Khutbat-eMahmud V35

Khutbat-eMahmud V35

خطبات محمود (جلد 35)

خطبات جمعہ ۱۹۵۴ء
Author: Hazrat Mirza Bashir-ud-Din Mahmud Ahmad

Language: UR

UR
Miscellaneous

حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے خطبات علوم و معارف کا ایک انمول خزانہ ہیں اور پیش گوئی کے الہامی الفاظ ’’وہ علوم ظاہری و باطنی سے پُر کیاجائے گا‘‘ پر شاہدناطق ہیں۔ آپؓ کا دور خلافت نصف صدی سے زیادہ عرصہ پر محیط ہے جو ایک تاریخ ساز دور تھا۔ اس نہایت کامیاب اور طویل دور میں آپؓ نے اپنے خطبات جمعہ کے ذریعہ جماعت کی تعلیم و تربیت میں نہایت اہم کردار ادا کیا۔ سیاسی، سماجی اور مذہبی افقوں پر نمودار ہونےوالے ہر معاملے پر بروقت اور درست رہنمائی عطافرمائی۔ الغرض یہ خطبات جمعہ جماعت احمدیہ کا ایک بہت ہی قیمتی خزانہ اور سرمایہ ہیں۔ جسے فاؤنڈیشن نے یکجا کرکے کتابی شکل دی ہے۔


Book Content

Page 1

خطبات مود خطبات جمعہ) 1954 فرموده سیدنا حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد اصلح الموعود خلیفة الح الثانی 35 حدة بعد

Page 2

KHUTBAT-I-MAHMUD by HADRAT MIRZA BASHIR-UD-DIN MAHMUD AHMAD KHALIFATUL MASIH II Published by: Printed by:

Page 3

بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ پیش لفظ اللہ تعالیٰ کے فضل و احسان سے فضل عمر فاؤنڈیشن کو حضرت مصلح موعود کے خطبات کی پینتیسویں جلد احباب کی خدمت میں پیش کرنے کی سعادت نصیب ہو رہی ہے.اَلْحَمْدُ لِلَّهِ عَلَی ذلک.اس جلد میں 1954 ء کے 40 خطبات جمعہ شامل ہیں.حضرت فضل عمر سلطان البیان کے خطبات علوم و معارف کا انمول خزانہ ہیں اور پیشگوئی کے الہامی الفاظ وہ علوم ظاہری و باطنی سے پر کیا جائے گا“ پر شاہد ناطق ہیں.حضرت مصلح موعود کا دور خلافت جو کم و بیش 52 سال پر محیط ہے ایک تاریخ ساز دور تھا.اس نہایت کامیاب طویل دور میں حضور کے خطبات نے جماعت کی علمی وروحانی ترقی اور تعلیم و تربیت میں نہایت اہم کردار ادا کیا.حضرت خلیفتہ المسیح الرابع رحمہ اللہ فرماتے ہیں:.حضرت مصلح موعود کے خطبات آپ کے قریب بیٹھ کر سنے کا موقع ملتا تھا.تمام دنیا کے مسائل کا آپ کے خطبات میں مختلف رنگ میں ذکر آتا چلا جاتا تھا.دین کا بھی ذکر ہوتا اور دنیا کا بھی.پھر ان کے باہمی تعلقات کا ذکر ہوتا تھا.سیاست جہاں مذہب سے ملتی ہے یا جہاں مذہب سے الگ ہوتی ہے غرضیکہ ان سب مسائل کا ذکر ہوتا تھا.چنانچہ قادیان میں یہی جمعہ تھا جس کے نتیجہ میں ہر کس و ناکس ، ہر بڑے چھوٹے اور ہر تعلیم یافتہ و غیر تعلیم یافتہ کی ایک ایسی تربیت ہو رہی تھی جو بنیادی طور پر سب میں قدر مشترک تھی.یعنی پڑھا لکھا یا ان پڑھ، امیریا غریب اس لحاظ سے کوئی فرق نہیں رکھتا تھا کہ بنیادی طور پر احمدیت کی تعلیم اور احمدیت کی تربیت کے علاوہ دنیا کا شعور بھی حاصل ہو جایا کرتا تھا.چنانچہ بہت

Page 4

سے احمدی طلباء جب مقابلہ کے مختلف امتحانات میں اپنی تعداد کی نسبت زیادہ کامیابی حاصل کرتے تھے تو بہت سے افسر ہمیشہ تعجب سے اس بات کا اظہار کیا کرتے تھے کہ احمدی طلباء میں کیا بات ہے کہ ان کا دماغ زیادہ روشن نظر آتا ہے ان کو عام دنیا کا زیادہ علم ہے.“ ( خطبات طاہر جلد نمبر 7 صفحہ 10) ہمارا یہ روحانی وعلمی ورثہ سلسلہ کے لٹریچر میں بکھرا پڑا تھا اور جماعت کے دوستوں کو اس سے استفادہ کرنا مشکل تھا.فضل عمر فاؤنڈیشن اس جماعتی ضرورت کو پورا کرنے کیلئے ان خطبات کو کتابی شکل میں شائع کر رہی ہے.یہ جواہر پارے اب آپ کے ہاتھوں میں ہیں.ان کی زیادہ سے زیادہ اشاعت سے جہاں ادارہ کے لئے اس کام کو جلد پایہ تکمیل تک پہنچا نا آسان ہوگا وہاں نئی نسل کی تربیت کے لئے بھی یہ بہت ممد و معاون ہوں گے.اس جلد کی تیاری کے سلسلہ میں جن دوستوں نے ادارہ کی عملی معاونت فرمائی ان میں مکرم عبدالرشید صاحب اٹھوال ، مکرم حبیب اللہ صاحب باجوہ ، مکرم فضل احمد صاحب شاہد، مکرم عبد الشکور صاحب باجوہ، مکرم عدیل احمد صاحب گوندل ، مکرم ظہور احمد صاحب مقبول ، مربیان سلسلہ قابل ذکر ہیں.خاکساران سب کا دلی شکر یہ ادا کرتا ہے اور دعا گو ہے کہ خدا تعالیٰ ان کے علم و فضل میں برکت عطا فرمائے اور اپنے فضلوں اور رحمتوں نوازے.آمین سے

Page 5

فہرست مضامین خطبات محمود جلد 35 (خطبات جمعہ 1954ء ) خطبه نمبر تاریخ بیان فرموده موضوع خطبہ صفحہ 1 2 یکم جنوری 1954ء نئے سال کا اہم پروگرام 1 3 LO 5 8 جنوری 1954 ء اسلام ایک مستقل سچائی اور ابدی صداقت ہے جو زمانہ کے حالات سے ہرگز متاثر نہیں ہو سکتی 6 15 جنوری 1954ء مساجد اپنی ذات میں بڑی برکات رکھتی ہیں ان کی وسعت کے ساتھ ہی ہماری جماعت کی ترقی وابستہ ہے 10 22 جنوری 1954ء اچھی طرح ذہن نشین کر لو کہ تمہاری روحانی زندگی تبلیغ اسلام سے وابستہ ہے اور یہ کام قیامت تک جاری رہے گا 29 جنوری 1954ء قبولیت دعا کے تازہ نشانات کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں اپنے ایمان کو بڑھانے اور اسے تقویت دینے کے سامان عطا فرمائے ہیں 6 5 فروری 1954 ء مبارک ہیں وہ لوگ جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور اسلام کی حفاظت کے لیے اس وقت قربانی کریں 22 22 40 40 اور اس خدمت کو انعام سمجھیں 51

Page 6

صفحه 58 72 86 98 105 119 127 خطبه نمبر تاریخ بیان فرموده موضوع خطبہ 7 12 فروری 1954 ء جماعت کے مخلص دوست اپنا پورا زور لگائیں کہ ہر احمدی تحریک جدید میں حصہ لے 8 19 فروری 1954 ء جماعت احمدیہ لاہور سے خطاب.اللہ تعالیٰ نے اولیت کا جو مقام دیا تھا اُسے دوبارہ حاصل کرنے کی 10 کوشش کرو 26 فروری 1954ء الہی جماعتیں ہمیشہ مخالفتوں کے طوفان میں محض خدا تعالیٰ کے فضل سے ترقی کیا کرتی ہیں اور یہ ایک بہت بڑا نشان ہوتا ہے 21 مئی 1954 ء ربوہ میں رہنے والوں کا فرض ہے کہ وہ نیک نمونہ دکھا ئیں اور اپنی اصلاح کی کوشش کریں 11 | 28 مئی 1954 ء تقدیر کا جو حصہ اللہ تعالیٰ نے بندوں کے اختیار میں رکھا ہے اس میں کوشش اور تدبیر کے بغیر کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوا کرتا.12 جو چیزیں خدا تعالیٰ نے تمہارے سپرد کی ہیں وہ تم نے ہی کرنی ہیں ان کے متعلق محض تو کل کرنا غلطی ہے 4 جون 1954 ء ہم نے خدا تعالیٰ کے احسانات اور اس کے فضلوں کا بارہا مشاہدہ کیا ہوا ہے.مشکلات کے وقت تمہیں بہر حال خدا تعالیٰ ہی کی طرف متوجہ ہو کر اُسی سے مدد مانگنی چاہیے 13 18 جون 1954 ء جماعت کے کمزور حصے کو مضبوط بنانے اور اس کی کمزوریوں کو دور کرنے کی کوشش کرو

Page 7

خطبه نمبر تاریخ بیان فرموده موضوع خطبه 14 25 جون 1954 ء تمہیں خواہ کوئی فائدہ اور حکمت نظر آئے یا نہ آئے قربانیوں کے میدان میں ہمیشہ اپنا قدم آگے بڑھاتے جاؤ ہماری جماعت کو پردہ کے متعلق اسلامی احکام پر پوری طرح کار بند رہنا چاہیے 15 2 جولائی 1954 ء اسلام کے نزدیک کوئی دن بھی منحوس نہیں.سارے کے سارے دن ہی بابرکت اور اللہ تعالیٰ کی صفات کے مظہر ہیں 16 9 جولائی 1954 ء تمہارے اعمال سے یہ ظاہر ہونا چاہیے کہ تم نے واقعی اللہ تعالیٰ کے زندہ نشانات دیکھے ہیں صفحہ 143 155 165 17 16 جولائی 1954 ء مومن کو ہمیشہ اپنے اعمال کی اصلاح کی فکر رکھنی چاہیے 176 18 23 جولائی 1954 ء خدمت دین کو ہمیشہ اللہ تعالیٰ کا فضل اور احسان سمجھو.ترقی اور کامیابی کے وقت کبھی یہ امر فراموش نہ کرو کہ تمہیں جو کچھ ملا محض دین کی خدمت کی وجہ سے ملا ہے 19 30 جولائی 1954 ء اس دنیا میں توحید کے بعد سب سے بڑی نیکی یہ ہے کہ سچ کو اختیار کیا جائے ہماری جماعت کے ہر فرد کو یہ عہد کر لینا چاہیے کہ اس نے بہر حال سچ بولنا ہے 20 6 اگست 1954 ء خدا نے اس وقت تمہیں ثواب کا بہت بڑا موقع دیا ہے.تم ذرا سی محنت اور توجہ سے اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کر سکتے ہو.امانت کا طریق اختیار کرو اور تبلیغ اور تعلیم کی طرف توجہ دو اور صفائی کو اپنا شعار بناؤ 181 185 192

Page 8

صفحہ 202 212 217 223 238 250 خطبه نمبر تاریخ بیان فرموده موضوع خطبه 21 13 اگست 1954ء | حقیقی بڑائی اور عظمت اللہ تعالیٰ کے ساتھ تعلق قائم کرنے میں ہی ہوتی ہے 22 20 اگست 1954 ء اگر دین دار بننا چاہتے ہو تو ان سارے طریقوں کو اختیار کر وجو دینی ترقی کے لیے ضروری ہیں 24 2 27 اگست 1954 ء انسان سیکھنے کی نیت رکھے تو زمین کی اینٹیں اور پہاڑوں کے درخت اور جنگلوں کی جھاڑیاں بھی اس کے لیے قرآن 24 اور حدیث کی تفسیر بن جاتی ہیں 3 ستمبر 1954ء مشرقی پاکستان کے سیلاب زدہ بھائیوں کی ہر ممکن مدد کرو اور اُن کے لیے جلد سے جلد چندہ جمع کر کے حب الوطنی کا ثبوت دو.پاکستان میں بسنے والے آپس میں بھائی بھائی ہیں.اگر ان میں سے کسی ایک حصہ پر تکلیف آئے تو ہمیں احساس ہونا چاہیے کہ وہ تکلیف ہم پر آئی ہے 25 10 ستمبر 1954 ء جھوٹی عزت کے پیچھے نہ پڑو.اصل عزت وہی ہے جو خدا تعالیٰ کی طرف سے آئے مجرموں کی تائید سے اپنے آپ کو بچاؤ کہ یہ قوم کو تباہ کرنے والی چیز ہے 26 17 ستمبر 1954 ء ذہانت، فکر اور تدبر ہی ایسی حقیقی دولت ہے کہ اگر تم اس سے فائدہ اُٹھاؤ تو تمہیں اتنا کچھ مل جائے گا کہ خدا تعالیٰ سے اور مانگتے ہوئے شرم آئے گی

Page 9

خطبه نمبر تاریخ بیان فرموده موضوع خطبہ 27 یکم اکتوبر 1954 ء مومن کی ہمدردی کا دامن تمام بنی نوع انسان تک وسیع ہونا چاہیے.جب قوم پر کوئی مصیبت آ جائے تو پورے جوش کے ساتھ خدمت خلق میں حصہ لینا چاہیے 28 8 اکتوبر 1954 ء دین کی خدمت کا ثواب دائمی ہے اور دنیوی مال ایک عارضی اور فانی چیز ہے صفحہ 265 277 29 15 اکتوبر 1954 ء ضرورت وقت کو سمجھو اور اپنی ذمہ داریوں کا احساس کر کے اپنے اپنے خاندان کے نوجوانوں کو دین کے لیے وقف کرو 286 30 | 22 اکتوبر 1954ء دعائیں کرو کہ مسلمانوں کے لیے برکت اور بھلائی کی صورت پیدا ہو 31 29 اکتوبر 1954 ء | ابھی خدشات باقی ہیں اس لیے تم دعاؤں میں لگے رہو تا خدا تعالیٰ اسلام کو ہر قسم کے دشمنوں سے محفوظ رکھے 32 5 نومبر 1954 ء احباب دعا ئیں جاری رکھیں کہ اللہ تعالیٰ اسلام کی خاطر ملک کوفتنہ وفساد سے بچائے رکھے 33 12 نومبر 1954 ء اپنے آپ کو دین کی خدمت میں لگا دو تبھی تم اللہ تعالی کے اجر کے مستحق ہو سکتے ہو 34 | 19 نومبر 1954 ء اگلے جمعہ تحریک جدید کے نئے سال کا آغاز ہونے والا ہے.یہ ہفتہ دعاؤں میں گزارو تا وقت آنے بشاشت ایمان، عزم اور ارادے کے ساتھ تحریک جد کے جہاد میں حصہ لے سکو 304 311 330 337 346

Page 10

خطبه نمبر تاریخ بیان فرموده موضوع خطبہ 35 26 نومبر 1954 ء تحریک جدید کے ذریعہ تبلیغ اسلام کے زبردست کام کی 36 36 بنیاد رکھی گئی ہے 3 دسمبر 1954 ء اللہ تعالیٰ تمہیں بڑھانا چاہتا ہے اس لیے تمہیں اپنی قربانی بھی ہر قدم پر بڑھانی پڑے گی.تحریک جدید میں زیادہ سے زیادہ وعدے لکھا ؤ، انہیں جلد پورا کرو اور نئے لوگوں کو اس میں شامل کرو 37 10 دسمبر 1954 ء جلسہ سالانہ پر ضرور آؤ اور ان ایام سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اُٹھانے کی کوشش کرو.اپنے غیر احمدی رشتہ داروں اور دوستوں کو بھی ہمراہ لاؤ تا ہمارے متعلق اُن کی غلط فہمیاں دور ہوں 38 | 17 دسمبر 1954 ء تحریک جدید کوئی معمولی ادارہ نہیں بلکہ اسلام کے احیاء کی ایک زبر دست کوشش ہے.جماعت کے نوجوانوں کو اپنی صفحہ 356 375 393 ذمہ داری سمجھتے ہوئے پہلوں سے زیادہ قربانی کرنی چاہیے 409 39 24 دسمبر 1954ء تم نے لوگوں کے قلوب فتح کرنے ہیں اور یہ کام فرشتوں کی مدد کے بغیر نہیں ہوسکتا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ ذکر الہی اور عبادت کرنے سے فرشتوں کی مدد حاصل ہوتی ہے 40 31 دسمبر 1954 ء بیشک دنیا کماؤ لیکن دین کو بھی نظر انداز نہ کرو بلکہ ہمیشہ اس کو دنیا پر مقدم رکھو 421 429

Page 11

$1954 1 1 خطبات محمود نئے سال کا اہم پروگرام (فرموده یکم جنوری 1954ء بمقام ربوہ) تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: " آج اس سال کا پہلا دن ہے اور یہ سال جمعہ کے دن سے شروع ہوتا ہے.ہر سال انسان کے اندر نئی اُمنگیں لاتا اور اس کے اندر نئے جذبے پیدا کرتا ہے.لیکن کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جو نئے سال کی تبدیلی کو محسوس نہیں کرتے.اور کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں : نئے سال کی تبدیلی کو تو محسوس کرتے ہیں لیکن سال میں اپنے ارادہ کو پورا کرنے کے لیے کوئی جدو جہد نہیں کرتے.اور کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جو نئے سال کی تبدیلی کو بھی محسوس کرتے ہیں اور اس کے مطابق عمل کرنے کی توفیق بھی پاتے ہیں.پس مبارک ہیں وہ لوگ جو یہ محسوس کریں کہ ایک نیا زمانہ اور نیا دور ہم پر آیا ہے اور پھر اس نئے زمانہ اور نئے دور کے متعلق اپنے فرائض کو محسوس کریں اور پھر اپنے فرائض کو محسوس کرنے کے بعد عمل کرنے کی کوشش میں نے اس سال جلسہ سالانہ کے موقع پر جماعت کے سامنے کچھ پروگرام رکھا ہے.ہم اگر نئے سال میں اس کو مدنظر رکھتے ہوئے عمل کرنے کی کوشش کریں تو یقیناً جماعت میں غیر معمولی اصلاح اور غیر معمولی تربیت پیدا ہو سکتی ہے.جو باتیں میں نے جلسہ سالانہ کے

Page 12

$1954 2 خطبات محمود موقع پر جماعت کے مردوں اور عورتوں کے سامنے رکھی ہیں اُن میں سے ایک یہ تھی کہ ہر تعلیم یافتہ مرد اور کا ہر تعلیم یافتہ عورت جماعت کے کسی ایک مرد یا عورت کو جو لکھنا پڑھنا نہیں جانتے کی معمولی لکھنا پڑھنا سکھا دے.ہماری جماعت میں خدا تعالیٰ کے فضل سے تعلیم یافتہ طبقہ زیادہ ہے.تمام پاکستان میں مردوں کا ساڑھے تیرہ فیصدی حصہ تعلیم یافتہ ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ ہماری جماعت میں یہ نسبت 20، 25 فیصدی ضرور ہے.اور اگر جماعت کے 25،20 فیصدی لوگ اپنی ذمہ داری کو محسوس کریں تو اس کے معنے یہ ہیں کہ اس سال 20، 25 فیصدی اور لوگ تعلیم یافتہ ہو سکتے ہیں.گویا اگر ہم عزم کر لیں اور پھر اس کے مطابق عمل کریں تو اگلے سال ہماری 50 فیصدی تعداد تعلیم یافتہ ہو جائے گی.پھر اگر اس بات کو مدنظر رکھتے ہوئے کہ گو ربوہ میں عورتیں تعلیم کے لحاظ سے مردوں سے بہت زیادہ آگے ہیں لیکن باہر کی جماعتوں میں عورتوں کی تعلیم کا یہ معیار نہیں.اگر ہم عورتوں کے لحاظ سے وہی معیار لے لیں جو دوسرے مسلمانوں میں مردوں کا ہے تب بھی جماعت کی ساڑھے تیرہ فیصدی عورتیں تعلیم یافتہ ہیں.اگر جماعت کی ہر لکھی پڑھی عورت کم سے کم ایک اور عورت کو معمولی لکھنا پڑھنا سکھا دے تو اگلے سال تعلیم یافتہ عورتوں کی تعداد 25 فیصدی ہو جائے گی.اس طرح اگلے دو سال کی جدو جہد میں ہم سب کو تعلیم یافتہ بنا دیں گے اور یہ کام مشکل نہیں.ہر شخص اگر غور کرے تو سمجھ سکتا ہے کہ کسی ایک شخص کو معمولی لکھنا پڑھنا سکھانا کوئی مشکل امر نہیں.لکھنا سکھانے سے میرا مطلب نہیں کہ اسے کا تب بنا دیا جائے.اسی طرح پڑھنا سکھانے سے میرا یہ مطلب نہیں کہ دوسرا شخص عالم بن جائے.بلکہ معمولی لکھنا پڑھنا سکھانے سے میری یہ مراد ہے کہ وہ حروف جوڑ سکے اور اردو کے الفاظ کو ادا کر سکے اور چونکہ یہ ہماری اپنی زبان ہے اس لیے وہ آگے جلد ترقی کرے گا.پس یہ کوئی مشکل امر نہیں محض ارادہ اور قوت عمل کی ضرورت ہے.اگر ہم ارادہ ہے کر لیں اور پھر اپنے اندر قوت عمل پیدا کریں تو یہ کام اسی طرح ممکن ہے جس طرح یہ ممکن ہے کہ کوئی شام کی روٹی پکالے یا کل کے کھانے کے لیے تیاری کر لے.یہ اسی طرح ممکن.جس طرح کوئی شخص ہفتہ میں ایک بار، دو بار، تین بار، چار بار، پانچ بار، چھ بار یا سات بار نہا لے اور جسم کی صفائی کرے.اگر کوئی دقت ہے تو محض یہ ہے کہ ہم اس کے لیے ارادہ اور عزم ہے

Page 13

$1954 3 خطبات محمود نہیں کرتے.پس ایک تحریک میں نے یہ کی تھی کہ ہر تعلیم یافتہ مرد اور ہر تعلیم یافتہ عورت کا سے کم کسی ایک مرد یا عورت کو معمولی لکھنا پڑھنا سکھا دے.اور زیادہ ہو جائے تو یہ اور بھی اچھی بات ہے.دوسری بات میں نے یہ پیش کی تھی کہ اس سال تمام جماعت میں تحریک جدید کو مضبوط کیا جائے.جماعت کا ہر فرد چھوٹا ہو یا بڑا، عورت ہو یا مرد تحریک جدید میں حصہ لے.اور اس کی بھی جو صورت میں نے پیش کی ہے اس میں کوئی مشکل نہیں.اور وہ صورت یہ ہے کہ تحریک جدید میں کم سے کم پانچ روپے دے کر ہر شخص شامل ہو سکتا ہے.اور پھر یہ بھی ضروری نہیں کہ ہر حصہ لینے والا پانچ روپے دے بلکہ اگر کوئی ایک روپیہ دے سکے تو پانچ آدمی مل کر ایک آدمی کے وجود کے طور پر پانچ روپیہ لکھا دیں.اور اگر فرض کرو وہ ایک ایک روپیہ بھی نہیں دے سکتے آٹھ آٹھ آنہ دے سکتے ہیں تو دس آدمی مل کر ایک وجود کے طور پر پانچ روپے لکھا دیں.بہر حال ایک دفعہ یہ کوشش کی جائے کہ جماعت کا کوئی فرد تحریک جدید سے باہر نہ رہے.اگر ہم اس سال ایسا کرنے میں کامیاب ہو جائیں تو میرا وسیع تجربہ ہے کہ جب بھی کوئی شخص نیکی کی طرف کوئی قدم اُٹھاتا ہے اُسے بعد میں اس کو پھیلانے کا موقع ملتا ہے.میں جانتا ہوں کہ جو لوگ پانچ پانچ روپے دے کر تحریک جدید میں شروع میں شامل ہوئے تھے انہوں نے اس دور کو چار چار، پانچ پانچ سو روپیہ پر ختم کیا ہے.میں جب کہتا ہوں کہ جماعت کا ہر فرد ایک ایک روپیہ یا آٹھ آٹھ آنے دے کر تحریک جدید میں شامل ہو جائے تو میں جانتا ہوں کہ وہ ایک جگہ پر کھڑے نہیں ہوں گے بلکہ یہ ایک روپیہ یا آٹھ آنے انہیں گھسیٹ کر آگے چلے جائیں گے اور وہ ایک روپیہ یا آٹھ آنے سے سو، دو سو یا پانچ سو اور ہزار روپیہ تک چلے جائیں گے.تیسری تحریک جو میں نے جلسہ سالانہ کے موقع پر کی یہ تھی کہ ہر احمدی زمیندار جو فصل عام طور پر کاشت کرتا ہے وہ اس کا 1/20 فیصدی زیادہ ہوئے اور اس کی آمدنی تحریک جدید میں دے.مثلاً ایک شخص ہیں کنال فصل بوتا ہے تو وہ اکیس کنال فصل بوئے اور اس ایک کنال کی آمد محض خدا تعالیٰ کے لیے وقف کرے تا کہ اس ހނ غیر قوموں

Page 14

خطبات محمود $1954 اور غیر مذاہب میں تبلیغ اسلام ہو.یہ بھی کوئی مشکل نہیں.پانچ فیصدی زیادہ کام کرنا کوئی ای مشکل امر نہیں ہوتا.اگر کسی نے ایک کام میں بیس منٹ خرچ کرنے تھے اور وہ اکیس منٹ کی خرچ کر لے تو اس کے لیے یہ کونسی مشکل بات ہے.یا اگر کسی شخص نے ایک کام پر سو منٹ خرچ کرنے تھے اور وہ اس میں ایک سو پانچ منٹ خرچ کرے تو یہ کونسی مشکل بات ہے.اگر کسی نے ایک جگہ سو دن ٹھہر نا تھا اور وہ ایک سو پانچ دن ٹھہر جائے تو یہ کونسی مشکل بات ہے.اس چیز کا زائد فائدہ یہ ہوگا کہ اس کے اندر پانچ فیصدی زیادہ محنت کرنے کی عادت پیدا ہو جائے گی جو اس کے دوسرے کئی کاموں میں مفید ثابت ہو گی.اس تجویز پر عمل کرنے سے بھی سلسلہ کی آمد بڑھ سکتی ہے اور دوستوں کو سلسلہ کے کاموں میں شمولیت کا موقع مل سکتا ہے.پھر ایک تحریک میں نے یہ کی تھی کہ ہر آدمی اپنے ہاتھ سے کچھ نہ کچھ کام کرے اور اس سے جو آمد ہو وہ اشاعت اسلام کے لیے دے.چنانچہ دو عورتوں کی طرف سے کچھ چندہ آبھی چکا ہے.ایک عورت نے میری اس تقریر کے بعد کچھ کام کیا.اس سے دس آنہ کی آمد ہوئی جو اس نے تحریک جدید میں دی.اور دوسری عورت کا میں جلسہ پر اپنی تقریر میں ذکر کر چکا ہوں کہ اس نے میری اس تقریر کے بعد تین کارڈ لکھ کر دیئے اور اس کے بدلہ میں تین پیسے حاصل کیے اور یہ تین پیسے اس نے تحریک جدید میں دے دیئے.اگر ہر شخص کوئی نہ کوئی کام شروع کر دے اور اس کی آمد اشاعت اسلام کے لیے دے تو سلسلہ کی آمد میں کافی ترقی ہوسکتی ہے.مثلاً میں نے اچھے اچھے افسروں کے متعلق معلوم کیا ہے انہوں نے میری اس تقریر کے بعد اپنے لیے بعض کام سوچے ہیں.مثلاً بعض افسروں نے یہ تجویز کیا ہے کہ وہ کسی دن اسٹیشن پر چلے جائیں گے اور مسافروں کا سامان گاڑی سے باہر نکال کر رکھ دیں گے اور اس طرح کچھ نہ کچھ آمد پیدا کریں گے.گویا کسی نے کوئی کام سوچا ہے اور کسی نے کوئی.اگر یہ روح جماعت میں پیدا ہو جائے تو چاہے اس کے نتیجہ میں کتنی کم آمد پیدا ہو کم از کم اس کا اس قدر فائدہ تو ضرور ہوگا کہ جماعت کے اندر قربانی کی روح پیدا ہو گی.دوسرے غریب اور امیر میں جو فرق آجکل پایا جاتا ہے وہ دُور ہو جائے گا.تیسرے ہر ایک شخص کی ذہنیت اس طرف مائل ہو گی کہ اسے اپنے مقررہ رستہ سے ہٹ کر بھی کوئی کام کرنا چاہیے.میں اپنے لیے بھی سوچ

Page 15

$1954 5 خطبات محمود رہا ہوں کہ کوئی ایسا کام نکالوں کہ دوسرے کاموں میں فرق پڑے بغیر میں اس کے نتیجہ میں کچھ آمد پیدا کر کے سلسلہ کو دے سکوں.عام طور پر ایک زمیندار، ایک صناع یا ایک تاجر کوئی کام کرتا ہے تو وہ اپنے لیے کرتا ہے اور اس میں سے ایک حصہ خدا تعالیٰ کے لیے دے دیتا ہے یہ کام خالص خدا تعالیٰ کے لیے ہو گا اور اس سے جو آمد ہو گی وہ خالص اشاعت اسلام کے لیے ہوگی.یہ پروگرام میں نے جماعت کے لیے تجویز کیا تھا.اگر دوست اس طرف توجہ کریں، سلسلہ کے اخبار بار بار جماعت کو اس کی طرف توجہ دلاتے رہیں، سلسلہ کے مبلغ جس جگہ جائیں وہ لوگوں کو اس کی ترغیب دلائیں اور لوگوں سے سو فیصدی اس پروگرام پر عمل کرانے کی کوشش کریں، جماعت کے سیکرٹری اور پریذیڈنٹ صاحبان ذمہ داری سے کام لیں اور جماعت کے تمام افراد سے اس پر عمل کرائیں اور پھر ان رقوم کو پوری طرح ادا کر کے چھوڑیں تو ہمارا اگلا سال ہمارے سامنے نئی شکل میں ظاہر ہو گا.ہماری تبلیغ بڑھی ہوئی ہو گی، ہماری جماعت میں پہلے سے زیادہ اخلاق پیدا ہو چکے ہوں گے، جماعت کی تعلیم پہلے سے اچھی ہو چکی ہو گی، دین ا کا جذبہ ترقی کر چکا ہوگا اور جماعت قربانی میں ترقی کرنے کے قابل ہو چکی ہو گی.پس میں اس نئے سال میں جمعہ کے مبارک دن میں جو اس سال کا پہلا دن ہے جماعت کو ان امور کی طرف توجہ دلاتا ہوں اور امید کرتا ہوں کہ جماعت کے سارے احباب پختہ عزم اور ارادہ کے ساتھ ان پر عمل کرنے کی کوشش کریں گے“.لمصلح 21 فروری 1954 ء )

Page 16

$1954 6 2 خطبات محمود اسلام ایک مستقل سچائی اور ابدی صداقت ہے جو زمانہ کے حالات سے ہرگز متاثر نہیں ہو سکتی فرموده 8 جنوری 1954ء بمقام ربوہ ) تشهد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: میں سمجھتا ہوں کہ ہماری جماعت میں اگر اپنے فرض کا احساس پیدا ہو جائے تو لمبی چوڑی تقریروں اور لمبے چوڑے وعظوں کی ضرورت ہی باقی نہیں رہتی.جب کوئی شخص کسی پہاڑ کے دامن میں کھڑا ہو اور وہ پہاڑ اس پر گر رہا ہو تو اسے دوسرے علاقہ کے لوگ یہ بتانے کے لیے نہیں آتے کہ پہاڑ تم پر گر رہا ہے تم اپنی جان بچا لو.جب کسی گھر میں آگ لگی ہوئی ہوتی ہے تو اس کے ہمسائے اسے نہیں کہتے کہ وہ اپنی جان بچا لے بلکہ وہ آپ ہی آپ اس جگہ سے باہر چلا جاتا ہے.جب پانی کا سیلاب کسی علاقہ کی طرف بڑھتا ہے تو کسی شخص کے یہ کہنے کی ضرورت نہیں ہوتی کہ لوگو! اپنی جانیں بچا لو.بلکہ لوگ آپ ہی آپ اس علاقہ سے بھاگنا شروع کر دیتے ہیں.اسی طرح اسلام کے لیے جو آفتیں ہیں، اسلام کے لیے جو مصیبتیں ہیں اور اسلام کے لیے جو تکلیفیں ہیں وہ در حقیقت اسلام کے لیے نہیں بلکہ مسلمانوں کے لیے ہیں.اور ان کا فرض ہے کہ بغیر اس کے کہ کوئی انہیں توجہ دلائے جس طرح

Page 17

$1954 7 خطبات محمود سیلاب سے بچنے کے لیے لوگ دوڑ پڑتے ہیں، جس طرح آگ سے بچنے کے لیے لوگ مکانوں سے نکل بھاگتے ہیں، جس طرح گرنے والے پہاڑ سے بچنے کے لیے لوگ اپنی جانوں کی کی حفاظت کرتے ہیں اُسی طرح وہ ان مصیبتوں سے بھی اپنے آپ کو بچائیں.جو کہنے والے کے لیے اسلام کی مصیبتیں ہیں لیکن وہ اسلام کی نہیں بلکہ مسلمانوں کی مصیبتیں ہیں.کیونکہ اسلام ایک مستقل سچائی ہے اور کسی مستقل سچائی کو اس چیز سے واسطہ نہیں ہوتا کہ کوئی شخص اسے مانتا ہے یا نہیں مانتا.پس وہ مصیبتیں، آفتیں اور مشکلات مسلمانوں کے لیے ہیں ورنہ اسلام ان مشکلات کے دائرہ سے کلی طور پر باہر ہے.اس کی ایسی ہی مثال ہے جیسے کسی علاقہ میں آندھی آ جاتی ہے اور سارے جو 1 پر چھا جاتی ہے تو سورج، چاند اور ستارے نظر آنے بند ہو جاتے ہیں.اب بظاہر وہ آندھی چاند اور ستاروں کے لیے ہوتی ہے کہ وہ اس کی وجہ سے نظر نہیں آتے لیکن حقیقت پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ آندھی انسانوں کے لیے ہوتی ہے کہ سورج، چاند اور ستارے انہیں نظر نہیں آتے.ورنہ وہ اسی طرح چمک رہے ہوتے ہیں اور فضا ئیں ان سے اسی طرح روشن ہوتی ہیں جیسے پہلے روشن تھیں.آندھی صرف چند فٹ کی بلندی تک ہوتی ہے اور وہ بھی دس پندرہ میل کے علاقہ میں کہ جس میں وہ انسانوں کے ایک حصہ کو سورج، چاند اور ستاروں کی روشنی سے محروم کر دیتی ہے.اسی طرح آندھی کی وجہ سے کچھ لوگوں کے مکان گر جاتے ہیں، کچھ چھتیں اڑ جاتی ہیں، کچھ غلے پراگندہ ہو جاتے ہیں، کچھ درخت اکھڑ جاتے ہیں، کچھ کھیتیاں خراب ہو جاتی ہیں لیکن یہ ساری چیزیں انسان کے ساتھ تعلق رکھنے والی ہوتی ہیں سورج، چاند اور ستاروں کے ساتھ تعلق نہیں رکھتیں.ان کھیتوں، درختوں اور چھتوں سے سورج، چاند اور ستاروں کا کوئی واسطہ نہیں ہوتا.مکانوں میں سورج، ان چاند اور ستارے نہیں رہتے.” چھتیں سورج، چاند اور ستاروں کی حفاظت نہیں کرتیں.چیزوں سے فائدہ اُٹھانے والے محروم ہوتے ہیں تو انسان محروم ہوتے ہیں سورج، چاند اور ستارے نہیں.جن کے لیے آندھی آئی ہوئی ہوتی ہے وہ انسان ہوتے ہیں کہ جن کے درمیان اور سورج، چاند اور ستاروں کے درمیان گردوغبار حائل ہو جاتا ہے ورنہ سورج، چاند اور ستارے ہمیشہ سے روشن ہیں.ہماری پیدائش سے لاکھوں کروڑوں سال قبل بھی روشن.تھے

Page 18

$1954 8 خطبات محمود وہ اور شاید ہماری وفات کے لاکھوں کروڑوں سال بعد تک بھی اسی طرح روشن اور چمکتے رہیں گے جیسے وہ آج روشنی دیتے اور چمکتے ہیں.سورج اسی طرح گرمی پہنچاتا رہے گا جس طرح آج پہنچا رہا ہے.سورج اور چاند کھیتوں کو اُسی طرح فائدہ پہنچاتے رہیں گے اور پہنچاتے چلے جائیں گے جس طرح وہ آج پہنچا رہے ہیں.وہ جراثیم کو اُسی طرح ماریں گے اور مارتے چلے جائیں گے جیسے وہ ہمیشہ مارتے چلے آئے ہیں.ہاں! ایک عارضی عرصہ میں اور ایک خاص ماحول میں انسان ان کے فائدہ سے محروم ہو جاتا ہے.بظاہر دنیا جھتی ہے کہ سورج غائب ہو گیا ہے، بظاہر دنیا سمجھتی ہے کہ چاند اور ستارے چُھپ گئے ہیں اور اب روشنی نہیں دیتے حالانکہ وہ برابر روشن ہوتے ہیں اور روشنی پہنچا رہے ہوتے ہیں.یہی حال سچائیوں کا ہے.سچائی غائب نہیں ہوتی ، سچائی نہیں ملتی.انسان غائب ہوتا ہے اور انسان مٹ جاتا ہے.بیوقوف سمجھتا ہے کہ سورج، چاند اور ستارے چُھپ گئے ہیں حالانکہ یہ خود چُھپ جاتا ہے اور تاریکیوں میں پھنس جاتا اور روشنی کے فوائد سے محروم ہو جاتا ہے مگر وہ اس محرومیت کو دوسرے کی طرف منسوب کر دیتا ہے.قصہ مشہور ہے کہ کوئی اندھا اندھیرے میں لائین ہاتھ میں لیے جا رہا تھا.کوئی سوجا کھا اُس کے پاس سے گزرا تو اُسے لالٹین ہاتھ میں لیے دیکھ کر ہنس پڑا اور کہنے لگا میاں! ب تجھے نظر نہیں آتا تو تجھے اس لائین کا کیا فائدہ؟ اُس اندھے نے کہا بیشک میں اندھا ہوں اور مجھے اس لالٹین کی ضرورت نہیں.مگر یہ لائین میں نے اپنے پاس سجاکھے اندھوں کے لیے رکھی ہے تا کہ وہ اندھیرے میں مجھے ٹھوکر نہ لگائیں.اسی طرح یہ چیزیں یعنی سورج، چاند اور ستارے اپنے لیے فائدہ حاصل نہیں کر رہے ہوتے بلکہ دوسروں کو فائدہ پہنچا رہے ہوتے ہیں.تریاق اپنی ذات کو فائدہ نہیں دیتا.ہاں! جو اُسے استعمال کرتا ہے وہ زہر کے اثر محفوظ ہو جاتا ہے.زہر اپنی ذات میں نقصان نہیں اُٹھاتا.ہاں! انسان اسے کھائے تو مر جاتا ہے.اسی طرح یہ چیزیں انسانوں کو ہی مارتی ہیں اور جلاتی ہیں.پس جب کہ حالت یہ ہے و بدقسمت ہے وہ انسان جو باتوں میں اپنی ساری عمر ضائع کر دیتا ہے اور کام کی طرف توجہ نہیں کرتا.ہر خرابی جسے وہ دیکھتا ہے اور سمجھتا ہے کہ وہ دوسروں کی طرف آ رہی ہے ނ

Page 19

$1954 9 خطبات محمود ہو حالانکہ وہ اُسی کی طرف آ رہی ہوتی ہے.جیسے چاند اور ستارے آندھی کی وجہ سے اوجھل ہے جاتے ہیں تو احمق انسان سمجھتا ہے کہ ان کی روشنی جاتی رہی ہے حالانکہ حقیقت یہ ہوتی ہے کہ چاند اور ستارے تو روشن ہوتے ہیں، وہ خود اُن کی روشنی سے محروم ہو جاتا ہے.اسی طرح یہ احمق بھی خیال نہیں کرتا کہ ہر تباہی جو دنیا پر آ رہی ہے اُس پر بھی آ رہی ہے، ہر تباہی جو دنیا پر آ رہی ہے اس سے وہ بھی محفوظ نہیں کیونکہ وہ بھی دنیا سے باہر نہیں.اگر دنیا میں کوئی تباہی آئے گی تو اس پر بھی آئے گی.اس لیے اس کا فرض ہے کہ قبل اس کے کہ وہ تباہی آئے ، وہ اس سے بچنے کی کوشش کرے.لیکن بدقسمت انسان باتیں کرتا ہے اور کام سے منہ موڑ لیتا ہے اور سمجھتا ہے کہ ان باتوں کی وجہ سے دنیا اُسے سر پر اٹھائے پھرے گی حالانکہ نہ دنیا بیوقوف ہے اور نہ خدا تعالیٰ.بیوقوف وہی ہے جو غلط امید لگائے بیٹھا ہے.الفضل 29 فروری 1958ء 1 : جو فضا ( فیروز اللغات اردو جامع فیروز سنز لاہور )

Page 20

$1954 10 3 خطبات محمود مساجد اپنی ذات میں بڑی برکات رکھتی ہیں ان کی وسعت کے ساتھ ہی ہماری جماعت کی ترقی وابستہ ہے (فرموده 15 جنوری 1954 ء رتن باغ لاہور ) تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: وو جلسہ کے بعد تقریروں وغیرہ کی وجہ سے میرے گلے پر بوجھ پڑا تھا اور نزلہ کی بھی شکایت ہو گئی تھی.پھر الہی مصلحت کے ماتحت جلسہ کے معا بعد مجھے گواہی کے لیے تیاری بھی کرنی پڑی اور گواہی بھی دینی پڑی.اس لیے میرے گلے کی خراش بہت بڑھ گئی ہے اور کھانسی شروع ہو گئی ہے.اللہ تعالیٰ کی مشیت تھی یا شاید آپ لوگوں کے اخلاص اور محبت کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے یہ سامان کیا کہ سمجھا تو یہ جاتا تھا کہ شاید بدھ کو گواہی ختم ہو جائے اور جمعرات کو ہم واپس چلے جائیں لیکن اللہ تعالیٰ نے کچھ ایسے سامان کیسے کہ میری گواہی جمعہ کے وقت تک ہو گئی.جس کے بعد لازماً مجھے جمعہ کے لیے ٹھہرنا پڑا اور یہ جمعہ مجھے لاہور میں پڑھانا پڑا.میں نے جو یہ اعلان کرایا تھا کہ دوست اس جگہ (یعنی رتن باغ میں ) نماز کے لیے جمع ہو جائیں اس کی وجہ یہ تھی کہ میں سمجھتا تھا کہ ایسے وقت میں آ کر کہ جمعہ کے لیے تھوڑا وقت رہ جائے گا.پھر انسان جمعہ کی تیاری بھی کرتا ہے، کھانا بھی کھاتا سے

Page 21

$1954 11 خطبات محمود اور تھکان بھی ہوتی ہے مسجد میں جانا شاید مشکل ہو جائے لیکن ساتھ ہی میں یہ بھی چاہتا تھا کہ اوی دوست مل لیں تا کہ میرا یہاں رہنا میرے لیے بھی اور ان کے لیے بھی مفید ہو جائے.اس لیے مسجد کی بجائے میں نے آپ لوگوں کو یہاں نماز پڑھنے کی تحریک کی.جہاں تک اسلامی احکام کا سوال ہے بہترین جگہ نماز کی مسجد ہی ہوتی ہے کیونکہ دنیا میں ہر چیز اپنی روایات کو اپنے ساتھ لیے پھرتی ہے.اگر کسی دشمن کا بچہ نظر آ جاتا ہے تو اس کو دیکھتے ہی انسان کے دل میں اُس دشمن کی دشمنیاں بھی گزر جاتی ہیں.اور اگر کسی دوست کا بچہ نظر آ جاتا ہے تو اس کو دیکھتے ہی اُس دوست کی محبت اور اُس کا حُسنِ سلوک بھی یاد آ جاتا ہے.ہمارے ملک کی روایات میں سے ایک روایت ہے کہ مجنوں کو کسی نے دیکھا کہ اس نے ایک گتے کو گود میں بٹھایا ہوا ہے اور اُس سے پیار کر رہا ہے.اُس نے کہا قیس! تم تو ایک بڑے خاندان کے ساتھ تعلق رکھتے ہو تم یہ کیا حرکت کر رہے ہو کہ ایک گتے کو تم نے گود میں بٹھایا ہوا ہے اور تم اس سے پیار کر رہے ہو؟ قیس نے بے ساختہ جواب دیا کہ میں گتے کو و پیار نہیں کر رہا، میں تو لیلیٰ کے گتے کو پیار کر رہا ہوں.یعنی تمہیں وہ گتا نظر آتا ہے لیکن مجھے یہ نظر آتا ہے کہ لیلیٰ کے ساتھ اس کی وابستگی ہے.اس لیے اس کو دیکھتے ہی لیلی کی یاد میرے دل میں تازہ ہو جاتی ہے.مسجد بھی بظاہر اینٹوں کی بنی ہوئی ایک چیز ہے، چونا کی بنی ہوئی ایک چیز ہے، گارے کی بنی ہوئی ایک چیز ہے، لکڑی کی بنی ہوئی ایک چیز ہے.اور جہاں تک مساجد کا تعلق لاہور کے ہزاروں ہزار مکان ان سے زیادہ بہتر مٹیریل سے بنے ہوئے ہیں.اگر صرف ایک احاطہ کو دیکھا جائے، اگر صرف چھتوں کو دیکھا جائے ، اگر صرف عمارت کو دیکھا جائے، اگر صرف دروازوں کو دیکھا جائے تو لاہور کی اکثر مساجد سے یہاں کی اکثر کوٹھیاں زیادہ شاندار آئیں گی.لیکن ایک مومن جس وقت مسجد میں جاتا ہے تو معاً اس کی اینٹ اور گارا اور لکڑی اور چونا اُس کے دل سے غائب ہو جاتا ہے اور اُس کو یہ نظر آتا ہے کہ اس گھر میں پانچ وقت میرا خدا اُترا کرتا ہے.مسجد کے علاوہ دوسری کوئی ایسی جگہ نہیں ہوتی جس کو دیکھتے ہی تو اُس کے دل پر یہ اثر پڑے کہ میرا محبوب اور میرا آقا اس جگہ پانچ وقت آیا کرتا ہے.ہے

Page 22

$1954 12 خطبات محمود پس مسجد ہی ایک ایسی چیز ہے جس میں داخل ہوتے ہی انسان کے جذبات محبت اُبھر پڑتے ہیں اور وہ محسوس کرتا ہے کہ گو ابھی میں نے خدا کو نہیں دیکھا مگر میں اس جگہ آ گیا ہوں جہاں لوگ خدا کو دیکھا کرتے ہیں.شاید کسی دن میری بھی خدا تعالیٰ کو دیکھنے کی باری آ جائے.اسی لیے خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے خُذُوا زِينَتَكُمْ عِنْدَ كُلِّ مَسْجِدِ 1 تم مساجد میں مزین ہوتی کر جایا کرو.لوگ بڑے افسروں کو ملنے جاتے ہیں یا کچہریوں اور درباروں میں جاتے ہیں تو اچھے لباس پہنتے ہیں ، نہا دھو کر جاتے ہیں، خوشبو لگاتے ہیں کیونکہ سمجھتے ہیں کہ اُس جگہ بہت سے لوگ بادشاہ یا گورنر کو دیکھنے آئیں گے.پس وہ خوب تیاریاں کر کے جاتے ہیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جس طرح دنیا کے دربار یا شاہی عمارات انسانی بادشاہوں کے سامنے لے جانے والی چیزیں ہیں اور وہ ان کی آنکھوں کے سامنے بڑے بڑے باشاہوں کو لے آتی ہیں اسی طرح مسجد خدا کے سامنے انسان کو پہنچا دیتی ہے.اگر چھوٹے چھوٹے حاکموں کے سامنے جانے کے لیے وہ تیاری کرتے ہیں تو اَحْكُمُ الْحَاكِمِيْنَ سے ملنے کے لیے وہ کیوں تیاری نہیں کرتے؟ تو مساجد اپنی ذات میں بڑی برکت رکھتی ہیں.اگر مجبوراً مسجد کو چھوڑنا پڑے تو اور بات ہے.جیسے بعض لوگ اپنی ضد اور تعصب میں اتنے بڑھ جاتے ہیں کہ وہ خدا کی مسجد کو اپنی مسجد سمجھنے لگ جاتے ہیں اور دوسروں کو اس میں نماز بھی پڑھنے نہیں دیتے.ایسی حالت میں اگر کوئی شخص مسجد کو چھوڑ دیتا ہے اس لیے کہ لوگ اسے مسجد میں نہیں جانے دیتے.جیسے پولیس پہرہ پر بیٹھی ہوئی ہو تو انسان اگر اُس جگہ جانا بھی چاہتا ہے تو رک جاتا ہے.اسی طرح اگر کوئی طاقتور آدمی کسی کو مسجد میں نماز پڑھنے سے روک دے تو وہ رُک جاتا ہے لیکن کی اُس کے دل کو یہی محسوس ہوتا ہے کہ میں اپنی ایک پیاری اور عزیز چیز کے پاس جانا چاہتا تھالیکن مجھے روک دیا گیا اور وہ لوگ جو اپنے دلوں میں خشیت اللہ رکھتے ہیں اُن ان باتوں کا اثر بھی ہوتا ہے.اسی جلسہ پر ایک دوست نے مجھے ایک واقعہ سُنایا جس کا میرے دل پر بڑا اثر ہوا.انہوں نے بتایا کہ ہمارے ہاں ایک احمدی دوست نے اپنے خرچ پر مسجد تعمیر کی جس میں وہ نمازیں پڑھا کرتے تھے.فساد کے دنوں میں لوگوں کو جوش آیا اور انہوں نے اس احمدی سے کہا

Page 23

$1954 13 خطبات محمود ہے.کہ ہم تمہیں اس مسجد میں ہر گز گھنے نہیں دیں گے.اُس نے کہا یہ مسجد تو میں نے خود بنائی اس لیے تم مجھے اس مسجد سے نہیں روک سکتے.انہوں نے کہا خواہ کچھ ہو ہم تمہیں اس مسجد میں نہیں گھنے دیں گے.اس نے حکام کے پاس شکایت کی.انہیں پورے حالات معلوم نہیں تھے اور یہ نہیں جانتے تھے کہ اس نے وہ مسجد بنائی ہے.انہوں نے بھی اس خیال سے کہ اس طرح فساد بڑھے گا اُسے مسجد میں نماز پڑھنے سے روک دیا.اُس نے کہا اچھا! جب یہ مسجد انسانوں کی کی ہوگئی ہے تو اب میں اس مسجد میں نماز پڑھنے کے لیے نہیں جاؤں گا.کچھ دنوں کے بعد حکام کو معلوم ہوا کہ مسجد اُس نے بنائی ہے اور لوگوں نے اُس پر سختی کی ہے اس پر بعض ایسے افسر جو اپنے دل میں خوف خدا رکھتے تھے انہوں نے سمجھا کہ ہم سے بڑی غلطی ہوئی انہوں نے اس احمدی کو کہلا بھیجا کہ تم بے شک مسجد میں آیا کرو ہمیں کوئی اعتراض نہیں.اُس نے کہا اب میں نہیں آتا.جب یہ خدا کی مسجد نہیں بلکہ انسانوں کی مسجد ہے تو میں نے اس میں آکر کیا لینا ہے؟ سنانے والے نے سنایا کہ آخر علاقہ کے افسر بھی اور رئیس بھی اُس کے گھر پر گئے اور اُس کی منتیں کیں کہ ہمیں خدا کے لیے معاف کرو اور مسجد میں نماز پڑھنے کے لیے آیا کرو.چنانچہ اُس نے انہیں معاف کیا اور وہ مسجد میں آنے جانے لگا.اب دیکھو! اس کی وجہ یہی تھی کہ ان میں سے بعض کے دل میں خوف خدا تھا.جب انہیں معلوم ہوا کہ اس مسجد کے ذریعہ اس شخص نے خدا کا نام لینے کی دوسروں کے لیے سہولت پیدا کی تھی اور اس امر کا انتظام کیا تھا کہ لوگ آئیں اور خدا کی زیارت کریں لیکن ہم نے اس کو خدا تعالیٰ کی زیارت سے محروم کر دیا تب انہوں نے اپنی غلطی محسوس کی اور وہ اصرار کر کے اُسے مسجد میں لے آئے.تو ان مقامات کو دیکھ کر انسان کے دل پر اثر پڑتا ہے اور انسان محسوس کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اسے ایک شرف عطا فرما دیا ہے اور یہ ایسی چیز ہے کہ اس کو دیکھ کر بعض دفعہ سنگدل سنگدل انسان بھی کانپ اُٹھتا ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دل میں اپنے آخری ایام مکہ میں ہجرت سے تین چار سال پہلے خیال پیدا ہوا کہ مکہ والے تو نہیں مانتے شاید کوئی دوسرا شہر مان جائے.حجاز کا دوسرا بڑا شہر طائف تھا.آپ اپنے ایک ساتھی کو لے کر طائف پہنچے لیکن آپ کی یہ محسن علی ނ

Page 24

$1954 14 خطبات محمود در حقیقت درست نہیں تھی.طائف والے مکہ والوں سے بھی عداوت میں بڑھے ہوئے تھے.جب آپ نے انہیں تبلیغ کرنی چاہی تو انہوں نے مختلف بہانے بنانے شروع کر دیئے.ادھر انہوں نے لڑکوں کو حملہ کے لیے اُکسا دیا اور کہہ دیا کہ جب آپ باہر نکلیں تو آپ پر پتھر برسائیں اور آپ کے پیچھے گئے ڈال دیں.جب آپ طائف کے رؤساء سے مایوس ہو کر باہر نکلے تو لڑکوں نے آپ کو پتھر مارنے شروع کر دیئے.ساتھ ہی انہوں نے کتوں کو اُکسا دیا اور وہ بھی آپ کے پیچھے دوڑے.آپ اس حالت میں شہر چھوڑ کر باہر نکلے مگر وہاں بھی لوگ آپ کے پیچھے پیچھے آئے.یہاں تک کہ آپ کے جسم پر کئی جگہ زخم آ گئے اور خون بہنے لگی گیا.مکہ والے اکثر رئیسوں کی جائیدادیں اور باغات طائف میں تھے.آپ ایک باغ کے پاس آئے جو ایک شدید دشمن اسلام کا تھا مگر اُس وقت آپ کی حالت کو دیکھ کر اُسے بھی رحم آگیا اور اُس نے آپ کو اپنے باغ میں بیٹھنے کی اجازت دے دی.جب طائف والوں کا آپ نے یہ سلوک دیکھا تو آپ نے اپنے ساتھی سے فرمایا کہ چلو مکہ چلیں.اُس نے کہا يَارَسُولَ الله ! شاید آپ کو مکہ والوں کا قانون معلوم نہیں.مکہ والے حقوقِ شہریت سے محروم نہیں کرتے.لیکن جب کوئی شخص اپنی مرضی سے مکہ چھوڑ کر چلا جائے تو پھر دوبارہ اُسے مکہ میں داخل نہیں ہونے دیتے جب تک اُسے کسی رئیس کی پناہ حاصل نہ ہو.آپ اپنی خوشی سے وہاں سے نکل آئے تھے اور اب مکہ والے سمجھتے ہیں کہ آپ وہاں کے باشندے نہیں رہے سوائے اس کے کہ ملکہ کا کوئی رئیس یا مکہ کے پنچوں میں سے کوئی ذمہ دار شخص آپ کو پناہ دے.چنانچہ جب آپ مکہ کے پاس پہنچے تو آپ نے اُسے مطعم بن عدی کے پاس بھیجوایا.مطعم بن عدی آپ کا ایک شدید دشمن تھا.وہ اور اُس کے بیٹے رات دن آپ کی مخالفت کرتے رہتے تھے.آپ نے اُسے فرمایا تم مطعم بن عدی کے پاس جاؤ اور اُسے میرا نام لے کر کہو کہ میں پھر مکہ میں واپس آنا چاہتا ہوں.اگر تم مجھ کو شہریت کے حقوق دے دو جس کا یہ ہے کہ تم مجھے اپنی پناہ میں لے لو تو پھر میں واپس آ سکتا ہوں.اُس کو تعجب تو ہوا کہ اتنا شدید دشمن جو رات دن دشمنی کرتا رہتا ہے اس کے پاس جانے کا فائدہ کیا ہو گا مگر وہ چلا گیا.درحقیقت وہ مکہ والوں کی فطرت کو نہیں سمجھتا تھا.مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان کی طریق

Page 25

$1954 15 خطبات محمود فطرت کو خوب سمجھتے تھے.وہ نہایت سنگدل بھی تھے ، وہ نہایت ظالم بھی تھے لیکن خانہ کعبہ کے پاس رہنے کی وجہ سے خشیت اللہ کی ایک چنگاری بھی اُن کے دلوں میں سلگتی رہتی تھی.مکہ میں جو خدا تعالیٰ کے نشانات کا ظہور وہ رات دن دیکھتے تھے اُس کی وجہ سے وہ بہتے تو تھے مگر ملکہ کی رستی سے بندھے رہتے تھے.جب وہ صحابی گئے اور انہوں نے آپ کا نام لے کر کہا کہ وہ آپ کو یہ پیغام دیتے ہیں کہ میں مکہ سے چلا گیا تھا مگر طائف والوں نے مجھ سے کچھ اچھا سلوک نہیں کیا.اب میں چاہتا ہوں کہ پھر واپس آجاؤں مگر مکہ کے قانون کے مطابق میں یہاں کے شہری حقوق سے محروم ہو گیا ہوں.اب اس کے لیے ضروری ہے کہ مکہ کا کوئی سرپنچ مجھے پناہ دے.کیا تم اس بات کے لیے تیار ہو کہ مجھے پناہ دو؟ تو وہ شدید دشمن اسلام جس کی دشمنی کے واقعات سے تاریخیں بھری پڑی ہیں یہ سنتے ہی کھڑا ہو گیا اور اُس نے اپنے جوان بیٹوں کو بلایا اور اُن کو یہ سارا واقعہ سنایا اور کہا کہ تلواریں اپنے ہاتھ میں لے لو اور میرے ساتھ چلو.پھر اُس نے مکہ کے دروازہ تک آ کر آپ سے کہا کہ میں آپ کو پناہ دیتا ہوں.آپ میرے ساتھ مکہ میں داخل ہوں.مکہ کے لوگوں کی دشمنی کا اُس کو اندازہ تھا، اُن کی معاندانہ کارروائیوں کا اُس کو علم تھا.وہ جانتا تھا کہ گو مکہ کے رواج کے مطابق مجھ کو یہ حق حاصل ہے کہ میں ان کو پناہ دوں مگر وہ مخالفت کی وجہ سے شاید اس دیرینہ قانون کو بھی بھول جائیں گے اور مخالفت پر آمادہ ہو جائیں گے.چنانچہ اس نے اپنے بیٹوں سے کہا دیکھو! یہ اس وقت ہماری پناہ میں ہیں.مجھے ڈر ہے کہ مکہ والے حملہ کریں گے.لیکن میں وہ دن نہیں دیکھنا چاہتا کہ تم میں سے کوئی زندہ ہو اور ان تک کوئی آدمی پہنچ جائے.تمہاری لاشوں پر.گزرتے ہوئے کوئی شخص ان تک پہنچے تو پہنچے ورنہ ان پر کوئی آنچ نہیں آنی چاہیے.اس طرح وہ جنگی تلواروں کے نیچے آپ کو اپنے گھر چھوڑ گیا.2 اب دیکھو! اس واقعہ کے پیچھے کونسی روح تھی؟ روح یہی تھی کہ اُس کو اس پناہ دینے میں بھی اپنی عظمت نظر آئی اور اُس نے سوچا کہ آخر یہ یہاں کیوں آنا چاہتے ہیں؟ اس لیے کہ یہاں خانہ کعبہ ہے اور خانہ کعبہ ہمارا ہے اور ہمیں ہمیشہ خدا تعالیٰ کے نشانات دکھاتا پس خانہ کعبہ کے ساتھ اُن کے جو تعلقات تھے انہوں نے اُس کے اندر یہ نیکی پیدا کر دی ہے.

Page 26

$1954 16 خطبات محمود کہ یا تو وہ آپ کی جان لینے کے درپے تھا اور یا اُس نے اپنے جوان بیٹوں سے کہا کہ تم میں کی سے ہر ایک مر جائے مگر ان کو آنچ تک نہ آئے.تو مساجد اپنے اندر بڑی برکات رکھتی ہیں اور وہ انسان کے چھپے ہوئے جذبات اور اس کے دبے ہوئے احساست کو اُبھارتی اور نمایاں کرتی ہیں.اسی لیے رتن باغ میں ( مگر اس طرف نہیں بلکہ دوسری طرف) میں نے لاہور کی جماعت کو تحریک کی تھی کہ اب یہاں کی مسجدی ان کی ضروریات کے لیے کافی نہیں.انہیں کوئی اور مسجد بنانی چاہیے.اُس وقت دوستوں نے اپنے جوش اور اخلاص میں بڑے بڑے چندے لکھوائے.چنانچہ مجھے بتایا گیا تھا کہ اس وقت بائیس ہزار کے وعدے ہوئے اور وصولی بھی سولہ سترہ یا اٹھارہ ہزار کی ہو گئی لیکن اس میں التوا پڑتا چلا گیا اور جماعت نے زمین نہ خریدی.اب میرے بار بار کہنے کے بعد جماعت نے اس طرف توجہ کی ہے اور زمین خریدنے کے متعلق کوشش کی جا رہی ہے.بہر حال نمازوں کے لیے یہاں ایک وسیع مسجد کا ہونا نہایت ضروری ہے.اب بھی تم نمازیں تو پڑھتے ہو، مگر تم نماز پڑھتے ہو گلیوں میں ، تم نماز پڑھتے ہو چھتوں پر.اور گلیوں اور چھتوں پر نماز پڑھتے وقت تمہارے اندر خشیت اللہ پیدا نہیں ہو سکتی جو مسجد میں ہوتی ہے.کیونکہ اسی گلی میں بچے کھیل رہے ہوتے ہیں، اسی گلی میں وہ پیشاب کر دیتے ہیں اور پھر لوگ اسی گلی میں سے جوتوں سمیت گزر رہے ہوتے ہیں.اس وجہ سے جب تم گلی میں نماز پڑھتے ہو تو فوری طور تمہارے دل میں خدا تعالیٰ کی محبت اور اُس کی خشیت کا وہ احساس پیدا نہیں ہوتا جو مسجد تمہارے اندر پیدا کرتی ہے.تم مسجد کے ساتھ ملحق گلی میں نماز پڑھ کر اس احساس سے بیگانہ رہتے ہو لیکن جب دو قدم چل کر مسجد میں داخل ہوتے ہو تو تمہارے اندر ایک نیا احساس اور پیدا ہو جاتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی محبت اور اس کے خوف کا جذبہ تمہارے دل میں نمایاں نیا شعور : ہونے لگتا.ہے.مثلاً پہلا احساس تو تمہیں یہی پیدا ہوتا ہے کہ یہ مسجد ہے ہمارا فرض ہے کہ ہم جوتا اُتار دیں.پھر اگر تمہارے ذہن کو یہ توفیق مل جائے کہ وہ بلندی کی طرف پرواز کرے تو مسجد کو دیکھ کر تمہارے دل میں یہ خیال پیدا ہو گا کہ سالہا سال اس زمین پر کھڑے ہو کر

Page 27

$1954 17 خطبات محمود خدا تعالیٰ کا نام بلند کیا گیا ہے، سالہا سال اس زمین پر خدا تعالیٰ کا ذکر کیا گیا ہے بلکہ شاید ای دو گھنٹے پہلے خدا تعالیٰ کا کوئی برگزیدہ اس جگہ کھڑا ہوا ہو اور نہ معلوم اُس نے کس کس طرح خدا تعالیٰ سے باتیں کی ہوں.پھر اگر خدا تعالیٰ تمہیں اور زیادہ بلند پروازی کی توفیق دے تو تمہارے دل میں یہ خیال پیدا ہو گا کہ بیشک میرے اندر خشوع و خضوع پیدا نہیں ہوتا، میرے اندر رقت اور سوز وگداز کی کیفیت پیدا نہیں ہوتی.لیکن خدا کے کئی بندے ایسے ہیں جن کے جذبات اس مقام پر آکر اتنے اُبھرے کہ وہ موم کی طرح اس کی روشنی اور جلوہ کے سامنے پکھل گئے.ان کی ملاقات کے لیے اور ان کے ساتھ مصاحبت کرنے کے لیے اور ان کے دلوں کو مضبوط کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ اس جگہ ضرور اُترتا ہو گا.وہ میرے لیے اُترے یا کسی اور کے لیے، بہر حال ہر نماز میں خدا تعالیٰ اُترتا ہے.اگر میری نماز مقبول نہیں تو میرے ساتھیوں میں سے کسی کی ضرور مقبول ہو گی اور وہ اس کے لیے اس مقام پر نازل ہو گا.اور جب خدا کسی قوم پر اُترتا ہے تو وہ مقام اپنی ذات میں بھی بہت بڑی اہمیت اختیار کر لیتا ہے.پھر اس کے دل میں خیال پیدا ہوگا کہ میں جب کبھی دتی جاتا تھا تو موٹر یا تانگہ کرایہ پر لیتا تھا اور کہتا تھا کہ مجھے دیوان خاص تک لے چلو.اگر کوئی ناواقف مجھ سے پوچھتا کہ دیوانِ خاص میں کیا چیز ہے؟ تو میں اُسے بتاتا کہ دیوانِ خاص وہ مقام ہے جہاں جہانگیر بیٹھا کرتا تھا یہ شاہ جہاں بیٹھا کرتا تھا اور لوگ ان کے دیدار کے لیے جمع ہوا کرتے تھے.بہر حال میں تکلیف اس لیے اُٹھاتا تھا کہ آج سے سو دو سو ، چارسو یا ہزار سال پہلے ایک محدود ملک کا بادشاہ ای کسی وقت اس جگہ بیٹھا کرتا تھا.اگر میں اتنی تکلیف اُٹھا کر وہاں جاتا تھا اور اس لیے جاتا تھا جی کہ ایک انسان کسی کسی وقت یہاں بیٹھا کرتا تھا تو یہاں تو میرے لیے یہ موقع ہے کہ کوئی مرنے والا بادشاہ نہیں بلکہ زندہ خدا یہاں اُترا اور وہ بھی سو دو سو یا ہزار سال پہلے نہیں بلکہ ابھی دو گھنٹہ پہلے وہ یہاں اُترا تھا اور ہر روز پانچ وقت اُترا کرتا ہے.پس میرے لیے یہ کتنی بڑی خوش قسمتی کی بات ہے.جب میں دنیوی بادشاہوں کے دیوانِ خاص دیکھنے کے لیے تکلیف اُٹھاتا ہوں تو یہاں تو کسی تکلیف کا سوال ہی نہیں.یہ وہ مقام ہے جہاں پانچ وقت زمین و آسمان کا خدا آسمان سے نازل ہوتا ہے.یہ بات باہر گلی والوں کو نصیب نہیں ہو سکتی

Page 28

$1954 18 خطبات محمود کیونکہ وہ دیکھتے ہیں کہ وہاں پیشاب کرنے والا پیشاب بھی کر رہا ہے اور کوڑا کرکٹ پھینکنے والا کوڑا کرکٹ بھی پھینک رہا ہے.پس مساجد کے ساتھ جو خشوع خضوع وابستہ ہے وہ کسی دوسری جگہ کے ساتھ وابستہ نہیں.اور گو یہ جائز ہے کہ انسان دوسری جگہوں میں بھی نماز پڑھ لے جیسے اس وقت ہم یہاں نماز پڑھ رہے ہیں مگر یہ چیز مجبوری کے ساتھ تعلق رکھتی ہے.پس لاہور کے دوستوں کو چاہیے کہ وہ جلدی مسجد بنائیں.اس کے لیے تم زیادہ کی انتظار نہ کرو.معمولی چار دیواری بناؤ اور نماز پڑھنی شروع کر دو.دھوپ ہو تو سائبان کھڑے کیسے اور نماز پڑھ لی.بہر حال ہر احمدی کو جب وہ نماز پڑھ رہا ہو یہ محسوس ہونا چاہیے کہ وہ گلی میں نماز نہیں پڑھ رہا.بیشک گلی میں بھی نماز ہو جاتی ہے مگر گلی میں نماز پڑھنے والوں کی وی مثال ایسی ہی ہوتی ہے جیسے شاہی جلوس نکلتا ہے تو بعض لوگ گلیوں میں باہر نکل کر اسے دیکھتے ہیں اور بعض جلوس دیکھنے کے لیے چھتوں پر چڑھ جاتے ہیں.لیکن ایک وہ لوگ ہوتے ہیں جو شاہی دربار میں کرسیوں پر بیٹھے ہوئے ہوتے ہیں.کیا تم سمجھتے ہو کہ دونوں کو ایک جیسا ہی مزا آتا ہے؟ وہ شخص جو دربار میں کرسی پر بیٹھا ہوا ہوتا ہے اُس میں اور اُس شخص میں جو چوری چھپے جھانک رہا ہوتا ہے بڑا بھاری فرق ہوتا ہے.گلی میں نماز پڑھنے والا ایسا ہی دربار لگا ہوا ہو تو کوئی شخص گلی میں سے جھانک رہا ہو اور مسجد میں نماز پڑھنے والا ایسا ہے جیسے دربار میں کوئی شخص کرسی پر بیٹھا ہو.پس ہر احمدی کو یہ محسوس ہونا چاہیے کہ وہ خدا کے دربار میں حاضر ہوا تھا چوروں کی طرح جھانکنے نہیں آیا تھا.اگر تم ایسا کر لو تو میرا چالیس سالہ لمبا تجربہ ہے کہ اس کے بعد تمہیں مسجد بنانے کی بھی توفیق مل جائے گی.جب مسجد میں بنے لگتی ہیں تو معلوم نہیں لوگوں کے پاس روپیہ کہاں سے آ جاتا ہے.بہر حال روپیہ آتا ہے اور مسجد تیار ہو جاتی ہے.جب لاہور کی موجودہ مسجد بنے لگی تو میں اپنی کمزوری کا اقرار کروں گا کہ میں نے کئی دفعہ قریشی محمد حسین صاحب موجد مفرح عنبری لاہور والوں کو جنہوں نے یہ مسجد بنوائی تھی کہا کہ قریشی صاحب! جماعت پر آپ نے بوجھ ڈال دیا ہے.مگر وہ کہتے کہ جماعت پر کچھ بھی بوجھ نہیں.جب لوگ جمعہ کے لیے آتے ہیں تو میں اُن سے کہتا ہوں کہ آپ لوگ

Page 29

$1954 19 خطبات محمود اپنی ضروریات کے لیے اتنا روپیہ خرچ کرتے ہیں کچھ خدا کے لیے بھی خرچ کریں اور مسجد کے لیے دے دیں.اس پر وہ کچھ روپیہ دے دیتے ہیں اور چلے جاتے ہیں.اگلے ہفتے پھر میں اُن کو تحریک کر دیتا ہوں اور وہ کچھ اور روپیہ دے دیتے ہیں.اس طرح بغیر کسی بوجھ کے روپیہ اکٹھا ہو رہا ہے.بہر حال ہم اُس وقت یہ سمجھتے تھے کہ انہوں نے جماعت پر بوجھ ڈال دیا ہے مگر دواڑھائی سال میں انہوں نے مسجد مکمل کر لی اور اب یہ دن ہے کہ مجھے یہ کہنا پڑا ہے کہ یہ مسجد تمہارے لیے کافی نہیں.بہر حال مجھے تجربہ ہونے کے بعد یہ معلوم ہوا ہے کہ مسجد کے لیے کہیں نہ کہیں سے روپیہ ضرور آ جاتا ہے.جب مسجد بنے لگتی ہے تو اللہ تعالیٰ کسی شخص کے دل میں تحریک پیدا کر دیتا ہے اور وہ کہتا ہے کہ پانچ سو روپیہ مجھ سے لو اور ایک کمرہ بنا لو.دوسرے دن کسی اور کو جوش آ جاتا ہے اور وہ روپیہ پیش کر دیتا ہے.پس تعمیر کا فکر جانے دو، زمین لو اور اُس کا نام مسجد رکھ لو.اس کے بعد جب ہر شخص کے دل میں یہ احساس پیدا ہوگا یہ کتنی بڑی خوش قسمتی کی بات ہے کہ میں اللہ تعالیٰ کے دربار میں حاضر ہونے لگا ہوں تو وہ سجد کی تعمیر کے لیے بھی روپیہ دینا شروع کر دیں گے.مگر جیسا کہ میں نے دوستوں کو بتایا تھا یہ نئی مسجد بھی کسی وقت تمہارے لیے تنگ ہو جائے گی اس لیے تم جامع مسجد کسی کو بھی نہ کہو.کسی دن یہ نئی مسجد بھی گھر والی مسجد بن جائے گی.پھر اور مسجد بناؤ اور اُس کو بھی صرف مسجد کہو امع مسجد نہ کہو.تمہیں کیا معلوم کہ خدا تعالیٰ یہاں احمدیت کو کتنی بڑی ترقی دینا چاہتا ہے.فرض کرو تم دو یا چار کنال میں جامع مسجد بنا دو اور لاہور کے دس لاکھ آدمیوں میں سے دو لاکھ احمدی ہو جائیں تو وہ اس میں جمعہ کی نماز کہاں پڑھ سکتے ہیں.اُن کے لیے تو پچاس ایکٹر میں جامع مسجد بنانی پڑے گی.پس ابھی کوئی نام نہ رکھو صرف اپنی ضروریات کے لیے ایک نئی مسجد بنالو.پھر یہ بھی میں نے دیکھا ہے کہ جب مسجدیں بنتی ہیں تو اللہ تعالیٰ جماعت کو بھی غیر معمولی طور پر ترقی دینا شروع کر دیتا ہے.یہاں جماعت کی ترقی کی بڑی وجہ مسجد ہی ہے.اسی طرح کراچی کی جماعت کی ترقی کی بھی بڑی وجہ اُن کی مسجد ہے.انہوں نے ایک لاکھ روپیہ خرچ کر کے مسجد بنائی ( گو نام اُس کا ہال رکھا مگر اب وہ جگہ اُن کے لیے کافی نہیں

Page 30

$1954 20 خطبات محمود رہی.میں نے اُن سے کہا کہ نئی جگہ زمین لو اور اُس کے اردگرد صرف چار دیواری بنا کر ایک کی شیڈ (SHED) بنا لو.چنانچہ انہوں نے مارٹن روڈ پر زمین لی، اُس کی چار دیواری بنائی اور ایک شیڈ سا بنا لیا.وہ جگہ ہال سے بہت بڑی ہے.اب پچھلے دنوں وہاں کے دوست آئے تھے تو انہوں نے بتایا کہ وہ گورنمنٹ سے تین چار کنال زمین اور لینے کی کوشش کر رہے ہیں.یہی حال ربوہ کی مسجد کا ہے.جب ہم قادیان سے نکلے ہیں اُس وقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دعوی پر ستاون سال گزر چکے تھے اور ستاون سال کے بعد مسجد اقصٰی بھرنے لگی تھی اور کچھ لوگوں کو نماز کے وقت گلیوں میں کھڑا ہونا پڑتا تھا.لیکن ربوہ میں آئے ہوئے ابھی ہمیں تین چار سال ہی ہوئے ہیں اور یہاں کی محلہ کی مسجد مسجد اقصٰی سے زیادہ وسیع ہے.مگر اب بھی کئی دن ایسے آ جاتے ہیں کہ لوگ مسجد سے باہر نکل کر کھڑے ہونے پر مجبور ہوتے ہیں.جس طرح تمہارا گھر بن جائے تو تمہیں اُس کی آبادی کا فکر ہوتا ہے، جس طرح ایک نوجوان جب اپنا گھر بنا لیتا ہے تو اُس کے دل میں خیال آتا ہے کہ اُس کی شادی ہو، شادی ہو جائے تو اُسے خیال آتا ہے کہ اُس کے بچے ہوں اور اس طرح اُس کے گھر میں روافق ہو اس طرح جب تم خدا کا گھر بناتے ہو تو خدا کے دل میں بھی یہ خیال پیدا ہوتا ہے کہ وہ آباد ہو.چنانچہ وہ لوگوں کے دلوں میں تحریک کرتا ہے اور وہ سچائی کو قبول کرتے ہیں اور خدا تعالیٰ کے گھر کی طرف بھاگے چلے آتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو خدا تعالیٰ نے اس لیے فرمایا تھا کہ وَسِعُ مَكَانَكَ 3 اپنے مکانوں کو وسیع کرو.یعنی چونکہ میں نے تیری ترقی کا وعدہ کیا ہوا ہے اس لیے تیرا بھی فرض ہے کہ تو اپنے مکانوں کو وسیع کرے.پس چونکہ یہ الہی وعدہ ہے اس لیے لازماً جب ہم اپنے مکانوں کو وسیع کریں گے تو اللہ تعالیٰ اور ایسے آدمی لائے گا جن سے وہ مکان آباد ہوں گے.پھر وہ مکان وسیع کیے جائیں گے تو اللہ تعالیٰ اُن کی آبادی کے لیے اور آدمیوں کو لے آئے گا.بہر حال مساجد کی وسعت کے ساتھ ہماری جماعت کی ترقی وابستہ ہے.جب کوئی جماعت مسجد بناتی ہے تو اللہ تعالیٰ ایسے دیندار لوگ بھی پیدا کر دیتا ہے جو اس مسجد میں نماز کے لیے آتے اور اُسے آباد رکھتے ہیں.پس تم جلدی ایک نئی مسجد بناؤ اور اتنی بڑی بناؤ کہ تم اُس کو

Page 31

$1954 21 خطبات محمود بھر نہ سکو.بلکہ اُس کی جگہ خالی رہے تا کہ خدا کو خیال رہے کہ میں نے یہ جگہ بھرنی ہے.پھر جب وہ بھرنے لگے تو تم ایک اور مسجد بناؤ اور وہ اتنی بڑی ہو کہ اُس میں تمہاری اس وقت کی جماعت آدھی نظر آئے.اس پر پھر خدا تعالیٰ کو خیال پیدا ہو گا کہ جب یہ لوگ میرا اتنا بڑا گھر بنا رہے ہیں تو کیا میں ہی کمزور ہوں کہ میں اس گھر کو آباد نہ کروں.بہر حال ہمارے لیے یہ ایک بہترین ذریعہ ہے جس سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے ہم اپنی جماعت کو بھی ترقی دے سکتے ہیں اور پھر لوگوں کو دین کی طرف راغب کرنے ، انہیں خدا تعالیٰ کی طرف توجہ دلانے اور ان کے دلوں میں دین اور تقوی پیدا کرنے کی بھی صورت پیدا ہو گی.پس جلدی کرو اور مسجد کے لیے زمین خریدو.میں یہ نہیں کہتا کہ مسجد بناؤ کیونکہ میں سمجھتا ہوں کہ جب تم نے زمین خرید لی تو تمہارے دل میں آپ ہی خیال آئے گا کہ زمین تو آ گئی ہے.اب اس پر مکان بھی بنا لیں بلکہ میں تو سمجھتا ہوں کہ اس سے زیادہ لطیف کھیل اور کوئی نہیں.بچپن میں ہم ایک کھیل کھیلا کرتے تھے جس میں پہلے ایک کی جگہ پر قبضہ کر لیا جاتا تھا، پھر دوسرے کی جگہ پر.کھیل بھی اسی قسم کا ہے.ہم خدا کے گھر بناتے چلے جائیں اور خدا ہمارے گھروں کو آباد کرتا چلا جائے.ہم اُس کے گھر بڑھاتے جائیں اور کہیں کہ تیرا گھر ابھی بھرا نہیں، وہ خالی پڑا ہے اور خدا ہمارے گھروں کو بھرتا چلا جائے اور کہے کہ وہ گھر تو بھر چکے اب اور گھر بناؤ تا کہ میں ان کو بھی بھروں.جو روحانی لذت اس روحانی کھیل میں ہے وہ دنیا کے اور کسی کھیل میں نہیں اور جو روحانی سرور اس الہی دربار میں ہے وہ دنیا کے اور کسی دربار میں نہیں.اس کے بعد میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ چونکہ میرے گلے میں خرابی ہے اور تھکان بھی ہے اس لیے میرا ارادہ یہ ہے کہ میں ایک دن ٹھہر کر پرسوں صبح اتوار کو ربوہ جاؤں.پس آج بھی میں یہاں ٹھہروں گا اور کل بھی.پرسوں صبح ہم انشَاءَ اللہ واپس جائیں گئے.1 : الاعراف : 32 2 : السيرة الحلبية جلد اول صفحه 570.بیروت لبنان 2002ء : تذکرہ صفحہ 53.ایڈیشن چہارم لمصل اح 2 مارچ 1954 ء )

Page 32

$1954 22 4 خطبات محمود اچھی طرح ذہن نشین کر لو کہ تمہاری روحانی زندگی تبلیغ اسلام سے وابستہ ہے اور یہ کام قیامت تک جاری رہے گا (فرموده 22 جنوری 1954ء بمقام ربوہ ) تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: میں نے آج خطبہ تو ایک اور مضمون کے متعلق بیان کرنا تھا اور میں بعد میں اسے بیان بھی کروں گا لیکن آج مجھے ایک نواحمدی خاتون کا ایک رقعہ ملا ہے جس میں اُس نے عورتوں کے متعلق بعض شکایات لکھی ہیں.چونکہ وہ خاتون کو احمدی ہیں اور انہیں معلوم نہیں کہ ہمارے طریق اور دوسرے مسلمان فرقوں کے طریق میں فرق ہے.میں یہ نہیں کہتا کہ ہر جگہ کے احمدی اس طریق کو ملحوظ رکھتے ہیں لیکن مرکز میں رہنے والے اسے ضرور ملحوظ رکھتے ہیں اور کی وہ طریق یہ ہے کہ خطبات میں ایسے مضامین بیان کیے جاتے ہیں جن کی وقتی طور پر جماعت کو ضرورت ہوتی ہے اور جماعت کو اُن کی طرف توجہ دلانا ضروری ہوتا ہے.باقی لوگوں کے.ایسا کرنا ضروری نہیں.اُن کے خطبہ کے لیے ایسی کوئی شرط نہیں.وہ کوئی مضمون بیان کر دیں، انہیں کوئی مضمون مل جائے انہوں نے خطبہ میں بیان کر دینا ہوتا ہے کیونکہ انہوں نے کچھ نہ کچھ

Page 33

$1954 23 خطبات محمود پڑھ کر خطبہ کو پورا کرنا ہوتا ہے.گویا وہ کسی مقصد کے لیے خطبہ جمعہ نہیں پڑھتے بلکہ خطبہ کے لیے کوئی بات بیان کر دیتے ہیں.لیکن ہمارے ہاں خطبہ کسی خاص غرض اور مقصد کے لیے پڑھا جاتا ہے.اس لیے ہمارے طریق کے مطابق یہ بات نہایت مشکل ہے کہ کوئی شخص خواہش کرے کہ فلاں بات خطبہ میں بیان کی جائے اور اسے بیان کر دیا جائے.اس کے معنے تو یہ ہیں کہ کسی خاص مقصد اور اسکیم کے ماتحت خطبہ نہ پڑھا جائے بلکہ جو شخص جس بات کے متعلق رقعہ دے اُس پر خطبہ پڑھ دیا جائے.مگر چونکہ شکایت کرنے والی ایک تو احمدی خاتون ہیں اور پھر وہ دُور کے علاقہ کی رہنے والی ہیں اس لیے میں چاہتا ہوں کہ اُن کی خواہش کو پورا کر دوں.لیکن میں یہ بتا دینا چاہتا ہوں کہ اگر خطبات کے سلسلہ میں لوگوں کی ساری خواہشات کو سامنے رکھا جائے تو خطبہ کی غرض اور اس کا مقصد فوت ہو جاتا ہے.بہر حال اس نو احمدی خاتون نے یہ شکایت کی ہے کہ مسجد میں عورتوں کے لیے جو حصہ ہے اس میں بچے بھی آ جاتے ہیں جو خطبہ اور نماز کے وقت شور مچاتے ہیں اور بعض اوقات مسجد میں پیشاب کر دیتے ہیں.اس کے متعلق میں لجنہ اماء اللہ کو توجہ دلاتا ہوں کہ در حقیقت، اُس کا فرض ہے کہ وہ عورتوں کو ان کی ذمہ داریوں اور فرائض کی طرف اور اسی طرح صفائی کی طرف توجہ دلائے اور انہیں ایسی باتیں سمجھائے.لیکن پھر بھی ہم اتنا ہی کر سکتے ہیں کہ لجنہ اماء اللہ کو اُس کے فرائض کی طرف توجہ دلا دی جائے.مگر میں سمجھتا ہوں کہ اگر وہ پوری ہمت کے ساتھ ان باتوں میں لگ جائیں تو وہ ایسا کرنے میں کامیاب ہو جائیں گی.مگر میں ان کو احمدی خاتون سے بھی یہ کہہ دینا چاہتا ہوں کہ ہم میں اور دوسرے مسلمان فرقوں میں ایک فرق ہے.اور وہ فرق بھی انہیں سمجھ لینا چاہیے.باقی فرقوں میں عورتوں کے جمعہ کے لیے مسجد میں آنے کے متعلق اصرار نہیں کیا جاتا اس لیے جمعہ کے لیے مسجد میں عورتیں کم آتی ہیں.لیکن یہاں شریعت کے منشا کو پورا کرنے کے لیے ہم اس بات پر اصرار کرتے ہیں کہ عورتیں قومی کاموں میں حصہ لیں.اس لیے ہمارے اس اصرار کی وجہ سے کہ عورتیں ایسے مواقع پر ضرور آئیں بچے بھی اُن کے ساتھ مسجد میں آجاتے ہیں.دوسرے فرقوں میں چونکہ مسجد میں عورتوں کے آنے پر اصرار نہیں ہوتا اس لیے وہاں اول تو عورتیں آتی ہی بہت کم ہیں اور جو آتی ہیں و

Page 34

خطبات محمود 24 24 $1954 اکثر ایسی ہوتی ہیں جو بوڑھی ہوتی ہیں اور وہ بچوں سے فارغ ہوتی ہیں یا گھر کی دوسری عورتوں کے پاس بچے چھوڑ کر آ جاتی ہیں.لیکن یہاں ہمارے اصرار کی وجہ سے بچوں والی عورتیں بھی مسجد میں آجاتی ہیں کیونکہ یہ ضروری ہے کہ اگر بچہ گھر پر رہے تو یا عورت مسجد میں نہ آئے یا مرد مسجد میں نہ آئے اور یہ ہو نہیں سکتا.اگر گھر کے سارے بالغ افراد عورتیں اور مرد مسجد میں آ جائیں گے تو لازماً بچے بھی مسجد میں آئیں گے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں بھی ایسا ہوتا تھا.احادیث میں آتا ہے کہ آپ کے زمانہ میں مائیں اپنے بچے بھی ساتھ لے آتی تھیں اور جب بچے روتے تو آپ بعض دفعہ نماز جلدی پڑھا دیتے تھے.1 اور آپ فرماتے تھے کہ ایسے اوقات میں یعنی جب بچہ روئے تو ماؤں کو اُسے گود ہی میں اُٹھا لینا چاہیے.ایسا کرنے سے نماز نہیں ٹوٹتی.پس عورتوں کو ایسے مواقع پر اصرار کے ساتھ لانے کی کوشش یا تو رسول کریم صلی اللہ یہ وسلم کے زمانہ میں ہوا کرتی تھی اور یا اب ہمارے زمانہ میں کی جاتی ہے.درمیان میں مسلمانوں پر ایسا دور آیا ہے جب عورتوں کو ایسے مواقع پر حاضر کرنے میں کوتاہی کی جاتی رہی.اس عرصہ کے دوران میں یا تو بوڑھی عورتیں مساجد میں آ جاتی تھیں اور وہ بچوں سے فارغ ہوتی تھیں.اور یا ایسی عورتیں آ جاتی تھیں جو بچے دوسری عورتوں کے پاس چھوڑ آتی تھیں.انہیں مساجد میں آنے پر مجبور نہیں کیا جاتا تھا حالانکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بعض مواقع پر اس امر پر مجبور کیا ہے.مثلاً عید کے موقع پر آپ نے فرمایا کہ سارے مرد اور ہر قسم کی عورتیں اور بچے، جوان اور بوڑھے سب حاضر ہوں 2 اور ایسا کہہ کر مسلمانوں کو آپ نے ی اس امر کا احساس کرایا ہے کہ ایسے مواقع پر عورتوں کو بھی لانا چاہیے.پس جہاں لجنہ کا یہ فرض ہے کہ وہ عورتوں کی تربیت کرے اور سمجھائے.اور پھر ایسے طریق ایجاد کرے جن کے ذریعہ اس مشکل سے نجات حاصل کی جائے.کیونکہ اگر بچے شور مچائیں گے تو خطبہ کے فوائد سے محروم رہنا ہو گا.اور اگر بچے پیشاب کریں گے تو مسجد خراب ہو گی.وہاں دوسرے لوگوں کو بھی یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ جب شریعت کے منشا کو پورا کرنے کے لیے ہم عورتوں کو مسجد میں آنے کے متعلق تحریک کریں گے تو اُن کے ساتھ بچے بھی آئیں گے

Page 35

$1954 25 25 خطبات محمود اور جب بچے مسجد میں آئیں گے تو وہ شور بھی مچائیں گے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں عورتیں مساجد میں آتی تھیں اور اُن کے ساتھ بچے بھی آتے تھے.اور پھر احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ بچے بھی شور کرتے تھے جس کی وجہ سے آپ بعض دفعہ نماز جلد پڑھا یتے تھے.پس ساری جماعت کا فرض ہے کہ وہ اس کے متعلق غور کرے اور سوچے کہ وہ کونسے طریق ہیں.یورپ والوں نے بعض طریق ایجاد کیے ہوئے ہیں.اُن کے ہاں جمعہ کی قسم کی تقریبیں تو نہیں ہوتیں ہاں! جلسے ہوتے ہیں یا دفاتر ہوتے ہیں جہاں سینکڑوں مرد ، عورتیں کام کرتے ہیں.جلسہ گاہ کے قریب ایسے کمرے بنا لیے جاتے ہیں جہاں نرسیں ہوتی ہیں.عورتیں اپنے بچے وہاں چھوڑ آتی ہیں اور وہ نرسیں اُن کی نگرانی کرتی ہیں.لیکن ہماری عورت کے پاس تو بعض دفعہ کپڑے صاف کرنے کے لیے صابن بھی نہیں ہوتا وہ نرسوں پر خرچ کس طرح کر سکتی ہے.یہ تو مالداروں کے چونچلے ہیں ان کی مسلمانوں سے امید نہیں کی جاسکتی.وہاں روپیہ ہے اس لیے وہ اس طریق پر عمل کر لیتے ہیں.مسلمانوں کے پاس روپیہ نہیں اس لیے وہ اس طریق پر عمل نہیں کر سکتے.ایک شکایت اس کو احمدی خاتون نے یہ کی ہے کہ پچھلے جمعہ میں جب میں یہاں نہیں تھا تی میرے بعد جس خطیب نے خطبہ پڑھا وہ تھتھلاتے تھے تو اس پر عورتیں ہنس پڑتی تھیں.یہ بات نہایت افسوسناک ہے.طبعی نقص پر ہنسنا اور مذاق اُڑانا، سخت کمینہ اور گندہ فعل ہے.لجنہ اماء اللہ کو اس طرف توجہ کرنی چاہیے.خطیب اول تو ادب اور احترام کے مقام پر ہوتا ہے.اس لیے اُس کی باتیں عزت اور احترام کے ساتھ سنی چاہیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس سلسلہ میں بہت احتیاط فرماتے تھے.حضرت بلال حبشی تھے.آپ ”ش“ اور بعض دوسرے حروف ادا نہیں کر سکتے تھے.آپ اذان پر مقرر تھے.اس لیے ان حروف کو ادا نہ کر سکنے کی وجہ.اذان میں غلطی کر جاتے تھے.صحابہ اس پر ہنس پڑتے تھے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم.صحابہ کوایسا کرتے دیکھا تو فرمایا میں دیکھتا ہوں کہ تم بلال کے ”ش“ کو ”س“ کہنے پر ہنس پڑتے ہو اور اسے حقارت سے دیکھتے ہو.حالانکہ خدا تعالیٰ عرش پر اس کی تعریف کر رہا ہوتا 66 ہے.اس طرح تم خطیب کے تھتھلانے کو اُس کی کمزوری خیال کرتے ہو

Page 36

$1954 26 26 خطبات محمود لیکن رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان باتوں کو قابلِ ہنسی نہیں سمجھا بلکہ آپ نے تنبیہہ کی ہے کہ ایسا نہیں کرنا چاہیے.عورتوں کی منظمات کو چاہیے کہ ان کی اصلاح کریں.خطیب تو ہمارا اپنا ہوتا ہے.ہم اگر اُس کے کسی طبعی نقص پر نہیں گے تو دوسرے لوگ تو نعرے لگائیں گے.اگر کوئی قوم اپنے لیڈروں کا احترام نہیں کرتی تو دوسرے تو جو چاہیں اُن سے سلوک کریں گے.اب میں اصل مضمون کی طرف آتا ہوں جو میں نے خطبہ میں بیان کرنا تھا.وہ مضمون میں تحریک جدید کے متعلق بیان کرنا چاہتا ہوں.میں نے جلسہ سالانہ کے موقع پر بھی جماعت کو بتایا تھا کہ تحریک کے دونوں دوروں کے جو وعدے آ رہے ہیں وہ گزشتہ سالوں کی کی نسبت سے بہت کم ہیں.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اس عرصہ میں کچھ کمی پوری کی گئی ہے.یعنی جب میں نے جلسہ سالانہ کے موقع پر جماعت کو اس طرف توجہ دلائی تھی اُس وقت اس سال کے وعدوں اور گزشتہ سال کے وعدوں میں 33 ، 34 فیصدی کا فرق تھا یعنی سو کی بجائے کی چھیاسٹھ کے وعدے آئے تھے لیکن اب فرق کم ہو گیا ہے.اب چھیاسٹھ کی بجائے قریباً اسی فیصدی وعدوں کی گزشتہ سال سے نسبت ہے.لیکن اب وعدوں کی تاریخ ختم ہو رہی ہے.15 فروری آخری تاریخ ہے جس تک وعدے مرکز میں پہنچ جانے ضروری ہیں.تین چار دن ڈاک پر لگ جائیں گے.گویا وعدے زیادہ سے زیادہ 20 فروری تک وصول ہوں گے.اور اس میں جتنے دن باقی رہ گئے ہیں وہ اتنے تھوڑے ہیں کہ ان میں اس کسر کا پورا ہونا بہت مشکل نظر آتا ہے.جلسہ سالانہ کے موقع پر میں نے جماعت کو بتایا تھا کہ ہمارے اہم ترین کاموں میں سے غیر ملکوں میں تبلیغ اسلام کرنا ہے.کیونکہ اسلام کی کمزوری اور ضعف کا موجب غیر مذاہب کا رویہ ہے.اگر ہم اسلام کی صحیح تعلیم لوگوں کے سامنے پیش کریں اور اگر ہم ان میں سے کچھ حصہ کو مسلمان بنا دیں تو لازمی طور پر اُن کی دشمنی اور عداوت کمزور پڑ جائے گی اور آہستہ آہستہ ہو سکتا ہے کہ وہ سارے ہی ہمارے بھائی بن جائیں.مثلاً جب ملک تقسیم نہیں ہوا تھا ہم ہندوؤں میں تبلیغ کرتے تھے تو پیچھے پیچھے مولوی آ جاتے تھے اور وہ کہتے تھے کہ آریہ بننا احمدی ہونے سے بہتر ہے.اور زیادہ تر قریب رہنے والے چونکہ وہی لوگ ہوتے تھے اس لیے ہمیں

Page 37

$1954 27 خطبات محمود تبلیغ کرنے میں مشکل پیش آتی تھی کیونکہ لوگ یہ سمجھتے تھے کہ یہی اسلام ہے جو مولوی لوگ کر رہے ہیں احمدی تو تعداد میں بہت تھوڑے ہیں.لیکن دوسرے ممالک میں چلے جاؤ تو وہاں اگر ہمارا مبلغ ہے تو وہ جو صحیح اسلام پیش کرتا ہے لوگ بھی اس کو صحیح اسلام سمجھتے ہیں.صرف چند اورئنٹیسٹ (ORIENTALIST) اور مستشرقین کہتے ہیں کہ دوسرے مسلمان اور کہتے ہیں لیکن ان کے اتباع بہت کم ہوتے ہیں.اس لیے اُن کی بات کو صرف چند افراد وقعت دیتے ہیں عوام نہیں.پس وہاں ہمارا نمائندہ جو کچھ کہتا ہے لوگ اُسے قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں.اور اگر وہ باتیں انہیں معقول نظر آتی ہیں تو وہ مان لیتے ہیں.اور وہی ممالک ہیں جہاں تبلیغ اسلام مفید ہو سکتی ہے.کیونکہ ان ممالک میں ہمارے پیچھے مولوی نہیں ہوتے جو یہ کہیں کہ یہ صحیح اسلام نہیں.بہر حال دوسرے ممالک میں ہمیں یہ سہولت میسر ہوتی ہے اور معقول طور پر قرآن کا پیش کردہ اسلام لوگوں تک پہنچانا آسان ہوتا ہے.پس ایک ہی طریق جو تبلیغ اور خدمتِ اسلام کا ہمارے پاس ہے.اگر اس کی طرف توجہ نہ کی جائے تو اس سے بڑی بدقسمتی اور کیا ہو گی.لیکن باوجود اس کے کہ یہی ایک طریق خدمت اسلام کا ہے محض اس لیے کہ میرے منہ سے 19 کا لفظ نکل گیا تھا تحریک جدید کے وعدوں میں کمی واقع ہو گئی ہے.گویا 19 کا لفظ کیا نکلا قیامت آ گئی.اب اور کسی چیز کی ضرورت ہی نہیں رہی.غرض یہ لفظ لوگوں کے اندر کمزوری پیدا کر رہا ہے.میں بتا چکا ہوں کہ در حقیقت 19 کا لفظ کوئی معنے نہیں رکھتا.یہ لفظ مصلحت کے ماتحت خدا تعالیٰ نے میرے منہ سے نکلوایا تھا ورنہ خدمت دین اور تبلیغ اسلام کا کام وہ ہے جو قیامت تک چلے گا اور قرآن کریم سے بھی اس کا پتا لگتا ہے.خدا تعالیٰ کہتا ہے کہ مسیح علیہ السلام کے منکر قیامت تک رہیں گے.3 اب صاف ظاہر ہے کہ ایک مسلمان تو مسیح علیہ السلام کا منکر نہیں ہو سکتا.غیر مسلم کی ہی اُن کے منکر ہو سکتے ہیں.پس دوسرے لفظوں میں اس کے یہ معنے ہیں کہ غیر مسلم قیامہ تک رہیں گے.اور اگر یہ بات صحیح ہے کہ غیر مسلم قیامت تک رہیں گے تو یہ بات بھی ماننی پڑے گی کہ تبلیغ اور خدمتِ اسلام بھی قیامت تک رہے گی اور درمیان میں کوئی شخص اسے ختم نہیں کر سکتا.

Page 38

خطبات محمود 28 $1954 ایک دفعہ قادیان میں میں نے جمعہ کی نماز پڑھائی تو بعد میں کسی شخص نے کہا کہ ایک نی پیر صاحب آئے ہوئے ہیں.وہ آپ سے کوئی بات دریافت کرنا چاہتے ہیں.میں نے کہا اچھا! پیر صاحب کو لے آئیں.چنانچہ میں مسجد میں ہی بیٹھ گیا اور وہ پیر صاحب آگئے.انہوں نے سوال کیا کہ آپ مجھے یہ بتائیں کہ اگر کوئی شخص کشتی میں سوار ہو اور دریا کے دوسرے کنارے پر جانا چاہتا ہو تو جب کشتی کنارہ پر لگ جائے تو وہ کشتی میں ہی بیٹھا رہے یا دوسرے کنارہ پر پہنچ کر کشتی سے اُتر جائے؟ میرے دل میں اللہ تعالیٰ نے معا یہ بات ڈال دی کہ یہ پیر اباحتی فقیروں میں سے ہے جو یہ کہتے ہیں کہ نماز خدا تعالیٰ سے ملنے کے لیے ہوتی ہے.جب کسی کو خدا تعالیٰ مل جائے تو وہ نماز کیوں پڑھے؟ اس کا ایک جواب تو یہ ہوسکتا تھا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی وفات تک نماز پڑھتے رہے ہیں اس لیے ہم بھی اپنی وفات تک نماز پڑھتے رہیں گے.لیکن میں نے جو جواب دیا وہ یہ تھا کہ پیر صاحب! یہ بات تو دریا کی چوڑائی پر منحصر ہے.اگر دریا محدود ہے تو جب کنارہ آ جائے گا اُس شخص کا کشتی میں بیٹھے رہنا بیوقوفی کی بات ہو گی.لیکن اگر وہ دریا غیر محدود ہے تو اگر ہم سمجھیں گے کہ دریا کا کنارہ آ گیا تو یہ بیوقوفی ہو گی.پس جہاں ہم اُترے وہیں ڈوبے.اب آپ بتائیے کہ آپ محدود دریا کے متعلق پوچھ رہے ہیں یا غیر محدود دریا کے متعلق پوچھ رہے ہیں؟ اب یہاں سوال تو خدا تعالیٰ کا تھا جو غیر محدود ہے اُسے وہ محدود کیسے کہتا.اس لیے وہ کہنے لگا بات ٹھیک ہے.میں سمجھ گیا ہوں کہ جب دریا غیر محدود ہو تو جہاں ہم کشتی سے اُتریں گے وہیں ڈوبیں گے.وہی بات میں اب کہتا ہوں کہ تبلیغ اسلام کا کام قیامت تک ہے جس نے یہ کام چھوڑا مرا.کھانا چھوڑ دینے سے جسمانی موت واقع ہو جاتی ہے اور تبلیغ اسلام کا فریضہ ترک کر دینے سے روحانی موت آ جاتی ہے.قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں نے کی مومنوں کے ساتھ سودا کیا ہے کہ اُن کی جانیں اور مال میں نے اُن سے لے لیے ہیں اور اس کے بدلہ میں میں نے انہیں جنت دے دی ہے.4 پس اللہ تعالیٰ بھی سودے کرتا ہے.اگر ہم اسے زندگی نہیں دیتے تو وہ ہمیں زندگی کیوں دے.خدا تعالیٰ کی زندگی کے معنے یہ ہیں کہ اُس کے دین کی تعلیم زندہ رہے.اگر ہم اسلام کی زندگی کو قائم رکھ کر خدا تعالیٰ کو زندگی نہیں د.

Page 39

$1954 29 29 خطبات محمود تو خدا تعالیٰ بھی ہمیں زندگی نہیں دے گا.لیکن اگر ہم اس کو زندہ رکھتے ہیں تو خدا تعالیٰ قیامت کے دن ہمیں کہے گا کہ تم نے مجھے زندگی دینے کی کوشش کی اس لیے اب میں بھی تمہیں زندگی دوں گا.یہ مت سمجھو کہ خدا تعالیٰ کے لیے زندگی کا لفظ کیوں استعمال کیا گیا ہے.وہ تو تی وقیوم ہے.اُس کے لیے زندگی کا لفظ استعمال نہیں کیا جا سکتا.کیونکہ احادیث میں آتا ہے کہ قیامت کے دن جب بعض لوگ خدا تعالیٰ کے سامنے پیش ہوں گے تو وہ کہے گا تم جنت میں داخل ہو جاؤ کیونکہ میں بھوکا تھا تم نے مجھے کھانا کھلایا، میں پیاسا تھا تم نے مجھے پانی پلایا، میں نگا تھا تم نے مجھے کپڑے پہنائے.وہ لوگ کہیں گے یہ کیسے ہو سکتا ہے؟ تو تو رب العالمین ہے اور ہم تیرے بندے ہیں.تیری شان تو بہت ارفع ہے تو کیسے بھوکا رہ سکتا ہے کہ ہم تجھے کھانا کھلائیں، تو کیسے پیاسا رہ سکتا ہے کہ ہم تجھے پانی پلائیں، تو کیسے ننگا رہ سکتا نی ہے کہ ہم تجھے کپڑے پہنا ئیں.اللہ تعالیٰ کہے گا نہیں! نہیں ! تم نے ایسا کیا ہے.میرا ایک ادنیٰ سے ادنی بندہ جب تمہارے پاس آیا اور وہ بھوکا تھا اور تم نے اسے کھانا کھلایا تو میں ہی بھوکا تھا جس کو تم نے کھانا کھلایا اور جب میرا ایک ادنیٰ سے ادنی بندہ تمہارے پاس آیا اور وہ پیاسا تھا اور تم نے اسے پانی پلایا تو میں ہی پیاسا تھا جس کو تم نے پانی پلایا.اور جب میرا ایک کی ادنیٰ سے ادنی بندہ تمہارے پاس آیا اور وہ نگا تھا اور تم نے اسے کپڑے پہنائے تو میں ہی ننگا تھا جسے تم نے کپڑے پہنائے.اور اگر میرا ایک ادنیٰ سے ادنی بندہ بیمار ہوا اور تم نے اس کی عیادت کی تو تم نے میری ہی عیادت کی 5 پس چونکہ میں بھوکا تھا تم نے مجھے کھانا کھلایا، میں پیاسا تھا تم نے مجھے پانی پلایا، میں ننگا تھا تم نے مجھے کپڑا پہنایا، میں بیمار تھا تم نے میری کی عیادت کی.اس لیے آج میں بھی تم کو ایسے گھر میں جگہ دوں گا جہاں تمہیں ہر قسم کا رزق کی اور آرام ملے گا.اور اگر خدا تعالیٰ کے کسی کمزور سے کمزور بندے کو رزق دینا خدا تعالیٰ کو رزق دینا ہے، اگر اس کے کمزور سے کمزور بندے کو پانی پلانا خدا تعالیٰ کو پانی پلانا ہے، اگر اس کے کی کمزور سے کمزور بندے کو کپڑے پہنانا خدا تعالیٰ کو کپڑے پہنانا ہے تو دین تو اُس کی ساری صفات کا جامع ہے.دین اسلام کیا ہے؟ دین اسلام، خدا تعالیٰ کی ربوبیت، رحمانیت، رحیمیت اور مالکیت

Page 40

$1954 50 30 خطبات محمود کی صفات کو بیان کرنے والا ہے.جو شخص اس دین کی اشاعت کے لیے کوشش نہیں کرتا وہ خدا تعالیٰ کو دنیا میں زندہ کرنے کی کوشش نہیں کرتا.گویا خدا تعالیٰ کا وجود اسلام کے ذریعہ آتا ہے.جو شخص اسلام کو زندہ کرتا ہے وہ دنیا کے لحاظ سے خدا تعالیٰ کو زندہ کرتا ہے اور جو شخص اسلام کو زندہ نہیں کرتا وہ دنیا کے لحاظ سے خدا تعالیٰ کو مارتا ہے.خدا تعالیٰ تو ہر وقت عرش ہے موجود ہے اور وہ ہمیشہ زندہ رہے گا لیکن جہاں تک ہمارا تعلق ہے وہ زندہ بھی ہوتا ہے اور مرتا بھی ہے.جب لوگوں کی توجہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ہٹ جائے اور اُس کی طرف اُن کا دھیان نہ رہے تو اُن کے لیے خدا تعالیٰ مرا ہوا ہو گا.اور جب لوگوں کی توجہ خدا تعالیٰ کی طرف ہو تو اُن کے لیے خدا تعالیٰ زندہ ہو گا.غرض اسلام کی اشاعت میں ہی خدا تعالی کی زندگی ہے اور اس کی اشاعت کو ترک کرنا گویا خدا تعالیٰ کی موت ہے.پس جو شخص اسلام کی اشاعت میں حصہ لیتا ہے وہ خدا تعالیٰ کو زندہ کرتا ہے اور جو شخص اسلام کی اشاعت میں حصہ نہیں لیتا خدا تعالیٰ کی زندگی سے لا پروا ہے.اس کا یہ امید رکھنا کہ خدا تعالیٰ اسے زندہ رکھے گا بیوقوفی کی بات ہے.آخر یہ ایک سودا ہے جو تم نے خدا تعالیٰ سے کیا ہے.اگر تم اپنا حصہ پورا ادا نہیں کرتے تو خدا تعالیٰ اپنا حصہ کیوں پورا کرے؟ میں نے تم پر واضح کر دیا تھا کہ تبلیغ اسلام ہمیشہ کے لیے ہے.اس لیے اگر میرے منہ سے 19 کا لفظ نکل گیا تو کیا تم یہ کہو گے کہ اب تبلیغ اسلام نہیں کی جائے گی؟ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مدینہ میں تشریف لائے تو آپ نے بھی اسی قسم کی ایک بات کہی.مدینہ آنے سے قبل رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذہن میں یہ بات نہیں تھی کہ مکہ کے لوگ مدینہ پر حملہ کریں گے اور اُن کی مسلمانوں سے لڑائیاں ہوں گی.اس لیے جب انصار مدینہ نے آپ کے سامنے یہ بات پیش کی کہ آپ مدینہ تشریف لے چلیں اور آپ نے وہاں جانا منظور کر لیا تو آپ نے فرمایا میں جب مدینہ آ جاؤں گا تو تمہارا کام ہو گا کہ اگر مدینہ پر حملہ ہو تو تم دشمن کا مقابلہ کرو اور اگر لڑائی مدینہ سے باہر ہو تو دشمن کا مقابلہ کرنے کی ذمہ داری تم پر عائد نہیں ہو گی.اب یہ ایک احتمالی بات تھی یقینی نہیں تھی اور چونکہ یہ ایک دُور کا خیال تھا اس لیے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے باہر کا خیال نہیں کیا اور مدینہ والوں نے

Page 41

$1954 31 خطبات محمود.بھی کہہ دیا کہ ہاں ! مدینہ پر حملہ ہونے کی صورت میں ہم دشمن کا مقابلہ کریں گے لیکن باہر نہیں.ہجرت کے بعد ایسے حالات پیدا ہو گئے کہ اسلام کو بچانے کی خاطر مسلمانوں کو مدینہ سے باہر جا کر بھی لڑنا پڑا.چنانچہ جنگ بدر ہی مدینہ سے باہر کئی منزلوں پر جا کر لڑی گئی.جب آپ جنگ کے لیے باہر نکلے تو پہلے یہ خیال تھا کہ ایک قافلہ سے مقابلہ ہو گا.مگر بعد میں معلوم ہوا کہ لڑائی مکہ سے آنے والے ایک با قاعدہ لشکر سے ہو گی.اس پر آپ نے خیال فرمایا کہ مدینہ والوں سے تو یہ معاہدہ تھا کہ انہیں مدینہ کے اندر رہ کر دشمن کا مقابلہ کرنا ہوگا مدینہ سے باہر لڑائی کی صورت میں مقابلہ کرنے کی ذمہ داری ان پر عائد نہیں ہو گی.جب آپ گڑائی کے لیے باہر نکلے تو آپ کے ساتھ مہاجرین بھی تھے اور انصار بھی.آپ نے صحابہ کو جمع کیا اور فرمایا تم مجھے مشورہ دو کہ دشمن سے لڑائی کی جائے یا نہیں؟ آپ کا منشا تھا کہ آپ کے سوال کے جواب میں انصار بولیں گے کہ معاہدہ کے وقت ہم سے یہ شرط کی گئی تھی کہ مدینہ پر حملہ ہونے کی صورت میں ہم مدینہ کے اندر رہ کر دشمن کا مقابلہ کریں گے مدینہ سے باہر لڑائی کی صورت میں ہم اس کا مقابلہ کرنے کے پابند نہیں ہوں گے.اب آپ بغیر بتائے ہمیں یہاں لے آئے ہیں یہ بات اس معاہدہ کے خلاف ہے.بہر حال آپ نے جب مشورہ پر زور دیا تو مہاجرین نے مشورہ دیا کہ اگر دشمن حملہ کرتا ہے تو ہمارے لیے اس کا مقابلہ کرنے کے سوا اور کیا چارہ ہے؟ انصار خاموش بیٹھے رہے.محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مہاجرین کے بار بار کی ار کھڑا ہونے اور مشورہ دینے کے بعد فرماتے اے لوگو! مجھے مشورہ دو کہ اب کیا کیا جائے؟ اُس وقت ایک انصاری رئیس کھڑے ہوئے اور انہوں نے عرض کیا یا رَسُولَ اللہ ! لوگ آپ کو مشورہ تو دے رہے ہیں لیکن پھر بھی آپ یہی فرما رہے ہیں اے لوگو! مجھے مشورہ دو، اے لوگو! مجھے مشورہ دو.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ شاید آپ کی غرض یہ ہے کہ ہم بھی بولیں.يَا رَسُولَ الله! ہم اب تک اس لیے نہیں بولے کہ حملہ آور، مہاجرین کے بھائی بند ہیں.اُن میں کوئی تو مہاجرین کا بھائی ہے، کوئی چچا ہے اور کوئی بھتیجا ہے.ہمارا اُن سے لڑائی کا مشورہ دینا اخلاق کے خلاف تھا.کیونکہ اگر ہم یہ مشورہ دیتے کہ ہم حملہ آوروں سے لڑیں گے تو مہاجرین کہتے یہ لوگ ہمارے بھائی بندوں کے قتل کے شوقین ہیں.اس لیے ہم نے مناسب

Page 42

$1954 32 خطبات محمود سمجھا کہ مہاجرین بول لیں کیونکہ وہ لوگ ان کے اپنے بھائی بند ہیں.لیکن يَا رَسُولَ اللہ آپ کے بار بار مشورہ پر زور دینے سے معلوم ہوتا ہے کہ انصار بھی بولیں.اور شاید حضور کا مشورہ طلب کرنے سے اُس معاہدہ کی طرف اشارہ ہے جو ہجرت سے قبل آپ کے اور انصار کے درمیان ہوا.آپ نے فرمایا یہ درست ہے.وہی معاہدہ میرے مدنظر تھا.اس پر انصاری ނ رئیس نے کہا يَا رَسُولَ اللہ ! جب ہم نے وہ شرط کی تھی کہ ہم مدینہ کے اندر رہ کر دشمن - مقابلہ کریں گے مدینہ سے باہر لڑائی کی صورت میں ہم آپ کی مدد کے ذمہ دار نہیں ہوں گے اُس وقت ہمیں پتا نہیں تھا کہ آپ ہیں کیا.آپ کی شان ہم پر واضح نہیں تھی.صرف بعض صداقتیں دیکھ کر ہم آپ پر ایمان لے آئے.آپ نے ہجرت فرمائی تو مدینہ میں ہم آپ کی مجلسوں میں بیٹھے اور ہمیں پتا لگا کہ آپ کی شان کیا ہے.اب وہ معاہدہ کوئی حیثیت نہیں رکھتا.اب آپ کی شان ہمیں معلوم ہو چکی ہے.اب يَارَسُولَ اللہ ! ہم آپ کے دائیں بھی لڑیں گے اور بائیں بھی لڑیں گے، آگے بھی لڑیں گے اور پیچھے بھی لڑیں گے اور دشمن ہماری کی لاشوں کو روندتا ہوا آپ تک پہنچے تو پہنچے اس سے پہلے نہیں پہنچ سکتا.پھر اُس انصاری رئیس نے کی کہا يَا رَسُولَ اللہ ! سامنے ( دوتین منزل پر) سمندر ہے.لڑائی تو الگ رہی آپ ہمیں حکم دیں ہے کہ تم سب اس سمندر میں گود جاؤ تو ہم بلا سوچے سمجھے اس میں اپنی سواریاں ڈال دیں گے.تو دیکھو! وہ بھی ایک معاہدہ تھا جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انصار سے ہجرت سے قبل کیا تھا.میں نے تو تم سے کوئی معاہدہ نہیں کیا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے انصار نے یہ معاہدہ کیا تھا کہ وہ مدینہ سے باہر جا کر دشمن کا مقابلہ نہیں کریں گے.خدا تعالیٰ نے سمجھا کہ اگر ابھی سے انہیں کہہ دیا گیا کہ تمہیں دشمن کا مقابلہ کرنا ہو گا تو یہ لوگ ڈر نہ جائیں.جب ان پر حقیقت کھل جائے گی تو یہ لوگ خود لڑیں گے.اسی طرح جب میں نے تحریک جدید کافی اعلان کیا تھا تو وہ تمہاری کمزوری کا وقت تھا.اگر اُس وقت میں یہ کہہ دیتا کہ یہ تحریک قیام تک کے لیے ہے تو شاید اکثر ہمت سے کام نہ لیتے اور اس میں حصہ لینے سے محروم رہتے.اس لیے خدا تعالیٰ نے میری زبان سے پہلے تین اور دس اور پھر انہیں کا لفظ نکلوا دیا.اصل مسودہ میں اس جگہ دو الفاظ پڑھے نہیں جاسکے.

Page 43

$1954 33 خطبات محمود خدا تعالیٰ جانتا تھا کہ جب یہ لوگ انیس سال تک پہنچ جائیں گے تو وہ اس میں اس طرح پھنس جائیں گے کہ ان کا اس سے نکلنا مشکل ہو گا.اس وقت سارے اہم ممالک میں ہمارے مشن ہیں اور ان میں ہماری تبلیغ ہو رہی ہے.اب اگر تحریک جدید کے کمزور ہونے کی وجہ سے ہمیں کسی مشن کو بند کرنا پڑا تو تمہاری ناک کٹ جائے گی.اب ناک کٹوانے سے محفوظ رہنے کے لیے تمہیں ساتھ ساتھ چلنا پڑے گا.تم اپنے آپ کو تبلیغ میں اس طرح پھنسا بیٹھے ہو کہ اب سوائے بے شرمی اور بے حیائی کے کوئی چیز نہیں جو تمہیں اس کام سے ہٹا سکے.تبلیغ اسلام کے متعلق جو ذمہ داری تم پر عائد ہوتی ہے تم اُس فرض کو جانے دو تم اپنے ناک کی حفاظت کرو.اگر تم تحریک جدید سے ہٹ گئے تو تمہاری ناک کٹ جائے گی.اللہ تعالیٰ نے تمہارے ساتھ یہ طریق صرف اس لیے اختیار کیا تھا کہ تم کمزوری کا شکار نہ ہو جاؤ اور تمہیں مضبوط ہونے اور بہادری دکھانے کا موقع مل جائے.تم دس اور انہیں کے پھیر میں نہ پڑو یہ کام قیامت تک کے لیے ہے یا یوں سمجھ لو کہ یہ کام اُس وقت تک کے لیے ہے جب تک تم زندہ رہو.جب تم مر جاؤ گے تو یہ کام تمہارے لیے بند ہو گا اور جب یہ کام بند ہو گا تو تم مر جاؤ گے.اگر تبلیغ اسلام ختم ہو گی تو تمہاری روحانی زندگی ختم ہو جائے گی اور اگر تم روحانی طور پر زندہ رہو گے تو تبلیغ اسلام بھی ختم نہیں ہو گی.پس اپنی ذمہ داریوں کو سمجھتے ہوئے اور یہ دیکھتے ہوئے کہ تم نے بھی خدا تعالیٰ سے کچھ امیدیں لگا رکھی ہیں تم تحریک جدید میں بڑھ چڑھ کر حصہ لو.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک دفعہ حضرت عائشہؓ نے پوچھا کہ يَا رَسُولَ اللہ آپ تو اپنے اعمال کے زور سے جنت میں چلے جائیں گے.آپ نے فرمایا نہیں عائشہ ! میں بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہی جنت میں جاؤں گا.6 اگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جیسا وجود بھی یہ کہتا ہے کہ میں خدا تعالیٰ کے فضل سے ہی جنت میں جاؤں گا تو تم کیا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑے ہو کہ تم اپنے اعمال کے زور سے جنت میں چلے جاؤ گے؟ آخر وہ کیا چیز ہے جو تم خدا کے سامنے پیش کرو گے؟ اگر تم نماز پڑھتے ہو تو تم اپنے فائدہ کے لیے پڑھتے ہو.اگر تم روزے رکھتے ہو تو تم اپنے فائدہ کے لیے رکھتے ہو.اگر تم حج کرتے ہو تو تم اپنے فائدہ کے لیے کرتے ہو.اگر تم زکوۃ دیتے ؟

Page 44

$1954 34 خطبات محمود تو تم اپنے بھائی بندوں کے فائدہ کے لیے دیتے ہو.صرف ایک چیز ہے جس کو تم خدا تعالیٰ کے سامنے پیش کر سکتے ہو اور کہہ سکتے ہو کہ اے خدا! ہم نے تیری خاطر یہ کام کیا.ہم پاکستان میں رہتے تھے، تہبند باندھتے تھے، پھٹی ہوئی پگڑیاں پہنتے تھے، کھانے کو پیٹ بھر کر بھی نہیں ملتا تھا مگر باوجود ان سب تکلیفوں کے ہم نے محض تیرے نام کو بلند کرنے کے لیے چندے دیئے.یہی وہ چیز ہے جس کو قیامت کے دن اپنی نجات کی خاطر تم خدا تعالیٰ کے سامنے پیش کر سکتے ہو.اور خدا تعالیٰ جو عدل و انصاف کا منبع ہے تمہیں یہی کہہ سکتا ہے کہ تم نے تکلیفیں اُٹھا کر میرے نام کو بلند کیا تھا.اب میں اس جہاں میں تمہارے کام کو بلند کروں گا.پھر یہی وہ چیز ہے جسے تم رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پیش کر سکتے ہو اور کہہ سکتے ہو کہ يَا رَسُولَ اللہ ! ہم نے آپ کے لائے ہوئے دین کی تبلیغ کی ہے.اس لیے آپ خدا تعالیٰ کے پاس ہماری شفاعت کریں.پس اللہ تعالیٰ کے فضل اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت کو کھینچنے کے لیے تبلیغ اسلام کے سوا اور کوئی چیز نہیں.اور دنیا میں سب سے مقدم ہے یہی عمل اللہ تعالیٰ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کر کے فرماتا ہے.وَجَاهِدُهُمْ بِهِ جِهَادًا كَبِير ا ح که تو قرآن کریم کو لے کر جہاد کبیر کر.پس سب سے بڑا عمل یہی ہے کہ تم قرآن کریم کے ساتھ جہاد کبیر کرو.اگر تم سمجھتے ہو کہ تم نماز اور روزہ سے جنت لے لو گے تو تمہاری مرضی.لیکن اگر تم سمجھتے ہو کہ جنت کو حاصل کرنے کے لیے خدا تعالیٰ کے فضل کی ضرورت ہے تو اُس کا فضل اسی صورت میں حاصل ہو سکتا ہے کہ تم تحریک جدید میں حصہ لو.تکالیف اور مشکلات آتی ہیں تو آنے دو لیکن تبلیغ کو نہ چھوڑو.تا کہ نجات تمہارا دامن نہ چھوڑے اور تا تم رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے دعوی سے کہہ سکو کہ ہم آپ کی شفاعت کے مستحق ہیں.ہم نے آپ کے لائے ہوئے دین کو جہنم سے نکالا ہے یا آپ ہمیں جہنم سے نہیں نکالیں گے یا تم خدا تعالیٰ سے یہ کہہ سکو کہ ہم نے تیرے نام کو دنیا میں روشن کرنے کے لیے فاقے بھی برداشت کیسے ہیں لیکن تجھے فاقے برداشت کرنے کی ضرورت نہیں.ہم نے تکالیف برداشت کر کے تیرے دین کو زندہ کیا ہے اب ہمیں زندگی دینے کے لیے تجھے تکالیف برداشت کرنے کی ضرورت نہیں.پھر کیا تو فاقے

Page 45

$1954 35 خطبات محمود برداشت کیے بغیر اور تکالیف اُٹھائے بغیر بھی ہمیں زندگی نہیں بخشے گا؟ پس یہ دو دلیلیں ہیں جن کے ساتھ تم خدا تعالیٰ کے فضل اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت کو حاصل کر سکتے ہو ہو.ان کے علاوہ اور کوئی چیز نہیں جس کے ذریعہ تم خدا تعالیٰ کے فضل کو حاصل کر سکو بہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت کی امید رکھ سکو.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اگر تمہاری سفارش کریں گے تو اُن کے پاس کوئی نہ کوئی دلیل تو ہونی چاہیے جو وہ خدا تعالیٰ کے سامنے پیش کر سکیں.آپ یہ تو نہیں کہیں گے کہ میں پارٹی کا پہنچ ہوں اس لیے ان لوگوں کی شفاعت کرتا ہوں.آپ کو خدا تعالیٰ کے سامنے کوئی نہ کوئی چیز پیش کرنی ہوگی کہ جس کی بناء پر میں ان کو اپنی پارٹی میں شامل کرنا چاہتا ہوں.اور خدمتِ اسلام کے سوا مجھے کوئی اور چیز ایسی نظر نہیں آتی جس کی بناء پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہماری شفاعت کریں.بے شک جنت میں جانے کے لیے طہارتِ نفس کی بھی ضرورت ہے، اس کے لیے ایمان کی بھی ضرورت ہے، اس کے لیے خدمت خلق کی بھی ضرورت ہے لیکن باوجود اس کے ہماری کوششوں میں کمی رہ جاتی ہے.اس کمی کو پورا کرنے کے لیے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت کی ضرورت ہے.یہ نہیں کہ فلاں شخص نے نماز نہیں پڑھی یا اُس نے زکوۃ نہیں دی اس لیے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اُس کی سفارش کریں گے.آپ کی شفاعت اس لیے ہو گی کہ ان لوگوں نے سارا زور لگا کر نمازیں پڑھی ہیں، سارا زور لگا کر روزے رکھے ہیں لیکن پھر بھی کچھ کسر رہ گئی ہے.انہوں نے اچھی طرح حج کیا ہے لیکن پھر بھی اس میں کسر رہ گئی ہے.انہوں نے پورا زور لگا کر زکوۃ دی ہے لیکن پھر بھی اس میں کچھ کسر رہ گئی ہے.اس کسر کو پورا کرنے کے لیے میں ان کی سفارش کرتا ہوں.انہوں نے پورا زور لگا کر اعمالِ صالحہ کیسے ہیں لیکن پھر بھی کچھ کسر رہ گئی ہے.آپ رحیم و کریم ہیں آپ یہ کسر پوری کر یں.پس خدا تعالیٰ سے شفاعت کرنے کے لیے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کوئی چیز تو ہونی چاہیے کہ یہ شخص اخلاص سے کام کر رہا تھا لیکن اس کی کوششوں میں کمی رہ گئی آپ اس کمی کو پورا کر دیں.تم جب کسی سے کہتے ہو کہ میرا فلاں کام کر دو یا کسی.

Page 46

$1954 36 36 خطبات محمود سفارش کرواتے ہو تو ساتھ ہی یہ دلیل دیتے ہو کہ فلاں وجہ ہے جس کی بناء پر مجھے یہ حق حاصل ہے.پس اگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم خدا تعالیٰ کے پاس شفاعت کے لیے جائیں گے تو آپ کے پاس کوئی نہ کوئی دلیل ہونی چاہیے جس کو پیش کر کے وہ خدا تعالیٰ شفاعت کر سکیں.اور وہ یہی ایک چیز ہے کہ ہم نے خدا تعالیٰ کے دین کی خدمت کر کے اسے زندہ کیا تھا اب وہ ہمیں زندہ کرے.ہم نے خدا تعالیٰ سے سودا کیا تھا سو ہم نے اپنی شرط پوری کر دی اب وہ اپنی شرط پوری کرے.یہی ایک دلیل ہے جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم خدا تعالیٰ کے سامنے پیش کر سکتے ہیں اور اس کا فضل حاصل کر سکتے ہیں.پس مت سمجھو کہ یہ کوئی معمولی کام ہے.یہ مت سمجھو کہ اسے نظر انداز کر کے تم اپنی روحانیت کو سلامت رکھ سکتے ہو یا قیامت کو خدا تعالیٰ کے فضلوں کا مطالبہ کر سکتے ہو.خدا تعالیٰ کے فضلوں کا مطالبہ کرنے کے لیے کسی غیر معمولی چیز کی ضرورت ہوتی ہے.اپنے رستہ سے ہٹ کر کوئی چیز ہے جو انسان کو خدا تعالیٰ کے فضلوں کا وارث بنا دیتی ہے اور یہ کام یعنی خدمت اسلام رستہ سے ہٹ کر ہے.تم کہہ سکتے ہو کہ اے خدا! باقی کام تو ہم اپنے نفسوں کے لیے کرتے رہے ہیں لیکن یہ کام ہم محض تیرے لیے کرتے رہے ہیں اور اُن لوگوں کے لیے کرتے رہے ہیں جو دوسرے ممالک میں رہتے تھے.پس میں جماعت کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ اپنے فرائض کو سمجھے.اسے کوشش کرنی چاہیے کہ قربانی کے لیے چھلانگیں مار کر آگے آئے تا کہ ہم جلد سے جلد اسلام کی اشاعت کر سکیں.اب دنیا کنارے پر لگ چکی ہے.اسے صرف ایک ٹھوکر کی ضرورت ہے.طبائع میں سلامت روی پیدا ہو چکی ہے.لوگ سمجھتے ہیں کہ دنیا دہریت اور بے دینی کی طرف جا رہی ہے لیکن میں سمجھتا ہوں کہ دہریت اور بے دینی کی طرف نہیں جا رہی بلکہ عقل کی طرف جا رہی ہے.پہلے لوگ مولویوں اور پنڈتوں سے سُن کر مذہبی باتیں مان لیتے تھے.اگر پنڈت کہہ دیتے تھے کہ خدا تعالیٰ دنیا میں آ کر ہمارے کاموں میں شریک ہو جاتا ہے تو وہ آمَنَّا وَصَدَّقْنَا کہہ دیتے تھے.اگر پنڈت کہتے کہ خدا تعالیٰ بُھوں میں آ جاتا ہے اور ہم سے باتیں کرتا ہے تو وہ یہ باتیں مان لیتے تھے.اگر پنڈت کہتے کہ خدا تعالیٰ کہتا ہے کہ تم اس کے خاص لوگوں میں سے ہوتم دوسرے لوگوں کو

Page 47

$1954 37 خطبات محمود مارتے پھرو تو لوگ کہتے یہ ٹھیک ہے لیکن اب ایسا نہیں.اب اگر کسی کو کوئی بات کہو تو وہ کہتا ہے ہے پہلے مجھے سمجھاؤ کہ یہ کس طرح درست ہے.لوگ اس کا نام بے دینی اور دہریت رکھتے ہ ہیں لیکن میں سمجھتا ہوں کہ یہ سچائی کی جستجو ہے جو عیسائیوں اور دوسرے مذاہب والوں میں پیدا ہو گئی ہے.نئی پود کے ہر فرد میں یہ احساس پیدا ہو جانا کہ تم ہمیں سمجھاؤ تو ہم مانیں نہایت خوش قسمتی اور مفید احساس ہے.اب وہی مذہب غالب آ سکتا ہے جس کی بنیاد عقل پر ہو.جس مذہب کی بنیاد عقل پر نہیں وہ مذہب ہارے گا اور جس کی بنیاد عقل پر ہے وہ جیتے گا.لوگ اسے دہریت اور بے دینی کہتے ہیں اور میں اسے دین کی جستجو اور اس کے لیے ایک تڑپ کہتا ہوں.اللہ تعالیٰ دماغوں کو اس طرف مائل کر رہا ہے کہ وہ معقول باتوں کو مانیں اور غیر معقول باتوں کو رڈ کریں.پس دنیا اسلام کے کنارے پر کھڑی ہے اور وہ زبانِ حال سے پکار رہی ہے کہ مجھے اسلام دو، مجھے صداقت دو تا میں اسے مان لوں.اس زریں موقع کو ہاتھ سے جانے دینا بہت بڑی غفلت اور مُجرم ہے.اسی سلسلہ میں میں جماعت میں یہ تحریک کرتا ہوں کہ یکم فروری سے سات فروری تک تحریک جدید کا ہفتہ منایا جائے.ہر جگہ پر ایک بار یا دو دو، تین تین بار جلسے کیے جائیں اور جماعت کے ہر فرد کے پاس جماعت کے مخلصین پہنچیں اور اُسے اس تحریک میں شامل کریں.میں نے مخلصین کا لفظ اس لیے کہا ہے کہ میں تسلیم کرتا ہوں کہ جماعت کا کچھ حصہ کمزور ہے.اس لیے میں کہتا ہوں کہ مخلصین کمزوروں کے پاس پہنچیں تا ان میں سے بھی کوئی یہ نہ کہہ سکے کہ اسے تحریک جدید میں شامل کرنے کے لیے کوئی تحریک نہیں ہوئی.اور پھر جو شخص ایک دفعہ تحریک جدید میں حصہ لے گا اور یہ سمجھ کر حصہ لے گا کہ یہ تحریک قیامت تک چلنے والی ہے و پیچھے نہیں ہٹے گا.اب بعض لوگ ایسے ہیں جو پیچھے ہٹ گئے ہیں یا انہوں نے اپنے سابقہ وعدوں کے مقابل پر صرف پندرھواں، سولھواں یا بیسواں حصہ چندہ لکھوایا ہے لیکن وہ بھی ہیں جنہوں نے پہلے سے بھی بڑھ کر اس میں حصہ لیا ہے.ہمارے کارکن وعدوں میں کمی کرنے والوں چڑتے ہیں اور قربانی کرنے والوں کی طرف نہیں دیکھتے.جماعت میں ایسے لوگ بھی پر ہیں

Page 48

$1954 38 خطبات محمود جنہوں نے اپنے سابقہ وعدوں میں کافی اضافہ کیا ہے.مثلاً کچھ دن ہوئے میرے سامنے ایک فہرست وعده کنندگان کی پیش ہوئی تھی.اُس میں سے ایک شخص کا چندہ پچھلے سال چھ سو روپیہ تھا اور اس سال اُس نے ایک ہزار کا وعدہ کیا ہے.پس کارکنوں کو چاہیے کہ وہ دونوں کو دیکھیں.کمزور پر چڑنے کی ضرورت نہیں بلکہ ضرورت اس امر کی ہے کہ استقلال اور قوی جدو جہد کے ساتھ کمزور کو طاقت دی جائے.یہ ایک موڑ ہے جو انیس سال کے گزرنے کے بعد سامنے آ گیا ہے.جب یہ موڑ گزر جائے گا تو آگے کوئی موڑ نہیں آئے گا.اب موت ہی ہے جو چندہ دینے سے کسی کو روکے.اور موت سے آگے تو ہم کسی سے چندہ لے بھی نہیں سکتے.یعنی اس کے آگے اور کوئی موڑ نہیں سوائے اس کے کہ کوئی شخص زندگی کے موڑ سے ہی مُڑ جائے اور ایسے شخص کا واسطہ خدا تعالیٰ سے ہو جاتا ہے.پس اس سال ہمیں خاص جدوجہد کی ضرورت ہے.اس کے لیے میں نے فروری کا پہلا ہفتہ مقرر کیا ہے.یکم فروری سے سات فروری تک ہفتہ تحریک جدید منایا جائے.ان دنوں جماعت میں جلسے کیے جائیں اور ہر شخص کے پاس جماعت کے سیکرٹری اور صدر صاحبان پہنچیں اور دیکھیں کہ کوئی شخص اس تحریک میں حصہ لینے سے محروم نہ رہے.یا کون شخص ایسا ہے جس نے اپنی حیثیت کے مطابق اپنی ماہوار آمدن کا چوتھا، نصف، تین چوتھائی یا اللہ تعالیٰ اُسے توفیق دے تو ایک مہینہ کی ساری آمد تحریک جدید میں دے.یعنی جس شخص کی ماہوار آمد ایک سو روپیہ ہے وہ کم سے کم پچیس روپے اس تحریک میں دے یا خدا تعالیٰ اُسے توفیق دے تو پچاس، پچھتر یا سو روپیہ اس تحریک میں دے.پس اس ہفتہ میں لوگوں میں اس کی تحریک کی جائے.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ہم نے تحریک جدید میں حصہ لینے کے لیے کم از کم پانچ روپیہ کی شرط لگائی ہے.اگر کوئی شخص ایک ہزار روپیہ ماہوار والا بھی پانچ روپیہ دے کر اس تحریک میں شامل ہوتا ہے تو ہمیں اُس کا انکار نہیں کرنا چاہیے.ہاں! اُسے سمجھانا چاہیے کہ تم اپنی قربانی کا مقابلہ دوسروں کی قربانیوں سے کر کے دیکھ لو.گجا وہ لوگ تھے جنہوں نے پانچ پانچ ، چھ چھ ماہ کی آمد میں تحریک جدید میں دے دیں اور گجا تم ہو کہ تم اپنی ماہوار آمد سے جو ایک ہزار روپیہ ہے صرف پانچ روپیہ اس تحریک میں دیتے ہو.وہ تو پانچ پانچ ماہ کی آمد میں تحریک جدید میں دے

Page 49

$1954 99 39 خطبات محمود دیتے تھے اور تم اپنی ماہوار آمد کا دوسواں حصہ دیتے ہو.گویا تم اُن کی قربانی کا ہزارواں حصہ قربانی کرتے ہو اور اس قربانی کا تو ہمیں مجلسوں میں اظہار کرنے سے بھی شرم آتی ہے.بہر حال تحریک کرنا تمہارا فرض ہے.اگر کوئی شخص اپنی حیثیت سے کم قربانی کرتا ہے تو اس سے انکار کرنا ہمارا حق نہیں.چاہے کوئی لاکھوں روپے ماہوار آمد والا پانچ روپیہ لکھائے تم لکھ لولیکن اُسے یہ تحریک کرنی چاہیے کہ تمہاری قربانی پہلوں کی قربانی سے کوئی نسبت نہیں رکھتی.جماعت کے دوستوں سے میں امید کرتا ہوں کہ وہ اپنی ذمہ داریوں اور فرائض کو سمجھتے ہوئے بچے طور پر اور پورے اخلاص سے اس بات کے لیے زور لگا دیں گے کہ اس سال تحریک جدید کے وعدے پچھلے سال کے وعدوں سے کم نہ رہیں بلکہ ان سے بہت آگے نکل جائیں“.اح 28 جنوری 1954 1 : صحیح بخارى كتاب الاذان باب مَنْ اَخَفَّ الصَّلَاةَ عِندَ بُكَاءِ الصَّبِيِّ 2 : بخاری کتاب العیدین باب خروج النساء وَالْحُيَّضِ الى المصلى 3 : وَجَاعِلُ الَّذِينَ اتَّبَعُوكَ فَوْقَ الَّذِينَ كَفَرُوا إِلَى يَوْمِ الْقِمَةِ (ال عمران : 56) 4 : إِنَّ اللهَ اشْتَرى مِنَ الْمُؤْمِنِينَ أَنْفُسَهُمْ وَ اَمْوَالَهُمْ بِأَنَّ لَهُمُ الْجَنَّةَ (التوبة: 111) 5 : مسلم كتاب البر والصلة باب فضل عيادة المريض 6 : بخارى كتاب الرقاق بابُ الْقَصْدِ وَالْمُدَاوَمَةِ عَلَى الْعَمَل 7 : الفرقان : 53

Page 50

$1954 40 40 LO 5 خطبات محمود قبولیت دعا کے تازہ نشانات کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں اپنے ایمان کو بڑھانے اور اسے تقویت دینے کے سامان عطا فرمائے ہیں فرموده 29 جنوری 1954ء بمقام ربوہ) تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: اللہ تعالیٰ کی صفات جو قرآن کریم میں بیان ہوئی ہیں یا جو صفات احادیث سے ثابت ہوتی ہیں وہ ساری کی ساری ہی اللہ تعالیٰ کے ساتھ وابستہ اور لازم ہیں اور جُوں جُول انسان ان صفات کا مطالعہ کرتا ہے اس کا دل ایمان اور یقین سے بھر جاتا ہے.ایک صفت تو خدا تعالیٰ کی ایسی ہوتی ہے جو تمام بنی نوع انسان کے ساتھ تعلق رکھتی ہے اور ایک ایسی ہوتی ہے جس کا ظہور کسی انسان کے خاص حالات کے ماتحت ہوتا ہے.مثلاً اللہ تعالیٰ رازق تمام دنیا میں انسان کیا اور حیوان کیا اور نباتات کیا تمام مخلوقات کو دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اُس کے رزق کا کوئی نہ کوئی ذریعہ مقرر ہے اور اسے دیکھنے سے ہر انسان یہ سمجھتا ہے کہ دنیا میں کوئی رازق ہستی موجود ہے.لیکن اگر کسی وقت کوئی شخص کسی تکلیف میں مبتلا ہو جاتا.ہے.6

Page 51

خطبات محمود 41 $1954 ނ یا وہ کسی دُکھ میں پکڑا جاتا ہے اور اُس پر رزق کی تنگی وارد ہو جاتی ہے اور وہ پھر خدا تعالیٰ.دعا کرتا ہے کہ اے اللہ ! تو میرے لیے رزق کی تنگی کو دور کر دے اور پھر وہ رزق کی تنگی دور ہو تی دعا جاتی ہے.تو رازق تو خدا تعالیٰ پہلے بھی تھا اور رازق وہ اُس وقت بھی تھا جب وہ تی مانگ رہا تھا لیکن جب اس شخص کے لیے خدا تعالیٰ کی صفت رزاقیت ظاہر ہوتی ہے تو اُس کا ایمان پہلے کی نسبت بہت بڑھ جاتا ہے.پھر ایک زائد یقین اُسے یہ حاصل ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ سننے والا بھی ہے کیونکہ اگر وہ سننے والا نہ ہوتا تو اُس کی دعا اُس تک پہنچتی کیسے؟ پھر اسے یہ یقین بھی حاصل ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ اپنے بندوں پر مہربان بھی ہے کیونکہ اگر بندوں پر مہربان نہ ہوتا تو اس کی دعا سن کر اس کے اندر یہ احساس کیوں پیدا ہوتا کہ میں وہ تکلیف دور کر دوں.پس اس ایک دعا کے ساتھ خدا تعالیٰ کی تین صفات انسان پر ظاہر ہوتی ہیں.اس کی صفت رزاقیت بھی ظاہر ہوتی ہے، اس کی صفت سمیع بھی ظاہر ہوتی ہے، اس کی صفت رحمانیت بھی ظاہر ہوتی ہے.یا مثلاً خدا تعالیٰ دنیا میں ہمیشہ لوگوں کے ہاں بچے پیدا کرتا ہے.وہ پہلے بھی بچے پیدا کرتا رہا ہے اور اب بھی پیدا کر رہا ہے اور انسانی نسل برابر ترقی کر رہی ہے.یہاں تک کہ اب لوگوں کو یہ وہم ہو رہا ہے کہ ایک وقت ایسا آئے گا کہ دنیا میں پیدا ہونے والا غلہ غذا کے لیے کافی نہیں ہو گا.اور بعض بیوقوفوں نے تو یہ کہنا شروع کر دیا ہے کہ نسلِ انسانی کو محدود رکھنا چاہیے اور پیدائش کو روکنا چاہیے تا انسانوں کی تعداد اس حد تک بڑھ جائے کہ کسی وقت غذا کی قلت محسوس ہونے لگ جائے.لیکن باوجود اس کثرت نسل کے ور باوجود انسانوں کی اس قدر زیادتی کے کئی گھرانے ایسے ہوتے ہیں جن کے ہاں بچے پیدا نہیں ہوتے اور وہ اولاد کو ترستے رہتے ہیں.ایک شخص کروڑ پتی ہوتا ہے لیکن اُسے ایسا بچہ میسر نہیں آتا جو اُس کے بعد اُس کی دولت کا وارث ہو لیکن دوسری طرف ایک فاقہ کش مزدور ہوتا ہی ہے اُس کے دس گیارہ بچے ہوتے ہیں اور اُن کا پیٹ پالنے کے لیے بھی اسے روٹی میسر نہیں کی ہوتی.پس جہاں تک دنیا کا سوال ہے خدا تعالیٰ کی صفت خالقیت ثابت ہے اس کا انکار نہیں کیا جا سکتا.لیکن اگر بعض افراد پر ان کے مخصوص حالات کے لحاظ سے ہم نظر ڈالیں تو اس کی خالقیت نظر نہیں آتی کیونکہ وہ اولاد سے محروم ہوتے ہیں.اگر ایسا شخص جس کے ہاں کی

Page 52

$1954 42 خطبات محمود اولاد نہیں ہوتی یہ دعا کرے کہ اے اللہ ! تو مجھے بھی بچہ دے دے اور پھر اُس کے ہاں بچہ پیدا ہو جاتا ہے تو اُسے خدا تعالیٰ کی صفت خلق پر جو یقین پیدا ہوتا ہے اور کسی شخص کو نہیں ہوتا.اور پھر اسے صرف خدا تعالیٰ کی صفت خلق پر ہی یقین پیدا نہیں ہوتا بلکہ اُسے اُس کی صفتِ سمیع پر بھی یقین پیدا ہو جاتا ہے کیونکہ اگر وہ سمیع نہ ہوتا تو اُس کی دعا سنتا کیسے؟ پھر اُس کو خدا تعالیٰ کی صفت رحمانیت پر بھی یقین ہو جاتا ہے کیونکہ اگر وہ رحمان نہ ہوتا تو اس شخص کی دعا سن لینے کے بعد دعا قبول کر لینے کا احساس اسے کیسے پیدا ہوتا؟ اور وہ خالقیت کی صفت کو ظاہر کیسے کرتا؟ ہم نے اس کا بارہا تجربہ کیا ہے اور خدا تعالیٰ کی صفت خالقیت کے کئی نظارے دیکھے ہیں.اس کی درجنوں بلکہ اس سے بھی زیادہ مثالیں ہوں گی کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی دعا یا میری دعا کے نتیجہ میں ایسے گھروں میں بچے پیدا ہوئے جن میں بظاہر اولاد پیدا ہونا ناممکن تھا.بعض لوگوں کی شادیوں پر نہیں ہیں سال بلکہ اس سے بھی زیادہ عرصہ گزر چکا تھا اور پھر بھی میری دعا سے ان کے ہاں اولاد پیدا ہوئی.مثلاً قادیان میں ہی ایک ہندو تھا.وہ بہت مالدار تھا.قادیان اور بٹالہ کے درمیان اس کے یکے چلتے تھے.اس کے علاوہ وہ ٹھیکیدار بھی تھا اور تجارت بھی کرتا تھا.اس نے دو شادیاں کیں لیکن اس کے ہاں اولاد نہ ہوئی.اس نے مجھے دعا کی تحریک کی اور یہ نذر مانی کہ اگر خدا تعالیٰ نے اُسے بچہ دے دیا تو وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مہمانوں کے کھانے کے لیے کچھ نذرانہ دے گا.ایک سال یا دو سال کے بعد جب اُس کی شادی پر ہیں سال یا اس سے زیادہ عرصہ گزر چکا تھا اُس کے ہاں بچہ پیدا ہوا.میں اپنے دفتر میں بیٹھا ہوا تھا کہ کسی شخص نے مجھے بتایا کہ نیچے فلاں ہندو آیا ہوا ہے اور وہ آپ سے ملنا چاہتا ہے.میں نیچے آگیا.میں نے دیکھا کہ اُس کے ہاتھ میں ایک بکری تھی.اسی طرح ایک بوری آٹا اور کچھ گھی کی بھی تھا.اُس نے مجھے بتایا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے آپ کی دعا سے ایک بچہ دیا ہے.بچہ اور اُس کی ماں کو سلام کرانے کے لیے میں یہاں لایا ہوں اور یہ چیزیں لنگر خانہ کے لیے ہیں.آپ انہیں قبول فرمائیں.اُس شخص کے ہاں ہیں سال سے اولاد پیدا نہیں ہوئی تھی.اس نے مجھے دعا کی تحریک کی اور میری دعا کے نتیجہ میں خدا تعالیٰ نے اسے بیٹا عطا کیا.

Page 53

خطبات محمود 43 $1954 ابھی اس جلسہ پر ایک عجیب نظارہ پیش آیا کہ ایک عورت لائل پور کی رہنے والی تھی اور لجنہ اماء اللہ کی سیکرٹری تھی.وہ جب بھی ربوہ آتی مجھ سے کہتی میرے ہاں اتنے عرصہ سے اولاد نہیں ہوئی.آپ دعا کریں کہ خدا تعالیٰ مجھے بھی اولاد دے دے.دوسال ہوئے میں نے اُسے کہا تیری کب شادی ہوئی تھی؟ اس نے کہا میں یا اکیس سال ہو گئے ہیں کہ میری شادی ہوئی تھی اور ابھی تک میرے ہاں اولاد نہیں ہوئی.میں نے اسے کہا تو اب بوڑھی ہو چکی اب اولاد کا خیال جانے دو.پینتالیس یا پچاس سال کی تمہاری عمر ہو چکی ہے اور بیس سال گزر چکے ہیں.اب بھی کہتی ہو دعا کرو دعا کرو.آخر یہ سلسلہ کب تک چلا جائے گا؟ شادی پر اس عورت نے کہا میں نے تو دعا کے لیے کہتے چلے جانا ہے.وہ عورت اچھی خاصی عمر کی تھی پینتالیس اور پچاس سال کے درمیان اس کی عمر تھی اور میں بائیس سال شادی پر گزر چکے تھے.ایک دن اسی جلسہ کے دنوں میں اُس نے میرا دروازہ کھٹکھٹایا.میں نے دروازہ کھولا تو اُس نے مجھے اپنی بچی دکھائی اور کہا آپ تو کہتے تھے کہ تمہاری شادی پر اتنا عرصہ گزر چکا ہے اور عمر بھی زیادہ ہو چکی ہے، اب دعا کے لیے کیوں کہتی ہو؟ اولاد کا خیال اب جانے دو.لیکن میں نے آپ کا پیچھا کیا اور دعا کی درخواست کرتی رہی اور اب اللہ تعالیٰ نے آپ کی دعا کے نتیجہ میں یہ بچی عطا فرمائی ہے.ایسے موقعوں پر انسان کا یقین خدا تعالی کی کئی صفات پر ہو جاتا ہے.اس کا یقین صرف خدا تعالیٰ کی صفت خالقیت پر ہی نہیں بڑھتا بلکہ اس کی صفتِ سمیع اور رحیمیت پر بھی اس کا یقین ہو جاتا ہے.کیونکہ اگر وہ سمیع اور رحیم نہ ہوتا تو وہ اس کی دعاؤں کو کیسے سنتا اور پھر دعاؤں کو سن کر اسے یہ احساس کیسے ہوتا کہ وہ بچہ دے دے.پھر یہ دعا ئیں بعض اوقات تو ایسے طور پر پوری ہو جاتی ہیں کہ ان کے نتیجہ میں تقدیر مبرم بھی بدل جاتی ہے اور تقدیر مبرم کے بدلنے کی یہ علامت ہوتی ہے کہ اس کی شکل بدل جاتی ہے.وہ پوری بھی ہو جاتی ہے اور انسان ان خطرات سے بھی بچ جاتا ہے جو اسے لاحق ہونے والے ہوتے ہیں.سید عبدالقادر صاحب جیلانی کے متعلق کہا جاتا ہے کہ ان کا کی ایک مُرید تھا جس سے انہیں بہت پیار تھا.اسے ایک عیسائی عورت سے محبت پیدا ہو گئی اور اس کی محبت بڑھتی چلی گئی.سید عبدالقادر صاحب جیلانی دعا کرتے تھے کہ وہ کسی طرح

Page 54

$1954 44 خطبات محمود اس ابتلا سے بچ جائے لیکن اللہ تعالیٰ کی طرف سے انہیں معلوم ہوا کہ وہ اس ابتلا میں ضرور پھنسے گا اور یہ تقدیر مبرم ہے.مگر پھر بھی آپ دعا کرتے رہے.آخر ایک دن وہ مرید تائب ہو کر آپ کے پاس آیا اور اس نے کہا آپ کی دعا پوری ہو گئی.سید عبدالقادر صاحب جیلانی نے دریافت کیا کہ دعا کیسے پوری ہوئی؟ تو اس نے بتایا کہ رؤیا میں وہ عورت مجھے ملی اور میں نے اُس سے تعلقات بھی قائم کر لیے.اس کے بعد جب میری آنکھ کھلی تو مجھے اُس سے نفرت پیدا ہو چکی تھی.اب دیکھو! یہ ایک تقدیر مبرم تھی اور اس نے ضرور پورا ہونا تھا لیکن دعا کے نتیجہ میں خدا تعالیٰ نے اسے رویا میں پورا کر دیا.اس طرح تقدیر مبرم بھی پوری ہو گئی اور دعا بھی قبول ہو گئی اور وہ شخص اُن خطرات سے محفوظ ہو گیا جو اُسے آئندہ لاحق ہونے والے تھے.پس تقدیر مبرم کی علامت یہ ہوتی ہے کہ وہ پوری بھی ہو جاتی ہے لیکن دعا کے نتیجہ میں اُس کی شکل بدل جاتی ہے.17 یا 18 نومبر 1953ء کی بات ہے کہ میں نے رویا میں دیکھا کہ میں ایک جگہ پر ہوں.میاں بشیر احمد صاحب اور دردصاحب میرے ساتھ ہیں.کسی شخص نے مجھے ایک لفافہ لا کر دیا اور کہا کہ یہ چودھری ظفر اللہ خاں صاحب کا ہے.میں نے اس لفافہ کو کھولے بغیر محسوس کیا کہ اس میں کسی عظیم الشان حادثے کی خبر ہے جو چودھری صاحب کی موت کی شکل میں پیش آیا ہے یا کوئی اور بڑا حادثہ ہے.میں نے درد صاحب سے کہا لفافہ کو جلدی کھولو اور اس میں سے کاغذ نکالو.دردصاحب نے لفافہ کھولا.اس میں بہت سے کاغذ نکلتے آتے تھے لیکن اصل بات جس کی خبر دی گئی تھی نظر نہیں آتی تھی.آخر کار لفافہ میں صرف ایک دو کاغذ رہ گئے.لیکن اصل خبر کا پتا نہ لگا.میاں بشیر احمد صاحب نے کہا پتا نہیں چودھری صاحب کے دماغ کو کیا ہو گیا ہے..وہ ایک اہم خبر لکھتے ہیں لیکن اسے اچھی طرح بیان نہیں کرتے.میں نے کہا گھبراہٹ میں ایسا ہو ہی جاتا ہے.اس پر لفافہ میں دو کاغذ جو باقی رہ گئے تھے ان میں سے ایک کاغذ کو میں نے باہر کھینچا تو وہ ایک فہرست تھی.لیکن اصل واقعہ کا اُس سے پتا نہیں لگتا تھا.اس فہرست میں ایک نام سے پہلے ملک لکھا تھا اور آخر میں محمد لکھا تھا.درمیانی لفظ پڑھا نہیں جاتا تھا.اس سے اتنا تو پتا لگتا تھا کہ واقعہ میں کوئی اہم خبر ہے لیکن اصل واقعہ کا

Page 55

$1954 45 خطبات محمود پتا نہیں لگتا تھا.پھر لفافہ میں سے ایک اور شفاف کاغذ نکلا جو Tracing Paper تھا.میں اُسے دیکھنے لگا اور میں نے کہا یہ خبر ہے جو چودھری صاحب نے ہم تک پہنچانی چاہی ہے مگر بجائے کوئی واقعہ لکھنے کے اس کاغذ پر ایک لکیر کھنچی ہوئی ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ یہ ایک ہوائی جہاز ہے جو مشرق سے مغرب کی طرف جا رہا ہے.آگے جا کر وہ لکیر یکدم اریبوی 1 صورت میں نیچے آجاتی ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ جہاز یکدم نیچے آ گیا ہے.اس جگہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ رُکا ہے اور معاً Crashed کا لفظ میرے سامنے آتا ہے تو معا سمندر میرے سامنے آ جاتا ہے اور معلوم ہوتا ہے کہ نیچے کچھ جزیرے ہیں.مجھے نیچے کی طرف عملاً سمندر نظر آتا ہے.اُس میں ہلکی ہلکی لہریں ہیں.میں خواب میں کہتا ہوں کہ نہ معلوم چودھری صاحب کو تیرنا آتا ہے.خدا کرے اس حادثہ کی خبر معلوم کر کے کسی حکومت نے ہوائی جہاز یا کشتیاں بچانے کے لیے بھیج دی ہوں تا کہ چودھری صاحب اور دوسرے لوگ بچ جائیں.جب میں نے یہ رویا دیکھی اُس وقت قریباً دو بجے رات کا وقت تھا.اُس دن میری بیوی مریم صدیقہ کی باری تھی اور وہ میرے پاس ہی دوسری چار پائی پر سوئی ہوئی تھیں.میں نے انہیں جگایا اور کہا جلدی سے ایک خط لکھو.چنانچہ میں نے اُسی وقت چودھری صاحب کو خط لکھوایا اور تحریر کیا کہ وہ کچھ صدقہ دے دیں.فوراً بھی اور آتے ہوئے بھی اور اسی مضمون کی ایک تار بھی دے دی.میں نے جب یہ رویا دیکھی تو چودھری صاحب امریکہ پہنچ چکے تھے اور میں نے رویا میں یہ نظارہ دیکھا تھا کہ چودھری صاحب مشرق سے مغرب کو جا رہے ہیں.اگر وہ امریکہ سے پاکستان آ رہے ہوتے تو یہ سفر مشرق سے مغرب کو نہ ہوتا بلکہ مغرب سے آر.مشرق کو ہوتا.پھر میں نے رویا میں یہ دیکھا تھا کہ چودھری صاحب خود ہی اس حادثہ کی خبر دے رہے ہیں اور یہ بات سمجھ میں نہیں آتی تھی کہ اگر اس حادثہ میں اُن کی جان کا نقصان ہے تو وہ اس کی خبر کیسے دے رہے ہیں؟ بہر حال میں نے اس خواب کی تین تعبیریں کیں.اول یہ کہ کوئی حادثہ چودھری صاحب کو سخت مہلک پیش آنے والا ہے اور خدا تعالیٰ انہیں ! سے بچالے گا کیونکہ وہ خود اس حادثہ کے متعلق تبھی خبر دے سکتے ہیں جب وہ محفوظ ہوں.دوسرے میں نے یہ تعبیر کی کہ اُس دن ملک غلام محمد صاحب گورنر جنرل سفر پر روانہ ہو

Page 56

$1954 46 خطبات محمود ہے.رہے تھے شاید انہیں کوئی حادثہ پیش آ جائے.میں نے ملک اور محمد کے الفا ظ دیکھے تھے.بیچ میں ایک لفظ اور بھی تھا جو پڑھا نہیں گیا.میں نے خیال کیا کہ شاید اس سے ملک غلام محمد صاحب مراد ہوں کیونکہ ان کے نام سے پہلے بھی ملک اور آخر میں محمد کا لفظ آتا ہے اور وہ چودھری صاحب کے دوست بھی ہیں اور دوست کا صدمہ خود انسان کا اپنا صدمہ کہلاتا ہے چنانچہ میں نے صبح انہیں تار دے دی.چونکہ وہ احمدی نہیں ہیں.اس لیے میں نے یہ نہ لکھا کہ میں نے رؤیا دیکھی ہے بلکہ صرف یہ لکھا کہ آپ سفر پر جا رہے ہیں میں دعا کرتا ہوں کہ خدا تعالیٰ اس سفر کے دوران میں آپ کو اپنی حفاظت میں رکھے لیکن میرا تار پہنچنے سے پہلے ملک صاحب سفر پر روانہ ہو چکے تھے.وہ تار قائم مقام گورنر جنرل کو ملا اور انہوں نے خیال کیا کہ یہ مبارکبادی کی تار ہے چنانچہ اُن کی طرف سے شکریہ کی چٹھی آگئی.حالانکہ وہ تار اس رؤیا کی بناء پر اصل گورنر جنرل صاحب کو دی گئی تھی لیکن وہ ملی قائم مقام گورنر جنرل کو.تیسرے چونکہ چودھری صاحب مغرب میں پہنچ چکے تھے اور پاکستان کی طرف سفر کرتے ہوئے نہوں نے مغرب سے مشرق کو آنا تھا اور پھر اس حادثہ کی خبر بھی انہوں نے خود ہی دی تھی اس لیے میں نے خیال کیا کہ شاید اس سے یہ مراد ہو کہ جو خاص کام مراکو وغیرہ کی خدمت کا وہ کر رہے ہیں اس میں انہیں ناکامی ہو.بہر حال میں نے ایک بکرا بطور صدقہ ذبح کروا دیا اور چودھری صاحب کو بھی خط لکھا کہ وہ خود بھی صدقہ دے دیں.چنانچہ انہوں نے بھی صدقہ دے دیا اور ہم نے دعائیں جاری کی رکھیں.میں لاہور گیا تو چودھری صاحب کی بیوی مجھے ملیں.میں نے انہیں بھی بتایا کہ میں نے اس قسم کی رؤیا دیکھی ہے چونکہ چودھری صاحب کی لڑکی بھی اِس سفر میں اُن کے ہمراہ تھی اس لیے اُن کے لیے دُہرا صدمہ تھا.اس لیے انہوں نے بھی اس عرصہ میں روزانہ ایک ایک کر ނ کے یا بعض دنوں میں دو دو کر کے اکسٹھ بکرے صدقہ دیئے.چودھری صاحب خیریت کراچی پہنچ گئے اور اس قسم کا کوئی حادثہ انہیں پیش نہ آیا.کراچی سے پنجاب آئے تو یہ سفر بھی خیریت سے گزر گیا.لیکن جب کراچی واپس گئے تو رستہ میں اُس گاڑی کو جس میں چودھری صاحب سفر کر رہے تھے خطرناک حادثہ پیش آیا اور انڈین ریڈیو پر جب یہ خبر نشر ہوئی

Page 57

$1954 47 خطبات محمود تو اس کے متعلق Crashed “ کا لفظ ہی استعمال کیا گیا.گاڑی پٹرول کے ڈبوں سے ٹکراگئی اور ایسا خطرناک حادثہ پیش آیا کہ ایک احمدی دوست نے مجھے لکھا کہ میں سمجھتا تھا کہ خدا تعالیٰ کا عذاب آ گیا ہے.ہمیں معلوم نہیں تھا کہ اس میں کوئی اور احمدی بھی سفر کر رہا تھا لیکن اُس کے خط سے معلوم ہوا کہ وہ بھی اُس ٹرین میں تھا اور اس نے لکھا کہ ہر وہ شخص جس نے اس نظارہ کو دیکھا ہے وہ کہہ نہیں سکتا کہ یہ حادثہ عذاب الہی نہیں تھا.بہر حال دونوں گاڑیاں ٹکرا گئیں اور جن ڈبوں کو خدا تعالیٰ نے آگ سے بچایا انہیں پیچھے لایا گیا.جس جگہ پر واقعہ ہوا چودھری صاحب کے خط سے معلوم ہوتا ہے کہ اُس سے دس دس میل دور تک پکی سڑک نہیں ہے صرف ریل کی پٹڑی گزرتی ہے.اس لیے امداد کے لیے اُس جگہ تک کوئی موٹر نہیں آسکتی تھی.اس طرح وہ جگہ جزیرے کی طرح تھی.میں سمجھتا ہوں کہ رویا میں ہوائی جہاز کا دکھایا جانا اور واقعہ ریل میں ہونا اور پھر یہ گاڑی بھی مشرق سے مغرب کو جا رہی تھی ، اسی کی طرح دوسری سب باتوں کا ہونا بتاتا ہے کہ یہ ایک تقدیر مبرم تھی لیکن خدا تعالیٰ نے ہماری دعاؤں کوسن کر اس حادثہ کو بجائے ہوائی جہاز کے ریل میں بدل دیا.ہوائی جہاز میں ایسا حادثہ پیش آ جائے تو اس سے بچنا مشکل ہوتا ہے.شاذ ہی کوئی شخص اس قسم کے حادثے سے بچتا ہے لیکن یہی حادثہ ریل میں پیش آ جائے تو اس سے کسی انسان کا بچ جانا ممکن ہے اور پھر وہ ریل مشرق سے مغرب کو جا رہی تھی.جب میں نے اخبار میں وہ واقعہ پڑھا تو میں نے محسوس کیا کہ میری وہ خواب پوری ہو گئی ہے.میں نے میاں بشیر احمد صاحب سے اس کا ذکر کیا جن کو میں یہ خواب اُسی وقت بتا چکا تھا جب یہ خواب آئی تھی.انہوں نے بھی کہا کہ واقع میں وہ خواب پوری ہوئی ہے لیکن میں نے اخبار میں یہ واقعہ پڑھ کر چودھری صاحب کو یہ لکھنا پسند نہ کی کیا کہ میری رویا پوری ہو گئی ہے.کیونکہ رویا میں انہوں نے پہلے اطلاع دی تھی.اس لیے میں نے یہی پسند کیا کہ وہ اطلاع دیں گے تو میں لکھوں گا.چنانچہ دوسرے دن چودھری صاحب کی تار آ گئی کہ آپ کی رؤیا پوری ہو گئی ہے اور خدا تعالیٰ نے مجھے اس حادثہ سے بچا لیا ہے.یہاں صرف رؤیا کا سوال نہیں کہ وہ پوری ہو گئی بلکہ یہ ایک تقدیر مبرم تھی جو دعاؤں بدل گئی.رویا میں خدا تعالیٰ نے مجھے ہوائی جہاز دکھایا تھا لیکن وہ واقعہ اُسی جہت میں

Page 58

$1954 48 خطبات محمود اور اُسی شکل میں ریل میں پورا ہوا.معلوم ہوتا ہے کہ ایسا ہونا تقدیر مبرم تھا لیکن خدا تعالیٰ.کہا چلو ان کی بات بھی پوری ہو جائے اور اپنی بات بھی پوری ہو جائے.یہی واقعہ ہم ریل میں کرا دیتے ہیں.اس سے ہماری بات بھی پوری ہو جائے گی اور ان کی دعا بھی قبول ہو جائے گی.پس یہ واقعہ ہمارے لیے زائد یقین اور ایمان کا موجب ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہماری دعاؤں کی وجہ سے اپنی تقدیر مبرم کو بدل دیا..حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے وقت میں بھی ایسا ہوا.مثلاً نواب صاحب کا لڑکا عبدالرحیم بیمار ہو گیا.اس کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے پتا لگا کہ وہ اب بچ نہیں سکتا.اس پر آپ نے خاص طور پر اُس کی صحت کے لیے دعا شروع فرما دی اور اس دعا کے نتیجے میں وہ بچ گیا.اسی طرح مبارک احمد کے متعلق بھی آتا ہے کہ جب اُس کی نبضیں چھٹ گئیں تو آپ نے اس کے لیے دعا فرمائی اور اللہ تعالیٰ اسے دوبارہ سانس دے دیا.پس ریل کا یہ حادثہ خدا تعالیٰ کی تقدیر مبرم پر دلالت کرتا ہے.اس نے ہماری دعاؤں اور صدقہ اور قربانی کی وجہ سے ایک ایسی تقدیر کو بدل دیا جس کو عامہ حالات میں وہ بدلا نہیں کرتا.پس اللہ تعالیٰ نے ہمیں اپنے ایمان کو بڑھانے اور اسے تقویت دینے کے کئی سامان عطا فرمائے ہیں.اگر ہم ان کے بعد بھی اپنے فرائض کو ادا نہیں کرتے اور سستی سے کام لیتے ہیں تو یہ ہماری انتہائی بدقسمتی ہو گی.دنیا تو ابھی اندھیرے میں ہے اور اسے پتا نہیں کہ خدا ہے یا نہیں، اسے پتا نہیں کہ خدا تعالیٰ بولتا ہے یا نہیں، اسے علم نہیں کہ خدا تعالیٰ سچا ہے یا نہیں.لیکن ہمارے لیے یہ بات بالکل واضح ہو گئی ہے کہ نہ صرف یہ کہ وہ پہلے موجود تھا، نہ صرف یہ کہ وہ پہلے سنتا تھا اور بولتا تھا بلکہ وہ ہمیں یہ دکھا رہا ہے کہ میں اب بھی سنتا ہوں، میں اب بھی بولتا کی اور اب بھی اپنے بندوں کی مدد کرتا ہوں.ان انعامات کا شکر یہ ادا کرتے ہوئے ہمیں دعا کرنی چاہیے کہ خدا تعالیٰ ہمارے دلوں کے زنگ دور کر دے.کیونکہ اگر اس کے بعد بھی ہمارے دلوں میں قربانی کے لیے تنگی محسوس ہوتی ہے، ان میں انقباض پیدا ہوتا ہے تو یہ ہمارے دلوں کے زنگ کی وجہ سے ہے.اگر سورج نکلا ہوا ہو اور پھر بھی وہ کسی شخص کو نظر نہ آئے تو ی

Page 59

$1954 49 خطبات محمود صاف بات ہے کہ اُس کی آنکھیں خراب ہیں.اسی طرح اس قسم کے نشان کے بعد بھی اگر ہمارے دلوں میں خدا تعالیٰ کے متعلق احساس تقریب پیدا نہیں ہوتا ، اگر ہمارا دل خدا تعالیٰ کی کی طرف مائل نہیں ہوتا تو اس کے معنے یہ ہیں کہ چیز تو موجود ہے لیکن ہمارے اندر بیماری ہے.جیسے صفراء کی وجہ سے انسان میٹھی چیز کو بھی کڑوا محسوس کرتا ہے یا موتیا کی وجہ سے آنکھوں کے ہوتے ہوئے نظر نہیں آتا.اسی طرح سارے سامان موجود ہونے کے باوجود ہم ان سے فائدہ اُٹھانے سے محروم ہیں اور اس کا علاج بھی دعا ہی ہے.درحقیقت دعا پہلے بھی آجاتی ہے اور بعد میں بھی آجاتی ہے.جب ایسی حالت پیدا ہو جائے تو اس کا علاج بھی دعا ہی ہوتی ہے.کہتے ہیں کوئی بوڑھا آدمی تھا.وہ ایک طبیب کے پاس گیا.وہ اسی نوے سال کی عمر کا تھا.اس نے طبیب سے کہا مجھے یہ یہ بیماری ہے.اس کا کوئی علاج بتائیں.طبیب نے خیال کیا کہ اب اس کا کیا علاج ہو سکتا ہے.اُس نے مریض سے کہا یہ تو تقاضائے عمر ہے.اس مریض نے خیال کیا کہ باوجود اس کے کہ میں طبیب کے پاس کھڑا ہوں اور اسے اپنی بیماری بھی بتا رہا ہوں لیکن وہ میری طرف متوجہ نہیں ہوا.تو شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ میں اسے پوری طرح اپنی طرف متوجہ نہیں کر سکا.اس نے پانچ سات اور بیماریاں بتا دیں.طبیب - کہا یہ بھی تقاضائے عمر ہے.جب طبیب کو پھر بھی توجہ نہ ہوئی تو اس نے پانچ سات اور بیماریاں بیان کر دیں.اس پر بھی طبیب نے کہا یہ بھی تقاضائے عمر ہے.اس پر مریض کو غصہ آگیا اور اُس نے کہا تم بے ایمان اور خبیث انسان کو کس نے طبیب بنایا ہے.میں بکواس کرتا جا رہا ہوں اور تم یہی کہے چلے جاتے ہو کہ یہ سب تقاضائے عمر ہے.وہ طبیب دانا تھا.جب وہ مریض غصہ میں آ گیا تو اُس نے کہا یہ بھی تقاضائے عمر ہے.تو جس طرح اُس طبیب نے تقاضائے عمر کو ہر جگہ چسپاں کیا تھا اسی طرح ہم اگر سوچیں اور غور کریں تو ہمیں بھی ہر جگہ یہی کہنا پڑتا ہے کہ یہ موقع بھی دعا کا ہے.اگر پہلے موقع سے ہم نے فائدہ نہیں اُٹھایا تو اسی موقع سے ہی فائدہ اُٹھا لیں کیونکہ جہاں دعا نشان دکھاتی ہے وہاں نشان کے محسوس کرنے کا رستہ بھی دعا ہی کھولتی ہے اور ہمارے ایمان کے رستہ میں جو روک ہو اُسے بھی دعا ہی دور کرتی ہے.پس ہمیں اس مبارک زمانہ سے فائدہ اُٹھانا چاہیے.خدا تعالیٰ نے کھڑکیاں کھول دی ہیں

Page 60

$1954 50 خطبات محمود اور اپنے تقرب کے رستہ کو آسان بنا دیا ہے.ہمارا فرض ہے کہ ہم ان ذرائع سے فائدہ اُٹھا ئیں تا ہم جھولیاں بھر کر ان کھڑکیوں سے گزریں اور تا ہم اس کی رحمت اور فضل سے مالا مال ہو جائیں جس سے دوسری دنیا محروم ہو چکی ہے“.1 : اُرسیوی: ترچھی (فیروز اللغات اردو جامع فیروز سنز لاہور ) لمصلح 18 فروری 1954 ء)

Page 61

$1954 51 557 Co 6 خطبات محمود مبارک ہیں وہ لوگ جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور اسلام کی حفاظت کے لیے اس وقت قربانی کریں اور اس خدمت کو انعام سمجھیں (فرمودہ 5 فروری 1954ء بمقام ربوہ) تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: آج فروری کے مہینہ کی پانچ تاریخ ہو چکی ہے اور تحریک جدید کے وعدوں کی آخری میعاد 15 فروری ہے.میں نے 22 جنوری کو تحریک جدید کے متعلق ایک خطبہ بیان کیا تھا اور جماعت کو تحریک کی تھی کہ فروری کا پہلا ہفتہ تحریک جدید کے لیے وقف کیا جائے اور تمام جماعتیں اپنی اپنی جگہ پر تمام افراد سے وعدے لینے کی کوشش کریں کیونکہ اس سال وعدوں کی رفتار بہت کم ہے.میرا یہ خطبہ جنوری کے آخر میں شائع ہو گیا لیکن مجھے صرف راولپنڈی کی جماعت کی طرف سے یہ اطلاع ملی ہے کہ ہفتہ تحریک جدید کے لیے ایک پروگرام مقرر کیا گیا ہے.الگ الگ حلقے تجویز کیے گئے ہیں اور چند آدمیوں پر مشتمل ایک وفد بنایا گیا ہے جو جماعت کے تمام افراد تک جائے گا اور اُن سے تحریک جدید کے وعدے لے گا.

