہی ! ہمیں اسلام کا راستہ دکھا بلکہ یہ دعا سکھائی گئی ہے کہ الہی ! ہمیں سیدھا راستہ دکھا.اس سے معلوم ہوا کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یقین تھا کہ میں ہی سیدھے راستہ پر ہوں.اور جب کوئی سیدھے راستہ کی دعا مانگے گا تو ضرور اللہ تعالیٰ اسے میرے پاس بھیجے گا.غرض میں نے اپنے پرائیویٹ سیکرٹری کو بلایا اور اُسے کہا کہ چونکہ یہ عربی نہیں جانتے اس لیے اس دعا کا ترجمہ انہیں پنجابی میں لکھ کر دے دو.چنانچہ انہیں اس کا پنجابی ترجمہ لکھ کر دے دیا گیا.اور میں نے کہا کہ روزانہ سوتے وقت آپ لوگ یہ دعا پڑھا کریں.مگر جس وقت یہ دعا کریں اُس وقت اپنے دل میں اللہ تعالیٰ سے یہ عہد کریں کہ اے خدا! تو ہمیں کہیں بھی ہدایت دکھائے ہم اُسے قبول کر لیں گے.اگر اس دعا کے کرتے وقت آپ نے دل میں یہ فیصلہ نہ کیا کہ خدا جو بھی ہدایت دے گا ہم اُسے قبول کریں گے تو اللہ تعالیٰ آپ کو ٹور نہیں دکھائے گا.کیونکہ اللہ تعالیٰ مداری نہیں.وہ فضول کھیلیں نہیں دکھایا کرتا.ہاں! اگر آپ کے دل کی کمزوری کی وجہ سے بعد میں آپ سے کچھ غلطی ہو جائے تو اور بات ہے.چور چوری سے تو بہ کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ اسے قبول کر لیتا ہے حالانکہ دوسرے دن وہ تو بہ توڑ کے پھر چوری کرنے لگ جاتا ہے.پس اگر نفس میں کوئی کمزوری ہوئی تو اللہ تعالیٰ اس کی پروا نہیں.

Page 419

خطبات محمود جلد نمبر 37 406 $1956 کرے گا.وہ صرف یہ دیکھے گا کہ اس وقت آپ کی نیت یہ ہے کہ اس کی ہر ہدایت کو قبول کی کریں گے.اس پر وہ چلا گیا.پندرہ بیس دن کے بعد اُس کی چٹھی آئی کہ آپ کی بات سچی ہی ہوگئی.خدا تعالیٰ کا نور میرے آقا کو نظر آ گیا ہے مگر اس کے ساتھ ہی آپ کی یہ دوسری بات ہے بھی سچی ہو گئی کہ اُن سے مانا نہیں جائے گا.اب نور تو نظر آ گیا ہے مگر انہیں اس کو قبول کرنے کی ہمت نہیں.معلوم ہوتا ہے اللہ تعالیٰ نے اسے اسلام کی صداقت کے متعلق کوئی اشارہ کر دیا ہو گا مگر پھر اس نے سوچا ہوگا کہ اگر میں نے اسلام قبول کر لیا تو میرے بیٹے کی وزارت بھی جائے گی اور میرا کارخانہ بھی تباہ ہو جائے گا اس لیے اسلام قبول کرنے کا کیا فائدہ؟ غرض اللہ تعالیٰ نے ہر قوم اور ہر زمانہ کے لوگوں کے لیے اس دعا میں ہدایت اور راہنمائی کا سامان رکھا ہوا ہے مگر افسوس ہے کہ لوگ اس سے فائدہ نہیں اُٹھاتے اور وہ سیدھا راستہ اختیار کرنے کی بجائے غلط راستہ اختیار کر لیتے ہیں.مثلاً موجودہ فتنہ میں بھی یہ راستہ کھلا تھا کہ وہ لوگ جنہوں نے اس میں حصہ لیا ہے وہ اللہ تعالی سے دعائیں کرتے کہ الہی ! ہمیں سیدھا راستہ دکھا.مگر میں نے دیکھا ہے کہ وہ لوگ جنہوں نے ان دنوں جماعت سے بُعد اختیار کیا ہے ان میں سے صرف ایک شخص ایسا ہے جس نے صحیح راستہ اختیار کیا ہے باقی کسی نے بھی صحیح طریق اختیار نہیں کیا.اس نے پہلے تو بہ کی مگر جب اسے کہا گیا کہ تمہاری تو بہ کا کیا اعتبار ہے تو اس نے جھٹ ایک مخالف اخبار کے بیان کی تردید لکھ کر اُسے بھجوا دی کہ مجھ کوئی ظلم نہیں کیا گیا اور میرے بیوی بچے بھی میری تحویل میں ہیں اور پھر اس کی ایک نفی الفضل میں بھی بھیجوا دی اور لکھا کہ میں احمدیت پر قائم ہوں.یہ لوگ جھوٹ بولتے ہیں کہ مجھے سے میرے بیوی بچے چھین لیے گئے ہیں.مگر باقیوں کو یہ توفیق نہیں ملی کہ وہ یہی طریق اختیار کرتے.انہوں نے صرف معافی کی چٹھیاں لکھ دیں.مگر جب اُن سے کہا گیا کہ مخالف اخباروں میں جو کچھ لکھا گیا ہے تم اُس کی بھی تردید کرو تو انہوں نے یہ بہانہ بنا لیا کہ وہ کوئی ہمارے اختیار میں ہیں کہ ہم تردید لکھیں اور وہ اسے شائع کر دیں.حالانکہ اگر وہ اخبار ان کے اختیار میں نہیں تھے تو الفضل تو ان کے اختیار میں تھا.وہ ان اخباروں کو بھی تردید بھیجوا د

Page 420

$1956 407 خطبات محمود جلد نمبر 37 اور الفضل کو بھی اس کی نقل بھیج دیتے.اگر ان میں سے کسی کے متعلق یہ کہا گیا تھا کہ وہ خلافت کا امیدوار ہے تو وہ لکھتا کہ ایک خلیفہ کی موجودگی میں میں خلافت کے امیدوار پر لعنت بھیجتا ہوں اور اس کو اسلام اور احمدیت کی تعلیم کے بالکل خلاف سمجھتا ہوں.اور جن لوگوں نے متعلق کہا ہے کہ یہ خلافت کے مستحق ہیں میں ان کو اپنا دوست نہیں سمجھتا.میں ان کو اپنا اور خبیث سمجھتا ہوں.اسی طرح اور باتیں جو سلسلہ کے خلاف لکھی ہیں ان کی تردید کرتے اور اگر دوسرے اخبار نہ چھاپتے تو الفضل میں بھجواتے اور اگر الفضل نہ چھاپتا تو میرے پاس شکایت کرتے کہ اب ہمارے لیے کونسا راستہ کھلا ہے.لیکن میں دیکھتا ہوں کہ باوجود اس کے کہ ڈیڑھ ہفتہ سے لے کر دو مہینہ تک وقت گزر چکا ہے.انہوں نے یہ صحیح طریقہ اختیار نہیں کیا بلکہ صرف مجھے معافی کے خط لکھ دیتے ہیں تا کہ سلسلہ کے دشمنوں کے ساتھ بھی دوستی قائم رہے اور میں بھی خوش ہو جاؤں.کوئی عقلمند اس طریق کو ماننے کے لیے تیار نہیں.صحیح طریق وہی تھا جو صالح نور نے اختیار کیا.ہم نے اُسے ابھی تک معاف نہیں کیا تا مگر اُس نے راستہ سیدھا اختیار کیا ہے اور اگر اس طریق پر وہ چلتا رہا تو کسی نہ کسی دن اُس کی تو بہ بھی قبول ہو جائے گی.لیکن دوسرے لوگوں کی طرف سے صرف معافی نامے آتے رہتے ہیں اور معافی کا جو صحیح طریق ہے اُس کو وہ اختیار نہیں کرتے.قریباً ہر شخص جو اس فتنہ میں ملوث ہے اُس کی طرف سے مجھے معافی کے خطوط آ چکے ہیں.مگر سوال یہ ہے کہ کیا وہ ، اخباروں کو نہیں پڑھتے؟ اگر پڑھتے ہیں تو ان کو چاہیے تھا کہ وہ ان اخبار والوں کو لکھتے کہ ہم ان عقیدوں میں تمہارے ساتھ متفق نہیں.اور اگر وہ اخبار ان کے اعلانات کو نہ چھاپتے تو ہمیں لکھتے کہ ہم نے ان اخباروں کو تردیدیں لکھ کر بھجوائی تھیں مگر انہوں نے شائع نہیں ہے کیں.اب ”الفضل میں ہماری طرف سے یہ تردید میں شائع کرا دی جائیں.اگر وہ ایسا انا کرتے تو ہمیں ان کی بات پر اعتبار آتا اور ہم سمجھتے کہ انہوں نے درست قدم اُٹھایا ہے مگر اخبارات کی تردید نہ کرنا اور ہمیں معافی کی چٹھیاں لکھتے چلے جانا بالکل غلط طریق ہے.اگر وہ دیانتداری سے سمجھتے ہیں کہ اخبارات میں ان کے متعلق جھوٹ لکھا گیا ہے تو ان کا فرض ہے کہ وہ ان اخبار والوں کی تردید کریں.

Page 421

خطبات محمود جلد نمبر 37 408 $1956 جیسا کہ خادم صاحب نے ابھی پچھلے دنوں کیا.انہوں نے لکھا کہ ایک دن حاجی اللہ دتا صاحب جو گجرات کے رئیس ہیں میرے پاس بیٹھے ہوئے تھے انہوں نے باتوں باتوں میں مجھ سے پوچھا کہ آجکل اخبارات میں آپ کی جماعت کے کسی اندرونی انتشار کا ذکر ہو رہا ہے یہ کیا معاملہ ہے؟ میں نے کہا یہ ان اخبارات کا پرانا شیوہ ہے اور ہمیشہ ہمارے خلاف جھوٹی خبریں شائع کرتے رہتے ہیں.اتنے میں ایک شخص اخبار ”سفینہ ہاتھ میں لے کر کمرہ میں داخل ہوا جس میں مجھے بھی مخالفوں میں شامل کیا ہوا تھا.میں نے حاجی صاحب کو پر چہ دیا اور کہا کہ دیکھیے اس میں یہ لکھا ہے، آپ میرے سامنے بیٹھے ہیں.بتائیے کیا میں خلیفہ المسیح کے موافقوں میں ہوں یا مخالفوں میں؟ انہوں نے کہا نہیں آپ تو بڑے مخلص ہیں.میں نے کہا اب آپ ہی فیصلہ کر لیجیے کہ جس طرح میرے متعلق سفینہ نے یہ جھوٹ بولا ہے اسی طرح اوروں کے متعلق کیوں نہیں بول سکتا.چنانچہ اُسی وقت انہوں نے اس کی تردید لکھ کر مجھے بھجوا دی جو الفضل میں شائع ہو چکی ہے.اسی طرح اگر دوسرے اخبارات ان لوگوں کی جن پر شک کیا جا رہا ہے تردیدیں شائع نہ کرتے تو کم از کم اخبار الفضل میں تو وہ چھپوا سکتے تھے اور اخبار الفضل ہر احمدی جماعت میں جاتا ہے.اگر وہ واقع میں میری بیعت میں شامل ہیں اور اس بیعت پر قائم رہنا چاہتے ہیں تو پچاس دفعہ بھی اگر ان کو مخالف اخبارات کی تر دیدیں لکھ کر بھجوانی پڑیں تو بھجوائیں اور اگر وہ شائع نہ کریں تو الفضل کو بھجوائیں.اگر الفضل شائع نہ کرے تو پھر بیشک میرے پاس شکایت کی جائے.مگر وہ یہ طریق اختیار نہیں کرتے اور پھر معافی کے خطوط لکھنا کافی سمجھ لیتے ہیں حالانکہ ان کی طرف سے پہلے مخالف اخبار کے بیانات کی تردید ہونی ضروری ہے.اگر وہ یہ طریق اختیار کرتے اور دوسرے اخباروں کو تر دیدیں بھجوا دیتے اور اگر وہ شائع نہ کرتے تو الفضل کو بھجوا دیتے تو یہ بالکل سیدھا راستہ تھا تی مگر انہوں نے یہ سیدھا راستہ اختیار نہیں کیا اور صرف اتنا کافی سمجھ لیا کہ ہم نے معافی کے خطوط لکھ دیئے ہیں حالانکہ معافی کے وہ خطوط جو میرے پاس آئے ہیں ان سے غیر احمد یوں کو حقیقت حال کس طرح معلوم ہوسکتی ہے.ابھی ایک شخص کی طرف سے مجھے معافی کا پیغام آیا تو میں نے اس کے جواب میں

Page 422

$1956 409 خطبات محمود جلد نمبر 37 اسے کہلا بھیجا کہ تم پہلے فلاں فلاں بات کی تردید کرو اُس کے بعد تمہاری معافی پر غور کیا جائے گا.تمہارے بعض دوستوں نے ایک مجلس میں کہا تھا کہ میری کسی بیوی کے خطوط اس کے پاس موجود ہیں جن میں اس نے میرا کچا چٹھا لکھا ہے.اس کے بعد ”سفینہ میں بھی یہی مضمون آیا کہ ہمارے پاس ان کی ایک بیوی کے خطوط موجود ہیں جن میں اس نے ان کی کرتوتیں ایک سہیلی کو لکھی ہیں.میں نے کہا تمہارے دوستوں کے اس بیان اور سفینہ کے اس بیان کے بعد اگر میں تمہارے پیغاموں یا خطوں پر تم کو معاف کر دوں تو تھوڑے دنوں کے بعد تم اور تمہارے دوست ساری دنیا میں یہ پروپیگنڈا کرتے پھریں گے کہ آخر کوئی بات تھی تبھی ڈر گئے.پس اب تو معافی کا سوال اُس وقت پیدا ہو گا جب ایسے خطوط شائع ہو جائیں گے اور میں جواب دے دوں گا اور ساری دنیا کو میرے جواب کا علم ہو جائے گا.اس سے پہلے معافی دے کر الٹا الزام لینے سے مجھے کیا فائدہ ہے؟ ہے بہر حال سورۃ فاتحہ میں اللہ تعالیٰ نے یہی راہنمائی کی ہے کہ تم مغضوب اور ضال یہودیوں اور عیسائیوں والا طریق اختیار نہ کرو.اُن کا بھی یہی طریق تھا کہ وہ بغیر سوچے سمجھے ایک راہ کو اختیار کر لیتے اور اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا مورد بن جاتے.اگر یہ لوگ سیدھی طرح صداقت اختیار کر لیں تو نہ کوئی سزا رہتی ہے اور نہ جماعت سے اخراج کا کوئی سوال رہتا ہے.اگر ایک شخص الفضل والوں کو اپنے دستخطوں کے ساتھ یہ لکھ کر بھجوا ہے کہ میرے متعلق جو یہ کہا جاتا ہے کہ میں خلافت کا امیدوار ہوں یہ بالکل جھوٹ ہے.ایک خلیفہ کی موجودگی میں میں خلافت کے امیدوار پر لعنت بھیجتا ہوں اور اگر کوئی دوست میری نسبت ایسے خیال کا اظہار کرتا ہے کہ خلیفہ کی موجودگی میں یا اس کے بعد یہ شخص خلافت کا مستحق ہے تو میں اس کو بھی لعنتی سمجھتا ہوں.اسی طرح جو پیغامی یہ کہتے ہیں کہ جماعت مبائعین حضرت خلیفہ اول کی ہتک کرتی ہے میں اُن کو بھی جھوٹا سمجھتا ہوں.گزشتہ بیس سال میں میں دیکھ چکا ہوں کہ پیغامی جماعت حضرت خلیفہ اول کی ہتک کرتی رہی ہے اور مبائعین اُن کا دفاع کرتے رہے ہیں.تو اس کے بعد وہ ہر احمدی سے کہہ سکتے تھے کہ اب ہم اور کیا طریق اختیار کریں.پھر اگر میرے پاس ان کی منافقت کی کوئی

Page 423

$1956 410 خطبات محمود جلد نمبر 37 اور دلیل ہوتی تو میں اسے شائع کر دیتا ورنہ میں بھی سمجھ لیتا اور جماعت بھی اس نتیجہ پر پہنچ جاتی کہ اب یہ لوگ صفائی کے لیے جو کچھ کر سکتے تھے کر چکے ہیں.مگر اب تو ہم ہی ان پر الزام قائم کر رہے ہیں اور وہ اس کی تردید کے لیے کوئی قدم نہیں اُٹھا رہے.اگر واقع میں وہ ایسے نہ ہوتے جیسا کہ ہماری طرف سے کہا جاتا ہے تو کیوں نہ وہ باہر کے اخبارات میں یا الفضل میں باہر کے اخبارات کی اور اپنے نام نہاد دوستوں اور پیغامیوں کی تردید کرتے.اگر وہ تر دیدیں شائع کرا دیتے تو بار ثبوت ہم پر آ پڑتا.مگر ادھر غیر احمدی اخباروں میں یہ چھپتے چلے جانا کہ اتنے بڑے آدمی کی اولاد موجودہ خلیفہ کے مقابلہ میں کھڑی ہے اور اُدھر ان کا ہمیں لکھتے چلے جانا کہ ہمیں معاف کر دیا جائے صاف بتاتا ہے کہ وہ دُہری خوشنودی حاصل کرنا چاہتے ہیں.ادھر وہ غیر احمدیوں کو خوش کرنا کی چاہتے ہیں اور ادھر ہمیں خوش کرنا چاہتے ہیں.ورنہ صحیح طریق وہی تھا جس کا میں نے اوپر ذکر کیا ہے.اس کے بعد اگر کوئی اور ثبوت نہ ملتا تو ان کی براءت ہو جاتی.اور اگر کوئی اور ثبوت ملتا تو اس کی تردید کا انہیں پھر موقع مل جاتا.وہ مجھے تو بیمار اور بڑھا کہنے کے لیے دلیر ہیں لیکن اپنے دماغوں کا علاج نہیں کرتے.اگر اُن کے اپنے دماغ صحیح اور طاقتور ہیں تو وجہ کیا ہے کہ انہیں سیدھا رستہ نظر نہیں آتا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان فرمایا ہے کہ سات برس کا لڑکا ہو جائے تو اُسے نماز پڑھنے کی عادت ڈالو 8 جس کے معنے یہ ہیں کہ سات برس کا بچہ بھی اس دعا کو سمجھ سکتا ہے.مگر یہ لوگ قریباً پچاس پچاس سال کے ہو گئے ہیں اور اتنی موٹی بات بھی نہیں سمجھ سکے اور ساتھ ساتھ میرے متعلق کہتے چلے جاتے ہیں کہ یہ بڑھا ہو گیا ہے اور اس کی عقل ماری گئی ہے.اگر تمہاری عقل سلامت تو تم کیوں وہ راہ اختیار نہیں کر سکے جو بالکل صاف اور سیدھی تھی اور جس پر چل کر تم دین اور دنیا میں نجات حاصل کر سکتے تھے.تمہارا اس راہ کو اختیار نہ کرنا بتاتا ہے کہ تمہاری معافی کی درخواستیں بھی اپنے اندر منافقانہ رنگ رکھتی ہیں ورنہ تمہارا کام تھا کہ تم فوراً الزامات کی صحیح طریقے پر تردید کر دیتے.مگر یہ طریق اُن میں سے کسی کو نہیں سو جھا.جس سے پتا لگتا ہے کہ اُن کے دل صاف نہیں.غیر احمدی اور پیغامی اخبارات ان کے

Page 424

$1956 411 خطبات محمود جلد نمبر 37 کندھوں پر بندوقیں رکھ کر ہماری طرف چلا رہے ہیں لیکن ان کو ان کی تردید کی توفیق نہیں 66 ملتی صرف دوسطر کا معافی کا خط لکھنا آتا ہے“.1 : الفاتحة 7 الفضل 22 ستمبر 1956ء) 2 : ترمذی ابواب تفسير القرآن باب و من سورة فاتحة الكتاب 3 : الفاتحة: 6 4 : البقرة: 9 تا 11 5 : بنی اسرائیل: 16 6 : الفاتحة: 6، 7 7 متی باب 19 آیت 24 8: ابوداؤد كتاب الصلوة باب متى يُؤمَرُ الْغُلَامُ بالصَّلوةِ

Page 425

$1956 412 37 خطبات محمود جلد نمبر 37 اگر تم قرآن مجید پر ایمان لاؤ اور پھر سچے دل سے اس پر عمل کرنے کی کوشش کرو تو اللہ تعالیٰ تمہارے دلوں سے بدی کی رغبت مٹا دے گا یا تمہاری کمزوری کی پردہ پوشی فرمائے گا (فرمودہ 21 ستمبر 1956ء بمقام ایبٹ آباد) تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور نے قرآن کریم کی درج ذیل آیت تلاوت فرمائی: وَلَوْ أَنَّ أَهْلَ الْكِتَبِ أَمَنُوا وَ اتَّقَوْا لَكَفَرْنَا عَنْهُمْ سَيَاتِهِمْ - 1 اس کے بعد فرمایا: ”ہر وہ انسان جو ایسے مقام پر کھڑا ہو کہ اُس سے جواب طلبی کا موقع بھی پیش آ جاتا ہو اُس کی دو خواہشیں ہوا کرتی ہیں.ایک خواہش تو یہ ہوتی ہے کہ مجھ سے کوئی ایسی غلطی نہ ہو جس کی وجہ سے مجھ سے جواب طلبی کی ضرورت پیش آئے اور دوسری خواہش یہ ہوتی سے

Page 426

$1956 413 خطبات محمود جلد نمبر 37 کہ اگر اتفاقاً مجھ سے کوئی ایسی غلطی ہو جائے تو پھر اُس غلطی پر پردہ پڑ جائے.اور یا ن جواب طلبی کرنے والا میرے قصور کو بھول جائے اور یا اُسے معاف کر دے.یہ دو ہی ذرائع ہیں جن سے ایک ایسے انسان کو اطمینان حاصل ہوتا ہے جو ایسے مقام پر کھڑا ہو کہ اُس جواب طلبی کی جا سکے.مثلاً ایک ملازم ہے اُس کو رات دن یہی فکر رہتی ہے کہ میرے کام میں کوئی ایسا نقص نہ ہو جائے کہ جس کی وجہ سے میرے افسروں کو مجھ سے جواب طلبی کرنی پڑے.پھر اس کی دوسری خواہش یہ ہوتی ہے کہ اگر مجھ سے کوئی غلطی ہو جائے تو وہ میرے افسر کو نظر نہ آ جائے.اور اگر نظر آ جائے تو اُس کے دل میں ایسی محبت پیدا ہو جائے کہ وہ کہے، جانے دو اور اس غلطی کو نظر انداز کر دو.اس نقطہ نگاہ سے اگر دیکھا جائے تو سب سے زیادہ ذمہ داری انسان پر عائد ہوتی ہے نوکر کی ذمہ داری بہت محدود ہوتی ہے اور پھر تھوڑے عرصہ کے لیے ہوتی ہے.لیکن انسان کی ذمہ داری ایک لمبی زندگی کے لیے ہوتی ہے اور اتنی ہی امانتیں اُس کے سپرد ہوتی ہیں کہ جن کا کوئی شمار نہیں ہوتا.دفتر میں کسی کے پاس امانت کے دس روپے ہوتے ہیں، کسی کے پاس ہیں، کسی کے پاس پچاس روپے ہوتے ہیں اور کسی کے پاس سو اور کسی کے پاس ہزار روپے رکھے ہوئے ہوتے ہیں اور کسی کے پاس دو ہزار.پھر کسی کے پاس ایک فائل ہوتا ہے اور کسی کے پاس دو فائل، کسی کے پاس چار مسلیں ہوتی ہیں اور کسی کے پاس دس.مگر انسان کو دیکھو تو کوئی کروڑ پتی ہوتا ہے اور کوئی ارب پتی.مثلاً راک فیلر کو ہی دیکھ لو وہ ارب پتی ہے اور اُس نے خدا تعالیٰ کے حضور اربوں کا ہی جواب دینا ہے.اب ایک اکا ؤنٹنٹ جو فوج میں یا کسی فرم میں ملازم ہوتا ہے اور جس نے پانچ سو یا ہزار کا حساب دینا ہوتا ہے جب اُس کی راتوں کی نیند حرام ہو جاتی ہے تو تم سمجھ سکتے ہو کہ جس نے کروڑوں روپیہ کا حساب دینا ہو گا اُس کا کیا حال ہو گا.مثلاً راک فیلر ہی جب اللہ تعالیٰ کے حضور پیش ہو گا تو اس کو اربوں ڈالر کا حساب دینا پڑے گا.اگر اس حساب میں اس کی کوئی کوتا ہی ثابت ہوئی تو یہ اُس کے لیے کتنی بڑی مصیبت ہوگی.یہی کیفیت ہر انسان کو اگلے جہان میں پیش آنے والی ہے کیونکہ مسئلوں کا طریق عالم روحانی میں بھی موجود ہے.چنانچہ قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ دنیا میں ہر انسان

Page 427

$1956 414 خطبات محمود جلد نمبر 37 جو اعمال بجا لاتا ہے خواہ اچھے ہوں یا بُرے وہ اُس کے ہاتھوں اور پاؤں وغیرہ پر نقش ہو جاتے ہیں.چنانچہ اس کے کان اور اس کی آنکھیں اور اس کی زبان اور اس کا چمڑا گواہی دیں گے کہ وہ دنیا میں کیا کچھ کرتا رہا ہے.2 گویا وہاں اعمال کا ریکارڈ کاغذوں کی بجائے کانوں اور آنکھوں اور زبانوں پر کیا جاتا ہے اور ہاتھوں اور پاؤں کو گواہ بنایا جاتا ہے اور ان ساری مسئلوں کا اسے جواب دینا پڑے گا.پس اس کی حالت عام دنیوی ملازموں سے بہت زیادہ نازک ہے اور اس کو ہمیشہ اس بات کا فکر رہنا چاہیے کہ جب میں اپنے اعمال کا جواب دینے لگوں تو میرا حساب بالکل صاف ہو.چونکہ دنیا میں انسان خواہ کتنی بھی کوشش کرے اُس سے کچھ نہ کچھ غلطیاں ضرور ہو جاتی ہیں.اس لیے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم تمہیں ایک ترکیب بتاتے ہیں جس سے کام لے کر تم اس مشکل سے نجات حاصل کر سکتے ہو.اور وہ ترکیب اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں بیان فرمائی ہے جو ابھی میں نے پڑھی ہے کہ وَ لَوْ أَنَّ أَهْلَ الْكِتَبِ امَنُوْاوَ اتَّقَوْا لَكَفَرْنَا عَنْهُمْ سَيَّاتِھم کہ اگر وہ لوگ جن کو کتاب دی گئی ہے ایمان لاتے اور اللہ تعالیٰ کا تقوی ختیار کرتے تو ہم اُن کی بُرائیاں اُن سے دور کر دیتے.مسلمان عمل سے بچنے کے لیے بڑی بے تکلفی سے کہہ دیتے ہیں کہ یہاں اہلِ کتاب سے یہودی اور عیسائی مراد ہیں حالانکہ سوال ہے کہ کیا مسلمانوں کو قرآن نہیں ملا؟ اگر مسلمانوں کو بھی ایک کتاب ملی ہے تو وہ بھی اہل کتاب ہیں.مگر مسلمانوں کی عادت ہے کہ جہاں بھی اہلِ کتاب کا ذکر آ جائے وہ سمجھنے لگ جاتے ہیں کہ اس سے مراد ہم نہیں بلکہ یہودی اور عیسائی مراد ہیں.اسی ذہنیت سے تنگ آکر مولانا روم نے یہ کہہ دیا تھا کہ گفته آید در حدیث دیگراں یعنی بات کا اثر کسی پر تب ہوتا ہے جب دوسرے کا نام لے کر کہی جائے.چنانچہ انہوں نے اسی حکمت کے ماتحت جانوروں کی طرف منسوب کر کے مثنوی میں کئی قسم کی حکایات لکھی ہیں.کہیں لکھتے ہیں ریچھ نے یہ کہا، کہیں لکھتے ہیں بھیڑیے نے یہ کہا، کہیں لکھتے ہیں گیدڑ نے یہ کہا، کہیں لکھتے ہیں سانپ نے یہ کہا، کہیں لکھتے ہیں بچھونے یہ کہا حالانکہ در حقیقت

Page 428

415 $1956 خطبات محمود جلد نمبر 37 ان کی مراد وہ انسان ہوتے ہیں جو بچھو خصلت ہوتے ہیں یا وہ انسان ہوتے ہیں جو ب خصلت ہوتے ہیں یا وہ انسان ہوتے ہیں جو گیدڑ خصلت یا ریچھ خصلت یا بھیڑیا خصلت ہیں.یہ طریق انہیں اس لیے اختیار کرنا پڑا کہ انہوں نے لوگوں کے حالات کو دیکھ کر سمجھ لیا کہ گفته آید در حدیث دیگراں سانپ ان پر بات کا تب اثر ہوتا ہے جب دوسرے کا نام لے کر کہی جائے.اگر خود انہیں مخاطب کیا جائے تو وہ اپنے آپ کو بچانے کی کوشش کرتے ہیں.مجھے یاد ہے حضرت خلیفہ اول اپنی وفات کے قریب جب بہت زیادہ کمزور ہو گئے تو ایسی حالت میں جب لوگ آپ کے پاس آتے اور آپ اُن کے دیر تک بیٹھے رہنے کی وجہ سے تنگ آ جاتے تو آپ فرمایا کرتے تھے اب میں تھک گیا ہوں دوست مہربانی کر کے چلے ان جائیں.جب آپ یہ فرماتے تو اکثر لوگ یہ خیال کر لیتے کہ اس سے مراد دوسرے لوگ ہیں ہم اس کے مخاطب نہیں.چنانچہ اگر پچاس دوست اُس وقت بیٹھے ہوئے ہوتے تو اُن میں سے پانچ دس چلے جاتے اور چالیس پینتالیس پھر بھی بیٹھے رہتے.آپ دس پندرہ منٹ اور انتظار کرتے اور جب دیکھتے کہ لوگ ابھی تک نہیں اُٹھے تو آپ فرماتے اب باقی دوست بھی چلے جائیں.اس پر بہت سے لوگ اُٹھ کر چلے جاتے.مگر کچھ ایسے بھی ہوتے تھے جو پھر بھی ہتے تھے اور سمجھتے تھے کہ اس حکم کے ہم مخاطب نہیں بلکہ دوسرے لوگ مخاطب ہیں.آخر تھوڑی دیر اور انتظار کرنے کے بعد جب آپ کے لیے تکلیف بالکل نا قابل برداشت ہو جاتی تو آپ فرمایا کرتے اب نمبردار بھی چلے جائیں یا بعض دفعہ نمبردار کی بجائے آپ چودھری کا لفظ استعمال کرتے اور فرماتے کہ اب چودھری بھی چلے جائیں.یعنی وہ لوگ جو میرے بار بار کہنے کے باوجود اپنی جگہ سے نہیں ہلتے اور اپنے آپ کو چودھری یا نمبر دار سمجھتے ہیں وہ بھی چلے جائیں.اس پر وہ شرمندہ ہو کر اُٹھ کھڑے ہوتے.تو جب بھی لوگوں سے یہ کہا جائے کہ فلاں کام کرو تو اکثر لوگ یہ خیال کرنے لگ جاتے ہیں کہ اس سے مراد ہم نہیں بلکہ اور لوگ ہیں.یہی حال مسلمانوں کا ہے.وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ مسلمان اہلِ کتاب ہیں مگر

Page 429

$1956 416 خطبات محمود جلد نمبر 37.ہر مسلمان جب بھی اہلِ کتاب کا لفظ قرآن کریم میں پڑھتا ہے کہتا ہے کہ اس سے یہودی اور عیسائی مراد ہیں.حالانکہ یہ حکم مسلمانوں کے لیے بھی ویسا ہی ہے جیسا کہ یہود کے لیے.اور اس میں ایک اعلیٰ درجہ کا نکتہ بتایا گیا ہے جس سے ہر انسان فائدہ اُٹھا سکتا ہے.اللہ تعالیٰ اس آیت میں فرماتا ہے کہ دیکھو! تم پر ہماری طرف سے بڑی بھاری ذمہ داری عائد ہے اور تمہیں ہمارے سامنے ان ذمہ داریوں کے متعلق جواب دینا پڑے گا.ہم تمہیں اپنی حفاظت کا ایک طریق بتاتے ہیں اور تمہیں نصیحت کرتے ہیں کہ قرآن میں جو کچھ کیا گیا ہے اس پر ایمان لاؤ اور پھر ایمان لا کر متقی لوگوں کی طرح اس پر عمل کرو بہانہ سازیاں نہ کرو.جیسے ہندو سخت سردی کے موسم میں بعض دفعہ غسل سے بچنے کے لیے بہانہ سازی سے کام لینے لگ جاتے ہیں.لطیفہ مشہور ہے کہ ایک دن سخت سردی میں صبح سویرے ایک برہمن اشنان کرنے کے لیے دریا کی طرف چل پڑا.سردی کی وجہ سے اُس کا جی نہیں چاہتا تھا کہ اشنان کرے.مگر ساتھ ہی سمجھتا تھا کہ اگر آج میں نہ نہایا تو سارے گاؤں میں بدنام ہو جاؤں گا اور لوگ کہیں گے کہ اس نے اشنان نہیں کیا.اس خیال میں وہ جا رہا تھا کہ اُسے رستہ میں ایک اور برہمن ملا جو دریا سے واپس آ رہا تھا.وہ اُس سے کہنے لگا کہ پنڈت جی! آج تو بڑی سردی ہے.اس نے کہا ہاں! بڑی سردی ہے.کہنے لگا پھر آپ نے اشنان کس طرح کیا ہے؟ اُس نے کہا میں دریا پر گیا تو میں نے ایک کنکر اُٹھا کر دریا میں پھینک دیا اور میں نے کہا ” تو را آشنان سو مورا اشنان“.یعنی اسے کنکر ! جب تو نے غسل کر لیا تو میرا غسل بھی ہو گیا.اور یہ کہہ کر میں واپس آ گیا.اس پر اُس نے وہی زمین پر سے ایک کنکر اُٹھا کر اُس کی طرف پھینکا اور کہنے لگا تو را آشنان سومورا اُشنان یعنی تیرا غسل ہو گیا تو پھر تیرے غسل کی وجہ سے میرا غسل بھی ہوتی گیا.اب مجھے دریا پر جانے کی ضرورت نہیں رہی.اسی طرح بعض لوگ بات تو مان لیتے ہیں مگر بہانہ سازی ترک نہیں کرتے اور ہمیشہ کوشش کرتے ہیں کہ جس طرح بھی حکم کو ٹالا جا سکے اُسے ٹال دیا جائے.ہماری فقہ کی کتابوں میں لکھا ہے کہ عید کی نماز صرف شہر میں ہوتی ہے شہر سے باہر

Page 430

$1956 417 خطبات محمود جلد نمبر 37 نہیں ہوتی.ادھر رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے کہ قربانی ہمیشہ عید کے بعد ہوتی ہے.اب بعض علماء نے یہ سوال اُٹھایا ہے کہ اگر کوئی شخص عید سے پہلے قربانی کے گوشت کھانا چاہے تو وہ کیا کرے؟ گویا انہوں نے سمجھا کہ خدا تعالیٰ کے حکم کو توڑنے میں بڑا مزا ہے.کوئی نہ کوئی ایسی تدبیر سوچنی چاہیے کہ عید سے پہلے قربانی کا گوشت کھایا جا سکے.چنانچہ انہوں نے اس کی تدبیر یہ نکالی کہ چونکہ عید کی نماز شہر میں ادا کرنے کا حکم ہے اس لیے اگر کوئی عید سے پہلے گوشت کھانا چاہے تو اس کا طریق یہ ہے کہ وہ اپنے کسی دوست کو بکری دے دے اور اُسے کہے کہ شہر سے تین میل پرے لے جاؤ اور وہاں اُسے ذبح کرو اور پھر اس کا گوشت شہر میں لے آؤ.اس طرح عید سے پہلے گوشت بھی کھایا جا سکے گا اور حکم بھی پورا ہو جائے گا.گویا ایسے مسلمانوں کو شریعت کے توڑنے میں ہی مزا آتا ہے اس پر عمل کرنے میں نہیں آتا.اللہ تعالیٰ اس آیت میں فرماتا ہے کہ وَلَوْ اَنَّ أَهْلَ الْكِتَبِ أمَنُوا اتَّقَوْالَكَفَرُنَا عَنْهُمْ سَيَّاتِهِمُ اگر اہلِ کتاب ہماری باتوں پر ایمان لاتے اور پھر اس پر عمل بھی کرتے مگر بہانہ سازی سے نہیں بلکہ جس طرح متقی عمل کرتے ہیں تو ہم دو باتوں میں سے ایک بات ضرور کرتے لَكَفَرْنَا عَنْهُمْ سَيَّاتِهِمْ یا تو ہم اُن کے وہ دلوں سے بدیوں کی رغبت مٹا دیتے یا اُن کی بدیوں پر پردہ ڈال دیتے.بہرحال اس کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ کے حضور پاک صاف حاضر ہوتے.اگر بدی کی رغبت ہم ان ان کے دلوں سے مٹا دیتے یا اُن کی بدیوں سے ہم اپنی آنکھیں بند کر لیتے تو دونوں صورتوں میں اُن کا حساب صاف ہو جاتا اور وہ ہر قسم کے خطرہ سے باہر نکل جاتے.غرض اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اس امر کی طرف توجہ دلائی ہے کہ تمہاری فطرت میں جو یہ خواہش پائی جاتی ہے کہ تمہاری غلطیوں سے چشم پوشی کی جائے اور تمہارے ساتھ عفو معاملہ کیا جائے.اس کو پورا کرنے کے سامان موجود ہیں.ضرورت اس امر کی ہے کہ تم قرآن پر ایمان لاؤ اور پھر سچے دل سے اس پر عمل کرنے کی کوشش کرو.اگر تم ایسا کرو گے تو یا ہم تمہارے دلوں سے بدی کی رغبت مٹا دیں گے یا تمہاری بدیوں

Page 431

خطبات محمود جلد نمبر 37 418 $1956 ایسا پردہ ڈال دیں گے کہ وہ کسی کو نظر نہیں آئیں گی اور اس طرح تمہاری غرض پوری ہو جائے گی.(الفضل 6 اکتوبر 1956ء) 1 : المائدة: 66 2 : شَهِدَ عَلَيْهِمْ سَمْعُهُمْ وَأَبْصَارُهُمْ وَجُلُودُهُمْ بِمَا كَانُوا يَعْمَلُونَ (حم السجده : 21) 3 : بخاری کتاب العيدين باب الاكل يوم النحر

Page 432

$1956 419 38.خطبات محمود جلد نمبر 37 اگر تم قرآن کریم کو اس یقین سے پڑھو کہ اس میں ہر اعتراض کا جواب موجود ہے تو اس کے مطالب تم پر پ ہی آپ کھلتے چلے جائیں گے اور تمہیں اللہ تعالیٰ کی راہنمائی حاصل ہو جائے گی آب (فرموده 28 ستمبر 1956ء بمقام ربوہ ) تشهد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: ”ہمارے ملک کے لوگوں میں عام طور پر یہ عیب پایا جاتا ہے کہ وہ گزشتہ لوگوں کی اچھی باتوں کو بھی صرف اس لیے کہ اُن پر ایک زمانہ گزر چکا ہے نظر انداز کر دیتے ہیں اور اُن سے فائدہ اُٹھانے کی کوشش نہیں کرتے.كُلُّ جَدِيدِ لَذِيذ شاید ہمارے ملک کے لیے ہی کہا گیا ہے ورنہ یورپ والوں کو دیکھا جائے تو وہ اپنے سکولوں میں اٹھارویں صدی کے آخر تک سپین کی لکھی ہوئی کتابیں پڑھاتے رہے ہیں اور اب تک وہ ان علوم کی تلاش میں لگے

Page 433

$1956 420 خطبات محمود جلد نمبر 37 ہوئے ہیں جو پرانے زمانوں میں مسلمانوں نے یا دوسری اقوام نے نکالے تھے.مثلاً فراعنہ کی قوم میں جو ممیوں کے لیے ایجادیں کی گئی تھیں یورپ والوں نے اُن کی جستجو چھوڑی نہیں بلکہ ابھی تک وہ ان کی تحقیق میں لگے ہوئے ہیں کیونکہ وہ کہتے ہیں کہ جو طریق ہم نے بڑی محنت اور دماغ سوزی کے بعد نکالا ہے وہ ناقص ہے.ہم بعض دوائیں نسوں میں بھر کر لاشوں کو محفوظ تو رکھ سکتے ہیں مگر ان دواؤں کا اثر صرف آٹھ دس دن تک رہتا ہے.اس کے بعد لاش محفوظ نہیں رہ سکتی.لیکن فراعنہ کے وقت میں جن لاشوں کو دوائیں لگا کر محفوظ کیا گیا تھا وہ ہزاروں سال تک بھی خراب نہیں ہوئیں.میں نے خود منفتاح کی لاش کو (جو حضرت موسی علیہ السلام کے زمانہ کا فرعون تھا) آج تک محفوظ دیکھا ہے.ہمارا تو یہی یقین ہے کہ منفتاح حضرت موسی علیہ السلام کے زمانہ کا ہی فرعون تھا کیونکہ اس سے قرآن کریم کی ایک پیشگوئی پوری ہوتی ہے.لیکن عیسائیوں کی یہ عادت ہے کہ وہ اسلام کی ہر بات کو جھوٹا ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں.وہ کہتے ہیں کہ منفتاح حضرت موسی علیہ السلام کے زمانہ کے فرعون کا بیٹا تھا تا کہ قرآن کریم کی پیشگوئی جھوٹی ثابت ہو.لیکن ان کی قرآن کریم سے دشمنی تو ہمیشہ سے چلی آئی ہے اس لیے ان کا یہ رویہ کوئی قابلِ تعجب نہیں.بہر حال فراعنہ کے وقت میں لاشوں میں جو دوائیاں بھری جاتی تھیں اُن کی وجہ سے وہ لاشیں کئی کئی ہزار سال سے محفوظ چلی آتی ہیں اور آجکل کے لوگوں کی ایجاد کردہ دوائیں ابھی تک اُن کا مقابلہ نہیں کر سکیں.یہی حال دوسرے علوم کا ہے.میں یورپ سے علاج کرا کے واپس آیا تو اگر چہ اُس وقت ستمبر کا مہینہ تھا مگر میرے جسم میں یہ علامت ظاہر ہوئی کہ رات کو کپڑا اوڑھنے کے باوجود مجھے شدید سردی لگتی جس.میرا جسم تھر تھر کانپنے لگ جاتا.ڈاکٹروں نے اس کا بہت علاج کیا مگر کوئی فائدہ نہ ہوا.آخر یہ تجویز ہوئی کہ کسی طبیب کو بلایا جائے.چنانچہ ایک طبیب کو جو حکیم انصاری صاحب نابینا کے بیٹے ہیں دہلی سے بلانے کی کوشش کی گئی لیکن انہوں نے اتنی فیس مانگی جو ہمیں معقول نظر نہ آئی اس لیے ہم نے انہیں بلانے کا ارادہ ترک کر دیا.لیکن تھوڑے ہی دنوں کے بعد یکدم اُن کا تار آیا کہ میں لاہور آ گیا ہوں مجھے بلا لیا جائے.چنانچہ ہم نے انہیں بلا لیا.

Page 434

خطبات محمود جلد نمبر 37 421 $1956 جب وہ یہاں آئے تو میں نے اُن سے پوچھا کہ آپ یہاں کیسے آ گئے؟ انہوں نے ک کہا میرے چھوٹے بھائی لاہور میں رہتے ہیں.ان کی بیوی اور میری بیوی دونوں بہنیں ہیں.ان کی تار پہنچی کہ ان کی بیوی کو ٹھے پر سے گر گئی ہے اور اسے فالج ہو گیا ہے.اس خبر کے پہنچتے ہی میری بیوی رونے لگ گئی.میں نے اسے تسلی دی لیکن اسے اطمینان نہ ہوا.آخر میں نے اسے کہا کہ میں خود لاہور جاتا ہوں اور مریضہ کا علاج کرتا ہوں.چنانچہ میں لاہور آ گیا.میں نے سمجھا کہ خدا تعالیٰ مجھے لاہور محض آپ کی خاطر لایا ہے.اس لیے میں نے لاہور پہنچتے ہی آپ کو تار کے ذریعہ اطلاع دے دی.بہر حال وہ طبیب یہاں آئے اور دودن تک یہاں رہے.انہوں نے جو دوائی مجھے دی اُس کی ایک ہی خوراک کھانے سے وہ مرض دور ہو گیا اور میرا جسم گرم ہو گیا.اب دیکھ لو طب کو ہمارے ملک والے بالخصوص تعلیم یافتہ طبقہ بہت حقیر سمجھتا ہے لیکن یورپ میں بھی بڑے بڑے ڈاکٹر موجود تھے جن کا علاج کروایا گیا اور لاہور میں بھی بڑے بڑے ڈاکٹر موجود ہیں جن سے مشورہ لیا گیا.پھر بھی اُن کی بتائی ہوئی کسی دوائی.فائدہ نہ ہوا.لیکن اس طبیب کی بتائی ہوئی دوائی کی ایک ہی خوراک سے وہ مرض دور ہو گئی بلکہ اس نے ایسا اثر کیا کہ بجائے سردی لگنے کے مجھے پسینہ آنے لگ گیا.اب دیکھ لو یہ پرانی طب تھی جس نے مجھ پر اثر کیا.گالیاں دینے کو کوئی سو دفعہ پرانی طلب کو گالیاں دے لے لیکن مجھے اس کا ذاتی تجربہ ہے کہ جہاں ڈاکٹروں کا علاج ناکام ہوا وہاں ایک طبیب کے بتائے ہوئے علاج سے فائدہ ہو گیا.اب اس تجربہ کو کیسے چھپایا جائے.جرمن ڈاکٹر جس سے میں نے علاج کرایا تھا اور جس پر مجھے بھی اعتماد ہے اُسے لکھا گیا تو اُس نے کہا کہ جو دوائی میں نے آپ کو بتائی تھی اُس کی ایک گولی زیادہ کھا لیا کریں.میں نے کہا کہ میں تو چھ چھ ، سات سات گولیاں کھا جاتا ہوں.حالانکہ یورپ والے کہتے ہیں کہ دو تین گولیوں سے زیادہ نہیں کھانی چاہیں.مگر اس سے کوئی فائدہ نہیں ہوا.کہنے لگا بس ! یہی علاج ہے کہ ایک گولی اور کھا لیا کریں.جس طرح جسمانی باتوں میں یہ چیز پائی جاتی ہے اسی طرح دینی باتوں میں بھی یہ چیز پائی جاتی ہے اور پرانے علماء کی کتابوں میں ایسے معلومات کا ایک اچھا خاصا ذخیرہ

Page 435

$1956 422 خطبات محمود جلد نمبر 37 موجود ہے.مثلاً آج ہی میں تفسیری نوٹ لکھا رہا تھا کہ وہاں یہ ذکر آیا کہ حضرت موسی علیہ السلام نے سونٹا پھینکا تو وہ ایک چھوٹے سانپ کی طرح دوڑنے لگ گیا 1 مگر دوسری جگہ ذکر آتا ہے کہ وہ ایک عام سانپ کی طرح چلنے لگا 2 اور تیسری جگہ یہ لکھا ہے کہ حضرت موسی علیہ السلام نے سونٹا پھینکا تو وہ ایک اثر دہا بن گیا.3 ان تینوں مقامات پر سانپ کے لیے مختلف الفاظ کیوں استعمال کیے گئے ہیں؟ کیوں اسے ایک جگہ حَيَّةٌ اور دوسری جگہ جان اور تیسری جگہ شُعْبَانُ کہا گیا ہے؟ میں اس کا جواب لکھوا رہا تھا کہ مجھے یاد آیا بچپن میں میں نے ایک مصری عالم کی کتاب پڑھی تھی اُس میں اسی اعتراض کا جو جواب دیا گیا تھا وہ بالکل درست تھا.اور وہ جواب یہ تھا کہ جان چھوٹے سانپ کو کہتے ہیں ، حَيَّةٌ چھوٹے اور بڑے دونوں قسم کے سانپوں کے لیے استعمال ہوتا ہے اور تعبان بڑے سانپ کے لیے بولا جاتا ہے.ان تینوں الفاظ کے استعمال سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ ان میں تضاد پایا جاتا ہے لیکن غور سے دیکھائی جائے تو کوئی تضاد نہیں.جہاں قرآن کریم نے جان کا لفظ استعمال کیا ہے وہاں اس سانپ کی تیزی کا ذکر ہے اور یہ بتانا مقصود ہے کہ جب حضرت موسی علیہ السلام نے سونا پھینکا تو وہ چھوٹے سانپ کی طرح تیزی سے دوڑ نے لگ پڑا.وہاں اس کی شکل کا ذکر نہیں کہ وہ چھوٹا تھا.یا بڑا.بلکہ یہ بتانا مدنظر ہے کہ چھوٹے سانپ کی طرح اُس میں تیزی پائی جاتی تھی.لیکن جہاں ت ، ثُعبان کا لفظ آیا ہے وہ آیات پڑھی جائیں تو معلوم ہوگا کہ وہ واقعہ فرعون کے سامنے ہوا ہے اور فرعون کو چونکہ ڈرانا مقصود تھا اس لیے اسے شُعبان کی شکل میں سونٹا دکھائی دیا اور حَيَّةٌ کا لفظ چھوٹے اور بڑے دونوں قسم کے سانپوں کے لیے بولا جاتا ہے.پس قرآنی آیات میں کوئی تضاد نہ رہا.اب دیکھ لو اس اعتراض کا جواب میں نے خود ایجاد نہیں کیا اور نہ ہی ہی میں نے کسی احمدی عالم یا حضرت خلیفہ المسیح الاول سے سیکھا ہے بلکہ میں نے یہ جواب ایک مصری عالم کی کتاب میں پڑھا جو بچپن میں میری نظر سے گزری تھی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی وفات کے معاً بعد 1909ء یا 1910 ء کی بات ہے جبکہ میری عمر کوئی اکیس برس کی تھی کہ اُس وقت میں نے ایک کتاب قصص القرآن منگوائی.اس کتاب میں مصنف نے یہ ثابت کیا ہے کہ واقعات کے بیان میں احادیث میں بیشک بعض

Page 436

$1956 423 خطبات محمود جلد نمبر 37 باتیں زائد دکھائی دیتی ہیں مگر قرآن کریم پر پورا غور کیا جائے تو اس کی آیات میں کوئی اختلاف نظر نہیں آتا.اس کتاب میں جہاں تک مجھے یاد ہے تمیں یا چالیس واقعات کا ذکر ہے اور اس میں مصنف نے اپنی سمجھ کے مطابق تمام ایسے اختلافات کو دور کر دیا ہے جو بظاہر قرآن میں دکھائی دیتے ہیں.اس کتاب میں مصنف نے جَانٌّ، ثُعبان اور حَيَّةٌ کے الفاظ کے فرق کو بیان کر کے اس تضاد کو دور کیا ہے جو قرآنی آیات میں دکھائی دیتا ہے اور اُس نے جو جواب دیا ہے وہ نہایت معقول ہے.آج جبکہ میں تفسیری نوٹ لکھوا رہا تھا مجھے وہ جواب یاد آ گیا اور میں نے سمجھا کہ تحدیث بالنعمت کے طور پر اس بات کا اقرار کروں کہ میں نے یہ نکتہ ایک مصری مصنف سے سیکھا ہے.اسی طرح چھوٹی چھوٹی نحوی تراکیب کی وجہ سے معانی میں جو فرق پڑتا ہے اس کو میں نے ہسپانیہ کے ایک بڑے عالم ابوحیان کی تفسیر بر محیط سے اخذ کیا ہے.علامہ ابو حیان کو نحو کے استعمال میں بہت مہارت حاصل تھی اور وہ چھوٹے چھوٹے نکتوں سے بڑے بڑے معانی اکر لیتے تھے اور وہ اعتراضات جن کے جوابات علماء کو ساری عمر قرآن کریم پر غور کرنے کے بعد بھی سمجھ میں نہیں آتے تھے انہیں آسانی سے حل کر لیتے تھے.اسی طرح تفسیر بالا حادیث کی بہت سی کتابیں موجود ہیں مثلاً علامہ سیوطی کی کتاب در منشور ہی ہے لیکن ابنِ کثیر نے اس بارہ میں نہایت قیمتی مواد جمع کیا ہے.وہ احادیث کو نقل کرتے ہیں تو زیادہ تر بخاری اور مسند احمد بن حنبل کی روایات لاتے ہیں اور ان کا ایسا موازنہ کرتے ہیں کہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی علیحدہ ہو جاتا ہے.بہر حال پرانی تفاسیر پڑھ کر معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے گزشتہ بزرگوں نے اپنے اپنے زمانہ میں بڑی محنت کی ہے.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اُن سے بعض غلطیاں بھی ہوئی ہیں لیکن بہر حال اُن کی محنت قابلِ داد ہے.چونکہ قرآن کریم پر زیادہ تر اعتراضات اس زمانہ میں ہوئے ہیں اس لیے اس زمانہ میں در حقیقت قرآن کریم ہمیں دشمنانِ اسلام نے ہی سکھایا ہے.بچپن میں جب مجھے قرآن کریم اور احادیث کے مطالعہ کا شوق پیدا ہوا اُس وقت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی الماریوں میں مخالفین اسلام کی کئی کتابیں رکھی ہوئی ہوتی تھیں مثلاً پادری عبداللہ آتھم کی کتابیں تھیں، پادری وارث دین کی کتابیں تھیں.

Page 437

$1956 424 خطبات محمود جلد نمبر 37 ہے اسی طرح اور کئی کتابیں تھیں ان میں اسلام پر اعتراضات ہوتے تھے.میں نے پہلے اُن اعتراضات کو پڑھا اور بعد میں ان اعتراضات کو دور کرنے کی نیت سے میں نے قرآن کریم کا مطالعہ کیا.اگر میں مخالفین اسلام کی کتابیں نہ پڑھتا تو میرا اُن اعتراضات کی طرف ذہن نہیں اسکتا تھا جو انہوں نے کیے ہیں.پس قرآن کریم کے پڑھنے میں جہاں ہمارے پرانے ائمہ نے ہماری مدد کی.وہاں ایک حد تک پادریوں نے بھی ہماری مدد کی ہے.یہ بات تو اُس زمانہ کی ہے جب میں صرف اُردو جانتا تھا.جب انگریزی زبان سیکھ لی تو مستشرقین کی کتب سے بڑی مدد ملی.مثلاً و ہیری (Wherry) کی کتابیں ہیں، نولڈ کے، میور ، سیل 4 اور پامر 5 وغیرہ کی کتابیں ہیں.ان کتابوں کے پڑھنے کے بعد جب میں نے قرآن کریم پر غور کیا تو میرا ذہن ان سب اعتراضات کے جوابات کے لیے تیار ہو گیا جو ان دشمنانِ اسلام نے کیسے تھے.اگر پہلے سے ان کے اعتراضات ذہن میں نہ ہوتے تو ممکن تھا کہ میں بھی ان آیات پر سے یونہی گزر جاتا اور سمجھتا کہ ان پر کوئی اعتراض نہیں پڑتا.لیکن ان لوگوں نے پہلے سے کئی اعتراضات ذہن میں ڈال دیئے تھے جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ جب میں نے قرآن کریم پڑھا میں نے اپنے اوپر فرض کر لیا کہ ان اعتراضات کو دور کرنا ہے.اور جب میں نے اس نقطہ نگاہ سے قرآن کریم کا مطالعہ کیا تو اللہ تعالیٰ نے مجھے ان تمام اعتراضات کا جواب سمجھا دیا.میں نے دیکھا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے علوم میں اسی طرح ترقی بخشی ہے کہ میں نے کبھی کسی معترض کے اعتراض کو غیر اہم نہیں سمجھا بلکہ جو بھی اعتراض کسی معترض نے کیا میں نے اسے اہم سمجھا اور اُس کا جواب دینے کی کوشش کی.بعض لوگ اس قسم کے ہوتے ہیں کہ اگر کوئی اعتراض کرے تو ہنس پڑتے ہیں اور کہتے ہیں یہ بھی کوئی اعتراض ہے.ایسے لوگوں کو جواب نہیں سو جھتا.لیکن جو لوگ عقل سے موازنہ کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اگر ایک شخص کو دھوکا لگا ہے تو دوسرے کو بھی دھوکا لگ سکتا ہے اور پھر تیسرے کو بھی دھوکا لگ سکتا ہے بلکہ اگر ایک شخص کو صحیح اور جائز طور پر دھوکا لگ گیا ہے تو ہمیں ہزار کو بھی صحیح اور جائز طور پر دھوکا لگ سکتا ہے.اس لیے ہمیں ان اعتراضات کو حل کرنا چاہیے.اللہ تعالیٰ ان کی کامیابی کے

Page 438

خطبات محمود جلد نمبر 37 425 $1956 رستے کھول دیتا ہے اور ان پر تمام اعتراضات کی حقیقت واضح کر دیتا ہے.اگر کوئی شخص محض بے ایمانی سے اعتراض کرتا ہے تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ اس شخص نے بے ایمانی سے اعتراض کیا ان ہے لیکن اگر ہمیں معلوم ہو کہ دھوکا لگنے کی کوئی وجہ موجود تھی اور معترض کے پاس کوئی نہ کوئی کی دلیل تھی تو ہمیں اس پر غور کرنا چاہیے.اور اگر ہم ایمانداری سے غور کریں تو یقیناً ہماری توجہ اس طرف پھر جائے گی کہ اگر ایک شخص کو کسی دلیل کی وجہ سے ٹھوکر لگی ہے تو اور اشخاص کے لیے بھی وہی دلیل ٹھوکر کا موجب ہو سکتی ہے.اس لیے ہمارا فرض ہے کہ ہم اس اعتراض کو دُور کریں تا کہ ان لوگوں کو ایمان نصیب ہو.بہر حال مجھے اللہ تعالیٰ نے اس ذریعہ سے بہت سے علوم عطا فرمائے ہیں.اسی طرح میری تفسیر میں اور بھی بہت سے نکات ایسے آتے ہیں جن کا موجب عیسائی اور آریہ دشمن تھے.اگر ان کے اعتراضات نہ ہوتے تو میں غالباً وہ نکات کی بیان نہ کر سکتا اور میری توجہ ان کی طرف نہ پھرتی.میں نے دیکھا ہے کہ آریہ لوگ تو یونہی کی اعتراض کر دیتے ہیں جنہیں عقلی طور پر بڑی آسانی سے رڈ کیا جا سکتا ہے لیکن عیسائی مستشرق تاریخ کی بڑی گہری تحقیق کرنے کے بعد اعتراض کرتے ہیں اور لازمی طور پر اُن کا جواب دینے میں بھی بڑی تحقیق کرنی پڑتی ہے جس سے بہت کچھ علوم کھل جاتے ہیں.لیکن شرط یہی ہے کہ انسان قرآن کریم پر کامل ایمان رکھتا ہو.بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ اگر اعتراض پکا ہو گیا تو قرآن کریم کے متعلق شبہ پڑ جائے گا.لیکن میرا ایمان یہ ہے کہ جتنا اعتراض پکا ہو اتنا ہی قرآن کریم کی عظمت کا ظہور ہوتا ہے کیونکہ اگر پکے اعتراض کا جواب پہلے سے قرآن کریم میں موجود ہو تو یہ اس کی بڑائی اور عظمت کی دلیل ہو گی.محض بریکار باتوں کا جواب تو ہر کوئی دے سکتا ہے.کامل انسان کا ثبوت یہی ہوتا ہے کہ وہ کامل اعتراض کو توڑے.اگر یورپین مصنف اور مؤرخ بڑی سوچ بچار کے بعد کوئی اعتراض کریں اور اُس اعتراض کا جواب قرآن کریم کی انہی آیات میں مل جائے تو صاف پتا لگ جائے گا کہ یہ کلام کسی عالم الغیب ہستی نے اُتارا ہے جسے پتا تھا کہ اُنیسویں ! بیسویں صدی میں اس آیت پر عیسائی مصنفین فلاں فلاں اعتراض کریں گے.اس لیے اس نے تیرہ سو سال پہلے ان اعتراضات کا جواب دے دیا.پس یہ ایمان کے بڑھانے والی.

Page 439

$1956 426 خطبات محمود جلد نمبر 37 بات ہے کیونکہ اس سے انسان کو یقین ہو جاتا ہے کہ یہ کتاب کسی انسان کی نازل کردہ نہیں بلکہ خدا تعالی کی نازل کردہ ہے.اگر یہ کتاب کسی انسان کی بنائی ہوئی ہوتی تو اس میں ہزار دو ہزار سال بعد میں اُٹھائے جانے والے اعتراضات کا جواب نہ ہوتا.کیونکہ انسان کے ذہن میں وہی اعتراضات آ سکتے ہیں جو وہ خود نکالے یا اُس کے زمانہ کے لوگوں نے کیے ہوں.لیکن قرآن کریم میں تو اُن اعتراضات کا بھی جواب ہے جو ہزار دو ہزار سال بعد میں آنے والے لوگوں نے کرنے تھے اور ہزار دو ہزار سال بعد میں ہونے والے اعتراضات کا علم صرف خدا تعالیٰ کو ہی ہو سکتا ہے ورنہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان اعتراضات کا علم کیسے ہو سکتا تھا.پس اگر ان اعتراضات کا جواب جو بیسویں صدی میں ہونے تھے قرآن کریم میں موجود ہے تو صاف پتا لگ گیا کہ یہ کتاب خدا تعالیٰ کی بھیجی ہوئی ہے کسی انسان کی تصنیف نہیں.غرض قرآن کریم کو سمجھنے کے لیے ضروری ہوتا ہے کہ غیر مسلموں خصوصاً یور بین مصنفوں کی کتابوں کو پڑھا جائے کیونکہ جیسا کہ میں نے بتایا ہے ہندوؤں نے جو اعتراضات اسلام پر یا قرآن کریم پر کیسے ہیں وہ زیادہ تر ضد اور تعصب کی وجہ سے کیسے ہیں اور ایسے اعتراضات کا جواب آسانی سے دیا جا سکتا ہے.ان کے لیے کسی تحقیق کی ضرورت نہیں ہوتی.لیکن عیسائی لوگ قرآن کریم پر غور کرنے اور بڑی چھان بین کرنے کے بعد اعتراض کرتے ہیں.میں نے دیکھا ہے کہ قرآن کریم کی سورتوں کے نزول اور ترتیب کے متعلق عیسائیوں نے وہ وہ باتیں لکھی ہیں جو بڑے بڑے مسلمان مفسرین نے بھی نہیں لکھیں.وہ لکھتے تو قرآن کریم کو رڈ کرنے کے لیے ہیں لیکن بعض اوقات خود ہی پھنس جاتے ہیں.مثلاً سورۃ قصص جس میں ہجرت کی پیشگوئی پائی جاتی ہے اس کے متعلق عیسائی مصنفین بڑا زور مارنے اور تحقیق کرنے کے بعد لکھتے ہیں کہ یہ مکی سورۃ ہے.حالانکہ اگر یہ ایک ثابت شدہ حقیقت ہے کہ سورۃ مکی ہے تو ساتھ ہی یہ بات بھی ثابت ہو گئی کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی سچے ہیں کیونکہ اگر یہ سورۃ مکی ہے تو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کیسے پتا لگ گیا تھا کہ میں ملتے سے ہجرت کروں گا اور اس کے بعد میں ایک فاتح کی حیثیت سے دوبارہ اس شہر میں داخل

Page 440

$1956 427 خطبات محمود جلد نمبر 37 ہوں گا.اگر باوجود اس کے کہ آپ کو اپنے مستقبل کے متعلق کوئی علم نہیں تھا آپ یہ پیشگوئی کی فرماتے ہیں اور پھر وہ پوری بھی ہو جاتی ہے تو یہ آپ کی صداقت کی واضح دلیل ہے.پس عیسائی مستشرق اس سورۃ کو مکی کہہ کر خود پھنس گئے اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت ثابت کر گئے.اگر وہ یہ لکھ دیتے کہ یہ سورۃ مدنی ہے تو کہا جا سکتا تھا کہ مدینہ میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو طاقت حاصل ہو گئی تھی.اس لیے اس قسم کی پیشگوئی کرنا کوئی مشکل امر نہیں تھا.لیکن انہوں نے اس سورۃ کو مکی قرار دیا اور اسی طرح اپنی تحقیق سے خود محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت کا اظہار کر دیا.عجیب بات یہ ہے کہ ہمارے مفسرین کہتے ہیں کہ اس سورۃ میں بعض آیات مدنی بھی ہیں لیکن عیسائی مصنفین اسے خالص مکی سورۃ قرار دیتے ہیں اور اس طرح وہ اپنے ہاتھ خود کاٹتے اور اسلام کی صداقت کا ثبوت مہیا کرتے ہیں.پس غیر مسلموں کے اعتراضات کو پڑھ کر ایک سچے مومن کا ایمان بڑھتا ہے کیونکہ ان سے پتا لگتا ہے کہ دشمن نے قرآن کریم پر حملہ کی جو راہیں تلاش کی تھیں خدا تعالیٰ نے ان کو پہلے سے بند کر رکھا ہے اور ہزار دو ہزار سال بعد جو اعتراضات وارد ہونے تھے ان کا جواب پہلے ہی قرآن کریم میں موجود ہے.بعض عیسائی مصنفین لکھتے ہیں کہ ہمیں سورتوں کے اسٹائل (STYLE) سے پتا لگ ہے کہ اس کی فلاں آیت مدنی ہے اور فلاں مکی.ہم کہتے ہیں اگر یہ بات درست ہے کہ تمہیں قرآن کریم کے اسٹائل سے ہی پتا لگ جاتا ہے کہ اس کی فلاں آیت مکی ہے اور فلاں مدنی تو یہ قران کریم کا کتنا بڑا کمال ہے کہ خدا تعالیٰ نے اس سورۃ کو جس میں ہجرت کی پیشگوئی تھی اس اسٹائل میں اُتارا جس کی وجہ سے تم نے یہ فیصلہ کرنا تھا کہ یہ سورۃ مکی ہے اور اس کی وجہ سے تمہیں اپنی زبان سے اس بات کا اقرار کرنا پڑا کہ مکی زندگی میں ہجرت اور فتح مکہ کے متعلق جو پیشگوئی قرآن کریم نے کی تھی وہ سچی نکلی ورنہ اگر یہ کسی انسان کی بنائی ہوئی کتاب ہوتی تو اسے اس بات کا کیسے علم ہو سکتا تھا کہ آج سے اتنے سالوں کے بعد وہیری، نولڈ کے اور دیگر مستشرقین نے کسی سورۃ کے اسٹائل کی وجہ سے اسے مکی یا مدنی کہنا ہے اس لیے اس کا اسٹائل ایسا رکھو کہ اس سورۃ کے پڑھتے ہی ہر شخص معلوم کر لے کہ یہ مکی ہے.پھر کیا یہ عجیب بات نہیں

Page 441

$1956 428 خطبات محمود جلد نمبر 37 کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں قرآن کریم کے نازل کرنے والی ہستی کو تو ان اعتراضات کا علم تھا جو بیسویں صدی کے عیسائی مصنفین نے کرنے تھے لیکن ان عیسائیوں کو خود بیسویں صدی میں بھی یہ علم نہیں کہ ہم نے ان آیتوں کی کیا تفسیر کرنی ہے.وہ ایک آیت پر اعتراض کرتے ہیں لیکن اس آیت کی جب ہم تفسیر کرتے ہیں تو ان کا اعتراض رڈ ہو جاتا ہے اور اس طرح قرآن کریم کی فضیلت اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت دنیا پر ظاہر ہو جاتی ہے.یہ ثبوت ہوتا ہے اس بات کا کہ یہ کلام کسی انسان کا بنایا ہوا نہیں بلکہ عالم الغیب خدا کا اُتارا ہوا ہے اور اس کثرت سے اس میں علم غیب بھرا ہوا ہے کہ ہر آیت سے کوئی نہ کوئی نیا نکتہ نکل آتا ہے.گویا جیسے پنجابی میں کہتے ہیں کہ اینٹ اینٹ کے نیچے فلاں چیز موجود ہے.اسی طرح تم کوئی آیت اُٹھاؤ اس کے نیچے سے ایک معجزہ نکل آتا ہے اور اس طرح قرآن کریم سارے کا سارا معجزوں سے بھرا ہوا دکھائی دیتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ میں کسی شخص نے آپ سے سوال کیا کہ قرآن کریم میں مومنوں کے متعلق أُولَبِكَ عَلَى هُدًى مِنْ رَّبِّهِمْ 6 آتا ہے حالانکہ یہاں عَلَى هُدًی کی بجائے أُولَئِكَ يُهْدَوْنَ إِلَى الْھدی ہونا چاہیے تھا یعنی ان کو ہدایت کی طرف لے جایا جاتا ہے.علی کا استعمال یہاں کس حکمت کے ماتحت کیا گیا ہے؟ آپ نے فرمایا علی ھدی کے یہ معنے ہیں کہ مومن اس طرح ہدایت پر سوار ہوتا ہے جیسے کوئی شخص گھوڑے پر سوار ہو.گویا جس طرح گھوڑا سوار کے تابع ہوتا ہے اسی طرح ہدایت مومن کے قبضہ میں ہوتی ہے اور وہ اس پر سوار ہو کر اپنی منزلِ مقصود تک پہنچ جاتا ہے.گویا معترض نے جس آیت پر اعتراض کیا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اُسی سے اُس کے اعتراض کو رڈ کر دیا اور قرآن کریم کی برتری اور اس کی فضیلت کو ثابت کر دیا.پس قرآن کریم کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ انسان اس کے پڑھنے سے پہلے اس بات پر ایمان لائے کہ یہ خدا تعالیٰ کی طرف سے نازل کردہ کلام ہے.اس کے بعد وہ دشمن کے اعتراضات کو پڑھے اور یقین کرے کہ ہر اعتراض کا جواب قرآن کریم میں موجود ہے.وہ کسی اعتراض کو بلا وجہ رڈ نہ کرے بلکہ انصاف سے اس پر غور کرے اور دیکھے کہ اعتراض

Page 442

$1956 429 خطبات محمود جلد نمبر 37 ہے.میں کرنے والے نے کس بناء پر اعتراض کیا ہے اور اس کی دلیل کیا دی ہے.پھر اس یقین کے ساتھ کہ قرآن کریم خدا تعالیٰ کا کلام ہے اور اس میں ہر معقول اعتراض کا جواب موجود ہے وہ قرآن کریم پر غور کرے اُسے یقیناً اس اعتراض کا جواب مل جائے گا اور ایسا جواب ملے گا کہ اس کا کوئی انکار نہیں کر سکے گا.مجھے یاد ہے جب تفسیر کبیر کی پہلی جلد جو سورۃ یونس سے کہف تک کی تفسیر پر مشتمل ہے لکھی جا رہی تھی تو سورۃ کہف کی آیت وَلَا تَقُوْلَنَ لِشَيْءٍ إِنِّي فَاعِلٌ ذَلِكَ غداد کے متعلق مجھے گھبراہٹ پیدا ہوئی کہ اس کا پہلی آیات کے ساتھ کیا تعلق نے یہ تفسیر 1922ء کے درس کے نوٹوں سے تیار کی تھی اور زیادہ عرصہ گزرنے کی وجہ سے میں یہ بھول چکا تھا کہ اس آیت کا پہلی آیات کے ساتھ کیا تعلق ہے.ایک دن میں عشا کے بعد تہجد کی نماز تک اس کے متعلق سوچتا رہا لیکن میں کسی نتیجہ پر نہ پہنچ سکا.آخر میں نے کہا اس وقت میں اسے چھوڑتا ہوں جب تفسیر لکھتے لکھتے یہ مقام آئے گا تو اللہ تعالیٰ اسے خود ہی حل فرما گا.چنانچہ تفسیر لکھتے ہوئے جب میں اس آیت پر پہنچا تو فوراً یہ آیت حل ہو گئی اور پتا لگ گیا کہ اس آیت کا پہلی آیات کے مضمون کے ساتھ کیا تعلق ہے.چنانچہ آیت کی وہاں تفسیر لکھ دی.اسی طرح چند دن ہوئے میں تفسیری نوٹ لکھوا رہا تھا کہ میری بیوی مجھ سے کہنے لگیں کہ میں ایک بات کہوں؟ میں نے کہا کہو.کہنے لگیں کئی دفعہ ایسا ہوا ہے کہ آپ نوٹ لکھوا رہے ہوتے ہیں تو میرے دل میں خیال آتا ہے کہ اس آیت پر تو فلاں اعتراض پڑتا ہے لیکن تیسری یا چوتھی آیت کے بعد آپ خود ہی اُس اعتراض کا جواب لکھوا دیتے ہیں.مجھے حیرت آتی ہے کہ میں نے تو وہ اعتراض آپ کو بتایا نہیں ہوتا پھر آپ کو اس کا پتا کیسے لگ گیا.میں کہا مجھے تو اس اعتراض کا پتا نہیں ہوتا لیکن خدا تعالیٰ کو تو اُس کا علم ہوتا ہے.اس لیے جب میں اُس مقام پر پہنچتا ہوں تو وہ اُس کا جواب میرے ذہن میں ڈال دیتا ہے تا کہ جس تحوی کے دل میں بھی ایسا اعتراض پیدا ہو وہ اس سے فائدہ اُٹھا سکے.پس اگر کسی انسان کو قرآن کریم کی سچائی پر پورا یقین ہو تو اُسے کوئی اعتراض ہے.چنانچہ میں نے اس خص

Page 443

$1956 430 خطبات محمود جلد نمبر 37 ایسا نہیں ملے گا جس کا جواب قرآن مجید میں موجود نہ ہو.احادیث میں جو قرآن کریم کے متعلق آتا ہے يُصَدِّقُ بَعْضُهُ بَعْضًا 8 اِس کا بھی یہی مطلب ہے کہ کوئی اعتراض قرآن کریم پیدا ہو خدا تعالیٰ اُس کا جواب وہیں آگے پیچھے بیان کر دیتا ہے.پس قرآن کریم کو سمجھنے کا طریق یہی ہے کہ پہلے قرآن کریم کے دشمنوں کی لکھی ہوئی کتابیں پڑھی جائیں.لیکن انہیں ایمان کے ساتھ پڑھنا چاہیے بے ایمانی کے ساتھ نہیں تا کہ تم اُن کا شکار نہ ہو جاؤ.اور پھر انہیں اس یقین کے ساتھ پڑھو کہ جو کچھ دشمنانِ اسلام نے لکھا ہے اُس کا جواب قرآن مجید میں موجود ہے.جب تم اس طریق پر ان کتابوں کو اور پھر ان کے بعد قرآن کریم کو پڑھو گے تو تمہیں معلوم ہو جائے گا کہ اُن لوگوں نے قدم قدم پر جھوٹ بولا ہے اور قرآن کے اندر ہدایت ہی ہدایت ہے.اس طرح مومن کو اپنی منزل مقصود پر پہنچنے کے لیے کسی اور سواری کی کی ضرورت نہیں رہتی ہدایت ہی اُس کا گھوڑا بن جاتی ہے اور وہ اس پر سوار ہو کر اپنے رب کے پاس پہنچ جاتا ہے اور سیدھی بات ہے کہ جب ہدایت کسی کی سواری بن جائے تو اُسے کسی اور کی سے راہنمائی حاصل کرنے کی ضرورت نہیں رہتی.مثلاً گھر کا مالک کسی کو خود ہی اپنے گھر لے جائے تو اُسے اُس گھر کا رستہ کسی اور سے پوچھنے کی ضرورت نہیں رہتی.اگر وہ کسی اور سے رستہ دریافت کرے تو گھر کا مالک ہنس پڑے گا اور کہے گا کہ میں تو خود تمہیں اپنے گھر لے جا رہا ہوں تمہیں کسی اور سے پوچھنے کی کیا ضرورت ہے.پس علی ھدی کے یہی معنی ہیں کہ مومن ہدایت پر سوار ہو جاتا ہے اور ہدایت کو علم ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کی طرف سے آئی ہے اور خدا تعالیٰ کی طرف ہی اُس نے جانا ہے.جیسے ہمارے ملک میں مشہور ہے کہ کوئی دھوبی تھا.اُس کی بیوی بڑی تیز مزاج تھی.وہ روزانہ اُس سے لڑائی کیا کرتی تھی.ایک دن وہ تنگ آ کر کہنے لگا کہ میں آئندہ اس گھر میں کبھی نہیں آؤں گا.اگر میں گھر واپس آیا تو مجھے ایسا ایسا سمجھنا.اس کے بیٹوں کا خیال تھا کہ اُن کی ماں کا قصور نہیں بلکہ خود اُن کا باپ جھگڑالو ہے.وہ پہلے بھی کئی دفعہ روٹھا تھا اور لڑکے ہمیشہ اُسے منا لاتے تھے.اس دفعہ بھی وہ روٹھ کر چلا گیا.شام کو بیٹے گھر آئے تو انہوں نے اپنی والدہ سے پوچھا کہ باپ کہاں ہے؟ اُس نے بتایا کہ وہ تو روٹھ کر چلا گیا ہے.انہوں نے کہا ماں تم چپ کر کے بیٹھی رہو باپ کو منا کر لانے کی

Page 444

خطبات محمود جلد نمبر 37 431 $1956 ضرورت نہیں وہ آپ ہی بھوک سے بیتاب ہو کر گھر آئے گا.چنانچہ شام ہوئی تو دھوبی بھوک لگی.وہ سارا دن اس انتظار میں رہا تھا کہ اُس کے بیٹے آئیں گے اور اُسے منا کر لے جائیں گے لیکن وہ نہ آئے.اب پیٹ تو کسی کی بات مانتا نہیں.اُسے بھوک لگی تو اُس نے گھر واپس جانے کی ایک تجویز سوچی.دھوبی کے جانور کا قاعدہ ہے کہ وہ چونکہ روزانہ کپڑے لے کر گھاٹ پر جاتا ہے اور شام کو گھر واپس آتا ہے اس لیے اگر اُسے گھلا چھوڑ دیا جائے تو وہ سیدھا گھر میں آ جاتا ہے ادھر ادھر نہیں جاتا.چنانچہ اُس نے اپنے بیل کو کھلا چھوڑ دیا اور اُس کی دُم پکڑ لی اور اس کے ساتھ ساتھ گھر کی طرف چل پڑا.جب وہ گھر میں گھسنے لگا تو اُسے شرم محسوس ہوئی کہ میں نے تو کہا تھا کہ میں اس گھر میں کبھی نہیں آؤں گا اور اب آپ ہی آ گیا ہوں.اس لیے اُس نے بیل سے کہنا شروع کر دیا کہ جانے بھی دو، تم تو مجھے خود ہی کی گھسیٹ کر گھر لے آئے ہو ورنہ میں نے تو نہیں آنا تھا.اس طرح وہ اپنے گھر میں داخل ہوتی گیا.جس طرح وہ بیل خود ہی گھر آ گیا تھا اسی طرح ہدایت بھی جانتی ہے کہ خدا تعالیٰ کا گھر کونسا ہے اور وہ سیدھی اُس گھر میں پہنچ جاتی ہے.پس عَلى هُدًىی کے معنے یہی ہیں کہ ایک دفعہ مومن ہدایت پر سوار ہو جائے تو پھر وہ کبھی دھوکا نہیں کھا سکتا.اسے یہ خوف نہیں ہو گا کہ وہ کسی اور کے گھر نہ چلا جائے بلکہ ہدایت خود بخود خدا تعالیٰ کے گھر میں پہنچ جائے گی کیونکہ اُسے علم ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کے گھر سے ނ آئی ہے اور اُس کے گھر اس نے جانا ہے.پس اگر تم قرآن کریم کو اس یقین سے پڑھو گے کہ اس میں ہر اعتراض کا جواب موجود ہے تو اس کے مطالب تم پر اس طرح کھلیں گے کہ تمہیں حیرت آئے گی کہ بغیر کسی.پوچھے ہدایت تمہیں آپ ہی آپ خدا تعالیٰ کے گھر لے جا رہی ہے.وہ نہ ادھر منہ موڑے گی اور نہ اُدھر منہ موڑے گی بلکہ سیدھی خدا تعالیٰ کے گھر لے جائے گی اور جب انسان خدا تعالیٰ کے گھر پہنچ جاتا ہے تو وہ ساری بدیوں اور ساری گمراہیوں سے محفوظ ہو جاتا ہے.1 : فَأَلْقْهَا فَإِذَا هِيَ حَيَّةٌ تَسْعَى (طه: 21) الفضل 14 اکتوبر 1956 ء)

Page 445

خطبات محمود جلد نمبر 37 432 $1956 :2 أَلْقِ عَصَاكَ ، فَلَمَّا رَاهَا تَهْتَزُّ كَأَنَّهَا جَانُ (القصص:32) 3 : فَأَلْقَى عَصَاهُ فَإِذَا هِيَ تُعْبَانٌ مُّبِينَ (الاعراف: 108) 4 میل (George Sale)(1697ء تا 1736) مستشرق تھے اور انہوں نے 1734ء میں قرآن کریم کا ترجمہ انگریزی زبان میں کیا ( وکی پیڈیا آزاد دائرۃ المعارف زیر عنوان George Sale) 5 : پامر (Edward Henry Palmer) (1840 ء تا 1882ء) برطانیہ سے تعلق تھا.مستشرق تھے.کئی عرب ممالک کے سفر کئے.1871ء میں کیمبرج یونیورسٹی میں عربی کے پروفیسر رہے.1880ء میں قرآن کریم کا ترجمہ کیا.وکی پیڈیا - آزاد دائرۃ المعارف زیر عنوان EDWARD HENRY PALMER) 6 : البقرة: 6 7 : الكهف: 24 :8 كنز العمال جلد 1 صفحہ 619 مطبوعہ دمشق 2012ء حدیث نمبر 2861

Page 446

$1956 433 39.خطبات محمود جلد نمبر 37 اللہ تعالیٰ کا یہ وعدہ ہے کہ وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت و حرمت کی فرمائی: ہر زمانہ میں خود حفاظت فرمائے گا (فرموده 5 را کتوبر 1956ء بمقام ربوہ) تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور نے مندرجہ ذیل آیات قرآنیہ کی تلاوت " يَاأَيُّهَا الرَّسُوْلُ بَلِّغْ مَا أُنْزِلَ إِلَيْكَ مِنْ رَّبَّكَ وَإِن لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَهُ وَاللهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ إِنَّ اللَّهَ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الكفِرِينَ" - 1 اس کے بعد فرمایا: اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت کا اس دائرہ میں وعدہ فرمایا ہے کہ آپ کو قرآن کریم کی اشاعت اور اس کے احکام کی تبلیغ میں کوئی نقصان نہیں

Page 447

$1956 434 خطبات محمود جلد نمبر 37 پہنچے گا.اب ہم غور کرتے ہیں کہ کسی تعلیم کی اشاعت کو کیسے نقصان پہنچ سکتا ہے.سو ہمیں دنیا کی میں اس کے دو طریق نظر آتے ہیں.ایک طریق تو یہ ہے کہ بعض دفعہ کسی تعلیم کی اشاعت پر دشمن کو غصہ آ جاتا ہے اور وہ اشاعت کرنے والے پر کوئی جسمانی حملہ کر دیتا اور اُسے نقصان پہنچا دیتا ہے.اس نقطہ نگاہ سے جو آیت میں نے پڑھی ہے اُس میں اللہ تعالیٰ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایا ہے کہ آپ قرآن کریم کو پوری طرح پھیلائیں اور اس بات کی پروا نہ کریں کہ اس پر دشمن ناراض ہو جائے گا اور وہ آر آپ پر حملہ کر بیٹھے گا کیونکہ واللہ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ اگر لوگ شرارت کر کے آپ پر حملہ کریں گے تو وہ خدا جس نے قرآن کریم کو اتارا ہے اُسے بھی غیرت آئے گی اور وہ ان کے مقابلہ میں آپ کی حفاظت کرے گا اور ان کی تدبیروں کو نا کام کر دے گا.دوسرا طریق نقصان پہنچانے کا عملی رنگ میں ہوتا ہے یعنی اگر کوئی تعلیم پھیلائی جائے تو لوگ اُس پر اعتراض کرنے لگ جاتے ہیں اور اس طرح اشاعت کرنے والے کی عزت اور اس کی شہرت کو صدمہ پہنچنے کا خطرہ ہوتا ہے.اس نقطہ نگاہ سے بھی اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وَ اللهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ اے ہمارے رسول ! آپ قرآن کریم کی خوب اشاعت کریں اور اس بات کی پروا نہ کریں کہ لوگ اس پر اعتراض کرتے ہیں.بیشک لوگ اس تعلیم پر طرح طرح کے اعتراض کریں ہم نے ایسا انتظام کیا ہوا ہے کہ وہ تیری عزت اور تیری نیک نامی کو کوئی صدمہ نہیں پہنچا سکیں گے.اب ہم دیکھتے ہیں کہ کلام اللہ کی حفاظت کے کیا ذرائع ہوتے ہیں.سو کلام اللہ کی حفاظت کا ایک ذریعہ تو یہ ہوتا ہے کہ اُس کے کامل مومن ہر زمانہ میں موجود رہتے ہیں اور جب بھی اُس پر کوئی اعتراض وارد ہو وہ اُس کو دور کر دیتے ہیں.اور دوسرا ذریعہ یہ ہوتا ہے کہ خود کلام اللہ کے اندر ایسی باتیں رکھ دی جاتی ہیں جو دشمن کے اعتراضات کو رڈ کرنے والی ہوتی ہیں اور اس طرح دشمن اپنی بات میں خود ہی پکڑا جاتا ہے.وہ اگر کسی آیت پر اعتراض کرتا ہے تو خود وہی آیت یا دوسری آیات اُس کے اعتراض کو دور کر دیتی ہیں.قرآن کریم ایک بہت بڑی چیز ہے.وہ خدا تعالیٰ کا آخری کلام ہے اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم

Page 448

$1956 435 خطبات محمود جلد نمبر 37 جن پر قرآن کریم نازل ہوا ہے خاتم النبیین اور سید ولدِ آدم ہیں لیکن عام باتوں میں بھی ہم دیکھتے ہیں کہ خدا تعالی بعض دفعہ ایسا تصرف کرتا ہے کہ اعتراض کرنے والے کو فوراً پکڑ لیتا ہے.ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام مسجد میں بیٹھے ہوئے تھے کہ ایک عیسائی آیا اور اُس نے کہا کہ آپ تو کہتے ہیں کہ قرآن کریم کی زبان اُم الا لسنة ہے حالانکہ میکس مولر وغیرہ نے لکھا ہے کہ جو زبان اُم الالسنة ہوتی ہے وہ مختصر ہوتی ہے.پھر آہستہ آہستہ لوگ اُس کو پھیلا دیتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہم تو میکس مولر کے اس فارمولا کو نہیں مانتے کہ اُم الالسنة مختصر ہوتی ہے.مگر چلو بحث کو کوتاہ کرنے کے لیے ہم اس فارمولا کو مان لیتے ہیں اور عربی زبان کو دیکھتے ہیں کہ آیا وہ اس معیار پر پوری اترتی ہے یا نہیں؟ اُس شخص نے یہ بھی کہا تھا کہ انگریزی زبان عربی زبان کے مقابلہ میں نہایت اعلیٰ ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام انگریزی نہیں جانتے تھے لیکن آپ نے فرمایا اچھا! آپ بتائیں کہ انگریزی میں ” میرے پانی کو کیا کہتے ہیں؟ اُس نے کہا ”مائی واٹر“.آپ نے فرمایا عربی زبان میں تو صرف ”مائی" کہنے سے ہی یہ مفہوم ادا ہو جاتا ہے.اب آپ بتائیں کہ مائی واٹر زیادہ مختصر ہے یا ”مائی؟ اب اگر چہ آپ انگریزی نہیں جانتے تھے لیکن خدا تعالیٰ نے آپ کی زبان پر ایسے الفاظ جاری فرما دیئے کہ معترض آپ ہی پھنس گیا اور وہ سخت شرمندہ اور لاجواب ہو گیا اور کہنے لگا کہ پھر تو عربی زبان ہی مختصر ہوئی.یہی حال قرآن کریم کا ہے.اللہ تعالیٰ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے وعدہ کرتا ہے کہ وہ آپ کو دشمنوں کے حملہ سے بچائے گا.یعنی ہمیشہ ایسے لوگ پیدا کرتا رہے گا جو قرآن کریم کو پڑھنے والے ہوں گے، اس سے سچا عشق رکھتے ہوں گے اور اس کی تفسیر کرنے والے ہوں گے.وہ دشمنوں کو ان کے حملوں کا ایسا جواب دیں گے کہ ان کا منہ بند ہو جائے گا.دوسرے اس نے قرآن کریم کے اندر ایسا مادہ رکھ دیا ہے کہ معترض جو بھی اعتراض کرے اُس کا جواب اس کے اندر موجود ہوتا ہے.گویا آپ کی حفاظت کے دوطریق ہیں.ایک انٹرنل (Internal) یعنی اندرونی ذریعہ ہے اور خود قرآن کریم میں یہ خصوصیت رکھ دی گئی.

