Khutbat-eMahmud V36

Khutbat-eMahmud V36

خطبات محمود (جلد 36)

خطبات جمعہ ۱۹۵۵ء
Author: Hazrat Mirza Bashir-ud-Din Mahmud Ahmad

Language: UR

UR
Miscellaneous

حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے خطبات علوم و معارف کا ایک انمول خزانہ ہیں اور پیش گوئی کے الہامی الفاظ ’’وہ علوم ظاہری و باطنی سے پُر کیاجائے گا‘‘ پر شاہدناطق ہیں۔ آپؓ کا دور خلافت نصف صدی سے زیادہ عرصہ پر محیط ہے جو ایک تاریخ ساز دور تھا۔ اس نہایت کامیاب اور طویل دور میں آپؓ نے اپنے خطبات جمعہ کے ذریعہ جماعت کی تعلیم و تربیت میں نہایت اہم کردار ادا کیا۔ سیاسی، سماجی اور مذہبی افقوں پر نمودار ہونےوالے ہر معاملے پر بروقت اور درست رہنمائی عطافرمائی۔ الغرض یہ خطبات جمعہ جماعت احمدیہ کا ایک بہت ہی قیمتی خزانہ اور سرمایہ ہیں۔ جسے فاؤنڈیشن نے یکجا کرکے کتابی شکل دی ہے۔


Book Content

Page 1

خطبات مود خطبات جمعہ 1955 فرموده سیدنا حضرت مرزا بشیرالدین محموداحمد مصلح الموعود خلیفہ آیح الثانی 36

Page 2

KHUTBAT-I-MAHMUD by HADRAT MIRZA BASHIR-UD-DIN MAHMUD AHMAD KHALIFATUL MASIH II Published by: Printed by:

Page 3

بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ پیش لفظ اللہ تعالیٰ کے فضل و احسان سے فضل عمر فاؤنڈیشن کو حضرت مصلح موعود کے خطبات کی چھتیسویں چلد احباب کی خدمت میں پیش کرنے کی سعادت نصیب ہو رہی ہے.الْحَمْدُ لِلَّهِ عَلَى ذلِکَ.اس جلد میں 1955ء کے 39 خطبات جمعہ شامل ہیں.حضرت فضل عمر سلطان البیان کے خطبات علوم و معارف کا انمول خزانہ ہیں اور پیشگوئی کے الہامی الفاظ وہ علوم ظاہری و باطنی سے پر کیا جائے گا“ پر شاہد ناطق ہیں.حضرت مصلح موعود کا دور خلافت جو کم و بیش 52 سال پر محیط ہے ایک تاریخ ساز دور تھا.اس نہایت کامیاب طویل دور میں حضور کے خطبات نے جماعت کی علمی و روحانی ترقی اور تعلیم و تربیت میں نہایت اہم کردارادا کیا.حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ فرماتے ہیں:." حضرت مصلح موعود کے خطبات آپ کے قریب بیٹھ کر سننے کا موقع ملتا تھا.تمام دنیا کے مسائل کا آپ کے خطبات میں مختلف رنگ میں ذکر آتا چلا جاتا تھا.دین کا بھی ذکر ہوتا اور دنیا کا بھی.پھر ان کے باہمی تعلقات کا ذکر ہوتا تھا.سیاست جہاں مذہب سے ملتی ہے یا جہاں مذہب سے الگ ہوتی ہے غرضیکہ ان سب مسائل کا ذکر ہوتا تھا.چنانچہ قادیان میں یہی جمعہ تھا جس کے نتیجہ میں ہر کس و ناکس ، ہر بڑے چھوٹے اور ہر تعلیم یافتہ و غیر تعلیم یافتہ کی ایک ایسی تربیت ہو رہی تھی جو بنیادی طور پر سب میں قدر مشترک تھی.یعنی پڑھا لکھا یا ان پڑھ، امیریا غریب اس لحاظ سے کوئی فرق نہیں رکھتا تھا کہ بنیادی طور پر احمدیت کی تعلیم اور احمدیت کی تربیت کے علاوہ دنیا کا شعور بھی حاصل ہو جایا کرتا تھا.چنانچہ بہت

Page 4

سے احمدی طلباء جب مقابلہ کے مختلف امتحانات میں اپنی تعداد کی نسبت زیادہ کامیابی حاصل کرتے تھے تو بہت سے افسر ہمیشہ تعجب سے اس بات کا اظہار کیا کرتے تھے کہ احمدی طلباء میں کیا بات ہے کہ ان کا دماغ زیادہ روشن نظر آتا 66 ہے ان کو عام دنیا کا زیادہ علم ہے.“ ( خطبات طاہر جلد نمبر 7 صفحہ 10) ہمارا یہ روحانی و علمی ورثہ سلسلہ کے لٹریچر میں پکھرا پڑا تھا اور جماعت کے دوستوں کو اس سے استفادہ کرنا مشکل تھا.فضل عمر فاؤنڈیشن اس جماعتی ضرورت کو پورا کرنے کیلئے ان خطبات کو کتابی شکل میں شائع کر رہی ہے.یہ جواہر پارے اب آپ کے ہاتھوں میں ہیں.ان کی زیادہ سے زیادہ اشاعت سے جہاں ادارہ کے لئے اس کام کو جلد پایہ تکمیل تک پہنچا نا آسان ہوگا وہاں نئی نسل کی تربیت کے لئے بھی یہ بہت ممد و معاون ہوں گے.اس جلد کی تیاری کے سلسلہ میں جن دوستوں نے ادارہ کی عملی معاونت فرمائی ان میں مکرم عبدالرشید صاحب اٹھوال ، مکرم حبیب اللہ صاحب باجوہ ، مکرم فضل احمد صاحب شاہد ، مکرم عبد الشکور صاحب باجوہ، مکرم عدیل احمد صاحب گوندل، مکرم ظہور احمد صاحب مقبول ، مربیان سلسلہ قابل ذکر ہیں.خاکساران سب کا دلی شکر یہ ادا کرتا ہے اور دعا گو ہے کہ خدا تعالیٰ ان کے علم و فضل میں برکت عطا فرمائے اور اپنے فضلوں اور رحمتوں سے نوازے.آمین

Page 5

صفحہ 1 10 21 31 43 54 فہرست مضامین خطبات محمود جلد 36 خطبه نمبر تاریخ بیان فرموده (خطبات جمعہ 1955ء) موضوع خطبه 1 7 جنوری 1955 ء نئے سال کو اس عزم اور ارادے کے ساتھ شروع کرو کہ ہم نے محنت کرنی ہے اور ہماری محنت ہی سے اعلیٰ نتائج پیدا ہوں گے.14 جنوری 1955 ء جماعت کے ہر فرد کو یہ عہد کر لینا چاہیئے کہ وہ محنت سے کام کرے گا.عقل سے محنت کرے گا اور اپنے آپ کو ہر کام کے نتیجہ کا ذمہ وار قرار دے گا.28 جنوری 1955ء ہر جماعت جلد سے جلد تحریک جدید کے وعدوں کی فہرست مکمل کرے اور فور امرکز میں بھجوائے.44 فروری 1955 ء جماعت احمدیہ کے قیام کی اصل غرض یہی ہے کہ اسلامی تعلیم سے لوگوں کو روشناس کرایا جائے.5 11 فروری 1955ء قانون کی پابندی اور احترام کے متعلق اپنے فرائض کو ان ایام میں زیادہ تعتمد اور احتیاط سے پورا کرو 6 18 فروری 1955ء تحریک جدید کے وعدوں میں ابھی تک سوالاکھ روپے کی کمی ہے.میں جماعت کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ اب ایسا قدم اُٹھائے جس سے پہلی شرمندگی دور ہو سکے

Page 6

خطبه نمبر تاریخ بیان فرموده موضوع خطبه 7 25 فروری 1955 ء اللہ تعالیٰ نے ساری دنیا میں اسلام کو پھیلانے کا کام ہمارے ذمہ لگایا ہے 15 اپریل 1955 ء ہمارے پاس ایک ایسا خزانہ ہے جو کسی کے پاس نہیں ہے اور وہ خزانہ دعا کا ہے.اس خزانہ کو مضبوطی سے پکڑو اور ہاتھ سے جانے نہ دو 9 22 اپریل 1955 ء الہامات حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام میں میری علالت اور شام کی طرف سفر کر نے کا ذکر صفحہ 64 68 70 70 10 29 اپریل 1955 ء فارسی خود ایسی زبان ہے کہ جسے عربی اور اُردو آتی ہو وہ ایک دو ماہ کے اندر اندر آسانی سے اسے سیکھ سکتا ہے 72 11 13 مئی 1955 ء ہمیں دعا کرنی چاہیے کہ جس غرض کے لئے ہم آئے ہیں اللہ تعالیٰ اُس کو پورا کرے 1 20 مئی 1955ء دنیا میں امن کے قیام اور کمیونزم کے مقابلہ کے لئے سارے گر سورۃ فاتحہ میں موجود ہیں 75 76 13 27 مئی 1955 ء سورۂ فاتحہ میں اشتراکیت اور سرمایہ داری کے جھگڑے کے استیصال اور دنیا میں امن قائم کرنے کے گر بتائے گئے ہیں 79 14 3 جون 1955 ء اگر دنیا قرآن مجید کے بتائے ہوئے اصولوں پر عمل کرے تو سارے جھگڑے ختم ہو جا ئیں 83

Page 7

خطبه نمبر تاریخ بیان فرموده موضوع خطبه 15 10 جون 1955 ء سورہ فاتحہ میں خدا تعالیٰ نے وہ گر بیان کئے ہیں جن سے کمیونزم اور کیپٹلزم کا مقابلہ کیا جاسکتا ہے صفحہ 88 16 یکم جولائی 1955 ء خدا تعالیٰ کی تمام برکات اطاعت اور تنظیم سے وابستہ ہیں 93 17 22 جولائی 1955 ء نوجوان اس رنگ میں سلسلہ کی خدمت کریں کہ اسلامی لٹریچر کی زیادہ سے زیادہ اشاعت ہو سکے 18 5 اگست 1955 ء قرآن کریم کی آخری تین سورتوں میں سورۃ فاتحہ کا ہی مضمون بیان کیا گیا ہے 19 12 اگست 1955 ء سورۃ اخلاص میں عقیدہ تثلیث کی تردید اور قرآن کریم کا خلاصہ بیان کیا گیا ہے 20 19 اگست 1955ء اپنے آباؤ اجداد کی نیکیوں کو قائم رکھو اور دوسروں کے لیے ابتلاء کا موجب نہ بنو 21 26 اگست 1955 ء خدا تعالیٰ کے اس وعدے پر سچا اور کامل ایمان رکھو کہ بالآخر اسلام دنیا کے تمام ادیان پر غالب آئے گا 22 2 ستمبر 1955 ء اطمینان قلب حاصل کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ پر ایمان لانا اور اُس کے ساتھ تعلق پیدا کرنا ضروری ہے 23 9 ستمبر 1955 ء مغربی ممالک میں اب اسلام کی فوقیت اور برتری کو تسلیم کرنے کا رجحان سرعت کے ساتھ ترقی کر رہا ہے 99 99 101 105 111 115 118 120

Page 8

خطبه نمبر تاریخ بیان فرموده موضوع خطبه 24 16 ستمبر 1955 ء مغربی دنیا اسلام کی طرف مائل ہو رہی ہے اس موقع سے فائدہ اٹھاؤ اور بڑھ چڑھ کر اپنی زندگیاں تبلیغ کے لیے وقف کرو.وقف زندگی کی عظیم الشان تحریک سے ہی اسلام کی آئندہ ترقی وابستہ ہے 23 ستمبر 1955 ء اسلام کے غلبہ کی یہی صورت ہے کہ ہم میں نسلاً بعد نسل ایسے لوگ پیدا ہوتے رہیں جو اسلام کی اشاعت کے لیے اپنے آپ کو وقف کریں صفحہ 133 148 26 30 ستمبر 1955 ء اسلام اُس وقت تک غالب نہیں آسکتا جب تک کہ ہم میں متواتر خدمت دین کرنے والے افراد پیدا نہ ہوں 171 27 7 اکتوبر 1955 ء اسلام اور سلسلہ کی ترقی ایسے مخلص اور منتقی انسانوں سے وابستہ ہے جو خدمت دین کے لیے اپنے آپ کو وقف کردیں 177 28 14 اکتوبر 1955 ء اپنی زندگیاں اسلام کی خدمت کے لئے وقف کرو اور یہ عہد کردو کہ تم اپنی اولاد در اولاد کو بھی وقف کرتے چلے جاؤ گے 182 29 21 اکتوبر 1955ء ایک دوسرے کے دل میں اسلام کے لیے اپنی زندگیاں وقف کرنے کی روح کو تازہ رکھو اور اس کے لیے آدمی مہیا کرتے رہو 30 28 اکتوبر 1955 ء تمہاری راتیں اور تمہارے دن دعاؤں میں صرف ہونے چاہئیں تاکہ تمہیں خدا تعالیٰ کی تائید اور نصرت حاصل ہو 196

Page 9

صفحہ 222 238 243 248 254 269 284 خطبه نمبر تاریخ بیان فرموده موضوع خطبه 31 4 نومبر 1955 ء قرآن کریم اور حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کے الہامات دونوں آنحضرت ﷺ کو خاتم النبین قرار دیتے ہیں 11 نومبر 1955 ء اللہ تعالیٰ کے وعدوں کو قریب کرنے کے لیے ضروری ہے کہ 33 18 نومبر 1955ء تمام احباب خصوصاً نو جوان دعاؤں میں لگ جائیں دنیا میں حق اور عدل و انصاف کے ساتھ صداقت کی تبلیغ کرو.جبر کے ساتھ اپنی مزعومہ ہدایت کی تبلیغ کرنے والے ہر گز حق اور عدل کو ملحوظ نہیں رکھ سکتے 34 25 نومبر 1955 ء جو لوگ اپنے اندر صفات البیہ پیدا کر لیتے ہیں اللہ تعالیٰ | فرشتوں کو اُن کے تابع کر دیتا ہے 35 2 دسمبر 1955ء | مرکز سلسلہ ربوہ کو باہمی تعاون کے ساتھ صاف ستھرا اور خوبصورت شہر بنانے کی کوشش کرو 36 9 دسمبر 1955 ء 1- جلسہ سالانہ کے موقع پر قادیان جانے کی اہمیت 2 درد صاحب مرحوم نے چالیس سال تک نہایت ثابت قدمی کے ساتھ سلسلہ کی خدمت کی ہے 37 16 دسمبر 1955 ء اللہ تعالی محمد رسول اللہ ﷺ کے طفیل نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الامينُ عَلَى قَلبكَ والا نظارہ دکھا دے تا کہ کسی قسم کا تر ڈ دباقی نہ رہے اور دل کو کامل سکون اور اطمینان حاصل ہو

Page 10

صفحہ 300 304 خطبه نمبر تاریخ بیان فرموده موضوع خطبه 38 23 دسمبر 1955 ء ربوہ کے دوست جلسہ سالانہ پر مہمانوں کی زیادہ سے زیادہ خدمت کرنے اور انہیں آرام پہنچانے کی کوشش کیا کریں 39 30 دسمبر 1955 ء وقت آ گیا ہے کہ جماعت اپنے تن من دھن سے اسلام کی تقویت کے لیے پورا زور لگا دے

Page 11

$1955 1 1 خطبات محمود جلد نمبر 36 نئے سال کو اس عزم اور ارادے کے ساتھ شروع کرو کہ ہم نے محنت کرنی ہے اور ہماری محنت ہی سے اعلیٰ نتائج پیدا ہو نگے.فرموده 7 / جنوری 1955ء بمقام ربوہ) تشہد ، تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا." پچھلے جمعہ کے بعد مجھے شدید نزلہ ہوا.اس قسم کا شدید نزلہ مجھے کئی سال سے نہیں کی ہوا تھا.پہلی دو راتیں تو ایسی گزریں کہ رات بھر سوتے اور جاگتے ناک سے اس قدر پانی بہتا رہتا ہے تھا کہ اس سے تکیہ بھر جاتا تھا.اس کے بعد مرض میں کمی آنی شروع ہوئی لیکن ابھی تک پوری طرح مرض نہیں گئی.تھوڑی سی شکایت باقی ہے بہت سی جاتی رہی ہے.یہ جمعہ اس سال کا پہلا جمعہ ہے.پچھلا جمعہ گزشتہ سال کا آخری جمعہ تھا.ہمیں اپنے اعمال پر غور کرتے ہوئے سوچنا چاہیے کہ ہر سال ہمارے کام کو کتنا بڑھا دیتا ہے اور ہماری ذمہ داری کو کتنا ادا کر دیتا ہے.ہر سال ہی میں جماعت کو اس امر کی طرف توجہ دلاتا ہوں.اور ہر سال ہی آپ میں سے مخلص لوگ نئے نئے عزم اور ارادے کرتے ہیں.لیکن جب سال گزر جاتا ہے تو ڈھاک 1 کے وہی تین پات نظر آتے ہیں.ہمارے ملک میں سب سے بڑی مصیبت یہ ہے یا یوں کہو اس خطبہ کے بعد پھر شدید دورہ زکام کا ہوا جس کی وجہ سے بعد کا جمعہ میں نہیں پڑھا سکا.

Page 12

$1955 2 خطبات محمود جلد نمبر 36 کہ ہماری قوم کی سب سے بڑی مصیبت یہ ہے کہ ہم نے محنت کا مفہوم بالکل بدل دیا ہے.ایک نیک بات ہمارے بزرگوں نے ہمارے اندر جاری کی تھی اور ایک روحانیت کا دروازہ انہوں نے ہمارے لئے کھولا تھا.لیکن ہم نے وہی چیز دین کے خلاف اُلٹ کے رکھ دی اور اس کو ہم نے اپنے نفس کا بہانہ بنالیا.وہ بات یہ تھی کہ اعمال کے نتائج خدا تعالیٰ مرتب کرتا ہے.انسان صرف کام کرتا ہے.اس کا مطلب یہ تھا کہ تمہارے اعمال کے جو اچھے نتائج نکلیں تم انہیں اپنی طرف نہیں بلکہ خدا تعالی کی طرف منسوب کیا کرو.جیسے حضرت ابراہیم علیہ السلام فرماتے ہیں.وَإِذَا مَرِضْتُ فَهُوَ يَشْفِينِ 2 کہ جب میں بیمار ہو جاتا ہوں تو خدا تعالیٰ مجھے شفا دیتا ہے.یعنی بیماری میری طرف سے آتی ہے اور شفا خدا تعالیٰ کی طرف سے آتی ہے.اس میں یہی نکتہ تھا.کہ ہر نیک بات خدا تعالیٰ کی طرف منسوب کیا کرو اور ہر بُری بات اپنی طرف منسوب کیا کرو.لیکن ہم نے وہی بات اٹھا کر ان کے اور دین کے خلاف کر دی اور جب ہمارے کسی کام کا نتیجہ نہیں نکلتا تو ہم اسے اپنی طرف منسوب نہیں کرتے بلکہ اسے خدا تعالیٰ کی طرف منسوب کر دیتے ہیں.اور کہتے ہیں ہم نے تو محنت کی تھی لیکن اس کا نتیجہ نکالناخدا تعالیٰ کے اختیار میں تھا.اگر اس نے نہیں نکالا تو اس میں ہمارا کیا اختیار ہے.اس طرح ہم اپنی کمزوری کو خدا تعالیٰ کی طرف منسوب کرتے ہیں.حضرت خلیفۃ امسیح الاول فرمایا کرتے تھے کہ مسلمانوں نے خدا تعالیٰ کے نام کا اتنا غلط استعمال کیا ہے کہ انہوں نے دین کی کوئی چیز باقی نہیں چھوڑی.کسی زمانہ میں جب مسلمان کہتے تھے کہ اس گھر میں خدا ہی خدا ہے.تو اس کا یہ مطلب ہوتا تھا کہ اس گھر میں خدا تعالیٰ کی برکت پائی جاتی ہے، خدا تعالیٰ کی حکومت اس گھر میں ہے.لیکن آجکل لوگ جب کہتے ہیں کہ اس گھر میں اللہ ہی اللہ ہے تو اس کے معنے یہ ہوتے ہیں کہ اس گھر میں کوئی چیز نہیں.گویا جس چیز کو خدا تعالیٰ کی حکومت اور اس کی طاقت اور قوت کے لیے استعمال کیا جاتا تھا اسے اب نفی اور صفر کے لیے استعمال کیا جاتا ہے.آپ فرمایا کرتے تھے کہ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کے نزدیک اب صفر ہے اس کی کوئی طاقت اور قوت نہیں.وہی معاملہ ہم نے تو کل سے کیا ہے.ہم ایک کام کرتے ہیں.اور جب اس کے لیے غلط یق اختیار کرتے ہیں ، اس کے لیے کمزور محنت کرتے ہیں یا اس سے قطعی غفلت کا معاملہ کرتے

Page 13

خطبات محمود جلد نمبر 36 3 $1955 ہیں اور لا زماً اس کا نتیجہ صفر نکلتا ہے تو اسکا الزام خدا تعالیٰ کو دیتے ہیں اور کہتے ہیں اس کا موجب خدا ہے.ہم نے تو اپنا پورا زور لگا دیا تھا.نتیجہ نکالنا خدا تعالیٰ کے اختیار میں تھا ہمارے اختیار میں نہیں تھا.ہمارا مبلغ کلرک، آڈیٹر ، نائب وکیل ، نائب ناظر ، ناظر ، وکیل اور پھر ہمارے استاد، پروفیسر اور علماء سارے کے سارے یہ کہتے ہیں کہ ہم نے اپنا پورا زور لگا دیا ہے اور مقدور بھر محنت کی ہے لیکن خدا تعالیٰ نے ہمارا بیڑا غرق کر دیا ہے.گویا ان میں سے ہر ایک یہ سمجھتا ہے کہ ہر اچھا کام اس سے سرزد ہوتا ہے اور بیڑا غرق کرنا خدا تعالیٰ کے ذمہ ہے.گویا جس ذات کو کسی زمانہ میں بیڑا تیرا نے والا کہا جاتا تھا اب ہم اپنی غفلت اور سستی پر پردہ ڈالنے کے لیے اسے بیڑا غرق کرنے والا کہتے ہیں.اور اگر وہ بیٹر ا غرق کرنے والا نہیں بلکہ بیڑا تیرا نے والا ہے تو بیڑا غرق ہم کرتے ہیں اور اپنی نادانیوں اور غفلتوں پر پردہ ڈالنے کے لیے اسے خدا تعالیٰ کی طرف منسوب کرتے ہیں.اگر تم اس سال یہی نکتہ سمجھ لو کہ محنت اور قربانی کے بغیر دنیا میں کوئی کام نہیں ہوتا اور اگر واقع میں تم محنت اور قربانی کرو تو ناممکن ہے اس کا اعلیٰ نتیجہ پیدا نہ ہو.تمہارے کسی کام کا اعلیٰ نتیجہ نہیں نکلتا تو تمہارا بیٹا خدا تعالیٰ نے غرق نہیں کیا تم نے خود کیا ہے.اگر تم اس نکتہ کو سمجھ لو تو تمہاری کا یا پلٹ جائے.اب ہمارا کارکن یہ کہتا ہے کہ میں نے تو اتنے گھنٹے کام کیا ہے.نتیجہ نکالنا تو خدا تعالیٰ کا کام تھا میرا کام نہیں تھا.لیکن اگر وہ 6 گھنٹے کی بجائے 8 یا 9 گھنٹے بھی بیٹھتا ہے اور اپنا وقت سستی اور غفلت میں ضائع کر دیتا ہے تو اُس کا کیا کی فائدہ ؟ اس طرح اگر وہ پچاس گھنٹے بھی بیٹھے تو اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوسکتا.پھر ا کثر کا رکن تو ایسے ہوتے ہیں جو کام کرتے ہی نہیں.پھر ہمارے دفاتر میں چھٹیوں کا سلسلہ اس قسم کا چلا جاتا ہے کہ ہماری چھٹیاں گورنمنٹ کی چھٹیوں سے بھی بڑھ جاتی ہیں.اب میں نے اس بارہ میں سختی شروع کی ہے تو چھٹیوں کا رجحان ایک حد تک کم ہو گیا ہے.لیکن پہلے یہ دستور تھا کہ ہمارے دفاتر میں چھٹیاں ہی چھٹیاں ہوتی تھیں چنانچہ جمعہ کی چھٹی کے علاوہ سال میں 80, 90 چھٹیاں ہو جاتی تھیں.اب بھی سارے پاکستان میں سال بھر میں چھ چھٹیاں ہوتی ہیں.تو ہمارے ہاں دس چھٹیاں ہوتی ہیں.حالانکہ تاجر اپنا کام کرتا ہے اور کوئی چھٹی نہیں کرتا.کارخانہ دار اپنا روزانہ کام کرتا ہے اور کوئی چھٹی نہیں کرتا.پس ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم کوئی ایک چیز اختیار کر لیں.

Page 14

خطبات محمود جلد نمبر 36 4 $1955 جیسا کہ میں نے جلسہ سالانہ کے موقع پر جماعت کے افراد سے کہا تھا کہ وہ ہر سال کوئی ایک خُلق اختیار کرنے کا عہد کر لیا کریں.میں کہتا ہوں کہ تم اس سال یہ خلق اختیار کرو کہ تم محنت کا طریق اختیار کرو.اور اس کے ساتھ یہ یقین پیدا کرو کہ اگر تم محنت کرو گے تو لازماً اس کا اچھا نتیجہ نکلے گا.اور اگر نتیجہ اچھا نہیں نکلتا تو تم کذاب ہو تم نے محنت کی ہی نہیں ورنہ کیا وجہ تھی کہ تمہاری محنت کا اچھا نتیجہ نہ نکلتا.اگر تم اس نکتہ کو سمجھ لو تو تمہاری کا یا پلٹ جائے گی اور ہر سال تمہارے کاموں کا عظیم الشان نتیجہ نکلے گا.کیونکہ یہ ناممکن ہے کہ کوئی محنت کرے اور پھر اس کے کام کا اچھا نتیجہ نہ نکلے.ہمیں نظر آتا ہے کہ جس کسی نے بھی محنت کی ہے اس کی کایا پلٹ گئی ہے.پھر کوئی وجہ نہیں کہ ہم محنت کریں اور ہماری کا یا نہ پلٹے.بڑی مصیبت یہ ہے کہ جو ہمارے ذمہ دار کارکن ہیں انہوں نے اخلاقی نقطہ نگاہ کوسمجھنے کی کوشش ہی نہیں کی.مثلاً ناظر اعلی ہیں.ان کا سب سے پہلا کام یہ ہے کہ وہ ماتحت نظارتوں کے کام کا معائنہ کریں.لیکن عملاً انہوں نے گزشتہ چالیس سال میں ایک دفعہ بھی معائنہ نہیں کیا.گویا یہ ایسی ہی بات ہے جیسے کوئی شخص کہے کہ یہ فلاں جامع مسجد کے امام ہیں.اور ان میں خوبی یہ ہے کہ گزشتہ پچاس برس میں انہوں نے ایک نماز بھی نہیں پڑھائی.اب یہ بات کوئی بیوقوف ہی کہہ سکتا ہے.بلکہ میں تو کہتا ہوں اگر تم پاگل خانہ میں بھی چلے جاؤ تو وہاں بھی کوئی یہ بات نہیں کہے گا.لیکن ہمارے ہاں یہ بات کہیں گے کہ ناظر صاحب اعلیٰ نے پچھلے چالیس سال میں ایک دفعہ بھی ماتحت نظارتوں کا معائنہ نہیں کیا.حالانکہ ان کا سب سے بڑا کام یہی تھا.اگر وہ سال میں تین چار دفعہ بھی نظارتوں کا معائنہ کر لیتے تو ہم سمجھتے انہوں نے ایک حد تک اپنا کام کیا ہے.اور پھر جب وہ سال میں تین چار دفعہ معائنہ کرتے تو ممکن تھا کہ وہ صرف کاغذات ہی دیکھتے.لیکن اگر ان میں عقل ہوتی تو وہ یہ بحث کرتے کہ فلاں نظارت کا کام کیوں سست ہے.کل ہی مجھے دیہاتی مبلغین ملنے آئے تو میں نے ناظر صاحب دعوت و تبلیغ سے کہا کہ مبلغین اپنی رپورٹ میں ملاقاتوں کے خانہ میں لکھتے ہیں کہ وہ عرصہ زیر رپورٹ میں فلاں فلاں سے ملے ہیں.لیکن اگر رپورٹوں کو دیکھا جائے تو ایک رپورٹ میں مثلاً احمد محمد ، اور خالد کے نام آتے ہیں.دوسری رپورٹ میں نظام دین ، تمس دین اور جلال دین کے نام آجاتے ہیں.

Page 15

$1955 5 خطبات محمود جلد نمبر 36 تیسری رپورٹ میں مبارک احمد ، ناصر احمد ، بشیر احمد کے نام آجاتے ہیں.اور چوتھی رپورٹ میں قدرت اللہ شہاب اللہ، اور بقا ء اللہ کے نام آجاتے ہیں.ناظر صاحب ابھی نئے ہیں لیکن میں نے ان سے کہا کیا آپ نے کبھی یہ سوچا ہے کہ پہلے تین شخص جنہیں ہمارے کوئی مبلغ ملے تھے وہ کہاں گئے ؟ وہ مرگئے ہیں یا گاؤں چھوڑ گئے ہیں کہ بعد میں ان کا ذکر ہی نہیں آتا.اگر تم غور کرتے تو تم سمجھ جاتے کہ ان لوگوں سے ان کی اتفاقی ملاقات ہوئی تھی.دوسری دفعہ چونکہ تین اور آدمی اتفاقا مل گئے اس لئے انہوں نے انکے نام دے دیئے.بہر حال تم نے کبھی مبلغین سے پوچھا کہ تمہاری پہلی تبلیغ کہاں گئی ؟ آخر تم نے سال بھر کیا کام کیا ہے اگر تم انہیں پکڑتے تو لازمی طور پر یا یہ لوگ ختم ہو جاتے اور یا کام کرتے.یہی حال بیرونی انجمنوں کا ہے.ان میں بھی ہر سال نئے ارادے اور نئے عزم ہوتے ہیں.نئے وعدے ہوتے ہیں.لیکن ان کے نتائج بہت کم نکلتے ہیں.اب تک ہماری ساری کمائی ہمارے بیرونی مشن ، چند تعلیمی ادارے اور چندے ہیں.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ کالج اور سکول دوسرے لوگوں کے پاس بھی ہیں.لیکن ہمارے پاس مبلغ ہیں، تبلیغی مشن ہیں جو اُن کے پاس نہیں.پھر ہمارے لوگ چندہ بھی بڑی محنت سے دیتے ہیں.اگر چہ جتنا چندہ اکٹھا کیا جاسکتا ہے ہمارا موجودہ چندہ اس کا قریباً نصف ہے.لیکن دوسرے لوگ اتنا چندہ بھی نہیں دیتے.ویسے کام تو ہمارے ذمہ ہزاروں ہیں.ہم نے صداقت کو دنیا میں قائم کرنا ہے.نہ کی صرف ہم نے اپنے آپ کو سچ کا عادی بنانا ہے بلکہ دوسرے لوگوں کو بھی سچ کی عادت ڈالنی ہے.ہم نے خود اپنے آپ کو بھی محنتی بنانا ہے اور دوسروں میں بھی محنت کی عادت پیدا کرنی ہے.ہم نے خود بھی عالم بننا ہے اور دوسروں کو بھی عالم بنانا ہے.خود بھی منصف بننا ہے اور دوسروں کے اندر بھی عدل اور انصاف کی عادت پیدا کرنی ہے.اب دیکھ لو کتنے اخلاق ہیں جو ہم نے اپنے اندر اور دوسرے لوگوں کے اندر پیدا کرنے ہیں.خدا تعالیٰ کی ایک ایک صفت کے مقابلہ میں بعض دفعہ دس دس ہیں ہیں پچاس پچاس اخلاق آ جاتے ہیں.خدا تعالیٰ کی 99 صفات گنی جاتی ہیں.اگر ایک ایک صفت کے مقابلہ میں دس دس ہیں ہیں اخلاق ہوں تو ہزاروں اخلاق بن جاتے ہیں.

Page 16

$1955 6 خطبات محمود جلد نمبر 36 اور ہم نے ان میں سے ہر خلق کو نہ صرف اپنی ذات میں بلکہ دوسروں میں بھی پیدا کرنا ہے.لیکن اب تک ہم اپنے مقصد میں کامیاب کیوں نہیں ہوئے ؟ اس کی یہی وجہ ہے کہ ہم اپنے اقرار پر قائم نہیں رہتے.اور تھوڑا بہت کام جو کرتے ہیں اگر وہ نامکمل رہ جاتا ہے یا اس کے بدنتائج نکلتے ہیں تو ہم یہ محسوس نہیں کرتے کہ وہ بدنتائج ہماری وجہ سے نکلے ہیں بلکہ ہم انہیں خدا تعالیٰ کی طرف منسوب کرتے ہیں.گویا خدا تعالیٰ نے تو احمد یہ جماعت کو اس لیے قائم کیا تھا کہ جو کام آسمان پر جاری ہو ہم اُسے زمین پر جاری کریں.لیکن عملی طور پر ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ہم جو کام کرتے ہیں خدا تعالیٰ اسے منسوخ کر دیتا ہے.ہم بد نتائج کو خدا تعالیٰ کی طرف منسوب کر دیتے ہیں اور اپنے آپ کو ان سے بری قرار دیتے ہیں.گویا ہمارے زمانہ میں خدا تعالیٰ کی صفت ربوبیت بھی ختم ہوگئی ہے، اس کی صفت مالکیت بھی ختم ہو گئی ہے، اس کی صفت رحمانیت بھی ختم ہوگئی ہے ، اس کی صفت رحیمیت بھی ختم ہوگئی ہے، اس کی صفت ستاریت بھی ختم ہو گئی ہے، اس کی صفتِ غفاریت بھی ختم ہو گئی ہے.اس کی صفت مہیمنیت بھی ختم ہوگئی ہے، اس کی صفت جباریت بھی ختم ہو گئی ہے ، مذہب بھی ختم ہو گیا ہے.صرف خدا تعالیٰ کی صفت قہاریت باقی رہ گئی ہے.باقی سب کام اس نے چھوڑ دیئے ہیں کی اب وہ صرف قہار ہی قہار ہے.اور قہار کے بھی دو معنے ہیں.سچ کے مقابل پر جھوٹ کو دبا کر بیچ کو اُبھارنے والا اور ذلیل کرنے والا.لیکن ہمارے زمانے میں وہ صرف ذلیل کرنے والا ہی ہے جی غالب کرنے والا نہیں.اگر تم یہ چیز سمجھ لو کہ تمہاری محنت اور قربانی سے ہی اعلیٰ نتائج نکلیں گے تو میں سمجھتا ہوں کہ تمہاری یہ ساری حالت بدل جائیگی.پس تم خوب سمجھ لو کہ محنت اور قربانی کے بغیر خدا تعالیٰ کی مدد نہیں آئیگی.اور تم خوب سمجھ لو کہ اگر تم سچی محنت کرو گے تو اس کا اعلیٰ نتیجہ نکلے گا.اگر تمہارے کام کا اعلیٰ نتیجہ نہیں نکلتا تو اس کے معنے یہ ہیں کہ تم جھوٹ بولتے ہو.یا پھر تم احمق ہو.قرآن کریم نے اس کی مثال یہ دی ہے کہ کوئی عورت سارا دن محنت سے سوت کا تا کرتی تھی.لیکن بعد میں وہ اسے ٹکڑے ٹکڑے کر دیتی تھی 3.دراصل یہ ایک واقعہ ہے جو عرب میں مشہور تھا.قرآن کریم نے اس کا ذکر کیا ہے.عرب میں یہ واقعہ مشہور تھا کہ کوئی پاگل عورت تھی وہ سوت کا تا کرتی تھی تا اس سے گاؤں والوں کی مدد کر سکے.اس کے سوت کاتنے کے دوران میں

Page 17

$1955 7 خطبات محمود جلد نمبر 36 اگر کوئی مدد طلب کرنے والا آجاتا تو وہ اُس کی مدد کرنے سے انکار کر دیتی اور کہتی کہ ابھی پورا سوت تیار نہیں.جب وہ سوت کات لیتی تو گاؤں کے قابل امداد لوگوں کے متعلق معلومات حاصل کرتی اور پھر اس سوت کو کاٹ کر ان سب میں تقسیم کر دیتی.لیکن اس کی محنت سے کوئی شخص بھی فائدہ نہ اٹھا سکتا.کیونکہ اگر وہ سوت آٹھ آدمیوں کے کام آسکتا تھا اور قابل امدا د سو آدمی ہوتے تو کی وہ اسے ٹکڑے کر کے سو آدمیوں میں تقسیم کر دیتی اور اس طرح وہ کسی کے بھی کام نہ آ سکتا.تو فرمایا تم اس عورت کی طرح نہ بنو.اس کے معنی یہ ہیں کہ تم بیوقوف نہ بنو.تم محنت کرو اور عقل سے محنت کرو.ایسا نہ ہو کہ تم اپنے خیال میں کسی کو کوئی چیز دے رہے ہولیکن اسے اس کا کوئی فائدہ نہ پہنچتا ہو.تمہاری ہر تکلیف ایسی ہو جو دوسروں کو آرام دینے والی ہو.اگر تم کوئی ایسی تکلیف اٹھاتے ہو کہ اس سے دوسروں کو فائدہ نہیں پہنچتا تو تمہاری وہ تکلیف خدا تعالیٰ کو پسند نہیں.خدا تعالیٰ کو تمہاری وہی تکلیف پسند ہے جس سے دوسروں کو آرام ملتا ہے.اگر تم تبلیغ کرتے ہو اور اس کے نتیجہ میں کسی کو ہدایت مل جاتی ہے تو تمہارا یہ فعل خدا تعالیٰ کو پسند ہے.لیکن اگر تم تبلیغ کرتے ہو اور اس کے نتیجہ میں کسی کو ہدایت نہیں ملتی اور تم یہ کہ دیتے ہو کہ ان لوگوں کے دل سخت ہو گئے ہیں تو تمہارا یہ کام خدا تعالیٰ کو پسند نہیں.تم یہ کہتے ہو کہ میرے بھائی بھتیجے یا دوسرے رشتہ دار میری بات نہیں سنتے یا میری تبلیغ کا ان پر کوئی اثر نہیں ہوتا.لیکن تم بھی تو کسی کے بھائی تھے.تم بھی تو کسی کے بھتیجے تھے.تم بھی تو کسی کے بھانجے تھے.تم بھی تو کسی کے خاوند تھے.تم بھی تو کسی کے داماد تھے.تمہارا خدا تعالیٰ سے کیا رشتہ تھا کہ اس نے تمہیں ہدایت دے دی.حقیقت یہ ہے کہ جماعت کے دوست اپنے رشتہ داروں اور قریبی دوستوں کو صحیح طور پر تبلیغ نہیں کرتے اور نہ کوئی وجہ نہیں تھی کہ ان پر تبلیغ کا کوئی اثر نہ ہوتا.کل ہی میرے پاس ایک عورت آئی وہ قادیان کے پاس کی رہنے والی تھی.اس نے مجھے بتایا کہ چالیس سال سے میرا خاوند احمدی نہیں ہوا.میں اکیلی احمدی ہوں.وہ خود نیک عورت تھی اور موصیہ تھی اور میرے پاس یہ شکایت لے کر آئی تھی کہ اب میں 72,70 سال کی ہو گئی ہوں.اگر میں مرگئی تو میرا جنازہ کون لائے گا؟ میں نے اُسے کہا کیا تمہارا خاوند زندہ ہے؟ اس نے کہا ہاں وہ زندہ ہے لیکن احمدی نہیں.میں نے کہا کیا تمہارا اور کوئی رشتہ دار احمدی نہیں ؟ اس نے کہا نہیں.میں نے کہا کیا تمہارے

Page 18

خطبات محمود جلد نمبر 36 8 $1955 ماں باپ کی طرف سے بھی کوئی رشتہ دار احمدی نہیں ؟ اس نے کہا میرے بھائی احمدی ہیں.میں نے کہا پھر تم میرے پاس کیوں آئی ہو.مجھے تو تمہاری موت کا پتا نہیں لگ سکتا.تم اپنے بھائیوں کے پاس جاؤ اور اُن سے کہو کہ مرنے کے بعد میری نعش یہاں لے آنا.اب دیکھو اتنا لمبا عرصہ ساتھ رہنے کے باوجود اس عورت کا خاوند احمدی نہیں ہوا تھا.ویسے یہ اس عورت کے ایمان کا کمال تھا کہ وہ اتنے لمبے عرصہ سے احمدیت پر قائم رہی.آخر اس کا خاوند اس کی مخالفت کرتا ہوگا.لیکن اس عورت میں فعال کی صفت نہیں تھی.اور خدا تعالیٰ فَعَالُ لِمَا يُرِيدُ 4 بھی ہے.اور جب خدا تعالیٰ فَعَالُ لِمَا يُرِيدُ ہے تو یہ صفت اس کے بندوں کے اندر بھی ہونی چاہیے.لیکن وہ عورت فعال نہیں تھی.اس کی شادی پر چالیس سال گزر چکے تھے لیکن نہ وہ اپنے خاوند کو ا احمدی کر سکی اور نہ اُس کا خاوند اُسے اپنی طرف لے جا سکا تھا.وہ دونوں ایک ہی ٹائپ کے تھے.لیکن بہر حال ہمیں اپنے آدمی کے متعلق افسوس ہے کہ وہ دوسرے پر کوئی اثر نہ ڈال سکا.پس تم یہ ارادہ کر لو کہ تم اس سال میں ہر جگہ شور مچاؤ گے کہ عمل کر وہ عمل کر وہ عمل کرو.اور یہ خیال دل سے نکال دو گے کہ تمہارے کاموں کا خراب نتیجہ خدا تعالیٰ کی طرف سے نکلتا ہے.اگر تم سچی محنت کرو گے تو لازمی طور پر اس کا اعلی نتیجہ نکلے گا.اگر تمہارے کسی کام کا بُرا نتیجہ نکلتا ہے تو اس کا موجب تم خود ہو.خدا تعالیٰ بناتا ہے تم ضائع کرتے ہو.وَإِذَا مَرِضْتُ فَهُوَ يَشْفِينِ بیماری تم خود لاتے ہو شفا خدا تعالیٰ دیتا ہے.پس جب بھی کوئی کام ٹوٹے گا تمہاری طرف - ٹوٹے گا.اور جب بھی کوئی کام بنے گا تو وہ خدا تعالیٰ بنائے گا.اگر تم یہ نکتہ سمجھ لو تو تمہاری حالت بدل جائے گی.احادیث میں آتا ہے کہ ایک شخص رسول کریم ﷺ کے پاس آیا اور اس نے عرض کیا يَا رَسُولَ اللہ! مجھ میں تین بُری عادتیں ہیں جن کو ترک کرنے کی میں اپنے اندر طاقت نہیں پاتا.آپ کوئی ایسا طریق بتائیں جس کے اختیار کرنے سے میں ان بُری عادات سے چھٹکارا حاصل کرسکوں.ان تین بُری عادات میں سے ایک جھوٹ بھی تھا.آپ نے فرمایا تم میری ایک بات مان لو دو کا میں ذمہ لیتا ہوں.تم ایک عیب چھوڑ دو یعنی جھوٹ بولنا.اس نے کہا بہت اچھا اور چلا گیا.کچھ مدت کے بعد وہ شخص دوبارہ آیا.آپ نے دریافت فرمایا اب تمہارا کیا حال ہے؟ اُس نے کہا

Page 19

$1955 9 خطبات محمود جلد نمبر 36 يَارَسُوْلَ اللہ ! جھوٹ کے چھوڑنے سے سارے عیوب چھوٹ گئے.میں جب بھی کوئی غلطی کرنے لگتا تو خیال آتا تھا کہ نہیں لوگوں کو کیا جواب دوں گا.اگر سچ بولوں گا تو لوگ بُرا بھلا کہیں گے.اور اگر جھوٹ بولا تو اپنا عہد توڑوں گا.اس طرح محض جھوٹ نہ بولنے کی برکت سے میں سب عیوب سے نجات پا گیا ہوں 5.اسی طرح اگر تم اس سال محض یہ عہد کر لو کہ ہم نے محنت کرنی ہے اور ہماری محنت سے ہی اعلیٰ نتائج پیدا ہوں گے.اور اگر ہمارے کسی کام کے اعلی نتائج پیدا نہ ہوئے تو ہمیں اقرار کرنا ہوگا کہ ہم نے محنت نہیں کی یا کوئی حماقت کی ہے جس کی وجہ سے ہماری محنت کا صحیح نتیجہ نہیں نکلا تو تمہاری کا یا پلٹ سکتی ہے.پس تم یہ سال اس نئے ارادہ اور عزم سے شروع کرو.اس کے نتیجہ میں تم اگلا سال اس سے بھی نیک اور اعلیٰ ارادہ سے شروع کرو گے.اور تم اپنے ایمانوں میں ایسی پختگی دیکھو گے جس کو کوئی شخص تو ڑ نہیں سکے گا.“ الفضل 26 جنوری 1955ء) 1 : ڈھاک کے تین پات ( کہاوت) : بے نتیجہ، لا حاصل ( اردو لغت تاریخی اصول پر جلد دہم صفحہ 211.کراچی جنوری 1990ء) 2: الشعراء:81 3 وَلَا تَكُونُوا كَالَّتِي نَقَضَتْ غَزْلَهَا مِنْ بَعْدِقُوَّةٍ أَنْكَاثًا (نحل: 93) هود : 108 5 تفسیر کبیر رازی جلد 8 صفحہ 419 مطبوعہ قاہرہ 2012ء.زیر آیت سورۃ توبہ آیت : 119 يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَكُونُوا مَعَ الصُّدِقِيْنَ

Page 20

خطبات محمود جلد نمبر 36 $1955 10 2 جماعت کے ہر فرد کو یہ عہد کر لینا چاہیئے کہ وہ محنت سے کام کرے گا.عقل سے محنت کرے گا اور اپنے آپ کو ہر کام کے نتیجہ کا ذمہ وار قرار دے گا.وو فرموده 21 جنوری 1955ء بمقام ربوہ ) تشہد ،تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا.گزشتہ سے پیوستہ جمعہ میں نے نزلہ کے حملہ کے بعد پڑھایا تھا.لیکن شاید اس وجہ سے کہ ابھی مجھے جمعہ نہیں پڑھانا چاہیے تھا یا خطبہ لمبا ہو گیا.اس کے بعد مجھ پر نزلہ کا شدید حملہ ہوا.اس حملہ کی وجہ سے میں گزشتہ جمعہ نہیں پڑھا سکا تھا.اور اب بھی جیسا کہ میری آواز سے ظاہر ہے گلا پوری طرح صاف نہیں ہوا اور میں زیادہ بولنے کے قابل نہیں ہوں.زکام ملک میں وبا کے طور پر پھیلا ہوا ہے.مجھے ان ایام میں متعدد خطوط ایسے آئے ہیں جن میں زکام اور نزلہ کی شکایت کا ذکر تھا اور قریباً اسی کیفیت کا زکام اور نزلہ تھا جیسے مجھے ہوا.یعنی ایک کے بعد دوسرا حملہ ہوا اور پندرہ بیس دن تک برابر یہ عارضہ لاحق رہا.میرے جیسے کمزور انسان کو عام طور پر ہفتہ ہفتہ دو دو ہفتہ نزلہ اور زکام رہتا ہے.لیکن ایک اچھی صحت والے انسان کے متعلق طب والے لکھتے ہیں کہ اس کی میعاد تین دن ہوتی ہے.

Page 21

خطبات محمود جلد نمبر 36 11 $1955 جیسا کہ میں نے بتایا ہے میری طرح کے زکام اور نزلہ کی خبر میں ان دنوں متعدد جگہوں سے موصول ہوئی ہیں.خصوصار بوہ کے تو درجنوں آدمیوں کی طرف سے اس قسم کی خبر ملی ہے کہ وہ نزلہ اور زکام میں مبتلا ہیں.شاید ہمارے علاقہ میں تو اس کی یہ وجہ ہے کہ کافی عرصہ سے یہاں بارش نہیں ہوئی گرد اڑتی ہے.یہ گرد سانس کے ذریعہ ناک کے اندر چلی جاتی ہے.اس سے خراش پیدا ہوتی ہے اور اس خراش سے نزلہ اور زکام ہو جاتا ہے.بہر حال میں آ گیا ہوں اور اس غرض سے آیا ہوں کہ مختصر سا خطبہ پڑھ کے میں بھی جمعہ میں شمولیت حاصل کرلوں اور اپنا فرض بھی ادا کر دوں.میں نے اس سے پہلے خطبہ میں یہ بتایا تھا کہ ہماری ساری جماعت کو یہ عہد کر لینا چاہیے کی کہ وہ محنت سے کام کرے گی اور عقل سے محنت کرے گی اور پھر اپنے آپ کو ہر کام کے نتیجہ کی ذمہ دار قرار دے گی.یہ ہیں تو ایک ہی چیز کے تین حصے.لیکن یہ تین درجے ہیں اول یہ کہ محنت سے کام کیا جائے.لیکن صرف محنت کیساتھ کوئی کام مکمل نہیں ہو سکتا جب تک محنت عقل سے نہ کی جائے.اور عقل سے محنت کبھی نہیں کی جاسکتی جب تک کہ انسان اپنے آپ کو نتائج کا ذمہ دار قرار نہ کی دے.اگر کسی کا دل یہ محسوس کرتا ہے کہ ناکامی کی صورت میں وہ قوم کے سامنے ہزار بہانے بنا سکتا ہے.اگر کسی شخص کو یہ یقین ہے کہ نا کامی کی صورت میں وہ اپنی عزت بچا سکتا ہے.اور اپنی شہرت کی اور مقام کو محفوظ کر سکتا ہے تو وہ یقینا پوری محنت نہیں کرے گا.کیونکہ کسی کام کو محنت سے کرنے کے بڑے بڑے Incentive یعنی محرک اور سبب دنیا میں یہی ہوتے ہیں کہ انسان چاہتا ہے کہ اس کی کام کے نتیجہ میں وہ سرخروئی حاصل کرے وہ اپنی قوم اور اپنے ملک کے سامنے سرخروئی حاصل کرے اور اردگرد کے لوگوں میں عزت حاصل کرے.اگر یہ محرک نکال دو یا با وجود نا کا می کے اس می چیز کا کوئی اور سبب قرار دے دو تو انسان محنت نہیں کرے گا.وہ لوگ جنہیں خدا تعالیٰ کی طرف سے ایک آگ دی گئی ہے وہ اس سے مستی ہیں.انبیاء اور مصلح اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے آنے والے ہادی اور راہ نما خدا تعالیٰ کی طرف سے پیدائشی طور پر ایک آگ لے کر آتے ہیں.انہیں کسی کے سکھانے اور تربیت کی ضرورت نہیں ہوتی.ان کے اندر ایک آگ ہوتی ہے جس کے ذریعہ وہ دنیا کے اندر ایک تغیر پیدا کر دیتے ہیں.وہ انقلابی وجود ہوتے ہیں.اور جنہیں خدا تعالیٰ نے انقلابی وجود بنا دیا سو بنا دیا یا جنہیں خدا تعالیٰ نے آگ دے دی سو دے دی.لیکن اگر کسی کو دنیا میں

Page 22

$1955 12 خطبات محمود جلد نمبر 36 تربیت سے انقلابی وجود بنانا ہو تو وہ بغیر کسی ذریعہ کے نہیں بنے گا.اور وہ ذریعہ انسانی کاموں میں کی یہ ہے کہ انسان کے اندر یہ احساس ہو کہ اگر اس کی محنت بار آور ہوئی تو وہ عزت پا جائے گا ، وہ سرخروئی حاصل کرلے گا ، وہ قوم میں وقار حاصل کرلے گا، اور اگر ناکام رہا تو قوم اُس کی زبان کے سارے بہانے رد کر دے گی اور کہے گی یہ شخص کذاب ہے اس نے ہماری قوم کا بیڑا غرق کیا ہے.جس شخص کے اندر یہ احساس موجود ہے کہ وہ کامیاب ہو جائے گا اور جس شخص کے اندر یہ احساس نہیں وہ جانتا ہے کہ اس کی قوم بے وقوف ہے اور اپنی ناکامی کی صورت میں وہ اسے دھوکا دے سکتا ہے.یا اس کی قوم میں بعض ایسے لوگ موجود ہیں جو سستی تعریف حاصل کرنے کے عادی ہیں.اگر نا کامی کی صورت میں قوم نے اسے سزادی تو اس قسم کے لوگ اس کی سفارش لے کر افسران بالا کے پاس چلے جائیں گے.اب اگر وہ لوگ دیانتدار ہیں اور سفارش کرنے والے بھی سمجھتے ہیں کہ وہ اس قسم کی سفارشات کو رد کر دیں گے اور قومی مفاد کو انفرادی مفاد پر ترجیح دیں گے تو پھر بھی سفارش کرنے والے سمجھتے ہیں کہ یہ بات افسر نے تو ماننی ہی نہیں.ہاں اگر ہم سفارش لے کر اس کے پاس چلے جائیں گے تو ہم لوگوں میں مقبول ہو جائیں گے.لیکن اگر وہ بددیانت ہیں تو یقیناً اس قسم کے طرز عمل سے قوم کا بیڑا غرق ہوگا.کیونکہ جب بھی کسی قوم کے افراد کے اندر یہ احساس پیدا ہو جائے کہ کام کا نتیجہ ان کی طرف منسوب نہیں ہوگا بلکہ وہ نا کامی کی صور میں نتیجہ کو خدا تعالیٰ یا پھر قسمت کی طرف منسوب کریں گے یا کسی نامعلوم عنصر کی طرف منسوب کر دیں گے اور اس طرح ان کی پردہ پوشی ہو جائے گی تو پوری جدوجہد کا احساس کبھی بھی ان میں پیدا نہیں ہوگا.پس جماعت یہ فیصلہ کرے کہ اس نے محنت کرنی ہے.اور پھر محنت صحیح کرنی ہے.اور پھر وہ یہ فیصلہ بھی کر لے کہ اگر اس کے کسی کام کا نتیجہ خراب نکلا تو اس کے معنی یہ ہوں گے کہ جد و جہد صحیح طور پر نہیں ہوئی.یہ کہہ دینا کہ ایسا خدا تعالیٰ نے کیا ہے اول درجہ کا جھوٹ ہے.خدا تعالیٰ کسی کام کا خراب نتیجہ نہیں نکالتا.اگر اس کے کسی کام کا خراب نتیجہ نکلا ہے تو یہ اُس کا اپنا قصور ہے.اگر تم ایسا کر لو تو تمہارے اندر ایک اُمنگ اور ولولہ پیدا ہو جائے گا.تمہاری جد و جہد بہت زیادہ تیز ہو جائے گی.

Page 23

خطبات محمود جلد نمبر 36 13 $1955 یورپ اور امریکہ کیوں ترقی کر رہے ہیں حالانکہ وہ خدا تعالیٰ کے عملاً یا کچھ قولاً بھی منکر ہیں.اس کی وجہ یہی ہے کہ وہ اول تو محنت سے کام کرتے ہیں اور پھر نا کامی کی صورت میں نتیجہ کی ذمہ داری کسی اور پر نہیں ڈالتے.اگر خدا تعالیٰ انسان کے دخل کے بغیر کام کر دیا کرتا.تو امریکہ اور یورپ والے کیوں کامیاب ہوتے.خدا تعالیٰ تمہاری مدد کرتا اُن کی مدد نہ کرتا.حال ہی میں انگلستان کے ریڈیو پر ایک عورت نے لیکچر دیا ہے اور وہ اخبارات میں چھپا ہے کہ اگر تم نے ترقی کرنی ہے تو خدا کو بالکل بھول جاؤ.اور اگر خدا بنانا ضروری ہے تو اپنے اچھے کاموں کو خدا اور بُرے کاموں کو شیطان سمجھ لو.لیکن خدا تعالیٰ کے وجود سے انکار کے باوجود وہ برابر ترقی کر رہے ہیں.اس کی وجہ یہی ہے کہ ان کے مرد اور عورت دیووں کی طرح کام کر رہے ہیں.اگر خدا تعالیٰ ہی سب کام کر رہا ہوتا تو وہ روس، امریکہ اور یورپ والوں کو سُست بنا دیتا اور تمہیں پچست ؛ دیتا.لیکن حالت یہ ہے کہ تمہارے حالات خراب ہیں اور انہوں نے خوب ترقی کر لی ہے.اب یا تو یہ کہو کہ خدا تعالیٰ ماہر نہیں اور شیطان ماہر ہے چونکہ ان کے ساتھ شیطان ہے اس لئے وہ جیت جاتے ہیں اور تمہارے ساتھ چونکہ غریب خدا ہے، اسے کچھ آتا نہیں اس لئے تم ہر میدان میں ہار جاتے ہو.اور یا یہ کہو کہ خدا تعالیٰ تم سے بھی کچھ کام کروانا چاہتا ہے.اگر تم محنت کرتے ہو تو وہ تمہاری مدد کرتا ہے.اور اگر تم محنت نہیں کرتے تو وہ تمہاری مدد نہیں کرتا اور تم نا کام رہتے ہو.اور یہی حقیقت ہے کہ جب تک تمہارے اندر حضرت ابراہیم والا ایمان پیدا نہیں ہوتا اور جب تک تمہارے اندر وَإِذَا مَرِضْتُ فَهُوَ يَشْفِينِ 1 والا احساس پیدا نہیں ہوتا ، جب تک تم یہ نہیں سمجھتے کہ بیمار ہم ہوں گے شفاء خدا تعالیٰ دے گا، جب تک تم یہ نہیں سمجھتے کہ جب بھی کوئی کمزوری آئے گی وہ ہماری طرف سے ہوگی اور جب ہم میں قوت اور طاقت پیدا ہوگی تو وہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ہوگی اُس وقت تک تم کامیاب نہیں ہو سکتے.لیکن جب تم یہ احساس پیدا کرلو گے تو تمہارے اندر ایک زبر دست محرک پیدا ہو جائے گا.وَإِذَا مَرِضْتُ فَهُوَ يَشْفِينِ میں ایک نکتہ بیان ہوا ہے.حضرت ابرہیم علیہ السلام نے اس میں دو باتیں مدنظر رکھی ہیں.اگر آپ صرف اِذَا مَرِضْتُ کہہ دیتے تو پھر مایوسی ہی مایوسی ہوتی.اور اگر فَهُوَ يَشْفِينِ کہہ دیتے تو امید ہی امید ہوتی.اور یہ دونوں باتیں درست نہیں ہیں.

Page 24

$1955 14 خطبات محمود جلد نمبر 36 جب تک کسی کا ایمان خوف اور رجاء کے درمیان نہ ہو اس کے کسی کام کا صحیح نتیجہ نہیں نکلتا.اس لئے آپ نے فرمایا خدا تعالیٰ نے مجھے اٹھنے کا موقع بھی دیا ہے اور گرنے کا موقع بھی دیا ہے.اگر میں پوری محنت نہیں کروں گا تو میں گروں گا.اور اگر میں پوری محنت کروں گا اور اس کے بعد خدا تعالیٰ پر توکل رکھوں گا تو میں جیتوں گا.آپ نے یہ دونوں باتیں بیان کر کے واضح کر دیا ہے کہ انسان کے لئے محنت اور توکل کرنا ضروری ہے.اگر ہم محنت نہیں کریں گے تو ہمارے کام خراب ہوں گے.اور اگر ہم تو کل نہیں کریں گے تو کامیاب نہیں ہوں گے.گویا خدا تعالیٰ انسان کی محنت کی تکمیل کرتا ہے اس کا قائمقام نہیں ہوتا.اگر وہ انسان کی محنت کا قائمقام ہوتا تو حضرت ابراہیم علیہ السلام کی بات وَإِذَا مَرِضْتُ فَهُوَ يَشْفِينِ جھوٹی ہوتی.آپ نے اِذَا مَرِضْتُ کہہ کر بتایا ہے کہ اگر میں بیمار ہونا چاہوں تو خدا تعالیٰ مجھے بیمار ہونے سے نہیں روکتا.اور فَهُوَ يَشْفِينِ کہہ کے بتایا کہ میں کامل شفا حاصل نہیں کر سکتا.کامل شفا دینے والی خدا تعالیٰ ہی کی ذات ہے اور یہی ترقی اور کامیابی کی کلید ہے.جب تک کوئی قوم اس گر کو نہیں سمجھتی وہ کامیابی حاصل نہیں کر سکتی.یورپ اور امریکہ کیوں ترقی کر رہے ہیں؟ وہ اس لئے ترقی کر رہے ہیں کہ انہوں نے اس اصول کا ایک حصہ پورا کر دیا ہے.اور ہم ناکام اسی لئے ہور ہے ہیں کہ ہم نے اس کے دونوں حصوں کو گرا دیا ہے.اگر کسی زمیندار کے پاس ایک بیل ہو تو وہ ہل چلا لیتا ہے.لیکن دونوں بیل ہی نہ ہوں تو وہ ہل نہیں چلا سکتا.دنیا میں سینکڑوں ہزاروں ایسے زمیندار پائے جاتے ہیں جو ایک بیل سے ہل چلا لیتے ہیں.اگر کسی کے پاس ایک ہی گھوڑا ہو تو فٹن 2 نہ سہی وہ اتکا 3 چلا سکتا ہے.اسی طرح ورپ نے تو کل کرنا چھوڑ دیا ہے لیکن چونکہ اس نے محنت والا حصہ پورا کر دیا ہے اس لیے وہ ترقی کر رہا ہے.ہم نے دونوں حصوں کو ترک کر دیا ہے اس لئے ہم ناکام رہتے ہیں.پھر جب ہم کوئی کام کرتے ہیں اور اس میں ناکام ہوتے ہیں تو اس ناکامی کو ہم اپنی طرف منسوب نہیں کرتے.بلکہ یہ کہتے ہیں کہ محنت تو کی تھی خدا تعالیٰ نے کامیاب نہیں کیا تو ہم کیا کر سکتے ہیں.اور اگر کچھ مل جاتا ہے تو ہم یہ تمام باتیں بھول جاتے ہیں اور اپنی کامیابی کو اپنی طرف منسوب کرتے ہیں.قرآن کریم میں خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ بعض بے وقوف انسان ایسے بھی ہوتے ہیں کہ جب انہیں کوئی ترقی حاصل ہوتی ہے تو کہتے ہیں یہ ہمارے علم اور طاقت کی وجہ سے حاصل ہوئی ہے.

Page 25

$1955 15 خطبات محمود جلد نمبر 36 اگر ہم علم اور سمجھ والے نہ ہوتے تو یہ ترقی کس طرح حاصل ہوتی اور جب کوئی ناکامی ہوتی ہے تو اسے خد تعالیٰ کی طرف منسوب کر دیتے ہیں 4.گویا وہ ہر عیب خدا تعالیٰ کی طرف منسوب کرتے ہیں اور ہر خوبی اپنی طرف منسوب کرتے ہیں.اگر تم اپنا رویہ بدل لو تو دیکھو گے کہ تم میں پستی پیدا ہو جائے گی.ہمارا ایک طالب علم فیل ہو جاتا ہے تو وہ کیا کرتا ہے؟ وہ جانتا ہے کہ اگر میں نے اپنی نا کامی کو اپنی سستی کی طرف منسوب کیا تو ماں باپ ناراض ہو جائیں گے.اس لئے وہ کہتا ہے استاد کو مجھ سے ضد تھی.میں چونکہ گھر سے اس کے لئے شکر یا گری نہیں لایا تھا اس لئے اُس نے مجھے فیل کر دیا.اور ماں باپ سمجھتے ہیں کہ جو کچھ یہ کہہ رہا ہے ٹھیک ہے.یو نیورسٹی کا امتحان ہو تو ہمارے ہاں عام محاورہ ہے کہ یہاں سارے کام سفارش سے چلتے ہیں.امتحانوں میں کامیابی یا نا کامی بھی سفارش یا عدم سفارش کی وجہ سے ہوتی ہے.حالانکہ اس میں 90 فی صدی جھوٹ ہوتا ہے.اگر کوئی لڑکا فیل ہو جاتا ہے تو وہ کہتا ہے ابا تم کسی کے پاس سفارش لے کر نہیں گئے تھے اس لئے میں فیل ہو گیا ہوں.اگر تم کسی کے پاس سفارش لے کر چلے جاتے تو میں ضرور کامیاب ہو جاتا.اس پر باپ سمجھ لیتا ہے کہ جو کچھ یہ کہ رہا ہے درست ہے.ایک دفعہ ایک احمدی دوست کی طرف سے یہ شکایت آئی کہ میرا لڑکا بڑا لائق اور محنتی ہے، اسلام کے احکام کا پابند ہے.لیکن استاد نے ضد کی وجہ سے اسے عربی کے پرچہ میں فیل کر دیا ہے.وہ کسی اور مضمون میں فیل ہو جاتا تو میں سمجھ لیتا کہ اس کا قصور ہے لیکن فیل بھی وہ عربی کے پر چہ میں کیا گیا ہے جس میں وہ خوب ہوشیار تھا.میں سکول کے عام معاملات میں تو دخل نہیں دیتا کی لیکن یہ معاملہ چونکہ کافی دلچسپ تھا اس لئے میں نے ہیڈ ماسٹر صاحب کو لکھا کہ فلاں لڑکے کے پرچے میرے پاس بھیج دو.انہوں نے پرچے بھجوا دیئے.میں نے دیکھا کہ استاد نے عربی کے پرچے میں اسے 5/100 نمبر دیئے ہیں.لیکن وہ اتنے نمبروں کا بھی حق نہیں رکھتا تھا.میں نے اس کے باپ کو لکھا کہ ہیڈ ماسٹر پر آپ بھی خفا ہیں اور میں بھی خفا ہوں.آپ تو اس لئے خفا ہیں کہ انہوں نے آپ کے بیٹے کو فیل کر دیا اور میں اس لئے خفا ہوں کہ انہوں نے 5/100 نمبر بھی کیوں دیئے.شایداستاد نے لڑکے سے رشوت لے لی تھی کہ اسے پانچ نمبر دے دیئے حالانکہ وہ جاہل مطلق ہے.وہ اتنے نمبروں کا بھی حق نہیں رکھتا تھا.گجا یہ کہ وہ امتحان میں پاس کیا جاتا استاد نے اس سے

Page 26

$1955 16 خطبات محمودجلد نمبر 36 رعایت کی تھی.مثلاً اگر اس نے ضَرَبَ کی گردان پوچھی تھی تو اس نے ضَرَبَ ، ضُرِبَ ، ضِرْباً لکھ دیا.تو استاد نے یہ دیکھ کر کہ اس نے ضَرَبَ تو صحیح لکھ دیا ہے اسے نمبر دے دیئے.اب دیکھ لو اس کی وجہ یہی تھی کہ بیٹے نے اسے لکھ دیا تھا کہ استاد نے ضد کی وجہ سے مجھے فیل کر دیا ہے.یہ چیز قوم کی بربادی کی علامت ہوتی ہے.ایک دفعہ میں حضرت خلیفتہ امسیح الاوّل کے پاس بیٹھا ہوا تھا.آپ ایک خط پڑھ رہے تھے اور چھ سات اور آدمی بھی پاس بیٹھے تھے.آپ خط پڑھتے پڑھتے ہنس پڑے اور فرمایا میاں ! ذرا یہ خط پڑھو اور خط میرے ہاتھ میں دے دیا.میں نے خط پڑھا تو دیکھا کہ وہ واقع میں ایک لطیفہ تھا.وہ خط ایک طالب علم کی نانی کی طرف سے لکھا ہوا تھا.لڑکا بورڈنگ میں رہتا تھا.اس نے خیال کیا کہ میرے والد قادیان سے محبت رکھتے ہیں اس لئے انہوں نے مجھے یہاں داخل کیا ج ہے.اگر میں نے اپنے باپ کو قادیان کے ماحول کے خلاف کوئی بات لکھی تو وہ یقین نہیں کریں گے.نانی کو مجھ سے زیادہ محبت ہے اسے میں لکھوں تو وہ میری بات مان لیں گی.چنانچہ اس نے اپنی نانی کو لکھا کہ مجھے یہاں ایک پنجرے میں بند کر دیا گیا ہے.اور جس طرح پنجرے میں بند کئے ہوئے جانو رکو وہیں کھانا اور پانی مہیا کر دیا جاتا ہے اور اسے پیشاب اور پاخانہ بھی پنجرے میں ہی کرنا پڑتا ہے اسی طرح مجھے بھی پیشاب اور پاخانہ پنجرہ میں ہی کرنا پڑتا ہے.اور اسی میں مجھے کچھ کھانے پینے کو دے دیا جاتا ہے.اگر کچھ عرصہ تک میری یہی حالت رہی تو میں مر جاؤں گا.خدا کے لئے مجھے یہاں سے جلدی لے جاؤ.نانی کو چونکہ نوا اسے سے محبت تھی اس لئے اُس نے حضرت خلیفہ اسیح الاوّل کو لکھا کہ میرے نواسے کا خیال رکھا جائے اور اُسے قید سے جلد رہا کیا جائے.اتفاقا وہ لڑکا بھی اُس وقت پاس ہی بیٹھا تھا.حضرت خلیفہ اُسیح الاوّل فرمانے لگے.میاں ! یہ خط پڑھ لو اور اس لڑکے سے پوچھو کہ وہ پنجرہ کہاں ہے جس میں تم بند ر ہتے ہو.اس لڑکے نے کہا میں چونکہ اُداس ہو گیا تھا اور یہاں سے واپس جانا چاہتا تھا مجھے علم تھا کہ باپ میری بات نہیں مانے گا اس لئے میں نے چاہا کہ نانی کو ڈراؤں شاید کام بن جائے.پس تم اپنی اصلاح کرو.اور اپنا رویہ تبدیل کر و خصوصاً خدام الاحمدیہ سے میں کہتا ہوں کہ وہ خود بھی محنت کی عادت ڈالیں اور دوسروں کو بھی محنت کی عادت ڈلوائیں.پھر اساتذہ کا بھی

Page 27

$1955 17 خطبات محمود جلد نمبر 36 فرض ہے کہ وہ قوم کے بچوں میں محنت کی عادت پیدا کریں.یہاں یہ رسم ہے کہ ہر کارکن یہ سمجھتا ہے کہ فلاں کام فلاں شخص کر دے گا اور کوئی شخص کسی کام کی ذمہ داری اپنے او پر نہیں لیتا.اور جب پکڑا جاتا ہے تو ان میں سے کوئی بھی یہ نہیں کہتا کہ یہ میرا قصور ہے.میرا اپنا ایک عزیز ہے جو میرے کاموں پر مقرر ہے.اس سے جب بھی دریافت کرو وہ یہی کہتا ہے کہ میں نے تو کام کیا تھا لیکن خدا تعالیٰ کی طرف سے ایسا ہو گیا ہے اس میں میرا کیا قصور ہے.گو یا خدا تعالیٰ سب اچھے کام بُھول گیا ہے.اب اس کا صرف اتنا ہی کام رہ گیا ہے کہ وہ تمہارے کاموں کو خراب کرتا رہے.تم یہ گندگی اپنے ذہن سے نکالو.جب تم یہ گندگی اپنے ذہن سے نکال دو گے تو تمہارے اندر نئی زندگی ، نئی روح اور بیداری پیدا ہو جائے گی.یورپ والوں کو دیکھ لو ان میں سے جب بھی کوئی پکڑا جاتا ہے تو وہ فورا اپنے قصور کا اقرار کر لیتا ہے اور کہتا ہے میں سزا کا مستحق ہوں ، مجھے بے شک سزا دی جائے.لیکن ہمارے ہاں اگر کوئی پکڑا جاتا ہے تو کہتا ہے میرا اس میں کوئی قصور نہیں.میں نے پوری محنت کی تھی نتیجہ خدا تعالیٰ کے اختیار میں تھا.اور جب اُسے کوئی سزا دو گے تو فوراً دس آدمی آجائیں گے اور کہیں گے اس پر رحم کریں.خدا تعالیٰ نے عفو اور رحم کی تعلیم دی ہے.بیوی کے متعلق خدا تعالیٰ نے یہ ہدایت دی ہے کہ اسے طلاق دو تو احسان سے کام لو 5.آپ بھی اس شخص پر احسان کریں.اور کوئی نہیں سمجھتا کہ اس قسم کی باتیں کرنے والے سے رحم کرنا عقل کی بات نہیں.رحم اور احسان کا سوال انفرادی معاملات میں ہوتا ہے قو می تنظیم میں نہیں ہوتا.اگر قو می تنظیم میں بھی رحم اور احسان کیا جائے تو قوم کا بیڑا غرق ہو جاتا ہے.یورپ میں تم اس قسم کا کوئی واقعہ نہیں دیکھو گے کہ کوئی شخص قومی جُرم کرے اور پھر اس پر رحم کیا گیا ہو.ایک نہیں میں نے بیسیوں تاریخی اور ایڈ منسٹریٹو کتا بیں پڑھی ہیں ان میں بیسیوں ایسی مثالیں پڑھی ہیں کہ ایک شخص جو اس حیثیت کا ہے کہ تم اس کا کپڑا پرانے سے بھی ڈر گئے.جب اُسے کسی قصور میں پکڑا گیا تو اُس نے کہا میں قصور وار ہوں.میں سزا لوں گا.اس روح کے پیدا ہو جانے کے نتیجہ میں قوم ترقی کرتی ہے.کیونکہ ہر ایک شخص یہ خیال کرے گا کہ اگر اُس نے کوئی غلطی کی تو ساری قوم کہے گی تم مجرم ہو تم قصور وار ہو.اس کا باپ، اس کا بیٹا، اس کا بھائی ، غرض اس کے سب رشتہ دار بھی اسے قصور وار سمجھیں گے.

Page 28

خطبات محمود جلد نمبر 36 18 $1955 ایک ناول نویس نے فرانس کا ایک قصہ بیان کیا ہے.اس کے متعلق عام طور پر خیال کیا جی جاتا ہے کہ وہ تاریخی واقعات کو اپنا تا ہے.فرانس کے بور بن 6 خاندان کو جب ملک سے نکالا گیا تو وہ انگلستان چلا گیا.اور لندن جا کر بادشاہ نے کوشش کی کہ کسی طرح ملک میں بغاوت پھیلائی جائے.اُس وقت فرانس میں جمہوریت نہیں تھی طوائف الملو کی پائی جاتی تھی.غالباً اُس وقت تک نپولین برسر اقتدار نہیں آیا تھا یا اُس کے قریب زمانہ کا یہ واقعہ ہے.بادشاہ نے لندن سے ایک جہاز میں بعض آدمی فرانس بھیجے کہ وہ فرانس میں جا کر بغاوت پھیلا ئیں.جہاز کے نچلے حصے میں ہتھیار بھی رکھے ہوئے تھے.تو ہیں زنجیر کے ساتھ بندھی ہوئی تھیں.ایک شخص صفائی کے لئے وہاں گیا تو اُس سے ایک زنجیر گھل گئی اور توپ جہاز کے اندرلڑھکنے گی اور خطرہ پیدا ہو گیا کہ کہیں جہاز ٹوٹ نہ جائے.سارے لوگ جہاز کو بچانے کے لئے بھاگے.بادشاہ کا نمائندہ بھی وہاں تھا.یہ حالت دیکھ کر اُس شخص نے جس سے گنڈا کھلا تھا چھلانگ لگا دی اور اپنی جان کو خطرہ میں ڈال کر گنڈا لگانے میں کامیاب ہو گیا.اس پر بادشاہ کے نمائندہ نے سب لوگوں کو اکٹھا کیا اور کہا اس شخص نے بہت بڑی بہادری کا کام کیا ہے.اور ایک تمغہ جو فرانس میں سب سے زیادہ عزت والا سمجھا جاتا ہے لے کر کہا میں بادشاہ کی طرف سے یہ تمغہ بہادری کے صلہ میں اس کے سینہ پر لگاتا ہوں.اس کے بعد اس نے کمانڈر کو حکم دیا کہ اسے لے جاؤ اور گولی مار دو.اتفاقاً جہاں اُترنا تھا وہاں سمندر میں سخت طوفان آیا ہوا تھا اور خطرہ تھا کہ کہیں جہاز غرق نہ ہو جائے.اُس وقت جہاز کے کمانڈر نے کہا کہ اس وقت مجھے ایک ایسے شخص کی ضرورت ہے جو یقینی موت کو قبول کر لے.چنانچہ ایک ملاح آگے آیا.اُس نے اُسے حکم دیا کہ اس شخص کو کشتی میں بیٹھا کر ساحل فرانس تک پہنچا دو.طوفان زوروں پر تھا لیکن وہ ملاح کا میابی کے ساتھ ساحل فرانس پر پہنچ گیا.وہاں پہنچ کر ملاح نے اپنا پستول نکال لیا اور کہا میں نے اپنی جان کو صرف اس لئے خطرہ میں ڈالا تھا کہ تم سے اپنے بھائی کا بدلہ لوں.اس نے کہا تم نے حقیقت پر غور نہیں کیا.تمہارے بھائی نے ایک نیک کام کیا تھا اور ایک بُرا کام کیا تھا.میں نے اُس کے اچھے کام کا اچھا بدلہ دیا اور فرانس کا سب سے بڑا تمغہ اُسے لگایا اور اسکے بُرے کام کے بدلہ میں اُسے گولی سے ماردینے کا حکم دیا.تم جانتے ہو کہ میں بادشاہ کے مفاد کی خاطر یہاں آیا ہوں اور اپنے مقصد میں

Page 29

$1955 19 خطبات محمود جلد نمبر 36 کامیابی کے لئے ضروری ہے کہ میں ہر طرح کی احتیاط سے کام لوں اور اس کے رستہ میں حائل ہونے والی کسی روک کی پرواہ نہ کروں.اُس نے ایک بُرا کام کیا تھا اور میری بادشاہ سے وفاداری کا تقاضا یہی تھا کہ میں اُسے ہلاک کر دوں.اِس پر اُس ملاح نے ہتھیار پھینک دیا اور کہا میں سمجھ گیا ہوں میرا بھائی قصور وار تھا اور اپنے اُس جرم کے بدلہ میں موت کی سزا کا مستحق تھا.تم ان لوگوں کی تاریخ میں ، ادب میں، ناولوں میں ، کہانیوں میں ، قصوں میں اور علم واخلاق کی کتابوں میں دیکھ لو.یہی مضمون ملے گا کہ جب بھی کوئی شخص غلطی کرتا ہے وہ اپنی غلطی کی سزا لیتا ہے.چاہے اس سے پہلے اُس نے کتنی ہی قربانیاں کی ہوں وہ ختم ہو جاتی ہیں اور سزا میں ان کا خیال نہیں رکھا جاتا.جب تک تم اس طریق پر عمل نہیں کرو گے تم ترقی نہیں کر سکتے.اگر کوئی شخص جنگ میں پیٹھ دکھاتا ہے اور لڑائی سے بھاگ جاتا ہے تو چاہے اُس نے دس سال تک قربانی کی ہو کوئی احمق ہی ہو گا جو اُس کے اس مجرم کے بعد ان قربانیوں کا خیال رکھے.وہ شخص بہر حال مجرم ہے اُس کی پچھلی سروس کے بدلہ میں اُس کے پچھلے انعام ہیں.اور موجودہ غلطی پر موجودہ سزا ہے.تم یہ بات اپنے ذہن میں اچھی طرح داخل کر لو.ورنہ تمہاری ساری قربانیاں بیچ ہوں گی اور تم تمام لوگوں کے غلام ہو جاؤ گے.لیکن اگر تم اس بات کو اچھی طرح ذہن نشین کرلو گے تو تمہیں صحیح تو کل نصیب ہوگا.اور جس شخص کو صحیح تو کل نصیب ہو جاتا ہے اُس کی کامیابی میں کوئی شبہ نہیں ہوتا." 1: الشعراء : 1 8 (الفضل 10 فروری 1955ء) فٹن : چار پہیوں کی گاڑی جو اوپر سے کھلی ہوئی ہوتی ہے.اس میں عموماً دوگھوڑے جوتے جاتے ہیں.( اُردو لغت تاریخی اصول پر جلد 13 صفحہ 850 کراچی جنوری 2008ء) 3 اگا دو پہیوں اور ایک گھوڑے کی گاڑی جو تانگے سے کسی قدر اونچی اور کم چوڑی ہوتی ہے.یکہ ( أردو لغت تاریخی اُصول پر جلد اول صفحہ 643 کراچی مارچ 2006ء) :4 اِذَا خَوَّلْنَهُ نِعْمَةً مِنَا ، قَالَ إِنَّمَا أُوتِيتُهُ عَلَى عِلْمٍ (الزمر:50)

Page 30

خطبات محمود جلد نمبر 36 5 20 $1955 الطَّلَاقُ مَرَّتَن فَإِمْسَاكَ بِمَعْرُوفٍ أَوَتَسْرِيعُ بِإِحْسَانٍ (البقرة : 230) :6 بوربن (Bourbon 189 ء سے ء سے لے کر فرانسیسی انقلاب 1792 ء تک فرانس کا شاہی خاندان جنہوں نے فرانس کے علاوہ بھی انیسویں صدی تک یورپ کے مختلف ممالک میں حکمرانی کی.وکی پیڈیا آزاد دائرہ معارف House of Bourbon)

Page 31

خطبات محمود جلد نمبر 36 $1955 21 3 ہر جماعت جلد سے جلد تحریک جدید کے وعدوں کی فہرست مکمل کرے اور فور آمرکز میں بھجوائے.فرموده 28 جنوری 1955ء بمقام ربوہ) تشهد ، تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا.تحریک جدید کے نئے سال کا اعلان کئے ہوئے دو ماہ بلکہ اس سے بھی کچھ زیادہ عرصہ ہو چکا ہے.لیکن میں دیکھتا ہوں کہ گو وعدوں کا وقت ختم ہونے کے قریب آرہا ہے پھر بھی وعدوں کی رفتار سست ہے.ابھی تک اس دوماہ سے زائد عرصہ میں جو زائد وعدے وصول ہوئے ہیں وہ گزشتہ سال کے وعدوں کی نسبت ساٹھ فیصدی ہیں بلکہ اس سے بھی کم ہیں.پھر سب سے زیادہ افسوسناک بات یہ ہے کہ بعض جماعتیں جو گزشتہ سالوں میں ہمیشہ اول رہی ہیں وہ بھی اس دفعہ بہت سست چل رہی ہیں.میرے نزدیک اس کی زیادہ تر ذمہ داری تحریک جدید کے دفتر پر ہے.دفتر کا تمام عملہ نیا ہے.پرانے لوگوں کو ادھر اُدھر کر دیا گیا ہے.اس لئے وہ جماعتوں کی صحیح طور پر راہ نمائی نہیں کرتے.اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ میں پوچھتا کچھ ہوں اور جواب کچھ ہوتا ہے.یا میرے سوال کے جواب میں وہ بالکل چپ ہو جاتے ہیں.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ

Page 32

$1955 22 خطبات محمود جلد نمبر 36 ان میں کام کی وہ قابلیت نہیں جو ہونی چاہیے.مگر بہر حال باہر کی جماعتوں پر بھی اس کی بہت سی ذمہ داری ہے اس لئے کہ وعدوں کے بھجوانے کا وقت ختم ہونے کے قریب آ گیا ہے.پس میں پھر ایک بار جماعتوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ اپنی ذمہ داریوں کو سمجھیں اور جلد سے جلد وعدے لے کر مرکز میں بھجوائیں.بعض جماعتوں کے متعلق تو میری سمجھ میں نہیں آیا کہ ان کی کی سستی اور غفلت کی وجہ کیا ہے.مثلاً کراچی کی جماعت ہے.پہلے وہ ہمیشہ وعدے بھجوانے میں پست رہی ہے.اس سال اعلان کے بعد بھی وعدے لینے کی کوشش کرتی رہی ہے اور یہاں جلسہ سالانہ پر آ کر بھی انہوں نے کافی تگ و دو کی اور ملاقات کے موقع پر انہوں نے بتایا کہ بارہ ہزار روپیہ کے مزید وعدے لئے گئے ہیں لیکن دفتر بتاتا ہے کہ باوجود اس کے کہ انہیں خط بھی لکھا گیا ہے انہوں نے ایک مہینہ سے فہرست نہیں بھجوائی.جماعت کا خیال تھا کہ جماعت کراچی کے اس سال کے وعدے گزشتہ سال سے زیادہ ہوں گے لیکن ابھی وہ گزشتہ سال کے نصف پر رُکے ہوئے ہیں اور اتنی دیر کے بعد بھی انہوں نے کوئی اطلاع نہیں دی.ان کا انتظام بھی نیا ہے.پرانے سیکرٹری ریٹائرڈ ہو چکے ہیں اور نئے سیکرٹری صاحب معلوم ہوتا ہے پورے تجربہ کار نہیں.نہ دفتر کی خط و کتابت کا کوئی اثر ہوا ہے نہ وقت کی نزاکت کا.انسانی طبائع دو قسم کی ہوتی ہیں.بعض لوگ چھوٹی سی تنبیہ پر ہوشیار ہو جاتے ہیں.اور بعض کہتے ہیں کہ یہ جو کچھ کہتے ہیں کہنے دو ہم نے تو اپنی کی مرضی کے مطابق ہی کام کرنا ہے.معلوم ہوتا ہے کہ جماعت کراچی کے نئے سیکرٹری صاحب انہی لوگوں میں سے ہیں جن میں یہ حس ہی نہیں کہ ان سے کیا مانگا جاتا ہے یا ان سے کیا سوال کیا جاتا ہے اور انہیں کیا جواب دینا چاہیے.چونکہ جماعت کراچی گزشتہ سالوں میں ایک نمونہ رہی ہے اس کی لئے میں نے خاص طور پر اس کا ذکر کیا ہے.ورنہ لا ہور باوجود اپنے جواں سال امیر کے بہت ہی پیچھے ہے.اسی طرح اور کئی جماعتیں ہیں.بہر حال اس سال جماعت نے وعدے بھجوانے میں بہت سستی سے کام لیا ہے.لیکن جہاں تک ہم دیکھتے ہیں جماعت کے اخلاص میں کوئی کمی نہیں ہوئی.بلکہ جماعت اخلاص میں روز بروز ترقی کر رہی ہے اور جب بھی اسے کسی کام کے لئے بیدار کیا جائے اس کے افراد بیدار ہو جاتے ہیں.اس کے معنے یہ ہیں کہ جو بھی خرابی ہوتی ہے وہ یا تو مرکزی دفتر کے عملہ سے ہوتی ہے

Page 33

خطبات محمود جلد نمبر 36 اور یا مقامی جماعت کے عملہ سے ہوتی ہے.23 23 $1955 مجھے بتایا گیا ہے اور میں نہیں جانتا کہ یہ بات ٹھیک ہے یا غلط.مجھے ان دنوں تحریک کے مرکزی دفتر پر زیادہ اعتبار نہیں کہ زیادہ کمزوری بڑے شہروں کی جماعتوں میں ہے.ان میں تحریک جدید کے وعدوں کی طرف توجہ کم ہے.شاید انہوں نے یہ سمجھ لیا ہے کہ ہم سارے وقت میں وعدے اکٹھا کی کرتے رہیں گے اور پھر آخر میں مرکز میں بھیج دیں گے.حالانکہ وقت کے آخر میں آکر کام اس قدرا کٹھا ہو جاتا ہے کہ اسے وقت مقررہ میں پورا کرنا قریباً ناممکن ہو جاتا ہے.اگر جماعتیں کام کو ٹکڑوں میں تقسیم کر کے سر انجام دیں تو ان کے لئے کام میں بہت سہولت پیدا ہو جاتی ہے، ان کا بوجھ ہلکا ہو جاتا ہے اور ذمہ داری مرکز پر آپڑتی ہے.مثلاً اگر کسی جماعت نے ساٹھ ہزار کا وعدہ کیا ہے تو وہ تھوڑے سے تھوڑے وقفہ کے بعد دس دس ہیں ہیں ہزار روپیہ کے وعدے بھجواتے جائیں.اس طرح کام ہلکا ہوتا چلا جائے گا.لیکن اگر جماعت خیال کرے کہ میعاد کے آخر میں وہ تمام وعدے اکٹھے کر کے مرکز کو بھیجوا دے گی تو میعاد کے آخری دنوں میں کام اس قدر زیادہ ہو گا کہ اس کا ترتیب دینا مشکل ہوگا.ادھر تبلیغ کا کام خدا تعالیٰ کے فضل سے روز بروز ترقی کرتا جاتا ہے اور نئے نئے علاقوں سے مبلغین کی مانگ آرہی ہے.لوگ اس بات کا مطالبہ کر رہے ہیں کہ ان کی کے پاس مبلغ بھیجے جائیں اور اس طرح اسلام کی آواز ان تک پہنچائی جائے.ہم اس بات پر غور کر رہے ہیں کہ تبلیغ کی سکیم میں اس قسم کی تبدیلی کی جائے کہ موجودہ خرچ میں ہی کام کو آگے پھیلایا جاسکے.اس وقت تک ہماری یہ رائے ہے کہ نئے مشن کھولنے کی بجائے پرانے مشنوں کو زیادہ مضبوط کیا جائے.ان کے کام کو صحیح طریق پر ڈھالا جائے اور انہیں پہلے سے زیادہ مالی مدد دی ائے.جب وہ مشن اپنا بوجھ اٹھا لیں تو نئے مشن کھولے جائیں.پچھلے دور میں یہ ہوتا تھا کہ جو نہی کسی ملک سے مبلغ کے لئے آواز آتی.ہماری کوشش یہ ہوتی تھی کہ ہم اُس کی آواز کوسنیں اور اُس کا جواب دیں.اس کے نتیجہ میں بعض مشنوں نے تو اپنا بوجھ آپ اٹھا لیا لیکن بعض مشن ایسے تھے جو اپنا بوجھ آپ نہیں اٹھا سکے اور ان کا بوجھ روز بروز بڑھتا جا رہا ہے.پھر انسانی طبائع مختلف ہوتی ہیں.بعض مبلغ ایسے ہوتے ہیں جو نظم کے عادی ہوتے ہیں وہ مرکز کی ہدایات کے مطابق کام

Page 34

خطبات محمود جلد نمبر 36 24 $1955 ے دو، وہ دے دو، کرتے ہیں.اور بعض مبلغ ایسے ہوتے ہیں جو مرکز کو ڈراتے رہتے ہیں کہ ہمیں یہ دے دو، وہ ہمیں فلاں چیز بھیج دو اور اس طرح وہ سمجھتے ہیں کہ مرکز گھبراہٹ میں ان کے حسب منشا کام کر دے گا.جو مبلغ نظم کے عادی ہوتے ہیں اور نظام سلسلہ کے پابند ہوتے ہیں میں نے دیکھا ہے کہ وہی مبلغ اپنے کام میں کامیاب ہوتے ہیں.اور جن کو یہ اصرار ہوتا ہے کہ ان کی ہر بات کو مان لیا جائے میں نے دیکھا ہے کہ وہ سالہا سال تک ایک ملک میں رہ کر آ جاتے ہیں لیکن ڈھاک 1 کے کی وہی تین پات والا معاملہ ہوتا ہے.میں نے بتایا ہے کہ ہم اس بات پر غور کر رہے ہیں کہ تبلیغ کے نظام میں اس قسم کی مناسب تبدیلی کر دی جائے جس سے موجودہ خرچ میں ہی کام وسیع کیا جا سکے.لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ چندہ میں ہر سال زیادتی نہ ہو.اس طرح تو ہمارا قدم رک جائے گا.اور جماعت کی ترقی رک جائے گی.گو ہماری کوشش ہوگی کہ بجٹ کو اس طور پر نہ بڑھایا جائے کہ وہ جماعت کی طاقت سے باہر ہو جائے.لیکن اس تبدیلی میں کچھ دن لگیں گے.اول تو یہ بات لازمی ہوگی کہ پہلے مشن کو قائم رکھا جائے اور اسے پہلے سے زیادہ مضبوط کیا جائے.اور اس سے بہر حال اخراجات میں زیادتی ہوگی.لیکن یہ ضرور دیکھا جائے گا کہ اخراجات میں پہلے کی رفتار سے زیادتی ہو.پہلے یہ ہوتا تھا کہ ایک سو کی آمد ہوئی تو اگلے سال کے خرچ کا اندازہ - 175 یا -/200 تک ہو گیا.لیکن اب ہماری یہ سکیم ہے کہ اخراجات بے شک بڑھیں لیکن یہ بڑھوتی اس طرح کی ہو کہ گزشتہ سال مثلاً آمد ایک سو ہے تو اگلے سال اخراجات کا اندازہ - 105 ہو جائے.بڑھوتی بہر حال ہوگی.پھر اس کے مقابلہ میں یقیناً ہماری آمد بھی زیادہ ہوگی.اگر جماعت ہر سال بڑھتی رہے، اگر اس کی اقتصادی حالت ہر سال اچھی ہوتی رہے اور اگر جماعت کا زمیندار اور صناع پہلے کی نسبت زیادہ ہوشیار ہوتا جائے تو آمد بہر حال بڑھے گی.اور اگر جماعت کے ہر سال بڑھنے کے باوجود ہما را چندہ نہ بڑھے، اگر باوجود اس کے کہ ملازمتوں میں ہر سال ترقی ہو ، صناع اور زمیندار ہر سال اپنی حالت کو بہتر بناتے جائیں ہماری چندہ کی حالت پہلے کی طرح رہے تو اس کے یہ معنے ہوں گے کہ جماعت کا نظم کمزور ہے اور اسکی ذہنیت گر گئی ہے.پس چندہ بھی ہر سال بڑھتا رہے گا اور اخراجات بھی بڑھتے رہیں گے.لیکن ہم ایسا انتظام کرنے کی فکر میں ہیں کہ اخراجات میں نہ ہو.

Page 35

$1955 25 خطبات محمود جلد نمبر 36 یکدم ایسی زیادتی نہ ہو جو نا قابلِ برداشت ہو.حتی الوسع نئے مشن اُس وقت تک نہ کھولے جائیں گی جب تک کہ پہلے مشن اپنا بوجھ خود نہ اٹھا لیں.ہم نے ابھی اس قسم کا کوئی قطعی فیصلہ نہیں کیا کہ ہم بالکل نیا مشن نہیں کھولیں گے.لیکن یہ ضرور ہوگا کہ اگر پہلے ہم نے سات مشن کھولے تھے تو اب ایک کھولیں گے.اور یہ طریق اس وقت تک جاری رہے گا جب تک پہلے مشن مضبوط نہ ہو جائیں اور جماعت کی مالی حالت بہت بہتر نہ ہو جائے.لیکن بعض اخراجات میں کمی نہیں کی جاسکتی.اور اگر ہم ان میں کوئی کمی کریں گے تو ہمارا کام پندرہ بیس سال دُور جا پڑے گا اور اس طرح جماعت کو بہت زیادہ نقصان ہوگا.مثلاً نئے مشنری تیار کرنے پر جو خرچ ہوتا ہے اس میں کمی نہیں کی جاسکتی.اگر ہم اس میں کمی کریں تو اس کا یہ نتیجہ ہو گا کہ جب جماعتیں بڑھیں گی اور آدمی مانگیں گی تو ہم انہیں وقت پر آدمی مہیا نہیں کر سکیں گے.ہماری مالی حالت بے شک اچھی ہوگی لیکن ہمارے پاس نفری نہیں ہوگی کیونکہ اخراجات میں کمی کرنے کی وجہ سے مبلغین کی تیاری میں ایک لمبا وقفہ پڑ گیا ہوگا.پڑھائی کے لحاظ سے دیکھ لو اس پر سات سال کا عرصہ لگ جاتا ہے.پھر ہم نے پڑھائی کے کی عرصہ کو ہی نہیں دیکھنا بلکہ جماعت میں نئی روح پیدا کر کے طلباء مہیا کرنا ہے اور نئی روح پیدا کرنے پر بھی چھ سات سال لگ جاتے ہیں اور اس طرح وقفہ کے بعد پہلے نئے مبلغ کے تیار ہونے میں تیرہ چودہ سال کا وقفہ پڑ جاتا ہے.اس لئے مبلغ ہمیں بہر حال تیار کرتے رہنا ہوگا.اس میں کمی نہیں کی جا سکتی.یہ سلسلہ چلتا چلا جائے گا.صدرا انجمن احمد یہ اور تحریک جدید سے جوغلطی ہوئی ہے وہ یہی ہے کہ وہ مبلغ تو بناتے ہیں لیکن جب اُن کو وقفہ میں نہیں کھپا سکتے تو مبلغ پیدا کرنے میں سستی کرنے لگ جاتے ہیں.لیکن کی میری تجویز یہ ہے کہ جو طالب علم مبلغین کلاس پاس کر لیں انہیں تبلیغ کے کام پر لگانے سے پہلے تین تین ماہ کے لئے کم سے کم چار دفاتر میں کام کرنے کا موقع دیا جائے.مثلاً تین ماہ وہ بیت المال میں کام کریں.تین ماہ نظارت امور عامہ میں کام کریں.تین ماہ دعوت و تبلیغ میں کام کریں.تین ماہ کسی اور دفتر میں کام کریں.اور اگر آدمی زیادہ ہو جائیں تو اس ایک سال کے عرصہ کو دو سال تک بڑھا دیا جائے.اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ ان کا ذہن صرف مولویت تک محدود نہیں رہے گا.بلکہ صحابہ کرام کی طرح ان کے اندر دفتری کاموں ، تجارت ، صنعت اور زراعت ، سیاست ، اقتصاد، معاشرت

Page 36

$1955 26 خطبات محمود جلد نمبر 36 غور کرنے کی عادت بھی پیدا ہو جائے گی.ان کے اندر مال کے انتظام اور اس میں ترقی دینے ، جماعت کی حالت کو سدھارنے اور تعلیم وغیرہ کی قابلیت بھی پیدا ہو جائے گی.انہیں مختلف محکموں کے کام کا پتا لگ جائے گا اور ضرورت پڑنے پر وہ اس کام کے کرنے کی اہلیت رکھتے ہوں گے.اگر ہمارے پاس اس قسم کے مبلغ تیار ہو جائیں تو جب تک ہم کوئی نیا مشن نہیں کھولتے ہم ان سے دوسرے محکموں میں کام لے سکتے ہیں.یہ ضروری نہیں کہ ہم انہیں امور عامہ، زراعت ، تجارت یا کسی اور محکمہ میں نائب ناظر لگا دیں یا نا ئب ناظر نہیں تو سپر نٹنڈنٹ ہی لگا دیں اور وقت پر وکالت اور نظارت ان کے سپر د کر دیں.اس سے ہمارا خرچ بہت حد تک کم ہو جائے گا.ایک می جس نے زراعت کے محکمہ میں کام کیا ہو وہ اگر کسی ایسے ملک میں بھیجا جاتا ہے جہاں لوگوں کا زیادہ تر گزاره زراعت پر ہے.تو وہ بوجہ اپنے تجربہ کے تبلیغ کے علاوہ جماعت کی زرعی حالت کو بھی درست کرے گا.بہت سے ممالک ایسے ہیں جو زراعت ، صنعت اور تجارت میں ابھی پاکستان کی سے بہت پیچھے ہیں.یورپ اور امریکہ تو بہت آگے جاچکے ہیں.لیکن ایشیا اور افریقہ میں بہت سے ایسے ممالک ہیں جن کی حالت پاکستان کی نسبت بہت خراب ہے.اگر ہمارے مبلغ اس قسم کے کام سیکھ کر وہاں جائیں تو دوسرے ممالک میں جا کر نہ صرف وہ جماعت کے لئے مفید وجود ثابت کی ہوں گے بلکہ گورنمنٹ کی نظر میں بھی اور پبلک کی نظر میں بھی وہ ملک کے لئے مفید ہوں گے.اور وہ سمجھے گی کہ یہ لوگ صرف مولوی نہیں بلکہ ایک زمیندار ، صناع اور تاجر بھی ہیں.اور اگر یہ طریق اختیار کر لیا جائے کہ فارغ وقت میں مبلغین کو کسی اور کام پر لگا دیا جائے تو یہ خطرہ نہیں ہوگا کہ زیادہ آدمیوں کو کہاں لگائیں.پھر یہ بھی کیا جا سکتا ہے کہ مبلغین کو بی.اے کرا کے جرنلسٹ یا استاد بنا دیا جائے.لیکن صدر انجمن احمد یہ اور تحریک جدید کی اس طرف توجہ نہیں.پھر میں نے بارہا اس طرف توجہ دلائی ہے کہ مبلغین کو طب سکھائی جائے.اگر ایسا انتظام کیا جائے تو بہت تھوڑی سی توجہ سے وہ طبیب بن جائیں گے.ہماری طب کے ایسے اصول ہیں کہ انسان ذاتی مطالعہ کی وجہ سے اس میں ترقی کرسکتا ہے.انگریزی طب کے ایسے اصول نہیں ان میں سرجری کا کام زیادہ ہوتا ہے.اور پھر افعال اور اعضاء کے مختلف نتائج کو کیمیاوی طور پر یا خورد بین اور ایکسرے کے ذریعہ دیکھنا ہوتا ہے جن کو ذاتی مطالعہ سے حاصل نہیں کیا جاسکتا.

Page 37

$1955 27 خطبات محمود جلد نمبر 36 غرض انگریزی طب کو ایسے کاموں سے وابستہ کر دیا گیا ہے کہ اس کے سیکھنے کے لئے کالج میں داخل ہونے کی ضرورت ہوتی ہے.لیکن ہماری طب ایسی ہے کہ اگر پرائیوٹ طور پر مطالعہ کیا جائے تو ذہین اور سمجھدار آدمی اس میں انتہائی ترقی کر سکتا ہے.ایک کمپونڈ ر اعلیٰ درجہ کا ڈاکٹر نہیں بن سکتا لیکن ایک معمولی طبیب ذاتی مطالعہ سے اعلیٰ درجہ کا طبیب بن سکتا ہے.کیونکہ اس میں تدبیر اور فکر سے ترقی کی جاسکتی ہے اور اس کی وجہ ظاہر ہے کہ ہماری طب کی بنیاد کلیات پر ہے.لیکن انگریزی.طب کی بنیاد جزئیات پر ہے.اس لئے اس میں فلسفہ کم ہوتا ہے اور آلات اور عملی تدابیر زیادہ ہوتی ہیں اس لئے اس میں درسی تعلیم کا دخل زیادہ ہے.لیکن طب یونانی کی بنیا د فلسفہ پر ہے.پس جو شخص سوچنے کا عادی ہوگا وہ طب میں بہت آگے نکل جائے گا.میں نے کئی دفعہ سمجھایا ہے کہ مبلغین کو طب سکھا ؤ لیکن اس طرف کوئی توجہ نہیں کی گئی ابھی تک دنیا میں کئی ایسے علاقے ہیں جہاں کوئی طبیب نہیں ملتا.اگر ہمارے مبلغ طبیب بھی ہوں تو وہ اس قسم کے علاقوں میں بہت اچھا کام کر سکتے ہیں.لیکن میں دیکھتا ہوں کہ طلباء اور دفتر کے عملہ انگریزی طب نے اس قسم کا تسلط کیا ہوا ہے کہ وہ ادھر جاتے ہی نہیں.روزانہ تجربہ میں یہ بات آتی ہے کہ بعض جگہوں پر ڈاکٹر فیل ہو جاتا ہے لیکن یونانی طبیب کامیاب ہو جاتا ہے.اس میں کوئی شک نہیں کہ ایسے حصے جن سے جزئیات کا زیادہ تعلق ہوتا ہے ان میں انگریزی طب زیادہ کا میاب ہوتی ہے.کیونکہ اس کی بنیاد جزئیات پر ہے.لیکن جب یہ دونوں علم متوازی صورت میں ہیں تو کیا تی وجہ ہے کہ طب سے فائدہ نہ اٹھایا جائے.پھر ہومیو پیتھک ہے ، بایو کیمک ہے.یہ اور بھی آسان ہیں.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ بعض ممالک میں اس قسم کا قانون بنا دیا گیا ہے کہ جس شخص کے پاس با قاعدہ سند نہ ہو یا اُسے دس سال کا تجربہ نہ ہو، وہ طبابت کا پیشہ اختیار نہیں کر سکتا.لیکن اس وقت کی بھی بعض ممالک ایسے ہیں جن میں پاکستان جتنے ڈاکٹر بھی نہیں پائے جاتے.ایک دفعہ ایک ملک سے ایک دوست نے لکھا کہ مجھے ایک ڈاکٹر بھجوا دیں.میں اسے اپنے پاس سے روپیہ خرچ کر کے دکان کھول دوں گا وہ یہاں اپنی پریکٹس کرتا رہے.میں نے اسے لکھا کہ کوئی ڈاکٹر اس کام کے لئے تیار نہیں.تو اس نے کہا میری مراد سند یافتہ ڈاکٹر سے نہیں بلکہ کمپونڈر سے ہے.مجھے کوئی کمپونڈ ر ہی بھجوا دیں میں اپنے پاس سے خرچ کر کے اس کے لئے دکان کا انتظام کر دوں گا.

Page 38

$1955 28 خطبات محمود جلد نمبر 36 غرض ابھی آدھی دنیا ایسی ہے جس میں ڈاکٹر نہیں.امریکہ کی طرف دیکھتے ہوئے پاکستان نے بھی ایسے خواب دیکھنے شروع کر دیئے ہیں کہ طبیبوں پر پابندی لگادی جائے اور سوائے با قاعدہ سند یافتہ ڈاکٹروں کے کوئی علاج نہ کر سکے.لیکن حالت یہ ہے کہ ہمارے ملک کے بعض حصوں میں ابھی دس دس بیس میں میل تک ڈاکٹر نہیں ملتا.اگر ہمارے ملک میں اس قسم کا قانون پاس کر دیا گیا تو ہم امریکہ کی نظر میں مہذب تو بن جائیں گے لیکن ہمارے افراد بیماری اور مصیبت کا شکار ہو جائیں گے اور ایسے علاقوں کے رہنے والے لوگ علاج کے بغیر ہی مر جائیں گے.پاکستان تو ایشیا اور افریقہ کے کئی ممالک کے مقابلہ میں ترقی یافتہ ہے.وہ ممالک اس سے بہت پیچھے ہیں اور ان میں ڈاکٹروں کا نام ونشان بھی نہیں.اگر مبلغین کو طب پڑھائی جائے تو اس قسم کے علاقوں میں وہ بہت مفید کام کر سکتے ہیں.بہر حال اگر طلباء کو صحیح طور پر استعمال کیا جائے تو ایسے طریق موجود ہیں جن کے ذریعہ انہیں مفید وجود بنایا جاسکتا ہے.بشرطیکہ عملہ ایسا کرنے کے لئے تیار ہو.اور جیسا کہ میں نے بتایا ہے اس قسم کے اخراجات کم نہیں کئے جاسکتے.یہ بہر حال ہر سال بڑھتے جائیں گے.میں نے دونوں انجمنوں صدر انجمن احمد یہ اور تحریک جدید کو ہدایت دی ہے کہ وہ مبلغین کی تعداد زیادہ نہ کریں بلکہ جو پہلے مبلغ ہیں ان کو زیادہ سہولتیں پہنچائیں.انہیں اخراجات زیادہ دیں تا وہ اپنے علاقہ میں دورے کر سکیں اور تبلیغ کے کام کو منظم کر سکیں.یہ نہ ہو کہ ایک مبلغ کو کسی علاقے میں بھیج دیا گیا ہولیکن اس کے پاس اتنے اخراجات بھی نہ ہوں کہ وہ دس میل کا سفر کر سکے.اگر ایک آدمی کو کی بھی پورا سامان بہم پہنچایا جائے.تو وہ دس مبلغوں جتنا کام کر سکتا ہے.پھر مبلغین کی ٹریننگ کی طرف بھی توجہ ہونی چاہیے.اس وقت یہ حالت ہے کہ نئے مبلغین کو کچھ حوالے سکھا کر کسی علاقہ میں بھیج دیا جاتا ہے.حالانکہ صرف حوالوں سے کامیابی نہیں ہو سکتی تبلیغ میں نفسیات سے واقفیت کی بھی ضرورت ہوتی ہے.صلح حدیبیہ کے موقع پر رسول کریم میایی کے پاس جب مکہ کا سفیر آیا تو آپ نے صحابہ کو حکم دیا کہ اپنی سب قربانیاں باہر نکال کر صفوں میں کھڑی کر دوح آپ انسانی کیریکٹر کو پہنچانتے تھے اور اسے سمجھنے کی کوشش کرتے تھے.آپ نے سمجھا اسے زیادہ تبلیغ کی ضرورت نہیں.یہ پرانی طرز کا مذہبی آدمی ہے.اس کے نزدیک جو شخص

Page 39

$1955 29 خطبات محمود جلد نمبر 36 خانہ کعبہ میں آکر قربانی کرے وہ بڑا نیک آدمی ہوتا ہے.ہمارے ہاں بھی یہی ہوتا ہے بعض لوگوں کے نزدیک اگر کوئی شخص جمعرات کی روٹی کسی ملا کو دے دیا کرے یا فاتحہ خوانی کروا دیا کرے تو وہ اچھا سمجھا جائے گا.چاہے وہ اور کوئی نیک کام نہ کرے.پھر بعض لوگ ایسے ملیں گے جو حج کو بہت اچھا عمل سمجھتے ہیں.اگر کوئی حج کر آئے تو وہ سمجھیں گے یہ بہت اچھا آدمی ہے.بعض طبائع تسبیح کو اچھا سمجھتی ہیں.تم اپنے ہاتھ میں ایک تسبیح پکڑ لوتو وہ تمہارے متعلق کوئی بُرا خیال دل میں نہیں لائیں گے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا کہ اس شخص پر قربانی کا بہت اثر ہے اس لئے آپ نے صحابہ کو حکم دیا کہ سب قربانیاں باہر نکال کر صفوں میں کھڑی کر دی جائیں.جب وہ شخص آیا اور اس نے قربانی کے جانوروں کو دیکھا تو بہت متاثر ہوا.اور اس نے اہلِ مکہ کو جا کر کہا میں نے مسلمانوں کو جا کر دیکھا ہے وہ بے شمار جانور اپنے ساتھ لائے ہیں تا کہ یہاں آکر قربانی کی کریں.اگر تم نے انہیں کچھ کہا تو تم تباہ ہو جاؤ گے.اس سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کے متعلق مشرکین مکہ کے دلوں میں جو بغض تھا وہ کم ہو گیا.اسی طرح تبلیغ میں بھی صرف حوالوں کی ضرورت نہیں ہوتی بلکہ مبلغ کو لوگوں کے حالات کا مطالعہ کر کے انکے مطابق تبلیغی کام سرانجام دینا چاہیے.مگر ہمارے ہاں بھیڑ چال سی پائی جاتی ہے.نفسیات کے ماہرین نے تجربہ کیا ہے کہ بھیڑیں ایک دوسرے کی نقل کرتی ہیں.انہوں نے کی ایک گلہ بھیڑوں کا لیا اور ایک جگہ پر ایک رہتی باندھ دی.اور ان بھیڑوں کو پیچھے سے دھکیلا اور اس رشتی پر سے گزارنا چاہا.جب پہلی بھیٹر رشی کے پاس پہنچی تو وہ رستی دیکھ کر اس پر سے گو دگئی.پھر دوسری آئی وہ بھی گو دگئی.پھر انہوں نے رستی اُتار دی.لیکن گلہ کی پانچ چھ سو بھیڑ میں باری باری اُس جگہ پہنچ کر گو دتیں.گویا ان کے آگے رستی بندھی ہوئی ہے.حالانکہ وہاں رستی نہیں تھی.صرف پہلی بھیڑ کی نقل میں دوسری بھیڑیں باری باری اُس جگہ سے گو درہی تھیں.یہیں سے بھیٹر چال کا محاورہ بن گیا ہے.اگر کسی جماعت میں اس قسم کی بھیٹر چال پیدا ہو جائے تو وہ تباہ ہو جاتی ہے.ہمارے ہاں بھی بھیڑ چال پائی جاتی ہے.ذمہ دار کارکن سوچتے نہیں.وہ غور و فکر نہیں کرتے اور نہ کوئی نیا مسئلہ نکالتے ہیں.وہ صرف پہلوں کی نقل کرتے چلے جاتے ہیں.وہ یہ نہیں دیکھتے کہ زمانہ کے حالات متغیر ہو چکے ہیں، زمانہ بدل گیا ہے، تمدن پہلے کی نسبت ترقی کر چکا ہے.اب

Page 40

خطبات محمود جلد نمبر 36 30 $1955 ہمیں بدلے ہوئے حالات کے مطابق چلنا چاہیے.یہ سب باتیں ٹریننگ سے آسکتی ہیں.جب کوئی نوجوان مبلغین کلاس پاس کر کے کالج سے نکلتا ہے تو اُسے سمجھایا جائے کہ اس نے تبلیغ کے سلسلہ میں کس طرح مختلف رستے پالتے ہیں.پس مرکز والوں کو بھی چاہیے کہ وہ اپنے اندر ایک تبدیلی پیدا کریں اور جماعت کو بھی چاہیے کہ وہ اپنی ذمہ داری کو سمجھے اور اس کے مطابق حرکت اب بہت تھوڑے دن رہ گئے ہیں.وعدوں کی میعاد ختم ہو نیوالی ہے.ان چند دنوں کے گزرجانے کے بعد جماعت کے لوگ شرمندہ ہوں گے کہ ان کی مالی قربانی گزشتہ سال سے کمزور رہی.جماعت بہر حال گزشتہ سال سے بڑھی ہے.اس کے کئی نو جوان جو پہلے ملازم نہیں تھے اس سال ملا زم ہوئے ہیں یا کئی نوجوان جو پہلے بیکار تھے اس سال انہوں نے کوئی نہ کوئی کام شروع کیا ہے.اور اس طرح چندوں کی مقدار بڑھنی بھی ضروری ہے.اگر جماعت میں نئے داخل ہونے والوں کو لیا جائے ، جماعت کے ایسے نوجوانوں کو لیا جائے.جو پہلے ملازم نہیں تھے اس سال ملازم ہوئے ہیں یا پہلے بیکار تھے اب انہیں روز گار مل گیا ہے تو کوئی وجہ نہیں کہ جماعت کے چندہ میں زیادتی نہ ہو.پس میں ایک دفعہ پھر جماعت کے دوستوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ ہر جماعت جلد سے جلد وعدوں کی فہرست مکمل کر کے دفتر میں بھجوائے.یہ یادر ہے کہ وعدوں میں کچھ نہ کچھ زیادتی ضرور ہونی چاہیے تا کہ جماعت کا قدم آگے بڑھے، پیچھے نہ ہٹے.یہ فہرستیں جلد سے جلد مرکز میں کی بھجوائی جائیں تا وہ اپنا ریکارڈ مکمل کر سکیں اور آئندہ سال کا بجٹ بنانے میں جو دقت پیش آ رہی ہے وہ دُور ہو جائے.(الفضل 3 فروری 1955ء) 1 ڈھاک کے تین پات ( کہاوت) بے نتیجہ، لاحاصل، بے حقیقت (اُردو لغت تاریخی اصول پر جلد 10 صفحہ 211.کراچی جنوری 1990ء) 2 سیرت ابن ہشام.جلد 3 صفحہ 326.زیر عنوان امر الحديبة في آخر سنة ست و ذكر

Page 41

$1955 31 4 خطبات محمود جلد نمبر 36 جماعت احمدیہ کے قیام کی اصل غرض یہی ہے کہ اسلامی تعلیم سے لوگوں کو روشناس کرایا جائے.فرموده 4 فروری 1955ء بمقام ربوہ) تشہد ،تعوذ اورسورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا." ” جماعت احمدیہ کے قیام کی اصل غرض اللہ تعالیٰ نے یہی بتائی ہے کہ اسلامی تعلیم سے لوگوں کو روشناس کرایا جائے.جو لوگ مسلمان کہلاتے ہیں اور اسلامی تعلیم کو بھول گئے ہیں اُن کو دوبارہ اسلامی تعلیم سے واقف کیا جائے.اور جو لوگ ابھی اسلام میں داخل نہیں ہوئے اور انہیں اسلامی تعلیم کی خبر نہیں اُن کو اسلامی تعلیم سے باخبر کیا جائے.یہ کام بہت اہم ہے.لیکن ظاہر ہے کہ یہ ایک روحانی کام ہے اور جب بھی دنیوی ترقیات کی رو چلے گی اس کی کشش کم ہو جائے گی.مثلاً دنیا میں ہم دیکھتے ہیں کہ بعض دفعہ ایک رو چلتی ہے جس کے نتیجہ میں لوگ باقی سب کاموں کو چھوڑ کر اس کی طرف متوجہ ہو جاتے ہیں.لاہور میں کرکٹ کا میچ ہوا تو ہر ایک کو یہی شوق تھا کہ وہ وہاں جا کر کرکٹ کا میچ دیکھے حالانکہ سب لوگ اس کے شوقین نہیں ہوتے.بعض لوگ تاش کے شوقین ہوتے ہیں، بعض شطرنج کے شوقین ہوتے ہیں، بعض فٹ بال کے شوقین ہوتے ہیں، بعض ٹینس کے شوقین ہوتے ہیں،

Page 42

خطبات محمود جلد نمبر 36 الله 32 $1955 بعض بیڈ منٹن کے شوقین ہوتے ہیں.لیکن اس وقت کرکٹ کا میچ ہوا تو سب لوگ اس کی طرف متوجہ ہو گئے.اور ہر شخص یہی چاہتا تھا کہ کسی طرح وہ کرکٹ کا میچ دیکھ لے.اسی طرح دنیا میں عیاشی اور دل کی رغبت کے کئی طرح کے سامان ہوتے ہیں.مثلاً سرکس ہوتا ہے، تھیٹر ہوتا ہے، سینما ہوتا ہے، ناچ اور گانے ہوتے ہیں.کوئی شخص کسی کا شوقین ہوتا ہے اور کوئی کسی کا شوقین ہوتا ہے.لیکن جب کسی فن میں مہارت رکھنے والے آجاتے ہیں تو سب لوگ اُن کا فن دیکھنے کے لئے آجاتے ہیں.لیکن جو چیز پہلے ہی دن ان کی رغبت کا موجب ہو اس کی طرف وہ زیادہ جاتے ہیں.دین کی کشش در حقیقت بہت کم ہے.کیونکہ اس کا تعلق روحانیت سے ہے اور روحانی چاشنی رکھنے والے لوگ بہت تھوڑے ہوتے ہیں.سکھوں کے زمانہ میں لوٹ مار زیادہ تھی.کسی کے پاس کوئی چیز ہوتی تو دوسرے لوگ اس سے چھین لیتے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرمایا کرتے تھے کہ ایک مجلس میں یہ ذکر ہورہا تھا کہ کیا کسی نے گندم کی روٹی کھائی ہے؟ اُن دنوں لوگ زیادہ تر باجرہ ، جوار اور جو کھاتے تھے گندم شاذ ہی ملتی تھی.اور اگر یہ پتا لگ جاتا کہ کسی کے پاس گندم ہے تو سکھ اُس سے چھین لیتے.تمام لوگوں نے کہا ہم نے تو گندم کی روٹی نہیں کھائی صرف ایک شخص نے کہا کہ گندم کی روٹی بڑی مزیدار ہوتی ہے دوسروں نے پوچھا کیا تم نے گندم کی روٹی کھائی ہے ؟ اس نے کہا میں نے کھائی تو نہیں لیکن گندم کی روٹی ایک شخص کو کھاتے دیکھا ہے.کھانے والا چٹخارے لے لے کر کھاتا تھا جس سے میں نے سمجھا کہ گندم کی روٹی بڑی مزیدار ہوتی ہے.اب گندم کی روٹی ایک مادی چیز ہے.کھانے والا چٹخارے مارتا ہے تو دیکھنے والے کو بھی معلوم ہوتا ہے کہ اسے اس کا مزہ آ رہا ہے.پھر اس کے چہرہ کے آثار اور اتار چڑھاؤ سے یہ معلوم ہو جاتا ہے کہ روٹی بڑی مزیدار ہے.پھر بعض لوگ پلاؤ کھانے کے شوقین ہوتے ہیں.پلاؤ مل جائے تو وہ بہت خوش ہوتے ہیں.لیکن روٹی سالن دیا جائے تو اُس کی طرف توجہ نہیں کرتے.لیکن نمازوں کے مزے کا کسی دوسرے کو پتا نہیں لگتا.کیونکہ ان کا مزہ اور لذت مخفی ہوتی ہے.جن مادی چیزوں کا مز مخفی نہیں ہوتا وہ ہر کوئی محسوس کر لیتا ہے.دوسرا فرق روحانی اور مادی چیزوں میں یہ ہے کہ روحانی مزہ انسان خود حاصل کرتا ہے

Page 43

$1955 33 خطبات محمود جلد نمبر 36 کسی دوسرے کو نہیں دے سکتا.لیکن مادی چیزوں کا مزہ دوسرے کو بھی چکھایا جاسکتا ہے.مثلاً اگر تم میرے پاس آؤ اور دریافت کرو کہ نماز کا کیا مزہ ہے؟ تو میں تمہیں اپنی تھوڑی سی نماز دے کر اس کا مزہ چکھا نہیں سکتا.لیکن اگر میرے پاس پلاؤ ہو اور کوئی شخص کہے کہ میں نے پلاؤ نہیں کھایا مجھے علم نہیں کہ اس کا کیا مزہ ہے تو میں اپنی رکابی اس کی طرف سرکا دوں گا.گویا مادی چیز کا مزہ چکھایا جا سکتا ہے.لیکن روحانی چیز کا مزہ چکھایا نہیں جاسکتا اس کے لئے ایک ذوق پیدا کرنا پڑتا ہے.اس کی مشق کرنی پڑتی ہے.انگریزی زبان میں ایک محاورہ ہے.ایکوائر ڈٹیسٹ (Acquired Taste) ہوتا ہے.یعنی بعض چیزوں کا مزہ فوری طور پر آجاتا ہے.اور بعض کا مزہ عادت کے بعد آتا ہے.چنانچہ جتنی نشہ کی چیزیں ہیں ان کا مزہ ایکوائر ڈٹیسٹ ہے.یعنی طبعی مزہ نہیں بلکہ شروع میں زبان اور منہ کو بُری لگتی ہیں.مثلاً شراب ہے ، سگریٹ ہے، سگار ہے، یہ سب ایکوائر ڈٹیسٹ والی ہیں.اگر کوئی شخص زردہ نہیں کھاتا اور اسے زردہ کھلا دیا جائے تو اسے قے آجائے گی.لیکن جنہیں زردہ کھانے کی عادت ہے.وہ قربانی کر کے بھی زردہ حاصل کریں گے.یا پٹھانوں میں نسوار لینے کی عادت ہے اگر کسی نے پہلے کبھی نسوار نہ لی ہو تو نسوار لینے سے اس کا سر چکرا جائے گا.سگریٹ اور سگار کی بھی یہی حالت ہے.اگر کسی کو نئے سرے سے سگریٹ یا سگار پلایا جائے تو اُس کے سر میں درد ہونے لگتی ہے.بلکہ بعض کو تو اس کے دھوئیں سے ہی تکلیف ہوتی ہے.اس لیے سگریٹ اور سگار پینے والے لوگ جب ایسے لوگوں کے پاس جاتے ہیں جو اس کے عادی نہیں ہوتے.تو پہلے اجازت لے لیتے ہیں اور پھر سگریٹ یا سگار پیتے ہیں.میرے پاس بھی ملاقات کے لئے جب ایسے لوگ آتے ہیں اور انہیں سگریٹ پینے کی حاجت محسوس ہو تو وہ کہتے ہیں کیا ہمیں سگریٹ پینے کی اجازت ہے؟ مثلاً اگر غیر احمدی یا عیسائی لوگ مجھے ملنے کے لئے آجائیں تو وہ اکثر اجازت لیتے ہیں اور پھر سگریٹ پیتے ہیں.پچھلے دنوں ایک انگریز آیا.جب اسے سگریٹ پینے کی حاجت محسوس ہوئی تو اُس نے مجھ سے کہا کیا میں سگریٹ.پی لوں؟ کیونکہ وہ لوگ جانتے ہیں کہ یہ ایکوائر ڈٹیسٹ ہے اور صرف عادی لوگوں کو ہی آسکتا ہے دوسروں کو نہیں.اسی طرح نماز اور روزہ میں بھی ایکوائر ڈٹیسٹ ہے اور یہ مزہ صرف ایک دفعہ نماز پڑھنے یا سجدہ رکوع کرنے سے نہیں آتا بلکہ مشق کرنے کے بعد آتا ہے.دل اور روح کی

Page 44

$1955 34 خطبات محمود جلد نمبر 36 وابستگی کے بعد آتا ہے پہلے نہیں.لیکن پلاؤ ، زردہ اور دوسری مادی چیزوں کا مزہ عادت کے بعد نہیں ہوتا.ہزاروں میں سے کوئی ایسا شخص ملے گا جو کہے گا مجھے ان میں مزہ نہیں آتا.باقی لوگ ایسے ہی نکلیں گے جن سے پوچھنے کی ضرورت نہیں ہوگی.لیکن روحانی چیزوں کا مزہ مشق کے ساتھ آئے گا.پھر روحانی چیزوں کا مزہ دوسروں کو چکھایا نہیں جاسکتا.لیکن دنیوی چیزوں کا مزہ چکھایا جا سکتا ہے.گو یا اگر کوئی شخص کہے کہ مجھے پتا نہیں کہ پلاؤ کا کیا مزہ ہے تو ہم اسے پلاؤ دے سکتے ہیں.لیکن اگر کوئی یہ کہے کہ مجھے نماز کے مزہ کا علم نہیں تو اسے ہم اپنی نماز کا کوئی حصہ نہیں دے سکتے.کیونکہ اس کے لئے ذاتی طور پر عادت ڈالنا اور توجہ کرنا ضروری ہے.پس جب کسی جماعت کو مادی ترقیات حاصل ہوتی ہیں تو روحانی مزے کم ہو جاتے ہیں.کیونکہ اول تو یہ خفی ہوتے ہیں.پھر دوسروں کو چکھائے نہیں جاسکتے.اس لئے جب شان و شوکت کا زمانہ آتا ہے تو یہ صرف چند لوگوں میں محصور ہو کر رہ جاتے ہیں.باقی لوگ زمانہ کی رو کے ساتھ بہہ جاتے ہیں.اس وقت یہ دور نہایت خطرناک طور پر آیا ہوا ہے.جتنی دولت اس وقت موجود ہے اور جتنے زمین کے مخفی خزانوں کو اس زمانہ میں ظاہر کیا گیا ہے پہلے نہیں کیا گیا تھا.اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ آخری زمانہ میں زمین اپنے سارے خزانے باہر پھینک دے گی.تمام زمین کھودی جائے گی اور جو کچھ اس کے اندر ہوگا باہر آ جائے گا 1.اور پھر صرف زمین کی مخفی چیزوں کو ہی ظاہر نہیں کیا جائے گا بلکہ آسمان کا چھلکا بھی اُتارا جائے گا.اور جو چیزیں فائدہ پہنچانے والی ہیں وہ جمع کر لی جائیں گی.مثلاً سورج کی گرمی ہے.اس سے فائدہ اٹھایا جا رہا ہے.کاسمک ریز ہیں ان کے ذریعہ سورج کی شعاعوں سے کام لیا جاتا ہے.اب ان شعاعوں سے ایک خاص طاقت پیدا کی گئی ہے.جن سے کارخانوں کو چلایا جائے گا اور ہوائی جہازوں کو تباہ کیا جا سکے گا.پس جتنی دولت اور سامان اس وقت مہیا کئے گئے ہیں پہلے نہیں تھے.ان کے مقابلہ میں روحانی مزہ ایک مخفی چیز ہے.ایک شخص کو بے شک روحانی تسکین اور خدا تعالیٰ کا قرب حاصل ہورہا ہو وہ تسبیح کر رہا ہو اور اس میں لذت محسوس کر رہا ہو.لیکن دوسرے لوگوں کو اس کا علم حاصل نہیں ہوسکتا.اگر کسی نے انگور کا مزہ نہیں چکھا تو اُسے انگور کا مزہ چکھایا جاسکتا ہے.لیکن روحانی لذت سے کسی کو واقف نہیں

Page 45

$1955 35 خطبات محمود جلد نمبر 36 کیا جاسکتا.اس کے لئے دلائل دیئے جائیں گے اور کہا جائے گا تم مشق کرو پھر یہ لذت حاصل ہوگی.پس جو اتنا مشکل کام ہے اس میں کامیابی کا طریق یہی ہے کہ لوگوں کو اس کی طرف مائل کیا جائے.اور انہیں مائل اسی صورت میں کیا جاسکتا ہے کہ انہیں اس سے آگاہ کیا جائے اور واقفیت بہم پہنچائی جائے.اس سے پہلے کوئی شخص ہمارے دلائل سننے کے لئے تیار نہیں ہوگا.مگر ہر ایک کو یہ دلائل سنانے کون جائے گا ؟ ہم ربوہ میں بیٹھے ہیں اور ہماری زبان اردو ہے.چین ہم سے بہت دور ہے اور وہاں اردو زبان نہیں بولی جاتی.اب ہم اُس ملک کے رہنے والوں کو اپنے دلائل کس طرح سمجھا سکتے ہیں.انڈونیشیا ہم سے بہت دُور ہے.وہاں کے رہنے والے نہ ہماری زبان جانتے ہیں اور نہ ہم ان کی زبان جانتے ہیں.پھر ہم ربوہ میں بیٹھ کر انہیں اپنے دلائل کا قائل کس طرح کر سکتے ہیں.پھر جاپانی لوگ ہیں وہ ہم سے ہزاروں میل دُور ہیں اور جاپانی زبان ہمیں آتی نہیں ہماری زبان انہیں نہیں آتی پھر ہم انہیں اپنے دلائل کیسے سنا سکتے ہیں.لیکن لٹریچر کے ذریعہ یہ کام کیا جا سکتا ہے.ایک چینی یا ایک جاپانی کو حاصل کرنا زیادہ مشکل نہیں.ہم اس کے ذریعہ پنے لٹریچر کا ترجمہ چینی یا جاپانی میں کرا کے لاکھوں کی تعداد میں لوگوں کو اپنے دلائل سنا سکتے ہیں.ہم خود تو وہاں نہیں جاسکتے لیکن ہماری کتابیں وہاں جاسکتی ہیں ہم خود تو ان کی زبان نہیں جانتے لیکن ہماری کتابوں کا ترجمہ چینی اور جاپانی میں کیا جاسکتا ہے.اور اسی طرح لٹریچر کو دوسرے لوگوں میں پھیلایا جا سکتا ہے.مانا یا نہ ماننا ان لوگوں کا کام ہے ہمارا نہیں لیکن اس ذریعہ سے دروازہ کھل جاتا ہے.اور دروازہ کھلنے سے اس بات کا امکان ہو جاتا ہے کہ وہ ہمارے دلائل کو تسلیم کر لیں.اس لئے میں نے جلسہ سالانہ کے موقع پر تحریک کی تھی کہ جماعت میں لائبریریاں قائم کی جائیں اور ان میں ہر طرح کا لٹریچر رکھا جائے.پھر لٹریچر اس رنگ میں شائع کیا جائے کہ وہ زمانہ کی ضرورت کے مطابق ہو.قرآن کریم کو ہی دیکھ لو.یہ ہر زمانہ اور ہر ملک کے لوگوں کے لئے ہدایت کا موجب ہے.لیکن پہلے علماء نے جو تفاسیر لکھی ہیں وہ آجکل کے لوگوں کی تسلی کا موجب نہیں ہو سکتیں.کیونکہ آجکل جو سوالات پیش آرہے ہیں وہ پہلے پیش نہیں آئے تھے.اس لئے پہلے علماء نے ان کو اپنی تفاسیر میں حل نہیں کیا.اب ہم تفسیر لکھتے ہیں تو لوگ کہتے ہیں.ایسی تفسیر پہلوں نے نہیں لکھی.