Page 62

$1954 52 خطبات محمود باقی جماعتوں کی طرف سے مجھے کوئی اطلاع نہیں ملی حتی کہ ربوہ کی جماعت کی طرف سے بھی مجھے کوئی اطلاع نہیں ملی.جہاں کی جماعت نے میرا یہ خطبہ 22 جنوری کو سن لیا تھا.اور نہ اس نے اپنی کوششوں کے نتیجہ سے مجھے مطلع کیا ہے اور عملاً میں دیکھتا ہوں کہ اس عرصہ میں بجائے اس کے کہ جو خلیج پچھلے سال کے وعدوں اور اس سال کے وعدوں میں تھی کم ہوتی ، وہ اور بھی بڑھ گئی ہے.میرے لاہور جانے سے قبل یہ خلیج آہستہ آہستہ دور ہو رہی تھی اور دور دوم کے پچھلے سال کے وعدوں اور اس سال کے وعدوں میں صرف ایک ہزار کا فرق رہ گیا تھا.لیکن دفتر کی طرف سے جو کل رپورٹ ملی ہے اُس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ فرق اب بجائے اور کم ہونے کے، بڑھ گیا ہے اور اب پچھلے سال کے وعدوں اور اس سال کے وعدوں میں تو ہزار کا فرق ہو گیا ہے.گویا بجائے ترقی کرنے کے آٹھ ہزار کے قریب جماعت اور نیچے گر گئی ہے.دورِ اوّل والے اس بات کی ضرورت نہیں سمجھتے کہ وہ جلد جلد مجھے وعدوں کی رفتار کے متعلق اطلاع بہم پہنچائیں.وہ خاموشی کو زیادہ بہتر سمجھتے ہیں.پندرہ سولہ دن کے بعد مقابلہ کرتے ہیں اور مجھے اطلاع دیتے ہیں لیکن دفتر دوم والے کچھ دنوں سے روزانہ پچھلے سال کے وعدوں اور اس سال کے وعدوں کا مقابلہ کرتے ہیں اور مجھے اطلاع دیتے ہیں.جس وقت دورِ اوّل کے کارکنوں نے مجھے اطلاع دی تھی اُس وقت دورِ اوّل کے پچھلے وعدوں اور اس سال کے وعدوں میں اکیس ہزار کا فرق تھا.اب یقینی طور پر تو نہیں کہا جا سکتا کہ اب یہ فرق کس قدر.لیکن اگر پچھلے دنوں دور اول کے وعدوں میں بھی اسی قدر فرق پڑا ہے جس قدر فرق ہے.دور دوم کے وعدوں میں پڑا.تو اس کا مطلب یہ ہے کہ دونوں دوروں کے پچھلے سال کے وعدوں اور اس سال کے وعدوں میں قریباً چالیس ہزار کا فرق پڑ گیا ہے.یا یوں کہو کہ اس کی سال کے وعدے پچھلے سال سے بیس فیصدی کم آئے ہیں.جو اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ابھی وعدوں کی میعاد میں دس دن اور ہیں اور وعدوں کے آنے میں ابھی پندرہ دن باقی ہیں کیونکہ چار پانچ دن ڈاک پر بھی لگ جاتے ہیں.مثلاً جنہوں نے پندرہ فروری کو وعدے لکھوائے ہیں کی حمد اس کے بعد دور اؤل والوں نے رپورٹ کی ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت دو راول کے گزشتہ سال اور اس سال میں اکتالیس ہزار کا فرق ہے.

Page 63

$1954 53 53 خطبات محمود وہ وعدے 16 فروری کو ڈاک میں پڑیں گے اور 17 ، 18 یا 19 تاریخ کو یہاں پہنچیں گے.پھر بعض دیہات میں ہفتہ میں ایک دفعہ ڈاک جاتی ہے.اس لیے وہاں کی جماعتوں کے وعدے 22 یا 23 کو یہاں پہنچیں گے.گویا ابھی وعدوں کی میعاد میں پندرہ دن یقینی ہیں لیکن پچھلے سال کے وعدوں کی رفتار اگر قائم رہتی تو ہم سمجھتے باقی دنوں میں وعدے پچھلے سال تک پہنچ جائیں گے.لیکن پچھلے سال کے وعدوں کی رفتار کے لحاظ سے بھی ابھی ایک لاکھ چالیس ہزار کے وعدے باقی ہیں.پچھلے سال ان دنوں میں تحریک جدید کے وعدے بڑی سرعت سے بڑھے تھے.پچھلے سال کی کاپی دیکھی گئی تو یکم فروری کو نو ہزار آٹھ سو کے وعدے آئے تھے اس سال صرف تیرہ سو کے وعدے آئے ہیں.گویا ایک ہی دن میں ساڑھے آٹھ ہزار کا فرق پڑ گیا.چونکہ مجھے دو راول کے وعدوں کی اطلاع ابھی نہیں آئی اور نہ آیا کرتی ہے، دور دوم کے وعدوں کی اطلاع آئی ہے اور پہلے بھی آیا کرتی تھی اس لیے دور دوم کے وعدوں کی تی رفتار پر قیاس کرتے ہوئے میں کہوں گا کہ پچھلے سال اور اس سال کے وعدوں میں چالیس ہزار کا فرق پڑ گیا ہے.اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ باقی پندرہ دنوں میں اور کتنا فرق پڑے گا.اس کے بعد کچھ وعدے امریکہ کی جماعتوں کے ہیں اور کچھ ویسٹ اور ایسٹ افریقہ کی جماعتوں کے، مگر اُن کی مقدار بہت کم ہوتی ہے اور ان وعدوں میں زیادہ فرق پیدا نہیں کرتی کیونکہ ان ممالک میں جماعتیں ابھی بہت کم ہیں سوائے انڈونیشیا کی جماعتوں کے کہ اُن کے وعدوں کی تعداد چالیس ہزار روپیہ (پاکستانی) کے قریب سالانہ ہوتی ہے.لیکن ہم ان کو اپنے حساب میں شامل نہیں کرتے.کیونکہ وہاں کام بہت زیادہ ہے اور اس لحاظ سے اخراجات کی بھی زیادہ ہیں.اس لیے ہم وہاں سے روپیہ مرکز میں نہیں منگواتے بلکہ اُسے وہیں خرچ کرتے ہیں.اسی طرح ایسٹ اور ویسٹ افریقہ کی جماعتوں کا چندہ بھی اچھا خاصا ہوتا ہے لیکن ان ان کے علاوہ باقی غیر ملکی جماعتوں کے چندے بہت کم ہوتے ہیں.بہت زور دینے کے بعد اب انگلستان کی جماعت میں چندہ کی طرف کچھ توجہ پیدا ہوئی ہے اور ایک دو نئے احمدی ایسے ہوئے ہیں جو چندہ دینے لگے ہیں.پہلے سارے نو مسلم چندہ دینے سے گریز کرتے تھے.جرمنی سے بھی خط آیا ہے کہ وہاں لوگ چندہ دینے لگ گئے ہیں.ان کی مالی حالت

Page 64

$1954 54 خطبات محمود سے بہت خراب ہے لیکن بہر حال وہ چندے دے رہے ہیں.اگر چہ وہ چندہ ان کی آمد کے لحاظ بہت کم ہوتا ہے.اب ایک دوست نئے احمدی ہوئے ہیں وہ اڑھائی پونڈ یعنی قریباً پچپیس روپے ماہوار چندہ دیتے ہیں.شام کی جماعتوں کے دوست بھی چندہ دیتے ہیں لیکن اب وہاں ایسی مشکلات پیدا ہو گئی ہیں کہ چندہ کی رقوم دوسرے ممالک میں نہیں جاسکتیں.حکومت کی طرف سے ایسے قواعد مقرر کر دیئے گئے ہیں کہ شاید ملک میں بھی چندہ کی رقوم جمع نہ ہوتی سکیں.باقی جماعتوں میں چندہ کی فراہمی قریباً صفر ہے.انڈونیشیا، امریکہ، ایسٹ افریقہ، ویسٹ افریقہ اور ان سے اتر کر شام، یہ ممالک ہیں جن کے اس وقت تک چندے آئے ہیں یا ہمارے حساب میں محسوب ہوتے ہیں.چھوٹی جماعتوں میں سے سیلون، برما اور ملایا کی جماعتیں ہیں جن کے افراد چندہ دیتے ہیں لیکن چونکہ ان ممالک میں جماعتیں بہت کم تعداد میں ہیں اس لیے چندے بھی کم مقدار میں آتے ہیں.فی الحال یہ سارا بوجھ پاکستان کی جماعتوں پر ہے.یا یوں کہہ لو کہ اشاعت اسلام کے لیے چندہ دینے کا فخر ابھی تک صرف پاکستان کی جماعتوں کو حاصل ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ میں سے ایک صحابی سے کسی نے پوچھا کہ آپ صحابہ میں سے سب سے زیادہ بہادر کس کو سمجھا کرتے تھے؟ انہوں نے جواب دیا.زیادہ بہادر وہ شخص ہوتا تھا جو لڑائی کی صفوں میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب کھڑا ہوتا تھا.اُس نے کہا کیوں؟ اُس صحابی نے جواب دیا اس لیے کہ کفار جب اسلامی لشکر پر حم کرتے تھے تو وہ جانتے تھے کہ اسلام کی روح رواں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ مبارک مرحملہ ہے.اگر ہم آپ کو مار دیں گے تو اسلام ختم ہو جائے گا.کفار، اسلام کو خدا تعالیٰ کا مذہب نہیں سمجھتے تھے بلکہ وہ آپ ہی کی ذات کی طرف اسے منسوب کرتے تھے.اس لیے وہ سمجھتے تھے کہ ی رہم آپ کو ماریں گے تو اسلام باقی نہیں رہے گا.اس لیے وہ اپنا سارا زور رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تک پہنچنے میں خرچ کر دیتے تھے.پس جنگ کی صفوں میں خطرناک ترین جگہ وہ ہوتی تھی جہاں رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کھڑے ہوتے تھے.چاروں طرف.دشمن فوج کے بہادر اور جری لوگ اُس جگہ کی طرف لپکتے تھے.جو لوگ آگے پیچھے ہوتے انہیں

Page 65

$1954 55 خطبات محمود زیادہ دباؤ برداشت نہیں کرنا پڑتا تھا.حملہ، بار بار وہیں ہوتا تھا جہاں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوتے تھے.چنانچہ اُحد کی جنگ کے موقع پر جب دشمن لشکر کے تیراندازوں نے اپنے تیروں کا رُخ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف پھیر دیا تو حضرت طلحہ آپ کے آگے کھڑے ہو گئے.سارے تیر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف آ رہے تھے.حضرت طلحہ اُن تیروں کو اپنے ہاتھوں پر لیتے رہے.یہاں تک کہ تیر اتنی کثرت سے اُن کے ہاتھ پر لگے کہ آپ کا ایک ہاتھ بالکل بیکار ہو گیا.1 جب حضرت علیؓ اور حضرت عائشہؓ کے درمیان جنگ ہوئی تو حضرت عائشہؓ کے لشکر میں زیادہ کام کرنے والے حضرت طلحہ اور حضرت زبیر ہی تھے.خصوصاً حضرت طلحہ نے حضرت عائشہ کو بچانے میں بہت زیادہ حصہ لیا لیکن جب لشکر واپس آیا تو ایک صحابی نے آپ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا طلحہ! آپ کو یاد ہے کہ ایک موقع پر آپ میں اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھے تھے.اس وقت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو مخاطب کر کے کہا تھا کہ طلحہ! تمہارا اُس وقت کیا حال ہو گا جب تو علی کے مقابلہ میں لڑائی میں شامل ہو گا اور تم غلطی پر ہو گے.حضرت طلحہ کو بھی وہ واقعہ یاد آ گیا.آپ نے فرمایا ٹھیک ہے.اچھا ہوا کہ آپ نے مجھے یہ بات یاد دلا دی.میں اب حضرت علیؓ کے مقابلہ میں لڑائی میں حصہ نہیں لوں گا2.چنانچہ وہ رات کو جنگی کیمپ سے چل پڑے تا صبح کے وقت لوگ انہیں لڑائی میں شامل ہونے کے لیے تنگ نہ کریں.کوئی بد بخت آدمی تھا جو بظاہر حضرت علیؓ کے لشکر سے تعلق رکھتا تھا.اُس نے حضرت طلحہ کو اکیلے جاتے دیکھا تو وہ آپ کے پیچھے پیچھے گیا.ا جب آپ لشکر سے دور پہنچے تو اُس نے حملہ کر کے آپ کو قتل کر دیا.اس کے بعد وہ شخص حضرت علی کے پاس آیا اور کہا آپ کو مبارک ہو.میں نے آپ کا دشمن مار دیا ہے.حضرت علیؓ نے فرمایا کون دشمن؟ اس نے کہا طلحہ.حضرت علیؓ نے فرمایا تم کو بھی مبارک ہو کہ خدا تعالیٰ تم کو دوزخ میں ڈالے گا.اُس نے کہا کیوں؟ میں نے تو طلحہ کو آپ کی خاطر مارا ہے.حضرت علیؓ نے فرمایا میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا ہے کہ جو شخص طلحہ کو مارے گا وہ دوزخی ہو گا.3 اسی طرح کسی مجلس میں کسی شخص نے حضرت طلحہ کے متعلق کہا وہ ٹنڈا ایسا ہ ٹنڈا ایسا ہے.اور

Page 66

$1954 56 56 خطبات محمود کلمہ اُس نے حقارت سے کہا.اُس مجلس میں ایک صحابی بیٹھے تھے.انہوں نے یہ بات سنی کی تو کہا تجھے پتا ہے کہ تو ٹنڈا کس کو کہہ رہا ہے اور تجھے پتا ہے کہ وہ ٹنڈا کیسے بنا؟ جنگ اُحد میں ایک موقع پر اسلامی لشکر تتر بتر ہو گیا.دشمن کے تیروں کا سارا زور رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف تھا.کسی شخص کو جرات نہیں تھی کہ ان تیروں کے سامنے کھڑا ہوتا لیکن حضرت طلحہ آگے آئے اور انہوں نے سارے تیر اپنے ہاتھوں پر لیے.اس کی وجہ سے ان کا ہاتھ ٹنڈا ہو گیا.آپ تیرانداز تھے.آپ دشمن پر تیر بھی چلاتے تھے اور جب دشمن کی طرف سے تیر آتے تو آپ انہیں اپنے ہاتھوں پر لیتے.اس لیے آپ کے اس ہاتھ کا گوشت اور ہڈیاں کچلی گئیں.اُس صحابی نے کہا اب تجھے پتا لگ گیا کہ ان کا ہاتھ کس طرح ٹنڈا ہو گیا.اور تو یہ بھی سن لے کہ جب دشمن کے تیرانداز رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف تیر پھینکتے تھے تو حضرت طلحہ انہیں اپنے ہاتھ پر روکتے تھے اور جو تیر گرتے تھے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم انہیں اُٹھاتے.اور چونکہ اُس وقت طلحہ ہی ایک شخص تھے جو آپ کی حفاظت کر رہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تیر اُٹھاتے اور طلحہ سے مخاطب ہو کر فرماتے.طلحہ! تجھ میرے ماں باپ قربان! یہ تیر لے اور دشمن پر چلا 4 جس شخص کے متعلق رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہ فرماتے تھے کہ تجھ پر میرے ماں باپ قربان اُسے تو ٹنڈا کہہ رہا ہے!! غرض اس صحابی نے بتایا کہ جو شخص جنگ کی صفوں میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قرب میں کھڑا ہوتا وہ سب سے زیادہ بہادر کہلاتا تھا.اس لیے کہ وہ سب سے زیادہ بوجھ اُٹھاتا تھا سو تم بھی کہہ سکتے ہو کہ اس وقت اسلام کی جنگ میں دوسرے ملک اور قومیں اُس کی طرح مالی قربانی نہیں کرتیں جس طرح کی قربانی کے لیے ہمیں کہا جا رہا ہے.تم یہ بھی کہہ سکتے ہو کہ اُن پر وہ بوجھ نہیں جو ہم پاکستانیوں پر ہے.لیکن تم یہ بھی کہہ سکتے ہو کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور اسلام کی حفاظت کے لیے حضرت طلحہ کی طرح قربانی کرنے کا جو موقع ہمیں دیا گیا ہے وہ دوسروں کو نہیں دیا گیا.تم ان دونوں تشریحوں میں سے ایک تشریح کر سکتے ہو.اگر تمہارا ایمان کمزور ہے تو تم کہہ سکتے ہو کہ ہم پر جتنا بوجھ ہے وہ

Page 67

$1954 57 خطبات محمود جس دوسری قوموں پر نہیں.لیکن اگر تمہارا ایمان مضبوط ہے تو تم یہ بھی کہہ سکتے ہو کہ کئی قو میں بعد میں آئیں گی اور یہ بوجھ اُٹھائیں گی لیکن آج ہم اکیلے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور اسلام کے سامنے کھڑے ہو کر تیر کھا رہے ہیں.اور حقیقت یہی ہے کہ وہ شخص جو اس وقت اس قربانی میں حصہ لیتا ہے وہ خدا تعالیٰ کے نزدیک ایسے ہی مقام پر کھڑا ہے : مقام پر حضرت طلحہ جنگِ اُحد کے موقع پر کھڑے تھے.آج بھی اسلام پر دشمن کی طرف سے تیر پڑ رہے ہیں.جو شخص اشاعتِ اسلام میں حصہ لیتا ہے وہ اپنی چھاتی پر تیر کھاتا ہے.اور وہ اس مقام پر کھڑا ہوتا ہے جس پر حضرت طلحہ کھڑے تھے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کے متعلق فرما رہے تھے کہ تجھ پر میرے ماں باپ قربان! تو اور قربانی کر.یہ خوش قسمتی کے دن کبھی کبھی آتے ہیں اور کسی کسی قوم کو ملتے ہیں.پس مبارک ہیں وہ لوگ جو ان دنوں سے فائدہ اُٹھا ئیں اور مبارک ہیں وہ لوگ جو اس خدمت کو انعام سمجھیں نہ کہ بوجھ.چونکہ یہ خطبہ دیر سے شائع ہو گا اور وعدوں کی میعاد قریب الاختتام ہو گی اس لیے دوستوں کو کام کا مزید موقع دینے کے لیے میں وعدوں کی آخری میعاد 15 فروری کی جگہ 23 فروری مقرر کرتا ہوں.اللہ تعالیٰ احباب کو توفیق بخشے کہ وہ زیادہ سے زیادہ خدمت دین اور اشاعت اسلام میں حصہ لے سکیں.اللَّهُمَّ امین 1 بخاری کتاب المغازى باب غزوة أحد لمصلح و فروری 1954 ء) 2 : البدايه والنهايه لابن كثير جلد 3 جزء 6 صفحہ 205 قاهره 2006ء اور تاریخ الطبری جلد 3 صفحہ 41 بيروت لبنان 1971 ء میں یہ واقعہ حضرت زبیر کے حوالہ سے ملتا ہے.3 : طبقات ابن سعد جلد 2 صفحه 64 کراچی 2012(مفہوما ) :4 صحيح البخارى كتاب المغازى باب غزوة أحد اور اسد الغابہ جلد اول صفحہ 840 میں یہ واقعہ حضرت سعد کے حوالہ سے ملتا ہے.

Page 68

$1954 58 7 خطبات محمود جماعت کے مخلص دوست اپنا پورا زور لگائیں کہ ہر احمدی تحریک جدید میں حصہ لے (فرمودہ 12 فروری 1954ء بمقام ربوہ) تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: میں پچھلے دو ہفتوں سے تحریک جدید کے متعلق خطبات دے رہا ہوں.اس جمعہ پر بھی میں اسی سلسلہ میں کچھ باتیں کہنی چاہتا ہوں.پچھلے جمعہ میں میں نے بتایا تھا کہ گزشتہ سال کے تحریک جدید کے وعدوں سے اس سال کے وعدوں کا فرق قریباً پچاس ہزار کا تھا.آخری ایام میں خدا تعالیٰ کے فضل سے جماعت نے اچھی کوشش کی ہے اور تحریک جدید کا جو ہفتہ منایا گیا تھا اس میں جماعت کے دوستوں نے خوب سرگرمی سے کام کیا.چنانچہ جماعتوں کی طرف سے جو رپورٹیں آئی ہیں اُن سے معلوم ہوتا ہے کہ بہت سی جماعتوں میں بیداری پیدا ہو رہی ہے اور اب گل فرق پچاس ہزار سے اتر کر تمیں ہزار کا رہ گیا ہے اور کل سے اس وقت تک جو وعدے وصول ہوئے ہیں اُن کا اندازہ کرتے ہوئے میں سمجھتا ہوں کہ غالباً یہ فرق پچیس ہزار سے بھی کم رہ جائے گا.ابھی نئی مقرر کردہ تاریخ کے لحاظ ނ

Page 69

$1954 59 59 خطبات محمود وعدوں میں دس دن باقی ہیں اور وعدوں کے یہاں پہنچنے میں بھی پانچ دس دن لگ جائیں گے.اگر ان دنوں میں بھی جماعت کے احباب اُسی طرح کوشش کرتے رہے جس طرح وہ پہلے چند دن کرتے رہے ہیں تو مجھے یقین ہے کہ نہ صرف وہ فرق دور ہو جائے گا جو اس سال کے وعدوں میں اور پچھلے سال کے وعدوں میں ہے بلکہ اس سال کے وعدے پچھلے سال کے وعدوں سے بڑھ جائیں گے.میں دیکھتا ہوں کہ بیرونی ممالک میں اسلام کی تڑپ پیدا ہو رہی ہے اور یہ تڑپ صرف غیر مسلم ممالک میں پیدا ہو رہی ہے بلکہ مسلم ممالک میں بھی پیدا ہو رہی ہے اور ان میں یہ احساس پیدا ہو رہا ہے کہ وہ اپنے بچے غیر ملکوں میں بھیجیں تا کہ وہ دینی تعلیم حاصل کریں اور اس طرح وہ اپنے علاقوں میں اسلام کو مضبوط کر سکیں.چنانچہ پرسوں ہی مجھے سوڈان کی تی جماعت اسلامیہ کی طرف سے چٹھی آئی ہے کہ آپ اپنی جماعت کی طرف سے ہمارے کچھ لڑکوں کو وظیفے دیں تا کہ وہ دوسرے ممالک میں جا کر اسلام کی تعلیم حاصل کر سکیں اور اس طرح نہ صرف ہر سال ہمارے ملک کی تعلیم ترقی کرے بلکہ اسلامی ممالک سے ہمارے تعلقات بھی مضبوط ہوں.ہر ملک میں کچھ خصلتیں ہوتی ہیں جن کی وجہ سے وہ اپنے قرب و جوار کے علاقہ میں ایک فضیلت حاصل کر لیتا ہے.مثلاً یورپ کے ملکوں میں ذاتی کریکٹر اور محنت کی عادت ایسی پائی جاتی ہے جو ابھی تک ایشیائی ممالک میں پیدا نہیں ہو سکی.وہاں لوگ اس قدر محنت کرتے ہیں کہ اُن کے آگے ہمارے ملک کے رہنے والوں کی محنت مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ اب جبکہ وعدے قریباً پورے ہو گئے ہیں سال اول کے وعدوں میں چھبیس ہزار کا فرق ہے.اگر سب دوست دس فیصدی کم کرتے تب بھی تنیس ہزار کا فرق ہونا چاہیے تھا مگر وعدے کم کرنے والے ہیں فیصدی بھی نہیں.جس سے معلوم ہے ہے کہ دس فیصدی کے قریب لوگوں نے وعدہ کیا ہی نہیں.ایک اعلیٰ نیکی کے کام میں حصہ لینے کے بعد یہ غفلت قابلِ افسوس ہے.اللہ تعالیٰ اُن پر رحم فرمائے.دفتر دوم کے وعدوں میں زیادتی ہے گو امید کے مطابق نہیں مگر بہر حال زیادتی ہے الْحَمْدُ لِلہ.خدا کرے اب ادا ئیگی میں بھی پھستی ہو امین.

Page 70

$1954 60 خطبات محمود بالکل بیچ نظر آتی ہے.اگر ہمارے سامنے خدا تعالیٰ کے وعدے نہ ہوں تو انہیں دیکھ کر ہمیں ی مایوسی ہوتی ہے کہ اُن حالات میں ہم اُن کا مقابلہ کیسے کر سکتے ہیں.ان کے عورت، مردی اور بچے سب کام میں لگے ہوئے ہوتے ہیں.اُن کے دلوں میں امنگیں پائی جاتی ہیں اور ان میں سے کوئی شخص نہیں چاہتا کہ وہ اپنے مقام پر ہمیشہ کھڑا رہے.یا ہمارے ملک کے لوگوں کی طرح یہ نہیں چاہتا کہ دوسرے لوگ اسے سہارا دے کر کھڑا کریں.ہمارے ملک میں اگر کوئی شخص ذرا سی تکلیف میں بھی مبتلا ہو جاتا ہے تو وہ اپنے دائیں بائیں دیکھنے لگ جاتا ہے.اور پھر اسلامی تعلیم کی کمی کی وجہ سے چونکہ مذہب کا مادہ کم ہو گیا ہے اس لیے وہ یہ نہیں کرتا کہ اپنے نمونہ سے لوگوں کے اندر مدد کی تڑپ پیدا کرے بلکہ لوگوں کے خلاف یہ پروپیگنڈا شروع کی کر دیتا ہے کہ وہ اس کی مدد نہیں کرتے.ہمارے ملک کی حالت ایسی ہو رہی ہے جیسے لطیفہ مشہور ہے کہ کوئی سپاہی کسی سڑک سے گزر رہا تھا کہ اُس کے کان میں آواز آئی کہ میاں! ادھر آؤ، میاں! ادھر آؤ.سڑک کے قریب ہی جنگل تھا جس سے آواز آ رہی تھی.وہ سڑک چھوڑ کر جنگل کی طرف گیا اور اس نے ہے دیکھا کہ دو آدمی لیٹے ہوئے ہیں.اُس نے اُن سے دریافت کیا کہ تم پر کیا مصیبت پڑی.جس کی وجہ سے تم نے مجھے بلایا ہے؟ ان میں سے ایک نے کہا یہاں اوپر کی بیری سے ایک بیر گر کر میرے سینہ پر آپڑا ہے تم یہ بیر اُٹھا کر میرے منہ میں ڈال دو.سپاہی کو غصہ آیا کہ اتنی چھوٹی سی بات کے لیے اسے تکلیف دی گئی ہے اور اس کا سفر خراب کیا گیا ہے.چنانچہ سپاہی کی اُس سے ترشی سے پیش آیا اور اُس نے کہا تم بڑے بے حیا اور بے شرم ہو.کیا تم خود بیر اُٹھائی کر منہ میں نہیں ڈال سکتے تھے؟ اس پر دوسرا شخص کہنے لگا میاں! جانے دو.کیوں ناراض ہوتے ہو؟ اس شخص کی حالت ہی ایسی ہے.ساری رات گتا میرا منہ چاہتا رہا لیکن اس کمبخت ا سے اتنا بھی نہیں ہوا کہ اسے ہمشت کرتا.یہ بات سُن کر سپاہی بالکل مایوس ہو گیا اور اُس نے سمجھ لیا کہ انہیں کچھ کہنا بے فائدہ ہے.چنانچہ وہ اپنے سفر پر چلا گیا.ہمارے سارے ملک کی یہی حالت ہے.ہر شخص یہ امید کرتا ہے کہ اُسے دوسرے لوگ اُٹھا ئیں.اور اگر دوسرے لوگ اُسے نہیں اُٹھاتے تو اُسے اُن سے شکوہ ہوتا ہے.

Page 71

خطبات محمود 61 $1954 اور میں دیکھتا ہوں کہ ہماری جماعت میں بھی یہ بات پائی جاتی ہے.سینکڑوں آدمی کی ایسے ہیں جو جماعت کے وظائف سے پڑھ کر انٹرنس تک تعلیم حاصل کر چکے ہیں یا وہ بی.اے یا ایم.اے ہو چکے ہیں لیکن پھر بھی وہ یہ شکوہ کرتے ہیں کہ جماعت نے ان کی پوری مدد نہیں کی.انہیں یہ کبھی خیال نہیں آتا کہ جن لوگوں نے انہیں مدد دی ہے اُن کی حالت بھی اُن جیسی ہی ہے.کئی لوگ ایسے ہیں جنہوں نے چندے دیئے اور اس مالی بوجھ کو برداشت کرنے کی وجہ سے انہوں نے اپنے بچوں کی تعلیم خراب کر لی.اور پھر اگر وہ اپنے خرچ پر پڑھتا تو شاید انٹرنس پاس کر لیتا یا ایف.اے کر لیتا لیکن جماعت کی مدد سے اُس نے بی.اے یا ایم.اے پاس کر لیا ہے.مگر بجائے اس کے کہ وہ احسان مند ہو اور یہ ارادہ کر لے کہ اب وہ دوسروں کو تعلیم کے سلسلہ میں مالی مدد دے گا وہ جماعت سے اس بات کا شکوہ کرتا ہے کہ اس نے پوری کی طرح اُس کی مدد نہیں کی.دوسرے ملکوں میں یہ بات نہیں پائی جاتی.جماعتیں اور سوسائیٹیاں تو الگ رہیں وہ لوگ ماں باپ سے بھی مدد نہیں لیتے.ایک دفعہ چودھری ظفر اللہ خاں صاحب نے مجھے ایک قصہ سنایا.جب وہ پہلی دفعہ امریکہ گئے اُس وقت وہ وزیر نہیں ہوئے تھے.اب تو اُن کی تقریروں اور خدمات کی وجہ سے ایک خاص اثر قائم ہو چکا ہے لیکن جب وہ نئے نئے امریکہ گئے تھے تو اُس وقت ہمارے مبلغوں کی امداد بھی ان کے لیے بڑی کارآمد ہوتی تھی.ایک دن انہوں نے سیر کے لیے باہر جانے کا ارادہ کیا تو انہوں نے مبلغ سے کہا کہ وہ انہیں کوئی ایسا آدمی دے جو سیر کرا دے.کی چنانچہ مبلغ نے انہیں چودہ پندرہ سال کا ایک لڑکا دیا اور کہا کہ یہ ہوشیار لڑکا ہے، یہ آپ کو سیر کرا دے گا.وہ لڑکا چودہ پندرہ سال کا تھا یا سولہ سترہ سال کا.بہر حال اُس کی عمر تعلیمی تھی.چودھری صاحب نے بتایا کہ اُس لڑکے کی باتوں سے پتا لگتا تھا کہ وہ نوکری کرتا ہے اور اُس کی کی باتوں سے یہ بھی پتا لگتا تھا کہ اُس کا باپ اچھا مالدار ہے.چودھری صاحب نے بتایا کہ میں نے اُس لڑکے سے کہا میاں! تمہارا باپ مالدار ہے وہ تمہیں تعلیم کیوں نہیں دلاتا ؟ اس پر مجھے یوں محسوس ہوا کہ گویا اُس کی ہتک ہو گئی ہے اور وہ بڑے جوش سے کہنے لگا میں کسی کی مدد کیوں لوں؟ میرا باپ اپنی محنت سے بڑا بنا ہے، میں بھی اپنی محنت سے بڑا بنوں گا.

Page 72

$1954 62 خطبات محمود مجھے کسی سے مدد لینے کی ضرورت نہیں.یہ یہی وجہ ہے اُن کے اِس قدر ترقی کر جانے کی.ان کے بڑے آدمیوں کو دیکھ لو.ان میں سے اکثر ایک کنگال شخص کی حیثیت سے اُٹھے ہیں.ہمارے بڑے بھائی میرزا سلطان احمد صاحب مرحوم جو مرزا عزیز احمد صاحب والد تھے ابھی احمدی نہیں ہوئے تھے کہ وہ یورپ گئے.انہوں نے بتایا کہ جب میں یورپ گے تو ایک شہر میں چند دوستوں سے مل کر ایک مکان کرایہ پر لیا.ایک لڑکی اُس مکان والوں کی خدمت کیا کرتی تھی.ایک دن انہوں نے دیکھا کہ لڑکی رو رہی ہے اور اس کی آنکھیں رونے کی وجہ سے سوجی ہوئی ہیں.ہم نے سمجھا کہ شاید اس کا کوئی رشتہ دار مر گیا ہے جس کی وجہ سے وہ رو رہی ہے.چنانچہ ہم نے اُس سے دریافت کیا کہ اُس کے رونے کا کیا سبب ہے؟ تو اُس نے بتایا کہ اُسے جو تنخواہ ملتی تھی وہ اُس کی جیب سے گر گئی ہے.ہم جانتے تھے کہ اس لڑکی کے والدین کماتے تھے بیکار نہیں تھے.چنانچہ ہم نے اُس لڑکی سے کہا تم روتی کیوں ہو؟ تم لاوارث تو نہیں ہو.تمہارے والدین زندہ موجود ہیں اور وہ کماتے ہیں.تمہیں رونے کی کیا ضرورت ہے؟ تو اُس لڑکی نے ہمیں بتایا کہ میرے والدین مجھے ایک دن بھی روٹی نہیں دیتے.ہمارے ملک میں اس قسم کی کوئی مثال نہیں پائی جاتی.ماں باپ خود فاقے کریں گے اپنے بچوں کا پیٹ پالیں گے.لیکن یورپین ممالک میں بچوں میں حوصلہ پیدا کرنے کے ریق جاری ہے کہ جب بچے جوان ہو جاتے ہیں اور کام کاج کرنے کے قابل ہو جاتے ہیں تو وہ اُن سے کہتے ہیں جاؤ! اور کما کر لاؤ.عام طور پر ماں باپ اپنے بچوں سے کھانے کا خرچ لیتے ہیں لیکن بعض لوگ بچوں سے مکان کا کرایہ تک بھی لیتے ہیں.وہ اُن سے کہہ دیتے ہیں کہ مکان کے ایک کمرہ میں تمہاری چارپائی بچھی ہے تم اُس جگہ کا کرایہ دو.لیکن ہمارے ہاں بچہ چھ سات سال کا ہوتا ہے تو پڑھنے کے لیے مدرسہ بھیجا جاتا ہے اور پھر وہ ہر سال فیل ہوتا جاتا ہے.اور بعض اوقات وہ ہیں ہیں، بچھپیں چھپیں سال کی عمر کا ہو جاتا ہے ادھر ہمارے بچوں کی یہ حالت ہے کہ تمہیں تمہیں سال کے ہو کے ماں باپ کی امداد پر نظر لگی رہتی ہے.میرے اپنے بچوں کا یہی حال ہے اور مجھے ہمیشہ فکر رہتا ہے کہ اس ہمت کے ساتھ انہوں نے دنیا کی اصلاح کیا کرنی ہے.

Page 73

$1954 63 خطبات محمود لیکن اُس کے ماں باپ اُس پر خرچ کرتے ہیں اور اُس بچے کو یہ احساس بھی نہیں ہوتا کہ و اپنی تعلیم ہی مکمل کر لے.پھر اکثر بچے ایسے ہوتے ہیں کہ جب وہ کمانے لگتے ہیں تو والدین کی مدد نہیں کرتے.وہ سمجھتے ہیں کہ اُن پر صرف اپنی اولاد کی خدمت کرنا فرض ہے.اور بعض نوجوان تو ایسے ہوتے ہیں جو سینما دیکھتے ہیں ، عیاشیاں کرتے ہیں لیکن جب کوئی ان سے کہے کہ میاں! تم اپنے والدین کو بھی کچھ بھیجا کرو تو وہ کہہ دیتے ہیں کوئی پیسہ بچے تو بھیجیں.کوئی پیسہ بچتا ہی نہیں.والدین کو کہاں سے دیں.غرض ان ممالک کے حالات اس قسم کے ہیں کہ اُن لوگوں کی محنت کو دیکھ کر مایوسی ہوتی ہے کہ ایسے حالات میں ہم انہیں شکست کیسے دیں گے.لیکن پھر بھی اُن کے اندر ایک احساس کمتری پیدا ہو رہا ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ کوئی ایسی چیز ہے جو اُن کے پاس نہیں اور ایشیائیوں کے پاس ہے.یہ احساس کمتری ابھی زیادہ نمایاں نہیں کہ بڑے اور چھوٹے سب لوگوں میں پایا جائے لیکن تاہم ایک طبقہ اُن کے اندر ایسا پیدا ہو گیا ہے کہ جو سمجھتا ہے کہ اُن کے پاس دولت ہے، مال ہے لیکن انہیں دل کا چین نصیب نہیں.وہ لوگ شرابیں پیتے ہیں، سینما دیکھتے ہیں، ناچ اور گانوں میں دن گزارتے ہیں لیکن جب نشہ اتر جاتا ہے اور وہ چار پائی جا کر لیٹتے ہیں تو انہیں یوں معلوم ہوتا ہے کہ ان کے اندر کوئی خلا پایا جاتا ہے اور وہ خلا سوائے تعلق باللہ اور دین کے اور کوئی چیز پر نہیں کر سکتی.دنیا کی ہر نعمت کو حاصل کر لینے کے بعد بھی اُن کے اندر یہ حسرت ہوتی ہے کہ کوئی چیز ایسی ہے جو انہیں حاصل نہیں اور وہ حاصل ہونی چاہیے.خدا تعالیٰ سے محبت ایک ایسی نعمت ہے کہ جب وہ کسی شخص کو مل جاتی ہے تو دنیا کے سارے غم مٹ جاتے ہیں اور اسے کوئی حسرت باقی نہیں رہتی.اسے کسی چیز کی خواہش پیدا نہیں ہوتی.عارضی غم بیشک آتے ہیں مثلاً کسی کو کانٹا بچھ جائے تو اس کے نتیجہ میں اُسے درد تو ہوتی ہے لیکن اُسے کوئی شخص بیماری نہیں کہتا.اسی طرح عارضی تکلیفیں اور غم تو آتے ہیں لیکن یہ غم ان کے رستہ میں روک نہیں بنتے اور اپنے اپنے درجہ کے مطابق انہیں امن اور آرام حاصل رہتا ہے.

Page 74

خطبات محمود 64 $1954 حضرت خلیفہ المسیح الاول سنایا کرتے تھے کہ ایک بڑھیا تھی جو بہت نیک تھی.ایک دن میرے دل میں یہ خواہش پیدا ہوئی کہ میں کسی طرح اُس کی مدد کروں.چنانچہ میں اُس بڑھیا کے پاس گیا اور اُس سے کہا کہ مائی! میرے دل میں خواہش پیدا ہوئی ہے کہ میں کسی طرح تمہاری مدد کروں.تمہیں کوئی خواہش ہو تو مجھے بتاؤ تا میں اسے پورا کر کے دل کی خوشی حاصل کروں.اُس بڑھیا نے آپ کا نام لے کر کہا نورالدین! اللہ تعالیٰ نے مجھے بہت کچھ دیا ہے مجھے کسی چیز کی ضرورت نہیں.آپ نے کہا مائی ! پھر بھی.تم غریب عورت ہو اگر کسی طرح میں تمہاری مدد کر سکوں تو یہ بات میرے لیے بڑی خوشی کا موجب ہو گی.مگر اُس بڑھیا نے پھر بھی یہی کہا اللہ تعالیٰ نے مجھے سب کچھ دیا ہے مجھے کسی اور چیز کی خواہش نہیں.فلاں شخص کے گھر سے دو روٹیاں آ جاتی ہیں.ایک روٹی میں کھا لیتی ہوں اور ایک روٹی میرا بیٹا کھا لیتا ہے.اور ایک لحاف ہمارے پاس ہے جس میں ہم دونوں ماں بیٹا ایک دوسرے کی طرف پیٹھی کر کے سو جاتے ہیں.جب میرا بازو تھک جاتا ہے تو میں اپنے بیٹے سے کہہ دیتی ہوں بیٹا! ذرا کروٹ بدل لو! تو وہ کروٹ بدل لیتا ہے اور اس طرح میں دوسرے پہلو پر سو جاتی ہوں اور جب لڑکے کا بازو تھک جاتا ہے تو وہ مجھ سے کہہ دیتا ہے ماں! ذرا کروٹ بدل لو، اور میں کروٹ بدل لیتی ہوں اور وہ دوسرے پہلو پر سو جاتا ہے.بیٹا! بڑے مزے ہیں.مجھے کسی اور چیز کی ضرورت نہیں.حضرت خلیفہ اسح الاول فرمایا کرتے تھے کہ یہ بات سن کر مجھے بڑی حیرت ہوئی کہ اس قسم کی غربت میں بھی وہ کتنی خوش ہے.اس کی وجہ یہی تھی کہ نیکی کی وجہ سے اُسے کسی قسم کی تکلیف محسوس نہیں ہوتی تھی.حضرت خلیفہ مسیح الاول فرماتے تھے کہ میں.پھر اصرار کیا کہ مائی! پھر بھی تمہیں کوئی خواہش ہو تو مجھے بتاؤ میں اسے پورا کر کے ثواب حاصل کر سکوں.اُس عورت نے کہا عمر رسیدہ ہونے کی وجہ سے میری نظر کمزور ہو گئی ہے.میرے پاس جو قرآن کریم ہے وہ باریک لفظوں والا ہے میں تلاوت کرتی ہوں تو نظر تھک جاتی ہے.رتم موٹے الفاظ والا قرآن کریم لا دو تو میں اپنی خواہش کے مطابق زیادہ دیر تک تلاوت کر سکوں.حالت جو اطمینان کی ہوتی ہے دین کی وجہ سے نصیب ہوتی ہے اور اس وجہ سے نے

Page 75

$1954 65 خطبات محمود حاصل ہوتی ہے کہ انسان کو خدا تعالیٰ نظر آ جاتا ہے.جب اُسے خدا تعالیٰ نظر آ جاتا ہے تو دنیا کی سب چیزیں اُس کے سامنے سے ہٹ جاتی ہیں.دنیا کی کوئی چیز اُس کے اندر غم پیدا نہیں کرتی.کوئی چیز اُس کے دل کی طاقتوں کو توڑتی نہیں.غرض یورپ کے لوگ یہ محسوس کرنے لگے ہیں کہ اُن کے پاس بیشک دولت ہے لیکن پھر بھی انہیں دل کا چین نصیب نہیں اور اسے حاصل کرنے کے لیے اُن کے اندر خواہش پیدا ہو رہی ہے اور وہ چاہتے ہیں کہ ان تک خدا تعالیٰ کی آواز پہنچائی جائے تا وہ بھی اس پر غور کریں.اور غرباء میں سے کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو اسے قبول کر لیتے ہیں.اسی طرح تعلیم یافتہ لوگوں کو بھی اس طرف توجہ ہو رہی ہے.یہ چیز جو غیر ممالک میں پیدا ہو رہی ہے اسے پورا کرنا ہماری جماعت کے سوا اور کسی کا کام نہیں.ہم بیشک تھوڑے ہیں، غریب ہیں، کنگال ہیں.ہم میں سے بڑے سے بڑا دولت مند آدمی یورپ کے درمیانے درجہ کے لوگوں سے بھی حیثیت کا ہے.اُن کے ہاں درمیانے درجے کا آدمی لاکھ پتی ہوتا ہے لیکن ہمارے ہاں صرف چند ایسے آدمی ہیں جن کے پاس لاکھوں روپے ہیں اور وہ بھی لاکھ پتی نہیں کہلا سکتے.لاکھ پتی وہ ہوتا ہے جس کے پاس تھیں چالیس لاکھ روپیہ ہو.پھر ان میں بہت سے کروڑ پتی کی اور ارب پتی بھی ہیں اور ان کے پاس چھپیں چھپیں، تمیں تمہیں ارب بلکہ اس سے بھی زیادہ روپیہ ہے لیکن باوجود اس کے اللہ تعالیٰ نے ہماری ہی جماعت کو توفیق دی ہے کہ اس کے قربانی کرنے والے افراد اس رنگ میں قربانی کرتے ہیں کہ حیرت آ جاتی ہے.لیکن ان کی قربانی ہمارے لیے تسلی کا موجب نہیں ہو سکتی.کیونکہ جماعت کے بعض لوگ ایسے بھی ہیں کہ ان کے سامنے معجزات بھی ہیں، نشانات بھی ہیں، احمدیت کی تعلیم بھی ہے اور ہم نے خدا تعالیٰ کو کھینچ کر اُن کے سامنے کر دیا ہے لیکن اُن کے دل کی رگر ہیں ابھی کھلی نہیں.جو وعدے آتے ہیں اُن سے بھی یہ حقیقت ظاہر ہوتی ہے.دفتر والوں نے وعدوں کے فارموں پر ایک خانہ ماہوار آمد کا بھی بنایا ہوا ہے.اُس خانہ کی وجہ سے قربانی کرنے والوں کی قربانی کا معیار واضح ہو جاتا ہے.بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں جن کے ناموں کے آگے لکھا ہوا ہوتا ہے ماہوار آمد پچاس روپے، وعدہ تحریک جدید تمیں روپے، چالیس روپے یا پینتالیس روپے اور بعض

Page 76

$1954 66 99 خطبات محمود لوگ ایسے ہوتے ہیں جن کی آمد اڑھائی تین سو روپیہ ماہوار ہوتی ہے اور وعدہ تحریک جدید پانچ روپے یا دس روپے ہوتا ہے.اِس سے اُن کی قربانی کے معیار کا پتا لگتا ہے.اگر اڑھائی - روپیہ ماہوار آمد والا شخص دس روپے وعدہ لکھاتا ہے تو اس کے معنے یہ ہیں کہ وہ سال میں ایک سو ساٹھ آنے دیتا ہے.اور ایک سو ساٹھ آنوں کو سال پر تقسیم کیا جائے تو ماہوار تیرہ چودہ آنہ کے درمیان پڑتا ہے.اور اگر ماہوار تنخواہ اڑھائی سو روپیہ ہو تو اس کے معنے یہ ہوئے کہ وہ چار پانچ آنہ فی سینکڑہ قربانی کرتا ہے.لیکن میں نے دفتر والوں کو ہدایت دی ہوئی ہے کہ اگر بڑی آمد والا شخص بھی پانچ روپے وعدہ لکھا دیتا ہے تو تم اس کا انکار نہ کرو.بعض دفعہ و گھبراتے ہیں اور کہتے ہیں ہم اسے دوبارہ لکھتے ہیں لیکن میں کہتا ہوں رہنے دو.اگر کوئی شخص نیکی کی طرف ایک قدم اُٹھاتا ہے تو میرا تجربہ ہے کہ وہ ہمیشہ آگے کی طرف بڑھتا جاتا ہے.اور یہ تجربہ اتنا لمبا ہے کہ صرف پہلے پانچ روپیہ کے متعلق مجھے فکر ہوتی ہے.جب کوئی شخص ی پانچ روپیہ دے دیتا ہے تو میں سمجھتا ہوں اب اُس کے نکیل پڑ گئی ہے.اسے لذت محسوس ہو گی یہی پانچ روپے اگلے سال پچیس یا پچاس روپے بن جائیں گے.میں نے ایسے لوگ بھی دیکھے ہیں کہ چندہ کے وقت انہوں نے کہا ہم ایک پیسہ ماہوار چندہ دیں گے اور میں نے کہا سے ایک پیسہ ہی لے لو اور انہیں ثواب سے محروم نہ کرو.پھر انہی لوگوں کو میں نے تین تین، چار چار سو روپے ماہوار دیتے بھی دیکھا ہے کیونکہ آہستہ آہستہ دلوں کی کیفیت بدل گئی.میں امید کرتا ہوں کہ جماعت کے دوست اپنا پورا زور لگائیں گے کہ ہر احمدی تحریک جدید میں حصہ لے لے.میں نے جو یہ قاعدہ مقرر کیا ہے کہ کم سے کم رقم وعدہ کی پانچ روپیہ ہو اس میں بھی حکمت ہے.اگر چہ میں نے یہ اجازت دے دی ہے کہ اگر کوئی شخص پانچ روپے نہیں دے سکتا ہ تو پانچ آدمی مل کر پانچ روپے دے دیں اور اگر وہ آٹھ آنے دے سکتا ہے تو دس آدمی مل کر پانچ روپے دے دیں.بلکہ چاہے تو اسی آدمی ایک ایک آنہ دے کر پانچ روپیہ دے دیں لیکن کم سے کم وعدہ جو تحریک جدید میں لیا جائے وہ پانچ روپیہ ہو کیونکہ میں نے دیکھا ہے کہ جب کسی کو لذت حاصل ہو جائے تو اس کے بعد وہ بجائے پیچھے ہٹنے کے آگے بڑھتا ہے.سوائے

Page 77

$1954 67 خطبات محمود اس کے کہ کوئی بالکل مُردہ ہو جائے اور ایسا شاذ ہوتا ہے.عام طور پر جب لذت پیدا ہو جاتی ہے تو انسان کے اندر یہ خواہش پیدا ہو جاتی ہے کہ وہ دوبارہ اس میں حصہ لے اور بڑھ چڑھ کر لے.میں ایک دفعہ دہلی گیا.چودھری ظفر اللہ خاں اُس وقت تک وزیر نہیں بنے تھے.ویسے وہ ایک خاص مقدمہ کی پیروی کے لیے مامور تھے.اُن دنوں ہندوستان کی حکومت نے انگلستان سے مالیات کے ایک ماہر کو منگوایا تھا تا کہ بعض اہم باتوں میں اس کا مشورہ لے.چودھری صاحب نے اسے مجھ سے ملانے کے لیے دعوت دی.گلاب جامن یا رس گلے رکھے تھے.اس شخص کے لیے یہ ایک نئی چیز تھی.وہ انہیں دیکھ کر گھبرایا.چودھری صاحب نے اُسے کہا اسے کھا کر دیکھو.چنانچہ اس نے ایک گلاب جامن یا رس گلہ اُٹھا کر کھایا.چودھری صاحب نے پھر ایک گلاب جامن یا رس گلہ اُسے دیا تو اُس نے پھر گریز کیا.تو چودھری صاحب نے اُسے کہا تم نے پہلا گلاب جامن یا رس گلہ تو عجوبہ کے طور پر کھایا تھا.اب دوسرا گلاب جامن یا رس گلہ اس کے مزے کی وجہ سے کھاؤ.میں نے پوچھا.چودھری صاحب! آپ نے یہ کیا کہا ؟ تو انہوں نے بتایا انگریزی میں یہ محاورہ ہے کہ پہلی چیز تو عجوبہ کے لیے ہوتی ہے اور دوسری چیز اس کے مزے کی وجہ سے ہوتی ہے.یہ ایک ضرب المثل ہے لیکن میں نے روحانیات میں بھی دیکھا ہے کہ پہلے چسکا لگانے کی ضرورت ہوتی ہے.پھر خود بخود عادت پڑ جاتی ہے.دنیا میں بھی دیکھ لو لوگ شراب پیتے ہیں.ٹنکچر جس کے استعمال سے تم گریز کرتے ہو ، بچوں کو دیتے ہو تو وہ ناک منہ چڑھاتے ہیں اور کہتے ہیں یہ کڑوی چیز ہے ہم نہیں لیتے.اس میں الکحل یعنی شراب ہی کا جزو ہوتا ہے.جوان لوگ بھی اس سے نفرت کرتے ہیں لیکن یورپ میں لوگ شراب مزے لے لے کر پیتے ہیں اور روکنے کے بعد بھی اسے نہیں چھوڑتے.پس ہر چیز کے دو مزے ہوتے ہیں.ایک تو اُس کا ذاتی مزا ہوتا ہے اور دوسرا مزا عادت کے نتیجہ میں ہوتا ہے.ہمارے ملک میں لوگ زردہ کا استعمال کرتے ہیں لیکن جس نے پہلے زردہ استعمال نہ کیا ہو وہ اگر زردہ کھالے تو اُس کے سر میں چکر آنے لگتے ہیں.ایک دفعہ مجھے نقرس کی تکلیف ہوئی.ایک دوست ہندوستان کے تھے انہوں نے کہا آپ پان میں

Page 78

$1954 68 خطبات محمود زردہ ڈال کر کھائیں درد ہٹ جائے گی.میں نے کہا میں نے تو زردہ کبھی کھایا نہیں.اس لیے اگر میں نے زردہ کھایا تو سر میں چکر آ جائے گا.انہوں نے کہا نہیں! آپ استعمال تو کریں.اس پر انہوں نے پان میں زردہ ڈال کر مجھے دیا.میں نے کھایا.اس سے درد میں کچھ کمی واقع ہو گئی.اس پر چند گھنٹوں کے بعد پان میں زردہ ڈال کر مجھے دینے لگے.دو دن ہم سفر میں رہے اور اس سفر کے دوران میں وہ مجھے پان میں زردہ ڈال کر دیتے رہے.دو دن کے بعد میں نے دیکھا کہ زردہ سے تکلیف کم ہونے لگی.تب میں نے اسے چھوڑ دیا کہ کہیں عادت ہی نہ پڑ جائے.غرض بڑی تکلیف دہ اور بدمزہ چیزیں بھی اگر علاج کے طور پر استعمال کی تو ان کی عادت پڑ جاتی ہے اور وہ اچھی معلوم ہونے لگتی ہیں.اور جب ادنی چیزوں کی عادت لی پڑ جاتی ہے تو دین کی قربانی کی عادت کیوں نہیں پڑے گی.ضرورت صرف اس بات کی.کہ انسان کو ایک دفعہ قربانی کے لیے آگے لایا جائے.اس کے بعد خود بخود اس کے اندر ذوق پیدا ہو جاتا ہے، اس کے اندر ایک قسم کی تسلی پیدا ہو جاتی ہے.پہلے وہ اپنے آپ کو لاوارث سمجھتا ہے لیکن جب وہ خدا تعالیٰ کے دین کی خاطر قربانی کرتا ہے تو وہ اپنے آپ کو لاوارث نہیں سمجھتا.وہ خدا تعالیٰ کو اپنا وارث سمجھنے لگ جاتا ہے اور خدا تعالیٰ جب نظر آنے لگتا ہے تو اس کا حوصلہ بڑھ جاتا ہے.پہلے وہ معمولی معمولی تکلیف کی وجہ سے گھبرا جاتا تھا لیکن جب اسے تکلیف پہنچتی ہے تو وہ خدا تعالیٰ کے آگے سجدہ میں گر جاتا ہے اور اس سے اُسے تسلی ہو جاتی ہے.پس جماعت کو چاہیے کہ وہ تمام افراد کو کھینچ کر تحریک جدید میں شامل کرے.میں امید کرتا ہوں کہ اگر وہ پہلے اس میں تھوڑا حصہ بھی لے لیں گے تو بعد میں وہ زیادہ حصہ لینے لگ جائیں گے.اس وقت جماعت کی آمد 25، 26 لاکھ روپیہ ماہوار ہے اور تحریک جدید کے چندے کو ملا کر جماعت کا سالانہ چندہ 13، 14 لاکھ روپیہ بنتا ہے.گویا جماعت کی موجودہ آمد میں بھی موجودہ چندہ کا نصف اور بڑھ سکتا ہے.پھر خدا تعالیٰ کے فضل سے جماعت بڑھے گی تو آمد بھی زیادہ ہو جائے گی اور اس کے نتیجہ میں چندہ بھی بڑھ جائے گا.اس میں لوگوں کی

Page 79

خطبات محمود 69 $1954 مخالفت کی پروا نہیں کرنی چاہیے.لوگوں کی مخالفت کوئی چیز نہیں جس سے ڈرا جائے.سینکڑوں لوگ بیعت کرنے کے لیے آتے ہیں اور وہ بتاتے ہیں کہ ہمیں خدا تعالیٰ نے بیعت کے لیے کہا ہے اور جس شخص کو خدا تعالی بیعت کے لیے کہہ دے اُس کو اگر کوئی رو کے بھی تو و رک نہیں سکتا.وہ گزشتہ جلسہ سالانہ پر ایک نوجوان نے بیعت کی.وہ ایک کر احراری خاندان میں سے تھا.پہلے تو میں نے خیال کیا کہ وہ جلسہ پر آ گیا ہے اور وقتی جوش کے نتیجہ میں وہ بیعت کرنے لگا ہے لیکن پھر اُس نے تفصیل بتائی کہ بعض احمدیوں نے مجھے سلسلہ کی کتابیں پڑھنے کے لیے دیں جس سے مجھے احمدیت کی طرف رغبت ہوئی اور میں نے خیال کیا کہ احمدی اتنے گندے نہیں جتنا انہیں کہا جاتا ہے.اس کے بعد جب فتنہ کھڑا ہوا تو میری آنکھیں کھل گئیں اور میں نے خیال کیا کہ یہ کوئی اسلام نہیں جس کا غیر احمدی مظاہرہ کر رہے ہیں.اگر ان میں اسلام کی روح ہوتی تو وہ اخلاق سے پیش آتے اور اس قدر ظالمانہ فعل نہ کرتے.چنانچہ ان واقعات کا مجھ پر سخت اثر ہوا اور میں اپنے باپ کے پاس گیا جو کر احراری تھے.میں نے ان سے کہا عدل، انصاف اور شریعت ان حرکات کی اجازت نہیں دیتی جو آپ لوگ احمدیوں سے کر رہے ہیں.میری بات سن کر انہوں نے کہا نکل جا گھر سے، تو بے دین ہو گیا ہے.اس سے مجھے یقین ہو گیا کہ اسلام صرف احمدیت میں ہے.اس لیے میرا باپ بھی سچی بات کو بُرا مناتا ہے.اس سے احمدیت کی صداقت مجھ پر کھل گئی اور میں نے بیعت کا پختہ ارادہ کر لیا.پس جب کوئی شخص خدا تعالیٰ کے فضل سے احمدیت کے نشانات دیکھ لے تو خدا تعالیٰ کی طرف سے اُسے ایک نور ملتا ہے جس سے اُس کا دل منور ہو جاتا ہے.بعض لوگوں کو یہ نور نشانات دیکھنے سے پہلے ہی مل جاتا ہے.اور جس شخص کو یہ نور مل جائے وہ کسی کے گمراہ کرنے ، ورغلانے اور دُکھ دینے سے پیچھے نہیں ہٹتا.پچھلی شورش میں بعض ایسے نوجوانوں نے بیعت کی جنہوں نے بتایا کہ ہم دیر سے اس سلسلہ کو اچھا سمجھتے تھے مگر بیعت نہیں کی تھی.لیکن اب جب ایک بڑا فتنہ احمدیت کے خلاف اُٹھا تو ہم نے خیال کیا کہ امن کے دنوں میں تو شہادت کا موقع نہیں مل سکتا اب ہر طرف آگ لگی ہوئی ہے اگر ہم احمدیت میں

Page 80

$1954 70 خطبات محمود داخل ہو جائیں تو شہادت کا موقع مل جائے گا.ایک نوجوان نے مجھے لکھا کہ میں دل سے دس سال سے احمدی ہوں.اس فتنہ کے دوران میں میں نے خیال کیا کہ اب احمدیت کی خاطر جان دینے کا وقت آ گیا ہے.اگر میں اب بیعت نہیں کروں گا تو کب کروں گا؟ پس اصل چیز ایمان کا پیدا ہو جانا ہے.جب کسی کے اندر ایمان پیدا ہو جائے تو اُس کو صداقت کی خاطر قربانیاں کرنے سے کوئی شخص روک نہیں سکتا.ایمان پیدا ہو جانے کے بعد سب گڑھے، کانٹے اور سمندر جو بھی رستہ میں آئیں، آنکھوں سے اوجھل ہو جاتے ہیں.پس ایک دفعہ تمام افراد کے اندر قربانی کا ذوق پیدا کرو اور چھوٹے بڑوں کو تحریک جدید میں شامل کرو.چھوٹوں کے اندر ذمہ داری کا احساس پیدا کرو.چاہے تم اُن کی طرف سے ایک ایک پیسہ ہی دو لیکن اُن کو تحریک جدید میں شریک ضرور کرو.یہ درست ہے کہ اگر وہ الگ طور پر حصہ لیتے تو ہم اُن سے کہتے دوسروں سے مل کر پانچ روپیہ دے دو اور تحریک جدید میں شامل ہو جاؤ.لیکن جب اُن کا باپ اور ماں اس میں شریک ہیں تو ان کے لیے کوئی مشکل نہیں.باپ یا ماں ان کی طرف سے اپنے چندہ کے ساتھ چار چار آنہ دے کر اُن کو ساتھ ملا لیں اور پھر ان کی طرف سے چندہ لکھانے کے ساتھ ساتھ انہیں بتائیں کہ ان کے لیے اس قسم کے چندوں میں شامل ہونا ضروری ہے.پھر اب تو پندرہ بیس والی روک بھی نہیں رہی.اگر کوئی شخص اپنی طالب علمی میں چندہ دیتا ہے تو وہ چندہ اب آئندہ تحریک جدید میں حصہ لینے میں روک نہیں بنے گا.پہلے چھوٹے بچوں سے چندہ لینے سے دفتر والے گھبراتے تھے اور وہ سمجھتے تھے کہ اگر ہم نے ان سے چندہ لے لیا تو تحریک جدید کی مقرر کردہ مدت دس سال یا انہیں کی سال ان کی طالب علمی میں ہی گزر جائے گی.جب یہ جوان ہوں گے اور کمانے لگیں گے تو ہم ان سے چندہ نہیں لے سکیں گے لیکن اب تو یہ روک بھی نہیں کیونکہ اب یہ چندہ ہمیشہ کے لیے ہے.دسویں سال کے بعد جب میں نے دوبارہ تحریک کی تو مجھے خیال تھا کہ چندہ میں کمی آ جائے گی.اسی طرح دس سال کے ختم ہونے پر بھی میں سمجھتا ہوں کہ کچھ کمزوری پیدا ہو گی مگر جو لوگ اس دفعہ شامل ہو گئے تو اس کے بعد کمزوری ایمان کی وجہ سے

Page 81

$1954 71 خطبات محمود وہ کوئی شخص پیچھے ہٹے تو ہے ورنہ ہر احمدی آگے بڑھنے کی کوشش کرے گا.کیونکہ جب ' اپنی قربانیوں کے نتائج دیکھے گا تو اُس کی ہمت بڑھ جائے گی اور وہ سمجھے گا کہ میرا روپیہ ضائع نہیں ہو رہا.پس سب سے اہم سوال یہ ہے کہ ہر شخص کو کھینچ کر تحریک جدید میں شامل کر دیا جائے.ممکن ہے پھر بھی کوئی شخص رہ جائے وہ دوسرے سال شامل ہو جائے گا.جب سب کو عادت پڑ جائے گی تو میں سمجھتا ہوں ہما را چندہ اِس قدر بڑھ جائے گا کہ جماعت کے لیے اسلامی ممالک کے لڑکوں کو تعلیم دلانا بھی آسان ہو جائے گا اور غیر اسلامی ملکوں میں تبلیغ کا کام بھی وسیع ہو جائے گا اور خدا تعالیٰ کے فضل غیر مسلموں کو گمراہی اور ضلالت سے بچانے کا سہرا صرف احمدیوں کے سر ہو گا“.مصلح 11 مارچ 1954 ނ

Page 82

$1954 72 8 خطبات محمود جماعت احمد یہ لاہور سے خطاب اللہ تعالیٰ نے تمہیں اولیت کا جو مقام دیا تھا اُسے دوبارہ حاصل کرنے کی کوشش کرو (فرموده 19 فروری 1954ء بمقام رتن باغ لاہور ) تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: ”ہماری جماعت کے دوستوں کو یہ امر یاد رکھنا چاہیے کہ احمدیت کو قائم ہوئے ایک لمبا زمانہ گزر چکا ہے.اگر براہین احمدیہ سے اس زمانہ کو لیا جائے تو 70، 71 سال ہو گئے ہیں اور اگر بیعت کے آغاز سے اس زمانہ کو شمار کیا جائے تو پھر 65 سال ہو گئے ہیں اور یہ ایک بہت بڑا وقت ہے.اور گو قوموں کی عمر کے لحاظ سے اتنے سال کوئی زیادہ لمبا زمانہ نہیں سمجھے جاسکتے لیکن انسانوں کی عمر میں یہ ایک بہت بڑا وقت ہے.اس تمام عرصہ میں ابتدائی زمانہ سے ہی لاہور کا ایک حصہ احمدیت کے ساتھ شامل رہا ہے.ہم چھوٹے ہوتے تھے جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ساتھ سفروں میں ہم آتے جاتے تھے.اُس وقت عموماً ب آپ کو رستہ میں ٹھہرنا پڑتا تو لاہور یا امرتسر میں ہی ٹھہرتے.یوں ابتدائی زمانہ میں آپ کا قیام زیادہ تر لدھیانہ میں رہا ہے لیکن جماعت کے لحاظ سے لاہور کی جماعت ہمیشہ زیادہ رہی ہے اور دوسری جماعتوں کی نسبت زیادہ مستعد رہی ہے.چونکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اپنے والد صاحب کے زمانہ میں مقدمات کے لیے اکثر لاہور آتے تھے اور آپ کے

Page 83

$1954 73 خطبات محمود والد صاحب کے تعلقات بھی زیادہ تر لاہور کے رؤساء سے تھے.اس لیے ابتدائی ایام میں ہی تھی یہاں ایک ایسی جماعت پائی جاتی تھی جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے اخلاص رکھتی تھی.الہی بخش صاحب اکاؤنٹینٹ جو بعد میں شدید مخالف ہو گئے وہ بھی یہیں کے تھے.مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی جو بعد میں تکفیر کا فتوی لگانے والوں کے سردار بنے وہ بھی یہیں چینیاں والی مسجد کے امام تھے اور ان کا زیادہ تر اثر اور رسوخ لاہور میں ہی تھا.گو وہ رہنے والے بٹالہ کے تھے.اسی طرح میاں چراغ الدین صاحب، میاں معراج الدین صاحب اور میاں تاج الدین صاحب کے، حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے بہت پرانے تعلقات تھے.میاں چراغ الدین صاحب اور میاں معراج الدین صاحب کا خاندان اپنے پرانے تعلقات کے لحاظ سے جو بیعت سے بھی پہلے کے تھے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی نگاہ میں بہت قرب رکھتا تھا.پھر حکیم محمدحسین صاحب قریشی جنہوں نے دہلی دروازہ والی مسجد بنوائی اُن کے تعلقات بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے بہت قدیم اور مخلصانہ تھے.میاں چراغ الدین صاحب مرحوم کے تعلقات تو الہی بخش اکاؤنٹینٹ سے بھی پہلے کے تھے.حتی کہ میرے عقیقہ میں جن دوستوں کو شامل ہونے کی دعوت دی گئی تھی اُن میں میاں چراغ الدین صاحب بھی تھے.اتفاقاً اُس دن سخت بارش ہو گئی.وہ سناتے تھے کہ ہم باغ تک پہنچے مگر آگے پانی ہونے کی وجہ سے نہ جا سکے اور وہیں سے ہمیں واپس لوٹنا پڑا.پس اس جگہ کی جماعت کی بنیاد ایسے لوگوں سے پڑی ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے اُس وقت سے اخلاص رکھتے تھے جب آپ نے ابھی دعوی بھی نہیں کیا تھا اور براہین لکھی جا رہی تھی.پھر خدا تعالیٰ نے ان کے خاندانوں کو ترقی دی اور وہ اخلاص میں بڑھتے چلے گئے.میاں چراغ الدین صاحب اور میاں معراج الدین صاحب کے خاندان کے اس وقت درجنوں آدمی ہیں اور ان میں سے بہت سے لاہور میں ہی ہیں.میاں مظفرالدین صاحب جو پشاور کی جماعت کے امیر تھے وہ میاں تاج الدین صاحب کے بیٹے تھے.اسی طرح اور کئی پرانے خاندانوں کی اولادیں یہیں ہیں مگر افسوس ہے کہ اگلی نسل میں اب وہ پہلی سی بات نہیں رہی.ان میں کچھ تو مخلص ہیں اور کچھ کمزور ہو گئے ہیں.جو لوگ مخلص ہیں اُن میں کچھ تو ایسے ہیں جو خواہش رکھتے ہیں کہ

Page 84

$1954 74 خطبات محمود اپنے آپ کو روشناس کراتے رہیں اور کچھ مخلص تو ہیں لیکن یہ احساس اُن کے دلوں سے مِٹ گیا ہے کہ سلسلہ کے ساتھ ان کا اہم تعلق ہے.وہ اپنی جگہ پر مخلص ہیں مگر اپنے آپ کو آگے لانے اور روشناس کرانے میں کوتاہی کرتے ہیں.حالانکہ کسی جماعت کے بنیادی لوگوں میں سے ہونا بڑے فخر کی بات ہوتی ہے.جہاں یہ بات بُری ہوتی ہے کہ انسان جماعت کے متعلق یہ خیال کرے کہ وہ میری چراگاہ ہے اور اس سے ناجائز فائدہ اُٹھانے کی کوشش کرے وہاں یہ بات بھی بُری ہوتی ہے کہ کوئی شخص ایک سچی جماعت کے ابتدائی لوگوں میں سے ہو اور پھر وہ اس پر فخر محسوس نہ کرے.اس کے معنے یہ ہیں کہ اس چیز کی قدر اُس کے دل میں نہیں ورنہ جن لوگوں کے دلوں میں قدر ہوتی ہے جہاں وہ یہ سمجھتے ہیں کہ اگر انہوں نے کچھ کام کیا ہے تو سلسلہ پر احسان نہیں کیا بلکہ سلسلہ نے اُن پر احسان کیا ہے وہاں وہ اپنی اہمیت کو بھی خوب سمجھتے ہیں.تاریخوں میں لکھا ہے کہ جب حضرت معاویہؓ نے دیکھا کہ اُن کی وفات قریب ہے تو وہ مدینہ میں آئے اور اپنے بڑے بیٹے یزید کو بھی اپنے ساتھ لائے.پھر انہوں نے مسجد میں سب لوگوں کو جمع کیا اور کہا اے لوگو! میں سمجھتا ہوں کہ جس قسم کے حقوق ہمارے خاندان کو حاصل ہیں اور جس قسم کی قابلیت میرے اس بیٹے میں پائی جاتی ہے اس کو مدنظر رکھتے ہوئے یہی اس بات کا مستحق ہے کہ آئندہ اسے جانشین مقرر کیا جائے.اس کے باپ کو جو مقام حاصل ہے، وہ اور کسی کو حاصل نہیں.اور خود اس کے اندر جو قابلیت پائی جاتی ہے وہ بھی کسی اور میں نہیں پائی جاتی.اس لیے یہ دونوں باتیں اس بات کا تقاضا کرتی ہیں کہ آئندہ اسے ہی ست کے تخت پر بٹھایا جائے 1.حضرت عبداللہ بن عمرؓ کہتے ہیں کہ اُس وقت میں بھی مسجد کے ایک سرے پر بیٹھا ہوا تھا اور میں نے چڈر کو اپنے کھٹنوں کے اردگرد لپیٹا ہوا تھا (زمینداروں میں جو چودھری ہوتے ہیں اُن میں بھی آجکل یہ طریق رائج ہے.چونکہ انہیں سہارا لے کر بیٹھنے کی عادت ہوتی ہے اس لیے جب وہ بیٹھتے ہیں تو گھٹنوں کے ارد گرد کپڑا باندھ کر اسے گرہ دے دیتے ہیں.حضرت عبداللہ بن عمرؓ کہتے ہیں کہ میں بھی اسی طرح بیٹھا ہوا تھا).جب معاویہ نے یہ کہا تو میرے دل میں خیال آیا کہ معاویہ کی کیا حیثیت ہے میرے

Page 85

$1954 75 خطبات محمود باپ کے مقابلہ میں، اور یزید کی کیا حیثیت ہے میرے مقابلہ میں.ہم نے ابتدائے اسلام میں کام کیا ہے جبکہ یہ لوگ اسلام کے مخالف تھے.پس یہ کون ہوتے ہیں جو اپنے آپ کو ہم بہتر قرار دیں.چنانچہ میں نے اپنا کپڑا کھولا اور یہ کہنا چاہا کہ یہاں وہ لوگ موجود ہیں جن کے باپ کی حیثیت یزید کے باپ کی حیثیت سے بہت بلند ہے اور یہاں وہ لوگ بھی موجود ہیں جو اسلام کے لیے قربانی اور اس کی خدمت میں یزید سے بہت آگے ہیں مگر پھر میں بیٹھ گیا اور میں نے اپنے دل میں کہا یہ محض ایک دنیوی چیز کے لیے آگے آرہے ہیں میں اس میں کیوں دخل دوں؟ دیکھو! اس میں دونوں باتیں آ گئیں.اُن کا احساس غیرت بھی ثابت ہو گیا اور پتا لگ گیا کہ حضرت عبداللہ بن عمر محسوس کرتے تھے کہ اُن کے خاندان کو خدا تعالیٰ نے وہ فضیلت دی ہے جو معاویہ اور اُس کے خاندان کو حاصل نہیں.لیکن دوسری طرف انہوں نے یہ بھی ظاہر کر دیا کہ ہم اس اہمیت کے ذریعہ سے کوئی دنیوی فائدہ نہیں اٹھانا چاہتے.پس ہمیں کسی کے لیے ٹھو کر بننے کی کیا ضرورت ہے.غرض ایک ہی وقت میں وہ خدمت دین کا موقع ملنے پر فخر کرتے ہیں اور اُس وقت اُن کے اندر یہ احساس بھی پایا جاتا تھا کہ اس کے بدلہ میں ہم نے لوگوں پر حکومت نہیں کرنی اور یہی اصل روح ہوتی ہے.پھر بعض لوگوں کو ہم نے دیکھا ہے کہ گو ان کے تعلقات پرانے نہیں ہوتے لیکن جوش محبت میں وہ اپنے آپ کو آگے لے آتے ہیں اور وہ اپنے تعلقات کو ایسے رنگ میں ظاہر کرتے ہیں کہ گویا اُن کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں کوئی بہت بڑی پوزیشن حاصل تھی.اُس وقت یہ نظارہ دیکھ کر ہمیں کم از کم اتنا لطف ضرور آ جاتا ہے کہ ان کو اس تعلق کی قیمت کا کتنا احساس ہے.حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ جن کی کتابوں میں بڑی کثرت کے ساتھ احادیث پائی جاتی ہیں وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے قریب مسلمان ہوئے تھے.اُن سے بہت زیادہ موقع رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت میں بیٹھنے کا کئی دوسرے صحابہ کو ملا تھا مگر وہ اپنے عشق اور محبت میں یہ جتانے کے لیے کہ گویا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ان کو کوئی بہت بڑی پوزیشن حاصل تھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد

Page 86

$1954 76 خطبات محمود جب آپ کا ذکر کرتے تو کہا کرتے تھے میرے خلیل نے یوں کہا، میرے خلیل نے یوں کہا.2ے حالانکہ عربی زبان کے لحاظ سے خلیل اسے کہتے ہیں جس کا عشق اتنا سرایت کر جائے کہ جسم کے مساموں میں داخل ہو جائے اور یہ مقام بہت بڑا ہے مگر حضرت ابو ہریرہ اپنی محبت کے جوش میں یہ بتانے کے لیے کہ گویا ان کا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑا پرانا تعلق تھا کہا کرتے تھے میرے خلیل نے یوں کہا، میرے خلیل نے یوں کہا.ایک دفعہ حضرت عبداللہ بن عباس نے انہیں یہ الفاظ کہتے سُن لیا تو انہیں بُرا معلوم ہوا اور انہوں نے ڈانٹا کہ تم یہ کیا کہہ رہے ہو؟ کیا ہمیں معلوم نہیں کہ تمہارا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کتنا تعلق تھا؟ حضرت ابو ہریرہ ڈر گئے اور انہوں نے کہا میں تو محبت کے جوش میں یہ کہہ رہا ہوں.3 اب دیکھو! رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم تو فرماتے ہیں کہ اگر خدا تعالیٰ کے سوا میں کسی اور کو خلیل بنا سکتا تو ابوبکر کو بناتا.4 گویا خلیل“ کا لفظ ابو ہریرہ کے لیے چھوڑ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمرؓ کے لیے بھی استعمال نہیں فرمایا، حضرت عثمان کے لیے بھی استعمال نہیں فرمایا، حضرت علیؓ کے لیے بھی استعمال نہیں فرمایا لیکن ابو ہریرۃ اپنے تعلق کے اظہار کے لیے جب کوئی روایت کرتے تو بعض دفعہ یہ نہ کہتے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یوں فرمایا ہے بلکہ فرماتے میرے خلیل نے کی ایسا کہا ہے.حضرت عبداللہ بن عباس نے انہیں ڈانٹا کہ خبردار! جو آئندہ یہ الفاظ استعمال کیے.پس جن لوگوں کے اندر جوش ہوتا ہے خواہ انہیں کوئی بھی پوزیشن حاصل نہ رہ چکی ہو وہ اپنے آپ کو نمایاں کرنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ خواہ وہ کتنی بڑی پوزیشن رکھتے ہوں اُن کے اندر اپنے آپ کو نمایاں کرنے کی خواہش نہیں ہوتی.صحابہ جب کہیں باہر جاتے تھے تو گومسئلہ یہی ہے کہ جو امام ہو اُسی کو نماز پڑھانی چاہیے سوائے خلیفہ وقت کے کہ وہ جہاں جائے گا وہی امام ہو گا ، پھر بھی بعض لوگ ان کی بزرگی اور اخلاص کی وجہ سے انہیں نماز پڑھانے کے لیے کہہ دیتے تھے.اس پر بعض صحابہ انکار کر دیتے مگر بعض دفعہ وہ لوگوں کے اصرار پر پڑھا بھی دیتے کیونکہ بعض دفعہ دوسرے کا اصرار اتنا بڑھ جاتا ہے کہ انسان سمجھتا ہے اب اگر میں نے انکار کیا تو اس کی دل شکنی ہو گی.

Page 87

خطبات محمود 77 $1954 غرض لاہور کی جماعت کے اندر ایسے لوگ موجود ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ابتدائی زمانہ میں آپ پر ایمان لائے.اور اگر وہ نہیں تو ان کے رشتہ دار ایسے موجود ہیں جو صحابی ہیں خواہ وہ ایسے مقام پر نہیں کہ دعوی سے پہلے انہوں نے آپ کی مدد کی ہو مگر وہ ایسے مقام پر ضرور ہیں کہ وہ اُس وقت ہوش والے تھے اور عقل والے تھے جب انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو قبول کیا.لیکن میں دیکھتا ہوں کہ ان لوگوں کے خاندانوں میں اب وہ جوش نہیں رہا جو پہلے ہوا کرتا تھا.بعض میں تو کمزوری پیدا ہو گئی ہے اور بعض اپنے آپ کو نمایاں کرنے سے گریز کرتے ہیں.شاید ان کے دلوں میں یہ خیال ہو کہ ہمیں آگے آنے کی کیا ضرورت ہے.میں نے بتایا ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمرؓ نے بھی آگے آنے سے انکار کیا تھا مگر انہوں نے کہا یہی، کہ حق ہمارا ہے.گویا یہ تو انہوں نے کہا کہ ہم حکومت نہیں لیتے لیکن جو فضیلت اور بزرگی اُن کو حاصل تھی اُس سے انہوں نے انکار نہیں کیا.اگر ایسے لوگ اپنے آپ کو آگے کریں تو یقیناً دوسروں میں بھی یہ احساس پیدا ہونے لگے گا کہ احمدیہ کی خدمت میں انسان خدائی برکات سے حصہ لیتا ہے اور پھر رفتہ رفتہ یہ احساس ساری جماعت میں پیدا ہو جائے گا.جلسہ مذاہب عالم کے لیے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جو مضمون لکھا اور جو آجکل ساری دنیا میں پیش کیا جاتا ہے وہ بھی اس لاہور میں پڑھا گیا تھا.اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جو آخری پیغام ”پیغام صلح کے نام سے دیا اور جو اپنے اندر وصیت کا ایک رنگ رکھتا ہے وہ بھی لاہور میں ہی پڑھا گیا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے آخری ایام زندگی بھی اسی جگہ گزارے اور پھر یہیں آپ دنیا سے جُدا ہوئے.اس کے بعد جب خلافت کا جھگڑا پیدا ہوا تو مخالفت کا مرکز بھی یہی لاہور اور موافقت کا مرکز بھی لاہور تھا.اُس وقت جماعت کی تعداد موجودہ تعداد سے بہت کم تھی.باہر سے بھی اگر لوگ آ جاتے تو اُن کو شامل کر کے یہاں کی جماعت اتنی نہیں ہوتی تھی جتنی اس وقت خطبہ میں بیٹھی ہے.مگر اُس وقت اخلاص اور محبت کی یہ کیفیت تھی کہ جب میں لاہور آتا تو سینکڑوں لوگ اردگرد کی جماعتوں کے لاہور میں آ جاتے اور یہاں کا ہر احمدی دوسرے کو اپنا بھائی سمجھتا اور اسے یہ محسوس بھی نہ ہونے دیتا کہ وہ لاہور میں ایک مسافر کی

Page 88

$1954 78 خطبات محمود حیثیت رکھتا ہے لیکن اب وہ کیفیت نظر نہیں آتی.اب لوگ مسافروں کی طرح آتے اور چلے جاتے ہیں.ان کے متعلق جماعت کے دوستوں میں وہ شوق اور انس نہیں رہا جو پہلے پایا جاتا 1919ء، 1920ء اور 1921ء تک یہ کیفیت تھی کہ میرے لاہور آنے پر سیالکوٹ، جہلم، گجرات، شیخو پورہ اور منٹگمری وغیرہ اضلاع کے احمدیوں میں سے اکثر یہاں اکٹھے ہو جاتے اور اُن کا لاہور میں قریباً اُس وقت تک قیام رہتا جب تک میں یہاں موجود رہتا.مگر اب جماعت کی تعداد تو زیادہ ہو گئی ہے مگر اس میں وہ بات نہیں رہی جو پہلے پائی جاتی تھی.اس کی وجہ یہی ہے کہ یہاں کے لوگوں نے اس مقام کی قدر و قیمت کو نہیں پہچانا جو انہیں پہلے حاصل تھا.اگر وہ آنے والوں سے اُسی محبت اور پیار کے ساتھ پیش آتے جس محبت اور پیار سے وہ پہلے پیش آیا کرتے تھے تو کوئی وجہ نہیں تھی کہ لوگ یہاں کثرت کے ساتھ نہ آتے رہتے.میرا تجربہ ہے کہ خدا تعالیٰ کے فضل سے ہماری جماعت کے دوستوں میں ایمان کم نہیں ہو رہا بلکہ بڑھ رہا ہے.صرف کچھ لوگوں میں اپنی ذمہ داری کے احساس میں کمزوری پیدا ہوگئی ہے.اگر یہاں کی جماعت اپنی ذمہ داری کو محسوس کرتی تو یقیناً یہاں پہلے سے بھی زیادہ لوگ آتے.بہر حال ابتدائی ایام میں لوگوں نے اپنی ذمہ داری سمجھی اور خدا تعالیٰ نے بھی کہا:.لاہور میں ہمارے پاک ممبر موجود ہیں.ان کو اطلاع دی جاوے.نظیف مٹی کے ہیں وسوسہ نہیں رہے گا مگر مٹی رہے گی“.4 گویا اللہ تعالیٰ نے بھی اپنے الہام میں لاہور کے متعلق خبر دی کہ کسی زمانہ میں فتنہ بھی ہور سے کھڑا ہو گا مگر اس کا تریاق بھی لاہور سے ہی پیدا ہو گا.اور جن جماعتوں کو خدا تعالیٰ کے دین کی خدمت کی توفیق ملے اور جن کا خدائی پیشگوئیوں میں بھی ذکر آ جائے اُن کا فرض ہوتا ہے کہ وہ اپنی اس خصوصیت کو قائم رکھیں اور اس فخر کو آئندہ کے لیے ہمیشہ نیکیوں میں ترقی کرنے کا ذریعہ بنا ئیں.پھر میں کہتا ہوں اگر باہر سے آنے والوں کو جانے دو اور تم صرف اپنے لوگوں کو ہی سہارا دو تو میرے نزدیک ہر پرانے خاندان میں سے دو چار افراد ایسے ضرور نکل آئیں گے جن میں کچھ کمزوری ہو گی.اگر تم ان کی طرف توجہ کرو گے تو یقیناً وہ مخلص بن جائیں گے

Page 89

$1954 79 خطبات محمود اور جماعت اپنے پہلے مقام کو پھر حاصل کر لے گی.اس وقت جماعتوں میں سے کراچی کی جماعت اول نمبر پر ہے.اُن کی تنظیم زیادہ اچھی ہے، اُن کے عہدیدار زیادہ ہوشیار ہیں اور اُن کی قربانیاں نمایاں ہیں.ضرورت پر فوراً اکٹھے ہو جانا اور آپس میں مشورہ کرنا اُن میں لاہور والوں کی نسبت زیادہ پایا جاتا ہے اور یہ چیز ایسی ہے جس میں لاہور کی جماعت کو مسابقت کی روح اپنے اندر پیدا کرنی چاہیے.آخر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کراچی نہیں گئے لیکن لاہور میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کئی دفعہ آئے اور آپ نے اپنی عمر کا ایک حصہ یہیں گزارا اور پھر آپ نے 1908ء میں وفات بھی یہیں پائی ہے.اس وجہ سے تمہیں ایک خاص مقام اور اعزاز حاصل ہے.مگر تم نے تو خود بخود اپنی مونچھیں نیچی کر لیں.حضرت خلیفہ اول سنایا کرتے تھے کہ کوئی پٹھان تھا جو سارا دن بازار میں اور سڑکوں پر تلوار لیے پھرتا رہتا.اُس نے بڑی بڑی مونچھیں رکھی ہوئی تھیں اور اُس کا دعوی تھا کہ میں سب سے بہادر ہوں اور میرے مقابلہ میں اور کسی کو مونچھیں رکھنے کا حق نہیں.چنانچہ جہاں بھی وہ کسی کی بڑی بڑی مونچھیں دیکھتا تو فوراً تلوار لے کر اُس کے پاس پہنچتا اور کہتا کہ یا تو ھ کٹوا دو ورنہ تمہاری گردن اُڑا دوں گا.تمہارا کیا حق ہے کہ میرے مقابلہ میں موچھیں کھو.آخر لوگ سخت تنگ آ گئے.ایک ہوشیار آدمی نے جب دیکھا کہ سارے شہر پر آفت آ پڑی ہے تو وہ کام کاج چھوڑ کر گھر میں بیٹھ گیا اور اس نے خوب تیل مل مل کر اپنی مونچھیں بڑھانی شروع کر دیں.جب مونچھیں خوب پھیل گئیں اور اُس پٹھان کی مونچھوں سے بھی زیادہ شاندار ہو گئیں تو وہ تلوار ہاتھ میں لے کر باہر نکل آیا اور اُس نے وہیں ٹہلنا شروع کر دیا جہاں وہ پٹھان شہلا کرتا تھا.تھوڑی دیر کے بعد خان صاحب آگئے.انہوں نے جب دیکھا کہ ایک اور شخص بڑی بڑی مونچھوں والا تلوار لے کر پھر رہا ہے تو وہ غصہ سے اُس کی طرف بڑھے اور پوچھا تم کون ہو؟ اس نے کہا ہم جو ہیں سو ہیں تمہیں اس سے کیا؟ اُس نے کہا تم نے مونچھیں کیوں بڑھا رکھی ہیں؟ وہ کہنے لگا کیا مونچھیں بڑھانا تمہارے باپ کا حق ہے؟ پٹھان نے کہا ہم نہیں جانتے.یا تو تمہیں مونچھیں نیچی کرنی پڑیں گی یا گردن کٹوانی پڑے گی.اس نے کہا اگر تمہیں تلوار چلانی آتی ہے تو ہمیں بھی آتی ہے.پٹھان کو غصہ تو چڑھا ہی ہوا تھا اُس نے کہا

Page 90

$1954 80 خطبات محمود پھر آؤ اور لڑ لو.جب پٹھان کو اُس نے لڑائی کے لیے خوب تیار کر لیا تو وہ کہنے لگا اس وقت ایک بات میرے ذہن میں آئی ہے اور وہ یہ کہ اگر میں نے تم کو مار لیا یا تم نے مجھے مار لیاتی تو ہمارے بیوی بچے یتیم رہ جائیں گے.اُن کو ہمارے بعد کون پالے گا.اِس کا کوئی علاج ہونا چاہیے.میں تو سمجھتا ہوں کہ میں یقیناً تمہیں مار لوں گا.لیکن میں یہ بھی سمجھتا ہوں کہ تمہارے بیوی بچوں کا اس میں کوئی قصور نہیں.پھر تمہارے مرنے کے بعد ان کو کون پالے گا.اسی طرح گو یہ ہونا تو نہیں لیکن فرض کرو میں مارا جاؤں تو میرے بیوی بچوں کو کون پالے گا.کہنے لگا بات تو تم نے ٹھیک کہی ہے لیکن اس کا علاج کیا ہے؟ اُس نے کہا علاج یہی ہے کہ ہو تم اپنے بیوی بچوں کو مار آؤ اور میں اپنے بیوی بچوں کو مار آتا ہوں.پھر ہماری لڑائی ہے جائے.پٹھان نے کہا یہ بات ٹھیک ہے.چنانچہ وہ اپنے بیوی بچوں کو قتل کرنے کے لیے چلا گیا.یہ اُسی جگہ ادھر اُدھر ٹہلتا رہا.تھوڑی دیر کے بعد پٹھان آیا اور اُس نے کہا میں تو اپنے تو بیوی بچوں کو قتل کر کے آ گیا ہوں.اب آؤ اور مجھ سے لڑ لو.وہ کہنے لگا میری تو اب صلاح بدل گئی ہے اور میں نے یہی فیصلہ کیا ہے کہ میں اپنی مونچھیں نیچی کر لوں.چنانچہ اُس نے اپنی مونچھیں نیچی کر لی تھیں.اسی طرح تم نے بلا وجہ اپنی مونچھیں نیچی کر لی ہیں.حالانکہ مونچھیں نیچی کرنے کی بجائے تمہیں چاہیے تھا کہ تم اپنے اندر یہ احساس پیدا کرتے کہ ہم دینی خدمات میں ہمیشہ اوّل رہے ہیں اور اب بھی اول رہیں گے اور اپنے اس مقام کو کبھی ضائع نہیں ہونے دیں گے.نوجوانوں کے اندر بڑھنے اور ترقی کرنے کا مادہ ہوتا ہے.وہ جہاں اور باتوں میں اپنی ترقی کے دعوے کیا کرتے ہیں وہاں اُن کا یہ بھی فرض ہوتا ہے کہ وہ روحانی رنگ میں بھی اپنے بزرگوں سے آگے نکلنے کی کوشش کریں اور نمازوں میں اور روزوں میں اور چندوں میں اور قربانیوں میں اور اخلاص میں اور سلسلہ کے لیے فدائیت اور جاں شاری میں اپنا قدم ہمیشہ آگے کی طرف بڑھائیں.میں سمجھتا ہوں اگر اب بھی آپ لوگ توجہ کریں تو اپنے مقام کو دوبارہ حاصل کر سکتے ہیں ورنہ تھوڑے دنوں کے بعد ممکن ہے کہ اور بھی کئی جماعتیں تم سے آگے نکل جائیں.اور جب بہت سی جماعتیں تم سے آگے نکل گئیں تو پھر اتنا بڑا فاصلہ تم میں اور ان میں.

Page 91

$1954 81 خطبات محمود پیدا ہو جائے گا کہ اُس فاصلہ کو پُر کرنا تمہارے لیے مشکل ہو جائے گا.پس اپنے اندر بیداری پیدا کرو اور جس طرح دریا میں کشتی پھنستی ہے تو مرد اور عورتیں اور بچے سب مل کر زور لگاتے ہیں کہ کشتی منجدھار سے نکل جائے اُس طرح تم بھی اس خلا کو پُر کرنے کے لیے اپنا پورا زور صرف کر دو.مجھے یاد ہے ہم ایک دفعہ کشمیر گئے.سرینگر کے پاس ایک چھوٹی سی جھیل ہے جو ڈل کہلاتی ہے.اُس کے قریب سے ہی دریائے جہلم گزرتا ہے اور دریا میں سے ایک نہر کاٹ کر اُس ڈل کے سامنے سے گزار دی گئی ہے.اُس ڈل میں نہر کا دروازہ کھلتا ہے.بعض دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ دریا کا پانی اونچا ہو جاتا ہے جس کے نتیجہ میں نہر کا پانی بھی اونچا ہو جاتا ہے اور ڈل میں زور سے پانی گرنے لگ جاتا ہے.اُس وقت نیچے سے اوپر کی طرف کشتی لے جانا مشکل ہوتا ہے اور بعض دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ دریا کا پانی نیچا ہو جاتا ہے اور ڈل کا پانی اونچا ہوتا ہے.جب دریا اور ڈل کا پانی برابر ہو تب تو کشتیاں آسانی سے ادھر اُدھر آتی رہتی ہیں.لیکن جب ایک طرف کا پانی اونچا نیچا ہو تو پھر کشتی چلانے میں لوگوں کو بڑی دقت محسوس ہوتی ہے.ایک دفعہ میں نے دیکھا کہ ایک کشتی آئی جس میں بہت سے کشمیری مرد، عورتیں اور بچے بیٹھے ہوئے تھے.اُس وقت ایک طرف کا پانی اونچا تھا.انہوں نے کشتی چلانے کے لیے بڑا زور لگایا مگر کشتی نہ چلی.اس پر کچھ اور آدمی کشتی سے اُترے اور انہوں نے کشتی کو کھینچنا شروع کیا اور ساتھ ہی زور سے نعرہ لگانا شروع کر دیا لایه بل الله لا يله بل الله مگر کشتی نکل نہ سکی ان جب انہوں نے دیکھا کہ لاپله پل الله سے اُن کا کام نہیں بنا تو انہوں نے یا شیخ ہمدانی نعرہ لگایا.اس پر لوگوں نے پہلے سے بھی زیادہ زور لگانا شروع کر دیا.مگر پھر ایک لہر آئی اور کشتی رُک گئی تو انہوں نے تیسری دفعہ یا پیر دستگیر کا نعرہ لگایا.اِس نعرہ کا لگنا تھا کہ اکثر مرد، عورتیں اور بچے گود کر کشتی سے نیچے اُتر آئے اور انہوں نے پاگلوں کی طرح زور لگا نا شروع کر دیا.یہاں تک کہ وہ کشتی نکال کر لے گئے.جس طرح انہوں نے پیر دستگیر کا نعرہ لگایا تھا اُس طرح قوموں کی زندگی میں بھی کبھی غافلوں کو بیدار کرنے اور جماعت میں ایک نئی قوت عمل پیدا کرنے کے لیے نعرہ لگانے کا وقت آ جاتا ہے.جب کوئی جماعت اپنے مقام کو ضائع

Page 92

$1954 82 88 خطبات محمود کر دیتی ہے تو اُس وقت ضرورت ہوتی ہے کہ جس طرح وہ کشمیری مرد، عورتیں اور بچے کہ سے گود گئے تھے اور انہوں نے دیوانہ وار زور لگانا شروع کر دیا تھا اُسی طرح وہ بھی زور لگانا شروع کر دیں اور تہیہ کر لیں کہ خواہ کچھ ہو جائے ہم اپنے مقام کو حاصل کر کے رہیں گے.پس اپنی ذمہ داریوں کو سمجھو اور اپنی غفلتوں کو دور کرو.خدا نے تمہیں اول بنایا تھا اور وہ چاہتا ہے کہ اب بھی تم اس مقام کو ضائع نہ کرو.تم اس بننے کی طرح اپنی مونچھیں نیچی نہ کرو.ممکن ہے اگر تم سچے دل سے کوشش کرو تو تمہارے کمزور بھی مضبوط ہو جائیں، تمہارے نوجوان بھی قربانی کرنے والے بن جائیں اور پھر تمہاری زندگی بالکل بدل جائے اور تم اولیت کے مقام کو دوبارہ حاصل کر لو.ایک پرانا خاندان جو غیر مبائع ہو چکا ہے اُس کی ایک خاتون مجھ سے ملنے کے لیے آئیں تو ساتھ اُن کے ایک چھوٹی عمر کا نواسہ بھی تھا.انہوں نے جو باتیں کیں اُن سے پتا لگتا ہے کہ چاہے وہ ہم سے کتنے ہی دور ہو چکے ہوں پھر بھی وہ سلسلہ سے اپنے تعلقات کو قائم رکھے ہوئے ہیں.باتوں باتوں میں پتا لگا کہ اُس بچہ کو درمشین خوب یاد ہے مگر چونکہ اسے در مشین تو پڑھائی گئی اور ادھر ہم سے قطع تعلق رہا اس لیے بچہ یہ سمجھ ہی نہ سکا کہ اس درنشین کے اشعار میں جن کا ذکر ہے وہ ہم لوگ ہی ہیں.اُس بچے نے ہماری ہمشیرہ مبارکہ بیگم کے متعلق درثمین میں پڑھا تھا.کلام اللہ کو پڑھتی ہے فرفر خدا کا فضل اور رحمت سراسر 5 مگر چونکہ وہ ہم سے کبھی ملے نہیں تھے اس لیے وہ اپنی نانی کو کہنے لگا میں مبارکہ کو دیکھنا چاہتا ہوں.اب اُن کی عمر 55 سال کی ہو چکی ہے.اُن کے بچوں کے بھی آگے بچے بچیاں ہیں.وہ انہیں دیکھ کر کہنے لگا کہ حضرت صاحب نے تو لکھا ہے وہ فرفر قرآن پڑھتی ہے اور یہ تو بڑی عمر کی عورت ہیں.اس سے یہ تو پتا لگ گیا کہ اُن کے اندر احمدیت پائی جاتی ہے مگر جدائی کا نتیجہ یہ ہوا کہ اُن کے ذہن کے نقشے بدل گئے.اس طرح اُس کی نانی بچے کو میرے پاس لائی اور کہا یہ وہ محمود ہیں جن کے متعلق تم شعر پڑھا کرتے ہو کہ تو نے یہ دن دکھایا محمود پڑھ کے آیا دل دیکھ کر یہ احساں تیری ثنا ئیں گایا 6

Page 93

$1954 83 خطبات محمود وہ کہنے لگا یہ تو بڑی عمر کے لگتے ہیں، وہ تو نہیں لگتے جن کا حضرت صاحب نے ذکر کیا ہے.غرض ان خاندانوں میں بھی احمدیت سے تعلق کا احساس پایا جاتا ہے.ضرورت اس بات کی ہے کہ ان کی پرانی محبت کو تازہ کیا جائے اور انہیں اپنے قریب کیا جائے.میرا ایک عزیز تھا جو بچپن میں میرے ساتھ بڑی محبت رکھتا تھا.جب 1914ء میں اختلاف پیدا ہوا تو وہ غیر مبائع ہو گیا اور سخت مخالفت پر اتر آیا.میں ایک دفعہ باہر گیا تو وہ مجھے سے ملنے کے لیے آ گیا.وہ ابھی آہی رہا تھا کہ اُسے دیکھ کر وہاں کے امیر جماعت نے مجھے کہا کہ فلاں شخص آ رہا ہے اور وہ بڑا بدگو ہے.ایسا نہ ہو کہ وہ آپ کی کوئی بے ادبی کر بیٹھے.میں نے کہا گھبراؤ نہیں.مجھے پتا ہے کہ اُسے کسی زمانہ میں میرے ساتھ بڑی محبت ہوا کرتی تھی.اس لیے یہ بے ادبی نہیں کر سکتا.بہر حال وہ صحن میں داخل ہوا.صحن سے برآمدہ میں آیا اور برآمدہ سے آگے کمرہ میں داخل ہوا.اندر میں بیٹھا ہوا تھا.جونہی اُس نے میری طرف نظر اُٹھائی اور ادھر میری نظر اُس پر پڑی تو یکدم اُس کی آنکھوں میں سے آنسو بہنے لگ گئے.میں نے کہا لو! تم تو کہتے تھے یہ بے ادبی نہ کر بیٹھے، اور اس پر تو دیکھتے ہی رقت طاری ہو گئی ہے.غرض یہ تو دینی معاملہ ہے.دنیوی عشق جو بالکل جھوٹا اور ناپائیدار ہوتا ہے اُس کے متعلق بھی شاعر کہتے ہیں جب آنکھیں چار ہوتی ہیں مروت آ ہی جاتی ہے آخر یہ لوگ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صحبت میں بیٹھے ہیں اور انہوں نے آپ کی خدمتیں کی ہیں.ان کو اور ان کی اولادوں کو بیچانا اور پھر اُن کے اندر محبت دیرینہ کے جذبات کو زندہ کرنا، یہ بھی تو ہمارا ہی فرض ہے.اگر تم انہی لوگوں کو سنبھال لو تو لاہور میں ہماری جماعت کئی گنا طاقتور ہو جائے.میں نے ایک دفعہ رویا میں دیکھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کسی جگہ تشریف رکھتے ہیں اور آپ کے اردگرد اور بھی بہت سے لوگ بیٹھے ہیں.اُن میں سے بعض غیر مبائع بھی ہیں جن پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ناراض ہیں.انہی لوگوں میں میں نے شیخ رحمت اللہ صاحب کو بھی دیکھا مگر میں نے دیکھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام بات کرتے کرتے جب

Page 94

$1954 84 خطبات محمود شیخ رحمت اللہ صاحب پر نظر ڈالتے تو جھٹ اپنی آنکھیں نیچی کر لیتے اور محبت کی جھلک اُن.میں دکھائی دینے لگتی.پس اللہ تعالیٰ یہ تو چاہتا ہے کہ یہ لوگ ہدایت پا جائیں مگر یہ نہیں چاہتا کہ یہ تباہ ہو جائیں.غلطی اور ہوتی ہے اور غضب اور چیز ہے.ہر غلطی کے نتیجہ میں غضب پیدا نہیں ہوتا.تمہارے بچے کئی غلطیاں کرتے ہیں مگر تمہیں اُن کی ہر غلطی پر غصہ نہیں آتا اور جب غصہ بھی آتا ہے تو وہ مرکب ہوتا ہے یعنی اُس غصہ کے ساتھ محبت بھی شامل ہوتی ہے.خالص غصہ اپنے پیارے پر کبھی نہیں آیا کرتا.ایک دفعہ بچپن میں مجھے خیال پیدا ہوا کہ لیکھرام کا رڈ براہین کا جواب لکھنا چاہیے.اُس نے کسی جگہ قرآن کریم کی بعض آیتوں پر اعتراض کرتے ہوئے لکھا تھا کہ یہ متضاد خیالات ہیں.یا تو انسان کو غصہ آئے گا اور یا محبت پیدا ہو گی.غصہ اور محبت اکٹھے نہیں ہو سکتے.بچپن میں مجھے مرغیاں پالنے کا بہت شوق تھا.اس وجہ سے مرغیوں کی کیفیتیں مجھے وب یاد تھیں.میں نے جواب میں لکھا کہ تم کہتے ہو ایک وقت میں محبت اور غصہ جمع نہیں ہو سکتے.حالانکہ ہم دیکھتے ہیں کہ مرغی اپنے بچوں کو لیے پھرتی ہے کہ اچانک چیل حملہ کر دیتی ہے.وہ اُس کے مقابلہ کے لیے ایک طرف غصہ میں گو دتی ہے اور دوسری طرف اپنے ایک پر کو اپنے بچوں پر پھیلا دیتی ہے.اس طرح ایک ہی وقت میں اُسے غصہ بھی آ رہا ہوتا ہے اور اُس کے اندر محبت بھی پیدا ہو رہی ہوتی ہے.پس یہ غلط بات ہے کہ ایک وقت میں یہ دونوں جذبات اکٹھے نہیں ہو سکتے.اسی طرح جب کسی شخص کے ساتھ دیرینہ تعلق ہوتا ہے تو اُس کی باتوں پر خالص غصہ کبھی نہیں آتا.محبت کا جذبہ بھی اُس کے ساتھ شامل ہوتا ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ ب کوئی گنہگار بندہ اللہ تعالیٰ کے حضور تو بہ کرتا ہے تو اُس کی اس تو بہ پر اللہ تعالیٰ کو اُس ماں سے بھی زیادہ خوشی ہوتی ہے جس کا کھویا ہوا بچہ اُسے مل جائے.یہی کیفیت انسانی قلوب کی بھی ہونی چاہیے.میں سمجھتا ہوں اس بارہ میں ہم پر پہا حق اُن لوگوں کا ہے جو غیر مبائع ہیں اور دوسرا حق اُن لوگوں کا ہے جن کو ہم غیر احمدی

Page 95

خطبات محمود قصور 85 $1954 کہتے ہیں کیونکہ ہمارا روحانی باپ ایک ہی ہے.وہ اگر غصہ میں آگے نکل جائیں تو یہ اُن کا اپنا تھی ہے.ہمیں بہر حال اُن کے لیے محبت اور پیار کے جذبات ہی اپنے دل میں رکھنے چاہیں اور اُنہیں اپنے ساتھ شامل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے.اگر تم اس کام میں کامیاب ہو جاؤ تو غیر مذاہب والوں کو بھی آسانی سے اسلام کی طرف کھینچ سکو گے“.الفضل 13 دسمبر 1961ء + غیر مطبوعه مواد از خلافت لائبریری ربوہ) 1 : تاریخ الطبری جلد 3 صفحه 260 ثم دخلت سنة ستين.بیروت لبنان 1971ء.2 : مسند احمد بن حنبل مترجم مسند ابی ھریرة جلد 4 صفحہ 19 حدیث نمبر 7180 مکتبہ رحمانیہ لاہور 3 : صحيح البخاری کتاب فضائل اصحاب النبی باب قول النبى سُدُّو الابواب إِلَّا بِابَ أَبي بكرٍ 4 : تذکرہ صفحہ 402.ایڈیشن چہارم 5 : در مشین (اردو) زیر عنوان بشیر احمد ، شریف احمد اور مبارکہ کی آمین.صفحہ 42 مرتبہ شیخ محمد اسماعیل پانی پتی 1962ء : در نشین (اردو) زیر عنوان محمود کی آمین“.صفحہ 30.مرتبہ شیخ محمد اسماعیل پانی پتی $1962

Page 96

$1954 9 86 98 الہی جماعتیں ہمیشہ مخالفتوں کے طوفان میں محض خدا تعالیٰ کے فضل سے ترقی کیا کرتی ہیں اور یہ ایک بہت بڑا نشان ہوتا ہے (فرموده 26 فروری 1954ء بمقام رتن باغ لاہور ) تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: شاید بعض دوستوں کے دلوں میں یہ خیال پیدا ہو کہ میں نے گزشتہ خطبہ میں تو کہا تھا کہ جمعہ کی نماز مسجد میں ہی ہونی چاہیے لیکن آج پھر اس جگہ نماز ہو رہی ہے.اس کے لیے میں بتانا چاہتا ہوں کہ گزشتہ سے پیوستہ جمعہ کو چونکہ میں نے عدالتی کارروائی میں شمولیت کرنی تھی اور وہاں سے جمعہ کے لیے مسجد میں جانا مشکل تھا اس لیے فیصلہ کیا گیا کہ جمعہ یہیں پڑھا جائے اور گزشتہ جمعہ میں میں نے کہا تھا کہ مجھ سے پوچھے بغیر جمعہ کا انتظام یہاں کر لیا گیا.اب شاید کسی دوست کے دل میں خیال آئے کہ اس دفعہ پھر اُسی طرح جمعہ کا انتظام یہاں کرلیا گیا ہے.سو میں دوستوں کو بتانا چاہتا ہوں کہ غالباً کارکنوں کی غلط فہمی کی بناء پر اس دفعہ جمعہ کا خطبات محمود

Page 97

$1954 87 خطبات محمود انتظام مسجد میں نہیں ہوا.جب میں یہاں پہنچا تو مجھے پیغام ملا کہ جماعت کے بعض کارکن آئے ہیں اور وہ پوچھتے ہیں کہ جمعہ کی نماز کہاں ہونی چاہیے.میں نے جواب میں کہا کہ جمعہ کی اصل جگہ تو مسجد ہی ہے لیکن چونکہ میری آمد کی وجہ سے لوگ زیادہ تعداد میں جمع ہوں گے اور مسجد چھوٹی ہے اس لیے اگر مسجد میں جمعہ کی نماز مناسب نہیں تو نئی جگہ پر جو خریدی گئی ہے جمعہ کی نماز پڑھ لی جائے.لیکن اگر وہاں بھی جمعہ کی نماز کا انتظام نہ ہو سکے تو جہاں آپ لوگ چاہیں جمعہ کی نماز پڑھ لیں.اب اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے کہ پیغامبر نے پیغام پہنچانے میں غلطی کی یا جماعت کے اُس کا رکن نے اس کی بات کو غلط سمجھا.بہر حال جواب یہ دیا گیا کہ چونکہ مسجد چھوٹی ہے اور نئی جگہ پر ابھی کھیت ہیں اور ان میں فصل کھڑی ہے کھیتی والے وہاں نماز پڑھنے کی اجازت نہیں دیں گے اس لیے جمعہ کی نماز یہیں یعنی رتن باغ میں ہو گی.اب پتا لگا ہے ہے کہ مقامی آدمی آپس میں یہ بحث کر رہے تھے کہ نئی جگہ پر نماز کے لیے مناسب انتظام کر دیا گیا تھا اور یہ بات غلط ہے کہ وہاں کھیتوں کی وجہ سے نماز جمعہ کا انتظام کرنا مشکل ہے.پس یہ غلط فہمی تھی جس کی بناء پر جمعہ کا انتظام رتن باغ میں کیا گیا.بہر حال اب جماعت کی یہی کوشش ہونی چاہیے کہ اگر زیادہ تعداد کی وجہ سے مسجد میں نماز پڑھنا مشکل ہو تو نئی جگہ پر نماز پڑھی جائے.بہر حال جہاں تک نمازوں کا تعلق ہے نمازیں مسجد میں پڑھنے کی عادت ڈالنی چاہیے.جب دوست زیادہ تعداد میں ہوں تو نمازیں نئی جگہ پر پڑھ لی جایا کریں تا کہ لوگوں کو وہاں جانے کی عادت ہو جائے اور تا وہاں دعائیں ہوتی رہیں کہ خدا تعالیٰ کا فضل نازل ہو اور جب خدا تعالیٰ کا فضل ہو جاتا ہے تو سب مشکلات حل ہو جاتی ہیں.اور اگر کوئی مجبوری ہو تو کسی اور جگہ نماز پڑھ لی جائے.بہر حال جہاں تک ہو سکے چھوٹے اجتماعوں میں مسجد کو مقدم رکھا جائے اور بڑے اجتماعوں میں اُس جگہ کو جو نئی خریدی ہے.اس کے بعد میں جماعت کو اس امر کی طرف توجہ دلاتا ہوں کہ جیسا کہ دوستوں کو معلوم ہے ہماری جماعت قسم قسم کے خطرات میں سے گزر رہی ہے.بعض خطرات ہمیں نظر آتے ہیں اور بعض خطرات ہمیں نظر نہیں آتے.بعض رپورٹیں ایسی آ رہی ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ بعض جگہوں پر لوگ پھر فساد پیدا کرنے اور فتنہ کی آگ بھڑکانے کی کوشش

Page 98

$1954 88 888 خطبات محمود کر رہے ہیں اور پھر بعض ایسی اندرونی باتیں بھی پیدا ہو رہی ہیں جن کی وجہ سے یہ نظر آتا ہے کہ شاید جماعت کے لیے کسی نہ کسی شکل میں کوئی ناپسندیدہ بات ظاہر ہو.ایسے حالات میں مومن کو سب سے زیادہ خدا تعالیٰ کے سامنے جھکنا چاہیے اور اُسی سے دعائیں کرنی چاہیں کیونکہ جو کام انسانی ہاتھ نہیں کر سکتا وہ خدا تعالیٰ کا ہاتھ کر سکتا ہے.الہی جماعتیں تو ہمیشہ ہی ایسی شکل میں ترقی کیا کرتی ہیں.جیسے انسان کا بچہ کسی بھیڑیے یا شیر کی کچھار میں پرورش پاتا ہو.بیشک شیروں کی کچھار میں انسان کے بچے کا پرورش پانا ایک معجزہ ہوتا ہے لیکن اس سے بھی بڑا معجزہ یہ ہوتا ہے کہ الہی جماعتیں مخالفتوں کے طوفان میں ترقی کر جاتی ہیں.آج تک کوئی الہی جماعت ایسی قائم نہیں ہوئی جس کو معجزانہ زندگی نہ ملی ہو.ایک شخص خطرناک بیمار ہوتا ہے اور علاج کے بعد اچھا ہو جاتا ہے.لیکن ایک خطر ناک بیمار ایسا ہوتا ہے جس کے بچنے کی امید نہیں ہوتی اور طبیب اُس کو لا علاج سمجھ کر جواب دے دیتے ہیں.وہ صدقہ و خیرات کرتا ہے اور اس صدقہ و خیرات کے نتیجہ میں خدا تعالیٰ کا فضل ظاہر ہوتا ہے اور وہ اس بلا ء کو دور کر دیتا ہے اور ڈاکٹر حیران ہوتے ہیں کہ خدا تعالیٰ نے اُسے کس طرح معجزانہ زندگی دے دی ہے.لوگ اس کو حیرت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور جب وہ اُن کی آنکھوں کے آگے سے گزرتا ہے تو وہ بیان کرتے ہیں کہ ہم نے ایک بہت بڑا نشان دیکھا ہے.یہ شخص سخت خطرناک مرض میں گرفتار تھا، طبیب جواب دے چکے تھے لیکن خدا تعالیٰ نے اسے صحت عطا کر دی.بیشک یہ بھی ایک بڑا نشان ہوتا ہے لیکن اس سے بھی بڑا نشان یہ ہوتا ہے کہ الہی جماعتیں مصائب اور آفات کے طوفانوں میں سے سلامتی کے ساتھ گزر کر اپنی کامیابی کی منزل کو حاصل کر لیتی ہیں کیونکہ مرض ارادہ والی چیز نہیں ہوتی.کوئی شخص یہ نہیں کہہ سکتا کہ فلاں مرض فلاں شخص کو ارادہ مارنے آئی تھی.وہ اتفاقی حادثات کا نتیجہ ہوتی ہے لیکن مخالفت ایک ایسی چیز ہے جس کے پیچھے ارادہ ہوتا ہے اور جب کسی چیز کے ساتھ ارادہ ہوتا ہے تو وہ زیادہ خطرناک ہو جاتی ہے.مثلاً ایک پتھر کسی بلند جگہ سے انسان کے سر پر گرے تو وہ اُسے مار دے گا یا زخمی کر دے گا لیکن چھت سے یا کسی بلند جگہ سے اس کے گرنے میں دوسرے کی موت کا احتمال کم ہوتا ہے.یعنی یہ ضروری نہیں ہوتا کہ وہ پتھر کسی انسان کے سر ہے ہے.

Page 99

خطبات محمود 89 99 $1954 گر کر اُسے ہلاک کر دے.ممکن ہے پتھر چھت پر سے گرے اور وہ کسی انسان کو نہ لگے یا و کسی انسان کو لگے مگر اُسے ایسی ضربات نہ آئیں جن کے نتیجہ میں اس کی موت واقع ہو.لیکن ان اگر کوئی رائفل کا نشانہ بنا کر گولی چلاتا ہے تو چونکہ اس میں ارادہ شامل ہوتا ہے اس لیے اس میں موت کا بہت زیادہ احتمال ہوتا ہے.پس انسان جب کسی کو مارتا ہے تو وہ زیادہ خطرناک ہوتا ہے کیونکہ اس میں اس کے مارنے کی نیت اور ارادہ بھی ہوتا ہے.بیماری کا علاج کرو اور علاج اس کے مطابق ہو تو وہ ہٹ جائے گی لیکن کسی انسان کو ہٹانا چاہو تو وہ نہیں ہٹے گا.تم ایک طرف سے ہٹاؤ گے تو وہ دوسری طرف چلا جائے گا.تم اُدھر سے ہٹانے کی کوشش کرو گے تو وہ تیسری طرف چلا جائے گا کیونکہ اُس کی نیت مارنے کی ہوتی ہے اور وہ اس کے لیے ہر ڈھنگ اور طریق اختیار کرتا ہے.خدا تعالیٰ کی طرف سے قائم کردہ جماعتیں جب مخالفت کے طوفان سے بچتی ہیں تو وہ باوجود دشمن کے ارادہ اور نیت کے بچتی ہیں اس لیے یہ نشان بہت بڑا ہوتا ہے.اور جب انسان کے سامنے اس قدر بڑے نشانات آئیں تو وہ خدا تعالیٰ کو کیوں یاد نہ کرے گا.جب سے دنیا قائم ہوئی، خدا تعالیٰ کی طرف سے قائم کردہ کوئی جماعت ایسی نہیں گزری جسے خدا تعالیٰ نے شیر کے منہ سے نکال کر بچایا نہ ہو.شیر کے منہ سے انسان کا بچ جانا ممکن ہے لیکن جس قسم کے فتنوں سے خدا تعالیٰ اپنی جماعتوں کو بچاتا ہے بظاہر اُن سے بیچ نکلنا مشکل ہوتا ہے لیکن الہی سنت یہی ہے کہ وہ اپنی جماعتوں کو اس قسم کے خطرناک مصائب میں ڈال دیتا ہے اور پھر ان سے محفوظ کر لیتا ہے اور اس طرح لوگوں کو عظیم الشان نشان دکھاتا ہے.حضرت نوح کے زمانہ میں بھی ایسا ہی ہوا، حضرت ابراہیم کے زمانہ میں بھی ایسا ہی ہوا، حضرت موسقی کے زمانہ میں بھی ایسا ہی ہوا ، حضرت عیسی علیہ السلام کے زمانہ میں بھی ایسا ہی ہوا.ان کے علاوہ تمام انبیاء کے زمانہ میں چاہے اُن کا ذکر قرآن کریم میں ہوا ہے یا نہیں ہوا ایسا ہی ہوا.جن قوموں کے نام لے کر خدا تعالیٰ نے قرآن کریم میں ذکر نہیں کیا صرف یہی کہہ دیا ہے کہ ہر قوم میں میرے رسول آئے ہیں 1 اُن کے زمانہ میں بھی ایسا ہی ہوا.مثلاً تم کہہ سکتے ہو کہ یہودیوں کا یہ خیال تھا کہ کوئی شخص جب خدا تعالیٰ کی طرف سے مبعوث ہوتا ہے تو اُس کی جماعت ؟

Page 100

$1954 90 خطبات محمود مصائب اور تکالیف آتی ہیں.اس لیے ممکن ہے انہوں نے اس قسم کی باتیں تاریخ میں داخل کر دی ہوں لیکن ہم کہیں گے اچھا! اگر یہ یہودیوں کا خیال تھا کہ انبیاء کی جماعتوں پر مصائب آتے ہیں اور انہوں نے تاریخ میں اس قسم کی باتیں شامل کر دی ہیں تو حضرت نوح علیہ السلام کے زمانہ میں تو یہودی موجود نہیں تھے کہ انہوں نے اس قسم کی باتیں تاریخ میں شامل کر دی ہوں.پھر تم کہہ سکتے ہو کہ حضرت نوح علیہ السلام کی تاریخ بھی یہودیوں نے لکھی ہے اس لیے ممکن ہے کہ انہوں نے اس قسم کی باتیں شامل کر دی ہوں.ہم اس بات کو بھی تسلیم کر لیتے ہیں لیکن حضرت عیسی علیہ السلام کو تو یہودی مانتے ہی نہیں تھے.ان کی تاریخ میں بھی یہ ذکر آتا ہے کہ ان پر اور ان کی قوم پر ہر قسم کے مصائب آئے ، ان کو تو یہ بیان کرنا چاہیے تھا کہ عیسی علیہ السلام کی بہت عزت ہوئی تھی.پھر عیسی علیہ السلام کو بھی جانے دو، مکہ والوں پر یہود کا کیا اثر تھا.پھر مکہ والوں کے متعلق بھی یہ کہہ سکتے ہو کہ وہ سامی النسل تھے، ان پر یہود کا کی اثر تھا.زرتشت علیہ السلام ایران میں مبعوث ہوئے تھے ان کے متعلق بھی یہ روایت پائی جاتی ہے کہ ان پر اور ان کی قوم پر سخت مصائب آئے.خدا تعالیٰ نے اپنے فضل سے انہیں ان کی.مصائب سے نکالا اور انہیں ترقی بخشی.پھر تم یہ بھی کہہ سکتے ہو کہ ایران کا علاقہ عرب کے قریب تھا.وہ لوگ عربوں اور یہودیوں سے متاثر تھے اس لیے انہوں نے اپنی تاریخ میں اس قسم کی باتیں لکھ دی ہیں.لیکن ہندوستان کا ملک تو ان سے بہت دور تھا.پھر بھی ان کے انبیاء کے متعلق اس قسم کی روایات ملتی ہیں.حضرت رام چندر بھی اوتار تھے.ان کی ساری زندگی بن باس میں ہی گزر گئی.حضرت کرشن اوتار تھے ، ان کے زمانہ میں بھی لڑائیاں ہوتی رہیں اور انہی لڑائیوں میں ان کی ساری زندگی گزر گئی.غرض ہر قوم جس میں کسی شخص کی آمد پر ایمان کا اظہار کیا گیا تھا یا انہوں نے کسی سے عقیدت کا اظہار کیا ہے ان سے ایک ہی قسم کا سلوک ہوا کی ہے اور یہ ایسی شہادت ہے جس میں کسی قسم کا اختلاف نہیں ہوا.بعض باتوں میں اختلاف بھی ہو جاتا ہے لیکن اس بات میں اختلاف نہیں ہوا کہ ان کو اور ان کی قوموں کو تکالیف دی گئیں.حضرت نوح، ابراہیم ، موسی ، عیسی ، زرتشت ، کرشن ، رام چندر ، محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیموں میں فرق نظر آتا ہے.پھر کوئی نبی کسی قوم میں پیدا ہوا اور کوئی کسی قوم میں

Page 101

$1954 91 خطبات محمود پیدا ہوا.اس میں بھی فرق نظر آتا ہے.پھر کوئی سفید تھا اور کوئی کالا تھا.اس میں بھی فرق نظری آتا ہے.پھر کوئی، کوئی بولی بولتا تھا اور کوئی ، کوئی بولی بولتا تھا.اس میں بھی فرق نظر آتا ہے.لیکن اس بات میں کوئی فرق نہیں کہ ہر نبی جب دنیا میں مبعوث ہوا اُس کی قوم خطرناک حالات میں سے گزر کر ترقی کر گئی.دشمن نے انہیں دیکھ دیئے، تکالیف دیں، مصائب کے پہاڑ اُن پر توڑے لیکن وہ پھر بھی زندہ رہیں اور ترقی کر گئیں.یہ اتنا بڑا نشان ہے کہ اگر انسان اس پر غور کرے تو یہ اُس کے ایمان کی ترقی کا موجب ہو جاتا ہے لیکن اس کے باوجود انسان سمجھتا ہے کہ ان قوموں نے طاقت اور زور سے ترقی حاصل کی تھی حالانکہ اگر طاقت اور زور سے ہی تو ترقی حاصل کی تھی تو ان سے پہلے بھی تو بہت سی قومیں گزری ہیں.روایات بتاتی ہیں کہ جب بھی کسی قوم نے دین کو پھیلایا ہے تو وہ دوسری قوموں پر غالب آئی ہے.لیکن وہ طاقت اور زور سے غالب نہیں آتی.الہی نصرت کے ذریعہ غالب آئی ہے.اس میں طاقت اور قوت نہیں تھی لیکن خدا تعالیٰ نے اُن سے کام لیا.اور اس کا کام لینے کا طریق ایسا ہی ہے جیسے کوئی ماں میز اُٹھانے لگی ہو تو بچہ آجائے اور کہے میں میز اُٹھاؤں گا.ماں کہتی ہے اچھا! تم اُٹھاؤ! اور وہ دیکھتی ہے کہ بچہ اس میز کو پکڑ کر بظاہر زور لگا رہا ہے لیکن اس کے زور لگانے سے میز اُٹھایا نہیں جا سکتا.ماں اس میز کو اُٹھاتی جاتی ہے اور ساتھ ساتھ یہ کہتی جاتی ہے لگاؤ زور! حالانکہ بچہ صرف میز پر ہاتھ رکھے ہوئے ہوتا ہے.وہ اس کے کام میں مدد نہیں دے رہا ہوتا.بلکہ بسا اوقات اس کے لیے زیادہ بوجھ کا موجب بن رہا ہوتا ہے.اسی طرح خدا تعالیٰ ہم سے کہتا ہے دو چندے، کرو قربانیاں.حالانکہ ان چندوں اور قربانیوں کی کوئی حقیقت نہیں ہوتی.جو کام خدا تعالیٰ مجددین ، مصلحین اور انبیاء کی جماعتوں سے لیتا ہے.اسے دیکھو تو اس کے سامنے ان کی قربانیاں اور کوششیں بیچ نظر آتی ہیں.لیکن باوجود اس کے کہ سامان، طاقت اور قوت کم ہوتی ہے،مصلحین، مجددین اور انبیاء کی جماعتیں ترقی کر جاتی ہیں.ان کی قربانیوں کے مقابلہ میں کام زیادہ ہوتا ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھ لو آپ کے پاس مال اور ذرائع بہت کم تھے.آپ کے بعد جو لوگ آئے ان کے ذرائع زیادہ تھے.ان کے پاس مال زیادہ تھا لیکن جو کام رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ کے خلفاء کے زمانہ میں ہوا وہ

Page 102

$1954 92 خطبات محمود بعد میں نہیں ہوا.اس طرح خدا تعالیٰ نے بتا دیا کہ جو کام ہوا ہے وہ طاقت، قوت اور آدمیوں نے کی کثرت کی وجہ سے نہیں ہوا.اگر طاقت، قوت اور آدمیوں کے ذریعہ سے وہ کام ہوا تھا تو اب میں نے طاقت، قوت اور آدمیوں کو بڑھا کے دکھا دیا ہے لیکن کام پہلے کی نسبت بہت کم ہوا ہے.جو تغیر انسانی قلوب، احساسات، جذبات اور نظم ونسق میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ میں ہوا اور جو کام آپ کی جماعت نے کیا بعد میں بنوعباس اور بنوامیہ نے اس سے ہزاروں گنے زیادہ آدمیوں، طاقت اور قوت کے باوجود نہیں کیا بلکہ وہ لوگ اپنے آپ کو بھی نہ سنبھال سکے اور ایک دوسرے کو مارتے رہے.کجا یہ حالت تھی کہ مسلمان سب ایک جتھا تھے اگر کسی وجہ سے کسی کے جذبات بھڑک اُٹھتے تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے منہ سے ایک لفظ نکلتا اور وہ سرد پڑ جاتے.لیکن اب کسی کا پیر غلطی سے بھی دوسرے کے پیر پر پڑ جائے تو وہ کئی باتیں کرتا ہے اور کہتا ہے تمہیں تہذیب حاصل نہیں ؟ گجا وہ حالت تھی کہ ایک دفعہ حضرت ابوبکر اور حضرت عمر الڑ پڑے.حضرت عمرؓ کی طبیعت سخت تھی.انہوں نے حضرت ابوبکر کو سخت سست کہا اور پھر غصہ میں آکر رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس شکایت کرنے چلے گئے.دوسرے لوگوں.حضرت ابوبکر سے کہا عمر ! رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس شکایت کرنے گئے ہیں.و غصہ میں ہیں.واقعہ انہیں سمجھ میں نہیں آیا.کہیں ایسا نہ ہو کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ پر ناراض ہو جائیں.اس لیے آپ بھی جائیں.پہلے تو آپ نے اس بات کی طرف دھیان نہ دیا.آپ اپنے گھر تشریف لے گئے لیکن بعد میں خیال آیا کہ شاید رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم خیال فرمائیں کہ سختی میں نے کی ہے.چنانچہ آپ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مجلس میں تشریف لے گئے اور دیکھا کہ حضرت عمر رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بہ ہہ رہے ہیں کہ آج مجھے سے ابوبکر پر کچھ سختی ہو گئی ہے.اس خیال سے کہ شکایت نہ کر دیں.میں پہلے ہی معافی مانگنے آ گیا ہوں.حضرت عمرؓ نے بات ختم ہی کی تھی کہ آپ بھی مجلس میں جا پہنچے اور خیال کیا کہ میں بھی اپنی شکایت رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے پیش کر دوں.چنانچہ آپ نے آگے قدم بڑھائے تا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اپنا

Page 103

$1954 93 خطبات محمود ہو بیان پیش کریں.لیکن پیشتر اس کے کہ حضرت ابوبکر رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تک پہنچتے آپ نے حضرت عمرؓ کو مخاطب کر کے جواب دینا شروع کیا.اُس وقت آپ کا چہرہ سرخ ہے گیا.آپ نے فرمایا اے لوگو! تم کو کیا ہو گیا !! کہ جب تم سب میری اور اسلام کی مخالفت کرتے تھے اُس وقت صرف ابوبکر تھا جو میری تائید کیا کرتا تھا.کیا تم اب بھی ہم دونوں کو دکھ دینے سے باز نہیں آتے.حضرت ابو بکر یہ سن کر کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، حضرت عمرانی پر ناراض ہوئے ہیں آگے بڑھے اور گھٹنوں کے بل بیٹھ کر کہنا شروع کیا يَارَسُولَ اللہ غلطی میری ہی ہے.آپ عمر پر خفا نہ ہوں.2 اب دیکھو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قلوب کی کسی طرح صفائی کر دی تھی.اگر تم میں سے کوئی شخص وہاں ہوتا تو وہ نہ صرف معافی نہ مانگتا بلکہ یہ کہتا يَا رَسُولَ الله ! آپ نے اس کے جرم کو کم سمجھا ہے.اس نے ظلم زیادہ کیا تھا.بیسیوں دفعہ میں نے دیکھا ہے کہ اگر ہم کسی شخص کو اُس کے مُجرم کی سزا دیتے ہیں تو دوسرے لکھتے ہیں کہ اس کا جرم تو بہت زیادہ تھا اسے جماعت سے خارج کیوں نہیں کر دیا گیا.اس کو تو جماعت سے خارج کر دینا چاہیے تھا، اسے مرتد قرار دے دینا چاہیے تھا.اس کو اس اس طرح پینا چاہیے.اور ادھر یہ حالت ہے کہ ایک آدمی پر ظلم کیا جاتا ہے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کی حمایت بھی کرتے ہی ہیں لیکن وہ یہ برداشت نہیں کر سکتا کہ آپ دوسرے شخص پر ناراض ہوں.یا تو وہ اپنی براءت کرنے آیا تھا اور یا وہ یہ کہتا ہے کہ يَا رَسُولَ الله! قصور میرا ہی ہے.یہ تغیر جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پیدا کیا بنوامیہ اور بنو عباس اپنے سارے روپیہ اور طاقت سے بھی پیدا نہ کر سکے.اُس وقت کئی ایسے لوگ موجود تھے جنہیں بنو عباس اور بنوامیہ کی حکومتیں روپیہ دیتی تھیں لیکن وہ اندرونی طور پر ان کے دشمن تھے.برا مکہ 3 کو دیکھ لو بنو عباس نے اس خاندان کو کتنی ہی عزت دی.انہیں غلامی سے اُٹھا کر بادشاہ بنا دیا لیکن بنو عباس کی سلطنت کے خلاف برامکہ کے خاندان نے ہی سازش کی اور آخر ہارون الرشید کو مجبور ہو کر اس خاندان کے لوگوں کو قتل کرانا پڑا.اس کے مقابلہ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس کچھ بھی نہیں تھا.آپ اپنے ماننے والوں کو یہی فرماتے تھے قربانیاں کرو.چنانچہ وہ روپیہ دیتے تھے، قربانیاں کرتے تھے اور

Page 104

$1954 94 خطبات محمود سمجھتے تھے کہ آپ نے ان کو قربانی کا ارشاد فرما کر ان پر احسان کیا ہے.آپ کا حکم سنتے ہی وہ اپنی جان اور مال قربان کر دیتے تھے.پس اللہ تعالیٰ نے ہر قوم کو جسے اُس نے کھڑا کیا ہے یہ نظارہ دکھا دیا ہے تا اسے یہ خیال پیدا نہ ہو کہ اس نے جو وجاہت اور شان حاصل کی ہے وہ اس کے زور اور قوت بازو کے نتیجہ میں ہے.وہ اپنی اس حالت کو دیکھیں اور غور کریں کہ جب وہ کمزور تھے تو ان کے کام کا کیا نتیجہ نکلا.اور اب جبکہ وہ تعداد میں بھی بڑھ گئے ہیں اور ان کی کی مالی حالت بھی بہت ترقی کر گئی ہے ان کے کام کا کیا نتیجہ نکل رہا ہے.پھر کوئی اور ترقی یافتہ قوم ہو تو تم کہہ سکتے ہو کہ اُن کے پاس وہ شان نہیں تھی لیکن یہاں تو یہ ہو رہا ہے کہ ایک وقت میں جو قوم کامیاب اور کامران تھی اُسی کی نسل اپنے اس کام میں ناکام ہو جاتی ہے جس میں ان کے ماں باپ بہت تھوڑے سامان کے ہوتے ہوئے کامیاب ہو گئے تھے.اس سے پتا لگتا ہے کہ اُس وقت خدا تعالیٰ خود انہیں ترقی دے رہا تھا.پس تم اپنے کاموں میں خدا تعالیٰ پر نظر رکھو، اُس کے سامنے جھکو، اُس سے دعا ئیں کرو.مصائب جب آتے ہیں تو ان میں سے بعض ایسے ہوتے ہیں جو مخفی ہوتے ہیں اُن کا کسی کو پتا نہیں ہوتا.اسی رتن باغ میں میں نے بعض خطبے پڑھے تھے.اگر تمہارا حافظہ ٹھیک ہے تو تمہیں یاد ہو گا جب تقسیم ملک کے وقت جماعت نے اچھا کام کیا تو سب طرف سے اس کی تعریفیں ہو رہی تھیں.میں نے اُس وقت کہا تھا کہ تمہاری یہ تعریفیں جو اب ہو رہی ہیں زیادہ دیر تک قائم نہیں رہیں گی.یہی لوگ تمہاری مخالفت کریں گے.اس لیے تم ان تعریفوں کو سن کرسُست نہ ہو جاؤ.لیکن تمہارے دماغوں پر یہی اثر تھا کہ یہ لوگ ہماری تعریفیں کر رہے ہیں.اگر ہم نے تبلیغ شروع کر دی تو یہی لوگ ہمارے مخالف ہو جائیں گے.لیکن اس کے کی بعد وہ کچھ ہوا جس کا کسی کو خیال بھی نہ تھا اور جماعت کو پتا لگ گیا کہ ان تعریفوں کی کوئی حقیقت نہیں تھی.اصل تعریف وہی ہوتی ہے جو خدا تعالیٰ کرتا ہے.جو تعریف خدا تعالیٰ کرتا ہے وہ قیامت تک جاتی ہے لیکن انسان آج خوشامد کرتا ہے اور کل گالیاں دینے لگ جاتا ہے.میرے ہی زمانہ میں جماعت کے بعض لوگوں کو پانچ سات مرتبہ ٹھوکر لگی.وہ لوگ خطبے سنتے تھے اور جھومتے تھے.میرے ہاتھ چومتے تھے لیکن بعد میں انہیں ٹھوکر لگی

Page 105

$1954 95 خطبات محمود تو انہوں نے مجھے غلیظ ترین گالیاں دیں.اخبارات میں میرے متعلق جھوٹی اور فحش خبریں ملی اور مضامین شائع کیے.اگر اُن کا زور چلتا تو جس کا نام محمود تھا اُس کا نام ذلیل ہو جاتا.لیکن اس کا محمود نام خدا تعالیٰ نے رکھا تھا.اس لیے وہ تمام فتنوں میں اسے محمود ہی بناتا جاتا تھا.بعض دوست آئے اور ایک وقت تک انہوں نے خوب اخلاص دکھایا اور ہمیں بھی ان سے بعض امیدیں پیدا ہو گئیں لیکن بعد میں وہی لوگ دشمن ہو گئے اور انہوں نے یہ خیال کر لیا کہ اسے ہم لوگوں نے ہی عزت دی ہے اور اب ہم لوگ ہی اسے ذلیل کریں گے.میری خلافت کا غالباً دوسرا سالانہ جلسہ تھا یا پہلا ہی جلسہ تھا کہ لاہور سے ایک چھپا ہوا اشتہار مجھے پہنچا.اس میں مولوی محمد احسن صاحب امروہی کا یہ اعلان تھا کہ میں نے اسے خلیفہ بنایا تھا اور اب میں ہی اسے معزول کرتا ہوں.مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے دوستانہ تعلقات تھے لیکن جب آپ نے مسیح اور مہدی ہونے کا دعوی کیا تو مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی نے یہی کہا کہ میں نے انہیں عزت دی تھی اور اب میں ہی انہیں ذلیل کروں گا.اب دیکھو دونوں میں سے کس کی بات درست نکلی؟ جن دوستوں پر یہ خیال تھا کہ وہ بڑھانے والے ہیں انہوں نے بعد میں مقابلہ کیا اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو ذلیل کرنا چاہا؟ لیکن آپ کو مسیح اور مہدی خدا تعالیٰ نے بنایا تھا اس لیے اس نے کہا میں آپ کو ترقی دوں گا، آپ کو بڑھاؤں گا اور آپ کے دشمنوں کو ناکام و نامراد بناؤں گا.چنانچہ ایک دن ایسا بھی آیا جب عیسائیوں کی طرف سے آپ پر مقدمہ دائر ہوا تو یہ مولوی عیسائیوں کی تائید میں آپ کے خلاف عدالت میں پیش ہوئے اور انہوں نے کہا اس شخص سے امید ہی یہی تھی کہ وہ اس کو قتل کرا دیں گے.بعض بیوقوفیوں کی وجہ سے مجسٹریٹ مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی پر ناراض ہوا.مجسٹریٹ نے کہا تم عدالت کی ہتک کر رہے ہو اور غصہ میں آ کر کہا عدالت سے نکل جاؤ.اُس وقت بہت سے لوگ عدالت کے باہر جمع ہو گئے تھے اور وہ عدالت کے فیصلہ کا انتظار کر رہے تھے.مولوی محمد حسین بٹالوی نے خیال کیا کہ مجسٹریٹ نے جو سلوک مجھ سے کیا ہے اس کا ان لوگوں کو پتا نہ لگے.کسی شخص کی چادر بچھی ہوئی تھی.مولوی محمد حسین اُس چادر پر بیٹھ گئے اور سمجھا کہ لوگ یہ خیال کریں گے

Page 106

$1954 96 خطبات محمود کہ اس شخص نے میرے اعزاز اور احترام کی وجہ سے اپنی چادر بچھا دی ہے.لیکن وہ چادر پر بیٹھے ہی تھے کہ چادر کے مالک نے کہا میری چادر کو پلید نہ کرو.تم مسلمانوں کا مقابلہ کرنے کے لیے عدالت میں آئے ہو تمہیں کوئی حق حاصل نہیں کہ میری چادر پر بیٹھو.گویا مولوی محمد حسین بٹالوی کا تو یہ خیال تھا کہ مرزا صاحب کو مقام ماموریت پر میں نے ہی کھڑا کیا ہے لیکن خدا تعالیٰ نے کہا تم میرے مامور کو ذلیل کرنے پر تلے ہوئے ہو میں تمہیں سفید چادر ؟ بھی نہیں بیٹھنے دوں گا.پس انسان کی دی ہوئی عزت اور اس کی تعریفیں کوئی حقیقت نہیں رکھتیں.اصل عزت کی وہی ہے جو خدا تعالیٰ دے.اور اصل تعریف وہی ہے جو خدا تعالیٰ کرے.مومن کو اُس کی طرف جھکنا چاہیے اور اُس سے مانگنا چاہیے.جو چیز خدا تعالیٰ دے گا وہ اُسے واپس نہیں لے گا.لیکن انسان ممکن ہے ایک عرصہ کے بعد تمہارا دشمن ہو جائے اور تمہیں ذلیل کرنے کی کوشش کرے.پس تم خدا تعالیٰ سے مانگو اور اُس چیز کی خواہش نہ کرو جو چھینی جا سکتی ہے.اس کے ساتھ کچھ عرصہ کے لیے تمہیں دنیا میں عزت حاصل ہو سکتی ہے لیکن خدا تعالیٰ کے نزدیک اس کی کوئی حیثیت نہیں.پس تم خدا تعالیٰ سے دعائیں کرو.دعاؤں میں بڑی تاثیر ہوتی ہے.تم خدا تعالیٰ.اُس کا فضل طلب کرو کیونکہ جب خدا تعالیٰ کا فضل آئے گا تو کوئی انسان تمہارا کچھ نہیں بگاڑ سکے گا، دنیا کی بڑی سے بڑی طاقت بھی تمہارا کچھ نہیں بگاڑ سکے گی.لیکن اگر خدا تعالیٰ کا فضل نہ ہو تو تم موجودہ تعداد سے لاکھ گنا بھی بڑھ جاؤ تو تمہاری کوئی عزت نہیں.مسلمانوں کو دیکھ لو اس وقت ان کی تعداد ساٹھ کروڑ کے قریب ہے لیکن اس وقت جو ان کی حیثیت ہے وہ یورپ کی چھوٹی چھوٹی طاقتوں سے بھی کم ہے.لیکن ایک زمانہ وہ تھا جب مسلمانوں کی تعداد چالیسواں کی حصہ تھی.یعنی بنوامیہ کے زمانہ میں جب مسلمانوں کی تعداد پچاس ساٹھ لاکھ تھی یا بنو عباس کے زمانہ میں جب ان کی تعداد دو تین کروڑ تھی اُس وقت ساری دنیا نے ان کے سامنے سر جھکا دیا تھا.پس تعداد اپنی ذات میں ایسی چیز نہیں کہ اس پر فخر کیا جائے.جن لوگوں کے ساتھ خدا تعالیٰ کا فضل ہوتا ہے وہ تھوڑے بھی ہوں تو بہت ہوتے ہیں اور جن لوگوں کے ساتھ ނ

Page 107

$1954 97 خطبات محمود خدا تعالیٰ کا فضل نہیں ہوتا وہ زیادہ تعداد میں بھی ہوں تو تھوڑے ہوتے.تو تھوڑے ہوتے ہیں“.1 : وَإِنْ مِنْ أُمَّةِ إِلَّا خَلَا فِيهَا نَذِيرٌ (فاطر : 25) لمصل اع 14 مارچ 1954ء ) 2: صحیح بخاری کتاب فضائل اصحاب النبى صلى الله عليه وسلم باب قول النبي صلى الله عليه وسلم لَوْ كُنْتُ مُتَّخِذَا خليلا و كتاب التفسير باب قل يايها الناس انی رسول الله اليكم جميعا 3 : برامکہ : ( برمکی خاندان ”برمک آتشکده نو بہار بلخ کا آتشکدہ جو مملکت عجم کے چار بڑے آتشکدوں میں سے تھا) کے پروہت یا متولی کو کہا جاتا ہے.اسی نسبت سے خلافت عباسیہ کے اس امیر و مقتدر خاندان کا لقب ” برامکہ“ پڑا.اس خاندان کی بنیاد خالد بن جاماسپ برمک کے اقتدار سے پڑی.اردو جامع انسائیکلو پیڈیا.جلد اول صفحہ 236 " برمکی خاندان.لاہور 1987ء)

Page 108

98 $1954 (10 خطبات محمود ربوہ میں رہنے والوں کا فرض ہے کہ وہ نیک نمونہ دکھائیں اور اپنی اصلاح کی کوشش کریں (فرمودہ 21 مئی 1954ء بمقام ربوہ) تشهد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: میں نے جماعت سے بہت کچھ کہنا ہے لیکن میری صحت اس بات کی اجازت نہیں کی دیتی کہ لمبا بول سکوں.اس لیے ان ضروری باتوں کو میں ابھی ملتوی کرتا ہوں.میں نماز پڑھانے آج آیا ہوں لیکن چونکہ ابھی کھڑا ہو کر نماز نہیں پڑھا سکتا اس لیے میں بیٹھ کر نماز پڑھاؤں گا.باقی دوست حسب سنت کھڑے ہو کر نماز پڑھیں.ربوہ کی بنیاد کی غرض یہ تھی کہ یہاں زیادہ سے زیادہ نیکی اختیار کرنے والے اور دیندار لوگ آباد ہوں لیکن جو رپورٹیں میرے پاس آتی رہتی ہیں ان سے یہ پتا لگتا ہے کہ ربوہ میں رہنے والوں میں سے ایک حصہ میں دین کی جس بہت کم ہے.میں اس کا کسی اور سے مقابلہ نہیں کرتا، میں یہ نہیں کہتا کہ دوسرے فرقوں اور جماعتوں سے ان کی دین کی حس کم ہے لیکن میں یہ ضرور کہوں گا کہ اس مقام کے لحاظ سے جس نیکی کی ضرورت تھی وہ ان میں نہیں پائی جاتی حالانکہ جب ایک مقام کی بنیاد اس لیے رکھی گئی تھی کہ وہ دین کی اشاعت کا مرکز ہو

Page 109

$1954 99 خطبات محمود تو وہاں بسنے والوں کو اس غرض سے بسنا چاہیے تھا کہ وہ یہاں رہ کر دین کی اشاعت میں دوسروں سے زیادہ حصہ لیں گے.حال ہی میں ایک لمبی فہرست میرے پاس ان لوگوں کی بھیجی گئی ہے جو ربوہ میں رہتے ہیں اور کمائی بھی کرتے ہیں اور پھر ان میں سے ایک تعداد سلسلہ سے امداد کی بھی درخواست کرتی رہتی ہے.لیکن اپنی آمد میں سے ایک پیسہ بھی چندہ میں ادا نہیں کرتے.اس طرح بعض لوگوں کی بداعمالیاں اور لڑائیاں دوسروں کے لیے ٹھوکر کا موجب بن جاتی ہیں.مثلاً شریعت کہتی ہے کہ بیمار روزہ نہ رکھے.1 پس اگر کوئی شخص بیمار ہے اور وہ روزہ نہیں رکھتا تو شریعت اُسے ایسا کرنے کی اجازت دیتی ہے لیکن وہ اس سے یہ توقع بھی رکھتی ہے کہ وہ دوسروں کے لیے ٹھوکر کا موجب نہ بنے.حضرت مسیح ناصری علیہ السلام نے کہا ہے بدقسمت ہے وہ انسان جو دوسروں کے لیے ٹھوکر کا موجب بنتا ہے.2 روزہ نہ رکھنے کی اجازت اور چیز ہے اور دوسروں کے لیے ٹھوکر کا موجب بننا بالکل اور چیز ہے.جو شخص معذور ہے، بیمار ہے اور وہ روزہ نہیں رکھتا اُس کے گھر والے تو جانتے ہیں کہ وہ کسی معذوری یا بیماری کی وجہ سے روزہ نہیں رکھتا.اگر چہ گھر والوں کو بھی اس کے متعلق بتانا پڑتا ہے کیونکہ بچے نہیں سمجھتے کہ ہمارا باپ کمزور ہے یا اتنا بڑھا ہو گیا ہے کہ شریعت اُسے روزہ نہ رکھنے کی اجازت دیتی ہے.اس لیے بچوں کو سمجھانا پڑتا ہے کہ بوڑھوں کے لیے احکام اور ہیں اور تم نوجوانوں کی کے لیے احکام اور ہیں.بہر حال گھر والے تو یہ جانتے ہیں کہ فلاں شخص معذور ہے اس لیے روزہ نہیں رکھتا.لیکن باہر کے لوگ یہ نہیں جانتے کہ وہ کسی معذوری اور بیماری کی وجہ سے روزہ نہیں رکھ رہا.اس لیے جب وہ پبلک میں کھائے پیے گا تو اس کا دوسروں پر بُرا اثر پڑے گا.مجھے یہ شکایت پہنچی ہے کہ ربوہ میں بعض لوگ بازاروں میں کھا لیتے ہیں اور بعض لوگ پبلک میں سگریٹ پیتے ہیں.سگریٹ کو ہم حرام تو نہیں کہہ سکتے لیکن سگریٹ نوشی ایک لغوی کام ضرور ہے.اگر کوئی شخص سگریٹ نوشی کا عادی ہو جاتا ہے یا ڈاکٹروں نے اس کے متعلق, کہہ دیا ہے کہ اب یہ سگریٹ نوشی چھوڑ نہیں سکتا.اگر چھوڑے گا تو اس کی صحت بگڑ جائے گی تو کم از کم اس میں اتنی حیا اور قومی درد تو ہونا چاہیے کہ وہ گھر میں چھپ کر سگریٹ نوشی کرے.اگر وہ بیماری یا کسی اور عذر کی وجہ سے روزہ نہیں رکھتا تو گھر میں بیٹھ کر کھائے پیے.