Page 449

$1956 436 خطبات محمود جلد نمبر 37 کہ اگر اُس کی کسی آیت پر اعتراض ہو تو دوسری آیات اس اعتراض کو رڈ کر دیتی ہیں.اور دوسرا ذریعہ ایکسٹرنل (External) ہے.یعنی ایسے مومن پیدا ہوتے رہیں گے جو دشمنوں کے اعتراضات کو رڈ کرتے رہیں گے.گویا اللہ تعالیٰ بیرونی اور اندرونی دونوں ذرائع ނ آپ کی حفاظت فرمائے گا.پھر فرماتا ہے اِنَّ اللهَ لَا يَهْدِى الْقَوْمَ الْكَفِرِينَ وہ کفار کو کامیابی کے مقام پر نہیں پہنچنے دیتا.وہ کسی طرح بھی حملہ کریں نتیجہ یہی ہوگا کہ یا تو خدا تعالیٰ ان پر عذاب نازل کر کے انہیں تباہ کر دے گا یا مومنوں کو کھڑا کر دے گا جو اُن کے حملوں کا جواب دیں گے اور یا پھر وہ قرآن کریم میں پہلے سے ہی ایسا جواب رکھ دے گا جو دشمن کو جھوٹا ثابت کر دے گا.بہر حال کوئی ذریعہ بھی ہو اللہ تعالیٰ نے وعدہ فرمایا ہے کہ وہ آپ کی حفاظت فرمائے گا.اب دیکھ لو خدا تعالیٰ نے اس قرآنی وعدہ کے مطابق کس طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حفاظت فرمائی.ابتدائی زمانہ میں جسمانی رنگ میں دشمن نے آپ پر بڑے بڑے حملے کیے اور متعدد طریق سے آپ کو نقصان پہنچانا چاہا مگر اللہ تعالیٰ نے آپ کو ہر طرح محفوظ رکھا.مثلاً جب آپ مکہ سے ہجرت فرما کر مدینہ جانے لگے اُس وقت بھی آپ کی کے دروازہ پر کفار کے مختلف قبائل کے نو آدمی کھڑے تھے جو صرف اس ارادہ سے کھڑے تھے کہ آپ کو قتل کر دیں مگر اللہ تعالیٰ نے ان کی آنکھوں پر ایسا پردہ ڈالا کہ وہ آہ کو دیکھ نہ سکے.پھر جب آپ مکہ سے نکل کر غار ثور میں پہنچے تو دشمن آپ کا پیچھا کرتا ہوا وہاں تک پہنچا.حضرت ابوبکر گھبرا گئے کہ کہیں دشمن آپ کو گزند پہنچانے میں کامیاب نہ ہو جائے.اس پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت ابوبکر کی گھبراہٹ کو محسوس کرتے ہوئے فرمایا ابوبکر ! تم کیوں گھبراتے ہو؟ حضرت ابو بکر نے فرمایا يَا رَسُولَ اللہ ! میں اس لیے نہیں گھبراتا کہ میں مارا جاؤں گا کیونکہ میں مارا گیا تو کیا ہو گا.میں تو ایک معمولی انسان ہوں.میں تو صرف آپ کی وجہ سے گھبراتا ہوں.اگر آپ کو خدا نخواستہ کوئی گزند پہنچی تو اسلام کو نقصان پہنچے گا.نے فرمایا لَا تَحْزَنْ إِنَّ اللهَ مَعَنَا ابوبكرا غم نہ کرو اللہ تعالیٰ ہمارے ساتھ ہے.

Page 450

437 $1956 خطبات محمود جلد نمبر 37 وہ خود ہماری حفاظت کرے گا 2 اور پھر ہم دیکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کی حفاظت فرمائی.افسوس ہے کہ جب میں حج کے لیے گیا تو غار ثور کو نہ دیکھ سکا.کیونکہ اگر میں اونچی اوی جگہ چڑھوں تو دل دھڑکنے لگتا ہے.میں غار ثور سے ایک ڈیڑھ فرلانگ کے فاصلہ تک تو پہنچ ہی گیا.لیکن اس سے آگے نہ جا سکا.غارثور ایک چٹیل پہاڑی پر واقع ہے اور نیچے بڑی گہری کھڑ ہے.درخت بھی نہیں بلکہ چھوٹی چھوٹی جھاڑیاں بھی بہت کم ہیں.اس وجہ سے میرا دل کمزوری محسوس کرنے لگا میں نے اپنے ایک ساتھی سے کہا کہ تم جا کر غار دیکھ آؤ اور واپس آ کر مجھے اس کی کیفیت سے آگاہ کرو.چنانچہ وہ وہاں گئے.واپس آ کر انہوں نے بتایا کہ یہاں سے فرلانگ ڈیڑھ فرلانگ کے فاصلہ پر ایک چھوٹی سی غار ہے جس کا منہ تنور کی طرح ہے.اُس کے قریب کچھ چھوٹی چھوٹی جھاڑیاں ہیں.اُس کے اندر دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ چھوٹا سا گڑھا ہے جہاں آدمی ٹھہر سکتا ہے.مگر چونکہ اندھیرا تھا اس لیے اُس کا اندر سے پوری طرح جائزہ نہیں لیا جا سکا.غارِ حرا میں نے دیکھی ہے بلکہ وہاں جا کر نماز بھی پڑھی ہے.یوں تو اُس کا رستہ غارِ ثور کے رستہ سے زیادہ خطرناک ہے مگر جس پہاڑی پر غارِ حرا واقع ہے وہ چھوٹی ہے یعنی وہ زیادہ اونچی نہیں.غار ثور والی پہاڑی زیادہ اونچی ہے اور پھر وہاں سے نیچے بڑی گہری کھڈ نظر آتی ہے ورنہ غار حرا کا رستہ زیادہ خطرناک ہے.رستہ میں بڑے بڑے پتھر ہیں جن پر سے چھلانگیں لگا کر گزرنا پڑتا ہے لیکن اس کے باوجود میں حرا پر چڑھ گیا اور غار ثور تک نہ جا سکا.غار حرا دراصل غار نہیں بلکہ دو پتھر ہیں جو جڑے ہوئے ہیں.ان پتھروں کے نیچے کھڑے ہو کر رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نماز پڑھا کرتے تھے.ہم نے بھی وہاں جا کر نماز پڑھی اور دعائیں کیں.پھر ہجرت کے علاوہ اور بھی کئی مواقع پر اللہ تعالیٰ نے اپنے اس وعدہ کو پورا کیا کہ وَاللهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ.مثلاً غزوہ تحسین میں ایک موقع پر صحابہ دشمن کے دباؤ کی وجہ سے آپ سے دور چلے گئے.اُس وقت آپ کے قریب ایک ایسا شخص تھا جو مکہ سے اسلامی لشکر کے ساتھ صرف اس نیت سے آیا تھا کہ اگر موقع ملا تو آپ کو مار ڈالے.لیکن اللہ تعالیٰ نے آپ کی حفاظت فرمائی اور اُس دشمن کو اپنے ارادہ میں کامیاب نہ ہونے دیا 3.

Page 451

$1956 438 خطبات محمود جلد نمبر 37 غزوہ حنین میں مکہ کے نئے مسلمان بھی شامل ہو گئے تھے اور ان میں بعض کا فر بھی تھے.انہوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کہا کہ ہم بھی آپ کے ساتھ جائیں گے اور اپنی بہادری کے جوہر دکھائیں گے.لیکن جب تیروں کی بوچھاڑ ہوئی تو وہ اس کی تاب نہ لا سکے اور بھاگ کھڑے ہوئے.ان کے بھاگنے کی وجہ سے دوسرے مسلمانوں کے گھوڑے بھی بھاگ اٹھے.اور ایک وقت ایسا آیا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ارد گرد صرف چند مسلمان رہ گئے.آپ جب دشمن کی صفوں کی طرف بڑھنے لگے تو حضرت ابوبکر نے فرمایا يَا رَسُولَ الله ! یہ وقت آگے بڑھنے کا نہیں دشمن کی تعداد بہت زیادہ ہے اور مسلمان لشکر تتر بتر ہو چکا ہے.آپ نے فرمایا ابوبکر ! مجھے چھوڑ دو.پھر فرمایا أَنَا النَّبِيُّ لَا كَذِب أَنَا ابْنُ عَبْدِ المُطَّلِب 4 میں خدا تعالیٰ کا نبی ہوں جھوٹا نہیں.اس لیے مجھے دشمن کا کوئی ڈر نہیں.آپ نے یہاں ”النبی کا لفظ استعمال فرمایا ہے.”انا نبی نہیں کہا کیونکہ النبی کے متعلق بائبل میں بھی پیشگوئیاں پائی جاتی تھیں کہ اُس کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکے چنانچہ یسعیاہ میں آتا ہے میں ہی تیرا ہاتھ پکڑوں گا اور تیری حفاظت کروں گا.پس النَّبی“ کا لفظ استعمال فرما کر آپ نے بیان فرمایا کہ میں ہی وہ موعود نبی ہوں جس کی بائبل میں پیشگوئی کی گئی تھی.پھر مجھے کسی دشمن کا کیا خوف ہو سکتا ہے.لیکن میری اس جرات اور ی دلیری کی وجہ سے جو میں آٹھ ہزار تیراندازوں کی زد میں ہونے کے باوجود دکھا رہا ہوں دشمن جو بُت پرست ہے یہ خیال نہ کرے کہ میں کوئی دیوتا یا خدا ہوں.بیشک میں ”النَّبِی“ ہوں اور خدا تعالیٰ نے میری حفاظت کا وعدہ کیا ہے لیکن بایں ہمہ میں بشر ہی ہوں.میں عبدالمطلب کا بیٹا ہوں، خدا یا کوئی دیوتا نہیں ہوں.یہاں آپ نے ابنُ عَبْدِ المُطَّلِب “ کہا ہے.! معلوم ہوتا ہے کہ عربی زبان میں ”ابن“ کا لفظ پوتے کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے کیونکہ آپ حضرت عبدالمطلب کے پوتے تھے بیٹے نہیں تھے.غرض آپ کی جسمانی حفاظت کی بیسیوں مثالیں تاریخ میں موجود ہیں.اگر میں انہیں بیان کروں تو کئی گھنٹوں میں خطبہ ختم ولیکن مختصر طور پر میں صرف اتنا کہوں گا کہ آپ کی زندگی میں بیسیوں دفعہ خطرناک ہو

Page 452

خطبات محمود جلد نمبر 37 منصو 439 $1956 سے خطرناک مواقع پر خدا تعالیٰ نے آپ کی حفاظت فرمائی.پھر علمی طور پر دیکھا جائے تو جب بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر دشمن نے حملہ کیا اللہ تعالیٰ نے آپ کی عزت کو بچایا اور دشمن کو اُس کے مقصد میں ناکام و نامراد رکھا.آخری زمانہ میں جب اسلام بہت کمزور ہو گیا تھا تو کہتے ہیں اُس وقت روم کے بادشاہ نے مسلمان بادشاہ کو لکھا کہ میرے پاس کوئی مسلمان عالم بھیجیں میں اُس کی پادریوں سے بحث کرانا چاہتا ہوں.چنانچہ مسلمان بادشاہ نے ایک عالم بھجوا دیا.عیسائیوں نے پہلے سے ہی یہ کیا ہوا تھا.پادری کہنے لگا مولوی صاحب! بتائیے کہ (حضرت) عائشہ والا واقعہ جو احادیث میں آتا ہے وہ کیا ہے؟ مطلب اُس کا طعنہ کرنا تھا.مسلمان عالم جو غالباً امام ابن تیمیہ یا ان کے کوئی دوست تھے بڑے ہوشیار تھے کہنے لگے پادری صاحب! دنیا میں دو عورتیں گزری ہیں.ایک عورت کا خاوند تھا.خبیث لوگوں نے اُس پر الزام لگایا مگر ساری عمر اُس کے کوئی بچہ نہیں ہوا.لیکن ایک اور عورت ( یعنی حضرت مریم ) تھی جس کا خاوند بھی نہیں تھا.اُس دشمنوں نے الزام لگایا اور اُس کے ہاں بیٹا پیدا ہو گیا.اب آپ بتائیے کہ الزام کس عورت پر لگتا ہے؟ اس پر پادری سخت شرمندہ اور لاجواب ہو گیا.آجکل تو یہ حالت ہے کہ ذرا حضرت عیسی علیہ السلام کے متعلق کوئی بات کہی جائے.مسلمان شور مچانا شروع کر دیتے ہیں کہ حضرت عیسی کی ہتک کر دی گئی ہے مگر اُس وقت کا مسلمان حضرت عیسی کی غیرت کم رکھتا تھا اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی غیرت زیادہ وی رکھتا تھا.چنانچہ دیکھ لو.امام ابنِ تیمیہ یا ان کے دوست روم کے دربار میں ڈرے نہیں بلکہ انہوں فوراً کہہ دیا کہ پادری صاحب! آپ جس عورت کا ذکر کر رہے ہیں اُس کا تو خاوند موجود تھا اور باوجود خاوند ہونے کے اُس کے ہاں ساری عمر اولاد نہیں ہوئی مگر حضرت مریم کا تو خاوند بھی نہیں تھا اور اُس کے ہاں بچہ ہو گیا.اب آپ بتائیے کہ الزام حضرت عائشہ پر لگا حضرت مریم پر.غرض ہر موقع پر جب بھی دشمن نے اسلام پر حملہ کیا.اللہ تعالیٰ نے کامل مومنوں کو کھڑا کر دیا اور انہوں نے دشمن کے اعتراضات کو رڈ کر دیا مثلاً غدر کے بعد مسلمانوں کی

Page 453

$1956 440 خطبات محمود جلد نمبر 37 66 حالت بڑی خراب تھی.اُس وقت مولوی رحمت اللہ صاحب مہاجر مکی اور آپ کے بعد بعض اور لوگ کھڑے ہو گئے جنہوں نے عیسائیوں اور آریوں کے اعتراضات کے جواب دیئے اور دین کی حفاظت کی.سرسید احمد خاں صاحب نے بھی اپنے زمانہ میں عیسائیوں کے اعتراضات کے جواب دیئے.پھر اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو کھڑا کر دیا جنہوں نے اتنے لمبے عرصہ تک دشمن کا مقابلہ کیا کہ آپ کی وفات پر دشمنوں نے بھی اس بات کا اعتراف کیا کہ آپ نے اسلام کا دفاع ایسے شاندار رنگ میں کیا ہے کہ آپ سے پہلے اور کسی مسلمان عالم نے اس طرح اسلام کا دفاع نہیں کیا.یہ وَ اللهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ “ کا ہی کرشمہ تھا.اللہ تعالیٰ کا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے وعدہ تھا کہ اُس نے آپ کو بہر حال بچانا ہے.جب دشمن نے تلوار سے حملہ کیا تو اُس نے اُس کی تلوار کو گند کر دیا اور جب اُس نے تاریخ سے حملہ کیا تو خدا تعالیٰ نے ایسے مسلمان کھڑے کر دیئے جنہوں نے تاریخی کتب کی چھان بین کر کے دشمن کے اعتراضات کو رڈ کر دیا اور خود مخالفین کے بزرگوں کی تاریخیں کھول کر بتایا کہ وہ جو اعتراضات اسلام پر کر رہے ہیں وہ ان کے اپنے مذہب پر بھی پڑتے ہیں اور جو حصہ قرآن کریم اور احادیث سے تعلق رکھتا تھا اُسے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے صاف کر دیا.اُن دنوں بھی اسلام کے خلاف بمبئی سے ایک کتاب ”مذہبی رہنما" 5 شائع ہوئی تھی جس کی وجہ سے مسلمانوں میں بڑا جوش پیدا ہوا.یہاں تک کہ رسول کریم صلی اللہ علی وآلہ وسلم کی عزت و ناموس کی حفاظت کرتے ہوئے سینکڑوں مسلمان ہندوستان میں شہید ہو گئے.ان لوگوں نے جو طریق عمل اختیار کیا وہ اس زمانہ کے لحاظ سے صحیح ہے یا غلط میں اس بحث میں نہیں پڑنا چاہتا.بہر حال مسلمانوں کو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے جو عشق ) محبت ہے اُس کو مدنظر رکھتے ہوئے ہم انہیں مجبور اور معذور سمجھتے ہیں لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ ہندوؤں کے پاس کروڑوں روپیہ ہے.اگر گورنمنٹ کسی کتاب کی پانچ سو کا پیاں ضبط کرے تو وہ اُسی وقت اُس کی دس ہزار کا پیاں کسی دوسرے علاقہ میں شائع کر دیتے ہیں جس کی وجہ سے فتنے کا استیصال نہیں ہوتا.انگریزوں کے زمانہ میں بھی یہی ہوتا رہا ہے کہ جب کوئی کتاب

Page 454

$1956 441 خطبات محمود جلد نمبر 37 ضبط ہوئی ہندوؤں نے فوراً اسے چھپوا دیا.ورتمان نے جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر حملہ کیا تو میں نے اُس کا جواب لکھا.اس جواب کی وجہ سے گورنمنٹ کو بمبئی سے چیف جج کو چھٹی سے واپس منگوانا پڑا اور اس شخص پر مقدمہ چلایا گیا اور اس کے اخبار کو ضبط کیا گیا مگر بعد میں مجھے پتا لگا کہ ہندوؤں نے اس مضمون کی لاکھوں کا پیاں چھپوا کر شائع کر دی ہیں.اس کتاب کے متعلق بھی جب مسلمانوں میں جوش پیدا ہوا اور انہوں نے احتجاج کیا تو اتنا فائدہ تو ضرور ہوا کہ حکومت نے کتاب ضبط کر لی مگر اچھا ہوتا کہ مسلمان چندہ جمع کر کے اس کا جواب شائع کر دیتے.ایک دفعہ میں ڈلہوزی گیا.کشمیر کا نیانیا کام تھا.اُس وقت چمبہ کی ریاست میں بھی مسلمانوں پر ظلم ہو رہا تھا.وہاں کی انجمن کا ایک سیکرٹری میرے پاس آیا اور اس نے کہا کہ آپ ان مسلمانوں کی بھی خبر لیں.میں نے کہا یہ سیاسی لوگوں کا کام ہے.مجھے تو ایک جگہ نظر آیا کہ پچاس لاکھ مسلمان تباہ ہو رہا ہے تو میں نے اُس میں دخل دے دیا مگر ہر جگہ میں دخل نہیں دے سکتا.لیکن وہ میرے پیچھے پڑا رہا.اس پر میں نے کہا کہ تم یہ بتاؤ کہ کیا تم مجھے دوسو مسلمان دے سکتے ہو جو قید ہونے کو تیار ہوں؟ وہ کہنے لگا دو سو نہیں دو ہزار مسلمان مرنے کے لیے تیار ہے.میں نے کہا مجھے مرنے کے لیے لوگوں کی ضرورت نہیں.مجھے دو سو ایسے آدمیوں کی ضرورت ہے جو قید ہونے کے لیے تیار ہوں.اگر آپ اتنے آدمی قید ہونے کے لیے دے دیں تو میں آپ لوگوں کی مدد کرنے کا ذمہ لے لیتا ہوں.اُس نے پھر کہا کہ دو ہزار مسلمان مرنے کے لیے تیار ہیں.میں نے کہا اس سے میرا کام بنتا نہیں بلکہ خراب ہوتا ہے.مجھے صرف ایسے لوگوں کی ضرورت ہے جو قید ہونے کے لیے تیار ہوں.لیکن وہ یہی کہتا رہا کہ دو ہزار مسلمان مرنے کے لیے تیار ہیں.میں نے کہا آپ کا یہ خیال ہے کہ جو لوگ قید ہوں گے وہ تو کسی نہ کسی طرح چٹھیاں لکھتے رہیں گے کہ ہمارے بیوی بچے بھوکے مر رہے ہیں ان کا انتظام کیا جائے مگر جو مر جائیں گے اُن کا قصہ پاک ہو جائے گا.وہ تو اپنے بیوی بچوں کے بھوکے مرنے کی شکایت نہیں کریں گے.اس لیے قید ہونے کی نسبت مر جانا زیادہ آسان.کہنے لگا بات تو یہی ہے.

Page 455

$1956 442 خطبات محمود جلد نمبر 37 غرض مرنا آسان ہوتا ہے لیکن مشکلات کو متواتر برداشت کرتے چلے جانا مشکل ہوتا 66 - ہے لیکن بہر حال جب مقابلہ کا سوال ہو تو روپیہ کا خرچ ایک طبعی امر ہے.اب بھی ہندوستان میں لکھ پتی مسلمان موجود ہیں.وہ چندہ کر کے ”مذہبی رہنما کا جواب شائع کر دیتے اور ثابت کرتے کہ اس کا لکھنے والا جھوٹا ہے.پھر اگر ہندوؤں نے اس کی دس ہزار کا پی شائع کی تھی تو مسلمان اس کا جواب دس لاکھ کی تعداد میں شائع کر دیتے اور سارے ملک میں پھیلا دیتے.اس سے ہندوؤں کا منہ بند ہو جاتا اور وہ سمجھ لیتے کہ آئندہ مسلمانوں کو نہیں چھیڑنا چاہیے.اگر ہم انہیں چھیڑیں گے تو وہ نہ صرف اپنا دفاع کریں گے بلکہ ہمارے مذہب کی بھی قلعی کھولیں گے.کیونکہ یہ یقینی بات ہے کہ ہم نہ صرف اُن کے اعتراضات کا جواب دے سکتے ہیں بلکہ خدا تعالیٰ کے فضل سے اُن کا الزامی جواب بھی دے سکتے ہیں.ہندوؤں کی کتابوں میں اُن کے دیوتاؤں کے متعلق اس قدر گند بھرا ہوا ہے کہ اگر اُسے ظاہر کیا جائے تو انہیں منہ چھپانے کے لیے جگہ نہ ملے.مثلاً کیا کوئی الہامی مذہب یہ کہہ سکتا ہے کہ فلاں دیوتا کی کسی عورت پر نظر پڑ گئی.بعد میں اس نے اپنا تہہ بند جھاڑا تو اس میں سے بچہ پیدا ہو گیا.یہ اتنی شرمناک بات ہندوؤں کی کتابوں میں درج ہے کہ مجھے خطبہ میں اس کا ذکر کرتے ہوئے بھی شرم محسوس ہوتی ہے.بہر حال ہندوؤں کی کتابوں میں اس قدر گند موجود ہے کہ اگر اُسے ظاہر کیا جائے تو ہندوؤں میں تاب نہیں کہ وہ مسلمانوں کے مقابلہ میں کھڑے ہو سکیں.پس اگر موقع پر مسلمان چندہ جمع کر کے اس کتاب کا جواب شائع کرتے اور اس کے ساتھ ہی ہندوؤں کی کتابوں کا گند ظاہر کرتے تو انہیں پتا لگ جاتا کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات پر حملہ کرنے کے کیا معنی ہیں.خود ان کے نبی حضرت کرشن علیہ السلام کے متعلق اُن کی کتابوں میں گند بھرا ہوا ہے اور لکھا ہے کہ کس کس طرح وہ عورتوں سے کھیلتے تھے.پھر ایک اور ننگا واقعہ ہے مگر میں خطبہ میں اُس کی تفصیل بیان نہیں کر سکتا.صرف مجملاً بیان کر دیتا ہوں کہ ایک دفعہ میں بنارس گیا وہاں میں نے ہندوؤں کا ایک مندر دیکھا.اُس پر ایک سیڑھی لگی ہوئی تھی.اُس سیڑھی پر ہر جگہ اس قدر نگی تصویریں بنی ہوئی تھیں کہ میں نہیں سمجھتا انہیں کوئی ہندو بھی بیان کر سکے.ایک کٹر ہندو بھی اُن کا ذکر کرتے ہوئے شرم محسوس

Page 456

$1956 443 خطبات محمود جلد نمبر 37 کرے گا.غرض ہندوؤں کے اپنے مندروں، دیوتاؤں اور مذہب میں اس قدر گند ہے کہ اُسے ظاہر کرنے سے اُن کا منہ بند ہو سکتا ہے.پس مسلمانوں کا کام تھا کہ وہ ان باتوں کو بیان کرتے اور کہتے کہ تم مسلمانوں پر تو اعتراض کرتے ہو لیکن تمہیں اپنے گھر کی خبر نہیں.ہندوستان میں زیادہ تر پوجاشو جی کی ہوتی ہے.اگر شو جی کی حقیقت ہی بیان کرو تو ہندو شرمندہ ہو جائیں گے.میں جب لندن گیا تو وہاں میں نے ایک انگریز عورت کو لڑکیوں کو پڑھانے کے لیے بطور استانی رکھ لیا.وہ عورت مذہبی جوش رکھتی تھی.وہ میری کتابیں بھی خرید کر لے گئی.ایک دن اُس نے شکوہ کیا کہ آپ نے عیسائیت کے متعلق ایسی باتیں بیان کی ہیں جو ٹھیک نہیں.میں نے کہا تم کوئی ایک بات بیان کرو.اِس پر اُس نے کہا آپ نے فلاں حوالہ جو لکھا ہے اس کا مطلب پادری اور بیان کرتے ہیں.میں نے کہا کیا یہ حوالہ بائبل میں موجود نہیں.اُس نے کہا بائبل میں تو موجود ہے لیکن اس کا وہ مطلب نہیں جو آپ نے لیا ہے.آپ کو اُس کا وہ مفہوم لینا چاہیے جو اُس کے ماننے والے لیتے ہیں.میں نے کہا تمہارا مطلب تو یہ ہوا کہ اس حوالہ کا مطلب جو عیسائی لوگ لیتے ہیں وہی مجھے بیان کرنا چاہیے.لیکن تمہاری اپنی کتابوں میں اسلام کے متعلق جو باتیں لکھی ہیں وہ ہم نہیں مانتے.پھر وہ کیونکر جائز ہیں؟ میں نے تو یہ حوالہ عیسائیوں کو عقل دلانے کے لیے لکھا ہے تا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق اعتراض کرتے ہوئے وہ سمجھ سے کام لیں.اگر وہ قانون جسے تم نے بیان کیا ہے ٹھیک ہے تو عیسائیوں کو بھی چاہیے کہ وہ اپنے اندر اسے جاری کریں اور اسلام کے کسی حوالہ کے ایسے معنے نہ کریں جو مسلمانوں کے نزدیک درست نہ ہوں.لیکن اگر وہ کسی آیت کے اپنے معنے کر کے اسلام پر اعتراض کرنے کے مجاز ہیں تو ہم بھی تو رات اور انجیل کی آیات کے وہ معنے کریں گے جو ہمارے نزدیک اُن سے نکلتے ہیں.اس پر اُس نے کہا تب تو وہ بات ٹھیک ہے جو آپ نے لکھی.غرض مناسب طریق یہی تھا کہ مسلمان ”ذہبی رہنما کا جواب دیتے اور ہندوؤں کے مذہب کا پول کھولتے.اُن کی کتابوں میں اس قدر گند بھرا ہوا ہے کہ ذراسا پردہ اُٹھانے سے بھی وہ شرم کے مارے سر اونچا نہیں کر سکتے.ہے.

Page 457

خطبات محمود جلد نمبر 37 444 $1956 کہا جاتا ہے کہ ہندو مسلمانوں کے احتجاج کے جواب میں یہ کہتے ہیں کہ یہ کتاب تو 29 سال ہوئے امریکہ میں چھپی تھی.گویا اس کتاب کا لکھنے والا کوئی عیسائی ہے ہندو نہیں.اگر یہ درست ہے تو اس صورت میں زیادہ مناسب یہ ہے کہ اس کتاب کا جواب امریکہ میں شائع کیا جائے اور اس کا ترجمہ ہندوستان میں پھیلایا جائے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ اگر تم کوئی ایسی بات دیکھو جو ناپسندیدہ ہو تو اگر تمہارے ہاتھ میں طاقت ہو تو تم اُسے ہاتھ سے مٹا دو.اور اگر تمہارے ہاتھ میں طاقت نہ ہو لیکن تم زبان سے اُس کی بُرائی کا اظہار کر سکتے ہو تو زبان سے اُس کی بُرائی ظاہر کرو.اور اگر تم میں زبان سے اظہار کرنے کی بھی طاقت نہ ہو تو تم دل میں ہی اسے بُرا سمجھو.6 یہ نکتہ بہت لطیف ہے.اس کو مدنظر رکھتے ہوئے پاکستان گورنمنٹ چونکہ پروٹسٹ کر سکتی ہے اس لیے اس کا فرض ہے کہ وہ ہندوستان کی جی حکومت سے پروٹسٹ کرے کہ اُس نے ہمارے آقا کی ہتک کروائی ہے اور ہندوستانی مسلمان جو مظلوم ہیں اور وہ اس کے متعلق کوئی آزادانہ کا روائی نہیں کر سکتے ان کے متعلق یہ حکم ہے کہ وہ دل میں ہی اس پر بُرا منائیں.اور چونکہ پاکستانی گورنمنٹ نے اس کتاب کو ضبط کر لیا ہے اس لیے پاکستان سے باہر کے مسلمانوں کا فرض ہے کہ وہ اس کتاب کا جواب لکھیں اور اسے امریکہ اور ہندوستان میں شائع کروائیں.اگر یہ جواب امریکہ میں شائع کیا جائے تو وہاں کے رہنے والے لوگوں کے سامنے بھی کتاب کے مصنف کا جھوٹ ظاہر ہو جائے گا.پھر اس کا ترجمہ ہندوستان میں شائع کیا جائے تو ہندو بھی ڈر جائیں گے اور وہ آئندہ مسلمانوں پر حملہ نہیں کریں گے اور سمجھ لیں گے کہ اگر انہوں نے مسلمانوں کی طرف کنکر پھینکا تو اس کے جواب میں پتھر پڑے گا.اس سے نہ صرف ہندوستانی مسلمان خوش ہو جائیں گے بلکہ قرآنی أيت "وَ اللهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ “ کی صداقت بھی واضح ہو جائے گی.اخبارات سے پتا لگتا ہے کہ جب سعودی عرب کے بادشاہ سے پنڈت نہرو ملنے گئے اور اس کتاب کے متعلق باتیں ہوئیں تو انہوں نے وعدہ کیا کہ وہ آئندہ ایسا اقدام کریں گے کہ اس قسم کی کوئی دلآزار کتاب شائع نہ ہو.لیکن مجھے یقین نہیں کہ پنڈت نہرو اپنے وعدہ پر عمل کریں.وہ صرف سعودی عرب کے بادشاہ کو خوش کرنے کے لیے یہ باتیں کہہ آئے ہیں

Page 458

$1956 445 خطبات محمود جلد نمبر 37 کیونکہ خواہ پنڈت نہرو کے دل میں نیکی ہو اُن کے اردگرد جو لوگ ہیں وہ کٹر ہندو ہیں.انہوں نے اپنے وعدے کے مطابق کوئی عمل کیا تو اُن کے ساتھیوں نے شور مچا دینا ہے کہ تم کون ہو جو ہمیں اس بات سے روکتے ہو.پس میرے نزدیک اصل طریق یہ ہے کہ چونکہ اس کتاب کا مصنف عیسائی ہے اور امریکہ کا رہنے والا ہے اس لیے اس کے جواب میں جو کتاب لکھی جائے اُس کا ایک ایڈیشن انگریزی میں ہو جو امریکہ میں شائع کیا جائے.اس میں ایک طرف تو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دفاع ہو یعنی اُن اعتراضات کا جواب ہو جو اس کتاب میں محمد رسول اللہ کی صلی اللہ علیہ وسلم پر کیے گئے ہیں اور دوسری طرف عیسائیوں کو الزامی جواب دیا جائے اور پھر اُس کا دوسرا ایڈیشن ہندوستان میں شائع کیا جائے.اس میں بھی ایک طرف تو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دفاع ہو یعنی اُن اعتراضات کا جواب ہو جو آپ کی ذات پر اس کتاب میں کیے گئے ہیں اور دوسری طرف ہندو مذہب کو مدنظر رکھتے ہوئے الزامی جواب ہوتا ہندوؤں کو بھی ہوش آ جائے اور آئندہ وہ مسلمانوں کے جذبات سے کھیلنے میں احتیاط سے کام لیں.پھر اگر اس کتاب کا مصنف زندہ ہو (ممکن ہے وہ مر گیا ہو کیونکہ اس کتاب کو شائع ہوئے انتیس سال کا عرصہ گزر چکا ہے تو ہمارے مبلغ اُسے مباہلہ کا چیلنج دیں اور کہیں کہ اگر وہ سچا ہے اور عیسائی لوگ اُس کے ساتھ ہیں تو وہ پچاس عیسائی اپنے ساتھ لے آئے.ہم بھی اپنے ساتھ پچاس کو مسلم لے آتے ہیں اور پھر وہ ہم سے مباہلہ کرے.اگر حضرت عیسی علیہ السلام میں طاقت ہوئی تو وہ انہیں بچالیں گے اور اگر ہمارے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بھیجنے والے خدا میں طاقت ہوئی تو وہ انہیں تباہ کر دے گا.اس مباہلہ کے بعد جب عیسائیوں پر خدائی عذاب نازل ہوا تو ثابت ہو جائے گا کہ حضرت عیسی علیہ السلام میں کوئی خدائی طاقت نہیں اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا بھیجنے والا خدا اب بھی زندہ ہے.گو آپ کی وفات پر تیرہ سوسال سے زیادہ عرصہ گزر چکا ہے مگر وہ اب بھی آپ کی حفاظت کرتا ہے.اور اگر وہ لوگ مباہلہ کے لیے نہ آئیں تو جس طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ڈوئی کے متعلق پرو پیگنڈا کیا تھا اُس کے متعلق بھی ملک بھر میں پرو پیگینڈا کیا جائے.اس سے اسلام

Page 459

446 $1956 خطبات محمود جلد نمبر 37 کی عظمت ظاہر ہو گی اور لوگوں پر واضح ہو جائے گا کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات پر حملہ کرنے والے جھوٹے ہیں.مباہلہ کا ہتھیار عیسائیت میں موجود نہیں لیکن اسلام میں موجود ہے.اور اس موقع پر اس سے فائدہ اُٹھایا جا سکتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ میں ڈوئی کے اعلان کی وجہ سے امریکہ بھر میں شور پڑ گیا تھا اور بیسیوں اخباروں اور رسالوں نے ان خبروں کو شائع کیا تھا.اب بھی اُسی طرح اس کتاب کے مصنف کو مباہلہ کا چیلنج دیا جائے تو ملک میں پھر زندگی پیدا ہو جائے گی اور وَ اللهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ کی صداقت کا ایک اور ثبوت مل جائے گا.اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے حفاظت کا وعدہ کیا ہوا ہے.اس لیے عیسائیوں سے کہو کہ ہم قرآن کریم کا یہ دعوی تمہارے سامنے پیش کرتے ہیں تم پہلے ہم سے مباحثہ کر لو اور اپنے اعتراضات پیش کرو.ہم ان باتوں کا رڈ کریں گے اور بتائیں گے کہ ان سے بھی بدتر باتیں تمہارے ہاں موجود می ہیں.پھر تم اُن کا جواب دے لینا.اور اگر مباحثہ کے بعد بھی تم اپنے دعوی پر قائم رہو تو ہم سے مباہلہ کر لو.خدا تعالیٰ خود جھوٹے کو تباہ کر دے گا اور دوسرے فریق کی سچائی کو ظاہر کر دے گا.یہ طریق ایسا ہے کہ اس سے امریکہ اور ہندوؤں دونوں پر اسلام کا رُعب قائم ہو جائے گا.ہندوؤں کو الزامی جواب دینے کے لیے میں نے اس لیے کہا ہے کہ انہوں نے اس امریکن کی کتاب کو شائع کیا ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ اگر کوئی شخص دوسرے کو تیر مارے اور وہ تیر اُسے زخمی نہ کرے لیکن ایک دوسرا آدمی جو تیر اُٹھا لائے اور اُسے دوسرے کے سینہ میں پیوست کر دے تو زیادہ ظالم وہ ہے جس نے گرا ہوا تیر اُٹھایا اور دوسرے کے سینہ میں چھو دیا.یہ کتاب بھی امریکہ کے کسی عیسائی نے شائع کی تھی مگر امریکہ کی کتاب تو امریکہ میں رہ گئی ہندوؤں نے اس کا ترجمہ کر کے مسلمانوں تک پہنچایا اور اس طرح ان کی تکلیف کا موجب ہوئے.پس یہ گالیاں ہندوؤں نے مسلمانوں تک پہنچا کر اپنے ذمہ لے لی ہیں.اس لیے ضروری ہے کہ اس کتاب کے ایک ایڈیشن میں جو ہندوستان میں شائع ہو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دفاع کے ساتھ ساتھ ہندو مذہب کے پول بھی کھولے جائیں.اور

Page 460

$1956 447 خطبات محمود جلد نمبر 37 دوسرے ایڈیشن میں دفاع کے ساتھ ساتھ عیسائیت کے پول کھولے جائیں کیونکہ اس کتاب کا اصل مصنف عیسائی ہے.اس کے بعد اس کتاب کے لکھنے والوں اور شائع کرنے والوں کو چیلنج کی کیا جائے کہ وہ ہمارے ساتھ بحث کر لیں اور اس کے بعد اگر اُن میں طاقت ہو تو ہم مباہلہ کر لیں تا کہ خدا تعالیٰ کی طاقت انہیں نظر آ جائے.اگر یہ طریق اختیار کیا جائے تو میں سمجھتا ہوں کہ یورپ، امریکہ اور ہندوستان تینوں کے لیے یہ طریق ہدایت کا موجب ہو گا.ہندوستان بیشک آزاد ہو گیا ہے مگر اب بھی وہ یورپ کی طرف میلان رکھتا ہے.اگر یورپ اور امریکہ میں شور مچ گیا کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر حملہ کرنے والوں کو احمدیوں نے خوب لتاڑا ہے اور انہیں مباحثہ اور مباہلہ کا چیلنج دیا ہے تو ہندوستان کے اخبارات بھی شور مچانے لگ جی جائیں گے اور وہ بھی وہی باتیں شائع کرنے لگ جائیں گے جو یورپ اور امریکہ کے اخبارات میں شائع ہو رہی ہوں گی اور اس سے ہندوؤں کے کان کھڑے ہو جائیں گے اور وہ سمجھ لیں گے کہ احمدی پیچھا نہیں چھوڑا کرتے.اگر ان کے رسول پر حملہ کیا گیا تو وہ اُس وقت تک حملہ کرنے والوں کو نہیں چھوڑیں گے جب تک انہیں گھر تک نہ پہنچا لیں.اسی طرح آئندہ کے لیے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہتک کرنے اور مسلمانوں پر حملہ کرنے میں احتیاط سے الفضل 22 نومبر 1956ء) وہ کام لیں گے“.1 : المائدة : 68 2 كنز العمال جلد 16 صفحه 661 تا 664 مطبوعه دمشق 2012ء 3 : السيرة الحلبية جلد 3 صفحه 128،127.مطبوعه مصر 1935ء 4 مسلم كتاب الجهاد باب غزوة حنين 5 : مذہبی رہنما: نیو یارک کی ایک فرم نے ”ذہبی راہنماؤں کی سوانح عمریاں“ کے نام.ایک کتاب شائع کی.ہندوستان میں اس کا اردو ترجمہ بھارت کے ایک صوبہ کے گورنر مسٹر منشی بمبئی نے کیا اس کتاب میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ہتک کی گئی.تاریخ احمدیت جلد 19 صفحہ 213) 6 : ترمذی کتاب الفتن باب ماجاء في تغيير المنكر (الخ)

Page 461

$1956 448 40 خطبات محمود جلد نمبر 37 يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا مَنْ يَرْتَدَّ مِنْكُمْ عَنْ دِينِهِ فَسَوْفَ يَأْتِي اللَّهُ بِقَوْمٍ یہ آیت بتاتی ہے کہ دینی نظام سے الگ ہونے والوں کے مقابلہ میں اللہ تعالیٰ مومنین سے کیا سلوک فرماتا ہے (فرمودہ 12 اکتوبر 1956ء بمقام ربوہ ) تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: ہر نظام اپنے ساتھ اپنے ممبروں کے لیے کچھ سہولتیں رکھتا ہے.اگر وہ نظام دینی ہو تو اُس نظام کو چھوڑنے والا اُن تمام سہولتوں سے جو اُس نظام میں دینی ترقی اور اُس کی اشاعت کے لیے رکھی گئی ہوں محروم ہو جاتا ہے.اور اگر اُس نظام دینی پر چلنے والے بچے ہوتے ہیں تو اللہ تعالیٰ باہر سے اور آدمی لے آتا ہے جو پہلوں کے قائم مقام ہو جاتے ہیں.قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا مَنْ يَرْتَدَّ مِنْكُمْ عَنْ دِينِه فَسَوْفَ يَأْتِي اللهُ بِقَوْمٍ يُحِبُّهُمْ وَيُحِبُّونَةَ اَذِلَّةٍ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ أَعِزَّةٍ عَلَى الْكَفِرِينَ - 1 یعنی اے ایمان والو! اگر تم میں سے کوئی ایک شخص بھی تمہارے نظام دینی سے الگ ہو جائے تو اللہ تعالیٰ اُس کے بدلہ میں تمہیں ایک قوم دے گا جو مومنوں کے ساتھ نہایت انکسار کا تعلق رکھنے والی اور کفار کی شرارتوں کا نہایت دلیری ނ

Page 462

$1956 449 خطبات محمود جلد نمبر 37 مقابلہ کرنے والی ہو گی.اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے بتایا ہے کہ نظامِ دینی سے الگ ہونے والوں کے مقابلہ میں ہمارا کیا سلوک ہوتا ہے.مگر افسوس ہے کہ آجکل بعض مسلمان علماء نے لفظ ارتداد کو ایسا بھیانک بنا دیا ہے کہ وہ بالکل ایک نئی چیز بن گیا ہے.حالانکہ ارتداد کے صرف یہ معنے ہیں کہ انسان ایک نظام کو چھوڑ کر کسی اور نظام میں شامل ہو جائے.خدا تعالیٰ نے یہ کہیں نہیں کہا کہ ایسے آدمی کو قتل کر دیا جائے.جیسا کہ بعض مسلمان علماء غلطی سے ایسا سمجھتے ہیں بلکہ اس نے یہ اعلان کیا ہے کہ اگر واقع میں تم مومن ہو تو جو تمہارے نظام کو چھوڑے گا اُس کے متعلق تم کو کچھ کرنے کا حکم نہیں بلکہ اُس کے متعلق ہم ایک ذمہ داری اپنے اوپر لیتے ہیں اور وہ یہ کہ ایک ایک شخص جو تمہارے نظام کو چھوڑے گا اُس کے بدلہ میں ہم ایک ایک قوم کفار میں سے لا کر تمہارے اندر داخل کر دیں گے جن سے خدا محبت کرے گا اور جو خدا سے محبت کریں گے.لیکن مسلمان علماء یہ سمجھتے ہیں کہ نظام دینی سے الگ ہونے والے کی گردن کاٹ دینی چاہیے.حالانکہ اس کی گردن کاٹ دینے سے اسلام کو کیا فائدہ ہو سکتا ہے.اسلام کو تو اُس وقت فائدہ ہو گا جب الله تعالى فَسَوْفَ يَأْتِي اللهُ بِقَوْمٍ يُحِبُّهُمْ وَيُحِبُّونَةَ " كے ماتحت اُس کے کی جگہ ایک قوم لے آئے اور مسلمانوں کو زیادہ کر دے.یہی بات اللہ تعالیٰ نے اس جگہ بیان فرمائی ہے کہ ہم ایک کام اپنے ذمہ لے لیتے ہیں اور وہ یہ کہ ہم نظام سے بھاگنے والے ایک شخص کی جگہ ایک قوم لے آئیں گے.اب دیکھو! قرآن کریم کے بیان اور اس زمانہ کے علماء کی تفسیر میں کتنا عظیم الشان ، فرق ہے.آجکل کے علماء کہتے ہیں کہ اگر کوئی شخص نظام دینی سے نکل جائے تو اُس کے متعلق خدا تعالیٰ پر کوئی فرض عائد نہیں ہوتا.ہم پر یہ فرض عائد ہے کہ ہم اُسے قتل کر دیں.حالانکہ قرآن کریم یہ کہتا ہے کہ اگر نظام دینی کی طرف منسوب ہونے والے لوگ سچے مومن ہیں اور کوئی شخص ان میں سے واقعی طور پر مرتد ہو جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے بدلے میں ایک نئی قوم مسلمانوں میں داخل کر دیتا ہے.مثلاً کہا جاتا ہے کہ احمدی مرتد ہیں اس لیے واجب القتل ہیں.لیکن سوچنے والی بات یہ ہے کہ اگر وہ واقع میں مرتد ہیں اور غیر احمدی واقع میں

Page 463

$1956 450 خطبات محمود جلد نمبر 37 سچے مومن ہیں تو اس قرآنی وعدہ کے مطابق ضروری تھا کہ اگر مسلمانوں میں سے پانچ لاکھ احمدی مرتد ہوئے ہیں تو کم سے کم پچاس لاکھ عیسائی یا ہندو مسلمان ہو کر ان غیر احمد یوں میں مل جاتا.اگر ایسا نہیں ہوا تو معلوم ہوا کہ احمدی مرتد نہیں اور غیر احمدی سچے مومن نہیں اور یا پھر خدا تعالیٰ اپنے وعدے کو پورا نہیں کر سکا.اگر دس افراد کی بھی ایک قوم سمجھ لی جائے اور پانچ لاکھ احمدی ان کے خیال میں مرتد ہو گئے تھے تو پچاس لاکھ غیر مذاہب کے لوگ اسلام میں داخل ہو جانے چاہیں تھے.اور اگر پانچ لاکھ احمدیوں کی بجائے پچاس لاکھ غیر مذاہب والے اسلام میں داخل ہو جاتے تو مسلمانوں کو کتنا فائدہ ہوتا.اس صورت میں تو انہیں پانچ لاکھ افراد کے احمدی ہو جانے سے ذرہ بھر بھی نقصان نہ ہوتا بلکہ فائدہ ہی فائدہ ہوتا اور یہی وہ بشارت ہے جو اس آیت میں مسلمانوں کو دی گئی ہے اور ان کے حوصلوں کو بلند کیا گیا ہے.پھر قوم کا لفظ وسیع ہے.ممکن ہے اس سے سو سو افراد کا گروہ مراد ہو اور اگر سوسو مراد لیا جائے تو چاہیے تھا کہ پانچ لاکھ احمدیوں کے بدلہ میں قرآنی وعدہ کے مطابق پانچ کروڑ ہندو یا عیسائی مسلمان ہو جاتے اور ان پانچ کروڑ کا آنا یقیناً مسلمانوں میں سے پانچ لاکھ غریب زمینداروں کے نکل جانے سے بہت بہتر ہوتا.بہر حال خدا تعالیٰ نے یہ کہا ہے کہ اگر ایک شخص نظام دینی سے الگ ہو جائے تو وہ اُس کے بدلہ میں ایک قوم لایا کرتا ہے.اب یہ قوم یا تو ہندوؤں میں سے آتی یا عیسائیوں میں سے آتی دونوں صورتوں میں موجودہ احمدیوں سے بہتر ہوتی کیونکہ یہ دونوں قو میں احمدیوں سے زیادہ مالدار اور طاقتور ہیں.اگر خدا تعالیٰ ایک ایک احمدی کے بدلہ میں دس دس ہندو بھی اسلام میں لاتا تو پچاس لاکھ ہندو اسلام میں داخل ہو جاتے.تم اندازہ لگائی سکتے ہو کہ اس سے مسلمانوں کی کتنی طاقت بڑھ جاتی.یا اگر امریکہ اور یورپ سے پچاس لاکھ افراد اسلام میں داخل ہو جاتے تو مسلمانوں کو پانچ لاکھ احمدیوں کا نکلنا جو اُن کے خیال میں مرتد ہو گئے ہیں اتنا بھی بُرا معلوم نہ ہوتا جتنا ایک مچھر کا مر جانا بُرا معلوم ہوتا ہے.اور جس طرح لوگ فلٹ 2 سے مچھر مارنے پر خوش ہوتے ہیں اسی طرح دوسرے مسلمان احمدیوں کے نکل جانے پر خوش ہوتے کیونکہ ادھر ایک احمدی ہوتا اُدھر انہیں تار آ جاتی کہ امریکہ یا یورپ میں دس عیسائی مسلمان ہو گئے ہیں.اب یا تو علماء کا احمدیوں کو مرتد کہنا جھوٹ ہے اور ی

Page 464

451 $1956 خطبات محمود جلد نمبر 37 یا نَعُوذُ بِاللهِ قرآنی وعدہ پورا نہیں ہو رہا.قرآن کریم صاف کہتا ہے کہ فَسَوْفَ يَأْتِي اللهُ بِقَوْمٍ يُحِبُّهُمْ وَيُحِبُّونَةٌ اَذِلَّةٍ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ أَعِزَّةٍ عَلَى الكَفِرِينَ یعنی وہ مسلمانوں سے کھلے طور پر وعدہ فرماتا ہے کہ ہر مرتد ہو جانے والے شخص کے مقابلہ میں ہم ایک قوم تمہارے اندر داخل کریں گے.اور اللہ تعالیٰ سے اپنے وعدہ میں کون زیادہ سچا ہو سکتا ہے.اگر علماء کے کہنے کے مطابق خدا تعالیٰ نے مرتدین کو قتل کرنے کا حکم دیا ہے تو اس حکم کو پورا کرنے کی توفیق شاہ افغانستان کے سوا اور کسی کو نہیں ملی اور پھر خدا تعالیٰ کا وعدہ بھی پورا نہیں ہوا کیونکہ کوئی قوم مسلمانوں میں داخل نہیں ہوئی.گویا خدا تعالیٰ نے جو بات مسلمانوں کے ذمہ لگائی تھی اُسے بھی وہ پورا نہ کر سکے اور جو بات خدا تعالیٰ نے اپنے ذمہ لگائی تھی وہ بھی اُس نے پوری نہ کی.اگر وہ اپنا وعدہ پورا کرتا تو ایک ایک احمدی کے بدلہ میں دس دس آدمی اسلام میں داخل ہوتے کیونکہ قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک مسلمان دس دس کفار پر بھاری ہوتا ہے.گویا ہمیں کم سے کم دس دس افراد کی قوم ماننی پڑے گی بلکہ اسلامی جنگیں جو عیسائیوں سے ہوئیں اُن میں ایک ایک مسلمان ایک ایک ہزار عیسائیوں پر بھی بھاری ہوتا تھا.اس طرح پانچ لاکھ احمدی نکل جاتے تو پچاس کروڑ غیر مذاہب والے مسلمان ہو جاتے اور اگر اتنی بڑی تعداد غیر مذاہب والوں کی مسلمان ہو جاتی تو مسلمان کے کو بارہ 4 ہو جاتے ہی اور وہ یکدم دُگنے ہو جاتے اور عیسائی ان سے بہت کم ہو جاتے.بلکہ پچاس کروڑ سے بھی زیادہ غیر مذاہب والے اسلام میں داخل ہو سکتے تھے.کیونکہ تاریخ سے ثابت ہے کہ بعض دفعہ دو دو ہزار کے اسلامی لشکر نے لاکھ لاکھ دشمنوں کا مقابلہ کیا اور ان پر فتح پائی ہے.ایک تاریخی واقعہ ہے کہ ایک دفعہ رومی لشکر کی تعداد ساٹھ ہزار تھی اور اس کے مقابلہ میں صرف تمہیں مسلمان تھے اور انہوں نے رومی لشکر کو بھگا دیا.اس اسلامی لشکر میں ابو جہل کے بیٹے عکرمہ بھی شامل تھے جنہوں نے اسلام قبول کرنے کے بعد اس کے لیے بڑی بھاری قربانیاں کی ہیں.پھر حضرت خالد بن ولید بھی اس لشکر میں شامل تھے.تاریخ سے ثابت ہے کہ اس موقع پر اصل رومی لشکر کی تعداد بارہ لاکھ تھی اور عیسائی مؤرخ اس کی تائید کرتے ہیں.لیکن ساٹھ ہزار کا لشکر وہ ہے جو آگے آیا تھا تا کہ وہ اسلامی بدرقوں 5 کو روکے.اس لشکر کے

Page 465

$1956 452 خطبات محمود جلد نمبر 37 کمانڈر انچیف سے روم کے بادشاہ نے یہ وعدہ کیا تھا کہ اگر وہ مسلمان لشکر پر فتح پائے گا تو وہ اسے اپنی لڑکی کا رشتہ دے دے گا اور آدھا ملک اُسے بانٹ دے گا.یہ کتنا بڑا لالچ تھا جو اس کمانڈر کو دیا گیا لیکن اس کے باوجود تمیں آدمیوں نے اُسے بھگا دیا.انہوں نے قلب لشکر پر حملہ کر کے کمانڈر کو قتل کر دیا اور اُس کے قتل کی وجہ سے سارے لشکر میں بھا گڑ 6 بچ گئی اور وہ تتر بتر ہو گئے.وقت غرض ایک ایک مسلمان نے بعض دفعہ دو دو ہزار کفار کا مقابلہ کیا اور انہیں شکست دی تو اب پانچ لاکھ کو دو ہزار سے ضرب دو تو ایک ارب بن جاتا ہے.گویا مسلمانوں کی اس جتنی تعداد پائی جاتی ہے اس میں ایک ارب کا اضافہ ہو جاتا.عام طور پر مسلمان کہتے ہیں کہ دنیا میں ان کی آبادی ساٹھ کروڑ ہے لیکن عیسائی مؤرخین چالیس یا پینتالیس کروڑ کہتے ہیں.اگر چہ یہ بات جغرافیہ اور حساب کی رُو سے غلط ہے لیکن فرض کرو مسلمانوں کی آبادی پچاس کروڑ ہے تو اگر پانچ لاکھ افراد کے احمدی ہو جانے کے بدلہ میں ایک ارب لوگ اسلام میں داخل ہو جاتے تو مسلمان موجودہ تعداد سے تین گنا زیادہ ہو جاتے.یعنی ایک ارب پچاس کروڑ ہو جاتے.اب یا تو یہ کہو کہ قرآن کریم نے نَعُوذُ بِاللهِ ہم سے دھوکا کیا ہے اور یا یہ سمجھو کہ احمدیوں کو مرتد قرار دینے والے غلطی کرتے ہیں اور اپنے آپ کو سچا مسلمان کہنے والے غلطی کرتے ہیں.ورنہ کیا وجہ ہے کہ سچے مومنوں میں سے حقیقی مرتد ہونے والوں کے بدلہ میں فی شخص ایک قوم قرآنی وعدہ کے مطابق مسلمانوں میں داخل نہیں ہوئی اور جو تھوڑے بہت ہوئے بھی ہیں وہ سچے مومنوں کے ذریعے نہیں ہوئے بلکہ نام نہاد مرتدوں کے ذریعہ سے ہوئے ہیں.اگر ان نام نہاد مرتدوں کو قتل کر دیا جاتا تو اتنے لوگ بھی مسلمان نہ ہوتے.بہرحال اللہ تعالیٰ نے وعدہ فرمایا ہے کہ اگر تم میں سے ایک شخص بھی نظام دینی سے الگ ہوگا تو وہ ایک قوم کو اُس کی جگہ لے آئے گا.اگر مسلمان قرآن کریم پر غور کرتے اور اس آیت کو سچا سمجھتے تو وہ سمجھ لیتے کہ احمدیوں کو مارنے کی کیا ضرورت ہے.ہم تو ایک شخص ماریں گے لیکن خدا تعالیٰ کہتا ہے کہ ہم ایک ایک کے بدلے ایک ایک قوم لائیں گے.گویا اگر ایک شخص احمدی ہوتا تو اللہ تعالیٰ اُس کے بدلہ میں انہیں ایک قوم دیتا جو اس سے بہر حال بہتر ہوتی.

Page 466

خطبات محمود جلد نمبر 37 453 $1956 ہے جو آجکل چونکہ ہماری جماعت میں بھی ایک فتنہ شروع ہے اس لیے میں اپنی جماعت کے دوستوں سے بھی کہتا ہوں کہ اصل طریق یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ سے دعائیں کرو کہ وہ تمہیں سچا مومن بنائے.اگر اللہ تعالیٰ تمہیں سچا مومن بنا دے گا تو اگر جماعت سے دو شخص نکلیں گے تو دو ہزار اور آ جائیں گے.پچھلے دنوں چند آدمی ہماری جماعت سے نکلے تو اللہ تعالیٰ نے ایک بڑی تعداد ان کے بدلہ میں ہمیں دے دی.چنانچہ ایک ہزار سے زیادہ افراد ہماری جماعت میں پچھلے دنوں داخل ہو چکے ہیں اور تازہ اطلاعات جو غیر ملکوں سے آ رہی ہیں اُن سے معلوم ہوتا ہے کہ انتہائی مشرقی ممالک میں ایک بڑی تعداد افراد کی احمدیت میں داخل ہوئی ان سے نکلنے والے آدمیوں سے بہت زیادہ ہے.پس خدا تعالیٰ کا وعدہ سچا ہے اور وہ پورا ہو کر رہنے والا ہے.ضرورت اس امر کی ہے کہ قرآن کریم کی تعلیم کے خلاف نئے معنے نہ کیے جائیں.قرآن کریم کہتا ہے کہ اگر واقع میں کوئی شخص نظام دینی سے الگ ہوتا ہے تو ہم اس کے بدلہ میں ایک قوم لاتے ہیں.اب اگر تم واقع میں کسی کو مرتد سمجھتے ہو تو دیکھ لو کہ قرآنی کے مطابق اُس کے بدلہ میں ایک قوم آئی ہے یا نہیں؟ اگر اُس کے بدلہ میں ایک قوم آ گئی ہے تو وہ واقع میں مرتد ہے اور اگر اُس کے بدلہ میں ایک قوم نہیں آئی تو وہ مرتد نہیں.اور اگر کوئی شخص قرآن کریم کی رُو سے مرتد نہیں اور تم اُسے مرتد کہتے پھرتے ہو تو یہ قرآن کریم کی تضحیک ہے کیونکہ ایک طرف تم اُسے مرتد کہتے ہو اور دوسری طرف تمہیں اُس کے بدلہ میں کوئی قوم نہیں ملتی اور اس طرح قرآنی وعدہ جھوٹا ماننا پڑتا ہے.وعده پھر ہمیں یہ بھی سوچنا چاہیے کہ قرآن کریم نے یہ نہیں کہا کہ مرتد کو قتل کر دو.اس نے صرف اتنا کہا ہے کہ اگر کوئی نظام دینی سے الگ ہو جائے تو اُس کے جانے پر ہم ایک کام کریں گے اور وہ یہ ہے کہ ہم ایک نئی قوم کو مسلمان کر دیں گے.مولوی کہتے ہیں کہ اسلام میں مرتد کو قتل کرنے کا حکم دیا گیا ہے لیکن ہم کہتے ہیں کہ قرآن کریم میں تو انہیں تھپڑ مارنے کا حکم نہیں.قرآن کریم نے صرف اتنا کہا ہے کہ فَسَوْفَ يَأْتِي اللهُ بِقَوْمِ اگر وه واقع میں مرتد ہے تو ہم اُس کے بدلہ میں ایک نئی قوم اسلام میں داخل کر دیں گے.وف عربی زبان میں زور دینے کے لیے بھی آتا ہے.گویا اس آیت کے یہ معنے 66

Page 467

$1956 454 خطبات محمود جلد نمبر 37 ہوں گے کہ ہم کوئی معمولی بات نہیں کہتے بلکہ ہم ضرور ایک قوم لا کر چھوڑیں گے.لیکن عجیب بات یہ ہے کہ ان علماء کے نزدیک پانچ لاکھ احمدی مسلمانوں میں سے مرتد ہو گیا مگر ان کے پاس اللہ تعالیٰ کوئی قوم نہ لایا بلکہ ایک کے بدلہ میں ایک آدمی بھی انہیں نہ ملا اور پانچ لاکھ عیسائی یا ہندو بھی ان میں شامل نہ ہوا.حالانکہ اگر واقع میں پانچ لاکھ مسلمان احمدی ہو کر مرتد ہو گیا تھا تو اللہ تعالی کم از کم پچاس لاکھ مسلمان اور لے آتا.بلکہ اگر اس بات کو دیکھا جائے کہ کسی زمانہ میں ایک ایک مسلمان دو دو ہزار آدمیوں پر بھی بھاری تھا تو ایک شخص کے الگ ہو جانے پر خدا تعالی دو ہزار لوگ اسلام میں داخل کر دیتا اور اس وقت مسلمانوں کی تعداد و ارب کے قریب ہو جاتی.اور ایک ایک ہندو اور بدھ کے مقابلہ میں دو دو مسلمان پیش کیے جا سکتے اور اس طرح دنیا کا نقشہ بدل جاتا.بلکہ میں تو کہتا ہوں اگر ایسا ہوتا تو یہی مولوی ہمارے سامنے ہاتھ جوڑتے اور کہتے کہ خدا کے لیے پانچ لاکھ اور احمدی بنا لو تا کہ ایک ارب اور مسلمان ہو جائیں.اور اگر وہ آ جاتے تو وہ پانچ لاکھ اور احمدی بنا لینے کی درخواست کرتے تا کہ ایک ارب اور مسلمان ہو جاتے.اور اگر موجودہ تعداد سے تین گنا احمدی ہوتے تو دنیا کے چپہ چپہ پر مسلمان پھیلے ہوئے ہوتے اور آج دنیا میں کوئی ہندو، عیسائی، بدھ ، شنٹو ازم کا پیرو اور کنفیوشس کا ماننے والا نظر نہ آتا.سارے مذاہب ختم ہو جاتے.غرض یہ آیت مسلمانوں لیے ایک بہت بڑی خوشخبری کی حامل ہے.لیکن افسوس ہے کہ بعض علماء نے اسے انذار کی آیت سمجھ لیا حالانکہ یہ آیت مسلمانوں کی ترقی کا راستہ کھولتی ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ میں ہمیں ارتداد کی صرف ایک مثال نظر آتی ہے اور وہ یہ کہ آپ کے زمانہ میں آپ کا کاتب وحی مرتد ہو گیا لیکن اُس کے بدلہ میں خدا تعالیٰ نے تھوڑے ہی دنوں میں سارے مکہ کو مسلمان کر دیا.ہم بھی دیکھتے ہیں کہ جماعت میں سے ایک دو آدمی نکلتے ہیں تو خدا تعالیٰ معاً بعد ایک قوم لانی شروع کر دیتا ہے اور ہم بڑھتے چلے : جاتے ہیں.اس وقت ہماری جماعت سے جو لوگ علیحدہ ہوئے ہیں اُن کے متعلق ہم سمجھتے ہیں کہ وہ سُخَطَةً لِدِينِه نہیں نکلے.اس لیے ہم انہیں مرتد نہیں کہہ سکتے.در حقیقت شخص تو مرتد ہوتا ہے اور ایک بمنزلہ مرتد ہوتا ہے.اگر کوئی جماعت سے علیحدہ ہوتا ہے تو

Page 468

$1956 455 خطبات محمود جلد نمبر 37 وہ بمنزلہ مرتد ہوتا ہے.مرتد وہ اُس وقت کہلائے گا جب وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو جھوٹا کہنے لگ جائے.لیکن اگر کوئی شخص سُخطَةٌ لِدِينِہ نکلے تو ہمیں یقین ہے کہ اُس کے بعد سینکڑوں لوگ ہماری جماعت میں داخل ہو جائیں گے.بلکہ ہم تو دیکھتے ہیں کہ ان لوگوں کے بدلہ میں بھی جو بمنزلہ مرتد ہوتے ہیں سینکڑوں لوگ احمدیت میں داخل ہو جاتے ہیں.مثلاً پیغامیوں کو لے لو ہم انہیں مرتد نہیں کہتے کیونکہ وہ کہتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام جو کچھ کہتے ہیں ٹھیک ہے اور جب وہ یہ کہتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام جو کچھ ں ٹھیک ہے تو ہم انہیں مرتد کیسے کہہ سکتے ہیں.زیادہ سے زیادہ ہم یہ کہیں گے کہ وہ بمنزلہ مرتد ہیں کیونکہ وہ بعض نظاموں کو جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے قائم کیے ہیں تو ڑنا چاہتے ہیں.لیکن اُن کے علیحدہ ہونے کے بعد بھی تم دیکھ لو جماعت کو خدا تعالیٰ نے کس قدر بڑھایا ہے.حضرت خلیفہ اسح الاول کے زمانہ خلافت کے آخری جلسہ میں یہ لوگ بھی شامل تھے لیکن اس میں شامل ہونے والوں کی تعداد گیارہ بارہ سو تھی لیکن اب جلسہ سالانہ کے موقع پر ساٹھ ستر ہزار لوگ آ جاتے ہیں بلکہ ہندوستان جس کو جماعت چھوڑ چکی ہے اُس میں قادیان کے سالانہ جلسہ پر بھی اُس جلسہ سے زیادہ لوگ ہوتے ہیں جو کہ حضرت خلیفہ اسی الاول کی زندگی کے آخری سال ہوا تھا.پس دیکھو کہ خدا تعالیٰ نے جماعت کو کس قدر بڑھا دیا.ان میں سے ایک ایک کے جانے کے بعد خدا تعالیٰ نے جماعت کو پندرہ پندرہ ہیں ہیں آدمی دے دیئے اور پھر ابھی جماعت بڑھ رہی ہے.کوئی بعید نہیں کہ کچھ عرصہ کے بعد جماعت اس قدر بڑھ جائے کہ موجودہ جماعت کو اس کے مقابلہ میں وہی نسبت ہو جو ریت کے ذروں کے سامنے ایک کنکر کو ہوتی ہے.غرض اس قرآنی آیت نے مسئلہ ارتداد کو بالکل حل کر دیا ہے اور بتا دیا ہے کہ مرتد کس کو کہتے ہیں اور سچا مومن کس کو کہتے ہیں.کیونکہ اس آیت میں اعلان کیا گیا ہے کہ اگر جماعت مسلمہ سچے مومنوں پر مشتمل ہو اور کوئی شخص اُن میں سے واقعی مرتد ہو جائے تو فوراً اللہ تعالیٰ اُس کی جگہ پر ایک نئی قوم مسلمانوں میں داخل کر دے گا.اگر کسی جماعت میں سے کوئی شخص سُخَطَةً لِدِينِہ نکل جائے اور جماعت میں پھر بھی تبلیغ کا جوش پیدا نہ ہو تو در حقیقت

Page 469

$1956 456 خطبات محمود جلد نمبر 37 وہ قوم یا جماعت سچی مومن نہیں کہلائے گی کہ ایک مرتد کو دیکھنے کے بعد بھی اُس کے اندر دینی غیرت پیدا نہ ہوئی.مگر چونکہ عام طور پر لوگ سمجھتے ہیں کہ علیحدہ ہونے والے سُخطَةً لِدِينِهِ نہیں نکلے اس لیے ان میں تبلیغ کا جوش بھی پیدا نہیں ہوتا.چنانچہ دیکھ لو مولوی تو کہتے ہیں احمدی مرتد ہیں مگر عوام الناس کو احمدیوں میں تبلیغ کرنے کا جوش پیدا نہیں تھا.اس لیے کہ وہ جانتے کہ یہ ہم سے زیادہ اچھے مسلمان ہو گئے ہیں.اگر عوام الناس کو واقع میں یہ یقین ہوتا کہ یہ لوگ مسلمان نہیں رہے تو وہ سارے کے سارے تبلیغ میں لگ جاتے اور احمدیوں سے زیادہ عیسائیوں اور ہندوؤں میں سے کھینچ کر لے آتے.لیکن اُن کا جوش میں نہ آنا صاف بتاتا ہے کہ وہ ہم کو مرتد نہیں سمجھتے.وہ سمجھتے ہیں کہ یہ تو اسلام پر زیادہ پکے ہو گئے ہیں.جیسے پچھلی دفعہ 1953ء میں جب مار مار کر بعض احمدیوں سے کہلایا گیا کہ احمدیت جھوٹی ہے تو ایک بوڑھے احمدی سے بھی ڈرا دھمکا کر یہ کہلوا دیا گیا کہ میں تو بہ کرتا ہوں.وہ لوگ ا اپنے مولوی کے پاس گئے اور کہنے لگے مبارک ہو ایک احمدی کو ہم نے پھر مسلمان کر لیا ہے.وہ کہنے لگا تم بڑے بیوقوف ہو تم نے کچھ نہیں کیا.وہ اُسی طرح احمدی ہے جیسے پہلے تھا.کہنے لگے نہیں.ہم نے اُس سے کہا تو بہ کر تو اُس نے فوراً توبہ کر لی.کہنے لگا کیا احمدی تو بہ نہیں کرتے؟ وہ تو روزانہ تو بہ کرتے ہیں.اس لیے اگر اُس نے توبہ کی تو اپنے مذہب کے مطابق کی.اگر تم سچے ہو تو اُس کو جا کر کہو کہ میرے پیچھے آ کر نماز پڑھے.تب سمجھا جائے گا کہ اُس نے احمدیت سے توبہ کی ہے.وہ لوگ پھر اس کے پاس گئے.تھا تو وہ کمزور اور بوڑھا مگر اللہ تعالیٰ نے ایمانی عقل اسے دی ہوئی تھی.جب دوبارہ لوگ اُس کے پاس گئے تو اُس نے کہا تو بہ تو میں نے کر لی تھی.پھر اب کیوں آئے ہو؟ کہنے لگے ہمارے مولوی نے کہا ہے کہ تم میرے پیچھے آ کر نماز پڑھو تب ہم مانیں گے کہ تم نے تو بہ کی ہے.کہنے لگا یہ غلط بات ہے.دیکھو نماز پڑھنے کے متعلق تو مرزا صاحب بھی کہا کرتے تھے.وہ بھی یہی کہتے تھے کہ نماز پڑھو، روزہ رکھو، حج کرو، زکوۃ دو، شراب نہ پیو، چوری نہ کرو، جھوٹ نہ بولو.میں نے سمجھا تھا اب تمہارے کہنے سے میں نے توبہ کر لی ہے تو اب سب ممنوع کام جائز ہو گئے ہیں.اب آئندہ شراب بھی پئیں گے، کنجریوں کا ناچ بھی کرائیں گے، جھوٹ بھی بولیں گے،

Page 470

$1956 457 خطبات محمود جلد نمبر 37 چوریاں بھی کریں گے، لوگوں کا مال بھی کھائیں گے، زکوۃ بالکل نہیں دیں گے، نماز کے قریب نہیں جائیں گے لیکن تم پھر آ گئے ہو نماز پڑھوانے.اس کا کیا مطلب ہے؟ پھر تو بہ کس بات یہ بات جو اب تم مجھ سے کروانا چاہتے ہو یہ تو مرزا صاحب بھی کرواتے تھے.و لوگ مایوس ہو کر اپنے مولوی کے پاس گئے اور اُسے سارا قصہ سنایا.اُس نے کہا میں نے تمہیں نہیں کہا تھا کہ یہ لوگ بڑے چالاک ہوتے ہیں.اُس نے تمہیں دھوکا دیا ہے.تو بات یہی ہے کہ اگر واقع میں احمدی ہونے سے ارتداد ہوتا ہو تو خدا تعالیٰ ایک ایک شخص کے بدلہ میں ایک ایک قوم لے آئے.لیکن لوگ جانتے ہیں کہ اگر کوئی شخص احمدی ہو جاتا ہے تو وہ اور بھی وہ مسلمان ہو جاتا ہے.میں نے کئی دفعہ سنایا ہے کہ اس علاقہ کا ایک غریب سا احمدی ہے.اُس کا سارا خاندان کٹر غیر احمدی تھا.جب وہ احمدی ہوا تو انہوں نے اُسے خوب مارا اور کہا تم کافر ہو گئے ہو.لیکن احمدی ہو جانے کے بعد اس میں سچ بولنے کی عادت پیدا ہو گئی اور آہستہ آہستہ اس کے متعلق سارے علاقے میں مشہور ہو گیا کہ یہ شخص سچ بولتا ہے.اس علاقہ میں چوریاں بہت ہوتی ہیں.اس کے بھائی بند جانور چرا لایا کرتے تھے.جس شخص کی چوری ہوتی وہ وہاں آ کر کہتا کہ اگر یہ شخص کہہ دے کہ تم نے چوری نہیں کی تو ہم مان لیں گے ورنہ ہم نہیں مانیں گے.ایک دفعہ اس کے بھائی ایک بھینس چرا کر لائے.سارے لوگ اکٹھے ہو گئے اور کہنے لگے کہ کھرا تمہارے ہاں نکلتا ہے.بھینس تم چرا کر لائے ہو.اس لیے بھینس دے دو.انہوں نے کہا خدا کی قسم! ہم نے بھینس چوری نہیں کی.کہنے لگے تمہاری کون مانتا ہے تم جھوٹے اور دھوکے باز ہو.فلاں شخص کو لاؤ.وہ کہہ دے کہ تم نے چوری نہیں کی تو ہم مان لیں گے.انہوں نے کہا اُس کو ہم کیسے لائیں وہ تو ہمارے ساتھ ہی نہیں.انہوں نے کہا جب تک تم اسے نہیں لاؤ گے بات نہیں بنے گی.چنانچہ وہ گئے اور اس احمدی کو خوب مارا اور کہنے لگے چل اور گواہی دے.جب وہ باہر آیا تو کہنے لگے بتاؤ کیا ہم نے بھینس چرائی ہے؟ وہ کہنے لگا بھرائی تو ہے.انہوں نے اسے پہلے تو گھورا.پھر واپس آ کر خوب مارا اور کہنے لگے تم نے کچی گواہی کیوں دی ہے؟ وہ کہنے لگا جب بھینس مجھے نظر آ رہی تھی تو میں کیسے کہتا کہ تم نے کی

Page 471

$1956 458 خطبات محمود جلد نمبر 37 چوری نہیں کی.آخر تنگ آ کر وہ باہر آئے اور کہنے لگے یہ تو مرزائی کافر ہے.اس کی گواہی کا کیا اعتبار ہے.تم ہماری بات سنو.ہم قسم کھا جاتے ہیں.انہوں نے کہا تم ہزار قسم کھاؤ ہمیں اعتبار نہیں.یہ ہے تو کافر لیکن بولتا سچ ہے.تو ساری دنیا مانتی ہے کہ یہ کافر بڑے بچے ہیں، یہ کافر بڑے نیک ہیں.یہ جو بات کہیں گے صحیح کہیں گے.پس حقیقت یہی ہے کہ عام مسلمان تو ہمیں پکے مسلمان سمجھتے ہیں صرف کچھ مولوی ہیں جو ہمیں مسلمان نہیں سمجھتے اور ان مولویوں کی عوام کے مقابلہ میں تعداد کے لحاظ سے نسبت ہی کیا نی ہے.مولویوں کی تعداد پاکستان میں پانچ چھ سو ہو گی جو احمدیوں سے بھی کئی حصے تھوڑے ہیں.عام مسلمان ہمیں مرتد سمجھتے تو اُن میں تبلیغ کا جوش پیدا ہو جاتا اور وہ ہم میں سے کئی افراد کو واپس لے جاتے اور پھر دوسری اقوام سے بھی ایک بہت بڑی تعداد کو اسلام میں داخل کر لیتے.لیکن ان لوگوں میں اسلام کی تبلیغ کا جوش ہی پیدا نہیں ہوا جس کے معنے یہ ہیں کہ وہ ہمیں پکے مسلمان خیال کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ اگر ہم نے انہیں احمدیت سے مرتد کروا لیا تو یہ خراب ہو جائیں گے اور احمدیت کے قبول کرنے کی وجہ سے جو خوبیاں ان میں پیدا ہو چکی ہیں وہ بھی جاتی رہیں گی.لاہور میں میرے پاس ایک دفعہ ایک غیر احمدی مولوی رات کے دس بجے آیا اور اُس نے مجھے کہا کہ آپ نے یہ درست نہیں کیا کہ اپنی جماعت کے لوگوں کو ہمارے ساتھ نماز پڑھنے سے منع کر دیا ہے.اگر آپ انہیں ہمارے پیچھے نماز پڑھنے کی اجازت دے دیں تو مسلمانوں میں اتحاد پیدا ہو جائے گا اور ان کی طاقت بڑھ جائے گی.میں نے کہا مولوی صاحب! یہ فرمائیے کہ آپ رات کے دس بجے میرے پاس آئے ہیں.اس لیے کہ میں اگر احمدیوں کو آپ لوگوں کے پیچھے نمازیں پڑھنے کی اجازت دے دوں گا تو ان کی طاقت بڑھ جائے گی.ہم تو تھوڑے سے ہیں پھر ہمارے شامل ہونے سے آپ کی طاقت کیسے بڑھے گی؟ بتائیے ہم تھوڑے ہیں یا نہیں؟ کہنے لگا ہیں تو تھوڑے لیکن آپ تبلیغ بہت کرتے ہیں.آپ اگر دوسرے مسلمانوں کے ساتھ مل جائیں تو ان کی طاقت بڑھ جائے گی.میں نے کہا اگر ہم تبلیغ کرتے رہے اور وہ مسلمان ویسے کے ویسے رہے تو اس سے مسلمانوں کو کیا ترقی مل جائے گی؟ اور اگر ہم تھوڑے سے لوگوں

Page 472

459 $1956 خطبات محمود جلد نمبر 37 نے ان کے اثر کو قبول کر لیا اور تبلیغ ترک کر دی تو جو فائدہ اس وقت اسلام کو پہنچ رہا ہے وہ بھی چ جاتا رہے گا.آپ یہ دیکھیں کہ ہم بھی انہی میں شامل تھے.حضرت مرزا صاحب کے ماننے سے ہمارے اندر جوش پیدا ہوا اور ہم نے تبلیغ شروع کر دی.ان کے اندر مل گئے تو ہمارا بھی جوش جاتا رہے گا اور اسلام کو کوئی فائدہ نہیں پہنچے گا.اس پر وہ بے ساختہ کہنے لگا میں اپنی بات واپس لیتا ہوں.آپ اپنے لوگوں کو ہمارے پیچھے بالکل نماز نہ پڑھنے دیں.کیونکہ اگر انہوں نے عام مسلمانوں کے ساتھ نماز پڑھی تو وہ واقع میں خراب ہو جائیں گے اور اُن کا اثر قبول کر لیں گے.غرض قرآن کریم بتاتا ہے کہ اگر مسلمانوں میں سے ایک شخص بھی نظام دینی سے الگ ہو جائے تو ہم اُس کے بدلہ میں مسلمانوں کو ایک قوم دیا کرتے ہیں.اس آیت کے مطابق اگر اقع میں احمدی مرتد ہیں تو پانچ لاکھ احمدیوں کے مقابلہ میں ایک ارب غیر مسلم مسلمانوں میں شامل ہونا چاہیے تھا یا کم سے کم پچاس لاکھ غیر مسلم ان میں شامل ہونا چاہیے تھا.مگر پچاس لاکھ تو توی جانے دو ان میں پانچ ہزار بھی نہیں آیا اور جو آیا ہے وہ بھی ہمارے ہاتھوں سے آیا ہے.یعنی عیسائیوں اور ہندوؤں میں سے جو لوگ مسلمان ہوئے ہیں وہ بھی ہم مرتدوں کے ذریعہ ہی ہوئے ہیں.حالانکہ خدا تعالیٰ نے یہ کہا تھا کہ ہم ان کے بدلہ میں لائیں گے یہ نہیں کہا تھا کہ ان کے ہاتھوں سے لائیں گے.لیکن واقعہ یہ ہوا کہ ان مرتدوں کے ذریعہ ہی اللہ تعالیٰ دوسری قوموں سے لوگوں کو اسلام کی طرف لا رہا ہے.اور اگر جماعت احمدیہ کے افراد اپنے ایمانوں پر مضبوطی سے قائم رہے اور خدا تعالیٰ کی مدد اور نصرت ان کے شاملِ حال رہی تو برابر آتے چلے جائیں یہاں تک کہ وہ دن آ جائے گا کہ دنیا میں ایک ہی خدا ہو گا اور ایک ہی رسول.محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سوا کسی کی رسالت نہیں ہو گی اور خدائے واحد کے سوا کسی کو خدا کے نام سے یاد نہیں کیا جائے گا اور غیر مذاہب والے بالکل ادنیٰ قوموں کی سی حیثیت اختیار کرلیں گے.لیکن اُس دن کے آنے کے لیے ضروری ہے کہ احمدی اپنے ایمان میں پکے ہوجائیں.جوں جوں وہ اپنے ایمان میں پکے ہوتے چلے جائیں گے اللہ تعالی عیسائیوں اور ہندوؤں کو مسلمان بناتا چلا جائے گا اور اب بھی وہ انہی کے ہاتھوں سے انہیں مسلمان بنا رہا.جس سے صاف طور پر پتا لگتا ہے کہ انہیں مرتد کہنے والے غلطی خوردہ ہیں.ہم تو مرتد کو

Page 473

$1956 460 خطبات محمود جلد نمبر 37 واجب القتل نہیں سمجھتے بلکہ اسے ایک تھپڑ مارنا بھی جائز نہیں سمجھتے.مگر غیر مسلموں کو کلمہ پڑھوانے کی اگر کہیں ضرورت ہوتی ہے تو اُس وقت ہم لوگ ہی کام آتے ہیں.عام مسلمانوں کو یہ توفیق نہیں ملتی کہ وہ غیر مسلموں کو اسلام میں داخل کریں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پاس ایک دفعہ کسی ادنی قوم میں سے ایک غریب عورت اپنے بچے کو لائی.اُسے سل کا مرض تھا.اُس نے درخواست کی کہ اس کا علاج بھی کریں اور اسے کسی طرح کلمہ بھی پڑھا دیں.وہ لڑکا بڑا پکا عیسائی تھا.وہ کہتا کہ میں تو مسلمان نہیں ہوں گا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اُسے بڑا سمجھایا مگر وہ نہ مانا.ایک دن آدھی رات کو اُٹھ کر وہ بٹالہ کی طرف بھاگ گیا.وہاں عیسائیوں کا مشن تھا.ماں کی آنکھ کھل گئی تو وہ آدھی رات کو گیارہ میل تک جنگل میں سے اُس کے پیچھے گئی اور اُسے پکڑ کر واپس لائی.مجھے یاد ہے میں چھوٹا تھا.وہ آئی اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کے قدموں میں گر گئی اور کہنے لگی میں آپ سے کچھ نہیں مانگتی.یہ میرا اکلوتا بیٹا ہے.میں یہ نہیں کہتی کہ یہ بچی جائے.گو میری خواہش ہے کہ یہ بچ جائے تو اچھا ہے لیکن اگر یہ اچھا نہیں ہوسکتا تو بیشک اچھا نہ.میری خواہش صرف اتنی ہے کہ یہ کلمہ پڑھ کر مرے.آپ کسی طرح اسے کلمہ پڑھوا دیں.پھر بیشک مر جائے.میں سمجھوں گی کہ میرا یہ لڑکا بچ گیا ہے.آخر اللہ تعالیٰ نے اُس کی اس خواہش کو قبول کر لیا.یا تو وہ لڑکا بڑا سنگدل تھا اور یا مرنے سے دو تین دن پہلے کہنے لگا میری سمجھ میں یہ بات آگئی ہے کہ اسلام سچا ہے.چنانچہ اُس نے کلمہ پڑھا اور پھر چند دن کے بعد فوت ہو ہو گیا.اب دیکھو! اگر کسی غیر مسلم کو کلمہ پڑھانا ہوتا ہے تو لوگ ہمارے پاس آتے ہیں کیونکہ کا فر کو کلمہ پڑھانا بھی آسان کام نہیں کلمہ پڑھانا بھی کسی ہنرمند کو ہی آتا ہے.کہتے ہیں کسی پٹھان کا لڑکا تلوار نکال کر ایک ہندو سے کہنے لگا کہ پڑھ کلمہ.پہلے تو وہ بہانے بناتا رہا کہ میں ہندو ہوں میں کلمہ کیسے پڑھوں؟ مگر پٹھان کہنے لگا اگر تم نے کلمہ نہ پڑھا میں تمہیں قتل کر دوں گا.اس پر وہ کہنے لگا خان صاحب! مجھے تو کلمہ آتا نہیں میں کلمہ کیسے پڑھوں؟ آپ پڑھتے جائیں تو میں دُہراتا جاؤں گا.کہنے لگا خُو ! تمہارا قسمت خراب تھا کلمہ مجھے بھی نہیں آتا ورنہ آج تو ضرور مسلمان ہو جاتا.تو کلمہ پڑھانا بھی ہر ایک کا کام نہیں.کلمہ پڑھوانے کے لیے بھی ایک جوش ہوتا ہے.