Page 46

خطبات محمود جلد نمبر 36 36 $1955 اس کی وجہ یہی ہے کہ جو سوالات ہمارے سامنے پیش آرہے ہیں وہ پہلوں کے سامنے پیش نہیں آئے.انہوں نے جو کام کیا ہے اپنے زمانہ کے حالات کے لحاظ سے کیا.اگر اُن کے سامنے موجودہ سوالات پیدا ہوتے تو وہ ان کے مطابق قرآنی تفاسیر لکھتے.لیکن چونکہ ان کے سامنے اس قسم کے حالات پیش نہیں آئے انہوں نے اس کے مطابق تفسیریں نہیں لکھیں.اس لئے ان کی تفاسیر سے اس زمانہ میں فائدہ نہیں اٹھایا جا سکتا.اب اگر پہلی کتابوں کو مد نظر رکھ کر مضامین لکھے جائیں تو وہ مفید نہیں ہو سکتے.اسی لئے میں جماعت کو اس طرف توجہ دلا رہا ہوں.ہمارے علماء اس وقت تک پرانی لکیر کے فقیر ہیں.وہ زمانہ کے موجودہ حالات کو مد نظر نہیں رکھتے.پہلے طریق سے اگر لوگوں کو سمجھایا جائے تو وہ تمہاری بات نہیں سمجھیں گے.لیکن نئے طریق سے سمجھاؤ گے تو وہ نہ صرف تمہاری بات سمجھیں گے بلکہ اسے تسلیم کرنے کے لئے بھی تیار ہو جائیں گے.میں ایک دفعہ کراچی گیا تو مجھے ایک دوست ملے.انہوں نے بتایا کہ میں احمدیت کا مداح ہوں.لیکن اس بات سے مجھے تکلیف ہوتی ہے کہ آپ کی جماعت کے لوگ ہمیں کافر کہتے ہیں.میں نے کہا ہم تو کا فرنہیں کہتے.میں تو انہیں روکتا ہوں کہ وہ کسی کو کا فرنہ کہیں.چنانچہ پاس والے لوگوں سے مخاطب ہوتے ہوئے میں نے کہا کہ کیا آپ لوگ انہیں کا فر کہتے ہیں؟ انہوں نے کہا نہیں.اس پر اُس دوست نے کہا یہ لوگ مجھے کا فرنہیں کہتے لیکن دوسرے مسلمانوں کو کافر کہتے ہیں.اس پر میں نے جماعت کے دوستوں سے دریافت کیا کہ کیا آپ مسلمانوں کو کافر کہتے ہیں؟ وہ کہنے لگے ہم تو مسلمانوں کو کا فرنہیں کہتے.پھر میں نے کہا کہ ہم کسی کو کا فرنہیں کہتے.لیکن اگر کوئی خلاف اسلام عقائد رکھتا ہو تو ہم یہ کہتے ہیں کہ وہ بعض کفریہ عقائد رکھتا ہے.مثلاً مسلمان یہ تسلیم کرتے ہیں کہ قرآن کی کئی آیتیں منسوخ ہیں.اب اگر یہ عقیدہ درست ہو تو سارے قرآن کا اعتبار اٹھ جاتا ہے.ہم جس صفحہ کو بھی کھولیں گے ہم کہیں گے کہ معلوم نہیں یہ خدا کا حکم ہے یا منسوخ ہو چکا ہے.اب جو لوگ یہ عقیدہ رکھتے ہیں ہم ان کے متعلق یہ کہتے ہیں کہ ان میں یہ کفریہ عقیدہ آ گیا ہے.میں نے یہ مثال دی تو اس نے کہا اس قسم کے لوگوں کا ذکر چھوڑیئے وہ تو پکے کافر ہیں.میں نے کہا آپ تو انہیں پکا کا فر سمجھتے ہیں لیکن ہم انہیں پکا کا فر نہیں سمجھتے.ہاں یہ کہتے ہیں کہ ایسے لوگ بعض کفریہ عقائد رکھتے ہیں.اس سے زیادہ ہمارا کوئی مطلب نہیں ہوتا.فرق صرف اتنا

Page 47

$1955 37 خطبات محمود جلد نمبر 36 ہے کہ ہم کھل کر بات کر دیتے ہیں اور دوسرے لوگ کھل کر بات نہیں کرتے ورنہ وہ بھی اس قسم کے عقیدہ کو کفریہ عقیدہ ہی سمجھتے ہیں.اگر اُس قسم کے بعض کفریہ عقائد کسی کے نزدیک جماعت احمدیہ میں بھی پائے جائیں تو وہ یہی فقرہ اس کے متعلق بھی استعمال کر سکتا ہے.اس پر یہ بات اس دوست کی سمجھ میں آگئی.اگر اُسے اس طرح نہ سمجھایا جاتا تو یہ بات اس کی سمجھ میں نہیں آسکتی تھی.اسی طرح اگر بجائے کسی کو کافر کہنے کے ہم ثابت کر دیں کہ اس میں بعض کفریہ عقائد ہیں تو وہ فوراً مان جائے گا.مثلاً بعض لوگ قبروں کو سجدہ کرتے ہیں.اگر ہم کہہ دیں کہ تم مشرک ہو گئے ہو تو وہ کی ناراض ہو جا ئیں گے.لیکن اگر ہم کہیں کہ تم میں یہ شرک والا عقیدہ ہے تو اس پر وہ بُرا نہیں منائے گا.بلکہ دوسرے لوگ مثلاً اہل حدیث بھی ہماری تائید کرنے لگ جائیں گے.پس ہر زمانہ کے مطابق ایک طریق کلام ہوتا ہے.اگر اُسی طریق کے مطابق گفتگو کی جائے تو بات دوسروں کی سمجھ میں آجاتی ہے ورنہ نہیں.جیسے اس زمانہ کی بولی اگر دو سو سال قبل بولی جاتی تو وہ اُس وقت کے لوگوں کی سمجھ میں نہیں آسکتی تھی.اسی طرح پرانے طریق پر بات کی جائے تو دوسرے لوگ اس کی طرف توجہ نہیں کرتے.پس میں علماء کو کہتا ہوں کہ وہ نئے طریق کلام کو جاری کریں.اور سائنس ، اقتصادیات اور سیاسی ترقی کے نتیجہ میں جو وساوس لوگوں کے دلوں میں پیدا ہو گئے ہیں اُن کو مدنظر رکھ کر لٹریچر تیار کریں.اور پھر اسے شائع کرا کے لائبریریوں میں رکھوائیں.اس طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ السلام کی بعثت کا مقصد پورا ہوسکتا ہے.اگر ہم موجودہ وساوس کو دُور نہ کریں اور اس زمانہ کے حالات کے لحاظ سے ان کا ازالہ نہ کریں تو ہمارا لٹریچر مفید نہیں ہوسکتا.کیونکہ اب زبان مدل چکی ہے.حضرت نانا جان اہلِ حدیث خیالات کے تھے.ایک دن حضرت خلیفہ المسیح الا ول کے درس حدیث میں یتیموں کی کفالت کا ذکر آ گیا تو آپ کو یہ بات بہت پسند آئی.آپ لنگر خانہ میں گئے اور وہاں سے ایک یتیم بچہ کو ساتھ لے لیا اور گھر جا کر اس کی خاطر و مدارت شروع کر دی.لیکن وہ لڑکا کسی اور بولی کا عادی تھا وہ نا نا جان کا رویہ دیکھ کر نخرے کرنے لگا.ایک دن آپ نے اسے کہا کہ آؤ ناشتہ کر لو.وہ کہنے لگا میں ناشتہ نہیں کرتا.آپ کہتے یہ چیز لے لو تو وہ کہتا میں یہ چیز

Page 48

خطبات محمود جلد نمبر 36 38 $1955 نہیں لیتا.آپ نے باری باری ساری چیزیں اُس کے سامنے پیش کیں.لیکن وہ یہی کہتا گیا کہ میں نہیں کھاتا.حضرت نانا جان جن سے سارے ڈرتے تھے.اُس کی منت سماجت کر رہے تھے اور کہہ رہے تھے تم یہ چیز کھا لو.پھر میں تمہیں تمہاری حسب خواہش سب چیز میں لا دوں گا.لیکن وہ انکار پر انکار کر رہا تھا.ہم دوسرے کمرے میں ہنس رہے تھے کہ کس طرح نانا جان اس یتیم بچے کے سامنے یتیم بنے بیٹھے ہیں.جب آپ نے دیکھا کہ وہ کوئی بات نہیں مانتا تو آپ نے جوتی اُتار لی اور اسے کہا کھاتا ہے یا نہیں کھاتا؟ اس نے کہا میں ابھی کھا لیتا ہوں.اب وہ بچہ جوتی کا عادی تھا.یتیم تو تھا ہی چھاؤں نے مار کھانے کی عادت ڈال دی تھی.اور نا نا جان پیار کر رہے تھے.اس لئے آپ جتنا پیار کرتے تھے وہ سمجھتا تھا کہ میری عزت ہو رہی ہے.لیکن جب آپ کا پیمانہ صبر کا لبریز ہو گیا تو آپ نے جوتی اٹھالی اور اس پر وہ فورا مان گیا.پس ہر ایک شخص کی بولی الگ الگ ہے.جو لوگ پیار سے ماننے والے ہیں وہ پیار سے ہی مانیں گے سختی سے بگڑ جائیں گے.اور جولوگ سختی سے ماننے والے ہیں وہ بختی سے ہی مانیں گے نرمی سے بگڑ جائیں گے.پس لوگوں کی زبانوں میں فرق ہے، لہجوں میں فرق ہے، طریق نصیحت میں فرق ہے ، اخلاق میں فرق ہے اور ان سب باتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے دوسروں کو سمجھانا پڑتا ہے.جو شخص اس بات کو مد نظر نہیں رکھتا اور علم النفس کا ماہر نہیں ہوتا وہ صحیح مبلغ نہیں بن سکتا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم مختلف لوگوں سے مختلف طریق سے گفتگو فرماتے تھے.عورتوں سے اور رنگ میں کلام فرماتے ، مردوں سے اور رنگ میں بات کرتے.مہاجروں سے اور رنگ میں گفتگو فرماتے اور انصار سے کلام فرماتے تو آپ کا رنگ اور ہوتا.ایک ہی بات کو سننے والوں کی نسبت سے چکر دے کر بیان فرماتے اور اس رنگ میں کہتے کہ وہ خوبصورت نظر آتی.مہاجروں کا ذکر آتا تو آپ فرماتے ہیں جن لوگوں نے خدا تعالیٰ کی خاطر اپنے وطن چھوڑ دیئے ، اپنے مال چھوڑ دیئے ان سے اچھا اور کون ہوسکتا ہے.اور انصار سے گفتگو فرماتے تو آپ اس رنگ میں گفتگو فرماتے کہ جن لوگوں نے اپنے مہاجر بھائیوں کے لئے محض خدا تعالیٰ کی خاطر اپنے مال پیش کر دئیے، اُن پر اپنے گھروں کے دروازے کھول دیئے.ان سے اچھا اور کون ہوسکتا ہے.اس طرح دونوں فریق خوش وتے اور اپنی اپنی جگہ قربانی میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرتے.ہو

Page 49

خطبات محمود جلد نمبر 36 39 $1955 پس مبلغین اور دوسرے علماء کا کام ہے کہ وہ اس قسم کا لٹریچر تیار کریں جس کی اس زمانہ میں ضرورت ہے.وہ اُس طرز پر تصنیف نہ کریں جس طرز پر پچھلے علماء تصنیف کرتے چلے آئے ہیں.اگر تم نماز کی صرف رکعات اور سجدے بیان کرتے ہو تو یورپ والوں کی سمجھ میں تمہاری بات نہیں آسکتی.لیکن اگر تم اس طرز سے یہ بات پیش کرو کہ نماز سے تمہارے اخلاق ، احساسات اور جذبات پر یہ اثر پڑتا ہے تو یورپ والوں کی سمجھ میں یہ بات آجائے گی اور وہ تمہاری بات سننے کے لئے تیار ہو جائیں گے کیونکہ وہ علم النفس کو سمجھتے ہیں.کوئی زمانہ تھا جب یہ کہا جاتا تھا کہ خدا تعالیٰ کہتا ہے نماز پڑھو تو لوگ بات مان لیتے تھے.لیکن اب اگر کہا جائے کہ خدا تعالیٰ کہتا ہے نماز پڑھو تو لوگ کہیں گے خدا تعالیٰ کو نماز کی کیا ضرورت ہے.ہر ایک زمانہ کی زبان الگ الگ ہوتی ہے اور اپنی بات سمجھانے کے لئے اُس زبان میں بات کرنی پڑتی ہے جسے لوگ سمجھتے ہوں.ایک بزرگ نے اپنے پاس بیٹھنے والوں سے دریافت کیا کہ جنت کیوں اچھی ہے؟ تو کسی نے کہا اس میں بڑی بڑی نعماء ملیں گی اس لئے وہ اچھی ہے.کسی نے کہا جنت میں مومن کو دائمی زندگی ملے گی اس لئے وہ اچھی ہے.غرض ہر ایک نے کوئی نہ کوئی وجہ بیان کر دی.اس بزرگ نے کہا میرے لئے دوزخ اور جنت دونوں برابر ہیں.اگر خدا تعالیٰ مجھے دوزخ میں ڈالتا ہے تو میرے نزدیک دوزخ اچھی ہے.اور اگر خدا تعالیٰ مجھے جنت میں ڈالتا ہے تو میرے نزدیک جنت اچھی ہے.یہ ایک عشقیہ رنگ تھا جو آجکل نہیں چلتا.اب اگر کہیں کہ مومن کو جنت ملے گی تو لوگ کہتے ہیں جنت کہاں ہے؟ کس جگہ ہے؟ خدا تعالیٰ نے جنت کیوں بنائی ہے؟.غرض اس زمانہ میں پرانے جوابات سے لوگ مطمئن نہیں ہوتے.صرف یہ کہہ دینا کہ خدا تعالی خوش ہو گا لوگوں کو مطمئن کرنے کے لئے کافی نہیں.تصوف آئے گا تو یہ باتیں لوگ مان لیں گے اس سے پہلے نہیں.کسی زمانہ میں اگر یہ کہا جاتا تھا کہ خدا تعالیٰ ہمیں دوزخ میں بھی ڈال دے تو ہم اس پر راضی ہیں تو جسم پر جذبہ ایمان سے کپکپی آ جاتی تھی.لیکن اب یورپ والے اس بات پر ہنس پڑتے ہیں.ہاں وہ مادی زبان اور علم النفس کی بات کو فورا مان جاتے ہیں.باقی باتوں کے ماننے کے لئے وہ تیار نہیں ہوتے.اس لئے قرآن کریم نے دونوں قسم کی باتوں کو لیا کی ہے.اس نے عشقیہ رنگ کو بھی لیا ہے.جیسے فرمایا ہے اے رسول! جس نے تیرے ہاتھ پر ہاتھ

Page 50

$1955 40 خطبات محمود جلد نمبر 36 رکھا اس نے گویا میرے ہاتھ پر ہاتھ رکھا 3 اور علم النفس کو بھی لیا ہے کہ فرمایا ہم جو حکم دیتے ہیں وہ تمہارے فائدے کے لئے دیتے ہیں.ہمیں اپنا کوئی فائدہ مد نظر نہیں ہوتا 4.اس طرح بعض جگہوں پر آمرانہ طرز عمل بھی اختیار کیا گیا ہے.پس ہر زمانہ میں الگ الگ زبان ہوتی ہے.آمریت اور جمہوریت دونوں باتیں قرآن کریم میں موجود ہیں.لیکن ایک وقت میں ایک قوم کے سامنے ایک ہی بات پر زور دیا جا سکتا ہے.دونوں پر نہیں.پس تم اس رنگ میں لٹریچر تیار کرو.پھر جب لٹریچر تیار ہو جائے تو جماعت کا فرض ہے کہ وہ اس لٹریچر کو پھیلائے.اگر جماعت لٹریچر کو پھیلائے گی نہیں تو تمام کوششیں بیکار رہ جائیں گی.اس لئے میں نے کہا ہے کہ جماعت ہر جگہ پر لائبریری قائم کرے.چھوٹی چھوٹی جماعتیں بھی لائبریریاں قائم کر سکتی ہیں.بلکہ ان پڑھ لوگ بھی کتابوں سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں.جالندھر کے ایک احمدی تھے.وہ اسکا چلایا کرتے تھے.( اُن دنوں جالندھر کے ایک حصہ میں ریل جاری نہیں ہوئی تھی.اس لئے لوگ اتوں پر سفر کیا کرتے تھے ).اُن کے ذریعہ درجنوں آدمی احمدی ہوئے تھے.وہ خود تو پڑھے ہوئے نہیں تھے لیکن وہ الحکم اور سلسلہ کی کتابیں منگوایا کرتے تھے.اُن کا طریق تھا کہ اپنے پاس کوئی کتاب رکھ لیتے.اور جو نہی گھوڑے کی باگیں پکڑتے کتاب نکال کر کسی سواری کو دے دیتے اور کہتے کسی نے یہ کتاب مجھے بھیجی ہے.میں ان پڑھ ہوں آپ سنا دیں تو مجھے معلوم ہو جائے کہ اس میں کیا لکھا ہے.اب خالی بیٹھے ہوئے کو بھی کوئی شغل چاہیے وہ بڑی خوشی سے سنانے لگ جا تا.وہ سمجھ رہا ہوتا تھا کہ میں اگنے والے کو اخبار یا کتاب سنا رہا ہوں.اور اگا والا سمجھتا تھا کہ میں اسے کتاب پڑھوا رہا ہوں.کئی لوگ دلچسپی لینے لگ جاتے اور پوچھتے یہ کتاب کہاں سے ملتی ہے؟ یا یہ اخبار کہاں سے نکلتا ہے؟ میں بھی منگوانا چاہتا ہوں.تو وہ دوست کہتے میرے پاس اور بھی کئی کتابیں اور رسالے ہیں آپ مجھ سے ہی لے لیں.اس طرح اُن کے ذریعہ درجنوں لوگ احمدی ہوئے.پس جہاں کوئی پڑھا ہوا آدمی نہیں وہاں بھی لائبریری قائم کی جاسکتی ہے.اپنے پاس کتاب رکھو اور اگر کوئی رشتہ دار یا کوئی اور تعلیم یافتہ آدمی آجائے تو اُسے کہو اس کتاب کا کچھ حصہ

Page 51

$1955 41 خطبات محمود جلد نمبر 36 سنا دو.اس طرح فائدہ زیادہ ہوتا ہے.پڑھنے والا محسوس کرتا ہے کہ میں اسے کتاب سنا رہا ہوں اور اس طرح وہ خود بھی استفادہ کرتا ہے.اس ترکیب سے آسانی سے دوسروں تک حق پہنچایا جا سکتا ہے.قبولیت کا سوال الگ ہے.خدا تعالیٰ نے انسان کو آزاد بنایا ہے.اُسے مجبور کرنے کا ہمیں حق حاصل نہیں.اگر سچائی سن لینے کے بعد کوئی ہمیں جھوٹا سمجھتا ہے تو یہ اُس کا حق ہے وہ ایسا کر سکتا ہے.لیکن حق کو جاننے کے بغیر کوئی ہمیں جھوٹا کہے تو اُس کی غلط فہمی کا ازالہ کرنا ہمارے لئے ضروری ہے.ورنہ ہم خدا تعالیٰ کے سامنے مجرم ہوں گے.لیکن بات سمجھا دینے کے باوجود کوئی ہمیں جھوٹا کہے تو کوئی حرج نہیں.وہ ہمیں جھوٹا کہنے کے باوجود ہمارا بھائی ہے.وہ اپنے عقیدہ پر عمل کرتا ہے اور ہم اپنے عقائد کے مطابق چلتے ہیں.“ خطبہ ثانیہ کے بعد فرمایا ” نماز کے بعد میں کچھ جنازے پڑھاؤں گا.1.والد صاحب میجر محمد حیات صاحب تو نسه 2.آفتاب جہاں بیگم صاحبہ لالوکھیت کراچی جنازہ میں بہت کم آدمی شریک ہوئے.3.قریشی محمد جان صاحب امرتسری اوکاڑہ ضلع منٹگمری.جوانی کے زمانہ سے میں انہیں جانتا ہوں مخلص احمدی تھے.4.والدہ صاحبہ شرف دین صاحب را جن پور ضلع ڈیرہ غازی خان تحصیل چشتیاں بہاولپور میں فوت ہوئی ہیں.بیٹوں میں سے کوئی بھی جنازہ میں شامل ہونے کے لئے نہ پہنچ سکا.5.چودھری عبدالرحمن صاحب قادیان کے رہنے والے تھے.ہمارے خاندان میں نمبرداری تھی مرزا عزیز احمد صاحب نے انہیں سربراہ بنایا ہوا تھا.6.سلطان بی بی صاحبہ زوجہ چودھری غلام نبی صاحب دیہہ 151 تعلقہ ڈگری سندھ.تمام متعلقین غیر احمدی ہیں.جنازہ میں صرف چند احمدی شریک ہوئے.7.روشن بی بی صاحبہ والدہ نظام دین صاحب چک جمال ضلع جہلم.نماز جنازہ میں بہت کم دوست شامل ہوئے.

Page 52

$1955 42 خطبات محمود جلد نمبر 36.امۃ القیوم صاحبہ اہلیہ ملک عبد القادر صاحب نمک فروش لائلپور.مرحومہ کی خواہش تھی کہ ان کا جنازہ میں پڑھاؤں.9 منشی محمد امام دین صاحب سکنہ پکا گڑھا ضلع سیالکوٹ.پرانے صحابی تھے.10.رحمت الہی صاحب ولد فضل الہی صاحب وڈالہ سندھواں ضلع سیالکوٹ.گاؤں میں بہت کم احمدی ہیں.اور جو احمدی ہیں وہ بھی جنازہ میں شریک نہیں ہو سکے.11.سعید اللہ خان صاحب پسر نصر اللہ خان صاحب مدرس تو لیکی ضلع گوجرانوالہ.صرف تین چار دوست جنازہ میں شریک ہوئے.باقی سارا گاؤں غیر احمدی ہے.12.کمال دین صاحب ولد عبد الرحمن صاحب ٹھٹھہ کا لوچک 646 گ.ب ڈاکخانہ لنڈیاں والا ضلع لائکپور.13.ناصرہ بیگم صاحبہ بنت ڈاکٹرمحمد دین صاحب آف کوٹلی.جنازہ میں بہت کم دوست شریک ہوئے.14.مسٹر سلیمانی کیشوری دار السلام مشرقی افریقہ.علاقہ میں کوئی احمدی نہ ہونے کی وجہ سے جنازہ نہیں پڑھا جاسکا.15.چودھری نوراحمد صاحب چیمہ ساکن دا تازید کاضلع سیالکوٹ.موصی اور صحابی تھے.16.والدہ صاحبہ محمد عین الحق صاحب بھاگلپوری.جنازہ میں بہت کم دوست شریک ہوئے.17.سیدہ فاطمہ والدہ مولوی ابوالخیر محب اللہ.نام کے سامنے لکھا گیا ہے کہ مرحومہ صحابہ تھیں.لیکن میرے علم میں وہ صحابیہ نہیں تھیں.ان کے لڑکے مولوی ابوالخیر محبت اللہ پندرہ سولہ سال ہوئے احمدی ہوئے.بہر حال مرحومہ دُور کی رہنے والی ہیں اور ان کا لڑ کا سلسلہ کا مبلغ ہے اس لئے میں ان کا جنازہ پڑھاؤں گا.الفضل 17 فروری 1955ء) 1: إِذَا زُلْزِلَتِ الْأَرْضُ زِلْزَالَهَا وَاَخْرَجَتِ الْأَرْضُ أَثْقَالَهَا (الزلزال : 3,2) :2 وَإِذَا السَّمَاءُ كُشِطَتُ (التكوير : 12) 3 إِنَّ الَّذِينَ يُبَايِعُونَكَ إِنَّمَا يُبَايِعُونَ اللَّهَ يَدُ اللَّهِ فَوْقَ أَيْدِيهِمُ (الفتح :11) 4: وَمَنْ جَاهَدَ فَإِنَّمَا يُجَاهِدُ لِنَفْسِهِ إِنَّ اللهَ لَغَنِيٌّ عَنِ الْعَلَمِينَ (العنكبوت : 7)

Page 53

43 $1955 5 خطبات محمود جلد نمبر 36 قانون کی پابندی اور احترام کے متعلق اپنے فرائض کو ان ایام میں زیادہ تعہد اور احتیاط سے پورا کرو (فرموده 11 فروری 1955ء بمقام ربوہ) تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا." پچھلے دنوں ایک جماعت کے سیکرٹری کی طرف سے مجھے ایک خط ملا ہے جو بظاہر تو معمولی معلوم ہوتا ہے.لیکن اُس بات سے جو اُس میں لکھی گئی ہے معلوم ہوتا ہے کہ اس کے پیچھے کوئی سازش یا فتنہ ہے.اس سیکرٹری نے لکھا ہے کہ میرے پاس سی آئی ڈی کا ایک آدمی آیا اور اس نے ہمدردانہ لہجہ میں کہا کہ آجکل آپ کی جماعت کے خلاف شورش اٹھ رہی ہے.اس کے مقابلہ کے لیے آپ کی جماعت بھی مناسب تیاری کر رہی ہوگی اور افراد کو اسلحہ کی ٹریننگ دی جارہی ہوگی.گورنمنٹ چاہتی ہے کہ وہ آپ کی جماعت کے لئے ٹرینینگ کا مناسب انتظام کرائے.اس لئے اگر ضرورت ہو تو آپ بتائیں میں ٹرینینگ کا انتظام کروا دوں گا.آخر آپ لوگ اپنی حفاظت کے لئے کچھ نہ کچھ تو کرتے ہی ہوں گے.ہم مزید مدد دینے کے لئے تیار ہیں.اس سیکرٹری نے مجھے لکھا ہے کہ میں نے اُس سے کہا کہ ہماری جماعت کو اس قسم کی باتوں سے کوئی

Page 54

$1955 44 خطبات محمود جلد نمبر 36 تعلق نہیں اور نہ ہی ہمارے ذہن میں اس قسم کی کوئی سکیم ہے.اس پر اُس آدمی نے کہا پھر بھی آپ کی جماعت کو ان باتوں کی ضرورت ہے.اگر آپ کو مدد کی ضرورت ہو تو آپ مجھے اطلاع دیں میں انتظام کرا دوں گا.یہ کہہ کر وہ چل دیا.اب بظاہر تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ کوئی ہمدرد شخص تھا جو اپنی ہمدردی کے جذبہ کے ماتحت آیا.اور جماعت کے ایک عہدہ دار سے اس نے کہا کہ آپ کی جماعت خود حفاظتی کی تدابیر کر رہی ہوگی.اگر خود حفاظتی کے سلسلہ میں مدد کی ضرورت ہو تو ہم آپ کی مدد کے لئے ہر وقت تیار ہیں.لیکن یہ بات ایک دوسرے لحاظ سے غیر معقول بھی ہے.اس لئے کہ اگر گورنمنٹ کو جماعت احمد یہ سے ہمدردی ہوتی اور وہ ہمارے ساتھ تعاون کرنا چاہتی تو وہ جماعت کے مرکز سے کہتی کہ آپ کی جماعت کے خلاف شورش اٹھ رہی ہے، آپ لوگ بھی اس کا مقابلہ کرنے کے لئے تیاری کریں.ہم سکھانے والے مہیا کرتے ہیں وہ آپ کے افراد کو اسلحہ کی ٹریننگ دیں گے تا کہ خطرہ کے وقت آپ اپنی حفاظت کا انتظام کر سکیں.لیکن ایسا نہیں ہوا.نہ گورنمنٹ انگریزی کے وقت میں ایسا ہوا اور نہ جب سے پاکستان بنا ہے سات آٹھ سال کے عرصہ میں ایسا ہوا ہے کہ حکومت نے اپنی رعایا کے ایک حصہ کو دوسرے حصہ کے خلاف تیار کیا ہو.لیکن فرض کرو اگر کوئی بالا افسر ایسا تھا بھی ، جس نے پرانے طریق کی بجائے نئے طریق کو اختیار کیا تو وہ جماعت کے مرکز سے کہتا کہ ہم آپ کی مدد کرنے کے لئے تیار ہیں نہ کہ ایک دور افتادہ علاقہ میں ایک ایسی جماعت کے سیکرٹری سے یہ بات کہتا جو مرکز سے دو تین سو میل دور ہے.پس جو کچھ ظاہر کیا گیا ہے چونکہ وہ عقل کے خلاف ہے اس لئے معلوم ہوتا ہے کہ وہ افسر کسی رپورٹ کے نتیجہ میں تحقیقات کرنے کے لئے وہاں گیا تھا.اُس کو ہدایت ملی ہوگی کہ سنا ہے احمدی لوگ دشمن کے مقابلہ کے لئے تیاری کر رہے ہیں.تم اس کی تحقیق کرو.چونکہ تحقیقات کے کئی طریق ہوتے ہیں.ہمارے ہاں پولیس بھی تحقیقات کے سلسلہ میں کئی طریق اختیار کرتی ہے.یورپ میں تو اس کے متعلق کئی کتا بیں چھپی ہوئی ہیں.کبھی تو پولیس نوکروں کے ذریعہ راز معلوم کرتی ہے کبھی محکمہ کے لوگوں کے ذریعہ سے بھید تک پہنچنا چاہتی ہے اور کبھی جیسا کہ میں نے جلسہ سالانہ کے موقع پر بیان کیا تھا اپنے ایجنٹ پر وود کیوٹر (PROVOCATEUR) کے ذریعہ اصل بات معلوم کرتی ہے.یہ ایجنٹ لوگوں کے

Page 55

$1955 45 خطبات محمود جلد نمبر 36 پاس جا کر خود اس قسم کی باتیں کرتے ہیں کہ وہ فریب میں آکر اُس کی سکھائی ہوئی باتیں کہنے لگتے ہیں.پس صاف معلوم ہوتا ہے کہ اس افسر کی ہماری جماعت کے سیکرٹری کے پاس جانے کی غرض ہی یہی تھی کہ وہ معلوم کرنا چاہتا تھا کہ اس اطلاع میں سچائی ہے یا نہیں.اُس کا خیال تھا کہ اگر یہ اطلاع سچی ہے تو ہمدردی کے جذبات کے نتیجہ میں وہ ساری بات ظاہر کر دے گا.وہ یا تو یہ کہہ دے گا کہ آپ بے فکر رہیے ہم دشمن کے مقابلہ کے لئے خوب تیاری کر رہے ہیں.اور یا وہ یہ کہے گا کہ تیاری تو ہم کر رہے ہیں لیکن ہمارے پاس مناسب ٹرینینگ کا انتظام نہیں اور نہ ہی سامان ہیں.اس لئے اگر آپ ہماری مدد کر سکتے ہیں تو کریں تا کہ وقت پر ہم اپنی حفاظت کا انتظام کر سکیں.پس ایک نتیجہ تو اس سے یہ نکلتا ہے کہ اس سی آئی ڈی کے آدمی کی غرض یہ تھی کہ وہ تحقیقات کر کے رپورٹ کرے کہ بالا افسروں کے پاس جو اطلاع پہنچی ہے وہ صحیح ہے یا نہیں.دوسرا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ایک غیر معروف جگہ پر جا کر جو جماعت احمدیہ کا کوئی مرکز نہیں اور وہ سلسلہ کے مرکز سے سینکڑوں میل دور ہے کسی افسر کا جماعت کے ایک سیکرٹری سے یہ باتیں کہنا بتا تا ہے کہ یہ کوئی مقامی بات نہیں تھی بلکہ مرکزی حکومت کو جماعت احمدیہ کے خلاف کوئی رپورٹ پہنچی ہے اور اس نے مختلف اضلاع کو حکم دیا ہے کہ وہ تحقیقات کر کے رپورٹ کریں.اور یہ اس سلسلہ کی ایک کڑی ہے.کسی جگہ پولیس افسروں نے اپنے جاسوس چھوڑے ہوں گے، کسی جگہ پر وہ نوکروں کے ذریعہ اس قسم کی معلومات حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہوں گے اور کسی جگہ محلہ اور ساتھ والے گاؤں کے لوگوں سے اس قسم کی اطلاع حاصل کر رہے ہوں گے.یہ شخص اخلاق کو زیادہ مؤثر سمجھتا تھا اس لئے اُس نے جماعت کے ایک سیکرٹری سے مل کر ہمدردی کا جذ بہ ظاہر کیا اور اُس سے اصل بات پوچھنے کی کوشش کی.لیکن سیکرٹری نے کہا ہمیں تو اس قسم کی باتوں سے کوئی تعلق نہیں اور نہ ہی ہمارے ذہن میں کوئی ایسی سکیم ہے.اور اس کے نتیجہ میں بات ہم تک بھی پہنچ گئی.بہر حال وہ بات جھوٹی تھی اور جس نے بھی جماعت کے متعلق اس قسم کی کوئی رپورٹ کی ہے جھوٹی رپورٹ کی ہے.لیکن پھر بھی میں نے یہ خیال کیا کہ ممکن ہے نو جوانوں میں سے بعض

Page 56

$1955 46 خطبات محمود جلد نمبر 36 نے اس قسم کی کوئی غلطی کی ہو.اس لئے میں نے ناظر صاحب اعلیٰ اور ناظر صاحب امور عامہ کو بلایا.اسی طرح کالج کے پرنسپل اور نائب صدر مجلس خدام الاحمدیہ کو بھی بلایا.گو مجلس کا صدر میں خود ہوں لیکن سارے کام نائب صدر ہی کرتا ہے میرے سامنے وہ بجٹ پیش کر دیتے ہیں اور میں منظور کر دیتا ہوں.میں صدر صرف اس لیے بنا ہوں کہ جب کبھی میں مجلس کے کاموں میں دخل دینا چاہوں تو دخل دے سکوں اور میرا یہ دخل دینا قانونی ہو.ویسے سارے کام نائب صدر تک ہی ختم ہو جاتے ہیں.) ناظر صاحب اعلیٰ اور ناظر صاحب امور عامہ کو اس لئے بلایا کہ وہ نگران ہیں.لیکن انہوں نے اس واقعہ سے قطعی طور پر انکار کیا اور کہا کہ ہم نے اس قسم کی کوئی تحریک نہیں کی کالج کے پرنسپل نے کہا کہ ہم صرف یونیورسٹی کی مقرر کردہ پریڈ کرتے ہیں.اور وہ پریڈ یونیورسٹی کے حکم کے مطابق ہے ہم نے اسے اپنے طور پر جاری نہیں کیا.اور خدام کے نائب صدر نے کہا کہ ہم نے اس قسم کی ٹریننگ کا نہ تحریراً حکم دیا ہے اور نہ زبانی حکم دیا ہے.اس پر مجھے تسلی ہوگئی کہ اس رپورٹ میں کوئی صداقت نہیں.کسی دشمن نے حکومت کے پاس جھوٹی رپورٹ کر دی ہے.آگے حکومت نے جو تحقیق کی ہے.جہاں تک حفاظت اور قیام امن کا سوال ہے یہ فعل درست ہے.حکومت کا فرض ہے کہ ملک میں امن و امان قائم کرے.اگر وہ ملک میں امن و امان قائم نہیں کرتی تو وہ کامیاب نہیں ہو سکتی.وہ اس قسم کی رپورٹوں کی تحقیقات کرتی ہے اور اس تحقیقات کے نتیجہ میں فیصلہ کرتی ہے کہ آئندہ کیا قدم اٹھائے.اگر ہماری جماعت کا بھی کوئی افسر اس کام پر مامور ہوتا تو وہ بھی اس رپورٹ کی تحقیقات کرتا.کیونکہ اسلام کی تعلیم یہی ہے کہ جب کوئی رپورٹ تمہارے پاس آئے تو تم اس کی تحقیقات کروا.لیکن اس خط سے ہمیں یہ پتا لگ گیا کہ دشمن نے جماعت کے خلاف حکومت کے پاس بعض سراسر جھوٹی رپورٹیں کی ہیں.( اور ہم اس کے لئے لَعْنَتُ اللهِ عَلَى الْكَاذِبِینَ کہتے ہیں اور پھر یہ بھی پتا لگ گیا کہ اس قسم کی کوئی قابلِ اعتراض حرکت نہ خدام سے سرزد ہوئی ہے اور نہ کالج کے افسران سے.اگر اُن سے اس قسم کی کوئی قابلِ اعتراض حرکت ہوتی تو ہم سمجھتے کہ رپورٹ کرنے والے کو دھو کا لگ گیا ہے.اور چھوٹی بات بڑی بن کر اُس کے پاس پہنچی ہے.لیکن وہ دونوں صیغے کہتے ہیں کہ ہم سے ایسی کوئی حرکت سرزد نہیں ہوئی.

Page 57

خطبات محمود جلد نمبر 36 47 $1955 بہر حال چونکہ دشمن جماعت کے متعلق جھوٹی رپورٹیں کرنے سے بھی پر ہیز نہیں کرتا اس لئے میں جماعت کے دوستوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ پہلے سے بھی زیادہ احتیاط سے کام لیں.جماعت احمدیہ کی تو تعلیم ہی یہ ہے کہ قانون شکنی نہ کی جائے.پس قانون تم سے جو مطالبہ کرتا ہے اُسے تم پورا کرو.بلکہ قانون کی بعید تشریح کے ماتحت بھی افسرانِ علاقہ امن کے قیام کے سلسلہ میں اگر تم سے کوئی مطالبہ کریں تو تم اُسے بھی پورا کرو.احمدیت اسلام کو زندہ کرنے کے لئے قائم ہوئی ہے اور اسلام امن کو قائم رکھنے کی تعلیم دیتا ہے.پس تمہیں بہت زیادہ احتیاط کرنی چاہیے.اگر کوئی شخص تمہارے متعلق خفیہ جھوٹ بولتا ہے اور مخفی رپورٹیں جو سراسر افتراء ہوتی ہیں حکام کو دیتا ہے تو اُسے روکنا تمہارے اختیار میں نہیں.لیکن اگر اُسے تمہارے کسی فعل سے بھی مددمل جائے تو وہ یقیناً اس سے پورا پورا فائدہ اٹھائے گا اور اُس کا جھوٹ زیادہ تقویت اختیار کرلے گا.جب تک اُسے سچائی کی تھوڑی بہت مدد نہیں ملتی خواہ لوگ اس جھوٹ سے کتنے ہی متاثر ہوں ہم یہی کہیں گے کہ دشمن کی اکثریت ہماری دلیل پر غالب آ رہی ہے.جب یہاں ہندو زیادہ تھے تو ملک میں کوئی بات اُن کے خلاف سنی نہیں جاتی تھی.جب وہ کہہ دیتے کہ یہ بات یوں نہیں تو کوئی افسران کے خلاف کوئی بات نہیں سنتا تھا.پس جہاں کسی قوم کی کثرت ہو وہاں دلیل کی قوت جاتی رہتی ہے اور اس کی بجائے کثرت کو قوت حاصل ہو جاتی ہے.اور تم جانتے ہو کہ تمہارا دشمن زیادہ تعداد میں ہے.اگر تم ادنی سی غلطی بھی کرو گے تو لازماً اس کا نتیجہ تمہارے حق میں بُرا نکلے گا.کیونکہ کوئی افسر تمہاری دلیل نہیں سنے گا.مثلاً یہ ایک چھوٹی سی بات ہے کہ تمہارے پاس رائفل کا لائسنس ہو اور تم شکار کے لئے جاؤ.تمہارا کوئی دوست تمہارے پاس آ جائے اور کہے کہ لاؤ میں بھی رائفل چلا کر دیکھوں.اور تم اُس سے اپنے سامنے رائفل چلوا کر دیکھو تو ممکن ہے کہ تمہارا ایسا کرنا خالص قانونی نقطہ نظر سے ناجائز ہو.مجھے اس کا علم نہیں لیکن ساری دنیا ایسا کر رہی ہے.مثلاً مجھے یاد ہے کہ مجھے جب پہلی دفعہ رائفل چلانے کا تجربہ ہوا تو وہ اسی طرح ہوا کہ ایک انسپکٹر صاحب پولیس کے ایک احمدی دوست سے دوستانہ تعلقات تھے انسپکٹر صاحب شکار کے شوقین تھے.انہوں نے مجھ سے ذکر کیا کہ آپ نے کبھی رائفل سے شکار نہیں کیا.آپ میرے ساتھ آئیں.چنانچہ وہ شیخو پورہ کے ضلع میں آئے میں بھی ساتھ چلا گیا.وہاں جا کر

Page 58

$1955 48 خطبات محمود جلد نمبر 36 انہوں نے مجھے سے رائفل چلوائی.مجھے اس کے متعلق قانون کی پوری واقفیت نہیں.لیکن یہ میں جانتا ہوں کہ لوگ بالعموم اپنا ہتھیا راپنے دوستوں یا رشتہ داروں سے اپنے سامنے چلوا لیتے ہیں.اگر ایسا کرنا خلاف قانون ہے تو چاہے خود پولیس کے افسر بھی ایسا کرتے ہوں اگر تم ایسا کرو گے تو تم پر الزام لگایا جائے گا.دنیا میں عام قاعدہ ہے کہ اگر باپ کے پاس رائفل کا لائسنس ہے تو وہ رائفل اُس کا بیٹا بھی چلا لیتا ہے.اور اگر اس میں ہمت اور شوق ہو تو اُس کی بیوی بھی چلا لیتی ہے اور میں سمجھتا ہوں گورنروں اور وزیروں سے لیکر نیچے تک سب کا یہی حال ہے.اُن کی بیویاں بیٹے اور بیٹیاں اگر شکار میں ساتھ ہوں تو وہ بھی شکار میں حصہ لے لیتے ہیں.یہ عام دستور ہے لیکن کوئی قوم بدنام ہو جائے تو لوگ یہ نہیں دیکھتے کہ عام دستور کیا ہے.بلکہ اُس کمزور قوم کے خلاف ایسے امور میں بھی قدم اٹھایا جاتا ہے جن پر بڑی قوموں کو کچھ نہیں کہا جاتا.پس تم ان چھوٹی چھوٹی باتوں سے بھی پر ہیز کرو.مثلاً سامنے شکار ہے.ایک لائسنس والا اپنا ہتھیار دیتا ہے اور کہتا ہے وہ شکار ہے اُس پر فائر کرو.تو عام دستور کے ماتحت چاہے سب لوگ اس طرح کر لیتے ہوں لیکن ان دنوں تم ان باتوں سے بھی پرہیز کرو اور استغفار اور دعا میں یہ ایام گزارو.خدا تعالیٰ جانتا ہے کہ تمہارا دشمن تمہارے خلاف جھوٹ بولنے سے پر ہیز نہیں کرتا.وہ سو فیصدی جھوٹ بولنے کے لیے تیار ہے اور بعض دفعہ تو سو فیصدی کہنے میں بھی ہمیں شک ہوتا ہے اور جی چاہتا ہے کہ اگر دوسو فیصدی کہنا درست ہو تو ہم یہ کہیں کہ وہ دوسو فیصدی جھوٹ بولنے سے بھی نہیں چوکتے.لیکن تمہارے پاس ایسا کوئی ذریعہ نہیں کہ تم اسے جھوٹ بولنے سے روک سکو یا معلوم کر سکو کہ وہ کس قسم کا جھوٹ بولتا ہے اور کس کے پاس جھوٹ بولتا ہے.مثلاً وہ ایک افسر کے پاس چلا جاتا ہے.پھر اس افسر سے کچہری میں نہیں ملتا.اُس کی کوٹھی پر جا کر ملتا ہے.اور اس سے کوئی جھوٹی بات بیان کرتا ہے تو تمہیں اس کا پتا نہیں لگ سکتا.ہاں اگر وہ خود بھید ظاہر کر دے تو اور بات ہے.لیکن یہ محض اتفاقی طور پر ہوتا ہے.عام طور پر ایسا نہیں ہوتا.جس طرح میں نے بیان کیا ہے کہ سی.آئی.ڈی کا ایک آدمی ایک سیکرٹری کے پاس گیا اور اُس سے چالاکی سے کچھ باتیں اپنے خیال میں دریافت کرنے کی کوشش کی.اُس کا خیال تھا کہ میں ان لوگوں کے منہ سے بعض باتیں نکلواؤں.لیکن چونکہ رپورٹ سراسر

Page 59

$1955 49 خطبات محمود جلد نمبر 36 جھوٹ تھی اُس نے نہ صرف اُسے یہ کہا کہ ہمارا ان باتوں سے کوئی تعلق نہیں بلکہ مجھے بھی یہ بات لکھ دی.پس میں ایک طرف جماعت کے دوستوں کو ہوشیار کرتا ہوں کہ وہ ان دنوں زیادہ بیدار مغزی سے کام لیں.اور اُن باتوں سے بھی پرہیز کریں جن میں ذرا بھی انہیں قانون کی خلاف ورزی کا شبہ ہو.دوسرے ان دنوں استغفار اور دعا پر زور دو.تم نہیں جانتے کہ تمہارے خلاف کیا کچھ ہو رہا ہے.لیکن اگر تم اللہ تعالیٰ کی طرف جھکو تو وہ دعا اور استغفار کے نتیجہ میں اسے بدل دے گا.مولا نا روم اپنی مثنوی میں لکھتے ہیں کہ ایک سپیرے نے ایک نئی قسم کا سانپ دیکھا تو اس نے اُسے پکڑ لیا اور ایک گھڑے میں بند کر دیا.اُس نے خیال کیا کہ یہ ایک نئی قسم کا سانپ ہے.میں اسے لوگوں کو دکھاؤں گا تو مجھے زیادہ آمد ہوگی.رات کو وہ اٹھا اور اُس نے شوق سے گھڑے کو دیکھا تو سانپ اُس میں موجود نہیں تھا ڈھکنا ہلکا تھا جس کی وجہ سے سانپ باہر نکل گیا.اُس نے دعا مانگنی شروع کر دی کہ اے اللہ ! میرا خیال تھا کہ یہ نئی قسم کا سانپ میرے ہاتھ آ گیا ہے.میں اس کے ذریعہ آمد پیدا کروں گا لیکن وہ تو باہر نکل گیا ہے.اے خدا ! تو ایسا کر کہ سانپ واپس آ جائے.مولا نا روم لکھتے ہیں کہ وہ گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹہ تک دعائیں مانگتا رہا.اتنے میں صبح کی اذان ہوگئی.وہ تھوڑی تھوڑی دیر کے بعد گھڑا آکر دیکھتا تھا کہ اُس کی دعاؤں کے نتیجہ میں سانپ آگیا ہے یا نہیں.لیکن گھڑا خالی ہوتا.سپیروں میں رواج ہے کہ جب کسی کو کوئی نیا سانپ کاٹے تو وہ سب سپیروں کو بلا کر دکھاتے ہیں تا کہ وہ اُس سے ہوشیار رہیں.وہ دعا مانگ رہا تھا کہ دروازہ پر کسی نے دستک دی.وہ باہر گیا تو دستک دینے والے نے اُسے بتایا کہ ایک شخص کو کسی نئی قسم کے سانپ نے کاٹا ہے اور وہ مر گیا ہے.ہم نے وہ سانپ پکڑا ہوا ہے تم بھی آکر اُسے دیکھ لو.چنانچہ وہ اُس کے ساتھ چلا گیا اور دیکھا کہ اُسی کے سانپ نے اُس آدمی کو کاٹا تھا.وہ یہ دیکھتے ہی کہنے لگا میں اپنی بیوقوفی سے یہ سمجھ رہا تھا کہ خدا تعالیٰ نے میری دعائیں نہیں سنیں.حالانکہ اُس نے میری دعا کوسن لیا تھا.اگر وہ سانپ واپس آجاتا تو مجھے کاٹتا اور میں مرجاتا.پس میری دعاؤں کی قبولیت اسی میں تھی کہ یہ سانپ واپس نہ آتا.تو خدا تعالیٰ جانتا ہے کہ تمہارے متعلق کون جھوٹ بولتا ہے اور کس کے پاس جھوٹ بولتا

Page 60

$1955 50 50 خطبات محمود جلد نمبر 36 ہے.لیکن تمہیں اس کا کوئی علم نہیں ہو سکتا.پس تمہارے لئے ایک ہی رستہ ہے کہ تم اللہ تعالیٰ سے دعائیں کرو کہ اے خدا! تو علام الغیوب ہے، تو نے ہمیں بنتیں دانتوں میں زبان کی طرح بنا کر رکھ دیا ہے، تو جانتا ہے کہ ہمارے متعلق کیا کیا جھوٹ بولے جاتے ہیں، ہم پر کیا کیا الزام لگائے جاتے ہیں، ہم پر کیا کیا افتراء کئے جاتے ہیں.ہمیں پتا نہیں کہ ہمارے متعلق کون جھوٹ بولتا ہے کس کے پاس جھوٹ بولتا ہے اور کن الفاظ میں جھوٹ بولتا ہے.تو علام الغیوب ہے تو سب کچھ جانتا ہے.تو ان کی اصلاح کرتا کہ یہ لوگ ہم بے گنا ہوں اور مظلوموں پر اتہام نہ لگائیں.پھر جہاں میں جماعت کے افراد سے یہ کہتا ہوں کہ وہ ہوشیار رہیں اور یہ دن دعاؤں اور استغفار میں بسر کریں.وہاں میں سمجھتا ہوں کہ حکومت کے لئے اگر ایک طرف یہ ضروری ہے کہ وہ کی قیام امن کے لیے ہر رپورٹ کی تحقیقات کرے تو دوسری طرف اُس کا یہ بھی فرض ہے کہ جب اُسے معلوم ہو جائے کہ کسی نے غلط رپورٹ کی ہے تو اُس کے خلاف کارروائی کرے.مجھ سے کئی افسروں نے بیان کیا ہے کہ جب آپ کی جماعت کے خلاف کوئی رپورٹ کی جاتی ہے تو ہم سمجھ جاتے ہیں کہ وہ رپورٹ جھوٹی اور تعصب کی بناء پر کی گئی ہے اور اس کی تحقیق کرتے ہیں.پس حکومت کا یہ بھی فرض ہے کہ اگر کوئی رپورٹ غلط ثابت ہو تو رپورٹ کرنے والے کو سزا دے.یہ ایک موٹی بات ہے کہ اگر رائفل ٹرینینگ جاری ہو تو وہ پہلے مرکز میں ہونی چاہیے اور رائفل ٹرینگ ایسی چیز نہیں جسے چھپایا جاسکے.رائفل کی آواز کئی میل تک جاتی ہے.اگر یہاں رائفلیں چلائی جائیں گی تو لازمی بات ہے کہ اس کے نتیجہ میں ایک شور برپا ہوگا اور وہ ہمسائیوں کو اور اردگرد کے دیہات میں بھی سنائی دے گا.رائفل ٹریننگ کے یہ معنے ہیں کہ کئی لوگ ایک وقت میں رائفل چلانا سیکھیں اور اس صورت میں تو ایک شور پڑ جائے گا.پس یہ کوئی ایسا امر نہیں کہ اس کا پتا لگانے میں کوئی وقت پیش آئے.کسی آدمی سے بھی اس کا پتا لگایا جاسکتا ہے.محلہ کے لوگوں سے اردگرد کے دیہات سے اور علاقہ کے لوگوں سے دریافت کیا جاسکتا ہے کہ آیا انہوں نے رائفل کی کبھی آواز سنی ہے یا نہیں؟ اور پھر جب یہ پتا لگ جائے گا کہ رائفل چلانے کی آواز آتی رہی ہے تو ان سے جہت بھی معلوم ہو جائے گی.پھر رائفل کی گولیوں کے نشان بھی مل جائیں گے.اگر کسی پہاڑی پر راکفل چلائی گئی ہے تو پتھروں پر نشانات ہوں گے.اگر کسی لکڑی پر نشانہ لگایا گیا ہے تو اُس پر نشان ہوگا.

Page 61

خطبات محمود جلد نمبر 36 51 $1955 پس جہاں میں جماعت کے افراد کو نصیحت کرتا ہوں کہ وہ قانون کی پابندی کریں اور ان کی دنوں زیادہ احتیاط سے کام لیں.وہ اس بات سے ڈرتے رہیں کہ ان کی غفلت کے نتیجہ میں دشمن کو جماعت کے خلاف کسی اعتراض کا موقع نہ ملے وہاں میں حکومت کو بھی نصیحت کرتا ہوں کہ جہاں تک کسی رپورٹ کے متعلق تحقیقات کا سوال ہے وہ بے شک کرے، وہ ملک میں قیام امن کی ذمہ دار ہے اور قیام امن کے لیے اُسے اس قسم کی کارروائی کرنی پڑتی ہے.اگر وہ ایسی کارروائی نہ کرے تو وہ اپنے فرض کو ادا کرنے سے قاصر رہے گی.لیکن بعض چیزیں ایسی ہیں کہ اُن کے معلوم کرنے کے ذرائع بہت معمولی ہوتے ہیں.مثلاً چوری وغیرہ کا کوئی نشان نہیں ہوتا.لیکن رائفل کا نشان ہوتا ہے.پس اگر کہیں رائفل چلائی گئی ہو تو لازماً اس کے نشان بھی ہوں گے.پھر علاقہ کے لوگ کہیں گے کہ ہمارے قریب راکفل ٹریننگ ہوتی ہے اور اس کی آواز سے شور پڑ جاتا ہے.رات کو شور کی وجہ سے نیند نہیں آتی.راکفل چلانے والے دروازے بند کر کے اور لحافوں کے اندر بیٹھ کر تو رائفل نہیں چلائیں گے.اگر وہ رائفل چلائیں گے تو لازماً رائفل کی آواز آئے گی.اُس کے نشان پڑیں گے.اس لئے اس قسم کا جھوٹ بولنے والے کو فوراً پکڑا جا سکتا ہے.اور اگر کسی افسر کے متعلق پتا لگ جائے کہ اُس نے کسی جماعت پر جھوٹا الزام لگایا ہے تو اُسے سزاملنی چاہیے.گزشتہ فسادات کے دوران میں ایک بڑے افسر نے ایک احمدی سے ذکر کیا کہ اُسے اپنے محکمہ کے متعلق جبکہ وہ چھٹی پر تھا اور یونہی دفتر میں آیا تھا معلوم ہوا کہ جماعت احمدیہ کے خلاف صرف مولویوں کے بیانات پر کوئی قدم اٹھایا جا رہا ہے.تو میں نے اس افسر کو جو میری جگہ لگا تھا سمجھایا کہ جن باتوں سے افراد کی ہتک ہوتی ہے جماعتوں کی زیادہ ہتک ہوتی ہے.اس لیے محض مولویوں کے لیکچروں میں بیان کردہ باتوں پر اعتبار کر کے کوئی قدم نہیں اٹھانا چاہیے.اور اس طرح اُس افسر کو غلط اقدام سے روک دیا.اس روایت سے اگر وہ کچی ہے پتا لگتا ہے کہ جماعت کے خلاف افسرانِ بالا کے پاس غلط رپورٹیں بھی پہنچتی رہتی ہیں اور سمجھ دار افسران رپورٹوں کی صحیح طریق پر تحقیق ضروری سمجھتے ہیں.پس حکومت کا یہ کام ہے کہ وہ اس بارہ میں احتیاط سے کام لے.ہمارا یا کسی اور کا یہ حق نہیں کہ ہم کہیں کہ چاہے ہم خلاف قانون حرکات کریں تو حکومت ہمیں پکڑے نہیں.حکومت کا

Page 62

خطبات محمود جلد نمبر 36 529 $1955 حق ہے کہ جب بھی کوئی خلاف قانون حرکت کرے اُسے پکڑے اور مناسب سزا دے.اگر وہ ہمیں خلاف قانون حرکات کرنے کے باوجود گھلا چھوڑ دیتی ہے اور دوسروں کو پکڑ لیتی ہے تو دوسرے لوگ اس پر طرف داری کا الزام لگائیں گے.اور اگر وہ دوسروں کو کھلا چھوڑ دیتی ہے اور ہمیں پکڑتی ہے تو ہم اس پر طرف داری کا الزام لگائیں گے.کیونکہ یہ بات درست نہیں کہ رعایا کے ایک حصہ کو اپنا دوست قرار دے کر اُس سے رعایت کی جائے اور دوسرے کو دشمن قرار دیا جائے اور چھوٹی چھوٹی باتوں پر اس کے خلاف کارروائی کی جائے.اس لیے جب تک حکومت اپنے فرض کو ادا کرتی ہے اُس پر الزام عائد نہیں کیا جاسکتا.بلکہ اگر وہ اپنے فرض کو ادا کرتی ہے تو وہ قابلِ شکریہ اور قابلِ داد ہے.لیکن اُس کا یہ بھی فرض ہے کہ وہ اس بات میں احتیاط سے کام لے کہ کسی پر جھوٹا الزام نہ لگایا جائے.ساتھ ہی میں اپنی جماعت سے بھی کہتا ہوں کہ ہمارا مذہبی عقیدہ ہے کہ حکومت کی فرمانبرداری کی جائے اور قانون شکنی نہ کی جائے.اس لیے ہم پر دو ہری ذمہ داری ہے.اگر کوئی احمدی قانون شکنی کرتا ہے تو نہ وہ صرف گورنمنٹ کے نزدیک مجرم ہے بلکہ وہ سلسلہ کے نزدیک بھی مجرم ہے.اگر گورنمنٹ کا یہ فرض ہے کہ قانون شکنی کی وجہ سے اُسے سزا دے تو سلسلہ کا بھی یہ فرض ہے کہ وہ اسے سزا دے.گویا جماعت کے افراد پر دو نگران مقرر ہیں.ا یک حکومت اور دوسرے سلسلہ.اس لئے ان کی اصلاح کے مواقع زیادہ ہیں.دوسرے کسی شخص کے متعلق ممکن ہے کہ حکومت خاموش رہے.لیکن ہم خاموش نہیں رہیں گے.اگر کوئی احمدی قانون شکنی کرے گا تو ہم اُسے ضرور سزا دیں گے.مجھے یاد ہے حکومت انگریزی کے زمانہ میں ایک دفعہ ماسٹر عبدالرحمن صاحب جالندھری مرحوم نے حضرت بابا نانک یا کسی اور سکھ بزرگ کے متعلق اپنی ایک کتاب میں بعض سخت الفاظ لکھے.اس پر سکھوں نے شور مچایا.چنانچہ میں نے اعلان کر دیا کہ اُس وقت تک جماعت کا کوئی فرد یہ کتاب نہ خریدے جب تک کہ ماسٹر صاحب قابل اعتراض صفحات کی اصلاح کر کے کتاب شائع نہ کریں.اس کے بعد اسمبلی میں بھی سکھوں نے شور مچایا تو اسمبلی کے ایک ممبر نے انہیں جو جواب دیا وہ جماعت احمدیہ کے لیے قابل فخر ہے.اُس نے کہا تم گورنمنٹ سے کہہ رہے ہو کہ وہ کتاب ضبط کرے لیکن میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ جماعت کے نظام نے اس کتاب کے مصنف کو جو

Page 63

$1955 53 خطبات محمود جلد نمبر 36 سزا دی ہے وہ ہم بھی نہیں دے سکتے.تم تو صرف کتاب ضبط کر سکتے ہو لیکن ہمارا تجربہ یہ ہے کہ جس کتاب کو حکومت ضبط کر لیتی ہے اندر ہی اندر وہ کتاب بکتی رہتی ہے.لیکن اس کتاب کے متعلق تو مذہبی طور پر حکم دے دیا گیا ہے کہ جب تک مصنف اس میں مناسب اصلاح نہ کرے کوئی احمدی یہ کتاب نہ خریدے.اب ” مرے کو مارے شاہ مدار “.جس شخص کو سلسلہ نے یہ سزا دے دی ہے اُسے مزید سزا کیا دی جاسکتی ہے.پس حقیقت یہ ہے کہ جب جماعت کا کوئی فرد قانون شکنی کرتا ہے تو ہماری اور جماعت کے دوسرے عہد یداروں کی یہ ذمہ داری ہے کہ اُسے سزا دیں.پھر حکومت بھی اُسے سزا دینا چاہتی ہے تو بے شک دے.اُس نے اپنی مصلحت کو دیکھنا ہے.بہر حال جماعت کے ہر فرد کو یہ احساس ہونا چاہیے کہ اگر وہ قانون شکنی کرے گا تو اُسے حکومت بھی سزا دے گی اور سلسلہ بھی سزا دے گا.کیونکہ اسلامی تعلیم یہی ہے کہ قانون شکنی نہ کرو.میں امید کرتا ہوں کہ موجودہ حالات میں عت کے افراد اپنے فرائض کو زیادہ تعہد سے پورا کریں گے اور قانون کا احترام باقی لوگوں کی سے زیادہ کریں گے.“ الفضل 19 فروری 1955ء) 1 يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنْ جَاءَكُمْ فَاسِقٌ بِنَبَا فَتَبَيَّنُوا (الحجرات: 7)

Page 64

$1955 54 6 خطبات محمود جلد نمبر 36 تحریک جدید کے وعدوں میں ابھی تک سوالاکھ روپے کی کمی ہے.میں جماعت کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ اب ایسا قدم اُٹھائے جس سے پہلی شرمندگی دور ہو سکے (فرموده 18 فروری 1955ء بمقام ربوہ ) تشہد ،تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا.میں کئی دنوں سے گھٹنے کے درد کی وجہ سے نماز کے لئے مسجد میں نہیں آسکا.رات بے کلی سے گزری ہے اور اب بھی پوری طرح آرام نہیں آیا.اس کے علاوہ بارہ تیرہ دن ہو گئے میرے پیٹ پر ایک پھنسی نکلی ہوئی ہے جس کی وجہ سے سجدہ وغیرہ آسانی سے نہیں کر سکتا.ابھی تک یہ تکلیف بھی دُور نہیں ہوئی.بظاہر یہ پھنسی ٹھیک ہو جاتی ہے لیکن پھر پیپ پڑ جاتی ہے.پھر ٹھیک ہو جاتی ہے اور پھر پیپ پڑ جاتی ہے.اس کی وجہ سے میرے لئے بیٹھنا یا سجدہ کرنا مشکل ہوتا ہے.اس لئے میں خطبہ بھی بیٹھے ہوئے دے رہا ہوں اور نماز میں بیٹھ کر ہی پڑھاؤں گا.میں جماعت کے دوستوں کو توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ یہ جمعہ تحریک جدید کے وعدوں کے لحاظ سے آخری جمعہ ہے.تحریک جدید کے وعدوں کی آخری تاریخ 23 فروری ہے اور آج 18 فروری ہے.گویا اگلا جمعہ 25 فروری کو آئے گا اور 25 فروری تک تحریک جدید کے وعدوں

Page 65

$1955 55 خطبات محمود جلد نمبر 36 کی میعادگزرچکی ہوگی.اس وقت تک جتنے وعدے آنے چاہیں تھے ابھی تک اُن میں سوالاکھ کی کمی ہے اور روزانہ وعدوں کی آمد بھی ہزار دو ہزار سے زیادہ نہیں.اس کے معنے یہ ہیں کہ جماعت کے افراد نے اپنے فرائض کو سمجھنے میں کوتاہی کی ہے.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ یہ خدا تعالیٰ کا کام ہے اور یہ ضرور ہوگا لیکن اس کے ساتھ ہی خدا تعالیٰ نے مجھ پر بھی یہ ذمہ داری عائد کی ہوئی ہے کہ میں تم سے کام کراؤں.اس لئے مجھے یقین ہے کہ جہاں اللہ تعالیٰ اپنے کام کو چلانے کے لیے کوئی نہ کوئی رستہ کھول دے گا وہاں میں محسوس کرتا ہوں کہ چاہے مجھے سختی کرنی پڑے یا کوئی اور طریق اختیار کرنا پڑے بہر حال میں تم کو اس ذریعہ سے توجہ دلاتا رہوں گا تا کہ تم اپنے فرائض کو سمجھ جاؤ.میرے لئے یہ بات تلخ ہے یا شیریں مجھے اس کی کوئی پروا نہیں.بہر حال میں نے خدا تعالیٰ کے سامنے یہ بات پیش کرنی ہے کہ جن لوگوں سے کام لینے کی ذمہ داری مجھ پر ڈالی گئی تھی ان سے میں نے کام لیا ہے یا نہیں.اور جولوگ میری ہدایت کے مطابق کام نہیں کر سکے انہیں میں نے اپنی جماعت سے الگ کر دیا ہے یا نہیں.میں آخری دفعہ جماعت کو پھر توجہ دلاتا ہوں کہ وہ اپنے فرائض کو سمجھے ابھی وعدوں کی میعاد میں چند دن باقی ہیں.ممکن ہے ان چند دنوں میں وعدوں کے بھیجنے میں زور پیدا ہو جائے.عام طور پر ان آخری دنوں میں وعدوں میں زور نہیں ہوتا بلکہ وعدوں کی آمد میں کمی پیدا ہو جاتی ہے.اور پھر جو وعدے اس وقت آ رہے ہیں اُن سے پتا لگتا ہے کہ وعدوں کے زور میں کمی آچکی ہے.پچھلے پانچ دنوں میں دس ہزار کی جو زیادتی تھی وہ یکدم چھیں ہزار کی کمی میں تبدیل ہوگئی.اس پر تم آئندہ کا بھی قیاس کرلو.بہر حال میں جماعت کے افراد کو اس طرف توجہ دلاتا ہوں کہ تم نے احمدیت میں داخل ہوتے وقت اس بات کا اقرار کیا تھا کہ ہم دین کو دنیا پر مقدم کریں گے.لیکن اس دفعہ ایسے آثار پیدا ہو رہے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ تم نے دین کو دنیا پر مقدم کرنے میں کوتاہی کی ہے اور اپنے فرائض کو صحیح طور پر ادا نہیں کیا ہے.ابھی چند دن باقی ہیں تم ان میں اپنی کوتاہیوں کو دور کرنے کی کوشش کرو اور ساتھ دعائیں کرو.کیونکہ یہ بات ناممکن نہیں کہ ان چند دنوں میں جماعت میں ایسا جوش پیدا ہو جائے کہ اللہ تعالیٰ جماعت کی اس کو تا ہی کو دور کر دے جو اُس نے اس وقت تک کی ہے.لیکن اگر اس نے پھر بھی کوتاہی کی تو اسے سمجھ لینا چاہیے کہ اگر کسی نے

Page 66

$1955 56 خطبات محمود جلد نمبر 36 سمند رطے کرنا ہو اور اُس کی گردن پر بوجھ ہو تو اُس بوجھ کو زیادہ دیر تک برداشت نہیں کیا جاسکتا.نجات اُس بوجھ کو اتارنے میں ہی ہوتی ہے.اگر کسی بڑے سمندر کو طے کرنا ہو یا کسی بڑے دریا کے پاٹ میں سے گزرنا ہو اور پتھر گلے کے ساتھ بندھا ہوا ہو تو وہ شخص احمق ہوگا جو اُس پتھر کو اتارے نہیں.جو اُس پتھر کو نہیں اُتارے گا وہ سمندر کو طے کرتے ہوئے ڈوب جائے گا.اس لیے میں جماعت کو آخری دفعہ توجہ دلاتا ہوں کہ وہ اب ایسا قدم اٹھائے جس سے پہلی شرمندگی دور ہو سکے.لیکن اس کے ساتھ ہی میں اس بات کے بیان کرنے سے بھی باز نہیں رہ سکتا کہ اس بارہ میں مرکزی دفتر نے بھی غفلت سے کام لیا ہے.میں ایک ماہ سے کہہ رہا ہوں کہ کسی نہ کسی جگہ غلطی ہے.کیونکہ جن لوگوں کے خطوط میرے پاس آرہے ہیں اُن میں سے 99 فیصدی نے یا تو وعدوں میں اضافہ کیا ہے یا کم سے کم پہلے سال جتنے وعدے کئے ہیں.صرف چند جماعتیں ہیں جن سے اس بارہ میں بستی ہوئی ہے.اب عقلمند کا یہ کام ہے کہ وہ بیماری تلاش کرے اور پھر اس کا علاج کرے.میں نے مرکزی دفتر سے کہا کہ مجھے ایسی جماعتوں کی لسٹ بھجواؤ جنہوں نے وعدے بھجوانے میں سستی سے کام لیا ہے تا اُن پر زور دیا جا سکے.یا تم اپنے انسپکٹروں کو بھجوا ؤ اور اُن سے کہو کہ اگر وعدے بھیجوانے ہیں تو جلدی بھیجوا ؤ.دفتر والوں نے کہا جی حضور ! اور پھر آٹھ دن گزر گئے.پھر میں نے کہا مجھے ست جماعتوں کی لسٹ بھیجوا ؤ تو دفتر والوں نے کہا جی حضور ! اور پھر آٹھ دن گزر گئے.اور ابھی تک ان کی طرف سے لسٹ نہیں آئی.پھر میں نے اختر صاحب سے کہا کہ ان لوگوں سے سُست جماعتوں کی لسٹ بنواؤ اور مجھے بھجواؤ.میں سمجھا تھا کہ وہ باہر سے آئے ہیں تو کام کریں گے لیکن انہوں نے بھی باتوں کی عادت ڈالی ہوئی ہے.کام کرنے کا نام وہ بھی نہیں لیتے.میں نے انہیں سمجھایا تھا کہ بعض لوگ کام کرتے وقت پچھلی تین پشتوں سے کام شروع کرتے ہیں اور اس طرح ان کے کاموں میں دیر ہو جاتی ہے.مگر انہوں نے میری اس نصیحت پر عمل کرنے کی بجائے یہ خیال کر لیا کہ تین پشتیں بھی تھوڑی ہیں.اصل میں چھ پشتوں سے کام شروع کرنا چاہیے.چنانچہ وہ بھی کوئی کام نہیں کر رہے.پھر میں نے وکلاء کو بلا کر کہا کہ تم وکیل المال سے روزانہ رپورٹ لیا کرو.لیکن انہوں نے بھی اس کام کی طرف توجہ نہیں کی.اس لیے میں سمجھتا ہوں کہ مجھے اپنی ذمہ داری کو پورا کرنے کے لیے دونوں فریق پر سختی کرنی پڑے گی.

Page 67

$1955 57 خطبات محمود جلد نمبر 36 وکلاء کو بھی میں نے کہا کہ جماعت وارو عدے چیک کرو اور وکالت مال سے روزانہ رپورٹ لے کر مجھے بھجواؤ.لیکن انہوں نے نہایت غیر ذمہ دارانہ رویہ اختیار کیا.میں نے انہیں طریق علاج بھی بتا دیا تھا لیکن انہوں نے میری ہدایت کے مطابق کام نہیں کیا.اختر صاحب سے کہا کہ تم ان سے کام کراؤ اور انہیں کہو تم مرض کو پکڑو اور اس کا علاج کرو لیکن انہوں نے بھی اپنی ذمہ داری کو ادا نہیں کیا.حالانکہ یہ ایک معمولی بات ہے.جماعتوں کے وعدوں کا جائزہ لینے سے فوراً معلوم ہو جا تا ہے کہ کس جماعت نے سنتی سے کام لیا ہے یا اُن کے وعدوں میں پچھلے سال کی نسبت کمی آئی ہے.میرے پاس جن جماعتوں کے وعدے آئے ہیں اُن میں صرف ایک جماعت ایسی ہے جس کے اس سال کے وعدے پچھلے سال کے وعدوں کی نسبت کم ہیں.اور اس کی وجہ انہوں نے یہ لکھی ہے کہ ان کے کچھ آدمی تبدیل ہو کر دوسری جگہ چلے گئے ہیں.اس کے علاوہ کوئی ایسی جماعت نہیں جس کے وعدے پچھلے سال کی نسبت کم ہوں.بلکہ انہوں نے پچھلے سال کی نسبت وعدے بڑھا کر پیش کئے ہیں.اس سے صاف پتا لگتا ہے کہ دفتر نے مقابلہ کر کے دیکھا نہیں کہ کونسی جماعت نے وعدے بھجوانے میں سستی کی ہے.جتنی جماعتوں نے اس وقت تک وعدے بھجوائے ہیں انہوں نے پچھلے سال کی نسبت وعدے بڑھا کر پیش کئے ہیں.اس لئے لازماً جن جماعتوں کی طرف سے ابھی تک وعدوں کی لسٹ نہیں آئی اُن میں سے بعض کی طرف سے کوتا ہی ہوئی ہوگی.پس بجائے اس کے کہ میرے پرانے خطبوں کے بعض حوالے نکال نکال کر الفضل میں شائع کئے جائیں اور اس طرح لوگوں پر یہ اثر ڈالا جائے کہ دوسری جماعتوں نے بھی وعدے بھجوانے میں سستی سے کام لیا ہے یہ ضروری تھا کہ جن جماعتوں کی طرف سے ابھی تک وعدے نہیں آئے اُن پر زور دیا جاتا.پس یہ بات مشکل ہے کہ میں اس سستی کی ذمہ داری صرف جماعتوں پر ڈالوں.مرکزی دفتر والوں نے بھی سستی اور غفلت سے کام لیا ہے.پس ضروری ہے کہ میں جماعت پر بھی اور مرکزی دفتر والوں پر بھی سختی کروں.یہ ایک تلخ گھونٹ ہے جو مجھے پینا پڑے گا.لیکن اپنے فرائض کی ادائیگی میں اس قسم کے تلخ گھونٹ پینے ہی پڑتے ہیں.چاہے بعد میں یا ساتھ ہی میرے دل پر یہ بات گراں گزرے.لیکن خدا تعالیٰ کے حضور سرخرو ہونے کے لیے اس قسم کے تلخ گھونٹ پے بغیر چارہ نہیں ہوتا.لیکن اس سے قبل میں ایک دفعہ پھر جماعت کو

Page 68

$1955 58 خطبات محمود جلد نمبر 36 توجہ دلاتا ہوں کہ وہ اپنی کوتاہیوں اور سستیوں کو دور کرے.اور ان چند دنوں میں جو باقی رہ گئے ہیں وعدوں کی موجودہ کمی کو دور کرے.جیسا کہ میں نے بتایا ہے کہ میں نے وکلا ء کو اپنے پاس بلایا اور اپنے سامنے بٹھا کر کہا کہ تم جماعت وار وعدے چیک کرو اور وکالت مال سے روزانہ کام کی رپورٹ لو.پھر اختر صاحب کو بلا کر کہا کہ دفتر کے کام میں فلاں نقص ہے.ان سے وہ نقص دور کراؤ اور مجھے سُست جماعتوں کی لسٹ بھجواؤ.لیکن وہ ہر دفعہ جی حضور ! یہی کرتے رہے ہیں.اور ابھی تک ان جماعتوں کی لسٹ پیش نہیں کی.یہ ایک حسابی کمزوری تھی.کوئی اخلاقی کمزوری نہیں تھی جس کے دور کرنے میں دقت پیش آتی.صرف حساب کی بات ہے.کاپی پر پچھلے سالوں کے وعدے بھی لکھے ہیں اور اس سال جو وعدے آئے ہیں وہ بھی لکھے ہیں.ان کا مقابلہ کرنے سے معلوم ہوسکتا ہے کہ ایک جماعت کا پچھلے سال اتنا وعدہ تھا اور اس سال اتنا وعدہ ہے یا اس سال اُس نے اپنے وعدے نہیں بھجوائے پھر بجائے اس کے کہ الفضل میں میرے خطبات کے حوالے شائع کئے جائیں کیوں نہ ان 25 یا 30 جماعتوں پر زور دیا.جائے کہ وہ اپنے نقص کو دور کریں.ساری جماعتوں کو کیوں بدنام کیا جائے.بہر حال اس وقت تک جو وعدے آئے ہیں وہ قریباً 2/3 ہیں.اس سے پتا لگتا ہے کہ 2/3 جماعتوں نے اپنی ذمہ داری کو پوری طرح ادا کیا ہے.پھر ان 2/3 جماعتوں کو کیوں بدنام کیا جائے.باقی 1/3 جماعتوں پر کیوں زور نہ دیا جائے.بلکہ ان 1/3 جماعتوں میں سے بھی بعض جماعتوں نے وعدے بھیج دیئے ہوں گے یا ان کے وعدے آنیوالے ہوں گے.بہر حال جن جماعتوں نے وعدے نہیں بھجوائے.اُن سے کہو کہ یا وعدے بھجوا دیا جواب دو یا تم اپنا انسپکٹر وہاں بھیج کر اُن سے وعدے لیتے.لیکن تم ہر دفعہ جی حضور ! کہہ کر چلے جاتے ہو.وکالت مال میں جو نیا عملہ لگا ہے وہ ایسا غیر مبارک ثابت ہوا ہے کہ وہ جی حضور ! اسے آگے نہیں جاتا.ویسے وہ مخلص ہیں لیکن ان میں کام کرنے کی قابلیت نہیں.جی حضور! پر بات ختم کر دیتے ہیں.حالانکہ بجائے اس کے کہ وہ ساری جماعتوں کو مخاطب کریں انہیں صرف ان جماعتوں کی طرف توجہ کرنی چاہیے تھی جنہوں نے اس وقت تک سستی سے کام لیا ہے.ساری جماعت کو مخاطب کرنا اُسے سُست کر دیتا ہے.ایک شخص نہ صرف روزانہ پانچ نمازیں پڑھتا ہے بلکہ روزانہ نماز تہجد بھی ادا کرتا ہے.اسے اگر یہ کہا جائے کہ تم پانچ وقت

Page 69

$1955 59 خطبات محمود جلد نمبر 36 نماز پڑھا کروتو یہ کتنی بے وقوفی کی بات ہے.وہ تو پانچ نمازوں کے علاوہ تہجد بھی ادا کر رہا ہے.تم اُن لوگوں کے پاس جاؤ جو نماز نہیں پڑھتے.اسی طرح الفضل میں نوٹس شائع کرنے کے یہ معنے ہیں کہ ساری جماعت نے وعدے بھجوانے میں ستی سے کام لیا ہے.حالانکہ ایسا کہنا درست نہیں.اکثر جماعتوں نے اخلاص کا پورا نمونہ دکھایا ہے.الفضل میں اس قسم کے مضامین پڑھ کے ہر ایک شخص یہ سمجھتا ہے کہ میرے سوا باقی سب سست ہیں.مثلاً کراچی والے اخبار پڑھتے ہیں تو سمجھتے ہیں کراچی والوں نے تو وعدے بھجوا دیئے ہیں اس کا ہمیں علم ہے معلوم ہوتا ہے باقی سب جماعتیں بددیانت ہیں لاہور والے سمجھتے ہیں کہ ہماری جماعت کے وعدے تو مرکز میں جا چکے ہیں.اور اس کا ہمیں علم ہے معلوم ہوتا ہے باقی سب جماعتیں بددیانت ہیں.راولپنڈی والے احمدی اخبار پڑھتے ہیں تو وہ سمجھتے ہیں ہمارے وعدے تو جاچکے ہیں اور اس کا ہمیں علم ہے.معلوم ہوتا ہے ہماری جماعت کے سوا باقی سب جماعتیں بددیانت ہیں.گویا بجائے اس کے کہ ان مضامین سے کوئی فائدہ ہو لوگوں کے ایمان میں خرابی پیدا ہوتی ہے.میں نے کئی دفعہ توجہ دلائی ہے کہ تم واقعات نکال کر توجہ دلایا کرو ساری جماعت کو بدنام نہ کیا کرو.جب کوئی بات کرو اس بات کی وضاحت کر دیا کرو کہ فلاں فلاں جماعت نے اِس کام میں سستی دکھائی ہے.مثلاً اب میں جماعت کی سستی کا ذکر کر رہا ہوں.تو میں یہ بھی واضح کر رہا ہوں کہ 2/3 جماعت اپنے وعدے بھیج چکی ہے.بلکہ باقی 1/3 میں بھی کچھ کمی ہو جائے گی.بعض جماعتوں کے وعدے بھجوائے جاچکے ہوں گے اور بعض کے وعدے چند دن کی باقی ماندہ مدت میں آجائیں گے.پھر میں نے یہ بھی کہہ دیا ہے کہ ساری کی ذمہ داری جماعت پر ہی نہیں کچھ ذمہ داری دفتر پر بھی ہے.میں نے دفتر والوں کو اُن کے اس نقص کی طرف بار ہا توجہ دلائی ہے لیکن انہوں نے اپنے نقص کو دور نہیں کیا.اس کے معنی یہ ہوئے کہ جماعت کا صرف ساتواں یا آٹھواں حصہ ایسا ہے جس نے اس بارہ میں سستی سے کام لیا ہے.اب یہ نہیں ہو گا کہ کراچی والے کہیں کہ ہمارے سوا باقی سب بے ایمان ہو چکے ہیں.راولپنڈی والے کہیں کہ ہمارے سوا باقی سب بے ایمان ہو چکے ہیں.یا حیدر آباد والے کہیں کہ ہمارے سوا باقی سب بے ایمان ہو چکے ہیں.لیکن وکالت مال کے اعلانات سے ہر جماعت یہی سمجھتی ہے کہ اُس

Page 70

$1955 60 خطبات محمود جلد نمبر 36 کے سوا باقی سب جماعتیں بے ایمان ہیں.حالانکہ یہ جھوٹ ہے.اگر ہم یہ کہیں کہ فلاں فلاں جماعت میں نقص ہے تو جن جماعتوں نے اپنی ذمہ داری کو ادا کیا ہے اور اپنے اخلاص کا نمونہ دکھایا ہے اُن کے حوصلے بڑھیں گے.اُن کے ایمان میں زیادتی ہو گی.مگر اب یہ ہوتا ہے کہ یا تو وہ جماعتیں جن کی طرف سے وعدے آچکے ہیں وکالت مال والوں کو کذاب کہتی ہوں گی یا پھر ہر شخص اپنے سوا سب کو بے ایمان کہتا ہوگا.اور یہ دونوں باتیں خطر ناک ہیں.لیکن دفتر والے سمجھتے نہیں.اگر اسی طرح کام ہوتا رہا.تو غلط فہمیاں بڑھتی جائیں گی.پس میں پھر توجہ دلاتا ہوں اور بتا دیتا ہوں کہ ابھی چند دن باقی ہیں.اگر وکالت مال کے عملہ میں ایمان ہے تو وہ اب بھی ایسی جماعتوں کی لسٹ بھجوا دے.جنہوں نے اس وقت تک وعدوں کے بارہ میں سستی سے کام لیا ہے.وکلاء سے میں نے کہا تھا کہ وکالت مال کی نگرانی کرو اور اس سے رپورٹ لے کر مجھے روزانہ اطلاع دیا کرو.وہ مجھے بتائیں کہ کیا انہوں نے کبھی ایسی اطلاع بھجوائی؟ میں نے انہیں نقص بتا دیا تھا.کیا انہوں نے وہ نقص دور کر دیا ؟ کیا انہوں نے اٹھارہ دنوں میں ایک دن بھی میری ہدایت کے مطابق کام کیا؟ پھر اختر صاحب بتا دیں کہ کیا انہوں نے اٹھارہ دنوں میں ایک دن بھی میری ہدایت پر عمل کیا ؟ میں نے انہیں بتا دیا تھا کہ فلاں جگہ نقص ہے اور وکیل نے جی حضور ! کہہ کر ٹال دیا.اگر ہمیں ایسی جماعتوں کا پتا لگ جائے جنہوں نے وعدے بھجوانے میں سستی کی ہے تو ہم اُن کے امیر بدل دیں، اُن کے سیکرٹری بدل دیں.باقی جماعتوں کو کیوں بد نام کریں.بہر حال یہ طریق اصلاح کے قابل ہے.جن جماعتوں نے دوسرے لوگوں کی اصلاح کرنی ہے انہیں پہلے گھر کی اصلاح کرنی چاہیے.اگر کسی کے اپنے گھر میں گند پڑا ہے تو اُس نے گلی میں کیا صفائی کرنی ہے.اگر ان لوگوں میں ہی کمزوری پائی جائے جو نمبر دار کہلاتے ہیں تو اور لوگوں کی اصلاح تو ہوچکی.دوسرے لوگ تو کمزور ہوں گے ہی.اگر تم پاکستان کے علاوہ دوسری جماعتوں میں جاؤ تو تمہیں معلوم ہوگا کہ ہر جماعت میں یہ احساس ہے کہ ہمارا چندہ باہر کیوں جائے؟ بلکہ بعض جماعتیں یہاں تک کہہ دیتی ہیں کہ ہمارا روپیہ پاکستانی مبلغ پر کیوں خرچ ہو؟ حالانکہ انہیں یہ علم نہیں کہ جب پہلی دفعہ اُن کے پاس مبلغ بھیجا گیا تھا تو اسے پاکستانی جماعت نے

Page 71

$1955 61 خطبات محمود جلد نمبر 36 ہی کرایہ دے کر بھیجا تھا.پھر دو چار سال جب تک وہاں جماعت قائم نہیں ہوئی تھی سارا خرچ پاکستان کی جماعت نے دیا تھا.اب بھی اکثر جگہوں پر پاکستان ہی کی جماعت خرچ کرتی ہے.مگر بیرونی جماعتیں ایک ایک پیسہ پر بحث شروع کر دیتی ہیں.اور کہنے لگ جاتی ہیں کہ ہمارا چندہ باہر کیوں جائے.وہ سمجھتے ہیں کہ تبلیغ کا ذمہ دار صرف پاکستان ہے.باقی لوگوں پر تبلیغ کی ذمہ داری نہیں.امریکہ کی جماعت چاہتی ہے کہ امریکہ کا چندہ امریکہ میں ہی خرچ ہو.جاپان چاہتا ہے کہ اس کا چندہ جاپان میں ہی خرچ ہو.انڈونیشیا چاہتا ہے کہ اُس کا چندہ انڈونیشیا میں ہی خرچ ہو.ملا یا چاہتا ہے کہ اُس کا چندہ ملایا میں ہی خرچ ہو.عرب چاہتا ہے کہ اُس کا چندہ عرب میں ہی خرچ ہو.افریقہ چاہتا ہے کہ اُس کا چندہ افریقہ میں ہی خرچ ہو.باقی دنیا میں تبلیغ پر جو خرچ ہو وہ پاکستان برداشت کرے.لیکن یہ احمقانہ خیال ہے.پس یہ مرض باہر کی جماعتوں میں پائی جاتی ہے.اور جب یہ مرض باہر کی جماعتوں میں اس وقت بھی پائی جاتی ہے جب پاکستان کی جماعت نے اکثر حصہ بوجھ کا اٹھایا ہوا ہے تو جب مرکز میں ہی خرابی پیدا ہو جائے تو ہم انہیں کیا کہیں گے.جب ذمہ دار لوگ معمولی عقل کی بات بھی نہ کریں تو دوسروں سے کیا شکوہ ہے.وہ امریکہ ، جرمنی ، ہالینڈ اور دوسرے ممالک کی اصلاح کرنا چاہتے ہیں لیکن اپنی اصلاح نہیں کر سکتے.یہ تو ایسی ہی بات ہے جیسے کہتے ہیں." مردہ باد اے مرگ عیسی آپ ہی بیمار ہے یعنی اے موت ! تجھے مبارک ہو کہ عیسی جو مُردے زندہ کیا کرتا تھا وہ آپ ہی بیمار ہے.پس مرکز کے رہنے والوں پر بڑی بھاری ذمہ داری ہے.انہیں اپنی اصلاح کرنی چاہیے اور پھر اصلاح کرتے رہنا چاہیے.انہیں اپنی عقل تنظیم اور قربانی سے یہ ثابت کرنا چاہیے کہ وہ محض اتفاقی طور پر ہی لیڈر نہیں بنے.بلکہ خدا تعالیٰ نے انہیں لیڈر بنایا ہے.خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ السلام کو اس ملک میں پیدا کیا تھا تو یہ دیکھ کر کیا تھا کہ ہم لوگوں میں قابلیت پائی جاتی ہے.اگر ہم اپنی قابلیت کو ظاہر نہیں کرتے تو خدا تعالیٰ جھوٹا نہیں ہم خود جھوٹے ہیں.اگر ہم اپنی قابلیت کو ظاہر نہیں کرتے تو اس کے یہ معنے ہیں کہ ہم اپنی طاقت کو ضائع کر رہے ہیں.رسول کریم ﷺ کے پاس ایک شخص آیا.اُس نے عرض کیا یا رَسُولَ اللہ ! میرے بھائی کو دست آرہے ہیں.آپ نے فرمایا اُسے شہد پلاؤ.چنانچہ وہ واپس گھر گیا اور اُس نے اپنے بھائی کو شہد پلایا.لیکن دست اور 66

Page 72

$1955 62 خطبات محمود جلد نمبر 36 زیادہ ہو گئے.وہ دوبارہ رسول کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا.اور کہا يَا رَسُولَ اللہ ! میں نے اپنے بھائی کو شہد پلایا تھا لیکن اُس کے دست اور زیادہ ہو گئے ہیں.آپ نے فرمایا اُسے اور کی الله شہد پلاؤ.چنانچہ اُس نے اور شہد پلایا لیکن دست اور زیادہ ہو گئے.وہ پھر رسول کریم ﷺ کے پاس حاضر ہوا.اور کہا یا رَسُولَ الله ! دست تو اور زیادہ ہو گئے ہیں.آپ نے فرمایا اُسے اور شہد پلاؤ.اللہ تعالیٰ سچا ہے تیرے بھائی کا پیٹ جھوٹا ہے.جب خدا تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ شہد میں شفا ہے تو اس کے پینے سے یقیناً شفا ہوگی.خدا تعالیٰ کی بات جھوٹی نہیں ہو سکتی.میں کس طرح مانوں کہ تمہارے بھائی کے دست شہد پینے سے ٹھیک نہیں ہوئے.معلوم ہوتا ہے کہ تمہاے بھائی کا پیٹ جھوٹا ہے 1.بات بھی ٹھیک ہے.یہ بات طب سے ثابت ہے کہ جس شخص کو بد ہضمی کی وجہ سے اسہال ہوں اُسے جلاب آور دوا دینی چاہیے تا کہ تمام فاسد مواد اندر سے نکل جائے.اس لئے رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ خدا تعالیٰ جھوٹا نہیں.اس نے شہد میں شفا رکھی ہے.تمہارے بھائی کا پیٹ جھوٹا ہے.پس اگر تم اپنی قابلیت کو ظاہر نہیں کرتے تو تم جھوٹے ہو.خدا تعالیٰ سچا ہے.خدا تعالیٰ نے تمہیں لیڈر اس لیے بنایا تھا کہ تم میں قابلیت پائی جاتی ہے.اگر تمہارے دماغ اور دوسرے قومی دوسرے لوگوں سے بہتر نہ ہوتے تو وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ السلام کو اس ملک میں نہ بھیجتا.میرے پاس ایک دفعہ امریکہ کا قونصل جنرل آیا.میں نے اُسے کہا تم امریکہ والے پاکستان کے معاملات میں دخل دیتے ہو یہ امر پسندیدہ نہیں.تو وہ اس بات سے چڑ گیا.میں نے اُسے کہا کیا تمہارے دماغ ہمارے دماغوں سے زیادہ اچھے ہیں؟ اُسے یہ بات بُری لگی ہوگی.لیکن آخر ان کی کونسی چیز ایسی ہے جو تم سے اچھی ہے.وہ تو اتنے سادہ عقل کے ہیں کہ ایک انسان کو خدا مان رہے ہیں.ایسے لوگوں نے ہمارے دماغوں کا کہاں مقابلہ کرنا ہے.ہمارے پاس خدا ہے ، اس کا سچا رسول ہے، سچی کتاب ہے ، ہم نے خدا تعالیٰ کو مانا ہے اور وہ اِس کا انکار کر رہے ہیں.اس لئے اُن کا غلطی پر ہونے میں کیا شبہ ہو سکتا ہے اور ہمارے عظمند ہونے میں کیا شبہ ہے.لیکن اگر ہم اپنی عقل اور دماغ کو استعمال نہیں کرتے تو یہ ہماری کمزوری ہے ورنہ اس میں

Page 73

$1955 63 خطبات محمود جلد نمبر 36 کوئی شبہ نہیں کہ ہم دوسروں سے زیادہ اچھے ہیں.کوئی اور قوم ہم سے اچھی نہیں ہو سکتی.تم اس وقت پہلی صف میں ہو بعد میں تم دوسری صف میں چلے جاؤ تو اور بات ہے کیونکہ ایسے زمانے بھی آتے ہیں کہ پچھلی صفیں آگے آجاتی ہیں.تم نے دیکھا نہیں کہ بنو امیہ کی حکومت خالص عرب حکومت تھی.پھر بغداد میں جو حکومت قائم ہوئی وہ عرب اور ایرانی ملی جلی تھی.پھر بعد میں حکومت دوسری اقوام میں چلی گئی.پس یہ نہیں ہوسکتا کہ پاکستان ہمیشہ کے لیے لیڈر بنا رہے.لیکن اس وقت وہ بہر حال لیڈر ہے.اور خدا تعالیٰ نے اسے لیڈر بنایا ہے.خواہ کوئی چیں کرے یا ہیں کرے، اُسے اچھا لگے یا بُرا لگے.بہر حال الہی فیصلہ نے اسے قابل ترین بنایا ہے.اب اگر اپنے آپ کو نا قابل ترین ثابت کرے تو یہ اسکی اپنی حماقت ہے.پس اگر تم اپنے آپ کو نا قابل ظاہر کر رہے ہو تو ہم یہ تو ماننے کے لیے تیار نہیں کہ تم نا قابل ہو.لیکن یہ واقعی ماننے کے لیے تیار ہیں کہ تم نا قابل بن رہے ہو.“ الفضل 22 فروری 1955ء) :1 صحیح مسلم کتاب السّلام باب التَّدَاوِى بِسَقْيِ الْعَسَلِ.وہ

Page 74

64 $1955 7 خطبات محمود جلد نمبر 36 اللہ تعالیٰ نے ساری دنیا میں اسلام کو پھیلانے کا کام ہمارے ذمہ لگایا ہے (فرموده 25 فروری 1955ء بمقام ربوہ ) تشہد، تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا.و میں نے گزشتہ خطبہ میں جماعت کے دوستوں سے کہا تھا کہ تحریک جدید کے وعدوں میں ابھی 23 ہزار روپے کی کمی ہے جسے انہیں بہت جلد پورا کرنے کی کوشش کرنی چاہیے.مجھے خوشی ہے کہ میرے اس اعلان کے بعد اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہ کمی 23 ہزار سے گر کر سات ہزار پر آگئی ہے.امید ہے یہ تھوڑی سی کمی بھی چند دنوں میں دور ہو جائے گی.لیکن اس دوران میں جو حیرت انگیز بات معلوم ہوئی ہے وہ یہ ہے کہ اس کمی کا بہت بڑا باعث خودر بوہ کی جماعت تھی جس نے تحریک جدید کے وعدوں کی طرف پوری توجہ نہ کی اور سستی سے کام لیا.معلوم ہوتا ہے کہ آپ لوگ صرف یہاں باتیں سننے کے لئے جمع ہوتے ہیں اور پھر ایک کان سے سن کر دوسرے کان سے نکال دیتے ہیں.گویا آپ لوگوں کی مثال اُس ہندو کی سی ہے جو سردی کے موسم میں پانی کی گڑوی بھر کر اپنے جسم پر ڈالتا تھا تو خود کود کر آگے چلا جاتا اور پانی پیچھے گر جاتا تھا.بہر حال یہ چیز ہماری آنکھیں کھولنے والی بن گئی اور افسوس پیدا کرنے والی بھی.آنکھیں کھولنے والی اس طرح کہ

Page 75

خطبات محمود جلد نمبر 36 65 $1955 جب ہمارے قریب کے رہنے والوں کی یہ حالت ہے تو باہر والوں کی طرف ہمیں کتنی توجہ کی ضرورت ہے.اور افسوس پیدا کرنے والی اس طرح کہ جنہیں دوسروں کا لیڈر ہونا چاہیے تھا اور ہر بات میں انہیں آگے نکلنا چاہیے تھا وہی پیچھے رہ گئے.جو ایک افسوسناک امر ہے.بہر حال یہ بات واضح ہے کہ ہمارا کام بہت وسیع ہے اور ہم نے ساری دنیا میں اسلام اور احمدیت کو پھیلانا ہے.اور یہ کام تقاضا کرتا ہے کہ ہم تحریک جدید کی مضبوطی کی طرف زیادہ سے زیادہ توجہ کریں اور بیرونی مبلغین کو اتنار و پی بھجوائیں کہ وہ بغیر کسی پریشانی کے اپنی تبلیغی مہمات کو جاری رکھ سکیں.بیرونی ممالک کے جو حالات مبلغین کی رپورٹوں کے ذریعہ ہمارے علم میں آتے رہتے ہیں اُن سے معلوم ہوتا ہے کہ انڈونیشیا، ملایا، ایسٹ افریقہ ، ویسٹ افریقہ اور مصر وغیرہ ممالک میں بالخصوص ضرورت ہے کہ ہم اپنی تبلیغی مساعی کو پہلے سے زیادہ تیز کر دیں.اور اس کے لیے سب سے زیادہ ضروری امر یہ ہے کہ ہمارے مشن مضبوط ہوں اور ان کے پاس اتنا روپیہ ہو کہ وہ بغیر کسی روک کے اپنی تبلیغ کو وسیع کرتے چلے جائیں.مجھے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہمارے بعض بیرونی مشن بھی اپنا فرض صحیح طور پر ادا نہیں کر رہے اور اُن پر ایک جمود کی سی کیفیت طاری ہے.میرا ارادہ ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ مجھے تو فیق دے تو میں انہیں جھنجھوڑوں اور انہیں بیدار کرنے کی کوشش کروں.بے شک بعض مشن ایسے بھی ہیں جنہوں نے اچھا کام کیا ہے.مثلاً نائیجیریا کا مشن ہے.اس نے نہایت عمدہ کام کیا ہے.اسی طرح فری ٹاؤن کے مشن نے بھی اچھا کام کیا ہے.لیکن بعض مشن سست ہیں اور انہوں نے اپنی ذمہ داریوں اور فرائض کو سمجھا ہی نہیں پھر ہمیں آئندہ کے لیے نئے مبلغوں کی بھی ضرورت ہے.اگر نئے مبلغین نہیں آئیں گے تو ہم اپنے کام کو ترقی کس طرح دے سکیں گے.پھر اگر مبلغ آبھی گئے لیکن روپیہ نہ آئے تو انہیں باہر بھیجنا مشکل ہو گا.بہر حال جو مشن اس وقت تک قائم کئے جاچکے ہیں انہیں ایک حد تک بڑھانا ہمارے لئے ضروری ہے.اس کے ساتھ ہی ہمیں اپنے مبلغین کو لٹریچر مہیا کرنا چاہیے.اسی طرح انہیں سفر خرچ اور جلسے وغیرہ منعقد کرنے کے لیے اخراجات مہیا کرنے چاہیں.در حقیقت اب تک ہم اپنے مبلغین کو صرف کھانے پینے کے اخراجات ہی دیتے ہیں سفر خرچ نہیں دیتے.نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ مبلغین اپنے مشن ہاؤس میں ہی بیٹھے رہتے ہیں.اتفاقاً

Page 76

$1955 66 خطبات محمود جلد نمبر 36 کوئی شخص اُن کے پاس آجائے تو آجائے.گویا اُن کی مثال پرانے زمانہ کے زاویہ نشین اور صوفیوں کی سی ہے کہ کوئی آدمی اُن کے پاس آجائے تو وہ اُس سے بات کر لیتے ہیں ورنہ خاموش بیٹھے رہتے ہیں.ہم انہیں اخراجات مہیا کریں گے تو وہ باہر نکلیں گے.اخراجات کے بغیر وہ ادھر اُدھر کس طرح پھر سکتے ہیں.اگر ہم انہیں سفر خرچ کے لیے روپیہ نہیں دیتے.صرف روٹی کا خرچ دے دیتے ہیں تو وہ اپنی روٹی کھا لیا کریں گے اور سارا دن اس انتظار میں بیٹھے رہیں گے کہ کوئی شخص اُن کے پاس آئے اور وہ اُسے تبلیغ کریں.گویا اُن کی مثال ایک مکڑی کی سی ہوگی جو اپنا جالا بن کر اس انتظار میں رہتی ہے کہ کوئی اُس کے جالے میں پھنسے اور وہ اُس کا شکار کرے.ضرورت صرف اس بات کی ہے کہ ہم انہیں سفر کے لیے خرچ دیں.لیکچروں کے لیے خرچ دیں ، اسی طرح لٹریچر دیں تا کہ وہ اسے لوگوں میں تقسیم کر سکیں.جہاں جماعت قائم ہو چکی ہے وہاں تو مبلغین کچھ نہ کچھ کام کرتے رہتے ہیں لیکن جہاں جماعت قائم نہیں ہوتی وہاں یہی حالت ہے کہ مبلغ سارا دن اس انتظار میں رہتا ہے کہ کوئی شخص خود چل کر اُس کے پاس آئے اور وہ اُسے تبلیغ کرے.یا پھر وہ دعا کرتا رہتا ہے کہ یا الہی ! کوئی شکار بھیج.صاف بات ہے کہ اصل شکاری وہی ہے جو شکار کی جگہ پر خود پہنچے.اگر کسی کے پاس اتفاقی طور پر خود شکار آ جاتا ہے تو وہ کوئی شکاری نہیں جو شکاری کسی درخت کے نیچے بیٹھ جائے اور اس انتظار میں رہے کہ کوئی نیل گائے یا ہرن راستہ بھٹک کر اُس کے پاس آجائے تو وہ شکاری نہیں کہلا سکتا.غرض ہمارے مشنوں کے لیے مزید سرمایہ کی ضرورت ہے اور اس لیے جماعت کو کسی وقت بھی اپنے فرائض نہیں بھولنے چاہئیں.ان کے سپر د ایک بہت بڑا کام ہے.اگر ہم مبلغین کو اخراجات نہیں دیتے تو ان سے فائدہ نہیں اٹھایا جاسکتا.پچھلے دنوں انڈونیشیا سے ہمیں اطلاع آئی کہ وہاں اگر چہ آبادی زیادہ تر مسلمانوں کی ہے لیکن تعلیم میں عیسائیوں کو زیادہ دخل حاصل ہے.جس کی وجہ سے طلباء عیسائیت کی طرف مائل ہو رہے ہیں.بعض طلباء نے میٹنگ کی اور اس میں اُن سوالات پر غور کیا جو وقتاً فوقتاً اُن پر ہوتے رہے ہیں.اس پر ہمارے مبلغ وہاں گئے اور طلباء نے چاہا کہ انہیں عیسائیت کے خلاف منظم کیا جائے.لیکن یہ اسی طرح ہو سکتا ہے کہ ہم مبلغین کو لٹریچر مہیا کریں ، سفر کے لیے اخراجات دیں تا کہ وہ طلباء کو منظم کر سکیں.عیسائیت کا حملہ صرف غیر مسلم ممالک میں ہی نہیں بلکہ مسلم ممالک پر بھی

Page 77

$1955 67 خطبات محمود جلد نمبر 36 عیسائیت کا شدید حملہ ہے اور وہ مسلمانوں کو اسلام سے برگشتہ کر رہی ہے.اس لیے صرف یورپ اور امریکہ میں ہی عیسائیت کے مقابلہ کی ضرورت نہیں بلکہ مسلم ممالک میں بھی عیسائیت کا مقابلہ کرنے کی ضرورت ہے.بعض نادان کہہ دیتے ہیں کہ مسلم ممالک میں مبلغین بھیجنے کی کیا ضرورت ہے ان کے باشندے تو پہلے ہی اسلام کے پیرو ہیں.لیکن وہ لوگ یہ نہیں جانتے کہ مسلمان کہلانا اور بات ہے اور اسلام کی تعلیم پر عمل کرنا اور بات ہے.مسلمانوں نے گزشتہ زمانہ میں اسلام کی تعلیم پر عمل کرنے میں سخت کو تاہی سے کام لیا ہے.اس لیے اگر چہ وہ اپنے آپ کو مسلمان کہتے تھے لیکن ان کے اندر اسلام کے لیے غیرت موجود نہیں تھی.پس اسکے نتیجہ میں لازمی طور پر عیسائیت ترقی کرتی گئی اور اس نے مسلم ممالک میں بھی اپنا جال پھیلا دیا.مسلمان محض نام کے رہ گئے اور تعلیم یافتہ اور جاہل دونوں عیسائیت کا شکار ہو گئے.تعلیم یافتہ اس لیے کہ ان کے افکار پر عیسائیت غالب تھی کی اور جاہل اس لیے کہ اُن کے اقتصاد پر عیسائیت غالب تھی.اس وجہ سے اس کا مقابلہ کرنا ضروری کی ہے.اور اس کے لیے نہ صرف ہمیں غیر مسلم ممالک میں جانا پڑے گا بلکہ مسلم ممالک میں بھی جانا پڑے گا اور لوگوں کے سامنے صحیح اسلامی تعلیم رکھنی پڑے گی.پس جماعت کو اپنی ذمہ داریاں نہیں بھلانی چاہئیں.جب بھی جماعت غفلت سے کام لے گی وہ ریلا جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ السلام نے روکا تھا اور وہ سیلاب جو آ رہا تھا اور اس کے آگے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ السلام نے بند باندھا تھا ٹوٹ جائے گا.اور سیلاب آگے بڑھنا شروع ہو جائے گا.اس سیلاب کو روکنا اور اس کی سے ہوشیار رہنا ہماری جماعت کی اولین ذمہ داریوں میں شامل ہے.“ (الفضل 4/اکتوبر 1961ء)

Page 78

$1955 8 68 68 خطبات محمود جلد نمبر 36 ہمارے پاس ایک ایسا خزانہ ہے جو کسی کے پاس نہیں ہے اور وہ خزانہ دعا کا ہے.اس خزانہ کو مضبوطی سے پکڑو اور ہاتھ سے جانے نہ دو (فرمودہ 15 اپریل 1955ء بمقام ملیر کراچی ) تشہد ،تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا.پرسوں تک تو میں چار پائی پر بیٹھ کر نماز پڑھتا رہا.مگر کل جو لیڈی ڈاکٹر علاج کے لیے آئیں.( میں ان کے والد صاحب مرحوم سے جو مولانا محمد علی صاحب مرحوم اور ڈاکٹر انصاری صاحب کے واقف اور دوست تھے ، سے واقف تھا.انہوں نے اعصابی بیماریوں کے علاج کی تعلیم امریکہ سے حاصل کی ہے.نہایت سنجیدہ اور توجہ سے علاج کرنے کی عادت ہے.اس لیے کرنل سعید صاحب سرجن سندھ نے میری گردن کے علاج کے لیے انہیں بھجوایا تھا.وہ گورنر جنرل کی بھی معالجہ ہیں.اللہ تعالیٰ نے ان کے دل میں کیا ڈالا کہ ) انہوں نے مجھے کہا کہ آپ باہر جا کر نماز پڑھا کریں.میں نے کہا کہ مجھے تو باہر جانے میں کمزوری محسوس ہوتی ہے لیکن انہوں نے کہا کہ آپ کو صرف سیڑھیوں سے اُترنے کی تکلیف ہوگی.لیکن باہر جانے سے آپ کا دل بھی لگے گا اور آپ کی جماعت کے دوست بھی خوشی محسوس کریں گے.پھر انہوں نے اصرار کیا کہ کل جمعہ ہے آپ جمعہ کی نماز بھی پڑھائیں.میں نے کہا مجھے تو گلے کی تکلیف ہے اس لیے میں زیادہ بول بھی

Page 79

$1955 69 خطبات محمود جلد نمبر 36 رو نہیں سکوں گا.لیکن انہوں نے اصرار کیا کہ آپ تھوڑا بولیں اس سے آپ کی جماعت بھی خوش ہوگی اور آپ کی بھی تفریح ہو جائے گی.میں نے بتایا کہ مجھے تو لمبا بولنے کی عادت ہے اور اگر بولنا شروع کروں تو دیر تک بولتا چلا جاتا ہوں.انہوں نے پھر کہا کہ آپ اپنے پاس دونوں طرف و آدمی بٹھا لیں جو تھوڑی دیر کے بعد گرتا سے پکڑ کر آپ کو کھینچ کر بتادیں اور آپ تقریر ختم کر دیں.میں نے کہا یہ کس کو جرات ہو سکتی ہے تو انہوں نے کہا کہ آپ اپنے بیٹوں میں سے کسی کو پاس بٹھالیں.میں نے کہا میں تو اُن کی طرف اگر غضب سے دیکھوں بھی تو وہ پہلے ہی بہت دور بھاگ رہے ہوں گے.لیکن چونکہ انہوں نے پھر بھی اصرار کیا اس لیے میں نے خیال کیا کہ یہ بھی کوئی الہی تحریک ہی ہوگی.اس لیے میں نے ان کی بات مان لی اور فیصلہ کیا کہ میں جمعہ بھی پڑھاؤں گا.کل ظہر اور عصر کی نماز بھی میں نے اسی لئے باہر پڑھائی تھی.بہر حال اس طرح وہ بھی اس کے ثواب میں شریک ہو گئیں اور آپ لوگوں کی بھی خواہش پوری ہوگئی.چند دنوں کے اندر اندر ہم انشاء اللہ چلے جائیں گے.پھر اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ کون.گا اور کون نہیں.میں جاتے ہوئے جماعت کے دوستوں کو نصیحت کرنا چاہتا ہوں کہ ہمارے پاس ایک ایسا خزانہ ہے جو کسی کے پاس نہیں ہے اور وہ خزانہ دعا کا ہے.ہم نے ہمیشہ اس سے پہاڑ اُڑتے اور سمندر خشک ہوتے دیکھے ہیں.اس خزانہ کو مضبوطی سے پکڑو اور ہاتھ سے جانے نہ دو.ورنہ اس کی مثال ایسی ہوگی جیسے کسی کو سونے کی کان ملے اور وہ اُسے چھوڑ کر سمندر کے کنارے گوڑیاں 1 چپنے کے لیے چلا جائے.اب ڈاکٹر صاحب کہتے ہیں کہ وقت ختم ہو گیا ہے اس لیے میں خطبہ ختم کرتا ہوں.اللہ تعالیٰ آپ کا حامی و ناصر ہو.اور ہر حالت میں اور ہر موقع پر اور ہر زمانہ میں آب لوگوں کے ساتھ ہو.“ (الفضل 20 اپریل 1955ء) 1 گوڑی : سمندر کے کیڑوں کے چھوٹے چھوٹے خول.ایک قسم کا چھوٹا صدف جو کسی زمانہ میں خرید وفروخت کے سلسلہ میں سکتے کا کام دیتا تھا، دیہی زیورات میں بھی مستعمل تھا.( اُردو لغت تاریخی اصول پر جلد 15 صفحہ 353.کراچی جون 1993 ء)

Page 80

$1955 70 9 خطبات محمود جلد نمبر 36 الہامات حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام میں میری علالت اور شام کی طرف سفر کرنے کا ذکر (فرمودہ 22 اپریل 1955ء بمقام ملیر کراچی ) تشہد ، تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا.عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ میرا مرض سردی سے زیادہ ہو جاتا ہے.لیکن میرا تجربہ ہے کہ میرا مرض گرمی سے زیادہ ہوتا ہے.چنانچہ عموماً صبح کے وقت تو میری طبیعت اچھی رہتی ہے مگر شام کے وقت گرمی کے بڑھ جانے سے خراب ہو جاتی ہے.یورپ میں تو سخت سردی پڑتی ہے لیکن یہاں تو اب جلد ہی گرمی شروع ہو جاتی ہے جس سے تکلیف بڑھ جاتی ہے.کل شام کو تکلیف اس قدر بڑھ گئی تھی کہ ہاتھ کی مٹھی تک بند کرنا مشکل ہو گیا اور یوں محسوس ہوتا تھا کہ گویا بیماری کا دوبارہ حملہ ہوا ہے.صبح کے وقت چونکہ کچھ آرام ہوتا ہے اس لیے شیخ عبدالحق صاحب انجینئر کو بلا کر آج میں نے کہا ہے کہ وہ عمارت جو سلسلہ کے لیے بن رہی ہے اُس میں ایک دو کمرے ضرور فوراً بنوا دیں تا کہ ہم جب واپس آئیں تو شروع میں کراچی میں کچھ دن ٹھہر سکیں.کیونکہ پنجاب میں ان دنوں میں بھی گرمی ہوتی ہے.اگر ہو سکا تو ہم واپسی پر لاہور تک ایک دفعہ ہوائی جہاز سے ہو آئیں گے تا کہ پنجاب کے دوستوں کو جدائی کی زیادہ تکلیف نہ اٹھانا پڑے اور وہ بھی جلد ملاقات کر سکیں.

Page 81

خطبات محمود جلد نمبر 36 71 $1955 آج رات مجھے شدید تکلیف تھی ہاتھ کی مٹھی تک بند نہ ہوتی تھی اور سر بھی خالی خالی محسوس ہوتا ہے تھا.جس وقت ذرا آرام آیا تو خواہش ہوئی کہ تذکرہ جو حضرت صاحب کے الہامات کا مجموعہ ہے اُسے کی پڑھوں.میں نے اُسے یونہی کھولا اور کسی خاص اندازے کے بغیر ایک جگہ سے پڑھنا شروع کیا.تو میری بیماری اور میرے شام کی طرف سفر کرنے کا بھی اس میں ذکر تھا 1.اسی طرح بنی اسرائیل کے تی آخری زمانہ میں انگریزوں کی مدد سے فلسطین میں داخل ہونے کا بھی ذکر تھا.ان الہامات سے یہ بھی معلوم ہوا کہ یہود کا اس علاقہ میں آنا مسلمانوں اور خصوصاً عربوں کے لیے سخت نقصان دہ ہوگا.مگر یہ بھی معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ ان خطرناک نتائج کو کچھ عرصہ کے لیے ٹلا دے گا.اور پھر اللہ تعالیٰ کی فتح اور نصرت آنی شروع ہوگی.پھر یہ بھی دیکھا کہ اللہ تعالیٰ احمدیت کے پاؤں عرب ممالک میں جما دے گا.گو وہاں مبشرات کے ساتھ منذرات کا بھی ذکر ہے.لیکن اگر اللہ تعالیٰ منذرات کے پہلوؤں کو کم کر دے اور مبشرات کو بڑھا دے تو کوئی تعجب نہیں کہ ہمارا وہاں جانا اسلام ، احمدیت اور عربوں کے لیے مفید ہو.مگر چونکہ حضرت صاحب کے الہامات میں منذرات کا بھی ذکر ہے اس لیے دوستوں کو دعائیں بھی کرنی چاہئیں.ایک وسیع مضمون تھا جو ذہن میں آیا.اب وہ سارا یاد نہیں رہا.اس کے کچھ حصوں پر پھر غور کیا جاسکتا ہے.“ :1 تذکرہ صفحہ 564,563 ایڈیشن چہارم (الفضل 27 اپریل1955ء)

Page 82

$1955 10 272 خطبات محمود جلد نمبر 36 فارسی خودایسی زبان ہے کہ جسے عربی اور اُردو آتی ہو وہ ایک دو ماہ کے اندر اندر آسانی سے اسے سیکھ سکتا ہے (فرمودہ 29 اپریل 1955ء بمقام ملیر کراچی ) تشہد ، تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا.اس بیماری میں دو نقص اور پیدا ہو گئے ہیں.ایک تو میرے بائیں کان کی شنوائی بہت کم ہوگئی ہے اور بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ کوئی شخص مجھ سے بات کر رہا ہوتا ہے اور بات کر کے چلا بھی جاتا ہے لیکن میں پھر بھی بات کرتا رہتا ہوں اور اُس کے پاؤں کی آہٹ یا کپڑوں کی سرسراہٹ تک محسوس نہیں کرتا یہاں تک کہ میری بیوی یا بچے مجھے بتاتے ہیں کہ وہ تو چلا گیا ہے.اسی طرح بائیں آنکھ کی نظر میں بھی اثر پڑا ہے.جب میں کسی چیز کو دیکھتا ہوں تو یوں معلوم ہوتا ہے جیسے اُس کا بائیں طرف کا حصہ غائب ہے اور ایک طرف کا حصہ نظر آتا ہے.اترسوں کی بات ہے میں نے رویا میں دیکھا کہ ایک مکان اس طرز کا ہے جیسے یہاں دو منزلہ مکان چھوٹے چھوٹے ہوتے ہیں.میں اُس مکان کے اوپر کے ایک حصہ میں ہوں.میرے ساتھ ایک اور شخص بھی ہے جسے میں جانتا نہیں.میں نے دیکھا کہ مکان کے نیچے ایک کمرے میں ڈاکٹر اقبال مرحوم اور شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی دونوں باتیں کر رہے ہیں اور فارسی اشعار

Page 83

خطبات محمود جلد نمبر 36 73 $1955 ایک دوسرے کو سنارہے ہیں.اتنے میں ایک شخص آیا اور اُس نے ایک رقعہ لا کر مجھے دیا اور کہا کہ یہ رقعہ سرا قبال کا ہے.اس میں انہوں نے لکھا ہے کہ چونکہ آپ کے خاندان کی زبان فارسی ہوا کرتی تھی اس لئے اگر آپ کا فارسی میں کوئی کلام ہو تو بھجوائیں.اس سے مجھے شرمندگی ہوئی کہ ہمارے بچپن میں تو ہمارے گھر کی مستورات بھی فارسی بولا کرتی تھیں لیکن اب ایسا نہیں ہے.اسکی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ حضرت خلیفتہ امسیح الاول فارسی کے سخت مخالف تھے گو میں نے مثنوی مولا نا تج روم اُن سے سبقاً پڑھی ہے.لیکن وہ فرمایا کرتے تھے کہ مجھے فارسی سے اس لئے سخت بغض ہے کہ اس نے عربی زبان کی جگہ لے لی ہے اور اُسے تباہ کر دیا ہے.چونکہ وہ ہمارے استاد تھے اور استاد کا اثر طبعا ہوتا ہے اس لیے فارسی کی طرف مجھے بھی چنداں رغبت نہیں ہوئی.ورنہ فارسی خود ایسی زبان ہے کہ جسے عربی اور اردو آتی ہو وہ ایک دو ماہ کے اندراندر ہی آسانی سے اسے سیکھ سکتا ہے.اسی طرح حضرت صاحب بھی فرمایا کرتے تھے کہ فارسی زبان ہمارے گھر میں بولی جاتی تھی اور گھر کے افراد فارسی میں خط و کتابت کیا کرتے تھے.ایک دور فعے حضرت صاحب کے بھی ایسے ملے ہیں جو فارسی میں ہیں.اسی خیال سے میں شرم محسوس کرتا ہوں کہ سرا قبال نے کہا ہے کہ آپ کے گھر میں فارسی بولا کرتے تھے اس لئے میں آپ کو لکھ رہا ہوں کہ آپ فارسی میں کوئی کلام بھیجیں.یہ مجھے یاد نہیں کہ کلام حضرت صاحب کا ہو یا میرا.چنانچہ میں نے معذرت سی کر کے بھیجوا دی اور اس کے بعد میں نیچے اترا.میں نے دیکھا کہ شیخ یعقوب علی صاحب ایک پہلو میں ہیں اور دوسرے میں سرا قبال مرحوم بیٹھے ہوئے ہیں.ڈاکٹر اقبال کی وہی شکل تھی جو 1930 ء، 1931ء میں میں نے دیکھی تھی یعنی مضبوط چہرہ تھا اور رنگ میں صفائی تھی.میں نے اُن کو دیکھا تو ایک اور شخص جو احمدی ہے میرے سامنے آیا.میں نے اُس سے پوچھا کہ یہ کیا باتیں کر رہے تھے؟ اُس نے بتایا کہ سرا قبال اپنے فارسی کے اشعار شیخ یعقوب علی صاحب کو سنا رہے تھے اور شیخ یعقوب علی صاحب پرانے شاعروں کا کلام اور قرآن مجید انہیں سنا رہے ہیں.میں نے اُس سے پوچھا کہ ڈاکٹر صاحب کو شیخ صاحب کا قرآن شریف پڑھنا کیسا پسند آیا.تو اُس نے کہا کہ شیخ صاحب کی آواز میں جولوچ 1 ہے اس کی وجہ سے انہوں نے اُن کے اشعار کو تو پسند کیا ہے.لیکن اُن کے قرآن شریف پڑھنے سے وہ اتنے متاثر نہیں ہوئے.

Page 84

$1955 74 خطبات محمود جلد نمبر 36 میں نے سمجھا کہ اس رویا میں اقبال کا لفظ بھی جماعتی لحاظ سے اچھا ہے.اس میں ترقی کی طرف اشارہ ہے.یعقوب سے بھی میں نے یہی خیال کیا.حضرت صاحب کے کئی الہامات میں کی مجھے یوسف کہا گیا ہے.فارسی کے لحاظ سے میں نے سمجھا کہ شاید اس سفر میں فارسی ملک کے لوگوں سے یاکسی فارسی دان سے روابط پیدا ہو جا ئیں.آج مجھ سے دوستوں نے خواہش کی تھی کہ باہر مسجد میں جا کر جمعہ کی نماز پڑھاؤں.لیکن میری طبیعت اتنی کمزور ہے کہ ذرا سا چلنے سے بھی چکر آجاتا ہے.بعض باتوں میں ترقی ہوئی ہے لیکن جب گرمی بڑھ جاتی ہے تو طبیعت سخت خراب ہو جاتی ہے.اب بھی گرمی بڑھ گئی ہے اور میں نے شکر کیا کہ ڈاکٹروں نے مجھے جانے سے منع کر دیا تھا ورنہ تکلیف ضرور بڑھ جاتی.اب میرا دماغ کچھ کام کرنے لگ گیا ہے.نمازوں وغیرہ میں پہلے تو ڈر رہتا تھا کہ بھول نہ جاؤں لیکن اب ایسا کم ہوتا ہے.کوشش اور ذرا توجہ سے رکعتیں بھی یاد رہتی ہیں اور سورتیں بھی.خیالات میں بھی اسی قسم کا تسلسل پیدا ہو گیا ہے.جیسے ایک بات کے ذہن میں آنے سے اُس کے متعلق دوسری باتیں بھی خود بخود ذہن میں آجاتی ہیں.مثلاً سرا قبال کا نام آیا تو اُس وقت کے سارے واقعات ذہن میں آگئے کہ اس طرح ہم بیٹھے تھے اور فلاں جگہ وقت گزارا تھا.جس کے معنی یہ ہیں کہ دماغ کچھ کام کرنے لگ گیا ہے.لاہور میں ڈاکٹروں نے کہا کہ دماغ کی کیفیت بھی بولنے والے آلے کی طرح ہوتی ہے جس میں Reeling اور Dereeling ہوتی ہے.جب دماغ کو کچھ آرام مل جاتا ہے تو اس میں خیالات کا تسلسل بھی خود بخود شروع ہو جاتا ہے.آنکھوں پر ابھی تک کوئی اچھا اثر نہیں پڑا.دومنٹ بھی پڑھوں تو معلوم ہوتا ہے کہ جیسے کسی نے نرو ( NERVE) کھینچ لی ہے.بالکل اُسی طرح جیسے مرغے کی ٹانگ کٹی ہوئی ہو تو اُس کے پیچے کی رگ پکڑ کر کھینچی جاتی ہے.اس سے درد شروع ہو جاتا ہے.چنانچہ عام طور پر میں اخبار بھی پڑھوا کر سن لیتا ہوں.اس نقص میں ابھی کوئی زیادہ فائدہ نہیں ہوا.شنوائی میں تھوڑ اسا فائدہ ہوا ہے.چلنے میں بھی کافی فائدہ ہوا ہے.اگر صحت ٹھیک ہو تو آدھ یا پاؤ میل چل سکتا ہوں.گو اس سے تکان ضرور ہو جائے گی.“ غیر مطبوعہ مواد از ریکارڈ خلافت لائبریری ربوہ ) 1 : کوچ نرمی، ملائمت ، گدازین، نزاکت (اُردو لغت تاریخی اصول پر جلد 16 صفحہ 946 کراچی جون 1994 ء)

Page 85

$1955 15 75 11 خطبات محمود جلد نمبر 36 ہمیں دعا کرنی چاہیے کہ جس غرض کے لئے ہم آئے ہیں اللہ تعالیٰ اُس کو پورا کرے فرموده 13 مئی 1955ء بمقام زیورچ ) تشہد ، تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا." ہم نے ایک مجبوری کی وجہ سے یورپ کا سفر اختیار کیا ہے.لیکن ہمیں اس کو یاد رکھنا چاہیے کہ لاکھوں آدمی پاکستان میں ہمارا انتظار کر رہا ہے اور بے تابی کے ساتھ ہمارا منتظر ہے.ہمیں دعا کرنی چاہیے کہ جس غرض کے لئے ہم آئے ہیں اللہ تعالیٰ اس کو پورا کرے.ساتھ ہی یہ بھی دعا کرنی چاہیے کہ وہ جلد ہمیں واپس لے جائے تا اُن لوگوں کی تکلیف کا ازالہ ہو جو ہمارا انتظار کر رہے ہیں اور اللہ تعالیٰ اُن کے دلوں پر مرہم رکھے.“ ( الفضل 26 مئی 1955ء)

Page 86

$1955 76 76 12 خطبات محمود جلد نمبر 36 دنیا میں امن کے قیام اور کمیونزم کے مقابلہ کے لئے سارے گر سورۂ فاتحہ میں موجود ہیں فرموده 20 مئی 1955ء بمقام زیورچ ) تشہد ،تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا.چند سال ہوئے کہ میں ایک دفعہ برف دیکھنے کے لئے ڈلہوزی گیا.وہاں پر میں دو پہر کے وقت تھوڑی دیر کے لئے بیٹھا تو مجھے الہام ہوا کہ دنیا میں امن کے قیام اور کمیونزم کے مقابلہ کے لیے سارے گر سورۂ فاتحہ میں موجود ہیں“.مجھے اس کی تفسیر سمجھائی گئی جو عرفانی طور پر تھی نہ کہ تفصیلی طور پر.عرفان کے معنے یہ ہیں کہ دل میں ملکہ پیدا کر دیا جاتا ہے.لیکن وہ تفصیل الفاظ میں نہیں نازل ہوتی.کچھ دنوں کے بعد دوستوں سے اس کا ذکر آیا اور وہ پوچھتے رہے کہ اس کی کیا تفسیر ہے.میں نے کہا کہ میں کبھی اس کے متعلق مفصل رسالہ لکھوں گا.خصوصاً جب مخالف دعوی کرے کہ اُس کے پاس اِن دونوں کا جواب موجود ہے.لیکن خدا تعالیٰ کی مشیت تھی کہ مجھے اب تک یہ رسالہ لکھنے کا موقع نہ ملا.اب جبکہ میں بیمار ہو گیا ہوں اور بظاہر اس کا موقع ملنا مشکل ہے میں نے مناسب سمجھا کہ خواہ اشارہ ہی چند الفاظ میں ہو میں اس کا مضمون بیان کرتا رہوں تا وہ علماء کے کام آئے اور وہ اس سے فائدہ اٹھا سکیں.