Page 110

$1954 100 خطبات محمود ނ ایسی جگہ پر نہ کھائے پیے جہاں لوگوں کو اُس کے متعلق یہ علم نہیں کہ وہ معذور ہے اس لیے روزہ نہیں رکھتا.اگر کسی شخص کو بوڑھا یا معذور ہونے کی وجہ سے شریعت نے روزہ رکھنے معذور قرار دیا ہے اور وہ بازاروں میں کھاتا پھرتا ہے یا سگریٹ نوشی کرتا ہے تو اُس کو دیکھ کر نوجوان یہ سمجھیں گے کہ رمضان کے مہینہ میں جب ہمارے بزرگ بازاروں میں کھاتے پیتے ہیں تو ہمارے لیے بھی اس میں کوئی حرج نہیں.مثلاً اس سال میں بیمار ہوں اس لیے میں روزے نہیں رکھتا.ایک دن میری ایک بیوی نے دن کے وقت میرے ساتھ کھانے پر دو بچوں کو بھی بٹھا دیا.میں نے اُسے کہا کہ ان بچوں میں اتنی عقل نہیں کہ وہ سمجھ سکیں کہ ان کا کوئی بزرگ کسی بیماری یا عذر کی وجہ سے روزہ نہیں رکھتا.تم نے انہیں میرے ساتھ کھانے پر بٹھا کر انہیں روزہ نہ رکھنے پر دلیر بنایا ہے.بیشک میں بیمار ہوں اور میں روزہ نہیں رکھتا لیکن ان کو کھانے پر میرے سامنے بٹھانے کے یہ معنے ہیں کہ یہ سمجھیں کہ ہم نے رمضان کے مہینہ میں دن کے وقت اپنے باپ کے ساتھ کھانا کھایا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ روزہ نہ رکھنے میں کوئی حرج نہیں.حالانکہ معذوری میں روزہ نہ رکھنے کی اجازت اور عام حالات میں روزہ نہ رکھنے میں فرق ہے.پس انہیں میرے ساتھ نہ بٹھاؤ تا کہ بڑے ہو کر انہیں روزہ ترک کرنے پر دلیری پیدا نہ ہو.پس بیشک بعض معذوریاں ایسی ہیں جن کی وجہ سے روزہ نہ رکھنے کا شریعت نے حکم دیا ہے لیکن ان کی وجہ سے بازاروں میں کھانا پینا درست نہیں کیونکہ دوسرے لوگوں کو حالات کا علم نہیں ہوتا اور وہ ٹھوکر کھا جاتے ہیں.اس وجہ سے جب بھی میں بیٹھ کر نماز پڑھاتا ہوں میں یہ کہہ دیتا ہوں کہ بیمار ہونے کی وجہ سے میں ایسا کروں گا کیونکہ ہو سکتا ہے بعض لوگ جس مجھے بیٹھ کر نماز پڑھاتے دیکھیں تو وہ بھی بیٹھ کر نماز پڑھنا شروع کر دیں.حالانکہ صحت کی حالت میں بیٹھ کر نماز پڑھنا جائز نہیں.پچھلے دنوں میں تو میرے لیے بیٹھ کر نماز پڑھنے کا بھی سوال نہیں تھا کیونکہ میں نہ سر کو ہلا سکتا تھا اور نہ جُھکا سکتا تھا بلکہ حملہ کے شروع ایام میں تو میں صرف انگلی سے اشارہ کر سکتا تھا.گویا چارپائی پر جسم پڑا ہے اور انگلی کے ساتھ ہی رکوع اور سجدہ ہو رہا ہے.مجھ میں اتنی طاقت نہیں تھی کہ سر ہلا سکوں.اب اگر دیکھنے والا میری معذوری سے

Page 111

$1954 101 خطبات محمود واقف نہیں تو وہ میری نقل کرنا شروع کر دے گا اور ٹھوکر کھائے گا.اس لیے میں جب بھی بیٹھ کر نماز پڑھاتا ہوں تو دوستوں کے سامنے اپنی معذوری بیان کر دیتا ہوں.پس میں ربوہ والوں کو اس طرف توجہ دلاتا ہوں کہ وہ اپنی اصلاح کریں ورنہ میرے لیے اس کے سوا اور کوئی طریق باقی نہیں رہے گا کہ میں ان میں سے بعض کو ربوہ یا جماعت سے نکالنا شروع کر دوں.تم یہ مت سمجھو کہ میرا ایسا کرنا جماعت کی کمزوری کا موجب ہو گا.یہ جماعت کی کمزوری کا موجب نہیں بلکہ اس کی تقویت کا موجب ہو گا.میں نے پریذیڈنٹوں کو اس سے قبل بھی بہت دفعہ توجہ دلائی ہے لیکن شاید وہ خود بھی ان بُرائیوں میں مبتلا ہیں اس لیے وہ اس کے ازالہ کے لیے کوئی کوشش نہیں کرتے.اب میں تمہیں آخری نوٹس دیتا ہوں.میرے پاس شکایات پہنچی ہیں کہ ناظر صاحب امور عامہ نے بعض مجرموں کو جو سزائیں دی ہیں وہ ہنسی کے قابل ہیں.وہ لوگ ربوہ سے جماعت سے نکال دینے کے قابل تھے لیکن ناظر صاحب امور عامہ نے انہیں دو دو روپیہ جرمانہ کیا.اگر وہ شکایات درست ہیں تو ناظر اور نائب ناظر امور عامہ کو بھی یاد رکھنا چاہیے کہ اُن کو کسی نوٹس کی ضرورت نہیں کیونکہ وہ سلسلہ کے ملازم ہیں.دوتین دن میں میں تحقیقات کروں گا اور اگر یہ الزام ثابت ہو گیا تو میں انہیں سزا دوں گا.ہم مخالفین سے یہ اعتراض سنتے آ رہے ہیں کہ ہم نے سیاسی طور پر ایک مرکز بنا لیا ہے.اگر چہ ہم نے کوئی سیاسی مرکز نہیں بنایا ہم نے اس مقام کو محض اس لیے بنایا ہے تا اشاعت دین میں حصہ لینے والے لوگ یہاں جمع ہوں لیکن بہر حال دشمن یہ اعتراض کر رہا ہے کہ ہم نے سیاسی مرکز بنایا ہے اور جس غرض سے ہم نے یہ جگہ بنائی ہے اگر وہ بھی پوری نہ ہوتی تو ہمارا الگ شہر بسانے کا کیا فائدہ؟ ہم نے ساری دنیا کو اپنا دشمن بنا لیا اور دوسرے لوگوں کو اعتراض کرنے کا موقع دیا.حالانکہ ہمارا مرکز بنانے کا مقصد وہ نہیں جو دوسرے لوگ بیان کرتے ہیں.ہم تو ایسے مذہب سے تعلق رکھتے ہیں جو حکومت کی اطاعت سکھاتا ہے.اگر آج پاکستان پر کوئی مصیبت آجائے تو ہمارے عقیدہ کے لحاظ سے اس کی خاطر سب سے پہلے قربانی کرنے والے احمدی ہوں گے.لیکن باوجود اس عقیدہ کے ہم پر سیاسی مرکز بنانے کا

Page 112

$1954 102 خطبات محمود اعتراض کیا جاتا ہے اور ادھر اس مرکز کے بنانے کی جو اصل غرض تھی کہ دیندار لوگ ایک جگہ جمع ہو جائیں، وہ دین کی اشاعت کریں اور اس کی خاطر قربانی کریں وہ بھی پوری نہ ہو تو ایسا ان کرنے کا فائدہ کیا ہوا؟ ہم دیکھتے ہیں کہ ہماری یہ سکیم پوری نہ ہوئی.میرے پاس متواتر ایسی شکایات پہنچی ہیں کہ یہاں ایک خاصا طبقہ ایسا آباد ہو گیا ہے کہ جن کی غرض محض یہ ہے کہ وہ باہر رہ کر کمائی نہیں کر سکتے ، یہاں بیٹھ کر وہ روزی کما سکیں گے لیکن یہ جگہ روٹی کمانے کے لئے نہیں بنائی گئی.ایسے لوگوں کو جلد یا بدیر ربوہ سے نکلنا پڑے گا اور اگر وہ یہاں سے نہیں نکلیں گے تو ہم اُن سے لین دین بند کر دیں گے، اُن سے سودا نہیں خریدیں گے، اُن کے جنازوں میں شامل نہیں ہوں گے.وہ بیشک یہاں رہیں لیکن ہمارا اُن سے کوئی تعلق نہیں ہو گا.اور جب سوائے منافقوں کے اُن سے کوئی احمدی سودا نہیں لے گا تو لازمی طور پر غیر لوگ ان سے دوستی رکھیں گے اور اس سے دوسرے لوگوں کو یہ پتا لگ جائے گا کہ وہ احمدیوں کے نہیں غیروں کے ہیں اور اس سے ہمیں فائدہ پہنچ جائے گا.میں پریذیڈنٹوں کو بھی یہ نوٹس دیتا ہوں کہ وہ اپنی اصلاح کر لیں.میرے پاس یہ شکایت پہنچی ہے کہ پریذیڈنٹ یونہی بنا دیئے جاتے ہیں اور گو ناظر صاحب اعلیٰ نے کہا ہے کہ نمازیوں کو پریذیڈنٹ بنایا جاتا ہے لیکن میرا خیال ہے کہ پارٹی بازی کی وجہ سے بعض لوگوں کو آگے لایا جاتا ہے.ابھی ناظر صاحب بیت المال نے مجھے لکھا ہے کہ میں نے پریذیڈنٹوں کو آٹھ دس پچٹھیاں لکھی ہیں لیکن ان میں سے ایک کا بھی جواب نہیں آیا.اگر یہ لوگ نمازی ہوتے تو ان میں کام کرنے اور قربانی کرنے کا شوق ہوتا اور اگر ان کے اندر کام اور قربانی کا شوق نہیں تو یہ کہنا جھوٹ ہے کہ وہ نماز پڑھتے ہیں اور پھر منافق ہیں.آخر منافق بھی تو دکھاوے کے لیے نمازیں پڑھتے ہیں.بہر حال اس چیز کی اصلاح کی ضرورت ہے اور اس کا پہلا فرض پریذیڈنٹوں پر عائد ہوتا ہے جو اس میں بالکل ناکام رہے ہیں.آخر پریذیڈنٹ آج نہیں بنائے گئے سالہا سال سے پریذیڈنٹ بنتے چلے آئے ہیں.میں سمجھتا ہوں کہ ان ساری منافقتوں کے ذمہ دار پریذیڈنٹ ہیں.وہ رئیس المؤمنین نہیں بلکہ رئیس المنافقین ہیں کیونکہ اُن کے ہوتے ہوئے منافقت پہنی ہے.یہاں کے لوگوں نے سلسلہ سے فائدہ اُٹھایا ہے، ہم

Page 113

$1954 103 خطبات محمود سے منافع لیا ہے لیکن سلسلہ کو چندہ نہیں دیا.ایسے لوگ صرف پریذیڈنٹوں کی وجہ سے یہاں آباد ہو گئے ہیں اور ترقی کر رہے ہیں.نظارت امور عامہ کا فرض ہے کہ وہ ان لوگوں کا کی جائزہ لے.اگر ان کی غلطیاں ثابت ہو گئیں تو انہیں بھی ربوہ سے نکلنا پڑے گا کیونکہ انہوں نے باوجود سلسلہ سے تنخواہ لینے کے دیانتداری سے اپنے فرض کو پورا نہیں کیا.اگر وہ تنخواہ لینے کے باوجود اپنے فرض کو ادا نہیں کرتے تو اس کے یہ معنی ہیں کہ منافق لوگ انہیں پانچ روپیہ دیتے ہیں اور اپنے حق میں فیصلہ کروا لیتے ہیں.لوگوں میں تو یہ شکوہ عام ہے کہ نظارت امور عامہ کے کارکن روپیہ لے کر کام کر دیتے ہیں لیکن میں اس کا ہمیشہ انکار کرتا آیا ہوں.اگر انہوں نے اپنی اصلاح نہ کی تو مجبوراً مجھے بھی یہ بات ماننی پڑے گی کہ وہ پیسے لے کر لوگوں کے ساتھ ایسا سلوک کرتے ہیں جس میں ناجائز طرفداری ہوتی ہے، ناجائز رعایت ہوتی ہے اور ناجائز معافی ہوتی ہے حالانکہ ناجائز رعایت بھی ناجائز ہے اور ناجائز سزا بھی ناجائز ہے.پس تم یہاں رہ کر نیک نمونہ دکھاؤ اور اپنی اصلاح کی کوشش کرو.ہماری جماعت اس وقت کتنی مشکلات میں سے گزر رہی ہے سارے لوگ اس کے خلاف ہیں، یہودی ہمارے خلاف ہیں، عیسائی ہمارے خلاف ہیں، ہندو ہمارے خلاف ہیں، زرتشتی ہمارے خلاف ہیں، مسلمان کہلانے والے بھی بطور فرقہ کے ہمارے خلاف ہیں.ویسے افراد کے لحاظ سے ان میں انصاف پسند بھی ہیں.غرض تم ساری دنیا سے لڑائی مول لے کر یہاں جمع ہوئے اور پھر بھی تقوی، طہارت اور عمل و انصاف اپنے اندر پیدا نہیں کر سکے تو تمہاری زندگی ایسی ہی ہوئی کہ اپنوں نے بھی تمہیں ٹھکرا دیا اور غیروں نے بھی تمہیں ٹھکرا دیا.حالانکہ دنیا میں عموماً ایسا ہوتا ہے کہ اگر کسی کو اپنے ٹھکرا دیتے ہیں تو اُسے غیروں کے پاس پناہ عامل جاتی ہے اور اگر غیر ٹھکرا دیتے ہیں تو اپنے اُس کی امداد کرتے ہیں لیکن تمہیں غیروں بھی ٹھکرا دیا اور اپنوں نے بھی ٹھکرا دیا.پھر تمہیں یہاں رہنے کا کیا فائدہ حاصل ہوا؟ ایسے حالات میں ایک ہی صورت باقی رہ جاتی ہے کہ تم خدا تعالیٰ سے تعلق قائم کر لو.لیکن یہاں تو جھگڑا ہی یہ ہے کہ تم نے خدا تعالیٰ کی رضا کو حاصل نہیں کیا.اگر تم اس کی رضا کو حاصل کر لو تو ساری مصیبتیں اور کوفتیں دور ہو جائیں اور راحت کے سامان پیدا ہو

Page 114

$1954 104 خطبات محمود ہماری یہاں آباد ہونے سے غرض یہ تھی کہ لوگ بیشک ہمارے ساتھ دشمنی کریں لیکن خدا تعالیٰ کی ہمارے ساتھ ہو.لیکن میں دیکھتا ہوں کہ تم اس کے لیے کوئی جدوجہد اور کوشش نہیں کر رہے اور اگر تم نے جلد اصلاح نہ کی تو مجھے مجبوراً تمہیں ربوہ سے یا جماعت سے باہر نکالنا پڑے گا.جماعت میں ایک ایسی پارٹی پیدا ہو گئی ہے جو کہتی ہے کہ ایسے لوگوں کو جماعت سے نہیں نکالنا چاہیے.اس سے دوسرے لوگوں پر بُرا اثر پڑتا ہے لیکن مجھے اس کا کوئی فکر نہیں.اگر انہیں یہاں سے نکالنے پر دوسروں کو تکلیف ہوتی ہے تو وہ انہیں کراچی یا کسی اور شہر میں جگہ دے ریں.یہ جگہ ہماری ہے اور وہ لوگ جو یہاں آباد ہوئے ہیں یہ وعدہ کر کے آئے ہیں کہ وہ سلسلہ سے ہر رنگ میں تعاون کریں گے.اب جو شخص اس وعدہ کو توڑتا ہے قانون اُس کے خلاف ہے.اور جو وعدہ خلافی کرتا ہے ہم بہر حال اُسے سزا دیں گے.اگر کوئی طبقہ ہمارے اس اقدام کے خلاف ہوگا تو وہ خود قانون شکنی کی حمایت کرے گا.اُن کے پاس ہم سے زیادہ سامان موجود ہیں اگر وہ انہیں اپنے سینے سے لگانا چاہتے ہیں تو بیشک لگا لیں.اگر ہم یہاں کسی کو پچاس روپے ماہوار دیتے ہیں تو وہ اُسے دو ہزار روپے ماہوار دے دیں ہمیں کوئی اعتراض نہیں ہو گا.لیکن وہ ہمیں اس بات پر مجبور نہیں کر سکتے کہ جو شخص ہمارا نہیں بلکہ اپنے اخلاق کی وجہ سے ہمیں بدنام کرتا ہے ہم اُسے یہاں ضرور رکھیں.جو ہمارا نہیں ہم اُسے کیوں پالیں.ہم اس سے منہ موڑ لیں گے کیونکہ اس نے خاص اخلاق دکھانے کا وعدہ کر کے اسے توڑ دیا.ایک وعدہ کر کے توڑنے والا کس مذہب و ملت میں امداد کا مستحق قرار دیا جاتا ہے الفضل 10 جون 1954 ء) 1 فَمَنْ كَانَ مِنْكُمْ مَّرِيضًا أَوْ عَلَى سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِنْ أَيَّامٍ أُخَرَ (البقرة: 185) 2 : متى باب 18 آیات 7،6

Page 115

$1954 105 11 خطبات محمود تقدیر کا جو حصہ اللہ تعالیٰ نے بندوں کے اختیار میں رکھا ہے اس میں کوشش اور تدبیر کے بغیر کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوا کرتا جو چیزیں خدا تعالیٰ نے تمہارے سپرد کی ہیں وہ تم نے ہی کرنی ہیں ان کے متعلق محض تو کل کرنا غلطی ہے (فرمودہ 28 مئی 1954ء بمقام ربوہ) تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: اللہ تعالیٰ نے اپنی تقدیر کے دو حصے کیے ہوئے ہیں.تقدیر کا ایک حصہ اس نے اپنے بندوں کے سپرد کیا ہوا ہے.اگر وہ بندوں کے سپرد نہ کرتا تو بندوں کے پاس اس کے نفاذ کا کوئی ذریعہ نہ ہوتا.دوسرا حصہ اس نے اپنے قبضہ میں رکھا ہے.اس دوسرے حصہ میں.کچھ تو اس شکل میں ہے کہ دائمی طور پر اُس کا وہ قانون چلتا ہے اور کچھ اس طور پر ہے کہ اس کا قانون وقتی طور پر چلتا ہے.حضرت خلیفۃ المسیح الاول فرمایا کرتے تھے کہ

Page 116

$1954 106 خطبات محمود دیکھو! خدا تعالیٰ نے زبان بنائی ہے.ایک طرف تو انسان کو اتنی آزادی حاصل ہے کہ وہ اس کی زبان سے خدا تعالیٰ کو بھی گالیاں دے لے تو اس کے لیے کوئی روک نہیں اور لوگ گالیاں دیتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام ایک چشم دید واقعہ سنایا کرتے تھے کہ ایک شخص جو بعد میں احمدی ہو گیا تھا اس کا بچہ فوت ہو گیا.وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے والد صاحب یا آپ کے بڑے بھائی کے گلے لگ کر چیخ مار کر کہنے لگا خدا تعالیٰ نے مجھے پر کتنا ظلم کیا ہے کہ اس نے میرا بچہ مار دیا.اس طرح اپنی زبان سے اُس نے شکوہ بھی کر لیا، اُس نے خدا تعالیٰ کو ظالم بھی کہہ لیا اور خدا تعالیٰ کے متعلق اس کے دل میں انقباض بھی پیدا ہو گیا.مگر دوسری طرف اگر اس زبان کے سامنے دنیا کے تمام بادشاہ، وزراء، علماء اور فقہاء ہاتھ جوڑ کر کھڑے ہو جائیں اور کہیں کہ میٹھے کو کھتا چکھ یا کھٹے کو کڑوا چکھ تو وہ ایسا کبھی نہیں کرے گی.وہ میٹھے کو میٹھا ہی چکھے گی اور کھٹے کو کھتا ہی چکھے گی.گویا ایک طرف اللہ تعالیٰ نے زبان کے متعلق انسان کو اتنی آزادی دی ہے کہ اگر وہ چاہے تو خدا تعالیٰ کو بھی گالیاں دے لے اور دوسری طرف اس میں اتنی طاقت بھی نہیں رکھی کہ وہ میٹھے کو کڑوا چکھے یا کڑوے کو میٹھا چکھے.حقیقت یہ ہے کہ تقدیر کا ایک حصہ خدا تعالیٰ نے انسان کے ہاتھ میں دے دیا ہے اور اسے کہا ہے کہ وہ خود کام چلائے ، اس میں اپنی عقل کو استعمال کرے.اور دوسرا حصہ اس نے اپنے ہاتھ میں رکھا ہے.جو حصہ اُس نے اپنے ہاتھ میں رکھا ہے وہ بدل نہیں سکتا.مثلاً میٹھا، میٹھا ہی رہے گا اور کڑوا، کڑوا ہی ہو گا.ہاں! اس کے قانون کے ماتحت وہ بعض اوقات بدل بھی جائے گا مثلاً کسی کا جگر خراب ہے تو اسے میٹھی چیز کڑوی لگتی ہے یا بعض خرابیوں کی وجہ سے نمک تیز لگتا ہے، میٹھی چیز میں مٹھاس کم معلوم ہوتی ہے، کڑوی چیزیں پھیکی معلوم ہوتی ہیں یا پھیکی چیزیں کڑوی معلوم ہوتی ہیں.غرض تقدیر کا وہ حصہ جو خدا تعالیٰ نے اپنے قبضہ میں رکھا ہے وہ تبدیل نہیں ہو سکتا.اس میں تبدیلی واقع ہو گی تو خدا تعالیٰ کے مقرر کردہ قانون کے ماتحت ہی ہو گی.تم اگر چاہو بھی تو اسے بدل نہیں سکتے.ہاں! جو حصہ تقدیر کا انسان کے سپرد ہے اس میں جو چاہے کرے خدا تعالیٰ نے اس میں کوئی روک پیدا نہیں کی.مثلاً زبان انسان کے قبضہ میں ہے.وہ اگر چاہے تو باپ کو گالیاں دے لے، حکومت کو بُرا

Page 117

$1954 107 خطبات محمود کہہ لے، استاد کو بُرا کہہ لے، وہ اگر گالی چاہے تو اپنی ہر عزیز ترین چیز کو غلیظ گالی دے لے لیکن جو حصہ اس نے اپنے ہاتھ میں رکھا ہے اس میں انسان کچھ بھی نہیں کر سکتا.تقدیر کا جو حصہ خدا تعالیٰ نے اپنے ہاتھ میں رکھا ہے اس میں وہ انسان پر الزام نہیں دیتا لیکن جو حصہ اس نے انسان کے ہاتھ میں دیا ہے اُس کے نتائج انسان کے کام کے مطابق پیدا ہوتے ہیں.چاہے وہ اپنے لیے پھانسی کا حکم دے لے.خدا تعالیٰ فرشتوں کو کہہ دے گا اُسے پھانسی لگنے دو.کیا تم نے دیکھا نہیں کہ بعض لوگ اپنے گلوں میں رستے ڈال کر خود کشی کر لیتے ہیں؟ خدا تعالیٰ اس میں کوئی روک پیدا نہیں کرتا.وہ کہتا ہے میرا اس میں کوئی دخل نہیں.تم اگر گلے میں رسہ ڈال کر پھانسی لیتے ہو تو تمہیں پھانسی مل جائے گی.ہاں! موت کے بعد میں تمہیں جہنم میں ڈالوں گا.دنیا میں میں تمہیں نہیں روکوں گا.یا کوئی شخص اسلام کے خلاف تقریر کرتا ہے، خدا تعالیٰ کے رسول کے خلاف تقریر کرتا ہے، قرآن کریم کے خلاف تقریر کرتا ہے خدا تعالیٰ اُس کی زبان کو چلنے دیتا ہے.اس کے مقابلہ میں وہ چیزیں ہیں جن پر انسان کو اختیار حاصل نہیں.ان میں اس کی کوئی کوشش کامیاب نہیں ہو سکتی.چاہے وہ کتنا زور لگا لے.مثلاً تمہاری انگلی ہے اگر تم اسے سوئی کے نا کا میں ڈالنے کی کوشش بھی کرو تو اس کو نا کا میں نہیں ڈال سکتے.خواہ کوئی جرنیل ہو، نواب ہو، بادشاہ ہو، دنیا کی بڑی سے بڑی حکومت اس کے پاس ہو لیکن وہ اپنی انگلی سوئی کے ناکہ میں نہیں ڈال سکتا.یا مثلاً میٹھا ہے تم اگر چاہو بھی تو اسے کڑوا نہیں چکھ سکتے.کڑوا ہے تو میٹھا نہیں چکھ سکتے.آواز ہے اگر تمہیں کسی عزیز کی آواز آن رہی ہے تو تم اگر چاہو بھی تو اُسے کسی دوسرے شخص کی آواز نہیں بنا سکتے.کسی کے ہاں بدصورت لڑکا پیدا ہوا ہو تو اگر وہ چاہے کہ وہ خوبصورت ہو جائے تو وہ اُسے خوبصورت نہیں بنا سکتا.کسی کے لڑکے کا قد چھوٹا ہے تو اس کے پاس کوئی ایسا ذریعہ نہیں کہ اس کے قد کو لمبا کر لے.اس سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ جو چیزیں خدا تعالیٰ نے ہمارے ہاتھ میں رکھی ہیں اُن کے متعلق ہمارا یہ خیال بالکل غلط ہو گا کہ ہم سمجھیں کہ ان کے نتائج خدا تعالیٰ پیدا کرے گا.جو چیزیں خدا تعالیٰ نے ہمارے اختیار میں رکھی ہیں اُن کا ایک ہی طریق ہے کہ ہم ان کے متعلق کوشش اور تدبیر سے کام لیں گے تو ان کا نتیجہ برآمد ہو گا ورنہ نہیں.مسلمانوں کی تباہی.

Page 118

$1954 108 خطبات محمود موجب یہی بات ہوئی ہے کہ انہوں نے تدبیر چھوڑ دی.انہوں نے اپنی حکومت کو برقرار رکھنے کے لیے خود کوشش کرنا ترک کر دیا تھا.دشمن نے فوجیں تیار کر لیں، اس نے تو ہیں ایجاد کیں ، گوله بارود ایجاد کیا، اور ملک کو منظم کر کے مضبوط حکومت قائم کر لی، مستقل خزانے قائم کیے ملازموں کی معقول تنخواہیں مقرر کیں تا وہ رشوت نہ لیں لیکن مسلمان اپنے پرانے طریق پر چلتے چلے گئے.وہ یہی سمجھتے رہے کہ خزانے بادشاہ کی ذات سے تعلق رکھتے ہیں.وہ جہاں چاہیے خرچ کر لے.فوج کا کوئی انتظام نہیں تھا.، سڑکوں کا کوئی انتظام نہیں تھا، بادشاہ اپنا خزانہ عیاشی میں لگا دیتا تھا، کسی بادشاہ سے لڑنے چلے تو اُس نے ملک میں اعلان کر دیا.اس پر کوئی جلا ہا آگے نکل آیا، کوئی دھوبی آ گیا ، کوئی لوہار باہر نکل آیا، کوئی بنیا ہے تو اُس نے تکڑی ہاتھ میں پکڑی ہوئی ہے اور دشمن پر غصہ کا اظہار کر رہا ہے، کوئی قصاب ہے تو وہ اپنی چھری تیز کر رہا ہے لیکن گجا منظم فوج اور گجا یہ غیر منظم لوگ.غیر منظم لوگ ہزار بھی ہوں تو پانچ منظم سپاہی انہیں شکست دے سکتے ہیں کیونکہ انہیں حملہ کرنے کا طریق نہیں آتا، انہیں یہ معلوم نہیں ہوتا کہ اصول کے ماتحت دائیں بائیں ہو کر کس طرح لڑا جاتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرمایا کرتے تھے کہ کوئی بیوقوف بادشاہ تھا.اس نے خیال کیا کہ قصاب لوگ روزانہ بکرے کاٹتے ہیں.انہیں اس کام کی خوب مشق ہے.اس لیے کیوں نہ ان سے فوج کا کام لیا جائے اور فوج پر جو لاکھوں روپے سالانہ خرچ ہوتے ہیں انہیں بچایا جائے.چنانچہ اس نے فوج کو ہٹا دیا اور ملک کے قصابوں کو حکم دیا کہ اگر ملک پر حملہ ہوا تو وہ دشمن کا مقابلہ کریں گے.کسی ہمسایہ بادشاہ نے سنا کہ اس ملک کا بادشاہ ایسا بیوقوف ہے کہ اس نے فوج کو ہٹا دیا ہے اور قصابوں کو دشمن کا مقابلہ کرنے کے لیے حکم دیا ہے.تو اس نے حملہ کر دیا.بادشاہ نے اپنے وزراء کو حکم دیا کہ ملک کے سارے قصاب جمع کروانی تا وہ دشمن کی فوج کا مقابلہ کریں.چنانچہ ملک کے سارے قصاب جمع کر لیے گئے.قصاب لوگ صرف بکرے ذبح کرنا جانتے تھے.انہیں جنگ کا کیا پتا تھا.وہ ہنستے کھیلتے اور چھریاں ہاتھ میں پکڑے دشمن کی فوج کا مقابلہ کرنے کے لیے چلے گئے.گویا وہ بکرے ذبح کرنے رہے ہیں.جب دشمن سامنے آیا تو اس کے ایک سپاہی کو پکڑ کر کوئی اس کا سر پکڑتا، کوئی ٹانگیں

Page 119

$1954 109 خطبات محمود مضبوطی سے پکڑتا اور پھر اس کی گردن پر چھری پھیرتا.لیکن دشمن نے بے تحاشا نیزے مارنے شروع کیے.پندرہ ہمیں قصاب مرے تو باقی شہر کی طرف بھاگے اور فریاد فریاد کہتے ہوئے دربار میں پہنچے.اور بادشاہ سے کہنے لگے بادشاہ سلامت! دشمن کے سپاہیوں کو سمجھائیں کہ ہم با قاعدہ اُن کی ٹانگیں اور بازو پکڑتے ہیں، قبلہ رُخ لِٹاتے ہیں اور پھر گردن کاٹتے ہیں لیکن وہ یونہی تلوار چلاتے چلے جاتے ہیں یہ کوئی اصول نہیں.یہ بے اصولا پن ہے.ابھی وہ قصاب بات کر رہے تھے کہ دشمن کی فوج شہر میں داخل ہو گئی اور اس نے بادشاہ کو قید کر لیا.پس جو باتیں انسان کے سپرد ہیں وہ جب بھی ان کے متعلق کوشش کرنا ترک کرے گا، دھوکا کھائے گا اور اس کا کوئی نتیجہ نہیں نکلے گا.مسلمانوں نے تو کل تو کل کا ورد کرنا شروع کیا.نہ خزانوں کا انتظام کیا گیا اور نہ ٹیکس لگائے گئے.یا کسی پر ٹیکس لگا دیا اور کسی پر نہ لگایا، ہائی کورٹ کے جج ہیں تو اُن کی تنخواہ پچیس روپے ماہوار ہے، دو چار افسر مقرر ہیں، سپاہیوں کی ضرورت محسوس ہوئی تو سب لوگوں کو باہر نکلنے کے لیے کہہ دیا.نتیجہ یہ ہوا کہ یورپ کی چھوٹی چھوٹی طاقتوں نے مسلمانوں کی بڑی بڑی حکومتوں کو شکست دے دی.بخارا کی حکومت بڑی بھاری حکومت تھی.اس نے ایک طرف ایران کو اپنے ماتحت کر لیا تھا تو دوسری طرف بغداد کی حکومت کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیئے تھے.وہ سندھ تک فتوحات کرتے چلے آئے.لیکن جب اس حکومت پر روس نے حملہ کیا تو یہ اس کے مقابلے کی تاب نہ لا سکی.روس کی فوجوں کے پاس تو ہیں تھیں، گولہ بارود تھا، زمانہ کے مطابق دوسرے ہتھیار تھے لیکن بخارا کی حکومت نئے سامانِ جنگ سے محروم تھی.جب اس نے تو ہیں بنانے کا حکم دیا تو مولویوں نے فتوی دے دیہ کہ یہ جائز نہیں کیونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آگ کا عذاب اپنے اختیار میں رکھا ہے.بادشاہ نے کہا دشمن ان توپوں کے ذریعہ تین تین میل تک حملہ کرتا ہے.اس کا مقابلہ ہم کیسے کریں گے؟ مولویوں نے کہا یہ بالکل جھوٹ ہے کہ دشمن تین تین میل سے توپ سے گولہ پھینک سکتا ہے.بہر حال مولویوں کے اعتراضات کی وجہ.حکومت نے توپ خانہ توڑ دیا.نتیجہ یہ ہوا کہ جب روس نے حملہ کیا تو گو اس کے پاس بہت کم فوج تھی لیکن چونکہ ان کے پاس نئے نمونہ کے ہتھیار تھے اس لیے انہوں نے دو دو، تین تین سے

Page 120

$1954 110 خطبات محمود میل کے فاصلہ سے مسلمان فوج کے پر نچے اُڑانے شروع کیے.مولوی باہر نکلے اور آیات کی قرآنیہ پڑھتے ہوئے دشمن کی طرف بڑھے.دشمن نے جب دیکھا کہ پاگلوں کا ایک گروہ ہاتھوں میں تسبیجیں پکڑے آگے بڑھ رہا ہے تو اس نے ایک گولہ ان پر پھینکا.اس پر وہ سحر سحر کرتے ہوئے پیچھے کی طرف بھاگے اور بادشاہ کے پاس آکر کہا یہ تو سحر ہے.آیات قرآنیہ بھی اس پر اثر نہیں کرتیں.اب اس فوج کو تم خود سنبھالو.نتیجہ یہ ہوا کہ وہی بخارا جو مسلمانوں کی ایک مضبوط سرحدی چوکی تھی آج عیسائیت کا مرکز بنا ہوا ہے.اب اس جگہ سے کمیونزم دنیا پر حملہ کر رہا ہے.پس تم یاد رکھو! کہ جو چیزیں خدا تعالیٰ نے تمہارے سپرد کی ہیں وہ تم نے ہی کرنی ہیں.ان کے متعلق تو کل کرنا اور اس کا نام خدا تعالیٰ کی مدد رکھنا بالکل جھوٹ ہے.یہ ایسا ہی ہے جیسے بعض لوگ جنہیں کام کرنے کی عادت نہیں ہوتی جب اُن سے پوچھا جائے کہ فلاں کام کیسے ہو گا؟ تو وہ کہہ دیتے ہیں آپ کی دعا سے ہی یہ ہو گا.ایسا ہی ایک کوتاہ عقل میرے پاس سندھ کی زمینوں پر کام کرتا ہے.اُس کی عادت ہے کہ جو بات میں کرتا ہوں وہ کہتا ہے کہ آپ کی دعا سے یہ کام ہو گا.میں نے اس دفعہ اُس سے کہا کہ یہ کام تم نے ہی کرنا ہے اور اگر تم نے یہ کام نہ کیا تو فصل کا بیڑا غرق ہو جائے گا میری دعا نے کچھ نہیں کرنا.خدا تعالیٰ نے یہ کام تمہارے سپرد کیا ہے اور تم نے کہنا شروع کر دیا ہے کہ میں نے کچھ نہیں کرنا آپ کی دعا سے سب کچھ ہو گا.اس لیے کام کا بیڑا غرق ہو جائے گا.چنانچہ واقع میں کام کا بیڑا غرق ہو گیا.حقیقت یہ ہے کہ لوگوں نے مختلف نظریے بنائے ہوئے ہیں.مثلاً انفرادی زندگی ہے.بعض لوگ کہتے ہیں کہ جو ہو گا دیکھا جائے گا.اور جو لوگ اس قسم کی باتیں کرتے ہیں وہ بالعموم فاقوں مرتے ہیں نہ اُن کے تن پر کپڑا ہوتا ہے اور نہ انہیں پیٹ بھرنے کو کچھ میسر ہوتا ہے.پھر بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں جو کہتے تو یہ ہیں کہ جو ہو گا دیکھا جائے گا لیکن اگر ساتھ ہی کوئی بات ہو جائے تو وہ کہتے ہیں یہ جنوں، بھوتوں یا دیویوں کی وجہ سے ہو گیا ہے.اتفاقی حادثے کے طور پر اُن کے بعض کام ہو جاتے ہیں لیکن جہاں عمل کی ضرورت ہوتی ہے یہ لوگ

Page 121

$1954 111 خطبات محمود بل ہو جاتے ہیں.پھر کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جو یہ سمجھتے ہیں کہ ہمارے کاموں میں انسانی عقل اور تدبیر کا بھی دخل ہے.ان کے بیٹے کو اگر کوئی تکلیف ہوتی ہے تو وہ ڈاکٹر سے علاج کراتے ہیں اور جہاں تک علم طب نے ترقی کی ہے اس سے فائدہ اٹھاتے ہیں.یہ لوگ دوسروں سے آرام میں رہتے ہیں اور جہاں انسانی علم نے کوئی دوا ایجاد نہیں کی وہاں یہ لوگ شخصی موت تو مر جاتے ہیں لیکن قومی زندگی کا موجب بن جاتے ہیں.کیونکہ جس قوم میں یہ احساس پیدا ہو جاتا ہے کہ ہم نے فلاں مرض کا علاج ایجاد نہیں کیا حالانکہ خدا تعالیٰ نے یہ کام ہمارے سپرد کیا ہوا ہے تو وہ اُس کا علاج تلاش کرتی ہے اور کوئی نہ کوئی دوائی ایجاد کر لیتی ہے.اس طرح جو شخص علاج میسر نہ آنے کی وجہ سے مرجاتا ہے وہ نئی دوا ایجاد کروانے کا موجب ہو جاتا ہے.اس طرح مرنے والا شخصی موت تو بیشک مر جاتا ہے لیکن قومی زندگی کا موجب ہو ہے جاتا ہے.مثلاً کینسر ہے.اس کا پہلے سے کوئی علاج نہیں تھا.اس کا علاج نکال لیا گیا ہے اور اس علاج کے ذریعہ کینسر کے پندرہ بیس فیصدی مریض ٹھیک بھی ہو نے لگ گئے ہیں.کچھ عرصہ کے بعد ممکن ہے کہ سائنس اس قدر ترقی کر جائے کہ کینسر ایک معمولی مرض بن کے رہ جائے.غرض قانونِ قدرت نے بعض کام ہمارے سپرد کیے ہیں اور ہم اپنی تدابیر کے ذریعہ ان کو بہتر طور پر سرانجام دے سکتے ہیں.اگر ہم وہ کام نہ کر سکتے تو خدا تعالیٰ ہمارے سپرد وہ کام نہ کرتا.خدا تعالیٰ انسان کے سپر د وہی کام کرتا ہے جس کا مادہ اُس میں موجود ہوتا ہے اور ایسی تمام چیزیں اس نے انسان کے اختیار میں دے دی ہیں.اسی وجہ سے دنیا میں نئی نئی وی ایجادات ہو رہی ہیں اور سائنس دن بدن ترقی کر رہی ہے.کسی وقت اسلامی حکومت کے زمانہ میں بھی یہی حالت تھی.مسلمان علماء دن رات ایجادات میں لگے رہتے تھے.مثلاً طب ہے.مسلمانوں نے اسے کمال تک پہنچایا اور آج بھی یورپین طب کے مقابلہ میں ہماری طب کو بعض باتوں میں امتیاز حاصل ہے.سرجری میں بیشک یورپین طب نے کمال حاصل کر لیا ہے لیکن علاج کے سلسلہ میں ہماری طب کو بعض باتوں میں فوقیت حاصل ہے اور یہ مسلمان علماء کی محنت کا نتیجہ ہے کہ ہماری طب بعض باتوں میں آجکل کی طب پر بھی فوقیت رکھتی

Page 122

خطبات محمود 112 $1954 پھر اس کے اوپر ایک اور گروہ ہے جو دنیوی تدابیر کے ساتھ ساتھ دعا کو بھی اہمیت دیتا ہے.وہ سمجھتے ہیں کہ جہاں انسانی عقل رہ جائے وہاں خدا تعالیٰ سے دعا کے ذریعہ استمداد کی جائے تو کام میں کامیابی حاصل کی جاسکتی ہے.یہ لوگ اور بھی محفوظ ہیں.لیکن ایک موقع ایسا بھی آتا ہے کہ خدا تعالیٰ انسان کو کہتا ہے کہ اب تیری زندگی دنیا میں بیکار ہے.اب تو میرے پاس آجا.یہاں نہ احتیاط اور پر ہیز کام کرتا ہے نہ دعا کام کرتی ہے.انسانی تدابیر بھی تمام کی تمام بیکار ہو کر رہ جاتی ہیں اور دعا بھی کوئی نتیجہ پیدا نہیں کرتی.یہی حال قومی زندگی کا ہے.اس میں بھی بعض باتیں خدا تعالیٰ نے اپنے قبضہ میں ہیں اور بعض باتیں اس نے انسانوں کے سپرد کر دی ہیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جب دعوای فرمایا تو کفار نے آپ کا مقابلہ شروع کر دیا.انہوں نے آپ پر حملے کیے اور ہر طرح سے ایذا دہی شروع کر دی تو بعض موقع پر آپ نے یہ کہا کہ تم اپنی مظلومی کا اعلان کرو اور ماریں کھاتے جاؤ.پھر ایک وقت پر جا کر آپ نے یہ تجویز کی کہ تم حبشہ کی طرف ہجرت کر کے چلے جاؤ.پھر ایک موقع پر آپ نے مدینہ جانے کی اجازت دے دی اور پھر بعد میں خود بھی ہجرت کر کے مدینہ تشریف لے گئے.اور جب دشمن پھر بھی ایذا دہی سے باز نہ آیا تو آپ نے خدا تعالیٰ سے حکم پا کر صحابہ کو کفار سے لڑنے کا حکم دیا.گویا آپ نے خدا تعالیٰ کی تقدیر کے مطابق مختلف مواقع پر مختلف قسم کے احکام صحابہ کو دیئے اور مختلف تدابیر سے کام لیا.اگر کوئی قوم ان تدابیر سے کام نہیں لیتی تو وہ زندہ نہیں رہ سکتی.جب آپ نے صحابہ سے صبر کرنے کو کہا اُس وقت اگر صبر نہ کیا جاتا تو ظلم اور بڑھ جاتا.پھر جب آپ نے حبشہ کی طرف ہجرت کرنے کا حکم دیا تو اگر صحابہ ہجرت کر کے حبشہ نہ چلے جاتے تو چونکہ مکہ میں مسلمانوں کی تعداد بڑھ رہی تھی اس ترقی کو دیکھ کر دشمن کا غصہ اور بڑھ جاتا.جب دشمن کی اپنے مد مقابل کو حقیر اور ذلیل سمجھتا ہے تو وہ اس کی پروا نہیں کرتا.لیکن جب وہ دیکھتا ہے کہ اس کی تعداد دن بدن بڑھ رہی ہے اور ممکن ہے کہ ایک دن اس کی طاقت اتنی بڑھ جائے کہ وہ اس کا مقابلہ نہ کر سکے تو وہ اس کی برداشت نہیں کر سکتا.کفار کی ایذارسانی کے باوجود مسلمان مکہ میں بڑھنے لگے اور مکہ والے خار کھانے لگے تو خدا تعالیٰ سے حکم پا کر

Page 123

$1954 113 خطبات محمود رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صحابہ سے کہا کہ حبشہ کی طرف ہجرت کر جاؤ.نتیجہ یہ ہوا کہ مسلمان کفار کو تھوڑے نظر آنے لگ گئے اور ان کا جوش کچھ عرصہ کے لیے فرد ہو گیا.لیکن جب پھر مسلمانوں کی تعداد بڑھ گئی اور کفار نے ایذارسانی کا سلسلہ شروع کر دیا.تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صحابہ کو مدینہ جانے کی اجازت دے دی.مدینہ کی طرف ہجرت کرنے والے صرف چند درجن تھے لیکن دوسرے دن دیکھا گیا کہ مکہ کے دو محلے خالی ہو گئے ہیں.گویا مکہ میں ایسے لوگ بھی موجود تھے جو ظاہری طور پر اسلام نہیں لائے تھے لیکن دل سے مسلمان تھے اور وہ اپنے اسلام کو چھپائے ہوئے تھے.غرض جب مسلمانوں کے ایک حصہ نے مدینہ کی طرف ہجرت کی تو مکہ میں مسلمان پھر تھوڑے ہو گئے اور کفار کا جوش ٹھنڈا ہو گیا.اس کے بعد جب مکہ والوں نے دیکھا کہ اسلام اب مکہ سے باہر بھی پھیلنا شروع ہو گیا ہے تو ان میں نئی قسم کا جوش پیدا ہو گیا اور انہوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قتل کا فیصلہ کر لیا.اس پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خود ہجرت کر کے مدینہ تشریف لے گئے.پس.مختلف تجاویز تھیں جن پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عمل کیا.اگر مسلمانوں کو ایذا ہی پر ابتدا میں صبر کا حکم نہ ہوتا تو کفار چڑ جاتے اور ایذا دہی میں بڑھ جاتے.پھر اگر حبشہ کی طرف ہجرت کا حکم نہ ہوتا تو مسلمانوں کی تعداد مکہ میں بڑھ جاتی اور اس طرح کفار کا جوش بڑھ جاتا.پھر جب دوبارہ مسلمانوں کی تعداد مکہ میں بڑھ گئی تو آپ اُس وقت مدینہ کی طرف ہجرت کا حکم نہ دیتے تو کفار کا جوش اور بھی زیادہ ہو جاتا وہ ایزا دہی میں پہلے سے بھی بڑھ جاتے.پھر جب صنادید عرب نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو قتل کرنے کا فیصلہ کیا تو اللہ تعالیٰ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مدینہ بھیج دیا.پھر جب کفار نے مدینہ پر بھی حملہ کیا تو خدا تعالیٰ نے کہا تم ان سے لڑائی کرو.اُس وقت مسلمان اگر ہاتھ میں تسبیجیں پکڑ کر آیات قرآنیہ کا ورد کرنا شروع کر دیتے تو انہوں نے تباہ ہو جانا تھا کیونکہ وہ وقت لڑائی کا تھا کسی اور کام کا نہیں تھا.چنانچہ پہلے یہ حکم دیا کہ مدینہ کے اندر رہ کر دشمن کا مقابلہ کرو.پھر ایک وقت کے بعد جا کر مدینہ سے باہر نکل کر دشمن سے مقابلہ کرنے کا حکم ہوا اور پھر یہ حکم ہوا کہ دشمن کے گھروں پر جا کر ان پر حملہ کرو.اگر ان تجاویز پر عمل نہ کیا جاتا تو مسلمان بھی ترقی

Page 124

$1954 114 خطبات محمود نہ کر سکتے.میں دیکھتا ہوں کہ ہماری جماعت میں صرف ایک ہی چیز پائی جاتی ہے اور وہ یہ ہے کہ جب کوئی خرابی پیدا ہو، جب جماعت پر کوئی مصیبت اور تکلیف آئے تو چندہ دے دیا.لوگ جسمانی قربانی والے حصہ کی طرف توجہ نہیں کرتے حالانکہ خدا تعالیٰ صاف طور پر فرماتا ہے میں نے مومنوں سے اُن کے مال اور جانیں دونوں چیزیں خرید لی ہیں بِاَنَّ لَهُمُ الجنَّةَ 1 اور اس کے بدلہ میں انہیں جنت دے دی ہے.پس صرف چندہ دینے سے کیا بنتا ہے؟ صرف چندہ والا تو خدا تعالیٰ سے تمسخر کرتا ہے.گو چندہ دینے والے بھی ایسے ہیں کہ ان کی میں سے ایک اچھی پرسنٹیج (Percentage) ایسی ہے جو چندہ میں بھی کمزور ہے.اگر مجموعی طور پر قوم چندہ میں ترقی کر جائے تو ان کمزوروں کی اصلاح ہو سکتی ہے اور ان سے صرف نکر لینے کی ضرورت ہوتی ہے.لیکن زیادہ اہم بات یہ ہے کہ مالی قربانیوں کے ساتھ ساتھ جسمانی قربانیاں بھی کی جائیں.اور جسمانی قربانی صرف چند مبلغ کر رہے ہیں جو بیرونی ممالک میں تبلیغ کا فریضہ ادا کر رہے ہیں.پس تم اپنی ضروریات کو سمجھو.جماعت کی مخالفت بڑھ چکی ہے.جماعت کی مخالفت حکام اور ذمہ دار افسروں میں بھی بڑھ چکی ہے اور تمہاری جانیں محفوظ نہیں ہیں.اگر تم قومی طور پر کوئی تدبیر نہیں کرتے تو تم مر جاؤ گے.اگر تم بچاؤ کی تدبیر کرتے ہو اور جسمانی قربانی بھی مالی قربانی کی طرح پیش کر دیتے ہو تو تمہاری جانیں محفوظ ہو جائیں گی.دنیا میں معمولی معمولی جھگڑوں پر لوگ کہہ دیتے ہیں کہ اگر ہمیں جیلوں میں جانا پڑے تو ہم چلے جائیں گے.چنانچہ وہ گروہ در گروہ جیلوں میں چلے جاتے ہیں.آخر حکومت مجبور ہو کر انہیں چھوڑ دیتی ہے.گاندھی جی جیتے ہی اس طرح تھے کہ وہ جب کوئی بات منوانا چاہتے تھے تو پندرہ میں ہزار لوگوں کو قید کروا دیتے تھے.گورنمنٹ کے پاس محدود بجٹ ہوتا ہے.وہ اس قدر قیدیوں کا بوجھ برداشت نہیں کر سکتی.پھر جیلوں کی حفاظت کے لیے پولیس رکھنی پڑتی ہے جس سے اس کا خرچ بڑھ جاتا ہے.اگر پچاس لاکھ روپیہ ماہوار بھی جیل خانوں خرچ ہو تو چھ کروڑ سالانہ خرچ بڑھ جاتا ہے اور اُس وقت ملک کی آمد اس قدر نہیں تھی کہ وه

Page 125

$1954 115 خطبات محمود اتنا بوجھ زائد اُٹھا سکیں.پھر ان ای جیٹیشنوں میں لوگوں پر لاٹھی چارج بھی کرنے پڑتے جس کی کی وجہ سے پولیس بڑھانی پڑتی تھی.اس طرح دو ماہ میں ہی حکومت مطالبہ مان لیتی تھی.میں یہ نہیں کہتا کہ تم بھی اس طرح کرو کیونکہ میں گاندھی جی کے طریق کے خلاف تھا لیکن میں ضرور کہوں گا کہ تمہیں اس کے متعلق اب سوچنا پڑے گا.اگر تم نے زندہ رہنا ہے تو تمہیں کوئی مناسب تدبیر نکالنی ہوگی.اور ہر احمدی کو اس بات پر غور کرنا پڑے گا کہ کیا وہ احمدی رہنا چاہتا ہے یا نہیں.اگر اُس نے احمدی رہنا ہے تو اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ غور کر کے ایسی تدبیر نکالے جس سے اُس کی قوم کی عزت قائم ہو.وہ دوسرے لوگوں سے تبادلہ خیالات کر کے کسی نتیجہ پر پہنچے.اب تو بے عملی کا یہ حال ہے کہ مجھ پر حملہ ہوا تو باہر والوں نے آکر ربوہ والوں کو خوب گالیاں دیں اور کہا ربوہ والوں کی موجودگی میں خلیفہ پر حملہ ہو گیا ہے لیکن ہوا کیا؟ جماعت کے افراد نے شورای میں تقریریں کیں اور پھر واپس چلے گئے.کسی ناظر کو آج تک یہ توفیق نہیں ملی کہ وہ حفاظت کے لیے کوئی زائد آدمی رکھے اور نہ باہر والوں نے اس کی نگرانی کی ، نہ آدمی پیش کیے.تین آدمیوں کو امور عامہ نے افسر کے طور پر بلانا چاہا لیکن اُن فدائیوں نے معذرت کر دی.اور بعض نے یہاں تک کہہ دیا کہ ہم اس ذمہ داری کے قابل نہیں.یعنی اب تو خلیفہ پر حملے ہونے لگے ہیں.اپنی جان کو خطرہ میں ڈالنے کے ہم قابل نہیں.جب عمل کرنے کی ہمت نہیں تھی تو ریزولیوشن پاس کرنے کا کیا فائدہ تھا.ربوہ والوں کو بے حیا کہہ دینا آسان ہے لیکن عمل کرنا مشکل ہے.ربوہ والوں سے جو کوتاہی ہوئی اُس کا داغ تو اب جاتے نہیں.قادیان میں یہ ہوتا تھا کہ نماز میں پہلی دو تین صفوں میں معروف آدمیوں کو بٹھایا جاتا تھا.مولوی شیر علی صاحب خالص مذہبی آدمی تھے لیکن اس بارہ میں وہ غلو کی حد تک پہنچ گئے تھے.رہ مسجد میں پہنچتے ہی معروف لوگوں کو آگے بٹھانا شروع کر دیتے.مولوی سید سرور شاہ صاحب بھی مولوی تھے لیکن اُن میں یہ عادت تھی کہ مسجد میں جاتے ہی پہلی صفوں کا جائزہ یہ لیتے اور غیر معروف لوگوں کو پیچھے کر دیتے.ہم پر فوج نے تو حملہ نہیں کرنا.اگا دُگا بدمعاش بے ایمان ہی آئے گا اور شرارت کرے گا اور اگے دُگنے بدمعاش کا یہی علاج ہے کہ اگلی دوتین

Page 126

$1954 116 خطبات محمود صفوں میں کسی غیر معروف آدمی کو نہ بیٹھنے دو.اب یہ ہوا ہے کہ باہر والے تم کو گالیاں دے کر اپنے گھروں کو واپس چلے گئے اور تم نے شرم کے مارے گردن نیچے ڈال لی.لیکن نتیجہ کیا ہوا ؟ کسی شاعر نے کہا ہے عجب طرح کی ہوئی فراغت گدھوں پر ڈالا جو بار اپنا جماعت نے کہہ دیا کہ یہ لو چندہ اور اس سے کچھ جان قربان کرنے والے لوگ ملازم رکھ لو.ہم جانیں پیش نہیں کر سکتے.ہماری طرف سے چندہ لے لو.لیکن ہماری قوم نے اگر زندہ رہنا ہے تو اسے مالی قربانی کے ساتھ ساتھ جانی قربانی بھی کرنی پڑے گی.اور اگر اس نے مرنا ہی ہے تو شرافت کی موت یہ ہے کہ بزدلی اور ذلت کو تسلیم کر لے اور مر جائے.کہتے ہیں کوئی پٹھان تھا اُس نے اپنی مونچھیں اونچی کر لیں اور بعد میں اتنا غلو کیا کہ وہ تلوار ہاتھ میں لے لیتا اور جس شخص کی مونچھیں اونچی دیکھتا اُسے کہتا تم اپنی مونچھیں نیچی کر لو ورنہ میں تمہیں قتل کر دوں گا.مونچھیں اونچی رکھنے کا حق صرف مجھے ہے.لوگ اپنی عزت کو بچانے کی خاطر مونچھیں نیچی کر لیتے.کوئی غریب دکاندار تھا وہ روزانہ یہ نظارہ دیکھتا کہ وہ پٹھان تلوار ہاتھ میں لے کر نکل آتا ہے اور لوگ عزت کو بچانے کی خاطر اپنی مونچھیں نیچی کر لیتے ہیں.اُس نے خیال کیا کہ ابھی تک اسے کسی نے سبق نہیں دیا.اُس نے چھابڑی اُٹھا لی اور گھر چلا گیا اور کچھ دنوں تک گھر ہی رہا اور مونچھوں پر چربی لگاتا رہا.جب مونچھیں بڑھ گئیں تو اس نے تلوار کمر میں باندھ لی اور باہر نکل آیا.لوگوں نے اُس پٹھان کو اطلاع دی کہ ایک اور شخص اونچی مونچھوں والا آیا ہے.چنانچہ پٹھان تلوار لے کر باہر آ گیا اور اس دکاندار سے کہنے لگا.تم نے اپنی مونچھیں اونچی کیوں رکھی ہیں؟ اُس نے کہا مجھے ایسا کرنے کا حق ہے.پٹھان نے کہا تمہارا حق نہیں میرا حق ہے.دکاندار نے کہا میں تو اپنی مونچھیں اونچی رکھوں گا.پٹھان نے کہا اگر تم میری بات ماننے کے لیے تیار نہیں تو تمہیں مجھ سے لڑنا ہو گا.دکاندار نے کہا اچھا لڑ لو.پٹھان نے کہا لڑائی کے لیے وقت مقرر کر لو.دکاندار نے کہا کر لو.لیکن ایک بات ہے.ہم میں سے ایک نے ضرور مرنا ہے اور اس کے بچوں نے یتیم رہ جانا ہے حالانکہ اُن کا کوئی قصور نہیں.اس لیے بہتر یہ ہے کہ لڑائی سے پہلے تم اپنے بیوی بچوں کو مار آؤ اور میں اپنی بیوی بچوں کو مار آتا

Page 127

$1954 117 خطبات محمود ہوں تاکہ بعد میں ہماری موت سے اُن کو تکلیف نہ ہو.چنانچہ پٹھان اپنے گھر گیا اور اُس نے اپنے بیوی بچوں کو قتل کر دیا.اس کے بعد وہ اس دکاندار کے پاس آیا اور اسے کہنے لگا میں تو اپنے بیوی بچوں کو مار آیا ہوں.کیا تم بھی مار آئے ہو؟ اُس نے کہا نہیں.میں نے اپنا ارادہ بدل لیا ہے اور میں اپنی مونچھیں نیچی کر لیتا ہوں اور اپنی مونچھیں نیچی کر لیں.تم اسی طرح اگر تم نے زندہ رہنا ہے تو تمہیں کچھ کام کر کے دکھانا ہو گا.اس کے بغیر زندہ رہنے کا خیال بالکل غلط ہے.جماعت کو اب ان باتوں پر غور کرنا چاہیے، ان کا علاج سوچنا چاہیے اور پھر اس پر دوسرے ساتھیوں سے بحث کرنی چاہیے اور تبادلۂ خیالات سے کوئی نتیجہ اخذ کرنا چاہے.اگر تم عملی طور پر جدوجہد نہ کرو گے تو ذلت کی موت مرو گے.لیکن اگر تم زندہ رہنے کا صحیح طریق اختیار کرو گے تو خدا تعالیٰ تمہیں مرنے نہیں دے گا.اور اگر مرو گے بھی تو خدا تعالیٰ کی رحمت تمہارے شامل حال ہو گی.لیکن دوسری صورت میں دنیا کے لوگ بھی تم پر لعنت کریں گے اور خدا تعالیٰ اور اس کے فرشتے بھی تم پر لعنت بھیجیں گے.پس تم اپنے حالات پر غور کر کے صحیح لائن اختیار کرو.یاد رکھو! جو کام خدا تعالیٰ.تمہارے سپرد کیا ہے وہ تم ہی کرو گے.خدا تعالیٰ نے نہیں کرنا.اور جو کام خدا تعالیٰ کے سپرد ہیں وہ خدا تعالیٰ خود کرے گا.جب تم اپنی جان، مال، آبرو اور ہر عزیز چیز کو قربان کرنے کے لیے تیار ہو جاؤ گے اور قرآن کی ہدایتوں پر عمل کرو گے تو پھر جو کسر باقی رہ جائے گی خدا تعالیٰ اُسے پورا کر دے گا.لیکن اگر تم قرآن کریم کے سب احکام پر عمل نہ کرو اور صرف چندہ دینا کافی سمجھو تو اس جہان میں بھی تم پر لعنت ہو گی اور آخرت میں بھی تم پر لعنت ہو گی.پس تم اپنے حالات کے ہر پہلو پر غور کرو اور قرآن کریم پر غور کر کے تدابیر سوچو.پھر دوسروں سے تبادلہ خیالات کر کے کسی نتیجہ پر پہنچو.قرآن کریم تمہارے پاس ہے.اس میں جائز قانون کے مطابق لڑائی کرنے کا طریق بھی موجود ہے.اس میں جائز قانون کے مطابق صبر کرنے کا طریق بھی موجود ہے.اس میں جائز قانون کے مطابق عفو کرنے کا طریق بھی موجود ہے.اس میں جائز قانون کے مطابق اعتراضات کے جواب سنے کا

Page 128

خطبات محمود 118 $1954 طریق بھی موجود ہے.جب تم قرآن کریم کے بیان کردہ طریقوں پر پوری طرح عمل کروانی گے جس میں ہر قسم کے جائز اور درست علاج موجود ہیں تو پھر اگر کوئی کسر باقی رہ جائے گی تو اسے خدا تعالیٰ پورا کر دے گا.لیکن تمہارا یہ طریق درست نہیں کہ عملی طور پر تو کچھ نہ کرو، قرآن پر غور نہ کرو، نہ اس کی ہدایات کو سمجھنے کی کوشش کر و صرف چندہ دے دو.اگر تم ایسا کرو گے تو دنیا میں بھی تمہارے لیے ذلت ہے اور آخرت میں بھی تمہارے لیے ذلت ہے اور اس ذلت سے تمہیں کوئی نہیں بچا سکتا.اور جب میں یہ کہتا ہوں کہ اس ذلت سے تمہیں کوئی نہیں بچا سکتا تو اس میں خدا تعالٰی بھی آ جاتا ہے.کیونکہ وہ خود کہتا ہے کہ اگر تم ایسا کرو گے تو میں تمہیں نہیں بچاؤں گا.پس تم اپنے طریق عمل کو درست کرو اور جلد جلد درست کرو ورنہ جماعت کے لیے آفات اور مصائب کے رستے کھلتے چلے جائیں گے“.(الفضل 15 جون 1954 ء) 1 : إنَّ اللهَ اشْتَرى مِنَ الْمُؤْمِنِينَ أَنْفُسَهُمْ وَأَمْوَالَهُمْ بِأَنَّ لَهُمُ الْجَنَّةَ.(التوبة: 111)

Page 129

$1954 119 12 خطبات محمود ہم نے خدا تعالیٰ کے احسانات اور اس کے فضلوں کا بارہا مشاہدہ کیا ہوا ہے مشکلات کے وقت تمہیں بہر حال خدا تعالی ہی کی طرف متوجہ ہو کر اُسی سے مدد مانگنی چاہیے (فرمودہ 4 جون 1954ء بمقام ربوہ) تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: ” جب کبھی انسان کسی مصیبت میں مبتلا ہوتا ہے تو قطع نظر اس کے کہ اُس کا کوئی ساتھی ہو یا نہ ہو وہ بلند آواز سے شکایت شروع کر دیتا ہے.مثلاً کسی کو پیٹا جائے تو خواہ اس کے پاس اس کا باپ نہ ہو، ماں نہ ہو، بھائی نہ ہو، دوست نہ ہو وہ بازار میں کھڑے ہو کر یہ کہنا کی شروع کر دے گا کہ ہائے! مجھے مار دیا، ہائے! مجھے مار دیا اور یہ چیز فطرتِ انسانی میں پائی کی جاتی ہے.افریقہ میں بھی، ایشیا میں بھی، یورپ میں بھی، امریکہ اور دوسرے علاقوں میں بھی.سب جگہ یہی چیز پائی جاتی ہے.اور یہ بات اتنی واضح ہے کہ قرآن کریم میں بھی خدا تعالیٰ ماتا ہے کہ کسی کو دوسرے کی بُرائی عَلَی الْإِعْلان بیان نہیں کرنی چاہیے.ہاں! مظلوم اگر کسی کے ظلم کو بیان کرے تو معذور ہے.1 غرض مظلوم کی یہ عادت ہوتی ہے کہ وہ ظلم کو بیان کرتا ہے، وہ شور کرتا ہے اور بسا اوقات وہ شور بے معنی ہوتا ہے.انسان بعض دفعہ جنگل میں جار

Page 130

$1954 120 خطبات محمود ہوتا ہے اور روتا جا رہا ہوتا ہے.پاس سے گزرنے والا شخص اسے دیکھتا ہے تو وہ خیال کرتا ہے کہ یہاں کوئی اور آدمی تو موجود نہیں.پھر یہ اپنی شکایت کس کو سنا رہا ہے.وہ یہ نہیں سمجھتا کہ اس کے علم میں تو نہیں کہ یہاں کوئی دوسرا موجود ہے لیکن فطرت کے علم میں یہ بات ہے.فطرت انسانی سوچتی ہے کہ اگر دریا سے لوگ مچھلیاں نکال سکتے ہیں، سمندروں سے موتی نکال سکتے ہیں تو میں اس جنگل میں اپنا ہمدرد تلاش کروں تو اس میں کیا حرج ہے.دریا میں مچھلی کسی کو نظر نہیں آتی.ماہی گیر جال ڈالتا ہے اور اس میں مچھلی آکر پھنس جاتی ہے.سمندر میں موتی کسی کو نظر نہیں آتا.پھر بھی لوگ اُس کی خاطر سمندروں میں غوطے لگاتے ہیں.یہی حال کانوں کا ہے.سونا جواہر ہر جگہ نہیں پائے جاتے.ہزاروں گز جگہ کھودی جاتی ہے پھر کہیں کوئی ڈلی سونے کی ملتی ہے یا کوئی ہیرا ملتا ہے.غرض انسان جب دیکھتا ہے کہ لوگ اپنی اغراض کی خاطر ایسے ایسے کام کرتے ہیں تو وہ کہتا ہے کہ میں بھی کیوں نہ شور مچاؤں.ممکن ہے کوئی آدمی قریب ہی جا رہا ہو اور اسے میری آواز پہنچ جائے.یا اردگرد کوئی قصبہ یا گاؤں ہو جس کا مجھے پتا نہ ہو ممکن ہے کہ وہاں سے بعض لوگ میری مدد کو آ جائیں.اور اگر وہ بے دین ہے اور خدا تعالیٰ کی ہستی پر اُسے یقین نہیں تو وہ خیال کرتا ہے کہ گو میرے نزدیک تو خدا نہیں لیکن اگر خدا ہوا تو ممکن ہے کہ وہ میری مدد کو آ جائے.یا اگر وہ دیندار ہے تو وہ سمجھے گا کہ اگر میری آواز سن کر لوگ نہیں آتے تو شاید خدا تعالیٰ میری التجا سن لے.غرض امکانات کے مختلف پہلو ہیں.پہلا پہلو یہ ہے کہ شاید قریب ہی کوئی اور شخص بھی ہو جو میری آواز کوسُن لے.دوسرا پہلو یہ ہے کہ شاید قریب ہی کوئی گاؤں یا قصبہ ہو جس کا مجھے علم نہ ہو.شاید وہاں میری آواز پہنچ جائے اور لوگ میری مدد کو آ جائیں.تیسرا پہلو ہے کہ میں خدا کو تو نہیں مانتا لیکن اگر خدا ہوا تو وہ میری بات سنے گا.چوتھا پہلو یہ ہے کہ خدا موجود ہے اور وہ لوگوں کی پکار کو سنتا ہے.شاید وہ میری پکار بھی سن لے.غرض انسان کو جب کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو وہ شور مچاتا ہے اور بغیر سمجھے اور غور وفکر کیسے شور مچاتا ہے.ادھر اسے کھپڑ پڑا اور اُدھر اُس نے شور مچانا شروع کر دیا.تھپڑ اور اُس کے شور کے درمیان کوئی وقفہ

Page 131

$1954 121 خطبات محمود.نہیں ہوتا.اگر بغیر سمجھے اور بغیر سوچے انسان اتنا شور مچا دیتا ہے تو جس قوم کے سامنے زندہ خدا کو پیش کیا گیا ہو اور اس نے خدا تعالیٰ کی قدرت، نصرت اور اس کی تائید کے کرشمے دیکھے کی ہوں یا اگر انہوں نے خود نہیں دیکھے تو خدا تعالیٰ کی قدرت اور نصرت و تائید کے مظاہر دیکھنے والے اور اُن کا تجربہ رکھنے والے لوگ اُن میں موجود ہیں تو اُس قوم کا کوئی فرد اگر مار کھاتا ہے اور پھر چیختا نہیں، تکلیف میں مبتلا ہوتا ہے اور کراہتا نہیں تو وہ یقینا بیوقوف ہے.جس شخص کو یہ معلوم نہیں کہ اس کے قریب کوئی اور شخص موجود ہے، جس شخص کو یہ معلوم نہیں کہ اس کے پاس کوئی قصبہ یا گاؤں موجود ہے پھر بھی وہ آواز بلند کرتا ہے کہ شاید ایسا ہو، جس شخص کو خدا تعالی کی ہستی پر یقین نہیں لیکن پھر بھی وہ مصیبت کے وقت شور مچاتا ہے کہ شاید خدا ہو اور وہ میری بات سن لے یا اگر اسے خدا تعالیٰ کی ہستی پر یقین تو ہے لیکن اُس نے خود اس کی لکی قدرتوں کا تجربہ نہیں کیا تو وہ سمجھتا ہے کہ شاید خدا اس کی بات سن لے.ان چار شایدوں کے ساتھ وہ شور مچاتا ہے اور پھر اس کے درمیان کوئی وقفہ نہیں ہوتا.وہ سوچتا نہیں، وہ غور نہیں کرتا.لیکن ایک اور انسان ہے جس کے سارے شاید غائب ہیں.اس کے سامنے یہ سوال نہیں کہ شاید اُس کے پاس کوئی شخص اور بھی ہو جو اُس کی آواز سن لے.اس کے سامنے یہ سوال نہیں کہ شاید قریب ہی کوئی گاؤں یا قصبہ ہو جس کا اُسے علم نہ ہو، شاید اس کے رہنے والے اس کی آواز سن لیں.اس کے سامنے یہ سوال نہیں کہ خدا ہے یا نہیں کیونکہ وہ خدا تعالیٰ کی ہستی پر یقین رکھتا ہے.پھر اس کے سامنے یہ سوال بھی نہیں کہ خدا تعالیٰ موجود تو ہے لیکن اس کی قدرتوں کا مجھے علم نہیں.وہ یقین رکھتا ہے کہ خدا تعالیٰ موجود ہے اور وہ اپنی قدرتیں ہمیشہ دکھاتا رہا ہے اور اس کی نصرت و تائید کے مظاہر اس نے خود بھی دیکھے ہیں.پھر بھی اگر مصیبت کے وقت وہ شور نہیں مچاتا تو اس کی حالت کس قدر افسوسناک ہے.ایک شخص جو خدا تعالی کو دیکھتا نہیں وہ تو شور مچاتا ہے لیکن دوسرا شخص خدا تعالیٰ کو دیکھتا بھی ہے اور پھر بھی شور نہیں مچاتا.اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں کئی چیزوں کو انسان کے سامنے پیش کرتا ہے اور کہتا ہے کہ کیا فلاں چیز اور یہ چیز برابر ہے.مثلاً وہ کہتا ہے کہ کیا بہرے اور گونگے اور سننے اور بولنے والے برابر ہو سکتے ہیں؟ کیا زندہ اور مُردہ برابر ہو سکتے ہیں ؟3 کیا ہدایت یافتہ لوگ اور وہ لوگ

Page 132

$1954 122 خطبات محمود جو ہدایت یافتہ نہیں برابر ہو سکتے ہیں؟4 کیا جنت کے رہنے والے اور جہنم کے رہنے والے ہو سکتے ہیں؟ جب یہ دونوں چیزیں برابر نہیں ہو سکتیں تو تمہارے اعمال اور تمہاری عادات و اطوار میں اور دوسرے لوگوں کے اعمال اور ان کی عادات و اطوار میں کچھ نہ کچھ فرق تو ہونا چاہیے.ہماری جماعت نے خدا تعالیٰ کے احسان اور اس کے فضل دیکھے ہیں اور جب اس نے خدا تعالیٰ کے احسانات اور اُس کے فضلوں کا مشاہدہ کیا ہے تو مشکلات کے وقت اس میں یہ احساس تو ہونا چاہیے کہ اس نے خدا تعالیٰ کی طرف متوجہ ہونا ہے اور اس سے دعائیں کرنی ہیں.خدا تعالیٰ کی شان وراء الوراء ہے لیکن مصیبت کے وقت جب کوئی شخص فریادی بن کر اس کے پاس جاتا ہے تو اس کے نزدیک اس کی شان ہی اور ہوتی ہے.جب وہ شخص جس کا فریاد رس کوئی نہیں، شور مچاتا ہے تو جس کا فریاد رس موجود ہے وہ کیوں شور نہ کرے؟ پس بجائے اس کے کہ دوست مشکلات کے وقت گھبرائیں یا کسی تشویش میں مبتلا ہوں انہیں اس بات کی عادت ڈالنی چاہیے کہ ادھر کوئی مصیبت آئی اور اُدھر انہوں نے شور مچانا شروع کر دیا.ہم نے کئی ایسے آدمی دیکھتے ہیں جن میں دعا کرنے کا مادہ ہوتا ہے اور ہم نے دیکھا ہے کہ وہ اکثر خدا تعالیٰ سے اپنی مطلوبہ چیز لے ہی لیتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام کے زمانہ میں مفتی فضل الرحمان صاحب کے بچے مر جایا کرتے تھے.بعد میں ان کی اولاد چلی ہے.حضرت خلیفہ اسی الاول کی لڑکی اُن سے بیاہی ہوئی تھی.جب بھی اُن کا بچہ بیمار ہوتا وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے پاس جاتیں اور دعا کی درخواست کرتیں لیکن کچھ دنوں کے بعد وہ بچہ فوت ہو جاتا.جب ایک دو دفعہ ایسا ہوا تو آپ نے اُن سے فرمایا دیکھو! جو چیز ٹوٹ جاتی ہے اُس کی مرمت کی جاتی ہے.تمہارے بچے بھی مرمت کے لیے خدا تعالیٰ کے پاس جاتے ہیں.اس کے بعد جب بچے فوت ہو جاتے تو وہ کہتیں کوئی بات نہیں وہ مرمت کے لیے خدا تعالیٰ کے پاس گئے ہیں.پھر ایسا ہوا کہ اُن کی اولاد زندہ رہنی شروع ہوئی بلکہ دوسری بیوی سے بھی اولاد ہوئی اور زندہ رہی اور اب تو شاید مفتی صاحب کی اولاد دو درجن کے قریب ہے.اس رنگ میں اگر یقین پیدا ہو جائے تو کوئی تشویش نہیں ہوتی.اس قسم کے یقین کی موجودگی میں اگر کوئی مار کھا بھی لے تو وہ محبت والی مار ہوگی.

Page 133

خطبات محمود 123 $1954 بدر کے موقع پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کی کہ اے خدا! اگر یہ مختصر سا تی گروہ ہلاک ہو گیا تو دنیا میں تیری عبادت کون کرے گا.5 اس کے یہ معنے نہیں تھے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو خدا تعالیٰ پر اعتبار نہیں تھا بلکہ اس رنگ میں دعا کر کے آپ نے خدا تعالیٰ کو غیرت دلائی.اسی طرح حضرت مسیح علیہ السلام نے کہا ایلی ایلِى لِمَا سَبَقْتَنِي یعنی اے خدا! چاہیے تو یہ تھا کہ اس مصیبت کے وقت تو میری مدد کے لیے آتا لیکن تو تو مجھے چھوڑ کر چلا گیا ہے.اب آپ کا یہ مطلب نہیں تھا کہ خدا تعالی مصیبت کے وقت انہیں واقع میں چھوڑ گیا تھا.بلکہ اس کا مطلب یہ تھا کہ میرا دل گھبرا رہا ہے آپ جلدی میری مدد کے لیے آئیں.اس رنگ میں اگر دعا کی جاتی ہے تو وہ قبولیت دعا پر عدم یقین کی وجہ سے نہیں ہوتی بلکہ خدا تعالیٰ کو غیرت دلانے کے لیے ہوتی ہے.قرآن کریم سے بھی پتا لگتا ہے کہ جب اس رنگ میں دعا کی جاتی ہے تو خدا تعالیٰ کو غیرت آ جاتی ہے.جب مومن کہتے ہیں مَتَى نَصْرُ الله 7 اے خدا ! تیری مدد اور نصرت کب آئے گی؟ تو خدا تعالیٰ کہتا ہے تم طعنہ دیتے ہو.تو سنو! میری مدد آ پہنچی.پس جب بھی مومن خدا تعالیٰ کو مدد کے لیے پکارتا ہے اور جب بھی مومنوں کے دلوں کی کیفیت یہ ہوتی ہے کہ اے خدا! تو نے اچھے وعدے کیے تھے کہ ابھی تک وہ پورے ہی نہیں ہوئے.تو اس کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ دعا کرنے والے کو اُن وعدوں پر یقین نہیں بلکہ اس کا یہ مطلب ہوتا ہے کہ ہم نے جو امیدیں رکھی تھیں اُس کے مطابق وہ وعدے اب تک پورے نہیں ہوئے.اس پر خدا تعالیٰ کو غیرت جاتی ہے اور وہ فوراً مدد کو آ جاتا ہے.پس مومن کو ہمیشہ دعاؤں میں لگے رہنا چاہیے اور اس کے فضلوں کی امید رکھنی چاہیے.جس شخص کو خدا تعالیٰ کے فضلوں کی امید ہوتی ہے دنیا میں کوئی قانون نہیں کہ اُسے اس مید سے روکا جا سکے.گو آجکل یہ کیفیت ہے کہ اگر ہم کہیں کہ خدا تعالیٰ کی نصرت آئے گی تو کہا جاتا ہے کہ اس سے تم دوسروں کو اشتعال دلاتے ہو حالانکہ یہ ایسی چیز ہے جو کسی.چھڑ وائی نہیں جا سکتی.خدا تعالیٰ کے متعلق جو بات ہے وہ تو بندے نے کہنی ہی ہے.کئی باتیں ایسی ہیں جن کے کہنے سے کوئی طاقت روک نہیں سکتی.اگر کوئی کہتا ہے کہ خدا تعالیٰ کی مدد آئے

Page 134

$1954 124 خطبات محمود گی، اس کی تائید اور نصرت مجھے ملے گی تو اُسے اس بات کے کہنے سے کوئی روک نہیں سکتا.بلکہ خدا تعالیٰ کے متعلق کوئی بات کہنے سے حکومت بھی ہمیں روکے تو اُس کی اطاعت فرض نہیں.خدا تعالیٰ نے قرآن کریم میں والدین کی اطاعت کا حکم دیا ہے لیکن ساتھ ہی یہ کہا ہے کہ اگر وہ میرے خلاف کوئی بات کہیں تو اُن کی بات مت مانو.9 انسان کے ساتھ جو والدین کا تعلق ہے وہی تعلق حکومت کا ہے.اگر حکومت کہتی ہے کہ تم فلاں جگہ کھڑے ہو جاؤ تو ہم اُس کے حکم کی اطاعت کریں گے اور اُس جگہ کھڑے ہو جائیں گے.اگر وہ کہتی ہے فلاں کام کر دو تو ہم کریں گے.لیکن اگر وہ کہے کہ تم خدا تعالیٰ کے متعلق فلاں بات مت کہو تو ہم اُس کی اطاعت نہیں کریں گے.یہاں حکومت کے قوانین ختم ہو جاتے ہیں.اس کے بعد وہ بیشک ڈنڈا چلائے لیکن خدا تعالیٰ کہتا ہے تم اُس کی اطاعت نہ کرو.تم وہی کہو جو میں کہتا ہوں.مثلاً اگر تم کہتے ہو کہ خدا تعالیٰ قادر ہے تو بیشک حکومت یہ قانون بنا دے کہ تم خدا تعالیٰ کو قادر نہ کہو کیونکہ ایسا کہنے سے اُن لوگوں کو تکلیف ہوتی ہے جو خدا تعالیٰ کو قادر تسلیم نہیں کرتے.پھر بھی خدا تعالیٰ کا حکم یہی ہو گا کہ تم اسے قادر کہتے رہو.گزشتہ سال میں نے ایک اعلان میں کہا تھا کہ خدا تعالیٰ ہماری مدد اور نصرت کو آ رہا ہے، وہ چلا آ رہا ہے، وہ دوڑتا آ رہا ہے اس پر حکومت نے مجھے نوٹس دیا کہ تم نے ایسا کیوں کہا؟ اس سے دوسرے لوگوں کو اشتعال آیا ہے.ہاں ! نوٹس دینے والے افسر نے اتنی اصلاح کر لی کہ اس نے کہا تم احرار کے متعلق کوئی ذکر نہ کرو.اگر وہ مجھے یہ حکم دیتے کہ خدا تعالیٰ کے متعلق یہ نہ کہو کہ وہ مدد کو آ رہا ہے یا یہ کہو کہ وہ مدد کو نہیں آتا تو دنیا کی کوئی طاقت مجھے اس بات کو تسلیم کر لینے پر آمادہ نہ کر سکتی.اس لیے کہ وہ اس طرح کا حکم دے کر قرآن کریم پر حکومت کرنا چاہتے اور یہ ایسا حکم تھا جس کا ماننا جائز نہ ہوتا.اگر کوئی حکومت یہ کہے کہ تم خدا تعالیٰ کو ایک نہ سمجھو تو ہم کہیں گے عقائد کے بارہ میں تمہاری حکومت نہیں چلتی.تمہاری حکومت ایسے امور میں چلے گی جو دنیوی ہوں.مثلاً کسی کا یہ عقیدہ ہو کہ تم لوگوں کو خوب مارو تو حکومت اس پر ایکشن لے سکتی ہے.لیکن اس لحاظ سے نہیں کہ وہ ایسا عقیدہ کیوں رکھتا.بلکہ اس وجہ سے کہ وہ اس عقیدہ کو عملی جامہ کیوں پہنا رہا ہے.حکومت اعمال پر کنٹرول

Page 135

$1954 125 خطبات محمود کر سکتی ہے عقائد پر نہیں.قرآن کریم میں بہت زیادہ زور ماں باپ کی اطاعت پر دیا گیا کی ہے.لیکن جب عقیدہ کے بارے میں ان کی بات بھی نہ ماننے کا حکم ہے تو اور کسی کی بات کی کیوں مانی جائے.پس جو چیزیں خدا تعالیٰ کی طرف سے فرض کی گئی ہیں انہیں پورا کرو.جب انسان ایسے امور میں دخل دے جن میں اُسے دخل نہیں دینا چاہیے تو اُس کی اطاعت مت کرو.لیکن اگر کوئی حکومت یا فرد اپنے غرور میں آکر یہ کہے کہ میں ان میں ضرور دخل دوں گا تو پھر جیسے کہا جاتا ہے کہ ”ملاں کی دوڑ مسیت تک تو مومن خدا تعالیٰ کے پاس چلا جاتا ہے.اور مسجد کسی ملاں کو بچائے یا نہ بچائے خدا تعالیٰ اپنے مومن بندہ کو ضرور بچا لیتا ہے.یہ ایک ایسی حقیقت ہے جو نہایت واضح ہے.پس ہر مومن کا فرض ہے کہ وہ یہ یقین رکھے کہ خدا تعالیٰ اسے بچائے گا چاہے کوئی اُسے پھانسی پر ہی چڑھا دے.وہ پھانسی پر بھی یہ یقین رکھے کہ خدا تعالیٰ اُسے بچائے گا.جب تک کوئی شخص اس قسم کا یقین نہیں رکھتا اُس کا ایمان مکمل ( الفضل 23 جون 1954 ء) نہیں ہوسکتا.1 : لا يُحِبُّ اللهُ الْجَهْرَ بِالسُّوءِ مِنَ الْقَوْلِ إِلَّا مَنْ ظُلِمَ (النساء : 149) * 2 وَضَرَبَ اللهُ مَثَلًا رَجُلَيْنِ اَحَدُهُمَا أَبْكَمْ لَا يَقْدِرُ عَلَى شَيْ وَ هوَ كَلٌّ عَلَى مَوْلمَهُ أَيْنَمَا يُوَجِهَةُ لَا يَأْتِ بِخَيْرٍ هَلْ يَسْتَوِى هُوَ وَمَنْ يَّأْمُرُ بِالْعَدْلِ (النحل : 77) 3: وَمَا يَسْتَوِي الْأَحْيَاء وَلَا الْأَمْوَاتُ (فاطر: 23) :4 لَا يَسْتَوِي أَصْحَبُ النَّارِ وَأَصْحَبُ الْجَنَّةِ أَصْحَبُ الْجَنَّةِ هُمُ الْفَابِرُونَ (الحشر: 21) 5 : صحيح مسلم كتاب الجهاد والسير باب الامداد بالملائكة في غزوة بدر واباحة الغنائم 6 : متى باب 27 آیت 46

Page 136

$1954 126 خطبات محمود 7 : البقرة: 215 : أَلَا إِنَّ نَصْرَ اللهِ قَرِيبٌ (البقرة: 215) و وَوَصَّيْنَا الْإِنْسَانَ بِوَالِدَيْهِ حُسْنًا وَإِن جَاهَدُكَ لِتُشْرِكَ بِى مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ فَلَا تُطِعْهُمَا (العنكبوت: 9)

Page 137

$1954 127 (13) خطبات محمود جماعت کے کمزور حصے کو مضبوط بنانے اور اس کی کمزوریوں کو دور کرنے کی کوشش کرو (فرمودہ 18 جون 1954ء بمقام کراچی) تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: انسانوں پر زندگی کے کئی دور آتے ہیں.کبھی انسان دودھ پیتا بچہ ہوتا ہے، کبھی چوسنیاں چوسنے والا بچہ ہوتا ہے، کبھی کھیلنے کودنے اور پیار کرنے والا بچہ ہوتا ہے، کبھی ابتدائی حاصل کرنے والا بچہ ہوتا ہے، کبھی نیم بلوغت کے زمانہ میں وہ اچھی تعلیم حاصل کر رہا ہوتا ہے، کبھی بالغ ہو کر وہ اپنے مستقبل کے متعلق سوچ رہا ہوتا ہے، کبھی اپنی بھر پور جوانی میں وہ شادی بیاہ کرتا ہے اور اس کے بچے پیدا ہوتے ہیں، کبھی جوانی کی عمر کا ایک حصہ گزار کر وہ ادھیڑ عمر میں جا پہنچتا ہے، کبھی اُس پر بڑھاپا آتا ہے اور پھر کبھی اُس پر ایسا بڑھا پا آتا ہے کہ چلنا پھرنا بھی اس کے لیے مشکل ہو جاتا ہے.یہ افراد کے جو مختلف دور ہیں، یہی دور قوموں پر بھی آیا کرتے ہیں.کبھی قوموں کی حالت بچوں کی سی ہوتی ہے، کبھی ان کی حالت بڑی عمر والوں کی سی ہوتی ہے، کبھی ان سے بھی بڑی عمر والوں کی سی حالت ہوتی ہے اور کبھی ان پر جوانی کی عمر آتی ہے.لیکن جو قومیں خدا تعالیٰ کی طرف سے قائم کی جاتی ہیں اُن

Page 138

$1954 128 خطبات محمود جوانی کا زمانہ نسبتاً جلدی آ جاتا ہے اور جو قو میں خدا تعالیٰ کے منشا کے ماتحت چلنے والی ہوتی ہیں اُن پر جوانی کا زمانہ زیادہ دیر تک رہتا ہے.پھر اس کے بعد آج تک کا تجربہ یہی بتاتا ہے کہ ہر قوم پر بڑھاپا آ جاتا ہے اور وہ اپنے فرائض کے ادا کرنے میں کوتاہی کرنے لگ جاتی ہے.ہماری جماعت ابھی اپنی جوانی کے دور کے قریب زمانہ میں ہے.ہم اپنے آپ کو نابالغ نہیں کہہ سکتے ، ہم اپنے آپ کو قریب بلوغت کے زمانہ میں بھی نہیں کہہ سکتے اور ہم اپنے زمانہ کو کامل بلوغت کا زمانہ بھی نہیں کہہ سکتے.قریب بلوغت اور کامل بلوغت کے درمیان جو زمانہ ہوتا ہے وہی ہم پر گزر رہا ہے اور اسی کے مطابق ہماری جماعت کو اپنی ذمہ داریاں کی کوشش کرنی چاہیے.یہ وہ عمر ہے کہ اس میں انسان نہ اپنے آپ کو نادان کہہ سکتا ہے اور نہ سمجھنے پورے طور پر اسے تمام کاموں کا ذمہ دار قرار دیا جا سکتا ہے.یوں سمجھ لو کہ یہ عمر ایسی ہی ہے جیسے اکیس بائیس سال کے نوجوان کی عمر ہوتی ہے.لیکن میں دیکھتا ہوں کہ اس عمر میں بھی ہماری جماعت میں اپنی ذمہ داریوں کے سمجھنے کا ابھی وہ احساس نہیں ہے جو اس کے اندر ہونا ہیے تھا.مثلاً پہلی چیز تو یہی ہوا کرتی ہے کہ انسان تعلیم حاصل کرتا ہے اور اس عمر تک اپنی تعلیم سے قریباً فارغ ہو جاتا ہے.لیکن ہماری جماعت میں دینی تعلیم اور دینی تربیت کے لحاظ سے ابھی بہت بڑی کمی پائی جاتی ہے.اکثر حصہ جماعت کا وہ ہے جو قرآن شریف کو نہیں سمجھتا.اور اس اکثر میں سے بھی ایک کثیر حصہ ایسا ہے جو ان ذرائع کو بھی جو قرآن کریم کے سمجھنے کے ان کو میسر ہیں صحیح طور پر استعمال کرنے کی کوشش نہیں کرتا.مثلاً ہمارا ملک اردو بولتا ہے یا مختلف صوبوں میں گنوار طرز کے جو لوگ ہیں یا غیر تعلیم یافتہ لوگ ہیں یا صرف صوبجاتی زبان جاننے والے ہیں ان میں سے کوئی سندھی بولتا ہے، کوئی بلوچی بولتا ہے، کوئی پشتو بولتا ہے، کوئی بنگالی بولتا ہے.عربی زبان ہمارے ملک میں بطور زبان کے نہیں بولی جاتی.بلکہ ہمارے ملک کے لوگوں کو اتنا بعد عربی زبان سے ہے کہ علماء بھی عربی نہیں بولتے.اور اگر کبھی انہیں عربی بولنی پڑے تو وہ اتنا ہچکچاتے ہیں کہ دو فقرے بھی وہ اپنی زبان سے نکالیں.تو کانپتے ہوئے اور ڈرتے ہوئے اور لرزتے ہوئے.جہاں تک ان کے علم کا سوال ہے اگر اس کو دیکھا جائے تو وہ عرب اور مصر کے علماء سے کم نہیں ہوتے، دینی کتب کا انہیں

Page 139

$1954 129 خطبات محمود خوب مطالعہ ہوتا ہے لیکن جب عربی بولنے کا سوال آئے تو عرب کا ایک معمولی کمہار یا دھوبی کی بھی صحیح عربی بولے گا اور وہ دو فقرے بھی نہیں بول سکیں گے.یہ نقص صرف اس وجہ سے ہے کہ انہیں عربی بولنے کی مشق نہیں.پس ایسے ملک کے لوگوں سے یہ امید کرنا کہ وہ عربی میں قرآن کو سمجھ سکیں گے بہت بعید بات ہے.بیشک ہماری کوشش تو یہی ہونی چاہیے مگر اس ا کے برآنے کے لیے ایک لمبا زمانہ چاہیے.اور جب اس کے لیے ایک لمبے زمانہ کی ضرورت ہے تو سوال یہ ہے کہ کیا ان کی روح اتنے عرصہ کے لیے امید وبیم 1 میں رکھی جا سکتی ہے؟ فرض کرو تمہارے پاس کھانا نہیں لیکن تم نے اپنے کھیت میں گیہوں بویا ہوا ہے اور چھوٹی چھوٹی روئیدگی بھی اُس کی نکلی ہوئی ہے تو آیا تمہاری بھوک کے وقت تمہارے لیے یہ تصور کافی ہو گا کہ جب یہ روئیدگی بڑھے گی، دانے پلکیں گے تو پھر ہم گندم کاٹ کر اپنے گھر میں لائیں گے اور آٹا پسوا کر روٹی پکائیں گے؟ اگر تم اس وقت کا انتظار کرو گے تو تم مرو گے.تمہیں بہر حال اپنی غذا کا کوئی نہ کوئی قائم مقام سوچنا پڑے گا.جیسے جو لوگ چاول کھانے کے عادی ہوں انہیں اگر چاول نہ ملیں تو چاہے انہیں نفرت ہو، بد ہضمی ہو، وہ گندم کھائیں گے.یا گندم کھانے والے کو اگر کسی وقت گندم میسر نہیں آتی تو یہ نہیں ہوتا کہ وہ فاقہ کرنے لگ جائے بلکہ وہ چاول پکا کر کھا لیتا ہے.چاول نہیں ملتے تو ملکی کھا لیتا ہے.مکی نہ ملے تو باجرہ کھا لیتا ہے.اگر باجرہ ان نہیں ملتا تو بعض دفعہ وہ مڈھل 2 کھا لیتا ہے (یہ ایک جنگلی دانہ ہے جسے پنجابی میں مڈھل کہتے ہیں.اردو نام مجھے معلوم نہیں جس کو عام حالات میں انسان نہیں کھایا کرتا).بہر حال ایسے حالات میں انسان کو اپنی غذا کا قائم مقام سوچنا پڑتا ہے.میں مانتا ہوں کہ ہماری جماعت میں سارے کے سارے عربی نہیں پڑھ سکتے.بلکہ گر پڑھ بھی لیں تو ہماری جماعت میں ہر سال اتنے نئے آدمی داخل ہوتے رہتے ہیں کہ ہم یسے تعلیمی معیار کو قائم رکھ ہی نہیں سکتے.قادیان میں عورتوں اور لڑکیوں کی تعلیم ہم نے کئی دفعہ سو فیصدی تک پہنچا دی تھی مگر دو چار سال کے بعد جب ہم پھر مردم شماری کرتے تو اتنی توے فیصدی پر اُن کی تعلیم آ جاتی.اس کی وجہ یہی تھی کہ وہاں ہجرت جاری تھی اور نئی نئی عورتیں باہر سے قادیان میں آتی رہتی تھیں.اس لیے پہلا معیار گر جاتا تھا.یہی حال جماعت کا ہے.

Page 140

$1954 130 خطبات محمود کی جماعت میں بھی ایک روحانی ہجرت جاری ہے اور ہر سال کچھ شیعوں میں سے، کچھ سنیوں میں سے، کچھ وہابیوں میں سے، کچھ شافعیوں میں سے، کچھ دوسرے فرقوں میں سے نکل نکل کر لوگو ہمارے اندر شامل ہوتے رہتے ہیں اور وہ قرآن سے واقف نہیں ہوتے.پس اگر ہم سارے لوگوں کو قرآن پڑھا لیتے ہیں تب بھی کچھ عرصہ کے بعد ایک حصہ ایسے لوگوں کا ضرور نکل آئے گا جو قرآن سے ناواقف ہو گا اور پھر ہمارا فرض ہو گا کہ ہم اُن کو قرآن سے واقف کریں.بیشک ہمیں ایسے ذرائع میسر نہیں کہ ہم ہر احمدی کو عربی پڑھا سکیں لیکن قرآن ایک ایسی چیز ہے جس کا تھوڑا بہت علم ہر شخص کو ہونا چاہیے کیونکہ قرآن ہماری روحانی غذا ہے.جس طرح روٹی کھائے بغیر انسانی جسم زندہ نہیں رہ سکتا اسی طرح قرآن کریم کے بغیر ہماری روح کبھی زندہ نہیں رہ سکتی.جسم کی موت کے بعد انسانی اعضاء سڑنے گلنے شروع ہو جاتے ہیں لیکن اگر کسی تی انسان کی روح مرجاتی ہے تو اُس کا جسم سڑتا گلتا نہیں.تم اسے چلتے پھرتے ہوئے دیکھتے ہو تو سمجھتے ہو کہ اُس کی روح بھی زندہ ہے حالانکہ یہ بالکل غلط ہوتا ہے.تم اگر ایک دن یا دو دن یا چار دن یا سات دن غذا نہیں کھاتے تو تم سمجھ لیتے ہو کہ اب تم موت کے قریب پہنچ گئے ہو.اور جب کوئی مر جاتا ہے تو تمہیں اُس کی موت میں کوئی شبہ نہیں رہتا کیونکہ اُس کی موت کی علامتیں ظاہر ہو جاتی ہیں.جب وہ سانس نہیں لیتا، جب وہ حرکت نہیں کرتا، جب وہ دیکھتا نہیں، جب وہ سنتا نہیں، جب وہ بولتا نہیں تو تم سمجھ لیتے ہو کہ وہ مر گیا ہے.لیکن روحانی موت کی علامتوں کا بسا اوقات تم مطالعہ نہیں کرتے اور یا پھر اپنے آپ کو تم فریب دینا چاہتے ہو کہ اس کے مُردہ ہونے کے باوجود تم اس کو زندہ سمجھتے ہو.ایک آدمی روحانی لحاظ سے دس سال سے مرا ہوا ہوتا ہے لیکن تم اُس کے ساتھ بے تکلفانہ زندگی بسر کر رہے ہوتے ہو اور ساتھ ساتھ یہ بھی کہتے جاتے ہو کہ وہ بڑے اچھے آدمی ہیں، بڑے نیک اور بزرگ صرف اتنی بات ہے کہ نماز میں سُست ہیں.یا فلاں بہت ہی نیک آدمی ہے، بڑا مخلص احمدی ہے لیکن چندہ میں سُست ہے.یا فلاں بڑا بزرگ ہے، سلسلہ کے ساتھ بڑا اخلاص رکھتا.لیکن ذرا جھوٹ بولنے کا عادی ہے.گویا ایک طرف تو تم یہ کہتے ہو کہ وہ روحانی لحاظ چکا ہے، اُس کے اندر زندگی کے کوئی آثار نہیں.وہ بے نماز بھی ہے، وہ جھوٹا بھی مر ہیں.ہے ނ ہے،

Page 141

$1954 131 خطبات محمود وہ چندہ دینے میں بھی سست ہے اور دوسری طرف تم یہ بھی کہتے جاتے ہو کہ وہ بڑا مخلص ہے، بڑا نیک اور بڑا بزرگ ہے.یہ تو ایسی ہی بات ہے جیسے جرمنی کے ایک بادشاہ کا گھوڑا بیمار ہو گیا.وہ گھوڑا بڑا قیمتی تھا.اس نے ڈاکٹروں کا بلایا اور کہا کہ اس کا علاج کرو اور ایک ایک گھنٹہ کے بعد اس کی حالت سے مجھے اطلاع دو.اگر ایک ایک گھنٹہ کے بعد مجھے اطلاع نہ ملی تو میں تمہیں سخت دوں گا.اور جس شخص نے آکر مجھے یہ اطلاع دی کہ گھوڑا مر گیا ہے میں اُسے قتل کر دوں گا.ڈاکٹروں نے بڑی کوشش کی کہ وہ کسی طرح اچھا ہو جائے مگر وہ اچھا نہ ہوا اور مر گیا.اب کی بادشاہ کو اطلاع پہنچانا بھی ضروری تھا اور دوسری طرف وہ یہ بھی سمجھتے تھے کہ جس نے یہ اطلاع کی پہنچائی اسے قتل کر دیا جائے گا.آخر سوچ کر انہوں نے بادشاہ کے ایک منہ چڑھے نوکر کو بلوایا اور اُسے کہا کہ تم جاؤ اور بادشاہ کو یہ خبر پہنچا آؤ.اگر کوئی اور گیا تو وہ یقیناً مارا جائے گا.لیکن اگر تم گئے تو ممکن ہے بادشاہ تمہیں معاف کر دے کیونکہ تمہارا اُس کو لحاظ ہے.گویا جہاں تک موت کا تعلق ہے اس کا موقع تمہارے لیے بھی اُتنا ہی ہے جتنا ہمارے لیے.لیکن تمہارے ساتھ چونکہ بادشاہ کو محبت ہے اس لیے ممکن ہے کہ وہ تمہیں معاف کر دے.وہ تیار ہو گیا.آدمی ہوشیار تھا، جاتے ہی بادشاہ سے کہنے لگا حضور! گھوڑا بالکل آرام میں ہے.اسے کوئی تکلیف نہیں.وہ اطمینان سے لیٹا ہوا ہے.نہ وہ تڑپتا ہے نہ وہ دم ہلاتا ہے، نہ کان ہلاتا ہے اور نہ آواز نکالتا ہے، نہ حرکت کرتا ہے نہ آنکھیں کھولتا ہے بالکل خاموش لیٹا ہوا ہے.بادشاہ نے کہا تو یوں کہو کہ وہ مر گیا ہے.اس نے کہا حضور! میں نے یہ الفاظ نہیں کہے کہ وہ مر گیا ہے یہ حضور خود فرما رہے ہیں.تو جیسے اُس نوکر نے کہا تھا کہ گھوڑا بالکل آرام میں ہے، وہ خاموش لیٹا ہوا ہے.نہ کان ہلا تا ہے، نہ دُم ہلاتا ہے، نہ سانس لیتا ہے، نہ حرکت کرتا ہے، وہی کچھ تم کرتے ہو.کہتے ہو فلاں بڑا بزرگ اور نیک ہے، صرف چندہ نہیں دیتا، فلاں بڑا بزرگ اور نیک احمدی ہے صرف نماز نہیں پڑھتا، فلاں بڑا بزرگ اور نیک احمدی ہے، صرف جھوٹ بولتا ہے، فلاں بڑا بزرگ اور نیک احمدی ہے صرف خائن ہے.تم اپنی حماقت سے اُس کی بزرگی کا ڈھنڈورا

Page 142

$1954 132 خطبات محمود پیٹتے ہو حالانکہ روحانی طور پر وہ مُردہ ہوتا ہے.اگر وہ اسی طرح سڑتا ، جس طرح جسمانی مُردہ کی سڑا کرتا ہے تو سارا محلہ اُس کی بدبو سے بھاگ اُٹھتا.مگر روح کی سڑاند ایسی چیز ہے کہ فرشتوں کو تو وہ محسوس ہوتی ہے لیکن انسان اسے محسوس نہیں کرتے.اس لیے جسم کی سڑاند سے تو وہ پریشان ہو جاتے ہیں لیکن روح کی سڑاند کے باوجود وہ اُسے بزرگ بھی کہتے جاتے ہیں، اُسے نیک بھی قرار دیتے چلے جاتے ہیں، اُسے مخلص بھی بتاتے جاتے ہیں.گویا تمہاری حُسنِ ظنی اتنی زیادہ ہوتی ہے یا تمہاری دین سے لا پرواہی اور استغناء اتنا زیادہ ہے کہ ایک سڑی ہوئی لاش تمہارے سامنے پڑی ہوتی ہے اور تم اُسے زندہ کہتے ہو.اگر تم میں دین کی محبت کا ذرا بھی احساس ہوتا تو تم سمجھتے کہ یہ لوگ مر گئے ہیں اب ہمیں ان کو دفن کر دینا چاہیے.اور اگر ابھی وہ مرے نہیں صرف روحانی بیمار ہیں تو جس طرح کوئی جسمانی بیمار ہوتا ہی ہے تو تم اُس کا علاج کرتے ہو اُسی طرح تمہارا فرض تھا کہ تم اُن کا علاج کرتے اور اُن کی ای رستی کی کوشش کرتے.انسان کا جسم چونکہ مُردہ ہو جاتا ہے اور سب لوگ اُس کو جانتے ہیں اس لیے جب کوئی بیمار ہوتا ہے تو لوگ اُس کا علاج کرتے ہیں اور وہ اُسے موت سے بچانے کی کوشش کرتے ہیں.اگر انسانی جسم میں تعفن نہ پیدا ہوتا اور اس میں سڑاند پیدا نہ ہوتی تو شاید لوگ اپنے ماں باپ کا بھی علاج نہ کرتے اور وہ سمجھتے کہ اگر یہ مر بھی گئے تو ہم انہیں کرسیوں پر بٹھا رکھیں گے اور ان کو دیکھتے رہیں گے.لیکن محض اس وجہ سے کہ انسانی جسم سر جاتا ہے، اس میں کیڑے پڑ جاتے ہیں خواہ کوئی کتنا بھی پیارا ہو مرنے کے بعد انسان چاہتا ہے کہ اسے جلدی دفن کر دے تا کہ اس کی سڑاند اور بُو اُسے پریشان نہ کر دے.مگر روحانی طور پر سڑنے کی دوسرے شخص کو بد بو نہیں آتی.اس لیے ان کے مرنے کے باوجود تم کوشش کرتے جاتے ہو کہ انہیں زندہ قرار دو.حالانکہ حقیقت یہ ہوتی ہے کہ جس طرح انسان جسمانی طور پر مرتا ہے اُسی طرح وہ روحانی طور پر بھی مرتا ہے.اگر وہ روحانی طور پر مرنے والے کی مختلف کیفیتیں ہم محسوس کریں تو ہم اُن کی موت سے بہت پہلے ان کے علاج میں مشغول ہے جائیں.مگر ہم ان کا علاج نہیں کرتے جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ مر جاتے ہیں.اور جب مر جاتے ہیں تو سل اور دِق کی طرح اُن کی بیماری ہمارے اندر بھی پیدا ہو جاتی ہو

Page 143

$1954 133 خطبات محمود مگر سل اور دق میں تو جہاں کھانسی ہوئی ، بخار ہوا لوگ ڈاکٹر کے پاس دوڑے چلے جاتے ہی ہیں اور یہاں چونکہ تم اس کو زندہ اور تندرست سمجھتے ہو اس لیے تم بھی رفتہ رفتہ دین میں سست ہو جاتے ہو اور اپنی بیماری کا فکر نہیں کرتے.کہتے ہو الْحَمدُ لِلہ مجھے احمدیت سے بڑا اخلاص ہے، صرف اتنی بات ہے کہ کبھی کبھی جھوٹ بول لیا کرتا ہوں.میں بہت ہی فدائی ہوں احمدیت کا اور میں اپنے آپ کو اخلاص اور محبت میں دوسروں سے کم نہیں سمجھتا، صرف اتنی بات ہے کہ میں نماز نہیں پڑھتا.اس طرح تم بھی مر جاتے ہو اور پھر تمہارا ہمسایہ تم سے اثر قبول کرتا ہے اور وہ بھی مر جاتا ہے.رفتہ رفتہ وہ مُردوں کی ایک جماعت ہو جاتی ہے جو زندوں کے لباس میں ہوتی ہے اور آخری نتیجہ اس کا یہ ہوتا ہے کہ قومی جدوجہد کو ایسے لوگ بالکل ترک کر دیتے ہیں اور نیکیوں میں آگے قدم بڑھانے کا مادہ ان میں نہیں رہتا.ہماری جماعت کو یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ روحانی موت اور جسمانی موت یہ دونوں متوازی چیزیں ہیں.روح بھی مرتی ہے اور جسم بھی مرتا ہے.جب روح مرتی ہے تو خدا کی ناراضگی اور اس سے دوری کی علامات ظاہر ہوتی ہیں اور جب جسم مرتا ہے تو سانس رک جاتا ہے، آنکھیں بند ہو جاتی ہیں، کان سننا بند کر دیتے ہیں اور جسم کی حس و حرکت باطل ہو جاتی ہے.یہ ظاہر ہے کہ جسمانی موت سے روحانی موت زیادہ خطرناک ہوتی ہے کیونکہ خدائی ناراضگی اور فرشتوں کی لعنت یہ بڑا بھاری عذاب ہے.لیکن جسمانی موت میں ایسا نہیں ہوتا بلکہ بسا اوقات جسمانی موت پر اللہ تعالیٰ کے فرشتے آتے ہیں اور وہ کہتے ہیں چلو! تمہیں خدا اپنے انعامات دینے کے لیے بلا رہا ہے اور جنت کے دروازے اس کے لیے کھل جاتے ہیں اور آسمانی وجود اس کے لیے دعائیں کرتے اور اسے سلام کہتے ہیں.پس ہمارے نوجوانوں کو چاہیے کہ جہاں وہ جسمانی موت سے اتنا گھبراتے اور پریشان ہوتے ہیں وہاں وہ روحانی موت سے بھی اُتنا ہی گھبرائیں اور اس سے بچنے کی کوشش کریں.، ابھی پرسوں کی بات ہے ایک صاحب نے مجھے بتایا کہ یہاں جو احمدی فوجی افسر یا نیوی کے افسر ہیں وہ قطعی طور پر کوئی چندہ نہیں دیتے.مجھے یہ سن کر بڑا تعجب آیا کہ جب میں یہاں آتا ہوں تو وہ شوق سے میرے آگے آ جاتے ہیں اور میرے ساتھ ساتھ پھرتے ہیں

Page 144

$1954 134 خطبات محمود لیکن ان کی عملی حالت یہ ہے کہ وہ چندہ ہی نہیں دیتے.گویا ان کا ساتھ ساتھ پھرنا بالکل ایساتی ہی ہوتا ہے جیسے کسی مُردہ لاش کو کل 3 لگا کر تھوڑی دیر کے لیے چلا کر دکھا دیا جائے.ہم انہیں چلتے پھرتے ہوئے دیکھتے ہیں تو سمجھتے ہیں کہ وہ زندہ ہیں حالانکہ وہ مُردہ لاشیں ہیں.اور پھر ہماری جماعت کی بدنامی میں بھی بڑا حصہ انہی کا ہے.احرار ہمیشہ یہی شور مچاتے رہے اور تحقیقاتی عدالت کے سامنے بھی انہوں نے یہی کہا کہ احمدی فوج پر قابض ہیں.اور جو فوج میں احمدی ہیں اُن کی حالت یہ ہے کہ وہ جماعتی طور پر ہمارے لیے کوئی فائدہ بخش نہیں.ہمارے خلاف جتنی شورش ہوئی ہے اس میں بڑا حصہ دشمن کے اس پروپیگنڈا کا ہے کہ فوج میں اور نیوی میں یہ لوگ دوسروں سے بہت آگے ہیں اور ان می کی نیت خراب ہے.مگر نیوی والوں کی یہ حالت ہے کہ ان میں سے بہت کا احمدیت سے کوئی تعلق ہی نہیں.صرف نام کے لحاظ سے وہ احمدی کہلاتے ہیں ورنہ عملی طور پر وہ کوئی احمدی نہیں.مجھے بتایا گیا ہے کہ نیوی میں سو کے قریب احمدی ہیں جن میں سے صرف دو با قاعدہ چندہ دیتے ہیں.جب حالت یہ ہے تو نیوی میں ہمارا سو آدمی کہاں ہوا ؟ ہمارے تو صرف دو آدمی ہوئے.باقی صرف نام کے طور پر احمدی کہلاتے ہیں.اگر وہ احمدیت کو چھوڑ دیتے تو یقیناً ہمیں کوئی نقصان نہ ہوتا کیونکہ چندہ تو وہ اب بھی نہیں دیتے.پھر ہمیں نقصان کیا ہوتا؟ البتہ ہمیں یہ فائدہ ضرور ہو جاتا کہ وہ لوگ جو ہمارے خلاف تقریریں کیا کرتے ہیں کہ فوجی میں اور پولیس میں اور نیوی میں ہر جگہ احمدیوں نے قبضہ کیا ہوا ہے اُن کا منہ بند ہو جاتا.اور بجائے اِس کے کہ وہ یہ کہتے کہ پچاسی فیصدی فوج پر احمدی قابض ہیں وہ یہ کہنے پر مجبور ہوتے کہ ایک لاکھ میں سے صرف دس یا ہمیں احمدی فوج میں ہیں تو ان کے احمدیت کے چھوڑ دینے سے یقیناً احمدیت کو بہت زیادہ فائدہ پہنچ جاتا اور دشمن یہ اعتراض نہ کر سکتا.پس اگر وہ چندہ نہیں دیتے تو انہیں کم از کم یہ طریق اختیار کرنا چاہیے کہ وہ جماعت کو بدنام نہ کریں اور احمدیت کو ترک کرنے کا اعلان کر دیں.یہ بھی اُن کی اللہ تعالیٰ کے حضور ایک رنگ کی خدمت ہوگی کہ انہوں نے چندہ نہیں دیا تو کم از کم جماعت کی عزت بچانے لیے انہوں نے اپنی روحانی موت کا آپ اعلان کر دیا.لیکن میں سمجھتا ہوں اس کی

Page 145

$1954 135 خطبات محمود ذمہ داری ایک حد تک باقی جماعت پر بھی ہے.ہر شخص جو خراب ہوتا ہے وہ دفعہ نہیں ہوتا بلکہ آہستہ آہستہ ہوتا ہے اور جب کوئی خرابی کی طرف اپنا قدم بڑھانے لگتا ہے تو کیوں جماعت کے لوگ اُسے نہیں سمجھاتے؟ کیوں اُس کی منت سماجت نہیں کرتے؟ کیوں اُن کی اصلاح کی کوشش نہیں کرتے؟ اُن کا فرض ہے کہ وہ اُسے سمجھا ئیں، اُسے نصیحت کریں، اُسے تحریص و ترغیب دلائیں، اُس کے دینی احساسات کو بیدار کرنے کی کوشش کریں.ہاں! کچھ عرصہ کے بعد جب دیکھیں کہ وہ اپنے اندر کوئی تغیر پیدا کرنے کے لیے تیار نہیں ہوا تو اُسے چھوڑ دیں اور سمجھ لیں کہ اب وہ روحانی لحاظ سے مر چکا ہے.جیسے پانی میں ڈوبنے والا جب ڈوب جاتا ہے تو پانی سے اگر ڈیڑھ دو گھنٹے کے اندراندر اسے نکال لیا جائے اور اسے مصنوعی تنفس دلایا جائے تو طلب کہتی ہے کہ کئی لوگ بچ جاتے ہیں اور ڈوبنے کے دس پندرہ منٹ کے اندراندر اگر اُسے نکال لیا جائے تو اکثر لوگ بچ جاتے ہیں.لیکن اگر چوبیس گھنٹے گزر جائیں یا دو تین دن گزر جائیں تو پھر اُسے زندہ کرنے کی ہر کوشش بیکار ہوتی ہے.اسی طرح اگر تمہارا کوئی بھائی کمزور ہے تو تم اُسے سمجھانے کی کوشش کرو، اُس کے لیے دعائیں کرو، اُسے کی وعظ اور نصیحت کرو.لیکن جس طرح وہ شخص احمق سمجھا جائے گا جس کے بھائی کو ڈوبے ہوئے دو تین دن گزر چکے ہیں اور وہ اُس کے ہاتھ ہلا رہا ہے اور اُسے مصنوعی تنفس دلا رہا ہے اس کی طرح وہ شخص بھی احمق سمجھا جائے گا جو سالہا سال تک سمجھاتا چلا جاتا ہے اور پھر یقین رکھتا ہے کہ ابھی وہ زندہ ہے.جس طرح ڈوبنے کے دس پندرہ منٹ یا ڈیڑھ دو گھنٹہ کے اندر اندر بچانے کی کوشش کرنا ضروری ہوتا ہے.اور جیسا کہ میں نے بتایا ہے طب کہتی ہے کہ دو گھنٹے تک بعض ڈوبنے والے زندہ ہو سکتے ہیں.اسی طرح طب یہ بھی کہتی ہے کہ اگر چوبیس گھنٹے کے بعد کوئی شخص ڈوبنے والے کو زندہ کرنے کی کوشش کرتا ہے تو وہ اپنا وقت ضائع کرتا ہے کیونکہ اتنے عرصہ میں اُس کی حقیقی موت واقع ہو چکی ہوتی ہے.اسی طرح اگر کوئی کمزوری دکھائے تو سب دوستوں کا فرض ہے کہ وہ اُس کے پاس جائیں اور اُسے سمجھا ئیں لیکن چھ مہینے سال کے بعد بھی اگر وہ اصلاح کرنے کی کوشش نہیں کرتا تو اُسے مُردہ قرار دے دیں.میں نے دیکھا ہے بعض لوگ کہہ دیتے ہیں کہ دس سال ہو گئے فلاں کی ایسی حالت ہے

Page 146

$1954 136 خطبات محمود اور ہم کوشش کر رہے ہیں کہ وہ اپنی اصلاح کر لے حالانکہ یہ بیوقوفی کی بات ہے.یہ ایسا ہی ہے جیسے کوئی کہے کہ دس سال فلاں کے ڈوبنے پر گزر چکے ہیں مگر میں اب بھی اسے مصنوعی تنفس دلانے کی کوشش کر رہا ہوں.ایسے آدمی کو تم مُردہ سمجھو اور اس سے اپنے تعلقات منقطع کر لو.بہر حال نیوی میں اگر ایک احمدی با قاعدہ چندہ دینے والا ہے تو ایک کو احمدی سمجھو.ہو، اگر دو چندہ دینے والے ہیں تو دو کو احمدی سمجھو باقیوں کو کہو کہ تم ہمارے پاکستانی بھائی ہمارے ملکی بھائی ہولیکن احمدیت والا بھائی چارا ہمارا تمہارے ساتھ کوئی نہیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ اخرُ الدَّوَاءِ الْكَى 4 آخری علاج داغ دینا ہوتا ہے.یہ نہیں کہ ادھر نزلہ ہوا، کھانسی ہوئی اور اُدھر داغ دے دیا.ہاں! جب سارے علاج ختم ہو جاتے ہیں تو پھر پلستر لگانا یا داغ دینا پڑتا ہے یا فصد میں کھولنی پڑتی ہیں.بہر حال برسب آخری علاج ہیں.اس سے پہلے پہلے ہمارا فرض ہے کہ ہم اصلاح کے لیے اپنی تمام کوششیں صرف کر دیں.اگر اس کے بعد بھی ان کی اصلاح نہ ہو تو پھر ہمارا اور ان کا تعلق ختم ہو جاتا ہے.بیشک اس کے نتیجہ میں کچھ لوگ ہم سے الگ ہو جائیں گے لیکن اس صورت میں بھی ہمیں فائدہ ہی پہنچے گا کیونکہ لوگ یہ سمجھیں گے کہ یہ لوگ مُردوں کو اپنے ساتھ نہیں رکھتے.یہ زندوں کی جماعت ہے مُردوں کی جماعت نہیں.کراچی کی جماعت کو اس بارہ میں بیشک مشکلات ہیں کیونکہ یہاں ہر گروپ کے لوگ جماعت کا حصہ ہیں جن کی ذمہ دار عہدیداروں کو نگرانی کرنی پڑتی ہے.اور پھر یہاں ماحول اس قسم کا ہے کہ مختلف قسم کی سوسائٹیوں میں شامل ہونے کی وجہ سے اخراجات زیادہ ہو جاتے ہیں اور جب اخراجات زیادہ ہو جائیں تو کمزور آدمی کے لیے چندہ دینا مشکل ہو جاتا ہے اور وہ مختلف قسم کے بہانے بنانے لگ جاتا ہے.بعض کہتے ہیں کہ ہم اپنا سارا روپیہ اپنے باپ کو بھیج دیتے ہیں اور جب باپ سے پوچھا جائے تو وہ کہتا ہے کہ اس نے تو مجھے ساری ایک پیسہ بھی نہیں دیا.کوئی کہہ دیتا ہے کہ میں لوکل سیکرٹری کو چندہ دے دیتا ہوں.لوکل سیکرٹری انکار کرے تو کہہ دیتا ہے کہ میں شہر کے احمدیوں کو دے دیتا ہوں اور جب دونوں طرف سے پکڑا جاتا ہے تو کہتا ہے مجھے بڑی مشکلات ہیں گھر میں ایسی بیماری ہے کہ اس کے

Page 147

$1954 137 خطبات محمود اخراجات ہی پورے ہونے میں نہیں آتے.جب کچھ عرصہ کے بعد پوچھا جائے کہ بتائیے! بیماری دور ہوئی ہے یا نہیں؟ تو کہہ دیتا ہے کہ اب تو فلاں اخراجات آ پڑے ہیں.جب کچھ اور انتظار کے بعد پھر چندہ مانگا جاتا ہے تو وہ گالیاں دینے لگ جاتا ہے اور کہتا ہے کہ انہیں تو اور کوئی کام ہی نہیں، ہر وقت چندہ ہی چندہ مانگتے رہتے ہیں.اس طرح آہستہ آہستہ وہ روحانی لحاظ سے بالکل مُردہ ہو جاتا ہے.بہر حال دوسری جماعتوں اور یہاں کی جماعت میں فرق ہے.باہر اگر عہد یدار سُست نہ ہوں تو عموماً جماعت کے چندوں میں کمی نہیں آتی کیونکہ سب ایک ہی قسم کے لوگ ہوتے ہیں.لیکن یہاں مختلف گروہوں کے لوگ پائے جاتے ہیں اور ان سب پر جماعت کو کنٹرول کرنا پڑتا ہے.پس اس جگہ کی مشکلات اور باہر کی مشکلات میں فرق ہے.لیکن جہاں اس جگہ کی مشکلات زیادہ ہیں وہاں مختلف قسم کے لوگوں کی وجہ سے کئی قسم کے تجربات حاصل کر کے مواقع بھی یہاں کی جماعت کو زیادہ حاصل ہیں.ہمارے سامنے تو جو مختلف واقعات آتے ہیں اُن سے ہم ایک نتیجہ نکال لیتے ہیں لیکن ان کے سامنے عملی مشکلات پیش آتی ہیں.پس اس بارہ میں جو ان کا تجربہ ہے اُس کی نوعیت بالکل اور رنگ کی ہے.حقیقت یہ ہے کہ جب تک ہر شخص کی بیماری اور اُس کے نقص کو مدنظر رکھتے ہوئے کی علاج نہ کیا جائے اُس وقت تک پوری کامیابی نہیں ہو سکتی.سب لوگوں پر مجموعی نظر ڈالنے سے ہمیں یہ تو معلوم ہو سکتا ہے کہ کچھ لوگوں میں نقائص پائے جاتے ہیں لیکن قومی اصلاح کی جد و جہد جو تمام افراد کی اصلاح کے ساتھ تعلق رکھتی ہے اُس وقت کامیاب ہو سکتی ہے جب ہر شخص کے حالات کا الگ الگ جائزہ لیا جائے اور اس کے مطابق اپنی کوششوں کو جاری رکھا جائے.میں چونکہ زمیندار خاندان میں سے ہوں اس لیے مجھے زمینداری اور باغ وغیرہ لگانے کا خاص شوق ہے.میں نے قادیان میں ایک دفعہ اپنے مالی کو بلایا اور اُسے کہا تم ایک چکر روزانہ باغ میں لگاتے ہو اور اُسے کافی سمجھتے ہو.میری ہدایت یہ ہے کہ آئندہ جب تم چکر لگاؤ تو بیمار درختوں کے ساتھ ایک لال دیجی 5 باندھ دیا کرو.دوسرے دن ایک کی بجائے دو چکر لگاؤ.ایک دن اُن درختوں کے لیے جن پر لال دیجی بندھی ہو اور دوسرے اُن درختوں

Page 148

$1954 138 خطبات محمود کے لیے جن پر لال دیجی نہ ہو.جب لال دھجی والے درخت اچھے ہو جائیں تو اُن کی دھجیاں کھولتے جاؤ اس طرح تمہیں پتا لگتا رہے گا کہ کون کون سے پودے بیمار ہیں جن کی تمہیں نگہداشت کرنی چاہیے.اگر تم یونہی چکر لگاتے رہو گے تو بیمار پودوں کی طرف تم کوئی توجہ نہیں کرو گے اور وہ رفتہ رفتہ مر جائیں گے.اسی طرح جماعت کے جو سُست افراد ہیں اُن کا ایک مکمل ریکارڈ جنرل سیکرٹری کے پاس ہونا چاہیے اور اسے معلوم ہونا چاہیے کہ فلاں شخص میں جھوٹ بولنے کا مرض ہے، فلاں میں نماز کی سستی کی عادت پائی جاتی ہے، فلاں چندہ میں سُست ہے، فلاں میں بدکلامی کی عادت ہے، فلاں میں مہمان نوازی کی عادت نہیں.اور پھر کوشش کرو کہ اُن کی یہ بیماریاں دور ہو جائیں.مولوی عبدالمالک صاحب یہاں سلسلہ کے مبلغ ہیں مگر یہاں کی جماعت اب اتنی بڑھ چکی ہے کہ وہ ان کے لیے کافی نہیں ہو سکتے.میں نے جماعت والوں کو مشورہ دیا ہے کہ وہ مرکز سے اور مبلغ منگوانے کی کوشش کریں.اگر وہ آجائیں تو ان کی مدد سے ایسے لوگوں کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیثیں سنائی جائیں، قرآن کریم کی آیات سے ان کو وعظ کیا جائے اور ان کی کمزوریوں کو دور کرنے کی کوشش کی جائے.اس کے علاوہ تمہارا اپنا نمونہ ایسا ہونا چاہیے کہ چاہے تم زبان سے ایک لفظ بھی نہ کہو تمہارے عمل سے لوگوں کو خود بخود تبلیغ ہوتی چلی جائے.اگر ایک احمدی رشوت نہیں لیتا، ظلم نہیں کرتا ، لوگوں کے ساتھ حسنِ سلوک سے پیش ہے، کام میں دیانتدار ہے، محنت کا عادی ہے، قربانی اور ایثار سے کام لیتا ہے تو احراری ٹائپ کا کوئی آدمی خواہ اس کی مخالفت کرے یہ لازمی بات ہے کہ جب ترقی کا وقت آئے گا تو ای افسر اُس کی سفارش کریں گے اور کہیں گے کہ یہ بڑا محنتی اور بڑا ہوشیار ہے.اور جب افسر اُس کی کی سفارش کریں گے تو مخالفین کا پروپیگنڈا خود بخود باطل ہو جائے گا اور لوگ سمجھیں گے کہ احمدیوں کو بلا وجہ بدنام کیا جاتا ہے ورنہ وہ بڑے محنتی اور دیانتدار ہیں.پس اپنے کیریا اپنی فوقیت ثابت کرو اور لوگوں کو احمدیت کی طرف مائل کرو.ނ مجھے ایک احمدی کا واقعہ معلوم ہے جو حضرت خلیفتہ امسیح الاول سنایا کرتے تھے.آپ فرماتے تھے کہ کوئی احمدی ایسا ہی تھا جس پر جھوٹے الزام لگا لگا کے اُسے سزا دینے کی کوشش کی

Page 149

$1954 139 خطبات محمود جاتی تھی.ایک دفعہ پولیس اور فوج کے کچھ آدمیوں میں جھگڑا ہو گیا اور انہوں نے ایک دوسرے کو مارا پیٹا.وہ انہیں ہٹاتا تھا مگر لوگ رُکتے نہیں تھے.بعد میں جب تحقیقات ہوئی تو فوجی سپاہیوں نے مار پیٹ سے انکار کیا.پولیس والوں نے کہا کہ ایک اور شخص بھی ان میں تھا جو ان کو لڑائی سے باز رکھتا تھا.وہ اس وقت پیش نہیں ہے.آخر معلوم ہوا کہ لڑائی کے بعد اس پر کوئی الزام لگا کر فوجی حوالات میں اُسے دے دیا گیا.جب اُسے وہاں سے نکالا گیا تو اُس نے سچی بات بتا دی.جب سپرنٹنڈنٹ پولیس کو یہ واقعہ معلوم ہوا تو اُس نے فوجی افسر کو لکھائی کہ آپ کو اس کی ضرورت نہیں اسے ڈسچارج کر کے میرے پاس بھجوا دیں.چنانچہ وہ فوج سے ڈسچارج کر دیا گیا اور پولیس میں اُسے ملازمت مل گئی.تو اعلیٰ کیریکٹر بہر حال دوسروں پر اثر کرتا ہے.پس ہمیں اپنے کیریکٹر کو بلند رکھنے اور اپنے اخلاق کو اعلیٰ بنانے کی کوشش کرنی چاہیے اور ایسا نمونہ ان کے سامنے پیش کرنا چاہیے که خود بخود ان کے دل ہماری طرف مائل ہوتے چلے جائیں.ابھی کل ہی ایک دوست نے سنایا کہ ایک پاکستانی رئیس مصر سے آیا ہے.اُس نے سنایا کہ ہمیں مصر میں کچھ مصری ملے اور محبت سے سلام کیا.پھر کہا کہ آپ لوگوں نے امریکہ سے جو فوجی مدد لی ہے اس کو ہم اچھی نظر سے نہیں دیکھتے کیونکہ امریکہ ہمارا دشمن ہے.لیکن ایک چیز ہے جس کی وجہ سے آپ کی عزت کرنے پر مجبور ہیں اور وہ یہ ہے کہ آپ نے ساری دنیا میں مبلغ بھیجے ہوئے ہیں.گویا ہمارے مبلغ بھیجنے کا اُن کی طبیعتوں پر اتنا اثر ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ ہم اس کارنامہ کی وجہ سے پاکستان کی عزت کرنے پر مجبور ہیں.اُن کو یہ پتا نہیں کہ پاکستان میں ہمارے متعلق یہ کہا جاتا ہے کہ ہم رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہتک کرتے ہیں.کیونکہ ہم عیسائیوں وغیرہ کو تبلیغ کرتے ہیں.گویا یہاں ہمارے مشنوں کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہتک کا موجب قرار دیا جاتا ہے اور باہر پاکستان کی اس لیے عزت کی جاتی ہے کہ یہاں سے تمام دنیا میں مبلغ بھیجے جاتے ہیں.تو اپنے نیک نمونہ کے ساتھ لوگوں کو تبلیغ کرو اور ان کے دلوں میں احمدیت کی محبت بٹھاؤ.ملازم لوگ بیشک اپنے منہ سے ایک لفظ بھی احمدیت کی تائید میں نہ نکالیں

Page 150

$1954 140 خطبات محمود لیکن دیانتداری تو ان کے اپنے اختیار میں ہے.کام کو محنت سے کرنا اور عمدگی سے سرانجام دینا کی ان کے اپنے اختیار میں ہے.اگر وہ دیانتداری اختیار کریں، محنت اور ہوشیاری کے ساتھ کام کریں تو ان کی احمدیت کبھی چھپ نہیں سکتی.فرض کرو ایک شخص یہ نہیں کہتا کہ میں احمدی ہوں لیکن جمعہ کا دن آتا ہے تو وہ نماز کے لیے چل پڑتا ہے.لوگ اُس سے پوچھتے ہیں کہ آپ کہاں جمعہ پڑھیں گے؟ اور وہ یہ کہتا ہے احمد یہ ہال میں.اس پر خود بخود لوگ اس سے کہیں گے کہ اچھا! آپ احمدی ہیں.اسی طرح خواہ وہ زبان سے نہ کہے کہ میں احمدی ہوں لیکن جب وہ جلسہ سالانہ پر جائے گا تو لوگوں کو خود بخود پتا لگ جائے گا کہ یہ احمدی ہے.اس طرح اس کا احمدی ہونا کبھی چھپ نہیں سکتا.پس ملازم پیشہ احباب کو چاہیے کہ وہ اپنا نمونہ ایسا اعلیٰ بنا ئیں کہ لوگ دیکھتے ہی محسوس کرنے لگیں کہ ان لوگوں میں اور دوسرے لوگوں میں زمین و آسمان کا فرق ہے.مثلاً اگر وہ پاکستان کے لیے دوسروں سے زیادہ غیرت رکھتا ہے، مسلمانوں کی دوسروں سے زیادہ خیر خواہی کرتا ہے، ان کی تکالیف میں دوسروں سے زیادہ ہمدردی کرتا ہے تو ہر شخص دوسرے سے خود بخود پوچھے گا کہ یہ کونسا پاکستانی ہے جو پاکستان کی حفاظت کے لیے دوسروں سے زیادہ قربانی کرنے کے لیے تیار ہے؟ اور جب لوگ اسے بتائیں گے کہ یہ احمدی ہے تو بغیر اس کے کہ وہ ایک لفظ بھی اپنی زبان سے نکالے خود بخود تبلیغ ہوتی چلی جائے گی اور لوگ یہ سوچنے پر مجبور ہوں گے کہ جب احمدی اس قسم کے نیکی اور خیر خواہ اور ملک و ملت کے ہمدرد اور جاں نثار ہوتے ہیں تو ہم کیوں نہ احمدی بن جائیں؟ اسی طرح اگر کوئی شخص بیمار ہو گیا ہے اور یہ اُس کے گھر پر جاتا اور اُس کی خدمت کرتا اور اس کی تیمارداری میں حصہ لیتا ہے تو دوسرے کے دل میں خود بخود اس کی محبت پیدا ہوتی چلی جائے گی.اور جب کسی موقع پر اس کے اپنے بھائی احمدیوں پر اعتراض کریں گے تو وہ کہے گا کہ تم غلط کہتے ہو.میں بیمار ہوا تھا تو تم نے تو مجھے پوچھا بھی نہیں.مگر فلاں احمدی میری رات دن خدمت کرتا رہا.پس میں کس طرح سمجھ لوں کہ احمدی بُرے ہوتے ہیں.پس تبلیغ کا راستہ تمہارے لیے بند نہیں.تم گورنمنٹ کے حکم کے ماتحت اور اخلاقی ذمہ داری کے ماتحت زبان کی سے تبلیغ نہ کرو مگر کیا گورنمنٹ یا اور کوئی شخص تم کو یہ بھی حکم دے گا کہ تم دوسروں سے زیادہ

Page 151

$1954 141 خطبات محمود دور وہ دیانتدار نہ بنو؟ دوسروں سے زیادہ حُبُّ الوطنی نہ دکھاؤ ؟ دوسروں سے زیادہ بنی نوع انسان کے خدمت گزار نہ بنو؟ دوسروں سے زیادہ راستباز نہ بنو؟ اور یہ بھی ایک تبلیغ ہے جس کی قانون کی اجازت ہی نہیں دیتا بلکہ وہ ہر پاکستانی سے اس کا مطالبہ کرتا ہے.اور جو لوگ ملازم پیشہ نہیں اُن کے لیے اس میں کیا مشکل ہے کہ وہ اپنے اپنے رشتہ داروں اور گہرے دوستوں کو سمجھائیں اور جو اعتراض علماء نے ہم پر کیسے ہیں اُن کا جواب دیں.کیا رشتہ داروں کی غلط فہمیاں دور کرنے سے کوئی روک سکتا ہے؟ اگر غلط فہمیاں د کرنے سے کوئی روکتا ہے تو اُسے پہلے غلط فہمی پیدا کرنے والے کو روکنا چاہیے.اب تو وہ زمانہ آ گیا ہے کہ خود غیر احمدیوں نے ہمارے خلاف اس قدر مواد جمع کر دیا ہے کہ ہم اگر رات دن اُن کے اعتراضات کو دور کرتے رہیں تو یہی ایک بڑا کام ہے.اگر تم اُن کے اعتراضات کے جوابات دو اور انہیں بتاؤ کہ احمدیت کیا کہتی ہے تو یقیناً ایک دن ان کی آنکھیں کھل جائیں گی.اور جب انہیں نظر آئے گا کہ تم سچے ہو اور تمہارے دشمن تم پر جھوٹے الزام لگاتے ہیں تو لازماً تمہارے دوستوں کی تعداد بڑھتی جائے گی اور تمہارے دشمنوں کی تعداد گھٹتی جائے گی.اور اگر لوگ سمجھ لیں گے کہ تم مسلمانوں کے خیر خواہ ہو اور ہمیشہ ان کی ترقی کی کوشش کرتے ہو تو وہ آپ ہی آپ فیصلہ کرلیں گے کہ تمہارے مخالف غلطی پر ہیں.ہر پس اپنے رویہ کو بدلو اور جماعت کے کمزور حصہ کی اصلاح کرنے کی کوشش کرو اور احمدی کے کیریکٹر کا جائزہ لے کر اس کے مرض کو دور کرنے کی طرف توجہ کرو.اگر ایک شخص کو مرض ہے نماز نہ پڑھنے کا اور تم اُس کو چندے کا وعظ کرتے ہو یا ایک شخص کو چندہ نہ دینے کا مرض ہے اور تم اُس کو نماز کا وعظ کرتے ہو تو یہ ایسا ہی ہو گا جیسے کھانسی والے کو سر درد کی دوا دے دی جائے اور سر درد والے کو کھانسی کی دوا دے دی جائے یا ہیضہ والے کو نقرس کی دوا دے دی جائے.جس طرح یہ بیوقوفی ہے اسی طرح وہ بھی بیوقوفی ہے.پس علاج ہمیشہ مرض کے مطابق کرو اور جماعت کے کمزور حصہ کو مضبوط بنانے اور اُس کی کمزوریوں کو دور کرنے کی کوشش الفضل 6 جنوری 1955ء) 1 : امید و بیم : کامیابی اور ناکامی کی درمیانی حالت.دبدھا، اطمینان و خوف ( اردو لغت تاریخی اصول پر جلد اول صفحہ 863.کراچی 1977ء) کرو.

Page 152

$1954 142 خطبات محمود 2 : مڈھل: ایک اناج جس کے دانے باریک ہوتے ہیں ( پنجابی اردو لغت مرتبہ تنویر بخاری.صفحہ 1401.اردو سائنس بورڈ لاہور ) 3 : گل مشین، مشینری ( اردو لغت تاریخی اصول پر جلد 15 صفحہ 43ء کراچی جون 1993ء) :4 : فتح الباری امام ابن حجر عسقلانی.جزء 10 صفحہ 138 كتاب الطب باب الشفاء في ثلاث مطبوعہ لاہور 1981 ء میں" كانت العرب تقول فى امثالها آخر الدواء الكي“ کے الفاظ ہیں.5 : دیجی : کپڑے یا کاغذ کی کترن، پرزہ، ٹکڑا، چیتھڑا ( فیروز اللغات اردو جامع فیروز سنز لاہور )

Page 153

$1954 143 (14 خطبات محمود تمہیں خواہ کوئی فائدہ اور حکمت نظر آئے یا نہ آئے قربانیوں کے میدان میں ہمیشہ اپنا قدم آگے بڑھاتے جاؤ ہماری جماعت کو پردہ کے متعلق اسلامی احکام پر پوری طرح کار بند رہنا چاہیے (فرمودہ 25 جون 1954ء بمقام کراچی) تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: پہلے تو میں ایک ایسی بات کے متعلق مختصر طور پر کچھ نصیحت کرنا چاہتا ہوں جو یہاں مسجد کے باہر مجھے نظر آئی.اگلی موٹروں کی سواریاں چونکہ اُتر رہی تھیں اس لیے ہماری موٹر کو تھوڑی دیر کے لیے پیچھے کھڑا کر لیا گیا.اُس وقت موٹر میں بیٹھے بیٹھے میں نے سامنے کی طرف دیکھا تو مجھے نظر آیا کہ تین چار مستورات جمعہ کے لیے برقع پہنے آ رہی ہیں لیکن اُن کا منہ کا پردہ ایسے رنگ میں تھا جس کو پورا پردہ نہیں کہا جا سکتا.بڑی مشکل یہ ہے کہ اس زمانہ میں پردہ کے خلاف اتنا رواج ہو چکا ہے کہ دوسری عورتیں تو الگ رہیں جو مسائل جاننے والی عورتیں ہیں اُن کو سمجھانا بھی مشکل ہو جاتا ہے.اور پھر حفظانِ صحت پر آجکل اتنا زور دیا جاتا ہے کہ اس کی آڑ میں پردہ میں بہت کچھ تخفیف کرنے کی کوشش کی جاتی ہے.اور بعض عورتیں سانس لینے کے لیے اپنا نقاب اس طرح رکھتی ہیں کہ جس سے پورا پردہ نہیں ہو سکتا.

Page 154

$1954 144 خطبات محمود پرده اور جب انہیں کچھ کہو تو ان کا جواب یہ ہوتا ہے کہ اسلام کا اصل منشا تو گھونگھٹ ہے حالانکہ نقاب کی گھونگھٹ اور چادر کی گھونگھٹ میں زمین و آسمان کا فرق ہوتا ہے.چادر کی گھونگھٹ سے ایک بالشت کے فاصلہ پر ہوتی ہے جس کی وجہ سے اس کا شیڈ چہرہ پر پڑتا ہے اور وہ دوسرے کو نظر نہیں آ سکتا لیکن نقاب کی گھونگھٹ اول تو باریک کپڑے کی ہوتی ہے اور پھر وہ منہ کے ساتھ لگی ہوئی ہوتی ہے جس کی وجہ سے چہرہ پر اُس کا شیڈ نہیں پڑتا.لیکن خواہ تعلیم یافتہ عورتیں ایسا کریں یا غیر تعلیم یافتہ ، جو چیز ناپسندیدہ ہے وہ بہر حال ناپسندیدہ ہے.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اسلام میں جو اصل پردہ رائج تھا وہ گھونگھٹ تھا اور وہی اصل ہے.حضرت خلیفہ اسیح الاول ہمیشہ فرمایا کرتے تھے کہ گھونگھٹ کا پردہ بہ نسبت اس پردہ کے جو آجکل ہمارے ملک میں رائج ہے زیادہ محفوظ تھا.چنانچہ حضرت خلیفہ اول ہمیں گھونگھٹ نکال کر دکھایا کرتے تھے اور بتایا کرتے تھے کہ پردہ کا اصل طریق یہ ہے.اگر اس طرح گھونگھٹ نکالا جائے تو لازماً موٹے کپڑے کا چہرہ پر سایہ پڑے گا اور صحیح معنوں میں پردہ قائم رہ سکے گا لیکن موجودہ نقاب کا طریق ایسا ہے جس میں پورا پردہ نہیں ہوسکتا.بہرحال ہر ایک کو کوشش کرنی چاہیے کہ وہ اسلامی احکام پر عمل کرے اور اگر کہیں اس کے عمل میں کمزوری پائی جاتی ہو تو اس کو دور کرے.پھر اس سے بھی زیادہ نقص میں نے یہ دیکھا کہ ایک خاتون نے ایسا برقع پہنا ہوا تھا جس کی آستینیں نہیں تھیں اور اس کا بازو نگا تھا حالانکہ یہ تو ایسی ہی بات ہے جیسے ران ننگی کر دی جائے یا لاتیں جنگی کر دی جائیں.چونکہ عورتوں میں اب ایرانی طرز کے برقع کا رواج ہو رہا ہے اور اس کی آستینیں نہیں ہوتیں اس لیے بعض عورتیں وہ برقع پہن کر آ جاتی ہیں حالانکہ ہاتھ کے جوڑ کے اوپر سارے کا سارا حصہ پردہ میں شامل ہے.بلکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ازدواج مطہرات کے بیان سے تو پتا چلتا ہے کہ ہاتھ اور پیر بھی پردہ میں شامل ہیں.چنانچہ بیت روایات میں آتا ہے کہ جب حج کے لیے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اہلِ بیہ کے ساتھ تشریف لے جاتے اور مرد سامنے آ جاتے تو آپ فرماتے اب دستانے اور جرابیں پہن لو.سامنے مرد آ رہے ہیں.بعض لوگ کہہ دیتے ہیں کہ یہ حکم صرف

Page 155

$1954 145 خطبات محمود ازواج مطہرات کے لیے تھا لیکن بہر حال اس سے تو کسی کو بھی انکار نہیں کہ ہاتھ کے جوڑ کے اوپر جو کچھ ہے سب پردہ میں شامل ہے.میں یہ تو امید نہیں کرتا کہ تم ساری عورتوں سے پردہ کروا لو گے.کچھ بہر حال انکار کریں گی.اور یہ ایسی لڑائی ہے جو چند دن میں ختم نہیں ہو سکتی.اس کے لیے تمہیں لمبی جد و جہد اور لمبے وعظ اور لمبی نصیحت سے کام لینا پڑے گا.میں ملانوں کی طرح تمہیں یہ نہیں کہتا کہ جو عورت پردہ نہیں کرتی تم ڈنڈا اٹھا کر اُس کے سر پر مارو اور اُسے پردہ کرنے پر مجبور کرو.تمہارا کام صرف سمجھانا ہے.جب تم سمجھاؤ گے تو ماننے والی عورتیں اور ماننے والے مرد بھی نکل آئیں گے اور نہ ماننے والی عورتیں اور نہ ماننے والے مرد بھی نکل آئیں گے.تمہارا کام یہ ہونا چاہیے کہ تم ہر ایک کو نصیحت کرتے رہو.اگر کوئی نہیں مانتا تو لوگوں کو بتاتے رہو کہ صحیح اسلامی تعلیم کیا ہے تا کہ کسی کی خرابی کی وجہ سے جماعت پر الزام نہ آئے اور مسئلہ میں خرابی پیدا نہ ہو.اگر ہم انہیں سمجھا ئیں گے نہیں تو ہم خدا کے سامنے مجرم ہوں گے اور وہ ہم سے پوچھے گا کہ تم نے ان لوگوں کو کیوں نہ سمجھایا.اگر ہم ڈنڈا مارنے لگیں اور جبر سے پردہ کروائیں تب بھی ہم خدا کے حضور مجرم ہوں گے کیونکہ اسلام میں جبر جائز نہیں.اور اگر ہم چُپ کر رہتے ہیں اور لوگوں کو بتاتے نہیں کہ فلاں کا طریق اسلامی تعلیم کے خلاف ہے یا انہیں صحیح اسلامی تعلیم سے آگاہ نہیں کرتے تب بھی ہم خدا کے سامنے مجرم ہوں گے اور وہ کہے گا کہ تم نے سلسلہ پر کیوں حرف آنے دیا.تمہارا فرض تھا کہ تم بار بار اسلامی تعلیم کو نمایاں کرتے تا کہ کسی کے فعل کی وجہ سے سلسلہ بدنام نہ ہوتا اور لوگ سمجھتے کہ یہ اس کا ذاتی فعل ہے.اگر تم سمجھاتے رہو تو خواہ وہ شخص تمہاری بات نہ مانے کم از کم دوسرے لوگ تم پر اعتراض نہیں کر سکیں گے اور اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ آہستہ آہستہ آئندہ نسلیں کے مؤقف سے آگاہ ہو جائیں گی اور وہ صحیح مقام پر کھڑی ہونے کے لیے تیار ہو جائیں گی.اگر ہم چپ کر رہیں تو آہستہ آہستہ سلسلہ میں ایسا کھن لگ جائے گا جو اس کی جڑوں کو بالکل کھوکھلا کر دے گا.اگر ہم مارنے لگیں تو اسلام میں ہم ایک ایسی چیز کا دروازہ کھول دیں گے جسے اسلام جائز قرار نہیں دیتا، اگر ہم نصیحت نہیں کریں گے تو لوگ ناواقفیت میں مبتلا رہیں گے.اور جن لوگوں کے اندر اخلاص اور تقوی تو پایا جاتا ہے صرف اُن کو سمجھانے کی ضرورت اسلام -

Page 156

خطبات محمود 146 $1954 ہے.اُن کو بھی ہم تباہی کے گڑھے میں گرا دیں گے.مومن کا طریق ہمیشہ وسطی ہوتا ہے.جب وہ کسی میں غلطی دیکھتا ہے تو اُسے نصیحت کرتا ہے.جب وہ نہیں مانتا تو وہ کہتا ہے میں نے تو اپنا فرض ادا کر دیا ہے.اگر تم نہیں مانتے ان 09 تو تمہاری مرضی.تیسرے وہ لوگوں کو بتاتا رہتا ہے کہ اس قسم کے کمزور اعمال والے لوگ جماعت کے خلاف عمل کر رہے ہیں.یہ تمہیں بتا دیتے ہیں کہ ہمارا مذہب اس کے خلاف ہے.جو شخص ان تین پہلوؤں کو اختیار کرتا ہے وہ وسطی طریق کو اختیار کرتا ہے.جو شخص خاموش رہتا ہے اور لوگوں کو بتاتا نہیں کہ فلاں کا فعل سلسلہ اور اسلام کی تعلیم کے خلاف ہے وہ مذہب کو بدنام کرتا ہے.جو شخص دوسرے پر جبر کرتا ہے وہ اُس کے ایمان کو ضائع کرتا اور اس کے اندر ڈر اور خوف پیدا کرتا ہے.اور جو شخص نصیحت نہیں کرتا وہ ناکردہ گناہ لوگوں کو بھی جہنم میں ڈالتا ہے.یہ تینوں طریق ہیں جو ایک سچے مومن کو اختیار کرنے چاہیں.قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے فَذَكَرُ اِنْ نَفَعَتِ الذكرى 1 لوگوں کو ہمیشہ نصیحت کرتے رہو کیونکہ نصیحت ہمیشہ فائدہ پہنچایا کرتی ہے.اور پھر فرماتا ہے کلَسْتَ عَلَيْهِمْ بِمُصَّيْطِرِ ح نصیحت کے یہ معنے نہیں کہ تم لٹھ لے کر دوسروں کے پیچھے دوڑتے پھرو اور اُن کو جبر سے منوانے کی کوشش کرو.اس کے بعد میں دوستوں کو اس امر کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ میں جو کراچی آیا تھا تو درحقیقت اس غرض کے لیے آیا تھا کہ یہاں علاج کا کوئی پہلو نکل آئے اور کچھ ٹھنڈک کی وجہ سے جسم کو آرام بھی پہنچے کیونکہ عام طور پر سمندر کے کناروں پر موسم نسبتا ٹھنڈا ہوتا ہے مگر اس میں کچھ غلطی ہو گئی کیونکہ ان دنوں یہاں موسم بالعموم گرم ہوتا ہے.چنانچہ یہاں آنے کی کے بعد گرمی بھی پڑی اور ٹوئیں بھی چلیں جس کی وجہ سے اُس قدر افاقہ نہیں ہوا جس قدر ہونا چاہیے تھا اور چونکہ میں علاج کے لیے آیا تھا اس لیے میری نیت یہی تھی کہ میں کم ملاقاتیں کی کروں گا تا کہ طبیعت پر کوئی بوجھ نہ پڑے.اس کے نتیجہ میں لازمی طور پر وہ احباب جنہوں نے اپنے اخلاص میں قریب آنے کی کوشش کی وہ ملاقات سے محروم رہے.اور پھر نمازوں میں بھی میں زیادہ نہیں آسکا کیونکہ ضعف کی وجہ سے سیڑھیوں پر چڑھنا، اُترنا ، گھٹنے برداشت

Page 157

$1954 147 خطبات محمود نہیں کر سکتے.دوسرے میں زیادہ بول بھی نہیں سکتا.چنانچہ جیسا کہ دوستوں کو معلوم ہے ہر خطبہ کے بعد مجھے سردرد ہو جاتا ہے اور پھر نماز میں چونکہ بلند آواز سے تکبیریں کہنی پڑتی ہیں اور بعض نمازوں میں قرآن شریف کا بھی کچھ حصہ پڑھنا پڑتا ہے اور میرے لیے چھوٹی سی چھوٹی آواز نکالنا بھی مشکل ہوتا ہے اس لیے میں نمازوں میں نہیں آتا رہا.لیکن باوجود اس کے کہ جماعت کے دوست بہت دور دور رہتے تھے اور میں بھی نمازوں میں نہیں آ سکتا تھا پھر بھی لوگ اخلاص اور عقیدت کے ساتھ بڑی کثرت کے ساتھ آتے رہے.چونکہ جماعت میں بعض کمزور طبائع بھی ہوتی ہیں اس لیے ہو سکتا ہے کہ ایسے موقع پر وہ یہ خیال کر لیں کہ ہمیں وہاں جانے کی کیا ضرورت ہے جبکہ انہوں نے آنا نہیں.اور اگر آئیں تو بیٹھنا نہیں.ا صورت میں ہمیں اپنا وقت ضائع کرنے کی کیا ضرورت ہے.اس کے مقابلہ میں ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں جو سمجھتے ہیں کہ ہمارا وہاں جانا اپنی ذات میں ایسا فعل ہے جو ثواب کا مستحق بنا دیتا ہے.یہ دونوں قسم کے گروہ ہیں جو عموماً جماعت میں ہوا کرتے ہیں.وہ لوگ جو اُس گروہ کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں جن کا یہ خیال ہے کہ وہاں جانے کا فائدہ کیا جبکہ وہ نمازوں کے لیے نہیں آتے اُن کو میں کچھ کہتا نہیں صرف رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کا ایک واقعہ اُن کو سنا دیتا ہوں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک دفعہ مسجد میں کھڑے تقریر فرما رہے تھے کہ ہجوم زیادہ ނ ہو گیا اور کناروں کے لوگ کھڑے ہو گئے کیونکہ جب کناروں پر لوگ کھڑے ہوں تو اُن ٹکرا کر آواز اکثر اونچی ہو جاتی ہے.اُن دنوں لاؤڈ سپیکر تو ہوتے نہیں تھے کہ دور تک آواز پہنچ سکے.بس یہی طریق تھا کہ تقریر کرنے والے کو اونچی آواز سے بولنا پڑتا تھا.مگر پھر کچھ اور لوگ آ گئے اور وہ اُن کھڑے ہونے والوں کے پیچھے کھڑے ہو گئے.اُن تک رسول کریمی صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز نہیں پہنچتی تھی.کچھ دیر تو وہ کھڑے رہے لیکن آخر مایوس ہو کر اُن میں سے کچھ لوگ واپس چلے گئے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے الہاماً اُن لوگوں کے حالات کی اطلاع دے دی اور آپ نے فرمایا اے لوگو! مجھے خدا تعالیٰ کی طرف سے بتایا گیا ہے کہ کچھ لوگ اس مجلس میں ایسے آئے ہیں جنہیں میری باتیں سننے کا موقع ملا اور انہوں نے میری باتوں سے فائدہ اُٹھایا.جس نیت اور ارادہ کے ساتھ وہ لوگ آئے تھے

Page 158

148 $1954 خطبات محمود اُس نیت اور ارادہ کے مطابق اللہ تعالیٰ نے اُن کے لیے سامان بہم پہنچایا اور وہ خدا تعالیٰ کو رضا کے وارث ہوئے.پھر کچھ لوگ ایسے تھے جو اس مجلس میں تو آئے اُن کے کانوں میں کوئی کی آواز نہ پڑی.اس پر بھی انہوں نے کہا کہ جب ہم نیک نیتی سے آئے ہیں تو چلو خواہ آواز ہمارے کانوں میں پڑے یا نہ پڑے ہم یہیں بیٹھے رہتے ہیں.ان کے متعلق اللہ تعالیٰ نے اپنے فرشتوں سے کہا کہ یہ دین کی باتیں سننے کے لیے آئے تھے.اگر انہیں آواز نہیں پہنچی تو اس میں ان کا کوئی قصور نہیں.اس لیے جو کچھ سننے والوں نے فائدہ اُٹھایا ہے وہی اُن کو فائدہ پہنچا دیا جائے.پھر کچھ لوگ ایسے تھے جنہیں آواز نہ آئی تو وہ اس مجلس سے اٹھ کر چلے گئے.انہوں نے چونکہ میری مجلس سے منہ موڑ لیا اس لیے میں نے بھی اُن کی طرف سے منہ موڑ لیا.تو بیشک بعض دفعہ انسان ایک کام کرتا ہے اور اس کا کوئی فائدہ محسوس نہیں کرتا مگر در حقیقت اسی قسم کی چیزیں ہیں جو انسان کے اندر اخلاقی مضبوطی پیدا کرتی ہیں اور وہ سمجھ ہے کہ جب بظاہر قربانی رائیگاں جا رہی ہو اُس وقت بھی انسان کو قربانیوں کے میدان میں ہمیشہ اپنا قدم آگے بڑھاتے چلے جانا چاہیے.شریعت نے حج کے موقع پر جو قربانی رکھی ہے وہ اتنی کثرت کے ساتھ ہوتی ہے کہ عام لوگ یہاں اُس کا اندازہ بھی نہیں لگا سکتے.یہاں تو ہم عید کے موقع پر بکرے ذبح کرتے ہیں تو کئی دوستوں کی طرف سے شکایتیں آ جاتی ہیں کہ ہمیں بھول گئے.اس کی وجہ یہی ہوتی ہے کہ دوستوں کا حلقہ وسیع ہوتا ہے.میرے ہاں بھی پانچ سات بکرے ذبح ہوتے ہیں اور پھر گائیں بھی ذبح ہوتی ہیں لیکن چونکہ تعلق والے بہت پھیلے ہوئے ہیں اس لیے اگر کسی کے ہاں گوشت نہ پہنچے تو وہ سمجھتا ہے کہ ہمیں مخلص نہیں سمجھا گیا.پس ہم لوگ اُن قربانیوں کا اندازہ نہیں کر سکتے جو حج کے موقع پر کی جاتی ہیں.جو لوگ حج کے بعد واپس آتے ہیں وہ بالکل اور تاثر لے کر آتے ہیں.وہاں بکرے کو ذبح کرنے کے بعد اُس کے گوشت کے سنبھالنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کیونکہ وہاں ہزاروں بکرے ذبح ہو رہے ہوتے ہیں اور آدمی اتنا ہوتا نہیں جو اُن کا گوشت استعمال کر سکے.ایسے موقع پر عموماً بدوی آ جاتے ہیں جو گوشت سکھانے کے لیے اُن بکروں کو گھسیٹ کر لے جاتے ہیں.

Page 159

$1954 149 خطبات محمود و ہمیں چونکہ احساس تھا کہ گوشت کو کسی نہ کسی طرح ضرور تقسیم کرنا چاہیے اس لیے ہم نے بعض لوگوں سے مل کر اس کی تقسیم کا انتظام کر لیا تھا مگر ادھر دنبہ پر چھری پھیری اور اُدھر میں نے دیکھا کہ بدوی اُس دنبہ کو گھسیٹتے چلے جا رہے ہیں اور قہقہے لگا رہے ہیں.اسی وجہ سے جو لوگ یہ نظارہ دیکھ کر آتے ہیں وہ یہ اعتراض کیا کرتے ہیں کہ اسلام نے یہ قربانی بغیر کسی حکمت کے رکھی ہے.کیوں نہ اس روپیہ کے بدلہ میں کالج جاری کیے جائیں اور اس طرح قومی ترقی کے سامان کیسے جائیں.فرض کرو پچاس ہزار بکرا ذبح ہوتا ہے تو اس کے معنے یہ ہیں کہ پانچ لاکھ کا بکرا ذبح ہو جاتا ہے.جو گا ئیں وغیرہ ہوتی ہیں اُن سب کو ملا کر انداز اسات آٹھ لاکھ روپیہ ان قربانیوں پر خرچ ہو جاتا ہے.پس لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ بجائے اس کے کہ یہ روپیہ کی قربانیوں پر ضائع کیا جائے کیوں نہ اس کے بدلہ میں عربوں کی تربیت کا انتظام کیا جائے اور مکہ مکرمہ میں کالج اور سکول وغیرہ جاری کر دیئے جائیں.میں ہمیشہ ان کو یہ جواب دیا کرتا کی ہوں کہ بعض دفعہ قوم پر ایسے اوقات بھی آیا کرتے ہیں جب اسے ایسی قربانیاں کرنی پڑتی ہیں کی جو بظاہر بے فائدہ ہوتی ہیں.اسی کی ٹریننگ کے لیے اسلام نے یہ سلسلہ جاری کیا ہے تا کہ ایسے مواقع پر خواہ انہیں کوئی حکمت نظر آئے یا نہ آئے وہ قربانی کرتے چلے جائیں.بعض دفعہ کسی ملک میں ایک اکیلا شخص ہوتا ہے اور وہاں کی حکومت مذہب کے خلاف کوئی جابرانہ حکم دے دیتی ہے جس سے وہ اسلام کو مٹانا چاہتی ہے.ایسی صورت میں اسلامی تعلیم کے مطابق وہ یہ نہیں کہے گا کہ جب قربانی کا کوئی فائدہ نہیں تو میں اپنے آپ کو کیوں قربان کروں؟ بلکہ وہ فوراً قربانی کے لیے اپنے آپ کو پیش کر دے گا کیونکہ جب تک وہ اپنے آپ کو قربان نہیں کرے گا دوسروں کے دلوں میں قربانی کی تحریک پیدا نہیں ہو گی.وہ اگر پھانسی پر چڑھ جائے گا تو پھر کوئی دوسرا شخص پھانسی کے تختہ پر چڑھنے کے لیے نکل آئے گا وہ دوسرا شخص پھانسی دیا نگا تو تیسرا شخص نکل آئے گا اور اس طرح قدم بقدم تمام قوم میں ایسا جوش پیدا ہو جائے گا کہ وہ اسلام کی حفاظت کے لیے دیوانہ وار کھڑے ہو جائیں گے اور کفر کو شکست کھانے پر مجبور کر دیں گے.جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ مکرمہ میں دعوای فرمایا تو اُس وقت جن

Page 160

$1954 150 خطبات محمود صحابہ نے قربانیاں کیں وہ بظاہر کیسی بے فائدہ اور کیسی بے نتیجہ نظر آتی تھیں مگر پھر انہی قربانیوں کی کے نتیجہ میں مکہ فتح ہوا اور سارا عرب اسلامی جھنڈے کے نیچے آ گیا.جب صحابہ مکہ میں قربانیاں کر رہے تھے اُس وقت کوئی شخص قیاس بھی نہیں کر سکتا تھا کہ ایک دن انہی قربانیوں کے نتیجہ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو عظیم الشان شوکت ملنے والی ہے.اُس وقت جن عورتوں کی شرمگاہوں میں نیزے مار مار کر انہیں مارا جاتا تھا، جن مردوں کو اونٹوں کے ساتھ باندھ کر اُن کو ٹکڑے ٹکڑے کیا جاتا تھا اُن عورتوں اور مردوں کی قربانیوں کو دیکھ کر ہر شخص سمجھتا تھا کہ یہ لوگ بریکار اپنی عمر میں ضائع کر رہے تھے.ایسے ہی لوگوں میں سے ایک عثمان بن مظعون بھی تھے.عرب کا ایک مشہور ترین شاعر لبید ایک مجلس میں اپنے اشعار سنا رہا تھا کہ اُس نے یہ مصرعہ پڑھا اَلَا كُلُّ شَيْءٍ مَا خَلَا اللَّهَ بَاطِلُ ہی ہے.سنو کہ خدا کے سوا ہر چیز تباہ ہونے والی ہے.عثمان بن مظعون نے یہ مصرعہ سنتے بڑے زور سے کہا کہ بالکل ٹھیک ہے.خدا کے سوا واقع میں ہر چیز فنا ہونے والی عثمان بن مظعون اُس وقت چھوٹی عمر کے بچے تھے.جب انہوں نے تعریف کی تو شاعر ناراض ہو گیا اور اُس نے لوگوں سے کہا کہ اس لڑکے نے میری ہتک کی ہے.کیا میں اپنے اشعار میں ایک چھوکرے کی تائید کا محتاج ہوں؟ بعض لوگ اُسے مارنے کے لیے اُٹھے مگر بعض کی اور نے دخل دے کر اس معاملہ کو رفع دفع کرا دیا اور اسے کہہ دیا کہ اب تم نے کچھ نہیں کہنا.اس کے بعد لبید نے اس شعر کا دوسرا مصرعہ پڑھا کہ وَ كُلُّ نَعِيمٍ لَا مَحَالَةَ زَائِلُ یعنی ہر نعمت بہر حال ایک دن ختم ہونے والی ہے.اس پر عثمان بن مظعونؓ سے برداشت نہ ہو سکا اور انہوں نے کہا جنت کی نعمتیں کبھی ختم نہیں ہوں گی.لبید کو سخت غصہ آب اور اُس نے کہا میں اس مجلس میں اب اپنے شعر سنانے کے لیے تیار نہیں.اس پر لوگ کھڑے ہو گئے اور انہوں نے عثمان کو مارنا شروع کر دیا.ایک شخص نے زور سے گھونسا مارا تو وہ عثمان بن مظعون کی آنکھ پر لگا اور ان کا ایک ڈیلا باہر نکل آیا.اُن کے والد کا ایک

Page 161

$1954 151 خطبات محمود دوست بھی اس مجلس میں بیٹھا ہوا تھا اور پہلے وہ اسی کی پناہ میں تھے لیکن جب انہوں نے دیکھا کہ دوسرے مسلمانوں کو ماریں پڑ رہی ہیں اور وہ آرام سے مکہ میں پھرتے ہیں تو انہوں نے اس رئیس سے جا کر کہہ دیا کہ میں تمہاری پناہ میں نہیں رہنا چاہتا.چنانچہ اس نے اعلان کر دیا عثمان اب میری پناہ میں نہیں.اسے یہ جرات تو نہیں ہو سکتی تھی کہ وہ سب لوگوں کے سامنے ان کی مدد کرتا لیکن جب اُن کی آنکھ نکل گئی تو جس طرح کسی غریب آدمی کے بچے کو کوئی امیر آدمی کا بچہ مارے پیٹے تو غریب ماں اپنے بچہ کو ہی مارتی ہے اور اُسی پر غصہ نکالتی ہے.اس طرح وہ اُن مارنے والوں پر تو غصہ نہیں نکال سکتا تھا اُس نے عثمان پر ہی غصہ نکالا اور کہا کیا میں نے تجھے نہیں کہا تھا کہ تو میری پناہ سے نہ نکل؟ اب دیکھا تو نے کہ اس کا کیا نتیجہ نکلا !! حضرت عثمان بن مظعونؓ نے جواب دیا کہ چا! تم تو مجھ پر اس لیے خفا ہو رہے ہو کہ میری ایک آنکھ کیوں نکلی.خدا کی قسم! میری تو دوسری آنکھ بھی خدا تعالیٰ کی راہ میں نکلنے کے لیے تڑپ رہی ہے.3 اب کیا کوئی عقلمند اُس وقت قیاس کر سکتا تھا کہ اُن کی ایک آنکھ کا نکلنا دین کو کوئی فائدہ پہنچا سکتا ہے.واقعہ یہی ہے کہ اُس وقت یہ تمام قربانیاں بالکل بیکار نظر آتی تھیں لیکن اگر عثمان بن مظعون کی ایک آنکھ خدا تعالیٰ کے راستے میں نہ نکلتی ، اگر عثمان بن مظعون کی دوسری آنکھ خدا تعالیٰ کی راہ میں نکلنے کے لیے تڑپ نہ رہی ہوتی ، اگر عورتوں کی شرمگاہوں میں نیزے نہ مارے جاتے، اگر مکہ کے ابتدائی دور میں صحابہؓ اپنی جانیں قربان نہ کرتے تو مسلمان وہ قربانیاں کبھی پیش نہ کر سکتے جو انہوں نے بدر اور اُحد کے موقع پر پیش کیں، وہ قربانیاں کبھی پیش نہ کر سکتے جو انہوں نے احزاب کے موقع پر پیش کیں.یہی بے مصرف قربانیاں تھیں کی جنہوں نے اُن کے اندر جوش پیدا کیا، اُن کے اندر اخلاص پیدا کیا اور انہیں قربانی کے نہایت اعلیٰ مقام پر لا کر کھڑا کر دیا.تو وہ دوست جو مجھے ملنے کے لیے آتے رہے لیکن میں اُن سے مل نہیں سکا.میں ہوتا انہیں بتانا چاہتا ہوں کہ میں اس بارہ میں اپنی تکلیف کی وجہ سے معذور تھا.مجھے دکھ بھی ہے کہ وہ آتے ہیں اور میں مجلس میں بیٹھ نہیں سکتا.لیکن میں سمجھتا ہوں اُن کی یہی قربانی انہیں

Page 162

$1954 152 خطبات محمود آئندہ بڑی قربانیوں کے لیے تیار کر دے گی اور ان کے اندر ایک نیا عزم اور نئی ہمت پیدا دے گی.بہرحال یہاں کی جماعت اپنی جدو جہد اور قربانی کے لحاظ سے بڑی اہمیت رکھتی ہے.کچھ اس میں اس بات کا بھی دخل ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے بعض خاندانوں کو دین کی خدمت کا خاص موقع عطا فرما دیتا ہے اور ان کی وجہ سے جماعت ترقی کر جاتی ہے.سترہ اٹھارہ سال کی بات ہے میں نے رویا میں دیکھا کہ میں اپنے دفتر میں بیٹھا ہوں اور میرے سامنے چودھری ظفر اللہ خاں صاحب لیٹے ہوئے ہیں اور گیارہ بارہ سال کی عمر کے معلوم ہوتے ہیں.اُن کے دائیں بائیں چودھری عبداللہ خاں صاحب اور چودھری اسد اللہ خاں صاحب بیٹھے ہیں اور ان کی عمریں بھی آٹھ آٹھ ، نو نو سال کے بچوں کی سی معلوم ہوتی ہیں.تینوں کے منہ میری طرف ہیں اور تینوں مجھ سے باتیں کر رہے ہیں اور بڑی محبت سے میری باتیں سن رہے ہیں.اُس وقت یوں معلوم ہوتا ہے کہ یہ تینوں میرے بیٹے ہیں اور جس طرح فراغت کے وقت ماں باپ اپنے بچوں سے باتیں کرتے ہیں اسی طرح میں ان سے باتیں کر رہا ہوں.جس وقت میں نے یہ رویا دیکھا اُس وقت ان کے بھائی چودھری شکر اللہ خاں صاحب بھی زندہ تھے مگر رویا میں میں نے اُن کو نہیں دیکھا، صرف ان تینوں بھائیوں کو دیکھا.چنانچہ اس رؤیا کے بعد اللہ تعالیٰ نے چودھری ظفر اللہ خاں صاحب کو جماعت کا کام کرنے کا بڑا موقع دیا اور لاہور کی جماعت نے ان کی وجہ سے خوب ترقی کی.اس کے بعد چودھری عبداللہ خاں صاحب کو اللہ تعالیٰ نے کراچی میں کام کرنے کی توفیق دی اور چودھری اسد اللہ خاں صاحب آجکل لاہور کی جماعت کے امیر ہیں.لیکن بہر حال جماعت کے اندر بھی کوئی خوبی ہوتی ہے.جب اسے اچھا کام کرنے والا امیر مل جاتا ہے، جب اللہ تعالیٰ کا فضل شامل حال ہوتا ہے تو اچھے آدمی کو اچھی جماعت مل جاتی ہے اور اچھی جماعت کو اچھا امیر مل جاتا ہے اور جب خرابی پیدا ہو جائے تو بعض جگہ بُرا امیر مل جاتا ہے اور بعض دفعہ اچھے امیر کو بُری جماعت مل جاتی ہے جو اُس کے حوصلوں کو پست کر دیتی ہے.بہر حال یہ جماعت ایک رنگ میں مرکزی جماعت ہونے کی وجہ سے بہت اہم ہے اور اس وجہ سے اسے اپنی ذمہ داریوں کو سمجھنے کی کوشش کرنی چاہیے اور ان شبہات کو دور کرنے کی کوشش

Page 163

خطبات محمود 153 $1954 کرنی چاہیے جو ہمارے متعلق لوگوں کے قلوب میں پائے جاتے ہیں.مجھے یاد ہے ایک دفعہ ایک دوست نے سنایا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی زندگی میں فیروز پور کے ایک مولوی صاحب نے کسی گاؤں میں تقریر کی اور اس میں کہا دیکھو! میں تمہیں بتاتا ہوں کہ مرزا صاحب محض دھوکا دیتے ہیں.جب وہ کہتے ہیں کہ ہم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مانتے ہیں تو اس سے مراد محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نہیں ہوتے بلکہ مرزا صاحب ہوتے ہیں اور جب وہ کہتے ہیں کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خاتم النبیین ہیں تو اس سے مراد بھی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نہیں ہوتے بلکہ یہ مراد ہوتی ہے کہ نَعُوذُ بِاللهِ) مرزا صاحب خاتم النبین ہیں اور جب وہ کہتے ہیں کہ خدا ایک ہے تو اس کی سے بھی خدا مراد نہیں ہوتا بلکہ ( نَعُوذُ بِاللهِ ) مرزا صاحب مراد ہوتے ہیں اور وہ انہیں خدا کہتے ہیں.پھر کہنے لگا میں تمہیں ایک واقعہ سناؤں.میں قادیان گیا.میرے ساتھ ایک اور مولوی بھی تھا.ہمیں مہمان خانہ میں ٹھہرایا گیا.میں جانتا تھا کہ مرزا صاحب کھانے پر جادو کر کے کھلاتے ہیں جس سے وہ اُن کے دعووں کو ماننے لگ جاتا ہے.چنانچہ کھانا آیا تو میں نے نہ کھایا لیکن میرے ساتھی نے کھا لیا.صبح کی نماز کے بعد ناشتہ آیا جس میں حلوا رکھا ہوا تھا.میں نے اپنے ساتھی کو سمجھایا کہ یہ حلوا نہیں کھانا مگر اُس نے میری بات نہ مانی اور حلوا کھا لیا.حلوا کھاتے ہی وہ کھڑا ہو گیا اور کہنے لگا بس میرا دل صاف ہو گیا ہے.مرزا صاحب جو کچھ کہتے ہیں بالکل درست درست ہے.اس کے بعد شکرم 4 آئی جس میں مرزا صاحب اور مولوی نورالدین صاحب دونوں بیٹھ گئے اور ہمیں بھی اُس میں بٹھا لیا.حلوا مولوی نورالدین صاحب پکایا کرتے تھے اور وہی جادو پھونک کر لوگوں کو کھلایا کرتے تھے.جب سیر کرتے کرتے : قادیان سے باہر نکلے تو مرزا صاحب نے کہا اصل بات یہ ہے کہ خدا نے مجھے محمد بنا دیا ہے.میرا دوسرا ساتھی کہنے لگا حضرت بالکل ٹھیک ہے لیکن میں چپ کر کے بیٹھا رہا.پھر تھوڑی دیر کے بعد کہنے لگے ختم نبوت کا مسئلہ بالکل درست ہے.لیکن اصل بات یہ ہے کہ لوگوں کو دھوکا لگ گیا ہے.انہوں نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خاتم النبین کہنا شروع کر دیا ہے حالانکہ اصل میں میں خاتم النبیین ہوں.میرے ساتھی نے پھر اس کی تصدیق کر دی لیکن میں

Page 164

خطبات محمود 154 $1954 خاموش بیٹھا رہا.آخر میں مرزا صاحب کہنے لگے کہ یہ تو درست ہے کہ خدا ایک ہے لیا لیکن اصل بات یہ ہے کہ خدا سے مراد بھی میرا ہی وجود ہے.بس انہوں نے یہ بات کہی تو میں کی نے فورا کہا کہ لَا حَوْلَ وَلَاقُوَّةَ إِلَّا بِاللهِ ، یہ بالکل جھوٹ ہے.اس پر مرزا صاحب نے مولوی نورالدین صاحب کی طرف دیکھا اور کہنے لگے کیا ان کو حلوا نہیں کھلایا تھا ؟ مولوی صاحب گھبرا گئے اور انہوں نے کہا میں نے تو بھجوایا تھا.معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے کھایا نہیں.جب وہ یہ تقریر کر رہا تھا تو اتفاقاً فیروز پور کا ایک غیر احمدی وکیل جو بیمار ہو کر علاج کے لیے کچھ عرصہ قادیان رہ چکا تھا جوش سے کھڑا ہو گیا اور کہنے لگا تجھے جھوٹ بولتے حیا نہیں آتی؟ میں خود قادیان میں رہ چکا ہوں.جتنی باتیں تو نے بیان کی ہیں وہ سب کی سب جھوٹ اور افترا ہیں.اس پر وہ شرمندہ اور لاجواب ہو گیا.اس سے معلوم ہو سکتا ہے کہ ہمارے متعلق لوگوں کے دلوں میں کس قسم کی غلط فہمیاں یائی جاتی ہیں.ان غلط فہمیوں کو دور کرنے کے لیے ضروری ہے کہ تم اپنے رشتہ داروں کے پاس کی جاؤ اور اُن کے شبہات کا ازالہ کرو.کبھی اپنے بھائی کے پاس جاؤ، کبھی بہن کے پاس جاؤ، کبھی ساس کے پاس جاؤ، کبھی خسر کے پاس جاؤ کبھی سالے کے پاس جاؤ کبھی ہمسائے کے پاس جاؤ، کبھی ہمسائے کے ہمسائے کے پاس جاؤ اور اُن کو بتاؤ کہ احمدیت اسلام سے کوئی الگ چیز نہیں.اگر تم ایسا کرو گے تو اللہ تعالیٰ تمہارے عزیزوں کے دل بھی ایک دن کھول دے گا اور انہیں کھینچ کر (الفضل 7 اپریل 1960ء) صداقت کی طرف لے آئے گا“.1 : الاعلى : 10 2 : الغاشية: 23 3 : سیرت ابن ہشام جلد2 صفحہ 10،9 ـ قصة عثمان بـن مـظـعـون فـي رد الجوار 4 الوليد_مطبوعہ مصر 1936ء م بگھی کی وضع کی بند گاڑی جس میں بیل اور بعض جگہ گھوڑے بھی جوتے جاتے ہیں اور اس میں دو پہیے اور بعض میں چار پیسے ہوتے ہیں.یہ بند گاڑی پالکی کی شکل کی ہوتی ہے( اردو لغت تاریخی اصول پر جلد 12 صفحہ 646 کراچی 1991ء)

Page 165

$1954 155 15 خطبات محمود اسلام کے نزدیک کوئی دن بھی منحوس نہیں سارے کے سارے دن ہی بابرکت اور اللہ تعالیٰ کی صفات کے مظہر ہیں.(فرمودہ 2 جولائی 1954 ء بمقام کراچی ) تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: ”ہمارا اس سفر کا یہ آخری جمعہ ہے.ہمارا ارادہ ہے کہ اِنْشَاءَ اللهُ تَعَالَی اِسی ہفتے کے اندر منگل کے بعد جو رات آتی ہے اور دس بجے شب کے قریب یہاں سے گاڑی چلتی.اُس میں ہم ناصر آباد جائیں.اس ذکر کے ساتھ ہی ایک اور بات کے اظہار کا بھی مجھے خیال آگیا اور وہ یہ کہ راستہ میں موٹر میں یہی بات ہوئی تو کراچی کے وہ مقامی دوست جو ہمارے ساتھ سوار تھے انہوں نے کہا کہ آپ منگل کو سفر کر رہے ہیں اور گو انہوں نے لفظ تو نہیں بولے مگر اُن کا مطلب یہی تھا کہ منگل کو سفر کرنا اچھا نہیں ہوتا.میں نے کہا اول تو یہ بات غلط ہے کہ ہم منگل کو سفر کر رہے ہیں.انگریزی رواج کے مطابق بیشک رات کے بارہ بجے ނ دوسری رات کے بارہ بجے تک دن چلتا ہے لیکن اسلامی دن ایک شام سے دوسری شام تک ختم

Page 166

$1954 156 خطبات محمود ہو جاتا ہے کیونکہ اس کا چاند پر انحصار ہوتا ہے اور چاند دوسرے دن شام کو نیا نکلتا ہے.اس ، لیے گو ہم منگل کے بعد کی رات کو جا رہے ہیں لیکن ہم منگل کو نہیں بلکہ بدھ کو جا رہے ہیں.پھر میں نے کہا کہ یہ وہم کر لینا کہ فلاں دن منحوس ہے اور فلاں دن غیر منحوس ، یہ تو بڑی خرابی پیدا کرنے والا ہے.اس پر انہوں نے کہا کہ آپ ہی نے تو کسی تقریر میں کہا تھا کہ منگل کے دن کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو شاید کوئی الہام ہوا تھا یا کوئی اور وجہ تھی کہ آپ اسے ناپسند فرمایا کرتے تھے.میں نے کہا میں نے تو صرف ایک روایت کی تشریح کی تھی.یہ تو نہیں کہا تھا کہ منگل کا دن منحوس چونکہ حضرت مسیح موعود ہے.علیہ الصلوۃ والسلام کی طرف ایک ایسی روایت منسوب کی جاتی ہے اس لیے میں نے بتایا تھا کہ اگر اس روایت کو درست تسلیم کیا جائے تو شاید منگل کے دن سے آپ کو اس لیے تخویف کرائی گئی ہو کہ آپ کی وفات منگل کے دن ہونے والی تھی.مگر بعض لوگوں نے اس مخصوص بات کو جو محض آپ کی ذات کے ساتھ وابستہ تھی وسیع کر کے اسے ایک قانون بنالیا اور منگل کی نحوست کے قائل ہو گئے حالانکہ جو چیز خدا تعالیٰ کی طرف سے ہو اُس کو منحوس قرار دینا یہ بڑی بھاری نادانی ہوتی ہے.اگر منگل کا دن منحوس ہوتا تو خدا تعالیٰ کو بتانا چاہیے تھا کہ اور تو سب دنوں میں میری صفات کام کرتی ہیں لیکن منگل کا دن چونکہ منحوس ہے اس لیے اس میں میری صفات کام نہیں کرتیں.اور اگر خدا تعالیٰ نے کسی دن کی نحوست محسوس نہیں کی تو ہم یہ کریں، یہ ایسی باتیں ہیں جن سے وہم بڑھتا ہے اور زندہ قوموں کے افراد کا فرض ہوتا ہے کہ وہ اس قسم کے وہموں میں مبتلا ہونے سے اپنے آپ کو بچائیں.ان وہموں کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ جس کسی کو کوئی خاص نقصان کسی دن میں پہنچ جاتا ہے وہ اُسی دن کو منحوس قرار دینے لگ جاتا ہے.فرض کرو کسی کو پیر کے دن کوئی شدید نقصان پہنچا ہے تو وہ کہنا شروع کر دے گا کہ میرا تجربہ یہ ہے کہ پیر کا دن منحوس ہوتا ہے.کسی کو ہفتہ کے دن کوئی حادثہ پیش آیا تو وہ کہنا شروع کر دے گا کہ ہفتہ کا ن منحوس ہوتا ہے.مثلاً کوئی حکومت ہفتہ کے دن شکست کھا جاتی ہے تو اُس کے افراد کے ہنوں پر یہ بات غالب آ جائے گی کہ ہفتہ کا دن منحوس ہوتا ہے اور وہ ایک دوسرے.