Page 474

خطبات محمود جلد نمبر 37 461 $1956 1924ء میں جب میں انگلستان گیا تو خالد شیلڈرک ایک بڑا مخلص نو مسلم تھا.میں نے اُس سے پوچھا کہ کیا آپ خواجہ صاحب کے ذریعہ مسلمان ہوئے تھے؟ کہنے لگا نہیں.میں نے پھر پوچھا کیا آپ عبداللہ کو علم کے ذریعہ مسلمان ہوئے تھے؟ کہنے لگا نہیں.میں نے کہا کس کے ذریعہ مسلمان ہوئے تھے؟ کہنے لگا عبد اللہ سہروردی صاحب کے ذریعہ سے ہوا وہ مسلمان ہوا تھا.عبداللہ سہروردی صاحب موجودہ وزیر اعظم پاکستان کے چچا تھے.کہنے لگا بیرسٹری میں پڑھتے تھے لیکن انہیں تبلیغ کا جنون تھا.وہ رات دن تبلیغ کرتے رہتے تھے.چنانچہ میں انہی کے ذریعہ مسلمان ہوا ہوں.اب دیکھو وہ ایک طالبعلم کے ذریعہ مسلمان ا تھا کیونکہ اُسے کلمہ پڑھوانا آتا تھا.عبداللہ سہروردی صاحب میں تبلیغ کا اتنا جوش تھا کہ وہ شملہ میں ہمیشہ مجھے ملا کرتے اور کہتے میری خوش قسمتی ہے کہ آپ شملہ آ گئے ہیں.اب میں آپ سے تبلیغ کا پروگرام بنوانا چاہتا ہوں تا کہ میں باہر کسی ملک میں نکل جاؤں اور تبلیغ می کروں.پس کلمہ پڑھوانا بھی ایک بڑا کام ہے.جس کے دل میں اللہ تعالیٰ جوش ڈال دے وہی کلمہ پڑھوا سکتا ہے.ورنہ اور لوگوں کو تو اُس پٹھان کی طرح یہی کہنا پڑتا ہے کہ کلمہ تو ہمیں بھی نہیں آتا ہم تمہیں کیا مسلمان بنا ئیں؟ پس اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں نظام دینی سے الگ ہونے والوں کی تعریف کر دی ہے.فرماتا ہے یا يُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا مَنْ يَرْتَدَّ مِنْكُمْ عَنْ دِينِهِ فَسَوْفَ يَأْتِي اللهُ بِقَوْمٍ تُحِبُّهُمْ وَيُحِبُّونَ " کہ اگر کوئی نظام دینی سے الگ ہو جائے تو خدا تعالیٰ اُس کے بدلہ میں ایک قوم لے آتا ہے.اگر قوم لے آئے تو معلوم ہوا کہ وہ مرتد ہے اور اگر قوم نہ لائے تو معلوم ہوا کہ الگ ہونے والا مرتد نہیں اور اُس جماعت کے افراد سچے مومن نہیں.اگر الگ ہونے والا مرتد ہوتا اور اُس جماعت کے افراد سچے مومن ہوتے تو خدا تعالیٰ کی جگہ ضرور ایک قوم لے آتا ورنہ جھوٹا ٹھہرتا اور اگر خدا تعالیٰ جھوٹا نہیں بلکہ سب بچوں سے زیادہ سچا ہے تو معلوم ہوا کہ ہمیں مرتد کہنے والے غلطی پر ہیں.اگر ہم واقع میں مرتد ہوتے تو خدا تعالیٰ ہماری جگہ پر عیسائیوں اور ہندوؤں میں سے لوگوں کو مسلمان بناتا.لیکن وہ ہماری جگہ نہیں بناتا بلکہ ہمارے ہاتھ سے بناتا ہے جس سے صاف پتا لگتا ہے کہ ہمارے

Page 475

خطبات محمود جلد نمبر 37 462 $1956 خلاف ارتداد کا فتوی دینے والے علماء غلطی پر ہیں.اور یہ آیت اگر اس کا مفہوم احمدی یاد رکھیں تو احمدیوں اور غیر احمدیوں میں ایک بڑی بھاری فیصلہ گن دلیل ہے.ایسی دلیل جو ارتداد کا مسئلہ بالکل حل کر دیتی ہے.مگر افسوس کہ آج تک احمدیوں نے اس طرف توجہ نہیں کی.(الفضل 24 /اکتوبر 1956ء) 1 : المائدة : 55 2 : فلٹ : مچھر مار دوائی 3 : (الانفال: 66) 4 : پوبارہ ہونا: قسمت جاگنا 5 : بدرقہ : قافلے کا رہنما.محافظ.وہ شخص جو راہ میں مسافر کی حفاظت کرے.: بھا گڑ بھگدڑ

Page 476

$1956 463 41 خطبات محمود جلد نمبر 37 كنتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ یہ آیت ہر مسلمان کا فرض قرار دیتی ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کے احکام کی پیروی کرتے ہوئے ہر پہلو سے بنی نوع انسان کی خدمت کرے (فرموده 19 اکتوبر 1956ء بمقام ربوہ ) تشهد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: یوں تو قرآن کریم سارے کا سارا ہی معارف اور نکات سے بھرا پڑا ہے.مگر اس کے بعض حصے ایسے ہیں جن میں متعدد مضامین اس طرح پاس پاس آ جاتے ہیں کہ حیرت آتی ہے اور تعجب ہوتا ہے کہ تھوڑی سی جگہ میں کتنے اہم مضامین کو جمع کر دیا گیا ہے.سورۃ آل عمران کا وہ رکوع جس کی ایک آیت میں اس وقت پڑھوں گا وہ بھی ایسا ہی ہے.اس میں ایک طرف مسلمانوں کی ذمہ داریاں بیان کی گئی ہیں اور دوسری طرف اہل کتاب کی آئندہ ترقیات

Page 477

$1956 464 خطبات محمود جلد نمبر 37 اور ان کے کاموں کی نوعیت بیان کی گئی ہے.پھر منافقوں کا بھی ذکر کیا گیا ہے اور کافروں کا کی بھی ذکر کیا گیا ہے.غرض تمام قو میں جو اسلام کے ساتھ کچھ تعلق رکھتی تھیں یا اس سے ٹکراتی ہے تھیں ان میں سے کسی کے حال کا اور کسی کے مستقبل کا ذکر اس جگہ کر دیا گیا ہے.اس طرح مختلف مضامین اس چھوٹی سی جگہ یعنی دس بارہ آیتوں میں ہی بیان کر دیئے گئے ہیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے كُنْتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَتُؤْمِنُونَ بِاللهِ وَلَوْ أَمَنَ اَهْلُ الكتب لَكَانَ خَيْرًا لَّهُمْ مِنْهُمُ الْمُؤْمِنُونَ وَاَكْثَرُهُمُ الْفُسِقُوْنَ - 1 اس آیت پہلے تو مسلمانوں کو بتایا گیا ہے کہ تمہارے پیدا کرنے کی ضرورت کیا تھی.فرماتا ہے كُنْتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تم دنیا کی تمام قوموں میں سے بہتر قوم ہو.اس لیے کہ کوئی قوم دنیا میں ایسی نہیں جو تمام بنی نوع انسان کے فائدہ کے لیے کھڑی ہوئی ہو.لیکن تم ایسی قوم ہو کہ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تم کو ساری دنیا کی بھلائی اور فائدہ کے لیے گیا ہے.باقی قومیں اول تو مذہبی حد بندیوں کے باعث اپنے ہی فائدہ کے لیے کھڑی ہوئی ہیں.جیسے عیسائی اور یہودی کہ اُن کا دائرہ عمل صرف اپنی قوم تک محدود تھا مگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آئے تو آپ نے فرمایا خدا تعالیٰ نے مجھے کالے اور گورے سب کے لیے مبعوث فرمایا ہے اور فرمایا میری امت میں عربی اور عجمی کا کوئی فرق نہیں 2 کیونکہ عجمی بھی میری امت میں ہیں اور عربی بھی میری امت میں ہیں.اس لیے چاہے کوئی عجمی ہو اس کے بھی وہی حقوق ہیں اور چاہے عربی ہو اس کے بھی وہی حقوق ہیں.کسی سے کوئی امتیازی سلوک نہیں کیا جائے گا.اسی طرح معاہد قوم اور خود اپنی قوم میں بھی کوئی فرق نہیں کیا جائے گا بلکہ سب کے ساتھ انصاف اور عدل سے کام لیا جائے گا.چنانچہ ہم دیکھتے ہیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں سب سے پہلے کچھ غلام ایمان لائے.اُن کا جو ادب اور احترام کیا گیا اُس کی دنیا میں کہیں مثال نہیں ملتی.غلام دنیا میں ہر جگہ ہی ذلیل رہے ہیں سوائے اسلام کے جس نے انہیں بہت بڑی عزت دی ہے.قربانیاں تو انہوں نے بڑی بڑی ہیں.رومی قوم کے غلاموں کو دیکھ لو، ایرانی قوم کے غلاموں کو دیکھ لو انہوں نے کی

Page 478

$1956 465 خطبات محمود جلد نمبر 37.مسلمان غلاموں سے کم قربانیاں نہیں کیں لیکن رُتبہ اور عزت میں وہ ہمیشہ ہی اصلی قوموں سے رکھے گئے.مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے آنے کے بعد جو غلام ایمان لائے اُن کو وہ ایسا مرتبہ نصیب ہوا اور ایسی ترقی نصیب ہوئی کہ بنو ہاشم یعنی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خاندان کے جو لوگ تھے اُن سے ان غلاموں کے مقابلہ میں کوئی امتیازی سلوک روا نہیں رکھا گیا.آپ کے رشتہ دار اور رؤسائے عرب سمجھتے تھے کہ ہمارے برابر کوئی نہیں مگر جب وقت آب تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان میں اور ان ایمان لانے والے غلاموں میں کوئی فرق نہیں رکھا.دشمنی کے زمانہ میں تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ وہ دشمن تھے اور یہ دوست تھے مگر جب دوست بن گئے تب تو ان میں اور غلاموں میں کوئی فرق ہونا چاہیے تھا.مگر جب فتح مکہ کا وقت آیا تو حضرت عباس ابوسفیان کو پکڑ کر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے آئے اور ی آپ کی خدمت میں پیش کیا.اُس کو جب پتا لگا کہ آپ مکہ پر حملہ کرنے جا رہے ہیں تو اُس نے کہا يَا رَسُولَ اللہ ! آپ کی قوم نے مجھے آپ کے پاس بھیجا ہے.آپ کو خدا نے بڑا رُتبہ دیا ہے.آپ مجھے اپنی قوم کے لیے کوئی انعام دیں تا کہ ان کے سامنے میری بھی عزت ہو.آپ نے فرمایا جو شخص تمہارے گھر میں گھس جائے گا اُس کو جان کی امان دے دی جائے گی.وہ کہنے لگا يَا رَسُولَ اللہ ! میرا گھر کتنا بڑا ہے.مکہ کے ہزاروں افراد کی آبادی میرے گھر میں کیسے گھسے گی؟ آپ نے فرمایا اچھا جو خانہ کعبہ میں گھس جائے گا اُس کی بھی حفاظت کی جائے گی.اس نے کہا يَا رَسُولَ اللہ ! سارا مکہ وہاں بھی نہیں سما سکتا.فرمایا اچھا! جو اپنے گھر کا دروازہ بند کرلے گا اور اندر بیٹھ جائے گا اُس کو بھی معاف کر دیا جائے گا.آپ اسی طرح بتاتے گئے اور اپنے احسان کی وسعت کرتے گئے.بلال اُس وقت نہیں تھے.مکہ والوں نے انہیں بڑی بڑی تکلیفیں دی تھیں.آپ نے مدینہ کے ایک انصاری کو جو اُن کے بھائی بنائے گئے تھے بلایا اور اُسے ایک جھنڈا دے کر فرمایا یہ بلال کا جھنڈا ہے.جو شخص اس جھنڈے کے نیچے کھڑا ہو جائے گا اُس کو بھی پناہ دی جائے گی.3 اب بلال ایک غلام تھے.ایسے غلام جنہیں مکہ والے تپتی ریت پر لٹا کر کیلوں والے جوتے پہن کر اُن پر گودا کرتے تھے اور مقابل میں ابوسفیان تھا جو سارے مکہ کا سردار تھا

Page 479

$1956 466 خطبات محمود جلد نمبر 37 اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا رشتہ دار تھا اور وہ مسلمان بھی ہو چکا تھا.اب وہ زمانہ نہیں تھا کہ کہا جاتا بلال تو مسلمان ہے اور ابوسفیان ایمان نہیں لایا.بلکہ اب وہ زمانہ تھا کہ بلال بھی مسلمان ہو چکا تھا اور ابوسفیان بھی مسلمان ہو چکا تھا.گویا دو مسلمانوں کا مقابلہ تھا.مگر ایک سردا ر تھا مسلمان اور ایک غلام تھا مسلمان.آپ نے اُس غلام مسلمان کو سردار مسلمان کے برابر رکھا اور فرمایا جو شخص اس کے جھنڈے کے نیچے کھڑا ہو جائے گا اُس کو بھی پناہ کی دی جائے گی.بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ ابوسفیان کے گھر میں گھستے ہوئے تو لوگوں کو ڈر بھی آ سکتا تھا مگر بلال کے جھنڈے تلے کھڑا ہونے میں کسی کو کوئی خوف نہیں تھا.کیونکہ وہ میدان میں گاڑا گیا تھا اور میدان میں جو جھنڈا گاڑا جاتا ہے اُس کے نیچے ہر شخص آ سکتا ہے.تو ابوسفیان کے گھر نے اُن لوگوں کو پناہ دی جو اُس سے تعلق رکھتے تھے اور بلال کے جھنڈے نے ہر مکہ والے کو پناہ دی.اب دیکھو کتنی مساوات اسلام نے رکھی ہے.یہاں کوئی سوال عرب کا نہیں تھا اور کوئی سوال حبشہ کا نہیں تھا.اسی طرح نہ ایران کا کوئی سوال تھا ، نہ آرمینیا کا کوئی سوال تھا.ہر شخص چاہے کسی قوم کا تھا چاہے وہ غلام تھا یا آزاد، اسلام میں آنے کے بعد اُسے عزت دی گئی.تو فرماتا ہے کہ تم ایک ایسی قوم ہو أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ جس کو تمام دنیا کے فائدہ کے لیے کھڑا کیا گیا ہے.پھر ہم دیکھتے ہیں کہ کس طرح اسی امت سے سارے جہان نے فائدہ اُٹھایا.حضرت عمر کے زمانہ میں آرمینیا کے قلعہ پر مسلمانوں نے حملہ کیا.وہ حملہ اتنا سخت تھا کہ کفار ڈر گئے کہ کہیں مسلمان دروازہ توڑ کر اندر داخل نہ ہو جائیں.آخر انہوں نے باہم مشورہ کیا کہ کسی طرح ان سے صلح کر لی جائے.مگر چونکہ علاقہ بڑا زرخیز تھا اس لیے انہوں نے کہا اگر صلح کی کی تو ان کا جرنیل ہم پر بڑا تاوان لگائے گا جس کی وجہ سے ہم پر بوجھ پڑ جائے گا.غلاموں میں چونکہ عقل کم ہوتی ہے اس لیے ان کا کوئی غلام پکڑ لو اور اُس سے معاہدہ کر لو.کسی نے کہا غلام سے معاہدہ کرنے سے کیا بنتا ہے؟ تو انہوں نے کہا ان کی قوم میں سب برابر ہیں.بیشک تم کسی غلام سے معاہدہ کر لو اس سے کام بن جائے گا.چنانچہ ایک مسلمان غلام پانی لینے قلعہ نیچے آیا تو انہوں نے اُس کو بلایا اور کہا میاں! اگر ہم قلعہ کا دروازہ کھول دیں تو تم ہمیں

Page 480

$1956 467 خطبات محمود جلد نمبر 37 کیا دو گے؟ وہ دنیا کی تمام چیزوں کے نام لیتا چلا گیا اور کہتا گیا کہ ہم یہ بھی دیں گے اور وہ کی بھی دیں گے.چنانچہ انہوں نے قلعہ کا دروازہ کھول دیا اور کہا کہ مسلمانوں کا ہم سے معاہدہ ہے.جب کمانڈر انچیف کو اس کی خبر ملی تو اُس نے کہا یہ تو بڑا ظلم ہوا ہے.اتنی مدت تک ہم نے لڑائی کی اور ہمارے اتنے آدمی مارے گئے اور اس کے بعد یہ غلام سب کچھ دے کر آ گیا ہے.انہوں نے حضرت عمرؓ کی خدمت میں لکھا کہ یہ معاہدہ ہو گیا ہے.ہم نے بہتیرا کہا ہے کہ یہ غلام ہے لیکن وہ کہتے ہیں کہ تم نے کب اعلان کیا تھا کہ غلام سے معاہدہ نہیں ہو نا.ہم اپنے معاہدہ پر قائم ہیں تم اگر چاہو تو بیشک توڑ دو.حضرت عمرؓ نے لکھا یہ لوگ ٹھیک کہتے ہیں.اگر تم نے معاہدہ توڑا تو ان پر یہ اثر ہوگا کہ مسلمانوں میں غلام اور آزاد میں فرق رکھا جاتا ہے.اس لیے اب کے تم مان لولیکن آئندہ کے لیے اعلان کر دو کہ معاہدہ ہمیشہ کمانڈر انچیف کے ذریعہ ہوا کرے گا.4 چنانچہ وہ معاہدہ مان لیا گیا.اس طرح دور دور کی قوموں پر یہ اثر ہوا کہ اسلام میں غلام اور آزاد میں کوئی فرق نہیں رکھا جاتا اور اسلام کا فیض تمام بنی نوع انسان تک وسیع ہے.اسی طرح جب بیت المقدس کو مسلمانوں نے فتح کیا تو ایک دفعہ عیسائی لشکر پھر اس پرحملہ آور ہوا اور مسلمانوں کو نظر آیا کہ ہمیں یہ علاقہ چھوڑنا پڑے گا.مسلمان کمانڈر نے شہر کے رؤساء کو بلایا اور کہا ہم نے جو تم سے سالانہ ٹیکس لیا تھا وہ اس غرض کے لیے تھا کہ تمہاری جانوں کی حفاظت کریں لیکن اب عیسائی لشکر اتنی طاقت میں ہے کہ ہم اُس کا مقابلہ نہیں کر سکتے.ہم کچھ مدت کے لیے پیچھے ہٹنے لگے ہیں اس لیے تمہارا ٹیکس واپس کیا جاتا ہے.اُس نے وقت دنیا میں عام دستور یہ تھا کہ فاتح قوم جب کسی شہر میں داخل ہوتی تو اُسے ٹوٹتی تھی اور جب نکلتی تھی تب بھی ٹوٹتی تھی.یہاں یہ ہوا کہ جب انہوں نے شہر فتح کیا تب بھی نہ ٹوٹا اور جب واپس آئے تب بھی بجائے ٹوٹنے کے انہوں نے ٹیکس کا سارا روپیہ واپس کر دیا.تاریخوں میں لکھا ہے کہ عیسائیوں پر اس کا ایسا اثر ہوا ہے کہ وہ شہر سے باہر کئی میل تک مسلمانوں کو چھوڑنے آئے اور روتے جاتے تھے اور دعائیں کرتے جاتے تھے کہ خدا تم کو پھر ہمارے ملک میں واپس لائے.تمہارے جیسے امن پسند لوگ ہم نے کبھی نہیں دیکھے.

Page 481

$1956 468 خطبات محمود جلد نمبر 37 ہمارے اپنے مذہب والے تو کو ٹتے ہیں اور تم اتنا انصاف کر رہے ہو کہ واپس جانے سے پہلے ہمارا ٹیکس بھی ہمیں واپس کر رہے ہو.تو دیکھو کس طرح یہ قوم أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ ہو گئی.اسی طرح جب بحرین کے بادشاہ نے اسلام قبول کیا تو اس نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں لکھا کہ يَا رَسُولَ الله! میرے ملک میں یہودی بھی ہیں اور عیسائی بھی ہیں، ایرانی بھی ہیں اور عرب بھی ہیں.آپ مجھے بتائیں کہ میں ان میں سے کس کو اپنے ملک میں رہنے دوں اور کس کو نکال دوں؟ آپ نے لکھا ہر قوم کو اپنے ملک میں رہنے دو.میں صرف یہ حکم دیتا ہوں کہ ان میں سے جس کے پاس زمین نہ ہو اس کو سال کا غلہ اور کپڑا دے دیا کرو.تو یہ بھی اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ کی ایک مثال ہے کہ کوئی شخص کسی قوم کا بھی ہو اسلام اس کی خدمت اور فائدہ کو مدنظر رکھتا ہے.ނ پھر یہ تو ابتدائی زمانہ کی باتیں ہیں جبکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صحبت - فائدہ اُٹھانے والے لوگ موجود تھے مگر دیکھو! یہ تاثیر اتنی دور تک چلی کہ ہندوستان میں سب سے پہلی مسلمان حکومت حکومت غلاماں تھی.شہاب الدین غوری جب ہندوستان پر حملہ کرنے کے بعد واپس ہوا تو جاتی دفعہ اُس نے اپنے ایک غلام کو بلا کر کہا کہ تم نے بڑی قربانی کی ہے اس لیے میں سارا ہندوستان تمہیں دیتا ہوں.چنانچہ وہ غلام بادشاہ رہا اور کئی پشتوں تک اُس کے خاندان کی بادشاہت چلی.اس خاندان کی حکومت حکومتِ غلاماں ہی کہلاتی ہے.یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ اسلام نے مساوات کی جو رو چلائی تھی ، تمام بنی نوع انسان سے محبت اور پیار کی جو رو چلائی تھی وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد بھی چھ سو سال تک چلتی چلی گئی.عرب سے لے کر ہندوستان تک وہ لہر آئی اور ہندوستان میں بھی غلاموں کی سلطنت قائم ہو گئی.پس أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو بتایا ہے کہ تم کو تمام بنی نوع انسان کے فائدہ کے لیے پیدا کیا گیا ہے.ملک میں جب کبھی سیلاب آتا ہے اور احمدی لوگوں کی خدمت کرتے ہیں تو درحقیقت اسی آیت پر عمل کرتے ہوئے وہ لوگوں کی

Page 482

$1956 469 خطبات محمود جلد نمبر 37 خدمت کرتے ہیں.آج خدام الاحمدیہ کا اجتماع بھی ہے.اس لیے میں انہیں اسی آیت کی طرف جو میں نے ابھی پڑھی ہے توجہ دلاتا ہوں.اس آیت میں بتایا گیا ہے کہ ہر مسلمان خادم ہے.ہم نے تنظیم قائم کرنے کے لیے نوجوانوں اور بوڑھوں کا فرق کر دیا ہے.ورنہ درحقیقت تمام کے تمام مسلمان ہی قرآن کریم میں خدام بتائے گئے ہیں.میں نے پچھلے سال اپنی تقریر میں بتایا تھا کہ خدام الاحمدیہ سے یہ مراد نہیں کہ احمدیوں کے خادم بلکہ خدام الاحمدیہ کا مطلب ہے کہ احمدیوں میں سے خادم.یعنی ہیں تو یہ ساری دنیا کے خادم صرف احمدیوں کے م نہیں.مگر احمد یوں میں سے اس گروہ نے اقرار کیا ہے کہ ہم ساری دنیا کی خدمت کریں گے.تو در حقیقت ہم نے نوجوانوں کی تنظیم کا نام خدام الاحمد یہ رکھا ہے ورنہ یہ آیت بتاتی ہے کہ ہر مسلمان ہی اس کام کے لیے مقرر ہے.اور پھر اس نے خدمت کا طریق بھی بتا دیا ہے کہ ہر انسان کو نیک باتوں کی نصیحت کی جائے ، بُری باتوں سے روکا جائے اور خدا تعالیٰ کے جو احکام ہیں اُن کی اتباع اور فرمانبرداری کرائی جائے.یہی مسلمان قوم کو اس دنیا میں پیدا کرنے کی غرض ہے.اگر مسلمان قوم کسی زمانہ میں یہ غرض پوری نہیں کرتی تو وہ كُنتُم خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ کے دائرہ سے نکل جاتی ہے.پھر وہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت نہیں رہتی بلکہ اپنے نفس کی امت ہو جائے گی یا علماء کی امت ہو جائے گی یا اپنے سرداروں اور بادشاہوں کی امت ہو جائے گی.محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کے متعلق خدا تعالیٰ یہ صاف طور پر فرماتا ہے کہ وہ خیر امت ہے.کیونکہ وہ تمام بنی نوع انسان کی خدمت کے لیے کھڑی کی گئی ہے.جب تک وہ تمام بنی نوع انسان کی کی خدمت کرتی ہے اس وقت تک محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت ہے اور جب وہ اس خدمت کو چھوڑ دیتی ہے تو پھر وہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت نہیں رہتی بلکہ نے نفس کے تابع ہو جاتی ہے.پھر آگے فرماتا ہے وَلَوْ آمَنَ اَهْلُ الْكِتَبِ لَكَانَ خَيْرًا لَّهُمْ یعنی اس وقت تو مسلمانوں کو غلبہ مل گیا ہے مگر ایک زمانہ ایسا آئے گا کہ اہلِ کتاب کو دنیا میں غلبہ حاصل ہو جائے گا اور یہودیوں اور عیسائیوں کو حکومتیں مل جائیں گی.پس فرماتا ہے وَلَوْ پنے

Page 483

خطبات محمود جلد نمبر 37 470 $1956 أَمَنَ أَهْلُ الْكِتُبِ لَكَانَ خَيْرًا لَّهُمْ اگر اہلِ کتاب بھی ہمارے اِس حکم پر ایمان لے آئیں اور وہ بھی اپنے آپ کو بنی نوع انسان کی خدمت کے لیے وقف کر دیں تو اس کا نتیجہ ان کے لیے بھی بہت ہی اچھا نکلے گا.ورنہ ان کی حکومتیں بدنام ہو جائیں گی.چنانچہ دیکھ لو ساری دنیا میں امریکہ اور انگلستان کا بغض ہے کیونکہ یہ وَلَوْ أَمَنَ أَهْلُ الْكِتُبِ لَكَانَ خَيْرًا لَّهُمْ پر عمل نہیں کر رہے.امریکہ اور انگلستان والے بھی اہلِ کتاب میں سے ہیں اور عیسائی ہیں.اگر وہ اس حکم کو مان لیتے تو ان کے متعلق لوگوں کے دلوں میں بغض اور کینہ نہ ہوتا.بدقسمتی سے ہمارے ہاں ہر آیت کے غلط معنے کر لیے جاتے ہیں.چنانچہ اس آیت کے بھی غلط معنے کیے گئے ہیں اور کہا گیا ہے کہ اس کے معنے یہ ہیں کہ اگر وہ مسلمان ہو جائیں اور ایمان لے آئیں تو ان کے لیے بہتر ہو گا.حالانکہ یہاں پہلے مسلمانوں کا ذکر کر کے بتایا گیا ہے کہ انہیں ہم نے تمام دنیا کی بھلائی کے لیے کھڑا کیا ہے اور پھر یہودیوں اور عیسائیوں کا ذکر کر کے یہ بیان کیا گیا ہے کہ اگر وہ ایمان لے آئیں یعنی اگر وہ بھی اِس حکم کو مان لیں تو اُن کی حکومت کی عزت بڑھے گی.اور اگر انہوں نے بنی نوع انسان کی محبت کو اپنا مقصد قرار نہ دیا تو لوگوں کے دلوں میں اُن کے متعلق نفرت پیدا ہو جائے گی اور اُن کی حکومت کا انجام نہیں ہو گا.چنانچہ دیکھ لو اب عیسائیوں کو حکومت حاصل ہے لیکن چونکہ انہوں نے اس آیت پر عمل نہیں کیا اس لیے وہ جن ممالک میں بھی جاتے ہیں وہاں لوٹ کھسوٹ شروع کر دیتے ہیں.اگر امریکہ جاپان میں گیا تو اُس نے اُسے ٹوٹنا شروع کر دیا، اگر انگلستان ہندوستان میں آیا تو اس نے ہندوستان کو ٹوٹنا شروع کر دیا.اگر یہ عرب میں گئے تو اُن کو لُوٹنا شروع کر دیا.جس وقت پچھلی جنگ ہوئی ہے تو مصر میں جنرل میکموہن برطانیہ کا نمائندہ تھا.ریف مکه بیچاره سادہ لوح آدمی تھا.اُس کو جنرل میکموہن نے لکھا کہ تم ترکوں کے خلاف ہماری مدد کرو.شریف مکہ نے کہا اگر ہم مدد کریں تو تم ہمیں کیا دو گے؟ اُس نے کہا سب عرب کو متحد کر کے تمہارے حوالے کر دیں گے.وہ بے چارہ مان گیا اور اس نے معاہدہ کر لیا.لیکن جب جنگ ختم ہو گئی تو انگریزوں نے عرب کو بانٹنا شروع کر دیا.لبنان اور دمشق فرانس کو

Page 484

$1956 471 خطبات محمود جلد نمبر 37 وہ دے دیا اور فلسطین اور عراق انگریزوں کے سپرد کر دیا.شریف مکہ جس نے اپنی قوم کو مروایا تھا تو اُسے کچھ بھی نہ دیا.جب اس نے کہلا بھیجا کہ آپ نے تو مجھ سے معاہدہ کیا تھا کہ اگر تم ہماری مدد کرو تو تمام عرب متحد کر کے تمہیں دے دیا جائے گا تو کہنے لگے میکموہن تو ہمارا مصری نمائندہ تھا اور ہمارے قانون میں ایسے معاہدات پر وزیر خارجہ دستخط کیا کرتا ہے.اس لیے و معاہدہ ہے ہی نہیں.اب دیکھو! حضرت عمرؓ نے تو غلام کے کیے ہوئے معاہدہ کو بھی مان لیا لیکن انہوں نے اپنے مصری نمائندہ کے دستخطوں کو بھی رڈ کر دیا اور کہا اسے معاہدہ کرنے کا کیا حق تھا.تم نے بیوقوفی کی جو اُسے مان لیا لیکن ہم تمہاری بیوقوفی کے ذمہ دار نہیں.ہمارے وزیر خارجہ کے دستخط ہوتے تو کوئی بات بھی تھی.گویا انہوں نے شریف مکہ سے دھوکا کیا اور أُخْرِجَتْ للناس کی بجائے أُخْرِجَتْ لِأَنفُسِهِمْ ہو گئے.انہوں نے اپنے ملک کے فائدہ کو مدنظر رکھا بنی نوع انسان کے فائدہ کو مدنظر نہ رکھا.نتیجہ یہ ہوا کہ خود شریف مکہ اور اُس کے بیٹوں میں کی جھگڑا ہو گیا کیونکہ امیر فیصل نے جو بعد میں عراق کا بادشاہ بن گیا تھا اور جس نے بڑی قربانی کی تھی اور لڑائی میں بڑی تندہی سے کام کیا تھا اُس کو باپ پر غصہ آیا کہ مرتا تو میں پھرا ہوں اور ملک لے گئے انگریز.بعد میں انگریزوں نے بھی کچھ شرم کی.معلوم ہوتا ہے کہ یورپین میں سے انگریزوں میں کچھ شرم ہے.انہوں نے عراق کی بادشاہت اسے دے دی اور اس طرح اپنے فعل کی کچھ پردہ پوشی کی مگر عرب اکٹھا نہ ہوا اور اب تک اکٹھا نہیں.اب کچھ حصہ تو سعودی عرب کے ماتحت جمع ہو گیا ہے اور وہ بھی انہوں نے اپنی تلواروں سے اکٹھا کیا ہے.شام ان لوگوں نے فرانسیسیوں کو دے دیا تھا اور اردن میں انہوں نے شریف مکہ کا ایک بیٹا بادشاہ بنا دیا تھا.شام والے اب خود اُردن کے ساتھ ملنے کی کوشش کر رہے ہیں.انگریزوں کی کا اس میں کوئی دخل نہیں.مصر نے اپنے زور سے آزادی لی اور وہ بھی اب کوشش کر رہا ہے کہ عربوں کے ساتھ اتحاد کرے.لیکن اہلِ کتاب نے اپنے کیے ہوئے وعدہ کو پورا نہ کیا.حالانکہ قرآن کریم نے انہیں پہلے سے بتا دیا تھا کہ وَلَوْ أَمَنَ اَهْلُ الكِتب خَيْرًا لَّهُمْ اگر اہلِ کتاب أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ کے حکم پرا لِلنَّاس کے حکم پر ایمان لائے اور

Page 485

$1956 472 خطبات محمود جلد نمبر 37 اپنے زمانہ حکومت اور اقتدار میں انہوں نے بھی بنی نوع انسان کے فائدہ کے لیے کوششیں کیں اور صرف اپنی ذات اور اپنے ملک کے فائدہ کے لیے منصوبے نہ کیے تو اُن کی محبت لوگوں کے دلوں میں پیدا ہو جائے گی اور ان کی عزت ہو گی اور ان کی حکومتیں بھی لمبی ہوتی جائیں گی.لیکن اگر انہوں نے نفسانفسی سے کام لیا اور صرف اپنے ملکوں کا فائدہ سوچا تو دوسری قوموں کے دلوں میں ان کا بغض بڑھ جائے گا اور ان کی نفرت ترقی کر جائے گی.غرض اس آیت میں آئندہ کے متعلق ایک پیشگوئی بھی آ گئی اور مسلمانوں کے فرائض بھی آ گئے کہ تمام بنی نوع انسان کو برابر سمجھو.دیکھو! برابر سمجھنے کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ دوسروں کے دلوں میں محبت پیدا ہو جاتی ہے.مثلاً احمدی ہیں ہم یہ نہیں مانتے کہ احمدی پوری طرح شریعت پر عمل کر رہے ہیں.مگر یہ ضرور نظر آتا ہے کہ یہاں کوئی غیر ملک کا نومسلم آجائے تو ربوہ والوں کی باچھیں کھل جاتی ہیں اور آنے والے بھی کہتے ہیں کہ یہ ہمیں اپنے بھائی معلوم ہوتے ہیں.بھائی اسی لیے معلوم ہوتے ہیں کہ غیر ملکیوں کو دیکھ کر فوراً ان کا دل کھل جاتا ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ ہم تمام بنی نوع انسان کو فائدہ پہنچانے کے لیے کھڑے کیے گئے ہیں.اب اس وقت ساری دنیا میں تبلیغ ہو رہی ہے اور ہندوستان اور پاکستان دونوں ساری تبلیغ کا خرچ برداشت کر رہے ہیں.اگر غیر ملکوں سے خرچ کے متعلق کہا جائے تو وہ کہتے ہیں ہمارے ملک میں جو مبلغ ہیں اُن کا خرچ تو ہم دینے کے لیے تیار ہیں باقی ملکوں کے لیے کیوں تکلیف اُٹھا ئیں؟ ہم انہیں آہستہ آہستہ سمجھا رہے ہیں اور آہستہ آہستہ وہ مانیں گے.لیکن پاکستان اور ہندوستان نے پہلے سے ہی تبلیغ کا سارا بوجھ اُٹھایا ہوا ہے.ان کی مثال ہے کی سی ہے یا بعض کہتے ہیں کہ ٹیری ایک جانور ہے وہ رات کو سوتے وقت ٹانگیں اونچی رکھتا ہے ہے اور سر نیچے رکھتا ہے.کہانیوں والے جانوروں کی بولیاں بھی سمجھتے ہیں.قرآن کریم نے تو کہا ہے کہ ہم نے جانوروں کی بولیاں حضرت سلیمان علیہ السلام کو سکھلائی تھیں 6 مگر ہماری کہانیوں والے کہتے ہیں کہ ہم نے بھی جانوروں کی بولیاں سیکھی ہوئی ہیں.تو کہتے ہیں کسی نے ٹیٹری سے پوچھا کہ تو اپنی ٹانگیں اونچی کیوں رکھتی ہے؟ کہنے لگی اس لیے کہ اگر رات کو آسمان گر پڑا تو میں اسے اپنی ٹانگوں پر سنبھال لوں گی.ہمارے احمدیوں کی مثال بھی

Page 486

$1956 473 خطبات محمود جلد نمبر 37 بالکل ٹیری کی سی ہے.ساری دنیا میں اسلام پھیلانا کوئی معمولی بات نہیں.لیکن سب قومیں کہتی ہیں کہ ہم دوسرے ممالک کی تبلیغ کا بوجھ کیوں اُٹھائیں؟ ہمارے مبلغ ہوں، ہمارے سکول ہوں تو ان کا بوجھ ہم اُٹھا لیں گے.لیکن یہاں جامعتہ المبشرین ہے.اس میں عرب بھی آ کر پڑھتے ہیں ، سوڈانی بھی پڑھ رہے ہیں، سالی بھی پڑھ رہے ہیں اور جرمن بھی پڑھے ہیں، انگریز بھی پڑھے ہیں، امریکن بھی پڑھے ہیں.لیکن کبھی بھی پاکستانی یہ نہیں کہتا کہ میں کیوں بوجھ اٹھاؤں؟ یہ تو غیر ملکوں کے لوگ ہیں پاکستانی نہیں.بلکہ یہ کہتا ہے الْحَمدُ لِلهِ ایک بھائی اور آ گیا.گویا یہ سب کو اپنا بھائی سمجھتا ہے کیونکہ اس میں أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ والی روح پائی جاتی ہے اور اس کی وجہ سے غیر ملکی تو مسلم بھی اسے اپنا بھائی سمجھتے ہیں اور ان کے دلوں میں بھی ان کا ادب اور احترام ہوتا ہے کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ بوجھ اُٹھانا تو ہم سب کے ذمہ تھا مگر یہ مالی لحاظ سے کمزور ہوتے ہوئے بھی سارا بوجھ برداشت کر رہے ہیں.شامیوں کو دیکھ لو، ملک شام وسعت میں پاکستان سے چھوٹا ہے لیکن اس کی آمد ہمارے ملک کی آمد سے بہت زیادہ ہے.مجھے یاد ہے جب ہم 1924ء میں لندن گئے تو چودھری علی محمد صاحب میرے ساتھ تھے.انہوں نے بیت المقدس میں ایک قمیص دُھلائی.جب وہ ڈھل کر آئی تو دھوبی نے ڈیڑھ روپیہ اجرت مانگی.چودھری علی محمد صاحب نے کہا میں نے تو بارہ آنے میں قمیص سلوائی ہے اور تو ڈیڑھ روپیہ ڈھلائی کی اُجرت مانگتا ہے؟ اُس وقت کپڑا سستا ہوتا تھا.آخر کسی نے ہنس کر کہا اس کو قمیص ہی دے دو.دھوبی راضی ہو گیا اور انہوں نے اُسے قمیص دے کر پیچھا چھڑایا.دھوبی قمیص لے کر چلا گیا اور انہوں نے شکر کیا کہ ڈیڑھ روپیہ بچ گیا.غرض اس ملک کی مالی حالت بہت اچھی ہے.مزدور کی مزدوری اتنی زیادہ ہے کہ تم لوگ اس کا خیال بھی نہیں کر سکتے.وہاں ایک معمولی ملازم پندرہ سولہ پاؤنڈ ماہوار کما لیتا ہے.پس ان لوگوں کے پاس مال زیادہ ہے مگر ملک چھوٹا ہے.اگر اُن کی روح بھی پاکستانیوں والی ہو جائے تو وہ جماعت کے لیے بہت مفید ہو سکتے ہیں.پاکستان غریب ہے مگر اس کی روح أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ والی ہے.سارا دن وہ مزدوری کرتا ہے، لنگوٹا کسا ہوا ہوتا ہے اور وہ مٹی کی ٹوکریاں ڈھوتا ہے

Page 487

$1956 474 خطبات محمود جلد نمبر 37 یا جنگل میں سارا دن گھاس کاٹتا ہے اور شام کو آکر اُسے بازار میں بیچتا ہے.اس کے بدلہ میں اسے مثلاً ایک روپیہ ملتا ہے اور اس میں سے وہ ایک آنہ سلسلہ کو دے دیتا ہے اور کہتا ہے اس ، اسلام پھیلے گا.گویا اسلام سے اس کو اتنی محبت ہے کہ وہ یہ خیال بھی نہیں کرتا کہ میں نے سارا دن گھاس کاٹا ہے یا مزدوری کی ہے.اب چند پیسے ملے ہیں تو ان سے بیوی بچوں کی روزی کا سامان کروں.بلکہ کہتا ہے چندہ دے دو اِس سے امریکہ میں اسلام پھیلے گا، یورپ میں اسلام پھیلے گا.اب ہیمبرگ (جرمنی) کی مسجد کی تحریک ہوئی تو بعض غریب لوگوں نے بھی ڈیڑھ ڈیڑھ سو کی رقم بھیج دی.اسی طرح کوئی بیوہ ہے تو وہ رقم بھیج رہی ہے کہ یہ مسجد میں دے دو.پچھلے سال جب میں ولایت سے آیا تو ایک لڑکا مجھے ملا اور اس نے کہا میری ماں نے دو ہزار روپیہ بھیجا ہے اور کہا ہے کہ یہ مسجد کے لیے چندہ میں دے دیا جائے.حالانکہ وہ خود بیوہ تھی.تو یہ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ کا نمونہ ہے.اگر یہ نمونہ اور بڑھے تو اللہ تعالیٰ اور زیادہ برکت دے دے گا.اب تو احمدی پانچ چھ لاکھ ہیں.اگر سارے مسلمان احمدی ہو جائیں تو وہ چالیس کروڑ ہو جاتے ہیں.اور اگر چالیس کروڑ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ بن جائیں تو پھر سوال ہی باقی نہیں رہتا کہ ہم غریب ہیں.ہم امریکہ اور یورپ کو یوں دبوچ لیں جیسے باز چڑیا کو دبوچ لیتا ہے اور دنیا کے کونہ کونہ تک اسلام پھیلا دیں.کیونکہ قطره قطره میشود دریا ایک ایک قطرہ مل کے دریا بن جاتا ہے.اگر چالیس کروڑ آدمی مل جائے اور وہ روپیہ روپیہ بھی سال میں چندہ دے تو چالیس کروڑ روپیہ سالانہ بن جاتا ہے.اب تو ہماری جماعت بہت غریب ہے.پھر بھی اوسط چندہ فی کس اڑھائی تین روپیہ بن جاتا ہے.اگر چالیس کروڑ مسلمان ہو جائیں اور آٹھ آنے اوسط چندہ ہو تو ہمیں کروڑ روپیہ سالانہ آ جائے گا جس کے معنے ہیں ڈیڑھ کروڑ روپیہ ماہوار.اس سے ہم دنیا کے چپہ چپہ میں مبلغ بھیج سکتے ہیں اور اتنا لٹریچر شائع کر سکتے ہیں کہ کوئی یورپین اور عیسائی ایسا نہ رہے جس کے پاس اسلامی کتابوں کا ذخیرہ نہ ہو.غرض اللہ تعالیٰ نے ہمیں دنیا میں بھیجا ہے اور کہا ہے کہ جو کچھ ہم نے تم کو دیا ہے

Page 488

$1956 475 خطبات محمود جلد نمبر 37 اس سے تم دوسرے لوگوں کو بھی کھلاؤ اور پلاؤ.ہم نے تمہیں اس لیے نہیں بھیجا کہ کماؤ اور صرف اپنی ذات پر خرچ کرو بلکہ اس لیے بھیجا ہے کہ کماؤ اور لوگوں پر خرچ کرو.اگر تم لوگوں خرچ کرو گے تو نتیجہ اچھا ہو گا.لیکن خرچ کیسے کرو؟ اس کا طریق بھی ہم بتا دیتے ہیں کہ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ نیک باتیں لوگوں تک پہنچاؤ اور بُری باتوں سے ان کو روکو یعنی تبلیغ کرو.یہ تبلیغ کا ہی مضمون ہے جس کو خدا تعالیٰ نے ایک نئی طرز میں بیان کر دیا ہے کیونکہ اگر ہم کسی کو اسلام سکھاتے ہیں تو اس میں ہمارا تو فائدہ نہیں اُسی کا فائدہ ہے.پھر اگر ہم اپنا روپیہ اس لیے خرچ کرتے ہیں کہ دوسروں کو اونچا کریں جیسے ہمارے نوجوان ویسٹ افریقہ اور ایسٹ افریقہ میں سکول اور کالج کھول رہے ہیں اور اُن کو پڑھا رہے ہیں تو اس میں بھی دوسروں کا ہی فائدہ ہے.لیکن ہمیں اس طرح فائدہ پہنچتا ہے کہ ایک تو ہمیں ثواب مل جاتا ہے اور دوسرے وہ قوم ہماری محبت سے بھر جاتی ہے.افریقن لوگوں کے لیے انگریزوں نے بڑا روپیہ خرچ کیا ہے لیکن ان کے وہ دشمن ہیں اور ہم پر جان دیتے ہیں.اس کی وجہ یہی ہے کہ انگریز نے اس لیے خرچ کیا تھا کہ بعد میں انہیں ٹوٹے اور ہم نے اس لیے خرچ کیا کہ انہیں ترقی ہو.اس لیے ہماری محبت ان کے دلوں میں بڑھتی چلی جاتی ہے اور انگریزوں کی نفرت اُن کے دلوں میں بڑھتی جاتی ہے.کیونکہ انگریز نے جتنا خرچ کیا اس نیت سے کیا کہ بعد میں ان سے فائدہ اُٹھائے اور ہم نے اُن پر جو کچھ خرچ کیا وہ اُن کے فائدہ کے لیے کیا ہے.میں بیماری میں یورپ گیا تو افریقہ کی جماعتوں میں سے لیگوس کے لوگوں نے اپنا ایک رئیس ہوائی جہاز سے لندن میری خبر پوچھنے کے لیے بھیجوا دیا.اُس میں میرا اتنا ادب اور احترام تھا کہ جب مجلس ہوتی تو وہ میرے پاؤں کے قریب آکر بیٹھ جاتا.انگریزوں میں اُس کا بڑا احترام تھا.جس مجلس میں انگریز آتے وہ اُسے اُٹھا کر میرے پاس بٹھانا چاہتے لیکن و میرے پیروں میں آ کر بیٹھ جاتا اور کہتا یہ میری عزت کی جگہ ہے میں یہاں بیٹھوں گا.میں بیماری میں بعض دفعہ گھبرا کر باہر کرسی پر بیٹھ جاتا تھا.وہ باہر سے پھر کر آتا، کسی بڑے آدمی یا وزیر سے مل کر آتا اور آکر میرے پاؤں کے قریب زمین پر بیٹھ جاتا.میں اُسے اُٹھا کر کرسی.وہ

Page 489

$1956 476 خطبات محمود جلد نمبر 37 بٹھانا چاہتا تو کہتا نہیں نہیں.میری عزت اسی میں ہے کہ میں یہیں بیٹھوں.سارا لندن اُس کی تصویریں لیتا تھا، بڑے بڑے وزراء اُس سے ملتے تھے لیکن اُس کی محبت کی حالت یہ تھی کہ وہ ای رے پاؤں کے قریب بیٹھنا اپنی عزت تصور کرتا تھا.حالانکہ ہم نے تو بہت تھوڑا روپیہ خرچ کیا ہے انگلستان نے ہم سے ہزاروں لاکھوں گنا زیادہ اُن کے ملک پر خرچ کیا ہے.مگر انگریزوں کے متعلق اُن کے دلوں میں نفرت ہے اور ہماری محبت ہے.میں نے عیسائیت کے رڈ میں ایک رسالہ لکھا.اس میں کچھ الفاظ سخت تھے کیونکہ جس کتاب کے جواب میں وہ رسالہ تھا اُس میں بڑے بڑے سخت الفاظ اسلام کے متعلق استعمال ہوئے تھے.مجھے بھی جوش آ گیا.چودھری ظفر اللہ خان صاحب کہنے لگے لفظ بدل ڈالیے افریقہ میں انگریز اس رسالہ کو ضبط کر لیں گے.وہ رئیس باہر سے کسی وزیر کو مل کر آیا.میں گھر سے باہر کرسی پر بیٹھا ہوا تھا.میں نے اس کے لیے کرسی رکھوائی لیکن وہ میرے پیروں میں آ بیٹھ گیا.پھر میں نے اُسے کہا بتائیے میں نے ایک رسالہ لکھا ہے اور چودھری صاحب ہیں کہ گورنمنٹ اسے ضبط کر لے گی.آپ کی کیا رائے ہے؟ اُس کی آنکھیں سرخ ہو گئیں اور کہنے لگا گورنمنٹ ضبط کرے گی تو میں گورنر کی گردن پکڑ کر اُسے مروڑ نہ دوں گا.ہم مسلمان وہاں زیادہ تعداد میں ہیں.اس لیے کوئی پروا نہ کیجیے.کسی کی مجال نہیں کہ وہ اس کتاب کو ضبط کرے.یہ غیرت اُسے اس لیے آئی کہ وہ سمجھتا تھا کہ یہ ہماری خاطر قربانی کر رہے ہیں اور گورنر کی قوم جو روپیہ خرچ کرتی ہے اُس کے متعلق وہ جانتا تھا کہ وہ انہیں کوٹنے کے لیے خرچ کر رہے ہیں.اس لیے اُس کے دل میں اس قوم کی محبت نہیں تھی بلکہ ان کے لیے شدید نفرت تھی.پس اللہ تعالیٰ نے یہ ایسا گر مسلمانوں کو بتایا ہے کہ اگر وہ اس پر عمل کریں تو وہ غیروں میں اپنے لیے محبت پیدا کر سکتے ہیں.1953 ء میں لاہور میں احمدیوں کو مارا جاتا تھا.بعد میں مارشل لاء لگا اور اس میں بہت سے مسلمان مارے گئے.اگر چہ وہ اپنی کرتوتوں کی وجہ سے مارے گئے لیکن غیر احمدی سمجھتے تھے کہ اس کا موجب ہم ہیں.بعد میں سیلاب آ گیا اور آپ لوگوں نے وہاں سیلاب زدوں کی خدمت کی.اس کے کچھ عرصہ بعد میں لاہور گیا

Page 490

$1956 477 خطبات محمود جلد نمبر 37 اور میں نے اُن تمام جگہوں کو دیکھا جہاں احمدیوں نے خدمتِ خلق کی تھی.میں نے دیکھا کہ عورتیں، مرد اور بچے سب اپنے گھروں سے باہر آ جاتے تھے اور جماعت کا شکر یہ ادا کرتے تھے.ان میں سے کئی لوگ میری منتیں کرتے تھے کہ ان کے مکانوں کی چھتیں بھی ٹوٹی ہوئی کی ہیں.ان کی امداد کی جائے.ایک مخالف اخبار نے لاہور کے ان لوگوں کو طعنہ دیا کہ ابھی مارشل لاء کے دنوں میں احمدیوں نے تمہارے بھائیوں کو مروایا ہے اور اب تم اُن کی منتیں کر رہے ہو اور اُن کے سامنے ہاتھ جوڑتے ہو.ایسا کرتے ہوئے تمہیں شرم نہیں آتی ؟ اگر چہ اس نے غلط کہا تھا کہ وہ لوگ ہماری وجہ سے موت کا شکار ہوئے تھے لیکن تاہم میں نے کہا چلو! اس نے اتنا تو مان لیا کہ وہ لوگ ہماری منتیں کرتے تھے.وہ منتیں کیوں کرتے تھے؟ اسی لیے کہ وہ جانتے تھے کہ ہم نے جو خدمت کی ہے وہ اپنے نفس کے لیے نہیں کی بلکہ محض ان لالی کے لیے کی ہے.پچھلے دنوں سیلاب آیا تو مجھے لائکپور کے ایک ڈاکٹر نے بتایا کہ شیخوپورہ کا وہ حصہ جہاں احمدیوں نے خدمت کی میرے علاقہ میں تھا.میں نے دیکھا کہ ایک جگہ پر کچھ جانور مرے پڑے تھے اور اُن سے بہت بُو آ رہی تھی.میں نے پولیس سے اُن جانوروں کو دفن کرنے کے لیے کہا تو اُس نے انکار کر دیا.لیکن آپ کے احمدیوں کو میں نے کہا تو انہوں نے بڑے شوق سے اس کام کو کیا.اس کا مجھے پر اتنا اثر ہوا کہ میں نے سارے مسلمانوں کو کہا تمہیں کی شرم نہیں آتی کہ تم ان احمدیوں کے دشمن ہو اور وہ تمہاری خاطر اتنا کام کرتے ہیں.تمہاری پولیس جو گورنمنٹ سے تنخواہیں لیتی ہے وہ کام کرنے کو تیار نہ ہوئی.میں نے اسے مُردہ جانوروں کو دفن کرنے کے لیے کہا تو اس نے انکار کر دیا اور احمدیوں کو کہا تو بات سنتے ہی وہاں چلے گئے اور جانوروں کو دفن کر دیا.پس اگر تم أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ والی بات کو یاد رکھو تو اپنی پیدائش کی غرض کو پورا کر سکتے ہو اور لوگوں کے دلوں میں اپنی محبت پیدا کر سکتے ہو.قرآن کریم کہتا ہے کہ تم کو پیدا ہی بنی نوع انسان کی بھلائی کے لیے کیا گیا ہے.لیکن اگر یہ اہلِ کتاب بھی جن کا دین جھوٹا ہے اس پر عمل کریں اور بے نفسی اور بے غرضی سے بنی نوع انسان کی خدمت کریں تو ان کی بھی

Page 491

$1956 478 خطبات محمود جلد نمبر 37 تعریف ہونے لگ جائے گی اور ان کا انجام اچھا ہو جائے گا.مسلمان جن کا مذہب سچا ہے ان کا انجام تو آپ ہی ظاہر ہے.اگر سچے مذہب والا بے غرضی سے خدمت کرے گا تو لازماً اس کو بڑی ترقی حاصل ہوگی کیونکہ عقل بھی اس کی تائید کر رہی ہو گی اور دل بھی اس کی تائید کر رہا ہو گا اور ان دونوں چیزوں کی تائید کے بعد اس کا رتبہ دنیا میں بڑھ جائے گا.لیکن فرماتا ہے اگر عیسائی اور یہودی بھی سچے دل سے بنی نوع انسان کی خدمت کریں اور بے غرضی سے کریں اور أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ کی تعلیم کو یاد رکھیں تو اُن کو بھی دنیا میں بڑی عزت ملے گی اور وہ بڑی ترقی کر جائیں گے.لیکن یہ ایسا کریں گے نہیں یہ خود غرضی سے ہی کام کریں گے جس کی وجہ سے ان کو نقصان پہنچے گا.اگر یہ ہماری بات مان لیں اور ہم نے مسلمانوں کے پیدا کرنے کا جو مقصد بیان کیا ہے اُسے اپنے سامنے رکھیں تو ان کا انجام بھی بڑا اچھا ہو جائے گا الفضل 28 نومبر 1956ء) اور ان کی عمر لمبی ہو جائے گی“.1 : آل عمران: 111 2 : مسلم كتاب المساجد ومواضع الصلوة 3 : السيرة الحلبية جلد 3 صفحہ 93 مطبوعہ مصر 1935ء 4 : تاریخ طبری جلد 5 صفحه 72 مطبوعه بيروت 1987ء 5 : فتوح البلدان بلاذری صفحه 144،143 مطبوعہ قاہرہ 1319ھ : وَوَرِثَ سُلَيْمَنُ دَاوُدَ وَقَالَ يَاأَيُّهَا النَّاسُ عُلِّمْنَا مَنطِقَ الطَّيْرِ (النمل: 17)

Page 492

$1956 479 42 خطبات محمود جلد نمبر 37 صدیوں کے بعد تمہارے لیے یہ موقع پیدا ہوا ہے کہ تم تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ کے قرآنی حکم کو پورا کر کے الہی انعامات کے وارث بن جاؤ فرمائی: (فرموده 26 اکتوبر 1956ء بمقام ربوہ ) تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور نے مندرجہ ذیل آیت قرآنیہ کی تلاوت كُنْتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَتُؤْمِنُونَ بِاللهِ وَلَوْ أَمَنَ أَهْلُ الْكِتَبِ لَكَانَ خَيْرًا لَّهُمْ مِنْهُمُ الْمُؤْمِنُونَ وَاَكْثَرُهُمُ الْفُسِقُونَ - 1 اس کے بعد فرمایا: میں نے گزشتہ خطبہ جمعہ میں بھی قرآن کریم کی یہ آیت پڑھی تھی اور اس کا پہلو بیان کیا تھا.آج میں اس کا ایک دوسرا پہلو بیان کرنا چاہتا ہوں.اُس دن

Page 493

$1956 480 خطبات محمود جلد نمبر 37 چونکہ خدام الاحمدیہ کا اجتماع تھا اس لیے میں نے اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ پر زیادہ زور دیا تھا.آج میں تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ پر زور دینا چاہتا ہوں کیونکہ میرا منشاء ہے کہ آج میں تحریک جدید کے نئے سال کے چندہ کی تحریک کروں.اس آیت میں خدا تعالیٰ نے پہلے تو مسلمانوں کو کہا ہے کہ كُنْتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ یعنی تم بہترین امت ہو جو ساری دنیا کے لیے نکالی گئی ہو.اور اس کے بعد فرمایا تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ تم ساری دنیا کے لوگوں کو اور بھلائی کی تعلیم دیتے ہو اور بُرائی سے روکتے ہو.یوں تو ہر مومن اگر وہ سچا مومن ہے تو اپنے گردو پیش میں اپنے ہمسائیوں اور ملنے والوں کو امر بالمعروف بھی کرتا ہے اور نھی عن الْمُنْكَرِ بھی کرتا ہے.لیکن اگر ہم اس آیت پر غور کریں تو اس میں ایک عجیب نکتہ بیان کیا گیا تای ہے.خدا تعالیٰ نے اس آیت میں ان دو چیزوں کو أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ کے بعد بیان کیا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ ہم صحیح معنوں میں اس آیت کے اُسی وقت مصداق ہو سکتے ہیں جب هم تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوْفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ پر عمل کریں.یعنی ہم ساری دنیا کے لوگوں کو نیکی اور بھلائی کی تعلیم دیں اور ساری دنیا کے لوگوں کو بُرائی سے روکیں.لیکن ظاہر ہے کہ ہر مومن نہ ساری دنیا میں تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ پر عمل کر سکتا ہے اور نہ ساری دنیا میں تَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ پر عمل کر سکتا ہے.یہ کام تنظیم کے ساتھ ہی ہوسکتا ہے.اور تنظیم بھی ایسی ہو کہ جماعت کے افراد دنیا کے کناروں پر جائیں اور ساری دنیا کے لوگوں کو امر بالمعروف اور نھی عَنِ الْمُنْكَرِ کریں.لیکن اگر کوئی تنظیم نہ ہو اور یہ نہ ہو کہ اُس تنظیم کے ماتحت کوئی شخص امریکہ میں بیٹھا ہوا تبلیغ اسلام کا کام کر رہا ہو، کوئی ملایا میں بیٹھا ہوا یہ کام کر رہا ہو، کوئی تھائی لینڈ میں بیٹھا ہوا یہ کام کر رہا ہو، کوئی بورینیو میں بیٹھا ہوا یہ کام کر رہا ہو، کوئی انڈونیشیا میں بیٹھا ہوا یہ کام کر رہا ہو، کوئی ہندوستان میں بیٹھا ہوا یہ کام کر رہا ہو، کوئی فلپائن میں بیٹھا ہوا یہ کام کر رہا ہو، کوئی جاپان میں بیٹھا ہوا یہ کام کر رہا ہو، کوئی چین میں بیٹھا ہوا یہ کام کر رہا ہو، کوئی یورپ کے مختلف ممالک یعنی انگلینڈ، سکنڈے نیویا، ہالینڈ، بلجیم، سپین، فرانس، سوئٹر لینڈ، جرمنی، آسٹریا، پولینڈ، ہنگری اور روس میں بیٹھا ہوا یہ کام کر رہا ہو تو اُس

Page 494

$1956 481 خطبات محمود جلد نمبر 37 وقت تک اس آیت پر پوری طرح عمل نہیں ہو سکتا.پس اس آیت میں بتایا گیا ہے کہ اے مسلمانو! تم سب سے بہتر قوم ہو جسے ساری دنیا کے لیے نکالا گیا ہے.مگر پھر یہ بھی بتایا کہ تمہیں کس کام کے لیے نکالا گیا ہے.وہ کام یہ ہے کہ تم ساری دنیا کو نیک کاموں کی تعلیم دیتے ہو اور ساری دنیا کو بُرائی سے روکتے ہو.اور ساری دنیا کو نیکی کی تعلیم دینا اور ساری دنیا کو برائی سے روکنا تبھی ممکن ہو سکتا ہے جب جماعت میں تنظیم ہو اور اس تنظیم کے ماتحت وہ ساری دنیا میں اپنے مبلغ بھیجتی رہے.پرانے زمانہ میں اسلام میں یہ طریق تھا کہ لوگ آپ ہی آپ دوسرے ممالک میں چلے جاتے تھے اور اشاعتِ اسلام کا کام کرتے تھے.اُس زمانہ میں بادبانی جہاز ہوتے تھے اور لوگ معمولی کرایہ خرچ کر کے فلپائن، انڈونیشیا، ملایا اور ہندوستان پہنچ جاتے تھے.لیکن اب زمانہ بدل گیا ہے اور سفر پر بڑے بھاری اخراجات ہوتے ہیں.پھر پہلے زمانہ میں لوگ اپنے مکانات کو آباد کرنے کے لیے بھی آدمی ڈھونڈتے پھرتے تھے کہ کوئی مناسب آدمی مل جائے تو اُسے اپنا ایک مکان جو مثلاً دو کمروں پر مشتمل ہو دے دیں تا کہ وہ اس کی حفاظت کرے.لیکن اب یہ حالت ہے کہ بعض ممالک میں ایک غسل خانہ بھی کرایہ پر لیا جائے تو اُس کا ڈیڑھ دوسو روپیہ ماہوار کرایہ دینا پڑتا ہے.اس لیے اب ہر ایک شخص میں یہ طاقت نہیں کہ وہ اُس حکم کمل کر سکے.پرانے زمانہ میں ہر آدمی اس قابل تھا کہ وہ انڈونیشیا، ملایا، چین یا جاپان چلا جائے کیونکہ سفر پر اخراجات بہت کم ہوتے تھے اور پھر چونکہ سفر بھی کم ہوتا تھا اس لیے جب سیاح آتے تو لوگ شوق سے انہیں اپنے گھروں میں ٹھہراتے تھے اور اُن کی خاطر مدارات کرتے تھے.انڈونیشیا میں کسی زمانہ میں عملاً عربوں کی حکومت تھی کیونکہ لوگ انہیں شوق - اپنے گھروں میں لے جاتے اور انہیں استاد اور پیر سمجھتے اور ان کی خاطر مدارات کرتے.لیکن اب انہیں عربوں سے نفرت ہو گئی ہے کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ انہیں استاد اور پیر کہلانے کی عادت ہو گئی ہے.حالانکہ انہی کے سلوک اور خاطر مدارات کی وجہ سے انہیں استاد اور پیر کہلانے کی عادت پیدا ہو گئی تھی.اسی طرح اس علاقہ میں پہلے طبیب نہیں تھے.ہندوستان راول 2 وہاں جاتے اور پانچ پانچ ہزار روپیہ ماہوار کماتے تھے لیکن اب یہ حالت ہے

Page 495

$1956 482 خطبات محمود جلد نمبر 37 کہ وہاں ماہر طبیب بھی چلا جائے تو وہ اسے فقیر اور سپیرا سمجھتے ہیں اور اس سے نفرت کرتے غرض زمانہ کے حالات بدلنے کی وجہ سے اشاعت اسلام کا طریق بھی بدل گیا ہے.اب تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ کا کام وہی شخص کر سکتا ہے جس کو جماعت کی طرف سے خرچ ملتا ہو.اور یہ تبھی ہوسکتا ہے جبکہ وہ جماعت منظم ہو کیونکہ جماعت کا ہر شخص اس قابل نہیں ہوتا کہ وہ اپنے کسی بیٹے کو اس کام کے لیے بھیجے اور اُس کا سارا خرچ خود برداشت کرے.ہماری ساری جماعت جو دس لاکھ کے قریب ہے اس میں اگر کوئی ایسی مثال ملتی ہے تو وہ صرف میری ہے.میں نے اپنے ایک بیٹے کو انڈونیشیا تبلیغ کے لیے بھیجا تھا اور جتنی دیر وہ وہاں رہا اُس کا سب خرچ میں ہی بھجواتا رہا.اب بھی میرا ارادہ ہے کہ اگر آئندہ کسی ملک میں اپنا بیٹا اشاعت اسلام کے لیے بھیجوں تو اللہ تعالیٰ چاہے تو اُس کے سارے اخراجات بھی میں خود ہی ادا کروں.لیکن ہر کوئی ایسا نہیں کر سکتا کیونکہ دوسرے ممالک میں رہائش اور خورونوش کے اخراجات بہت زیادہ ہیں اور پاکستانی چونکہ غریب ہیں اس لیے وہ اس بوجھ کو برداشت نہیں کر سکتے.چار پانچ سو روپیہ ماہوار تنخواہ پانے والا شخص بھی اگر چاہے تو پچاس روپیہ ماہوار تک ہی دے سکتا ہے اس سے زیادہ نہیں.لیکن دوسرے ممالک میں اخراجات دو اڑھائی سو روپیہ ماہوار سے کم نہیں ہوتے اور اتنی رقم وہ اپنی تنخواہ سے نہیں بچا سکتا.پھر جتنی زیادہ کسی کی تنخواہ ہو گی اتنے ہی اُس کے اخراجات بھی زیادہ ہوں گے.ای اے سی اور دوسرے بڑے عہد یداروں کے اخراجات بھی بہت بڑھے ہوئے ہوتے ہیں.بلکہ ہمارے ہاں تو یہ کیفیت ہے کہ عام طور پر جب بیٹا بڑا ہو جائے تو خیال کیا جاتا ہے کہ اب وہ کمائے اور ہماری امداد کرے.غرض پرانے زمانہ اور موجودہ زمانہ میں بہت فرق ہے.مجھے یاد ہے ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سیر کو تشریف لے جا رہے تھے.نواب محمد علی خاں صاحب مرحوم بھی ساتھ تھے.آپ نے بڑے تعجب سے فرمایا نواب صاحب! یہ کتنا اندھیر ہے کہ پہلے جو چوڑھا ہمارے ہاں کام کرتا تھا اُسے ہم چار آنہ ماہوار دیا کرتے تھے اور وہ خود اور اُس کا سارا ٹبر ہماری خدمت کیا کرتا تھا.لیکن اب اس کی

Page 496

$1956 483 خطبات محمود جلد نمبر 37 بیوی کو ہم دوروپے ماہوار دیتے ہیں اور وہ پھر بھی کام سے جی چراتی ہے.اس پر نواب صاحب کہنے لگے حضور ! آپ تو دو روپیہ دیتے ہیں ہم چودہ روپے ماہوار دیتے ہیں اور پھر بھی چوڑھا راضی نہیں.غرض اس زمانہ میں اور پرانے زمانہ میں بڑا بھاری فرق ہے.اب بیرونی ممالک میں جانے پر اتنا خرچ ہوتا ہے کہ اسے کوئی فرد آسانی سے برداشت نہیں کر سکتا.ہاں! ایک قوم مل کر کسی کو باہر بھیج سکتی ہے.فرد چاہے چار سو یا پانچ سو روپے ماہوار تنخواہ پانے والا ہو تب ایسا نہیں کرسکتا.ڈپٹی کمشنروں کی تنخواہیں قریباً بارہ سو روپیہ ماہوار ہوتی ہیں مگر وہ بھی تین چار سو روپیہ ماہوار خرچ نہیں دے سکتے کیونکہ انہوں نے اپنے بیوی بچوں کی خوراک اور لباس کا بھی انتظام کرنا ہوتا ہے، بچوں کی تعلیم کا انتظام کرنا ہوتا ہے.پھر دعوتوں کا خرچ ہوتا ہے، کوٹھی کی حفاظت کا کام ہوتا ہے، پھر بالا حکام آتے ہیں تو اُن کے استقبال اور پارٹیوں پر خرچ ہوتا غرض وہ بھی اپنی تنخواہوں میں سے زیادہ رقم نہیں بچا سکتے اور اپنے کسی بیٹے کو ہے.اشاعت اسلام کے لیے باہر نہیں بھجوا سکتے.ڈپٹی کمشنروں سے بڑے رینک کے افسر تو بہت تھوڑے ہیں.وزیروں کو لے لو وہ بھی گنتی کے ہوتے ہیں.اور وزیراعظم تو پاکستان میں ایک ہی ہے.وزیر اعلیٰ دو ہیں.ایک مغربی پاکستان کا اور ایک مشرقی پاکستان کا.پھر بڑی مصیبت ہے کہ جن لوگوں کو مالی وسعت نصیب ہوتی ہے انہیں اشاعتِ اسلام کا احساس نہیں ہوتا اور جنہیں اس کام کا کچھ احساس ہوتا ہے وہ مالی لحاظ سے کمزور ہوتے ہیں.غرض یہ کام تبھی : سکتا ہے جب ایک منظم جماعت موجود ہو.پھر چاہے اس کے افراد غریب بھی ہوں وہ اس کام کو کر سکتے ہیں.دیکھو! شروع شروع میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ایک دھیلا چندہ کی شرح مقرر کی تھی اور وہ بھی سال میں ایک دفعہ.اور اُس وقت اتنی رقم میں گزارہ ہو جاتا تھا.لیکن اب یہ حال ہے کہ جماعت کا ہر کمانے والا اپنی کمائی میں سے ایک آنہ فی روپیہ دیتا ہے.اور پھر تحریک جدید بھی جاری ہے لیکن پھر بھی خزانہ مقروض رہتا ہے کیونکہ ساری دنیا میں تبلیغ اسلام کا کام کرنا پڑتا ہے اور اس پر چھپیں تمہیں لاکھ روپیہ سالانہ خرچ ہو جاتا ہے.ہو

Page 497

خطبات محمود جلد نمبر 37 484 $1956 پھر کوئی زمانہ ایسا تھا کہ ایک مسجد بنانے پر پانچ چھ ہزار روپیہ تک خرچ آتا تھا.لیکن اب ہے حالت ہے کہ ہالینڈ میں جو مسجد ہم نے بنائی ہے وہ میں نے عورتوں کے ذمہ لگائی تھی.میں نے انہیں کہا تھا کہ تم توے ہزار روپیہ دے دو تو یہ مسجد تمہارے روپے سے بن جائے گی.لیکن اس مسجد پر ایک لاکھ پچاسی ہزار روپیہ خرچ ہو چکا ہے.اب عورتیں پریشان ہیں کہ ہم کیا کریں؟ انہوں نے ستر ہزار روپیہ تو جمع کر لیا تھا مگر اب ایک لاکھ آٹھ ہزار روپیہ اور چاہیے.تمہیں یہی ضروریات ہیں جن کی طرف اس آیت میں اشارہ کیا گیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ ساری دنیا کے فائدہ کے لیے بنایا گیا ہے.اس لیے تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ تَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ کا کام بھی ساری دنیا کے لیے ہو گا اور یہ تبھی ہو سکتا ہے کہ لوگ اپنی زندگیاں اس کام کے لیے وقف کریں اور ایک جماعتی تنظیم موجود ہو جس کے ماتحت لوگوں سے روپیہ لیا جائے اور اشاعت اسلام کے کام پر خرچ کیا جائے.اگر ایسا نہ ہو تو یہ کام نہیں ہو سکتا.پھر مسلمانوں کے لیے مسجد بھی ایک ضروری چیز ہے لیکن اگر کسی ملک میں صرف دس میں مسلمان ہو جائیں تو وہ مسجد کا بوجھ کیسے برداشت کر سکتے ہیں.ایک ایک مسجد پر لاکھوں روپیہ خرچ آتا ہے اور دس بیس نومسلموں کے لیے اتنی بھاری رقم جمع کرنا بہت مشکل ہے.اس لیے وہ بوجھ بھی ہمیں ہی اُٹھانا پڑے گا.میں نے اندازہ لگایا ہے کہ فی الحال ہمیں مہنگے ممالک میں چالیس مساجد کی ضرورت ہے.اور اگر ایک مسجد کی تعمیر کے اخراجات کا اندازہ دولاکھ روپیہ لگایا جائے تو ان چالیس مساجد کے لیے اسی لاکھ روپیہ کی ضرورت ہے.پھر صرف مساجد کا تیار کرنا ہی کافی نہیں ان ممالک میں ہمیں اپنے مبلغ بھی رکھنے پڑیں گے اور پھر لٹریچر کی اشاعت بھی کرنی پڑے گی اور کی یہ بہت بڑا بوجھ ہے جو جماعت کو برداشت کرنا پڑے گا.شاید تم یہ سن کر گھبرا جاؤ اور کہو کہ ہم اتنا بوجھ کیسے برداشت کر سکتے ہیں.سو تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جب بیعت لینی شروع کی تو اُس وقت آپ نے چندوں کی بھی تحریک فرمائی تھی.لیکن اُس وقت کسی کو یہ خیال بھی نہیں آسکتا تھا کہ اتنا بوجھ اُٹھایا جا سکتا ہے جتنا اس وقت ہماری جماعت اُٹھا رہی ہے.جب

Page 498

$1956 485 خطبات محمود جلد نمبر 37 حضرت خلیفة المسيح الاول فوت ہوئے ہیں تو اُس وقت بیرونی ممالک میں سے کسی ملک میں بھی ہمارا کوئی مبلغ نہیں تھا.گو اب پیغامیوں نے یہ کہنا شروع کر دیا ہے کہ دو کنگ مسلم مشن آپ نے ہی قائم کیا تھا حالانکہ خواجہ کمال الدین صاحب جو وہ کنگ مسلم مشن کے بانی ہیں اُن کا اپنا بیان اخبار مدینہ بجنور میں چھپ چکا ہے کہ یہ مسلم مشن وو کنگ اپنی بناء، اپنے ہی وجود، اپنے قیام کے لیے میری ذات کے سوا کسی اور جماعت یا شخصیت یا کسی انجمن کا مرہونِ احسان نہیں ہے.میں نے اپنے ہی سرمایہ سے جو وکالت کے ذریعہ مجھے حاصل ہوا اس مشن کو قائم کیا.اس کے متعلق نہ میں نے کسی سے مشورہ حاصل کیا نہ کسی نے مجھے مشورہ دیا“.3 یہ بیان میں نے الفضل میں بھی شائع کرا دیا تھا اور بتایا تھا کہ خواجہ صاحب کا اپنا بیان یہ ہے کہ میں اپنی مرضی سے اور اپنے روپیہ سے وہاں گیا اور اشاعت اسلام کا کام کرتا رہا اس میں کسی جماعت، انجمن یا شخصیت کا احسان نہیں ہے.اصل بات یہ ہے کہ نواب رضوی صاحب نے جو اُن دنوں بمبئی میں رہتے تھے انہیں ایک سال کا خرچ دیا تھا کہ وہ انگلستان ہائیں اور اُن کے مقدمہ کی پیروی کریں.ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی کہہ دیا تھا کہ اگر وہ چاہیں تو اسلام کی تبلیغ بھی کریں.نواب رضوی کو اتفاقیہ طور پر دولت ہاتھ آگئی تھی کیونکہ ان کی شادی نظام حیدرآباد عثمان علی خاں صاحب کی پھوپھی زاد بہن سے ہوئی تھی اور شادی بھی خفیہ طور پر ہوئی.نواب رضوی چونکہ صرف ایک وکیل تھے اس لیے نظام حیدر آباد یہ نہیں چاہتے تھے کہ ان کی پھوپھی زاد بہن کی ان سے شادی ہو.وہ چونکہ بادشاہ تھے اس لیے اسے اپنی ہتک خیال کرتے تھے اور بیگم کے باپ کی چالیس پچاس لاکھ روپیہ سالانہ کی جائیداد تھی اور اس نے اس جائیداد کا ایک بڑا حصہ نواب رضوی کو دے دیا تھا.نواب رضوی بمبئی آگئے اور نظام حیدر آباد نے انہیں عدالت میں نالش کرنے کی دھمکی دی.اس پر انہوں نے خواجہ کمال الدین صاحب کو سفر کے اخراجات کے علاوہ سال بھر کے قیام کے اخراجات بھی دیئے تا کہ وہ انگلستان میں جاکر ان کا مقدمہ بھی لڑیں اور اپنی خواہش کے مطابق تبلیغ بھی کریں.گویا خواجہ صاحب کو اتفاقی طور پر ایک ایسا آدمی مل گیا تھا جس نے انہیں ایک سال کا خرچ دے دیا تھا.مگر اب یہ تو امید نہیں کی جا سکتی کہ روز روز نظام حیدر آباد پیدا ہوں اور وقار الملک اُن کے پھوپھا ہوں

Page 499

$1956 486 خطبات محمود جلد نمبر 37 جنہیں چالیس پچاس لاکھ روپیہ سالانہ کی آمد ہو.پھر ان کی بیٹی بیوہ رہ جائے اور پھر نواب رضوی پیدا ہوں جن سے اُس کی لڑکی شادی کر لے اور اپنی جائیداد کا ایک حصہ انہیں دے دے اور وہ اس جائیداد کی آمد میں سے کچھ رقم ایک مبلغ کو دے دیں تا کہ وہ انگلستان جا کہ تبلیغ کرے.یہ تو ایسی ہی بات ہے جیسے کہتے ہیں کہ کوئی لونڈی ایک دن اوپلے جمع کرنے کے لیے جنگل میں گئی جن کو پنچابی میں گو ہے" کہتے ہیں.سردی کا موسم تھا ایک خرگوش سردی کی شدت کی وجہ سے ٹھٹھر کر کسی جھاڑی کے قریب بیہوش پڑا تھا.وہ لونڈی او پہلے جمع کرتی ہوئی وہاں پہنچی تو خرگوش دیکھ کر بہت خوش ہوئی اور اُسے اُٹھا کر گھر لے آئی.گھر میں ہر فرد نے اُس کی تعریف کی اور کہا تم بڑی ہوشیار ہو جو خر گوش اُٹھا لائی ہو.اس تعریف کی وجہ سے اُس کا دماغ خراب ہو گیا اور دوسرے دن صبح کو جب وہ پھر او پہلے جمع کرنے کے لیے جنگل میں نے لگی تو کہنے لگی بی بی! میں گوہیاں نوں جاواں یا سئیاں نوں جاواں یعنی بی بی! میں او پہلے اکٹھے کرنے جاؤں یا خرگوش اُٹھانے کے لیے جاؤں؟ گویا اُسے امید پیدا ہو گئی کہ اب ہر روز اسے خرگوش مل جایا کریں گے.یہی مثال ہماری ہو گی اگر ہم یہ کہیں کہ چلو کوئی نواب رضوی تلاش کریں جو کوئی مبلغ ہی باہر بھیج دے.نہ نظام حیدر آباد کی ریاست قائم کی جاسکتی ہے نہ نظام کی بہن کو بیوہ کیا جا سکے ہے اور نہ اُس بیوہ کی بیٹی کو کسی احمدی وکیل سے بیاہا جا سکتا ہے اور نہ ہر روز نواب رضوی پیدا ہو سکتا ہے جس سے اس کی خفیہ طور پر شادی ہو جائے اور وہ اسے اپنی جائیداد کا ایک بڑا حصہ دے دے.اور نہ نظام حیدرآباد سے کہا جا سکتا ہے کہ وہ نواب رضوی کو نالش کی دھمکی د اور پھر نواب رضوی کو اپنا مقدمہ لڑنے کے لیے خواجہ کمال الدین صاحب جیسا آدمی مل جائے اور وہ اسے انگلستان بھجوا دے اور اسے ایک سال کے قیام کا خرچ اور سفر کے اخراجات بھی دے دے.یہ بہت دور کا اتفاق ہے جو ہزاروں سال کے بعد ہی میسر آ سکتا ہے.لیکن یہاں تو روزانہ مبلغ بھجوانے ہوں گے اور روزانہ مبلغ بھجوانے کے لیے تحریک جدید ہی کام دے سکتی ہے.