Page 87

$1955 77 خطبات محمود جلد نمبر 36 پہلی بات سورہ فاتحہ کی پہلی آیت اَلْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعَلَمِيْنَ 1 میں بیان کی گئی ہی ہے.اس میں بتایا گیا ہے کہ سب تعریفیں اللہ تعالیٰ کے لئے ہی ہیں اور اس کی وجہ آیت کے پچھلے حصہ میں بتائی گئی ہے کہ وہ رب العالمین ہے.یعنی تمام کے تمام افراد کے ساتھ اس کا سلوک ربوبیت کا ہے.طبیعت کی کمزوری کی وجہ سے ربوبیت اور عالمیت کے متعلق کچھ نہیں کہہ سکتا.موٹا مفہوم مختصر یہ ہے کہ ہر قسم کی مدح کا وہی مستحق ہوتا ہے اور ہر قسم کی مدح لوگ اُس کی کرتے ہیں جس کی ربوبیت کسی خاص قوم اور فرقہ سے تعلق نہیں رکھتی بلکہ وسیع ہوتی ہے.مثلاً امریکہ اور روس کی حکومت ہے.امریکہ اپنے آپ کو ڈیما کریمی کا لیڈر سمجھتا ہے اور روس اپنے آپ کو عوامی تحریکوں کا لیڈر سمجھتا ہے.لیکن اگر دونوں کو دیکھا جائے تو امریکنوں کی ساری طاقت امریکنوں کی ترقی پر خرچ ہوتی ہے اور روسیوں کی ساری طاقت روسیوں کی ترقی پر خرچ ہوتی ہے.روس اُن لوگوں کے لیے کچھ نہیں کرتا جو دنیا کے دُور کناروں پر بس رہے ہیں اور دنیا کی تمام آسائشوں سے محروم ہیں.اور نہ امریکہ اس بارے میں کچھ کرتا ہے.روس کرتا ہے تو یہی کہ اپنے خیالات دوسرے لوگوں میں پھیلا دیتا ہے تا وہ لوگ اپنی حکومت کے خلاف کھڑے ہو جائیں.اس طرح اگر امریکن دوسرے لوگوں کو امداد دیتے ہیں تو اس میں بھی ان کے اپنے فوائد مد نظر ہوتے ہیں.اگر اس امداد سے وہ ملک اپنے حالات کو درست بھی کر لے تو پھر بھی یہ نہیں کہا جا سکے گا کہ امریکہ نے دوسرے لوگوں کی مدد کی.بلکہ وہ بھی ان کی اپنی ہی مدد ہو گی.اسی طرح روس بھی ہر دوسرے ملک کو مدد دیتے وقت اپنے فوائد کو بھی ملحوظ رکھتا ہے نہ کہ عوام الناس کے فوائد کو حقیقی مدح اُس وقت ہوتی ہے جب بغیر غرض کے لوگوں کو اونچا کیا جائے.جیسے اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ تمہاری عبادتیں مجھے فائدہ نہیں پہنچاتیں اور تمہاری قربانیوں کا گوشت مجھے نہیں پہنچتا بلکہ تم یا تمہارے ہمسائے کھاتے ہیں.مجھے صرف تمہارے دل کی صفائی کی ضرورت ہے 2.حقیقی تعریف کی مستحق وہی حکومت ہوگی جو اس آیت کے ماتحت نظام چلائے گی اور وہی ٹھیک امن قائم کر سکے گی.مثلاً اگر روس بغیر اپنا رسوخ قائم کرنے کے صرف غرباء کو اٹھانے کے لیے روپیہ خرچ کرے تو یقیناً روس کی سچی محبت قائم ہوگی.لیکن موجودہ حالات میں حقیقی محبت قائم نہیں ہوتی.جس کو امریکہ سے فائدہ پہنچ جاتا ہے وہ اُس کی تعریف کرتا ہے جس کو روس سے فائدہ پہنچ جاتا ہے.وہ

Page 88

$1955 78 خطبات محمود جلد نمبر 36 اُس کی تعریف کرتا ہے.نہ یہ فائدہ مکمل نہ یہ تعریف کامل.کامل تعریف اُس وقت ہوتی ہے جب اَلْحَمْدُ لِلهِ پر عمل کیا جائے.سورۂ فاتحہ میں تمام گر بیان کئے گئے ہیں.سب سے پہلا موٹا گر یہ بیان کیا ہے کہ خدمت خلق کرو اور بلا غرض اور بلا ذاتی فائدہ کی خواہش کے خدمت کرو.اگر ایسا کرو گے تو ہر شخص تمہاری تعریف کرے گا.لیکن اگر کوئی صرف کی ایک طبقہ کو اٹھانے کی کوشش کرتا ہے تو وہی طبقہ اُس کی تعریف کرے گا.مثلاً کوئی حکومت لیبر کو اٹھاتی ہے تو لیبر ہی اُس کی تعریف کریں گے.بڑے اور درمیانہ درجہ کے نہیں کریں گے.اور اگر کوئی حکومت درمیانہ اور بڑے درجہ کو اٹھانے کی کوشش کرے تو یہ طبقے ہی تعریف کریں گے لیبر صلى الله نہیں کریں گے.کیونکہ وہ حکومت رب العالمین نہیں بلکہ فرقہ اور جماعت کی رب ہے.حقیقی حکومت وہی ہے جو تمام طبقوں کو بلکہ قوم کو بھی بھلا دے.کیا اس تعلیم پر عمل کرنے کے بعد دنیا میں امن کے مٹنے کا شائبہ بھی ہو سکتا ہے؟ اور کیا کوئی ایسی قوم کا دشمن بھی ہوسکتا ہے.دوسرے وجوہ سے دشمن ہو جائے تو ممکن ہے لیکن اس فعل کی وجہ سے دشمن نہیں ہو سکتا.رسول کریم ہے نے اس پر عمل کیا لیکن پھر بھی بعض لوگ آپ کے دشمن ہیں.مگر اس وجہ سے نہیں کہ آپ نے غریبوں کو کیوں اونچا کیا بلکہ مذہبی تعصب کی وجہ سے.اس لیے کہ آپ نے نماز ، روزہ ، حج اور زکوۃ کی کیوں تعلیم دی.اسی طرح اگر آج لوگ احمدیت کے دشمن ہیں تو اس وجہ سے نہیں کہ احمدی یتیموں کی پرورش کرتے ہیں ، غریبوں کی امداد کرتے ہیں اور بیواؤں سے حسن سلوک کرتے ہیں اور خدام الاحمدیہ ہر ایک کی مدد کرتے ہیں.بلکہ اس لیے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ السلام نے مسیح موعود ہونے کا دعویٰ کیا.ایسا مخالف شقی القلب ہے جس کا کوئی علاج نہیں." (الفضل 31 مئی 1955ء) 1: الفاتحة: 2 : لَنْ يَنَالَ اللهَ لُحُومُهَا وَلَا دِمَاؤُهَا وَلَكِن يَنَالُهُ التَّقْوَى مِنْكُمْ (الج:38)

Page 89

$1955 79 13 خطبات محمود جلد نمبر 36 سورۃ فاتحہ میں اشتراکیت اور سرمایہ داری کے جھگڑے کے استیصال اور دنیا میں امن قائم کرنے کے گر بتائے گئے ہیں (فرموده 27 رمئی 1955ء بمقام زیورچ سوئٹزرلینڈ ) تشهد ، تعوذ اورسورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا.جمعہ کی نماز سے پہلے چار سنتیں ہوتی ہیں جو امام کے آنے سے پہلے پڑھنی چاہئیں.اگر امام آجائے اور خطبہ شروع کر دے تو پھر دوسنتیں ہوتی ہیں اور باقی دو بعد میں پڑھنی چاہیں.میں نے پچھلے خطبہ میں بیان کیا تھا کہ مجھے رویا میں بتایا گیا کہ سورۂ فاتحہ میں دنیا کے امنا کمیونزم اور کیپٹلزم کے جھگڑے کے استیصال کے گر بتائے گئے ہیں.اور میں نے سب سے پہلے سورۃ فاتحہ کی پہلی آیت اَلْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ الرَّحْمَنِ الرَّحِيْمِ 1 سے ایک نسخہ بیان کیا تھا اور بتایا تھا کہ اللہ تعالیٰ کے لیے جو الحمد کہا گیا ہے تو وجہ بھی بیان کی ہے کہ وہ ب العالمین ہے.جب تک کوئی شخص رب العالمین نہ ہو چاہے اپنی پارٹی کے ساتھ وہ کتنا ہی اچھا سلوک کیوں نہ کرتا ہو وہ اَلْحَمْدُ کا مستحق نہیں ہو سکتا.الْحَمدُ کا مستحق وہی ہو سکتا ہے جو پارٹیوں سے بالا ہو اور ہر قوم اور ملت سے اس کا

Page 90

$1955 80 خطبات محمود جلد نمبر 36 سلوک انصاف اور رحم والا ہو.اس سلسلہ میں میں نے بتایا تھا کہ رسول کریم ہے تو اس صفت کے ظاہر کرنے میں سب سے بالا تھے.لیکن آپ پر بھی اعتراض ہوئے.لیکن وہ اعتراض اس قسم کے نہیں تھے جو معقول ہوں بلکہ غیر معقول اعتراض تھے جو اپنی ذات میں اس بات کی گواہی دے رہے تھے کہ یہ چسپاں نہیں ہوتے.میں آج اس سلسلہ میں ایک مثال بیان کرتا ہوں.رسول کریم ﷺ کا سب سے بڑا دشمن ابو سفیان تھا.جب آپ نے ہر قل کو خط لکھا تو ہر قل بادشاہ نے کہا کہ دیکھو جس شخص نے خط لکھا ہے اُس کی قوم کے کئی لوگ اس ملک میں ہیں.تو معلوم ہوا کہ ابوسفیان ان دنوں اپنے قافلہ سمیت تجارت کے لیے آیا ہوا ہے.جب اُس کو پتا لگا تو اُس نے ابوسفیان اور اُس کے ساتھیوں کو بلایا اور ابو سفیان کو آگے کھڑا کیا اور اس کے ساتھیوں کو پیچھے اور کہا کہ دیکھو میں بادشاہ ہوں میرے سامنے جھوٹ بولنا بڑا سخت سزا کا مستوجب بنا دیتا ہے.میں اس سے سوال کروں گا اگر یہ کسی وقت جھوٹ بولے تو فوراً مجھے بتادینا کہ جھوٹ بولا ہے.ابوسفیان کہتا ہے کہ اُس نے پہلے مجھ سے یہ سوال کیا کہ بتاؤ کہ نبوت کے دعوئی سے پہلے اس شخص کے اخلاق کیسے تھے؟ تو میں نے کہا کہ بڑے اچھے تھے.تو اُس نے کہا میں نے یہ سوال اس لئے کیا تھا کہ نبوت کے دعوی کے بعد تو تمہاری دشمنی ہوگئی.پس دعوی سے پہلے کی گواہی ہی گواہی ہو سکتی ہے.بعد کی گواہی تو دشمنی کے ماتحت ہوگی.پھر اُس نے پوچھا کہ جب اس نے دعوی کیا تو اس دعوی کرنے کے بعد تم نے اس کا رویہ کیسا دیکھا ؟ کیا اس نے کبھی تم سے جھوٹ بولا ؟ تو وہ کہنے لگا کہ نہیں اس کے ساتھ ہمارے کئی معاہدے ہوئے ہیں کبھی اس نے وعدہ شکنی نہیں کی.لڑائیوں کے بعد جب بھی معاہدہ ہوا اس نے اُسے پورا کیا ہے.تو آب گویا یہ ایک شدید ترین دشمن کی گواہی ہے جو درحقیقت انعامات کا مستحق نہیں ہوتا بلکہ سزا کا مستحق ہوتا ہے.اس لئے اس کو شکوہ زیادہ پیدا ہوسکتا ہے.اور بہت ممکن تھا کہ وہ اعتراض کرتا بلکہ وہ خود بھی کہتا ہے کہ میرے دل میں خیال آیا کہ میں جھوٹ بول کر اعتراض کروں.مگر چونکہ بادشاہ نے میرے پیچھے ساتھی کھڑے کئے ہوئے تھے میں ڈرا کہ اگر میں نے جھوٹ بولا تو انہوں نے بول پڑنا ہے کہ اس نے جھوٹ بولا ہے 3.اسی طرح آپ نے ایک دفعہ اموال غنیمت تقسیم کئے تو ایک شخص بولا تِلْكَ قِسْمَةٌ

Page 91

$1955 81 خطبات محمود جلد نمبر 36 مَا أُرِيدَ بِهَا وَجُهُ الله A یعنی یہ ایسی تقسیم تھی جس میں خدا تعالیٰ کی رضا کو مدنظر نہیں رکھا گیا.اب یہ ایک اعتراض ہے مگر سوال تو یہ ہے کہ وہ تقسیم جس میں خدا تعالیٰ کی رضا کو مدنظر نہ رکھا جائے چند قسم کی ہو سکتی ہے.مثلاً ایسی تقسیم کہ اپنے آپ انسان مال کھا جائے.یا ایسی تقسیم جس میں رشتہ داروں کو مال دے دے.یا ایسی تقسیم کہ جس نے اعتراض کیا ہے اس کا حق مارا جائے.تبھی وہ غلط ہوسکتی ہے.لیکن اُس نے ایک مثال بھی پیش نہیں کی.آب بکواس کرنے کو تو ہر شخص بکواس کر سکتا ہے.لیکن سوال تو یہ ہے کہ جب اُس نے کہا کہ مَا يُرِيدُ بِهَا وَجُهُ اللهِ تو کیا اُس نے کوئی مثال پیش کی کہ میرا حق مجھے نہیں دیا ؟ یا کیا اُس نے یہ مثال پیش کی کہ آپ نے اپنا حصہ اتنا نکال لیا جو جائز نہیں تھا یا اپنے رشتہ داروں کو اتنا مال دے دیا جو جائز نہیں تھا ؟ کوئی ایک مثال پیش نہیں کی.اس کا مطلب یہ ہے کہ اس کے فقرہ نے ہی بتا دیا کہ وہ جھوٹا الزام لگا رہا تھا.ورنہ ان تینوں مثالوں میں سے کوئی مثال تو بتاتا جس میں ناجائز سلوک ہوتا ہے.یا یہ بتا تا کہ آپ نے مال زیادہ لے لیا یا یہ کہ اپنے رشتہ داروں کو مال دے دیا جس کے وہ مستحق نہیں تھے.یا یہ کہ میں مستحق تھا مجھے نہیں دیا.تو نہ رشتہ داروں کی مثال پیش کرتا ہے اور نہ اپنی مثال پیش کرتا ہے جس سے ثابت ہو کہ اُس کا اعتراض معقول تھا.پس پتا لگا کہ وہ در حقیقت رسول کریمہ کی رب العالمین والی ظلی صفت پر اعتراض نہیں کرتا بلکہ محض اپنی حماقت کا اقرار کرتا ہے.تو اس قسم کے اعتراضات رسول کریم ہے کے طلب رب العالمین ہونے کو زیادہ ثابت کرتے ہیں.اگر واقع میں کوئی غلطی کی ہوئی تھی تو وہ بتا تا کیوں نہ کہ یہ غلطی ہوئی ہے.اُس کا نہ بتا نا یہ ثابت کرتا ہے کہ وہ بھی جانتا تھا کہ آپ رب العالمین ہیں اور میں اعتراض کر ہی نہیں سکتا.نہ میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ میرا حق نہیں دیا کیونکہ جھوٹا بنوں گا.نہ یہ کہ سکتا ہوں کہ اپنے رشتہ داروں کو دے دیا ہے.نہ یہ کہ حضور نے خود لے لیا.کیونکہ لوگ کہیں گے کہ بتاؤ تو سہی کہاں لے لیا.گو اس کا اپنا فقرہ ہی یہ بتاتا ہے کہ وہ حضور کو صفت رب العالمین کا ظل سمجھا ہے.اس لیے اعتراض کا ہونا اس بات کی علامت نہیں کہ آپ الْحَمدُ کے مستحق نہیں.وہ اعتراض اتنا غیر معقول تھا کہ اپنی ذات میں ثابت کر رہا تھا کہ آپ رب العالمین کے ظل ہیں اور اس لیے آپ اَلْحَمْدُ لِلهِ کے بھی ظل ہیں اور ہر قسم کی

Page 92

$1955 82 88 خطبات محمود جلد نمبر 36 تعریفوں کے مستحق ہیں.“ ::1: الفاتحة:3،2 (الفضل 16 جون 1955ء) 2 ، 3 بخارى كتاب بدء الوحى باب كيف كَانَ بدء الوحي إلى رَسُول الله الا الله 4 بخاری کتاب فرض الخمس باب ما كَانَ النَّبِيُّ صلى الله عليهِ وَسَلَّمَ يُعْطِي الْمُؤلَّفَةَ قُلُوبهمْ میں یہ الفاظ ہیں " إِنَّ هَذِهِ الْقِسْمَةَ مَا عُدِلَ فِيْهِ وَ مَا أُرِيدَ بِهَا وَجُهُ الله "

Page 93

83 $1955 14 خطبات محمود جلد نمبر 36 اگر دنیا قرآن مجید کے بتائے ہوئے اصولوں پر عمل کرے تو سارے جھگڑے ختم ہو جائیں فرموده 3 جون 1955ء بمقام زیور چ1) تشہد، تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا.” میں نے اِن دنوں جمعہ کا خطبہ ایک پرانی خواب کی بناء پر اس بات پر دینا شروع کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اچھی گورنمنٹ جس کی ہر شخص دنیا میں تعریف کرے اور جو کیپٹلزم کا بھی مقابلہ کر سکے اور کمیونزم کا بھی مقابلہ کر سکے اُس کے گر سورہ فاتحہ میں بتائے ہیں.اور یہ مجھے ڈلہوزی کے مقام پر آج سے چودہ پندرہ سال پہلے ایک سیکنڈ میں کرسی پر بیٹھے ہوئے ایک فرشتہ نے سنائے کہ یہ خدا تعالی نے گر بتائے ہیں جن سے دونوں قسم کی حکومتوں کا مقابلہ کیا جا سکتا ہے اور کلی امن قائم کیا جاسکتا ہے.اور وہی گورنمنٹ کامل تعریف کی مستحق ہوگی اور دشمنوں سے آزاد ہوگی.جو اس تعلیم پر عمل کرے گی.اور اس میں اللہ تعالیٰ نے یہ بتایا کہ خدا تعالیٰ کی حکومت کن اصولوں پر قائم رہے اور اسی لئے فرمایا کہ اَلحَمدُ لِلهِ 2 سب تعریفیں ، سب تعریفوں کے معنے ہیں سب قسم کی تعریفیں اور تمام لوگوں کی تعریفیں.تو گل لوگوں کی تعریفیں خواہ وہ اُس کے ماننے والے ہوں یا نہ ماننے والے ہوں اور خواہ وہ کسی ملک اور زمانہ کے رہنے والے ہوں.اور پھر کسی ایک چیز کی

Page 94

خطبات محمود جلد نمبر 36 84 $1955 تعریف نہیں بلکہ ہر قسم کی تعریف اللہ تعالیٰ کو حاصل ہے.کیوں؟ اس لئے کہ وہ رب العالمین ہے، بر ملک وملت کی ربوبیت کرتا ہے اور ہر مذہب و دین کے ماننے والوں سے نیک سلوک کرتا ہے اگر کوئی گورنمنٹ اس اصول پر چلے یعنی اُس کا فائدہ صرف اُس کے باشندوں کو نہ پہنچے بلکہ دوسری قوموں کا بھی وہ خیال رکھے اور صرف ایک خاص قسم کے گروپ کا خیال نہ رکھے.جیسا کہ کمیونزم والے لیبر کا ہی خیال رکھتے ہیں یا امریکہ والے کیپٹلسٹ کا ہی زیادہ خیال رکھتے ہیں.بلکہ اس کے قوانین اور کوششیں ادنی اقوام اور غریبوں کی پرورش کے لئے بھی ہوں اور انہیں اونچا کرنے والی ہوں اور امیروں کو بھی اپنی طاقت اپنے علم کے مطابق اور اپنے ذرائع کو استعمال کر کے فائدہ اٹھانے کے مطابق ہوں تو ایسی ہستی کی سارے تعریف کرتے ہیں.اس کی تعریف مزدور طبقہ بھی کرے گا کہ وہ اُس کا بھی فائدہ کر رہی ہے اور مالدار طبقہ بھی کرے گا کہ وہ اُس کا بھی فائدہ کر رہی ہے.جب کوئی حکومت سارے ملکوں کی خدمت کرے گی تو صرف روس اور امریکہ ہی اس کی تعریف نہیں کرے گا بلکہ ہندوستان والے بھی کریں گے، پاکستان والے بھی کریں گے ، امریکہ والے بھی کریں گے، روس والے بھی کریں گے، جرمنی والے بھی کریں گے.کیونکہ اس کا فائدہ باہر کے لوگوں کو بھی پہنچے گا.آج میں دوسری آیت کو لیتا ہوں یعنی الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ 3 کو.فرمایا کہ خدا تعالیٰ کی تعریف اس لئے ہے کہ وہ رحمان اور رحیم ہے.جو رحمان اور رحیم ہوگا وہ ساری قوموں کی تعریف کا مستحق ہوگا.رحمن کے معنی قرآن کریم کی رو سے یہ معلوم ہوتے ہیں.یعنی اُس استعمال کی رو سے جو قرآن کریم نے اس لفظ کا کیا ہے.اس کی رُو سے یہ معنے ہیں کہ جس نے کوئی نیک کام اور کوئی خدمت نہ کی ہو اُس کے ساتھ بھی حسنِ سلوک کرنے والا.اور جس کے پاس کچھ نہ ہو اُسے وہ ذرائع مہیا کر کے دینے والا ہو جن ذرائع کی وجہ سے وہ اعلیٰ ترقی حاصل کر سکے.اور رحیم کے معنی یہ ہیں کہ ہر شخص جو کام کرتا ہے اُس کے کام کا بدلہ متواتر جاری رہے.دنیا میں اس کی مثال پینشن میں ملتی ہے.یعنی ایک آدمی نوکری کرتا ہے پھر بیس بائیس چالیس سال کے بعد وہ گورنمنٹ کا کام چھوڑ دیتا ہے تو اُس کو پنشن مل جاتی ہے.رحیم کا یہی مطلب ہے کہ جب کوئی شخص نیک کام کرتا ہے تو اس کا بدلہ جاری رکھتا ہے.بار بار دیتا ہے.تو پنشن ایک ادنیٰ مثال ہے.

Page 95

$1955 85 خطبات محمود جلد نمبر 36 قرآن کریم کی رو سے رحیمیت کے معنی پنشن سے بہت زیادہ ہیں کیونکہ پنشن تنخواہ سے آدھی ہوتی ہے.بعض دفعہ وہ گزارہ کے لئے کافی نہیں ہوتی.یا پھر بڑھاپے میں جو امداد دی جاتی ہے وہ بھی گزارہ کے لئے کافی نہیں ہوتی کہ انسان آرام سے بڑھاپے میں گزارہ کر سکے.صرف اتنا ہی ہوتا ہے جو اُس کو مانتا ہے.مگر قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جو لوگ اللہ تعالیٰ کے دین کی خدمت کریں گے یا اللہ تعالیٰ کے ساتھ تعلق پیدا کریں گے انہیں جنت ملے گی 4 اور جنت کے متعلق خدا تعالیٰ فرماتا ہے.لَهُمْ فِيهَا مَا يَشَاءُونَ 5 نیز فرماتا ہے وَلَكُمْ فِيهَا مَا تَدْعُونَ 6 کچھ ان کے دل میں خواہش پیدا ہوگی یا زبان پر آئے گی وہ انہیں مل جائے گی.بعض دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ دل میں ایک خواہش پیدا ہوتی ہے لیکن انسان اُس کو زبان پر لانے کی جرات نہیں کرتا.وہ کی سمجھتا ہے کہ یہ بہت بُرا مطالبہ ہے.تو با وجود دل میں خواہش ہونے کے چونکہ وہ بیان نہیں کرتا اس لئے وہ پوری نہیں ہوتی.اور بعض دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ انسان منہ سے ایک بات کہتا ہے لیکن دل میں جانتا ہے کہ یہ میرا حق نہیں.اس لیے اللہ تعالیٰ نے دونوں معنے بیان فرما دیے کہ جنت میں لَهُمُ فِيهَا مَا يَشَاءُونَ بھی ہوگا اور وَلَكُمْ فِيهَا مَا تَدْعُونَ بھی.یعنی جو دل میں خواہش ہوگی وہ تو بھی پوری ہو جائے گی اور جو منہ سے بیان ہوگی وہ بھی پوری ہو جائے گی.پھر ہوسکتا ہے کہ (جنت کی ضروریات کا علم انسان کو یہاں تو نہیں ہوتا ) انسان وہاں ایسی چیزیں مانگے جو اچھی ہوں اور اس کو مل جائیں گی لیکن وہ نا واقفی میں یہ نہ سمجھتا ہو کہ وہ اسکے بیوی بچوں کے لئے بھی کافی ہوں گی یا نہیں.تو قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جو کوئی مومن جس درجہ کا مستحق ہوگا اُس کے بیوی بچے اور اولاد اور ساتھی بھی وہیں رکھے جائیں گے 7.گویا نہ صرف اُس کے ساتھ یہ سلوک کیا جائے گا کہ اُس کی ضرورتیں پوری کی جائیں گی بلکہ اس کے ساتھ تعلق رکھنے والے دوست رشتہ داروں کی ضرورتیں بھی پوری کی جائیں گی.اب دیکھ لو پینشن کا اس کے ساتھ کوئی مقابلہ نہیں.پھر فرماتا ہے کہ جنت ہمیشہ رہنے والی ہے اور پنشن میں تو گورنمنٹ پراویڈنٹ فنڈ کا اندازہ کرتی ہے.پھر پنشن مقرر کرتی ہے کہ اگر ہم اس کو پراویڈنٹ فنڈ دیتے تو عام طور پر اتنی عمر میں لوگ مر جایا کرتے ہیں.تو اس کا حساب لگالیا اور اس کا سود لگا کر پیسے دے دیئے.مگر

Page 96

خطبات محمود جلد نمبر 36 86 $1955 اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وہاں وہ ہمیشہ ہی زندہ رکھے جائیں گے.گویا پینشن دائمی ہوگی.اول پیشن دائی ہوگی.دوئم پینشن اس کی سب ضرورتوں کو پورا کرنے والی ہوگی.سوئم وہ پنشن ایسی ہوگی کہ اس کی ضرورتوں کو ہی پورا نہ کرے گی بلکہ سارے اہل وعیال کی ضروریات کو پورا کرے گی.اگر اولاد بڑھتی چلی جاتی ہے، پوتے پوتیاں نواسے نواسیاں ہوتی چلی جاتی ہیں تو پنشن والے کہیں گے کہ ہم نے کہاں سے حساب کر کے دینا ہے.مگر وہ فرماتا ہے کہ وہ سب بھی اسی مقام پر رکھے جائیں گے اور جو حق اُس کو دیئے جائیں گے وہ اُن کو بھی دیئے جائیں گے جنہوں نے خدمت نہیں کی.اب کوئی گورنمنٹ جود نیا میں ایسا سلوک کرے اور یہ کام کرے کیا کوئی ہو سکتا ہے جو اُس کی مذمت کرے؟ اول تو یہ کہ جن لوگوں کے پاس کچھ نہیں انہیں وہ سامان مہیا کرے جن سے وہ کام چلائیں.دوئم یہ کہ جب وہ کام کریں تو اس کا بدلہ انہیں بار بار دے.پھر کام سے ہٹنے کے بعد بھی بدلہ ملتا ر ہے.پھر وہ بدلہ نہ صرف اس کے لئے بلکہ اس کے رشتہ داروں اور دوستوں کے لیے بھی کافی ہو.اور نہ صرف یہ کہ کافی ہو بلکہ وہ بھی ایسی اچھی جگہ رکھے جائیں جہاں اُس کو جو کام کرنے والا ہے رکھا جائے.اور پھر یہ حالت دو چار سال کے لیے نہ ہو.بلکہ ہمیشہ ہمیش کے لئے ہو.ہمارے خالد فنک جو آئے ہوئے ہیں انہوں نے سنایا ( چودھری ظفر اللہ خان صاحب نے بھی سنایا کہ ہالینڈ کی گورنمنٹ اب یہ سوچ رہی ہے کہ ہمارے ہاں اچھی صحت ہونے کی وجہ سے آبادی بہت بڑھ گئی ہے اور موت کا ریٹ بہت کم ہو گیا ہے اور اس کا نتیجہ یہ ہو گیا کہ بڑھوں کی تعداد بھی بڑھتی جاتی ہے اور بڑھاپا کی پنشن جو گورنمنٹ دیتی تھی وہ اب نا قابل برداشت ہو رہی ہے.تو وہ یہ سوچ رہے ہیں کہ اِس کو اُڑا دیا جائے.اب دو ہی صورتیں ہیں یا بڑھوں کو مارڈالیں یا ملک سے نکال دیں.تو گویا جو چیزیں ترقی کا باعث سمجھی جاتی تھیں وہی ان لوگوں کی تباہی کا موجب ہو گئیں.پہلے انکی ترقی کا موجب یہ سمجھا جاتا تھا کہ برتھ ریٹ بڑھایا جائے اور موت کی شرح کو گھٹایا جائے.لیکن اس کے گھٹانے سے دوسروں کی مددختم ہورہی ہے.والرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ میں دوسری قسم کے گر بتائے ہیں (رَبِّ الْعَلَمِيْنَ میں ایک قسم کے گر ہیں) کہ الہی حکومت چونکہ ان باتوں پر مبنی ہے.وہ اس لیے الْحَمْدُ لِلهِ کی

Page 97

$1955 87 خطبات محمود جلد نمبر 36 مستحق ہے.اگر دنیوی حکومتیں ان اصولوں کو قبول کر لیں تو وہ بھی اَلْحَمْدُ کی مستحق ہو جائیں گی.اور ان میں لڑائی جھگڑے اور فساد بند ہو جائیں گے اور ان کے دشمن باقی نہ رہیں گے.اگر الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ والی حکومت کو کوئی دشمن مٹانا چاہے تو اس کا یہی مطلب ہوا نہ کہ آپ بھی مرے.یہ تو ہمیں بتاتی ہے کہ نہ صرف کام کرنے والے زندہ رکھے جائیں بلکہ جو کام نہیں کرتے وہ بھی زندہ رکھے جائیں.اب اگر کوئی گورنمنٹ یہ طاقت اختیار کرے اور پھر اُسے وسیع کیا جائے تو صرف اپنے ملک کے لوگوں کے لئے ہی نہیں بلکہ باقی لوگوں کے لئے بھی لازمی بات ہے کہ اس حکومت کا دنیا میں کوئی دشمن نہیں ہوگا.ایسا پاگل کون مل سکتا ہے جو اپنے گلے پر آپ چُھری پھیر نے لگ جائے.اگر دنیا اس اصول پر عمل کرے تو سارے جھگڑے کیپٹلزم اور کمیونزم کے ختم ہو جاتے ہیں.“ :1: حضور نے یہ خطبہ انگلش میں دیا تھا.:23: الفاتحة 2 3: الفاتحة: 3 (الفضل 22 جون 1955ء) 4: إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّلِحَتِ وَاَخْبَتُوا إِلَى رَبِّهِمْ أُولَيكَ أَصْحَبُ الْجَنَّةِ هُمْ فِيهَا خُلِدُونَ (هود : 24) 5 النحل: 32 ، الفرقان: 17 6 حم السجدة: 32 : وَالَّذِينَ آمَنُوا وَاتَّبَعَتُهُمْ ذُرِّيَّتُهُمْ بِإِيمَانِ الْحَقْنَابِهِمْ ذُرِّيَّتَهُمْ (الطور : 22)

Page 98

$1955 88 15 خطبات محمود جلد نمبر 36 سورۃ فاتحہ میں خدا تعالیٰ نے وہ گر بیان کئے ہیں جن سے کمیونزم اور کیپٹلزم کا مقابلہ کیا جاسکتا ہے سے اور (فرموده 10 جون 1955 ء بمقام زیورچ ) تشہد ، تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا." میں کئی جمعوں سے سورہ فاتحہ کے متعلق یہ بیان کر رہا ہوں کہ اس میں اللہ تعالیٰ نے وہ گر بیان کئے ہیں جن سے کیپٹلزم اور کمیونزم کا مقابلہ کیا جا سکتا ہے.آج بھی اس سلسلہ میں ایک کا کڑی میں نے بیان کرنی تھی.لیکن بوجہ اس کے کہ ہم سفر کی تیاری کر رہے ہیں طبیعت میں کچھ پریشانی سی ہے.اس لئے وہ سارے پہلو جو میں بیان کرنا چاہتا تھا بیان نہیں کرتا.صرف مختصراً کچھ کہہ دیتا ہوں.آج مُلِكِ يَوْمِ الدِّينِ 1 والا حصہ ہے.دنیا میں حکومت کی بڑی غرض یہی سمجھی جاتی ہے کہ وہ ہنگامی حالات (Emergencies) میں کام آئے.عام حالات میں افراد خود اپنا انتظام کر لیتے ہیں.حکومت کا کام یہی ہوتا ہے کہ جب ایک جتھا اور گروہ یا ایک قوم کوئی شرارت کرے.تو اس وقت اس کو سنبھال لے.لیکن عام طور پر دیکھا جاتا ہے کہ حکومت ایسے کام سے عہدہ برآ نہیں ہوتی.مثلاً 1953 ء میں ہی دیکھو کہ احمدیوں کے خلاف شورش ہوئی.انکوائری کمیشن

Page 99

$1955 89 خطبات محمود جلد نمبر 36 کے سامنے جب رپورٹیں آئیں تو ہمیں یہ معلوم ہوا کہ بعض افسر جن پر ہم بدظنی کر رہے تھے انہوں نے نبض کو پہچانا تھا اور وقت پر گورنمنٹ کو توجہ دلائی تھی.اور بعض افسر جن پر ہم حسن ظنی کر رہے تھے اُن کے متعلق معلوم ہوا کہ انہوں نے ذمہ داری کو نہیں سمجھا اور وقت پر اُس کے تدارک کی فکر نہیں کی تھی.اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں یہ بیان کیا ہے کہ الہی حکومت جو الْحَمدُ کی مستحق ہوتی ہے.اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ وہ مُلِكِ يَوْمِ الدِّینِ ہوتی ہے.اس کے بہت سے پہلو ہیں لیکن میں ایک پہلو کو لیتا ہوں يَوْمِ الدِین کے لفظی معنی تو جزا سزا کے وقت کے مالک کے ہیں.لیکن اصل مطلب یہ ہے کہ قومی یا مجموعی خرابی یا مجموعی طور پر اچھے کام کی جزا.اور فیصلہ کے وقت انفرادی واقعات تو ہوتے ہی رہتے ہیں ان کے روکنے یا ان کی جزا دینے سے نہ گورنمنٹ ڈرتی ہے نہ اس پر ان کا کوئی بوجھ ہوتا ہے.اصل میں قومی واقعات ہی ایسے آتے ہیں جنہیں يَوْمِ الدِّينِ کہنا چاہیے ایسے وقت بعض دفعہ گورنمنٹ ڈر جاتی ہے کہ پبلک ہم سے کل پوچھے گی یا بعض دفعہ وہ جزا دینے سے کوتاہی کر جاتی ہے.کیونکہ جزا اس کی طاقت سے بڑھ جاتی ہے.تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ خدا تعالیٰ جزا سزا کے دن کا مالک ہے.دنیوی حکومتیں جزا سزا کے دن کی حج تو ہوتی ہیں مالک نہیں ہوتیں.خدا تعالیٰ جب جزا سزا دیتا ہے تو اُسے کسی کا ڈر نہیں ہوتا.وہ مجبور نہیں ہوتا کہ کسی کو جزا دے یا سزا دے.لیکن ایک حج ایسا نہیں کر سکتا.کیونکہ عام عقل یہ کہتی ہے کہ کوئی قوم جو مجرم ہو وہ کسی وقت پکڑی جاتی ہے.تو کل کو وہ پھر شرارت کرے گی.جب مکہ فتح ہوا تو رسول کریم ﷺ نے اپنے دشمنوں کو یہ کہہ کر معاف کر دیا کہ لَا تَشْرِيْبَ عَلَيْكُمُ الْيَوْمَ 2 اب يہ لَا تَشْرِيْبَ عَلَيْكُمُ الْيَوْمَ والا سلوک ایک حج نہیں کر سکتا.کیونکہ عام عقل یہ کہتی ہے کہ کوئی قوم جو مجرم ہو جب وہ کسی وقت پکڑی جائے تو اُسے سزا دینی چاہیے.وگرنہ کل وہ پھر شرارت کرے گی.لیکن خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم تو مالک ہیں.دنیوی حکومتیں اس لئے مجبور ہیں کہ اول تو وہ مالک نہیں.دوسرے انہیں پتا نہیں ہوتا کہ کل کو کیا ہو جائے گا.اگر آج عفو کر دیا تو ممکن ہے کل شرارت ہو جائے.لیکن اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم مالک ہیں آج کے دن کے بھی اور جب کل آئے گا تو ہم مالک ہیں کل کے دن کے بھی.ہمیں یہ ڈر

Page 100

$1955 90 90 خطبات محمود جلد نمبر 36 نہیں کہ کل کو یہ لوگ اپنی شرارت میں کامیاب ہو جائیں گے.چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ جب مکہ فتح ہوا تو رسول کریم ﷺ نے اپنے دشمنوں سے فرمایا کہ لا تَشْرِيْبَ عَلَيْكُمُ الْيَوْمَ - ظاہری عقل نے کہا کہ آپ نے بڑی نادانی کی ہے.وہ قوم جو تیرہ سال سے تکالیف دے رہی تھی اور جس کی شرارتیں متواتر چلی آرہی تھیں آج وہ اتفاقاً قابو آ گئی ہے اور یہ اُسے معاف کر رہے ہیں.کل کو اگر پھر انہوں نے شرارت کی تو پھر کیا ہو گا.چنانچہ عملی نمونہ بھی خدا تعالیٰ نے دکھا دیا لا تَشْرِيبَ عَلَيْكُمُ الْيَوْمَ کہلانے والا بھی مالک تھا.اس لئے جو خرابیاں اس کے نتیجہ میں عقلی طور پر پیدا ہوسکتی تھیں وہ بھی پیدا نہ ہوئیں.چنانچہ بعد میں مکہ والوں کی طرف سے پھر شرارتیں ہوئیں اور مسلمان ایسی جگہ پر پھنس گئے کہ ان کا نکلنا مشکل ہو گیا.مکہ کے لوگ شدید دشمن ہو گئے.ابوسفیان ( یہ ایک اور شخص ہے جو مکہ کا رئیس تھا ) بیان کرتے ہیں کہ میں ہر وقت یہ سوچتار ہتا تھا کہ کوئی موقع پیش آئے تو رسول کریم ﷺ کو قتل کردوں.ایک دفعہ رسول کریم وہ اکیلے مل گئے تو میں نے کہا ب میرا موقع آیا ہے اب میں آپ کو قتل کر دوں گا.لیکن جب میں رسول کریم ہے کے آگے آیا تو آپ نے فرمایا کہ اور آگے آؤ.آپ نے میرے سینہ پر ہاتھ رکھا اور فرمایا کہ خدا تعالیٰ تمہارے کی دل کو صاف کرے اور تمہارے سینہ سے تمام بغض اور کدورتیں نکال دے.وہ کہتے ہیں کہ میرے اندر ایک تبدیلی پیدا ہوگئی حالانکہ میں گھر سے اس نیت سے نکلا تھا کہ موقع مل جائے تو رسول کریم کو قتل کر دوں گا.لیکن رسول کریم ﷺ کے میرے سینہ پر ہاتھ رکھ کر یہ فرمانے سے ایک طوفان تھا جو میرے دل میں اٹھا اور میں نے اسلام قبول کر لیا 3.اب دیکھو لا تَشْرِيْبَ عَلَيْكُمُ الْيَوْمَ کہلوانا کوئی معمولی بات نہیں تھی.مگر کہلوانے والا کہتا ہے کہ ہم آج بھی مالک ہیں اور کل بھی مالک ہیں.اگر پھر یہ قوم شرارت کرے گی تو تب بھی ہمارے ہاتھ سے تو نہیں نکل گئی.بعض دفعہ چور مارتے ہیں تو پیچھے سے پولیس گولی چلا دیتی ہے اور بعض لوگ مارے جاتے ہیں.چونکہ وہ موت کے قائل نہیں ہوتے گولی صرف اس لئے پولیس چلاتی ہے کہ وہ بیچ کر نہ نکل جائیں اور ملک والے اُس کے خلاف شورش نہ کر دیں.اور یہ نامناسب ہے.لیکن اگر پولیس بھی مُلِكِ يَوْمِ الدِّینِ کی قائم مقام ہوتی تو کہتی کیا ہے کل کو وہ پکڑے جائیں گے.پھر وہ گولی نہ چلاتی تو دیکھو کہ اللہ تعالیٰ نے لَا تَشْرِيْبَ عَلَيْكُمُ الْيَوْمَ کہلوایا

Page 101

$1955 91 خطبات محمود جلد نمبر 36 اور محمد رسول اللہ ﷺ کی جان کو ظاہری عقل کے ماتحت خطرہ میں ڈلوا دیا کہ اتنی لمبی لڑائی کے بعد محمد رسول اللہ ﷺ غالب ہوئے ، فاتح ہوئے.دشمن کی قوم کو شکست پہنچی ، گردنیں نیچی ہوگئیں اور رسول اللہ کے سامنے وہ لوگ ذلیل ہو گئے اور دلوں میں بغض پیدا ہوا کہ اب اگر یہ قابو آجا ئیں تو پھر تو نہیں چھوڑیں گے.اور آگئے قابو.یہ بھی نہیں کہ قابو نہ آئے تو پھر بھی کہتے کہ کی اتفاق حسنہ ایسا ہوا کہ قابو نہیں آئے.مگر باوجود قابو آنے کے پھر مُلِكِ يَوْمِ الدِّينِ.چھوڑ دیا اور لَا تَشْرِيْبَ عَلَيْكُمُ الْيَوْمَ کے حکم کو جائز قرار دے دیا اور ہم نے جو مالکیت کے لحاظ سے معاف اور رحم کیا تھا اس کے جو بداثرات پیدا ہو سکتے تھے ان کا بھی ہم نے ازالہ کر دیا.یہی اگر دنیوی حکومتیں کریں کہ بعض دفعہ مثلاً نادر شاہ جب دتی میں آیا تو اُس نے قتل عام کا حکم دے دیا.ہندوستان کی حکومت اگر انگریز کے ہاتھ سے نکلی تو سب سے بڑی ذمہ داری جنرل ڈائر پر تھی.اگر جنرل ڈائر (DYER) کا جلیا نوالہ باغ کا واقعہ نہ ہوتا تو ہندوستان سے شاید اتنی جلدی انگریز نہ نکل سکتے تھے.اس نے تمام ہندوستان کے دلوں میں انگریز کے خلاف اتنا بغض بھر دیا کہ اس کی کوئی حد نہیں تھی.اگر جنرل ڈائر بھی مُلِكِ يَوْمِ الدِّينِ کی حیثیت میں ہوتا.لیکن وہ مُلِكِ يَوْمِ الدِین کی حیثیت میں نہیں تھا.وہ تو ماتحت تھا اور سمجھتا تھا کہ اگر میں نے ان کے ساتھ کوئی عفو کیا اور کل کو انہوں نے کوئی شرارت کی تو گورنمنٹ مجھے پکڑے گی.اگر مُلِكِ يَوْمِ الدِّینِ کی حیثیت میں ہوتا کہ جس طرح خدا تعالیٰ نے محمد رسول اللہ سے سلوک کروایا تھا وہ سلوک کرتا.اور اس سختی کے وقت میں بھی ہندوستانیوں سے اتنی ذلت کا سلوک نہ کرتا تو ان کے دل میں وہ بغض پیدا نہ ہوتا جس کے نتیجہ میں ہندوستان انگریز کے ہاتھوں سے بھی نکل گیا.تو مُلِكِ يَوْمِ الدِّینِ میں بتایا کہ یہ بھی ایک طریقہ ہے.جس سے اَلْحَمْدُ حاصل ہوتی ہے.اگر کوئی حکومت مُلِكِ يَوْمِ الدِّینِ بن کر رہے.جس طرح خدا تعالیٰ مُلِكِ يَوْمِ الدِّينِ بن کر حکومت کرتا ہے تو پھر عوام الناس میں اور پبلک میں اور اردگرد کے لوگوں میں بغض کبھی نہیں پیدا ہوسکتا.بلکہ تعریف ہی ہوتی ہے کہ بڑے اچھے ہیں.تو فرماتا ہے کہ الْحَمْدُ حاصل ہوتی ہے مُلِكِ يَوْمِ الدِّينِ ہے.جو مُلِكِ يَوْمِ الدِّينِ

Page 102

خطبات محمود جلد نمبر 36 92 $1955 نہیں اسے الْحَمْدُ نہیں ملتی.جو رَبِّ الْعَلَمِینَ نہیں اسے اَلْحَمْدُ نہیں ملتی.جو رحمان نہیں اُسے الْحَمدُ نہیں ملتی.جو رحیم نہیں اسے اَلحَمدُ نہیں ملتی.اَلْحَمدُ تبھی ملتی ہے جبکہ وہ کی رَبِّ الْعَلَمِيْنَ کی صفت کا مظہر ہو.رحمانیت کا مظہر ہو ، رحیمیت کا مظہر ہو اور ملِكِ يَوْمِ الدِّینِ کا مظہر ہو.پھر آگے کچھ اور مضمون ہیں خود اس کے اندر بھی اور پہلو ہیں.مگر آج جانے کی وجہ سے طبیعت میں کمزوری اور پریشانی ہے.میں اگر زیادہ کام کی طرف متوجہ رہوں تو طبیعت پریشان ہو جاتی ہے اس لیے اس کو چھوڑتا ہوں.“ 66 1: الفاتحة : 4 (الفضل 30 جون 1955ء) 2 السيرة الحلبية جلد 3 صفحه 89 مطبوعه مصر 1935ء 3 السيرة الحلبية جلد 3 صفحه 128,127 مطبوعہ مصر 1935ء 4 جنرل ڈائر : REGINALD EDWARD HARRY DYER) برطانوی جرنیل جس نے امرتسر میں قتل عام کرایا.پیدائش 9 اکتوبر 1864 ء مری ( پاکستان ) انتقال 23 جولائی 1927ء برسٹل (انگلینڈ) اس کا باپ ایک اعلیٰ حکومتی عہدیدار تھا.ڈائر نے 1885ء میں WEST SURREY کی رجمنٹ میں کمیشن حاصل کیا.یہاں سے اسے انڈین آرمی میں بھیج دیا گیا.اس نے 87-1886 کی برما مہم میں حصہ لیا.1902-1901ء میں وزیرستان کے محاصرے اور مہم میں اہم کردار ادا کیا.پہلی جنگ عظیم میں اسے مشرقی فارس کی کمان دی گئی.13 اپریل 1919 ء کو جب جلیا نوالہ باغ امرتسر کا سانحہ پیش آیا تو ڈائر جالندھر کا بریگیڈ کمانڈر تھا.13 اپریل 1919ء کو امرتسر کے شہری (مسلم، ہندو، سکھ ) اپنے راہنماؤں کی گرفتاری کے خلاف احتجاج کیلئے جلیانوالہ باغ میں جمع ہوئے لوگ تقاریر سن رہے تھے کہ جنرل ڈائر 50 انگریز اور 100 ہندوستانی فوجیوں کے ساتھ باغ میں داخل ہوا اور گولی چلانے کا حکم دیا جس سے 379 افراد ہلاک اور 1200 زخمی ہوئے.اسے بعد ازاں جنرل بنا کر برطانیہ بھیجا گیا اس قتل عام کا سبب رولٹ ایکٹ کے خلاف بغاوت تھی.(عالمی شخصیات.انسائیکلو پیڈیا صفحہ 658-659 مطبوعہ لاہور 2014ء)

Page 103

$1955 93 16 خطبات محمود جلد نمبر 36 خدا تعالیٰ کی تمام برکات اطاعت اور تنظیم سے وابستہ ہیں (فرمودہ یکم جولائی 1955ء بمقام ہیگ، ہالینڈ 1) تشهد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا." برادران ! کل صبح میں آپ کے ملک سے جار ہا ہوں اور طبعی طور پر یہ جدائی مجھے شاق گزر رہی ہے.افسوس ہے کہ میں یہاں ایسے وقت میں آیا جب کہ میں بیمار تھا اور اس بیماری کی وجہ سے میری نظر کان اور قوت یادداشت کافی حد تک اثر پذیر ہیں.اس لیے میں احباب کے چہروں اور اُن کے ناموں کو بہت جلد بھول جاتا ہوں.مجھے ڈر ہے کہ میرے بھائی یہ محسوس نہ کریں کہ میں اُن کی طرف توجہ نہیں کرتا.حالانکہ یہ بالکل غلط ہے.واقع یہ ہے کہ میں بعض اوقات ان کے چہروں کو بھول جاتا ہوں اور دوسروں سے پوچھتا ہوں کہ وہ صاحب کون ہیں؟ پس یہ بات صرف میری بیماری کی وجہ سے ہے، عدم توجہ کی وجہ سے نہیں ہے.عام طور پر کہا جاتا ہے کہ بیماری خدا تعالیٰ کی طرف سے آتی ہے.حالانکہ در حقیقت بیماری خدا تعالیٰ کی طرف سے نہیں بلکہ خود ہماری غلطیوں کی وجہ سے آتی ہے.ڈاکٹروں کا خیال ہے کہ میری بیماری اُس سخت کام کی وجہ سے آئی ہے جو میں نے جلسہ سالانہ کے موقع پر کیا تھا.تقریباً ایک ماہ تک میں ساری ساری رات پڑھتا رہا اور لیکچروں کی تیاری کے لیے نوٹ لیتا رہا.

Page 104

خطبات محمود جلد نمبر 36 94 $1955 اور میری اس عمر کے لحاظ سے یہ بہت زیادہ کام تھا.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ میں اس سے قبل بہت زیادہ کام کرتا رہا ہوں لیکن اب میری صحت ویسی نہیں ہے جیسی جوانی کے ایام میں تھی.ایک ڈاکٹر نے مجھے بتلایا کہ اگر چند سال قبل مجھے اس قدر کام نہ کرنے کا مشورہ دیا جاتا تو غالبا اس بیماری کا حملہ نہ ہوتا.برادران! خدا تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے پھر کب ہم ایک دوسرے سے ملیں گے لیکن مجھے امید ہے کہ ہمارے دل ہمیشہ ایک دوسرے کے قریب رہیں گے.میں یہاں تھوڑے عرصہ کے لیے آیا تھا اور جلد ہی آپ لوگوں سے رخصت ہو رہا ہوں.اور موجودہ حالات میں میں یہ خیال نہیں کر سکتا کہ دوبارہ جلد آپ کے پاس آسکوں گا.اگر چہ میں نے پختہ ارادہ کیا ہے کہ انشاء اللہ سفر سے واپسی پر ایک دو دن کے لیے یہاں مسجد کی افتتاحی تقریب میں شمولیت کے لئے آؤں گا.اگر ایسا ہوا تو امید کرتا ہوں تقریباً ایک ماہ تک میں ایک دو دن کے لئے یہاں آؤں گا اور دوبارہ آپ سے مل کر اپنے دل کو خوش کر سکوں گا.برادران! چونکہ میں ایک دور دراز کے مقام پر رہتا ہوں اس لئے یہ بات آپ لوگوں کے لیے بہت مشکل ہے کہ آپ کثرت سے میرے پاس آسکیں.اسی طرح یہ بات میرے لئے بھی اس عمر میں اور اس بیماری کی حالت میں ناممکن ہے کہ میں تمہارے پاس بار بار آ سکوں.اس لئے طبعی طور پر میری یہ خواہش ہے کہ جو کچھ میں کہوں وہ آپ اچھی طرح یا درکھیں.اگر میں آپ لوگوں کے پاس بار بار آنے کے قابل ہوتا تو میں خیال کرتا کہ جو کچھ میں اب کہتا ہوں انہی باتوں کو میں اپنی دوبارہ آمد کے موقع پر دہراؤں گا.لیکن چونکہ دوسرا موقع ابھی بہت فاصلہ پر ہے اس لیے طبعی طور پر میری یہ انتہائی خواہش ہے کہ جو کچھ میں آپ سے کہوں آپ اُس کو یاد کریں اور اُس بلند معیار تک پہنچ جائیں جو اسلام آپ لوگوں کے سامنے پیش کرتا ہے.میں سمجھتا ہوں کہ اگر آپ لوگ اس کے لیے کوشش کریں تو آسانی کے ساتھ کر سکتے ہیں.ایسی جماعت جس میں مسٹر صادق وانڈر لینڈ اور مسٹر عبد اللطیف ڈی لائین جیسے جو شیلے کا رکن موجود ہوں وہ ضرور ایسا کر سکتی ہے.یہ نوجوان اپنے یقین اور ایمان میں اس قدر بڑھے ہوئے ہیں کہ انسان ان کے چہروں سے ہی اُس جوش کا اندازہ لگا سکتا ہے جو ان کے دلوں میں اسلام کی تعلیم پر عمل کرنے اور اس کی تبلیغ واشاعت کے لیے پایا جاتا ہے.

Page 105

خطبات محمود جلد نمبر 36 95 55 $1955 حقیقت یہ ہے کہ جب بھی دنیا میں سچائی آتی ہے تو وہ ہمیشہ ایک بیج کی طرح آتی ہے.جب کی میں نو جوانی کو پہنچا تو اُس وقت میں نے اپنا ایک اخبار "الفضل " نامی جاری کیا تھا.بلکہ اس سے بھی پہلے جب میں صرف چودہ سال کی عمر کا تھا تو میں نے ایک ماہوار رسالہ نوجوانوں کی تعلیم و تربیت کے لیے نکالا تھا.اور پہلا مضمون جو میں نے اُس میں لکھا اُس کا مضمون یہ تھا کہ تم یہ نہ دیکھو کہ اس وقت کتنے احمدی ہیں.بلکہ تم قدرت کے کام کی طرف دیکھو.تم دیکھتے ہو کہ یہ بڑے بڑے جنگلات جو سینکڑوں میل میں پھیلے ہوئے ہیں یہ صرف چھوٹے سے بیج سے شروع ہوئے ہیں.اسی طرح ایک چھوٹا سا بیج اس زمین میں بویا گیا اور اُس نے اس زمین میں جڑیں پکڑ لی ہیں اور اب اس سے ایک عظیم الشان درخت پیدا ہوا ہے.اگر آئندہ اس درخت سے اور بیج پیدا ہوں گے اور وہ زمین پر گریں گے اور ایک درخت کی جگہ کئی درخت اگیں گے تو اس طرح آہستہ آہستہ ان چھوٹے چھوٹے بیجوں سے بڑے بڑے باغات پیدا ہو جائیں گے.یہی حالت سچائی کی ہوتی ہے.جب میری عمر انیس سال کی تھی تو احمدیوں کی تعداد صرف چند سو تھی.اُس وقت میں نے کہا کہ اگر چہ اس وقت ہم صرف چند سو ہیں لیکن ایک وقت آئے گا جبکہ ہم ہزاروں، پھر لاکھوں ، پھر کروڑوں کی تعداد میں ہو جائیں گے.اب تم اُس زمانہ پر جس وقت میں نے یہ مضمون لکھا نظر ڈالو اور جماعت کی موجودہ حالت کو دیکھو تمہیں پتا لگے گا کہ ہماری جماعت نے کیسی حیرت انگیز ترقی کی ہے.ایک جلسہ سالانہ میں جب کہ قادیان میں احمدی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پاس آئے اُن کی تعداد صرف سات سو تھی.لیکن اب ہر سال جلسہ سالانہ پر پچاس ہزار لوگ صرف اُس کے شاگر داور خلیفہ کے پاس جمع ہوتے ہیں.یہ چیز ظاہر کرتی ہے کہ جماعت اللہ تعالیٰ کے فضل سے بڑھ رہی ہے.اُس زمانہ میں ان سات سو میں کوئی ایک بھی غیر ملکی نہیں تھا لیکن اب اس زمانہ میں سالانہ اجتماع کے موقع پر افریقہ، امریکہ، یورپ اور کئی دوسرے ممالک کے لوگ موجود ہوتے ہیں.وہ صرف اس لئے جوق در جوق آتے ہیں تا کہ وہ آقا کو نہیں بلکہ اس کے شاگرد کو دیکھیں اور بانی جماعت کو نہیں بلکہ اس کے خلیفہ کی زیارت کریں.یہ بات ظاہر کرتی ہے کہ کس طرح خدا تعالیٰ نے ہر قوم کے لوگوں کے دلوں میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی محبت ڈال دی ہے.لیکن ابھی صرف ابتدا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ایک کتاب ہے جو تھوڑا ہی عرصہ ہوا میں پڑھ رہا تھا.لیکن اب

Page 106

$1955 96 خطبات محمود جلد نمبر 36 میں نہیں پڑھ سکتا.کیونکہ اب میری آنکھیں کمزور ہیں.اگر چہ صرف چند ماہ گزرے میں نے دیکھا کہ میں نے بعض اوقات پوری پوری رات بیٹھ کر تقریباً ایک سو کتب کا مطالعہ کیا تھا.لیکن اب میں ایک صفحہ بھی نہیں پڑھ سکتا.بہر حال ایک دن میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے الہامات کی کتاب تذکرہ پڑھ رہا تھا کہ ایک جگہ مجھے آپ کی یہ تحریر نظر آئی کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے بتایا ہے کہ میرے ماننے والے بڑھنے شروع ہوں گے اور وہ تمام دنیا میں پھیل جائیں گے اور وہ اس قدر ترقی کریں گے کہ دوسرے مذاہب یعنی عیسائیت ، ہندومت اور بدھ مت وغیرہ کے ماننے والے میری جماعت کے مقابلہ میں چھوٹے چھوٹے گروہ بن کر رہ جائیں گے.پس یہ پچاس ساٹھ ہزار لوگ جو ہر سال میری زیارت اور میری باتیں سننے کے لئے مرکز میں آتے ہیں اُن لوگوں کے مقابلہ میں جو آئندہ ہمارے مرکز میں بانی جماعت احمدیہ سے عقیدت کا اظہار کرنے کے لئے آئیں گے کچھ بھی نہیں.پس میں امید کرتا ہوں آپ لوگ خدا تعالیٰ کے ہاتھ میں ایک آلہ بن جائیں گے اور اس کی تعلیمات کو اس ملک میں پھیلائیں گے اور یہ بات اُس وقت تک ممکن نہیں جب تک آپ لوگ اپنے آپ کو منظم نہیں کر لیتے.یہ بات یاد رکھو! کہ خدا تعالیٰ کی تمام برکات، اطاعت اور تنظیم سے وابستہ ہیں.آپ لوگ ابھی تک اسلام کی تعلیمات سے ناواقف ہیں.لیکن یہ ناواقفیت اُن مبلغین کے ذریعہ سے جو ہم یہاں پر بھیجیں گے انشاء اللہ جلد دور ہو جائے گی.دنیا نے کوشش کی کہ وہ موسیٰ اور عیسی اور دوسرے انبیاء کو ناکام بنادے لیکن وہ اپنے مقصد میں ناکام رہی.دنیا نے ہٹلر کو تباہ کرنے کی کوشش کی اور وہ اس میں کامیاب ہوگئی کیونکہ خدا تعالیٰ کی تائید اُس کے ساتھ نہ تھی.اگر خدا تعالیٰ اُس کے ساتھ ہوتا تو وہ ضرور روس اور امریکہ کی فوجوں کو تباہ کر دیتا اور اُس کو فتح عطا کرتا.لیکن چونکہ خدا تعالیٰ کی طرف سے اُسے یہ نصرت حاصل نہیں ہوئی اس لیے ثابت ہو گیا کہ ہٹلر موسیٰ اور عیسی کی طرح خدا تعالیٰ کے برگزیدہ انسانوں میں سے نہ تھا.اگر ہٹلر جیسا انسان لوگوں کو منظم کر سکتا ہے تو تم جو ایک بچے مذہب کے ماننے والے ہو کیوں منظم نہیں ہو سکتے.اگر تم ایسا نہیں کرتے تو یہ تمہاری اپنی غلطی ہے.پس اس موقع سے فائدہ اٹھاؤ اور اپنے آپ کو منظم کرو تم اپنے میں سے مختلف ممبروں کو مثلاً تبلیغ ، ما تعلیم ، استقبال اور غربا کی خبر گیری کے لئے انتخاب کرو اور یہ خیال نہ کرو کہ تم تھوڑے ہو تم

Page 107

$1955 40 97 خطبات محمود جلد نمبر 36 پر بھی ضروری فرائض عائد ہوتے ہیں جو کثیر التعداد افراد پر عائد ہوا کرتے ہیں.مرکز میں ہمارے پاس ہر روز کثرت کے ساتھ مہمان آتے رہتے ہیں جن کا کھانا اور رہائش کا انتظام جماعت کرتی ہے.اس طرح دوسو سے زائد بیوگان اور یتیم بچے ہیں جن کا تمام خرج جماعت برداشت کرتی ہے.اس وقت تم دنیا کے سب سے بڑے ملک امریکہ میں بھی یہ نہیں پاؤ گے کہ وہاں غرباء کو مفت تعلیم دی جاتی ہو جیسا کہ ہمارے ہاں دی جاتی ہے.ابھی مجھے ربوہ سے اطلاع ملی ہے کہ امسال یونیورسٹی کے امتحانات کے نتائج صرف بائیس فیصدی نکلے.لیکن ہمارے ربوہ کی لڑکیوں کے کالج (جامعہ نصرت کا نتیجہ تریسٹھ فیصدی رہا اور ان پاس ہونے والی طالبات میں سے اکثر وہ ہیں جن کی فیسیں ہر ماہ میں خود ادا کرتا تھا.وہ کالج کی فیس مہیا نہیں کر سکتی تھیں.لیکن ہم نے ان کے اخراجات کو برداشت کیا اور اس طرح عورتوں کی تعلیم کو ترقی دی.اس سے پہلے قادیان ایک وقت میں عورتوں کی تعلیم کا ایک بڑا مرکز تھا.وہاں پر کل تعلیم کا تناسب باسٹھ فیصدی تھا.لڑکوں کی تعلیم کا تناسب نوے فیصدی تھا اور عورتوں کی تعلیم کا تناسب سو فیصدی تھا.لوگ کہتے ہیں کہ کوئی قوم پردہ میں ترقی نہیں کر سکتی لیکن ہماری طرف دیکھو کہ ہماری بچیوں کو جوعورتیں پڑھاتی ہیں وہ بھی پردہ کی پابند ہیں.خود میری اپنی بیوی کالج کی پرنسپل ہے.وہ عربی میں ایم.اے ہے اور وہ اس کام کا کچھ معاوضہ نہیں لیتی.لیکن وہ خود بھی پردہ کرتی ہیں اور لڑکیاں بھی پردہ میں رہتی ہیں.اگر ضرورت کے موقع پر کالج میں بعض مرد تعلیم کے لیے لگائے جاتے ہیں تو وہ بھی پردہ کے پیچھے بیٹھ کر پڑھاتے ہیں اور لڑکیاں بھی پردہ میں ہوتی ہیں لیکن اس کے باوجود یو نیورسٹی کے بائیس فیصدی نتائج کے مقابلہ میں اس کا نتیجہ تریسٹھ فیصدی ہے.حقیقت یہ ہے کہ جب کبھی عورتیں پختہ ارادہ اور عزم کرلیں گی وہ علم حاصل کر لیں گی اور دنیا کو دکھا دیں گی کہ پردہ میں رہ کر بھی ہر چیز حاصل کی جاسکتی ہے.بعض بڑے بڑے کا لج ہیں جن کی گورنمنٹ مدد کرتی ہے اور جن میں امریکہ اور لندن وغیرہ سے آئے ہوئے پروفیسر پڑھاتے ہیں.لیکن پھر بھی اُن کا نتیجہ صرف بائیس فیصدی ہے.لیکن ہماری عورتوں کے نتائج تریسٹھ فیصدی ہیں.اور یہ چیز صرف عزم اور عملی عروج کے ساتھ تعلق رکھتی ہے.اگر تم بھی مشکلات پر عبور حاصل کرنے کے لیے پختہ عزم کر لوتو تم لوگوں کو یہ بتا سکتے ہو کہ اسلامی قوانین ترقی حاصل کرنے میں روک نہیں ہیں.تم میں بعض ایسے نوجوان ہیں جن کے چہرے

Page 108

$1955 98 خطبات محمود جلد نمبر 36 ظاہر کرتے ہیں کہ وہ اسلام سے محبت رکھتے ہیں.پس تم پہلے پختہ ارادہ کرو کہ تم اسلامی تعلیم پر عمل کرو گے اور پھر کوئی ایسا آدمی تلاش کرو جو تمہیں سیدھے راستہ کی طرف چلائے.اور اگر کوئی شخص تمہاری اور تمہارے بھائیوں کی رہنمائی کرے گا تو تم بھی اُسی طرح کامیابی حاصل کر لو گے جس طرح ہماری جماعت کی لڑکیاں کامیاب ہوئی ہیں.پس اپنے دلوں میں تبدیلی پیدا کرو تا کہ خدا تعالیٰ تمہارے حالات میں بھی تبدیلی پیدا کرے.تمہارے حالات تمہارے ہاتھ میں نہیں بلکہ ان کا انحصار تمہارے دل پر ہے.اگر تم اپنے دلوں میں تغیر پیدا کر لوتو یقیناً خدا تعالیٰ کی مدد تمہارے پاس آئے گی اور تم کامیابی حاصل کرلو گے.تم سے جدا ہوتے ہوئے میں آخری بار تم سے کہتا ہوں کہ اپنے دلوں سے سستی کو دور کرو اور عزم کر لو کہ تم سچائی کو دنیا میں پھیلا دو گے اور اس کو ہر انسان کے دل اور دماغ میں ڈال دو گے اور اُس وقت تک چین سے نہیں بیٹھو گے جب تک تم اس کام کو سرانجام نہ دو گے.خدا تعالیٰ تمہاری بھی مدد کرے اور میری بھی.اگر چہ میں کمزور ہوں اور بیماری کی وجہ سے میری قوت یادداشت کافی حد تک اثر پذیر ہے تاہم دعا کرو کہ اللہ تعالیٰ کے علم میں جس قدر میری زندگی باقی ہے اس میں سچائی کی اشاعت کے لئے زیادہ سے زیادہ کام کر سکوں.اور میری موت اُس گھوڑے کی طرح نہ ہو جو اپنی گاڑی کے آگے گر پڑتا ہے.بلکہ اُس گھوڑے کی طرح ہو جو آخری وقت تک اپنے کام کو کرتا چلا جاتا اور گاڑی کو اپنی منزل کی طرف کھینچتا چلا جاتا ہے.میں دلی طور پر یہ چاہتا ہوں اور دعا کرتا ہوں کہ خدا تعالیٰ مجھے ایسی بیماری سے محفوظ رکھے جو مجھے نا کارہ کر دے تا کہ میں اپنے آخری سانس تک انسانیت کی خدمت کرتا چلا جاؤں.آمین “ الفضل 19 اگست 1955ء[ ترجمہ انگریزی ]) 1: اصل خطبہ انگلش میں تھا.

Page 109

$1955 99 17 خطبات محمود جلد نمبر 36 نوجوان اس رنگ میں سلسلہ کی خدمت کریں کہ اسلامی لٹریچر کی زیادہ سے زیادہ اشاعت ہو سکے (فرموده 22 جولائی 1955ء بمقام مسجد لندن) تشہد ، تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا.اگر چہ یہاں پر اکثر دوست اردو سمجھنے والے ہیں اس لئے میں خطبہ تو اردو میں دوں گا مگر انگریزی بولنے والوں کے لئے میں نے عزیزم خلیل احمد ناصر کو کہا ہے کہ وہ بعد میں اختصار کے ساتھ انگریزی میں ترجمہ کر دیں.مجھے ساڑھے تین بجے ڈاکٹر کے پاس پہنچنا ہے اس لئے میں اس وقت مختصر انو جوانوں کو توجہ دلانا چاہتا ہوں.عید کی تقریب قریب آرہی ہے.ایسے موقع پر تمام نو جوانوں کو بالعموم اور طالب علموں اور اُن مبلغین کو جو اب یہاں مقیم ہوں گے بالخصوص توجہ کرنی چاہیے کہ وہ اپنے آپ کو خدمت کے لیے پیش کریں.مرکز میں سالانہ جلسہ کے موقع پر قریباً پچاس ہزار مہمان ہر سال آتے ہیں جن کے لیے مرکز میں رہنے والے احباب سارا انتظام کرتے ہیں.یہاں پر ایسے موقع پر نہ تو اتنے آدمی ہوں گے اور نہ ہی اتنا کام کوئی وجہ نہیں کہ اگر یہاں پر رہنے والے نو جوانوں کے ماں باپ جو قربانی

Page 110

$1955 100 خطبات محمود جلد نمبر 36 کرتے ہیں وہ یہ نہ کرسکیں.وہ تو کماتے ہیں اور اس میں سے مہمانوں کے لئے بھی خرچ کرتے ہیں اور یہاں کے نو جوانوں کو جو بالعموم طالب علم ہیں اور جو اپنے اخراجات اکثر اپنے ماں باپ سے ہی لیتے ہیں کوئی وجہ نہیں کہ جب کمانے والے یہ قربانی کر سکتے ہیں تو ان کے بچے ویسی ہی قربانی یہاں نہ کریں.نوجوانوں کو چاہیے کہ اس موقع پر اس رنگ میں خدمت کریں کہ سلسلہ کے لٹریچر کی زیادہ سے زیادہ اشاعت ہو.پھر کھانا کھلانے میں ہر طرح کی مدد کریں.آج کل کے کام کی ترقی کا اصول یہ ہے کہ کام کے ساتھ چہرے پر مسکراہٹ رہے اور ادب و احترام کے ساتھ ہر طرح کی خدمت کی جائے.اور اگر کسی کو کوئی تکلیف ہو تو اُس پر مناسب معذرت کی جائے.لٹریچر کی اشاعت کے علاوہ عید فنڈ کی طرف بھی توجہ کرنی چاہیے.لندن میں اگر چندہ با قاعدہ طور پر جمع ہو تو تقریبا سو پونڈ ماہوار آسانی سے جمع ہو سکتا ہے.مگر یہ کام بھی ہوسکتا ہے جب سب مل کر کام کریں.مجھے یاد ہے کہ کشمیر میں جب کشتی کو جھیل سے دریا میں منتقل کیا جاتا ہے تو پانی کی سطح دوسری طرف اونچی ہونے کی وجہ سے غیر معمولی طور پر زور لگانا پڑتا ہے.ایسے موقع پر کشتی کے سارے مردمل کر "لا الہ یا للہ " کا نعرہ لگاتے ہیں اور وہ مل کر کشتی کو کھینچتے ہیں.میں نے دیکھا کہ جب کشتی اس طرح سے کھنچ نہ سکے تو سب مل کر "یا شیخ حمدان" کا نعرہ لگاتے ہیں.اور اگر اس پر بھی نہ کھینچ سکے تو سب مل کر یا پیر دستگیر " کا نعرہ لگاتے ہیں.چونکہ اُن لوگوں میں خدا کی نسبت پیر دستگیر کے لیے زیادہ جذباتی تعظیم ہوتی ہے اس لئے اس نعرہ کا اتنا اثر ہوتا ہے کہ نہ صرف مرد بلکہ تمام عورتیں اور بچے بھی کشتی کو دھکیلنا شروع کر دیتے ہیں اور کشتی پار ہو جاتی ہے.پس اگر یہاں بھی سب مل کر کام کریں تو انشاء اللہ خوشگوار نتا ئج نکلیں گے.“ الفضل 23 اگست 1955 ء)

Page 111

$1955 101 18 خطبات محمود جلد نمبر 36 قرآن کریم کی آخری تین سورتوں میں سورۃ فاتحہ کا ہی مضمون بیان کیا گیا ہے تشيد (فرموده 5 اگست 1955ء بمقام مسجد لندن) تعوذ اور سورہ فاتحہ کے بعد سورۃ الناس کی تلاوت کی اور فرمایا.میں خطبہ اردو میں دوں گا اور ایسے بھائیوں کے لیے جو اردو نہیں جانتے عزیزم چودھری ظفر اللہ خاں صاحب انگریزی میں اس کا ترجمہ سنا دیں گے.اس کے بعد میں نماز پڑھاؤں گا.میں نے جس سورۃ کی تلاوت کی ہے یہ قرآن کریم کی آخری سورۃ ہے.اور جیسا کہ میرا سالہا سال سے خیال ہے اور صرف خیال ہی نہیں بلکہ قرآن کریم کے مطالعہ سے میرا یہ یقین.کہ قرآن کریم کی آخری تین سورتیں دراصل سورۃ فاتحہ ہی کے مضمون کی تکرار ہیں.سورۃ فاتحہ میں جو مضمون بیان ہوا ہے بقیہ قرآن کریم میں اُس کی تفصیل ہے اور ان آخری تین سورتوں میں اُسی مضمون کا خلاصہ بیان کر دیا گیا ہے.اچھے مصنفین کا طریق یہی ہے کہ جب وہ کوئی کتاب لکھتے ہیں تو تمہید میں اُن مضامین کی طرف اشارہ کر دیتے ہیں جن کو تفصیل کے ساتھ کتاب میں لکھنا مقصود ہوتا ہے.اور پھر آخر پر اُس سارے مضمون کا خلاصہ لکھ دیتے ہیں.اسی طرح سورۃ فاتحہ

Page 112

$1955 102 خطبات محمود جلد نمبر 36 تمہید ہے اور آخری تین سورتیں سارے قرآن کریم کے مضامین کا خلاصہ ہیں.یوں تو یہ مضمون لمبا ہے لیکن اصولی طور پر میں اس مضمون کو اختصار کے ساتھ بیان کر دیتا ہوں.ان تینوں سورتوں میں سے آخری سورۃ خلاصہ درخلاصہ کا کام دیتی ہے.سورۃ فاتحہ میں پہلی آیت اَلْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِيْنَ 1 ہے اس میں خدائے واحد کی حمد اس لئے بیان کی گئی ہے کہ وہ رب العالمین ہے یعنی سارے جہانوں کا رب ہے.اس میں خدا تعالیٰ کی ربوبیت سارے جہانوں کے لیے بیان کی گئی ہے.اسی طرح اس آخری سورۃ کی پہلی آیت قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ 2 ہے.اس میں بھی وہی اشارہ پایا جاتا ہے اور اُس رب کی پناہ طلب کی گئی ہے جو تمام بنی نوع کا رب ہے.کسی ایک قوم یا ملک یا نسل کے رب کی طرف اشارہ نہیں ہے بلکہ ایسے رب کی طرف اشارہ ہے جو سب انسانوں کا رب ہے.اب اگر غور سے دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ دنیا میں جس قد رفساد اور جھگڑے پیدا ہوتے ہیں وہ تمام کے تمام انسان کے ذریعہ پیدا ہوتے ہیں.اس لیے آخری سورۃ میں عَالَمِینَ کی بجائے اَلنَّاس رکھ دیا گیا ہے.کیونکہ خدا تعالیٰ کی ربوبیت کا تعلق تو عالَمِینَ یعنی تمام جہانوں سے ہے.لیکن دنیا میں فتنہ وفسا دانسانوں سے پیدا ہوتے ہیں.پھر یہاں فتنہ وفساد سے بچنے کی خواہش کا اظہار کیا گیا ہے اور یہ بات اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے کہ وہ طوفانوں اور آندھیوں سے اور فتنہ وفساد سے انسان کے لیے مفید صورتیں پیدا کر دے.اور اکثر یہ مفید صورتیں پیدا ہوتی رہتی ہیں.چہ بعض اوقات طوفان اور آندھیاں عذاب کی صورت بھی بن جاتی ہیں لیکن اگر انسان تو بہ کرے اور اللہ تعالیٰ کی طرف جھک جائے تو یہ مفید صورتوں میں تبدیل ہو جاتی ہیں.حقیقت یہ ہے کہ دنیا کی ساری چیزیں انسان ہی کے لئے پیدا کی گئی ہیں.جیسا کہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ آسمان اور زمین اور جو کچھ ان دونوں کے درمیان ہے انسان ہی کے لیے ہے 3.پھر سورۃ فاتحہ میں اَلْعَالَمِينَ میں اس بات کی طرف اشارہ تھا کہ اللہ تعالیٰ کا سلوک سب مخلوقات سے ایک جیسا ہے.اسی طرح قرآن کریم میں کھیتی باڑی کے ذکر میں بھی بتایا گیا ہے انسانوں کے لیے بھی ہے اور حیوانوں کے لیے بھی 4.میں چھوٹا سا تھا تو اُس وقت بھی مجھے قرآن کریم کا درس دینے سے محبت تھی.مجھے یاد ہے

Page 113

$1955 103 خطبات محمود جلد نمبر 36 کہ یہ خیال مجھے اُس وقت بھی آیا تھا کہ کھیتی باڑی میں بھی جو کچھ ہوتا ہے وہ انسانوں کے لیے بھی ہے اور جانوروں کے لیے بھی ہے.اللہ تعالیٰ کی حکمت ہے کہ بیل ہل چلاتا ہے اور بظا ہر کھیتی باڑی کے سلسلہ میں انسان سے زیادہ کام کرتا ہے لیکن اُس کا پیٹ انسان کے پیٹ سے بڑا ہے.اس لئے جب غلہ پیدا ہوتا ہے تو خدا تعالیٰ اس میں اُس کا حصہ زیادہ رکھتا ہے.چنانچہ دانوں کی نسبت پھو سا تقریباً دو گنا ہوتا ہے.پس اسی طرح اللہ تعالیٰ ساری کائنات کا خیال رکھتا ہے اور اس کی ضروریات مہیا کرتا ہے.اس آخری سورۃ میں جو قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ کہا گیا ہے اس میں رَبِّ النَّاسِ کا مفہوم یہ ہے کہ ساری کائنات کے مضمون کو انسانوں کی طرف پھیر دیا جائے.یعنی ہم اس کی پناہ مانگتے ہیں جو سارے انسانوں کا خدا ہے.یہاں یہ نہیں کہا کہ کالوں یا گوروں کا خدا یا اس ملک کا کی یا اُس ملک کا خدا بلکہ یہ کہا ہے کہ وہ تمام انسانوں کا خدا ہے.ان الفاظ میں اس بات کی طرف بھی اشارہ ہے کہ ایک ایسا وقت آئے گا جب نیشنلزم کی طرف توجہ بڑھ جائے گی.اس لیے یہاں ایسے خدا کی پناہ مانگی گئی جو سب انسانوں کا خدا ہے نہ کہ کسی ایک نسل کا.پس یہ ایک رنگ میں دعا ہے کہ اے خدا ! جب کوئی ایک قوم دوسری قوم پر حاکم ہو جائے اور ظلم کرنے لگے تو تو چونکہ سب کا خدا ہے صرف اس قوم کا خدا نہیں اس لیے اسے اس حکومت سے محروم کر دے یا اس کی اصلاح کر دے.یہی اشارہ سورۃ فاتحہ میں مُلِكِ يَوْمِ الدِّینِ 5 کے الفاظ میں بھی پایا جاتا ہے.سورۃ فاتحہ کے آخر میں کہا گیا ہے کہ نہ تو میں مغضوب میں سے ہو جاؤں اور نہ ہی ضالین میں سے 6 یہاں بھی قومی زندگی کو پیش کیا گیا ہے.یہ ایک حقیقت ہے کہ کوئی قوم اُس وقت تک ترقی نہیں کر سکتی جب تک کہ اُس کی اگلی نسل ٹھیک نہ ہو جائے.قوموں کی زندگی تو سینکڑوں ہزاروں سال تک کی ہوتی ہے.پھر جب ہم ایک فرد کی زندگی کو جو زیادہ سے زیادہ ستر اسی سال یا سوسال کی ہوتی ہے بچانے کے لیے اتنی جد و جہد کرتے ہیں تو قومی زندگی کو بچانے کے لیے اس سے کہیں زیادہ کوشش کرنی چاہیے.سورۃ الناس کی آیت مِنْ شَرِّ الْوَسْوَاسِ الْخَنَّاسِ Z میں اس بات کی دعا کی گئی ہے کہ آئندہ نسلیں خراب نہ ہو جائیں.ان کے دلوں میں وساوس نہ پیدا ہوں.پس مومن کہتا ہے کہ اے خدا ! میری تو زندگی اچھی گزرگئی ہے لیکن میں اُن کے لیے بھی

Page 114

خطبات محمود جلد نمبر 36 104 $1955 دعا کرتا ہوں جو میرے بعد آنے والے ہیں کہ تو ان کو وساوس سے بچائیو.کیونکہ صرف اور صرف اس صورت میں ہی میری زندگی فائدہ بخش ثابت ہو سکتی ہے.عام ط طور پر کہتے ہیں کہ زنجیر کی طاقت اُس کی سب سے کمزور کڑی کی طاقت کے برابر ہوتی ہے.تو اگر کوئی بھی نسل میں سے بگڑے گا تو سارے سلسلہ کو خراب کرے گا.وساوس کئی قسم کے ہوتے ہیں.بعض وساوس ایسے بھی ہوتے ہیں جن کا پتا ہی نہیں چلتا.بچوں ہی کو دیکھ لو اگر ان کے دل میں وساوس پیدا ہو رہے ہوں تو وہ بہت حد تک ان کو اپنے دل میں چھپائے رکھتے ہیں.ایسی چھپی ہوئی چیز کا علاج تو خدا تعالیٰ ہی کر سکتا ہے.پس یہاں یہ دعا سکھائی کہ وساوس پیدا کرنے والے لوگوں کے شر سے محفوظ رکھ.اگر ایسا ماحول پیدا ہو جائے جس سے دلوں پر زلزلہ آ جائے اور وساوس پیدا ہوں تو تو ان سے ہماری نسلوں اور ساتھیوں کو بیچا.گویا مِنْ شَرِّ الْوَسْوَاسِ الْخَنَّاسِ - غَيْرِ الْمَغْضُوبِ کے مفہوم کی تشریح ہے.غرض جو مضمون سورۃ فاتحہ میں تمہید بیان کیا گیا تھا اُسے سارے قرآن کریم میں تفصیل کے ساتھ بیان کرنے کے بعد آخری تین سورتوں میں اور خصوصاً اس سب سے آخری سورۃ میں اس کا خلاصہ بیان کر دیا گیا ہے.“ (الفضل 8 ستمبر 1955ء) 1: الفاتحة 2 2: الناس: 2 :3 اِنَّ فِى خَلْقِ السَّمَوتِ وَالْأَرْضِ وَاخْتِلَافِ الَّيْلِ وَالنَّهَارِ وَالْفُلْكِ الَّتِي تَجْرِى في الْبَحْرِ بِمَا يَنْفَعُ النَّاسَ وَمَا أَنْزَلَ اللهُ مِنَ السَّمَاءِ مِنْ مَّا فَأَحْيَا بِهِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا وَبَثَّ فِيهَا مِنْ كُلِّ دَابَّةٍ وَتَصْرِيفِ الرِّيحِ وَالسَّحَابِ الْمُسَخَّرِ بَيْنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ تٍ لِقَوْمٍ يَعْقِلُونَ (البقره: 165) ه: إِنَّمَا مَثَلُ الْحَيَوةِ الدُّنْيَا كَمَا أَنْزَلْنَهُ مِنَ السَّمَاءِ فَاخْتَلَطَ بِهِ نَبَاتُ الْأَرْضِ مَا يَأْكُلْ النَّاسُ وَالْأَنْعَامُ - (يونس : 25) 5 الفاتحة: 4 6 الفاتحة 7 7: الناس:5

Page 115

$1955 105 19 خطبات محمود جلد نمبر 36 سورۃ اخلاص میں عقیدہ تثلیث کی تردید اور قرآن کریم کا خلاصہ بیان کیا گیا ہے (فرموده 12 /اگست 1955ء بمقام مسجد لندن ) تشہد ،تعوذ ،سورۃ فاتحہ اور سورۃ اخلاص کی تلاوت کے بعد فرمایا.وو پہلے میں خطبہ دوں گا.پھر قعدہ استراحت کے بعد دوسرا خطبہ پڑھوں گا اور ان کے اور نماز کے درمیان عزیزم چودھری ظفر اللہ خاں صاحب میرے خطبہ کا انگریزی میں ترجمہ کریں گے تا کہ وہ دوست جوار دو نہ جانتے ہوں اس سے فائدہ اٹھا سکیں.میں نے حسبِ عادت سورۃ فاتحہ کی تلاوت کی ہے اور پھر سورۃ اخلاص پڑھی ہے.رات کو میں بہت بیمار ہو گیا اور باوجو د ساتھ ساتھ نیند لانے والی دوائیاں لینے کے مجھے نیند نہ آسکی.لیکن بعد میں اصلاح معدہ کی دوائیں لیں جن سے کچھ نیند آ گئی.اور میں اس قابل ہوا کہ خطبہ دے سکوں.میں چونکہ ایک خطرناک اور لمبی بیماری سے نکلا ہوں اس لئے تھوڑا سا صدمہ بھی زیادہ محسوس ہوتا ہے اور چلتا ہوں تو کچھ بوجھ سا معلوم ہوتا ہے.مگر چونکہ میں نے دیکھا کہ مسجد تک آسکتا ہوں اس لئے نماز کے لیے آ گیا ہوں.

Page 116

خطبات محمود جلد نمبر 36 106 $1955 سورۃ اخلاص بھی ان تین سورتوں میں سے ہے جن کے بارے میں میں بیان کر چکا ہوں کہ وہ سورۃ فاتحہ کے مضمون کو ہی دُہراتی ہیں.جس طرح سورۃ فاتحہ سارے قرآن کا خلاصہ ہے اسی طرح ان تین سورتوں میں بھی قرآن کریم کا خلاصہ بیان کیا گیا ہے.مضمون بہت لمبا ہے میں ایک ایک بات بیان نہیں کر سکتا ورنہ اگر اس مضمون کو مفصل طور پر لکھا جائے تو چھ سات سو صفحات میں آئے گا.میں بیماری کی وجہ سے معذور ہوں اس لیے چاہتا ہوں کہ جو باتیں رہ گئی ہیں وہ نکات اختصار کے ساتھ ہی بیان کر دوں.رسول کریم اللہ نے قرآن کریم کی بعض سورتوں کی فضیلتیں بیان فرمائی ہیں.آیت الکرسی کے متعلق فرمایا کہ وہ قرآن کریم کا کو ہان ہے 1.بعض سورتوں کے بارے میں فرمایا کہ وہ قرآن کریم کا چوتھا حصہ ہیں.سورۃ اخلاص کے متعلق فرمایا ہے کہ یہ قرآن کا تیسرا حصہ ہے 2.علماء نے اس بارے میں بہت بحث کی ہے کہ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ اتنی چھوٹی چھوٹی سورتیں ایسے وسیع مضامین پر مشتمل ہوں.ہر ایک نے اس بارے میں مختلف ذوقی وجوہات بیان کی ہیں.لیکن اصل بات یہ ہے کہ اسلام کے ساتھ سب سے زیادہ ٹکر اور سب سے لمبی ٹکر عیسائیت نے لینی تھی.اس لئے قرآن کریم میں عیسائیت کے غلط عقائد کی تردید پر زور دیا گیا ہے اور ان کے صحیح عقائد کی تشریح کی گئی ہے.عیسائیت تین خداؤں کی قائل ہے.ایک خدا باپ ، دوسرا خدا بیٹا اور تیسرا خداروح القدس.قرآن کریم بھرا ہوا ہے خدا باپ کی تعریف سے، خدا باپ کے رب ہونے کی تائید سے اور خدا باپ کے ایک ہونے کی تائید سے.قرآن کریم بھرا ہوا ہے خدا بیٹے کی تردید کی سے اور خدا روح القدس کی تردید سے.قرآن کریم نے خدا باپ کی خدائی کو قائم کیا ہے اور خدا بیٹے اور خدا روح القدس کی تردید کی ہے.اس لیے یہ صاف بات ہے کہ چونکہ خدا باپ کی تائید قرآن کریم کا تیسرا حصہ ہے اس لیے سورۃ اخلاص بھی قرآن کریم کا تیسرا حصہ ہوگی.یہ سوال نہیں کہ سارے قرآن کی اتنی آیتیں ہیں اور سورۃ اخلاص کی اتنی ہیں.پس جو سورۃ خدا باپ کی وحدانیت کو قائم کرتی ہے اور خدا بیٹے اور خدا روح القدس کی تردید کرتی ہے وہ قرآن کا مثلث ہوگی.قُلْ هُوَ اللهُ اَحَدٌ 3 میں هُوَ ” وہ “ کے معنوں میں نہیں ہے.کیونکہ وہ “ کے معنے تب ہوتے ہیں جب ٹھو سے پہلے کسی ایسی چیز کا ذکر ہو جس کا وہ قائم مقام ہو."

Page 117

$1955 107 خطبات محمود جلد نمبر 36 یہاں یہ ضمیر شان ہے اور اس کے معنے ہیں حق یہ ہے، بیچ یہ ہے، اصل کی بات یہ ہے.پس اس کے معنے ہوئے اصل پکی بات یہ ہے کہ اللہ احد ہے.دو تین الفاظ عربی میں ایک کے مفہوم کو ادا کی کرنے کے لئے استعمال ہوتے ہیں.ایک احمد ہے، ایک واحد ہے اور ایک منفرد.یہاں احد کا لفظ استعمال ہوا ہے.لغت کی رو سے اس کا اصل احدیت ہے اور اس کے معنے ہیں اپنی ذات میں ایک ہونا.انگریزی میں اس کو کہیں گے."Oneness".اور واحد کے معنے ہوں گے "One".اور اللہ تعالیٰ کے احد ہونے کے معنے ہیں وہ ہستی جو اپنی ذات میں ایک اور غیر منقسم ہو.واحد کے بعد ثانی ہوتا ہے.اس طرح ایک کے بعد دو تین چار ہم کہہ سکتے ہیں.احد کے بعد دو تین نہیں کہتے بلکہ یہ دو تین کو بالکل نظروں سے اڑا کر پھر بولا جاتا ہے.اس کا اردو میں آسان ترجمہ اکیلا ہے.اکیلا دو تین نہیں کہتے.بلکہ ایک دو تین کہتے ہیں.واحد کے معنے ایک کے ہیں.مگر جب احمد کہا جائے تو دو کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا.واحد میں ذہن دوسرے کی طرف جاسکتا ہے.لیکن احد میں ذہن دوسرے کی طرف جاہی نہیں سکتا.پس اصل معنے ہوں گے اللہ تعالیٰ اپنی ذات میں اکیلا اور غیر منقسم ہے.اللہ تعالیٰ کی بہت سی صفات ہیں اور یہ تمام صفات اُس کی ذات کا حصہ ہیں اور ان میں سے کوئی بھی الگ وجود نہیں رکھتی.لیکن عیسائی کہتے ہیں خدا بولتا ہے اور خدا بولا اور اُس سے مسیح پیدا ہوا.جیسے بائیل میں آیا ہے ابتدا میں کلام 4 اور کلام سے ہی آگے سب کچھ بنا.گویا وہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی صفتِ کلام اور اس کی ذات دونوں الگ الگ وجود درکھتی ہیں.وَلَمْ يَكُن لَّهُ كُفُوًا أَحَدٌ 5 میں احد کے معنے قرینے کی وجہ سے " کوئی" کے ہیں اور مذکور قرینے کی وجہ سے اکیلے کے معنے نہیں کئے جاسکتے.پس اس صورت میں اس آیت کے معنے ہوں گے کہ اس کا کوئی بھی ہم صفت نہیں نہ یہ کہ اس کا اکیلا ہم صفت نہیں.اللہ تعالیٰ اکیلا ہے اپنی ذات میں اور اس کی صفات اُس سے الگ کوئی وجود نہیں رکھتیں.اور کوئی اس کا کفو نہیں.اب دیکھو قُلْ هُوَ اللهُ اَحَدٌ سورة فاتحہ کی تفسیر ہی ہے.کیونکہ سورۃ فاتحہ میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.اَلْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعَلَمِینَ 6 تعریف کی مستحق وہی ذات ہے جو سب جہانوں کا رب ہو.پس جو ساری کائنات کا رب ہوگا وہ نہ کسی کا بیٹا ہوگا اور نہ باپ بلکہ وہ لَمْ يَلِدْ وَلَمْ يُولَدُ 7 ہوگا.

Page 118

$1955 108 خطبات محمود جلد نمبر 36 کیونکہ اولاد کے لیے دو چیزوں کی ضرورت ہوئی.ایک مرد کی اور ایک عورت کی جو اس کی تسکین کا موجب ہو اور اُس کی نسل اندوزی کی صفت کو ظاہر کرے.اللہ تعالیٰ ان سب باتوں سے پاک ہے.یہ سب امور رب العالمین کی تشریح ہیں.الله الصَّمَدُ بھی رَبِّ الْعَلَمِيْنَ کی تشریح ہے.لَمْ يَلِدْ وَلَمْ يُولَدْ بھی یہی رَبِّ الْعَلَمِينَ کی تشریح ہے.غرض اسلام نے بتایا کہ تم اللہ تعالیٰ کی صفات کو اس کی ذات سے الگ نہیں کر سکتے اور یہ نہیں کہہ سکتے کہ ایک اللہ ہے، ایک خالق ہے، ایک رازق ہے اور ایک مالک ہے.کیونکہ ان میں سے ہر ایک اس کی ذات کا حصہ ہے.اور الگ کوئی بھی وجود نہیں رکھتی.الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ الرَّحْمَنِ الرَّحِيْمِ مُلِكِ يَوْمِ الدِّينِ : میں بھی ربوبیت ، رحمانیت ، رحیمیت اور مالکیت میں سے کسی کا بھی کوئی الگ وجود نہیں.وہ سب اللہ تعالیٰ کی اندرونی صفات کی مظاہر ہیں اور اللہ تعالیٰ ان کے میل جول سے مرکب نہیں بلکہ اپنی ذات میں منفرد ہے.ایک دفعہ خلیفہ اسیح الاول بیمار تھے.ہم اُن کے پاس بیٹھے ہوئے تھے.آپ نے آنکھ کھولی اور فرمایا کہ ابھی مجھے لا الہ الا الله کے معنے سمجھائے گئے ہیں.اس میں بیان کیا گیا ہے کہ صرف اللہ تعالیٰ کی ذات ہی مفرد ہے.باقی سب چیزیں مرکب ہیں.مادہ اور روح کے مفرد ہونے کی بحث سب لغو ہے.مادہ اور روح ہرگز مفرد نہیں یہ دونوں مرکب ہیں اور ان پر خدا تعالیٰ ہرگز قیاس نہیں کیا جاسکتا.کیونکہ اللہ تعالیٰ کی صفات کا کوئی الگ وجود نہیں.اور احد اور مفرد صرف اللہ تعالیٰ کی ہی صفات ہیں.مثلاً دیکھو خالقیت انسان میں بھی پائی جاتی ہے لیکن جیسا کہ ڈاکٹر کہتے ہیں اس کی یہ صفات گوشت ، روٹی اور دیگر کھانے پینے کی چیزوں سے پیدا ہوتی ہے.پھر عورت مرد سے ملتی ہے.اس طرح یہ تمام چیزیں مرکب ہو کر بچے کی پیدائش کا موجب بنتی ہیں.پس اللہ تعالیٰ کی ہستی کے سوا کوئی ایسی چیز نہیں جو مفرد بھی ہو اور پھر بھی اس کی صفات ظاہر ہوں.اللہ تعالیٰ احمد اور مفرد ہے اور لَمْ يَلِدْ وَلَمْ يُولَدْ ہے وہ مرکب نہیں اور نہ ہی کسی کا محتاج ہے.کیونکہ نہ وہ کسی کا باپ ہے اور نہ بیٹا.مفرد پر فنا نہیں آتی ، فنا ہمیشہ مرکب پر ہی آتی ہے.کیونکہ فنا کے معنے ہیں مرکب کے اجزاء کا الگ الگ ہو جانا.اور مفرد کے اجزاء نہیں ہوتے

Page 119

خطبات محمود جلد نمبر 36 109 $1955.اس لیے اُن کے کسی وقت الگ الگ ہونے کا بھی امکان نہیں پیدا ہوتا.پھر نیچر کا قانون دیکھو انسان کے بچے پیدا ہوتے ہیں کیونکہ اُس نے مرنا ہے.پہاڑ کے بچے پیدا نہیں ہوتے کیونکہ وہ ایک ہی حالت میں کھڑا رہتا ہے.انسان مرتا ہے اسی لئے اُس کا کی قائم مقام پیدا ہوتا ہے.پس جو چیز فنا ہوتی ہے وہی مرکب ہوتی ہے.خدا مفرد ہے اس لئے اُس پر فنا نہیں آتی نا.تو یہ سورۃ فی الواقع قرآن کریم کا تیسرا حصہ ہے کیونکہ اِس میں اُن عقائد کی تردید ہے جو قرآن کے مضامین کا تیسرا حصہ ہیں اور یہ عقائد عیسائیوں کے ہیں جو کہتے ہیں کہ ابتدا میں کلام تھا اور کلام سے سب دنیا پیدا ہوئی.گویا یہ صفت ابتدا میں ہی الگ وجود رکھتی تھی.اس طرح اس سے فلسفہ کی بھی تردید ہو جاتی ہے.فلسفیوں نے بھی خدا کی ذات وصفات کی قدامت کے بارے میں بہت بحث کی ہے.اسی طرح مسلمانوں میں وحدۃ الوجود اور وحدۃ الشہود کا جو مسئلہ ہے اس کی بھی اس سے تردید ہو جاتی ہے.قُلْ هُوَ اللهُ أَحَدٌ نے ان سب کی تردید کر دی ہے اور بتا دیا کہ تمہاری ساری باتیں غلط ہیں اور احمد اور صمد تمہارے ان خیالات کو برداشت نہیں کر سکتا.اس لیے فی الواقع یہ سورۃ ثلث القرآن ہے کیونکہ اس نے عیسائیت کی جس سے اسلام نے سب سے زیادہ اور سب سے لمبی ٹکر لینی ہے اور جو اس وقت دنیا کا ایک غالب مذہب سمجھا جاتا ہے تردید کر دی ہے.بلکہ اگر اس سورۃ کو اُن معنوں کے لحاظ سے جو میں نے کئے ہیں سارے قرآن کا خلاصہ کہا جائے تب بھی درست ہے.کیونکہ حق کو قائم کرنا اور باطل کو مٹانا ہی قرآن کا اصل مقصد ہے.جس کو اس چھوٹی سی سورۃ نے خلاصے کے طور پر بیان کر دیا ہے.“ (الفضل 14 ستمبر 1955ء) 1 جامع الترمذی ابواب فضائل القرآن باب ماجاء فى سورة البقرة و اية الكرسـ 2: الصحيح البخارى كتاب فضائل القرآن باب فضل” قل هو هو الله أحد “ 3 الاخلاص : 2 :4 یوحنا باب 1 آیت 1 تا 4 ( مفہوما )

Page 120

$1955 110 خطبات محمود جلد نمبر 36 5 الاخلاص : 5 6: الفاتحة : 2 78: الاخلاص : 4 :8: الفاتحة :2تا4

Page 121

$1955 111 20 خطبات محمود جلد نمبر 36 اپنے آبا واجداد کی نیکیوں کو قائم رکھو اور دوسروں کے لیے ابتلاء کا موجب نہ بنو فرموده 9 راگست 1955ء بمقام مسجد لندن) تشہد ،تعوذ اور سورہ فاتحہ اور سورہ فلق کی تلاوت کے بعد فرمایا.” یہ سورۃ جو اس وقت میں نے پڑھی ہے یہ تین آخری سورتوں میں سے دوسری ہے اور اس میں غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ 1 کے مقام کی تشریح کی گئی ہے.غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ ، صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ 2 کے ایک استثنا کا ذکر تھا.یعنی دعا یہ سکھائی گئی تھی کہ اے اللہ ! تو ہمیں سیدھا راستہ دکھا.اُن لوگوں کا راستہ جن پر تیرے انعام ہوئے.اُن لوگوں کا نہیں جو انعام حاصل کرنے کے بعد مَغْضُوْبِ عَلَيْهِمْ ہو گئے یا ضالین بن گئے.قُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ 3 میں بھی اسی طرف اشارہ کیا گیا ہے.پہلے تو فرمایا کہ قُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ تو کہ کہ میں اُس خدا کی پناہ طلب کرتا ہوں جو فلق کا خدا ہے.یعنی ہر نئی پیدائش اور ہر نئی نعمت کا خدا ہے.اب نام تو اس کا فلق رکھا جو بظاہر ایک مفید چیز نظر آتی ہے.مگر

Page 122

$1955 112 خطبات محمود جلد نمبر 36 آگے فرمایا کہ مِنْ شَرِّ مَا خَلَقَ 4 یعنی اچھی سے اچھی نظر آنے والی چیز میں بھی کوئی نہ کوئی برائی کا پہلو مخفی ہوتا ہے.اور اس سے بھی شر پیدا ہو جاتا ہے.جیسا کہ فرمایا تھا.غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ ما که صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ کے بعد بھی ایسے مواقع آسکتے ہیں جب انسان مَغْضُوبِ عَلَيْهِ ہو جائے یا صحیح راستہ سے بھٹک جائے.اسی طرح گو یہ عجیب بات معلوم ہوتی ہے کہ ایک چیز اچھی ہو اور اس میں سے شر پیدا ہو جائے.مگر در حقیقت یہ بات ناممکن نہیں.بائیل میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کے متعلق لکھا ہے کہ انہیں خدا تعالیٰ نے کہا کہ ہم تجھے اتنی اولا د دیں گے کہ وہ آسمان کے ستاروں کی طرح گئی نہیں جائے گی 5.اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اولا د بھی خدا تعالیٰ کی نعمتوں میں سے ایک نعمت ہے.اسی طرح بیویوں کے متعلق قرآن کریم فرماتا ہے کہ لِتَسْكُنُوا إِلَيْهَا 6 یعنی ہم نے تمہاری بیویاں اس لئے بنائی ہیں کہ تم ان کے ذریعہ سکون حاصل کرو.مگر وہی نعمت جس کا حضرت ابراہیم علیہ السلام کے لیے وعدہ کیا گیا تھا اور وہی چیز جو بنی نوع انسان کے سکون کا باعث ہے اس کے متعلق دوسری جگہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اَنَّمَا أَمْوَالُكُمْ وَاَوْلَادُكُمْ فِتْنَةٌ 7 تمہارے اموال اور تمہاری اولادیں بھی کبھی کبھی تمہاری آزمائش کا موجب ہو جاتی ہیں.تو وہی چیز جو ایک وقت میں اچھی ہوتی ہے بعض دوسرے حالات کے ماتحت تکلیف کا موجب ہو جاتی ہے.پس مومن کو ہمیشہ اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے رہنا چاہیے کہ اُس نے جو نعمتیں عطا کی ہیں وہ اس کی ٹھوکر کا موجب نہ ہو جائیں.میں یہاں کے دوستوں کو خصوصیت سے نصیحت کرتا ہوں کہ وہ اس سبق کو جو قُلْ اَعُوذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ میں بتایا گیا ہے یا درکھیں.یہاں زیادہ تر نوجوان ہیں ایسا نہ ہو کہ وہ اپنے ماں باپ کے لئے فتنہ بن جائیں اور ان کی قائم کی ہوئی نیکیوں کو خراب کر دیں.میں نے پہلے بھی کئی دفعہ بیان کیا ہے کہ ابو جہل کی پیدائش پر اُس کے ماں باپ نے کتنی خوشیاں منائی ہوں گی.مگر جب ہزاروں لوگوں کو کھانا کھلایا گیا ہوگا، جب اونٹنیاں ذبح کی جارہی ہوں گی ، نفیر یاں 8 بجائی جارہی ہوں گی ، جب خوشیوں کے نعرے لگائے جارہے ہوں گے، اُس وقت آسمان کے فرشتے کہہ رہے ہوں گے کہ لعنت ہے اس لڑکے پر جس نے خدا کے ایک عظیم الشان نبی کو دکھ دینا ہے.پس قُل اَعُوْذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ کے سبق کو یا درکھو.

Page 123

خطبات محمود جلد نمبر 36 113 $1955 مجھے حضرت خلیفہ المسیح اول کی یہ بات ہمیشہ یاد رہتی ہے.آپ فرمایا کرتے تھے کہ جب کبھی اُس شخص کا نام آتا ہے جو حضرت امام حسین کے قتل کا موجب ہوا تو دل سے ایک آہ نکل جاتی ہے.حالانکہ وہ رسول کریم ﷺ کے ایک مخلص صحابی کا بیٹا تھا.مگر کتنا بدقسمت تھا وہ شخص جو ایسے عظیم الشان صحابی کے گھر پیدا ہوا جس کے ماں باپ نے ساری برکتیں محمد رسول اللہ اللہ سے حاصل کیں.مگر وہ بد بخت آپ کے نواسے کو قتل کرنے کا موجب بن گیا.تو اچھے سے اچھے خاندان میں بھی بُری اولاد پیدا ہوسکتی ہے.تو قُلْ اَعُوذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ کے سبق کو ہمیشہ یاد رکھو.اور اپنے آباؤ اجداد کی نیکیوں کو قائم رکھو اور دوسروں کے لئے ابتلاء کا موجب نہ بنو.اور نیک چشمے کو گندگی سے بچاؤ تا کہ تمہارا اچھا چشمه بد بودار چشمه نه بن جائے.اگر تم یہ کوشش کرو گے تو اللہ تعالیٰ تمہاری مدد کرئے گا.اُس کی ایک صفت ہادی بھی ہے.لیکن اگر بندہ خود روک پیدا کرلے تو ہدایت سے محروم ہو جاتا ہے.پس دعائیں کرتے رہو اور یہ تینوں سورتیں ہمیشہ پڑھا کرو.رسول کریم ہر رات کو سونے سے قبل ان کو ہمیشہ پڑھا کرتے تھے.آپ لوگوں میں سے اکثر مسافر ہیں اور ہم بھی تھوڑے دنوں میں سفر کرنے والے ہیں.دوستوں کو معلوم ہے کہ میں شدید بیماری میں مبتلا رہا ہوں.اگر چہ خدا تعالیٰ نے افاقہ بخشا ہے مگر بیماری ابھی گئی نہیں تھوڑا سا بولنے سے اور تھوڑی سی توجہ سے بھی سر چکرا جاتا ہے اور تھکان محسوس ہوتی ہے.یہی وہ علامات ہیں جن کے متعلق ابھی علاج کی ضرورت ہے.سو میں جاؤں گا اور آپ لوگوں کے لیے اور آپ کے خاندانوں کے لیے دعا کروں گا.آپ بھی دعا کریں کہ میں بغیر روک اور پریشانی کے صحت کے ساتھ سلسلہ کی خدمت کر سکوں.اور اللہ تعالیٰ مجھ پر اور میرے ساتھ کام کرنے والوں پر ایسا فضل کرے کہ جو کام آج سے قریباً نصف صدی پہلے ہم نے شروع کیا تھا اللہ تعالیٰ اس کے پھل دیکھنا بھی ہمیں نصیب کرے اور اسلام کو دنیا میں ترقی بخشے.“ (الفضل 2 مئی 1956ء) 1: الفاتحة: 7 2: الفاتحة 7 3 الفلق : 2

Page 124

خطبات محمود جلد نمبر 36 $1955 114 4 الفلق : 3 5 پیدائش باب 22 آیت 17 6 الروم: 22 7: الانفال: 29 نفیری: بانسری کی قسم کا ایک ساز ، شہنائی ( اردو لغت تاریخ اصول پر جلد 20 صفحہ 218 کراچی جون 2005ء) الصحيح البخارى كتابُ فَضَائل القرآن باب فضل المعوّذَاتِ

Page 125

$1955 115 21 خطبات محمود جلد نمبر 36 خدا تعالی کے اس وعدے پر سچا اور کامل ایمان رکھو کہ بالآخر اسلام دنیا کے تمام ادیان پر غالب آئے گا (فرموده 26 اگست 1955ء بمقام لندن) تشہد ،تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا." اللہ تعالیٰ کا فضل شاملِ حال رہا تو ہم نماز کے بعد روانہ ہوں گے.اس لیے میں آخری نصیحت کے طور پر دوستوں سے یہ کہتا ہوں کہ ایک حدیث میں رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.اَنَا عِندَ ظَنِّ عَبْدِی بی 1.میرا بندہ جس قسم کا یقین مجھ پر رکھتا ہے میں بھی اُس سے ویسا ہی سلوک کرتا ہوں.یعنی خدا تعالیٰ اپنے بندے سے اُس کے یقین اور ایمان کے مطابق سلوک کرتا ہے.اگر بندہ خدا تعالیٰ کی رحمت سے مایوس ہو جائے تو خدا تعالیٰ بھی اُسے اپنی رحمت سے حصہ نہیں دیتا.آپ لوگ جو انگلستان میں رہتے ہیں اور جن کا کام یہاں اسلام کی تبلیغ کرنا ہے آپ کو ان لوگوں کا اسلام میں داخل ہو نا بظا ہر مشکل نظر آتا ہے.کیونکہ ان لوگوں کو جو ترقی ملی ہے اُسے یہ عیسائیت کی ترقی سمجھنے لگ گئے ہیں.مگر ہمارے مبلغوں کو یا د رکھنا چاہیے کہ خدا تعالیٰ نے اسلام کو تمام دنیا کے لئے بھیجا ہے اور خدا تعالیٰ نے قرآن کریم میں خبر دی ہے کہ وہ اسلام کو تمام دنیا پر غالب کر دے گا.اگر ہمیں خدا تعالیٰ کی قدرتوں کا کامل یقین ہو تو

Page 126

خطبات محمود جلد نمبر 36 116 $1955 خواہ ہمیں اسلام کی اشاعت کا کام کتنا ہی مشکل دکھائی دیتا ہو ہمارا فرض ہے کہ ہم اپنی آنکھوں کو جھوٹا کہیں ، اپنے خیالات کو غلط قرار دیں اور خدا تعالیٰ کی اس بات پر سچا اور کامل یقین رکھیں کہ خواہ کفر کی کتنی بڑی طاقت ہو پھر بھی اسلام غالب آکر رہے گا.کیونکہ خدا تعالیٰ کی بات تو کبھی جھوٹی نہیں ہو سکتی.دیکھو رسول کریم ﷺ کے زمانہ میں ایک صحابی کو اسہال کی شکایت ہوگئی.اس کا بھائی رسول کریم ﷺ کے پاس آیا اور اس کی کیفیت بتلائی.رسول کریم ﷺ نے فرمایا جاؤ اور اسے شہد پلاؤ.وہ گیا اور اس نے شہد پلایا مگر اسے اسہال اور زیادہ ہو گئے.وہ دوبارہ گھبرا کر رسول کریم کے پاس آیا اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! اس کے اسہال تو اور بھی بڑھ گئے ہیں.آپ نے فرمایا جاؤ اور اُسے پھر شہد پلاؤ.وہ گیا اور اس نے پھر شہد پلایا.مگر بجائے فائدہ ہونے کے اس کے اسہال میں اور بھی زیادتی ہو گئی.اس پر وہ پھر تیسری دفعہ رسول کریم ﷺ کے پاس آیا اور کہا کہ یا رسول اللہ ! میرے بھائی کے اسہال بہت زیادہ ہو گئے ہیں.رسول کریم ہے.فرمایا تیرے بھائی کا پیٹ جھوٹا ہے.لیکن خدا تعالیٰ کا یہ قول جھوٹا نہیں کہ اُس نے شہر میں شفاء رکھی ہے.جاؤ اور اُسے شہد پلاؤ.چنانچہ اس نے پھر شہد پلایا.جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ایک خطر ناک قسم کا سدہ اندر سے نکلا اور اُس کے اسہال دور ہو گئے 3.صلى الله صد الله اب دیکھو جب رسول کریم ﷺ نے یہ فرمایا کہ تیرے بھائی کا پیٹ جھوٹا ہے تو درحقیقت آپ نے اس امر کی طرف اشارہ فرمایا کہ اسہال کی تکلیف میں بعض دفعہ یہ ضروری ہوتا ہے کہ اور اسہال لائے جائیں تا کہ پیٹ صاف ہو جائے اور سُدّے نکل جائیں.چنانچہ ڈاکٹر بھی بعض دفعہ اسہال کے مریض کو مگنیشیا دیتے ہیں تا اُسے اور اسہال آئیں اور فاسد مادہ نکل جائے.پس اگر تمہاری آنکھ یہ کہتی ہو کہ یہ لوگ اسلام قبول نہیں کر سکتے تو تم کہو کہ ہماری آنکھ جھوٹی ہے.یہ لوگ یقیناً ایک دن اسلام کو قبول کریں گے.کیونکہ ہمارے خدا نے اسلام کو تمام ادیان پر غالب کرنے کا وعدہ فرمایا ہے.حقیقت یہ ہے کہ اگر آپ لوگ پورے یقین کے ساتھ ان لوگوں کو تبلیغ کریں گے تو ان کو اسلام میں داخل کرنے میں یقیناً کامیاب ہو جائیں گے.لیکن اگر تمہیں یہ یقین حاصل نہیں تو

Page 127

$1955 117 خطبات محمود جلد نمبر 36 تمہاری تمام کوششیں ناکام رہ جائیں گی.اگر تبلیغ کرتے وقت تمہارے اندر یہ یقین پیدا نہیں ہوتا ہے کہ یہ لوگ اسلام میں داخل ہوں گے تو خدا تعالیٰ کی مدد اور نصرت سے تم محروم رہو گے اور فرشتے تمہاری تائید کے لئے آسمان سے نازل نہیں ہوں گے.پس جب تم تبلیغ کرو تو اس یقین اور ایمان کے ساتھ کرو کہ یہ لوگ یقیناً ایک دن اسلام میں داخل ہونے والے ہیں.کیونکہ خدا تعالیٰ نے قرآن کریم میں فرمایا ہے کہ ایک دن اسلام باقی تمام ادیان پر غالب ہوگا.اور اگر تبلیغ کے باوجود تمہیں اچھے نتائج نظر نہ آئیں تو تم سمجھ لو کہ یا تمہارے کام میں نقص ہے اور یا تمہارے یقین اور ایمان میں کمی ہے.یہ لوگ یقیناً اسلام میں داخل ہوں گے.کیونکہ خدا تعالیٰ کا یہ قول بہر حال سچا ہے کہ وہ اسلام کو باقی تمام ادیان پر غالب کرے گا.پس جب تم کسی کو تبلیغ کرو تو اس یقین کے ساتھ کرو کہ وہ اسلام میں ضرور داخل ہوگا.اور اگر وہ اسلام قبول کرنے سے انکار بھی کرے تو تم اُس سے کہو کہ گو تمہارا منہ اسلام کو قبول کرنے سے انکار کر رہا ہے لیکن تم بہر حال میرا شکار بنو گے.پس بہتر ہے کہ تم حجت پوری ہونے سے پہلے خود ہی مسلمان ہو جاؤ ورنہ خدا تعالیٰ کے فرشتے تمہیں اسلام قبول کرنے کے لئے میرے پاس لائیں گے اور تمہیں ایک نہ ایک دن اسلام ضرور قبول کرنا پڑے گا.“ الفضل 9 دسمبر 1955ء) 1: الصحيح البخارى كتاب التوحيد باب قولُ الله تَعَالَى يُرِيدُونَ أَنْ يُبَدِّلُوْا كَلَامَ اللَّهِ :2 هُوَ الَّذِى اَرْسَلَ رَسُوْلَهُ بِالْهُدَى وَدِينِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِهِ (الصف: 10 3 صحیح مسلم کتاب السلام باب التداوي بِسَقْيِ الْعَسَلِ

Page 128

$1955 118 22 خطبات محمود جلد نمبر 36 اطمینانِ قلب حاصل کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ پر ایمان لانا اور اُس کے ساتھ تعلق پیدا کرنا ضروری ہے (فرموده 2 ستمبر 1955ء بمقام زیورچ سوئٹزرلینڈ) تشہد ، تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا.”مذہب اور لامذہبیت میں بڑا فرق یہی ہے کہ مذہب اس دنیا میں خدا تعالیٰ کو ایک فعال ہستی تسلیم کرتا ہے.ہم دیکھتے ہیں کہ اس دنیا میں اس قدر حوادث کا سلسلہ جاری ہے اور دنیا کے حالات بعض دفعہ اس طرح مخفی ذرائع سے بدلتے ہیں کہ اگر اس دنیا سے اللہ تعالیٰ کا تعلق تسلیم نہ کیا جائے تو انسان کے لیے اطمینان حاصل کرنے کی صورت ہی نہیں رہتی.لیکن خدا تعالیٰ پر بھی صرف ایمان لانا کافی نہیں ہوتا بلکہ اس کے ساتھ تعلق پیدا کرنا اور اس سے فائدہ اٹھانا بھی ضروری ہوتا ہے.اس کی ایسی ہی مثال ہے جیسے کوئی شخص پانی کی چھا گل اپنے پاس رکھے لیکن پیاس لگنے پر پانی نہ پیئے تو اس کی پیاس بجھ نہیں سکتی.مذہب سے بھی انسان اسی صورت میں فائدہ اٹھا سکتا ہے جبکہ وہ دعاؤں سے کام لے اور خدا تعالیٰ کی طرف جھکے.جب انسان ایسا کرے تو وہ اُس شخص کے مشابہہ ہوگا جس کے پاس پانی موجود ہے اور وہ اُسے پی بھی رہا ہے.اگر پانی موجود

Page 129

$1955 119 خطبات محمود جلد نمبر 36 نہ ہو تو پیاس نہیں بجھتی.اور اگر پانی موجود تو ہو لیکن پیا نہ جائے تب بھی پیاس نہیں بجھتی.پیاس تبھی بجھتی ہے جب پانی بھی موجود ہو اور پیا بھی جائے.حقیقت یہ ہے کہ اس دنیا میں انسان ایسے وقت میں داخل ہوتا ہے جبکہ اُسے کچھ پتا نہیں ہوتا کہ دنیا کیا ہے اور اس دنیا میں اُس کے کہ فرائض ہیں.صرف مذہب ہی اُسے خدا تعالیٰ کی ہستی کا ثبوت دیتا ہے.پس خدا تعالیٰ کے ساتھ تعلق رکھنا اور اُس سے دعائیں کرنا ہی اصل چیز ہے.اگر خدا تعالیٰ کی ہستی کو تسلیم نہ کیا جائے تو یہ دنیا ایک معمہ بن کر رہ جائے.اسی لئے فلاسفر ہمیشہ بخشیں کرتے رہتے ہیں کہ انسان کیا ہے اور کہاں سے آیا ہے اور اس کا دوسری چیزوں کے ساتھ کیا تعلق ہے؟ اور وہ اس معمہ کو حل نہیں کر سکے.کیونکہ یہ معمہ خدا تعالیٰ کی راہ نمائی کے بغیر حل نہیں ہو سکتا.در حقیقت بعض چیزوں کو ماننے کے لیے انسان کو کسی ایسی ہستی پر یقین کرنا پڑتا ہے جس کے سچا ہونے میں کوئی شبہ نہ ہو.ہم بعض باتوں پر محض اس لئے یقین کر لیتے ہیں کہ وہ کسی معتبر آدمی نے کہی ہوتی ہیں.پس اگر ہم ایک معتبر انسان پر اعتبار کر لیتے ہیں تو خدا پر کیوں اعتبار نہیں کر سکتے.جب یہ ساری چیزیں جمع ہو جائیں تو دنیا کا معمہ ، معمہ نہیں رہتا.بلکہ ایک ایسا تسلسل نظر آتا ہے جس کی ہر کڑی واضح اور ہر عقد حل شدہ ہوتا ہے.“ ( الفضل 2 مئی 1956ء)

Page 130

$1955 120 23 خطبات محمود جلد نمبر 36 مغربی ممالک میں اب اسلام کی فوقیت اور برتری کو تسلیم کرنے کا رجحان سرعت کے ساتھ ترقی کر رہا ہے (فرموده 9 ستمبر 1955ء بمقام احمد یہ ہال کراچی ) تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا." میں آج کا خطبہ شروع کرنے سے پہلے یہ کہنا چاہتا ہوں کہ اس بیماری کا اثر مجھ پر زیادہ تر یہ ہے کہ میں شور بالکل برداشت نہیں کر سکتا.ذرا بھی شور ہو تو مجھے یوں معلوم ہوتا ہے کہ کوئی شخص میرے سر پر ہتھوڑے مار رہا ہے.چنانچہ جس دن ہم آئے ہیں نئے مکان میں بعض نقائص کی وجہ سے اس قدر شور تھا کہ جب ہم ناشتہ کرنے بیٹھے اور میرے ساتھ بیٹھنے والے میری بیویاں اور بچے ہی تھے تو اگر کوئی پرچ میں پیالی بھی رکھتا ہو یا چمچہ رکھتا ہو تو مجھے یوں معلوم ہوتا کہ ڈھول بج رہے ہیں.یورپ میں بھی یہ تکلیف مجھے رہی ہے جس سے بچنے کے لیے میں اکثر اوقات اپنے کانوں میں روئی ڈال لیا کرتا تھا.اس بیماری کا دوسرا اثر میری آنکھوں پر پڑا ہے.جس میں پہلے سے تو بہت افاقہ ہے مگر پھر بھی ابھی کمزوری باقی ہے.جب میں اُن دوستوں کو دیکھتا ہوں جن کو میں پہچانتا تھا اور اب بھی پہچانتا ہوں تو مجھے یوں معلوم ہوتا ہے کہ اُن کی شکلوں میں تھوڑا سا فرق ہے.ڈاکٹروں نے دوبارہ

Page 131

$1955 121 خطبات محمود جلد نمبر 36 معائنہ میں بتایا ہے کہ پہلے سے نظر ٹھیک ہو رہی ہے لیکن پھر بھی دیر تک میں ایک جگہ پر نظر نہیں ڈال سکتا.اس سے دماغ میں پریشانی پیدا ہو جاتی اور مجھے کوفت محسوس ہونے لگتی ہے.بہر حال ڈاکٹر کی رائے یہ ہے کہ آنکھوں کے کچھ عرصہ استعمال کے بعد یہ نقائص کم ہونے لگیں گے.اسی طرح گلے اور کان کا معائنہ کرایا گیا تو ڈاکٹروں نے بتایا کہ جہاں تک طبی معائنہ کا تعلق ہے کان اور گلے میں کسی قسم کا نقص نہیں.یہ صرف فنکشنل (Functional) تکلیف ہے.یعنی ان اعضاء کے طریق کار کو بیماری کی وجہ سے نقصان پہنچا ہے اس لئے اب نئے سرے سے آپ کو ہر چیز کی عادت ڈالنی پڑے گی.آج میں سب سے پہلے اپنے اُن تجارب سے جو مجھے یورپ کے سفر میں ہوئے ہیں ایک بات کا خصوصیت سے ذکر کرنا چاہتا ہوں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے غالباً 1904ء یا1905ء میں کہا تھا کہ آ رہا ہے اس طرف احرار یورپ کا مزاج 1 یہ وہ زمانہ تھا جب دنیا کے کسی انسان کے واہمہ اور خیال میں بھی تبلیغ اسلام نہیں تھی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ السلام نے اُس وقت کچھ اشتہار لکھ کر بھیجے اور بعض نے وہ اشتہار پڑھے بھی.لیکن اس سے زیادہ اُس وقت کوئی تبلیغ نہیں تھی.بعد میں ہمارے مشن بیرونی ممالک میں قائم ہوئے اور کچھ لوگوں نے اسلام قبول کیا.مگر یہ بات بھی ایسی ہی تھی جیسے پہاڑ کھود نے کے لیے ہتھوڑا مارا جاتا ہے.ہتھوڑا مارنے سے دو تین انچ پہاڑ تو گھر سکتا ہے مگر ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ پہاڑ کھودا گیا ہے.بے شک ہم اس بات پر خوش ہو سکتے ہیں کہ پہاڑ کھودنے کا کام شروع ہو گیا ہے مگر ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ وہ کھودا بھی گیا ہے.لیکن اس سفر میں میں نے اللہ تعالیٰ کا یہ عجیب نشان دیکھا کہ یورپ کے بعض اچھے تعلیم یافتہ اور اعلیٰ طبقہ کے لوگوں میں وہی باتیں جو پہلے اسلام کے خلاف سمجھی جاتی تھیں اب اس کی صداقت کا ثبوت سمجھی جانے لگی ہیں.چنانچہ میرے لندن پہنچنے سے چند دن پہلے ہی وہاں کا ایک مشہور میوزیشن (Musician) جولندن کے ایک اہم ترین او پیرا (OPERA) میں کام کرتا اور پیانو وغیرہ بجاتا ہے اُس کے دل میں اسلام کی رغبت پیدا ہوئی.اُس کی ماہوار تنخواہ 105 پاؤنڈ ہے.گویا آجکل کے ریٹ کے لحاظ سے قریباً چودہ سو روپیہ