Page 167

$1954 157 خطبات محمود کہیں گے کہ دیکھتے نہیں! ہم پر ہفتہ کے دن کیسی تباہی آئی تھی !! اسی طرح ہو سکتا ہے کہ کسی کو جمعرات کے دن کوئی حادثہ پیش آ جائے تو وہ جمعرات کو اور کسی کو جمعہ کے دن کوئی حادثہ پیش آجائے تو وہ جمعہ کو منحوس کہنے لگ جائے.نتیجہ یہ ہوگا کہ سارے لوگ ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھے رہیں گے اور کہیں گے کہ ہم کیا کریں گے ہمارا تو نحوست پیچھا نہیں چھوڑتی اور دوسری قومیں ترقی کر جائیں گی.اگر کوئی کہے کہ دنوں میں اگر کوئی خاص برکت نہیں ہوتی تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ کیوں فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے میری قوم کے لیے جمعرات کے سفر میں برکت رکھی ہے.1 تو اس کے متعلق یاد رکھنا چاہیے کہ وہاں ایک وجہ موجود ہے اور وہ یہ کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا منشا یہ تھا کہ جمعہ کے دن تمام لوگ شہر میں رہیں اور اکٹھے ہو کر نماز ادا کریں تا کہ جب لوگ اکٹھے ہوں تو وہ ایک دوسرے کی مشکلات کا علم حاصل کریں، اہم امور میں ایک دوسرے سے مشورہ لیں ، اپنی ترقی کی تدابیر سوچیں اور یہ چیزیں اتنی اہم ہیں کہ اِن کو ترک کر کے کسی کا سفر پر چلے جانا کسی صورت میں بھی درست نہیں ہوسکتا.پس رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر تم کہیں سفر پر جانا چاہو تو جمعرات کو جاؤ تا کہ جمعہ کسی شہر میں ادا کر سکو.اور یہ چیز ایسی ہے جس سے کوئی وہم پیدا نہیں ہوتا.محض جمعہ کی اہمیت کو مدنظر رکھتے ہوئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہدایت دی ہے کہ اگر چھوٹا سفر ہے تو جمعرات کو کر لیا کرو اور اگر لمبا سفر ہے تو جمعہ کی نماز پڑھ کر کسی اور دن چلے جاؤ.پس اس حدیث میں کسی دن کی برکت پر زور نہیں دیا گیا بلکہ جمعہ کی نماز پر زور دیا گیا ہے.اور اس میں کیا شبہ ہے کہ جمعہ کی نماز میں سارے شہر کا اکٹھا ہونا ضروری ہوتا ہے چاہے وہ دس لاکھ کا شہر ہو یا ہیں لاکھ کا شہر ہو یا تمیں لاکھ کا شہر ہو.اگر کوئی ایسا شہر ہے جس کے افراد ایک مقام پر اکٹھے نہیں ہو سکتے تو اسے مختلف حصوں میں بھی تقسیم کیا جا سکتا ہے.لیکن مسئلہ یہی ہو گا کہ ہر حلقہ کے تمام لوگ اپنے اپنے حلقہ میں نماز جمعہ کے لیے اکٹھے ہوں.اور اس میں بہت سے دینی اور دنیوی فوائد ہیں.جب لوگ اکٹھے ہوں گے تو لازماً وہ ایک دوسرے کی مشکلات کا علم حاصل کریں گے، ایک دوسرے سے مشورے کریں گے، ایک دوسرے کی ترقی کی

Page 168

$1954 158 خطبات محمود تدابیر کریں گے، اپنی تنظیم کو زیادہ مؤثر بنائیں گے، اپنی اخلاقی اصلاح کے لیے سکیمیں سوچیں گے، غرباء کی ترقی کے لیے پروگرام تجویز کریں گے.غرض وہ قومی ترقی کے لیے اس اجتماع سے بہت کچھ فائدہ اُٹھا سکتے ہیں.گو افسوس ہے کہ آجکل مسلمانوں میں جمعہ کے اجتماع - اس رنگ میں فائدہ نہیں اُٹھایا جاتا.اپنے اندر ہی دیکھ لو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جب خطبہ ہو رہا ہو تو امام کی طرف منہ کر کے بیٹھو اور اُس کی باتوں کو توجہ سے سنو 2 مگر بعض لوگ اس وقت امام کی طرف پیٹھ کر کے بیٹھے ہیں اور پھر ذرا کوئی آہٹ آ جائے یا چوہے کے ملنے سے ہی کھٹکا ہو جائے تو سب اُس کی طرف متوجہ ہو جاتے ہیں تا کہ چوہے کے ملنے سے جو کھٹکا ہوا ہے اُس کی برکت سے وہ محروم نہ رہیں.گویا جمعہ کی جو غرض ہے کہ خطیب کی بات کو توجہ سے سنا جائے اور اُس سے فائدہ اُٹھایا جائے اُس سے بہت کم لوگ حصہ لیتے ہیں.یہاں تک کہ ہماری جماعت میں بھی یہ کمزوری پائی جاتی ہے اور کئی دفعہ انہیں ٹوکنا پڑتا ہے.باقی رہی وہ روایت جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی طرف منسوب کی جاتی ہے اگر وہ درست ہے تو اس نحوست سے مراد صرف یہ نحوست تھی کہ آپ کی وفات منگل کے دن ہونے والی تھی ورنہ جب خدا تعالیٰ نے خود تمام دنوں کو بابرکت کیا ہے اور تمام دنوں میں اپنی صفات کا اظہار کیا ہے تو اس کی موجودگی میں اگر کوئی روایت اس کے خلاف ہمارے سامنے آئے گی تو ہم کہیں گے کہ روایت بیان کرنے والے کو غلطی لگی ہے.ہم ایسی روایت کو تسلیم نہیں کر سکتے.اور یا پھر ہم یہ کہیں گے کہ ہر انسان کو بشریت کی وجہ سے بعض دفعہ کسی بات میں وہم ہو جاتا ہے.ممکن ہے کہ ایسا ہی کوئی وہم منگل کی کسی دہشت کی وجہ سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو بھی ہو گیا ہو مگر ہم یہ نہیں کہیں گے کہ یہ دن منحوس ہے.ہم اس روایت میں یا تو راوی کو جھوٹا کہیں گے اور یا پھر یہ کہیں گے کہ شاید بشریت کے تقاضا کے ماتحت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو اس بارہ میں کوئی وہم ہو گیا ہو ورنہ مسئلہ کے طور پر یہی حقیقت ہے اور یہی بات اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں بیان فرمائی ہے کہ سارے کے سارے دن بابرکت ہوتے ہیں مگر مسلمانوں نے اپنی بدقسمتی سے ایک ایک کر کے دنوں ہے.

Page 169

$1954 159 خطبات محمود کو منحوس کہنا شروع کر دیا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ کامل طور پر نحوست اور ادبار کے نیچے آ گئے.ان کی مثال بالکل اُس پٹھان کی طرح ہے جس کے متعلق کہتے ہیں کہ وہ محنت مزدوری کرنے پنجاب میں آیا تو اُس نے خیال کیا کہ روٹی تو مہنگی ملے گی ، چلو خربوزے خرید لیں.ایک زمانہ میں خربوزے بڑے سستے ہوا کرتے تھے.میں نے خود پیسے پیسے، دودو پیسے ونی (یعنی دوسیر ) خربوزے پکتے دیکھے ہیں.اس نے چار پانچ سیر خربوزے خرید لیے.مگر گجا افغانستان کا سردہ جو نہایت میٹھا اور لذیذ ہوتا ہے اور گجا پنجاب کا خربوزہ جو ایک پھپھی سی غذا ہوتی ہے.اُس نے ایک خربوزہ کھایا تو وہ نہایت پھیکا اور بدمزا تھا.اُسے غصہ آیا.اُس نے سب خربوزوں کو پھینک کر اُن پر پیشاب کر دیا.دو چار گھنٹے اُس نے کدال چلائی.پسینہ نکلا اور بھوک لگی تو سوچنے لگا کہ اب کیا کروں؟ میں نے تو سب خربوزوں پر پیشاب کر دیا ہے.میں اب کیسے کھاؤں؟ مگر جب بھوک نے زیادہ بے تاب کر دیا تو وہ خربوزوں کے پاس آیا اور ایک خربوزہ اُٹھا کر اور اُسے اِدھر اُدھر سے دیکھ کر کہنے لگا کہ اس پر تو پیشاب نہیں پڑا اور اُسے کھا گیا.پھر دوبارہ کام شروع کیا تو تھوڑی دیر کے بعد پھر بھوک لگی.اس پر وہ پھر آیا اور ایک دو خربوزے اُٹھا کر کہنے لگا کہ ان پر تو پیشاب نہیں پڑا تھا.اس طرح آہستہ آہستہ سوائے ایک خربوزے کے باقی سب خربوزے اُس نے کھا لیے.مگر کچھ دیر کے بعد پھر بھوک نے ستایا.آخر وہ پھر اُس خربوزہ کے پاس آیا اور سوچ سوچ کر کہنے لگا کہ میں بھی کتنا احمق ہوں جن خربوزوں پر پیشاب پڑا تھا اُن کو تو میں نے پہلے کھا لیا اور جس پر پیشاب نہیں پڑا تھا وہ ابھی باقی ہے اور یہ کہتے ہی اُس نے یہ خربوزہ بھی کھا لیا.یہی لوگوں کی حالت ہے.مگر اُس نے تو پھر بھی اپنے وہم سے فائدہ اُٹھایا اور خربوزے کھا کر اپنی بھوک دور کر لی مگر مسلمان اپنے وہم سے ہمیشہ نقصان اٹھاتے ہیں.کہتے ہیں ہفتہ پر بھی پیشاب پڑا ہوا ہے، اتوار پر بھی پیشاب پڑا ہوا ہے، پیر پر بھی پیشاب پڑا ہوا ہے، منگل پر بھی پیشاب پڑا ہوا ہے، بدھ پر بھی پیشاب پڑا ہوا ہے، جمعرات پر بھی پیشاب پڑا ہے، جمعہ پر بھی پیشاب پڑا ہوا ہے اور پھر چادر اوڑھ کر سو گئے.اب ساری اقتصادیات میں ترقی کر رہی ہے، سیاسیات میں ترقی کر رہی ہے، اخلاقیات میں ترقی ہوا دنیا

Page 170

$1954 160 خطبات محمود کر رہی ہے، سائنس میں ترقی کر رہی ہے، علوم و فنون میں ترقی کر رہی ہے، ایجادات میں ترقی کر رہی ہے.اور مسلمان بڑے آرام سے سو رہا ہے اور کہتا ہے ہفتہ میں بھی نحوست ہے، اتوار میں بھی نحوست ہے، پیر میں بھی نحوست ہے، منگل میں بھی نحوست ہے، بدھ میں بھی نحوست ہے،جمعرات میں بھی نحوست ہے، جمعہ میں بھی نحوست ہے،.اگر اسی طرح سب قومیں وہم میں مبتلا ہو جائیں تو دنیا برباد ہو جائے.ہمارے لیے خضر راہ صرف خدا تعالیٰ کی صفات ہیں اور ہم جانتے ہیں کہ کوئی دن نہیں جس میں خدا تعالیٰ کی صفات ظاہر نہ ہو رہی ہوں.اور جب ہر دن میں خدا تعالیٰ کے انوار کا جلوہ ہے تو وہ چیز منحوس کس طرح ہوئی.خدا تعالیٰ کی صفات کا ظہور ایسا ہی ہوتا ہے جیسے بجلی کی رو جاری ہو جاتی ہے.اگر بے جان چیزوں میں بھی بجلی کی رو نظر آنے لگتی ہے تو یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ سات دنوں میں خدائی صفات کا ظہور ہو اور ہماری آنکھیں اُس ظہور کو نہ دیکھو سکیں.جب خدا تعالیٰ کی صفات ہفتہ میں چلتی ہیں تو ہم ہفتہ کے دن بھی خدا تعالیٰ کو دیکھ سکتے ہیں.اور جب خدا تعالیٰ کی صفات اتوار میں چلتی ہیں تو ہم اتوار کے دن بھی خدا تعالیٰ کو دیکھ سکتے ہیں.اور جب خدا تعالیٰ کی صفات پیر میں چلتی ہیں تو ہم پیر کے دن بھی خدا تعالیٰ کو دیکھ سکتے ہیں.اور جب خدا تعالیٰ کی صفات منگل میں چلتی ہیں تو ہم منگل کے دن بھی خدا تعالیٰ کو دیکھ سکتے ہیں.اور جب خدا تعالیٰ کی صفات بدھ میں چلتی ہیں تو ہم بدھ کے دن بھی خدا تعالیٰ کو دیکھ سکتے ہیں.اور جب خدا تعالیٰ کی صفات جمعرات میں چلتی ہیں تو ہم جمعرات کے دن بھی خدا تعالیٰ کو دیکھ سکتے ہیں.اور جب خدا تعالیٰ کی صفات جمعہ میں چلتی ہیں تو ہم جمعہ کے دن بھی خدا تعالیٰ کو دیکھ سکتے ہیں.اور یہی غرض انسان کی پیدائش کی ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کو دیکھے اور اُس کا قرب حاصل کرے.اور جب خدا انسان کو ہر وقت مل سکتا ہے، ہر گھڑی ملی سکتا ہے تو کوئی دن منحوس کس طرح ہوا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا ہی پُر حکمت ارشاد فرمایا ہے کہ لَا تَسُبُّوا الدَّهْرَ فَإِنَّ اللَّهَ هُوَ الدَّهْرُ 4 زمانہ کو گالی نہ دو کیونکہ خدا ہی زمانہ ہے.اس کے یہ معنے نہیں کہ ٹائم اور خدا ایک ہی چیز ہے بلکہ اس کے معنے یہ ہیں کہ کوئی ٹائم ایسا نہیں جس میں خدا اپنی صفات

Page 171

$1954 161 خطبات محمود ظاہر نہیں کرتا.اور جب وہ ظاہر کرتا ہے تو تمہارا کیا حق ہے کہ تم یہ کہو کہ زمانہ بُرا ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اس حدیث سے صاف پتا لگتا ہے کہ کسی دن کو بُرا کہنا ی در حقیقت خدا تعالیٰ کو بُرا کہنا ہے.جو شخص یہ کہتا ہے کہ فلاں دن بُرا ہے وہ دوسرے الفاظ میں اس امر کا اظہار کرتا ہے کہ نَعُوذُ بِاللهِ خدا بُرا ہے کیونکہ وہ دن خدا نے بنایا ہے کسی اور نے نہیں بنایا.اگر ایک سیر دودھ میں کچھ چھینٹے پیشاب کے پڑے ہوئے ہوں تو تم یہ نہیں کہہ سکتے کہ اب وہ دودھ پینے کے قابل ہے.تمہیں بہر حال سارے دودھ کو گندا کہنا پڑے گا.اس کی طرح جو شخص یہ کہتا ہے کہ خدا تعالیٰ کی کچھ صفات ایسے دن میں ظاہر ہوئیں جو منحوس تھا تو دوسرے الفاظ میں وہ اس امر کا اظہار کرتا ہے کہ نَعُوذُ بِاللهِ خدا تعالیٰ کی تمام صفات منحوس ہیں.اور ایسا کہنا بدترین کفر ہے.کوئی دہر یہ بھی ایسی بات نہیں کہہ سکتا.حقیقت یہ ہے کہ کام کی رغبت پیدا کرنے اور قوم کی ہمت بڑھانے کے لیے ضروری ہے کہ ہم اپنا اچھے سے اچھا نمونہ لوگوں کے سامنے پیش کریں.اور بجائے یہ کہنے کے کہ زمانہ بُرا ہے اُن کو اس امر کی طرف توجہ دلائیں کہ زمانہ ترقی کی طرف دوڑتا چلا جا رہا ہے تم بھی آگے بڑھو اور اس دوڑ میں شامل ہو کر دوسروں سے آگے نکلنے کی کوشش کرو.مگر آجکل لوگ بات شروع کرتے ہی کہنے لگ جاتے ہیں کہ کیا بتائیں زمانہ بہت بُرا ہے.تم لائبریریوں میں آج سے پانچ سو سال پہلے کی لکھی ہوئی کتابیں نکال کر پڑھو تو اُن میں بھی یہی لکھا ہو گا کہ آجکل کا زمانہ بہت بُرا ہے.آج سے تیرہ سو سال پہلے کی کتابیں نکال کر دیکھو تو اُن میں بھی یہی لکھا ہوگا کہ یہ زمانہ بہت بُرا ہے.یہودیوں کی کتابیں نکال کر دیکھ لو تو اُن میں بھی یہی لکھائی ہوگا کہ یہ زمانہ بہت بُرا ہے.اس میں مسیح جیسے گندے لوگ پیدا ہو گئے ہیں.عیسائیوں کی کتابیں پڑھ لو تو ان میں بھی یہی لکھا ہوگا کہ یہ زمانہ بہت بُرا ہے.اس میں ہر قسم کے گندے لوگ پیدا ہو گئے ہیں.غرض زمانہ کو بُرا کہنے والے آج ہی نہیں ہر زمانہ میں پائے جاتے رہے ہیں.مگر اچھا کہنے والے بھی ہمیں ہر زمانہ میں نظر آتے ہیں.در حقیقت ہر شخص کی اپنی اپنی ذہنیت ہوتی ہے.کسی وقت اُسے ایک چیز اچھی نظر آتی ہے اور کسی وقت وہی چیز اُسے بُری نظر آنے لگتی ہے.میاں بیوی کو دیکھ لو صبح وہ پیار کر رہے ہوتے ہیں اور شام کو کسی بات پر رنجش

Page 172

$1954 162 خطبات محمود پیدا ہوتی ہے تو میاں کہتا ہے کہ نا معلوم وہ کونسا منحوس دن تھا جس دن میری شادی ہوئی.دوسرے دن خوش ہوتا ہے تو اپنی بیوی سے کہتا ہے کہ تم سے ہی تو میرے گھر کی رونق ہے.تم تو میرے دل کا چین اور سرور ہو.قمیص پہنتے وقت ذرا گہنی پھنس جائے تو انسان گالیاں دینے لگ جاتا ہے کہ یہ کمبخت کیسی گندی قمیص ہے ذرا بھی اچھی سلائی نہیں ہوئی.مگر پھر اُسی قمیص کو کوئی پھاڑنے لگے تو برداشت نہیں ہو سکتا.انسان لڑنے لگ جاتا ہے اور کہتا ہے کہ یہ تو بڑی اعلیٰ درجہ کی قمیص ہے.جوتا چھنے لگے تو انسان اُسے گالیاں دینے لگ جاتا ہے.ٹھیک ہے جائے تو کہتا ہے یہ تو پاؤں میں خوب فٹ آتا ہے.غرض خوبیاں دیکھنے والے کو خوبیاں نظر آتی ہیں اور بُرائی دیکھنے والی آنکھ کو ہمیشہ بُرائی نظر آتی ہے.ہو حضرت عیسی علیہ السلام ایک دفعہ بازار سے گزر رہے تھے کہ راستہ میں ایک گتے کی لاش نظر آئی.حواریوں نے ناک پر اپنے رومال رکھ لیے اور کہا یہ کیسی گندی چیز ہے.حضرت عیسی علیہ السلام نے اُس کے دانتوں کی طرف دیکھا اور فرمایا ”مگر دیکھو نا! اس کے دانت کتنے خوبصورت ہیں اس رنگ میں انہوں نے اپنے حواریوں کو بتایا کہ یہ ساری چیزیں نسبتی ہوتی ہیں.ایک نقطہ نگاہ سے انسان کسی چیز کو دیکھتا ہے تو اُسے بُری نظر آتی ہے دوسرے نقطہ نگاہ سے اُس چیز کو دیکھتا ہے تو اُسے اچھی نظر آتی ہے.غرض نسبت کے لحاظ سے بڑا فرق پڑ جاتا ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دفعہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا کہ عائشہ ! آج تم کچھ خفا معلوم ہوتی ہو.انہوں نے کہا میں ہوں تو خفا مگر آپ کو کس طرح پتا لگ گیا؟ فرمانے لگے میں کچھ عرصہ سے تاڑ رہا ہوں کہ جس دن تم خوش ہوتی ہو اُس دن تم کہتی ہو خدائے محمد کی قسم! یہ بات یوں ہے.اور جس دن تم خفا ہوتی ہو اُس دن کہتی ہو خدائے کی ابراہیم کی قسم! یہ بات یوں ہے.آج تم نے خدائے ابراہیم کے الفاظ استعمال کیسے تھے جس کی سے میں سمجھ گیا کہ تم کچھ ناراض ہو.حضرت عائشہ نے کہا ٹھیک ہے یہی بات ہے.میں کسی بات پر غصہ میں آگئی تھی.5 اب نہ ابراہیم میں کوئی خرابی تھی کہ حضرت عائشہ بعض دفعہ آپ کا نام نہ لیتیں اور نہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں کوئی نقص تھا کہ جس کی وجہ.حضرت عائشہ ناراضگی کی حالت میں خدائے محمد کی قسم کھانے سے ہچکچاتیں.صرف اتنی بات تھی ނ

Page 173

$1954 163 خطبات محمود کہ جب وہ غصہ میں آتیں تو خدائے محمد کی قسم کھانے کی بجائے خدائے ابراہیم کی قسم کھانے کی لگ جاتیں.تو انسان کو چاہیے کہ اُسے دنیا میں جس قدر چیزیں نظر آتی ہیں اُن کو وہ زیادہ سے ہے زیادہ بہتر محسوس کرے، اُن کو زیادہ سے زیادہ اپنے لیے رحمت اور انعام سمجھے.پھر وہی چیز میں اُس کے لیے تسلی اور تسکین کا موجب بن جائیں گی.اور اگر وہ اس نقطہ نگاہ سے نہیں دیکھے گا تو بڑی سے بڑی نعمت بھی اس کے لیے زحمت اور لعنت کا موجب بن جائے گی.مجھے یاد ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے پاس ایک دفعہ کسی شخص نے شکایت کی کہ باورچی چوری کرتا ہے.وہ آپ کھانا کھا لیتا ہے تو اس کے بعد آٹھ دس روٹیاں پنے گھر لے جاتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس شکایت کرنے والے دوست سے کہا کہ آپ کی شکایت تو میں نے سن لی ہے لیکن کبھی آپ نے یہ بھی سوچا کہ ایک روٹی کے لیے یہ دو دفعہ تھور میں جھکتا ہے.سخت گرمی میں ہم نے اپنے دروازے بند کیے ہوئے ہوتے ہیں، پردے لٹک رہے ہوتے ہیں، دستی پنکھے ہمارے ہاتھوں میں ہوتے ہیں اور یہ تنور میں گھسا جا رہا ہوتا ہے.آخر یہ بھی ہماری طرح ہی اللہ تعالیٰ کا ایک بندہ ہے.ہمیں سوچنا چاہیے کہ ہمارے ساتھ اللہ تعالیٰ نے یہ کیوں سلوک نہ کیا اور اس کے ساتھ کیوں کیا؟ آخر اسے خدا تعالیٰ کی طرف سے ایک رنگ میں سزا تو مل رہی ہے.اِسے اور کیا سزا دلانا چاہتے ہیں؟ تو اچھا آدمی ہمیشہ اچھے پہلو کو دیکھتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام.شکایت کرنے والے کو اس امر کی طرف توجہ دلائی کہ سزا تو اُسے روٹیاں چرانے سے بھی پہلے مل جاتی ہے کیونکہ ایک ایک روٹی کے لیے یہ دو دو دفعہ تنور میں اپنا سر جھکاتا ہے.پھر اس کی تعلیم اعلیٰ نہیں.اگر تعلیم اچھی ہوتی تو لازماً اس کے اخلاق بھی اچھے ہوتے اور اچھا کاروبار اختیار کرتا.جب ان میں سے کوئی بات بھی اسے حاصل نہیں تو اس پر اور کیا ناراض ہوتے ہو.ایسے شخص کو مارنا یا سزا دینا تو ایسا ہی ہے جیسے کہتے ہیں ”مرے کو مارے شاہ مدار“.غرض اس واقعہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی نظر اسی طرف گئی کہ ہماری موجودہ حالت خدا تعالیٰ کے انعاموں میں سے ایک بہت بڑا انعام ہے.اور اُس کے لیے وہی سزا کافی سے

Page 174

$1954 164 خطبات محمود جو اُسے مل رہی ہے کسی اور سزا کی اُس کے لیے کیا ضرورت ہے؟ تو مومن کو ہمیشہ ہر چیز کا اچھا پہلو دیکھنے کی کوشش کرنی چاہیے اور تو ہمات میں مبتلا ہو کر اپنی طاقتوں کو ضائع نہیں کرنا الفضل 21 ستمبر 1960 ء ) چاہیئے.1 : بخاری كتاب الجهاد باب من احب الخروج يوم الخميس 2 : صحيح مسلم كتاب الـجـمـعـة بـاب فـضـل مـن استـمـع و انـصـت فـي الخطبة - (مفهوما ) 3 : يَسْلُهُ مَنْ فِي السَّمَوتِ وَالْأَرْضِ كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِي شَأْنٍ (الرحمن : 30) 4 مسلم كتاب الالفاظ من الادب وغيرها باب النَّهَى عَنْ سَبِّ الدَّهْرِ 5 : صحيح البخارى كتاب النکاح باب غَيرةِ النِّساءِ وَوَجْدِهِنَّ

Page 175

$1954 165 16 خطبات محمود تمہارے اعمال سے یہ ظاہر ہونا چاہیے کہ تم نے واقعی اللہ تعالیٰ کے زندہ نشانات دیکھے ہیں وو (فرموده 9 جولائی 1954ء بمقام ناصر آباد سندھ ) تشهد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: یہ علاقہ جو سندھ کا ہے کسی زمانہ میں تو پنجابیوں کے لیے اس کا خیال کرنا بھی عجیب بات تھی کیونکہ گزشتہ زمانہ میں جب سفر میں کئی قسم کی مشکلات اور دقتیں تھیں پچاس، ساٹھ یا سومیل پر جانا بھی ایسا ہی تھا جیسے کوئی مرنے لگا ہے.مگر اب یہ علاقہ باوجود اس کے کہ پانچ سو میل پر بلکہ اس سے بھی زیادہ فاصلہ پر ہے نہ صرف اس میں پنجابی بس رہے ہیں بلکہ سال دو سال میں واپس جا کر وہ اپنے رشتہ داروں سے مل بھی لیتے ہیں.یا اُن کے رشتہ دار ان سے ملنے کے لیے یہاں آ جاتے ہیں اور زیادہ تر طبقہ ایسا ہی ہے جس کے گزارہ کی پنجاب میں کوئی صورت نہیں تھی.کچھ ایسے بھی تھے جو اپنی حالتوں کو زیادہ بہتر بنانے کے لیے یہاں آگئے.وہاں ان کی حالتیں ایسی گری ہوئی نہیں تھیں لیکن سو میں سے اسی صرف اس لیے آئے ہیں کہ ان کے گزارہ کی پنجاب میں کوئی صورت نہیں تھی یا اس لیے کہ پارٹیشن کے موقع پر ان کو بے دست و پا بنا دیا گیا اور جہاں جہاں ان کے سینگ سمائے چلے

Page 176

$1954 166 خطبات محمود کوئی اپنے وطن سے سو میل دور چلا گیا، کوئی دوسو میل دور چلا گیا اور کوئی چار سو میل دُور چلا گیا تو اور کوئی پانچ سو میل دور چلا گیا.بہر حال وہ پہلے صاحب حیثیت تھے یا اچھے زمیندار اور کھاتے پیتے تھے مگر اس وقت وہ بے دست و پا بنا دیے گئے.بہر حال دو قسم کے لوگ تھے جنہوں نے سندھ میں پناہ لی.ایک تو وہ جونسلی طور غریب تھے اور اُن کے گزارے کی پنجاب میں کوئی صورت نہیں تھی.دوسرے وہ جو پارٹیشن کے موقع پر غریب بنا دیئے گئے یعنی اُن کے مکان کوٹ لیے گئے ، اُن کی جائیدادیں چھین لی گئیں، اُن کے جانور چھین لیے گئے ، اُن کی فصلیں چھین لی گئیں، اُن کے روپے چھین لیے گئے اور وہ ایسے ہی ہو گئے جیسے نسلی غریب ہوتے ہیں.ان میں سے بعض کو اللہ تعالیٰ نے پنجاب میں پناہ دے دی اور بعض کو سندھ میں پناہ دے دی.اگر وہ پنجاب اور سندھ میں پناہ نہ لیتے تو ان کی حالت ایسی ہی ہوتی جیسے حیدر آباد اور کراچی میں ہزاروں ہزار مہاجرین کی ہے کہ وہ کھلے میدانوں میں جھونپڑیوں میں پڑے ہیں.نہ دھوپ سے بچنے کا اُن کے پاس کوئی سامان ہے اور نہ بارش سے بچنے کا اُن کے پاس کوئی ذریعہ ہے.بارش آ جائے تو کمر کمر تک ان کی جھونپڑیوں میں پانی جمع ہو جاتا ہے اور بھوک لگے تو کھانے کو کچھ نہیں ملتا.ہر انسان جوی ایسے حالات میں سے گزرتا ہے ضروری ہوتا ہے کہ اُس کے اخلاق پہلے سے اچھے ہو جائیں اور وہ سمجھ لے کہ یہ دنیا فانی ہے.کتنا ہی انسان اچھا کھانے پینے والا ہو بعض دفعہ ایسے حادثات اُس پر گزرتے ہیں جو اُسے بالکل بے دست و پا بنا دیتے ہیں.مگر باوجود اس کے کہ آدم سے لے کر اب تک ہزاروں دفعہ ایسے حالات پیدا ہوئے.پھر بھی لوگ ان واقعات کو بھول جاتے ہیں.جب مصیبت آتی ہے اُس وقت تو وہ یہ کہتے ہیں کہ اب ہم ایسی توبہ کریں گے کہ کبھی بھول کر بھی دنیا کی محبت میں مبتلا نہیں ہوں گے مگر جب وہ وقت گزر جاتے ہے تو آہستہ آہستہ پھر ان کے دل پر زنگ لگنا شروع ہو جاتا ہے اور وہ خدا تعالیٰ کو بھول جاتے ہیں.لیکن عام لوگوں کے حالات خواہ کچھ بھی ہوں ہماری جماعت کو ایسا نہیں ہونا چاہیے کیونکہ ہم نے خدا تعالیٰ کی ایک نئی آواز سنی ہے، ہم نے اُس کے ایک نئے مصلح کے ہاتھ پنے ایمانوں کی تجدید کی ہے، ہم نے خدا تعالیٰ کے زندہ معجزات دیکھے ہیں، ہم نے اس کے

Page 177

$1954 167 خطبات محمود تازہ بتازہ نشانات دیکھے ہیں لیکن میں دیکھتا ہوں کہ جماعت میں پھر بھی ایسی سستی اور غفلت پائی جاتی ہے کہ اس کو دیکھ کر حیرت آتی ہے.چند سال کی بات ہے میں یہاں آیا تو مجھے پتا لگا کہ اس علاقہ میں چار آدمی ایسے ہیں جو ایک ٹھگ کی خفیہ جماعت میں شامل ہیں اور اس کو اپنا پیر سمجھتے ہیں.مجھے اس کا پتا تھا تی کیونکہ میں اُسے قادیان سے دو دفعہ نکال چکا تھا.اور ایک دفعہ تو ایسے الزامات میں میں.اسے نکالا تھا کہ جنہیں سن کر بھی گھن آتی تھی.اُس کی عادت میں یہ بات داخل ہے کہ وہ آپ میں سے کسی کے پاس بیٹھے گا تو کہے گا مجھے خواب آئی ہے کہ آپ کو کوئی بہت بڑا درجہ ملنے والا ہے.اب اگر آپ کا تقوی اچھا ہے تو آپ فوراً کہیں گے کہ میاں! درجہ دینے والا تو ی خُدا ہے.اگر اس نے مجھے کوئی درجہ دینا ہے تو وہ مجھے کیوں نہیں بتا تا؟ آپ کو اُس نے کیوں کی بتا دیا کہ مجھے درجہ ملنے والا ہے؟ مجھے ہمیشہ بیسیوں غیر احمدیوں کے خطوط ملتے رہتے ہیں جن کا مضمون یہ ہوتا ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یا حضرت مرزا صاحب ہمیں خواب میں ملے ہیں اور انہوں نے آپ کے متعلق کہا ہے کہ آپ ہمارے بچے خلیفہ اور قائمقام ہیں اور ہمیں ہدایت کی ہے کہ آپ ان کے پاس جائیں اور انہیں کہیں کہ وہ آپ کو پانچ ہزار روپیہ دے دیں.میں ہمیشہ اُن کو یہ جواب دیا کرتا ہوں کہ وجہ کیا ہے کہ وہ مجھے آ کر آپ کے متعلق یہ ہدایت نہیں دیتے اور آپ کو کہہ دیتے ہیں کہ جا کر پانچ ہزار روپیہ لے لو.اگر وہ مجھے آ کر کہیں تو پانچ ہزار کیا !! میں دس ہزار بھی دینے کے لیے تیار ہوں مگر انہوں نے آپ کا انتخاب کس بنا پر کیا ہے؟ چاہیے تو یہ تھا کہ وہ مجھے آکر کہتے ، آپ کو کہنے کی کوئی ضرورت نہیں تھی.اسی طرح جس کے اندر سچا تقوی پایا جاتا ہے وہ تو یہ جواب دے دیتا ہے کہ اگر خدا نے مجھے مینجر بنانا تھا یا میری تجارت کو کامیاب کرنا تھا تو مجھے کیوں نہ کہا آپ کو یہ خبر کیوں دی؟ لیکن لالچی آدمی اتنی سی بات پر خوش ہو جاتا ہے اور اُسے بزرگ قرار دینے لگ جاتا ہے.اُس نے ہمارے کئی افسروں کو اس طرح کی خبریں دینی شروع کر دیں کہ فلاں پر عذاب آ جائے گا اور تم اُس کی جگہ افسر مقرر کر دیئے جاؤ گے.میں اُن دنوں محمود آباد گیا اور ایک دن اتفاقاً کسی کام کے لیے باہر نکلا تو میری نظر اس پر پڑ گئی.اس نے مجھے دیکھا

Page 178

$1954 خطبات محمود 168 تو دوڑ کر ایک مکان کے پیچھے چھپ جانا چاہا.میں نے اُسے فوراً پہچان لیا اور میں نے پوچھاتی کہ کیا یہ فلاں شخص ہے؟ انہوں نے کہا نہیں.یہ فلاں ہے (اُس نے اپنا نام بدل لیا تھا).میں نے کہا یہ کوئی نام رکھ لے جیسے کسی شاعر نے کہا ہے کہ وہ کسی جامہ اور کسی شکل میں بھی ہرے سامنے آ جائے ، میں اسے پہچان لیتا ہوں.اسی طرح میں جانتا ہوں کہ یہ وہی خص ہے جسے میں نے قادیان سے نکالا تھا.پھر یہ یہاں کس طرح آ گیا ؟ اس پر لوگوں نے بتایا کہ اس نے اس اس طرح ہمیں اپنی خواہیں سنائی تھیں.میں نے کہا بس! تم ان وعدوں پر پھول گئے اور تمہارا دماغ خراب ہو گیا ؟ اگر تمہارے اندر ایمان ہوتا تو تم سمجھتے کہ کیا یہ ہوسکتا کہ ایک طرف تو اللہ تعالیٰ اپنی جماعت قائم کرے اور اُس کا ایک خلیفہ بنائے اور اُس کے احکام کی تعمیل کو ضروری قرار دے اور دوسری طرف اس قسم کے آدمی پیدا کر دے اور انہیں کہے کہ تم لوگوں سے کہتے پھرو کہ فلاں پر عذاب آ جائے گا اور فلاں کو انعام مل جائے گا.میں نے کہا خبردار! جو آئندہ یہ شخص میری اسٹیوں میں آیا.اس پر لوگوں نے بتایا کہ آپ کے تو بعض کارکن بھی اس کے ساتھ شامل ہیں اور بڑے اخلاص سے وہ اس کی مجلسوں میں بیٹھتے ہیں اور انہوں نے پانچ آدمیوں کے مجھے نام بتلائے.میں ناصر آباد واپس آیا تو میں نے اُن پانچوں کو بلوایا.اُن میں وہ مخبر بھی تھا جس نے مجھے اطلاع دی تھی.میں نے اُن سے پوچھا کہ آپ لوگوں نے یہ کیسی پارٹی بنائی ہوئی ہے؟ انہوں نے کہا ہماری پارٹی کوئی نہیں.یہ ایک بزرگ ہیں جن سے ہم اپنے لیے دعائیں کراتے ہیں اور ہم ان سے فائدہ اٹھانے کے لیے ان کی مجلس میں بیٹھا کرتے ہیں.میں نے کہا اگر تم غیر مبائع ہوتے تب تو اور بات تھی لیکن تم یہ تو ی سوچو کہ ایک طرف تو اس بات کے قائل ہو کہ خدا تعالیٰ نے دنیا میں خلافت کو قائم کیا ہوا ہے اور دوسری طرف تم یہ سمجھتے ہو کہ اللہ تعالیٰ نے خلافت کے مقابلہ میں ایک اور شخص کو لا کر کھڑا کر دیا ہے.کہنے لگے تو بہ تو بہ! وہ خلافت کے مقابل میں کہاں کھڑے ہیں.وہ تو کہتے ہیں کہ خلیفہ وقت کی فرمانبرداری کرنی چاہیے.میں نے کہا منہ سے کہنا اور بات ہے.کمو سوچنا یہ چاہیے کہ آخر ان باتوں کا نتیجہ کیا نکلے گا.اور وجہ کیا ہے کہ ایک طرف تو اللہ تعالیٰ ایک نیا نظام جاری کرتا ہے اور لوگوں سے کہتا ہے کہ جب تک تم ایک شخص کے ہاتھ پر اکٹھے.

Page 179

$1954 169 خطبات محمود رہو گے اور اپنے اندر افتراق اور انشقاق پیدا نہیں کرو گے اللہ تعالیٰ تم میں خلافت کو جاری رکھے گا اور دوسری طرف وہ ایسے لوگوں کو کھڑا کر دیتا ہے اور کہتا ہے کہ کسی سے وعدہ کرو کہ تیرا بیٹا امیر کبیر ہو جائے گا، کسی سے کہو تو منیجر بن جائے گا، کسی سے کہو کہ تو جنرل مینجر بن جائے گا.میں نے کہا جس دن وہ کسی سے کہتا ہے کہ تو مینجر ہو جائے گا اُسی دن سے وہ پہلے میجر کا دشمن ہو جاتا ہے اور کہتا ہے کہ اب یہ نکلے تو میں اس کی جگہ سنبھا لوں.جس دن وہ کہتا ہے کہ فلاں شخص جنرل مینجر ہو جائے گا اُسی دن وہ جنرل مینجر کا دشمن ہو جاتا ہے اور کہتا ہے کہ اب وہ نکلے تو میں اس کی جگہ سنبھالوں.جس دن وہ کسی سے کہتا ہے کہ وہ ہیڈ کلرک ہو جائے گا اُسی دن وہ پہلے ہیڈ کلرک کا دشمن ہو جاتا ہے اور کہتا ہے کہ اب یہ میرے یا کسی عتاب میں آکر نکل جائے تا کہ میں اس کی جگہ سنبھالوں.غرض ایک طرف تو وہ کہتا ہے کہ ساری جماعت کو ایک ھ پر جمع کرو اور دوسری طرف کہتا ہے کہ جماعت کو ٹکڑے ٹکڑے کر دو.کیا کوئی عقل تسلیم کی کر سکتی ہے کہ ایسا شخص خدا تعالیٰ کی طرف سے ہو سکتا ہے؟ یا خدا تعالیٰ خود اپنے نظام کو تباہ کرنے کے لیے ایسے لوگوں کو کھڑا کر سکتا ہے.؟ کہنے لگے آپ جانتے نہیں کہ وہ بڑے نیک آدمی ہیں.میں نے کہا تمہیں وہ نیک نظر آتے ہیں اور تم سمجھتے ہو کہ خدا ان سے کام لے رہا ہے لیکن میرے نزدیک تو خدا اُس سے ایسا ہی کام لے رہا ہے جیسا کہ اُس نے ابو جہل وغیرہ سے لیا.آخر میں میں نے اُن سے صاف کہہ دیا کہ تم یا تو ہمارے ساتھ رہ سکتے ہو یا اس کے ساتھ رہ سکتے ہو.یہ نہیں ہو سکتا کہ تم ہمارے ساتھ بھی رہو اور اس کے ساتھ بھی رہو.انہوں نے مینجر صاحب کے متعلق بتایا کہ یہ بھی درحقیقت ہمارے ساتھ ہی ہیں.وہ کہنے لگے نہیں.پہلے میں ان کے ساتھ ہوا کرتا تھا مگر اب نہیں ہوں.اس کے بعد وہ چلے گئے اور مینجر صاحبہ نے مجھے اطلاع دی کہ جاتے ہی وہ پھر اُس شخص کے پاس گئے اور بہت روئے اور نیچے چلائے کہ اب ہمیں جُدا کیا جا رہا ہے.اور پھر انہوں نے اُسے چائے پلائی اور اُس کا جوٹھا تبرک کے طور پر پیا کہ خبر نہیں یہ مصیبت ہم پر کب تک وارد رہے گی.اس کے بعد اُس مخبر نے رپورٹ بھیجی اور ساتھ ہی اُس شخص کا ایک خط بھجوایا اور لکھا کہ یہ فلاں افسر کے نام اُس نے لکھا تھا جو میں آپ کو بھجوا رہا ہوں.اس میں سندھ کے ایک احمدی کے متعلق ہی

Page 180

$1954 170 خطبات محمود لکھا تھا کہ میں نے اُس کے بیٹے کے متعلق فلاں احمدی کو اپنا ایک خواب سنایا تھا اور بتایا تھا کہ وہ بادشاہ ہو جائے گا مگر اب مجھے معلوم ہوا ہے کہ وہ لڑکا مر گیا ہے.آپ اس لڑکے کی موت کی خبر اس احمدی کو نہ سنائیں ورنہ اس کا ایمان کمزور ہو جائے گا.گویا اپنے شاگردوں کو دھوکا بھی سکھایا جاتا ہے کہ ان کے ایمان میں کوئی لغزش پیدا نہ ہو.آخر ہم نے ان ساروں کو بدل دیا.لیکن کچھ عرصہ ہوا ایک دوست نے مجھے خط لکھا کہ یہ لوگ اب بھی آپس میں ملتے ہیں اور جو مخبر تھا اُس کا نام بھی اُس نے لکھا کہ یہ بھی انہی لوگوں میں شامل ہے.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ کچھ لوگ ایسے ہیں جن کے دماغ خراب ہو چکے ہیں اور یا پھر وہ منافق اور بے ایمان ہیں کہ ایک طرف تو وہ ایک شخص کے ہاتھ پر بیعت کرتے ہیں اور دوسری طرف وہ مخفی طور پر ان لوگوں کے پاس آتے جاتے ہیں جو جماعت میں فتنہ پیدا کرنے والے ہیں.حالانکہ مومن خدا اور اس کے رسول کے مقابلہ میں اپنے تعلقات کی کبھی پروا نہیں کرتا اور وہ فوراً فتنہ انگیزی کرنے والے کے خلاف شور مچا دیتا ہے.جب بدر کی جنگ ہوئی اُس وقت تک حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا ایک بیٹا بھی مسلمان نہیں ہوا تھا.جنگ کے بعد اللہ تعالیٰ نے اُن کو ہدایت دی اور انہوں نے اسلام قبول کر لیا.ایک دن گھر میں بیٹھے باتیں ہو رہی تھیں کہ حضرت ابو بکر کا لڑکا کہنے لگا ابا جان ! بدر کی جنگ میں میں ایک پتھر کے پیچھے چُھپ کر بیٹھا ہوا تھا کہ آپ میرے پاس سے گزرے.اُس وقت میں نے چاہا کہ وار کروں مگر میں نے فوراً آپ کو پہچان لیا اور اپنی تلوار نیچی کر لی.حضرت ابوبکر نے کہا خدا نے تجھے اسلام نصیب کرنا تھا اس لیے تو بیچ گیا ورنہ خدا کی قسم ! اگر میں تجھے دیکھ لیتا تو میں نے کبھی اپنی تلوار نیچی نہیں کرنی تھی.1 اس سے معلوم ہوتا ہے کہ کفر اور ایمان میں امتیاز بھی یہ ہے کہ ایمان یہ نہیں دیکھتا کہ کوئی شخص میرا دوست ہے یا میرا رشتہ دار ہے بلکہ وہ فوراً اسے نگا کر کے رکھ دیتا ہے.اور کفر ان باتوں کو چھپانے کی طرف راغب ہوتا ہے کیونکہ کفر کا خدا کوئی نہیں اور مومن کا خدا ہے.کافر سمجھتا ہے کہ ان لوگوں کے تعلقات مقدم ہیں اور مومن سمجھتا ہے کہ اصل تعلق وہی ہے جو انسان کا خدا سے ہے باقی سب تعلقات عارضی ہیں اور خدا اور اس کے رسول کے مقابلہ میں

Page 181

$1954 171 خطبات محمود ان کی کوئی پروا نہیں جا سکتی.جب یہ پس جو لوگ یہاں رہتے ہیں ان میں سے بھی ایک حصہ مجرم ہے کہ اس نے ان باتوں کو چھپایا.میں یہ کبھی مان نہیں سکتا کہ اس واقعہ کا ساری جماعت میں سے صرف ایک کو پتا تھا.یقیناً اور لوگوں کو بھی علم ہو گا مگر انہوں نے اپنے فرائض کی ادائیگی میں سستی کی اور سمجھا کہ ان لوگوں سے ہماری صاحب سلامت ہے، ان سے ہمیں بعض دنیوی فوائد بھی رہے ہیں پھر ہم کیوں بگاڑ پیدا کریں؟ صرف ایک آدمی کو خدا نے ہمت دے دی اور اس نے مجھے رپورٹ بھجوائی.اور جب میں نے تحقیق کی تو پانچ اور گواہ بھی مل گئے.جہاں تک مخالفت کا سوال ہے اس کے لحاظ سے چار کیا، چار ہزار کیا، چار لاکھ کیا بلکہ اگر یہ چار کروڑ بھی ہوں تب بھی یہ کامیاب نہیں ہو سکتے.کیونکہ یہ سلسلہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ہے اور ابھی وہ وقت نہیں آیا کہ یہ سلسلہ نباہ کیا جائے.ابھی دنیا میں اس سلسلہ کے ذریعہ اسلام نے پھیلنا سلسلہ اسلام کو دنیا میں قائم کر دے گا تو اُس وقت لوگ گھمنڈ میں آکر بے ایمان جائیں تو اور بات ہے.بیشک اب بھی بعض لوگوں کے ہاتھ میں روپیہ آ جائے تو وہ کرنے لگ جاتے ہیں لیکن یہ گھمنڈ ایسا ہی ہوتا ہے جیسے بچہ اپنے کھلونے پر گھمنڈ کرنے لگتا ہے.انسان کا اصل گھمنڈ اُس وقت ظاہر ہوتا ہے جب وہ بڑا آدمی بن جاتا ہے اور باقی لوگوں کو حقارت کی نگاہ سے دیکھنے لگ جاتا ہے.پس ہمارے بعض افراد ہیں اگر اب بھی گھمنڈ پایا جاتا ہے تو وہ ایسا ہی ہے جیسے بچہ کو کھلونا مل جائے تو وہ گھمنڈ کرنے لگ جاتا ہے.اصل گھمنڈ اُسی وقت ظاہر ہوتا ہے جب قوم پھیل جاتی ہے، کثرت سے اُس کے پاس مال آ جاتا ہے، کثرت سے اُس کے پاس عہدے آ جاتے ہیں اور افراد پر اُسے تصرف کا اختیار ہوتا ہے.تب فرعون مزاج لوگ اپنے گھمنڈ میں لوگوں کو مٹانے کی کوشش کرتے ہیں اور جب وہ یہ فیصلہ کرتے ہیں تو خدا اپنے فرشتوں کو اُن کے مٹانے کا حکم دے دیتا ہے.مگر ابھی ہماری جماعت پر وہ وقت نہیں آیا.ابھی ہم نے ترقی کرنی ہے.ہ گھمنڈ اس سلسلہ کو مٹانے کی بچوں نے کوشش کی اور ابھی کچھ اور کوشش کرنے والے پیدا ہوں گے.مگر وہ سارے کے سارے تھک جائیں گے اور اس سلسلہ کو نقصان

Page 182

خطبات محمود آتی 172 $1954 پہنچانے کی بجائے اس کی عزت اور ترقی کا ذریعہ بنیں گے.جس طرح پہاڑ پر چڑھتے وقت پہلے چھوٹی پہاڑیاں آتی ہیں، پھر اُس سے بڑی پہاڑیاں آتی ہیں، پھر اُس سے بڑی پہاڑیاں ہی ہیں.یہاں تک کہ انسان پہاڑ پر چڑھ جاتا ہے.اسی طرح خدا ہر مخالفت کے بعد اس سلسلہ کو ترقی دیتا چلا جائے گا.یہاں تک کہ وہ وقت آ جائے گا جب خدا اپنے وعدوں کے مطابق اس سلسلہ کو ساری دنیا میں پھیلا دے گا.اس کے بعد ہوسکتا ہے کہ جماعت کے لوگوں میں بگاڑ پیدا ہو جائے ، وہ تکبر میں مبتلا ہو جائیں اور خدا تعالیٰ ان کو سزا دینے کے لیے ان سے اپنی برکات چھین لے.اور یا پھر ممکن ہے کہ اُس وقت تک قیامت ہی آ جائے.قیامت کے متعلق ہم یقینی طور پر نہیں کہہ سکتے کہ وہ کتنے عرصہ میں آنے والی ہے.آیا پانچ سو سال کے بعد آئے گی یا ہزار سال کے بعد آئے گی یا دو ہزار سال کے بعد آئے گی.انہی کلام تمثیلی الفاظ پر مشتمل ہوتا ہے اس لیے قطعیت کے ساتھ کسی رائے کا اظہار نہیں کیا جا سکتا.بہر حال تمثیلی زبان میں جو پیشگوئیاں کی گئی ہیں اُن سے ظاہر ہوتا ہے کہ سات ہزار سال کے بعد دنیا پر قیامت کا آنا مقدر ہے.پس یا تو اس مقام پر پہنچ کر جب احمدیت اپنی تمام اندرونی طاقتیں ظاہر کر دے گی اور اپنی تمام قابلیتیں دنیا میں نمایاں کر دے گی لوگوں میں بگاڑ پیدا ہونے پر قیامت آجائے گی.اور یا پھر اللہ تعالیٰ اُس وقت اسلام کی ترقی کے لیے کوئی اور راستہ تجویز کر لے گا.بہر حال جس طرح بیج زمین میں ڈالا جاتا ہے تو اس کے بعد ضروری ہوتا ہے کہ فصل اُگے اور بیج اپنی تمام مخفی طاقتیں ظاہر کرے.اسی طرح روحانی جماعتیں جب اپنی تمام پوشیدہ طاقتیں ظاہر کر دیتی ہیں اور اپنے تمام حسن کو نمایاں کر دیتی ہیں تو اُس کے بعد اُن پر زوال آیا کرتا ہے اُس سے پہلے نہیں.یہی پہلے ہوا اور یہی آئندہ ہو گا.فرق صرف یہ ہے کہ پہلے مذاہب زوال آنے پر بالکل کٹ گئے اور نئے مذاہب دنیا میں جاری کیے گئے لیکن احمدیت کوئی نئی چیز نہیں بلکہ اسلام کا ہی دوسرا نام ہے اور اسلام کے متعلق اللہ تعالیٰ کا یہ فیصلہ ہے کہ وہ قیامت تک قائم رہے گا.اس لئے احمدی اگر کسی وقت گر جائیں گے تو اسلام پھر بھی قائم رہے گا اور کسی اور شکل میں دنیا میں ظاہر ہو جائے گا.اور یہ تسلسل اسی طرح رہے گا یہاں تک کہ قیامت آ جائے گی.

Page 183

خطبات محمود 173 $1954 پس یہ لوگ تو اپنی جگہ کامیاب نہیں ہوں گے مگر جو احمدی کہلاتے ہوئے مداہنت کرتے ہیں افسوس تو اُن پر ہے کہ بجائے اس کے کہ وہ غیرت کا مظاہرہ کرتے انہوں نے اپنے تعلقات کو سلسلہ کے مفاد پر مقدم سمجھا اور ان لوگوں کے ظاہر کرنے میں اخفا سے کام لیا.پس میں دوستوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ انہیں پارٹیشن کے بعد اس علاقہ میں جو آرام ملا ہے اس سے وہ مغرور نہ ہو جائیں بلکہ ان پر جو خدا تعالیٰ کی طرف سے ذمہ داریاں ہیں اُن کو پورا کریں ورنہ خدا کے فرشتے ان کی گردن پکڑ لیں گے.آپ لوگوں کو کیا معلوم کہ آپ کی اولادوں میں سے کس نے دنیوی لحاظ سے ترقی کرنی ہے، کس نے بڑا عالم بننا ہے، کس نے بڑا صوفی اور بزرگ بننا ہے.یہ انعامات ہیں جو بہر حال آپ لوگوں کے لیے مقدر ہیں.پس اپنی نسلوں کے لیے ایسا بیج مت بوئیں جس کے نتیجہ میں وہ خدائی انعامات سے حصہ لینے سے محروم رہ جائیں.تم مت سمجھو کہ تمہارے کاموں کا تمہاری اولادوں پر اثر نہیں پڑے گا.بسا اوقات ماں باپ سے نادانستہ طور پر ایک فعل سرزد ہوتا ہے اور صدیوں تک اُن کی نسلوں کو اُس کی سزا برداشت کرنی پڑتی ہے.دیکھو! رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فتح مکہ کے بعد جب غزوہ حنین میں شامل ہوئے اور اللہ تعالیٰ نے آپ کو فتح دے دی تو اموالِ غنیمت آپ نے مکہ والوں میں تقسیم فرما دیئے.مدینہ والوں کو کچھ نہیں دیا.اس پر کسی انصاری نوجوان کی زبان سے بے احتیاطی میں یہ الفاظ نکل گئے کہ خون ہماری تلواروں سے ٹپک رہا ہے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اموال اپنے رشتہ داروں کو دے دیئے ہیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کا پتا لگا تو آپ نے انصار کو بلایا اور فرمایا اے مدینہ کے لوگو! مجھے تمہارے متعلق ایسی روایت پہنچی ہے.انہوں نے کہايَا رَسُوْلَ الله ! ہم میں سے کسی بیوقوف نوجوان نے یہ بات کہی ہے ہم نے نہیں کہی.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو بات کہی گئی، سو کہی گئی.پھر آپ نے فرمایا دیکھو! تم یہ بھی کہہ سکتے ہو کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خدا تعالیٰ نے مکہ میں پیدا کیا مگر مکہ والوں نے اپنی بیوقوفی سے خدائی کلام کو رڈ کر دیا اور آپ کو قبول نہ کیا.تب اللہ تعالیٰ نے مدینہ والوں کو دے دی.پھر خدا نے اپنے فضل سے، نہ کہ مسلمانوں کے کسی زور اور

Page 184

$1954 174 خطبات محمود طاقت کے نتیجہ میں، ایسے سامان پیدا کیے کہ مکہ فتح ہو گیا.جب مکہ فتح ہوا تو مکہ والوں نے سمجھا کہ اب ہماری گمشدہ متاع ہمیں واپس مل جائیں گی اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اپنے وطن میں واپس آجائیں گے مگر خدا نے یہی فیصلہ کیا کہ مکہ والے اونٹ ہانک کر اپنے گھروں میں لے جائیں اور مدینہ والے خدا کے رسول کو اپنے گھر لے جائیں.لیکن اے انصار! اگر تم چاہو تو تم یوں بھی کہہ سکتے ہو کہ ہم محمد رسول اللہ کے لیے مدینہ میں بھی لڑے اور مدینہ سے باہر بھی لڑے.ہم نے اپنے بچوں کو یتیم اور اپنی بیویوں کو بیوہ بنایا.ہم نے اپنے خاندانوں کو برباد کیا اور اپنا مال اور اپنی طاقت آپ کے لیے قربان کر دی مگر جب فتح حاصل ہوئی تو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اموال اپنے رشتہ داروں کو دے دیئے اور ہمیں کچھ نہ دیا.انصار نے روتے ہوئے کہا کہ يَا رَسُولَ اللہ ! ہم مانتے ہیں کہ یہ ہماری غلطی ہے.ہم میں سے کسی بیوقوف نوجوان نے یہ بات کہہ دی ہے ورنہ ہم اس سے بیزار ہیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بیشک تم میں سے کسی نے یہ بات کہی ہے مگر اے انصار! اب اس قول کی وجہ سے اس دنیا میں تم کو برکتیں نہیں ملیں گی.تم اگلے جہان میں حوض کوثر پر ہی آکر ان برکتوں کو لینا.2 چنانچہ دیکھ لو چودہ سو سال گزر گئے مگر ان چودہ سو سال میں کوئی انصاری بادشاہ نہیں ہوا.عربوں کو بادشاہت ملی، مکہ والوں کو بادشاہت ملی اور وہ چار پانچ سو سال تک حکومت کرتے رہے، پٹھانوں کو بادشاہت ملی، ایرانیوں کو بادشاہت ملی، مصریوں کو بادشاہت ملی ، مغل آئے انہوں نے بغداد فتح کیا اور اٹھارہ لاکھ مسلمانوں کو قتل کیا مگر پھر اُن کو بھی تو بہ نصیب ہوئی اور انہوں نے لمبے عرصہ تک حکومت کی.غرض ہر قوم کو اس چودہ سو سال کے عرصہ میں حکومت ملی.اگر نہیں ملی، تو اُن کو جوتی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دائیں بھی لڑے اور بائیں بھی لڑے اور آگے بھی لڑے اور پیچھے بھی لڑے اور جنہوں نے کہا تھا کہ یا رَسُولَ اللهِ ! دشمن آپ تک نہیں پہنچ سکتا جب تک کہ وہ ہماری لاشوں کو روندتا ہوا نہ گزرے.اس لیے کہ اُن کے باپ دادا میں سے کسی نے یہ بات کہی اور خدا نے اُن کی ساری اولاد کو ہمیشہ کے لیے حکومت سے محروم کر دیا.پس مت سمجھو کہ تمہاری ان غفلتوں کے نتیجہ میں تم آئندہ آنے والے انعامات سے محروم نہیں ہو گے.اگر تم غفلت سے کام لو گے اور اپنی ذمہ داریوں کو نہیں سمجھو گے تو تم اور تمہاری اولادیں

Page 185

خطبات محمود 175 $1954 ان برکتوں کو حاصل نہیں کر سکیں گی جو اسلام اور احمدیت کی خدمت میں اُس نے رکھی ہیں.پس اپنے چھوٹے چھوٹے تعلقات کے لیے اپنا اور اپنی اولادوں کا مستقبل تباہ نہ کرو کہ یہ بڑی خطرناک الفضل 10 اگست 1960 ء ) 66 بات ہے.:1 مستدرک حاکم جلد 3 صفحه 4575 کتاب معرفة الصحابة.مات عبدالرحمان ابن ابى بكر فجأة دار الفكر بيروت 1978ء 2 صحیح بخاری کتاب المغازى باب غزوةِ الطَّائِفِ فِي شَوَالِ سَنَةَ ثَمَانِ 3 : سیرت ابن ہشام جلد 2 صفحہ 266 267 مطبع مصر 1936ء (مفہوما )

Page 186

$1954 176 (17) خطبات محمود مومن کو ہمیشہ اپنے اعمال کی اصلاح کی فکر رکھنی چاہیے (فرمودہ 6 جولائی 1954ء بمقام ناصر آباد سندھ ) تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: اللہ تعالیٰ نے انسان کو جہاں زبان دی ہے وہاں اسے ہاتھ پاؤں بھی دیئے ہیں لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ اکثر لوگ زبان تو استعمال کرتے ہیں لیکن ہاتھ پاؤں کم استعمال کرتے ہیں حالانکہ زبان کی بات پر کم اعتبار کیا جا سکتا ہے اور ہاتھ پاؤں کے کام پر زیادہ اعتبار کیا جاتا ہے.زبان ایسی چیز ہے کہ بڑے سے بڑا جھوٹ بھی بول سکتی ہے.آخر مسیلمہ کذاب کو جو ہم کذاب کہتے ہیں تو زبان کی وجہ سے ہی.یا اور انبیاء کے جو دشمن تھے اُن کو اگر ہم بُرا کہتے ہیں تو اُن کے متکبرانہ دعووں، اُن کی تعلیموں اور اُن کی راستی اور ہدایت سے دوری کی وجہ سے ہی بُرا کہتے ہیں.پھر انسان کے اندر بات کو چھپانے کا ایسا مادہ رکھا گیا کی ہے کہ ہزاروں آدمی باتیں کرتے ہیں لیکن ہم پہچان نہیں سکتے کہ وہی اُن کا عقیدہ ہے یا اُن کا کوئی اور عقیدہ ہے.قرآن کریم میں آتا ہے کہ منافق رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ لر کہتے تھے کہ خدا کی قسم ! تو اللہ کا رسول ہے.بات ٹھیک تھی.آپ واقع میں اللہ تعالیٰ کے رسول تھے مگر بجائے اس کے کہ خدا اُن کی تعریف کرتا اور کہتا کہ یہ لوگ بڑے اچھے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم بھی اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ تو اللہ کا رسول ہے مگر منافق

Page 187

$1954 177 خطبات محمود جھوٹ بول رہے ہیں.1 اب بات انہوں نے سچ کہی تھی مگر پھر انہیں جھوٹا کیوں کہا؟ اس مانی لیے کہ زبان نے تو سچ کہا تھا مگر اُن کا دل اس عقیدہ کو جھٹلاتا تھا.پس چونکہ اُن کا دل اس کو جھٹلاتا تھا اس لیے چاہے وہ سچا کلمہ کہہ رہے تھے خدا تعالیٰ نے اُن کی مذمت کی اور اُن کے جھوٹ کو ظاہر کر دیا تو خالی زبان کی باتیں کافی نہیں ہوتیں.انسان کو ہمیشہ اپنے عمل اور اپنے کردار سے اپنی خوبی لوگوں پر ظاہر کرنی چاہیے.ہم نے دیکھا ہے بیسیوں آدمی مخلصانہ باتیں کرتے رہتے ہیں لیکن وقت پر اُن کی دھوکا بازی اور غداری ظاہر ہو جاتی ہے.اور ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں جن کے متعلق بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ اُن کے اندر اخلاص نہیں لیکن مشکلات کے وقت وہ قربانی کر جاتے ہیں.پس مومن کو ہمیشہ اپنے اعمال کی درستی کی فکر کرنی چاہیے.ظاہر اعمال میں عبادتیں اور نمازیں ہیں جو پانچ وقت بندوں کی خدا تعالیٰ سے ملاقات کرواتی ہیں مگر کتنے ہیں جو نمازوں کے پابند ہیں؟ پہلے یہ کہا جاتا تھا کہ سو فیصدی احمدی نماز کے پابند ہیں مگر اب ہم نہیں کہہ سکتے کہ سو فیصدی احمدی نمازوں کے پابند ہیں.مسلمان تو خیر تیرہ سو سال کے بعد بڑھے ہوئے تھے افسوس ہے کہ بعض احمدی پچاس ساٹھ سال میں ہی کمزور ہو گئے ہیں.تیرہ سو سال تک مسلمانوں نے یہ بات نبھائی.وہ کہتے تھے کہ نماز پڑھو اور خود بھی نماز پڑھتے تھے.وہ کہتے تھے کہ زکوۃ دو اور خود بھی زکوۃ دیتے تھے.وہ کہتے تھے کہ حج کرو اور خود بھی حج کرتے تھے.اب تیرہ سو سال کے بعد ان میں ضعف اور کمزوری پیدا ہو گئی ہے اور انہوں نے کہنا تو شروع کیا کہ نماز پڑھو مگر نماز پڑھنے کا شوق ان میں نہیں رہا.انہوں نے کہنا شروع کیا کہ زکوۃ دو اور خود زکوۃ نہیں دیتے.انہوں نے کہنا شروع کیا کہ حج کرو مگر اکثر مسلمان استطاعت کے باوجود حج نہیں کرتے.لیکن بعض احمد یوں میں تو ابھی سے کمزوری کے آثار پیدا ہونے شروع ہو گئے ہیں.تم اسے زمانہ کا اثر کہہ لو، یورپ کا اثر کہہ لو، دنیا داری کا اثر کہہ لو ، بہر حال جس طرح وہ اپنے ماحول کے اثر کے نیچے تھے اسی طرح ہم اپنے ماحول کے اثر کے نیچے ہیں لیکن ہم میں کمزوری اُن سے زیادہ جلدی آگئی ہے.ہماری مثال تو ایسی ہی ہے جیسے کوئی تیرہ چودہ سال کا ہو اور وہ گہڑا ہو جائے.ایسے شخص کو دیکھ کر سب کو رحم ہی آئے گا کہ ابھی تو اس نے جوانی بھی نہیں دیکھی اور یہ پہلے ہی گبڑا ہو گیا ہے.

Page 188

خطبات محمود 178 $1954 پھر عبادتوں کے علاوہ ایسے اخلاقی کام بھی ضروری ہیں جن میں اپنی اور دوسروں کی ای اصلاح شامل ہو.مثلاً ظلم نہیں کرنا، فساد نہیں کرنا، دھو کے بازی نہیں کرنی، چوری نہیں کرنی، ڈاکہ نہیں ڈالنا، لوگوں کا دل نہیں دُکھانا.اگر کوئی شخص ان باتوں پر عمل کرتا ہے تو سب لوگ کہتے ہیں کہ فلاں بڑا نیک ہے.اور اگر عمل نہ کرتا ہو تو سب اس کی مذمت کرتے ہیں اور اگر کوئی بڑا آدمی ہو جس کے منہ پر لوگ اُس کی مذمت نہ کر سکیں تو پیٹھ پیچھے اس کی ضرور بُرائی کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ فلاں بُرا آدمی ہے.ایک دفعہ ایک شخص میرے پاس آیا اور اُس نے کہا کہ مہاجروں پر بڑا ظلم کیا جاتا ہے اور ان کے حقوق کی طرف کوئی توجہ نہیں کی جاتی.جب وہ اُٹھ کر چلا گیا تو ایک شخص نے کہا کہ یہ سب سے زیادہ جھوٹا انسان ہے.اب اُسے سامنے تو کچھ کہنے کی جرات نہیں ہوئی لیکن ادھر اُس نے پیٹھ پھیری اور اُدھر دوسرے شخص نے بتایا کہ یہ خود بڑا گندہ اور جھوٹ بولنے والا ہے.اس کی بات کا کیا اعتبار ہے.تو منہ سے اگر کوئی کہتا ہے لیکن عمل نہیں کرتا تو کہنے والے کہتے اور محسوس کرنے والے محسوس کرتے ہیں کہ وہ فریب کر رہا ہے.پس مومن کو چاہیے کہ اپنی زندگی اپنے قول کے مطابق بنائے.آخر ہر انسان نے اس دنیا میں رہنا ہے اور ہر انسان نے ایک دن مرنا ہے.خواہ کوئی تن آسانی کے ساتھ رہے خواہ جی تکلیف میں اپنی زندگی کے ایام کاٹے اور خواہ کسی کا یہ عقیدہ ہو کہ انسان نے مر کر مٹی ہو جانا ہے اور خواہ وہ یہ سمجھے کہ مرنے کے بعد انسان جنت یا دوزخ میں جاتا ہے بہر حال یہ تو کوئی شخص ایک منٹ کے لیے بھی خیال نہیں کر سکتا کہ مرنے کے بعد اُس کے ساتھ کچھ نہیں ہو گا.شخص کھاتا پیتا ، لڑتا جھگڑتا، اچھے کام کرتا یا بُرے کام کرتا ہے وہ اتنا تو سمجھتا ہے کہ سانس ڑکنے کے بعد کچھ نہ کچھ کیفیت ضرور پیدا ہو گی.خواہ یہ مان لو کہ انسان مر کر مٹی ہو جاتا ہے اور خواہ یہ مان لو کہ وہ جنت یا دوزخ میں جاتا ہے.بہر حال کچھ نہ کچھ ضرور ہو گا.پس انسان سوچنا چاہیے کہ جب مرنے کے بعد کچھ نہ کچھ ضرور ہونا ہے تو اگر وہ بُرے اعمال کرتا رہا تو اس آئندہ آنے والی زندگی میں اس پر کیا گزرے گی.اور اگر وہ کسی زندگی کا قائل نہیں تب بھی اسے سمجھ لینا چاہیے کہ فائدہ نیک اعمال میں ہی ہے خواہ انسان نے مر کر مٹی میں

Page 189

$1954 179 خطبات محمود سو جانا ہو.حضرت علی رضی اللہ عنہ سے ایک دفعہ ایک دہریہ نے بحث کی اور کہا کہ خدا تعالیٰ کی ہستی کا کیا ثبوت ہے؟ حضرت علیؓ نے کہا کہ ثبوت تو بڑے بڑے ہیں لیکن میں تمہیں ایک موٹی بات بتا دیتا ہوں.تمہارا دعوی ہے کہ خدا کوئی نہیں اور میرا دعوی ہے کہ خدا ہے.میں اس کی کوئی دلیل نہیں دیتا کہ میں سچا ہوں اور تم سچے نہیں.فرض کرو میں سچا ہوں اور تم جھوٹے ہو یا تم سچے ہو اور میں جھوٹا ہوں.تم مجھے یہ بتاؤ کہ اگر میں جھوٹا ہوا اور تم سچے ہوئے تو میرا کیا حشر ہو گا.میں کہتا ہوں کہ خدا ہے اور تم کہتے ہو کہ خدا نہیں.اگر تمہاری بات کچی ہے اور خدا کوئی نہیں تو میرا حساب تو ہونا ہی نہیں.اگر میں مر گیا تو کچھ بھی نہیں ہو گا.جس طرح تم مٹی ہو جاؤ گے اُسی طرح میں بھی مٹی ہو جاؤں گا.لیکن فرض کرو میں سچا ہوں اور تم جھوٹے ہو اور میں یہ کہتا ہوں کہ خدا ہے تو اگر مرنے کے بعد میری بات سچی نکلی تو تمہیں جوتے پڑیں گے یا نہیں؟ پس اگر تمہارا عقیدہ سچا ہے تو مجھے کوئی خطرہ نہیں اور اگر میرا عقیدہ سچا ہے تو پھر تمہارے لیے خطرہ ہے.اسی طرح اگر تم مٹی میں مل جانے والے ہو، مرنے کے بعد تمہیں کوئی انعام نہیں ملے گا، کوئی نئی زندگی نہیں ملے گی تو کم سے کم ان نیکیوں کے نتیجہ میں دنیا کے لوگ تو تمہیں یاد کرتے رہیں گے کہ فلاں بڑا اچھا آدمی تھا.پس ان نیکیوں کے بجا لانے میں تمہارا نقصان کوئی نہیں.لیکن اگر خدا نے حساب لینا ہے اور اگر مرنے کے بعد تم نے جنت یا دوزخ میں جانا ہے تو تم سوچو کہ اگر تم صرف منہ سے کہتے رہے لیکن عمل نہ کیا تو تم وہاں کیا کرو گے؟ قرآن کریم میں آتا ہے کہ مرنے کے بعد جب لوگوں کو دوزخ میں ڈالا جائے گا تو وہ کہیں گے کہ کاش! ہمیں پھر دنیا میں واپس کو ٹایا جائے تا کہ ہم نیک اعمال بجالائیں.2 پس ایک چیز جو روزانہ نظر آتی ہے کیوں انسان اُس کے متعلق غور نہیں کرتا.ہر شخص جانتا ہے کہ ہر ایک نے ایک دن مرنا ہے.کوئی جوان ہو کر مرتا ہے کوئی بوڑھا ہو کر مرتا ہے، کوئی بچپن میں مر جاتا ہے اور پھر کوئی موٹر کے نیچے آکر مرتا ہے، کوئی چھت کے نیچے آ کر مرتا ہے، کوئی بجلی لگنے سے مرتا ہے، کوئی ڈوب کر مرتا ہے ، کوئی بیماری سے مرتا ہے.ایسا تو ہم نے کوئی نہیں دیکھا جو مرتا نہیں.پس اگر وہ قربانی اور ایثار کرتا ہے اور خدا کوئی نہیں، حساب کوئی نہیں تو مرنے کے بعد اسے نقصان کچھ نہیں.اور اگر خدا ہے اور حساب ہے اور اُس نے

Page 190

$1954 180 خطبات محمود.دنیا میں منہ سے تو باتیں کیں لیکن عمل نہیں کیا تو وہ مرنے کے بعد ضرور پکڑا جائے گا.یہ ایک اتنی موٹی چیز ہے کہ ہر ایک کو اس سے سبق لینا چاہیے اور نصیحت حاصل کرنی چاہیے.اور اگر کوئی شخص اتنی موٹی بات بھی نہیں سمجھ سکتا تو پھر کوئی انسان اسے سمجھانے کی طاقت نہیں رکھتا.الفضل 9 ستمبر 1959ء) 1: إِذَا جَاءَكَ الْمُنْفِقُونَ قَالُوْا نَشْهَدُ إِنَّكَ لَرَسُولُ اللهِ وَاللهُ يَعْلَمُ إِنَّكَ لَرَسُولُهُ وَاللهُ يَشْهَدُ إِنَّ الْمُنْفِقِينَ تَكْذِبُونَ (المنافقون : 2) 2 وَهُمْ يَصْطَرِخُوْنَ فِيهَا رَبَّنَا أَخْرِجْنَا نَعْمَلْ صَالِحًا غَيْرَ الَّذِى كُنَّا نَعْمَلُ (فاطر: 38)

Page 191

$1954 181 18 خطبات محمود خدمت دین کو ہمیشہ اللہ تعالیٰ کا فضل اور احسان سمجھو ترقی اور کامیابی کے وقت بھی یہ امر فراموش نہ کرو کہ تمہیں جو کچھ ملا محض دین کی خدمت کی وجہ سے ملا ہے (فرمودہ 23 جولائی 1954ء بمقام ناصر آباد سندھ ) تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے سورۃ بقرہ کی ان آیات کی تلاوت فرمائی: وَ مِنَ النَّاسِ مَنْ يُعْجِبُكَ قَوْلُهُ فِي الْحَيَوةِ الدُّنْيَا وَيُشْهِدُ الله.فِيا عَلى مَا فِي قَلْبِهِ وَهُوَ اَلَةُ الْخِصَامِ وَ إِذَا تَوَلَّى سَعَى فِي الْأَرْضِ لِيُفْسِدَ فِيهَا وَ يُهْلِكَ الْحَرْثَ وَ النَّسْلَ وَ اللهُ لَا يُحِبُّ الْفَسَادَ 10 اس کے بعد فرمایا: میں نے جن آیات کی تلاوت کی ہے ان میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ دنیا میں کچھ یسے لوگ بھی پائے جاتے ہیں کہ جب وہ بیٹھ کر دنیا کی باتیں کرتے ہیں تو تم سمجھتے ہو کہ واہ واہ!! یہ کتنے عقلمند اور سمجھدار ہیں.یوں معلوم ہوتا ہے کہ وہ دنیا کے سارے علوم پر حاوی ہیں اور ان کی عقل کو کوئی پہنچ نہیں سکتا اور پھر وہ اپنی دین داری کے متعلق اتنا یقین لوگوں کو دلاتے ہیں کہ کہتے ہیں خدا کی قسم! ہمارے دل میں جو نیکیاں بھری ہوئی ہیں ان کو کوئی نہیں جانتا.

Page 192

$1954 182 خطبات محمود ہم سے مشورہ لیا جائے تو ہم یوں کر دیں، ڈوں کر دیں.مگر فرماتا ہے حقیقت کیا ہوتی ہے؟ حقیقت یہ ہوتی ہے کہ بدترین دشمن جو تمہارے ہو سکتے ہیں وہ اُن سے بھی زیادہ جھگڑالو اور خطرناک ہوتا ہے.وہ ہوتا تمہارے ساتھ ہے، وہ مسلمان کہلاتا ہے اور جب کسی مجلس میں بیٹھ جاتا ہے تو ساری مجلس پر چھا جاتا ہے اور اپنی دین داری اور تقوی پر قسمیں کھاتا ہے اور کہتا ہے کہ میرا دل تو قوم کے لیے گھلا جا رہا ہے.جب دیکھنے والا اُسے دیکھتا ہے اور سننے والا اُس کی باتیں سنتا ہے تو وہ سمجھتا ہے یہ قطب الاقطاب بیٹھا ہے.مگر فرماتا ہے دنیا میں تمہارے یہودی بھی دشمن ہیں، عیسائی بھی دشمن ہیں، اور قو میں بھی دشمن ہیں مگر یہ اُن بھی زیادہ خطرناک ہے.وَ اِذَا تَوَلَّى سَعَى فِي الْأَرْضِ لِيُفْسِدَ فِيهَا وَ يُهْلِكَ الْحَرْثَ وَ النَّسل اور جب کبھی اسے طاقت مل جاتی ہے، اسے رسوخ حاصل ہو جاتا ہے، حکام تک اس کی رسائی ہو جاتی ہے، قوم کا لیڈر بن جاتا ہے تو پھر وہ فتنہ اور فساد پیدا کرنے کی کوشش کرتا اور حرث اور نسل کو تباہ کرتا ہے حالانکہ اگر وہ واقع میں دین دار ہوتا تو خدا تو فساد نہیں کرتا.وہ کیوں اس طریق کو اختیار کرتا ہے جو خدا تعالیٰ کی رضا کے منافی ہے.یہ ایک پیشگوئی ہے جو مسلمان کے متعلق کی گئی تھی یا یوں کہو کہ یہ ایک تنبیہہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے کی اور بتایا کہ ہمیشہ جب قوم میں رفاہیت آتی ہے، ترقی آتی ہے تو ایک گروہ خراب ہو جاتا ہے.وہ بھول جاتا ہے اس بات کو کہ ہم کیا تھے اور پھر کیا سے کیا بن گئے.قرآن کریم میں ایک دوسری جگہ اللہ تعالیٰ اسی مضمون کا ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ جب انہیں یاد دلایا جاتا ہے کہ تمہاری کیا حیثیت تھی، تمہیں تو جو کچھ حاصل ہوا ہے محض اللہ تعالیٰ کے فضل سے حاصل ہوا ہے.تو وہ کہتے ہیں نہیں ہم نے جو کچھ حاصل کیا ہے اپنے علم اور زور سے حاصل کیا ہے.2 میں دیکھتا ہوں کہ اس قسم کی کیفیت ہماری جماعت کے بعض لوگوں میں بھی پیدا ہو رہی ہے حالانکہ قرآن کریم نے واضح الفاظ میں تنبیہہ کر دی تھی اور بتا دیا تھا کہ تمہیں عزت ملے گی اور ملے گی اسلام کی وجہ سے.مگر تم نے اتنا مغرور ہو جانا ہے کہ حرث اور نسل کو تباہ کرنا شروع کر دینا ہے.پھر فرماتا ہے وَإِذَا قِيلَ لَهُ اتَّقِ اللهَ اَخَذَتْهُ الْعِزَّةُ بِالْإِثْمِ

Page 193

$1954 183 خطبات محمود فَبُهُ جَهَنَّمُ وَ لَبِئْسَ الْمِهَادُ - 3 جب اُسے کہا جائے کہ تم اللہ تعالیٰ سے ڈرو.تم دو کوڑی کی کے بھی آدمی نہیں تھے.تمہیں تو جو کچھ ملا ہے سلسلہ کی وجہ سے ملا ہے.تمہارا تو فرض ہے کہ سلسلہ کے اموال اور اُس کی جائیدادوں کی حفاظت کرو تو وہ کہتا ہے میری ہتک کی جاتی ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے یہاں ممکن ہے تم لوگوں کو فریب دے لولیکن آخر جہنم تمہارا ٹھکانہ ہے.وَلَبِئْسَ الْمِهَادُ اور وہ بہت بُرا ٹھکانہ ہے.جہنم بیشک اگلے جہان میں ہے لیکن ایک جہنم ایسے انسان کے لیے اس جہان میں پیدا کر دیا جاتا ہے.جب شریف انسان مقابلہ میں کھڑا ہو جائے تو اُسے ایسا جواب مل جاتا ہے کہ یہی دنیا اُس کے لیے جہنم بن جاتی ہے.دیکھو! ایک غیر احمدی اگر لکھتا ہے کہ مجھے اپنے علم اور اپنی طاقت کے زور سے فلاں عزت ملی ہے تو اور بات ہے لیکن ایک احمدی جو بالکل کم حیثیت تھا اگر اُسے سلسلہ کی وجہ سے مال مل گیا ہے، اگر سلسلہ کی وجہ سے اسے عزت حاصل ہو گئی ہے، اگر سلسلہ کی وجہ سے اسے کوئی پوزیشن حاصل ہو گئی ہے، اگر سلسلہ کی وجہ سے وہ کارخانوں کا مالک بن گیا ہے تو خدا تو اُسے کہے گا کہ تیرے کپڑے کا ہر تار اور تیرے گوشت کی ہر بوٹی اور تیرے آٹے کا ہر ذرہ احمدیت کا ممنونِ احسان تھا.پھر تُو نے کیوں غرور کیا اور تکبر سے اپنا سر اونچا کیا؟ بڑا غرور یہ ہوتا ہے کہ ہم نے سلسلہ کی خدمت کی ہے اور خدمت یہ ہوتی ہے کہ دس یا پندرہ روپیہ چندہ دیا ہوتا ہے حالانکہ میں بھی ہوں، ہزاروں روپیہ چندہ دیتا ہوں اور سارا دن مفت کام کرتا ہوں.اگر دس یا پندرہ روپے دینے کی وجہ سے اُن کا حق ہے کہ وہ سلسلہ کے اموال سے ناجائز فائدہ اُٹھا ئیں تو پھر میرا تو یہ حق ہونا چاہیے کہ میں سلسلہ کی ساری جائیدادوں پر قبضہ کر لوں کیونکہ میں نے پچاس سال تک مفت کام کیا ہے اور لاکھوں روپیہ چندوں میں دے چکا ہوں لیکن یہ بیہودہ بات ہے.میں سمجھتا ہوں کہ یہ اللہ تعالیٰ کا احسان ہے کہ اُس نے مجھے نیکی کی توفیق دی.اگر اُس کا فضل شاملِ حال نہ ہوتا تو میں اتنی خدمت نہ کر سکتا.حقیقت یہ ہے کہ وہ لوگ جن کے دلوں میں نیکی ہوتی ہے وہ جس قدر خدمت سرانجام دیتے ہیں اُسی قدر اُن خدمات کو خدا تعالیٰ کا احسان سمجھتے ہیں.لیکن ایک اور آدمی دس ہزارواں حصہ بھی چندہ نہیں دیتا اور وہ چند روپوں کا احسان جتا کر سلسلہ کے اموال پر

Page 194

$1954 184 خطبات محمود ناجائز قبضہ کرنا چاہتا ہے.اس قسم کی بے شرمی اور بے حیائی کرنے والے کو مسلمان کہلانا ہے تو الگ رہا، انسان کہلاتے ہوئے بھی شرم آنی چاہیے.یہ ویسے ہی لوگ ہیں جیسے قرآن کریم کی ہے کہ أُولَيْكَ كَالْأَنْعَامِ بَلْ هُمْ أَضَلُّ 4 یعنی یہ لوگ اپنی بے حیائی اور میں آتا بے شرمیوں کی وجہ سے جانوروں سے بھی بدتر ہیں، گتوں میں بھی حیا پائی جاتی ہے اور جس ہاتھ سے وہ روٹی کھاتے ہیں اُس کو نہیں کاٹتے.مگر یہ جس ہاتھ سے روٹی کھائیں گے اُسی کو کاٹیں گے اور جس کی وجہ سے انہیں اعزاز حاصل ہوا ہے اُس کو نقصان پہنچائیں گے.پس یقیناً ان سے کتنا افضل ہے اور یہی قرآن کریم نے بیان فرمایا ہے.گتوں میں جب جنون کا مادہ پیدا ہو جائے تو اُس وقت وہ زنجیریں تڑوا کر بھاگ جاتے ہیں تا کہ وہ اس جنون کی حالت میں بھی اپنے مالک یا اُس کے بچہ یا اُس کی بیوی یا اُس کے نوکر کو نہ کاٹ لیں.پس جو حرکت ایک کتا اپنے جنون کی حالت میں بھی نہیں کرتا اگر وہی حرکت بعض لوگ عقلِ سلیم رکھتے ہوئے کریں اور پھر یہ خیال کریں کہ ہم اُن کو انسان سمجھیں تو یہ اُن کی بیوقوفی ہو گی اور یا پھر وہ ہم کو بیوقوف سمجھتے ہوں گے کہ ہم اُن کو اس حالت میں بھی انسان سمجھیں.الفضل 28 ستمبر 1960ء) 1 : البقرة: 205 206 2: فَإِذَا مَسَّ الْإِنْسَانَ ضُرُّ دَعَانَا ثُمَّ إِذَا خَوَّلْنُهُ نِعْمَةً مِنَّا قَالَ إِنَّمَا أوتِيتُهُ عَلَى عِلْمٍ بَلْ هِيَ فِتْنَةٌ وَلَكِنَّ أَكْثَرَهُمْ لَا يَعْلَمُونَ (الزمر: 50) 3 : البقرة : 207 4 : الاعراف : 180

Page 195

$1954 185 19 خطبات محمود اس دنیا میں تو حید کے بعد سب سے بڑی نیکی یہ ہے کہ سچ کو اختیار کیا جائے ہماری جماعت کے ہر فرد کو یہ عہد کر لینا چاہیے کہ اس نے بہر حال سچ بولنا ہے (فرمودہ 30 جولائی 1954ء بمقام ناصر آباد سندھ ) تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ مومنوں کو ایک نصیحت فرماتا ہے کہ وَ كُونُوا مَعَ ال DIN 1 تم راستبازوں کی جماعت میں شامل ہو جاؤ.قرآن کریم میں مَعَ کا لفظ ” سے“ اور ”میں“ کے معنوں میں بھی استعمال ہوتا ہے جیسا کہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تَوَفَّنَا مَعَ الْأَبْرَارِ 2 یعنی اے خدا! ہمیں ابرار میں شامل کر کے وفات دیجیو.اس کا بہ مطلب نہیں کہ ابرار مریں تو ہم بھی مر جائیں.اسی طرح كُونُوا مَعَ الصُّدِقِيْنَ کے یہ معنے نہیں کہ خود تو سچ نہ بولو لیکن بچوں کے ساتھ بیٹھا کرو بلکہ اس کے معنے یہ ہیں کہ سیچوں کی جماعت میں شامل ہو جاؤ.حقیقت میں توحید کے بعد سب سے بڑی نیکی اور سب سے بڑا مشکل کام جو محسوس دنیا میں انسان کے سامنے پیش آتا ہے وہ سچائی ہی ہے.ہزار ہا انسان ایسے دیکھے جاتے ہیں

Page 196

$1954 186 خطبات محمود جو رحم کرنے والے بھی ہوتے ہیں، انصاف کرنے والے بھی ہوتے ہیں.لیکن جب انہیں گواہی دینی پڑے اور وہ یہ دیکھیں کہ اس کے نتیجہ میں ان کی اپنی ذات کو یا ان کے کسی رشتہ دار یا دوست کو نقصان پہنچے گا تو وہ اس میں کچھ نہ کچھ تبدیلی کر دیں گے.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اس کا کچھ نہ کچھ باعث آجکل کی اخلاقی حالت بھی ہے.جن لوگوں کے سامنے واقعات بیان کیے جاتے ہیں وہ سچ کی قیمت کو نہیں سمجھتے.وہ خیال کرتے ہیں کہ اس نے جتنا سچ بولا ہے مجبوراً بولا ہے ورنہ اور سچ بھی اس کے پیچھے ہے.مثلاً ایک شخص نے دوسرے کو تھپڑ مار دیا.وہ کہتا ہے میں نے تھپڑ اس لیے مارا ہے کہ مجھے اشتعال آ گیا تھا لیکن اب بجائے اس کے کہ حج اس کی قدر کرے اور کہے کہ اس نے سچ بولا ہے وہ کہتا ہے کہ اس نے ضرور پانچ تھپڑ مارے ہوں گے.صرف ایک تھپڑ کا اس نے اقرار کیا ہے.غرض جھوٹ دنیا میں اتنا سرایت کر گیا ہے کہ کیا حج اور کیا وکیل اور کیا دوسرے لوگ یہ نہیں سمجھتے کہ کوئی شخص سو فیصدی بھی سچ بول سکتا ؟ ہے.چونکہ اُن کا اپنا ماحول ایسا ہوتا ہے کہ اُن کے دوست اور رشتہ دار جھوٹ بولتے ہیں اس لیے اگر ان کے سامنے کوئی سچ بولے تو اس کی قدر نہیں کی جاتی.وہ سمجھتے ہیں کہ جھوٹ لوگ ضرور بولتے ہیں.اس لیے اس نے بھی کچھ نہ کچھ جھوٹ ضرور بولا ہو گا.نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ بیچ بولنے والا گھبرا جاتا ہے اور گھبرا کر خود بھی جھوٹ بولنے لگ جاتا ہے.لیکن مومن کو یہ نہیں دیکھنا چاہیے کہ اُس کے اگر دو پیش کے لوگ کیا کہتے ہیں بلکہ اُسے یہ دیکھنا چاہیے کہ خدا کیا کہتا ہے.آخر ایمان کے کچھ نہ کچھ معنے تو ہونے چاہیں.جب ایک شخص ایمان کی وجہ سے ساری دنیا سے لڑائی جھگڑا کرتا ہے، فساد مول لیتا ہے تو اس کے کچھ معنے تو ہونے چاہیں.اور ایمان کے کم سے کم معنے یہ نہیں کہ ایک انسان یہ فیصلہ کرتا ہے کہ اُسے خدا دوسری تمام چیزوں سے مقدم ہے.اب جن چیزوں کو وہ مؤخر قرار دیتا ہے اگر اُن کو مقدم کرنے لگ جائے تو اُس کا ایمان کہاں باقی رہتا ہے.ایک طرف خدا کہتا ہے کہ سچ بولو اور دوسری طرف اُس کے ساتھی کہتے ہیں کہ جھوٹ بولو.چاہے منہ سے کہیں اور چاہیں عمل سے کہیں ، دونوں طریق ہوتے ہیں.کبھی انسان دوسرے کو کہتا ہے کہ جھوٹ بولو اور کبھی دوسرا جھوٹ بولتا ہے تو اُسے منع نہیں کرتا اور اس طرح جھوٹ کی تائید کرنے والا بن جاتا ہے.

Page 197

$1954 187 خطبات محمود کو بہر حال خدا کا منشا یہ ہے کہ ہم سچ بولیں.اب اگر ہم جھوٹ بولیں اور سچائی چھپائیں تو ہماری نگاہ میں خدا کی کوئی قدر نہ رہی.یا یوں کہو کہ ہم خدا کی بادشاہت کو قائم کرنے کی بجائے شیطان کی بادشاہت کو دنیا میں قائم کرنے والے بن جائیں گے.آخر خدا کی بادشاہت اس طرح تو قائم نہیں ہو گی کہ لندن یا پیرس یا واشنگٹن یا نیو یارک جیسا مقام آباد کیا جائے گا.ایک بہت بڑا تخت بچھایا جائے گا اور پھر ایک بڑا تاج تیار کیا جائے گا جو جواہرات اور ہیروں سے مرقع ہو گا.اور پھر ایک دن مقرر کیا جائے گا جس میں اللہ تعالیٰ آسمان سے اُترے گا، اُسے خلعت پہنایا جائے گا، اُس کے سر پر تاج رکھا جائے گا اور اعلان کیا جائے گا کہ آج خدا کی حکومت دنیا میں قائم ہو گئی ہے.ہر عقلمند انسان سمجھ سکتا ہے کہ یہ خدا سے تمسخر ہے.اگر کوئی شخص کہتا ہے کہ اس طرح خدا کی بادشاہت قائم ہوگی تو وہ دین کو کھیل بناتا اور ایک بہت بڑی معصیت کا ارتکاب کرتا ہے.ہم جو کہتے ہیں کہ دنیا میں خدا کی بادشاہت قائم ہو تو اس کے معنے یہ ہوتے ہیں کہ لوگ اس کی باتیں ماننے لگ جائیں.جب ہم کہتے ہیں کہ فلاں کی حکومت قائم ہے تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ لوگوں پر اُس کے احکام کی اطاعت فرض ہے.اگر لوگ اس کے احکام کی خلاف ورزی کرتے ہیں تو حکومت کے افسر اور ذمہ دار کارکن اور حج سب اس کے مخالف ہو جاتے ہیں اور اُسے سزا دیتے ہیں.جب یہی بات خدا تعالیٰ کے متعلق ہو جائے تو اس کے معنے یہ ہوں گے کہ دنیا میں خدا تعالیٰ کی بادشاہت قائم ہو گئی ہے.جس طرح حکومت کہتی ہے کہ ٹیکس دو اور لوگ ٹیکس دیتے ہیں اور جو لوگ ٹیکس نہیں دیتے وہ پکڑے جاتے ہیں.افسران بالا تک رپورٹ کی جاتی ہے کہ فلاں نے ٹیکس نہیں دیا.پھر تحصیلدار آتا ہے اور اس پر ٹھپہ لگ جاتا ہے.ٹھپہ لگنے کے بعد وہ مجسٹریٹ کے سامنے پیش ہوتا ہے اور وہ اُسے جرمانہ ہے قید کی سزا دیتا ہے.اس طرح خدا تعالیٰ کی بادشاہت بھی اُسی صورت میں قائم ہو سکتی ہے جب اللہ تعالیٰ کے احکام کی اطاعت کی جائے.اور جو لوگ اُن احکام کی خلاف ورزی کریں کے ہم مخالف ہو جائیں.خدا نے کہا ہے کہ سچ بولو.اب ہمارا فرض ہے کہ ہم سچ بولیں اور جو شخص نہیں بولتا اُس کے مخالف ہو جائیں اور اُس کا ساتھ دینے سے انکار کر دیں.

Page 198

$1954 188 خطبات محمود جب باپ کو سرکاری ہتھکڑی لگ جاتی ہے تو کیا اُس کے بیٹے کو کبھی جرات ہوتی ہے کہ وہ اُس ہتھکڑی کو اُتار دے؟ یہ جرات کیوں نہیں ہوتی ؟ اس لیے کہ دنیا میں حکومت قائم ہوتی.اور وہ سمجھتا ہے کہ اگر میں نے اس کے احکام میں مداخلت کی تو مجھے سزا دی جائے گی.لیکن کی خدا کے معاملہ میں لوگ بڑے اطمینان سے دوسرے کی تائید کرنے لگ جائیں گے.ایک جھوٹ بولے گا تو دوسرا اس کی تائید کرے گا.یا قاضی کے سامنے معاملہ جائے گا تو بیٹا کہے گا کہ میرا باپ تو وہاں تھا ہی نہیں.وہ تو فلاں جگہ تھا.حالانکہ یہ بالکل جھوٹ ہوتا ہے.جھوٹ کی تائید اس لیے کی جاتی ہے کہ خدائی ہتھکڑی کا خوف نہیں ہوتا.اگر خوف ہوتا تو اس کے احکام کی کیوں اطاعت نہ کی جاتی.غرض اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں نصیحت فرماتا ہے کہ كُونُوا مَعَ الصُّدِقِيْنَ تم اپنے آپ کو صادقوں اور راستبازوں میں شامل کرو اور ہمیشہ سچ بولو.جب یہ روح کسی جماعت میں پیدا ہو جائے اور اس روح کا پیدا کرنا انسانوں کے اپنے اختیار میں ہے فرشتوں نے یہ چیز ا نہیں کرنی تو پھر اُس جماعت کا مقابلہ کرنا آسان نہیں ہوتا.اور یہ روح اسی صورت میں پیدا ہوسکتی ہے جب کچی گواہی دیتے وقت انسان، نہ اپنے باپ سے ڈرے، نہ اپنے بیٹے.ڈرے، نہ ماں سے ڈرے، نہ بہن سے ڈرے، نہ بھائی سے ڈرے، نہ دوست سے ڈرے اور نہ کسی اور رشتہ دار سے ڈرے.ایک باپ اگر جھوٹ کی جرات کرتا ہے تو اسی لیے کہ وہ سمجھتا ہے ، میرا بیٹا میری تائید کرے گا یا میری بیوی میری تائید کرے گی.لیکن اگر عدالت میں معاملہ پیش ہو اور بیٹا کہے کہ یہ ہیں تو میرے باپ لیکن انہوں نے یہ بات کی ہے.بیوی کہے کہ یہ ہیں تو میرے خاوند لیکن انہوں نے یہ بات کی ہے، تو دوسرے ہی دن وہ جھوٹ چھوڑ دے گا.وہ اگر جھوٹ بولتا ہے تو اس لیے کہ اس کے افعال پر پردہ پڑا رہے.بھائی اس لیے جھوٹ بولتا ہے کہ دوسرا بھائی اُس کی ہاں میں ہاں ملا دے گا، بیٹا اس لیے جھوٹ بولتا ہے کہ وہ سمجھتا ہے کہ میرا باپ میری تائید کرے گا، خاوند اس لیے جھوٹ بولتا ہے کہ سمجھتا ہے کہ میری بیوی میرے عیب کو چھپالے گی اور میری تصدیق کرے گی ، بیوی اگر جھوٹ بولتی ہے تو اس لیے کہ وہ مجھتی ہے میرا خاوند میرا ساتھ دے گا.لیکن اگر وہ سچے مسلمان ہوں اور كُونُوا

Page 199

$1954 189 خطبات محمود مَعَ الصَّدِقِيْنَ کے حکم پر چلنے والے ہوں تو باپ کے خلاف بیٹا گواہی دینے کے لیے کھڑا ہوا جائے گا اور خاوند کے خلاف بیوی گواہی دینے کے لیے کھڑی ہو جائے گی اور وہ بالکل گھبراتی جائے گا اور کہے گا کہ ایسی حالت میں میرا جھوٹ بولنا بے فائدہ ہے.اور اس روح کا اپنے اندر قائم کرنا کوئی بڑی بات نہیں.جب انسان ارادہ کرلے تو پھر وہ بڑے سے بڑا کام بھی کر سکتا ہے.بلکہ عورتیں بھی اگر جرات سے کام لیں تو وہ ایمان کا حیرت انگیز مظاہرہ کرتی ہیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ایک دفعہ ایک نوجوان رشتہ کرنے کا خواہشمند تھا.اُسے ایک لڑکی اپنے رشتہ کے لیے پسند آئی.اس نے لڑکی کے باپ سے جا کہ کہا کہ مجھے اور تو سب باتیں پسند ہیں، لڑکی میں تعلیم بھی ہے، اخلاق بھی ہیں، خاندانی وجاہت بھی ہے، میں صرف اتنا چاہتا ہوں کہ ایک دفعہ لڑکی کو دیکھ لوں کیونکہ میں نے ساری عمر اس کے ساتھ نباہ کرنا ہے.یہ بات سُن کر لڑکی کا باپ خفا ہو گیا اور اُس نے کہا نکل جاؤ میرے گھر سے پردہ کا حکم اُس وقت نازل ہو چکا تھا).وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور اُس نے تمام واقعہ بیان کیا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پردہ کا حکم غیر عورتوں کے لیے ہے.شادی کے لیے اگر انسان کسی لڑکی کو دیکھنا چاہے تو دیکھ سکتا ہے کیونکہ اس نے ساری عمر اس کے ساتھ رہنا ہوتا ہے.اُس نے لڑکی کے باپ کو جا کر کہہ دیا کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بات کی تھی.آپ نے فرمایا ہے کہ لڑکی دیکھنے میں کوئی حرج نہیں.اب چونکہ مسلمانوں میں پردہ کا رواج ہو چکا تھا اس لیے انہیں یہ عجیب بات نظر آتی تھی ورنہ پہلے تو عورتوں کا ناچنا اور گانا بھی اُنہیں بُرا نہیں لگتا تھا.بہر حال جب اُس نے کہا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے لڑکی کو دیکھنے کی اجازت دی ہے تو اُس نے کہا کہ میں ایسا بے غیرت نہیں ہوں کہ اپنی لڑکی تجھے دکھا دوں.اندر اُس کی بیٹی بیٹھی ہوئی تھی.اُس نے جب یہ سنا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ لڑکی کو دیکھ لینا جائز ہے اور اس کا کہتا ہے کہ میں بے غیرت نہیں تو چونکہ اُس کے اندر ایمان تھا اُسے غصہ آیا اور وہ اپنا نقاب اتار کر ننگے منہ اُس کے سامنے آگئی اور کہنے لگی میرے باپ کا کیا اختیار ہے؟ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ دیکھنا جائز ہے تو یہ کون ہے روکنے والا.3

Page 200

$1954 190 خطبات محمود اس کی اس نیکی کا اُس لڑکے پر اتنا اثر ہوا کہ اس نے اپنا منہ پھیر لیا اور وہ کہنے لگا خدا کی قسم ! میں تیرے ساتھ بغیر دیکھے ہی شادی کروں گا.جس عورت نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بات کا اتنا احترام کیا ہے کہ اپنے باپ کو اس نے ٹھکرا دیا ہے میں گناہ سمجھتا ہوں کہ اُس کی طرف آنکھ اُٹھا کر دیکھوں.تو عورتیں بھی ایسا کرتی ہیں.صرف ارادہ ہونا چاہیے.اگر تم ارادہ کر لو تو تمہارے لیے چھوٹے سے چھوٹے ارادہ سے ہی قوم کی حالت بدل سکتی ہے.اگر ہر بچہ، ہر بوڑھا، ہر جوان، ہر مرد اور ہر عورت یہ عہد کر لے کہ میں نے سچ بولنا ہے، چاہے اس کے نتیجہ میں میں کسی مقدمہ میں پھنس جاؤں یا پھانسی پر چڑھ جاؤں تو تھوڑے دنوں میں ہی تم اپنے اندر ایک عظیم الشان تغیر محسوس کرنے لگو گے.یہ مت خیال کرو کہ سچ بولنے پر پھانسی ملتی ہے.جو شخص سچ بولنے والا ہو وہ ایسے کام ہی نہیں کرتا جن کے نتیجہ میں اُسے پھانسی ملے.لیکن جھوٹ بولنے والا سمجھتا ہے کہ اگر میں نے جھوٹ بولا تو شاید بچ جاؤں.اس لیے وہ دلیری سے ایسے افعال میں مبتلا ہو جاتا ہے جن کا نتیجہ بعض دفعہ نہایت خطرناک ہوتا ہے.اور یا پھر سچ بولنے والا اُس وقت پھانسی چڑھتا ہے جب وہ سمجھتا ہے کہ اب میرا مذہبی فرض ہے کہ میں اپنی جان پیش کر دوں.پھر وہ دلیری کے ساتھ جاتا ہے اور کہتا ہے کہ مجھے بیشک پھانسی دے دو.یاد رکھو! قوم کی عزت کو اونچا کرنا افراد کے ہاتھ میں ہوتا ہے اور بیچ ایسی چیز ہے جس سے قوم کی عزت اور اس کا وقار قائم ہوتا ہے.اس میں نہ روپے کا سوال ہوتا ہے نہ علم کا سوال ہوتا ہے، نہ طاقت کا سوال ہوتا ہے، نہ کسی فن کے جاننے کا سوال ہوتا ہے.چندے کا سوال آئے تو غریب کہہ دیتے ہیں کہ ہم کہاں سے دیں، جہاد کا سوال آئے تو ناواقف لوگ کہہ سکتے ہیں کہ ہم لڑنا نہیں جانتے ، علم کا سوال آئے تو بے علم لوگ کہہ سکتے ہیں کہ ہم کیا خدمت کر سکتے ہیں.لیکن یہ ایسا کام ہے جس میں غریب اور امیر اور چھوٹے اور بڑے کا کوئی امتیاز نہیں.دنیا میں کوئی شخص یہ نہیں کہہ سکتا کہ مجھے سچ بولنا آتا نہیں کیونکہ سچ بولنا سکھایا نہیں جاتا بلکہ جھوٹ بولنا سکھایا جاتا ہے.اس وقت تم مسجد میں بیٹھے ہو اگر تم سے کوئی پوچھے کہ تم فلاں وقت کہاں تھے؟ تو تم فوراً کہہ دو گے کہ ہم مسجد میں بیٹھے تھے.لیکن اگر

Page 201

خطبات محمود 191 $1954 جھوٹ بولنا چاہو تو تم سوچو گے کہ میں کس کا نام لوں اور کہوں کہ میں اُس کے پاس بیٹھا تھا.پہلے ایک کا نام تمہارے ذہن میں آئے گا پھر تم کہو گے کہ ممکن ہے وہ انکار کر دے.اس لیے کسی ایسے دوست کا نام لینا چاہیے جو میری تائید کرے.لیکن سچ کے لیے تمہیں کسی غور کی ضرورت نہیں ہو گی.پس سچ ایسی چیز ہے جو کسی کو سکھایا نہیں جاتا اور قوم کا ہر فرد اس نیکی کو بڑی آسانی کے ساتھ اپنے اندر پیدا کر سکتا ہے.خواہ کوئی کتنا غریب ہو، جاہل ہو، علوم و فنون.ناواقف ہو وہ سچ بول سکتا ہے.اگر کہا جائے کہ نمازیں پڑھو تو بعض لوگ کہہ سکتے ہیں کہ ہمیں نماز نہیں آتی.ہمیں نماز سکھائی جائے.اگر کہا جائے کہ زکوۃ دو تو بعض لوگ کہہ سکتے ہیں کہ ہمارے پاس مال نہیں.اگر کہا جائے کہ دوسروں کو علم پڑھاؤ تو بعض لوگ کہہ.ہیں کہ ہم خود جاہل ہیں ہم کسی کو کیا پڑھائیں.اگر کہا جائے کہ لڑائی کے لیے چلو تو بعض لوگ کہہ سکتے ہیں کہ ہم لڑنا نہیں جانتے.لیکن اگر یہ کہا جائے کہ سچ بولو تو کوئی مرد اور کوئی عورت کوئی بچہ اور کوئی بوڑھا ، کوئی جوان اور کوئی اُدھیڑ عمر نہیں کہہ سکتا کہ مجھے سچ بولنا نہیں آتا.غرض یہ ایک ایسی چیز ہے کہ اس سے زیادہ آسان اور کوئی چیز نہیں.مگر قومیں اس کے لیے تیار نہیں ہوتیں.عجیب بات یہ ہے کہ یورپ اور امریکہ کی قومیں دنیا کی دوسری اقوام سے اس بارہ میں بہت آگے ہیں.ان میں سے اکثر لوگ ذاتی معاملات میں سچ بولتے ہیں.گو قومی معاملات میں وہ بھی جھوٹ بول لیتے ہیں اور کوئی کوئی مجرم ، ذاتی معاملہ میں بھی جھوٹ بول لیتا ہے لیکن اکثریت سچ پر قائم رہتی ہے.اس کے نتیجہ میں اُن کا رُعب بھی قائم ہے اور اثر بھی ہے.لیکن ہمارا رُعب اور اثر نہیں.مگر کم سے کم ہماری جماعت کو تو یہ مقام حاصل کرنا چاہیے اور سچ بولنے اور سچ کو قائم کرنے کی کوشش کرنی چاہیے“.1 : التوبة: 119 ( الفضل 22 فروری 1958ء) 2 : آل عمران: 194 : ابن ماجہ کتاب النكاح باب النظر الى المرأة اذا اراد ان يتزوجها

Page 202

$1954 192 20 خطبات محمود خدا نے اس وقت تمہیں ثواب کا بہت بڑا موقع دیا ہے تم ذراسی محنت اور توجہ سے اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کر سکتے ہو.امانت کا طریق اختیار کر تبلیغ اور تعلیم کی طرف توجہ دو اور صفائی کو اپنا شعار بناؤ (فرموده 6 اگست 1954ء بمقام محمد آباد سندھ ) تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: چونکہ یہاں کی زمینوں میں سے ناصر آباد ایک طرف ہے اور محمد آباد دوسری طرف.اس لیے ہر سال ہی میری خواہش ہوتی ہے کہ میں ایک جمعہ محمد آباد میں پڑھاؤں.اب کے بھی میں نے اسی غرض کے لیے پروگرام تجویز کیا تھا اور میری خواہش تھی کہ میں جمعہ کے بعد بھی یہاں ڈیڑھ دن اور ٹھہروں.لیکن یہاں آنے کے بعد یا تو موسم بدل گیا یا یہاں کا موسم ہی ایسا ہے کہ اس کی وجہ سے طبیعت سخت خراب ہو گئی اور زخم کے مقام پر جو درد ہوا کرتا تھ

Page 203

$1954 193 خطبات محمود اور جس میں کراچی کی ٹھنڈک کی وجہ سے کمی آ گئی تھی اور ناصر آباد اور محمودآباد میں بھی کمی رہی وہ تکلیف تیز ہو کر زخم میں پھر درد شروع ہو گیا اور مجھے اپنا پروگرام بدلنا پڑا.ہمارا ارادہ تو جمعرات کو ہی واپس جانے کا تھا مگر چونکہ جمعرات کے دن ناصر آباد میں اطلاع نہیں بھجوائی جاسکتی تھی اور پھر جمعہ آ رہا تھا اور میری خواہش تھی کہ میں ایک جمعہ یہاں ضرور پڑھاؤں اس لیے میں نے فیصلہ کیا کہ جمعہ کے بعد یہاں سے روانگی ہو.گو اس وجہ سے کہ یہ جمعہ جلدی پڑھایا جا رہا ہے بعض لوگ جو گاڑی میں یہاں آ رہے ہوں گے رہ جائیں گے مگر ان کی نیت کا ثواب اُن کو مل جائے گا.میں نے اس سفر میں یہ محسوس کیا ہے کہ اب خدا تعالیٰ کے فضل سے ایک حد تک یہاں جماعتیں زیادہ ہو چکی ہیں اور خدا تعالیٰ کے فضل سے انجمن کی اسٹیوں میں کام بھی پہلے سے بہتر ہے.میں نے پچھلے سال بھی احمد آباد میں ذکر کیا تھا کہ ہمیشہ میری ذاتی آمدن فی ایکٹری انجمن کی زمینوں سے زیادہ رہی ہے اور میں ہمیشہ دل میں محسوس کرتا تھا کہ جو لوگ حالات سے ناواقف ہیں اور یہ جانتے نہیں کہ سب اسٹیٹیوں کا اکٹھا انتظام ہے وہ یہ خیال کریں گے کہ میں اپنی زمینوں کی طرف زیادہ توجہ دیتا ہوں اور میں خواہش کیا کرتا تھا کہ انجمن کی زمینوں کی آمد زیادہ ہو.چنانچہ اس سال دونوں کی آمد میں نمایاں فرق پایا جاتا ہے یعنی ان زمینوں کی آمد پہلی نسبت سے ڈیڑھ گنے ہو گئی ہے اور میری زمینوں کی آمد نصف سے کم پر آگئی ہے.گویا حسابی طور پر یہاں کی زمینوں کی آمد اب میری فی ایکٹر آمد سے تین چار گھنے بڑھ گئی ہے اور یہ اس بات کی ایک خوشکن علامت ہے کہ اب ان اسٹیوں نے ترقی کی طرف قدم بڑھانا شروع کر دیا ہے اور اگر چند سال یہی کیفیت رہی تو امید ہے کہ اس آمدن میں اور بھی ترقی ہو جائے گی.پنجاب میں اگر اچھی زمین ٹھیکہ پر دی جائے تو عموماً سو روپیہ فی ایکٹر مل جاتا ہے یعنی پچیس سو روپیہ پر ایک مربع ٹھیکہ پر چڑھتا ہے.بلکہ باجوہ صاحب جو وکیل الزراعت ہیں اُن کے بعض مربعے بتیس بتیس سو پر بھی ٹھیکے پر چڑھے ہیں.اگر فی مربع پچپیس سو ہی سمجھا جائے تو اس لحاظ سے تحریک کی زمینوں کی آمد دس لاکھ روپیہ سالانہ ہونی چاہیے.مگر چند سال پہلے یہ حالت تھی کہ اگر ہمیں تمیں ہزار روپیہ بھی مل جاتا تو ہم بڑا فخر کیا کرتے تھے.

Page 204

$1954 194 خطبات محمود جاپان اور امریکہ وغیرہ ممالک میں زمینوں کی جو آمدن ہے وہ تو ہمارے وہم اور گمان میں بھی کی نہیں آ سکتی.لیکن ربوہ کے قریب چنیوٹ میں بھی چار پانچ ہزار پر مربع چڑھ جاتا ہے.اور چونکہ تحریک جدید اور صدرانجمن احمدیہ کے یہاں پانچ سو سے زائد مربعے ہیں اس لحاظ سے ہماری بیس لاکھ کی آمد ہونی چاہیے اور اگر اس کو مدنظر رکھا جائے کہ لاہور میں گیارہ سے پندرہ ہزار پر مربع چڑھتا ہے تو پھر ہماری ساٹھ لاکھ آمد ہونی چاہیے.جاپان اور امریکہ میں جو آمد نیں ہیں ان کی تو کوئی حد ہی نہیں.وہ کہتے ہیں کہ دو ہزار روپیہ فی ایکٹر آمد پیدا کرنی چاہیے.یعنی پچاس ہزار روپیہ فی مربع.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اس ملک میں بھی بعض ایسے مربعے ہیں.چنانچہ میرے ایک عزیز نے بتایا کہ میں نے سرکاری ریکارڈ میں ایک مربع دیکھا ہے ہے جو پچپن ہزار روپیہ سالانہ مقاطعہ 1 پر دیا گیا تھا.گویا وہی دو ہزار روپیہ فی ایکڑ.پس کوئی کی نہ کوئی مثال تو یہاں بھی مل جاتی ہے مگر یہ کہ سارے ملک کی پیداوار اس نسبت پر آ جائے یہ ہمارے ملک میں ناممکن سمجھا جاتا ہے.اٹلی وغیرہ میں چار چار، پانچ پانچ سو روپیہ فی ایکٹر حاصل کرتے ہیں.اس لحاظ سے یہاں کی زمینوں کی آمد پچاس لاکھ روپیہ سالانہ تو ضرور ہو جانی چاہیے.اگر ایسا ہو جائے تو ہمارا تبلیغی کام بھی آسان ہو جاتا ہے اور دوسرے بوجھ بھی ہلکے ہو سکتے ہیں.بہرحال یہ ایک خوشکن علامت ہے اس بات کی کہ اگر ہمارے کارکن اسی طرح کام کرتے رہے تو ہماری آمد خدا تعالیٰ کے فضل سے بڑھتی چلی جائے گی.پیچھے تو ہم اتنے مایوس ہو چکے تھے کہ جب مجلس شورای میں یہ بیان کیا گیا کہ ہمیں تحریک کی زمینوں سے ایک لاکھ کی آمد ہوئی ہے تو چودھری ظفر اللہ خاں صاحب نے جھک کر میرے کان میں کہا کہ مجھے اس خبر سے بڑی خوشی ہوئی ہے کہ ہمیں ان زمینوں سے ایک لاکھ کی آمد ہوئی ہے.میں نے اس وقت اپنے دل میں کہا کہ یہ تو ہمارے لیے بڑی شرم کی بات ہے کہ ہمارا چارسو مربع ہو اور ایک لاکھ کی آمد ہو.چارسو مربع کے ہوتے ہوئے ایک لاکھ کی آمد کے معنے ہی کوئی نہیں.پنجار میں آجکل کوئی مربع اڑھائی تین سو یا چار سو روپیہ مقاطعہ پر نہیں ملتا.بہت ہی بُری اور ناکارہ زمین ہو تب بھی سات سات، آٹھ آٹھ سو پر ملتی ہے.مجھے اپنی قادیان کی زمینوں کے بدلہ میں جو پنجاب میں زمین ملی ہے اس کا ایک مربع جو تین ٹکڑوں میں تقسیم شدہ ہے دو ہزار روپیہ

Page 205

$1954 195 خطبات محمود ٹھیکہ پر میں نے دیا ہے.اگر ٹکڑوں میں بٹی ہوئی زمین بھی دو ہزار روپیہ پر چڑھ سکتی ہے اور وہی اندازہ ہم اپنی ان زمینوں کے لیے رکھ لیں تب بھی ہماری آٹھ لاکھ روپیہ سالانہ آمد ہونی چاہیے مگر جیسا کہ میں نے بتایا ہے ہمیں آمد کے متعلق اتنی مایوسی ہو چکی تھی کہ چودھری ظفر اللہ خاں صاحب نے مجھے کہا کہ مجھے یہ سن کر بڑی خوشی ہوئی ہے کہ ہمیں ایک لاکھ روپیہ آمد ہوئی.حالانکہ تمہیں لاکھ کی جائیداد ہے.تمیں لاکھ کی جائیداد پر ایک لاکھ روپیہ نفع کے معنے تین روپیہ سینکڑہ کے ہیں.اگر کسی کو سالانہ تین روپے سینکڑہ نفع دیا جائے تو وہ ہزار روپیہ کا سرمایہ کیوں لگائے گا.وہ اگر ہزار روپیہ سرمایہ لگاتا ہے تو اسی لیے کہ اُسے اڑھائی تین سو روپے ملیں.اگر کسی کو صرف تمیں روپے سالانہ ملیں تو کیا اڑھائی روپے ماہوار پر اُس کی عقل ماری ہوئی.کہ وہ ہزار روپیہ سرمایہ لگائے گا.وہ اس کی بجائے بیلدار بن جائے گا یا کوئی اور کام شروع کر دے گا مگر ہزار روپیہ کا سرمایہ لگانے کے لیے تیار نہیں ہو گا.وہ تبھی ہزار لگاتا ہے جب سمجھتا ہے کہ پچاس ساٹھ ماہوار تو کم سے کم آمد ہو گی.اتنا کرایہ دوں گا اور اتنے میں اپنا گزارہ کروں گا.تو حقیقتاً ہم نہایت ہی گری ہوئی حالت میں جا رہے تھے.ایسی گری ہوئی حالت میں کہ چودھری ظفر اللہ خاں صاحب ایک لاکھ کی آمد سن کر ہی خوش ہو گئے.حالانکہ ہم نے دیکھنا یہ نہیں کہ ہمیں آمد کتنی ہوئی بلکہ ہمیں دیکھنا یہ چاہیے کہ ہمارا خرچ کتنا ہوا.اب تمہیں لاکھ کی جائیداد ہے.اگر دس فیصدی بھی منافع لگایا جائے تب بھی چھ لاکھ منافع ہونا چاہیے.مگر بہر حال چونکہ یہ ایک نیک قدم اُٹھا ہے اس لیے میں نے فیصلہ کیا ہے کہ محمد آباد میں ایک مڈل سکول قائم کیا جائے.چنانچہ میں نے یہاں کے افسروں سے کہا ہے کہ وہ اس جگہ مڈل اسکول قائم کرنے کی کوشش کریں.اسی طرح میں نے فیصلہ کیا ہے کہ گری میں ایک ہوسٹل بنا جائے جس میں لڑکے رہا کریں اور احمدی اُستاد اُن کی نگرانی کریں.اِس طرح آہستہ آہستہ تعلیمی لحاظ سے اس علاقہ کے احمدیوں کی ضروریات پوری ہو سکتی ہیں.اگر یہاں ایک اچھا مڈل اسکول بن جائے تو ہو سکتا ہے کہ بعد میں اسے ترقی دے کر میٹرک تک پہنچا دیا جائے.اردگرد کے لڑکے پرائمری پاس کر کے یہیں تعلیم کے لیے آجایا کریں گے اور اس طرح خدا تعالیٰ کے فضل سے اس اسکول کو ترقی ہوتی چلی جائے گی.ہوسٹل کے متعلق تجویز یہی

Page 206

$1954 196 خطبات محمود کہ اس میں زمینداروں والا طریق رکھا جائے یعنی باورچی انجمن دے دے اور لڑکے دال، آٹا اور سبزی وغیرہ گھر سے لے آیا کریں.گویا وہی خرچ جو ایک لڑکے کا اپنے گھر پر ہوتا ہے ہوٹل میں ہو اور ماں باپ کو کوئی زائد بوجھ برداشت نہ کرنا پڑے.اس طرح ہر غریب غریب بھی اپنے بچوں کو تعلیم دلا سکے گا اور اس کی اچھی تربیت ہو سکے گی.ނ دوسرا حصہ تبلیغ کا ہے.مجھے افسوس ہے کہ یہاں کی جماعتوں کو اس طرف بہت ہی کم توجہ ہے.شاید اس میں بڑی مشکل یہ ہے کہ یہاں ننانوے فیصدی پنجابی ہیں.اور ایک پنجابی کے لیے سندھیوں میں تبلیغ کرنا مشکل ہوتا ہے کیونکہ اس کی زبان اور ہے اور اُس کی زبان اور ی ہے.لیکن جب انسان کسی چیز کا ارادہ کر لے تو پھر وہ کامیاب ہو جاتا ہے.میں نے دیکھا ہے پنجاب سے مایوس ہو کر اب مولویوں نے اس صوبہ کی طرف توجہ کی ہے.اگر یہاں شور ہوا تو پھر پنجاب والوں کو دلیری ہو جائے گی.پچھلی شورش میں سندھ محفوظ رہا تھا لیکن اب برابر خبریں آ رہی ہیں کہ سندھ میں فتنہ کو ہوا دینے کی کوشش کی جا رہی ہے.پس ہمیں پہلے.ہوشیار ہو جانا چاہیے.گورنمنٹ نے اپنی مصلحتوں کے ماتحت جن کو میں ٹھیک سمجھتا ہوں.سرکاری افسروں اور سرکاری ملازمین کو تبلیغ سے روک دیا ہے لیکن اس کا عوام الناس سے کوئی تعلق نہیں.پس تمہیں کوئی قانون اپنے بھائی بندوں کو تبلیغ کرنے سے نہیں روک سکتا بشرطیکہ تم سے کام لو اور فتنہ کو ہوا نہ دو.تمہیں صرف فساد سے روکا جاتا ہے.اور فساد اور تبلیغ کبھی ے نہیں ہو سکتے.یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ ایک شخص دوسرے کو نیکی کی تلقین کرے اور پھر وہ خود ہی فساد کرنے لگ جائے.ہاں! اگر دوسرا شخص فساد کرتا ہے تو یہ اُس کی اپنی غلطی ہے.تبلیغ کرنے والے کا اس میں کوئی قصور نہیں.میں دیکھتا ہوں کہ یہاں ہماری جماعت کے کثرت سے لوگ موجود ہیں مگر پھر بھی وہ تبلیغ نہیں کرتے.نصرت آباد اور جھڈو سے چلو اور ناصر آباد تک آؤ تو ایک ہزار کے قریب احمدی مرد مل جائے گا اور عورتیں اور بچے ملا کر چار پانچ ہزار تک ان کی تعداد ہو گی.یہ اتنی ہی تعداد ہے جتنی ابتدا میں قادیان کی ہوا کرتی تھی.مگر اُس وقت قادیان کی تبلیغ سے اردگرد کے کئی گاؤں احمدی ہو گئے تھے.صرف اس بات کی ضرورت ہے کہ تم اپنے اندر نیکی پیدا کرو اور

Page 207

$1954 197 خطبات محمود لوگوں کو نیک نمونہ دکھاؤ.اگر تم زیادہ محنت کرتے ہو تو جب لوگ تمہاری فصلوں کے پاس سے گزریں گے تو ہر دیکھنے والا تمہاری اچھی فصل کو دیکھ کر کہے گا کہ احمدی بڑے محنتی ہوتے ہیں.جب دوبارہ گزرے گا تو تم کہو گے کہ کچھ دیر کے لیے ہمارے پاس بیٹھ جاؤ.گرمی کا موسم ہے کچھ پانی وغیرہ پی لو.اس سے وہ اور زیادہ متاثر ہوگا اور کہے گا کہ احمدی تو فرشتے ہوتے ہیں.پھر کسی دن اگر اس کا تمہارے ساتھ معاملہ پڑے گا یا تمہارے پاس وہ کوئی امانت رکھ جائے گا یا تم سے سودا خریدے گا اور تم اُسے اچھا سودا دو گے یا امانت میں خیانت سے کام نہیں لو گے تو پھر تو وہ اتنا متاثر ہوگا کہ جس کی حد ہی کوئی نہیں.جب ہم قادیان سے نکلے ہیں تو اُس وقت انجمن کا بہت سا روپیہ اُدھر رہ گیا تھا اور ادھر آمد اتنی کم ہو گئی کہ یا تو یہ حالت تھی کہ روزانہ چار چار، پانچ پانچ ہزار روپیہ آتا تھا اور لاہور میں ڈیڑھ دو روپیہ روزانہ تک آمد آ گئی.اُس وقت پہلا قدم میں نے یہ اُٹھایا کہ میں نے کہا ہم سب قیمتاً لنگر سے کھانا کھائیں گے مگر کھائیں گے وہی ایک ایک روٹی جو سب لوگوں کی کے لیے تقسیم ہوتی ہے.چنانچہ تین چار مہینے تک ہم ایسا ہی کرتے رہے.سب کے لیے ایک کی ایک روٹی اور لنگر کا سالن آتا رہا.نتیجہ یہ ہوا کہ جب لوگوں نے دیکھا کہ یہ اپنے پاس.خرچ کر کے بھی ہمارے جیسا کھاتے ہیں تو اُن کے حوصلے بڑھ گئے اور اُن کی ہمتیں بلند ہو گئیں.بیشک کچھ لوگ گر بھی گئے مگر اکثریت ایسی ہی تھی جو پھر ایک نئے عزم کے ساتھ کام کرنے کے قابل ہو گئی.پھر امانتوں کے متعلق میں نے حکم دیا کہ چاہے سارا خزانہ ختم ہو جائے جو لوگ اپنی امانتیں مانگنے آئیں اُن کو امانتیں دیتے چلے جاؤ.اُس وقت انجمن کا آٹھ دس لاکھ روپیہ اُدھر رہ گیا تھا.میرے دل میں اللہ تعالیٰ نے ڈالا کہ اس روپیہ کو جلدی کی نکلواؤ ورنہ یہ ضبط ہو جائے گا.چنانچہ میں نے انجمن والوں سے کہا کہ وہ جلدی روپیہ نکلوائیں.اللہ تعالیٰ کا فضل یہ ہوا کہ ہماری بڑی رقم ایک انگریزی بینک میں تھی.اُس نے فورا وہ روپیہ ادھر بینک میں منتقل کر دیا مگر پھر بھی کئی لاکھ اُدھر ضائع ہو گیا.اُس وقت افسروں کے پاس لوگ اپنی امانتیں مانگنے آتے تو وہ کہتے کہ کچھ ٹھہر و.ہم انتظام کر دیں گے.مجھے معلوم ہوا میں نے کہا کہ کسی کی امانت نہ روکو.اگر کوئی لاکھ مانگے تو اُسے لاکھ دے تو دو،

Page 208

خطبات محمود 198 $1954 روپیه پچاس ہزار مانگے تو پچاس ہزار دے دو.نتیجہ یہ ہوا کہ دو تین مہینوں میں سترہ لاکھ روپیہ نکل گیا.ہمارے پاس گل رقم اکیس لاکھ کے قریب تھی مگر سترہ لاکھ نکل جانے کے باوجود امانتوں کا چودہ پندرہ لاکھ پھر بھی ہمارے پاس جمع رہا.اس لیے کہ جو شخص ایک لاکھ روپیہ نکال کر لے جاتا وہ اپنے دل میں سوچتا کہ میں نے تو یہ روپیہ اس لیے نکلوایا تھا کہ میں سمجھتا تھا انجمن ر کھا جائے گی مگر اس نے تو مجھے سارا روپیہ واپس دے دیا ہے.اب اتنی بڑی رقم کو میں اپنے پاس کہاں سنبھالتا پھروں.چنانچہ ہمیں ہزار وہ اپنے پاس رکھتا اور اسی ہزار دوسرے دن پھر ہمارے پاس جمع کرا جاتا.اس طرح بظاہر ہمارے خزانہ سے سترہ لاکھ نکلا مگر چودہ پندرہ لاکھ پھر ہمارے پاس واپس آ گیا.میں نے اس چیز کی بڑی سختی سے نگرانی کی اور میں نے انجمن والوں سے کہا کہ تم نے کسی سے نہیں کہنا کہ ہم لٹ گئے.بلکہ جو شخص روپیہ لینے کے لیے آئے اُسے فوراً روپیہ دے دو.نتیجہ یہ ہوا کہ جب وہ دوبارہ امانت رکھتے تھے تو اس تسلی اور اطمینان و کے ساتھ رکھتے تھے کہ ہمارا روپیہ محفوظ ہے.اُن دنوں چونکہ عام طور پر لوگوں کو شکوہ تھا کہ ہم نے فلاں کے پاس روپیہ رکھا اور وہ کھا گیا، فلاں کے پاس امانت رکھی اور اس نے واپس نہ کی اس لیے ڈر کے مارے لوگ انجمن کے خزانہ سے بھی روپیہ نکلوانے لگ گئے.اکیس لاکھ میں سے پہلے چند مہینوں میں سترہ لاکھ روپیہ نکل گیا مگر پھر بھی ہمارے پاس اڑھائی تین سال تک اکیس لاکھ ہی رہا.اور اس کی وجہ یہی تھی کہ جب لوگوں میں یہ چرچا ہوا کہ ہم نے فلاں بینک میں روپیہ رکھا تھا وہ کھا گیا، فلاں شخص کے پاس امانت رکھی تھی اُس نے خیانت کی مگر جو انجمن میں روپیہ رکھا تھا وہ محفوظ رہا تو جو لوگ اپنا روپیہ نکلوا لیتے تھے وہ بھی کچھ روپیہ اپنے پاس رکھ کر باقی روپیہ پھر ہمارے پاس جمع کرا دیتے تھے اور کچھ لوگ نئی امانتیں رکھوا دیتے تھے.تو دیانتداری ایسی چیز ہے جو سب سے بڑا خزانہ ہے.بڑا ہی بیوقوف وہ ہوتا ہے جس کے پاس دوسو روپیہ رکھا جائے اور وہ دو سو کھانے کی کوشش کرے.اگر وہ دوسو کو حفاظت کے ساتھ رکھے تو ، کل لوگ اسے آٹھ سو دیں گے، پرسوں پندرہ سو دیں گے اور اس امانت کے ذریعہ وہ اپنے بھی کئی کام چلا سکے گا.حضرت خلیفہ اول ہمیشہ فرمایا کرتے تھے کہ ہمارا تو گزارا ہی امانتوں

Page 209

$1954 199 خطبات محمود لوگ آتے ہیں اور ہمارے پاس روپیہ رکھ جاتے ہیں.ضرورت پر اگر ہمارے پاس کچھ نہیں ہوتا تو اُس امانت میں سے ہم خرچ کر لیتے ہیں.پھر جب ہمارے پاس روپیہ آتا ہے تو ہم امانت میں داخل کر دیتے ہیں.اس طرح ہمیں بھی کوئی تکلیف نہیں ہوتی اور جن لوگوں نے روپیہ رکھا ہوتا ہے انہیں بھی کوئی تکلیف نہیں ہوتی.کیونکہ وہ جتنا روپیہ مانگتے ہیں ہم انہیں دے دیتے ہیں.آجکل سارے بینک انہی امانتوں پر چل رہے ہیں.اور وہ بڑے بڑے کاروبار کررہے ہیں.پس امانت بڑی اہم چیز ہے.جو لوگ امانت میں خیانت کرتے ہیں وہ جتنا فائدہ اُٹھانا چاہتے ہیں اُس سے بہت زیادہ نقصان انہیں پہنچ جاتا ہے.فرض کرو تم سیر دینے کی بجائے ایک شخص کو پندرہ چھٹانک سودا دے دیتے ہو تو اس کا نتیجہ کیا ہوتا ہے؟ نتیجہ یہ ہوتا تو ہے کہ جب وہ گھر میں جا کر تولتا ہے اور اُسے پتا لگتا ہے کہ تم نے ایک چھٹانک چیز کم دی ہے تو وہ تم سے سودا لینا بند کر دیتا ہے.اب تمہیں فائدہ صرف ایک چھٹانک کا ہوا مگر نقصان ہزار چھٹانک کا ہو گیا.تو دیانتداری بڑی دولت ہے.میں جب غدر ہوا تو حکیم محمود خاں جو ہمارے رشتہ داروں میں سے تھے امانت میں بڑے مشہور تھے.اور دتی کے لوگ کہا کرتے تھے کہ ان کے پاس رکھا ہوا روپیہ ایسا ہی ہے جیسے بینک روپیہ رکھا ہو.غدر کے دنوں میں اُن کے گھر کو یہ حفاظت میسر آگئی کہ حکیم محمود خاں مہاراجہ پٹیالہ کے بھی طبیب تھے اور مہاراجہ پٹیالہ اُس وقت انگریزوں سے مل گیا تھا.جب دتی فتح ہوئی تو پٹیالہ کے مہاراجہ نے ایک دستہ فوج کو حکیم صاحب کے مکان پر پہرہ کے لیے مقرر کر دیا.اُس وقت لوگ بھاگتے ہوئے آتے اور اپنی گھڑیاں اُن کی ڈیوڑھی میں پھینک کر چلے جاتے.نہ کوئی لکھت تھی نہ پڑھت تھی.بس اپنے اپنے سامان پھینکتے اور چلے جاتے مگر اُن کی دیانت کا یہ حال تھا کہ آٹھ آٹھ، دس دس سال کے بعد بھی لوگ آئے تو انہوں نے کہا کہ یہ تمہاری گھڑیاں پڑی ہیں ان کو سنبھال لو.اس کا اثر یہ ہے کہ اب تک بھی باوجود اس کے کہ وہ خاندان ٹوٹ چکا ہے سارا دتی ذرا سی بات پر ان پر جان دینے کے لیے تیار ہو جاتا ہے.تو امانت کا طریقہ اختیار کرو اور تبلیغ او تعلیم کی طرف توجہ کرو اور صفائی کو اپنا شعار بناؤ.

Page 210

خطبات محمود 200 $1954 میں بیمار صرف اس وجہ سے ہوا کہ جس گھر میں مجھے ٹھہرایا گیا وہ اس قدر گندا تھا کہ امی چیونٹیوں سے بھرا ہوا تھا.رات کو بھی چھت سے چیونٹیاں گرتیں اور بچے چیخیں مارنے لگ جاتے.معلوم نہیں انہوں نے مکان اتنا گندا کیوں رکھا.میں نے کسی جگہ پر ایسا گند نہیں دیکھا جیسا یہاں دیکھنے میں آیا ہے.پس اپنے اندر صفائی کی عادت بھی پیدا کرو.ایک چیز ایسی ہے جو صرف خدا کو نظر آتی ہے.مگر ایک چیز ایسی ہے جو بندے بھی دیکھتے ہیں.اگر تمہارا دل صاف ہے تو لوگوں کو اس سے کوئی غرض نہیں.وہ تمہارا جسم دیکھتے ہیں.اگر تمہارا جسم گندا ہے اور دل صاف ہے تو بیشک جب تم مر جاؤ گے خدا تعالیٰ تمہیں اچھی جزا دے گا لیکن دنیا میں لوگ تمہیں گندا ہی سمجھتے رہیں گے اور تمہارے پاس بیٹھنے سے گریز کریں گے.پس ہر پہلو کی طرف توجہ کرو اور ہر لحاظ سے دوسروں سے آگے بڑھنے کی کوشش کرو.خدا تعالیٰ نے اس وقت تمہیں ثواب کا بہت بڑا موقع دیا ہے.اگر تم چاہو تو تم ذرا سی محنت اور توجہ سے اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کر سکتے ہو.ہم دیکھتے ہیں کہ دنیا اسلام کی طرف توجہ کر رہی ہے مگر ہمارے پاس لٹریچر نہیں، کتابیں نہیں، روپیہ نہیں کہ ان ذرائع سے ہم انہیں اسلام کی تعلیم سے آگاہ کر سکیں.لیکن تم ان ضرورتوں کو بڑی آسانی سے پورا کر سکتے ہو.کیونکہ تمہاری محنت اور کمائی کے نتیجہ میں ہی روپیہ پیدا ہو گا اور پھر وہی روپیہ تبلیغ اسلام کے کام آئے گا.اگر تم دیانتداری کے ساتھ محنت کرو تو نہ صرف تمہاری اس محنت کا تمہیں بدلہ ملے گا بلکہ انجمن تمہارے روپیہ سے جو تبلیغ کرے گی اُس کے ثواب میں بھی تم حصہ دار ہو گے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں جو شخص کسی کے مال کو تقسیم کرتا ہے اور دیانتداری اور انصاف سے کرتا ہے اُسے صدقہ دینے والے کے برابر ثواب ملتا ہے.2 پس بیشک انجمن کو بھی ثواب ہو گا لیکن تمہیں بھی ثواب ہو گا.اس لیے بھی کہ تمہارے روپیہ سے انجمن نے تبلیغ کی، اور اس لیے بھی کہ تم نے خود تبلیغ اسلام کے لیے چندہ دیا، اور اس لیے بھی کہ تم نے اچھی نگرانی کی اور محنت سے کام کیا.گویا تمہیں تین ثواب ملیں گے.پہلا ثواب انجمن کے ثواب سے ملے گا، دوسرا ثواب تمہارے اپنے چندہ کی وجہ سے ملے گا اور تیسرا ثواب تمہیں اس لیے ملے گا کہ تم نے فصلوں پر محنت کی اور اچھی نگرانی کر کے سلسلہ کے مال کو بڑھایا.اور کسی کو تین گنا ثواب مل جانا تو ایک ٹوٹ ہوتی ہے.اگر تمہارے پاس ایک سو روپیہ ہو جو اگلے سال تین سو ہو جائے، اُس سے اگلے سال

Page 211

$1954 201 خطبات محمود نو سو ہو جائے، اس سے اگلے سال ستائیس سو ہو جائے، اس سے اگلے سال اکاسی سو ہو جائے تو پچاس سال کے اندر ساری دنیا کی دولت تمہارے پاس آ جاتی ہے.پس تین گنا ثواب کوئی معمولی ثواب نہیں.یہ ایک کوٹ ہے جس کا کوئی شاہی خزانہ بھی متحمل نہیں ہو سکتا.پس اللہ تعالیٰ نے جو تمہیں موقع دیا ہے اس سے فائدہ اُٹھاؤ.ہمیں بھی جتنے سامان میسر آئے اُن سے ہم تمہیں فائدہ پہنچانے کی کوشش کریں گے.(الفضل 18 اگست 1954 ء) 1 : مقاطعہ : ٹھیکہ ( اردو لغت تاریخی اصول پر جلد 18 صفحہ 439 مطبوعہ 2002ء کراچی) 2 : ابوداؤد كتاب الزكوة باب اجر الخازن

Page 212

$1954 202 (21) خطبات محمود حقیقی بڑائی اور عظمت اللہ تعالیٰ کے ساتھ تعلق قائم کرنے میں ہی ہوتی ہے جب قو میں بنتی ہیں تو ان کے افراد کی اصلاح کے لیے ایک لمبی جدوجہد کی ضرورت ہوتی ہے.ہر مومن کی یہ کوشش ہونی چاہیے کہ وہ دوسروں کی اصلاح کرے (فرموده 13 / اگست 1954ء بمقام ناصر آبادسندھ ) تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: دکل ہے پرسوں ہی مجھے ایک خط کسی احمدی کا ملا ہے جس میں اس نے لکھا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو تو پندرہ سال میں فتح نصیب ہو گئی تھی اور صحابہ کے اخلاق ایسے تھے ایسے تھے لیکن جماعت کو وہ فتح نصیب نہیں ہوئی اور ان کے اخلاق بھی ایسے اچھے کی نہیں.ناظر عیش کرتے پھرتے ہیں حالانکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بنائے ہوئے افسر نہایت تنگی سے گزارہ کرتے تھے.اصل میں تو یہ ایک بیمار دل کی آواز ہے.معترض ایسا شخص ہے جو کسی زمانہ میں ، بھی دعوے کرتا رہا ہے کہ ہم بزرگ صوفیاء اتنے بڑے ہیں کہ نبیوں کی بھی کیا طاقت ہے کہ وہ ہمارے مقابلہ میں آئیں.اس پر میں نے اُسے جماعت سے خارج کر دیا.کچھ عرصہ بعد

Page 213

$1954 203 خطبات محمود اس نے توبہ کی اور اپنے فعل پر ندامت کا اظہار کیا اور میں نے پھر اس کو جماعت میں شامل کر لیا.مگر کچھ مدت گزرنے کے بعد اس نے پھر مجھ سے خط و کتابت شروع کر دی کہ مجھے تو کوئی پوچھتا بھی نہیں.میں کیا کروں؟ گویا لیڈری کی حرص اس میں پھر عود کرنی شروع ہوئی.پس جہاں تک اس کی شخصیت کا سوال ہے میں اسے کوئی اہمیت نہیں دیتا.مگر میں نے اور لوگوں سے بھی ایسے اعتراضات سنے ہیں.سو پہلی چیز تو یہی ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بیشک چودہ پندرہ سال میں فتح ہو گئی.لیکن ہمیشہ مشابہہ چیزوں سے نتائج نکالے جاتے ہیں.غیر مشابہ چیزوں سے ہے کوئی نتائج نہیں نکالے جاتے.مثلاً کوئی کہے کہ انگور کے درخت کی تو ہزار سال عمر ہوتی اور گندم جو ساری دنیا کو اتنا فائدہ پہنچاتی اور لوگوں کا پیٹ بھرتی ہے وہ پانچ مہینے میں ہی ختم ہو جاتی ہے.تو ہم کہیں گے کہ گندم اور انگور کی آپس میں مشابہت کیا ہے.دونوں کا آپس میں کوئی جوڑ ہونا چاہیے.اسی طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم شرعی نبی تھے اور شرعی نبی دنیا میں چند ہی گزرے ہیں.ان کے حالات اور غیر شرعی نبیوں کے حالات میں بہت بڑا فرق ہوتا ہے.شرعی نبی ایک ایسی شریعت لاتا ہے جو دنیا کے لیے بالکل نئی ہوتی ہے.وہ نئی قسم کی عبادت بتاتا ہے، نئی قسم کا ذکر بتاتا ہے، نئی قسم کے اخلاق بتاتا ہے ، نئی قسم کے اعمال بتاتا ہے.جن کو لوگ شروع میں سمجھ بھی نہیں سکتے کہ انہوں نے کیا کرنا ہے.مثلاً آج تم میں.ހނ جاہل سے جاہل آدمی بھی جسے دین کی معمولی سی واقفیت ہو نماز کے موٹے موٹے مسائل بتا دے گا، روزے کے موٹے موٹے مسائل بتا دے گا لیکن حدیثوں کو ہم دیکھتے ہیں تو ہمیں نظر آتا ہے کہ ابو بکر اور عمر بھی سوال کر رہے ہیں کہ يَا رَسُولَ اللہ ! فلاں مسئلہ کس طرح ہے، فلاں مسئلہ کس طرح ہے؟ اب کیا یہ سمجھا جائے گا کہ تم ابو بکر اور عمر سے بھی بڑے ہو؟ ہر جاہل.ނ جاہل اور گو دن سے گودن انسان بھی سمجھ سکتا ہے کہ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ لوگ نئے نئے مسائل سیکھ رہے تھے اور تم وہ ہو جو اپنے باپ دادا سے ان مسائل پر عمل کرتے چلے آ رہے ہو.تم نے دیکھا کہ تمہارا باپ اور دادا اور تمہارے دوسرے رشتہ دار اس اس طرح نماز پڑھا کرتے ہیں سو تم بھی اسی طرح نماز پڑھنے لگ گئے.آج ہر شخص جانتا ہے کہ اس نے نماز میں

Page 214

$1954 204 خطبات محمود باتیں نہیں کرنی ، اِدھر اُدھر نہیں دیکھنا مگر حدیثوں سے ثابت ہوتا ہے کہ بعض دفعہ صحابہ نماز پڑھ رہے ہوتے تھے کہ اوپر سے ایک شخص آتا اور کہتا السَّلَامُ عَلَيْكُمْ 1 اور وہ نماز میں ہی جواب دے دیتے کہ وَعَلَيْكُمُ السَّلَامُ.یا کوئی سجدہ میں دعا کر رہا ہے تو ساتھ والا مشورہ دے رہا ہے کہ یہ دعا بھی ساتھ شامل کر لو 2ے اس کی وجہ یہی ہے کہ اُس وقت مسائل نازل ہو رہے تھے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ساتھ ساتھ ہدایت دیتے چلے جاتے تھے.جب کوئی نماز میں ہی سلام کا جواب دے دیتا تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرما دیتے کہ نماز میں جواب نہیں دینا چاہیے 3 اور وہ رُک جاتا.پھر انہوں نے آپس میں ایک دوسرے کو نماز میں مشورہ دینا شروع کیا اور خیال کیا کہ یہ تو منع نہیں ہو گا لیکن رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس سے بھی منع فرما دیا.4 اُن کی مثال ایک چھوٹے بچے کی سی تھی اور تمہاری مثال ایک بڑے آدمی کی سی ہے.گو وہ درجہ میں تم سے لاکھوں گنے بڑے تھے.ایک چھوٹا بچہ نماز پڑھتا ہے تو ساتھ ساتھ پوچھتا بھی جاتا ہے کہ اب میں نے کیا کرنا ہے؟ سجدہ میں جاتا ہے تو کہتا ہے اماں! اب کیا کرنا ہے؟ پھر سجدہ سے اٹھتا ہے تو پوچھتا ہے اماں! اب کیا کرنا ہے؟ اور ماں اسے بتاتی جاتی ہے.اس طرح اُن کو مسائل کا پتا ہی نہیں تھا اور وہ پوچھنے پر مجبور تھے.پھر بعض دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر بھی ابھی آدھا حکم نازل ہوتا تھا اور آدھا نازل ہونے والا ہوتا تھا اس لیے جوں جوں احکام کا نزول ہوتا جاتا آپ بتاتے جاتے.بہر حال مقابلہ کے لیے دو چیزوں میں مشابہت کا پایا جانا ضروری ہوتا ہے.شرعی نبیوں کے احکام چونکہ نئے ہوتے ہیں جو لوگوں کو سیکھنے پڑتے ہیں اس لیے اللہ تعالیٰ کی یہ سنت ہے کہ وہ شریعت والے نبی کو اُس کے زمانہ میں ہی حکومت دے دیتا مثلاً زكوة حکومت سے تعلق رکھتی ہے.اگر حکومت نہیں ہو گی تو لوگوں کو زکوۃ کے مسئلہ کا صحیح طور پر علم نہیں ہوسکتا.کیونکہ احکام کی عمل سے تشریح ہوتی ہے.ایک ناواقف انگریز کو اگر کوئی نماز کا رسالہ دے دیتا ہے تو وہ محض اس رسالہ کو دیکھ کر نماز نہیں پڑھ سکے گا.لیکن تم پڑھ لو گے.اس لیے کہ تم نے اپنے باپ دادا کو نماز پڑھتے دیکھتا ہے.پس چونکہ اللہ تعالیٰ یہ جانتا ہے کہ اگر شرعی نبی کے زمانہ میں ہی دینی احکام کی وضاحت نہ ہوئی تو پچھلے لوگوں کے لیے مصیبہ

Page 215

$1954 205 خطبات محمود آجائے گی اس لیے وہ شرعی نبیوں کو اُن کے زمانہ میں ہی حکومت دے دیتا ہے تا کہ وہ ان احکام پر عمل کر کے لوگوں کے لیے ایک نمونہ قائم کر سکیں.غیر شرعی نبیوں کے لیے نہ نماز کی مشکل ہے، نہ روزہ کی مشکل ہے، نہ حج کی مشکل ہے، نہ زکوۃ کی مشکل ہے.ان کا یہی کام ہوتا ہے کہ وہ لوگوں سے کہتے ہیں کہ تم نماز چھوڑ بیٹھے ہو نماز پڑھو، روزہ چھوڑ بیٹھے ہو روزہ رکھو، حج چھوڑ بیٹھے ہو حج کرو، زکوۃ چھوڑ بیٹھے ہو زکوۃ دو.یہ نہیں کہ لوگ اُن سے پوچھیں نماز کیا ہے اور روزہ کیا ہے اور حج کیا ہے اور زکوۃ کیا ہے.وہ صرف عمل کی تلقین کرتے ہیں یہ ان کی صحیح حکمتیں بتاتے ہیں.مگر حج کو بغیر حکومت کے قائم نہیں کیا جا سکتا.زکوۃ کو بغیر حکومت کے قائم نہیں کیا جا سکتا.مقدمات کی قضاء بغیر حکومت کے قیام کے نہیں ہو سکتی.اس لیے شریعت والے نبیوں کو اُن کے زمانہ میں ہی حکومت دی جاتی ہے لیکن غیر شرعی نبیوں کو حکومت کا دیا جانا ضروری نہیں.اسی لیے حضرت مرزا صاحب کا نام مسیح رکھا گیا اور مسیح کی جماعت کو تین سو سال بعد حکومت ملی تھی.اسی طرح موسی علیہ السلام کو وہ بے شک ملک تو نہیں ملا جس کا اُن سے وعدہ کیا گیا تھا مگر مصر سے نکلنے کے بعد اُن کی حکومت قائم ہو گئی تھی.پس جن نبیوں کے پاس شریعت ہوتی ہے اُن کے احکام اور ہوتے ہیں اور دوسروں کے احکام اور ہوتے ہیں.یہ صرف دل کی چاٹ ہوتی ہے کہ ہمیں بھی حکومت مل جائے اور ہم بھی لیڈر بن جائیں.خدا کی سے ایسے لوگوں کو کوئی غرض نہیں ہوتی.دین سے ایسے لوگوں کو کوئی محبت نہیں ہوتی.صرف اتنی خواہش ہوتی ہے کہ کہیں ہم بھی وزیر ہو جائیں.گویا لالچ اور حرص ان سوالات کے پس پردہ کام کر رہی ہوتی ہے.حالانکہ ہر شخص سمجھ سکتا ہے کہ دین کے ساتھ حکومت کا کیا تعلق ہے.خدا سے تعلق ہو جائے تو حکومتیں اس کے مقابلہ میں بالکل بیچ ہوتی ہیں.حضرت مسیح موعود و علیہ الصلوۃ والسلام کے پاس کیا کوئی حکومت تھی ؟ مگر خدا کہتا ہے کہ ”بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گئے 5 اب ایک شخص بادشاہ ہے اور ایک شخص ایسا ہے کہ بادشاہ اس کے سامنے جھک جاتا ہے.تو دونوں میں سے بڑا کون ہوا؟ پس بغیر بادشاہت کے بھی بڑائی ہو سکتی

Page 216

خطبات محمود 206 $1954 مگر اُسی وقت جب لالچ اور حرص کو چھوڑ دیا جائے.باقی یہ کہ احمدی ایسے ہیں اور ویسے ہیں سو اس کا جواب یہ ہے کہ یہی کام ہر احمدی کا ہے کہ وہ دوسرے کو نیک بنائے.پس بجائے اس کے کہ وہ اعتراض کرے وہ بہ بتائے کہ اس نے کتنوں کو نیک بنانے کی کوشش کی ہے.یا تو وہ یہ کہے کہ احمدی نیک نہیں ہو سکتے.اور اگر یہی بات ہے تو پھر وہ خود احمدیت کو کیوں چھوڑ نہیں دیتا؟ وہ آپ اس گند میں کیوں آ گیا ہے؟ اور اگر احمدی نیک بن سکتے ہیں تو وہ ان کو کیوں نہیں بناتا ؟ پس یہ اعتراض بھی عقل کے خلاف ہے.حقیقت یہ ہے کہ جب قومیں بنتی ہیں تو اُن کے افراد کی اصلاح کے لیے ایک لمبی جدوجہد کی ضرورت ہوتی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی مثال اُس کارخانہ کے مالک کی سی نہیں جس کے کارخانہ میں بڑی بڑی مشینیں لگی ہوئی ہوتی ہیں.اس میں لوہا بھی ہوتا ہے، پیتل بھی ہوتا ہے، کاریگر بھی ہوتے ہیں اور وہ کارخانہ اعلیٰ قسم کی لالٹینیں بناتا چلا جاتا ہے.آپ کی مثال اُس شخص کی سی ہے جس کے سپر د ٹوٹی ہوئی لالٹینوں کی مرمت کی جاتی ہے.اور ہر شخص سمجھ سکتا ہے کہ مرمت پر کتنا وقت لگتا ہے.یہیں دیکھ لو! ہمارے ٹریکٹر پر چھ ہزار روپیہ خرچ ہو چکا ہے مگر وہ کھڑا ہے.جب پوچھو تو کہتے ہیں کہ فلاں جگہ سے لیک کر رہا ہے، فلاں جگہ سے پٹرول ٹپکتا ہے لیکن نئے ٹریکٹر ایک ایک دن میں دس دس پندرہ پندرہ اور بیس بیس بھی کارخانے والے نکال دیتے ہیں.لیکن ایک ایک ٹریکٹر کی مرمت کرنے میں چھ چھ مہینے لگ جاتے ہیں.تو بگڑی ہوئی چیز کو درست کرنا بڑا مشکل ہوتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ٹوٹی ہوئی لالٹینیں دی گئی ہیں کہ ان کو درست کرو.ہم ٹانکا لگاتے ہیں تو ہمیں پتا لگتا ہے کہ اب لائین دوسری طرف سے ٹپک رہی ہے.پھر اُس جگہ ٹانکا لگاتے ہیں تو یک تیسرا نقص نکل آتا ہے.پس ہماری مثال کارخانے والوں سے نہیں ملتی.انہوں نے نیا مال لینا ہے اور نکالتے چلے جانا ہے اور ہم نے یہ دیکھنا ہے کہ اس کو کہاں کہاں ٹانکا لگنا ہے.بعض دفعہ ٹانکا نہیں لگتا تو سارا تلا بدلنا پڑتا ہے یا باڈی بدلنی پڑتی ہے.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اس مرمت کے بعد جو چیز بنے گی وہ اُس قیمت کی نہیں ہوگی جس قیمت کی کارخانہ میں بنی ہوئی

Page 217

$1954 207 خطبات محمود نئی چیز ہوتی ہے.مگر اس میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ وہ جیسی بھی بنے گی مشکل سے بنے گی کیونکہ ان اس کے اندر مخفی خرابیاں موجود ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام مثال دیا کرتے تھے کہ خالی تختی پر لکھنا کتنا آسان ہوتا ہے لیکن خراب سختی پر جس پر جابجا لکھا ہوا ہو اُس پر کچھ اور لکھنا مشکل ہوتا ہے.اُس پر لکھنے کے لیے پہلے انسان اُسے دھوئے گا، پھر گا چنی لگائے گا، پھر خشک کرے گا اور پھر لکھے گا.لیکن خالی تختی پر بڑی آسانی سے خوشخط سے خوشخط لکھا جا سکتا ہے.غرض ہمارے زمانہ میں لوگ مذہب سے اتنے دور ہو چکے ہیں اور ان کے دلوں پر اتنی غلط باتیں لکھی جا چکی ہیں کہ خدا تعالیٰ سے ان کا تعلق کٹ چکا ہے اور دین سے ان کو اتنا بعد ہو چکا ہے کہ جس طرح ریتی لے کر رگڑا جاتا ہے اسی طرح ہم بھی ان کو رگڑتے ہیں.مگر بعض دفعہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ بعد میں ہمیں پتا لگتا ہے کہ جہاں سے رگڑنا چاہیے تھا وہاں سے ہم نے رگڑا ہی نہیں.کسی اور جگہ رگڑتے رہے ہیں.پھر وہ ہیں بھی انسان اور انسان انکار بھی کر بیٹھتا ہے اور کہتا ہے میں تو نہیں مانتا.پس اگر کسی کو جماعت کے افراد میں کوئی نقص نظر آتا ہے تو اُس کا فرض ہے کہ اُس نقص کو دور کرنے کی کوشش کرے.اعتراض کرنا محض حماقت ہے کیونکہ اس میں جیسے زید کی ذمہ داری ہے ویسی ہی عمر اور خالد کی بھی ذمہ داری ہے.حضرت خلیفہ اوّل فرمایا کرتے تھے کہ ایک بزرگ تھے جو بھوپال میں رہا کرتے تھے.اور میں کبھی کبھی اُن سے ملنے کے لیے چلا جایا کرتا تھا.ایک دفعہ کام زیادہ ہوا تو میں کئی دن تک ان سے ملنے کے لیے نہیں گیا.بہت دنوں کے بعد جب میں گیا تو مجھے دیکھ کر فرمانے لگے نورالدین! اتنے دن ہو گئے تم آئے نہیں؟ میں نے کہا کام زیادہ تھا، پڑھائی کی طرف زیادہ توجہ رہی اس لیے آ نہیں سکا.کہنے لگے کبھی تم قصاب کی دکان پر گئے ہو؟ میں نے کہا کئی دفعہ.کہنے لگے تم نے دیکھا ہو گا کہ وہ گوشت کاٹتے ہوئے تھوڑی تھوڑی دیر کے بعد چھریاں آپس میں رگڑ لیتا ہے.تمہیں کبھی خیال نہیں آیا کہ وہ ایسا کیوں کرتا ہے؟ پھر خود ہی کہنے لگے اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ گوشت کاٹتے کاٹتے چھریوں کو چکنائی لگ کر اُن کا منہ گند ہو جاتا ہے.جب وہ چھریاں آپس میں رگڑتا ہے تو چکنائی دور ہو جاتی ہے اور چھریاں پھر تیز ہے ہو

Page 218

$1954 208 خطبات محمود جاتی ہیں.یہ مثال دے کر کہنے لگے جس طرح قصاب کی چھریوں کو گوشت کاٹتے وقت چکنائی لی لگ جاتی اور اُن کا منہ گند ہو جاتا ہے اسی طرح جب انسان دنیا کے دھندوں میں مشغول ہوتا جی ہے تو اُس کی روح کچھ نہ کچھ گند ہو جاتی ہے.اُس وقت ضرورت ہوتی ہے کہ وہ کسی نیک آدمی کی صحبت میں بیٹھے تا کہ اُس کی روح میں پھر تازگی پیدا ہو جائے اور دنیوی آلائش کا اثر جاتا رہے.پس تمہیں جلد جلد ملتے رہنا چاہیے.دوسرے لوگوں کے ملنے سے کچھ تم پر اثر ہوتا ہے اور کچھ ہم پر اثر ہوتا ہے اور چونکہ ہم دونوں کے دلوں میں خدا تعالیٰ کی محبت پائی جاتی ہے اس لیے جب ہم ملتے ہیں تو ہمارا زنگ دور ہو جاتا ہے.پس ہر مومن کو کوشش کرنی چاہیے کہ دوسرے کی اصلاح کرے بشرطیکہ اس کے اندر نیک نیتی پائی جاتی ہو.یہ نہ ہو جیسے میں نے ایک شخص کی مثال دی تھی کہ کہنا شروع کر دے یہ الہام ہوا ہے ، مجھے وہ الہام ہوا ہے، فلاں مر جائے گا، فلاں کو ترقی مل جائے گی.یہ محض خود غرضی ہوتی ہے اور ایسا انسان صرف اپنی بڑائی کا خواہشمند ہوتا ہے.حضرت خلیفہ اول کے زمانہ میں ایک دفعہ عبداللہ تیما پوری قادیان آیا.وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ میں احمدی ہوا تھا.مگر بعد میں خود مدعی بن بیٹھا اور اُس نے روز مجھے رقعے لکھنے شروع کر دیئے کہ مجھے مان لو، میں مصلح موعود ہوں.تھا کھاتا تھے پیتا آدمی.کچھ سُودی لین دین بھی کرتا تھا اور اس کے مُرید بعض اچھے اچھے عہدوں پر اور پھر صدقہ و خیرات کرتے رہنا اور غرباء کو کھلانا بھی اُس کی عادت میں داخل تھا.میرے پاس جب بار بار اُس کے رقعے پہنچے تو میں نے ایک دفعہ اُس کو بلوایا اور کہا آپ کے رقعے تو روز آتے ہیں مگر مجھے فیصلے کا کوئی ذریعہ معلوم نہیں ہوتا.آپ کہتے ہیں مجھے مان لو مگر سوال یہ ہے کہ میں آپ کو کیوں مان لوں؟ کہنے لگا آپ نے مولوی صاحب کو مانا ہوا ہے یا نہیں؟ پھر مجھے ماننے میں کیا عذر ہے؟ میں نے کہا حضرت مولوی صاحب کو ہم نے خلیفہ مانا ہے اور ہر مأمور کے بعد اُس کا کوئی نہ کوئی قائم مقام ہوتا ہے.اور یہ ایک طبعی اور عقلی بات ہے کہ کوئی شخص ایسا ضرور ہونا چاہیے جو جماعت کو سنبھالے ورنہ کام سب تباہ ہو جاتا ہے.اس غرض کے لیے ہم نے مولوی صاحب کی اتباع کی ہے.تم یہ تو کہہ سکتے ہو کہ ہم نے آدمی کے.