Page 500

خطبات محمود جلد نمبر 37 487 $1956 وہی تحریک جدید جس نے ساری دنیا کی تبلیغ کا بوجھ اُٹھایا ہوا ہے.میں یہ نہیں کہتا ہے کہ تحریک جدید کے دفاتر کے کام پر میں خوش ہوں.ہالینڈ کی مسجد کو ہی لے لو میرے نزدیک اگر تحریک جدید کے افسر احتیاط سے کام لیتے تو ایک لاکھ پندرہ ہزار روپے میں مسجد بن جاتی اور عورتوں پر زیادہ بوجھ نہ پڑتا.لیکن بہر حال تحریک جدید کے ذریعہ ایک نہایت اہم اور قابل تعریف کام ہو رہا ہے اور جماعت کو اسے ہر وقت اپنے سامنے رکھنا چاہیے اور اس میں حصہ لینا چاہیے تا کہ وہ تبلیغ اسلام کو ساری دنیا میں پھیلا سکے.اس سال سکنڈے نیویا میں ایک نیا مشن کھولا گیا ہے اور ایسے سامان پیدا ہو رہے ہیں کہ شاید ہمیں اپنے خرچ پر کچھ اور مبلغ بھی امریکہ بھجوانے پڑیں کیونکہ امریکہ میں مبلغوں کی بڑی مانگ ہے.لیکن امریکن احمدی ان کا خرچ برداشت نہیں کر سکتے بلکہ امریکن جماعت کا چندہ امریکہ کے موجودہ مبلغوں کا خرچ کی بھی برداشت نہیں کر سکتا.اگر چہ مغربی ممالک میں سے امریکہ ہی ایک ایسا ملک ہے جو ایک ر تک تبلیغ کا بوجھ اُٹھا رہا ہے.وہاں کے مشن کا خرچ ڈیڑھ لاکھ روپیہ سالانہ کے قریب ہے لیکن وہ قریباً دو تہائی بوجھ اُٹھا رہا ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ وہاں جماعت تھوڑی ہے.امریکہ کی جماعت کے گل پانچ سو افراد ہیں اور ظاہر ہے کہ پانچ سو افراد کے لیے ڈیڑھ لاکھ روپیہ سالانہ کا بوجھ برداشت کرنا مشکل ہے.اس لیے لازمی طور پر ہمیں بھی ان کا خیال رکھنا پڑتا ہے.اگر اور مبلغ گئے تو اور خرچ ہو گا.پھر ایک اور علاقہ میں بھی تبلیغ کے رستے کھل رہے ہیں اور کچھ وقت کے بعد وہاں با قاعدہ مشن قائم کیا جا سکے گا.اسی طرح چین سے ایک بڑے عالم کا عربی اور انگریزی میں خط آیا ہے جس میں اُس نے اپنے ملک میں احمدیت کی اشاعت کی طرف توجہ دلائی ہے.فلپائن میں بھی بعض نوجوان لٹریچر کے ذریعہ احمدی ہوئے ہیں اور تازہ اطلاع آئی ہے کہ وہاں طلباء کی ایک انجمن ہے جس کے آٹھ ممبر لٹریچر کے ذریعہ احمدی ہو گئے ہیں اور ان میں سے بعض نے دین کی اشاعت کے لیے اپنی زندگی بھی وقف کی ہے اور وہ ربوہ آ کر تعلیم حاصل کرنا چاہتے ہیں.اب اگر وہ ربوہ آ کر تعلیم حاصل کریں گے تو اُن کے یہاں قیام کے اخراجات بھی دینے پڑیں گے اور ایک طرف کا کرایہ بھی دینا پڑے گا.اس طرح بچھپیں تیس ہزار روپیہ کا خرچ اور بڑھ جائے گا.غرض ہمارا اشاعتِ اسلام کا کام ہر روز

Page 501

خطبات محمود جلد نمبر 37 488 $1956 بڑھے گا اور اخراجات بھی بڑھیں گے جو آپ کو بہر حال برداشت کرنے پڑیں گے.ہمارے ملک میں ایک مثال ہے اور وہ بڑی بچی ہے کہ اونٹ شور مچاتے ہی لا دے جاتے ہیں.اسی طرح تم بھی چاہے کس قدر شور مچاؤ تمہیں تبلیغ کا کام بہر حال کرنا پڑے گا.اس سے تمہارا پیچھا نہیں چھوٹے گا کیونکہ جب تم احمدی ہوئے تھے تو تم نے مان لیا تھا کہ نَحْنُ خَيْرُ أُمَّةٍ ہم بہترین امت ہیں.اور اگر تم بہترین امت ہو تو تمہیں وہ کام کرنا پڑے گا جو خدا تعالیٰ نے قرآن کریم میں بہترین امت کا بیان کیا ہے.یا تو تم کہہ دو کہ ہم اچھے نہیں تم سے عیسائی اور یہودی اچھے ہیں.اور یا یہ کہو کہ ہم اچھے ہیں.اور اگر تم اچھے ہو تو تمہیں اشاعت اسلام کا کام بھی کرنا پڑے گا.اس تمہید کے بعد میں تحریک جدید کے نئے سال کے چندہ کا اعلان کرتا ہوں اور تحریک کرتا ہوں کہ دوست زیادہ سے زیادہ اس میں چندہ لکھوائیں اور پھر اسے جلد ادا کرنے کی کوشش کریں تا کہ پچھلا بوجھ بھی اُترے اور آئندہ سال تبلیغ کا کام بہتر طور پر ہو سکے.اور خدام اور انصار کے ذمہ لگاتا ہوں کہ وہ سارے دوستوں میں تحریک کر کے زیادہ سے زیادہ وعدے جلد سے جلد بھجوائیں.اور خدا کرے کہ نومبر کے آخر تک ان کو وعدوں کی لسٹیں پورا کرنے کی توفیق مل جائے اور دسمبر کے آخر میں تحریک جدید یہ اعلان کر سکے کہ اس کی ضرورتیں پوری ہو گئی ہیں.پچھلے سال میں نے تحریک جدید کا بجٹ بڑی احتیاط سے بنوایا تھا لیکن پھر بھی پتا لگا ہے کہ تحریک جدید پر صیغہ امانت اور بعض دوسری مدات کا دو لاکھ چالیس ہزار روپیہ قرض ہے.اس لیے قربانی اور ہمت کی ضرورت ہے.مگر گھبراؤ نہیں خدا تعالیٰ.کرو کہ وہ تمہیں اس کی توفیق عطا فرمائے اور تمہاری اور تمہارے ساتھیوں کی مالی حالت بہتر بنائے اور تمہیں مزید لاکھوں بھائی عطا فرمائے جن کے ساتھ مل کر تم اس بوجھ کو آسانی کے ساتھ اُٹھا سکو.میں سمجھتا ہوں کہ اگر ہمارے زمیندار ہی یورپ کے زمینداروں کی طرح محنت کریں تو ہماری آمد میں سو گنا اضافہ ہو سکتا ہے.یورپ کے بعض ممالک میں فی ایکٹر تین تین ہزار روپیہ آمد ہے اور ہماری جماعت کے پاس ڈیڑھ لاکھ ایکڑ سے زیادہ زمین ہے.

Page 502

$1956 489 خطبات محمود جلد نمبر 37 اگر ہمارے زمینداروں کی آمد بھی تین تین ہزار روپیہ فی ایکڑ ہو تو ان کی آمد ساڑھے پینتالیس کروڑ روپیہ سالانہ ہو جاتی ہے.اگر وہ اس کا چھ فیصدی چندہ دیں تو جماعت کا چندہ دوکروڑ ستر لاکھ بن جاتا ہے.اور اگر دس فیصدی دیں تو جماعت کا چندہ چار کروڑ پچاس لاکھ روپیہ سالانہ بن جاتا ہے.پھر خدا تعالیٰ کے فضل سے جماعت روز بروز بڑھ رہی ہے.گو جماعت کے دوست تبلیغ میں سستی کرتے ہیں لیکن پھر بھی ہم دیکھتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کے فرشتے لوگوں کے کانوں میں احمدیت کی تعلیم ڈالتے رہتے ہیں اور وہ کھنچے ہوئے احمدیت کی طرف جاتے ہیں.اگر ہمارے زمیندار محنت کریں تو خود بھی انہیں فائدہ ہوگا یعنی ان کی مالی حالت بہتر ہو گی اور ان کے بچے تعلیم پائیں گے اور ساتھ ہی تبلیغ بھی ہو گی اور وہ كُنتُم خَيْرَ اُمَّةِ میں داخل ہو جائیں گے اور ان کا نام خدا تعالیٰ کے حضور پہلے نمبر پر لکھا جائے گا.دیکھو! اگر تم زیادہ نمازیں پڑھو گے تو اس کا ثواب صرف تمہارے حساب میں لکھا جائے گا.لیکن اگر تم زیادہ تبلیغ کرو گے تو ساری دنیا اس سے فائدہ اُٹھائے گی اور ساری دنیا کے ثواب میں تم شریک ہو جاؤ گے.میں دیکھتا ہوں کہ جماعت کے بعض دوست ایسے ہیں جو شاید دورو پیہ چندہ دیتے ہیں لیکن جب کسی مجلس میں بیٹھتے ہیں تو بڑے فخر سے سینہ پر ہاتھ مار کر کہتے ہیں کہ ہم امریکہ میں تبلیغ کر رہے ہیں، جرمنی میں تبلیغ کر رہے ہیں، انگلینڈ میں تبلیغ کر رہے ہیں، سوئٹزر لینڈ میں تبلیغ کر رہے ہیں، انڈونیشیا میں تبلیغ کر رہے ہیں.ان کی مثال ویسی ہی ہوتی ہے جیسے کہتے ہیں کہ کسی زمیندار کے ہاں شادی تھی.ہمارے ہاں رواج ہے کہ شادیوں پر لوگ نیوتا دیتے ہیں.اُس شادی میں ایک نند اور ایک بھاوجہ دو عورتیں گئیں.نند غریب تھی.اس نے ایک کہانی روپیہ نیوتا دیا لیکن بھاوجہ امیر تھی اُس نے ہمیں روپے نیوتا دیا.کسی نے نند سے پوچھا بہن! تم نے کتنا نیوتا دیا؟ تو اُس نے بڑے فخر سے کہا میں تے بھائی اکیس.اسی طرح ان لوگوں کی مثال ہے.مجالس میں بیٹھ کر وہ بڑے فخر سے کہیں گے کہ ہم فلاں فلاں ملک میں تبلیغ کر رہے ہیں.لیکن جب ان سے پوچھا جائے کہ تم نے اس کام کے لیے کتنا چندہ دیا ہے؟ تو بعض دفعہ وہ کہیں گے ہم نے آٹھ آنے دیئے تھے.وہ بھول جاتے ہیں کہ یہ تبلیغ ان لوگوں کے

Page 503

$1956 490 خطبات محمود جلد نمبر 37 ذریعہ ہو رہی ہے جو ہزاروں روپیہ اس کام کے لیے دے رہے ہیں.شادیاں ہوتی ہیں ، عقیقے ہوتے ہیں تو لوگ بڑے شوق سے روپیہ خرچ کرتے ہیں.اسی طرح اگر وہ اپنے دلوں میں اشاعتِ اسلام کی سچی تڑپ رکھیں تو تبلیغ کے لیے کیوں نہیں دے سکتے ؟ ابھی تھوڑے دن ہوئے مجھے افریقہ کے ایک احمدی دوست ملے.انہوں نے کہا آپ نے رخصتمانہ کے موقع پر لڑکی والوں کو کھانا کھلانے کی بالکل ممانعت کر دی ہے حالانکہ ہمارا وہاں بہت اثر ہے اور گورنر اور بڑے بڑے عہد یدار ہمیں اپنے ہاں بلاتے ہیں.اگر ہم انہیں اپنے ہاں نہ بلائیں تو وہ ہمیں طعنہ دیتے ہیں کہ تم لوگ ہماری دعوتیں تو کھا جاتے ہو اور اپنی باری آئے تو ہمیں نہیں کھلاتے.ہماری مالی حیثیت پاکستانیوں سے بہت اچھی ہے.آپ کی ہمیں اجازت دیں کہ ہم ایسے موقعوں پر گورنروں اور دوسرے عہد یداروں کو اپنے ہاں دعوتوں میں بلا لیا کریں تا کہ وہ ہمیں طعنہ نہ دے سکیں کہ ہم ان کو اپنے ہاں نہیں بلاتے.پھر ہمارے ہاں چار چار، پانچ پانچ میل پر مکانات ہوتے ہیں.اگر اس قسم کے مواقع پر آنے والوں کو کھانا نہ کھلایا جائے تو بڑی عجیب بات معلوم ہوتی ہے.میں نے انہیں کہا کہ وہ اپنے ملک کے حالات لکھ کر بھیج دیں تو ان پر غور کر لیا جائے گا.یورپ میں بھی پانچ پانچ ، سات سات میل پر کوٹھیاں ہوتی ہیں.اگر اس قسم کے مواقع پر کوئی شخص ایک لمبا فاصلہ طے کر کے کسی کے گھر ہائے تو اسے کھانا نہ کھلایا جائے تو اُس کا مطلب یہ ہوگا کہ وہ اُس دن فاقہ سے رہے.میں نے اس واقعہ کا سید عبدالرزاق شاہ صاحب سے ذکر کیا جو کہ نیروبی میں رہ چکے ہیں تو انہوں نے بتایا کہ اس دوست کی بیٹی کی شادی تھی تو انہوں نے جو دعوت کے خرچ کا اندازہ لگایا تھا وہ سات ہزار روپیہ تھا.میں نے وہ خرچ اُڑا دیا اور اس طرح اُن کی شادی بغیر خرچ کے کروا دی.بہرحال افریقہ میں امارت ہے اور لوگوں کے پاس روپیہ ہے اور پھر وہ لوگ قربانی بھی کرتے ہیں.اگر اس علاقہ میں ہماری جماعت موجودہ جماعت سے دس گنا ہو جائے تو صرف افریقہ کی جماعت کا چندہ ہیں پچیس لاکھ روپیہ سالا نہ ہو جاتا ہے.اور اگر امریکہ میں بھی موجودہ جماعت دس گنا ہو جائے تو ان کا چندہ بھی بیس پچیس لاکھ روپیہ سالا نہ ہو جاتا ہے

Page 504

$1956 491 خطبات محمود جلد نمبر 37 اور وہ تبلیغ کا بوجھ اُٹھا سکتے ہیں.لیکن یاد رکھو ایک وقت تک یہ بوجھ صرف تمہیں ہی برداشت کرنا ہوگا کیونکہ اس ملک میں خدا تعالیٰ نے اپنا مامور بھیجا ہے اور خدا تعالیٰ اس ملک کو عزت دینا چاہتا ہے.لوگ چاہے کتنا شور کریں اور کہیں کہ ہم اتنا بوجھ برداشت نہیں کر سکتے لیکن بہرحال انہیں یہ بوجھ اُٹھانا پڑے گا کیونکہ خدا تعالیٰ اس ملک کو عزت دینا چاہتا ہے اور اُس نے اس ملک کو اپنے لیے چن لیا ہے.تمہارے پیچھے جو لوگ آئیں گے وہ کہیں گے کہ کاش! یہ کام ہمارے زمانہ میں ہوتا تو ہم اسے سرانجام دیتے.معلوم نہیں کہ تمہیں پرانے واقعات کو پڑھ کر ایسی تحریک ہوتی ہے یا نہیں لیکن میں تو جب بھی پرانے واقعات پڑھتا ہوں تو میرے دل میں جوش پیدا ہوتا ہے کہ کاش! میں اُس وقت ہوتا اور قربانی کرتا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تو کوئی بے عزتی نہیں کر سکتا کیونکہ آپ خدا تعالیٰ کے ایک عظیم الشان نبی تھے لیکن تاہم کفار نے ای آپ کو اذیت پہنچانے کی ہر ممکن کوشش کی ہے.میں تو جب بھی ان واقعات کو پڑھتا ہوں میرا دل چاہتا ہے کہ کاش! میں اس وقت ہوتا اور وہ ماریں جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو پڑیں مجھے پڑتیں.اسی طرح تمہاری انگلی نسل آئے گی تو وہ لوگ بھی کہیں گے کہ کاش! وہ اُس وقت ہوتے اور جو قربانیاں تم کر رہے ہو وہ کرتے.لیکن اس وقت وہ تو موجود نہیں تحریک تمہارے سامنے کی جاتی ہے.مگر ایک زمانہ ایسا ضرور آئے گا کہ تمہارے پوتے اور پڑپوتے اور ہمسائے حسرت سے کہیں گے کہ ہمارے باپ دادوں نے اسلام کے لیے وہ قربانیاں نہیں کیں جو کرنی چاہیے تھیں.اگر ہم اُس وقت ہوتے تو ہم اُن سے بڑھ کر قربانیاں کرتے.بالعموم یہ فقرہ جھوٹا ہوتا ہے.کیونکہ کہنے کو تو یہ فقرہ انسان کہہ دیتا ہے لیکن وقت آنے پر اس پر عمل نہیں کرتا.تاریخ میں ہمیں صرف ایک مثال ایسی ملتی ہے کہ ایک شخص نے یہ فقرہ کہا اور پھر وقت آنے پر اسے سچا کر دکھایا اور وہ حضرت مالک تھے.جنگ اُحد میں ایک موقع یر صحابہ کی غلطی کی وجہ سے دشمن آگے بڑھ آیا اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب آ پھر پھینکنے لگا.آپ کے پاس بیس کے قریب مسلمان کھڑے تھے.انہوں نے وہ پتھر اپنی چھاتیوں پر کھانے شروع کیے لیکن پھر بھی کچھ پتھر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو جا لگے.آپ اُس وقت حفاظت کی غرض سے خود پہنے ہوئے تھے.ایک پتھر اس خود پر لگا اور خود کا کیل آر

Page 505

خطبات محمود جلد نمبر 37 492 $1956 کے سر میں گھس گیا.آپ بیہوش ہو کر اُن صحابہ کی لاشوں پر جا پڑے جو آپ کے اردگرد لڑتے ہوئے شہید ہو چکے تھے.اس کے بعد کچھ اور صحابہ آپ کے جسم کی حفاظت کرتے ہوئے شہید ہوئے اور اُن کی لاشیں آپ کے جسم پر جا گریں.مسلمانوں نے آپ کے جسم کو لاشوں کے نیچے دبا ہوا دیکھ کر خیال کیا کہ آپ شہید ہو گئے ہیں 4 اور یہ خبر آنافانا تمام مسلمانوں میں پھیل گئی اور وہ اس شہادت کی خبر اپنے اردگرد کے صحابہ کو پہنچانے کے لیے ادھر ادھر بھاگ پڑے.جب یہ خبر مدینہ میں پہنچی تو شہر کے مرد اور عورتیں اور بچے سب پاگلوں کی طرح شہر سے باہر نکل آئے اور اُحد کے میدان کی طرف دوڑ پڑے.اس وقتی شکست کے وقت جو صحابہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کھڑے تھے اور جنہیں کفار کے لشکر کا ریلا دھکیل کر پیچھے لے آیا تھا ان میں حضرت عمرؓ بھی تھے.ان کے کانوں میں بھی یہ خبر پہنچی کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم شہید ہو گئے ہیں اور وہ شخص جس نے بعد میں قیصر و کسرای کی حکومتوں کو تہہ و بالا کر دیا تھا ایک پتھر پر بیٹھ کر بچوں کی طرح رونے لگ گیا.اتنے میں حضرت مالک ان کے پاس گئے.حضرت مالک جنگِ بدر میں شامل نہیں ہو سکے تھے اور جب کبھی صحابہ اس بات کا ذکر کرتے کہ ہم نے اس جنگ میں یہ یہ قربانی کی ہے تو حضرت مالک غصہ میں آ جاتے اور جوش کی حالت میں ٹہلنے لگ جاتے اور کہتے تم نے کیا قربانی کی ہے.اگر میں اُس وقت ہوتا تو تمہیں دکھاتا کہ کس طرح لڑا کرتے ہیں.دنیا میں عام قاعدہ یہ ہے کہ بظاہر ایسا دعوی کرنے والے اپنے دعوی کو پورا نہیں کرتے.لیکن جنگِ اُحد میں جب وقتی طور پر مسلمانوں کو شکست ہوئی تو اس کا حضرت مالک کو پتا نہیں لگا.وہ اسلامی لشکر کی فتح کے وقت ہی پیچھے ہٹ گئے تھے اور چونکہ رات سے انہوں نے کچھ کھایا نہیں تھا جب فتح ہو گئی تو وہ اسی چند کھجور میں لے کر پیچھے کی طرف چلے گئے تا کہ انہیں کھا کر اپنی بھوک دور کریں.وہ فتح کی خوشی میں ٹہل رہے تھے اور کھجوریں کھا رہے تھے کہ ٹہلتے ٹہلتے وہ حضرت عمرؓ کے پاس جا پہنچے ہے اور حضرت عمرؓ کو بچوں کی طرح روتے دیکھ کر کہا عمر! اللہ تعالیٰ نے اسلام کو فتح دی ہے اور تم رو رہے ہو؟ حضرت عمر نے کہا مالک! تم شاید پہلے میدان سے ہٹ آئے ہو.بیشک دشمن بھاگ گیا تھا اور مسلمانوں نے فتح پائی تھی لیکن بعد میں دشمن نے اچانک مسلمانوں پر حملہ کیا

Page 506

493 $1956 خطبات محمود جلد نمبر 37 جس کے نتیجہ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم شہید ہو گئے ہیں.اس پر مالک نے کہا عمر! اگر ی یہ واقعہ ٹھیک ہے تو پھر بھی یہ رونے کا وقت نہیں.جہاں ہمارا آقا گیا ہے ہمیں بھی وہیں جا چاہیے.ان کے ہاتھ میں اُس وقت آخری کھجور تھی.اُسے نیچے پھینکتے ہوئے آپ نے کہا مجھ میں اور جنت میں اس کھجور کے سوا اور کونسی چیز حائل ہے.یہ کہہ کر آپ نے تلوار سونت لی اور دشمن کی صفوں میں گھس گئے.دشمن کا لشکر تین ہزار کی تعداد میں تھا لیکن حضرت مالک اکیلے ہی اُس پر حملہ آور ہوئے اور اُس کی صفوں کو چیرتے ہوئے چلے گئے.آپ زخمی ہو کر گرتے مگر پھر کھڑے ہو جاتے اور دشمن پر حملہ کرتے.یہاں تک کہ اس لڑائی میں آپ شہید ہو گئے.بعد میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صحابہ کو حکم دیا کہ وہ مالک کی لاش تلاش کریں.لیکن باوجود تلاش کے لاش نہ ملی.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دوبارہ ہدایت کی کہ جاؤ اور مالک کی لاش تلاش کرو.وہ گئے لیکن پھر بھی لاش نہ ملی.آخر تیسری دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پھر تلاش کا حکم دیا.صحابہ نے کہا يَا رَسُولَ اللہ ! ہمیں ایک لاش ملی ہے جس کے ستر ٹکڑے ہیں لیکن ہمیں کوئی ایسی علامت نہیں ملی جس کی وجہ سے ہم پہچان سکیں کہ وہ لاش کس کی ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا مالک کی بہن کو ساتھ لے جاؤ.چنانچہ صحابہ مالک کی بہن کو ساتھ لے گئے اور اُس نے ایک کٹی ہوئی انگلی کے ایک نشان سے مالک کی لاش کو پہچانا اور کہا یہ میرے بھائی کی لاش ہے.5 تو دیکھو اسلام کے ابتدائی زمانہ میں مسلمانوں نے قربانیاں کیں تو مالک نے کہا اگر میں اُس وقت ہوتا تو تم سے بڑھ کر قربانی کرتا اور پھر بعد میں جب وقت آیا تو انہوں نے اپنے اس دعوی کو پورا کر دکھایا.تمہارے دل میں بھی یہ خیال آتا ہو گا کہ اگر ہم فلاں موقع پر ہوتے تو یوں قربانی کرتے.مگر اب اللہ تعالیٰ نے تمہیں موقع دے دیا ہے جو دوسروں کو نہیں ملا.اگر غیر احمدی ایسا کہیں تو وہ معذور ہیں کیونکہ انہیں موقع نہیں ملا.لیکن تم نہیں کہہ سکتے کیونکہ تمہیں خدا تعالیٰ نے کی اس بات کا موقع دے دیا ہے کہ تم رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ کی بھی قربانیاں کرو.اُس وقت تلوار کا جہاد تھا اور اب تبلیغ اسلام کا جہاد ہے.اس وقت عیسائیت نے اسلام کو اس قدر کمزور کر دیا ہے کہ جب تک ہم پاگلوں کی طرح باہر نہ نکلیں اسلام غالب نہیں آ سکتا.

Page 507

$1956 494 خطبات محمود جلد نمبر 37 سے پھر عیسائی تعداد کے لحاظ سے بھی ہم سے دُگنے ہیں، روپیہ کے لحاظ سے وہ مسلمانوں ہزاروں گنا زیادہ ہیں، سیاست کے لحاظ سے بھی وہ مسلمانوں سے زیادہ طاقتور ہیں.پس جب تک نوجوان اپنی زندگیاں وقف کر کے باہر نہ نکلیں اور وہ دین کی خدمت کے لیے تیار نہ ہوں اُس وقت تک یہ کام نہیں ہو سکتا.جب تک حضرت مسیح موعود علیہ السلام مبعوث نہیں ہوئے تھے ہمارے پاس کوئی ایسا رستہ نہیں تھا جس پر چل کر ہم صحابہ کی سی قربانیاں کرسکیں.مگر اب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے طفیل ہمیں وہ رستہ مل چکا ہے اور آپ نے تبلیغ اسلام کا ایک سلسلہ قائم کر دیا ہے.اب اس ذریعہ سے ہر احمدی کو موقع مل گیا ہے کہ وہ صحابہ کی طرح کہہ سکے کہ اگر میں فلاں موقع پر ہوتا تو اِس اِس طرح اپنی جان اور مال کی قربانی پیش کرتا.آخر مال کی قربانی یہ تو نہیں کہ کوئی شخص اپنی دولت لے کر گٹھڑی میں باندھے اور کنویں میں ڈال دے یا جان کی قربانی کا یہ مطلب تو نہیں کہ گلے میں رسہ ڈال کر خود کشی کر لے.بلکہ مال کی قربانی یہ ہے کہ وہ اپنا مال اشاعت اسلام کرنے والوں کو دے.اس طرح اُس کا مال خدا تعالیٰ کی راہ میں خرچ ہو گا اور سلسلہ کو بھی اس کا فائدہ ہوگا.اور جان کی قربانی یہ ہے کہ وہ غیر ممالک میں تبلیغ اسلام کے لیے نکل جائے اور اپنی ساری زندگی اسی کام میں صرف کر دے.اگر وہ ایسا کرتا ہے تو وہ خدا تعالیٰ کی برکتوں کا وارث ہو جاتا ہے.پس تمہیں خدا تعالیٰ نے جان اور مال قربان کرنے کا موقع بہم پہنچا دیا ہے.بعض پچھلے علماء نے غلط فہمی سے یہ کہا ہے کہ جان کی قربانی صرف یہ ہے کہ تلوار سے جہاد کیا جائے حالانکہ چاہے کوئی اپنی جان کو چھری سے ذبح کرے، چاہے اُسے وطن چھوڑنے کی صورت میں قربان کرے اور چاہے وہ دشمن کی گالیاں سنے اور اُس کی اذیتیں برداشت کرے.یہ سب چیزیں جان کی قربانیان میں شامل ہیں.بہر حال اس وقت جو تمہیں جان اور مال قربان کرنے کا موقع ملا ہے اس کی نظیر پچھلے زمانہ میں نہیں ملتی.صحابہ کے زمانہ میں اس کی بیشک نظیر ملتی ہے لیکن اس کے بعد کے زمانہ میں لوگوں کو بہت کم موقع جان اور مال کو قربان کرنے کا ملا ہے.اب پھر اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے صحابہ کی طرح جان اور مال کو قربان کرنے کا موقع پیدا کیا ہے تا کہ ساری دنیا میں تبلیغ اسلام کر کے تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ والے حکم کو

Page 508

خطبات محمود جلد نمبر 37 495 $1956 پورا کیا جا سکے.پس میں تمام دوستوں کو تحریک کرتا ہوں کہ وہ تحریک جدید کے نئے سال میں بڑھ چڑھ کر وعدے لکھوائیں اور پھر انہیں سو فیصدی پورا کریں.مجھے پچھلے ہفتہ میں خدام میں بھی تقریریں کرنی پڑی ہیں اور اب انصار اللہ کے اجتماع میں بھی جانا ہے.اس لیے میں کوئی لمبی تقریر نہیں کر سکتا.مختصر طور پر دوستوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ یہ ثواب حاصل کرنے کے دن ہیں.تم ثواب حاصل کر لو.اور پھر یہ ایسے دن ہیں کہ تمہارے بعد میں آنے والے نسل در نسل پر فخر کریں گے اور خدا تعالیٰ کی برکتیں تم پر نازل ہوں گی.اگر آج تم اسلام کی خاطر قربانی کرتے ہو تو تم اپنی آئندہ نسل کے لیے قربانی کا رستہ کھولتے ہو.اور پھر اُس کی نسل کے لیے پھر اُس نسل کی نسل کے لیے رستہ کھولتے ہو.اور اس طرح سو پشت تک تمہاری نسل خدا تعالیٰ کی برکات کی وارث ہوتی چلی جائے گی.اس تمہید کے ساتھ میں خدا تعالیٰ پر بھروسہ کرتے ہوئے تحریک جدید کے نئے سال کا اعلان کرتا ہوں..تم یہ مت خیال کرو کہ یہ بوجھ تمہاری طاقت سے بالا ہے.تم ہمت کر کے آگے آؤ اور بے دریغ اپنی جانوں اور اپنے مالوں کو قربان کرو.اللہ تعالیٰ تمہاری محنتوں کے نتائج میں برکت دے گا اور تمہیں اپنے انعامات سے حصہ دے گا.میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ وہ تمہیں اس کی توفیق عطا فرمائے ، تمہارے حوصلوں کو بلند کرے اور جماعت کی تعداد کو بھی زیادہ کرے تا تمہارے اور بھائی بھی آگے آئیں اور اس بوجھ کو اُٹھانے کے قابل ہوں.اس وقت ہمارے صرف چالیس پچاس مبلغ غیر ممالک میں کام کر رہے ہیں.خدا کرے تم اپنی زندگیوں میں دیکھ لو کہ اُن کی تعداد لاکھوں تک ہو گئی ہے اور کروڑوں کروڑ عیسائی احمدیت میں داخل ہوتی ہیں اور اسلام اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت لوگوں کے دلوں میں پیدا ہو رہی نماز جمعہ سے قبل حضور نے نواب عبدالرحمان خان صاحب آف مالیر کوٹلہ کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ عبدالرحمان خان صاحب جو نواب محمد علی خان صاحب کے بڑ.تھے

Page 509

496 $1956 خطبات محمود جلد نمبر 37 اُن کے متعلق آج ہی اطلاع آئی ہے کہ وہ مالیر کوٹلہ میں فوت ہو گئے ہیں.وہ پچھلے سال جلسہ سالانہ پر ربوہ آ کر مجھے ملے تھے.انہیں اپنڑے سائٹس (APPENDICITIS) کا دورہ ہوا لیکن علاج کے باوجود درد بڑھتا چلا گیا.جب ڈاکٹر اُن کی صحت سے مایوس ہو گئے تو گھر والوں نے ارادہ کیا کہ انہیں پاکستان لے آئیں مگر ابھی وہ یہاں لانے کی تیاری ہی کر رہے تھے کہ فوت ہو گئے.میں نماز جمعہ کے بعد اُن کا جنازہ پڑھاؤں گا.(الفضل 6 نومبر 1956 ء ) 1 : آل عمران: 111 2 : راول: جوگی.جوتشی : اخبار مدینہ بجنور 21 جون 1928ء 4 : سیرت ابن هشام جلد3 صفحه 88 مطبوعه مصر 1936ء 5 سیرت ابن هشام جلد 3 صفحه 88 مطبوعه مصر 1936ء

Page 510

$1956 497 43 خطبات محمود جلد نمبر 37 چندہ تحریک جدید کے نئے سال میں پہلے سے بھی زیادہ جوش، اخلاص اور قربانی سے حصہ لو اور بڑھ چڑھ کر وعدے لکھواؤ فتنہ منافقین کے متعلق پینتیس برس قبل کی شائع شدہ ایک پیشگوئی آج لفظاً لفظاً پوری ہو رہی ہے (فرمودہ 2 نومبر 1956ء بمقام ربوہ) تشهد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: گزشتہ ہفتہ پہلے خدام الاحمدیہ میں اور اس کے بعد انصار اللہ کے اجتماع میں متواتر اریر کرنے کی وجہ سے میری طبیعت خراب ہو گئی اور اسہال آنے شروع ہو گئے.اسہال آنے کی وجہ سے اتنی کمزوری ہو گئی کہ نہ تو خوراک ہضم ہوتی تھی اور نہ جسم میں چلنے پھرنے کی طاقت تھی.ڈاکٹروں نے کہا کہ حرکت بند کر دی جائے اور نہ آپ سیر کے لیے باہر جائیں اور نہ اوپر کی منزل سے نیچے اُتریں.بلکہ ہر وقت لیٹے رہیں.ڈاکٹروں کی اس ہدایت کے مطابق

Page 511

$1956 498 خطبات محمود جلد نمبر 37 میں نے پچھلے دنوں نمازوں میں آنا بھی بند کر دیا.اب اگر چہ طبیعت پہلے سے اچھی ہے مگر ابھی تک ضعف پایا جاتا ہے.مگر پھر بھی میں جمعہ پڑھانے کے لیے آ گیا ہوں.پچھلے خطبہ جمعہ میں میں نے تحریک جدید کے نئے سال کے چندہ کا اعلان کیا تھا اور آج پھر میں دوستوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ تحریک جدید کی ذمہ داری بہت بڑی ذمہ داری ہے.اس لیے دوستوں کو چاہیے کہ وہ جلد سے جلد اپنے وعدے لکھوائیں تا کہ تحریک جدید کے دفتر کو اس بات کا اطمینان ہو جائے کہ اگلے سال ان کا کام آسانی سے چل سکے گا.طبیعت کی خرابی کی وجہ سے جو خطبہ پچھلے جمعہ میں میں نے دیا تھا وہ میں سن نہیں سکا تھا جس کی وجہ سے وہ خطبہ ابھی تک شائع نہیں ہو سکا.کچھ عرصہ سے میرے خطبات بغیر میرے دیکھنے کے شائع ہو رہے ہیں اور صیغہ زود نویسی کی طرف سے اُن پر یہ نوٹ دے دیا جاتا ہے کہ یہ خطبہ صیغہ اپنی ذمہ داری پر شائع کر رہا ہے.اب اگر چہ میں نے خطبات سننے شروع کر دیئے ہیں لیکن بیماری کی وجہ سے چونکہ جو دوائیں مجھے دی جاتی ہیں وہ خواب آور ہوتی ہیں اس لیے خطبہ کے کچھ حصے ایسے بھی ہوتے ہیں جو اونگھ میں ہی گزر جاتے ہیں جس کی وجہ سے اگر کوئی غلطی ہو تو میں اُس کی اصلاح نہیں کر سکتا.اس لیے محکمہ انہیں اپنی ذمہ داری پر ہی شائع کر دیتا ہے.اسہال کی وجہ سے بھی جو دوائیں مجھے دی جا رہی ہیں وہ ایک حد تک خواب آور ہوتی ہیں.کیونکہ ان دواؤں کی غرض یہ ہے کہ انتڑیوں کو حرکت سے روکا جائے اور اس کے لیے جو دوائیں دی جاتی ہیں وہ مُسکن ہوتی ہیں.اس لیے میں کوئی مضمون پوری توجہ سے نہیں سن سکتا.اونگھ آنے کی وجہ سے کئی حصے اوجھل ہو جاتے ہیں.گھر میں میری بیوی اگر کوئی خط سناتی ہیں تو بعض دفعہ چونکہ اونگھ آ جاتی ہے اس لیے مجھے دوبارہ پوچھنا پڑتا ہے کہ کیا بات ہے.اور جب تک میں اُن حصوں کو جو اونگھ کی حالت میں گزر جاتے ہیں بیداری کی حالت میں دوبارہ نہ سن لوں مضمون پوری طرح ذہن میں مستحضر نہیں ہوتا اور اگر کوئی غلطی ہو تو میں اُس کی طرف سنانے والے کو توجہ نہیں دلا سکتا.بہر حال میری طبیعت کے خراب ہونے کی وجہ سے خطبہ سنانے پر بھی دیر لگی.آج صبح میں نے خطبہ سن لیا ہے اور انشَاءَ اللہ کل یا پرسوں الفضل میں چھپ

Page 512

خطبات محمود جلد نمبر 37 499 $1956 جائے گا.جماعتوں میں جونہی میرا یہ خطبہ پہنچے وہ فوری طور پر اپنا اجلاس بلائیں اور خدام اور انصار کو اس بات کا ذمہ دار قرار دیں کہ وہ گھر بہ گھر پھریں اور ہر احمدی سے تحریک جدید کی کے لیے وعدہ لیں.یہ کام پہلے ہی بہت اہم تھا مگر جیسا کہ میں نے خطبہ میں بیان کیا تھا گزشتہ سال تحریک جدید پر اڑھائی لاکھ روپیہ قرض ہو گیا.اس قرض کو اُتارنے اور بعض نئے مشن قائم کرنے کے لیے ضرورت ہے کہ دوست پہلے سے بھی زیادہ جوش اور اخلاص اور قربانی سے کام لیں.اس سال ایک پروفیسر جرمنی سے یہاں آ رہے ہیں اور وہ کچھ عرصہ ربوہ میں ہے.ہے کریں گے اور دینی تعلیم حاصل کریں گے.اُن کے لیے بھی اخراجات کی ضرورت ہے پھر دو طالبعلم فلپائن سے دینی تعلیم کے لیے یہاں آ رہے ہیں.اُن کے اخراجات بھی ادا کرنے ہوں گے.اس کے علاوہ ایک اور جرمن پادری جو نئے مسلمان ہوئے ہیں اور جنہوں نے اپنی زندگی وقف کی ہے تا کہ وہ ربوہ میں تعلیم حاصل کریں اور پھر جرمنی میں تبلیغ اسلام کریں.اُن کے انتظام کے لیے بھی روپیہ کی ضرورت ہو گی.پھر جیسا کہ میں نے پہلے بھی بتایا تھا فلپائن یونیورسٹی کے طلباء کی جو انجمن ہے اُس کے آٹھ نو جوانوں نے بیعت کر لی.اور انہیں یقین ہے کہ باقی طلباء میں بھی بہت جلد احمدیت پھیل جائے گی.اسی طرح کولون جرمنی میں ایک احمدی تھے جن کا نام مبارک احمد شولر تھا وہ اس سال فوت ہو گئے ہیں.ان کی کی وفات کی وجہ سے وہاں کی جماعت ختم ہو گئی تھی.مگر اللہ تعالیٰ نے ان کے بدلہ میں اور کچھ اس کی فتنہ کے بدلہ میں جو اب کھڑا کیا گیا ہے ہمیں بعض نئی جماعتیں عطا فرمائی ہیں کیونکہ اُس کا وعدہ ہے کہ اگر تم واقع میں مومر قع میں مومن ہو گے اور پھر تم میں سے کوئی شخص تمہارے نظام دینی الگ ہو جائے گا تو ہم اس کے بدلہ میں کفار میں سے ایک قوم تمہیں دیں گے.چنانچہ خدا تعالیٰ نے اپنے اس وعدہ کو پورا کیا اور ان کے بدلہ میں ہمیں کئی نئی جماعتیں عطا فرما دیں.جیسا کہ میں نے بتایا ہے فلپائن میں آٹھ طلباء نے بیعت کی ہے اور اس طرح وہاں ایک نئی جماعت قائم ہو گئی ہے.اسی طرح جرمنی میں ایک جگہ Goppingen ہے.وہاں بھی ایک نئی جماعت قائم ہوئی ہے.پھر جرمنی سے ایک ایسے شخص کا جس کا ہمارے مبلغ سے پہلے کوئی تعلق نہیں تھا میرے نام ایک خط آیا.وہ چونکہ جرمن زبان میں تھا اس لیے میں نے وہ خط

Page 513

$1956 500 خطبات محمود جلد نمبر 37 چودھری عبد اللطیف صاحب مبلغ جرمنی کو بھیج دیا تا کہ وہ اس کا ترجمہ کر کے مجھے بھیجیں.انہوں نے اس خط کا ترجمہ کر کے مجھے بھیج دیا ہے جس سے معلوم ہوا ہے کہ خط لکھنے والا ایک فوجی افسر ہے.اُس نے لکھا ہے کہ میں نے آپ کا انگریزی ترجمہ القرآن پڑھا ہے اور اس سے میں بہت متاثر ہوا ہوں اور میں آپ کی جماعت میں داخل ہوتا ہوں.جب فرصت ہوئی میں ہیمبرگ جاؤں گا اور احمد یہ مشن سے تعلقات قائم کروں گا.اگر اس شخص کے ذریعہ اس علاقہ میں تبلیغ شروع ہو جائے تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے وہاں بھی احمدیت پھیل سکتی ہے اور اگر اسے بھی ایک جماعت شمار کر لیا جائے تو یہ دوسری جماعت ہے جو اس فتنہ کے بعد جرمنی میں قائم ہوئی ہے.پھر ایک جماعت سکنڈے نیویا میں قائم ہوئی ہے.گویا یہ چار نئی جماعتیں ہیں جو اسی تھوڑے سے عرصہ میں غیر ممالک میں قائم ہوئی ہیں.جیسا کہ میں نے ایک خطبہ میں بیان کیا تھا اللہ تعالیٰ نے مومنوں سے یہ وعدہ فرمایا ہے کہ اگر کوئی شخص تمہارے نظامِ دینی سے الگ ہو جائے گا تو اللہ تعالیٰ اس کے بدلہ میں تمہیں ایک قوم دے گا جو مومنوں کے ساتھ نہایت انکسار کا تعلق رکھنے والی اور کفار کی شرارتوں کا دلیری سے مقابلہ کرنے والی ہو گی.گویا اس نے یہ اعلان کیا ہے کہ اگر تم واقع میں مومن ہو تو جو تمہارے نظام کو چھوڑے گا اُس کے متعلق تم کو کچھ کرنے کا حکم نہیں بلکہ اُس کے متعلق ہم اپنے اوپر ایک ذمہ داری لیتے ہیں.اور وہ ذمہ داری یہ ہے کہ ایک ایک شخص کے بدلہ میں ہم ایک ایک قوم کفار میں سے لا کر تمہارے اندر داخل کریں گے.چنانچہ اس فتنہ کے بعد ہی کئی سو افراد تو اس ملک میں احمدیت میں داخل ہوئے.اور دوسرا فضل اللہ تعالیٰ نے یہ کیا کہ غیر ممالک میں چار نئی جماعتیں قائم کر دیں جن میں سے دو جرمنی میں قائم ہوئی ہیں، ایک فلپائن میں قائم ہوئی ہے اور ایک سکنڈے نیویا میں نئی جماعت بنی ہے.سوئٹزرلینڈ سے بھی جو خبریں آ رہی ہیں وہ خوش گن ہیں.ہمارے مبلغ کی آسٹریا کی ایک یونیورسٹی میں بڑی کامیاب تقریر ہوئی.وقت اگر چہ ختم ہو گیا تھا مگر پھر بھی سوال و جواب کا سلسلہ جاری رہا اور اُن لوگوں نے خواہش کی کہ اس قسم کی اور تقاریر بھی ہونی چاہییں.غرض اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں جو وعدہ فرمایا تھا کہ يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا مَنْ يَرْتَدَّ مِنْكُمْ عَنْ دِينِهِ فَسَوْفَ يَأْتِي اللهُ بِقَوْمٍ تُحِبُّهُمْ وَيُحِبُّونَة 1

Page 514

خطبات محمود جلد نمبر 37.501 $1956 کہ اے مومنو! اگر تم میں سے کوئی شخص تمہارے نظام دینی کو چھوڑ دے تو اگر تم سچے مومن ہو تو کی تمہیں گھبرانے کی ضرورت نہیں.اگر وہ شخص جو تم سے الگ ہوا ہے وہ واقع میں تمہارے نظام سے جدا ہو گیا ہے تو ہم اُس کی جگہ پر تمہارے غیروں میں سے تمہیں ایک قوم دیں گے وہ وعدہ بڑی شان سے پورا ہوا ہے اور اس طرح یہ بات ثابت ہوگئی ہے کہ تم واقع میں مومن ہو اور تم سے الگ ہونے والے واقع میں ایک سچے دینی نظام سے الگ ہوئے ہیں.کیونکہ وہ اُن کی جگہ ایک قوم لے آیا ہے اور پھر یہ قوم بڑھتی چلی جائے گی اور اتنی بڑھے گی کہ احمدیت دنیا کے کناروں تک پھیل جائے گی.اور جوں جوں خدا تعالیٰ کے وعدے پورے ہوں گے تمہیں اس کی برکتیں نصیب ہوں گی.پس تمہیں چاہیے کہ تحریک جدید کے نئے سال میں زیادہ سے زیادہ وعدے لکھواؤ تا کہ دنیا کے گوشہ گوشہ میں اسلام اور احمدیت کی اشاعت ہو.کل ہی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی ایک پیشگوئی ملی ہے جو پیر سراج الحق امین صاحب نعمانی کی کتاب ”تذکرۃ المہدی میں درج ہے.یہ کتاب 1921 ء میں لکھی گئی تھی.اس میں پیر سراج الحق صاحب لکھتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ایک دفعہ فرمایا کہ ”خدا نے مجھے خبر دی ہے کہ ہمارے سلسلہ میں بھی سخت تفرقہ پڑے گا کہ فتنہ انداز اور و ہوا و ہوس کے بندے جُدا ہو جائیں گے.پھر خدا تعالیٰ اس تفرقہ کو مٹا دے گا.باقی جو کٹنے کے لائق اور راستی سے تعلق نہیں رکھتے اور فتنہ پرداز ہیں وہ کٹ جائیں گے اور دنیا میں ایک حشر برپا ہوگا وہ اول الحشر ہوگا اور تمام بادشاہ آپس میں ایک دوسرے پر چڑھائی کریں گے اور ایسا گشت وخون ہو گا کہ زمین خون سے بھر جائے گی اور ہر ایک بادشاہ کی رعایا بھی آپس میں خوفناک لڑائی کرے گی.ایک عالمگیر تباہی آوے گی اور ان تمام واقعات کا مرکز ملک شام ہوگا.صاحبزادہ صاحب اُس وقت میرا لڑکا موعود ہو گا.خدا نے اس کے ساتھ ان حالات کو مقدر کر رکھا ہے.ان واقعات کے بعد ہمارے سلسلہ کو ترقی ہوگی اور سلاطین ہمارے سلسلہ میں داخل ہوں گے.تم اس موعود کو پہچان لینا.یہ ایک بہت بڑا نشان پسر موعود کی شناخت کا ہے.2 اب دیکھو جماعت میں منافقین کا موجودہ فتنہ 1956ء میں پیدا ہوا ہے اور یہ کتا.

Page 515

$1956 502 خطبات محمود جلد نمبر 37 1921ء کی چھپی ہوئی موجود ہے.کوئی کہہ سکتا ہے کہ جو کچھ کہا گیا ہے وہ جھوٹ ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے یہ بات نہیں کہی.لیکن یہ جھوٹ کتنا سچا ہے کہ خدا تعالی کی باتوں کی طرح پورا ہو گیا.اس سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ روایت جھوٹی نہیں بلکہ ایک کچی پیشگوئی تھی جو لفظاً لفظاً پوری ہو گئی ہے.اگر اس کے پورا ہو جانے کے بعد بھی کوئی شخص کہتا ہے کہ یہ جھوٹ ہے تو اُس کی مثال ویسی ہی ہو گی جیسے مشہور ہے کہ کوئی بُزدل آدمی ایک جنگ میں زخمی ہو گیا.اُس کے زخم سے خون بہہ رہا تھا.لیکن بُزدلی کی وجہ سے وہ ماننا نہیں چاہتا تھا کہ وہ واقع میں زخمی ہے.وہ بھاگتا چلا جا رہا تھا اور زخم پر ہاتھ لگا کر کہتا جاتا تھا کہ یا اللہ ! یہ خواب ہی ہو.یا اللہ ! یہ خواب ہی ہو.اسی طرح گو یہ پیشگوئی پوری ہو گئی ہے.لیکن آجکل کے منافق کہہ سکتے ہیں کہ خدا کرے یہ بات جھوٹ ہی ہو لیکن صرف اُن کے منہ سے کہہ دینے سے یہ جھوٹ کس طرح ہو سکتا ہے.یہ ایک سچی پیشگوئی تھی جو بڑی شان سے پوری ہوئی ہے.اس کے بعد اگرچہ میری طبیعت میں ابھی ضعف باقی ہے مگر میں جماعت کو یہ بتانا چاہتا ہوں کہ پیغامی جماعت پہلے تو یہ کہا کرتی تھی کہ ہمارا اس فتنہ سے کوئی تعلق نہیں لیکن اب انگریزی کی یہ مثل کہ بلی تھیلے سے باہر آ گئی ہے.ان پر پوری طرح صادق آ گئی ہے.چنانچہ پیغام صلح کے ایک تازہ پرچہ میں گجرات کے ایک پیغامی وکیل کا ایک مضمون چھپا ہے جس میں انہوں نے لکھا ہے کہ ”ہم ربوہ میں نئی تحریک آزادی کے علمبرداروں کو عَلَى الْإِعْلان یہ تلقین کرتے ہیں کہ وہ اصلاح کے اس کام کو جاری رکھیں اور استقلال، عزم، اخلاص اور جوشِ ایمان سے باطل کے اثر دہا کو کچلنے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہ کریں.ختم نبوت کے تم قائل ہو، تکفیر سے تم باز آ چکے ہو، تمہارے اور ہمارے درمیان اب صرف محمودیت کا ہی پردہ ہے اس کو بھی چاک چاک کر دو.ہم ربوہ کے آزادی پسند عناصر کا خیر مقدم کرتے ہیں.اس تحریک آزادی جو علماء ومبلغین ہیں وہ جو نہی محمودیت کے حصار سے آزاد ہوں ہمارے ساتھ شامل ہو سکتے ہیں.ہمارے ہاں ان کے لیے عزت کی جگہ ہے، تبلیغ کے لیے مواقع ہیں، تقریر کے لیے اسٹیج ہے، تبلیغ کے لیے تنظیم ہے.آؤ ہم سب تفرقہ کو ملا کر ایک ہو جائیں.3

Page 516

خطبات محمود جلد نمبر 37 503 $1956 اس مضمون نے بتا دیا ہے کہ پیغامیوں کی پہلی بات کہ ہمارا اس فتنہ سے کوئی تعلق نہیں بالکل جھوٹ تھی کیونکہ اب انہوں نے صاف طور پر لکھ دیا ہے کہ ہم ربوہ کے باغیوں کو پوری طرح مدد دینے کے لیے تیار ہیں.ہمارا نظام ان کے لیے حاضر ہے، ہمارا روپیہ ان کے لیے حاضر ہے اور ہم اپنا اسٹیج انہیں تقریریں کرنے کے لیے دیں گے.لیکن میں ان سے پوچھتا ہوں کہ اے بہادرو! تمہارے مولوی محمد علی صاحب بڑے تھے یا عبدالمنان بڑا ہے؟ تم نے مولوی محمد علی صاحب کی کتنی مدد کی تھی، تمہاری تنظیم اور تمہارا روپیہ ان کے کس کام آیا تھا؟ تمہاری تنظیم اور روپیہ ان کے اتنا ہی کام آیا کہ انہوں نے مرتے وقت وصیت کی کہ تمہارے اکابر اُن کے جنازہ کو بھی ہاتھ نہ لگائیں اور آج تم ان باغیوں سے کہہ رہے ہو کہ تم ہمارے نظام میں شامل ہو جاؤ.ہماری تنظیم، ہمارا روپیہ اور ہمارا اسٹیج تمہارے لیے وقف ہے.اگر تم اتنے بہادر تھے تو تم نے خواجہ کمال الدین صاحب اور مولوی محمد علی صاحب کی کیوں مدد دی نہیں کی تھی ؟ مولوی محمد علی صاحب نے خود لکھا ہے کہ میں نے ساری عمر جماعت کی خدمت کی ہے.لیکن اب جبکہ میں بوڑھا ہو گیا ہوں مجھ پر یہ الزام لگایا جاتا ہے کہ میں جماعت کا سولہ ہزار روپیہ کھا گیا ہوں اور مرتد ہو گیا ہوں.کیا یہی مدد تھی جو تم نے اپنی تنظیم اور روپیہ سے اپنے امام کی کی؟ کہ اب تم منان اور اس کی پارٹی کی اس سے بھی زیادہ مدد کرو گے.جس کے معنے یہی ہو سکتے ہیں کہ اس سے بھی زیادہ گندے الزام ان پر لگاؤ گے.اگر مولوی محمد علی صاحب سے تم نے یہ کہا تھا کہ وہ سولہ ہزار روپیہ کھا گئے ہیں تو تھوڑے دنوں میں ہی مولوی صدر الدین صاحب، مولوی عبدالمنان اور مولوی عبدالوہاب کے متعلق یہ کہو گے کہ یہ بیتیس بیتیس ہزار روپیہ کھا گئے ہیں.ان کے احسانات خواجہ کمال الدین صاحب اور مولوی محمد علی صاحب سے زیادہ نہیں.پھر ان کی قابلیت بھی اُن جیسی نہیں.وہ دونوں غلام رسول نمبر 35 اور عبدالمنان سے زیادہ عالم تھے اور تم پر اُن کے احسانات تھے.ان میں سے ایک نے انگلینڈ میں مشن قائم کیا اور دوسرے نے قرآن کریم کا ترجمہ انگریزی زبان میں کیا.لیکن تمہاری تنظی اور تمہارا روپیہ اُن کے کسی کام نہ آیا.تم نے اُن کی زندگی میں ہی اُن کی مخالفت کی، انہیں مرتد قرار دیا.ان میں سے ایک پر یہ الزام لگایا کہ اُس نے جماعت کا سولہ ہزار روپیہ.

Page 517

$1956 504 خطبات محمود جلد نمبر 37 کھا لیا ہے اور تم نے اُسے اتنا دکھ دیا کہ اس نے مجبور ہو کر مرتے وقت وصیت کی کہ فلاں فلاں شخص میرے جنازے کو ہاتھ نہ لگائے.پس تمہاری تو یہ حالت ہے کہ تم نے اپنے محسن اور جماعت کے بانی مولوی محمد علی صاحب کو بھی دُکھ دیا اور انہیں مرتد قرار دیا.تم نے خواجہ کمال الدین صاحب کی بھی مخالفت کی اور انہیں مرتد قرار دیا.اور اب مولوی صدر الدین صاحب، مولوی عبدالمنان، مولوی عبدالوہاب اور ان کے ساتھیوں کی بھی کسی دن باری آ جائے گی اور تھوڑے دنوں میں ہی تم دیکھ لو گے کہ انہیں بھی مرتد قرار دیا جا رہا ہے.فرق صرف یہ ہے کہ مولوی محمد علی صاحب اور خواجہ کمال الدین صاحب کی باری پہلے آ گئی تھی اور ان کی باری بعد میں آئے گی.بہر حال اس مضمون نے بتا دیا کہ یہ لوگ جب کہتے تھے کہ ہمارا اس فتنہ سے کوئی تعلق نہیں تو جھوٹ بولتے تھے کیونکہ اگر ان کا اس فتنہ سے کوئی تعلق نہیں تھا تو اب انہوں نے اپنا نظام اور اپنا روپیہ اور اپنا اسٹیج ان لوگوں کے لیے کیوں وقف کرنے کا اعلان کیا ہے؟ یہ بات بتاتی ہے کہ پہلے جھوٹ بول کر انہوں نے اپنے فعل پر پردہ ڈالنا چاہا مگر آخر اللہ تعالیٰ نے ان کے اس پردہ کو چاک کر دیا اور بتا دیا کہ ان کے اندرونی عزائم کیا ہیں.جیسا کہ خدا تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ قد بَدَتِ الْبَغْضَاءُ مِنْ أَفْوَاهِهِمْ وَمَا تُخْفِي صُدُورُهُمْ اَكْبَرُ - 4- ان کا غصہ ان کے مونہوں سے نکل آیا ہے.لیکن جو غصہ ان کے دلوں میں چھپا ہے وہ اس سے بھی زیادہ ہے.مگر اس کے علاوہ ان کا یہ مضمون میری سچائی کی بھی ایک واضح دلیل ہے کیونکہ تھوڑے ہی دن ہوئے میں اس کے متعلق ایک رؤیا الفضل میں شائع کروا چکا ہوں جو ان کے اس اعلان سے لفظاً لفظاً پورا ہو گیا ہے.انہوں نے اپنے مضمون میں مجھے یہ طعنہ بھی دیا ہے کہ میں اپنے رویا وکشوف اور الہامات کو وحی نبوت کا درجہ دے رہا ہوں حالانکہ یہ بالکل غلط اگر کسی رؤیا کے پورا ہونے پر انہیں کوئی اعتراض ہو تو ان کا حق ہے کہ وہ اُسے پیش کریں.لیکن اگر کوئی رؤیا پورا ہو جائے تو اُس کے متعلق یہ کہنا کہ اسے وحی نبوت کا مقام دیا جا رہا ہے اُس بُزدل فوجی کی سی حماقت ہے جو بھاگا جا رہا تھا اور زخم پر ہاتھ لگا کر کہتا جاتا تھا ہے.

Page 518

$1956 505 خطبات محمود جلد نمبر 37 کہ یا اللہ ! یہ خواب ہی ہو.یہ لوگ بھی دیکھتے ہیں کہ فلاں رؤیا یا کشف پورا ہو گیا ہے لیکن کی چونکہ ان کا دل اسے ماننے کے لیے تیار نہیں ہوتا اس لیے کہہ دیتے ہیں کہ یا اللہ ! یہ جھوٹ ہی ہو ہو.حالانکہ جو بات پوری ہو جائے اسے جھوٹا کون کہہ سکتا ہے.جو بات واقع میں پوری جائے اُسے جھوٹا کہنے والا پاگل ہی ہو سکتا ہے.اگر ہم ایک خواب کے متعلق لکھتے ہیں کہ وہ پوری ہو گئی ہے تو تم اس کے متعلق یہ تو کہہ سکتے ہو کہ تمہارا یہ دعوی غلط ہے وہ خواب پوری نہیں ہوئی.لیکن جو خواب پوری ہو گئی ہے اُس کے متعلق یہ کیوں کہتے ہو کہ اسے وحی نبوت کا مقام دیا جا رہا ہے.یہ تو ویسی ہی بات ہے جیسے کوئی کہے کہ تم سورج کو سورج کیوں کہتے ہو؟ تم زمین کو زمین کیوں کہتے ہو؟ تم دریا کو دریا کیوں کہتے ہو؟ تم لوگ بیشک سورج کو چھچھوندر کہہ دو، دریا کو پیشاب کہہ دو، پہاڑ کو کنکر کہہ دو یہ تمہاری مرضی ہے.ہم لوگ سچ کو سچ کہیں گے.سورج کو سورج کہیں گے، دریا کو دریا کہیں گے اور پہاڑ کو پہاڑ کہیں گے.میں نے بتایا ہے کہ میں نے ایک رؤیا دیکھی تھی اور وہ رؤیا الفضل میں بھی چھپ چکی ہے.اس سے پتا لگتا ہے کہ پیغام صلح کا یہ لکھنا کہ اے ربوہ کے باغیو! ہمارا نظام، ہمارا روپیہ اور ہمارا اسٹیج تمہارے لیے حاضر ہے.ہم تمہاری پوری پوری مدد کریں گے.اس رویا کی صداقت کو ظاہر کر رہا ہے.میں نے خواب میں دیکھا تھا کہ خدا تعالیٰ کے ملائکہ ربوہ کے اوپر سارے جو میں وہ آیتیں پڑھ پڑھ کر سنا رہے ہیں جو قرآن شریف میں یہودیوں اور منافقوں کے لیے آئی ہیں اور جن میں یہ ذکر ہے کہ اگر تم کو مدینہ سے نکالا گیا تو ہم بھی تمہارے ساتھ ہی مدینہ سے نکل جائیں گے.اور اگر تم سے لڑائی کی گئی تو ہم بھی تمہارے ساتھ مل کر مسلمانوں سے لڑائی کریں گے.لیکن قرآن کریم منافقوں سے فرماتا ہے کہ نہ تم یہودیوں کے ساتھ مل کر مدینہ سے نکلو گے اور نہ ان کے ساتھ مل کر مسلمانوں سے لڑو گے.یہ دونوں جھوٹے وعدے ہیں اور صرف یہودیوں کو انگیخت کرنے کے لیے ہیں.چنانچہ دیکھ لو پہلے تو پیغامیوں نے کہا کہ ہمارا اس فتنہ سے کوئی تعلق نہیں لیکن اب وہ منافقوں کو ہر ممکن مدد دینے کا اعلان کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہمارا روپیہ اور ہماری تنظیم اور ہمارا اسٹیج سب کچھ تمہارے لیے وقف ہے.گویا وہی کچھ کہہ رہے ہیں جو خواب میں بتایا گیا تھا.لیکن ابھی زیادہ زمانہ نہیں

Page 519

$1956 506 خطبات محمود جلد نمبر 37 گزرے گا کہ وہ اس مدد کے اعلان سے پیچھے ہٹ جائیں گے اور ان لوگوں سے بے تعلق ہو جائیں گے کیونکہ خدا تعالیٰ کا یہی منشا ہے.کسی بڑے آدمی کی طرف منسوب ہونا ان باغیوں کو کوئی فائدہ نہیں دے گا اور پیغام صلح والے اپنے وعدے جھوٹے ثابت کریں گے اور کبھی وقت پر ان کی مدد نہیں کریں گے.غرض پیغام صلح کا یہ مضمون اس بات کی شہادت ہے کہ میری یہ رویا پوری ہو گئی ہے اور اس کا یہ کہنا کہ میں اپنی خوابوں کو وحی نبوت کا مقام دیتا ہوں جھوٹ ہے.صرف ایک کچی بات کو سچی کہا گیا ہے.اور اگر کوئی شخص کسی سچی بات کو جھوٹ کہتا ہے تو وہ خود کذاب ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے الہامات کو بھی دنیا جھوٹا کہتی تھی لیکن دیکھ لوکس طرح خدا تعالیٰ ایک جماعت کو آپ کے پاس کھینچ لایا اور دنیا نے مان لیا کہ آپ کے الہامات کو جھوٹا کہنے والے خود جھوٹے تھے.ابھی مجھے ایک انگریز تو مسلم نے لکھا ہے کہ آپ کے وہ رؤیا کشوف جو اب تک پورے ہو چکے ہیں انہیں ایک رسالہ کی صورت میں شائع کرائیں تا کہ ہم دنیا کو بتا سکیں کہ خدا تعالیٰ اب بھی کلام کرتا ہے اور اپنے بندوں کو غیب پر آگاہ کرتا ہے.چنانچہ میں نے مولوی دوست محمد صاحب کو کہا ہے کہ وہ ایسی خوابوں اور الہامات کو جمع کریں تا کہ انہیں شائع کیا جا سکے اور دنیا کو بتایا جائے کہ وحی وکشوف کا سلسلہ بند نہیں ہو گیا بلکہ وہ اب بھی جاری ہے اور خدا تعالیٰ اپنے بندوں کو غیب پر اطلاع دیتا ہے.اب دیکھو یہ کتنی عجیب بات ہے کہ غیر مبائعین تو کہتے ہیں کہ میں اپنے الہامات اور خوابوں کو وحی نبوت کا درجہ دے رہا ہوں.لیکن دو ہزار میل سے ایک انگریز نو مسلم مجھے لکھتا ہے کہ آپ اپنی خوابوں اور الہامات کو جلد شائع کرائیں تا کہ ہم دنیا کے سامنے انہیں حجت کے طور پر پیش کر سکیں اور اسے بتا سکیں کہ خدا تعالیٰ اس بھی اپنے بندوں کو غیب پر اطلاع دیتا ہے.کل بھی میں نے ایک رؤیا دیکھی ہے.میں سمجھتا ہوں کہ وہ رؤیا ہندوؤں میں تبلیغ کے متعلق ہے.اس لیے میں اسے بھی بیان کر دیتا ہوں.میں نے رویا میں دیکھا کہ میں ایک چار پائی پر کھڑا ہوں.ایک طرف میں ہوں اور دوسری طرف چودھری اسد اللہ خاں صاحب ہیں

Page 520

507 $1956 وہ خطبات محمود جلد نمبر 37 اور سامنے ایک چارپائی پر ایک ہندو بیٹھا ہوا ہے.چودھری اسد اللہ خاں صاحب کے ہاتھ میں ایک کتاب ہے جو وہ پڑھ کر سنا رہے ہیں.اس کتاب کا سائز خطبہ الہامیہ جتنا ہے یعنی و بڑے سائز کی کتاب ہے.چودھری اسد اللہ خاں صاحب نے اس کتاب میں سے ایک فقرہ یہ پڑھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے گورداسپور میں ایسا ایسا بیان کیا ہے.اس پر وہ ہندو کہتا ہے کہ اس کی معین مثالیں بھی تو دیں تا یہ بات ہماری سمجھ میں آ جائے.چودھری اسداللہ خاں صاحب وہ کتاب اس طرح پڑھ رہے ہیں کہ اصل بات تو آ جاتی ہے لیکن مثالیں غائب ہیں.اس لیے اُس ہندو نے کہا کہ آپ مثالیں بھی تو دیں تا کہ یہ بات ہماری سمجھ میں آ جائے.اس پر میں کھڑا ہو گیا اور اُس کی بات کا جواب دینے لگا.میں سمجھتا ہی ہوں کہ یہ سارا مضمون کشفی ہے کیونکہ میرے ہاتھ میں اُس وقت کوئی کتاب نہیں تھی.میں نے کہا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا تھا کہ ہندوؤں میں اپنے پرانے بزرگوں کی جو شکلیں بنائی جاتی ہیں اور اُن کے کئی کئی ناک، کئی کئی ہاتھ اور کئی کئی آنکھیں دکھائی جاتی ہیں اُن کو ظاہر پر محمول کرنا درست نہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کے مامور تو اس لیے آتے ہیں کہ لوگ اُن سے سبق سیکھیں لیکن ہندوؤں کی تصویروں میں جو بزرگوں کی شکلیں دی جاتی ہیں اُن کے کئی کئی ناک ، ہاتھ ، آنکھیں اور سر دکھائے جاتے ہی ہیں اور وہ سخت بھیانک شکلیں ہوتی ہیں.ایسی شکل والے سے تو انسان بھاگتا ہے نہ کہ محبت کرتا ہے.پس اگر وہ لوگ واقعی ایسے تھے تو پھر دنیا کو تعلیم نہیں دے سکتے تھے کیونکہ اُن کے زمانہ کے لوگ اُن کو دیکھ کر بھاگ جاتے ہوں گے.حالانکہ خدا تعالیٰ کے مامور لوگوں کو سبق سکھانے کے لیے دنیا میں مبعوث ہوتے ہیں.اس کی مثال حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے کلام سے یہ ملتی ہے کہ آپ فرماتے ہیں دنیا میں جو بھی مصلح آتا ہے وہ کسی اچھی قوم سے آتا ہے تا کہ لوگ اُس سے نفرت نہ کریں اور جب خدا تعالیٰ نے ہر مصلح کے لیے اچھی قوم میں سے ہونے کی شرط رکھی ہے تو یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ اُس کے کئی کئی ناک ہوں، کئی کئی ہاتھ ہوں یا کئی کئی سر اور کئی کئی آنکھیں ہوں.اس سے تو لوگ ڈر جائیں گے اور ایسے مصلح کو دیکھتے ہی بھاگ جائیں گے.اُس سے فائدہ کیا اُٹھائیں گے.اگر اُس کے کئی بڑے بڑے ناک -

Page 521

$1956 508 خطبات محمود جلد نمبر 37 ہوں گے تو وہ خیال کریں گے کہ یہ انسان نہیں بلکہ ہاتھی کی طرح کا کوئی جانور ہے.اگر اُس کے کئی سر ہوں گے تو وہ کہیں گے یہ انسان نہیں بلکہ کوئی مجیب الخلقت حیوان ہے.اور اگر کئی کئی آنکھیں ہوں گی تو وہ کہیں گے کہ یہ انسان نہیں بلکہ کوئی نئی قسم کا سانپ ہے اور وہ اس سے ڈر کر بھاگ جائیں گے.پھر میں بتاتا ہوں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے کئی کئی ناک، کان اور آنکھیں ہونے کی فلاسفی بھی بیان فرمائی ہے اور بتایا ہے کہ اس سے یہ مراد نہیں کہ ان مصلحین کی فی الواقع اس قسم کی شکلیں تھیں بلکہ اگر تصویر میں یہ دکھایا گیا ہے کہ کسی مصلح کے کئی ناک تھے تو اس کا یہ مطلب تھا کہ اُن میں اس قدر قوت شامہ پائی جاتی تھی کہ وہ دور سے عیب روحانی کو سونگھ لیتے تھے.اور جب اُن کے بڑے بڑے کان دکھائے جاتے تھے تو اس کا مطلب ہوتا تھا کہ وہ دور سے فریادیوں کی فریاد سن لیتے تھے اور اُن کی ضرورت کو پہچان لیتے اور جب ان کی کئی آنکھیں دکھائی جاتی تھیں تو اس کا یہ مطلب ہوتا تھا کہ وہ حقیقت کو ہت جلد پہچان لیتے تھے.اسی طرح تصویری زبان میں کئی کئی ہاتھ بنانے کا یہ مطلب تھا کہ اس مصلح کے پاس ایسے دلائل و براہین تھے کہ ان سے دشمن مبہوت ہو جاتا تھا.جیسے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے متعلق ہی قرآن کریم میں آتا ہے کہ فَبُهِتَ الَّذِى كَفَرَ 5 کافر اُن کے دلائل و براہین سے مبہوت ہو گیا.غرض خواب میں میں اُس ہندو کو مثالیں دیتا ہوں اور کہتا ہوں کہ چودھری اسد اللہ خاں صاحب تو صرف خلاصہ بیان کر رہے ہیں اس لیے انہوں نے مثالیں بیان نہیں کیں.اس پر وہ ہندو خاموش ہو گیا.اس رؤیا سے میں سمجھتا ہوں کہ کسی زمانہ میں خدا تعالیٰ ہندوؤں میں بھی تبلیغ اسلام کا رستہ کھول دے گا.وہ لوگ اس قسم کے دیوتاؤں کے قائل ہیں جن کے کئی کئی ہاتھ ، کئی کئی ناک اور کئی کئی آنکھیں ہوتی تھیں لیکن ایک وقت آئے گا کہ خدا تعالیٰ ان پر یہ حقیقت کھول دے گا کہ وہ دیوتا بھی ہمارے جیسے انسان ہی تھے.صرف اُن کی روحانی طاقتوں کو تصویری زبان میں اس طرح دکھایا گیا ہے کہ گویا اُن کے کئی کئی ہاتھ تھے، کئی کئی سر تھے، کئی کئی آنکھیں اور کئی کئی ناک تھے اور یہ روحانی طاقتیں سب بزرگوں کو دی گئی ہیں.

Page 522

$1956 509 خطبات محمود جلد نمبر 37 حضرت فرید الدین صاحب شکر گنج ، حضرت نظام الدین صاحب اولیاء اور حضرت معین الدین صاحب چشتی کو بھی یہ روحانی طاقتیں دی گئی تھیں.وہ بھی لوگوں کے عیوب بہت جلد پہچان لیتے تھے.وہ بھی مظلوموں کی فریادیں سنتے تھے اور وہ بھی اپنے دلائل و براہین سے دشمن کو قائل کر لیتے تھے، ہندوؤں نے انہی روحانی طاقتوں کو تصویری زبان میں کئی کئی آنکھوں ، ناکوں اور کئی کئی ہاتھوں کی شکل میں دکھایا ہے.اگر وہ اپنے بزرگوں کو انسانوں کی شکل میں ہی پیش کرتے تو لوگ ان سے ڈر کر بھاگنے کی بجائے ان سے سبق سیکھتے اور اپنے اندر نیکی پیدا کرنے کی کوشش کرتے.مگر انہوں نے جس شکل میں اپنے بزرگوں کو پیش کیا ہے اُسے دیکھ کر تو انسان ڈر کر بھاگنے لگتا ہے.اور جب وہ کئی کئی ہاتھ دیکھتا ہے تو خیال کرتا ہے کہ یہ کوئی تیندوا 6 ہے، جب کئی کئی سر دیکھتا ہے تو خیال کرتا ہے کہ یہ کوئی عجیب الخلقت حیوان ہے، جب کئی کئی آنکھیں دیکھتا ہے تو خیال کرتا ہے کہ یہ کوئی نئی قسم کا سانپ ہے حالانکہ وہ ہمارے جیسے ہی انسان تھے.یہ غلط فہمی جس دن دور ہو گئی اور ہندوؤں کی سمجھ میں یہ بات آ گئی کہ اُن کے دیوتا اور بزرگ بھی انسان ہی تھے تو وہ انسانوں سے سبق سیکھنے کے لیے تیار ہو جائیں گے اور صداقت کو قبول کرنا ان کے لیے کوئی مشکل نہیں رہے گا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ میں ایک دن حضرت خلیفہ المسیح الاول مسجد اقصٰی سے قرآن کریم کا درس دے کر واپس آ رہے تھے کہ راستہ میں ایک ہندو ڈپٹی جس کا مسجد اقصی کے ساتھ ہی ایک بڑا سا مکان تھا بیٹھا ہوا تھا.وہ آپ کو دیکھتے ہی کھڑا ہو گیا اور کہنے لگا حکیم صاحب ! میں آپ سے ایک بات پوچھنا چاہتا ہوں.آپ نے فرمایا پوچھیں.اس نے کہا حکیم صاحب! میں نے سنا ہے کہ مرزا صاحب بادام روغن اور پلاؤ بھی کھا لیتے ہیں؟ اسی حضرت خلیفہ اول نے فرمایا ڈپٹی صاحب! ہمارے مذہب میں یہ سب چیزیں جائز ہیں اور لوگ انہیں کھا سکتے ہیں.مرزا صاحب کے لیے بھی ان طیب چیزوں کا کھانا جائز ہے.اس پر وہ حیران ہو کر کہنے لگا کہ کیا فقروں کو بھی یہ چیزیں کھانا جائز ہے؟ یعنی کیا بزرگوں کے لیے بھی ان چیزوں کا کھانا جائز ہے.آپ نے فرمایا ہاں.ہمارے مذہب میں فقروں کے لیے بھی پاک چیزیں کھانے کا حکم ہے.اس پر وہ خاموش ہو گیا.

Page 523

خطبات محمود جلد نمبر 37 510 $1956 یہ جواب تو شریفانہ تھا جو حضرت خلیفہ اول نے اس ڈپٹی کو دیا.لیکن ایک جوا.خلیفہ رجب دین صاحب نے بھی ایک مجسٹریٹ کو دیا تھا.وہ خواجہ کمال الدین صاحب کے خسر تھے اور ان کی طبیعت بڑی تیز تھی.ایک دفعہ وہ کسی شہادت کے سلسلہ میں عدالت میں گئے تو مجسٹریٹ جو ہندو تھا اُن سے کہنے لگا کہ لوگ کہتے ہیں کہ مرزا صاحب پلاؤ ، قورمہ اور کباب بھی کھا لیتے ہیں کیا یہ ٹھیک بات ہے؟ خلیفہ رجب دین صاحب نے جواب دیا کہ اسلام میں تو یہ سب چیزیں حلال ہیں اور ان کا کھانا جائز ہے لیکن اگر آپ کو یہ چیزیں پسند نہیں تو آپ بیشک پاخانہ کھا لیا کریں.مجسٹریٹ کہنے لگا خلیفہ صاحب! آپ تو ناراض ہو گئے.انہوں نے کہا میں ناراض تو نہیں ہوا میں نے تو صرف آپ کی بات کا جواب دیا ہے.اصل بات یہ ہے کہ جو وساوس اور شبہات کسی قوم میں راسخ ہو چکے ہوتے ہیں عام طور پر اُس قوم کے لوگ دوسروں سے بھی انہی خیالات کی توقع رکھتے ہیں.میں سمجھتا ہوں کہ وہ ہندو ڈپٹی تعلیم یافتہ ہونے کی وجہ سے خاموش ہو گیا ہو گا.ورنہ وہ ضرور پوچھتا کہ ہمارے ہاں تو بزرگوں کے دو دو سر اور چار چار ناک اور کئی کئی آنکھیں ہوتی ہیں مگر مرزا صاحب کا تو ایک ہی سر اور ایک ہی ناک اور دو ہی آنکھیں ہیں.پھر وہ اور آگے بڑھتا اور کہتا کہ ہمارے ہنومان کی تو دم بھی تھی لیکن مرزا صاحب کی تو کوئی دم نہیں پھر یہ کیسے مصلح ہو گئے.میں سمجھتا ہوں کہ تعلیم یافتہ ہونے کی وجہ سے اُسے شرم آ گئی اور اُس نے یہ سوالات نہ کیے ورنہ وہ یہ باتیں ضرور پوچھتا کیونکہ ہندوؤں میں اپنے بزرگوں کے متعلق اسی قسم کے خیالات پائے جاتے ہیں اور انہوں نے تصویری زبان میں اُن کے کئی کئی سر، کئی کئی آنکھیں، کئی کئی ناک اور کئی کئی ہاتھ دکھائے ہیں.بہر حال جب ہندوؤں کے دل ان وساوس سے پاک ہو جائیں گے اور وہ کی روحانیت کا سبق سیکھنے کے لیے کسی عجیب الخلقت مخلوق کی جو ہاتھی اور سانپ اور تیندوے سے مشابہت رکھتی ہو تلاش نہیں کریں گے بلکہ انسانوں سے ہی سبق سیکھنے کے لیے تیار ہو جائیں گے تو اللہ تعالیٰ انہیں بھی ہدایت دے دے گا اور وہی وقت ہو گا جب احمدیت ان کے (الفضل 16 نومبر 1956ء) دلوں میں قائم ہو جائے گی“.1 : المائدة: 55

Page 524

$1956 خطبات محمود جلد نمبر 37 511 2 : تذکرۃ المہدی حصہ دوم صفحہ 274 مطبوعہ قادیان 1915ء 3 : پیغام صلح 31 اکتوبر 1956ء 4 آل عمران: 119 5: البقرة: 259 6 : تیندوا : ایک درندہ جو چیتے کی قسم کا ہوتا ہے.