Page 132

$1955 122 خطبات محمود جلد نمبر 36 لیکن اس کے علاوہ وہ زائد روپیہ بھی کما لیتا ہے.اُس کی بیوی نے بتایا کہ وہ قریباً سترہ اٹھارہ سو پاؤنڈ سالانہ کماتا ہے.جس کے معنے یہ ہیں کہ اس کی دو ہزار کے قریب ماہوار آمد ہے.مجھے ایک دفعہ لندن میں بڑے بڑے تاجر ملنے کے لیے آئے.میں نے اُن کے سامنے اُس کا نام لیا تو ایک شخص کی بیوی نے فوراً پہچان لیا اور کہا کہ ہاں میں اُس کو جانتی ہوں.اُس نے بڑی سی داڑھی رکھی ہوئی ہے.اتنی بڑی داڑھی کہ آپ لوگ جو میرے سامنے بیٹھے ہیں آپ میں سے شاید ایک فیصدی کی بھی اُتنی بڑی داڑھی نہیں.مجھے جب وہ ملا تو کہنے لگا کہ میرے دوست جب مجھے دیکھتے ہیں تو مجھے پاگل کہتے ہیں.میں نے کہا اگر آپ کی داڑھی نہ ہوتی تو میں آپ کو پاگل سمجھتا.اُن کا نقطہ نگاہ یہ ہے کہ داڑھی رکھنے والا پاگل ہے اور میرا نقطہ نگاہ یہ ہے کہ داڑھی نہ رکھنے والا پاگل ہے.جو لوگ داڑھی نہیں رکھتے وہ داڑھی رکھنے والوں کو پاگل سمجھتے ہیں اور جو داڑھی رکھتے ہیں وہ کی داڑھی نہ رکھنے والوں کو پاگل سمجھتے ہیں.بہر حال جب تک دنیا میں اختلاف رہے گا لوگوں کے یہ کی فتوے جاری رہیں گے.مجھے وہاں کے مبلغین نے بتایا ہے کہ اس شخص کی اسلام کی طرف رغبت کی ایک عجیب وجہ ہے جو عام وجوہات کے بالکل الٹ ہے اور اس سے پتا لگتا ہے کہ کس طرح اللہ تعالیٰ ان کے دماغوں میں تغیر پیدا کر رہا ہے.کوئی زمانہ ایسا تھا کہ اسلام کے رستہ میں سب سے زیادہ روک تعدد ازدواج کی روک سمجھی جاتی تھی.یورپ کے لوگ اصرار کرتے تھے کہ ایک سے زیادہ بیویاں کرنا سخت ظلم ہے.مگر اب یہ حالت ہے کہ وہ پہلے بعض اور مسلمانوں کے پاس گیا اور اُن سے کہا کہ اسلام کا تعدد ازدواج کے متعلق کیا خیال ہے؟ انہوں نے کہا کہ تو بہ تو بہ ! یہ بات تو دشمنوں کی طرف سے سخت بگاڑ کر پیش کی جاتی ہے اسلام میں کوئی ایسا حکم نہیں.یہ تو خاص خاص مجبوریوں اور شرطوں اور قیدوں کے ساتھ اجازت دی گئی ہے.وہ کہنے لگا کہ انہوں نے جب مجھے یہ جواب دیا تو میں جھٹ کھڑا ہو گیا اور میں نے کہا کہ مجھے تو اسلام میں یہی ایک خوبی نظر آئی تھی اور تم کہتے ہو کہ اس کے ساتھ کئی قسم کی شرطیں اور قیدیں ہیں.میں تو وہاں جانا چاہتا ہوں کہ جہاں مجھے سیدھی طرح بتایا جائے کہ اسلام اس کی اجازت دیتا ہے.چنانچہ اس کے بعد وہ ہمارے پاس آیا اور اُس نے پوچھا کہ اس بارہ میں اسلام کا کیا حکم ہے؟ ہمارے مبلغین نے بتایا کہ اسلام اس کی اجازت

Page 133

خطبات محمود جلد نمبر 36 123 صلى الله $1955 دیتا ہے.مگر اس نے ساتھ ہی یہ بھی کہا ہے کہ تم انصاف سے کام لو اور ہر بیوی کا حق ادا کرو.وہ کہنے لگا یہ بات درست ہے اور میری عقل اسے تسلیم کرتی ہے.میں سمجھتا ہوں کہ یورپ نے اس تعلیم کو چھوڑ کر بہت کچھ کھویا ہے اور ہم نے اپنے اخلاق بگاڑ لئے ہیں اس لئے اب میں آپ کے پاس ہی آیا کروں گا.چنانچہ وہ مجھے بھی ملا اور اپنے بیوی اور بچوں کو بھی ہمارے گھر لایا.پھر اُس نے مجھ سے جو باتیں کیں اُن سے پتا لگتا ہے کہ اُس نے کس طرح اسلامی تعلیم پر گہرا غور کیا ہے.اُس نے قرآن کریم کا انگریزی دیباچہ نکالا اور کہا کہ آپ نے اس کتاب میں ایک بات ایسی لکھی ہے جس سے میرے دل میں شبہ پیدا ہوا ہے.اُس نے کہا میرا طریق یہ ہے کہ میں کتاب پڑھتا جاتا ہوں اور جو شبہات میرے دل میں پیدا ہوں اُن کو میں نوٹ کرتا جاتا ہوں.اس کتاب کے مطالعہ کے دوران میں میرے دل میں ایک شبہ پیدا ہوا ہے.میں نے کہا فرمائیے وہ کیا شبہ ہے؟ کہنے لگا اس کتاب میں آپ نے لکھا ہے کہ رسول کریم یہ ایک دفعہ مسجد میں عبادت کے لیے بیٹھے تھے کہ آپ کی ایک بیوی آپ سے ملنے کے لیے آگئیں.چونکہ واپسی کے وقت رات ہوگئی تھی اس لئے آپ اپنی بیوی کو گھر پہنچانے کے لیے ساتھ چل پڑے.راستہ میں آپ کو ایک صحابی ملا.اُسے دیکھ کر آپ کو شبہ پڑا کہ کہیں اُسے ٹھوکر نہ لگ جائے اور یہ خیال نہ کرے کہ میں کسی اور کو ساتھ لئے جا رہا ہوں.چنانچہ آپ نے اپنی بیوی کے منہ پر سے نقاب اٹھا دی اور اُسے کہا کہ دیکھ لو یہ میری بیوی ہے 2.جب میں نے یہ واقعہ پڑھا تو مجھے سخت اعتراض پیدا ہوا اور میں نے کہا کہ پردہ تو اسلام کے نہایت اعلیٰ درجہ کے حکموں میں سے ایک حکم ہے اور یہ مذہب اور پاکیزگی کی جان ہے.اگر کوئی بد بخت شخص ایسا تھا جس کے دل میں رسول کریم ﷺ کی پچاس ساٹھ سالہ زندگی کو دیکھ کر بھی شبہ پیدا ہوا تو وہ بے شک جہنم میں جاتا، اُس کی کیا حیثیت تھی کہ محض اُس کا ایمان بچانے کے لیے اپنی ایک بیوی کے منہ پر سے پردہ اٹھا دیا جاتا.جس شخص نے اتنی مدت دراز تک رسول کریم می کی خدمات کو دیکھا ، آپ کی قربانیوں کو دیکھا، آپ کے ایمان کو دیکھا، آپ کے اخلاص کو دیکھا، آپ کی محبت الہی کو دیکھا اور پھر بھی اُس کے دل میں شبہ پیدا ہوا، وہ کمبخت اگر مرتا تھا تو بے شک ا مرتا.اُس کے لیے کیا ضرورت تھی کہ اپنی کسی بیوی کے منہ پر سے نقاب اٹھا دیا جاتا.صلى الله

Page 134

خطبات محمود جلد نمبر 36 124 $1955 چونکہ مجھ پر ابھی بیماری کا نیا نیا حملہ ہوا تھا اس لیے میرے دل میں اس سوال سے تھوڑی سی گھبراہٹ پیدا ہوئی اور میں نے سوچا کہ یہ ایک نیا سوال ہے.اور آدمی بڑا پڑھا ہوا اور زیرک ہے معلوم نہیں میں اس کا جواب بھی دے سکوں گا یا نہیں.یوں تو اللہ تعالیٰ کی میرے ساتھ یہ سنت ہے کہ اگر کسی سوال کا جواب مجھے نہ آتا ہو تو ادھر سوال کرنے والا سوال کرتا ہے اور اُدھر بجلی کی طرح میرے دل میں اُس کا جواب آجاتا ہے.مگر چونکہ میں اُس وقت بیمار تھا اس لیے میں نے اللہ تعالیٰ سے دُعا کی کہ الہی ! میں تو بیمار ہوں.تو تو بیمار نہیں.تو مجھے اس سوال کا جواب سمجھا دے.چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فوراً مجھے جواب سمجھا دیا جس سے اُس کی زبان بند ہوگئی.میں نے کہا کہ آخر آپ کو یہی اعتراض ہے کہ محمد رسول اللہ ﷺ نے ایک چھوٹی سی چیز کے لیے بڑی چیز کو کیوں قربان کر دیا ؟ بے شک اُس کا ایمان بھی ایک قیمتی چیز تھی.مگر بہر حال وہ ایک کمزور انسان کا ایمان تھا کیونکہ اُس نے محمد رسول اللہ ﷺ کی پاکیزگی پر شک کیا.اُس شخص کے ایمان کو بچانے کی کے لیے اپنی ایک بیوی کا پردہ اٹھا دینا ایک بڑی چیز کو چھوٹی چیز کے لیے قربان کر دینا ہے.کہنے لگا ہاں میرے دل میں یہی شبہ پیدا ہوا ہے.میں نے کہا تو پھر اس کے معنے یہ ہیں کہ آپ تسلیم کرتے ہیں کہ چھوٹی چیز کو بڑی چیز کے لیے قربان کر دینا چاہیے.اس اصول کو مدنظر رکھتے ہوئے اگر اس مخصوص واقعہ کو دیکھا جائے تو اس میں اُس شخص کا ایمان بچا نا بڑا کام تھا اور بیوی کے منہ پر سے نقاب الٹ دینا چھوٹی بات تھی.کہنے لگا یہ کس طرح ؟ میں نے کہا یہ تو تم جانتے ہو کہ پردہ کا حکم پہلی شریعتوں میں نہیں تھا.اور تم یہ بھی جانتے ہو کہ پردہ کا حکم رسول کریم ﷺ کی زندگی کے آخری سالوں میں نازل ہوا ہے.یعنی مدینہ میں ہجرت کرنے کے بعد پردہ کا حکم نازل ہوا ہے.تیرہ سال تک رسول کریم ﷺ مکہ میں رہے اور پردہ کا حکم نازل نہ ہوا.پھر مدینہ تشریف لائے تو وہاں بھی چار پانچ سال تک پردہ کا حکم نہیں اترا.گویا رسول کریم ﷺ کی دعویٰ نبوت کے بعد جو تئیس سالہ زندگی گزری ہے اُس میں سے سترہ اٹھارہ سال تک آپ کی بیویوں نے پردہ نہیں کیا.اور جب پردہ کا حکم مدینہ آنے کے بھی چار پانچ سال بعد نازل ہوا ہے تو تمہیں یہ ماننا پڑے گا کہ محمد رسول اللہ ﷺ کی ہر بیوی کو ہر صحابی نے دیکھا ہوا تھا.اب بتاؤ کہ جس بیوی کو وہ سو دفعہ پہلے دیکھ چکا تھا اگر ایک موقع پر اُس کا ایمان بچانے کے لیے آپ نے اپنی اس بیوی کا نقاب اٹھا دیا تو

Page 135

خطبات محمود جلد نمبر 36 125 $1955 اس میں حرج کیا ہوا.وہ آپ کی بیویوں کو جوانی کی حالت میں دیکھ چکا تھا اور اب تو وہ بڑی عمر کی ہو چکی تھیں.اس عمر میں اگر رسول کریم ﷺ نے اپنی کسی بیوی کے منہ سے نقاب الٹ دیا تو چاہے وہ کتنا ہی کمزور ایمان والا شخص ہو اُس کے ایمان کو بچانے کے لیے آپ کا نقاب الٹ دینا بالکل بے حقیقت بات تھی.کیونکہ اس بیوی کو اُس نے جوانی کے دنوں میں بھی دیکھا ہوا تھا اور اب تو وہ بڑی عمر کی ہو چکی تھیں.جوانی میں سو دفعہ دیکھنے والے شخص کے سامنے اگر آپ نے بڑھاپے میں اپنی ایک بیوی کے منہ سے اُس کا ایمان بچانے کے لئے تھوڑی دیر کے لیے پردہ اٹھا دیا تو آپ نے بڑی چیز کو چھوٹی چیز پر قربان نہیں کیا بلکہ چھوٹی چیز کو بڑی چیز کے لیے قربان کیا.اس جواب سے وہ خوش ہو گیا اور کہنے لگا کہ اب میری سمجھ میں یہ بات آگئی ہے.غور کرو کہ یہ کتنا بڑا تغیر ہے کہ یا تو یہ کہا جاتا تھا کہ چونکہ اسلام پردہ کا حکم دیتا ہے اس لیے جھوٹا ہے.اور یا یہ کہا جاتا ہے کہ محمد رسول اللہ ﷺ نے رات کے وقت ایک شخص کا ایمان بچانے کے لیے اپنی بیوی کے منہ سے ایک منٹ کے لیے بھی نقاب کیوں اتارا.اسی طرح ایک ڈچ عورت جو ایک مصری سے بیاہی ہوئی ہے ہالینڈ میں مجھے ملی.اُس نے بتایا کہ جب پادری اعتراض کرتے ہیں کہ ایک سے زیادہ بیویاں کرنا سخت ظلم ہے تو میں انہیں کہا کرتی ہوں کہ بے شرمو ! تم نے تو بیوی نہیں بننا.بیوی تو ہم نے بننا ہے.تم کون ہوتے ہو اعتراض کرنے والے.اگر یہ ظلم ہے تو اس کی شکایت ہمیں ہونی چاہیے.تم تو مرد ہو تمہیں کیوں شکایت ہے.پھر میں کہتی ہوں کہ اسلام میں تو یہ بھی حکم ہے کہ انصاف سے کام لو.اگر مرد انصاف کریں تو مجھے یا کسی اور عورت کو اس پر کیا اعتراض ہو سکتا ہے.وہ دو چھوڑ دس عور تیں کر لیں تمہارا کیا حق ہے کہ تم اس پر شور مچاؤ.میں نے یہی واقعہ اُس کو سنایا تو وہ کہنے لگا آپ ہالینڈ کی بات کرتے ہیں.میں لندن میں سے دس ہزار عورت ایسی دکھا سکتا ہوں جو اس بات کے لیے تیار ہے کہ مرد اگر انصاف سے کام لیں تو بے شک وہ کئی شادیاں کر لیں.لیکن مشکل یہ ہے کہ ہمارے ملک میں اخلاق اتنے بگڑ چکے ہیں کہ اچھے خاوند میسر ہی نہیں آتے.اب دیکھو یہ کتنا بڑا تغیر ہے.جو اُن میں پیدا ہو رہا ہے.اسی طرح کئی لوگ مجھے ملے جنہوں نے کہا کہ ہم نے ہیں میں تمہیں میں سال سے شراب نہیں پی.یہ کتنا عظیم الشان انقلاب ہے

Page 136

$1955 126 خطبات محمود جلد نمبر 36 جو اُن میں پیدا ہوا ہے.پہلے کثرت ازدواج پر اعتراض کیا جاتا تھا.اور اب کہتے ہیں کہ یہی اسلام کی بڑی خوبی ہے کہ وہ ایک سے زیادہ شادیوں کی تعلیم دیتا ہے.پہلے اس پر اعتراض تھا کہ پردہ کیوں کیا صلى الله جاتا ہے اور اب اس پر اعتراض ہے کہ ساری عمر نہیں بلکہ ایک منٹ کے لیے بھی محمد رسول اللہ ﷺ نے اپنی کسی بیوی کا پردہ کیوں اُتارا.غرض وہی چیزیں جو پہلے اعتراض کا موجب کبھی جاتی تھی اب خوبی کا موجب سمجھی جانے لگی ہیں اور ان میں ایسے لوگ پیدا ہور ہے ہیں جو ان کی تائید کرتے ہیں.جرمنی میں جب گورنمنٹ نے مجھے ریسیپشن (Reception) دیا تو ہمارے تمام ساتھیوں کے ساتھ ایک ایک وزیر بیٹھ گیا اور باتیں کرنے لگا.اُن کے ملک میں یہ دستور ہے کہ جو کام سب سے زیادہ اہم ہو وہ جس وزیر کے سپرد ہو اُسی کو پرائم منسٹر سمجھا جاتا ہے.چونکہ یہ ریسیپشن (Reception) میری خاطر تھا اس لئے انہوں نے جس وزیر کو میرے ساتھ بٹھا یا وہ کی وزیر تعمیرات تھا.پہلے تو مجھے اس پر تعجب ہوا مگر پھر انہوں نے بتایا کہ چونکہ آج کل ہم سب سے زیادہ زور تعمیر پر خرچ کر رہے ہیں اور ہمارے ملک کی طاقت کا بیشتر حصہ تعمیرات پر صرف ہورہا ہے اس لیے اب وزیر تعمیرات ہی ہم میں سب سے بڑا وز یر سمجھا جاتا ہے.وہ باتوں باتوں میں پوچھنے لگے کہ جماعت کی کتنی تعداد ہے اور آپ کے کتنے مشن اس وقت قائم ہیں؟ جب انہیں بتایا گیا کہ ہماری اتنی تعداد ہے اور اس قدر مشن ہیں تو انہوں نے تعجب کے ساتھ کہا کہ جماعت اس سے زیادہ مشن کیوں نہیں کھولتی ؟ میں نے انہیں بتایا کہ اب ہمارا ارادہ ہے کہ اپنے مشنوں کو بڑھائیں اور اس بارہ میں جلد کوئی قدم اٹھایا جائے گا.غرض جرمنی میں اسلام کی اشاعت کا ایک وسیع میدان پایا جاتا ہے اور اُن میں اسلام کی طرف رغبت اور شوق کا احساس نظر آتا ہے.سپین کا مبلغ جب تبلیغی کا نفرنس میں شامل ہونے کے لیے لندن آیا تو اُس نے بتایا کے سپین سے آتے وقت جرمنی کے ایمبیسیڈر (Ambassader) سے میں ملنے گیا تھا.وہ جرمن بادشاہ ول مسیلم (Wilhelm) کے خاندان میں سے ہے.میں نے اُسے بتایا کہ ہماری جماعت کے ہیڈ انگلستان آئے ہوئے ہیں اور وہاں ایک تبلیغی کا نفرنس منعقد ہورہی ہے جس میں شمولیت کے لیے میں جارہا ہوں.وہ کہنے لگا کہ میرا بھی ایک پیغام اُن کے نام لیتے جاؤ.میری طرف سے انہیں کہنا کہ

Page 137

$1955 127 خطبات محمود جلد نمبر 36 جرمن لوگ اسلام قبول کرنے کے لیے بالکل تیار ہیں ، آپ جلدی کیوں نہیں کرتے ؟ وہاں اپنا تبلیغی مشن کھولیں.ہمارا ملک اس وقت روحانی لحاظ سے پیاسا ہے مگر اسے کوئی رستہ نظر نہیں آتا.آپ وہاں جائیں اور اپنی باتیں پہنچائیں.ہمارا ملک آپ کی باتیں ماننے کے لیے تیار ہے.غرض لوگوں کے اندر سچائی کو قبول کرنے کا مادہ پایا جاتا ہے.ضرورت اس امر کی ہے کہ دوست قربانی کریں اور اپنی ذمہ داری کو محسوس کریں.جرمنی کے ایک شہر کی جماعت نے کہا کہ اگر ہمیں مبلغ مل جائے اور مسجد کے لیے زمین خرید کر دے دی جائے تو ہم امید کرتے ہیں کہ اگلے چھ ماہ میں کئی سو احمدی مسلمان اس شہر میں پیدا ہو جائیں گے.اور ایک دو سال میں ہزار دو ہزار ہو جائیں گے.وہاں ایک احمدی عرب موجود تھا.انہوں نے کہا کہ فی الحال اس کو یہاں مقرر کر دیا جائے.چنانچہ میں نے اُس کو وہاں مقرر کر دیا.پھر میں نے پوچھا کہ زمین کے لیے کتنی رقم کی ضرورت ہے؟ میں اپنے ملک پر قیاس کر کے سمجھتا تھا کہ وہ پچاس ساٹھ ہزار روپیہ مانگیں گے مگر انہوں نے کہا کہ ہمیں صرف دو ہزار مارک دے دیں.میں نے کہا کہ یہ دو ہزار مارک تو میں اپنی جیب سے بھی دے دوں گا.تم اس کے متعلق تسلی رکھو.مجھے صرف یہ بتا دو کہ عمارت کے لیے کتنا رو پیدلو گے؟ ہ فوراً بول اٹھے کہ عمارت کے لیے ہم آپ سے ایک پیسہ بھی نہیں لیں گے.سارا کام ہم اپنے ہاتھ سے کریں گے.آپ ہمیں صرف دو ہزار مارک دے دیں تا کہ ہم زمین خرید لیں.اس کے بعد اس پر عمارت ہم خود بنالیں گے.یہ چیز ایسی ہے جو سارے جرمنی میں پائی جاتی ہے.قاضی فیملی کے ایک نو جوان جو قاضی محمد اسلم صاحب کے بھتیجے ہیں وہاں تعلیم کے لیے گئے ہوئے ہیں.میں نے اُن کے پاس جرمن قوم کا ذکر کیا اور کہا کہ وہ بڑے محنتی ہیں.وہ کہنے لگے میں ابھی جرمنی سے آرہا ہوں.وہاں میں جس مکان میں رہتا تھا اُس کی کھڑکی سے میں روزانہ یہ نظارہ دیکھتا تھا کہ سامنے ایک بلڈنگ گری پڑی ہے وہ اُسے بنانے کے لیے اکٹھے ہو جاتے اور دوسرے دن شام کو میں دیکھتا تو وہ چھتوں تک پہنچی ہوئی ہوتی.اور یہ سارا کام محلہ والے بغیر ایک پیسہ مزدوری لئے کرتے تھے.میں نے خود ہیمبرگ دیکھا.وہاں چودہ لاکھ کی آبادی ہے اور امیرا نہ ٹھاٹھ کے ساتھ رہنے والے لوگ ہیں.مگر ایک عمارت بھی مجھے ٹوٹی ہوئی نظر نہیں آئی.اس

Page 138

$1955 128 خطبات محمود جلد نمبر 36 کے مقابلہ میں انگلستان میں بمباری سے صرف چند ہزار مکان ٹوٹا تھا مگر اب بھی وہ اُسی طرح گرانی پڑا ہے.پھر ان کی ہمتیں ایسی بلند ہیں کہ ایک جرمن ڈاکٹر سے میں نے وقت مقرر کیا.جب میں وہاں پہنچا تو وہ جگہ جو ہسپتال کی یونیورسٹی تھی وہاں بم گرنے کی وجہ سے اس مسجد کے برابر شگاف پڑے ہوئے تھے اور اندر صرف دو ٹوٹی ہوئی کرسیاں اور ایک رڈی سی چار پائی رکھی تھی اور اُنہی ٹوٹی ہوئی کرسیوں پر ہسپتال میں کام کرنے والے ڈاکٹر کام کر رہے تھے.میں جب گیا تو ایک ادنی سی کرسی پر انہوں نے مجھے بھی بٹھا دیا.مگر اُن کے چہروں پر اس قدر بشاشت تھی کہ وہ رپورٹ پڑھتے جاتے اور ہنستے جاتے تھے اور یوں معلوم ہوتا تھا کہ گویا اُن کے ہاں کوئی شادی کی تقریب ہے.جس ڈاکٹر نے میرا معائنہ کرنا تھا وہ اُس وقت ایک سو پینتیس میل دُور کسی اور مقام پر کسی ضروری آپریشن کے لیے گیا ہوا تھا.اور چونکہ میرے ساتھ وقت مقرر تھا اس لیے وہ وہاں سے موٹر دوڑاتے ہوئے پہنچا اور کمرہ میں آتے ہی بغیر سانس لیے اُس نے میرا معائنہ شروع کر دیا.اگر کوئی ہمارا آدمی ایسے موقع پر آتا تو وہ پہلے یہی کہتا کہ ”ساہ تے لین دیو" یعنی پہلے مجھے سانس تو لینے دو پھر میں معائنہ بھی کرتا ہوں.مگر اُس نے بغیر سانس لئے میرا معائنہ شروع کر دیا اور پھر جب ہم نے اُسے فیس دینا چاہی تو اُس نے فیس لینے سے انکار کر دیا.دوسری دفعہ ہم نے اُس کے سیکرٹری سے کہا کہ فیس لے لی جائے.اُس نے فون کیا تو جرمن ڈاکٹر نے اُسے ڈانٹا اور کہا کہ میں ایک دفعہ جو کہہ چکا ہوں کہ میں نے فیس نہیں لینی !! اس کے بعد ہم نے اپنے جرمنی کے مبلغ سے کہا کہ تم اُسے جا کر کہو کہ ہم اتنی دور سے یہاں علاج کرانے کے لیے ہی آئے ہیں اس لیے آپ اپنی فیس لے لیں.مگر اُس نے پھر یہی کہا کہ یہ مذہبی آدمی ہیں اس لیے میں نے ان سے فیس نہیں لینی.پندرہ بیس منٹ اُس کے ساتھ جھگڑا رہا مگر اُس نے فیس نہیں لی.غرض اُن کے اندر اِس قدر جوش پایا جاتا ہے اور اس قدر ہمت اور کام کرنے کی روح پائی جاتی ہے کہ ہر شخص کی حالت کو دیکھ کر یوں معلوم ہوتا ہے جیسے وہ یہ ارادہ کر کے بیٹھا ہے کہ وہ دنیا میں کچھ نہ کچھ کام کر کے رہے گا.اُن کے مقابلہ میں ہمیں اپنے ملک کی حالت کا قیاس کرتے ہوئے شرم آتی ہے کہ وہ بھی ہمارے جیسے آدمی ہیں مگر ہماری محنت اور اُن کی محنت اور ہمارے کام

Page 139

خطبات محمود جلد نمبر 36 129 $1955 اور اُن کے کام کی آپس میں کوئی نسبت ہی نہیں.انگلستان ان کے مقابلہ میں ایسا ہی ہے جیسے کسی زمانہ میں ہندوستانی انگریزوں کے مقابلہ میں تھے.انگلستان کے لوگ بالکل سُست اور نکھے ہیں.کام کریں گے تو ہاتھ پیچھے ڈالیں گے اور مزدوری پہلے مانگیں گے.ان کی حالت بالکل پرانے زمانہ کے کشمیریوں کی سی ہو گئی ہے.ایک دفعہ ہم کشمیر گئے اور اسباب اتارا تو ہم نے ایک مزدور کو بلایا کہ یہ سامان اٹھا کر ایک سرائے میں رکھ دو.اُس نے کہا میں دو پیسے فی نگ لوں گا.ہم نے کہا بہت اچھا! نگ اٹھاؤ اور رکھ دو، ہم تمہیں اجرت دے دیں گے.مگر اُس کے لالچ کی یہ کیفیت تھی کہ وہ ہر نگ کے اٹھانے سے پہلے کہتا کہ "لا ؤ پونسہ " اور جب تک اُسے دو پیسے نہ دے دیئے جاتے وہ نگ نہ اٹھاتا.میری اُس وقت چھوٹی عمر تھی.میر محمد الحق صاحب بھی میرے ساتھ تھے.ہم نے اُس کے ساتھ مذاق شروع کر دیا.ایک ایک چیز پر ہم پیسے دیتے اور وہ اٹھا کر اندر رکھ دیتا.جب ہم سرائے کے برآمدہ میں داخل ہوئے تو برآمدہ کے ساتھ ہم نے اپنی چھتری رکھ دی.اس کے بعد ہمیں مذاق سُوجھا اور ہم نے کہا کہ اب اسے کہتے ہیں کہ یہ چھتری اٹھا کر دے دو.دیکھیں اب بھی کچھ مانگتا ہے یا نہیں ؟ چنانچہ ہم نے اُسے کہا کہ یہ چھتری ہمیں پکڑا دو..اس پر وہ جھٹ کہنے لگا " لا ؤ پونسہ " یہی انگریزوں کا حال ہے.ان کا اپنا ملک گزشتہ جنگ کے نتیجہ میں تباہ پڑا ہے مگر وہ گرے ہوئے مکانوں کو بنا نہیں سکے.اور جرمنی کی یہ حالت ہے کہ وہ لوگ صبح سے شام تک کام کرتے ہیں اور انہوں نے اپنی ساری عمارتیں دوبارہ کھڑی کر لی ہیں.بہر حال اللہ تعالیٰ نے ان ملکوں میں اسلام کی طرف رغبت پیدا کر دی ہے.اب ہمیں اُن کی اس رغبت سے فائدہ اٹھانا چاہیے.حقیقت یہ ہے کہ فصل تو تیار ہے صرف اس کے کاٹنے والے چاہئیں.اگر تم اس فصل کے کاٹنے والے بن جاؤ تو تم دیکھو گے کہ سارا یورپ ایک دن اسلام کی آغوش میں آجائے گا.اس وقت مشکل یہ ہے کہ غلہ کو سنبھالنے والا کوئی نہیں.مگر بہر حال اللہ تعالیٰ نے یہ غلہ تمہارے لئے ہی رکھا ہوا ہے اور تم ہی اس فصل کے کاٹنے والے ہو.جو مسائل حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ السلام نے اپنی کتب میں پیش کئے تھے آج یورپین دنیا اُنہی مسائل کی طرف آرہی ہے اور وہ اسلام کی فوقیت اور اس کی برتری کو تسلیم کر رہی ہے.

Page 140

خطبات محمود جلد نمبر 36 130 $1955 ڈسمنڈ شا3 Desmond Shaw) انگلستان کے بہترین مصنفوں میں سے ہے.کم سے کم وہ خود اپنے آپ کو ریچ.جی ویلز سے بھی بڑا سمجھتا ہے.وہ مجھے ملا تو کہنے لگا بڑا ظلم یہ ہے کہ دنیا میں سب سے زیادہ امن پھیلانے والا جو نبی آیا تھا اُسی کو لڑائی کرنے والا نبی کہا جاتا ہے اور پادری اس پر اعتراض کرتے ہیں.میں نے کہا تمہیں یہ نظر نہیں آتا کہ محمد رسول اللہ ﷺ کی تعلیم ہم لوگ ہی یورپ میں پھیلا رہے ہیں اور ہمیں ہی مسلمانوں کے نزدیک واجب القتل سمجھا جاتا ہے؟ وہ کہنے لگا مجھے ایک معزز مسلمان ملا تھا.میں نے اُس سے یہی کہا کہ اسلام پھیلانے والے تو یہی لوگ ہیں اور ہم تک اگر اسلام پہنچا ہے تو انہی کے ذریعہ.تم ان لوگوں کی مخالفت کر کے اپنا بیڑہ کیوں غرق کر رہے ہو؟ اُن پر ہماری اسلامی خدمات کا اتنا گہرا اثر ہے کہ یہی ڈسمنڈ شا دعوت استقبالیہ میں مجھے ملا اور چلا گیا.پھر ظفر اللہ خان سے ملا اور کہنے لگا کہ میں حضرت صاحب سے ابھی نہیں ملا اور یہ کہہ کر وہ پھر میرے ملنے کے لیے آ گیا.اسی طرح تین چار دفعہ ہوا.وہ بار بار میرے ملنے کے لیے آجاتا.آج جب میں اٹھا تو اُس وقت بھی وہ میرے سامنے والی میز پر بیٹھا ہوا تھا.وہ بار بار یہی کہتا کہ میں بچپن سے محمد رسول اللہ اللہ کی عظمت کا قائل ہوں اور سمجھتا ہوں کہ یہ بہت بڑا نبی ہوا ہے اور اس کی تعلیم پر عمل کرنے میں ہی برکت ہے.غرض یورپ کا مزاج اب اسلام کی طرف آرہا ہے.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ابھی ان میں ایسے لوگ موجود ہیں جو " پدرم سلطان بود کے مطابق سمجھتے ہیں کہ ہم بڑے ہیں اور یہ ایشائی چھوٹے ہیں.لیکن ان کے درجہ کے طبقہ میں اب وہ لوگ بھی پیدا ہور ہے ہیں جو سمجھتے ہیں کہ محمد رسول اللہ ﷺ کو نہ ماننا صلى الله بیوقوفی ہے.آپ دنیا کی طرف ایک نور اور رحمت لائے ہیں اور آپ کی پیروی میں ہی امن اور سلامتی ہے.مجھ سے ہیمبرگ میں ایک مودودی طرز کا آدمی ملا.وہ اپنے آپ کو عراقی کہتا تھا لیکن لوگوں نے بتایا کہ یہ ایک معجون مرکب کی قسم کا آدمی ہے.کبھی یہ اپنے آپ کو بہائی کہتا ہے اور کبھی مودودی.اس نے ہمیں دھوکا دیا.جب اُسے بتایا گیا کہ میں بیماری کی وجہ سے مل نہیں سکتا تو وہ کہنے لگا کہ میں صرف مصافحہ کرنا چاہتا ہوں مگر پھر اُس نے بحث شروع کر دی.آخر جرمن لوگ

Page 141

$1955 131 خطبات محمود جلد نمبر 36 اسے اٹھا کر لے گئے اور انہوں نے کہا کہ یہ ہماری دعوت تھی ، اس میں تم بغیر ہماری اجازت کے کیوں آئے ؟ ہم ابھی پولیس کو اطلاع دیتے ہیں.دوسرے دن وہاں کے ایک نو مسلم مجھ سے معافی مانگنے آئے.اور انہوں نے کہا کہ اس شخص کی وجہ سے آپ جرمن قوم کو بُرا نہ سمجھ لیں.یہ ایشیائی تھا اس لیے اُس نے یہ غلطی کی ہے.اُس وقت میری بھی ایشیائی رگ بھڑک اٹھی اور میں نے کہا کہ بُرے آدمی ایشیا میں ہی نہیں ہوتے یورپ میں بھی موجود ہیں.وہ کہنے لگے بے شک موجود ہیں.میں صرف یہ کہنے آیا تھا کہ آپ کے دل میں ہمارے متعلق نا راضگی پیدا نہ ہو ، ہم آپ کو اپنا معزز مہمان سمجھتے ہیں.اور یہ شخص جس نے غلطی کی ایشیا ئی تھا.میں نے کہا ایشیائی تو تھا مگر اُس کی اپنی حرکات اسلامی تعلیم کے خلاف تھیں.مودودی لوگ ہم کو مسلمان نہیں سمجھتے مگر اس نے خود قرآن کے خلاف عمل کیا ہے.قرآن کریم میں آتا ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام سے اُن کے مخالف بحث کر رہے تھے کہ انہوں نے ستاروں میں دیکھا اور کہا کہ میں بیمار ہوں.اور یہاں مجھے دس ڈاکٹروں نے کہا ہے کہ میں بیمار ہوں.مگر ابراہیم کے مخالف تو اتنے شریف تھے کہ اٹھ کر چلے گئے.اور اس شخص کو ڈاکٹری گواہی بھی بتائی گئی مگر پھر بھی اس نے کہا کہ میں مسئلہ حل کئے بغیر واپس نہیں جاسکتا.پس اس شخص نے اپنے عمل سے ثابت کر دیا ہے کہ یہ مسلمان نہیں.ورنہ قرآن تو کہتا ہے فَنَظَرَ نَظْرَةً فِي النُّجُوْمِ فَقَالَ إِنِّي سَقِيمٌ 4 - ابراہیم علیہ السلام نے ستاروں کی طرف دیکھا اور کہا کہ میں بیمار ہوں اور وہ لوگ چلے گئے.اور یہاں دس ڈاکٹر ا علان کرتے ہیں کہ آپ کو زیادہ بولنا نہیں چاہیے اور پھر بھی وہ بحث کرتا چلا گیا.پس اس نے اپنے دعوی اسلام کے باوجود خود اس کے خلاف عمل کیا.ایسے شخص کے کسی فعل کی وجہ سے میں آپ پر کس طرح ناراض ہوسکتا ہوں.چونکہ جس جگہ میں ٹھہرا ہوا ہوں اُس کے پاس اور بھی مکان بن رہے ہیں جن کی وجہ سے شور رہتا ہے اس لیے آج صبح سے میرے دماغ پر اُس کا اثر ہے اور زیادہ بولنا میرے لیے مشکل ہے.میں اسی پر اپنے خطبہ کو ختم کرتا ہوں.صرف اس قدر کہہ دینا چاہتا ہوں کہ شروع میں میں نماز میں زیادہ بھول جایا کرتا تھا مگر آہستہ آہستہ یہ نقص جاتا رہا.لندن میں بھی یادداشت ٹھیک رہی.

Page 142

$1955 132 خطبات محمود جلد نمبر 36 مگر شور کی وجہ سے آج چونکہ دماغی پریشانی زیادہ ہے اس لیے اگر میں بھول جاؤں تو میرے پیچھے نماز پڑھنے والے مجھے یاد دلا دیں.“ (الفضل 8/اکتوبر 1955ء) 1 در تین اُردو صفحہ 121.زیر عنوان نظم ” مناجات اور تبلیغ حق مرتبہ شیخ محمد اسماعیل پانی پتی کی مطبوعہ 1962ء 2: الصحيح البخارى كتاب الاعتكاف باب هَلْ يَخْرُجُ الْمُعْتَكِفَ لَحَوَائِجِهِ إِلَى بَابِ الْمسجد.:3 ڈسمنڈ شا : (DESMOND SHAW) یہ آئرلینڈ میں 19 جنوری 1877ء میں پیدا ہوا یہ مشہور آئرش ناول نویس اور شاعر تھا.1934 ء میں اس نے انٹر نیشنل انسٹیٹیوٹ آف فزیکل ریسرچ کی بنیا د رکھی.اس نے چند کتب تصنیف کیں.(The new century cyclopedia of Names Vol 1Page 1256.Printed in U.S.A) 4: الصفت: 90.89

Page 143

$1955 133 24 خطبات محمود جلد نمبر 36 مغربی دنیا اسلام کی طرف مائل ہورہی ہے اس موقع سے فائدہ اٹھاؤ اور بڑھ چڑھ کر اپنی زندگیاں تبلیغ کے لیے وقف کرو.وقف زندگی کی عظیم الشان تحریک سے ہی اسلام کی آئندہ ترقی وابستہ ہے (فرموده 16 ستمبر 1955ء بمقام احمد یہ ہال کراچی ) تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا.” جیسا کہ دوستوں کو معلوم ہے یہاں سلسلہ کی طرف سے ایک مکان بنوایا گیا ہے.اس کی مکان کی اصل غرض یہ ہے کہ اس کے ذریعہ مرکز کو مضبوط کیا جائے.کراچی کے دوستوں کی محنت اور قربانی سے یہ مکان اب خدا تعالیٰ کے فضل سے تیار ہے اور اس میں ہم ٹھہرے ہوئے ہیں.کیونکہ پنجاب سے خبریں آرہی ہیں کہ ابھی وہاں شدید گرمی ہے اور بعض دفعہ تو گرمی کی ایسی شدت ہو جاتی ہے کہ انسان برداشت نہیں کر سکتا.چنانچہ میاں بشیر احمد صاحب کا خط آیا ہے کہ ایک دن اچھی بھلی طبیعت تھی کہ گرمی کی شدت کی وجہ سے ضعف ہو گیا اور بے چینی بڑھ گئی.میرے بچے ربوہ گئے تھے تو میں نے انہیں بھی کہا تھا کہ وہاں کے موسم سے مجھے اطلاع دیں.ان کے بھی خط آئے ہیں کہ ابھی وہاں شدید گرمی پڑ رہی ہے.ممکن ہے اگر مکان مکمل ہو جاتا تو میں

Page 144

$1955 134 خطبات محمود جلد نمبر 36 چند دن اور ٹھہر جاتا تا کہ وہاں گرمی کم ہو جاتی.مگر اس میں ہمارے دوستوں کا قصور نہیں.یہ محض حالات کا نتیجہ ہے.اس مکان میں ابھی تک بجلی نہیں لگ سکی کیونکہ کھمبے کافی دُور ہیں.اس وجہ سے شام کو گھبراہٹ شروع ہو جاتی ہے.اور یوں معلوم ہوتا ہے جیسے ہمیں کال کوٹھڑیوں میں بند کر دیا گیا ہے.ان حالات میں جانا بھی ضروری معلوم ہوتا ہے اور ڈر آتا ہے کہ کہیں پھر بیمار نہ ہو جاؤں.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ رات کو خوب ٹھنڈک ہوتی ہے.مگر اندھیرے کی وجہ سے ڈر آتا ہے کہ ایسا نہ ہو کہ یہاں رہنے سے پھر تکلیف بڑھ جائے.ہم نے ہری کین 1 رکھے ہوئے ہیں.مگر چار مہینے یورپ میں گزارنے کے بعد اور اس وجہ سے کہ ربوہ میں بھی بجلی آچکی ہے اندھیرا اعصاب پر بُرا اثر ڈالتا ہے.اور شام کے وقت کوفت ہونی شروع ہو جاتی ہے.یوں خدا تعالیٰ کے فضل سے مکان آرام دہ ہے اور پانی بھی جماعت کے دوست ہمت کر کے کسی نہ کسی طرح ٹرک کے ذریعہ پہنچا دیتے ہیں.شیخ عبدالحق صاحب نے بڑی قربانی کر کے جماعت کے دوستوں کے ساتھ مل کر جس میں بڑا حصہ میجر شمیم احمد صاحب کا ہے مکان تیار کر وا دیا ہے.لیکن ابھی شور سے مکان میں گونج پیدا ہو جاتی ہے جس سے مجھے تکلیف ہوتی ہے.یورپ میں بھی میں نے دیکھا ہے کہ جہاں شور ہوتا تھا وہاں میری طبیعت خراب ہو جاتی تھی.اب بھی کھانا کھانے یا چائے پینے بیٹھیں اور کوئی بچہ پرچ میں پیالی رکھے تو یوں معلوم ہوتا ہے جیسے کسی نے سر میں ہتھوڑا مارا ہے.ڈاکٹروں نے بتایا ہے کہ یہ نقص آہستہ آہستہ دور ہو جائے گا لیکن بہر حال ابھی تک طبیعت میں ایسی کمزوری باقی ہے کہ شور برداشت نہیں ہوسکتا.اسی طرح کئی آدمی مل کر بولیں تو بات سمجھ میں نہیں آتی.ایک آدمی بولے تو بات خوب سمجھ میں آجاتی ہے.شروع شروع میں چونکہ میری طبیعت میں وہم زیادہ تھا اس لیے مجھے ڈر محسوس ہونے لگا کہ میرے کانوں میں کوئی نقص نہ پیدا ہو گیا ہو.چنانچہ ڈاکٹروں سے معائنہ کروایا گیا تو انہوں نے بتایا کہ اگر واقع میں کانوں میں کوئی نقص ہوتا تو ایک آدمی کی بات آپ کیوں سمجھ لیتے.ایک آدمی کی بات سمجھ لینا بتا تا ہے کہ آپ کے کانوں میں کوئی نقص نہیں.باقی زیادہ آدمی بولیں تو چونکہ ہر آدمی کی آواز ابھی امتیازی طور پر آپ الگ محسوس نہیں کر سکتے اس لیے آپ کو تکلیف ہوتی ہے.یہ دو چیزیں ایسی ہیں جن کی وجہ سے میرا خیال ہے کہ سر دست ہم واپس چلے جائیں.پھر جب بجلی لگ

Page 145

خطبات محمود جلد نمبر 36 135 $1955 جائے گی اور مکان مکمل ہو جائے گا تو آجائیں گے.ڈاکٹروں نے مجھے نصیحت کی تھی کہ میں ایسی جگہ رہوں جہاں معتدل آب و ہوا ہو یعنی نہ گرمی زیادہ ہو اور نہ ٹھنڈک زیادہ ہو.اس وجہ سے شاید اگلی گرمیوں کے شروع میں میں یہاں آجاؤں اور شاید اُس وقت تک بجلی وغیرہ بھی لگ جائے اور مکان کے باقی نقائص بھی دور ہو جائیں.یوں ولایت کے ڈاکٹروں کا مشورہ یہی تھا کہ مجھے اپنا مقررہ کام اب کچھ نہ کچھ شروع کر دینا چاہیے.کیونکہ کام کے چھوڑنے کی وجہ سے بھی طبیعت پر اثر پڑتا ہے.بیماری ابھی دور نہیں ہوئی.لیکن ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ آپ صرف اتنا کام کریں کہ تھکیں نہیں.یہاں کے مشہور فزیشن کرنل شاہ آج مجھے ملنے آئے اور انہوں نے میرا حال پوچھا.تو میں نے کہا کہ ڈاکٹروں نے مجھے مشورہ دیا ہے کہ میں آرام کروں مگر یہ نہیں بتایا کہ تمکن کس کو کہتے ہیں.اس وجہ سے طبیعت میں ہمیشہ گھبراہٹ رہتی ہے کہ معلوم نہیں میں تھک گیا ہوں یا نہیں تھکا ؟ اور ڈاکٹروں کی ہدایت پر عمل ہوا ہے یا نہیں ہوا ؟ وہ کہنے لگے اصل بات یہ ہے کہ مغربی نقطہ نگاہ اور ہے اور آپ کا نقطہ نگاہ اور ہے.مغرب میں لوگ جتنا کام کرتے ہیں صرف روٹی کمانے کے لیے کرتے ہیں.اس لیے تھوڑی دیر کام کرنے کے بعد اُن کی طبیعت اکتا جاتی ہے اور وہ چاہتے ہیں کہ کچھ دیر آرام کر لیں.لیکن آپ کا نقطہ نگاہ یہ ہے کہ میں اس لیے کام کرتا ہوں کہ میرے خدا کی طرف سے مجھ پر ایک فرض عاید کیا گیا ہے.پس آپ جتنا بھی کام کریں آپ کو اتنی ہی خوشی اور لذت محسوس ہوگی اور اُتنی ہی راحت معلوم ہوگی.پس انہوں نے آپ کو جو کچھ کہا ہے اپنے نقطہ نگاہ سے کہا ہے آپ کے نقطہ نگاہ سے نہیں.آپ کے نقطہ نگاہ سے آپ کو اپنے کام میں خوشی محسوس ہوتی ہے اور آپ سمجھتے ہیں کہ میں نے خدا کی رضا اور اُس کی خوشنودی کے لیے یہ کام کیا ہے.اس لیے اس کام کے نتیجہ میں آپ کو وہ تھکاوٹ نہیں ہو سکتی جو مغربی لوگ اپنی روٹی کے لیے کام کرتے وقت تھوڑی تھوڑی دیر کے بعد محسوس کرتے ہیں.ہاں ! اگر آپ واقع میں محسوس کریں کہ آپ جسمانی پر تھک گئے ہیں تو کام چھوڑ دیں.ورنہ کام کرنا آپ کے لیے مضر نہیں بلکہ مفید ہے.جب تک جسمانی طور پر آپ کو کوفت محسوس نہ ہو آپ بے شک کام کریں کیونکہ اس کے نتیجہ میں آپ کے اندر بشاشت پیدا ہوگی.اُن کی بات چونکہ معقول تھی اس لیے میری سمجھ میں آگئی.ورنہ پہلے طور

Page 146

$1955 136 خطبات محمود جلد نمبر 36 مجھے یہی و ہم رہتا تھا کہ ڈاکٹر کہتے ہیں تھکو نہیں لیکن بتاتے نہیں کہ تھکا وٹ کس کو کہتے ہیں.وہ کہنے لگے کہ آپ کے لحاظ سے اس کے کوئی بھی معنے نہیں.کیونکہ آپ کے کام کی نوعیت بالکل اور ہے.یورپ والا کام کرتا ہے تو کام کرتے کرتے تنگ آجاتا ہے اور وہ اس کے نتیجہ میں کوئی خوشی محسوس نہیں کرتا.کیونکہ وہ یہ نہیں سمجھتا کہ وہ خدمت خلق کا کام کر رہا ہے یا خدا کی خوشنودی کے حصول کے لیے جد و جہد کر رہا ہے.لیکن آپ جو بھی کام کریں گے خدا تعالیٰ کی رضا کے لیے کریں گے یا دین کی خدمت کے لیے کریں گے یا خدا تعالیٰ کی مخلوق کو فائدہ پہنچانے کے لیے کریں گے اور یہ چیز ایسی ہے جس کے نتیجہ میں تھکان کی بجائے آپ کے اندر بشاشت پیدا ہوگی اور آپ خوشی کی لہر اپنے اندر محسوس کریں گے.اس لیے اگر آپ چھ کی بجائے سات گھنٹے بھی کام کریں تو کوئی حرج نہیں.آپ کے لیے کام کا اتنا ہی معیار ہے جتنا آپ کی طبیعت کے مطابق ہو.اس لیے آپ مغربی ڈاکٹروں کی بات نہ مانیئے.اُن کا نقطہ نگاہ اور ہے اور آپ کا نقطہ نگاہ اور ہے.میں آج دوستوں کو اس امر کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ یہ تو ہر احمدی کہتا ہے کہ اسلام دنیا میں غالب آئے گا.چنانچہ اگر کسی دوسرے وقت آپ لوگ میرے پاس بیٹھے ہوتے اور میں آپ سے سوال کرتا کہ کیا اسلام دنیا میں غالب آئے گا ؟ تو آپ اس کا یہی جواب دیتے کہ کیوں نہیں ؟ خدا نے کہا ہے کہ اسلام غالب آئے گا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الہامات ہیں کہ اسلام غالب آئے گا.قرآن کریم میں خبر موجود ہے کہ اسلام غالب آئے گا.محمد رسول اللہ اللہ نے پیشگوئیاں فرمائی ہیں کہ اسلام غالب آئے گا.پس اسلام کیوں غالب نہیں آئے گا.لیکن اگر دوستوں کے جواب سے شور پیدا ہونے کا ڈر نہ ہوتا تو میں سوال کرتا کہ کس طرح غالب آئے گا ؟ آخر خدا تعالیٰ نے ہر کام کے لیے کوئی نہ کوئی طریق مقرر کیا ہے.بچہ پیدا ہوتا ہے تو اس کے لیے خدا تعالیٰ نے ایک عورت بنائی ہے اور ایک مرد بنایا ہے.مرد کا نطفہ عورت کے رحم میں قرار پاتا ہے تو کچھ عرصہ کے بعد بچہ پیدا ہو جاتا ہے.اسی طرح ہر کام کے لیے خدا تعالیٰ نے ایک معتین طریق رکھا ہوا ہے.پس اگر آپ لوگ کسی اور وقت میرے پاس ہوتے تو میں آپ سے پوچھتا کہ اسلام دنیا میں کس طرح غالب آئے گا ؟ اس وقت سارا امریکہ اسلام کے خلاف ہے.سارا یورپ اسلام کے خلاف ہے.سارا افریقہ اسلام کے خلاف ہے.آپ کس

Page 147

خطبات محمود جلد نمبر 36 137 $1955 طرح کہتے ہیں کہ اسلام دنیا میں غالب آجائے گا ؟ آخر اسلام کے غالب آنے کا یہی طریق ہوسکتا ہے کہ ہم ان لوگوں کو قائل کریں، انہیں سمجھا ئیں اور ان سے اسلامی تعلیم کی فوقیت منوا لیں.جب یہی طریق ہو سکتا ہے تو بتائیے ، ان سے اسلام منوانے کے لیے آپ کیا کوشش کر رہے ہیں؟ شاید آپ یہ جواب دیں کہ ہم چندہ دے رہے ہیں اور ہم مالی لحاظ سے اتنا بوجھ اٹھا رہے ہیں کہ شاید کوئی اور جماعت اتنا بوجھ نہیں اٹھا رہی.میں تسلیم کرتا ہوں کہ ہماری جماعت مالی قربانی کر رہی ہے اور یہ ایک ایسی واضح حقیقت ہے جس سے کوئی شخص انکار نہیں کر سکتا.دشمن بھی اقرار کرتا ہے کہ یہ جماعت بڑا بھاری بوجھ اپنے اوپر اٹھا رہی ہے.لیکن سوال یہ ہے کہ کراچی اور ربوہ میں چندہ دینے سے امریکہ اور انگلینڈ کے کسی آدمی کا دماغ کس طرح ٹھیک ہو سکتا ہے.اُس کا دماغ تو اسی طرح درست ہوسکتا ہے کہ اُسے سمجھایا جائے کہ تیری رائے غلط ہے، تیرے عقائد غلط ہیں اور صحیح رستہ وہی ہے جو اسلام نے پیش کیا ہے.اور یہ بات آپ لوگوں کے چندوں سے نہیں ہوسکتی.آپ خود وہاں جائیں یا آپ کے نمائندے اور قائم مقام وہاں جائیں.تب یہ کام ہوسکتا ہے اس کے بغیر نہیں.شاید آپ کہیں کہ اسی لئے تو تبلیغی کا لج مقرر کیا گیا ہے.لیکن سوال یہ ہے کہ تبلیغی کالج میں کتنے بچے جارہے ہیں؟ جہاں تک میرا علم ہے تبلیغی کالج میں 35,30 طالب علم ہیں اور دنیا کی آبادی دو ارب تمھیں کروڑ ہے.دوارب تمھیں کروڑ کی آبادی کو 35 آدمی کس طرح سمجھا سکتے ہیں ؟ یہ 35 آدمی تو اُن کو دیکھ بھی نہیں سکتے.پاس جانا اور سمجھانا تو دور کی بات ہے خالی اُن کو دیکھ لینے کی بھی اِن 35 آدمیوں میں طاقت نہیں ہو سکتی.پس اسلام اگر غالب آ سکتا ہے تو اسی طرح کہ ہماری جماعت کوئی ایسا طریق اختیار کرے جس کے نتیجہ میں اُن لوگوں تک پہنچا جا سکے.اور یہ اسی طرح ہو سکتا ہے کہ وقف کی تحریک کو کامیاب بنایا جائے.مگر میرے نزدیک ہماری جماعت میں جیسے چندہ کی تحریک کامیاب رہی ہے ویسے ہی وقف کی تحریک ناکام رہی ہے.میں نے دوستوں میں وقف اولاد کی تحریک کی تھی.مگر میں دیکھتا ہوں کہ اب یا تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اولاد کا وقف ہے اور یا پھر میری اولا د کا وقف ہے.باقی خانہ سب خالی ہے.مگر نہ تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اولا دسب جگہ پہنچ سکتی ہے اور نہ میری اولا دسب جگہ پہنچ سکتی ہے.بلکہ اس تصور سے بعض دفعہ دل کانپ جاتا ہے

Page 148

$1955 138 خطبات محمود جلد نمبر 36 کہ باقی احمد یوں کو دیکھ کر کہیں میری اولاد کے دل میں بھی بے ایمانی پیدا نہ ہو جائے.اور وہ یہ خیال نہ کرے کہ ہم ہی قربانی کے بکرے کیوں بنیں.جب باقی احمدی اس طرف توجہ نہیں کرتے تو ہم بھی اس کام کو کیوں اختیار کریں.میں اللہ تعالیٰ سے امید تو نہیں کرتا کہ میری اولاد میں.خیالات پیدا ہو جائیں مگر ڈر آتا ہے کہ خربوزے کو دیکھ کر خربوزہ رنگ پکڑتا ہے.ایسا نہ ہو کہ میری اولاد کے دل میں بھی کسی وقت خیال آجائے کہ اگر اور کوئی احمدی اپنے آپ کو وقف نہیں کرتا تو ہم بھی کیوں کریں.آخر اسلام پر ضعف آیا تو اسی وجہ سے کہ مسلمانوں نے کہنا شروع کر دیا کہ کئی مسلمان ہیں جو نمازیں نہیں پڑھتے ، کئی مسلمان ہیں جو روزے نہیں رکھتے.مطلب یہ تھا کہ اگر دوسرا ان احکام کو چھوڑ سکتا ہے تو ہم کیوں نہیں چھوڑ سکتے.نتیجہ یہ ہوا کہ رفتہ رفتہ انہوں نے بھی نماز روزہ کو ترک کر دیا.پس جب تک جماعت میں وقف کی تحریک مضبوط نہ ہو اُس وقت تک ساری دنیا میں اسلام کو غالب کرنا ناممکن ہے.اس کے لیے اول تو جماعت کے ہر فرد کے دل میں یہ احساس پیدا ہونا چاہیے کہ میں نے ایک سے دو بننا ہے، دو سے چار بننا ہے، چار سے آٹھ بننا ہے، آٹھ سے سولہ بننا ہے، سولہ سے بہتیں بنتا ہے، بتیس سے چونسٹھ بننا ہے، اور چونسٹھ سے ایک سو اٹھائیس بننا ہے.ہماری جماعت آخر لاکھوں کی جماعت ہے اگر ہر دس سال کے اندر ایک ایک شخص کے ذریعہ دو چار احمدی بھی پیدا ہو جائیں تو اس کے معنی یہ ہیں کہ اگلے دس سال میں پندرہ میں لاکھ ہو جائیں گے.اُس سے اگلے دس سال میں اتنی لاکھ ہو جائیں گے.اور اُس سے اگلے دس سال میں ڈیڑھ کروڑ تک ان کی تعداد پہنچ جائے گی.اگر ایسا ہو جائے تو ہم امید کر سکتے ہیں کہ یہ ڈیڑھ کروڑ دو ارب تک اسلام کا پیغام پہنچا سکتا ہے.لیکن اگر یہ نہ ہو اور ہر شخص سمجھ لے کہ میرے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ میں نے چندہ دے دیا ہے تو یورپ اور امریکہ کو اسلام کون سمجھائے گا ؟ اور اگر سمجھانے والا کوئی نہیں ہوگا تو مانے گا کون؟ اِس میں کوئی شبہ نہیں کہ اُن کے دل اس وقت اسلام کی طرف مائل ہیں.میں نے پچھلے خطبہ میں ہی بیان کیا تھا کہ ایک ڈچ عورت مجھے ملی اور اُس نے بتایا کہ میں نے ایک مصری سے شادی کی ہوئی ہے جس کی پہلے بھی ایک بیوی موجود ہے.پھر اس نے کہا کہ

Page 149

خطبات محمود جلد نمبر 36 139 $1955 میں تو کسی پادری سے جب اسلام کے خلاف اسی مسئلہ پر اعتراضات سنتی ہوں تو میں اُس پادری کا گلا پکڑ لیتی ہوں اور میں اُسے کہتی ہوں کہ ایک سے زیادہ بیویاں عورتوں پر آئیں گی یا مردوں پر آئیں گی؟ اس مسئلہ سے اگر ڈر آنا چاہیے تو مجھے آنا چاہیے.مگر مجھے تو کوئی ڈر نہیں آتا.کیونکہ اسلام صرف یہی نہیں کہتا کہ زیادہ شادیاں کرو بلکہ وہ یہ بھی کہتا ہے کہ ہر ایک بیوی کے ساتھ انصاف کرو.انہیں ایک جیسا مکان اور ایک جیسا کپڑا دو.ایک جیسا کھانا دو اور ایک جیسا سلوک کرو.جب اسلام یہ کہتا ہے تو اس پر تجھے کیا اعتراض ہے.آخر تجھ پر تو سوکن نہیں آنی؟ سوکن تو مجھ پر آنی ہے.پھر وہ ہنسی اور کہنے لگی.ایک مرد کے اپنی بیوی سے کتنے بھی اچھے تعلقات ہوں کبھی کبھی ایسا ہو جاتا ہے کہ میاں بیوی ایک دوسرے سے ناراض ہو جاتے ہیں اور وہ سارا دن ایک دوسرے سے نہیں بولتے.ایسی صورت میں اُس عورت کو چوبیس گھنٹے اُس کی شکل دیکھنی پڑتی ہے.اگر چار بیویاں ہوں اور برابر کا ہر ایک کے پاس مکان ہو، برابر کا کھانا ہو، برابر کا پہننا ہو تو اگر وہ مجھ سے لڑے گا تو میں دوسری بیوی کے مکان کا دروازہ کھول کر اُس کے گھر میں اسے دھکیل دوں گی.اور کہوں گی کہ دو گھنٹے تک میں نے تیرا منہ دیکھا ہے اب تو دوسرے گھر میں جا کہ وہ تیرا منہ دیکھے.میں تیرا منہ کیوں دیکھتی رہوں.اب دیکھو اس کی طبیعت میں یہ بات کیوں پیدا ہوئی ؟ اس لیے کہ اس نے مسلمانوں سے باتیں سنیں اور اس پر اثر ہوا.یہاں کی عورتیں سوکن کا نام سن کر جل جاتی ہیں.لیکن وہ ہالینڈ میں بیٹھی ہوئی کہتی ہے کہ یہ تو بڑے مزے کی تعلیم ہے.اگر کبھی خاوند کا منہ بگڑا ہوا ہو گا تو میں اسے دوسرے گھر میں دھکیل دوں گی.اور اس کی شکل نہیں دیکھوں گی.تو دلیل ہمیشہ سمجھانے سے سمجھ آتی ہے.اس کے بغیر نہیں.اب خدا تعالیٰ کے فضل سے چونکہ قرآن کریم کے تراجم یورپ میں شائع ہو چکے ہیں اس لیے لوگ جب ان کو پڑھتے ہیں تو بڑے متاثر ہوتے ہیں.ہمارا ڈرائیور ایک جرمن مسٹر سٹو ڈر تھا.اُس نے بھی قرآن کا ترجمہ پڑھا.ایک دن ہم ڈاکٹر کے ہاں جارہے تھے کہ وہ کہنے لگا حضرت صاحب! میں نے آپ سے کچھ باتیں پوچھنی ہیں.میں نے کہا پوچھو.کہنے لگا میں نے قرآن پڑھا ہے اس میں بڑی اچھی باتیں ہیں.لیکن آپ کہتے ہیں کہ ہماری جماعت بہت تھوڑی ہے اب آپ مجھے بتائیں کہ اگر

Page 150

$1955 140 خطبات محمود جلد نمبر 36 اسلام میری سمجھ میں آجائے تو میں دنیا کے لیے مفید وجود کس طرح بن سکتا ہوں ؟ آیا اس طرح کہ اکثریت کے ساتھ شامل ہو جاؤں یا اس طرح کہ اقلیت کے ساتھ مل جاؤں ؟ اگر میں چھوٹی جماعت میں مل جاؤں تو میں کیا کام کر سکتا ہوں میں تو اسی صورت میں مفید کام کر سکتا ہوں جب میں بڑی جماعت میں ہوں.بات اُس کی معقول تھی اور اُس کا مطلب یہ تھا کہ احمدی بننے سے مجھے کیا فائدہ ہوگا.جبکہ احمدی بننے سے ماریں کھانی پڑتی ہیں، لوگوں کی گالیاں سنی پڑتی ہیں.میں نے کہا مسٹر سٹوڈ ر! ایک بات آپ نے نہیں سوچی اور وہ یہ کہ اکثریت کی موجودگی میں اقلیت کی ضرورت کیا تھی ؟ اگر اقلیت کی ضرورت تھی اور اگر اقلیت کے پاس کوئی اچھی چیز ہے تو پھر اس میں شامل ہونا چاہیے.اور اگر اُس کے پاس کوئی اچھی چیز نہیں تو آپ دوسروں سے مل کر اقلیت کو ختم کر دیں.آخر اُس نے جھگڑا کیوں ڈالا ہے اور کیوں وہ اکثریت کے مقابلہ میں کھڑی ہے؟ اور اگر اقلیت میں واقع میں کوئی اچھی بات ہے تو بتاؤ کہ اکثریت میں مل کر اچھی بات کو ختم کر دینا اچھا ہے یا اچھی بات کو قائم رکھنے کے لیے اقلیت کے ساتھ مل کر کام کرنا اچھا ہے ؟ اگر اس کے پاس کوئی اچھی بات نہیں تو اُسے ختم کر دینا چاہیے.اور اگر اُس کے پاس کوئی اچھی بات ہے تو اسے قائم رکھنا چاہیے تا کہ دنیا نیکی سے محروم نہ ہو.غرض یورپ کے لوگ اب اسلام کی طرف مائل ہورہے ہیں.لیکن بڑی چیز جو اُن کے رستہ میں حائل ہے وہ یہی ہے کہ یورپین لوگ ہر چیز کو سیاسی نقطہ نگاہ سے دیکھتے ہیں.اُن کے بڑے بڑے لوگ یہ خوب سمجھتے ہیں کہ اسلام اگر ہم تک پہنچا ہے تو احمدیوں کے ذریعے سے.لیکن مسلمان جن کی اکثریت ہے وہ احمدیوں کے ہی مخالف ہیں.ایسی صورت میں اقلیت کے ساتھ ملنا کوئی مفید نتیجہ پیدا نہیں کر سکتا.ہاں اگر اکثریت کے ساتھ ملیں گے تو مفید کام کرسکیں گے.اس قسم کے وساوس کا بھی ازالہ ہو سکتا ہے جب ہمارے مبلغ اُن تک پہنچیں اور اُن کے شبہات کو دور کریں.یہ ظاہر ہے کہ ایک آدھ دفعہ ملنے سے کوئی فائدہ نہیں ہو سکتا.اس کے لیے متواتر اور مسلسل جد و جہد کی ضرورت ہوتی ہے.آخر رسول کریم ﷺ سے بڑا اور کون ہوسکتا ہے مگر آپ نے بھی سالہا سال تبلیغ کی اور پھر آپ کے صحابہ نے تبلیغ کی تب جا کر لاکھوں لوگ اسلام میں شامل ہوئے.مگر کچھ عرصہ کے بعد جب انہوں نے اسلام کی اشاعت کی طرف سے توجہ ہٹا لی تو وہی لاکھوں

Page 151

$1955 141 خطبات محمود جلد نمبر 36 خراب ہو گئے.اس طرح اگر ہمارے نمائندے اور ہمارے قائم مقام ان ممالک میں موجود ہوں، پھر یہ کام صرف انہی تک محدود نہ ہو بلکہ ان کی آئندہ نسل بھی اس کام میں مشغول رہے تو سینکڑوں سال تک دنیا اسلام کے نور سے مستفیض ہوتی رہے گی.پس وقف کی تحریک اسلام کی اشاعت کے لیے ایک عظیم الشان تحریک ہے.اگر وقف کی تحریک مضبوط ہو جائے اور نسلاً بعد نسل ہماری جماعت کے نوجوان خدمت دین کے لیے آگے بڑھتے رہیں تو سینکڑوں نہیں ہزاروں سال تک تبلیغ اسلام کا سلسلہ قائم رہ سکتا ہے.اس غرض کے لیے میں نے متواتر جماعت پر وقف کی اہمیت کو ظاہر کیا ہے.مگر اب میرا ارادہ ہے کہ جماعت سے خاندانی طور پر وقف اولاد کا مطالبہ کروں.یعنی ہر خاندان کے افراد اپنی طرف سے ایک ایک نوجوان کو اسلام کی خدمت کے لیے پیش کرتے ہوئے عہد کریں کہ ہم ہمیشہ اپنے خاندان میں سے کوئی نہ کوئی فرد دین کی خدمت کے لیے وقف رکھیں گے اور اس میں کبھی کوئی کوتاہی نہیں کریں گے.جب خاندانی وقف کی تحریک مضبوط ہو جائے تو پھر اس کو وسیع کر کے ہم وقف کرنے والوں کو تحریک کرسکیں گے کہ وہ اپنے اپنے دوستوں اور ساتھیوں میں سے ایک ایک ، دو دو، تین تین ، چار چار کو وقف کرنے کی کوشش کریں.اس طرح یہ سلسلہ خدا تعالیٰ کے فضل سے ممتد ہوتا چلا جائے گا اور قیامت تک جاری رہے گا.جیسا کہ میں نے پچھلی دفعہ بھی کہا تھا اب فصل تیار ہے صرف اس کے کاٹنے والوں کی ضرورت ہے اور یہ مبالغہ نہیں واقعہ ہے کہ مغربی لوگوں میں اسلام کی طرف زبر دست میلان پایا جاتا ہے.میں تو بیمار تھا اور لمبی بات نہیں کر سکتا تھا مگر میں نے دیکھا ہے کہ جب بھی میں گفتگو کرتا یورپین لوگ فوراً ہتھیار ڈال دیتے تھے اور وہ سمجھ جاتے تھے کہ حقیقت کیا ہے.واپسی پر جب میں زیورچ پہنچا تو ایک ایڈلٹ (ADULT) سکول میں میری تقریر ہوئی.وہ ایک جرمن نے اپنے ذاتی شوق کے ماتحت بڑے لوگوں کو اعلیٰ تعلیم دلانے کے لیے قائم کیا ہوا ہے.میری تجویز یہ تھی کہ میں اردو میں تقریر کروں اور پھر اُس کا انگریزی میں ترجمہ ہو جائے.مگر اُس نے کہا میری خواہش یہ ہے کہ آپ انگریزی میں ہی تقریر کریں میں اُس کا جرمن زبان میں ترجمہ کر والوں گا.اس کے لیے اُس نے نچلی منزل کے ایک کمرہ میں مائیکروفون پر ایک جرمن بٹھا رکھا تھا جو انگریزی کو خوب

Page 152

$1955 142 خطبات محمود جلد نمبر 36 سمجھتا تھا.میں تقریر کرتا تو وہ فوراً نیچے کمرہ میں اُس کے پاس پہنچتی اور وہ اُسی وقت اُس تقریر کا جرمن زبان میں ترجمہ کرتا.اور ایک اور مائیکروفون پر جو اُس نے اپنے سامنے رکھا ہوا تھا وہ ترجمہ سنتا چلا جاتا.آگے تمام جرمن لوگوں نے جو میری تقریر سننے کے لیے اوپر کے ہال میں جمع تھے اپنے اپنے کانوں کے ساتھ ایک ایک آلہ لگایا ہوا تھا.جونہی وہ ترجمہ کرتا اُسی وقت ہر شخص کے کان تک وہ ترجمہ پہنچ جاتا اور اس طرح پر ہر شخص ہال میں بیٹھے ہوئے اپنی زبان میں بھی میری تقریر سنتا چلا جاتا.پہلے مجھے اس کا علم نہیں تھا کہ ہر شخص نے اپنے کان کے ساتھ کوئی آلہ لگایا ہوا ہے اور وہ جرمن زبان میں میری تقریر کا ترجمہ ساتھ کے ساتھ سنتے جارہے ہیں.لیکن ان کے چہروں کی بشاشت اور خوشی سے اور اُن کے سر ہلانے سے صاف پتا لگ رہا تھا کہ وہ تقریر سمجھ رہے ہیں اور اپنی بشاشت سے اس کی تصدیق کر رہے ہیں.میں حیران ہوا کہ یہ میری تقریر کس طرح سمجھ رہے ہیں؟ آخر پتا لگا کہ میری انگریزی تقریر کا جو شخص جرمن زبان میں ترجمہ کر رہا ہے وہ ساتھ کے ساتھ مائیکروفون پر وہ ترجمہ سناتا جا رہا ہے.اور اوپر کے کمرہ میں بیٹھے ہوئے لوگ اُن کی آلات کے ذریعہ جو انہوں نے اپنے کانوں سے لگائے ہوئے ہیں اس تقریر کو سنتے جا رہے ہیں.بعد میں ان لوگوں نے اعتراضات بھی کئے.مگر خدا تعالیٰ نے مجھے اُن کے جواب سمجھا دیے جس سے اُن کی تسلی ہوگئی.ایک شخص اٹھا اور اس نے کہا کہ آپ نے جو اسلام کی باتیں بتائی ہیں یہ وہی ہیں جو عیسائیت اور یہودیت پیش کرتی ہے.پھر یہ کیا جھگڑا نظر آتا ہے کہ مسلمان عیسائیوں کو بُرا بھلا کہتے ہیں اور عیسائی مسلمانوں کو بُرا بھلا کہتے ہیں.یہود عیسائیوں اور مسلمانوں کو بُرا سمجھتے ہیں اور عیسائی اور مسلمان یہودیوں کو بُرا سمجھتے ہیں.گویا دنیا نہ موسیٰ کے خدا کو مانتی ہے ، نہ عیسی کے خدا کو مانتی ہے اور نہ محمد رسول اللہ اللہ کے خدا کو مانتی ہے.ایسی صورت میں ان جھگڑوں کے تصفیہ کے لیے سب مل کر یہ کیوں نہیں طے کر لیتے کہ سب لوگ ایک خدا کو مانیں ، اس کی سچے دل سے عبادت کریں اور اپنے اپنے مذہب پر قائم رہیں؟ میں نے کہا مجھے سوال سن کر بڑی خوشی ہوئی کیونکہ محمد رسول اللہ ﷺ کو آج سے تیرہ سو سال پہلے خدا تعالیٰ نے ان جھگڑوں کے تصفیہ کا یہی طریق بتایا تھا.اللہ تعالیٰ نے فرمایا تھا قُلْ يَاهْلَ الْكِتَبِ تَعَالَوْا إِلَى كَلِمَةِ سَوَاءٍ بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمْ أَلَّا نَعْبُدَ إِلَّا اللَّهَ وَلَا نُشْرِكَ بِهِ شَيْئًا 3 یعنی اے اہل کتاب

Page 153

$1955 143 خطبات محمود جلد نمبر 36 آؤ میں تمہیں ایک کلمہ پر جمع ہونے کا طریق بتاؤں جو تمہارے نزدیک بھی مسلّمہ ہے.اور ہمارے نزدیک بھی مسلمہ ہے وہ طریق یہ ہے کہ ہم سب ایک خدا کی عبادت کریں اور اُس کے ساتھ کسی کو شریک قرار نہ دیں.تیرہ سو سال ہوئے کہ محمد رسول اللہ ﷺ نے یہ علاج بتایا تھا اور تمام اہل کتاب کو اس اصل کی طرف توجہ دلائی تھی.مگر تمہارے باپ دادا نے قرآن کریم کی اس دعوت کو قبول نہ کیا.پس بجائے ہم سے سوال کرنے کے تم اپنے باپ دادا پر شکوہ کرو اور انہیں کہو کہ جب محمد رسول اللہ اللہ نے اتنی اچھی تعلیم پیش کی تھی تو تم نے اسے قبول کیوں نہ کیا اور اپنا منہ کیوں پھیر لیا ؟ بہر حال اس اتحاد کے نہ ہونے کا الزام اگر آتا ہے تو تمہارے باپ دادا پر آتا ہے ورنہ تیرہ سو سال سے قرآن کریم میں یہ بات موجود ہے.اب اگر تمہیں کوئی شکوہ ہے تو اپنے باپ دادا سے شکوہ ہونا چاہیے ہم سے نہیں ہونا چاہیے.غرض ضرورت ہے کہ ہماری جماعت کے لوگ جائیں اور انہیں اسلامی تعلیم سے آگاہ کریں.خدا تعالیٰ کے فضل سے ہمارے لیے تبلیغ کا اس قدر رستہ کھلا ہے کہ بعض دفعہ تو حیرت آتی ہے کہ ہم یورپ کو اپنا دشمن سمجھتے تھے اور وہ اسلام کی طرف اتنا مائل ہے.مگر اس کے یہ معنے نہیں کہ ہر انگریز کے اندر یہ تغیر پیدا ہو گیا ہے.ہو سکتا ہے کہ تم کسی انگریز یا امریکن کو ملو اور وہ اسلام کو بُرا بھلا کہنا شروع کر دے.کیونکہ دو ارب کی دنیا میں نوے کروڑ عیسائی ہیں اور میں صرف درجنوں سے ملا ہوں.پس ان میں دشمن بھی ہو سکتے ہیں.مگر جو لوگ مجھے ملے ہیں وہ بھی کل تک اسلام کے دشمن تھے مگر اب اُن کے اندر تبدیلی پیدا ہو چکی ہے.اس تبدیلی کو وسیع کرنا اور اس تبدیلی سے صحیح رنگ میں فائدہ اٹھانا اب ہمارا کام ہے.ڈسمنڈشا مجھے انگلستان میں ملا تو کہنے لگا کہ میں جب کہتا ہوں کہ محمد رسول اللہ نے سب سے زیادہ امن کی تعلیم دینے والے نبی ہیں تو پادری میری بات نہیں مانتے.میں نے کہا آپ کہتے جائیے ایک دن وہ اس حقیقت کو تسلیم کرنے پر مجبور ہوں گے.اس وقت وہ صرف ضد کی وجہ سے انکار کر رہے ہیں اور ضد ایسی چیز ہے جو انسانی عقل پر پردہ ڈال دیتی ہے.میں نے کہا آپ یہ نہیں دیکھتے کہ محمد رسول اللہ ﷺ کی تعلیم ہم نے ہی یورپ میں پھیلائی ہے اور ہمیں ہی مسلمان کا فر اور واجب القتل قرار دیتے ہیں.پادری تو ایک دوسرے مذہب سے تعلق رکھتے ہیں اُن کا

Page 154

$1955 144 خطبات محمود جلد نمبر 36 اس میں کیا قصور ہے.خود مسلمان اپنے مذہب سے واقف نہیں اور محمد رسول اللہ ﷺ کی اپنی امت انہیں شمشیر کا نبی قرار دیتی ہے.پس آپ کہتے جائیے کہتے کہتے ایک دن دنیا سمجھ جائے گی.بہر حال یہ تحریک ہے جو میں جماعت میں کرتا ہوں اور میں سمجھتا ہوں کہ اس کے بغیر ہم اسلام کی اشاعت میں کبھی کامیاب نہیں ہو سکتے.آخر اپنے دلوں میں سوچو اور غور کرو کہ اگر وقف کا سلسلہ جاری نہ رہے تو تمہارا یہ دعویٰ کہ اسلام دنیا پر غالب آ جائے گا کس طرح سچا سمجھا جاسکتا ہے؟ یہ تو ہو گا نہیں کہ ایک دن صبح اٹھ کرتم تسبیح پر تین دفعہ سُبْحَانَ اللهِ، سُبْحَانَ اللهِ کہو گے اور امریکہ کا پریذیڈنٹ اور کونسل آف سٹیٹ کے سب ممبر مسلمان ہو جائیں گے اور وہ اعلان کر دیں گے کہ ہم عیسائیت کو ترک کرتے ہیں.اگر ہم نے واقع میں اسلام پھیلانا ہے تو بہر حال ہمیں جد و جہد کرنی پڑے گی اور چھری سے چھری رگڑنی پڑے گی.حضرت خلیفہ اسیح الاوّل فرمایا کرتے تھے کہ بھوپال میں ایک بزرگ تھے جن کے پاس میں اکثر آیا جایا کرتا تھا.ایک دفعہ کسی وجہ سے اُن کے پاس جانے میں دیر ہوگئی.چند دن بعد جو میں انہیں ملنے گیا تو فرمانے لگے.نورالدین! کبھی تم نے قصاب کو گوشت کاٹتے بھی دیکھا ہے؟؟ میں نے کہا کیوں نہیں؟ بارہا دیکھا ہے.فرمانے لگے تم نے دیکھا ہوگا قصاب گوشت کاٹتے کاٹتے تھوڑی تھوڑی دیر کے بعد ایک چھری کو دوسری چھری سے رگڑ لیتا ہے.تمہیں پتا ہے کہ وہ ایسا کیوں کرتا ہے؟ وہ اس لیے رگڑتا ہے کہ گوشت کاٹتے کاٹتے چھری کی دھار چربی لگنے کی وجہ سے کچھ گند ہو جاتی ہے.جب وہ دوسری چھری سے اُسے رگڑتا ہے تو وہ پھر تیز ہو جاتی ہے.اس طرح اللہ تعالیٰ نے انسانی دماغ کو بنایا ہے.جب دو دماغ ملتے ہیں تو ان کی باہمی رگڑ سے وہ دونوں تیز ہو جاتے ہیں.چونکہ تمہیں بھی دین سے محبت ہے اور ہمیں بھی محبت ہے اس لیے جب تم آتے ہو تو تمہارے ساتھ باتیں کر کے میں اپنے دماغ میں ایک نئی روشنی محسوس کرتا ہوں.اب کچھ دنوں سے تم نہیں آئے تو میں محسوس کرتا تھا کہ میرا دماغ گند ہوتا جا رہا ہے.تم آگئے ہو تو پھر تم سے باتیں کر کے میرا دماغ تیز ہو جائے گا.تو حقیقت یہ ہے کہ اسلام کی اشاعت کے لیے جب تک صحیح رنگ میں کوشش نہ ہو اُس وقت تک کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوسکتا.اگر ہم اسلام کو پھیلا نا چاہتے ہیں تو ہم میں سے ہر احمدی کو یہ

Page 155

$1955 145 خطبات محمود جلد نمبر 36 الله عہد کر لینا چاہیے کہ میں اپنے کسی نہ کسی عزیز یا رشتہ دار یا ساتھی کو اسلام کی خدمت کے لیے وقف کر دوں گا.پھر وہ آگے اپنے ساتھیوں کو اسلام کی خدمت کے لیے تیار کریں اور یہ سلسلہ تواتر کے ساتھ جاری رہے.رفتہ رفتہ اتنے لوگ ہمارے پاس جمع ہو جائیں گے کہ ہم انہیں آسانی کے ساتھ مختلف ممالک میں پھیلا سکیں گے اور ان سے دین کی اشاعت کا کام لے سکیں گے.جب یہ لوگ اسلام کی اشاعت کے لیے ہر شخص تک پہنچیں گے تو چونکہ ان کے دل اسلام کی طرف پہلے ہی مائل ہیں اس لیے اسلام کی فتح کا دروازہ کھل جائے گا.اور محمد رسول اللہ ﷺ کا جھنڈا دنیا میں عزت کے ساتھ قائم ہو جائے گا.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ابھی یہ مقام دُور نظر آتا ہے لیکن جب رو پیدا ہوئی تو کامیابی اتنی سرعت کے ساتھ ہوگی کہ ہمیں خود بھی اس پر حیرت ہوگی.رسول کریم ﷺ کو دیکھ لو! تیرہ سال آپ مکہ میں رہے اور تبلیغ کرتے رہے مگر اس تبلیغ کے نتیجہ میں صرف 80 آدمی آپ پر ایمان لائے.اس کے بعد آپ مدینہ تشریف لے گئے تو کی تھوڑے عرصہ کے بعد ہی ہزاروں لوگ اسلام میں داخل ہونے شروع ہو گئے.جس طرح بند ٹوٹنے کے بعد سیلاب کا پانی رُک نہیں سکتا اسی طرح جب لوگوں میں ایک روچل جائے تو پھر گروہ در گروہ لوگ سچائی کو قبول کرنے کے لیے نکل کھڑے ہوتے ہیں اور کوئی مخالفت ان کو پیچھے نہیں ہٹا سکتی.آج ہمیں اسلام کی خدمت کے لیے اپنی زندگی وقف کرنے والوں کی ضرورت ہے.مگر پھر وہ وقت آئے گا کہ وقف کرنے والے اتنی کثرت سے آئیں گے کہ سوال پیدا ہوگا را ہوگا کہ ان واقفین کو سنبھالے کون؟ جس طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے لکھا ہے کہ مجھے یہ فکر نہیں کہ روپیہ کہاں سے آئے گا؟ مجھے یہ فکر ہے کہ روپیہ کو سنبھالنے والے کہاں سے آئیں گے 4.اسی کی طرح مجھے بھی یہ فکر نہیں کہ اسلام کی تبلیغ کے لیے اپنے آپ کو وقف کرنے والے کہاں سے آئیں گے.مجھے یہ فکر ہے کہ وقف کرنے والے اس کثرت سے آئیں گے کہ اُن کو سنبھالے گا کون.دل کی خدا تعالیٰ کے قبضہ قدرت میں ہیں.جن دلوں کو وہ آپ صاف کر دے گا وہ دین کی خدمت کے لیے آگے آجائیں گے.پھر اُن کو دیکھ کر سینکڑوں لوگ پیدا ہو جا ئیں گے جو اپنے آپ کو وقف کرنے کے لیے پیش کر دیں گے.اور اُن سینکڑوں سے ہزاروں اور ہزاروں سے لاکھوں پیدا ہو جائیں گے.

Page 156

خطبات محمود جلد نمبر 36 146 $1955 ہم بچے تھے تو ہم کتابوں میں ایک کہانی پڑھا کرتے تھے کہ جب بادل آتا ہے تو قطرے آپس میں جھگڑتے ہیں.ایک کہتا ہے کہ میں زمین پر گر کر کیوں جان دوں؟ دوسرا کہتا ہے میں کیوں جان دوں ؟ آخر ایک قطرہ آگے بڑھتا اور زمین پر گرتا ہے، اس کے بعد دوسرا قطرہ گرتا ہے، پھر تیسرا گرتا ہے، پھر چوتھا گرتا ہے اور پھر موسلا دھار بارش شروع ہو جاتی ہے.یہی حال دین کی قربانی کا ہے.پہلے قربانی کرنے والے جب قربانی کرتے ہیں تو اُن کو دیکھ کر دوسرے لوگ کہتے ہیں کہ انہیں تو کچھ بھی نہیں ہوا.ہم تو سمجھتے تھے کہ یہ تباہ ہوجائیں گے مگر ان کی تو ہم سے بھی زیادہ عزت ہوئی اور ہم سے بھی زیادہ انہوں نے کامیابی حاصل کی.آؤ ہم بھی انہی کے پیچھے چلیں.چنانچہ وہ بھی اپنے آپ کو قربانی کے لیے پیش کر دیتے ہیں.اور پھر یہ سلسلہ بڑھتا چلا جاتا ہے یہاں تک کہ ہوتے ہوتے وہ زمانہ آجاتا ہے کہ انسان کہتا ہے میں کس کو رکھوں اور کس کو رد کروں ،کس کو بچوں اور کس کو نہ بچوں.اُس زمانے کے آنے سے پہلے پہلے جو لوگ اپنے آپ کو خدا تعالیٰ کے دین کی خدمت کے لیے پیش کریں گے وہ خدا تعالیٰ کے حضور مقبول ہوں گے اور ی اُس کی برکتوں سے اتنا حصہ پائیں گے کہ بعد میں آنے والے اُن برکات کا عشر عشیر بھی نہیں لے سکیں گے.کیونکہ الْفَضْلُ لِلْمُتَقَدِّم - فضیلت اُنہی کو ملتی ہے جو نیکی اور قربانی کی راہوں میں سبقت اختیار کرتے ہیں.مجھے شکوہ ہے کہ کراچی والے اب تک دو گنے کیوں نہیں ہو گئے.میں کئی سال سے انہیں توجہ دلا رہا ہوں مگر ابھی تک وہ دو گنے نہیں ہوئے.لیکن سچی بات یہ ہے کہ انہیں دو گنا ہونے کی نصیحت کرتے ہوئے بھی مجھے شرم آتی ہے.اصل بات یہ ہے کہ انہیں موجودہ تعداد سے دو سو گنے زیادہ ہونا چاہیے.اگر وہ سچے دل سے کوشش کریں اور اپنی جد و جہد کو تیز کر دیں تو وہ دیکھیں گے کہ کس طرح خدا تعالیٰ کی مدد اور اُس کی نصرت ان کے شامل حال ہوتی ہے اور انہیں ان کے مقصد میں کامیاب کرتی ہے.پس اپنے اندر دین کی خدمت کا احساس پیدا کرو اور سمجھ لو کہ دنیا کی کی اصلاح تمہارے ساتھ وابستہ ہے.تمہیں اُس وقت تک چین اور آرام سے نہیں بیٹھنا چاہیے جب تک دنیا کو تم ہدایت کی طرف نہ لے آؤ.اگر تم دنیا کی ہدایت کے لیے بے چین رہو گے تو میں تمہیں یقین دلاتا ہوں کہ خدا تعالیٰ کو بھی اُس وقت تک چین نہیں آئے گا جب تک

Page 157

$1955 147 خطبات محمود جلد نمبر 36 وہ تمہاری بے چینی کو دُور نہ کرلے.تمہاری بے چینی بے کار جاسکتی ہے لیکن خدا تعالیٰ کی بے چینی کبھی بے کار نہیں جاسکتی.وہ جب بھی بے چین ہوگا اپنے کام کو کر کے رہے گا.(الفضل 16 اکتوبر 1955ء) 1 هری کین: (HURRICANE LANTERN) لالٹین.ہوا میں نہ بجھنے والا چراغ فَانكِحُوا مَا طَابَ لَكُمْ مِنَ النِّسَاء مَثْنَى وَثُلَثَ وَرُبعَ ، فَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تَعْدِلُوا فَوَاحِدَةً (النساء : 4) 3 آل عمران: 65 4 الوصیت روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 319

Page 158

$1955 148 25 25 خطبات محمود جلد نمبر 36 اسلام کے غلبہ کی یہی صورت ہے کہ ہم میں نسلاً بعد نسل ایسے لوگ پیدا ہوتے رہیں جو اسلام کی اشاعت کے لیے اپنے آپ کو وقف کریں (فرموده 23 ستمبر 1955ء بمقام کراچی) تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور نے سورۃ انفال کی اس آیت کی تلاوت فرمائی کہ وَالَّذِينَ آمَنُوا مِنْ بَعْدُ وَهَاجَرُوا وَجَهَدُوا مَعَكُمْ فَأُولَيْكَ مِنْكُمْ 1 - اس کے بعد فرمایا." سلسلہ احمدیہ کو قائم ہوئے آج چھیاسٹھ سال ہوئے ہیں اور اس کی بنیاد پڑے اس سے بھی سات آٹھ سال زیادہ ہو چکے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو وفات پائے بھی 46 سال ہو گئے ہیں.ظاہر ہے کہ اس عرصہ میں ایمان لانے والے احمدیوں کی اکثریت کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی صحبت کا موقع نہیں مل سکتا تھا کیونکہ وہ اُس وقت تک پیدا ہی نہیں ہوئے تھے یا اتنے چھوٹے تھے کہ سوائے اس کے کہ اُن کے ماں باپ احمدی ہوں ان کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی صحبت میں لے جانے والا اور کوئی نہیں تھا.مگر صحابہ کے حالات پڑھ کر اور صحابہ کی قربانیوں اور اُن کے درجات کا ذکر سن کر ہر شخص کی خواہش ہوتی ہے کہ کاش! میں بھی صحابی ہوتا اور میں بھی ان برکات سے حصہ لینے والا ہوتا جن سے صحابہ نے حصہ لیا.

Page 159

خطبات محمود جلد نمبر 36 149 $1955 پھر اگر رسول کریم ی ہے کے زمانہ کولو تو آپ کی وفات پر تو اب ایک ہزار سال سے بھی زیادہ عرصہ گزر چکا ہے.شمسی لحاظ سے آپ کی ہجرت پر 1334 اور آپ کی وفات پر 1324 سال گزر چکے ہیں.پس آپ کے صحابہ میں سے ہونے کا کسی شخص کے لیے کوئی امکان ہی نہیں.کیونکہ 1334 سال دنیا میں کسی انسان کی عمر نہیں ہو سکتی.صرف ایک مثال حضرت مسیح ناصری کی پائی جاتی تھی جن کو لوگوں نے آسمان پر زندہ بٹھا رکھا تھا.اور اگر آج وہ آسمان سے اتر آتے تو ان کی عمر 1988 سال ہوتی.مگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ السلام نے اُن کی بھی وفات ثابت کر دی اور اس طرح اُن کے واپس آنے کا دروازہ آپ نے بند کر دیا.گویا صرف ایک مثال اتنی بڑی عمر کی پائی جاتی تھی وہ بھی غلط ہوگئی.یوں لوگوں نے بعض اور انبیاء کی بھی بڑی عمریں بتائی ہیں اور اس بارہ میں انہوں نے قرآن کریم کی بعض آیتوں سے بھی استدلال کیا ہے جو صحیح نہیں.مثلاً کہتے ہیں کہ حضرت نوح کی ایک ہزار سال عمر تھی.اسی طرح خواجہ خضر کے متعلق مشہور ہے کہ وہ اب تک زندہ ہیں اور پانیوں پر اُن کی حکومت ہے.مگر ظاہر ہے کہ یہ صرف قصے ہی ہیں.گوایمان کے ساتھ مل کر بعض دفعہ ایسے قصے بھی زندہ ہو جاتے ہیں.مجھے یاد ہے قادیان میں جلسہ سالانہ کے بعد میں ہمیشہ سیر کے لیے دریا پر چلا جایا کرتا تھا جس کے نتیجہ میں قریباً سارا سال میری صحت اچھی رہتی.ربوہ میں صحت کی خرابی کی بڑی وجہ یہی ہوئی کہ یہاں کوئی جگہ ایسی نہیں تھی جہاں میں تبدیلی آب و ہوا کے لیے جاسکتا.عجیب بات یہ ہے کہ اس بیماری سے صرف چند دن پہلے ایک زمیندار دوست نے مجھے ایک خط لکھا جسے پڑھ کر مجھے حیرت ہوئی کہ اُس نے کتنی سچی بات لکھی ہے.اُس نے لکھا کہ قادیان میں جلسہ سالانہ کے بعد آپ ہمیشہ دریا پر چلے جایا کرتے تھے جس کی وجہ سے آپ کی صحت اچھی رہتی.مگر اب آپ کبھی باہر نہیں گئے اور میں ہر سال دیکھتا ہوں کہ آپ کی صحت جلسہ سالانہ کے بعد ہی بگڑتی ہے.اس کا آپ کو فکر کرنا چاہیے.اس خط کے چند دن بعد ہی مجھ پر فالج کا حملہ ہو گیا اور مجھے یہ خیال آیا کہ یہ بات ایک ان پڑھ کو سو بھی مگر ڈاکٹروں کو نہ سُوجھی.اگر ڈاکٹر میری صحت کی بحالی کے لیے تبدیلی آب و ہوا پر اصرار کرتے تو شاید اس مرض کا حملہ نہ ہوتا.بہر حال میں نے بتایا ہے کہ ایمان کے ساتھ مل کر ایسے قصے بھی بعض دفعہ زندہ ہو جایا کرتے ہیں.

Page 160

خطبات محمود جلد نمبر 36 150 $1955 مجھے یاد ہے ایک دفعہ میں دریا پر گیا.بھائی عبدالرحیم صاحب قادیانی جو بچپن میں میرے استا در ہے ہیں اور کچھ اور دوست میرے ساتھ کشتی میں سوار تھے ، ناصر احمد بھی میرے ساتھ تھا.جب ہم کشتی میں بیٹھے دریا کی سیر کر رہے تھے تو ناصر احمد نے اپنے بچپن کے لحاظ سے کہا کہ ابا جان! اگر اس وقت ہمارے پاس مچھلی بھی ہوتی تو بڑا مزا آتا.میں نے کہا لوگ کہتے ہیں کہ پانیوں پر خواجہ خضر کی حکومت ہے.اگر خواجہ خضر کوئی مچھلی ہماری طرف پھینک دیں تو تمہاری یہ خواہش پوری ہوسکتی ہے.جب میں نے یہ فقرہ کہا تو بھائی جی جھنجھلا کر کہنے لگے کہ آپ کیسی باتیں کرتے ہیں.اس سے بچے کی عقل ماری جائے گی.میں نے کہا ہمارے خدا میں تو سب طاقتیں ہیں وہ چاہے تو ابھی مچھلی بھجوا دے.میں نے یہ بات ابھی ختم ہی کی تھی کہ یکدم پانی کی ایک لہر اٹھی اور ایک بڑی مچھلی کو ذکر ہماری کشتی میں آگری.میں نے کہا دیکھ لیجئے خدا تعالیٰ نے اپنی قدرت نمائی کر دی.اور ہمارے دل میں جو خواہش پیدا ہوئی تھی وہ اُس نے پوری کر دی.خواجہ خضر بے شک وفات پاچکے ہوں مگر ہمارا خدا جو ہمارا خالق اور مالک ہے وہ تو زندہ ہے اور وہ ہمارے جذبات کو جانتا ہے.اُس نے اِس خواہش کو دیکھا اور میری بات کو پورا کر دیا.تو انسان کی نیت اگر صادق ہو اور اُسے خدا تعالیٰ پر کامل یقین ہو تو ایسی غیر معمولی باتیں بھی رونما ہو جاتی ہیں جن سے انسان کو نہایت ہی تعجب ہوتا ہے.میں نے کئی دفعہ ذکر کیا ہے کہ ایک دفعہ بڑی تپش کے بعد بارش آئی.جس کمرہ میں میں رہتا تھا اُس کی کھڑکی میں نے کھولی اور بارش کا نظارہ دیکھنے لگا.چونکہ بڑی دیر کے بعد بارش آئی تھی اس لیے مجھے اُس بارش کا بڑا مزا آیا.مگر اُس روز مجھے پیچش اور مروڑ کی شکایت تھی.میں ابھی بارش کا نظارہ دیکھ ہی رہا تھا کہ میرے پیٹ میں زور سے مروڑ اٹھا.اب میرا دل بھی نہ چاہے کہ میں بارش کا نظارہ چھوڑ کر جاؤں اور کھڑا بھی نہ رہ سکوں.چونکہ وہ ہلکی بارش تھی جو بعض دفعہ تھوڑی دیر ہو کر بند ہو جاتی ہے اس لیے میں ڈروں کہ اگر میں گیا تو بارش بند ہو جائے گی مگر اُس وقت کھڑے رہنے کی بھی طاقت نہیں تھی.آخر میں جب جانے لگا تو بے ساختہ میرے منہ سے نکل گیا کہ خدایا ! میں تو اب کھڑا بھی نہیں ہو سکتا.میں اب پاخانے جاتا ہوں تو ایسا انتظام فرما کہ خواہ درمیانی عرصہ میں یہ بارش بند ہو جائے جب میں واپس لوٹوں تو پھر بارش شروع ہو جائے.

Page 161

$1955 151 خطبات محمود جلد نمبر 36 چنا نچہ ایسا ہی ہوا.جونہی میں پاخانہ کے لیے بیٹھا بارش بند ہوگئی.اس کے بعد جب میں فارغ ہوا اور کمرہ میں آیا تو میں نے دوبارہ کھڑ کی کھول دی.میرا کھڑکی کو کھولنا تھا کہ یکدم بارش شروع ہوگئی جو آدھ گھنٹہ یا پون گھنٹہ تک جاری رہی.اب دیکھو! بارش میرے اختیار میں نہیں تھی.مگر خدا نے ایسے سامان کئے کہ ادھر میں کمرہ میں پہنچا اور ادھر بارش شروع ہوگئی.اسی طرح ایک جماعت نے حضرت خلیفہ اول سے اصرار کر کے مجھے اپنے پاس بلایا.وہ بڑی مخلص جماعت تھی.آپ نے جماعت کے اصرار کو دیکھ کر مجھے چند دنوں کے لیے وہاں بھجوا دیا.جب میں واپس آرہا تھا تو چلتے چلتے کسی آئندہ خرچ کے خیال سے میں نے اپنی جیب میں ہاتھ ڈالا تو ایک روپیہ کم تھا.اُس وقت میں نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ اللہ میاں! مجھے ایک پیہ بھیجیں.ابھی میرے دل سے یہ دعا نکلی ہی تھی کہ قریب کے ایک گاؤں سے ایک آدمی ہماری طرف آتا دکھائی دیا.اُس کو دیکھتے ہی جو لوگ میرے ساتھ تھے وہ جلدی سے حفاظت کے لیے میرے اردگرد جمع ہونے لگ گئے.میں نے کہا کیا ہوا؟ کہنے لگے یہ ہمارے سلسلہ کا شدید دشمن کی وه ہے اور احمدیوں پر اکثر حملے کرتا رہتا ہے.ہم آپ کے اردگرد اس لیے کھڑے ہو گئے ہیں.آپ کو کوئی نقصان نہ پہنچا سکے.جب ہم گاؤں کے قریب پہنچے تو وہ دوڑتا ہوا آیا اور میرے ساتھیوں کو دھگا دے کر آگے بڑھا.پھر اُس نے ادب کے ساتھ میری طرف ہاتھ بڑھایا اور ایک روپیہ میرے ہاتھ پر رکھ کر چلا گیا.میں نے کہا آپ لوگ تو کہتے تھے کہ یہ مارنے آیا ہے اور اس نے تو ایک روپیہ نذرانہ کے طور پر دیا ہے.پھر میں نے انہیں بتایا کہ ابھی میرے دل میں خیال آیا تھا کہ خدا مجھے ایک روپیہ بھیجے.سوخدا نے اس شخص کو بھیج دیا اور اس نے مجھے ایک روپیہ نذرانہ کے طور پر دے دیا.اب بھی میں نے بیماری کے علاج کے لیے یورپ کا سفر اختیار کرنے کا ارادہ کیا تو میں لاہور گیا.وہاں سول سرجن صاحب تشریف لائے.گو میری بیماری کا علاج اور ڈاکٹر کر رہے تھے جو اُن سے بھی بڑے تھے.مگر قاعدہ یہ ہے کہ جب کوئی بیماری کے علاج کے لیے باہر جانا چاہے تو جب تک سول سرجن تصدیق نہ کرے اُس وقت تک اسے ایکسچینج نہیں مل سکتا.وہ جب میرے پاس آئے تو میں نے اُن سے کہا کہ آپ ایک ہزار پاؤنڈ کی سفارش کر دیں.وہ کہنے لگے

Page 162

خطبات محمود جلد نمبر 36 152 $1955 ایک ہزار پاؤنڈ بہت کم ہے.آپ مجھے اجازت دیں کہ میں دو ہزار پاؤنڈ کی سفارش کر دوں.میں نے کہا آپ دو ہزار لکھیں گے تو ہمیں ایک ہزار بھی نہیں ملے گا.کیونکہ بالا افسر یہ کہیں گے کہ یہ سفارش کرنے والا کوئی مرزائی ڈاکٹر ہوگا.اس پر انہوں نے ایک ہزار پاؤنڈ کی ہی سفارش کر دی.جب ہم کراچی پہنچے تو ڈاکٹر جنرل ہیلتھ سے ملے انہوں نے بھی کہا کہ میں اس رقم کو بڑھا تو دیتا مگر میری سفارش پر مخالفت ہو جائے گی.اس لیے بہتر یہی ہے آپ اس رقم کو نہ بڑھائیں.آخر یہ سفارش سٹیٹ بنک کے پاس پہنچی اور اس نے ہمارے لیے صرف پانچ سو پاؤنڈ منظور کئے.اب پانچ سو پاؤنڈ کی یورپ کے اخراجات کو مدنظر رکھتے ہوئے کوئی حقیقت ہی نہیں تھی.پہلی جگہ ہی جہاں ہم ٹھہرے وہاں ہم نے ڈاکٹر کو بھی دکھانا تھا اور اُس کی فیسیں وغیرہ ادا کرنی تھیں.اور پھر وہاں کی رہائش اور کھانے وغیرہ کے اخراجات بھی تھے جن پر گیارہ بارہ سو پاؤنڈ خرچ کا اندازہ تھا.لیکن اللہ تعالیٰ نے ایسا فضل کیا کہ ابھی ہم وہاں پہنچے ہی تھے کہ دنیا کے چاروں طرف سے مجھے مخلصین جماعت کے خطوط آنے شروع ہو گئے کہ ہم نے اتنے پاؤنڈ آپ کے حساب میں بنک میں جمع کروا دیئے ہیں.اس روپیہ کو آپ اپنی ضروریات کے لیے استعمال کر سکتے ہیں.محض خدا تعالیٰ کا فضل تھا کہ اُس نے جماعتوں میں تحریک پیدا کی اور انہوں نے بنکوں میں میرے نام پر رقوم بھجوانی شروع کر دیں.پچھلی دفعہ بھی ایسا ہی ہوا تھا.یہاں بعض سے قرضے بھی لئے گئے.لیکن باہر سے ایسے ایسے لوگوں نے ہمیں روپیہ بھیج دیا جن کا ہم نام بھی نہیں جانتے تھے.ایک دفعہ عراق سے کسی دوست نے کئی سو پاؤنڈ میرے نام پر بنک میں جمع کروا دیے.جب مجھے بنک نے اطلاع دی تو پہلے میں نے سمجھا کہ کسی احمدی نے قرض کے طور پر یہ روپیہ بھجوایا ہوگا.مگر جب وہاں کے احمدیوں سے دریافت کیا گیا تو سب نے انکار کیا اور کہا کہ ہم نے یہ روپیہ نہیں بھجوایا.آخر اس غیر احمدی دوست کو خط لکھے گئے.اس نے جواب میں لکھا کہ آپ کو غلطی لگی ہے میں نے کوئی قرض نہیں دیا.میں نے چھ سو یا آٹھ سو پاؤنڈ جو آپ کو بھجوایا تھا وہ محض نذرانہ کا تھا.اسی طرح اب کی دفعہ ہوا.اگر اس رنگ میں اللہ تعالیٰ کی مدد نہ ہوتی تو وہاں ہمارے گزارہ کی کوئی صورت نہ تھی اور شاید واپسی ٹکٹوں پر چند دنوں کے بعد ہی ہم پاکستان پہنچ جاتے.

Page 163

$1955 153 خطبات محمود جلد نمبر 36 مگر وہاں جاتے ہی چاروں طرف سے اطلاعات آنی شروع ہو گئیں کہ ہم نے اتنی رقوم آپ کے نام پر بنک میں جمع کرادی ہیں اور یہ پاکستانی رقوم نہیں تھیں کہ اس پر پاکستان گورنمنٹ کو کوئی اعتراض ہوتا.پھر صحت کے لیے ڈاکٹروں نے سیر کرنا ضروری قرار دیا تھا اور مختلف ممالک کی سیر کے لیے بڑی بھاری رقم کی ضرورت تھی.مگر اللہ تعالیٰ نے ایسا فضل کیا کہ باہر سے جو روپیہ آیا اُس سے یہ اخراجات بھی پورے ہو گئے اور دو موٹر ہم نے خرید لئے.آتی دفعہ ہمیں فکر ہوا کہ یہ موٹر جب ہم پاکستان میں لے گئے تو گورنمنٹ پاکستان ہمیں پکڑے گی کہ ہم نے تو صرف پانچ سو پاؤنڈ دیا تھا اور وہ بھی علاج کے لیے، یہ تیرہ چودہ سو پاؤنڈ کی موٹر میں کہاں سے آگئیں.اس پر ہم نے وہاں کے بنک کو لکھا کہ تم اس امر کی تصدیق کر دو کہ یہ روپیہ ہمیں امریکہ اور افریقہ وغیرہ سے آیا ہے.پاکستان کا اس روپیہ سے کوئی تعلق نہیں.چنانچہ بنک نے تصدیق کر دی جو پاکستان گورنمنٹ نے تسلیم کی اور اس طرح اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہماری تمام ضروریات پوری ہوگئیں.بہر حال میں یہ بتارہا تھا کہ آپ لوگوں کے صحابی بنے کا کوئی رستہ نہیں تھا مگر آپ لوگوں میں سے ہر شخص جب صحابہ کے حالات کو پڑھتا تو اُس کا دل چاہتا تھا کہ کاش! وہ بھی صحابہ میں شامل ہوتا اور وہ بھی اُس مقام کو حاصل کرتا جو انہوں نے حاصل کیا تھا.اس آیت میں جو میں نے ابھی پڑھی ہے اللہ تعالیٰ نے لوگوں کی اس خواہش کو مدنظر رکھتے ہوئے بتایا ہے کہ وَالَّذِينَ آمَنُوا مِنْ بَعْدُ وَهَاجَرُوا وَجَهَدُوا مَعَكُمْ فَأُولَيكَ مِنْكُمُ صحابه میں کچھ لوگ ایسے ہیں جو ابھی ایمان نہیں لائے.وہ بعد میں ایمان لائیں گے اور دین کی خاطر انہیں ہجرت بھی کرنی پڑے گی.جیسے کئی لوگ ایسے تھے جو ابتدائے سلسلہ میں ہی قادیان میں ہجرت کر کے آگئے.وہ فخر کرتے تھے کہ ہم نے ہجرت کی اور اُس وقت کی جب قادیان ایک چھوٹی سی بستی تھی اور اُس میں صرف چند گھرانے آباد تھے مگر پھر ہمیں قادیان سے نکالا گیا اور ربوہ کی آبادی کے لیے دوستوں کو ہجرت کرنی پڑی.اس طرح بعد میں آنے والوں کے لیے پھر خدا نے ہجرت کا موقع پیدا کر دیا اور انہیں بھی فخر کا ایک موقع حاصل ہو گیا.قادیان میں جو لوگ ابتدائی زمانہ میں ہجرت کر کے آئے اور انہوں نے مکان بنائے وہ بعض دفعہ فخریہ طور پر کہا کرتے تھے کہ ہم نے قادیان میں

Page 164

$1955 154 خطبات محمود جلد نمبر 36 اُس وقت مکان بنایا جب صرف دوسو یا چار سو گھر تھا.مگر اب بعض لوگ کہتے ہیں کہ ہم نے ربوہ میں اُس وقت ہجرت کی جب صرف تین خیمے لگے ہوئے تھے.غرض اللہ تعالیٰ نے بعد میں آنے والے لوگوں کے مہاجر بننے کا بھی رستہ کھول دیا.یہی بات اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں بیان فرمائی ہے کہ وہ لوگ جو بعد میں ایمان لائیں گے اور خدا تعالیٰ کے نام کی بلندی کے لیے ہجرت کریں گے اور اس کے کلمہ کے اعلاء کے لیے جہاد کریں گے فاوليك مِنْكُمُ اے صحابہ اوہ تم میں سے ہی ہوں گے.دیکھو! خدا جس طرح صحابہ کا تھا اُسی طرح تمہارا ہے.اُس نے جب دیکھا کہ بعد میں آنے والوں میں سے کچھ ایسے لوگ ہوں گے.جن کے دلوں میں ایمان ہوگا اور وہ چاہیں گے کہ اُن کے لیے بھی صحابیت کا رستہ کھولا جائے تو اُس نے ان کے دلوں کا بھی خیال رکھا اور فرمایا وَالَّذِينَ آمَنُوْا مِنْ بَعْدُ وَهَاجَرُوا وَجَهَدُوا مَعَكُمْ فَأُولَيكَ مِنْكُمْ کہ وہ لوگ جو ان کے بعد ایمان لائیں گے اور ہجرت کریں گے اور اسلام کی خدمت کے لیے جہاد کریں گے وہ بھی تم میں ہی شامل ہوں گے.دیکھو! اللہ تعالیٰ نے کس طرح تمہارے صحابی ہونے کا رستہ کھول دیا.ضرورت یہ ہے کہ تم اپنے اندر پختہ ایمان پیدا کرو ، خدا تعالیٰ کے دین کے لیے اپنے وطنوں کو چھوڑنے کے لیے تیار رہو اور جہاد پر کمر بستہ رہو.مگر یہ یا درکھو کہ ہر زمانہ میں جہاد کے طریق الگ الگ ہوتے ہیں.جو ں اپنے زمانہ کے حالات کے مطابق دین کے جہاد میں حصہ لیتا ہے وہ انہی برکتوں سے حصہ پاتا ہے جن برکتوں سے پہلے لوگوں نے حصہ پایا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو ہی دیکھ لو آپ پر الزام لگایا جاتا ہے کہ آپ جہاد کے منکر ہیں اور اپنا مقام بہت بڑا بتاتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام نے اس الزام کے جواب میں یہی لکھا ہے کہ میں جہاد کا منکر نہیں صرف اتنی بات ہے کہ میں اس وقت تلوار سے نہیں بلکہ قلم کی نوک سے جہاد کر رہا ہوں.جہاد کی غرض یہی ہے کہ اسلام دنیا پر غالب آ جائے اگر کسی وقت قلم سے اسلام غالب آجاتا ہے تو قلم چلانے والا ہی مجاہد ہے.چونکہ اس زمانہ میں دشمنانِ اسلام کی طرف سے تلوار سے نہیں بلکہ قلم سے اسلام کو مٹانے کی کوشش کی جاتی ہے اس لیے میں بھی تلوار سے نہیں بلکہ قلم کی نوک سے جہاد کر رہا ہوں.چنانچہ اللہ تعالیٰ نے

Page 165

$1955 155 خطبات محمود جلد نمبر 36 حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو وہی کچھ قلم سے دے دیا جو پہلوں کو تلوار کے نتیجہ میں ملا تھا.جیسا کہ میں نے پچھلی دفعہ بھی کہا تھا اب اسلام کی بنیاد کو دوبارہ استوار کیا جا رہا ہے کیونکہ بارشوں اور طوفانوں کی کثرت کی وجہ سے اسلام کی عمارت میں کمزوری پیدا ہو چکی تھی ، اس کی دیواروں میں رخنے پڑ گئے تھے، اس کی سفیدی اتر چکی تھی ، اس کی اینٹیں اپنی جگہ چھوڑ چکی تھیں اور اس کی چھت میں بڑے بڑے سوراخ ہو چکے تھے.خدا تعالیٰ نے اسلام کی اس عظیم الشان عمارت کی مرمت کے لیے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو مبعوث فرمایا اور آپ کو اس قلعہ کا پاسبان مقر فرمایا تا کہ اسلام کی یہ گرتی ہوئی عمارت پھر اپنی بنیادوں پر استوار ہو جائے اور دشمن کے حملے ناکام ہو جائیں.چنانچہ آپ آئے اور آپ نے نئے سرے سے اس عمارت کے فرش اور دیواروں پر سیمنٹ کر دیا.اس کے اندر دوبارہ سفیدی کر دی، اس کے تمام سوراخ بند کر دیئے اور اسے پھر ایک مضبوط قلعہ کی شکل میں تبدیل کر دیا.اب کسی کی طاقت نہیں کہ وہ اسلام کی دیوار کو گرا سکے.پھر خدا نے اس عمارت کی صرف مرمت ہی نہیں کی بلکہ ایک نئی فوج بھی تیار کر دی جو قلعہ کی حفاظت کے لئے اس کے سامنے کھڑی ہے.اب دشمن کی مجال نہیں کہ وہ اس قلعہ کی طرف بڑھے اور اس پر حملہ کر سکے کیونکہ اس قلعہ کے محافظین کے دلوں میں خدا اور اس کے رسول کی محبت ہے.وہ اس کی رضا کے لیے اپنے وطنوں کو چھوڑتے ہیں اور غیر ملکوں میں سالہا سال تک رہ کر دین کی اشاعت کے لیے جد و جہد کرتے ہیں.ہمارے مبلغین میں ایسی کئی مثالیں پائی جاتی ہیں کہ انہوں نے اسلام کی اشاعت کے لیے اپنی زندگی وقف کی اور شادی کے چند ہفتہ بعد ہی غیر ممالک میں چلے گئے.چونکہ میاں بیوی اگر ایک رات بھی اکٹھے رہیں تو بعض دفعہ حمل ہو جاتا ہے.اس لیے ان کے پیچھے ہی بچے پیدا ہوئے اور وہ سالہا سال تک اپنے باپ کی شکل تک دیکھنے کو ترستے رہے.ایک مبلغ جو شادی کے معا بعد تبلیغ اسلام کے لئے چلے گئے تھے اُن کا بچہ اُن کے جانے کے بعد پیدا ہوا اور پھر بڑے ہو کر اسکول میں تعلیم حاصل کرنے لگا.جب وہ دس سال کا تھا تو ایک دن وہ اسکول سے اپنے گھر آیا اور اپنی ماں سے کہنے لگا کہ اماں !الڑ کے جب اسکول میں آتے ہیں تو کہتے ہیں ہمارا ابا یہ لایا، ہمارا ابا وہ لایا.میرا بھی کوئی ابا ہے یا نہیں؟

Page 166

خطبات محمود جلد نمبر 36 156 $1955 اسی طرح حکیم فضل الرحمن صاحب جو حال ہی میں میرے پیچھے فوت ہوئے وہ شادی کے تھوڑے عرصہ بعد ہی مغربی افریقہ میں تبلیغ اسلام کے لیے چلے گئے اور تیرہ چودہ سال تک باہر رہے.جب وہ واپس آئے تو اُن کی بیوی کے بال سفید ہو چکے تھے اور اُن کے بچے جوان ہو چکے تھے.میں یہ بھی بتادینا چاہتا ہوں کہ آج جمعہ کے بعد میں حکیم فضل الرحمن صاحب ، مولوی عبد المغنی خان صاحب اور ماسٹر محمد حسن صاحب آسان کی نماز جنازہ پڑھوں گا.مولوی عبد المغنی خان صاحب بھی اُن لوگوں میں سے تھے جنہوں نے ابتدائی زمانہ میں اپنی زندگی وقف کی.وہ حضرت خلیفہ اول کے زمانہ میں قادیان میں ہجرت کر کے آگئے اور پھر وفات تک مرکز میں ہی رہے.اور سلسلہ کے مختلف عہدوں پر نہایت اخلاص اور محبت کے ساتھ کام کرتے رہے.پھر ماسٹر محمد حسن صاحب آسان بھی میرے پیچھے فوت ہوئے ہیں.ان کا ایک بیٹا مولود احمد اس وقت لندن مشن کا انچارج ہے.میں نے جب وقف کی تحریک کی تو گوسینکڑوں مالدار ہماری جماعت میں موجود تھے مگر ان کو یہ توفیق نہ ملی کہ وہ اپنی اولا د کو خدمت دین کے لیے وقف کریں.لیکن ماسٹر محمد حسن صاحب آسان نے اپنے چارلڑ کے اسلام کی خدمت کے لیے وقف کر دئیے.جن میں سے دو بیٹے اُن کی وفات کے وقت پاکستان سے باہر تھے.ان میں سے ایک ویسٹ افریقہ میں وائس پرنسپل ہے اور ایک لندن مشن کا انچارج اور انگلستان میں ہمارا مبلغ ہے.ان کے سات بچے تھے اور وہ غریب آدمی تھے انہوں نے اپنے خرچ پر انہیں گریجوایٹ کرایا اور پھر سات میں سے چار کو وقف کر دیا.ان میں سے ایک الفضل کا ایڈیٹر ہے.ایک لندن مشن کا انچارج ہے.ایک ویسٹ افریقہ میں وائس پرنسپل ہے اور ایک کراچی میں تحریک جدید کی تجارت کا انچارج ہے.ان سارے لڑکوں کو انہوں نے بی اے یا ایم اے اپنے خرچ پر کرایا.سلسلہ سے انہوں نے کوئی رقم نہیں لی.انہیں یہ کبھی خیال نہ آیا کہ میں ایک غریب آدمی ہوں اگر میرے بیٹے پڑھ کر اعلیٰ ملازمتیں حاصل کر لیں تو ہمارے خاندان کا نام روشن ہو جائے گا.انہوں نے روشنی صرف اسلام میں دیکھی اور اپنے لڑکوں کو دین کی خدمت کے لیے وقف کر دیا.غرض ہماری جماعت میں ایسی مثالیں تو موجود ہیں جو جماعت کی عزت کو قائم رکھنے والی

Page 167

$1955 157 خطبات محمود جلد نمبر 36 ہیں لیکن اب یہ حالت ہے کہ سوائے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی اولاد کے اور یا پھر میری اولاد کے اور کسی جگہ سے ہمیں واقف زندگی نہیں مل رہے.کبھی کبھی تو جب میں اس کی حالت کو دیکھتا ہوں اور مجھے ڈر آتا ہے کہ کہیں میری اولا د بھی کسی وقت دوسروں کو دیکھ کر دین کی خدمت سے منہ نہ پھیر لے تو میرے دل میں جوش آتا ہے کہ میں اللہ تعالیٰ سے دعا کروں کہ الہی ! مجھے صرف ایسی اولاد کی ضرورت ہے جو تیرے دین کی خدمت گزار ہو.تو مجھے ایسا دن نہ دکھا ئیو کہ تیرے دین کو قربانی کی ضرورت ہو اور میرے بیٹے اس کے لیے تیار نہ ہوں.اور اگر کوئی ایسا دن آنے والا ہو تو تو بڑی خوشی سے مجھے بے اولا د کر دے.کیونکہ میرا نام تو نے روشن کرنا ہے میری اولا د نے نہیں.میں تو صرف یہ چاہتا ہوں کہ میری ساری اولا د دین کی خدمت کرنے والی ہو.دیکھو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی بیٹا نہ تھا مگر کیا دنیا میں کوئی شخص ہے جو آپ کا نام عزت سے نہیں لیتا ؟ آپ کا خدا سے تعلق ہو گیا اور خدا نے آپ کے نام کو ابدی طور پر زندہ کر دیا.پس جس کا خدا سے تعلق ہو جائے اُسے ڈ رہی کس بات کا ہوسکتا ہے.حضرت مسیح ناصری کو دیکھ لو.آپ کی کوئی جسمانی اولاد نہ تھی جو آپ کے نام کو زندہ رکھتی.مگر آج ساری دنیا کے عیسائی گواپنی جہالت اور نادانی کی وجہ سے انہیں خدائی کا رتبہ دیتے ہیں مگر وہ آپ پر اپنی جانیں قربان کرنے کے لیے تیار رہتے ہیں.وہ کام خود اچھا کرتے ہیں.مگر ہر اچھا کام کرنے کے بعد کہتے ہیں کہ یہ کرسچین سویلائزیشن ہے.چونکہ ان کی قوم میں رحم کا جذ بہ زیادہ پایا جاتا ہے اس لیے اگر وہ کسی موقع پر رحم سے کام لیتے ہیں تو ساتھ ہی کہہ دیتے ہیں کہ یہ کرسچین سویلائزیشن ہے.یہ سیخ کی تعلیم کا نتیجہ ہے.اگر مسیح کے اپنے بیٹے ہوتے تو کیا بن جاتا اور ان کا نام کتنے عرصہ تک باقی رہتا ؟ لیکن چونکہ انہوں نے اپنی زندگی خدا تعالیٰ کے لیے وقف کر دی اس لیے خدا تعالیٰ نے ان کو وہ عظمت دی کہ آج سارا یورپ اور سارا امریکہ اُن کی عزت کر رہا ہے.بلکہ یورپ کے ایک چھوٹے سے چھوٹے ملک کے عیسائی جس طرح حضرت مسیح کو یا درکھتے ہیں اگر اُن کے اپنے بیٹے بھی موجود ہوتے تو اس طرح اُن کو یاد نہیں رکھ سکتے تھے.