Page 219

خطبات محمود 209 $1954 انتخاب میں غلطی کی ہے مگر تم یہ نہیں کہہ سکتے کہ ہم نے ایک شخص کو خلیفہ ماننے میں غلطی کی ہے کیونکہ مامور کے بعد اُس کا کوئی نہ کوئی خلیفہ ضرور ہونا چاہیے.مگر آپ تو کہتے ہیں میں ނ مامور ہوں.پس سوال یہ ہے کہ ہم آپ کو کیوں مان لیں؟ کہنے لگا مجھے خدا کی طرف الہام ہوتا ہے.میں نے کہا اس طرح تو جس کے جی میں آئے گا کہہ دے گا کہ مجھے الہام ہوتا ہے.پھر کیا میں ہر ایک کو مانتا پھروں گا؟ کہنے لگا نہیں، مجھے سچا الہام ہوتا ہے.میں نے کہا میں نے تو آج تک کوئی شخص نہیں دیکھا جو یہ کہتا ہو مجھے جھوٹا الہام ہوتا ہے.ہر شخص یہی کہتا ہے کہ مجھے سچا الہام ہوتا ہے.کہنے لگا آپ نے مرزا صاحب کو مانا ہے یا نہیں؟ اگر الہام کی وجہ سے نہیں تو کس وجہ سے آپ نے اُن کو مانا ہے؟ میں نے کہا ہم نے مرزا صاحب کو اس لیے مانا ہے کہ قرآن کریم کے مطالعہ سے ہمیں پتا لگتا ہے کہ اللہ تعالیٰ جب کسی کو مامور بنا کر بھیجتا ہے تو اُس کے آنے سے پہلے ہی اُس کی صداقت کے گواہ پیدا کر دیتا ہے اور وہ گواہی اُس کی صداقت کا ثبوت ہوتے ہیں ورنہ خالی دعویٰ اُس کی صداقت کا ثبوت نہیں ہوتا.پھر میں نے کہا آپ مرزا صاحب کے زمانہ میں آئے تھے.اگر مرزا صاحب آپ کو مان لیتے تو یہ سب جھگڑا ختم ہو جاتا.کہنے لگا اصل بات یہ ہے کہ نبی کی فال پر بڑی نظر ہوتی ہے.جب میں آپ سے ملنے کے لیے آیا تو اُس وقت میں نے کالا کوٹ پہنا ہوا تھا.مرزا صاحب نے میرا کالا کوٹ دیکھ کر مجھے نہیں مانا.کیونکہ کالا رنگ منحوس ہوتا ہے.میں نے کہا یہ دلیل آپ کے نزدیک چلتی ہو گی ، مرزا صاحب کے لیے تو جو خدا تعالیٰ نے دلیل پیدا کی تھی وہ یہ تھی کہ ابھی آپ نے دعوی بھی نہیں کیا تھا کہ اُس نے آپ کے ہاتھ سے براہین لکھوا دی.جس نے بھی براہین کو دیکھا اُس نے سمجھ لیا کہ یہ شخص خدا رسیدہ ہے کیونکہ قرآن کی معرفت بغیر خدا رسیدہ انسان کے اور کسی کو نہیں ہو سکتی.جب لوگوں پر ثابت ہو گیا کہ آپ قرآن کی خدمت کرنے والے ہیں، خدا تعالیٰ کی محبت رکھنے والے ہیں، دین کی اشاعت کرنے ہیں تو اس کے بعد جب آپ نے دعوی کیا تو لوگوں نے آپ کو مان لیا.اور پھر ان کے ایمانوں کی اس رنگ میں زیادتی ہوتی چلی گئی کہ آپ نے پیشگوئیاں کیں اور وہ پوری ہو گئیں.کہنے لگا میں نے بھی کئی پیشگوئیاں کی ہوئی ہیں.میں نے کہا جب وہ پوری ہوں گی اُس وقت مجھے

Page 220

$1954 210 خطبات محمود رقعہ لکھنا.ابھی سے میرا وقت کیوں ضائع کر رہے ہو؟ خیر وہ چلا گیا.اُس کے جانے کے بعد میں نے حضرت خلیفہ اول کو سنایا کہ اس اس طرح عبداللہ یتیما پوری سے باتیں ہوئی ہیں.فال والی بات سن کر آپ بہت ہنسے اور فرمانے لگے میری طرف سے اُسے کہنا (عبداللہ تیا پوری کا رنگ کالا تھا کہ مرزا صاحب نے تیرا کالا کوٹ دیکھ کر نہیں مانا تو ہم تیرا کالا رنگ دیکھ کر کس طرح مان لیں؟ تو اس رنگ کی بھی بعض طبیعتیں ہوتی ہیں.اصل میں وہ دنیا میں بڑھنا چاہتے ہیں مگر چونکہ انہیں اور کوئی سامان میسر نہیں ہوتے اس لیے وہ الہام کے دعوے کرنے لگ جاتے ہیں اور یہ نہیں سوچتے کہ ہر دعوے کا کوئی ثبوت بھی ہونا چاہیے اور سچائی کی کوئی علامت بھی ہونی چاہیے.وہ علامتیں قرآن کریم نے بیان کی ہیں اور اُن کے مطابق سچائی کو معلوم کیا جاسکتا ہے.مثلاً اس زمانہ میں اسلام ایک مصیبت میں پھنسا ہوا ہے اور کفر کا دنیا پر غلبہ ہے.اب جو شخص قرآن اور اسلام کی خدمت کر کے دکھا دے گا ہم مان لیں گے کہ وہی کہ جس کی زمانہ کو ضرورت تھی.حضرت مرزا صاحب نے یہی کہا کہ میں نہ آتا تو کوئی اور ہی آیا ہوتا6 اس کی وجہ یہی ہے کہ جب اسلام ایک بیمار کی طرح تھا تو یہ کس طرح ممکن تھا کہ اللہ تعالیٰ اسے علاج کے بغیر رہنے دیتا.یہی ہم غیر احمدیوں سے کہتے ہیں کہ جو مسیح نے کام کرنا تھا جب وہ سب کچھ مرزا صاحب کر رہے ہیں تو تمہیں ان کے ماننے میں غذر کیا ہے؟ مسیح نے عیسائیت کا زور توڑنا تھا وہ زور مرزا صاحب نے تو ڑا دیا.مسیح نے غلط خیالات اور غلط عقائد کی اصلاح کرنی تھی وہ آپ نے کر دی.اسی طرح قرآن کی آپ نے خدمت کی.اسلام کی آپ نے اشاعت کی.محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نام کو آپ نے پھیلایا.پھر اور کون سا کام ہے جو مسیح آ کر کرے گا.اور جب ایک شخص نے ثابت کر دیا ہے کہ اُس نے اصلاح کر کام کر دیا ہے تو انکار کے کوئی معنے نہیں.لیکن بنگل مار لی، چار پائی کے نیچے گھس گئے اور دوسرے کے کان میں کہہ دیا کہ مان لو! مجھے الہام ہوتا ہے اور ہم نے ذکر الہی کے بہانہ سے ”ہو ہو کرنا شروع کر دیا.تو نہ ایسے ایمان کی کوئی حقیقت ہے اور نہ ایسے الہام کی

Page 221

$1954 211 خطبات محمود کوئی حیثیت ہے.نبی آتا ہے تو وہ دھڑتے سے کہتا ہے کہ میں نے یہ کام کیا ہے.اگر دین کو ای اس کام کی ضرورت نہیں تو تم ثابت کر دو کہ دین اس کے بغیر بھی زندہ ہوسکتا ہے.اور اگر میرے علاوہ کسی اور نے بھی ایسا کام کیا ہے تو اُس کو سامنے لاؤ.یا اگر کسی کو کارکنی کا دعوای ہے تو وہ ایسا ہی کام کر کے دکھاوے اور ایک نیک جماعت پیدا کر دے.دنیا اُسے خود بخود مان لے گی.لیکن یہ کتنی بڑی منافقت ہے کہ اُدھر ایک شخص مرزا صاحب کو مانتا ہے اور ادھر کہتا ہے کہ آپ کا کام ناقص تھا.اگر ان کا کام ناقص تھا تو پھر کسی اور کی ضرورت ہے.اور یا پھر تم خود اس کام کو پورا کر کے دکھا دو دنیا خود فیصلہ کر لے گی کہ تم نے وہ کام پورا کیا ہے ؟ الفضل 31 اگست 1954 )

Page 222

$1954 212 22.خطبات محمود اگر دین دار بننا چاہتے ہو تو ان سارے طریقوں کو اختیار کرو جو دینی ترقی کے لیے ضروری ہیں (فرموده 20 اگست 1954ء بمقام ناصر آبادسندھ ) تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور نے سورۃ بنی اسرائیل کی درج ذیل آیت تلاوت فرمائی: كُلَّا نُمِدٌ هَؤُلَاءِ وَ هَؤُلَاءِ مِنْ عَطَاءِ رَبَّكَ، وَمَا كَانَ عَطَاءِ رَبِّكَ مَحْطُورًا 1 اس کے بعد فرمایا: ”بہت سے لوگ دنیا میں اس دھوکا میں مبتلا رہتے ہیں کہ اگر خدا ہے اور مذہب.تو شاید ان کی دنیوی کوششیں بیکار اور فضول ہیں اور وہ خدا تعالیٰ کی طرف جائز یا ناجائز ، صحیح یا غلط ، کچی یا مصنوعی توجہ کر کے جو چاہیں کر سکتے ہیں.اور بعض نادان اس غلطی میں مبتلا ہیں کہ دنیا میں جو کچھ ہے، سائنس ہے، دنیوی کوششیں اور ان کے نتائج ہیں.خدا تعالیٰ کا لوگوں نے ایک ڈھکوسلا بنایا ہوا ہے جس میں صرف وقت ہی ضائع ہوتا ہے.قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ كُلَّا نُمِدٌ هَؤُلَاءِ وَ هَؤُلَاءِ ہمارے دو قانون دنیا میں جاری ہیں.

Page 223

$1954 213 خطبات محمود ایک دنیوی قانون ہے وہ بھی ہمارا جاری کیا ہوا ہے.اور ایک روحانی قانون ہے وہ بھی ہمارا جاری کیا ہوا ہے.كُلَّا تُمِدُّ هَؤُلَاءِ وَ هَؤُلاء اس گروہ کی بھی ہم مدد کرتے ہیں اور اُس گروہ کی بھی ہم مدد کرتے ہیں.اگر کوئی خدا کا منکر ہو کر بھی دنیوی تدابیر اختیار کرتا ہے اور اُن سامانوں کو استعمال کرتا ہے جو خدا تعالیٰ نے بتائے ہیں تو وہ کامیاب ہو جاتا ہے.اور اگر کوئی خدا پر توکل کی بنیاد ڈال لیتا ہے اور اس کے بتائے ہوئے قانون کے مطابق جو یہ ہے کہ پہلے اونٹ کا گھٹنا باندھو اور پھر تو گل کروح اس کے پیدا کردہ اسباب اور ذرائع کو استعمال کرتا ہے اور پھر خدا تعالیٰ پر توکل بھی کرتا ہے تو وہ بھی کامیاب ہو جاتا ہے.لیکن درمیانی طبقہ جو کہتا ہے کہ میں نہ ادھر کا ہوں اور نہ اُدھر کا اور جو لَا إِلى هَؤُلَاءِ وَلَا إِلى هؤلاء کا مصداق ہوتا ہے وہ منافق ہوتا ہے.نہ وہ اس قانون کی پابندی کرتے ہیں اور نہ اُس قانون کی پابندی کرتے ہیں.جب نماز روزہ کا وقت آتا ہے تو کہتے ہیں نماز اور روزہ میں کیا رکھا ہے؟ یا جیسے حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام فرمایا کرتے تھے کہ بعض لوگ نماز کی میں مرغوں کی طرح ٹھونگیں مارتے ہیں.3 وہ بھی ایسی نماز پڑھتے ہیں جس میں نہ تضرع ہوتا ہے، نہ زاری ہوتی ہے، نہ دعا ہوتی ہے، نہ خدا تعالیٰ کی محبت ہوتی ہے.اسی طرح جب دوسروں سے معاملات کا وقت آتا ہے تو اُن میں اسلامی اخلاق نظر نہیں آتے بلکہ ان میں وہ اخلاق بھی نہیں ہوتے جو کم سے کم دنیا دار لوگوں میں پائے جاتے ہیں.اور جب انہیں کہا جائے کہ تم دنیوی تدابیر اختیار کرو، سائنس کی معلومات سے فائدہ اُٹھاؤ، محنت اور کوشش سے کام لو، خدا تعالیٰ کے پیدا کردہ سامانوں کو استعمال کرو تو کہتے ہیں جانے دو ہم تو مذہبی آدمی ہیں.گویا ان کی مثال بالکل شتر مرغ کی سی ہوتی ہے کہ نہ وہ اُڑتے ہیں اور نہ بوجھ اُٹھاتے ہیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے تم بالکل دہر یہ ہو جاؤ تب بھی میں تمہاری مدد کروں گا.تم سچے ایمان دار بن جاؤ تب بھی میں تمہاری مدد کروں گا.لیکن ایمان داری کا سوال آئے تو دہریہ بن جاؤ اور دہریت کا سوال آئے تو ایمان دار بن جاؤ یہ دوغلا پن ہے، جس کی موجودگی میں کوئی شخص کامیاب نہیں ہو سکتا.کئی لوگ کہتے ہیں کہ یورپ والے کیوں ترقی کر رہے ہیں جبکہ وہ ایمان دار نہیں؟ اس کا جواب اللہ تعالیٰ نے اسی آیت میں دیا ہے کہ

Page 224

$1954 214 خطبات محمود كُلًّا نُمِدٌ هَؤُلَاءِ وَ هَؤُلاء ہم اس کی بھی مدد کرتے ہیں اور اُس کی بھی مدد کرتے ہیں.چاہے وہ ہمیں ماننے والے ہوں یا نہ ماننے والے ہوں مگر قانونِ قدرت کی پابندی کرنے والے ہوں.اگر کوئی شخص خدا تعالیٰ کا انکار کرتا ہے لیکن وہ اُن ضروری سامانوں کو اختیار نہیں کرتا جو دنیوی ترقی کے لیے اُسے اختیار کرنے چاہیں ، وہ سائنس کی ایجادات سے فائدہ نہیں اُٹھاتا، وہ محنت اور کوشش سے کام نہیں لیتا ، وہ سستی اور کاہلی اور نکھے پن کو ترجیح دیتا ہے تو وہ بھی ناکام ہو گا.اور اگر کوئی خدا پر توکل ظاہر کر کے پھر حقیقی رنگ میں تو کل نہیں کرتا ، جہاں کوشش کرنی چاہیے وہاں کوشش نہیں کرتا، جہاں محنت کرنی چاہیے وہاں محنت نہیں کرتا تو اُسے بھی وہ حصہ نہیں ملے گا جو دنیوی رنگ میں کوشش کرنے والوں کو الہی قانون کے ماتحت ملا کرتا ہے اور وہ حصہ بھی نہیں ملے گا جو خدا تعالیٰ کے خالص بندوں کو روحانی رنگ میں ملا کرتا ہے.پس ہر شخص کو یاد رکھنا چاہیے کہ دوغلا پن انسان کو کبھی کامیاب نہیں کر سکتا.دوغلا پن کی مثال ایسی ہی ہوتی ہے جیسے ہمارے ملک میں اینگلو انڈین (Anglo - Indain) ہوا کرتے تھے.جن کے ماں باپ میں سے ایک انگریز ہوتا اور ایک ہندوستانی.انگریز بھی انہیں پسند نہیں کرتے تھے اور ہندوستانی بھی انہیں پسند نہیں کرتے تھے.انگریز کہتے تھے کہ یہ ہم میں سے نہیں ہیں اور ہندوستانی کہتے تھے کہ یہ ہم میں سے نہیں ہیں.جب پارٹیشن کا سوال پیدا ہوا تو لاہور میں اُن کی بھی میٹنگ ہوئی کہ ہم نے کیا کرنا ہے.اُس وقت ان میں سے ایک شخص کھڑا ہوا اور اُس نے کہا پہلے ہمیں یہ بتاؤ کہ ہم ہیں کیا؟ انگریز کہتے ہیں کہ تم ہم میں سے نہیں اور ہندوستانی کہتے ہیں کہ تم ہم میں سے نہیں.پس ہمیں بتایا جائے کہ ہم کیا ہیں؟ اس ایک پر مذاق شخص کھڑا ہوا اور اُس نے کہا میں بتاتا ہوں.ایک عورت کے بچہ پیدا ہونے والا تھا مگر ابھی اُسے دردِ زہ شروع نہیں ہوا تھا اور وہ سمجھتی تھی کہ ابھی کچھ دیر ہے.اس اطمینان میں وہ غسل خانے میں نہانے چلی گئی.وہ طب میں بیٹھی ہی تھی کہ بچہ پیدا ہو گیا.یہی ہمارا حال ہے.ہم طب کے بچے ہیں.نہ ہم گھر میں پیدا ہوئے ہیں نہ ہسپتال میں.غسل خانے میں پیدا ہو گئے ہیں.یہ انسان بھی ایسا ہی ہوتا ہے کسی کی نسل میں سے نہیں ہوتا.نہ خدا اسے اپنا سمجھتا ہے اور نہ دنیا دار اسے اپنا سمجھتے ہیں.یورپ والے کہتے ہیں

Page 225

$1954 215 خطبات محمود کہ اگر تم ہمارے جیسا بننا چاہتے ہو تو ہمارے والا علم سیکھو، ہمارے والا کھانا کھاؤ، ہمارے والے سامان استعمال کرو، ہماری جیسی محنت کرو.اور خدا اسے اس لیے اپنا نہیں سمجھتا کہ وہ کہتا کی ہے تم نے میرے والی نماز نہیں پڑھی، میرے والا روزہ نہیں رکھا، میرے والا حج نہیں کیا، میرے والی زکوۃ نہیں دی.پس وہ اینگلو انڈین ہوتا ہے مگر ہر شخص سمجھ سکتا ہے کہ اس طریق کو اختیار کرنا کتنا نقصان دہ ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کسی صوفی کا قول بیان فرمایا کرتے تھے کہ اگر تم دنیا میں عزت کی زندگی بسر کرنا چاہتے ہو تو کسی کے لڑ لگ جاؤ.یا دین دار بن جاؤ یا دنیا دار بن جاؤ مگر یہ دین دار کہلاتا ہے اور دین سے بے بہرہ رہتا ہے اور دنیا دار کہلاتا ہے اور دنیا کا علم حاصل نہیں کرتا.دنیوی ترقی کے لیے کوشش نہیں کرتا.یورپ والے خدا کو نہیں مانتے مگر مذہب اُن کا عیسائیت ہے مگر اکثریت خدا تعالیٰ کی منکر ہے.لیکن دہریت کے باوجود وہ انتہا درجہ کی قربانی کرتے ہیں.ایسی قربانی جو بعض دفعہ مذہب والے بھی کی نہیں کر سکتے اس لیے وہ جیتتے چلے جاتے ہیں کیونکہ خدا نے کہا ہے کہ كُلًّا تُمِدٌ هَؤُلَاءِ وَ هَؤُلاء جو دنیا کی کوشش کرے گا ہم اُس کو دنیا میں کامیاب کر دیں گے اور جو دین کے لیے کوشش کرے گا ہم اُس کو دین میں کامیاب کر دیں گے.مگر جو ایک ٹانگ دین کی طرف رکھتا ت ہے اور ایک ٹانگ دنیا کی طرف رکھتا ہے، جب دنیا کے لیے قربانی کا وقت آتا ہے تو وہ خدا پرست بن جاتا ہے اور جب دین کے لیے قربانی کا وقت آتا ہے تو دنیا دار بن جاتا ہے.فرماتا ہے اُس کی ہم مدد نہیں کرتے کیونکہ وہ منافق ہے.ނ دیکھ لو! یورپ نے اور امریکہ نے اور جاپان نے کتنی بڑی ترقی حاصل کی ہے.وہ تم سے زیادہ معزز ہیں.وہ کہتے ہیں ہم خدا کو نہیں مانتے، ہم محنت کرتے ہیں اور زور بازو - دنیا کماتے ہیں.اور ایک وہ ہیں جو خدا تعالیٰ سے سچا تعلق رکھتے ہیں، وہ اُس کے احکام پر عمل کرتے ہیں جیسے نفس کو قابو میں رکھنا، شرارتوں سے باز رہنا، جھوٹ، دھوکا اور فریب سے بچنا، کسی پر ظلم نہ کرنا، دوسرے کا حق غصب نہ کرنا، پہلے اونٹ کا گھٹنا باندھنا اور پھر تو گل کرنا ان کی بھی خدا تعالی مدد کرتا ہے.غرض دونوں کی مدد ہمیں نظر آتی ہے.لیکن دوغلوں کی مدد ہمیں کہیں ں نظر نہیں آتی.نہ خدا اُن کی مدد کرتا ہے اور نہ دنیا دار لوگ انہیں منہ لگاتے ہیں.وہ اسی

Page 226

$1954 216 خطبات محمود طرح جوتیاں چٹخاتے پھرتے ہیں.اگر کوئی شخص اس طریق کو اختیار کرنا چاہے تو اُس کی مرضی کی ور نہ عقلمند انسان یہی چاہتا ہے کہ وہ طریق اختیار کرے جس سے اُس کی عزت بڑھے.پسی اگر کوئی شخص دنیا دار بننا چاہتا ہے تو اُس کا فرض ہے کہ وہ اُن سارے طریقوں کو اختیار کرے جو دنیا دار اپنی ترقی کے لیے اختیار کرتے ہیں.اور اگر دین دار بننا چاہتا ہے تو اُس کا فرض.کہ وہ اُن سارے طریقوں کو اختیار کرے جو دینی ترقی کے لیے ضروری ہیں.وہ سچائی سے کام لے، تقوی کو اختیار کرے، دھو کے بازی سے بچے، جھوٹ اور فریب سے کام نہ لے، معاملات میں تحمل اور بردباری کا طریق اختیار کرے، فساد نہ کرے، بغاوت سے بچے.قرآن کریم فرما تاج ہے کہ یہی طریق ہے جس سے عزت حاصل ہو سکتی ہے.اگر کوئی شخص اس طریق کو اختیار نہیں کرتا تو وہ منافق ہے اور جب بھی ہمیں موقع ملے گا ہم ترقی دینے کی بجائے اسے سزا دیں گے کیونکہ اس نے دوغلا پن سے کام لیا.الفضل 8 ستمبر 1954 ء ) 1 : بنی اسرائیل: 21 2 : جامع الترمذى ابوابُ صِفَةِ الْقِيَامَةِ باب حديثِ اعْقَلُهَا وَتَوَكَّلُ.3 : ملفوظات جلد 2 صفحہ 184.5 اپریل 1902ء

Page 227

$1954 217 23 خطبات محمود انسان سیکھنے کی نیت رکھے تو زمین کی اینٹیں اور پہاڑوں کے درخت اور جنگلوں کی جھاڑیاں بھی اس کے لیے قرآن اور حدیث کی تفسیر بن جاتی ہیں (فرموده 27 اگست 1954ء بمقام ناصر آباد سندھ ) تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: یہ جمعہ ہمارے اس سفر کا آخری جمعہ ہوگا کیونکہ پیر کو ہم إِنْشَاء اللَّهُ تَعَالَی یہاں سے روانہ ہو جائیں گے.اس کے ساتھ ہی مجھے آج دل کے ضعف کا دورہ ہو گیا ہے جس کی وجہ سے میں زیادہ بول نہیں سکتا.حقیقتا اگر کوئی سمجھنے والا ہو تو اس کی ہدایت کے لیے ایک معمولی بات بھی کافی ہو سکتی ہے.لیکن عموماً آجکل دیکھا گیا ہے کہ لوگ باتیں سننے کے تو عادی ہیں لیکن بات کو سوچنے اور سمجھنے کے عادی نہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرمایا کرتے تھے کہ گزشتہ بزرگوں سے کسی بزرگ سے ایک شخص نے قرآن کے متعلق کچھ پوچھا تو انہوں نے کہا میں

Page 228

$1954 218 خطبات محمود وو 66 میاں! قرآن کی تفسیر لکھنے بیٹھو تو قیامت تک ختم نہیں ہو سکتی.لیکن جو اس سے فائدہ اٹھانے بیٹھے اس کے لیے اس کی تفسیر ایک لفظ میں آجاتی ہے.قرآن کی تفسیر یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کے ساتھ انسان کا سچا تعلق ہو جائے.پھر انہوں نے کہا کہ قرآن کریم اتنا بڑا نازل ہوا ہے تو در حقیقت ابو جہل کی قسم کے لوگوں کے لیے نازل ہوا ہے.ورنہ اگر ابوبکر" جیسے لوگ ہی دنیا میں بس رہے ہوتے تو صرف بسم اللہ کی ”ب“ کافی تھی.”ب“ کے معنی ساتھ کے ہیں اور مقصد یہ ہے کہ انسان خدا تعالیٰ کے ساتھ ہو جائے.تو سوچنے اور سمجھنے کی اگر عادت ڈال لی جائے تو لوگ کہیں کے کہیں نکل جائیں.لیکن اگر ان میں صرف سننے کی عادت ہو، سوچنے اور غور کرنے کا مادہ ان میں نہ پایا جاتا ہو تو آہستہ آہستہ وعظ ونصیحت کی باتوں سے فائدہ اُٹھانے کی بجائے انہیں کان اور زبان کا ایسا چسکا پڑ جاتا ہے کہ اگر کوئی اچھی سے اچھی بات بھی انہیں کی اپنی ٹوٹی پھوٹی زبان میں سنائے تو وہ فوراً کھڑے ہو جائیں گے اور کہیں گے کہ اس نے ہمارا وقت ضائع کر دیا ہے.وہ یہ نہیں دیکھیں گے کہ اس نے بات کیا کی ہے اور وہ قیمتی اور اچھی ہے.ایسے لوگوں کی نگاہ ہمیشہ برتن پر ہوتی ہے.وہ یہ کبھی نہیں دیکھیں گے کہ اس برتن کے اندر کیا ہے.اگر ایک غریب آدمی ہے اور اس کے پاس صرف ایک ٹوٹا پھوٹا آبخورا ہے اور وہ ان بھینس کا خالص، عمدہ اور گاڑھا دودھ اس میں ڈال کر دوسرے کو دیتا ہے تو گو اس میں کوئی شبہ نہیں کہ برتن بھی زینت کا موجب ہوتا ہے لیکن کیا محض اس وجہ سے ہم اس دودھ کی قدر نہیں کریں گے کہ اس نے ایک ٹوٹے ہوئے آبخورے میں دودھ دیا ہے.کیا ٹوٹے ہوئے آبخورے میں دودھ ڈالنے کی وجہ سے گاڑھا دودھ پتلا ہو جاتا ہے اور تانبے کے کٹورے میں دودھ ڈالا جائے تو پتلا دودھ گاڑھا ہو جاتا ہے یا باسی اور سڑا ہوا دودھ اگر کٹورے میں ڈالا جائے تو اس کی بڑی اچھی حالت ہو جائے گی اور آبخورے میں ڈالا جائے تو اس سے بُو آنے لگے گی.یہ محض لغو بات ہے.انسان کو اصل حقیقت پر غور کرنا چاہیے اور اسے اپنی زندگی کسی اچھے مصرف میں صرف کرنی چاہیے.آخر ساٹھ ، ستر یا استی، سو سال کی زندگی ہی تو ہے اور کوئی بڑی مدت نہیں.اس تھوڑے سے عرصہ کو زیادہ سے زیادہ اچھا اور بہتر بنانے کی کوشش کرنی چاہیے.بیشک دنیا میں ٹھوکریں بھی ہوتی ہیں لیکن گرنے والے اُٹھتے بھی ہیں،

Page 229

$1954 219 خطبات محمود ہے پہلے قدم بقدم چلتے ہیں اور پھر دوڑنے لگ جاتے ہیں.لیکن جو گرتا اور پھر اُٹھنے کی کوشش کی نہیں کرتا اُس کی ترقی کے لیے کوئی سامان نہیں کیے جا سکتے.اور جو آپ گرنا چاہتا.خدا تعالیٰ کی سنت یہی ہے کہ وہ بھی اسے نہیں اُٹھاتا.خدا تعالیٰ نے قرآن کریم میں یہی کہا ہے کہ جو ہماری طرف آتے ہیں ہم ان کی مدد کرتے ہیں.1 اس نے یہ کہیں نہیں کہا کہ جو ہم سے بھاگتے ہیں ہم ان کو پکڑ کر واپس لاتے ہیں.جو ہم سے منہ پھیرتے ہیں ہم ان کو اپنی تائید سے نوازتے ہیں.جو بیٹھنا چاہتے ہیں ہم ان کو جبراً کھڑا کرتے ہیں.جو گرنا چاہتے ہیں ہم ان کو زبردستی اُٹھاتے ہیں.جو بے ایمان ہونا چاہتے ہیں ہم ان کو مجبور کر کے ایماندار بناتے ہیں.قرآن یہی کہتا ہے کہ جو بے ایمان ہونا چاہتا ہے ہم اسے بے ایمان بنا دیتے ہیں اور جو ایماندار ہونا چاہتا ہے ہم اسے ایماندار بنا دیتے ہیں.بہر حال انسانی زندگی کا خلاصہ صرف اتنا ہے کہ وہ اپنے اندر ایک پختہ عزم پیدا کرے اور اچھی چیز کو پکڑ کر اس طرح بیٹھ جائے جیسے شکاری کتا اپنے شکار کو پکڑ کر بیٹھ جاتا ہے.اس کے دانت ٹوٹ جائیں تو ٹوٹ جائیں مگر وہ اپنے شکار کو نہیں چھوڑتا.جب انسان اس نیت اور ارادہ کے ساتھ ایک راستہ کو اختیار کر لیتا ہے اور اچھی چیز کو پکڑ کر بیٹھ جاتا ہے تو پھر نیکیوں کی طرف اس کا قدم اُٹھنا شروع ہو جاتا ہے کیونکہ کوئی نیکی نہیں جو اس سے اگلی نیکی کی توفیق نہیں دیتی.اگر کوئی انسان سچے دل سے صدقہ دیتا ہے تو ضرور ہے کہ اسے نماز کی بھی توفیق ملے اور زکوۃ کی بھی توفیق ملے اور روزہ کی بھی توفیق ملے.اور اگر کوئی اخلاص کے ساتھ روزے رکھتا ہے تو ضرور ہے کہ اس نیکی کے نتیجہ میں اُسے نماز اور زکوۃ اور حج کی توفیق ملے کیونکہ ہر نیکی دوسری نیکی کی طرف لے جاتی ہے.بھلا یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ ایک شخص جو کسی غریب سے ہمدردی کرتا ہے، اس سے محبت اور پیار کا سلوک کرتا ہے اور دنیاداری کے خیالات کے ماتحت نہیں بلکہ سچے دل سے اسے کھانا کھلاتا ہے ایسے شخص کے پاس اگر امانت رکھی جائے تو وہ کھا جائے گا.یہ قطعاً ناممکن بات ہے.جس شخص کے دل میں دوسروں کا اتنا درد ہے اور جو اُن کے لیے ہر وقت قربانی کرنے پر تیار رہتا ہے کس طرح ممکن ہے کہ وہ دوسروں کے مال میں خیانت کرے.اگر سب لوگ مل کر بھی کہیں گے کہ اس نے دوسروں کا

Page 230

$1954 220 خطبات محمود مال کھایا ہے تو ہم کہیں گے کہ وہ جھوٹ بولتے ہیں کیونکہ جس کے دل میں اپنا مال قربانی کرنے کی خواہش پائی جاتی ہے وہ دوسرے کے مال کو کبھی کھا نہیں سکتا.اسی طرح جس شخص ن کے دل میں یہ خواہش پائی جاتی ہے کہ وہ خدا کے لیے بھوکا رہے کس طرح مانا جا سکتا ہے کہ وہ نماز نہیں پڑھے گا.وہ ایک دن نماز نہیں پڑھے گا، دو دن نماز نہیں پڑھے گا، تین دن نماز نہیں بڑھے گا مگر آخر اس کا نفس اسے کہے گا کہ احمق! تو خدا کے لیے بھوکا رہتا ہے اور پھر اس کا ذکر نہیں کرتا؟ اور وہ مجبور ہو گا کہ نماز پڑھے.اور جب وہ نماز پڑھنے لگ گیا تو پھر اسے کوئی ہٹانا بھی چاہے تو وہ نہیں ہٹ سکتا، اسے قید کر دو تو وہ قید میں نماز پڑھنے لگ جائے گا، چار پائی پر باندھ دو تو لیٹے لیٹے نماز پڑھتا رہے گا کیونکہ ایک نیکی دوسری نیکی کی طرف لے جاتی ہے.پس اصل گر انسانی ترقی کا یہی ہے کہ جو چیز اسے اچھی نظر آئے اُسے مضبوطی سے پکڑ لے.پہلے وہ اپنے دل میں فیصلہ کر لے کہ میں نے اچھی چیز کو لینا ہے اور پھر اُسے چھوڑ نا نہیں.اس فیصلہ کے بعد اسے جو چیز بھی اچھی نظر آتی ہے اسے اس نیت کے ساتھ پکڑے کہ اب میں نے اسے چھوڑ نا نہیں.جب انسان اس مقام پر آ جاتا ہے تو وہ ساری دنیا سے سبق حاصل کرنے کے لیے تیار رہتا ہے، ایک بچے سے بھی سبق لے لیتا ہے، ایک بوڑھے سے بھی سبق لے لیتا ہے، ایک پاگل سے بھی سبق لے لیتا ہے.غرض دنیا کی ہر چیز سے وہ فائدہ حاصل کر لیتا ہے.حضرت امام ابوحنیفہ سے ایک دفعہ کسی نے پوچھا کہ آپ تو بہت بڑے آدمی ہیں اور ساری دنیا آپ سے سبق لیتی ہے.کیا آپ نے بھی کسی سے سبق لیا ہے؟ انہوں نے کہا بہت دفعہ لیا ہے اور سب سے بڑا سبق میں نے ایک چھوٹے سے بچے سے لیا ہے.اس نے کہا کسی طرح؟ انہوں نے کہا وہ اس طرح کہ میں ایک دفعہ باہر جا رہا تھا.بارش ہو رہی تھی کہ میں کی نے دیکھا ایک سات آٹھ سال کا بچہ گزر رہا ہے اور تیز تیز قدم اٹھا رہا ہے.میں نے اسے تیز قدم اُٹھاتے دیکھ کر کہا میاں بچے ! ذرا سنبھل کر چلو کیچڑ ہے.ایسا نہ ہو کہ تم پھسل جاؤ.اس لڑکے نے میری طرف دیکھا اور کہا امام صاحب! میرے پھسلنے کا فکر نہ کیجیے.آپ اپنا فکر کیجیے.اگر میں پھسلا تو صرف میں پھلوں گا لیکن اگر آپ پھلے تو ساری دنیا پھسل جائے گی.

Page 231

$1954 221 خطبات محمود کیونکہ جب امام غلطی کرتا ہے تو اُس کے ماننے والے بھی وہی غلطی کرنے لگ جاتے ہیں.و کہتے ہیں کہ لڑکا تو یہ بات کہہ کر چلا گیا مگر میں دیر تک کھڑا اُس کے اس وعظ سے لطف اُٹھاتا رہا.اور حقیقت یہی ہے کہ ساری عمر میں میں نے اتنی کارگر اور مؤثر نصیحت کسی سے نہیں سنی.تو سیکھنے والا ایک بچے سے بھی سبق سیکھ لیتا ہے بلکہ فضا کی ہر آواز سے اپنا مطلب اخذ کر سکتا لطیفہ مشہور ہے کہ امیر خسرو کے پاس ایک دفعہ ایک مہمان آیا.انہوں نے اسے کھانا تو کھلا دیا مگر وہ کھانا کھا کر وہیں بیٹھ گیا.حالانکہ قرآن کا صاف حکم ہے کہ جب تم کھانا کھا لو چلے جاؤ.وہیں بیٹھ کر باتیں کرنے نہ لگ جاؤ 2 بہر حال اسے بیٹھے بیٹھے بہت دیر ہو گئی.اتنے میں ایک دُھنیا روئی دھننے لگ گیا.اس کی آواز سن کر وہ مہمان کہنے لگا کہ امیر خسرو ! یہ آواز کیا کہہ رہی ہے؟ انہوں نے کہا مجھے تو اس سے یہ آواز آ رہی ہے کہ نان چوخوردی خانہ برو.خانہ برو.خانہ برو.نہ کہ کردم بتو خانہ گرو.خانہ گرو.خانہ گرو.یعنی جب تم روٹی کھا چکے ہو تو اب اپنے گھر جاؤ.میں نے اپنا مکان تو تمہارے پاس رہن نہیں رکھ دیا.حقیقت یہ ہے کہ جب تم کوئی آواز سنو تو جو چاہو اس سے بنا لو.دل میں نیکی ہو تو کی انسان اچھی بات بنا لیتا ہے.خرابی ہو تو بُری بات بنا لیتا ہے.ایک دفعہ ہمارے گھر میں پنکھا رہا تھا کہ میں نے کچھ الفاظ بنا کر کہا کہ پنکھا یہ آواز دے رہا ہے.میری بیوی کہنے لگیں آپ ٹھیک کہتے ہیں.اس میں سے یہی آواز آ رہی ہے.پھر میں نے کچھ اور الفاظ بنا کر کہا اب اس میں سے یہ آواز آ رہی ہے.انہوں نے غور سے سنا تو کہنے لگیں ٹھیک ہے.اب یہی آواز آ رہی ہے.تو کھٹکے سے جو آواز پیدا ہوتی ہے اُسے جس سر پر چاہو لے آؤ اور اُس.ایک نتیجہ اخذ کر لو.جس شخص کے دل میں بُرائی ہوتی ہے وہ بُرا اثر لے لیتا ہے اور جس شخص کے دل میں نیکی ہوتی ہے وہ نیک اثر لے لیتا ہے.بہر حال اگر انسان سیکھنے کی نیت رکھے اور سوچنے کی عادت ڈالے تو زمین کی اینٹیں اور پہاڑوں کے درخت اور جنگلوں کی جھاڑیاں یہ بھی انسان کے لیے قرآن اور حدیث کی تفسیر بن جاتی ہیں اور اگر وہ سمجھنے کا ارادہ نہ کرے تو ایسے بدبخت انسان کو نہ قرآن فائدہ دیتا ہے، نہ حدیث فائدہ دیتی ہے،

Page 232

$1954 222 خطبات محمود نہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فائدہ دیتے ہیں، نہ ایسے لوگوں کو گزشتہ زمانہ میں موسی نے فائدہ دیا اور نہ عیسی نے فائدہ دیا.الفضل 29 ستمبر 1954 ء ) 1 : وَالَّذِيْنَ جَاهَدُوا فِيْنَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا (العنكبوت: 70) 1: 2: فَإِذَا طَعِمْتُمْ فَانْتَشِرُوا وَلَا مُسْتَأْنِسِينَ لِحَدِيثِ (الاحزاب : 54)

Page 233

$1954 223 (24) خطبات محمود مشرقی پاکستان کے سیلاب زدہ بھائیوں کی ہر ممکن مدد کرو اور اُن کے لیے جلد سے جلد چندہ جمع کر کے حب الوطنی کا ثبوت دو پاکستان میں بسنے والے آپس میں بھائی بھائی ہیں.اگر ان میں سے کسی ایک حصہ پر تکلیف آئے تو ہمیں احساس ہونا چاہیے کہ وہ تکلیف ہم پر آئی ہے (فرمودہ 3 ستمبر 1954ء بمقام ربوہ) تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: خطبہ شروع کرنے سے پہلے میں اپنی بیماری کے متعلق دوستوں کے بعض سوالات کے متعلق کچھ کہنا چاہتا ہوں جو میرے سندھ کے قیام میں ہوتے رہے ہیں اور خطوط کے ذریعہ یہاں بھی کئی دوست مجھ سے دریافت کرتے رہے ہیں.زخم کے مندمل ہونے کے بعد ڈاکٹروں کی یہ رائے تھی کہ چونکہ گردن کا ایک درمیانہ سائز کا Nerve کٹ گیا ہے اس لیے سر کے اوپر کے حصہ کا گردن کے نچلے حصہ کے ساتھ

Page 234

$1954 224 خطبات محمود ہے.تعلق نہیں رہا اور اس کی وجہ سے سر کے پچھلے چوتھائی حصہ میں بے حسی پیدا ہو گئی ڈاکٹروں کا خیال تھا کہ خدا تعالیٰ کے مقرر کردہ قانون کے ماتحت کئی ہوئی Nerve اپنے آپ کو دوسر دوسرے حصہ کے ساتھ جوڑنے کی کوشش کرے گی اور کسی نہ کسی طرح رستہ نکال کر کسی دوسری Nerve سے مل جائے گی اور اس طرح دوبارہ زندہ ہو جائے گی.ان کا یہ خیال بھی تھا کہ جب اس قسم کی جدوجہد شروع ہوتی ہے تو در دیں بڑھ جایا کرتی ہیں اور درد کے بڑھ جانے کی وجہ سے یوں معلوم ہوتا ہے کہ کوئی نئی بیماری شروع ہو گئی ہے لیکن دراصل وہ خدا تعالیٰ کے اس قانون کا اظہار ہوتا ہے جو اس نے پہلی بیماری کے امالہ 1 اور ازالہ کے لیے بنایا ہے.چنانچہ خدا تعالیٰ کے اس قانون کو مدنظر رکھتے ہوئے دو تین ماہ کے بعد کٹی ہوئی Nerve میں بیداری پیدا ہوئی.اس کی بعض شاخیں پیدا ہو گئیں اور اس نے ادھر اُدھر ہاتھ پاؤں مارے کہ کسی اور چیز سے مل جائے.لیکن ساتھ ہی ڈاکٹروں کا یہ خیال بھی تھا کہ جسم کے اوپر جو ورم پیدا ہو گیا تھا وہ جلد اتر جائے گا.کراچی تک تو وہ ورم زیادہ نہیں تھا.کراچی کے بڑے سرجن کو جو گورنمنٹ میڈیکل کالج کے ہیں ورم دکھایا گیا تو انہوں نے بھی بتایا کہ یہ تکلیف عارضی ہے کچھ دنوں تک ہٹ جائے گی.انہوں نے مالش بھی تجویز کی جو سر کے پٹھوں کو حرکت دینے والی تھی.اُن کا خیال تھا کہ اس مالش کی وجہ سے عارضی تکلیف دور ہو جائے گی.اور عارضی طور پر اس مالش کا فائدہ بھی ہوا لیکن ورم دور نہ ہوا بلکہ بعض اوقات یوں معلوم ہوتا ہے کہ ورم بجائے کم ہونے کے بڑھنے لگا ہے.جب دردیں زیادہ ہوئیں تو سرجن کی یہ رائے تھی کہ یہ دردیں طبعی تقاضا کی وجہ سے ہیں.کئی ہوئی Nerve نے پھیلنا شروع کر دیا ہے کیونکہ اس کی نے کسی اور نرو سے مل کر اپنی زندگی کو قائم رکھنا ہے.بیچ میں چونکہ گوشت آ جاتا ہے اس لیے کہیں گوشت مروڑا جاتا ہے اور کہیں گوشت چر جاتا ہے اس لیے درد زیادہ ہو جاتی ہے.لیکن کی جب میں کراچی سے ناصر آباد پہنچا تو شروع شروع میں تو یہ معلوم ہوا کہ یہاں کی آب و ہوا کی وجہ سے پہلے کی نسبت تکلیف میں افاقہ ہے.بعد میں جب ٹھنڈی ہوا چلی اور سندھ میں ان دنوں رات کے وقت عموماً ٹھنڈی ہوا چلتی ہے تو اس کی وجہ سے بعض اوقات گردن میں کھچاؤ محسوس ہونے لگا اور پھر اس کھچاؤ نے بڑھنا شروع کیا.ایک طرف تو گردن کے

Page 235

$1954 225 خطبات محمود کھچاؤ نے بڑھنا شروع کیا اور دوسری طرف ورم بجائے کم ہونے کے زیادہ ہونا شروع ہو گیا.جہاں تک درد کا تعلق تھا ڈاکٹروں کا خیال تھا کہ یہ طبعی ہے.جب نرو ( Nerve) بڑھنا شروع کرتی ہے تو درد ہوتا ہی ہے اس کے لیے فکر کی ضرورت نہیں.لیکن اس درد کے ساتھ زخم کے او پر اس قسم کی جلن محسوس ہونے لگی جیسے کوئی شخص لوہا تپا کر ہاتھ میں پکڑ لے.اس ہاتھ میں جو کیفیت گرم لوہے کو پکڑتے وقت پیدا ہوتی ہے وہی کیفیت اس جلن کی تھی جو زخم کے اوپر کے حصہ میں درد کے ساتھ ساتھ محسوس ہوتی تھی اور یہ ایک علیحدہ چیز تھی.درد سے اس کا کوئی تعلق نہیں تھا.پھر بعض اوقات معمولی سے جھٹکے کے ساتھ گردن میں بیچ پڑ جاتا تھا.مثلاً گلے کا بٹن بند کرنے کے لیے سر نیچا کیا تو بیچ پڑ گیا.یہ بیچ ہاتھ کا سہارا دے کر اور گردن دبا کر درست ہوتا تھا.وَاللهُ اَعْلَمُ یہ تکلیف ڈاکٹروں کی رائے کے مطابق طبعی تھی یا غیر طبعی.کراچی ، کوئٹہ، پشاور اور ربوہ سے متعدد خطوط مجھے ملے کہ زخم والی جگہ کا ڈاکٹروں سے معائنہ کرانا چاہیے لیکن میں نے ناصر آباد سے کراچی جانا پسند نہ کیا اور یہ فیصلہ کیا کہ اب آخری ایام ہیں چند دنوں کے بعد پنجاب چلے جانا ہے.ربوہ جانے کے بعد لاہور جاؤں گا اور ڈاکٹروں کو دکھاؤں گا.ساتھ ہی میں نے کراچی کے سرجن کو مشورہ کے لیے لکھ دیا.سرجن کے مشورہ کے مطابق جو جواب مجھے حیدر آباد میں ملا وہ یہی تھا کہ جو علامات پیدا ہوئی ہیں وہ طبعی ہیں.لیکن ورم کا ابھی تک قائم رہنا بلکہ بعض اوقات بڑھ جانا، یہ چیز اس قابل ہے کہ اس پر دوبارہ غور کیا جائے.یہ چیز طبعی نہیں اور ہمارے اندازہ سے باہر ہے.خیال ہو سکتا ہے کہ کوئی نئی بیماری نہ شروع ہو گئی ہو.بہر حال یہ حالات ہیں.ناصر آباد میں تکلیف کی جو شدت تھی وہ وہیں سے کم ہونا شروع ہو گئی تھی.اب بھی تکلیف کم ہے لیکن اگر زخم والی جگہ کو دبایا جائے تو ایک قسم کی جلن پیدا ہوتی ہے.میرا ارادہ ہے کہ اس ہفتہ لاہور جا کر زخم کی جگہ سرجن کو دکھاؤں.کراچی جماعت نے یہ انتظام کیا ہے کہ اگر ضرورت ہو تو وہ کراچی کے سرجن کو کار پر ربوہ لے آئیں.لیکن میں نے یہی مناسب سمجھا کہ میں پہلے لاہور کے سرجن سے مل لوں.اگر اس کی رائے میں کسی دوسرے سرجن سے مشورہ کی ضرورت محسوس نہ ہوئی تو کراچی کے سرجن کو بلانے کی ضرورت نہیں ہو گی.

Page 236

خطبات محمود 226 $1954 اس کے بعد میں مختصر طور پر جماعت کو اس دردناک واقعہ کی طرف توجہ دلاتا ہوں جو مشرقی پاکستان میں پیش آیا ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں سب مومن آپس میں بھائی بھائی ہیں.2 وہ آپس میں ایک جسم کے اعضاء کی طرح ہیں.جس طرح جسم کے ایک عضو میں تکلیف ہو تو دوسرے اعضاء بھی اس تکلیف کو محسوس کرتے ہیں اسی طرح مومنوں کے کسی حصہ کو تکلیف ہو تو ان کے دوسرے حصہ کو بھی تکلیف محسوس کرنی چاہیے.قرآن کریم اور احادیث میں بعض ایسی باتیں آتی ہیں جن سے لوگ غلطی کھا جاتے ہیں اور حقیقت کو نہیں کی سمجھتے.وہ یہ نہیں سمجھتے کہ جو عام قانون ایک مذہبی آدمی بیان کرے گا وہ اُسے مذہبی اصطلاحوں وہ میں ہی بیان کرے گا.مثلاً جب وہ یہ کہے گا کہ جو لوگ نماز کی پابندی نہیں کریں گے کامیاب نہیں ہوں گے تو یہ صرف ایک مذہبی فقرہ نہیں ہوگا بلکہ اس کا مطلب یہ ہوگا کہ جو قومی تحریکیں ہوتی ہیں اُن میں اگر قوم سستی اور غفلت سے کام لے گی تو وہ کمزور ہو جائے گی.پس یہ قانون صرف نماز کے لیے ہی نہیں ہو گا بلکہ ہر جگہ چسپاں ہو گا.اگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے کہ دیکھو! اگر تم رسول کی اطاعت نہیں کرتے تو تم گر جاؤ گے تو اس کے یہ معنے نہیں کہ اگر تم رسول اور امام کی اطاعت نہیں کرو گے تو تم گر جاؤ گے بلکہ علمی، اقتصادی، سیاسی اور قومی لیڈروں کی اطاعت نہ کرنے سے بھی یہی خرابی پیدا ہو گی.اگر کوئی قوم اپنے اقتصادی لیڈر کی اطاعت نہیں کرتی تو اُس کی اقتصادی حالت گر جاتی ہے، اگر وہ کسی سیاسی لیڈر کی اطاعت نہیں کرتی تو وہ سیاسی لحاظ سے گر جاتی ہے، اگر وہ کسی علمی لیڈر کی اطاعت نہیں کرتی تو وہ علمی لحاظ سے گر جاتی ہے.پس مذہبی آدمی اگر کوئی چیز بیان کرے گا تو وہ مذہبی اصطلاح میں ہی بیان کرے گا.گو وہ قانون چسپاں ہر جگہ ہو گا.پس اگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہ فرماتے ہیں کہ سب مومن آپس میں بھائی بھائی ہیں، وہ ایک جسم کے تی اعضاء کی طرح ہیں.جس طرح جسم کے ایک عضو کو تکلیف ہو تو دوسرے اعضاء بھی تکلیف ہے محسوس کرتے ہیں.اسی طرح مومن جماعت کا ایک حصہ جب کوئی تکلیف محسوس کرتا.دوسرا حصہ بھی اس تکلیف میں شریک ہوتا ہے.تو یہ قانون اگر چہ مذہبی اصطلاح میں بیان کیا گیا ہے لیکن یہ ہر جگہ چسپاں کیا جائے گا.اگر سیاسیات کولوتو ہم کہیں گے کہ ایک قوم کے

Page 237

$1954 227 خطبات محمود سب شہری ایک جسم کی طرح ہیں.اگر اُن کے کسی ایک حصہ کو تکلیف پہنچتی ہے تو دوسرا حصہ بھی ویسی ہی تکلیف محسوس کرے گا، اگر تاجر ہیں تو وہاں اس قانون سے یہ مراد ہوگی کہ تمام تاجر ایک جسم کے اعضاء کی طرح ہیں جس طرح ایک عضو کے تکلیف اٹھانے سے جسم کا دوسرا حصہ بھی تکلیف محسوس کرتا ہے اسی طرح تاجروں کے ایک حصہ پر تکلیف آئے تو دوسرے حصہ کو بھی اس کی تکلیف محسوس کرنی چاہیے.اگر لوگ پیشہ ور ہیں تو ہم کہیں گے تمام پیشہ ور ایک جسم کی طرح ہیں اگر ان کے کسی ایک حصہ کو تکلیف پہنچے تو دوسرے لوگوں کو اس کی مدد کرنی چاہیے.پس رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جو یہ فرمایا کہ سب مومن آپس میں ایک جسم کی طرح ہیں.اگر جسم کے ایک حصہ کو کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو دوسرے اعضاء بھی ویسی ہی تکلیف محسوس کرتے ہیں.اس کے یہ معنی نہیں کہ یہ اصل اور قانون صرف مومنوں کے لیے ہے بلکہ دنیا میں جو گروپ بھی بنے گا اُس پر یہ قانون حاوی ہو گا.اگر گروپ کے کسی حصہ کو تکلیف پہنچتی ہے تو وہ تکلیف سب کو پہنچنی چاہیے.اگر اُس کے کسی حصہ کو وہ تکلیف نہیں پہنچتی تو اس کے یہ معنی ہوں گے کہ وہ حصہ اصل جسم سے کٹ گیا ہے.اس قانون کے ماتحت تمام حکومتیں، تمام سیاسی، اقتصادی اور علمی اقوام اور تمام گروپ ایک جسم کی طرح ہیں.اگر ان میں سے کسی کو تکلیف پہنچتی ہے تو دوسرے سب افراد کو وہ تکلیف محسوس کرنی چاہیے.اگر دوسرے لوگ ایک حصہ کی تکلیف کو محسوس نہیں کرتے تو وہ اقوام اپنے سرکل اور دائرہ میں فیل ہو جائیں گی.مثلاً امریکہ ہے وہ اندرونی طور پر کئی حصوں پر منقسم ہے.شمالی امریکہ، جنوبی امریکہ، مشرقی امریکہ اور مغربی امریکہ، لیکن امریکہ کے لفظ میں وہ سب ایک ہی چیز شمار ہوں گے.U.S.A ایک ایسا علاقہ ہے جس میں کئی جگہ زبان میں فرق پایا جاتا ہے.مختلف اقوام کے لوگ اس میں آباد ہیں.کہیں انگریز آباد ہیں، کہیں جرمنوں کی زیادہ تعداد آباد ہے، یہودیوں کی کثرت ہے اور کہیں مشرقی یورپ کی اقوام زیادہ تعداد میں آباد ہیں.غرض مختلف علاقوں میں مختلف اقوام آباد ہیں.جب کسی غیر سے مقابلہ نہ ہو تو کسی کو انگریزوں سے ہمدردی ہو گی، کسی کو یہودیوں سے ہمدردی ہو گی اور کسی کو جرمنوں سے ہمدردی ہو گی.لیکن جب امریکہ کا سوال آئے گا تو وہ اپنا سب اختلاف بھول جائیں گے.وہ بھول جائیں گے کہ وہ

Page 238

$1954 228 خطبات محمود یہودی ہیں، وہ بھول جائیں گے کہ وہ جرمن ہیں، وہ بھول جائیں گے کہ وہ انگریز ہیں.غیر کے مقابلہ میں وہ سب ایک قوم ہوں گے.پس رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بیان فرموده ای قاعدہ کے یہ معنے ہوں گے کہ گروپ کے ہر فرد کو دوسرے کی تکلیف کا احساس کرنا چاہیے.اسی طرح پاکستان ہے.پاکستان مسلمانوں کی متحدہ کوشش سے بنا ہے.اب رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بیان فرمودہ اصل کے ماتحت پاکستان میں بسنے والے آپس میں بھائی بھائی ہیں.وہ ایک گروپ کی حیثیت رکھتے ہیں.جب ان میں سے کسی ایک حصہ پر تکلیف آئے تو باقی سب کو یہ احساس ہونا چاہیے کہ وہ تکلیف ہم پر آئی ہے.اگر اس کے کسی حصہ میں قحط نمودار ہوتا ہے تو باقی سب حصوں کو بھی احساس ہونا چاہیے کہ یہ قحط ہم پر ہی آیا ہے، اگر سیلاب ایک حصہ کو تباہ کر دیتا ہے تو باقی حصوں کو بھی یہ احساس ہونا چاہیے کہ سیلاب نے ہم سب کو برباد کر دیا ہے.اگر ملک کے ایک حصہ کی تکلیف کو دوسرا حصہ اپنی تکلیف تصور نہیں کرتا تو اُسے سمجھ لینا چاہیے کہ وہ جسم سے کٹ گیا ہے.اس وقت ایسٹ پاکستان میں جو تباہی آئی ہے اور سیلاب کے رنگ میں جو عذاب اس علاقہ پر آیا ہے اُس کی کیفیت اخبارات اور رسائل میں چھپتی رہتی ہے لیکن ہمیں مبلغین کی طرف سے بھی رپورٹ آتی رہتی ہے.اس وقت تک جو رپورٹیں مبلغین کی طرف سے آئی ہیں انہیں پڑھ کر انسان حیران رہ جاتا ہے.ہمارے مبلغین نے ایک رپورٹ میں لکھا ہے کہ ایک جگہ کے باشندوں نے جو اچھوت تھے ہمیں فون کیا کہ کوئی شخص ہماری حالت نہیں پوچھتا.آپ کم سے کم کوئی آدمی ہمارے پاس بھیجوا دیں تا یہ دیکھ کر کہ ملک میں ہمارے ہمدرد بھی موجود و پانی ہیں ہماری ہمت بندھ جائے.چنانچہ مبلغین کا وفد وہاں پہنچا.انہوں نے دیکھا کہ ہر جگہ ہی پانی کھڑا ہے.گاؤں میں جانے کی کوئی صورت نظر نہیں آتی.گاؤں کا کوئی شخص ایک کشتی لے آیا اور انہیں اس میں بٹھا کر اپنے ساتھ لے گیا.گاؤں میں پہنچ کر انہوں نے دیکھا کہ وہاں ایک گھر بھی ایسا نہیں جہاں کوئی شخص چار پائی تختہ یا زمین پر سو سکے.سب جگہیں پانی سے بھری پڑی ہیں اور لوگوں نے پانی میں بانس گاڑ کر اُن پر گھاس پھونس ڈال رکھا ہے.ان بانسوں کی بنی ہوئی چھتوں پر ہی سوتے ہیں اور انہی پر کھانا پکاتے ہیں.یہ کیفیت

Page 239

$1954 خطبات محمود 229 بالکل اسی قسم کی ہے کہ تم میں سے کوئی شخص دریائے چناب میں جا کر بانس گاڑ لے اور اُن پر ای گھاس پھونس ڈال کر وہاں رہنا شروع کر دے.اگر تم ایسا کرو بھی تو محض کھیل سمجھ کر کروی گے.لیکن وہ لوگ مصیبت کی وجہ سے ایسا کر رہے ہیں.رپورٹ میں لکھا ہے کہ ہمیں دیکھ کر گاؤں کے بوڑھے اور جوان، مرد اور عورت سب جمع ہو گئے.اور وہ اس طرح روئے اور اس طرح انہوں نے گریہ و زاری کی جیسے کوئی گہرا دوست سالہا سال کی جُدائی کے بعد ملا ہو.وہ امی ہمیں دیکھ کر سب کچھ بھول گئے.ہم نے انہیں کچھ چاول دیئے اور کہا ہم لوگ غریب ہیں لیکن پھر بھی چاہتے ہیں کہ ہم آپ کی تکلیف میں حصہ لیں.انہوں نے چاول واپس کر دیئے اور کہا ہمیں اس بات کا ڈر نہیں کہ ہم فاقوں مر جائیں گے.ہم میں سے جس کے پاس کچھ غلہ روپے ہیں وہ دوسروں کی مدد کرتا ہے.ہمیں صرف یہی احساس تھا کہ ملک میں ہمیں کوئی پوچھنے والا نہیں.اب آپ آ گئے ہیں تو ہمیں سب کچھ مل گیا ہے.اب ہم فاقے میں بھی ہیں تو ہمیں اس بات کی پروا نہیں.ہمیں اس مدد کی ضرورت نہیں.ہم جیسے بھی بن پڑا گزارہ کریں گے.ہمیں معلوم ہو گیا ہے کہ ہماری تکلیف کا احساس کرنے والے لوگ ملک میں موجود ہیں.دیکھو! یہ چیز کتنی تکلیف دہ ہے.ایک قوم کے افراد بھوکے مرتے ہیں، وہ فاقے برداشت کرتے ہیں لیکن وہ مدد قبول نہیں کرتے.وہ کہتے ہیں ہم اس بات سے خوش ہو گئے ہیں کہ پاکستان میں ہمیں پوچھنے والے لوگ بھی موجود ہیں.اس سے زیادہ ہمیں کسی چیز کی ضرورت نہیں.اس علاقہ کے احمدیوں کے متعلق یہ رپورٹ ملی ہے کہ وہ نماز بھی بانسوں کی بنی تی ہوئی چھتوں پر پڑھتے ہیں.گویا نماز پڑھنے کے لیے بھی کوئی جگہ نہیں مل رہی.اب اُن کا اپنے ساتھ مقابلہ کرو.جب یہاں سیلاب آیا تو اُس کا زیادہ زور صرف ایک رات تھا.میں اُن دنوں ربوہ سے باہر تھا.مجھے یہاں سے بیسیوں رپورٹیں گئیں کہ ہم نے گیلیوں کی کشتیاں بنائیں اور ہم نے یوں بہادری اور دلیری کے ساتھ فلاں فلاں گاؤں کے لوگوں کو سیلاب کی زد سے بچایا.یہ تکلیف صرف ایک رات کی تکلیف تھی لیکن ایسٹ پاکستان کا قریباً سارا علاقہ ہیں بچھپیں دن سے اس قدر تکلیف میں مبتلا ہے کہ وہ بانسوں کی بنی ہوئی چھتوں سو رتے ہیں

Page 240

$1954 230 خطبات محمود اور اُنہی پر کھانا پکاتے ہیں.تم خود ہی سمجھ سکتے ہو کہ بانسوں کی چھتوں پر وہ روٹی کیا پکائیں گے.گھاس پھونس پر آگ جلائی جائے تو وہ جل کر راکھ ہو جاتا ہے.اس لیے خیالی طور پر ہی روٹی پکتی ہوگی یعنی وہ ویسے ہی آٹا وغیرہ پھانک کر گزارہ کرتے ہوں گے.ان حالات میں ہمارا فرض ہے کہ ہم لوگ جو اس مصیبت سے محفوظ ہیں اپنے ان بھائیوں کی مدد کریں جو اس وقت مصیبت میں پھنسے ہوئے ہیں.مجھے افسوس ہے کہ ہمارے ملک کی ذہنیت ایسی خراب ہو چکی ہے کہ بجائے اس کے مصیبت میں مبتلا لوگوں سے وہ ہمدردی کا اظہار کریں اور ان کے لیے قربانی اور ایثار.کام لیں وہ اور زیادہ ٹوٹنا شروع کر دیتے ہیں.ایسٹ پاکستان میں اس دفعہ زیادہ بارش ہوئی ہے اور وہاں خطرناک سیلاب آیا ہوا ہے.یہاں بارش بہت کم ہوئی ہے لیکن اس علاقہ میں غلہ ضرورت سے دس فیصدی زیادہ پیدا ہوا تھا.مگر اُدھر مشرقی بنگال میں سیلاب آیا اور اُدھر بعض علاقوں میں غلہ کی قیمت سولہ روپے من ہو گئی.پھر یہ خبر مجھے سندھ میں پہنچ گئی تھی کہ یہاں گھی کا بھاؤ.کا بھاؤ ساڑھے چھ روپیہ فی سیر ہو گیا ہے.سندھ میں گھی کا بھاؤ پنجاب سے ایک روپیہ فی سیر ہمیشہ زیادہ ہوتا ہے کیونکہ وہاں بھینسیں رکھنے کا رواج نہیں.وہاں لوگ گائیں رکھتے ہیں.پھر وہ جانوروں کی پرورش بھی اچھی طرح نہیں کرتے.پھر گھی بھی کم نکالتے ہیں.وہاں لوگ سالن نہیں پکاتے.روٹی ، دودھ کے ساتھ کھا لیتے ہیں یاکسی کے ساتھ روٹی کھاتے ہیں.اس کسی میں سے مکھن کم نکالتے ہیں تالتی چکنی رہے.پس گھی کی طرف ان کی توجہ کم ہے.پنجابی لوگ جو وہاں آباد ہیں وہ بھینسیں رکھتے ہیں اور گھی انہی سے ملتا ہے.اس لیے یہاں اگر گھی کا بھاؤ تین روپے سیر ہو تو وہاں چار روپے سیر ہوتا ہے، یہاں چار روپے سیر ہو تو وہاں پانچ روپے سیر ہوتا ہے، یہاں پانچ روپے سیر ہو تو وہاں چھ روپے سیر ہوتا ہے لیکن اس دفعہ وہاں گھی کا بھاؤ ساڑھے چار روپے فی سیر ہے اور یہاں چھ، ساڑھے چھ روپیہ فی سیر ہے حالانکہ پنجاب میں گھی کثرت سے ملتا ہے.پھر ریلیں اور سڑکیں ایک علاقہ کو دوسرے علاقہ سے ملاتی ہیں اس لیے کوئی وجہ نہیں کہ گھی کا بھاؤ اس قدر بڑھ جائے.گندم اور گھی کا بھاؤ بڑھ جانے کی وجہ صرف یہی ہے کہ لوگوں نے دیکھا کہ مشرقی پاکستان پر اس وقت مصیبت آئی

Page 241

$1954 231 خطبات محمود ہوئی ہے.اب وہاں گھی اور گندم جائے گی اس لیے موقع ہے جس قدر ٹوٹ سکولوٹ لو حالانکہ کی ان لوگوں کو یہ سمجھنا چاہیے کہ اگر وہاں مصیبت آئی ہے تو اس قسم کی مصیبت یہاں بھی آسکتی یہ کوئی شرافت اور ایمانداری نہیں کہ تم گھی مہنگا کر دو اس لیے کہ گھی مشرقی بنگال جانا ہے.ہے.تم گندم مہنگی گر دو اس لیے کہ گندم مشرقی بنگال جانی ہے.جب غلہ مہنگا ہوتا ہے تو اس کا کوئی سبب ہوتا ہے.ملک میں اس سال غلہ اس قدر پیدا ہوا ہے کہ باوجود اس کے کہ گورنمنٹ نے گندم کا نرخ 9/4/0 روپے فی من مقرر کیا تھا بازار میں گندم پانچ چھ روپے فی من کے حساب سے ملتی رہی ہے.سندھ میں تو گندم بعض جگہ چار چار روپے فی من کے حساب سے بھی پکی ہے.لوگوں نے شور مچایا اور کہا کہ اگر گندم کی قیمت عملی طور پر یہی رہی تو ہم مالیہ بھی اسی قیمت کے حساب سے دیں گے کیونکہ سندھ میں مالیہ فصل کی قیمت کے حساب سے ہوتا ہے.اس پر گورنمنٹ نے اپنے مفاد کی خاطر مقرر کردہ قیمت پر گندم کی خرید شروع کی.اس نے یہ سمجھ لیا کہ اگر سارے ملک میں دس لاکھ ایکڑ گندم کاشت ہو اور اوسط قیمت چھ روپے ہو اور فرض کرو ہمیں دس روپیہ فی ایکڑ مالیہ ملے تو کل مالیہ ایک کروڑ روپے ملے گا.لیکن اگر اوسط قیمت 91 روپے فی من ہو تو مالیہ ڈیڑھ کروڑ ملے گا.ہمارا اس وقت پچاس لاکھ کا نقصان ہو رہا ہے.ہم کیوں نہ کچھ گندم مقرر کردہ نرخ پر خرید لیں.اگر ہم و دو لاکھ من گندم خرید لیں تو ہمیں پانچ چھ لاکھ روپیہ کا گھاٹا پڑے گا اور باقی مالیہ بچ جائے گا.پس گورنمنٹ نے خیال کیا کہ اگر ہم دو تین لاکھ من گندم خرید لیتے ہیں تو نقصان نو دس لاکھ روپیہ کا ہو گا اور باقی روپیہ کا فائدہ ہو گا.اور اگر ہم گندم نہیں خریدتے تو پچاس لاکھ روپیہ کا نقصان ہو گا.اس لیے انہوں نے گندم خریدنے کا فیصلہ کیا اور تھوڑے ہی دنوں کے کو بعد انہوں نے زمینداروں کو یہ نوٹس دے دیا کہ چونکہ تم لوگ گندم وقت پر مارکیٹ میں نہیں لائے اس لیے ہم آئندہ اس بھاؤ پر گندم کی خرید نہیں کریں گے.بہر حال یہاں کے لوگوں نے بجائے ہمدردی کا اظہار کرنے کے الٹا نمونہ دکھایا.بجائے اس کے کہ وہ انہیں ضرورت کی چیزیں مہیا کرتے انہوں نے یہ سمجھا کہ چونکہ گھی کی اس وقت ضرورت ہے اس لیے اسے مہنگا کر دو، گندم کی ضرورت ہے اس لیے اس کا نرخ بڑھا دو

Page 242

$1954 232 خطبات محمود اور اس طرح خوب فائدہ اُٹھاؤ.یہ تو ایسی بات ہے کہ کسی شخص کے پاس پانی ہو اور اُس کے پاس دوسرا شخص پیاسا مر رہا ہو لیکن وہ کہے کہ میں پانی چھپیں روپے سیر بیچتا ہوں.یہ طریق نہایت ناواجب اور ناشائستہ ہے.اس کے یہ معنے ہیں کہ پاکستانیوں کے پاس نہ غلہ ہے اور نہ بھینسیں ہیں حالانکہ یہ بالکل جھوٹ ہے.غلہ بھی موجود ہے اور گھی بھی موجود ہے.صرف ٹوٹ کا احساس ہے جس نے ان چیزوں کی قیمتیں بڑھا دی ہیں حالانکہ ہر پاکستانی کو سمجھنا کی چاہیے تھا کہ اس موقع پر مجھے ان اشیاء کی قیمت نہیں بڑھانی چاہے.اس لیے کہ اس کی میرے بھائیوں کو ضرورت ہے.اگر قیمت میں فرق پڑ گیا تو کیا حرج ہے.اگر خدا نخواستہ ویسٹ پاکستان پر مصیبت آتی تو ایسٹ پاکستان والوں کا فرض ہوتا کہ وہ اس کی خاطر قربانی کرتے.بہر حال میں جماعت کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ قربانی کر کے مشرقی پاکستان کے مصیبت زدہ لوگوں کے لیے چندہ جمع کریں.اس سلسلہ میں کراچی کی جماعت نے سب سے ، پہلے قدم اٹھایا ہے.انہوں نے پانچ ہزار روپے کا وعدہ کیا تھا جس میں سے تین ہزار روپے سے اوپر چندہ انہوں نے جمع کر لیا ہے.جن جماعتوں نے اس سلسلہ میں ابھی تک کوئی قدم نہیں اُٹھایا میں انہیں نصیحت کرتا ہوں کہ وہ چندہ جمع کریں اور اسے مرکز میں بھیجیں.مرکز بھی اپنے پاس کی سے کچھ رقم دے گا کیونکہ ان لوگوں کا بھی فرض ہے کہ وہ اپنے اخراجات کو کم کر کے مصیبت زدہ لوگوں کے لیے کچھ رقم نکالیں.پھر جو رقم جمع ہو اس میں سے کچھ رقم حکومت کے مقرر کردہ نظام کو بھیج دی جائے اور کچھ رقم جماعت کو بھیج دی جائے تا کہ وہ اپنے ہمسایوں میں خود تقسیم کرے.اس طرح برادرانہ تعلقات بڑھتے ہیں.بعض جگہوں پر تحریک کی گئی ہے کہ مصیبت زدگان کی امداد کے لیے ایک ایک دن کی تنخواہ دے دی جائے.چنانچہ لائلپور میں ایک مل میں اس قسم کی تحریک کی گئی تو سینتیس ہزار روپیہ جمع ہو گیا.گویا ان کے ایک ماہ کی تنخواہ کا بجٹ گیارہ لاکھ دس ہزار روپے ہے اور ایک سال کی تنخواہ کا بجٹ ایک کروڑ تینتیس لاکھ بیس ہزار روپیہ ہے.ہماری جماعت کی تنخواہیں اتنی نہیں.پھر ہماری جماعت کے دوستوں کی توجہ تجارت اور صنعت و حرفت کی طرف نہیں.بلکہ اگر کسی کو کوئی کام آتا ہو تو وہ بھی چاہتا ہے کہ یہ کام میر

Page 243

$1954 233 خطبات محمود تک ہی محدود رہے.ابھی تک ہمارے ملک میں یہ چیز پیدا نہیں ہوئی کہ پیشے اور ہر دوسروں کی کو سکھائے جائیں.اگر کوئی ٹرنک بنانا جانتا ہے تو وہ چاہتا ہے کہ یہ فن اب میرے تک ہی محدود رہے، اگر کوئی بُوٹ بنانا جانتا ہے تو وہ چاہتا ہے کہ یہ کام میرے تک ہی محدود رہے لیکن جو سکھاتا ہے اُس کی قدر نہیں ہوتی بلکہ سیکھنے والا اور اُس کے رشتہ دار فوراً شور مچاتے ہیں کہ سیکھنے والے کو تنخواہ نہیں دی جاتی.یورپ کی کتابیں پڑھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ وہاں جو لوگ کام سیکھتے ہیں وہ سکھانے والے کو بڑی بڑی رقمیں دیتے ہیں لیکن یہاں ایسا نہیں.یہاں اگر کوئی شخص کسی کے پاس اپنا کی بیٹا کام سیکھنے کے لیے بھیجتا ہے تو وہ میرے پاس اس قسم کی شکایت کرتا ہے کہ میں پندرہ دن سے کام سیکھنے کے لیے اپنے بیٹے کو فلاں کے پاس بھیج رہا ہوں وہ اس کی تنخواہ نہیں دیتا.حالانکہ جب تک وہ کام سیکھتا ہے وہ سکھانے والے کی چیزیں بگاڑتا ہے اسے فائدہ نہیں پہنچاتا.ولایت میں چھوٹے چھوٹے پیشے سیکھنے کے لیے دو دو سال تک پریکٹس کرنی پڑتی ہے.پھر کہیں جا کر تنخواہ کی امید کی جاتی ہے.لیکن یہاں پندرہ دن کے بعد ہی شکایات آنی شروع ہو جاتی ہیں.ہم جب بچے تھے تو حضرت خلیفتہ امسیح الاول حضرت نانا جان سے فرمایا کرتے تھے کہ اپنے چھوٹے بیٹے محمد اسحاق کو دین کے لیے وقف کر دو.وہ جواب دیا کرتے تھے کہ پھر وہ کھائے گا کہاں سے؟ اس پر حضرت خلیفۃ اسیح الاول فرماتے آپ نے اپنے ایک لڑکے کو ڈاکٹر بنایا ہے.اللہ تعالیٰ اس کا رزق بھی اسے دے دے گا.میری صحت خراب تھی.اس لیے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا مولوی صاحب سے کچھ طب پڑھ لو کیونکہ یہ ہمارا خاندانی پیشہ ہے.اسی طرح قرآن اور بخاری پڑھ لو.جب میں نے حضرت خلیفہ اول سے طب اور دینیات پڑھنی شروع کی تو نانا جان مرحوم نے میر محمد اسحاق صاحب کو بھی میرے ساتھ بٹھا دیا.میری عمر تیرہ چودہ سال کی اور میر صاحب کی عمر مجھ سے دو سال کم تھی.پہلے دن جب وہ پڑھنے آئے تو نانی اماں کی نے لطیفہ سنایا کہ جب اسحاق سونے لگا تو اُس نے کہا مجھے صبح جلدی جگا دیں کیونکہ

Page 244

$1954 234 خطبات محمود وہ حضرت خلیفہ اول کے پاس کثرت کے ساتھ مریض آتے ہیں اور انہیں انتظار میں گھنٹوں بیٹھنا کی پڑتا ہے میں صبح صبح جا کر مریضوں کے لیے نسخے لکھوں گا تا کہ انہیں تکلیف نہ ہو.اس پر و بھی ہنسے اور ہم بھی.ہم میر صاحب سے مذاق بھی کیا کرتے تھے لیکن وہ تو بچوں کی باتیں تھیں بڑوں کو یہ باتیں نہیں سجتیں.بڑوں میں سمجھ، فہم اور فراست ہوتی ہے.وہ اگر ایسا کریں کہ ادھر لڑکا سکول میں داخل کیا اور اُدھر اس کی تنخواہ کا مطالبہ شروع کر دیا تو وہ پاگل سمجھے جائیں گے.حالانکہ کام سکھانے والا تو اُس پر احسان کر رہا ہے.جب وہ اچھی طرح فن سیکھ لے گا تو اپنا کام الگ شروع کر لے گا.یورپ کی کتابیں پڑھ لو.ان سے معلوم ہوتا ہے کہ وہاں کوئی پیشہ ایسا نہیں جس میں شاگرد کچھ لے.وہ کچھ لیتا نہیں بلکہ استاد کو کچھ رقم دیتا ہے.استاد بھی سکھائے گا اور اس کے بدلہ میں کچھ لے گا بھی.لیکن یہاں ایسا نہیں.یہاں اگر کوئی کام سیکھنے کے لیے جاتا ہے تو پندرہ دن کے بعد یہ شکایت کرنے لگ جاتا ہے کہ وہ مجھے تنخواہ نہیں دیتا.اگر ہمارے دوست پیشوں کی طرف توجہ کرتے تو ہماری جماعت میں بھی پیشے آجاتے.مگر ابھی ہماری جماعت غرباء کی جماعت ہے.اگر اس کے پاس روپیہ ہے تو صرف اس وجہ سے کہ ان میں ہر ایک کچھ نہ کچھ دیتا ہے.بیچ میں کچھ بے ایمان بھی آ جاتے ہیں لیکن پھر بھی اکثریت بے ایمانی سے محفوظ رہتی ہے.دوسری انجمنوں میں کھانے والے زیادہ ہوتے ہیں اس لیے روپیہ نظر نہیں آتا.ہم بے ایمانی کو پوری طرح روک تو نہیں سکتے لیکن جماعت کی اکثریت خدا تعالیٰ کے فضل سے ایسی ہے جو ایماندار ہے.اور اگر ایماندار نہیں تو اس میں اتنی ہی غیرت ضرور ہے کہ جماعت کا روپیہ نہیں کھانا.چنانچہ دیکھ لو سیکرٹریان مال ہمارے ملازم نہیں لیکن وہ روپیہ جمع کرتے ہیں اور یہاں بحفاظت پہنچاتے ہیں.یہ مثال اور کہیں بھی نہیں پائی جاتی کہ سینکڑوں روپے غریبوں کے پاس جمع ہوں اور وہ ملازم بھی نہ ہوں لیکن روپیہ بحفاظت مرکز میں پہنچ جاتا ہو.صرف چند مثالیں ایسی ملی ہیں کہ انہوں نے روپیہ کسی حد تک محر دبر د کر لیا لیکن ایک بھی مثال ایسی نہیں ملتی کہ کسی نے سارا روپیہ کھا لیا ہو یا پھر اُسے واپس نہ کیا ہو.

Page 245

$1954 235 خطبات محمود ایک دفعہ ایک غریب آدمی تھا.اُس نے کچھ روپیہ کھا لیا.اس کے پاس کچھ زمین تھی.جب و پکڑا گیا تو اُس نے کہا میری غلطی ہے.اس وقت روپیہ تو نہیں زمین میرے پاس ہے وہی لے لیں اور اپنا روپیہ پورا کر لیں.پس اگر جماعت میں اس قسم کی غلطی کرنے والے ملتے بھی ہیں تو وہ بھی مطالبہ پر رقم کو ادا کرنے کی کوشش کرتے ہیں.اس کے مقابلہ میں اس قسم کی متعدد مثالیں پائی جاتی ہے اور دو تین مثالوں کو تو میں ذاتی طور پر جانتا ہوں کہ جب یہاں.نظارت نے یہ نوٹس دیا کہ سال ختم ہو رہا ہے تم روپیہ جلدی بھیجو تو سیکرٹری مال نے روپیہ اپنے پاس سے بھیج دیا اور خود چندہ بعد میں جمع کیا.غرض ہم میں قربانی کرنے والے دوسروں زیادہ ہیں.اس لیے ہم باوجود کمزور ہونے کے اچھا نمونہ دکھا سکتے ہیں.کراچی کی جماعت کو دیکھ لو وہ چھوٹی سی جماعت ہے لیکن انہوں نے مشرقی پاکستان کے مصیبت زدوں کے لیے پانچ ہزار روپیہ کی رقم دی ہے.اس سے پہلے وہ کئی اور اخراجات بھی برداشت کر چکے ہیں اور کئی اخراجات ابھی برداشت کر رہے ہیں.پھر بھی انہوں نے قربانی سے دریغ نہیں کیا.پس جماعت کے تمام دوستوں کو چاہے وہ زمیندار ہوں، پیشہ ور ہوں یا ملازم ہوں میں نصیحت کرتا ہوں کہ وہ اس موقع پر چندہ جمع کر کے اپنی حب الوطنی کا ثبوت دیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں حُبُّ الْوَطَنِ مِنَ الْإِيْمَانِ - 3 حُبُّ الوطنی بھی ایمان کا ایک حصہ ہے.اگر تم ان مصائب میں حصہ نہیں لیتے تو جب لڑائی کا سوال پیش آئے گا تو تم کیا کرو گے؟ پارٹیشن کے موقع پر جو حالات بگڑے تھے وہ صرف سکھوں کی وجہ سے ہی نہیں تھے بلکہ بعض جگہوں پر مسلمانوں کی وجہ سے بھی حالات بگڑ گئے تھے.مجھے کئی لوگوں نے بتایا کہ ہم سے قسمیں لی گئی تھیں کہ تم نے فلاں جگہ کے مسلمانوں کی مدد نہیں کرنی.چنانچہ مسلمانوں کے گاؤں لٹ رہے تھے لیکن دوسرے مسلمانوں نے انہیں بچایا نہیں.پھر خود ان پر حملہ کر کے سکھوں نے انہیں تباہ کر دیا.پس پیشتر اس کے کہ دشمن تمہیں پارہ پارہ کر کے مارے تم اپنے اندر حب الوطنی کا احساس پیدا کرو.ہمارے علاقہ کی مختلف اقوام کے افراد میں اپنی قومیت کا احساس پایا جاتا ہے.

Page 246

$1954 236 خطبات محمود ایک کہتا ہے میں جٹ ہوں، میں صرف کسی جٹ کو ہی اپنی لڑکی دوں گا، دوسرا کہتا ہے میں ارائیں ہوں اس لیے میں کسی غیر ارائیں کو لڑکی نہیں دوں گا.اب دیکھو یہ ایک خیال ہی جو قائم کر لیا گیا ہے حالانکہ اس خیال میں کوئی حقیقت نہیں کیونکہ جٹ قوم بحیثیت جٹ کسی منظم حکومت میں دوسروں کی کوئی مدد نہیں کرسکی.اسی طرح ارائیں قوم بحیثیت ارائیں کسی من حکومت میں ارائیوں کی کوئی مدد نہیں کر سکی.لیکن وطنی بطور وطنی کے ایسا کر سکتے ہیں اور کرتے ہی ہیں کیونکہ ایسی صورت میں انہیں قانون اُٹھا رہا ہوتا ہے.مثلاً ایسٹ پاکستان پر حملہ ہو جائے تو ویسٹ پاکستان کے باشندوں کو حکومت مجبور کرے گی کہ وہ دشمن کا مقابلہ کریں لیکن اگر کسی جٹ پر حملہ ہو تو دوسرے جٹ کو مدد کرنے پر حکومت مجبور نہیں کرے گی.مثلاً چودھری ظفر اللہ خاں صاحب جٹ قوم سے ہیں لیکن جب ان پر حملہ ہوتا ہے تو جٹ قوم کے دوسرے افراد کو ان کی کی مدد کا کوئی خیال بھی نہیں آتا.وہ اپنی قوم کی تباہی دیکھتے ہیں لیکن پھر بھی ایک دوسرے کی مدد کا خیال نہیں کرتے.لیکن اگر ایسٹ پاکستان پر حملہ ہو جائے تو کیا تم سمجھتے ہو کہ حکومت چپ کر کے بیٹھ رہے گی؟ وہ تم پر زائد ٹیکس لگائے گی، وہ جبری بھرتیاں کرے گی، وہ ریلوں اور سڑکوں پر قبضہ کرے گی، وہ تمہارے سفروں پر پابندی لگا دے گی اور چاہے تم ننگے پھرو وہ کپڑے پر منہ کر لے گی.اس لیے کہ ایسٹ پاکستان ہماری وطنیت کا حصہ ہے اور وطنیت کا جذ بہ قومیت کے جذبہ سے زیادہ مضبوط ہوتا ہے کیونکہ اُس کے پیچھے حکومت ہوتی ہے.یہ جذبہ اگر ہم اپنے اندر پیدا کر لیں تو دیکھو ہمارے اندر دوسروں کی ہمدردی اور قربانی کا ماڈہ کس قدر پیدا ہو.پاکستان ایک نیا ملک ہے.اس کے اندر بعض چیزیں آہستہ آہستہ پیدا ہوں گی.مثلاً اب مشرقی پاکستان میں سیلاب آیا ہے.اگر ہمارے ملک کے لوگ اُن کی بھائی سمجھ کر مدد کریں تو جب بچے اپنے ماں باپ کو مدد کرتے دیکھیں گے تو انہیں بنگالیوں کی تکلیف دیکھ کر خود بخود اُن سے ہمدردی پیدا ہو جائے گی.پس تم حسب توفیق اس چندہ کے لیے وعدے کرو اور پھر ان وعدوں کو جلد ادا کر دو.چھ سات ماہ تک ادا ئیگی کو لیٹ نہ کر دیا جائے کیونکہ اُس وقت تک اس رقم کی ضرورت باقی نہیں رہے گی.اگر کوئی شخص غرق ہو رہا ہو تو یہ نہیں ہوتا کہ دیکھنے والا کہے کہ میں پہلے تیرا کی کے فن میں مہارت حاصل کر لوں پھر اس غرق ہونے

Page 247

$1954 237 خطبات محمود والے کی مدد کروں گا بلکہ اُس وقت جس کسی کو تیرنا آتا ہو وہ اُس کی مدد کے لیے کود پڑتا ی ہے.اسی طرح اس مصیبت میں بھی لمبا وعدہ درست نہیں.جو کچھ دینا ہے دس پندرہ دن اندر ادا کر دو.صدرانجمن احمدیہ کو چاہیے کہ وہ اس تحریک کے متعلق دس پندرہ دن تک الفضل میں چوکھٹے کے اندر اعلان شائع کرائے اور دوستوں کو تحریک کرے کہ جو کچھ میسر ہے دے دو.چاہے دو ہزار روپیہ اکٹھا ہو یا دس بیس ہزار روپیہ اکٹھا ہو.اگر وہ وقت پر قوم کے کام آ جائے تو تم قوم اور خدا کے سامنے شرمندہ نہیں ہو گے.تم قوم کے سامنے یہ کہہ سکو گے کہ وقت پر ہم نے اپنے آپ کو پاکستانی ثابت کر دیا ہے.اور خدا تعالیٰ کے سامنے بھی یہ کہہ سکو گے کہ جب تیرے بندے تکلیف میں مبتلا ہوئے تو ہم نے ان کی تکلیف کے ازالہ میں ان کی پوری مدد کی.( الفضل 14 ستمبر 1954 ء) 1 : امالہ مائل کرنا.بدلنا ( فیروز اللغات اردو جامع فیروز سنز لاہور ) 2 : مسلم كتاب البر والصلة باب تَرَاحُمِ الْمُؤْمِنِينَ وَتَعَاطَفِهِمْ وَتَعَاضُدِهِمْ 3 : تفسیر روح البیان - سورة القصص آیت 85 - إِنَّ الَّذى فَرَضَ عَلَيْكَ الْقُرْآن جلد 6 صفحه 441 - المكتبة الاسلامية 1331ھ

Page 248

$1954 238 25 خطبات محمود جھوٹی عزت کے پیچھے نہ پڑو.اصل عزت وہی ہے جو خدا تعالیٰ کی طرف سے آئے مجرموں کی تائید سے اپنے آپ کو بچاؤ کہ یہ قوم کو تباہ کرنے والی چیز ہے (فرموده 10 ستمبر 1954ء بمقام ربوہ) تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: پچھے جمعہ میں نے یہ خیال ظاہر کیا تھا کہ میں اس ہفتہ لاہور جاؤں گا اور وہاں ڈاکٹروں سے مشورہ کروں گا لیکن آج تک میں وہاں نہیں جا سکا.میری ایک بیوی بیمار ہو گئی تھیں اور بخار زیادہ تیز تھا جس کی وجہ سے میں لاہور نہیں جا سکا.اس کے علاوہ مجھے خود بھی ان دنوں انفلوئنزا کی تکلیف رہی.سر اور دوسرے سارے جسم میں درد تھا.اسی طرح لات میں بھی درد کی شکایت رہی.اسی وجہ سے پچھلے ہفتہ میں میں صرف دو دفعہ نماز کے لیے مسجد میں آسکا ہوں.بہر حال اب بھی میرا ارادہ ہے کہ اگر خدا تعالیٰ نے گھر میں صحت اور عافیت رکھی تو اس ہفتہ میں کسی دن میں لاہور جاؤں گا اور ڈاکٹروں مشورہ کروں گا.

Page 249

$1954 239 خطبات محمود ہو اس کے بعد میں سب سے پہلے یہاں کے دوستوں کو اور پھر جب خطبہ شائع.تو اس کے ذریعہ بیرونی جماعتوں کو مخاطب کر کے یہ کہنا چاہتا ہوں کہ دنیا میں جب بھی تو میں آگے قدم بڑھاتی ہیں اور جب بھی وہ اپنے منبع سے دور ہوتی چلی جاتی ہیں لازماً اُن میں کئی قسم کی خرابیاں پیدا ہوتی جاتی ہیں.انگریزی میں ایک مشہور مثل ہے کہ قوم کی زندگی کو قائم رکھنے کے لیے نیو بلڈ (New Blood) یعنی نئے خون کی ضرورت ہوتی ہے.اور ہمیں بھی ایک لمبے تجربہ سے معلوم ہوتا ہے کہ جہاں تک خدا تعالیٰ کی خاطر قربانی کا سوال ہے نئے آنے الے بہ نسبت پرانے اور نسلاً احمدیوں کے، زیادہ جوش رکھتے ہیں اور اس کی یہ وجہ ہے کہ نئے آنے والے ہر مسئلہ پر بحث کر کے آتے ہیں.ہر مسئلہ انہوں نے خوب سوچا سمجھا ہوا ہوتا ہے اور اس پر غور کیا ہوا ہوتا ہے.اس کے خلاف انہوں نے دلائل سنے ہوئے ہوتے ہیں.اس طرح اس کی تائید میں بھی انہوں نے دلائل سنے ہوئے ہوتے ہیں.اس لیے کوئی چیز انہیں اپنی جگہ سے نہیں ہلا سکتی.جن چیزوں نے انہیں اپنی جگہ سے ہٹانا تھا اُن پر وہ پہلے سے ہی بحث کر چکے ہوتے ہیں.لیکن جو لوگ نسلاً کسی مذہب میں داخل ہوتے ہیں نہ اُن کے سامنے سارے دلائل آتے ہیں نہ انہوں نے ان کے متعلق کوئی بحث کی ہوئی ہوتی ہے اور نہ اُن کی تائید میں یا اُن کے خلاف دلائل سنے ہوتے ہیں.اس لیے جن گندوں کو دیکھ کر ان کے ماں باپ کسی مذہب سے مایوس ہو چکے ہوتے ہیں وہ ان کی طرف مائل ہو جاتے ہیں، جو چیزیں اُن کے والدین کو مایوس کرنے والی اور بھگانے والی ہوتی ہیں وہ اُن کے لیے کشش کا موجب ہو جاتی ہیں.اُن کے ماں باپ بیسیوں سال تک اپنے شہروں اور محلوں میں دیکھ چکے تھے کہ فلاں کیسے شریف خاندان میں سے ہے، کس کا بیٹا ہے اور کس طرح سارا شہر اُس کی عزت کیا کرتا تھا.پھر وہ یہ بھی جانتے تھے کہ اُس کی اولاد نے سینما اور تماشوں میں جانا شروع کیا جس کی وجہ سے اُن کی مالی حالت بگڑی.پہلے اُن کے پاس گھوڑے تھے ، گاڑیاں تھیں جن کی میں وہ سواری کرتے تھے.مالی حالت بگڑنے کی وجہ سے وہ پک گئیں.پھر انہوں نے کرایہ کی گاڑیوں پر سفر کرنا شروع کیا.پھر جب اور مالی حالت بگڑی تو انہوں نے پیدل چلنا شروع کیا.جب تعیش کے سارے سامان ختم ہو گئے تو انہوں نے چوری اور ٹھگی کے ذریعہ مال

Page 250

$1954 240 خطبات محمود حاصل کرنا شروع کیا جس کے نتیجہ میں وہ جیل خانوں میں گئے اور لوگوں کی نگاہوں میں ذلیل ہو گئے.غرض ماں باپ نے صرف سینما ہی نہیں دیکھا تھا بلکہ اس کے اثرات کو بھی کی دیکھا تھا.انہوں نے شریف خاندانوں کو سینما کی بدولت تباہ ہوتے دیکھا تھا.اس لیے وہ اس سے متنفر ہو گئے.لیکن ان کے بیٹے نے سینما کے اثرات کو نہیں دیکھا.اس نے اس کی بدولت خاندانوں کو تباہ ہوتے نہیں دیکھا.وہ جب غیر سے ملتا ہے اور سینما دیکھتا ہے تو سمجھتا ہے کہ سینما تو بہت اچھی چیز ہے.میرے ماں باپ بڑے بیوقوف تھے کہ انہوں نے مجھے سینما سے دور رکھا اور اس سے لطف نہ اُٹھانے دیا.اس نے نقش دیکھے، گیت سنے، ناچوں سے لطف اُٹھایا، ایکٹروں اور ایکٹرسوں کو دیکھا.لیکن یہ نہ دیکھا کہ اس کے بداثرات کی وجہ سے کتنے شریف خاندان تباہ ہو گئے.اس لیے اُس نے اچھے نقش دیکھ کر اور ایکٹروں کی شکلیں دیکھ کر اپنے ماں باپ، بھائیوں اور دوسرے بزرگوں کو بیوقوف سمجھا.گویا جو چیزیں اُس کے ماں وہ باپ، بہن، بھائیوں اور دوسرے بزرگوں کو مایوس کرنے والی اور نفرت دِلانے والی تھیں اُسے اپنی طرف کھینچنے والی ثابت ہو جاتی ہیں.ایک ہی چیز ہے جو ماں باپ کو ایک طرف لے گئی اور بیٹے کو دوسری طرف لے گئی.پھر احمدیت کو قبول کرنے کی وجہ سے جو مشکلات پیش آتی ہیں اُن سے اُس کا واسطہ نہیں پڑتا.جب اُس کے ماں باپ اور بزرگ احمدیت میں داخل ہوئے تو لوگوں نے انہیں مختلف قسم کی تکالیف دیں.انہوں نے ان کا بائیکاٹ کر دیا، ضروریات زندگی انہیں مہیا نہ ہونے دیں، بازار سے اگر کوئی شخص سودا دے بھی دیتا تھا تو ناک چڑھا کر اس طرح دیتا تھا جس طرح کتے کے آگے ٹکڑا ڈال دیا جاتا ہے اور چونکہ وہ ساری مشکلات کو برداشت کر کے احمدیت میں داخل ہوئے تھے اس لیے وہ کسی بات سے گھبراتے اور کی ڈرتے نہیں تھے.وہ جب سنتے تھے کہ لوگ انہیں مار ڈالیں گے تو کہتے تھے ہم تو بیسیوں سال کی سے اس قسم کی دھمکیاں سن رہے ہیں لیکن یہ سلسلہ بڑھتا ہی چلا جاتا ہے.لیکن جب ایک پیدائشی احمدی ان باتوں کو دیکھتا ہے تو وہ گھبرا جاتا ہے.ماں باپ چونکہ تجربہ کر چکے ہوتے ہیں کہ باوجود اس کے کہ لوگوں نے اس سلسلہ میں داخل ہونے والوں کو سخت قسم کی تکالیف دیں، نہوں نے انہیں مار ڈالنے کی دھمکیاں دیں بلکہ عملی طور پر کچھ لوگوں کو مار بھی ڈالا.پھر بھی

Page 251

$1954 241 خطبات محمود سلسلہ اب تک زندہ ہے.اس لیے وہ ڈرتے نہیں.لیکن ایک پیدائشی احمدی جن کو ان تکالیف سے واسطہ نہیں پڑا وہ وقت پر بزدلی دکھا جاتا ہے.اسی طرح نئے آنے والوں میں ایک قسم کی غیرت ہوتی ہے.وہ کہتے ہیں ہم تو اپنی جائیدادیں چھوڑ کر آئے ہیں.اس لیے جماعت کا جوانی چندہ آتا ہے اسے ہم کیوں خراب کریں.لیکن ایک نسلی احمدی جب مال دیکھتا ہے تو وہ اس میں سے کچھ ذاتی استعمال میں لے آتا ہے اور سمجھتا ہے اس کی وجہ سے میری حالت درست ہو جائے گی.پس مالوں کا غبن ہونا، افراد کا بددیانت ہونا کوئی قابلِ تعجب بات نہیں.یہ بات ہر نئی اور پرانی، جھوٹی اور سچی قوموں میں یکساں طور پر پائی جاتی ہے.فرق صرف یہ ہوتا ہے کہ جو قومیں اپنی تباہی چاہتی ہیں وہ ان حالات کو دیکھ کر اصلاح کی طرف توجہ نہیں کرتیں.لیکن جو قومیں تباہی سے بچنا چاہتی ہیں وہ اُن حالات کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار ہو جاتی ہیں.ورنہ غبن، خیانت اور بددیانتی جیسی مسلمانوں میں ہے ویسی ہی یہودیوں، ہندوؤں، کنفیوشس کے ماننے والوں، شنٹوازم والوں، عیسائیوں اور سکھوں سب میں پائی جاتی ہے.فرق صرف اتنا ہے کہ جو قومیں بیدار ہیں وہ اِن بُرائیوں کے دبانے میں لگی رہتی ہیں اور جو قومیں مُردہ ہیں وہ ان کے سامنے ہتھیار ڈال دیتی ہیں.وہ ان بُرائیوں کو دباتی نہیں بلکہ مجرموں کی تائید کرتی ہیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں کسی بڑے خاندان کی ایک عورت نے چوری کی اور شکایت رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس پہنچی.جب لوگوں کو پتا لگا تو وہ سفارش لے کر آئے کہ یہ عورت فلاں خاندان سے ہے اور بہت معزز ہے.اگر اس عورت کا ہاتھ کاٹا گیا تو بڑی بدنامی ہو گی.یہ سُن کر آپ کا چہرہ سُرخ ہو گیا اور آپ نے فرمایا خدا کی لکی قسم ! اگر محمد ( رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم) کی بیٹی فاطمہ بھی چوری کرتی تو میں اس کا ہاتھ کاٹ ڈالتا 1 ( بعض نادانوں نے اس روایت سے یہ دھوکا کھایا ہے کہ شاید حضرت کوئی ایسا الزام لگا تھا.یہ جھوٹ ہے.خاندانِ نبوت کے کسی فرد پر بددیانتی کا الزام تک بھی نہیں لگا ).اس طرح وہ لوگ سمجھ گئے کہ اگر آپ اپنے خاندان کے افراد کو چھوڑنے لیے تیار نہیں تو دوسرے کے متعلق سفارش کس طرح مان سکتے ہیں.چنانچہ جب تک فاطمه

Page 252

$1954 242 خطبات محمود رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مقرر کردہ اصول رائج رہے، مسلمانوں میں انصاف قائم رہا لیکن جب آپ کے بیان کردہ اصولوں پر عمل نہ رہا تو انصاف بھی غائب ہو گیا.حالانکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی وہی تھے، نماز بھی وہی تھی، کلمہ بھی وہی تھا لیکن قوم کی کی حالت گرتی چلی گئی.اس کی وجہ صرف یہی تھی کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جو نصائح بیان فرمائیں مسلمانوں نے انہیں بھلا دیا.اصلاح نفس کے متعلق جو تراکیب آپ نے بیان فرمائی تھیں وہ بُھلا دی گئیں.نتیجہ یہ ہوا کہ مختلف قسم کی کمزوریاں مسلمانوں میں پیدا ہو گئیں.ہم میں بھی بعض کمزوریاں آگئی ہیں اور بعض آ رہی ہیں.انہیں دیکھ کر جماعت کے بعض بیوقوف لوگ گھبرا جاتے ہیں.وہ نادان یہ نہیں جانتے کہ چوریاں، غبن اور بددیانتی آدم کے وقت سے چلی آ رہی ہیں.کوئی ہسپتال ایسا نہیں نکلا جہاں ان کا علاج ہو سکے اور کوئی دوائی ایسی ایجاد نہیں ہوئی جس سے ان بیماریوں کا علاج کیا جا سکے.دنیا میں کوئی نبی ایسا نہیں آیا جس نے گناہ بالکل ختم کر دیا ہو.خدا تعالیٰ کا کوئی قانون ایسا نہیں آیا جس نے روحانی بیماریوں کو قطعی ختم کر دیا ہو.حضرت آدم علیہ السلام کے زمانہ میں بھی روحانی بیمار تھے، حضرت نوح علیہ السلام کے زمانہ میں بھی روحانی بیمار تھے ، حضرت ابراہیم علیہ السلام کے زمانہ میں بھی روحانی بیمار تھے، حضرت موسی کے زمانہ میں بھی روحانی بیمار تھے ، حضرت عیسی کے زمانہ میں بھی روحانی بیمار تھے، رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ میں بھی روحانی بیمار تھے اور آج بھی روحانی بیمار موجود ہیں.غیروں میں اور ان میں فرق صرف یہ ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام کے دشمن روحانی بیماری کو دبانے کی جرات نہیں رکھتے تھے لیکن آدم کے ماننے والے روحانی بیماریوں کا مقابلہ کرنے کی جرات رکھتے تھے.اس لیے انہوں نے اپنے اخلاق کا اعلیٰ معیار قائم کر لیا تھا.حضرت نوح علیہ السلام کے دشمنوں میں بھی ان بُرائیوں کو دبانے کی کی جرات نہ تھی لیکن آپ کے ماننے والے ان برائیوں کا مقابلہ کرنے کی جرات رکھتے تھے اور مقابلہ کرتے رہے.چونکہ وہ ان برائیوں کو دباتے چلے گئے اس لیے ان کی قوم تباہی سے بچن گئی.حضرت ابراہیم علیہ السلام کے وقت میں بھی روحانی بیماریاں پائی جاتی تھیں.آپ کے دشمن ان کو مٹانے کی جرات نہیں رکھتے تھے.لیکن آپ کے ماننے والوں نے انہیں مٹانا شروع کیا.

Page 253

$1954 243 خطبات محمود کڑوی دوائیں دیں.نتیجہ یہ ہوا کہ ان کے اکثر اعمال نیک نظر آنے لگ گئے.حضرت موسی علیہ السلام کے دشمن بھی ان روحانی بیماریوں کا مقابلہ کرنے کی جرات نہیں رکھتے تھے لیکن آپ کے ماننے والے دھڑتے سے ان کے مقابلہ میں کھڑے ہو گئے.اور اگر کوئی بیمار نظر آتا تو ساری قوم اس کے پیچھے پڑ جاتی تھی.نتیجہ یہ ہوا کہ آپ کی قوم بحیثیت قوم اخلاق کے ایک اعلیٰ معیار پر پہنچ گئی.اور یہی حال حضرت عیسی علیہ السلام کا تھا اور یہی حال رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا تھا.یہ کہنا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ماننے والے سب کے سب نیک تھے ان میں خیانت، غبن اور بددیانتی کی قسم کی بُرائیاں نہیں پائی جاتی تھیں قرآن کریم کے خلاف ہے.قرآن کریم میں صاف آتا ہے کہ آپ کے پاس منافق آتے تھے اور قسم کھا کر کہتے تھے کہ آپ اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہے تو یہ سچی بات کہ آپ اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں لیکن یہ منافق جھوٹ بولتے ہیں.2 پھر قرآن کریم میں ہی آتا ہے کہ آپ کے ماننے والے اور آپ کا کلمہ پڑھنے والے آپ کے متعلق یہ کہتے تھے هُوَ اذن 3 کہ ہم نے فلاں فعل تو نہیں کیا.بات یہ ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں تو ٹھیک، لیکن ہیں بھولے بھالے.لوگ آپ کے پاس آتے ہیں اور ہمارے متعلق شکایات کرتے ہیں اور بلا تحقیق ان کی بات مان لیتے ہیں.یہ ایک پرانا حربہ ہے جو منافق لوگ استعمال کرتے چلے آئے ہیں.آج ہمارے خلاف بھی یہی حربہ استعمال ہو رہا ہے.آج بھی جماعت کے منافق یہی کہتے ہیں کہ خلیفتہ اسی نہایت سادہ اور بھولے بھالے ہیں.آپ لوگوں کی باتوں پر فوراً یقین کر لیتے ہیں.بیوقوف مومن سمجھتے ہیں کہ یہ کتنے مخلص ہیں.خلیفہ امسیح کا انہیں کتنا ادب ہے مگر وہ یہ نہیں دیکھتے کہ یہ تو وہی بات ہے جو منافق رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی کے متعلق کہا کرتے تھے.وہ کہتے تھے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں تو نیک، آپ ہیں تو اچھے مگر آپ کانوں کے کچے ہیں.لوگ جو کچھ کہہ دیتے ہیں آپ بلا تحقیق مان لیتے ہیں.دوسرے لفظوں میں اس کے یہ معنے ہوتے تھے کہ آپ (نَعُوذُ بِاللهِ ) کم عقل ہیں.یہی بات اب کہی جاتی ہے کہ خلیفہ اسیح خدارسیدہ ہیں، نیک ہیں، جماعت کے خیر خواہ ہیں مگر ہیں

Page 254

$1954 244 خطبات محمود سادہ اور بھولے بھالے.یا بالفاظ دیگر بیوقوف.لوگ آپ کو بہکا لیتے ہیں اور جو کچھ وہ کہتے ہیں وہ مان لیتے ہیں.غرض قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ میں بھی منافق موجود تھے اور وہ اس قسم کی باتیں کرتے تھے.احادیث میں آتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ میں ایک شخص مر گیا.آپ سے درخواست کی گئی کہ اس کا جنازہ پڑھائیں لیکن آپ نے فرمایا میں اس کا جنازہ نہیں پڑھوں گا.یہ خائن تھا 4 حالانکہ وہ شخص جہاد کرتا ہوا مارا گیا تھا.اب جو روحانی بیماریاں حضرت آدم علیہ السلام سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ تک سب انبیاء کے زمانہ میں رہی ہیں کونسے باپ کا بیٹا آئے گا جو اُن کی اصلاح کرے گا؟ اگر کوئی شخص ان بیماریوں کے علاج کا دعوی کرتا ہے تو وہ جھوٹا ہے.جو کام رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نہ کر سکے وہ کیسے کر سکتا ہے؟ پس یہ لوگ ہمارے اندر بھی موجود ہیں اور ان کی موجودگی ایسی خطرناک چیز نہیں کہ جماعت کے دوست گھبرا جائیں.ہاں! یہ بات ضرور خطرناک ہے کہ جماعت میں سے کچھ لوگ ایسے لوگوں کی تائید میں کھڑے ہو جائیں.مثلاً پچھلے دنوں صدر انجمن احمدیہ کے دفاتر میں چار بڑی بڑی خیانتیں پکڑی گئی ہیں.اب جہاں تک خیانت کا سوال ہے احادیث سے پتا لگتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ میں بھی خائن موجود تھے اور میں اپنے علم کی بناء پر کہہ سکتا ہوں کہ خیانت کرنے والے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ میں بھی موجود تھے.اور قرآن کریم کہتا ت ہے کہ یہ لوگ سب انبیاء کے زمانہ میں پائے جاتے تھے.پس جماعت میں ان لوگوں کی موجودگی کوئی ایسی بات نہیں جو گھبرا دینے والی ہو.بُری بات یہ ہے کہ صدر انجمن احمدیہ کے ممبروں نے ان لوگوں کے مجرم کو چھپانے کی کوشش کی اور خیال کیا کہ اگر یہ خیانتیں ظاہر ہو گئیں تو جماعت کی بدنامی ہو گی.یہ بات نہایت خطرناک ہے.اگر یہ عیب حضرت آدم علیہ السلام کے وقت میں موجود تھا، اگر یہ عیب حضرت نوح علیہ السلام کے وقت میں موجود تھا، یہ عیب حضرت ابراہیم علیہ السلام کے زمانہ میں موجود تھا، اگر یہ عیب حضرت موسی اور.

Page 255

$1954 245 خطبات محمود پر حضرت عیسی علیہما السلام کے وقت میں موجود تھا، اگر یہ عیب رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وقت میں موجود تھا اور اس سے ان سب انبیاء کی بدنامی نہیں ہوئی تو یہ کونسے بالائے انسانیت مرد ہیں کہ اس سے ان کی بدنامی ہوگی.اگر بعض لوگوں کی ایسی بُرائیوں کی وجہ سے رسول کریم کی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بدنامی نہیں ہوئی تو یہ لوگ جو آپ کی جوتیوں کے غلام ہیں ان کی کیا بدنامی ہو گی.ان عیوب کی تو کھلے بندوں مخالفت کرنی چاہیے.اور اگر کوئی شخص اس ؟ اعتراض کرتا ہے تو تم اسے یہ جواب دو کہ اس قسم کے روحانی مریض ہر جگہ موجود ہیں.ہماری خوبی یہ ہے کہ ہم انہیں دباتے ہیں اور تم انہیں بچاتے ہو، ہم انہیں اپنی جماعت سے نکالتے ہیں اور تم لوگ ان کی تعریفیں کرتے ہو.اگر تم ایسا کہو گے تو ہر شخص تمہاری تعریف کرے گا اور کہے گا کہ یہ لوگ نیک ہیں.یہ بدی کو چھپاتے نہیں بلکہ اسے مٹانے کی پوری کوشش کرتے ہ ہیں.جو شخص بدی کو چھپاتا ہے وہ یقیناً بزدل ہے.خواہ وہ بظاہر کیسا ہی بہادر سمجھا جاتا ہو کیونکہ وہ اپنے فرائض کے بجالانے میں لوگوں کے اعتراضات سے ڈرتا ہے.میرے پاس صدرانجمن احمدیہ کے ممبروں کا ایک وفد آیا اور اس نے کہا کہ ہمیں ان باتوں پر پردہ ڈالنا چاہیے ورنہ اس سے ہماری بڑی بدنامی ہوگی.میں نے کہا جب تم نے بیعت کی تھی تو تم نے یہ عہد کیا تھا کہ ہم دین کی خاطر اپنی جان، مال اور عزت کی قربانی کرنے سے دریغ نہیں کریں گے.اگر تم اب بدنامی سے ڈر رہے ہو تو عزت کے قربان کرنے کا وقت کب آئے گا.یہی موقع ہے عزت کو قربان کرنے کا.ورنہ عزت کو قربان کرنے کے یہ معنے تو نہیں ہوتے کہ کوئی شخص اپنی عورتوں کو بازار میں بٹھا دے.عزت کو قربان کرنے کے یہی معنے ہیں کہ احکام قرآن کو ماننے کی وجہ سے بعض جگہ بدنامی کا خطرہ ہو گا لیکن ہم اپنی عزت کی کوئی پروا نہیں کریں گے.پس جماعت کا قصور یہ ہے کہ جماعت اس قسم کے مجرموں کو منہ لگاتی ہے.اگر کوئی شخص اس قسم کا جرم کرتا ہے تو جماعت کے دوست اس کی سفارش لے کر میرے پاس آتے ہیں اور کہتے ہیں آپ انہیں معاف کر دیں حالانکہ میں جانتا ہوں کہ اگر جرم کرنے والا سفارش کرنے والوں کا باپ، بھائی، رشتہ دار یا دوست نہ ہوتا تو وہ کہتے جماعت کتنی خراب ہے، جماعت کا اخلاقی معیار دن بدن گر رہا ہے.

Page 256

$1954 246 خطبات محمود جماعت کے دوست اس قسم کے لوگوں کی مدد کرتے ہیں، وہ اُن بدیوں کو مٹانے کی کوشش نہیں کرتے لیکن اب چونکہ مجرم ان کے اپنے بھائی بند ہیں.وہ اُن کی سفارش لے کر میرے پاس آتے ہیں.حالانکہ مساواتِ اسلامی کے یہ معنے تو نہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سارے مسلمانوں کو یکساں طور پر کھانا کھلایا ہو، ایک سالباس پہنایا ہو یا ایک سے گھروں میں انہیں رکھا ہو.ہاں! آپ نے یہ ضرور کیا ہے کہ ابوبکر ہو یا کوئی ادنیٰ غلام جب قانون کا معاملہ آیا تو آپ نے ان سب سے برابر کا سلوک کیا.ایک دفعہ آپ مجلس میں بیٹھے تھے کہ کوئی شخص دودھ کا ایک پیالہ لایا.آپ ہر کام دائیں طرف سے شروع کرتے تھے.وہ دن غربت کے تھے.اس لیے جو لوگ تھے لاتے تھے وہ یہ خیال کرتے تھے کہ شاید آپ بھوکے ہیں.لیکن ان دنوں جو لوگ تحفے لاتے ہیں وہ اس خیال سے تحفے پیش نہیں کرتے کہ شاید جسے یہ تحفہ پیش کیا جا رہا ہے وہ بھوکا ہے بلکہ ان دنوں ایک زائد چیز کے طور پر تحفہ پیش کیا جاتا ہے.اُس مجلس میں حضرت ابوبکر بھی بیٹھے تھے لیکن وہ اتفاقاً آپ کے بائیں طرف تھے.آپ نے اُن کے چہرے پر بھوک کے آثار دیکھے اور معلوم کیا کہ انہیں فاقہ ہے.آپ کے دائیں طرف ایک لڑکا بیٹھا تھا.آپ نے اسے مخاطب کرتے ہوئے فرمایا اگر تم مجھے اجازت دو تو میں یہ دودھ ابو بکر کو دے دوں؟ اُس لڑکے نے کہا یا رسول اللہ ! آپ مجھ سے کیوں دریافت فرماتے ہیں؟ کیا شریعت نے میرا کوئی حق مقرر کیا ہے؟ آپ نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے دائیں طرف والے کو ترجیح دی ہے.تم دائیں طرف بیٹھے ہو اس لیے تمہارا قانونی حق ہے کہ تمہیں ابوبکر سے پہلے دودھ دیا جائے.لیکن میں سمجھتا ہوں کہ انہیں اس کی ضرورت ہے.اُس لڑکے نے کہا اگر قانون نے مجھے حق دیا ہے تو آپ دودھ مجھے دیجیے.میں آپ کا تبرک کسی اور کو دینے کے لیے تیار نہیں.5 اب دیکھو! حضرت ابوبکر آپ کے قریبی تھے لیکن آپ نے یہ دودھ حضرت ابوبکر کو نہیں دیا.اُس لڑکے کو دیا.میں پس جہاں تک شرعی حقوق کا سوال تھا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سب مسلمانوں مساوات کو قائم کیا ہے لیکن آجکل محض دوستی اور ہمسایہ ہونے کی وجہ سے لوگ غبن اور

Page 257

$1954 247 خطبات محمود خیانت کرنے والوں اور سودا میں دھوکا کرنے والوں کی تائید میں کھڑے ہو جاتے ہیں.اگر مجرم ثابت ہو گیا تو کہہ دیتے ہیں ایسا ہو ہی جاتا ہے اور اگر جرم مشتبہ ہو تو کہہ دیتے ہیں مجرم تو ثابت نہیں ہوتا، کہیں ایسی دلیلوں سے بھی مجرم ثابت ہوتا ہے؟ اگر ان کی بات مان لیا جائے تو مُجرم مٹ نہیں سکتا بلکہ اور زیادہ بڑھے گا.پھر لوگ مجرم کو بچانے کی کوشش تو کرتے ہیں، اُس کی اصلاح کی کوشش نہیں کرتے.نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ مُجرم اُس کی اولاد میں بھی چلا جاتا ہے اور دو تین نسلوں میں قوم برباد ہو جاتی ہے.قرآن کریم کہتا ہے کہ بہت سے کمزور لوگ ایسے ہیں جو قریب کے نتیجہ کو دیکھتے ہیں.6 وہ سمجھتے ہیں کہ فلاں ہمارا دوست ہے.اگر ہم نے اس کی تائید نہ کی تو وہ کیا خیال کرے گا حالانکہ وہ یہ نہیں سوچتے کہ اب تو وہ اکیلا ہے آئندہ دو تین نسلوں میں وہ ایک سے تین سو تک پہنچ جائے گا.ایسی صورت میں ہم ایک کی بجائے تین سو کو برباد کر رہے ہیں لیکن لوگ آجل کو نہیں دیکھتے عاجل کو دیکھتے ہیں.یعنی وہ ایسے فائدہ کو تو دیکھتے ہیں جو جلد کی ہی انہیں حاصل ہو جانے والا ہوتا ہے لیکن اپنے بھیانک انجام کی طرف توجہ نہیں کرتے.پس مجرموں کی تائید سے اپنے آپ کو بچاؤ کہ یہ قوم کو تباہ کرنے والی ہے.باقی غبن اور بددیانتی ایسی چیز نہیں جس پر گھبراہٹ کا اظہار کیا جائے.دشمن اعتراض کرے گا تو کیا ہو گا.کیا یہ روحانی امراض رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں موجود نہیں تھیں؟ اگر غیر مبائع اعتراض کریں گے تو کیا یہ روحانی امراض حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ میں موجود نہیں تھیں؟ قابل اعتراض بات یہ ہے کہ تم مجرموں کی تائید میں کھڑے ہو جاؤ.اگر تم مجرموں کی تائید میں کھڑے نہیں ہوتے.اگر تم بدی کو کچلنے کی پوری کوشش کرتے ہو تو اگر کوئی شخص اعتراض کرتا ہے تو کہہ دو یہ ایک پھوڑا تھا جس کو ہم نے چیرا دے دیا ہے.لیکن تم لوگ اس قسم کے عیوب کو چھپائے پھرتے ہو.تم پر اعتراض پڑتا ہے ہم پر اعتراض نہیں پڑتا.اس سے نہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم شرمائے ہیں، نہ نوح شرمائے ، نہ ابراہیم شرمائے اور نہ آدم شرمائے.پھر تم کیوں شرماؤ؟ شرمانے سے تمہارا عیب ثابت ہو گا اور وہ مُجرم بڑھے گا کم نہیں ہو گا.لیکن اگر شرماؤ گے نہیں تو تم اس کے علاج کی کوشش کرو گے اور اگر

Page 258

$1954 248 خطبات محمود علاج کرو گے تو جماعت کی اصلاح ہو گی.اگر کمزور لوگوں کو پتا لگ گیا کہ جماعت کے لوگ مانی ان کی مدد کرتے ہیں تو ان کی تعداد بڑھ جائے گی.لیکن اگر تم لوگ ان کے مقابلہ میں کھڑے ہو جاؤ گے تو وہ چار سے دو اور دو سے ایک ہو کر رہ جائیں گے.پس تم اپنی حقیقت کو سمجھو اور قوم سے اس چیز کی امید نہ رکھو جس کی امید رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں کی.اور تم وہ طریق اختیار نہ کرو جسے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اختیار نہیں کیا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ اگر تم اس قسم کے عیوب دیکھو تو ان کے دبانے کے لیے کھڑے ہو جاؤ.قرآن کریم کہتا ہے کہ اگر تمہیں اپنے ماں باپ، بہن بھائی یا اپنی اولاد کے خلاف بھی گواہی دینی پڑے تو تم سچی گواہی دوح اور جسمانی تعلق کا خیال نہ رکھو.اس سے معلوم ہوتا ہے که قرآن کریم مسلمانوں کو اس قسم کے معاملات میں ماں باپ، بھائی یا اولاد کے ساتھ کھڑا نہیں کرتا بلکہ ان کے خلاف کھڑا کرتا ہے.وہ کہتا ہے کہ تمہارا یہ کام نہیں کہ اگر تمہارا بیٹا ہو، بھائی ہو، باپ ہو یا کوئی اور رشتہ دار ہو تو تم اس کی رعایت کرو.اگر کوئی شخص مجرم ہے چاہے وہ تمہارا قریبی رشتہ دار ہی کیوں نہ ہو تو تم سچی گواہی دو.جھوٹ بول کر اسے بچانے کی کوشش نہ کرو اور جب تک یہ بات تم میں رہے گی عیب تو تم میں بھی رہیں گے.میں یہ وعدہ نہیں کرتا جی کہ تم میں خائن نہیں ہوں گے، تم میں چور نہیں ہوں گے، تم میں بددیانت نہیں ہوں گے.تم میں خائن بھی رہیں گے، چور بھی رہیں گے، بددیانت بھی رہیں گے لیکن یہ ضرور ہو گا کہ تمہاری قوم چور نہیں ہو گی، تمہاری قوم خائن نہیں ہو گی تمہاری قوم بددیانت نہیں ہو گی.اگر تم ان اصولوں پر قائم رہے تو تم محفوظ رہو گے.اور اس قسم کے لوگ جماعت سے اس طرح نکلتے چلے جائیں گے جس طرح چھلنی سے کوڑا کرکٹ نکل جاتا ہے.پس تم اس نکتہ کو سمجھو اور جھوٹی عزت کے پیچھے نہ پڑو.جھوٹی عزت کوئی فائدہ نہیں دیتی.عزت وہی ہے جو خدا تعالی کی طرف سے آتی ہے اور ذلت وہی ہے جو خداتعالی کی طرف سے آتی ہے.( الفضل 22 ستمبر 1954 ء) 1 : مسلم كتاب الحدود باب قَطْعِ السَّارِقِ الشَّرِيفِ وَغَيْرِهِ وَالنَّهْي عَنِ الشَّفَاعَةِ فِي الْحُدُودِ

Page 259

$1954 249 خطبات محمود 2 : إِذَا جَاءَكَ الْمُنْفِقُونَ قَالُوْا نَشْهَدُ إِنَّكَ لَرَسُولُ اللهِ وَاللهُ ط يَعْلَمُ إِنَّكَ لَرَسُولُهُ وَاللهُ يَشْهَدُ إِنَّ الْمُنْفِقِينَ لَكَذِبُونَ (المنافقون:2) 3 : التوبة : 61 4 : النسائى كتاب الجنائز باب الصلوة على من غلّ 5 : ترندی ابواب الاشربة باب ماجاء ان الْأَيْمَنِينَ احق بالشّرب : إِنَّ هَؤُلَاءِ يُحِبُّونَ الْعَاجِلَةَ وَيَذَرُونَ وَرَاءَهُمْ يَوْمًا ثَقِيلًا (الدهر : 28) : يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُونُوا قَوْمِينَ بِالْقِسْطِ شُهَدَاءَ لِلَّهِ وَلَوْ عَلَى ج أَنْفُسِكُمْ أَوِ الْوَالِدَيْنِ وَالْأَقْرَبِينَ (النساء : 136)

Page 260

$1954 250 26.26 خطبات محمود ذہانت، فکر اور تدبیر ہی ایسی حقیقی دولت ہے کہ اگر تم اس سے فائدہ اُٹھاؤ تو تمہیں اتنا کچھ مل جائے گا کہ خدا تعالیٰ سے اور مانگتے ہوئے شرم آئے گی (فرموده 17 ستمبر 1954ء بمقام ربوہ) تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: دنیا میں انسان کچھ دوستیں کماتا ہے اور کچھ دولتیں انسان کو خدا تعالیٰ کی طرف.ملی ہوئی ہوتی ہیں.جو دولتیں انسان دنیا میں کماتا ہے.وہ کسی انسان کے پاس زیادہ ہوتی ہیں کسی کے پاس بہت کم ہوتی ہیں اور کسی کے پاس ہوتی ہی نہیں.مثلاً زمین بھی دولت ہے لیکن کی دنیا کے سب لوگ زمیندار نہیں.کسی کے پاس زمین بہت زیادہ ہے، کسی کے پاس بہت کم زمین ہے اور کسی کے پاس زمین ہے ہی نہیں.تجارتیں ہیں، ان میں بھی یہی حال ہے.کوئی پھیری کر کے گزارہ کرتا ہے اور کوئی بڑے بڑے کارخانوں کا مالک ہے.بنگنگ کا بھی یہی حال ہے.مالی لحاظ سے کسی کے پاس پانچ سات روپے ہوتے ہیں تو وہ اپنے آپ کو

Page 261

$1954 251 خطبات محمود طور.مالدار سمجھتا ہے اور کسی کے پاس کروڑوں روپے ہوتے ہیں اور پھر بھی وہ اور مال حاصل کرنے کی کوشش کرتا رہتا ہے.امریکہ میں بعض لوگوں کی سالانہ آمد کروڑوں ڈالر ہے اُن کو بھی مالدار کہتے ہیں.اور غرباء کے علاقہ میں اگر کسی کے پاس سو دو سو روپیہ آ جاتا ہے تو لوگ کہتے ہیں یہ کو ، یہ شخص بہت مالدار ہے.غرض وہ دولت جو انسان کماتا ہے اور جو ظاہر میں نظر آتی ہے وہ سب کو یکساں طور پر نہیں ملی کیونکہ اس کے لیے محنت اور جدوجہد کرنی پڑتی ہے اور اسی وجہ سے انسانوں میں بہت بڑا تفاوت پایا جاتا ہے.یہ تفاوت کبھی قانون کے طور پر ہوتا ہے جیسے جو زیادہ محنت کرتا ہے زیادہ کما لیتا ہے.اور کبھی استثنا کے طور پر ہوتا ہے جیسے ماں باپ مالدار ہوں تو اُن کا بیٹا بغیر کسی محنت کے مالدار بن جاتا ہے.لیکن ایک دوسری قسم کی دولت بھی انسان کو ملتی ہے جو حقیقتاً بہت زیادہ قیمتی ہوتی ہے مگر افسوس ہے کہ انسان اُس کی قدر نہیں کرتے.حالانکہ وہی دولت اصلی دولت ہے اور پھر وہ ایسی دولت ہے جو تمام انسانوں کو یکساں پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا کی گئی ہے.اور وہ دولت ہے حافظہ کی فکر کی، ذہانت کی، عقل کی اور تدبر کی.یہ دولت ہر ایک انسان کو ملی ہے.سوائے پاگل اور فاتر العقل کے.اور چیز بطور استثنا کے ہے.ورنہ جو انسان بھی اس دنیا میں پیدا ہوتا ہے اُسے اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ خزانہ دے کر بھیجا جاتا ہے.اسے پیدائش کے ساتھ ہی حافظہ اور ذہانت اور فکر اور تدبر کی قوتیں عطا کی جاتی ہیں.اگر بعد میں وہ ان کی ناقدری کرتا ہے تو یہ قوتیں گئی طور پر یا جزوی طور پر ضائع ہو جاتی ہیں.مثلاً اگر وہ آنکھوں کو استعمال نہیں کرتا تو وہ اندھا ہو جاتا ہے، پاؤں سے نہیں چلتا تو پاؤں شل ہو جاتے ہیں، ہاتھ سے کام نہیں لیتا تو ہاتھ شل ہو جاتے ہیں.اسی طرح اگر وہ جسم کے دوسرے اعضاء کو استعمال نہیں کرتا تو اس کی جسمانی طاقتیں ضائع ہو جاتی ہیں.اور جو شخص ان کی قدر کرتا ہے اُس کی قوتیں بڑھ جاتی ہیں.مثلاً اگر کوئی شخص محنت کرتا ہے اور اپنے اسباق کو یاد کرتا ہے تو اُس کا حافظہ تیز ہو جاتا ہے اور جو محنت نہیں کرتا اور اپنے اسباق کو یاد نہیں کرتا اُس کا حافظہ کمزور ہو جاتا ہے.پھر جو لوگ بات کے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں اُن کی استنباط کی قوت بڑھ جاتی ہے اور جو لوگ بات کو سمجھنے کی کوشش نہیں کرتے اُن کی استنباط کی قوت جاتی رہتی ہے.جو لوگ اپنے اردگرد کے ماحول پر غور

Page 262

$1954 252 خطبات محمود کرنے کی عادت ڈال لیتے ہیں اُن کی قوت فکر بڑھ جاتی ہے اور جنہیں اپنے ماحول پر غور کی کرنے کی عادت نہیں ہوتی اُن کی قوت فکر جاتی رہتی ہے.پھر جو لوگ اپنے مختلف جذبات کو ی اُن کی اپنی اپنی حد کے اندر قائم رکھنے کی کوشش کرتے ہیں اُن کی عقل ترقی کرتی ہے اور جو ایسا نہیں کرتے ان کی عقل ماری جاتی ہے.جو لوگ خدا داد سامانوں کو صحیح طور پر اور مناسب موقع پر استعمال کرنے کی سکیم بنا لیتے ہیں اُن کی قوت مدبرہ ترقی کرتی ہے اور جو اس قسم کی کی ، سکیم نہیں بناتے اُن کی قوت مدبرہ جاتی رہتی ہے.لیکن پیدائش کے وقت یہ سب قو تیں ر انسان کو ملتی ہیں اور قریباً برابر ملتی ہیں.بعد میں ناقدری کی وجہ سے یہ قو تیں کم ہو جائیں تو اور بات ہے.یا ماں باپ نے جس قسم کا معاملہ کیا ہو اُس کے مطابق یہ قوتیں زیادہ یا کم ہو جاتی ہیں.مثلاً ایام طفولیت میں اگر ماں باپ نے بچہ کی صحیح نگرانی نہیں کی یا ماں نے حمل کے دوران میں پوری احتیاط نہیں کی تو اُس سے بچہ کی قوتوں پر اثر پڑ سکتا ہے لیکن یہ اثر بہت کم ہوتا ہے إِلَّا مَا شَاء الله - یعنی بعض اوقات بچہ پیدائشی طور پر پاگل ہوتا ہے لیکن ایسا بہت کم ہوتا ہے.اگر انسانوں کو بحیثیت مجموعی دیکھا جائے تو کروڑوں کروڑ لوگ ایسے نکلیں گے جو ان خدا داد قوتوں سے مالا مال ہوں گے لیکن ظاہری لحاظ سے یہ صورت نہیں.اگر تمام انسانوں کی مالی حالت کا اندازہ لگایا جائے تو ظاہری مالدار اس دنیا میں دس پندرہ لاکھ سے زیادہ نہ ہوں گے.اس وقت دنیا کی آبادی اڑھائی ارب ہے.اگر ظاہری دولت رکھنے والے پندرہ لاکھ ہوں اور دنیا کی آبادی پندرہ کروڑ ہوتی تو ان کی نسبت کروڑ میں سے ایک لاکھ کی ہوتی.لیکن دنیا کی آبادی اڑھائی ارب ہے.جس کے معنے یہ ہیں کہ قریباً سترہ سو میں سے ایک شخص ایسا ہے جس کے پاس ظاہری دولت ہے.لیکن حافظہ، ذہانت، تدبر اور فکر کی دولت سترہ سو میں سے 1680 کے پاس ہو گی.صرف میں اشخاص ایسے نکلیں گے جن کی یہ طاقتیں ماؤف ہوں کی گی باقی سب لوگوں کے پاس یہ دولت موجود ہو گی.ہاں! عدم استعمال کی وجہ سے ان پر زنگ لگ جائے تو اور بات ہے.جیسے اگر کوئی چاقو بارش میں پھینک دے تو اس پر زنگ لگ جائے گا لیکن اگر اُسے پانی میں سے اُٹھا کر صاف کیا جائے تو وہ ویسا ہی صاف نکل آئے گا جیسے پہلے تھا.لیکن سب سے زیادہ بے قدری اسی دولت کی کی جاتی ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف.ނ

Page 263

$1954 253 خطبات محمود ہر انسان کو عطا کی گئی ہے.اگر کسی شخص سے دریافت کیا جائے کہ تمہارے پاس کیا کیا مال ہے ہے؟ تو وہ کہے گا میرے پاس اتنی زمین ہے، مکان ہے، بھینس ہے، گھوڑا ہے لیکن وہ دولت جو سب سے بڑی ہے مثلاً ہوا ہے، پانی ہے جو اسے نہ ملے تو مر جائے اُس کا ذکر تک نہیں کرے گا.بھینس اور گھوڑا ضائع ہو جائے تو انسان نہیں مرے گا، کپڑوں کا ایک حصہ جاتا رہے تو وہ موسم کی برداشت کرلے گا لیکن ہوا نہ ملے تو چند منٹ میں ہی مر جائے ، اگر پانی نہ ملے تو وہ ایک دن یا اس سے کچھ زائد عرصہ میں مر جائے گا.غرض انسان سب سے بڑی دولت کو گنے گا ہی نہیں.حالانکہ اگر یہ دولت اسے نہ ملے تو اُس کا زندہ رہنا ناممکن ہے.وہ کبھی آنکھوں، کانوں، ناک اور زبان کا نام نہیں لے گا حالانکہ وہ نہیں جانتا کہ اگر وہ کہتا ہے میرے پاس گڑ ہے تو وہ گر کس کام کا جب زبان نہ ہو گی.اگر زبان گرد کو نہ چکھتی تو انسان کے نزدیک گڑ اور پھیکا برابر ہے.یا مثلاً وہ کہتا ہے میری بیوی اور بچے خوبصورت ہیں لیکن اُس کو یہ خیال نہیں آئے گا کہ اگر اس کی آنکھیں ہی نہ ہوں تو اسے وہ خوبصورت کیسے معلوم ہوں.غرض دولت کے جو حقیقی خزانے ہیں انسان ان کی قدر نہیں کرتا اور جو دولتیں نسبتی ہیں اور بالواسطہ ملتی ہیں اُن کے پیچھے ہر وقت پڑا رہتا ہے.مثلاً کپڑا ہے.اگر کپڑا میرے جسم کو نرم اور ملائم معلوم ہوتا ہے تو اس کی قیمت ہے.اور اگر میرا جسم کپڑے کی ملائمت محسوس نہیں کرتا تو اس کی کوئی قیمت نہیں.پھر اگر کپڑے کی کوئی قیمت ہے تو اس لیے کہ میرے ملنے والے دوستوں کو اچھا لگے اور انہیں لذت محسوس ہو.اگر میرے دوست کی آنکھیں ہی نہ ہوں اور میری جس موجود نہ ہو تو چاہے وہ کپڑا لاکھ روپے گز کا ہو یا چند آنے کا، مجھے اس کا کیا فائدہ؟ پھر زبان اور معدہ ہیں یہ دونوں مل کر کھانے کی قیمت بناتے ہیں.اگر کوئی دودھ پیسے، رس پیے ، مکھن کی کھائے ہستی پہیے یا پلاؤ اور زردہ کھائے لیکن اس کی زبان نہ ہو تو یہ چیزیں کچھ بھی نہیں.حضرت خلیفہ مسیح الاول فرمایا کرتے تھے کہ ایک امیر شخص میرے پاس آیا اور اس نے کہا میرا علاج کیجیے، مجھے بھوک نہیں لگتی.آپ فرماتے تھے کہ ایک دن اتفاقیہ طور پر میں اُس کے ہاں چلا گیا تو میں نے دیکھا کہ اُس کے سامنے ساٹھ ستر کھانے پڑے تھے اور وہ ر ایک کھانے سے ایک ایک لقمہ چکھتا.اور جب ہمیں پچیس لقمے کھا چکا تو کہنے لگا دیکھیے ! اب

Page 264

$1954 254 خطبات محمود کھانے کو بالکل جی نہیں چاہتا.بھوک بالکل بند ہے.چونکہ وہ ہر کھانے میں سے صرف ایک ایک لقمہ اُٹھا کر کھاتا تھا اس لیے اُسے ایک ہی لقمہ نظر آتا تھا.اگر اُس کے سامنے صرف ایک ہی کھانا ہوتا اور وہ اس میں سے بیس پچیس لقمے کھا لیتا تو کہتا مجھے بڑی بھوک لگتی ہے.ا اسی طرح ہمارے ماموں جان مرحوم حضرت میر محمد اسماعیل صاحب مرحوم) نے ایک شخص کا ذکر کیا کہ اس نے مجھے کہا مجھے بھوک نہیں لگتی.میں نے پتا لگایا تو مجھے معلوم ہوا کہ وہ ایک ایک دن میں ڈیڑھ ڈیڑھ سیر کھا جاتا تھا.مگر کھاتا اس طرح تھا کہ مثلاً مرتبہ آملہ اتنا، معجون فلاسفہ اتنا، فلاح مفرح اتنی ، شربت بنفشہ اتنا، خمیرہ گاؤزبان اتنا عرق بادیان اتنا.میں نے کہا تم ڈیڑھ ڈیڑھ سیر روز کھا لیتے ہو اور پھر کہتے ہو بھوک نہیں لگتی.اب دیکھو وہ شخص.سمجھتا تھا کہ میں نے کچھ نہیں کھایا حالانکہ مضبوط سے مضبوط آدمی چھ سات چھٹانک ایک وقت میں کھاتا ہے اور وہ ڈیڑھ ڈیڑھ سیر دن میں کھا کر بھی بھوک نہ لگنے کا شکوہ کرتے تھے.غرض ہمارے سب کپڑوں اور کھانوں کی قدر ان نعمتوں کی وجہ سے ہے جو خدا تعالیٰ نے عطا کی ہیں.اگر تم اپنی آنکھیں نکال دو یا جسمانی حس مار دو تو خوبصورت اور رڈی کپڑوں میں تمہیں کوئی فرق معلوم نہیں ہو گا.چاہے کپڑا لاکھ روپے گز ہو یا چار آنہ گز، تمہارے لیے دونوں برابر ہوں گے.پس اللہ تعالیٰ نے جو نعمتیں دی ہیں وہ بہت زیادہ قیمتی ہیں.مگر افسوس ہے کہ لوگ ان سے کام نہیں لیتے.دنیا کے سیاستدانوں کو لے لو، جرنیلوں کو لے لو.یا بادشاہوں کو لے لو ان کی بڑائی ظاہری مال و دولت کی وجہ سے نہیں تھی بلکہ ذہانت ، عقل، فکر اور تدبر کی دولت کی وجہ سے تھی.میں نے بھی جماعت کو بارہا اس طرف توجہ دلائی ہے کہ وہ تو ذہانت اور عقل کو تیز کرے لیکن بار بار توجہ دلانے کے باوجود جماعت نے اس طرف توجہ نہیں کی کی.میں نے خدام میں ایسی مشقیں رکھی تھیں کہ جن کی وجہ سے یہ طاقتیں زیادہ ہوں لیکن میں دیکھتا ہوں کہ انہوں نے بھی اس سے فائدہ نہیں اُٹھایا.مثنوی رومی میں لکھا ہے کہ محمود غزنوی جب ہندوستان کے حملہ سے واپس آ رہا تھا تو راستہ میں بعض لوگوں نے اُس کے پاس شکایت کی کہ آپ نے ایاز کو بڑا جرنیل بنا دیا ہے بڑا لا پروا ہے.محمود اُن کی شکایات سنتا رہا لیکن اُس نے کوئی جواب نہ دیا.جب وہ

Page 265

$1954 255 خطبات محمود افغانستان کی طرف جا رہا تھا تو رستہ میں وہ ایک پہاڑی درہ میں سے گزرا.وہ جگہ بڑی خطر ناک تھی اور خیال کیا جاتا تھا کہ دشمن وہاں سے حملہ نہ کر دے اور لشکر کو نقصان نہ پہنچائے.ارد گرد فوج کے دستے جا رہے تھے.ایک جگہ یک دم ایاز نے سیٹی بجائی اور اپنی فوج کو ایک طرف لے کر چلا گیا.ایک افسر نے موقع غنیمت جانا اور محمود کے پاس شکایت کی کہ دیکھیے ! اس قسم کے نازک موقع پر ایاز فوج لے کر شکار کے لیے چلا گیا ہے.کیا ہم نہیں کہتے تھے کہ یہ شخص قابل اعتبار نہیں؟ محمود نے کہا ایاز واپس آئے گا تو اُس سے دریافت کروں گا کہ اُس نے ایسا کیوں کیا ہے؟ جب وہ درے سے باہر نکلے تو ایاز وہاں کھڑا تھا اور کچھ قیدی بھی اُس کے ساتھ تھے.محمود نے دریافت کیا یہ کون ہیں؟ ایاز نے کہا یہ لوگ ایک چٹان کے پیچھے چُھپ کر بیٹھے ہوئے تھے.اسی چٹان کے پاس سے شاہی سواری گزرنی تھی.میں نے سمجھا کہ ان لوگوں کی نیت خراب ہے.ایسا نہ ہو کہ یہ لوگ بادشاہ کو نقصان پہنچا ئیں.چنانچہ میں نے دستہ علیحدہ کیا اور اس طرف چلا گیا اور ان لوگوں کو گرفتار کر لایا.محمود نے دریافت کیا کہ تمہیں کس طرح خیال پیدا ہوا کہ ان پتھروں کے پیچھے کچھ آدمی بیٹھے ہیں ایاز نے کہا مجھے ان لوگوں کا اس طرح علم ہوا کہ میں ہر وقت آپ کے چہرہ پر توجہ رکھتا ہوں.جونہی ہم اُس جگہ پہنچے، میں نے دیکھا کہ آپ نے اُس جگہ دیر تک اپنی نظر جمائے رکھی.اس سے میں نے خیال کیا کہ آپ کا ایسا کرنا بلا وجہ نہیں ہو سکتا.چنانچہ میں نے اپنا دستہ الگ کر لیا اور اُس طرف روانہ ہو گیا.وہاں پہنچ کر میں نے دیکھا کہ کچھ آدمی پتھروں کے پیچھے چھپے بیٹھے ہیں اور چونکہ وہ مشتبہ حالت میں تھے اس لیے میں نے ان سب کو گرفتار کر لیا.محمود نے باقی افسروں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا اب بتاؤ! کیا تم نے وہ کام کیا جو اس نے کیا ہے؟ میں نے اُس طرف دیکھا لیکن یہ لوگ کہیں چُھپ گئے اور مجھے نظر نہ آئے.ایاز نے میری طرف نگاہ رکھی اور میرے اُس طرف دیکھنے سے اسے خطرہ محسوس ہوا.چنانچہ وہ اُس طرف دستہ لے کر چلا گیا اور ان لوگوں کو گرفتار کرنے میں کامیاب ہو گیا.اگر وہ ایسا نہ کرتا تو ممکن تھا کہ یہ لوگ مجھے نقصان پہنچاتے.اس شخص نے عقل سے کام لیا لیکن تم نے عقل کو استعمال نہیں کیا.اس پر وہ سب افسر شرمندہ ہو گئے.

Page 266

خطبات محمود 256 $1954 اسی طرح کولمبس کے متعلق مشہور ہے.کولمبس نے امریکہ دریافت کیا تھا اور اُسے کی امریکہ دریافت کرنے کا شوق اس لیے پیدا ہوا کہ اُس نے مسلمانوں سے سنا ہوا تھا کہ اس طرف کوئی ملک ہے.چنانچہ حضرت محی الدین صاحب ابن عربی کی ایک خواب تھی جو میں نے بھی پڑھی ہے.انہوں نے اپنی ایک کتاب میں لکھا ہے کہ مجھے رویا میں دکھایا گیا ہے کہ سپین کے ملک سے پرے ایک بہت بڑا ملک واقع ہے (حضرت محی الدین صاحب ابن عربی اسپین کے رہنے والے تھے ).اس بات کا آپ کے مریدوں میں چرچا ہو گیا.کولمبس نے بھی اُن سے یہ بات سن لی.اُسے مسلمانوں سے عقیدت تھی اور وہ سمجھتا تھا کہ یہ لوگ جو بات کہتے ہیں وہ درست ہوتی ہے.اُس نے اس پر غور کرنا شروع کیا.اس نے مختلف چیزوں سے اس بات کی سچائی کا اندازہ لگا لیا.اُس نے دیکھا کہ سمندر میں اس علاقہ کی طرف سے جس کی طرف محی الدین ابن عربی نے اشارہ فرمایا ہے بعض چیزیں بہتی ہوئی آتی ہیں جو انسان سے تعلق رکھتی ہیں.اس سے اُس نے سمجھ لیا کہ یہ بات بالکل درست ہے.اس لیے اُس نے امریکہ دریافت کرنے کا ارادہ کر لیا.وہ غریب آدمی تھا اور اس مہم کے اخراجات کا متکفل نہیں ہوسکتا تھا.اس لیے وہ بادشاہ کے پاس گیا اور اُس سے درخواست کی کہ پین سے پرے ایک بہت بڑا ملک واقع ہے.میں اُسے دریافت کرنا چاہتا ہوں.اگر میں نے وہ ملک دریافت کر لیا تو وہ ملک آپ کا ہو گا اور اس سے آپ کی عزت بڑھے گی.اگر آپ مجھے کچھ آدمی دے دیں، کچھ جہاز دے دیں اور ملاحوں کی تنخواہوں اور دیگر اخراجات کے لیے کچھ روپیہ دے دیں تو میں اُس ملک کو دریافت کروں.پہلے تو بحری علوم کے ماہرین نے اُس کی مخالفت کی اور کہا کہ یہ بڑا جان جوکھوں کا کام ہے.اُن دنوں میں انجن سے چلنے والے جہاز نہیں ہوتے تھے بلکہ بادبانی جہاز تھے اس لیے چھوٹے چھوٹے سفروں میں بھی پانچ پانچ ، چھ چھ ماہ لگ جاتے تھے اور جہازوں میں اتنے لمبے عرصہ تک کی خوراک رکھنا بھی مشکل ہوتا تھا.پھر جہازوں کو ہوائیں توڑ پھوڑ دیتی تھیں اور لوگ موت کی نذر ہو جاتے تھے.لیکن جب کولمبس نے اصرار کیا تو بادشاہ آدمی، جہاز اور روپیہ دینے کے لیے تیار ہو گیا.اس پر پادریوں نے کولمبس کی مخالفت شروع کر دی اور کہا کہ زمین تو چپٹی ہے اور کولمبس کا کہنا اسی صورت میں

Page 267

$1954 257 خطبات محمود درست ہو سکتا ہے جب زمین گول ہو اور زمین کا گول ہونا بائیبل کی تعلیم کے خلاف ہے.بائیبل میں لکھا ہوا ہے کہ زمین چپٹی ہے.چنانچہ کتابوں میں اُس وقت کے لاٹ پادری کی تقریر چھپی ہوئی موجود ہے.اُس نے تقریر کرتے ہوئے بڑے زور سے کہا دنیا میں اس قسم کے بیوقوف لوگ بھی پائے جاتے ہیں جو یہ کہتے ہیں کہ زمین گول ہے.حالانکہ اگر زمین کو گول فرض کر لیا جائے تو اس کا یہ مطلب ہوگا کہ دنیا میں کوئی علاقہ ایسا بھی موجود ہے جس پر لوگ ٹانگیں اوپر کر کے چلتے ہیں اور اُن کے سر نیچے لٹکے ہوئے ہوتے ہیں.ہمارے ہاں بارش اوپر سے ہوتی ہے اور ان کے ہاں بارش نیچے سے اوپر ہوتی ہے.لیکن کولمبس ضدی واقع ہو تھا.اُس نے اپنی کوشش ترک نہ کی.اُس نے ملکہ پر اپنا اثر ڈالا کہ اگر یہ ملک دریافت ہو گیا تو اس کی بڑی عزت ہو گی.چنانچہ ملکہ اُس کی مدد پر آمادہ ہو گئی.اُس نے اپنے زیورات بیچ کی کر جہازوں، نوکروں کی تنخواہوں اور دوسرے اخراجات کے لیے روپیہ مہیا کر دیا اور کولمبس امریکہ دریافت کرنے کے لیے روانہ ہو گیا.رستہ میں اُن کی خوراک ختم ہو گئی ، پینے کا پانی بھی ختم ہو گیا اور لوگوں نے مایوس ہو کر بغاوت شروع کر دی اور کہنے لگے کہ تو نے ہم سے دھوکا کیا ہے اور ہمیں موت کے منہ میں دے دیا ہے.لیکن کولمبس نے انہیں کسی نہ کسی طرح سفر جاری رکھنے پر راضی کر لیا اور وہ اپنی جان بچاتے بچاتے امریکہ پہنچ گیا.جب وہ امریکہ پہنچے تو انہیں وہاں بڑی دولت مل گئی.ملک کی آبادی بہت کم تھی اور سونے کی کانیں کثرت سے پائی جاتی تھیں.اس لیے انہوں نے انہیں خوب لوٹا.اور جب وہ واپس آئے تو اس مہم کے سر کرنے کی وجہ سے کولمبس کا نام پھیلنا شروع ہوا.جب اُس کی خوب شہرت ہوئی تو دربار میں اُس کے بہت سے حاسد پیدا ہو گئے.وہی پادری جنہوں نے یہ کہا تھا کہ دنیا میں اس قسم کے بیوقوف بھی پائے جاتے ہیں جن کا یہ خیال ہے کہ زمین گول ہے اور اس کا مطلب یہ ہے کہ دنیا کے دوسری طرف کے لوگ ٹانگیں اوپر کر کے چلتے ہیں اور بارش بجائے اوپر سے نیچے آنے کے نیچے سے اوپر آتی ہے کولمبس پر حسد کرنے لگے اور کہنے لگے یہ بھی کوئی بات ہے جہاز میں کچھ لوگ چلے گئے اور ایک ایسے ملک میں پہنچ گئے جس کا علم ہمیں پہلے نہیں تھا.اگر کولمبس کے علاوہ کوئی اور شخص جاتا تو وہ بھی بآسانی امریکہ دریافت کر لیتا.کسی شخص نے یہ بات کولمبس

Page 268

$1954 258 خطبات محمود تک بھی پہنچا دی.اُس نے کہا یہ درست ہے کہ اگر کوئی شخص کوشش کرتا تو امریکہ دریافت کر لیتا لیکن انہیں ایسا کرنے کا خیال بھی تو آتا.ایک دن کوئی دعوت تھی جس میں بڑے بڑے رؤساء اور امراء جمع تھے.کولمبس نے ایک انڈا لیا اور تمام پادریوں سے کہا کہ اسے میز پر کھڑا کر دو.اس پر سب لوگوں نے کوشش کی لیکن وہ انڈا کھڑا نہ کر سکے.آخر کولمبس نے ایک سوئی لی اور انڈے کے نیچے چھوئی جس سے کچھ لعاب باہر نکل آیا اور اس کی وجہ سے انڈہ میز پر چپک گیا.اس پر بعض درباریوں نے کہا کہ یہ کونسی بات ہے یہ کام تو ہم بھی کر سکتے تھے.کولمبس نے کہا کہ امریکہ کے متعلق بھی آپ لوگ یہی کہتے تھے کہ اگر ہم کوشش کرتے تو دریافت کر لیتے.وہاں تو آپ کو موقع نہیں ملا تھا، یہاں تو آپ کو موقع مل گیا تھا.مگر پھر بھی آپ کی عقل نے کام نہ دیا.غرض جتنے لیڈر، بادشاہ اور جرنیل بنے ہیں وہ ظاہری دولت سے نہیں بنے بلکہ خداداد دولتوں، حافظہ، عقل، فکر اور تدبر سے بنے ہیں.ہمایوں کے پاس ظاہری دولت نہیں تھی، بابر کے پاس ظاہری دولت نہیں تھی، اکبر کے پاس ظاہری دولت نہیں تھی لیکن ان لوگوں نے عقل، فکر اور تدبر کی دولت سے فائدہ اُٹھایا اور عظیم الشان کارنامے سرانجام دیئے.ان کے مقابلے میں محمد شاہ 1 اور احمد شاہ 2 کے پاس ظاہری دولت تھی لیکن انہوں نے عقل، فکر اور تدبر کی دولت سے فائدہ نہ اٹھایا.جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ ذلیل ہو گئے.ہمایوں، بابر اور اکبر نے خدا کی دی ہوئی دولت سے کام لیا اور وہ جیت گئے لیکن محمد شاہ اور احمد شاہ نے ان سے کام نہ لیا اور وہ ہار گئے.پس خدا کی دی ہوئی دولت ظاہری دولت سے ہزاروں گنا زیادہ قیمتی ہے.میں نے جماعت کو بار بار اس طرف توجہ دلائی ہے کہ وہ خدا کی دی ہوئی دولت سے کام لے لیکن افسوس ہے کہ ان کے ذہن اس طرف نہیں جاتے.میں دیکھتا ہوں کہ عقل، فہم، ذکاء اور تدبر کے خزانے پڑے ہیں لیکن جس طرح قرآن کے خزانوں کو لینے والا کوئی نہیں اُسی طرح ان خزانوں کی طرف بھی کسی کی توجہ نہیں.مگر جس طرح قرآن کریم کے خزانوں کو لینے کی اگر کوئی کوشش کرتا ہے تو اُسے مل جاتے ہیں اسی طرح عقل، تدبر اور فہم و ذکاء کے خزانے بھی مل سکتے ہیں بشرطیکہ کوئی کوشش کرے.ان خزانوں سے جہاں دوسرے لوگ محروم ہیں وہاں نہ

Page 269

$1954 259 خطبات محمود ނ بھی ان سے محروم ہو.لیکن انہیں تو کوئی بتانے والا موجود نہیں اس لیے وہ ان خزانوں.محروم ہیں لیکن تمہیں بتانے والا موجود ہے اور وہ تمہیں بار بار اس طرف توجہ دلاتا ہے.اگر تم اس طرف توجہ نہیں کرتے تو تم مجرم ہو.میں نے کالجوں اور سکولوں کے اساتذہ کو بارہا اس طرف توجہ دلائی ہے کہ لڑکوں کی ذہانت کی طرف توجہ کرو لیکن وہ اس طرف توجہ نہیں کرتے.میں دیکھتا ہوں کہ اگر کسی کو چھوٹا سا پیغام بھی دیا جائے تو وہ صحیح طور پر نہیں پہنچایا جا تا.اگر میں کسی سفر پر جاؤں اور وہاں پرائیویٹ سیکرٹری کو پیغام بھجواؤں کہ ہم بارہ بجے چلیں گے کیونکہ چار بجے ربوہ میں ایک ملاقات ہے تو پیغام پہنچانے والا بارہ بجے پر زور دینا شروع کر دے گا اور کہے گا ہم نے بارہ بجے چلنا ہے.بارہ بجے چلنا ہے اور جو اصل بات ہو گی کہ ہم نے بارہ بجے کیوں چلنا ہے اُسے نظر انداز کر دے گا.یا مثلاً نماز ہے، نماز کی مجھے اطلاع کی جاتی ہے تو ی چونکہ بیماری کی وجہ سے میں بعض دفعہ مسجد میں نہیں آ سکتا اس لیے میں ساتھ ہی عذر بھی بیان این کر دیتا ہوں کہ مجھے سر درد ہے یا میرے پاؤں میں تکلیف ہے یا اس وقت بخار ہے اس لیے نہیں آسکتا.لیکن پیغامبر یہ نہیں بتائے گا کہ میں نماز کے لیے کیوں نہیں آیا.صرف یہ کہہ دے گا کہ نماز پڑھانے کی اجازت ہے.حالانکہ نماز میرے لیے بھی ویسی ہی فرض ہے جیسے دوسرے لوگوں کے لیے.اور میرے جائز عذر کے معلوم نہ ہونے کی وجہ سے بیوقوف لوگ یہ خیال کر سکتے ہیں کہ گویا میں جان بوجھ کر نماز کے لیے نہیں آتا.ہم اس دفعہ لاہور گئے تو میں نے پرائیویٹ سیکرٹری کو ہدایت دی کہ ہم نے پانچ بجے یہاں سے روانہ ہونا ہے لیکن روانہ ہم چھ بجے ہوئے اور اس کی وجہ وہی دفتر والوں کی کم عقلی تھی.ہمارے ملک میں یہ رواج ہے کہ اگر کہا جائے کہ ہم نے پانچ بجے چلنا ہے تو کارکن پانچ بجے ہی آئیں گے اور کہیں گے کہ سامان دیں.حالانکہ ہو سکتا ہے کہ گھر والے پیشاب پاخانہ کے لیے بیت الخلاء گئے ہوئے ہوں یا پھر یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ابھی سامان بندھا ہوا نہ ہو اس لیے ضروری ہوتا ایک گھنٹہ پہلے اطلاع دی جائے.پانچ بجے روانہ ہونا ہو تو چار بجے اطلاع دی جائے.مگر جب پانچ بجے اطلاع دی جاتی ہے تو سامان دینے والا یہ سمجھتا ہے کہ ابھی چار بجے ہیں حالانکہ اُس وقت پانچ بج چکے ہوتے ہیں.تو اگر سامان لینے والا عقل اور ذہانت سے کام لیتے

Page 270

$1954 260 خطبات محمود ہوئے پانچ بجے کی بجائے چار بجے سامان لینے جائے گا تو یقیناً وقت پر روانگی ہو سکے گی ورنہ کی پانچ بجے اطلاع دینے پر وقت پر روانگی نہیں ہو سکتی.یہ چھوٹی چھوٹی باتیں ہیں لیکن ذہانت کی کمی کی وجہ سے ہمیشہ ان میں غلطی کی جاتی ہے.چالیس سال سے میں جماعت کو اس طرف توجہ دلا رہا ہوں لیکن ابھی تک وہ بیدار نہیں ہوئی.اب میں لاہور گیا تو میں نے جماعت لاہور میں ایک نئی بیداری دیکھی جسے دیکھ کر خوشی ہوئی مگر اس بیداری کے ساتھ ذہانت کو کام میں نہیں لایا گیا جس کی وجہ سے مجھے افسوس ہوا.مثلاً وہاں لاہور کی جماعت کی طرف سے پہرہ کا انتظام کیا گیا مگر اس انتظام میں کم عقلی کا مظاہرہ ہوا جو ہمارے ملک کے تمام لوگوں میں پائی جاتی ہے.میری ایک نوسالہ نواسی آئی تو اُسے احاطہ کے اندر نہ آنے دیا گیا.میرے بعض رشتہ دار جو رتن باغ میں رہتے تھے اپنے دفتروں کو جانے کے لیے باہر جانا چاہتے تھے مگر اُن کو باہر جانے سے روکا گیا.میرا ایک تین سال کا نواسہ تھا نیچے سے میرے پاس اوپر آنے کے لیے سیڑھیاں چڑھنے لگا تو اُسے اس سختی.ڈانٹا گیا کہ وہ ایک گھنٹہ تک روتا رہا.حالانکہ اگر میرے رشتہ دار بھی مجھے نہیں مل سکتے تو ہم نے ایسے پہروں کو کیا کرنا ہے.اگر عقل سے کام لیا جاتا تو یہ بیداری جو اب پیدا ہوئی تھی بڑی برکت والی ہوتی مگر عقل سے کام نہیں لیا گیا.میں نے بارہا بیان کیا ہے اور ہمارا پہرہ ایسا ہوتا ہے جیسے کسی فوج نے حملہ آور ہونا ہوتا ہے.حالانکہ جس حملہ کا خیال کیا جا سکتا ہے وہ صرف اسی قدر ہے کہ اگر کوئی اندرونی منافق حملہ کر دے یا کوئی دشمن کا آدمی آ جائے اور وہ مجلس میں موقع دیکھ کر حملہ کر دے لیکن ہمارا پہرہ اس طرح ہوتا ہے جیسے کسی فوج نے حملہ آور ہونا ہوتا ہے.وہاں تو گولہ باری ہوتی ہے اس لیے دس دس میل تک وا چنگ افسر مقرر کیے جاتے ہیں.لیکن کیا ایک منظم حکومت میں ایسا حملہ ہو سکتا ہے؟ یہاں تو جب بھی کوئی خطرہ ہوگا کسی اندرونی منافق یا دشمن کے بھیجے ہوئے کسی آدمی کی طرف سے ہو گا اور ایسے شخص کو ہماری موجودہ تدبیروں سے کیا نقصان پہنچ سکتا ہے.انتظام کی خرابی اس امر سے واضح ہے کہ ادھر تو میرے نواسے اور نواسیوں کو اندر آنے سے روکا جا رہا تھا اور اُدھر یہ حالت تھی کہ باوجود اس کی کے کہ میں شعف دل کے دوروں کی وجہ سے بیمار تھا ایک دن میں نماز کے لیے آیا تو ایک شخص

Page 271

$1954 261 خطبات محمود نے برکت کے لیے مجھے چھونا چاہا اور پہرہ داروں کے خطرہ کی وجہ سے کہ وہ کہیں اُسے روک نہ دیں اُس نے جلدی کی اور اس زور سے ہاتھ مارا کہ میں بڑی مشکل سے گرتے گرتے بچا.اگر اُس کی جگہ کوئی دشمن ہوتا اور اُس کے ہاتھ میں خنجر ہوتا تو پہریدار کیا کرتے؟ اب یہ کا من سنس (COMMONSENSE) سے تعلق رکھنے والا امر ہے کہ جس طرح کا دشمن ہو اُس سے حفاظت کے لیے اُسی قسم کا ذریعہ اختیار کرنا چاہیے.ورنہ پہرے کا انتظام ہمیں کوئی فائدہ نہیں دے سکتا.اصل چیز تو یہ ہوتی ہے کہ مشتبہ آدمی پر نظر رکھی جائے.پچھلے دنوں جس شخص نے مجھ پر حملہ کیا تھا آخر اُس کے پاس وہ کونسی چیز تھی جو میرے پاس نہیں تھی.چاہے میں اُس سے کمزور ہی ہوتا لیکن تاہم اگر وہ سامنے کی طرف سے حملہ کرتا تو میں اُس کا مقابلہ کرتا لیکن اُس نے پیچھے کی طرف سے حملہ کیا کیونکہ اُس نے دیکھ لیا تھا کہ یہ بزرگ آنکھیں بند کر کے بیٹھتے ہیں.مگر اب یہ ہوتا ہے کہ کوئی پہریدار رائفل لے کر پچاس گز ادھر کھڑا ہے تو کوئی پہریدار رائفل لے کر پچاس گز اُدھر کھڑا ہے.کیا وہ اس قسم کے آدمی کو پکڑ سکتا ہے؟ بندوقیں تو وہاں کام دیتی ہیں جہاں بٹالین نے حملہ کرنا ہے لیکن جہاں کسی نے چوری چھپے چاقو مارنا ہے وہاں ان بندوقوں کا کیا فائدہ اور اتنے دور کھڑے ہونے والے پہریداروں کا کیا کام؟ پس اس قسم کے انتظام سے حقیقی مقصد حاصل نہیں ہو سکتا.مجھے اس بات سے تو خوشی ہوئی کہ لاہور کی جماعت میں بیداری پیدا ہوگئی ہے لیکن افسوس بھی ہوا کہ اگر وہ عقل سے کام لیتی تو یہ افسوسناک واقعات کیوں ہوتے اور یہ بیداری کتنی برکت والی ہوتی.اور اگر کوئی جماعت ایسی ہے کہ وہ مشتبہ آدمیوں کی بھی نگرانی نہیں کر سکتی تو ایسی جماعت تو اس قابل ہے کہ اُس کے امام پے در پے مارے جائیں.جس احمق قوم نے دیکھنا ہی نہیں اُسے کون بچا سکتا ہے.جو شخص مجلس میں آئے گا اور ہاتھ میں رائفل پکڑے ہوئے ہو گا وہ تو فوراً پکڑا جائے گا اور اگر کسی کے ہاتھ میں ہتھیار موجود نہیں اُس کے لیے دور دور کے پہریدار کیا روک بن سکتے ہیں.ایک شخص آتا ہے اور کہتا ہے مجھے اندر جانے دو میں نے نماز پڑھنی ہے لیکن اُسے یہ کہہ کر روک دیا جاتا ہے کہ کمرہ بھر گیا ہے.حالانکہ اگر کوئی شخص میرے پیچھے پانی میں کھڑے ہو کر بھی نماز پڑھنا چاہتا ہے تو تم اُسے روکنے والے کون

Page 272

$1954 262 خطبات محمود ہو؟ ہاں! اگر اُس کے پاس راکفل ہے تو تم کہہ سکتے ہو اندر رائفل لے جانے کی اجازت نہیں لیکن نماز سے روکنے کا تمہیں پھر بھی کوئی حق نہیں.پس میں نصیحت کرتا ہوں کہ تم عقل اور فکر سے کام لینے کی عادت ڈالو.اگر تم عقل اور خرد سے کام لو تو تمہارا مقابلہ کوئی قوم نہیں کر سکتی.یورپ والے عقل اور خرد سے کام کر رہے ہیں لیکن اُن کے پاس نور ایمان موجود نہیں.اُن کے پاس آنکھ ہے لیکن نور موجود نہیں.اور آنکھ بغیر نور کے کیا کر سکتی ہے ؟ ہاتھ تو موجود ہیں لیکن اگر ہاتھ میں طاقت نہ ہو تو وہ کس نام کا؟ تمہیں خدا تعالیٰ نے نور قرآن بخشا ہے.اگر تم عقل اور خِرد سے کام لو تو تمہارے پاس چمکنے والی آنکھ اور پلنے والا ہاتھ ہوگا اور یورپین تو میں بھی تمہارا مقابلہ نہیں کر سکیں گی.لیکن باوجود بار بار سمجھانے کے میں دیکھتا ہوں کہ جماعت کے دوست سمجھتے نہیں.میں نے کالجوں ورسکولوں کو اس طرف بار ہا توجہ دلائی تھی کہ اگر بڑی عمر والے نہیں سمجھتے تو نہ سمجھیں تم نئی پود کو تو عقلمند بنا دو.لیکن ہوتا یہ ہے کہ جب کارکن میرے پاس آتے ہیں تو کتنی ہی چھوٹی بات کیوں نہ ہو اُس میں وہ غلطی کر جاتے ہیں اور پھر کہتے ہیں دراصل میں یوں سمجھتا تھا حالانکہ ان کے ایسا کہنے کا صرف یہ مطلب ہوتا ہے کہ میں نے آپ کی بات بالکل نہیں سمجھی تھی.اگر یہ نقص نئی پود میں موجود ہے تو کالجوں اور سکولوں کا کیا فائدہ؟ مثلاً ہمارا کالج ہے.اُس کا ایک طالبعلم ہے وہ کسی نقص کی وجہ سے گورنمنٹ سروس میں نہیں جا سکتا تھا.میں نے اُسے اپنی زمینوں پر لگا لیا اور خیال کیا کہ اُس کا دماغ اچھا ہو گا.اُس کے مجھے بل پر بل آ رہے ہیں کہ یہ بھیجو، روپیہ بھیجو.حالانکہ واقع یہ ہے کہ سیل ایجنٹ اُسے خط پر خط لکھ رہا ہے کہ روپیہ قابل فروخت اشیاء مجھے فروخت کے لیے بھجواؤ مگر وہ قابلِ فروخت اشیاء کو دبائے بیٹھا ہے اور مجھے لکھتا ہے کہ روپیہ بھیجو.اب میں روپیہ کہاں سے بھیجوں؟ جس چیز سے روپیہ ملنا ہے اُس کو وہ خود دبائے بیٹھا ہے اور روپیہ مجھ سے مانگ رہا ہے.اگر اس طرح ہوتا رہے تو زمیندارہ کا کام کیسے چلے؟ اب وہ شخص کالج میں پڑھا ہے اور چار پانچ سال تک کالج کے پروفیسروں نے اُس کی نگرانی کی ہے لیکن وہ اتنی موٹی بات بھی نہیں سمجھ سکا کہ میں جنس بیچوں گا نہیں تو روپیہ کہاں سے ملے گا؟ پرائمری پاس لوگ بھی یہ بات سمجھ سکتے ہیں کہ جس چیز کا منبع اُن کے پاس

Page 273

$1954 263 خطبات محمود ہے اگر وہ اُسے نہیں نکالیں گے تو کون نکالے گا.ایک شخص کے گھر میں نلکا موجود ہو لیکن وہ اس میں روئی اور لوہا ٹھونس دے اور پھر شور مچانا شروع کر دے کہ پانی لاؤ، پانی لاؤ، میں مر گیا.تو اُسے لوگ کم عقل ہی کہیں گے کیونکہ پانی اُس نے خود بند کر دیا ہے.پس چیزیں پرنسپلوں، پروفیسروں، ہیڈ ماسٹروں، ماسٹروں اور ماں باپ کے ساتھ تعلق رکھتی ہیں.ان کا کام ہے کہ نئی پود کو روشن دماغ بنا ئیں.ہر بات میں ایک چھوٹا سا نکتہ ہوتا ہے.اگر اسے نظرانداز کر دیا جائے تو بات کا مفهوم بالکل بدل جاتا ہے.میں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے سنا ہے.آپ فرمایا کرتے تھے کہ میں نے جماعت کو بارہا سمجھایا ہے کہ قرآن کریم میں جو یہ آیت آتی کہ قیامت کے دن حضرت عیسی علیہ السلام سے سوال کیا جائے گا کہ کیا تم نے یہ بات کہی تھی تو کہ مجھے اور میری ماں کو معبود بنا لو؟ تو وہ اِس سے انکار کریں گے اور کہیں گے جب تک میں زندہ رہا میں اُن پر نگران رہا اور جب تو نے مجھے وفات دے دی تو تو اُن کا نگران تھا.میرے بعد جو کچھ ہوا اُس کا مجھے علم نہیں.3 اسے اس اس رنگ میں مخالفین کے سامنے پیش کرنا چاہیے کہ اسی آیت سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ مسیحی، مسیح کی زندگی میں نہیں بگڑے.لیکن جماعت کے اکثر دوست جب بھی اس آیت کو پیش کریں گے، غلط کریں گے.اور اس کی وجہ یہی ہوتی ہے کہ لوگ اصل نکتہ کو نظر انداز کر دیتے ہیں اور زینت کی چیز کو لے لیتے ہیں.جیسے کوئی فوٹو پھینک دے اور فریم کو سنبھال کر رکھ لے.آپ فرمایا کرتے تھے کہ اتنی مدت تک اس آیت کا مفہوم سمجھانے کے بعد بھی جماعت اس کے پیش کرنے کا صحیح طریق نہیں سمجھتی.اگر وہ ذہانت سے کام لیتی تو یہ بات سمجھ میں آسکتی تھی.ہمیں بچپن سے جو آیات حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام یا حضرت خلیفہ اول نے سمجھائی ہیں وہ اب تک ہمیں یاد ہیں.دشمن جب اعتراض کرتا ہے ہم اُس اعتراض کا فوراً جواب دے دیتے ہیں اور ہم سمجھتے ہیں کہ یہی باتیں ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے سمجھائی تھیں لیکن نوجوان مولوی انہیں جلد بھول جاتے ہیں.بسا اوقات جماعت کے نوجوان علماء بعض اعتراض لکھ کر بھیج دیتے ہیں اور کہتے ہیں یہ نیا اعتراض ہے.حالانکہ وہ نیا اعتراض نہیں ہوتا.اُس کا جواب بارہا دیا جا چکا ہوتا ہے.