Page 525

$1956 512 44 خطبات محمود جلد نمبر 37 جلسہ سالانہ کے موقع پر پہلے سے کئی گنا زیادہ تعداد میں آؤ اور اپنے رشتہ داروں اور دوستوں کو بھی ہمراہ لانے کی کوشش کرو چنده جلسہ سالانہ جلد سے جلد بھجوانے کی کوشش کرو تا کہ مہمانوں کے لیے خوراک اور رہائش کے انتظامات میں دقت نہ ہو (فرمودہ 9 نومبر 1956ء بمقام ربوہ) تشہد ، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: کل شام کو میں جابہ سے واپس آیا تھا اور کل صبح پھر ایک شادی کی تقریب پر لاہور جانے کا ارادہ ہے.میرے بعد اگر میاں بشیر احمد صاحب جو میرے ساتھ نہ گئے تو وہ امیر مقامی ہوں گے اور اگر وہ میرے ساتھ گئے تو مولوی جلال الدین صاحب شمس امیر مقامی ہوں گے.چونکہ ہم پرسوں جابہ گئے تھے جہاں سے کل شام کو واپس آئے اور کل پھر لاہور جانا ہے اور درمیان میں کچھ پیٹ کی بھی خرابی رہی جو دس پندرہ روز سے چلی آ رہی.ہے

Page 526

513 $1956 خطبات محمود جلد نمبر 37 جس کی وجہ سے مجھے ضعف محسوس ہو رہا ہے اس لیے میں خطبہ مختصر ہی پڑھوں گا.بیماری کی وجہ سے چونکہ مجھے وقت کا پورا اندازہ نہیں ہوتا بعض دفعہ ابھی کافی وقت ہوتا ہے تو مجھے تھوڑا معلوم ہے اور بعض دفعہ تھوڑا وقت ہوتا ہے تو مجھے کافی معلوم ہوتا ہے.اس لیے گو ابھی نومبر کا مہینہ چل رہا ہے اور دسمبر میں ہمارے جلسہ سالانہ کے دن ہوتے ہیں.لیکن میں ابھی.جماعت میں جلسہ سالانہ کے متعلق تحریک کر دیتا ہوں.ہوتا پہلے تو میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ جلسہ سالانہ کے چندہ کے متعلق متواتر کئی سالوں سے دیکھا گیا ہے کہ جو جماعتیں شروع سال میں چندہ دے دیتی ہیں وہ تو دے دیتی ہیں اور جو شروع میں نہیں دیتیں اُن کے ذمہ کافی بقایا رہ جاتا ہے جس کی وجہ سے ہمارے سالانہ بجٹ کو نقصان پہنچتا ہے اور ان کے ذمہ بھی بعض دفعہ دو دو سال کا چندہ اکٹھا ہو جاتا ہے.حالانکہ جلسہ سالانہ کا چندہ ایک ایسی چیز ہے جس کے دینے کا ہمارے ملک میں سالہا سال سے رواج چلا آ رہا ہے.جلسہ سالانہ ایک اجتماع کا موقع ہے اور اجتماع کے موقع پر ہمارے ملک میں لوگوں کی عادت ہے کہ وہ کچھ نہ کچھ امداد ضرور کیا کرتے ہیں.مثلاً شادیوں کے موقع پر اجتماع ہوتا ہے تو تمام رشتہ دار جاتے ہیں اور وہاں کچھ نہ کچھ روپیہ خرچ کرتے ہیں.موتوں کے موقع پر اجتماع ہوتا ہے تو تمام رشتہ دار جمع ہوتے ہیں اور کچھ نہ کچھ روپیہ دیتے ہیں.میلوں پر اجتماع ہوتا ہے جو بعض دفعہ کسی ذلیل سی چیز کو یاد رکھنے کے لیے ہوتا ہے تو اس موقع پر بھی ہر گاؤں کا جو آدمی آتا ہے وہ آٹا یا کوئی اور چیز اپنے ساتھ لاتا ہے اور میلہ کرانے والے فقیر کو دے دیتا ہے.وہ پہلے ذاتی ہوتا ہے جماعتی نہیں ہوتا.وہاں روٹی کسی کو نہیں ملتی مگر پھر بھی لوگ میلہ کرانے والے فقیر کی جھونپڑی کے سامنے آئے اور دوسری اشیاء کا ڈھیر لگا دیتے ہیں.اسی طرح بزرگوں کے عُرس ہوتے ہیں.عُرس بھی کوئی دین کی تبلیغ کا ذریعہ نہیں ہوتے بلکہ صرف بھائیوں کے ملنے کا ایک ذریعہ ہوتے ہیں.وہاں بھی لوگ بڑی قربانیاں کرتے ہیں اور ان پیروں کی کچھ نہ کچھ امداد کرتے ہیں جن کے وہ مُرید ہوتے ہیں.ہمارا جلسہ سالانہ تو عرسوں کی طرح نہیں بلکہ وہ ایک اہم دینی ضرورت کو پورا کرتا ہے.پھر اس موقع پر آنے والے سب مردوں اور عورتوں کو کھانا دیا جاتا ہے اور سب کے لیے رہائش کا انتظام کیا جاتا ہے.پیر

Page 527

$1956 514 خطبات محمود جلد نمبر 37 میں نے عرسوں میں جانے والوں سے پوچھا ہے وہ کہتے ہیں کہ عرسوں میں چوبیس گھنٹوں میں صرف ایک ایک روٹی ملتی ہے.باقی جہاں کوئی چاہے گزارہ کرے بازار سے لے کر روٹی کھائے یا کسی اور جگہ انتظام کرے لیکن یہاں تو باقاعدہ ہر شخص کو کھانا ملتا ہے اور ان کی رہائش کا انتظام ہوتا ہے.عربوں میں تو نہ کھانے کا انتظام ہوتا ہے اور نہ رہائش کا انتظام ہوتا ہے لیکن پھر بھی لوگ وہاں پہنچتے ہیں اور جس قدر آمد ہوتی ہے وہ سب کی سب ایک ہی شخص کی جیب میں چلی جاتی ہے لیکن یہاں جو آمد ہوتی ہے وہ خود جماعت پر خرچ ہوتی ہے.اس لیے یہ چندہ کوئی ایسا بوجھ نہیں جسے خوشی سے برداشت نہ کیا جا سکتا ہو.یہاں نہ صرف ہر آنے والے مرد کو کھانا دیا جاتا ہے بلکہ اُس کی بیوی کو بھی کھانا دیا جاتا ہے، اُس کے بچوں کو بھی کھانا دیا جاتا ہے.اس کے بھائی بندوں اور رشتہ داروں کو بھی کھانا دیا جاتا ہے اور اُس کے ہم وطنوں کو بھی کھانا دیا جاتا ہے.گویا سارے لوگ اِس چندہ سے فائدہ اُٹھاتے ہیں.اور اگر کچھ رقم بچ جاتی ہے تو وہ تبلیغ اسلام پر خرچ ہوتی ہے کسی فرد واحد کی جیب میں نہیں جاتی.پس ہمارا جلسہ سالانہ تمام عرسوں، میلوں اور اجتماعوں سے بالکل مختلف ہے اور اس میں حصہ لینا بڑے ثواب کا کام ہے.جماعتوں کو چاہیے کہ وہ ابھی سے جلسہ سالانہ کا چندہ جمع ہی کرنے کی کوشش کریں کیونکہ ہمارا لمبا تجربہ ہے کہ جو جماعتیں جلسہ سالانہ سے پہلے چندہ دے دیتی ہیں وہ تو دے دیتی ہیں اور جو رہ جاتی ہیں وہ رہتی چلی جاتی ہیں.ان میں سے بعض تو بعد میں نظارت بیت المال کے پیچھے پڑنے کی وجہ سے اور خط و کتابت کرنے پر آخر سال میں چندہ پورا کر دیتی ہیں اور بعض جماعتوں کے ذمہ دو دو سال کا بقایا چلا جاتا ہے حالانکہ انتظام پر تو بہر حال روپیہ خرچ ہوتا ہے.جلسہ سالانہ کے موقع پر آنے والوں کو کھانا دیا جاتا ہے، اُن کی رہائش کا انتظام کیا جاتا ہے، روشنی کا انتظام کیا جاتا ہے، پانی کا انتظام کیا جاتا ہے، صفائی کا انتظام کیا جاتا ہے، جو ضروریات زندگی انہیں گھر پر پوری کرنی ہوتی ہیں وہ یہاں پوری کی جاتی ہیں.اگر ہر احمدی یہ سمجھ کر کہ اگر وہ اپنے گھر پر رہتا تب بھی خرچ کرتا انہی تین دنوں کے کھانے وغیرہ کا خرچ دے دے تو جلسہ سالانہ کے اخراجات پورے ہو جاتے ہیں.وہ صرف یہ مدنظر رکھ لے کہ اول تو وہ اپنے اور اپنے بیوی بچوں کے تین دن کے سب

Page 528

$1956 515 خطبات محمود جلد نمبر 37 کھانے کا خرچ جو اُس نے گھر میں نہیں کھایا دے دے اور پھر اتنے ہی وہ مہمان سمجھ لے جو آب بجائے اُس کے گھر جانے کے تین چار دن کے لیے سلسلہ کے مہمان بن گئے ہیں اور ان کا بھی خرچ دے دے.مثلاً ایک گھر کے سات افراد ہیں اور وہ جلسہ سالانہ پر آتے ہیں تو وہ سات افراد کے کھانے کا خرچ الگ دے اور سات مہمانوں کا بھی دے اور سمجھ لے کہ وہ سات مہمان اُس کے گھر آئے ہیں.گویا وہ چودہ گس کے لیے تین دن کا خرچ دے دے اور سمجھ لے کہ گھر کا خرچ بھی چل گیا اور مہمانوں کا خرچ بھی پورا ہو گیا.بعض دوست کہہ سکتے ہیں کہ یہاں آنے کے لیے جو سفر پر کرایہ خرچ ہوتا ہے وہ تو ایک زائد بوجھ ہوتا ہے.یہ بات ٹھیک ہے لیکن سارے سال میں کوئی نہ کوئی سیر بھی لوگ کیا ہی کرتے ہیں اس کو بھی تم سیر ہی سمجھ لو.سیر میں بھی لوگ ریل یا موٹر میں بیٹھ کر سفر کرتے ہیں اور کرایہ پر کچھ نہ کچھ رقم خرچ آتی ہے اور یہاں بھی وہ ریل یا موٹر میں ہی بیٹھ کر آتے ہیں پھر یہ زائد بوجھ کیسے ہوا؟ پھر لوگ اپنے رشتہ داروں کو ملنے کے لیے جاتے ہیں اور یہاں بھی جلسہ سالانہ کے موقع پر سب دوست آپس میں ملتے ہیں.پھر یہاں اتنے نکاح ہوتے ہیں کہ میرے خیال میں دوسری جگہوں پر سال بھر میں بھی اتنے نکاح نہیں ہوتے جتنے یہاں ، دن میں جلسہ سالانہ کے موقع پر ہو جاتے ہیں.مجھے یاد ہے کہ جب میری صحت اچھی تھی تو قادیان میں جلسہ سالانہ کے موقع پر میں مسجد مبارک میں دو دو سو ، اڑھائی اڑھائی سو بلکہ بعض دفعہ چار چار سو نکاح پڑھا کرتا تھا.گویا دوستوں نے شادیوں اور بیاہوں پر اپنی اپنی جگہ جو خرچ کرنا ہوتا ہے وہ بھی یہاں آ کر اُڑ جاتا ہے.غرض سیر بھی ہو گئی ، دوستوں سے بھی کی مل لیا اور شادیوں اور بیاہوں میں بھی حصہ لے لیا.پس اگر یہاں آنے میں کسی کا کچھ زیادہ بھی خرچ ہو جائے تو کیا ہوا اُس کے تین اور کام بھی تو ہو گئے جو اُسے بہر حال کرنے پڑتے خواہ وہ جلسہ پر آتا یا نہ آتا.کیونکہ اگر کوئی شادی ہوتی ہے تو سارا خاندان مل کر منگنی یا نکاح کے لیے جاتا ہے اور وہ کام یہاں مفت ہو جاتا ہے.پھر شادیوں میں مہمان آتے ہیں تو اُن کو کھانا کھلانا پڑتا ہے لیکن یہاں خود شادی والے بھی لنگر میں کھانا کھاتے ہیں اور مہمان بھی لنگر میں کھانا کھاتے ہیں.غرض اگر ایک طرف خرچ بڑھتا ہے تو دوسری طرف تین چار اور کام بھی

Page 529

$1956 516 خطبات محمود جلد نمبر 37 جمع بغیر خرچ کے ہو جاتے ہیں.پس پہلے تو میں یہ تحریک کرتا ہوں کہ جلسہ سالانہ کا چندہ جم کرنے میں دوست ہمت سے کام لیں تا کہ جلسہ پر آنے والے مہمانوں کے لیے پہلے سے انتظام کیا جا سکے.اصل میں تو چندہ جلسہ سالانہ سال کے شروع میں ہی دے دینا چاہیے کیونکہ اگر اجناس وقت پر خریدی جائیں تو ان پر بہت کم خرچ آتا ہے.اگر روپیہ پاس ہو اور مئی جون با جولائی میں تمام اجناس خرید لی جائیں تو آدھے روپیہ میں کام بن جاتا ہے.اگر گندم وقت پر خرید لی جائے تو اس کی قیمت موجودہ قیمت سے قریباً آدھی ہوتی ہے.پھر اس وقت زمیندار کا حوصلہ بھی بڑھا ہوا ہوتا ہے.اگر گندم بازار میں دس روپے فی من بکتی ہو تو وہ جلسہ سالانہ کے لیے آٹھ روپے فی من کے حساب سے دے دیتا ہے اور سمجھتا ہے کہ یوں بھی اس نے کمیوں کو گندم دینی تھی.چلو سلسلہ کی بھی مدد کر دی تو کیا حرج ہے.آٹھ روپے ہم ان سے لے لیتے ہی ہیں اور باقی روپیہ دو روپیہ چھوڑ دیتے ہیں.اسی طرح دالوں وغیرہ میں بھی بہت فرق پڑ جاتا ہے.گندم کا نرخ پچھلے دنوں ربوہ میں سولہ سترہ روپے فی من ہو گیا تھا لیکن شروع میں آٹھ روپے فی من بھی مل جاتی تھی.گورنمنٹ کی طرف سے اگر چہ دس روپے فی من نرخ مقرر تھا تو لیکن زمیندار سلسلہ کی ضرورتوں کے لیے قربانی کر جاتا ہے وہ آٹھ روپے فی من کے حساب وہ سے بھی دینے کے لیے تیار ہو جاتا ہے.بشرطیکہ قانون اجازت دیتا ہو.دالوں پر بھی اگر وقت پر نہ خریدی جائیں تو قریباً تین گنا خرچ آ جاتا ہے.اسی طرح دوسری ضروریات ہیں مثلاً لکڑی ہے.اگر وقت پر لکڑی لے لی جائے تو اس میں بھی بہت سا فرق پڑ جاتا ہے.کسیر مفت کی چیز ہے.جن دنوں بارش ہوتی ہے کسیر کثرت سے پیدا ہوتی ہے.اگر اُن دنوں اس کا انتظام کر لیا جائے یا چاول کے دنوں میں پرالی لے لی جائے تو یہ چیز میں مفت میں مل جاتی ہیں اور اگر کچھ خرچ آئے تو وہ نہایت معمولی ہوتا ہے.زمیندار سمجھتا ہے کہ ہم نے بھی تو کسیر جلانی ہی تھی.اگر ان کو دے دی تو کیا حرج ہے.صرف یہاں تک لانے میں گڑے کا خرچ پڑتا ہے ورنہ دوسرے دنوں میں کسیر اور پرالی کے جمع کرنے پر بھی بہت خرچ ہو جاتا ہے.غرض وقت پر روپیہ جمع ہو جائے تو کئی چیزیں مفت مل جاتی ہیں، بعض چیزیں نصف قیمت پر مل

Page 530

$1956 517 خطبات محمود جلد نمبر 37 جاتی ہیں اور بعض چیزیں نصف سے بھی کم قیمت پر مل جاتی ہیں اور اگر ہمارے جلسہ سالانہ کا خرچ ساٹھ پینسٹھ ہزار روپے ہو تو وقت پر چیزیں خریدنے کی وجہ سے یہ خرچ چالیس پینتالیس ہزار یا زیادہ سے زیادہ پچاس ہزار روپے تک آ جاتا ہے.پھر یہ اللہ تعالیٰ کا بڑا احسان ہے کہ باوجود اس کے کہ ہم میں بہت سی کمزوریاں ہیں لیکن اللہ تعالیٰ نے ہمیں مخلص خادم عطا فرمائے ہیں جن کی محنت اور اخلاص کی وجہ سے ہمارے لنگر کا خرچ جلسہ سالانہ کے موقع پر اتنا کم ہوتا ہے کہ اس کی مثال دنیا میں کہیں نہیں ملتی.باہر کھانے کا خرچ ایک روپیہ فی کس فی وقت پڑتا ہے لیکن ہمارے جلسہ پر کام کرنے والے جس محنت اور قربانی سے کام لیتے ہیں اور جس طرح مفت سلسلہ کی خدمات بجالاتے ہیں جس طرح نان پز اور باورچی بعض اوقات کم رقمیں لے کر کام کر دیتے ہیں اُس کی وجہ سے میں نے حساب لگایا ہے کہ ہمارا فی کس خرچ ایک آنہ پانچ پیسے یا ڈیڑھ آ نہ پڑتا ہے.اگر ڈیڑھ آنہ بھی لیا جائے تو تین دن کا کھانا ساڑھے چار آنہ میں پڑ جاتا ہے.گویا ایک روپیہ میں چار آدمیوں نے جلسہ گزار لیا.اگر جلسہ سالانہ پر ساٹھ ہزار روپیہ خرچ ہو تو اڑھائی لاکھ آدمیوں کا گزارہ ہو گیا.باہر اتنے آدمی ہوں تو کم سے کم تین چار لاکھ روپیہ خرچ آئے.تو یہ اللہ تعالیٰ کا احسان ہے جس کا ہم جتنا بھی شکر ادا کریں کم ہے.دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہماری جماعت کے اس اخلاص کو زیادہ سے زیادہ بڑھاتا چلا جائے کیونکہ جوں جوں جماعت بڑھے گی.جلسہ پر آنے والوں کی تعداد بھی بڑھتی جائے گی اب اگر جلسہ سالانہ کے موقع پر چالیس پچاس ہزار آدمی باہر سے آتا ہے تو چند ہی سال میں تم دیکھو گے کہ اِنشَاءَ اللہ لاکھ، ڈیڑھ لاکھ، دو لاکھ ، اڑھائی لاکھ ، تین لاکھ ، چار لاکھ ، پانچ لاکھ، دس لاکھ، پندرہ لاکھ بلکہ ہمیں لاکھ بھی آئے گا.اور ہمیں لاکھ آدمی آئے اور اس وقت جو جلسہ پر خرچ ہوتا ہے اسی نسبت سے خرچ لگایا جائے تو پانچ لاکھ روپیہ خرچ آئے گا.اور اگر باہر والا خرچ لگایا جائے تو ایک کروڑ سے بھی زیادہ خرچ ہو گا.کیونکہ ہر مہمان نے چار دن کھانا تین دن بھی کھانا کھائے تب بھی چھ وقت کا کھانا دینا ہو گا.اور اگر ہے.ایک ایک روپیہ فی وقت بھی خرچ لگایا جائے تو تین دن کا خرچ چھ روپیہ فی کس بنتا ہے.کھانا

Page 531

$1956 518 خطبات محمود جلد نمبر 37 اور اگر ایک لاکھ آدمی جلسہ پر آئے تو چھ لاکھ روپیہ خرچ ہوا.اگر ڈیڑھ لاکھ آدمی آئے تو نو لاکھ روپیہ خرچ ہوا لیکن موجودہ شرح کے لحاظ سے تو چھ لاکھ آدمی آئے تو ڈیڑھ لاکھ روپیہ میں کام بن جائے گا، ایک لاکھ آدمی آئے تو ستر اسی ہزار روپیہ میں گزارہ ہو جائے گا.بہر حال جماعت کو چاہیے کہ وہ وقت پر چندہ دے تا کہ کارکن سہولت سے چیزیں خرید سکیں.دوسرے میں یہ تحریک کرنا چاہتا ہوں کہ ربوہ کے لوگ جلسہ سالانہ پر آنے والے مہمانوں کے لیے زیادہ سے زیادہ مکانات دیں.گو اب مکانات خدا تعالیٰ کے فضل سے کافی بن گئے ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ جلسہ پر آنے والوں کی تعداد بھی بڑھ رہی ہے.گو میں نے دیکھا ہے کہ کچھ مدت سے عورتوں میں یہ رو چل رہی ہے کہ وہ الگ مکانوں کا مطالبہ نہیں کرتیں.پہلے انہی کی طرف سے اصرار ہوتا تھا کہ ہم کو مردوں کے ساتھ الگ مکان ملے.اب دوسال سے لجنہ اماء اللہ کی منتظمات سے پتا لگا ہے کہ عورتیں آ کر کہتی ہیں کہ ہم الگ مکانات میں نہیں رہیں گی.مرد ہمیں مکانوں میں بٹھا کر خود جلسہ پر چلے جاتے ہیں اور ہم جلسہ سننے سے محروم رہتی ہیں.اس لیے ہم عورتوں میں ہی رہیں گی مردوں کے ساتھ نہیں رہیں گی.کیونکہ مردوں کے ساتھ رہنے کا فائدہ تو تب تھا کہ وہ ہمارے پاس رہتے لیکن وہ ہمیں مکانوں میں بٹھا کر اور باہر سے گنڈا لگا کر چلے جاتے ہیں اور سارا دن جلسہ میں مصروف رہتے ہیں.اور بعض اوقات تو مرد اُس وقت آتے ہیں جب واپس جانے کے لیے لاری تیار ہوتی ہے اس لیے ہم عورتوں میں ہی رہیں گی.اگر اور کچھ نہیں تو بجائے اکیلے بیٹھنے کے دوسری عورتوں سے باتیں تو کریں گی.اس طرح ہمارا دل بھی لگے گا اور اگر کوئی ضرورت ہوئی تو عورتوں کے ذریعہ پوری کر لیں گی.بہر حال قادیان کے خلاف میں نے یہاں یہ بات دیکھی ہے کہ عورتیں الگ مکانات میں رہنے کے لیے اصرار نہیں کرتیں.قادیان میں عورتوں کی طرف سے اصرار ہوتا تھا کہ انہیں مردوں کے ساتھ رہنے کے لیے الگ ٹھکانا مل جائے.لیکن یہاں اس بات پر زور ہوتا ہے کہ ہمیں عورتوں کے ساتھ رہنے دیا جائے.لیکن پھر بھی چونکہ جلسہ سالانہ پر آنے والے مہمانوں کی تعداد ہر سال بڑھ رہی ہے اس لیے اس رو کے باوجود ہمیں کافی مکانوں کی ضرورت ہو گی.پس ربوہ والوں کو چاہیے کہ وہ اپنے مکانات کے

Page 532

$1956 519 خطبات محمود جلد نمبر 37 زیادہ سے زیادہ حصے خالی کر کے جلسہ سالانہ کے کارکنوں کے سپرد کریں تا کہ وہ اُن لوگوں کے لیے انتظام کر سکیں جو الگ مکانات مانگتے ہیں.باقی ابھی تو ہمارے پاس عمارتیں کافی ہیں جن میں مہمانوں کا گزارہ ہو جاتا ہے.سلسلہ کے اپنے مکانات ہیں، سکول ہیں، کالج ہیں، پھر لنگر خانہ ہے، مساجد ہیں ان میں مردوں کا گزارہ ہو جاتا ہے.مستورات کے ٹھہرنے کے لیے لجنہ کا ہال ہے، اسی طرح لڑکیوں کا سکول ہے، زنانہ کالج ہے، سر دست ان کا گزارہ وہاں ہو جاتا ہے لیکن جب آنے والوں کی تعداد زیادہ ہو گئی تو پھر ان عمارتوں میں تمام مہمان نہیں ٹھہرائے جاسکیں گے بلکہ ہمیں پختہ بیر کیں بنانی پڑیں گی.اور ایک ایک اینٹ کی پختہ بیر کیں جائیں تو بار بار اُن کی مرمت کا سوال نہیں ہو گا.حاجی جب جہازوں میں جاتے ہیں تو اُن کے لیے سات فٹ جگہ فی کس مقرر کی جاتی ہے.اگر ہمارے ہاں ایک لاکھ مہمان آئیں تو اُن کے لیے سات لاکھ فٹ جگہ کی ضرورت ہو گی.اگر عورتوں کو نکال لیا جائے تو پھر بھی پانچ لاکھ فٹ جگہ کی ہمیں ضرورت ہو گی اور پانچ لاکھ فٹ کے معنے یہ ہیں کہ دس ایکڑ زمین کی ہمیں بیرکوں کے لیے ضرورت ہو گی.میں نے جب حج کیا اُس وقت میں نے دیکھا کہ وہاں رات کو گلیوں میں لوگ پڑے ہوتے تھے اور ساٹھ ساٹھ ، ستر ستر آدمی گلی میں سو رہتے تھے ، نیچے اپنی دوتھیاں بچھا لیتے تھے اور تکیہ کی بجائے کوئی سخت سی چیز سر کے نیچے رکھ لیتے تھے کیونکہ مکہ مکرمہ میں حج کے دنوں میں مکانات بہت کم ملتے ہیں.مگر یہاں جلسہ پر آنے والوں میں سے ہر ایک کو رہنے کے لیے جگہ ملتی ہے.اگر زیادہ مہمان آنے شروع ہو گئے تو ممکن ہے کسی دن ہمیں جلسہ پر آنے والوں سے مکہ مکرمہ والوں کی طرح یہ امید بھی رکھنی پڑے کہ وہ جلسہ کے دنوں میں گلیوں میں بستر بچھا کر سو رہا کریں.لیکن اگر تنظیم قائم رہے تو خدا تعالیٰ کے فضل سے جب وہ دن آئے گا تو جماعت کے خزانہ میں روپیہ بھی زیادہ آ جائے گا اور پھر دس یا ہیں ایکٹر میں عمارتیں بنانی جماعت کے لیے مشکل نہیں ہوں گی.ایک کنال زمین میں چھ ہزار پانچ سو فٹ جگہ ہوتی ہے.اس لحاظ سے ایک ایکٹر میں باون ہزار فٹ جگہ ہوئی اور پانچ لاکھ فٹ کے لیے دس ایکڑ میں پختہ بیر کیں بنائی جائیں تو قریباً ایک لاکھ آدمی وہاں گزارہ سکے گا.لیکن جب جلسہ سالانہ پر آنے والوں کی تعداد ایک لاکھ ہو جائے گی

Page 533

$1956 520 خطبات محمود جلد نمبر 37 تو خدا تعالیٰ کے فضل سے جماعت کا چندہ بھی پچاس ساٹھ لاکھ روپیہ سالانہ ہو گا بلکہ ایک کروڑ روپیہ سالانہ ہو گا اور اُس وقت دس ایکڑ زمین میں بیر کیں بنانی کوئی مشکل نہیں ہوں گی صرف بیرکوں کے لیے زمین تلاش کرنی پڑے گی.سو خدا تعالیٰ کے فضل سے ابھی ربوہ میں تھوڑی ہت زمین باقی ہے.پھر کچھ زمین سلسلہ نے چھنی میں بھی خریدی ہے اور کچھ زمین احمد نگر میں احمدیوں کو مل گئی ہے.ان سب زمینوں کو استعمال کیا جائے تو سو ایکٹر زمین بھی مل سکتی ہے اور سو ایکڑ زمین میں مکانات بن جائیں تو اس کے معنے یہ ہیں کہ دس لاکھ مہمانوں کی رہائش کا انتظام ہو سکتا ہے.بیشک اس پر چالیس پچاس لاکھ روپیہ لگ جائے گا لیکن اس کے لیے فکر کی ضرورت نہیں.اُس وقت جماعت بھی دس ہیں لاکھ ہو جائے گی اور پھر اس کے لیے پچاس لاکھ روپیہ بلکہ ایک کروڑ روپیہ خرچ کرنا بھی مشکل نہیں ہوگا.بہر حال جب تک وہ دن نہ آئے اُس وقت تک ایک تو ربوہ والوں کو جلسہ کے لیے اپنے مکانات پیش کرنے چاہیں اور پھر انہیں اپنی خدمات بھی پیش کرنی چاہیں تا کہ جلسہ پر آنے والوں کو کوئی تکلیف نہ ہو.باہر کی جماعتوں کو چاہیے کہ وہ جلد سے جلد چندہ جلسہ سالانہ بھجوائیں اور پھر ابھی سے جلسہ سالانہ پر آنے کی تیاری کریں اور اپنے غیر احمدی دوستوں کو جن کے متعلق ان کا خیال ہو کہ وہ فائدہ اُٹھائیں گے ساتھ لانے کی کوشش کریں.ہم نے اکثر دیکھا ہے کہ جو جلسہ سالانہ پر آ جاتے ہیں اُن میں سے بہت کم لوگ بغیر اثر کے جاتے ہیں.اکثر ایسے ہی ہوتے ہیں جو بیعت کر جاتے ہیں.اس لیے اس موقع سے فائدہ اُٹھا کر آپ لوگ انہیں پنے ساتھ لانے کی کوشش کریں.جلسہ سننے کا تو انہیں اتنا شوق نہیں ہوتا جتنا احمدیوں کو ہوتا ہے لیکن میلہ دیکھنے کا انہیں ضرور شوق ہوتا ہے.اس لیے انہیں کہیں چلو میلہ ہی دیکھ آؤ.اور اگر وہ میلہ کے نام پر ہی یہاں آ جائیں اور یہاں آ کر اُن کا خدا اور اُس کے رسول سے میل ہو جائے تو اس میں تمہارا کیا حرج ہے.یہ تو بڑی اچھی بات ہے.پھر ایسا بھی ہوتا ہے کہ جب احمدی جلسہ سے واپس جاتے ہیں اور وہ اپنی مجالس میں ذکر کرتے ہیں کہ وہاں اس دفعہ یہ یہ دین کی باتیں ہوئیں تو غیر احمدیوں میں بھی چونکہ ایمان ہوتا ہے اس لیے وہ کہتے ہیں کہ اگلے سال ہم بھی چلیں گے لیکن سال کے آخر تک ان کا وہ جوش ٹھنڈا پڑ جاتا ہے.

Page 534

$1956 521 خطبات محمود جلد نمبر 37 اس لیے سب دوست ابھی سے ایسے دوستوں کو کہنا شروع کر دیں کہ اس سال جلسہ کے موقع پر ربوہ چلیں.وہاں جا کر کچھ خدا کی باتیں سن لینا.اور اگر تقریریں نہ سنی ہوں تو میلہ ہی دیکھ لینا.پس چاہے وہ کس ذریعہ سے آئیں انہیں یہاں لانے کی کوشش کریں.حضرت مسیح موعود امی علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں.کچھ شعر و شاعری سے اپنا نہیں تعلق اس ڈھب سے کوئی سمجھے بس مدعا یہی ہے 1 یعنی شعر و شاعری سے ہمارا کوئی تعلق نہیں لیکن بعض لوگ چونکہ شعر کے شوقین ہوتے ہیں اس لیے اگر وہ دین کی باتیں شعروں میں سن لیں تو ہمارا کیا حرج ہے.اسی طرح اگر بعض غیر احمدی دوست یہاں میلہ دیکھنے کے لیے ہی آجائیں لیکن یہاں آ کر اُن کا خدا اور اُس کے رسول سے میل ہو جائے تو اس میں ہمارا کیا حرج ہے.پس آپ لوگ ابھی سے اپنے غیر احمدی دوستوں میں تحریک کریں کہ وہ جلسہ سالانہ کے موقع پر یہاں آئیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جلسہ سالانہ کی اہمیت پر بہت زور دیا ہے.آپ نے ایک موقع پر ایک بڑی درد ناک بات کہی.فرمایا کہ دوست جلسہ پر ضرور آئیں.پتا نہیں انہیں اگلے سال کے بعد مجھے دیکھنا نصیب ہو یا نہیں.وہ یہاں آئیں گے تو کم از کم مجھے تو دیکھ لیں گے.ہماری جماعت میں کئی لوگ ایسے ہیں جن کے دلوں پر اس فقرہ سے ایسی ٹ لگی کہ انہوں نے اُس وقت سے مرکز میں آنا شروع کیا اور اب تک جلسہ سالانہ کے پر ہر سال مرکز میں آ رہے ہیں.1891ء میں پہلا سالانہ جلسہ ہوا تھا اور اب 1956 ء آ گیا ہے.گویا چونسٹھ سال ہو گئے مگر بعض لوگ ایسے ہیں جو چونسٹھ سال سے متواتر ہر سال جلسہ سالانہ دیکھتے چلے آئے ہیں.مثلاً کل ہی میاں فضل محمد صاحب ہر سیاں والے فوت ہوئے ہیں انہوں نے 18ء میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ہاتھ پر بیعت کی تھی جس پر اب اکسٹھ سال گزر چکے ہیں.گویا 1895ء کے بعد انہوں نے اکسٹھ جلسے دیکھے.ان کے ایک لڑکے نے بتایا کہ والد صاحب کہا کرتے تھے کہ میں نے جس وقت بیعت کی اُس کے وقع 1895

Page 535

خطبات محمود جلد نمبر 37 ا 522 $1956 قریب زمانہ میں ہی میں نے ایک خواب دیکھا جس میں مجھے اپنی عمر پینتالیس سال بتائی گئی.میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی خدمت میں حاضر ہوا اور رو پڑا اور میں نے کہا حضور! بیعت کے بعد تو میرا خیال تھا کہ حضور کے الہاموں اور پیشگوئیوں کے مطابق احمدیت کو جو ترقیات نصیب ہونے والی ہیں انہیں دیکھوں گا مگر مجھے تو خواب آئی ہے کہ میری عمر صرف پینتالیس سال ہے.اس پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا گھبراہٹ کی کوئی بات نہیں.اللہ تعالیٰ کے طریق نرالے ہوتے ہیں.شاید وہ پینتالیس کو نوے کر دے.چنانچہ کل جو وہ فوت ہوئے تو اُن کی عمر پورے توے سال کی تھی.اس طرح احمدیت کو جو ترقیات ملیں وہ بھی انہوں نے دیکھیں اور اکسٹھ جلسے بھی دیکھے.ان کے چار بچے ہیں جو دین کی خدمت کر رہے ہیں.ایک قادیان میں درویش ہو کر بیٹھا ہے، ایک افریقہ میں مبلغ ہے، ایک یہاں مبلغ کا کام کرتا ہے اور چوتھا لڑکا مبلغ تو نہیں مگر وہ اب ربوہ آ گیا ہے اور یہیں کام کرتا ہے.پہلے قادیان میں کام کرتا تھا.لیکن اگر کوئی شخص مرکز میں رہے اور اس کی ترقی کا موجب ہو تو وہ بھی ایک رنگ میں خدمتِ دین ہی کرتا ہے.پھر ان کی ایک بیٹی بھی ایک واقف زندگی کو بیاہی ہوئی ہے باقی بیٹیوں کا مجھے علم نہیں.بہر حال انہوں نے ایک لمبے عرصہ تک خدا تعالیٰ کا نشان دیکھا.جب پینتالیس سال کے بعد چھیالیسواں سال گزرا ہو گا تو وہ کہتے ہوں گے میں نے خدا تعالیٰ کا ایک نشان دیکھ لیا ہے.میں نے تو پینتالیس کی عمر میں مر جانا تھا مگر اب ایک سال جو بڑھا ہے تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی پیشگوئی کے مطابق بڑھا ہے.جب چھیالیسویں کے بعد سینتالیسواں سال گزرا ہوگا تو وہ کہتے ہوں گے میں نے خدا تعالیٰ کا ایک اور نشان دیکھ لیا ہے.میں نے تو پینتالیس سال کی عمر میں مر جانا تھا تی مگر اب دو سال جو بڑھے ہیں تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئی کے مطابق بڑھے ہیں.جب سینتالیسویں سال کے بعد اڑتالیسواں سال گزرا ہو گا تو وہ کہتے ہوں گے میں نے خدا تعالیٰ کا ایک اور نشان دیکھ لیا ہے.میں نے تو پینتالیس سال کی عمر میں مر جانا تھا اب تین سال جو بڑھے ہیں تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئی کے مطابق بڑھے ہیں.جب اڑتالیسویں سال کے بعد اُنچاسواں سال گزرا ہو گا تو وہ کہتے ہوں گے میں نے خدا تعالیٰ کا

Page 536

$1956 523 خطبات محمود جلد نمبر 37 الصلوة ایک اور نشان دیکھ لیا ہے.میں نے تو پینتالیس سال کی عمر میں مر جانا تھا مگر اب چار سال جو بڑھے ہیں تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئی کے مطابق بڑھے ہیں اور جب اُنچاسویں سال کے بعد پچاسواں سال گزرا ہو گا تو وہ کہتے ہوں گے میں نے تو پینتالیس سال کی عم میں مر جانا تھا اب یہ پچاسواں سال گزر گیا ہے تو یہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی پیشگوئی کے مطابق گزرا ہے.گویا وہ پینتالیس سال تک برابر ہر سال یہ کہتے ہوں گے کہ میں نے خدا تعالیٰ کا نشان دیکھ لیا اور ہر سال جلسہ سالانہ پر ہزاروں ہزار احمدیوں کو آتا دیکھ کر اُن کا ایمان بڑھتا ہو گا.پس جلسہ سالانہ کو بڑی عظمت حاصل ہے.حضرت مسیح موعود علیہ ا والسلام نے تحریر فرمایا ہے کہ اس جلسہ کو معمولی انسانی جلسوں کی طرح خیال نہ کریں.یہ وہ امر ہے جس کی خالص تائید حق اور اعلائے کلمہ اسلام پر بنیاد ہے.اس سلسلہ کی بنیادی اینٹ خدا تعالیٰ نے اپنے ہاتھ سے رکھی ہے اور اس کے لیے قومیں تیار کی ہیں جو عنقریب اس میں آ ملیں گی کیونکہ یہ اس قادر کا فعل ہے جس کے آگے کوئی بات انہونی نہیں“.2 پس اس جلسہ میں شمولیت بڑے ثواب کا موجب ہے اور مومن تو چھوٹے سے چھوٹے ثواب کو بھی ضائع نہیں ہونے دیتا.دیکھو یہاں جلسہ سالانہ پر آؤ گے تو ایک تو دین کی باتیں سن لو گے.دوسرے اپنے کئی احمدی بھائیوں سے مل لو گے.یہ خدا تعالیٰ کا کتنا بڑا فضل ہے کہ جلسہ سالانہ کے موقع پر ربوہ آنے کی وجہ سے دوستوں کے کئی قسم کے کام ہو جاتے ہیں.پس انہیں چاہیے کہ وہ ابھی سے جلسہ سالانہ پر آنے کی تیاری شروع کریں.یعنی الی خود بھی تیاری شروع کر دیں اور جن غیر احمدی دوستوں کو وہ اپنے ساتھ لا سکتے ہوں؟ انہیں بھی ابھی سے تحریک کرنا شروع کر دیں.اگر تحریک کرنے پر کوئی کہے کہ میں تو احمدی نہیں تو اُسے ہو کہ اگر جلسہ نہیں سنو گے تو میلہ ہی دیکھ لینا.اگر تم انہیں میلہ دیکھنے کے لیے ہی لے آؤ اور یہاں آکر ان کا خدا اور اس کے رسول سے میل ہو جائے تو تمہیں کیسا مزا آئے.حافظ روشن علی صاحب مرحوم سنایا کرتے تھے کہ جلسہ سالانہ کے ایام میں ایک دفعہ

Page 537

$1956 524 خطبات محمود جلد نمبر 37 میں نے مسجد مبارک کے سامنے والے چوک میں دیکھا کہ ایک گروہ لوگوں کا لنگر خانہ کی طرف سے آ رہا تھا اور ایک گروہ ہائی اسکول کی طرف سے آ رہا تھا.جب دونوں گروہ چوک میں پہنچے تو ایک دوسرے کو دیکھ کر ذرا رک گئے اور کچھ دیر رکنے کے بعد ایک طرف کے لوگ آگے بڑھے اور دوسرے گروہ کے آدمیوں سے بغلگیر ہو گئے اور پھر انہوں نے رونا شروع کر دیا.حافظ صاحب فرمایا کرتے تھے کہ مجھے یہ نظارہ دیکھ کر تعجب ہوا اور میں نے اُن سے پوچھا کہ یہ کیا بات ہے؟ اس پر ایک فریق نے بتایا کہ ہم ضلع گجرات کے رہنے والے ہیں.یہ لوگ ہمارے گاؤں میں پہلے احمدی ہوئے تھے اور ہم لوگ پیچھے احمدی ہوئے.جب یہ لوگ احمدی ہوئے تو ہم لوگ طاقتور تھے.ہم نے ان کی سخت مخالفت کی اور انہیں اپنے گاؤں سے نکال دیا.اس پر یہ کسی اور جگہ چلے گئے.اب پندرہ ہیں سال کے بعد یہ ہمیں اس جگہ ملے ہیں جبکہ ہم بھی احمدی ہو گئے ہیں.اس لیے انہیں دیکھ کر ہمیں رونا آ گیا کہ ہم نے تو انہیں اپنے روں سے نکالا تھا لیکن اب ہم بھی احمدی ہو گئے ہیں اور اس جگہ سے فیض لینے آئے ہیں جہاں سے انہوں نے فیض حاصل کیا تھا.اب دیکھو انہوں نے دس پندرہ سال سے اپنے ان رشتہ داروں کو نہیں دیکھا تھا لیکن قادیان میں ان کا ملاپ ہو گیا.اسی طرح اگر تم اپنے غیر احمدی دوستوں کو اپنے ساتھ لاؤ گے تو ہوسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کے دلوں میں بھی محبت پیدا کر دے اور ان کا بغض جاتا رہے.دلوں میں محبت پیدا کرنا خدا تعالیٰ کا کام ہے اور جب وہ کسی کے دل میں محبت پیدا کرتا ہے تو انسان حیران رہ جاتا ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب غزوہ حنین کے لیے تشریف لے گئے تو آپ کے ساتھ مکہ کے نو مسلم بھی شامل ہو گئے تا کہ وہ جنگ کے میدان میں اپنے جوہر دکھا ئیں اور عربوں پر اپنا رُعب بٹھا ئیں.اُنہی میں شیبہ نامی ایک شخص بھی تھا.وہ کہتا ہے میں بھی اس لڑائی میں شامل ہوا مگر میری نیت یہ تھی کہ جس وقت لشکر آپس میں ملیں گے تو میں موقع پاکر رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو قتل کر دوں گا.جب لڑائی تیز ہو گئی اور ادھر کے آدمی اُدھر کے آدمیوں میں مل گئے تو میں نے تلوار کھینچی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ

Page 538

$1956 525 خطبات محمود جلد نمبر 37 کے قریب ہونا شروع ہوا.اُس وقت مجھے ایسا محسوس ہوا کہ میرے اور آپ کے درمیان آگ کا ایک شعلہ اُٹھ رہا ہے جو قریب ہے کہ مجھے بھسم کر دے.اس کے بعد مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آواز سنائی دی کہ شیبہ ! میرے قریب ہو جاؤ.میں جب آپ کے قریب گیا تو آپ نے میرے سینہ پر ہاتھ پھیرا اور کہا اے خدا! شیبہ کو شیطانی خیالوں سے نجات دے.شیبہ کہتے ہیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہاتھ پھیر نے کے ساتھ ہی میرے دل سے تمام دشمنیاں اور عداوتیں اُڑ گئیں اور آپ کی محبت میرے جسم کے ذرہ ذرہ میں سرایت کر گئی.پھر آپ نے فرمایا شیبہ ! آگے بڑھو اور لڑو.تب میں آگے بڑھا اور اُس وقت میرے دل میں سوائے اس کے اور کوئی خواہش نہیں تھی کہ میں اپنی جان قربان کر کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بچاؤں.اگر اُس وقت میرا باپ بھی زندہ ہوتا اور میرے سامنے آ جاتا تو خدا کی قسم! میں اپنی تلوار سے اُس کا سر کاٹنے میں ذرا بھی دریغ نہ کرتا.3 اس قسم کے نظارے مرکز میں آنے پر ہی نظر آ سکتے ہیں.ہم نے دیکھا ہے.بعض لوگوں میں بڑی بڑی دشمنیاں تھیں مگر وہ یہاں آئے تو اُن کے دلوں سے پرانے بغض نکل گئے اور اپنے بھائیوں کی محبت اُن کے دلوں میں پیدا ہو گئی.پس آپ لوگ جلسہ سالانہ پر آنے کی کوشش کریں اور اپنے غیر احمدی دوستوں کو بھی ساتھ لانے کی کوشش کریں.ہمارا تجربہ ہے کہ بہت سے لوگ جو یہاں آتے ہیں وہ خدا تعالیٰ کے فضل سے احمدی ہو کر جاتے ہیں.پس آپ لوگوں کو کثرت کے ساتھ اپنے رشتہ داروں اور دوستوں کو تحریک کرنی چاہیے اور انہیں یہاں لانا چاہیے.ممکن ہے خدا تعالیٰ نے یہی موقع اُن کی ہدایت کے لیے رکھا ہو.اللہ تعالیٰ کے طریق نرالے ہوتے ہیں.وہ جس طرح چاہتا ہے کرتا ہے.ممکن ہے جس کو وہ ، با وجود کوشش کے احمدی نہیں بنا سکے تھے وہ یہاں آ کر احمدی ہو جائے.مجھے ایک احمدی نوجوان نے ایک واقعہ سنایا کہ میں اپنے ایک دوست کو جلسہ پر لایا.وہ پہلے بہت مخالفت کیا کرتا تھا.وہ یہاں آیا، اُس نے جلسہ سنا اور واپس چلا گیا مگر اس نے بیعت نہیں کی.اگلے سال پھر جلسہ سالانہ آیا تو میں نے کہا اس دفعہ بھی جلسہ پر چلو

Page 539

$1956 526 خطبات محمود جلد نمبر 37 کرایہ میں دے دوں گا.وہ کہنے لگا میں تو اپنے کرایہ پر جاؤں گا.وہاں تو خدا تعالیٰ کی باتیں ہوتی ہیں.ان کے سننے کے لیے میں تمہارے کرایہ پر نہیں بلکہ اپنے کرایہ پر جاؤں گا.غرض اللہ تعالیٰ اِس طرح دلوں کو ٹھیک کر دیا کرتا ہے.ہم نے دیکھا ہے بعض لوگ پانچ پانچ سال جلسہ پر آتے رہے لیکن انہوں نے بیعت نہ کی.بعد میں آئے تو بیعت کر لی.اور بعض ایسے لوگ بھی ہیں جنہوں نے پہلے سال ہی بیعت کر لی.مجھے یاد ہے منصوری کے ایک سید عبد الوحید صاحب بیعت کے لیے آئے.ان کے بھائی سید عبد المجید صاحب پہلے سے احمدی تھے.سیدعبدالوحید صاحب کا لڑکا فضل الرحمان فیضی بڑا مخلص احمدی ہے اور سندھ میں رہتا ہے.وہ حضرت خلیفہ امسیح الاول کی وفات کے بعد پہلے جلسہ سالانہ پر آئے تھے.بیعت کے لیے انہوں نے اپنا ہاتھ بڑھایا اور رونے لگ گئے.میں نے پوچھا کیا بات کی ہے؟ تو ان کے بھائی نے بتایا کہ یہ بڑے سخت مخالف تھے اور میرے ساتھ احمدیت کی وجہ سے بات کرنا بھی پسند نہیں کرتے تھے.اس کے بعد ان میں ایسا تغیر پیدا ہوا کہ یہ احمدیت کی طرف مائل ہو گئے اور اب بیعت کر رہے ہیں.اس تغیر کی وجہ یہ ہوئی کہ کوئی مولوی صاحب تھے جن کی یہ بہت مدد کیا کرتے تھے اور اُن پر بہت اعتقاد رکھتے تھے.انہوں نے ایک دفعہ یہ فتوی دیا کہ سپرٹ جو جلانے کے کام آتی ہے یہ بھی شراب ہے اور اس کا بیچنا کفر ہے.بعد میں ایک مقدمہ میں وہی مولوی صاحب بطور گواہ پیش ہوئے تو انہوں نے کہا سپرٹ تو جلانے کے کام آتی ہے اس کا شراب سے کیا تعلق ہے.اس سے یہ بدظن ہو گئے اور انہوں نے سمجھ لیا کہ مولوی لوگ پیسے لے کر بدل جاتے ہیں.غرض وہ یہاں آئے اور احمدی ہو گئے.پھر جب تک زندہ رہے احمدیت میں بڑے اخلاص سے زندگی گزاری.اب ان کی اولا د بھی بڑی مخلص ہے.پس آپ لوگوں کو یہ موقع ضائع نہیں کرنا چاہیے اور اس سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اُٹھانا چاہیے.اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ دوستوں کو اس امر کی توفیق عطا فرمائے کہ وہ پہلے سے کئی گنا زیادہ تعداد میں جلسہ پر آئیں اور پہلے سے کئی گنا زیادہ اخلاص لے کر جائیں.اور پھر وہ خود بھی اور اُن کی بیویاں بھی اور اُن کے بچے بھی ایسا ایمان اپنے اندر پیدا کریں جو

Page 540

$1956 527 خطبات محمود جلد نمبر 37 پہاڑ سے بھی زیادہ بلند ہو اور دنیا کی کوئی محبت اور تعلق اس محبت اور تعلق کے مقابلہ میں نہ ٹھہر سکے جو انہیں سلسلہ اور اسلام سے ہو.امین 1 : در مین اردو صفحہ 88 2 : مجموعہ اشتہارات جلد 1 صفحہ 341 اشتہار 7 دسمبر 1892ء (الفضل 18 نومبر 1956ء) 3 : السيرة الحلبية جلد 3 صفحہ 127 ، 128 مطبوعہ مصر 1935ء

Page 541

$1956 528 45 خطبات محمود جلد نمبر 37 قبولیت دعا کا ایک القائی نسخہ ہم قدم قدم پر خدا تعالیٰ کی طرف توجہ کرتے ہیں اور اس کی رضا کی جستجو کرتے ہیں.ان فقروں میں قبولیت دعا کے اہم گر بتائے گئے ہیں.دوستوں کو چاہیے کہ ان سے فائدہ اُٹھائیں (فرموده 16 نومبر 1956ء بمقام ربوہ ) تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: دو اور تین نومبر کی درمیانی رات کو میں نے رویا میں ایک نظارہ دیکھا وہ نظارہ تو تو مجھے بھول گیا لیکن اُس سے متاثر ہو کر میں نے کچھ فقرے کہنے شروع کیے جو میری زبان ہے بار بار جاری ہوئے.آنکھ کھلی تو ساڑھے تین بجے کا وقت تھا.جو پہلا فقرہ تھا وہ مجھے یاد رہا.میں نے اپنی ایک بیوی کو جگا کر انہیں کہا کہ اسے یاد رکھو کہیں مجھے بھول نہ جائے اور انہوں نے لکھ لیا لیکن دوسرا فقرہ مجھے یاد نہ رہا.جب میں صبح کی نماز کے لیے اُٹھا تو وہ اُس وقت مجھے بھول چکا تھا.میں نے اُس کو یاد کرنے کی کوشش کی مگر وہ یاد نہ آیا.ہفتہ کے روز میں لاہور چلا گیا.وہاں شیخ بشیر احمد صاحب کی بھتیجیوں کی شادی تھی.وہاں ہفتہ اور اتوار کی

Page 542

$1956 529 خطبات محمود جلد نمبر 37 درمیانی رات کو دعا کر کے سویا تو پھر پہلے فقرہ کے ساتھ ایک اور فقرہ میری زبان پر جاری ہوا.اب میں نہیں جانتا کہ آیا یہ وہی فقرہ تھا جو اس سے پہلی رات میری زبان پر جاری ہوا تھا.اور مجھے بھول گیا تھا یا اس کے ہم معنے یا ہم مضمون کوئی اور فقرہ ہے.بہر حال چاہے وہ فقرہ وہی ہے جو پہلی رات میری زبان پر جاری ہوا تھا یا اُس کا قائمقام کوئی اور فقرہ ہے جب میں وہ فقرے پڑھتا تھا تو میرے دل میں آیا کہ اللہ تعالیٰ نے ہماری جماعت کی دعاؤں کی قبولیت کے لیے ایک راستہ کھولا ہے.اگر جماعت کے دوست اپنی دعاؤں میں ان دونوں فقروں کا استعمال کریں گے تو ان کی دعائیں پہلے سے زیادہ مقبول ہوں گی.یہی سوچتے سوچتے میں وہ.فقرہ کہتا چلا گیا پھر میری آنکھ کھل گئی.اب پہلے دن کا دوسرا فقرہ تو مجھے یاد نہیں رہا.میں نے بتایا ہے کہ وہ مجھے بھول گیا تھا لیکن لاہور میں دوسری دفعہ ایک اور فقرہ پہلے فقرہ کے ساتھ ملا کر میری زبان پر جاری کیا گیا.میں نہیں کہہ سکتا کہ آیا یہ بعینہ وہی فقرہ ہے جو بھول گیا تھا یا اُس کے ہم معنے کوئی اور فقرہ ہے.بہر حال وہ فقرہ اگر وہی ہے تو بھی اور اگر اُس کے ہم معنی ہے تو بھی میں اس کو اور پہلی رات والے فقرہ کو جو یاد رہا بیان کرتا ہوں جن کے متعلق مجھے بتایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے وہ ہماری جماعت کی دعاؤں کو زیادہ سننے کے لیے بیان فرمایا ہے.یعنی اگر جماعت اپنی دعاؤں میں ان فقروں کو کہے گی تو اس کی دعائیں زیادہ سنی جائیں گی.وہ پہلا فقرہ جو مجھے یاد رہا تھا وہ تو یہ تھا ہم قدم قدم پر خدا تعالیٰ کی طرف توجہ کرتے ہیں“ اور دوسرا فقرہ جو مجھے بھول گیا اور پھر لاہور جا کر ہفتہ اور اتوار کی درمیانی رات کو دوباره میری زبان پر جاری ہوا جو یا تو وہی فقرہ تھا جو بھول گیا یا اُس کے ہم معنی کوئی اور فقرہ تھا وہ یہ تھا اور اُس کی رضا کی جستجو کرتے ہیں“ مجھے بتایا گیا ہے کہ اگر یہ فقرے ہماری جماعت کے دوست پڑھیں گے تو اُن کی دعائیں زیادہ قبول ہوں گی.میں نے بعد میں ان پر غور کیا اور سمجھ لیا کہ اس میں واقع میں

Page 543

خطبات محمود جلد نمبر 37 دعائیں قبول کرنے کا ایک گر بتایا گیا ہے.530 $1956 ہم قدم قدم پر خدا تعالیٰ کی طرف توجہ کرتے ہیں“ کے معنے یہ ہیں کہ ہم اپنی زندگی کے ہر فعل کے وقت خدا تعالیٰ سے دعا کرتے ہیں کہ ہمارا یہ فعل مبارک ہو جائے.اب یہ سیدھی بات ہے کہ جو شخص اپنے ہر فعل کے وقت خدا تعالیٰ سے دعائیں کرتا چلا جائے گا لا زما اُس کی دعائیں زیادہ قبول ہوں گی.کیونکہ قدم قدم سے مراد چلنا تو ہو نہیں سکتا اس سے یہی مراد ہے کہ ہماری زندگی میں جو بھی نیا کام آتا ہے اس میں ہم خدا تعالیٰ کی طرف توجہ کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اے خدا! تو ہم پر اپنی رحمت اور فضل نازل کر.اور جو شخص اپنی زندگی کے ہر نئے کام میں خدا تعالیٰ سے دعا کرے گا جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ کھانا کھاؤ تو بِسمِ اللهِ کہہ لو 1 کپڑا پہننے لگو تو بسم الله کہو، 2 کھانا کھا لو تو اَلْحَمْدُ لِلَّهِ کہو ، 3 نیا کپڑا پہن لو تو الحَمدُ لِلهِ کہو 4 کہ خدا تعالیٰ نے یہ کپڑا مجھے پہنایا ہے.گویا آپ نے بھی جی اس طرف توجہ دلائی ہے اور بِسمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیم خدا تعالیٰ کو اپنی طرف متوجہ کرنے کا موجب ہے.اور ہر نئی نعمت کے ملنے پر اَلحَمدُ لِلہ کہنا بھی خدا تعالیٰ کو متوجہ کرنے کے مترادف ہے.گویا ہم قدم قدم پر خدا تعالیٰ کی طرف توجہ کرتے ہیں اور جب ہم اپنے ہر کام میں خدا تعالیٰ کی طرف توجہ کریں گے تو لازمی بات ہے کہ خدا تعالیٰ کہے گا کہ میرا یہ بندہ تو کوئی کام میری مدد کے بغیر نہیں کرنا چاہتا اور وہ لازماً اس کی مدد کرے گا.پھر دوسرا فقرہ ہے اور اس کی رضا کی جستجو کرتے ہیں“ اس کو پہلے فقرہ کے ساتھ ملائیں تو اس کے یہ معنے ہو گئے کہ ہم ہر کام میں دیکھ لیتے ہیں کہ اس میں خدا تعالیٰ کی رضا ہے یا نہیں.اور اگر ہر کام کے کرتے وقت انسان خدا تعالیٰ سے دعا کرے اور ہر کام کے متعلق یہ سوچے کہ اس میں خدا تعالیٰ کی رضا ہے یا نہیں تو سیدھی بات ہے کہ اس کی کامیابی اور اس کی دعاؤں کی قبولیت میں کوئی شبہ نہیں ہوسکتا کیونکہ جو شخص خدا تعالیٰ کی رضا کے لیے کوئی کام کرے گا یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ خدا تعالیٰ اُس کی مدد نہ کرے.وہ تو خدا تعالیٰ کا کام ہو گیا.بندے کا کام ہو تو خدا تعالیٰ کہہ بھی سکتا ہے کہ یہ

Page 544

$1956 531 خطبات محمود جلد نمبر 37 تو تیرا کام ہے تو آپ کر.مگر جب وہ کام خدا تعالیٰ کی خوشنودی کے لیے کرنا چاہتا ہے تو پھر خدا تعالیٰ یہ نہیں کہے گا کہ یہ تیرا کام ہے تو آپ کر بلکہ وہ کہے گا یہ تو میرا کام ہے اسے میں ہی کروں گا.باقی رہا یہ کہ یہ تو دو فقرے ہیں ان کا دعاؤں کی قبولیت کے ساتھ کیا تعلق ہے؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ ان فقروں سے پہلے دعا کے بعد ” کیونکہ“ کا لفظ محذوف سمجھا جائے گا اور مطلب یہ ہوگا کہ اے خدا! فلاں کام کر دے کیونکہ میں تو ہر کام تیری مدد مانگ کر کیا کرتا ہوں اور ہر کام میں میں تیری رضا کو مدنظر رکھتا ہوں.اور پھر جو شخص دعا کے وقت کہے گا کہ ہم قدم قدم پر خدا تعالیٰ کی طرف توجہ کرتے ہیں وہ عملاً بھی یہی کوشش کرے گا کہ اپنے ہر کام میں خدا تعالیٰ سے دعا کرے.اور جو شخص دعا کے وقت یہ کہے گا اور ہم اُس کی رضا کی جستجو کرتے ہیں“ اور عملاً بھی جب کوئی کام کرے گا تو دیکھے گا کہ اس میں خدا تعالیٰ کی رضا ہے یا نہیں اور جب یہ دو باتیں کوئی انسان کرے گا تو یقینی بات ہے کہ اُس کی دعائیں زیادہ قبول ہوں گی.پس یہ صرف دعا نہیں ہے بلکہ اس میں انسان کو ایک رستہ بھی بتایا گیا ہے کہ تم اپنے چال چلن کو اس رنگ میں ڈھالو کہ ایک تو اپنے ہر کام میں خدا تعالیٰ سے دعا کیا کرو.دوسرے ہر کام کے کرنے سے پہلے سوچا کرو کہ خدا تعالیٰ اس سے راضی ہو گا یا نہیں.اگر تم ہر کام میں خدا تعالیٰ سے دعا کرو گے اور اگر تم ہر کام کے وقت یہ سوچو گے کہ اس میں خدا تعالیٰ کی رضا ہے یا نہیں تو لازماً جو کچھ خدا تعالیٰ سے مانگو گے وہ تم کو مل جائے گا.پس یہ صرف دعا ہی نہیں ہے بلکہ اس میں دعا کی قبولیت کا گر بھی بتایا گیا ہے اور مجھے خدا تعالیٰ نے یہ فقرے اس لیے بتائے ہیں کہ ہماری جماعت کے لوگ اگر اپنی دعاؤں میں یہ فقرے کہیں گے تو اُن کی دعائیں زیادہ قبول ہوا کریں گی.گویا یہ دعا کی قبولیت کا ایک القائی نسخہ ہے.یعنی ایسا نسخہ ہے جو بندہ نے ایجاد نہیں کیا بلکہ خدا تعالیٰ نے اسے ظاہر کیا ہے.اور یہ بات واضح ہے کہ جو نسخہ خدا تعالیٰ خود بتائے وہ بندہ کے ایجاد کردہ نسخہ سے بہت زیادہ قیمتی ہوتا ہے.پس میں نے سمجھا کہ میں جماعت کو بتا دوں کہ اللہ تعالیٰ کا منشا یہ ہے کہ عملاً بھی ا دعاء بھی اِن دونوں فقروں کو یاد رکھا جائے کہ ہم قدم قدم پر خدا تعالیٰ کی طرف توجہ کرتے اور

Page 545

$1956 532 خطبات محمود جلد نمبر 37 66 ہیں اور اُس کی رضا کی جستجو کرتے ہیں یعنی ایک تو یہ کہ ہر قدم جو ہم دنیا میں اُٹھائیں یعنی کوئی کام بھی کریں اُس میں خدا تعالیٰ کی طرف توجہ کر لیں.جس کے معنے یہ ہیں کہ ہم خدا تعالیٰ سے دعا کر لیں جیسا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی دعائے استخارہ بتائی ہے اور فرمایا ہے کہ ہر کام کو شروع کرنے سے پہلے دعائے استخارہ کر لیا کرو.5 دوسرا فقرہ ہے ، اور اُس کی رضا کی جستجو کرتے ہیں، یعنی جب کوئی کام کرتے ہیں تو دیکھ لیتے ہیں کہ خدا تعالیٰ اس سے راضی ہوتا ہے یا نہیں.اس کی طرف بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے توجہ دلائی ہے اور فرمایا ہے کہ ہر کام سے پہلے بِسمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیمِ پڑھ لیا کرو - 6 اب اگر کوئی شخص کہے کہ میں خدا تعالیٰ کا نام لے کر اُس کام کو شروع کرتا ہوں تو یہ بات ظاہر ہے کہ خدا تعالیٰ اس پر راضی ہو گا.تبھی وہ ایسا کہے گا.ورنہ دنیا میں کیا کوئی شخص یہ نہیں کہہ سکتا ہے کہ میں اپنے فلاں دشمن کے نام سے یہ کام شروع کرتا ہوں.وہ دشمن تو اُس کو ناکام کرنے کی کوشش کرے گا اُس کو کامیاب کیوں کرے گا.پس اگر کوئی شخص خدا تعالیٰ کا نام لے کر کوئی کام شروع کرتا ہے تو اس کے معنے یہ ہیں کہ وہ کام خدا تعالیٰ کی رضا کے مطابق ہے ورنہ وہ کبھی خدا تعالیٰ کا نام لے کر وہ کام شروع نہ کرتا.گویا یہ فقرے بِسْمِ اللهِ اور اَلْحَمْدُ لِلَّهِ کی اردو میں تفسیر ہیں.جس بات کو عربی میں بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ کہا گیا ہے وہ گویا ہم قدم قدم پر خدا تعالیٰ کی طرف توجہ کرتے ہیں کا قائم مقام ہے.اس کے بعد یہ فقرہ کہ ہم اُس کی رضا کی جستجو کرتے ہیں، یہ الْحَمدُ لِلهِ رَبِّ الْعَلَمِيْنَ 7 کا قائم مقام اور جب کسی کو اللہ تعالیٰ کی رضا نصیب ہو گی تو اُسے جنت بھی نصیب ہے.ہو گی اور جنت کے متعلق خدا تعالیٰ فرماتا ہے وَأَخِرُ دَعونهُمْ أَنِ الحَمدُ لِلهِ رَبِّ العَلَمِيْنَ - 8 گویا الْحَمدُ لله رب العلمین جنت میں داخل ہونے والا کہتا ہے.اور جنتیوں کے متعلق خدا تعالیٰ یہ بھی فرماتا ہے کہ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ و یعنی وہ خدا تعالیٰ سے راضی ہو گئے اور خدا تعالیٰ ان سے راضی ہو گیا.اسی طرح فرماتا ہے.يَآيَّتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَجِنَّةُ ارْجِعِي إِلَى رَبِّكِ رَاضِيَةً مَّرْضِيَّةً 10 یعنی اے نفس مطمئنہ ! اپنے رب کی طرف کوٹ یعنی جنت کی طرف آ

Page 546

$1956 533 خطبات محمود جلد نمبر 37 جو خدا کا گھر ہے.اس حالت میں کہ تو اُس سے راضی ہے اور خدا تجھ سے راضی ہے اور جن سے خدا تعالیٰ راضی ہو گیا وہ وہی ہیں جو قدم قدم پر خدا تعالیٰ کی طرف توجہ کرتے ہیں اور اس کی رضا کی جستجو کرتے ہیں.پس یہ کوئی نیا مضمون نہیں بلکہ در حقیقت قرآن کریم کی بعض اہم آیات کی اردو میں تفسیر ہے.ایک حصہ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ کی تفسیر ہے اور ایک حصہ الْحَمْدُ لِلَّهِ اور رَضِيَ اللهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ اور رَاضِيَةً مَّرْضِيَّةَ کی تفسیر ہے اور اس بات کی تفسیر ہے کہ وَاخِرُ دَعُونَهُمْ أَنِ الْحَمدُ لِلهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ.پس ہماری جماعت کو چاہیے کہ وہ قدم قدم پر دعائیں کیا کرے.ہم تھوڑے ہیں اور ہماری مثال ایسی ہے جیسے ایک چڑیا باز کے سامنے ہوتی ہے.باز جب چاہے حملہ کر کے اُس چڑیا کو مار ڈالے.ہمارے بچاؤ کا اس دنیا میں بھی اور اگلے جہان میں بھی ایک ہی ذریعہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف ہماری توجہ ہو جائے.جیسے قرآن کریم میں آتا ہے.فَأَيْنَمَا تُوَتُوْا فَشَمَّ وَجْهُ الله 11 یعنی تم خدا تعالیٰ کو متوجہ کرتے ہوئے اور دعائیں کرتے ہوئے جس طرف بھی جاؤ گے اُدھر ہی خدا تعالیٰ جائے گا اور وہ تمہاری مدد کے لیے آیا ہوا ہو گا.پس دعائیں کریں اور کرتے رہیں اور ہر کام میں خدا تعالیٰ کی رضا کی تلاش کریں.دوست لفظاً بھی یہ دعائیہ الفاظ کہا کریں کیونکہ اس طرح انسان کو یہ تحریک ہوتی ہے کہ جب میں خدا تعالیٰ سے کہہ رہا ہوں کہ میں تیری رضا کی جستجو کرتا ہوں تو عملاً بھی مجھے اس کی رضا کی کی جستجو کرنی چاہیے.اور جب وہ عملاً خدا تعالیٰ کی رضا کی جستجو کرے گا تو لازماً اُس کی دعائیں زیادہ قبول ہوں گی.غرض یہ ایک رؤیا ہے جو غیر معمولی طور پر دو دن اور پھر متفرق دنوں میں ہوئی ہے.ایک حصہ اس کا ربوہ میں آیا اور ایک حصہ میں بھول گیا.دوبارہ وہ لاہور میں آیا اور اُس میں دوسرا حصہ یاد کرایا گیا.ورنہ پہلے دن وہ بھولنے کی وجہ سے غیر مکمل رہ گئی تھی.بہر حال دونوں جگہوں پر خدا تعالیٰ نے اس کے مضمون کو یاد کروایا تاکہ میں بھی اس سے فائدہ اُٹھا سکوں اور جماعت کے دوست بھی اِس سے فائدہ اُٹھا ئیں.سو میں دوستوں کو توجہ دلاتے ہوئے یہ فقرے بتا تا ہوں.وہ دعاؤں میں یہ فقرے پڑھا کریں یہ کہتے ہوئے کہ اے اللہ ! فلاں فلاں کام پورا

Page 547

$1956 534 خطبات محمود جلد نمبر 37 کر دے کیونکہ ہم ہر قدم قدم پر تیری طرف توجہ کرتے ہیں اور تیری رضا کی جستجو کرتے ہیں.بہر حال یہ دعاؤں کی قبولیت کا ایک نسخہ ہے جو خدا تعالیٰ نے بتایا ہے.جن دوستوں کو توفیق ملے وہ اس سے فائدہ اُٹھا ئیں اور اپنے لیے بھی اور جماعت کے لیے بھی اپنی دعاؤں کو زیادہ مفید اور کارآمد بنانے کی کوشش کریں.خطبہ ثانیہ کے بعد فرمایا: نماز کے بعد میں بعض جنازے پڑھاؤں گا.ہیں.وہ 60 ایک جنازہ تو دوست محمد خان صاحب حجانہ کا ہے جو 2 نومبر کو فوت ہو ہو گئے انہوں نے 1909ء میں یعنی حضرت خلیفہ اول کے عہد خلافت میں احمدیت قبول کی تھی.نہایت مخلص اور جو شیلے احمدی تھے.انہیں تبلیغ کا جنون کی حد تک جوش تھا.ان کے بیٹے نے مجھے لکھا ہے کہ والد صاحب کی خواہش تھی کہ حضور ان کا جنازہ پڑھائیں اور اپنی زندگی میں بھی وہ مجھے ملتے تھے اس خواہش کا اظہار کیا کرتے تھے کہ میں ان کا جنازہ پڑھاؤں.جیسے احمدیت کے سلسلہ میں جو شیلے واقع ہوئے تھے ویسے ہی طبیعت کے لحاظ سے بھی بڑے جوشیلے تھے.مجھے یاد ہے ایک دفعہ شوری ہو رہی تھی.ایجنڈا میں یہ تجویز تھی کہ سب احمدی داڑھی رکھا کریں اور جو داڑھی نہ رکھیں اُن کی وصیت منسوخ کر دی جائے.مجھے یاد نہیں کہ یہ تجویز پاس ہوئی تھی یا نہیں؟ بہر حال جب یہ تجویز پیش ہوئی تو دوست محمد خاں صاحب حجانہ بڑے جوش سے کھڑے ہو گئے اور کہنے لگے میں اپنی داڑھی منڈوا دوں گا کیونکہ میں اس بارہ میں جبر برداشت نہیں کر سکتا.میں نے تو صرف اس لیے داڑھی رکھی تھی کہ خدا اور اُس کا رسول اس کی ہدایت دیتا ہے کسی کے جبر کی وجہ سے نہیں رکھی تھی.اب اگر کوئی شخص مجھے اس بات پر مجبور کرنا چاہتا ہے تو میں اسے برداشت نہیں کر سکتا.میں نے کہا آپ داڑھی چھوڑ سر بھی منڈوا دیں ہمیں اس کی کیا پروا ہو سکتی ہے.اس پر وہ رو پڑے اور کہنے لگے مجھے معاف کر دیا جائے مجھ سے غلطی ہو گئی ہے.اسی طرح ان کی طبیعت اتنی جو شیلی تھی کہ اپنے بیٹے کی ذرا سی بھی پر کہہ دیتے کہ میں اسے عاق کرتا ہوں کیونکہ یہ احمدیت کے کاموں میں پورے جوش سے حصہ نہیں لیتا.اللہ تعالیٰ انہیں غریق رحمت کرے اور انہیں اگلے جہان میں بھی بڑی غلطی

Page 548

$1956 535 خطبات محمود جلد نمبر 37 عزت بخشے.وہ خود ایک معمولی زمیندار تھے لیکن بڑے بڑے نوابوں اور رؤساء سے ان کے تعلقات تھے.جب میں پچھلے سال یورپ کے سفر پر گیا تو ان کے علاقہ کا ایک رئیس جو گورنمنٹ کا سیکرٹری تھا اُس نے مجھے نوٹس دیا کہ آپ کی جماعت تبلیغ کر رہی ہے جس.فساد کا ڈر ہے.انہی دنوں اس سیکرٹری سے کوئی غلطی ہوئی تھی جس پر وزیر اعظم نے اسے معطل کر دیا تھا چونکہ اس افسر کا میرے ساتھ اور میرے بچوں کے ساتھ پرانا تعلق تھا دوست محمد صاحب لاہور آئے ہوئے تھے مجھے ملے تو میں نے اُن سے کہا کہ اپنے دوست بیٹے کو کہہ دیں کہ اس نے اس نوٹس کے دینے میں غلطی کی ہے.شاید یہ ٹھوکر جو اس کو لگی ہے اسی وجہ سے لگی ہے.اب وہ تو بہ کرے تا کہ اللہ تعالیٰ اس کے قصور کو معاف کرے.مجھے علم نہیں کہ انہوں نے میرا یہ پیغام اسے پہنچایا یا نہیں کیونکہ بعد میں وہ خود مجھے نہیں ملے.لیکن وہ سیکرٹری خود مجھے یہاں ملنے کے لیے آئے.پہلے لاہور میں وہ ہمارے خاندان کے ایک فرد کے پاس گئے اور کہنے لگے میں ربوہ جانا چاہتا ہوں.اگر آپ اپنا کوئی آدمی میرے ساتھ بھیج دیں تو اچھا ہے.چنانچہ وہ داؤد احمد کے ساتھ یہاں آئے.ملاقات کے دوران میں جس خلوص کا انہوں نے اظہار کیا اُس سے معلوم ہوتا تھا کہ اُن کے دل کی صفائی ہو گئی ہے.ممکن ہے وہ خود ہی نادم ہوئے ہوں اور ندامت کی وجہ سے یہاں آ گئے ہوں.لیکن دوست محمد خاں.محمد صاحب حجانہ نے اپنی زندگی میں مجھے کہا تھا کہ میں اس کے پاس جاؤں گا اور کہوں گا کہ تم پر جو یہ عتاب ہوا ہے وہ اس نوٹس کی وجہ سے ہوا ہے جو تم نے بلا وجہ امام جماعت احمدیہ کو دیا تھا.اس لیے اس پر خدا تعالیٰ کے سامنے ندامت کا اظہار کرو ممکن ہے انہوں نے اسے کہا ہو اور اس وجہ سے وہ یہاں ملاقات کے لیے آیا ہو.بہر حال وہ ملاقات کے لیے آیا اور اپنے نائب کو بھی ساتھ لایا.ملاقات کے وقت میں دوسری باتیں ہوتی رہیں.اس بات کے متعلق اُس نے کوئی ذکر نہیں کیا لیکن ممکن ہے شرمندگی کی وجہ سے اُس نے ذکر نہ کیا ہو.بہر حال دوست محمد خاں صاحب حجانہ باوجود اس کے کہ ایک معمولی زمیندار تھے ان کے تعلقات نوابوں اور رئیسوں سے تھے اور وہ انہیں بڑے دھڑنے سے تبلیغ کیا کرتے تھے.الیکشن کے موقع پر بڑے بڑے رؤساء انہیں بلاتے اور کہتے ہماری مدد کریں کیونکہ وہ سمجھتے تھے

Page 549

$1956 536 خطبات محمود جلد نمبر 37 کہ علاقہ میں ان کا اثر ہے اور ان کے ادنیٰ سے اشارہ پر لوگ ان کی امداد کرنے کے لیے ، آجائیں گے.ایک دفعہ ان کے ضلع میں ایک ای.اے سی نے تنظیم اہل سنت والجماعت شروع کی اور اس کا ایک اخبار جاری کیا.وہ میرے پاس آئے اور کہنے لگے حضور! ان کا مقابلہ کیجیے.میں نے کہا خان صاحب گھبرائیے نہیں.یہ تنظیم خود بخود ٹوٹ جائے گی آپ کو اس کی فکر کرنے کی ضرورت نہیں.چنانچہ ایسا ہی ہوا.یہ لوگ احرار کی طرح اُٹھے تھے اور 1953ء کے قریب انہوں نے شرارتیں کیں لیکن خدا تعالیٰ نے انہیں جلد ہی ختم کر دیا.دوسرا جنازہ میں مہر غلام حسین صاحب سیالکوٹی کا پڑھاؤں گا.مہر صاحب مولوی نذیر احمد صاحب مبلغ گولڈ کوسٹ مغربی افریقہ کے والد تھے.مجھے یاد پڑتا ہے کہ میں نے ان کا جنازہ پڑھا دیا تھا لیکن دفتر والے کہتے ہیں کہ میں نے ان کا جنازہ نہیں پڑھایا.بہر حال میں نماز کے بعد ان کا جنازہ بھی پڑھاؤں گا“.(الفضل 23 نومبر 1956ء) 1 : ترندی ابواب الاطعمة باب ماجاء في التسمية على الطعام 2 : ابوداؤد كتاب اللباس باب مَا يَقُولُ إِذَا لَبِسَ ثَوْبًا جَدِيْدًا : ابوداؤد كتاب اللباس باب ما يَقُولُ إِذَا لَبِسَ ثَوْبًا جَدِيْدًا 4 : ابوداؤد كتاب اللباس باب ما يَقُولُ إِذَا لَبِسَ ثَوْبًا جَدِيدًا 5 :بخاری کتاب الدعوات باب الدعاء عِنْدَ الاسْتِخَارَة 6: كنز العمال جلد 1 صفحه 555 مطبوعه دمشق 2012 حدیث نمبر 2491 7 : الفاتحة : 2 8 : يونس : 11 9 : المائدة: 120 10 : الفجر : 28، 29 11 : البقرة : 116

Page 550

$1956 537 46 خطبات محمود جلد نمبر 37 دوست تحریک جدید کے وعدے بھجوانے میں سستی سے کام نہ لیں اور پہلے سے بڑھ چڑھ کر وعدے لکھوائیں خدا تعالیٰ نے ہمارے لیے خوشیوں کے دن مقدر کر رکھے ہیں ان کو قریب لانے کے لیے ہمیں زیادہ سے زیادہ قربانی کرنی چاہیے (فرموده 23 نومبر 1956ء بمقام ربوہ ) تشهد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: قریباً ایک ماہ ہوا میں نے تحریک جدید کے چندہ کے لیے جماعت کے دوستوں کو تحریک کی تھی.مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ اس سال وعدوں کی آمد اتنی نہیں جتنی گزشتہ سال تھی.مثلاً گزشتہ سال تحریک جدید کے چندہ کے سارے وعدے تو چار لاکھ روپیہ کے تھے لیکن آج کی تاریخ تک ایک لاکھ تینتیس ہزار کے وعدے آچکے تھے.اس کے مقابلہ میں اس سال آج کی تاریخ تک ایک لاکھ تیرہ ہزار کے وعدے آئے ہیں.اس کے بعد خطبہ دیکھنے

Page 551

$1956 538 خطبات محمود جلد نمبر 37 ا پہلے تک معلوم ہوا کہ اس سال ایک لاکھ ستاون ہزار کے وعدے آئے ہیں جو گزشتہ سال ایک لاکھ چورانوے ہزار کے تھے.گویا فرق بہت بڑھ گیا ہے اور دفتر نے شکایت کی ہے کہ دفتر دوم والے لوگ صحیح طور پر وعدے نہیں کر رہے.مثلاً میرا اعلان یہ تھا کہ گو پانچ روپے دے کر بھی انسان اس میں شامل ہو سکتا ہے مگر ماہوار آمدن کے بیس فیصدی تک چندہ دینا مناسہ ہو گا لیکن اس کے مقابل میں دفتر کی اطلاع یہ ہے کہ سینکڑوں روپیہ ماہوار کمانے والے لوگ بھی پانچ پانچ روپے کا وعدہ کر کے اس دفتر میں شامل ہو رہے ہیں جس کے برخلاف ایک باڈی گارڈ جس کی تنخواہ غالباً پچاسی یا پچانوے روپے ہے اُس نے ایک سو تین کا وعدہ لکھوایا ہے.یہ بہت بڑا فرق ہے.دوستوں کو اخلاص بڑھانا چاہیے اور کم سے کم اپنی ماہوار آمدن کی ہیں فیصدی رقم وعدے میں لکھوانی چاہیے.گو ابھی تحریک جدید کے وعدے آنے میں بہت سا وقت باقی ہے لیکن پھر بھی چونکہ دفتر روزانہ وصول ہونے والے وعدوں کا پچھلے سال کی تاریخوں سے موازنہ کیا کرتا ہے تا کہ جماعت کی روز کی ترقی یا کمزوری کا پتا لگتا رہے.اس لیے ضروری ہے کہ دوست اپنے وعدے بھجوانے میں سستی سے کام نہ لیں.جماعت کو یاد رکھنا چاہیے کہ آنے والا سال ہمارے لیے ایک نہایت ہی اہم سال ہے کیونکہ دشمن نے یہ پروپیگنڈا شروع کیا ہوا ہے کہ اب جماعت احمدیہ میں بغاوت پیدا ہوگئی ہے اور جماعت کے نوجوان خلیفہ وقت سے بیزاری کا اظہار کر رہے ہیں.اگر چہ یہ بالکل جھوٹ بات ہے لیکن بہر حال اگر ایک جھوٹا بہانہ بھی مخالف کو مل جائے تو وہ اس کو بھی بہت بڑھا دیا کرتا ہے.مثلاً ہم یہاں ربوہ میں بیٹھے ہوئے ہیں.ہمیں قطعاً کسی منافقت کا علم نہیں لیکن غیر احمدی اخباروں میں روزانہ چھپتا ہے کہ اتنے آدمی خلیفہ کے مخالف ہو گئے ہیں.جب عبدالمنان امریکہ سے آیا ہے تو صرف تین عیسائی چوڑھے اُس کے استقبال کے لیے اسٹیشن پر آئے ہوئے تھے.یہ چوڑھے اُس کے گھر کے پاس رہتے تھے.اس لیے ان کے اس سے تعلقات تھے.چنانچہ وہ تینوں اس کے استقبال کے لیے اسٹیشن پر آئے لیکن اخباروں میں تاریں چھپیں کہ عبدالمنان کا ربوہ میں عظیم الشان استقبال ہوا اور فضا نعروں سے گونج اُٹھی حالانکہ بات یہ تھی کہ اُس کے ہمسائے میں بھی کسی کو علم نہیں تھا کہ عبدالمنان آیا ہے.تو چاہے

Page 552

خطبات محمود جلد نمبر 37 539 $1956 سال کے آخر میں چندے کی مقدار میں ایک پیسہ بھی کمی ہو دشمن کو شور مچانے کا موقع ملے گا اور وہ ثابت کرنے کی کوشش کرے گا کہ اس نے جو کہا تھا کہ جماعت میں بغاوت پیدا ہو رہی ہے وہ ٹھیک ثابت ہوا ہے.لیکن بات وہی ٹھیک نکلے گی جو میں نے قرآن کریم سے بیان کی تھی کہ جب واقعی طور پر کچی جماعتوں میں سے کوئی شخص نکلتا ہے تو اللہ تعالیٰ اُس کے بدلہ میں اور بہت سے آدمی دے دیتا ہے.1 چنانچہ آج ہی مجھے پاکستان کے ایک اہم شہر سے چٹھی آئی ہے کہ وہاں بہت سے لوگوں کی توجہ احمدیت کی طرف پھر رہی ہے اور تعلیم یافتہ طبقہ میں سے بھی کچھ لوگ احمدیت میں داخل ہوئے ہیں.چنانچہ ایک بیعت تو مجھے آج ہی آئی ہے ہے اور دو تین بیعتیں میں پہلے بھی دفتر کو بھیج چکا ہوں اور بہت سے لوگ احمدیت کے قبول کرنے کے لیے تیار ہیں.پھر مجھے امریکہ کے قریب کے ایک علاقہ سے تار آئی ہے کہ وہاں نی دو سو آدمی احمدیت میں داخل ہوئے ہیں.گو ساتھ ہی یہ خبر تھی کہ مقابلہ بھی سخت کرنا پڑ رہا ہے اور مخالفت شروع ہو گئی ہے.لیکن امریکہ جیسے علاقہ میں ایک ہی دن میں دوسو آدمیوں کا احمدیت میں داخل ہو جانا کوئی معمولی بات نہیں.اسی طرح اور کئی جگہوں سے اطلاعیں آ رہی ہیں کہ وہاں خدا کے فضل سے اچھے تعلیم یافتہ اور بڑے لوگ احمدیت کی طرف متوجہ ہو رہے ہیں.اس سے اس بات کا ثبوت ملتا ہے کہ میں نے جو کہا تھا کہ اگر تم سچے مومن ہو اور نکلنے والا واقعی طور پر تمہارے نظام سے کسی دشمنی کی وجہ سے الگ ہوا ہے تو اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ وہ اُس کی جگہ پر تمہیں ایک قوم دے دے گا وہ بالکل درست ہے.اب دیکھ لو جماعت سے نکلنے والے تو زیادہ سے زیادہ آٹھ نو آدمی تھے لیکن ان کے نکلنے کے بعد کئی ہزار لوگ جماعت میں داخل ہوئے ہیں.جیسا کہ میں نے بتایا ہے امریکہ جیسے علاقہ میں ایک دن میں دو سو آدمی احمدیت میں داخل ہوئے ہیں اور وہاں کا دوسو آدمی ہمارے علاقہ کے بیس ہزار آدمیوں کے.کیونکہ اُن کی آمدن ہمارے ملک کے لحاظ سے بہت زیادہ ہے.اسی طرح بعض اور جگہوں سے بھی ایسی اطلاعات آ رہی ہیں جن سے پتا لگتا ہے کہ شاید تھوڑے ہی عرصہ میں لاکھوں کی تعداد میں لوگ احمدیت میں داخل ہو جائیں.پس بات تو وہی پوری ہو رہی ہے ؟ قرآن کریم نے کہی ہے اور جس کا ترجمہ کر کے میں نے آپ لوگوں کو سنایا تھا لیکن ہمیں برابر ہے.