Page 168

خطبات محمود جلد نمبر 36 158 $1955 اسی طرح میں سمجھتا ہوں ماسٹر محمد حسن صاحب آسان نے بھی ایسا نمونہ دکھایا ہے جو قابل تعریف ہے.وہ ایک معمولی مدرس تھے اور غریب آدمی تھے.انہوں نے فاقے کر کر کے اپنی اولا د کو پڑھایا اور اسے گریجوایٹ کرایا.اور پھر سات لڑکوں میں سے چار کو سلسلہ کے سپرد کر دیا.اب وہ چاروں خدمت دین کر رہے ہیں اور قریباً سارے ہی ایسے اخلاص سے خدمت کر رہے ہیں جو وقف کا حق ہوتا ہے.اگر یہ بچے وقف نہ ہوتے تو ساتوں مل کر شاید دس ہیں سال تک اپنے باپ کا نام روشن رکھتے اور کہتے کہ ہمارے ابا جان بڑے اچھے آدمی تھے.مگر جب میرا یہ خطبہ پچھے گا تو لاکھوں احمدی محمد حسن صاحب آسان کا نام لے کر ان کی تعریف کریں گے اور کہیں گے کہ دیکھو! یہ کیسا با ہمت احمدی تھا کہ اس نے غریب ہوتے ہوئے اپنے سات بچوں کو اعلیٰ تعلیم دلائی اور پھر ان میں سے چار کو سلسلہ کے سپر د کر دیا.اور پھر وہ بچے بھی ایسے نیک ثابت ہوئے کہ انہوں نے خوشی سے اپنے باپ کی قربانی کو قبول کیا اور اپنی طرف سے بھی ان کے فیصلہ پر صا دکر دیا.میں نے پچھلے جمعہ میں جماعت کے دوستوں کو تحریک کی تھی کہ وہ اپنی زندگیاں اسلام کی خدمت کے لیے وقف کریں.اور میں نے بتایا تھا کہ اسلام کے غلبہ کی یہی صورت ہے کہ ہم میں نسلاً بعد نسل ایسے لوگ پیدا ہوتے رہیں جو اسلام کی اشاعت کے لیے اپنے آپ کو وقف کریں.میں نے یہ تحریک کی اور اس پر ایک ہفتہ گزر گیا لیکن میں دیکھتا ہوں کہ ابھی تک جماعت نے اس تحریک کی طرف پوری توجہ نہیں کی.ایک زمانہ وہ ہوا کرتا تھا کہ نارمل حالت میں جب میں تقریر کرتا تھا تو میں سمجھتا تھا کہ میں سامعین کے دل ہلا سکتا ہوں.اور اگر ابنارمل (Abnormal) اور غیر معمولی حالت پیدا ہو جاتی تھی اور خدا تعالیٰ کا نور مجھ پر نازل ہوتا اور اُس کا تصرف میری زبان پر ہوتا تو میں سمجھتا تھا کہ اگر ساٹھ ہزار آدمی بھی میرے سامنے ہوں اور میں انہیں پہاڑ سے چھلانگ لگانے کے لیے کہوں تو وہ پہاڑ سے چھلانگ لگا دے گا.اور اگر میں انہیں سمندر میں گودنے کے لیے کہوں تو وہ سمندر میں گو دجائے گا.لیکن اس بیماری کے بعد مجھے یہ وہم ہونے لگتا ہے کہ میری وہ قوت بیا نیہ اب مجھ میں موجود ہے یا نہیں.بہر حال میرے اس خطبہ کے بعد ایک احمدی نے مجھے خط لکھا کہ میرے دل میں وقف کی

Page 169

$1955 159 خطبات محمود جلد نمبر 36 تحریک ہوئی ہے.جب خدا مجھے توفیق دے گا میں اپنی زندگی اسلام کے لیے وقف کر دوں گا.سر دست میں دعائیں کر رہا ہوں اور دوستوں سے مشورہ لینے کا بھی ارادہ رکھتا ہوں.اس لیے نہیں کہ وقف اچھی چیز ہے یا نہیں بلکہ اس لیے کہ میں ذاتی طور پر وقف کو نبھا سکتا ہوں یا نہیں.اور بات درست ہے.اچھے سے اچھا کام بھی ہو تو اُس کے لیے دعاؤں کی ضرورت ہوتی ہے.لیکن یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ مشورہ دینے والے بھی مختلف قسم کے لوگ ہوتے ہیں.ایک مخلص احمدی جو اپنی قربانیوں کے لحاظ سے ہمیشہ صف اول میں شریک رہے ہیں اُن کے سامنے ایک دفعہ جب کہ میں کھانا کھا رہا تھا میرے ایک بیٹے کا ذکر آیا.انہوں نے کہا کہ اس کی خواہش اعلیٰ تعلیم پانے کی ہے لیکن میں نے اُسے مشورہ دیا ہے کہ چونکہ تمہارے باپ بیمار ہیں اور ابھی ان پر بہت بوجھ ہے اس لیے سر دست تم وہیں اپنی تعلیم مکمل کرو.پھر یہاں آکر بیرسٹری کر لینا.میں نے کہا بیرسٹری ؟ میں تو اپنے کسی ایسے لڑکے کو دیکھ ہی نہیں سکتا جو واقف زندگی نہ ہو.کہنے لگے روپیہ کی بھی تو ضرورت ہوتی ہے یہ روپیہ کمائے گا اور سلسلہ کی خدمت کرے گا.میں اُس دوست کو سلسلہ کا چوٹی کا خدمت گزار سمجھتا ہوں مگر جب اُس نے یہ فقرہ کہا تو مجھے یوں محسوس ہوا جیسے اُس نے میرے دل میں خنجر مار دیا ہے.اگر اس دوست کا مشورہ صحیح ہے تو پھر اس کے معنی یہ ہیں کہ بانی سلسلہ احمدیہ مرزا غلام احمد علیہ الصلوۃ والسلام نَعُوذُ بِاللهِ بالکل بیوقوف اور جاہل تھے.اور میں جو اُن کا خلیفہ ثانی ہوں بڑا گدھا اور بیوقوف ہوں کیونکہ ہم نے اپنی زندگیاں اسلام کی خدمت کے لیے وقف کر دیں.آخر دنیا کمانا مجھے بھی آتا ہے.مجھے خدا نے وہ دماغ دیا ہے کہ بڑے سے بڑے دماغ والے اس بیماری میں بھی میرا مقابلہ نہیں کر سکتے.اور پھر خدا نے ہمیں سامان بھی دیئے.ہمارے باپ دادا اپنے علاقہ کے حاکم تھے اور انہوں نے ایک بہت بڑی جائیداد اپنے پیچھے چھوڑی وہ جائیداد جو تباہ ہونے کے بعد ہم تک پہنچی وہ بھی اتنی قیمتی تھی کہ اگر ہم اُسے بیچنے کا موقع پاتے تو ہم تین بھائیوں کو تین تین کروڑ رو پھیل جاتا.گویا ہم سارے بھائیوں کی جائیداد مجموعی طور پر نو کروڑ روپیہ کی تھی.اگر یہ نو کروڑ روپیہ ہم تجارت پر لگا دیتے تو اس سے کئی گنا زیادہ روپیہ ہم کما لیتے کیونکہ اصل چیز دماغ ہے جس سے روپیہ کمایا جاتا ہے.اور دماغی قابلیتیں اللہ تعالیٰ نے مجھ میں پیدا کی ہیں.لیکن اگر فرض کرو میں یہ نو کروڑ کی جائیدا دسلسلہ کو دے

Page 170

$1955 160 خطبات محمود جلد نمبر 36 دیتا اور وہ کام نہ کرتا جو میں نے کیا ہے تو کیا تم سمجھتے ہو کہ وہ نو کروڑ اس کام کے برابر ہو سکتے تھے؟.یا کیا وہ نو کروڑ کی جائیداد میری لکھی ہوئی تفسیر کے ایک صفحہ کے برابر بھی ہو سکتی تھی ؟ میری تفسیر قرآن کا ایک صفحہ اس کروڑ سے ہزاروں گنا زیادہ قیمتی ہے اور ہزاروں گنے زیادہ فائدہ مند ہے.پس مجھے تعجب ہوا کہ اُس دوست نے یہ کیا بات کہی ہے.وہ دوست نہایت مخلص ہیں اور ساری عمر انہوں نے خدمت سلسلہ میں گزاری ہے.مگر پھر وہ اس وہم میں مبتلا ہو گئے کہ روپیہ دینا بھی خدمت ہے.بے شک ہماری جماعت میں ایسے لوگ بھی ہیں جنہوں نے مالی لحاظ سے سلسلہ کی بہت بڑی خدمت کی ہے اور ہم اُن کی قدر کرتے ہیں لیکن جن لوگوں نے اپنی زندگیاں اسلام کے لیے وقف کر دیں اور رات اور دن وہ خدمت سلسلہ میں مصروف رہے اُن کے وجود سے ہمارے سلسلہ کو جو فائدہ پہنچا ہے وہ روپیہ کے ذریعہ خدمت کرنے والوں سے بہت زیادہ ہے.مجھے یاد ہے میری پندرہ سال کی عمر تھی کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ایک دفعہ بیمار ہو گئے.اُن دنوں جو ڈاک آیا کرتی تھی وہ آپ کی بیماری کی وجہ سے میں ہی آپ کو پڑھ کر سنایا کرتا تھا.ایک دفعہ ایک منی آرڈر آپ کے نام آیا جو - 180 روپیہ کا تھا.اور ساتھ ہی خط تھا جس میں لکھا تھا کہ یہ روپیہ چندے کا نہیں بلکہ حضور کی خدمت میں بطور نذرانہ پیش ہے.اس میں سے 80 روپے تو وہ ہیں جو میں ہمیشہ ماہوار حضور کو بھیجا کرتا ہوں اور 100 روپیہ زائد اس لیے ہے کہ پہلے میری تنخواہ -/180 روپیہ تھی جس میں سے 80 روپے میں حضور کو نذرانہ بھجوا دیا کرتا تھا.اب مجھے یکدم سب انسپکٹر پولیس سے ترقی دے کر پراسیکیوٹنگ انسپکٹر بنا دیا گیا ہے اور -/280 روپے تنخواہ مقرر کی گئی ہے.میں سمجھتا ہوں کہ مجھے یکدم یہ 100 روپیہ جو ترقی ملی ہے محض حضور کے لیے ملی ہے اس لیے سو روپے وہ جو اب بڑھے ہیں اور 80 روپے وہ جو میں ہمیشہ بھیجا کرتا ہوں حضور کی خدمت میں نذرانہ کے طور پر وا رہا ہوں.اور چونکہ خدا نے مجھے -/180 سے -/280 روپیہ تک یکدم پہنچایا ہے اور یہ 100 روپیہ کی زیادتی میرے لیے نہیں بلکہ حضور کے لیے ہوئی ہے اس لیے میں آئندہ بھی ہمیشہ ایک 180 روپے ہی حضور کی خدمت میں بھجوایا کروں گا.میں نے جب یہ خط پڑھا تو بڑا

Page 171

$1955 161 خطبات محمود جلد نمبر 36 متاثر ہوا کہ ہماری جماعت میں اللہ تعالیٰ نے کیسے کیسے مخلص وجود پیدا کیے ہیں.یہ چودھری رستم علی صاحب تھے جو محکمہ پولیس میں ملازم تھے.اسی طرح میں نے کئی دفعہ سیٹھ عبداللہ بھائی کی خدمات کا ذکر کیا.اب تو پارٹیشن اور ہندوستانی گورنمنٹ کے مظالم کی وجہ سے ان کی تجارت ویسی نہیں رہی لیکن ساری عمر ان کی یہی کیفیت رہی کہ جو روپیہ بھی اُن کے پاس آتا وہ اسے سلسلہ پر خرچ کر دیا کرتے اور اب بھی وہ اسی رنگ میں قربانی کرتے جارہے ہیں.پس بے شک ہماری جماعت میں ایسے افراد ہیں جو مالی لحاظ سے سلسلہ کے کاموں میں غیر معمولی حصہ لیتے ہیں.لیکن ان افراد سے جو سلسلہ کو فائدہ پہنچا ہے کیا وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ایک تصنیف کے بھی برابر ہے؟ یا سلسلہ کے قائم کرنے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ السلام نے جو وقت صرف کیا اگر اُس وقت کو سلسلہ کے لیے صرف کرنے کی بجائے آپ اپنے زمینداره کام میں لگ جاتے تو کیا سلسلہ کو اتناہی فائدہ پہنچتا جتنا اب پہنچا ہے؟ یا میں ہی اگر اپنے زمینداره کام میں مشغول ہو جاتا تو میرے ذریعے سلسلہ کو وہ فائدہ پہنچ سکتا تھا جو اب پہنچا ہے؟ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ میں نے زمیندارہ کام بھی کیا ہے لیکن جب زمینوں کا کام اتنا بڑھا کہ میں نے سمجھا اب اگر میں نے اس کی طرف توجہ کی تو سلسلہ کے کام کو نقصان پہنچے گا تو میں نے میاں بشیر احمد صاحب کو بلوایا اور زمین کے کاغذات اُن کے سپر د کر دئیے.اور خود میرے پاس جتنا وقت تھا وہ سارے کا سارا میں نے اس سلسلہ کے لیے وقف کر دیا.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ میں یہ کام خود بھی چلا سکتا تھا مگر اُن کے سپرد کرنے میں مجھے یہ فائدہ ہوا کہ میں زمینوں کے کام سے فارغ ہو کر سلسلہ کے کاموں میں زیادہ تن دہی سے مصروف ہو گیا.پھر سندھ کی زمینیں ملیں تو اللہ تعالیٰ نے مجھے ملازموں سے کام لینے کی توفیق عطا فرما دی.بے شک ملازموں پر کام کا انحصار رکھنے کی وجہ سے مجھے نقصان بھی ہوتا تھا لیکن میں نہیں چاہتا تھا کہ زیادہ وقت اُدھر صرف کروں.کیونکہ میں جانتا تھا کہ سلسلہ کو میرے وقت کی زیادہ ضرورت ہے.لیکن اس کے باوجود اللہ تعالیٰ نے مجھے مالی لحاظ سے بھی سلسلہ کی خدمت کی توفیق عطا فرما دی.میں سمجھتا ہوں کہ جس طرح سیٹھ عبد اللہ بھائی اور بعض دوسرے دوستوں نے قربانی

Page 172

$1955 162 خطبات محمود جلد نمبر 36 کی ہے اور سلسلہ کی غیر معمولی خدمت کی ہے اسی طرح میں نے بھی کی ہے.چنانچہ اب تک تحریک جدید میں میں نے ساڑھے تین لاکھ سے زیادہ چندہ دیا ہے.لیکن اگر وہ خطبات جو تحریک جدید کے لیے میں نے پڑھے ہیں نہ پڑھتا اور صرف ساڑھے تین لاکھ روپیہ چندہ دے دیتا تو ساڑھے تین لاکھ سے ساری دنیا میں تبلیغ اسلام نہیں ہو سکتی تھی.یہ تبلیغ اسلام تو میرے وقف کی وجہ سے ہوئی ہے.پس بے شک روپیہ بھی ایک قیمتی چیز ہے.لیکن روپیہ کے با وجود پھر بھی وقف کی ضرورت ہوتی ہے.پس وہ دوست جن کے دلوں میں میرے خطبہ کی وجہ سے وقف کی تحریک ہوئی ہے اُن سے میں کہتا ہوں کہ تم سوچو اور مشورہ لومگر صرف اُنہی لوگوں سے مشورہ لو جو تمہیں مشورہ دینے کے اہل ہوں.بلکہ اگر تم صحیح مشورہ لینا چاہتے ہو تو مجھ سے لو.دوسروں کو کیا پتا ہے کہ سلسلہ کو کس قسم کے واقفین کی ضرورت ہے، کس قسم کا علم رکھنے والوں کی ضرورت ہے، کس قسم کا تجربہ رکھنے والوں کی ضرورت ہے اور پھر ان کے کتنے وقت کی سلسلہ کو ضرورت ہے.مجھے پتا ہے کہ سلسلہ کے لیے کس قسم کے کام کا تجربہ رکھنے والوں کی ضرورت ہے، کس قسم کے علم والوں کی ضرورت ہے اور کتنا وقت دے کر وہ سلسلہ کی خدمت کر سکتے ہیں.اس بارہ میں صحیح مشورہ انہیں مجھ سے ہی مل سکتا ہے.اور میں سمجھتا ہوں کہ اگر صحیح طریق پر کام کیا جائے تو ایک وکیل وکالت کرتے ہوئے بھی سلسلہ کی خدمت کر سکتا ہے.اور ایک زمیندار زمیندارہ کرتے ہوئے بھی سلسلہ کی خدمت کر سکتا ہے بشرطیکہ وہ مشورہ صحیح آدمی سے لے.جب تک میرے دم میں دم ہے میں تمہیں صحیح مشورہ دینے کے لیے ہر وقت تیار ہوں.پس مجھے سے مشورہ لو اور کوشش کرو کہ تم اپنے آپ کو اُن لوگوں کی صف میں لے آؤ جن کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وَالَّذِينَ آمَنُوا مِنْ بَعْدُ وَهَاجَرُوا وَ جَهَدُوا مَعَكُمْ فَأُولَيكَ مِنْكُمْ يعنى وه لوگ ایمان تو بعد میں لائے اور انہوں نے ہجرت بھی بعد میں کی اور جہاد بھی بعد میں کیا.لیکن پھر بھی وہ صحابہ میں شامل ہوں گے.پس صحابہ میں ملنا تمہارے لئے مشکل نہیں.اگر تم کوشش نہ کروتو اور بات ہے.ورنہ خدا نے تمہارے اندر وہ قابلیت رکھ دی ہے جس سے اگر تم کام لو تو تم صحابہ میں شامل ہو سکتے ہو.

Page 173

خطبات محمود جلد نمبر 36 163 $1955 میں چھوٹا تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام وفات پاگئے.آپ کی وفات کے بعد والدہ مجھے بیت الدعا میں لے گئیں اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الہاموں والی کاپی میرے سامنے رکھ دی اور کہا کہ میں سمجھتی ہوں یہی تمہارا سب سے بڑا ورثہ ہے.میں نے اُن الہامات کو دیکھا تو اُن میں ایک الہام آپ کی اولاد کے متعلق یہ درج تھا کہ حق اولاد در اولاد اسی طرح ایک اور الہام درج تھا جو منذ رتھا اور اُس کے نیچے لکھا تھا کہ جب میں نے یہ الہام محمود کی والدہ کو سنایا تو وہ رونے لگ گئیں.میں نے کہا کہ تم یہ الہام مولوی نورالدین صاحب کے پاس جا کر بیان کرو.انہوں نے محمود کی والدہ کو تسلی دی اور کہا کہ یہ الہام منذ نہیں بلکہ مبشر ہے.حق اولاد در اولاد کے معنی در حقیقت یہی تھے کہ وہ حق جو باہر سے تعلق رکھتا ہے یعنی زمینوں اور جائیدادوں وغیرہ میں حصہ، یہ کوئی زیادہ قیمتی نہیں.زیادہ قیمتی یہ چیز ہے کہ میں نے تمہاری اولاد کے دماغوں میں وہ قابلیت رکھ دی ہے کہ جب بھی یہ اس قابلیت سے کام لیں گے دنیا کے لیڈر ہی بنیں گے.باقی ورثہ ضائع ہو جاتا ہے مگر یہ وہ ورثہ ہے کہ جو کبھی ضائع نہیں ہوسکتا.اور یہ وہ ورثہ ہے جو ہم نے تمہاری اولاد کے دماغوں میں مستقل طور پر رکھ دیا ہے.میں سمجھتا ہوں کہ ہمیں بعد میں جو کچھ بھی ملا حق اولاد در اولاد کی وجہ سے ہی ملا.اور میں نے جتنے کام کیے اپنی دماغی اور ذہنی قابلیت کی وجہ سے ہی کیے.ورنہ مجھ سے زیادہ کتابیں پڑھنے والے لوگ دنیا میں موجود تھے.اگر اُن کے دماغوں میں بھی وہی قابلیت ہوتی جو مجھ میں ہے تو دنیا میں دس ہزار محمود اور بھی ہوتا.لیکن اگر ساری دنیا میں صرف ایک ہی محمود ہے تو اس کی وجہ وہی حق اولاد در اولاد ہے.اللہ تعالیٰ نے ہمارا اور شہ ہمارے دماغوں کے اندر رکھ دیا ہے اور یہ وہ دولت ہے جسے کوئی شخص پُر انہیں سکتا.جیسے حضرت مسیح علیہ السلام نے کہا جو کچھ تم زمین پر جمع کرو گے اُسے کیڑا کھا جائے گا.لیکن اگر تم آسمان پر جمع کرو تو وہ ہمیشہ کے لیے محفوظ رہے گا اور کوئی کیڑا اُسے نہیں کھا سکے گا.2 اسی طرح جائیدادیں تباہ کی جاسکتی ہیں ، زمینیں چھینی جاسکتی ہیں، لیکن ترقی کی وہ قابلیت جو دماغوں کے اندر ودیعت کر دی گئی ہوا سے کو ئی شخص چھین نہیں سکتا.چنانچہ دیکھ لو وہی جائیداد جس کا حساب میں نے کروڑوں میں لگایا ہے اور جو شاید چند سالوں کے بعدار بوں کی جائیداد بن جاتی وہی ہمارے شریک بھائیوں کے سپرد تھی.مگر اس کی کوئی

Page 174

$1955 164 خطبات محمود جلد نمبر 36 قیمت نہ تھی.اور ہم اُس سے اس قدر نا واقف تھے کہ مجھے یاد ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ السلام کی وفات کے بعد ایک دن ہمارے نانا جان والدہ صاحبہ کے پاس آئے اور انہوں نے غصہ میں رجسٹر زمین پر پھینک دیئے اور کہا کہ میں کب تک بڑھا ہو کر بھی تمہاری خدمت کرتا رہوں.اب تمہاری اولاد جوان ہے اس سے کام لو اور زمینوں کی نگرانی ان کے سپر د کرو.والدہ نے مجھے بلایا اور رجسٹر مجھے دے دیئے اور کہا کہ تم کام کرو تمہارے نانا یہ رجسٹر پھینک کر چلے گئے ہیں.میں اُن دنوں قرآن اور حدیث کے مطالعہ میں ایسا مشغول تھا کہ جب زمینوں کا کام مجھے کرنے کے لیے کہا گیا تو مجھے ایسا محسوس ہوا جیسے کسی نے مجھے قتل کر دیا ہے.مجھے یہ بھی پتا نہیں تھا کہ جائیداد ہے کیا بلا اور وہ کس سمت میں ہے.مغرب میں ہے یا مشرق میں ، شمال میں ہے یا جنوب میں ، میں نے زمینوں کی لٹیں اپنے ہاتھ میں لے لیں اور افسردہ شکل بنائے گھر سے باہر نکلا.مجھے اُس وقت یہ علم نہیں تھا کہ حق اولاد در اولاد کا الہام کیا کام کر رہا ہے.میں جو نہی باہر نکلا ایک صاحب مجھے ملے اور کہنے لگے میاں صاحب! میں نے سنا ہے کہ آپ کو زمینوں کے لیے کسی نوکر کی ضرورت ہے؟ میں نے کہا آج نانا جان غصہ میں آکر والدہ کے سامنے رجسٹر پھینک کر چلے گئے ہیں.اور میں حیران ہوں کہ یہ کام کس طرح کروں.کہنے لگے میں اس خدمت کے لیے حاضر ہوں.میں نے کہا آپ شوق سے یہ کام سنبھالیں در حقیقت یہ آپ کا ہی حق ہے.مگر آپ لیں گے کیا ؟ کہنے لگے آپ مجھے صرف دس روپے دے دیجئے.میں نے کہا دس روپے؟ میرے پاس تو ایک پیسہ بھی نہیں.کہنے لگے آپ فکر نہ کریں بڑی بھاری جائیداد ہے.اور میری تنخواہ اس میں سے بڑی آسانی کے ساتھ نکل آئے گی.میں نے اُس وقت بغیر پڑھے رجسٹر اُن کے حوالے کر دئیے.اور کہا کہ اگر آپ دس روپے پیدا کر سکیں تو لے لیجئے ورنہ میرے پاس تو ایک پیسہ بھی نہیں.انہی دنوں قرآن کریم کے پہلے انگریزی پارہ کی اشاعت کا سوال پیدا ہوا.اُس پارہ کے لیے میں اُردو میں مضمون لکھتا تھا اور ماسٹر عبد الحق صاحب مرحوم اُس کا انگریزی میں ترجمہ کرتے جاتے تھے.وہ اتنا اعلیٰ ترجمہ کرنے والے تھے کہ آج تک یورپ سے خطوط آتے رہتے ہیں کہ آپ کے پہلے پارہ کی زبان نہایت شان دار ہے.اور پھر وہ اتنی جلدی ترجمہ کرتے تھے کہ

Page 175

$1955 165 خطبات محمود جلد نمبر 36 میں پیچھے رہ جاتا اور وہ مضمون کا ترجمہ کر کے لے آتے.حالانکہ میں خود اتنا ز ودنو لیس تھا کہ بعض دفعہ ایک ایک دن میں پوری کتاب لکھ دیتا.اُن دنوں مسجد مبارک کے نچلے کمرے میں بیٹھ کر میں کام کیا کرتا تھا.ایک دن بیٹھا مضمون لکھ رہا تھا کہ کسی نے دروازہ پر دستک دی.میں نے پوچھا تو پتا لگا کہ ماسٹر عبد الحق صاحب آئے ہیں.میں نے کہا آپ کس طرح آئے ہیں؟ کہنے لگے مضمون دیجئے.میں نے کہا ابھی تھوڑی دیر ہوئی میں آپ کو مضمون بھجوا چکا ہوں.کہنے لگے اُس کا ترجمہ تو میں ختم بھی کر چکا ہوں.اب مجھے آگے مضمون دیجئے.میں نے کہا میرے پاس تو ابھی مضمون تیار نہیں.کہنے لگے خیر میں اپنا کام ختم کر چکا ہوں آپ مضمون لکھ لیں تو مجھے بھجوا دیں.بہر حال جب مضمون تیار ہو گیا تو ہم نے فیصلہ کیا کہ یہ پارہ ہم اپنے خاندان کی طرف سے چھپوا دیں مگر اس کے لیے روپیہ کی ضرورت تھی.ہمارا اندازہ یہ تھا کہ اس کے لیے چار ہزار روپیہ کی ضرورت ہوگی.آخر سوچ سوچ کر میں نے یہ تجویز نکالی کہ ہم اپنی جائیداد کا کچھ حصہ بیچ دیتے ہیں.اس ذریعہ سے جو آمد ہوگی وہ قرآن کریم کے چھپوانے پر خرچ کر دی جائے گی.میں نے اپنے بھائیوں سے مشورہ لیا تو انہوں نے کہا ہماری طرف سے زمین بیچنے کی اجازت ہے.مگر اب میں ڈروں کہ چار ہزار روپیہ آ بھی سکتا ہے یا نہیں ؟ میں نے اُسی دوست کو بلوایا اور کہا کہ ہماری یہ خواہش ہے کہ قرآن کریم ہمارے خاندان کے خرچ پر شائع ہو.کیا اس کے لیے چار ہزار رو پیدا کٹھا ہو سکتا ہے؟ کہنے لگے آپ کہیں تو ہیں ہزار روپیہ بھی اکٹھا ہوسکتا ہے.میں نے کہا میں ہزار نہیں صرف چار ہزار روپیہ چاہیے.جب میں نے یہ بات کہی اُس وقت کوئی گیارہ بجے ہوں گے.میں نے اُن سے پوچھا کہ یہ روپیہ کب تک اکٹھا ہو سکتا ہے؟ کہنے لگے ظہر تک لا دوں گا.یہ کہہ کر وہ چلے گئے.ظہر کی نماز پڑھا کر میں الفضل کے دفتر میں گیا تو انہوں نے چار ہزار روپیہ کی تھیلی میری سامنے لا کر رکھ دی.اور کہا ابھی اور بہت سے گاہک موجود ہیں اگر آپ کہیں تو ہمیں چھپیں ہزار روپیہ بھی آسکتا ہے.غرض اللہ تعالیٰ دینے پر آتا ہے تو اس طرح دیتا ہے کہ انسان حیران رہ جاتا ہے.پس مت سوچو کہ تمہاری اولادیں کیا کھائیں گی اور کہاں سے ان کے لیے رزق آئے گا.ہمیں تو یہ فکر رہتی ہے کہ ہمیں جو کچھ خدا نے دیا ہے یہ ہماری اولادوں کی تباہی کا موجب نہ

Page 176

$1955 166 خطبات محمود جلد نمبر 36 ہو جائے.ہمیں یہ فکر نہیں کہ وہ کھائیں گے کہاں سے.ہمیں تو یہ فکر ہے کہ وہ کہیں اپنے کھانے پینے میں ہی نہ لگ جائیں اور خدا اور اُس کے دین کو بھلا نہ بیٹھیں.میں نے بتایا ہے کہ شروع میں میری یہ حالت تھی کہ میں دس روپیہ کا نو کر بھی نہیں رکھ سکتا تھا.مگر اب سندھ کی زمینوں پر جو میرے ملازم کام کر رہے ہیں اُن کی چار ہزار روپیہ ماہوار تنخواہ ہے.کجا یہ کہ دس روپیہ کے نوکر پر میری جان نکلتی تھی اور کجا یہ کہ اب چار ہزار روپیہ ماہوار میں انہیں دیتا ہوں.یہ روپیہ آخر کہاں سے آیا؟ خدا نے ہی دیا.ورنہ میرے پاس تو کچھ بھی نہیں تھا.جب ہم قادیان سے آئے ہیں اُس وقت ہیں بیس ہزار روپیہ پر ایک ایک کنال فروخت ہو رہی تھی.اگر ساری جائیداد فروخت کرنے کا ہمیں موقع ملتا تو وہ کروڑوں روپیہ کی مالیت کی تھی.پس اللہ تعالیٰ جب دینے پر آتا ہے تو ایسے ایسے رستوں سے دیتا ہے کہ انسان حیران رہ جاتا ہے.لیکن اس کے ساتھ ہی میں اپنے سب بچوں سے کہا کرتا ہوں کہ تم اس رو پی کو دیکھ کر کبھی یہ دھوکا نہ کھاؤ کہ یہ تمہاری کوشش اور جدوجہد کے نتیجہ میں تمہیں حاصل ہورہا ہے.تمہیں جو کچھ مل رہا ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے طفیل مل رہا ہے.اگر آپ کا یہ دعوی نہ ہوتا کہ میں مامور ہوں اور آپ کی وجہ سے قادیان کو تقدس حاصل نہ ہوتا تو کیا تم سمجھتے ہو کہ پھر بھی وہاں ہیں ہیں اور چھپیں چھپیں ہزار کو ایک ایک کنال فروخت ہوا کرتی؟ یہ قیمت اسی لیے بڑھی کہ لا ہور اور سیالکوٹ اور گجرات اور بمبئی اور کلکتہ سے لوگ آئے اور وہاں انہوں نے اپنی رہائش کے لیے زمینیں خریدنی شروع کر دیں.اور وہ اگر وہاں آکر آباد ہوئے تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الہامات کی وجہ سے.پس کبھی یہ خیال نہ کرو کہ تم اپنے روپیہ سے بڑھ رہے ہو.تمہیں خدا اپنے پاس سے رزق دے رہا ہے.پس تم خدا کا شکر ادا کرو اور اس بات کو یا درکھو کہ دنیا نے تم کو نہیں پالنا.خدا نے تم کو پالنا ہے.تم اپنے اندر دین کی خدمت کا احساس پیدا کرو اور سمجھ لو کہ ہر د نیوی پیشہ کے ساتھ تم دین کی بھی خدمت کر سکتے ہو.بشرطیکہ تم مشورہ کے لیے صحیح آدمی کا انتخاب کرو.چودھری ظفر اللہ خان صاحب کو ہی دیکھ لو وہ ایسی دُھواں دھار تقریر کرتے ہیں کہ ساری دنیا میں شور مچ جاتا ہے.لیکن مذہبی معاملات پر انہوں نے جب بھی کوئی تقریر کرنی ہوتی تھی ہمیشہ میرے پاس آتے تھے اور کہا کرتے تھے کہ مجھے نوٹ لکھوا دیجئے.چنانچہ سالہا سال تک میں انہیں

Page 177

$1955 167 خطبات محمود جلد نمبر 36 نوٹ لکھواتا رہا اور وہ میرے نوٹوں کو بڑھا کر تقریر کر دیا کرتے.اب بھی گو میں بیمار تھا اور کی ڈاکٹروں کی ہدایت تھی کہ میں سیر و تفریح میں اپنا وقت گزاروں.مگر چودھری ظفر اللہ خان صاحب موٹر کی اگلی سیٹ پر بیٹھے ہوئے میری طرف منہ پھیر کر کہتے حضور ! فلاں آیت کا کیا مطلب ہے: اور میں اُس کا مفہوم بیان کرنا شروع کر دیتا.میں سمجھتا کہ میرا بھی شغل ہورہا ہے اور انہیں بھی فائدہ پہنچ رہا ہے اس میں حرج کیا ہے.چنانچہ اکثر ایسا ہوتا کہ موٹر میں بیٹھے ہوئے سفر بھی ہو رہا ہوتا اور وہ مجھ سے مختلف امور کے متعلق استفادہ بھی کر رہے ہوتے.جس طرح چودھری ظفر اللہ خان صاحب دین کی خدمت کر رہے ہیں اُسی طرح ہر شخص کر سکتا ہے.صرف اتنی ضرورت ہوتی ہے کہ وہ عقل سے کام لے.چودھری ظفر اللہ خان صاحب صرف اس لیے ترقی کر گئے کہ انہیں دین کا شوق ہے اور وہ اسلامی مسائل کے متعلق سوچتے اور تدبر کرتے رہتے ہیں اور جن باتوں کا انہیں خود پتا نہ لگے وہ مجھ سے پوچھتے ہیں اور پھر اس کو بڑھانے کی کوشش کرتے ہیں.ساتھ ہی خدا نے انہیں ایسا ملکہ دیا ہے کہ وہ تقریر کرتے ہیں تو شور مچ جاتا ہے کہ بڑی اعلیٰ تقریر کی ہے.جس طرح وہ کر رہے ہیں اُسی طرح تم میں سے ہر شخص دین کی خدمت کر سکتا ہے.بشرطیکہ تم کرنا چاہو اور اپنے اپنے کاموں کے ساتھ دین کی خدمت کے لیے بھی کچھ وقت نکالو.پھر آہستہ آہستہ اللہ تعالیٰ توفیق دے تو اس وقف کو مستقل کیا جاسکتا ہے.قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ تم میں سے کچھ لوگ ایسے ضرور ہونے چاہئیں جو اپنے تمام کاموں سے الگ ہو کر خالص دینی خدمت میں مشغول رہیں 3 مگر ہر آدمی ایسا نہیں کر سکتا.اُن کے لیے یہی طریق ہو سکتا ہے کہ وہ دنیا کا کام بھی کریں اور اس کے ساتھ دین کو بھی نظر انداز نہ کریں.یاد رکھو جب تک جماعت میں نسلاً بعد نسل ایسے لوگ پیدا نہ ہوتے رہیں گے جو دین کی اشاعت کے لیے سینہ سپر ہو کر کھڑے ہو جائیں اور اسلام کا بوجھ اپنے کندھوں پر اٹھانے کے لیے تیار ہوں اُس وقت تک اسلام کو غلبہ حاصل نہیں ہو سکتا.میں چھوٹا تھا کہ میں نے بچپن کے چند دوستوں کے ساتھ مل کر ایک انجمن بنائی اور رسالہ تفخیذ الاذہان ہم نے جاری کیا.میرے اُس وقت کے دوستوں میں سے ایک چودھری فتح محمد صاحب سیال ہیں.جن کی لڑکی چودھری عبداللہ خان صاحب کے گھر ہے.ایک دفعہ چودھری عبداللہ خان صاحب کی بیوی مجھے کہنے لگیں کہ ابا جی

Page 178

$1955 168 خطبات محمود جلد نمبر 36 کو جب آپ نے ناظر اعلیٰ بنا دیا تو وہ گھر میں بڑا افسوس کیا کرتے تھے کہ ہم نے تو اپنے آپ کو تبلیغ کے لیے وقف کیا تھا اور انہوں نے ہمیں کرسیوں پر لا کر بٹھا دیا ہے.دوسری طرف میں دیکھتا ہوں کہ ہماری جماعت میں وہ لوگ بھی ہیں جو مجھے لکھتے رہتے ہیں کہ واقف زندگی کی قدر ہونی چاہیے.باہر سے آنے والوں میں سے کوئی وکیل اعلیٰ ہو جاتا ہے اور کوئی ناظر اعلیٰ ہو جاتا ہے اور ہم مبلغ کے مبلغ ہی رہتے ہیں.حالانکہ یہ ایسی ہی بات ہے جیسے خدا کہے کہ بندوں میں سے تو کوئی ترقی کر کے ہٹلر بن گیا اور کوئی نپولین بن گیا اور میں خدا کا خدا ہی رہا.بھلا مبلغ سے بڑا کون سا مقام ہو سکتا ہے جو تم حاصل کرنا چاہتے ہو.جو شخص سچا حقیقی مبلغ ہوتا ہے وہ دنیا میں خدا تعالی کا نمائندہ ہوتا ہے.جیسے ایمبیسڈر اپنی اپنی حکومتوں کے نمائندے ہوتے ہیں.یہی وجہ ہے کہ حکومت کے وزراء ہز ایکسی لینسی نہیں کہلا سکتے.لیکن ایمبیسڈر ہز ایکسی لینسی کہلاتے ہیں.کیونکہ وہ اپنی اپنی حکومتوں کے نمائندہ ہوتے ہیں.اسی سفر میں ایک دن چودھری ظفر اللہ خان صاحب کہنے لگے کہ میں جب تک وزارت خارجہ میں تھا ہز ایکسی لینسی نہیں کہلا سکتا تھا.لیکن اب انٹر نیشنل کورٹ کا حج ہونے کی وجہ سے میں بائی رائٹ(By Right) اپنے آپ کو ہز ایکسی لینسی لکھ سکتا ہوں.جس طرح دنیا میں بعض لوگ حکومتوں کے نمائندہ ہونے کی وجہ سے خاص عزت کے مستحق سمجھے جاتے ہیں اسی طرح مبلغ ہونا بھی ایک بہت بڑی عزت کا مقام ہے.مبلغ سے کسی اور کو اونچا سمجھنا ایسی ہی بیوقوفی کی بات ہے جیسے کسی جج نے ایک شخص کو پھانسی کی سزا دی تو وہ چیخ مار کر کہنے لگا کہ اس سے تو بہتر تھا کہ مجھے موت کی سزا دے دیتے.جیسے اُس کا قول احمقانہ تھا اسی طرح یہ بھی بیوقوفی کی بات ہے کہ ایک مبلغ سے کسی اور کا مقام اونچا سمجھا جائے.غرض خدا نے تمہارے لیے بڑی بڑی عزتیں رکھی ہیں تم خدا پر توکل کرو اور اُس کے دین کی اشاعت کے لیے اپنے آپ کو وقف کرو.وہ دینے پر آتا ہے تو وہ کچھ دے دیتا ہے کہ انسان اُسے دیکھ کر حیران رہ جاتا ہے.ہم نے ساری عمر میں دنیوی قابلیتوں کے بغیر وہ کچھ علم حاصل کیا ہے جو بڑی سے بڑی ڈگریاں رکھنے والوں کو بھی نہیں ملا.اسی طرح مالی لحاظ سے اللہ تعالیٰ نے ہماری ایسے ایسے رستوں سے مدد کی جو ہمارے وہم وگمان میں بھی نہیں تھے.پس خدا تعالیٰ پر تو کل کرتے ہوئے تم اس کی طرف قدم اٹھاؤ.اگر تم اُس پر تو کل رکھتے ہوئے اُس کی طرف اپنا قدم بڑھاؤ گے تو یقیناً

Page 179

$1955 169 خطبات محمود جلد نمبر 36 تمہارا خدا تم کو ضائع نہیں کرے گا.وہ تمہارا ہاتھ پکڑ لے گا اور تم محسوس کرو گے کہ تمہارا خدا تمہارے سامنے کھڑا ہے.میرے پاس اس سفر میں ایک نو مسلم انگریز آیا اور اس نے کہا کہ میں بڑی کوشش کرتا ہوں کہ خدا تعالیٰ کا قرب حاصل کروں مگر مجھے پتا نہیں لگتا کہ میں اُس کے قریب ہو گیا ہوں یا نہیں؟ میں نے کہا تمہاری اس خواہش کا انحصار تمہارے اس ایمان اور یقین پر ہے کہ خدا تعالیٰ کے قرب کا دروازہ تمہارے لیے بند نہیں بلکہ تم بھی اس کے انعامات کو اُسی طرح حاصل کر سکتے ہو جس طرح پہلے لوگوں نے حاصل کیے.اگر تم سچے دل سے یہ یقین رکھو کہ خدا تعالیٰ کے انعامات کے دروازے تمہارے لیے کھلے ہیں اور ہر ترقی تمہارے لیے ممکن ہے تو یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ خدا تعالیٰ تمہارے قریب نہ آئے.وہ یقیناً تمہارے لیے اپنے قُرب کے دروازے کھول دے گا اور تم محسوس کرو گے کہ وہ تمہارے قریب آ گیا ہے.جیسے تمہارے کمرہ میں اگر آگ جل رہی ہو تو یہ ہو نہیں سکتا کہ تم اُس آگ کے وجود سے انکار کر سکو کیونکہ اُس کی گرمی تمہیں محسوس ہونے لگتی ہے.اسی طرح اگر تم یقین رکھو کہ تمہارے لیے لا متناہی ترقیات کے دروازے کھلے ہیں اور تمہارا خدا بخیل نہیں تو یقیناً اُس کا قرب تمہیں محسوس ہی نہیں ہوگا بلکہ تم اپنی روحانی آنکھوں سے اُس کو دیکھنا شروع کر دو گے.میرے اس جواب کا اُس پر ایسا اثر ہوا کہ وہ نماز کے بعد کئی گھنٹے تک مسجد میں بیٹھا رہا اور اس نے کہا مجھے اپنی ساری زندگی میں آج پہلی دفعہ یہ محسوس ہوا ہے کہ میرے لیے بھی ترقی کا راستہ کھلا ہے.اور مجھے جو روحانی سرور اس سے حاصل ہوا ہے وہ پہلے کبھی حاصل نہیں ہوا.اسی طرح تم بھی خدا تعالیٰ پر سچا ایمان پیدا کرو اور اُس کا ہاتھ پکڑنے کی کوشش کرو.یہ مت خیال کرو کہ اُس کے تمام انعامات رسول کریم ﷺ پر ختم ہو گئے ہیں.یا مسیح موعود پر ختم ہو گئے ہیں یا مجھ پر ختم ہو گئے ہیں.اُس کے انعامات کے دروازے تم سب کے لیے کھلے ہیں.اگر تم ان دروازوں میں داخل ہو کر اُس کے انعامات کو حاصل نہیں کرتے تو تم سے زیادہ بدقسمت اور کوئی نہیں.لیکن اگر تم کوشش کرتے رہو اور اُس کے انعامات پر یقین رکھو تو تم وہی کچھ حاصل کر سکتے ہو جو سید عبد القادر صاحب جیلانی اور شبلی اور معین الدین صاحب چشتی نے حاصل کیا.تمہارا خدا

Page 180

خطبات محمود جلد نمبر 36 170 رح $1955 بخیل نہیں اور نہ اُس کی جیب میں کمی ہے.اُس کی جیب میں سارے درجے پڑے ہوئے ہیں.اگر تم یقین اور ایمان کے ساتھ اُس کی طرف بڑھو تو وہ معین الدین صاحب چشتی " والا انعام اپنی جیب سے نکالے گا اور تمہاری جیب میں ڈال دے گا.محی الدین صاحب ابن عربی والا انعام اپنی جیب سے نکالے گا اور تمہاری جیب میں ڈال دے گا.وہ ولی اللہ شاہ صاحب دہلوی والا انعام نکالے گا اور تمہاری جیب میں ڈال دے گا.“ 1: الانفال: 76 الفضل 22 اکتوبر 1955ء) 2 متی باب 6 آیت 19 تا 21(مفہوماً) 3 وَلْتَكُن مِّنكُمْ أُمَّةٌ يَّدْعُونَ إِلَى الْخَيْرِ وَيَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ وَأُوكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ (آل عمران :105)

Page 181

$1955 171 26 خطبات محمود جلد نمبر 36 اسلام اُس وقت تک غالب نہیں آسکتا جب تک کہ ہم میں متواتر خدمت دین کرنے والے افراد پیدا نہ ہوں (فرموده 30 ستمبر 1955ء بمقام ربوہ) تشہد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا.وو " مجھے ڈاکٹروں نے تاکید کی تھی کہ میں گرم موسم میں نہ رہوں.لیکن یہاں اتنی شدید گرمی پڑ رہی ہے کہ یوں محسوس ہوتا ہے کہ ہر لحظہ میری تکلیف میں اضافہ ہو رہا ہے اس لیے میں سمجھتا تھا کہ طبی طور پر یہ مناسب نہیں کہ میں خطبہ کے لیے مسجد میں آؤں.لیکن چونکہ میں ایک لمبے عرصہ کے بعد ربوہ آیا ہوں اس لیے میں نے مناسب سمجھا کہ مختصر طور پر تین چار باتیں کہہ آؤں.میں نے مسجد میں آنے سے قبل اعلان کروایا تھا کہ کوئی دوست مجھ سے مصافحہ نہ کریں کیونکہ میری صحت پر گرمی کا سخت اثر ہے.گرمی کچھ کم ہو تو میں باہر نکل سکوں گا.مجھے یورپ میں یہ مشورہ دیا گیا تھا کہ آپ کو کچھ عرصہ تک ہر سال یہاں آنا چاہیے تا کہ موسم سے بھی فائدہ اٹھایا جائے اور ڈاکٹری مشورہ سے بھی فائدہ پہنچے لیکن یہ مستقبل کی باتیں ہیں اور اللہ تعالیٰ کے منشاء پر منحصر ہیں.آئندہ جو خدا تعالیٰ کا منشاء ہوگا وہی ہوگا.انسان کی باتیں خواہ وہ ڈاکٹروں کی ہوں یا غیر ڈاکٹروں کی خیالی ہی ہوتی ہیں.جو کچھ میرے دل میں بھرا ہے وہ تو

Page 182

$1955 172 خطبات محمود جلد نمبر 36 بہت کچھ ہے.لیکن جیسا کہ میں پہلے بتا چکا ہوں گرمی کی وجہ سے میری صحت کو سخت نقصان پہنچا ہے اور یوں معلوم ہوتا ہے کہ گویا کوئی شخص میرے جسم کو ہلا رہا ہے اور میں جھول رہا ہوں.اس وجہ سے میرے لئے اطمینان کے ساتھ کھڑا ہونا مشکل ہے.بہر حال میں جماعت کو اس امر کی طرف توجہ دلاتا ہوں کہ آپ لوگ ہمیشہ کہتے ہیں کہ صلى الله حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام رسول کریم میے کے خادم تھے اور آپ اسلام کی اشاعت کے لیے تشریف لائے.اگر آپ لوگوں کا یہ دعوئی صحیح ہے تو پھر آپ کو اس کام کی طرف بھی توجہ کرنی چاہیے جس کے لیے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام دنیا میں بھیجے گئے تھے.دنیا میں اس وقت اڑھائی ارب کی آبادی ہے.لیکن ہمارا صرف سوڈیڑھ سو مبلغ باہر کام کر رہا ہے اور تمیں چالیس یہاں تیار ہورہے ہیں.گویا ابھی کام کی ابتدا ہے.شروع شروع میں جو وقف کرنے والے تھے اُن کی اولاد میں سے کوئی بھی وقف کی طرف نہیں آیا.اگر تم ان لوگوں کی ایک لسٹ بناؤ تو ایک تماشا بن جائے.سب سے پہلے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنی زندگی وقف کی تھی.لیکن آپ کے خاندان میں سے اب صرف میری اولا د واقف زندگی ہے.باقی سب نو سو اور ہزار روپیہ ماہوار کے پھیر میں پڑے ہوئے ہیں.گویا چشمہ سرے سے ہی گدلا ہو گیا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بیعت کے وقت ہر شخص سے یہ عہد لیا تھا کہ وہ دین کو دنیا پر مقدم رکھے گا.اور دین کو دنیا پر مقدم رکھنے کے یہی معنے تھے کہ اگر مجھے یہاں پچاس روپے ماہوار ملیں گے اور باہر مجھے پانچ سو روپے ملیں گے تو میں پچاس کو پانچ سو پر ترجیح دوں گا.لیکن اب اس عہد لینے والے کی اپنی اولاد کیا کر رہی ہے؟ ان میں سے کوئی پندرہ سو اور دو ہزار کے پھیر میں پڑے ہوئے ہیں.پھر باقی لوگوں کا کیا قصور ہے.وہ تو کہیں گے کہ جب عہد لینے والے کی اپنی اولاد پندرہ سو اور دو ہزار کے پھیر میں پڑی ہوئی ہے تو ہم کیوں پندرہ سو اور دو ہزار کے پھیر میں نہ پڑیں.حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ ہم سب نے اُس روپیہ سے پرورش پائی ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ السلام کو خدا تعالیٰ نے دیا تھا.اور الہاماً بتایا تھا کہ ”یہ تیرے لیے اور تیرے ساتھ کے درویشوں کے لیے ہے.1.“ اس نے یہ کبھی نہیں کہا کہ یہ تیرے لئے اور تیری اولاد میں سے

Page 183

$1955 173 خطبات محمود جلد نمبر 36 حکومت سے پندرہ سو یا دو ہزار لینے والوں کے لیے ہے.یہ خدا تعالیٰ کے عطیہ کی بد استعمالی نہیں تو اور کیا ہے.چاہیے تو یہ تھا کہ آپ کی اولاد آئندہ ہزار سال تک اپنی اولاد در اولاد کو دین کی خدمت کے لیے وقف کرتی چلی جاتی اور دنیا کمانے کی طرف کبھی توجہ نہ کرتی.اگر باقی لوگوں کو لاکھ لاکھ روپیہ ماہوار بھی مل رہا ہوتا تو وہ اُس کی طرف منہ نہ کرتے.اور دین کی خدمت کرتے ہوئے اگر انہیں پچاس روپیہ ماہوار بھی ملتا تو اُسے خوشی سے قبول کر لیتے.مگر یا د رکھو یہ ضروری نہیں کہ جسمانی اولاد ہی وفا دار ہو بلکہ اکثر دیکھا گیا ہے کہ روحانی اولا دوفا دار ثابت ہوتی ہے اور جسمانی اولا د بعض دفعہ بے وفائی کر جاتی ہے.اس لیے اگر آپ لوگ دیکھیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جسمانی اولاد داغدار ثابت ہورہی ہے تو آپ یہ نہ کہیں کہ آپ کی جسمانی اولا د جب اچھا نمونہ نہیں دکھا رہی تو ہم کیوں دکھا ئیں.یا د رکھیں آپ بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ السلام کی اولاد ہی ہیں.وہ جسمانی اولاد ہیں اور آپ روحانی اولاد ہیں.اگر آپ لوگ انہیں دین سے لا پرواہی کرتے دیکھیں تو بائیں طرف تھوک کر اور یہ سمجھ کر کہ وہ شیطان کے قبضہ میں آگئے ہیں دین کی خدمت میں مشغول ہو جائیں.ساری دنیا ابھی اسلام سے بیگانہ ہے اور اڑھائی ارب کی آبادی کو ہم نے اسلام کی طرف لانا ہے.پس اڑھائی ارب کی آبادی کو اسلام کی طرف لانے کی تیاری کریں اور شروع دن سے ہی اپنا یہ مقصد بنالیں اور اپنی اولاد کو بھی تاکید کریں کہ ان کا کام ساری دنیا کو کلمہ پڑھانا ہے.جب تم لوگ ساری دنیا کو کلمہ پڑھا لو گے تو تمہاری دنیا اور عاقبت دونوں سنور جائیں گی.ایک پاگل سے پاگل انسان بھی سمجھ سکتا ہے کہ جب ساری دنیا کلمہ پڑھ لے گی تو انگریز کیا، دنیا کی ساری قومیں تمہاری غلامی کریں گی.کیا تم سمجھتے ہو کہ اگر امریکہ کے سب لوگ مسلمان ہو جا ئیں تو آج ہمارا جو مبلغ وہاں کے مزدوروں سے بھی کم گزارہ لے کر کام کر رہا ہے اسی حالت میں رہے گا ؟ اور کیا وہ لوگ اپنی دولتیں اس کی طرف نہیں پھینکیں گے؟ پس بے شک آپ لوگوں کو دنیا بھی ملے گی لیکن میں اس پر زور اس لیے نہیں دیتا کہ تا تمہارا نظریہ دنیوی نہ ہو جائے ورنہ یہ حقیقت ہے کہ آج جو دین کی خاطر اپنی زندگی وقف کرے گا اور دنیا کی پروا نہیں کرے گا ایک وقت آ.گا کہ دنیا اُس کی طرف دوڑتی ہوئی آئے گی.لیکن اس وقت تم صرف دین کو سامنے رکھو.اور

Page 184

$1955 174 خطبات محمود جلد نمبر 36 ہزار دو ہزار یا دس ہزار کے چکر میں نہ پڑو.صرف اس بات کو اپنے سامنے رکھو کہ چاہے فاقے آئیں ہم رسول کریم ﷺ کا کلمہ ساری دنیا کو پڑھا کر رہیں گے.مجھے یاد ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے پاس ایک میراشن آئی.اُس کا لڑکا عیسائی ہو گیا تھا اور وہ سل کا مریض بھی تھا.اُس نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام سے درخواست کی کہ میرا یہ اکلوتا لڑ کا عیسائی ہوگیا ہے اور ساتھ ہی سل کی بیماری میں مبتلا ہے.آپ اسے تبلیغ بھی کریں تا یہ دوبارہ اسلام قبول کرے اور علاج بھی کریں.آپ نے حضرت خلیفتہ اسی الاول کو اس کے علاج کے لیے ہدایت فرمائی اور خود اسے تبلیغ کرتے رہے.لیکن وہ اس قدر کٹر عیسائی تھا کہ آپ جتنی تبلیغ کرتے وہ اُتنا ہی عیسائیت میں پکا ہوتا.ایک رات جبکہ اُس کی حالت زیادہ خراب تھی وہ آدھی رات کو بھا گا اور بٹالہ کی طرف چل پڑا.وہاں عیسائیوں کا مشن تھا.اُس کی ماں کو پتا لگ گیا.وہ رات کو گیارہ میل کے سفر پر چل پڑی اور قادیان سے 8, 9 میل کے فاصلہ پر دوانی وال کے تکیہ 2 کے پاس اُسے جالیا.مجھے یاد ہے جب وہ قادیان واپس آئی تو وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ السلام کے پاؤں پر روتی ہوئی گر گئی اور کہنے لگی میں آپ کو خدا کا واسطہ دیتی ہوں کہ آپ ایک دفعہ اسے کلمہ پڑھا دیں.پھر بے شک یہ مرجائے مجھے اس کی پروا نہیں.لیکن میں یہ نہیں چاہتی کہ یہ عیسائی ہونے کی حالت میں مرے.دیکھو! اس میراثن میں کتنا ایمان تھا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی روحانی اور جسمانی اولاد میں کم از کم اُس میراثن جتنا ایمان تو ضرور ہونا چاہیے.اُس میراشن کا بیٹا عیسائی ہو گیا تھا.مگر وہ یہ نہیں چاہتی تھی کہ وہ عیسائی ہونے کی حالت میں مرے.اُس کی خواہش تھی کہ وہ ایک دفعہ کلمہ پڑھ لے پھر بے شک مرجائے.تم لوگ تو مسلمان گھروں میں پیدا ہوئے ہو.تمہارے لئے تو اور بھی ضروری ہے کہ تم ایک دفعہ دوسروں کو کلمہ پڑھا لو پھر بے شک مرجاؤ.تم وقف در وقف کی تحریک کرتے چلے جاؤ اور پھر ہر واقف یہ سوچے کہ آگے اُس کی اولاد میں خدمت دین کے لیے کتنا جوش ہے.وہ لوگ جنہوں نے اپنی زندگیاں وقف کی تھیں اُن میں سے کئی ہیں جن کی اولاد نے اپنی زندگیاں دین کی خدمت کے لیے وقف نہیں کیں.صرف میری اولا د نے اپنی زندگیاں دین کی خدمت کے لیے وقف کی ہیں.خدا کرے کہ ان کا دین کی خدمت

Page 185

$1955 175 خطبات محمود جلد نمبر 36 کے لیے یہ جوش قائم رہے اور آگے انکی اولاد در اولاد اپنی زندگیاں دین کی خدمت کے لیے وقف کرتی چلی جائے.اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی باقی اولادکو بھی یہ سمجھ آ جائے کہ پندرہ سویا دو ہزار روپیہ ماہوار کمانا کوئی چیز نہیں.اصل چیز یہ ہے کہ انسان دین کی خدمت میں اپنی زندگی گزارے.باقی میرے ساتھ وقف کرنے والوں میں سے ایک چودھری فتح محمد صاحب سیال تھے.چودھری صاحب کو خدا تعالیٰ نے توفیق دی کہ انہوں نے اپنے ایک لڑکے کو اعلی تعلیم دلانے کے بعد دین کی خدمت کے لیے وقف کر دیا.دوسرے درد صاحب تھے اگر ان کی اولاد میں سے کوئی لڑکا اچھا پڑھ جاتا تو وہ اُسے دین کی خدمت کے لیے وقف کر دیتے.مگر کچھ ایسا پردہ پڑا ہوا ہے کہ ابھی تک ان کی اولاد میں سے کوئی بھی اس قابل نہیں ہوا کہ وہ دین کے لیے اپنی زندگی وقف کر سکے.باقی سب لوگوں کے خانے خالی ہیں.حالانکہ اسلام دنیا میں اُس وقت تک کبھی غالب نہیں آسکتا جب تک مسلسل اور متواتر ہم میں زندگیاں وقف کرنے والے لوگ پیدا نہ ہوں.دیکھ لو رسول کریم ﷺ کے قریباً پانچ سو سال بعد ایک بزرگ حضرت خواجہ معین الدین صاحب چشتی ” ہوئے اور انہوں نے ہندوستان میں اسلام کی اشاعت کی.ان کے بعد ان کے خلفاء ہوئے جنہوں نے ملک کے مختلف حصوں میں اسلام کی اشاعت کی.مثلاً حضرت خواجہ فرید الدین صاحب نے سارے پنجاب میں اسلام پھیلایا.پھر آپ کے کچھ اور شاگردوں نے جنوبی ہندوستان میں لاکھوں لوگوں کو اسلام میں داخل کیا.جب آپ ہندوستان میں تشریف لائے تھے اُس وقت ہندوستان کی آبادی صرف ایک کروڑ تھی.لیکن تمہارے مقابلہ میں اب اڑھائی ارب لوگ ہیں جن کو تم نے ہدایت کی طرف لانا ہے.اگر ہندوستان کے ایک کروڑ لوگوں کے لیے پانچویں چھٹی صدی میں ایک معین الدین چشتی کی ضرورت تھی تو اب اڑھائی ارب لوگوں کے لئے دو سو سال تک بیسیوں معین الدین چشتی " جیسے وجودوں کی ضرورت ہے.اور یہ بیسیوں معین الدین چشتی " پیدا کرنے مشکل نہیں.بشرطیکہ تم اس کے لیے کوشش کرو اور تمہارا اپنا وقف ہی نہ ہو بلکہ تمہاری اولاد در اولاد میں وقف کا سلسلہ چلتا چلا جائے.تم اس وقت اپنی غربت کی طرف نہ دیکھو تم خدا تعالیٰ کی طرف دیکھو اور یاد رکھو وہ وقت

Page 186

$1955 176 خطبات محمود جلد نمبر 36 آنے والا ہے جب یہی غریب دنیا کے بادشاہ ہوں گے اور وقف نہ کر نیوالوں کی آئندہ نسلیں ان پر لعنتیں بھیجیں گی اور کہیں گی خدا تعالیٰ ان کے باپ دادوں کا بیڑا غرق کرے کہ انہوں نے اپنی اولا دکو وقف نہ کیا.بلکہ وہ دعا کریں گے کہ خدا تعالیٰ ان کے باپ دادوں کو جہنم کے سب سے نچلے حصہ میں لے جائے کہ انہوں نے اپنی اولا د کو دین کی خدمت میں نہ لگایا بلکہ دنیا کمانے کی طرف لگا دیا.تم میری آواز سے سمجھ سکتے ہو کہ مجھے جوش آگیا ہے اور جوش میں آنا میرے لیے مضر ہے اس لیے میں انہی الفاظ پر اپنا خطبہ ختم کرتا ہوں اور دعا کرتا ہوں کہ خدا تعالیٰ ہماری جماعت میں خدمت دین کا جوش پیدا کرے اور ان کا جوش قیامت تک بڑھتا چلا جائے.اور وہ ی اُس وقت تک چین سے نہ بیٹھیں جب تک کہ وہ موجودہ اڑھائی ارب لوگوں کو اور ان کے بعد آنے والے لوگوں کو مسلمان نہ کر لیں.اور اُس وقت تک سانس نہ لیں جب تک کہ دنیا کا ایک ایک آدمی کلمہ نہ پڑھ لے اور ایک ایک آدمی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود نہ بھیجنے لگ جائے.“ الفضل 29/اکتوبر1955ء) 1: تذکرہ صفحہ 18،17 ایڈیشن چہارم 2 تکیه قبرستان فقیروں کے رہنے کی جگہ.آرام کی جگہ

Page 187

$1955 177 27 خطبات محمود جلد نمبر 36 اسلام اور سلسلہ کی ترقی ایسے مخلص اور متقی انسانوں سے وابستہ ہے جو خدمت دین کے لیے اپنے آپ کو وقف کردیں فرموده 7 اکتوبر 1955ء بمقام ربوہ) تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا." تحریک جدید کے لیے جماعت جتنا روپیہ دیتی ہے ضرورت تو اس سے بھی زیادہ روپے کی ہے مگر پھر بھی کیا امیر اور کیا غریب سب لوگ اس کے لیے قربانی کر رہے ہیں.لیکن سلسلہ احمدیہ کا کام روپیہ سے بھی زیادہ انسانوں سے وابستہ ہے اور انسان بھی ایسے جو نیک اور صالح اور مخلص ہوں.دنیا میں جب کبھی خدا تعالیٰ نے کوئی سلسلہ قائم کیا ہے اُس نے اسے انسانوں سے ہی چلایا ہے اور انسانوں کے ذریعہ ہی اسے ترقی دی ہے.چنانچہ دیکھ لو حضرت مسیح علیہ السلام کی وفات پر انیس سو سال سے زیادہ عرصہ گزر چکا ہے لیکن آپ کے ماننے والوں میں اب بھی ایسے انسان پائے جاتے ہیں جو آپ کے لائے ہوئے دین کی خاطر قربانیاں کرتے اور اس کی اشاعت کے لیے جوش رکھتے ہیں.اس وقت صرف ایک فرقہ کی طرف سے 56000 پادری کام کر رہا ہے.باقی فرقوں کے پادریوں کو ملا ئیں تو اُن کی تعداد اس سے بہت زیادہ بن جاتی ہے.اور یہ پادری بھی صرف وہی ہیں جو غیر ممالک میں کام کر رہے ہیں.اپنے اپنے ملک میں کام کرنے والے

Page 188

$1955 178 خطبات محمود جلد نمبر 36 پادریوں کی تعداد اس کے علاوہ ہے.اتنے آدمیوں میں جو جوش اور اخلاص پایا جاتا ہے وہ صرف حضرت مسیح علیہ السلام کے لائے ہوئے پیغام کی اشاعت کے لیے ہے.اسی طرح اسلام کی تبلیغ کے لیے ایسے آدمیوں کی ضرورت ہے جو دنیا کے گوشہ گوشہ میں پھیل جائیں اور اسلام کی اشاعت کریں.پھر اس بات کی ضرورت ہے کہ اعلیٰ اخلاص، دیانت اور تقویٰ والے لوگ مرکز میں جمع ہوں اور انہیں مرکزی کاموں پر لگایا جائے.جو کام اس وقت ہمارے سامنے ہے وہ اتنا اہم اور اتنا عظیم الشان ہے کہ اگر ہزاروں سال تک اتقیاء، صلحاء اور علماء ایک بہت بڑی تعداد میں اس کا بوجھ اٹھانے کے لیے اپنے کندھے اس کے نیچے نہیں رکھیں گے تو یہ کام پوری طرح سرانجام نہیں دیا جا سکے گا.اگر چند آدمی سلسلہ کی خدمت بجالانے کے لیے اپنی زندگیاں وقف کریں تو یہ کام مُید نہیں ہوگا اور ہماری جماعت بھی ایک انجمن بن کر رہ جائے گی.حالانکہ خدا تعالیٰ کے قائم کردہ سلسلوں کے کام انجمنوں کے ساتھ نہیں چلتے بلکہ خلفاء اور اُن کے ساتھ کام کرنے والے اتقیاء، صلحاء اور علماء کے ساتھ چلتے ہیں.وہ کام ایسی جماعت کے ساتھ وابستہ ہوتے ہیں جو قیامت تک چلتی چلی جاتی ہے.اور اُس کے ہر فرد کے اندر نہ صرف یہ آگ لگی ہوئی ہوتی ہے کہ اُس نے خود دین کی خدمت کرنی ہے بلکہ وہ مزید خدمت کرنے والے لوگ تیار کرتا ہے.ہمارے واقفین کو یہ اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ جس طرح ہر چندہ دینے والے کے لیے صرف خود چندہ دینا کافی نہیں بلکہ مزید چندے دینے والے تیار کرنے بھی ضروری ہیں اسی طرح ہر ایک واقف زندگی کے لیے مزید واقف زندگی تیار کرنے ضروری ہیں.اگر ہم ایسا کر سکیں تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے اشاعت اسلام کا یہ اہم کام قیامت تک جاری رہ سکتا ہے.پھر یہ ضروری ہے کہ ان میں سے ہر ایک صلحاء اور اتقیاء کا طریق اختیار کرے اور دعاؤں میں لگ جائے.اور نہ صرف خود دعاؤں کی عادت ڈالے بلکہ یہ احساس دوسروں کے اندر بھی پیدا کرنے کی کوشش کرے.آج وہ لوگ بہت کم ہیں جنہیں دعائیں کرنے کی عادت ہے.ضرورت ہے کہ ہماری جماعت کا ہر فردا ایسا ہو جو راتوں کو جاگے اور خدا تعالیٰ کے آگے سجدہ میں گر کر روئے اور سلسلہ کے لئے دعا ئیں کرے.اور دن کے وقت استغفار اور ذکر الہی کرے.اور یہ عادت اس حد تک

Page 189

خطبات محمود جلد نمبر 36 179 $1955 اپنے اندر پیدا کرے کہ خدا تعالیٰ کا الہام اور اس کا کلام اس پر نازل ہونے لگ جائے.دیکھو! حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جتنا تغیر دنیا میں پیدا کیا ہے وہ صرف کتابوں کے ذریعہ نہیں کیا.بلکہ وہ تغیر اس طرح پیدا ہوا ہے کہ آپ نے رات دن اس کے لیے دعائیں کیں جن کی وجہ سے آپ کے اندر خدا تعالیٰ کا نور پیدا ہو گیا.جو شخص اس نور کو دیکھتا تھا اس کے اندر اشاعت اسلام کی آگ لگ جاتی تھی اور پھر وہ آگ آگے پھیلتی جاتی تھی.پس تم اس بات پر ہی خوش نہ ہو جاؤ کہ تم نے مولوی فاضل پاس کر لیا ہے یا شاہد کا امتحان پاس کر لیا ہے.بلکہ دعاؤں کی عادت ڈالو اور اتنی دعائیں کرو کہ رات اور دن تمہارا شیوہ ہی دعائیں کرنا ہو.تم اٹھتے بیٹھتے ، سوتے جاگتے ، چلتے پھرتے دعاؤں میں لگ جاؤ.اگر تمہارے کسی ساتھی کی طرف سے کوئی خرابی بھی پیدا ہو گی تو تمہاری اور تمہارے ساتھیوں کی دعائیں اُس کا ازالہ کر دیں گی.جیسا کہ احباب کو معلوم ہے کہ کراچی سے ربوہ آکر میری طبیعت زیادہ کمزور ہوگئی ہے.کراچی میں طبیعت اچھی ہوگئی تھی.ویسے یورپ میں بھی گھبراہٹ اور بے چینی کے حملے ہوتے تھے مگر وہ حملے جلد دور ہو جاتے تھے.گھنٹے دو گھنٹے کے بعد ان حملوں کا اثر زائل ہو جاتا تھا.لیکن یہاں دن کے بعد دن ایسا گزرتا ہے کہ یوں محسوس ہوتا ہے کہ گویا سر میں ہتھوڑے چل رہے ہیں.صرف کل کا دن ایسا آیا ہے جس میں میں نے کسی قدر آرام محسوس کیا ہے.لیکن شام کے بعد طبیعت پھر خراب ہوگئی.تم نے دعاؤں اور گریہ وزاری کے ساتھ میری جان بچانے کی کوشش کی اور خدا تعالیٰ نے میری جان بچالی.مگر جب تک میری طبیعت بالکل درست نہ ہو جائے میرے لیے کام کرنا مشکل ہے.کیونکہ محض سانس لینے والا انسان کام نہیں کر سکتا.کام وہی شخص کر سکتا ہے جس کے دل کو اطمینان اور سکون نصیب ہو.پس دعائیں کرو بلکہ دعاؤں کی اس طرح عادت ڈالو کہ تمہاری دعاؤں کے ساتھ خدا تعالیٰ کے عرش کے پائے بھی ہل جائیں.اور وہ اپنی رحمانیت کے ماتحت اپنے بنائے ہوئے قانون وَ رَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْ 1 کی وجہ سے تمہاری دعاؤں کو سنے اور دنیا میں اسلام کی اشاعت کی داغ بیل ڈالے.خلیل احمد ناصر مبلغ امریکہ جو آج کل یہاں آئے ہوئے ہیں انہیں میں نے ایک دن پہلے بھی کہا تھا اور آج بھی توجہ دلاتا ہوں کہ وہ سفید لوگوں میں تبلیغ کی طرف زیادہ توجہ کریں.آج

Page 190

$1955 180 خطبات محمود جلد نمبر 36 ہی مولوی نورالحق صاحب انور کا امریکہ سے خط آیا ہے کہ آپ نے تحریک فرمائی تھی کہ سفید لوگوں میں تبلیغ پر زور دیا جائے.خدا تعالیٰ نے آپ کی اس توجہ کو قبول فرمایا اور اُس نے ہماری مدد فرمائی.چنانچہ آج میں کینیڈا کے ایک دوست کی بیعت کا خط بھیجتا ہوں.یہ دوست فوج میں ملازم ہیں اور سفید رنگ کے ہیں.مولوی نورالحق صاحب نے اس دوست کا فوٹو بھی ساتھ بھیجا ہے.غرض ان کے امریکہ واپس جانے سے پہلے ہی خدا تعالیٰ نے سفید لوگوں میں تبلیغ کے رستے کھول دیئے ہیں.اس کو مسلم دوست نے مولوی صاحب کو لکھا ہے کہ میں نے ابھی نماز کو عملی طور پر سیکھنا ہے اور آپ جانتے ہیں کہ یہ کسی معلم کے ذریعہ ہی ہو سکتا ہے.مگر آپ ابھی تک مجھ سے ملے نہیں کہ میں آپ سے نماز پڑھنا سیکھوں.مولوی صاحب نے اُسے لکھا ہے کہ جب آپ کو فوج سے چھٹی ملے تو مجھے اطلاع دیں میں فوراً آ جاؤں گا اور نماز کا طریق آپ کو بتا دوں گا.سو دعائیں کرو کہ اللہ تعالیٰ پہلے تمہارے دل میں اسلام کو قائم کرے اور پھر تمہارے ذریعہ دوسرے لوگوں کے دلوں میں اسلام قائم کرے.تم اُس وقت تک دم نہ لو جب تک کہ تم میں سے ہر ایک واقف زندگی ہیں ہیں اور واقف زندگی تیار نہ کر لے اور پھر وہ نہیں ہیں واقف زندگی اُس وقت تک دم نہ لیں جب تک کہ وہ آگے ہیں ہیں واقف زندگی تیار نہ کریں.اسلام کی اشاعت کے لیے ہزاروں بلکہ لاکھوں مبلغوں کی ضرورت ہے.جب وہ لوگ تقویٰ اور اخلاص سے باہر نکلیں اور اسلام کی اشاعت کریں گے تو ساری دنیا اسلام کو قبول کر لے گی.اور دنیا سے کینہ ، کپٹ 2 اور شرارت کا بیج دور ہو جائے گا اور امن قائم ہو جائے گا.خدا تعالیٰ اس بارہ میں تمہاری مدد فرمائے.یاد رکھو! چندے تبھی بڑھیں گے جب آدمیوں کی تعداد زیادہ ہو جائے اور آدمیوں کی تعداد بھی زیادہ ہوگی جب واقفین کی تعداد بڑھے اور ان کے ذریعہ زیادہ سے زیادہ لوگ سلسلہ میں داخل ہوں.جب زیادہ سے زیادہ لوگ مسلمان ہو جا ئیں گے تو وہ چندے بھی دیں گے اور اس طرح اسلام کی اشاعت کا کام بڑھتا چلا جائے گا اور آخر خدا تعالیٰ کے فضل سے وہ دن بھی

Page 191

خطبات محمود جلد نمبر 36 181 آجائے گا جب ساری دنیا میں اسلام ہی اسلام ہو گا.“ 1: الاعراف: 157 2 کپٹ: بغض $1955 (الفضل 20 نومبر 1955ء)

Page 192

$1955 182 28 خطبات محمود جلد نمبر 36 اپنی زندگیاں اسلام کی خدمت کے لئے وقف کرو اور یہ عہد کرو کہ تم اپنی اولاد د راولا کو بھی وقف کرتے چلے جاؤ گے فرموده 14 اکتوبر 1955ء بمقام ربوہ) تشہد ،تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فر مایا." حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جو کام ہمارے سپرد کیا ہے یا یوں کہو کہ جو کام خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ السلام کے ذریعہ ہمارے سپرد کیا ہے وہ اتنا بڑا ہے کہ اُس کا تصور کر کے بھی دل کانپ جاتا ہے.دنیا میں اس وقت دو ارب غیر مسلم پائے جاتے ہیں.اور ہمارے سپرد یہ کام ہے کہ ان دو ارب غیر مسلموں کو مسلمان بنا دیں.گزشتہ تیرہ سوسال میں صرف پچاس کروڑ مسلمان ہوئے ہیں.گویا اس وقت چار غیر مسلم ایک مسلمان کے مقابل پر موجود ہیں.اس کے معنے یہ ہیں کہ جو کام 1300 سال میں ہمارے آبا ؤ اجداد نے کیا ہے اُس سے چار گنا کام کی ہم سے امید کی گئی ہے.لیکن اس کے لیے وقت کا لحاظ رکھنا بھی ہمارے لئے ضروری ہے.ورنہ غیر معین عرصہ میں تو بڑے بڑے کٹھن کام بھی ہو جاتے ہیں.مثلاً دریاؤں کا پانی ہی جب ایک لمبے عرصہ تک پہاڑوں پر گرتا رہتا ہے تو اس کی وجہ سے بڑی بڑی غاریں بن جاتی ہیں.

Page 193

خطبات محمود جلد نمبر 36 183 $1955 اور جیالوجی والے کہتے ہیں کہ چونکہ دس دس بیس بیس لاکھ سال بلکہ کروڑوں سال سے یہ پانی گرتا رہا ہے اس لئے اب پہاڑوں میں بڑی بڑی غاریں بن گئی ہیں.مگر انسانی زندگی اور انسانی سکیمیں اتنی لمبی نہیں چلتیں.یا کم از کم تاریخ ہمیں کسی اتنی لمبی زندگی یا اتنے لمبے عرصہ تک چلنے والی سکیم کا پتا نہیں دیتی.دنیا میں لمبی سے لمبی تاریخ ہمیں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دکھائی دیتی ہے جن کے زمانہ پر قریباً چار ہزار سال کا عرصہ گزر چکا ہے.کیونکہ حضرت موسیٰ علیہ السلام حضرت عیسی علیہ السلام سے تیرہ سو سال قبل مبعوث ہوئے تھے اور حضرت ابراہیم علیہ السلام، حضرت موسیٰ علیہ السلام سے کوئی چھ سات سو سال قبل گزرے ہیں.گویا دو ہزار سال تو یہ ہو گئے.پھر حضرت مسیح علیہ السلام سے اب تک قریباً دو ہزار سال اور گزر چکے ہیں.لیکن حضرت ابراہیم علیہ السلام کے زمانہ پر قریباً چار ہزار سال گزر جانے کے باوجود آپ کے ماننے والے اب تک دنیا میں موجود ہیں جو آپ کے لائے ہوئے پیغام کو پھیلا رہے ہیں.بے شک وہ دنیوی لوگوں کی نگاہ میں پاگل ہوں لیکن ہماری نظر میں وہ بڑے مستقل مزاج ہیں.کیونکہ وہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے چار ہزار سال قبل کے لائے ہوئے پیغام کو اب بھی پھیلانے میں لگے ہوئے ہیں.دوسرا لمبا سلسلہ جس کا تاریخ سے ہمیں پتا لگتا ہے حضرت مسیح علیہ السلام کا ہے.اس پر 1900 سال سے زیادہ عرصہ گزر چکا ہے لیکن آپ کے ماننے والوں میں آج تک ایسے خدا کے بندے موجود ہیں جو حضرت مسیح علیہ السلام کے لائے ہوئے دین کی تبلیغ کے لیے اپنے آپ کو پیش کرتے رہتے ہیں.اگر چہ ان میں جہالت کے ایسے زمانے بھی آئے جب وہ ننگے پھرتے تھے اور پھر ایسے زمانے بھی آئے جب ان کے پاس بڑی مقدار میں دولت جمع ہوگئی جیسے آجکل یورپ اور امریکہ کی حالت ہے.لیکن انہوں نے حضرت مسیح علیہ السلام کے لائے ہوئے پیغام کو پھیلانے کا کام ہر زمانہ میں جاری رکھا.نہ غربت میں انہوں نے تبلیغ کو چھوڑا اور نہ امارت میں تبلیغ سے عدم توجہی کی.نہ ماتحتی کے زمانہ میں انہوں نے اس کام کو ترک کیا اور نہ حکومت کے زمانہ میں وہ اس سے غافل ہوئے.یہی وجہ ہے کہ 1900 سال کے عرصہ میں انہوں نے مسلمانوں سے دگنے سے بھی زیادہ عیسائی بنالئے ہیں اور اب بھی وہ اس کام میں برابر لگے ہوئے ہیں.حالانکہ حضرت مسیح علیہ السلام نے باقاعدہ وقف کی تحریک جاری نہیں کی.صرف اس قدر کہا تھا

Page 194

$1955 184 خطبات محمود جلد نمبر 36 کہ تم تمام دنیا میں جا کر ساری خلق کے سامنے انجیل کی منادی کرو 1 اور یہ کہ اپنی جان کا فکر نہ کرنا کہ ہم کیا کھائیں گے یا کیا پئیں گے اور نہ اپنے بدن کا کہ کیا پہنیں گے.2 عیسائیوں نے حضرت مسیح علیہ السلام کے اس حکم کو سنا اور انہوں نے ساری عمر دنیا میں تبلیغ شروع کر دی.اس کے مقابلہ میں ہمارے ہاں وقف پر خصوصیت کے ساتھ زور دیا گیا ہے.لیکن میں دیکھتا ہوں کہ اگر کسی شخص کو پچاس روپے بھی باہر زیادہ ملتے ہوں تو وہ دنیا کی طرف جھک جا ہے.خود حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ایسے پوتے موجود ہیں جو آٹھ آٹھ نو نو کی خاطر وقف سے بھاگ گئے ہیں.پھر دوسرے لوگوں پر کوئی کیا گلہ کرسکتا ہے.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ خدا تعالیٰ احمدیت کو دنیا میں ضرور پھیلائے گا اور اگر آپ کی اپنی نسل وقف سے بھاگے گی تو خدا تعالیٰ باہر والوں کو اس کی توفیق عطا فرما دے گا اور وہ آپ کے پیغام کو دنیا کے کناروں تک پہنچادیں گے.لیکن بدقسمت ہیں وہ لوگ جو گھر میں آئی ہوئی برکت کو چھوڑتے ہیں اور بدقسمت ہیں وہ ماں باپ جو اس بات پر خوش ہوتے ہیں کہ اُن کا لڑکا آٹھ سو یا نو سو روپیہ ماہوار کمارہا ہے اور یہ نہیں سوچتے کہ وہ دین سے بھاگ گیا ہے.کیا عیسائی مشنریوں میں ایسے لوگ موجود نہیں تھے جو اگر دین کو چھوڑ کر دنیا کمانے لگ جاتے تو آٹھ نو سو روپیہ ماہوار کی آمد پیدا کر لیتے ؟ پادری قریباً سارے کے سارے ایسے خاندانوں میں سے ہیں کہ اگر وہ دنیا وی کا موں میں لگتے تو ہزاروں روپے ماہوار تنخواہ پاتے.لیکن اُنہوں نے دنیا کی بجائے دین کو ترجیح دی اور عیسائیت کی اشاعت کے لیے اپنی زندگی بسر کر دی.ہماری جماعت کے افراد کو بھی غور کرنا چاہیے کہ وہ احمدیت کی اشاعت کے لیے کیا کر رہے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ تین سوسال میں احمدیت ساری دنیا میں پھیل جائے گی 3.اگر ایک نسل کے ہیں سال بھی فرض کر لئے جائیں تو تم سمجھ سکتے ہو کہ 300 سال میں پوری پندرہ نسلیں آجاتی ہیں.گویا اگر ہماری پندرہ نسلیں یکے بعد دیگرے اپنے آپ کو دین کی خدمت کے لیے وقف کرتی چلی جائیں تب وہ کام پورا ہوسکتا ہے جو خدا تعالیٰ نے ہمارے سپرد کیا ہے.مگر کیا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا یہ منشاء تھا کہ اور لوگوں کی نسلیں تو اپنے آپ کو دین کی خدمت کے لیے وقف کریں اور میری اپنی نسل وقف نہ کرے؟ آخر جو شخص دوسروں سے کوئی مطالبہ کرتا ہے اُس کی اپنی نسل سب سے پہلے

Page 195

$1955 185 خطبات محمود جلد نمبر 36 اس مطالبہ کی مخاطب ہوتی ہے.لیکن اگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی اپنی نسل بد عہدی کرے گی تو یقیناً خدا تعالیٰ دوسرے لوگوں میں سے اسلام کے بہادر اور جان نثار سپاہی کھڑے کر دے گا.چنا نچہ دیکھ لو جب ایک طرف حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کی اولاد میں سے ایسے مشرک پیدا ہوئے جنہوں نے کعبہ میں بھی سینکڑوں بت رکھ دیئے تو دوسری طرف عراق کے علاقہ میں حضرت امام ابو حنیفہ اور حضرت جنید بغدادی جیسے بزرگ پیدا ہوئے جنہوں نے دین کی بڑی خدمت کی.اسی طرح ایک دوسرے ملک سے حضرت معین الدین صاحب چشتی آگئے اور انہوں نے اسلام پھیلایا.پس جہاں میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی اولاد کو توجہ دلاتا ہوں وہاں میں جماعت سے بھی کہتا ہوں کہ تمہیں یکے بعد دیگرے کم از کم اپنی پندرہ نسلوں کو وقف کرنا ہو گا.لیکن تم تو ابھی سے گھبرا گئے ہو اور ابھی سے تمہارا یہ حال ہے کہ جو شخص دین کی خدمت کے لئے آتا ہے اُس کو یہ خیال آتا ہے کہ اُس کا گزارہ کیسے ہوگا ؟ سیدھی بات ہے کہ روپیہ ہو گا تو گزارہ ملے گا.اور روپیہ اُسی وقت آئے گا جب نئے احمدی بنیں گے.تم پچاس لاکھ احمدی لے آؤ تو تمہارے گزارے خود بخود بڑھ جائیں گے.بہر حال دنیا اس وقت اسلام کی آواز سنے کی منتظر ہے اور اس کے لیے ہمیں ایسے لوگوں کی ضرورت ہے جو دین کی خدمت کے لیے آئیں اور اپنی زندگیاں اس کام کے لیے وقف کریں.اسی طرح اس کے لیے مرکز کی مضبوطی کی بھی ضرورت ہے.لیکن میں دیکھتا ہوں کہ ہمارا مرکز ابھی تک اُن اصول پر آباد نہیں جن اصول پر دوسرے شہر آباد ہوتے ہیں.دوسرے شہر خود اپنی ذات میں قائم ہوتے ہیں.مثلاً لائل پور ہے ، سرگودھا ہے ان شہروں میں کچھ کا رخانے ہیں اور کچھ بڑی زمینداریاں ہیں جن کی وجہ سے وہ اپنی ذات میں قائم ہیں.لیکن ربوہ میں نہ کارخانے ہیں اور نہ زمینداریاں ہیں.جتنی دیر تک جماعت چندہ دیتی چلی جائے گی یہاں انسٹی ٹیوشنز چلتی رہیں گی سکول اور کالج قائم رہیں گے، اور اگر خدانخواستہ جماعت چندہ دینے میں سستی دکھائے تو یہ چیزیں ختم ہو جائیں گی.ابھی ہماری جماعت میں حضرت معین الدین صاحب چشتی" جیسے لوگ پیدا نہیں ہوئے جو کہیں چلو فاقہ ہے تو فاقہ ہی سہی اور نہ ہی جماعت میں

Page 196

$1955 186 خطبات محمود جلد نمبر 36 ایسی عورتیں ہیں جو فاقہ زدہ مردوں کے ساتھ نباہ کر سکیں.بلکہ اگر کوئی مرد دین کے لیے فاقہ پر آمادہ کی بھی ہو جائے تو اس کی عورت فوراً کہہ اٹھے گی تو احمق ہے.جب حضرت مسیح موعود الصلوۃ والسلام کے خاندان کے بعض افراد نوکریوں کے پیچھے پھر رہے ہیں تو تو کیوں یہاں بیٹھا ہے ؟ کیا ؟ تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے پوتوں سے بھی زیادہ عقلمند ہے؟ بے شک ہماری جماعت میں ایسے بھی نوجوان ہیں جو اس قسم کی بیویوں کو جواب دیں گے کہ تو شیطان ہے جو مجھے دین کی خدمت سے روک رہی ہے.کیا تو مجھ کو بھی جہنم میں گرانا چاہتی ہے؟ لیکن اس قسم کے نو جوان اور اس قسم کی عورتیں جماعت میں کتنی ہیں؟ اگر جماعت میں حضرت خدیجہ جیسی عورتیں ہوں جنہوں نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کہا تھا کہ كَلَّا وَاللَّهِ مَا يُخْزِيْكَ اللهُ أَبَدًا إِنَّكَ لَتَصِلُ الرَّحِمَ وَتَحْمِلُ الْكَلَّ وَ تَكْسِبُ الْمَعْدُومَ وَتَقْرِى الضَّيْفَ وَتُعِينُ عَلَى نَوَ ائِبِ الْحَقِّ 4 یعنی آپ کو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں.خدا تعالیٰ آپ کو کبھی ضائع نہیں کرے گا.آپ رشتہ داروں کے ساتھ نیک سلوک کرتے ہیں، بے کس و بے یارو مددگار لوگوں کا بوجھ اٹھاتے ہیں ، وہ اخلاق جو دنیا سے مٹ چکے ہیں وہ آپ کی ذات کے ذریعہ دوبارہ قائم ہورہے ہیں ، مہمانوں کی مہمان نوازی کرتے ہیں اور مصیبتوں پر لوگوں کی مدد کرتے ہیں.تو یہ عارضی مصائب یقیناً دور ہو جائیں اور جماعت کی قربانیوں کا معیار بہت بڑھ جائے.پچھلے دنوں مجھے ایک بڑی خوش کن خبر معلوم ہوئی.ہمارے دفتر والے بعض دفعہ بیرونی مبلغین کو خرچ بھیجنے میں سستی کر جاتے ہیں اور باہر کام کرنے والوں پر ظلم کرتے ہیں.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ بعض اوقات ایکسچینج نہیں ملتا.لیکن اگر باہر کی جماعتیں کوشش کریں تو ایکسچینج حاصل کرنے میں کوئی مشکل پیش نہیں آتی.بہر حال ہمارے باہر کام کرنے والے مبلغین کو بعض اوقات کئی کئی ماہ تک خرچ نہیں جاتا.ہمارا اس وقت جرمنی کا جو مبلغ ہے وہ تو اپنے آپ کو ولی اللہ نہیں سمجھتا لیکن میں اُسے ولی اللہ سمجھتا ہوں.اُس کی صحت خراب ہے، انتڑیاں کمزور ہیں اور ذرا سے صدمہ سے اُس کی بھوک بند ہو جاتی ہے.لیکن میں دیکھتا ہوں کہ جرمنی میں جو احمدی ہورہے ہیں وہ خدا تعالیٰ خود اُس کی طرف لا رہا ہے.ورنہ اُس کے جسم میں اتنی طاقت نہیں کہ وہ زیادہ کام کر سکے.ایک دفعہ دفتر والوں نے اسے خرچ نہ بھیجا جس کی وجہ سے وہ مکان کا کرایہ ادا نہ کر سکا.

Page 197

خطبات محمود جلد نمبر 36 187 $1955 گورنمنٹ نے اُسے مکان خالی کرنے کا نوٹس دے دیا.جرمنی میں مکانوں کی بہت کمی ہے.کیونکہ پچھلی جنگ میں اکثر مکانات گر گئے تھے.گورنمنٹ کی طرف سے نوٹس ملنے کی وجہ سے ہمارا مبلغ بہت غمگین ہوا اور اُس کی بھوک بند ہوگئی.انتڑیاں پہلے ہی خراب تھیں اس لیے فاقہ کی وجہ سے اُس کی صحت اور بھی کمزور ہوگئی.اُس کی بیوی جو قریب عرصہ میں غیر احمدی تھی لیکن اب نہایت اخلاص رکھتی ہے اُس کے پاس گئی اور کہنے لگی جب تم نے وقف کیا تھا تو ان سب مصائب اور مشکلات کو سامنے رکھ کر کیا تھا.پھر اب گھبرانے کی کیا ضرورت ہے؟ باہر جاؤ اور کسی دوست سے کچھ دنوں کے وعدہ پر رقم لے آؤ.اتنے میں خرچ بھی آجائے گا.اس پر اُسے کچھ تسلی ہوئی ، کھانا کھایا اور پھر کسی دوست سے قرض کے حصول کی کوشش کے لیے باہر چلا گیا.ان ممالک میں قرض ملنا مشکل ہے.لیکن خدا تعالیٰ نے ایسا فضل کیا کہ ایک جرمن دوست نے مکان کا کرایہ دے دیا اور تین دن کے بعد مرکز سے بھی خرچ پہنچ گیا اور کرایہ کی رقم اس جرمن دوست کو واپس کر دی گئی.جرمنی میں ایک ہندو ڈاکٹر مجھے ایک اور ڈاکٹر کے پاس معائنہ کے لیے لے جا رہا تھا.و 26 سال سے وہاں رہتا ہے.اس نے مجھے کہا کہ میں پہلے دہر یہ تھا اب میں اسلام کی طرف مائل ہوں.میں نے کہا میں تو تب مانوں جب تم پورے مسلمان ہو جاؤ.وہ کہنے لگا اگر ان مولوی صاحب کی صحبت میں رہا تو پورا مسلمان بھی ہو جاؤں تو کوئی تعجب کی بات نہیں.ان ہی سے مل کر میرے خیالات تبدیل ہوئے ہیں.بہر حال جرمنی کے مبلغ گوجسمانی لحاظ سے کمزور ہیں مگر نہایت مخلص ہیں اور اللہ تعالیٰ ان کے کام میں برکت پیدا کر رہا ہے.ہالینڈ میں مولوی غلام احمد صاحب بشیر ہیں.اُن کی یہ حالت ہے کہ ہمیں سفر یورپ میں ایک ڈرائیور کی ضرورت تھی.چنانچہ ہم نے ہالینڈ سے چند ہفتوں کے لیے ایک نومسلم ڈرائیور منگوایا.وہ ڈچ کہلاتا تھا لیکن دراصل انڈونیشیا کا رہنے والا تھا.وہ کہنے لگا مجھے سمجھ نہیں آتی کہ ہم اسلام کی تبلیغ کرتے ہیں لیکن پھر بھی 1953 ء میں پاکستانی مسلمان ہمیں مارتے تھے.میں نے کہا دراصل احمدیوں کی تعدا د دوسرے مسلمانوں کی نسبت بہت تھوڑی ہے.لیکن چونکہ ہماری جماعت روز بروز ترقی کر رہی ہے اس لیے وہ چاہتے ہیں کہ ہم ابھی سے ان کو ختم

Page 198

$1955 188 خطبات محمود جلد نمبر 36 کر دیں ورنہ جب ان کی تعداد زیادہ ہو جائے گی تو انہیں ختم کرنا مشکل ہوگا.تمہارے ہاں بھی اگر جماعت کچھ زیادہ ہو گئی اور لوگوں نے سمجھ لیا کہ یہ لوگ یہاں بڑھتے چلے جائیں گے تو وہ مولوی غلام احمد بشیر کو ماریں گے.اس پر اُس نے بڑے جوش سے کہا مولوی غلام احمد بشیر کو کون مارسکتا ہے؟ وہ تو محبت کے قابل ہے.کوئی شخص اُس پر ہاتھ نہیں اٹھا سکتا.میں نے کہا انسان جب غصہ میں آتا ہے تو محبت اُس کی آنکھوں سے اوجھل ہو جاتی ہے.پس میں جماعت سے یہ کہنا چاہتا ہوں کہ چندے وسیع کرو تا تبلیغ کو وسیع کیا جا سکے.اسی طرح ربوہ کو آباد کرنے کی کوشش کرو.میں دیکھتا ہوں کہ کئی مکانوں کی جگہیں ابھی خالی پڑی ہیں اور کئی تعمیر شدہ مکان ایسے ہیں جن میں اس وقت کوئی نہیں بستا.اس کے علاوہ ربوہ کو شہریت دینے کی کوشش کرو.اب تو جو لوگ یہاں آباد ہیں وہ مجاور قسم کے ہیں یعنی یہاں بسنے والے زیادہ تر سلسلہ کے کارکن ہیں جن کا گزارہ چندوں پر ہے.شہر وہ ہوتا ہے جس کے اکثر رہنے والے خود کمائی کرتے ہوں اور چندوں پر اُن کا انحصار نہ ہو.ورنہ اگر کسی حادثہ کی وجہ سے خدانخواستہ رستے رُک جائیں اور چندوں کی آمد میں کمی واقع ہو جائے تو آبادی کے گزارہ کی کوئی صورت نہ رہے.مثلاً ابھی سیلاب آیا ہے.اس کی وجہ سے اگر خدانخواستہ چندوں کی آمد میں کمی واقع ہو جائے تو مرکزی ادارے اپنے کارکنوں کو تنخواہیں بھی نہیں دے سکتے.لیکن اگر ربوہ میں رہنے والوں میں سے اکثر لوگ ایسے ہوں جو مختلف کام کرنے والے ہوں اور وہ اپنی کمائی خود کرتے ہوں تو ایسی مشکلات کا وقت بھی آسانی سے گزرسکتا ہے.لائل پور اور سرگودھا وغیرہ شہروں کے رہنے والوں کا گزارہ منی آرڈروں پر نہیں بلکہ وہاں رہنے والے افراد کی تجارتوں اور کارخانوں وغیرہ پر ہے.لیکن ربوہ میں رہنے والوں کا گزارہ منی آرڈروں پر ہے.باہر سے روپیہ آتا ہے تو ہم اپنے کارکنوں کو تنخواہیں دیتے ہیں.پس جہاں میں ایک طرف جماعت کو تاکید کرتا ہوں کہ وہ چندوں کو بڑھائے ، چندے بڑھیں گے تو سلسلہ کا کام بڑھے گا وہاں میں باہر کے دوستوں کو بھی اس طرف توجہ دلاتا ہوں کہ وہ مرکز میں آئیں اور یہاں مختلف صنعتیں جاری کرنے کی کوشش کریں.اسی طرح میں بیرونی ممالک میں کام کرنے والے مبلغین سے کہتا ہوں کہ وہ بھی

Page 199

$1955 189 خطبات محمود جلد نمبر 36 چندہ بڑھانے کی کوشش کریں.یہی غلام احمد بشیر ( مبلغ ہالینڈ ) جس کی میں نے ابھی تعریف کی ہے اس کے متعلق چودھری ظفر اللہ خاں صاحب نے بتایا کہ وہ نو مسلموں سے چندہ نہیں لیتا.چودھری صاحب نے کہا کہ میں نے اُس سے کہا ہے کہ میں تو ان نو مسلموں کو اُس وقت احمدی سمجھوں گا جب وہ با قاعدہ چندہ دیں گے.لیکن وہ ہر دفعہ یہ عذر کر دیتا ہے کہ یہ لوگ مالی لحاظ سے کمزور ہیں اور چندہ دینے کے قابل نہیں.میرے نزدیک چودھری صاحب کی بات بالکل درست ہے.ہمارے مبلغین کو نو مسلموں سے چندہ لینے کی کوشش کرنی چاہیے.میں نے جرمنوں کو دیکھا ہے کہ وہ چندے دیتے ہیں.ایک شخص میری آمد کے متعلق خبر پا کر دوسومیل سے چل کر مجھے ملنے آیا.چودھری عبد اللطیف صاحب مبلغ جرمنی نے مجھے بتایا کہ وہ جب سے احمدی ہوا ہے اڑھائی پونڈ ماہوار با قاعده چندہ دیتا ہے.پس اگر ہمارے مبلغین کو مسلموں کو چندہ دینے کی عادت ڈالیں گے تو انہیں عادت پڑ جائے گی.چاہے ابتدا میں وہ ایک ایک آنہ ہی چندہ کیوں نہ دیں.اگر وہ ایک ایک آنہ بھی چندہ دینا شروع کردیں گے تو آہستہ آہستہ انہیں اس کی عادت پڑ جائے گی.اور پھر زیادہ مقدار میں چندہ دینا انہیں دو بھر معلوم نہیں ہوگا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اشتہارات اور کتابیں نکال کر دیکھ لو.تمہیں اُن میں یہ الفاظ دکھائی دیں گے کہ فلاں دوست بڑے مخلص ہیں.انہوں نے ایک آنہ یا دو آنہ ماہوار چندہ دینے کا وعدہ کیا ہے.لیکن پھر وہی لوگ بڑی بڑی مقدار میں چندے دینے لگ گئے تھے.ہمارے مبلغین کو بھی چاہیے کہ وہ بھی نو مسلموں سے چندہ لینے کی کوشش کریں.مشرقی افریقہ اور مغربی افریقہ اور دمشق والے احمدیوں کی حالت نسبتاً اچھی ہے.دمشق کی جماعت بڑے اخلاص اور ہمت سے کام کر رہی ہے.پھر جماعتوں کو چاہیے کہ وہ نو جوانوں کو یہاں بھجوائیں جو یہاں رہ کر تعلیم حاصل کریں اور مرکزی اداروں میں کام کریں.دیکھ لو! بیماری سے پہلے مجھ میں کس قدر ہمت ہوا کرتی تھی.میں اکیلا دس آدمیوں سے بھی زیادہ کام کر سکتا تھا.لیکن اب ایک آدمی کے چوتھائی کام کے برابر بھی نہیں کر سکتا.اسی طرح یہ ناظر بھی انسان ہی ہیں.ان کو بھی بیماری لگ سکتی ہے اور کام کے ناقابل ہو سکتے ہیں.پس باہر سے نوجوانوں کو یہاں آنے کی کوشش کرنی چاہیے.بلکہ بہتر ہوگا کہ مختلف ممالک کے لوگ یہاں آئیں اور انجمن کا کام سنبھالیں تا ہماری مرکزی انجمن انٹر نیشنل انجمن بن جائے.

Page 200

$1955 190 خطبات محمود جلد نمبر 36 صرف پاکستانی نہ رہے.دینی لحاظ سے بے شک پاکستان کے لوگ دوسروں پر فوقیت رکھتے ہیں.لیکن اگر ان کے ساتھ ایک ایک ممبر نائجیریا، گولڈ کوسٹ ، امریکہ، مشرقی افریقہ، ہالینڈ ، جرمنی اور انگلینڈ وغیرہ ممالک کا بھی ہو تو کام زیادہ بہتر رنگ میں چل سکتا ہے.جب یہ لوگ یہاں آکر کام کریں گے تو باہر کی جماعتوں کو اِس طرف زیادہ توجہ ہوگی اور وہ سمجھیں گی کہ مرکز میں جو انجمن کام کر رہی ہے وہ صرف پاکستان کی جماعتوں کی انجمن نہیں بلکہ ہماری بھی انجمن ہے.پس چندوں کو زیادہ کرو اور ان طوفانوں سے مایوس نہ ہو بلکہ پہلوانوں کی طرح کام میں لگ جاؤ.اور جہاں جہاں پانی خشک ہوتا ہے وہاں فوراً کھیتوں میں ہل چلا دو تا تمہاری آئندہ آمد نیں پہلے سے بھی بڑھ جائیں اور اس کے ساتھ ساتھ چندے بھی بڑھ جائیں.جب مرکز مضبوط ہوگا اور بیرونی مبلغین کو بھی خدا تعالیٰ اس بات کی توفیق دے دے گا کہ وہ نو مسلموں سے چندے لیں تو سلسلہ تبلیغ وسیع ہو جائے گا.جب بھی دنیا میں کوئی مذہبی تحریک چلی ہے اُس کے ابتدائی مبلغ اُسی ملک کے ہوتے ہیں جس میں وہ تحریک ابتداء شروع ہوتی ہے.چنانچہ دیکھ لو اسلام کے پہلے مبلغ عرب ہی تھے.لیکن اس کے بعد ایرانی اور عراقی آگئے اور انہوں نے اسلام کی اشاعت شروع کی.حضرت معین الدین چشتی ، شہاب الدین صاحب سہروردی ، بہاؤ الدین صاحب نقشبندی سب دوسرے ممالک کے تھے جنہوں نے اپنے اپنے وقت میں اسلام کی بڑی خدمت کی ہے.حضرت عیسی علیہ السلام کے بعد بھی پچاس ساٹھ سال تک عیسائیت کو پھیلانے والے اُن کے اپنے علاقہ کے ہی مبلغ تھے.لیکن بعد میں اور علاقوں میں بھی مبلغ پیدا ہو گئے.اور آپ کے سو سال کے بعد تو سارے مبلغ اٹلی کے ہی تھے.پھر جرمنی اور انگلینڈ سے بھی کئی مبلغین اشاعت عیسائیت کے لیے آگے آگئے.پس جب تک مبلغین نو مسلموں کو چندہ دینے اور وقف کرنے کی عادت نہیں ڈالیں گے یہ کام لمبے عرصہ تک نہیں چل سکتا.جو کام ہمارے سپرد ہے اُس کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اللہ تعالیٰ سے خبر پا کر بتایا ہے کہ تین سو سال کے اندر اندر مکمل ہو جائے گا.لیکن ایسا تبھی ہو سکتا ہے جب ہم اولاد در اولاد کو وقف کریں اور اولاد در اولادکو اسلام کی اشاعت کا فرض یاد دلاتے جائیں.اگر یہ روح ہمارے اندر پیدا ہو جائے تو ہمارے لئے

Page 201

$1955 191 خطبات محمود جلد نمبر 36 گھبراہٹ کی کوئی وجہ نہیں ہو سکتی.لیکن اگر ہمیں یہ نظر آئے کہ خود حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے خاندان کے بعض افراد دنیا کی طرف متوجہ ہو گئے ہیں تو طبیعت بے چین ہو جاتی ہے.آخر دین کو نظر انداز کر کے دنیا کے پیچھے لگ جانا کونسی عقلمندی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام تو ہمارے لیے ایک طیب غذا لے کر آئے تھے.لیکن آپ کی اپنی نسل میں سے کچھ لوگ اس روحانی غذا کو چھوڑ کر مادی لذائذ کی طرف مائل ہو رہے ہیں.اگر دنیا کمانا ہی ضروری ہے تو جس شخص کو یہاں آٹھ نوسوروپے ماہوارمل رہا ہے وہ اگر امریکہ چلا جائے تو اُسے وہاں اڑھائی تین ہزار ماہوار مل سکتا ہے.لیکن اگر یہاں رہ کر اُسے دو اڑھائی سور و پیہ ماہوار بھی ملتا تو کم از کم وہ روحانی طور پر اپنے دادا کا پوتا تو ہوتا مگر اب تو وہ آپ کی روحانی نسل سے منقطع ہو گیا ہے.اور جو بھی خدا تعالیٰ کے دین کی اشاعت کے لیے اپنی زندگی وقف نہیں کرے گا وہ آپ کی نسل میں سے ہوتے ہوئے بھی روحانی طور پر آپ کی طرف منسوب نہیں ہو سکے گا.اسی طرح میں یہ بھی نصیحت کرتا ہوں کہ تم ربوہ کو آباد کرنے کی کوشش کرو.اس وقت ہمارے سامنے دو کام ہیں.اگر ایک طرف ہم نے ربوہ کو آباد کرنا ہے تو دوسری طرف ہم نے قادیان کو آباد کرنا ہے.میں نے اپنے ایک لڑکے کو قادیان میں چھوڑا تھا اور اس نے بہت اخلاص بھی دکھایا.جب دوسرے لوگ قادیان سے بھاگ آئے تو وہ وہیں رہا.لیکن میں دیکھتا ہوں کہ اس میں ایسی ہمت نہیں کہ وہ فاقہ میں رہ کر بھی کام کرنے کے لیے تیار ہو.اگر وہ فاقہ میں رہ کر کام کرنے کے لیے تیار ہوتا تو روزی کمانے کی کوئی صورت نکال لیتا تو میں سمجھتا کام چلتا چلا جائے گا.لیکن مجھے دونوں چیزیں نظر نہیں آتیں.نہ مجھے یہ نظر آتا ہے کہ وہ فاقہ میں رہ سکتا ہے اور نہ وہ اپنی آمد پیدا کرنے کی کوئی کوشش کر رہا ہے.اس کے معنے یہ ہیں کہ اگر کسی وقت بھی اُسے اخراجات کے لیے روپیہ نہ ملے تو اُس کا وہاں قیام مشکل ہو جائے گا.حالانکہ ہم نے اُسے حضرت اسماعیل علیہ السلام کی طرح وہاں اس لیے رکھا ہے تا کہ وہ قادیان کو آباد کرے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی پیشگوئیاں اُس کے ذریعہ پوری ہوں.ہم جور بوہ کو آباد کر رہے ہیں ہمارا یہ کام ظلی ہے.حقیقی کام اُسی کا ہے بشرطیکہ وہ سلسلہ کی خدمت کرتے ہوئے ہرمش مشکل برداشت کرنے کے لیے تیار ہو.

Page 202

خطبات محمود جلد نمبر 36 192 $1955 میں جماعت کو ایک یہ بھی نصیحت کرتا ہوں کہ پرانے زمانہ میں تنخواہ دار مبلغ نہیں ہوتے تھے بلکہ لوگ خود ان کی ضروریات کا فکر رکھتے تھے.اس زمانہ میں ہمارے سب مبلغ تنخواہ دار ہیں.لیکن صرف تنخواہ دار مبلغوں کے ذریعہ تبلیغ کو ساری دنیا میں وسیع نہیں کیا جاسکتا.ساری دنیا میں تبلیغ اسی صورت میں وسیع ہوسکتی ہے جب جماعت خود ان کا خیال رکھے.عیسائی اب تک اپنے پادریوں کی خدمت کرتے چلے آتے ہیں.آپ لوگوں کا بھی فرض ہے کہ ان کی خدمت کریں.میں سمجھتا ہوں اگر ہر کمانے والا احمدی ربوہ میں رہنے والے کارکنوں یا باہر کام کرنے والے مبلغوں کے لیے اپنی آمد کا ایک فیصدی بھی ریز رو کر دے تو ہر سواحمدی ربوہ میں بسنے والے ایک کارکن یا با ہر کام کرنے والے ایک مبلغ کا گزارہ چلا سکتے ہیں.اور پھر جوں جوں جماعت بڑھتی چلی جائے گی بوجھ اٹھانے والے بھی زیادہ ہوتے جائیں گے اور اس طرح زیادہ کارکنوں کا بوجھ اٹھایا جا سکے گا.اگر ایک لاکھ احمدی کمانے والے ہوں تو ایک ہزار مبلغوں اور کارکنوں کا گزارہ چلا یا جا سکتا ہے.پرانے زمانہ میں لوگ اسی طرح کرتے تھے.اور وہ سمجھتے تھے ہم ان کی خدمت کریں گے تو خدا تعالیٰ ہماری آمد میں برکت پیدا کرے گا اور ہماری مشکلات کو دور کرے گا.اگر جماعت کے دوست اس طرف توجہ کریں تو ہماری تمام مشکلیں دور ہوسکتی ہیں.مثلاً ایک لاکھ کمانے والے ہوں تو ایک ہزار مبلغ کا گزارہ چل سکتا ہے.اور لاکھ سے تو اب بھی ہماری جماعت کے دوست بہت زیادہ ہیں.اگر دس لاکھ احمدی ہوں تو دس ہزار مبلغوں اور کارکنوں کا گزارہ چل سکتا ہے.بشرطیکہ ہر کمانے والا 99 فیصدی آمد اپنے گزارے اور چندوں کے لیے رکھے اور ایک فیصدی سلسلہ کے کارکنوں اور مبلغوں کے لیے ریز رو کر دے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے خدا تعالیٰ سے الہام پا کر ایسے لوگوں کا نام اصحاب الصفہ رکھا ہے 5.یعنی وہ لوگ جنہوں نے اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کے آستانہ پر ڈال دیا.ایسے لوگوں کی خدمت خود اپنی ذات میں بہت بڑے ثواب کا موجب ہوتی ہے.میں نے دیکھا ہے چونکہ میں بیمار ہوں اس لیے بعض دفعہ کوئی غریب بیوہ عورت ایک چوزہ ہی لے آتی ہے اور کہتی ہے حضور ! اسے قبول فرما ئیں اور وہ اس خدمت سے خوشی محسوس کرتی ہے.اسی طرح اگر جماعت کے اندر یہ روح پیدا ہو جائے کہ اُن کے اموال میں دین کی خاطر اپنی زندگیاں وقف

Page 203

$1955 193 خطبات محمود جلد نمبر 36 کرنے والوں کا بھی حق ہے تو ہماری بہت سی مشکلات آپ ہی آپ حل ہو جائیں اور تبلیغ کا دائرہ پہلے سے بہت زیادہ وسیع ہو جائے.پس تم اپنی زندگیاں دین کی خدمت کے لیے وقف کرو اور پھر نسلاً بعد نسل وقف کرتے چلے جاؤ.میں نے کراچی میں تحریک کی تھی کہ دوست خاندانی طور پر اپنی زندگیاں وقف کریں یعنی ہر شخص یہ اقرار کرے کہ میں اپنے خاندان میں سے کسی نہ کسی فرد کو دین کی خدمت کے لیے ہمیشہ وقف رکھوں گا.وہی تحریک میں اب بھی کرتا ہوں اور جماعت سے خاندانی طور پر کسی نہ کسی فرد کو وقف کرنے کا مطالبہ کرتا ہوں.اگر جماعت اس پر عمل کرنا شروع کر دے تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے وقف کی ایک رو پیدا ہو جائے گی اور ہمیں کثرت سے واقفین ملنے لگ جائیں گے.اب تو یہ حالت ہے کہ اگر ایک نوجوان اپنی زندگی وقف کرتا ہے تو دوسرا اپنی حماقت سے اُسے روکنے کے لیے کھڑا ہو جاتا ہے.اگر خدا تعالیٰ ہماری جماعت کو زیادہ کر دے تو ان واقفین کا گزارہ چلانا مشکل نہیں ہو گا.کیا تم جانتے ہو کہ عیسائیوں نے پوپ کے گزارہ کے لیے کیا انتظام کر رکھا ہے؟ انہوں نے اس کے لیے ایک عجیب انتظام کیا ہوا ہے.مسلمانوں میں تو نذرانہ اور تحفہ کا رواج ہے اور اسلام کی یہی تعلیم ہے کہ اگر بغیر سوال کرنے کے کوئی شخص ہد یہ یا نذرانہ دے تو اُسے قبول کر لینا چاہیے.اس میں برکت ہوتی ہے.لیکن عیسائیوں نے پوپ کے لیے یہ طریق جاری کیا ہوا ہے کہ ہر عیسائی سال میں ایک پینی (Penny) پوپ کو دیا کرے.پادری سب کو بلاتا ہے اور اُن سے پوپ کی ایک پینی مانگتا ہے.اور اس طرح ایک بہت بڑی رقم جمع ہو جاتی ہے.اس وقت دنیا میں قریباً تینتیس کروڑ کیتھولک ہیں.اگر وہ سب ایک ایک پینی دیں تو قریباً چودہ لاکھ پونڈ رقم بن جاتی ہے جو پوپ کو پیش کی جاتی ہے اور وہ بادشاہوں کی طرح زندگی بسر کرتا ہے.پس خاندانی طور پر اپنی زندگیاں دین کی خدمت کے لیے وقف کرو اور عہد کرو کہ تم اپنی اولا د در اولا د کو وقف کرتے چلے جاؤ گے.پہلے تم خود اپنے کسی بچے کو وقف کرو.پھر اپنے سب بچوں سے عہد لو کہ وہ اپنے بچوں میں سے کسی نہ کسی کو خدمت دین کے لیے وقف کریں گے.اور پھر اُن سے یہ عہد بھی لو کہ وہ اپنے بچوں سے عہد لیں گے کہ وہ بھی اپنی آئندہ نسل سے یہی مطالبہ

Page 204

$1955 194 خطبات محمود جلد نمبر 36 کریں گے.چونکہ اگلی نسل کا وقف تمہارے اختیار میں نہیں اس لیے صرف تحریک کرنا تمہارا کام ہوگا.اگر وہ نہیں مانیں گے تو یہ اُن کا قصور ہو گا.تم اپنے فرض سے سبکدوش سمجھے جاؤ گے.اگر تم یہ کام کرو گے اور یہ روح جماعت میں نسلاً بعد نسل پیدا ہوتی چلی جائے گی اور ہر فرد یہ کوشش کرے گا کہ اس کے خاندان کا کوئی نہ کوئی فرد دین کی خاطر اپنی زندگی وقف کرے تو خدا تعالیٰ کے فضل سے لاکھوں واقف زندگی دین کی خدمت کے لیے مہیا ہو جائیں گے.اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے وصیت کی تحریک فرمائی ہے.تمہیں یہ بھی کوشش کرنی چاہیے کہ تم میں سے ہر شخص وصیت کرے.اور پھر اپنی اولاد کے متعلق بھی کوشش کرے کہ وہ بھی وصیت کرے.اور وہ اولا دا پنی اگلی نسل کو وصیت کی تحریک کرے.یہ بھی دین کی خدمت کا ایک بڑا بھاری ذریعہ ہے.اگر ہم ایسا کر لیں تو قیامت تک تبلیغ اور اشاعت کا سلسلہ جاری رہ سکتا ہے.پھر جتنی تدبیریں ہم کرتے ہیں اُن میں کوئی نہ کوئی رخنہ باقی رہ جاتا ہے لیکن خدا تعالیٰ کی تدبیر میں کوئی رخنہ نہیں ہوتا.اس لیے اصل چیز یہ ہے کہ تم دعائیں کرو اور اس خطبہ کو بار بار پڑھو.اور اس میں جو باتیں بیان کی گئی ہیں انہیں یاد رکھو.اور اگر چہ یہ مختصر سا خطبہ ہے لیکن اگر چاہو تو اس میں سے بھی جو بات تمہیں زائد معلوم ہوا سے کاٹ دو اور باقی مختصر حصہ کو چھپوا کر جماعت میں کثرت سے پھیلاؤ تا کہ ہر فرد کے اندر بیداری پیدا ہو.میں نے جماعت میں جو وقف کی تحریک شروع کی ہے اس کے بعد میرے پاس تین درخواستیں آئی ہیں.ایک تو میرے پوتے مرزا انس احمد کی ہے جو عزیزم مرزا ناصر احمد کا لڑکا ہے.اللہ تعالیٰ اُسے اپنی نیت کو پورا کرنے کی توفیق عطا فرمائے.انس احمد نے لکھا ہے کہ میرا ارادہ تھا کہ میں قانون پڑھ کر اپنی زندگی وقف کروں لیکن اب آپ جہاں چاہیں مجھے لگا دیں.میں ہر طرح تیار ہوں.ایک درخواست ماسٹر سعد اللہ صاحب کی آئی ہے.انہوں نے لکھا ہے کہ میں نے ایم اے کا امتحان دیا ہوا ہے.اس میں کامیاب ہونے کے بعد آپ جہاں چاہیں مجھے لگا دیں.تیسری درخواست باہر کے ایک لڑکے کی ہے جو ابھی چھوٹی جماعت کا طالب علم ہے.میں نے اسے کہا ہے کہ وہ میٹرک پاس کر کے جامعہ احمدیہ میں داخلہ لے.کیونکہ جب تک جامعہ میں زیادہ

Page 205

خطبات محمود جلد نمبر 36 195 $1955 طالب علم نہیں آئیں گے اُس وقت تک شاہد بھی زیادہ تعداد میں نہیں نکل سکتے.ہمارے سکول کے اساتذہ کو چاہیے کہ وہ لڑکوں میں وقف کی تحریک کریں اور انہیں سمجھائیں کہ تمہارا اعلی گزارہ تمہارے اپنے اختیار میں ہے.اگر تم باہر جاؤ گے اور تبلیغ کرو گے تو تمہاری تبلیغ کے نتیجہ میں جماعت بڑھے گی اور جماعت کے بڑھنے سے چندے زیادہ ہوں گے اور چندے زیادہ آئیں گے تو تمہارے گزارے بھی زیادہ اعلیٰ ہوں گے.اگر یورپ کا کوئی حصہ ہی احمدی ہو جائے تو جماعت کے چندے کئی گنا بڑھ سکتے ہیں.پس سکول کے اساتذہ اپنے سکول کے لڑکوں کو سمجھائیں اور پروفیسر کالج کے لڑکوں کو سمجھائیں اور باہر کے مبلغ اپنی اپنی جماعتوں میں چندہ دینے اور زندگی وقف کرنے کی تحریک کریں.اس طرح چند مہینوں میں ہی کام کی رفتار تیز ہوسکتی ہے اور یہ صدی ہر قسم کے شیطانی حملوں سے محفوظ ہوسکتی ہے.پھر جوں جوں جماعت بڑھے گی خدا تعالیٰ اپنے فضل سے آئندہ بھی اس میں جوش پیدا کرتا چلا جائے گا.“ (الفضل 25 /نومبر 1955ء) 1 مرقس باب 16 آیت 16 2 متی باب 6 آیت 26 :3 تذكرة الشهادتین روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 67 صلى الله 4 الصحيح البخارى كتاب بدء الوحى باب كيف كان بدء الوحي الى رسول الله الا الله تذکرہ صفحہ 52 ایڈیشن چہارم

Page 206

$1955 196 29 خطبات محمود جلد نمبر 36 ایک دوسرے کے دل میں اسلام کے لیے اپنی زندگیاں وقف کرنے کی روح کو تازہ رکھو اور اس کے لیے آدمی مہیا کرتے رہو (فرموده 21 /اکتوبر 1955ء بمقام ربوہ) تشهد ، تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا." میں دوستوں کو آج پھر وقف دائمی کی طرف توجہ دلاتا ہوں.جن لوگوں کے بچے اعلیٰ تعلیم پا جاتے ہیں اُن کو تو باہر کی نوکریوں کی سوجھتی ہے.اور جن لوگوں کے بچے تعلیم نہیں پاسکتے وہ " عصمت بی بی از بیچارگی" کے مطابق سلسلہ کی خدمت کے لیے آجاتے ہیں.مگر ہر شخص کی قابلیت الگ الگ ہوتی ہے.بے شک ان لوگوں میں سے بھی ایسے افراد نکلتے ہیں جو نہایت چوٹی کے عالم ہوتے ہیں اور ہم اُن سے بجا طور پر یہ امید رکھتے ہیں کہ جب بھی سلسلہ کے لیے قربانی اور نقطۂ مرکزیہ کی ضرورت ہوگی وہ اپنے آپ کو آگے لے آئیں گے اور جماعت کو اکٹھا کرنے اور اُسے انشقاق سے بچانے کی پوری کوشش کریں گے.لیکن اگر وہ لوگ بھی آگے آتے جن پر اللہ تعالیٰ نے دُہرا احسان کیا ہے اُس نے انہیں کھانے پینے کے لیے وافر دیا ہے تو نُورٌ عَلی نُور ہو جاتا.کیونکہ ایسے لوگ اپنے اردگرد کے دوسرے لوگوں پر بھی اچھا اثر ڈال سکتے تھے.مگر میں یہ کہہ کر اس طبقہ کی ہتک نہیں کر رہا جو غرباء میں سے ہے.بلکہ وہ زیادہ تعریف کے مستحق ہیں.کیونکہ وہ

Page 207

$1955 197 خطبات محمود جلد نمبر 36 اپنی تنگی کی وجہ سے کہہ سکتے تھے کہ وہ سلسلہ کی خدمت کے لیے اپنے آپ کو وقف کرنے سے معذور ہیں.لیکن وہ تنگ دستی کے باوجود آگے آئے اور سلسلہ کی خدمت کے لیے اپنی جانیں پیش کر دیں.گویا ایک وہ ہیں جن پر اللہ تعالیٰ نے دہرا احسان کیا لیکن انہوں نے اس احسان کی ناقدری کی.اور ایک وہ ہیں جو غریب تھے ، تنگ دست تھے اور خدا تعالیٰ کے سامنے قیامت کے دن یہ کہہ سکتے تھے کہ اے اللہ ! ہم خالی ہاتھ تھے.لیکن جب بھی تیرے دین کو ہماری خدمات کی ضرورت پیش آئی ہم نے خوشی سے اپنے آپ کو پیش کر دیا.اور اُن کی یہ بات خدا تعالیٰ کو یقیناً پیاری لگے گی اور وہ کہے گا تم سچ کہتے ہو.ان غداروں پر میں نے بہت بڑا احسان کیا تھا مگر انہوں کی نے میرے دیئے ہوئے اموال سے فائدہ بھی اٹھایا اور پھر وہ ان اموال کی وجہ سے اتنے غافل ہو گئے کہ انہوں نے میرا خیال چھوڑ دیا اور تن پروری شروع کر دی.تم یقیناً اُن لوگوں سے ہزاروں گنا بہتر ہو اور میرے مقرب ہو.بے شک تم دنیا کی نظر میں ذلیل تھے لیکن میری نظر میں تم معزز ہو کہ باوجود مخالف حالات کے اور باوجود اس کے کہ شیطان تمہیں ورغلاتا تھا کہ تمہیں خدا تعالیٰ نے کیا دیا ہے کہ تمہیں اس کے دین کی فکر پڑی ہوئی ہے تم نے اپنے آپ کو سلسلہ کی خدمت کے لیے پیش کر دیا.میں جانتا ہوں کہ اُن لوگوں پر جنہوں نے خدا تعالیٰ کے دیئے ہوئے اموال سے فائدہ اٹھا کر اُس سے غداری کی ہے.اور پھر اس سے بڑھ کر وہ لوگ جنہوں نے جماعت کے روپیہ سے تعلیم حاصل کی اور پھر اس سے غداری کی.اُن پر میرے ان خطبوں کا کوئی اثر نہیں ہوگا.کیونکہ وہ مُردہ دل ہیں اور مر دوں کو کوئی انسان اپنی بات نہیں سنا سکتا.خدا تعالیٰ بھی فرماتا ہے کہ وَمَا أَنْتَ بِمُسْمِعٍ مَّنْ فِي الْقُبُورِ 1 تُو مُردوں کو اپنی بات نہیں سنا سکتا.اگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم مُردوں کو اپنی بات نہیں سنا سکتے تھے تو پھر میں کیسے سنا سکتا ہوں.پس جن لوگوں کے دل مردہ ہو گئے ہیں انہیں میں نے کیا سنانا ہے.مگر جو لوگ زندہ دل تھے وہ بغیر میرے کہنے کے آپ ہی آپ خدمت دین کے لیے جمع ہو گئے اور آئندہ بھی جمع ہوتے چلے جائیں گے.ہمارا کام یہ ہے کہ ہم ایک دوسرے کے دل میں اسلام کے لیے اپنی زندگیاں وقف کرنے کی روح کو تازہ رکھیں اور اس کے لیے آدمی مہیا کرتے رہیں.

Page 208

خطبات محمود جلد نمبر 36 198 $1955 دیکھو رسول کریم ﷺ کے صحابہ میں اسلام کی خدمت کی کتنی سچی روح تھی.محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ اسلام کا خادم اور اس کا بوجھ اٹھانے والا اور کون ہوسکتا ہے.آپ کی پر اگر صحابہ مایوس ہو جاتے اور خیال کرتے کہ آپ کے بعد اسلام کا بوجھ اب کون اٹھائے گا اور منتشر لوگوں کو کون اکٹھا کرے گا ، اب تو نقطۂ مرکز یہ ہی ختم ہو گیا ہے، ابھی اسلام کا بیج ہی ڈالا گیا تھا اور اس کی کونپل بھی نہیں نکلی تھی کہ مالی اٹھ گیا تو اسلام کا کیا بنتا.لیکن خدا تعالیٰ کی ان گنت رحمتیں اور برکتیں ہوں حضرت ابو بکر پر کہ وہ اُس وقت مسجد میں آکر مایوس دلوں کے سامنے کھڑے ہو گئے اور آپ نے اُن کے سامنے ایک نکتہ پیش کیا جو مسلمانوں کو قیامت تک یاد رکھنا چاہیے.اور وہ نکتہ یہ تھا کہ مَنْ كَانَ يَعْبُدُ مُحَمَّداً فَإِنَّ مُحَمَّداً قَدُمَاتَ وَمَنْ كَانَ يَعْبُدُ اللَّهَ فَإِنَّ اللَّهَ حَيٌّ لَا يَمُوتُ 2 کہ تم میں سے جو شخص محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عبادت کیا کرتا تھا اور سمجھتا تھا کہ آپ کی زندگی تک ہی اِس سلسلہ نے جاری رہنا تھا اب انہوں نے کس کو خوش کرنا ہے ، اب کس کی مجلسوں میں لوگ بیٹھیں گے، کس کی زیارت اور ملاقات کے لیے انہوں نے یہاں آنا ہے.تو ایسے شخص کو پتا لگ جانا چاہیے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہو گئے ہیں اور کچھ وقت کے بعد آپ کی نعش مبارک کو دفن کر دیا جائے گا.لیکن جو شخص اللہ تعالیٰ کی عبادت کیا کرتا تھا اُسے یاد رکھنا چاہیے کہ وہ زندہ ہے اور کبھی نہیں مرے گا.کیونکہ منتشر مسلمانوں کو جمع کرنے والا ، اُنہیں دین کی طرف واپس لانے والا اور تا ابد زندہ رہنے والا ہمارا خدا اب بھی موجود ہے.اس لیے انہیں گھبرانے کی ضرورت نہیں.رسول کریم ﷺ کی وفات پر اب 1300 سال سے زیادہ عرصہ گزر چکا ہے.لیکن اب بھی اللہ تعالیٰ دنیا میں ایسے لوگ کھڑے کرتا رہتا ہے جو منتشر مسلمانوں کو ایک ہاتھ پر جمع کرتے اور انہیں یہ نصیحت کرتے رہتے ہیں کہ مَنْ كَانَ يَعْبُدُ مُحَمَّداً فَإِنَّ مُحَمَّداً قَدُمَاتَ وَمَنْ كَانَ يَعْبُدُ اللهَ فَإِنَّ اللَّهَ حَيٌّ لَا يَمُوتُ اِس آواز پر لوگ پھر جمع ہو جاتے اور اسلام کی خدمت میں لگ جاتے ہیں.چنانچہ رسول کریم ہی یہ کی وفات کے بعد پہلے حضرت ابو بکر کھڑ.ہوئے اور انہوں نے منتشر لوگوں کو اکٹھا کیا.پھر حضرت عمرؓ کھڑے ہوئے.اس کے بعد حضرت عثمان کھڑے ہوئے.اور ان کے بعد حضرت علی * کھڑے ہوئے.ان کے بعد متعدد بزرگ

Page 209

$1955 199 خطبات محمود جلد نمبر 36 آئے اور انہوں نے اسلام کی خدمت کی روح کو تازہ رکھا.مثلاً حضرت امام ابو حنیفہ کھڑ.ہوئے.حضرت امام شافعی کھڑے ہوئے.حضرت جنید بغدادی کھڑے ہوئے.شیلی کھڑے ہوئے.حسن بصری کھڑے ہوئے.خواجہ معین الدین صاحب چشتی ” کھڑ ہوئے.سید عبدالقادر صاحب جیلانی" کھڑے ہوئے.شہاب الدین صاحب سہروردی گھڑے ہوئے.بہاؤ الدین صاحب نقشبندی کھڑے ہوئے.شاہ ولی اللہ دہلوی کھڑے ہوئے.نظام الدین صاحب اولیاء" کھڑے ہوئے.قطب الدین صاحب بختیار کا کئی کھڑے ہوئے.شیخ فرید الدین صاحب شکر گنج کھڑے ہوئے.ان کے علاوہ اور ہزاروں بزرگ دنیا کے مختلف علاقوں میں کھڑے ہوئے جنہوں نے لاکھوں انسانوں کو اسلام میں داخل کیا اور اُن کی بدولت آج کروڑوں مسلمان صفحہ ہستی پر موجود ہیں.یہ وہی لوگ ہیں جنہوں نے حضرت ابوبکر کی نقل میں یہ کہا کہ مَنْ كَانَ يَعْبُدُ مُحَمَّداً فَإِنَّ مُحَمَّداً قَدُمَاتَ وَمَنْ كَانَ يَعْبُدُ اللَّهَ فَإِنَّ اللهَ حَيٌّ لَا يَمُوُٹ انہوں نے حضرت ابو بکر کے منہ سے نکلے ہوئے اس اہم نکتہ کو یا درکھا.باوجود یکہ ان میں سے کسی کے زمانہ میں محمد رسول اللہ ﷺ کو وفات پائے ایک ہزار سال کا عرصہ گزر چکا تھا اور کسی کے زمانہ میں اس پر گیارہ سو سال گزر چکے تھے.انہوں نے یہ نہیں کہا کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا تھا کہ اسلام تمام ادیان پر غالب آجائے گا.لیکن دنیا میں ابھی تھوڑے ہی مسلمان تھے کہ آپ فوت ہو گئے بلکہ انہوں نے کہا کہ اگر مسلمان تھوڑے سے نہ ہوتے تو ہمیں خدمت کا موقع کیسے ملتا.وہ لوگ اسلام سے بدظن نہ ہوئے بلکہ انہوں نے خدا تعالیٰ کا شکر ادا کیا کہ ابھی اسلام کا کام باقی ہے جسے ہم پورا کریں گے.چنانچہ وہ دین کی خدمت میں مشغول ہو گئے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بھی فرماتے ہیں کہ مجھ سے پہلے مختلف لوگوں کے سامنے خدا تعالیٰ نے پیالے رکھے اور اب آخر میں وہ پیالہ میرے سامنے رکھا گیا ہے.آپ کسی بڑے پیر کے مرید نہیں تھے اور نہ ہی آپ نے مروجہ دنیوی علوم حاصل کئے.لیکن آپ ہی کی وجہ سے اب ساری دنیا میں تبلیغ ہورہی ہے اور سینکڑوں لوگ اسلام کو قبول کر رہے ہیں.اگر تمہیں بھی یہ خیال آتا ہے کہ محمد رسول اللہ یہ بھی دنیا میں آئے اور گزر گئے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بھی دنیا میں آئے اور گزر گئے لیکن اسلام کو ماننے والے ابھی دنیا میں تھوڑے ہی ہیں تو میں تمہیں

Page 210

خطبات محمود جلد نمبر 36 200 $1955 کہوں گا کہ تم یہ کیوں نہیں کہتے کہ اگر دنیا کے بسنے والے سب مسلمان ہوتے تو ہمیں اسلام کی خدمت کا موقع کیسے ملتا.اللہ تعالیٰ کا احسان ہے کہ ابھی دنیا میں ایسے لوگ باقی ہیں جنہوں نے اسلام کو قبول نہیں کیا اب ہم انہیں مسلمان بنا ئیں گے.پس گھبرانے کی کوئی وجہ نہیں.لوگ آتے ہیں اور مرتے ہیں.لیکن مومن اپنے ایمان کی وجہ سے ہمیشہ اسلام کی زندگی اور اسکے دوبارہ عروج کا باعث بنتے رہتے ہیں.جیسے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا کہ قدرت ثانیہ دائی ہے جس کا سلسلہ قیامت تک منقطع نہیں ہوگا اور وہ ہمیشہ تمہارے ساتھ رہے گی 3.اس کے معنے یہی ہیں کہ جو لوگ حقیقی ایمان اپنے اندر رکھتے ہوں گے وہ کسی مرحلہ پر بھی مایوس نہیں ہوں گے.بلکہ کہیں گے کہ اگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فوت ہو گئے تو کیا ہوا ہم دنیا میں موجود ہیں جو منتشر لوگوں کو دوبارہ اکٹھا کرنے والے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام جب فوت ہوئے تو بعض پرانے احمدیوں کے دلوں میں بھی شبہات پیدا ہو گئے تھے.اور وہ سمجھتے تھے کہ آپ کی وفات بے وقت ہوئی ہے.میری عمر اس وقت 19 سال کی تھی.اللہ تعالیٰ نے معا میرے دل میں ایک بات ڈالی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا جسدِ مبارک سامنے پڑا تھا.میں دوڑ کر اس کے پاس گیا اور آپ کے سرہانے کھڑے ہو کر میں نے اللہ تعالیٰ سے کہا کہ اے خدا! تیرا یہ مامور دنیا میں آیا تھا.تو نے اس سے بہت بڑے بڑے وعدے کئے تھے کہ اسلام ساری دنیا میں پھیلے گا.لیکن ہوا یہ کہ ابھی اسلام کی دوبارہ اشاعت پوری طرح شروع بھی نہیں ہوئی تھی کہ وہ فوت ہو گیا ہے.اور بعض لوگوں کے دلوں میں شبہات پیدا ہونے شروع ہو گئے ہیں.اے میرے خدا! میں تیرے مامور کے سرہانے کھڑے ہو کر تیری ہی قسم کھا کر یہ عہد کرتا ہوں کہ چاہے سارے لوگ مرتد ہو جائیں میں اسلام کو نہیں چھوڑوں گا.اور جب تک میں اسے دوبارہ دنیا میں قائم نہ کر لوں سانس نہیں لوں گا.اب دیکھو خدا تعالیٰ نے مجھ سے کتنا بڑا کام لیا ہے.اگر یہ تحریک دنیا میں جاری رہے اور ایسے مومن پیدا ہوتے رہیں جو ہر خطرہ اور ہر مصیبت کے وقت کہیں کہ اے خدا ! اس زلزلہ اور مصیبت کی وجہ سے خواہ ساری جماعت مرتد ہو جائے میں تیرے دین کے لیے اپنی جان پیش کروں گا اور اُس وقت تک سانس نہیں لوں گا جب تک کہ اسلام کو پھر دوبارہ دنیا میں قائم نہ کر لوں.