Page 274

خطبات محمود : 1 264 $1954 پس تم اپنے اندر نئی تبدیلی پیدا کرو اور خدا تعالیٰ کی دی ہوئی دولت کو استعمال کرو.اگر تم خدا تعالیٰ کی دی ہوئی دولت کو استعمال نہیں کرتے تو تم اس کی دوسری نعمتوں کے امیدوار کیوں ہو؟ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے پاس ایک شخص آیا اور اس نے کہا مجھے کوئی معجزہ دکھائیں.مجھے یاد ہے آپ اُس وقت جوش میں آ گئے اور فرمایا میرے دعوی پر اتنے کی سال گزر چکے ہیں اور اس عرصہ میں خدا تعالیٰ نے ہزاروں نشانات دکھائے ہیں.تم نے ان نشانات سے کب فائدہ اُٹھایا کہ اب تم نئے نشان سے فائدہ اُٹھا لو گے.پس اگر تم خدا تعالیٰ کی دی ہوئی اتنی بڑی دولت سے فائدہ نہیں اُٹھاتے تو تمہیں کسی دولت کیسے مل سکتی ہے.ہاں! اگر تم خدا تعالیٰ کی دی ہوئی دولت سے فائدہ اُٹھاؤ تو تمہیں اتنا کچھ مل جائے گا کہ تمہیں خدا تعالیٰ سے کچھ اور مانگتے ہوئے بھی شرم آئے گی“.(الفضل 6/اکتوبر 1954ء ) - محمد شاہ تغلق خاندان کا چھٹا فرمانروا.1386 ء میں سلطان فیروز خان نے اپنے بیٹے شہزادہ محمد خان کو سلطان ناصر الدین والد نیا محمد شاہ کا خطاب دے کر عنان سلطنت سپرد کر دی.سلطان محمد شاہ نے چھ سال سات ماہ حکومت کی (اسلامی انسائیکلو پیڈیا مؤلفہ سید قاسم محمود صفحہ 1424، 1425.لاہور ) 2 : احمد شاہ محمد شاہ کا بیٹا، بادشاہ دہلی.1725 ء میں پیدا ہوا.1748ء میں تخت نشین ہوا.1775ء میں فوت ہوا.احمد شاہ ایک نااہل حکمران تھا ( اسلامی انسائیکلو پیڈیا مؤلفہ سید قاسم محمود صفحہ 155.لاہور ) : وَإِذْ قَالَ اللهُ يُعِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ عَاَنتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ اتَّخِذُونِي وَاُمّى الهَيْن مِنْ دُونِ اللَّهِ قَالَ سُبْحَنَكَ مَا يَكُونُ لِى أَنْ أَقُولَ مَا لَيْسَ لِي بِحَقِّ إِنْ كُنْتُ قُلْتُهُ فَقَدْ عَلِمْتَه تَعْلَمُ مَا فِي نَفْسِى وَلَا أَعْلَمُ مَا فِي نَفْسِكَ إِنَّكَ أَنْتَ عَلامُ الْغُيُوب - مَا قُلْتُ لَهُمْ إِلَّا مَا أَمَرْتَنِي بِةٍ أَنِ اعْبُدُوا اللهَ رَبّى وَرَبَّكُمْ ۚ وَكُنْتُ عَلَيْهِمْ شَهِيدًا مَّا دُمْتُ فِيهِمْ ۚ فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِي كُنتَ أنتَ الرَّقِيبَ عَلَيْهِمْ وَأَنْتَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ شَهِيدٌ (المائدة: 117 ، 118) 3

Page 275

$1954 265 27 خطبات محمود مومن کی ہمدردی کا دامن تمام بنی نوع انسان تک وسیع ہونا چاہیے جب قوم پر کوئی مصیبت آ جائے تو پورے جوش کے ساتھ خدمت خلق میں حصہ لینا چاہیے (فرمودہ یکم اکتوبر 1954ء بمقام ربوہ) تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: ” نقرس کے حملہ کی وجہ سے میں گزشتہ جمعہ بھی مسجد میں نہیں آسکا اور اس سے پہلے بھی کچھ دن نمازوں کے لیے نہیں آ سکا.اس دفعہ تین سال کے بعد نقرس کا شدید حملہ ہوا ہے.اگر چہ یہ پہلے حملے کی طرح سخت نہیں تھا تاہم میں گھٹنے کی درد اور اس کے ورم کی وجہ سے سجدہ نہیں کر سکتا تھا.میں یا تو اشارہ سے سجدہ کر لیتا تھا اور یا تین چار تکیے ایک دوسرے کے اوپر رکھ کر اُن پر سجدہ کرتا تھا.اب بھی میری لات میں درد ہے گو اتنی نہیں جتنی پہلے تھی اور درد کی تیزی کی وجہ سے جو بخار ہو جایا کرتا تھا وہ بھی اب محسوس نہیں ہوتا.بہر حال میں ابھی سجدہ نہیں کر سکتا.میں نے گاؤ تکیہ منگوا لیا ہے تا کہ اگر زمین پر سجدہ نہ کر سکوں تو گاؤ تکیہ کو سامنے رکھ کر اُس پر سجدہ کر لوں.

Page 276

خطبات محمود 266 $1954 مثلاً احباب کو یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان پر دو طرح کی ذمہ داریاں نی عائد کی ہوئی ہیں.ایک ذمہ داری اُس کے نفس کی ہے جس میں اُس کے عزیز اور رشتہ دار بھی شامل ہوتے ہیں.اور ایک ذمہ داری اُس کی قوم یا ملک کی ہے جس میں وہ رہتا ہے.اس میں وہ تمام افراد شامل ہوتے ہیں جو اُس کی طرف کسی نہ کسی رنگ میں منسوب ہوتے ہیں.چاہے وہ انہیں جانتا ہو یا نہ جانتا ہو، اُس نے انہیں دیکھا ہو یا نہ دیکھا ہو.اس ذمہ داری کو وسیع کیا جائے تو یہ انسانیت کی ذمہ داری کہلاتی ہے اور اگر اسے محدود کریں تو یہ وطنی قوم کی ذمہ داری بن جاتی ہے.اور اگر اسے اور محدود کر دیا جائے تو ایک نسلی قوم یعنی ایک دادے کی اولاد کی ذمہ داری بن جاتی ہے.بہر حال یہ ذمہ داری ایسی ہے جس میں جاننے یا نہ جاننے کا سوال نہیں انسانوں کا ہر طبقہ اس میں شامل ہوتا رسول کریم ہے.صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسلام کے احکام میں اِن دونوں ذمہ داریوں کو مدنظر رکھا.و ہے.من انسان کی اپنی ذات ہے.اس کے متعلق رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حکم دیا ہے کہ اس کا خیال رکھا جائے.احادیث میں آتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہجرت کے بعد مہاجرین اور انصار کو آپس میں بھائی بھائی بنا دیا تھا.1 ایک مہاجر صحابی کے متعلق روایت آتی ہے کہ جب وہ اپنے انصاری بھائی کے گھر گئے تو انہوں نے دیکھا کہ اُن انصاری صحابی کی بیوی کے کپڑے نہایت میلے کچیلے ہیں.اُن دنوں پردہ کے احکام ابھی نازل نہیں ہوئے تھے.انہوں نے اُسے توجہ دلائی کہ جسم اور لباس کی صفائی رکھا کرو کیونکہ مذہبی لحاظ سے بھی اور جسمانی لحاظ سے بھی یہ نہایت ضروری چیز ہے.اُس نے جواب دیا کہ میں نے کیا صفائی رکھنی ہے.بیوی کی طرف توجہ کرنے والا تو خاوند ہوتا ہے لیکن تمہارے انصاری بھائی کو تو کی گھر کی پروا ہی نہیں.وہ دن کو روزہ رکھتا ہے اور ساری رات نماز پڑھتا رہتا ہے.اُسے دنیا کی کی طرف کوئی رغبت ہی نہیں ہے.جب وہ انصاری گھر آئے تو اُن کے لیے کھانا تیار کیا گیا لیکن انہوں نے کھانا کھانے سے انکار کر دیا اور کہا میں نے تو روزہ رکھا ہوا ہے.اس پر مہاجر بھائی نے کہا کہ جب تک تم کھانا نہ کھاؤ میں بھی کھانا نہیں کھاؤں گا.پہلے تو انہوں نے انکار کیا مگر جب ان کے مہاجر بھائی کا اصرار بڑھ گیا تو انہوں نے کہا بہت اچھا! میں روزہ کھول

Page 277

$1954 267 خطبات محمود دیتا ہوں.چنانچہ انہوں نے کھانا کھا لیا.پھر رات کا کھانا کھانے کے بعد، عشا کی نماز ادا کرنے کے بعد انصاری دوست نے نفل ادا کرنے شروع کیے تو مہاجر بھائی نے انہیں پکڑ لیا تی اور کہا تم گھر میں جاؤ اور سو رہو.میں تمہیں نفل نہیں پڑھنے دوں گا.تہجد کے وقت میں تمہیں جگا دوں گا.خیر وہ گھر جا کر سو گئے اور رات کے آخری حصہ میں مہاجر بھائی نے انہیں جگا دیا اور انہوں نے نماز تہجد ادا کی.جب صبح ہوئی تو وہ انصاری رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آئے اور عرض کیا کہ يَارَسُول اللہ! آپ نے فلاں شخص کو میرا بھائی مقرر کیا ہے.اُس نے کل مجھے عبادت سے محروم رکھا ہے.میں دن کو روزہ رکھتا تھا اور ساری رات نفل ادا کیا کرتا تھا لیکن اُس نے نہ مجھے روزہ رکھنے دیا اور نہ ساری رات نفل ادا کرنے دیئے.آپ نے فرمایا تمہارے بھائی نے جو کچھ کیا ہے درست کیا ہے.جو طریق تم نے اختیار کیا وہ درست نہیں.تمہیں سمجھنا چاہیے کہ لِنَفْسِكَ عَلَيْكَ حَقٌّ وَلِزَوْجِكَ عَلَيْكَ حَقٌّ - تیرے نفس کا بھی تجھ پر حق ہے اور تیری بیوی کا بھی تجھ پر حق ہے.پس اسلام نے اپنے احکام میں انسان کی ذات کو مدنظر رکھا ہے اور کہا ہے اس کا بھی خیال رکھنا ضروری ہے.پھر نفس میں بیوی اور دوسرے رشتہ داروں کو بھی شامل کیا ہے.رشتہ داروں کے علاوہ دوسرے افراد کے متعلق ہم دیکھتے ہیں تو ان کے متعلق بھی شریعت میں احکام موجود ہیں.چنانچہ آپ نے فرمایا کہ جب تم جمعہ کی نماز ادا کرنے کے لیے مسجد میں آؤ تو نہا کر آؤ.پیاز، لہسن یا اور کسی قسم کی بدبودار چیز کھا کر نہ آؤ، کپڑے دھو کر آؤ اور خوشبو لگا کر آؤ.3 نہانا اس لیے ضروری قرار دیا کہ گندہ رہنے کی وجہ سے جسم میں ایک قسم کی بدبو پیدا ہو جاتی ہے جو نہانے سے دور ہو جاتی ہے.خوشبو لگانے کا حکم اس لیے دیا کہ بعض بیماریوں کی وجہ سے جیسے بغل گند ہوتی ہے نہانے کے باوجود جسم سے بدبو آتی رہتی ہے.خوشبو اس قسم کی بُو کے ازالہ کے لیے مفید چیز ہے.غرض جو کو عارضی ہوتی ہے اُس کا بھی علاج کر دیا اور بیماریوں کی وجہ سے جو مستقل بُو پیدا ہو جاتی ہے اُس کا بھی علاج کر دیا.پھر آپ نے فرمایا دیکھو! انسان کے لیے یہ چیز بھی ثواب کا موجب ہے کہ اگر وہ راستہ میں کوئی لکڑی، کانٹا یا گوبر پڑا ہوا دیکھے تو اُسے دور کر دے.4 اُس کا یہ فعل بھی اُس کے لیے نیکی شمار ہوگا.-

Page 278

$1954 268 خطبات محمود اب مسجد والے تو اُس کے ہم مذہب تھے لیکن سڑک پر چلنے والے اس کے وطنی بھی ہو سکتے ہیں اور غیر وطنی بھی ہو سکتے ہیں، مسافر اور سیاح بھی ہو سکتے ہیں.پس اس حکم کے ذریعہ آپ کی نے تمام بنی نوع انسان تک اپنی ہمدردی کے دامن کو وسیع کرنے کا حکم دیا.پھر جیسا کہ میں سمجھتا ہوں ایک قرآنی آیت سے بھی یہ استدلال ہوسکتا ہے کہ اُن لوگوں سے بھی انسانی ہمدردی کا سلوک کرنا چاہیے جن سے عام حالات میں کوئی تعلق نہیں ہوتا.اور وہ آیت یہ ہے وَفِي أَمْوَالِهِمْ حَقٌّ لِلسَّابِلِ وَالْمَحْرُومِ 5 اب تک اس آیت کے جو معنے کیے جاتے ہیں وہ یہ ہیں کہ انسانی اموال میں اُن لوگوں کا بھی حق ہے جو زبان سے مانگ لیتے ہیں اور اُن کا بھی حق ہے جو زبان سے مانگتے نہیں.اور یا یہ معنے کیے جاتے ہیں کہ ان کے اموال میں انسان کا بھی حق ہے جو اپنی ضرورت خود بیان کر لیتا ہے اور جانور کا بھی حق ہے جو اپنی ضرورت خود بیان نہیں کر سکتا.لیکن میں سمجھتا ہوں کہ گو اس کے یہ معنے بھی درست ہیں جو اب تک کیے جاتے ہیں لیکن محروم میں غیر ممالک کے رہنے والے اور غیر اقوام بھی شامل ہیں جن تک انسان کی عام حالات میں پہنچ نہیں ہوتی.مثلاً ہم یہاں بیٹھے ہیں.انفرادی لحاظ سے ہم جاپانیوں کی کوئی مدد نہیں کر سکتے.ہاں! قومی طور پر ہم چندہ کر کے جاپانیوں کی مدد کریں تو وہ ہمارے اموال میں حصہ دار بن جاتے ہیں.پس اس لفظ میں وہ انسانی ہمدردی بھی شامل ہے جو عام حالات میں انسان کی طاقت سے باہر ہوتی ہے.عرب، مصر، ایران، افغانستان، چین، جاپان، یونائیٹڈ اسٹیٹس امریکہ، ارجنٹائن، چلی ، کینیڈا، برازیل، فرانس، جرمنی ، سپین، اٹلی اور سوئٹزر لینڈ وغیرہ ممالک میں جو لوگ آباد ہیں اُن سے ہمدردی کرنے کے ذرائع ہمارے پاس موجود نہیں.لیکن اگر ہم ایسے مواقع پر جب ساری قوم پر کوئی کی مصیبت آ جایا کرتی ہے اُن کی مدد کریں تو اس طرح وہ بھی ہمارے اموال میں حصہ دار بن جاتے ہیں.یورپین لوگوں نے اس بات کو مدنظر رکھا ہے اور انہوں نے ریڈ کر اس قسم کی سوسائٹیاں بنائی ہیں.وہ آہستہ آہستہ چندہ کرتے رہتے ہیں اور ڈاکٹر اور نرسیں وغیرہ ملازم رکھ لیتے ہیں.اور جب کسی قوم پر کوئی بڑی مصیبت آ جائے تو اُس کی مدد کو پہنچ جاتے ہیں.اس طرح وہ اس آیت کے مفہوم کے مطابق عمل کرتے ہیں کہ وَفِي اَمْوَالِهِمْ حَقٌّ لِلسَّابِلِ

Page 279

$1954 269 خطبات محمود وَالْمَحْرُومِ.ہمسایہ محروم میں اس لیے شامل نہیں کہ گو وہ ہم سے نہیں مانگتا لیکن اُس کے حالات ہمارے سامنے ہیں.پس عدم علم کی وجہ سے محروم نہیں ہے.اسی طرح کراچی اور حیدرآباد (سندھ) کے رہنے والے محروم نہیں کیونکہ گو ہم اُن کی براہِ راست کوئی مدد نہیں کرتے لیکن ہم گورنمنٹ کو ٹیکس ادا کر رہے ہیں اور اُس ٹیکس سے حکومت اُن کی امداد کر رہی ہے.لیکن ہندوستان اور چین والوں کی نہ ہم براہ راست کوئی مدد کرتے ہیں اور نہ ہماری حکومت اُن کی کی کوئی مدد کرتی ہے.اگر ہم اس قسم کے محروم لوگوں کی مدد کرنا چاہیں تو وہ اس طرح ہو سکتی ہے کہ ہم ریڈ کر اس یا ہلال احمر کی قسم کی بعض سوسائٹیاں بنا لیں اور عام حالات میں اپنے اموال سے کچھ نہ کچھ بطور چندہ دیتے رہیں تا اگر کسی قوم پر کوئی بڑی مصیبت آئے تو ان سوسائیٹیوں کی وساطت سے ہم اُس کی مدد کر سکیں.پس اس آیت کے مطابق میں سمجھتا ہوں کہ مسلمانوں کو اس قسم کے ذرائع اختیار کرنے چاہیں کہ وہ اُن لوگوں کی مدد کو بھی پہنچ سکیں جن تک عام حالات میں ان کی پہنچ نہیں.اور اگر اللہ تعالیٰ اس قسم کے سامان پیدا کر دے کہ ہم دوسرے لوگوں کی مدد کر سکیں تو ہمیں پیچھے نہیں ہٹنا چاہیے.بلکہ پورے جوش کے ساتھ اس میں حصہ لینا چاہیے.پچھلے دنوں مشرقی پاکستان میں سیلاب آیا جس پر میں نے خطبہ پڑھا اور جماعت کو تاکید کی کہ فوری طور پر چندہ کر کے مشرقی پاکستان کی مالی امداد کی جائے.اس پر پہلا عمل تو میرے دفتر نے کیا کہ انہوں نے دو دن تک میرا خطبہ دبا رکھا اور پھر اُسے ڈاک کے ذریعہ الفضل کو بھیجا.اُن دنوں ڈاک میں ایسی مشکلات پیش آگئیں کہ خطبہ الفضل والوں کو قریباً دس دن بعد ملا.دوسرا عمل نظارت علیاء، نظارت امور عامہ اور نظارت بیت المال نے کیا کہ ان کی طرف سے پندرہ دن تک اخبار میں کوئی تحریک نہ چھپی.پھر تیسرا عمل الفضل والوں نے ی کیا کہ انہوں نے صرف خطبہ شائع کر دیا.بعد میں اس تحریک کا تکرار نہ کیا.گویا خدا تعالیٰ نے جو ہمارے لیے اس قسم کا موقع بہم پہنچایا تھا کہ ہم مشرقی پاکستان کی مدد کر سکیں اُس کے متعلق پوری کوشش کی گئی کہ جماعت کے کانوں میں یہ تحریک نہ پڑے اور دفتر والوں نے سارا زور اس بات پر لگا دیا کہ میری یہ تحریک جماعت تک پہنچنے نہ پائے تا انہیں ثواب کا

Page 280

$1954 270 خطبات محمود کہیں موقع نہ مل جائے.جب مرکز کی یہ حالت ہو تو بیرونی جماعتوں کے متعلق کیا کہا جا سکتا کی ہے.میں نے دیکھا ہے کہ متواتر اس قسم کے حالات پیدا ہوئے ہیں کہ جب کسی ناگہانی بلاء کے وقت مصیبت زدوں کی مدد کی گئی تو اس کا اثر ایک لمبے عرصہ تک علاقہ میں رہا.پچھلے دنوں ایک کار کی ٹکر کا واقعہ لالیاں میں ہو گیا تھا.حکومت کے افسران نے جماعت سے کہا کہ اس وقت ہم تو مصیبت زدگان کی کوئی مدد نہیں کر سکتے آپ ہی اُن کی مدد کریں.اس پر کچھ دوست وہاں گئے اور انہوں نے مدد کی.اس کی وجہ سے دس پندرہ دن تک علاقہ میں شور رہا کہ فلاں موقع پر احمدیوں نے یہ کیا.احمدیوں نے مصیبت زدگان سے ہمدردی کا سلوک کیا، ان کی مرہم پٹی کی اور انہیں مناسب جگہوں پر پہنچایا.پھر پچھلا سیلاب آیا تھا.یہ موقع بھی ایسا تھا کہ مصیبت زدگان سے ہمدردی کا اظہار کیا جاتا اور جماعت نے ایسا کیا بھی.اب پھر سیلاب آیا ہے.اس موقع کو بھی ہمیں ہاتھ سے نہیں جانے دینا چاہیے.اس موقع پر اگر دفاتر میں چھٹی بھی کر دی جائے تو کوئی حرج نہیں.مثلاً آخری جمعرات کو ہمارے دفاتر اور دیگر ادارے بند رہتے ہیں لیکن گورنمنٹ کے دفاتر میں ایسا نہیں ہوتا.مجھے بعض دوستوں نے معین صورت میں کہا ہے کہ جب گورنمنٹ کے اداروں میں اس قسم کی چھٹی نہیں ہوتی تو ہمارے مرکز میں ایسا کیوں کیا جاتا ہے؟ میں اس کی تحقیقات کر رہا ہوں.لیکن اگر آخری جمعرات کو چھٹی ضروری ہے تو ایسے مواقع پر کیوں چھٹی نہیں دی جاتی تا مصیبت زدگان کی امداد کی جائے یا سڑکوں کی مرمت کی جائے تاکہ لوگوں کے تعلقات جو منقطع ہو جاتے ہیں وہ دوبارہ قائم ہو جائیں.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ کئی احمدی اِس بات سے چڑ جاتے ہیں کہ جن لوگوں کی ہم مدد کرتے ہیں وہی کچھ عرصہ کے بعد ہم سے دشمنی کرنے لگ جاتے ہیں.لیکن یہی چیز تو مزہ دیتی ہے.کیونکہ اگر وہ لوگ جن کی خدمت کی جائے مخالفت کرنے لگ جائیں تو ہمارا دل اس بات پر خوش ہو گا کہ ہم نے جو کچھ کیا ہے انسان کی خاطر نہیں کیا بلکہ اللہ تعالیٰ کی خاطر کیا ہے.ابھی اس طوفان میں ایک واقعہ پیش آیا ہے.ایک بس سروس کمپنی کے متعلق ہمیشہ شکایت آتی ہے کہ وہ اپنی لاریاں ربوہ میں نہیں ٹھہراتی بلکہ اُن کی لاریاں یا تو احمد نگر کے قریب

Page 281

$1954 271 خطبات محمود ٹھہرتی ہیں یا چنیوٹ کے پاس جا کر ٹھہرتی ہیں تا ربوہ سے احمدی سوار نہ ہوں.جب طوفان آیا اور سڑک پانی کے نیچے آ گئی تو مسافروں کی امداد کرنے کے لیے ربوہ کے خدام سڑک پر گئے.اس بس سروس کمپنی کی ایک لاری پانی میں پھنس گئی.جب خدام مدد کے لیے گئے تو ڈرائیور نے کہا تم لاری کو ہاتھ نہ لگاؤ.مجھے تمہاری مدد کی ضرورت نہیں.چنانچہ ڈرائیور اور مسافر کافی وقت تک زور لگاتے رہے لیکن لاری نہ نکلی.بعد میں وہ مجبور ہو کر خدام کے پاس آئے اور اُن سے کہا کہ لاری نکالنے میں ہماری مدد کی جائے.چنانچہ کچھ خدام گئے اور انہوں نے نہایت محنت سے اُس لاری کو باہر نکال دیا.ڈرائیور نے شکریہ ادا کیا اور کہا کہ آپ لوگوں نے ہماری خاطر بہت تکلیف برداشت کی ہے.اس دوران میں کسی لڑکے نے یہ کہہ دیا کہ آپ شکریہ تو ادا کرتے ہیں مگر کیا احمدیوں کو کبھی اپنی لاری میں سوار بھی کریں گے؟ اُس لڑکے کو ایسا نہیں کہنا چاہیے تھا کیونکہ انہوں نے جو کچھ کیا تھا خدا تعالیٰ کی خاطر کیا تھا.مگر تاہم اُس ڈرائیور نے یہ جواب دیا کہ اب ہم پہلے آپ کو بٹھایا کریں گے پھر اور کسی کو بٹھائیں گے.لیکن دل ایک دن میں نہیں بدلا کرتے.دل آہستہ آہستہ بدلتے ہیں.اس لیے تم اپنا کام کرتے چلے جاؤ اور اس بات کا خیال نہ آنے دو کہ دوسرے لوگ تمہاری مخالفت کرتے ہیں ؟ تمہاری خدمت کی قدر کرتے ہیں.قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ بار بار فی سبیل اللہ کے الفاظ بیان فرماتا ہے کہ تم جو نیکی بھی کرو خدا تعالیٰ کی خاطر کرو.اس لیے چاہے تم سو دفعہ نیکی کرو اور جن سے تم نیکی کرو وہ سو دفعہ تمہاری مخالفت کریں.وہ تمہارے دشمن ہو جائیں مگر تم نیکی کو ترک نہ کرو.آخر قیامت کے دن انہی کو پکڑا جائے گا اور تمہارے گلے میں سوسو بار پڑیں گے.پس تم میں سے کسی کو اس بات کا خیال نہیں کرنا چاہیے کہ تمہارے حُسنِ سلوک کی کوئی قدر بھی کرتا ہے یا نہیں.تم نے جو کچھ کرنا ہے خدا تعالیٰ کی خاطر کرنا ہے اور وہی تمہاری نیکی کا بدلہ دے گا.اس دفعہ لاہور کی جماعت نے قربانی کا اچھا نمونہ پیش کیا ہے اور وہاں کے خدام نے قابلِ تعریف کام کیا ہے.مجھے اس بات سے بہت خوشی ہوئی کہ اس دفعہ اُن میں بیداری پیدا ہوئی ہے اور انہوں نے مصیبت زدگان کی خوب مدد کی ہے اور انہوں نے اُن مکانوں میں

Page 282

$1954 272 خطبات محمود لوگوں کو پناہ دی ہے جنہیں گزشتہ فسادات میں جلانے کا پروگرام بنایا گیا تھا.اور جن لوگوں کو اب پناہ دی گئی ہے وہ انہیں جلانے آئے تھے.اب وہ لوگ اپنے دلوں میں کتنے شرمندہ ہوں کی گے کہ اگر ہم ان مکانوں کو گزشتہ فسادات کے دوران میں جلا دیتے تو آج ہم طوفان میں ڈوب جاتے اور ہمیں پناہ کی کوئی جگہ نہ ملتی.اب فرض کرو کہ کچھ عرصہ کے بعد جماعت کے احسان کو بھول جاتے ہیں.تب بھی تم اُن سے حُسنِ سلوک کرو کیونکہ تم نے جو کچھ کرنا ہے وہ خدا تعالیٰ کی خاطر کرنا ہے.اور خدا تعالیٰ تمہارے کام کو دیکھ رہا ہے اور وہی اس کا اجر دے گا.اگر کوئی شخص کسی پر احسان کرتا ہے اور دوسرا شخص اُس احسان کو بھول جاتا ہے یا اُس کے أ احسان کی قدر نہیں کرتا تو یہ اُس کا قصور ہے.تمہارا فائدہ اسی میں ہے کہ تم احسان کرتے چلے جاؤ.اور ہمارا خدا ایسا ہے کہ اُس نے نیکی کرنے والے کے لیے ثواب کے اتنے رستے کھوئے ہیں کہ اُن کی کوئی حد ہی نہیں.اس لیے ایسے فعل پر کسی مسلمان کے دل میں انقباض پیدا ہونا یا نفرت اور حقارت کا جذبہ پیدا ہونا اور دل میں گرہ پڑنا ناجائز ہے.اگر کوئی تمہیں گالی دیتا ہے تو تمہیں چڑنے کی ضرورت نہیں.اس کی گالی سے تمہارا کچھ نہیں بگڑتا.رسول کریم اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ اگر کوئی شخص کسی کو گالی دیتا ہے تو خدا تعالیٰ کے فرشتے اُسے دعائیں دیتے ہیں.6 اب دیکھو! اُس شخص کی گالیوں نے کیا بنانا تھا؟ اگر کچھ بنانا ہے تو فرشتوں کی دعاؤں نے بنانا ہے.میری اپنی یہ حالت ہے کہ مجھے کوئی کتنی گالیاں دے مجھے اس بات کا احساس بھی نہیں ہوتا.میں سمجھتا ہوں کہ اِن الفاظ سے میرا کیا بگڑتا ہے.بعض لوگ میرے پاس آتے ہیں اور شکایت کرتے ہیں کہ فلاں شخص نے بددعا کی ہے.مجھے اُن کی بات پر ہمیشہ ہنسی آتی ہے کہ اگر تو خدا تعالیٰ قادر وعلیم ہے اور وہ یقیناً ایسا ہے تو وہ جانتا ہے کہ کوئی شخص دعا کے قابل ہے یا بددعا کے.اگر خدا تعالیٰ کے نزدیک وہ دعا کے قابل ہے تو وہ اپنے علم کے مطابق اُس سلوک کرے گا اور کسی کی بددعا کو کیوں سُنے گا.اور اگر اُس کے علم میں وہ دعا کے قابل نہیں تو اگر کوئی اُسے بددعا نہ بھی دیتا تب بھی اسے کوئی فائدہ نہیں پہنچ سکتا تھا.اگر خدا تعالیٰ نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ اُس کے دس بچے زندہ رہیں اور دوسرا شخص کہتا ہے کہ خدا کرے

Page 283

$1954 273 خطبات محمود وہ اُس کے سارے بچے مر جائیں، تو خدا تعالیٰ پاگل تو نہیں کہ وہ اُس کی بات کو مان لے.و اپنے علم کے مطابق اُس سے سلوک کرے گا اور دوسرے شخص کی بددعا کوئی اثر نہیں کرے گی.یہ عجیب بات ہے کہ تم ایک طرف تو اُسے خدا سمجھتے ہو اور دوسری طرف اُسے اپنے سے بھی کم عقل سمجھتے ہو.ہمارا خدا تو کامل خدا ہے.اگر ساری دنیا مل کر بھی ہمارے لیے بددعا ئیں کرے تو ہم اُن سے ڈر نہیں سکتے.کیونکہ خدا تعالیٰ اپنے علم کے مطابق ہم سے سلوک کرے گا.وہ اس بات کا پابند نہیں کہ دوسرا جو کچھ کہہ دے اُسے مان لے.یہ تو جاہل عورتوں کا طریق ہے کہ وہ دوسرے کی بددعا سے ڈرتی ہیں.مجھے ساری دنیا بددعائیں دے لے.میں اُن کے سامنے بیٹھ جاتا ہوں اور بددعائیں سنتا جاتا ہوں.میرا کچھ نہیں بگڑے گا.کیونکہ میں جانتا ہوں کہ یہ لوگ میرے خدا نہیں.میرا خدا مجھے دیکھ رہا ہے اور وہ خوب سمجھتا ہے کہ میں ان بددعاؤں کا مستحق ہوں یا دعاؤں کا.اُسی نے مجھ سے معاملہ کرنا ہے.ان لوگوں کا کیا ہے.یہ جو چاہیں کرتے رہیں ان کی بددعاؤں کا کوئی اثر نہیں ہوسکتا.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ مظلوم کی دعا قبول ہوتی ہے.مظلوم کی دعا اور خدا تعالیٰ کے درمیان کوئی چیز روک نہیں لیکن پہلے تو تم اپنے آپ کو ظالم بناؤ گے تو ایسا ہو گا.جب تم کسی کی بددعا سے ڈرتے ہو تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ تم اس بات کا اقرار کرتے ہو کہ تم ظالم ہو.اور اگر تم جانتے ہو کہ تم نے جرم کیا ہے تو اس کا علاج ڈرنا اور شور مچانا نہیں بلکہ ظلم کا علاج یہ ہے کہ تم مظلوم کے پاس جا کر اُس سے اپنے قصور کی معافی طلب کرو.غرض تمہیں اس بات کی پروا نہیں کرنی چاہیے کہ لوگ تمہاری خدمت کو بھول گئے ہیں.وہ بیشک بھول جائیں جس ذات کے لیے تم نے ان کی خدمت کی تھی وہ اسے نہیں بھول سکتی.خدا تعالیٰ تمہارے کام کو دیکھ رہا ہے اور وہ اس کا بہتر اجر تمہیں دے گا.امام غزالی نے ایک کہانی بیان کی ہے جسے حدیث کہا جاتا ہے لیکن وہ حدیث نہیں.مگر چونکہ کہانیوں سے بھی بعض اسباق ملتے ہیں اس لیے صوفیاء اپنی کتابوں میں ایسی کہانیاں بھی درج کر لیتے ہیں.آپ لکھتے ہیں کہ قیامت کے دن رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی کھڑے ہوں گے اور آپ کی امت بھی کھڑی ہو گی کہ جہنم میں یکدم جوش پیدا ہو گا

Page 284

$1954 274 خطبات محمود اور اُس کی آگ باہر پھیلنی شروع ہو جائے گی.اُسے دیکھ کر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم او آپ کی ساری امت دعا کرنے لگ جائے گی.وہ گریہ و زاری کرے گی لیکن آگ برابر بڑھتی چلی جائے گی.اتنے میں جبریل ایک پتیلا لائیں گے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کرتے ہوئے کہیں گے يَارَسُولَ اللہ ! اس پتیلے میں پانی ہے.آپ اس پانی کو لیں اور آگ پر چھڑ کیں.اس سے آگ بجھ جائے گی.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم دریافت کی فرمائیں گے کہ اس پتیلا میں کیسا پانی ہے؟ تو جبریل جواب دیں گے اس میں امت کے گناہگاروں کے آنسو ہیں.اب جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ یہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلا وسلم کی حدیث ہے میں اس ادعا کو لچر اور لغو سمجھتا ہوں.یہ حدیث نہیں بلکہ امام غزالی نے اس واقعہ کو صرف نصیحت کے رنگ میں نقل کر دیا ہے.اگر یہ حدیث ہوتی تو اسے کوئی معتبر محدّث اپنی معتبر کتاب میں بھی بیان کرتا لیکن اسے کسی معتبر محدث نے بیان نہیں کیا.اصل بات یہ ہے کہ صوفیاء نے بہت سی باتیں ایسی نقل کر دی ہیں جو لکھی تو حدیث کے رنگ میں گئی ہیں لیکن وہ احادیث نہیں.محدثین کا خیال ہے کہ جس بات میں کوئی نصیحت پائی جائے صوفیاء اُسے نقل کر دیتے ہیں وہ اسے پر کھتے نہیں.اس قسم کی روایات میں سے یہ واقعہ بھی ہے.اس میں ایک سبق ہے جو قابل قدر ہے.اور وہ سبق یہ ہے کہ اگر کوئی شخص غلطی کرتا ہے اور پھر خدا تعالیٰ کے سامنے روتا ہے تو خدا تعالیٰ اسے معاف کر دیتا ہے.باقی یہ بات بالکل لغو ہے کہ جہاں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کی امت کے اقطاب اور اولیاء کی دعاؤں نے کوئی اثر نہ کیا وہاں گناہگاروں کے آنسوؤں نے اثر کر دیا.اتنا حصہ بالکل لچر اور پوچ 8 اور بیہودہ ہے.اس میں کوئی شک نہیں کہ گناہ گاروں کا رونا اور اُن کی گریہ وزاری کرنا اُن کے گناہوں کی بخشش کا ذریعہ بن جاتا ہے.مگر یہ بات درست نہیں کہ اُن کے آنسو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کی دعاؤں سے بھی بڑھ گئے.پس ذِکری کے طور پر اس واقعہ میں ایک خوبی پائی جاتی ہے جو قابل قدر ہے لیکن یہ کہنا کہ یہ حدیث ہے، میں اسے درست نہیں سمجھتا.بہر حال اگر کوئی انسان ظلم کرتا ہے تو اُسے خدا تعالیٰ کے سامنے جھکنا چاہیے اور

Page 285

$1954 275 خطبات محمود اپنی غلطی کی معافی طلب کرنی چاہیے.باقی یہ کہ لوگوں کی بددعائیں خواہ ظالمانہ ہوں خدا تعالیٰ تک چلی جاتی ہیں اور وہ انہیں قبول کر لیتا ہے درست نہیں.اگر بددعا ئیں کام دیں تو ہمارے لیے تو سارے مولوی بددعائیں کرتے رہتے ہیں.ایسے مولوی بھی موجود ہیں جو سٹیجوں پر رات دن ہم پر لعنت ڈالتے رہتے ہیں.اگر اُن باتوں میں کوئی اثر ہوتا تو یہ سلسلہ کبھی کا ختم ہو جاتا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ہمیشہ فرمایا کرتے تھے کہ اگر ، انسانی کام ہوتا تو یہ سلسلہ تو کبھی کا ختم ہو جاتا.پس اس امر کو یاد رکھو کہ ہمارا خدا منصف اور وفادار ہے.وہ ہمیشہ انصاف سے کام لیتا ہے.وہ صرف اُس کو پکڑتا ہے جو غلطی کرتا ہے اور جو شخص غلطی نہیں کرتا وہ اسے کچھ نہیں کہتا.دین کے بارے میں تم حق پر ہو.اس لیے خدا تعالیٰ دین کے بارہ میں دوسرے لوگوں کی کو ہی پکڑے گا تمہیں نہیں پکڑے گا.اگر تم کسی سے حُسنِ سلوک کرتے ہو اور وہ تمہارے احسان کی ناقدری کرتا ہے تو بدلہ تو خدا نے دینا ہے.وہ اسے دیکھ رہا ہے.اگر وہ شخص تمہارے احسان کی قدر نہیں کرتا بلکہ تم پر ظلم کرتا ہے تو تمہیں خدا تعالیٰ سے دُہرے بدلہ کی امید کرنی چاہیے.ایک تو تمہارے احسان کا بدلہ تمہیں ملے گا اور دوسرے تم پر ظلم کرنے کی وجہ سے تمہارے احسان فراموش دشمن کی نیکیاں بھی تمہیں مل جائیں گی.لیکن یہ یاد رکھو کہ شریف طبقہ ہر قوم میں ہوتا ہے.دہریوں میں بھی شریف ہوتے ہیں.پھر مسلمان کے کان میں تو قرآن کریم کے الفاظ رات دن پڑتے رہتے ہیں.اس لیے کوئی نہ کوئی درجہ شرافت کا اس میں ضرور موجود ہوتا ہے.پس تم کیونکر سمجھتے ہو کہ تمہاری نیکی اُن پر اثر نہیں کرے گی.ممکن ہے تمہاری نیکی دیکھ کر وہ بھی اس قسم کا کام کرنا شروع کر دیں اور اس طرح ان میں بھی قوم، ملک اور حکومت کی خدمت کا جذبہ پیدا ہو جائے.اور اگر ایسا کی جائے تو تمہیں اس بات کا بھی ثواب ملے گا کہ تم نے نیکی کی.اور اس بات کا بھی ثواب ملے گا کہ تمہاری وجہ سے دوسرے کئی لوگوں نے نیکی کی.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ اگر کسی شخص کے ذریعہ کوئی دوسرا آدمی ہدایت پا لیتا ہے تو اُسے دو ثواب ملتے ہیں.ایک ثواب تو اس کی اپنی نیکی کا ہوتا ہے اور ایک ثواب اُس شخص کی نیکی کا ملتا ہے جو اُس کے

Page 286

$1954 276 خطبات محمود ذریعہ ہدایت پاتا ہے.فرض کرو تمہاری وجہ سے پاکستان کے لوگ ہدایت پاتے ہیں اور تمہاری تعداد ایک لاکھ ہو تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ تم میں سے ہر ایک کو آٹھ سو آدمیوں کی نیکی کا ثواب ملے گا.ایک آدمی کی نیکی بھی بڑی چیز ہوتی ہے اور وہ آسمان اور زمین کو بھر دیتی ہے.پھر اگر کسی کے ذریعہ آٹھ سو اشخاص ہدایت پا جائیں اور اُن آٹھ سو اشخاص کی نیکیوں کا ثواب بھی اُسے ملے تو پھر اُس کی نیکیوں کو رکھنے کے لیے خدا تعالیٰ ہی سامان کرے تو کرے ورنہ زمین و آسمان میں اُس کی نیکیاں سما نہیں سکیں گی.پس دوست اس قسم کے نیکی کے مواقع کو ضائع نہ کریں بلکہ ان مواقع پر زیادہ سے زیادہ لوگوں کی خدمت کریں.اگر تمہارے عمل کو دیکھ کر دوسرے لوگوں میں بھی نیکی پیدا ہو جائے تو یقیناً اس سے سارے ملک کا معیار ا خلاق بلند ہو جائے گا“.(الفضل 8 /اکتوبر 1954ء ) 1 : بخاری کتاب الصوم بابُ مَنْ أَقْسَمَ على أَخِيهِ لِيُفْطِر فِي التَّطَوُّعِ...2 : بخارى كتاب الصوم باب مَنْ أَقْسَمَ عَلَى أَخِيهِ لِيُفْطِر فِى التَّطَوُّعِ...لِزَوْجِكَ کی جگہ لاھلِكَ) 3 : صحيح البخارى كتاب الجمعة باب الطّيب للجُمُعَةِ ، بابُ الدُّهْن للجمعة.كتاب الاطعمة باب ما يكره من الثوم والبقول 4 : صحيح مسلم كتاب الزكاة باب بيان أنَّ اسم الصدقة يقع على كل نوع من المعروف 5 : الذاريات: 20 6 : مسند احمد بن حنبل مسند ابي هريرة جلد 2 صفحہ 436.بیروت 1978ء.: صحیح بخاری کتاب المظالم باب الاتقاء والحذر من دعوة المظلوم 8 : پوچ: لغو بے ہودہ.مہمل.ذلیل حقیر.پاجی.کمینہ، پیچ.ہرزا سرا.یاوہ گو (فیروز اللغات اردو جامع فیروز سنز لاہور )

Page 287

$1954 277 28.خطبات محمود دین کی خدمت کا ثواب دائمی ہے اور دنیوی مال ایک عارضی اور فانی چیز ہے (فرموده 8 را کتوبر 1954ء بمقام ربوہ) تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: ”میری طبیعت ابھی تک خراب چلی آتی ہے.گو درد میں تو کمی واقع ہو گئی ہے لیکن مرض مزمن 1 شکل اختیار کر گئی ہے اور میں ابھی زمین پر سجدہ نہیں کر سکتا.پہلے یہ ہوتا تھا جب درد میں کمی آتی تھی تو پورے طور پر کمی آ جاتی تھی لیکن اس دفعہ ایسا نہیں ہوا بلکہ چھوٹے چھوٹے حملے درد کے ہوتے رہتے ہیں.مثلاً پرسوں انگوٹھے میں درد کا حملہ ہوا لیکن دو گھنٹے کے بعد درد بھی کم ہو گیا اور ورم میں بھی کمی واقع ہو گئی.کل نسبتا پرسوں سے کم حملہ ہوا.پیر کی انگلیوں میں درد شروع ہوئی لیکن تھوڑی دیر میں درد اور ورم دونوں میں کمی آ گئی.گویا بیماری ایک نئی شکل اختیار کر گئی ہے اور جسم کے بعض حصوں پر اچھا ہو جانے کے بعد بھی اس کا اثر باقی ہے.پہلے جب شدید حملہ ہوتا تھا تو چار پانچ دن میں اس کی شدت جاتی رہتی تھی.مگر پورا آرام تین چار ہفتوں میں آتا تھا لیکن اب حملہ ہوا تو گو بخار جو حملہ کے ساتھ ہی ہو جاتا تھا

Page 288

$1954 278 خطبات محمود وہ بھی جلد دور ہو گیا اور درد میں بھی کمی واقع ہوگئی لیکن میں ابھی تک اچھا نہیں ہوا کیونکہ مرض کے چھوٹے چھوٹے حملے ہوتے رہتے ہیں.بہر حال اس تکلیف کی وجہ سے میں روزانہ نماز میں نہیں آسکا.جمعہ کے لیے آ گیا ہوں لیکن میں کھڑا ہو کر نماز نہیں پڑھا سکتا بیٹھ کر پڑھا دوں گا اور سجدہ کے وقت میں اشارہ کروں گا.گزشتہ خطبہ جمعہ میں میں نے بتایا تھا کہ چونکہ بیماری کی وجہ سے میں سجدہ نہیں کر سکتا اس لیے میں نے گاؤ تکیہ منگوا لیا ہے.میں اُس پر سجدہ کر لوں گا.اس پر مجھے جماعت کے بعض علماء نے خط لکھا کہ بعض طلباء نے یہ سوال اٹھایا ہے کہ سجدہ کے لیے نماز میں تکیہ پر سجدہ کرنا ناجائز ہے.اگر کوئی شخص کسی بیماری کی وجہ سے سجدہ نہ کر سکتا ہو تو اُسے اشارہ کرنا چاہیے سجدہ کے لیے کسی چیز کا سہارا نہیں لینا چاہیے.دوسرے، علماء نے تحقیقات کر کے بعض اس قسم کی حدیثیں بھی نکالی ہیں کہ بعض صحابہ نے پگڑی یا کسی اور چیز کا سہارا لے کر سجدہ کیا.میں سمجھتا ہوں کہ بعض چیزوں کی حکمت واضح ہوتی ہے اور بعض چیزوں کی حکمت واضح نہیں ہوتی.اشارہ سے سجدہ کرنا اور کسی تکیہ پر یا اونچی جگہ پر سجدہ کرنا ان دونوں باتوں میں بظاہر کوئی فرق نہیں.ایک صورت میں سر زمین پر نہیں لگتا اور ایک صورت میں دوسری چیز کے واسطہ سے کسی حد تک سر زمین پر لگ جاتا ہے.لیکن ادھر ایک حدیث میں جسے صحیح کہا جاتا ہے یہ امر بھی پایا جاتا ہے کہ اگر کوئی شخص کسی عذر کی بناء پر سجدہ نہ کر سکے تو وہ اشارہ سے سجدہ کرلے.میرے نزدیک اس حکم کی وجہ یہ نظر آتی ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دفعہ نماز میں سورہ نجم کی تلاوت فرمائی.آخر میں جب آپ نے سجدہ فرمایا تو مشرکین مکہ جو اُس وقت وہاں موجود تھے وہ بھی سجدہ میں گر گئے سوائے ایک شخص کے کہ جس نے سجدہ نہ کیا اور وہ سجدہ کو بُرا سمجھتا تھا.لیکن دوسری طرف جب اُس نے دیکھا کہ اُس کی قوم کے سب لوگوں نے کی سجدہ کیا ہے تو وہ ان سے علیحدہ رہنا بھی پسند نہ کرتا تھا.چنانچہ اس نے ہتھیلی میں کچھ کنکر اُٹھائے اور اُن پر سجدہ کیا.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اُس وقت بعض لوگ ایسے بھی.تھے جو خدا تعالیٰ اور اپنے معبودوں کے سامنے بھی سر جھکانا بُرا سمجھتے تھے.ایسے لوگوں کے خیالات کا ازالہ کرنے کے لیے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما دیا کہ تم ایسا نہ کیا کرو.

Page 289

$1954 279 خطبات محمود کیونکہ اس سے سجدہ کو نا پسند کرنے والوں سے تشابہہ پیدا ہو جاتا تھا.2 چنانچہ جس حدیث سے تکیہ پر سجدہ نہ کرنے کا استدلال کیا گیا ہے اُس کے بارہ میں یہی تشریح آتی ہے کہ جس شخص کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سجدہ کرنے سے منع کیا تھا اُس نے تکیہ زمین پر رکھ کر سجدہ نہ کیا تھا بلکہ تکیہ اُٹھا کر سجدہ کیا تھا جو صاف مذکورہ بالا کافر کی مشابہت تھی.چنانچہ علماء حدیث نے اس سے یہی استدلال کیا ہے کہ تکیہ پر سجدہ منع نہیں.بلکہ کوئی چیز اُٹھا کر اُس پر سجدہ کرنا منع ہے.ورنہ ثابت ہے کہ امہات المومنین میں سے بھی بعض بیماری میں تکیہ پر سجدہ کرتی تھیں اور بعض دوسرے صحابہ کی روایات سے بھی پتا چلتا ہے کہ مسلمان شروع سے ایسا کرتے چلے آئے ہیں کہ اگر کسی کو کوئی عذر ہوا تو اُس نے اشارہ سے یا کسی اور چیز کا سہارا لے کر سجدہ کر لیا.پس اس سے منع کرنے میں کوئی عقلی استبعاد نظر نہیں آتا.البتہ یہ ضرور ہے کہ جس طرح سجدہ میں انسان اوپر سے نیچے کی طرف جاتا ہے اسی طرح اشارہ بھی اوپر نیچے کیا جاتا ہے.پس اشارہ میں سجدہ سے ایک مشابہت ہے جو دوسری صورت میں یعنی تکیہ اُٹھا کر اُس پر سجدہ کرنے میں نہیں ہوسکتی.اس کے بعد میں جماعت کے نوجوانوں کو بالخصوص اس امر کی طرف توجہ دلاتا ہوں کہ جماعت میں کچھ عرصہ سے وقف کی طرف توجہ نہیں رہی خصوصاً جب سے پاکستان بنا ہے اُس وقت سے لوگوں کی توجہ وقف کی طرف سے جاتی رہی ہے.اس سے پہلے نوکریوں کا جھگڑا ہوتا تھا، جو اچھی نوکریاں ہوتی تھیں وہ انگریز لے جاتے تھے ، جو دوسرے درجے کی نوکریاں تھیں وہ ہندو لے جاتے تھے اور جو درمیانی درجہ کی نوکریاں ہوتی تھیں وہ سکھ لے جاتے تھے اور جو گند رہتا تھا وہ مسلمانوں کے حصہ میں آتا تھا.اُس وقت مسلمان سمجھتا تھا کہ چلو! نوکری نہ سہی، خدمت دین ہی سہی.لیکن پاکستان بننے کے بعد ساری نوکریاں مسلمانوں کو ہی ملتی ہیں.اب اُن کا انگریزوں، ہندوؤں اور سکھوں سے مقابلہ نہیں رہا.اور وہ خیال کرتے ہیں کہ جب انہی جیسے ایم.اے اور بی.اے وزیر ہیں، سیکرٹری ہیں، ڈائریکٹر ہیں اور انسپکٹر جنرل پولیس وغیرہ ہیں تو وہ بھی کیوں ویسے ہی نہ بنیں؟ پس وہ نوکریوں کے پیچھے پڑ گئے ہیں اور خدمت دین کا خیال انہیں نہیں رہا.حالانکہ یہ اُن کے دماغ کی کمزوری کی علامت ہے کہ انہوں نے اس بات کا

Page 290

$1954 280 خطبات محمود اندازہ نہیں کیا کہ بڑے عہدے گنتی کے ہوتے ہیں اور وہ صرف گنتی کے چند افراد کو ہی مل سکتے ہیں.دوسرے لوگ تو پہلے کی طرح نوکری کی تلاش میں جوتیاں چٹخاتے پھریں گے.پھر انہوں نی نے یہ کس طرح سمجھ لیا کہ وزارت، سیکرٹری شپ یا ڈائریکٹر شپ انہیں ضرور ملے گی.اب بھی کی ملک میں دیکھ لو، کئی ایم.اے اور بی.اے پاس لوگ فارغ ہیں.انہیں نوکریاں نہیں مل رہیں.مگر یہ نقطہ نگاہ تو اُس وقت پیدا ہوتا ہے جب خدا کے خانہ کو خالی چھوڑ دیا جائے.اگر خدا تعالیٰ کے خانہ کو خالی نہ چھوڑا جائے تو انہیں سمجھنا چاہیے کہ دین کی خدمت کا ثواب دائمی ہے اور دنیوی مالی ایک عارضی اور فانی چیز ہے.جو شخص تمھیں یا چالیس سالہ زندگی کے لیے اتنی محنت کرتا ہے اور تین کروڑ یا تین ارب سال کی آئندہ زندگی کو نظر انداز کر دیتا ہے وہ کس طرح امید کر سکتا ہے کہ ہم اسے عظمند سمجھ لیں.اگر وہ خدمت دین کرتا ہے تو ایک نہ ختم ہونے والے عرصہ کے لیے انعام پاتا ہے.وہ انعام اور اجر تین کروڑ سال کے لیے نہیں ، تین ارب سال کے لیے نہیں بلکہ ایسے زمانہ کے لیے ہے جسے اسلام نے نہ ختم ہونے والا کہا ہے.اور جو زمانہ نہ ختم ہونے والا ہو وہ بہر حال تین کروڑ یا تین ارب یا تین کھرب سال سے زیادہ ہو گا اور اتنے لمبے عرصہ کے فائدہ کو چند سالہ فائدہ کے لیے نظر انداز کر دینے والا عقلمند نہیں کہلا سکتا.میں نے سنا ہے کہ اس سال مدرسہ احمدیہ میں صرف ایک طالب علم داخل ہوا ہے.اس میں کسی حد تک سکول والوں کی ناتجربہ کاری کا بھی دخل ہے.جب سید محمود اللہ شاہ صاحب فوت ہوئے اور موجودہ ہیڈ ماسٹر مقرر ہوئے تو انہیں یہ خیال نہ آیا کہ سال بھر طلباء کو وقف کی طرف توجہ دلاتے رہیں.سید محمود اللہ شاہ صاحب اس کے لیے سال بھر کوشش کرتے رہتے تھے اور مجھے وقتاً فوقتاً بتاتے رہتے تھے کہ میں نے اتنے لڑکوں سے وقف کا وعدہ لیا ہے اور اس طرح مدرسہ احمدیہ میں کچھ نہ کچھ طلباء آ جاتے تھے.لیکن اب جو نئے ہیڈ ماسٹر مقرر ہوئے ہیں انہوں نے یہ سمجھ لیا کہ وقف کی تحریک تو جاری ہی ہے طلباء خود بخود وقف کی طرف آ جائیں گے.اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ گزشتہ سال طلباء کو اس کا احساس پیدا نہ ہوا.اگر وہ سال کے شروع سے ہی کوشش کرتے اور طلباء کو وقف کی طرف توجہ دلاتے رہتے تو کچھ نہ کچھ طلباء وقف میں آجاتے.ایک کلاس پر کئی ہزار روپے سالانہ خرچ آتا ہے.اگر ایک طالبعلم ہو تب بھی یہ خرچ

Page 291

$1954 281 خطبات محمود آئے گا اور اگر پچاس طالبعلم ہوں تب بھی یہ خرچ آئے گا.گویا اس سال ایک طالبعلم پچاس گنا خرچ کرنا پڑے گا.اور اگر خدانخواستہ وہ لڑکا امتحان میں فیل ہو گیا تو ایک سال خالی رہ جائے گا.اور یا پھر اس کلاس میں صرف فیل شدہ لڑکے داخل کرنے پڑیں گے.میں دیکھتا ہوں کہ بیرونِ ہندوستان کی جماعتوں میں وقف کی تحریک کی طرف اب زیادہ توجہ پیدا ہو رہی ہے.اس سال امریکہ سے تین چار نوجوانوں کی طرف سے درخواستیں وصول ہو چکی ہیں کہ ہم دینی تعلیم کے حصول کی خاطر پاکستان آنا چاہتے ہیں.یورپ سے دو تین نوجوانوں کی درخواستیں آئی ہیں.وہ بھی دینی تعلیم کی خاطر مرکز میں آنا چاہتے ہیں.اسی طرح انڈونیشیا، سیلون اور افریقہ سے بھی بعض نوجوانوں کی درخواستیں وصول ہوئی ہیں.گویا جن ممالک میں آمد نیں زیادہ ہیں اُن ممالک سے وقف کی درخواستیں آ رہی ہیں.یورپ میں معمولی سی تعلیم کے ساتھ لوگ جس قدر آمد پیدا کر لیتے ہیں پاکستان کے رہنے والے نہیں کر سکتے.لیکن اُن لوگوں کی طرف سے درخواستیں موصول ہو رہی ہیں.ہم انہیں اس لیے نہیں بلاتے کہ پہلے جو طلباء آچکے ہیں وہ ابھی تعلیم سے فارغ نہیں ہوئے.غرض جہاں دفتر میں بیرونی ممالک کے احمدیوں کی بارہ تیرہ درخواستیں پڑی ہوئی ہیں وہاں پاکستان کے احمدیوں کی توجہ اس طرف بہت کم ہے.حالانکہ پاکستان یا ہندوستان جس میں پاکستان اور بھارت شامل تھے ، وہ ملک ہے جسے خدا تعالیٰ نے چن لیا ہے.اگر خدا تعالیٰ کسی اور ملک کو زیادہ قابل سمجھتا تو وہ اپنا مسیح اُس ملک میں مبعوث کرتا لیکن اُس نے اپنے مسیح کی بعثت کے لیے ہمارے ملک کو چن کر ایک تو ہم پر احسان کیا اور دوسرے ہم پر اعتماد کا اظہار کیا جس کا بدلہ دینا ہم پر فرض ہے.حضرت ابن عباس سے ایک دفعہ کسی نے پوچھا کہ آپ کسی شخص کے لیے اس قسم کی دعا بھی کرتے ہیں جس قسم کی دعا آپ اپنی ذات کے لیے کرتے ہیں ؟ آپ نے کہا ہاں.میں اُس شخص کے لیے اس قسم کی دعا کرتا ہوں جو مجھے آ کر یہ کہتا ہے کہ مجھے آپ کے سوا اور کوئی دعا کرنے والا نظر نہیں آتا.ایسے شخص کے لیے میں اُسی قسم کی دعا کرتا ہوں جس قسم کی دعا میں اپنی ذات کے لیے کرتا ہوں.اس لیے کہ اس نے مجھ پر اعتماد کیا ہے.

Page 292

$1954 282 خطبات محمود اور چونکہ اس نے مجھ پر اعتماد کیا ہے اس لیے اب میرا فرض ہے کہ اُس کے اعتماد کے مطابق اُس سے سلوک کروں.اگر حضرت ابن عباس زید بکر کے لیے اپنی جان لڑا دیتے تھے کہ اُس کی نے آپ پر اعتماد کا اظہار کیا تو پھر یہ کتنے افسوس کی بات ہے کہ خدا تعالیٰ نے ہمیں اس لیے چنا کہ ہم اُس کے دین کا جھنڈا بلند کریں اور اُسے ہر ملک میں گاڑ دیں.لیکن ایک حقیر سی دولت کے لیے ہم اس کے کام کو نظر انداز کر رہے ہیں.آخر پاکستان کتنا بڑا ملک ہے.پاکستان کی حکومت چھوٹی سی حکومت ہے اور پھر اس میں جو حصہ تمہارا ہے وہ کتنا ہے؟ اس میں تمہارا حصہ تو بہت ہی کم ہے.اس معمولی سی دولت کو خدا تعالیٰ کے انتخاب پر مقدم کر لینا کتنے افسوس کی بات ہے.پس میں تمہیں اس طرف توجہ دلاتا ہوں کہ یہ تمہارا اندھا پن ہے اسے دور کرو.یہ بیماری ہے اس کا علاج کرو.اگر تمہاری آنکھوں میں موتیا اتر آتا ہے، اگر تمہاری آنکھوں میں لگرے پڑتے ہیں، اگر تمہاری آنکھوں میں سفیدہ پڑتا ہے تو تم اس کا علاج کراتے ہو.اب اس سے زیادہ سفیدہ، موتیا اور لکرے اور کیا ہوں گے کہ تم دنیوی مقاصد کو خدا تعالیٰ کے دین پر مقدم رکھتے ہو.یہ بڑا سخت سفیدہ ہے، یہ بڑے سخت لکرے ہیں جو تمہاری روحانی بینائی کو تباہ کر رہے ہیں.پس میں سکول کے اساتذہ اور کالج کے پروفیسروں کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ اس طرف توجہ کریں اور طلباء کو وقف کی طرف لائیں.میں نے لاہور میں ایک واقف زندگی پروفیسر سلطان محمود صاحب شاہد کو ایک دفعہ تحریک کی کہ تم طلباء کے رجحانات کا جائزہ لے کر وہ مضامین کی تجویز کرو جو اُن کے لیے آئندہ زندگی میں مفید ثابت ہوں.لیکن چار سال ہو گئے اُن کی طرف سے کوئی رپورٹ نہیں آئی.دو تین ماہ کے بعد میں نے انہیں پکڑا اور کہا کہ تم نے اب تک اس تحریک کے بارہ میں کیا کیا ہے؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ میں لڑکوں کو اکٹھا کر رہا ہوں.کچھ دنوں کے بعد اپنی رپورٹ پیش کر سکوں گا.لیکن چار سال کا عرصہ گزر گیا.اب تک انہوں نے کوئی رپورٹ پیش نہیں کی.اس عرصہ میں کئی لڑکے بھاگ گئے اور باہر کاموں پر لگ گئے جہاں پروفیسروں کی یہ حالت ہو وہاں طالبعلموں کی کیا حالت ہوگی؟ یہ تو ایسی ہی بات ہے جیسے کہتے ہیں کہ مرے وہ باؤ ! اے مرگ ایسی آپ ہی بیمار ہے یعنی اے موت! تجھے خوشخبری ہے ہو

Page 293

$1954 283 خطبات محمود کہ عیسی خود بیمار ہو گیا ہے اور وہ کسی کو زندہ نہیں کر سکتا.جب پروفیسروں کی یہ حالت ہو کہ اگر اُن کے سپر د اتنا چھوٹا سا کام بھی کیا جائے جو اگر کسی چُوڑھے کے سپر د بھی کیا جاتا تو وہ اُسے کر لیتا.لیکن وہ چار سال تک نہ کریں تو طلباء کا کیا حال ہو گا.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اگر اساتذہ اور طالبعلم اپنی اصلاح نہیں کریں گے اور خدمتِ دین سے غفلت کریں گے تو خدا تعالیٰ کا کام بہر حال ہوتا چلا جائے گا.لیکن یہ ضرور ہے کہ تم سے برکت چھین لی جائے گی.، رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک دفعہ ایک جنگ میں تشریف لے گئے اور اس میں خدا تعالیٰ نے آپ کو فتح دی.اُس وقت مکہ نیا نیا فتح ہوا تھا اور آپ کے ساتھ مکہ کے حدیث العہد لوگ بھی تھے.آپ نے انہیں حدیث العہد سمجھ کر مال غنیمت میں سے بہت سا حصہ دے دیا اور مدینہ کے مسلمانوں کو نہ دیا.اس پر ایک انصاری نوجوان نے کہا کہ خون تو ہماری تلواروں سے ٹپک رہا ہے لیکن محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مال اپنے رشتہ داروں کو دے دیا ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی یہ خبر پہنچی.آپ نے انصار کو جمع کیا اور فرمایا اے انصار ! مجھے یہ خبر پہنچی ہے.انہوں نے کہا يَا رَسُولَ اللہ ! یہ بات درست ہے لیکن ہم میں سے ایک بد بخت نوجوان نے یہ بات کہی ہے.ہم اس سے گلی طور پر بیزار ہیں.آپ نے فرمایا اے انصار! کہنے والے کے منہ سے بات نکل گئی اور دنیا کے سامنے آچکی.میں تمہارے سامنے اس کی اصل حیثیت رکھ دیتا ہوں کہ آج جو کچھ ہوا ہے اُس کی دو شکلیں ہوسکتی ہیں.تم یہ بھی کہہ سکتے ہو کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں پیدا ہوئے.اُن کے اپنے رشتہ دار ان کے دشمن ہو گئے اور انہوں نے آپ کو اور آپ کے ساتھیوں کو بُرا بھلا کہا، آپ پر مظالم کیسے اور آخر اتنی سختیاں کیں کہ آپ کو مکہ سے نکلنا پڑا اور مدینہ تشریف لے آئے.وہاں ہم نے آپ کو اور آپ کے ساتھیوں کو پناہ دی، انہیں اپنی جائیدادیں پیش کر دیں، اپنے مکان خالی کر دیئے.غرض آپ کے لیے ہر ممکن قربانی کی اور اپنی جانوں کو آپ کی حفاظت کے لیے پیش کر دیا.لیکن جب مکہ فتح ہو گیا تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں محروم کر دیا اور اموال اپنے رشتہ داروں کو دے دیئے.انصار کے اندر ایمان تھا وہ اس قسم کی بے ایمانی والی بات نہیں کہہ سکتے تھے.انہوں نے روتے ہوئے

Page 294

$1954 284 خطبات محمود عرض کیا کہ يَا رَسُولَ اللہ ! یہ بات ہماری قوم کے ایک بد بخت نوجوان کے منہ سے نکل گئی ہے.ہم اس سے کلی طور پر بیزار ہیں.آپ نے فرمایا اے انصار! اس کا ایک اور رُخ بھی ہے.تم یہ بھی کہہ سکتے ہو کہ خدا تعالیٰ نے اپنے ایک نبی کو مکہ میں پیدا کیا لیکن اُس کی قوم نے اُس کی قدر نہ کی.اس لیے خدا تعالیٰ نے اپنی اس نعمت کو اُٹھا کر مدینہ بھیج دیا.پھر فرشتوں کی مدد اور خدا تعالیٰ کی برکات اور فضلوں کے نتیجہ میں وہ بڑھا، پھلا اور پھولا اور اُس نے ترقی حاصل کی اور مکہ فتح کر لیا.جب اس کا مکہ پر قبضہ ہو گیا تو مکہ والوں کی آنکھیں کھلیں اور انہوں نے سمجھ لیا کہ یہ تو سچا رسول تھا، ہم نے اس کی ناقدری کی ہے.چنانچہ انہوں نے اُسے قبول کیا اور پھر وہ خیال کرنے لگے کہ شاید ان کی کھوئی ہوئی دولت اُن کو واپس مل جائے گی اور خدا کا رسول پھر مکہ میں آباد ہو جائے گا.لیکن خدا تعالیٰ نے کہا چونکہ تم نے میری نعمت کو رڈ کر دیا تھا اس لیے اب یہ عظیم الشان نعمت تمہیں واپس نہیں مل سکتی.چنانچہ اُس نے مکہ والوں سے کہا کہ اونٹ اور بکریاں تم لے لو اور مدینہ والوں سے کہا کہ تم میرے رسول کو اپنے ساتھ لے جاؤ.فرمایا تم یہ بھی کہہ سکتے ہو.4 تمہاری بھی یہی مثال ہے.تم خدا تعالیٰ کو یہ بھی کہہ سکتے ہو کہ پہلے نوکریاں نہیں کی ملتی تھیں.اب چونکہ پاکستان بن گیا ہے اس لیے ہم نوکریاں کریں گے اور دنیوی راحت و آرام حاصل کریں گے.اور یہ بھی کہہ سکتے ہو کہ اب اگر نوکریاں مل رہی ہیں تو کوئی بات نہیں ہم پہلے بھی خدا تعالیٰ کے تھے اور اب بھی خدا تعالیٰ کے ہی رہیں گے اور اُس کے دین کی خدمت کریں گے.تم خود سمجھ سکتے ہو کہ تم خدا تعالیٰ کو ان دونوں میں سے کونسا جواب دینا پسند کرو گے.کیا تم قیامت کے دن یہ کہہ کر اپنے ماں باپ کی ناک رکھو گے کہ جب تک پاکستان نہیں بنا تھا ہم نے اپنی زندگیاں وقف کیں.لیکن جب پاکستان نے بن گیا تو ہم نے وقف توڑ دیئے؟ یا تم یہ کہو گے کہ جب تک پاکستان نہیں بنا تھا ہم خدا تعالیٰ کی خاطر اپنی زندگیاں وقف کی تھیں اور جب پاکستان بن گیا تب بھی ہم نے خدا تعالیٰ کو ہی مقدم رکھا؟ تم سمجھ سکتے ہو کہ تم پہلا جواب دے کر اپنے ماں باپ کی طرف فخر کے ساتھ گردن اُٹھا کر دیکھ سکو گے یا دوسرا جواب دے کر تم اُن کی ناک کو محفوظ

Page 295

$1954 285 خطبات محمود رکھ سکو گے؟ بہر حال فیصلہ تمہارے اختیار میں ہے اور ہر عقلمند سمجھ سکتا ہے کہ اُسے ان الفضل 13 اکتوبر 1954 ء ) حالات میں کیا فیصلہ کرنا چاہیئے.1 : مرض مزمن : پرانی بیماری (فیروز اللغات اردو جامع فیروز سنز لاہور ) 2 : صحيح البخارى كتاب التفسير باب سورة النجم السنن الكبرى للبيهقى.جزء 2 صفحه 307 كتاب الصلواة باب من وضع وسادة على الارض فسجد عليها مطبوعه حیدر آباد دکن هند1346ھ 3 : صحيح البخارى كتاب المغازى باب غزوة الحديبية.4 : صحيح البخارى كتاب المغازى باب غزوة الطائفِ فِي شَوَّالٍ سنة ثَمَانِ

Page 296

$1954 286 29 خطبات محمود ضرورت وقت کو سمجھو اور اپنی ذمہ داریوں کا احساس کر کے اپنے اپنے خاندان کے نوجوانوں کو دین کے لیے وقف کرو (فرمودہ 15 اکتوبر 1954ء بمقام ربوہ) تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: آج میری تحریک پر مجلس خدام الاحمد یہ ربوہ کا ایک وفد جس میں چالیس کے قریب معمار ہیں (اب یہ ستر گس ہو گئے ہیں ) خدمتِ خلق کے لیے لاہور جا رہا ہے.اس دفعہ اس کام میں اولیت کا سہرا لاہور والوں کے سر رہا ہے.کام تو ہر جگہ ہوا ہے لاہور میں بھی ہوا ہے، ملتان میں بھی ہوا ہے، خانیوال میں بھی ہوا ہے، منٹگمری میں بھی ہوا ہے، سیالکوٹ میں بھی ہوا ہی ہے، ربوہ کی مجلس نے بھی قابلِ تعریف کام کیا ہے.اسی طرح اور جگہوں سے بھی رپورٹیں آئی ہیں کہ وہاں کی مجالس نے سیلاب کے دوران میں خدمتِ خلق کا کام کیا ہے.لیکن لاہور والوں نے اپنے کام کو اس طرح منظم کیا ہے کہ ان کا کام لوگوں کی نظر کے سامنے آگیا ہے.اس میں ایک حد تک اس بات کا بھی دخل ہے کہ انہیں پریس کی سہولتیں میسر ہیں لیکن بہر حال جس کسی کو اولیت مل جائے دوسروں کو اس پر حسد نہیں کرنا چاہیے بلکہ اُس کی امداد

Page 297

$1954 287 خطبات محمود کر کے اس کے حوصلے کو بڑھانا چاہیے.میں نے قائد مجلس خدام الاحمد یہ ربوہ کو تحریک کی کہ وہ ان رمت خلق کے لیے ایک وفد لاہور بھجوانے کا انتظام کریں.چنانچہ انہوں نے ایک وفد کا انتظام کیا ہے جو آج اڑھائی بجے کی گاڑی سے لاہور روانہ ہو رہا ہے.اس وفد میں ایک بڑا حصہ معماروں پر مشتمل ہے.میں نے دو تین دفعہ معماروں کے کام پر تنقید کی ہے اور میری اصل غرض یہی تھی کہ ان کی اصلاح ہو.کہتے ہیں کہ کسی شاعر کے سامنے ایک شخص نے شراب کی بُرائیاں بیان کیں تو اُس کی نے کہا عیب سے جملہ بگفتی ہنرش نیز بگو 1 یعنی شراب میں بہت سی بُرائیاں سہی لیکن اس میں بعض خوبیاں بھی تو ہیں اس لیے کبھی اُس کی خوبیوں کی طرف بھی نظر کرنی چاہیے.یہاں کے معماروں پر میں نے تنقید کی تھی لیکن انہوں نے اس وقت جس قربانی کا مظاہرہ کیا ہے میں سمجھتا ہوں کہ وہ اس قابل ہے کہ اس کا اظہار جماعت کے سامنے کیا جائے.میں نے خیال کیا کہ معماروں کو اس موقع پر غرباء کی امداد کے لیے تحریک کی جائے.چنانچہ میری تحریک پر یہاں کے معماروں کے اکثر حصہ نے تین چار دن وقف کیے ہیں تا کہ لاہور میں جن غرباء کے مکانات گر گئے ہیں اُن کے مکانات بنانے میں اپنی مفت خدمات پیش کریں.جماعت کے جو باقی مختلف سیکشن ہیں مثلاً مدرس ہیں، پروفیسر ہیں، ڈاکٹر ہیں، طبیب ہیں اُن کو بھی معماروں کے اس نیک نمونہ سے سبق حاصل کرنا چاہیے.جماعت کا ہر حصہ مثلاً نہ کسی ذریعہ سے خدمتِ خلق کا کام کر سکتا ہے اور اسے اس کام کو سرانجام دینا چاہیے.مدرس ہیں وہ بھی خدمتِ خلق کر سکتے ہیں.پھر ڈاکٹر ہیں وہ بھی اس کام میں حصہ لے سکتے ہیں.بلکہ اکثر ڈاکٹر اس کام میں حصہ لیتے ہیں.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ بعض لوگ لالچی بھی ہوتے ہیں لیکن ڈاکٹروں کا اکثر حصہ اپنے فن کے لحاظ سے کچھ نہ کچھ وقت خدمتِ خلق میں ضرور صرف کرتا ہے.پھر وکلاء اور بیرسٹر ہیں، وہ بھی خدمتِ خلق کر سکتے ہیں.اسی طرح دوسرے پیشہ والے بھی ہیں وہ بھی اگر کوشش کریں تو کسی نہ کسی ذریعہ سے پبلک کی خدمت

Page 298

$1954 288 خطبات محمود کے کام میں حصہ لے سکتے ہیں.یہاں کے معماروں نے بڑا اچھا نمونہ دکھایا ہے.انہوں نے خدمت خلق کے لیے تین چار دن وقف کیے ہیں.اگر انہوں نے اسی جوش سے کام کیا جس کی جوش سے انہوں نے اپنے آپ کو پیش کیا ہے تو وہ سوا لاکھ فٹ عمارت کھڑی کر سکتے ہیں.اس کے معنے یہ ہیں کہ ہیں پچپیس بڑی بڑی کوٹھیاں ان دنوں میں بن سکتی ہیں.لیکن چونکہ سیلاب میں بالعموم غرباء کا نقصان ہوا ہے ان کے مکانات یا تو گر گئے ہیں یا ان کا کوئی حصہ گر گیا ہے اور وہ مکانات چھوٹے چھوٹے ہوتے ہیں.اس لیے سو ڈیڑھ سو مکانات تعمیر کیے جا سکتے ہیں.اور اتنے مکانوں کی تعمیر کے یہ معنے ہیں کہ قریباً دو ہزار افراد کو آرام پہنچ جائے گا اور اس طرح خدمت خلق کا بہت بڑا کام سرانجام پا جائے گا.حقیقت یہ ہے کہ اگر جماعت کے لوگ پیشوں کی طرف توجہ کریں اور انہیں شوق اور محنت سے سیکھ لیں تو نہ صرف جماعت سے بریکاری دور ہو جائے گی بلکہ اس قسم کے مواقع پر ہے بنی نوع انسان کی خدمت بھی کی جا سکتی ہے.معماری کا پیشہ آسان ہے.میں نے دیکھا کہ مزدور معماروں کے ساتھ کام کرتے ہیں اور کچھ عرصہ کے بعد وہ معمار بن جاتے ہیں.لاہور میں جس نمائندہ کو بھیجا گیا تھا اُس نے بتایا ہے کہ اس وقت لاہور میں معماری سات سات، آٹھ آٹھ روپیہ روزانہ اجرت مانگتے ہیں اور معماری کا پیشہ ایسا نہیں جس پر زیادہ عرصہ لگے یا زیادہ محنت درکار ہو.ہمارے ملک میں یہ مرض ہے کہ لوگ ایک دو دن کے بعد ہی اپنے آپ کو ماہر فن سمجھنے لگ جاتے ہیں.میں نے کئی دفعہ سنایا ہے کہ میر محمد اسحاق صاحب نے بچپن میں میرے ساتھ صرف ایک دن طب پڑھی اور رات کو جب سونے لگے تو انہوں نے گھر والوں سے کہا کہ مجھے بہت جلدی جگا دینا حضرت خلیفہ اسی الاول کے پاس بڑی کثرت سے مریض آ جاتے ہیں اور انہیں بہت زیادہ دیر وہاں کھڑا رہنا پڑتا ہے.میں وہاں جاؤں گا اور مریضوں کو نسخے لکھ لکھ کر دوں گا.وہ بچپن کی ایک بیوقوفی تھی مگر اس قسم کی دماغی کیفیت اکثر لوگوں میں پائی جاتی ہے.ایک شخص چند سطریں لکھ لیتا ہے تو وہ اپنے آپ کو ایڈیٹر سمجھنے لگ جاتا ہے.بعض لوگ بے وزن، بے معنی اور بے ردیف نظم میرے پاس بھیج دیتے ہیں اور درخواست کرتے ہیں کہ

Page 299

$1954 289 خطبات محمود سکہ ہے، آپ ایڈیٹر صاحب الفضل کو حکم دیں کہ یہ نظم الفضل میں شائع کر دیں.وہ سمجھتے ہیں کہ ایڈیٹر ان الفضل تو بے وقوف ہے اسے کیا علم ہے کہ یہ کس پائیڈ کی نظمیں ہیں.ان کے رازوں صرف خلیفہ اسیح ہی واقف ہو سکتے ہیں.اس لیے یہ نظمیں انہیں ارسال کی جائیں تا وہ انہیں اخبار میں شائع کرنے کا حکم جاری کر دیں.میں اس قسم کے لوگوں کو یہی جواب دیتا ہوں کہ آپ براہ راست ایڈیٹر الفضل کو یہ نظمیں ارسال کر دیں.میں اُس کے کام میں دخل نہیں دیتا.حالانکہ وہ نظمیں اس قسم کی ہوتی ہیں کہ ہنسی آتی ہے.نہ قافیہ ہوتا ہے، نہ ردیف ہوتی.غین کو گین اور ”قابل“ کو کابل لکھا ہوا ہوتا ہے اور پھر خواہش ہوتی ہے کہ میں اُن کی اشاعت کے لیے ایڈیٹر الفضل کو حکم بھیجوں.غرض ہمارے ملک میں یہ مرض ہے کہ ہر آدمی پیشہ میں ہاتھ ڈالتے ہی اپنے آپ کو اُس کا ماسٹر سمجھنے لگ جاتا ہے.حالانکہ ہر پیشہ محنت اور مشق کے بعد آتا ہے.جہاں تک میں سمجھتا ہوں معماری کا پیشہ نسبتاً آسان ہے.اس کا ابتدائی حصہ تھوڑے ہی عرصہ میں سیکھا.ہے.محراب بنانا، گنبد بنانا یا سیچ بنانا یہ کام تو جلد نہیں سیکھے جا سکتے ہاں ! زاوئیے بنانا اور اینٹیں لگانا لوگ جلد سیکھ لیتے ہیں.مجھے یاد ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے پاس ایک لڑکا تھا جس کا نام تجا تھا.اُسے آپ نے کسی معمار کے ساتھ لگایا تھا اور تھوڑے ہی عرصہ کے بعد وہ معمار بن گیا تھا.اُس میں سمجھ بہت کم تھی.مگر مخلص اور دین دار تھا.وہ غیر احمدی ہونے کی حالت میں آیا تھا.بعد میں احمدی ہو گیا تھا.اُس کی عقل کا یہ حال تھا کہ ایک دفعہ بعض مہمان آئے.اس وقت لنگر خانہ کا کام علیحدہ نہیں تھا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے گھر ہی سے مہمانوں کے لیے کھانا جاتا تھا.شیخ رحمت اللہ صاحب، ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب، خواجہ کمال الدین صاحب اور قریشی محمد حسین صاحب موجد مفرح عنبری قادیان آئے.ایک دوست اور بھی تھے.آپ نے اُن کے لیے چائے تیار کروائی اور مجھے کو کہا کہ وہ مہمانوں کو چائے پلا آئے.اور اس خیال سے کہ وہ کسی کو چائے دینا بھول نہ جائے یہ تاکید کی کہ دیکھو پانچوں کو چائے دینا.چراغ پرانا ملازم تھا.اُسے آپ نے نجے کے ساتھ کر دیا.جب دونوں چائے سکتا

Page 300

$1954 290 خطبات محمود لے کر گئے تو معلوم ہوا کہ مہمان حضرت خلیفہ المسیح الاول کے پاس اُن کی ملاقات کے لیے گئے ہیں.چنانچہ وہ چائے لے کر وہاں گئے.چراغ پرانا ملازم تھا اُس نے پہلے چائے کی پیالی حضرت خلیفۃ اسی الاول کے سامنے رکھی لیکن نجے نے ہاتھ پکڑ لیا اور کہا حضرت مسیح موعود عليه الصلواۃ والسلام نے ان کا نام نہیں لیا تھا.چراغ نے اُسے آنکھ سے اشارہ کیا، گہنی ماری اور یہ بات سمجھانے کی کوشش کی کہ بیشک آپ نے حضرت خلیفہ اسیح الاول کا نام نہیں لیا لیکن آپ ان سب سے زیادہ معزز ہیں اس لیے چائے پہلے آپ کے سامنے ہی رکھنی چاہیے.لیکن ہ یہی بات کہے جاتا تھا کہ حضرت صاحب نے صرف پانچ کے نام لیے تھے ان کا نام نہیں لیا.گویا وہ اس قدر کم عقل تھا کہ اتنی بات بھی سمجھ نہیں سکتا تھا لیکن وہ بہت جلد معمار بن گیا تھا.پس اگر لوگ ذرا بھی توجہ کریں تو اس قسم کے پیشے سیکھ سکتے ہیں اور نہ صرف ان کے ذریعہ روپیہ کمایا جا سکتا ہے بلکہ رفاہ عامہ کے کاموں میں بھی حصہ لیا جا سکتا ہے.معماری کے متعلق میرا خیال ہے کہ اسے پانچ چھ ماہ میں سیکھا جا سکتا ہے.اگر مدرس اور کلرک بھی کوشش کریں تو فارغ اوقات میں یہ کام سیکھ سکتے ہیں.ممکن ہے عملی طور پر اس میں بعض مشکلات کی پیش آئیں لیکن میرا خیال یہی ہے کہ یہ کام پانچ چھ ماہ میں سیکھا جا سکتا ہے.بچپن میں ایک دفعہ میں نے ترکھانوں کو کام کرتے دیکھا تو دل میں خیال آیا کہ یہ کام تو بہت آسان ہے میں بھی اسے بآسانی کر سکتا ہوں.چنانچہ جب تمام ترکھان چھٹی کر گئے تو وہ ہتھیار وہیں چھوڑ گئے.میں نے تیشہ لیا اور ایک لکڑی پر مارا.مگر وہ بجائے لکڑی پر لگنے کے میرے ہاتھ پر لگا ئی اور ابھی تک اُس کا نشان باقی ہے.حالانکہ اپنے خیال میں میں نے یہ سمجھا تھا کہ میں ترکھان کی کا کام کر سکتا ہوں.لیکن جب تیشہ مار کر دیکھا تو معلوم ہوا کہ یہ ایک فن ہے.اس کی مشقی کیے بغیر اس پر حاوی نہیں ہوا جا سکتا.بہر حال جماعت کو کوئی نہ کوئی پیشہ سیکھنا چاہیے تا اس کے مواقع پر وہ خدمت خلق میں نمایاں حصہ لے سکے.اس کے بعد میں پھر اس مضمون کو لیتا ہوں جو میں نے گزشتہ خطبہ جمعہ میں بیان کیا تھا اور وہ مضمون یہ تھا کہ جماعت میں وقف کی طرف توجہ کم ہو گئی ہے اور اس کا احساس

Page 301

$1954 291 خطبات محمود آہستہ آہستہ مٹتا جا رہا ہے.وہ یہ جھتی ہے کہ یہ خدا تعالیٰ کا کام ہے وہ خود کرے گا حالانکہ یہ نقطہ نگاہ بالکل غلط ہے.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ہر کام خدا تعالیٰ ہی کرتا ہے مگر وہ بیوقوفی کی حد تک اسے لمبا کر دیتے ہیں اور اس کا ایک غلط مفہوم لے لیتے ہیں.قرآن کریم میں لکھا.کہ رزق خدا تعالیٰ دیتا ہے 2ے لیکن تم میں سے کوئی شخص بھی یہ نہیں کہتا کہ رزق تو خدا تعالیٰ نے ہے دینا ہے اس لیے میں نوکری کیوں کروں؟ قرآن کریم میں یہ لکھا ہے کہ اولاد اللہ تعالیٰ ہے 3 لیکن دنیا میں لوگ نکاح کرتے ہیں.اگر اولاد نہ ہو تو بیویوں کا علاج کرواتے ہیں.اور کبھی کسی نے یہ نہیں کہا کہ اولاد تو خدا تعالیٰ نے دینی ہے مجھے نکاح کی کیا ضرورت ہے؟ بلکہ ہر شخص نکاح کرتا ہے اور اولاد کے لیے علاج معالجہ میں کسی قسم کی کوتاہی نہیں کرتا.پھر خدا تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ جب کوئی شخص بیمار ہو تو وہی شفا دیتا ہے.4 لیکن تم یہ نہیں کہتے کہ جب شفا خدا تعالیٰ نے دینی ہے تو ہم اپنے بیمار بچہ کے علاج کے لیے ڈاکٹر کے پاس کیوں جائیں؟ بلکہ تم ان ساری جگہوں پر یہ سمجھتے ہو کہ باوجود اس کے کہ سارے کام خدا تعالیٰ نے کرنے ہیں.پھر بھی انسان کو اس کے متعلق حسب استطاعت کوشش کرنی چاہیے.مگر جب وقف کا سوال آتا ہے تو تم اس کے لیے کوئی حرکت نہیں کرتے اور یہ کہہ دیتے ہو کہ یہ خدا تعالیٰ کا کام ہے.اگر یہ بات تمہارے دوسرے اعمال سے ملا کر دیکھی جائے تو صاف معلوم ہوتا ہے کہ یہ تمہارے نفس کا دھوکا ہے یا تم دوسروں کو دھوکا دینا چاہتے ہو اور یا پھر تمہاری عقل اتنی کمزور ہے کہ تم اُس بات کا انکار کرتے ہو کہ جو تمہاری زندگی کے ہر شعبہ میں نمایاں طور پر پائی جاتی ہے.حقیقت یہ ہے کہ دینی جماعتوں اور دینی کاموں کو چلانے کے لیے وقف کی ضرورت ہوتی ہے.اس کے بغیر دینی جماعتیں کبھی زندہ نہیں رہ سکتیں.اللہ تعالیٰ قرآن کریم : فرماتا ہے وَلتَكُنْ مِنْكُمْ أُمَّةً يَدْعُونَ إِلَى الْخَيْرِ وَيَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ - 5- کہ تم میں سے ایک جماعت ایسی ہونی چاہیے کہ جس کا کام صرف قومی کام کرنا ہو اور یا پھر دوسرے کام وہ صرف ضمنی طور پر کرے اصل کام قومی کام ہو.آخر ہر آدمی ایک وقت میں تین چار کام کر لیتا ہے.مثلاً سکول ماسٹر ہے.

Page 302

$1954 292 خطبات محمود ہ پرائیویٹ ٹیوشن بھی کر لیتا ہے یا ڈاکٹر ہے اگر وہ ملازم ہو تو پرائیویٹ پریکٹس بھی کر لیتا ہے لیکن جب سرکاری کام سامنے ہو تو وہ دوسرے کام کو نظر انداز کر دے گا اور پرائیویٹ کی پریکٹس یا پرائیویٹ ٹیوشن چھوڑ کر اپنے مفوضہ کام کی طرف متوجہ ہو جائے گا.پس قرآن کریم کہتا ہے کہ تم میں سے ایک گروہ ایسا ہونا چاہیے کہ اس کا اصل کام قومی کام ہو.وہ بیشک زراعت کرے، تجارت کرے یا اور کوئی پیشہ کرے لیکن اُس کے اصل کام میں کوئی روک واقعی نہ ہو.ہم نے بھی بعض واقفین کو اجازت دی ہوئی ہے کہ وہ زائد کام کر لیں.بلکہ بعض دفعہ میں نے دفتر والوں کو ڈانٹا ہے کہ تم واقفین کو زائد کام کرنے سے کیوں روکتے ہو؟ ہاں ہم نے شرط رکھی ہے کہ وہ ہمیں بتا دے کہ میں فلاں کام کرنے لگا ہوں.بلکہ میں تو کہتا ہوں کہ واقفین کو زائد کام کرنے کی تحریک کرنی چاہیے.لیکن بغیر وقف کے دین کا کام کرنا مشکل ہے.جس جماعت میں وقف کا سلسلہ نہ ہو وہ اپنا کام کبھی مستقل طور پر جاری نہیں رکھ سکتی.ہم نے تو وقف کی ایک شکل بنا دی ہے ورنہ زندگی وقف کرنے والے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ میں بھی موجود تھے.کیا تم سمجھتے ہو کہ صحابہ نے وَلَتَكُنْ مِنْكُمْ أُمَّةً يَدْعُونَ إِلَى الْخَيْرِ وَيَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ پر عمل نہیں کیا؟ حضرت ابو ہریرہ کو دیکھ لو انہوں نے آخری زمانہ میں اسلام قبول کیا یعنی رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات سے صرف اڑھائی سال پہلے مسلمان ہوئے.مسلمان ہونے کے بعد حضرت ابو ہریرہ نے غور کیا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اب آخری عمر میں ہیں اور میں بہت دیر بعد اسلام میں داخل ہوا ہوں.اس لیے اگر میں کچھ سیکھنا چاہتا ہوں تو اس کا طریق یہی ہے کہ میں اپنے آپ کو اس کام کے لیے وقف کر دوں.چنانچہ وہ مسجد میں ہی رات دن بیٹھے رہتے.شروع شروع میں اُن کا بھائی گھر سے کھانا بھیجوا دیتا تھا لیکن جب اُس نے دیکھا کہ یہ تو مستقل طور پر مسجد میں بیٹھ گئے ہیں تو اُس نے کھانا بھیجوانا بند کر دیا اور پھر رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس جا کر کہا کہ يَا رَسُولَ اللہ ! میرا بھائی تو مستقل طور پر مسجد میں بیٹھ گیا ہے.میں عیالدار شخص ہوں.میں نے بچوں کا پیٹ بھی پالنا ہے.میں اسے کب تک خرچ دے سکوں گا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم دیکھ رہے تھے کہ حضرت ابو ہریرہ

Page 303

$1954 293 خطبات محمود دین کی خدمت کر رہے ہیں اس لیے آپ نے فرمایا اللہ تعالیٰ بعض دفعہ کسی کو دوسرے کی خاطر رزق دے دیتا ہے.تم ایسا نہ کرو.ممکن ہے کہ ابو ہریرہ کی خاطر ہی اللہ تعالیٰ تمہیں رزق دے رہا ہو لیکن اُس نے آپ کی باتوں کی کوئی پروا نہ کی اور اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ابو ہریرہ خود فرماتے ہیں کہ بعض اوقات مجھے سات سات وقت کے فاقے آ جاتے تھے ن اس کے باوجود آپ مسجد سے نہ ہلتے.بلکہ سارا دن وہیں بیٹھے رہتے اور اللہ تعالیٰ اُن کے رزق کا سامان کر دیتا.اب تم اللہ تعالیٰ کے رزق کے اور معنے کرتے ہو اور صحابہؓ اس کے اور معنے سمجھتے تھے.وہ بیشک دنیا کے کام بھی کرتے تھے لیکن دین کو ہمیشہ مقدم رکھتے تھے.یہاں تو گزارہ بھی ملتا ہے چاہے وہ گزارہ کم ہی ہو.لیکن اُن کو یہ گزارہ بھی نہیں ملتا تھا.وہ اپنا اپنا کام کرتے تھے اور پیٹ پالتے تھے لیکن دینی کاموں کو نظرانداز نہیں کرتے تھے بلکہ دینی کام کو اپنے ذاتی کاموں پر ترجیح دیتے تھے.اسی طرح حضرت عبداللہ بن عمرؓ تھے.وہ بھی مسجد میں بیٹھے رہتے تھے.اسی طرح بعض اور صحابہ تھے.بعض کے نزدیک ان کی تعداد تین سو تھی اور بعض کے نزدیک ان کی تعداد اسی کے قریب تھی.انہیں اصحاب الصفہ کہا جاتا تھا اور اُن کا کام یہ تھا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے باتیں سنیں اور دوسرے صحابہ تک پہنچا دیا.ان کو کوئی گزارہ نہیں ملتا تھا.اگر کسی کی طرف سے کھانا آ جاتا تھا تو کھا لیتے تھے ورنہ کسی سے مانگتے نہیں تھے.ایک عورت کے متعلق ذکر آتا ہے کہ وہ اصحاب الصفہ کو چقندر پکا کر بھیجا کرتی تھی اور وہ شوق سے انہیں کھاتے تھے.بعض دفعہ لوگ دودھ بھیج دیتے تھے اور وہ اسے پی لیتے تھے.اب تو بہت زیادہ ترقی ہوگئی ہے.واقفین کے گزارے مقرر کر دیئے گئے ہیں.اس طرح کام بہت آسان ہو گیا ہے.بشرطیکہ انسان اپنا زاویہ نگاہ بدل لے.اگر جماعت کے لوگ اپنا زاویہ نگاہ صحابہ کی طرح بنا لیں تو اب بھی ان کا سا طریق رائج کیا جا سکتا ہے اور اگر صحابہ سے کمزور ہوں تو موجودہ طریق پر وہ کام کر سکتے ہیں کہ معاوضہ بھی ملے اور قربانی بھی کریں.پہلے لوگ مسجد میں بیٹھ جاتے تھے اور انہیں کوئی گزارہ نہیں ملتا تھا.جو کچھ کسی کی رف سے آ جاتا وہ کھا لیتے.لیکن اب یہ فیصلہ کیا گیا ہے کہ جو لوگ وقف کر کے آئیں انہیں طرف

Page 304

$1954 294 خطبات محمود کچھ نہ کچھ رقم بھی دے دی جایا کرے.لیکن باوجود اس کے کہ واقفین کے لیے گزارے مقرر کیے گئے ہیں میں نے دیکھا ہے کہ اول تو لوگ وقف میں آتے ہی نہیں اور اگر آ جاتے ہیں تو شروع شروع میں وظیفے لیتے ہیں اور تعلیم حاصل کرتے ہیں اور جب تعلیم سے فارغ ہوتے ہیں تو مختلف بہانے بنا کر وقف سے بھاگ جاتے ہیں.اور کہتے ہیں ہمیں اب ہمارے حالات اجازت نہیں دیتے کہ وقف میں زیادہ عرصہ تک رہیں.میں نہیں سمجھ سکتا کہ ان کے حالات پہلے کیوں اجازت دیتے تھے کہ وقف میں آئیں اور بعد میں کیوں اجازت نہیں دیتے کہ وقف میں رہیں.جب وہ ہمارے پاس آتے ہیں تو اگر وہ میٹرک پاس تھے تو زیادہ سے زیادہ انہیں اتنی نوے روپے تنخواہ مل سکتی تھی لیکن جب وہ بی.اے یا ایم.اے ہو جاتے ہیں اور اُن میں قابلیت پیدا ہو جاتی ہے تو انہیں کسی جگہ سے تین سو ساڑھے تین سو کی آفر (Offer) آ جاتی ہے.یہ آفر اس لیے آتی ہے کہ سلسلہ نے اُن پر خرچ کیا ہوتا ہے.اس سے پہلے وہ عملاً یا عقلاً اسی یا سو روپیہ کما سکتے تھے لیکن پھر وہ کہتے ہیں کہ ہمارے حالات اس بات کی اجازت نہیں دیتے کہ ہم وقف میں رہیں.جس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنے آپ کو پہلے سے زیادہ قابل سمجھتے ہیں حالانکہ یہ قابلیت صرف اس لیے پیدا ہوئی کہ سلسلہ - اُن پر روپیہ خرچ کیا اور اُن کی مالی امداد کی.پھر جن کو ہم نے امداد نہیں دی بلکہ وہ اپنے اخراجات سے پڑھے ہیں اُن پر بھی ذمہ داری کم نہیں.وہ بھی اللہ تعالیٰ کے دیئے ہوئے سے ہی پڑھے ہیں.اللہ تعالیٰ انہیں توفیق نہ دیتا تو وہ کیسے پڑھتے.میرے اپنے بچے ہیں.میں نے انہیں خود پڑھایا ہے.اب ایک لڑکا تبلیغ کے لیے انڈونیشیا گیا ہے تو میں اسے اپنی جیب سے خرچ دیتا ہوں اور آئندہ بھی میرا یہی ارادہ ہے کہ اللہ تعالیٰ مجھے توفیق دے تو جو بچہ بھی تبلیغ کے لیے باہر جائے میں اُس کا خرچ خود ہی برداشت کروں.لیکن سیدھی بات ہے کہ میرے بچے میرے سامنے تو بول نہیں سکتے.جب ہم بچے تھے تو ہماری جائیدادیں لا پرواہی کا شکار تھیں اور ہمیں اتنی بھی توفیق نہیں تھی کہ ان کی نگرانی کے لیے پندرہ بیس روپے ماہوار پر کوئی آدمی ملازم رکھ لیں.جب زمین کے کاغذات مجھے دیئے گئے تو میں گھبرا گیا کہ ان کا انتظام کیسے کروں گا؟ مجھے کام کا تجربہ نہیں تھا لیکن اللہ تعالیٰ نے

Page 305

$1954 295 خطبات محمود ، فضل کیا اور ہمیں ایک آدمی مل گیا.اُس نے کہا مجھے آپ دس روپیہ ماہوار دے دیا کریں میں کی جائیداد کا انتظام کرتا ہوں.چنانچہ تھوڑے عرصہ کے بعد ہی وہ جائیدادیں جس کی آمد اس قدر بھی نہیں تھی کہ ہم پندرہ بیس روپے ماہوار پر کوئی آدمی ملازم رکھ لیں اُس سے آمد پیدا ہونے لگی.جب قرآن کریم کا پہلا پارہ شائع کرنے کا سوال پیدا ہوا تو میں نے اُس وقت فیصلہ کیا کہ ہم اپنے خرچ پر اسے شائع کریں گے.چنانچہ میں نے اُس شخص کو بلایا اور کہا کہ مجھے اشاعت قرآن کریم کے لیے کچھ رقم کی ضرورت ہے.وہ کہنے لگا آپ کو اس رقم کی کب ضرورت ہے؟ میں نے کہا مہینہ دو مہینہ میں مل جائے.اُس نے کہا میرا یہ خیال تھا کہ آپ یہ کہیں گے کہ مجھے اسی وقت رقم کی ضرورت ہے.میں آپ کو آج شام تک مطلوبہ رقم لا دوں گا.میں نے کہا تم شام تک رقم لا دو گے؟ آخر کہاں سے لاؤ گے؟ مجھے دواڑھائی ہزار روپے کی ضرورت ہے.اُس نے کہا کہ مجھے کچھ زمین بیچنے کی اجازت دے دیں اور اُس نے اُس زمین کی طرف اشارہ کیا جہاں آجکل قادیان میں محلہ دارالفضل آباد ہے.اُس نے کہا میں پچاس روپے فی کنال کے حساب سے زمین بیچ دوں گا اور اس طرح قریباً چھ ایکڑ زمین کی فروخت سے دواڑھائی ہزار روپیہ مل جائے گا.میں نے کہا بہت اچھا! تمہیں زمین فروخت کرنے کی اجازت ہے.لیکن کیا تمہیں کوئی شخص پچاس روپے فی کنال کے حساب سے قیمت دے دے گا؟ اُس نے کہا ہاں بہت سے لوگ موجود ہیں جو اس بھاؤ پر زمین خریدنا چاہتے ہیں.چنانچہ ظہر کے وقت اُس نے یہ بات کی اور عصر کے وقت اُس نے روپیہ لا کر میرے سامنے رکھ دیا اور کہا ابھی بہت سے گاہک موجود ہیں.اگر آپ سو روپیہ فی کنال بھی قیمت کری دیں تو وہ خریدنے کے لیے تیار ہیں.پھر وہی زمین تھی جو دس دس ہزار روپیہ فی کنال کے حساب سے ہم نے خود خریدی.جہاں میرا دفتر تھا وہاں پر کچھ زمین ہم نے ہمیں ہزار روپیہ کنال کے حساب سے خریدی.یہ سب خدا تعالیٰ کی دی ہوئی چیز تھی.ورنہ ہم تو اپنی جائیداد سے اتنی آمد کی امید بھی نہیں رکھتے تھے کہ پندرہ میں روپیہ پر کوئی آدمی ملازم رکھ لیں.بعد میں وہی جائیداد کروڑوں روپیہ کی ہو گئی.غرض ہر چیز خدا تعالیٰ نے دی ہے.حضرت مسیح موعود یہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں

Page 306

خطبات محمود 296 سب کچھ تیری عطا ہے گھر سے تو کچھ نہ لائے Z $1954 پس جو لوگ گھروں سے پڑھ کر آئے ہیں سلسلہ نے ان کی تعلیم پر کوئی خرچ نہیں کی کیا.ان پر بھی کم ذمہ داری نہیں.انہیں بھی خدا تعالیٰ نے دیا تھا تو وہ پڑھے تھے.اگر خدا تعالیٰ انہیں توفیق نہ دیتا تو وہ کیسے تعلیم حاصل کر سکتے.یہ صرف ایک پردہ ہے ورنہ خدا تعالیٰ ہی سب کچھ کرتا ہے.پھر ہم دیکھتے ہیں کہ مسلمانوں میں عام طور پر یہ شکوہ پایا جاتا ہے کہ علماء تو سب نائی، موچی اور دھوبی ہیں اور ایک حد تک اُن کی یہ بات درست بھی ہے لیکن آخر ایسا کیوں ہوا؟ اسی لیے ہوا کہ بڑے تاجروں اور زمینداروں نے خدمتِ دین سے اپنا ہاتھ کھینچ لیا.اب کیسے ہو سکتا ہے کہ بڑے بڑے تاجر اور زمیندار خدمت دین نہ کریں تو خدا تعالیٰ اپنے دین کو مرنے دے اور نائیوں، دھوبیوں اور موچیوں کو بھی اس کے زندہ رکھنے کی توفیق نہ تم نے دین سے ہاتھ کھینچ لیا اور خدا تعالیٰ نے نائیوں اور موچیوں کو دین کی خدمت کی توفیق دے دی تو اب تم چڑتے کیوں ہو؟ اب وہی تمہارے سردار ہیں اور انہی کے پیچھے تمہیں چلنا ہو گا.میں سمجھتا ہوں کہ جو آجکل مسلمانوں کا حال ہے وہی آئندہ تمہارا ہو گا.اگر تم نے بھی خدمت دین سے ہاتھ کھینچ لیا تو کچھ عرصہ کے بعد تمہاری نسلیں بھی یہی کہیں گی کہ نائیوں، دھوبیوں اور موچیوں نے علماء کی جگہ لے لی ہے.آجکل بھی دیہات اور قصبات میں زیادہ تر عالم بروالے، نائی، دھوبی یا موچی ہیں اور یہ قابلِ اعتراض بات نہیں.اس کے یہ معنے ہیں کہ جب دین کا بیڑا غرق ہونے لگا تو اُس وقت جو دین کی خدمت کے لیے آگے آگئے خدا تعالیٰ نے انہیں عزت دے دی.اسی طرح اگر اب تم آگے نہ آئے تو تمہارے ساتھ بھی یہی ہوگا.جب جماعت ترقی کرے گی تو انہی لوگوں کو عزت حاصل ہو گی جو اُس وقت دین کی خدمت کریں گے.پاکستان میں دیکھ لو مولانا عبدالحامد بدایونی تقریر کرتے ہیں تو کبھی اُس کی صدارت دستور ساز اسمبلی کے صدر مولوی تمیز الدین خاں کرتے ہیں اور کبھی اُس کی صدارت خود گورنر جنرل کرتے ہیں.حالانکہ پاکستان بننے سے قبل انہیں کسی ضلع کا ڈپٹی کمشنر بھی نہیں بلاتا تھا.جب اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو پاکستان بنانے کی توفیق دی تو اس نے علماء کو بھی

Page 307

خطبات محمود عزت دے دی.297 $1954 پاکستان بننے کے بعد جب میں کراچی گیا تو اُس وقت سندھ کے گورنر سر غلام حسین ہدایت اللہ تھے.میں جب واپس روانہ ہو نے لگا تو اُن کا سیکرٹری میرے پاس آیا اور اس نے کہا سر غلام حسین ہدایت اللہ نے سعودی عرب کے دوشہزادوں کی دعوت کی ہے اور انہوں.اس موقع پر آپ کو بھی بلایا ہے.میں نے کہا میں تو آج چار بجے واپس جا رہا ہوں.اس نے کہا ان کی خواہش ہے کہ آپ اس موقع پر ضرور تشریف لائیں.میں نے کہا بہت اچھا لیکن بعد میں خیال آیا کہ دعوت تو عین جمعہ کے وقت میں رکھی گئی ہے.میں نے کہا آپ کی دعوت کی کا وقت وہی ہے جو جمعہ کی نماز کا ہے.اگر دعوت کا وقت پہلے یا بعد میں کر دیا جائے تو میں جاؤں گا.بعد میں سعودی عرب والوں نے بھی کہا کہ ہم بھی سوچ رہے تھے کہ یہ وقت توی جمعہ کی نماز کا ہے.ہم اس موقع پر کیسے آئیں گے.خیر انہوں نے دعوت کا وقت تبدیل کر دیا.میں نے دیکھا کہ اس دعوت میں مولوی شبیر احمد صاحب عثمانی بھی مدعو تھے.پاکستان بننے سے پہلے عثمانی صاحب کی حیثیت ایسی نہیں تھی کہ انہیں ڈپٹی کمشنر بھی کسی دعوت پر بلا تا لیکن یہاں گورنر سندھ نے انہیں بلایا تھا.پس جب کسی قوم پر خدا تعالیٰ کا فضل نازل ہوتا ہے اور وہ ترقی کر جاتی ہے تو اُس کے علماء کو بھی ایک نمایاں مقام حاصل ہو جاتا ہے اور درحقیقت اُن کا آگے آنے کا حق ہوتا ہے بشرطیکہ وہ اُن کاموں میں حصہ نہ لیں جو اُن سے تعلق نہیں رکھتے.جیسے پچھلے دنوں علماء نے سیاسیات میں حصہ لینا شروع کر دیا تو وہ ملامت کا ہدف بن گئے.اسی طرح اب بھی علماء اپنا نی کام چھوڑ کر سیاسیات میں حصہ لیں گے تو وہ لوگوں کی ملامت کا ہدف بن جائیں گے.لیکن اگر علماء ایسی باتوں میں دخل نہ دیں تو اس میں شبہ ہی کیا ہے کہ جب بھی کوئی قوم ترقی کرے گی تو می علماء بہر حال زیادہ عزت کی نگاہ سے دیکھے جائیں گے.یورپ میں دیکھ لو کہ کنٹر بری8 کا پادری ، ایڈورڈ ہفتم کے خلاف ہو گیا تو اسے تخت سے دستبردار ہونا پڑا.اب یہ کتنی بڑی طاقت ہے کہ ایک پادری ناراض ہو جاتا ہے تو بادشاہ بھی اس کے سامنے کھڑا نہیں ہوسکتا.پس یہ قدرتی بات ہے کہ جب کسی قوم کو عزت ملے گی تو اس کے علماء کو بھی عزت ملے گی.

Page 308

خطبات محمود 298 $1954 اسی طرح جب جماعت احمدیہ کو ترقی ملے گی تو تم اُس وقت یہ کہو گے کہ نائی، دھوبی اور موچی آگے آگئے ہیں.اُس وقت ہر شخص تمہیں یہی کہے گا بلکہ میرا یہ خطبہ نکال کر تمہارے آگے رکھے گا کہ یہ وہی لوگ ہیں جنہوں نے دین کی گاڑی کو اُس وقت دھگا دیا جب تم لوگ اس سے لا پروا ہو گئے تھے.اب ان کا حق ہے کہ وہ آگے آئیں.ہماری واقفین کی لسٹ کو بھی دیکھا جائے تو اس میں بڑے بڑے لوگوں اور اُن کے بچوں کے نام لکھے ہیں لیکن جو لوگ کام کر رہے ہیں اُن میں بڑے بڑے لوگوں کے بچے شامل نہیں.جب کسی بڑے شخص کے بیچے پڑھ رہے ہوتے ہیں تو وہ کہتا ہے میرا فلاں بچہ واقف زندگی ہے.لیکن جب وہ پاس ہو جاتا ہے تو وقف میں آنے کا نام بھی نہیں لیتا.ان کی تعلیم مکمل ہونے سے پہلے وہ یہ لکھتا تھا کہ میرا فلاں لڑکا وقف ہے، میرے دولڑکے وقف ہیں، میرے تین لڑکے وقف ہیں آپ دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ انہیں کامیابی عطا کرے.لیکن تعلیم سے فارغ ہو جانے کے بعد ان کی بو بھی نہیں آتی.وہ سمجھتے ہیں کہ اب دعا کا وقت گزر گیا ہے.پھر اگر بعد میں کوئی لڑکا بیمار ہو جاتا ہے تو وہ یہ کہنے لگ جاتے ہیں کہ اس کی نیت دوبارہ حاضر ہونے کی تھی ملازمت کرنے کا مقصد صرف یہی تھا کہ کچھ تجربہ حاصل ہو جائے.دعا فرمائیں کہ اللہ تعالیٰ اسے صحت عطا فرمائے تا کہ وہ دین کی خدمات بجالا سکے لیکن تندرست ہو جانے کے بعد وہ حاضر ہونے کا نام بھی نہیں لیتا.گویا ان لوگوں نے وقف کو تجارت کا ذریعہ بنا لیا ہے.غرباء نے اسے وظیفے لینے کا ذریعہ بنایا ہے اور امراء نے دعا کا ذریعہ بنایا ہے اور کسی کو یہ خیال نہیں آتا کہ دین کی گاڑی چلے گی کیسے؟ اب یہ حالت ہے کہ ناظر بڑھے ہو گئے ہیں اور بعض کے تو آب حواس بھی ایسے نہیں کہ وہ اب زیادہ دیر تک سلسلہ کا کام چلا سکیں.لیکن ایسے آدمی سلسلہ کے پاس موجود نہیں جو ان کی جگہ کام کر سکیں.آخر یہ تو ہو نہیں سکتا کہ نئے آدمیوں کو ان کی جگہوں پر لگا دیا جائے.چند سال تک انہیں بہر حال کام کا تجربہ حاصل کرنا پڑے گا.پھر وہ ان جگہوں پر کام کر سکیں گے.اس وقت بعض ناظر قبروں میں پاؤں لٹکائے بیٹھے ہیں اور اُن کے حواس بھی بجا نہیں.نئے آدمی ہمارے پاس تیار نہیں اور سلسلہ کا کام نہایت خطرناک حالات میں سے گزر رہا ہے.

Page 309

$1954 299 خطبات محمود مجھتا ہے.اس کی ذمہ داری جماعت کے سب افراد پر ہے.خصوصاً ایسے طبقہ پر جو اپنے آپ کو چودھری کی چودھری کے لفظ سے میری مراد زمیندار نہیں بلکہ وہ لوگ مراد ہیں جو اپنے آپ کو قانون سے بالا سمجھنے لگ جاتے ہیں.حضرت خلیفہ اُسیح الاول جب بیمار ہو گئے تو آپ بعض دفعہ باہر آکر لیٹ جاتے اور لوگ آپ کے اردگرد اکٹھے ہو جاتے.بیمار تھک بھی جاتا ہے.جب آپ تھک جاتے تو فرماتے دوست اب چلے جائیں.اس پر کچھ لوگ چلے جاتے اور کچھ بیٹھے رہتے.کچھ دیر کے بعد آپ فرماتے، میں اب تھک گیا ہوں احباب اب تشریف لے جائیں.اس پر آٹھ دس آدمی اور چلے جاتے.مگر چند آدمی پھر بھی بیٹھے رہتے اور وہ سمجھتے کہ ہم اس حکم کے مخاطب نہیں ہیں.اس پر آپ تیسری بار فرماتے کہ اب چودھری بھی چلے جائیں.یعنی جو لوگ اپنے آپ کو قانون سے بالا سمجھتے ہیں وہ بھی چلے جائیں.جاٹ کی نہیں تھی بلکہ وہ لوگ مراد تھے جو اپنے آپ کو قانون کی اطاعت سے مستفی سمجھتے تھے لیکن جب جماعت کو عزت ملے گی تو پھر یہی لوگ کہیں گے کہ نائی، موچی اور دھوبی آگے آگئے ہیں اور وہ کوشش کریں گے کہ خود عزت حاصل کریں.اُس وقت جماعت کے اندر اگر غیرت پائی جاتی ہو تو اس کا فرض ہے کہ وہ انہیں پیچھے ہٹا دے اور کہے کہ جب ضرورت کے وقت تم نے خدمت نہیں کی تھی تو اب تمہیں آگے آنے کی اجازت نہیں.لیکن بد قسمتی سے جب قوم کو عزت ملتی ہے اور مال زیادہ ہو جاتا ہے تو وہی چودھری آگے آ جاتے ہیں.قرآن کریم میں بھی اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جب مالِ غنیمت آتا ہے تو منافق بھی آگے آ جاتے ہیں.اور جب انہیں کہا جاتا ہے کہ اب تم کیوں آئے تو کہتے ہیں تم ہم پر حسد کرتے ہو.9 ہر قوم میں یہی نظارہ نظر آتا ہے.جب جنگ ہوتی ہے اور جان قربان کرنے کا وقت آتا ہے تو اس ٹائپ کے لوگ پیچھے ہٹ جاتے ہیں.لیکن جب فتح اور عزت ملتی ہے تو یہی لوگ آگے آ جاتے ہیں اور بد قسمتی سے قوم انہیں دھتکارتی نہیں.وہ بجھتی ہے کہ بڑے لوگ آگے آ گئے ہیں حالانکہ اُن کی بڑائی اسی دن ختم ہو جاتی ہے جب وہ دین کی خدمت سے اپنا پہلو بچا لیتے ہیں.اگر قوم اس کیریکٹر کو زندہ رکھے تو اس قسم کے لوگوں کی اصلاح ہو جائے.لیکن قوم اس کیریکٹر کو زندہ نہیں رکھتی.اصل مسودہ میں یہاں چند الفاظ مٹے ہوئے ہیں.

Page 310

$1954 300 خطبات محمود رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد حضرت عمرؓ کے زمانہ تک یہ کیریکٹر مسلمان قوم میں ر زندہ رہا.اس کے بعد یہ کیریکٹر مٹ گیا.ایک دفعہ حضرت عمرؓ کے دربار میں مکہ کے رؤساء آئے.حضرت عمرؓ نے انہیں اعزاز سے بٹھایا.لیکن وہ رؤساء ابھی باتیں ہی کر رہے تھے کہ حضرت سہیل آ گئے.اس پر حضرت عمرؓ نے اُن رؤساء سے کہا آپ ذرا پیچھے ہٹ جائیں اور ان کے لیے جگہ چھوڑ دیں اور آپ نے سہیل سے باتیں کرنی شروع کر دیں.اس کے بعد کچھ اور غلام صحابہ آئے تو آپ نے پھر ان سے فرمایا آپ ذرا پیچھے ہٹ جائیں اور ان کے لیے جگہ چھوڑ دیں.اس پر وہ اور پیچھے ہٹ گئے.اتفاق سے اُس دن سات آٹھ غلام صحابہ آ گئے.اُن دنوں کمرے چھوٹے ہوتے تھے اس لیے وہ ان کے لیے جگہ خالی کرتے کرتے جوتیوں میں آگئے اور پھر انہیں وہاں سے بھی اُٹھ کر باہر آنا پڑا.اس پر وہ ایک دوسرے سے مخاطب ہو کر کہنے لگے تم نے دیکھ لیا کہ آج عمرہ نے ہمیں ان غلاموں کے سامنے کیسا ذلیل کیا ہے.ان میں سے ایک عقلمند تھا.اُس نے کہا تم نے کبھی یہ بھی سوچا ہے کہ یہ کس کی کرتوتوں کا نتیجہ ہے.یہ سب کچھ ہمارے باپ دادا کی کرتوتوں کی وجہ سے ہوا ہے.یہ لوگ وہ تھے کہ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دعوی کیا تو انہوں نے آپ کی آواز پر لبیک کہا.ہمارے باپ دادوں نے انہیں مارا پیٹا اور طرح طرح کے دکھ دیئے لیکن انہوں نے اس کی پروا نہ کی اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خاطر انہوں نے بڑی بڑی قربانیاں کیں.اب جب اسلام نے ترقی کی ہے تو انہی لوگوں کا حق تھا کہ وہ عزت پاتے.ان کا حق انہیں مل رہا ہے اور تمہارا حق تمہیں مل رہا ہے.دوسروں نے کہا پھر اس کا علاج کیا ہے؟ اس نے کہا چلو! پھر عمر سے ہی اس کا علاج پوچھ لیں.چنانچہ وہ واپس آئے، آواز دی.حضرت عمرؓ نے انہیں اندر بلا لیا.آپ سمجھتے تھے کہ آج جو سلوک ان سے ہوا ہے اُسے انہوں نے محسوس کیا ہے.چنانچہ آپ نے فرمایا آج جو کچھ آپ لوگوں سے ہوا میں اس کے متعلق مجبور تھا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی زندگی میں ان لوگوں کی عزت فرمایا کرتے تھے.اب عمر کی کیا حیثیت ہے کہ وہ ان کی عزت نہ کرے.انہوں نے کہا ہم ساری بات سمجھ گئے ہیں اور ہم اس لیے دوبارہ آئے ہیں کہ آپ.ނ

Page 311

$1954 301 خطبات محمود دریافت کریں کہ اس ذلت کو دور کیسے کیا جائے؟ حضرت عمر خود بھی ایک بڑے خاندان سے تعلق رکھتے تھے اور پھر دوسرے خاندانوں کے شجرہ نسب کو یاد رکھنا آپ کے خاندان کے ذمہ تھا.اس لیے آپ جانتے تھے کہ وہ لوگ کس قدر معزز خاندانوں سے تعلق رکھتے تھے.اُن کی کیفیت دیکھ کر آپ کی آنکھیں ڈبڈبا آئیں.آپ کی آواز بھتر اگئی اور آپ منہ سے کوئی لفظ نہ نکال سکے.آپ نے صرف ہاتھ سے شام کی طرف اشارہ کیا.جس کا مطلب یہ تھا کہ اس کا علاج شام میں ہے.شام میں اُن دنوں جنگ ہو رہی تھی.ان لوگوں نے آپ کا مفہوم سمجھ لیا اور فوراً اونٹ اور گھوڑے تیار کیے اور شام کی طرف روانہ ہو گئے.تاریخ میں لکھا ہے کہ ان میں سے پھر ایک شخص بھی زندہ واپس نہیں آیا اور سب کے سب وہیں شہید ہو گئے.10- گویا انہوں نے اپنی جان قربان کر کے اپنی ذلت کا داغ دھویا.لیکن حضرت عمرؓ کے بعد جو لوگ آئے انہوں نے اس قومی کیریکٹر کو قائم نہ رکھا.حضرت عثمان نے پرانے لوگوں کو مختلف کاموں کے لیے آگے بلایا مگر انہوں نے مدینہ چھوڑ نا پسند نہ کیا جس پر لازماً انہیں نئے لوگ آگے لانے پڑے.صحابہ کو یہ بات بُری لگی لیکن حضرت عثمان نے فرمایا میں مجبور ہوں.میں تمہیں ان جگہوں پر بلاتا ہوں لیکن تم مدینہ سے باہر جانے پر راضی نہیں ہوتے.لیکن حالت یہ تھی کہ اُس وقت حکومت کے کام مصر، شام، فلسطین اور ایران تک پھیل چکے تھے اور پرانے لوگ یہ چاہتے تھے کہ وہ بڑے بھی بنے رہیں اور مدینہ سے بھی نہ نکلیں اور یہ چیز مشکل تھی.نتیجہ یہ ہوا کہ کئی قسم کی خرابیاں پیدا ہو گئیں.بہر حال یہ خرابی اُسی وقت پیدا ہوتی ہے جب بڑے لوگ جنہوں نے دین کی خدمت نہیں کی ہوتی وہ آگے آ جاتے ہیں اور قوم انہیں یہ سمجھ کر سر پر اٹھا لیتی ہے کہ ہمارے بڑ.لوگ آگے آگئے ہیں اور اس طرح قوم پر تباہی آجاتی ہے.پس تم ضرورت وقت کو سمجھو اور اپنی ذمہ داریوں کا احساس کر کے اپنے اپنے خاندان کے نوجوانوں کو وقف کرو.اور یہ وقف اتنی کثرت کے ساتھ ہونا چاہیے کہ اگر دس نو جوانوں کی ضرورت ہو تو جماعت سو نوجوان پیش کرے.مگر اب واقفین ملتے بھی ہیں تو بعد میں بھاگ جاتے ہیں.اور یہ ایسی شرمناک چیز ہے کہ اس کی موجودگی میں کوئی قوم شرفاء کے سامنے سر

Page 312

خطبات محمود نہیں اُٹھا سکتی.$1954 302 خطبہ ثانیہ کے بعد حضور نے فرمایا: میں نماز کے بعد عزیز عبدالحمید خاں غزنوی کا جنازہ پڑھاؤں گا.عبدالحمید خاں غزنوی نیک محمد خاں صاحب غزنوی کے لڑکے تھے اور ہوائی جہاز کے حادثہ میں فوت ہوئے ہیں.الفضل 20 /اکتوبر 1954 ء ) 1 دیوان حافظ مترجم مولانا قاضی سجاد حسین صاحب صفحہ 140 - ردیف الدال اردو بازار لاہور میں مصرع کے الفاظ اس طرح ہیں.” عیب سے جملہ چونگفتی ہنرش نیز بگو 2 هَلْ مِنْ خَالِقٍ غَيْرُ اللهِ يَرْزُقُكُمْ مِّنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ (فاطر: 4) اللهُ يَرْزُقُهَا وَإِيَّاكُمُ (العنكبوت (61) نَحْنُ نَرْزُقُكُمْ (الانعام: 152) : هُوَ الَّذِي خَلَقَكُمْ مِنْ نَفْسٍ وَاحِدَةٍ وَجَعَلَ مِنْهَا زَوْجَهَا لِيَسْكُنَ إِلَيْهَا فَلَمَّا تَغَهَا حَمَلَتْ حَمْلًا خَفِيْفًا فَمَرَّتْ بِهِ فَلَمَّا أَثْقَلَتْ ذَعَوَا اللَّهَ رَبَّهُمَا لَبِنُ أَتَيْتَنَا صَالِحًا لَنَكُونَنَّ مِنَ الشَّكِرِينَ (الاعراف : 190) ج 4: وَإِذَا مَرِضْتُ فَهُوَ يَشْفِينِ (الشعراء: 81) 5 : آل عمران : 105 6: جامع الترمذى ابواب الزهد باب في التوكل على الله در مشین اردو صفحہ 31.زیر عنوان نظم ”محمود کی آمین.مرتبہ شیخ محمد اسماعیل پانی پتی 1962ء : کنٹربری(Canterbury) انگلستان کا تاریخی کیتھڈرل سٹی.وکی پیڈیا آزاد دائرۃ المعارف زیر لفظ ”Canterbury) سَيَقُولُ الْمُخَلَّفُونَ إِذَا انْطَلَقْتُم إلى مَغَانِمَ لِتَأْخُذُوهَا ذَرُونَا نَتَّبِعْكُمْ يُرِيدُونَ أَنْ تُبَدِّلُوا كَلْمَ اللَّهِ قُلْ أَنْ تَتَّبِعُوْنَا كَذَلِكُمْ قَالَ اللهُ مِنْ قَبْلُ فَسَيَقُولُونَ بَلْ تَحْسُدُونَنَا بَلْ كَانُوا لَا يَفْقَهُونَ یچ إِلَّا قَلِيْلًا (الفتح: 16)

Page 313

$1954 303 خطبات محمود 10: اسد الغابة جلد 2 صفحہ 396 397 - زیر عنوان سهيل بن عمرو “.بیروت لبنان $2001

Page 314

$1954 304 30.30 خطبات محمود دعائیں کرو کہ مسلمانوں کے لیے برکت اور بھلائی کی صورت پیدا ہو (فرمودہ 22 /اکتوبر 1954ء بمقام ربوہ) تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: خطبہ کی غرض تو مذہب یا مذہب کے ساتھ تعلق رکھنے والے امور کے متعلق امام کا اپنے خیالات کا اظہار کرنا ہوتا ہے لیکن کبھی کبھی مذہب والوں کے متعلق بھی بات کرنی پڑتی ہے.گو اس میں کوئی شبہ نہیں کہ مساجد کو اُن امور کے لیے استعمال کرنا کہ جن سے مذہب کی اپنی حیثیت ہی ختم ہو جاتی ہو پسندیدہ نہیں ہوتا.چنانچہ انہی باتوں کو دیکھ کر مصر کی حکومت نے حال ہی میں ایک قسم کا قانون بنا دیا ہے کہ مساجد میں وہی خطبے پڑھے جائیں جنہیں گورنمنٹ نے پہلے سے منظور کر لیا ہو.ہمیں اس ملک کے حالات معلوم نہیں اس لیے ہم نہیں کہہ سکتے کہ حکومت نے یہ اقدام کس حد تک مجبور ہو کر کیا ہے لیکن بہر حال جب مساجد کا استعمال غلط طور پر کیا جائے تو حکومت اس حد تک ضرور دخل دے سکتی ہے کہ اس سے مذہب میں دخل اندازی نہ ہو یا مذہبی نظام میں دخل اندازی نہ ہو.یعنی حکومت اس حد تک دخل نہ دے

Page 315

$1954 305 خطبات محمود کہ ملک کے مختلف فرقوں میں تنافر اور تباغض پیدا ہو جائے اور ایسی باتیں شروع ہو جائیں جنہیں ملک کے مختلف فرقے پسند نہ کرتے ہوں یا اس حد تک علیحدگی اختیار کر لی جائے کہ ملک کے مختلف فرقے اپنی مخصوص تعلیمات، جماعت کے افراد کے سامنے نہ رکھ سکیں.کیونکہ اپنی مخصوص تعلیمات کو جماعت کے سامنے پیش کرنے کا بہترین موقع جمعہ کا خطبہ ہی ہوتا ہے لیکن دنیوی امور کا بھی ایک حصہ مذہب کے ساتھ اس طرح وابستہ ہے کہ اسے الگ نہیں کیا جاسکتا.میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان پر اب ایک ایسا وقت آ گیا ہے کہ اس کی موجودہ حالت کو مذہب سے علیحدہ نہیں کیا جا سکتا کیونکہ اس کا لازمی نتیجہ ایسا نکلتا ہے کہ مذہب اور عقیدہ دونوں ہی اس کی زد میں آجائیں.میں اس بات کو درست نہیں سمجھتا کہ مذہبی لوگ سیاسی امور کے متعلق کچھ نہ کہیں.سیاسی امور میں حصہ لینا تمام شہریوں کا حق ہے لیکن ان کے لیے مساجد کو ذریعہ بنانا درست نہیں.مساجد کے باہر وہ بیشک سیاسی جلسے کریں، تقریریں کریں، اشتہارات شائع کریں یہ اُن کا جائز حق ہے جو اُن سے چھینا نہیں جا سکتا لیکن عبادات کو اس کا ذریعہ بنانا درست نہیں.مثلاً سیاسی اختلافات کی بناء پر خطبات کو کسی خاص مجلس کے پرو پیگنڈا کا ذریعہ بنا لینا ناجائز ہے.لیکن ان کا دینی پہلو جائز ہے جیسے اس قسم کے خطرات کے موقع پر لوگوں کو دعا کی طرف توجہ دلانا ہے کیونکہ اس کا کسی خاص فرقہ یا جماعت سے تعلق نہیں ہوتا.میں دیکھتا ہوں کہ پچھلے چند ایام میں ملک میں بعض ایسے حالات پیدا ہوئے ہیں جو خود پاکستان کی ہستی کو ہی خطرہ میں ڈال رہے ہیں اور یہ حالات اس حد تک بڑھتے جا رہے ہیں کہ افراد کا دماغی توازن قائم نہیں رہا.ہر فریق ، ہر جتھا اور ہر صوبہ ایسی باتیں اختیار کرنا چاہتا ہے جس سے پاکستان باقی نہیں رہ سکتا.اور اس کا اثر لازمی مسلمانوں پر پڑے گا.میں مسئلہ کشمیر سے دلچسپی رکھتا ہوں.1948ء میں جب میں پشاور گیا تو اس سلسلہ میں ڈاکٹر خان صاحب اور عبدالغفار خان صاحب سے بھی ملنے گیا.جہاں تک ظاہری اخلاق کا سوال ہے انہوں نے بڑا اچھا نمونہ دکھایا مثلاً دونوں بھائیوں میں اُن دنوں کسی وجہ سے شکر رنجی تھی اس لیے وہ آپس میں ملتے نہیں تھے.ہماری ملاقات کے متعلق یہ تجویز ہوئی کہ و وہ

Page 316

$1954 306 خطبات محمود ڈاکٹر خان صاحب کے گھر پر ہو.درد صاحب میرے ساتھ تھے.میں نے انہیں کہا کہ وہ خان عبدالغفار خاں صاحب سے معذرت کریں اور کہیں کہ میں ڈاکٹر خان صاحب کے ہاں جاؤں گا.شاید آپ اُن کے مکان پر نہ آ سکیں.انہوں نے کہلا بھیجا کہ آپ ہمارے مہمان ہیں اور مہمان کی خاطر میں وہیں آ جاؤں گا.چنانچہ وہ وہیں آگئے اور ایک گھنٹے تک ہماری آپس میں گفتگو ہوتی رہی.میں نے خان عبد الغفار خان صاحب سے سوال کیا کہ اگر پاکستان کی میں کوئی گڑ بڑ ہوئی اور اس سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے ہندوستان کی فوجیں پاکستان میں آگئیں تو کیا یہاں کے مسلمانوں کی حالت ویسی ہی نہیں ہو جائے گی جیسی مشرقی پنجاب کے مسلمانوں کی ہوئی تھی؟ اس پر انہوں نے بیساختہ جواب دیا کہ اگر ایسا ہوا تو پاکستان کے مسلمانوں کی حالت مشرقی پنجاب کے مسلمانوں جیسی نہیں بلکہ اُن سے بھی بدتر ہوگی.حقیقت یہ ہے کہ پاکستان بننے سے پہلے اس کا وجود ضروری تھا یا نہیں لیکن اس میں کوئی شبہ نہیں کہ پاکستان بننے کے بعد اگر کچھ ہوا تو اس کا اثر لازماً مسلمانوں پر پڑے گا.اگر پاکستان خطرے میں پڑ جائے تو یہ یقینی بات ہے کہ پاکستان میں اسلام محفوظ نہیں رہ سکتا.ہندوؤں میں پہلے بھی بڑا تعصب تھا اور ہم نے اس اختلاف کی وجہ سے یہ برداشت نہ کیا کہ اُن کے ساتھ مل کر رہیں اور ہم سب نے مل کر کوشش کی کہ ہمیں ایک علیحدہ ملک ملے.چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ہماری خواہش کو پورا کر دیا اور ہمیں پاکستان کی شکل میں ایک علیحدہ ملک عطا کیا.مسلمانوں کی اس جدوجہد کو دیکھ کر ہندوؤں کے دلوں میں خیال پیدا ہو گیا کہ مسلمانوں نے ہمیں سارے ہندوستان پر حکومت کرنے سے محروم کر دیا ہے اور انہوں نے سارے ملک میں مسلمانوں کی سیاست اور خود مسلمانوں کے خلاف شدید پروپیگنڈا کیا.پہلے اُن کی ذہنیت اتنی زیادہ مسموم نہیں تھی اور اُن میں سے بعض کے دل میں مسلمانوں کے لیے رواداری کا جذبہ ایک حد تک پایا جاتا تھا لیکن مسلمانوں کے خلاف پروپیگنڈا کی وجہ سے اُن کی ذہنیت اب بالکل بدل گئی ہے اور مسلمان انہیں سانپ اور بچھو کی طرح نظر آنے لگ گئے.اگر خدانخواستہ پاکستان میں گڑ بڑ واقع ہوئی اور اس کے نتیجہ میں ہندوستان کی فوجیں ملک میں داخل ہوئیں تو وہ اس ذہنیت سے نہیں آئیں گی جو اُن کی تقسیم ملک سے پہلے تھی.اس وقت تعصب اتنا زیادہ نہیں تھا

Page 317

$1954 307 خطبات محمود جتنا اب ہے.ہم تو سمجھتے ہیں کہ پاکستان حاصل کر کے مسلمانوں نے اپنا ایک جائز حق لیا ہے کوئی جرم نہیں کیا.لیکن سوال یہ نہیں کہ ہم کیا سمجھتے ہیں؟ بلکہ سوال یہ ہے کہ جس سے ہمارا معاملہ ہے وہ کیا سمجھتا ہے؟ اگر کسی کے بچے پر سانپ نے حملہ کیا ہو اور ایک دوسرے شخص نے سانپ مارنے کے لیے اینٹ اُٹھائی ہوئی ہو اور فرض کرو بچے کا باپ اُسے دیکھ رہا ہو اور وہ اُس طرف نہ ہو جس طرف سانپ ہے تو وہ یہی سمجھے گا کہ وہ اس کے بیٹے کو مار رہا ہے.اس صورت میں ممکن ہے کہ اگر اُس کے پاس بندوق بھری ہوئی ہو تو وہ اس شخص پر فائر کر دے.اب چاہے وہ شخص مربے یا اُس کا اپنا بچہ مر جائے بہر حال باپ ایسا کرنے پر مجبور ہے.کیونکہ وہ دیکھ رہا ہے کہ ایک شخص اُس کے بچے کو مار رہا ہے.ہماری بھی یہی حالت ہے.ہم نے خواہ پاکستان کے ذریعہ اپنا ایک جائز حق حاصل کیا ہو اس وقت ہندوؤں کے ذہن کو اس طرح کی بگاڑ دیا گیا ہے اور پاکستان کے خلاف اُن کو اس قدر مشتعل کر دیا گیا ہے کہ وہ یہی سمجھتے ہیں کہ ہم نے اپنا حق نہیں لیا اُن کا حق لیا ہے.پس اگر وہ ہمارے ملک میں داخل ہوئے تو ان کی کے متعلق یہ خیال کر لینا کہ وہ تقسیم سے پہلی ذہنیت اپنے ساتھ لے کر آئیں گے بالکل غلط ہے.پھر یہ نہ خیال کرو کہ اُن کے آنے کا امکان نہیں.قانونِ قدرت یہی ہے کہ جہاں کہیں خلا پیدا ہو جاتا ہے ہوا اُسے فوراً پُر کر دیتی ہے.مثلاً آندھیاں آتی ہیں تو وہ اسی قانون کے ماتحت آتی ہیں.جب گرمی پڑتی ہے تو ہمارے ارد گرد کی ہوا لطیف ہو کر اوپر چلی جاتی ہے اور نیچے ایک خلا پیدا ہو جاتا ہے.اس خلا کو پُر کرنے کے لیے دور کی ہوا تیزی سے آ جاتی ہے اور اس کو آندھی کہتے ہیں.یا مثلاً پانی ہے.دریاؤں کا پانی سارے کا سارا سمندر میں جا رہا ہے.اُس کی وجہ یہی ہے کہ ادھر خلا ہے جسے پُر کرنے کے لیے پانی اُس طرف جا رہا ہے.اسی طرح اگر ہمارے ملک میں کوئی گڑبڑ ہوئی اور یہاں خلا پیدا ہو گیا تو لازماً قانون قدرت کے مطابق اس خلا کو پُر کرنے کے لیے کسی نہ کسی ہمسایہ ملک کی فوجیں اس ملک میں داخل ہو جائیں گی.اب تم اس ہمسایہ ملک کو افغانستان سمجھ لو، ہندوستان سمجھ لو یا کوئی اور یورپین ملک سمجھ لو ، بہر حال اس خلا کو بھرنے کے لیے کوئی نہ کوئی حکومت آئے گی.اگر اس خلا کو بھرنے والی حکومت ہندوستان ہوئی تو لازماً وہ اس بغض کو ساتھ لائے گی جو اس وقت پاکستان اور

Page 318

$1954 308 خطبات محمود مسلمانوں کے خلاف اس میں پیدا ہو چکا ہے.چاہے وہ عام حکومتوں کی طرح یہی اعلان کرتی ہی آئے کہ ہم تمام لوگوں سے انصاف کریں گے بلکہ اگر کسی گڑبڑ کے نتیجہ میں خدا نخواستہ ایسا واقعہ ہو گیا کہ ہندوستان کی فوجیں ہمارے ملک میں داخل ہو جائیں تو اُن کی طرف سے یہی اعلان ہوگا کہ ہم تمام جماعتوں سے انصاف کریں گے، ہم تمام اقلیتوں کے حقوق انہیں دیں گے، ہم مظلوم کی امداد کریں گے لیکن یہ اعلان اُسی وقت تک ہو گا جب تک اُس کا قبضہ تمام ملک پر نہیں ہو جاتا.اس کے بعد اُن کا بغض اور کینہ اپنا اثر دکھائے گا اور وہ مسلمانوں کو مسلنا شروع کر دیں گے.ان حالات میں میں تمام جماعت کو نصیحت کرتا ہوں کہ وہ دعاؤں سے کام لے.آئندہ آٹھ دس دن ہمارے ملک کے لیے نہایت نازک ہیں.دوستوں کو چاہیے کہ وہ ان ایام میں خاص طور پر دعائیں کریں کہ جو لوگ برسر اقتدار ہیں وہ کوئی ایسا طریق اختیار نہ کریں جو اسلام کی ترقی ، اس کی قوت اور اس کے استحکام میں روک پیدا کرنے والا ہو.ہمارے خدا میں سب طاقتیں پائی جاتی ہیں.اگر ان لوگوں کی اصلاح ہو سکتی ہے تو وہ ان کی اصلاح کر سکتا ہے اور اگر ان کی اصلاح نہیں ہو سکتی تو وہ ان کے شر سے ملک کو بچا سکتا ہے.اور وہ اس جتھا کو بھی توڑ سکتا ہے جو ملک کو تباہ کرنے والا ہو.پس خدا تعالیٰ کے سامنے جھکا جائے اور اُسی کی سے دعائیں کی جائیں کہ الہی ! یہ کام ہماری طاقت سے باہر ہے.ہم خود بہت تھوڑے ہیں اور کی ہماری تعداد بہت ہی تھوڑی ہے.ہم ان امور میں دخل نہیں دے سکتے اور نہ ملک کی حفاظت کے لیے کوئی ذریعہ اختیار کر سکتے ہیں.لیکن اکثریت تیرے ہاتھ میں ہے.اگر قابل اصلاح ہے تو تو اس کی اصلاح کر سکتا ہے.اور اگر وہ قابل اصلاح نہیں تو تو ان کے درمیان جھگڑے اور تفرقے بھی پیدا کر سکتا ہے.اے خدا! اگر وہ قابل اصلاح نہیں تو تو ان میں تفرقہ ڈال دے تا کہ ملک تباہ ہونے سے بچ جائے اور تا مسلمان آئندہ پیدا ہونے والے خطرات سے محفوظ رہیں.اگر تم سچے دل سے دعائیں کرو تو خدا تعالیٰ مسلمانوں کی حفاظت کا سامان پیدا کر دے گا.لوگ ان باتوں کو نہیں سمجھتے لیکن تم وہ ہو جنہوں نے اپنی آنکھوں.وہ ހނ مشاہدہ کیا، کانوں سے سنا اور اپنے ہاتھوں سے چھوا.غرض تم نے خدا تعالیٰ کی طاقتوں کی

Page 319

$1954 309 خطبات محمود ہر رنگ میں تحقیقات کر لی ہے.اگر تم دعاؤں میں لگ جاؤ تو یقیناً یہ بات خدا تعالیٰ کی طاقت سے باہر نہیں.وہ ملک کی حفاظت کا کوئی نہ کوئی راستہ پیدا کر دے گا.حضرت نظام الدین صاحب اولیاء کے متعلق مشہور ہے کہ ایک دفعہ آپ کے خلاف بعض حاسدوں نے بادشاہ کے کان بھرے کہ آپ بادشاہ کے خلاف منصوبہ کر رہے ہیں اور اس کی حکومت کا تختہ الٹنا چاہتے ہیں.بادشاہ بیوقوفی سے اُن کی بات میں آ گیا اور اُس نے فیصلہ کیا کہ وہ آپ کو سزا دے اور وہ اُس وقت ایک مہم پر جا رہا تھا.اُس نے کہا کہ میں اس مہم سے واپس آ کر آپ کو گرفتار کروں گا.آپ کے مریدوں نے جن میں بڑے بڑے درباری اور رؤساء بھی شامل تھے جب یہ بات سنی تو انہوں نے آپ سے کہنا شروع کیا کہ آپ کوشش کریں اور بادشاہ کو یقین دلائیں کہ آپ اُس کے وفادار خادم ہیں.شاید اُس کا خیال بدل جائے.لیکن حضرت نظام الدین صاحب اولیاء کسی طرح راضی نہ ہوئے.جب بادشاہ مہم فارغ ہو کر واپس لوٹا تو مریدوں نے پھر کہا کہ اب تو بادشاہ کی واپسی میں بہت تھوڑے دن رہ گئے ہیں ہمیں کوئی ایسی تجویز کرنی چاہیے کہ بادشاہ اپنا فیصلہ بدل لے.حضرت نظام الدین صاحب اولیاء نے فرمایا ނ هنوز دتی دور است یعنی ابھی دتی بہت دور ہے.بادشاہ منزل بمنزل دہلی کے قریب آتا گیا اور مرید اس کے پاس آتے اور کہتے آپ ہمیں کوئی مشورہ نہیں دیتے کہ آخر ہم کیا کریں.بادشاہ دتی پر کی طرف بڑھتا آ رہا ہے اور وہ واپس آتے ہی اپنے فیصلہ پر عمل کرے گا.اس حضرت نظام الدین صاحب اولیاء نے پھر یہی جواب دیا کہ ہنوز دلی دور است، ابھی دتی بہت دور ہے.یہاں تک کہ بادشاہ شہر کے دروازہ پر پہنچ گیا اور اسلامی طریق کے مطابق شہر سے باہر ایک محل میں ٹھہرا.دوسرے دن صبح اُس نے شہر میں داخل ہونا تھا.حضرت نظام الدین صاحب اولیاء کے مرید آپ کے پاس آئے اور انہوں نے عرض کیا کہ بادشاہ اب شہر کے دروازہ پر پہنچ گیا ہے اور صبح شہر میں داخل ہو گا اب تو کوئی تجویز کرنی چاہیے.مگر آپ نے پھر یہی جواب دیا کہ

Page 320

$1954 310 خطبات محمود ہنوز دلی دور است اُس رات بادشاہ کی مہم سے واپسی کی خوشی میں ولی عہد اور شہر کے رؤساء نے ایک جشن کیا اور شہر سے باہر جو عمل تھا اور جہاں بادشاہ مقیم تھا وہاں ایک محفلِ رقص و سرود منعقد کی.یہ محفل محل کی چھت پر منعقد کی گئی.اتفاقاً چھت کمزور تھی اور خوشی میں ہجوم بہت زیادہ جمع ہو گیا تھا.اچانک چھت گر پڑی اور بادشاہ اُس چھت کے نیچے دب کر مر گیا.صبح بجائے اس کے کہ بادشاہ شہر میں داخل ہوتا اور حضرت نظام الدین صاحب اولیاء کو سزا دیتا وہ خود اس جہان سے رخصت ہو گیا.حضرت نظام الدین صاحب اولیاء نے مریدوں کو بلایا اور کہا میں نہیں کہتا تھا کہ ابھی دتی دور ہے تم خوانخواہ گھبرا رہے تھے.1 پس ہمارا خدا ایسی طاقت رکھتا ہے کہ وہ تمام برسر اقتدار لوگوں کو جو سمجھتے ہیں کہ ہم جو چاہیں کر لیں راہِ راست پر لے آئے.اُن کی جانیں، اُن کی طاقت اور اُن کے جتھے سب اس کے قبضہ قدرت میں ہیں.پس تم دعائیں کرو کہ وہ خدا جس نے پاکستان بنایا ہے ایسے طاقتور لوگوں کو جو دانستہ یا نادانستہ اس ملک سے غداری کر رہے ہیں یا اس کی ترقی کی راہوں کو مسدود کر رہے ہیں راہ راست پر لائے.اور اگر وہ راہ راست پر نہ آئیں تو ان کو آپس میں لڑوا دے اور پاکستان کو کمزور ہونے سے بچالے تا کہ مسلمان ہر قسم کے فتنہ سے محفوظ رہیں.پس آئندہ چند دنوں میں چونکہ ایک اہم سوال ملک اور قوم کے سامنے آ رہا ہے اور اس میں مسلمانوں کے لیے برکت یا عذاب کا فیصلہ ہونے والا ہے اس لیے تم دعائیں کرو کہ اس فیصلہ میں مسلمانوں کے لیے برکت اور بھلائی کی صورت پیدا ہو.(الفضل 26 /اکتوبر 1954ء ) 1 : فرهنگ آصفیه مرتبه سید احمد دہلوی جلد سوم ، چہارم صفحہ 738لا ہور 1901ء

Page 321

$1954 311 (31) خطبات محمود ابھی خدشات باقی ہیں اس لیے تم دعاؤں میں لگے رہو تا خدا تعالیٰ اسلام کو ہر قسم کے دشمنوں سے محفوظ رکھے (فرموده 29 /اکتوبر 1954ء بمقام ربوہ) تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: میں نے پچھلے جمعہ کے خطبہ میں جماعت کے دوستوں کو اس طرف توجہ دلائی تھی کہ ہ سب مل کر دعائیں کریں کہ اللہ تعالیٰ پاکستان کو ان مصائب سے جو اس کے سامنے آ رہے ہیں محفوظ رکھے.گو خطبہ میں تو یہ فقرہ نہیں چھپا لیکن میں نے کہا تھا کہ اگر تمہارا خدا چاہے تو تین دن کے اندر اندر ان لوگوں کی طاقت کو توڑ دے اور برسر اقتدار لوگ جو اس وقت شرارت کر رہے ہیں اُن کے فتنہ سے ملک کو بچا لے.خدا کی قدرت دیکھو جمعہ کو میں نے یہ الفاظ کہے اور اتوار کو گورنر جنرل نے دستور ساز اسمبلی توڑ دی اور نئی وزارت بنانے کے لیے مسٹر محمد علی کو دعوت دے دی.گویا خطبہ پر پورے تین دن بھی نہیں گزرے تھے کہ وہ خطرات جو پاکستان کو پیش آ رہے تھے عارضی طور پر ٹل گئے.عارضی طور پر میں نے اس لیے کہا ہے کہ میں نہیں جانتا کہ اس عارضی انتظام سے کیا نتیجہ نکلتا ہے.بہر حال جو کچھ واقع ہوا ہے اس سے

Page 322

$1954 312 خطبات محمود معلوم ہو گیا ہے کہ ہماری دعائیں کس طرح قبول ہوتی ہیں.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ موجودہ خطرات ایک وقت تک ٹل گئے ہیں اور آئندہ کا علم خدا تعالیٰ کو ہے.وہی جانتا ہے کہ آئندہ کیا تو ہو گا.انسان تو حاضر کو دیکھتا ہے.اگر خدا تعالیٰ باوجود اس کے کہ ہم میں کوئی طاقت نہیں، ہماری کوئی حیثیت نہیں ہماری دعاؤں کے نتیجہ میں حاضر کو بدل سکتا ہے تو اگر ہم دعائیں جاری ہے رکھیں تو وہ مستقبل کو بھی اچھا بنا سکتا ہے.حاضر کو بدلنا بظاہر مشکل نظر آتا ہے لیکن مستقبل کے لنے میں چونکہ کچھ وقت مل جاتا ہے اس لیے یہ کام بظاہر آسان ہوتا ہے.میں سمجھتا ہوں کہ آخری ایام میں دستور ساز اسمبلی ایک کھیل بن کر رہ گئی تھی اور بعض قوانین تو اتنی جلدی جلدی پاس کیے گئے تھے کہ ان کا دستور ساز اسمبلی کے اکثر ممبروں اور گورنمنٹ کے افسروں کو بھی پتا نہیں لگا.مثلاً دستور ساز اسمبلی نے ایک فیصلہ یہ کیا تھا کہ گورنر جنرل کے سب خصوصی اختیارات سلب کر لینے چاہیں ، اسے کوئی اختیار حاصل نہ ہو، وہ محض رسمی طور پر گورنر جنرل کی مسٹراے کے بروہی جو قانون کے وزیر تھے اور اسمبلی کے انچارج تھے انہوں نے اعلان کیا کہ مجھے بھی پتا نہیں لگا کہ یہ قانون کب پاس کر لیا گیا ہے.اس کے معنے یہ ہیں کہ آخری ایام میں بعض فیصلے افراتفری میں کیے گئے تھے تا کہ نئی اسمبلی کے آنے سے پہلے پہلے ایسے تغیرات پیدا کر دیئے جائیں کہ دوسری پارٹی سے مقابلہ کیا جا سکے.اب موجودہ حالت میں ایک تغیر تو یہ نظر آتا ہے کہ مرکزی کابینہ میں ایسے آدمی آگے آگئے ہیں جو اگر چہ لیگ کے ممبر تو نہیں لیکن کسی نہ کسی رنگ میں انہوں نے ملک کی خدمت کی ہے.مثلاً آج ہی حکومت کا یہ اعلان اخبارات میں چھپا ہے کہ سرحد کے سُرخ پوش لیڈر ڈاکٹر خان صاحب کو وزارت میں لے لیا گیا ہے.کسی گزشتہ جلسہ سالانہ کی ایک تقریر میں میں نے اس بات کا ذکر کیا تھا کہ میں پشاور کے سفر میں ڈاکٹر خان صاحب سے ملا اور ایک گھنٹہ تک ان سے گفتگو کی.اور تقریر میں میں نے یہ بھی بیان کیا تھا کہ اس گفتگو کا جو اثر مجھ پر ہوا وہ یہی تھا کہ آپ اسلام اور وطن کے خیر خواہ ہیں.دوسرے مسلمان جو چاہیں ان کے متعلق خیال کریں مگر جہاں تک ان کا سوال ہے، وہ ان کی ترقی کے خواہاں ہیں.سرکاری اعلان میں یہ بتایا گیا ہے کہ انہیں نئی کابینہ میں لے لیا گیا ہے اور شاید ابھی دوسری پارٹیوں کے نمائند

Page 323

$1954 خطبات محمود لوگوں پر 313 بھی مرکزی کابینہ میں لیے جائیں.یہ ساری باتیں ایسی ہیں کہ جن سے معلوم ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ ایسے سامان پیدا کرنا چاہتا ہے کہ جن کے ذریعہ وہ مسلمانوں کو اُن خطرات سے بچا لے جو انہیں آئندہ پیش آنے والے ہیں.ذاتی طور پر میری تو یہی رائے تھی کہ مسلم لیگ کو جس نے پاکستان کو حاصل کرنے میں نمایاں کام کیا ہے کچھ مدت کام کرنے کا موقع دیا جائے تا کہ وہ اپنے اس کام کی تکمیل کر سکے جس کے کرنے میں اس نے بہت سی قربانیاں کی تھیں.لیکن اس بات کا بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ لیگ کے وہ ممبر جنہوں نے پاکستان کے لیے قربانیاں کی تھیں ان میں سے ایک حصہ ب مسلم لیگ سے نکل گیا ہے یا انہیں باہر نکال دیا گیا ہے.اور موجودہ مسلم لیگ کچھ تو اُن پر مشتمل ہے جنہوں نے پاکستان کے لیے قربانیاں کی تھیں اور کچھ اُن لوگوں پر مشتمل ہے جنہوں نے قربانیاں تو نہیں کی تھیں ہاں بعد میں عزت کے لیے شامل ہو گئے تھے.مسلم لیگ سے اُن لوگوں کا نکل جانا جنہوں نے ملک کی خاطر قربانیاں کی تھیں ایک ایسی چیز ہے جو دل میں افسوس پیدا کرتی ہے.پھر موجودہ ممبروں میں سے بعض سے ایسی حرکات سرزد ہوئی ہیں جو تکلیف دینے والی ہیں.مثلاً مسلم لیگ کے ایک ممبر جو بڑی حیثیت کے ہیں گورنمنٹ کی طرف سے ایک دورہ پر باہر گئے اور اُس جگہ انہوں نے تین چار تقاریر کیں.ان تقاریر میں انہوں نے کہا کہ ہمارے نزدیک احمدی مرتد اور واجب القتل ہیں.اگر ہمیں طاقت ملے تو ہم انہیں قتل کر دیں ورنہ ہم انہیں اقلیت ضرور قرار دے دیں گے.گویا وہ حکومت جس نے اس قسم کی تقاریر کو فتنہ و فساد کا موجب قرار دیا اور فسادات کی تحقیقات کے لیے ایک کورٹ آف انکوائری مقرر کی جس نے یہ فیصلہ کیا کہ اگر اس قسم کی تقاریر ہوتی رہیں تو حکومت زیادہ دیر تک چل نہیں سکتی.اس قسم کی تقاریر حکومت کی جڑوں پر تبر رکھنے کی مصداق ہیں.اس حکومت کا ایک نمائندہ باہر جاتا ہے اور اس قسم کی تقاریر کرتا ہے.اس غیر ملک کی حکومت نے اس کے خلاف تحقیقات کا حکم دیا.اتنے میں وہ پاکستان آ گیا اور اس طرح اس کی جان بچ گئی.بہر حال اس نے فتنہ پیدا کرنے میں کوئی کوتاہی نہیں کی.ہماری مقامی جماعت نے عقلمندی سے کام لیا کہ جب پولیس نے کارروائی شروع کی اور احمدیوں سے پوچھا کہ اگر وہ چاہیں تو مقامی غیر احمدی

Page 324

$1954 314 خطبات محمود معززین کی ضمانتیں لے لی جائیں تو انہوں نے کہا کہ مقامی لوگوں کا کیا قصور ہے، انہوں.غیر حکومت کا نمائندہ ہونے کی وجہ سے اس کا ادب اور احترام کیا تھا، انہیں کیا پتا تھا کہ یہ شخص اپنی تقریر میں کیا کہنے والا ہے.جماعت کے اس رویے کا دوسرے مسلمانوں پر بہت اچھا اثر ہوا اور انہوں نے اس بات کا اظہار کیا کہ احمدیوں نے بہت اچھا نمونہ دکھایا ہے.پھر انہی ایام میں جب لیگ کنونشن ہونے والی تھی اس کے ایک ممبر کی طرف سے ریزولیوشن پیش ہوا.اگر چہ کنونشن نہ ہوئی اور وہ ریزولیوشن بھی پیش نہ ہوا تاہم اس نے اپنی طرف سے یہ تحریک کر دی تھی کہ لیگ کے ممبر اسمبلی میں پاس کر دیں کہ ملک میں دوسری شادی ممنوع قرار دے دی جائے اور یہ قاعدہ بنا دیا جائے کہ مجسٹریٹ کی اجازت کے بغیر کوئی شخص دوسری شادی نہ کر سکے.یہ قانون اس قسم کا ہے کہ سوائے امریکہ کے کسی ملک میں بھی رائج ہے نہیں.امریکہ میں دوسری شادی ممنوع ہے لیکن دوسری جگہوں پر ایسا نہیں.مثلاً انگلستان وہاں یہ قانون ہے کہ پادری دوسری شادی نہیں کر سکتے.چنانچہ جب کوئی دوسری شادی کے لیے پادری کے پاس آئے گا تو وہ اس سے انکار کر دے گا.اور پادری کے انکار کی وجہ شادی گورنمنٹ تسلیم نہیں کرے گی.اسی طرح رجسٹریشن کا محکمہ ہے وہ دوسری شادی کی رجسٹریشن سے انکار کر دے گا.اس لیے وہ شادی قانونی شادی نہیں کہلائے گی.لیکن اس کے یہ معنی ہیں کہ عیسائیوں پر اس قانون کا اطلاق ہو گا دوسروں پر نہیں.اگر کوئی دوسری شادی اسلامی یا ہندو طریق پر کر لے تو حکومت کہے گی کہ ہم دوسری بیوی کو قانونی طور پر بیوی تسلیم بنے نہیں کرتے.لیکن یہ کہ شروع سے ہی دوسری شادی نہ کی جائے اس میں وہ روک نہیں.گی.چنانچہ وہاں غیر مذاہب کے لوگ دوسری شادیاں کرتے ہیں لیکن چونکہ وہ شادیاں قانونی شادیاں نہیں ہوتیں اس لیے وہ اپنی زندگی میں جائیداد کا ایک حصہ دوسری بیوی کے لیے وقف کر دیتے ہیں.حکومت صرف یہ کہہ دیتی ہے کہ ہمارے ہاں یہ شادی ، شادی شمار نہیں ہو گی.یہ نہیں کہے گی کہ اپنے مذہب کے مطابق دوسری شادی کرنا مجرم ہے.وہ اسے شادی تسلیم نہیں کرے گی.اور اگر خاوند اُس بیوی کے لیے اپنی جائیداد کا کچھ حصہ اپنی زندگی میں ہی وقف کر ے تو وہ اس سے منع نہیں کرے گی.لیکن اس قسم کا مسودہ مسلم لیگ کی مجلس عامہ میں پیش

Page 325

$1954 315 خطبات محمود اور پھر ایک مسلمان ممبر کی طرف سے پیش ہونا در حقیقت مذمت کا ووٹ تھا، محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خلاف جن کی گیارہ بیویاں تھیں یہ مذمت کا ووٹ تھا، حضرت ابوبکر کے خلاف جن کی ایک سے زیادہ بیویاں تھیں، یہ مذمت کا ووٹ تھا، حضرت عمرؓ کے خلاف جن کی ایک سے زیادہ بیویاں تھیں، یہ مذمت کا ووٹ تھا، حضرت عثمان کے خلاف جن کی ایک سے زیادہ بیویاں تھیں، یہ مذمت کا ووٹ تھا، حضرت امام حسنؓ کے خلاف جن کی ایک سے زیادہ بیویاں تھیں.گویا جن لوگوں پر اسلام کی بنیاد تھی ان کے خلاف یہ مذمت کا ووٹ تھا.پھر اُس زمانہ سے لے کر اب تک جتنے بزرگ اسلام میں پیدا ہوئے ہیں اُن کے خلاف بھی مذمت کا ووٹ تھا.کیونکہ حقیقت یہ ہے کہ جتنے اولیاء اسلام میں گزرے ہیں اُن میں سے اکثر کی بیویاں ایک سے زیادہ تھیں.امریکہ اس قسم کے قانون کو جاری کرنے میں معذور تھا کیونکہ وہاں کی حکومت اسلامی حکومت نہیں.لیکن یہ کتنی شرمناک بات ہے کہ ایک اسلامی مجلس میں ایک مسلمان کے منہ سے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خلاف، آپ کے خلفاء کے خلاف، آپ کے نواسے کے خلاف اور آپ کی امت کے اولیاء کرام کے خلاف اس قسم کی بے حیائی کے کلمات نکلیں.یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ یہ قانون پہلے زمانہ میں تو بُرا نہیں تھا لیکن اب بُرا ہو گیا ہے.شریعت بدلتی نہیں.یہ تو ہوسکتا ہے کہ ایک چیز پہلے وقتی طور پر کسی مصلحت کے ماتحت جائز ہو پھر خدا تعالیٰ نے اُس سے منع کر دیا ہو.لیکن یہ بات بالکل نئی ہے کہ خدا تعالیٰ نے تو ایک چیز کو جائز قرار دیا ہولیکن تیرہ سوسال کے بعد ایک مسلمان یہ کہے کہ اب وہ بات جائز نہیں.یہ ویسی ہی بات ہے جیسے مشہور ہے کہ کوئی جاہل پٹھان تھا.اس نے فقہ پڑھی ہوئی تھی.پٹھانوں میں بالعموم کنز پڑھائی جاتی ہے اور فقہ کا عام رواج ہے.اس پٹھان نے بھی کنز پڑھی ہوئی تھی.اس کے بعد اس نے حدیث پڑھنی شروع کر دی.ایک دن یہ حدیث آگئی کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھ رہے تھے کہ حضرت امام حسن روئے اور آپ نے انہیں گود میں اُٹھا لیا.اور جب سجدہ کرنے لگے تو انہیں نیچے بٹھا دیا.حنفی فقہ کے لحاظ سے اگر نماز میں کوئی بڑی حرکت واقع ہو تو اس سے نماز ٹوٹ جاتی ہے.چنانچہ یہ حدیث پڑھتے ہی وہ

Page 326

$1954 316 خطبات محمود پٹھان بجائے یہ کہنے کے کہ کنز والے سے غلطی ہو گئی ہے اصل میں مسئلہ اس طرح ہے اپنی کم عقلی کی وجہ سے کہنے لگا کہ خو! محمد صاحب کا نماز ٹوٹ گیا.گویا شریعت کنز والے نے بنائی تھی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل نہیں ہوئی تھی.یہی حال اس مسلمان ممبر کا ہے جس نے دوسری شادی کی ممانعت کا ریزولیوشن پیش کیا.گویا نَعُوذُ بِاللهِ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حقوق مستورات کو نہ سمجھتے تھے.نَعُوذُ باللهِ حضرت ابوبکر کم عقل تھے، حضرت عثمان کم عقل تھے، حضرت امام حسن کم عقل تھے جنہوں نے ایک سے زیادہ شادیاں کیں.پھر اس کے نزدیک اولیائے امت کا اکثر حصہ کم عقل تھا جن کی ایک سے زیادہ بیویاں تھیں.عقلمند صرف وہ مسلمان ممبر تھا جس نے شاید کبھی نماز بھی نہ پڑھی ہو.ہمارے لیے تو یہی بڑی مصیبت تھی کہ غیر مسلم اسلام کے خلاف حملہ کر رہے ہیں اور ہم اُن کا مقابلہ کر رہے ہیں.اب یہ دوسری مصیبت آن پڑی کہ اسلامی حکومت کے قیام کے بعد خود بعض مسلمان کہلانے والے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر حملہ کرنے لگ گئے.حالانکہ کثرت ازدواج کا مسئلہ اپنے اندر بڑی بھاری حکمت رکھتا ہے اور مسلمانوں نے اس حکمت کو نہ سمجھ کر بہت بڑا نقصان اُٹھایا ہے اور اگر اب بھی انہوں نے اس کی حکمت کو نہ سمجھا تو وہ اور بھی زیادہ نقصان اُٹھائیں گے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں تَزَوَّجُوا وَدُودًا وَلُودًا فَإِنِّي مُفَاخِرٌ بِكُمُ الْأُمَمَ وَمُكَاثِرُ بِكُمْ -1- تم ایسی عورتوں سے شادیاں کرو جو محبت کرنے والی اور بہت بچے جننے والی ہوں کیونکہ میں قیامت کے دن تمہارے ذریعہ سے دوسری امتوں پر فخر کرنے والا ہوں اور ان کے مقابلہ پر اپنی امت کی کثرت کو پیش کرنے والا ہوں.اب یہ اسی طرح ہوسکتا ہ ہے کہ اسلام تمام دنیا میں پھیل جائے.اور اس کی دو ہی صورتیں ہو سکتی ہیں.اول یہ کہ تبلیغ کی جائے.دوسرے یہ کہ کثرت ازدواج پر عمل کیا جائے.اگر ہر مسلمان مرد کی چار چار بیویاں ہوں اور ہر بیوی سے چار چار بچے ہوں تو وہ مرنے کے بعد مسلمانوں کی تعداد سولہ گنے کر جائے گا.اور اگر 1/4 حصہ آبادی کی بھی ایک سے زیادہ شادی ہو تو ہر نسل کے بعد مسلم آبادی چار گنا ہو جائے گی.پھر تبلیغ کی جائے اور دوسرے لوگوں کو اسلام میں داخل کیا جائے تو

Page 327

$1954 317 خطبات محمود آبادی اور بھی بڑھ جائے گی.اگر مسلمان اسلام کی اس تعلیم پر عمل کرتے تو آج ان کی اتنی کثرت ہوتی کہ کوئی ان پر ہاتھ نہ ڈال سکتا.جس زمانہ میں صوبہ بہار میں مسلمانوں کا قتل عام ہوا ہے اُس وقت قائد اعظم نے چندہ کی اپیل کی اور ہماری جماعت نے اپنی نسبت کے لحاظ سے اس چندہ میں بہت زیادہ حصہ لیا اور قائد اعظم نے جماعت کا شکریہ ادا کیا.اس کے علاوہ جماعت کی طرف سے طبی وفود بھی بھیجے گئے.اس سے وہاں کے مسلمانوں میں یہ خیال پیدا ہوا کہ مسلمانوں میں سے اگر کوئی فرقہ ان کی رہنمائی کر سکتا ہے تو وہ احمدی ہی ہیں.چنانچہ اسی سلسلہ میں ایک شخص قادیان آیا اور مجھ سے ملا اور اس نے کہا میں بہار سے آیا ہوں جو مصیبت ہم پر آئی ہے اُس کے متعلق آپ نے اخبارات میں پڑھا ہی ہوگا.میں نے کہا ہاں پڑھا ہے.اس نے کہا میں آپ سے مشورہ لینے آیا ہوں کہ اب ہم کیا کریں؟ میں نے دریافت کیا کیا آپ احمدی ہیں؟ اس نے کہا نہیں.میں نے کہا پھر آپ میرے پاس کیوں آئے ہیں؟ اس نے کہا میں آپ کے پاس اس لیے آیا ہوں کہ ہمیں اعتماد ہے کہ آپ جو رائے بھی ہمیں دیں گے وہ درست ہو گی.میں نے کہا میں نے اپنے پاس سے تو رائے دینی نہیں.میں نے تو جو رائے دینی ہے قرآن کریم اور حدیث کی رُو سے دینی ہے.میں نے پہلے بھی ایک مشورہ دیا تھا لیکن آپ لوگوں نے نہیں مانا.1923ء میں جب ملکانہ میں ارتداد شروع ہوا تو اُس وقت میں نے اعلان کیا تھا کہ مسلمانو! تبلیغ کرو تا تمہاری تعداد زیادہ ہو اور تا اسلام کی تعلیم تمام دنیا میں پھیل جائے لیکن آپ لوگوں نے میری بات نہ مانی اور رات دن اسی میں مشغول رہے کہ احمدیوں کو کافر قرار دیا جائے.بیشک ہماری جماعت تبلیغ کرتی تھی مگر اس کی تعداد بہت تھوڑی تھی.دوسرے مسلمانوں نے اس نیک کام میں اس کی مدد نہ کی بلکہ دوسرے مولوی تو یہاں تک کہتے تھے کہ تم بیشک دہر یہ ہو جاؤ، آریہ بن جاؤ لیکن احمدیت میں داخل نہ ہونا.اگر آپ لوگ اُس وقت ہمارے جی ساتھ تعاون کرتے ، ہم بھی تبلیغ کرتے اور آپ بھی تبلیغ کرتے تو آج تک لاکھوں لوگ اسلامی میں داخل ہو چکے ہوتے اور کروڑوں لوگوں کو اسلام کی خوبیوں کا علم ہو جاتا.یہ پہلی بات تھی جو میں نے بتائی لیکن آپ لوگوں نے نہ مانی.