Page 553

$1956 540 خطبات محمود جلد نمبر 37 کوشش کرنی چاہیے کہ دشمن کو کوئی خوشی کا موقع نہ ملے اور اپنی قربانیوں سے اللہ تعالیٰ کے فضل کو اور زیادہ کھینچتے رہیں تا کہ اللہ تعالیٰ يَأْتِ اللهُ بِقَوْم کی بجائے يَأْتِ اللهُ بِاقْوَام کر دے اور ایک فرد کے بدلہ میں ایک ایک قوم کی بجائے کئی کئی اقوام کو ہماری طرف لے آئے.غرض یہ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے دن ہیں.ان کو وسیع کرنے اور ان سے فائدہ اُٹھانے کی کوششیں کرو تا اللہ تعالیٰ تمہاری حقیر کوششوں کو قبول کر لے اور اپنے وسیع انعاموں کو وسیع تر کرتا جائے.یاد رکھو! ہر شخص اپنی حیثیت کے مطابق ہی دیا کرتا ہے.تم غریب اور کمزور ہو تم نے اپنی غربت اور کمزوری کے مطابق ہی قربانی کرنی ہے لیکن اللہ تعالیٰ واسع ہے اور رزاق ہے اُس نے اپنے واسع ہونے اور رزاق ہونے کے لحاظ سے انعام دینا ہے.تم اگر اپنی غربت میں پانچ روپے دے سکتے ہو اور چھ دے دیتے ہو تو وہ اگر ایسے مواقع پر دس کروڑ دیا کرتا ہے کی تو دس ارب دے دے گا کیونکہ وہ واسع ہے اور رزاق ہے.تم غریب اور مسکین ہو.اگر غریبی مسکین اپنی طاقت سے زیادہ دیتا ہے تو خدا تعالی کے لیے تو اپنی طاقت سے زائد دینے کا سوال ہی نہیں.وہ اپنے ادنیٰ سے ادنی آدمی کو بھی اتنا دے سکتا ہے جو دنیا کے بادشاہ اپنی ا انتہائی خوشنودی کے وقت بھی نہیں دیتے.پس خدا تعالیٰ کے فضلوں کو جذب کرنے اور اس کی توجہ کو اپنی طرف رکھنے کے لیے زیادہ سے زیادہ قربانیاں کرو.پچھلے دنوں میں نے اپنے ایک خطبہ میں کہا تھا کہ ہندوستان میں جو کسی امریکن کتاب کا اردو میں ترجمہ کیا گیا ہے اور اس میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہتک کی گئی ہے 2 اُس کا مقابلہ کرنے کا اصل طریق یہ تھا کہ اُس کتاب کا جواب دیا جاتا اور خصوصاً امریکہ اور ہندوستان میں شائع کیا جاتا.اُس کا ایک حصہ تو تحقیقی جواب پر مشتمل ہوتا اور ایک حصہ الزامی جواب پر مشتمل ہوتا.اللہ تعالیٰ نے ہمارے مبلغوں کو بہت حوصلہ اور ہمت دی ہوئی ہے.میرا وہ خطبہ چھپا تو دیر سے ہے لیکن وہ کسی طرح امریکہ پہنچ گیا.معلوم ہوتا ہے کسی نے تار کے ذریعہ یا ہوائی ڈاک کے ذریعہ اطلاع دے دی.وہاں سے تار بھی آئی ہے اور آج خط بھی آ گیا ہے کہ ہم اس کتاب کا جواب لکھ رہے ہیں جس میں سے عیسائیوں کا حصہ مکمل کیا جا رہا ہے.

Page 554

$1956 541 خطبات محمود جلد نمبر 37 چونکہ ہندو یہاں نہیں ہیں اس لیے اگر ان کو ہم جواب دیں تو اس کا کوئی فائدہ نہیں.میں نے ی کہا ہے کہ تم ہندوؤں کے لیے الگ کتاب لکھو اور عیسائیوں کے لیے الگ لکھو.عیسائیوں کے لیے اس لیے لکھو کہ کتاب کا اصل لکھنے والا امریکہ کا رہنے والا تھا اور ہندوؤں کے لیے اس یے لکھو کہ اس کا اردو میں ترجمہ کر کے شائع کرنے والا ہندو ہے اور ضروری ہے کہ ہندوؤں میں اس کے پھیلائے ہوئے زہر کا ازالہ کیا جائے.پس میں نے انہیں ہدایت دی ہے کہ تم ایک کتاب ایسی لکھو جس کے ایک حصہ میں اسلام پر کیے جانے والے اعتراضات کا تحقیقی جواب ہو اور دوسرے حصہ میں عیسائیت کے متعلق الزامی جواب ہو.اسی طرح ایک دوسری کتاب لکھو جس کے ایک حصہ میں اعتراضات کے تحقیقی جوابات ہوں اور دوسرے حصہ میں ہندو مذہب کو مخاطب کر کے اُن کے الزامی جوابات ہوں.سو تار بھی آئی ہے اور خط بھی آ گیا کی ہے کہ کتاب لکھی جا رہی ہے جو عنقریب شائع ہو جائے گی اور پھر اُس کا ترجمہ اردو زبان میں شائع کر دیا جائے گا.یہ جواب گالیاں دینے اور شور مچانے سے زیادہ مؤثر ہو گا.جب یہ جواب امریکہ میں شائع ہو گا اور جب اُس کا ترجمہ ہندوستان میں شائع ہو گا تو عیسائیوں کو بھی پتا لگ جائے گا اور ہندوؤں کو بھی پتا لگ جائے گا کہ شیش محل میں بیٹھ کر پتھر مارنا بڑھا نقصان دہ ہوتا ہے.دیکھو انگریزوں اور فرانسیسیوں نے سمجھا کہ مصر ہم سے چھوٹا ہے اس لیے وہ ہمارا مقابلہ نہیں کر سکے گا.چنانچہ انہوں نے اسرائیل سے مل کر مصر پر حملہ کر دیا.اپنے خیال میں تو انہوں نے یہ سمجھا تھا کہ مصر ہمارا مقابلہ کیسے کر سکتا ہے لیکن اُن کے حملہ کرنے کی وجہ سے امریکہ نے جو اُن کا پرانا دوست ہے ساتھ چھوڑ دیا.اور دوسری طرف روس نے کہا کہ اگر تم نے مصر سے اپنی فوجیں نہ نکالیں تو ہم بھی اپنی فوجیں مصر میں داخل کر دیں گے.ادھر روس نے شام میں ہوائی جہازوں سے اپنی فوجیں اُتارنی شروع کیں اور اُدھر انگریز بھاگنے شروع ہوئے.گویا اُن کی مثال بالکل اُس چور کی سی ہوئی جو کسی گھر میں چوری کر رہا ہو لیکن جب پولیس آئے تو وہ بھاگنا شروع کر دے.انگریز اور فرانسیسی بڑے غرور کے ساتھ مصر میں داخل ہوئے اور امریکنوں کو انہوں نے دھمکی دی کہ ہم نے مصر میں بہر حال لڑنا ہے، ہمارے حقوق

Page 555

$1956 542 خطبات محمود جلد نمبر 37 طور ہیں جن کی ہم نے حفاظت کرنی ہے.اس لیے ہم تمہاری بات نہیں مانیں گے.لیکن جو نہی چند روسی جہاز شام میں اُترے وہ وہاں سے بھاگنا شروع ہوئے.پھر اُدھر امریکہ کی ہمدردی بھی جاتی رہی ، پاکستان بھی مخالف ہو گیا اور دوسرے اسلامی ممالک بھی مخالف ہو گئے.غرض اِدھر روس کے چند جہاز اُترے تو وہ فرانسیسی اور انگریز جو ڈھول بجاتے ہوئے مصر میں داخل ہوئے تھے وہ نقارے بجاتے ہوئے وہاں سے بھاگ کھڑے ہوئے اور سارا رعب جو اُن کا دنیا پر چھایا ہوا تھا مٹ گیا اور لوگوں نے سمجھ لیا کہ روس کے چند جہازوں سے انگریز اور فرانسیسی فوج کے حواس باطل ہو جاتے ہیں.دراصل یہ انگریزوں اور فرانسیسیوں کی بڑی گہری چال تھی کہ پہلے پولینڈ اور ہنگری میں فساد کرایا تا کہ روس وہاں مشغول ہو جائے.پھر اسرائیل کو مصر پر حملہ کا اشارہ کر دیا اور پھر اس علاقے میں انگریزی اور فرانسیسی فوجیں اُتار دیں.مصر نے عارضی پر یہ ذلت برداشت کر لی کہ اپنی فوج کو واپس بلا لیا.لوگوں نے شور مچا دیا کہ مصری فوج کی مقابلہ نہیں کر سکی اور بھاگ گئی ہے.لیکن دراصل مصر کا یہ اقدام اپنی فوج کو دشمن کے نرغہ سے بچانے کے لیے تھا تا کہ پہلے سویز پر انگریزوں اور فرانسیسیوں سے لڑائی کرے اور پھر اسرائیل سے نپٹ لے.لیکن اُدھر روس نے اپنے چند ہوائی جہاز بھیج دیئے.روس کے اُن جہازوں کا اتر نا تھا کہ انگریز بھی بھاگے، فرانسیسی بھی بھاگے اور اسرائیل بھی بھاگا.غرض جو لوگ بڑی شان اور غرور کے ساتھ مصر میں داخل ہوئے تھے وہ کالے منہ والے بھگوڑوں کی شکل میں وہاں سے بھاگ گئے.اس طرح اللہ تعالیٰ نے اُن کے تمام ارادوں کو نا کام کر دیا.اسی طرح اگر تم اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو چاہو تو تمہیں ایسی فتح نصیب ہوگی کہ جیسے روسی جہازوں کے اترنے کی وجہ سے انگریز ، اسرائیل اور فرانسیسی مصر سے بھاگے تھے.اُسی طرح پادری جو اسلام پر اعتراض کرتے ہیں اپنے کانوں پر ہاتھ رکھیں گے اور کہیں گے کہ خدا کے لیے ہمیں اس دفعہ معاف کر دو ہم آئندہ ایسی حرکت نہیں کریں گے.ایک دفعہ میرے پاس ایک انگریز آیا اور اُس نے کہا میں آپ سے اسلام کے متعلق کچھ باتیں کرنا چاہتا ہوں لیکن شرط یہ ہے کہ آپ کوئی الزامی جواب نہ دیں.میں نے کہا اگر اسلام پر حملہ نہیں کرو گے تو میں بھی الزامی جواب نہیں دوں گا.لیکن جب باتیں

Page 556

$1956 543 خطبات محمود جلد نمبر 37 شروع ہوئیں تو تھوڑی دیر کے بعد ہی اُس نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر حملہ کرنا شروع کر دیا.میں نے بھی جواب میں حضرت عیسی علیہ السلام پر حملہ کر دیا.اس سے اُس کا چہرہ سُرخ ہو گیا اور کہنے لگا میں حضرت عیسی علیہ السلام کے خلاف کوئی بات نہیں سن سکتا.میں نے کہا دیکھو! میرا تم سے وعدہ تھا کہ اگر تم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر حملہ نہیں کرو گے تو میں بھی حضرت عیسی علیہ السلام پر حملہ نہیں کروں گا.چنانچہ میں نے حضرت عیسی علیہ السلام کے خلاف کوئی بات نہیں کی لیکن تم نے اپنے وعدہ کی خلاف ورزی کرتے ہوئے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر حملہ کیا ہے.اگر تم میں حضرت عیسی علیہ السلام کے لیے غیرت ہے تو کیا میں ہی بے غیرت ہوں کہ مجھے اسلام اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عزت پر حملہ دیکھ کر غیرت نہ آئے؟ اگر تم حضرت عیسی علیہ السلام کی تائید میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایک حملہ کرو گے تو میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تائید میں حضرت عیسی علیہ السلام پر ہیں حملے کروں گا.چنانچہ وہ اُسی وقت اُٹھ کھڑا ہوا اور کہنے لگا میں حضرت عیسی علیہ السلام کے خلاف کوئی بات برداشت نہیں کر سکتا.تو یہ لوگ اُس وقت تک غراتے ہیں جب تک ان کے سامنے تلوار نہیں اُٹھائی جاتی یعنی ان کے مذہب پر حملہ نہیں کیا جاتا.جب ان کے مذہب پر حملہ کیا جائے اور اس کے پول کھولے جائیں تو یہ لوگ مقابلہ نہیں کر سکتے اور بھاگ جاتے ہیں.یہی وجہ ہے کہ بڑے بڑے پادریوں کی مجالس نے حکم دیا ہوا ہے کہ عیسائی مشنری احمدیوں سے بات نہ کیا کریں کیونکہ احمدی الزامی جواب دیتے ہیں اور ہمارے لیے مشکل پیش آ جاتی ہے.گرمیوں میں جب میں مری تھا تو وہاں پادری آئے اور انہوں نے اسلام پر اعتراضات شروع کر دیئے.میرا ایک لڑکا اُن سے بحث کے لیے چلا گیا اور ہمارا مبلغ بھی وہاں پہنچ گیا.چند دن کی گفتگو کے بعد ہی پادریوں نے کہہ دیا.ہم آئندہ آپ سے کوئی بحث نہیں کریں گے.غرض احمدیوں کے پہنچتے ہی انہیں چھٹی کا دودھ یاد آ گیا.پس إِنْشَاءَ اللهُ تَعَالٰی جب یہ کتاب نکل آئے گی تو پھر پتا لگے گا کہ اسلام کا حملہ صرف سویز میں ہی نہیں بلکہ ہر ملک میں غالب ہوتا ہے اور عیسائیوں، پنڈتوں اور اسلام کے

Page 557

خطبات محمود جلد نمبر 37 544 $1956 دوسرے دشمنوں کی مجال نہیں کہ وہ اسلام پر حملہ کریں اور پھر اس میں فتح حاصل کریں.اگر وہ ای اسلام پر حملہ کریں گے تو اُن کے گھر کے پول ایسے کھولے جائیں گے کہ وہ اپنے گھروں میں گھس کر بھی بیٹھ نہیں سکیں گے.بلکہ انہیں اپنے گھروں کے دروازے بند کرنے پڑیں گے.ان کی تمام بہادری رفو چکر ہو جائے گی اور ان کی شان و شوکت ذلت اور رسوائی سے بدل جائے گی.تو خدا تعالیٰ کے فضل سے وہ کام بھی ہو رہا ہے.اللہ تعالیٰ چاہے گا تو جلد پورا ہو جائے گا.خدا تعالیٰ نے ہمارے لیے خوشیوں کے دن مقدر کر رکھے ہیں لیکن ان خوشیوں کے دنوں کو زیادہ قریب لانے کے لیے تمہیں زیادہ سے زیادہ قربانی کرنی چاہیے تاکہ جلد سے جلد ہماری فتح کے دن آئیں اور دشمن روسیاہ ہو اور اسلام کے مقابلہ میں وہ اس طرح دُم دبا کر بھاگے جیسے گدھا شیر کے آگے بھاگتا ہے.اسلام شیر ہے اور عیسائیت اور دوسرے مذاہب کی مثال گدھے کی سی ہے.جس طرح وہ شخص جو شیر پر حملہ کرتا ہے وہ اپنی جان سے ہاتھ دھو لیتا ہے اُسی طرح جو مذہب اسلام پر حملہ کرے گا اُس پر اسلام شیر کی طرح حملہ کرے گا اور وہ گدھوں کی طرح بھاگ جائے گا.شیر کی یہ عادت ہے کہ وہ خود حملہ نہیں کرتا.مشہور ہے کہ شیر کے سامنے کوئی آدمی آ جائے اور وہ لیٹ جائے تو شیر آگے گزر جاتا ہے اور اُسے کچھ نہیں کہتا.اسلام کی مثال بھی ایسی ہی ہے.وہ اپنے دشمن کو دیکھتا ہے تو خاموشی سے آگے گزر جاتا.کیونکہ وہ سمجھتا ہے کہ میں طاقتور ہوں مجھے غریب پر حملہ کرنے کی کیا ضرورت ہے.مگر جب دوسرا فریق با وجود کمزور ہونے کے حملہ پر آمادہ ہو تو پھر شیر ایک ہی دفعہ ایسا نعرہ لگاتا ہے دشمن کے حواس باختہ ہو جاتے ہیں.پس فتح کے دن کو جلد لانے کے لیے زیادہ سے زیادہ قربانیاں کرو.خدا کرے وہ دن جلد آ جائیں اور فتح اور بامرادی تمہارے حصہ میں ہو اور ہے.ناکامی اور نامرادی تمہارے دشمن کے حصہ میں ہو“.خطبہ ثانیہ کے بعد فرمایا: میں نماز جمعہ کے بعد دو جنازے بھی پڑھاؤں گا.ہے.ایک جنازہ تو بابونٹس الدین صاحب امیر جماعت احمدیہ پشاور کی والدہ کا انہوں نے لکھا ہے کہ والدہ فوت ہو گئی ہیں.ان کے لیے دعائے مغفرت اور جنازہ پڑھنے کی

Page 558

خطبات محمود جلد نمبر 37 545 $1956 درخواست ہے.دوسرا جنازه راجہ غلام حیدر صاحب بجکہ ضلع سرگودھا کا ہے.ہجکہ کی جماعت بڑی پرانی جماعت ہے اور راجہ غلام حیدر صاحب بڑے مخلص احمدی تھے.میں انہیں ذاتی طور پر بھی جانتا ہوں.بڑے تبلیغ کرنے والے تھے.ان کا لڑکا بھی بڑا جوشیلا ہے، مولوی فاضل ہے اور لمصل آج کل ملتان میں کام کرتا ہے.پہلے ہمارے اخبار الصلح کراچی کا نائب اڈیٹر ہوتا تھا.یہ دونوں جنازے میں پڑھاؤں گا.دوست دعا کریں کہ خدا تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے اور انہیں ترقی مدارج بخشے.(الفضل یکم دسمبر 1956ء) 1 : المائدة : 55 وو 2 : نیو یارک کی ایک فرم نے ایک کتاب شائع کی جس کا اردو ترجمہ ” مذہبی راہنماؤں کی سوانح عمریاں“ کے نام سے ہندوستان کے ایک صوبہ کے گورنر مسٹر منشی بمبئی نے کیا.اس کتاب کے ترجمہ سے لوگوں کے سامنے یہ بات آئی کہ اس کتاب میں حضور علے کی ہتک کی گئی.اس پر بھارت میں زبر دست شورش ہوئی.سینکڑوں مسلمانوں کو شہید اور ہزاروں کو جیل خانوں میں ڈال دیا گیا اور مقدمے بنائے گئے.اس شورش کو دیکھ کر پہلے پاکستانی گورنمنٹ اور بعد ازاں ہندوستانی گورنمنٹ نے یہ کتاب ضبط کرلی.اس پر حضرت مصلح موعود نے 5 اکتوبر 1956 ء کو ایک پر جلال خطبہ دیا اور فرمایا کہ کتاب ضبط کرنے والا طریقہ ٹھیک نہیں بلکہ اس کا جواب امریکہ میں اور اس کا ترجمہ ہندوستان میں شائع کیا جاتا.تاریخ احمدیت جلد 19 صفحه 213)

Page 559

$1956 546 47 خطبات محمود جلد نمبر 37 ايَّاكَ نَعْبُدُ وَ ايَّاكَ نَسْتَعِین میں خدا تعالیٰ نے یہ گر بتایا ہے کہ مومن ہمیشہ اور ہر حال میں خدا تعالیٰ پر توکل رکھتے ہیں جماعت سے الگ ہونے والوں نے اپنے عمل سے ظاہر کر دیا ہے کہ وہ خدا تعالیٰ سے منہ پھیر کر دوسروں کی طرف دیکھ رہے ہیں (فرموده 30 نومبر 1956ء بمقام ربوہ ) تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: آج موسم کی خرابی کی وجہ سے میری طبیعت خراب ہے.جب میں تندرست ہوتا تھا بلکہ ابتدائے جوانی میں بھی جب تیز ہوا چلتی تھی تو میری طبیعت خراب ہو جاتی تھی اور سر درد ہو جاتی تھی.اب تو میں بیمار ہوں اور کمزور ہوں، اس لیے لازماً جو چیز جوانی میں مجھے نقصان پہنچاتی تھی اب زیادہ نقصان پہنچاتی ہے.آج صبح سے ہی جب میں اُن کمروں میں نکلا جن کا رُخ میدان کی طرف ہے تو اُسی وقت سے طبیعت میں گھبراہٹ اور کوفت محسوس ہو رہی ہے.میں نے ابھی سورۃ فاتحہ پڑھی ہے.اس میں اللہ تعالیٰ نے مومن کی زبان سے الفاظ بیان کیے ہیں کہ اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ 1 یعنی اے خدا! ہم تیری ہی

Page 560

خطبات محمود جلد نمبر 37 547 $1956 عبادت کرتے ہیں اور کبھی سے مدد چاہتے ہیں.ان الفاظ میں مومن کی یہ صفت بیان کی گئی لیلی ہے کہ وہ دلیر اور بہادر ہوتا ہے ڈرپوک نہیں ہوتا.یہ نہیں ہوتا کہ کبھی وہ ایک طرف جھک جائے اور کبھی دوسری طرف کبھی وہ اس کے آگے ہاتھ پھیلائے اور کبھی اُس کے آگے.بلکہ وہ خالص اللہ تعالیٰ کی ہی عبادت کرتا ہے اور اُسی سے مدد مانگتا ہے.نہ کبھی وہ غیر سے مدد مانگتا ہے نہ کبھی غیر کے آگے اپنی حاجات لے کر جاتا ہے اور نہ غیر کے آگے کمزوری دکھاتا ہے.بلکہ وہ دائمی طور پر ایک مقام پر کھڑا رہتا ہے اور اس سے کبھی نہیں ہلتا.کیونکہ اُس کا ایمان بصیرت پر مبنی ہوتا ہے اور جس بات کو مانتا ہے ٹھیک سمجھ کر مانتا ہے اور دلائل کے ساتھ مانتا ہے اور شرح صدر کے ساتھ مانتا ہے.یہ معیار ہمارے درمیان اور ان بعض لوگوں کے درمیان جو جماعت مبائعین سے روگرداں ہو رہے ہیں فیصلہ کے لیے کافی ہے.ہمیں دیکھنا ہی چاہیے کہ آیا اُن کے اندر وہی روح پائی جاتی ہے جو اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَ اِيَّاكَ نَسْتَعِينُ میں بیان کی گئی ہے؟ یا کبھی وہ ہمیں خوش کرنے کے لیے ہماری طرف جھکتے ہیں اور کبھی وہ یہ خیال کر کے کہ یہ تو ہمارے قابو میں نہیں آتے غیروں کی طرف جھک جاتے ہیں کہ شاید وہ ان کی مدد کریں؟ میں کل ہی وہ خطوط دیکھ رہا تھا جو ایسے لوگوں کی طرف سے آئے ہیں.میں نے دیکھا کہ ان میں سے بہتوں کی طرف سے ایسے خطوط آئے تھے جن میں عجز وانکسار کا اظہار تھا اور اس بات کا اقرار تھا کہ ہم تو آپ سے تعلق رکھتے ہیں، آپ کے جاں نثار ہیں اور آپ کے ساتھ ہیں، ہم پر یونہی الزام لگایا جا رہا ہے کہ ہم آپ کے خلاف ہیں.لیکن بعد میں انہی ان لوگوں نے ہمارے خلاف جلسے کیے، اخباروں میں مضمون لکھے اور پارٹیاں بنائیں.یہ بات بتاتی ہے کہ ان کا عمل اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ پر نہیں.کیونکہ اگر اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَ اِيَّاكَ نَسْتَعِينُ پر ان کا عمل ہوتا تو ہمارے خلاف خیالات رکھتے ہوئے وہ ہماری طرف رجوع کیوں کرتے اور اگر وہ واقع میں خدا تعالیٰ کے پرستار ہوتے اور ہماری طرف رجوع کرنے کے حالات ان کے دلوں میں پیدا تھے تو پھر وہ غیروں کی طرف رجوع کیوں کرتے اور ان کی مدد حاصل کرنے کے لیے کوشش کیوں کرتے.آخر سیدھی بات ہے کہ اگر وہ ہمارے ہیں تو وہ ہمارے غیر کی طرف نہیں جا سکتے اور اگر وہ ہمارے غیر کے ہیں تو ہماری طرف

Page 561

$1956 548 خطبات محمود جلد نمبر 37 نہیں آ سکتے.مگر ان کے خطوط ظاہر کرتے ہیں کہ ایک وقت میں وہ ہماری طرف آئے اور ان کے مضامین اور ان کی کمیٹیاں یہ بتاتی ہیں کہ دوسرے وقت میں وہ غیروں کی طرف گئے.اس لیے وہ ايَّاكَ نَعْبُدُ وَ اِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ پر عامل نہ رہے بلکہ انسان پر ان کی نظر ہوئی اور اس طرح وہ سورۃ فاتحہ کے بتائے ہوئے گر کے خلاف چل پڑے.پس یہی بات ان کے جھوٹا ہونے کے لیے کافی ہے.اگر وہ سچے ہوتے تو خواہ کچھ بھی ہوتا ہمارے پاس تو کوئی طاقت نہیں ہے لیکن اگر اُن کی حکومت سے بھی ٹکر ہو جاتی اور اُن کے سروں پر آرہ رکھ کر انہیں چیر یا جاتا تب بھی وہ یہی کہتے کہ ہمیں اس جماعت اور اس کے اصولوں سے نفرت ہے.اور اگر واقع میں ان کے دلوں میں ایمان ہوتا تو چاہے ان کے سروں پر آرہ رکھ کر انہیں چیر دیا جاتا وہ کبھی جماعت کے دشمنوں سے نہ کہتے کہ ہم تمہارے ساتھ ہیں بلکہ چاہے ان پر کتنا ہی ظلم کیان جاتا وہ بہادری کے ساتھ جیسا کہ صاحبزادہ عبداللطیف صاحب شہید نے نمونہ دکھایا تھا کھڑے رہتے اور کہتے مارنا ہے تو مار لو آخر تم ہمیں کتنی دفعہ مارلو گے.1953ء میں فساد ہوا تو سیالکوٹ کی ایک مہاجر عورت کو لوگوں نے پکڑ لیا اور اسے مارنا شروع کیا.اس نے کہا تم بیشک مجھے مار دو آخر تم کتنی دفعہ مجھے مارو گے.میری ایک ہی جان ہے وہ لے لو لیکن میں نے صداقت کو قبول کیا ہے اس لیے میں اسے چھوڑنے کے لیے تیار نہیں.چنانچہ وہ بڑی بہادری کے ساتھ دشمنوں میں سے گزرتی ہوئی یہاں پہنچ گئی اور ہمیں آ کر اطلاعات دیں.تو جو شخص واقع میں دل میں ایمان رکھتا ہے اُسے نہ کوئی لالچ راستہ سے ہٹاتی ہے اور نہ کوئی خوف راستہ سے ہٹاتا ہے.یہ لوگ کہتے ہیں کہ ہم پر ظلم کیا جاتا ہے یا ان کو ہم سے خوف ہے لیکن مومن تو خوف کی پروا نہیں کیا کرتا.پھر غیر کی طرف ان کا جانا بتاتا ہے کہ یہ لوگ ان سے کسی فائدہ کا لالچ رکھتے ہیں.اور مومن تو کسی لالچ کی پروا نہیں کیا کرتا.چاہے اس کو دنیا کی بادشاہت ہی کیوں نہ مل جائے تب بھی وہ اس کی پروا نہیں کرتا اور صداقت پر قائم رہتا ہے.آخر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو جو پیشکش کفار مکہ نے ابوطالب کی معرفت کی وہ تو اُن کو نہیں ہوئی.اپنی جماعت میں بھی ایک بے حقیقت شخص نے ان کو کہہ دیا

Page 562

$1956 خطبات محمود جلد نمبر 37 549 کہ ہمارا پلیٹ فارم ہمارا روپیہ اور ہماری تنظیم تمہاری تائید میں ہے اور یہ اُسی کی لالچ میں آگئے مگر اُس کی تو کوئی حیثیت اپنی جماعت میں بھی نہیں ہے.اگر اپنی جماعت میں اس کی کوئی حیثیت ہوتی تو اس کا پلیٹ فارم، اس کا روپیہ اور اس کی تنظیم مولوی محمد علی صاحب کو کیوں نصیب نہ ہوتی.آخر وہ بتائے تو سہی کہ وہ پیغامیوں کو کتنا روپیہ دیتا ہے.وہ وکیل ہے اور صاحب آمد ہے.ہم ثابت کر سکتے ہیں کہ ہمارا ایک غریب آدمی جس کی آمد اس سے نصف ہے اس سے دُگنا چندہ دیتا ہے.وہ ذرا اپنا مقابلہ ہمارے آدمیوں سے تو کر کے دیکھے کہ ہمارے افراد کتنی قربانی کرنے والے ہیں.میرا ایک باڈی گارڈ ہے جس کو پچھتر روپے ماہوار ملتے ہیں.اس نے تحریک جدید میں ایک سو تین روپے چندہ لکھوایا ہے.اس کے ساتھ اگر صدرانجمن احمدیہ کا چندہ بھی ملا لیا جائے تو اگر وہ وصیت کرنے والا ہے تو ساڑھے سات روپے ماہوار وہ ہو گا.گویا توے روپے سال کے بن گئے.یہ اور تحریک جدید کا چندہ دونوں ملا کر ایک سو ترانوے روپے ہو گئے.لیکن اگر وہ وصیت کرنے والا نہ بھی ہو تب بھی چھپن روپے کے قریب وہ چندہ عام دیتا ہو گا اور تحریک جدید کا چندہ ملا کر ایک سو انسٹھ روپے بن جائے گا.جس کے معنے یہ ہیں کہ وہ تیرہ روپے سے زیادہ ماہوار چندہ دیتا ہے.لیکن وہ می جو کہتا ہے کہ ہمارا پلیٹ فارم اور ہماری تنظیم اور ہمارا روپیہ تمہاری تائید میں ہے اُس کی آمد چھ سات سو روپے ماہوار سے کم نہیں ہو گی.لیکن وہ یہ نہیں کہہ سکتا کہ وہ تیرہ روپے ماہوار چندہ اپنی انجمن کو دیتا ہے جو میرا ایک باڈی گارڈ جس کی آمد اُس کی آمد سے دسواں حصہ بھی نہیں دے رہا ہے.اگر وہ اتنا چندہ دیتا ہے تو وہ اسے ثابت کرے.لیکن اگر وہ اُن لوگوں کو بھی اتنا چندہ نہیں دیتا جن کا وہ حصہ ہے تو وہ ان لوگوں کو کیا دے گا جو فتنہ پیدا کرنا چاہتے ہیں یہ محض دھوکا ہے.اُسی طرح جس طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ میں منافق یہودیوں سے کہا کرتے تھے کہ لَبِنْ أُخْرِجْتُمْ لَنَخْرُجَنَّ مَعَكُمْ وَ لَا نُطِيْعُ فِيْكُمْ اَحَدًا اَبَدًا وَ اِنْ قُوتِلْتُمْ لَنَنْصُرَنَّكُمْ 2 یعنی اگر تم کو شہر سے نکالا گیا تو ہم بھی تمہارے ساتھ شہر سے نکل جائیں گے اور اس بارہ میں کسی کی بات نہیں مانیں گے.اور اگر تم سے قتال کیا گیا تو ہم بھی تمہارے ساتھ مل کر مسلمانوں سے قتال کریں گے.لیکن کیا کسی تاریخ سے ثابت.خص

Page 563

$1956 550 خطبات محمود جلد نمبر 37 کہ انہوں نے کوئی روپیہ یہودیوں کو چندہ کے طور پر دیا ہو یا انہوں نے ان کے ساتھ مل کر کبھی قتال میں حصہ لیا ہو؟ تاریخ میں صرف ایک ہی مثال ملتی ہے کہ ایک دفعہ وہ یہودیوں کے ساتھ مل کر لڑائی میں آئے لیکن پھر وہ انہیں چھوڑ کر بھاگ گئے اور یہ غزوہ احزاب میں ہوا.جس وقت جنگ تیز ہوئی منافق سب الگ ہو گئے بلکہ ان میں سے بعض یہودیوں کے اندر ریشہ دوانیاں کرنے لگ گئے.پس اگر ان لوگوں کا یہ کہنا سچ ہے کہ ہماری اسٹیج تمہاری تائید میں ہے، ہمارا روپیہ تمہاری تائید میں ہے اور ہماری تنظیم تمہاری تائید میں ہے تو وہ پہلے یہ بتائیں کہ اپنی عزت رکھنے کے لیے انہوں نے ان منافقوں کے سپر د کچھ کیا بھی ہے یا نہیں؟ اگر اور کچھ نہیں تو وہ اپنا دوکنگ مشن ہی ان کے سپرد کر دیتے.پھر ہم مان لیتے کہ انہوں نے سچ کہا ہے.یا جتنا چنده پیغامی انجمن اشاعتِ اسلام کو دیتے ہیں اتنا چندہ وہ ان لوگوں کو بھی دے دیتے.مثلاً فرض کرو انجمن اشاعتِ اسلام کا چندہ پچاس ہزار یا لاکھ روپیہ سالانہ ہے تو پچاس ہزار یا لاکھ روپیہ سالانہ انہیں بھی مل جاتا تا یہ کچھ کام کر کے دکھاتے یا کام کر کے نہ دکھاتے تو وہ اسے کھا ہی لیتے.اور ہم تو یہی امید رکھتے ہیں کہ اگر پیغامی انہیں روپیہ دیتے تو وہ کھا جاتے.لیکن کم از کم ان کی سچائی تو ثابت ہو جاتی کہ ہمارا اسٹیج ، ہماری تنظیم اور ہمارا روپیہ تمہاری تائید میں ہے.اسٹیج تو اس طرح ان کی تائید میں ہو سکتا ہے کہ وہ اپنا وو کنگ مشن ان منافقوں کے حوالہ کر کے دکھا دیں.ہم مان جائیں گے کہ یہ لوگ سچ بولتے ہیں.پھر جب ہم کہیں گے کہ ہم تبلیغ کرتے ہیں تو جماعت سے نکلنے والے بھی کہہ سکیں گے کہ ہم بھی تبلیغ کرتے ہیں لیکن اب ان تو کٹنی کی طرح ان پر یہی مثال صادق آتی ہے کہ سو گز واروں گز بھر نہ پھاڑوں یعنی منہ سے تو میں کہتی ہوں کہ اس پر سو گز قربان لیکن جب پھاڑنے کا وقت آئے تو میں ایک گز بھی پھاڑنے کے لیے تیار نہیں ہوتی.اسی طرح یہ لوگ کہتے ہیں کہ ہماری تنظیم ان الگ ہونے والوں کی تائید میں ہے.اگر واقع میں ان کی تنظیم ان لوگوں کی تائید میں ہے تو وہ کیوں مولوی صدرالدین صاحب کو ہٹا کر اُن میں سے کسی کو اپنا امیر نہیں بنا لیتے.اور اگر اُن کا اسٹیج ان کی تائید میں ہے تو کیوں وہ ووکنگ مشن کو انجمن اشاعت اسلام سے لے کر ان لوگوں کے

Page 564

خطبات محمود جلد نمبر 37 551 $1956 سپرد نہیں کر دیتے.اگر اُن کا روپیہ ان کی تائید میں ہے تو کیوں وہ یہ نہیں کرتے کہ جتنا چندہ وہ انجمن کو دیتے ہیں اُتنا ہی چندہ وہ ان کو بھی دیا کریں تا کہ دونوں برابر مقام پر آ جائیں اور ان کو بھی تسلی ہو جائے.اگر وہ ایسا کر دیں تو یہ ان کی سچائی کا ثبوت ہو گا ورنہ جب تک وہ یہ نہیں کرتے ان کی یہ باتیں محض منہ کی لاف زنی ہیں اور اس کا نتیجہ سوائے اس کے کچھ نہیں ہو گا کہ وہ خدا تعالیٰ اور اُس کے فرشتوں کے لیے ہنسی اور حقارت کا موجب بن جائیں گے.خدا تعالیٰ کے فرشتے بھی کہتے ہوں گے کہ کس جوش سے یہ لوگ کہہ رہے ہیں کہ ہماری اسی کی حاضر ہے لیکن اسٹیج دیتے نہیں.مثلاً پہلے تو یہ کریں کہ اب عنقریب ان کا جلسہ سالانہ ہو نے والا ہے.اس میں جتنے لوگ پہلے تقریریں کیا کرتے تھے اُن کی تقریریں منسوخ کر کے ان لوگوں کو تقریریں کرنے کا موقع دیں.اور اگر ان کی تنظیم ان لوگوں کی تائید میں ہے تو پھر انجمن کی اکثر ممبریاں ان لوگوں کو دے دیں کیونکہ جب تنظیم ان کے سپرد کی گئی ہے تو کچھ ممبریاں ان کو بھی ملنی چاہیں.میراثی والا کام تو نہ کریں جس کے متعلق مشہور ہے کہ اس نے خواب میں دیکھا کہ اُس کے کسی حجمان نے ایک گائے اسے تحفہ کے طور پر دی ہے.اس پر ایک اور حجمان نے اُسے خواب میں کہا کہ تمہارے پاس گائے ہے؟ میراثی نے کہا ہاں ہے.کہنے لگا تم میرے پاس بیچ دو.میراثی نے کہا دس روپے دے دو میں گائے دے دیتا ہوں.اُس ججمان نے کہا دس روپے بہت ہیں چار آنے لے لو.میراثی کہنے لگا چار آنے! بھلا چار آنے میں بھی کبھی گائے آئی ہے؟ جہان نے کہا تمہیں بھی تو مفت ملی ہے.میراثی نے کہا مفت تو ملی ہے لیکن ہے تو گائے.اس پر اُس نے کہا پانچ آنے لے لو.میراثی نے کہا میں پانچ آنے نہیں لوں گا.بھلا کبھی گائے بھی پانچ آنے میں آتی ہے؟ دوسرا شخص کہنے لگا تمہیں بھی تو مفت ملی ہے.میراثی نے کہا مفت بیشک ملی ہے لیکن مفت ملنے کی وجہ سے گائے میں تو فرق نہیں پڑ جاتا.وہ کہنے لگا اچھا ساڑھے پانچ آنے لے لو.میراثی کہنے لگا دس نہیں دیتے تو کو دے دو.پھر اُس جمان نے کہا اچھا چھ آنے لے لو.میراثی نے کہا اچھا تو بھی نہیں تو آٹھ دے دو.ججہان نے کہا ساڑھے چھ آنے لے لو.میراثی اور نیچے آ گیا اور کہنے لگا چلو سات روپے ہی دے دو.

Page 565

552 $1956 خطبات محمود جلد نمبر 37 غرض اسی طرح حجمان بڑھتے بڑھتے آٹھ آنہ تک پہنچا اور میراثی ایک روپیہ پر آ گیا اور کہنے لگا اگر تم اصرار ہی کرتے ہو تو ایک روپیہ دے دو.جمان نے پھر بھی اٹھتی پر اصرار کیا.اتنے میں اُس کی آنکھ کھل گئی.میراثی نے دیکھا کہ نہ گائے کھڑی ہے اور نہ پیسہ ہے.اُس نے جھٹ آنکھیں بند کر لیں اور کہنے لگا جمان ! اچھا اٹھتی ہی دے دو.اب بھلا وہ جمہمان کہاں سے آئے جو اُسے اٹھنی دے جائے.یہی حال ان کا ہے.منہ سے تو کہتے ہیں کہ ہماری تنظیم تمہاری تائید میں ہے، ہماری اسٹیج تمہاری تائید میں ہے، ہمارا روپیہ تمہاری تائید میں ہے لیکن دیتے کچھ بھی نہیں.آخر کچھ دیں تو اُن بیچاروں کو پتا بھی لگے کہ واقعی یہ اُن کی مدد کر ہے ہیں.جیسا کہ میں نے بتایا ہے اگر اُن کی تنظیم ان منافقوں کی تائید میں ہے تو انجمن کے پہلے ممبروں سے استعفی دلوائیں اور ان کی جگہ ان کو ممبر بنائیں.اگر ان کی اسٹیج ان کی تائید میں ہے تو دوکنگ اور ہالینڈ مشن ان کے حوالہ کر دیں اور نام نہاد برلن مشن بھی ان کے حوالہ کر دیں اور کہیں تم ان مشنوں کو چلاؤ تا کہ تمہاری عزت بھی دنیا میں قائم ہو جائے.اور اگر تمہارا روپیہ ان کے پیچھے ہے تو کم از کم جتنا چندہ تم انجمن اشاعتِ اسلام کو دیتے ہو اتنا ہی ان کو بھی دو.آخر تم اپنا سارا روپیہ تو انجمن اشاعت اسلام کو نہیں دیتے بلکہ اس میں سے کچھ روپیہ اسے دیتے ہو اتنا روپیہ تم ان کو بھی دے دو تا کہ ان کی بھی کچھ نہ کچھ حیثیت تو بن جائے.اول تو یہ چاہیے کہ تمہارا سارا روپیہ انہیں ملے.یعنی اگر تم چھ سو روپیہ ماہوار کماتے ہو تو چھ سو کا چھ سو ہی انہیں دے دو.اور اگر بیوی بچوں کے لیے بھی کچھ رکھنا ہے تو تین سو بیوی بچوں کے لیے رکھ لو اور تین سو ان لوگوں کو دے دو.لیکن اگر تمہارے چندے حقیر ہیں تو حقیر ہی سہی مگر اتنے حقیر چندے ان کو بھی تو دو تا کہ تمہارا روپیہ بھی ان کا ہو جائے ، تمہاری اسٹیج بھی ان کی ہو جائے اور تمہاری تنظیم بھی ان کی ہو جائے.غرض و تنظیم ان کی تائید میں ہے“ کا یہ ثبوت ہے کہ اپنے تمام ممبروں سے استعفی دلواؤ اور ان کی جگہ ان لوگوں کو ممبر بناؤ جو ہماری جماعت سے الگ ہو گئے ہیں.اور روپیہ ان کی تائید میں ہونے کا ثبوت یہ ہے کہ جتنا چندہ تم انجمن اشاعت اسلام کو دیتے ہو کم از کم اتنا چندہ تم ان لوگوں کو بھی دو.اور اسٹیج ان کی تائید میں

Page 566

خطبات محمود جلد نمبر 37 553 $1956 ہونے کا ثبوت یہ ہے کہ آئندہ جلسہ سالانہ پر اپنے پہلے سب لیکچراروں کو ختم کرو اور ان کی لکی جگہ ان لوگوں کو لیکچرار مقرر کر دو اور باہر کے مشن جو تمہارے ہیں ان کے حوالے کر دو.ہالینڈ کا مشن تو خالصہ میاں محمد صاحب کا ہے.دوکنگ کا مشن ان کے پاس ہے.اگر چہ دو کنگ مشن کے مشنری انچارج نے اس بات سے انکار کر دیا ہے کہ اس مشن کا انجمن اشاعت اسلام سے کوئی تعلق ہے.مگر انجمن اشاعت اسلام والے کہتے ہیں کہ ہمارا اس سے تعلق ہے اور وہ مشن ہمارا ہے.بہر حال یہ مشن ان کے حوالے کر دو.پھر پتا لگے کہ تمہاری اسٹیج ان لوگوں کی تائید میں آگئی ہے.یا مولوی صدر الدین صاحب کو امارت سے برطرف کر دو اور اُن کی جگہ ان لوگوں میں سے کسی کو امیر مقرر کر دو تا کہ تم کہ سکو کہ دیکھ لو ہماری اسٹیج ان لوگوں کے قبضہ میں چلی گئی ہے.لیکن جب تک ایسا نہیں ہوتا اُس وقت تک تمہاری ساری باتیں وہی ہیں جو مدینہ کے منافقوں نے یہودیوں سے کہی تھیں کہ لَبِنْ أُخْرِجُتُمْ لَنَخْرُ جَنَّ مَعَكُمْ وَلَا تُطِيعُ فِيْكُمْ اَحَدًا اَبَدًا وَ اِنْ قُوْتِلْتُمْ لَنَنْصُرَنَّكُمُ اگر تم کو شہر سے نکالا گیا تو ہم بھی تمہارے ساتھ مل کر شہر سے نکلیں گے اور اگر تم سے قتال ہوئی تو ہم تمہارے ساتھ مل کر مسلمانوں سے لڑیں گے.کیونکہ منہ سے تو ان لوگوں نے بھی کہہ دیا ہے کہ ہمارا سب کچھ تمہارا ہے لیکن بات وہیں کی وہیں ہے.منافقوں کو کچھ ملا نہیں.ان کی مثال بالکل اس میراثی کی طرح ہے جس کا واقعہ میں نے ابھی بیان کیا ہے کہ جمان نے اسے کہا اٹھنی لے لولیکن اُس نے دیا کچھ بھی نہیں.پھر آنکھ کھلی تو اس نے جھٹ آنکھیں بند کر لیں اور ہاتھ بڑھا کر کہا اچھا اٹھتی ہی دے دو.اسی طرح یہ لوگ بھی آنکھیں بند کر کے پیغام صلح کے مضمون نگار کو کہیں گے اچھا جتنا چندہ تم انجمن اشاعتِ اسلام کو دیتے ہو اتنا ہی ہمیں دے دو یا چلو اس سے آدھا ہی دے دو.اور پھر دوکنگ مشن سارے کا سارا نہیں دیتے تو آدھا ہی دے دو.یعنی ہمارا نام بھی اپنے ساتھ رکھ لو اور کہو یہ لوگ بھی ہمارے ساتھ مل کر کام کرتے ہیں.اور انجمن اشاعت اسلام میں اگر ساری تنظیم ہمیں نہیں دیتے تو چلو آدھی ممبریاں ہی ہمیں دے دو مگر وہ دیں گے کچھ نہیں.حقیقت یہ سب بہانے ہیں جس سے ان لوگوں کے جھوٹا ہونے کا ثبوت مل جاتا ہے.پس ايَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ میں خدا تعالیٰ نے یہ گر بتایا ہے کہ مومن

Page 567

$1956 554 خطبات محمود جلد نمبر 37 ہمیشہ خدا تعالیٰ پر توکل رکھتے ہیں کسی انسان پر نہیں.لیکن جماعت سے الگ ہونے والوں نے اپنے عمل سے ظاہر کر دیا ہے کہ وہ ہر طرف ہاتھ مارتے ہیں لیکن دوسری طرف یہ بھی ظاہر ہے کہ انہیں ملا کچھ نہیں.جو اس بات کا ثبوت ہے کہ اصل دینے والا خدا ہے.جب یہ اُس سے منقطع ہو گئے تو خدا تعالیٰ نے بھی ان سے منہ پھیر لیا.اور انہوں نے اپنا اندرونہ اس طرح ظاہر کر دیا کہ کبھی ہم سے مانگنے آ گئے اور کبھی غیروں کے پاس مانگنے چلے گئے.لیکن نہ انہیں ہم سے کچھ ملا اور نہ غیروں سے.گویا میراثی کی گائے کی طرح جو خواب میں اُسے ملی تھی اُس کی نہ تو ایک روپیہ قیمت ملی اور نہ اٹھتی ملی.اب آنکھیں بند کر کے گجرات کی طرف ہاتھ بڑھا کر یہ لوگ کہیں گے کہ جمان اٹھتی ہی دے دو.لیکن اٹھنی چھوڑ انہیں چونی بھی نہیں - گی.بلکہ وہ تسلی رکھیں کہ چوٹی نہیں انہیں ایک آنہ بھی نہیں ملے گا.بلکہ اس سے بھی بڑھ کر میں کہتا ہوں کہ ایک آنہ تو کیا انہیں دو پیسے بھی نہیں ملیں گے اور ان کی وہی مثال ہو گی کہ آں سو رانده و ازاں سو در مانده ادھر سے بھی گئے اور اُدھر سے بھی گئے نہ خدا ہی ملا نہ وصالِ صنم نہ ادھر کے رہے نہ اُدھر کے رہے انہوں نے اللہ تعالیٰ کو بھی خفا کر لیا اور دنیا کی طرف جو نگاہ انہوں نے ڈالی تھی وہاں سے بھی کچھ نہ ملا.انہی غلط امیدوں کا نتیجہ یہ ہوگا کہ یہ لوگ تو بہ سے محروم ہو جائیں گے اور جب ان پر موت آئے گی تو اُس وقت افسوس سے کہیں گے کہ ہم نے خدا کو تو چھوڑا ہی تھا یہ لوگ جو کہتے تھے کہ ہم تمہارے ساتھ ہیں ان میں سے بھی کسی نے ہماری مدد نہ کی اور ہم یسے کے ویسے ہی ناکام و نامراد رہے.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ جماعت میں جب یہ لوگ تھے تو گو جماعت میں کوئی بڑا عہدہ انہیں نہیں ملا تھا لیکن بہر حال وہ کچھ تو تھے.جماعت کے کچھ دوست ایسے تھے جن کے دل انہیں دیکھ کر اُچھلنے لگتے تھے اور انہیں دیکھ کر ان سے بغلگیر ہونے کے لیے آگے بڑھتے تھے مگر اب وہ بغلگیر ہونا بھی گیا اور وہ محبت اور پیار بھی گیا.اب ایسے لوگ رہ گئے جو منہ سے

Page 568

$1956 555 خطبات محمود جلد نمبر 37 کہتے ہیں کہ آؤ تم ہمارے ہو لیکن ان کی آنکھوں سے شرارے ٹپکتے ہیں.اگر ان کا بس چلے ہی تو وہ انہیں جہنم واصل کر دیں.اور اگر 1953ء والے فسادات پھر ہوئے تو یہی لوگ جو ہم سے جُدا ہوئے ہیں سب سے پہلے غیر احمدیوں کے ہاتھ سے اس کا شکار ہو ں گے.اور غیر احمدی کبھی نہیں مانیں گے کہ یہ احمدیت چھوڑ چکے ہیں بلکہ ان کو طعنہ دیں گے کہ تم پوشیدہ پوشیدہ احمدیوں سے تعلق رکھتے تھے.چنانچہ جب گزشتہ فسادات کی انکوائری ہوئی تو گجرات کا ای ایک وکیل پیغامیوں کی طرف سے پیش ہوا.مسٹر جسٹس منیر نے اُسے بڑے جوش سے کہا کہ تمہیں شرم نہیں آتی کہ تم احراریوں کے ساتھ کھڑے ہو؟ اگر تم ان لوگوں کے ساتھ ہو تو وجہ کیا ہے کہ جب لوگ ربوہ والوں پر ظلم کر رہے تھے تم پر بھی کر رہے تھے ؟ اگر یہ لوگ واقع میں تمہارے خیر خواہ تھے تو مولوی صدرالدین صاحب نے پولیس میں کیوں رپورٹ کی تھی کہ ہمیں کی حملہ آوروں سے بچاؤ؟ پھر اگر تم ان لوگوں کے ساتھ تھے تو یہ تمہارے گھروں پر حملے کیوں کرتے تھے اور تم کو پولیس میں رپورٹ دینے اور اس سے مدد طلب کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی تھی؟ اور پھر غصہ سے جہاں ہماری جماعت والے بیٹھے تھے اُن کی طرف اشارہ کر کے کہنے لگے جاؤ اور ان کے ساتھ مل کر بیٹھو.لیکن اب لکھتے ہیں کہ ہم نے اُن دنوں جماعت کی بڑی مدد کی.اگر انہوں نے ہماری جماعت کی مدد کی ہوتی تو انکوائری کے وقت ہمارے ساتھ کیوں نہ بیٹھتے اور جسٹس منیر انہیں جھڑ کتے کیوں اور یہ کیوں کہتے کہ جاؤ اور ان کے ساتھ بیٹھو.انہیں تو خود کہنا چاہیے تھا کہ ان لوگوں میں اور ہم میں کوئی فرق نہیں.پس فسادات کے دنوں میں تو یہ اپنی جانیں بچاتے پھرتے تھے انہوں نے ہماری مدد کیا کرنی تھی.یہ تو ایسی ہی بات ہے جیسے کوئی شخص مرغ کو ذبح کر رہا ہو اور فرض کرو مرغ کو زبان مل جائے تو وہ کہے میں س وقت تمہاری جان بچا رہا ہوں.جو آپ ذبح ہو رہا تھا اُس نے ہماری جان کیا بچانی تھی.تو آپ خطرہ میں تھے.لیکن جب شور دب جاتا ہے تو بعض لوگ ان کی تائید کرنے لگ جاتے ہیں اور یہ اس پر خوش ہو جاتے ہیں کہ فلاں نے ہماری تعریف کی.اور یہ نہیں جانتے ہے کہ اگر کبھی خطرہ کا وقت آیا تو وہ لوگ ان کی ویسی ہی مخالفت کریں گے جیسی ہماری کر رہے ہیں.بلکہ میں سمجھتا ہوں اگر آئندہ کوئی خطرہ کا وقت آیا تو لوگ ان کی مخالفت ہماری نسبت

Page 569

$1956 556 خطبات محمود جلد نمبر 37 زیادہ کریں گے.مولوی ظفر علی صاحب اب تو فوت ہو گئے ہیں وہ اپنی زندگی میں غیر مبائعین کا ذکر کرتے ہوئے عام طور پر کہا کرتے تھے کہ قادیان والے اور لاہوری احمدی دراصل ایک ہی ہیں.ان میں کوئی فرق نہیں.ہم صرف اتنا کہہ سکتے ہیں کہ ان میں سے ایک دمشقی ہیں اور ایک اندلسی.تو حقیقت یہ ہے کہ پیغامی چاہے دوسرے لوگوں کو خوش کرنے کی کتنی کوشش کریں وہ خوش نہیں ہوں گے.یوں کسی اخبار کا کوئی اعلان کر دینا اور بات ہے.مثلاً نوائے پاکستان نے کوئی مضمون شائع کر دیا یا سفینہ نے شائع کر دیا تو اس سے کیا بنتا ہے.انہوں نے تو اپنے کالم پر کرنے ہیں.سوال تو یہ ہے کہ نوائے پاکستان یا سفینہ نے ان لوگوں کو کبھی دو چار ہزار یا دس ہزار دیا بھی ہے؟ اگر پھر بھی یہ لوگ جوتیاں چٹاتے ہی پھر رہے ہیں تو ان اخبارات کے خالی ایک نوٹ شائع کر دینے سے کیا بنتا ہے.آخر یہ دونوں روزانہ اخبارات ہیں اور ان میں سے بعض کہتے ہیں کہ ہماری چھ چھ ہزار یا آٹھ آٹھ ہزار کی اشاعت ہے.اگر چھ ہزار بھی اشاعت سمجھ لی جائے تو ایک اخبار چالیس روپے فی خریدار لیتا ہے.جس کے معنے یہ ہیں کہ کوئی اڑھائی لاکھ روپیہ سالانہ کی آمدن ہے.اگر سوا دولاکھ روپیہ بھی اخبار چلانے اور دفتر کے اخراجات پر خرچ ہو جائے تو پھر بھی بیس پچیس ہزار بچ جاتا ہے.اس میں چھپیں ہزار میں سے دس پندرہ ہزار ہی وہ ان کے حوالہ کر دیں تو ہم مان لیں کہ یہ لوگ ان کے خیر خواہ ہیں لیکن کی انہوں نے ان کو ایک پیسہ بھی نہیں دیا جو اس بات کا ثبوت ہے کہ ان کے دلوں میں ان کے لیے کوئی احساس ہمدردی نہیں.اگر ان کے دلوں میں احساس ہمدردی ہوتا تو وہ انہیں کچھ یتے.ہماری جماعت کو دیکھ لو اس کا غریب سے غریب آدمی بھی چندہ دیتا ہے کیونکہ اُس کے دل میں ایمان ہے اور چندہ دے کر دل میں خوشی محسوس کرتا ہے.اگر وہ چندہ نہیں دیتا تو یہ لاکھوں روپیہ کا خرچ کہاں سے چلتا ہے؟ یہ خرچ اسی جماعت کے چندوں سے چلتا ہے جو دنیا میں مفلس و قلاش سمجھی جاتی ہے.اسی لیے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ بَدَعَ الْإِسْلَامُ غَرِيبًا وَسَيَعُودُ غَرِيبًا 3 یعنی پہلے بھی ایسے ہی لوگوں نے اسلام کی مدد کی تھی

Page 570

$1956 557 خطبات محمود جلد نمبر 37 جو اپنے ملک اور وطن میں رہتے ہوئے بھی بے وطن تھے اور آئندہ بھی ایسے ہی لوگ اسلام کی کی مدد کریں گے.غریب کے معنے عربی زبان میں مفلس کے نہیں ہوتے بلکہ مسافر اور بے وطن کے ہوتے ہیں.مگر مسافر سے یہ مراد نہیں کہ وہ لوگ کہیں باہر سے آئے تھے بلکہ اس کے معنے ނ یہ ہیں کہ حضرت ابو بکر، حضرت عمرؓ اور دوسرے صحابہ تھے تو مکہ کے ہی لیکن مکہ والوں کو ان اس قدر دشمنی تھی کہ وہ ان سے ایسا سلوک کرتے تھے کہ گویا وہ کہیں باہر سے آئے ہیں اور ان کے قابو آ گئے ہیں.گویا ابتدا میں بھی انہیں لوگوں نے اسلام کی مدد کی جو اپنے وطن میں رہتے ہوئے بھی بے وطن تھے اور آخری زمانہ میں بھی اسلام کی وہی لوگ مدد کریں گے جو اپنے وطن میں بے وطن ہوں گے.چنانچہ دیکھ لو ہر روز جلسے ہوتے ہیں، حکومت سے کہا جاتا ہے کہ احمدیوں کو اقلیت قرار دے دو یعنی انہیں وطن میں بے وطن کر دو.یہی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے گویا احمدیوں کو اقلیت قرار دینے کا مطالبہ کر کے یہ لوگ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی کو پورا کرتے ہیں.ہمیں تو خوشی ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پیشگوئی پوری ہو رہی ہے.جب یہ لوگ یہ کہتے ہیں کہ احمدیوں کو اقلیت قرار دے دیا جائے تو ہمیں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حدیث یاد آ جاتی ہے کہ بَدَءَ الْإِسْلَامُ غَرِيبًا وَسَيَعُودُ غَرِيبًا یعنی آخری زمانہ میں وہ لوگ اسلام کی مدد کریں گے جو اپنے وطن میں بے وطن ہوں گے.پس جتنا بھی شور مچایا جاتا ہے کہ احمدیوں کو اقلیت قرار دو اُتنی ہی ہمیں خوشی ہوتی ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی کو پورا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ بَدَءَ الْإِسْلَامُ غَرِيبًا وَسَيَعُودُ غَرِيبًا اب اسلام تو کوئی جاندار چیز نہیں جو مسافر ہو یا غریب ہو بلکہ اس سے مراد یہ ہے کہ اسلام کی اشاعت کرنے والے غریب ہوں گے اور وطن میں رہتے ہوئے بے وطن ہوں گے.پھر ان الفاظ میں اس طرف بھی اشارہ پایا جاتا ہے کہ اسلام ان لوگوں کے ہاتھ میں ہو گا جو اپنا وطن چھوڑ کر اسلام کی تبلیغ کریں گے.اب دیکھ لو وطن چھوڑ کر اسلام کی تبلیغ کرنے والے بھی صرف احمدی ہی ہیں ورنہ دوسرے مولوی تو مسجدوں میں بیٹھے ہیں یا اپنے

Page 571

$1956 558 خطبات محمود جلد نمبر 37 گھروں میں، اپنے بیوی بچوں اور رشتہ داروں میں بیٹھے ہیں.وہ لوگ جو وطن چھوڑ کر اسلام کی تبلیغ کر رہے ہیں وہ صرف احمدی ہی ہیں.گویا سَيَعُودُ غَرِيبًا کی پیشگوئی احمدیوں کے ذریعہ سے ہی پوری ہو رہی ہے.پس مخالف جتنا بھی شور ہمارے خلاف مچاتے ہیں اُتنا ہی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ہمارا ایمان اور یقین بڑھتا ہے.اللہ تعالیٰ ہمارے مخالفوں کے مونہوں سے ایسی باتیں نکلوا دیتا ہے جس کی وجہ سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت اور بھی روشن ہو جاتی ہے.اور قرآن کریم پر ہمارا ایمان اور یقین بڑھتا چلا جاتا ہے اور ہمیں اطمینان ہوتا ہے کہ جس خدا نے تیرہ سو سال پہلے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہمارے وطن میں بے وطن ہونے کی خبر دی تھی وہ آج ہمیں کیوں نہیں دیکھ رہا.پس ہمارے دلوں کو تسکین ہوتی ہے اور ہم سمجھتے ہیں کہ تیرہ سو سال پہلے ہمارا ذکر کرنے والا خدا آج بھی ہمارا ذکر کرے گا اور جب خدا تعالیٰ ہمارا ذکر کرے گا.تو وہ صرف آسمان پر ہی ذکر نہیں کرے گا بلکہ زمین پر بھی کرے گا کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ کسی بندہ سے محبت کرتا ہے تو آسمان پر جبرائیل سے کہتا ہے کہ فلاں بندہ سے میں محبت کرتا ہوں.پھر جبرائیل اپنے نچلے فرشتوں سے کہتا ہے کہ خدا تعالیٰ اس بندہ سے محبت کرتا ہے تم بھی اس سے محبت کرو.پھر وہ فرشتے اپنے ماتحت اور نچلے درجہ کے فرشتوں کو اس بات کی تلقین کرتے ہیں.یہاں تک کہ ہوتے ہوتے يُوضَعُ لَهُ الْقَبُولُ فِي الْأَرْضِ 4 ساری دنیا میں اس کی مقبولیت پھیلا دی جاتی ہے.تو جب ہمارے خدا نے تیرہ سو سال پہلے آسمان سے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہمارے متعلق خبر دی تھی تو لازماً وہ اب بھی ہمارا ذکر کرے گا اور جبریل دوسرے فرشتوں میں اسے پھیلائے گا اور نچلے فرشتے اپنے ماتحت فرشتوں میں اسے پھیلائیں گے اور پھر فرشتے زمین والوں کو اس کی تلقین کریں گے.یہاں تک کہ زمین والے ہم لوگوں کو وطن دے دیں گے اور آپ بے وطن ہو جائیں گے کیونکہ جب اللہ تعالیٰ کسی کی محبت دل میں ڈال دیتا ہے تو اُس کو لوگ اپنے آپ پر مقدم کر لیتے ہیں.مدینہ والوں کو دیکھ لو مکہ سے لوگ ہجرت کر کے وہاں گئے اور انصار نے اپنے دے دیئے اور اُن کی خاطر بڑی بڑی قربانیاں کیں.احادیث میں آتا ہے انہیں

Page 572

559 $1956 خطبات محمود جلد نمبر 37 کہ ایک انصاری نے اپنے مہاجر بھائی سے کہا کہ میری دو بیویاں ہیں تم ان میں سے ایک کو پسند کر لو.میں اُس کو طلاق دے دیتا ہوں.تم اُس سے شادی کر لینا.5 پھر وہ لوگ اپنی جائیدادیں تقسیم کرنے کے لیے تیار ہو گئے بلکہ احادیث میں آتا ہے کہ ایک دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انصار کو کچھ دینا چاہا تو انہوں نے کہا يَا رَسُولَ اللہ ! یہ ہمارے مہاجر بھائیوں کو دے دیجیے.پس اللہ تعالیٰ کی طرف سے جب دنیا میں کسی کی قبولیت پھیلائی جاتی ہے تو لوگ اس کے لیے ایسی ایسی قربانیاں کرتے ہیں کہ قریب کے رشتہ داروں میں بھی وہ قربانی نہیں پائی جاتی.وہ صرف منہ سے نہیں کہتے کہ گائے کی اٹھی لے لو بلکہ وہ عملاً بھی دیتے ہیں.صرف اخبار میں یہ شائع نہیں کرتے کہ ہماری اسٹیج بھی اور ہمارا روپیہ بھی اور ہماری تنظیم بھی تمہاری تائید میں ہے مگر دیتے کچھ نہیں.یہ صرف منہ کی باتیں ہیں.جب یہ اخبار میں چھپیں تو ایڈیٹر کو تو تنخواہ مل گئی کیونکہ اُسے کچھ سطور کم لکھنی پڑیں.لیکن انہیں کچھ بھی نہیں ملا.ہاں! ایڈیٹر کے ذمہ جو کام تھا اُسے اُس سے کم کرنا پڑا.اسے سارا اخبار بھرنے کی جو تنخواہ ملتی تھی وہ تو اُس نے لے لی لیکن اس کے مقابلہ میں اسے کام کم کرنا پڑا.لیکن ان لوگوں کو تو کچھ بھی نہ ملا.اور پھر ایڈیٹر کو بھی جو ملا وہ حلال کا نہ ملا کیونکہ اُسے تنخواہ کے مقابلہ میں کم کام کرنا پڑا.ان لوگوں کی مثال بالکل ایسی ہی ہے جیسے مولوی برہان الدین صاحب کی ایک ہمشیر فوت ہو گئیں تو وہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے کہنے لگے حضور! خواب میں مجھے ایک دن میری ہمشیرہ ملیں تو مجھے خیال آیا میں اُس سے پوچھوں کہ تمہیں جنت ملی ہے یا نہیں؟ چنانچہ میں نے اُس سے یہ بات دریافت کی تو اُس نے بتایا کہ ہاں اللہ تعالیٰ نے مجھے بخش دیا ہے اور جنت میں جگہ بھی دے دی ہے.پھر میں نے پوچھا کہ تم وہاں کام کیا کرتی ہو؟ تو کہنے لگی میں بیر بیچتی ہوں.کہنے لگے خواب میں میں نے کہا بہن! جنت میں بھی تجھے بیر بیچنے ہی نصیب ہوئے.ان لوگوں کو بھی دیکھ لو ہمیں چھوڑ کر گئے تھے مگر وہاں بھی انہیں کچھ نہ ملا.پیغام صلح نے صرف چند سطریں شائع کر دیں اور ایک شخص نے جسے اپنی جماعت میں بھی کوئی حیثیت حاصل نہیں یہ لکھ دیا کہ ہماری تنظیم تمہاری تائید میں ہے.یہ وہی بیر بیچنے والی

Page 573

خطبات محمود جلد نمبر 37 560 $1956 بات ہے بلکہ بیر بیچنے میں تو پھر بھی کچھ مزہ ہے لیکن پیغام صلح میں ایک یا دوسطر لکھ دینے میں کیا مزہ ہے.ملا تو کچھ بھی نہیں.اگر کچھ مل جاتا تب تو کچھ بات بھی تھی.ملا خدا تعالیٰ کے فضل سے اس جماعت کو جو خدا تعالیٰ کے دین کی اشاعت کرتی ہے.لاکھوں آدمی اپنی جائیدادوں اور مالوں کو اس کے لیے قربان کر رہے ہیں اور ایسے لوگ قربان کرتے ہیں جن کی مالی حیثیت کچھ بھی نہیں ہوتی.اگر ظاہری طور پر دیکھا جائے تو ہمارا حق ہے کہ ان کی خدمت کریں لیکن وہ اسلام کی خدمت کے لیے اپنے آپ کو آگے لاتے ہیں اور اگر ہم ان سے کہ دیں کہ تم غریب ہو اس لیے چندہ نہ دو تو وہ رو پڑتے ہیں.جیسے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بعض صحابہ آئے اور کہا يَا رَسُولَ اللہ ! ہمارے لیے بھی رومی جنگ پر جانے کے لیے کچھ سامان مہیا کیجیے مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میرے پاس کچھ نہیں.اس پر وہ روتے ہوئے واپس چلے گئے.6 بعد میں انہی لوگوں میں سے ایک شخص نے بیان کیا کہ خدا کی قسم ! ہم رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اس لیے نہیں گئے تھے کہ ہمیں اونٹ دیں کہ ہم اُن پر سوار ہو کر جائیں.ہماری غرض یہ تھی کہ ہمارے پاؤں ننگے تھے، رستہ میں کانٹوں اور پتھروں پر سے گزرنا پڑتا تھا.ہمیں کوئی چپلی ہی دے دی جائے کہ اُسے پہن کر شام کی طرف رومی لشکر سے لڑنے کے لیے چل پڑیں.اب دیکھ لو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں چپلی نہ دے کر بظاہر انہیں مرنے سے بچایا تھا مگر وہ اس پر بھی رو پڑے کہ انہیں ثواب سے محروم کر دیا گیا ہے.یہی حال ہماری جماعت کے لوگوں کا ہے کہ غریب ہوتے ہیں، گھر میں فاقہ ہوتا ہے مگر پھر بھی آتے ہیں اور کہتے ہیں ہم سے اتنا چندہ لے لیا جائے.بعض اوقات عورتیں آ جاتی ہیں اور کہتی ہیں یہ چار انڈے ہیں انہیں بیچ کر جو کچھ ملے چندہ میں دے دیں.اب انڈے بیچنے والوں کی کیا حیثیت ہوتی ہے.ایک یا دو مُرغیاں انہوں نے رکھی ہوئی ہوتی ہیں اور وہ مرغیاں ایک دو انڈے دے دیتی ہیں اور وہ اُن انڈوں کو بھی چندہ میں دے دیتی ہیں.اور اگر ہم اُن میں سے کسی عورت کے چندہ کو رڈ کر دیں تو وہ خوش نہیں ہوگی کہ اس سے چندہ نہیں لیا گیا بلکہ روئے گی کہ اسے ثواب سے محروم کیا گیا ہے اور خیال کرے گی کہ شاید مالدار کو ہی حق حاصل ہے کہ وہ چندہ دے غریب کو چندہ دینے کا حق نہیں.

Page 574

خطبات محمود جلد نمبر 37 561 $1956 میں نے پہلے بھی کئی دفعہ سنایا ہے کہ سیالکوٹ کے ایک دوست تھے جو بڑے مخلص تھے.قادیان میں اکثر آیا کرتے تھے مگر انہیں اعتراض کرنے کا بہت شوق تھا ایک دفعہ ایک غریب احمدی نے مجھے دعوت پر بلایا، چائے پر یا کھانے پر، اس وقت مجھے یاد نہیں رہا.کئی دن تک میں ٹلاتا رہا کیونکہ میں دیکھتا تھا کہ یہ غریب آدمی ہے لیکن ایک دفعہ میں نے دیکھا کہ اُس کی آنکھوں میں آنسو آ گئے اور اس نے کہا شاید اس لیے کہ میں غریب ہوں آپ میرے ہاں کھانا کھانا پسند نہیں فرماتے.اس پر مجھے خیال آیا کہ خواہ مخواہ اسے ٹھوکر لگے گی اس کی دعوت قبول کر لو.چنانچہ ایک دن میں اُس احمدی دوست کے گھر چلا گیا.سیالکوٹ کے و احمدی دوست جن کا میں نے ابھی ذکر کیا ہے وہ ہمیشہ ٹوہ 7 میں رہتے تھے کہ کوئی موقع ملے تو وہ اعتراض کریں.میں جب باہر نکلا تو وہ دروازہ کے پاس کھڑے تھے.مجھے دیکھتے ہی کہنے لگے کیوں جی! کیا ایسے غریب لوگوں کی دعوت بھی آپ قبول کر لیا کرتے ہیں؟ میں نے کہا ہمارے لیے ہر طرح مصیبت ہی ہے.جب میں اس شخص کی دعوت رڈ کرتا تھا تو وہ کہتا ہے تھا مجھے غریب سمجھ کر میری دعوت رڈ کرتے ہیں اور اب جو میں نے اس کی بات مان لی تو تم دروازہ کے سامنے کھڑے ہو اور کہتے ہو کہ کیا ایسے غریبوں کی دعوت بھی آپ کھا لیتے ہیں؟ تو دیکھو ہماری جماعت میں وہ وہ مخلص پائے جاتے ہیں کہ ان پر غربت اور مفلسی چھائی ہوئی ہوتی ہے لیکن پھر بھی وہ اسلام کے لیے آگے بڑھ کر قربانیاں کرتے ہیں، مزدوریاں کرتے ہیں اور چندے دیتے ہیں.میں نے ایک دفعہ جماعت کو تحریک کی تھی کہ کچھ زائد کام محنت مزدوری کا کرو اور تحریک جدید میں چندہ دو.چنانچہ سینکڑوں روپیہ دوستوں نے محنت اور مزدوری کر کے دین کی خدمت کے لیے دیا لیکن چونکہ اب اس تحریک کو دیر ہو گئی ہے اس لیے اس چندہ میں کمی واقع ہی ہو گئی ہے.میں جماعت کو پھر توجہ دلاتا ہوں کہ اپنے ہاتھ سے محنت کرو اور زائد آمد پیدا کر کے اس تحریک میں حصہ لو.مالدار آدمی بھی چاہے تو اسٹیشن پر جا کر قلی کا کام کر لے یا بازار میں کوئی مزدوری کر لے اور اُس سے جو آمد ہو وہ تحریک جدید میں دے دے.پھر میں نے کہا تھا کہ زمیندار اگر آٹھ ایکڑ ہوتا ہے تو ایک کنال وہ سلسلہ کے لیے بھی ہوئے اور اُس پر زیادہ

Page 575

562 $1956 خطبات محمود جلد نمبر 37 زور لگائے.پھر آٹھ ایکڑ کا بھی چندہ دے اور اُس ایک کنال سے جو آمد ہو وہ بھی ساری کی ساری دے دے.اس طرح اُسے بہت زیادہ ثواب ملے گا اور جماعت کی آمد بھی بڑھ جائے گی.اگر سارے زمیندار اس طرح کرنے لگ جائیں تو اگر چہ وہ اب بھی چندہ دیتے ہیں لیکن پھر ان کا چندہ دُگنا یا تین گنا ہو جائے گا کیونکہ جب وہ ایک کنال کی پیداوار آٹھ ایکڑ کے علاوہ سلسلہ کے لیے دیں گے تو خدا تعالیٰ اُن کے آٹھ ایکٹر میں بھی پیداوار زیادہ کر دے گا اور وہ چندہ بھی زیادہ ہو جائے گا اور پھر یہ کنال جو سلسلہ کے لیے بوئی گئی ہے اس کی آمد بھی سلسلہ کو ملے گی نتیجہ یہ ہوگا کہ ان کا چندہ اگلے سال ڈگنا تگنا ہو جائے گا.کچھ مدت تک دوستوں نے میری اس بات پر عمل کیا لیکن افسوس ہے کہ اب اس میں سستی واقع ہو گئی ہے.اگر دوست اس پر عمل کرنے لگ جائیں تو یقیناً ان کو اور ان کی اولادوں کو دین کی ایسی خدمت کرنے کی توفیق ملے گی جو مثال کے طور پر قائم ہو جائے گی.خطبہ ثانیہ کے بعد حضور نے فرمایا: میں نماز سے فارغ ہونے کے بعد دو جنازے پڑھاؤں گا.ایک جنازہ تو باہر پڑا ہے یعنی ہماری مسجد کے جو مؤذن ہیں ان کی والدہ کا جنازہ ہے.دوسرے میاں غلام حسین صاحب اوورسیئر جو یہاں بجلی کا کام کرتے ہیں اُن کی لڑکی فوت ہو گئی ہے اور انہوں نے جنازہ پڑھانے کے لیے کہا ہے.اس لیے ان کی لڑکی کا بھی میں ساتھ ہی جنازہ پڑھاؤں گا.1 : الفاتحة: 5 (الفضل 12 دسمبر 1956ء) 2: الحشر : 12 3 : ابن ماجہ ابواب الفتن باب بَدَء الأَسْلَام غَرِيبًا 4 : بخاری کتاب بدء الخلق باب ذِكْرُ الْمَلائِكَة 5 : بخاری کتاب المناقب باب اخاء النبي صلى الله عليه وسلم بين المهاجرين والانصار 6 : سیرت ابن ہشام جلد 2 صفحہ 1319 ،1320 مطبوعہ دمشق 2005ء 7 : ٹوہ: ٹوہ میں رہنا: تلاش میں رہنا ، عیب ڈھونڈنے کے درپے رہنا.

Page 576

$1956 563 48 خطبات محمود جلد نمبر 37 دوست دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ میری صحت میں برکت دے تاکہ میں اسلام اور احمدیت کی اور زیادہ خدمت کرسکوں فرموده 7 دسمبر 1956ء بمقام ربوہ) تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: اسلام میں نماز کے لیے جو لفظ رکھا گیا ہے وہی لفظ دعا کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے.پس مسلمان کی نماز دعا ہوتی ہے اور اس کی دعا نماز ہوتی ہے.کیونکہ نماز کی غرض یہ ہوتی ہے کہ خدا تعالیٰ سے دعا کی جائے اور اس سے اپنی ضرورتیں مانگی جائیں.اور جو شخص اس غرض کو پورا کرتا ہے وہ حقیقی نماز پڑھتا ہے.اور جو شخص اس غرض کو پورا نہیں کرتا بلکہ رسمی طور پر اوٹھک بیٹھک کرتا ہے وہ در حقیقت نماز نہیں پڑھتا.کیونکہ نماز کا اصل مقصد یہی ہے کہ خدا تعالیٰ سے بار بار دعا کی جائے اور اُس کا فضل مانگا جائے اور یہ یقین رکھا جائے کہ خدا تعالیٰ کے سوا اور کوئی وجود ہماری حاجت روائی نہیں کر سکتا.

Page 577

خطبات محمود جلد نمبر 37 564 $1956 پچھلے سال جب میں یورپ سے علاج کے بعد واپس آیا تو اُن دنوں میری طبیعت میں تشویش زیادہ ہوتی تھی لیکن میں نے دیکھا کہ جوں جوں احباب میری صحت کے لیے دعائیں کرتے تھے وہ تشویش کم ہوتی جاتی تھی اور صحت میں ترقی ہوتی جاتی تھی.اب خدا تعالی کی کے فضل سے ایک سال اور گزر گیا ہے اور میں دیکھتا ہوں کہ جتنی تشویش اور گھبراہٹ مجھے پچھلے سال تھی اتنی اب نہیں.لیکن اس سال چونکہ سردی اچانک تیز ہو گئی ہے اس لیے میری ہی طبیعت میں بھی کوفت اور اضمحلال پیدا ہو گیا ہے اور میں طاقت کی بجائے کمزوری محسوس کرتا ہوں.پس دوستوں کو چاہیے کہ وہ ایک بار پھر دعاؤں میں مشغول ہو جائیں کیونکہ اگر انہیں واقع میں نظر آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے میرے ذریعہ سلسلہ اور اسلام کی خدمت کروائی ہے اور میرے ذریعہ انہیں ترقی بخشی ہے تو یہ کام اسی صورت میں جاری رہ سکتا ہے کہ میری صحت ٹھیک رہے.پس اگر واقع میں انہیں یہ احساس اور یقین ہے کہ اللہ تعالیٰ نے میرے ذریعہ احمدیت اور اسلام کو ترقی دی ہے تو ان کی اسلام اور احمدیت سے محبت کا ثبوت اسی صورت میں مل سکتا ہے کہ وہ دعائیں کریں کہ اللہ تعالیٰ مجھے ایسی صحت بخشے کہ میں اچھی طرح کام کر سکوں اور اسلام اور احمدیت کی اور زیادہ خدمت کر سکوں تا کہ وہ جلد جلد ترقی کرے اور خدائے واحد کی حکومت دنیا میں قائم ہو جائے.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ انسانی کاموں میں دور آتے رہتے ہیں جن سے ہم بھی محفوظ نہیں رہ سکتے.لیکن عام قاعدہ اور ہے اور کوشش اور چیز ہے.عام قاعدہ کے مطابق انسان بڑی عمر میں کمزور ہو جاتا ہے لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ جو لوگ اپنی صحت کا خیال رکھتے ہیں وہ بڑی لمبی عمر پا جاتے ہیں اور انہیں دیکھ کر ماننا پڑتا ہے کہ انسانی تدبیر سے جس میں سب سے بڑی چیز دعا ہے عام قانون بدلا جا سکتا ہے.چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ میں سے بن ربیعہ ایک مشہور شاعر تھے.انہوں نے ایک سو پچھتر سال عمر پائی 1.اسلام لانے سے پہلے بھی وہ عرب کے مشہور شاعر تھے اور اسلام لانے کے بعد بھی وہ کافی عرصہ زندہ رہے.حضرت انس جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خادم تھے انہوں نے ایک سو دس سال کی عمر یائی.اور ان کی ہمت اتنی بلند تھی کہ بڑی عمر میں ان کی بیوی فوت ہو گئی تھیں.ایک دن ان کی

Page 578

$1956 565 خطبات محمود جلد نمبر 37 کے ایک دوست ان سے ملنے کے لیے گئے تو وہ ان سے کہنے لگے میرے لیے بیوی تلاش کرو کیونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جو شخص بغیر شادی کے فوت ہوتا ہے اُس کی عمر باطل جاتی ہے.ایسا نہ ہو کہ میری عمر بھی باطل چلی جائے.اب دیکھو ان کی عمر ایک سو دس سال کی ہو گئی تھی لیکن ان کی خواہش تھی کہ کوئی عورت مل جائے اور وہ اس سے شادی کر لیں.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کی صحت اچھی تھی اور قوی مضبوط تھے.اس لیے انہیں اپنے بڑھاپے کا خیال نہ آیا اور انہوں نے اس بات کی خواہش کی کہ ان کی کسی عورت سے شادی ہو جائے.ہمارے زمانہ میں بھی بعض لوگ بڑی بڑی عمر والے اور حوصلہ والے ہوتے ہیں.1917ء میں ایک آدمی گجرات سے آیا اور مجھے ملا.اُس نے مجھے بتایا کہ وہ لاہور سے پیدل چل کر آیا ہے.میں نے کہا آپ کی عمر تو پچاس ساٹھ سال کی لگتی ہے.اس نے کہا پچاس ساٹھ سال کی نہیں میری عمر ایک سو اٹھارہ سال کی ہے اور میں نے مہاراجہ رنجیت سنگھ کا ابتدائی زمانہ دیکھا ہوا ہے.میں دورا تیں رستہ میں ٹھہرا ہوں اور پیدل چل کر قادیان پہنچ گیا ہوں.بعد میں سنا کہ وہ ایک سو چالیس سال کی عمر میں فوت ہوا.پس اس زمانہ میں بھی خدا تعالیٰ جنہیں اپنی صحت کی حفاظت کرنے کی توفیق دیتا ہے وہ بڑی بڑی عمر میں پاتے ہیں.ہمارے مولوی نور الحق صاحب کے دادا بھی ایسے ہی لوگوں میں سے تھے.حافظ غلام رسول صاحب وزیر آبادی جن دنوں فالج کے حملہ سے بیمار تھے اُسی سال خدام الاحمدیہ کا دفتر بن رہا تھا.میں وہ دفتر دیکھنے جا رہا تھا.میں نے دیکھا کہ ایک آدمی بڑا تیز تیز چل کر میری طرف آ رہا ہے.وہ مجھے ملا اور اس نے مجھ سے مصافحہ کیا.میں نے دریافت کیا کہ آپ کا نام کیا ہے؟ انہوں نے مجھے اپنا نام بتایا اور کہا میں گجرات سے آیا ہوں.پھر انہوں نے پنجابی زبان میں کہا جیہڑا غلام رسول وزیر آبادی کہلا نداں ہے میں اسدا حال کچھن آیا ہاں.یعنی غلام رسول وزیر آبادی جو کہلاتے ہیں اُن کا حال دریافت کرنے آیا ہوں.حافظ غلام رسول صاحب ہماری جماعت میں بڑے محترم سمجھے جاتے تھے مگر انہوں نے اس بے تکلفی سے ان کا نام لیا تو میں نے پوچھا کہ حافظ صاحب سے آپ کا کیا رشتہ ہے؟ انہوں نے بتایا کہ وہ میرے بھتیجے ہیں.