Page 211

$1955 201 خطبات محمود جلد نمبر 36 تو اسلام کی اشاعت بہت جلد ہوسکتی ہے.یہ ایک اخلاص سے نکلا ہوا فقرہ تھا جو مجھ جیسے انسان کے منہ سے نکلا.جس کے پاس دنیا کی کوئی ڈگری نہ تھی.لیکن یہ فقرہ کتنا برکت والا تھا کہ خدا تعالیٰ نے اسے لفظ بلفظ پورا کر دیا.اور اب غیر ممالک میں جو اسلام کا نام لیا جاتا ہے وہ صرف میری وجہ سے ہی لیا جاتا ہے.لیکن یہ میرا خاصہ نہیں.میں سمجھتا ہوں کہ تم میں سے ہر شخص چاہے وہ کتنا کمزور ہو وہی کام کر سکتا ہے جو خدا تعالیٰ نے مجھ سے لیا.بلکہ وہ اس سے بھی زیاہ کام کر سکتا ہے.ضرورت صرف اس بات کی ہے کہ یہ جوش دائماً قائم رکھا جائے.جیسے میں بار بار تم سے کہتا ہوں کہ اسلام کی خدمت کے لیے اپنی زندگیاں پیش کرو.تم بھی یہ بات دوسروں سے کہتے چلے جاؤ اور رات کو علیحدگی میں اللہ تعالیٰ سے یہ اقرار کرو کہ اے خدا! اسلام پر ایک نازک وقت آیا ہوا ہے اور مصیبت کا دورا بھی ختم نہیں ہوا.اے خدا ! ہم تیری ہی قسم کھا کر کہتے ہیں کہ چاہے کچھ ہو جائے ہم تیرا نام بلند رکھیں گے اور اسلام کی اشاعت سے کبھی غافل نہیں ہوں گے.پھر تم دیکھو گے کہ خدا تعالیٰ کی برکتیں تم پر کس طرح نازل ہوتی ہیں.میرے زمانہ میں جماعت میں اختلاف بھی ہوا اور مختلف اوقات میں جماعت میں عہدے تقسیم کرنے کے مواقع بھی آئے.لیکن میں نے کبھی بھی جنبہ داری سے کام نہیں لیا.اور میں نے کبھی اس بات کی پروا نہیں کی کہ میرے خاندان کو کوئی نقصان پہنچتا ہے یا فائدہ.بلکہ میں نے صرف ایک ہی چیز دیکھی کہ کسی نہ کسی طرح جماعت اکٹھی رہے.یہی جذبہ تم اپنے اندر پیدا کرو.اور دنیا پر نگاہ نہ رکھو بلکہ اللہ تعالیٰ جو کچھ دیتا ہے وہ لے لو.دیکھو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جب اسلام کی اشاعت کا کام شروع کیا تو اس بات کا خیال نہیں کیا کہ آپ کھائیں گے کہاں سے؟ اللہ تعالیٰ نے خود بخو دلوگوں کے دلوں میں تحریک کی کہ وہ جائیں اور آپ کی خدمت میں نذرانے پیش کریں.اس کی خبر اللہ تعالیٰ نے آپ کو الہاماً بھی دیدی تھی.چنانچہ اُس نے فرمایا کہ يَنصُرُكَ رِجَالٌ نُوحِي إِلَيْهِمُ مِنَ السَّمَاءِ 4 یعنی تیری مدد وہ لوگ کریں گے جن کو ہم آسمان سے وحی کریں گے.پھر تم کیوں ڈرتے ہو کہ جماعت کا خزانہ کمزور ہے ہم کھائیں گے کہاں سے تم بھی اپنے اندر وہ روح پیدا کرو جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے پیدا کی تھی.اس کے بعد تمہیں مانگنے کی ضرورت ہی پیش نہیں آئے گی.اللہ تعالیٰ آپ ہی آپ ایسے لوگوں کو کھڑا کر دے گا جو تمہارے سامنے اپنی کمائی پیش کریں گے.اور وہ بھی اس

Page 212

$1955 202 خطبات محمود جلد نمبر 36 طرح پیش نہیں کریں گے کہ وہ تم پر کوئی احسان کر رہے ہیں بلکہ وہ عاجزانہ نگاہوں سے تمہاری طرف دیکھیں گے اور درخواست کریں گے کہ تم اُن نذرانوں کو قبول کر لو تا کہ اُن کی اور اُن کے خاندان کی نجات ہو جائے اور اُن کے اموال میں برکت ہو.پس اگر انجمن کا خزانہ کمزور ہے تو گھبراؤ نہیں خدا تعالیٰ تمہیں آسمان سے تنخواہ دے گا.بالکل اُسی طرح جس طرح اُس نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو تنخواہ دی اور ان کے طفیل ہمیں بھی پالا.اور آئندہ کے لیے بھی ہماری اُسی پر نگاہ ہے.میں نے آج تک کسی سے نہیں مانگا.کئی دفعہ دوستوں نے نہایت اخلاص سے کہا بھی کہ ہم چاہتے ہیں کہ آپ اپنی مرضی کی کوئی چیز بتا ئیں جو ہم آپ کو بطور نذرانہ پیش کریں.لیکن میں نے ہمیشہ انکار کیا اور کہا کہ یہ تو مانگنا ہے میں ایسا نہیں کر سکتا.ہاں جو کچھ تم خود بخو دلاؤ گے اُسے میں قبول کرلوں گا.تم بھی اگر اخلاص سے کام لو تو تمہارے لئے بھی خدا تعالیٰ اسی قسم کے سامان پیدا کر دے گا.تم اس بات سے مت گھبراؤ کہ لوگ دنیا دار ہو چکے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ میں بھی بہت سے دنیا دار لوگ تھے.لیکن آخر جماعت میں ایسے لوگ پیدا ہو گئے جن کے اندر یہ جوش پایا جاتا تھا کہ وہ آپ کی خدمت میں نذرانے پیش کریں اور درخواست کریں کہ آپ اُن کے لیے دعا فرمائیں تا اُن پر خدا تعالیٰ کی برکتیں نازل ہوں.میں نے پچھلے خطبات جمعہ میں جو وقف کی تحریک کی تھی میں خوش ہوں کہ اس پر جماعت کے مختلف نو جوانوں کی طرف سے جن میں سے بعض چھوٹی تعلیم والے ہیں اور بعض بڑی تعلیم والے ہیں درخواستیں آنی شروع ہوگئی ہیں.میں نے جو خاندانی طور پر وقف کرنے کی تحریک کی تھی اس سلسلہ میں ایک درخواست مولوی ابو العطاء صاحب کی طرف سے آئی ہے.انہوں نے لکھا ہے کہ میں کوشش کروں گا کہ ہمارے خاندان میں سے کوئی نہ کوئی نو جوان وقف زندگی کے لیے آگے آتا ر ہے.ذاتی طور پر وقف کے سلسلہ میں بھی بہت سے نو جوانوں کی طرف سے درخواستیں آئی ہیں.ان میں سے ایک درخواست چودھری فرزند علی صاحب (جو یہاں کے جزل پریذیڈنٹ ہیں) کے ایک لڑکے کی طرف سے ہے جو اس وقت ایم.اے کی کلاس میں تعلیم حاصل کر رہا ہے.ایک درخواست صالح الشبیبی انڈونیشین کی ہے جو یہاں ایک عرصہ تک تعلیم

Page 213

$1955 203 خطبات محمود جلد نمبر 36 حاصل کرتے رہے ہیں.انہوں نے واپس جا کر ملازمت اختیار کر لی تھی.انہوں نے لکھا ہے کہ مجھ سے غلطی ہوئی ہے اب میں اپنی زندگی اسلام کی خدمت کے لیے وقف کرتا ہوں.باقی لوگوں میں سے بھی جن کو خدا تعالیٰ توفیق دے انہیں اپنی زندگیاں پیش کرنی چاہئیں.پھر جو لوگ سلسلہ کے لیے زندگی وقف کرنے کے قابل نہیں وہ ایسے لوگوں کو وقف میں حصہ لینے کی تحریک کریں جو سلسلہ کے کام سرانجام دے سکتے ہیں.رسول کریم ﷺ نے حجۃ الوداع میں تقریر کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ فَلْيُبَغِ الشَّاهِدُ الْغَائِب جو حاضر ہیں وہ اُن لوگوں تک بھی یہ باتیں پہنچادیں جو یہاں موجود نہیں فَرُبَّ مُبَلَّغ أوعى مِنْ سَامِع 5 کیونکہ بسا اوقات جولوگ موجود نہیں ہوتے وہ سننے والے کی نسبت بات کو زیادہ یا درکھتے ہیں.پس جو لوگ تجارتوں اور کارخانوں وغیرہ کے کام کا تجربہ رکھتے ہوں یا گورنمنٹ کے دفاتر میں کام کرتے رہے ہوں اُن کو تحریک کریں کہ وہ اپنے کاروبار اپنے بیٹوں کے سپرد کر دیں اور سلسلہ کی خدمت کریں.اسی طرح میں نے اعلان کیا تھا کہ احباب ربوہ میں انڈسٹری شروع کریں تا کہ یہاں آکر غریب لوگ بھی بس سکیں.پہلے میں نے سلسلہ کو کہا تھا کہ وہ انڈسٹری اپنے ہاتھ میں رکھے.لیکن چونکہ ہمارے کارکنوں کو تجربہ نہیں اور وہ اس کام کو سنبھال نہیں سکتے اس لیے میں نے فیصلہ کیا ہے کہ جو خلص دوست یہاں کام کرنا چاہیں انہیں کا م کرنے کی اجازت دے دی جائے.ایک بات میں یہ بھی کہنا چاہتا ہوں کہ ہم یورپ میں ایک نیا مشن کھولنا چاہتے ہیں.ہمیں ایک نئے علاقہ کا پتا لگا ہے جس کی وجہ سے تین چار اور ملکوں پر بھی اثر پڑ سکتا ہے اور وہ ناروے، سویڈن اور فن لینڈ ہیں.آگے ان کا اثر ڈنمارک اور جرمنی پر پڑتا ہے اور پھر آگے ہالینڈ پر اثر پڑتا ہے.ہمارا ارادہ ہے کہ وہاں مشن کھولا جائے.اس دفعہ میں نے فیصلہ کیا ہے کہ یہ مشن اُن جماعتوں کے نام پر کھولا جائے جو اس کو چلانے کے اخراجات ادا کریں.اس مشن پر انہیں نہیں ہزار روپیہ سالا نہ خرچ کا اندازہ ہے.میں نے تجویز کی ہے کہ چندہ تحریک جدید کے علاوہ جماعت ہائے امریکہ کوشش کریں کہ اس مشن کے لیے تین ہزار روپیہ دیں.تین ہزار روپے جماعت ہائے افریقہ، شام ، اور عدن دیں.تین ہزار روپیہ لجنہ اماءاللہ دیں.سات ہزار و پیہ پنجاب کی جماعتیں دیں جن کے صدر مرزا عبدالحق صاحب ہیں.اس میں سے ضلع راولپنڈی کو میں نکال لیتا ہوں.

Page 214

خطبات محمود جلد نمبر 36 204 $1955 تین ہزار روپے کی رقم بلوچستان ، سرحد، اور ضلع راولپنڈی کی جماعتیں دیں.تین ہزار روپے کی رقم متفرق احباب دیں جو مرکز میں براہ راست چندہ بھجواتے ہیں.اس طرح امید ہے کہ ہیں اکیس ہزار روپیہ کی رقم اکٹھی ہو جائے گی.اس مشن کے ہیڈ کوارٹر پر جو بورڈ لگایا جائے گا اُس پر یہ لکھ دیا جائے گا کہ اس مشن کو جماعت ہائے احمد یہ امریکہ ، افریقہ، شام، عدن ، لجنہ اماءاللہ ، پنجاب، سرحد، بلوچستان ضلع راولپنڈی اور متفرق احباب چلا رہے ہیں.اسی طرح آئندہ بھی جتنے نئے مشن کھولے جائیں گے انہیں علاقہ وار تقسیم کر دیا جائے گا.اور اُن پر اُس علاقے کا نام لکھا جائے گا جو اسے چلا رہا ہوگا ، تا کہ دوستوں کو دعاؤں کی تحریک ہوتی رہے.یہ رقم جو میں نے مقرر کی ہے ابھی تھوڑی ہے.لیکن مجھے یقین ہے کہ جب دوست اس نیک کام میں حصہ لیں گے تو خدا تعالیٰ ان کی کوششوں میں برکت دے گا اور جماعت کو بڑھانا شروع کر دے گا اور اس کے نتیجہ میں چندہ بھی بڑھ جائے گا.اگر خدا تعالیٰ امریکہ کی جماعت کو بڑھانا شروع کر دے تو وہ بہت سا بوجھ اُٹھا سکتی ہے.اگر وہاں جماعت بڑھ جائے اور اُس کی تعداد دو ہزار ہو جائے تو اُس کا چندہ دولاکھ ڈالر یعنی دس لاکھ روپے تک پہنچ سکتا ہے اور وہ بڑی آسانی سے دو تین مشنوں کا بوجھ اٹھا سکتی ہے.اور اگر خدا تعالیٰ اُس کی تعداد پانچ چھ ہزار کر دے تو صرف امریکہ کی جماعت یورپ کے سارے مشنوں کو چلاسکتی ہے.میں نے امریکہ کے مبلغ خلیل احمد صاحب ناصر جو آجکل یہاں آئے ہوئے ہیں سے پہلے بھی کہا ہے اور آج پھر انہیں توجہ دلاتا ہوں کہ وہ امریکہ کی جماعت کا چندہ بڑھانے کی کوشش کریں.انڈونیشیا میں بھی ہماری بڑی جماعت ہے.میں نے اپنے ایک لڑکے کو وہاں بھیجا تھا.اور میری غرض یہ تھی کہ وہ جماعت جلد جلد ترقی کرے.لیکن اس کی تعداد میں ابھی توقع کے مطابق زیادتی نہیں ہوئی.جماعت بے شک بڑھی ہے لیکن بہت تھوڑی بڑھی ہے.جماعت انڈونیشیا کو بھی چاہیے کہ وہ اپنی تعداد کو بڑھانے کی کوشش کرے.اب میں تحریک جدید کے چندہ کے متعلق کچھ کہنا چاہتا ہوں.چونکہ میں کمزور ہوں اس لیے میں اس چندہ کے متعلق کوئی لمبی تقریر نہیں کر سکتا.اس چندہ کی تحریک ہر سال نومبر کے آخر میں کی جاتی ہے.لیکن اس دفعہ نومبر کی بجائے میں آج ہی اس کی تحریک کر دیتا ہوں.میں یہ تی

Page 215

$1955 205 خطبات محمود جلد نمبر 36 اعلان کرتا ہوں کہ تحریک جدید کے وعدے لینے کے ذمہ دار ہر جماعت کے امیر اور صوبائی امیر ہیں.مجھ میں زیادہ بولنے اور لمبی تقریر کرنے کی ہمت نہیں.یہ خدا تعالیٰ کا فضل ہے کہ میں کچھ بول لیتا ہوں.ورنہ جب مجھ پر فالج کا حملہ ہوا تھا میں کھڑا بھی نہیں ہوسکتا تھا.اس کے بعد میں دو سوٹیوں کے سہارے چل سکتا تھا.لیکن اب خدا تعالیٰ کے فضل سے سوئی کے بغیر ہی میں چل لیتا ہوں.بہر حال میری صحت ابھی اس قابل نہیں کہ میں لمبی تقریر کر سکوں.میں ہر جماعت کے امیر کے ذمہ یہ بات لگا تا ہوں کہ وہ دفتر سے اپنی جماعت کے پچھلے سال کے وعدوں کی لسٹ لے لے اور کوشش کرے کہ اس سال کے وعدے پچھلے سال سے زیادہ ہوں اور مجھے اطلاع بھجوائے کہ انہوں نے پچھلے سال کے وعدوں پر کس قدر زیادتی سے نئے سال کے وعدے لکھوائے ہیں.کام چونکہ وسیع ہوتا جا رہا ہے اس لیے ضروری ہے کہ اس سال چندہ تحریک جدید پچھلے سال سے ڈیوڑھا کی ہو.تم کہو گے کہ ڈیوڑھا چندہ کس طرح ہو سکتا ہے؟ میں کہوں گا کہ تم ڈیوڑھے ہو جاؤ تو چندہ بھی ڈیوڑھا ہوسکتا ہے.اگر تم ڈیڑھ ہزار گنا ہو جاؤ تو پھر کوئی مشکل ہی نہیں رہتی.صرف ہمت سے کام لینے کی ضرورت ہے.اس کے علاوہ جہاں تم خود اس تحریک میں حصہ لو وہاں اپنے بیوی بچوں کو بھی اس خدمت میں شامل کرو.بلکہ میں تو کہتا ہوں کہ وہ لوگ جو جماعت میں باقاعدہ شامل نہیں ہیں لیکن چاہتے ہیں کہ وہ بھی تبلیغ اسلام کے کام میں شریک ہوں تم اُن کے پاس بھی جاؤ اور اُن سے چندہ لو تا کہ تحریک جدید کی مشکلات دُور ہوں.آج ہی مجھے پتا لگا ہے کہ اس سال تحریک جدید کا چندہ پچھلے سال سے کم آیا ہے اور دفتر اس قابل نہیں کہ وہ اپنے کارکنوں کو گزشتہ ماہ کی تنخواہیں بھی دے سکے.حالانکہ یہ کام تو اس طرح ہونا چاہیے کہ ہر سال دفتر تبشیر اپنے مشنوں کی تعداد میں اضافہ کرتا جائے.لیکن چندہ پوری مقدار میں جمع نہیں ہوتا جس کی وجہ سے مجھے نئی سکیم بنانی پڑی ہے.امریکہ والے اگر کوشش کریں تو ان کے چندوں میں کافی زیادتی ہو سکتی ہے.ضرورت صرف جنون کی ہے.اگر تمہارے اندر کام کرنے کا جنون پیدا ہو جائے تو یہ مشکلات آپ ہی آپ دور ہو جائیں گی.لندن میں بھی ہمارا بہت پرانا مشن ہے.لیکن ابھی تک وہ اپنا بوجھ خود نہیں اٹھا سکا.اب وہ اِس بارہ میں کوشش کرنے لگے ہیں.آجکل لندن مسجد کے امام مولود احمد صاحب ہیں جو بہت نیک نوجوان ہیں.خدا تعالیٰ

Page 216

$1955 206 خطبات محمود جلد نمبر 36 انہیں اس کام کے کرنے کی توفیق عطا فرمائے.ہالینڈ مشن کے مبلغ کو بھی چودھری ظفر اللہ خان صاحب نے کہا تھا کہ تم نو مسلموں سے چندے لو.میں اُنہیں اُسی وقت احمدی سمجھوں گا جب وہ چندہ دینا شروع کر دیں گے.اور یہ بات بالکل درست ہے.مبلغوں کو یا درکھنا چاہیے کہ ہم اُن کے کام کو اُس وقت تک نہیں مانیں گے جب تک کہ اُن کے نو مسلم چندہ بھی نہ دینے لگیں.مجھے یاد ہے ایک شخص کو شروع زمانہ خلافت میں ایک شخص نے چندہ کی تحریک کی تو اس نے کہا میں چندہ نہیں دے سکتا.میں نے سنا تو اُس کا رکن کو ہدایت دی کہ تم اُس سے کہو کہ تم صرف آٹھ آنے ہی دے دیا کرو.لیکن کچھ نہ کچھ ضرور دیا کرو آہستہ آہستہ اُسے چندہ دینے کی عادت پڑ جائے گی.چنانچہ اُس نے آٹھ آنے چندہ دینا شروع کیا.مگر پھر آپ ایک وقت ایسا آیا کہ اُس نے ہزاروں روپے چندہ دیا.اسی طرح جماعت میں اور بہت سے ایسے لوگ ہیں جنہوں نے وصیت کی اور پھر کچھ عرصہ کے بعد انہوں نے درخواست کی کہ ہمیں پندرھویں یا سولہویں حصہ کی وصیت کی اجازت دیدی جائے اور ہم نے انہیں اجازت بھی دیدی.لیکن بعد میں انہوں نے لکھا کہ ہم سمجھتے ہیں ہم سے یہ گناہ سرزد ہوا ہے اور اس کی تلافی کے لیے اب ہماری نویں حصہ کی وصیت قبول کی جائے.پس جو خدا تعالیٰ کی راہ میں دیتا ہے اُس کا قدم قربانیوں کے میدان میں بڑھتا چلا جاتا ہے.تم بھی دوسروں میں اس چندہ کی تحریک کرو تا کہ مشعوں کو اور زیادہ ترقی دی جا سکے.اس وقت بیرونی ممالک کی جماعتوں میں بھی ایسے لوگ پائے جاتے ہیں جو بڑے شوق سے چندہ دیتے ہیں.مثلاً امریکہ والے ہیں یہ لوگ دیر سے آگے آئے ہیں لیکن چندہ دیتے ہیں.اگر وہاں جماعت زیادہ پھیل جائے تو وہ یورپ کے مشنوں کا بوجھ اٹھا سکتے ہیں.لیکن اس کے لیے صحیح رنگ میں جد و جہد کرنے کی ضرورت ہے.پس تم اپنے چندوں کو بڑھاؤ.لوگوں کے پاس جا جا کر اُن سے وعدے لکھوا ؤ اور بغیر میری تحریک کے نومبر کے آنے سے پہلے اپنے چندے پچھلے سال سے زیادہ کر لو.پھر بقائے بھی ادا کر و.اگر تم یہ کام کرو گے تو اللہ تعالیٰ کا فضل تم پر نازل ہوگا اور میری دعائیں بھی تمہیں ملیں گی.پھر جب جماعت کا بوجھ دُور ہوگا تو مجھے بھی راحت ہوگی.ڈاکٹروں نے مجھے بار بار کہا ہے کہ کوئی گھبراہٹ والی بات آپ کے پاس نہیں آنی چاہیے.لیکن اگر تم خود ہی گھبراہٹ والی باتیں

Page 217

$1955 207 خطبات محمود جلد نمبر 36 میرے پاس لے آؤ تو میں کیا کروں؟ کیا میں اسلام کی محبت کو نظر انداز کر سکتا ہوں؟ کیا میں اس کی اشاعت کے فرض سے غافل ہو سکتا ہوں؟ غالب نے کہا ہے.گو ہا تھ کو جنبش نہیں آنکھوں میں تو دم ہے رہنے دو ابھی ساغر و مینا میرے آگے 6 پس بے شک میں کمزور ہوں.لیکن جب تک میرا دماغ کام کرتا ہے اسلام کے غلبہ کے خیالات میرے دماغ سے نہیں جاسکتے.چندہ زیادہ آئے گا تو میری تشویش بھی کم ہوگی اور تشویش کم ہوگی تو بیماری کم ہوگی.اور یہ اُسی وقت ہو سکتا ہے جب اسلام اور احمدیت کی اشاعت کے سلسلہ میں مجھے راحت میسر آجائے.ڈاکٹر کہتے ہیں کہ اگر کوئی گھبراہٹ والی بات نہ ہو تو آپ کو پوری صحت ہو جائے گی.اور گھبراہٹ مجھے اُس وقت ہوتی ہے جب مجھے اسلام کے راستہ میں مشکلات نظر آتی ہوں.پس میری صحت تمہاری جد و جہد اور تمہارے ایمان سے تعلق رکھتی ہے.اگر تم اپنے اور اپنے ساتھیوں کے ایمان کو مضبوط کر لو اور اسلام کی اشاعت کے لیے ہر قربانی کرنے کے لیے تیار رہو تو میری صحت بھی ترقی کر سکتی ہے.گوڈاکٹروں نے مجھے کہا ہے کہ میں اب سات سات گھنٹے بھی تقریر کر سکتا ہوں.لیکن میری اپنی حالت یہ ہے کہ میں جمعہ کا خطبہ دیتا ہوں تو اس کا بھی میری طبیعت پر اثر پڑتا ہے.پھر جب میں دیکھتا ہوں کہ اسلام خطرہ میں ہے اور جماعت میں اس کے لیے قربانی کی ابھی پوری روح پیدا نہیں ہوئی تو میرا دل بیٹھ جاتا ہے اور مجھے گھبراہٹ شروع ہو جاتی ہے.پس میری یہ گھبراہٹ اپنے لیے نہیں بلکہ خدا اور اُس کے رسول کے لیے ہے.اور میں اسے اپنے ایمان کا جزو سمجھتا ہوں اس لیے میں اسے کیسے دُور کروں.اور میں اپنے ایمان کو ڈاکٹروں کی خاطر کس طرح قربان کر دوں.“ خطبہ کے آخر پر حضور کے ارشاد کے مطابق اعلان کیا جاتا ہے کہ جماعتہا ئے احمد یہ ہندوستان بھی اپنے حصہ کے طور پر ایسا کرسکتی ہیں کہ 300 روپے سالانہ یا ایک سور و پیہ سالانہ ہی ادا کر کے اس نئے مشن کے اخراجات میں شریک ہو جائیں.اسی طرح مشرقی بنگال کے احباب بھی 500 روپیہ سالا نہ دے کر اس میں شامل ہو سکتے ہیں.پھر آہستہ آہستہ تین ہزار روپیہ کی حد میں شامل ہو سکتے ہیں.“ الفضل 26 /اکتوبر 1955ء) 1 فاطر: 23

Page 218

خطبات محمود جلد نمبر 36 208 صلى الله :2 الصحيح البخارى كتاب المغازى باب مرض النبي :3 الوصیت.روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 305 4: تذکرہ صفحہ 50 ایڈیشن چہارم 5: الصحيح البخارى كتاب الحج باب الخطبةِ أَيَّامَ مِنى 6 دیوان غالب صفحه 353 تدوین میاں مختار احمد کھٹانہ لاہور 2004 ء و وفاته $1955

Page 219

$1955 209 30 خطبات محمود جلد نمبر 36 تمہاری راتیں اور تمہارے دن دعاؤں میں صرف ہونے چاہئیں تا کہ تمہیں خدا تعالیٰ کی تائید اور نصرت حاصل ہو (فرموده 28 اکتوبر 1955ء بمقام ربوہ ) تشہد ،تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا." سب سے پہلے تو میں واقفین زندگی کو اس بات کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ وہ دعاؤں کی عادت ڈالیں.وہ آئندہ جماعت کے مبلغ بننے والے ہیں اور دعا کے بغیر کوئی مبلغ کامیاب نہیں ہوسکتا.اور چونکہ خدا تعالیٰ نے مجھے اس زمانہ میں ان کے لیے راہبر بنایا ہے اور راہبری کے لیے ضروری ہے کہ راہبر تندرست ہو اس لیے تم خصوصیت سے میرے لیے دعائیں کرو.اور اگر خدا تعالیٰ کی طرف سے کسی کو کوئی بشارت ملے تو وہ مجھے بھی اُس سے اطلاع کی دے.اس سے ایک فائدہ تو یہ ہوگا کہ تمہاری دعاؤں سے مجھے صحت ہوگی اور میں تمہارے کام کی نگرانی صحیح طور پر کر سکوں گا اور دوسرا فائدہ یہ ہوگا کہ خود تمہاری روحانیت ترقی کرے گی.گویا ایک تیر سے دو شکار ہوں گے.ایک طرف تمہارا خدا تعالیٰ سے تعلق بڑھتا جائے گا اور دوسری طرف تم سے کام لینے کا فرض جس انسان کے سپرد کیا گیا ہے اُس کی طاقت ، قوت اور عقل میں ترقی ہوگی اور وہ مناسب طور پر تمہارے کام کی نگرانی کر سکے گا.یا درکھو جو شخص روحانیت میں ترقی

Page 220

$1955 210 خطبات محمود جلد نمبر 36 کرتا ہے وہی دنیا کا سردار ہوتا ہے.اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو الہاما فرمایا تھا کہ الْاَرْضُ وَالسَّمَاءُ مَعَكَ كَمَا هُوَ مَعِى 1 یعنی زمین اور آسمان اس طرح کی تمہارے ساتھ ہیں جس طرح وہ میرے ساتھ ہیں.اسی طرح اگر تم دعائیں کرو گے تو تمہیں بھی آسمان اور زمین مل جائیں گے.جو کتا ہیں تم سکول میں پڑھتے ہو ان سے آسمان اور زمین نہیں مل سکتے.صرف نحو اور منطق پڑھنے سے تمہیں آسمان اور زمین نہیں ملیں گے.ہاں اگر تم دعائیں کرو گے اور خدا تعالیٰ کی طرف جھکو گے تو تمہیں آسمان اور زمین مل جائیں گے.اور اگر ان دعاؤں میں تم مجھے بھی شامل کرو گے تو خدا تعالیٰ کہے گا کہ یہ لوگ اب کام کرنا چاہتے ہیں.کیونکہ اگر کوئی شخص کام لینے والے کے لیے دعا کرتا ہے تو اس کے معنے یہ ہوتے ہیں کہ وہ خود کام کرنا چاہتا ہے.تم دیکھ لو میٹ (MATE) مزدوروں کی نگرانی کرتا ہے.مزدور چاہتا ہے کہ میٹ کہیں چلا جائے تا وہ آرام کر سکے.لیکن اگر مزدور خود میٹ کو آواز دیتا ہے تو اس کے معنے یہ ہوتے ہیں کہ وہ کام کے لیے تیار ہے.پس تم میں سے ہر ایک کو ایسے حالات پیدا کرنے چاہئیں کہ وہ کام کرے.یادرکھو ایک ایک مبلغ کے ذریعہ سینکڑوں اور ہزاروں لوگ احمدیت میں داخل ہونے چاہئیں.لیکن اس وقت کئی مبلغ ایسے ہیں جو نہایت بے حیا منہ سے کہتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کے فضل سے سال میں دو افراد احمدیت میں داخل ہوئے.اگر سال میں ایک مبلغ کے ذریعہ دو افراد ہی احمدیت میں داخل ہوں تو کسی ملک میں پھیلنے کے لیے تمہیں پچاس ہزار سال چاہئیں.لیکن حالت یہ ہے کہ تمہاری کمریں ابھی سے ٹیڑھی ہوتی جارہی ہیں، ابھی سے جماعت کے کھاتے پیتے لوگ اپنے بچوں کو دنیا کی طرف دھکیلنے لگ گئے ہیں.پچاس ہزار سال کے بعد تو تم مُردار گتے کی طرح ہو جاؤ گے.یاد رکھو جو مبلغ سال میں ہزاروں احمدی نہیں بناتا وہ مغضوب علیہ واقف زندگی نہیں.اُس پر خدا تعالیٰ کی لعنت ہے اور وہ شیطان کا واقف زندگی ہے.خدا تعالیٰ کا واقف زندگی نہیں.اگر خدا تعالیٰ کا واقف زندگی ہوتا تو وہ دو آدمیوں کے آنے پر کیوں خوش علیہ ہے ہو جاتا.اُسے تو چاہیے تھا کہ ہزاروں ہزارافراد اُس کے ذریعہ سے سلسلہ میں داخل ہوتے.پس علاوہ اپنے مفوضہ کام کے تم میرے لئے بھی دعائیں کرو اور اپنے لئے بھی دعاؤں

Page 221

$1955 211 خطبات محمود جلد نمبر 36 میں لگے رہو.تم دعائیں کرو کہ خدا تعالیٰ لوگوں کے دماغوں میں اثر پیدا کرے، تمہیں بلند حو صلے بخشے ،تمہیں قوی اور شجاع بنائے تمہیں وہ طریق سکھائے جس کے نتیجہ میں لوگ تمہاری بات مان لیں.دیکھو! حضرت موسیٰ علیہ السلام نے بھی یہی دعا کی تھی.وَاحْلُلْ عُقْدَةً مِنْ لِسَانِي يَفْقَهُوا قَوْلِي -2.اے خدا! جو کام تو نے میرے سپر د کیا ہے میں اُسے ادا کرنے کی پوری کوشش کروں گا.لیکن تو جانتا ہے کہ میری کوشش سے کچھ نہیں بنے گا اس لیے تو آپ میری زبان کی گرہیں کھول تا کہ لوگ میری بات سمجھنے لگ جائیں.کیونکہ جو لوگ میری بات سمجھنے لگ جائیں گے وہ آہستہ آہستہ میری بات ماننے کے لیے بھی تیار ہو جائیں گے.پس یاد رکھو کہ جس مبلغ کے ذریعہ ہزاروں لوگ جماعت میں داخل نہیں ہوتے وہ مغضوب علیہ ہے.اور وہ واقف لِلہ نہیں بلکہ واقف لِلشَّيْطَانِ ہے.پس تم دعاؤں میں لگ جاؤ اور ظاہری علوم بھی حاصل کرنے کی کوشش کرو.کیونکہ ظاہری علوم بھی بڑے کام کی چیز ہیں.لیکن اس کے ساتھ تمہاری راتیں اور تمہارے دن دعاؤں میں صرف ہونے چاہئیں تا کہ جو فقرہ بھی تمہارے منہ سے نکلے وہ اپنے اندر اثر رکھتا ہو.اور اس کی وجہ سے ہزاروں لوگ تمہارے پیچھے چلے آئیں اور دین کے فوارے تمہارے منہ سے نکل پڑیں اور تم اللہ تعالیٰ کی بشارتیں اپنے کانوں سے سنو.دیکھو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے کیا کیا بشارتیں ملی تھیں.آج یہ حالت ہے کہ بیماری کی وجہ سے میرے دل پر گھبراہٹ پیدا ہوتی ہے.حالانکہ تم اتنی بڑی تعداد میں میرے سامنے بیٹھے ہوئے ہو.لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ابھی اکیلے تھے کہ خدا تعالیٰ نے آپ کو فرمایا." میں تیری تبلیغ کو زمین کے کناروں تک پہنچاؤں گا 3" اسی طرح اُس نے آپ کو بشارت دی کہ "میں تجھے بہت برکت دوں گا.یہاں تک کہ بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے."4 اور پھر اللہ تعالیٰ نے آپ کی تبلیغ کو دنیا کے کناروں تک پہنچا دیا.یہ سب کچھ آپ کی انسابت اور توجہ الی اللہ کی وجہ سے ہوا.اگر تمہارے اندر بھی اسی قسم کا یقین پیدا ہو جائے اور تم بھی خدا تعالیٰ کی طرف جھکو تو اسی طرح خدا تعالیٰ کی تائید تم میں سے بھی ہر ایک کو حاصل ہوگی اور دنیا بھی تمہیں ملے گی اور دین بھی تمہیں ملے گا.

Page 222

خطبات محمود جلد نمبر 36 212 $1955 دیکھو ! بعض اوقات کتنے چھوٹے چھوٹے فقرات ہوتے ہیں جو بڑی شان سے پورے ہو جاتے ہیں.الفضل کی فائلیں لائبریری میں موجود ہیں.تم اُن میں سے دیکھ لو.آج سے قریباً پانچ سال قبل مجھے خدا تعالیٰ نے الہاماً بتایا تھا کہ " سندھ سے پنجاب تک دونوں طرف متوازی نشان دکھاؤں گا." اور میں نے کہا تھا کہ جس وقت یہ الہام ہو رہا تھا میرے دل میں ساتھ ہی ڈالا جاتا تھا کہ متوازی کا لفظ دونوں طرف کے ساتھ لگتا ہے.اور دونوں طرف سے مراد یا تو دریائے سندھ کے دونوں طرف ہیں یا ریل یا سڑک کے دونوں طرف ہیں جو کراچی اور پاکستان کے مشرقی علاقوں کو ملاتی ہے.5 اب دیکھ لو پانچ سال کے قلیل عرصہ میں ملک میں دو دفعہ خطر ناک طوفان آچکے ہیں.یہاں تک کہ اس سیلاب پر غیر احمدی بھی پکارا ٹھے ہیں کہ یہ طوفانِ نوح کے طوفان کی طرح تھا.یہ کتنا شاندار نشان ہے جو خدا تعالیٰ نے دکھایا اور الہام کے کتنے واضح الفاظ ہیں کہ " سندھ سے پنجاب تک دونوں طرف متوازی نشان دکھاؤں گا." پھر دیکھ لوکس طرح پانچ سال میں متواتر دو دفعہ خطر ناک طوفان آئے جن سے سندھ سے لے کر پنجاب تک کے سب علاقے متاثر ہوئے.پچھلے پچاس سال میں ایک دفعہ بھی اس قسم کا کوئی طوفان نہیں آیا تھا.لیکن اب پانچ سال کے عرصہ میں دو دفعہ خطر ناک طوفان آچکے ہیں جولوگوں کی تباہی کا باعث بنے ہیں.مگر یا درکھو ہمارا خدا قادر ہے.اگر وہ سندھ سے پنجاب تک اتنے قہری نشان دکھا سکتا ہے تو وہ تبشیری نشان بھی دکھا سکتا ہے.اُس کا قبضہ صرف دریائے سندھ اور پنجاب کے دریاؤں پر ہی نہیں بلکہ دل بھی اُس کے قبضہ قدرت میں ہیں.وہ اگر دریائے سندھ اور پنجاب کے کناروں کو تو ڑسکتا ہے تو وہ دلوں کو کیوں نہیں تو ڑسکتا.وہ بے شک ایسا کر سکتا ہے.لیکن ضرورت ہے کہ تم دعائیں کرو اور خدا تعالیٰ کے سامنے جھکو.اور اس بات پر کبھی خوش نہ ہو کہ ایک شخص بیعت کر کے احمدیت میں داخل ہو گیا ہے.بلکہ تمہیں خوشی کا احساس اُس وقت ہونا چاہیے جب احمدیت میں داخل ہونے والوں کی تعداد سینکڑوں اور ہزاروں تک پہنچ جائے.میں نے ایک دفعہ جماعت کو توجہ دلائی کہ ہر احمدی کو سال میں کم سے کم ایک احمدی بنانے کی کوشش کرنی چاہیے.اس پر مولوی محمد عبد اللہ صاحب جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام

Page 223

$1955 213 خطبات محمود جلد نمبر 36 کے صحابہ میں سے تھے کھڑے ہو گئے اور کہنے لگے میں سال میں ایک احمدی نہیں سو احمدی بناؤں گا.چنانچہ جب وہ اگلے جلسہ پر آئے تو اُس وقت ایک آدمی اُن کے ساتھ تھا جسے وہ بیعت کرانے کے لیے ساتھ لائے تھے.انہوں نے کہا آپ دفتر سے معلوم کر لیں میں 199افراد کی بیعت پہلے کرا چکا ہوں اور اب یہ سواں آدمی ہے جسے میں بیعت کرانے کے لیے لایا ہوں.میرا وعدہ پورا ہو گیا ہے.مولوی محمد عبد اللہ صاحب بے شک مولوی کہلاتے تھے لیکن تھے وہ ایک عام زمیندار.ویسے انہیں تبلیغ کا بہت شوق تھا.اب دیکھو! اگر ایک زمیندار سال میں ایک سو آدمی احمدیت میں داخل کر اسکتا ہے تو ایک مبلغ کو تو سال میں سواحمدی بنا کر بھی شرم محسوس کرنی چاہیے.پس تم ایک یا دو آدمیوں کو احمدی بنالینے پر خوش نہ ہو.احادیث میں آتا ہے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کہتا ہے.اَنَا عِندَ ظَنِ عَبْدِ بی 6.کہ میرا بندہ جس طرح کا گمان مجھ پر کرتا ہے میں اُس کے مطابق اُس کے ساتھ سلوک کرتا ہوں.اگر تم ایک آدمی پر خوش ہو گے تو اللہ تعالیٰ تمہیں ایک آدمی دے گا، دو پر خوش ہو گے تو وہ تمہیں دو دے دے گا.لیکن اگر تم ایک کروڑ پر بھی گا راضی نہ ہو اور یہ دعا کرو کہ اے خدا! میں تو تبھی خوش ہوں گا جب تو مجھے پچاس کروڑ دے تو خدا تعالیٰ بھی تمہارے ساتھ اس کے مطابق سلوک کرے گا.پس تم اس بات پر فخر نہ کرو کہ تمہارے ذریعہ ایک یا دو آدمی احمدیت میں داخل ہو گئے ہیں بلکہ تم اُس وقت تک خوشی محسوس نہ کرو جب تک کہ تم ہزاروں بلکہ لاکھوں اور کروڑوں افراد کو احمدیت میں داخل نہ کرلو.تم دیکھو اللہ تعالیٰ کا یہ کتنا بڑا نشان ہے کہ آج سے پانچ سال پہلے اُس نے مجھے الہاما بتایا تھا کہ ”سندھ سے پنجاب تک دونوں طرف متوازی نشان دکھاؤں گا“.اُس نے یہ فقرہ مجھ جیسے کمزور انسان کے منہ سے جو نبی بھی نہیں نکلوایا اور پھر اُس نے اس الہام کو اس شان سے پورا کیا ج کہ دشمن بھی چلا اٹھا کہ یہ طوفانِ نوح کے طوفان کی طرح تھا.حضرت نوح علیہ السلام بہت بڑے نبی تھے.لیکن اس نے مجھ جیسے کمزور آدمی کے منہ سے وہی بات نکلوائی اور پھر اُسے پورا بھی کر دیا.یہ محض اُس کی دین ہے ورنہ اپنی ذات میں میں کچھ بھی نہیں.پھر تم یہ دعا بھی کرو کہ اللہ تعالیٰ آئندہ ہمارے ملک کو ایسے عذابوں سے محفوظ رکھے اور وہ اسے تباہ کرنے کی بجائے ترقی عطا فرمائے.کیونکہ جو ذات تباہ کر سکتی ہے وہ اسے بچا بھی سکتی ہے.

Page 224

$1955 214 خطبات محمود جلد نمبر 36 تم دعائیں کرو کہ اے خدا ! ہم تیری قدرتوں کو مانتے ہیں اور اُن پر یقین رکھتے ہیں لیکن تو عذابوں کے ذریعہ نہیں بلکہ اپنی رحمت کے ذریعہ اپنا چہرہ دکھا.بجائے اِس کے کہ تو ہمیں گناہ کرنے دے اور پھر پکڑے، تجھے یہ بھی طاقت حاصل ہے کہ تو ہمیں گناہ کرنے ہی نہ دے اور سارے ملک پر اپنے فضلوں کی بارش نازل کرے.کل میں نے ایک رؤیا دیکھا ہے جس کا میں اس وقت ذکر کر دینا چاہتا ہوں.اُس دن ایک عزیز کی طرف سے مجھے ایک پیغام آیا تھا جس کی وجہ سے مجھے خیال آتا ہے کہ کہیں اُسی سے مجھے یہ رویا نہ ہوا ہو.ویسے عام طور پر مجھے کسی خیال کے اثر کے نیچے رویا نہیں ہوتا بلکہ بعض دفعہ تو میں کسی امر کے متعلق کئی کئی دن تک سوچتا رہتا ہوں اور پھر بھی مجھے کوئی رؤیا دکھائی نہیں دیتا.بہر حال اُس دن ہماری ایک عزیز عورت ہمارے گھر آئیں اور انہوں نے کہا کہ مجھے فلاں عزیز نے آپ کو یہ پیغام پہنچانے کے لیے بھیجا ہے کہ آپ حقہ پیا کریں.اس سے آپ کو آرام آجائے گا.ہم اس پر ہنس پڑے کہ وہ خود کھنہ پیتا ہوگا تبھی اُسے یہ خیال آیا ہے.مجھے شبہ ہے کہ یہ رویا اس کے اثر کے نتیجہ میں نہ ہو.بہر حال میں نے رویا میں دیکھا کہ دو سگریٹ میرے ہاتھ میں ہیں.بعض غیر احمدی دوست بھی جب ملنے کے لیے آتے ہیں اور وہ سگریٹ پیتے ہیں تو جس طرح وہ سگریٹ کو ہلاتے ہیں تو وہ انگلیوں میں آجاتا ہے اُسی طرح اُن دونوں سگرٹوں میں سے ایک سگریٹ کو میں نے انگلیوں میں لے لیا اور اُسے دیا سلائی لگا کر کش لگایا اور اس کی ہوا باہر نکال دی.دوسرے سگریٹ کے متعلق مجھے معلوم نہیں کہ میں نے اُسے جلایا ہے یا نہیں جلایا.خواب میں عام طور پر تمبا کو یا حقہ دیکھنا بُراسمجھا جاتا ہے.لیکن چونکہ رویا میں میں نے سگریٹ پیا نہیں بلکہ صرف سُلگایا ہے اور پھر ایک کش لگا کر اُس کی ہوا باہر نکال دی ہے اس لیے امید ہے کہ اگر کوئی فکر والی بات بھی ہوئی تو اللہ تعالیٰ اُسے دور فرمادے گا.کیونکہ ہوا کا باہر نکال دینا بتا تا ہے کہ غم اور تشویش والی چیز کو میں نے تلف کر دیا ہے.پس اگر کوئی فکر والی بات بھی ہے تو اللہ تعالیٰ سے امید ہے کہ وہ اپنے فضل سے اُس کو دور فرما دے گا.بہر حال دعائیں کرو کہ اللہ تعالیٰ ہمارے ملک کے لوگوں پر رحم فرمائے اور وہ بارشوں کو

Page 225

$1955 215 خطبات محمود جلد نمبر 36 رحمت والی بارشیں بنائے.بارش رحمت والی بھی ہوتی ہے اور عذاب والی بھی تم دعائیں کرو کہ خدا تعالیٰ بارش کو رحمت والی بارش بنائے اور لوگوں کے دلوں کی رگر ہیں کھول دے.سب سے زیادہ وہ خود تمہارے دلوں کی گر ہوں کو کھولے تا کہ تم ایک ایک ہزار بلکہ ایک ایک لاکھ افراد کو احمدیت کی طرف لاؤ.تم صرف ایک احمدی بنالینے پر خوش نہ ہو جاؤ بلکہ اگر تم ایک احمدی بناؤ تو تم استغفار کرو کہ یہ میرے کسی گناہ کی وجہ سے ہوا ہے، مجھے تو سینکڑوں اور ہزاروں افراد کو احمدی بنانا چاہیے تھا.اس کے بعد میں جماعت کو پھر تحریک جدید کی طرف توجہ دلاتا ہوں.میں نے پچھلے خطبہ میں ایک نئے مشن کے لیے چندہ کی تحریک کی تھی.مگر ابھی تک صرف امریکہ والوں کی طرف سے جواب آیا ہے کہ ہم نئے مشن کے لیے اپنے حصہ کا تین ہزار روپیہ جلد پورا کرنے کی کوشش کریں گے.اسی طرح لجنہ اماءاللہ نے بھی کہا ہے کہ ہم اپنے حصہ کا روپیہ ادا کر دیں گی.ان دو کے علاوہ کی اور کسی کی طرف سے مجھے جواب موصول نہیں ہوا.پھر میں نے تحریک جدید کے متعلق کہا تھا کہ اب نئے سال کی تحریک کے لئے کسی لمبے خطبہ کی ضرورت نہیں.میں بیماری کی وجہ سے لمبا خطبہ نہیں دے سکتا.اس لیے جماعت کے دوست نومبر کے آخر تک کہ جن دنوں میں میں نئے سال کی تحریک کیا کرتا تھا انتظار نہ کریں بلکہ آج سے ہی اپنے وعدے لکھوانا شروع کر دیں.میرا یہ خطبہ الفضل میں شائع ہو چکا ہے.لیکن اس لیے کہ دوستوں کو غلط فہمی نہ ہو میں اس امر کی وضاحت کر دینا ضروری سمجھتا ہوں کہ میں نے یہ تحریک نہیں کی کہ اس سال ہر شخص لا ز ما ڈیوڑھا چندہ ادا کرے.جو شخص ایک روپیہ بھی ادا نہیں کر سکتا میں اُسے ڈیڑھ روپیہ دینے کی تحریک کیسے کر سکتا ہوں.میں جو کچھ کہتا ہوں وہ یہ ہے کہ اگر کسی شخص نے پچھلے سال مثلاً ایک سو روپیہ چندہ دیا تھا لیکن وہ اس سال 80 روپے دے سکتا ہے تو وہ بے شک 80 روپے ہی ادا کرے.ہم اُس پر ایسا بوجھ نہیں ڈالنا چاہتے جس کو وہ برداشت نہ کر سکے.لیکن اُس کا کوئی نہ کوئی دوست تو ہوگا ، کوئی نہ کوئی رشتہ دار یا ملنے جلنے والا تو ہوگا.اور اگر وہ مومن ہے تو اُس کا اپنے دوست یا رشتہ دار بر ضرور نیک اثر بھی ہوگا.وہ اُس دوست یا رشتہ دار کو تحریک جدید میں شامل کرے.اگر وہ خود سو روپیہ کی بجائے 80 روپے ادا کرتا ہے تو 70 روپے کا وعدہ اُس سے لکھوا دے.اس طرح یہ رقم

Page 226

$1955 216 خطبات محمود جلد نمبر 36 خود بخود ڈیوڑھی ہو جائے گی.اگر ساری جماعت اس طرح کرے تو چندہ تحریک جدید پچھلے سال کی نسبت یقیناً ڈیوڑھا ہو سکتا ہے.اور اگر جماعت کی تعدا د دگنی ہو جائے تو چندہ تحریک جدید پچھلے سال کی نسبت تکنا ہو جائے گا.بہر حال جماعت کے دوستوں کو کوشش کرنی چاہیے کہ وہ اس تحریک میں پہلے سے زیادہ حصہ لیں.اس کے علاوہ میں جماعت کے دوستوں کو اس امر کی طرف بھی توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ بعض لوگ دوسروں کو تبلیغ کرنے سے ڈرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ اس بارہ میں گورنمنٹ کی طرف سے ممانعت ہے.حالانکہ گورنمنٹ کا اعلان صرف سرکاری ملازمین کے ساتھ تعلق رکھتا ہے.چنانچہ اس بارہ میں گورنمنٹ نے جس قاعدہ کا اعلان کیا ہے اُس کا اردو تر جمہ یہ ہے کہ "سرکاری ملازمین کو اس امر کی ممانعت کی جاتی ہے کہ وہ فرقہ وارانہ تبلیغ کریں یا فرقہ وارانہ مباحثوں میں حصہ لیں یا اپنے فرقہ کے لوگوں کی رعایت اور جنبہ داری کریں.اگر سرکاری کی ملازمین نے اپنی سرکاری حیثیت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ان ہدایات کی خلاف ورزی کی یا اپنے ساتھیوں، ماتحتوں اور بیرونی لوگوں کے خیالات پر اثر انداز ہوئے تو اس کے نتیجہ میں وہ ملازمت سے برطرف کر دیئے جائیں گے." ان الفاظ سے ظاہر ہے کہ یہ قاعدہ صرف سرکاری ملازمین کے ساتھ تعلق رکھتا ہے عام لوگوں کے ساتھ اس کا کوئی تعلق نہیں.اور سرکاری ملازمین کا یہ فرض ہے کہ وہ اس حکم کی تعمیل کریں.آخر دنیا میں گورنمنٹ کو یہ حق حاصل ہوتا ہے کہ وہ اپنے ملازمین کے متعلق قانون بنائے.اور جب لوگ اُس کی ملازمت اختیار کرتے ہیں تو وہ عملاً اُس کے قوانین کی پابندی کا اقرار کرتے ہیں.پس جب حکومت نے سرکاری ملازمین کے متعلق ایک قاعدہ بنا دیا ہے تو تمام سرکاری ملازمین کو چاہیے کہ وہ اس کی اطاعت کریں.لیکن اس کا اُن لوگوں سے کیا تعلق ہے جو سرکاری ملازمت میں نہیں.اُن پر اس قسم کی کوئی پابندی نہیں.انہیں اپنے فرض کا احساس رکھنا چاہیے اور تبلیغ میں کبھی کوتاہی سے کام نہیں لینا چاہیے.مگر جیسا کہ میں بتا چکا ہوں تبلیغ بھی اُسی وقت مؤثر ہوگی جب تم دعاؤں سے کام لو گے اور اپنے اندر ایک نیک اور پاک تبدیلی پیدا کرو گے.

Page 227

خطبات محمود جلد نمبر 36 217 $1955 پس اپنے اندر تغیر پیدا کرو اور مالی اور جانی قربانی کی عادت ڈالو.کئی لوگ اس خیال میں مبتلا ہوتے ہیں کہ ہم دنیوی ملازمتیں کریں گے تو آمد زیادہ ہوگی اور اس طرح ہم چندہ بھی زیادہ مقدار میں دے سکیں گے.جن لوگوں کا یہ خیال ہوتا ہے اللہ تعالیٰ کی طرف سے اُنہیں دین کی خدمت کی توفیق ہی نہیں ملتی.احمدیت کے ایک فدائی خاندان کا ایک نو جوان واقف زندگی تھا.اُس نے یہ کہہ کر چھٹی لی کہ وہ باہر جا کر اعلیٰ تعلیم حاصل کرنا چاہتا ہے.اس کے بعد وہ پھر دین کی خدمت کے لیے آگے آجائے گا.میں جانتا تھا کہ یہ شخص وقف سے بھاگ رہا ہے.لیکن جھوٹے کو گھر تک پہنچانے کے لیے میں نے اُسے رخصت دے دی.جب میں انگلستان گیا تو مجھے معلوم ہوا کہ دنیا کمانے کے سوا اُس کی اور کوئی غرض ہی نہیں.انگلستان کے مبلغ نے مجھ سے شکایت کی کہ وہ چندہ ادا نہیں کرتا.جب میں نے اُسے ملامت کی تو اس نے کہا چھیلی غلطی معاف کر دیں آئندہ کے لیے میں باقاعدہ چندہ ادا کروں گا.اور بقایا کی ادائیگی کے لیے اُس نے فوراً ایک چیک لکھ کر دے دیا.اب ہمارے مبلغ کا خط آیا ہے کہ جب ہم بنک کے پاس وہ چیک لے کر گئے تو معلوم ہوا کہ وہ اپنا سارا روپیہ نکلوا کر خرچ کر چکا ہے.اب تم دیکھ لو کہ اُس شخص کا یہ خیال کس قدر جھوٹا تھا کہ وہ مزید تعلیم حاصل کرنے کے بعد دین کی خدمت کے لیے آجائے گا.رسول کریم ﷺ کی زندگی کا ہر لحہ اسلام کی خدمت کے لیے وقف تھا.آپ نے یہ کبھی نہیں کہا کہ میں فلاں تعلیم حاصل کرلوں تب میں اسلام کی خدمت کروں گا.پھر میں کیسے مان لوں کہ کوئی شخص اپنے اس قول میں سچا ہے کہ میں پہلے بیرسٹر بن لوں تب دین کی خدمت کروں گا.وہ شخص اپنے قول میں یقیناً جھوٹا ہے.مگر یا درکھو یہ چیز بھی خدا تعالیٰ کے فضل کے ساتھ تعلق رکھتی ہے.اپنے زور سے حاصل نہیں ہوسکتی.میں اپنے گھر میں دیکھتا ہوں کہ میاں بشیر احمد صاحب نے شروع سے ہی اپنی زندگی دین کی خدمت کے لیے وقف کی ہوئی ہے.ایم اے کرنے کے بعد وہ اب تک دین کی خدمت میں لگے ہوئے ہیں.اور شروع دن سے ہی انہوں نے میرے ساتھ کام کیا ہے.میاں شریف احمد صاحب بھی میرے بھائی ہیں لیکن انہوں نے دین کی خدمت کی طرف کم توجہ کی ہے.وہ دین کی خدمت سے بھاگے تو نہیں.جو کام انہیں دیا گیا وہ سرانجام دیتے رہے لیکن میاں بشیر احمد صاحب کی طرح

Page 228

خطبات محمود جلد نمبر 36 218 $1955 انہوں نے اپنی زندگی دین کی خدمت کے لیے وقف نہیں کی.لیکن خدا تعالیٰ کا فعل دیکھو.جہاں میاں بشیر احمد صاحب کی اولاد کو دین کی طرف توجہ نہیں وہاں میاں شریف احمد صاحب کی اولاد میں دین کی خدمت کا جذبہ پایا جاتا ہے اور وہ احمدیت کے لیے ایک ننگی تلوار ہیں.ان کے لڑکوں میں سے ایک تو تجارتی کمپنی میں کام کرتا ہے اور باقی لڑ کے دوسرے کام کرتے ہیں.لیکن جہاں تک میرا اعلم ہے وہ جس جس جگہ بھی کام کرتے ہیں محبت اور پیار سے دوسروں کو حق پہنچاتے ہیں.اور جہاں قانون کی اجازت کے ماتحت وہ مقامی انجمنوں کی امداد کر سکتے ہیں وہاں اُن کے ساتھ شامل ہو کر انہیں صحیح طور پر چلانے کی کوشش کرتے ہیں اور فتنوں کو دور کرنے میں حصہ لیتے ہیں.میاں بشیر احمد صاحب کا صرف ایک بیٹا تبلیغ کی طرف توجہ رکھتا ہے اور وہ منیر احمد ہے.بچپن میں تو ہم اسے کمزور خیال کرتے تھے لیکن اب میں سمجھتا ہوں کہ وہ احمدیت کی تبلیغ کرنے والا نوجوان ہے.پس دین کی خدمت کی توفیق بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہی ملتی ہے ورنہ نہیں.اسی لیے میں نے واقفین زندگی کو تحریک کی ہے کہ وہ رات دن دعاؤں میں لگے رہیں.کیونکہ جب تک عمل کی توفیق نہ ملے خالی قول مفید نہیں ہوتا.ہم دیکھتے ہیں کئی واقفین زندگی وقف سے بھاگ جاتے ہیں اور پھر کہتے ہیں ہمیں معاف کر دیں، اب ہم دین کی خدمت سے نہیں بھاگیں گے.لیکن کچھ دیر خدمت کرنے کے بعد وہ پھر بھاگ جاتے ہیں.بے شک تو بہ کا دروازہ ہر وقت کھلا ہے اور کوئی شخص کسی کو تو بہ کرنے سے نہیں روک سکتا.مگر دنیا کی محبت انسان کو بعض دفعہ تو بہ کا موقع بھی نہیں دیتی.قرآن کریم کہتا ہے کہ خدا تعالیٰ انسان کے سارے گناہ معاف کر دیتا ہے Z.اگر کوئی شخص کسی نبی کو گالیاں دیتا ہے لیکن پھر تو بہ کر لیتا ہے تو خدا تعالیٰ اُسے بھی معاف کر دیتا ہے.پھر وقف تو ڑ نا کونسا ایسا گناہ ہے کہ وہ خدا تعالیٰ معاف نہیں کر سکتا ؟ یقیناً وہ یہ گناہ بھی معاف کر سکتا ہے.لیکن حقیقت یہ ہے کہ گوتو بہ کا دروازہ ہر وقت گھلا ہے لیکن جب انسان گناہ کرتا ہے تو اُس کے دل پر زنگ لگ جاتا ہے جس کی وجہ سے اُس کے لیے تو بہ کرنا مشکل ہو جاتا ہے.اسی لیے میں نے واقفین زندگی سے کہا ہے کہ وہ دعاؤں کی عادت ڈالیں.اور جماعت سے میں کہتا ہوں کہ وہ اپنی اپنی جگہوں پر تحریک جدید کے نئے سال کے

Page 229

خطبات محمود جلد نمبر 36 219 $1955 وعدے لکھوائیں.کراچی کی جماعت اول تو ایک ایک ماہ تک وعدوں کے متعلق کوئی اطلاع ہی نہیں بھیجتی اور اگر ایک ماہ کے بعد اُن کا کوئی خط آتا ہے تو یہ کہ وہ اگلے سال کا چندہ وصول کر رہے ہیں.حالانکہ امام کی اطاعت ہی اصل چیز ہے.امام اگر وعدے لکھوانے کے لیے کہتا ہے تو چندہ کی وصولی بھی بے شک کرو لیکن زیادہ زور وعدوں کے لکھوانے پر دو.ویسے جماعت کراچی مخلصین کی جماعت ہے.جماعت کے امیر چودھری عبداللہ خان صاحب کو اللہ تعالیٰ نے احمدیت کے لیے اخلاص بخشا ہے اور ان پر مزید فضل یہ کیا ہے کہ انہیں عمدہ نائبین عطا کیے ہیں.جب بھی ہمیں جماعت احمد یہ کراچی سے کوئی کام ہوتا ہے تو انہیں صرف تار یا چھٹی بھیج دینا ہی کافی ہوتا ہے.تار یا چٹھی کے پہنچتے ہی وہ دیوانہ وار اس کام میں لگ جاتے ہیں.پس میں امید کرتا ہوں کہ وہ اِس سال پچھلے سال کی طرح غلطی نہیں کریں گے.وہ وعدوں کی وصولی بے شک کریں لیکن زیادہ زور پہلے وعدے لکھوانے پر دیں.میں تحریک جدید کے نئے سال کا اعلان ہمیشہ نومبر کے آخر میں کیا کرتا تھا.لیکن اس دفعہ میں نے اس کا ابھی سے اعلان کر دیا ہے.جماعتیں کوشش کریں کہ نومبر کے آخر تک اکثر دوستوں سے وعدے لکھوا لیں.گزشتہ سالوں میں چونکہ یہ طریق رائج رہا ہے کہ وعدے مارچ کے مہینہ تک قبول کئے جاسکتے ہیں اس لیے جو کمی رہ جائے گی وہ دسمبر کے مہینہ یا اس کے بعد بھی پوری ہو جائے گی.مگر یہ کوشش کرنی چاہیے کہ وعدے ڈیوڑھے ، دوگنے، چار گنے بلکہ پانچ گنے ہو جائیں.اگر ہر سال جماعت بڑھتی چلی جائے تو یہ کوئی مشکل امر نہیں.میں سمجھتا ہوں دوست اگر ایمان اور اخلاص سے وعدے لکھوائیں گے تو اللہ تعالیٰ انہیں اپنے وعدوں کے پورا کرنے کی توفیق عطا فرما دے گا.بلکہ دوسرے لوگ بھی اِس کام میں جماعت کی مدد کریں گے.میں نے بہت دفعہ دیکھا ہے کہ بعض غیر احمدی بھی اسلام کی خدمت کے لیے بڑی لجاجت سے چندہ دیتے ہیں.اُن کے دلوں میں بھی ایمان ہوتا ہے اس لیے جب وہ اسلام کی خدمت کے متعلق کوئی اسکیم سنتے ہیں تو وہ اس میں مدد دینے کے لیے فوراً تیار ہو جاتے ہیں.پس دوسرے لوگوں میں بھی اِس چندہ کی تحریک کرو.اور پھر دعائیں کرو.خصوصاً واقفین زندگی دعاؤں کی عادت ڈالیں تا خدا تعالیٰ انہیں بھی ایمان دے اور باقی لوگوں کا بھی حوصلہ بڑھائے.پھر ہر ایک مبلغ یہ عہد کرے کہ وہ سال میں ایک احمدی بنالینے پر فخر نہیں کرے گا بلکہ وہ کوشش کرے

Page 230

$1955 220 خطبات محمود جلد نمبر 36 گا کہ سینکڑوں نہیں ہزاروں افراد احمدیت میں داخل ہوں.اگر وہ ایک احمدی بنالینے پر فخر کرے گا تو وہ بے ایمان ہوگا.میں دیکھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کا مجھ پر بہت بڑا احسان ہے.جب بھی مجھے کوئی ضرورت پیش آئی ہے اُس نے اُسے غیب سے پورا کیا ہے.میں نے کسی سے کبھی مانگا نہیں.ہاں اگر کوئی خوشی سے کوئی چیز پیش کرتا ہے تو میں اُسے لے لیتا ہوں.ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ بچپن میں میں گھر سے باہر نکلا تو ایک دوست نے میرے ساتھ مصافحہ کرنے کے لیے ہاتھ بڑھایا.میں نے بھی اُس کی طرف ہاتھ بڑھا دیا.اُس نے میرے ہاتھ پر ایک چونی رکھ دی.میں نے اس میں بڑی ذلت محسوس کی.اور میں نے بڑبڑا کر کہا میں یہ چونی نہیں لیتا اور گھر کی طرف بھاگ گیا.گھر جا کر میں نے یہ واقعہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے بیان کیا.آپ نے مجھے رسول کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی ایک حدیث سنائی کہ مَا أُعْطِيتَ بِغَيْرِ اسْتِشْرَافِ نَفْسِكَ فَخُذْهُ بَارَكَ اللهُ لَكَ 8 یعنی جو کوئی تجھے بغیر سوال کرنے کے کچھ دے تو اُسے قبول کرلے.اللہ تعالیٰ اس میں برکت دے گا.اور فرمایا یہاں چونی کا سوال نہیں.اللہ تعالیٰ نے مجھے الہام بتایا ہے کہ وہ لوگوں کو وحی کرے گا کہ وہ میری مدد کریں 9.چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ہی اُس شخص کو وحی کی تھی اور وہ یہاں آیا تھا.اس لیے تم نے اُس چونی کے لینے سے کیوں انکار کیا ؟ تم کو تو اُس چونی کی قدر کرنی چاہیے تھی.پس جب انسان خدا تعالیٰ کی طرف جھکتا ہے اور اُس سے رات دن دعائیں مانگتا ہے تو خدا تعالیٰ دلوں کی کھڑکیاں کھول دیتا ہے.پس تم دعائیں مانگولوگوں کے دلوں کی کھڑکیاں خود بخود کھل جائیں گی.پھر سینکڑوں نہیں لاکھوں اور کروڑوں افراد ہر سال احمدیت میں داخل ہوں گے.یوں تو دوسرے لوگ ہم پر اعتراض کرتے ہیں.لیکن واقع یہ ہے کہ ہم افریقہ ، امریکہ اور دوسرے تمام ممالک میں غیر مسلموں کو مسلمان بنا رہے ہیں اور انہیں رسول کریم ﷺ کی امت میں شامل کر رہے ہیں.اس کے بعد جو شخص احمدیت کو سمجھ لیتا ہے وہ ہمارے عقائد بھی اختیار کر لیتا ہے.ورنہ جو شخص یہ کہتا ہے کہ اُسے احمدیت کی تو سمجھ نہیں آئی ہاں اسلام کی سمجھ آگئی ہے اُسے ہم یہی کہتے ہیں کہ تم مسلمان ہو جاؤ.پھر احمدیت سمجھ آ جائے تو اسے قبول کر لینا.اور اگر سمجھ نہ آئے تو بے شک اُسے قبول نہ کرنا.ہماری غرض تو صرف یہی ہے کہ لوگ اسلام میں داخل ہو جائیں.

Page 231

$1955 221 خطبات محمود جلد نمبر 36 بعض دفعہ پاکستان اور ہندوستان سے بھی اس قسم کے خطوط آجاتے ہیں کہ ہمیں احمدیت کی سمجھ نہیں آئی.ہاں اسلام کی سمجھ آگئی ہے.کیا آپ ہمیں اسلام میں داخل کر سکتے ہیں؟ اور ہم انہیں یہی لکھتے ہیں کہ آپ بڑی خوشی سے اسلام قبول کر لیں.احمدیت کا قبول کرنا ایک ضمنی بات ہے اصل چیز اسلام ہے.اگر لاکھوں اور کروڑوں اشخاص اسلام میں داخل ہو جائیں تو وہی لوگ احمدیت کے بھی دست و بازو ثابت ہو سکتے ہیں.پس تبلیغ کو وسیع کرو اور لاکھوں افراد کو اسلام میں داخل کرنے کی کوشش کرو.یہی مقصد ہے جس کے لیے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے بھیجا گیا ہے." 1 تذکرہ صفحہ 65 ایڈیشن چہارم 29,284 28 :3 تذکرہ صفحہ 312 ایڈیشن چہارم :48 تذکرہ صفحہ 653 ایڈیشن چہارم (الفضل 4/نومبر 1955ء) :5 الفضل 29 مارچ 1951 ، صفحہ 3 الفضل 4 نومبر 1955 ، صفحہ 4 ( رؤیا کشوف سیدنا محمود صفحه 472) الصحيح البخاری کتاب التوحيد باب قول الله تعالى يُرِيدُونَ أَنْ يُبَدِّ لُوْا كَلَامَ الله قُلْ يُعِبَادِيَ الَّذِينَ أَسْرَفُوا عَلَى أَنْفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوا مِنْ رَّحْمَةِ اللَّهِ إنَّ اللهَ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِيعًا إِنَّهُ هُوَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ الزمر : 54 بخارى كتاب الزكوة باب من اعطاه الله شيئًا من غير مسألة میں ” اذا جاءک من هذا المال شَيءٌ و أنت غيرُ مُشْرِفٍ ولا سائلٍ فَخُذْهُ “ کے الفاظ ہیں.9: تذکرہ صفحہ 50 ایڈیشن چہارم

Page 232

$1955 222 31 خطبات محمود جلد نمبر 36 قرآن کریم اور حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کے الہامات دونوں آنحضرت ﷺ کو خاتم النبین قرار دیتے ہیں فرموده 4 /نومبر 1955ء بمقام ربوہ) الله تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور نے مندرجہ ذیل آیت قرآنیہ کی تلاوت فرمائی.مَا كَانَ مُحَمَّدٌ اَبَا أَحَدٍ مِنْ رِجَالِكُمْ وَلَكِنْ رَّسُولَ اللهِ وَخَاتَمَ النَّبِيَّن 1 اس کے بعد فرمایا." قرآن کریم میں رسول کریم ﷺ کے جہاں اور بہت سے نام آئے ہیں وہاں آپ کا ایک نام خاتم النبین بھی آیا ہے.اور گوخاتم النبین کی مختلف تاویلیں کی جاتی ہیں لیکن لفظ خاتم النبین پر تمام مسلمانوں کا اتفاق ہے.اور ہم بھی رسول کریم ﷺ کو سچے دل سے خاتم النبین تسلیم کرتے ہیں.بلکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے تو یہاں تک لکھا ہے کہ جو شخص ختم نبوت کا منکر ہو اُس کو میں ” بے دین اور دائرہ اسلام سے خارج سمجھتا ہوں 2.لیکن پچھلے دنوں جب ہماری جماعت کے خلاف ملک میں شورش پیدا ہوئی تو ہم پر یہ الزام لگایا گیا کہ ہم رسول کریم ﷺ کو نعوذ باللہ خاتم النبین نہیں مانتے.ہم نے متواتر اس بات پر زور دیا کہ ہم قرآن کریم پر ایمان رکھتے ہیں.اور جب قرآن کریم میں رسول کریم ﷺ کو خاتم النبین قرار دیا گیا ہے تو ہم آپ کے -

Page 233

$1955 223 خطبات محمود جلد نمبر 36 خاتم النبین ہونے سے کیسے انکار کر سکتے ہیں.اگر یہ بات صرف حدیث میں آتی تو گو ہم حدیثوں پر بھی ایمان رکھتے ہیں لیکن کہنے والا کہہ سکتا تھا کہ چونکہ یہ بات قرآن کریم میں نہیں آئی اس لیے رسول کریم ﷺ کے خاتم النبین ہونے پر تم یقین نہیں رکھتے.لیکن یہ لفظ تو قرآن کریم میں آیا ہے.پس جو شخص رسول کریم ﷺ کو خاتم النبین نہیں مانے گا وہ دوسرے الفاظ میں قرآن کریم کو بھی نہیں مانے گا.لیکن ہم تو قرآن کریم پر ایمان رکھتے ہیں.پھر یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ رسول کریم ﷺ کو خاتم النبین یقین نہ کریں.لفظ خاتم النبین کی تشریح میں اختلاف ہوسکتا ہے لیکن رسول کریم ﷺ کو خاتم النبین یقین کرنے میں کوئی اختلاف نہیں ہوسکتا.ہر شخص جو قرآن کریم کو مانتا ہے لازماًوہ آپ ﷺ کو خاتم النبین بھی مانے گا.صلى الله صل الله جب ہماری جماعت کے افراد معترضین کو یہ جواب دیتے تھے تو وہ کہتے تھے کہ تم قرآن کریم کو بھی نہیں مانتے.تم تو مرزا صاحب ( علیہ الصلوۃ والسلام ) کے الہامات کو قرآن کریم سے افضل سمجھتے ہو.حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ ہم آپ کے الہامات کو قرآن کریم کے تابع سمجھتے ہیں اور انہیں قرآن کریم کا خادم قرار دیتے ہیں.جیسے مرزا صاحب علیہ الصلوۃ والسلام محمد رسول اللہ ہے کے خادم ہیں اسی طرح آپ کے الہامات قرآن کریم کے خادم ہیں.انہیں کوئی علیحدہ اور مستقل حیثیت حاصل نہیں.چنانچہ آپ نے اپنی کتابوں میں صاف طور پر لکھا ہے کہ " اگر میں آنحضرت ﷺ کی امت نہ ہوتا اور آپ کی پیروی نہ کرتا تو اگر دنیا کے تمام پہاڑوں کے برابر میرے اعمال ہوتے تو پھر بھی میں کبھی یہ شرف مکالمہ و مخاطبہ ہرگز نہ پا تا 3 پس جس طرح یہ بات سچ ہے کہ حضرت مرزا صاحب محمد رسول اللہ ﷺ کے خادم اور غلام ہیں اسی طرح یہ بات بھی سچ ہے کہ اگر کوئی شخص حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الہامات کو قرآن کریم کا مخالف یا اسے رد کرنے والا سمجھتا ہے تو وہ احمدیت اور اسلام سے خارج ہے.بہر حال یہ بات گوانتہائی غیر معقول تھی لیکن کہا جاتا تھا کہ ہم حضرت مرزا صاحب کے الہامات کو نعوذ باللہ قرآن کریم پر مقدم خیال کرتے ہیں اور قرآن کریم کو محض دکھاوے کے طور پر مانتے ہیں.حالانکہ اگر اُن کا یہ اعتراض سچا ہے تو پھر ہم بیرونی ممالک میں جا کر اسلام کی اشاعت کے لیے کیوں تکالیف اٹھارہے ہیں ؟ اگر رسول کریم علی اور قرآن کریم پر ہم بچے طور پر ایمان نہیں لاتے تو ہم اسلام کو پھیلانے کے لیے دوسرے ممالک

Page 234

$1955 224 خطبات محمود جلد نمبر 36 نہیں میں کیوں جاتے ہیں؟ ہمارا بیرونی ممالک میں اسلام پھیلانا بتاتا ہے کہ ہم اسلام اور محمد رسول اللہ علیہ پر سچا ایمان رکھتے ہیں.لیکن بہر حال جب دشمن عداوت میں بڑھ جاتا ہے تو وہ مخالفت میں معقولیت کو نظر انداز کر دیتا ہے.انہوں نے ہم پر الزام لگایا کہ ہم قرآن کریم کو نہیں مانتے اور مرزا صاحب کو محمد رسول اللہ اللہ سے افضل سمجھتے ہیں.حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ ہم اس قسم کے عقیدہ کو کفر کا موجب سمجھتے ہیں کہ کسی شخص کو رسول کریم ﷺ سے افضل سمجھا جائے یا اُس کی وحی کو قرآن کریم سے برتر قرار دیا جائے.قرآن کریم تو مضامین کا ایک سمندر ہے.ہماری ساری تمدنی ضرورتیں قرآن کریم سے پوری ہوتی ہیں.ہماری ساری معاشی ضرورتیں قرآن کریم سے پوری ہوتی ہیں.ہماری ساری عائلی ضرورتیں قرآن کریم سے پوری ہوتی ہیں.ہماری ساری عقلی ضرورتیں قرآن کریم سے پوری ہوتی ہیں.ہماری ساری سیاسی ضرورتیں قرآن کریم سے پوری ہوتی ہیں.ہماری ساری اخلاقی ضرورتیں قرآن کریم سے پوری ہوتی ہیں.ہماری ساری روحانی ضرورتیں قرآن کریم سے پوری ہوتی ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الہامات قرآن کریم کا قائم مقام نہی ہو سکتے.اگر کوئی شخص نَعُوذُ بِاللهِ مِنْ ذَالِكَ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے الہامات قرآن کریم سے افضل یا اس کو رد کرنے والا مانے تو وہ قرآن کریم کی ان ساری تعلیموں کو آپ کے الہامات سے نہیں نکال سکتا.گویا اگر کسی شخص کا فی الواقع یہ عقیدہ ہو کہ آپ کے الہامات نعوذ باللہ قرآن کریم کے قائم مقام ہیں تو وہ اُن ساری برکتوں سے محروم ہو جائے گا جو قرآن کریم سے حاصل ہوتی ہیں.آپ کے الہامات قرآن کریم کی تشریح ہیں اور قرآن کریم کی بعض منطقی باتیں جو آسانی سے سمجھ میں نہیں آسکتیں آپ کے الہامات کی روشنی میں سمجھ آ جاتی ہیں.لیکن اگر ہم یہ سمجھیں کہ قرآن کریم کے سارے مضامین ان الہامات سے نکل آئیں گے تو یہ بالکل احمقانہ بات ہوگی.قرآن کریم ایک جامع اور کامل اور تمام الہامی کتب سے افضل کتاب ہے اور مرزا صاحب کے الہامات قرآن کے خادم ہیں.اس لیے قرآن کریم میں تو سارے اخلاقی ، روحانی عقلی ،سیاسی ، معاشی ، اقتصادی اور ایمانی مضامین آگئے ہیں.لیکن حضرت مرزا صاحب کے الہاموں میں یہ تمام مضامین بیان نہیں کئے گئے.کیونکہ آپ کو الہام کرنے والا خدا جانتا تھا کہ یہ

Page 235

خطبات محمود جلد نمبر 36 225 $1955 تمام مضامین قرآن کریم میں آچکے ہیں اس لیے اب اُنہیں دہرانے کی ضرورت نہیں.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ آپ کے الہامات میں بھی کئی اہم باتیں بیان کی گئی ہیں.لیکن وہ قرآن کریم سے زائد نہیں بلکہ اس کی تشریح کے طور پر ہیں.پس اگر کوئی شخص یہ سمجھتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے الہامات قرآن کریم کے قائم مقام ہیں تو وہ اُن ساری برکتوں کی سے محروم ہو جائے گا جو قرآن کریم سے حاصل ہوتی ہیں.نہ اس کے پاس سیاسی راہ نمائی رہے گی، نہ عقلی راہ نمائی رہے گی ، نہ اقتصادی اور معاشی راہ نمائی رہے گی.وہ اسی طرح ٹامک ٹویئے مارتا پھرے گا جیسے قرآن کریم پر ایمان نہ لانے والے لوگ ٹامک ٹویئے مارتے پھرتے ہیں.اور اگر وہ ان راہ نمائیوں کے لیے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے الہامات سے باہر جائے گا تو وہ آپ ہی اپنے عقیدہ کو چھوڑنے والا ہوگا.کیونکہ وہ سمجھتا تھا کہ ہر قسم کی راہ نمائی آپ کے الہامات میں پائی جاتی ہے.لیکن جب وہ یہ کہے گا کہ میں معاشی راہ نمائی کے لیے قرآن کریم کا محتاج ہوں ، جب وہ یہ کہے گا کہ میں سیاسی راہ نمائی کے لیے قرآن کریم کا محتاج ہوں ، جب وہ یہ کہے گا کہ میں روحانی اور عقلی راہ نمائی کے لیے قرآن کریم کا محتاج ہوں ، جب وہ یہ کہے گا کہ میں تمدنی اور عائلی راہ نمائی کے لیے قرآن کریم کا محتاج ہوں.تو وہ خود اس بات کا اقرار کرے گا کہ یہ ساری باتیں قرآن کریم میں پائی جاتی ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے الہامات میں نہیں پائی جاتیں.پس یہ بات بالکل غلط ہے کہ ہم حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کے الہامات کو قرآن کریم پر ترجیح دیتے ہیں.ہم جس طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو محمد رسول اللہ کا خادم اور غلام سمجھتے ہیں اسی طرح ہم آپ کے الہامات کو بھی قرآن کریم کا خادم یقین کرتے ہیں.جس طرح خادم اپنے آقا کی چیزوں کی صفائی کرتا ہے اور ان کی نگرانی کرتا ہے اسی طرح قرآن کریم پر مسلمانوں نے اپنی غلط تشریحات کی وجہ سے جو گرد و غبار ڈال دی تھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے الہامات اس گرد و غبار کو صاف کرتے ہیں.لیکن کیا کوئی غلام اپنے آقا کی چیزوں کو اپنی طرف منسوب کر سکتا ہے؟ یا وہ اپنے آپ کو اس سے افضل قرار دے سکتا ہے؟ اُس کا کام تو اپنے آقا کے کپڑوں کو صاف کرنا ، انہیں سنبھال کر رکھنا ، جوتے پالش کرنا

Page 236

$1955 226 خطبات محمود جلد نمبر 36 اور دوسری خدمات بجالا نا ہوتا ہے.اسی طرح حضرت مرزا صاحب کے الہاموں کا ایک خادم کی حیثیت میں یہ کام ہے کہ وہ قرآن کریم کے معانی کو محفوظ رکھیں اور وہ گرد و غبار جو قرآن کریم پر پڑ گیا ہے اُسے صاف کریں.یہ گرد و غبار قرآن کریم کا حصہ نہیں بلکہ لوگوں نے اپنے غلط خیالات کی وجہ سے قرآن کریم کے معانی پر ڈال دیا ہے.پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے الہامات قرآن کریم کے خادم ہیں اور ان کا کام اس سے گردو غبار کو دور کرنا ہے.ان کی حیثیت شروع سے ہی قرآن کریم کے خادم کی سی ہے اور آئندہ بھی ہمیشہ ان کی یہی حیثیت رہے گی.لیکن چونکہ مخالفین ہم پر یہ الزام لگاتے تھے کہ ہم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے الہامات کو قرآن کریم پر ترجیح دیتے ہیں اور محمد رسول اللہ ﷺ کو خاتم النبین نہیں سمجھتے اس لیے میری توجہ اس طرف پھری کہ میں اس بات کی تحقیق کروں کہ آیا آپ کے الہامات میں بھی محمد رسول اللہ ﷺ کو خاتم التین قرار دیا گیا ہے یا نہیں ؟ چنانچہ میں نے تحقیقات کی تو معلوم ہوا کہ تذکرہ میں تین دفعہ یہ الہام درج ہے کہ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَالِ حَمَّدٍ سَيِّدُ وُلْدِادَمَ وَخَاتَمَ النَّبِيِّنَ 4 یعنی محمد رسول الله ﷺ پر درود بھیجو جو تمام بنی آدم کے سردار اور خاتم النبین ہیں.اب اگر معترضین کا یہ اعتراض درست ہے کہ ہم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی وحی کو قرآن کریم پر ترجیح دیتے ہیں تو اگر ہم محمد رسول اللہ ﷺ کو خاتم العین نہیں مانتے تو اپنے عمل سے ہم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو جھوٹا قرار دیتے ہیں.کیونکہ ایک طرف تو ہم معترضین کے قول کے مطابق آپ کو محمد رسول اللہ ﷺ سے بھی بڑا اور افضل قرار دیتے ہیں اور دوسری طرف آپ کے الہام کو جھوٹا سمجھتے ہیں.اور اگر ہم حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کی وحی کو قرآن کریم سے افضل قرار نہیں دیتے بلکہ انہیں قرآن کریم کے خادم کے طور پر تسلیم کرتے ہیں تو پھر اس بات میں بھی کوئی شک نہیں رہتا کہ ہمارے اپنے عقیدہ کی رُو سے بھی محمد رسول اللہ ﷺ خاتم النبین ہیں.کیونکہ مرزا صاحب کے الہامات میں بھی محمد رسول اللہ ﷺ کو خاتم النبین قرار دیا گیا ہے.غور کرو کہ یہ کتنی واضح بات ہے.اگر ہم اس بات میں بچے ہیں کہ قرآن کریم اصل ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کے الہامات اس کے تابع ہیں تو جب قرآن کریم کہتا ہے کہ محمد رسول اللہ ﷺ خاتم النبین ہیں تو ہم آپ کے خاتم النبین ہونے سے کس طرح انکار کر سکتے ہیں.

Page 237

خطبات محمود جلد نمبر 36 227 $1955 اور اگر ہمارے مخالفین اپنے اس قول میں بچے ہیں کہ ہم قرآن کریم پر حضرت مرزا صاحب کی وحی کو مقدم سمجھتے ہیں تب بھی یہ کس طرح ممکن ہو سکتا ہے کہ ہم محمد رسول اللہ ﷺ کو خاتم العین نہ مانیں کیونکہ حضرت مرزا صاحب کے الہامات میں آپ کو خاتم النبین کہا گیا ہے.غرض اگر ہم محمد رسول اللہ ﷺ کو خاتم النبین یقین نہ کریں تو ہم نہ صرف قرآن کریم کی تکذیب کرتے ہیں بلکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے الہامات کی بھی تکذیب کرتے ہیں.گویا اگر ہم اپنے قول میں بچے ہیں تب بھی ہم محمد رسول اللہ ﷺ کو خاتم النبین مانتے ہیں اور اگر معترضین کا اعتراض درست ہے تب بھی ہم آپ کو خاتم النبین مانتے ہیں.کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی وحی میں بھی رسول کریم ﷺ کو خاتم النبین قرار دیا گیا ہے اور قرآن کریم میں بھی آپ کو خاتم النبین قرار دیا گیا ہے.غرض چاہے ہم کو سچا قرار دیا جائے یا معترضین کو اُن کے قول میں سچا سمجھ لیا جائے دونوں صورتوں میں یہ ماننا پڑے گا کہ ہم محمد رسول اللہ ﷺ کو خاتم النبین مانتے ہیں.ہمارے سچا ہونے کی صورت میں قرآن کریم میں آپ کو خاتم النبین کہا گیا ہے جس سے ہم انکار نہیں کر سکتے.اور مخالفین کے سچا ہونے کی صورت میں مرزا صاحب کے الہامات میں بھی آپ کو خاتم النبین کہا گیا ہے جس سے ہم انکار نہیں کر سکتے.پھر دوسرے لوگوں کو تو بھاگنے کی کوئی گنجائش بھی مل سکتی ہے.جیسے بہائی بھی رسول کریم ﷺ کو خاتم النبین مانتے ہیں لیکن ساتھ ہی اُن کا یہ عقیدہ ہے کہ آپ کے بعد کوئی نبی تو نہیں آئے گا ہاں خدا آ جائے گا.چنانچہ اسی وجہ سے وہ بہاء اللہ کی الوہیت کے قائل ہیں.لیکن ہم تو کوئی اور راہ اختیار ہی نہیں کر سکتے.اگر ہم رسول کریم کو خاتم النبین یقین نہیں کرتے تو ہم قرآن کریم کا بھی انکار کرتے ہیں اور حضرت مرزا صاحب کے الہامات کا بھی انکار کرتے ہیں.پس یہ ثابت شدہ حقیقت ہے کہ کوئی ایماندار احمدی یہ گمان تک نہیں کر سکتا کہ محمد رسول اللہ خاتم النبین نہیں تھے.اگر ہم قرآن کریم کی طرف جاتے ہیں تو اس میں بھی آپ کو خاتم النبین کہا گیا ہے اور اگر ہم حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کے الہامات کی طرف جاتے ہیں تو اُن میں بھی آپ کو خاتم القبین کہا گیا ہے.پھر اگر ہم آپ کی تحریروں کو دیکھتے ہیں تو اُن میں بھی بار بار آپ کو خاتم التمہین کہا گیا ہے.پھر کوئی سچا احمدی آپ کے خاتم النبین ہونے میں کس طرح شبہ کر سکتا

Page 238

$1955 228 خطبات محمود جلد نمبر 36 صلى الله ہے.جدھر بھی کوئی جائے اُسے یہی آواز آئے گی کہ محمد رسول الله له خاتم النبین ہیں.قرآن کریم سے بھی یہی آواز آتی ہے کہ آپ خاتم النبین ہیں اور حضرت مرزا صاحب کے الہامات اور تحریروں سے بھی یہی آواز آتی ہے کہ آپ خاتم النبین ہیں.پس ایک احمدی کے لیے آپ کو خاتم النبین ماننے کے سوا اور کوئی چارہ ہی نہیں.سوائے اس کے کہ وہ خود اپنی قبر کھود کر اپنی روحانی موت کا اعلان کر دے.ورنہ اسے اپنی زندگی کے ہر لمحہ میں آپ کو خاتم النبین ماننا پڑے گا.کیونکہ قرآن کریم اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے الہامات دونوں آپ کو خاتم النبین قرار دیتے ہیں.اور وہ قرآن کریم پر ایمان رکھتے ہوئے بھی آپ کے خاتم النبین ہونے سے انکار نہیں کر سکتا اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے الہامات پر ایمان رکھتے ہوئے بھی آپ کے خاتم النبین ہونے سے انکار نہیں کر سکتا.میں اس موقع پر جماعت کے دوستوں سے یہ بھی کہنا چاہتا ہوں کہ انہیں ہر وقت ہوشیار رہنا چاہیے گو معترض ہم پر غلط اعتراض کرتے ہیں کہ ہم رسول کریم ﷺ کو خاتم النبین نہیں سمجھتے.ہم قرآن کریم پر ایمان رکھتے ہیں اور قرآن کریم محمد رسول اللہ ﷺ کو خاتم النبین قرار دیتا ہے.ہم حضرت مرزا صاحب کے الہامات کو سچا سمجھتے ہیں اور حضرت مرزا صاحب کے الہامات بھی محمد رسول اللہ ﷺ کو خاتم القین قرار دیتے ہیں.لیکن ممکن ہے پچاس ساٹھ یا سو سال کے بعد کوئی بیوقوف احمدی ایسا پیدا ہو جو رسول کریم ﷺ کے اس بلند مقام کے بارہ میں کسی وسوسہ میں مبتلا ہو جائے.ایسے لوگوں کے وساوس کو دور کرنا بھی ہماری جماعت کا کام ہے.پس جماعت کے دوستوں کو یہ بات صرف غیر احمدی علماء پر ہی نہیں چھوڑنی چاہیے کہ وہ رسول کریم ﷺ کی ختم نبوت کو لوگوں کے قلوب میں راسخ کریں.بلکہ ہمارے علماء کا بھی فرض ہے کہ وہ اس مسئلہ کو اس طرح بار بار جماعت کے سامنے لائیں کہ تین سال سے لے کر 103 سال کی عمر تک کے لوگ سب کے سب اس عقیدہ میں پختہ ہوں کہ رسول کریم ﷺ خاتم النبین ہیں تا کہ ایک ہزار سال کے بعد بھی کوئی احمدی اس قسم کے وسوسہ میں مبتلا نہ ہو کہ آپ نَعُوذُ بِاللهِ خاتم النبین نہیں.پس اس مسئلہ کو جماعت میں راسخ کرو.کیونکہ یہ ہمارے مذہب کی جان ہے.میں تمہیں یہ نہیں کہتا کہ تم کسی آیت قرآنیہ کے کوئی نئے معنے نہ کرو.تم بے شک اُس کے

Page 239

$1955 229 خطبات محمود جلد نمبر 36 نئے معنے کر ولیکن وہ معنے قرآن اور حدیث اور عقل کے مطابق ہونے چاہئیں.مثلاً میں نے یہ ایک عقلی بات بتائی ہے کہ قرآن کریم میں تمام ضروری مضمون آگئے ہیں.لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے الہامات میں وہ سارے مضامین نہیں.اب اگر کوئی کہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے الہامات نعوذ باللہ قرآن کریم کے برابر ہیں یا وہ قرآن کریم پر مقدم ہیں تو اُس کو قرآن کریم کی ساری تعلیمیں چھوڑنی پڑیں گی.اس کی اقتصادی تعلیم بھی اسے چھوڑنی پڑے گی ، اس کی اخلاقی تعلیم بھی اسے چھوڑنی پڑے گی ، اس کی سیاسی تعلیم بھی اسے چھوڑنی پڑے گی ، اس کی عائلی تعلیم بھی اُسے چھوڑنی پڑے گی ، اس کی تمدنی تعلیم بھی اسے چھوڑ نی پڑے گی.پھر اس میں عبادات کے متعلق جو باتیں بیان ہوئی ہیں ، روحانیت کے متعلق جو باتیں بیان ہوئی ہیں ، ورثہ کے متعلق جو باتیں بیان ہوئی ہیں ، آپس کے لڑائی جھگڑوں کو دور کرنے کے متعلق جو باتیں بیان ہوئی ہیں وہ سب اُسے چھوڑنی پڑیں گی.اور ان سب کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے الہامات سے نکالنا پڑے گا.اور یہ یقینی بات ہے کہ وہ ان سب تعلیموں کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے الہامات سے نہیں نکال سکتا.اُس کو جھک مار کر آخر قر آن کریم کی طرف ہی جانا پڑے گا.کیونکہ یہ ساری باتیں قرآن کریم میں ہیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے الہامات میں نہیں.آپ کے الہامات قرآن کریم کے خادم ہیں.اور اگر خادم کے پاس کوئی چیز نہ ہو تو وہ آقا کے پاس جاتا ہے اور اُس سے مانگ کر لے آتا ہے.اسی طرح جو چیز حضرت مرزا صاحب کے الہامات میں نہ ہوگی وہ قرآن کریم سے ہم مانگ لیں گے اور اس طرح ہماری ہر ضرورت پوری ہو جائے گی.ہم نے تو یہ کبھی دعوئی ہی نہیں کیا کہ مرزا صاحب کے الہامات اپنی کوئی علیحدہ حیثیت رکھتے ہیں.وہ قرآن کریم کے خادم ہیں اور خادم کے پاس اگر کوئی چیز نہ ہو تو وہ آقا سے مانگ لیا کرتا ہے.اس لیے اگر ہمیں کسی چیز کی ضرورت ہوگی تو قرآن کریم سے مانگ لیں گے.پھر جس طرح آپ کے الہامات قرآن کریم کے خادم ہیں.اسی طرح حضرت مرزا صاحب محمد رسول اللہ ﷺ کے خادم ہیں.محمد رسول اللہ الا اللہ اور قرآن کریم کے گھر میں سب کچھ موجود ہے.وہاں کسی چیز کی کمی نہیں.اس لیے جب بھی ہمیں کوئی تنگی پیش آئے گی ، جب بھی کوئی ضرورت پیش آئے گی ہم محمد رسول اللہ کے دروازے پر جائیں گے اور کہیں

Page 240

$1955 230 خطبات محمود جلد نمبر 36 گے کہ آپ ہمارے آقا ہیں ، ہماری پرورش آپ کے ذمہ ہے.اس لیے آپ ہی ہماری ضرورت کو پورا فرما ئیں.اسی طرح جب بھی کسی اہم معاملہ میں ہمیں کسی روشنی کی ضرورت ہو گی ہم رآن کریم کے پاس جائیں گے اور اُس سے روشنی حاصل کریں گے.جب آقا موجود ہے تو ہمیں کوئی فکر نہیں ہو سکتا.ہر ضرورت کے وقت ہم اُس کے پاس جائیں گے اور جس چیز کی ضرورت ہو گی اُس سے مانگ لیں گے.ہاں اگر کوئی ایسی بات ہو کہ جس کا گردو غبار کی وجہ سے صحیح پتا نہ لگ سکے تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے الہامات سے اُس کا پتا لگ سکتا ہے.میں نے اس رنگ میں " تذکرہ " کا مطالعہ کیا ہے اور اس سے بہت کچھ فائدہ اٹھایا ہے.مثلاً قرآن کریم کی ایک آیت ہے کہ أَوَلَمْ يَرَ الَّذِينَ كَفَرُوا أَنَّ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضَ كَانَتَا رَتْقًا فَفَتَقْنَهُمَا 5 اس آیت کے متعلق مفسرین نے بڑی بحثیں کی ہیں لیکن وہ کسی صحیح نتیجہ تک نہیں پہنچ سکے.مگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے الہامات میں اس کو حل کر دیا گیا ہے.کیونکہ یہی آیت آپ پر بھی نازل ہوئی اور ہم دیکھتے ہیں کہ اس کے ساتھ " وحی " کا ذکر آتا ہے.چنانچہ آپ کا ایک الہام ہے اَنَّ السَّمَوتِ وَالْأَرْضَ كَانَتَا رَتْقًا فَفَتَقْنَهُمَا - قُلْ إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِثْلُكُمْ يُوْلَّى إلَى انَّمَا الهُكُم إِلهُ وَاحِدٌ 6 اس وحی کے لفظ نے آیت کے معنوں سے پردہ اٹھا دیا اور بتا دیا کہ ایک زمانہ ایسا آتا ہے جب وحی الہی سے دنیا محروم ہو جاتی ہے.لیکن پھر اللہ تعالیٰ اس بند دروازہ کو کھول دیتا ہے اور وحی الہی کا سلسلہ جاری ہو جاتا ہے.گویا " كَانَتَا رَتْقًا" اور " فَفَتَقْنَهُمَا" کے معنی ہماری سمجھ میں آگئے.اس سے پہلے "رتقا" اور " فتق" کے معنی کسی مفسر پر اس رنگ میں نہیں گھلے.وہ اور اور معنے کرتے رہے ہیں لیکن جب خدا تعالیٰ نے یہ آیت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر الہاما نازل کی تو اس کے معنے واضح ہو گئے.اسی طرح اور بیسیوں آیات قرآن کریم کی ایسی ہیں جن کے معنے آسانی سے سمجھ نہیں آتے تھے.لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے الہامات کی وجہ سے اُن پر ایسی روشنی پڑی کہ ان کے معنے حل ہو گئے.میں نے پہلے بھی کئی دفعہ بتایا ہے کہ قرآن کریم میں حضرت مسیح علیہ السلام کے متعلق ج

Page 241

خطبات محمود جلد نمبر 36 66 231 $1955 خَلْقِ طَيْر“ کا معجزہ بیان کیا گیا ہے اس میں كَهَيْئَةِ الطَّيْرِ “ کے الفاظ آتے ہیں.جس کی کے معنے یہ ہیں کہ وہ پرندے کی ہیئت کی مانند خلق کرتے تھے.یعنی جس طرح ایک پرندہ اپنے پروں کے نیچے انڈوں کو لے کر بیٹھ جاتا اور انہیں اپنی گرمی پہنچاتا ہے جس کے نتیجہ میں بچے پیدا ہو جاتے ہیں.اسی طرح حضرت مسیح علیہ السلام بھی لوگوں پر اپنی روحانیت کا ایسا اثر ڈالتے اور اُن کی ایسے رنگ میں تربیت کرتے کہ وہ آسمان روحانی کی بلندیوں میں پرواز کرنا شروع کر دیتے.اس آیت کے معنے بھی مفسرین کی سمجھ میں نہیں آتے تھے.لیکن اس زمانہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو بھی خدا تعالیٰ نے الہام کیا کہ "ہزاروں آدمی تیرے پروں کے نیچے ہیں " 8 اس الہام نے قرآن کریم کی اس آیت کے معنوں کو واضح کر دیا اور بتا دیا کہ مسیح کے متعلق پرندے پیدا کرنے کا جو ذکر آتا ہے اُس سے بھی یہی مراد ہے کہ وہ روحانی استعداد رکھنے والوں کو اپنی طرف کھینچ لیتے تھے اور انہیں اپنی صحبت میں رکھتے تھے جس کے بعد وہ روحانیت میں ترقی کرنے لگ جاتے.پس سینکڑوں الہامات ایسے ہیں جن سے قرآن کریم کی مشکل آیات پر روشنی پڑتی ہے اور معلوم ہوتا ہے کہ آپ کے الہامات قرآن کریم کے خادم ہیں.جس طرح ایک خادم کا کام ہے کہ وہ اپنے آقا کے کپڑوں وغیرہ سے گردو غبار صاف کرے ، بوٹ پالش کرے اور اُس کے سامان کی حفاظت کرے.اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے الہامات قرآن کریم کے معانی پر پڑی ہوئی گردو غبار کو صاف کر کے انہیں لوگوں پر واضح کرتے ہیں اور اُنہیں اُن کی اصل شکل میں ظاہر کرتے ہیں.اگر تم انہیں غور سے پڑھو اور پھر قرآن کریم کی آیات پر تدبر کرو تو تمہیں سمجھ آجائے گا کہ ان کے ذریعہ قرآن کریم کے بہت سے مشکل مقامات حل ہو جاتے ہیں.پس جس طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام رسول کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے خادم اور غلام ہیں اسی طرح آپ کے الہامات بھی قرآن کریم کے تابع اور اس کے خادم ہیں.انہیں کوئی علیحدہ حیثیت حاصل نہیں.دوسری بات میں جماعت سے یہ کہنا چاہتا ہوں کہ دوست مجھے بار بار لکھتے رہتے ہیں کہ ہمیں قادیان کب ملے گا؟ میں اُن سے پوچھتا ہوں کہ قادیان تو ہندوستان کا حصہ ہے.تم نے

Page 242

$1955 232 خطبات محمود جلد نمبر 36 ابھی ربوہ کو ہی آباد کرنے کی کیا کوشش کی ہے؟ میں دیکھتا ہوں کہ میرے بار بار توجہ دلانے کے باوجود ابھی تک دوستوں نے ربوہ کو آباد کرنے کی طرف پوری توجہ نہیں کی.اس کے آباد کرنے کے لیے ضروری ہے کہ یہاں مختلف انڈسٹریاں جاری ہوں ، پیشہ ور لوگ یہاں آ کر اپنا کام شروع کریں اور ربوہ کی ترقی اور اس کی آبادی کا باعث بنیں.لیکن ابھی تک یہ کام یہاں جاری نہیں ہوئے جس کی وجہ سے ربوہ کی آبادی ابھی مکمل نہیں ہوئی.پس دوستوں کو ربوہ کی آبادی کی طرف خصوصیت کے ساتھ توجہ رکھنی چاہیے اور یہاں مختلف قسم کی صنعتیں اور انڈسٹریاں جاری کرنے کی کوشش کرنی چاہیے تا کہ ربوہ دوسرے شہروں کے اصول پر آباد ہو سکے اور اس کی آبادی ترقی کرتی چلی جائے.قادیان چونکہ ہندوستان کا حصہ ہے اس لیے بیرونی ممالک یعنی امریکہ ، افریقہ اور دوسرے یورپین ممالک کی جماعتوں کا فرض ہے کہ جہاں تک قانون اُن کو اجازت دیتا ہو وہ اپنے بجٹ کا کچھ حصہ قادیان کے لوگوں کی امداد کے لیے بھجواتی رہیں.بے شک اس کے نتیجہ میں ربوہ مرکز کو کسی قدر مشکلات پیش آسکتی ہیں لیکن اگر ہماری جماعت کے تعداد بڑھ جائے اور چندوں میں بھی اضافہ ہو جائے تو باوجود اس کے کہ بیرونی ممالک کی جماعتوں کے بجٹ کا ایک حصہ قادیان میں منتقل ہوتا رہے گا ر بوہ خدا تعالیٰ کے فضل سے پھر بھی آباد رہے گا.بہر حال ہماری جماعت کے دوستوں کا فرض ہے کہ وہ ربوہ میں مختلف قسم کی صنعتیں اور چھوٹی چھوٹی دستکاریاں جاری کریں تا کہ جس طرح دوسرے شہر اپنے طبعی سامانوں کی وجہ سے آباد ہیں وہی طبعی سامان ربوہ کو بھی میسر آجائیں اور اس کی آبادی ترقی کرتی چلی جائے.تمام جماعتوں کا فرض ہے کہ وہ یہ روح اپنے افراد میں پیدا کریں اور خصوصیت کے ساتھ ربوہ کو آباد کرنے کی طرف توجہ کی جائے.البتہ امریکہ، افریقہ، یورپ اور دوسرے بیرونی ممالک کی جماعتیں چونکہ پاکستان سے باہر ہیں اور اُن پر پاکستان کا قانون عائد نہیں ہوتا اس لیے اُن کا یہ فرض ہے کہ وہ زیادہ زور قادیان کو آباد کرنے پر لگائیں اور اُس سے اُتر کر ربوہ کی آبادی کی طرف کی توجہ کریں.اگر ذمہ داری کو تقسیم کر لیا جائے تو یہ سارا کام سہولت سے ہو سکتا ہے.پھر اگر تم خدا تعالیٰ سے بھی دعائیں کرو تو وہ تمہیں اس کام کے پورا کرنے کی توفیق عطا فرما دے گا.تم اپنے ایمانوں کو مضبوط کرو اور اپنے آپ کو خدا تعالیٰ کے ہاتھوں میں دے دو اور

Page 243

$1955 233 خطبات محمود جلد نمبر 36 اُس سے ہر وقت دعائیں کرتے رہو کہ وہ خود تمہاری حفاظت اور نصرت فرمائے.وہ خدا جو آدم علیہ السلام سے لے کر اب تک اپنی قائم کردہ جماعتوں کے لیے غیر معمولی سامان پیدا کرتا چلا آیا ہے.وہ اب بھی اس بات پر قادر ہے کہ ہمارے لیے غیر معمولی سامان پیدا کر دے.لیکن اس کے لئے ضروری ہے کہ تم ان تمام صلحاء کے نقش قدم پر چلو جو آدم علیہ السلام سے لے کر اب تک گزرے ہیں.پھر تم دیکھو گے کہ جو کام تم نہیں کر سکو گے وہ خدا تعالیٰ خود کر دے گا.مثلاً دیکھ لوتم پاسپورٹ کے بغیر ہندوستان نہیں جاسکتے اور پھر تمہارے پاسپورٹ ایک عرصہ تک تیار بھی نہیں ہوتے.اسی طرح تمہیں ویزا لینے میں کئی مشکلات پیش آجاتی ہیں.لیکن اگر خدا تعالیٰ ہندوستان کی جانا چاہے تو اُس کے لیے کس پاسپورٹ اور ویزا کی ضرورت ہے.وہ اگر ہندوستان کے ہندوؤں اور سکھوں کے دلوں پر اُترے اور وہ مسلمان ہو جائیں تو پھر تمہیں کسی فکر کی ضرورت نہیں.وہ لوگ خود قادیان کو آباد کر لیں گے.میں نے جماعتوں کو بار ہا اِس امر کی طرف توجہ دلائی ہے کہ وہ اپنی تعداد کو بڑھانے کی طرف توجہ کریں تا کہ ہماری آمد زیادہ ہو.میں نے خلیل احمد ناصر مبلغ امریکہ کو بھی یہ ہدایت دے کر بھجوایا ہے کہ ایسے طریق اختیار کرو کہ امریکہ کی جماعت مضبوط ہو جائے اور اُس کا چندہ بڑھ جائے.اگر انہیں خدا تعالیٰ توفیق دے دے تو بہت سی مشکلات دور ہوسکتی ہیں.ان کی سکیم یہ ہے کہ امریکہ میں بعض احمدی گاؤں بسائے جائیں.اگر اس سکیم میں وہ کامیاب ہو جائیں اور چند احمدی گاؤں وہاں آباد ہو جائیں تو ہمارے بجٹ میں خدا تعالیٰ کے فضل سے بہت زیادتی ہو سکتی ہے.لیکن ابتدا میں اس کے لیے انہیں محنت کرنی پڑے گی.اس وقت ایک ڈالر کی قیمت پونے چار روپیہ کے قریب ہے.اگر امریکہ کی جماعت کا بجٹ ایک لاکھ ڈالر سالا نہ ہو جائے تو اس کے معنے یہ ہیں کہ اُن کا سالانہ بجٹ پانچ لاکھ پاکستانی روپے کے برابر ہو جاتا ہے.اور اگر دو لاکھ ڈالر سالانہ بجٹ ہو تو اُن کا سالانہ بجٹ دس لاکھ پاکستانی روپیہ کے برابر ہو جاتا ہے.اور وہ بڑی آسانی کے ساتھ یورپ اور افریقہ وغیرہ کے مشنوں کو چلا سکتے ہیں بلکہ کچھ روپیہ پھر بھی بچ جاتا ہے جور بوہ اور قادیان کے لوگوں کی امداد کے لیے وہ بھجوا سکتے ہیں.پس دعائیں کرو اور خدا تعالیٰ پر توکل رکھو.گھبرانے کی کوئی وجہ نہیں.اگر تم اپنے

Page 244

$1955 234 خطبات محمود جلد نمبر 36 ایمانوں کو مضبوط کرو تو خدا تعالیٰ خود یہ سب کام کر دے گا اور وہ تمہیں اکیلا نہیں چھوڑے گا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا الہام ہے کہ مَا كَانَ اللَّهُ لِيَتُرُ كَكَ حَتَّى يَمينَ الْخَبِيثَ مِنَ الطَّيِّبِ و یعنی خدا تعالیٰ آپ کو اُس وقت تک بے یار و مددگار نہیں چھوڑے کی گا جب تک کہ وہ نیکی اور بدی میں امتیاز نہ کر دے.یہ اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے اور اللہ تعالیٰ اپنے وعدہ کی خلاف ورزی نہیں کیا کرتا.بے شک شیطان جھوٹ بولتا اور وعدہ خلافی کرتا ہے لیکن خدا تعالیٰ جھوٹ نہیں بولتا اور نہ وعدہ خلافی کرتا ہے.پس تم اُس سے دعائیں کرو اور اپنے تعلق کو کی نسبت زیادہ مضبوط بناؤ تاکہ وہ تمہاری مدد کے لیے آسمان سے اُتر آئے اور تمہاری مشکلات دور ہو جا ئیں.“ خطبہ ثانیہ کے بعد حضور نے فرمایا.میں اپنی صحت کے بارے میں بھی دوستوں سے چند باتیں کہنا چاہتا ہوں.یورپ سے واپس آکر کراچی میں پہلے چند دن تو میری طبیعت سفر کی کوفت کی وجہ سے خراب ہو گئی تھی لیکن پھر وہ کیفیت جاتی رہی اور طبیعت خدا تعالیٰ کے فضل سے اچھی ہو گئی.یہاں آنے پر میری طبیعت پھر خراب ہونی شروع ہو گئی جس کی وجہ سے خطبہ پڑھنے کے بعد میں بہت تھک جاتا تھا اور طبیعت پر وحشت سی طاری ہو جاتی تھی.لیکن اب اس وحشت میں خدا تعالیٰ کے فضل سے کمی ہے اور تھکان بھی کم محسوس ہوتی ہے.چنانچہ پچھلے جمعہ کا خطبہ پڑھنے کے بعد میں نے کافی تھکان محسوس کی تھی.لیکن آج وہ کیفیت نہیں.گو آج بھی میں تھکا ہوں لیکن پچھلے جمعہ جتنا نہیں اور میرا دماغ پہلے سے زیادہ طاقت محسوس کرتا ہے.میں نے اس ڈر کی وجہ سے کہ کہیں طبیعت پر بوجھ نہ پڑے خطبہ بند کر دیا ہے ورنہ اگر میں چاہتا تو دس پندرہ منٹ اور بھی بول سکتا تھا.مجھے خواب میں بتایا گیا ہے کہ میری صحت کا دارو مدار دوستوں کی دعاؤں پر ہے.میں یورپ میں تھا تو میں نے زیورچ میں خواب دیکھا کہ ایک اونچی سی جگہ ہے جہاں اللہ تعالیٰ کے سامنے ہماری ساری جماعت کھڑی ہے اور اُس سے رو رو کر دعائیں کر رہی ہے.اور میری طرف اشارہ کر کے کہتی ہے کہ خدایا ! اس شخص نے تجھے ہمارے اتنا قریب کر دیا تھا کہ ہم یوں محسوس کرتے تھے کہ تو آسمان سے اتر کر ہمارے پاس آ گیا ہے.پھر یہ شخص ہمیں قرآن کریم سناتا اور اس طرح سنا تا کہ ہمیں یوں محسوس ہوتا کہ تیری وحی جو محمد رسول اللہ ﷺ پر نازل ہوئی ہے وہ آج ہمارے سامنے نازل ہورہی ہے.

Page 245

خطبات محمود جلد نمبر 36 235 $1955 پھر یہ شخص ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی باتیں سناتا اور ہمیں یوں معلوم ہوتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام خود اپنی زبان سے ہمیں وہ باتیں سنا رہے ہیں.لیکن اے خدا! ابھی ہمارے تعلقات تیرے ساتھ پختہ نہیں ہوئے.اگر یہ شخص مر گیا تو ہم بالکل بے سہارا ہو کر رہ جائیں گے اور ہمارا براہ راست تجھ سے تعلق پیدا نہیں ہو گا.اس لیے اے خدا ! ابھی ضرورت ہے کہ اس شخص کو دنیا میں زندہ رکھا جائے تا یہ ہمیں تیرے ساتھ وابستہ رکھے اور تیری باتیں ہمیں سناتا رہے اور ہمیں یوں معلوم ہو کہ وہ باتیں تو خود ہمیں سنا رہا ہے.اس رویا میں جو نظارہ میں نے دیکھا اور جس کرب و اضطراب کے ساتھ میں نے جماعت کے دوستوں کو روتے اور دعائیں کرتے دیکھا اُس کی دہشت کی وجہ سے میری طبیعت خراب ہوگئی.لیکن چند دن کے بعد پھر سنبھل گئی.اس کے بعد میں نے یورپ سے پاکستان تک کا لمبا سفر کیا جس کی وجہ سے طبیعت نے کوفت محسوس کی.لیکن کراچی پہنچ کر طبیعت اچھی ہو گئی.اسکے بعد یہاں آکر طبیعت پھر خراب ہوگئی لیکن اب پھر خدا تعالیٰ کے فضل سے صحت میں ترقی محسوس ہورہی ہے.لیکن چونکہ مجھے رویا میں بتایا گیا ہے کہ میری صحت کا دارو مدار دوستوں کی دعاؤں پر ہے اس لیے میں سمجھتا ہوں کہ یہ معاملہ دواؤں سے نہیں بلکہ دعاؤں سے تعلق رکھتا ہے.پس میں جماعت کے دوستوں کو تحریک کرتا ہوں کہ وہ میری صحت کے لیے دعا کریں.اگر آپ لوگوں میں سے کوئی شخص یہ سمجھتا ہے کہ میرا وجود اسلام اور احمدیت کے لیے ترقی کا موجب ہے اور اس سے انہیں فائدہ پہنچ رہا ہے تو میرا حق ہے کہ وہ میری صحت کے لیے دعا کرے.کیونکہ ایسا وجود جو بیکار اور تھکا ہوا ہو سلسلہ کا کیا کام کر سکتا ہے.مثلاً آج میری طبیعت اچھی ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ اگر کوئی مخالف شدید سے شدید اعتراض بھی اسلام پر کرے تو میں اُس کا جواب دے سکتا ہوں.لیکن اگر میری طبیعت اچھی نہ ہو تو میں کیا کر سکتا ہوں.ڈاکٹروں سے جب میں نے اس امر کی شکایت کی تو انہوں نے کہا کہ بیماری کی وجہ سے آپ کی حالت ایک بچہ کی سی ہو گئی ہے.اب آپ کو نئے سرے سے سب کچھ سیکھنا پڑے گا.آپ کو بچے کی طرح چلنا بھی سیکھنا پڑے گا ، بولنا بھی سیکھنا پڑے گا اور لکھنا بھی سیکھنا پڑے گا.اور یہ ظاہر ہے کہ انسان ہمت سے ہی سیکھ سکتا ہے.اگر خدا تعالیٰ ہمت دے تو میں یہ تمام باتیں نئے سرے سے سیکھ لوں.یورپ میں میں کچھ پڑھنے لگ گیا تھا.اور کراچی میں تو اخبار کے دو دو صفحے بھی

Page 246

$1955 236 خطبات محمود جلد نمبر 36 پڑھ لیتا تھا.لیکن اب پھر پڑھنے سے گھبرا جاتا ہوں.گواتنا فرق ضرور ہے کہ پہلے جو مجھے گھبراہٹ سی کی ہوتی تھی وہ اب نہیں ہوتی اور میں بیٹھ کر کسی قدر کام کر لیتا ہوں.لیکن کسی معاملہ پر لمبا غور نہیں کر سکتا.اس لیے میں نے خطبات لکھنے والے محکمہ سے کہا ہے کہ وہ میرے خطبے اپنی ذمہ داری پر شائع کر دیا کی کریں.کیونکہ مسودات پر نظر ثانی کرنے کی مجھ میں ہمت نہیں.جب کچھ طبیعت سنبھل گئی تھی تو میں سمجھتا تھا کہ میں اس سال پہلے سالوں کی طرح جلسہ سالانہ کے موقع پر بڑی شان سے تقریر کر سکوں گا.لیکن پھر بیماری کی وجہ سے مجھے خیال گزرا کہ شاید میں دس منٹ بھی تقریر نہ کر سکوں.اب میری طبیعت خدا تعالیٰ کے فضل سے نسبتاً بہتر ہے.چنانچہ چند دن پیشتر تو میں چند منٹ بھی بولتا تھا تو تھک جاتا تھا.لیکن اب گھنٹہ بھر بھی تقریر کرنا چاہوں تو کر سکتا ہوں.یہ تغیر دوستوں کی دعاؤں کا ہی نتیجہ ہے.جماعت جب دعاؤں پر زور دیتی ہے تو میری صحت ترقی کرنے لگ جاتی ہے.پس اگر جماعت واقع میں یہ بجھتی ہے کہ میرے وجود سے اسلام اور احمدیت کو کوئی فائدہ پہنچ رہا ہے تو وہ میرے لئے دعائیں کرے تا کہ خدا تعالیٰ مجھے اس قابل بنا دے کہ میں کام کرسکوں.اگر میں کام نہ کر سکوں تو طبیعت میں گھبراہٹ پیدا ہو جاتی ہے.لیکن اگر خدا تعالیٰ مجھے کام کرنے کی طاقت دے تو یہ دیکھ کر کہ میں سلسلہ کی خدمت کر رہا ہوں اور وہ میری وجہ سے ترقی کر رہا ہے آپ لوگوں کو بھی خوشی محسوس ہوگی اور مجھے بھی خوشی ہوگی کہ مجھے جو سانس آتا ہے وہ اسلام اور احمدیت کی خدمت میں آرہا ہے اور مجھے اور تم کو خدا تعالیٰ کے اور قریب کر رہا ہے.اس طرح مجھے بھی راحت نصیب ہوگی اور تمہیں بھی راحت نصیب ہوگی.اور پھر صرف آج ہی نہیں بلکہ آئندہ بھی اُس کی مدد اور نصرت ہمیشہ آتی رہے گی.پس تم اس نکتہ پر غور کرو جو میں نے بیان کیا ہے اور اس کے مطابق عمل کرنے کی کوشش کرو.“ 1 الاحزاب: 41 (الفضل 18 /نومبر 1955ء) تبلیغ رسالت جلد دوم صفحہ 44 نمبر 64 و مجموعہ اشتہارات جلد اول صفحہ 232 نمبر 75 زیر عنوان : تقریر واجب الاعلان متعلق ان حالات و واقعات کے جو مولوی سید محمد نذیرحسین صاحب ملقب به شیخ الکل سے جلسہ بحث 20 را کتوبر 1891ء کو ظہور ہوئی از غلام احمد قادیائی.23 اکتوبر 1891 ء از مقام دہلی.

Page 247

$1955 237 خطبات محمود جلد نمبر 36 :3 تجلیات الہیہ روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 412,411 :4 تذکره صفحات 275,243,77 ایڈیشن چہارم 5 الانبياء: 31 6: الكهف : 111 7 آل عمران: 50 تذکرہ صفحہ 703 ایڈیشن چہارم 9:3: تذکرہ صفحہ 67 ایڈیشن چہارم

Page 248

$1955 238 32 خطبات محمود جلد نمبر 36 اللہ تعالیٰ کے وعدوں کو قریب کرنے کے لیے ضروری ہے کہ تمام احباب خصوصاً نو جوان دعاؤں میں لگ جائیں (فرموده 11 /نومبر 1955ء بمقام ربوہ ) تشہد ،تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا." انسانی تدبیریں اس کی طاقت کے مطابق ہوتی ہیں.لیکن کبھی کبھی جو کام اس نے کرنا ہوتا ہے وہ اس کی طاقت سے بالا ہوتا ہے.اور جو کام انسان کی طاقت سے بالا ہو ظاہر ہے کہ وہ تدبیروں سے نہیں چل سکتا.اس کے لیے تو کوئی تقدیر الہی چاہیے.اور اللہ تعالیٰ کی تقدیر میں دنیا میں ظاہر ہوتی رہتی ہیں.خصوصاً جو لوگ خدا تعالیٰ کی طرف توجہ کرتے ہیں اور اس سے دعائیں کرتے ہیں اُن کے لیے وہ تقدیریں زیادہ ظاہر ہوتی ہیں.گو بعض دفعہ وہ بغیر دعا کے بھی ظاہر ہو جاتی ہیں.مثلاً دیکھو! انگلستان کی طاقت کو دیکھتے ہوئے کون کہہ سکتا تھا کہ اس طرح سُرعت کے ساتھ ہندوستان اور پاکستان کی حکومتیں بن جائیں گی.مگر جب وقت آیا اللہ تعالیٰ کی تقدیر ظاہر ہوئی اور انگلستان امریکہ کا محتاج ہو گیا.اور امریکہ کی توجہ اس طرف ہوئی کہ روسی حملہ کو روکنے کے لیے ایشیا کو آزادی ملنی چاہیے.انہوں نے انگلستان پر زور دینا شروع کیا اور انگلستان نے محسوس کیا کہ اگر ہم امریکنوں کو خوش نہیں کریں گے تو ہماری مرادیں امریکہ سے بر نہیں آئیں گی.چنانچہ جو چیز

Page 249

خطبات محمود جلد نمبر 36 239 $1955 ابھی دوسو سال میں بھی ممکن نظر نہیں آتی تھی وہ ایک دو سال کے اندراندر ہو گئی.پھر عربوں کو دیکھ لو.سارے عرب ممالک یورپین قوموں کے نیچے تھے.کوئی حصہ انگریزوں کے ماتحت تھا اور کوئی فرانسیسیوں کے ماتحت تھا.لیکن جب خدا کی تقدیر ظاہر ہوئی تو آپ ہی آپ وہ یورپین تو میں پیچھے ہٹ گئیں اور عرب ملکوں کو خدا نے آزاد کر دیا.اب اسرائیل کو جو مد دامریکہ دے رہا تھا اس کو دیکھتے ہوئے یہ ممکن نظر آتا تھا کہ عرب ملک اسرائیل کے حملے سے بچ سکتے ہیں.لیکن اللہ تعالیٰ نے امریکہ اور روس میں رقابت پیدا کر دی اور روس نے کہا اچھا سامان واسلحہ ہم سے لو.اور اب وہ مصر کو اتنا سامان دینے لگ گیا ہے اور شام اور لبنان کو بھی دینے کے لیے تیار ہے کہ اس کو دیکھتے ہوئے امریکہ گھبرا گیا ہے اور وہ روس کو کہہ رہا ہے کہ تم مصر وغیرہ کو اتنا سامان نہ دو.اس دوران میں جب تک یہ زمانہ نہیں آیا تھا انگریزوں نے فیصلہ کیا کہ اپنے فائدہ کے لیے اردن کی حکومت سے سمجھوتہ کریں.وہ کروڑوں روپیہ سالانہ ان کو دیتے تھے اور ایک جرنیل بھی دیا جس نے اردن کی فوجوں کو اتنا سکھا دیا تھا کہ جب کبھی بھی اردن کی فوجوں اور اسرائیل میں لڑائی ہوئی ہے ہمیشہ اردن والے ہی جیتے ہیں.حالانکہ وہ ایک نئی حکومت تھی.اسی طرح انگریز اپنے مفاد کی خاطر ایک عرصہ تک عراق کو بھی سامان دیتے رہے جس کی وجہ سے اسرائیل کچھ ڈرتا رہا کہ اگر عراق، اردن اور مصرمل گئے تو شاید مقابلہ مشکل ہو جائے گا.اور جب اس میں کچھ کمی کے آثار نظر آئے تو اللہ تعالیٰ نے روس کو کھڑا کر دیا اور اُس نے سامان بھیجنا شروع کر دیا.تو یہ محض اللہ تعالیٰ کا فضل تھا ورنہ در حقیت عرب جس طرح چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں پھٹا ہوا ہے اور اسرائیل کو جو طاقت امریکہ کی مدد سے حاصل ہو گئی تھی اُس کو دیکھتے ہوئے بڑا مشکل تھا کہ اسرائیل کا عرب مقابلہ کر سکتے.مگر اللہ تعالیٰ نے روس کے دل میں رقابت پیدا کر دی اور اس طرح مسلمانوں کی نجات کے سامان پیدا کر دئیے.اب یہ جو سامان مصر کو ملا ہے تو وہی اسرائیل جو کہتے تھے کہ ہم اگر چاہیں تو ہفتہ کے اندراندر سارے عرب کو فتح کر سکتے ہیں وہی اب امریکہ کی منتیں کر رہے ہیں کہ جلدی سامان دو، مصر بہت مضبوط ہو گیا ہے.روسی سامان کی وجہ سے ہمارا ملک خطرہ میں پڑ گیا ہے.تو دیکھو اللہ تعالیٰ کے فضل کس طرح دنیا میں سامان پیدا کر دیتے ہیں.