Page 328

خطبات محمود 318 $1954 اب تئیس سال کے بعد بہار میں مسلمانوں کا قتلِ عام ہوا ہے.میں اب ایک ا علاج بتاتا ہوں لیکن تم نے پھر بھی میری بات نہیں مانتی.وہ کہنے لگا بتائیے.میں نے کہا تمہارے علاقہ میں ہیں پچیس فیصدی اچھوت ہیں.ان کی مالی حالت نہایت گری ہوئی ہے.یہاں سے سکھ لوگ جاتے ہیں اور وہ اُن کی لڑکیوں کو بیاہ لاتے ہیں.وہ قوم یا مذہب نہیں دیکھتے.وہ اپنی لڑکیاں صرف اس لیے بیاہ دیتے ہیں کہ وہ اچھا کھائیں گی ، اچھا پئیں گی.گورنمنٹ کا اندازہ ہے کہ ہر سال پانچ چھ ہزار لڑکیاں وہاں سے سکھ بیاہ لاتے ہیں.بہار میں چودہ فیصدی مسلمان ہیں.اگر ان میں سے نصف مرد ہوں تو سات فیصدی مسلمان مرد ہوئے.میں کہتا ہوں تم اس تعداد کو اور بھی کم کر لو، تم انہیں پانچ فیصدی سمجھ لو.اگر تم عیاشی کے لیے نہیں، کسی دنیوی خواہش کے لیے نہیں بلکہ محض خدا تعالیٰ اور اسلام کی خاطر ایک.زیادہ شادیاں کرو تو تمہاری تعداد بہت زیادہ ہو جائے گی.مثلاً اگر تم میں سے ہر مرد تین تین شادیاں کرے تو ایک ہی نسل سے تمہاری آبادی پانچ فیصدی سے پندرہ فیصدی ہو جائے گی.گویا پہلے اگر تم چودہ فیصدی تھے تو اب تم انتیس فیصدی ہو جاؤ گے.پھر آگے جو اولاد ہو گی وہ بھی شادی کرے گی.ہمارے ملک میں بالعموم ایک سال میں ایک فیصدی نسل بڑھتی ہے.اِس طرح تمہاری نسل چار فیصدی بڑھے گی.پھر اگر تمہاری اولاد اسی اصول پر عمل کرے تو تم دونسلوں میں پچاس فیصدی ہو جاؤ گے.لیکن میں نے کہا میں جانتا ہوں کہ تم لوگوں نے میری اس نصیحت پر عمل نہیں کرنا.اس لیے کہ اس وقت خود تم میں اسلام اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم سے محبت نہیں رہی.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی کئی باتیں جو حکمت سے پُر تھیں تم انہیں محض یورپ کی نقل میں ترک کر رہے ہو.پچھلی جنگِ عظیم کے بعد میں نے بعض جرمن مصنفین کی کتب پڑھیں.انہوں نے لکھا تھا کہ یہ مسئلہ اب قابلِ غور ہے کہ لوگ ایک سے زیادہ شادیاں کریں ورنہ ہماری قوم کی نسل ختم ہو جائے گی.دوسری جنگِ عظیم کے بعد تو حالات پہلے سے بھی زیادہ نازک ہو و گئے تھے.غرض تبلیغ اور کثرت ازدواج ایسے اہم مسائل ہیں کہ اگر مسلمان ان پر عمل کرتے

Page 329

$1954 319 خطبات محمود تو خوردبین لگا کر بھی کوئی غیر مسلم نظر نہ آتا لیکن مسلمانوں نے تبلیغ کے عظیم الشان حکم کو بھی چھوڑا اور کثرت ازدواج کے متعلق جو حکم دیا گیا تھا اُس پر بھی عمل پیرا نہ ہوئے.وہ شخص کہنے لگا ہم لوگ تو غریب ہیں.اگر ہم کثرت ازدواج کے حکم پر عمل کریں گے اور زیادہ اولاد پیدا کریں گے تو ہم بھوکے مر جائیں گے.ہم تو پہلے ہی بھوکوں مر رہے ہیں.ہماری اولاد کہاں سے کھائے گی.میں نے کہا یہاں قانونِ قدرت تمہاری مدد کرے گا.دنیا میں جتنی بغاوتیں ہوئیں ہیں وہ مالداروں نے نہیں کیں، غرباء نے کی ہیں.مالداروں نے یوں کوئی جتھا بنا لیا ہو تو اور بات ہے عام بغاوت کبھی اُن کے ذریعہ سے نہیں ہوئی (جیسے ہمارے ملک میں اسلامی جماعت ہے.محض بعض مفادات کے حصول کی خاطر اس نے ایک جتھا بنا لیا ہے.یہ ایک استثنائی اور بناوٹی صورت ہے).پس امراء کی وجہ سے کسی ملک میں بغاوت کی عام آگ نہیں لگی.جب بھی کسی ملک میں بغاوت کی آگ لگی ہے ، بھوکوں سے لگی ہے.فرانس کی تاریخ پڑھ لو جب وہاں بغاوت ہوئی ہے، غرباء اور بھوکوں کی وجہ سے ہی ہوئی ہے.عوام بادشاہ کے خلاف اُٹھے.وہ فاقہ زدہ تھے.ان کی مالی حالت بالکل گر چکی تھی.انہوں نے جوش میں آ کر قصر شاہی کے سامنے مظاہرہ کیا.امراء اپنی حالت میں مست تھے.انہیں غرباء کی زبوں حالی کا احساس تک نہیں تھا.وہ سمجھتے تھے کہ جس طرح ہم بے فکر ہیں اُسی طرح دوسرے لوگ بھی ہوں گے حالانکہ غرباء فاقے کر رہے تھے.چنانچہ وہ ہزاروں کی تعداد میں جمع ہوئے اور قصر شاہی کے دروازہ کے سامنے جا کر انہوں نے فرانسیسی زبان میں روٹی روٹی کا نعرہ لگایا.ملکہ محل سے باہر گئی ہوئی تھی.جب وہ واپس لوٹی اور اس نے ہجوم کو دیکھا تو اس نے دریافت کیا کہ یہ کیسا ہجوم ہے؟ لوگوں نے بتایا کہ یہ فاقہ زدہ لوگ ہیں اور روٹی روٹی پکار رہے ہیں.تاریخ میں یہ واقعہ آتا ہے اور لوگ اسے پڑھ کر ہنستے ہیں کہ وہ ملکہ کس قدر احمق تھی.اس نے کہا اگر ان لوگوں کو روٹی نہیں ملتی تو کیک کھا لیں.اُس احمق کو یہ پتا نہیں تھا کہ جس شخص کو روٹی نہیں ملتی اُسے کیک تو کسی صورت میں نہیں مل سکتے.غرض فرانس میں جو بغاوت ہوئی وہ غرباء نے ہی کی تھی.روس میں جو بغاوت ہوئی اور جس کے نتیجہ میں بالشوازم قائم ہوئی وہ بھی غرباء ہی کے ذریعہ سے ہوئی.پھر جرمنی میں بغاوت ہوئی یہ بھی غرباء نے ہی کی تھی.اگر عوام

Page 330

$1954 320 خطبات محمود کی حالت خراب نہ ہوتی تو ہٹلر کسی صورت میں بھی ترقی نہیں کر سکتا تھا.اس نے لوگوں کو بتایا کہ حکومت اور امراء تمہارا خون چوس رہے ہیں، وہ تمہارے ہمدرد نہیں ہیں.اس طرح وہ اس کے ہاتھ پر جمع ہو گئے.اس لیے اس نے اپنی پارٹی کا نام نیشنل سوشلسٹ رکھا.پھر اٹلی میں مسولینی آیا.وہ بھی پہلے سوشلسٹ تھا.اس نے اپنے نظام میں یہ چیز رکھی کہ ملک میں جو مزدوروں اور پیشہ وروں کی انجمنیں تھیں اُن سے حکومت کا انتخاب کرایا.غرض جب بھی کسی ملک میں عام بغاوت ہوئی ہے وہ بھوکوں سے ہوتی ہے.میں نے اس شخص سے کہا تمہارے لیے خدا تعالیٰ نے یہ رستہ کھلا رکھا ہے.جب تمہارے بچے بھوکے ہوں گے تو وہ دولت ہے قابض لوگوں کے خلاف بغاوت کر دیں گے.تم انہیں بھوکے مرنے دو کیونکہ اسی میں تمہاری نجات ہے.تم اپنی نسل بڑھاتے جاؤ.جب تمہاری اولاد بھوکوں مرے گی تو خود اُٹھے گی اور حکومت پر قبضہ کرے گی لیکن میری ان باتوں کا اُس پر کوئی اثر نہ ہوا.وہ شاید یہ سمجھا کہ میں تو انہیں عقلمند سمجھ کر آیا تھا لیکن انہوں نے تو ملاؤں والی باتیں شروع کر دی ہیں اور قرآن او حدیث کو پیش کرنا شروع کر دیا ہے.آج تو یہ زمانہ تھا کہ گاندھی جی کی تعلیم اور فلسفہ کو پیش کیا جاتا، یورپین تہذیب اور تعلیم کو پیش کیا جاتا.مگر یہ تو کہیں کے کہیں چلے گئے.لیکن حقیقت یہ ہے کہ مسلمانوں کی ترقی کا راز انہی دو چیزوں میں مضمر ہے کہ تبلیغ کی جائے اور کثرت ازدواج سے اولاد کو بڑھایا جائے.تبلیغ سے ایک یہ فائدہ بھی ہوگا کہ مسلمان اپنی اصلاح کریں گے کیونکہ جب وہ دوسرے لوگوں کے پاس جائیں گے اور انہیں اسلام کی دعوت دیں گے تو وہ ان کی حالت کو دیکھ کر یہ کہیں گے کہ تم خود نماز نہیں پڑھتے ، تم خود حج نہیں کرتے ، تم خود زکوۃ نہیں دیتے، تم خود غرباء اور مساکین کا خیال نہیں رکھتے پھر تم ہمیں یہ تعلیم کس طرح دیتے ہو؟ اس پر تبلیغ کرنے والا شرمندہ ہو گا اور اپنی اصلاح کرے گا.پھر تبلیغ کے نتیجہ میں یہ بات لازمی ہے کہ دوسرے لوگ اسلام میں داخل ہوں گے اور اس طرح مسلمانوں کی تعداد بڑھے گی اور کثرت ازدواج سے تعداد اور بھی بڑھے گی.پھر یہ بھی ایک قانون ہے کہ جب کوئی قوم بڑھنا شروع کرتی ہے تو دوسری قوم کی تعداد خود بخود کم ہونا شروع ہو جاتی ہے.امریکہ میں یورپین گئے تو ان لوگوں کی آبادی روز بروز

Page 331

$1954 321 خطبات محمود ا بڑھتی گئی اور ریڈ انڈینز جو پہلے لاکھوں کی تعداد میں تھے ان کی نسل ختم ہونے لگی.پہلے وہ لاکھوں کی تعداد میں تھے اور اب ان کی کل تعداد اندازاً دس ہزار ہے.آسٹریلیا میں بھی یہی ہوا.تاریخ سے ہمیں کوئی ایسا ثبوت نہیں ملتا کہ حکومت نے پرانے باشندوں کو قتل کر کے ختم کیا ہو لیکن آجکل وہ صرف چند درجن کی تعداد میں ہیں.غرض جب کوئی قوم بڑھنا شروع کر دیتی ہے تو دوسری قوم پر نفسیاتی اثر پڑتا ہے کہ اب ہم مرے اور واقع میں ان کی نسل کم ہونا شروع ہو جاتی ہے.پس اگر مسلمانوں کی تعداد بڑھے گی تو قانونِ قدرت کے ماتحت جو ہر جگہ چل رہا ہے اور ہر ملک میں اس کا اثر نظر آتا ہے اور اس میں کوئی اختلاف نظر نہیں آتا دوسری اقوام کی تعداد کم ہوتی چلی جائے گی.ہم نے دنیا میں کہیں نہیں دیکھا کہ دونوں مخالف کیمپ ہوں اور پھر دونوں کی نسل بڑھ رہی ہو.جب بھی کہیں دو مخالف کیمپ ہوں گے ان میں سے ایک کی تعداد بڑھے گی تو دوسرے کی تعداد خود بخود کم ہونا شروع ہو جائے گی.تاریخی شواہد اس کے حق میں ہیں.مسلم لیگ کے بعض ممبر بجائے اس کے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے شکر گزار تے کہ آپ اتنی اعلیٰ اور شاندار تعلیم لائے ، بجائے اس کے کہ وہ صحابہ کی قدر کرتے کہ انہوں نے اسلام کی تعلیم پر عمل کر کے دکھا دیا وہ خود مسلمان کہلانے کے باوجود حیا اور ایمان سے اتنے دور ہو گئے کہ انہوں نے تقاضا کیا کہ اب کثرت ازدواج کو حکماً روکا جائے.اگر اس قسم کی حکومت قائم ہو جاتی تو معلوم نہیں وہ اسلام کے خلاف کیا کیا کرتی ؟ عوام تو صرف نعرے لگاتے ہیں.ان کے سامنے کچھ بھی ہو وہ زندہ باد کا نعرہ لگا دیں گے.ایک دفعہ ایک امریکن نمائندہ ایشیا کے حالات معلوم کرنے کے لیے پاکستان آیا.وہ جی مجھ سے بھی ملنے آیا.وہ یہ دیکھنے آیا تھا کہ پاکستان میں اور ایشیا کے دوسرے ممالک با کمیونزم کے پھیلنے کے امکانات کس حد تک ہیں.اس نے کہا مجھے یہ دیکھ کر بڑی خوشی ہوئی ہے کہ پاکستان میں کمیونزم پنپ نہیں سکتا.میں نے کہا اگر تم نے یہ نتیجہ نکالا ہے تو تم اپنے ملک کے لوگوں کو گمراہ کرو گے.اس نے کہا کیسے؟ پاکستان کے باشندوں کی اکثریت مسلمان ہے اور اسلام میں ایسے احکام پائے جاتے ہیں جو کمیونزم کو بڑھنے نہیں دیتے.میں نے کہا تم صحیح تحقیقات نہیں کر سکے.کمیونسٹ جب بھی شرارت کرائیں گے یہاں کرائیں گے.اس نے کی

Page 332

$1954 322 خطبات محمود کہا یہ کیسے ہو سکتا ہے؟ یہاں تو اکثر تعداد ایسے لوگوں کی پائی جاتی ہے جو مسلمان ہیں اور مذہباً کمیونزم کے خلاف ہیں اور کمیونسٹ نہایت تھوڑی تعداد میں ہیں.میں نے کہا آج دنیا میں کوئی ملک ایسا نہیں جو دوسرے ملک کی مدد کے بغیر لڑائی جاری رکھ سکے.بھارت میں کمیونسٹ زیادہ ہیں اور پاکستان میں کم.بھارت کے کمیونسٹ پہلے پاکستان میں شرارت کرائیں گے تاکہ بوقت ضرورت ان کی مدد ہو سکے.لیکن اگر بھارت میں شرارت ہو تو چونکہ پاکستان میں کمیونسٹ بہت کم تعداد میں پائے جاتے ہیں اس لیے یہ بھارتی کمیونسٹوں کی مدد نہیں کر سکیں گے.پس اگر کوئی سیاسی تغیر واقع ہوا تو پہلے یہاں ہو گا پھر ہندوستان میں ہو گا.دوسری بات ہے کہ یہاں اسلام کی تعلیم بیشک موجود ہے لیکن اسلامی کہلانے والی جماعت ہی کمیونسٹ ہے.اس ملاقات سے پہلے یہ بات مشہور تھی کہ اسلامی جماعت کو کسی بیرونی ملک سے امداد ملتی ہے اور وہ بیرونی ملک امریکہ ہے.مسلم لیگ کے ایک سیکرٹری نے بھی مجھے بتایا کہ اسلامی جماعت کو امریکہ سے مدد آ رہی ہے.لیکن میں سمجھتا ہوں کہ یہ بات درست نہیں.دینے والا بتاتا تو نہیں لیکن اس امریکن کے سامنے جب میں نے یہ فقرہ کہا کہ یہاں ایک اسلامی جماعت کہلانے والی ہی کمیونسٹ ہے تو وہ بے ساختہ کہنے لگا امریکہ میں تو ہم انہی کو اسلام کا سب سے بڑا نمائندہ سمجھتے ہیں.اس سے میں نے معلوم کر لیا کہ اسلامی جماعت کے متعلق مشہور ہے کہ اُسے امریکہ سے مدد آ رہی ہے یہ درست ہے اور اب تو تازہ اطلاع نے اس کی اور تصدیق کر دی ہے کہ ہمارے آدمیوں نے اطلاع دی ہے کہ اسلامی جماعت کا ایک وفد جو چار آدمیوں پر مشتمل ہے امریکہ کا مخفی دورہ کر رہا ہے.بہر حال میں نے اُس امریکن سے کہا آپ نے حالات کا پوری طرح معائنہ نہیں کیا.کسی سے بعض باتیں سُن لی ہیں اور اُنہی پر اعتبار کر لیا ہے.لیکن یہاں تو یہ حالت ہے کہ اس بات کا سوال ہی نہیں کہ اسلام میں کیا باتیں پائی جاتی ہیں.ہمارا تو ملک نعروں پر چل رہا ہے.مثلاً ہم یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ قرآن کریم کی کوئی آیت بلکہ کوئی شوشہ بھی منسوخ نہیں اور آپ سمجھ سکتے ہیں کہ اس میں قرآن کریم اور اسلام کی برتری ہے لیکن دوسرے لوگ کہتے ہیں کہ قرآن کریم کا ایک حصہ منسوخ ہے.اب تم کسی ملا کو کسی سٹیج پر کھڑا کر دو اور وہ یہ کہے کہ

Page 333

$1954 323 خطبات محمود دیکھو! یہ جماعت اس بات کو مانتی ہے کہ قرآن کریم منسوخ نہیں، اس کا ہر حصہ قابل عمل لیکن ہم کہتے ہیں اس کا ایک حصہ منسوخ ہے.بولو! نعرہ تکبیر.تو اس پر سب حاضرین اللهُ اَكْبَرُ کا نعرہ لگا دیں گے اور یہ نہیں سوچیں گے کہ کہنے والا کیا کہہ رہا ہے.میں نے کہا یہاں تو لوگ بھوکوں مرتے ہیں.ایک مولوی کی ماہوار آمد تین ڈالر سے بھی کم پڑتی ہے.میں نے اندازہ لگایا ہے کہ ایک مولوی کی ماہوار آمد نو روپے ہے.اب ایک نو روپے لینے والا جسے لوگ کمی“ سمجھتے ہیں اور جس سے اپنے مُردے نہلواتے ہیں اُس کی مذہبی حالت کیا ہو گی.ایسے شخص کو جو بھی کچھ دے گا وہ اس کی ہاں میں ہاں ملا دے گا.حضرت خلیفة أسبح الاول فرمایا کرتے تھے کہ ایک مولوی سے میرے دوستانہ تعلقات پیدا ہو گئے.ایک دن ایک شخص میرے پاس آیا اور اُس نے کہا آپ فلاں مولوی کی اتنی عزت کرتے ہیں حالانکہ وہ اتنا بے ایمان ہے کہ اُس نے فلاں عورت کا نکاح ایک دوسرے مرد سے پڑھ دیا ہے.حالانکہ اُس کا پہلا خاوند موجود ہے اور ابھی اُس نے اُسے طلاق نہیں دی.گویا نکاح پر نکاح پڑھ دیا ہے.میں نے کہا میں یہ بات نہیں مان سکتا.اُس شخص نے کہا اگر آپ کو شبہ ہو کہ جو میں کہہ رہا ہوں وہ غلط ہے تو آپ مولوی صاحب سے پوچھ لیں کہ آیا انہوں نے نکاح پر نکاح پڑھا ہے یا نہیں.میں نے یہ بات اپنے ذہن میں رکھی.کچھ دنوں کے بعد مولوی صاحب مجھ سے ملنے کے لیے آئے تو میں نے انہیں کہا میں نے آپ سے ایک بات کہنی ہے.کسی شخص نے آپ کے متعلق مجھ سے ایک بات بیان کی تھی.میں نے اس کی تردید تو کر دی تھی اور کہا تھا میں نہیں مانتا لیکن اُس نے کہا تھا آپ مولوی صاحب سے ہی پوچھ لیں.مجھے اعتبار تو نہیں کہ آپ نے ایسا کیا ہو، تاہم آپ سے ذکر کر دیتا ہوں.اُس نے مجھ سے آ کر کہا تھا کہ آپ نے ایک منکوحہ عورت کا نکاح جس کا پہلا خاوند زندہ ہے اور طلاق واقع نہیں ہوئی کسی دوسرے مرد سے پڑھ دیا ہے.مولوی صاحب نے کہا کہ آپ فیصلہ کرنے میں جلدی نہ کریں.آپ میری بات بھی سن لیں.میں نے کہا فرمائیے.اس پر وہ کہنے لگا آپ خود ہی انصاف کریں کہ اُنہاں چڑی چڑا روپیہ کڈھ کے میرے ہتھ تے رکھ دتا تے میں کی کردا.یعنی جب انہوں نے میرے سامنے ایک چڑیا کے برابر روپیہ رکھ دیا تو میں نکاح

Page 334

$1954 324 خطبات محمود پڑھانے کے سوا اور کیا کر سکتا تھا.حضرت خلیفہ المسیح الاول فرمایا کرتے تھے میں نے اُسی دن سے اُس سے اپنے تعلقات منقطع کر لئے.اب جو مولوی اس حیثیت کے ہوں انہیں قابو میں لانا کونسی مشکل بات ہے.کمیونسٹ چند لوگ خرید لیں گے، چاہے وہ اسلامی جماعت کے ہوں یا کسی اور جماعت کے.اور انہیں ہزار ہزار، دو دو ہزار روپیہ ماہوار تنخواہ دے دیں گے اور وہ ی دوسرے مولویوں کو اپنے ساتھ ملالیں گے.اگر انہوں نے مولویوں کو بلایا اور انہوں نے دیکھا کہ بڑے بڑے لوگ کمیونسٹوں میں شامل ہیں اور ان لوگوں نے انہیں اپنے ساتھ کرسیوں پر جگہ دے دی تو وہ اسی میں خوش ہو جائیں گے.اگر وہ لوگ اس 9 روپے آمد والے مولوی.یہ کہیں.گے کہ تم یہ تقریر کرو کہ اسلام سے یہ ثابت ہے ”خدا کوئی نہیں، تو وہ بڑی خوشی سے منبر پر آکر تقریر کر دے گا کہ خدا کوئی نہیں.فلاں شخص کہتا ہے ” خدا ہے اور اُس کی یہ یہ صفات 66 ہیں لیکن یہ بات اسلام کے خلاف ہے.بولو! نعرہ تکبیر.اور جاہل عوام فوراً الله اَكْبَر کا نعرہ لگا دیں گے.میں نے جب اُس امریکن سے یہ باتیں کیں تو وہ سخت حیران ہوا اور کہنے لگا میں تو نہایت اطمینان سے جار ہا تھا اور سمجھتا تھا کہ پاکستان میں کمیونزم کے پھیلنے کا کوئی امکان نہیں.میں نے کہا آپ کا اندازہ غلط ہے.یہاں کمیونزم بآسانی پھیل سکتا ہے اور اسے پھیلانا جماعت اسلامی اور بعض اُن کے تابع مولویوں نے ہے اور بھارت کے کمیونسٹوں نے ہندوستان سے پہلے یہاں بغاوت کروانی ہے.اس سلسلہ میں ایک اور مولوی کا واقعہ بھی بیان کر دیتا ہوں.ایک مولوی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ساتھ اچھے تعلقات رکھتا تھا اور گو وہ احمدی نہیں تھا مگر اُسے آپ سے عقیدت تھی.وہ ایک دفعہ آپ کو ملنے کے لیے آیا اور اُس نے کہا مجھے آپ سے ایک شکوہ ہے.آپ نے یہ کیا کیا کہ وفات مسیح کا اعلان کر دیا؟ آپ نے فرمایا اس میں غلطی کا کیا سوال ہے؟ خدا تعالیٰ کا حکم تھا میں نے اس کی تعمیل کر دی.اُس نے کہا آپ نے یہ خیال نہیں کیا کہ مولوی یہ بات سنیں گے تو آپ کی سخت مخالفت کریں گے.آپ نے پہلے انہیں قابو کر لینا تھا.آپ نے فرمایا وہ کس طرح؟ اس نے کہا جب آپ نے وفات مسیح کا اعلان کرنا تھا تو مولویوں کو ایک بہت بڑی دعوت دینی تھی اور یہ دعوت بھی لاہور یا دتی ؟

Page 335

$1954 325 خطبات محمود کسی شہر میں دینی تھی.اُس میں آپ اچھے اچھے کھانے پکواتے اور ہر مولوی کو کچھ نہ کچھ نذرانہ دیتے اور پھر اُن کے سامنے یہ مسئلہ رکھتے کہ اسلام پر ایک بھاری مصیبت آئی ہوئی ہے.عیسائی ترقی کر رہے ہیں اور اسلام روز بروز تنزل میں جا رہا ہے.عیسائی اس تعلیم پر زور دیتے ہیں کہ ہمارا مسیح زندہ ہے اور آسمان پر بیٹھا ہے اور تمہارا نبی زمین میں مدفون ہے.اور یہ رف ہم ہی نہیں کہتے بلکہ تمہارا اپنا عقیدہ بھی یہی ہے کہ مسیح دوبارہ آئے گا.مولویوں نے اس پر کہنا تھا کہ بات تو بڑی کٹھن ہے.آپ ہی کوئی تجویز بتائیں کہ اس مشکل کو کس طرح دور کیا جائے.آپ کہتے آپ لوگ علماء ہیں آپ ہی اس بات پر غور کر کے کوئی فیصلہ کریں.میں اس کے متعلق کیا کہہ سکتا ہوں.میری رائے تو یہی ہے کہ ہمیں اس غلط عقیدہ نے سخت نقصان پہنچایا ہے کہ حضرت مسیح آسمان پر زندہ موجود ہیں.جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جیسا عظیم الشان وجود بھی وفات پا گیا تو اور کوئی موت سے کس طرح بچ سکتا ہے؟ اس پر مولویوں نے کہنا تھا کہ آپ بسم اللہ کریں اور وفات مسیح کا اعلان کر دیں.جب آپ ان کے منہ سے یہ بات کہلوا لیتے تو پھر دوسری بات یہ پیش کرتے کہ اگر ہم نے یہ کہا کہ مسیح مرگیا ہے اور آسمان پر زندہ موجود نہیں تو عیسائی کہیں گے وہ مسیح جس نے دوبارہ آنا تھا وہ کہاں سے آئے گا.آپ علماء ہیں آپ بتائیں کہ ہم اس اعتراض کا کیا جواب دیں گے؟ اس مولوی صاحبان نے پھر یہی کہنا تھا کہ آپ ہی بتا ئیں اس کا کیا جواب ہے.اس پر آپ پھر کہتے کہ میں کیا کہہ سکتا ہوں آپ لوگ علماء ہیں جواب تو آپ ہی دے سکتے ہیں.اس پر علماء نے تنگ آکر خود ہی کہنا تھا کہ پھر ہم کہہ دیں گے کہ وہ مسیح اسی امت سے آنا ہے.اس پر آپ کہتے کہ اگر انہوں نے یہ کہا کہ آمد مسیح کی علامات تو پوری ہو رہی ہیں.وہ مسیح کہاں تو اس کا کیا جواب دیں؟ وہ پھر آپ سے کہتے کہ آپ جواب سمجھا ئیں.آپ پھر ان سے کہتے کہ نہیں یہ مقام آپ کا ہی ہے کہ آپ جواب دیں.اس پر پھر وہ خود کہتے کہ پھر آپ دعوای کر دیں کہ میں ہی وہ مسیح ہوں.اس طرح بغیر مولویوں کو اشتعال دلانے کے آپ کا کام ہو جاتا.اس پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام مسکرائے اور فرمایا اگر یہ انسانی منصوبہ ہوتا تو میں ایسا ہی کرتا لیکن یہ تو خدا تعالیٰ کا حکم تھا.اس میں انسانی تدبیر کا کوئی دخل نہیں.

Page 336

$1954 خطبات محمود 326 پس حقیقت یہ ہے کہ ہمارے ملک کی حالت جہالت کی وجہ سے اس حد تک گر چکی کی ہے کہ تعلیم یافتہ طبقہ کے نزدیک اسلام کی تعلیم یورپین طرز عمل کے سامنے قابلِ ندامت ہے.ان کے نزدیک ضروری ہے کہ مذہب کو یورپ کے طریق عمل کے مطابق بدل دیا جائے اور مسیحیت کی حکومت کو اسلام کے نام سے اس ملک میں قائم کیا جائے.گویا تعلیم یافتہ لوگ تو مغرب زدہ ہونے کی وجہ سے مغربیت کو قائم کرنا چاہتے ہیں اور ہمارے علماء ناسمجھی کی وجہ سے دین کو جہالت کی طرف لے جا رہے ہیں.مشہور مقولہ ہے کہ دو ملاؤں میں مرغی حرام“.ایک طرف تو مغرب زدہ لوگ ہیں اور ایک طرف علماء ہیں اور ان میں سے ایک کے طرز عمل کو ملک میں جاری کرنا چاہتا ہے اور دوسرا نادانی اور جہالت کے طریق کو یورپ وو اور اسلام بیچ میں خراب ہو رہا ہے.پس ابھی مشکلات باقی ہیں اور جس خدا نے انہیں وقتی طور پر ٹالنے کے سامان مہیا کر دیئے ہیں وہ انہیں مستقل طور پر دور کرنے کے سامان بھی مہیا کر سکتا ہے.ہم یہ نہیں کہتے کہ پاکستان کا ہر ایک آدمی آج ہی اپنی اصلاح کرلے بلکہ ہم یہ کہتے ہیں کہ پاکستان والے ایسی تعلیموں پر زور نہ دیں جن کی وجہ سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لوگوں کی نظروں میں ذلیل ہوں، جن کی وجہ سے صحابہ کرام لوگوں کی نظروں میں ذلیل ہوں.وہ اس قسم کے قانون نہ بنائیں جن کی وجہ سے وہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام کو مجرم قرار دیں.آخر ہم ان سے پوچھ سکتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کس مجسٹریٹ سے اجازت لے کر ایک سے زیادہ شادیاں کی تھیں؟ حضرت ابوبکر نے کس مجسٹریٹ.اجازت لے کر ایک سے زائد شادیاں کی تھیں؟ حضرت عمرؓ نے کس مجسٹریٹ سے اجازت لے کر ایک سے زائد شادیاں کی تھیں؟ حضرت عثمان نے کسی مجسٹریٹ سے اجازت لے کر ایک سے زائد شادیاں کی تھیں؟ حضرت حسنؓ نے کس مجسٹریٹ سے اجازت لے کر ایک سے زائد شادیاں کی تھیں؟ اسی طرح اور اولیاء اور صوفیاء جو امت میں گزرے ہیں انہوں نے کس مجسٹریٹ سے اجازت لے کر ایک سے زیادہ شادیاں کی تھیں؟ ضرورت تو اس بات کی تھی کہ اسلام کے اس قانون پر عمل کرنے کے سلسلہ میں جو خرابیاں پیدا ہوتی ہیں انہیں دور کیا جاتا توی -

Page 337

$1954 327 خطبات محمود اور ایسے قوانین بنائے جاتے کہ کوئی شخص اپنے عمل سے اسلامی احکام کو بدنام نہ کر سکتا.مثلاً جب ایک سے زائد شادیاں کی جاتی ہیں تو اکثر یہ ہوتا ہے کہ پہلی بیوی کو كَالمُعَلَّقَةِ چھوڑ جاتا ہے اور دوسری بیوی کے ساتھ عیش منایا جاتا ہے.پہلی بیوی کے بچوں کی تعلیم کی طرف کوئی توجہ نہیں کی جاتی اور دوسری بیوی کے بچوں کو ہر قسم کی سہولتیں دی جاتی ہیں.ایسی مثالیں ان لوگوں میں بھی پائی جاتی ہیں جو اپنے آپ کو قوم کا لیڈر سمجھتے ہیں.اگر ضرورت ہو تو ایک مجلس قائم کی جائے.اس مجلس میں ہم ان لیڈروں کی مثالیں بیان کر دیں گے.پس ضرورت اس بات کی تھی کہ ایسا قانون بنایا جاتا کہ اگر کوئی شخص اسلام کے احکام کے ماتحت ایک - زیادہ شادیاں کرے گا تو اسے اپنی سب بیویوں میں انصاف کرنا پڑے گا.اسے پہلی بیوی اور اس کے بچوں کو بھی دوسری بیوی اور اس کے بچوں کے برابر خرچ دینا پڑے گا اور اگر وہ ایسا کی نہیں کرے گا تو ہم اسے سزا دیں گے.اسی طرح اسلام میں خلع کا قانون ہے لیکن ہوتا یہ ہے کہ مرد جب چاہتا ہے اپنی بیوی کو طلاق دے دیتا ہے.لیکن عورت اگر چاہے تو خلع نہیں کراسکتی.ہم نے اس قانون کو اپنی جماعت میں جاری کیا ہے.لیکن ہمارے اندر اتنی طاقت نہیں کہ ہم اس قانون کو سارے ملک میں جاری کر سکیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے کہ اگر کوئی عورت اپنے خاوند سے نفرت کرتی ہے تو وہ اُس سے الگ ہو سکتی ہے 2 کیونکہ تعلقات زوجیت محبت پر مبنی ہوتے ہیں.اگر محبت نہیں رہی تو وہ اپنے خاوند سے الگ ہو جائے.اگر مرد کہتا ہے کہ اس کی بیوی کے اس سے اچھے تعلقات نہیں تو رشتہ داروں کا ایک بورڈ بیٹھے گا اور وہ اس امر کی کی تحقیقات کرے گا.اگر اس کی بات درست ثابت ہوئی تو اُسے کہا جائے گا کہ تم اسے طلاق کی دے دو.اور اگر عورت کہتی ہے کہ اس کے خاوند کے اس سے اچھے تعلقات نہیں تو اس طرح کا ایک بورڈ عورت کے متعلق بیٹھے گا جو معاملہ کی تحقیقات کرے گا اور اگر واقعہ درست ثابت ہوا تو عورت کو خلع کی درخواست قضا میں پیش کرنے کی اجازت دی جائے گی.پس یہاں اس قسم کے قوانین بننے چاہیے تھے کہ اسلامی احکام کا ناجائز استعمال ہو.ہمارے ملک میں عام رواج ہے کہ معمولی سے جھگڑے پر وہ اپنی بیوی کو کہہ دیتے تھے

Page 338

$1954 328 خطبات محمود تمہیں تین طلاق، تمہیں تین ہزار طلاق، تمہیں تین کروڑ طلاق، تمہیں تین ارب طلاق.یہی رواج حضرت عمرؓ کے زمانہ میں بھی عربوں میں ہو گیا.اب ملاں کہتا ہے کہ مرد کے تین طلاق کی کہنے پر تین طلاق واقع ہو جاتی ہیں.حالانکہ اسلام نے اس بیوقوفی کی اجازت نہیں دی بلکہ اس طریق کو ناجائز قرار دیا ہے.اسلام نے یہ حکم دیا ہے کہ جس طہر میں خاوند بیوی کے پاس نہ گیا ہو اس طہر میں طلاق دی جائے.اگر یہ امر ثابت ہو جائے کہ اس طہر میں وہ اپنی بیوی کے پاس گیا تھا تو طلاق واقع نہیں ہو گی.پھر آجکل کا ملاں کہتا ہے کہ تین دفعہ یکدم طلاق دینے کے بعد عورت سے دوبارہ نکاح نہیں ہو سکتا.حالانکہ اگر ایک عورت کو دس ہزار دفعہ بھی یکدم طلاق دے دی جائے تو وہ ایک ہی طلاق شمار کی جائے گی اور اس کے بعد عدت میں اسے رجوع کا اختیار حاصل ہو گا.اگر مرد اس عرصہ میں رجوع نہیں کرتا اور عدت گزر جاتی ہے تو عورت پر طلاق واقع ہو جائے گی اور دوبارہ تعلق صرف نکاح سے ہی قائم ہو سکے گا.لیکن اگر نکاح کے بعد مرد پھر کسی وقت عورت کو طلاق دے دیتا ہے اور عدت میں رجوع نہیں کرتا تو یہ دوسری طلاق ہو گی.اس کے بعد بھی نکاح کے ذریعہ مرد وعورت میں تعلق قائم ہو سکتا ہے.لیکن ان دو نکاحوں کے بعد اگر پھر وہ کسی وقت غصہ میں طلاق دے دیتا ہے اور عدت میں رجوع بھی نہیں کرتا تو اس کے بعد اسے اپنی بیوی سے نکاح کی اجازت نہیں ہو گی.جب تک وہ اور نکاح مکمل نہ کرے.اور درحقیقت اس قسم کی دو طلاقوں کے بعد کوئی پاگل ہی ہو گا جو تیسری طلاق دے.اور اگر وہ دیتا ہے اور پھر عرصہ عدت میں رجوع بھی نہیں کرتا تو شریعت اس عورت کے ساتھ اسے نکاح کی اجازت نہیں دیتی.لیکن آجکل کے ملا منہ سے تین طلاق کہہ دینے پر ہی اس عورت کو مرد پر حرام کر دیتے ہیں اور دوبارہ نکاح کو ناجائز قرار دے دیتے.ہیں.حضرت عمرؓ کے زمانہ میں اس قسم کے واقعات کثرت سے ہوئے تو آپ نے فرمایا اب اگر کوئی شخص اپنی بیوی کو بیک وقت ایک سے زیادہ طلاقیں دے گا تو میں سزا کے طور پر اس کی بیوی کو اُس پر ناجائز قرار دے دوں گا.جب آپ پر یہ سوال ہوا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تو ایسا حکم نہیں دیا پھر آپ ایسا کیوں کرتے ہیں؟ تو آپ نے فرمایا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ منشا تھا کہ اس قسم کی طلاقیں رُک جائیں.چونکہ تم اس قسم کی طلاق دینے

Page 339

$1954 329 خطبات محمود رُکتے نہیں اس لیے میں بطور سزا اس قسم کی طلاق کو جائز قرار دے دوں گا.چنانچہ آپ نے ایسا ہی کیا اور آپ کا ایسا کرنا ایک وقتی مصلحت کے ماتحت تھا اور صرف سزا کے طور پر تھا مستقل حکم کے طور پر نہیں تھا.غرض مسلم لیگ پر بہت بڑی ذمہ داری تھی.اسے چاہیے تھا کہ وہ اس قسم کے قوانین کی طرف دستور ساز اسمبلی کو توجہ دلاتی جن کے ذریعہ اسلامی احکام پر عمل کرایا جاتا.مگر بجائے اس کے کہ وہ لوگوں کی غلطیوں کی اصلاح کرتی اس نے شریعت کے احکام میں اصلاح کرنی شروع کر دی اور یہ فیصلہ کر دیا کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نَعُوذُ بِاللهِ مجرم ہیں.یہ کتنی افسوسناک اور شرمناک بات ہے.ایسی اسلامی حکومت پر ایک سچا مسلمان کس طرح ناز کر سکتا ہے؟ اگر پاکستان میں اسی قسم کی اسلامی حکومت بنی ہے جس نے اسلامی احکام کو رد کرنا ہے اور انہیں ناجائز قرار دینا ہے تو ہم یہ تو نہیں کہیں گے کہ خدا تعالیٰ ایسی حکومت کو بدل دے.خدا تعالیٰ نے اس ملک میں دو سو سال کے بعد مسلمانوں کو آزادی بخشی ہے، اس کے کی کھوئے جانے کی ہم کبھی خواہش نہیں کر سکتے.لیکن یہ ضرور کہیں گے کہ خدا تعالیٰ اس قسم کے مسلمانوں کو عقلیں بخشے اور ملک کو ان کے فتنہ سے بچائے.بہر حال چونکہ ابھی خدشات باقی ہیں اس لیے تم دعاؤں میں لگے رہو تا خدا تعالیٰ اسلام کو اس قسم کے دشمنوں سے محفوظ رکھے اور ایسے لوگوں کو حکومت نہ دے جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کی مذمت کرنے والے اور ان پر گند اُچھالنے والے ہوں“.(الفضل 5 نومبر 1954 ء ) :1 كنز العمال في سنن الاقوال والافعال - المجلد الثامن - الجزء 16 - صفحہ 203.حدیث نمبر 45581- كتاب النكاح - حرف النون من قسم الافعال كتاب النكاح - الترغيب فيه - بيروت لبنان 1998 ء میں تَزَوَّجُوا الْوَدُودَ الْوَلُودَ فَإِنِّى مُكَاثِرٌ بِكُمُ الْاُمَمَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ “ کے الفاظ ہیں.2 : صحيح البخارى كتاب الطلاق باب الخلع و كيف الطلاق فيه 3 : صحیح مسلم کتاب الطلاق باب طلاق الثلاث

Page 340

$1954 330 32 خطبات محمود احباب دعائیں جاری رکھیں کہ اللہ تعالیٰ اسلام کی خاطر ملک کو فتنہ و فساد سے بچائے رکھے (فرمودہ 5 نومبر 1954ء بمقام ربوہ) تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: " آج بھی میں گزشتہ دو جمعوں کے خطبات کے تسلسل میں بعض باتیں بیان کرنا چاہتا ہوں.پچھلے جمعہ کے خطبہ میں میں نے جماعت کے دوستوں کو اس طرف توجہ دلائی تھی کہ انہیں اپنی دعائیں جاری رکھنا چاہیں کیونکہ ہمارا ملک ایک نہایت ہی نازک دور میں سے گزر ہے ہے.کچھ خبریں تو اخبارات میں چھپ جاتی ہیں اور کچھ خبریں اخبارات میں نہیں چھپتیں بلکہ منہ درمنہ پھیلتی ہیں اور یہ ساری کی ساری خبریں ہمیں بتاتی ہیں کہ ہمارا ملک ابھی فتنہ اور فساد کے خطرہ سے باہر نہیں.ایک طرف حکومت کے سربرآوردہ لوگ یہ کوشش کر ہے ہیں کہ کسی طرح ایسے نظام کو قائم رکھ سکیں جو ملک کی بہبودی اور اس کی ترقی کا موجب ہو تو دوسری طرف یہ پروپیگنڈا ہے کہ جس نظام کو انہوں نے توڑا ہے وہ صحیح تھا یا غلط.بہر حال جمہوری نظام کہلاتا تھا اور جس نظام کو انہوں نے اب قائم کیا ہے وہ صحیح ہو یا غلط وہ

Page 341

$1954 331 خطبات محمود بہر حال ایک آمرانہ نظام ہے.چاہے عملی طور پر جمہوری نظام کہلانے والا آمرانہ ہو اور آمرانہ نظام کہلانے والا جمہوری ہو، لیکن بعض اوقات لوگ صرف ظاہری شکل کو دیکھتے ہیں باطنی شکل کی کی طرف نظر نہیں کرتے.چنانچہ بعض لوگ یہ دلیل دینا شروع کر دیتے ہیں کہ ظاہری شکل چاہے کتنی اچھی ہو لیکن جب اس کے پس پردہ آمریت نظر آ رہی ہو تو یہ بات بڑھتے بڑھتے ملک سے جمہوریت کا خاتمہ کر دے گی.غرض فلسفیانہ اور منطقیانہ رنگ میں بیسیوں حجتیں پیش کی جاسکتی ہیں اور اس وقت عملی طور پر پیش کی جا رہی ہیں اور مخالف لوگ موجودہ نظام حکومت پر نکتہ چینیاں کر رہے ہیں اور ایسے ارادے ظاہر کرتے ہیں کہ وہ اس نظام حکومت کا مقابلہ ا کریں گے ظاہراً تو وہ یہی کہتے ہیں کہ وہ آئینی طور پر اس نظام کو بدلنے کی کوشش کریں گے.لیکن ممکن ہے کہ وہ طاقت کے ذریعہ سے موجودہ نظام حکومت کو بدلنے کا طریق اختیار کریں اور اس طرح فساد پیدا ہو.پس ملک کے حالات ایسے نہیں کہ ہم ان پر تسلی پا جائیں.اور پھر وہ ایسے بھی نہیں کہ ہم انہیں محض دنیوی چیز سمجھ کر نظر انداز کر دیں.اس لیے کہ وہ ہم پر براہ راست اثر انداز ہوتے ہیں اور آئندہ اثر انداز ہوں گے.جو جماعت اکثریت میں ہوتی ہے وہ اپنی اکثریت کی وجہ سے یہ نہیں کہہ سکتی کہ ان حالات کا ان کی ذاتوں پر اثر پڑتا ہے کیونکہ اکثریت کی وجہ سے ان کے اندر نظام بدلنے کی طاقت ہوتی ہے.پس ان کا جسم بھی محفوظ رہتا ہے اور دین بھی محفوظ رہتا ہے.لیکن جب کوئی جماعت تھوڑی تعداد میں ہو اور اس کے افراد کی تعداد انگلیوں پر گنی جاسکتی ہو، ان کے حقوق پر اگر پابندیاں لگا دی جائیں اور ان کی آزادی کو سلب کر لیا جائے تو یہ بات ان کے لیے جسمانی ہی نہیں بلکہ دینی بھی ہوتی ہے کیونکہ انہیں نہ دینی حالات کے بدلنے کی توفیق ہوتی ہے اور نہ جسمانی حالات کے بدلنے کی طاقت ہوتی ہے.پس موجودہ حالات ہماری جماعت کے لیے ایسے نہیں کہ وہ نظر انداز کیے جاسکیں.اس لیے ہمیں ہر وقت دعائیں کرتے رہنا چاہیے.بہر حال اب تک جو کچھ ہوا ہے اس کی بہت سی شکلیں بظاہر نیک معلوم ہوتی ہیں لیکن ایک چیز ایسی ہوا کرتی ہے جو خدا تعالیٰ کے خاص مقبول بندوں کے ہاتھوں سے ہوتی ہے.اس کے متعلق یقینی طور پر کہا جا سکتا ہے کہ خدا تعالیٰ کا منشا بھی یہی ہے اور ایک چیز ایسی ہوتی

Page 342

$1954 332 خطبات محمود جو اگر چہ ہوتی تو ایسے لوگوں سے ہے جو نیک اور دین سے محبت رکھنے والے ہوتے ہیں لیکن ان ان کے کام کو خدا تعالیٰ کا کام نہیں کہا جا سکتا.اس لیے ممکن ہے کہ گاڑی چلتے چلتے کسی جگہ اپنا راستہ بدل لے.جو گاڑی خدا تعالیٰ کے ہاتھ میں ہوتی ہے وہ تو چاہے تیز چلے یا آہستہ، بہر حال سیدھی چلتی چلی جائے گی.لیکن جو گاڑی خدا تعالیٰ کے ہاتھ میں نہیں ہوتی گواسے چلاتے نیک اور دین سے محبت رکھنے والے لوگ ہی ہیں لیکن چونکہ وہ پورے طور پر خدا تعالیٰ کے ہاتھ میں نہیں ہوتی اس لیے ہر وقت یہ خطرہ ہوتا ہے کہ شیطان انہیں دھوکا نہ دے دے یا طاقت پا کر وہ اپنے ارادوں کو تبدیل نہ کر دیں.چونکہ ان کے ہاتھ پر خدا تعالیٰ کا ہاتھ نہیں ہوتا اس لیے وہ ذمہ دار نہیں ہوتا کہ وہ اس کام کو اسی صورت میں ختم کرے جس صورت میں ان لوگوں کو ارادہ ہوتا ہے.پس ایسی حالت میں دعاؤں کی اہمیت اور بھی بڑھ جاتی ہے کیونکہ گو وہ ایک نیک تحریک ہوتی ہے لیکن وہ خدا تعالیٰ کے خاص مقبول لوگوں کے ذریعہ جاری نہیں ہوتی.اس لیے خطرہ ہوتا ہے کہ کہیں شیطان اس میں دخل اندازی نہ کرے.اس لیے دوستوں کو چاہیے کہ وہ دعائیں کریں کہ اگر یہ نظام نیک ہو تو خدا تعالیٰ اسے چلاتا چلا جائے اور اس کا کانٹا اس طرح نہ بدلنے دے کہ ملک تباہ ہو جائے.اور یہ کہ اس نظام کو چلانے والوں کے ارادہ کو جنہیں اس نے خود مقرر نہیں کیا اپنا لے اور یہ سمجھ لے کہ گویا وہ اس کا اپنا ہی کام ہے.اگر خدا تعالیٰ اسے اپنا ہی کام سمجھ لے تو یقیناً اس نظام کا انجام اچھا ہو گا اور اس سے ملک میں امن اور اطمینان پیدا ہو گا.پس میں جماعت کے دوستوں کو پھر توجہ دلاتا ہوں کہ وہ اپنی دعاؤں کو جاری رکھیں.انہیں ملک کے کچھ حالات معلوم ہیں اور کچھ حالات معلوم نہیں ہیں.لیکن ہمیں معلوم ہیں.کیونکہ کئی باتیں جب دوسرے لوگوں کے سامنے سے گزرتی ہیں تو گو وہ احمدی نہیں ہوتے مگر چونکہ وہ ہم پر حسن ظنی رکھتے ہیں اس لیے وہ ہم سے مشورہ کر لیتے ہیں.اس ہمیں کچھ نہ کچھ اندازہ ہو جاتا ہے کہ پس پردہ کیا ہو رہا ہے.دوسرے لوگ بعض اوقات احمدیوں پر شبہ کرتے ہیں کہ وہ اپنے مرکز کو حکومت کے رازوں سے آگاہ کرتے ہیں.جب ظفر اللہ خاں حکومت میں تھے تو ان کے متعلق ہمیشہ یہ کہا جاتا تھا کہ وہ ہمیں مثلاً

Page 343

خطبات محمود 333 $1954 ނ حکومت کے رازوں سے آگاہ کرتے ہیں حالانکہ واقع یہ ہے کہ گزشتہ عرصہ میں جتنی خبریں ہمیں غیر احمدیوں کی طرف سے ملی ہیں ان کا سواں حصہ بھی کبھی ظفر اللہ خاں کی طرف.نہیں پہنچا.اگر ایک مومن مخلص کی ترقی کا سوال نہ ہوتا تو شاید ہم اس بارہ میں یہ دعا کرنے سے بھی نہ ہچکچاتے کہ خدا تعالیٰ انہیں اس عہدہ سے ہٹا کر کسی اور کام پر لگا دے کیونکہ اس کی وجہ سے حکومت میں ہماری جماعت کی کوئی آواز نہیں رہی تھی.گورنمنٹ انگریزی کے زمانہ میں جب بھی کوئی ضروری امر پیش ہوتا تو حکومت کے افسران ہم سے ملتے اور ہماری رائے معلوم کرنے کی کوشش کرتے.لیکن جس دن سے محمد ظفر اللہ خان صاحب حکومت میں آ گئے انہوں نے ہمیں ملنا ترک کر دیا کہ آپ کا نمائندہ ظفر اللہ خان ہمارے پاس موجود ہے.اور محمد ظفر اللہ خاں صاحب سمجھتے تھے کہ میں تو جماعت کا نمائندہ نہیں میں تو حکومت کا مقرر کردہ ہوں.نتیجہ یہ ہوا کہ حکومت تک ہماری آواز پہنچنی بالکل بند ہو گئی.قائد اعظم مرحوم سے بھی ایک دفعہ بات ہوئی تو انہوں نے کہا کہ آپ کو کیا فکر ہے آپ کا نمائندہ ظفر اللہ خاں ہمارے پاس موجود ہے حالانکہ ظفر اللہ خاں ان کے نمائندے تھے ہمارے نہیں تھے.پس ظفر اللہ خاں کی وجہ سے نہیں بلکہ مرکز میں پھیلنے والی افواہوں اور ایسے دوسرے لوگوں سے جو ہم پر حُسنِ ظنی رکھتے ہیں ہمیں بعض امور کا پتا لگ جاتا ہے اور وہ حسب موقع ہم سے مشورہ بھی کرتے رہتے ہیں.جب کشمیر کی تحریک ہوئی اُس وقت بھی ہمیں ایسے ہی لوگوں سے کئی خبریں ملیں جن سے ہمیں بہت فائدہ ہوا.ایک دفعہ ایک ایسا واقعہ ہونے لگا تھا جس سے تحریک کشمیر بالکل تباہ ہو جاتی.اُس وقت ایک ہندو لیڈر دیوان چمن لال تھے جو دیوان رام لال کے بھائی تھے.کانگرس میں انہیں کافی پوزیشن حاصل تھی.جب راجہ نے دیکھا کہ اب اسے کوئی رستہ نہیں ملتا تو اُس نے کانگرس کو خریدنے کی کوشش کی.چنانچہ اُس نے دیوان چمن لال سے کہا کہ میں کی آپ کو یورپ میں پرو پیگنڈا کے لیے مقرر کرتا ہوں.چنانچہ انہوں نے اس تحریک کے ماتحت اپنی ایک واقف عورت کو جو انگلستان کی مشہور جرنلسٹ اور اخباری نمائندوں میں اچھی پوزیشن رکھنے والی تھی مقرر کیا اور اُسے تار دیا کہ میں تمہیں پچاس پونڈ ماہوار دوں گا اور تمہارے باقی ب اخراجات بھی ادا کر دوں گا تم اخباروں میں ریاست کے حق میں پرو پیگنڈا کرو.وہ

Page 344

$1954 334 خطبات محمود ނ عورت بہت اثر رکھنے والی تھی.چنانچہ اس نے پریس کے نمائندوں اور اپنے دوستوں پر قبضہ کرنا شروع کیا.بعض کی اس نے تنخواہیں مقرر کر دیں اور اس طرح کشمیر کے راجہ کے حق میں پرو پیگنڈا کا انتظام کیا.وہ اس قسم کا انتظام کر ہی رہی تھی کہ کسی مسلمان نے جس کے ہاتھ.وہ تار گزری تھی تار ٹائپ کر کے مجھے بھیج دی اور لکھا کہ یہ تار دیوان چمن لال کی طرف فلاں عورت کو گئی ہے مگر اس نے اپنا نام نہ لکھا.ہم سمجھ گئے کہ تار کی نقل بھیجنے والا تار کے محکمہ میں کام کرتا ہے اور یہ تار اس کے ہاتھ سے گزری ہے.میں نے اُس وقت وہ نقل ولایت میں اپنے نمائندوں کو بھجوائی اور اسے ہدایت کی کہ وہ اس بارہ میں فوراً کارروائی کرے.چنانچہ تار ملتے ہی ہمارے نمائندہ نے اُس عورت کو بلایا اور کہا مجھے آپ سے ایک ضروری کام ہے.جب وہ عورت آئی تو ہمارے نمائندہ نے اُسے کہا کہ ہمیں معلوم ہوا ہے دیوان چمن لال نے تمہیں یہاں ریاست کے پروپیگنڈا کے لیے مقرر کیا ہے اور تمہارے نام یہ تار آیا ہے.میں یہ تار اخبارات میں چھپوانے لگا ہوں اور یہ لکھنے لگا ہوں کہ تم فلاں شخص کے لیے اُجرت پر کام کر رہی ہو اور اخبارات میں جو فلاں فلاں مضمون شائع ہوا ہے.وہ بھی اسی سلسلہ کی ایک کڑی ہے.انگلستان میں یہ سخت عیب سمجھا جاتا ہے کہ کوئی اخباری نمائندہ کسی سے پیسے لے کر کام کرے.جب اُس نے یہ بات سنی تو وہ سخت گھبرائی اور معذرت کرتے ہوئے کہنے لگی کہ میں نے تو پہلے ہی انکار کر دیا تھا مگر خیر آب میں وعدہ کرتی ہوں کہ آئندہ اس سلسلہ میں کچھ نہیں لکھوں گی.چنانچہ اُس نے اس کام کے کرنے سے انکار کر دیا.اس طرح یہ پروپیگنڈا ہوا.66 پھر ایک غیر احمدی دوست نے مجھے لکھا.مجھے یاد نہیں کہ اس نے مجھے اپنا نام بھی لکھا تھا یا نہیں کہ ایک شخص جو سر“ کا خطاب رکھتا ہے اور ایک ریاست کا وزیر اور راؤنڈ ٹیبل کانفرنس کا ممبر ہے راجہ نے اسے اس بات کے لیے مقرر کیا کہ وہ راؤنڈ ٹیبل کانفرنس کے ممبروں میں ریاست کے لیے پروپیگنڈا کرے.میں نے چودھری محمد ظفر اللہ خان صاحب کو لکھا کہ آپ وہاں یہ چیز پیش کریں کہ فلاں راؤنڈ ٹیبل کانفرنس کا ممبر ، مہاراجہ کشمیر کے حق میں پرو پیگنڈا کر رہا ہے.کیا گورنمنٹ نے یہاں لوگوں کو اس لیے بلایا ہے کہ وہ دوسری جماعتوں

Page 345

$1954 335 خطبات محمود کے خلاف نفرت کے جذبات پیدا کریں؟ انہوں نے وزیر ہند سے بات کی.چنانچہ سرسیموئیل ہور جو بعد میں لارڈ ٹیمپل وڈ ہو گئے تھے انہوں نے اس ممبر کو بلا کر کہا کہ یہ نہایت بُری بات ہے.یا تو وعدہ کرو کہ یہ کام نہیں کرو گے ورنہ میں وائسرائے ہند کو لکھوں گا کہ وہ تمہاری ممبری منسوخ کر دیں.چنانچہ اس نے وعدہ کیا کہ وہ کشمیر کے بارہ میں پرو پیگنڈا نہیں کرے گا اور اس طرح مہاراجہ کشمیر کی سکیم فیل ہو گئی.اِسی طرح اور بیسیوں خبریں تھیں جو غیر احمدیوں نے بتا ئیں.اب بھی ایسا ہوتا ہے کہ غیر احمدی مسلمانوں کی طرف سے مختلف اطلاعات ملتی رہتی ہیں.چاہے غیر احمدی علماء کے نزدیک وہ غدار ہوں، بددیانت ہوں.بہر حال انہیں ہم پر اعتبار ہوتا ہے اور وہ ہمیں بعض امور سے وقت پر آگاہ کر دیتے ہیں اور اکثر باتیں تو دفتروں سے نکل کر بازاروں میں جاتی ہیں اور وہاں سے ہم بھی اسی طرح سنتے ہیں جس طرح اور لوگ سنتے ہیں.ہاں ہم عقل سے غلط اور صحیح میں امتیاز کرتے ہیں.لوگ ایسا نہیں کرتے.پس افواہا جو اطلاعات ہمیں ملی ہیں اُن ނ ، معلوم ہوتا ہے کہ ملک میں فتنہ اور فساد پیدا کرنے کے امکانات موجود ہیں اور خدانخواستہ اس وقت جب کہ ہماری کانسٹی ٹیوشن بھی نہیں بنی کوئی فتنہ فساد پیدا ہو گیا تو اس کا ازالہ سخت مشکل ہو جائے گا.قانون بنے کی صورت میں عدالت اس کا علاج کر سکتی ہے.لیکن موجودہ وقت میں اس کا کوئی علاج نہیں.ہر فریق یہ شور مچائے گا کہ آئین موجود نہیں.لیکن جب آئین ہو تو چاہے عدالت کو اس میں دخل دینے کا حق ہو یا نہ ہو حج کہہ دیتے ہیں کہ ہم اس بارہ میں اپنی رائے کا اظہار کریں گے.بلکہ یہاں تک ہوتا ہے کہ بعض قانون دان کہہ دیتے ہیں کہ یہ بات درست نہیں اور اس کا اثر پڑ جاتا ہے.انگلستان میں آج سے بیس بائیس سال ،خطرناک سٹرائیک ہوئی تھی.چند دن بعد وہاں کے ایک بہت بڑے قانون دان نے جو بعد میں وزارت میں بھی شامل کر لیا گیا تھا لکھا کہ یہ ہڑتال قانونی طور پر ایک بغاوت ہے اس لیے حکومت اس کو دبا سکتی ہے.شام کو اس کا یہ مضمون شائع ہوا اور دوسری صبح سٹرائیک ختم ہو گئی.کیونکہ ہڑتالیوں نے سمجھ لیا کہ اب ہمارے معاملے میں حکومت دخل دے گی.پس حالات اس قسم کے ہیں کہ اگر آئین بننے سے پہلے کوئی پارٹی فتنہ اور فساد پر آمادہ ہو گئی

Page 346

$1954 336 خطبات محمود تو اُسے دبانا بہت مشکل ہو جائے گا.اور اگر اس کے خلاف فیصلہ کیا گیا تو وہ کہیں گے کہ ملک میں ایسا کوئی قانون موجود نہیں.اس لیے جماعت کے دوست دعا ئیں جاری رکھیں.اس میں کیا شبہ ہے کہ ہر چیز خدا تعالیٰ کے اختیار میں ہے.اگر ہمارا ارادہ نیک ہو اور ہم دعائیں کریں تو چاہے ہم کتنے ہی کمزور ہوں خدا تعالیٰ ہمیں مایوس نہیں کرے گا.اگر خدا تعالیٰ ہماری دعائیں نہیں سنتا تو پھر ہمارا یہ دعوی بالکل باطل ہے کہ خدا تعالیٰ سب طاقتیں رکھتا ہے بلکہ احمدیت کا سارا وجود محض تمسخر اور کھیل بن جاتا ہے.لیکن اگر تم سچے ہو تو تمہارے لیے ایک راستہ کھلا.اور وہ رستہ دعاؤں کا ہے.بے شک جن ہاتھوں سے کام ہو رہا ہے وہ انسانی ہاتھ ہیں لیکن اگر ہم دعائیں کریں گے تو خدا تعالیٰ ہماری خاطر اور اسلام کی خاطر اُن کے کام کو اپنی ذمہ داری میں لے لے گا اور برسر اقتدار لوگوں کی خود راہنمائی فرما کر ملک کو فتنہ اور فساد سے بچالے گا“..ہے (الفضل 14 نومبر 1954 ء)

Page 347

$1954 337 33 خطبات محمود اپنے آپ کو دین کی خدمت میں لگا دو تبھی تم اللہ تعالیٰ کے اجر کے مستحق ہو سکتے ہو (فرموده 12 نومبر 1954ء بمقام ربوہ) تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: گزشتہ تین خطبات میں میں نے جماعت کو اُن خرابیوں کے متعلق جو ہمارے ملک میں پیدا ہو رہی ہیں دعاؤں کی تحریک کی تھی.آج میں اس بات کی تحریک کرتا ہوں کہ علاوہ اُن فسادات اور فتنوں کے جو ہمارے ملک میں پیدا ہو رہے ہیں یا جن کے پیدا ہونے کا خطرہ ہے جماعت کو جو اس وقت حالات پیش آ رہے ہیں یا مستقبل قریب اور بعید میں پیش آنے والے ہیں اُن کے متعلق بھی دوستوں کو خصوصیت کے ساتھ دعائیں کرنی چاہیں.میں دیکھتا ہوں کہ جوں جوں جماعت بڑھتی جاتی ہے اس کے ساتھ ساتھ اس میں کئی خرابیاں بھی پیدا ہوتی جاتی ہیں.پہلی خرابی تو یہ ہے کہ جماعت کی ترقی کو دیکھ کر دوسرے لوگوں میں حسد پیدا ہوتا ہے اور وہ مختلف ذرائع سے نظام کو توڑنے، جماعت میں پراگندگی کرنے، دشمن کو مخالفت پر آمادہ کرنے اور حکومت کو اس کے خلاف بھڑکانے پر لگ

Page 348

$1954 338 خطبات محمود جاتے ہیں.چونکہ یہ سارا کام انسانوں کے ساتھ وابستہ ہے اور انسان بسا اوقات غلطی بھی جاتا ہے اور ایسے لوگ جو اللہ تعالیٰ کی حفاظت میں نہیں ہوتے انہیں غلطی لگ جانے کا زیادہ امکان ہوتا ہے اس لیے اس قسم کی باتیں بعض اوقات سلسلہ کے لیے مشکلات پیدا کرنے اور اس کی ترقی میں رکاوٹ حائل کرنے کا موجب بن جاتی ہیں.گزشتہ تین چار سال.جماعت کے خلاف ایک خاص طور پر محاذ قائم کیا گیا ہے اور مخالفین نے جتھا بندی کر کے اور اپنے آپ کو متحد کر کے اس کو مٹانے کی پوری کوشش کی ہے.لیکن اللہ تعالیٰ نے ایسے سامان پیدا کیے ہیں کہ وہ فتنہ باوجود اس کے کہ انتہائی حد تک پہنچ چکا تھا اور لوگ امیدیں لگائے بیٹھے تھے کہ یہ سلسلہ اب جلد ختم ہو جائے گا.بجائے اس کے کہ سلسلہ کو ختم کرنے کا موجب ہوتا.فتنہ برپا کرنے والے خود ہی ختم ہو گئے.اور یہ چیز بہت سے ایسے لوگوں کے لیے جن کی کی آنکھیں ہیں، جن کی عقلیں ہیں اور جو عبرت حاصل کرنے والے ہیں عبرت اور نصیحت اور موعظت کا موجب بنی.مگر انسان ان باتوں سے بہت کم فائدہ اٹھاتا ہے.وہ بار بار اپنی طاقتوں اور قوتوں کی طرف دیکھنے لگ جاتا ہے اور خدا تعالیٰ کی قوتوں پر نظر نہیں دوڑاتا.خدا تعالیٰ کی طاقت اور قوت مخفی ہوتی ہے.اور اگر وہ ظاہر بھی ہوتی ہے تو وقفہ وقفہ پر ہوتی ہے.وہ ایک دفعہ حضرت موسی علیہ السلام کے ذریعہ طور سیناء پر ظاہر ہوئی تو سینکڑوں سال کے بعد حضرت داؤد اور سلیمان علیہا السلام کے ذریعہ ظاہر ہوئی.پھر سینکڑوں سال بعد اُن نبیوں کے ذریعہ ظاہر ہوئی جو یہود کی پہلی تباہی کے وقت بابل میں ظاہر ہوئے جیسے حز قیل اور دانیال اور یسعیاہ اور یرمیاہ وَغَيْرُهُمْ.پھر کئی صدیوں کے بعد حضرت مسیح علیہ السلام کے ذریعہ ظاہر ہوئی.اور آپ کے سینکڑوں سال بعد محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذریعہ ظاہر ہوئی.غرض اس قسم کی تجلیات وقفہ وقفہ کے بعد ہوتی ہیں.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ یہ تجلیات ہر نبی، ہر مامور اور خدا تعالیٰ کے ہر پیارے اور زیر حفاظت انسان کے زمانہ میں ہوتی ہیں.لیکن ہوتی وقفہ وقفہ پر ہیں، ہر وقت نہیں ہوتیں.جو تجلیات ہر وقت ہوتی ہیں وہ مخفی ہوتی ہیں.جیسے کہتے ہیں خدا کی لاٹھی کسی نے دیکھی نہیں لیکن اس کی مار سخت ہوتی ہے.اس سے عام قسم کی تجلیات ہی مراد ہیں جن میں اللہ تعالیٰ

Page 349

$1954 339 خطبات محمود کا ہاتھ اتنا مخفی ہوتا ہے کہ وہ انسان کو نظر نہیں آتا.لیکن جو تجلیات نظر آتی ہیں وہ ہمیشہ وقفہ وقفہ کے بعد ہوتی ہیں.عام حالات میں خدا تعالیٰ انسان کو موقع دیتا ہے کہ وہ سوچ اور فکری کے ساتھ انہیں پہچان لے لیکن چونکہ نظر آنے والے نشانات وقفہ وقفہ کے بعد آتے ہیں اس لیے لوگ انہیں بھول جاتے ہیں اور سمجھنے لگ جاتے ہیں کہ ہم وہی کچھ کریں گے جو ہماری مرضی ہوگی.ان کی مثال بالکل ایسی ہی ہوتی ہے جیسے شکاری جال بچھاتا ہے اور اُس کے نیچے دانے بکھیر دیتا ہے.جانور آتے ہیں اور دانے چگتے ہیں.اس پر بعض جانور پھنس جاتے ہیں بعض اُڑ جاتے ہیں.اس کے بعد جانور دوبارہ آتے ہیں اور پھر کچھ پھنس جاتے ہیں اور کچھ اُڑ جاتے ہیں.اس کی وجہ یہی ہوتی ہے کہ جال اس طرز پر بنا ہوا ہوتا ہے کہ وہ ایک چیز نظر نہیں آتی اس لیے جانور دھوکا کھا جاتے ہیں اور بار بار آ کر اُس میں پھنستے جاتے ہیں.اسی طرح خدا تعالیٰ کے نظر آنے والے نشانات کا حال ہوتا ہے.لوگ نشان بھی دیکھتے ہیں، ماریں بھی کھاتے ہیں اور پھر کچھ عرصہ کے بعد اسے بھول بھی جاتے ہیں.لیکن جو نشان ہر وقت ظاہر ہو رہا ہے مثلاً صبح ہوتی ہے، شام ہوتی ہے، روزانہ سورج نکلتا اور غروب ہوتا ہے، چاند چڑھتا ہے اور ڈوبتا ہے، غلے پیدا ہو رہے ہیں، بیماریاں آ رہی ہیں صحت کے اسباب پیدا ہور ہے ہیں ان چیزوں میں انسان کو یوں معلوم ہوتا ہے کہ یا تو انہیں ہم نے خود پیدا کیا ہے اور یا یہ اتفاقی طور پر پیدا ہو گئی ہیں.اس لیے لوگ ان کی طرف توجہ نہیں کرتے.قرآن کریم میں بھی آتا ہے کہ بعض جاہل شرارت میں اس قدر بڑھ جاتے ہیں کہ وہ سمجھتے ہیں کہ سب چیزیں انہوں نے اپنے علم سے حاصل کی ہیں.1 پہلا درجہ غفلت کا یہ ہوتا ہے کہ انسان سمجھتا ہے کہ یہ چیزیں آپ ہی پیدا ہو گئی ہیں.اور دوسرا درجہ جہالت کا یہ ہے کہ انسان یہ سمجھنے لگتا ہے کہ اس کائنات کا کرتا دھرتا میں ہی ہوں.وہ خدا تعالیٰ کو بھول جاتا ہے، وہ بھول جاتا ہے کہ گندھک خدا تعالیٰ نے پیدا کی ہے، وہ بھول جاتا ہے کہ سنکھیا خدا تعالیٰ نے پیدا کیا ہے، وہ بھول جاتا ہے کہ پارہ خدا تعالیٰ نے پیدا کیا ہے اور کہہ دیتا ہے کہ میں نے آتشک کا ٹیکہ ایجاد کیا ہے حالانکہ وہ ٹیکے بعض چیزوں کا مرکب ہیں اور وہ چیزیں خدا تعالیٰ نے پیدا کی ہیں.پھر تارکول 2ے ہے.تارکول خدا تعالیٰ نے

Page 350

خطبات محمود 340 $1954 پیدا کیا ہے اور اس سے عام استعمال میں آنے والی آدھی سنتھنک ( SYNTHETIC) دوائیں بنتی ہیں.لیکن انسان بڑے غرور سے کہتا ہے یہ دوا میں نے ایجاد کی ہے، یہ فلاں نے ہے وہ ایجاد کی ہے.اور وہ بالکل بھول جاتا ہے کہ جن چیزوں سے اس نے یہ دوا بنائی خدا تعالی کی ہی پیدا کردہ ہیں.پس ایک زمانہ جہالت کا ایسا آتا ہے کہ انسان خدا تعالیٰ کی پیدا کردہ چیزوں کو اتفاق کی طرف منسوب کرتا ہے اور خدا تعالیٰ کو بھول جاتا ہے.اور پھر ایک ایسا زمانہ آتا ہے کہ وہ ان چیزوں کو اپنی طرف منسوب کرنے لگ جاتا ہے.پھر علم کا زمانہ آتا ہے اور انسان سمجھتا ہے کہ سب چیزیں خدا تعالیٰ نے بنائی ہیں.پھر اس سے آگے ایک اور زمانہ آتا ہے جب انسان خدا تعالیٰ کے ہاتھ کو ہر چیز میں حرکت کرتا دیکھتا ہے اور اُسے نظر آ رہا ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ اُسے بنا رہا ہے.غرض میں دیکھتا ہوں کہ شرارت کی تاریں پھر ہلائی جا رہی ہیں.تم نے پہلے بھی دیکھا ہے کہ جو کچھ ہوا تمہاری کسی کارروائی کے نتیجہ میں نہیں ہوا.محض خدا تعالیٰ کی مدد اور نصرت سے ہوا تھا.اور آئندہ بھی جو کچھ ہو گا اُس کی مدد اور نصرت سے ہی ہو گا.ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنے وجود کو خدا تعالیٰ کے لیے ضروری بنا لیں.مثلاً اس وقت خدا تعالیٰ چاہتا ہے کہ وہ اسلام کو زندہ کرے.پس تم اپنا وجود اس قسم کا بنا لو کہ اس کے ذریعہ اسلام زندہ ہو.جنگ بدر کے موقع پر مسلمانوں کی تعداد بہت کم تھی اور دشمن کی تعداد اُن سے کئی گنا زیادہ تھی.پھر اسلامی لشکر کے سپاہی آزمودہ کار نہیں تھے اور دشمن کے تمام سپاہی آزمودہ کار تھے.پھر اسلامی لشکر کے پاس سامانِ حرب بھی بہت کم تھا ، دشمن کے پاس سامانِ حرب وافر مقدار میں تھا.پھر اردگرد کے علاقہ کے رہنے والے دشمن کے ہم مذہب تھے.اگر صحابہ کے قدم اکھڑ جاتے اور وہ پناہ لینے کے لیے اردگرد کے علاقہ میں جاتے تو اُس کے رہنے والوں نے انہیں مار مار کر ختم کر دینا تھا.اول تو اُن کا بچنا ہی مشکل تھا لیکن اگر وہ دشمن کے لشکر سے بچ جاتے تو اردگرد کے علاقہ کے لوگوں نے انہیں ختم کر دینا تھا.دشمن کے لشکر کے لیے زیادہ سہولت تھی.اُس کے پاس سامان زیادہ تھا.انہوں نے جس جگہ پر قبضہ کیا تھا وہ بھی

Page 351

$1954 341 خطبات محمود مسلمانوں کی نسبت زیادہ اچھی تھی.پھر اگر انہیں شکست بھی ہوتی تو اردگرد کے علاقہ کے بسنے والے اُن کے واقف اور ہم مذہب تھے.گویا اول تو فتح یقینی تھی اور پھر شکست کی صورت میں اُن کے پاس چھپنے اور بھاگنے کے سامان بھی تھے.اُس وقت رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ و نے اس جذبہ کو مدنظر رکھ کر دعا کی کہ اے خدا! ہم کمزور اور ناتواں ہیں اور اور دشمن طاقتور لیکن اے خدا! اگر یہ چھوٹی سی جماعت ہلاک ہو گئی تو لَنُ تُعْبَدَ فِي الْاَرْضِ اَبَدًا - 4 اِس زمين ہے پر تیری عبادت کوئی نہیں کرے گا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ فقرہ اس لیے استعمال کیا تھا کہ اس چھوٹی سی جماعت نے یہ ثابت کر دیا تھا کہ زمین پر خدا تعالیٰ کی عبادت صرف انہی کے ذریعہ سے قائم ہے.اگر واقع میں وہ تھوڑے سے افراد خدا تعالیٰ کی عبادت کرنے والے نہ ہوتے تو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب یہ کہا تھا کہ لَنْ تُعْبَدَ فِي الْأَرْضِ اَبَدًا تو خدا تعالیٰ کہتا یہ بات درست نہیں.ان سے بہتر عبادت کرنے والے موجود ہیں.لیکن خدا تعالیٰ نے انہیں ایسا نہیں کہا.دوسرے لفظوں میں خدا تعالیٰ نے مان لیا کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دلیل درست ہے.اگر یہ چھوٹا سا گروہ مارا گیا تو میری عبادت اس زمین پر نہیں ہو گی.اب یہ ایک ذریعہ تھا خدا تعالیٰ کی مدد اور نصرت حاصل کرنے کی کا.تم بھی اپنے وجودوں کو خدا تعالیٰ کے دین کے احیاء کا ذریعہ بنا لو.اگر تم ایسا کر لو تو چونکہ خدا تعالیٰ اس وقت دین کا احیاء چاہتا ہے.اس لیے یہ ممکن ہی نہیں کہ کوئی تمہیں مار سکے لیکن میں دیکھ رہا ہوں کہ جوں جوں جماعت ترقی کر رہی ہے افراد میں دنیوی خیالات آ رہے ہیں اور وہ دنیوی کاموں کو دین کے کاموں پر مقدم کر رہے ہیں.کسی کو بڑا عہدہ مل جاتا ہے تو اُس کی بیوی پردہ اُتار دیتی ہے.ذرا اور اوپر چلے جاتے ہیں تو بعض دوسری خرابیاں بھی پیدا ہو جاتی ہیں.اگر تم دوسرے لوگوں کی طرح اس رو میں بہہ جاؤ اور تم میں خرابیاں پیدا ہو جائیں تو خدا تعالیٰ کو کیا ضرورت ہے کہ وہ تمہیں بچائے.تمہاری ضرورت اُسے تبھی ہو گی.جب تم دین کی خدمت اس طریق سے کرو کہ باوجود اس کے کہ تم کمزور ہو خدا تعالیٰ یہ محسوس کرے کہ تمہارا بچانا ضروری ہے.میں یہ نہیں کہتا کہ تم میں کسی قسم کی کمزوری

Page 352

$1954 342 خطبات محمود نہیں ہونی چاہیے.اب تک کوئی جماعت ایسی پیدا نہیں ہوئی جس میں کمزوریاں اور نقائص : ہوں.لیکن میں یہ ضرور کہوں گا کہ انسان ایک وقت ایسے مقام پر پہنچ جاتا ہے کہ اُس کی نہ غیرت ہمیشہ اُسے دین کی طرف لے جاتی ہے اور یہ مومن کی علامت ہے.اس کے مقابلہ میں کوئی انسان ایسے مقام پر پہنچ جاتا ہے کہ وہ لالچ میں آکر دین کو چھوڑ دیتا ہے اور یہ کفر کی علامت ہوتی ہے.بہر حال کمزوریوں کے باوجود ایک سچا مومن ایسے مقام پر کھڑا ہوتا ہے کہ دنیا کے عہدے اور اُس کی عظمت اور شان اُس کے سامنے بالکل بیچ ہو جاتی ہے.بیشک اس سے آگے بھی کمال کے درجے ہیں لیکن بشاشت ایمان کی یہ علامت ہے کہ جب کوئی انسان یہ دیکھ رہا ہو کہ اب دین بدنام ہو رہا ہے اور اس کے لیے اُس کی قربانی کی ضرورت ہے تو وہ ہر قسم کی قربانی کر کے دین کی خدمت کے لیے اپنے آپ کو پیش کر دے.اس وقت اسلام پر ایک نازک وقت ہے اور اسے اچھے کارکنوں کی سخت ضرورت ہے.اگر ہماری جماعت میں اس کی خاطر قربانی کا جذبہ پیدا نہ ہو تو اس کے معنے یہ ہیں کہ انہیں بشاشت ایمان حاصل نہیں یہ بھی یاد رکھو کہ ہر انسان اپنے اپنے ذوق کے مطابق کام کیا کرتا ہے.جو شخص ایمان سے کورا ہوتا ہے وہ فتنہ و فساد کے لیے تیار ہو جاتا ہے اور گالیوں پر اتر آتا ہے.کیا جس شخص میں ایمان ہوتا ہے وہ اپنے جذبات کو اپنے قابو میں رکھتا ہے اور فساد اور فتنہ پر نہیں اتر آتا.پس تم صرف یہ نہ دیکھو کہ تمہارا دشمن کیا کرتا ہے بلکہ یہ بھی دیکھو کہ خدا تعالیٰ نے تمہیں کس مقام کے لیے پیدا کیا ہے.اگر دشمن تمہیں اشتعال دلاتا ہے تو تم اپنے جذبات کو قابو میں رکھو اور اُسے اس طرح جواب دو کہ اگر اُسے فائدہ نہ پہنچے تو کم از کم دوسرے ساتھ بیٹھنے والے لوگوں کو فائدہ پہنچ جائے اور وہ دشمن کے عمل اور تمہارے عمل میں فرق کر سکیں.اگر تم میں اور تمہارے دشمن میں دوسرا شخص کوئی امتیاز نہیں کر سکتا تو تم میں اور اُس میں کوئی فرق نہیں.اگر تمہارے ساتھ بیٹھنے والے اور تمہاری بات سننے والے لوگ تمہارے درمیان اور تمہارے دشمن کے درمیان فرق کر لیں تو تم اللہ تعالیٰ کے فضل کے امیدوار ہو سکتے ہو.مجھے یاد ہے کہ خلافت کا جھگڑا شروع ہونے سے پہلے میں نے ایک دفعہ رویا دیکھا کہ کوئی بہت بڑا اور اہم کام میرے سپرد کیا گیا ہے اور یوں معلوم ہوتا ہے کہ میرے راستہ میں

Page 353

$1954 343 خطبات محمود بہت سی مشکلات حائل ہوں گی.میں ایک پہاڑی سے دوسری پہاڑی پر جانا چاہتا ہوں کہ خدا تعالیٰ کا ایک فرشتہ میرے پاس آیا اور اُس نے مجھے نصیحت کی کہ یہ رستہ بڑا خطرناک ہے.اس میں بڑے مصائب اور ڈراؤنے نظارے ہیں.ایسا نہ ہو کہ تم ان سے متاثر ہو جاؤ اور تو منزل مقصود پر پہنچنے سے رہ جاؤ.تم جب بھاری جنگلوں، پہاڑوں اور وادیوں سے گزرو گے نہ مختلف قسم کے بُھوت اور بلائیں تمہیں ڈرائیں گی اور تمہیں اپنے مقصد سے ہٹانا چاہیں گی.کہیں صرف آواز میں ہی آواز میں ہوں گی شکلیں نہیں ہوں گی، کہیں صرف شکلیں ہوں گی اور وہ ی ادھر اُدھر حرکتیں کر رہی ہوں گی، کہیں خالی دھڑ حرکت کرتے نظر آئیں گے، کہیں صرف سر جو دھڑوں سے کٹے ہوئے ہوں گے ہوا میں معلق تمہارے سامنے آئیں گے اور تمہیں ڈرائیں گے.تم اُس طرف متوجہ نہ ہونا اور سیدھے چلتے جانا اور یہی کہتے جانا کہ " خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ ”خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ.چنانچہ جب میں روانہ ہوا اور جنگلوں میں سے گزرا تو کبھی چیتے سامنے آ جاتے اور مجھے ڈراتے، کہیں شیر دکھائی دیتے اور وہ انسانوں کی طرح باتیں کرتے اور مجھے گالیاں دیتے، کہیں دھر بغیر سر کے اور کہیں خالی سر بغیر دھڑ کے نظر آتے اور میری توجہ دوسری طرف پھرانے کی کوشش کرتے.لیکن میں فرشتہ کی نصیحت پر عمل کرتا چلا گیا اور جب میں ”خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ کہتا تو وہ چیزیں غائب ہو جاتیں.یہاں کی تک کہ میں نے سارا رستہ طے کر لیا اور اپنے منزلِ مقصود پر پہنچ گیا.وہاں میں خدا تعالیٰ کے سامنے حاضر ہوا اور اُسے میں نے اپنے سفر کی رپورٹ پیش کی.قرآن کریم میں بھی اللہ تعالیٰ فرماتا ہے هُوَ الْاَوَّلُ وَالْآخِرُ - 5- اللہ تعالیٰ ہی انسان کو کام پر لگاتا ہے اور وہی اُس کے خاتمہ پر اس سے حساب لیتا ہے.پس جب انسان یہ مدنظر رکھے کہ خدا تعالیٰ نے ہی اسے کام پر لگایا ہے اور وہی اس سے آخر میں حساب لے گا تو ی اسے اس قسم کا غصہ نہیں آیا کرتا جس قسم کا غصہ ایک جاہل اور بے دین انسان کو آیا کرتا ہے.ایک جاہل اور بے دین انسان جھوٹ بول کر لوگوں کو اکساتا ہے اور ہزاروں لوگ اس پر یقین کی کر لیتے ہیں.لیکن ایک مومن سمجھتا ہے کہ یہ کام خدا تعالیٰ کا ہے.اُس نے مجھ سے حساب لینا ہے.اس لیے مجھے اس کی خاطر جھوٹ بولنے کی کیا ضرورت ہے.اگر خدا تعالیٰ کے دین کو

Page 354

$1954 344 خطبات محمود کوئی نقصان پہنچتا ہے اور میں جھوٹ بول کر اسے بچانا چاہتا ہوں تو یہ میری اپنی کمزوری علامت ہے ورنہ خدا تعالیٰ کا دین اس سے بالا ہے کہ اس کے لیے جھوٹ اور فریب اور دھڑے بازی سے کام لیا جائے.ہر شخص جو کسی چیز کو بچانا چاہتا ہے وہ اس کی خاطر ایسے ذرائع تجویز کرتا ہے جو اس کے مناسب حال ہوں.جو شخص غلیظ ہوتا ہے اُس کا گھر بھی غلیظ ہوتا ہے، جو شخص ادیب ہوتا ہے اُس کے منہ سے بھی اعلیٰ کلمات جاری ہوتے ہیں اور جو شخص جاہل ہوتا ہے اُس کے منہ سے جہالت کے کلمات نکلتے ہیں.پھر یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ خدا تعالیٰ ایک تعلیم دے اور پھر انسان کو مجبور کرے کہ وہ دین کی تائید کے لیے اس تعلیم کے خلاف چلے تا کہ اس کا مقصد پورا ہو.یقیناً اُس نے اپنا مقصد پورا کرنے کے لیے جو ذرائع مقرر کیے ہیں وہی صحیح ہیں.اور ہر انسان کا فرض ہے کہ ان ذرائع کو کسی حالت میں بھی ترک نہ کرے.پس مخالفت کا علاج یہی ہوتا ہے کہ انسان خدا تعالیٰ کے فضل پر بھروسہ کرتے ہوئے چلتا چلا جائے.بہت سی باتیں ایسی ہوتی ہیں جن کا جواب دینے کی ضرورت نہیں ہوتی.اور جن چیزوں کا جواب دینا ضروری ہو اُن کا جواب شریفانہ طور پر دینا چاہیے تا ہر غیر جانبدار شخص کہہ سکے کہ جواب دینے والے نے شریفانہ رستہ اختیار کیا ہے.اگر تم ایسا کرو گے تو تمہاری فتح جلد آ جائے گی.تم جس مقصد کے لیے کھڑے ہوئے ہو وہ خدا تعالیٰ کا مقصد ہے.اگر تم اس کے لیے صحیح طور پر کوشش کرو تو بیوقوف سے بیوقوف آدمی بھی یہ نہیں کہہ سکتا کہ خدا تعالیٰ تمہارے کام میں روک ڈالے گا.یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ میں ایک معمار کو بلاؤں اور اُسے کہوں یہ عمارت جلد بنا دو اور پھر خود ہی اینٹ اور دوسری چیزیں باہر پھینکنا شروع کر دوں.اگر میں ایسا کروں گا تو اپنا ہی نقصان کروں گا ، اسی طرح جب خدا تعالیٰ نے ہمیں اپنے کام کے لیے کھڑا کیا ہے تو اگر ہم شرافت اور اخلاص سے کام کریں گے تو وہ ہمارے کام میں روک نہیں ڈالے گا.ضرورت صرف اس بات کی ہے کہ تم اپنے نفوس کو درست کرو اور اپنے آپ کو دین کی خدمت میں لگا دو تبھی تم اُس سے اجر کے امیدوار ہو سکتے ہو.اگر ایک معمار عمارت بنانے کی بجائے سارا دن کبڈی کھیلتا رہے اور شام کو مالک سے اُجرت کا مطالبہ کرے تو مالک اُسے کچھ بھی نہیں دے گا.ہاں! اگر وہ شام تک عمارت بناتا رہے تو وہ اُجرت کا مستحق ہوگا.

Page 355

$1954 345 خطبات محمود اسی طرح اگر تم خدا تعالیٰ کا کام کرو گے تو تم خدا تعالیٰ کے انعام کے مستحق بنو گے.اور اگر دنیا کی طرف جھک جاؤ گے اور خدا تعالیٰ کے کام سے منہ پھیر لو گے تو وہ جیسا سلوک دوسر.لوگوں سے کرے گا ویسا ہی سلوک تم سے بھی کرے گا.( الفضل 8 دسمبر 1954ء) 1 : إِنَّمَا أُوتِيتُهُ عَلَى عِلْمٍ (القصص: 79) 2 تارکول: (COAL TAR) 3 : سنتهٹک (SYNTHETIC) کیمیائی ترکیب سے بنی ہوئی.4 : صحيح مسلم كتاب الجهاد باب الامداد بالملائكة في غزوة بدر میں لا تُعبَدُ فِي الْأَرْضِ“ کے الفاظ ہیں.5 : الحديد : 4

Page 356

$1954 346 (34) خطبات محمود اگلے جمعہ تحریک جدید کے نئے سال کا آغاز ہونے والا ہے یہ ہفتہ دعاؤں میں گزار و تا وقت آنے پر تم بشاشت ایمان، عزم اور ارادے کے ساتھ تحریک جدید کے جہاد میں حصہ لے سکو (فرموده 19 نومبر 1954ء بمقام ربوہ) تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: " آج میں تین امور کے متعلق مختصراً بعض باتیں کہنا چاہتا ہوں.پہلی بات تو یہ ہے کہ سیالکوٹ سے ایک دوست میرے پاس ایک چٹھی لائے کہ یہاں ایک ایسا شخص ہے جو نہ صرف جماعت کا مُصدّق ہے بلکہ تحقیقاتی عدالت میں بھی اس نے ہمارے حق میں شہادت دی تھی.وہ اس وقت شدید بیمار ہے.اگر وہ فوت ہو جائے تو آیا اُس کا جنازہ پڑھ لیا جائے یا نہیں؟ جس شخص کا یہ نام تھا یا کم از کم جس شخص کے متعلق میں سمجھا تھا کہ یہ اُس کا نام ہے (ممکن ہے یہ بات غلط ہو اور یہ شخص جس کے متعلق تحریر کیا گیا ہے اُس کا ہم نام ہو.اس میں صرف یہی خصوصیت ہی نہیں بلکہ وہ ایک نہایت پرانے احمدی کا بیٹا ہے اور ایک زمانہ میں وہ جماعت کا پریذیڈنٹ یا امیر بھی رہ چکا ہے.اس کے کئی رشتہ داروں نے مجھے سنایا کہ گزشتہ ایام میں نہ صرف اس نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی

Page 357

$1954 347 خطبات محمود تکذیب ہی نہیں کی بلکہ بعض اوقات اس پر جنون کی حالت طاری ہو جاتی تھی اور وہ کہتا تھا کہ میرے رشتہ داروں نے میرا ایمان خراب کر دیا ہے.جس کے یہ معنے ہیں کہ وہ حقیقتاً جماعت سچائی کا قائل ہے.یہ تمام باتیں میرے دل میں آئیں اور میں نے جماعت کو لکھ دیا کہ اگر تم چاہو تو اس کا جنازہ پڑھ لو.جیسا کہ میں نے بتایا ہے خط میں اس شخص کے متعلق زیادہ ذکر نہیں تھا.ہاں اُس کے متعلق جو میری معلومات تھیں اُن کو مدنظر رکھتے ہوئے میں نے جماعت سے کہہ دیا کہ اگر چاہیں تو وہ اس کا جنازہ پڑھ سکتے ہیں.بعد میں جو تحقیقات ہوئی ہے اُس سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ غالباً یہ وہی شخص تھا جو میں نے سمجھا تھا.ساتھ ہی بعض اور دوستوں کے خطوط بھی آئے ہیں جو تر ڈ د ظاہر کرتے ہیں.اس لیے میں یہ اعلان کرنا چاہتا ہوں کہ یہ میری طرف سے فتوای نہیں ہے بلکہ وقتی طور پر مقامی جماعت کی طرف سے درخواست کرنے اور بعض معلومات کی بناء پر میں نے اُن کو اس شخص کا جنازہ پڑھنے کی اجازت دی ہے.یوں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک خط ملا ہے جس کے متعلق اعلان ہو چکا ہے کہ میرے 1917ء والے اعلان کی موجودگی میں اس مسئلہ پر دوبارہ غور کیا جائے گا.چنانچہ سلسلہ کے علماء کی ایک مجلس بلائی جائے گی اور وہ اس مسئلہ پر غور کرے گی.اور اگر یہ معلوم ہو گیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام کے نزدیک نماز جنازہ عبادت نہیں بلکہ محض دعا ہے.جیسا کہ پچھلے اکابر میں سے بعض کا خیال ہے اور کتب فقہ میں مندرج ہے تو اس فتوی کو جیسا کہ 1917ء میں اعلان کیا جا چکائی ہے تبدیل کر دیا جائے گا.حقیقت یہ ہے کہ یہ آج کا سوال نہیں بلکہ 1917 ء کا سوال ہے.اتفاق سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا فتوای میرے سامنے پیش نہ ہوا.1953ء میں جب یہ سوال پیدا ہوا تو ایک احمدی نوجوان نے جس کے پاس یہ فتوای موجود تھا مجھ سے کہا کہ جنازہ کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا فتوی میرے پاس نکل آیا ہے.فتوای میرے باپ نے پوچھا تھا.چنانچہ میں نے دیکھا کہ وہ فتوای حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کے ہاتھ کا لکھا ہوا تھا لیکن اس کے معنوں کے بارہ میں میں یہ اعلان کر چکا ہوں کہ سلسلہ کے علماء بلائے جائیں گے اور ان کی بحث کے بعد اس خط کے اصلی مفہوم کے بارہ میں.

Page 358

$1954 348 خطبات محمود اعلان کیا جائے گا.ایک دفعہ اسی مسئلہ پر جماعت میں تفصیلی بحث ہو چکی ہے.اس لیے مناسب نہیں کہ میں بغیر مشورہ کوئی فیصلہ کر دوں.اس لیے سیالکوٹ والوں کو بھی اور دوسری جماعتوں کو بھی یہ یاد رکھنا چاہیے کہ ایک شخص کے خاص حالات کی وجہ سے جو جماعت نے مجھے لکھے اور بعض ذاتی معلومات کی بناء پر میں نے اُس کا جنازہ پڑھنے کی اجازت دی ہے ورنہ عام فتوی نہیں.بعض واقعات کی وجہ سے میری نیک ظنی نے تقاضا کیا کہ اُس کے اندرونے کی نسبت بھی قرار دوں کہ وہ احمدی تھا.ورنہ بدگو اور مکذب کے متعلق تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا فتوای موجود ہے کہ اُس کا جنازہ نہ پڑھا جائے لیکن جو مکفر اور مکڈ نہیں اس کے متعلق غور کیا جائے گا اور علماء کی بحث کے بعد جماعتی فتوای شائع کیا جائے گا.اس سے پہلے میری اس تحریر کو اس بارہ میں دلیل قرار دینا درست نہیں ہوگا.دوسری بات جس کی طرف میں جماعت کو پہلے بھی توجہ دلا چکا ہوں یہ ہے کہ جماعت کو کارکنوں کی ضرورت ہے جو اس وقت مل نہیں رہے.جو لوگ پنشنر ہیں وہ اپنی عمر کا اکثر حصہ دنیا کمانے میں صرف کر دیتے ہیں اور پھر کوشش کرتے ہیں کہ اپنی آخری عمر میں بھی روپیہ کمانے کے ثواب سے محروم نہ رہیں.پس ایک طرف پنشنروں میں دین کی خدمت کا احساس نہیں اور دوسری طرف جو نوجوان ہیں وہ اول تو اپنی زندگی وقف نہیں کرتے اور جو زندگی وقف کرتے ہیں وہ مختلف بہانے بنا کر بھاگنے کی کوشش کرتے ہیں بلکہ وقف اب ایک ہے تجارت کا ذریعہ بن کر رہ گیا ہے.ماں باپ آتے ہیں اور کہتے ہیں میرا فلاں بیٹا وقف.اور اس وقت تعلیم حاصل کر رہا ہے.کچھ روپیہ دے دیا جائے تو وہ اپنی تعلیم مکمل کر لے.لیکن جب تعلیم مکمل ہو جاتی ہے تو وہ وقف سے بھاگ جاتا ہے.یہ لوگ اول درجہ کے بے ایمان، مجرم اور خائن ہیں.میں نے فیصلہ کیا ہے کہ اب میں انہیں چھوڑوں گا نہیں.باقی نو جوانوں میں بھی ایسی رو چل گئی ہے کہ وہ دین کی خدمت سے بھاگتے ہیں.میں نے فیصلہ کیا ہے کہ اب اس معاملہ میں سختی سے کام لیا جائے.یہ لوگ ایسے ہی ہیں جیسے دینی جنگوں سے بھاگنے الے.ہماری جنگ تلوار کی جنگ نہیں بلکہ تبلیغ کی جنگ ہے.پس جو شخص دین کی خدمت سے بھاگتا ہے اُس کی مثال ایسی ہی ہے جیسے بدر، احد یا دوسری جنگوں سے بھاگنے والے شخص کی

Page 359

$1954 349 خطبات محمود اور چونکہ وہ میدانِ جنگ سے گریز کرتا ہے اس لیے اس بارہ میں میں اب سختی سے کام لوں گا.بعد میں اس کی تفصیل بھی شائع کر دی جائے گی تا کہ لوگوں کو وقف کی اہمیت کا احساس ہو.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ بعض دفعہ وقف ناقابلِ برداشت ہو جاتا ہے اور اس سے خاندان کے دوسرے افراد کو بھی تکلیف ہوتی ہے.مثلاً خاندان بڑا ہے لیکن ایک ہی لڑکا ہے جس کی زندگی ماں باپ نے وقف کر دی ہے.یا زیادہ لڑکے ہیں لیکن سب کی زندگیاں وقف ہیں یا ان میں سے اکثر کی زندگیاں وقف ہیں.اب جب وہ بڑے ہو جاتے ہیں تو ہر ایک کی حالت ایک سی نہیں ہوتی.گھر کے کاموں کے لیے بھی اُن میں سے کسی کی ضرورت ہوتی ہے.اس کے متعلق میں نے پہلے سے اعلان کیا ہوا ہے کہ اِس صورت میں ہم اُن میں سے ایک حصہ کو فارغ کر دیں گے.ہم انہیں مجبور نہیں کریں گے کہ وہ ضرور وقف سے فارغ ہو جائیں.ہاں اگر وہ خود فراغت چاہیں گے تو انہیں فارغ کر دیا جائے گا.اس کے متعلق میرا خیال ہے کہ بعد میں بعض تفصیلی قواعد بیان کر دوں.ویسے میں نے اعلان کر دیا ہوا ہے کہ اگر کسی کا ایک ہی بیٹا ہے اور اُس کی زندگی وقف کی ہوئی ہے یا زیادہ بیٹے ہیں لیکن سب کی زندگیاں وقف کی ہوئی ہیں تو ہم اُسے یا اگر زیادہ ہوں تو اُن میں سے ایک حصہ کو وقف فارغ کر دیں گے.لیکن ایسے لوگ جن کے لیے سہولت ہے اور وہ اپنے سب لڑکے وقف کہ سکتے ہیں اُن کو خود نہیں نکالیں گے لیکن اگر کسی خاندان کے اکثر افراد نے زندگیاں وقف کر دی ہوں اور خاندان کو سنبھالنے میں دقت ہو تو ہم اُن کے لیے یہ سہولت کر دیں گے کہ اُن میں سے ایک حصہ لے لیں گے اور ایک حصہ کو اگر وہ چاہیں گے تو فارغ کر دیں گے.تیسری بات میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ تاریخ کے لحاظ سے اگلا جمعہ اُن دنوں میں واقعی ہے جس میں میں تحریک جدید کے نئے سال کا اعلان کیا کرتا ہوں.اگر اللہ تعالیٰ نے توفیق دی تو اگلے جمعہ میں تحریک جدید کے نئے سال کا اعلان کروں گا.قرآن کریم کی سنت سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ ہمیشہ بڑے کاموں سے پہلے اُن کے متعلق ایک تمہید بیان کیا کرتا جسے مستقل حکم سمجھ کر بعض لوگ قرآن کریم میں اختلاف پاتے اور اُس کے حل کرنے میں

Page 360

$1954 350 خطبات محمود مشکلات محسوس کرتے ہیں.حالانکہ وہ اختلاف نہیں ہوتا بلکہ کچھ آیات تمہید ہوتی ہیں.ایک بڑے کام کی جس کی طرف طبائع کو متوجہ کیا جاتا ہے.گویا وہ ایک غیر معتین اعلان ہوتا ہے جسے مستقل حکم سمجھ کر قرآن کریم میں بیان کردہ اصل حکم سے اختلاف کرنے والا قرار دیا جات ہے.اس حکمت سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ پچھلے ایک دو سالوں کے چندہ سے معلوم ہوتا ہے کہ جماعت میں تحریک جدید کی طرف وہ توجہ نہیں رہی جو اس سے پہلے سالوں میں تھی.یوں بھی جماعت میں بہت سے لوگ چندہ میں سُست ہیں.اگر جماعت حقیقتا صحیح طور پر چندہ دے تو اس وقت کی تعداد کے لحاظ سے جماعت کا چندہ پچیس تھیں لاکھ چاہیے.پانچ لاکھ تحریک جدید کا اور پچیس لاکھ جماعت کے دوسرے چندے.لیکن اگر عملاً وصولی کو دیکھا جائے تو تحریک جدید کا چندہ دو لاکھ کے قریب ہے اور صدرانجمن احمدیہ کا چندہ آٹھ نو لاکھ کے قریب.گویا صدرانجمن احمدیہ اور تحریک جدید کو مدنظر رکھتے ہوئے جماعت کا چنده چالیس فیصدی کے قریب ہے.اس لیے جماعت کے کام جس سہولت سے ہونے چاہیں اور جس پیمانہ پر ہونے چاہیں نہیں ہو سکتے.خصوصاً تحریک جدید کے کاموں میں بہت سی مشکلات ہیں.تحریک جدید کا کام چونکہ دنیا میں پھیلتا جاتا ہے اس لیے کئی ممالک کی طرف سے مشن کھولنے کی درخواستیں آ رہی ہیں.اب ہمارے لیے یہ بڑی مشکل ہے کہ ہم انہیں کہہ دیں کہ چونکہ ہماری جماعت پر بہت زیادہ مالی بوجھ ہے اس لیے ہم مشن نہیں کھول سکتے.یہ خیال بالکل غلط ہے کہ اگر جماعت اتنا مالی بوجھ اُٹھانے پر تیار ہو جائے تو پھر اس کے اوپر مشنوں کا بوجھ کس طرح اُٹھایا جائے گا کیونکہ جب کوئی جماعت پورے طور پر کسی کام کے لیے تیار ہو جاتی ہے تو اس کے ساتھ خدا تعالیٰ بھی شریک ہو جاتا ہے.اگر تمہیں خدا تعالیٰ نے انجمن کے پچیس لاکھ اور تحریک جدید کے پانچ لاکھ چندے کی توفیق دے دی تو پھر یقیناً خدا تعالیٰ وہ جماعت بھیج دے گا جو انجمن کا چندہ پچیس لاکھ کی بجائے پینتیس لاکھ اور تحریک جدید کا چندہ پانچ لاکھ کی بجائے سات آٹھ لاکھ ادا کرے گی.یہ جو میں نے کہا ہے کہ تحریک جدید کا چندہ دو لاکھ کے قریب ہوتا ہے یہ پاکستان اور ہندوستان کا چندہ ہے.بیرونی چندے ملا کر اب بھی پانچ لاکھ ہو جاتا ہے لیکن چونکہ

Page 361

$1954 351 خطبات محمود بیرونی جماعتیں تعداد میں کم ہیں اس لیے اُن کے چندوں سے ہمیں عالمگیر سکیم میں کوئی فائدہ نہیں پہنچتا.ہاں مقامی طور پر اُن کا فائدہ پہنچ جاتا ہے مثلاً انڈونیشیا کا مشن ہے.وہ اپنا سارا بوجھ خود برداشت کر رہا ہے، ایسٹ افریقہ کا مشن ہے وہ اپنا بوجھ خود اٹھا رہا ہے، مغربی افریقہ کے تین مشن ہیں وہ بھی اپنا بوجھ خود اٹھاتے ہیں، شام کا مشن ہے وہ بھی قریباً اپنا سارا بوجھ خود برداشت کرتا ہے.اسی طرح اور کئی مشن ہیں جو اپنا سارا بوجھ تو نہیں اُٹھاتے لیکن ایک حصہ ضرور اُٹھاتے ہیں.کوئی تین چوتھائی بوجھ اُٹھا رہا ہے، کوئی نصف بوجھ اُٹھا رہا ہے، کوئی ایک تہائی بوجھ اُٹھا رہا ہے، کوئی ایک چوتھائی بوجھ اُٹھا رہا ہے.اس لیے اُن پر مرکز کو زیادہ رقم خرچ کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی.مرکز کو لازمی طور پر اس قسم کے مشنوں پر کم خرچ کرنا پڑتا ہے.لیکن جہاں جماعت کے افراد کی تعداد بہت کم ہے اور اخراجات زیادہ ہیں مثلاً ہالینڈ ہے، امریکہ ہے، سوئٹزرلینڈ ہے، جرمنی ہے وہاں زیادہ تر مرکز کو بوجھ اُٹھانا پڑتا ہے کیونکہ وہ جماعتیں بہت تھوڑا بوجھ خود اُٹھا سکتی ہیں.یا مبلغ آتے جاتے ہیں تو اُن کا کرایہ اور دوسرے مصارف مرکز کو برداشت کرنے پڑتے ہیں.یا طالبعلم خصوصاً بیرونی طالبعلم ہیں اُن کے اخراجات مرکز کو برداشت کرنے پڑتے ہیں.اس وقت زیادہ تر انہی مدات پر خرچ ہوتا ہے.اگر کسی جگہ نیا مشن کھولا جائے تو چونکہ ایک دو سال تک وہاں جماعت اس قدر نہیں ہوتی کہ وہ کوئی مالی بوجھ اُٹھا سکے اس لیے سب اخراجات مرکز کو برداشت کرنے پڑیں گے.مثلاً جاپان میں اس وقت احمد یہ جماعت قائم نہیں.اگر ہم وہاں اپنا مشن کھولیں تو اُس وقت تک کہ وہاں جماعت قائم ہو جائے اور وہ اپنا سب بوجھ یا اُس کا کسی قدر حصہ اُٹھانے کے قابل ہو جائے سب بوجھ مرکز کو اُٹھانا پڑے گا.جاپان میں لوگوں کو مذہب کی طرف توجہ ہے اور اچھے اچھے لوگوں نے خواہش کی ہے کہ انہیں احمدیت سے روشناس کیا جائے.لیکن چندہ کم آنے کی وجہ ہمیں تو شاید بعض پہلے مشن بھی بند کرنے پڑیں.اس لیے ہم وہاں نیا مشن نہیں کھول سکتے.اب دیکھو! جاپان کتنا عظیم الشان ملک ہے.اگر ہم وہاں مشن کھول دیں اور خدا کرے وہاں ہماری جماعت قائم ہو جائے تو احمدیت کی آواز سارے مشرقی ایشیا میں گونجنے لگ جائے لیکن ہماری موجودہ حیثیت ایسی نہیں کہ ہم کوئی نیا مالی بوجھ برداشت کر سکیں.پھر آسٹریلیا

Page 362

$1954 خطبات محمود 352 وسعت کے لحاظ سے وہ ہندوستان سے بڑا ہے اور آبادی بڑھ جانے کی وجہ سے اس کی حیثیت کی بہت بڑھ جائے گی.وہاں پہلے ایشیائیوں کو نہیں آنے دیتے تھے.لیکن اب یہ رو بدل گئی ہے.وہاں سے ایک نوجوان نے مجھے تحریک کی کہ یہاں کوئی مبلغ بھیجیں.میں نے اُسے جواب دیا کہ اس وقت ہم کوئی نیا مالی بوجھ برداشت نہیں کر سکتے.یوں اگر ہو سکا تو ہم سروے کے لیے کسی شخص کو بھجوا دیں گے.لیکن مشکل یہ ہے کہ آسٹریلیا میں کسی ایشیائی کو نہیں آنے دیتے.اُس نوجوان نے جوش میں آکر گورنمنٹ کو خط لکھ دیا کہ ہمیں یہاں مبلغ بھیجوانے کی اجازت دی جائے.اس پر حکومت نے ہمیں چٹھی لکھی کہ کیا آپ یہاں کوئی مبلغ بھیجنا چاہتے ہیں؟ ہم نے جواب دیا کہ موجودہ حالات میں تو ہمارا کوئی ارادہ نہیں کہ آپ کے ملک میں کوئی مبلغ بھیجیں لیکن آپ کے ہاں جو مشکلات ہیں وہ اگر دور ہو جائیں تو شاید ہم کوئی مبلغ بھی کی دیں.اس پر وہاں سے فوراً جواب آ گیا کہ آپ بیشک اپنا مبلغ بھیج دیں.اب ہم چپ کر کے بیٹھے ہیں کیونکہ مزید مالی بوجھ کے اُٹھانے کی ہم میں طاقت نہیں.گویا چندہ کم آنے کی وجہ سے تبلیغ کے جو نئے رستے کھلتے ہیں اُن سے ہم فائدہ نہیں اُٹھا سکتے.غرض ایک طرف تو جماعت میں جو جوش پیدا ہوا تھا وہ اب ایک حد تک کم ہو گیا ہے اور دوسری طرف تحریک جدید کے بیرونی مبلغ اپنا کام لوگوں کے سامنے نہیں لاتے.اور اگر وہ کوئی کام لوگوں کے سامنے لائیں بھی تو اس طرح لاتے ہیں کہ سال کی رپورٹ اکٹھی شائع کر دیتے ہیں.اگر ہر ہفتہ یا پندرہ دن کے بعد لوگوں کے سامنے یہ بات لائی جاتی رہے کہ مثلاً امریکہ اور انگلینڈ کے مشنوں نے یہ یہ کام کیا ہے، وہاں اس قدر لوگ احمدیت میں داخل ہو گئے ہیں اور پھر وہاں کے بعض واقعات بھی بیان کیے جائیں تو چند دن کے اندراندر جماعت میں اپنے فرض کو ادا کرنے کا احساس پیدا ہو جائے.لیکن اس وقت تک جو کچھ ہو رہا ہے بعض اوقات تو مجھے اُس پر ہنسی آتی ہے.مثلاً الفضل میں چودھری خلیل احمد صاحب ناصر مبلغ امریکہ کا پر مضمون شائع ہو رہا ہے.اب کوئی اُن سے پوچھے کہ تم تو وہاں تبلیغ کے لیے گئے تھے.تم تبلیغ کی بات کرو زکوۃ کے متعلق تو تم سے زیادہ علم رکھنے والے اور تم سے زیادہ بہتر زکوة پر لکھنے والے لوگ یہاں موجود ہیں.تمہیں ایسی مصیبت میں پڑنے کی کیا ضرورت

Page 363

$1954 353 خطبات محمود تمہیں چاہیے تھا کہ اس قسم کا مضمون لکھتے جس سے لوگوں کو وہاں کے تبلیغی حالات سے واقفیت ہوتی.یا پھر زکوۃ کا مضمون اگر شائع کرنا تھا تو امریکہ میں شائع کرتے تا اُنہیں اسلام کے اس رکن سے واقفیت ہو جاتی.یہاں کے لوگ تو زکوۃ دیتے بھی ہیں اور اس بارہ میں ان کا علم بھی زیادہ ہے.پھر الفضل میں اس قسم کے مضامین سے کیا فائدہ؟ پس میں دیکھتا ہوں کہ جماعت کو تحریک جدید کی طرف توجہ نہیں رہی اور کام کرنے والے بھی جماعت کی توجہ صحیح طور پر اپنے کام کی طرف نہیں کھینچ رہے.پس چونکہ اس وقت جماعت پر ایک غفلت کی حالت طاری ہے اور اگلے جمعہ میں تحریک جدید کے نئے سال کا اعلان کرنے والا ہوں اس لیے دوستوں کو خصوصیت کے ساتھ اس ہفتہ میں یہ دعائیں کرنی چاہیں کہ اللہ تعالیٰ جماعت کو اس دلدل سے نکالے اور اس کی ترقی میں جو رکاوٹیں پیدا ہو رہی ہیں اُن کو دور کرے.اگر تمہیں ابھی تک تحریک جدید میں حصہ لینے کی توفیق نہیں ملی تو ان اللہ تعالیٰ تمہیں حصہ لینے کی توفیق عطا فرمائے اور تمہارے دلوں کی رگر ہیں کھول دے.اور اگر تمہیں اللہ تعالیٰ نے اس میں حصہ لینے کی توفیق تو دی ہے لیکن تم نے اپنی حیثیت کے مطابق اس میں حصہ نہیں لیا تو اللہ تعالیٰ تمہیں بشاشت ایمان عطا فرمائے تا تم اپنی حیثیت کے مطابق اس میں حصہ لے سکو.اور اگر تم نے اس میں حصہ لیا تھا اور اپنی حیثیت کے مطابق لیا تھا لیکن اپنی کسی شامت اعمال کی وجہ سے یا کسی مجبوری کی وجہ سے تم اپنا وعدہ پورا نہیں کر سکے تو اللہ تعالیٰ تمہاری شامت اعمال اور مجبوریاں دور کر دے اور تمہیں اپنا وعدہ پورا کرنے کی توفیق بخشے.یہ تین چیزیں ہیں.ان کے متعلق تم اس ہفتہ میں دعا کرتے رہو تا وقت آنے پر تم بشاشت ایمان، عزم اور ارادہ کے ساتھ تحریک جدید کے جہاد میں حصہ لے سکو.تم یہ جانتے ہو کہ اسلام کی خدمت کی طرف تمہارے سوا اور کسی کو توجہ نہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں ہر کسے درکار خود بادین احمد کار نیست 1 یعنی ہر شخص اپنے اپنے کام میں لگا ہوا ہے اسلام کی خدمت کی طرف کسی کو توجہ نہیں

Page 364

$1954 354 خطبات محمود اگر تم بھی کار خود کو دین کے کاموں پر ترجیح دو اور انہیں کی طرف سے بے تو جہی اختیار کر لو تو دین کا خانہ بالکل خالی رہ جائے گا.حقیقت یہ ہے اس وقت لاکھوں لاکھ غیر احمدی ایسا ہے کہ وہ اسلام کی خدمت کرنی چاہتا ہے لیکن صرف اس وجہ سے کہ تم نے یہ بوجھ اُٹھایا ہوا ہے وہ آگے نہیں آتے.اگر تم آگے نہ آئے ہوتے تو شاید وہ آگے آکر اسلام کی خدمت کا بوجھ اُٹھا لیتے.میں نے دیکھا ہے کہ کئی غیر احمدی ایسے ہیں جو دل سے یہ سمجھتے ہیں کہ جو کام یہ جماعت کر رہی ہے وہ بہت اچھا ہے لیکن ساتھ ہی وہ یہ بھی سمجھتے ہیں کہ چونکہ جماعت احمد یہ اس بوجھ کو اُٹھا رہی ہے اس لیے انہیں اس بوجھ کے اُٹھانے کی کیا ضرورت ہے.اگر تم نے یہ بوجھ نہ اٹھایا ہوتا تو وہ آگے 1 جاتے اور اس کام کو سرانجام دیتے.اگر تم بھی اس کام میں سُست پڑ جاتے ہو تو اس کے معنی یہ ہیں کہ تم نے دوسروں کو بھی اسلام کی خدمت سے روک دیا اور خود بھی غافل ہو گئے.پس تم اس گناہ اور خدا تعالیٰ کی ناراضگی کی حالت کو دور کرنے کی کوشش کرو.اور اس کو دور کرنے کا سب سے بہتر طریق یہ ہے کہ تم خدا تعالیٰ سے دعائیں کرو کہ وہ تمہیں اس موت سے بچالے اور وہ اپنے فضل سے تمہیں زندگی کا پانی پلائے تا تم اپنے فرائض کو ادا کر سکو اور خدمتِ اسلام کے اس بوجھ کو جو تم پر ڈالا گیا ہے صحیح طور پر اُٹھا سکو.خطبہ ثانیہ کے بعد فرمایا: کچھ جنازے ہیں جو میں نماز جمعہ کے بعد پڑھاؤں گا لیکن چونکہ باہر بھی دو جنازے پڑے ہیں اس لیے نماز کے معاً بعد میں باہر چلا جاؤں گا اور وہاں نماز جنازہ پڑھاؤں گا.دوست میرے ساتھ شامل ہو جائیں.جو جنازے میں پڑھاؤں گا وہ یہ ہیں:.1 - سید عبدالحکیم صاحب سونگڑہ ( بھارت) اپنی جماعت کے امیر تھے اور علاقہ میں بااثر تھے.2.منشی عنایت اللہ خان صاحب پنجیڑی آزاد کشمیر 21 / اکتوبر کو قتل کر دیئے گئے ہیں.گاؤں میں ایک ہی احمدی گھر تھا اس لیے نماز جنازہ صرف غیر احمدی رشتہ داروں نے ادا کی.3.بابو عطاء محمد صاحب ڈنگہ ضلع گجرات.4 نومبر کو فوت ہو گئے ہیں.حضرت مسیح موعود

Page 365

$1954 355 خطبات محمود علیہ الصلوۃ والسلام کے صحابی اور مخلص احمدی تھے.نماز جنازہ میں بہت کم لوگ شامل ہوئے.4.آمنہ بی بی صاحبہ اہلیہ ملک عبدالحفیظ صاحب 10 اکتوبر کو فوت ہو گئی ہیں.رشتہ دار زیادہ تر سندھ میں تھے اس لیے وہ نماز جنازہ میں شامل نہیں ہو سکے.5.منشی فتح دین صاحب ولد جیون خان صاحب شکار ماچھیاں حال چوہر منڈہ ضلع سیالکوٹ.27 اکتوبر کو فوت ہو گئے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے صحابی تھے.6.مسماۃ زینب صاحبہ اہلیہ ملک محمد انور صاحب ٹکٹ کلکٹر لاہور 7.مسماۃ بھاگ بھری صاحبہ مکھیانہ ضلع گجرات.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی صحابیہ تھیں.وفات کے وقت 85 سال کی عمر تھی.جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام جہلم تشریف لے گئے تو انہوں نے آپ کی بیعت کی تھی.یہ سات جنازے ہیں اور دو جنازے باہر پڑے ہیں.نماز جمعہ کے بعد میں جنازے پڑھاؤں گا“.1 : در نشین فارسی صفحه 147 - نظارت اشاعت وتصنیف ربوہ (الفضل 23 نومبر 1954 ء)

Page 366

$1954 356 35 خطبات محمود تحریک جدید کے ذریعہ تبلیغ اسلام کے زبردست کام کی بنیاد رکھی گئی ہے (فرموده 26 نومبر 1954ء بمقام ربوہ) تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: آج تحریک جدید کے نئے سال کے اعلان کا دن ہے.تحریک جدید کے پہلے سال کا اعلان 1934ء میں ہوا تھا اور اب 1954 ء میں اس پر میں سال گزر چکے ہیں اور آج ای اکیسویں سال کا اعلان ہو رہا ہے.اکیسواں سال انسانی زندگی میں ایک خاص اہمیت رکھتا ہے.فقہاء نے بھی اس سال کو خاص اہمیت دی ہے اور بہت سے دنیوی قانون بنانے والوں نے بھی اسے خاص اہمیت والا قرار دیا ہے.انہوں نے اسے بلوغت کی عمر قرار دیا ہے.گویا تحریک جدید اب بلوغت کو پہنچنے والی ہے.اور جہاں تک اس کے کام کا سوال ہے ہم کہہ سکتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کے فضل سے واقع میں اس کے ذریعہ تبلیغ اسلام کی زبردست بنیاد رکھی گئی ہے.جب یہ تحریک شروع ہوئی اُس وقت ہمارے مبلغین کی تعداد نہایت محدود تھی.چند مبلغ افریقہ میں تھے ، ایک مبلغ امریکہ میں تھا اور شاید تین مبلغ انڈونیشیا میں تھے باقی ممالک مبلغین

Page 367

$1954 357 خطبات محمود سے خالی تھے.لیکن اب مرکز کی طرف سے بھیجے گئے مبلغین اور بیرونی ممالک کے لوکل مبلغین نی کو ملایا جائے تو غالباً ان کی تعداد سو سے بھی بڑھ جائے گی.ملکوں اور شہروں کے لحاظ سے ترقی اور بھی حیرت انگیز اور وسیع ہے.تحریک جدید سے پہلے یورپ میں صرف ایک مشن تھا لیکن اب پانچ مشن قائم ہیں.ایک مشن سپین میں ہے، ایک مشن سوئٹزر لینڈ میں ہے، ایک مشن جرمنی میں ہے، ایک مشن ہالینڈ میں ہے اور ایک مشن انگلینڈ میں ہے.اور اب ایسے سامان پیدا ہو رہے ہیں کہ اگر اللہ تعالیٰ نے چاہا تو سویڈن میں بھی ایک مشن قائم کر دیا جائے گا.ہمارے ایک ڈچ نوجوان جو کچھ عرصہ ہوا احمدی ہوئے تھے اس وقت سویڈن میں ہیں.انہوں نے اپنے آپ کو اس مقصد کے لیے پیش کیا ہے.انہوں نے لکھا ہے کہ میں کچھ عرصہ تک مرکز میں رہ کر دینی تعلیم حاصل کروں گا اور اس کے بعد سویڈن میں احمدیت اور اسلام کی تبلیغ کروں گا.اسی طرح اللہ تعالیٰ نے چاہا تو آہستہ آہستہ یورپ کے بعض اور ممالک میں بھی مشن قائم ہو جائیں گے.فرانس بھی نہایت اہم ملک ہے لیکن ابھی وہ خالی پڑا ہے وہاں کوئی مبلغ نہیں.اٹلی بھی نہایت اہم ملک ہے لیکن ابھی وہ بھی خالی پڑا ہے وہاں بھی ہمارا کوئی مبلغ نہیں.دونوں ممالک مغربی یورپ کے نہایت اہم ممالک ہیں اور ان دونوں کے بغیر مغربی یورپ کی تبلیغ کو مکمل نہیں کہا جا سکتا.سویڈن میں نیا مشن قائم ہو جانے کے بعد ہم سمجھیں گے کہ سکنڈے نیوین ممالک ڈنمارک، سویڈن اور ناروے میں ایک حد تک تبلیغ کا کام کیا جا سکے گا.ان ممالک کے رہنے والے نیم جرمنی نسل سے ہیں.یہ بہت حد تک جرمن تہذیب سے تعلق.رکھتے ہیں.یورپ کے بعض ممالک کے باشندے اٹالین نسل سے ہیں.مثلاً اٹلی ہے، سپین ہے، فرانس ہے بعض ممالک کے باشندے جرمنی کی ابتدائی نسل سے تعلق رکھتے ہیں.مثلاً سویڈن ہے، ڈنمارک ہے، ناروے ہے، ہالینڈ ہے ، بیلجیئم ہے (بیلجیئم کا آدھا جرمنی کے زیراثر ہے اور آدھا حصہ فرانس کے زیراثر ہے).مشرق میں جا کر سلاو (1SLAV نسلوں کا زور ہے.ان میں مغل بھی ہیں.مثلاً ہنگری ہے، پولینڈ ہے، فن لینڈ ہے ان ممالک میں مغل قوم کا کچھ حصہ بس گیا ہے.پھر یوگوسلاویہ، بلغاریہ، رومانیہ اور روس سب سلاو (SLAV) نسل سے ہیں.یونان بھی درحقیقت اٹلی کے اثر کے نیچے

Page 368

$1954 358 خطبات محمود سینکڑوں سال تک اٹالین خاندان یونان پر حکمران رہے.قیصر جس کی اسلام سے جنگ ہوئی اٹالین نسل سے ہی تھا.اس سے پہلے یونانی تہذیب الگ تھی لیکن بعد میں اٹلی کے اثر کے بچے آ گئی.غرض یورپ کی تین بڑی بڑی نسلوں میں سے دو نسلوں کی طرف ابھی ہم نے توجہ کی ہے.اگر چہ ان میں سے بھی ایک نسل کی طرف ہماری توجہ نامکمل سی ہے اور وہ اٹالین نسل ہے.اٹلی بھی خالی پڑا ہے، فرانس بھی خالی پڑا ہے صرف سپین میں ہمارا ایک مبلغ ہے.جرمن نسل سے جو ممالک ہیں ان میں سوئٹزر لینڈ، جرمنی، ہالینڈ اور انگلینڈ بھی شامل ہیں.انگلینڈ کی نسل بھی زیادہ تر ناروے سے آئی ہے جو جرمن نسل سے تعلق رکھتا ہے.اور پھر خدائی تصرف کے ماتحت انگلستان کا موجودہ حکمران خاندان بھی جرمن نسل.سے ہے.بیلجیئم کا نصف حصہ جرمنی کے زیر اثر ہے اور نصف حصہ فرانسیسی نسل کے زیر اثر ہے.بہر حال جب تحریک جدید شروع ہوئی تو یورپ میں ہمارا صرف ایک مشن تھا جو انگلستان میں تھا لیکن تحریک جدید کے ذریعہ اب سپین، ہالینڈ، جرمنی اور سوئٹزرلینڈ میں بھی مشن قائم ہوا ہو گئے ہیں.ہالینڈ میں مسجد بھی تعمیر ہو رہی ہے.بعد میں جرمنی میں بھی مسجد تعمیر کی جائے گی.جرمنی میں جو نسل آباد ہے وہی نسل سوئٹزر لینڈ کے ایک حصہ میں بھی آباد ہے اور زیادہ تر احمدی اس حصہ میں ہو رہے ہیں.سو اگر تحریک جدید کے کام کو دیکھا جائے تو تبلیغ کا کام اب پہلے سے پانچ گنا بڑھ گیا ہے.اگر ہم تین مشن اور کھولیں تو کم از کم دو تہذیبوں کے ممالک میں ہمارے مشن قائم ہو جائیں گے.سلاو (SLAV) نسل روسی اثر کے نیچے ہے اور فی الحال وہاں مشن قائم کرنا مشکل کام ہے.امریکہ میں ہمارا مشن تحریک جدید کے شروع ہونے سے پہلے کا ہے لیکن تبلیغی کام اور وسیع ہو گیا ہے.پہلے صرف ایک جگہ پر مشن قائم تھا اور وہ بھی نہایت محدود حالت میں تھا.جماعت تو کسی زمانہ میں موجودہ جماعت سے بھی کئی گنا زیادہ تھی لیکن وہ زیادہ منظم نہیں تھی.چندہ نہیں دیتی تھی اور اپنا بوجھ خود اُٹھانے کے قابل نہیں تھی.اب چار جگہوں پر ہمارے مشن ہیں اور ان میں پاکستانی مبلغ کام کر رہے ہیں.پھر کئی جگہوں پر بعض مقامی لوگ تبلیغ رہے ہیں اور ان میں سے بعض لوگ خوب جوشیلے ہیں جن کے اخلاص اور جوش کو

Page 369

$1954 359 خطبات محمود دیکھ کر طبیعت خوشی اور فرحت محسوس کرتی ہے.اس وقت تک زیادہ تر لوگ نیگروز یعنی حبشی عالی اقوام سے احمدی ہوئے ہیں لیکن خدا کے نزدیک نیگروز اور وائٹ مین میں کوئی فرق نہیں.ب اس نے نیگروز بھی پیدا کیے ہیں تو گویا وہ نیگروز کو بھی چاہتا ہے اور وائٹ مین کو بھی چاہتا ہے.وہ کسی خاص رنگ سے محبت نہیں کرتا.وہ چاہتا ہے کہ ہر رنگ کے انسان پائے جائیں.نیگروز بھی ہوں، سفید رنگ کے بھی ہوں اور درمیانہ رنگ کے بھی ہوں.اب سفید اقوام سے بھی بعض لوگ احمدیت میں داخل ہوئے ہیں.اگر چہ وہ تعداد میں بہت تھوڑے ہیں لیکن بہر حال معلوم ہوتا ہے کہ اب اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایسی رو چلائی جا رہی ہے کہ کوئی تعجب نہیں کہ کچھ عرصہ تک ان اقوام میں بھی احمدیت پھیل جائے.اب امریکن احمدیوں میں تنظیم پہلے سے زیادہ ہے.وہ چندہ بھی دیتے ہیں، ان کی اپنی اپنی انجمنیں ہیں اور وہ تبلیغ کے سیکرٹری بھی ہیں.غرض وہ آہستہ آہستہ اپنا کام سنبھالتے جا رہے ہیں.وہاں لوکل اخراجات بہت زیادہ ہوتے ہیں.مثلاً کرایہ بہت زیادہ ہے.یہاں اگر ایک اچھا مکان چالیس روپے ماہوار کرایہ پر مل جاتا ہے تو وہاں معمولی معمولی مکانات کا کرایہ پانچ پانچ ، چھ چھ سو روپیہ ہے اور یہ سر اخراجات وہ خود اُٹھاتے ہیں اور یہ اُن کی بڑی بھاری قربانی ہوتی ہے.ر سب انڈونیشیا میں بھی ہماری تبلیغ تحریک جدید کے شروع ہونے سے پہلے جاری تھی لیکن اُس وقت وہاں صرف دو تین مبلغ تھے.اب ایک درجن کے قریب مرکزی مبلغ وہاں کام کہ رہے ہیں.اسی طرح پہلے وہاں جماعتی چندوں کا حساب نہیں رکھا جاتا تھا.لوگ چندہ دیتے تھے لیکن نظام کے ماتحت نہیں دیتے تھے.اب تحریک جدید کے ذریعہ جماعت، نظام کے ماتحت آگئی ہے اور اس وقت اُن کے چندے تحریک جدید اور عام چندوں کو ملا کر تین لاکھ روپیہ سالانہ کے قریب بن جاتے ہیں.گو اُن کا روپیہ پاکستان کے روپیہ کی نسبت بہت کم قیمت کا ہوتا ہے.پھر وہاں با قاعدہ سالانہ کا نفرنسیں ہوتی ہیں.اب اُن کی توجہ سکول کھولنے کی طرف بھی پھری ہے.اب یہ تجویز کی گئی ہے کہ وہاں ایک تبلیغی مدرسہ قائم کیا جائے جس میں مبلغین تیار کیے جائیں.ان میں سے جو مبلغین اچھے ہوں آئندہ صرف وہی یہاں آیا کریں.دوسرے نہ آیا کریں.خدا تعالیٰ کے فضل سے جماعت بیدار ہے اور پچھلی جنگ میں اس نے

Page 370

$1954 360 خطبات محمود تحریک آزادی کے سلسلہ میں بہت عمدہ کام کیا ہے.ہمارے پاکستانی مبلغین نے بھی مقامی لوگوں کے ساتھ اس حد تک اتحاد رکھا کہ ان میں سے بعض کو کئی کئی ماہ تک قید رکھا گیا بعض مارے گئے.اس لیے انڈو نیشین لوگ پاکستانیوں کی طرح احمدیوں سے زیادہ تعصب نہیں رکھتے کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ تحریک آزادی کے سلسلہ میں جو کام دوسروں نے کیا وہی کام انہوں نے بھی کیا ہے.افریقہ میں بھی تحریک جدید شروع ہونے سے پہلے ہمارا مشن قائم تھا لیکن اب وہاں کی مبلغین کی تعداد بہت زیادہ ہے.اس وقت وہاں ایک کالج بھی جاری کیا جا چکا ہے اور جماعت کی طرف سے مسلمانوں کا پہلا اور واحد اخبار ” ٹروتھ (TRUTH) نکالا جا رہاتی ہے.اب گولڈ کوسٹ سے بھی ایک اخبار جاری کرنے کا ارادہ ہے.دو گریجوایٹ نوجوان جرنلزم کی کی تعلیم حاصل کر رہے ہیں.اس کے بعد وہ اپنے اپنے علاقہ میں اس کام کو سنبھال لیں گے تا اس کے ذریعہ وہاں کے مسلمانوں کے اندر بھی بیداری پیدا کی جائے.عجیب بات ہے کہ جہاں پاکستان میں ایک احمدی اس علاقہ سے بھی جہاں چالیس فیصدی احمدی ووٹ ہیں جیت نہیں سکتا کیونکہ دوسرے امیدوار اس کے مقابل پر اکٹھے ہو کر ایک کے ساتھ ہو جاتے تھے وہاں مغربی افریقہ میں جہاں پاکستان کی نسبت احمدیوں کی تعداد بہت کم ہے بعض احمدی مقامی لیجسلیٹو (LEGISLATIVE) اسمبلی کے ممبر منتخب ہو گئے ہیں.چنانچہ دو احمدی گولڈ کوسٹ کی کونسل میں منتخب ہو گئے ہیں اور ایک احمدی نائیجیریا میں منتخب ہوا ہے.گویا جہاں پاکستان میں ایک احمدی بھی اسمبلی میں نہیں جا سکتا وہاں مغربی افریقہ میں ایک ملک میں ایک اور دوسرے ملک میں دو احمدی دوست اسمبلی میں چلے گئے ہیں.پھر یہاں یہ بات ہے کہ کوئی احمدی پہلے سے اتفاقی طور پر مسلم لیگ میں داخل ہو گیا ہو تو خیر ورنہ ای پوری کوشش کی جاتی ہے کہ کوئی احمدی مسلم لیگ میں داخل نہ ہو.لیکن وہاں مرکزی کمیٹی میں بھی احمدی شامل ہیں.اور جب گورنمنٹ کے پاس کوئی وفد بھیجا جاتا ہے تو وہ اکثر کسی نہ کسی احمدی کو اپنا سپوکس مین (Spokesman) مقرر کرتے ہیں.اب گورنمنٹ نے تعلیمی لحاظ سے بعض علاقے مختلف انجمنوں کے سپرد کیے ہیں کہ اگر تم کام کرنا چاہتے ہو تو کرو.ایک

Page 371

$1954 361 خطبات محمود علاقہ احمدیوں کے سپر د بھی کیا گیا ہے اور وہاں چھ سکول کھولنے کے سلسلے میں حکومت نے امداد دی ہے اور یہ کہا ہے کہ آئندہ بھی تعلیم کے سلسلہ میں مدد دی جایا کرے گی.اللہ تعالیٰ چاہے اور وہاں جماعتی نظام مکمل ہو جائے تو کچھ عرصہ کے بعد اس میں اور بھی ترقی ہو جائے گی کیونکہ وہاں کے مبلغین نے عقل سے کام لیا ہے اور تبلیغ کے ساتھ ساتھ ملک کے فائدہ کو بھی مدنظر رکھا ہے.لوگ کہتے ہیں کہ احمدی انگریزوں کے خوشامدی ہیں.اب مغربی افریقہ کے تینوں ممالک میں جہاں ہمارے مشن قائم ہیں انگریزوں کی ہی حکومت ہے لیکن وہاں قومی تحریک میں احمدی پیش پیش ہیں بلکہ ایک ملک میں تو قومی تحریک کی مرکزی کمیٹی میں ہمارے مبلغ کو سیکرٹری بنا دیا گیا ہے اور ایک اجلاس میں اُسے صدر مقرر کیا گیا ہے حالانکہ وہ پنجابی ہے افریقہ کا رہنے والا نہیں.اس سے صاف ظاہر ہے کہ ہم پر انگریزوں کے ایجنٹ ہونے کا جو الزام لگایا جاتا ہے وہ بالکل غلط ہے.اگر اُسے اُن ممالک میں ہمیں ایجنٹ بنانے کی ضرورت نہیں تو اُسے ہمیں یہاں ایجنٹ بنانے کی کیا ضرورت ہے؟ وہاں احمدی قومی تحریکوں میں شامل ہوئے ہیں اور انہوں نے ملک کی خاطر بہت کام کیا ہے اور ملکی تحریکوں میں لیڈر بھی بنے ہیں اور مقامی لوگوں سے انہوں نے ہر قسم کی ہمدردی کی ہے.ابھی حال ہی میں عراق کے ایک اخبار کے ایڈیٹر نے ایک مضمون شائع کیا ہے.اُس میں اُس نے لکھا ہے کہ کسی غیر ملکی سفارت خانے کی طرف سے اسے کہا گیا کہ وہ احمدیوں کے خلاف مضامین لکھے اور یہ اُن دنوں کی بات ہے کہ ب فلسطین کے بارہ میں امام جماعت احمدیہ کی طرف سے دو مضامین شائع ہوئے تھے.اُس وقت میں نے کہا کہ میں یہ غداری نہیں کر سکتا.اس پر مجھے کہا گیا کہ تمہیں پیسے نہیں ملیں گے.میں نے کہا تم اپنے پیسے اپنے گھر رکھو میں اس کام سے بیزار ہوں.اس سے صاف ثابت ہوتا ہے کہ ہم انگریزوں کے ایجنٹ نہیں بلکہ وہ ہمیں پوری طرح کچلنے کے لیے تیار ہیں.یہ دو ہے مثالیں نہایت واضح ہیں کہ مغربی افریقہ کے تین ممالک میں جہاں انگریزوں کی حکومت.احمدی تحریک آزادی میں پیش پیش ہیں بلکہ ان میں ہمارے مبلغ بھی حصہ لے رہے ہیں اور وہ نہایت ذمہ داری کے عہدوں پر مقرر ہیں.اب بھی انگریزوں نے ایک علاقہ کے بادشاہ کو

Page 372

$1954 362 خطبات محمود تحریک آزادی کی وجہ سے باہر نکال دیا تو اُسے بحال کرانے کے لیے جو وفد حکومت سے ملنے کے لیے گیا اُس میں بھی ایک احمدی کو شامل کیا گیا.غرض یہ سب واقعات بتا رہے ہیں کہ مخالفین کی طرف سے جو یہ الزام لگایا جاتا ہے کہ ہم انگریزوں کے ایجنٹ ہیں بالکل غلط ہے.جہاں بھی ہمارے مبلغ گئے ہیں وہاں انہوں نے مقامی لوگوں کی خدمات کی ہیں اور وہ ان سے متاثر ہیں.مغربی افریقہ کے تین ممالک میں جن میں ہمارے مشن قائم ہیں.ان کی ترقی اور بہبودی کے لیے احمدیوں نے بڑی کوشش کی ہے.پچھلے دنوں گولڈ کوسٹ کے وزیر اعظم نے جو احمد یہ مسجد کے افتتاح کے سلسلہ میں گیا اور پھر اس نے ہمارے کالج کا معائنہ بھی کیا اور کہا مجھے یہ معلوم نہیں تھا کہ احمدی ہمارے ملک کی ترقی اور بہبودی کے لیے اس قدر کوشاں ہیں.مجھے پہلے شبہ تھا کہ شاید ان کے کام کے متعلق مبالغہ کیا جاتا ہے.لیکن اپنی آنکھوں سے ان کا کام دیکھ کر مجھے معلوم ہوا ہے کہ انہوں نے ہمارے ملک کی ترقی کے لیے شاندار کام کیا ہے.ان ممالک میں زبان اور تمدن اور ہونے کی وجہ سے مبلغین کو بہت سی مشکلات پیش آرہی ہیں.مسلمان بہت کمزور ہیں.پھر عیسائیوں کو حکومت مدد دے رہی ہے.اس قسم کے حالات میں مسلمانوں کو آگے لے جانا بڑا مشکل ہے.مشرقی افریقہ میں بھی نئے مشن قائم ہوئے ہیں.مجھے یقین نہیں کہ تحریک جدید کے شروع ہونے کے بعد وہاں مبلغ بھیجا گیا تھا یہ اس کے شروع ہونے سے پہلے وہاں مشن قائم کیا جا چکا تھا.بہر حال اگر تھا بھی تو پہلے صرف ایک مبلغ وہاں کام کر رہا تھا اور اب نو دس مبلغ کام کر رہے ہیں اور مقامی لوگوں میں ؟ احمدیت پھیل رہی ہے.مدارس کھولنے کی بھی تحریک ہو رہی ہے.جماعت کے کام کو دوسرے لوگ اچھی نگاہ سے دیکھ رہے ہیں.مشرقی افریقہ کے پاس ایک جزیرہ زنجبار ہے جس میں خوارج کی حکومت ہے لیکن زیادہ تر عرب آباد ہیں.کچھ متعصب مولوی بھی وہاں پائے جاتے ہیں.وہاں ریڈیو پر تقاریر کا ایک سلسلہ شرو کیا گیا جن میں احمدیت کی مخالفت کی جاتی تھی.اس پر ہمارے دوست، حکومت کے ذمہ دار لوگوں کے پاس گئے.انہوں نے اُن کے سامنے قرآن کریم کا سواحیلی ترجمہ پیش کیا اور بتایا کہ ہم نے یہ کام کیا ہے.یہ مولوی جو ہمارے خلاف شور مچا رہے ہیں

Page 373

$1954 363 خطبات محمود بتائیں کہ انہوں نے گزشتہ پانچ سو سال میں اسلام کی کیا خدمت کی ہے؟ اس پر حکومت کے ان ذمہ دار لوگوں نے جماعت کی مساعی کی تعریف کی اور کہا ہم ریڈیو والوں کو ہدایت کریں گے کہ وہ اس قسم کی تقاریر نشر نہ کریں.اچھا کام کرنے والوں کے خلاف کچھ کہنا ہمارے اصول کے خلاف ہے.پھر افسروں نے پرائیویٹ طور پر اور ریڈیو پر بھی معذرت کا اظہار کیا.پھر سیلون، برما اور ملایا میں بھی خدا تعالیٰ کے فضل سے نئے مشن کھولے گئے ہیں.اب کوشش کی جا رہی ہے کہ فلپائن کے دارالحکومت منیلا میں بھی مشن قائم کیا جائے.وہاں مسلمانوں کی ایک جماعت نے حکومت کو لکھا ہے کہ انہیں مبلغ کی ضرورت ہے.لہذا وہ احمدیوں کو اپنا مبلغ بھیجنے کی اجازت دے.پھر جیسا کہ میں نے پچھلے خطبہ میں بھی بتایا تھا کہ آسٹریلیا اور کینیڈا میں بھی نئے رستے کھلے ہیں اور سوائے اُن ممالک کے جو آئرن کر ٹین (IRON-CURTAIN) کہلاتے ہیں باقی ممالک میں تبلیغ کے نئے رستے کھل رہے ہیں.جاپان والے بھی کہہ رہے ہیں کہ تم اپنا مبلغ بھیجو بلکہ وہ اس بات کے لیے بھی تیار ہیں کہ اُن کا ایک پروفیسر یہاں تعلیم حاصل کرے اور اس کا خرچ ہم دیں اور ہمارا ایک آدمی جاپان میں تعلیم حاصل کرے اور اُس کا خرچ وہ دیں تا کہ ایکیھنچ کے حصول کی کوئی تکلیف نہ ہو.غرض تحریک جدید کے کام کو دیکھا جائے تو خدا تعالیٰ کے فضل سے کام بہت وسیع ہوتی چکا ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ پہلے سے پندرہ بیس گنا کام بڑھ گیا ہے.اور شہرت کو دیکھا جائے تو موجودہ شہرت پہلے سے سو گنا سے بھی زیادہ ہے.پہلے لوگ احمدیت سے واقف نہیں تھے لیکن اب لوگ احمدیت سے واقف ہو چکے ہیں اور اُن کی طرف سے جو لٹریچر شائع کیا جاتا ہے اُس میں احمدیت کا ذکر ہوتا ہے.میں افسوس سے کہتا ہوں کہ ایک کام میں ہم ابھی تک کامیاب نہیں ہوئے اور میں سمجھتا ہوں کہ یہ ہمارے مبلغین کی سستی کی وجہ سے ہے.لاہور والوں کا اس وقت کوئی مشن نہیں.انگلینڈ کا مشن آزاد ہے، جرمنی میں ایک مشن تھا لیکن وہاں کے مشنری نے استعفی دے دیا ہے، امریکہ میں ایک مشن قائم ہوا ہے لیکن مجھے پتا نہیں کہ آزاد ہے یا نہیں.

Page 374

$1954 خطبات محمود 364 مبلغ مشن ہمارے ہیں لیکن ہر کتاب کا مصنف جو ان مشنوں کا ذکر کرتا ہے سمجھتا ہے کہ احمدیوں کی سے مراد لا ہوری جماعت کے لوگ ہیں.ابھی تک ہم اس کا ازالہ نہیں کر سکے.ہمارے میں بعد میں ان کے پاس جاتے ہیں.پچھلے دنوں ایک انگریز اور پیٹنٹلسٹ نے ہمارے سارے مشن لاہور والوں کی طرف منسوب کر دیے.ہمارے مبلغ نے اُسے توجہ دلائی تو اُس نے کہا مجھے علم نہیں تھا.مجھے افسوس ہے کہ میں نے انہیں غلط طور پر ایک اور جماعت کی طرف منسوب کر دیا ہے.اگلے ایڈیشن میں میں اس کی اصلاح کر دوں گا.لیکن تھپڑ لگ گیا تو بعد میں کلہ ملنے کا کیہ فائدہ.کوشش تو یہ ہونی چاہیے کہ تھپڑ لگے ہی نہیں.خواجہ کمال الدین صاحب کے اندر میل ملاقات کا شوق پایا جاتا ہے.ہمارے مبلغین میں یہ بات نہیں پائی جاتی.اب میں نے انہیں جبراً اس طرف لگایا ہے.وہ صرف مسجد میں بیٹھے رہتے تھے.ان کی مثال ایک مکھی کی سی تھی جو اپنے چھتے پر بیٹھی رہتی ہے.خواجہ صاحب میں میل ملاقات کرنے، سوشل تعلقات قائم کرنے اور دوسرے لوگوں کی خاطر مدارات کرنے کا شوق تھا اور موجودہ شہرت اُن کی کوششوں کا ہی نتیجہ ہے.انگلستان اب بھی مستشرقین کا سردار ہے.دنیا کے دوسرے مستشرق بھی انگلستان کے ذریعہ ہی ترقی کرتے ہیں.جرمن کے مشہور مستشرق نولڈ کے کا نام بھی انگلستان کے ذریعہ ہی مشہور ہوا.اسی طرح فرانس کے مستشرقین ہیں انہیں بھی جو ترقی نصیب ہوئی انگریزی زبان کے ذریعہ ہوئی.اور اس کی یہ ہے کہ سلطنت برطانیہ دنیا کے ایک وسیع حصہ میں پھیلی ہوئی ہے.اور پھر امریکہ میں انگریزی بولی جاتی ہے اس لیے انگریزی لٹریچر صرف انگریزوں کے ذریعہ ہی نہیں بلکہ امریکنوں کے ذریعہ بھی باہر جاتا ہے.گویا انگریزی زبان کو دُہری طاقت حاصل ہے.امریکہ کی قوت اور طاقت اور برطانیہ کی وسیع سلطنت کی امداد سے حاصل ہے جو کسی اور زبان کو حاصل نہیں.ان مستشرقین سے خواجہ صاحب نے تعلقات پیدا کیے اور ان کے تعلقات اور ان کی کوششوں کا ہی ہے کہ وہ لوگ احمدیت اور خواجہ صاحب میں فرق نہیں کرتے.جیسے پہلے امریکنوں کو یہ پتا نہیں تھا کہ پاکستان اور انڈیا الگ الگ ممالک ہیں.وہ پاکستان انڈیا لکھ دیتے تھے.گویا پاکستان، انڈیا کا ایک حصہ ہے.اسی طرح مستشرقین یہی سمجھتے ہیں کہ خواجہ صاحب

Page 375

$1954 365 خطبات محمود اور احمدیت ایک ہی چیز ہیں.انہیں الگ الگ نہیں کیا جا سکتا.پھر خواجہ صاحب نے بڑی ہمت اور قربانی سے کام کیا ہے.انہوں نے متعدد ممالک کا دورہ کیا.اب ہمارے مبلغ اُن لوگوں سے ملتے ہیں تو وہ کہتے ہیں ہم خواجہ صاحب سے ملے تھے.تم بھی انہی سے تعلق رکھتے کی ہو؟ بیشک خواجہ صاحب کو اس کام کے لیے ایک ذریعہ مل گیا تھا لیکن انہوں نے اس کے لیے اپنے بیوی بچوں کو چھوڑا، اپنے وطن کو چھوڑا.اگر تم بھی باہر نکل جاؤ اور خواجہ صاحب جیسا کام کرو تو لوگ تمہاری بھی قدر کرنے لگ جائیں گے.اس کے لیے ضروری ہے کہ تم اپنا مطالعہ وسیع کرو.بہر حال تحریک جدید کی شہرت پہلے سے سینکڑوں گنے زیادہ ہے.اگر ہم اسے بڑھاتے گئے تو آئندہ پانچ چھ سال میں یہ شہرت ہزاروں گنا زیادہ ہو جائے گی.اگر جماعت چندوں پر قائم رہے تو یقیناً ہمارے مشن زیادہ ہو جائیں گے.یہ خدا تعالیٰ کا فضل ہے کہ تحریک جدید کی جو نئی تنظیم کی گئی ہے اس سے کئی بیرونی مشن اپنے پاؤں پر کھڑے ہو گئے ہیں سوائے انگلینڈ کے کہ وہ سب سے پرانا مشن ہے مگر ابھی تک اپنے پاؤں پر کھڑا نہیں ہو سکا.اس میں ابھی تک بدنظمی پائی جاتی ہے.باقی یورپین مشن بھی اپنے پاؤں پر کھڑے نہیں ہوئے.ضرورت صرف یہ ہے کہ اس کی طرف توجہ کی جائے.جہاں ان مشنوں میں کام کرنے والوں کا انہماک قابل قدر ہے وہاں یہ بات قابلِ اعتراض ہے کہ وہ چندہ کی اہمیت کو نومسلموں واضح نہیں کرتے اور مالی قربانی پر زور نہیں دیتے.وہ ڈرتے ہیں کہ اگر ہم نے چندہ کا نام لیا تو شاید یہ لوگ مرتد ہو جائیں.اگر یہی صورت رہی تو قیامت تک بھی یہ مشن اپنے پاؤں پر کی کھڑے نہیں ہوسکیں گے.جس نے آنا ہے وہ بہر حال آئے گا اور جو چندہ کی وجہ سے جانا چاہتا ہے اُسے جانے دو.ہمیں اُس کا کوئی فائدہ نہیں.بہر حال یورپ کے مشن ابھی اس قابل نہیں ہوئے کہ اپنے پاؤں پر کھڑے ہوسکیں.حالانکہ اب تک انہیں اپنے پاؤں پر کھڑا ہو جانا چاہیے تھا.غرض تحریک جدید کے ذریعہ ایک زبردست کام کی بنیا درکھی گئی ہے اور یہ وہ کام ہے جس کے لیے خدا تعالیٰ نے ہمیں کھڑا کیا ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق قرآن کریم میں ایک پیشگوئی ہے کہ ایک

Page 376

$1954 366 خطبات محمود زمانہ آئے گا کہ آپ کی قدسی تأثیر دنیا بھر میں اسلام کو پھیلا دے گی 2 اور پرانے مفسرین اس بات پر متفق ہیں کہ یہ مسیح موعود کے وقت میں ہو گا.3- اب اگر بانی سلسلہ احمدیہ مسیح موعود تھے اور تم ان کے ماننے والے ہو تو یہ کام تمہارے ذریعہ ہو گا.لیکن خدا تعالی کی یہ سنت چلی آتی ہے کہ جو قوم اس کے دین کی مدد کے لیے کھڑی ہوتی ہے وہ اُس سے مدد کے وعدے کرتا ہے لیکن اس مدد سے پہلے اسے کام کرنا پڑتا ہے، قربانی کرنی پڑتی ہے.تب خدا تعالی کی مدد اُسے حاصل ہوتی ہے.کیونکہ اللہ تعالیٰ صرف کام نہیں چاہتا بلکہ وہ چاہتا ہے کہ دنیا میں نیکی ، اور یہ کام بغیر قربانی کے نہیں ہو سکتا.دل، مال اور جان قربان کیے بغیر صاف نہیں ہوتے.اگر تم نے انہیں صاف کرنا ہے تو جانی و مالی قربانی کرو.اگر تم جان و مال قربان نہیں کرو گے تو تمہارے دل بھی صاف نہیں ہوں گے اور تم مُردہ کے مُردہ خدا تعالیٰ کے پاس جاؤ گے.اس صورت میں وہ تمہیں جنت میں کیوں داخل کرے گا.یوں تو وہ اپنی ساری مخلوق.محبت کرتا ہے لیکن انسان اُسے تبھی زیادہ پیارا ہے کہ اس میں اُسے اپنا چہرہ نظر آتا ہے.جس طرح ہم کسی کے پانی کی نالی میں چل رہے ہوں اور اتفاق سے کسی جگہ نیچے نظر پڑے اور پانی میں سے ہمیں اپنی شکل نظر آ جائے تو ہم اُس کی طرف متوجہ ہو جاتے ہیں.اسی طرح انسان نی اگر چہ نہایت حقیر چیز ہے لیکن خدا تعالیٰ کو جب اس سے اپنا چہرہ نظر آتا ہے تو وہ اس کا پیارا اور محبوب ہو جاتا ہے.بچپن میں میں نے ایک رؤیا دیکھا.یہ غالباً حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ کی بات ہے یا آپ کی وفات کے قریب کی یعنی چار پانچ ماہ کے عرصہ کے اندر کی.اُس وقت حضرت خلیفتہ المسیح الاول حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے مکان میں رہا کرتے تھے.مرزا سلطان احمد صاحب مرحوم کے مکان کی طرف جو گلی جاتی ہے اُس کے اوپر جو کمرہ اور محن ہے اُس میں آپ کی رہائش تھی.میں نے خواب میں دیکھا کہ میں اُس صحن میں ہوں اور اُس کے جنوب مغرب کی طرف حکیم غلام محمد صاحب امرتسری جو حضرت خلیفہ المسیح الاول کے مکان میں مطب کیا کرتے تھے کھڑے ہیں.اُن کو میں سمجھتا ہوں کہ خدا تعالیٰ کے تصرف کے ماتحت ایسے ہیں جیسے فرشتہ ہوتا ہے.میں تقریر کر رہا ہوں اور وہ کھڑے ہیں.میرے

Page 377

$1954 367 خطبات محمود ہاتھ میں ایک آئینہ ہے جسے میں سامعین کو دکھاتا ہوں.ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہاں اور لوگ کی بھی ہیں.مگر نظر نہیں آتے.گویا ملائکہ یا اعلیٰ درجہ کے لوگ ہیں جو نظروں سے غائب ہیں.میں انہیں وہ آئینہ دکھا کر کہتا ہوں کہ خدا کے نور اور انسان کی نسبت ایسی ہے جیسے آئینہ کی اور انسان کی.آئینہ میں انسان اپنی شکل دیکھتا ہے اور اُس میں اُس کا حسن ظاہر ہوتا ہے اور وہ اُس کی خوب قدر کرتا ہے اور سنبھال سنبھال کر اور گرد سے بچا کر رکھتا ہے.مگر جونہی وہ آئینہ خراب ہو جاتا اور میلا ہو جاتا ہے اور اُس میں اُس کی شکل نظر نہیں آتی یا چہرہ خراب نظر آتا ہے تو وہ اسے اُٹھا کر پھینک دیتا ہے.اور جب میں یہ کہہ رہا ہوں تو رویا میں دیکھتا ہوں کہ میرے ہاتھ میں ایک آئینہ ہے.اور ان الفاظ کے کہنے کے ساتھ ہی وہ میلا ہو جاتا ہے اور کام کا نہیں رہتا.اور میں کہتا ہوں کہ انسان کا دل بھی خدا تعالیٰ کے مقابل پر آئینہ کی طرح ہوتا ہے.اللہ تعالیٰ اس میں اپنے حسن کا جلوہ دیکھتا ہے اور اس کی قدر کرتا ہے مگر جب وہ میلا ہو جاتا ہے اور اس سے اللہ تعالیٰ کا حسن ظاہر نہیں ہوتا تو وہ اُسے اِس طرح اُٹھا کر پھینک دیتا ہے جس طرح خراب آئینہ کو اُٹھا کر پھینک دیا جاتا ہے.اور یہ کہتے ہوئے میں نے اُس آئینے کو جو میرے ہاتھ میں تھا زور سے اُٹھا کر پھینک دیا اور وہ چکنا چور ہو گیا.اُس کے ٹوٹنے سے آواز پیدا ہوئی اور میں نے کہا جس طرح خراب شدہ آئینے کو توڑ دینے سے انسان کے دل میں کوئی درد پیدا نہیں ہوتا اسی طرح ایسے گندے دل کو توڑنے کی اللہ تعالیٰ کوئی پروا نہیں کرتا.در حقیقت انسان کی پیدائش کی غرض خدا تعالیٰ کا قرب حاصل کرنا ہے اور یہ چیز بغیر قربانی کے حاصل نہیں ہو سکتی.لوگ کہتے ہیں کہ روحانی ترقی حاصل کرنی چاہیے حالانکہ یہ اگلا قدم ہے.پہلے ہمیں یہ دیکھنا چاہیے کہ ہمیں قربانی کیوں نصیب نہیں جو روحانی ترقی کے لیے ضروری چیز ہے.لیکن انسان کہتا ہے یہ ایک بوجھ ہے اور وہ اس طرف متوجہ نہیں ہوتا.کہ دوسری طرف وہ یہ کہتا ہے مجھے روحانی ترقی نصیب ہو.اس کی مثال تو ایسی ہے کہ انسان روٹی نہ کھائے لیکن یہ کہے کہ میری بھوک مٹ جائے، پانی نہ پیے لیکن یہ کہے کہ میری پاس بجھ جائے.لیکن کیا روٹی کھانے کے بغیر بھوک مٹ سکتی ہے اور کیا پانی پینے کے بغیر پیاس بجھ سکتی ہے؟ اسی طرح عقلی، جانی، وطنی اور مالی قربانی کیے بغیر روحانی ترقی بھی نہیں مل سکتی.

Page 378

$1954 368 خطبات محمود انسان خدا تعالیٰ کا آئینہ تو ہوتا ہے لیکن جس طرح شیشہ کے کارخانہ میں کوئی آئینہ اچھا بن جاتا ہے اور کوئی آئینہ رڈی بن جاتا ہے.اسی طرح قانونِ قدرت کے کارخانہ میں کوئی انسان اچھا بن جاتا ہے اور کوئی خراب بن جاتا ہے.اگر تم اپنی ذمہ داری کو سمجھ جاؤ تو میں سمجھ لوں گا کہ تم قربانی کو ظلم نہیں سمجھتے.بلکہ وہ تمہیں تمہاری نسل اور قوم کو زندہ رکھنے کا ایک ہی ذریعہ ہے.اگر تم قربانی کرنے لگ جاؤ تو تم ، تمہارا ملک اور تمہاری قوم محفوظ ہو جاتی ہے.اس تمہید کے بعد میں تحریک جدید کے اکیسویں اور گیارھویں سال کا اعلان کرتا ہوں.مجھے اس بات کی خوشی ہوئی ہے کہ تحریک جدید کے پہلے دور والوں نے ایک حد تک قربانی کی ہے لیکن افسوس کہ دفتر دوم ابھی اس معیار تک نہیں پہنچا.اعدادو شمار سے میں ان کی نسبت بیان کرتا ہوں.دور اول کے بیسویں سال کے گل وعدے دولاکھ چار ہزار کے تھے.ایک وقت میں وہ دولاکھ پچاس ہزار تک بھی پہنچ گئے تھے.فرق صرف اس وجہ سے پڑا ہے کہ پہلے ہندوستان اور پاکستان دونوں کا چندہ اس میں شامل تھا لیکن اب ہندوستان کا چندہ الگ ہو گیا ہے.تمہیں پینتیس ہزار کے قریب وعدے ہندوستان کی جماعتوں کے ہو جاتے ہیں.دوسرے کمی اس طرح واقع ہوئی کہ انیس سال ختم ہونے پر میں نے ایسے لوگوں کو جنہوں نے دورِ اول میں اپنے او پر غیر معمولی مالی بوجھ ڈالا تھا اجازت دی تھی کہ وہ اگر اپنے وعدوں کو کم کرنا چاہیں تو کہ لیں.اس پر بعض لوگوں نے اپنے وعدے کم کر دیئے لیکن اکثر حصہ نے باوجود اجازت کے وعدوں میں کمی نہیں کی بلکہ بعض نے حسب سابق اپنے وعدوں میں زیادتی کی تھی.بہر حال دفتر اول کے کل وعدے دولاکھ چار ہزار کے تھے جن میں سے ایک لاکھ چوبیس ہزار کے وعدے وصول ہوئے ہیں باقی اسی ہزار کے وعدے وصول نہیں ہوئے.گویا ساٹھ فیصدی کے قریب چندہ وصول ہوا ہے اور چالیس فیصدی کے قریب بقایا ہے.لاہور شہر کی وصولی اور بقائے برابر ہیں یعنی پچاس فیصدی وعدے وصول ہوئے ہیں اور پچاس فیصدی بقایا ہے.لاہور کو نکال کر باقی پنجاب نے پینسٹھ فیصدی وعدے ادا کر دیئے ہیں.صوبہ سرحد نے بھی پینسٹھ فیصدی وعدے ادا کیے ہیں.ریاست بہاولپور نے تینتیس فیصدی وعدے ادا کیے ہیں.