Page 579

$1956 566 خطبات محمود جلد نمبر 37 میں نے کہا معلوم ہوتا ہے آپ کے والد نے آخری عمر میں دوسری شادی کی تھی جس سے آپ پیدا ہوئے اس لیے آپ کی عمر ان سے چھوٹی معلوم ہوتی ہے.اس پر وہ کہنے لگے کہ ” جدوں غلام رسول دی ماؤ دا ویاہ ہو یاسی میں اٹھارہ سال دا ساں، یعنی جب حافظ غلام رسول صاحب وزیر آبادی کی والدہ کا بیاہ ہوا تھا اُس وقت میں اٹھارہ سال کا تھا.بعد میں وہ ایک سوتین : ایک سو سات سال کی عمر میں فوت ہوئے اور وہ اس عمر میں بھی خوب چل پھر لیتے تھے اور کہا کرتے تھے کہ میں ہیں ہیں ، بچھپیں چھپیں میل پیدل چلا جاتا ہوں.پس اللہ تعالیٰ جن لوگوں کی مدد کرتا ہے اور وہ اپنی صحت کی حفاظت کرتے ہیں اُن کی عمریں عام قانون کے لحاظ سے زیادہ ہو جاتی ہیں.بعض عمریں بیشک غیر معمولی ہوتی ہیں اور اُن کی ہمیں تاویل کرنی پڑتی ہے.مثلاً قرآن کریم میں بھی اور بائبل میں بھی حضرت نوح علیہ السلام کی عمر ایک ہزار سال کی بیان ہوئی ہے.2 اس کی ہم تاویل کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اس سے مراد در حقیقت اُن کی کی امت کا زمانہ ہے.لیکن تاریخی لحاظ سے جو واقعات مشہور ہیں اور جو باتیں ہمارے سامنے کی ہیں اُن سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ فضل کرے تو انسان خاصی لمبی عمر پا سکتا ہے اور پھر وہ اس عمر میں اچھی طرح کام بھی کر سکتا ہے.پس دوست دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ میری صحت میں برکت دے تا کہ جو دم باقی ہیں وہ دین کی خدمت میں صرف ہوں اور نہ صرف اسلام اور احمدیت کو ترقی حاصل ہو بلکہ خود دعا کرنے والے کو بھی ثواب ملے اور اُس کے ساتھیوں کو بھی امن اور سکون نصیب ہو.دیکھو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ فتح کیا تو مسلمانوں کو امن اور چین نصیب ہو گیا.اگر آپ مکہ فتح نہ کرتے تو مسلمانوں پر برابر ظلم ہوتے رہتے لیکن جب اللہ تعالیٰ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو فتوحات دیں تو اُن کے نتیجہ میں مکہ مدینہ اور اس کے اردگرد کے علاقہ میں مسلمانوں کو امن میسر آ گیا.پھر حضرت ابوبکر کے زمانہ میں جو فتوحات ہوئیں اُن کی وجہ سے سارے عرب اور عراق اور شام میں مسلمانوں کو امن نصیب ہو گیا.پھر حضرت عمر اور حضرت عثمان کے ذریعہ سے انطاکیہ تک کا علاقہ فتح ہوا اور وہاں مسلمان امن سے رہنے لگے.غرض یہ اللہ تعالیٰ کا فضل تھا کہ جوں جوں اسلام ترقی کرتا گیا مسلمانوں کے لیے امن کی

Page 580

$1956 567 خطبات محمود جلد نمبر 37 صورت پیدا ہوتی گئی.اسی طرح اب احمدیت ترقی کرے گی تو احمدیوں کی تعداد زیادہ ہوگی اور ان کی روزمرہ کی تکالیف دور ہو جائیں گی.دعا پس میرے لیے دعا تمہارے اپنے لیے بھی دعا ہے اور تمہارے بچوں کے لیے بھی ہے.کیونکہ اس کے ذریعہ تمہارے لیے بھی اور تمہاری اولادوں کے لیے بھی امن کی صورت پیدا ہو جائے گی اور ترقی کے راستے کھل جائیں گے“.(الفضل 14 دسمبر 1956ء) 1 : اسد الغابة الجزء الرابع صفحه 133 مطبوعہ بیروت 2006ء کے مطابق لبید بن ربیعہ کی عمر 140 سال اور بعض کے نزدیک 157 سال تھی.2 (1) وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا نُوحًا إِلَى قَوْمِهِ فَلَبِثَ فِيهِمْ أَلْفَ سَنَةٍ إِلَّا خَمْسِينَ عَامَّا (العنكبوت:15) (ii) پیدائش باب 9 آیت 29

Page 581

$1956 568 49 خطبات محمود جلد نمبر 37 جب بھی کوئی مصیبت آئے تم فوراً خدا تعالیٰ کے سامنے جھکو اور یقین رکھو کہ وہ ضرور تمہاری مدد کرے گا (فرموده 14 دسمبر 1956ء بمقام ربوہ) تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور نے مندرجہ ذیل آیت قرآنیہ کی تلاوت فرمائی: وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّى فَإِنِّي قَرِيبٌ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ فَلْيَسْتَجِيوَالِى وَلْيُؤْمِنُوا بِي لَعَلَّهُمْ يَرْشُدُونَ 1 اس کے بعد فرمایا: دنیا میں لوگوں کے اندر یہ عام احساس پایا جاتا ہے کہ گویا وہ اکیلے ہیں اور اس دنیا میں اُن کا کوئی ساتھی اور دوست نہیں.اللہ تعالیٰ نے دنیا کی پیدائش کا سلسلہ ہی ایسا رکھا ہے کہ بچہ ماں کے پیٹ سے نکلتا ہے تو پچھلی تاریخ اُسے بھولی ہوئی ہوتی ہے اور وہ نہیں جانتا کہ ماں کے پیٹ میں جانے سے قبل اُس کی کیا حالت تھی اور اس حالت سے پہلے اُسے کونسی زندگی ملی ہوئی تھی.پھر وہ مرتا ہے تو اکیلا ہی قبر میں جاتا ہے اور اسے پتا نہیں ہوتا کہ وہاں اسے کیسے ساتھی ملیں گے اور اس کا کیا حال ہو گا.اُس کے رشتہ دار اور عزیز جو اُس کی

Page 582

$1956 569 خطبات محمود جلد نمبر 37 پیدائش کے وقت اس بات سے ناواقف ہوتے ہیں کہ وہ کہاں سے آیا وہ اُس کی موت کے بعد حیرت زدہ ہوتے ہیں کہ وہ کہاں چلا گیا.گویا انسان اس دنیا میں اکیلا ہی آتا ہے اور اکیلا ہی جاتا ہے اور اس کے دل میں ہمیشہ یہ خلش رہتی ہے کہ یہ تنہائی دور بھی ہو گی یا نہیں؟ اور پھر دور ہو گی تو کیسے ہوگی؟ آخر وہ چاروں طرف ہاتھ پاؤں مارتا ہے اور پہلے صرف اپنے دل کو تسلی دینے کے لیے یہ فیصلہ کرتا ہے کہ اگر اُسے کوئی ساتھی ملتا ہے تو پھر اُس کا پیدا کرنے والا خدا ہی ہو سکتا ہے اور سمجھتا ہے کہ شاید وہ اللہ تعالیٰ سے تعلق پیدا کرے تو اُسے ساتھی مل جائے اور اس کی بیکلی دور ہو جائے.پھر جب وہ اس بات پر قائم ہو کر صحیح جدوجہد کرتا ہے تو اسے روشنی نظر آ جاتی ہے اور معلوم ہو جاتا ہے کہ جو رستہ اُس نے اختیار کیا تھا اور سمجھا تھا کہ شاید وہ ہستی جسے خدا کہتے ہیں اس تنہائی میں میری ساتھی بن جائے وہ صحیح نکلا ہے اور واقع میں خدا تعالیٰ ہی میرا ساتھی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی ایک دفعہ کشفی حالت میں دیکھا کہ اپنے بازو پر یہ الفاظ لکھ رہے ہیں کہ میں اکیلا ہوں اور خدا میرے ساتھ ہے 2 یہ کشف در حقیقت اس آیت کا ہی ترجمہ ہے.لیکن یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب انسان خدا تعالیٰ کو دیکھتا ہی نہیں تو وَ إِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّى فَإِنِّي قَرِيبٌ مَا مطلب ہوا؟ کیونکہ انسان پوچھتا اُسی کے متعلق ہے جو اُسے نظر آتا ہو.اس کے متعلق یاد رکھنا چاہیے کہ کبھی سوال مبہم بھی ہوتا ہے جیسے رات کو کوئی مسافر اندھیرے میں سفر پر جا رہا ہو اور اسے خطرہ محسوس ہو تو وہ آواز دیتا ہے کہ کوئی ہے؟ اب اِس کا یہ مطلب تو نہیں ہوتا کہ اسے کوئی انسان نظر آ رہا ہے بلکہ وہ اس خیال سے آواز دیتا ہے کہ اگر کوئی شخص وہاں ہو تو وہ آئے اور اس کی مدد کرے اور جنگل میں تنہائی اور اندھیرے کی وجہ سے جو گھبراہٹ اُس پر طاری ہے وہ دور ہو جائے.اسی طرح یہ آیت ہے اور اس کا مطلب یہ ہے کہ جب دنیا میں انسان تنہائی محسوس کرے اور سمجھے کہ مجھے کسی کی مدد کی ضرورت ہے اور خدا تعالیٰ جو غیر مرئی ہے اُس کے متعلق وہ کہے کہ اگر کوئی خدا ہے تو وہ آئے اور میری مدد کرے جیسے اندھیرے میں

Page 583

$1956 570 خطبات محمود جلد نمبر 37 کوئی مسافر گھبرا کر آواز دیتا ہے کہ کیا کوئی ہے؟ تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اگر کوئی ہو تو وہ میری مدد کرے.اسی طرح جب انسان بھی گھبرا کر آواز دے کہ کیا کوئی ہے؟ تو خدا تعالیٰ کہتا ہے تم میرے اس بندے کو بتا دو کہ میں ہوں اور پھر میں زیادہ دور بھی نہیں بلکہ میں تمہارے قریب ہی ہوں.دنیا میں پاس رہنے والا شخص بھی بعض اوقات مدد نہیں کرتا، بعض دفعہ تو وہ مدد کا ارادہ ہی نہیں کرتا اور کہتا ہے مرتا ہے تو مرے مجھے اس کی مدد کرنے کی کیا ضرورت ہے.اور بعض اوقات وہ اپنے اندر زیادتی کرنے والے کے خلاف مدد کرنے کی طاقت نہیں پاتا.جیسے کوئی شیر گاؤں میں آ جائے اور کسی پر حملہ آور ہو تو دوسرے لوگ بجائے اُس کی مدد کرنے کے بھاگ جاتے ہیں لیکن یہاں ایسا نہیں ہوتا بلکہ اگر کوئی بندہ گھبرا کر آواز دے اور کہے کہ کوئی ہے؟ تو وہاں خدا موجود ہوتا ہے اور وہ کہتا ہے کہ میرے بندے نے اگر چہ مبہم طور پر آواز دی ہے کہ شاید کوئی موجود ہو تو وہ بول پڑے لیکن میں اس کی مبہم پکار کو بھی اپنی طرف مالی منسوب کر لیتا ہوں اور سمجھتا ہوں کہ وہ مجھے ہی بلا رہا ہے.میں بھول جاتا ہوں کہ جو کچھ کہہ رہا ہے خیالی طور پر کہہ رہا ہے.میں اس وقت اگر مگر کو چھوڑ دیتا ہوں اور فوراً اس کی مدد کے لیے دوڑ پڑتا ہوں.اس لیے اگر کوئی میرے متعلق سوال کرے تو اُسے بتا دو کہ میں قریب ہی ہوں دور نہیں.بیشک دنیا میں بعض دفعہ کوئی دوسرا شخص قریب بھی ہوتا ہے تو پھر بھی وہ مدد کرنے کا ارادہ نہیں کرتا یا اُس کی مدد کرنے کی طاقت نہیں رکھتا.لیکن میں تو ارادہ کر کے بیٹھا ہوں کہ اس کی مدد کروں گا اور پھر میرے اندر اس کی مدد کرنے کی طاقت بھی ہے.لیکن اگر میں باوجود آقا ہونے کے اُس کی آواز سنتا ہوں اور اُس کی مدد کے لیے دوڑ پڑتا ہوں تو فَلْيَسْتَجِبْوَانِى اسے بھی چاہیے کہ میری آواز کا جواب دے.عربی زبان میں اِسْتَجَابَ کے دو معنے ہوتے ہیں.جب یہ لفظ خدا تعالیٰ کے متعلق بولا جاتا ہے تو اس کے معنے ہوتے ہیں اُس نے دعا قبول کی اور جب یہ انسان کے متعلق استعمال کیا جاتا ہے تو اس کے معنے ہوتے ہیں اُس نے آواز کا جواب دیا.اس آیت میں اِستَجَابَ کا جو لفظ استعمال ہوا ہے یہ انسان کے متعلق ہے.اس لیے اس کے معنے یہ ہیں کہ میرے بندوں کا بھی فرض ہے کہ میں انہیں بلاؤں تو وہ بھی آواز دیا کریں.باوجود اس کے کہ میں ان کا آقا ہوں اور یہ میر.

Page 584

$1956 571 خطبات محمود جلد نمبر 37 غلام ہیں یہ پکارتے ہیں تو میں ان کی آواز سنتا ہوں اور دوڑتا ہوا ان کی مدد کے لیے آ جاتا ہوں.پس ان کا تو زیادہ فرض ہے کہ اگر میں انہیں آواز دوں تو وہ لبیک کہتے ہوئے میرے.مدد پاس آ جائیں اور وہ صرف میری آواز کا ہی جواب نہ دیں بلکہ وہ یقین رکھیں کہ میں ان کی.کروں گا گویا فَلْيَسْتَجِوانِ ہی کافی نہیں بلکہ وَلْيُؤْمِنُوالی کی بھی ضرورت ہے کیونکہ جسے دعا کرتے ہوئے یہ یقین نہیں ہوتا کہ کوئی خدا ہے اور وہ اس کی مدد کرے گا تو وہ دعا اس کے منہ پر ماری جاتی ہے.اگر اسے خدا تعالیٰ کی مدد کا یقین ہی نہیں تو وہ اس کی مدد کیوں کرے گا.احادیث میں آتا ہے کہ خدا تعالیٰ کہتا ہے اَنَا عِنْدَ ظَنِّ عَبْدِی بِی 3 کہ اگر انسان میرے متعلق یہ یقین رکھتا ہے کہ میں اس کی مدد کروں گا تو میں اس کی مدد کرتا ہوں.اور اگر وہ میرے متعلق تذبذب میں مبتلا ہے اور اسے یہ یقین نہیں کہ میں اس کی مدد کروں گا تو میں اُس کی مدد نہیں کرتا.پس خدا تعالیٰ کہتا ہے کہ اگر میرا کوئی بندہ مجھے بلاتا ہے تو اُسے کہہ دو کہ میں اس کے قریب ہوں لیکن ضرورت ہے کہ میں بھی جب اسے بلاؤں تو وہ دوڑتے ہوئے میری آواز کی طرف آئے.اب یہ ظاہر ہے کہ خدا تعالیٰ تو ہر انسان سے نہیں بولتا وہ اپنے رسولوں کے ذریعے ہی بولتا ہے.اس لیے اس آیت کا یہ مطلب ہوا کہ جب میں اپنا کوئی رسول بھیجوں تو تمہارا بھی فرض ہے کہ اس رسول پر ایمان لاؤ، اس کی مدد کرو اور میرے بھیجے ہوئے دین کی اشاعت کرو.اگر تم میری آواز کو سنو گے اور اس کا جواب دو گے اور پھر یقین رکھو گے کہ میں تمہاری مدد کروں گا تو میں یقیناً تمہاری مدد کروں گا اور تمہیں اکیلا اور بے یارومددگار نہیں چھوڑوں گا.صحابہ نے اس کا ایسا نظارہ دکھایا ہے کہ اسے دیکھ کر حیرت آتی ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب جنگ حنین کے لیے تشریف لے گئے تو دشمن نے پہلے یہ چاہا کہ وہ شہر سے دور کر مسلمانوں کا مقابلہ کرے.وہ علاقہ ان کا اپنا تھا اور وہ اس سے خوب واقف تھے اور پھر وہ سمجھتے تھے کہ وہ مسلمانوں سے تعداد میں زیادہ ہیں لیکن بعد میں کسی عقلمند شخص نے انہیں مشورہ دیا کہ شہر سے زیادہ دور نہ جاؤ بلکہ شہر کے قریب ہی اپنی صفیں بنا لو.یہ جگہ تنگ ہے اور اس کے دونوں طرف پہاڑیاں ہیں.مسلمان اگر تم پر حملہ آور ہوں گے تو وہ لازمی طور

Page 585

$1956 572 خطبات محمود جلد نمبر 37 ان پہاڑیوں میں سے گزریں گے اس لیے تم درّہ کے دونوں طرف پہاڑیوں پر اپنے تیرانداز بٹھا دو.جب مسلمان حملہ آور ہوں تو دونوں طرف سے ان پر تیروں کی بارش کرو.چنانچہ انہوں نے اس کے مشورہ کو مان لیا.جب اسلامی لشکر حنین کے مقام پر پہنچا تو دشمن کے اکثر سپاہی پہاڑیوں کے پیچھے چھپ کر بیٹھ گئے اور کچھ سپاہی سامنے صف بند ہو کر کھڑے ہو گئے.مسلمانوں نے یہ سمجھ کر کہ لشکر وہی ہے جو سامنے کھڑا ہے آگے بڑھ کر اُس پر حملہ کر دیا.جب مسلمان آگے بڑھ چکے اور کمین گاہوں کے سپاہیوں نے سمجھا کہ اب ہم اچھی طرح مقابلہ کر ہیں تو اگلی کھڑی ہوئی فوج نے سامنے سے حملہ کر دیا اور پہلوؤں سے تیراندازوں نے بے تحاشا تیر برسانے شروع کر دیے.یہ جنگ فتح مکہ کے قریب کے زمانہ میں ہی ہوئی تھی.مکہ کے غیر مسلموں نے بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے درخواست کی کہ آپ انہیں اس جنگ میں شامل ہونے کی اجازت دے دیں.ان کا خیال تھا کہ انہیں مسلمانوں کو اپنی بہادری دکھانے کا موقع مل جائے گا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں اجازت دے دی.چنانچہ دو ہزار کے قریب مکہ کے غیر مسلم اسلامی لشکر کے ساتھ روانہ ہوئے.یہ لوگ چلے تو جی بہادری دکھانے کے لیے تھے لیکن جب دونوں پہلوؤں سے تیراندازوں نے تیروں سے حملہ کر دیا تو وہ بے تحاشا پیچھے بھاگے اور جب ہزاروں پر مشتمل لشکر اور اس کے گھوڑے اور اونٹ ان چنیدہ صحابہ میں سے گزرے جو ہر میدان میں ثابت قدم رہنے کے عادی تھے تو اُن کے گھوڑے بھی بھاگ پڑے اور لشکرِ اسلامی کے پاؤں اُکھڑ گئے.ایک صحابی کہتے ہیں کہ جب ان دو ہزار غیر مسلموں کے گھوڑے ہمارے گھوڑوں کے پاس سے گزرے تو وہ بھی ڈر گئے اور پیچھے کو بھاگ پڑے.ہم نے انہیں روکنے کی بڑی کوشش کی مگر وہ بھاگتے ہی چلے جا رہے تھے اور ہماری ہر کوشش ناکام ہو گئی.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صرف چند آدمیوں کے ساتھ میدانِ جنگ میں کھڑے تھے اور دائیں اور بائیں سے تیر برس رہے تھے.صحابہ کو خطرہ پیدا ہوا کہ اب رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حفاظت کی کیا صورت ہوگی لیکن وہ آپ کی کوئی مدد نہیں کر سکتے تھے.دوہزار اونٹوں کے بھاگنے کی وجہ سے ان کی سواریاں اس قدر ڈر گئی تھیں کہ ان کے ہاتھ باگیں موڑتے موڑتے زخمی ہو گئے مگر اونٹ اور گھوڑے واپس لوٹنے

Page 586

$1956 573 خطبات محمود جلد نمبر 37 نام نہیں لیتے تھے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی خچر کو ایڑ لگا کر دشمن کے لشکر کی طرف بڑھنے لگے تو حضرت ابوبکر نے اپنی سواری سے اُتر کر رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خچر کی باگ پکڑ لی اور عرض کیا یا رَسُولَ اللہ ! تھوڑی دیر کے لیے پیچھے ہٹ آئیں.یہاں تک کہ اسلامی لشکر جمع ہو جائے.اس وقت آگے بڑھنے کا موقع نہیں.دشمن دونوں طرف سے تیر برسا رہا ہے.آپ نے فرمایا ابوبکر ! میری خچر کی باگ چھوڑ دو اور پھر خچر کو ایڑ لگاتے ہوئے آپ نے اُس تنگ راستہ پر آگے بڑھنا شروع کیا جس کے دائیں بائیں کمین گاہوں میں بیٹھے ہوئے سپاہی بے تحاشا تیراندازی کر رہے تھے اور فرمایا أَنَا النَّبِيُّ لَا كَذِبُ أَنَا ابْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبُ 4 میں خدا کا نبی ہوں.جھوٹا نہیں ہوں.اس لیے میدان سے فرار کرنا میری شان کے خلاف ہے.اگر دشمن دونوں طرف سے تیر برسا رہا ہے تو وہ مجھے کوئی ضرر نہیں پہنچا سکتا کیونکہ خدا تعالیٰ میرا محافظ ہے لیکن میری اس جرات اور دلیری کی وجہ سے جو میں آٹھ ہزار تیراندازوں کی زد میں ہونے کے باوجود دکھا رہا ہوں یہ خیال نہ کرنا کہ میں خدا ہوں میں خدا نہیں ہوں بلکہ ایک بشر ہوں اور عبدالمطلب کا بیٹا ہوں.ہاں ! مجھے دشمن کا کوئی خطرہ نہیں کیونکہ میں خدا تعالیٰ کا سچا نبی ہوں اور پھر جس نبوت کا میں نے دعوی کیا ہے اُس کے متعلق پہلے سے یہ پیشگوئی موجود ہے کہ اللہ تعالیٰ مجھے لوگوں کے حملوں سے بچائے گا.پھر آپ نے حضرت عباس کو جو بڑے جمہیر الصوت تھے بلایا اور فرمایا عباس! آگے آؤ اور بلند آواز سے پکار کر کہو کہ اے سورہ بقرہ کے صحابیو! اور اے بیت رضوان کے صحابیو! خدا کا رسول تمہیں ہے.چنانچہ حضرت عباس آگے آئے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ارشاد کی تعمیل میں انہوں نے مسلمانوں کو آواز دی اور کہا اے سورۃ بقرہ کے صحابیو! یعنی اے وہ لوگوں جو سورۃ بقرہ کے زمانہ سے مسلمان ہو اور جنہوں نے سورۃ بقرہ یاد کی ہوئی ہے اور اے بیت رضوان کے صحابیو! خدا کا رسول تمہیں بلاتا ہے.صحابہ کہتے ہیں کہ غیر مسلموں کے ریلا کی وجہ سے ہماری سواریاں پاگلوں کی طرح دوڑتی جاتی تھیں اور انہیں واپس لوٹانے کا کوئی طریق ہمارے ذہن میں نہیں آتا تھا.ہم اونٹوں اور گھوڑوں کو واپس کرنے کی کشمکش میں تھے بلاتا

Page 587

$1956 574 خطبات محمود جلد نمبر 37 کہ حضرت عباس کی آواز ہمارے کانوں میں پڑی.اُس وقت یوں معلوم ہوا کہ ہم اس دنیا میں نہیں ہیں بلکہ ہم مر چکے ہیں اور قبروں سے اُٹھے ہیں، اسرافیل صور بجا رہا ہے اور ہم حساب دینے کے لیے خدا تعالیٰ کے سامنے جا رہے ہیں.جیسے قرآن کریم میں آتا ہے کہ جب قیامت کے دن خدا تعالیٰ کی طرف سے آواز دی جائے گی تو لوگ بے تحاشا خدا تعالیٰ کی طرف بھاگ پڑیں گے.اسی طرح اُس وقت ہم بھی سمجھتے تھے کہ اب ٹھہرنا ہمارے لیے ممکن نہیں اور سواریاں ہماری مڑتی نہیں.ہم نے اس زور سے باگیں موڑیں کہ ہماری سواریوں کے سر پیٹھ سے لگ جاتے تھے لیکن جب باگیں ڈھیلی ہوتیں تو سواریاں پھر پیچھے کی طرف دوڑ پڑتیں.وہ صحابی کہتے ہیں جب حضرت عباس کی آواز ہمارے کان میں پڑی اور ہم نے دیکھا کہ ہماری سواریاں ہمارے بس میں نہیں رہیں تو ہم میں سے بعض نے اپنی بھاگتی ہوئی سواریوں پر سے چھلانگیں لگا دیں اور ڈری ہوئی سواریوں کو انہوں نے خالی چھوڑ دیا کہ وہ جدھر چاہیں چلی جائیں اور بعض نے اپنی تلواریں میانوں سے باہر نکالیں اور ان سے اپنی سواریوں کی گردنیں ں دیں اور خود پیدل دوڑ کر رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف چل پڑے اور منہ سے یہ کہتے جاتے تھے کہ لَبَّيْكَ لَبَّيْكَ يَا رَسُولَ الله يَا رَسُول اللہ ! آپ کا پیغام ہمیں پہنچ پچ گیا ہے.یا رَسُول اللہ ! ہم حاضر ہیں ہم حاضر ہیں.5 پر فَلْيَسْتَحِبُوالی کا یہ مطلب ہے کہ جب خدا تعالیٰ کی طرف سے آواز آئے تو اس کے بندوں کو چاہیے کہ وہ بھی اس آواز کا جواب دیں اور خدا تعالیٰ کی طرف دوڑ پڑیں.خدا تعالی آسمان سے بولا نہیں کرتا بلکہ وہ اپنے نبیوں کے ذریعہ سے بولا کرتا ہے.اس لیے جب اُس کا کوئی نبی آئے تو ان کا فرض ہوتا ہے کہ وہ اس پر ایمان لائیں اور اس کی مدد کریں اور یقین رکھیں کہ خدا تعالیٰ اپنے بندوں کی مدد کیا کرتا ہے.صحابہ نے اس کا جو نمونہ دکھایا ہے وہ کسی اور نبی کی قوم نے نہیں دکھایا.انہوں نے جب دیکھا کہ ان کی سواریاں پیچھے بھاگ رہی ہیں اور واپس نہیں مڑتیں تو وہ ان کی پیٹھوں پر سے نیچے کود پڑے یا انہوں نے ان کی گردنیں کاٹ دیں اور خود پیدل رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف بھاگ پڑے اور آپ کے گرد گھیرا ڈالنا شروع کر دیا.یہاں تک کہ دیکھتے ہی دیکھتے ہزاروں کا لشکر جمع ہو گیا

Page 588

575 $1956 خطبات محمود جلد نمبر 37 اور انہوں نے کفار پر حملہ کیا.نتیجہ یہ ہوا کہ دشمن بھاگ گیا اور مسلمانوں کو فتح نصیب ہوئی.یہ گویا وَلْيُؤْمِنُوالی کا ثبوت مل گیا.فَلْيَسْتَجِیوانی کا حکم صحابہ سے تعلق رکھتا تھا کہ وہ خدا تعالی کی آواز سن کر اُس کی طرف بھاگ پڑیں.چنانچہ وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز سنتے ہی اُس طرف بھاگ پڑے.اور وَلْيُؤْمِنُوالی کا حصہ خدا تعالیٰ سے تعلق رکھتا جب صحابہ اس یقین سے واپس لوٹے کہ خدا تعالیٰ ان کی مدد کرے گا تو آناً فاناً انہیں نصیب ہو گئی.دشمن کی فوج کے سپاہی قید ہوئے ، اُن کی عورتیں پکڑی گئیں اور ان کے اموال، غنیمت کے طور پر مسلمانوں کے ہاتھ آئے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی رضاعی والدہ اسی قبیلہ میں سے تھیں.جب کفار کو شکست ہوئی تو وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بہنوں کے پاس آئے کیونکہ انہیں امید تھی کہ وہ ان کی وجہ سے اپنے اموال اور قیدی واپس لے سکیں گے.انہوں نے آپ کی بہنوں کو مخاطب کر کے کہا کہ تم اس وقت ہماری مدد کر سکتی ہو.محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم) تمہارے گھر میں پہلے ہیں.تم اگر جاؤ اور ہماری سفارش کرو تو وہ تمہاری سفارش ضرور مان لیں گے اور ہمارے اموال اور قیدی ہمیں واپس لوٹا دیں گے.چنانچہ وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں اور عرض کیا یا رسول اللہ ! آپ نے اس قوم میں پرورش پائی ہے آپ انہیں معاف کر دیں اور ان کے اموال اور قیدی واپس لوٹا دیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں نے ایک ماہ تک انتظار کرنے کے بعد قیدی اور اموال مسلمانوں میں تقسیم کر دیئے ہیں.ممکن ہے ان لوگوں کو اپنی طاقت پر غرور ہو اور انہیں خیال ہو کہ وہ دوبارہ مسلمانوں کا مقابلہ کریں گے اور فتح حاصل کر لیں گے اس لیے وہ کوئی سفارش لے کر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر نہ ہوئے.یا پھر ان کے ایک ماہ تک نہ آنے کی یہ وجہ ہو کہ انہیں یہ امید ہو کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے قبیلہ میں پرورش پانے اور دودھ کے تعلق کی وجہ سے آپ ہی آپ ہمیں معاف فرما دیں گے.بہر حال رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں نے تمہارا ایک ماہ تک انتظار کیا ہے لیکن جب تم نہ آئے تو میں نے اموال اور قیدی کی مسلمانوں میں تقسیم کر دیئے.اب دوباتوں میں سے ایک اختیار کر لو.یا تو تم اپنے قیدی

Page 589

$1956 576 خطبات محمود جلد نمبر 37 چھڑ والو یا اپنے اموال واپس لے لو.انہوں نے کہا ہم اپنی قوم سے مشورہ کر لیں.چنانچہ وہ قوم کے سرداروں کے پاس گئیں اور کہا اس وقت تمہیں یا تو قیدی مل سکتے ہیں اور یا اموال مل ہیں.تم جو چیز پسند کرو واپس لے لو.انہوں نے کہا ہمارے قیدی ہمیں واپس کر دیئے جائیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کو جمع کیا اور فرمایا اس قوم کے مجھ پر بہت سے احسانات ہیں.ان کی ایک عورت نے مجھے دودھ پلایا ہے اور میری پرورش کی ہے.اب وہ میرے پاس آئے ہیں اور چاہتے ہیں کہ میں ان کے اموال اور قیدی واپس کر دوں لیکن چونکہ وہ دیر سے آئے ہیں اس لیے میں نے ان کے سامنے یہ بات رکھی ہے کہ یا تو قیدی چھڑوا لو اور یا اپنے اموال واپس لے لو.صحابہ نے عرض کیا یا رَسُولَ الله ! اگر اس قوم کے آپ پر احسانات ہیں تو ہم پر بھی احسانات ہیں.ہم ان کے قیدی چھوڑنے کے لیے بھی تیار ہیں اور ان کے اموال بھی واپس لوٹا دیں گے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا دیر سے آنے کی سے میں نے انہیں دوباتوں میں سے ایک کے انتخاب کرنے کا اختیار دیا تھا کہ یا تو وہ اپنے قیدی چھڑوا لیں اور یا اپنے اموال واپس لے لیں اور انہوں نے قیدی چھڑوانے کو پسند کیا ہے.چنانچہ تم ان کے قیدی انہیں دے دو اور بھیڑ، بکریاں، اونٹ اور دوسرے اموال اپنے پاس رکھو.چنانچہ صحابہ نے سب قیدیوں کو آزاد کر دیا.تو فَلْيَسْتَجِبْوَانِي وَلْيُؤْمِنُوالی کا یہ عظیم الشان نمونہ تھا جو صحابہ نے دکھایا.صحابہ کے سوا اور کوئی قوم نہیں جو جنگ حنین کے سے خطرناک موقع پر خطرہ میں کود پڑی.یہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہی قوم تھی جو بے دست و پا ہو چکی تھی لیکن جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز اُس کے کان میں پڑی تو وہ خطرہ کی پرواہ نہ کرتے ہوئے پروانہ وار آپ کے ارد گرد جمع ہو گئی.حضرت موسی علیہ السلام کی قوم نے آپ سے کہہ دیا تھا کہ فَاذْهَبْ أَنْتَ وَرَبُّكَ فَقَاتِلَا إِنَّا هُهُنَا قُعِدُونَ 6 کہ تُو اور تیرا خدا جا کر لڑو.ہم یہیں بیٹھے ہیں.اُس وقت کوئی لڑائی بھی نہیں تھی صرف ایک قوم کو سامنے دیکھ کر انہوں نے یہ کہہ دیا تھا لیکن رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قوم نے عین جنگ کے موقع ہے اُس کے قدم اکھڑ چکے تھے اور اُس کی سواریاں پیچھے بھاگی جا رہی تھیں اور باو جب باوجود

Page 590

$1956 577 خطبات محمود جلد نمبر 37 پورا زور لگانے کے وہ واپس نہیں مڑتی تھیں یہ نمونہ دکھایا کہ جونہی اُس کے کان میں یہ آواز پڑی کہ خدا کا رسول تمہیں بلاتا ہے تو وہ اپنے گھوڑوں اور اونٹوں کو خالی چھوڑ کر یا ان کی گردنیں کاٹ کر پیدل اس آواز کی طرف بھاگ پڑے اور آنا فانا آپ کے گرد جمع ہو گئے.اور پھر وہ اس یقین کے ساتھ وہاں جمع ہوئے کہ اگر خدا تعالیٰ کا رسول ہمیں بلاتا ہے نہ خدا تعالیٰ بھی وہیں ہو گا.چنانچہ انہوں نے زمین سے لبیک لبیک کہا اور آسمان سے خدا تعالیٰ نے کہا میں تمہاری مدد کے لیے آ گیا ہوں.جب دونوں چیزیں جمع ہو گئیں تو دشمن ڈر گیا.خدا تعالیٰ کے فرشتے مدد کے لیے اُترنے شروع ہوئے اور تھوڑی ہی دیر میں شکست مبدل بفتح ہو گئی غرض یہ ایک عظیم الشان گر ہے جو اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں بیان کیا ہے لیکن مسلمان بدقسمتی سے اس کی طرف توجہ نہیں کرتے.اگر کسی شخص کو یہ معلوم ہو جائے کہ ضلع کا پٹی کمشنر اُس پر مہربان ہے تو وہ اُس کی دہلیز گھسا دیتا ہے لیکن خدا تعالیٰ اسے اپنی طرف بلاتا ہے تو وہ اس کی طرف توجہ نہیں کرتا بلکہ ادھر ادھر جاتا ہے.کبھی کہتا ہے فلاں کے پاس میری سفارش کر دو، کبھی کہتا ہے فلاں کے پاس میری امداد کے لیے درخواست کر دو حالانکہ خدا تعالیٰ کہتا ہے کہ مجھے جو بھی پکارتا ہے أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ.میں اس کی پکار کو سنتا ہوں اور اس کی دعا کو قبول کرتا ہوں.اگر چہ یہ پکار کسی مقرب کی نہیں ہوتی بلکہ ایک مضطرب کی ہوتی ہے یعنی ایسے شخص کی پکار ہوتی ہے جو گھبرا جاتا ہے.جیسا کہ دوسری جگہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اَمَّن يُجِيبُ الْمُضْطَرَّ إِذَا دَعَاهُ 7 کہ جو شخص مضطر ہوتا ہے اور وہ گھبرا کر پکارتا ہے تو کون اسے جواب دیتا ہے.حالانکہ خدا اسے نظر نہیں آ رہا ہوتا اور وہ مبہم طور پر پکار رہا ہوتا ہے لیکن خدا تعالیٰ پھر بھی خیال کر لیتا ہے کہ وہ اسے پکار رہا ہے اور وہ فرضی بات کو حقیقی سمجھ لیتا ہے اور اس کی مدد کرنے لگ جاتا ہے.تو اللہ تعالیٰ نے پنے بندوں کی کامیابی کے لیے ایک بڑا رستہ کھول دیا ہے لیکن بدقسمتی سے مسلمان اس طرف توجہ نہیں کرتے اور اس سے فائدہ نہیں اُٹھاتے.وہ غفلت میں پڑے رہتے ہیں اور نہیں سمجھتے کہ خدا تعالیٰ ان کے بالکل قریب ہے اور ان کی مدد کرنے کے لیے تیار ہے.وہ خود کہتا.سے

Page 591

$1956 578 خطبات محمود جلد نمبر 37 فَانّي قَرِيبٌ میں ہر پکارنے والے کے قریب ہوں.یہ بالکل وہی لفظ ہیں جو 1953ء کے فسادات کے موقع پر میں نے کہے تھے کہ تم مت گھبراؤ میں دیکھ رہا ہوں کہ خدا میری مدد کے لیے آ رہا ہے.نہیں میں دیکھتا ہوں کہ وہ دوڑا چلا آ رہا ہے.اور پھر یہی ہوا کہ عین اُس وقت جب لاہور میں تمام احمدیوں کے قتل کی تجویز ہو رہی تھی وہاں مارشل لاء نافذ کر دیا گیا اور گھنٹوں میں وہ فساد ختم ہو گیا.پس جو شخص اللہ تعالیٰ پر توکل کرتا ہے اللہ تعالیٰ اُس کی مدد کرتا ہے اور اس طرح مدد کرتا ہے کہ دوڑ کر اُس کے پاس آتا ہے.اگر کوئی شخص کسی کو مدد کے لیے پکارے اور وہ تین چار فرلانگ کے فاصلہ پر ہو تو بعض اوقات اُس کے آتے آتے پکارنے والا مر سکتا ہے لیکن خدا تعالیٰ کہتا ہے کہ میں ہر پکارنے والے کے قریب ہوں فاصلہ پر نہیں.اگر کوئی مجھے پکارے گا تو میں فوراً ہاتھ بڑھائی کر اسے اپنی گود میں بٹھا لوں گا دیر کا سوال ہی نہیں ہو گا.مگر افسوس کہ مسلمانوں نے اس قیمتی نسخہ کو چھوڑ دیا ہے جو ان کی بدقسمتی کی علامت ہے.دوستوں کو یاد رکھنا چاہیے کہ خدا تعالیٰ کہتا ہے کہ میں ہر انسان کے قریب ہوں اور.کہ میں ہر پکارنے والے کی پکار کو سنتا ہوں اور جس کے قریب خدا تعالیٰ ہو وہ اکیلا نہیں ہو سکتا.بے شک حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کشفی حالت میں اپنے بازو پر یہ تحریر فرمایا کہ میں اکیلا ہوں اور خدا میرے ساتھ ہے مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ آپ اکیلے تھے بلکہ اس مطلب یہ ہے کہ دنیا کی نظروں میں تو میں اکیلا ہوں لیکن حقیقہ خدا میرے ساتھ ہے.اگر خدا کے ساتھ ہوتے ہوئے بھی کوئی شخص اپنے آپ کو اکیلا کہتا ہے تو اس کی مثال اُس بیوقوف کی سی ہو گی جو اپنے باپ کے ساتھ سفر کر رہا تھا کہ رستہ میں ڈاکہ پڑا اور چور اُن کا مال لوٹ کر لے گئے.جب کسی نے اُس سے پوچھا کہ کیا ہوا؟ تو اُس نے کہا ”چور تے لاٹھی دو جنے میں تے باپو اکلے“.پس جو خدا تعالیٰ کے ساتھ ہوتے ہوئے بھی کہتا ہے میں اکیلا ہوں تو یہ اس کی بیوقوفی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ان الفاظ کے یہ معنے ہیں کہ دنیا کی نظروں میں تو میں اکیلا ہوں لیکن خدا تعالیٰ میرے ساتھ ہے.جیسے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت ابوبکر سے فرمایا تھا لَا تَحْزَنْ إِنَّ اللهَ مَعَنَا - 8 ابوبکر ! گھبرانے

Page 592

$1956 579 خطبات محمود جلد نمبر 37 کی کوئی بات نہیں اللہ تعالیٰ ہمارے ساتھ ہے اور جب اللہ تعالیٰ ہمارے ساتھ ہے تو دس بارہ لفنگوں کی کیا طاقت ہے کہ وہ ہمیں تکلیف پہنچا سکیں.خدا تعالیٰ انہیں خود تباہ کر دے گا.پس حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے کشف میں جو کہا گیا ہے کہ میں اکیلا ہوں اس کا یہی مطلب ہے کہ دنیا کو تو نظر نہیں آتا کہ میرے ساتھ کوئی اور بھی ہے لیکن خدا تعالیٰ میرے ساتھ ہے.اگر وہ مجھ پر حملہ کریں گے تو وہ دیکھ لیں گے کہ خدا تعالیٰ میرے ساتھ ہے میں کامیاب و کامران ہوں گا اور وہ ناکام اور ذلیل ہوں گے.بہر حال قرآن کریم بتاتا ہے کہ ہر شخص جو خدا تعالیٰ کے سامنے جھکے اور اس سے مدد مانگے وہ اس کی مدد کے لیے تیار ہے اور اس کے بالکل قریب ہے.صرف اتنا فرق ہے کہ درجہ کے لحاظ سے وہ کسی کے زیادہ قریب ہوتا ہے اور اس کی جلدی مدد کرتا ہے ورنہ وہ ہے سب کے قریب.صرف وہ اس بات کا انتظار کرتا ہے کہ کوئی اسے پکارے اور جب کوئی اسے پکارتا ہے تو وہ کہتا ہے میں تیری مدد کے لیے تیار ہوں.اب بتاؤ جس کے پاس اتنا بڑا نسخہ موجود ہو اسے بھلا دنیا کا کیا ڈر ہو سکتا ہے.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ہماری جماعت اکیلی ہے باقی سب لوگ ایک طرف ہیں اور ہم دوسری طرف.لیکن اس میں بھی کوئی طیبہ نہیں کہ خدا تعالیٰ ہمارے ساتھ ہے.اس لیے گو ہم دنیا کی نظر میں اکیلے ہیں مگر در حقیقت ہم اکیلے نہیں خدا تعالیٰ ہمارے ساتھ ہے.اور اگر کوئی ہم پر حملہ کرے گا تو وہ ہمیں کوئی نقصان سکے گا کیونکہ ہمارے اور دشمن کے درمیان خدا تعالیٰ حائل ہو جائے گا.اور یہ ظاہر ہے کہ اس کی چوٹ خدا تعالیٰ کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتی بلکہ چوٹ لگانے والے کا ہاتھ خود مفلوج ہو جائے گا اور اس کی چوٹ اُلٹ کر اُسی پر پڑے گی.پہنچا پس اس گر کو یاد رکھو اور قیامت تک اسے یاد رکھتے چلے جاؤ کہ ہر مصیبت پر خدا تعالیٰ کو پکارو.اگر تم ایسا کرو گے تو دنیا میں تم پر کوئی مصیبت ایسی نہیں آ سکتی جس میں خدا تعالیٰ تمہاری مدد نہ کرے اور دشمن کا خطرناک سے خطرناک حملہ بھی خدا تعالیٰ کی مدد کی وجہ سے تمہیں کوئی نقصان نہیں پہنچا سکے گا بشرطیکہ تم حرام خوری نہ کرو، بے ایمانی نہ کرو، بددیانتی نہ کرو، خدا تعالیٰ کا خوف کرو، تقوای کرو، ظلم نہ کرو، کسی پر تعدی نہ کرو، کسی کی ذلت

Page 593

$1956 580 خطبات محمود جلد نمبر 37 اور بدنامی نہ کرو، منافقت نہ دکھاؤ، فساد نہ کرو.اگر تم ایسے ہو جاؤ گے تو ہر قدم پر اور ہر میدان میں خدا تعالیٰ تمہارا ساتھی ہوگا.یہ قرآن کریم کا وعدہ ہے جو اَصْدَقُ الصَّادِقِينَ ہے اور خدا تعالیٰ کا کلام جھوٹا نہیں ہو سکتا.اگر تم اس پر عمل کرو گے تو تم ہمیشہ کامیابی اور بامرادی دیکھو گے اور تمہارا دشمن ناکام و نامراد ہو گا کیونکہ تمہارا دشمن خدا تعالیٰ کو نہیں پکارتا.اُسے کوئی مصیبت پہنچے تو وہ اپنے رشتہ داروں اور دوستوں کو پکارتا ہے.لیکن تم مصیبت کے وقت خدا تعالیٰ کی طرف جھکتے ہو اور اُس سے مدد چاہتے ہو.ہمارے ایک تایا تھے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے چچا کے بیٹے تھے اور آپ کے سخت مخالف تھے اور دہریہ تھے.انہیں آپ سے اتنی ضد تھی کہ ہر موقع پر وہ اپنا بغض نکالتے تھے.آپ نے جب مسیح موعود ہونے کا دعوی کیا تو انہوں نے بھی دعوی کر دیا کہ میں چوہڑوں کا پیر ہوں اور ان کے بزرگوں کا اوتار ہوں.ایک دفعہ لدھیانہ کے بعض چوہڑے جو اپنے پیر سمیت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے مُرید ہو گئے تھے.اپنے پیر سے اجازت لے کر قادیان آئے.مرزا امام دین صاحب کو پتا لگا تو انہوں نے انہیں بلایا ای اور کہا میاں ! ادھر آؤ.جب وہ اُن کے پاس گئے تو انہوں نے کہا میاں ! تم کو کیا ہو گیا ہے کہ تم مرزا غلام احمد کے مرید بن گئے ہو؟ چوڑھوں کا لال بیگ تو میں ہوں.تم مرزا صاحب کے پاس کیوں چلے گئے ہو؟ تمہیں وہاں کیا ملا ہے؟ انہوں نے کہا مرزا صاحب! ہم تو ان پڑھ ہیں.ہمیں اس بات کا علم نہیں کہ ہمیں کیا ملا ہے صرف اتنا علم ہے کہ آپ مغل تھے لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی مخالفت کی وجہ سے چوڑھے کہلانے لگ گئے اور ہم لوگ چوڑھے تھے لیکن مرزا صاحب کو مان لینے کی وجہ سے مرزائی کہلانے لگ گئے ہیں.ہمیں دلائل نہیں آتے صرف اتنا نظر آتا ہے کہ ہم آپ پر ایمان لانے کی وجہ سے مرزا بن گئے ہیں اور آپ مخالفت کرنے کی وجہ سے چوڑھے بن گئے ہیں.مرزا امام دین صاحب کو ایک دفعہ پیٹ درد ہوا.ان دنوں قادیان میں حضرت خلیفہ اول کے سوا اور کوئی طبیب نہیں ہوتا تھا.اس لیے انہوں نے حضرت خلیفہ اسیح الاول کو بلایا.آپ اُن کے گھر تشریف لے گئے.آپ نے دیکھا کہ وہ درد کے مارے دالان میں

Page 594

$1956 581 خطبات محمود جلد نمبر 37 فرش پر کو ٹتے پھرتے ہیں اور کہتے ہیں ہائے اماں! ہائے اماں! حضرت خلیفہ المسیح الاول نے فرمایا مرزا صاحب! اس تکلیف کے وقت بھی آپ خدا تعالیٰ کو نہیں پکارتے اور اپنی والدہ کا نام لیے جا رہے ہیں.وہ کہنے لگے مولوی صاحب !ماں تو میں نے دیکھی ہے لیکن خدا تعالیٰ نظر نہیں آتا.اس لیے میں خدا تعالیٰ کو کیا پکاروں؟ اپنی ماں کو ہی پکارتا ہوں.یہی مومن اور کافر میں فرق ہے.مرزا امام دین صاحب کو پیٹ میں درد ہوا تو انہیں اپنی ماں یاد آئی خدا یاد نہ آیا.لیکن اس کے مقابل پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو ایک دفعہ کھانسی کی سخت تکلیف ہوئی.بہتیرا علاج کیا گیا لیکن آرام نہ آیا.ایک دن کسی نے کچھ کیلے اور سنگترے بھیج دیئے.میں چونکہ آپ کو کو دوا پلایا کرتا تھا اس لیے سمجھتا تھا کہ آپ کی صحت کا ذمہ دار میں ہی ہوں.آپ نے کیلئے دیکھے تو ایک کیلا کھانے کی خواہش کی.میں نے کہا حضور! آپ کو کھانسی کی تکلیف ہے اور دوا کا استعمال کر رہے ہیں اور ابھی تک بیماری میں افاقہ نہیں ہوا.اب آپ کیلا کھا- لگے ہیں اس سے تکلیف بڑھ جائے گی.مگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے میری اس بات کی پرواہ نہ کی اور آپ نے ایک کیلا اُٹھایا اور کھا لیا.بعد میں فرمایا میاں! مجھے اس کیلے کی وجہ سے مرض میں زیادتی کا کوئی ڈر نہیں کیونکہ خدا تعالیٰ نے مجھے بتایا ہے کہ اب مجھے شفا ہو جائے گی.اب دیکھو! مرزا امام دین صاحب بیماری کے وقت اماں لتاں پکارتے تھے لیکن اس کے باوجود انہیں حضرت خلیفہ المسیح الاول کی دوا کی ضرورت پیش آئی.مگر حضرت مسیح موعود الصلوۃ والسلام کو کھانسی کی تکلیف ہوئی اور دواؤں کے باوجود آرام نہ آیا تو آپ نے کیلا کھا لیا اور پھر فرمایا مجھے خدا تعالیٰ نے بتایا ہے کہ مجھے شفا ہو جائے گی اور واقع میں آپ کو شفا ہو گئی.پس جو خدا تعالیٰ کو پکارتا ہے وہ اس کی برکت پاتا ہے اور جو خدا تعالیٰ کو نہیں پکارتا وہ خدا تعالیٰ کی برکت سے محروم رہتا ہے.مسلمانوں کو تیرہ سو سال سے یہ مقام بھولا ہوا تھا.خدا تعالیٰ نے حضرت مرزا صاحب کے ذریعہ انہیں یہ مقام یاد کرایا ہے مگر اب بھی اکثر لوگ سے بھول جاتے ہیں لیکن یہ ایسا ہتھیار ہے کہ توپ و تفنگ بھی اس کا مقابلہ نہیں کر سکتے.کوئی مصیبت تم پر آئے تم خدا تعالیٰ کے سامنے جھک جاؤ اور پھر یقین رکھو کہ خدا تعالیٰ تمہاری مدد کرے گا.اگر تم ایسا کرو تو وہ تمہاری ضرور مدد کرے گا.کہتے ہیں شیر کے سامنے اگر کوئی شخص

Page 595

$1956 582 خطبات محمود جلد نمبر 37 لیٹ جائے تو وہ اُس پر حملہ نہیں کرتا.بلکہ چپکے سے پاس سے گزر جاتا ہے.اسی طرح جو شخص خدا تعالیٰ کے سامنے جھک جائے اور اُس کے آستانہ پر گر پڑے تو وہ بھی اس کو مرنے نہیں دیتا ہے اور سمجھتا ہے کہ اس کی ذلت میری ذلت ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ہمیشہ اپنے والد صاحب کا ایک قصہ سنایا کرتے تھے.میاں بدر محی الدین صاحب جو بٹالہ کے رہنے والے تھے اُن کے والد جن کا نام غالباً پیر غلام محی الدین تھا ہمارے دادا کے بڑے دوست تھے.اُس زمانہ میں لاہور کی بجائے امرتسر میں کمشنری تھی اور کمشنر موجودہ زمانہ کے گورنر کی طرح سمجھا جاتا تھا اور امرتسر میں اپنا دربار لگایا کرتا تھا.جس میں علاقہ کے تمام بڑے بڑے رؤساء شامل ہوا کرتے تھے.ایک دفعہ امرتسر میں دربار لگا تو ہمارے دادا کو بھی دعوت آئی اور چونکہ انہیں معلوم تھا کہ پیر غلام محی الدین صاحب بھی اس دربار میں شامل ہوں گے اس لیے وہ گھوڑے پر سوار ہو کر بٹالہ میں ان کے مکان پر پہنچے.وہاں انہوں نے دیکھا کہ ایک غریب آدمی پیر غلام محی الدین صاحب کے پاس کھڑا ہے اور وہ اس سے کسی بات پر بحث کر رہے ہیں.جب انہوں نے دادا صاحب کو دیکھا تو کہنے لگے مرزا صاحب! دیکھیے یہ میراثی کیسا بیوقوف ہے.کمشنر صاحب کا دربار منعقد ہو رہا ہے اور یہ کہتا ہے کہ وہاں جا کر کمشنر صاحب سے کہا جائے کہ گورنمنٹ نے اس کی پچپیس ایکڑ زمین ضبط کر لی ہے.یہ زمین اسے واپس دے دی جائے.بھلا یہ کوئی بات ہے کہ دربار کا موقع ہو اور کمشنر صاحب تشریف لائے ہوئے ہوں اور ایک میراثی کو اُن کے سامنے پیش کیا جائے اور سفارش کی جائے کہ اس کی چھپیس ایکڑ زمین جو اسے اس کے کسی جمان نے دی تھی ضبط ہو گئی ہے اسے واپس دی جائے.چونکہ وہ پیر تھے گو درباری بھی تھے اس لیے انہیں یہ بات بہت عجیب معلوم ہوئی.دادا صاحب نے اُس میراثی سے کہا کہ تم میرے ساتھ چلو.چنانچہ وہ اسے ساتھ لے کر امرتسر پہنچے.جب کمشنر صاحب دربار میں آئے تو درباریوں کا اُن سے تعارف کرایا جانے لگا.جب دادا صاحب کی باری آئی تو انہوں نے کمشنر صاحب سے کہا کہ ذرا اس میراثی کی بانہہ پکڑ لیں.وہ کہنے لگا مرزا صاحب! اس کا کیا مطلب؟ انہوں نے کہا آپ اس کی بانہہ پکڑ لیں میں اس کا مطلب بعد میں بتاؤں گا.

Page 596

$1956 583 خطبات محمود جلد نمبر 37 چنانچہ اُن کے کہنے پر اس نے اس میراثی کی بانہہ پکڑ لی.اس پر ہمارے دادا صاحب کہنے لگے ہماری پنجابی زبان میں ایک مثال ہے کہ ”با نہ پھڑے دی لاج رکھنا“.کمشنر پھر حیران ہوا کہنے لگا مرزا صاحب! اس کا کیا مطلب ہے؟ اس پر دادا صاحب نے کہا اس کا یہ مطلب ہے کہ جب آپ نے ایک شخص کا بازو پکڑا ہے تو پھر اس بازو پکڑنے کی لاج بھی رکھنا اور اسے چھوڑ نا نہیں.وہ کہنے لگا مرزا صاحب! آپ یہ بتائیں کہ اس سے آپ کا مقصد کیا ہے؟ انہوں نے کہا اس کی چھپیس ایکڑ زمین تھی جو اسے اس کے کسی عجمان نے دی تھی اور حکومت نے اسے ضبط کرنے کا حکم دے دیا ہے.ہمارے مغل بادشاہ جب دربار لگایا کرتے تھے تو اُس موقع پر ہزاروں ایکڑ زمین لوگوں کو بطور انعام دیا کرتے تھے لیکن یہ غریب حیران ہے کہ اس کے پاس جو پچھپیں ایکٹر زمین تھی وہ ضبط کر لی گئی ہے.کمشنر پر اس بات کا ایسا اثر ہوا اور اُس نے نے اُسی وقت اپنے منشی کو بلایا اور کہا یہ بات نوٹ کر لو اور حکم دے دو کہ اس شخص کی زمین ضبط نہ کی جائے.اب دیکھو دنیا میں جب ایک انسان بھی ”بانہہ پھڑے دی لاج رکھتا ہے تو خدا تعالیٰ ’بانہہ پھڑے دی لاج کیوں نہیں رکھے گا ؟ جو خدا تعالیٰ کا ہو جاتا ہے خدا تعالیٰ اُسے کبھی نہیں چھوڑتا.پس دعا ئیں کرو اور اس گر پر قائم رہو.جو شخص اس گر پر عمل کرتا ہے دنیا کی کوئی طاقت اس کا مقابلہ نہیں کر سکتی اور وہ ہمیشہ اپنے دشمن پر غالب رہتا ہے.خطبہ ثانیہ کے بعد حضور نے فرمایا: ’باہر ایک جنازہ پڑا ہے.یہ جنازہ سیالکوٹ سے آیا ہے.چند دن ہوئے وہاں ایک ނ خطرناک حادثہ ہوا اور جس خاندان میں یہ حادثہ ہوا وہ احمدیت کے قبول کرنے کے لحاظ - ضلع سیالکوٹ میں اول نمبر پر تھا یعنی میر حامد شاہ صاحب مرحوم کا خاندان.اور پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام جب سیالکوٹ تشریف لے گئے تو اُس وقت بھی اسی خاندان میں ہی ٹھہرے تھے.سید ناصر شاہ صاحب مرحوم جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام کے صحابہ میں سے تھے ان کے ایک لڑکے کی وہاں شادی تھی.ہمارے ملک میں رواج ہے کہ عورتیں دولہا کو اندر بلا لیتی ہیں اور اسے تحفے وغیرہ دیتی ہیں.چنانچہ اسی دستور کے مطابق عورتوں نے دولہا کو مکان کی دوسری منزل پر بلایا.ابھی عورتیں دولہا کو تحائف ہی دے

Page 597

خطبات محمود جلد نمبر 37 584 $1956 رہی تھیں کہ اوپر کی چھت نیچے آ گری اور پھر اُس چھت کے بوجھ کی وجہ - وجہ سے نیچے کی چھت بھی گر گئی.نیچے مرد تھے.ان میں سے بھی ایک بڑی تعداد زخمی ہوئی اور اوپر کی چھت پر جو عورتیں تھیں اُن میں سے بھی کچھ زخمی ہوئیں اور کچھ فوت ہو گئیں.چنانچہ دو جنازے پہلے آئے تھے اور ایک نعش آج آئی ہے.یہ نعش سید ناصر شاہ صاحب کی اہلیہ کی ہے.ان کے لڑکے کی شادی تھی اور اسی سلسلہ میں یہ وہاں گئی تھیں.چھت گرنے کی وجہ سے زخمی ہوئیں اور بعد میں فوت ہو گئیں.نماز کے بعد میں ان کا جنازہ پڑھاؤں گا.دوست جنازہ میں شامل ہوں اور مرحومہ کے درجات کی بلندی اور اس کی مغفرت کے لیے دعا کریں“.1 : البقرة: 187 2 : تذکرہ صفحہ 172 ایڈیشن چہارم (الفضل یکم مارچ 1957ء) بخاری کتاب التوحید باب قول الله تعالى و يحذرُكُم الله نفسه :4 مسلم كتاب الجهاد باب غزوة حنين 5 : سیرت ابن ہشام جلد 2 صفحہ 1240 مطبوعہ دمشق 2005ء 6: المائدة: 25 7 : النمل: 63 8 التوبة: 40

Page 598

$1956 585 50 خطبات محمود جلد نمبر 37 يَا يُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِى الْأَمْرِ مِنْكُمْ * یہ آیت بتاتی ہے کہ امام کی کامل اطاعت نظام کو قائم رکھنے اور کامیابی حاصل کرنے کا بڑا بھاری گر ہے فرموده 21 دسمبر 1956ء بمقام ربوہ) تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور نے مندرجہ ذیل آیت قرآنیہ کی تلاوت فرمائی: يَا يُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنْكُمْ ! اس کے بعد فرمایا: "غزوہ اُحد ہمارے لیے اپنے اندر بہت سے سبق رکھتا ہے.چنانچہ اس کے ایک واقعہ کی طرف اس آیت میں اشارہ کیا گیا ہے جو میں نے ابھی تلاوت کی ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب جنگِ اُحد کے لیے تشریف لے گئے تو آپ نے تجویز کیا کہ اسلامی لشکر پنے پیچھے پہاڑ رکھ لے تاکہ دشمن پیچھے سے حملہ آور نہ ہو سکے.ایک پہاڑی درہ پر جہاں سے دشمن کے آنے کا امکان ہوسکتا تھا آپ نے پچاس سپاہیوں کو اس کی حفاظت کے لیے کھڑا کر دیا اور سپاہیوں کے افسر کو تاکید کی کہ یہ درہ اتنا ضروری ہے کہ خواہ ہم مارے جائیں یا جیت جائیں تم نے اس جگہ سے نہیں ہلنا.لڑائی شروع ہوئی تو پہلے ہی ہلہ میں مسلمانوں کو فتح ہی

Page 599

$1956 586 خطبات محمود جلد نمبر 37 میں نصیب ہوئی اور کفار میدان سے بھاگ نکلے.حضرت خالد اور حضرت عمرو بن العاص اُس وقت تک مسلمان نہیں ہوئے تھے.جب کفار بھاگے اور مسلمان اُن کے پیچھے دوڑے تو درہ پر متعین سپاہیوں نے اپنے افسر سے کہا کہ اب تو دشمن کو شکست ہو چکی ہے اب ہمیں بھی جہاد حصہ لینے کا موقع دیا جائے.افسر نے اُن کو اس بات سے روکا اور کہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ خواہ کچھ ہو جائے ہم مارے جائیں یا جیت جائیں تم نے اس جگہ سے نہیں ہلنا.اس لیے میں تمہیں درہ چھوڑنے کی اجازت نہیں دے سکتا.انہوں نے کہا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ مطلب تو نہیں تھا کہ ہم فتح کے بعد بھی اس جگہ سے نہ ہلیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا تو یہ مطلب تھا کہ دشمن سے اس درہ کی حفاظت کی جائے.لیکن اب تو دشمن بھاگ چکا ہے اور مسلمانوں کو فتح ہو چکی ہے اب یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ ہم یہیں ٹھہرے رہیں.افسر نے کہا تم جو چاہو کرو لیکن میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کی وجہ سے یہاں سے نہیں ہلوں گا.معلوم ہوتا ہے کہ وہ ماتحت سپاہی پیغامی قسم کے تھے.انہوں نے خیال کیا کہ ہم تو معقول بات مانیں گے غیر معقول بات نہیں مانیں گے.اگر افسر کی ہر بات کو مان لیا جائے تو یہ شرک ہو جاتا ہے.اس وقت ہمارا افسر کہتا ہے کہ بیشک مسلمانوں کو فتح ہو گئی ہے اور کفار بھاگ گئے ہیں لیکن تم یہاں سے نہ ہلو.یہ حکم معقول نہیں.ہم اپنی عقل سے کام لیں گے اور جہاد میں حصہ لے کر ثواب حاصل کریں گے.اب فیوچر (FUTURE) کو کون جان سکتا ہے.حال کو تو ہر شخص جانتا ہے.لیکن یہ بات مستقبل تعلق رکھتی تھی اور مستقبل کا علم نہ اُس افسر کو تھا اور نہ ماتحتوں کو.دونوں فریق نہیں جانتے تھے کہ آئندہ کیا ہو گا لیکن افسر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کی وجہ سے اس بات پر اصرار کر رہا تھا کہ اس جگہ سے نہ ہلا جائے اور ماتحت سپاہیوں کا خیال تھا کہ ہم تو صرف معروف میں اس کی اطاعت کریں گے اور معقول بات مانیں گے.غیر معقول بات کی اطاعت نہیں کریں گے.دشمن بھاگ چکا ہے اور مسلمان فوج کو فتح حاصل ہو چکی ہے.اب یہاں ٹھہرنا غیر معقول بات ہے جسے ہم ماننے سے قاصر ہیں.ہم جہاد میں حصہ لیں گے اور اس طرح ثواب حاصل کریں گے.گویا انہوں نے اپنی طرف رحمانی اور افسر کی طرف شیطانی بات

Page 600

$1956 587 خطبات محمود جلد نمبر 37 منسوب کی.بہر حال وہ افسر کو اکیلا چھوڑ کر نیچے آگئے.حضرت خالد کی نظر دوڑتے ہوئے اس وڑہ پر پڑی.جب انہوں نے اسے خالی پایا تو انہوں نے حضرت عمرو بن العاص کو بلایا.دونوں جرنیلوں نے اپنے بھاگتے ہوئے دستوں کو پھر سنبھالا اور اسلامی لشکر کا بازو کاٹتے ہوئے پہاڑ پر چڑھ گئے.جب درّہ پر پہنچے تو افسر کے ساتھ صرف چند سپاہی تھے جو درہ کی حفاظت کے لیے کھڑے تھے باقی سپاہی نیچے جاچکے تھے.دشمن فوج نے ان پر حملہ کر کے انہیں ٹکڑے ٹکڑے کر دیا اور اس کے بعد پشت پر سے اسلامی لشکر پر حملہ آور ہو گئے.مسلمان سپاہی اُس وقت بکھرے ہوئے تھے.فوج کا ایک حصہ غنیمت کا مال جمع کر رہا تھا اور ایک حصہ دشمن فوج کا تعاقب کر رہا تھا اور مسلمان مطمئن تھے کہ درہ پر متعین دستہ کی وجہ سے اُن کی پشت محفوظ ہے.اس لیے جب اچانک حملہ ہوا تو منتشر اسلامی فوج مقابلہ کی تاب نہ لا کر بھاگ نکلی.صرف چند صحابہ دوڑ کر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارد گرد جمع ہو گئے اور دشمن نے اُس مقام پر جہاں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے تھے شدت کے ساتھ حملہ کر دیا جس کی وجہ سے آپ کی حفاظت کرنے والے صحابہ میں سے بڑی تعداد شہید ہو گئی اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی زخمی ہو گئے اور صحابہ کو یہ خیال پیدا ہو گیا کہ آپ شہید ہو گئے ہیں.یہاں تک کہ یہ خبر مدینہ میں بھی جا پہنچی.اس پر عورتوں اور بچوں میں بھی سخت کرب پیدا ہو گیا اور وہ دیوانہ وار اُحد کی طرف دوڑ پڑے.یہ سارا نتیجہ صرف پیغامیت کا تھا.اگر بعض لوگوں کے دلوں میں یہ پیغامی عقیدہ نہ ہوتا کہ ہم نے صرف معقول بات ماننی ہے تو مسلمانوں کو فتح کے بعد شکست نہ ہوتی اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کو تکلیف نہ پہنچتی.بہر حال درہ کی حفاظت کرنے والوں نے پیغامی عقیدہ کے ماتحت افسر کی بات ماننے سے انکار کر دیا.حالانکہ انہیں پتا نہیں تھا کہ معقول بات کونسی ہے.افسر کا حکم معقول ہے یا وہ بات جو وہ کہہ رہے ہیں وہ معقول ہے.کیونکہ یہ بات مستقبل کے متعلق تھی اور مستقبل کا علم نہ افسر کو تھا اور نہ ماتحت سپاہیوں کو.اگر تم یہ کہو کہ امام اگر چوری کا حکم دے تو کیا پھر بھی اُس کی اطاعت کی جائے گی تو ہم کہتے ہیں کہ..ہوگی وہ امام ہی کب رہے گا جو یہ کہے کہ چوری کرو.آخر وہ ایسی ہی بات کہے گا جو اجتہادی ہو گی

Page 601

$1956 588 خطبات محمود جلد نمبر 37 پرچم اور اجتہادی بات وہی ہو گی جو مستقبل سے تعلق رکھتی ہو گی اور مستقبل کا علم نہ امام کو ہوتا ہے اور نہ مقتدی کو ہوتا ہے تو پھر اختلاف کس بات کا رہا.امام ایک ایسے زمانہ کے متعلق بات کہتا ہے ہے جس کا نہ اُسے علم ہے اور نہ مقتدی اسے جانتے ہیں.پھر ماتحت کو کس نے اجازت دی ہے کہ وہ کہے کہ میں تو اپنی عقل کے مطابق کام کروں گا اور امام کی بات نہیں مانوں گا.اگر وہ ایسا کرے گا تو نتیجہ وہی ہو گا جو اُحد کے واقعہ میں ہوا.اُحد کی جنگ میں جب بعض مسلمانوں نے پیغامیت کا مظاہرہ کیا تو اس کے نتیجہ میں دشمن شکست کے بعد جیتا.کفار پیچھے کی طرف مسلمانوں پر حملہ آور ہوئے اور انہیں بھاگنے پر مجبور کر دیا گیا.یہاں تک کہ انہوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے متعلق بھی خیال کر لیا کہ آپ شہید ہو گئے ہیں.گو خدا تعالیٰ نے وَاللهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ 2 کی پیشگوئی کے مطابق آپ کو بچا لیا لیکن یہ خبر مدینہ میں بھی جا پہنچی کہ آپ شہید ہو گئے ہیں.چنانچہ ابوسفیان نے اُس وقت بڑے زور سے پکارا اور کہا ہم نے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مار دیا ہے.گویا اُس نے فخر سے اس بات کا اعلان کیا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شہادت اسلام کے جھوٹا ہونے کا ثبوت ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ابوسفیان کی بات کا جواب نہ دیا تا ایسا نہ ہو کہ دشمن حقیقت حال سے واقف ہو کر پھر حملہ کر دے.جب اسلامی لشکر کی طرف سے اس بات کا کوئی جواب نہ ملا تو ابوسفیان کو یقین ہو گیا کہ اُس کا خیال درسہ درست ہے.پھر اس نے بڑے زور سے پکار کر کہا کہ ہم نے ابوبکر کو بھی مار دیا ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت ابو بکر کو بھی حکم دیا کہ کوئی جواب نہ دیں.پھر ابوسفیان نے بلند آواز سے کہا کہ ہم نے عمر کو بھی مار دیا ہے.حضرت عمر نے جو بہت جوشیلے تھے اس کے جواب میں یہ کہنا کی چاہا کہ ہم لوگ خدا تعالیٰ کے فضل سے زندہ ہیں اور تمہارا سر توڑنے کے لیے موجود ہیں مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا عمر! خاموش رہو اور مسلمانوں کو تکلیف میں نہ ڈالو.جب ابوسفیان کو یقین ہو گیا کہ انہوں نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، حضرت ابوبکر اور حضرت عمر تینوں کو شہید کر دیا ہے تو اُس نے بلند آواز سے کہا لَنَا عُزی وَلَا عُزّى لَكُمْ دیکھو! غربڑی دیوتا ہمارے ساتھ ہے تمہارے ساتھ کوئی عربی نہیں.اس پر

Page 602

$1956 589 خطبات محمود جلد نمبر 37 رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صحابہ سے فرمایا تم لوگ جواب کیوں نہیں دیتے.صحابہؓ نے عرض کیا یا رَسُولَ اللہ ! ہم کیا کہیں؟ آپ نے فرمایا کہو لَنَا مَوْلَى وَلَا مَوْلى كم خدا تعالیٰ ہمارا والی اور نگران ہے لیکن تمہارا کوئی والی اور نگران نہیں.چنانچہ آپ کی یہ ت سچی نکلی.مسلمان پھر جمع ہوئے اور انہوں نے کفار کو شکست دے دی.غرض جنگِ اُحد میں جو شکست مسلمانوں کو اُٹھانی پڑی وہ محض پیغامی عقیدہ کی وجہ سے تھی.اگر اس وقت کوئی پیغامی عقیدہ نہ ہوتا اور وہ لوگ سمجھتے کہ ہمیں تو اُولِی الْاَمْرِ مِنْكُمْ کی اطاعت کا حکم ہے اور یہ نہ کہہ دیتے کہ فتح کے بعد بھی اس مقام پر کھڑے رہنا بیوقوفی ہے تو مسلمانوں کو شکست نہ اُٹھانی پڑتی لیکن ان لوگوں نے پیغامی عقیدہ کے ماتحت اپنے افسر کی بات نہ مانی اور اپنی جگہ سے ہٹ گئے.نتیجہ یہ ہوا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم زخمی ہو گئے اور ایسی حالت میں مبتلا ہوئے کہ صحابہ کو خیال پیدا ہوا کہ آپ شہید ہو گئے ہیں.پیغامی عقیدہ یہی ہے کہ ہر بات میں اطاعت کرنی ناجائز ہے.لیکن سوال یہ ہے کہ ہر بات کے یہ کہاں معنے ہیں کہ چوری یا زنا کا حکم بھی اس میں شامل سمجھ لیا جائے.اگر کوئی امام چوری یا زنا کا حکم دے گا تو وہ آپ ہی اپنے آپ کو اسلام سے خارج کر لے گا.اطاعت کے مفہوم میں بہر حال وہی سوال آئے گا جو شریعت کے مطابق ہوگا اور یہ سیدھی بات ہے کہ ایسے امور میں اگر نظام کو قائم رکھنا ہے تو امام کی بات مانی جائے گی کیونکہ کسی کو کیا علم ہے کہ مستقبل میں کیا ہونے والا ہے.نہ امام کو مستقبل کا علم ہو سکتا ہے اور نہ مقتدی کو.پھر یہ کیونکر سمجھ لیا جائے کہ امام کو تو مستقبل کا علم نہیں صرف مقتدی کو مستقبل کا علم ہے.اس لیے مقتدی اس بات کا حق رکھتا ہے کہ وہ مستقبل کے متعلق فیصلہ کر لے اور امام کے خلاف کھڑا ہو جائے لیکن امام اس بات کا حق نہیں رکھتا کہ وہ مستقبل کے متعلق کوئی اندازہ کی لگائے اور مقتدیوں کو کوئی حکم دے.اگر مستقبل کا کوئی پتا نہیں لگ سکتا تو نہ امام کو اس کا پتا لگ سکتا ہے اور نہ مقتدی کو اس کا علم ہو سکتا ہے.اور اگر مستقبل کا پتا لگ سکتا ہے تو امام کو بھی اس کا پتا لگ سکتا ہے اور مقتدی کو بھی اس کا علم ہوسکتا ہے.گویا اگر مستقبل کا پتا نہیں لگ سکتا تو امام اور مقتدی دونوں کو نہیں لگ سکتا اور اگر پتا لگ سکتا ہے.تو امام اور مقتدی دونوں کو

Page 603

$1956 590 خطبات محمود جلد نمبر 37 ย لگ سکتا ہے.اگر مستقبل کا علم دونوں کو ہو سکتا ہے تب بھی دونوں برابر ہو گئے اور اس صورت میں أُولِی الْأَمْرِ مِنكُمْ کے ماتحت امام کے حکم کی اطاعت فرض ہو گئی.اور اگر دونوں کو پتا نہیں لگ سکتا تب بھی دونوں برابر ہو گئے اور اُولِی الْاَمْرِ مِنْكُمْ کے ماتحت امام کے حکم کی اطاعت لازمی ہو گئی.اور اُحد کی عملی مثال ہمارے سامنے موجود ہے کہ درہ پر متعین سپاہیوں نے ا.افسر کے سامنے عقلی دلیل پیش کی اور اس عقلی دلیل سے انہوں نے خیال کیا کہ ان کے افسر کا حکم غلط ہے اور ہم نے جو بات سمجھی ہے وہ معقول ہے مگر باوجود اس کے کہ انہوں نے اپنے نزدیک ایک معقول بات پر عمل کیا اُن کی بات غلط نکلی اور افسر کی بات ٹھیک نکلی.اور نتیجہ یہ نکلا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو شدید تکلیف پہنچی اور پھر صحابہ کو بھی اتنی تکلیف پہنچی کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے متعلق خیال کر لیا گیا کہ آپ شہید ہو گئے ہیں.آپ کی خود کا رکیل آپ کی پیشانی میں گھس گیا اور ایک صحابی حضرت ابوعبیدہ بن جراح نے اپنے دانتوں سے اسے نکالا جس کی وجہ سے اُن کے دو دانت ٹوٹ گئے اور صحابہ کو آپ کی اس طرح حفاظت کرنی پڑی کہ حضرت طلحہ کے متعلق آتا ہے کہ وہ آپ کے چہرہ کے سامنے اپنا ہاتھ سیدھا کر کے کھڑے ہو گئے.دشمن نے خیال کیا کہ وہیں تیر مارنے چاہیں جہاں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کھڑے ہیں کیونکہ وہی ایک مرکزی نقطہ ہیں.اگر وہ ختم ہو گئے تو اسلام ختم ہو جائے گا.حضرت طلحہ نے جب دیکھا کہ چاروں طرف سے تیر آپ پر پڑ رہے ہیں تو وہ آگے آئے اور آپ کے چہرہ کے آگے انہوں نے اپنا ہاتھ کھڑا کر دیا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر تیر پڑتے تھے لیکن حضرت طلحہ انہیں اپنے ہاتھ پر روک سکی لیتے تھے.جنگ اُحد کے بعد کسی نے حضرت طلحہ سے دریافت کیا کہ جب تیر آپ کے ہاتھ ہے پڑ رہے تھے تو کیا آپ کو درد نہیں ہوتی تھی اور کیا آپ کے منہ سے اُفت نہیں نکلتی تھی؟ حضرت طلحہ نے جواب دیا درد بھی ہوتی تھی اور اُف بھی نکلنا چاہتی تھی لیکن میں اُف کرتا نہیں تھا.تا ایسا نہ ہو کہ اُف کرتے وقت میرا ہاتھ ہل جائے اور تیر رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چہرہ پر آ گرے.اب تم سوچ لو کہ گجا یہ کہ اگر کسی کے ہاتھ میں ایک معمولی کے ہاتھ میں ایک معمولی سی سوئی بھی پجھ جائے

Page 604

$1956 591 خطبات محمود جلد نمبر 37 تو وہ اسے برداشت نہیں کر سکتا اور گجا یہ کہ ایک شخص آدھ گھنٹہ یا پون گھنٹہ اپنا ہاتھ سیدھا کر کے کھڑا رہے اور چاروں طرف سے اُس پر تیر گر رہے ہوں اور وہ اُف تک نہ کرے.پھر اس بات کو بھی سوچو کہ تیر کا کافی وزن ہوتا ہے اور اُس کا آخری سرا زیادہ بھاری ہوتا ہے.اب تصور کرو کہ تیر کا اگلا سرا تو زخم میں چھا ہوا ہو اور دوسرا سر ا نیچے لٹک رہا ہو تو کتنی تکلیف ہو گی.پھر وہاں ایک تیر نہیں تھا بلکہ چار چار، پانچ پانچ تیر ایک ہی وقت میں حضرت طلحہ کے ہاتھ میں پچھے ہوتے تھے اور اُن کے دوسرے سرے نیچے لٹک رہے ہوتے تھے لیکن پھر بھی وہ ہیں کہ میں نے اُف تک نہیں کی اور اس لیے اُف نہیں کی کہ کہیں اُف کرنے سے میرا ہاتھ نہ ہل جائے اور تیر بجائے میرے ہاتھ پر پڑنے کے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چہرہ مبارک پر نہ پڑیں.غرض اس قدر تکلیف جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور مسلمانوں کو پہنچی وہ صرف چند پیغامی عقیدہ رکھنے والوں کی وجہ سے پہنچی.ان چند پیغامیوں نے یہ کہا کہ یہ شرک ہے کہ کسی کی ہر بات مان لی جائے اور اس پر اعتراض نہ کیا جائے.جیسے آجکل پیغامی لوگ مجھ پر اعتراض کرتے ہیں کہ یہ کہتا ہے کہ اگر کوئی شخص مجھ پر سچا اعتراض بھی کرے گا تو وہ گنہگار ہو گا.اب دیکھو جنگ اُحد میں درہ کی حفاظت پر متعین لوگوں نے سچا اعتراض کیا تھا یا نہیں؟ پھر وہ گنہگار ہوئے یا نہیں؟ انہوں نے اپنے افسر پر سچا اعتراض کیا اور کہا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ منشا نہیں ہو سکتا تھا کہ جنگ ختم بھی ہو جائے تب بھی تم اس درّہ پر کھڑے رہو.پس انہوں نے اپنے افسر پر سچا اعتراض کیا تھا مگر پھر بھی گنہگار ہوئے اور قرآن کریم میں اُن کے اِس گناہ کا ذکر کرتے ہوئے خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ مسلمانوں مصیبت اس لیے نازل ہوئی کہ ان لوگوں سے غلطی ہوئی اور وہ افسر کے کہنے کے باوجود دره چھوڑ کر نیچے آ گئے.غرض جنگ اُحد اس بات کی مثال ہے کہ بعض لوگوں نے اپنے افسر پر سچا اعتراض کیا اور پھر بھی گنہگار ہوئے.اگر فتح ہو جاتی اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم.ނ پوچھا جاتا کہ يَارَسُولَ اللہ کیا آپ کا یہ منشا تھا کہ اسلامی لشکر کو فتح بھی ہو جائے اور دشمن مالی بھاگ جائے تب بھی ہم درّہ پر کھڑے رہیں؟ تو ممکن ہے کہ آپ فرماتے کہ یہ تو بیوقوفی کی

Page 605

$1956 592 خطبات محمود جلد نمبر 37 ات ہے.میرا منشا یہ نہیں تھا کہ تم لوگ فتح کے بعد بھی وہاں کھڑے رہو.گویا اگر کوئی ناگوار کی واقعہ پیش نہ آتا تو ممکن تھا رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی اُن لوگوں کی ہی تائید کرتے جو درہ چھوڑ کر نیچے آگئے تھے مگر چونکہ یہ بات مستقبل سے تعلق رکھتی تھی اور کسی کو یہ پتا نہیں تھا کہ دشمن واپس لوٹے گا.اس لیے ماتحتوں نے غلطی کھائی ورنہ بظاہر فتح کے بعد رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے بھی یہ بات کہی جاتی تو ہوسکتا تھا کہ آپ اعتراض کرنے والوں کی بات کی ہی تصدیق کرتے اور فرماتے کہ یہ تو بیوقوفی کی بات ہے کہ دشمن بھاگ کر مکہ بھی پہنچ جائے تب بھی تم وہیں کھڑے رہو.اس لیے میرے حکم کا یہ مطلب نہیں تھا کہ تم فتح ونے کے بعد بھی وہیں کھڑے رہو.مگر سوال تو یہ ہے کہ آیا کسی کو غیب کا علم تھا اور اسے معلوم تھا کہ کفار بھاگ کر مکہ پہنچ جائیں گے اور اسلامی لشکر فتح کے نقارے بجاتا ہوا مدینہ پہنچ جائے گا؟ یہ کسی کو بھی علم نہیں تھا.ہاں! نظر یہ آ رہا تھا کہ دشمن بھاگا جا رہا ہے اور مسلمانوں کو فتح ہو گئی ہے.مسلمان کفار کو مار رہے ہیں اور انہیں ٹوٹ رہے ہیں.اس نظارہ کو دیکھتے ہو.درہ سے اُتر آنے والوں کا قیاس بظاہر صحیح تھا اور اُن کے افسر کا قیاس بظاہر غلط تھا.مگر باوجود اس کے کہ اُن کے افسر کا قیاس بظاہر غلط تھا پھر بھی خدا تعالیٰ کہتا ہے کہ ان لوگوں نے اپنے افسر کی بات کیوں نہیں مانی؟ اور چونکہ انہوں نے اپنے افسر کی بات نہ مانی اس لیے اللہ تعالیٰ نے انہیں سزا دی اور مسلمانوں کی فتح کو ایک عارضی شکست میں بدل دیا.پس اَطِيْعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِی الْأَمْرِ مِنْكُمُ کی آیت اپنے اندر ایک بہت بڑا سبق رکھتی ہے.اگر لوگ اس کا صحیح مفہوم سمجھ لیں تو وہ ہر جگہ آسانی کے ساتھ صحیح فیصلہ کر سکتے ہیں.یہ ضروری نہیں کہ ہر شخص لازمی طور پر صحیح نتیجہ نکال لے، وہ غلطی بھی کر سکتا ہے.مگر پھر بھی اگر نظام کو قائم رکھنا ہے تو امام کی بات ہی مانی جائے گی.اگر اس بات نہ مانی جائے تو وہی نتیجہ نکلے گا جو جنگِ اُحد میں نکلا.افسوس ہے کہ بعد میں بھی مسلمانوں نے اپنی نادانی سے اس سبق کو یاد نہ رکھا اور اپنے افسروں کی اطاعت کا صحیح نمونہ نہ دکھایا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ یا تو ساری دنیا مسلمانوں کے ماتحت تھی اور مسلمان حاکم تھے اور یا آج دنیا کے اکثر حصوں میں مسلمان محکومیت کی زندگی بسر کر رہے ہیں.اگر یہ بات