Page 250

خطبات محمود جلد نمبر 36.240 $1955 ہماری جماعت بھی ایک نہایت قلیل جماعت ہے اور کام اس کے سامنے بڑے ہیں.ان کا ابتدائی مرکز ہندوستان میں ہے جہاں جماعت بہت تھوڑی ہے.اللہ تعالیٰ کے بڑے وعدے ہیں مگر ان وعدوں کو قریب کرنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم دعاؤں میں لگ جائیں.اللہ تعالیٰ چاہے تو وہاں کے مسلمانوں کے دل بھی احمدیت کی طرف مائل کر سکتا ہے.اور وہاں کے سکھوں اور ہندوؤں کے دل بھی احمدیت کی طرف مائل کر سکتا ہے.پس جو کام ہم خود نہیں کر سکتے ( ہمارے لیے تو وہاں جانا ہی مشکل ہے ) وہ ہم دعاؤں کے ساتھ کر سکتے ہیں.ہمیں اللہ تعالیٰ سے دعائیں کرنی چاہیں کہ الہی ! تیرے وعدے تو سچے ہیں.لیکن اگر تیرے وعدے اُس وقت پورے ہوئے جب ان مسکین لوگوں کے جو وہاں بیٹھے ہوئے ہیں دل ٹوٹ گئے تو اس کا کیا فائدہ ہوگا.تو جلدی اپنے وعدے پورے کر اور جلدی ان لوگوں کے دلوں کو مضبوط کرنے کی تجویز کر.میں نے پچھلے جمعہ میں کہا تھا کہ مجھے بھی رویا میں یہی پتا لگا ہے کہ میری مرض بھی دعا کے ساتھ تعلق رکھتی ہے.سو دوست دعا کریں.اسی طرح دنیا کے باقی ممالک میں ایک ایک دو دو کر کے تو لوگ مسلمان ہو رہے ہیں لیکن ایک ایک دو دو سے کیا بنتا ہے.ضرورت یہ ہے کہ خدا تعالیٰ بند توڑے.اگر بند ٹوٹ جائیں اور ہزاروں لاکھوں آدمی احمدی ہونے لگیں تو ایک دو سال کے اندر ہر رنگ میں احمدیت اتنی مضبوط ہو جاتی ہے کہ پھر قریب ترین زمانہ میں کوئی فکر کی صورت نہیں رہتی.جب زیادہ تعداد میں لوگ مختلف ممالک میں احمدی ہو جائیں گے تو پھر کچھ عرصہ میں وہ اپنے آپ کو اور مضبوط کر لیں گے.اور اس طرح بعید کا زمانہ بھی خدا تعالیٰ کے فضل سے مضبوط ہوتا چلا جائے گا.تو دعائیں کرو.مجھے افسوس ہے کہ نو جوانوں میں جب جلسے ہوتے ہیں تب تو وہ نعرے لگا دیتے ہیں لیکن تہجد پڑھنے اور دعائیں کرنے کا رواج کم ہے.حالانکہ تم سوچو تو سہی.ہمارے ملک کی مثل ہے کہ " کیا پدی اور کیا پدی کا شور با “.جو کام تمہارے ذمہ ہیں اُن کو پورا کرنے کے لیے تمہارے پاس طاقت ہی کہاں ہے.اور دعا کے سوا تم کر ہی کیا سکتے ہو.دعا ہی ایک ایسی چیز ہے جو تمام ناممکن باتوں کو ممکن بنا دیتی ہے.پس نو جوانوں کو خصوصاً دعاؤں کی عادت ڈالنی چاہیے.بڑوں کو بھی یہ عادت ڈالنی چاہیے مگر نو جوانوں کو خصوصاً یہ سمجھ لینا چاہیے کہ کیا پدی اور کیا پدی کا شور با بلکہ تم تو پدی سے بھی کم ہو.تمہاری جان تو تبھی بچ سکتی 66

Page 251

$1955 241 خطبات محمود جلد نمبر 36 ہے کہ خدا باز کے دل میں رحم ڈال دے.ایک پدی اگر طاقت کے ساتھ باز سے لڑنا چاہے تو شاید سو میں سے نہیں ہزار میں سے ایک دفعہ ہی اس کا امکان ہے.لیکن اگر وہ پری خدا کے آگے اپیل کرے تو سو میں سے 70 فیصدی امکان ہو سکتا ہے کہ باز کے پر ٹوٹ جائیں یا باز کی نیت بدل جائے یا باز کو کوئی اور زیادہ اچھا جانور نظر آجائے اور وہ اس پری کو چھوڑ کر اُدھر بھاگ جائے تو یہ ساری چیزیں ہو سکتی ہیں.پس دعائیں کرو کہ اللہ تعالیٰ لوگوں کے دلوں میں تمہاری نسبت محبت اور رحم پیدا کرے اور تمہاری باتوں میں تاثیر دے اور تمہارے کاموں میں برکت دے.اور سب سے زیادہ یہ کہ اللہ تعالیٰ تمہارے دلوں میں اپنی محبت پیدا کرے.اتنی محبت پیدا کرے کہ اس کے بعد وہ تمہاری باتوں کو رڈ نہ کر سکے بلکہ تمہاری دعائیں قبول کرنے لگ جائے.یہی گر ہے تمہاری کامیابی کا.اس کے سوا اور کوئی گر نہیں.ہمیں یقین ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہوگا تو وہی جو اُس نے کہا ہے مگر اس کے لیے ہمیں بھی کچھ تدبیر کی ضرورت ہے.اور ہماری تدبیر دعا ہے.دنیوی تدبیر نہ ہمارے پاس ہے نہ ہم کر سکتے ہیں.مگر دعا بھی ایک تدبیر ہے.بندے کی طرف سے تدبیر دعا ہے اور دعا کی قبولیت اللہ تعالیٰ کی طرف سے تقدیر ہے.جب یہ تدبیر اور تقدیر جمع ہو جاتی ہیں تو پھر اللہ تعالیٰ فضل کر دیتا ہے.دیکھ لو! اس وقت مسلمانوں کے ساتھ جو خدا کا سلوک ہو رہا ہے وہ صاف بتا رہا ہے کہ تقدیر الہی جب آتی ہے تو ساری مشکلات دُور ہو جاتی ہیں.پس دعاؤں میں لگ جاؤ اور دعاؤں کی عادت ڈالو اور جوانی ہی میں ولی اللہ بن جاؤ.بڑھاپے میں جا کے پھر کو ٹنا مشکل ہوتا ہے.لیکن اگر اتنی دعائیں کرنے لگ جاؤ کہ ابھی سے تمہیں ނ خدا تعالیٰ کی طرف سے خوابوں اور خدا تعالیٰ کی طرف سے کشفوں اور خدا تعالیٰ کی طرف الہاموں کی چاشنی مل جائے اور مزا پڑ جائے تو تمہاری ساری زندگی سنور جائے گی.اور ساری عمر میں اللہ تعالیٰ کے احسانات ایسی شکل میں دیکھو گے کہ جدھر تم ہو گے اُدھر ہی خدا ہوگا ، جدھر تم دیکھو گے خدا بھی اُدھر ہی دیکھے گا، جس طرف تم چلو گے خدا بھی اُس طرف ہی چلے گا ، جو ارادہ تم کرو گے وہی ارادہ خدا بھی کرے گا.اور جب بندے اور خدا کے ارادے مل جاتے ہیں تو پھر بڑی برکتیں پیدا ہو جاتی ہیں.“

Page 252

خطبات محمود جلد نمبر 36 242 $1955 خطبہ ثانیہ کے بعد حضور نے فرمایا.د کشمیر کے ایک دوست میاں دین محمد صاحب جن کے بیٹے عبدالرحمن نامی لاہور میں رہتے ہیں فوت ہو گئے ہیں.اُن کے جنازہ میں بہت کم لوگ شامل ہوئے تھے.میں نماز کے بعد ان کا جنازہ پڑھاؤں گا.“ (الفضل 27 رنومبر 1955ء)

Page 253

$1955 243 33 خطبات محمود جلد نمبر 36 دنیا میں حق اور عدل و انصاف کے ساتھ صداقت کی تبلیغ کرو.ساتھ جبر کے ساتھ اپنی مزعومہ ہدایت کی تبلیغ کرنے والے ہر گز حق اور عدل کو ملحوظ نہیں رکھ سکتے (فرموده 18 /نومبر 1955ء بمقام ربوہ) تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور نے مندرجہ ذیل آیت قرآنیہ کی تلاوت فرمائی.وَمِمَّنْ خَلَقْنَا أُمَّةٌ يَهْدُونَ بِالْحَقِّ وَبِهِ يَعْدِلُونَ 1 اس کے بعد فرمایا." اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ پیدا تو ہم نے سارے ہی انسان کئے ہیں مگر سب کے سب انسان اُس صحیح طریق کو اختیار نہیں کرتے جو ہم نے اُن کے لیے تجویز کیا ہے.مگر کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں جو صحیح طریق اختیار کرتے ہیں.چنانچہ فرماتا ہے.وَمِمَّنْ خَلَقْنَا أُمَّةٌ يَهْدُونَ بِالْحَقِّ وَ بِهِ يَعْدِلُونَ کہ جو انسان ہم نے پیدا کئے ہیں اُن میں سے ایک گروہ ضرور ایسا ہے جس کے افراد اپنے فرائض کو پہچانتے اور سمجھتے ہیں اور حق کے ذریعہ سے دنیا کو ہدایت دیتے ہیں.یعنی کچھ لوگ تو ایسے ہیں جو نام تو ہدایت کا لے کر کھڑ.

Page 254

$1955 244 خطبات محمود جلد نمبر 36 ہوتے ہیں لیکن وہ يَهْدُونَ بِالْحَقِّ نہیں بلکہ يَهْدُونَ بِالْعَصَاءِ وَيَهْدُونَ بِالسَّيْفِ كا مصداق ہوتے ہیں یعنی ڈنڈے اور تلوار سے وہ اپنی مزعومہ ہدایت کی تبلیغ کرتے ہیں.مگر ہم نے دنیا میں صرف یہ نہیں کہا کہ ہدایت دو بلکہ یہ کہا ہے کہ ہدایت دو بالحق حق کے ساتھ.مگر سارے انسان اس پر عمل نہیں کرتے.بہت سے آدمی ایک چیز کو ہدایت سمجھتے ہیں اور پھر ڈنڈا لے کر کھڑے ہو جاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ جو مانے گا وہ سیدھی طرح مانے نہیں تو ہم اُس کا سر پھاڑ دیں گے.پھر جس چیز کو یہ لوگ مساوات کہتے ہیں اُس کو حق سے نہیں بلکہ ڈنڈے اور تلوار کے ذریعہ سے قائم کرتے ہیں.مگر ایک جماعت ایسی ہوتی ہے جو حق کے ساتھ ہی دنیا میں عدل قائم کرتی ہے.یہ کوئی مساوات نہیں جس میں ڈنڈے اور تلوار سے کام لیا جائے.اور نہ یہ کوئی تبلیغ ہے جس میں ڈنڈے اور تلوار سے کام لیا جائے.تبلیغ بھی دراصل وہی ہے جو حق کے ساتھ کی جائے اور اس میں دلائلِ حقہ پیش کئے جائیں.اور عدل اور مساوات بھی یہی ہے کہ وہ تعلیم جو خدا تعالیٰ کی نے دی ہے اُس کو قائم کیا جائے.یہ کوئی عدل اور مساوات نہیں کہ ڈنڈا ہاتھ میں لے کر سیدھے کرنے لگ جاؤ.یا یہ کہو کہ کا فر کو تو اختیار نہیں کہ ڈنڈے کے ساتھ اپنی بات منوالے لیکن ہمیں یہ اختیار حاصل ہے کہ دوسروں سے ڈنڈے کے ساتھ اپنی بات منوائیں.یہ عدل کیسے ہوسکتا ہے.حقیقی عدل تو وہی ہے جس میں خدا تعالیٰ کی تعلیم کو قائم رکھا جائے.آخر عدل صرف بندوں میں تو نہیں ہونا چاہیے خدا تعالیٰ کے ساتھ بھی عدل ہونا چاہیے.اور یہ کیا عدل ہوا کہ اللہ تعالیٰ کو بھی اپنے ساتھ بدنام کیا جائے ، اُس کو بھی اپنے ساتھ لپیٹا جائے کہ یہ گندی تعلیم ( نعوذ باللہ ) اُس کی طرف سے آئی ہے.پھر جس شخص نے خدا تعالیٰ کے ساتھ عدل نہیں کیا اُس نے انسان کے ساتھ کہاں عدل کرنا ہے.پس یاد رکھو! ہمیشہ حق کے ذریعہ سے لوگوں کو ہدایت دو.کبھی اپنی نفسانی باتوں کے ذریعہ سے دوسروں کو ہدایت نہ دو.بسا اوقات انسان اپنے نفس میں ایک بات کے متعلق سمجھتا ہے کہ یوں ہونی چاہیے اور وہ اس کا نام ہدایت رکھ لیتا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے یہ ہدایت نہیں.ہدایت وہی ہے جو حق کے ساتھ ہو.پس جو باتیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے آتی ہیں تم صرف انہیں پیش کرو اور اُن کے ذریعہ سے ہی انسانوں کے دماغوں کو ٹھیک کرو اور اُنہی کے مطابق عدل قائم

Page 255

$1955 245 خطبات محمود جلد نمبر 36 کرو.بالکل اُسی طرح جس طرح رسول کریم ﷺ نے عدل قائم کیا تھا.اگر رسول کریم ﷺ بھی نَعُوذُ بِاللهِ مِنْ ذَالِکَ لوگوں کی طرح باتیں تو ڑ مروڑ کر کرنا جائز سمجھتے تو آپ یہ کہتے کہ میں نے جب دعوی کیا تھا تو ابو بکڑ نے میری بات مانی تھی ، عمر نے میری بات مانی تھی اس لیے یہ زیادہ حقدار ہیں کہ ان کی تائید کی جائے.لیکن آپ نے ایسا نہیں کیا.آپ نے چاہے کوئی آپ کی کا ساتھی تھا یا دشمن ہر ایک کے معاملہ میں عدل کیا ہے.جب بعض مسلمانوں نے مکہ پر حج کے قریب زمانہ میں حملہ کیا تو آپ بڑے خفا ہوئے اور فرمایا کہ تم نے حُرمت اللہ توڑی ہے میں اس کا کفارہ دوں گا.آپ نے یہ نہیں کہا کہ ان لوگوں نے میری خاطر قربانیاں کی ہیں اس لیے میر احق ہے کہ میں ان کی تائید کروں.بلکہ یہ فرمایا کہ بہر حال تم نے خرمت اللہ توڑی ہے اس کا کفارہ دیا جائے گا.چنانچہ آپ نے کفارہ ادا کیا.اسی طرح بعض دفعہ جب صحابہ نے غلطی سے دوسروں پر تعدی کی ( صحابہ بڑے نیک لوگ تھے وہ جان بوجھ کر دوسروں پر تعدی نہیں کرتے تھے.ہاں غلطی سے بعض اوقات ایسا ہو جاتا تھا) تو آپ نے اُن کی تائید نہیں کی.مثلاً ایک دفعہ غلطی سے ایک عورت ماری گئی.آپ کو علم ہوا تو آپ صحابہ پر بہت خفا ہوئے.3 اور احادیث میں آتا ہے کہ آپ کے چہرہ پر اُس وقت اس قدر غضب ظاہر ہوا جو اس سے قبل کبھی ظاہر نہیں ہوا تھا.تو دیکھو یہ عدل ہوتا ہے.پس تم حق کے ساتھ عدل قائم کرو.بظاہر تو یہ عدل نظر آتا ہے کہ جن لوگوں نے قربانیاں کی ہیں اُن کی تائید کی جائے.مگر وہ عدل نفسانی عدل ہے.وہ حق کے ساتھ عدل نہیں.پس مومن کو دنیا میں عدل کی تعلیم دینی چاہیے.اور جب بھی خدا تعالیٰ اُسے طاقت دے اُس کو وہ طاقت اس طور پر استعمال کرنی چاہیے کہ حق کبھی بھی اُس کے ہاتھ سے نہ چھوٹے.بلکہ ہمیشہ حق اُس کے ہاتھ میں رہے اور دنیا میں اس کے ذریعہ سے حق قائم ہو تا آنے والے لوگ یہ کہیں کہ جب شخص کمزور تھا تب بھی اُس نے حق کو نہیں چھوڑا.اور جب یہ طاقتور ہوا تب بھی اُس نے حق کو نہیں چھوڑا.اور یہی اصل ہدایت ہے.ورنہ اگر کمزوری کے وقت میں انسان حق کی تائید کرے اور زور کے وقت وہ حق کو چھوڑ دے تو یہ تو ایسی ہی بات بن جاتی ہے جیسے کہتے ہیں.

Page 256

خطبات محمود جلد نمبر 36 246 $1955 کوئی پور بیا مر گیا تھا.پوربیوں میں یہ رواج ہے کہ جب کوئی شخص مر جائے تو اسکے رشتہ دار ا کٹھے ہو جاتے ہیں اور پھر اُس کی بیوی اُس پر بین کرتی ہے اور بتاتی ہے کہ مرنے والے نے فلاں سے قرض لینا تھا اور فلاں کا قرض دینا تھا.اسی طرح اس پور بٹے کی بیوی نے یہ کہنا شروع کیا کہ ارے! اُس نے فلاں شخص سے اتنا روپیہ لینا تھا وہ اب کون لے گا؟ اس پر اُس کا ایک رشتہ دار چھلانگ مار کر آگے آیا اور کہنے لگا اری! ہم ری ہم.پھر اُس نے کہا ارے اس نے فلاں سے بھی اتنا روپیہ لینا تھا.وہ اب کون وصول کرے گا ؟ تو وہی رشتہ دار پھر آگے آیا اور کہنے لگااری ! ہم ری ہم.اسی طرح وہ بار بار کہتی رہی کہ اُس نے فلاں سے قرض لینا ہے.وہ اب کون لے گا ؟ اور وہ شخص بار بار یہی جواب دیتا رہا.اری! ہم ری ہم.آخر روپیہ دینے کی باری آئی اور مرنے والے کی بیوی نے کہا ارے! اُس نے فلاں کا اتنار و پیہ دینا تھا وہ اب کون دے گا ؟ پر اب وہ رشتہ دار جو روپیہ لینے کے وقت یہ کہتا تھا اری! ہم ری ہم ، وہ کہنے لگا.ارے ! میں ہی ہر بار بولتا جاؤں یا کوئی اور بھی بولے گا.؟ پس حقیقی عدل وہ ہے جو حق کے ساتھ قائم کیا جائے.اور حقیقی ہدایت وہ ہے جو حق کے ساتھ دی جائے.وہ کیا ہدایت ہوئی کہ اپنی مرضی کی بات منوائی.وہ ہدایت ، ہدایت نہیں بلکہ نفس پرستی ہے.چونکہ آج انصار اللہ اور خدام الاحمدیہ کے جلسے ہیں.طبیعت تو میری خراب ہے مگر میرا خیال ہے کہ ایک ہی وقت دونوں کے لیے دعا کر کے اُن کا افتتاح کردوں.انصار اللہ کا پہلا اجلاس ہے جو منعقد کیا جا رہا ہے اس لیے نماز جمعہ کے بعد میں نماز عصر بھی پڑھا دوں گا تا دونوں نمازیں اکٹھی پڑھ لی جائیں اور دوستوں کو پہلے یہاں سے جانے اور پھر وہاں سے یہاں آنے کی تکلیف نہ ہو اور نماز کا وقت بھی ضائع نہ ہو جائے.پس میں پہلے نماز جمعہ پڑھاؤں گا اور پھر عصر کی نماز پڑھاؤں گا.اگر خدا تعالیٰ نے طاقت دی تو کھڑے ہو کر ورنہ میں بیٹھ کر نماز پڑھاؤں گا.“ (الفضل 4/دسمبر 1955ء) :1 الاعراف : 182

Page 257

$1955 247 خطبات محمود جلد نمبر 36 :2 جامع الترندى ابواب الديات باب ماجاء في حكم ولى القتيل في القصاص والعفو.صحیح البخارى كتاب الجهاد باب قتل النساء في الحرب

Page 258

$1955 248 34 خطبات محمود جلد نمبر 36 جولوگ اپنے اندر صفات الہیہ پیدا کر لیتے ہیں اللہ تعالیٰ فرشتوں کو اُن کے تابع کر دیتا ہے فرموده 25 نومبر 1955ء بمقام ربوہ ) تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور نے مندرجہ ذیل آیت قرآنیہ کی تلاوت فرمائی.وَلَقَدْ خَلَقْنَكُمْ ثُمَّ صَوَّرُ لَكُمْ ثُمَّ قُلْنَا لِلْمَلَبِكَةِ اسْجُدُو الأَدَمَ فَسَجَدُوا إِلَّا إِبْلِيسَ 1 ثُمَّ اس کے بعد فر مایا." قرآن کریم کی اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان کی دو پیدائشیں ہیں.ایک بشری اور ایک انسانی.بشری پیدائش کے متعلق اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ وَلَقَدْ خَلَقْنَكُمْ ہم نے تم کو پیدا کیا ہے.یعنی تمہیں ایک ذی حیات وجود بنایا ہے.اور انسانی پیدائش کے متعلق فرماتا ہے کہ ثُمَّ صَوَّر لکھ ہم نے تمہاری ایک روحانی شکل بنائی ہے.صورت سے چیز پہچانی جاتی ہے اور انسان کے جو روحانی کمالات ہیں اُنہی کے ذریعہ سے وہ دوسری مخلوقات سے ممتاز طور پر پہچانا جاتا ہے.بائیبل سے پتا لگتا ہے کہ صورت سے کیا مراد ہے.بائیل میں آتا ہے." اور خدا نے انسان کو اپنی صورت پر پیدا کیا."2 پس صور نكُمْ کے معنے ہیں کہ ہم نے اس کے اندر اخلاق الہیہ اور صفات الہیہ

Page 259

$1955 249 خطبات محمود جلد نمبر 36 کیں.یعنی پہلے تو ہم نے اس کی جسمانی خلق کی.اس کے ناک، کان ، ہاتھ اور پاؤں بنا دیے، دھڑ بنا دیا.اس کے بعد ہم نے اس کے دماغ کی اس قدر تربیت کرنی شروع کی اور اس کی قوتوں کا اس طرح ارتقاء شروع کیا کہ وہ صفات الہیہ کو اپنے اندر جذب کرنے کے قابل ہو گیا.اور اس کے اندر ان کے اظہار کی اہلیت پیدا ہوگئی.اس کے بعد ہم نے ملائکہ سے کہا کہ تم اب اس انسان کو سجدہ کرو.حقیقت یہ ہے کہ جیسا کہ قرآن کریم میں اس بات پر بار بار زور دیا گیا ہے سجدہ خدا تعالیٰ کے سوا کسی کے سامنے جائز نہیں.اس لیے ہم کہتے ہیں کہ اس سجدہ سے مراد مجازی سجدہ ہے.اور اسکے معنے اطاعت کے ہیں.مگر مجازی سجدہ بھی تو مجازی خدا کے سامنے ہی ہوسکتا ہے.اس لیے فرمایا ثُمَّ صَوَّرُ نَكُمْ ثُمَّ قُلْنَا لِلْمَلَبِكَةِ اسْجُدُوا لِآدَمَ کہ پہلے تو ہم نے تمہارے اندر خدائی صفات پیدا کیں اور جب تم خدائی صفات کے جذب کرنے اور ان کے اظہار کرنے کے قابل ہو گئے تو ہم نے ملائکہ سے کہا کہ سجدۂ حقیقی تو بہر حال میرے سوا کسی اور کے سامنے کرنا منع ہے لیکن ہم تم کو ایک مجازی سجدہ کا حکم دینے لگے ہیں اور اس سجدہ کے لیے ایک مجازی خدا کی ضرورت ہے.اور وہ مجازی خدا وہ انسان ہے جس کے اندرالہی صفات پائی جائیں.پس اس آیت میں بتایا گیا ہے کہ یہاں جس آدم کا ذکر کیا گیا ہے اس سے مراد ابوالبشر آدم نہیں بلکہ اس سے ہر انسان کامل مراد ہے.کیونکہ یہاں اللہ تعالیٰ نے خَلَقْنَكُمْ فرمایا ہے.خَلَقْنک نہیں فرمایا.اسی طرح فرمایا ثُمَّ صَوَر نَكُم پھر ہم نے تم سب کے اندر یہ مادہ پیدا کیا کہ تم الہی صفات کو اپنے اندر جذب کر سکو اور ان کا اظہار کر سکو.پھر جب تم میں سے بعض نے اپنے اندر خدائی صفات پیدا کر لیں تو ہم نے ملائکہ سے کہا انسجدُ و الادم تم اس آدم کو سجدہ کرو.کیونکہ اس کے اندر ہماری صفات آگئی ہیں اور وہ انہیں ظاہر کرنے لگ گیا ہے.چنانچہ مختلف زمانوں میں مختلف آدم تھے.کسی زمانہ میں ابوالبشر آدم تھے.کسی زمانہ میں نوح علیہ السلام آدم تھے.کسی زمانہ میں ابراہیم علیہ السلام آدم تھے.کسی زمانہ میں اسحاق علیہ السلام آدم تھے.کسی زمانہ میں یعقوب علیہ السلام آدم تھے.کسی زمانہ میں یوسف علیہ السلام آدم تھے.کسی زمانہ میں موسیٰ علیہ السلام آدم تھے.کسی زمانہ میں داؤد علیہ السلام آدم تھے.کسی زمانہ میں ہر میاہ علیہ السلام

Page 260

$1955 250 خطبات محمود جلد نمبر 36 آدم تھے.کسی زمانہ میں حز قیل علیہ السلام آدم تھے.کسی زمانہ میں دانیال علیہ السلام آدم تھے.کسی زمانہ میں ملا کی علیہ السلام آدم تھے.کسی زمانہ میں تیجی علیہ السلام آدم تھے.کسی زمانہ میں مسیح علیہ السلام آدم تھے.پھر جس طرح ابو البشر آدم تھا اسی طرح ابوالا نسانیت محمد صلی اللہ علیہ وسلم آدم تھے.پس فرماتا ہے کہ ثُمَّ صَوَّرُ نَكُمْ ثُمَّ قُلْنَا لِلْمَلَبِكَةِ اسْجُدُ و الادم پھر ہم نے فرشتوں سے کہا کہ یہ جو صفات الہیہ کو ظاہر کرنے والا آدم ہے تم اس کے آگے سجدہ کرو.لیکن پھر بھی سجدہ کے معنے مجازی سجدہ کے ہی ہوں گے.کیونکہ حقیقی سجدہ سوائے خدا تعالیٰ کے اور کسی کے سامنے جائز نہیں.اسی لیے ہم نے مجازی سجدہ کا حکم بھی ایسے مجازی خدا کے لیے دیا ہے جو صفات الہیہ کو ظاہر کرنے والا ہے اور اس سجدہ کے معنے اطاعت کے ہیں.پھر ملائکہ کے متعلق خدا تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ جو کچھ اللہ تعالیٰ کہتا ہے وہ کرتے ہیں وہ اُس کی نافرمانی نہیں کرتے 3.اب اگر اسجدو اسے مراد ہر انسان کے آگے سجدہ کرنا ہو تو اس کے معنے یہ بنیں گے کہ یہ چوری کرے تو تم بھی چوری کرو.یہ ڈا کا مارے تو تم بھی ڈا کا مارو.یہ قتل کرے تو تم بھی قتل کرو.حالانکہ یہ بالکل غلط بات ہے.سجدہ بہر حال اُسی آدم کے آگے ہو سکتا ہے جو کبھی چوری نہیں کر سکتا، جو کبھی جھوٹ نہیں بول سکتا ، جو کبھی فریب نہیں کر سکتا ، جو کبھی شرک نہیں کر سکتا، جو کبھی بددیانتی نہیں کر سکتا ، جو کبھی ظلم نہیں کر سکتا ، جو کسی قسم کی خرابی ظاہر نہیں کرسکتا.اور چونکہ وہ خود اُن صفات کا حامل ہوگا جو ملائکہ کی صفات سے بڑی ہیں اس لیے اگر ایسے آدم کی اطاعت کی جائے تو درست ہوگا.جو شخص خدائی صفات کا مظہر ہوگا ملائکہ کی کیا طاقت ہے کہ اُس کے خلاف چلیں.ملائکہ کا فرض ہے کہ اُس کے ساتھ چلیں.پس یا درکھو کہ تم میں سے ہر شخص کے اندر خدا تعالیٰ نے یہ طاقت پیدا کی ہے کہ تم اپنے اندر صفات الہیہ پیدا کرو اور اگر تم اپنے اندر صفات الہیہ پیدا کرلو تو پھر تم میں سے ہر ایک کے لیے ملائکہ کو حکم ہوگا کہ وہ تمہاری مدد کریں.رسول کریم یہ فرماتے ہیں کہ جب خدا تعالیٰ چاہتا ہے کہ اس کے کسی بندے کی مقبولیت دنیا میں پھیلے تو وہ ملائکہ کو حکم دیتا ہے.وہ اُترتے ہیں اور دنیا میں اُس کی مقبولیت کو پھیلا دیتے ہیں.4 پس ہر انسان کے اندر یہ قابلیت ہے کہ وہ صفات الہیہ کو جذب کر سکتا ہے اور جب وہ

Page 261

$1955 251 خطبات محمود جلد نمبر 36 اپنے اندر صفات الہیہ جذب کر لیتا ہے تو فرشتوں کو خدا تعالیٰ کی طرف سے یہ حکم ہو جاتا ہے کہ وہ ای اُس کے پیچھے پیچھے چلیں.چنانچہ جہاں بھی وہ جاتا ہے فرشتے اُس کے ساتھ ہوتے ہیں.اور وہ لوگوں کے دلوں میں اُس کا رُعب ڈالتے ہیں اور اُس کی محبت پیدا کرتے ہیں اور اس طرح وہ لوگوں میں مقبول ہو جاتا ہے.پس کوشش کرتے رہو کہ تم سے سوائے خدائی صفات کے اور کوئی صفات ظاہر نہ ہوں.پھر یاد رکھو ملائکہ تمہارے تابع ہو جائیں گے.انہیں حکم ہوگا کہ وہ تمہاری اتباع کریں اور جس طرح تم کہو وہ اُس طرح کریں.مجازی سجدہ کے معنے بھی اطاعت اور فرمانبرداری کے ہیں.پھر تم کہو گے یوں کہو تو وہ اُسی طرح کہنے لگ جائیں گے.تمہارے ساتھ اللہ تعالیٰ کا وہی سلوک ہوگا جو اُس کے خاص بندوں کے ساتھ ہمیشہ سے چلا آیا ہے کہ جس طرح وہ کہتے ہیں اُسی طرح ہو جاتا ہے.اور وہ اس وجہ سے ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے فرشتوں سے کہہ دیتا ہے کہ میرے اس بندے کے دل میں وہی خواہش پیدا ہوگی جو میری خواہش ہوگی.پس جب میرا یہ بندہ کوئی خواہش ظاہر کرے تو اس کے معنے یہ ہوں گے کہ میں نے وہ خواہش ظاہر کی ہے.اس لیے جس طرح تمہارا یہ فرض ہے کہ تم میری خواہش کو پورا کرو اسی طرح تمہارا یہ فرض بھی ہے کہ تم اس کی خواہش کو بھی پورا کرو.پس انسان کا اصل مقام جس کا اس آیت سے پتا لگتا ہے یہ ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کی صورت کو اختیار کرے.یعنی حقیقی پیدائش تو اس کی وہی تھی جو ابو البشر آدم والی تھی.لیکن پھر وہ اپنے اندر ایسی تبدیلی پیدا کرے کہ اس کو دوسری پیدائش نصیب ہو جائے.یعنی وہ خَلَقْنَكُم والی حالت سے ترقی کر کے صوَّرُ نَكُم والی حالت میں آجائے.یہاں تک کہ خدا تعالیٰ اپنے فرشتوں کو یہ حکم دے دے کہ اب جو یہ کرے وہی تم کرو اور جو یہ کہے وہی تم کہو.کیونکہ یہ ہماری مرضی کے خلاف نہیں کر سکتا اور تم بھی ہماری مرضی کے خلاف نہیں کر سکتے.پس جو کچھ یہ کرے گا وہی ہماری مرضی ہوگی.اور چونکہ تمہارا یہ فرض ہے کہ تم ہماری مرضی کو چلا ؤ اس لیے تم وہی کرو جو یہ کرتا ہے پس تم اللہ تعالیٰ کی صفات کو ظاہر کرنے والے بنو.پھر دیکھو کہ خدا تعالیٰ کے فرشتے کس طرح تمہاری مدد کرتے ہیں.وہ تمہارے آگے بھی پھریں گے اور تمہارے پیچھے بھی پھریں گے.وہ تمہارے دائیں بھی پھریں گے اور تمہارے بائیں بھی پھریں گے.جیسے قرآن کریم

Page 262

$1955 252 خطبات محمود جلد نمبر 36 صلى الله میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ رسول کریم ﷺ کے آگے اور پیچھے فرشتوں کا ایک لشکر ہوتا تھا 5.اور فرشتوں کے آپ کے آگے پیچھے ہونے کے یہی معنے ہیں کہ محمد رسول اللہ ﷺے خدا تعالیٰ کی صفات کو ظاہر کرنے والے ہو گئے تھے.اور فرشتے چونکہ خدا تعالیٰ کی اطاعت کرنے والے وجود ہیں اس لیے وہ رسول کریم مے کے ساتھ ساتھ رہتے تھے تا دیکھیں کہ خدا تعالیٰ کا منشاء کیا ہے.جب محمد رسول اللہ ﷺ کوئی کام کرتے تو وہ سمجھتے کہ یہی خدا تعالیٰ کا منشا ہے اور وہ بھی وہی کام کرنے لگ جاتے.اور جب محمد رسول اللہ ﷺ کسی کام سے رُک جاتے تو فرشتے سمجھتے کہ خدا تعالیٰ کا یہ منشاء کی نہیں کہ یہ کام کیا جائے اس لیے وہ بھی اُس کام سے رُک جاتے.یہی وجہ ہے کہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے وَمَا رَمَيْتَ إِذْ رَمَيْتَ وَلكِنَّ اللهَ رَى 6 جب محمد رسول الله کنکریوں کی ایک مٹھی بھر کے پھینکی تو فرشتوں نے آپ کو دیکھ کر کہا.اب خدا تعالی کنکریاں پھینک رہا ہے ہمیں بھی کنکریاں پھینکنی چاہئیں چنانچہ وہ سب کنکریاں پھینکنے لگ گئے.اب وہ کنکریاں صرف ایک مٹھی بھر نہیں تھیں جو رسول اللہ ﷺ نے پھینکی تھیں بلکہ فرشتوں کی مٹھیاں آپ کے ساتھ چل پڑیں.ایک مٹھی میں آخر زیادہ سے زیادہ ہزار کنکر ہوں گے پھر ان کنکروں نے آگے پھیلنا بھی تھا اس لیے ممکن تھا کہ وہ کنکر کسی شخص کو لگتے اور کسی کو نہ لگتے.پس وہ پتھر سب مشرکین کو نہیں لگ سکتے تھے.مگر جب فرشتے بھی آپ کے ساتھ کنکر پھینکنے لگ گئے تو اس کا یہ نتیجہ ہوا کہ سارے دشمن زخمی ہو گئے اور وہ مرعوب ہوکر میدان سے بھاگ گئے.پس تم اللہ تعالیٰ کی طرف توجہ کرو اور اُسی سے دعا کرو کہ وہ تمہارے اخلاق کو اس طرح درست کر دے کہ فرشتے تمہارے ساتھ چل پڑیں.یہ ایک بہت بڑی چیز ہے.جس کو یہ چیز نصیب ہو جائے وہ کامیاب ہو گیا.قرآن کریم میں فرشتوں کے متعلق آتا ہے کہ وہ اپنے رب کے حکم سے اُترتے ہیں.اور رب کا حکم اُسی شخص کے لیے نازل ہوتا ہے جو رب کا ہو جاتا ہے.اور جب کوئی شخص رب کا ہو جاتا ہے تو پھر خدا تعالیٰ کہہ دیتا ہے کہ اس نے تو اپنے آپ کو میرے ہاتھ میں دے دیا ہے اور چونکہ اس نے اپنے آپ کو میرے ہاتھ میں دے دیا ہے اس لیے مجازی طور پر وہ میں بن گیا ہوں.اس لیے تم بھی مجازی طور پر اس کو سجدہ کرو یعنی اس کی اطاعت کرو.جو وہ کرتا ہے وہی تم کرو.جس سے وہ تمہیں روکتا ہے اُس سے رُک جاؤ.ہوتے ہوتے ایسا انسان اپنے دشمنوں

Page 263

$1955 253 خطبات محمود جلد نمبر 36 پر غالب آجاتا ہے اور اللہ تعالیٰ اُس کی تائید اور نصرت کے سامان پیدا کر دیتا ہے اور وہ دنیا میں خدا تعالیٰ کے نام کو پھیلا دیتا ہے.اُس کی محبت کو لوگوں کے دلوں پر غالب کر دیتا ہے اور وہ باتیں جو بظاہر ناممکن نظر آتی ہیں اُس کے ہاتھوں سے وہ ممکن ہو جاتی ہیں.اور وہ لوگ جو خدا تعالیٰ کے دین کو مٹانا چاہتے ہیں اُس سے ٹکرا کر خود مٹ جاتے ہیں.اور اللہ تعالیٰ کے فرشتے لوگوں کے دلوں میں تحریک کرتے ہیں کہ جاؤ اور اس کے ساتھ مل جاؤ.چنا نچہ دیکھ لو ہماری جماعت میں سینکڑوں نہیں ہزاروں ایسے لوگ موجود ہیں جنہوں نے خوا ہیں دیکھیں اور جماعت میں داخل ہو گئے.قرآن کریم میں فرشتوں کے متعلق جو یہ آتا ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کے حکم کے بغیر نہیں اترتے Z اس کا بھی یہی مطلب ہے کہ تم مجازی خدا بن جاؤ کیونکہ جب تم مجازی خدا بن جاؤ گے تو فرشتے تمہاری مدد کے لیے اُتر آئیں گے.اور جب کسی کی مدد کے لیے خدا تعالیٰ کے فرشتے اُتر آئیں تو اُس کی کامیابی میں شبہ ہی کیا ہو سکتا ہے.“ (الفضل 22 دسمبر 1955ء) 1: الاعراف :12 2: پیدائش باب 1 آیت 27 3 لا يَعْصُونَ اللهَ مَا أَمَرَهُمْ وَيَفْعَلُونَ مَا يُؤْمَرُونَ (التحريم: 7) :4 الصحيح البخارى كتاب بدء الخلق باب ذكر الملائكة لَهُ مُعَقِّبْتُ مِنْ بَيْنِ يَدَيْهِ وَمِنْ خَلْفِهِ يَحْفَظُونَهُ مِنْ أَمْرِ اللهِ (الرعد: 12) 6 الانفال 18 : تَنَزَّلُ الْمَلَيكَةُ وَالرُّوحُ فِيهَا بِإِذْنِ رَبِّهِمْ مِنْ كُلِّ أَمْرٍ (القدر : 5)

Page 264

$1955 254 35 خطبات محمود جلد نمبر 36 مرکز سلسلہ ربوہ کو باہمی تعاون کے ساتھ صاف سُتھرا اور خوبصورت شہر بنانے کی کوشش کرو فرموده 2 / دسمبر 1955ء بمقام ربوہ ) تشهد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا." آج میں دو امور کے متعلق کچھ کہنا چاہتا ہوں.ایک امر تو وہ ہے جس نے مجھے یورپ کے سفر میں متاثر کیا اور وہ تھی وہاں کی صفائی.وہاں صفائی کا ایسا اچھا انتظام تھا کہ خواہ تمام ر میں پھر جائیں کہیں گند نظر نہیں آتا.ایک دن میں طبی معائنہ کی غرض سے گھر سے نکلا.جب میں موٹر پر سوار ہو کر شہر کی گلیوں میں سے گزرا تو میں نے دیکھا کہ ہر گھر کے سامنے ایلومینیم (ALUMINIUM) کے بنے ہوئے گول گول ڈرم پڑے ہوئے ہیں جن کے اوپر کنڈے لگے ہوئے تھے.میں نے اُن کے متعلق دریافت کیا تو مجھے بتایا گیا کہ یہاں اس قسم کے ڈرم کا ہر گھر میں ہونا ضروری ہے.سارے گھر کی صفائی کر کے کوڑا کرکٹ اس ڈرم میں ڈال دیا جاتا ہے.ہفتہ کے بعد مقررہ تاریخ پر میونسپل کمیٹی کا ٹرک آتا ہے اور کمیٹی کے ملازم اس ڈرم کو اٹھا کر گند ٹرک

Page 265

خطبات محمود جلد نمبر 36 255 $1955 میں ڈال دیتے ہیں.اور اسے وہ دوبارہ صاف کر کے گھر کے سامنے رکھ دیتے ہیں اور گھر والے اسے اٹھا کر اندر لے جاتے ہیں.میں نے اُس وقت مرزا منور احمد کو اس طرف توجہ دلائی کہ تم ربوہ کی میونسپل کمیٹی کے سیکرٹری ہو تمہیں بھی وہاں ایسا ہی انتظام کرنا چاہیے.اور اس پر کوئی خرچ بھی نہیں آتا.آسودہ حال لوگ اس قسم کے ڈرم خرید کر گھروں میں رکھ سکتے ہیں اور ایسے لوگ جو فی الواقع مدد کے محتاج ہوں اُن کو سلسلہ کی طرف سے ڈرم خرید کر دیئے جا سکتے ہیں اس سے کسی حد تک مالی بوجھ تو پڑے گا مگر اس طرح سارے شہر سے گندمٹ جاتا ہے.گول ڈرم جو میں نے وہاں دیکھے حجم میں فینائل کے ڈرم کے برابر یا اس سے کچھ بڑے ایلومینیم کے بنے ہوئے تھے ، منہ اُن کا گھلا تھا اور اُن پر ایک گنڈ ا لگا ہوا تھا تا کہ انہیں اٹھا کر ایک جگہ سے دوسری جگہ رکھا جا سکے.اس قسم کا ایک ڈرم ہر گھر میں پڑا رہتا ہے اور گھر والے تمام گندر ڈی چیزیں اور پھلوں اور ترکاری وغیرہ کے چھلکے اُس کے اندر ڈالتے رہتے ہیں.اُن کے ہاں پاخانہ تو ہوتا نہیں.ہر گھر میں فلش سسٹم ہے.یعنی کموڈ میں پاخانہ کیا اور اوپر سے زنجیر دبادی اور پانی اُسے بہا کر لے گیا.لیکن دوسرا گند اور کوڑا کرکٹ تو ہوتا ہے.اُسے اس ڈرم میں ڈال دیا جاتا ہے اور مقررہ دن پر گھر والے اُسے باہر رکھ دیتے ہیں.میونسپل کمیٹی کا ٹرک آتا ہے، ملازم اُسے اٹھا کر ٹرک میں خالی کر دیتے ہیں اور اُسے دوبارہ صاف کر کے گھر کے سامنے رکھ دیتے ہیں.گھر والے اُسے اٹھا کر اندر لے جاتے ہیں اس طرح باہر گند پھینکنے کی کوئی وجہ باقی نہیں رہتی.میں نے مرزا منور احمد سے کہا تھا کہ تم بھی ربوہ میں اس قسم کا انتظام کرو ہم بھی تمہاری مدد کرنے کی کوشش کریں گے اور میں جماعت کو بھی اس طرف توجہ دلاؤں گا.آج چونکہ جمعہ کا دن ہے اور مرد و عورت سب جمعہ کے لیے مسجد میں آئے ہوئے ہیں اس لیے میں سب کو توجہ دلاتا ہوں کہ شہر کی گندگی کا اثر باہر والوں پر بہت بُرا پڑتا ہے.یورپ کے شہروں میں صفائی کا ایسا اچھا انتظام ہے کہ تم سارا شہر پھر جاؤ کہیں گند پڑا ہوا نظر نہیں آئے گا.زیورک چار پانچ لاکھ کی آبادی کا شہر ہے اور کئی میلوں میں پھیلا ہوا ہے.لیکن اس شہر کے اندر تم موٹروں پر میلوں میں پھر جاؤ تمہیں کہیں کا غذ کا پُرزہ تک بھی پڑا ہوا نظر نہیں آئے گا.وہاں کوئی شخص رڈی کاغذ کے پرزے باہر پھینکنے کی جرات نہیں کرتا.جب کسی نے کوئی

Page 266

$1955 256 خطبات محمود جلد نمبر 36 کاغذ پھاڑ نا ہو وہ گھر میں آئے گا ، کاغذ پھاڑے گا اور اُس کے پُرزے اُس ڈرم میں ڈال دے گا جو اس غرض کے لیے گھر میں رکھا ہوا ہوتا ہے.میونسپل کمیٹی کا ٹرک باری پر ہفتہ اتوار کو یا کسی اور دن جو پہلے سے مقرر ہوگا اُس گھر کے سامنے آئے گا.اُس دن وہ ڈرم گھر سے باہر رکھ دیا جائے گا.کمیٹی کے ملازم گند ٹرک میں ڈال دیں گے اور اس ڈرم کو دوبارہ صاف کر کے گھر کے سامنے کی رکھ دیں گے اور گھر والے اُسے اٹھا کر اندر لے جائیں گے.ہماری بھی یہاں کئی قسم کی تنظیمیں ہیں.ایک تو میونسپل کمیٹی ہے جس کے ممبروں کو ہم نے ہی مقرر کیا ہے.یورپ میں یہ اصول ہے کہ جو شخص کسی قوم کا نمائندہ ہو وہ اپنی قوم کی رائے پر چلتا ہے اور اس کی خدمت کرتا ہے.میونسپل کمیٹی ربوہ کے ممبروں کا بھی فرض ہے کہ جن لوگوں نے انہیں مقرر کیا ہے (اور صاف ظاہر ہے کہ جن لوگوں نے انہیں مقرر کیا ہے خلیفہ وقت اُن کا ہیڈ ہے.وہ ان کی آراء کو قیمت دیں اور ان کے مطابق عمل کریں.بلکہ یہ ان کا دُہرا فرض ہے کہ وہ شہر کی صفائی کروائیں.گورنمنٹ کا بھی ان سے یہی تقاضا ہے اور ہم بھی ان کو اسی طرف توجہ دلا رہے ہیں.پس پہلے تو میں میونسپل کمیٹی ربوہ سے کہوں گا کہ وہ ربوہ میں صفائی کا مناسب انتظام کرے اور ہر گھر کے لیے یہ لازمی قرار دے کہ وہاں یورپین شہروں کی طرح ایک ڈرم رکھا جائے.اگر ان ڈرموں کا اکٹھا آرڈر دے دیا جائے تو یہ ستی قیمت پر مہیا کئے جا سکتے ہیں.مثلاً اگر یہ ڈرم تین چار روپے میں آجائے تو آسودہ حال لوگوں سے یہ رقم لیکر انہیں ڈرم مہیا کر دیا جائے.اور جو غریب ہیں اُن کے لئے صدر انجمن احمد یہ اور محلہ والوں کو تحریک کی جائے کہ انہیں ڈرم خرید کر دے دیں.اس طرح گھروں سے بندھا بندھا یا گند باہر آئے گا اور اُسے کمیٹی والے شہر سے باہر لے جائیں گے اور گلیوں اور کوچوں میں گند نہیں پڑے گا.یہ نہیں ہو گا کہ کوئی گتا گندگی میں پڑی ہوئی چیز پر منہ مار کر اُسے کھینچے لئے جا رہا ہو.کسی جگہ جانور اپنے پاؤں سے اُسے ٹھوکریں مار کر گند پھیلا رہا ہو اور کہیں کوئی غلیظ انسان اُسے ٹھو کر میں مار کر اِدھر اُدھر بکھیر رہا ہو.پھر لوکل کمیٹی ہے.وہ بھی ایک قسم کی میونسپل کمیٹی ہے.اُس کا بھی فرض ہے کہ وہ لوگوں کو صفائی کے برقرار رکھنے کی تحریک کرے.اسی طرح لجنہ اماء اللہ کا کام ہے کہ وہ مستورات کو

Page 267

$1955 257 خطبات محمود جلد نمبر 36 سکھائے کہ کس طرح صفائی رکھی جاسکتی ہے.اور پھر اس بات کی نگرانی کرے کہ اُن کی اس نصیحت پر عمل بھی ہو رہا ہے یا نہیں.میں جب انگلستان سے واپس آیا تو خلیل احمد ناصر مبلغ امریکہ بھی میرے ساتھ آئے.انہوں نے مجھے بتایا کہ کچھ عرصہ ہوا یو.این.او کا ایک نمائندہ پاکستان آیا اور وہ ربوہ میں بھی آیا تھا.واپسی پر وہ مجھے ملا اور اُس نے بیان کیا کہ میں ربوہ بھی گیا تھا.میں تمہاری آرگنائزیشن کی بہت تعریف کرتا ہوں.تم نے بہت جلد ایک شہر آباد کر لیا ہے.لیکن ساتھ ہی اُس نے کہا تمہارا شہر افسردہ سا نظر آتا تھا.میں نے دریافت کیا کہ اس سے اُس کا کیا مطلب تھا ؟ تو انہوں نے بتایا کہ اِس سے اُس کا یہ مطلب تھا کہ وہاں صفائی کا کوئی انتظام نہیں تھا.اسی طرح وہاں نہ پھول تھے اور نہ درخت تھے.اس لیے شہر مردہ سا نظر آتا تھا.ہمارا پہلے یہ خیال تھا کہ یہاں ترکاریاں اور باغ نہیں لگائے جا سکتے لیکن اب تجربہ نے بتایا ہے کہ یہاں اس قسم کی چیزیں کاشت کی جاسکتی ہیں.کل ہی ایک شخص نے میرے پاس خربوزہ بھیجا اُس نے اُسے بویا نہیں تھا بلکہ وہ آپ ہی زمین سے نکل آیا تھا.اُسے پتا نہیں تھا کہ وہ کیا چیز ہے اُس نے وہ میرے پاس بھیج دیا اور کہا مجھے پتا نہیں یہ کیا پھل ہے.یہ آپ ہی نکل آیا ہے.میں نے اسے بویا نہیں تھا لیکن ہے بہت میٹھا.میں نے دیکھا تو وہ خربوزہ ہی تھا.معلوم ہوتا ہے کہ کسی نے خربوزہ کھا کر پیج وہاں پھینک دیئے اور خربوزہ کی بیل اُگ آئی.پس اب یہاں درخت اور سبزیاں اُگ آتی ہیں.لیکن اُگتی محنت سے ہی ہیں.اس لیے ربوہ کے جن حصوں میں اچھا پانی نکلا ہے وہاں درخت اور پودے بھی لگائے جا سکتے ہیں.قادیان میں قریباً ہر گھر میں باغ تھا.یہاں بھی دوستوں کو درخت لگانے کی کوشش کرنی چاہیے.یہاں لوگوں نے قریباً ہر گھر میں نکے لگوا لئے ہیں اس لیے ایسا کرنا کوئی مشکل امر نہیں.میونسپل کمیٹی کو بھی چاہیے کہ وہ بھی ٹیوب ویل لگا کر پائپ کے ذریعہ گھروں میں پانی پہنچائے.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اس وقت نل ملنے مشکل ہیں لیکن اگر میونسپل کمیٹی ٹیوب ویل لگائے تو چونکہ گورنمنٹ میونسپل کمیٹیوں سے خاص رعایت کرتی ہے اس لیے گورنمنٹ اسے کنٹرول نرخ پر نل مہیا کر دے گی.اگر کمیٹی اچھے پانی پر ٹیوب ویل لگا کر پانی شہر میں پہنچا دے تو اس سے میونسپل کمیٹی کی آمد بھی بڑھے گی اور اس سے یہ

Page 268

$1955 258 خطبات محمود جلد نمبر 36 فائدہ بھی ہوگا کہ ربوہ والے آسانی کے ساتھ سڑکوں کے کناروں پر درخت لگا سکیں گے.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ سٹرکوں پر لگائے ہوئے درخت گورنمنٹ کی ملکیت ہوتے ہیں.لیکن یہ کس قدر حماقت کی بات ہے کہ انسان یہ کہے کہ ہماری صحت بے شک اچھی نہ ہولیکن سڑکوں کے کناروں پر لگے ہوئے درخت گورنمنٹ کو نہ ملیں.حالانکہ ہمارے مد نظر یہ ہونا چاہیے کہ گورنمنٹ کو اگر سو درخت بھی ملتے ہیں تو بے شک مل جائیں.اس سے ہماری حکومت کو بھی فائدہ پہنچے گا اور ہماری صحت بھی اچھی ہو جائے گی.اسی طرح اگر ٹیوب ویل لگ جائے تو سڑکوں پر چھڑ کا ؤ کا بھی اچھا انتظام ہو جائے گا.اس وقت حالت یہ ہے کہ طوفان تو اور جگہوں پر آئے ہیں لیکن بیمار ربوہ والے ہوئے ہیں.جس کسی سے پوچھو وہ یہی کہتا ہے کہ ہمارے گھر میں فلاں کو تیز بخار ہے اور پھر یہ بخار مہینہ مہینہ تک چلا جاتا ہے.اسی طرح نزلہ اور زکام بھی وبائی رنگ میں پھیلا ہوا ہے.اس کی وجہ محض گرد و غبار ہے جو یہاں ہر وقت اُڑتا رہتا ہے.اگر ٹیوب ویل لگ جائے تو بڑی آسانی کے ساتھ سٹرکوں پر چھڑ کا ؤ ہو سکے گا اور اس طرح گردوغبار ایک حد تک دب جائے گا.پھر ہمارا کالج ہے وہ ایک پرائیویٹ ادارہ ہے.مگر مرزا ناصر احمد نے مجھے بتایا ہے کہ انہوں نے کالج کی سڑکوں کو پختہ کرنے کے لیے رولر منگوا لئے ہیں.پانی ڈال کر انہیں پھیر دینے سے سٹرکیں پختہ ہو جاتی ہیں.میونسپل کمیٹی ربوہ بھی اگر ہمت کرے تو وہ اُس رولر سے تکنا یا چار گنا بوجھل رولر منگوا سکتی ہے.کالج کا رولر اگر چارمن کا ہے تو میونسپل کمیٹی 17, 18 من کا منگوالے.اگر اسے دو بیل آسانی کے ساتھ نہ کھینچ سکیں تو چار بیل لگ جائیں.اول تو دوا چھے بیل چار بیلوں کا کام کر سکتے ہیں اور پھر رولر چونکہ گول ہوتا ہے اس لیے اسے آسانی کے ساتھ کھینچا جا سکتا ہے.لیکن اگر دو بیلوں سے کام نہ چلے تو چار بیل بھی رکھے جاسکتے ہیں.بہر حال سڑکوں پر پانی ڈال کر رولر پھیر دیا جائے تو وہ پکی ہو جائیں گی اور گرد و غبار نہیں اُڑے گا.اس وقت جو گرد و غبار اڑتان ہے اس کی وجہ سے کتنا خرچ آتا ہے.ہر شخص جو اس گرد وغبار کی وجہ سے بیمار ہوتا ہے وہ اپنے علاج پر کچھ نہ کچھ ضرور خرچ کرتا ہے.پھر اگر کوئی شخص بیمار ہوتا ہے تو اس کی وجہ سے کام کی رفتار میں بھی کمی آتی ہے.یورپ والے تو اس بات کا بھی حساب رکھتے ہیں کہ فلاں شخص کے بیمار ہونے

Page 269

$1955 259 خطبات محمود جلد نمبر 36 سے ہمارے کام کا اس قدر نقصان ہوا ہے.اس طرح اُن کے کام کی رفتار ٹھیک رہتی ہے.لیکن ہمارے ہاں اس کی کوئی پروا نہیں کی جاتی اور یہ نہیں دیکھا جاتا کہ آدھا حصہ آبادی کا بیمار رہا ہے.اس لیے ملک کی آمد کا دسواں یا بارہواں حصہ ضائع ہو گیا ہے.پس یہاں کی میونسپل کمیٹی کو چاہیے کہ وہ پانی کا انتظام کرے اور پھر اسے رولر کا بھی انتظام کرنا چاہیے تا سڑکوں کو پختہ بنایا جا سکے.محلوں کی کمیٹیوں کو چاہیے کہ وہ کمیٹی سے تعلق رکھنے والے امور کے متعلق ریزولیوشن پاس کر کر کے اُسے بھجوائیں کیونکہ میونسپل کمیٹی ان کا نمائندہ ہے.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ وہ گورنمنٹ کا ادارہ ہے لیکن گورنمنٹ نے آپ ہی اسے پبلک کے ماتحت رکھا ہوا ہے.تبھی تو اس کے لیے پبلک اپنے نمائندے مقرر کرتی ہے.پس تم ریزولیوشن پاس کر کر کے میونسپل کمیٹی کو بھجوا ؤ اور اُس سے کہو کہ وہ ان امور کی طرف توجہ کرے.پبلک کی خدمت کرنا اُس کا فرض ہے اس لیے اسے اپنے اس فرض کو پورا کرنا چاہیے.میں نے میونسپل کمیٹی والوں کو صفائی کی طرف توجہ دلائی تو انہوں نے ایک شکوہ کیا جو نہایت افسوس ناک ہے.اور وہ یہ کہ یہاں کے 80 فیصدی لوگ ٹیکس سے بچنے کی کوشش کرتے ہیں.حالانکہ اگر میونسپل کمیٹی کی آمد ہی نہایت قلیل ہو تو وہ پبلک کی کیا خدمت کرے گی.ہمیں تو یہ کوشش کرنی چاہیے تھی کہ اگر کوئی شخص ایک روپیہ ٹیکس دیتا ہے تو وہ ایک روپیہ ایک آنہ ٹیکس دے.کیونکہ اگر ان کے پاس روپیہ کافی جمع ہو جائے تو اس کا فائدہ ہمیں ہی پہنچے گا کیونکہ وہ روپیہ ہماری صحت اور تعلیم وغیرہ پر خرچ ہو گا.مثلاً اب جتنا روپیہ بھی میونسپل کمیٹی وصول کرتی ہے وہ عملہ پر خرچ ہو جاتا ہے.فرض کر و موجودہ آمد سے سوائی رقم اسے وصول ہو تو جو زائد چونی آئے گی وہ عملہ پر خرچ نہیں ہوگی کیونکہ عملہ کا خرچ تو چل رہا ہے.وہ چونی پبلک کے فائدہ کے لیے خرچ ہوگی.پس میونسپل کمیٹی کا ٹیکس ادا نہ کرنا بڑے جرم کی بات ہے.اس سے دوستوں کو احتراز کرنا چاہیے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا یہ طریق تھا کہ آپ ایسا کرنے سے دوستوں کو ہمیشہ منع فرمایا کرتے تھے.ایک دفعہ آپ کے پاس ایک مخلص احمدی آیا.کسی نے اُس کے متعلق

Page 270

$1955 260 خطبات محمود جلد نمبر 36 بتایا کہ یہ دوست بہت غریب ہیں لیکن حضور سے انہیں بہت محبت ہے.جب آپ کا چہرہ مبارک دیکھے کچھ عرصہ ہو گیا تو یہ بے چین ہو گئے اور گجرات سے پیدل چل کر لاہور یا امرتسر آگئے اور وہاں سے بغیر ٹکٹ خریدے ریل پر بیٹھ گئے اور یہاں آگئے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جب یہ بات سنی تو آپ نے دریافت فرمایا کہ ریل کا کرایہ کس قدر تھا ؟ انہوں نے بتایا کہ ایک روپیہ.اس پر آپ نے جیب میں ہاتھ ڈالا.آپ نقدی رو مال میں باندھ کر جیب میں رکھا کرتے تھے.آپ نے اُس میں سے ایک روپیہ نکال کر اُسے دیا اور فرمایا یہ روپیہ میری طرف سے تحفہ ہے.واپس جاتے ہوئے آپ ریل میں ٹکٹ لے کر بیٹھیں اور یا درکھیں کہ جس طرح پبلک کوٹوٹنا گناہ ہے ویسے ہی ریلوے کے محکمہ کو لوٹنا بھی گناہ ہے.آخر ریل والوں نے ملازم رکھے ہوئے ہیں، انہیں تنخواہیں دیتے ہیں، پھر گاڑیوں کی مرمت بھی کرواتے ہیں.اگر لوگ کرایہ ادا نہ کریں گے تو وہ خرچ کہاں سے کریں گے.اسی طرح میونسپل کمیٹی کے حقوق مارنا بھی خود اپنے آپ کو مارنا ہے.تم خیال تو کرو کہ اگر تمہیں نزلہ، زکام یا بخار ہو جاتا ہے تو اس سے میونسپل کمیٹی کو کیا نقصان پہنچتا ہے.مثلاً تمہارے بچہ کو نزلہ ہوا تو تم بازار میں گئے اور آٹھ آنے کے جوشاندے خرید لائے.ہسپتال سے دو آنے کی خوراک لے آئے.اور اگر اُس پر اعتبار نہ آیا تو کسی کمپونڈ ر کو گھر بلا لائے اور اُس کو دو روپے فیس دے دی اور دو روپے کی دوائیں لے آئے.میونسپل کمیٹی کو تو شاید تمہیں ایک ہی روپیہ دینا پڑتا لیکن اس طرح تمہیں کئی روپے دینے پڑے.پس میونسپل کمیٹی کے حقوق مارنے سے خود اپنا ہی نقصان ہوتا ہے.میں اس خطبہ کے ذریعہ میونسپل کمیٹی ربوہ سے بھی کہتا ہوں کہ وہ شہر کی صفائی کا انتظام کرے اور گھروں میں پانی مہیا کرے تا درخت وغیرہ لگائے جاسکیں.اور سٹرکوں کو رولر کے ذریعہ پختہ بنائے.اور پبلک سے میں کہتا ہوں کہ وہ میونسپل کمیٹی کے ٹیکس پورے ادا کرے.یہ ٹیکس انہیں مہنگے نہیں پڑیں گے بلکہ سستے پڑیں گے.کیونکہ ان کا فائدہ کسی دوسری شکل میں کوٹ کر ان کے پاس آئے گا.ان کا فائدہ کوٹ کر آئے گا تمہاری صحت کی شکل میں ، ان کا فائدہ کو کر آئے گا تمہارے بیوی بچوں کی صحت کی شکل میں ، ان کا فائدہ کوٹ کر آئے گا شہر کی خوبصورتی

Page 271

$1955 261 خطبات محمود جلد نمبر 36 کی شکل میں.پھر یہ نہیں ہوگا کہ باہر سے آنے والے اس بات کی تعریف کریں کہ احمدیوں کی تنظیم بہت اچھی ہے.لیکن ساتھ ہی یہ کہیں کہ ان کا شہر مُردہ نظر آتا تھا، وہاں کوئی صفائی نہیں تھی ، اس کی حالت مقبروں کی سی تھی.ہم تو وصیت والے مقبرہ کی صفائی کرتے ہیں لیکن عام قبرستانوں کی صفائی کا کون انتظام کرتا ہے.اسی طرح اگر یہاں گند ہو تو باہر سے آنے والے کہیں گے کہ یہاں کے رہنے والے مُردہ ہیں.ان کی حالت قبرستان میں مدفون مُردوں کی سی ہے.جس طرح انہیں معلوم نہیں ہوتا کہ دنیا میں کیا ہورہا ہے اسی طرح انہیں بھی معلوم نہیں کہ شہر میں کیا ہو رہا ہے.جس طرح مقبرے گندے ہوتے ہیں اسی طرح ان کا شہر بھی گندہ ہے.یہ باتیں ہیں تو معمولی لیکن ان کے نتائج بہت بُرے نکلتے ہیں.دیکھو ! رسول کریم ﷺ کو صفائی کا کس قدر خیال تھا.آپ نے ایسے شخص کے لیے بڑی وعید فرمائی ہے جو سڑک پر پاخانہ پھرتا ہے 1.اسی طرح فرمایا اگر کوئی شخص کھڑے پانی میں پیشاب کر دیتا ہے تو وہ گناہ کا ارتکاب کرتا ہے.اسی طرح فرمایا جو شخص رستہ میں پڑی ہوئی کوئی ایذا دینے والی چیز دُور کر دیتا ہے اسے ثواب ملے گا3.مثلاً رستہ میں کانٹے پڑے ہوں ، پتھر پڑے ہوں یا کسی نے اوجھڑی یا انتڑیاں رستہ میں پھینک دی ہوں تو اگر انہیں کوئی شخص رستہ سے ہٹا دیتا ہے تو اُسے خدا تعالیٰ کی طرف سے بہت اجر ملے گا.اسی طرح آپ نے انہی کاموں کی جو آئندہ میونسپل کمیٹیوں نے کرنے تھے بنیا د رکھ دی اور لوگوں کو اُن کے فرائض کی طرف متوجہ کر دیا.پس ہمیں چاہیے کہ ہم میونسپل کمیٹی کی مدد کریں اور اس کی آمد بڑھانے کی کوشش کریں.ہماری یہ کوشش ہونی چاہیے کہ کمیٹی کی آمد تین چار لاکھ روپیہ سالا نہ ہو جائے تا وہ سڑکیں بنائے اور لوگ ایک جگہ سے دوسری جگہ سہولت سے جاسکیں اور اسی طرح دوسرے مفاد عامہ کے کام سرانجام دے.مثلاً ابھی ہسپتال بننا ہے، ہسپتال لوگوں کے لیے بننا ہے لیکن روپیہ سلسلہ خرچ کر رہا ہے.اگر میونسپل کمیٹی کے ٹیکس ادا ہوں اور وہ شہر کے بنانے میں حصہ لے تو گورنمنٹ کو بھی غیرت آئے اور وہ بھی اِس کے لیے کچھ روپیہ دے دے.لیکن اب وہ یہ اعتراض کرتی ہے کہ میونسپل کمیٹی تو خرچ کرتی نہیں صرف ہم سے مانگنا چاہتے ہیں.اسی طرح تعلیم ہے اس کا انتظام بھی بالعموم

Page 272

$1955 262 خطبات محمود جلد نمبر 36 میونسپل کمیٹیوں کے سپرد ہوتا ہے.اگر کمیٹی کے ٹیکس پوری طرح ادا ہو جائیں اور اس کی آمد بڑھ جائے تو یہ بوجھ بھی صدرانجمن احمدیہ کے کندھوں سے اتر کر کمیٹی پر جا پڑے گا اور تمہارے بچے سہولت سے تعلیم حاصل کر لیں گے.دوسری بات میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ 2 نومبر 1950 کو میں نے مرزا مبشر احمد جو مرزا بشیر احمد صاحب کے لڑکے ہیں ان کے متعلق یہ اعلان کیا تھا کہ 1.آئندہ ان سے کوئی چندہ نہ لیا جائے.غالباً اسی وجہ سے ان کی وصیت منسوخ کر دی گئی تھی یا انہوں نے وصیت کرنی چاہی تھی لیکن اسے قبول نہیں کیا گیا تھا.2.ان کو سلسلہ کا کوئی عہدہ نہ دیا جائے.3 سلسلہ کی کسی تقریب میں ان کو شامل نہ کیا جائے.4.میری بیویوں اور بچوں کو ان سے کسی قسم کے تعلقات رکھنے کی اجازت نہ ہوگی.ان کی طرف سے اور ان کے بعض رشتہ داروں کی طرف سے بار بار یہ سوال اٹھایا گیا ہے کہ جن لوگوں کو اس بارہ میں سزائیں دی جا چکی ہیں اُن کا فعل مبشر احمد سے بالکل مختلف ہے.عام طور پر یہ سزا اُن لوگوں کو دی جاتی ہے جو وقف میں شامل ہو گئے ہوں اور پھر بھاگ گئے ہوں.لیکن مرزا مبشر احمد کا یہ عذر تھا کہ جب انہوں نے ڈاکٹری پاس کی تو انہوں نے تحریک کو لکھا کہ میں نے امتحان پاس کر لیا ہے.آپ بتائیں کہ مجھے کہاں لگانا ہے؟ لیکن دفتر تحریک جدید نے مجھے یہ جواب دیا کہ ہمارے پاس تمہارے مناسب حال کوئی جگہ نہیں.اس لیے میں نے گویا دفتر کی اجازت کے ماتحت گورنمنٹ سروس اختیار کر لی.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ دفتر کا یہ جواب تسلی بخش نہ تھا اور مرزا مبشر احمد کا جرم اُن لوگوں کا سا نہیں تھا جو وقف میں شامل ہو جاتے ہیں اور پھر بھاگ جاتے ہیں.اور خود مجھے بھی اس کے جرم اور سزا میں فرق نظر آتا تھا.لیکن مجھے اس بات پر غصہ تھا کہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا پوتا ہے اس لیے اُس کا جرم دوسروں سے زیادہ ہے.مانا کہ اُس کے پاس وقف سے بھاگنے کی قانونی وجہ تھی لیکن اُس میں دین کے لیے دوسروں سے زیادہ غیرت ہونی چاہیے تھی.اس لیے میں نے اُس وقت اس سزا پر اصرار کیا لیکن اب مجھے خیال آیا ہے کہ آخر خدا تعالیٰ کے بندوں میں سے

Page 273

$1955 263 خطبات محمود جلد نمبر 36 کچھ کمزور طبیعت کے بھی ہوتے ہیں اور کچھ مضبوط طبیعت کے ہوتے ہیں ممکن ہے مرزا مبشر احمد میں عقل کم ہو اور وہ اُس وقت بات اچھی طرح نہ سمجھ سکا ہو.جب قانونی طور پر اس کا جرم ثابت نہیں تو اس کی سزا میں کسی قدر کمی کر دینا ضروری ہے.محکمہ یہ مانتا ہے کہ ہم نے مرزا مبشر احمد کو مایوسی والا جواب دیا تھا اور لکھا تھا کہ ہمیں آج کل ڈاکٹروں کی ضرورت نہیں.اصل میں یہ نقص اس لیے واقع ہوا کہ نو جوان زندگی وقف کر کے تحریک جدید میں آتے ہیں اور کام سارے صدرانجمن احمدیہ کے سپرد ہیں.اگر مرزا مبشر احمد کو جواب دینے سے قبل تحریک جدید کا محکمہ صدرانجمن احمدیہ سے دریافت کر لیتا کہ آیا انہیں ڈاکٹر کی ضرورت ہے یا نہیں ؟ تو ممکن ہے وہ کہتے ہمیں ڈاکٹر کی ضرورت ہے اور اسے مبہم اور مایوس کن جواب دینے کی ضرورت پیش نہ آتی.لیکن بہر حال تحریک جدید کے پاس نہ کوئی ہسپتال تھا اور نہ اُسے ڈاکٹروں کی ضرورت تھی اس لیے اُس نے مرزا مبشر احمد کو مایوسی والا جواب دے دیا اور اُسے نوسو یا ہزار روپیہ تنخواہ پیاری لگی اور وہ گورنمنٹ سروس میں چلا گیا.جہاں تک دنیا داری کا سوال ہے وہ تو ثابت ہے.لیکن اس سے بجرم اور سزا میں کوئی مناسبت ثابت نہیں ہوتی.سزا جرم سے بہر حال زیادہ ہے.اگر مرزا مبشر احمد وقف میں حاضر ہو جاتا اور پھر بھاگ جاتا تو وہ یقیناً اس سزا کا مستحق تھا اور کوئی وجہ نہیں تھی کہ میں اُسے بدلنے کا ارادہ کرتا.اس نے ڈاکٹری پاس کرنے کے بعد دفتر تحریک جدید کو لکھ دیا تھا اور دفتر نے اُسے یہ جواب دیا تھا کہ ہمیں ڈاکٹروں کی ضرورت نہیں اس لیے وہ سرکاری ملازمت میں چلا گیا لیکن اُسے خود عقل سے کام لینا چاہیے تھا اور اسے یہ کی خیال کرنا چاہیے تھا کہ محکمہ کو میری ضرورت نہیں تو نہ ہو لیکن مجھے تو دین کی خدمت کی ضرورت ہے.مگر وہ عقل کا کمزور تھا یا بزدل تھا اس لیے اُسے دفتر کے اس جواب سے تقویت مل گئی اور اُس نے یہ سمجھا کہ اگر میں وقف کو چھوڑ دوں تو میں سلسلہ اور خدا تعالیٰ کا قانونی مجرم نہیں ہوں.بہر حال ان سارے پہلوؤں کو دیکھ کر میں اعلان کرتا ہوں کہ میں نے جو یہ اعلان کیا تھا کہ اُس سے چندہ نہ لیا جائے اُس کا چونکہ اس کی آخرت پر مستقل اثر پڑتا ہے اس لیے میں سزا کے اس حصہ کو منسوخ کرتا ہوں.اب اگر مرزا مبشر احمد چندہ دینا چاہے تو لے لیا جائے.ہاں اُس

Page 274

$1955 264 خطبات محمود جلد نمبر 36 سے مانگا نہ جائے.آخر مسیح اول کے ایک حواری نے بھی 32 کھوٹے سکے لے کر اُسے بیچ دیا تھا.بے شک وہ حواری جہاندیدہ اور تجربہ کا رتھا اور یہ بچہ تھا مگر مبشر احمد کا جرم اس وجہ سے بڑھ جاتا تو ہے کہ یہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا پوتا ہے.پھر اس نے 32 کھوٹے سکتے نہیں لئے بلکہ نو سو یا ہزار کھرے روپے لے کر گورنمنٹ کی سروس اختیار کر لی.ممکن ہے اگر سزا سے چندہ قبول نہ کرنے کی شرط کو اُڑا دیا جائے اور اس کے اندر دین کی غیرت ہو تو اُسے اس نیکی کی وجہ سے آگے قدم بڑھانے کی توفیق مل جائے.اگر اس میں ایمان ہوتا تو وہ پہلے بھی سلسلہ کی خدمت کے لیے آسکتا تھا لیکن معلوم ہوتا ہے اس کا ایمان کمزور ہے اور اس کا دل بھی کمزور ہے.وہ ڈرتا ہے کہ اگر میں نے وقف کیا تو کھاؤں گا کہاں سے.لیکن اس نے یہ نہ سوچا کہ آخر دوسرے لوگ بھی ہیں جو قلیل آمد میں گزارہ کر رہے ہیں.مثلاً اس کا بھائی مرزا منور احمد ہے اس وقت سلسلہ کی خدمت کر رہا ہے.اور پھر منور احمد ہر سال پاس ہوتا رہا ہے لیکن وہ فیل بھی ہو گیا تھا.اس لیے منور احمد اس سے بہتر ڈاکٹر تھا.جب اس نے امتحان پاس کیا تو گورنمنٹ نے بڑا ہی زور لگایا کہ اسے پانچ سال کے لیے باہر بھیج دیا جائے.لیکن میں نے نہ مانا.اسے ہاؤس سرجن لگانے کی تجویز تھی.کیونکہ اس سے تجربہ زیادہ ہو جاتا ہے اور میں نے بھی اس کے لیے کوشش کی لیکن افسر ہوشیار تھے انہوں نے اصرار کیا کہ اگر مرزا منور احمد پانچ سال تک فوجی سروس کرے تو اُسے ہاؤس سر جن لگا دیا جائے گا.لیکن میں نے کہا میں نے اس سے سلسلہ کی خدمت کرانی ہے.مرزا مبشر احمد کو خیال آنا چاہیے تھا کہ آخر میرے تایا کا بیٹا بھی یہاں گزارہ کر رہا ہے.پھر وہ مجھ سے زیادہ لائق ہے.وہ ہر سال امتحان میں پاس ہوتا رہا ہے لیکن میں فیل بھی ہو گیا تھا.پھر اس نے مجھ سے پانچ سال پہلے امتحان پاس کیا ہے.اگر وہ تھوڑی تنخواہ میں گزارہ کر رہا ہے تو میرے لیے کون سی مشکل ہے کہ گزارہ نہ کر سکوں.زیادہ سے زیادہ وہ یہ کہہ سکتا تھا کہ میرے گھر میں نواب کی بیٹی ہے.لیکن عجیب بات ہے مرزا منور احمد کے گھر میں بھی اُسی نواب کی بیٹی ہے.اور وہ اُس کی بیوی کی بڑی بہن ہے.اس لیے مرزا منور احمد پر وہ ساری باتیں چسپاں ہوتی ہیں جو مرزا مبشر احمد پر چسپاں ہوتی ہیں.وہ ڈاکٹر بھی ہے اور اسکی بیوی بھی نواب کی بیٹی ہے، مرزا مبشر احمد کی بیوی کی بڑی بہن ہے.اس لیے جہاں تک بیوی کے دباؤ کا سوال ہے یہ بھی غلط ہے.اور جہاں تک

Page 275

خطبات محمود جلد نمبر 36 265 $1955 لیاقت کا سوال ہے یہ بھی غلط ہے.مرزا منور احمد اس سے لائق تھا اور پھر اس نے اس سے کئی سال پہلے امتحان پاس کیا تھا.پھر جس وقت مرزا منور احمد نے اپنے آپ کو وقف کے لیے پیش کیا تھا اُس وقت صدر انجمن احمد یہ اسے ایک سو پچاس روپے ماہوار تنخواہ دیتی تھی.اب تو انجمن نے ابتدائی تنخواہ ساڑھے تین سو چار سو کر دی ہے اور ہزار روپے تک گریڈ کر دیا ہے.لیکن اللہ تعالیٰ نے اسے ہمت دی اور وہ اس قلیل آمد میں گزارہ کرتا رہا.بہر حال میں سزا میں جو چندہ قبول نہ کرنے والا حصہ ہے اُسے معاف کرتا ہوں.باقی حصوں کے متعلق میں نے ابھی کوئی فیصلہ نہیں کیا.کیونکہ میرے دل میں ابھی بشاشت پیدا نہیں ہوئی.لیکن چندہ کے متعلق میں سمجھتا ہوں کہ وہ ایمان کو دوبارہ درست کرنے کا ذریعہ ہے اس لیے میں اس سے اُسے محروم نہیں کرنا چاہتا.میرے بیوی بچے اُسے نہ ملیں تو اس سے اُس کے ایمان کی درستی کا کوئی تعلق نہیں.لیکن اُس سے چندہ قبول کر لیا جائے تو ہو سکتا ہے کہ خدا تعالیٰ اُسے ہدایت دے دے اور وہ دین کی خدمت کے لیے آ جائے.پس میں اُس کی سزا کے اس حصہ کو معاف کرتا ہوں اور صد را انجمن احمدیہ کو اجازت دیتا ہوں کہ اگر وہ چندہ دے تو اُسے قبول کر لے یا اگر وہ وصیت کرنا چاہے تو اُس کی وصیت منظور کر لی جائے.شاید اسی طرح اُس کے ایمان اور دل کی کمزوری دور ہو جائے.میں جماعت کے دوستوں سے بھی کہتا ہوں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے خاندان کی اصلاح جماعت کی اصلاح ہے.اس لیے وہ بھی دعا کریں کہ خدا تعالیٰ اس کے دل کے زنگ کو دور کرے اور اس کے ایمان کو بڑھائے تاوہ حوصلہ کر کے سلسلہ اور اپنے احمدی بھائیوں کی خدمت کو روپیہ پر مقدم کر لے.اگر تم لوگ دعائیں کرو تو کوئی تعجب نہیں کہ خدا تعالیٰ اس کے دل سے دنیا اور روپیہ کی محبت کو دور کر دے اور وہ اپنی اصلاح کرلے.آخر اس کا چھوٹا بھائی مرزا مجید احمد جوایم.اے ہے اور کالج میں پروفیسر ہے وقف کر کے یہاں آ گیا ہے.پھر کوئی وجہ نہیں کہ اگر اس کے باپ کا ایک بیٹا اور اسکے تایا کے بیٹے زندگی وقف کر کے یہاں آگئے ہیں تو وہ نہ آسکتا ہو.اگر ابھی تک وہ زندگی وقف کر کے نہیں آیا تو اس کی وجہ محض دنیا کی لالچ اور دین کی محبت کی کمی ہے اور کچھ نہیں.پس ایک تو میں نے مرزا مبشر احمد کی سزا کی معافی کے متعلق اعلان کیا ہے.اور دوسر-

Page 276

خطبات محمود جلد نمبر 36 266 $1955 یہ کہا ہے کہ میونسپل کمیٹی شہر کی صفائی کا انتظام کرے.ٹیوب ویل لگا کر پانی بہم پہنچائے اور رولر منگوا کر سڑکوں کو پختہ کرنے کا انتظام کرے.اسی طرح میں نے دوستوں سے کہا ہے کہ وہ میونسپل کمیٹی کے ٹیکس ادا کریں اور محلوں کی لوکل کمیٹیاں میونسپل کمیٹی سے متعلق امور کے متعلق ریزولیوشن پاس کر کر کے اسے بھیجیں اور کہیں کہ ہم کمیٹی کا ایک وارڈ ہونے کی حیثیت سے یہ ریزولیوشن آپ کو بھجواتے ہیں.ہمارا مطالبہ ہے کہ اس پر پوری توجہ دی جائے.اگر کمیٹی کے ممبران ریزولیوشنوں کی طرف توجہ نہ دیں تو اگلی دفعہ ان کو ممبر نہ بنایا جائے.بلکہ ایسے لوگوں کو ممبر چنا جائے جو واقع میں لوگوں کی خدمت کریں اور شہر کی صفائی کا انتظام کریں.کیونکہ شہر کی صفائی کا با قاعدہ انتظام نہ ہونے کی وجہ سے شہر کی جو بد نامی ہوتی ہے اس سے سلسلہ کی بھی بدنامی ہوتی ہے.ربوہ مشہور شہر ہے جو لوگ پاکستان آئیں گے وہ اب یہاں بھی آئیں گے.اگر یہاں صفائی کا معیار دوسرے شہروں کی صفائی سے بلند ہوگا تو وہ یہ نہیں کہیں گے کہ احمدیوں کی تنظیم تو بہت اچھی ہے لیکن ان کا شہر بہت گندہ ہے.پس شہر کی صفائی کی طرف توجہ کرو اور درخت اور پھول اور سبزیاں اُگاؤ.جن لوگوں نے گھروں میں درخت لگائے ہوئے ہیں انہیں دیکھ کر دل بڑا خوش ہوتا ہے.گلی میں سے گزریں تو لہلہاتے درخت نہایت بھلے معلوم ہوتے ہیں.لیکن اصل میں یہ کام میونسپل کمیٹی اور لوکل انجمن کا ہے.اگر سارے مل کر کوشش کریں تو وہ شہر کو دلہن بنا سکتے ہیں.اور اگر ایسا ہو جائے تو باہر سے آنے والے یہاں سے خوشگوار اثر لے کر جائیں گے.دیکھو رسول کریم ﷺ نے چھوٹی چھوٹی باتوں میں کتنے بڑے بڑے نکات بیان فرمائے ہیں.احادیث میں آتا ہے آپ نے فرما یا اِنَّ اللهَ جَمِيلٌ يُحِبُّ الْجَمَالَ -4 - اللہ تعالیٰ خود بھی خوبصورت ہے اور وہ خوبصورتی کو پسند بھی کرتا ہے.اب يُحِبُّ الْجَمَال کے یہ معنے تو نہیں کہ انسان کے ناک، کان ، ہاتھ اور آنکھیں خوبصورت دکھائی دیں.یہ چیزیں تو انسان آپ بنا تا ہی نہیں یہ تو خدا تعالیٰ بناتا ہے.اس لیے يُحِبُّ الْجَمَالَ سے وہ خوبصورتی مراد نہیں جو خدا تعالیٰ بنا تا ہے.بلکہ اس سے مراد وہ خوبصورتی ہے جو ہمارے اختیار میں ہے.اور وہ صفائی ہے.ہر چیز کو نظافت سے رکھنا اور ہر چیز کو سلیقہ سے رکھنا یہی وہ جمال ہے جو ہم خود بناتے ہیں.ورنہ ناک، کان ، ہاتھ اور آنکھیں تو نہ ہم بناتے ہیں اور انسانوں میں سے کوئی اور بناتا ہے.ان کو

Page 277

$1955 267 خطبات محمود جلد نمبر 36 بنانے والا تو خود خدا تعالیٰ ہے.اس لیے اگر یہ اچھے ہیں تو ہماری کوئی خوبی نہیں.اور اگر اچھے نہیں تو ہمارا کوئی گناہ نہیں.لیکن اپنے گھر کے سامنے صفائی رکھنا تو ہماری اپنی خوبی ہے.سبزہ ، درخت اور پھول لگانے تو ہماری خوبی ہیں.اب بھی جب میں تصور کرتا ہوں تو یورپ کا نظارہ میری آنکھوں کے سامنے آجاتا ہے.ہر گھر میں دروازوں کے آگے چھجے بنے ہوئے ہیں اور اُن پر بکسوں میں بھری ہوئی مٹی پڑی ہے اور اس میں پھول لگے ہوئے ہیں.جس گلی میں سے گز رو پھول ہی پھول نظر آتے ہیں اور سارا شہر ایک گلدستہ کی طرح نظر معلوم ہوتا ہے.ربوہ بھی اُسی طرح بنایا جا سکتا ہے.بڑی محنت کی ضرورت نہیں.تھوڑی سی توجہ کی ضرورت ہے.اس سے بیوی بچوں کو باغبانی کا فن بھی آجاتا ہے.صحت بھی اچھی ہو جاتی ہے اور کچھ آمد کی صورت بھی پیدا ہو جاتی ہے.مثلاً گھروں میں خربوزے ، لکڑی اور دوسری چیزیں لگا دی جائیں تو خوبصورتی کی خوبصورتی نظر آئے گی ، صحت بھی اچھی رہے گی اور کھانے کو ترکاری بھی مل جائے گی جو یہاں نصیب نہیں.میری سمجھ میں یہ بات نہیں آتی کہ یورپ کا ڈاکٹر بھی کہتا ہے کہ سبزیاں کھاؤ اور پاکستان کا ڈاکٹر بھی کہتا ہے کہ سبزیاں کھاؤ.مگر پاکستان میں سبزیاں نہیں ملتیں.اگر لوگ گھروں میں سبزیاں لگانے لگ جائیں اور سبزیاں کھانے کی عادت ڈالیں تو اِس سے اُن کی صحت میں بھی ترقی ہوگی.اور پھر جو شخص گھروں میں سبزیاں لگائے گا اور اُسے سبزی کھانے کی عادت ہوگی وہ دکاندار سے بھی اصرار کرے گا کہ سبزیاں لاؤ.اور دکاندار آگے زمینداروں سے اصرار کرے گا کہ تم سبزیاں اُگاؤ.اس طرح ملک میں سبزیاں کاشت کرنے کا رواج عام ہو جائے گا.پس تم شہر کو خوبصورت بناؤ تا تمہارے دل بھی خوبصورت ہو جائیں.دیکھو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کا کس قدر خیال تھا.آپ نے فرمایا لوگو ! نماز میں تم اپنی صفیں سیدھی رکھا کرو.اگر تم صفیں سیدھی نہیں کرو گے تو تمہارے دل ٹیڑھے ہو جائیں گے 5.اب صفیں سیدھی رکھنے کا حکم اس لیے دیا گیا ہے کہ دور سے دیکھنے والے کو صفیں خوبصورت معلوم ہوں.پس إِنَّ اللَّهَ جَمِيلٌ يُحِبُّ الْجَمَال سے مراد زیبائش ہے اور اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا وجود بڑا دیدہ زیب ہے اور وہ زیبائش کو ہی پسند کرتا ہے.سو تم اپنے اندر زیبائش پیدا کرو

Page 278

$1955 268 خطبات محمود جلد نمبر 36 اللہ تعالیٰ تم سے محبت کرنے لگ جائے گا اور تمہاری مدد کرے گا.پس تم شہر کو خوبصورت بنانے کی کوشش کرو.چھٹڑ کا ؤ اور رولر کے ذریعہ گردو غبار کو دباؤ.اب تو یہ حالت ہے کہ اگر ایک آدمی بھی گلی سے گزرتا ہے تو چاروں طرف گر داڑنے لگ جاتی ہے اور اگر کھڑ کی کھولی جائے تو ہوا میں اس قدر گر د ہوتی ہے کہ سانس لینا مشکل ہو جاتا ہے.میں نے دیکھا ہے کہ صبح کے وقت کھڑ کی کھولیں تو کمرے میں سانس رُکنے لگ جاتا ہے.جس سے صاف پتا لگتا ہے کہ یہ گردوغبار کا اثر ہے جو ہوا کے ساتھ کمرہ کے اندر آجاتا ہے.اس کی وجہ یہی ہے کہ نہ یہاں چھڑکاؤ کا انتظام ہے، نہ رولر سے مٹی دبانے کا انتظام ہے اور نہ لوگوں نے باغ اور پھول لگائے ہیں کہ اس سے گردو غبار دب جاتا ہے.جڑیں پانی کو نیچے کھینچتی ہیں اور اس سے مٹی دب جاتی ہے.اس نقص کی وجہ سے شہر کی صحت خراب ہے.جب بیماری آتی ہے تو ربوہ میں دو دو ماہ تک ڈیرہ لگائے رہتی ہے.بخار آتا ہے تو وہ دو دو ماہ تک شہر سے نہیں نکلتا.نزلہ، زکام اور کھانسی آتی ہے تو وہ دو دو ماہ تک شہر سے نہیں نکلتی.غرض ہم سارے کے سارے اپنی حماقت اور بیوقوفی کا شکار ہوتے چلے جاتے ہیں.“ الفضل 14 دسمبر 1955ء) 1 صحيح مسلم كتاب الطهارة باب النهى عَنِ التخلي في الطريق و الظلال 2 جامع الترمذى ابواب الطهارة باب كراهية البول في الماء الرّاكِدِ :3 بخارى كتاب المظالم باب ا مَا طَةِ الأذى :4 مسلم کتاب الایمان باب تَحْرِيمِ الْكِبْرِ وَ بیانِهِ 5 سنن ابی داؤد کتاب الصلاة باب تسوِيَةِ الصُّفُوف

Page 279

$1955 269 36 خطبات محمود جلد نمبر 36 1.جلسہ سالانہ کے موقع پر قادیان جانے کی اہمیت 2.در وصاحب مرحوم نے چالیس سال تک نہایت ثابت قدمی کے ساتھ سلسلہ کی خدمت کی ہے فرموده 19 دسمبر 1955ء بمقام ربوہ) تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا." آج مجھے مرزا عزیز احمد صاحب ( جو محکمہ حفاظت مرکز کے انچارج ہیں) کی طرف سے اطلاع ملی ہے کہ اس دفعہ جلسہ سالانہ کے موقع پر قادیان بہت کم دوست جارہے ہیں.انہوں نے لکھا ہے کہ شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ قادیان جانے کے لیے پاسپورٹ اب آسانی سے مل جاتے ہیں اس لیے بہت سے دوست سال کے دوران میں قادیان ہو آئے ہیں.لیکن یہ کوئی دلیل نہیں ہے.کیونکہ قادیان میں سال میں صرف ایک دو دفعہ جانے کی ہی ضرورت نہیں بلکہ جہاں کسی کا کوئی عزیز ہوتا ہے وہاں سوائے اشد مجبوری کے اُسے بار بار جانا چاہیے.اس لیے اگر دوست سال میں چار دفعہ بھی قادیان ہو آئے ہوں تب بھی جماعت کی عزت اور وقار کی خاطر انہیں اس جلسہ کے موقع پر قادیان جانا چاہیے.آخر انہیں خیال کرنا چاہیے کہ وہ ہجرت کے بعد اس

Page 280

$1955 270 خطبات محمود جلد نمبر 36 طرف آگئے ہیں اور یہاں آزاد ہیں.لیکن ان کے جو بھائی قادیان میں رہ گئے ہیں اُن کو اتنی تی آزادی میسر نہیں جتنی ہمیں حاصل ہے.اُن میں سے کئی ایسے ہیں جن کے پاسپورٹ گورنمنٹ نے جمع کر لئے ہیں.وہ منہ سے تو یہی کہتی ہے کہ جب ضرورت ہوئی یہ پاسپورٹ واپس دے ئیے جائیں گے لیکن عملی طور پر انہوں نے وہ پاسپورٹ اب تک واپس نہیں دیئے.پس اُن لوگوں کی دلجوئی کے لیے پاکستان کے احمدیوں کو جنہیں یہاں ربوہ میں جلسہ سالانہ دیکھنے کا موقع ملتا رہتا ہے (سوائے اُن لوگوں کے جن کے سپر د خاص خاص کام ہیں اور اُن کے قادیان چلے جانے سے یہاں کا جلسہ خراب ہو جاتا ہے ) اس جلسہ کے موقع پر قادیان جانا چاہیے.چاہے وہ سال میں چار دفعہ قادیان ہو آئے ہوں انہیں اس موقع پرشستی اور غفلت سے کام نہیں لینا چاہیے تا وہاں کے ہندوؤں اور سکھوں کو معلوم ہو کہ احمدی اپنے مقدس مرکز قادیان سے محبت کرتے ہیں اور ان کے جو بھائی قادیان رہ گئے ہیں اُن کی بھی دلجوئی ہو.لیکن مجھے افسوس ہے کہ مرزا عزیز احمد صاحب نے یہ معاملہ ایسے وقت میں میرے سامنے پیش کیا ہے کہ دوستوں کو قادیان جانے کے لیے تیار کرنے کی گنجائش باقی نہیں رہی.کیونکہ وہ لکھتے ہیں کل دس دسمبر کو ہم نے پاسپورٹ جمع کرانے ہیں اور آج 9 دسمبر کو انہوں نے یہ معاملہ میرے سامنے رکھا ہے.یہ تو اتنی غفلت ہے کہ اس کے معنے سوائے اس کے اور کوئی نہیں ہو سکتے کہ خود افسروں کو بھی اس بات کا احساس نہیں کہ ہر کام وقت پر کیا جائے.مرزا بشیر احمد صاحب ( جب تک ان کی صحت اچھی تھی ) اس بارہ میں کافی کوشش کرتے تھے اور ہر سال قادیان جانے کے لیے سو ڈیڑھ سو افراد کی درخواستیں آجاتی تھیں بلکہ جب شروع شروع میں افراد میں جوش زیادہ تھا تو دو دو تین تین سو افراد کی درخواستیں آجاتی تھیں.اور دفتر کو قرعہ ڈال کر قافلہ میں جانے والوں کے متعلق فیصلہ کرنا پڑتا تھا.یہ جوشِ محبت قائم رہنا چاہیے بلکہ اس کو زیادہ کرتے رہنا چاہیے.پاکستان کے لوگوں کو تو ربوہ آنے کا موقع ملتا ہی رہتا ہے.ہاں قادیان جانا ان کے لیے مشکل ہے اور وہی ان کے لیے زیادہ اہم بھی ہے تا کہ وہاں رہنے والوں میں مرکز کی خدمت کی روح قائم رہے اور اُن میں زندگی کے آثار باقی رہیں.پس گواب تو کوئی وقت باقی نہیں رہا کہ میں بیرونی جماعتوں کے دوستوں کو قادیان

Page 281

$1955 271 خطبات محمود جلد نمبر 36 جانے کی تحریک کر سکوں لیکن ربوہ کے رہنے والے جن کے پاس پاسپورٹ ہوں اب بھی اس موقع سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں.چنانچہ مرزا عزیز احمد صاحب نے لکھا ہے کہ ربوہ کے بہت سے افراد ایسے ہیں جن کے پاس پاسپورٹ ہیں اور وہ قادیان جاسکتے ہیں لیکن وہ جانے پر آمادہ نہیں.کیونکہ وہ سال کے دوران میں قادیان ہو آئے ہیں.حالانکہ جیسا کہ میں نے بتایا ہے قادیان سے ہو آنا کوئی دلیل نہیں.سوال تو یہ ہے کہ کیا انہیں ربوہ کا جلسہ سالانہ دیکھنے کا کبھی موقع نہیں ملا ؟ یا وہ سلسلہ کے ایسے اہم کاموں پر مقرر ہیں کہ ان کو چھوڑ کر جانے سے یہاں کا جلسہ خراب ہو جاتا ہے؟ اگر ایسا ہے تو ان کا فعل مستحسن ہے اور قابلِ مذمت نہیں بلکہ قابل تعریف ہے.لیکن اگر ایسا نہیں تو محض اس لیے کہ وہ سال کے دوران میں قادیان ہو آئے ہیں اور اپنے رشتہ داروں کومل آئے ہیں ان کا اس موقع پر اسے قادیان نہ جانے کا بہانہ بنالینا درست نہیں.رشتہ داروں کو ملنا ہی ان کی خواہش نہیں ہونی چاہیے بلکہ انہیں جماعت کی عزت اور وقار کے قائم رکھنے کے لیے بھی قادیان جانا چاہیے.اگر قادیان جانے والوں کی تعداد ہر سال کم ہوتی رہی تو اس سے جماعت کی عزت اور وقار کو یقیناً صدمہ پہنچے گا.پس گو اس وقت میری تحریک سے صرف یہاں کے لوگ ہی فائدہ اٹھا سکتے ہیں لیکن میں آئندہ کے لیے نصیحت کرتا ہوں کہ وقت سے پہلے افسروں کو اپنے کام کے لیے ہوشیار ہو جانا چاہیے.دس تاریخ کو جو کام ہونا ہے اُس کی 9 تاریخ کو اطلاع دینے میں کوئی بھی معقولیت نہیں.اگر مختلف جماعتوں میں پہلے سے تحریک کی جاتی اور مختلف افراد کو جو مبلغ یا کسی اور حیثیت سے جماعتوں میں پھرتے رہتے ہیں اِس کام میں امداد کی تحریک کی جاتی تو لاکھوں کی جماعت میں سے قادیان جانے کے لیے دو تین سو افراد کا تیار ہو جانا کوئی بڑی بات نہیں تھی.پس آئندہ کے لیے اس غلطی کا ازالہ ہونا چاہیے اور شروع سال سے ہی اس کے لیے کوشش شروع کر دینی چاہیے.قوموں کی زندگی کا صرف ایک سال نہیں ہوا کرتا بلکہ قوموں کی زندگی کے سینکڑوں اور ہزاروں سال ہوتے ہیں.اس لیے ابھی سے اگلے سال کے قافلہ کے لیے تیاری شروع کر دینی چاہیے.اور ابھی سے لوگوں کے اندر ایسا جوش پیدا کرنا چاہیے کہ اگلے سال قافلہ میں جانے

Page 282

$1955 272 خطبات محمود جلد نمبر 36 والے افراد کا فیصلہ کرنے کے لیے ہمیں قرعے ڈالنے پڑیں.اگر ایک سو آدمی قادیان جاتا ہو تو چارسو افراد کی طرف سے درخواستیں آئی ہوئی ہوں.اس سال کچھ نقص اس وجہ سے بھی ہوا ہے کہ پہلے گورنمنٹ ہمیں اکٹھے پاسپورٹ دیا کرتی تھی اور اس سے لوگ فائدہ اٹھالیا کرتے تھے الگ الگ پاسپورٹ بہت کم ملتے تھے.اب پاسپورٹ ملنے میں آسانی ہو گئی ہے اس لیے لوگ دورانِ سال میں کثرت سے قادیان جاتے رہتے ہیں.مگرا کیلے جانا اور جلسہ سالانہ کے موقع پر جانا دونوں میں فرق ہے.جلسہ سالانہ کے موقع پر جانے سے صرف قادیان کی زیارت ہی نہیں ہوتی بلکہ احمدیت کا وقار بھی بڑھتا ہے اور یہ دونوں الگ الگ اغراض ہیں.جیسے عمرہ اور حج دونوں کی الگ الگ اغراض ہیں.عمرہ میں بھی انسان خانہ کعبہ کا طواف کرتا ہے اور حج کے موقع پر بھی وہ خانہ کعبہ کا طواف کرتا ہے.لیکن حج کی قیمت جو اللہ تعالیٰ نے رکھی ہے وہ عمرہ کی نہیں رکھی.اور اس کی وجہ یہی ہے کہ عمرہ کرنے کے لیے لوگ الگ الگ جاتے ہیں اور حج کے لیے ساری دنیا کے لوگ اکٹھے ہو کر جاتے ہیں.اس لیے حج کے موقع پر اسلام کا وقار بڑھتا ہے لیکن عمرہ میں محض خانہ کعبہ کی زیارت اور برکت ہوتی ہے اس لیے اللہ تعالیٰ نے حج کو مقدم رکھا ہے.پس جلسہ سالانہ کے موقع پر قادیان جانے سے جماعت کا وقار بڑھتا ہے.ہجوم کو دیکھنے سے لوگوں کے دلوں پر اثر پڑتا ہے.اگر وہاں ایک ایک احمدی پھر رہا ہو تو اُس کا کوئی اثر نہیں پڑتا.اس لیے کہ ہندوستان میں مسلمان تو پائے ہی جاتے ہیں.اس لیے وہاں کے ہندوؤں اور سکھوں کے لیے وہ کوئی عجیب چیز نہیں ہوں گے.وہ سمجھیں گے کہ ایک مسلمان پھر رہا ہے.لیکن جلسہ سالانہ کے موقع پر سینکڑوں احمدیوں کا قادیان جانا اور سات سات آٹھ آٹھ لاریوں کا اکٹھا وہاں پر پہنچنا اُنہیں اس طرف توجہ دلاتا ہے کہ ابھی مسلمانوں میں دینی روح زندہ ہے اور احمد یوں کو اپنے مقدس مقام سے محبت ہے.پھر یہ بات اُن لوگوں کے دلوں میں بھی تعلق کا احساس پیدا کر دیتی ہے.کیونکہ وہاں کے رہنے والے چاہے وہ ہندو یا سکھ ہوں اب تک اُن کے دلوں میں یہ یقین پایا جاتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی پیشگوئی کے مطابق قادیان ضرور ترقی کرے گا1.ہمیں اُن کے اس یقین کو گھٹا نا نہیں چاہیے بلکہ بڑھانا چاہیے.1.

Page 283

خطبات محمود جلد نمبر 36 273 $1955 اس کے بعد میں دوستوں کو اس امر کی طرف توجہ دلاتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کی مشیت کے ماتحت پرسوں درد صاحب اچانک حرکت قلب بند ہو جانے کی وجہ سے فوت ہو گئے ہیں.ہم میں سے ہر ایک نے فوت ہونا ہے.درد صاحب تو اتنے بڑے پایہ کے آدمی نہیں تھے.ان سے بڑے بڑے پایہ کے لوگ بھی وفات پاگئے.رسول کریم نے وفات پاگئے.آپ کے چاروں خلفاء وفات پاگئے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام وفات پاگئے.حضرت خلیفتہ المسیح الاوّل وفات پاگئے.پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے پرانے صحابہ ایک ایک کر کے وفات پاگئے.خود ان کے اپنے والد ماسٹر قا در بخش صاحب اور ان کے خسر میاں عبد اللہ صاحب سنوری جو پرانے صحابہ میں سے تھے فوت ہو گئے.پس فوت تو سب نے ہونا ہے لیکن یہ طبعی بات ہے کہ پرانا تعلق ہونے کی وجہ سے صدمہ زیادہ ہوتا ہے.1912 ء سے دردصاحب کا میرے ساتھ تعلق تھا.1914ء میں وہ قادیان سلسلہ کی خدمت کے لیے آگئے تھے.1924 ء میں وہ انگلستان مبلغ بن کر گئے تھے.پھر دوبارہ 1933ء میں انگلستان گئے اور قریباً 6 سال وہاں رہے.غرض وہ دو دفعہ مبلغ بن کر انگلستان گئے.پہلی دفعہ 12 جولا ئی 1924 ء کو قادیان سے روانہ ہوئے اور 22 اکتوبر 1928 ء کو واپس آئے.اور دوسری دفعہ 2 فروری 1933 ء کو قادیان سے روانہ ہوئے اور 9 رنومبر 1938ء کو واپس آئے.قادیان میں وہ سالہا سال تک صدرانجمن احمدیہ کے ناظر رہے اور سلسلہ کے اہم عہدوں پر کام کرتے رہے.اتنے لمبے عرصہ تک جس شخص کے ساتھ تعلق رہا ہو اُس سے طبعا محبت ہو جاتی ہے.ایک انسان کسی مکان میں لمبے عرصہ تک رہے تو اُس سے بھی محبت ہو جاتی ہے.پھر ایک انسان جس کے ساتھ روزانہ واسطہ پڑتا ہو اُس سے تو لازماً محبت ہو جاتی ہے.اس لیے گو درد صاحب کی وفات کوئی عجیب چیز نہیں لیکن ان سے دیر یہ تعلق کی بناء پر ان کی وفات سے میرے دل کو اور دوسرے دوستوں کے دلوں کو بھی صدمہ پہنچنا بینہ ایک طبعی بات تھی.حضرت مسیح علیہ السلام کو جب صلیب پر چڑھانے کا وقت قریب آیا تو آپ نے دعا کی کہ اے اللہ ! میری روح تو تیرا حکم ماننے کے لیے تیار ہے مگر میرا جسم کمزور ہے 2.پس جسمانی طور پر ایسی چیزوں کا صدمہ ضرور ہوتا ہے.چنانچہ دردصاحب کی اچانک وفات سے مجھے بھی

Page 284

$1955 274 خطبات محمود جلد نمبر 36 صدمہ ہوا اور اس صدمہ کی وجہ سے میری صحت پر بھی بُرا اثر پڑا.بھوک یکدم بند ہوگئی اور ٹانگیں کانپنے لگ گئیں اور چلنا مشکل ہو گیا.اس کی یہ وجہ نہیں کہ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ کوئی غیر معمولی واقعہ ہوا ہے.یہ واقعہ بہر حال ہونا تھا کیونکہ ہر انسان نے ایک نہ ایک دن ضرور مرنا ہے.لیکن وہی حضرت مسیح علیہ السلام والی بات ہے کہ روح تو خدا تعالیٰ کا حکم ماننے کے لیے تیار ہے لیکن جسم کمزور ہے.پس یہ واقعہ غیر معمولی نہیں لیکن مجھے یہ خیال آتا ہے کہ مرنے والے تو بہر حال مرتے چلے جائیں سے ہمیں قومی زندگی کو قائم رکھنا چاہیے.یورپ میں ایک مخلص مرتا ہے تو اس آدمی اُس.جگہ پر کام کرنے کے لیے آجاتے ہیں.اس لیے انہیں مرنے والے کی موت کا زیادہ احساس نہیں ہوتا.دیکھو جرمنی کے بادشاہ ولیم سے جرمنوں کو اتنا عشق تھا کہ وہ اُس پر اپنی جانیں دیتے تھے مگر جب اتحادیوں نے اُسے شکست دے دی تو ہٹلر پیدا ہو گیا.پھر ہٹلر سے جرمنوں کو اتنا عشق ہوا کہ یوں معلوم ہوتا تھا کہ وہ اس کی پرستش کرتے ہیں لیکن جب ہٹلر چلا گیا تو ایڈ نائر 3 پیدا ہو گیا.پس اگر مرنے والے کے بعد اُس کی جگہ لینے کے لیے اور آدمی پیدا ہوتے رہیں تو قو میں مرتی نہیں زندہ رہتی ہیں.دیکھو! امریکہ میں ایک وقت یہ خیال کیا جاتا تھا کہ پریذیڈنٹ روز ویلٹ کے بعد معلوم نہیں امریکہ کا کیا بنے گا.لیکن روز ویلٹ ایک دن یک دم مر گیا.اُس کا بھی ہارٹ فیل ہوا تھا اور وہ نہاتے نہاتے مر گیا تھا.لیکن لوگوں نے اُس کی موت کو زیادہ اہمیت نہ دی کیونکہ دوسرے لوگ اُس کی جگہ کام کرنے کے لیے آگئے.گویا گاڑی کے گھوڑے گرتے پیچھے ہیں اور اُس میں جتنے والے گھوڑے پہلے آگے آجاتے ہیں.اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ قوم کی ہمت پست نہیں ہوتی اور اس کا کام جاری رہتا ہے.اگر ہماری جماعت میں بھی ایسا ہی ہو تو گومر نے والے سے تعلق ہونے کی وجہ سے اُس کی موت کا صدمہ ضرور ہوگا.مگر وہ صدمہ ایسا ہوگا جس کے ساتھ خوشی بھی ہوگی کہ قوم زندہ ہے.دیکھو رسول کریم علیہ سے بڑا وجود اور کون ہوگا.مسلمانوں کے لیے تو خدا تعالیٰ کے بعد آپ ہی سب کچھ تھے.آپ ہی خدا تعالیٰ کا دنیا میں ظہور تھے.چنانچہ آپ کی وفات پر

Page 285

خطبات محمود جلد نمبر 36 حضرت حسان بن ثابت نے کہا.كُنتَ السَّوَادَ لِنَا ظِرِى 275 فَعَمِيَ عَلَى النَّاظِرُ مَنْ شَاءَ بَعْدَكَ فَلْيَمُتُ فَعَلَيْكَ كُنْتُ أُحَاذِرُ 4 $1955 یعنی تو تو میری آنکھ کی پتلی تھا تیرے مرنے سے میری آنکھ اندھی ہو گئی ہے.اب جو چاہے مرے مجھے تو صرف تیری ہی موت کا ڈر تھا.لیکن آپ کے بعد حضرت ابو بکر کھڑے ہو گئے اور ان کی ایسی شان ظاہر ہوئی کہ خیال کیا جانے لگا کہ آپ جیسا وجو د اور پیدا نہیں ہوگا.لیکن جب آپ فوت ہوئے تو حضرت عمرؓ کھڑے ہو گئے.حضرت عمر فوت ہوئے تو حضرت عثمان کھڑے ہو گئے.حضرت عثمان فوت ہوئے تو حضرت علی کھڑے ہو گئے.جب حضرت علی شہید ہو گئے تو چاہے آپ کے درجہ کے برابر نہ سہی لیکن اللہ تعالیٰ نے اسلام کو سنبھالنے والا معاویہؓ کھڑا کر دیا.پھر کچھ عرصہ بعد اسی خاندان سے حضرت عمر بن عبد العزیز جیسا وجود کھڑا ہو گیا جنہیں عمر ثانی بھی کہا جاتا ہے.پھر یہ سلسلہ آگے چلتا چلا گیا.اسی طرح روحانی طور پر بھی یہ سلسلہ چلا اور جب وہ وقت آگیا کہ لوگوں نے یہ کہنا شروع کر دیا کہ اب مسلمانوں کا کوئی سہارا نہیں تو خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو بھیج دیا.اب ہماری جماعت بھی لاکھوں کی تعداد میں ہے اور اس میں سینکڑوں ایسے طالب علم ہیں جو کالجوں میں پڑھتے ہیں.لیکن کتنے ہیں جو پہلے کام کرنے والوں کی جگہ لینے کے لیے آگے آئے ہیں؟ مجھے یاد ہے کہ ایک دفعہ چین میں ایک عیسائی مشنری عورت کو وحشیوں نے ماردیا اور انہوں نے اُس کے ٹکڑے ٹکڑے کر دئیے.انگریزوں نے دنیا میں یہ مشہور کر دیا کہ چینی اُس کا گوشت کھا گئے ہیں.معلوم نہیں یہ سچ تھا یا جھوٹ.چینی لوگ تو مر دار خوار نہیں ہوتے ہاں پرانے زمانہ میں نجی کے لوگ انسان کو کھا لیتے تھے.مگر انگریزوں نے شاید اپنی کسی مصلحت کے ماتحت یہ مشہور کر دیا کہ چینی لوگ اُس عورت کو کھا گئے ہیں.جو نبی یہ خبر اخباروں میں شائع ہوئی شام تک پانچ ہزار عورتوں کی طرف سے اس مضمون کی تاریں آگئیں کہ ہمیں مرنے والی عورت کی جگہ بھیج دیا جائے.یہ زندہ قوم کی علامت ہے کہ اُس کا ایک فرد مرتا ہے تو اُس کی جگہ لینے کے لیے کئی اور آدمی آگے آجاتے ہیں.

Page 286

خطبات محمود جلد نمبر 36 276 $1955 ہماری جماعت کے نوجوانوں کو بھی چاہیے تھا کہ اگر جماعت کا ایک واقف زندگی چالیس سال خدمت کرنے کے بعد مرجاتا ہے تو دس ہیں اور نو جوان اُس کی جگہ کام کرنے کے لیے اپنے آپ کو پیش کر دیتے.ایک حد تک جماعت کے نوجوان سلسلہ کی خدمت کے لیے اپنی زندگیاں پیش تو کر رہے ہیں.لیکن مجھے اس امر کا افسوس ہے کہ پچھلے دنوں جب میں نے وقف کی تحریک کی تو مختلف کالجوں کے نوجوانوں نے سلسلہ کی خدمت کے لیے اپنی زندگیاں پیش کیں لیکن اس کام میں ہمارا تعلیم الاسلام کالج سب سے پیچھے رہا.ہمیں تو اس بات کی امید تھی کہ سلسلہ کے ایک مرنے والے خادم کی جگہ لینے کے لیے اس کالج کے دس ہیں نو جوان اپنی زندگیاں پیش کریں گے.لیکن تعجب ہے کہ باوجود اس کے کہ اس کالج کے پرنسپل واقف زندگی ہیں، اس کے بہت سے پروفیسر واقف زندگی ہیں اس کالج کے کسی لڑکے نے اپنی زندگی وقف نہیں کی.صرف ایک نوجوان نے جو میرا پوتا ہے زندگی وقف کی ہے.لیکن وہ ابھی بہت چھوٹی کلاس میں تعلیم حاصل کر رہا ہے.اس کے معنے یہ ہیں کہ یہ لوگ اپنے فرائض کے ادا کرنے میں کوتاہی کر رہے ہیں.اگر اس کالج کے سٹوڈنٹ درد صاحب کی وفات کے بعد اپنے آپ کو پیش کرتے اور کہتے کہ وہ بھی ہماری طرح کے ایک انسان تھے اگر انہوں نے باوجود اس کے کہ وہ ایم اے تھے اور نہایت تنگی سے گزارہ کرتے تھے چالیس سال تک سلسلہ کی خدمت کی ہے تو ہم کیوں ایسا نہیں کر سکتے تو جماعت کی ہمت کس قدر بلند ہو جاتی.مجھے یاد ہے جب ہم نے درد صاحب کو ولایت بھیجا ہے ان کی تنخواہ سو روپے ماہوار تھی.چندہ اور دوسری کٹوتیوں کے بعد انہیں ساٹھ روپے ماہوار ملتے تھے جس میں سے بڑا حصہ وہ اپنی والدہ کو بھیج دیتے تھے.ان کی دو بیویاں تھیں اور ان میں سے ہر ایک کے چار چار پانچ پانچ بچے تھے.وہ ہمارے مکان کے ہی ایک حصہ میں جو کچا تھا اور جس میں رہنا آج کل کے کلرک بھی پسند نہیں کرتے رہتی تھیں.مجھے یاد ہے کہ مجھے یہ معلوم کر کے سخت صدمہ ہوا کہ ان کی بیویوں کے حصہ میں چار چار پانچ پانچ بچوں سمیت صرف چودہ چودہ روپے ماہوار آتے تھے.اب تو چودہ روپے وظیفہ پر بھی لڑکے شور مچا دیتے ہیں کہ یہ رقم بہت کم ہے.لیکن اُن دنوں ان کی بیویوں کے حصہ میں بچوں سمیت صرف چودہ چودہ روپے آتے تھے.ان کی ایک

Page 287

$1955 277 خطبات محمود جلد نمبر 36 بیوی کے بھائی جلد ساز تھے.جن کے پاس فرمہ شکنی کے لیے جب کوئی کتاب آتی تو وہ اُس سے فرمے منگوا لیتی تھیں اور وہ خود اور دوسری بیوی فرمے تو ڑ تو ڑ کر کچھ رقم پیدا کر لیتیں جس سے اُن کا گزارہ چلتا..دیکھو ایک شخص ایم اے ہے اور سب حجی کے لیے اُسے آفر (OFFER) آچکی ہے، وہ تبلیغ کے لیے ملک سے باہر جاتا ہے.سلسلہ کو اتنی توفیق نہیں ہوتی کہ وہ اُس کے بیوی بچوں کو مناسب گزارہ دے سکے.اُس کی بیویوں کو اپنے گزارہ کے لیے فرمے توڑنے پڑتے ہیں.لیکن پھر بھی اُس نے نہایت ثابت قدمی سے سلسلہ کی خدمت میں چالیس سال کا عرصہ گزار دیا.چاہیے تو یہ تھا کہ اُن کی وفات کے بعد جماعت کے نوجوان آگے آجاتے اور کہتے ہم اُن کا کام سنبھالنے کے لیے تیار ہیں.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ یہ سلسلہ خدا تعالیٰ کا قائم کردہ ہے اور اس کا کام سنبھالنے کے لیے نوجوان آگے آتے رہیں گے لیکن اس وقت نوجوانوں نے ایسا نمونہ نہیں دکھایا جس سے یہ سمجھا جائے کہ جماعت میں قومی زندگی کے آثار پائے جاتے ہیں.سلسلہ کے کام تو خدا تعالیٰ نے کرنے ہی ہیں اور وہ اپنے فضل سے کرتا رہے گا.لیکن اگر وہ کام ہمارے ہاتھ سے ہوں تو ہمیں ثواب ملے گا.اگر درد صاحب کی وفات کے بعد فوری طور پر نو جوان اپنے آپ کو پیش کر دیتے اور کہتے کہ ہم اُن کا کام سنبھالنے کے لیے تیار ہیں تو دوسرے لوگوں کو یہ بات نظر آتی کہ یہ جماعت زندہ ہے اس لیے اسے کوئی نہیں مٹا سکتا.یہ آدمیوں کے ساتھ زندہ نہیں بلکہ ایمان کے ساتھ زندہ ہے.اور چونکہ ایمان کو مرنے سے بچایا جا سکتا ہے اس لیے یہ قوم ہمیشہ زندہ رہے گی.اگر نو جوان اس طرح آگے آتے تو دنیا کے سامنے یہ نظارہ آجاتا کہ یہ قوم ایمان کے ساتھ زندہ ہے روپیہ اور آدمیوں کے ساتھ نہیں.روپیہ چرایا جا سکتا ہے ایمان چوری نہیں کیا جاسکتا.آدمی مر سکتے ہیں لیکن ایمان نہیں مرتا بلکہ سچا ایمان تو بڑھتا ہے.قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم مومنوں کے ایمان کو بڑھاتے ہیں 5.پس جس قوم اور جس جماعت کی بنیا د ایمان پر ہوگی وہ کبھی نہیں مرے گی.بلکہ ہمیشہ آگے بڑھے گی.اُس کے افراد بے شک مرتے جائیں گے لیکن وہ جماعت ترقی کرتی چلی جائے گی.دیکھو حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کے زمانہ میں مولوی عبدالکریم صاحب

Page 288

خطبات محمود جلد نمبر 36 278 $1955 فوت ہوئے تو آپ کو اس قد رصدمہ ہوا کہ چند دن گزرنے پر آپ نے شام کے بعد دوستوں کی میں بیٹھنا چھوڑ دیا.لوگوں نے کہا حضور ! آپ شام کے وقت بیٹھا کرتے تھے تو بہت مزا آتا تھا ، آپ گفتگو فرماتے تھے تو ہمارے ایمان ترقی کرتے تھے لیکن اب آپ نے بیٹھنا چھوڑ دیا ہے.آپ نے فرمایا جب میں باہر دوستوں میں بیٹھا کرتا تھا تو مولوی عبد الکریم صاحب میرے دائیں بیٹھے ہوتے تھے.اب میں بیٹھتا ہوں اور مولوی صاحب نظر نہیں آتے تو میرا دل گھٹنے لگتا ہے اس لیے میں نے مجبوراً یہ طریق چھوڑ دیا ہے.لیکن مولوی عبد الکریم صاحب فوت ہوئے تو سلسلہ کو اور خادم مل گئے.آپ کی وفات کے بعد آپ کا کام مفتی محمد صادق صاحب نے سنبھال لیا.مفتی صاحب کی صحت کمزور تھی لیکن انہوں نے خدا تعالیٰ کے فضل سے جماعتوں کے ساتھ اس قدر خط و کتابت کی کہ انہوں نے سمجھ لیا کہ انہیں ایک نیا ذریعہ مل گیا ہے.بہر حال ان کے بعد کام چلتا چلا گیا.اب مولوی شیر علی صاحب قرآن کریم کا انگریزی ترجمہ اور تفسیر لکھ رہے تھے.آپ فوت ہوئے تو میرے دل کو صدمہ ہوا کہ اُن کا کام کون سنبھالے گا ؟ اس پر خدا تعالیٰ نے ملک غلام فرید صاحب کو اس کام کے سنبھالنے کی توفیق دے دی.مگر چاہیے تھا کہ ایک ایک مرنے والے کی جگہ چار چار پانچ پانچ آدمی آگے آتے اور اس کا کام سنبھالنے کے لیے اپنے آپ کو پیش کرتے.یاد رکھو ہم نے قرآن کریم اور اسلام کی تعلیم کو دنیا میں پھیلانا ہے اور اس کے لیے ہمیں متواتر آدمی چاہئیں.جب تک ہمیں متواتر آدمی نہیں ملیں گے ہم اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہو سکتے.اس وقت حالت یہ ہے کہ ریویو آف ریلیجنز کے ایڈیٹر صوفی مطیع الرحمن صاحب بنگالی تھے وہ سلسلہ کے کامیاب مبلغ تھے اور اُن کے تعلقات بہت وسیع تھے اس لیے باہر ان کا اثر زیادہ تھا.محمد ناصر جو انڈونیشیا کی مسجومی 6 پارٹی کے لیڈر ہیں اور ملک کے وزیر اعظم بھی رہ چکے ہیں انہیں ہم یہاں سے ریویو آف ریلیجنز بھجوایا کرتے تھے.کل ہی انڈونیشیا سے چٹھی آئی ہے کہ اُن کے پاس ہمارے بعض دوست ملنے کے لیے گئے تو اُن کے سیکرٹری نے بتایا کہ وہ اس رسالہ کی با قاعدہ جلد بندی کرا کے اپنی لائبریری میں رکھتے ہیں.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ اس رسالہ کا مطالعہ کیا کرتے ہیں.اس کی وجہ یہی تھی کہ رسالہ پر ایک ایسے شخص کا نام لکھا ہوا ہوتا تھا جو اسلام

Page 289

$1955 279 خطبات محمود جلد نمبر 36 کی تبلیغ کے لیے دور دور تک گیا تھا.اب وہ فوت ہوئے تو ہمیں اُن کا قائم مقام نہیں ملا.اُن کا کام چودھری مظفر الدین صاحب نے سنبھالا ہے لیکن ان کی وہ پوزیشن نہیں جو صوفی مطیع الرحمن صاحب مرحوم کی تھی.صوفی صاحب ایم.اے تھے اور چودھری صاحب بی.اے ہیں.پھر یہ کسی جگہ بھی کامیاب مبلغ نہیں رہے.پہلے ہم نے انہیں پروف ریڈر کے طور پر لگایا ہوا تھا.اب انہیں رسالہ کا ایڈیٹر بنا دیا ہے.اگر ہمارے پاس ایسے واقفین زندگی ہوتے جو ایم اے ہوتے اور وہ انگریزی میں مضامین لکھتے ، کتابیں تصنیف کرتے اور ہمیں پتا لگتا کہ مشق کی وجہ سے ان کی زبان دانی اس معیار پر پہنچ چکی ہے کہ انہیں کسی رسالہ کا ایڈیٹر مقرر کیا جا سکتا ہے ہم صوفی صاحب کی وفات پر ان میں سے کسی کو اس رسالہ کا ایڈیٹر مقرر کر دیتے.لیکن اگر کوئی مضمون نہیں لکھتا اور اپنے دل میں یہ سمجھتا ہے کہ وہ بڑی اچھی انگریزی لکھ سکتا ہے تو ہمیں اُس کا کوئی فائدہ نہیں ہوسکتا.ہاں اگر کوئی شخص مضامین لکھتا ، کتا بیں تصنیف کرتا اور لوگوں پر اپنی دھاک بٹھا دیتا تو پھر ہمیں آپ ہی آپ خیال آجاتا کہ اُس کو ایڈیٹر بنا دیں.انگریزی زبان بہر حال تبلیغ میں کام آنے والی زبان ہے.اگر نو جوان انگریزی زبان میں مضامین لکھتے رہیں ، کتابیں تصنیف کریں، تو اُن پر ہماری نظر رہے گی اور جب کوئی فوت ہو جائے گا تو ہم ان میں سے کسی کو اس کی کا قائم مقام مقرر کر سکیں گے.در دصاحب جب سلسلہ کی خدمت کے لیے آئے تو اُن کی عمر زیادہ نہ تھی.لیکن اُس عمر میں بھی اُن کے وقار کا یہ حال تھا کہ ہم انہیں بڑے سے بڑے افسر سے بھی ملنے کے لیے بھیج دیتے تو وہ نہایت کامیابی کے ساتھ جماعت کی نمائندگی کر کے آجاتے تھے.اگر ہم انہیں کہتے کہ وائسرائے سے ملاقات کے لیے جاؤ تو وہ فوراً اُس کی ملاقات کے لیے تیار ہو جاتے تھے.اور کامیاب طور پر اُسے مل کر آتے تھے.کونسل کے ممبروں کے پاس انہیں بھیجا جاتا تو وہ بغیر کسی جھجک کے چلے جاتے اور نہایت کامیابی کے ساتھ سلسلہ کے کام بجالاتے.اُن کے دل میں کبھی بھی یہ خیال پیدا نہیں ہوا تھا کہ وہ لوگ بڑے درجہ کے ہیں اور میں کمزور انسان ہوں.اس وقت میں کالج کے پروفیسروں کے متعلق بھی یہ خیال نہیں کرتا کہ باوجود یکہ اس وقت ملک کی حکومت اپنی ہے انہیں اگر گورنر کے پاس بھی بھیجا جائے تو وہ کامیابی کے ساتھ کوئی کام کرسکیں.لیکن

Page 290

$1955 280 خطبات محمود جلد نمبر 36 درد صاحب کے اندر یہ یقین پایا جاتا تھا کہ گو میں کمزور انسان ہوں لیکن یہ کام خدا تعالی کا.پھر میں اسے کیوں نہیں کر سکتا.اور میں سمجھتا ہوں ہر شخص کے اندر یہ مادہ پایا جانا ضروری ہے.اگر کسی انسان میں یہ مادہ پیدا ہو جائے تو اُس کی زبان میں برکت پیدا ہو جاتی ہے اور لوگ اُس کی بات سننے لگ جاتے ہیں.چودھری فتح محمد صاحب، میاں بشیر احمد صاحب، در دصاحب اور سید ولی اللہ شاہ صاحب سب اکٹھے آئے تھے اور ان میں سے ہر ایک کو خدا تعالیٰ نے چالیس چالیس سال تک سلسلہ کی خدمت کرنے کی توفیق عطا فرمائی ہے.اگر خدا تعالیٰ چاہے تو ان میں سے زندہ افراد کو بھی زندگی عطا کر کے اور زیادہ خدمت کی توفیق بھی دے سکتا ہے.حضرت مسیح علیہ السلام کو ہی لے لو ہمارے نزدیک وہ 120 سال تک زندہ رہے.پس گو ان کی عمریں زیادہ ہو چکی ہیں کوئی 62 سال کا ہے، کوئی 64 سال کا ہے اور کوئی 65 سال کا ہے.اور میری عمر تو اس وقت 67 سال کی ہو چکی ہے.لیکن خدا تعالیٰ میں یہ طاقت ہے کہ وہ ہم میں سے بعض کو صحت والی عمر دے کر ان سے اُس وقت تک کام لے لے جب تک جماعت کے نوجوانوں کے اندر بیداری نہ پیدا ہو جائے.اور وہ سمجھنے نہ لگ جائیں کہ ہمیں سلسلہ کا بوجھ اٹھانے کے لیے آگے آنا چاہیے.پس میں نو جوانوں سے کہتا ہوں کہ وہ دین کی خدمت کے لیے آگے آئیں.اور صرف آگے ہی نہ آئیں بلکہ اس ارادہ سے آگے آئیں کہ انہوں نے کام کرنا ہے.دیکھو ! حضرت خالد بن ولید نو جوان آدمی تھے.حضرت عمر نے آپ کی جگہ حضرت ابو عبیدہ بن الجراح کو کمانڈر انچیف مقرر کر دیا.اُس وقت حضرت خالد بن ولید کی پوزیشن ایسی تھی کہ حضرت ابو عبیدہ بن الجراح نے خیال کیا کہ اِس وقت اُن سے مان لینا مناسب نہیں.حضرت خالد بن ولید کو اپنی برطرفی کے حکم کا کسی طرح علم ہو گیا.وہ حضرت ابوعبیدہ بن الجراح کے پاس گئے اور کہا کہ آپ کے پاس میری برطرفی کا حکم آیا ہے لیکن آپ نے ابھی تک اُس حکم کو نافذ نہیں کیا.حضرت ابوعبیدہ بن الجراح نے کہا.خالد ! تم نے اسلام کی بہت بڑی خدمت کی ہے اب بھی تم خدمت کرتے چلے جاؤ.خالد نے کہا یہ ٹھیک ہے لیکن خلیفہء وقت کا حکم ماننا بھی ضروری ہے.آپ مجھے برطرف کر دیں اور کمانڈرانچیف کا عہدہ خود سنبھال لیں.میرے سپر د آپ چپڑاسی

Page 291

$1955 281 خطبات محمود جلد نمبر 36 کا کام بھی کریں گے تو میں اُسے خوشی سے کروں گا لیکن خلیفہ وقت کا حکم بہر حال جاری ہونا چاہیے.حضرت ابو عبیدہ بن الجراح نے کہا کمان تو مجھے لینی ہی پڑے گی کیونکہ خلیفہ وقت کی طرف سے یہ حکم آچکا ہے.لیکن تم کام کرتے جاؤ.خالد نے کہا آپ حکم دیتے جائیں میں کام کرتا جاؤں گا.چنانچہ بعد میں ایسے مواقع بھی آئے کہ جب ایک ایک مسلمان کے مقابلہ میں سوسو عیسائی تھا لیکن خالد نے ہمیشہ یہی مشورہ دیا کہ ہم اُن کے ساتھ مقابلہ کرنے کے لیے تیار ہیں.ہم اپنی جانیں دیں گے اور فتح حاصل کریں گے.یہ وہ جرات تھی جس نے عیسائیوں کو طاقت کے باوجود بھگا دیا.عیسائی بادشاہوں نے بار بار لشکر بھیجے اور ہر بار جولشکر آتا تھا وہ پہلے لشکر سے طاقت میں بڑھ کر ہوتا تھا.لیکن وہ ہر دفعہ مسلمانوں سے شکست کھاتا تھا.ایک دفعہ بادشاہ نے اپنے ایک جرنیل ماہان کو مسلمانوں کے مقابلہ کے لیے بھیجا.دس لاکھ سپاہی ساتھ دیئے اور کہا کہ اگر تم نے مسلمانوں کے مقابلہ میں فتح حاصل کی تو میں تمہیں اپنی لڑکی کا رشتہ دوں گا اور اپنے تخت پر تمہیں بٹھاؤں گا.عیسائی مؤرخین کے بیان کے مطابق مسلمانوں کے لشکر کی تعداد صرف تمہیں ہزار تھی.بعض مؤرخین نے اس کی زیادہ سے زیادہ تعداد ساٹھ ہزار بھی بتائی ہے.لیکن اسلامی مؤرخین نے لکھا ہے کہ مسلمان لشکر کی تعداد زیادہ سے زیادہ ہیں ہزار تھی.لیکن اس میں ہزار کے لشکر نے یا عیسائی مورخین کے بیان کے مطابق تمیں ہزار یا زیادہ سے زیادہ ساٹھ ہزار کے لشکر نے دس لاکھ کے لشکر کا مقابلہ کیا اور اُسے شکست دی.بلکہ ایک موقع تو ایسا آیا جب ساٹھ ہزار تجربہ کا رسپاہیوں پر مشتمل لشکر پر صرف ساٹھ مسلمانوں نے حملہ کیا.گویا ایک ایک مسلمان کے مقابلہ میں ایک ایک ہزار عیسائی تھے لیکن خدا تعالیٰ نے مسلمانوں کو فتح دی.اگر تم بھی اپنے ایمانوں کو اس قدر بلند کر لو تو اسلام کے شکست کھانے کی کوئی وجہ نہیں.وہ اب بھی آگے ہی بڑھتا جائے گا اور ترقی کرتا جائے گا.ضرورت اس بات کی ہے کہ تم اپنے ایمانوں کو مضبوط کرو اور دنیا سے اپنی نگاہ ہٹا لو.دنیا عارضی چیز ہے.تم آج چارسو یا پانچ سو کی نوکری کے پیچھے نہ پڑو بلکہ اُس دن کے امیدوار رہو جب خدا تعالیٰ تم کو غلبہ دے گا اور بادشاہ تمہارے ہاتھوں کو بو سے دیں گے اور ملک تم سے درخواست کریں گے کہ ہماری حکومت تم سنبھالو.وہ دن خواہ ابھی دیر میں آنے والا ہو لیکن اگر تم قربانیوں میں آگے بڑھ جاؤ تو وہ قریب

Page 292

$1955 282 خطبات محمود جلد نمبر 36 آ جائے گا.بڑی چیز یہ ہے کہ تمہیں خدا تعالیٰ کی رضا حاصل ہوگی اور اُس کے حصول کے بعد دنیا کی بڑی سے بڑی نعماء بھی انسان کی نگاہ میں حقیر ہوتی ہیں.پس گو بظاہر وہ دن دور ہے لیکن اگر تم قربانیوں میں ترقی کرتے گئے اور اپنے ایمانوں کو تم نے مضبوط بنالیا تو اللہ تعالیٰ اُس دن کو قریب لے آئے گا اور وہ لوگوں کے دلوں کو کھول دے گا.اور اُس کے فرشتے لوگوں کے دلوں میں آپ تحریک شروع کر دیں گے.اور جب خدا تعالیٰ کے فرشتے تحریک کریں گے تو لوگ مخالفت چھوڑ کر تمہارے دوست بن جائیں گے اور تم سے محبت اور پیار کرنے لگ جائیں گے.پس تم اپنے اندر ہمت پیدا کرو اور خدا تعالیٰ کے اس وعدہ پر یقین رکھو کہ اسلام اور احمدیت نے دنیا پر غالب آنا ہے.اگر یہ فتح تمہارے ہاتھوں سے آئے تو رسول کریم ﷺ کی شفاعت تمہارے لیے وقف ہوگی کیونکہ تم اسلام کی کمزوری کو قوت سے اور اس کی شکست کو فتح سے بدل دو گے.خدا تعالیٰ کہے گا کہ گو قرآن کریم میں نے نازل کیا ہے لیکن اس کو دنیا میں قائم ان لوگوں نے کیا ہے.پس اس کی برکات تم پر ایسے رنگ میں نازل ہوں گی کہ تم اس سے زیادہ سے زیادہ فوائد حاصل کرو گے اور وہ تمہاری اولا د کو بھی ترقیات بخشے گا.میں جہاں نو جوانوں سے یہ کہتا ہوں کہ وہ اپنی زندگیاں سلسلہ کی خدمت کے لیے وقف کریں.وہاں میں دوستوں سے یہ بھی کہنا چاہتا ہوں کہ در دصاحب چونکہ زیادہ عرصہ باہر رہے ہیں اس لیے وہ اپنی اولاد کی تربیت کا خیال نہیں رکھ سکے.ان کا صرف ایک لڑکا تھا جس نے کسی قدر تعلیم حاصل کر لی تھی لیکن وہ بھاگ گیا.ان کے باقی بچے چھوٹے چھوٹے ہیں اور چھٹی چھٹی ساتویں ساتویں جماعت میں پڑھتے ہیں.صرف ایک لڑکا فرسٹ ائیر میں پڑھتا ہے.دوست ان کے لیے بھی دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ انہیں دینی اور دنیوی دونوں قسم کی تعلیم حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائے تا وہ اپنے باپ سے بھی بڑھ کر سلسلہ کی خدمت کریں.ان کے نانا میاں عبد اللہ صاحب سنوری حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے خاص پیاروں میں سے تھے.اس لئے ہمارا فرض ہے کہ ہم دعا کریں کہ خدا تعالیٰ اس خاندان کو ضائع ہونے سے بچائے اور انہیں دینی اور دنیوی علوم سے متمتع فرما کر سلسلہ کی زیادہ سے زیادہ

Page 293

خطبات محمود جلد نمبر 36 خدمت کی توفیق عطا فرمائے.“ 1 تذکرہ صفحہ 419 ایڈیشن چہارم 2 متی باب 26 آیت 42 283 $1955 الفضل 18 دسمبر 1955ء) ایڈ نائر (Konard Adenauer)(1876ء - 1967ء) مغربی جرمنی کا سیاستدان.1949ء سے 1963 ء تک مغربی جرمنی کا چانسلر رہا.وکی پیڈیا آزاد دائرۃ المعارف زیر لفظ کو نا ر ڈایڈ نائر) 66 4 دیوان حسان بن ثابت " كُنتَ السَّوَادَ لِنَاظِرِى ، جلد اول صفحہ 478 قصیدہ نمبر 308 الناشر المكتبة العلمیہ لاہور 5 وَإِذَا تُلِيَتْ عَلَيْهِمْ التُهُ زَادَتْهُمْ إِيمَانًا (الانفال:3) مسجومی پارٹی : (MASYUMI PARTY انڈو نیشین اسلامی سیاسی پارٹی جس کی بنیاد 1945ء میں رکھی گئی.1960ء میں صدر سکا رنو کے حکم پر اس پارٹی پر پابندی عائد کر دی گئی.وکی پیڈیا آزاد دائرہ معارف زیر لفظ ( MASYUMI PARTY)

Page 294

$1955 284 37 خطبات محمود جلد نمبر 36 الله اللہ تعالی محمد رسول اللہ کے طفیل نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ على قلبك والا نظارہ دکھا دے تاکہ کسی قسم کا تر در باقی نہ رہے اور دل کو کامل سکون اور اطمینان حاصل ہو ,, (فرموده 16 دسمبر 1955ء بمقام ربوہ) تشہد ،تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا.دو تین دن سے میری طبیعت پھر کچھ خراب رہنے لگ گئی ہے.اس سے پہلے کئی دفعہ دن میں ایسا وقت بھی آتا تھا جب دماغ بالکل صاف ہوتا تھا، پریشانی اور گھبراہٹ میں بھی کمی ہوتی تھی.بعض اوقات خصوصاً مغرب کے بعد میں محسوس کرتا تھا کہ اس وقت طبیعت بالکل ٹھیک ہے مگر اب دو تین دن سے پھر دماغ پر بوجھ رہنے لگ گیا ہے.اسی طرح حافظہ کی خرابی میں کسی قدر اصلاح ہوگئی تھی مگر اب پھر یہ خرابی پیدا ہو گئی ہے.بھوک بالکل بند ہے.پہلے یہ حالت تھی کہ میں صبح کا ناشتہ کر ہی نہیں سکتا تھا حالانکہ ساری رات سونے کے بعد چاہیے تو یہ تھا کہ ناشتہ کے لیے بھوک محسوس ہو مگر میں ناشتہ بالکل نہیں کر سکتا تھا.بعض دفعہ ایسا ہوتا تھا کہ ایک بسکٹ ہاتھ میں لے کر ٹہلنا شروع کر دیا اور آہستہ آہستہ کر کے وہ کھالیا.اتنے میں چائے کی پیالی ٹھنڈی ہوگئی اور وہ

Page 295

$1955 285 خطبات محمود جلد نمبر 36 یکدم پی لی.پھر خدا تعالیٰ نے فضل فرمایا اور اس حالت میں کسی قدرا فاقہ ہو گیا اور میں بیٹھ کے ناشتہ کرنے لگ گیا.اور پھر علاوہ بسکٹ کے آلو کی بھجیا اور پھل کا بھی کھانے لگ گیا اور چائے بھی پینے لگ گیا.اس سے پہلے کچھ اس قسم کی مرض تھی کہ میں گرم چائے نہیں پی سکتا تھا لیکن دو تین دن سے پھر طبیعت کچھ خراب ہو گئی ہے.میرا خیال ہے کہ ڈاکٹر مجھے بار بار جلاب لینے سے منع کرتے تھے اور کہتے تھے کہ اس کی عادت پڑ جائے گی میں نے ان کی یہ بات مان لی اور گوجیسا کہ انہوں نے کہا تھا اجابت تو ہوتی رہی ہے مگر معلوم ہوتا ہے کہ انتڑیاں پوری طرح صاف نہیں ہوتی تھیں اور اس کی وجہ سے دماغ پر کچھ بوجھ رہتا تھا.چنانچہ دو تین دن سے پھر طبیعت خراب ہو گئی ہے بھوک میں تدریجا کمی آنی شروع ہوئی اور اب یہ حالت ہے کہ بھوک بالکل بند ہے.آج صبح میں ناشتہ نہیں کر سکا.پھر پہلے یہ ہوتا تھا کہ اگر میں صبح کا ناشتہ نہ کر سکتا تو دوپہر کے وقت بھوک لگ جاتی تھی لیکن آج کھانے کے وقت بھی بھوک نہیں لگی.گویا میں نے ساری رات بھی کچھ نہیں کھایا.پھر صبح آٹھ سوا آٹھ بجے ناشتہ کے لیے بیٹھا تو ناشتہ بھی نہیں کر سکا اور خالی اٹھ بیٹھا.پھر سوا بارہ بجے کے قریب کھانا کھانے کے لیے بیٹھا تو پھر بھی بھوک محسوس نہ ہوئی اور بغیر کچھ کھائے اٹھ بیٹھا.اب خدا تعالیٰ جانتا ہے کہ شام کو کیا ہوگا ؟ میں کھانا کھا سکوں گا یا نہیں ؟ اس لیے وہ دوست جو پہلے شغف اور توجہ کے ساتھ میری صحت کے لیے دعا کرتے تھے اُن کو پھر دعا میں لگ جانا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ میری موجودہ بیماری کی حالت کو بدل دے اور سکون اور اطمینان کی حالت پیدا کر دے.اب سالانہ جلسہ بھی آ رہا ہے اس موقع پر مجھے کچھ نہ کچھ بولنا پڑے گا اس کی وجہ سے بھی طبیعت پر ایک بوجھ سا ہے اور گھبراہٹ محسوس ہوتی ہے.دوست دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ اس بوجھ کو بھی اٹھانے کی توفیق عطا فرمائے.اور صحت کی جو یہ حالت ہے کہ دو دن خراب رہتی ہے اور دو دن ٹھیک ہو جاتی ہے اور پھر دو دن خراب ہو جاتی ہے اس کو دور کر کے اس کی بجائے مستقل اطمینان اور سکون کی توفیق بخشے.اس کے بعد میں ایک بات بیان کرنا چاہتا ہوں.مگر اس سے پہلے میں تمہیداً کچھ کہنا چاہتا ہوں.یا د رکھنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو بشارات ملتی ہیں یا اُس کی طرف سے بعض

Page 296

$1955 286 خطبات محمود جلد نمبر 36 اخبار پر انسان کو اطلاع ہوتی ہے اُن کو شائع کرنے کا اصل حکم شرعی نبی کو ہوتا ہے اور ظلمی طور پر خالی اور بروزی نبی کو ہوتا ہے.شرعی نبی کو اشاعت کا حکم اس لیے ہوتا ہے کہ اگر وہ اپنی وحی کو چھپا دے تو لوگوں کو شریعت سے کیسے اطلاع ہو.بلکہ حقیقت یہ ہے کہ شرعی نبی بھی بعض اوقات یہ خیال کرنے لگ جاتا ہے کہ ایسا نہ ہو کہ لوگوں کی طبائع پر یہ اثر ہو کہ میں اُن پر حکومت جتانا چاہتا ہوں اور اس مقصد کے لیے میں اپنے الہامات کو شائع کر دیتا ہوں.اس لیے وہ بھی بعض اوقات چاہتا ہے کہ اپنے الہامات کو چھپا دے.جیسا کہ قرآن کریم کی بعض آیات سے اس کا استدلال ہوتا ہے رسول کریم ﷺ نے بھی اپنے الہامات اور رؤیا و کشوف کی اشاعت میں حیا محسوس کی.لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کی اس حالت کو دیکھ کر فرمایا بلغ مَا أُنْزِلَ إِلَيْكَ 1 جو کچھ تجھ پر نازل ہوتا ہے اُس کو لوگوں تک پہنچانا تیرا فرض ہے کیونکہ اس سے تیری بعثت کا مقصد پورا ہوتا ہے.اسی قسم کے نبی کے متعلق اللہ تعالی سی قرآن کریم میں فرماتا ہے سَنُقْرِئُكَ فَلَا تَنْسَى 2 ہم تجھ پر ایسی وحی نازل کریں گے کہ تو اسے بھولے گا نہیں.کیونکہ اگر شریعت والا نبی اپنی وحی بھول جائے تو اس کی امت اُن احکامات اور ہدایات سے محروم رہے گی جو اُس وحی میں خدا تعالیٰ کی طرف سے نازل ہوئے تھے.لیکن غیر تشریعی نبی کے لیے یہ حکم نہیں ہوتا.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الہامات کو دیکھ لو.کئی جگہ لکھا ہے کہ پھر الہام کا ایک ٹکڑا مجھے بھول گیا یا الہام ہوا تھا مگر اُس کے الفاظ میں بھول گیا ہوں.ہاں اُس کا مفہوم یہ تھا.اگر آپ تشریعی نبی ہوتے تو آپ کا بھولنا کتنی تباہی کا موجب ہوتا.پس تشریعی نبی کو وحی بھولا نہیں کرتی.ہاں غیر تشریعی نبی بعض اوقات اپنے الہامات یا اس کے کسی حصہ کو بھول جاتا ہے مگر اس کے ساتھ ہی یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیے کہ غیر تشریعی انبیاء کی وحی اور الہامات میں بھی بعض معارف ہوتے ہیں.اور بعض الہامات ایسے ہوتے ہیں جو پہلی شریعت کے کسی حصہ کی تشریح اور تفصیل ہوتے ہیں.اس لیے اس قسم کے الہامات غیر تشریعی انبیاء کو بھی نہیں بھولتے.کیونکہ یہ الہامات بمنزلہ وحی اوّل ہوتے ہیں.اور جو الہام اور وحی بمنزلہ وحی اول ہو وہ بھی نہیں بھول سکتی.کیونکہ اُس کے بھولنے سے بھی وہی نقصان ہو سکتا ہے جو سَنُقْرِئُكَ فَلَا تَنْسَى

Page 297

$1955 287 خطبات محمود جلد نمبر 36 والی وحی کے بھولنے سے ہوتا ہے.بعض دفعہ مجھے بھی کوئی کلمہ خدا تعالیٰ کا سننے کی توفیق ملتی ہے یا کوئی خواب آجاتی ہے یا کوئی کشف ہوتا ہے تو ہمارے مولوی محمد یعقوب صاحب اُس کو اُچھالنے لگ جاتے ہیں.میں نے ان کو سمجھایا بھی ہے کہ اس طرح زمانہ کے اصل مأمور کی وحی میں ایک قسم کا تداخل ہو جاتا ہے.یوں خوابوں اور الہامات کو بیان کرنا منع نہیں.خود رسول کریم ہے بھی نماز کے بعد مسجد میں بیٹھ جایا کرتے تھے اور صحابہ سے پوچھتے تھے کہ اگر کسی کو کوئی خواب آئی ہو تو سنا ؤ3.اصل بات یہ ہے کہ اگر امام یا کسی بزرگ کے سامنے کوئی خواب یا کشف اس غرض سے بیان کیا جائے کہ وہ دوسرے لوگوں کے لیے زیادتی ، ایمان کا موجب ہو تو وہ درست ہے گوایسا کرنا فرض نہیں.(لیکن رسول کریم ﷺ پر اپنے الہامات اور رؤیا وکشوف کا بیان کرنا فرض تھا ).اس کا ایک فائدہ یہ بھی ہوتا ہے کہ بعض اوقات ایک خواب کسی ایک فرد کو آتی ہے لیکن وہ ہوتی ساری امت کے لیے ہے.اس لیے امام اُس سے ساری امت کو اطلاع دے دیتا ہے.جیسے رسول کریم ہے کے زمانہ میں ایک صحابی کو اذان کے الفاظ سنائے گئے.اُس نے وہ خواب رسول کریم ﷺ کے سامنے بیان کی تو آپ نے فوراً سمجھ لیا کہ یہ خواب اگر چہ اس شخص کو آئی ہے مگر اس سے مراد میں ہوں اس لیے اس اذان کو نماز کا حصہ بنا لینا چاہیے 4.چنانچہ آپ نے بنالینا مسلمانوں کو اذان دینے کا حکم دے دیا اور اب سب مسلمان اذان کہتے ہیں حالانکہ اذان رسول صلى الله الله اللہ ﷺ کو خواب میں نہیں بتائی گئی تھی بلکہ ایک صحابی کو بتائی گئی تھی.ليسا اذان کے الفاظ حضرت عمرؓ کو بھی خواب میں بتائے گئے تھے 5.مگر وہ کہتے ہیں کہ میں نے شرم کے مارے یہ الفاظ کسی اور کو نہ بتائے کیونکہ وہ صحابی مجھ سے پہلے بیان کر چکے تھے.پس بعض اوقات خواب کے بیان کرنے کی یہ غرض بھی ہوتی ہے کہ اگر اُس کا اثر وسیع طور پر پیدا ہونے والا ہو تو امام یا کوئی اور صاحب اثر بزرگ اُس کو ساری جماعت میں پھیلا دے.یا امام خود دیکھے کہ وہ خواب اثر رکھنے والی ہے اور سارے لوگوں کے ساتھ تعلق رکھتی ہے تو وہ اُسے لوگوں میں پھیلا دے تا وہ اس سے فائدہ اٹھا لیں.لیکن اِس طرح خوابوں کو سنانا بھی بطور نفل کے ہے فرض نہیں.

Page 298

خطبات محمود جلد نمبر 36 288 $1955 پھر بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ کسی شخص کو منذ رخواب آ جاتی ہے.لیکن علم تعبیر الرؤیا سے ناواقف ہونے کی وجہ سے وہ اُسے سمجھ نہیں سکتا.وہ اُسے امام یا کسی اور بزرگ کے سامنے بیان کر دیتا ہے اور وہ اس کو خواب کے مُنذر پہلو سے واقف کر دیتا ہے.اور اسے استغفار کرنے یا صدقہ دینے کی تلقین کر دیتا ہے.اس طرح اُس کو فائدہ پہنچ جاتا ہے.لیکن اس قسم کی خواب بھی ایسے شخص کو ہی بیان کرنی چاہیے جسے علم نہ ہو کہ خواب مُنذِ رہے یا نہیں.ورنہ اگر اُسے پتا لگ جائے کہ وہ خواب منذر ہے تو رسول کریم ﷺ کا حکم یہی ہے کہ اُسے لوگوں کے سامنے بیان نہ کیا جائے.کیونکہ آپ فرماتے ہیں کہ انذاری خواہیں اگر متواتر آئیں تو وہ شیطانی ہوتی ہیں.لیکن مبشر خوا ہیں خدا تعالی کی طرف سے ہوتی ہیں 6.بہر حال ہم سب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ایک قسم کے نائب اور قائم مقام ہیں.ہاں آگے درجات میں فرق ہے.یعنی کوئی بڑے مقام کا نائب ہے اور کوئی چھوٹے مقام کا.لیکن اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ہر احمدی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک رنگ میں خلیفہ اور قائم مقام ہے.جیسے ہر مسلمان رسول کریم ﷺ کا ایک طرح خلیفہ اور قائم مقام ہے بشرطیکہ وہ کوشش کرے کہ آپ کے پیغام کو دنیا کے کناروں تک پھیلائے.اس لیے ہم اپنے رویا و کشوف دوسرے دوستوں کو بتا دیتے ہیں تا وہ اُن کے ایمان کی تقویت کا موجب ہوں اور اس طرح کئی لوگ ان سے فائدہ اٹھا لیتے ہیں.اس کی مثال ایسی ہی ہے جیسے رسول کریم ﷺ نے حجة الوداع کے موقع پر بعض باتیں صحابہ کے سامنے بیان فرمائیں اور پھر فرمایا فَلْيُبَلِغِ الشَّاهِدُ الْغَائِبَ 7 یعنی جولوگ یہاں موجود ہیں وہ میری ان باتوں کو اُن لوگوں تک پہنچا دیں جو یہاں موجود نہیں.کیونکہ کئی لوگ ایسے ہوتے ہیں جو سننے والوں کی نسبت زیادہ نصیحت حاصل کر لیتے ہیں.اس تمہید کے بعد میں دوستوں کو یہ بتانا چاہتا ہوں کہ میں جب انگلستان میں تھا تو ایک دن اخبار الفضل آیا.اُس میں یہ خبر چھپی ہوئی تھی کہ سید نذیر حسین صاحب گھٹیالیاں والے فوت ہو گئے ہیں.سید نذیر حسین صاحب پرانے صحابہ میں سے تھے اس لیے طبعاً اُن کی وفات کا مجھے صدمہ پہنچا.میں اُن کے لیے دعا کرتے کرتے سو گیا تو میں نے خواب میں دیکھا کہ ایک عورت مجھ سے ملنے کے لیے آئی ہے.اُس نے " سوسی" کی شلوار پہنی ہوئی ہے.اُس کا کرتا اور دوپٹہ

Page 299

خطبات محمود جلد نمبر 36 289 $1955 سفید ہے.سوسی ایک کپڑے کا نام ہے جو پرانے زمانہ میں پنجاب میں اکثر استعمال میں آتا تھا.اس کپڑے کے درمیان سرخ یا سفید دھاریاں ہوتی تھیں یا اس میں مختلف قسم کے نشان ہوتے تھے.اب اس کپڑے کا رواج نہیں رہا.کیونکہ اب اس سے اچھی قسم کے کپڑے نکل آئے ہیں.بہر حال وہ عورت میرے سامنے آئی اور اس نے مجھے سلام کیا.میں سمجھتا ہوں ( یا وہ خود کہتی ہے ) کہ وہ سید نذیر حسین صاحب مرحوم کی بیوی ہے.وہ سلام کر کے واپس کوئی تو میں نے اُسے بلایا اور کہا بی بی ! ذرا بات سنو.جب وہ میرے پاس آئی تو جس طرح مجھے بیداری کے عالم میں یہ فکر تھا کہ سید نذیر حسین صاحب کا معلوم نہیں کوئی بیٹا بھی ہے یا نہیں !.اسی طرح خواب میں بھی مجھے یہی فکر ہے اور میں نے اُس سے دریافت کیا کہ بی بی ! سید نذیر حسین صاحب کی کوئی اولاد بھی ہے؟ اُس نے کہا سید نذیر حسین صاحب کی اولاد مجھ سے تو نہیں مگر دوسری بیوی سے ہے.اب مجھے یہ پتا ہی نہیں تھا کہ سید نذیر حسین صاحب مرحوم کی دو بیویاں تھیں.اس لیے اس خواب کی وجہ سے میں حیران تھا کہ اس کا کیا مطلب ہے.و اُن دنوں چودھری ظفر اللہ خاں صاحب ایک لیکچر کے لیے امریکہ گئے ہوئے تھے.ہالینڈ سے وہ چھٹی پر آئے ہوئے تھے.امریکہ سے واپسی پر وہ میری خاطر انگلستان آئے اور گووہاں ہر روز بڑے بڑے آدمی اُن کی دعوتیں کرتے رہتے تھے، کبھی پاکستان اور ہندوستان سے گئے ہوئے لوگ اُن کو دعوتوں پر بلا لیتے تھے اور کبھی ایمبیسی والے انہیں دعوت پر بلا لیتے تھے.مگر کسی نہ کسی طرح وہ اُن سے پیچھا چھڑا کر میرے ساتھ کھانا کھانے کے لیے آجاتے تھے.بہر حال جب چودھری صاحب انگلستان آئے تو میں نے خیال کیا کہ یہ بھی ضلع سیالکوٹ کے رہنے والے ہیں شاید سید نذیر حسین صاحب کے خاندان کے متعلق انہیں کچھ علم ہو.چنانچہ میں نے اُن کے سامنے اپنی خواب بیان کی اور دریافت کیا کہ آپ کے ننھال بھی اسی علاقہ کے ہیں.کیا آپ کو اس بات کا علم ہے کہ سید نذیر حسین صاحب مرحوم کی ایک بیوی تھی یا دو بیویاں تھیں ؟.چودھری صاحب نے جواب دیا کہ ذاتی طور پر تو مجھے اس کا علم نہیں.ہاں میرا خیال ہے کہ ایک دفعہ مجھ سے میرے ماموں چودھری عبداللہ خاں صاحب نے ( جو گھٹیالیاں کے قریب ہی ایک گاؤں دا تا زید کا کے رہنے والے تھے ) میرے سامنے ذکر کیا تھا کہ سید نذیر حسین صاحب کی

Page 300

خطبات محمود جلد نمبر 36 290 $1955 دو بیویاں ہیں.مگر مجھے یہ علم نہیں کہ آیا اُن کی کوئی اولا د بھی ہے یا نہیں.پندرہ سولہ دن کی بات ہے میں عصر کی نماز پڑھا کر کچھ دیر کے لیے مسجد میں بیٹھ گیا.تو میں نے ایک دوست چودھری محمد عبد اللہ صاحب کو دیکھا جو قلعہ صو با سنگھ کے رہنے والے ہیں اور دا تا زید کا کے حلقہ کی جماعت کے نائب امیر ہیں.میں نے اُن کو آگے بلایا اور کہا کہ ضلع سیالکوٹ کی جماعت کچھ سُست رہنے لگ گئی ہے.انہوں نے کہا نہیں خدا تعالیٰ کے فضل سے ضلع سیالکوٹ کی جماعت نے سیلاب کے دنوں میں بہت اچھا کام کیا ہے.پھر میں نے کہا شاید جماعت کے لوگ چندہ کی طرف کم توجہ دینے لگے ہیں.انہوں نے کہا بات یہ ہے کہ سیلاب کی وجہ سے کچھ وقت تک چندے آہی نہیں سکے تھے.اب میں دو ہزار ( یا شاید انہوں نے تین ہزار کہا) روپیہ اپنے ساتھ لایا ہوں اور وہ میں کل خزانہ میں جمع کرادوں گا.میں نے سمجھا کہ یہ بھی دا تا زید کا کے حلقہ کے رہنے والے ہیں اس لیے میں انہیں بھی اپنی خواب سنا دوں.چنانچہ میں نے اُن کو یہ خواب سنائی اور اُن سے دریافت کیا کہ کیا آپ کو اس کے متعلق کچھ علم ہے کہ سید نذیر حسین صاحب کی دو بیویاں تھیں یا ایک بیوی تھی اور پھر کیا اُن کی دوسری بیوی سے کوئی اولاد ہے؟ اُس وقت بعض دوسرے دوست بھی پاس بیٹھے ہوئے تھے.غالبا وہ پندرہ بیس کے قریب ہوں گے.انہوں نے کہا کہ اس بات کا تو مجھے علم نہیں کہ آیا سید نذیر حسین صاحب کی دو بیویاں تھیں یا ایک بیوی تھی.ہاں ! اتنا ضرور علم ہے کہ اُن کا ایک بیٹا موجود ہے لیکن وہ کس بیوی سے ہے اس کا مجھے علم نہیں.اتفاق کی بات ہے کہ آج ڈاک آئی تو اس میں ایک خط چودھری محمد عبداللہ صاحب کا بھی نکل آیا.انہوں نے لکھا ہے کہ پچھلے دنوں میں ربوہ گیا تھا تو حضور نے ایک دن مسجد میں مجھ سے دریافت فرمایا تھا کہ کیا سید نذیرحسین صاحب مرحوم کی دو بیویاں تھیں یا ایک؟ اور پھر ان کا جو بیٹا موجود ہے وہ کس بیوی سے ہے؟ میں نے کہا تھا کہ مجھے اس کا علم نہیں.میں واپس آیا تو میں نے سید نذیر حسین صاحب مرحوم کے بیٹے کو سارا واقعہ سنایا.اُس نے کہا یہ درست ہے کہ میرے والد سید نذیرحسین صاحب مرحوم کی دو بیویاں تھیں اور میں دوسری بیوی سے ہی ہوں.اُن کی پہلی بیوی جو بدوملہی کی تھی جس سے اُن کی کچھ نا چاتی ہو گئی تھی اور انہوں نے اُسے طلاق دے دی تھی.اس کے بعد انہوں نے میری والدہ سے شادی کی اور ان سے میں پیدا ہوا.

Page 301

خطبات محمود جلد نمبر 36 291 $1955 اب دیکھو کہ میں لندن میں بیٹھا ہوا ہوں وہاں اللہ تعالیٰ کے فرشتے آتے ہیں.اور مجھے بتاتے ہیں کہ سید نذیر حسین صاحب مرحوم کی اولاد ہے اور وہ ان کی دوسری بیوی سے ہے.میں چودھری ظفر اللہ خان صاحب سے پوچھتا ہوں کہ کیا سید نذیر حسین صاحب کی دو بیویاں تھیں اور کیا ان کی اولا د دوسری بیوی سے ہے؟ تو وہ کہتے ہیں مجھے ان کے کسی بیٹے کا تو علم نہیں ہاں میں نے اپنے ماموں چودھری عبداللہ خان صاحب سے سنا تھا کہ اُن کی دو بیویاں تھیں.پھر یہاں آکر چودھری محمد عبد اللہ صاحب سے جو اس حلقہ کے نائب امیر ہیں میں دریافت کرتا ہوں تو وہ کہتے ہیں سید نذیر حسین صاحب کا ایک بیٹا تو ہے اور وہ ہمارے سکول میں مدرس ہے.لیکن مجھے اس بات کا علم نہیں کہ سید نذیر حسین صاحب مرحوم کی دو بیویاں تھیں اور وہ لڑکا ان کی دوسری بیوی سے ہے.واپس جا کر وہ سید نذیر حسین صاحب کے بیٹے سے پوچھتے ہیں تو وہ انہیں بتاتا ہے کہ فی الواقع میرے والد کی دو بیویاں تھیں.پہلی بیوی بدوملہی کی تھی جسے انہوں نے طلاق دے دی تھی بعد میں انہوں نے میری والدہ سے شادی کی تھی.غرض اس طرح اللہ تعالیٰ کے فرشتے جنہیں خدا تعالیٰ کسی خاص چیز کا علم دے دیتا ہے آتے ہیں اور دنیا میں بعض انسانوں کو خدا تعالیٰ کے اشارہ سے کسی چیز کے متعلق کچھ بتادیتے ہیں.لیکن پھر بھی شرعی وحی اور غیر شرعی وظلی وحی میں ایک فرق ہوتا ہے.اور وہ فرق یہ ہے کہ ہر شرعی وحی نبی کے قلب پر بھی نازل ہوتی ہے.جیسے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.وَإِنَّهُ لَتَنْزِيلُ رَبِّ الْعَلَمِينَ نَزَلَ بِهِ الرُّوْحُ الْأَمِينُ عَلَى قَلْبِكَ 8 یعنی یہ وحی جو رب العلمین کی طرف سے نازل ہوئی ہے.اسے روح الامین نے تیرے قلب پر نازل کیا ہے.چونکہ اس وحی کے متعلق یہ حکم ہوتا ہے کہ اس پر اَنَا اَوَّلُ الْمُؤمِنِینَ کہو.اس لیے یہ قلب پر نازل ہوتی ہے اور جوں جوں کی نازل ہوتی ہے وہ دلوں کو مضبوط کرتی چلی جاتی ہے.دوسری وحی سے کوئی فائدہ اٹھاتا ہے تو اٹھا لیتا ہے اور اگر فائدہ نہ اٹھائے تو اُس کی مرضی ہوتی ہے.کئی لوگوں نے آیت سے غلطی کھائی ہے خصوصاً بہائیوں کو اس سے غلطی لگی ہے.وہ کہتے ہیں کہ جو خیال دل میں آجائے وہ وحی ہوتا ہے.حالانکہ قرآن کریم اور احادیث سے پتا لگتا ہے کہ وحی زبان پر بھی نازل ہوتی ہے 9.مثلاً قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ رسول کریم ﷺ کو فرماتا ہے.

Page 302

$1955 292 خطبات محمود جلد نمبر 36 لَا تُحَرِّكُ بِهِ لِسَانَكَ لِتَعْجَلَ بِهِ 10 که زبان کو جلدی جلدی حرکت نہ دیا کر.اس کے معنے یہ ہیں کہ وحی زبان پر بھی نازل ہوتی ہے.اصل میں یہ دو ہری وحی ہوتی ہے.یہ وحی زبان پر بھی نازل ہوتی ہے اور دل پر بھی اس کا نزول ہوتا ہے تا کہ وہ مضبوط ہو جائے.لیکن دوسروں کو جو وحی ہوتی ہے وہ بروزی اور خلی طور پر ہوتی ہے.اس قسم کی ہر وحی قلب پر نازل نہیں ہوتی ہے وہ بعض دفعہ کان پر نازل ہوتی ہے.مثلاً انسان ایک کلام سنتا ہے اور کہتا ہے کہ مجھے یہ الہام ہوا ہے.یا اُس کی زبان پر کچھ الفاظ جاری ہو جاتے ہیں اور وہ کہتا ہے مجھے الہام ہوا ہے یا یہ کلام میری زبان پر جاری ہوا ہے.مگر تشریعی انبیاء کی جو وحی ہوتی ہے یا بعض اوقات ظلی اور بروزی انبیاء کی وحی بھی صرف کان اور زبان پر ہی نازل نہیں ہوتی بلکہ وہ ایک ہی وقت میں کان یا زبان اور اس کے ساتھ قلب پر بھی نازل ہوتی ہے.بلکہ حقیقت یہ ہے کہ وہ تین جگہ نازل ہوتی ہے.ایک تو وہ زبان یا کان پر نازل ہوتی ہے.دوسرے وہ قلب پر نازل ہوتی ہے اور تیسرے وہ دماغ کی پر نازل ہوتی ہے.جیسے قرآن کریم میں آتا ہے کہ یہ وحی کتاب مکنون 11 میں ہے.یعنی یہ وحی ایک طرف تو اس قرآن میں نازل کی گئی ہے اور دوسری طرف اسے انسانی فطرت کے اندر رکھ دیا گیا ہے.پس تشریعی انبیاء کی وحی زبان یا دل پر نازل ہونے کے علاوہ قلب پر بھی نازل ہوتی ہے اور میخ کی طرح دل میں گڑ جاتی ہے.میں پہلے بھی یہ واقعہ سنا چکا ہوں کہ گزشتہ عید کے دن انگلینڈ کے ایک ادیب ڈسمنڈ شانے جو وہاں کے بہترین ادیبوں میں شمار ہوتا ہے ایک تقریر کی جس میں اُس نے بتایا کہ محمد رسول اللہ اللہ سب سے بڑے امن پسند نبی تھے.مگر ہمارے لوگ آپ کو سب سے بڑا امن پسند نبی نہیں مانتے.بلکہ افسوس ہے کہ خود آپ کے متبع تھوڑے تھوڑے اختلاف پر آپس میں ایک دوسرے کی گردن کاٹنے لگ جاتے ہیں.(اُس کا ہماری طرف اشارہ تھا ) حالانکہ آپ سب سے بڑ.امن پسند نبی تھے.اس تقریر کے موقع پر بہت سے انگریز بھی موجود تھے.ڈسمنڈ شانے کہا میرے عیسائی دوست جو اس وقت یہاں بیٹھے ہیں کہیں گے کہ تم تو عیسائی ہو پھر تم یہ کیا بات کہہ رہے ہو؟ لیکن میں یہ بات کہنے پر مجبور ہوں کیونکہ میں نے اسلام کا بڑا مطالعہ کیا ہے اور مجھے یقین ہے کہ محمد رسول اللہ سے زیادہ امن پسند نبی کوئی نہیں تھا.اس نے پھر کہا کہ لوگ کہیں گے کہ تو تو صلى الله

Page 303

$1955 293 خطبات محمود جلد نمبر 36 صلى الله عیسائی ہے پھر تیرا عیسی علیہ السلام کے متعلق کیا خیال ہے؟ میں کہوں گا کہ بے شک عیسیٰ علیہ السلام بھی امن پسند نبی تھے لیکن وہ محمد رسول اللہ (ﷺ) سے دوسرے درجہ پر ہیں.تقریر کے بعد سب لوگ اپنے اپنے گھروں کو چلے گئے.میں بھی اپنے مکان کی طرف جو قریب ہی تھا جانے کے لیے چل پڑا.میں اپنے مکان کی طرف جارہا تھا کہ میں نے اپنے پیچھے قدموں کی آہٹ سنی.میں نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو ڈسمنڈ شا آ رہا تھا.میں نے کہا ڈسمنڈ شا! تقریر تو ختم ہو چکی ہے اور لوگ اپنے گھروں کو واپس چلے گئے ہیں لیکن آپ میرے پیچھے آرہے ہیں؟ وہ کہنے لگا میرے دل میں ایک خیال آیا تھا جس کی وجہ سے میں مجبور ہو گیا تھا کہ آپ کے پیچھے پیچھے آؤں.اس نے کہا میں آپ سے اس بات کا ذکر کرنے آیا تھا کہ جب میں اپنی تقریر میں یہ کہہ رہا ہوتا ہوں کہ محمد رسول اللہ (ﷺ) سب سے بڑے امن پسند نبی تھے تو یوں معلوم ہوتا ہے کہ خدا میری زبان سے بول رہا ہے.لیکن پھر بھی لوگ اس بات کو نہیں مانتے.حالانکہ میں سمجھ رہا ہوتا ہوں کہ خدا میری زبان سے بول رہا ہے.میں نے کہا ڈسمنڈ شا! اصل بات یہ ہے کہ خدا تعالیٰ جب کوئی بات منوانا چاہتا ہے تو وہ اُسے انسان کے دل پر نازل کیا کرتا ہے.تمہاری زبان پر خدا بولتا ہے تو وہ بات لوگوں کے کانوں میں جاتی ہے اُن کے دل کے اندر داخل نہیں ہوتی.لیکن جب خدا اُن کے دل میں بولے گا تو وہ سارے ماننے لگ جائیں گے.اس پر وہ ہنس پڑا اور کہنے لگا ہاں یہ بات ٹھیک ہے.خدا میری زبان سے بولتا ہے اور پھر وہ بات دوسرے لوگ میرے واسطہ سے سنتے ہیں.اس لیے اُن پر اثر نہیں ہوتا.اگر وہ ان کے دل میں بولے تو وہ ضرور ماننے لگ جائیں.یہ وہی حقیقت ہے جس کے متعلق خدا تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے.نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْاَمِيْنُ عَلَى قَلْبِكَ 12 یعنی چونکہ یہ وحی تیرے قلب پر نازل ہوتی ہے اس لیے تیرے اندر اس وحی کے متعلق غیر معمولی استقامت پائی جاتی ہے اور تو کہتا ہے کہ اگر تم سورج کو میرے دائیں ہاتھ پر اور چاند کو میرے بائیں ہاتھ پر بھی لا کر رکھ دو اور پھر مجھ سے کہو کہ میں خدائے واحد کی توحید کی اشاعت کرنے سے رک جاؤں تو میں ایسا نہیں کروں گا.کیونکہ خدا تعالیٰ کی وحی میرے دل پر نازل ہوئی ہے.اگر وہ میرے قلب پر نازل نہ ہوتی تو میں تمہاری باتوں کو بھی سنتا.لیکن اب یہ سوال باقی نہیں رہا کہ میں تمہاری بات بھی سنوں کیونکہ خدا تعالیٰ نے میرے

Page 304

$1955 294 خطبات محمود جلد نمبر 36 دل پر اپنی وحی نازل کی ہے اور میرے دل میں آہنی میخ کی طرح تو حید کا عقیدہ راسخ کر دیا ہے.بہر حال جیسا کہ میں نے بتایا ہے بعض لوگوں نے اس آیت سے دھوکا کھایا ہے اور وہ یہ سمجھنے لگ گئے ہیں کہ جو خیال دل میں پیدا ہو وہ وحی ہوتی ہے حالانکہ وحی زبان اور کان پر نازل ہوتی ہے اور اس کے ساتھ ہی اس کا قلب پر بھی نزول ہوتا ہے تا کہ اس کی تائید ہو جائے.پھر اگر قرآن کریم میں صرف یہی آیت ہوتی کہ نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ عَلَى قَلْبِكَ ہمیں دھوکا لگ سکتا تھا.لیکن اس کے علاوہ اور بھی بعض آیات قرآن کریم میں آتی ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ وحی کان اور زبان پر بھی نازل ہوتی ہے.مثلاً جیسا کہ میں نے پہلے بھی بتایا ہے کہ آیت تو یہی ہے کہ لَا تُحَرِّكْ بِهِ لِسَانَكَ لِتَعْجَلَ بِه که تو جلدی جلدی اپنی زبان نہ ہلا.جس سے معلوم ہوتا ہے کہ لسان پر بھی وحی نازل ہوتی ہے.پھر حدیث میں آتا ہے کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ بعض اوقات وحی صِلْصِلَةُ الْجَرَس کی طرح آتی ہے 13 اور صِلْصِلَةُ الْجَرَس یعنی گھنٹی کی آواز کو کان کے ذریعہ سنا جاتا ہے.اسی طرح آپ فرماتے ہیں.وَأَحْيَاناً يَتَمَثَّلُ لِيَى الْمَلَكُ رَجُلاً فَيُكَلِّمُنِي فَاَوْعَى مَا يَقُولُ 14.کہ کبھی فرشتہ آدمی کی شکل میں متمثل ہو کے میرے پاس آجاتا ہے اور وہ مجھ سے کلام کرتا ہے اور میں اُس کی باتوں کو یاد کر لیتا ہوں.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وحی زبان اور کان پر بھی نازل ہوتی ہے.لیکن ساتھ ہی اس کا دل پر بھی نزول ہوتا ہے جس کی وجہ سے وہ شخص جس پر وحی نازل ہوتی ہے سب سے بڑا مومن ہو جاتا ہے کیونکہ اُس کے کانوں اور زبان کے ساتھ ساتھ اُس کے دل پر بھی وحی کا نزول ہوتا ہے.اور چونکہ سارے عقائد اور خیالات دل سے ہی پیدا ہوتے ہیں اس لیے اگر دل پر وحی نازل ہوگئی تو یہ ساری چیز میں آپ ہی درست ہو جاتی ہیں..غرض وحی کے کئی مراتب ہوتے ہیں.انبیائے تشریعی کی وحی اور درجہ کی ہوتی ہے اور انبیائے بروزی اور ظلی کی وحی اور درجہ کی ہوتی ہے.انبیائے بروزی اور ظلی وحی کو بھول سکتے ہیں لیکن انبیائے تشریعی اپنی تشریعی وحی کو نہیں بھولتے.کیونکہ اگر شریعت ہی بھول جائے تو اُن کی امت تباہ ہو جائے.اسی طرح انبیائے بروزی اور ظلی کی ایسی وحی بھی جو کسی سابقہ وحی کی تفصیل بیان کرنے یا کسی خاص نکتہ معرفت کے بیان کرنے کے لیے آتی ہے نہیں بھولتی کیونکہ اُس کے

Page 305

خطبات محمود جلد نمبر 36 295 $1955 لیے بھی وہی قانون جاری ہے جو شرعی وحی کے لیے ہے اور اس کی بھی لوگوں کو ضرورت ہوتی ہے.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ عام وحی کی بھی ایک قسم کی حفاظت ہوتی ہے.مثلاً اگر یہ وحی ہو کہ فلاں دشمن مر جائے گا یا طاعون آجائے گی تو اس وحی کی بھی ایک قسم کی حفاظت ہوتی ہے.کیونکہ اگر وہ اخبار غیبیہ جن پر خدا تعالیٰ اپنے کسی بندہ کو اطلاع دیتا ہے ساری کی ساری بھول جائیں تو وہ لوگوں کو سنائی کیسے جاسکیں.لیکن بہر حال اسے وہ مقام حاصل نہیں ہوتا جو تشریعی وحی کو حاصل ہوتا ہے کہ اس کے ایک ایک لفظ اور ایک ایک شوشہ کی حفاظت ہوتی ہے.مثلاً حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بعض جگہوں پر تحریر فرمایا ہے کہ مجھ پر ایک وحی نازل ہوئی تھی جس کے الفاظ تو بھول گئے ہیں لیکن اُس کا مفہوم یہ تھا.پھر بعض دفعہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ وحی کا ایک حصہ یا درہتا ہے اور دوسرا بھول جاتا ہے.اس کی مثالیں بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے الہامات میں ملتی ہیں.بہر حال ھر سخنے وقتے و هر نکته مقامی دارد “ ہر بات اور ہر نکتہ " کا ایک وقت اور مقام ہوتا ہے.لوگ عام طور پر نبی کے لفظ پر چڑتے ہیں.حالانکہ انبیاء بھی کئی درجوں کے ہوتے ہیں.جس کو خدا تعالیٰ نبی کہہ دیتا ہے وہ نبی تو ہوتا ہے لیکن یہ ضروری نہیں کہ سارے نبی ایک ہی مقام کے ہوں.محمد رسول اللہ یہ بھی نبی ہیں اور عیسی اور موسیٰ علیھما السلام بھی نبی تھے.مگر گجا محمد رسول اللہ ہے اور گجا موسیٰ اور عیسی علیھما السلام.ان سب کا الگ الگ مقام اور درجہ ہے.پس نبی ، نبی میں بھی فرق ہے.اسی طرح مومن، مومن میں بھی فرق ہے.حضرت ابو بکر بھی مومن تھے اور وہ چھوٹے سے چھوٹے صحابی بھی مومن تھے جو رسول کریم صلی اللہ علیہ والسلام کی آخری عمر میں آپ پر ایمان لائے.وہ تابعی بھی مومن تھے جو چھوٹی عمر میں آخری صحابی کو اُس کی آخری عمر میں ملے.اور وہ تبع تابعی بھی مومن تھا جو کسی آخری تابعی کو اُس کی آخری عمر میں ملا.پھر وہ تبع تبع تابعی بھی مومن تھا جو آخری تبع تابعی کو اُس کی آخری عمر میں ملا.پھر آج کل کے مسلمان بھی مومن ہیں.لیکن ان سب مومنوں میں درجہ کا فرق ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ میں پشاور کے ایک مخلص دوست حافظ محمد صاحب تھے.وہ ایک دفعہ جلسہ سالانہ کے موقع پر قادیان گئے.مولوی غلام حسین صاحب مرحوم بھی ساتھ

Page 306

$1955 296 خطبات محمود جلد نمبر 36 تھے.رستہ میں یہ بات شروع ہو گئی کہ مومن کا کیا مقام ہوتا ہے اور آیا ہم مومن ہیں یا نہیں ؟ ان کے ساتھ جتنے احمدی تھے اُن سب نے انکسار کے ساتھ یہ کہنا شروع کر دیا کہ تو بہ تو بہ ! ہم تو اپنے آپ کو مومن کہنے کی جرات نہیں کر سکتے ، یہ بڑی گستاخی ہے.حافظ محمد صاحب بڑے جوشیلے احمدی تھے.وہ کہنے لگے اچھا! اگر تم مومن نہیں ہو تو میں آج کے بعد تمہارے پیچھے نماز نہیں پڑھوں گا.میں نے تو مومنوں کی اقتداء میں نماز پڑھنی ہے اور اگر تمہیں خود بھی یہ یقین نہیں کہ تم مومن ہو تو میں تمہارے پیچھے نماز کیوں پڑھوں.چنانچہ انہوں نے اُن احمدیوں کی اقتداء میں نماز پڑھنی چھوڑ دی.اسی طرح ایک سال گزر گیا.اگلے جلسہ پر پھر یہ سب لوگ قادیان گئے تو مولوی غلام حسین صاحب مرحوم نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے ذکر کیا کہ حافظ صاحب نے ہماری اقتداء میں نماز پڑھنی چھوڑ دی ہے اور اس کی وجہ یہ ہوئی ہے، آپ انہیں سمجھا ئیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے حافظ محمد صاحب کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا حافظ صاحب ! اتنی سختی نہیں کرنی چاہیے.مگر بات آپ کی ہی ٹھیک ہے.اگر انسان اپنی ذات پر بھی حسنِ ظنی نہیں کرتا اور اپنے آپ کو مومن نہیں سمجھتا تو اُسے دوسروں نے کہاں مومن سمجھنا ہے.پس اپنے او پر بدظنی کرنا بہت بُری چیز ہے.اس سے پر ہیز کرنا چاہیے.کیونکہ خدا تعالیٰ بھی اپنے بندے کے ساتھ وہی سلوک کرتا ہے جس کی وہ اس سے امید کرتا ہے.پس انسان کو سمجھنا چاہیے کہ چاہے اُس میں بعض کمزوریاں اور نقائص بھی ہوں آخر وہ محمد رسول اللہ ﷺ پر ایمان لایا ہے، قرآن کریم پر ایمان لایا ہے، خدا تعالیٰ کی توحید کا اُس نے اقرار کیا ہے.پھر وہ مومن کیوں نہیں؟ ہاں یہ ہو سکتا ہے کہ وہ بڑے درجے کا مومن نہ ہو بلکہ چھوٹے درجہ کا مومن ہو.لیکن مومن ہونے سے اسے انکار نہیں کرنا چاہیے.انکوائری کمیشن کے سامنے میں نے یہی بیان کیا تھا کہ جس طرح ایمان کے مختلف مدارج ہیں اسی طرح کفر کے بھی مختلف مدارج ہیں.یہ ضروری نہیں کہ جس شخص کے لیے کافر کا لفظ استعمال کیا جائے اُس کے متعلق یہ سمجھا جائے کہ وہ محمد رسول اللہ ﷺ کا ہی منکر ہے.بلکہ کفر کے معنے صرف انکار کرنے کے ہیں اور انکار ایسے شخص کا بھی ہو سکتا ہے جس پر حجت پوری نہیں ہوئی.ایسا آدمی با وجود منکر ہونے کے بری الذمہ ہے.اُس پر خدا تعالی کی طرف سے کوئی الزام نہیں.اور انکار ایسے شخص کا بھی ہوسکتا ہے جس پر حجت تو پوری ہوگئی ہو لیکن وہ عقل کا پورا نہ ہو.ایسا شخص

Page 307

$1955 297 خطبات محمود جلد نمبر 36 بھی منکر تو کہلائے گا لیکن خدا تعالیٰ کے نزدیک وہ قابل مواخذہ نہیں ہوگا.پھر منکر وہ شخص بھی ہوگا کی کہ جس پر حجت پوری ہو گئی ہے اور وہ عقل بھی رکھتا ہے اور پھر وہ خدا تعالیٰ کی بات کا بعد انکار کرتا ہے.ایسا شخص قابل مواخذہ ہے.بہر حال انکار کرنے والوں میں تو وہ سب جمع ہوں گے لیکن سزا اور جزا کے نیچے یہ سب جمع نہیں.بلکہ ہر ایک کا درجہ اور اُس کی جزا وسزا الگ الگ ہے.بہر حال اللہ تعالیٰ کی باتیں پوری ہوتی رہتی ہیں.لیکن انسان کو ہمیشہ یہ دعا کرنی چاہیے کہ اے اللہ! تو ہمیں نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْاَمِيْنُ عَلَى قَلْبِكَ والا نظارہ دکھا.اور جو خبر بھی ہمیں دے گووہ ہمارے درجہ کے ہی مطابق ہومگر تو محمد رسول اللہ ﷺ کے طفیل اُسے ہمارے دلوں پر بھی نازل کر، تا ہمیں تیرے کلام پر یقین پیدا ہو جائے اور ہم کبھی بھی تیری کسی بات پر شبہ نہ کریں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر جن دنوں گورداسپور میں کرم دین کی طرف سے مقدمہ دائر تھا ایک دن کسی شخص نے آپ کو خبر دی کہ آریوں نے مجسٹریٹ سے کہا ہے کہ تم نے مرزا صاحب کو ضرور سزا دینی ہے.ورنہ تمہاری قوم تم سے ناراض ہو جائے گی.اور اُس نے ان سے وعدہ کر لیا ہے.اُس وقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام لیٹے ہوئے تھے.آپ یہ خبر سنتے ہی اٹھ بیٹھے اور فرمایا خدا کے شیر پر ہاتھ ڈالنے والا کون ہوتا ہے.چنانچہ ایسا ہی ہوا.کرم دین کو اس مقدمہ میں سزا ہوگئی اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام بری ہو گئے.صلى الله پس خدا تعالیٰ اپنے بندوں پر وحی تو نازل کرتا ہے مگر ضرورت اس امر کی ہے کہ محمد رسول اللہ ﷺ کی اتباع میں وہ ہمارے قلب پر بھی وحی نازل کرے تا کہ ہمیں اُس پر اس قدر یقین ہو جائے کہ کسی قسم کا تر ڈد باقی نہ رہے.جب یہ کیفیت پیدا ہو جاتی ہے تو انسان کو کامل سکون اور اطمینان حاصل ہو جاتا ہے.مثلاً میری صحت کے متعلق بعض دوسرے دوستوں نے بھی خوا ہیں دیکھی ہیں اور مجھے بھی ایک نظارہ دکھایا گیا ہے جس سے پتا لگتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنا فضل فرمائے گا.مثلاً میں نے رویا میں دیکھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا کوئی بچہ کئی منزلوں سے نیچے گرا ہے مگر پھر بھی وہ بچ گیا ہے.اب کئی منزلوں سے نیچے گرنا یہی مفہوم رکھتا ہے کہ میں اچھی بھلی صحت کی حالت میں تھا کہ یکدم بیمار ہو گیا.ایک منٹ پہلے میری اس بیماری کا کسی کو خیال بھی نہیں آسکتا تھا.میں ٹہلتے ٹہلتے قرآن کریم پڑھ رہا تھا کہ یکدم بیمار ہو گیا.پس میری یہ بیماری کئی

Page 308

$1955 298 خطبات محمود جلد نمبر 36 منزلوں سے نیچے گرنے کے مشابہہ ہے.اور پھر جس طرح رؤیا میں دکھایا گیا تھا کہ وہ بچہ بیچ گیا اسی طرح میں بھی بچ گیا.یہ رویا بہت لمبی ہے.اس کا صرف ایک حصہ میں نے دوستوں کے سامنے بیان کر دیا ہے.اب ڈاکٹر مجھے کہتے ہیں کہ تم اپنے دل کو یقین دلاؤ کہ تم بیمار نہیں ہو اور میں اُن سے کہتا ہوں کہ میں اپنے دل کو کیسے یقین دلاؤں.تمہارے پاس وہ کونسی دوا ہے جو میرے دل کو طاقت دے اور میں اُسے یقین دلا سکوں کہ میں اب بالکل ٹھیک ہوں.ہاں میرے خدا کے پاس میری دوا موجود ہے.وہ اگر نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ عَلى قلبك ـ والی کیفیت پیدا کر دے تو پھر کوئی گھبراہٹ باقی نہیں رہتی.پھر خدا تعالیٰ کے فرشتے آپ ہی سارا کام کر دیں گے اور یہی اصل چیز ہے کہ خدا تعالیٰ کے فرشتے دل پر نازل ہوں اور وہ اس کی اصلاح کر دیں.جیسا کہ میں نے بتایا ہے ڈاکٹر مجھے کہتے ہیں کہ اگر آپ ایک دفعہ اپنے اوپر زور دے کر یہ یقین کر لیں کہ مجھے صحت ہوگئی ہے تو آپ کو مکمل صحت ہو جائے گی.وہ کہتے ہیں کہ جہاں تک جسمانی صحت کا سوال ہے آپ بالکل تندرست ہیں.صرف اتنی کسر باقی ہے کہ آپ کو اپنی صحت کے متعلق یقین نہیں.اور اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ آپ بالکل تندرست تھے کہ آپ یکدم بیمار ہو گئے جس کی وجہ سے آپ کو شدید صدمہ پہنچا ہے اس صدمہ کی وجہ سے آپ گھبرائے ہوئے ہیں.اگر آپ کسی وقت اپنے اوپر دباؤ ڈال کر یہ یقین کرلیں کہ آپ کو مکمل صحت ہو گئی ہے تو آپ بالکل ٹھیک ہو جائیں گے.مگر سوال یہ ہے کہ میں اپنے آپ پر دباؤ کیسے ڈالوں؟ یہ تو اسی صورت میں ہوسکتا ہے کہ خدا تعالیٰ کے فرشتے میرے دل پر نازل ہوں اور وہ اس کی اصلاح کر دیں اور یہ سب کچھ خدا تعالیٰ کے اختیار میں ہے.نہ یہ طبیبوں کے اختیار میں ہے اور نہ میرے اختیار میں ہے.جیسا کہ میں نے پہلے بھی کئی دفعہ بتایا ہے مجھ پر کئی ایسے وقت بھی آتے ہیں جب ٹہلتے ٹہلتے یا بیٹھے بیٹھے میں یوں محسوس کرتا ہوں کہ اب میں بالکل تندرست ہوں.اور سمجھ میں نہیں آتا کہ پہلے جو دماغ پر بوجھ تھاوہ اب کہاں گیا ہے.اور میں سوچتا ہوں کہ میں تو بیمار تھا اب کیا ہو گیا ہے کہ میں اچھا بھلا ہو گیا ہوں.مگر دوسرے وقت جب بیماری کا حملہ ہوتا ہے تو میں سمجھ نہیں سکتا کہ مجھے پر جوا چھا ہونے کا وقت آیا تھا وہ کیسے آیا تھا.بہر حال جیسا کہ میں نے پہلے بھی بتایا ہے مجھے ایک

Page 309

$1955 299 خطبات محمود جلد نمبر 36 خواب کے ذریعہ بتایا گیا ہے کہ دعاؤں کے ساتھ میرا علاج ہوگا.لیکن بیماری کی وجہ سے میری یہ حالت ہے کہ میں نہ لمبا سجدہ کر سکتا ہوں اور نہ زیادہ دیر تک دعا کر سکتا ہوں.اس لیے دوسرے دوستوں کے ساتھ مل کر ہی یہ دعا ہو سکتی ہے.یعنی دوست بھی دعا کریں اور جس قدر مجھ.ہو سکے میں بھی دعا ئیں کروں اور اس طرح خدا تعالیٰ کا فضل نازل ہو جائے.اور اس وقت جو بار بار مجھے اپنی بیماری کا احساس ہوتا ہے وہ دور ہو جائے اور خدا تعالیٰ شیخ کی طرح میرے دل میں یہ بات داخل کر دے کہ اب میں بالکل تندرست ہوں اور اس طرح میری موجودہ کیفیت جاتی رہے گی.جب مجھے یہ یقین پیدا ہو جائے گا تو خدا تعالیٰ چاہے گا تو باقی عوارض بھی خود بخود دُور ہو جائیں گے.“ (الفضل 3 جنوری 1956ء) 1: المائدة: 68 2 الاعلى : 7 3 صحيح البخارى كتاب التعبير باب تعبير الرؤيا بعد صَلَاةِ الصُّبح 5:4 ترمذی ابواب الصَّلوة باب ما جاء في بدء الاذان 6 صحيح البخارى كتاب التعبير باب الرؤيا مِنَ الله 7: النسائی کتاب مناسك الحج باب تحريم الْقَتْلِ فِيهِ 9 : الشعراء: 193 تا195 صلى الله صحيح البخارى كتاب بدء الوحى باب كيف كان بدء الوحى الى رسول الله عل 10 : القيمة : 17 11 إِنَّهُ لَقُرْآنٌ كَرِيمُ فِي كِتَبٍ مَّكْنُونِ ( الواقعة: 79,78) :12 الشعراء: 1,195,194 13 ، 14 : صحيح البخارى كتاب بدء الوحي باب كيف كان بدء الوحى الى رسول الله الله

Page 310

$1955 300 38 خطبات محمود جلد نمبر 36 ربوہ کے دوست جلسہ سالانہ پر مہمانوں کی زیادہ سے زیادہ خدمت کرنے اور انہیں آرام پہنچانے کی کوشش کیا کریں (فرموده 23 دسمبر 1955ء بمقام ربوہ ) تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا.وو بارش کے بعد چند دنوں سے جو سردی میں زیادتی ہو گئی ہے وہ بیماری کی وجہ سے مجھے بہت زیادہ محسوس ہوتی ہے.یوں بھی صحت کی کمزوری کی وجہ سے میں عام طور پر زیادہ سردی محسوس کرتا ہوں.اور سردی کی نسبت گرمی تو اور بھی زیادہ محسوس ہوتی ہے.کیونکہ بیماری اور کمزوری کی وجہ سے جسم میں قوت اور مقاومت کم ہوگئی ہے.لیکن آجکل تو یہ کیفیت ہے کہ سارا دن مجھے یوں معلوم ہوتا ہے کہ گویا میری ہڈیاں بھی برف کی بنی ہوئی ہیں.پھر جلسہ سالانہ کی آمد کی وجہ سے بھی طبیعت میں گھبراہٹ پیدا ہوتی ہے کیونکہ بیماری کے بعد یہ پہلا موقع ہے کہ مجھے جلسہ میں احباب کے سامنے بولنے کا موقع ملے گا.اسی طرح دوستوں سے ملاقات کا خیال کر کے بھی طبیعت پر بار محسوس ہوتا ہے.کیونکہ مجھے معلوم نہیں کہ میں اس بوجھ کے اٹھانے کے قابل بھی ہوں گا یا نہیں.اس لیے میں سمجھتا ہوں کہ مجھے خطبہ بہت مختصر کرنا چاہیے تا کہ طبیعت پر زیادہ بوجھ نہ پڑے.

Page 311

خطبات محمود جلد نمبر 36 301 $1955 اس مختصر خطبہ میں پہلے تو میں اہالیانِ ربوہ کو اس طرف توجہ دلاتا ہوں کہ جب میں اپنا خیال کرتا ہوں کہ مجھے کتنی سردی محسوس ہوتی ہے تو مجھے جلسہ سالانہ کی وجہ سے یہاں آنے والے مہمانوں کا خیال کر کے بڑی تکلیف محسوس ہوتی ہے.کیونکہ میرے پاس بار بار یہی رپورٹ آرہی ہے کہ احباب ربوہ نے جلسہ سالانہ کے مہمانوں کے لیے اپنے مکانات پیش کرنے میں اُس کشادہ دلی سے کام نہیں لیا جو ایک مومن خدا تعالیٰ کے مہمانوں کے لیے دکھایا کرتا ہے.مجھے بارہا کہا گیا ہے کہ جو دوست خاندانوں سمیت یہاں آرہے ہیں اور انہوں نے یہاں رہنے کے لیے عارضی طور پر ایک ایک دو دو کمرے مانگے ہیں اُن کے لیے اس وقت تک بہت ہی کم جگہ ملی ہے.بلکہ غالباً تین چار سو درخواستیں آئی تھیں جن میں سے صرف 130 احباب کے لیے منتظمین انتظام کر سکے ہیں.باقی عورتیں اور بچے کیا کریں گے؟ ذرا اس بات کا خیال تو کرو کہ وہ لوگ روپیہ خرچ کر کے یہاں آئیں گے ، ریل کی کھچا کھچ اور دھکا پیل کو برداشت کرتے ہوئے یہاں آئیں گے.پھر یہ خیال کرو کہ وہ کوئی محل نہیں مانگتے ، وہ کوئی مکان نہیں مانگتے بلکہ ایک ایک دو دو کمرے مانگتے ہیں.اگر انہیں ایک ایک دو دو کمرے بھی نہ ملے تو یہ بات اُن کے لیے کتنی تکلیف کا موجب ہوگی.یا اگر اس سردی میں انہیں مناسب جگہ نہ ملی تو اُن کی صحت کو کتنا نقصان ہوگا.ہمارے لیے تو ایک احمدی کی جان بھی بڑی قیمتی ہے اس لیے کہ بھائی نے بھائی پر ، بیوی نے خاوند پر ، خاوند نے بیوی پر ، باپ نے بیٹے پر اور بیٹے نے باپ پر زور لگایا اور انہیں لمبے عرصہ تک تبلیغ کی تب جا کر وہ احمدی ہوئے.پس اس محنت کے پھل کی بہت زیادہ قیمت ہے جس کی ہمیں قدر کرنی چاہیے.پس ربوہ کے دوستوں سے میں کہتا ہوں کہ وہ قربانی کا نمونہ دکھائیں اور مہمانوں کے لیے اپنے مکانات پیش کریں تا کہ جہاں تک ہو سکے جلسہ سالانہ پر آنے والوں کے لیے زیادہ سے زیادہ رہائش کا انتظام ہو سکے اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے وہ کوئی تکلیف محسوس نہ کریں اور سردی کی وجہ سے کسی بیماری کا شکار نہ ہوں بلکہ وہ خیریت سے یہاں آئیں اور خیریت سے یہاں سے واپس جائیں.پس ایک تو جلسہ سالانہ پر آنے والوں کے لیے اپنے مکانات پیش کرو.اور دوسرے اپنی خدمات پیش کرو.جلسہ سالانہ پر چونکہ دوست بڑی کثرت سے آتے ہیں اس لیے کام

Page 312

$1955 302 خطبات محمود جلد نمبر 36 اس قدر زیادہ ہوتا ہے کہ جب تک ساری جماعت اس کام میں نہ لگ جائے اُس وقت تک یہ بوجھ نہیں اٹھایا جاسکتا.پس اپنی خدمات پیش کرو اور انتظام کرنے والوں کے بوجھ کو ہلکا کرو.آخر وہ بھی انسان ہی ہیں وہ کتنا بوجھ اٹھا سکتے ہیں.پھر میں جہاں ربوہ کے دوستوں کو یہ نصیحت کرتا ہوں کہ وہ نہایت اخلاص سے کام کریں وہاں میں انہیں یہ بھی نصیحت کروں گا کہ وہ اپنی صحت کا بھی خیال رکھیں.مومن کی جان بڑی قیمتی ہوتی ہے اس لیے ان میں سے کسی کو اپنی جوانی اور جسم کی مضبوطی کا غرور نہیں کرنا چاہیے.کیونکہ سو بعض اوقات بے احتیاطی کی وجہ سے بڑے بڑے قومی آدمیوں کو بھی تکلیف ہو جاتی ہے.جن کو خدا تعالیٰ توفیق دے وہ گرم کپڑے پہنیں اور جن کے پاس کپڑے نہیں وہ کم از کم اتنا کریں کہ ایسے کمروں میں بیٹھیں جہاں تنور وغیرہ جلتے ہوں اور وہ گرم ہوں.پھر انہیں یہ بھی احتیاط کرنی چاہیے کہ وہ سردی سے یکدم گرمی میں نہ چلے جائیں اور نہ گرمی سے یکدم سردی میں آئیں.کیونکہ یہ دونوں باتیں صحت کے لیے مضر ہوتی ہیں.پھر سب لوگ دعا کرتے رہیں.در حقیقت ہماری جماعت نہایت ہی قلیل ہے اور ہمارے پاس جو سامان ہیں وہ بھی بہت کم ہیں.خدا تعالیٰ ہی ہماری مدد کرے تو کرے ورنہ اس کے بغیر ہمارا کوئی ٹھکانا نہیں.اس لیے سب دوست دعا کریں کہ خدا تعالیٰ اس آنے والے جلسہ سالانہ کو ہمارے لیے مبارک کرے اور اس جلسہ کے بعد جو آنے والا سال ہے اُسے اور بھی زیادہ ހނ مبارک کرے.اور آئندہ ہر آنے والے سال کو ہماری جماعت کی ترقی کے لیے مبارک.مبارک تر کرتا چلا جائے اور ہمیں توفیق دے کہ ہم خدا تعالیٰ کے پیغام اور محمد رسول اللہ ﷺ کی لائی ہوئی تعلیم کو دنیا میں پھیلا ئیں.یہ کام بہت مشکل ہے.میرا دل تو اس کا خیال کر کے بھی کانپ پھیلائیں جاتا ہے.اگر یہ کام پورا ہوگا تو صرف اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہوگا ورنہ اس کو پورا کرنا ہماری طاقت سے بالا ہے.کیونکہ دل خدا تعالیٰ کے قبضہ میں ہیں ہمارے قبضہ میں نہیں.اور انَّ اللهَ يَحُولُ بَيْنَ الْمَرْءِ وَقَلْبِهِ 1 خدا تعالی ہی ہے جو انسان اور اسکے دل کے درمیان حائل ہے.پس دل تک کوئی بات پہنچانے کے لیے سب سے پہلے ہمیں اسے خدا تعالیٰ کے ہاتھ میں دینا پڑتا ہے اور پھر خدا تعالیٰ اُسے دوسرے کے دل میں رکھتا ہے.ہم میں یہ طاقت

Page 313

خطبات محمود جلد نمبر 36 303 $1955 نہیں کہ اُسے کسی کے دل میں رکھ سکیں کیونکہ ہمارا ہاتھ دل تک نہیں پہنچتا لیکن خدا تعالیٰ کا ہاتھ دل تک پہنچتا ہے.پس دعائیں کرو کہ خدا تعالیٰ ہماری جماعت کی ترقی کے سامان پیدا کرے اور مجھ کو بھی صحت عطا کرے اور طاقت دے کہ میں اس بوجھ کو آسانی سے اٹھا سکوں.بلکہ بجائے اس کے کہ یہ بوجھ میری صحت کو نقصان پہنچائے مجھے خدا تعالیٰ توفیق دے کہ میں اس بیماری کے بقیہ حصوں پر بھی قابو پاسکوں.ڈاکٹر کہتے ہیں کہ اب اصل سوال یہ رہ گیا ہے کہ آپ بیماری پر قابو پالیں اور اس کی توفیق خدا تعالیٰ ہی دے سکتا ہے ورنہ میں کب چاہتا ہوں کہ میں بیمار رہوں.مجھے بیمار رہنے کا کوئی شوق نہیں.صرف یہ بات ہے کہ بیماری نے میرے جسم میں قوت مقاومت کو کمزور کر دیا ہے.اس کمزوری کی وجہ سے باوجود ڈاکٹروں کے کہنے کے میں اپنے خیالات پر قابو نہیں پاسکتا.لیکن اگر خدا تعالیٰ توفیق دیدے تو میں اپنے خیالات پر قابو پاسکتا ہوں.کیونکہ خدا تعالیٰ جب چاہتا ہے کہ کوئی کام ہو جائے تو وہ اشارہ کرتا ہے اور وہ کام ہو جاتا ہے.سواگر اللہ تعالی توفیق دے تو یہ کمزوری بھی دور ہوسکتی ہے.بلکہ جسم میں اتنی طاقت بھی آسکتی ہے جو پہلے بھی نہ آئی ہو.“ (الفضل 21 جنوری1956ء) 1: الانفال: 25

Page 314

$1955 304 39 خطبات محمود جلد نمبر 36 وقت آ گیا ہے کہ جماعت اپنے تن من دھن سے اسلام کی تقویت کے لیے پورا زور لگا دے (فرموده 30 دسمبر 1955ء بمقام ربوہ ) تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا." اللہ تعالیٰ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ اس سال کا جلسہ سالانہ باوجود میری بیماری اور ضعف کے خیریت سے گزر گیا اور اللہ تعالیٰ نے پھر ایک دفعہ باوجود میری مجبوری اور معذوری کے مجھے جماعت کے سامنے بولنے کا موقع عطا فرمایا.اگر چہ بیماری کی وجہ سے میں اپنے مضمون کو كَمَا حَقَّهُ ادا نہیں کر سکا مگر پھر بھی خدا تعالیٰ کے فضل سے ایک حد تک وہ مضمون مکمل ہو گیا ہے.جیسا کہ میں نے جلسہ کے موقع پر بھی دوستوں سے کہا تھا اب وقت آ گیا ہے کہ جماعت اپنے زبانی دعووں اور الفاظ کو عملی جامہ پہنانے کی کوشش کرے اور جماعت کے تمام دوست چاہے وہ کسی شعبہ میں کام کرتے ہوں اپنے تن ، من اور دھن سے اسلام کی تقویت کے لیے زور لگانا شروع کر دیں.میں نے جلسہ کے موقع پر بتایا تھا کہ اب ہماری جماعت کا کام اس قدر بڑھ گیا ہے کہ جب تک تحریک جدید اور صد را مجمن احمدیہ کی سالانہ آمد میں چھپیں چھپیں لاکھ روپیہ تک نہ پہنچ جائیں اُس وقت تک سلسلہ کے کام خوش اسلوبی سے نہیں چل سکتے.

Page 315

خطبات محمود جلد نمبر 36 305 $1955 ابھی امریکہ سے مجھے خط آیا ہے کہ نیو یارک میں تبلیغ کے لیے ایک مرکز کا ہونا ضروری ہے.جب تک اپنا مکان موجود نہ ہو مبلغ کو ہر روز مکان بدلنا پڑتا ہے اور مالک مکان جب چاہے اُسے نکال سکتا ہے.مبلغ رات دن محنت کر کے اپنے ارد گرد کے لوگوں سے تعلقات پیدا کرتا ہے.جب اُسے یہ امید ہو جاتی ہے کہ اب یہ لوگ اسلام کو قبول کر لیں گے تو مالک مکان کہہ دیتا ہے کہ میرا مکان خالی کر دو اور اُسے مکان کی تلاش میں کہیں اور جانا پڑتا ہے.ہمارے ہاں تو اگر کوئی ایک مکان سے نکل جائے تو سو گز پر اُسے دوسرا مکان مل جاتا ہے.لیکن وہ شہر چالیس چالیس پچاس پچاس میل میں پھیلے ہوئے ہیں اس لیے بعض دفعہ اُسے کئی میل دور کسی اور مقام پر جانا پڑتا ہے اور وہاں نئے سرے سے لوگوں سے تعلقات قائم کرنے پڑتے ہیں.گویا یہ ایسی ہی بات ہے جیسے ہم ایک مبلغ سے یہ امید کریں کہ وہ شیخو پورہ میں تبلیغ کرے لیکن جب وہ اپنے ماحول میں لوگوں سے تعلقات پیدا کرلے تو اُسے وہاں سے راولپنڈی ، پشاور یا ڈیرہ اسماعیل خان بھیج دیا کی جائے.جس مبلغ کو ہر وقت خطرہ ہو کہ ممکن ہے اُسے اچانک راولپنڈی، پشاور یا ڈیرہ اسماعیل خان جانا پڑے وہ شیخو پورہ میں اطمینان کے ساتھ کیسے تبلیغ جاری رکھ سکتا ہے.یہی حال اُس شخص کا ہوتا ہے جو نیو یارک کے ایک محلہ سے مکان بدل کر دوسرے محلہ میں جاتا ہے کیونکہ وہاں بعض اوقات کی تیں تمہیں چالیس چالیس میل کا درمیان میں فاصلہ ہو جاتا ہے اور اس طرح پہلے واقف لوگوں سے تعلقات قائم رکھنے مشکل ہو جاتے ہیں.بہر حال امریکہ والوں نے لکھا ہے کہ ہمیں دار التبلیغ کے لیے نیویارک میں ایک مکان کی ضرورت ہے.انہوں نے یہ بھی لکھا ہے کہ ہم نے مکان کے حصول کی بڑی کوشش کی ہے لیکن چونکہ یہاں مکانوں کی قیمت بہت زیادہ ہے اور پھر گا ہک بھی بہت پڑتا ہے اس لیے ہمیں اب تک کامیابی نہیں ہو سکی تھی.اب جس مکان کی ہمیں ایجنٹ نے اطلاع دی ہے وہ ایک لاکھ سینتیس ہزار روپے میں ملتا ہے.اب تم سمجھ سکتے ہو کہ اگر ہر اہم مقام پر مرکز بنانے کے لیے ہمیں ایک لاکھ سینتیس ہزار روپے کی ضرورت ہو تو چھپیں تھیں لاکھ روپے سالانہ بجٹ کے بغیر یہ کام کیسے ہو سکتا ہے.اُدھر ہمارے مبلغین کا یہ حال ہے کہ وہ اکیلے دنیا کی سب سے بڑی طاقت کا مقابلہ کر رہے ہیں.اللہ تعالیٰ انہیں اس کی بہر حال جزا دے گا.لیکن ہمارا بھی فرض ہے کہ ہم محنت کریں اور

Page 316

$1955 306 خطبات محمود جلد نمبر 36 اپنے بجٹ کو بڑھانے کی کوشش کریں تا کہ تبلیغ کا کام وسیع کیا جاسکے.میں نے جلسہ کے موقع پر کہا تھا کہ ہمارے ملک کے زمیندار نہ تو صحیح رنگ میں محنت کرتے ہیں اور نہ اپنی پیداوار کو بڑھانے کی کوشش کرتے ہیں.جس کا نتیجہ یہ ہے کہ ان کی آمد نہیں نہایت ہی قلیل ہیں.یورپ کے بعض ممالک میں ایک ایک ایکڑ سے چودہ چودہ سور و پیہ سالانہ حاصل کیا جاتا ہے.اگر اُس معیار پر ہماری آمد میں پہنچ جائیں تو اس وقت ہماری جماعت کے دوستوں کے پاس قریباً ایک لاکھ ایکڑ اراضی ہے.اگر ہرایکڑ سے چودہ سو روپیہ سالانہ آمد ہو تو اس کے معنے یہ ہیں کہ صرف ہماری جماعت کے زمینداروں کی چودہ کروڑ روپیہ سالانہ آمد ہو جائے.اس آمدنی پر اگر زمیندار ایک آنہ فی روپیہ بھی چندہ دیں تو جماعت کا چندہ ستاسی لاکھ پچاس ہزار روپیہ تک پہنچ سکتا ہے.اور اگر وہ وصیت کر دیں اور آمد کا دسواں حصہ دیں تو ایک کروڑ چالیس لاکھ روپیہ چندہ آ جائے.اگر اتنا چندہ جمع ہونے لگ جائے تو ہم ایک نیو یارک کیا بیسیوں شہروں میں مرکز بنانے کے لیے مکانات خرید سکتے ہیں.ان ممالک میں یہ طریق ہے کہ مکان بیچنے والا قیمت کا ایک معمولی حصہ خریدار سے لیتا ہے اور باقی قیمت کرایہ کی شکل میں باقساط وصول کرتا رہتا ہے.نیو یارک کے جس مکان کا میں نے ذکر کیا ہے اُس کی قیمت سن کر دل ڈر جاتا ہے.لیکن اُس کا مالک کہتا ہے کہ مجھے ساری قیمت کا صرف 15 فیصدی ادا کر دیں.اس کے بعد مجھے کرایہ دیتے رہیں جو قیمت میں شمار ہوتا رہے گا.گویا اگر ہم کل قیمت کا صرف 15 فیصدی یعنی ہیں ہزار پانچ سوروپے ادا کر دیں تو ہمیں مکان مل جائے گا.اس کے بعد جس طرح پہلے ہمارا مبلغ اپنے مکان کا کرایہ ادا کرتا ہے اُسی طرح پھر بھی اُسے کرایہ ہی ادا کرنا پڑے گا.مگر پھر یہ کرا یہ قیمت میں سے کٹ جائے گا اور مکان اپنا ہو جائے گا.بہر حال سلسلہ کی ضروریات تقاضا کرتی ہیں کہ جماعت کے دوست اپنی آمد نہیں بڑھانے کی کوشش کریں تا کہ تبلیغ کو وسیع کیا جا سکے.ہماری جماعت کا بیشتر حصہ زمینداروں پر مشتمل ہے.انہیں کوشش کرنی چاہیے کہ وہ اپنی مستیاں ترک کر دیں اور صحیح طریق پر محنت کریں تا کہ ان کی آمد میں ترقی ہوا اور اس کے نتیجہ میں سلسلہ کا بجٹ بھی ترقی کرے.

Page 317

خطبات محمود جلد نمبر 36 307 $1955 آج کل جلسہ کے بوجھ اور تھکان کی وجہ سے میری طبیعت کچھ ضعف محسوس کرتی ہے اور سر چکراتا ہے.میں چاہتا ہوں کہ مجھے کچھ دن آرام مل جائے تا کہ طبیعت اعتدال پر آجائے.مجھے امید نہیں تھی کہ میں جلسہ سالانہ کے موقع پر احباب کے سامنے اتنا بول سکوں گا.لیکن خدا تعالیٰ کا فضل ہوا اور مجھے دوسرے دن ایک گھنٹہ تئیس منٹ اور تیسرے دن ایک گھنٹہ چھپن منٹ تک بولنے کی توفیق ملی.گویا آخری دو دنوں میں میں نے تین گھنٹے انیس منٹ تک تقریر کی.یہ محض خدا تعالیٰ کا فضل اور اس کی عنایت ہے ورنہ مجھ میں اتنی طاقت نہیں تھی کہ میں اس قدر بوجھ برداشت کر سکتا.خدا تعالیٰ ہماری جماعت کے دوستوں کو بھی توفیق عطا فرمائے کہ وہ آئندہ زیادہ محنت کریں اور صحیح طریق پر محنت کریں اور اپنی کمائی اور معیار زندگی کو اونچا کریں.اب جو شخص سو روپیہ ماہوار کماتا ہے وہ آئندہ ایک ہزار روپیہ ماہوار کمائے ، جو احمدی ملازم اس وقت پچاس روپیہ ماہوار دے رہا ہے وہ آئندہ ایسی تندہی سے کام کرے کہ اُسے پچاس روپیہ کی بجائے ایک سو یا ڈیڑھ سو روپیہ ماہوار مل جائے.ہمارا جو تا جر اس وقت پچاس روپیہ روزانہ کی پکری کرتا ہے وہ آئندہ سال اتنی ترقی کرے کہ اُس کی روزانہ بکری چار پانچ سورو پیہ تک پہنچ جائے اور اس طرح اُس کی کمائی کے ساتھ ساتھ سلسلہ کی آمد بھی بڑھے.اگر ہمارے دوست محنت کریں اور تحریک اور صدرانجمن احمد یہ دونوں کا بجٹ پچاس ساٹھ لاکھ روپیہ سالا نہ ہو جائے تو مختلف ممالک میں مساجد بھی تعمیر کی جاسکتی ہیں.اس وقت مالی کمزوری کی وجہ سے ہم ہر ملک میں مساجد تعمیر نہیں کر سکتے جس کی وجہ سے کام میں ترقی نہیں ہو رہی.دمشق سے بھی مجھے چٹھی آئی ہے کہ جس علاقہ میں ہماری مسجد ہے اُس کی عمارات سرکاری ضروریات کے پیش نظر گرائی جا رہی ہیں.اس لیے ہمیں اپنی مسجد ، مہمان خانہ اور لائبریری وغیرہ کے لیے کسی دوسرے مقام پر زمین خریدنے کی سخت ضرورت ہے.اگر ہم نے فوری طور پر اس کا انتظام نہ کیا تو ہمیں کوئی مناسب مقام نہیں مل سکے گا.اسی طرح اور بھی سلسلہ کی کئی ضروریات ہیں جن کے لیے روپیہ کی ضرورت رہتی ہے.امریکہ کی جماعت کو ہی لے لو.وہ اپنی آمد بڑھانے کی اتنی کوشش کر رہی ہے کہ بعید نہیں

Page 318

$1955 308 خطبات محمود جلد نمبر 36 کہ آئندہ سال میں اُن کی آمد لاکھ سوالاکھ روپیہ تک پہنچ جائے.بلکہ میں تو انہیں یہ تحریک کر رہا ہوں کہ آئندہ چند سال میں ان کا بجٹ چھپیں تمہیں لاکھ روپیہ سالا نہ ہو جانا چاہیے.ادھر ہمارا مرکزی بجٹ بھی اگر چھپیں تمھیں لاکھ روپیہ سالانہ تک پہنچ جائے تو یورپ اور دوسرے ممالک میں زیادہ سے زیادہ مشن قائم کئے جاسکتے ہیں اور مختلف زبانوں میں قرآن کریم کا ترجمہ جلد سے جلد شائع کیا جاسکتا ہے.میں ناظروں اور وکلاء کو بھی اِس طرف توجہ دلاتا ہوں کہ یہاں ایک ایک دفتر میں آٹھ آٹھ دس دس آدمی ہیں اور باہر کے ممالک میں ہمارا صرف ایک ایک مبلغ ہے اور وہ اکیلا اتنی محنت کرتا ہے کہ ہمارے انگلستان کے مبلغ نے ہی لکھا کہ دن رات صرف فون پر پیغام وصول کرنے اور اُن کا جواب دینے کے لیے ہی ایک کمرہ سے دوسرے کمرے میں جانا پڑے تو اس کے لیے آٹھ گھنٹے درکار ہوتے ہیں.گویا اگر وہ تبلیغ نہ کرے صرف فون پر آنے والے پیغامات کا ہی جواب دے تو اُس کے روزانہ آٹھ گھنٹے خرچ ہوتے ہیں لیکن پھر بھی وہ تبلیغ کرتا ہے.اگر وہ لوگ اتنے مصروف ہونے کے باوجو د سلسلہ کی خدمت میں لگے ہوئے ہیں تو ہمارے ناظروں اور وکلاء کو بھی کی چاہیے کہ وہ بھی اپنے کام کی رفتار کو بڑھائیں.اسلام پر اب ایسا نازک وقت آیا ہوا ہے کہ جب تک ہم اپنی طاقت سے بالا کام کرنے کی کوشش نہیں کریں گے اُس وقت تک اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہوسکیں گے.جب خدا تعالیٰ جماعت کے چندوں کی تعداد بڑھا دے گا تو تبلیغ کے وسیع ہونے سے آدمیوں کی تعداد بھی بڑھ جائے گی اور مختلف ممالک میں نئے مشن کھولے جاسکیں گے.بور نیو میں اس وقت ہمارے دو مبلغ ہیں.پہلے یہ سمجھا جاتا تھا کہ اس علاقہ میں احمدیت کا پھیلنا مشکل ہے اس لیے یہاں دو مبلغوں کو بٹھانے کی کیا ضرورت ہے اور اس علاقہ میں پہلے بہت ہی تھوڑے احمدی تھے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ وہاں صرف ایک ہی احمدی تھے اور وہ ڈاکٹر بدرالدین صاحب تھے.میں وہاں کے مبلغین کو بار بار کہہ رہا تھا کہ اپنے کام کو بڑھاؤ.آخر خدا تعالیٰ کا فضل ہوا اور اس علاقہ میں احمدیت کے پھیلنے کے سامان پیدا ہو گئے.ہمارا ایک مبلغ بور نیو کے ایک حصہ میں تبلیغ کے لیے گیا اور خدا تعالیٰ کا یہ فضل ہوا کہ وہاں احمدیت کی ایک رو

Page 319

خطبات محمود جلد نمبر 36 309 $1955 پیدا ہوگئی.انگریزوں کو جب اس رو کا احساس ہوا تو حکام نے اس کو دبانا چاہا.اور جو شخص بھی احمدی ہونے لگتا اُس پر دباؤ ڈالا جاتا کہ اگر وہ احمدی ہو گیا تو اُسے ملازمت سے برخاست کر دیا جائے گا یا اُسے جائیداد سے محروم کر دیا جائے گا.لیکن اس کے باوجود ہمارے مبلغ کو کی خدا تعالیٰ نے اس علاقہ میں کامیابی عطا فرمائی.آج وہاں سے ایک اور خط آیا ہے کہ دوسرے مبلغ کو بھی ایک دوسرے علاقہ میں بھیجا جا رہا ہے اور خیال ہے کہ اگر یہ مبلغ اس علاقہ میں گیا تو وہ سارے کا سارا علاقہ احمدیت میں داخل ہو جائے گا.بور نیو میں آبادی کم ہے لیکن علاقہ بہت وسیع ہے.اگر انگریزی اور انڈونیشین بور نیو 1 دونوں کو ملا لیا جائے تو اس کا رقبہ ہندوستان کے نصف کے برابر ہے اور پاکستان سے وہ تین چار گنا زیادہ ہے.اگر اللہ تعالیٰ نے اس علاقہ میں احمدیت پھیلا دی تو یہ ہمارے لیے بڑی برکت کا باعث ہوگا.بہر حال پاکستان سے باہر کے دوست جن کو اللہ تعالیٰ نے اخلاص دیا ہے وہ بہت اچھا کام کر رہے ہیں اور جماعت کی مالی اور اقتصادی حالت کو مضبوط بنانے کی کوشش کر رہے ہیں.پاکستانیوں کو بھی چاہیے کہ وہ بھی جماعت کی مالی اور اقتصادی حالت کو مضبوط کرنے کی کوشش کریں.خدا تعالیٰ نے ہمیں اولیت کا فخر بخشا ہے اور ہمارا فرض ہے کہ ہم اس فخر کو قائم رکھیں.اگر امریکہ کی جماعت کا چندہ کسی وقت ساٹھ ستر کروڑ بھی ہو جائے تب بھی ہمیں کوشش کرنی چاہیے جو پہل ہمیں نصیب ہے وہ آئندہ بھی قائم رہے اور ہما را چندہ اُن سے ہمیشہ زیادہ رہے اور ہم کہہ سکیں کہ خدا تعالیٰ نے ہمیں جس مقام پر کھڑا کیا تھا ہم اُس پر قائم ہیں.ویسے یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ اولیت کا شرف اس رنگ میں صرف پاکستانیوں کو ہی حاصل ہے کہ احمدیت انہی کی کی قربانیوں کے نتیجہ میں دوسرے ممالک میں پھیلی ہے.لیکن پھر بھی کوشش کرنی چاہیے کہ کسی رنگ میں بھی کوئی دوسرا ملک ہم سے آگے نہ نکل سکے اور ہمیشہ ہم اپنی قربانیوں کے معیار کو بڑھاتے چلے جائیں.بڑی بات تو یہ ہے کہ ہماری جماعت کے دوستوں کو اُن غیر احمدی معززین سے بھی چندہ لینے کی کوشش کرنی چاہیے جو اشاعت اسلام کے کام میں دلچسپی رکھتے ہیں.اگر اس رنگ میں کوشش شروع کی جائے تو ہماری مالی حالت خدا تعالیٰ کے فضل سے بہت مضبوط ہوسکتی ہے.آپ

Page 320

$1955 310 خطبات محمود جلد نمبر 36 لوگ یہ خیال اپنے دل سے نکال دیں کہ غیر احمدی چندہ نہیں دیں گے.اُن میں بھی اسلام سے محبت رکھنے والے لوگ موجود ہیں.اور جب اُن پر حقیقت واضح کر دی جائے تو وہ اس کام میں مدد دینے کے لیے فوراً تیار ہو جاتے ہیں.میں نے پہلے بھی بتایا تھا کہ میں نے سکنڈے نیویا کے مشن کے لیے تحریک کی تو لاہور کے ایک غیر احمدی دوست نے ساڑھے پانچ سو روپیہ چندہ دے دیا.اسی طرح میں نے کراچی میں ایک تقریر کی تو اس کے بعد ایک غیر احمدی دوست نے پچاس روپے بھیج دیئے کہ انہیں آپ جہاں چاہیں خرچ کریں.چنانچہ میں نے وہ روپیہ اشاعت اسلام کے لیے د.دیا.پس آپ لوگ بلا وجہ حجاب کرتے ہیں اور غیر احمدیوں سے چندہ نہیں مانگتے.آپ اپنے اپنے دوستوں کے پاس چلے جائیں اور انہیں بتائیں کہ اس وقت ہماری جماعت اشاعت اسلام کا فریضہ ادا کر رہی ہے اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہ کام نہایت خوش اسلوبی سے ہو رہا ہے.اگر آپ کو اس بات کی توفیق نہیں کہ اپنے مبلغ کسی ملک میں بھیجیں تو یہ بات تو آپ کے اختیار میں ہے کہ آپ ہماری جماعت کی مالی امداد کریں اور اس نیک کام میں اللہ تعالیٰ کے حضور حصہ دار بن جائیں.آپ معمولی رقم دے کر بھی اس کام میں حصہ دار بن سکتے ہیں اور کہہ سکتے ہیں کہ ہم سوئٹزر لینڈ ، ہالینڈ ، فن لینڈ اور دوسرے ممالک میں اسلام کی تبلیغ کر رہے ہیں.اگر تم اس طرح جماعت کی مالی طاقت کو مضبوط بنانے میں لگ جاؤ اور زیادہ سے زیادہ غیر احمدی دوستوں کو اس کام میں حصہ دار بنا لو تو تھوڑے عرصہ میں ہی دس پندرہ لاکھ روپیہ صرف اسی ذریعہ سے اکٹھا ہو سکتا ہے.چونکہ دوسرے مسلمانوں میں یہ مادہ نہیں پایا جاتا کہ وہ اسلام کی تبلیغ کے لیے غیر ممالک میں جائیں اس لیے چاہے وہ روپیہ دیں پھر بھی آدمی تمہارے ہی کام کریں گے اور ان ہی کو اسلام کی سربلندی کے لیے ہر قسم کی قربانی کرنی پڑے گی.ایک دفعہ افریقہ کے ایک مبلغ نے مجھے لکھا کہ اس علاقہ میں ازہر یو نیورسٹی کی طرف سے ایک مبلغ بھجوایا گیا ہے جو بہت بڑا عالم ہے اور میں معمولی لکھا پڑھا ہوں.میں حیران ہوں کہ اب میں کیا کروں گا؟ میں نے اُسے لکھا کہ گھبراؤ نہیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر

Page 321

$1955 311 خطبات محمود جلد نمبر 36 ایمان لانے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے تمہیں یہ طاقت دی ہے کہ تم درختوں کی جڑیں اور پتے کھا کر گزارہ کر لو.لیکن وہ لوگوں سے مرغ اور پلاؤ کا مطالبہ کرے گا جو وہ مہیا نہیں کر سکیں گے اور اس طرح وہ جلد ہی وہاں سے بھاگ جائے گا.تم سمجھتے ہو کہ تبلیغ صرف علم سے ہوتی ہے حالانکہ تبلیغ صرف علم سے نہیں ہوتی بلکہ اس کے لیے اخلاص اور قربانی کی بھی ضرورت ہوتی ہے.اس لیے تم اُس کے علم وفضل سے گھبراؤ نہیں.چنانچہ ایسا ہی ہوا.تھوڑے ہی دنوں کے بعد مجھے اُس کا خط آیا کہ آپ نے جو کچھ لکھا تھا وہ بالکل درست ثابت ہوا.وہ مبلغ چند دن کے بعد ہی یہاں سے واپس چلا گیا اور اس کی وجہ اُس نے یہی بتائی کہ مجھے یہاں اچھا کھانا نہیں ملتا.اب دیکھو میں نے اپنے مبلغ کو پہلے ہی لکھ دیا تھا کہ وہ معمولی غذا کھا کر گزارہ نہیں کر سکے گا اور بھاگ جائے گا.یہ توفیق صرف احمدیوں کو ہی میسر ہے کہ وہ درختوں کی جڑیں کھاتے ہیں ، پتے کھاتے ہیں ، بد بو دار گھاس کھاتے ہیں اور دس دس سال تک گزارہ کرتے چلے جاتے ہیں اور تبلیغ کا کام جاری رکھتے ہیں.اس کے نتیجہ میں ان کی صحتیں بھی خراب ہو جاتی ہیں.لیکن وہ اس کی پروا نہیں کرتے.انگریز لوگ مغربی افریقہ کو White man's grave“ یعنی سفید آدمیوں کی قبریں کہتے ہیں.کیونکہ وہاں وہ جسے بھی بھجواتے تھے کچھ عرصہ کے بعد وہ مرجاتا تھا.لیکن خدا تعالیٰ نے احمدی مبلغین کو یہ توفیق دی ہے کہ وہ درختوں کی جڑیں اور پتے اور بد بودار گھاس کھاتے ہیں اور پھر بھی تبلیغ اور اشاعت اسلام کا کام کئے جاتے ہیں.بعض دفعہ ان کی انتڑیوں میں کیڑے پڑ جاتے ہیں.لیکن وہ اس کی بھی پروا نہیں کرتے اور خدا تعالیٰ کا نام بلند کئے جاتے ہیں.لیکن مصری مبلغ وہاں کام نہیں کر سکتے.وہ اگر وہاں جائیں گے تو کہیں گے مرغا اور پلا ولا ؤ ، ہم جڑیں اور پتے نہیں کھائیں گے.اور جب انہیں مرغا اور پلاؤ نہیں ملے گا تو وہ واپس آجائیں گے.پس وہ اگر چندے دیں گے تو آپ لوگ تسلی رکھیں کہ آدمی پھر بھی آپ کے ہی کام کریں گے اُن کے آدمی باہر جا کر کام نہیں کر سکتے.مولوی تمیز الدین صاحب کو جو پاکستان دستور ساز اسمبلی کے صدر تھے تبلیغ کا شوق تھا.

Page 322

$1955 312 خطبات محمود جلد نمبر 36 انہوں نے جرمنی میں ایک مبلغ اسلام کی تبلیغ کے لیے بھجوایا لیکن لطیفہ یہ ہوا کہ وہ مبلغ بھی ہماری جماعت سے ہی نکلا ہوا ایک شخص تھا اور میرے ہی ذریعہ وہ مسلمان ہوا تھا.وہ جرمنی گیا اور چھ ماہ کے بعد ہی وہاں سے بھاگ آیا.اُس نے یہی بتایا کہ مجھے کافی گزارہ نہیں ملتا.میں وہاں کس طرح کام کر سکتا ہوں.حالانکہ جو گزارہ اُسے ملتا تھا اُس کا دسواں حصہ ہمارے مبلغوں کو ملتا ہے اور پھر بھی وہ وہاں کام کر رہے ہیں.پس دوسرے مسلمانوں میں جانی قربانی کا مادہ نہیں پایا جاتا.اگر تم اُن سے چندہ لو گے تو آدمی پھر بھی تمہارے ہی جائیں گے.لیکن اگر غیر احمدی دوست دس لاکھ روپیہ چندہ دیں اور جماعت کا چندہ مثلاً بیس لاکھ روپے ہو تو وہ اس بات پر فخر کر سکیں گے کہ ہم جماعت احمدیہ کے ساتھ مل کر تمیں لاکھ روپیہ سالانہ تبلیغ اسلام پر خرچ کر رہے ہیں.گویا اُن کی وہی مثال ہوگی جیسے لطیفہ مشہور ہے کہ دو عورتیں کسی بیاہ پر گئیں.ہمارے ملک میں نیو تا دینے کا رواج ہے.جب نیوتا دینے کا وقت آیا تو اُن میں سے ایک غریب تھی.اُس نے ایک روپیہ نیو تا دیا اور دوسری مالدار تھی اُس نے بیس روپے نیو تا دیا.کسی عورت نے ایک روپیہ نیو تا دینے والی سے دریافت کیا کہ تم نے کتنا نیوتا دیا ہے؟ چونکہ اُس نے اِس بات کے اظہار میں شرم محسوس کی کہ اُس نے ایک روپیہ نیوتا دیا ہے اس لئے وہ اپنی اس کمزوری کو چھپانے کے لیے کہنے لگی.میں نے بھا بھی اسی ، یعنی میں اور میری بھاوجہ نے اکیس روپیہ نیو تا دیا ہے.اسی طرح غیر احمدی معززین بھی کہہ سکیں گے کہ ہم جماعت احمدیہ کے ساتھ مل کر اتنے لاکھ روپیہ اشاعت اسلام کے لئے دے رہے ہیں.پس تم اپنی اپنی جگہ جا کر غیر احمدی دوستوں سے چندہ لینے کی کوشش کرو.اگر شروع شروع میں تمہیں کوئی ایک پیسہ بھی چندہ دے تو خوشی سے قبول کرلو اور یا درکھو کہ جو شخص ایک دفعہ خدا تعالیٰ کی خاطر تھوڑی سی رقم خرچ کرنے کی توفیق پاتا ہے خدا تعالیٰ اُسے آئندہ پہلے سے زیادہ قربانی کرنے کی توفیق عطا فرما دیتا ہے.اگر پہلی دفعہ کوئی شخص پیسہ یا دو پیسے چندہ دیتا ہے تو بعد میں وہ دوروپے ، دس روپے، ہمیں روپے بلکہ سو سو روپے دینے کے لئے بھی تیار ہو جائے گا.مگر ضرورت یہ ہے کہ تم دوسروں سے مانگو.اور پھر یہ نہ دیکھو کہ اُس نے کیا دیا ہے.

Page 323

خطبات محمود جلد نمبر 36 313 $1955 حضرت خلیفہ المسیح اول ایک لطیفہ سنایا کرتے تھے.آپ فرماتے تھے کہ دنیا میں جو طفیلی مشہور ہیں ان کو اس لیے طفیلی کہا جاتا ہے کہ ایک شخص محمد طفیل نامی اس گروہ کا بانی تھا اور اُس کا یہ عقیدہ تھا کہ انسان کو کما نانہیں چاہیئے بلکہ دوسروں سے مانگ کر کھانا چاہیئے.اُس کے شاگرد بھی یہی عقیدہ رکھتے تھے.اُن کا ایک بڑا مخلص شاگر د تھا جب وہ تعلیم حاصل کرنے کے بعد واپس جانے لگا تو وہ ان سے کہنے لگا کہ مجھے کوئی ایسا سبق دیجئے جو اس سے پہلے آپ نے کبھی نہ پڑھایا ہو.وہ کہنے لگا تم بہت نیک ہو اور مجھے امید ہے کہ تم میری نصائح پر پوری طرح عمل کرو گے.اس لئے ایک نصیحت تو میں تمہیں یہ کرتا ہوں کہ جب تم مانگنے کے لئے نکلو تو تم یہ نہ دیکھو کہ جس سے تم مانگتے ہو وہ کون ہے.چاہے کوئی ہو اُس سے تم سوال کر دیا کرو.اُس نے کہا بہت اچھا.کوئی اور نصیحت فرمائیے.انہوں نے کہا میری دوسری نصیحت یہ ہے کہ مانگتے وقت یہ نہ دیکھو کہ موقع کیا ہے.کوئی بھی موقع ہو تم آگے بڑھ کر مانگنے لگ جایا کرو.اور تیسری نصیحت یہ ہے کہ اس کے بعد یہ نہ دیکھو کہ کوئی تمہیں دیتا کیا ہے.وہ تمہیں جو کچھ بھی دے دے لے لو اور اُ سے کہو.اللہ تمہارا بھلا کرے.استاد کو اپنے اس شاگرد سے بہت پیار تھا اس لیے وہ اُسے الوداع کہنے کے لیے شہر سے کچھ دور باہر گئے.قریب ایک مسجد تھی.وہ الوداع کہنے کے بعد مسجد کے غسل خانہ میں چلے گئے.کیونکہ انہوں نے دیر سے اپنی بغلوں وغیرہ کی صفائی نہیں کی تھی وہ اُسترے سے اپنی بغلیں صاف کر رہے تھے کہ باہر سے انہیں اُسی شاگرد نے آواز دی کہ حضور ! خدا تعالیٰ کی خاطر مجھے کچھ دیں.استاد نے کہا بے حیا ! مجھے غسل خانہ سے تو باہر نکلنے دے.شاگرد نے کہا حضور ! آپ نے ہی تو نصیحت کی تھی کہ جب مانگنے جاؤ تو یہ مت دیکھو کہ موقع کیا ہے.پھر انہوں نے کہا تو جانتا نہیں میں تیرا اُستاد ہوں اور تُو مجھ سے ہی مانگنے کے لیے آ گیا ہے؟ شاگرد نے کہا حضور ! آپ نے ہی تو نصیحت فرمائی تھی کہ مانگنے جاؤ تو یہ مت دیکھو کہ تم کس شخص سے مانگ رہے ہو.اِس پر اُستاد نے وہی بغلوں کے بال اُس کے ہاتھ پر رکھ دیئے.اس پر شاگرد کہنے لگا اللہ آپ کا بھلا کرے اور آپ کو بہت بہت دے.تم بھی بلکہ اسی رنگ میں اپنے غیر احمدی دوستوں کے پاس جاؤ اور اُن کے سامنے سارے حالات رکھو اور کہو کہ اِس اِس طرح احمد یہ جماعت تمام دنیا میں اسلام کی اشاعت کر رہی ہے.

Page 324

خطبات محمود جلد نمبر 36 314 $1955 اگر آپ بھی یہ خواہش رکھتے ہیں کہ دنیا میں اسلام کی اشاعت ہو تو آپ بھی ہماری مدد کریں اور حسب توفیق دو روپے، پانچ روپے، دس روپے یا سو روپے دیں.اس طرح تبلیغ اسلام میں آپ بھی شریک ہو جائیں گے اور آپ بھی کہہ سکیں گے کہ ہم یورپ میں اسلام کی تبلیغ کر رہے ہیں.پھر چاہے وہ تمہیں ایک پیسہ بھی دے لے لو.بلکہ میں تو یہاں تک کہوں گا کہ وہ تمہیں گالی بھی دے تو تم اس کی پروا نہ کرو اور سمجھو کہ اس کے بدلہ میں خدا تعالیٰ کے فرشتے تمہارے لیے دعا کریں گے.اگر تم یہ کوشش شروع کر دو تو تم دیکھو گے کہ خدا تعالیٰ تمہارے کام میں کس طرح برکت پیدا کر دیتا ہے اور پھر اس کا ایک فائدہ یہ بھی ہوگا کہ تمہیں خود بھی اخبارات اور سلسلہ کے لٹریچر کا مطالعہ کرنا پڑے گا اور انہیں بتانا پڑے گا کہ تمہارے کہاں کہاں مبلغ ہیں اور وہ کیا کام کر رہے ہیں.گویا اس طرح نہ صرف سلسلہ کی تبلیغ وسیع ہوگی بلکہ دوسرے لوگوں کے دل بھی صاف ہوں گے اور خدا تعالیٰ ایک دن اُنہیں قبول حق کی توفیق دے دے گا.ضرورت صرف اس بات کی ہے کہ تم پاگلوں کی طرح کام شروع کر دو.میں ایک دفعہ گوجرانوالہ میں تبلیغ کے لیے گیا تو ایک بہت بڑے لیڈر نے اصرار کیا کہ میں اُس کے ہاں ٹھہروں.انتظام تو جماعت کا ہی تھا مگر اُس نے رہائش کے لیے اپنی کوٹھی دے دی.ایک دن وہ میرے پاس آیا.اُس وقت اُس نے فقیروں کا سا لباس پہنا ہوا تھا.مجھے کہنے لگا اب آپ مجھے اجازت دیں میں آٹا مانگنے چلا ہوں.وہ اُس وقت ڈپٹی کے عہدہ پر تھا.میں نے اُس سے کہا ڈپٹی صاحب ! آپ نے یہ کیا کہا ہے؟ وہ کہنے لگے میں نے ایک سکول جاری کیا ہوا ہے اُس کے اخراجات مہیا کرنے کے لیے میں لوگوں سے آٹا مانگنے چلا جاتا ہوں.ممکن ہے لوگ اُسے ڈپٹی سمجھ کر زیادہ آٹا دے دیتے ہوں اوروں کو چٹکی چٹکی دیتے ہوں اور اُسے مٹھی بھر دے دیتے ہوں.لیکن بہر حال اُس آٹے سے جو رقم اُسے ملتی تھی اُس سے وہ ایک ہائی سکول کے اخراجات پورے کرتا تھا.مگر اس کے ساتھ ہی بعض خبیث الطبع لوگ اس قسم کے نیک کام کرنے والوں پر بھی اعتراض کر دیتے ہیں.اُس ڈپٹی کا ایک بیٹا وزیر بھی رہا ہے اور پھر وہ مشہور وکیل ہے اور کانسٹی ٹیوٹ اسمبلی کا ممبر بھی ہے اور اُس کا دوسرا بیٹا کسی محکمہ کا ڈائریکٹر تھا اور خود وہ ڈپٹی تھا.لیکن جب وہ قوم کے مفاد کی خاطر اپنے عہدہ اور وجاہت کی

Page 325

$1955 315 خطبات محمود جلد نمبر 36 پروا نہ کرتے ہوئے آٹا مانگنے کے لیے چلا گیا تو ایک شخص مجھے کہنے لگا کہ یہ آٹا بھی مانگ کر کھا جاتا ہے.گویا یہ صلہ تھا جو لوگوں نے اُسے دیا کہ وہ قوم کی خاطر فقیر بنا لیکن بعض لوگوں نے یہ وی کہنا شروع کر دیا کہ وہ آٹا مانگ کر بھی کھا جاتا ہے.پس تم اس بات کی پروا نہ کرو کہ کوئی تمہیں کیا کہتا ہے بلکہ اپنا کام کئے جاؤ.اگر کوئی تمہیں گالی دیتا ہے تب بھی تم بُرا نہ مناؤ بلکہ اُسے کہو کہ تم نے مجھے گالی دی ہے میں دعا کرتا ہوں کہ خدا تعالیٰ مجھے ہی توفیق دے دے کہ میں پہلے سے زیادہ خدا تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرسکوں.پھر ممکن ہے اُسے بھی شرم آجائے اور وہ بھی ایک آدھ روپیہ بطور چندہ دے دے.اور پھر وہ اگر ایک دفعہ کچھ دے گا تو خدا تعالی آئندہ اُسے زیادہ دینے کی توفیق عطا فرما دے گا.اگر پہلے سال تم دس روپیہ چندہ حاصل کرو گے تو خدا تعالیٰ آئندہ تمہاری کوششوں میں برکت ڈالے گا اور دس روپے کی بجائے دو دو سور و پیہ تمہاری معرفت آنا شروع ہو جائے گا اور پھر کسی دن اس کی مقدار ہزاروں اور لاکھوں تک پہنچ جائے گی.پس تم واپس جا کر میری ان نصائح پر عمل کرو اور چاہے کوئی تمہیں گالیاں بھی دے تم اس کی پروا نہ کرو اور اُسے کہو کہ وہ خدا تعالیٰ کے دین کے لیے تمہیں کچھ نہ کچھ ضرور دے دے.بلکہ میں تو یہاں تک کہوں گا کہ اگر تم کسی کے پاس چندہ مانگنے جاؤ تو جیب میں چند پیسے ڈال لیا کرو.اگر وہ تمہیں گالی دے تو تم اُس کے سامنے ایک دو پیسے نکال کر دوسری جیب میں ڈال لو اور کہو کہ آپ نے تو کچھ نہیں دیا چلو میں ہی آپ کے نام پر ایک دو پیسے خدا تعالیٰ کی راہ میں دے دیتا ہوں.ممکن ہے وہ اسی طریق سے شرمندہ ہو اور آئندہ اُس کے دل میں بھی قربانی کرنے کا احساس پیدا ہو جائے.پس تم واپس جا کر اس طریق پر عمل کرو اور مجھے بھی اطلاع دو کہ تم نے میری اس نصیحت پر کیا عمل کیا ہے.اور اپنے دوستوں سے بھی کہو کہ میں ربوہ سے یہ نصائح سن کر آیا ہوں تم بھی ان پر عمل کرو.اور یاد رکھو کہ اگر تم نے ان نصائح پر چند سال بھی عمل کیا تو تمہاری کا یا پلٹ جائے گی، تمہارے دلوں میں ایک نور پیدا ہو جائے گا اور خدا تعالیٰ تمہاری مدد کرنے لگ جائے گا.اور پھر یہ دیکھ کر کہ تم اسلام کی خدمت کر رہے ہو دوسرے لوگوں کے دلوں میں بھی خدمت اور قربانی کا مادہ پیدا ہو جائے گا اور وہ تمہاری طرح اسلام کی اشاعت میں مصروف

Page 326

$1955 316 خطبات محمود جلد نمبر 36 ہو جائیں گے.خدا تعالیٰ تمہارے ساتھ ہو.66 الفضل 18 /جنوری 1956ء) 1 بورنیو (Borneo) انڈونیشیا میں واقع دنیا کا تیسرا سب سے بڑا جزیرہ ہے جس کا کل رقبہ 2,92,298 مربع میل ہے.جزیرہ کا بیشتر حصہ انڈونیشیا میں شامل ہے.( جو مشرقی جنوبی، مغربی اور وسطی کلیمنتان صوبے کہلاتے ہیں) جبکہ بقیہ حصہ پر ملائیشیا کے صوبے سراواک اور صباح واقع ہیں.( وکی پیڈیا.آزاد دائرۃ المعارف زیر لفظ ”بور نیو)

Page 327

1 انڈیکس مرتبہ: مکرم فضل احمد شاہد صاحب -1 آیات قرآنیہ -2 احادیث نبویہ 3.الہامات حضرت مسیح موعود 4.اسماء 5- مقامات 6 کتابیات 3 4 5 6 10 13

Page 328

3 الفاتحة آیات قرآنیہ اَنَّ اللَّهَ يَحُولُ بَيْنَ فاطر الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِيْنَ (2) الْمَرْءِ وَقَلْبِهِ (251) 302 وَمَا أَنْتَ بِمُسْمِع (23) 197 108,107,102,83,79,77 الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ (3) 108,84,79 أَنَّمَا أَمْوَالُكُمْ (29) 112 الصفت وَالَّذِينَ آمَنُوا مِنْ بَعْدُ (76) 148 فَنَظَرِ نَظْرَةً (89-90) 131 هود حم السجده مَالِكِ يَوْمِ الدِّينِ (4) فَعَالُ لِمَا يُرِيدُ (8) 108 وَلَكُمْ فِيهَا مَاتَدَّعُوْنَ (32) 85 108,103,88 صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ (7) آل عمران 111 النحل الْقِيمَة لَهُمْ فِيهَا مَا يَشَآءُونَ (32) 85 لَا تُحَرِّكْ بِهِ لِسَانَكَ (17)292 طة وَاحْلُلْ عُقْدَةً مِنْ لِسَانِي الاغلى سَنُقْرِئُكَ فَلَا تَنْسَى (7) 286 الاخلاص 211 أَوَلَمْ يَرَالَّذِيْنَ كَفَرُوْا (31) 230 | قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ (2) كَهَيْئَةِ الطَّيْرِ (50) (29,28) 231 الانبياء قُلْ يَاَهْلَ الْكِتَبِ تَعَالَوْا (65)42 المائده الشعراء بَلِّغْ مَا أُنْزِلَ إِلَيْكَ (68)286 الاعراف (81) لَمْ يَلِدْ وَلَمْ يُولَدْ (4) 106 107 وَاذَا مَرِضْتُ فَهُوَ يَشْفِيْنِ وَلَمْ يَكُنْ لَهُ كُفُوًا أَحَدٌ (5) 107 13,2 الفلق وَلَقَدْ خَلَقْنَكُمْ (12) 248 وَإِنَّهُ لَتَنْزِيلُ رَبِّ الْعَالَمِيْنَ قُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ (2) 111 رَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ (157) 179 (195193) الروم 291 ومِمَّنْ خَلَقْنَا أُمَّةً (182) 243 | لِتَسْكُنُوا إِلَيْهَا (22) 112 الانفال الاحزاب مِنْ شَرِّ مَا خَلَقَ (3) 112 النَّاس قُلْ اَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ (2) 102 وَمَارَمَيْتَ اذْرَمَيْتَ (18) 252 مَا كَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ (41) 222 | مِنْ شَرِّ الْوَسْوَاسِ (5) 103

Page 329

4 احادیث حدیث بالمعنی جو شخص رستہ میں پڑی أَحْيَانًا يَتَمَثَلُ لِيَ الْمَلَكُ 294 تم میری ایک بات مان لو چیز دور کرتا ہے أَنَا عِندَ ظَنِ عَبدِی بی 213,115 قربانیاں صفوں میں کھڑی کرو 28 صفیں سیدھی رکھا کرو إِنَّ اللهَ جَميلٌ 266 تیرے بھائی کا پیٹ جھوٹا ہے ف آیت الکرسی قرآن فَلْيُبَلّغ الشَّاهِدُ 288,203 کا کو ہان ہے ل لَا تَشْرِيْبَ عَلَيْكُمُ الْيَوْمَ 89 116,62 106 اگر کسی کو خواب آئی ہو تو سناؤ انداری خوا ہیں اگر 261 267 287 متواتر آئیں جب خدا کسی بندے کی مقبولیت پھیلائے 250 | بعض اوقات وحی صِلْصِلَةُ 288 اگر کوئی کھڑے پانی الْجَرَس کی طرح آتی ہے 294 میں پیشاب کرے 261 220 مَا أُعْطِيتَ

Page 330

5 الہامات حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام عربی الہامات أَصْحَابُ الصُّفَةِ 192 صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ 226 اُردو الہامات بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے الْأَرْضُ وَالسَّمَاء مَعَكَ 210 مَا كَانَ اللهُ لِيَتْرُكَ 234 | حق اولاد در اولاد أَنَّ السَّمَوتِ وَالْأَرْضَ كَانَتَا رَتْقًا 230 میں تیری تبلیغ کو يَنصُرُكَ رِجَالٌ نُوحِيَ ہزاروں آدمی تیرے إِلَيْهِمْ مِنَ السَّمَاءِ 201 | پروں کے نیچے ہیں یہ نان تیرے لئے 211 163 211 231 172

Page 331

249 242 91 130 داؤد علیہ السلام حضرت دین محمد میاں ڈ ڈائر جنرل ڈسمنڈ شا 6 آدم علیہ السلام - حضرت 233 بدرالدین آفتاب جہاں بیگم اسماء 308 251,249 بشیر احمد حضرت مرزا 161,133 41 280,270,218,217 ابراھیم علیہ السلام - حضرت 13 بہاؤالدین نقشبندی 199,190 ابو الخیر محب اللہ ابو العطاء حضرت مولانا 249,185,183,131,112,14 42 202 ابوبکر حضرت 295,275,245 ابو جہل تمیز الدین مولوی ج 311 رحمت الہی 198 199 جنید بغدادی حضرت 199,185 112 حز قیل علیہ السلام حضرت 250 ابو حنیفہ - حضرت امام 199,185 حسان بن ثابت حضرت 275 ابوسفیان.حضرت 90,80 | حسن بصری ابو عبیدہ بن الجراح - حضرت حسین.حضرت امام اختر صاحب 281,280 | حمدان - شیخ 60,5856 خ 199 113 100 293,292,143 42 رستم علی چودھری 161,160 روز ویلٹ روشن بی بی ( والدہ مولوی نظام الدین مہمان) روم مولانا ریچ.جی.ویلز س سٹوڈرمسٹر اسحاق علیہ السلام حضرت 249 | خالد بن ولید حضرت 281,280 سعد الله ماسٹر اسمعیل علیہ السلام - حضرت خالد فنک امة القيوم انس احمد مرزا انصاری.ڈاکٹر ایڈ نائر 191,185 خدیجہ حضرت 86 186 سعید ( کرنل) سعید اللہ خان 42 خلیل احمد ناصر 99 | سلطان بی بی 194 274 257,233,204,179 سلیمانی کبشوزی ش دانیال علیہ اسلام حضرت 250) شافعی.حضرت امام 274 41 73,49 130 140,139 194 68 42 41 42 199

Page 332

7 شاه (کرنل) شبلی شرف دین 135 عبد القادر جیلانی" حضرت عیسی علیہ السلام.حضرت 96 199,169 41 عبد القادر ملک 177,163,157,149,142 199,169 شریف احمد.حضرت مرزا عبدالکریم.حضرت مولانا 231,190,184,183,178 42 280,274,273,264,250| 218,217 134 199,190 278 شمیم احمد میجر شہاب الدین سہروردی.حضرت شیخ شیر علی.حضرت مولوی ص صادق.مسٹر ( وانڈرلینڈ) صالح الشبيبي ع 94 202 عبد اللطیف چودھری 295,293 278,277 189 غ عبد اللطیف ڈی لائن 94 غالب 207 عبد اللہ بھائی.حضرت سیٹھ 161 غلام احمد بشیر 187 تا 199 عبداللہ خان چودھری.غلام احمد قادیانی.حضرت برادر چودھری مرزا مسیح موعود علیہ السلام 37,32 محمد ظفر اللہ خان 219,167 95,78,74,73,67,62,61 عبداللہ خان چودھری.عبدالحق - شیخ 134,70 (ماموں چودھری 137,136,129,121,96 157,155,154,148,145 عبد الحق ماسٹر 165,164 محمد ظفر اللہ خان) 289 تا 291 | 159 169,166,163,161 عبدالحق.مرزا حضرت 203 | عبد اللہ سنوری.حضرت منشی عبدالرحمن (ابن میاں دین محمد کشمیر ) 242 عبد المغنی خان مولوی 184,182,179,175172 194,192189,186 282,273 212 210,202,201-1991 56 عبدالرحمن جالندھری ماسٹر 52 عثمان - حضرت 275,198 221,220 تا 235,234,231 عبدالرحمن چودھری 41 عزیز احمد.حضرت مرزا عبدالرحمن ٹھٹھہ کا لوچک 42 عبدالرحیم.بھائی علی حضرت 265,264,262,260,259 41 282,277,275,273,272 271+269 310,297 295,288,286 275,198 حضرت قادیانی 150 عبد الرحیم درد.حضرت مولانا 276,273,175 | عمر.حضرت 245,198 | غلام حسین مولوی 296,295 287,280,275 غلام فرید ملک.حضرت 278 282,280,279,277 | عمر بن عبد العزیز حضرت 275 غلام نبی 41

Page 333

8 115,113,106,9189,81 | محمد علی مولانا 123,116 130,126, 136 محمد عین الحق بھاگلپوری 157,149,145142,140 42 186,176174,172,169 محمد ناصر 68 42 278 محمد یعقوب مولوی (زود نویس) 287 محمود احمد مرزا.حضرت مصلح موعود ف فاطمہ سیدہ.(والدہ مولوی ابوالخیر محب اللہ ) فتح محمد سیال.حضرت چودھری فرزند علی چودھری 213,203,199,198,197 280,175,167 231,229222,220,217 202 103,102,79,76,74 +42 261,252,250,245,234| 149,142,141,128,124 282,274,273,267,266 200,167,157,153302,297 291,288 +286 محمد حافظ 272 فضل احمد چودھری فرید الدین حضرت خواجہ 199,175 فضل الرحمن حکیم 156 فضل الہی ق 42 محمد الحق.حضرت میر محمد اسلم حضرت قاضی قادر بخش ماسٹر قطب الدین بختیار کا کی 273 محمد اقبال.ڈاکٹر 234,220,214,212,201 296,295 129 293,292,289,288,235 127 315,314,299297 73,72 محی الدین ابن عربی.حضرت 170 محمد امام دین 42 مطیع الرحمن بنگالی حضرت خواجہ ک کرم و بین کمال دین ماهان مجید احمد مرزا 199 محمد جان قریشی امرتسری 41 مظفر الدین چودھری محمد حسن آسان ماسٹر 158,156 | 297 42 معاویہ حضرت 279,278 279 275 محمد حیات میجر محمد دین.ڈاکٹر 41 42 معین الدین چشتی حضرت خواجہ محمد صادق.حضرت مفتی 278 280 265 محمد ظفر اللہ خان.262 تا 265 | حضرت چودھری مبشر احمد مرزا محمد رسول اللہ صلی ال ہوتم حضرت خاتم الانبیاء 80,78,62,61,38,29,28,8 | محمد عبد اللہ مولوی 213,212 منیر احمد صاحبزادہ مرزا 218 ملا کی نبی 101,86 189,168166,130,105 291,289,206 منور احمد مرزا.ڈاکٹر 170,169 199,190,175 250 255 265,264

Page 334

9 موسیٰ علیہ السلام حضرت 142,96 نصر اللہ خان 42 295,249,211,183 | نصرت جہاں حضرت سیدہ ول هیلم مولود احمد (امام مسجد لندن) نادر شاہ ناصر احمد مرزا حضرت 205,156 1164,163 ولی اللہ شاہ دھلوی 126 199 حضرت سید 280,199,170 نظام الدین اولیاء نظام دین 41 91 نوح علیہ السلام - حضرت 149 خلیفہ اسیح ثالث 258,194,150 نور احمد چیمہ چودھری 249,213 42 180 ولیم 274 274,168,96 80 ہٹلر ہر قل ی ناصر نواب.حضرت میر 37 نور الحق انور ناصرہ بیگم 2 نورالدین حضرت مولانا خلیفہ اول نا تک.بابا حضرت 52 نپولین یحیی علیہ السلام حضرت 250 249 1113,108,73,37,16,2 | یقوب علیہ السلام حضرت 249 168 174,163,156,151,144 یعقوب علی شیخ عرفانی 73,72 یر میاه نذیر حسین سید 291288 313,273 | یوسف علیہ السلام حضرت 249

Page 335

10 مقامات اوکاڑہ اٹلی 190 ایشیا أردن اسرائیل 239 239 بٹالہ 41 238,131,28,26 تولیکی تونه 42 41 42,28,26 | بدوملہی افریقہ بغداد 174 291,290 63 ٹھٹھہ کا لوچک 42 بیتی بنگال بور نیو بہاولپور بھوپال پاکستان 156,153,136,95,65,61 220,204,203,190,189 311,310,233,232 260 28,26,14,13 امرتسر امریکہ 95,84,77,68,67,62,61 153,144,138,136,97 190,183,180,173,157 28,27,26,3 چشتیاں چک جمال چین 220,215,206+203,191 152,84,75,6260,44 257,239,238,233,232 221,212,190,156,153 309,307,305,289,274 267,266,238,235,232| 61,35 311,309,289,270 | حیدرآباد 278,204,187,66,65 305,295 42 دا تا زید کا 133،70 دمشق دھلی پشاور پکا گڑھ پنجاب 115,18,13 انڈونیشیا انگلستان 143,137,130128,126 257,238,217,190,156 289,213,204,203,175 308,292,289,288,273 بلوچستان 204 | جاپان جالندھر جرمنی جلیانوالہ 61 40 166 84,61 207 189,187,186,1290126 309,308 41 91 41 144 312,274,203,190 4 41 275,35 59 290,289,42 307,189 91

Page 336

11 سکنڈے نیویا ڈلہوزی 83,76 سندھ ڈنمارک 203 ڈیرہ اسماعیل خان 305 سوئٹزرلینڈ 310 قلعہ صوبہ سنگھ 161,68,41 ک 166 ،213،212 | کراچی 290 59,41,36,22 137,133,120,72,70,68 310,118,79 179,156,152,148,146 203 ڈیرہ غازی خان 41 سویڈن سیالکوٹ 290,289,166,42 235,234,219,212,193 راجن پور 41 ش 310 راولپنڈی 203,59 تا 205 شام ربوه 31,21,11,10,1 134,133,97,64,54,43,35 171,154,153,149,137 239,204,203 305,47 کشمیر کلکتہ ع کینیڈا 242,129,100 166 180 188,185,182,179,177 | عدن 204,203 209,203,196,192,191 248,243,238,233,222 271 266,260,258 +254 عراق 239,185,152 | گجرات عرب 71,61,6 | گوجرانوالہ گورداسپور 304,302 300,290,284 روس 239,96,84,77,13 | ز فرانس فری ٹاؤن زیورچ ( زیورک) 76,75 | فلطین 234,141,118,88,83,79 255 فن لینڈ ق قادیان 275 18 65 71 310,203 گولڈ کوسٹ گھٹیالیاں 260,166 314,42 297 190 289,288 سپین سرحد سرگودھا 70,59,31,22 95,41,16,7 260,242,166,151,74 174,166,156,153,149,97 126 الائل پور لالوکھیت لاہور 188,185,42 41 204 269,257,233 231,191| 296,295,273 188,185 لبنان 310 239

Page 337

12 لندن 97,18 115,111,105,10199 نائیجریا 156,131,125,122,121 | ناروے 190,65 203 هیمبرگ ی 93 130,127 306,305 یورپ 291,205 نیویارک لنڈیاں والا 42 والہ سندھواں 145,124 مدینہ مصر 239,65 | ھالینڈ مکه 17,14,13 95,75,70,67,44,39,26| 134,131 129,123*120 42 143,140 138,136 171,164,157,152,151 93,86,61 204,203,195,187,183,179190,189,187,139,125 89,29,28 256 254,235 232,206 310,289,206,203 308,306,274,267,258 175,91,84 314 ہندوستان 245,145,90 65,61 238,233 231,221,207 41 309,289,272,240 ملایا منگری

Page 338

278 79,73 13 کتابیات الحام الفضل 40 بائیل 248,112,107 ریویو آف ريليجنز 95,59057 تذکرہ 230,226,96,71 م 288,215,212,165,156 | تشخیز الاذہان مثنوی مولانا روم 167

Page 338