Page 606

$1956 593 خطبات محمود جلد نمبر 37.پیدا نہ ہوتی اور اگر حکومت بغداد کے گورنر اپنی ہی حکومت کے خلاف نہ کھڑے ہو جاتے اور یہ نہ کہتے کہ بغداد کا خلیفہ جو حکم دے رہا ہے وہ غلط ہے تو نہ بنو عباس کی حکومت ختم ہوتی اور نہ بنوامیہ کی حکومت ختم ہوتی.بلکہ دونوں حکومتیں قیامت تک چلتی چلی جاتیں.یہ دونوں حکومتیں صرف اس لیے تباہ ہوئیں کہ ان کے بعض گورنروں نے یہ خیال کر لیا کہ انہیں بھی اللہ تعالیٰ نے عقل بخشی ہے اس لیے وہ عقل سے کام لیں گے اور ہر بات میں اپنی حکومت کی اطاعت نہیں کریں گے.نتیجہ یہ ہوا کہ مسلمانوں کے ہاتھ سے حکومتیں نکل گئیں، اسلام کے شان و شوکت جاتی رہی اور آج مسلمان در بدر بھیک مانگتے پھرتے ہیں.اور یا تو مسلمانوں کے نام سے تمام دنیا ڈرتی تھی اور یا یہ حالت ہے کہ وہ اکثر جگہ محکوم اور ذلیل ہیں.یہ کتنا بڑا فرق ہے جو پیدا ہوا.اسلام کے ابتدائی زمانہ میں رومن حکومت کی وہی حیثیت تھی جو اس وقت امریکن حکومت کی ہے.حضرت علیؓ اور حضرت معاویہ کے جھگڑے کے وقت رومی بادشاہ نے سمجھا کہ اس وقت میں حملہ کروں اور اسلامی ملک فتح کرلوں.اس کے دربار میں ایک پادری تھا جو بڑا عقلمند تھا.اُس نے بادشاہ کی تیاری دیکھی تو ایک بڑی گندی مثال دے کر اُسے حملہ کرنے.روکا.مثال تو اُس نے بڑی گندی دی تھی لیکن اس سے جو نتیجہ اُس نے نکالا وہ صحیح تھا.وہ کہنے لگا بادشاہ سلامت! آپ دو گتے لائیں اور انہیں کچھ عرصہ بھوکا رکھ کر اُن کے سامنے گوشت ڈالیں.بادشاہ نے ایسا ہی کیا.وہ گوشت دیکھ کر آپس میں لڑنے لگ گئے.اس پر وہ کہنے لگا اب آپ ان پر شیر چھوڑ دیں.شیر کو دیکھتے ہی ان دونوں نے لڑائی بند کر دی اور وہ شیر پر جھپٹ پڑے.یہ مثال دے کر اُس نے کہا کہ مسلمان بھی اس وقت آپس میں لڑ رہے ہیں جس وقت آپ نے ان پر حملہ کیا وہ اکٹھے ہو جائیں گے.اس لیے آپ ان کی باہمی لڑائی سے کوئی غلط نتیجہ نہ نکالیں.پھر اُس پادری نے بادشاہ کو مشورہ دیا کہ پہلے ان کو خبر دے دیجیے کہ ہم حملہ کرنے والے ہیں.پھر دیکھیں کہ مسلمان کیا کرتے ہیں؟ چنانچہ رومی بادشاہ نے اپنے جرنیلوں کو حکم دیا کہ یہ خبر باہر نکلنے دو کہ ہم اسلامی ملک پر حملہ کرنے والے ہیں.جب یہ خبر دمشق پہنچی تو حضرت معاویہؓ نے اُسے پیغام بھیجا کہ شاید تم نے یہ سمجھا ہو گا کہ اس وقت

Page 607

$1956 594 خطبات محمود جلد نمبر 37 سے میرے اور حضرت علی کے درمیان لڑائی ہو رہی ہے اور اس وقت سے فائدہ اُٹھا کر تم اسلامی ملک فتح کر لو گے.لیکن یاد رکھو! اگر تم نے اسلامی ملک کی طرف نگاہ بھی اُٹھائی تو سب.پہلا جرنیل جو علی کی طرف سے تم سے لڑنے کے لیے نکلے گا وہ میں ہوں گا.یہ پیغام پہنچتے ہی رومی بادشاہ نے اُس پادری کو بلایا اور کہا تم سچ کہتے تھے.ہمارے لیے مسلمانوں سے لڑائی کرنا بیکار ہے.ہم نے سمجھا تھا کہ مسلمانوں کے باہمی انتشار کی وجہ سے ہم جیت جائیں گے مگر یہ لوگ پھر بھی اکٹھے ہیں.اُس وقت حضرت معاویہؓ کے ماتحت صرف شام کا علاقہ تھا لیکن بعد میں بنوامیہ اور بنوعباس کی حکومتوں کے ماتحت بڑا وسیع علاقہ رہا اور وہ حضرت معاویہ کی حکومت سے بہت زیادہ طاقتور تھیں.ان کے ماتحت افریقہ کے انتہائی کونوں سے لے کر ہندوستان کے انتہائی سرے تک کے علاقے تھے.عراق بھی ان کے پاس تھا، شام بھی ان کے پاس تھا، مصر بھی ان کے پاس تھا، لیبیا بھی ان کے پاس تھا، تیونس بھی ان کے پاس تھا ، مراکش بھی ان کے پاس تھا مگر باوجود اس کے وہ اس طرح گرے کہ ان میں دوبارہ اُٹھنے کی ہمت نہ رہی اور ساری دنیا میں مسلمان محکوم ہو کر رہ گئے.اس کے مقابلہ میں حضرت معاویہ کے پاس ایک چھوٹی سی حکومت تھی مگر اُس میں اس قدر طاقت تھی کہ انہوں نے روم کے بادشاہ کے دانت کھٹے کر دیئے اور جب اس نے ارادہ کیا کہ اسلامی ملک پر حملہ کرے تو انہوں نے اُسے ایسا جواب دیا کہ وہ کانپ اُٹھا اور اُس نے حملہ کا ارادہ چھوڑ دیا.پس دنیا میں قومی ترقی کے لیے نظام بڑی ضروری چیز ہے.ایک بیوقوف پیغامی لکھتا ہے کہ مبائعین کو صرف اس لیے کامیابی حاصل ہوئی ہے کہ نظام کی کشش نے انہیں ان سے منسلک کر رکھا ہے.حالانکہ یہ ایسی ہی بات ہے جیسے ابوسفیان کہتا کہ محمد (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس لیے جیتے ہیں کہ ان کے ساتھ خدا تھا، ان کے ساتھ جتھا اور نظام تھا.اگر ایسا نہ ہوتا تو ہم ضرور جیت جاتے.حالانکہ نظام ہی خدا تعالیٰ کی طرف سے ہونے کی علامت ہوتی ہے.قرآن کریم میں خدا تعالیٰ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مخاطب کر کے فرماتا ہے کہ یہ محض خدا تعالیٰ کا فضل تھا کہ اُس نے

Page 608

خطبات محمود جلد نمبر 37 595 $1956 تیری طبیعت ہی ایسی بنائی ہے کہ سب مسلمان تیرے ارد گرد جمع ہو گئے ہیں.اگر ایسا نہ ہوتا تو لانْفَضُّوا مِنْ حَوْلِكَ - 3 یہ لوگ تجھے چھوڑ کر بھاگ جاتے.گویا خدا تعالیٰ کہتا ہے کہ نظام میں قائم کیا کرتا ہوں.پس اگر کسی جماعت کے ساتھ نظام ہے تو یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ خدا تعالیٰ اُس کے ساتھ ہے.پس یہ عجیب بات ہے جو اس پیغامی نے لکھی کہ مبائعین اس لیے جیتے ہیں کہ اُن کے پاس نظام ہے.یہ تو ایسی ہی بات ہے جیسے کہا جائے کہ یہ لوگ اس لیے جیتے ہیں کہ ان کے ساتھ خدا ہے.کوئی ان نادانوں سے پوچھے کہ بیوقوفو! اگر ان کے ساتھ خدا ہے تو کیا پھر بھی تمہاری سمجھ میں یہ بات نہیں آئی کہ تم اُدھر جاؤ جدھر خدا ہے.تم سے زیادہ عقلمند تو میاں نظام الدین صاحب تھے.میاں نظام الدین صاحب ایک صحابی تھے.ان کو حج کا بڑا شوق تھا.چنانچہ انہوں نے اپنی زندگی میں کئی حج کیے تھے.ایک دفعہ وہ حج سے واپس آئے تو لوگوں نے اُن سے کہا کہ تمہارا دوست تو پاگل ہو گیا ہے.اُس وقت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ابھی بیعت لینی شروع کی تھی اور میاں نظام الدین صاحب آپ کے پرانے دوستوں میں سے تھے.میاں نظام الدین صاحب کہنے لگے کہ کیا ہوا؟ انہوں نے کہا تمہارا دوست مرزا غلام احمد عليه الصلاة والسلام) لکھتا ہے کہ حضرت عیسی علیہ الصلوۃ والسلام فوت ہو گئے ہیں.میاں نظام الدین صاحب کہنے لگے یہ کیسے ہو سکتا ہے؟ قرآن کریم اس بات سے بھرا پڑا ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام زندہ آسمان پر بیٹھے ہیں اور مرزا صاحب تو بڑے نیک آدمی ہیں.وہ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ حضرت عیسی علیہ السلام فوت ہو چکے ہیں.اگر فی الواقع انہوں نے ایسا کہا ہے تو تم گھبراؤ نہیں.میں اس کے پاس جاؤں گا اور قرآن کریم اس کے سامنے رکھ دوں گا.پھر وہ مان جائے گا.وہ قرآن مانتا ہے.یہ ٹھیک ہے کہ اسے اس بارہ میں غلطی لگی ہے مگر وہ قرآن کو چھوڑ نہیں سکتا.وہ قرآن کو ضرور مانے گا.چنانچہ وہ قادیان آئے اور حضرت صاحب کو ملے اور کہنے لگے حضور! میں نے سنا ہے کہ آپ کہتے ہیں کہ حضرت عیسی علیہ السلام فوت ہو گئے ہیں کیا یہ ٹھیک ہے؟ حضرت صاحب نے فرمایا ہاں.میں نے ایسا کہا ہے.میاں نظام الدین صاحب نے کہا کیا آپ قرآن کریم کے خلاف کہتے ہیں؟

Page 609

$1956 596 خطبات محمود جلد نمبر 37 حضرت صاحب نے فرمایا یہ قرآن کریم کے خلاف نہیں.میاں نظام الدین صاحب کہنے لگے یہ عقیدہ تو قرآن کریم کے خلاف ہے کیونکہ قرآن کریم کہتا ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام زندہ آسمان پر بیٹھے ہیں.حضرت صاحب نے فرمایا اگر قرآن کریم سے ثابت ہو جائے کہ حضرت عیسی علیہ السلام زندہ ہیں تو ہم مان لیں گے.میاں نظام الدین صاحب کہنے لگے اگر میں ایک سو آیتیں ایسی لا دوں جن سے ثابت ہو کہ حضرت عیسی علیہ السلام زندہ ہیں تو کہ آپ مان لیں گے؟ انہوں نے خیال کیا کہ جب سارے مولوی کہتے ہیں کہ حضرت عیسی علیہ السلام زندہ ہیں تو قرآن کریم میں سو آیت تو ایسی ضرور ہو گی جن سے حضرت عیسی علیہ السلام کا زندہ ہونا ثابت ہوتا ہو گا.حضرت صاحب فرمانے لگے میاں صاحب! سو آیت کا کیا سوال ہے آپ ایک آیت ہی لکھوا لائیے کیونکہ قرآن کریم کا تو ایک شوشہ بھی ماننے کے قابل ہے.اگر آپ ایک آیت بھی لکھوا لائیں گے تو میں مان لوں گا.میاں نظام الدین صاحب کہنے لگے ایک سونہیں تو ستر اتنی ہی سہی.حضرت صاحب فرمانے لگے میاں نظام الدین! ستر اسی آیتوں کی ضرورت نہیں ایک آیت ہی کافی ہے.میاں نظام الدین صاحب نیچے اُترتے اُترتے دس آیتوں پر آگئے لیکن حضرت صاحب یہی فرماتے رہے کہ میاں نظام الدین! صرف ایک آیت لے آئیے میں مان جاؤں گا.آخر میاں نظام الدین صاحب نے کہا اچھا میں دس آیات لے آتا ہوں.مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی بھی ان کے گہرے دوست تھے.اس لیے وہ بٹالہ گئے.وہاں سے پتا لگا کہ مولوی صاحب لاہور گئے ہوئے ہیں.چنانچہ وہ لاہور گئے.اُن دنوں حضرت خلیفتہ المسیح الاول قادیان آنے کے لیے لاہور آئے ہوئے تھے اور مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی نے اشتہار دینے شروع کیے تھے کہ میرے ساتھ وفات و حیات مسیح پر مباحثہ کر لو اور بحث یہ تھی کہ اپنے دعوی کے ثبوت میں احادیث پیش کی جائیں گی اور حضرت خلیفتہ المسح الاول فرماتے تھے کہ احادیث نہیں قرآن کریم پیش کیا جائے گا.دونوں طرف سے اصرار ہوتا رہا.آخر حضرت خلیفہ اسیح الاول نے بحث کو چھوٹا کرنے کے لیے فرمایا کہ چلو صحیح بخاری کی احادیث پیش کر دی جائیں.اس پر مولوی محمد حسین بٹالوی نے سمجھا کہ میری فتح ہوئی.جب میاں نظام الدین صاحب لاہور پہنچے تو مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی.

Page 610

$1956 597 خطبات محمود جلد نمبر 37 اہل حدیث کی مسجد میں اپنے دوستوں میں بیٹھے تھے اور کہہ رہے تھے.دیکھو! مرزا صاحب کا پہلوان نورالدین آیا.ادھر میں اہلِ حدیث کا پہلوان کھڑا ہوا، ہماری بحث ہوئی.میں نے کہا حدیث ، اس نے کہا قرآن.میں نے کہا حدیث، اُس نے کہا قرآن.اور دونوں اسی پر اصرار کرتے رہے.آخر میں نے اُسے یوں پنچا اور یوں رگیدا اور اس طرح گرا یا کہ اسے ماننا پڑا او اور کہنے لگا کہ بخاری بھی پیش کر سکتے ہو.اتنے میں میاں نظام الدین صاحب جا پہنچے اور کہنے لگے جانے دو نورالدین کو.میں تو مرزا غلام احمد کو بھی جو اُن کے سردار ہیں منوا آیا ہوں.مولوی محمد حسین صاحب نے کہا کیا منوا آئے ہو؟ میاں نظام الدین صاحب نے کہا لکھوا مرزا صاحب تو کہتے تھے کہ ایک آیت ہی کافی ہے لیکن میں کہہ آیا ہوں کہ میں دس آیات کا کر لا دیتا ہوں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام زندہ ہیں.وہ کہتے ہیں کہ اگر تم قرآن سے ایسی آیتیں نکلوا لاؤ تو میں اپنے عقیدہ سے تو بہ کر لوں گا.اس لیے آپ مجھے جلدی سے حیات مسیح کی دس آیات لکھ دیں.مولوی محمد حسین صاحب تو فخر کر رہے تھے کہ میں نے مولوی نورالدین کو پٹھا اور یوں پچھاڑا اور یوں دلیلیں دیں اور آخر وہ حدیث کی طرف آگئے.میاں نظام دین صاحب کی بات سن کر انہیں غصہ آ گیا اور وہ کہنے لگے بیوقوف پاگل کہیں کا.میں مہینہ بھر نورالدین کے ساتھ بحث کرتا رہا اور آخر کار اُسے اس طرف لایا کہ حدیث پیش کی جائے گی اور تو پھر بحث کو قرآن کی طرف لے گیا ہے.مولوی محمد حسین بٹالوی کا یہ فقرہ میاں نظام الدین صاحب کو اس طرح چُھا کہ وہ اُسی وقت کھڑے ہو گئے اور کہنے لگے اچھا مولوی صاحب! پھر جدھر قرآن اُدھر میں.اگر قرآن مرزا صاحب کے ساتھ ہے تو میں بھی انہیں کے ساتھ ہوں.اور یہ کہہ کر وہ واپس آگئے اور قادیان آ کر بیعت کر لی.پس قرآن کہتا ہے کہ نظام خدا تعالیٰ کا فضل ہوتا ہے.چنانچہ اللہ تعالی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے فرماتا ہے کہ تیرے ساتھ نظام ہے مگر یہ نظام تیرے ساتھ تیری وجہ سے نہیں بلکہ ہماری وجہ سے ہے.ہم نے تیری طبیعت کو ایسا بنایا ہے کہ لوگ تیری طرف کھنچے چلے آ رہے ہیں.اگر ہم تیری طبیعت کو ایسا نہ بناتے تو اتنا جتھا تیرے ساتھ نہ ہوتا جس طرح حدیث میں آتا ہے کہ دہر کو گالی نہ دو.4 اسی طرح اس آیت سے بھی ظاہر ہوتا ہے کہ نظام

Page 611

$1956 598 خطبات محمود جلد نمبر 37 کو بُرا بھلا کہنا نا جائز ہے کیونکہ نظام خدا تعالیٰ بنایا کرتا ہے.خود رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ جب خدا تعالیٰ چاہتا ہے کہ دنیا میں کسی کی محبت قائم کرے تو وہ پہلے جبریل سے کہتا ہے اور جبریل اپنے ماتحت فرشتوں سے کہتا ہے اور وہ ماتحت فرشتے اپنے ماتحت فرشتوں سے کہتے ہیں اور اس طرح ساری دنیا میں وہ بات پھیلا دیتے ہیں.حدیث کے الفاظ یہ ہیں کہ فَيُوضَعُ لَهُ الْقَبُولُ فِى الأَرضِ - 5- پھر ساری دنیا میں اس کی قبولیت پھیل جاتی ہے.تو گویا نظام یا لوگوں کا کسی کے گرد جمع ہو جانا خدا کے فضل سے ہوتا ہے.خدا کے فضل کے بغیر نہیں ہوتا.چاہے اس کی کوئی وجہ ہو، لیکن وہ وجہ بھی خدا تعالیٰ ہی پیدا کرتا ہے.تو اس پیغامی کا یہ کہنا کہ میاں صاحب کو قبولیت اس لیے حاصل ہے کہ نظام ان کے ساتھ ہے اس کے دوسرے لفظوں میں یہ معنے ہیں کہ چونکہ خدا تعالیٰ ان کے ساتھ ہے اس لیے لوگ ان کے لا ارد گرد جمع ہو گئے ہیں.اس سے کوئی پوچھے کہ اگر لوگ خدا تعالیٰ کے ساتھ جمع نہ ہوں تو کس کے ساتھ جمع ہوں؟ یہ لوگ تو خدا تعالیٰ کے دلدادہ ہیں.جب ان کو پتا لگ گیا کہ خدا فلاں کے ساتھ ہے تو وہ اس کے اردگرد جمع ہو گئے.گویا جدھر خدا ہو گا اُدھر ہی یہ بھی جائیں گے اور جس طرف خدا نہیں ہوگا اُس کو چھوڑ دیں گے.مجھے یاد ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے بعد ایک شخص ماموریت کا مدعی ہوا.اُس نے بہت سے رسالے لکھے مگر میں نے اُن کا کبھی جواب نہیں دیا.ایک دفعہ اس کی نے مجھے بڑے غصہ سے لکھا کہ تعجب کی بات ہے کہ آپ میری باتوں کا رڈ بھی نہیں کرتے.آپ بیشک مجھے مرتد قرار دیں، کافر قرار دیں مگر میری باتوں کا جواب تو دیں.یہ کیا تو وجہ ہے کہ مجھے آپ بُرا بھلا بھی نہیں کہتے ؟ میں نے اسے جواب دیا کہ تم نے سمجھا تھا کہ مرزا صاحب کو لوگوں کا بُرا بھلا کہنا کوئی دنیوی بات تھی حالانکہ وہ کوئی دنیوی بات نہیں تھی.لوگوں نے اگر انہیں بُرا کہا تو اُن سے خدا تعالیٰ نے ہی بُرا کہلوایا تا کہ لوگوں کی توجہ آپ کی طرف ہو جائے.تو بُرا کہنا بھی کسی کے اختیار میں نہیں.صرف خدا تعالیٰ کے اختیار میں ہے.تو تو میری منتیں کرتا ہے کہ میں تمہیں بُرا کہوں.لیکن مرزا صاحب نے کسی سے بھی یہ نہیں کہا تھا کہ کوئی انہیں بُرا کہے.دنیا انہیں خود بخود بُرا کہنے لگ گئی اور یہ مخالفت خدا تعالیٰ کی طرف

Page 612

$1956 خطبات محمود جلد نمبر 37 599 سے تھی.اس لیے کہ جب لوگ کسی کو بُرا کہتے ہیں تو لوگوں کی اُس کی طرف توجہ جاتی ہے.ہو ایک دفعہ ایک شخص حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے پاس آیا.حضرت سیح موعود علیہ السلام نے اُس سے دریافت فرمایا کہ آپ کو احمدیت قبول کرنے کا خیال کیسے پیدا ہوا؟ وہ کہنے لگا مجھے احمدیت قبول کرنے کا خیال مولوی ثناء اللہ صاحب کی وجہ سے پیدا ہوا ہے.حضرت صاحب نے فرمایا یہ کیسے؟ اُس نے کہا مولوی ثناء اللہ صاحب نے آپ کو بڑی گالیاں دی ہیں اور آپ کو بُرا بھلا کہا ہے.ایک دن کسی نے میرے سامنے در مشین کے بعض اشعار پڑھے تو میں نے خیال کیا کہ اگر ان شعروں میں کوئی شخص کسی کو گالیاں دیتا ہے تو وہ ضرور سچا ہو گا.اس لیے میں نے آپ کی بیعت کر لی کیونکہ میں نے سمجھا کہ ان شعروں کی وجہ سے تو شعر کہنے والے کی تعریف کرنی چاہیے تھی نہ کہ اس کی مذمت.اگر ان شعروں خص کسی کو گالیاں ملتی ہیں تو وہ صرف اس وجہ سے ملتی ہیں کہ شیطان محسوس کرتا ہے کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے آیا ہے.اس لیے وہ اپنی جان بچانے کے لیے اسے مارنا چاہتا ہے.تو ایسی مخالفت بھی جس کی وجہ سے لوگوں کو توجہ پیدا ہو محض خدا تعالیٰ کے فضل سے ہوتی ہے.لیکن یہ یاد رکھنا چاہیے کہ ایک مخالفت ایسی بھی ہوا کرتی ہے جس سے تباہی ہوتی ہے.وہی مخالفت خدا تعالیٰ کی طرف سے سمجھی جاتی ہے جس کے نتیجہ میں جتھا مضبوط ہو اور طاقت حاصل ہو.مثلاً حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی مخالفت ہوئی اور اس کے نتیجہ میں ہزاروں اور لاکھوں کی جماعت آئی.پھر میری مخالفت ہوئی تو لاکھوں کی جماعت میرے اردگرد جمع ہو گئی.اگر اس مخالفت کے بعد لاکھوں لوگ میرے ارد گرد جمع نہ ہوتے تو یہ سمجھاتی جاتا کہ یہ مخالفت خدا تعالیٰ کی طرف سے نہیں.لیکن اس مخالفت کے بعد لاکھوں لوگ میرے اردگرد جمع ہو گئے.جس سے معلوم ہوا کہ وہ خدا تعالیٰ کی طرف سے تھی اور خدا تعالیٰ چاہتا تھا کہ اس کے نتیجہ میں میری طرف لوگوں کو توجہ پیدا ہو.یہی وجہ تھی کہ اس کا نتیجہ ہمارے حق میں اچھا نکلا.غرض مخالفت اگر مزید طاقت پیدا کرتی ہے اور اس کا نتیجہ نظام کی مضبوطی کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے تو وہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ہوتی ہے اور بابرکت ہوتی ہے.

Page 613

$1956 600 خطبات محمود جلد نمبر 37 ذلیل لیکن ایسی مخالفت جو کسی شخص یا قوم کو ذلیل کر دے وہ اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا ثبوت ہوتی ہے.جیسے پچھلے دنوں ہم میں کچھ منافق پیدا ہو گئے تو غیر احمدی اخبارات نے لکھا کہ معافیاں مانگ مانگ کر ان لوگوں کے ناک رگڑے گئے ہیں لیکن پھر بھی انہیں معافی نہیں ملتی.اس پتا لگ گیا کہ خدا تعالیٰ ان کے ساتھ نہیں.اس لیے وہ نہ صرف جماعت کی نظر میں ہوئے بلکہ ان کے دوست اخباروں نے بھی لکھا کہ معافیاں مانگ مانگ کر ان کے ناک بھی رگڑے گئے ہیں لیکن پھر بھی انہیں معاف نہیں کیا جاتا.اب بتاؤ کہ کیا کبھی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی مکہ والوں کے آگے ناک رگڑے تھے؟ تاریخ ہمیں یہی بتاتی ہے کہ ناک مکہ والوں نے ہی رگڑے تھے اور انہوں نے ہی گڑ گڑا کر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے معافی مانگی تھی.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر انتہائی مظالم ہوئے لیکن آپ نے مکہ والوں کے سامنے کبھی سر نہیں جھکایا کیونکہ سچائی آپ کے ساتھ تھی.آپ جانتے تھے کہ جتنی مخالفت ہو گی اُتنے ہی آپ کے ساتھی بڑھیں گے اور ترقی کریں گے.دیکھ لو مکہ والے اپنی ساری مخالفت کے باوجود تباہ اور ذلیل ہوئے اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے ساتھی کامیاب و بامراد ہو گئے.پس اللہ تعالیٰ نے اَطِيْعُوا اللهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُوْلَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنْكُمْ میں ایک بڑا بھاری گر بتایا ہے.جب تک مسلمانوں نے اس گر کو یاد رکھا وہ جیتے رہے اور اب بھی جماعت احمد یہ جب تک اس گر کو یاد رکھے گی وہ جیتی چلی جائے گی اور دنیا کی کوئی طاقت اس کا مقابلہ نہیں کر سکے گی.اب بھی دیکھ لو تم بہت تھوڑے ہو اور غریب ہو مگر ساری 66 دنیا میں تمہارے ہی مبلغ پھیلے ہوئے ہیں.ایک دفعہ مصر کے مخالف ترین اخبار " الفتح " نے لکھا تھا کہ تیرہ سو سال میں مسلمانوں میں بڑے بڑے بادشاہ گزرے ہیں مگر غیر مسلموں میں جتنی جی تبلیغ احمدیوں کی ہے اتنی ان بادشاہوں نے بھی نہیں کی.پس غریب ہونے کے باوجود جماعت احمدیہ کو اس قدر تبلیغ کی توفیق ملنا بتاتا ہے کہ خدا تعالیٰ کا ہاتھ تمہارے اوپر ہے.اگر خدا تعالیٰ کا ہاتھ تمہارے اوپر نہ ہوتا تو تم وہ کام نہ کر سکتے جو بڑے بڑے مسلمان بادشاہ بھی نہیں کر سکے.پس جماعت کے اندر جو تنظیم پائی جاتی ہے وہ اس بات پر دلالت کرتی ہے

Page 614

601 $1956 خطبات محمود جلد نمبر 37 کہ خدا تعالیٰ اس جماعت کے ساتھ ہے.پھر تنظیم اس بات پر بھی دلالت کرتی ہے کہ جماعت کی مخالفت محض شیطانی چڑ کی وجہ سے ہو رہی ہے اور جس کے ساتھ خدا تعالیٰ ہو اُس کے خلاف چلنا مولوی محمد حسین بٹالوی والی بات ہے.میاں نظام الدین صاحب اُس کے ساتھ تھے جس کے ساتھ خدا تھا.چنانچہ انہوں نے مولوی محمد حسین بٹالوی سے یہی کہا کہ جدھر قرآن اُدھر میں.مولوی محمد حسین بٹالوی اُدھر تھے جدھر قرآن نہیں تھا.وہ سمجھتے تھے کہ حدیث جو ظنی چیز ہے وہ جدھر جائے اُدھر میں جاؤں گا اور میاں نظام الدین صاحب کہتے تھے کہ قرآن یقینی چیز ہے.جدھر قرآن جائے گا اُدھر میں جاؤں گا.نتیجہ یہ نکلا کہ میاں نظام الدین صاحب ہدایت پا گئے اور مولوی محمد حسین بٹالوی ناکام ہوئے اور انہیں اس دنیا میں بھی اتنی ذلت اور ناکامی دیکھنی پڑی جو شاید ہی اور کسی بڑے لیڈر کو دیکھنی پڑی ہو.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے خلاف ایک دفعہ پادریوں نے مقدمہ دائر کیا تو مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی بھی ان کی طرف سے گواہ بن کر عدالت میں پیش ہوئے.جب وہ مجسٹریٹ کے سامنے گئے جو ڈپٹی کمشنر تھا تو اُس نے انہیں کرسی نہ دی.اس پر وہ غصہ کی وجہ سے ڈائس (DAIS) پر چڑھ گئے اور کہنے لگے میں گورنر کو بھی ملتا ہوں تو وہ مجھے کرسی دیتا ہے پھر آپ نے مجھے کرسی نہیں دی.مجسٹریٹ نے کہا مولوی صاحب گورنر کے پاس تو کوئی چوڑھا بھی چلا جائے تو وہ اُسے کرسی دیتا ہے.مگر وہ اُس وقت ہوتا ہے جب کوئی تو پرائیویٹ ملاقات کے لیے جائے.یہ تو عدالت ہے اور عدالت میں کرسی اُس کو ملے گی جو اس کا مستحق ہے.جب وہ پھر بھی نہ ہے تو مجسٹریٹ انہیں ڈانٹ کر کہنے لگا دور ہٹ جا اور جوتیوں میں بیٹھ جا.اس پر وہ باہر آ گئے اور اس خیال سے کہ باہر کے لوگوں کو اُن کی ذلت کا پتا نہ لگے برآمدہ میں پڑی ہوئی ایک کرسی پر بیٹھ گئے.اب چپڑاسی بھی اُدھر ہوتا ہے جدھر مجسٹریٹ ہو.عدالت کے چپڑاسی نے وہ سب کچھ دیکھا تھا جو اندر پیش آیا تھا.اُس نے مولوی محمد حسین صاحب کو کہا کہ کرسی چھوڑیئے اور یہ کہتے ہوئے اُس نے انہیں کرسی اُٹھا دیا.اس طرح انہیں وہ جھوٹی عزت بھی نہ ملی جو وہ دوسروں کی نظر میں حاصل کرنا اہتے تھے.اس کے بعد وہ عدالت سے باہر آ گئے.باہر سینکڑوں لوگ یہ دیکھنے آئے تھے

Page 615

$1956 602 خطبات محمود جلد نمبر 37.که مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کی کیا عزت ہوتی ہے اور مرزا صاحب کو کیا ذلت پہنچتی ہے جب مولوی صاحب اُن لوگوں کے پاس آئے تو انہوں نے خیال کیا کہ عدالت میں تو جو ذلت ہوئی سو ہوئی یہاں ان لوگوں سے ہی عزت کروا لوں.سامنے ایک چادر بچھی ہوئی تھی اور بدقسمتی سے وہ ایک احمدی دوست کی تھی.مولوی صاحب اُس پر بیٹھ گئے.پاس ہی سب لوگ بیٹھے ہوئے تھے.اُس احمدی دوست نے مولوی صاحب کو اپنی چادر پر سے بھی اُٹھا دیا.کہنے لگا میری چادر چھوڑئیے اور اسے ناپاک نہ کیجیے.آپ عیسائیوں کی طرف سے گواہی دینے آئے ہیں.اب دیکھ لو جس کو خدا تعالیٰ چھوڑ دے دنیا میں اس کی کوئی بھی مدد نہیں کر سکتا.مولوی محمد حسین صاحب اپنے آپ کو اہلِ حدیث کا ایڈووکیٹ کہا کرتے تھے لیکن اہلِ حدیث کا ایڈووکیٹ اور لیڈر ہونے کے باوجود وہ ذلیل ہوئے اور حضرت مرزا صاحب جن کے ساتھ کوئی بھی نہ تھا وہ معزز ہو گئے.ان کو خدا تعالیٰ نے وہ عزت دی کہ آج ساری دنیا میں آپ کا تو نام لیا جاتا ہے.کیا یورپ، کیا امریکہ اور کیا ایشیا سب میں آپ کے نام لیوا پائے جاتے ہیں.انڈونیشیا، فلپائن، ملایا، برما، سیلون، هندوستان، پاکستان، افغانستان، ایران، شام، عراق، فلسطین اور دوسرے کئی ممالک میں ایسے لوگ پائے جاتے ہیں جو حضرت مرزا صاحب کو دعائیں دیتے ہیں.اس لیے کہ آپ کے ذریعہ اُن تک اسلام پہنچا.اور مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کے نام کو بھی وہ نہیں جانتے.جس طرح گوجرانوالہ کے مدعی نبوت نے مجھے لکھا تھا کہ اگر آپ میری تعریف نہیں کرتے تو میری مذمت ہی کر دیں.اسی طرح مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کی روح کہتی ہوگی کہ اے انگلستان کے لوگو! تم میری تعریف نہیں کرتے تو مجھے گالیاں ہی دو.اور وہ کہتے ہوں گے بیوقوف! تیرا تو نام بھی ہم نہیں نتے تجھے گالیاں کیسے دیں.تیرا تو نام بھی خدا تعالیٰ نے مٹا دیا ہے اور وہ ہم تک نہیں پہنچا.لیکن مرزا صاحب کا نام ہم تک عزت سے پہنچا ہے اور تیرا نام ذلت سے بھی نہیں پہنچا.پس ہمارے نزدیک تیری کوئی حیثیت نہیں اور گالیاں دینے کے لیے بھی کوئی حیثیت چاہیے.آخر کتا کاتا ہے تو انسان اُسے پتھر مارتا ہے لیکن اگر کوئی مرغا کسی کے پیچھے آ رہا ہو تو اُسے

Page 616

خطبات محمود جلد نمبر 37 603 $1956 کوئی نہیں مارتا کیونکہ وہ جانتا ہے کہ اس مُرغے نے تو کاٹنا ہی نہیں.اگر تو ہمارے مذہب ؟ حملہ کرتا اور تیری وجہ سے ہمارا مذہب خطرہ میں ہوتا تو ہم تیرا نام ذلت سے لیتے مگر تیری وجہ پر سے ہمارا مذہب خطرہ میں نہیں پڑا.مذہب خطرہ میں پڑا ہے تو وہ مرزا صاحب کی وجہ سے پڑا ہے.اس لیے اگر ہم گالی دیں گے تو مرزا صاحب کو دیں گے.اور اگر ہمیں اسلام نصیب ہوا تو وہ مرزا صاحب کی وجہ سے ہوا ہے.اس لیے اگر ہم تعریف کریں گے تو مرزا صاحب کی کریں گے تجھے تو ہم پوچھتے بھی نہیں.کیونکہ تیری کوئی حیثیت بھی ہمارے ملک میں نہیں.ہمارے ملک میں مرزا صاحب کو حیثیت حاصل ہے جنہوں نے ہمارے مذہب پر حملہ کیا ہے.اس لیے اگر ہمیں گالی دینے کا شوق آئے گا تو ہم مرزا صاحب کو دیں گے اور اگر ہم پر اسلام کی کی صداقت کھل جائے گی اور تعریف کریں گے تو مرزا صاحب کی کریں گے تجھے ہم گالیاں بھی اسی نہیں دیں گے.ہمارے ملک میں تجھے کوئی آدمی بھی نہیں جانتا.ہم صرف مرزا صاحب کو (الفضل 5 مارچ 1957ء) جانتے ہیں.1 : النساء : 60 2 : المائدة : 68 3 : آل عمران : 160 :4 مسلم كتاب الالفاظ من الادب باب النهي عن سب الدهر 5 : بخاری کتاب بدء الخلق باب ذكر الملائكة

Page 617

$1956 604 51 خطبات محمود جلد نمبر 37 ہمیشہ یہ دعا کرتے رہو کہ دنیا میں اللہ تعالیٰ کا نام بلند ہو اور دین اسلام کی عزت قائم ہو (فرموده 28 دسمبر 1956ء بمقام ربوہ ) تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: آج ہمارے جلسہ سالانہ کا بھی آخری دن ہے اور جمعہ کا بھی دن ہے.اس طرح اس جلسہ میں اللہ تعالیٰ نے ہمارے لیے دُہری برکتیں رکھ دی ہیں.یعنی ایک جمعہ بھی درمیان میں آ گیا ہے اور دوسرے جلسہ سالانہ بھی ہے جس میں ذکر الہی کی کثرت ہوتی ہے اور کثرت کی سے خدا تعالیٰ کے نام کے بلند کرنے کی تحریکیں اور خدا تعالیٰ کے دین کی تشریحات ہوتی ہیں.چونکہ نمازیں جمع ہوں گی اور اس کے بعد تقریر ہو گی اس لیے میں خطبہ جمعہ میں رسول کریمی صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک قول کے متعلق مختصر طور پر کچھ بیان کر دینا چاہتا ہوں.دوستوں کو یاد رکھنا چاہیے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جمعہ کے دن اذان سے لے کر سلام تک ایک ایسا وقت آتا ہے کہ بندہ جو کچھ مانگے خدا تعالیٰ اسے قبول کر لیتا ہے 1 اور آج تو دُہری برکتیں جمع ہیں.ایک جلسہ سالانہ ہے جس کی بنیاد خدا تعالیٰ کے

Page 618

$1956 605 خطبات محمود جلد نمبر 37 حکم کے ماتحت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے قائم کی.پھر ہزاروں مومن مرد اور ہزاروں مومن عورتیں سینکڑوں میل سے چل کر یہاں اس لیے آئے ہیں کہ وہ خدا تعالیٰ کے نام کو بلند کریں اور ہزاروں ہزار آدمی دن اور رات دعائیں کرتا رہے کہ اللہ تعالیٰ کے نام اور دینِ اسلام کی عزت قائم ہو جائے.اس مبارک دن میں جمعہ کا آنا اور اس ساعت کا ملنا جس کے متعلق رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ مومن اس میں جو کچھ مانگے اللہ تعالیٰ اُسے دے دیتا ہے بڑی بھاری خوش قسمتی ہے.اس لیے ابھی سے دعاؤں میں لگ جاؤ تا کہ آخری وقت تک کوئی موقع تمہارے ہاتھ سے جاتا نہ رہے اور تمہیں وہ ساعت مل جائے.لیکن دعا وہ کرو جو جامع اور مانع ہو.چھوٹی چھوٹی دعاؤں کے لیے دوسرے وقت بہت آتے ہیں.حضرت خلیفہ اول فرمایا کرتے تھے کہ جب میں نے حج کیا تو میں نے ایک حدیث پڑھی ہوئی تھی کہ جب پہلے پہل خانہ کعبہ نظر آئے تو اُس وقت جو دعا کی جائے وہ قبول ہوتی ہے 2 تو فرمانے لگے میرے دل میں کئی دعاؤں کی خواہشیں ہوئیں.پھر میرے دل میں فوراً خیال پیدا ہوا کہ اگر میں نے یہ دعائیں مانگیں اور قبول ہو گئیں اور پھر کوئی اور ضرورت پیش آئی تو پھر کیا ہو گا.پھر تو نہ حج ہو گا اور نہ یہ خانہ کعبہ نظر آئے گا نہ میں دعائیں کر سکوں گا.کہنے لگے تب میں نے سوچ کر یہ نکالا کہ اللہ تعالیٰ سے یہ دعا کروں کہ یا اللہ! میں جو دعا کیا کروں وہ قبول ہوا کرے تا کہ آئندہ بھی یہ سلسلہ جاری رہے.میں نے حضرت خلیفہ اول سے یہ بات سنی ہوئی تھی.جب میں نے حج کیا تو مجھے بھی وہ بات یاد آ گئی.جونہی خانہ کعبہ نظر آیا ہمارے نانا جان نے ہاتھ اُٹھائے.کہنے لگے دعا کر لو.وہ کچھ اور دعائیں مانگنے لگ گئے.میں نے کہا مجھے تو ایک ہی دعا یاد ہے.میں نے تو یہی دعا کی کہ یا اللہ ! اس خانہ کعبہ کو دیکھنے کا مجھے روز روز کہاں موقع ملے گا.آج عمر بھر میں ت کے ساتھ موقع ملا ہے تو میری تو یہی دعا ہے کہ تیرا اپنے رسول سے وعدہ ہے کہ اس کو پہلی دفعہ حج کے موقع پر جو دیکھ کے دعا کرے گا وہ قبول ہو گی.میری دعا تجھ سے یہی ہے کہ ساری عمر میری دعائیں قبول ہوتی رہیں.چنانچہ اس کے فضل اور احسان سے میں برابر یہ نظارہ دیکھ رہا ہوں کہ میری ہر دعا اس طرح قبول ہوتی ہے کہ شاید کسی اعلیٰ درجہ کے شکاری کا

Page 619

$1956 606 خطبات محمود جلد نمبر 37 نشانہ بھی اُس طرح نہیں لگتا.سو تم کو بھی میں یہ نصیحت کرتا ہوں کہ اپنے دل میں ذکر الہی کے علاوہ اور درود کے علاوہ یہ دعاؤں کے قبول کرنے کا خود بھی موجب ہیں اس موقع سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے دل میں یہ دعا کرتے رہو کہ یا اللہ ! ہمیں دعائیں کرنے کی اور نیک دعائیں کرنے کی توفیق دے اور جو بھی تیری مرضی کے مطابق ہم نیک دعائیں کریں تو اُن کو ہمیشہ قبول فرماتا رہ تا کہ ہم تیرے سوا کسی بندے کے محتاج نہ ہوں.ہم اپنی ہر غرض تیرے پاس لائیں اور تو اُسے قبول کر.کسی بندے کا ہم کو محتاج نہ بنا.حضرت خلیفہ اول کو یہ دعوی تھا.فرمایا کرتے تھے کہ ہمیں ایک ایسا نسخہ معلوم ہے کہ اُس کی وجہ سے جو ضرورت ہوتی ہے وہ پوری ہو جاتی ہے اور روپیہ آ جاتا ہے.نانا جان مرحوم باہر جاتے تھے، چندے لیتے تھے مسجد کے لیے اور دار الضعفاء وغیرہ کے لیے.ایک دن مسجد میں بیٹھے ہوئے کہنے لگے میر صاحب! میں آپ کو وہ نسخہ بتاؤں کہ جس کے ذریعہ سے آپ کو بیٹھے روپیہ آ جایا کرے اور مسجدیں بھی بن جائیں اور دارالضعفاء بھی بن جائیں.آپ کو باہر پھرنا نہ پڑے.ان کا نسخہ بھی آج تک مجھے پسند ہے.واقع میں مومن کو ایسا ہی ہونا کی چاہیے.سنتے ہی نانا جان کہنے لگے نہیں مجھے نہیں ضرورت.میں خدا کے سوا کسی کا محتاج نہیں ہونا چاہتا.میں آپ سے نہیں سیکھنا چاہتا مجھے خدا دلائے گا اور اُسی سے مانگوں گا.آپ سے نسخہ نہیں لیتا.یہ بھی بڑی اچھی بات ہے.حضرت خلیفہ اول ان کے پیر بھی تھے، بیعت بھی کی ہوئی تھی.پھر وہ نسخہ بتانا چاہتے تھے.عام طور پر غیر احمدی سمجھا کرتے تھے کہ آپ کو کیمیا آتا ہے اور لوگ آیا کرتے تھے اور کہا کرتے تھے کہ ہمیں کیمیا سکھا دیں.تو نانا جان پر وہ آپ ہی مہربان ہو گئے اور کہنے لگے میں آپ کو وہ نسخہ بتا دیتا ہوں جس کی وجہ سے جب ہمیں روپیہ کی ضرورت ہوتی ہے خدا ہمیں آپ ہی مہیا کر دیتا ہے.مگر نانا جان کہنے لگے نہیں نہیں بالکل نہیں.میں نہیں سیکھنا چاہتا.میں تو خدا سے مانگوں گا.مجھے آپ سے نسخہ لینے کی ضرورت نہیں.تو دعائیں کرو اور یہ نسخہ بھی یاد رکھو.وہ بات بھی یاد رکھو جو اس موقع پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائی ہے اور نانا جان والا نسخہ بھی یاد رکھو اور خدا سے یہ کہو کہ یا اللہ ! تو ہمیشہ ہماری دعائیں قبول کر اور کبھی کسی بندے کا محتاج نہ بنائیں.ہمیشہ تو اپنا ہی محتاج

Page 620

$1956 607 خطبات محمود جلد نمبر 37 رکھیو کیونکہ تیری احتیاج عبادت بھی ہے.بندے کی احتیاج ذلت ہے اور تیری احتیاج عبادت ہے.سو ہم تیرے عابد بندے ہوں، شکر گزار بندے ہوں، تجھ سے مانگنے والے ہوں اور تُو ہماری دعائیں قبول کرنے والا ہو.انسانوں کے ہاتھ ہمارے آگے پھیلے ہوئے ہوں، لوگ ہمارے پاس آئیں کہ جناب! ہمارے لیے دعا کیجیے ہماری فلاں ضرورت پوری ہو جائے.اور یہ نہ ہو کہ ہم اُن کے پاس جائیں اور اُن سے کہیں کہ تم ہماری مدد کرو کہ ہماری فلاں ضرورت پوری ہو جائے.اللہ تعالیٰ غیب سے سامان پیدا کرتا ہے اور میرا ہمیشہ سے تجربہ ہے کہ اللہ تعالیٰ غیب سے سامان پیدا کرتا ہے.اور کئی دفعہ یہ شرمندگی ہوتی ہے کہ بعض دفعہ اللہ تعالیٰ سے ایک چیز مانگی تو پھر بعد میں وہ اتنی ملی کہ خیال آیا کہ تھوڑی کیوں مانگی تھی.اگر اُس سے زیادہ مانگی جاتی تو اللہ تعالیٰ اور زیادہ سامان کرتا.میں یہاں ربوہ میں بیٹھا ہوں پہلے قادیان میں بیٹھا تھا.اللہ تعالیٰ نے میرے پاس وہ نوجوان بھیج دیئے جو تبلیغ اسلام کے لیے دنیا میں نکل گئے اور ساری دنیا کو مسلمان بنانا شروع کیا اور کام میرا ہو گیا.ہم بچپن میں اپنی والدہ اور نانی سے ایک کہانی سنا کرتے تھے کہ تین چھوٹے چھوٹے بھائی تھے.اُن میں سے دو بھائیوں نے کوئی کام کیا اور ایک نے کچھ بھی نہ کیا.جس نے کچھ بھی نہ کیا وہ اپنے بھائیوں کے پاس گیا اور انہوں نے اپنے اپنے حصہ میں سے جو کمایا تھا اُسے کچھ دے دیا.تو کہانی میں آتا تھا کچھ اور نے نے دیا کچھ پود نے نے دیا اور چھوٹے میاں کا نام ہو گیا.یہی صورت یہاں ہے.کوئی مبلغ انگلستان جا رہا ہے، کوئی ہالینڈ جا رہا ہے، کوئی جرمنی جا رہا ہے، کوئی سوئٹزرلینڈ جارہا ہے، کوئی امریکہ جا رہا ہے، کوئی انڈونیشیا جار ہے، کوئی ملایا جا رہا ہے، کوئی فلپائن جا رہا ہے اور ہم گھر میں بیٹھے ہیں اور ہمارا کام ہو رہا ہے.دنیا کہتی ہے کہ کیا خوب تبلیغ اسلام کر رہے ہیں حالانکہ تبلیغ اسلام تو اود نا اور پودنا کر رہے ہیں اور چھوٹے میاں کا صرف نام ہو رہا ہے.تو دیکھو خدا سے مانگا تھا.خدا نے خود نوجوان پیدا کیے.خدا نے ان کے دلوں میں تبلیغ کی آگ پیدا کی اور میری زبان میں تاثیر پیدا کی.میں نے کہا آؤ اور خدا تعالیٰ کے رستہ

Page 621

$1956 608 خطبات محمود جلد نمبر 37 میں لڑائی کرو.اور فوراً انہوں نے کہا ہم حاضر ہیں اور پھر اپنے ماں باپ اور دوسرے رشتہ داروں کو چھوڑا اور چلے گئے.شمس صاحب نے کل تقریر کی ہے.وہ اتنا عرصہ باہر رہے کہ ایک دفعہ اُن کے بچے نے اپنی ماں سے آ کر کہا کہ اماں! سکول میں سارے بچے کہتے ہیں ابا ابا ! ہمارا اتبا کوئی نہیں؟ وہ اتنی مدت باہر رہے کہ چھوٹا بچہ تھا پیدا ہو کر جوان ہو گیا اور اسکول میں داخل ہو گیا ابا کی کبھی شکل نہیں دیکھی تھی.آخر ماں سے پوچھنا پڑا کہ سارے بچے آتے ہیں اور کہتے ہیں ابا نے یہ کہا اتبا نے یہ کہا ہمارا اتنا کوئی نہیں؟ اسی طرح حکیم فضل الرحمان صاحب تھے.وہ پندرہ سال باہر رہے.اور بھی کئی مبلغ ہیں اور بڑا لمبا عرصہ باہر رہے.ان کی حالتیں بدل گئیں.جوان تھے بڑھے ہو گئے.نیر صاحب مرحوم بیچارے اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے ، صوفی غلام محمد صاحب بی.اے جو ماریشس گئے ، حافظ عبید اللہ صاحب شہید یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے اپنی عمریں باہر خرچ کر دیں.اور ان کو باہر لے جانے والا کون تھا ؟ خدا ہی تھا.میں نے تو منہ سے ایک بات کہی تھی کہ آؤ! دینِ اسلام کی خدمت کے لیے میری مدد کرو اور اللہ تعالیٰ نے چاروں طرف سے میری طرف پرندے اُڑا دیئے اور کہا یہ پرندے حاضر ہیں ان کو لو اور ان کو لے کر دینِ اسلام کی تبلیغ کرو.تو پرندے خدا تعالیٰ نے بھیجے میں نے صرف اُڑائے ہی تھے لیکن نیک نامی اور شہرت مجھ کو مفت میں مل گئی.کام کرنے والے وہ تھے، بیوی بچے انہوں نے چھوڑے، وطن انہوں نے چھوڑا ، لوگوں سے گالیاں اور ماریں انہوں نے کھا ئیں اور مخالفتیں انہوں نے سہیں ، گورنمنٹوں کا بھی بعض دفعہ انہیں مقابلہ کرنا پڑا اور مجھے قادیان بیٹھے ہوئے ! ربوہ بیٹھے ہوئے یہ شہرت مل گئی کہ تبلیغ اسلام کر رہا ہے.سو اللہ تعالیٰ سے مانگو وہ دے گا اور اس طرح مانگو کہ یا اللہ ! گھر بیٹھے تو ہماری وی ضرورتیں آپ پوری کیا کر، ہمیں کسی بندے کے پاس نہ جانا پڑے اور تیرے سوا کسی اور کا محتاج نہ ہونا پڑے.( الفضل 30 جنوری 1957ء) 1 : بخاری كتاب الجمعة باب السَّاعة الَّتِي في يوم الجمعة (مفهومًا) 2 : كنز العمال جلد 7 صفحه 765 مطبوعه دمشق 2012ء

Page 622

1 انڈیکس مرتبہ: مکرم فضل احمد شاہد صاحب -1 آیات قرآنیہ -2 احادیث نبویہ 3.الہامات حضرت مسیح موعود 4.اسماء 5- مقامات 6 کتابیات 3 6 8 9 17 23

Page 623

576 3 الفاتحة آیات قرآنیہ (187) 568 فَاذْهَبُ اَنْتَ وَ رَبُّكَ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ إِذَا سَلَّمْتُم (234) 225 (25) 500.448 412 433 (2) 258، 530 لَا تَأْخُذُهُ سِنَةٌ وَلَا نَوْمٌ يَأْيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اهْدِنَا الصِّرَاطَ (256) (55) 267 وَلَوْ أَنَّ أَهْلَ الْكِتَبِ (66) 508 يَأَيُّهَا الرَّسُولُ بَلِّغُ (68) 479،464 وَاللَّهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ فَبُهِتَ الَّذِي كَفَرَ (259) آل عمران كُنتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ 402.397.254 428 (111) 402 قَدْ بَدَتِ الْبَغْضَاءُ (68) 588 (119) 379 324، 504 | رَضِيَ الله عنهم لَا نُفَضُّوا مِنْ حَوْلِكَ (120) 532 (160) 209 253 595 | الانعام النساء إِنْ هَذَا إِلَّا أَسَاطِيرُ الْأَوَّلِينَ يَأَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّكُمُ (26) 291 (2) 533 138 | الانفال 350 يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا لَقِيتُمُ 250 فئة (46تا48) التوبة رَاعِنَا (47) 211 (6) البقرة أُولَئِكَ عَلَى هُدًى (6) وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَقُولُ (9 تا 11) فَاتُوا بِسُورَةٍ مِّنْ مِثْلِهِ (24) فَاسْتَبِقُوا الْخَيْرَاتِ (49) انْظُرُنَا ( 105 ) فَأَيْنَمَا تُوَلُّوا (116) يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمُ (184) وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّي المائدة

Page 624

337 220 316 345 190 16 147 249 لَا تَحْزَنُ إِنَّ اللَّهَ مَعَنَا فَتَمَثَّلَ لَهَا بَشَرًا سَوِيًّا وَمَا تَدْرِي نَفْسٌ مَّاذَا (18) 578 15 - تَكْسِبُ غَدًا (39) طة رَبِّ زِدْنِي عِلْمًا الاحزاب إِنَّ اللَّهَ وَمَتَكَتَهُ (57) اص وَلَاتَ حِيْنَ مَنَاصِ 147 (4) 256 المؤمن وَيَسْتَغْفِرُونَ لِلَّذِينَ امَنُوا (8) الشورى جَزَاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ مِثْلُهَا 220 (115) 532 المؤمنون 325 كُلُّ حِزْبٍ بِمَا لَدَيْهِمْ فَرِحُونَ (54) النور 353 وَاللَّهُ يَهْدِي مَنْ يَّشَاءُ (47) الشعراء 299 أُزُلِفَتِ الْجَنَّةُ لِلْمُتَّقِينَ (40) يونس وَاخِرُ دَعُوهُمْ (11) فَقَدْ لَبِثْتُ فِيْكُمْ (17) يوسف عَلَى بَصِيرَةٍ أَنَا (109) ابراهيم لَئِنْ شَكَرْتُمْ لَا زِيدَنَّكُمْ (8) بنی اسرائیل (91) (41) 17 النجم وَمَا كُنَّا مُعَذِّبِينَ حَتَّى النمل ثُمَّ دَنَى فَتَدَلَّى (9) نبعَثَ (16) 403 أَمَّنْ يُجِيبُ الْمُضْطَرَّ فَكَانَ قَابَ قَوْسَيْن وَمَنْ اَرَادَ الْآخِرَةَ (63) 577 (10) (20) 224 القصص المجادلة الكهف إِنَّ الَّذِي فَرَضَ عَلَيْكَ وَإِذَا جَاءُ وُكَ حَيْرُكَ وَلَا تَقُولَنَّ لِشَيْءٍ (24) 29 الْقُرْآنَ (86) 182 بِمَا لَمْ يُحَيِّكَ بِهِ اللهُ (9) لقمان مریم

Page 625

532 155 5 الحشر القلم الفجر لَئِنْ أُخْرِجُتُمُ لَنَخْرُ جَنَّ وَلَا تُطِعُ كُلَّ حَلافٍ يا أَيَّتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّةُ (29.28) 324 التين لَهُمْ أَجْرٌ غَيْرُ مَمْنُونٍ (7) 216 (12) 549 مهِينٍ (11) الجمعة البروج يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا فَعَالٌ لِمَا يُرِيدُ إِذَا نُودِيَ ( 10 ) 224 224 (17)

Page 626

6 الف أَنَا النَّبِيُّ لَا كَذِب 573.438 احادیث ی اگر میری کوئی اور بیٹی زندہ يُصَدِّقُ بَعْضُهُ بَعْضًا 430 ہوتی احادیث بالمعنی انَا عِنْدَ ظَنَّ عَبْدِي بِي 571 الْمُؤْمِنُ يَرَى 312 میں نیزہ مار کر آنکھ پھوڑ دیتا 396 سات برس کا لڑکا ہو تو 410 172 سارے انبیاء میں شیطان سے قربانی عید کے بعد ہوتی ہے 417 انْصُرُ أَخَاكَ ظَالِمًا 156 پاک ہوتے ہیں بَدَءَ الْإِسْلَامُ غَرِيبًا ح 16 ابوبکر مجھے چھوڑ دو جس نے شادی نہ کی وہ بطال اگر تم ایسی بات دیکھو جو ہے 140 ،565 ناپسندیدہ ہو 438 444 246، 556 کیا تو نے اس کا سینہ پھاڑ کر اگر کوئی دوسرے کو تیر مارے 446 دیکھا؟ 149 عربی اور عجمی کا کوئی فرق نہیں 464 حُبُّ الْوَطَنِ مِنَ الْإِيمَان 150 اگر یہ چھوٹی سی جماعت ہلاک و شخص بلال کے جھنڈے کے ع ہو گئی 183 نیچے کھڑا ہو گا 465 عَلَيْكَ بِذَاتِ الدِّينِ 142 خدا نے مجھے خاتم النبیین بنایا 212 شیبہ ! میرے قریب ہو جاؤ 525 جمعہ کے دن ایک گھڑی ایسی کھانا کھاؤ تو بسم اللہ کہہ لو 530 ف ہے 604،215 کھانا کھالوتو الحمد للہ کہو 530 598 تہجد کے اوقات میں خدا دعائیں کپڑا پہنے لگو تو بسم اللہ کہو 530 215 نیا کپڑا اپنے لگو تو الحمدللہ کہو 530 زیادہ سنتا ہے.فَيُوْضَعُ لَهُ الْقُبُولُ فِي الأرض ک كَلِمَةُ الحِكْمَة ضَالَّةُ ایک بڑا گنہگار ہوگا 216 ہر کام سے پہلے بسم اللہ الْمُؤْمِنِ 212 | جمعہ کے دن غسل کرو 225 ہر کام سے پہلے استخارہ ل دوڑ کر مسجد میں نہ آؤ 226 | کیا کرو لَوْ كُنتُ مُتَّخِذَا خَلِيلًا 312 | ایک زمانہ میں اسلام کمزور جب اللہ کسی بندہ سے محبت کرتا لَنَا مَوْلَى وَلَا مَوْلَى لَكُمْ 589 ہوگا 247| ہے 532 532 558

Page 627

597 605 7 میرے پاس کچھ نہیں 560 میں نے ایک ماہ تک انتظار دہر کو گالی نہ دو ابوبکر ! میری خچر کی باگ چھوڑ دو کیا 575 اس قوم کے مجھ پر احسانات 575 جب خانہ کعبہ نظر آئے 1576245/575 ہیں

Page 628

8 عربی الہامات الف اليسَ اللهُ بِكَافِ عَبْدَهُ الہامات حضرت مسیح موعود 235.30 إِنِّي مُهِينٌ مَنْ أَرَادَ اهَانَتَكَ 313 ی چ يَنصُرُكَ رِجَالٌ نُّوحِي إِلَيْهِمُ چل رہی ہے نسیم رحمت کی 215 51 , دیکھ! میں تیری دعاؤں کو کیسے اردو الہامات جلد قبول کرتا ہوں الف اگر تمام لوگ منہ پھیر لیں 42 کھانسی دور ہوگئی ک 274 185 غ غَرَسُتُ لَكَ بِيَدِى ف 30 بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت مولابس فَاتُوا بِشِفَاء مِثْلِهِ 379 ڈھونڈیں گے 150،29 میں اکیلا ہوں اور خدا میرے ساتھ ہے 30 30 569

Page 629

9 اسماء 566، 573، 578، 588 | اسماعیل علیہ السلام.حضرت آتھم 180 ، 181، 187 | ابوالعطاء.حضرت مولانا آدم علیہ السلام - حضرت 153 ،212، 253 259، ابوجہل 298.223.221.220 62 ، 120 ، 121 اللہ بخش ( والد کرم الہی ظفر مبلغ 451 سپین) 265، 267 | ابو حنیفہ - حضرت امام اللہ دتا.حاجی آسائند.(بہائی بیرسٹر ) 70 141، 150 اللہ رکھا ابراہیم علیہ السلام.حضرت ابوحیان 423 153،80،79،35 ،212، ابوسفیان.حضرت 154 ، امام الدین ملک 259.221.220.213 291.289.267.265 465،200،167، امام دین ماٹا 594،588،466 | امام دین مرزا 361،360،355،292، ابوطالب.حضرت 548 | امان اللہ خاں 193.188 408 380.377.321 80 214 581.580 1630161 508 ابوعبیدہ بن الجراح 151، 590 المتہ الحی ( حرم حضرت مصلح موعود ) ابن تیمیه 144 ، 145 ، 439 | احسان علی نواب 388 ابن رشد 35 36 احمد بن حنبل 141 | ام طاہر حضرت ابن سعود 164 | احمد خاں میر 162 انس.حضرت ابن سیرین 178 اختر صاحب 125 اس احمد مرزا ابن سینا 36 | ارسطو 36 انصاری حکیم ابوبکر حضرت 28 ،48،33 ، اروڑے خان 353 354 | ایمرسن.لارڈ 127، 134، 135، 152 ، اسحاق علیہ السلام - حضرت 203.183.154.153 204، 10 3 تا 4 1 3، 316 ، اسد اللہ خان چودھری 557.438.436-319 223.221.220 $49.2 508506 235 378 564 53 420 386.385 بدرمحی الدین میاں 582،269 بشیر احمد.حضرت مرزا.30 +373-325-321.320

Page 630

10 بشیر احمد.حضرت شیخ 512،390 چرچل 34.2 528،393،248 حامد شاہ میر برہان الدین جہلمی.حضرت مولوی حبیب.سید 123 | داؤد جان ح 559 حبیب اللہ خان.امیر بلال.حضرت 465 466 حذیفہ.حضرت بلد یوسنگھ.سردار 403 حزقیل بلگانن 165.156 دوست محمد خان جانه 535534 583 دوست محمد شاہد مولانا مؤرخ احمدیت 506 386 167 200 ڈوئی 223.212 33 حسن.حضرت امام 320 ذوالفقار علی خان بہاءالدین نقشبندی 142 حسن بصری بہاء الله 71 تا79،74، 80 حسین.حضرت امام 178 446.445 95 314 320.315 164 235 305 راج گوپال اچاریہ راک فیلر رامہ صاحب رجب الدین خلیفہ رحمت اللہ شیخ رحمت اللہ مہاجر مکی رضوی نواب 167 413 177 510 8 440 486.485 414 565 151 پامر 424 حسین اعلیٰ پیر بخش.ڈاکٹر 193 حمید اللہ مہر پیری مس 13 حیرت مرزا خ ثناء اللہ مولوی امرتسری 353، خالد بن ولید - حضرت 587.586.451 599.354 ج خالد شیلڈرک 461 روم مولانا خان عبد القیوم خاں 165 رنجیت سنگھ مہاراجہ جلال الدین شمس - حضرت مولانا خلیل احمد ناصر 21 ، 23 ، 92 روشن علی (حضرت حافظ ) 523.268.95.37 33 333 زار جنید بغدادی.حضرت چ 608.512 142 و داؤد علیہ السلام.حضرت 212 223.213 چراغ الدین (حضرت منشی ) 236 وا و داحمد.حضرت میر 13 ، 535

Page 631

11 زکریا علیہ السلام 223 شمس الدین بابو زیڈ.حضرت 152 153 شہاب الدین چودھری ساره بیگم سٹائن سراج الحق نعمانی سرسید احمد خاں سقراط 544 ع عائشہ حضرت.70.54 شہاب الدین سہروردی 3940391 340 329 328.271 142 439 398 396 395 $153.132 574.573.465 525.524 شہاب الدین غوری 468 عباس حضرت 156 33 501 440 شیبه شیر محمد (یکابان) 36 شیر محمد ( دکاندار ) 56 عباس آفندی (بہائی لیڈر ) 51 80.79.73 سعد بن ابی وقاص 315 | شیر علی.حضرت مولوی سعیده بیگم.سلمیٰ تصدق حسین 193 سلطان احمد حضرت مرزا 371 387 سیف الرحمان حضرت ملک 236 صادق حسن شیخ سیوطی.حضرت علامہ سیل سلیمان علیہ السلام.حضرت 423 424 عبدالحق.ڈاکٹر 89، 235 ، 368 عبدالحق - شیخ انجینئر عبد الحلیم مثلاً صالح نور صدر الدین مولوی 240 176 160 عبدالحی (میاں.پسر حضرت خلیفۃ 400 المسيح الاول) 407.503 555.553.550.504 472.223 b عبدالحی - مبلغ عبد الخالق صوفی $51 372.368 عبدالرحمان.(ڈھا کہ والے) 126 117 طاہر احمد.حضرت مرزا شافعی.حضرت امام 141 شاہ محمد 156 طارف طلحہ حضرت شاہ نواز چودھری 392 تا 1394 شاہ نواز ڈاکٹر 314.312 شریف احمد مرزا حضرت 30 ظاہر شاہ شکسپیر عبدالرحمان اتالیق 135 156 381.378 591.590 عبدالرحمان بھائی قادیانی.حضرت 89 عبد الرحمان جالندھری 89 ،233 164 عبدالرحمان جٹ مولوی 80،51 38 | ظفر علی خاں.مولوی 556 | عبدالرحمان خادم ملک 408

Page 632

12 عبد الرحمان سیٹھ 8 عبد اللہ خاں چودھری 49 عکرمہ حضرت عبدالرحیم پراچہ صوفی 136 عبد اللہ خاں میاں 333 | علی.حضرت عبد الرحیم در د مولانا 89،59، عبد اللہ سنوری حضرت منشی 290 عبدالرحیم صوفی 124 ،295 عبد اللہ سہروردی 159 | عبد اللہ شاہ 461 451.147.34 316 315.178.152 594 593-320 164 علی بخش.ملک عبدالرحیم نیر حضرت مولوی 608 عبد اللہ کوئلم 461 علی شیر عبد الرزاق شاه 490 عبد المطلب حضرت 438، 573 علی محمد چودھری عبدالرشید قریشی 125 عبدالمنان میاں (پسر حضرت خلیفہ علی محمد راجہ 156-155 363.362 473 378.377 عبد السلام 371،367 | اول) 352، 503،371، عمر.حضرت.33.28 عبدالشکور کنزی عبدالعزیز.ماسٹر عبدالغفور صوفی 235 307 136 عبد الوحید سید عبدالوہاب میاں (پسر حضرت خلیفہ اول) 367،352،320، عبد القادر جیلانی".حضرت سید 538.504.467 466 271.155 526 557 493 492.471 588.566 151.135.48.34 عبدالقدوس.ڈاکٹر عبدالکریم.چودھری عبید اللہ حافظ عثمان - حضرت عبدالکریم سیالکوٹی.حضرت مولانا عبد اللطیف چودھری 90 تا 92 عثمان علی خاں 142 367 193 380.378.373.371 504.503 608 عمرو بن العاص.حضرت عمرو بن سعد 587.586 315 34، 36، عیسی علیہ السلام.حضرت 312-310-153.152 14 تا16، 89.49 566.320.319.316 153.68.67.45.35.25 485 223.220.213211 500.97 135 266-261259.245.317.292.291.289 80.445.439.404.360 597595.543 362 عذرا بیگم عبداللطیف.شہید حضرت صاحبزادہ عزیز الدین حکیم عصمت ( بنت حضرت مسیح موعود ) عبد الله انتم 305 423،306 | 167.161 548.292.291

Page 633

13 501494.484482 ف غالب.مرزا غلام احمد قادیانی.133 502، 506 تا 510 ، 521 تا فتح محمد سیال.چودھری حضرت 580.578.559.523 حضرت مرزا مسیح موعود علیہ السلام 583، 595 تا 599، 601 تا فراء 17.16.14.806 28 تا 31، 36 ، 42، 43، 50، غلام جنت 605 فرعون 80 فرگوسن 51، 54، 58 تا 60 ، 7 6 ، غلام حسین اوورسیئر 562 فرید الدین شکر گنج 79،68، 80، 130 ، 133 ، غلام حسین حکیم 135 فضل الرحمان حکیم 85.58 139 422.420 58 509 608 526 134، 150، 156 ، 161، غلام حسین مہر سیالکوٹی 536 فضل الرحمان فیضی 167، 179 تا 181 ، 184 ، غلام حیدر راجہ 545 فضل الرحمان مفتی 182،181 185، 187، 197 ، 205، غلام رسول نمبر 35 206، 215 ، 233 تا 235، غلام رسول حافظ وزیر آبادی 269.255.252.244 275 274 272 271 t 311 307 305.290 503 فضل حسین سر فضل کریم پراچہ 566،565 فضل محمد ہر سیاں والے 3931390 159 521 غلام فرید حضرت چاچڑاں والے فیروز خان نون ملک 387 388 314، 16 3 تا 319، 321، غلام محمد صوفی 3 3 3 3 32.329 353.351.341.340 367.365361.357 374 373 370.368 402 379 378 435 428 422.404 غلام محمد ملک 180 ، 181 | فیصل امیر 608 فیض الرحمان فیضی 390 غلام محی الدین پیر 582،269 غلام مرتضی.حضرت مرزا قابیل 471.378 381.380 208 269 270 قدرت اللہ حافظ مبلغ ہالینڈ 90 غلام نبی خواجہ.سابق ایڈیٹر قطب الدین حکیم مولوی 180 193 قیصر 492.155.154 446 445 441.440 غلام نبی مولوی 455 تا 459،457، 460 | غلام بیبین 369 21 | کارلائل 246.152

Page 634

14 کرشن علیہ السلام حضرت 442 مبارک احمد.کارکن کرم الہی ظفر 188 ، 193 طبیہ عجائب گھر کرم دین بھیں کسرای کمال الدین خواجہ 319 مبشر احمد مرزا 360 359.353.340 308.307 154 ، 492 (ابن حضرت مرزا بشیر احمد ) 321 28 محبوب عالم قاضی محسن شاہ سید $485.351.319.205 396 395.365.364 410 405 401.398 433 428 426.417 307 464.459.454.447 392.391 491.469.468.466 503،486، 510،504 محمد رسول اللہ (حضرت خاتم الانبیاء 493، 524، 525، 530، | کھیڑے خان نمبردار 80 صلی اللہ علیہ وسلم) 16،4، 543، 549، 556تا 560، 576571.566.56536.35.33.31.2624 594.592585.578122.79.71.70.68.54 606-604-600.598 135.133131.127 گل حسن.ڈاکٹر پیرزادہ 193 ل 108 لانڈ جارج لبید بن ربیعہ لیکھرام 310 140 ، 142 ، 146 تا 150 ، محمد اسحاق.حضرت 252،208 152564 تا 154، 156 ، 172، محمد بن ابی بکر 197.191.183-181 314.312 397 $60 محمد حسین بٹالوی مولوی 206204 202 199 33 C217 215 212 210 596 314 313.130 234 228 225.223 602.601.597 321 5.4 84 محمد دین.ڈاکٹر محمد دین حضرت نواب محمد سرور شاہ حضرت سید 372.368.208 محمد شریف مولوی 247-246-244t242| 266 259 254 250.141 313 محمد صادق حضرت مفتی 289 281 271267 300 296 295.292 33 313311 306.305 139 325 324 320 315 494 491 85.58.57 334332.329.328 499 لیفن مارٹن کلارک مالک.حضرت امام مالنكوف مامون مبارک احمد.شولر آف جرمنی)

Page 635

15 محمد صدیق حکیم 193 96، 109، 123 تا 126، محبوب عالم منشی 7 محمد ظفر اللہ خان.حضرت سر 129 ، 137 ، 138 ، 161 ، محی الدین ابن عربی حضرت 142 76،2تا162476،388،78، 166 ، 178 تا 181، مریم علیہا السلام 439،15،14 محمد عبد اللہ مولوی 57 184 ، 187 تا 189، 192 ، مسعود شاہ سید 236 57 $320.315 محمد علی ( بہاء اللہ کا نائب) 19774، 214، 219، 220 ، مطیع الرحمان صوفی محمد علی جناح قائد اعظم 389 238 تا 241، 272،266، معاویة محمد علی مولوی (پیغامی لیڈر) 28،15، 48، 89، 285، 302، 305، 306، 328 معین الدین چشتی حضرت 40 $299 297 284 273 352 351 331329 474 373 370.297 354549،504،503،378، 355، 357، 361، ممتاز دولتانہ محمد علی جو ہر مولانا 369166، 370، 376، 377، منظور محمد پیر محمد علی چودھری (وزیر اعظم پاکستان 380 ، 385، 390، 391، منفتاح 290،76،71،70، 291 399 تا 406 ، 415، 421 تا منیر (جسٹس) 594.593 509.142 387 368.302 420 555 98 محمد علی خان.حضرت نواب 333، 424، 429، 441،437، منیر الحسنی 370368، 373، 482، 443، 460، 473، 474، منیر الدین.واقف زندگی 136 495 476 477، 482، 491، موسی علیہ السلام.حضرت 35 محمد قاسم نانوتوی مولانا محمد موسیٰ مستری محمد میاں محمدی بیگم محمود احمد.حضرت مرزا بشیر الدین.223.213.212.153 289.267 266 259 519.515.508504 50 542.533.529.528 11.7 578.566564.543 553 355 317.292.291 $605.598.581 579 362 576.422-420.360 92 607 مولود احمد مصلح موعود محمود اللہ شاہ 372 میکس مولر 435 <2.1 58.5452.30.27.804 محمود طرزی 60، 72، 74 ، 78، 79 ، 95، محمودشاہ سید کلانوری 162 میکموہن.جنرل 471،470 235 | میور 424.201

Page 636

16 ن نادرشاه ناصر (کرنل) ناصر احمد شیخ 163.161.91 191.165 92 نعیمہ بیگم نفیلڈ.لارڈ نہرو مسعود 199 | نورالدین منیر مولوی 235 | نور علی قاری 236 160 78.10 445.444 نولڈ کے نیک محمد خان 427.424 162 ناصر احمد.حضرت مرزا نوح علیہ السلام حضرت 153 و 267 265 259.212 344341.338*336 ناصر شاہ سید ناصر نواب.حضرت میر 141 165 49.36.16.15 351 184.181179.89.51 536 267 215 214.187 288-287 311 306 297.268 نپولین نذیر احمد ڈپٹی نذیر احمد مولوی نذیر احمد علی نصرت جہاں بیگم.حضرت سیدہ ناظم الدین خواجہ 124 | نور الحق مولوی نورالدین.حضرت مولوی خلیفہ اول 314.313 292.291 584.583 361 360 355.316 566 606-273.11 565 وارث دین پادردی وقار الملک ولی اللہ شاہ سید حضرت 423 485 و ہیری 382 381 378.235 427.424 ما بیل ہٹلر 208 141 362.311.272 317، 319، 329 ، 354 تا یحیی علیہ السلام.حضرت 357509، 362، 368 تا 375، بر مياه نظام الدین اولیاء نظام الدین.میاں 409 ، 415، 422، 455، یسعیاہ 223 223 223 595تا485601،597، 509، 510 ، 526، یعقوب بیگ ڈاکٹر 373،370 نعمت اللہ خان مولوی 136، 534، 580، 596،581، یعقوب علی شیخ عرفانی 371،351 68.67 597، 605 ، 606 یہودا اسکر یوٹی 163.162.160.159

Page 637

412 17 مقامات 98، 109، 110، 113، ایبٹ آباد.165.164.40 ایران 234.192190.152 466 آرمینیا 303 301.247.246 284 275 247-244 500.480.152 602466.401.304 352.342.339.319 283.152 602.319.98 ایشیا 450.447444.388 520 485.480.474.470 471.164 542 538 490 246 607.602.134.133 بٹالہ 542.541.31.27.21 460-299-294.269 66،27، انڈونیشیا آسٹریا اٹلی احمد نگر أردن استنبول اسرائیل افریقہ 596.582 468 552 602.247 80 593.150 21 485.441.440 442 34 480 361 181.180 بحرین برلن برما 566 بریلی بغداد بلوچستان بمبئی بنارس بنگال بور نیو بھاؤ گھسیٹ پور بہاولپور 607.602.489 247 $247.222.98.87.86 $239.236.227.135.98 482480 275.263319.287.273.241 522.490 476.475 594،536 | اناطولیہ 160 تا 162 ، انطاکیہ <27.14.9 69.65.64.39 37.31 602.451.97.95.92.85.74.72 247-244 175.152.123.108.98 269.235.51 244 227 191 190 582.400.270 470-461 301.247.37.31020 امریکہ 489.485.480.476 66 63 58.47.38 607.602.503 97.9283.8078 افغانستان 165، 167، 168، 222، انگلستان الجزائر امرتر

Page 638

بطور 80 پیرس بھوپال 155 ، 389 پیل بھیرہ 160.159 بيلجيثم 480 ترکی پارہ چنار پاکستان تھائی لینڈ 135 تیونس 3 ، 21 تا 24 ، ٹاٹانگر 18 162 چک سکندر 196 چھنی 361 441 520 301 چین 247،213،46،34، 480 594.244 487.481.301.300 جبشه 403 | حیدرآباد خ 75.72 70.65.57.56 146.112.111.109 $350.345 512.351 $213.152 481.470 117.56 $91.90.65.63 جابه 155 152 151.147 237 192188.168 جاپان 277.265.264.239 جالندھر جرمنی 290 282 280.278 339.301 297.294 383 381 342 340 243.235.152.108.97 334330 275.247 458.444 398.389 483 473 472.461 $499.489.480.474 602.542.539.496 607.500 260 329.80 267 جونا گڑھ پشاور 544،264،165،21 جموں پٹیالہ پنجاب پولینڈ.162.101 385 370.201 542.480 دمشق وہلی 466 485 163 $470.381.98 593.351.305.77 420 441.391.58 135.15.3 162.21 ڈلہوزی ڈھاکہ ڈیرہ اسماعیل خان راولپنڈی 320،240،21، چاچڑاں شریف 181،180 | 364.325

Page 639

583 561548.392 542.541 602.98 439،401، سیلون 594.452 385 ش شام 19 27.18.13.1 ربوه 100-85-82-62.45.32 156.143.114.107 159 تا 161 ، 169، 172، ریتک <471.222 186 177 176.174 542 541.501.473 283.245 602 594.566.560 310.245 193 201 235 461 380-161.4 شرقپور خورد شکار پور شکاگو اشمله.122.117 152.69.68.35 زیكوسلویکیا زیورک س سین 198196.194.193 295 293 274.237 310.308.299.298 341.338 336.323 376.367 351.344 193.191 190 188 394.389.383381 301 248 246 243 433 419.397.396 480.423.419 477.193 98.471.301 ع 602.594.566 93.80.79 $337.207 545.394.382.342 $487.480 500 عدن 80 عراق 448، 463، 472، 479، سرگودھا 499.497 496.487 520، 503، 512،505، سکنڈے نیویا 521 520.518.516 523، 528، 533، 535، سمبڑیال $52.21.20 سندھ 555.548.538.537 526.367.274.201.53 604.585.568.563 247.246.241.222152.31.27 156 سوئٹزرلینڈ 468.444.401.303 480.330.309.28375 566 564 471 470 607.500.489 63.34.33.29 80 371 علی پور $80.58.50 رحیم یارخان رنگون روس 152، 191، 244، 247، سیالکوٹ 380 377.198 197 480 301 300-282

Page 640

20 20 607.597595.580 کابل 608 گو پنجن 10 ، 390 گوجرانوالہ 565.555 499 602 گورداسپور 507،385،319 156،136، گولڈ کوسٹ (غانا) 536 291 160 159 192 ل 353 لائل پور $282.122 477.394.382 9.705.301 لاہور 34.58.27.21.19.11 کا کیشیا 162 غزنی غ فتح گڑھ چوڑیاں فرانس فلپائن 299 $123.63.35.9 480 283.152 $28.27 247، 481، 487، 499، کپورتھلہ $18.9.3.2 کراچی 607.602.500 115.104.80.69.21 $222.93.84 174 171166.136 602 471.334.227 112 109 107.96 235 194 177.175 297 165.155.137.122 545-302-243-240 205 198.169.166 314 294 266.240.214 441 307.299.297.295 378.377.235 389.386 336.313 499 کربلا کشمیر کوئٹہ کولون فلسطین فیروز پور ق قادیان 5350.28 112 110 109.89.80 208.156.133 117 421 420 392.391 364.321 ‹512 <477‹476.458 362 29 535.533.529.528 596.582.578.565 470-222 لبنان 580 166 لکھنو 236، 285، 291، 294، کوہاٹ 297تا299، 304، 307، کھاریاں کینیڈا 333.329.321.317 383 371 363.362 403 390 388.384 361، 364، الدھیانہ 515،455، 18 5، 522، گجرات 554.524.502.408-565.561.556.524

Page 641

112.111 391 490 283 28 21 28،13، 94، 241، 210 ، 214، 219، 224، نواں پنڈ لندن 258 249 237 230 283 273 264‹260 310.309279 277 473.443 381.310 475 476 320، 330، 337، 342، نیورمبرگ شنگٹن 543.399.351 $191.165 ليبيا لیگوس 33 594 475 | مصر 470334.244.222 594.542.541.471 600 608 $94.93.90.27 ہالینڈ $148.131.4.495.388.4 202 182 154 153.480.283.242.152.97 496 553.552.487.484 348 347 340 298 193 436.427.402400 607 167 ماریشس مالیر کوٹلہ مانچسٹر مدراس 136 454،438، 465، 466، ہانگ کانگ 148.4 545 524.519.548.470 200 199.183.182 572.566.558.557 21.28.22.21 ہزارہ ہندوستان 295 271 205-204 600.592 $480.248 403.167.161.160.40 607.602.481.455.447442.440 401 400 347.296 505.465.436‹427 587.566.558.553 480.472 470.468 545.80.21 526.162 594.541.540.481 602 542.480 305 402 ٹڈل ایسٹ مراکش هنگری مردان مری 321 | ندوه 196،194 ، ننکانہ صاحب 193 | ہوشیار پور ملتان منصوری 592.588 27 594.247-246

Page 642

22 419 342 319.309 301 300 284.283 41.39.36.34.33.29.264.90 83.78.68 66.64.47 500.474.281 110 109.90.87.85.474.450.447.421 171.129.123.113 ی 490488.480.475 $239.237.222.192 602.564.535 275.248.242.241 28.16.9 ہیمبرگ یورپ

Page 643

386 178 422 23 کتابیات الف این کثیر 423 | تذکره الحكم الفتح 56 156 تذكرة المهدي 600 تریاق القلوب 357 قصص القرآن سیاست (اخبار) 274، 340 سیر روحانی 501 ق الفضل 193،160، تفسیر کبیر 429.37 م 194، 287، 354، 367، تورات 443،58 | مثنوی 414 406.380 378 * 376 مدینہ (اخبار) 410، 485 ،498، 503، حقیقۃ الوحی 341 ، مذہبی راہنما 505 379.378 المصلح 545 مند احمد بن حنبل 485 <442.440 443 423 انجیل 443 خطبہ الہامیہ 507 نزول المسیح 357 بائیل 566،438،287 | در منشور 423 بحر محیط 423 دیباچہ تفسیر القرآن 262، نوائے پاکستان 556،336 بخاری 329 597.596.423 263، 265 | نوائے وقت 291.290 246 زبور 212 ہیروز اینڈ ہیرو وز شپ 408 1556.409 سفینہ (اخبار) پیغام صلح 502.194 559.553.506.505 560

Page 643