Page 379

$1954 369 خطبات محمود ہے.کراچی شہر نے اسی فیصدی چندہ ادا کیا ہے.صوبہ سندھ نے پینسٹھ فیصدی ادا کیا بلوچستان نے پچاس فیصدی ادا کیا ہے.مشرقی پاکستان نے تینتیس فیصدی ادا کیا ہے اور بیرونِ پاکستان نے بیالیس فیصدی ادا کیا ہے لیکن بیرون پاکستان کے اعداد صحیح نہیں کیونکہ اُن کا چندہ جون تک جاتا ہے.اس لیے سات ماہ گزرنے کے بعد جو رقم وصول ہو گی وہ موجودہ ا رقم کے مقابلہ میں دکھائی جائے گی.نتیجہ یہ ہے کہ کراچی شہر وعدوں کی ادائیگی کے لحاظ باقی سب شہروں اور صوبوں سے بڑھ گیا ہے اور اس کے بعد دوسرے نمبر پر صوبہ پنجاب، صوبہ سندھ، صوبہ سرحد ہیں، تیسرے نمبر پر لاہور شہر اور بلوچستان کا صوبہ ہے اور چوتھے نمبر پر ریاست بہاولپور اور مشرقی پاکستان ہیں.لاہور شہر کی جماعت کی حالت اس وجہ سے کہ تعلیم زیادہ ہے قابلِ افسوس ہے.پچھلے سال تو فسادات ہوئے تھے اس لیے وصولی میں کمی کے متعلق یہ خیال کر لیا گیا تھا کہ وہ ان فسادات کی وجہ سے ہے لیکن اس دفعہ تو فسادات بھی نہیں تھے.اگر جماعت کے دوست کوشش کرتے تو یہ کمی پوری ہو سکتی تھی.اب آپ سمجھ سکتے ہیں کہ دو لاکھ چار ہزار کے وعدوں میں سے اسی ہزار کے وعدے وصول نہ ہوں تو بجٹ میں کس قدر کمی واقع ہو جاتی ہے.نتیجہ یہ ہے کہ ابھی ساتواں مہینہ جا رہا ہے.اس کے ختم ہونے پر ایک پیسہ بھی تحریک جدید کے پاس نہیں ہو گا اور یہ کتنی خطرناک بات ہے.اصول تو یہ بنایا گیا تھا کہ دسویں سال کے وعدے سارے کے سارے ریزرو فنڈ میں جائیں تا دس لاکھ کا قرضہ جو تحریک جدید کے ذمہ ہے اُتر جائے لیکن ہوا یہ ہے کہ دسویں سال کا چندہ جو وصول ہوا وہ بھی خرچ کر لیا گیا ہے.اور اس کے خرچ کر لینے کے بعد یہ حالت ہے کہ اگر اسی ہزار کے بقائے وصول ہو جائیں تو تب بمشکل تین ماہ کا خرچ چل سکے گا.لیکن ابھی باقی پانچ ماہ ہیں.دسویں سال کے وعدوں کی حالت یہ ہے کہ لاہور شہر کی وصولی چالیس فیصدی ہے.پنجاب کی وصولی بھی قریباً اتنی ہے بلکہ اس سے بھی کم ہے.صوبہ سرحد کی وصولی بھی قریباً اتنی ہی ہے.ریاست بہاولپور کی وصولی چالیس فیصد سے بھی کم ہے.کراچی شہر کی وصولی قریباً پچپن فیصدی.صوبہ سندھ کی وصولی پینسٹھ فیصدی ہے.بلوچستان کی وصولی اور بھی گر گئی ہے.یعنی گل تمہیں فیصدی وعدے وصول ہوئے ہیں.مشرقی پاکستان کی وصولی بھی قریباً تیس فیصدی ہے.ہے

Page 380

$1954 370 خطبات محمود اور بیرون پاکستان کی وصولی اس میں بالکل ہی کم ہے یعنی قریباً دس فیصدی وعدے وصول ہوئے ہیں.میں نے پہلے بھی بتایا ہے کہ بیرون پاکستان کے وعدوں کے پورا ہونے میں ابھی کافی وقت باقی ہے اور پھر یہاں پہنچنے میں بھی کچھ وقت لگ جاتا ہے.غرض دفتر دوم کے گل عدے ایک لاکھ بانوے ہزار تین سو چھیالیس کے تھے اور وصولی اٹھاسی ہزار ایک سوسولہ کی ہوئی ہے.اگر دونوں دفتروں کے وعدے سو فیصدی وصول ہو جائیں تو اس کے یہ معنی ہیں کہ ستر ہزار روپے کی رقم ریز روفنڈ کے لیے بچ جائے گی بشرطیکہ دونوں کے وعدے سو فیصدی وصول کرائے جائیں اور دونوں کو خرچ کر لیا جائے.حالانکہ دفتر دوم کے متعلق یہ خیال تھا کہ یہ سارے کا سارا ریز روفنڈ میں جائے.اگر پہلے قرضے اُتر جائیں تو نئے سرے سے قرض لیا جا سکتا ہے لیکن اگر پہلے قرضے ہی باقی ہوں تو نیا قرض نہیں لیا جا سکتا.پس میں نئے سال کا اعلان کرتے ہوئے یہ بھی نصیحت کرتا ہوں کہ سب سے پہلا قدم یہ ہے کہ جماعت سستی دور کرے.یہ نہ کرے کہ چپ کر کے بیٹھ جائے بلکہ بقائے وصول کر نے کی پوری کوشش کرے.کراچی کو میں نے اس طرف توجہ دلائی تھی اور جماعت نے وعدہ کیا تھا کہ وہ بقائے بھی وصول کرے گی اور اب بھی کوشش کر رہی ہے.چنانچہ انہوں نے اگلے سال کے بھی گیارہ ہزار روپے وصول کر لیے ہیں.جماعتوں کو چاہیے کہ وہ بڑھ چڑھ کر وعدے کریں اور پھر ان کی وصولی کی طرف بھی توجہ کریں.بالخصوص میں خدام کو اس طرف توجہ دلاتا ہوں کہ نئی پارٹی جو آئی ہے وہ سست ہے.اول تو نو جوان وعدے کم کرتے ہیں اور پھر وصولی کی طرف توجہ نہیں کرتے.حالانکہ نوجوانوں کو زیادہ چُست ہونا چاہیے تھا.نو جوانوں پر پژمردگی نہیں ہوتی اور نہ اُن پر خاندان کا بوجھ ہوتا ہے.انہیں دلیری سے وعدے کرنے چاہییں اور پھر انہیں پورا بھی دلیری سے کرنا چاہیے.میں سمجھتا ہوں کہ جو سستی واقع ہو رہی ہے وہ اس وجہ سے ہے کہ نوجوانوں میں بعض نقائص پائے جاتے ہیں.مثلاً سینما دیکھنا ہے، سگریٹ نوشی ہے اور چونکہ ان عادتوں پر خرچ زیادہ ہوتا ہے اس لیے وہ ان تحریکوں میں بہت کم حصہ لیتے ہیں.اس لیے خدام کو اس طرف خاص توجہ کرنی چاہیے اور انہیں چاہیے کہ وہ اب کے بوجھ کو اُٹھانے کی

Page 381

$1954 371 خطبات محمود پوری کوشش کریں.اول تو وہ چندہ ایک لاکھ بانوے ہزار کی بجائے اڑھائی لاکھ تک پہنچائیں اور پھر وصولی سو فیصدی نہیں بلکہ اس سے زیادہ کریں.پہلے دور میں اس قسم کی مثالیں موجود ای ہیں کہ مثلاً وعدہ دو لاکھ کا تھا تو وصولی سوا دولاکھ ہوئی.جب تک وہ اس روح کو پیدا نہیں کرتے اور جب تک اپنی ذمہ داریوں کو ادا نہیں کرتے خالی نام کا کچھ فائدہ نہیں.دنیا میں وہ پہلے ہی بدنام ہیں.انہیں تسبیح و تحمید کرنے کے لیے قائم کیا گیا ہے لیکن مخالفین کہتے ہیں کہ یہ ایک سیاسی جماعت ہے.گویا ایک طرف ان کے متعلق یہ جھوٹ بولا جاتا ہے اور دوسری طرف انہیں خدا تعالیٰ بھی نہ ملے تو اس سے زیادہ بدبختی اور کیا ہوگی؟ پس میں خدام کو توجہ دلاتا ہوں کہ یہ نیا دور خدام کا ہے.اس میں زیادہ تر حصہ لینے والے انہی میں سے ہیں.اس لیے ان پر فرض ہے کہ وہ اپنا چندہ بڑھا ئیں اور کوئی احمدی ایسا نہ رہے جو تحریک جدید میں شامل نہ ہو.دوسری طرف یہ کوشش کریں کہ وصولی سو فیصدی سے زیادہ ہو تا قرضے اُتر کر ریز روفنڈ قائم کیا جا سکے.ہم نے اپنا کام وسیع کرنا ہے.پہلے تو ہم پیج بکھیر رہے تھے اور کامیابی اسی صورت میں ہو سکتی ہے کہ ہم بے انتہا لٹریچر پیدا کریں.ایک ایک مبلغ کے ساتھ دس دس ہزار کا لٹریچر ہو.اب تو یہ حالت ہے کہ ہم نے مورچوں پر سپاہی بٹھا رکھے ہیں، انہیں رائفلیں بھی دی ہیں لیکن گولہ بارود مہیا نہیں کیا اور گولہ بارود کے بغیر رائفل ایک ڈنڈا ہی ہے.میری اس مثال احراری کہہ دیں گے کہ دیکھ لیا احمدی مبلغین کو رائفلیں دی جاتی ہیں.گویا علم معانی علم بیان میں جو ادب کی خصوصیات بیان کی جاتی ہیں اُن سے بھی ہمیں محروم رکھا جاتا ہے.اگر وہ کہیں کہ فلاں شیر ہے تو کوئی نہیں کہتا اُس کے پنجے دکھاؤ.لیکن اگر ہم کہہ دیں کہ فلاں شیر ہے تو کہتے ہیں اُس کے پنجے کہاں ہیں؟ گویا ہمیں زبان کے تمام حقوق سے محروم رکھا جاتا ہے لیکن ہماری زبان میں جو محاورے ہیں وہ ہمیں استعمال کرنے ہی پڑتے ہیں.اس میں ہمارا کوئی قصور نہیں.غالب کہتا ہے بنتی نہیں ہے بادہ و ساغر کہے بغیر 4 یعنی بادہ و ساغر سے ظاہری تعلق ہو نہ ہو شاعری اُس کے بغیر ٹھیک نہیں ہوتی.بہر حال اگر ہم نے تبلیغ کو وسیع کرنا ہے تو اس کے لیے ضروری ہے کہ ہم مبلغین کو ضروری سامان مہیا کر کے

Page 382

$1954 372 خطبات محمود دیں.سپاہی خندق پر بیٹھا ہو، رائفل بھی پاس ہو لیکن گولہ بارود نہ ہو تو وہ کیا کرے گا؟ و زیادہ سے زیادہ رائفل سے ڈنڈے کا کام لے سکتا ہے.تجربہ کیا گیا ہے کہ جب بڑے پیمانہ پر جنگ ہو اور دوسو راؤند فی سپاہی کا اندازہ ہو چل سکتا ہے ورنہ نہیں.مثلاً دولاکھ سپاہی ہوں تو دوکروڑ راؤند ہو تو موجودہ زمانہ کی کامیاب لڑائی لڑی جا سکتی ہے.اس کا مطلب یہ نہیں کہ دودوسو راؤند ہر سپاہی چلائے.برین گن 5 والے تو ایک ایک منٹ میں اتنے راؤند چلا لیتے ہیں.اصل بات یہ ہے کہ فوج میں لڑنے والا حصہ فوج کا پینتیسویں فیصدی ہوتا ہے.فوج میں نائی بھی ہوتے ہیں، دھوبی بھی ہوتے ہیں، ڈاکٹر بھی ہوتے ہیں، باور چی بھی ہوتے ہیں، موٹر چلانے والے بھی ہوتے ہیں.مغربی اقوام میں یہ لوگ ساری فوج کا چھیاسٹھ فیصدی ہوتے ہیں لیکن روس میں یہ لوگ چھیاسٹھ فیصدی حصہ نہیں ہوتے بلکہ چون فیصدی ہوتے ہیں.چھیالیس فیصدی لڑنے والے ہوتے ہیں.لیکن مغربی اقوام کہتی ہیں یہ غلط طریق ہے لڑنے والے کو جب تک مکمل آرام نہ دیا جائے وہ لڑ نہیں سکتا.اس لیے چھیاسٹھ فیصدی حصہ فوج کا لڑنے والوں کی خدمت میں وقف ہونا چاہیے.پھر باقی چونتیس فیصدی بھی ایک ہی وقت میں لڑائی میں شامل نہیں ہوتا.آخر کچھ وقت آرام بھی کرنا ہوتا ہے.اس لیے سترہ ہزار بیٹھیں گے اور سترہ ہزار لڑیں گے.پھر سترہ ہزار بھی سارا وقت نہیں لڑ سکتا.بعض لڑ رہے ہوں گے اور بعض لائن آف کمیونیکیشن کی حفاظت کر رہے ہوں گے.گویا ایک وقت میں ایک لاکھ فوج میں سے چودہ ہزار سے زیادہ سپاہی لڑائی نہیں کرتے.گویا اگر دو کروڑ گولیاں ہوں تو چودہ ہزار لڑنے والوں میں سے ہر ایک کو قریباً قریباً گیارہ سو گولی حصہ آئے گی.پھر رائفل والے کم گولی چلائیں گے اور برین والے زیادہ چلائیں گے.برین کا استعمال اب بڑھ گیا ہے.امریکہ میں ہر چوتھا آدمی برین سے مسلح ہوتا ہے لیکن ہمارے ہاں برین والوں کی تعداد کم ہوتی ہے.غرض سامان کے بغیر کوئی کام نہیں ہو سکتا لیکن ہماری حالت یہ ہے کہ ہم اپنے سپاہیوں کو سامان مہیا نہیں کرتے کیونکہ اس کا زیادہ تر انحصار چندہ پر ہے.اور جماعت اس قدر روپیہ مہیا نہیں کر سکتی اس لیے ابھی ہمیں یہی ضرورت تھی کہ ہم ہر جگہ اسلام کی آواز

Page 383

$1954 373 خطبات محمود پہنچا دیں.اگر ہم سامان جمع کرتے رہتے تو لوگ زیادہ دیر تک اسلام کی آواز سے محرومی رہتے.اب ہم لٹریچر پہنچائیں گے تو مبلغین زیادہ کام کر سکیں گے اور یہ صحیح طریق بھی ہے.اگر ہمارا کام رُک جائے تو یہ بات خطرناک ہو گی.اب ضرورت ہے کہ ہم کثرت سے لٹریچر شائع کریں اور اُسے دنیا میں پھیلائیں.اور ہم لٹریچر زیادہ تعداد میں اُس وقت تک شائع نہیں کر سکتے جب تک کہ ہمارے پاس ماہر مصنفین نہ ہوں.اور پھر اعلیٰ زبان دان مترجم نہ ہوں.اور جرمن، فرانسیسی ، انگریزی، اٹالین سپینش ، جاپانی، چینی اور دوسری زبانوں کے جاننے والے موجود نہ ہوں.اور اس کے لیے ہمیں نیا عملہ تیار کرنا پڑے گا جو ان زبانوں کا ماہر ہو.اور اس پر کافی روپیہ اور وقت لگے گا.پھر مصنفین کے لیے.کے علوم کی کتب کی ضرورت ہو گی جن سے وہ اپنی کتب میں مدد لیں.اس کے لیے میں کئی سال سے لائبریری میں کتابیں مہیا کر رہا ہوں اور دوسرے لوگوں کو بھی ہدایت کی ہوئی ہے کہ انہیں جو اچھی کتاب ملے اُس کے متعلق ہمیں تحریر کریں کہ ہم اُسے لائبریری کے لیے خرید لیں.یہ لائن آف ایکشن ہے جو ہم نے قائم کی ہے.پہلے مبلغ جائیں گے اور وہ ایک اثر قائم کر دیں گے.پھر لٹریچر کی باری آئے گی اور اس لٹریچر کے تیار کرنے کے لیے دو طرح کے آدمی درکار ہیں.اول وہ جو لکھنا جانتے ہوں.دوسرے وہ جو مختلف زبانیں جانتے ہوں تا کہ ان میں کتب کا ترجمہ کریں.کیونکہ ضروری نہیں کہ ہر زبان جاننے والا اچھا لکھ بھی سکتا ہوں.پھر ان کے لیے اسلام اور غیر مذاہب کی کتب کی ضرورت ہو گی جن کا کئی سال سے ذخیرہ جمع کیا جا رہا ہے.یہ لائن آف ایکشن تھی جو میرے ذہن میں تھی.پہلا دور ختم ہو گیا ہے دوسرا دور شروع ہے.اگر اس وقت تم ہمت نہیں کرو گے تو پہلا کام بھی بیکار جائے گا.اور اگر ہمت کروگے تو مبلغ مسلح ہو کر باہر جائیں گے، اُن کے ساتھ قرآنی تفسیر کے ذخائر ہوں گے جن سے قلوب کو فتح کیا جا سکتا ہے.اور اس میں کیا شبہ ہے کہ قرآنی گولہ بارود کے سامنے کوئی قلعہ نہیں ٹھہر سکتا.ہمارا کام ہے کہ ہم یہ گولہ بارود مبلغین تک پہنچائیں.اور تمہارا کام ہے کہ تم اس میں مدد دو.اگر تم اس وقت قربانی کرو گے اور سُستیاں دور کر دو گے تو تم ہمیں اس قابل بنا دو گے

Page 384

$1954 374 خطبات محمود کہ ہم مبلغین کو سامان کثرت سے دیں تا تبلیغ کا دائرہ وسیع کیا جا سکے.(الفضل یکم دسمبر 1954 ء) 1 : سلاو: (SLAV) ایک نسلی گروہ ہے جس کے لوگ سلاوی زبانیں بولتے ہیں ان میں دو بڑے گروہ ہیں ایک مغربی سلاو اور دوسرے مشرقی سلاو.مشرقی سلاو ابتدائی چھٹی صدی سے وسطی و مشرقی یورپ اور بلقان کے علاقوں میں زیادہ تعداد میں پائے جاتے ہیں.مغربی سلاو روس ، سائبیریا اور وسطی ایشیا میں مقیم ہیں.وکی پیڈیا آزاد دائرۃ المعارف زیر لفظ ” SLAV) 2 : هُوَ الَّذِى اَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدَى وَدِينِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ وَلَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُونَ (الصف: 10) 3 : تفسیر الرازی سورۃ الصف زیر آیت (هو الذى ارسل رسول ودين الحق......) الهدى تفسیر الخازن سورة الصف زیر آیت هو الذی ارسل رســولــــه بــالهــدی ودين الحق........4 : دیوان غالب، مرتبہ میاں مختار کھٹانہ - صفحہ 101.اردو بازار لاہور 2004ء برین گن: (BREN GUN) برطانوی ساخت کی لائٹ مشین گن جو 1930 ء کی دہائی میں متعارف کروائی گئی.وکی پیڈیا آزاد دائرۃ المعارف زیر لفظ BREN GUN)

Page 385

$1954 375 36.خطبات محمود اللہ تعالیٰ تمہیں بڑھانا چاہتا ہے اس لیے تمہیں اپنی قربانی بھی ہر قدم پر بڑھانی پڑے گی تحریک جدید میں زیادہ سے زیادہ وعدے لکھاؤ انہیں جلد پورا کرو اور نئے لوگوں کو اس میں شامل کرو (فرمودہ 3 دسمبر 1954ء بمقام ربوہ) تشهد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: میں نے گزشتہ جمعہ تحریک جدید کے نئے سال کے متعلق اعلان کیا تھا.چونکہ وعدوں کی آخری تاریخیں مجھے یاد نہیں تھیں اس لیے میں نے اعلان کیا تھا کہ وعدوں کی آخری تاریخیں پچھلے سال کی تاریخوں کے مطابق ہوں گی اور بعد میں شائع کر دی جائیں گی.لیکن افسوس ہے کہ محکمہ متعلقہ نے اس کی اہمیت کو نہ سمجھا، نہ اس نے خطبہ نویس کو تاریخیں لکھوائیں اور نہ بعد میں اخبار میں اعلان کرایا.مومن کو اپنے کاموں میں ہوشیار ہونا چاہیے اور اپنے فرائض کی ادائیگی میں جلدی اور احتیاط سے کام کرنا چاہیے.احتیاط اس لیے کہ اگر ہم اپنے اندازے میں غلطی کر جائیں اور کام کے بعض پہلو ترک کر دیں تو ہمیں صحیح نتیجہ کی امید نہیں ہو سکتی

Page 386

$1954 376 خطبات محمود اور جلدی اس لیے کہ یہ زمانہ جلدی کرنے کا ہے.دنیا دوڑ رہی ہے.جب تک ہم دنیا کے کی ساتھ ایسی رفتار کے ساتھ نہ دوڑیں کہ ہماری رفتار اُس سے تیز ہو اُس وقت تک ہمیں کسی اچھے کی نتیجہ کی امید نہیں ہو سکتی.اب میں اعلان کرتا ہوں کہ مغربی پاکستان کے لیے آخری تاریخ کی وعدے بھجوانے کی 23 فروری ہوگی اور مشرقی پاکستان کے لیے آخری تاریخ 31 مارچ ہوگی اور بیرونی ممالک جہاں کی مقامی احمد یہ آبادی ہندوستانی یا پاکستانی ہے اُن کی آخری تاریخ 30 اپریل اور باقی بیرونی ممالک کے لیے 30 جون.میں نے گزشتہ جمعہ یہ اعلان تو کر دیا تھا کہ نئے سال میں احباب تحریک جدید کی طرف زیادہ توجہ کریں اور پہلے سالوں سے بڑھ چڑھ کر وعدے لکھوائیں لیکن دو باتیں ایسی ہیں جن کی طرف میں آج جماعت کو توجہ دلانا چاہتا ہوں.ان میں سے ایک بات یہ ہے کہ اگر ہم نے اپنے مقصد میں کامیاب ہونا ہے تو ہمارے کام نے ہر سال بڑھنا ہے.اور دوسری بات یہ ہے کہ اگر ہم نے اپنے گزشتہ ارادوں، امیدوں اور پروگراموں کو پورا نہ کیا تو آئندہ ان کے پورا کرنے کی امید کم ہی کی جاسکتی ہے.سب سے پہلے میں اس بات کو لیتا ہوں کہ ہمیں اپنے بڑھنے کا خیال رکھنا چاہیے اور یہ بات کبھی نظر انداز نہیں کرنی چاہیے کہ جو کام ہم نے شروع کیا ہے اگر یہ ترقی کی طرف مائل ہے تو لازماً وہ بڑھے گا.اگر ہم صرف اس بات پر کفایت کر لیں کہ جس طرح ہم پہلے تھے آئندہ بھی ہم اُسی طرح رہیں گے.ہم بڑھیں گے نہیں تو یہ امر ہماری جماعت کے بڑھاپے پر تو دلالت کر سکتا ہے اس کی جوانی پر دلالت نہیں کر سکتا.انسان کے اوپر تین قسم کے دور آتے ہیں.پہلا دور انسان کے پیدا ہونے اور اُس کے ترقی کرنے کا دور ہوتا ہے.اس دور میں ہمیشہ آج کی حالت کل کی حالت سے بہتر ہو گی اور آج کی ذمہ داریاں کل سے زیادہ ہوتی ہیں.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ آج سے، ہم جسمانی طور پر چوبیس گھنٹے مراد نہیں لے سکتے.انسانی زندگی کی بڑھوتی میں بعض دفعہ ایک دن، چھ ماہ کا ہوتا ہے، بعض دفعہ ایک سال کا ہوتا ہے اور بعض دفعہ پندرہ یا بیس سال کا ہوتا ہے.اسی طرح انسانی زندگی میں بعض تغیرات ایسے ہوتے ہیں جو تین چار ماہ کے عرصہ میں ہو جاتے ہیں.مثلاً بچپن کی عمر میں پہلا تغیر

Page 387

$1954 377 خطبات محمود انسان کے اندر بولنے، چلنے اور دانت نکالنے کا ہوتا ہے.ان سارے تغیرات کو دیکھا جائے تو ای معلوم ہوتا ہے کہ یہ ایک محدود وقت میں ہونے لگ جاتے ہیں.بعض بچے ایسے ہوتے ہیں جو پہلے بولنے لگ جاتے ہیں اور بعض بچے پہلے چلنے لگ جاتے ہیں.ایک غریب سے غریب گھر میں بھی جو بچوں کے لیے گڑیاں بھی نہیں خرید سکتا، بچہ غوں غھوں کرتا ہے تو دوسرے بچے شور مچا دیتے ہیں کہ ننھاتھوں نوں کر رہا ہے.یا وہ سر اُٹھانے لگ جاتا ہے تو دوسرے بچے شور مچا دیتے ہیں کہ آج ننھا سر اُٹھا رہا ہے.انہیں سارے تغیرات نظر آتے ہیں لیکن ہمیں نظر نہیں نے ہم کہتے ہیں کہ فلاں پیدا ہوا اور جوان ہوا.درمیانی تغیرات کا علم ہمیں نہیں ہوتا لیکن اردگرد کے رہنے والے اُس کے معمولی معمولی تغیرات کو بھی محسوس کرتے ہیں.مثلاً بچہ نھوں ٹھوں کرتا ہے تو ارد گرد والے کہتے ہیں ننھا نھوں غوں کر رہا ہے.اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ کل تک اُس نے غموں ٹھوں، کیا تھا.یا اگر بچہ منہ میں انگوٹھا ڈالتا ہے تو اس کے قریب رہنے والے کہتے ہیں ننھے نے اپنا انگوٹھا منہ میں ڈالا ہے.اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ یہ ترقی اُس نے آج کی ہے.کل تک اس نے منہ میں انگوٹھا نہیں ڈالا تھا.پھر ایک اور زمانہ آتا ہے.جب بچہ اپنا سر اُٹھانے لگ جاتا ہے.اردگرد والے اُس کے اس تغیر کو بھی محسوس کرتے ہیں.جس وقت بچے کے اعصاب مضبوط ہو جاتے ہیں اور وہ لوگوں کو اردگرد چلتے ہوئے دیکھتا ہے تو وہ بھی اپنی گردن اونچی کرتا ہے اور قریب کھیلنے والے بچے شور مچاتے ہیں کہ آج ننھے نے گردن سیدھی کی ہے.اس کے معنے یہ ہوتے ہیں کہ آج سے قبل اُس نے ایسا نہیں کیا تھا.یہ ترقی اس نے آج کی ہے.پھر بچہ اس قابل ہو جاتا ہے کہ بیٹھنے لگ جاتا ہے اور اپنی کمر ایک حدی تک سیدھی کر لیتا ہے تو بچے شور مچاتے ہیں کہ ننھا بیٹھ گیا ہے.اس کے معنے یہ ہوتے ہیں کہ اس نے یہ ترقی آج کی ہے.پھر ان تغیرات کے ساتھ ساتھ حالات میں بھی تغیر ہوتا ہے.جب بچہ اتنی چھوٹی عمر کا ہوتا ہے کہ وہ صرف چار پائی پر لیٹا رہے تو ماں کو چوبیس گھنٹہ اُس کا خیال رکھنا پڑتا ہے اور یہ خیال بھی صرف اس حد تک ہوتا ہے جس حد تک بچے کے لیٹنے کا سوال ہوتا ہے.پھر بچہ کچھ بڑا ہو جاتا ہے اور اپنے منہ میں انگوٹھا ڈالنے لگ جاتا ہے تو جن لوگوں کو توفیق ہوتی ہے وہ اپنے بچوں کو چوسنی لے دیتے ہیں تا وہ اسے مسوڑھوں کے نیچے

Page 388

خطبات محمود ہے.378 $1954 دباتا رہے.انگوٹھا چوسنے کی خواہش طبعی ہوتی ہے کیونکہ اُس وقت مسوڑھوں میں خراش پیدا ہوتی ہے اور انگوٹھا چوسنا یا چوسنی منہ میں رکھنا دانتوں کے نکلنے اور ان کے بڑھنے میں مدد دیتا یہ چوسنی کا خرچ زائد ہو جاتا ہے.پہلے یہ خرچ نہیں ہوتا تھا.پھر بچہ اور بڑا ہوتا ہے.مثلاً وہ سر اُٹھانے لگ جاتا ہے تو تکیوں کی ضرورت پیش آتی ہے تا اُس کو سر اُٹھانے میں تکلیف نہ ہو.تکیہ رکھ کر اُس کے سر کو بلند کر دیا جاتا ہے اور اس طرح سر اُٹھانے میں اسے سہولت ہو جاتی ہے.پھر اس سے بڑا ہوتا ہے تو گدیلوں اور تکیوں کی ضرورت ہوتی ہے تا بچہ بیٹھنے لگ جائے.اور جب بچہ اور بڑا ہوتا ہے تو گھر والے اُسے ایک دو پیسے کی گاڑی بنوا دیتے ہیں جو بوجھ پڑنے پر آگے چلنے لگ جاتی ہے تا کہ اس طرح اُسے اپنے پاؤں ہلانے اور چلنے کی عادت پڑے.اس کے بعد وہ اور بڑا ہوتا ہے تو اُس کے لباس کا خیال رکھا جاتا ہے.ماں باپ سمجھتے ہیں کہ اب اسے پاجامہ شلوار یا تہبند بنا دینا چاہیے.سردیوں میں جراب کا استعمال شروع کر دیا جاتا ہے.پھر ایک زمانہ بڑھنے کا ایسا آتا ہے جب ہر چھ ماہ کے بعد پہلا لباس چھوٹا ہو جاتا ہے.جن گھروں میں بچے زیادہ ہوتے ہیں وہ عموماً اس قسم کے کپڑے سنبھال کر رکھ لیتے ہیں تا دوسرے بچوں کے کام آئیں.قومی ترقیات بھی اسی طرح چلتی ہیں.کبھی ایسا نہیں ہوا کہ ایک قوم ایک دن میں ہی پیدا ہوئی اور پروان چڑھی ہو.قرآن کریم سے پتا لگتا ہے کہ نئی مذہبی قوم اُس وقت کھڑی کی جاتی ہے جب دنیا میں خرابیاں پیدا ہو جاتی ہیں.جیسے فرمایا ظَهَرَ الْفَسَادُ فِي الْبَرِ وَالْبَحْرِ 1 یعنی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کی اصل وجہ یہ تھی کہ اُس وقت بر وبحر میں فساد پیدا ہو گیا تھا اور یہی حالت ہمیشہ انبیاء کی بعثت کے وقت رہی ہے.قرآن کریم میں خدا تعالیٰ فرماتا ہے يُحَسْرَةً عَلَى الْعِبَادِ مَا يَأْتِيهِمْ مِنْ رَّسُولٍ إِلَّا كَانُوا بِهِ يَسْتَهْزِءُونَ 2 کہ جب بھی کوئی نبی مبعوث ہوتا ہے تو اُس کے خیالات چونکہ رائج الوقت خیالات سے مختلف ہوتے ہیں اور لوگوں کو وہ مجنونانہ باتیں معلوم ہوتی ہیں اِس لیے لوگ اُن پر مذاق اُڑاتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ بھلا کوئی شخص اس کی باتوں کو معقول سمجھ سکتا ہے.غرض کوئی نئی جماعت خصوصاً الہی جماعت اُسی وقت بنتی ہے جب زمانہ میں فساد اور خرابی

Page 389

$1954 379 خطبات محمود پیدا ہو جائے.اور جب فساد اور خرابی پیدا ہو جاتی ہے تو کوئی قوم یکدم نہیں بن سکتی بلکہ اُس پر ایک وقت لگتا ہے.آخر جب خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ کوئی رسول ایسا نہیں آتا جس پر اُس زمانہ کے لوگ استہزا نہیں کرتے تو ظاہر ہے کہ مذاق کسی بڑی قوم کے ساتھ نہیں کیا جا سکتا.اگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ دو لاکھ میں سے لاکھ ڈیڑھ لاکھ ہو جاتا یا دوکروڑ میں سے ایک کروڑ یا ڈیڑھ کروڑ لوگ ہو جاتے تو باقی لوگوں میں اتنی ہمت ہی کہاں ہو سکتی تھی کہ وہ ان پر استہزا کرتے.مذاق اسی لیے کیا جاتا ہے کہ وہ قوم دوسروں سے چھوٹی ہوتی ہے.قرآن کریم میں خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ انبیاء کی جماعتوں کو لوگ لَشِرْ ذِمَةٌ قَلِيلُونَ 3 کہتے ہیں.وہ سمجھتے ہیں کہ یہ چند لوگ ہیں جو ترقی اور بیداری کی خواہیں دیکھ رہے ہیں.جن مقاصد کو یہ لوگ پیش کر رہے ہیں اُن کے لیے تو ایک مضبوط قوم کی ضرورت ہے.یہ چند آدمی اس کام کو کس طرح کر سکتے ہیں.غرض انبیاء کی جماعتیں ہمیشہ چھوٹی ہوتی ہیں اور بعض دفعہ تو اُن کی تعداد اتنی قلیل ہوتی ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں کہ بعض انبیاء کو صرف ایک ایک می نے مانا.4 اب اُس ایک شخص کا دوسرے لوگوں پر کیا رُعب پڑ سکتا تھا.بعد میں یہ جماعتیں آہستہ آہستہ بڑھنا شروع کرتی ہیں اور اُن کے افراد ایک سے دو، دو سے تین اور تین سے چار ہو جاتے ہیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تاریخ سے زیادہ محفوظ تاریخ اور کسی نبی کی نہیں.حضرت نوح، ابراہیم، موسی اور عیسی علیہم السلام کی تاریخیں کسی حد تک محفوظ ہیں لیکن زیادہ تر قابل اعتبار وہی حالات ہیں جو قرآن کریم نے بیان فرمائے ہیں.باقی تاریخ زیادہ روشن نہیں.لیکن رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی ایسی ہے جو ایک کھلی کتاب کی طرح ہے.جس طرح آپ کو سورہ فاتحہ ملی جو کھلے مضامین رکھنے والی ہے اسی طرح آپ کو زندگی بھی " ملی جو کھلی کتاب کے طور پر تھی.آپ نے بیویوں سے پیار کیا تو وہ بھی تاریخ میں موجود آپ نے تھوکا، نہایا، وضو کیا، پیشاب کیا، پانی پیا یا کھانا کھایا تو وہ بھی تاریخ میں محفوظ چلا آتا ہے.غرض آپ کی تاریخ بھی فاتحہ ہے اور آپ کی زندگی بھی فاتحہ ہے.دشمن اگر وہ ہے،

Page 390

$1954 380 خطبات محمود اعتراض کرتا ہے تو ہم اُسے کہتے ہیں کہ تم اس لیے اعتراض کرتے ہو کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی کھلی کتاب کے طور پر ہے.اگر آپ کی زندگی بھی حضرت موسی یا حضرت عیسی علیہما السلام کی زندگی کی طرح بند کتاب کی طرح ہوتی تو تمہیں اعتراض کرنے کا موقع میسر نہ آتا.پس آپ کی زندگی پر اعتراضات کی کثرت اس بات کی علامت نہیں کہ آپ پر دوسرے انبیاء کی نسبت زیادہ اعتراضات ہوئے ہیں بلکہ اس بات کی علامت ہے کہ آپ کی زندگی ایک کھلی کتاب کے طور پر ہے.ایک عورت نے برقع پہنا ہو تو اُس کے متعلق یہ نہیں کہا جا سکتا کہ اُس کے چہرہ پر برص ہے یا نہیں یا وہ کیلوں سے بھرا ہوا ہے یا نہیں.اُس کے متعلق یہ نہیں کہا جا سکتا کہ اُس کی ایک آنکھ ہے یا نہیں، یا وہ بھینگی ہے یا نہیں.لیکن اگر کسی کا چہرہ کھلا ہوا ہو تو لوگ اُس پر کئی اعتراضات کر سکتے ہیں لیکن ہم اُس کا مقابلہ ایک برقع پوش عورت سے نہیں کر سکتے.یعنی ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ فلاں برقع پوش عورت کے مقابلہ میں اس غیر برقع پوش عورت پر زیادہ اعتراضات ہوئے ہیں.اگر کوئی غیر برقع پوش عورت کا مقابلہ برقع پوش عورت سے کرتا ہے تو وہ پاگل ہے.اسی طرح ہم کہیں گے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مثال دوسرے انبیاء کے مقابلہ میں ایسی ہی ہے جیسے ایک غیر برقع پوش عورت کی مثال برقع پوش عورت کے مقابلہ میں ہوتی ہے.آپ کی زندگی سورج کی طرح ہے.اس کا ہر پہلو نظر آسکتا ہے لیکن دوسرے انبیاء کی زندگیاں بند کتاب کے طور پر ہیں.پس آپ کی زندگی ہمارے لیے ایک نمونہ ہے.جب آپ نے دعوای فرمایا تو ابتدا میں صرف ایک شخص (یعنی حضرت ابوبکر) آپ پر ایمان لایا.وہ لوگ جنہوں نے بعد میں اسلام میں بڑے بڑے درجات حاصل کیے اُن میں بھی بعض ایسے تھے جنہوں نے ابتدائی زمانہ میں آپ کی سخت مخالفت کی.مثلاً خلافت کے زمانہ میں سے سب سے زیادہ روشن زمانہ حضرت عمر کی خلافت کا ہے لیکن آپ بھی ایک عرصہ تک محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مخالفت کرتے رہے ہیں.پھر آپ کے زمانہ میں بھی اور آپ کے بعد بھی بہترین اسلامی کمانڈر خالد بن ولید تھے.لیکن آپ بھی ہجرت کے بعد چھ سال تک رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خلاف جنگ کرتے رہے

Page 391

$1954 381 خطبات محمود پھر جب خلافت میں تنزل آیا تو اُس کی گری ہوئی عمارت کو سنبھالنے والے معاویہ تھے.لیکن آپ بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آخری عمر میں ایمان لائے تھے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مکی زندگی میں صرف اسی نوے آدمی آپ پر ایمان لائے تھے.بعض کے نزدیک ان کی تعداد دو سو تین سو تک تھی.اب دیکھو! ایک شخص جو تیرہ سال تک یہ دعوی کرتا رہا کہ وہ ساری دنیا کو فتح کر لے گا، وہ یہ اعلان کرتا رہا کہ اس کی جماعت آخر غالب آئے گی اور اُس کی پیش کردہ تعلیم دوسری سب تعلیموں پر غالب آئے گی اُس کی جماعت میں اگر تیرہ سال کے لمبے عرصہ میں دوسو یا تین سو آدمی داخل ہو گئے تو بظاہر یہ نظر آتا ہے کہ یہ ایسی چیز نہیں جس کے ذریعہ دنیا کو فتح کیا جا سکے.ہاں! ایک چیز ضرور تھی اور یہی انبیاء کی سچائی کی علامت ہوا کرتی ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا نُصِرْتُ بِالرُّعْبِ مَسِيرَةَ شَهْرٍ 5 یعنی جہاں ایک مسافر ایک ماہ میں پہنچ سکتا ہے وہاں تک خدا تعالیٰ نے میرا رعب پہنچا دیا ہے.چنانچہ آپ کے ابتدائی تیرہ سالوں میں ہی آپ کی آواز حبشہ، نجد اور اردگرد کے علاقہ میں پہنچ گئی تھی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو بھی دیکھ لو آپ کے ماننے والے ابھی ابتدا میں پچاس ساٹھ ہی تھے لیکن سارے ہندوستان میں ایک شور مچ گیا تھا.مکہ تک سے کفر کے فتوے آ گئے تھے.حالانکہ کیا پڑی اور کیا پدی کا شور با.آپ کے ماننے والے پچاس ساٹھ کی تعداد میں تھے.اس سے گھبرانے کی کونسی وجہ تھی.اس کی صرف ہی وجہ تھی کہ شیر کا بچہ پہلے دن بھی شیر کا بچہ ہوتا ہے اور بھیڑ کا بچہ سو سال کے بعد بھی بھیڑ کا ہی بچہ ہوتا ہے.لوگوں کو اس قلیل جماعت میں بھی ایک شان نظر آتی تھی.اس لیے دوسرے لوگ اس کے مخالف ہو گئے.ایک دفعہ ایک مدعی نبوت نے مجھے لکھا کہ بڑے افسوس کی بات ہے کہ میں نے آپ کو اتنے خطوط لکھے ہیں اور اتنے رسالے بھیجے ہیں لیکن آپ نے اُن کا کوئی جواب نہیں دیا.آپ کم سے کم ان کی تردید تو کر دیں.میں یہ نہیں کہتا کہ آپ مجھے مان لیں لیکن اس قدر تو کریں کہ ان کی تردید کر دیں.میں نے سمجھا کہ اب اس خط کا جواب مجھے ضرور دینا چاہیے.چنانچہ میں نے اُسے لکھا کہ یہ تردید بھی قسمت والوں کو میسر آتی

Page 392

$1954 382 خطبات محمود حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو دیکھ لو آپ نے دعوی کیا تو سارے لوگ آپ کے خلاف کھڑے ہو گئے لیکن ہم تمہاری کتابوں اور رسالوں کی تردید بھی نہیں کرتے.یہ ثبوت ہے اس بات کا کہ تمہارے ساتھ خدا تعالیٰ نہیں.لوگ کہتے ہیں ہونہار پر وا کے چکنے چکنے پات جب کوئی تعلیم پھیلنے والی ہوتی ہے تو اس میں جامعیت پائی جاتی ہے اور لوگ سمجھ لیتے ہیں کہ اس تعلیم میں وہ خوبیاں موجود ہیں جو دوسرے لوگوں کو اپنی طرف کھینچ لیں گی.لیکن جس تعلیم میں یہ خوبیاں موجود نہ ہوں، اس میں جامعیت نہ پائی جاتی ہو تو لوگ سمجھتے ہیں یہ رڈی چیز ہے.اس کی طرف توجہ کرنے کی ضرورت نہیں.فرض کرو ایک آدمی ایک انچ کی دیجی 6 اعلیٰ قسم کی ریشم کی لے آئے تو کیا کوئی شخص خیال کر سکتا ہے کہ وہ اس سے قمیص تیار کر لے گا.اسی طرح اگر کوئی خاص مسئلہ لے کر کھڑا ہو جائے یا کسی اقتصادی نکتہ کے متعلق اپنی پیش کرے تو چاہے وہ کتنا ہی اعلیٰ ہو وہ مذہب نہیں کہلا سکتا.اعلیٰ قسم کا مذہب وہی ہو سکتا ہے جس سے زندگی کے ہر شعبہ میں ہدایت ملتی ہو.اگر کوئی مذہب زندگی کے ہر شعبہ میں ہدایت نہیں دے سکتا تو لوگ اسے قبول نہیں کر سکتے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے متعلق لوگوں نے یہ محسوس کر لیا تھا کہ آپ کی باتیں مولویوں والی نہیں.مولوی ایک بات کو لے لیتے ہیں اور اُس پر سارا زور لگا دیتے ہیں.مثلاً بعض اس بات پر ہی سارا زور لگا دیں گے کہ کو ا حلال ہے یا نہیں.اب اگر کو احلال ثابت ہو جائے اور لوگ اسے کھانا شروع کر دیں تب بھی اس سے کیا ہو گا.لیکن آپ نے وہ تعلیم پیش کی جس میں زندگی کے ہر شعبہ میں ، ہدایت ملتی تھی.آپ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور قرآن کریم کے پیش فرمودہ اصول کو دوبارہ دنیا کے سامنے پیش کیا.اس لیے ہر شخص نے یہ سمجھ لیا کہ اب لوگ اس تعلیم کی طرف متوجہ ہو جائیں گے.پہلوں کے پاس نہ دونیاں ہیں نہ چونیاں ہیں، نہ اٹھنیاں ہیں، نہ روپے اور نوٹ ہیں.پھر انہیں صراف کیسے کہا جا سکتا ہے.صراف کے لیے ضروری ہے کہ اس کے پاس دونیاں، پوتیاں، اٹھنیاں اور روپے وغیرہ موجود ہوں.اس کے پاس نوٹ ہوں اشرفیاں ہوں صرف چند پیسے پاس ہونے سے اسے صراف نہیں کہا جا سکتا.رسول کریم صلی اللہ علیہ

Page 393

$1954 383 خطبات محمود دنیا میں آئے تو ابتدائی تیرہ سالوں میں اسی نوے یا بعض روایات کے مطابق دوسو تین سو لوگ آپ پر ایمان لائے لیکن آپ کی شہرت دُور دُور تک پھیل گئی تھی.حبشہ اور نجد تک آپ کی تعلیم پہنچ چکی تھی اور امراء، رؤساء، فقہاء اور بادشاہوں نے آپ کی طرف توجہ شروع کر دی تھی.اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو دیکھ لو آپ کے ماننے والوں کی تعداد ابتدا میں پچاس ساٹھ تھی.لیکن آپ کی شہرت دُور دُور تک پھیل چکی تھی.اس کے مقابلہ میں جن لوگوں نے دعوی کیا اُن کو اپنے علاقہ سے باہر کوئی جانتا بھی نہیں تھا.اس قسم کے لوگوں کو خواہ پچاس ساٹھ مان بھی لیں ان کے متعلق لوگ یہ احساس بھی نہیں کرتے کہ وہ دنیا میں کوئی تغیر پیدا کر لیں گے.یہ لوگ روزانہ لکھتے ہیں کہ اب قیامت آ جائے گی لیکن عملی طور پر ایک چار پائی بھی نہیں پلتی اور دنیا میں کوئی منفی یا مثبت تغیر پیدا نہیں ہوتا.یہی ثبوت ہے اس بات کا کہ ان کی مثال بھیڑیے کے چمڑے میں بھیٹر کی سی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ماننے والے اگر چہ تھوڑے تھے لیکن لوگوں میں ان کی وجہ سے گھبراہٹ بہت زیادہ تھی کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ ان کی تعلیم دنیا کو کھا جائے گی.اسی طرح ہماری جماعت کو دیکھ لو مخالف بڑے بڑے دعوے کرتے ہیں، عوام کو بھڑکاتے ہیں، فتوے دیتے ہیں لیکن دنیا ڈرتی ہم.ہی ہے.اگر چہ ہم انہیں تسلیاں دیتے ہیں اور یہ کہتے کہتے تھک جاتے ہیں کہ ہم تمہارے دشمن نہیں تمہارے خیر خواہ ہیں لیکن پھر بھی وہ تسکی اور اطمینان نہیں پکڑتے کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ یہ تعلیم اس قسم کی ہے کہ جہاں بھی جائے گی لوگ اس کی طرف متوجہ ہو جائیں گے اور اگر ہمارے اردگرد کے لوگوں نے ان کی باتیں سن لیں تو وہ ہمیں چھوڑ کر اس تعلیم کو قبول کر لیں گے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بعثت سے پہلے اسلام پر ہر طرف اعتراضات ہو رہے تھے کیا یہودیت اور عیسائیت اور کیا ہندو مذہب ہر ایک کے ماننے والے اسلام پر حملہ آور ہو رہے تھے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ان کا مقابلہ کیا.مسلمانوں نے بھی آپ کی مخالفت کی اور یہ نہ سمجھا کہ آپ ان کی حفاظت کے لیے کھڑے ہوئے ہیں.لیکن اب ہماری یہ حالت ہے کہ کوئی ماں کا بچہ ایسا نہیں جو اسلام پر کوئی ނ

Page 394

$1954 384 خطبات محمود اعتراض کر سکے اور پھر اُس کا جواب نہ دیا جا سکے.پس تم نے ترقی کی طرف ایک قدم اُٹھایا ای ہے.بیج تمہارے پاس ہے جو بویا گیا ہے اور پھر وہ زمانہ تمہیں ملا ہے جس میں تمہاری ترقی لازمی ہے.جس طرح پانچ چھ سال کا بچہ یہ نہیں کہہ سکتا کہ اس نے بڑھنا نہیں باوجود اس کے کہ اُس کا ارادہ شامل نہیں ہوتا پھر بھی وہ بڑھتا جاتا ہے.اسی طرح خدا تعالیٰ نے تمہارے اندر ایسی روح پیدا کر دی ہے کہ تم نے بہر حال بڑھنا ہے.چاہے تمہارا ارادہ اور عزم ساتھ شامل ہو یا نہ ہو.پھر جس طرح یہ نہیں ہو سکتا کہ پانچ چھ سال کے بچہ کا لباس آٹھ نو سال کی عمر کے بچہ کو پورا آسکے اسی طرح یہ بھی نہیں ہو سکتا کہ تمہارے پچھلے سال کا چندہ اگلے سال کے لیے کافی ہو.جب تک تم پہلے سے زیادہ قربانی نہیں کرو گے، جب تک تم اپنے چندے کو پہلے سالوں سے زیادہ نہیں بڑھاؤ گے، جب تک تم چندہ دینے والوں کی تعداد ہر سال بڑھاتے نہیں جاؤ گے تمہارا لباس تمہارے جسم پر بے جوڑ معلوم ہو گا.اگر کوئی لمبا شخص کسی چھوٹے بچے کا لباس پہننا چاہے تو اول تو وہ پہنتے پہنتے پھٹ جائے گا اور اگر وہ کسی طرح اُس کو بہن بھی لے تو وہ صرف ناف تک یا اس کے اوپر تک آئے گا باقی جسم نگا رہ جائے گا.اسی طرح تمہارے ساتھ ہو گا.اگر تمہاری شہرت کے مقابلہ میں تمہارا کام اور تمہارا چندہ کم ہو تو سب دیکھنے والوں کو تمہارا یہ عیب نظر آئے گا.تمہارا کام آج ہر قوم کے سامنے ہے.جس طرح ایک گرتا قد کے برابر نہ ہو تو وہ ہر شخص کو بُرا نظر آتا ہے.اسی طرح اگر تمہاری قربانی اور تمہارے چندے تمہارے کام کی نسبت سے تھوڑے ہوں گے تو تمہارا یہ عیب ہر شخص کو نظر آئے گا.کوئٹہ میں ایک فوجی افسر میرے پاس آیا اور اس نے کہا میں ایک جگہ پر گیا.وہاں آپ کی جماعت کا ایک مبلغ تھا اور وہ بہت اچھا کام کر رہا تھا لیکن میں نے دیکھا ہے، نہ اُسے اچھا لباس میسر تھا اور نہ اچھا کھانا ملتا تھا اور اُسے ہر بڑے شخص سے ملنا پڑتا تھا.اگر آپ اُسے اچھا لباس مہیا نہیں کر سکتے اور اسے اچھا کھانا نہیں دے سکتے تو وہ تبلیغ کا کام کیسے کرے گا؟ ایک شخص نے اس سے پہلے بھی مجھے لکھا تھا (شاید یہ وہی شخص تھا جو بعد میں مجھے کوئٹہ میں ملا)

Page 395

$1954 385 خطبات محمود کہ میں سنگا پور سے آیا ہوں.وہاں آپ کے مبلغ کام کرتے ہیں لیکن افسوس ہے کہ انہیں اچھا کھانا اور اچھا لباس نہیں مل رہا.وہ فقیروں کی طرح رہتے ہیں.میں احمدی تو نہیں لیکن اُن کی کمی حالت دیکھ کر اس قدر متاثر ہوا ہوں کہ آپ کو توجہ دلانا ضروری سمجھتا ہوں.اگر آپ وہاں کوئی کام کرنا چاہتے ہیں تو اپنے مبلغوں کو اچھا کھانا اور اچھا لباس تو مہیا کریں.اس شکایت کرنے والے دوست کو تو ہمارے مبلغین کا ظاہری لباس اور ظاہری کھانا نظر آیا اور مجھے یہ فکر ہے کہ ہم اپنے مبلغین کو باطنی کھانا بھی مہیا نہیں کر رہے.ہمارے ہر مبلغ کے پاس سینکڑوں کتابوں پر مشتمل ایک لائبریری ہونی چاہیے تا کہ وہ ایک وقت میں سو دو سو آدمیوں کو مطالعہ کے لیے کتب دے سکے.بلکہ پوری طرح توجہ دلانے کے لیے ضروری ہے کہ اس کے پاس ایک ایک کتاب کے دس دس پندرہ پندرہ نسخے ہوں تا ایک ہی وقت میں ایک کتاب سے ایک زیادہ آدمی فائدہ اُٹھا سکیں.اگر ہرمشن میں سو کتابیں ہوں اور ان کے پندرہ پندرہ نسخے ہوں و پندرہ سو کتاب تو یہی بن جاتی ہے.پھر کئی لوگ ایسے آ جاتے ہیں جو تفسیر، حدیث یا کسی اور مضمون کی کتاب لینا چاہتے ہیں.اس لیے اگر ہم صحیح طور پر کام کرنا چاہتے ہیں تو ہمارے لیے ضروری ہے کہ ہمارے ہر مبلغ کے پاس دو تین ہزار کتب کی لائبریری ہو.جو شخص ملنے کے لیے آتا ہے وہ زیادہ سے زیادہ گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹہ بیٹھے گا اور باتیں سنے گا اور پھر چلا جائے گا لیکن اگر ہم اسے کوئی کتاب دے دیں تو وہ گھر میں بھی اسے پڑھتا رہے گا اور اس طرح تبلیغ سے وہ زیادہ سے زیادہ فائدہ اُٹھا سکے گا.میں نے پہلے بھی کئی دفعہ سنایا ہے کہ سرحد کے ایک رئیس خان فقیر محمد خاں صاحب آف چار سده مرحوم ایگزیکٹو انجنیئر (بعد میں وہ سپرنٹنڈنٹ انجنیئر ہو گئے ) ایک دفعہ مجھے دہلی میں ملے.انہوں نے مجھ سے ذکر کیا کہ میرے بھائی محمد اکرم خاں صاحب احمدی ہیں.میں سیر کے لیے انگلستان جا رہا ہوں.انہوں نے چلتے چلتے بعض کتابیں میرے ٹرنک میں رکھ دی ہیں.میری ایک لڑکی کی منگنی ان کے لڑکے سے ہوئی ہے.ویسے بھی مجھے ان کا بڑا ادب.کہ وہ میرے بڑے بھائی ہیں.میں نے انہیں کہا آپ نے کیا کیا ہے؟ میں تو سیر کے لیے جا رہا ہوں.ان کتابوں کے پڑھنے کا کہاں موقع ہو گا.مگر وہ مانے نہیں اور کہا کہیں خیال آیا گا.

Page 396

$1954 386 خطبات محمود.تو انہیں پڑھ لینا.میں نے کہا اچھا رکھ دو.ولایت جا کر انہوں نے مجھے ایک چٹھی لکھی.اس کے شروع میں یہ لکھا تھا کہ شاید آپ مجھے نہ پہچانیں میں اپنی پہچان کے لیے لکھتا ہوں کہ میں وہ ہوں جو آج سے تین ماہ پہلے آپ سے دہلی کے شاہی قلعہ میں ملا تھا اور میں نے آپ سے کہا تھا کہ ہماری دو والدہ تھیں اور ہر ایک والدہ سے ہم دو دو بھائی ہیں.ان میں سے ایک ہم نے آپ کو دے دیا ہے اور ایک ایک غیر احمد یوں کو دے دیا ہے.اس طرح ہم.پورا پورا انصاف کیا ہے.روپیہ میں سے اٹھنی آپ کو دی ہے اور اٹھتنی دوسرے مسلمانوں کو.اور آپ نے بھی مذاقاً یہ کہا تھا کہ ہم تو اٹھنی پر راضی نہیں ہوتے.ہم تو پورا روپیہ لے کر چھوڑا کرتے ہیں.سو اب میں ایک اور چوٹی آپ کی خدمت میں پیش کر رہا ہوں اور اپنے آپ کو آپ کی بیعت میں شامل کرتا ہوں.انہوں نے لکھا میں نے آپ کو بتایا تھا کہ میرے بھائی محمد اکرم خاں صاحب نے کچھ کتابیں میرے ٹرنک میں رکھ دی تھیں.ہم پٹھان ہیں.ہم میں اسلام کی خدمت کا جوش ہوتا ہے.چاہے ہمیں کچھ آئے یا نہ آئے ہمارا ارادہ ضرور ہوتا ہے کہ ہم کسی کافر کو ماریں.وہی جوش مجھ میں بھی تھا.جب میں انگلستان پہنچا اور میں نے یہاں مختلف مقامات کی سیر کرنی شروع کی تو چونکہ میں گورنمنٹ کا ایک عہدیدار تھا اس لیے مجھے بعض اداروں کے دیکھنے کا موقع بھی ملا.میں نے دیکھا کہ ہمارے ایک کارتوس کے مقابلہ میں ان کے پاس لاکھوں بلکہ کروڑوں کارتوس اور ایک بندوق کے مقابلہ میں لاکھوں بندوقیں ہیں اور طرح طرح کے ترقی یافتہ ہتھیار ہیں.ہمارے ہاں طیاروں کا نام و نشان نہیں لیکن ان کے پاس بڑی تعداد میں طیارے ہیں.پھر اس ملک کے کارخانوں کے مقابلہ میں ہمارے پاس کوئی چیز نہیں.یورپ کی اس ترقی کو دیکھ کر میرے دل میں مایوسی پیدا ہوئی اور یقین ہو گیا کہ اب اسلام دنیا پر غالب نہیں آ سکتا.اپنی اس کمزوری اور مجبوری کے ہوتے ہوئے ہم اتنے بڑے ترقی یافتہ دشمن کا مقابلہ کس طرح کریں گے.تلوار سے مارنے کے لیے ضروری ہے کہ دوسرا شخص کمزور اور نہتا ہو لیکن یہاں تو یہ ہے کہ ہم کمزور اور نہتے ہیں اور دشمن ہم سے کئی گنا زیادہ طاقتور ہے.میری حالت پاگلوں کی سی ہو گئی.کل شام کو گھر آیا تو مایوسی کی حالت میں نے گھر والوں سے کہا کہ محمد اکرم خاں نے بعض کتب میرے ٹرنک میں رکھی تھیں، ، وہ دو.

Page 397

$1954 387 خطبات محمود وہ شاید اُن سے مجھے تسلی مل سکے.اتفاق سے آپ کی کتاب دعوۃ الامیر میرے ہاتھ آئی.اس کے ابتدا میں اتفاقاً یہی مضمون بیان کیا گیا ہے کہ اسلام جب شروع ہوا تو اس کے متعلق کوئی شخص یہ امید نہیں کر سکتا تھا کہ جیت سکے لیکن ان مخالف حالات کے باوجود اسلام جیت گیا.پھر جب اسلام جیت گیا تو کوئی شخص یہ خیال نہیں کر سکتا تھا کہ یہ گرے گا.لیکن رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بہت سی پیشگوئیاں ایسی موجود تھیں کہ اسلام پر ایک وقت ایسا آئے گا جب اس کے پاس مقابلہ کی کوئی صورت باقی نہیں رہے گی.چنانچہ وہی ہوا جس کا پیشگوئیوں میں ذکر تھا یعنی اسلام باوجود طاقتور ہونے کے تنزل پا گیا.اس کے بعد آپ نے اسلام کی ترقی کے متعلق بہت سی پیشگوئیوں کا ذکر کیا ہے اور لکھا ہے کہ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہ پیشگوئیاں پوری ہو گئیں جو اسلام کے تنزل کے متعلق تھیں تو وہ پیشگوئیاں کیوں پوری نہیں کی ہوں گی جو اسلام کے دوبارہ غلبہ کے متعلق ہیں.جن سامانوں کو سو سال پیشتر خیال بھی نہیں کیا کی جا سکتا تھا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اُن کا ذکر آج سے تیرہ سو سال قبل کر دیا، جس مایوسی کا تم آج سے سو سال قبل اندازہ بھی نہیں کر سکتے تھے آج سے تیرہ سو سال قبل رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اُس سے ہوشیار کر دیا.آپ نے فرمایا ایک شخص رات کو مومن سوئے گا صبح کو کافر اُٹھے گا اور دن کو مومن ہو گا لیکن رات کو کافر سوئے گا.8 خاں فقیر محمد صاحب نے لکھا کہ میں جوں جوں اس کتاب کو پڑھتا جاتا تھا سارا نقشہ میرے سامنے آتا جاتا تھا اور میں نے سمجھ لیا کہ میری مایوسی غلط تھی.میری بیوی نے کہا اب تم آرام کر لو کہیں پاگل نہ ہو جانا.مگر میں نے کہا اب میں کتاب ختم کر کے سوؤں گا اور ارادہ کر لیا کہ میں اُس وقت تک سونے کے لیے اپنے بستر پر نہیں جاؤں گا جب تک کہ آپ کو اپنی بیعت کا خط نہ لکھ لوں.چنانچہ سونے پہلے میں آپ کو یہ خط لکھ رہا ہوں.میری بیعت کو قبول کیا جائے.سے غرض ضروری ہے کہ ہم اپنے مبلغین کو بڑی تعداد میں لٹریچر مہیا کریں اور اس کے لیے سرمایہ کی ضرورت ہے.اور میں نے بتایا ہے کہ ہم مالی لحاظ سے کمزور ہونے کی وجہ.نئے مبلغ نہیں بھیج سکتے.اسی طرح پرانے مبلغین کے لیے لائبریری کا انتظام بھی نہیں کر سکتے.یہ کام ہم نے نئے سرے سے کرنا ہے.ہر ملک میں کم از کم ایک ایک کتاب کے سوسو نسخے

Page 398

$1954 388 خطبات محمود ہوں تا کہ ایک وقت میں لاکھ ڈیڑھ لاکھ آدمی ہماری کتب پڑھ رہا ہو.اگر ہم اس قسم کا انتظام کر لیں تو لازمی بات ہے کہ سمجھدار، سنجیدہ، شریف اور خدا تعالیٰ سے محبت رکھنے والے لوگ آنے شروع ہو جائیں گے.اور یہ کام بغیر اس کے نہیں ہو سکتا کہ ہمارا قربانی کا قدم ہمیشہ آگے رہے.اگر ہم ایک جگہ پر ٹک جاتے ہیں تو ہماری وہی مثال ہو گی جیسے ایک نوجوان کو پانچ چھ سال کے بچے کا لباس پہنا دیا جائے تو وہ لباس یا تو پھٹ جائے گا اور اگر وہ پہننے میں کامیاب بھی ہو جائے تو ناف سے اوپر ہی رہے گا.اور یہ بے جوڑ لباس نہ تمہیں اپنوں میں عزت دے سکتا ہے اور نہ غیروں میں عزت دے سکتا ہے.اگر تم اپنوں اور بیگانوں میں عزت حاصل کرنا چاہتے ہو تو اس کا ایک ہی طریق ہے اور وہ یہ ہے کہ تم حوصلہ اور ہمت سے کام کرو.اگر تم خدا تعالیٰ کے رستہ میں خرچ کرو گے تو خدا تعالیٰ تمہیں اور دے گا.پس میں دونوں دفتروں والوں سے کہتا ہوں کہ تم سب ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرو.دفتر دوم کے متعلق میں نے بتایا تھا کہ اس کی حالت نہایت افسوسناک ہے.ان کا قدم پیچھے کی طرف جا رہا ہے.نوجوانوں کو تو بوڑھوں سے زیادہ تیز ہونا چاہیے تھا اور ان کا قدم دلیری کے ساتھ آگے بڑھنا چاہیے تھا.اگر کوئی شخص مالی لحاظ سے یا ایمان کے لحاظ سے کمزور بھی ہو تو اسے چاہیے کہ وہ بناوٹ سے ہی ساتھ چلتا چلا جائے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب عمرہ کے لیے مکہ تشریف لے گئے اور حدیبیہ کے مقام پر آپ کو روک لیا گیا تو اُس وقت آپ کے اور مشرکین مکہ کے درمیان یہ معاہدہ طے پا کہ مسلمان اگلے سال عمرہ کے لیے آجائیں.اس موقع پر مشرکین مکہ، قریب کی پہاڑیوں پر چلے جائیں گے.چنانچہ اگلے سال رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ساتھیوں سمیت عمرہ کے لیے آئے.وہ موسم ملیریا کا تھا.مدینہ سے مکہ آتے ہوئے رستہ میں ملیریا کا علاقہ تھا.اسلامی لشکر اس علاقہ سے گزرا تو اس کی اکثریت ملیریا کی وجہ سے بیمار ہو گئی.ملیریا نے مسلمانوں کی ہڈیوں کو کھوکھلا کر دیا.ایک صحابی بیان کرتے ہیں کہ ملیریا کی وجہ سے ہماری کمریں گبڑی ہو گئی تھیں.ہم اپنی کمریں سیدھی نہیں کر سکتے تھے.جب ہم طواف کرنے لگے تو مشرکین مکہ جبل ابوالقبیس پر چلے گئے تھے اور وہاں بیٹھ کر مسلمانوں کی حالت کو دیکھ رہے تھے.یہ لوگ

Page 399

$1954 389 خطبات محمود مسلمانوں کے رشتہ دار تھے.معاہدہ کی وجہ سے وہ قریب آ کر تو مل نہیں سکتے تھے انہوں.سمجھا کہ چلو دور سے ہی ان کی شکلوں کو دیکھ لیا جائے.ادھر مسلمانوں کی یہ حالت تھی کہ ملیریا کی وجہ سے اُن کی کمریں گبڑی ہو چکی تھیں اور ان کے قدم ڈگمگا رہے تھے.وہ صحابی کہتے ہیں میں طواف کرتے ہوئے گبڑا ہو کر چلتا تھا لیکن جو نہی جبل ابوالقیس کے سامنے آتا تھا اپنی کمر سیدھی کر لیتا اور اکڑ کر چلنے لگتا.جب اُس جگہ سے ہٹ جاتا تو پھر کبڑا ہو کر چلنے لگتا.جب میں نے طواف ختم کر لیا تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے بلایا اور میرا نام لے کر پوچھا تم یہ کیا کر رہے تھے.تم جو نبی جبل ابوالقیس کے سامنے آتے تھے اکثر کر چلنے لگتے تھے.میں نے عرض کیا یا رَسُولَ اللہ ! ملیریا نے ہماری ہڈیاں کھوکھلی کر دی ہیں.ہم سے سیدھی کمر کر کے چلا نہیں جاتا.کافر ہماری حالت دیکھ رہے تھے.میں نے خیال کیا کہ اگر میں نے طواف کرتے ہوئے کوئی کمزوری دکھلائی تو کافر خیال کریں گے کہ ملیریا کی وجہ سے مسلمانوں کی ، طاقت زائل ہو چکی ہے اور اب وہ ہمارا شکار ہیں.چنانچہ جب میں اُن کے سامنے سے گزرتا تھا تو اپنی کمر سیدھی کر لیتا تھا اور اکڑ کر چلتا تھا اور جب اس جگہ سے ہٹ جاتا تو کبڑا ہو کر چلنے لگتا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اکڑ کر چلنا خدا تعالیٰ کو سخت ناپسند ہے لیکن اس شخص کا اکڑ کر چلنا خدا تعالیٰ کو بہت ہی پیارا لگا ہے.9 غرض بعض اوقات انسان اپنی کمزوری کی حالت میں بھی خدا تعالیٰ کا قرب حاصل کر ہے.اگر تم قربانی کے لحاظ سے کمزور ہو یا مالی لحاظ سے کمزور ہو یا سخاوت کے لحاظ کمزور ہو تب بھی یہ دیکھ کر کہ اس وقت اسلام اور احمدیت کو تمہاری قربانی کی ضرورت ہے تم بناوٹ کے طور پر اکڑ کر چلو.گوتم دلی طور پر اس قربانی پر ناخوش ہو گے لیکن چونکہ اللہ تعالیٰ کو اس کی ضرورت ہے اس لیے تمہارا قبض سے قربانی کرنا جو بظاہر ایک گناہ ہے تمہارے لیے نیکی سے بھی بڑھ کر ثواب کا موجب ہو گا.کیونکہ تم اس بات کی بنیاد رکھ رہے ہو کہ جو کام آج تم نے قبض سے کیا ہے آئندہ تم اُسے بشاشت سے کرو گے کیونکہ ہر نیکی دوسری نیکی کا پیش خیمہ ہوتی ہے.جس کام سے نیکی کی توفیق نہ ملے اُس کے متعلق یہ سمجھ لو کہ وہ درحقیقت نیک کام نہیں تھا.اس طرح ہر وہ کام جو بظاہر صحیح معلوم نہ ہو اگر اس سے کسی نیکی کی توفیق مل جائے تو

Page 400

$1954 390 خطبات محمود وہ بھی ثواب کا موجب ہوتا ہے.منه پس میں جماعت کے احباب کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ اپنی ذمہ داریوں کو محسوس کریں اور زیادہ سے زیادہ وعدے لکھا ئیں اور پھر انہیں جلد پورا کریں.اسی طرح نئے نئے لوگوں کو تحریک کر کے اس تحریک میں شامل کریں.تمہارا چندہ ہر سال پہلے سے زیادہ ہونا چاہیے کیونکہ تمہارا کام ہر سال بڑھے گا.جیسے پانچ چھ سال کے لڑکے کا لباس بڑی عمر والے آدمی کو پورا نہیں آتا اسی طرح تمہاری اس سال کی قربانی اگلے سال کام نہیں آسکتی.اللہ تعالیٰ تمہیں بڑھاتی رہا ہے.جس طرح ایک بچہ بڑھتا جاتا ہے اور اس کے اختیار میں نہیں ہوتا کہ وہ بڑھنے کو روک سکے اسی طرح تم پر بھی وہ دور آیا ہوا ہے.قانونِ قدرت تمہیں بڑھا رہا ہے.پس تمہاری آج کی قربانی کل کے کام نہیں آئے گی کیونکہ تمہارا قدم لازماً آگے بڑھے گا اور تمہیں اپنی قربانی بھی لازماً بڑھانی پڑے گی.اگر تم اپنی قربانی کو بڑھاتے نہیں تو تمہاری حالت مضحکہ خیز بن جائے گی.اگر چھ سال کے بچے کا لباس بڑی عمر والا پہن لے تو کیا تم اس پر ہنسو گے یا نہیں؟ اگر تم یہ دیکھو کہ اٹھارہ سال کا نوجوان جو کرکٹ کا کھلاڑی ہے وہ چوسنی من میں لیے پھر رہا ہے تو تم اُس پر ہنسو گے یا نہیں؟ اگر تم دیکھو کہ ایک ٹیم کا کپتان جھنجھنا 10 ہلانا شروع کر دیتا ہے تو تم اس پر ہنسو گے یا نہیں؟ اگر تم کسی اُستاد کو دیکھو کہ وہ گڑیا اُٹھائے پھرتا ہے تو تم اس پر ہنسو گے یا نہیں؟ اگر اسی طرح تمہیں دنیا دیکھے گی کہ تمہارا کام خدا تعالیٰ نے بڑھا دیا ہے لیکن قربانی تمہاری کل والی ہے تو وہ تم پر ہنسے گی یا نہیں؟ تم اپنی حالت پر قیاس کر لو کہ تم دوسروں کو بے جوڑ لباس پہنے دیکھ کر اُن کے متعلق کیا خیال کرتے ہو.پھر تمہارے متعلق دوسرے لوگ کیا خیال کریں گے؟ خدا تعالیٰ تمہارے متعلق کیا خیال کرے گا؟ کیا تم، دونوں کی نظروں میں بے جوڑ نہیں بن جاتے ؟ اور پھر یہ زمانہ تو تمہارے بڑھنے اور ترقی کرنے کا ہے.جسمانی طور پر اگر جوانی کا زمانہ آتا ہے تو لازماً اس کے بعد بڑھاپا آتا ہے.لیکن روحانی طور پر یہ زمانہ تمہارے لیے اس قدر مبارک ہے کہ اگر تم یہ دعائیں کرتے رہو کہ تم بوڑھے نہ بنو تو تمہارا جوانی کا زمانہ ہمیشہ قائم رہے گا.اگر جسمانی طور پر کوئی یہ کہے کہ میں جوان ہی رہوں تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ وہ بوڑھا نہ ہو اور جوانی کی عمر میں ہی مر

Page 401

$1954 391 خطبات محمود جائے.لیکن اگر کسی قوم کے متعلق یہ کہا جائے کہ وہ ہمیشہ جوان رہے تو اگر وہ کوئی کمزوری نہ دکھائے تو وہ فی الواقع جوان ہی رہتی ہے.لیکن انسانی زندگی کے متعلق یہ کہنا کہ کوئی جوان ہی رہے بددعا بن جاتی ہے.ایک دفعہ اسی قسم کا ذکر چھڑ گیا تو میں نے بتایا کہ بلغاریہ کے لوگ بڑے تنومند اور مضبوط جسم والے ہوتے ہیں.کہا جاتا ہے کہ وہ ایک قسم کی دہی تیار کرتے ہیں.اُس دہی کا وہ کثرت سے استعمال کرتے ہیں.اس لیے وہ بڑے تنومند اور مضبوط ہوتے ہیں.پاس ہی ایک زمیندار دوست تھا.وہ بڑا خوش ہوا اور کہنے گا میرا بھی یہ تجربہ ہے کہ جو شخص التزاماً دہی استعمال کرے وہ بوڑھا نہیں مرتا.اس پر دوسرے لوگوں نے اُس سے مذاق کرنا شروع کر دیا کہ تمہارا یہ فقرہ کہنے کا کیا مطلب ہے؟ اُس کا تو یہ مطلب ہے کہ دہی کھانے والے جوانی کی عمر ہی میں مر جاتے ہیں بوڑھا ہونے کی نوبت ہی نہیں آتی.پس جسمانی زندگی میں ایک جوان کا بوڑھا ہونا ضروری ہے.لیکن روحانی زندگی میں ضروری نہیں کہ کوئی قوم بوڑھی ہو.اگر کوئی قوم قربانی کرے اور اپنا معاملہ خدا تعالیٰ سے درست رکھے تو اُس پر ہمیشہ جوانی کی عمر رہتی ہے بڑھاپا محض اس کی کمزوری کی وجہ سے آتا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اِنَّ اللهَ لا يُغَيْرُ مَا بِقَوْمٍ حَتَّى يُغَيْرُوْا مَا بِأَنْفُسِهِمْ 11 کہ ہم جسمانی بڑھاپا تو ضرور لاتے ہیں لیکن روحانی بڑھاپا کسی قوم پر صرف اس وقت لاتے ہیں جب وہ خود بڑھاپا چاہتی ہے.پس روحانی جوانی کو تم سینکڑوں، لاکھوں بلکہ کروڑوں سال تک بھی قائم رکھ سکتے ہو اور اس کا نمونہ موجود ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اگلے جہان میں جو جنت ملے گی اُس میں کوئی بوڑھا نہیں ہو گا.12 یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ اگر کوئی قوم روحانی طور پر جوان رہنا چاہتی ہے تو اُس پر بڑھا پا نہیں آتا.پس اگر تم جوان رہنا چاہتے ہو تو تمہیں ہر روز اپنی قربانی بڑھانی گی.اگر تمہیں ایسا کرتے ہوئے بشاشت محسوس نہیں ہوتی تو تم خدا تعالیٰ کی خاطر بناوٹ کے طور پر ہی اپنی قربانی کو بڑھاؤ.اگر تم ایسا کرو گے تو اگلے سال تمہیں سچے دل سے خدا کی خاطر قربانی کرنے کی توفیق مل جائے گی.اللہ تعالیٰ تمہیں توفیق دے کہ تم اپنی کی

Page 402

خطبات محمود 392 $1954 ذمہ داریوں کو سمجھو، تا اس ترقی کے ساتھ ساتھ جو خدا تعالیٰ تمہیں دے رہا ہے تم خدا تعالی اور دنیا کی نظروں میں فیل نہ ہو.تمہاری قربانی ہر روز بڑھتی چلی جائے تا کہ تم اپنی ذمہ داریوں کی گاڑی (الفضل 11 دسمبر 1954ء ) کو برابر کھینچ سکی.1 : الروم : 42 2 : ياس : 31 3 : الشعراء : 55 4 مسلم كتاب الايمان باب قول النبى انا اول الناس يشفع في الجنة و انا :5 اكثر الانبياء تبعا صحیح بخاری ابواب المساجد باب قول النبيِّ جُعِلَتْ لِى الارض مسجدًا وطهورًا 6: دهجی : کپڑے یا کاغذ کی کترن.پرزہ، ٹکڑا، چیتھڑا ( فیروز اللغات اردو جامع - فیروز سنز لاہور ) کنز العمال في سنن الاقوال والافعال - جلد 11 صفحہ 181- حدیث نمبر 31136.حلب 1974ء 8 : مسلم كتاب الايمان باب الحث على المبادرة بالاعمال 9 : سیرت ابن ہشام - المجلد الثانی.جزء4 - صفحہ 9، 10 ـ عنوان عــمــرة الـقـضـاء فـي ذى القعدة سنة سبع بيروت لبنان 2000ء 10 : جھنجھنا: بچوں کا ایک کھلونا جس میں کنکر پڑے ہوتے ہیں.(فیروز اللغات اردو جامع.فیروز سنز لاہور ) 11 : الرعد : 12 12 : ترندی ابواب صفة الجنة باب ماجاء في ثياب اَهْلِ الْجَنَّةِ

Page 403

$1954 393 37 خطبات محمود جلسہ سالانہ پر ضرور آؤ اور ان ایام سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اُٹھانے کی کوشش کرو اپنے غیر احمدی رشتہ داروں اور دوستوں کو بھی ہمراہ لاؤ تا ہمارے متعلق اُن کی غلط فہمیاں دور ہوں (فرمودہ 10 دسمبر 1954ء بمقام ربوہ) تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: جلسہ سالانہ کے کارکنوں نے مجھ سے خواہش کی ہے کہ میں ربوہ کی جماعت کو جلسہ سالانہ کے مہمانوں کے لیے مکانات پیش کرنے اور اس موقع پر خدمت کے لیے والنٹیئر ز پیش کرنے کی طرف توجہ دلاؤں.ربوہ میں سب سے بڑی دقت مکانات کی ہے کیونکہ ابھی یہ قصبہ پوری طرح آباد نہیں ہوا اور مکانوں کی ابھی قلت ہے.گو کچھ عمارتیں بن گئی ہیں لیکن عام طور پر ان میں کمرے نا کافی ہیں کیونکہ خریداروں کو یہی ہدایت کی گئی تھی کہ اگر تمہارے پاس زیادہ روپیہ نہیں تو فی الحال ایک ایک کمرہ اور چاردیواری ہی بنا لو اور اس ایک کمرہ میں جلسہ سالانہ کے موقع پر خود مالک مکان اور اس کے رشتہ دار آ جاتے ہیں.

Page 404

$1954 394 خطبات محمود باقی کچھ مکانوں کی یہ حالت ہے کہ مکانات کی کمی کی وجہ سے اُن کے بعض حصے کرایہ پر ہے.ہے.شاید چڑھے ہوئے ہیں اور مالکان مکانات کے پاس اپنے رہنے کے لیے بھی بہت کم گنجائش ہے اس لیے وہ آسانی کے ساتھ کوئی حصہ جلسہ کے مہمانوں کے لیے نہیں دے سکتے.لیکن بہر حال یہ دقت جہاں اُن کے لیے ہے وہاں سلسلہ کے لیے اُن سے بھی زیادہ ہے.اس لیے کہ سلسلہ کا یہ کام سال میں چند دن کے لیے ہوتا ہے.دوست اپنی اپنی ضروریات کے لیے سال بھر میں مکانوں میں کچھ نہ کچھ زیادتی کر لیتے ہیں لیکن سلسلہ اپنے اس چند روزہ کام کے لیے عمارتیں نہیں بنا سکتا.اگر سلسلہ اس چند روزہ کام کے لیے مستقل عمارتیں بنانا شروع کر دے تو جماعت کے اخراجات بہت بڑھ جائیں.ربوہ میں آنے کے بعد ابتدائی چند سالوں میں مہمانوں کے لیے بیر کیں بنائی جاتی تھیں اور اُس پر ہر سال پندرہ بیس ہزار روپیہ خرچ ہو جاتا تھا.پھر وہ بیر کیں آئندہ سال استعمال بھی نہیں کی جا سکتی تھیں کیونکہ کچی اینٹیں ضائع ہو جاتی تھیں.اس سال بھی بعض بیر کیں موجود ہیں.مثلاً زنانہ بیرکوں کا ایک حصہ باقی مردانہ بیرکوں کا بھی کوئی حصہ باقی ہو لیکن عمارتیں زیادہ بن جانے کی وجہ سے اب پہلے کی طرح بیر کیں نہیں بنائی جاتیں.پس میں مقامی جماعت کے دوستوں کو اس طرف توجہ دلاتا ہوں کہ وہ کام کرنے والوں سے تعاون کریں اور آنے والے مہمانوں کے لیے اپنے مکانات پیش کریں ورنہ اگر جلسہ سالانہ پر آنے والے مہمانوں کے رہنے کے لیے کوئی گنجائش نہ نکلی تو جلسہ کا ہونا یا نہ ہونا برابر ہو جائے گا.اگر جلسہ سالانہ پر آنے والوں کو رہنے کے لیے جگہ نہ ملی تو لازماً انہیں تکلیف ہو گی.اسی طرح جو غیر احمدی مہمان اس موقع پر آ جاتے ہیں وہ اُن کی طعن و تشنیع کا موجب بنیں گے اور یہ ساری باتیں ایسی ہیں جو حوصلہ شکن اور دل توڑنے والی ہیں.پس ربوہ والوں کو یاد رکھنا چاہیے کہ جہاں یہ جلسہ ساری جماعت کا ہے وہاں وہ خاص طور پر اس موقع پر میزبان کی حیثیت رکھتے ہیں.یوں تو ساری جماعت ہی میزبان ہے کیونکہ جلسہ سالانہ کا بوجھ ساری جماعت پر ہے لیکن یہ بات ظاہر ہے کہ یہاں رہنے والوں کی ذمہ داریاں باقی جماعت سے زیادہ ہیں.جو لوگ کرایہ کے مکانوں میں رہتے ہیں وہ بھی اس موقع پر مکانات کے

Page 405

$1954 395 خطبات محمود بعض حصے پیش کر سکتے ہیں.مثلاً اگر کسی کے پاس دو کمرے ہوں تو وہ ایک کمرہ جلسہ سالانہ کے مہمانوں کے لیے دے دے، تین کمرے ہیں تو ایک کمرہ مہمانوں کے لیے دے دے اور دو کمرے اپنے پاس رکھ لے یا چار کمرے ہیں تو دو کمرے جلسہ سالانہ کے مہمانوں کے لیے دے دے اور دو کمرے اپنے لیے رکھ لے.اگر ہم اس طرح کریں تو مہمانوں کے لیے بہت سی گنجائش نکالی جا سکتی ہے.اس دفعہ کارکنوں نے کہا ہے کہ انہیں جلسہ سالانہ کے لیے چارسو کمروں کی ضرورت ہے اور یہ بہت زیادہ مطالبہ ہے.ربوہ میں ابھی سات آٹھ سو مکانات بنے ہیں.ان میں سے ڈیڑھ سو مکانات ایسے ہیں جن میں صرف ایک ایک کمرہ ہے.باقی کچھ مکانات ایسے ہیں جن میں دو چھوٹے چھوٹے کمرے یا ان کے ساتھ ایک باورچی خانہ اور برآمدہ ہے.ایسی صورت میں وہ کوئی جگہ جلسہ سالانہ کے مہمانوں کے لیے نہیں دے سکتے.باقی ڈیڑھ دوسو مکانات ایسے ہیں جن میں کمروں کی تعداد زیادہ ہے.لیکن ممکن ہے اُن میں رہنے والے تعیش اور آرام سے رہنے کے عادی ہوں اور اس قسم کی قربانی کرنا ان کے لیے دوبھر ہو.پھر ایک مشکل اور بھی ہوتی ہے جسے ہم کسی صورت میں نظر انداز نہیں کر سکتے اور وہ یہ کہ جو لوگ مالی لحاظ سے اچھے ہوتے ہیں اُن کے واقف کار اور اُن سے تعلق رکھنے والے جلسہ سالانہ کے موقع پر اُن کے ہاں ٹھہر جاتے ہیں.اس لیے کہ انہیں وہاں ٹھہرنے میں زیادہ آرام ملتا ہے لیکن باوجود اس کے کہ وہ لوگ جلسہ سالانہ کے مہمانوں کو اپنے پاس ٹھہرا کر قربانی کرتے ہیں اور اُن کی قربانی اتنی مفید نہیں ہوتی جتنی غرباء کی قربانی مفید ہوتی ہے.مثلاً وہ جلسہ سالانہ کے مہمانوں کے لیے دو کمرے پیش کر دیتے ہیں اور ان میں ایک ایک مہمان یا ایک ایک گھرانہ ٹھہر جاتا ہے.تو ان کی قربانی کی وجہ سے صرف دو مہمانوں یا دو گھرانوں کو جگہ ملی.لیکن انہی دو کمروں میں عام لوگوں کی طرح مہمان اکٹھے رہتے تو ایک کمرہ میں عورتوں کو رکھا جاتا اور دوسرے کمرہ میں مرد آرام کر لیتے اور اس طرح بجائے دو آدمیوں یا گھرانوں کے ہیں آدمی ٹھہر جاتے.گویا جہاں تک قربانی کا سوال ہے انہوں نے اتنی ہی قربانی کی جتنی غرباء نے کی تھی لیکن ان کی قربانی سے دو آدمیوں نے فائدہ اُٹھایا اور ان کی قربانی.ہیں آدمیوں نے فائدہ اُٹھایا حالانکہ بسا اوقات آسودہ حال لوگوں کی قربانی زیادہ ہوتی

Page 406

$1954 396 خطبات محمود کیونکہ ان میں سے اکثر ایسے ہوتے ہیں جو ان دنوں کچھ مالی بوجھ بھی اٹھاتے ہیں.مثلاً بعض ایسے ہوتے ہیں جو اس موقع پر مہمانوں کا کھانا خود تیار کرتے ہیں یا اگر کھانا انہیں گھر سے نہیں کھلاتے تو انہیں ناشتہ کرا دیتے ہیں.اس لیے مالی لحاظ سے ان کی قربانی بہت زیادہ کی ہوتی ہے لیکن سلسلہ کو فائدہ بہت کم ہوتا ہے.پس اگر اس بات کو بھی مدنظر رکھا جائے تو یہ بوجھ اور بھی زیادہ ہو جاتا ہے کیونکہ کمروں کا ایک حصہ ایسا ہو گا جس سے اتنا فائدہ نہیں اُٹھایا جا سکے گا جتنا فائدہ دوسرے کمروں سے اُٹھایا جاتا ہے.میں تو سمجھتا ہوں کہ ہمارے جلسہ سالانہ پر آنے والوں نے ہر سال بڑھتے جانا ہے اور جماعت نے ترقی کرتے جانا ہے سوائے اس کے کہ کسی سال کوئی خاص وجہ پیش آ جائے اور جلسہ سالانہ کے موقع پر آنے والوں کی تعداد میں کمی آجائے.مثلاً کسی سال سردی زیادہ بیڑے اور لوگ کم آئیں یا خدانخواستہ کسی بیماری کی وجہ سے آنے والوں میں کمی آ جائے.اس لیے مکانات کی تعداد میں چاہے زیادتی ہوتی جائے ہمیں مہمانوں کے ٹھہرانے میں پھر بھی پیش آتی رہے گی اور شاید کسی وقت سلسلہ کی مالی حالت اگر اچھی ہو جائے تو وہ مہمانوں کے لیے ایک مستقل اقامت گاہ بنا لے.مثلاً وہ ایسی بیرکیں بنوا لے جو پختہ ہوں اور اس قدر وسیع ہوں کہ ان میں چالیس پچاس ہزار مہمان ٹھہر سکیں.اگر اس قسم کی بیر کیں تعمیر کر لی جائیں تو دوسرے کمروں میں ایسے لوگ ٹھہر سکتے ہیں جو اپنے آرام اور سہولت کی خاطر کسی علیحدہ جگہ ٹھہرنا پسند کرتے ہوں.میں سمجھتا ہوں کہ جس طرح جماعت ہر سال ترقی کر رہی ہے اسی طرح دو چار سال میں جلسہ سالانہ پر آنے والوں کی تعداد چالیس پچاس ہزار سے ایک لاکھ تک ہو جائے گی.اور اگر چالیس پچاس ہزار مہمانوں کے ٹھہرنے کے لیے مستقل بیر کیس بھی کی بنالی جائیں تب بھی مہمانوں کے لیے ٹھہرانے میں دقت باقی رہے گی.بہر حال مستقل بیر کیں کی بنیں یا نہ بنیں چونکہ آنے والوں کی تعداد زیادہ ہوتی جائے گی اس لیے مکانوں کی وقت باقی رہے گی اور یہ دقت شاید قیامت تک یا اُس وقت تک قائم رہے گی جب تک کہ آپ کا ایمان سلامت رہے گا.آنے والے آئیں گے اور ٹھہرانے والے انہیں ٹھہرائیں گے.لیکن پھر بھی وہ سب مہمانوں کے لیے جگہ نہیں پائیں گے.

Page 407

$1954 397 خطبات محمود اپنے پس جہاں میں ربوہ کے مکینوں سے یہ کہتا ہوں کہ وہ جلسہ پر آنے والوں کے لیے مکانات پیش کریں وہاں میں آنے والوں سے بھی کہتا ہوں کہ وہ اکٹھے رہیں اور علیحدہ علیحدہ ٹھہر کر کارکنوں کے لیے مشکلات پیدا کرنے کا موجب نہ ہوں.میں نے مکہ میں دیکھا ہے کہ وہاں حج کے موقع پر ایک ایک کمرہ میں کئی کئی مہمان ٹھہرتے ہیں.وہاں ہماری طرح مکانات پیش کرنے کا رواج نہیں.شروع سے ہی اس میں آزادی دی گئی ہے کہ آنے والے جہاں چاہیں ٹھہریں ان کے لیے کوئی خاص انتظام نہیں کیا جاتا.چنانچہ جس مکان میں ہم ٹھہرے تھے اُس میں ایک سے زیادہ کمرے تھے.ہم نے چونکہ زیادہ پیسے خرچ کیے تھے اس لیے ہم تین افراد کے پاس تین کمرے تھے.اُن کمروں کے نیچے تین کوٹھڑیاں تھیں.اُن میں سے ہر ایک میں اٹھارہ سے بائیس تک حاجی ٹھہرے ہوئے تھے.گویا جتنی جگہ میں ہم تین افراد ٹھہرے ہوئے تھے اُسی قدر جگہ میں چون سے پینسٹھ تک افراد ٹھہرے ہوئے تھے.اس کی کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ وہاں اُن دنوں مکانات کا بہت زیادہ کرایہ لیا جاتا ہے اور عام لوگ اتنا کرایہ برداشت نہیں کر سکتے.دوسری وجہ یہ ہے کہ وہاں سردی زیادہ نہیں ہوتی اس لیے لوگ سامان کمروں میں رکھ لیتے ہیں اور خود گلیوں میں یا گھلے میدان میں گزارہ کر لیتے ہیں.اس میں شبہ نہیں کہ بعض دنوں میں سردی زیادہ بھی ہوتی ہے لیکن یہ عرصہ ہمارے ملک کی طرح کی زیادہ لمبا نہیں ہوتا.ہاں! ذرا اوپر چلے جائیں یعنی مدینہ منورہ کی طرف نکل جائیں تو سردی کے دن زیادہ ہو جاتے ہیں.بہر حال ہمارے ہاں مہمانوں کے ٹھہرانے کا خاص طور پر انتظام کیا جاتا ہے.لیکن وہاں کوئی انتظام نہیں.جہاں جگہ ملتی ہے حاجی ٹھہر جاتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا ایک الہام ہے جو ذومعانی ہے.نہ تو ہم اس کے کوئی خاص معنی کر سکتے ہیں اور نہ ہمیں پتا ہے کہ وہ کب اور کس طرح پورا ہو گا.اور وہ الہام ہے لنگر اُٹھا دو.1 اس ” لنگر " کے لفظ سے اگر ” کشتیوں والا لنگر مراد لیا جائے تو اس کے معنی یہ ہوں گے کہ باہر نکل جاؤ اور خدا تعالیٰ کے پیغام کو ہر جگہ پھیلاؤ.اور اگر لنگر ظاہری لنگر خانہ مراد لیا جائے تو پھر اس کے یہ معنی ہوں گے کہ آنے والوں کی تعداد اتنی بز گئی ہے کہ اب لنگر خانہ کا انتظام نہیں کیا جا سکتا اس لیے لنگر اُٹھا دو اور لوگوں سے کہو کہ وہ اپنی ای بڑھ

Page 408

$1954 398 خطبات محمود رہائش اور خوراک کا خود انتظام کر لیں.ان دونوں مفہوموں میں سے ہم کسی مفہوم کو ابھی متعین نہیں کر سکتے اور نہ وقت متعین کر سکتے ہیں کہ ایسا کب ہو گا.بہر حال جب تک مہمانوں کو ٹھہرانا انسانی طاقت میں ہے اس وقت تک ہمیں یہی ہدایت ہے کہ وَسِعُ مَكَانَكَ 2 تم اپنے مکان بڑھاتے جاؤ اور مہمانوں کے لیے گنجائش نکالو.مہمان خانہ اُٹھانے کا سوال اُس وقت پیش آئے گا جب مہمانوں کی تعداد اس قدر بڑھ جائے گی کہ اُن کی خوراک کا سلسلہ کے لیے انتظام کرنا مشکل ہو جائے گا.لیکن اگر لنگر اُٹھا دو کا یہ مطلب نہیں کہ مہمان خانہ اُٹھا دو تو پھر اس کے یہ معنی ہیں کہ ساکن ہونا مومن کا کام نہیں تم کشتیاں لو اور غیر ممالک میں پھیل جاؤ.بہر حال اس وقت کے لحاظ سے ہم میں اتنی طاقت ہے کہ اگر ہم صحیح قربانی کریں تو ہم ہر سال مہمانوں کو ٹھہرا سکتے ہیں اور ان کے کھانے کا انتظام کر سکتے ہیں اور ایسا کرنے سے ہم پر کوئی نا قابل برداشت بوجھ نہیں پڑتا.جب وہ زمانہ آئے گا جب مہمان خانہ کا جاری رکھنا مشکل ہو جائے گا تو خدا تعالیٰ کی دوسری ہدایت پہنچ جائے گی اور لنگر اُٹھا دو کے یقینی معنے ہماری سمجھ میں آجائیں گے.بہر حال ہمیں مہمانوں کے ٹھہرانے کے لیے اپنی قربانی پیش کرنی چاہیے.اگر ہمیں اس سلسلہ میں تکلیف بھی اُٹھانی پڑے تو اس سے دریغ نہیں کرنا چاہیے.آخر جلسہ سالانہ آنے والے بھی اپنے مکانات اور رشتہ دار چھوڑ کر آتے ہیں.ہر سال درجنوں واقعات ایسے پیش آتے ہیں کہ لوگ یہاں آئے اور اُن کے مکانات کے تالے ٹوٹ گئے اور اُن کا سامان کوٹ لیا گیا.اور پھر ایسے واقعات بھی میں نے دیکھے ہیں کہ جلسہ سالانہ پر لوگ آئے اور اپنے بیمار بیوی بچے پیچھے چھوڑ آئے.بعد میں تار آئی کہ اُن کا بیمار عزیز فوت ہو گیا ہے.پچھلے سال ایک لڑکی یہاں آئی اور اُس کا بچہ فوت ہو گیا.میں نے اُس کے رشتہ داروں سے کہا تھا کہ اگر ی بچہ بیمار تھا تو تم جلسہ سالانہ پر کیوں آئے؟ اُس کے رشتہ داروں نے کہا کہ اس لڑکی نے کہا تھا کہ بچہ مرے یا جیسے میں نے جلسہ سالانہ پر ضرور جانا ہے.گویا اس لڑکی نے جلسہ سالانہ کی وجہ سے اپنے بچہ کی زندگی کی بھی پروا نہ کی.یہ کتنی بڑی قربانی ہے جو آنے والے کرتے ہیں.اس کے مقابلہ میں تم پر بھی یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ تم قربانی کرو اور جہاں تک ہو سکے

Page 409

$1954 399 خطبات محمود جلسہ سالانہ پر آنے والے مہمانوں کو آرام پہنچاؤ.اگر تم ایسا کرو گے تو تم ان کی ادنیٰ سے ادنی ضرورت کو پورا کرو گے.کیونکہ اگر ایک چھوٹے سے کمرہ میں پندرہ سولہ مہمان ٹھہریں تو انہیں کی آرام میسر نہیں آ سکتا.لیکن اگر اس قدر بھی گنجائش پیدا نہ کی جائے تو ہم مہمانوں کو کہاں ٹھہرائیں؟ یہ چیز اب اتنے عرصہ سے جماعت کے سامنے آ رہی ہے کہ مجھے اس کے لیے کسی خاص تحریک کی ضرورت نہیں.جلسہ سالانہ پر چونسٹھ پینسٹھ سال گزر چکے ہیں.1891ء میں پہلا جلسہ ہوا تھا.اس لحاظ سے اب تک اس پر چونسٹھ سال گزر چکے ہیں.مگر اس سے پہلے بھی تو جماعتی اجتماع ہوتے ہوں گے.بہر حال جو چیز کم سے کم چونسٹھ سال سے چلی آتی ہے میری سمجھ میں نہیں آتا کہ اس کے لیے جماعت کو اس کی ذمہ داریاں یاد دلانے کی ضرورت کیا ہے.تمہیں تو خود اپنی ذمہ داریوں کا احساس ہونا چاہیے.تمہارے سامنے مہمانوں کی کثرت کی ہوتی ہے، تمہارے سامنے ان کی پراگندگی ہوتی ہے اور تمہارے سامنے ان کی مصیبت اور قربانی ہوتی ہے.تمہیں خود ان باتوں کا احساس ہونا چاہیے.دوسری بات میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ جلسہ سالانہ کے موقع پر کام کرنے والوں کی بھی ضرورت ہوتی ہے.مگر کام کرنے والے دیانتدار اور امین ہونے چاہیں.پچھلے سال یہ شکایت آئی تھی کہ گھروں میں جہاں جہاں مہمان ٹھہرے ہوئے تھے وہاں کھانا بڑی مقدار میں آجات تھا اور نتیجہ یہ ہوتا تھا کہ اس کا ایک حصہ ضائع ہو جاتا تھا حالانکہ میں نے نصیحت کی ہوئی ہے کہ جو لوگ اپنے گھروں میں کھانا تیار کر سکتے ہیں انہیں لنگر سے کھانا نہیں لینا چاہیے.ہاں! اگر رات گئے تک انہیں کام کرنا پڑتا ہے تو وہ لنگر سے کھانا لے لیں.پھر کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو زیادہ وسعت والے ہیں وہ اپنے مہمانوں کو بھی گھر سے کھانا دے سکتے ہیں لیکن اگر مہمان زیادہ تعداد میں آجائیں تو وہ بیشک مہمانوں کا کھانا لنگر سے لے لیں لیکن یہ تو کریں کہ اپنا کھانا لنگر سے نہ لیں.ہاں! اگر مہمانوں کی خدمت کی وجہ سے انہیں کھانا تیار کرنے کا موقع نہیں ملتا تو وہ کھانا لنگر سے لے سکتے ہیں.لیکن یہ تو کریں کہ اپنے مہمانوں کے جذبات کو مد نظر رکھتے ہوئے کھانا لیں.ایک شخص نے اسی سال ہی یہ شکایت کی ہے اور لکھ ، کہ میرے ساتھ

Page 410

$1954 400 خطبات محمود ایک غیر احمدی مہمان بھی تھا.اُس نے لکھا ہے کہ جس گھر میں ہم ٹھہرے ہوئے تھے وہاں چاول اور شور با بڑی کثرت سے آتا تھا.اُس غیر احمدی مہمان نے کہا یہ چاول اور شور با ہمیں تو نہیں ملتا، جاتا کہاں ہے؟ میں نے کہا یہ بیماروں کے لیے پر ہیزی کھانا ہے.اس نے کہا تو کیا اس گھر والے سب کے سب بیمار ہیں کہ ان سب کے لیے چاول آ رہے ہیں؟ اس قسم کی حرکات کے بعد بھی وہ لوگ کہہ دیتے ہیں کہ ہم سلسلہ کے خادم ہیں حالانکہ ان کے عمل کو دیکھا جائے تو وہ خادم نہیں بلکہ لٹیرے ہیں.اسی طرح ایک اور دوست نے شکایت کی کہ ہم کھانا لینے لگے تو ہم نے دیکھا کہ سکول کا ایک استاد جو کھانا تقسیم کرنے پر مقرر تھا دیگ میں ہاتھ ڈال کر بوٹیاں اور آلو کھا رہا تھا.اب جو شخص کام کرتا ہے لازماً اُس نے کھانا بھی ہے.لیکن اگر وہ اس طرح کھائے گا تو یقیناً دیکھنے والوں کو نفرت آئے گی.اگر تم کسی کے گھر دعوت پر جاؤ اور دیکھو کہ بچے ہنڈیا میں ہاتھ ڈال کر سالن کھا رہے ہیں تو میں نہیں سمجھتا کہ کوئی شخص جس کی طبیعت میں نظافت ہو اُس ہنڈیا سے سالن کھانا گوارا کرے گا.وہ ضرور کوئی نہ کوئی بہانہ بنا کر وہاں سے آ جائے گا.اسی نکتہ کو مدنظر رکھتے ہوئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا القَاسِم مَحْرُوم 3 کہ تقسیم کرنے والا محروم ہوتا ہے.اس کے یہ معنی نہیں کہ تقسیم کرنے والوں کو کھانا نہیں ملنا چاہیے بلکہ اس کے یہ معنی ہیں کہ انہیں ایک وقت تک بھوک کو برداشت کرنا چاہیے اور پہلے دوسروں کو کھانا مہیا کرنا چاہیے.اگر تقسیم کرنے والے پہلے خود کھائیں اور بعد میں مہمانوں کو دیں تو دیکھنے والوں کی طبائع پر یہ بات گراں گزرے گی.پس ہر محکمہ کو چاہیے کہ وہ اپنے اپنے کارکنوں کی تربیت کرے.میں نے پچھلے سال کی سب محکموں کو اس طرف توجہ دلائی تھی کہ وہ اپنے اپنے کارکنوں کی تربیت کریں.لیکن شکایت اُس ادارہ کے متعلق آئی جسے میں زیادہ منظم سمجھتا تھا اور جس کے کارکن ہی جلسہ سالانہ کے مختلف شعبوں میں آفیسرز کے طور پر کام کرتے ہیں.آخر محکموں کے لیے اس میں دقت ہے.وہ بڑی آسانی کے ساتھ اپنے کارکنوں کی تربیت کر سکتے ہیں.یہاں میں جو کچھ کہہ رہا ہوں آپ سب سن رہے ہیں لیکن ہر ایک یہ سمجھ رہا ہے کہ میں پوشیدہ ہوں اور میرے نقائص

Page 411

$1954 401 خطبات محمود کسی کو نظر نہیں آ رہے.لیکن اگر ادارے علیحدہ طور پر اپنے اپنے کارکنوں کو سمجھائیں تو وہ یہ سمجھیں گے کہ نصیحت کرنے والا انہیں دیکھ رہا ہے.اس لیے اِس نصیحت پر عمل کرنا اُن کا کی فرض ہے.پس ہر ایک ادارہ اپنے سٹاف کو سمجھائے.سکول والے اپنے اساتذہ اور طلباء کو سمجھائیں، کالج والے اپنے اساتذہ اور طلباء کو سمجھائیں، جامعہ والے اپنے اساتذہ اور طلباء کو سمجھائیں، ریسرچ والے اپنے کارکنوں کو سمجھائیں، ہر محلہ کے صدر اپنی اپنی جگہ جلسہ کریں اور افراد محلہ کو سمجھائیں، دکاندار اپنا اجلاس کریں اور اپنی سوسائٹی میں اس بات کو پیش کریں کہ جلسہ کے موقع پر وہ اپنی ذمہ داریوں کو کس طرح پورا کر سکتے ہیں.اسی طرح یہ بھی شکایت ہے کہ جلسہ کے موقع پر باوجود منع کرنے کے دکاندار اپنی دکانیں کھول لیتے ہیں.وہ لوگوں پر یہ ظاہر کرتے ہیں کہ ہم یہاں صرف دین کی خاطر آئے ہیں لیکن جلسہ اُن کے جھوٹ کو ظاہر کر دیتا ہے اور بتا دیتا ہے کہ وہ دین کے لیے نہیں بلکہ دنیا کمانے کے لیے آئے ہیں.جلسہ صرف تین دن ہوتا ہے.ان دنوں میں دنیا کمانے کا موقع بھی مل سکتا ہے.یعنی جلسہ شروع ہونے سے پہلے اور جلسہ ختم ہونے کے بعد دکانیں کھولی جات سکتی ہیں اور دنیا کمائی جا سکتی ہے.اور اگر دکاندار قربانی کریں تو خدا تعالیٰ انہیں زیادہ بھی دے سکتا ہے.لیکن وہ مرکز کی ہر بات پر عمل نہیں کرتے.ایک طرف سے امورِ عامہ والے شور تے جا رہے ہوتے ہیں کہ دکانیں بند کرو دوسری طرف خرید وفروخت ہو رہی ہوتی ہے.یہ بالکل مکہ مکرمہ کے بدوؤں والی بات ہو جاتی ہے.وہاں حج کے موقع پر بے تحاشا قربانی ہوتی ہے.لوگ جانور ذبح کر کے پھینک دیتے ہیں اور گوشت کی پروا بھی نہیں کرتے.بدوی آتے ہیں اور جو نہی ذبح کرنے والا چھری پھیرتا ہے وہ جانور کو گھسیٹ کر لے جاتے ہیں.میں نے سات بکرے ذبح کیے تھے.قدرتی طور پر جو شخص نگران تھا اُس نے ایک اچھا بکرا اپنے کھانے کے لیے چن لیا.اُدھر بدوی بھی تاڑ رہے تھے.میں نے دیکھا کہ ادھر ذبح کرنے والے نے بسم الله الله اکبر کہہ کر چُھری پھیری اور اُدھر بکرا خود بخود کھسکنا شروع ہوا.اسی طرح سارے کے سارے بکرے غائب ہو گئے.آخر ایک بکرے پر ایک ساتھی بیٹھ گیا تا اُسے کوئی بدوی گھسیٹ کر نہ لے جا سکے.اُسی طرح یہاں ہوتا ہے.ایک طرف ނ

Page 412

$1954 402 خطبات محمود امور عامہ والے دکانیں بند کراتے جاتے ہیں اور دوسری طرف دکانیں کھلتی جاتی ہیں.طریق دھینگا مشتی اور آنکھ مچولی کا ہے.اس سے دیکھنے والوں پر بُرا اثر پڑتا ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ یہ دنیا دار لوگ ہیں دین کا یونہی نام لیتے ہیں.لیکن یہ بھی زیادتی ہو گی اگر جلسہ گاہ کے پاس کھانے پینے کی چند دکانیں نہ ہوں.ایسی بعض دکانوں کا ہونا بھی نہایت ضروری ہے.ضرورت مند اپنی ضرورت پوری کرسکیں.پھر اس دفعہ ایک شکایت یہ بھی آئی ہے کہ جلسہ سالانہ کا تقریری پروگرام بہت لمبا ہوتا ہے اور لوگ اتنا لمبا پروگرام نہیں سن سکتے.کچھ وقت آرام کے لیے بھی ہونا چاہیے.اس کا طریق یہ بھی ہو سکتا ہے کہ تقریریں چھوٹی کر دی جائیں اور اس طرح کچھ وقت آرام کے لیے نکال لیا جائے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ میں جلسہ سالانہ کے موقع پر ایک تقریر آپ کی ہوتی تھی اور ایک آدھ تقریر کسی اور عالم کی ہو جاتی تھی.باقی جہاں مہمان ٹھہرے ہوئے ہوتے تھے وہاں عادی لیکچرار پہنچ جاتے تھے اور تقریریں کر آتے تھے ورنہ دن کا اکثر حصہ خالی رہتا تھا.لیکن ہمارے ہاں ایسا طریق جاری ہو گیا ہے کہ ہم لوگوں کو سارا دن مشغول رکھتے ہیں.نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ چالیس فیصدی لوگ جلسہ گاہ سے باہر پھرتے رہتے ہیں.لکھنے والوں نے تو بہت مبالغہ سے کام لیا ہے اور کہا ہے کہ ساٹھ فیصدی لوگ باہر پھرتے رہتے ہیں.لیکن یہ حقیقت ہے کہ بیس فیصدی یا چالیس فیصدی لوگ جلسہ گاہ سے باہر آ جاتے ہیں اور اس کی وجہ یہی ہوتی ہے کہ وہ اتنے لمبے پروگرام کو برداشت نہیں کر سکتے.اب جس پر خدا تعالی کی طرف سے ذمہ داری عائد ہے اُس نے تو لازمی طور پر تقریر کرنی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے وقت آپ کی تقریر لازمی تھی.حضرت خلیفہ اسیح الاول کے زمانہ میں آپ کی تقریر لازمی تھی اور اب میری تقریر لازمی ہے.باقی پروگرام محض ضمنی ہوتا تو ہے.پس پروگرام اس شکل میں بنانا چاہیے کہ لوگوں پر بوجھ نہ ہو.اس دفعہ چھوٹی تقریریں رکھی گئی تھیں لیکن مقررین نے شور مچا دیا کہ ہمیں وقت تھوڑا دیا گیا ہے.اگر لمبی تقریریں ضروری ہوں تو پھر صرف چند تقاریر ہو جائیں ( اور ضروری نہیں کہ ہر جلسہ پر اُس شخص کی تقریر ہو جس کی تقریر ایک دفعہ رکھی جا چکی ہے.باری باری مختلف جلسوں میں مختلف لوگوں کی تقریر

Page 413

$1954 403 خطبات محمود رکھی جاسکتی ہے).اس طرح آرام کے لیے وقفہ زیادہ ہو جائے گا اور سننے والوں کے لیے سہولت پیدا ہو جائے گی.پھر بیشک لوگوں پر سختی کی جائے کہ وہ تقاریر کے دوران میں جلسہ گاہ سے باہر نہ جائیں.اس کے بعد جس طرح پہلے بعض لوگ اقامت گاہوں میں جا کر تقاریر کیا کرتے تھے اُسی طرح اب بھی ہو سکتا ہے.ہماری جماعت میں بابا حسن محمد صاحب والد مولوی رحمت علی صاحب کو اس قسم کی تقاریر کا بہت شوق تھا.اللہ بخش صاحب بسے ہالی کے ایک شاعر تھے.اُن کو بھی تقریر کرنے کا بہت شوق تھا.اسی طرح بعض اور دوست تھے انہیں بھی تقریر کرنے کا شوق ہوتا تھا.میں نے دیکھا ہے کہ یہ لوگ اقامت گاہوں میں چلے جاتے اور تقریر شروع کر دیتے.اسی طرح اب بھی شائقین یا کسی پروگرام کے ماتحت بعض لیکچرار اقامت کی گاہوں میں چلے جائیں اور وہاں تقاریر کریں تو کوئی حرج نہیں.کیونکہ اس قسم کی تقاریر کو سنانی لوگوں کی اپنی مرضی پر منحصر ہوتا ہے.بہر حال زمانہ کے بدلنے کا لحاظ رکھنا چاہیے.اب زائرین جلسوں سے بہت زیادہ ہوتے ہیں اور اُن کو آرام سے دیر تک نہیں بٹھایا جا سکتا.اور لوگوں لیے زیادہ سے زیادہ سہولت مہیا کرنی چاہیے تا کہ وہ جلسہ کے پروگرام سے صحیح طور ہے فائدہ اُٹھا سکیں.میں نے دیکھا ہے کہ ابتدا میں جلسہ پر آنے والی عورتوں کی تعداد بہت کم ہوا کرتی تھی مگر اب عورتیں زیادہ تعداد میں آتی ہیں اور پھر ان کے ساتھ بچوں کی تعداد بھی بہت ہوتی ہے.اُن کا بھی لحاظ رکھنا ضروری ہے.احادیث میں آتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک دفعہ کسی سفر پر جا رہے تھے کہ آپ نے فرمایا شیشوں کا لحاظ رکھو.4 مطلب یہ تھا کہ عورتیں ساتھ ہیں تم ان کا لحاظ رکھو.بچے عورتوں سے بھی زیادہ کمزور ہوتے ہیں.وہ معمولی بدہضمی اور ہوا لگنے سے بیمار ہو جاتے ہیں.ان کا بھی لحاظ ہونا چاہیے.غرض ہمیں اپنے پروگرام میں تبدیلی کرنے کی ضرورت ہے.یہ ٹھیک ہے کہ دینی سپرٹ کی وجہ سے خاصا وقت دین میں صرف ہونا چاہیے لیکن اس کے یہ معنی نہیں کہ لوگوں کو آرام کا موقع ہی نہ دیا جائے.پھر باہر سے آنے والوں کو بھی میں یہ نصیحت کرتا ہوں کہ وہ اپنے غیر احمدی رشتہ داروں اور دوستوں کو اپنے ساتھ لائیں.میں نے اس کے متعلق پہلے بھی نصیحت کی تھی

Page 414

$1954 404 خطبات محمود لیکن افسوس ہے کہ جماعت نے اس طرف توجہ نہیں کی.اگر دوست اپنے غیر احمدی رشتہ داروں اور دوستوں کو اپنے ساتھ لاتے رہیں تو بہت سے فتنے جواب پیدا ہو رہے ہیں دور ہو جائیں.میں نے بارہا دیکھا ہے کہ ایک شخص کا باپ، بیوی یا بھائی ہیں ہیں سال تک احمدی نہیں ہوتا تی لیکن یہاں لاؤ تو بعض دفعہ ایک ہی دن میں احمدی ہو جاتا ہے.باہر جا کر تم اُسے لاکھ دلیلیں دو وہ نہیں مانے گا.مولوی اُٹھ کر کہہ دے گا کہ یہ منافق ہیں کہتے کچھ ہیں اور کرتے کچھ ہیں.اب وہ شخص جس مولوی کے پیچھے سالہا سال تک نماز پڑھتا رہا ہے اُسے وہ جھوٹا کیوں کہے گا.ނ وہ یہی کہے گا کہ احمدی جھوٹ بولتے ہیں.لیکن جب وہ یہاں آتا ہے تو اپنی آنکھوں.دیکھتا ہے کہ یہاں ذکر الہی ہو رہا ہے، نمازیں باقاعدگی سے ادا کی جاتی ہیں، قرآن کریم پڑھا جاتا ہے اور وہ سمجھتا ہے کہ جو کچھ مولوی کہتے ہیں وہ جھوٹ ہے.اسی طرح بسا اوقات ایک کی ہی دن میں اُس کا دل کھل جاتا ہے اور وہ احمدیت کو قبول کر لیتا ہے.یہاں آنے والوں سے قریباً پچاس ساٹھ فیصدی وہ لوگ ہوتے ہیں جو کہتے ہیں کہ باہر تو آپ لوگوں کے متعلق عجیب عجیب باتیں مشہور ہیں لیکن یہاں دیکھا تو بالکل نقشہ ہی اور ہے.مثلاً باہر ہمارے متعلق یہ کہا جاتا ہے کہ احمدی خدا اور اُس کے رسول کو نہیں مانتے اور یہ جہلاء کا ہی خیال نہیں بڑے بڑے تعلیم یافتہ لوگوں کا بھی ہمارے متعلق یہی ہے خیال ہے.پچھلے دنوں بنگال سے ایک وفد یہاں آیا تو اس کے ایک ممبر نے جو وہاں لیگ کے کونسلر بھی ہیں اور اچھے تعلیم یافتہ ہیں مجھ سے نہایت شرما شرما کر ذکر کیا کہ ہم تو سنا کرتے تھے کہ آپ لوگوں نے قرآن کریم کے تمیں سپاروں کی بجائے تیرہ پارے کر دیئے ہیں.وہ لوگ یہ باتیں اپنے علماء سے سنتے ہیں اور اُن پر یقین کر لیتے ہیں لیکن جب یہاں آتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ ہمارا قرآن تمیں پاروں کا ہی ہے تیرہ پاروں کا نہیں اور جو قرآن ہمارے گھروں میں پڑھا جاتا ہے وہ اکثر انہیں لوگوں کا شائع کردہ ہوتا ہے.پھر نمازیں بھی ہم اسلامی طریق کے مطابق ادا کرتے ہیں اور اس میں ہمارا دوسرے مسلمانوں سے کوئی اختلاف نہیں.میں مانتا ہوں کہ یہاں بھی بعض لوگ نمازوں کی ادائیگی میں کوتا ہی کرتے ہیں لیکن یہ حقیقت ہے کہ ہماری مساجد میں دوسرے مسلمانوں کی نسبت زیادہ رونق

Page 415

$1954 405 خطبات محمود ہوتی ہے.دوسرے لوگ یہاں آ کر دیکھتے ہیں تو اُن کی آنکھیں کھل جاتی ہیں.پھر یا تو وہ احمدی ہو کر جاتے ہیں یا احمدی نہیں ہوتے تو کم از کم احمدیوں کی طرف سے لڑنے والے ضرور بن جاتے ہیں.اور جہاں بھی احمدیوں کے متعلق خلاف واقعہ باتوں کا پروپیگینڈا کیا جائے وہاں وہ اصل حقیقت کا اعلان کرتے ہیں اور کہتے ہیں ہم نے خود اپنی آنکھوں سے ان لوگوں کو دیکھا ہے اور ہم خود ان کے مرکز میں بھی گئے ہیں.تم جو کچھ کہہ رہے ہو یہ بالکل جھوٹ اور خلاف واقعہ ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ میں مولوی ،لوگوں کو قادیان جانے سے روکتے تھے اور کہتے تھے وہاں حلوا کھلا کر لوگوں پر جادو کر دیا جاتا ہے اور وہ احمدی ہو جاتے ہیں.ایک دوست نے سنایا کہ ایک مولوی صاحب ایک جگہ تقریر کر رہے تھے کہ ایک مولوی اور اُن کا ایک معتقد قادیان گئے.جب وہ قادیان پہنچے تو انہیں ایک جگہ ٹھہرایا گیا.صبح ہوتے ہی اُن کے پاس حلوا لایا گیا.یہ حلوا جادو والا تھا.مولوی صاحب نے تو اُس کے کھانے سے انکار کر دیا لیکن اُن کے ساتھی نے حلوا کھا لیا.اس کے بعد ایک آدمی آیا اور اُس نے کہا آپ دونوں کو مرزا صاحب بلا رہے ہیں.چنانچہ وہ وہاں گئے.وہاں مرزا صاحب اور مولوی نورالدین صاحب ان کا انتظار کر رہے تھے اور ایک فٹن 5 سواری کے لیے تیار تھی (حالانکہ قادیان میں آخری زمانہ تک بھی فٹن نہیں آئی.اس میں وہ مولوی صاحب اور اُن کے ساتھی کو لے کر بیٹھ گئے.مرزا صاحب نے بتانا شروع کیا کہ میں نبی ہوں اور اسلام کی خدمت کے لیے خدا تعالیٰ کی طرف سے بھیجا گیا ہوں.مولوی صاحب تو اَسْتَغْفِرُ اللهَ پڑھتے رہے اور ان کے ساتھی نے کہا آپ جو کچھ کہتے ہیں درست ہے.کیونکہ اُس نے جادو والا حلوا کھا لیا تھا.پھر مرزا صاحب نے کہا لوگوں کو غلطی لگی ہے.اصل میں میں خاتم النبیین ہوں.اس پر مولوی صاحب تو اَسْتَغْفِرُ اللہ پڑھتے رہے لیکن اس کے ساتھی نے کہا آپ بالکل درست فرماتے ہیں.اس کے بعد مرزا صاحب نے کہا اصل حقیقت یہ ہے کہ میں خدا ہوں.مولوی صاحب کا ساتھی کہنے لگا بالکل ٹھیک ہے.میں بھی مانتا ہوں کہ آپ خدا ہیں.لیکن مولوی صاحب کے منہ سے بے ساختہ نکل گیا لا حَولَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللهِ - مرزا صاحب.

Page 416

$1954 406 خطبات محمود مولوی نورالدین صاحب کی طرف دیکھا اور کہا کیا آپ نے انہیں حلوا نہیں کھلایا تھا؟ اس پر مولوی نورالدین صاحب نے کہا میں نے حلوا بھیجا تو تھا.شاید انہوں نے نہیں کھایا.اُس مجلس میں ایک غیر احمدی وکیل بھی بیٹھے تھے.وہ حضرت خلیفتہ اسی الاول کے پاس علاج کے لیے آئے تھے اور قادیان میں انہیں چند دن رہنے کا موقع مل چکا تھا.وہ یہ سنتے ہی کھڑے ہو گئے اور کہنے لگے مولوی صاحب! اتنا جھوٹ ! میں خود قادیان رہ آیا ہوں.میرے پاس تو اس قسم کا جادو والا حلوا نہیں لایا گیا تھا.تو پھر اب تک تو قادیان کی گلیوں اور سڑکوں کا یہ حال ہے کہ اکا بھی اچھی طرح نہیں چل سکتا فٹن کہاں سے آ گئی؟ اب وہ وکیل احمدی نہیں تھے لیکن ان کی باتوں سے لوگوں کو یقین ہو گیا کہ مولوی جھوٹ بول رہا ہے.غرض دوسرے لوگوں کو مرکز میں لانے سے بہت فائدہ ہوتا ہے.تم زیادہ سے زیادہ انہیں یہاں لاؤ اور علمی مجالس میں بٹھاؤ اور جو شکوک اُن کے دل میں ہوں اُن کا علماء سے ازالہ کراؤ.گھروں میں جہاں خیالات اور عقائد کا اختلاف ہوتا ہے ہمیشہ جھگڑا رہتا ہے.اگر بیوی کا اور طریق ہے اور مرد کا اور طریق ہے تو گھریلو زندگی میں اُن کا کچھ نہ کچھ اختلاف ضرور رہے گا.اگر ایسا ہو جائے کہ میاں اور بیوی آپس میں ملنے لگ جائیں، بھائی بھائی آپس میں ملنے لگ جائیں، باپ اور بیٹا آپس میں ملنے لگ جائیں، نخسر اور داماد آپس میں ملنے لگ جائیں اور ہمسائے، ہمسائے آپس میں ملنے لگ جائیں تو کتنی اچھی بات ہو جائے اور گھر یلو زندگی کتنی خوشگوار ہو جائے.پس تم انہیں یہاں لاؤ.یہاں وہ آزاد ہیں جو چاہیں سنیں اور پھر اپنے دل میں فیصلہ کریں کہ یہ درست ہے یا نہیں.اس کے بعد یا وہ تمہیں اپنے ساتھ ملا لیں گے یا خود تمہارے ساتھ مل جائیں گے.پس اول تو تم وقتا فوقتا مرکز میں آتے ہو لیکن اگر تمہیں بار بار آنے کی توفیق نہیں تو جلسہ سالانہ پر مرکز میں ضرور آؤ اور اپنے رشتہ داروں، دوستوں اور شریک کار لوگوں اور ہمسایوں کو بھی اپنے ساتھ لانے کی کوشش کرو.ممکن ہے اللہ اُن کے دل کھول دے اور تمہاری گھریلو لڑائیاں اور جھگڑے دور ہو جائیں.اب تک ایسے احمدی گھرانے موجود ہیں جہاں دو بھائیوں میں سے ایک بھائی ہیں سال سے احمدی ہے دوسرا بھائی ابھی غیر احمدی ہے.اس کی وجہ یہی ہے کہ اُس نے اپنے غیر احمدی بھائی کو مرکز

Page 417

$1954 407 خطبات محمود میں لانے کی کوشش نہیں کی حالانکہ بیسیوں آدمی ایسے ہیں جو یہاں آکر تمام حالات کے جب اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہیں تو سمجھتے ہیں کہ ان لوگوں میں دھوکا، فریب یا کپٹ 6 نہیں.ان کی باتیں غور کے قابل ہیں اور پھر جب وہ علیحدگی میں ان باتوں پر غور کرتے ہیں تو احمدیت کو قبول کر لیتے ہیں.لیکن جب تک وہ مرکز سے دور رہتے ہیں اُن کے دلوں میں کئی قسم کے شبہات پیدا ہوتے رہتے ہیں.بعض دفعہ ایک بھائی مصافحہ کے لیے اپنا ہاتھ بڑھاتا ہے تو دوسرا سمجھتا ہے کہ وہ ڈنڈا مارنے لگا ہے اور یہ آپس میں میل ملاپ نہ ہونے سے ہوتا ہے.وجہ ہندوؤں اور مسلمانوں کو دیکھ لو اُن کی ہمیشہ لڑائیاں ہوتی تھیں.اگر وہ اطمینان سے آپس میں تبادلہ خیالات کرتے رہتے تو یہ لڑائیاں ختم ہو جاتیں.اوروں کو جانے دو کی ہم مسلمانوں میں بھی بہت سے اختلافات پائے جاتے ہیں.شیعہ سنیوں کو بُرا کہتے ہیں، شیعوں کو بُرا کہتے ہیں.یہی دوسرے فرقوں کا حال ہے حالانکہ ہر مذہب اور ہر فرقہ میں نیک سے نیک آدمی ہو سکتے ہیں.قرآن کریم کہتا ہے عیسائیوں میں سے بعض لوگ اس قدر نیک ہیں کہ جب وہ خدا تعالیٰ کا ذکر سنتے ہیں تو اُن کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگی جاتے ہیں.اب عیسائیوں کا خدا تعالیٰ سے کوئی خاص رشتہ نہیں.جس طرح اُن میں نیک لوگ پائے جاتے ہیں اسی طرح ہندوؤں اور یہودیوں میں بھی نیک لوگ پائے جاتے ہیں.اور مسلمانوں میں تو نیک لوگوں کی تعداد دوسرے مذاہب سے بہت زیادہ ہونی چاہیے.اگر یہودیوں، ہندوؤں اور عیسائیوں میں سو میں سے دس آدمی خدا تعالی کا ای خوف رکھنے والے ہوں تو مسلمانوں میں ساٹھ ستر آدمی خدا تعالیٰ کا خوف رکھنے والے ہونے چاہیں.لیکن مشکل یہ ہے کہ وہ ایک دوسرے پر محبت کا دروازہ نہیں کھولتے.وہ آپس میں لڑائیاں اور جھگڑے کرتے رہتے ہیں اور اس سے وہ روز بروز ایک دوسرے اپنے سے دور ہو تے جاتے ہیں.پس تم جلسہ سالانہ کے ایام سے فائدہ اُٹھاؤ اور ا.غیر احمدی رشتہ داروں اور دوستوں کو یہاں لاؤ.اور خود بھی ان ایام سے فائدہ اُٹھاؤ اور انہیں بھی سمجھاؤ کہ وہ وقت کا صحیح استعمال کریں.پھر یہاں کے لوگوں کو چاہیے کہ وہ

Page 418

خطبات محمود 408 $1954 اپنے آپ کو مہمانوں کی خدمت کے لیے وقف کریں اور ایسا نمونہ پیش کریں کہ دوسرے لوگ انہیں دیکھ کر متاثر ہوں“.1 : تذکره صفحه 550 طبع چہارم 2 : تذکره صفحه 297 طبع چہارم الفضل 16 دسمبر 1954ء ) : بخاری کتاب الادب باب المَعَارِيضُ مِنْدُوحَةٌ عَنِ الكَذِب 4 فٹن: (PHAETON) ایک قسم کی چار پہیوں کی بگھی (فیر واللغات اردو جامع.فیروز سنز لاہور ) 5 کپٹ بغض.عناد.کینہ.دشمنی.منافقت ( اردو لغت تاریخی اصول پر جلد 14 صفحہ 648 کراچی 1992ء) : وَإِذَا سَمِعُوا مَا أُنْزِلَ إِلَى الرَّسُوْلِ تَرَى أَعْيُنَهُمْ تَفِيضُ الدَّمْعِ مِمَّا عَرَفُوْا مِنَ الْحَقِّ (المائدة: 84)

Page 419

$1954 409 38.خطبات محمود تحریک جدید کوئی معمولی ادارہ نہیں بلکہ اسلام کے احیاء کی ایک زبردست کوشش ہے جماعت کے نوجوانوں کو اپنی ذمہ داری سمجھتے ہوئے پہلوں سے زیادہ قربانی کرنی چاہیے (فرموده 17 دسمبر 1954ء بمقام ربوہ ) تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: گزشتہ ہفتہ مجھے درد گردہ کی تکلیف رہی ہے جس کی وجہ سے میں نماز کے لیے مسجد میں نہیں آسکا.اب بھی میں بڑی مشکل کے ساتھ یہاں آیا ہوں اور اب کھڑا ہونے سے معلوم ہوتا ہے کہ جسم میں کھڑا ہونے کی طاقت نہیں.پہلے تو یہی خیال تھا کہ یہ تکلیف در دگردہ کی ہے لیکن بعد میں ڈاکٹروں نے رائے دی ہے کہ یہ دردگردہ نہیں بلکہ ” لمبے گو (Lumbago) تکلیف ہے جسے پنجابی میں چک پڑنا کہتے ہیں.اس کی وجہ سے کمر سیدھی نہیں ہو سکتی او کھڑا ہونا مشکل معلوم ہوتا ہے.بہر حال در دگردہ کے خیال سے جو بوجھ طبیعت پر تھا وہ کسی قدر کم ہو گیا ہے.لیکن ڈر ہے کہ یہ تکلیف زیادہ لمبی نہ ہو جائے.بعض اوقات یہ تکلیف مہینوں چلی جاتی ہے.چونکہ اب جلسہ سالانہ قریب آ رہا ہے اس لیے میں کہہ نہیں سکتا کہ اس کی وجہ

Page 420

خطبات محمود 410 $1954 سے میں جلسہ کے کاموں میں پوری طرح حصہ لے سکوں گا یا نہیں.پچھلے جمعہ میں نے ربوہ کی جماعت کو جلسہ سالانہ کے لیے اپنے مکانات وقف کرنے کی اور خدمات پیش کرنے کی طرف توجہ دلائی تھی.اس کے بعد مجھے شکایت پہنچی ہے کہ ابھی تک مکانات کا انتظام نہیں ہو سکا.اس دفعہ جلسہ سالانہ کے منتظمین میں کچھ تبدیلی کی گئی ہے اور میرا تجربہ ہے کہ چاہے تبدیلی اچھی ہی ہو مگر ایک سال اس تبدیلی کی وجہ سے کام میں کچھ نقائص رہتے ہیں.پرانے لوگ جو کام کے واقف ہوتے ہیں گو وہ ہوشیار نہ بھی ہوں تب بھی وہ تجربہ کی بناء پر بعض کام کر لیتے ہیں.نئے آدمی کے ذہن میں وہ باتیں نہیں آسکتیں.اس لیے ضرورت اس بات کی تھی کہ انتظامات زیادہ کیے جاتے کیونکہ وقت پر کام کرنا مشکل ہے.لیکن جو شکایت مجھے آئی ہے اُس سے معلوم ہوتا ہے کہ ابھی تک تحریک جدید اور صدر انجمن احمدیہ نے بھی اپنے مکانات خالی کر کے نہیں دیئے.حالانکہ خود صدرانجمن احمد یہ اس جلسہ کی ذمہ دار ہے.اگر ادارے ہی اپنے مکانات خالی کر کے نہ دیں یا انہیں کسی معتین تاریخ تک خالی کرنے کا وعدہ نہ کریں تو باقی لوگ تو اور بھی سست ہو جائیں گے.پس میں اداروں کو بھی توجہ دلاتا ہوں کہ وہ اپنی ذمہ داریوں کو سمجھیں.محض ایک افسر مقرر کر دینے سے کام نہیں ہوتا.جب تک اُس افسر سے تعاون نہ کیا جائے وہ اپنے مفوضہ فرائض کو کس طرح پورا کر سکتا ہے.ہوتا اس کے بعد میں جماعت کو تحریک جدید کے وعدوں کی طرف توجہ دلاتا ہوں.تحریک جدید کے وعدوں میں اس سال کچھ سستی نظر آ رہی ہے.تحریک جدید والوں نے جو رپورٹ میرے پاس بھیجی ہے اُس کے لحاظ سے تحریک جدید کے وعدوں میں گزشتہ سال کی نسبت اکیس ہزار کی کمی ہے.حالانکہ اس سے قبل وعدوں میں ہر سال کچھ نہ کچھ زیادتی ہوتی تھی.اس لیے معلوم ہوتا ہے کہ وعدے اب کمی کی طرف جا رہے ہیں.وعدوں میں یہ کمی زیادہ ترئستی کی وجہ سے ہوئی ہے.شاید بعض جماعتوں کو یہ عادت پڑ گئی ہے کہ وہ اپنے وعدوں کی فہرستیں جلسہ سالانہ کے موقع پر ساتھ لاتی ہیں.ممکن ہے کہ اس وقت وعدوں میں کمی جو شکایت ہے وہ اس عادت کی بناء پر ہو کیونکہ اس وقت تک جو وعدے میرے پاس کی

Page 421

$1954 411 خطبات محمود پہنچے ہیں اُن میں گزشتہ سال کی نسبت کمی نہیں بلکہ زیادتی کی گئی ہے.سوائے ایک جماعت کے کہ اُس کے نئے وعدے گزشتہ سال کے وعدوں کی نسبت کم ہیں.یا تو اُس کے کچھ افراد ابھی ایسے ہیں جن سے وعدے نہیں لیے گئے یا اُس کے کچھ افراد وہاں سے تبدیل ہو گئے ہیں.اس کے سوا جو وعدے میرے پاس آئے ہیں اُن میں گزشتہ سال کی نسبت زیادتی کی گئی ہے.پس معلوم ہوتا ہے کہ وعدوں میں کمی اس لحاظ سے نہیں کہ وعدہ کرنے والوں نے گزشتہ سال کی نسبت کم وعدے کیے ہیں بلکہ یہ کمی اس وجہ سے ہے کہ وعدے لینے میں سستی کی گئی ہے.مثلاً جماعت احمدیہ کراچی ہے اُن کی طرف سے متواتر اِس مضمون کی تاریں آتی رہی ہیں کی کہ وہ اگلے سال کے وعدے بطور پیشگی وصول کر رہے ہیں لیکن ابھی تک اُن کے اِس سال کے وعدوں کی فہرست مرکز میں نہیں آئی.2 دسمبر کو اُن کی طرف سے تار آئی تھی کہ ہم وعدوں کی فہرست بہت جلد بھجوا رہے ہیں لیکن آج 17 تاریخ ہو چکی ہے اور ان کی طرف سے وہ فہرست ابھی تک وصول نہیں ہوئی.یا تو وہ رستہ میں ضائع ہو گئی ہے یا انہوں نے تار تو دے دی لیکن بعد میں یہ سمجھا کہ چلو فہرست کو اور مکمل کر لیں.اس طرح انہوں نے فہرست بھیجوانے میں سستی کر دی.بہر حال یہ وقت آئندہ سال کے وعدے بطور پیشگی وصول کرنے کا نہیں بلکہ وعدے لینے کا ہے.میں یہ نہیں کہتا کہ کوئی جماعت وعدے وصول نہ کرے.اگر اللہ تعالیٰ نے کسی کو پیشگی دینے کی توفیق دی ہے اور وہ خوشی سے دیتا ہے تو دے اور کارکن ضمنی طور پر ایسا کرنے کی تحریک کرتے رہیں لیکن اُن کی زیادہ تر توجہ وعدے لینے کی طرف ہونی چاہیے.جماعت جس کام میں لگی ہوئی ہو خدا تعالیٰ کے فرشتے بھی اُس کام میں مدد دیتے ہیں اور لوگوں کے دلوں میں اُس کی تحریک کرتے رہتے ہیں.جب امام کی طرف سے وعدے لینے کا اعلان کی ہوا ہو تو خدا تعالیٰ کے فرشتے بھی دوسرے کاموں کی نسبت اُسی کام میں زیادہ مدد کرتے ہیں.پس چاہیے کہ گزشتہ سال کے وعدے وصول کرنے اور آئندہ سال کے لیے وعدے لینے پر زور دیا جائے.میں نے اندازہ لگایا ہے کہ گزشتہ سال کے وعدوں میں سے ابھی تک ایک لاکھ ستر ہزار روپیہ کی وصولی باقی ہے.اگر یہ وعدے وقت پر وصول ہو جاتے تو اس وقت

Page 422

$1954 412 خطبات محمود کام کرنے والوں کو جو تشویش ہے وہ دور ہو جاتی.جہاں تک وعدوں کا سوال تھا گزشتہ سال ای کے وعدے پورے سال کے بوجھ کو اُٹھا سکتے تھے جو روز بروز بڑھ رہا ہے اور موجودہ تشویش باقی نہیں رہتی تھی.اب بھی دوستوں کو چاہیے کہ جو لوگ ابھی تک تحریک جدید میں شامل نہیں ہوئے انہیں زیادہ سے زیادہ شامل کیا جائے اور اُن سے وعدے لے کر مرکز میں بھجوائیں.پھر ان کی وصولی پر زور دیں.یہ نہ ہو کہ سال ختم ہونے پر ہم کچھ مالی بوجھ اپنے ساتھ جائیں.تین چارسال سے یہی ہو رہا ہے کہ سال ختم ہونے پر کچھ نہ کچھ مالی بوجھ ساتھ جاتے ہے.اس کی وجہ یہ ہے کہ پہلے اخراجات کم تھے اب چونکہ ہمارے مشن بہت زیادہ وسیع ہو گئے ہیں اس لیے اخراجات پہلے کی نسبت زیادہ ہیں اور ہمارا بجٹ ہر سال تمہیں چالیس ہزار روپے کے خسارہ سے شروع ہوتا ہے.یہ خسارہ وعدوں میں کمی کی وجہ سے نہیں ہوتا بلکہ وعدوں کی عدم وصولی کی وجہ سے ہوتا ہے.اگر دوست بقائے وصول کرنے کی کوشش کریں تو نہ صرف سالانہ بجٹ میں خسارہ نہ دکھایا جائے بلکہ ہر سال کچھ نہ کچھ رقم پس انداز ہوتی جائے.جیسا کہ میں نے پچھلے خطبات میں بتایا تھا ہمارے نوجوانوں میں زیادہ کمزوری پائی جاتی ہے.اور دفتر دوم کے وعدوں کی وصولی کی رفتار بہت کم ہے.میں نے آج اندازہ لگایا.کہ سال ختم ہو چکا ہے لیکن ابھی تک پچاس فیصدی وعدے وصول نہیں ہوئے.حالانکہ اس سے پہلے دور اول میں یہ ہوتا تھا کہ اگر وعدے ایک لاکھ کے ہوئے ہیں تو سال کے اختتام پہلے ایک لاکھ سے زائد رقم وصول ہو جاتی تھی.پس نوجوانوں میں ہمت اور اخلاص پیدا کرنے کی ضرورت ہے.یہی وجہ ہے کہ میں نے اس کی طرف مجلس خدام الاحمدیہ کو توجہ دلائی تھی.اس کا قیام اس بات کا موجب ہونا چاہیے کہ نوجوانوں میں اخلاص اور جوش زیادہ ہو.قومیں اگر ترقی کرتی ہیں تو انہی آئندہ نسلوں کے ذریعہ کرتی ہیں.اگر ایک نسل اپنا بوجھ اُٹھائی لیتی ہے تو وہ کام ایک حد تک ہو جاتا ہے.اگر وہ کام وقتی ہوتا ہے تو کوئی تشویش کی بات نہیں ہوتی کیونکہ انہوں نے اپنا بوجھ اُٹھا لیا ہوتا ہے.لیکن اگر وہ کام وقتی نہیں ہوتا بلکہ اُس نے قیامت تک جانا ہوتا ہے تو بہر حال وہ کام اگلی نسلوں کے ذریعہ پورا ہو گا.دنیا بھر کو اسلام سے روشناس کرانا معمولی امر نہیں.تیرہ سو سال میں مسلمانوں نے اس قدر کامیابی حاصل کی

Page 423

$1954 413 خطبات محمود کہ اس وقت اُن کی آبادی دنیا کی آبادی کا ایک چوتھائی ہے.بلکہ اب تو اسلام کو دنیا میں ہے آئے قریباً چودہ سو سال ہو چکے ہیں اور ان چودہ سو سالوں میں ابھی دنیا کی آبادی کا 1/4 حصہ مسلمان ہوا ہے 3/4 حصہ ابھی باقی ہے.حالات کی تبدیلی اور مسلمانوں کی غفلت اور سستی کی وجہ سے خدا تعالیٰ نے ایک نیا سلسلہ قائم کیا ہے تا پُرانے فرقوں سے جو سستی اور غفلت ہوئی ہے اُس کا ازالہ ہو جائے اور ان کی جگہ ایک نیا فرقہ لے لے جو اسلام کی اشاعت اور تبلیغ کی طرف پہلے فرقوں سے زیادہ توجہ دے، تا پہلی سستی اور غفلت کا ازالہ ہو اور دنیا کی آبادی کا بقیہ 3/4 حصہ بھی اسلام کے نور سے حصہ پائے.اور یہ اتنا بڑا کام ہے کہ اس کے لیے جتنی قربانی بھی کی جائے کم ہے.خصوصاً ہماری موجودہ تعداد کے لحاظ سے تو یہ کام بہت زیادہ ہے.ابھی تک دنیا میں ایک ارب اسی کروڑ ایسے لوگ پائے جاتے ہیں جو یا تو سلام سے متنفر ہیں یا اس کے دشمن ہیں.کم از کم ان میں سے ایک حصہ ایسا ہے کہ جن تک ابھی تک اسلام کے متعلق کوئی بات نہیں پہنچی.اب اس ایک ارب اسی کروڑ کو اسلام میں لانے کے لیے چار لاکھ کی جماعت کیا کرسکتی ہے.حقیقت یہ ہے کہ یہ بوجھ ہماری جماعت نہیں اُٹھا سکتی.لیکن اگر اس بات کو دیکھا جائے کہ کام آہستہ آہستہ ہوتے ہیں اور خدا تعالیٰ کے کام بھی تدریج چاہتے ہیں تو ہم اپنے اس کام کو اس قدر ممتد کر لیں گے کہ یہ دوصدیوں ، تین صدیوں یا چارصدیوں میں مکمل ہو جائے.اگر ہم نے لازمی طور پر اس کام کو ممتد کرنا ہے اور اسے ہماری موجودہ نسل نے پورا نہیں کرنا تو لازمی طور پر اسے ہماری آئندہ نسلوں نے کرنا ہے.اور اگر نوجوانوں میں اخلاص، قربانی اور ایثار کم ہو تو ہماری یہ امید بھی موہوم ہو جاتی ہے.میں موہوم“ کا لفظ بولنے سے ڈرتا ہوں کیونکہ یہ خدا تعالیٰ کا کام ہے اور اس نے بہر حال ہونا ہے لیکن چونکہ اُس نے یہ کام ہمارے سپرد کیا ہے اس لیے ہمیں سوچنا پڑے گا کہ یہ کام ہم سے ہوسکتا ہے یا نہیں.اور چونکہ ہماری امیدیں موہوم ہیں اور بظاہر اس میں کامیاب ہونا مشکل نظر آتا ہے اس لیے ہمارے لیے اس کے بغیر کوئی چارہ نہیں کہ ہم کہیں کہ اگر ہماری آئندہ نسلیں پچست ہوں تو کام کی رفتار میں تیزی پیدا ہو سکتی ہے.پس جماعت کے نوجوانوں کو چاہیے کہ وہ اپنی ذمہ داری کو

Page 424

$1954 414 خطبات محمود سمجھتے ہوئے اپنے باپ دادوں سے زیادہ قربانی کریں.یہ نہیں ہونا چاہیے کہ ان کے وعد.اپنے باپ دادوں سے کم ہوں اور وصولی ان سے بھی کم ہو.میں نے اپنے ایک خطبہ میں یہ تحریک کی تھی کہ کوشش کی جائے کہ ہمارے وعدے دولاکھ سے چار لاکھ ہو جائیں لیکن اس کے ساتھ ہی یہ بھی ضروری ہے کہ دوست وصولی کا بھی خیال رکھیں.ابھی تک نئے دور کے وعدے بہت کم ہیں حالانکہ نو جوانوں کی تعداد پہلے لوگوں سے بہت زیادہ ہو چکی ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ تحریک جدید کو عام نہیں کیا گیا.میں نے جماعت کے سامنے ایسی تجاویز رکھی تھیں کہ غریب سے غریب لوگ بھی اس میں شامل ہو سکتے تھے.مثلاً میں نے بتایا تھا کہ اگر ایک شخص پانچ روپیہ دے کر تحریک جدید میں حصہ نہیں لے سکتا تو تین چار آدمی مل کر اس میں حصہ لے لیں.میرا تجربہ ہے کہ پہلے پہلے لوگ بہت کم حصہ لیتے ہیں لیکن بعد میں جا کر اُن کا اخلاص قابلِ رشک ہو جاتا ہے کیونکہ جب کوئی شخص نیکی کی طرف قدم اُٹھاتا ہے تو خدا تعالیٰ کے فرشتے اُس کی مدد کرتے ہیں.میں نے کئی لوگ ایسے دیکھے ہیں کہ ابتدا میں انہیں ایک دھیلا چندہ دینا بھی بوجھ نظر آیا.لیکن بعد میں انہوں نے اتنی بھاری رقوم چندہ میں دیں کہ رشک پیدا ہوتا تھا کہ انہوں نے کس کس طرح اپنے پیٹ کی کاٹ کر چندے دیئے ہیں.پس اصل چیز یہ ہے کہ کوئی شخص ایسا نہ رہے جس نے تحریک جدید میں حصہ نہ لیا ہو.اگر ہماری نئی نسل میں کوئی عورت یا کوئی مرد ایسا نہ رہے جس نے تحریک جدید میں حصہ نہ لیا ہو تو ہمیں بہت بڑی کامیابی ہو سکتی ہے.ہم نے یہ شرط رکھی ہے کہ تحریک جدید میں حصہ لینے والا کم از کم پانچ روپیہ چندہ دے لیکن اگر کوئی ایک شخص پانچ روپیہ نہیں دے سکتا تو ایک خاندان پانچ روپیہ دے دے.ایک خاندان پانچ روپیہ نہیں دے سکتا تو دو خاندان پانچ روپیہ دے دیں، دو خاندان نہیں دے سکتے تو تین خاندان دے دیں، اگر جماعت کے سارے کے سارے افراد اس میں شامل ہو جائیں تو ہماری جماعت اتنی ہے کہ تحریک جدید کے وعدے موجودہ تعداد سے بہت زیادہ ہو سکتے ہیں.اگر پاکستان کی جماعت اڑھائی لاکھ کی بھی فرض کر لی جائے اور ہر ایک خاندان چار چار افراد پر مشتمل سمجھ لیا جائے تو باسٹھ ہزار کے قریب خاندان بن جاتے ہیں اور چونکہ بعض لوگ کم چندہ دیتے ہیں

Page 425

$1954 415 خطبات محمود اور بعض زیادہ.اس لیے اگر ہم فرض کر لیں کہ ہر ایک خاندان دس روپیہ چندہ دے تو چھ لاکھ کی سے زائد روپیہ جمع ہو سکتا ہے.مگر یہ اسی صورت میں ہو سکتا ہے کہ ہر شخص تحریک جدید میں حصہ لے.اور ہم امید رکھتے ہیں کہ جو آج پانچ روپیہ دیں گے وہ پانچ روپیہ پر ہی نہیں ٹھہرے رہیں گے بلکہ ان میں سے بعض ایک وقت میں چالیس پچاس روپیہ تک پہنچ جائیں گے.پس میں پھر تحریک کرتا ہوں کہ جماعت وعدوں کو عام کرے اور پھر یہ بھی تحریک کر.کہ ہر سال وعدوں میں زیادتی کی جائے کمی نہ کی جائے.اس وقت ایک بہت بڑا طوفان آیا ہوا ہے اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی روحانیت پر پردے ڈال دیئے گئے ہیں.اگر تمہارے سامنے وہ کتابیں رکھی جائیں یا تمہیں پڑھ کر سنائی جائیں جو یورپ اور امریکہ میں اسلام کے خلاف لکھی گئی ہیں تو میں سمجھتا ہوں کہ ایک سنگدل سے سنگدل مسلمان کی بھی چیخیں نکل جائیں.تم جس کی تعریف میں قصائد پڑھتے ہو، جس پر تم دن میں کئی بار درود بھیجتے ہو اُس کو نہایت حقیر رنگ میں لوگوں کے سامنے پیش کیا وہ جاتا ہے.اُسے اس قسم کی گالیاں دی جاتی ہیں کہ دنیا کے کسی ذلیل سے ذلیل انسان کو بھی گالیاں نہیں دی جا سکتیں.تم ایک معمولی آدمی کو گالیاں دیتے دیکھ کر غصہ میں آ جاتے ہو لیکن تم یہ خیال نہیں کرتے کہ اس شخص کے متعلق جسے تم اپنا ہادی، راہنما، آقا اور خدا کا فرستادہ سمجھتے ہولوگوں کو اتنی غلط فہمیاں ہیں کہ حد ہی نہیں.آخر سب لوگ پاگل تو نہیں ہو گئے کہ وہ خوانخواہ کی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو گالیاں دیتے ہیں.ان میں سے بھی اکثر میں حیا اور شرافت پائی جاتی ہے.لیکن بات یہ ہے کہ وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اصل حالات اور سوانح سے ناواقف ہیں.سینکڑوں سال مسلمان غافل رہے اور دشمن آپ کی شکل کو لوگوں کے سامنے نہایت بھیانک صورت میں پیش کرتا رہا اور اب ان کے دلوں میں یہ بات جاگزیں ہو گئی ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم انسانیت کے شدید دشمن ہیں.میں جب انگلستان گیا تو مجھے ایک ڈاکٹر کے متعلق بتایا گیا کہ وہ دہریہ ہے اور مجھ سے ملاقات کرنا چاہتا ہے.میں نے اُسے ملاقات کا موقع دے دیا.اس نے دو چار باتیں کر کے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ذکر نہایت گندے الفاظ میں کیا.چونکہ میں نے

Page 426

$1954 416 خطبات محمود اس سے بات کرنے کا وعدہ کیا ہوا تھا اس لیے میں اُسے برداشت کر گیا.لیکن دو چار فقروں کے بعد اُس نے دوبارہ آپ کی ذات پر حملہ کیا.میں نے اُسے توجہ دلائی کہ تم نے یہ کہہ کر کی ملاقات کا وقت لیا تھا کہ تمہارا مذہب سے کوئی تعلق نہیں تم صرف عقلی گفتگو کرنا چاہتے ہو لیکن اب میں دیکھتا ہوں کہ تم بلا وجہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر حملہ کرتے ہو.یہ بات ٹھیک نہیں.اُس شخص نے میری اس بات کا جواب نہ دیا لیکن دوچار باتوں کے بعد اس نے پھر رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر حملہ کیا.میں یہ جانتا تھا کہ اسے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کوئی نفرت نہیں لیکن آپ کے جو حالات اس نے پڑھے ہیں اُن سے اُس نے سمجھ لیا ہے کہ آپ انسانیت کو گرانے والے ہیں.اس کے رویہ کو دیکھ کر مجھے بھی غصہ آ گیا اور میں نے جوابی طور پر مسیح ناصری پر حملہ کیا.میں نے دیکھا کہ اُس کا چہرہ سرخ ہو گیا اور مجھ سے کہنے لگا کہ میں مسیح کے متعلق یہ باتیں نہیں سن سکتا.میں نے کہا تم نے مجھ سے کہا تھا کہ تمہارا عیسائیت سے کوئی تعلق نہیں لیکن پھر بھی تم مسیح کے خلاف کوئی بات نہیں سن سکتے.تو کیا میں ہی اتنا بے غیرت ہوں کہ تم رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر حملے کرتے جاؤ اور میں خاموش رہوں؟ میں نے دو دفعہ تمہیں توجہ دلائی کہ تم مذہب کی ضرورت کے متعلق بات کرو.بار بار بانی اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر حملے نہ کرو.لیکن چونکہ تم حملہ کرنے سے باز نہیں آئے اس لیے میں نے سمجھ لیا کہ عیسائی مصنفین کی کتابوں کا مطالعہ کرنے کے بعد تم سمجھتے ہو کہ مسیح انسانیت کے ہمدرد تھے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نَعُوذُ بِاللهِ انسانیت کے بڑے دشمن ہیں.وہ کہنے لگا کچھ ہو میں مسیح کے خلاف کوئی بات نہیں سن سکتا.میں نے کہا اگر تم دہر یہ ہو کر مسیح علیہ السلام کے خلاف کوئی بات نہیں سن سکتے تو میں مسلمان ہو کر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خلاف باتیں کیوں سنوں ؟ اگر تم نے دوبارہ میرے آقا کی شان میں کوئی نازیبا لفظ استعمال کیا تو میں بڑی سختی سے تمہارے مسیح پر حملہ کروں گا.اس پر اُس نے بات ختم کر دی اور چلا گیا.اس واقعہ سے تم سمجھ سکتے ہو کہ وہ لوگ بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دشمنی سے بھرے ہوئے ہیں جنہیں عیسائیت سے کوئی تعلق نہیں.وہ دہر یہ ہیں اور مذہب سے

Page 427

$1954 417 خطبات محمود اس کوئی واسطہ نہیں رکھتے.وہ محض اس وجہ سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دشمن ہیں کہ ان بچپن سے اُن کے ذہنوں میں یہ بات ڈال دی گئی ہے کہ نَعُوذُ بِاللهِ دنیا اور انسانیت کے بدترین دشمن محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں.اب تم سمجھ سکتے ہو کہ اس بغض کو نکالنا آسان بات نہیں.اس کے لیے بہت بڑی قربانی کی ضرورت ہے.جو یور بین لوگ مسلمان بھی ہو جاتے ہیں اُن کے ذہنوں میں یہ بات ڈالنے میں کافی عرصہ لگ جاتا ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مسیح علیہ السلام سے افضل ہیں اور آپ کو خدا تعالیٰ نے ? شان عطا فرمائی ہے وہ مسیح علیہ السلام کو عطا نہیں فرمائی.پتھر کی لکیر کا بدلنا آسان ہے لیکن محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دشمنی کو اُن کے ذہنوں سے نکالنا بہت مشکل ہے.اس کے لیے جتنی قربانی بھی کی جائے کم ہے.پس تم اس بات کو اچھی طرح سمجھ لو اور اپنی قربانی کو اس کے مطابق بناؤ.تا تمہارے کاموں میں برکت ہو.جو مدعا اور مقصد تم نے اپنے سامنے رکھا ہے وہ بہت بڑا ہے.تم سمجھتے ہو کہ کسی ملک مبلغ بھیج دیا تو کام ہو گیا لیکن تم یہ نہیں سمجھتے کہ اُس کے پاس تبلیغ کے لیے کتنا وقت ہے.اتنے وسیع ملک میں وہ اکیلا کیا کر سکتا ہے.مثلاً امریکہ کی آبادی سولہ کروڑ کی ہے اور وہاں ہمارے صرف چار مبلغ ہیں.اب چار کروڑ میں ایک مبلغ کیا کر سکتا ہے.ہم دیکھتے ہیں کہ ایک گاؤں میں کوئی دیہاتی مبلغ بھیجا جاتا ہے اور پھر اُسے کسی اور گاؤں میں بھیجا جاتا ہے تو گاؤں والے شور مچا دیتے ہیں کہ ہمیں مبلغ کی ضرورت تھی اسے واپس کیوں بلایا گیا حالانکہ اُس گاؤں کی آبادی چار پانچ سو ہوتی ہے.پھر تم چار کروڑ میں ایک مبلغ بھیج کر کیسے خوش ہو جاتے ہو.چار کروڑ میں ایک مبلغ تب ہی کوئی مفید کام کر سکتا ہے جب وہ ایک سے دو ہو جائیں، دو سے چار ہو جائیں، چار سے آٹھ ہو جائیں، آٹھ سے سولہ ہو جائیں، سولہ.ہے.ނ ہو بتیس ہو جائیں، بتیس سے چونسٹھ ہو جائیں اور چونسٹھ سے سو ہو جائیں اور سو سے دوسو جائیں.تب تو ہم امید رکھ سکتے ہیں کہ اس ملک میں کوئی حرکت پیدا ہو گی اور چاہے نتیجہ زیادہ شاندار نہ ہو لیکن لوگ یہ تو سمجھیں گے کہ جماعت اشاعت اور ترقی اسلام کے لیے قربانی کر رہی ہے.لیکن اصل کام ہم تبھی کر سکتے ہیں جب ہمارے پاس کافی تعداد میں لٹریچر ؟ ہو.

Page 428

$1954 418 خطبات محمود ہمارے ایک مبلغ کے پاس سینکڑوں کتابیں ہوں تا لوگ وہ کتابیں اپنے گھروں میں لے جا کر ھ سکیں.کوئی انسان چاہے کتنا ہی مصروف ہو گھر میں اُسے کچھ نہ کچھ فارغ وقت مل سکتا ہے.لیکن ایسی فراغت کی گھڑیاں بہت کم ملتی ہیں کہ وہ کسی مبلغ کے پاس جا کر گھنٹہ دو گھنٹے تک اُس کی باتیں سن سکے.پس ہمارے مبلغ تبھی کامیاب ہو سکتے ہیں جب ہم انہیں کافی تعداد میں لٹریچر دیں.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ لٹریچر کے مطالعہ سے بعض نئے شبہات پیدا ہو سکتے ہیں جن کا ازالہ ضروری ہوتا ہے.اس کے لیے مبلغ کی موجودگی ضروری ہوتی ہے جو زبانی مل کر ان اعتراضات کے جوابات دے.اگر کوئی قوم صرف لٹریچر پر ہی اپنی بنیاد رکھ لیتی ہے تو یہ اس کی بہت بڑی غلطی ہوتی ہے.مشنری کا ہر ملک میں ہونا ضروری ہے لیکن جب تک لٹریچر نہ ہو وہ کی مشنری اپنا کام وسیع نہیں کر سکتا.وہ دس ہیں آدمی اپنے گرد اکٹھے کر لے گا لیکن کروڑوں کی اصلاح اُس سے نہیں ہو سکے گی.کروڑوں کی اصلاح اسی صورت میں ہو سکتی ہے کہ لٹریچر بڑی تعداد میں شائع کیا جائے اور اسے ملکوں میں پھیلایا جائے.اور پھر ہر ملک میں مشنری موجود ہی ا ہوں جو ان لوگوں کے شبہات کا ازالہ کریں اور اسلام کے مسائل انہیں سمجھائیں.امریکہ کی آبادی سولہ کروڑ کی ہے.فرض کرو وہاں ایک لاکھ شہر اور قصبات ہیں تو اب اگر ہر شہر اور قصبے میں ہمارا ایک آدمی ہو، تب تو کوئی حرکت پیدا ہو سکتی ہے.اگر چہ مبلغین کی یہ تعداد بھی کافی نہیں.لیکن اگر دو دو ہزار میل پر مبلغ بیٹھا ہو اور اُس کے پاس لٹریچر بھی نہ ہو تو لوگوں کی توجہ اُس کی طرف کیسے ہو سکتی ہے.ہم تو ابھی تک ابتدائی کام بھی نہیں کر سکے.لیکن اصل کام یہ ہے کہ ہم لٹریچر کو تمام دنیا میں پھیلا دیں تا کہ مخالفین کے حملوں کا جواب دیا جاسکے.لٹریچر کا اس قدر اثر ہوتا ہے کہ ہمارے ایک مبلغ ابھی سوئٹزر لینڈ سے آئے ہیں.وہ مجھے ملنے کے لیے آئے تو میں نے اُن سے پوچھا کہ اُن کی کوششوں کا کیا نتیجہ نکلا ہے؟ انہوں نے کہا آدمی تو بہت تھوڑے ہماری جماعت میں داخل ہوئے ہیں یعنی ابھی تک صرف دس بارہ آدمی اسلام میں داخل ہوئے ہیں مگر ہم اصل کام اس کو نہیں سمجھتے بلکہ اصل کام ہم اس کو سمجھتے کہ پہلے یورپین لٹریچر میں خلاف اسلام باتیں شائع ہو جاتی تھیں تو اُن کا کوئی جواب

Page 429

$1954 419 خطبات محمود دینے والا نہیں ہوتا تھا.پھر ایک وقت آیا کہ ہم اُن باتوں کی اصلاح کرنے لگے لیکن کوئی اخبار ہمارا مضمون شائع نہیں کرتا تھا.لیکن اس اخبار تک یہ خبر ضرور پہنچ جاتی تھی کہ اس ملک میں اسلام کے حق میں لکھنے والے بھی موجود ہیں.لیکن اب اس حد تک کامیابی ہو چکی ہے کہ اخبارات ہمارے جوابات بھی شائع کر دیتے ہیں اور یہ اخبار لاکھوں کی تعداد میں چھپتے ہیں.اسی طرح ہماری آواز لاکھوں تک پہنچ جاتی ہے.بلکہ اب اخبارات اسلام سے تعلق رکھنے والے مضامین اشاعت سے پہلے ہمارے پاس بھیج دیتے ہیں کہ آپ اگر کوئی رائے دینا چاہیں تو دے دیں.غرض دس بارہ آدمیوں کا مسلمان ہو جانا تو کوئی بڑی کامیابی نہیں اصل کامیابی یہ ہے کہ ملک کے رہنے والوں کو یہ پتا لگ گیا ہے کہ اگر یہاں اسلام کے مخالف موجود ہیں تو اس کے مؤید بھی، چاہے وہ کتنی ہی کم تعداد میں ہیں موجود ہیں.لیکن اگر لٹریچر پھیل جائے تو اس سے بھی زیادہ اثر ہو.پس تحریک جدید کوئی معمولی ادارہ نہیں بلکہ اسلام کے احیاء کی کوششوں میں سے ایک زبردست کوشش ہے.اس میں شبہ نہیں کہ اسلام ایک زندہ مذہب ہے اور یہ ہمیشہ زندہ رہے گا.جب تک قرآن کریم موجود ہے اُس وقت تک اسلام بھی باقی رہے گا کیونکہ قرآن اسلام ہے اور اسلام قرآن ہے.لیکن سوال یہ ہے کہ یہ چیز جو ظاہر میں موجود ہے لوگوں کے دلوں میں بھی پیدا ہو جائے.دلوں میں جو تعلیم موجود ہو وہ بہت زیادہ اثر کرنے والی ہوتی ہے.قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے رُبَمَا يَوَدُّ الَّذِيْنَ كَفَرُوا لَوْ كَانُوا مُسْلِمِيْنَ 1 كم جب کفار قرآن کریم کی تعلیم کو دیکھتے ہیں تو چاہتے ہیں کہ یہ تعلیم اُن کے ہاں بھی ہوتی.اور وہ خواہش کرتے ہیں کہ کاش! وہ بھی مسلمان ہوتے اور یہ خیالات اُن کے بھی ہوتے.گویا قرآن کریم کے دوست کفار میں بھی تھے اور وہ دوست اُن کے دماغ تھے.وہ قومی تنافر اور بغض کی وجہ سے مسلمانوں سے لڑتے تو تھے لیکن ان کے دماغ کہتے تھے کہ بات وہی سچی ہے جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کہتے ہیں.پس قرآن کریم ظاہر میں تو اب بھی زندہ موجود ہے لیکن جو قرآن لوگوں کے دماغ میں تھا وہ اب موجود نہیں.اب دماغوں میں غلط خیالات بس ہیں.اگر ہم لٹریچر زیادہ تعداد میں شائع کریں تو چاہے اسلام آہستہ آہستہ پھیلے لیکن اس کا

Page 430

$1954 420 خطبات محمود یہ نتیجہ ضرور نکلے گا کہ چاہے ملک میں سولہ کروڑ دشمن موجود ہوں لیکن جب بھی ہمارا مبلغ آواز اُٹھائے گا تو بوجہ اس کے کہ لٹریچر کے ذریعہ اُن کے اعتراضات اور شبہات دور ہو چکے ہو گے وہ یہ کہیں گے کہ بات وہی ٹھیک ہے جو مسلمان کہتے ہیں.پس جو چیز ظاہر میں ناممکن.قانونِ قدرت کے ماتحت ہم دیکھتے ہیں کہ وہ ممکن ہے.کیونکہ اس کے ذرائع موجود ہیں.ہم نے ان ذرائع کو استعمال کرنا ہے.اگر ہم ایسا کرنے میں غفلت سے کام لیتے ہیں تو یہ غفلت ہمارے ذمہ لگے گی، خدا تعالیٰ کے ذمہ نہیں لگے گی کیونکہ خدا تعالیٰ نے اس کے سامان پیدا کر دیئے ہیں لیکن ہم اپنی سستی اور غفلت کی وجہ سے انہیں استعمال نہیں کرتے“.1 : الحجر : 3 ( الفضل 22 دسمبر 1954 ء )

Page 431

$1954 421 39 خطبات محمود تم نے لوگوں کے قلوب فتح کرنے ہیں اور یہ کام فرشتوں کی مدد کے بغیر نہیں ہو سکتا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ ذکر الہی اور عبادت کرنے سے فرشتوں کی مدد حاصل ہوتی ہے (فرمودہ 24 دسمبر 1954ء بمقام ربوہ ) تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: آج جمعہ میں شامل ہونے کے لیے سینکڑوں بلکہ ہزار دو ہزار احباب تشریف لائے ہیں.ان کے آج ہی یہاں آ جانے کی غرض یہ ہے کہ وہ نماز جمعہ میں شامل ہو جائیں.لیکن جمعے تو سال میں آتے ہی رہتے ہیں وہ اُن جمعوں میں شامل ہونے کے لیے یہاں کیوں نہیں ނ آتے؟ ظاہر ہے کہ انہوں نے یہ سمجھا کہ وہ اس سال کے جلسہ کو جمعہ کے مبارک دن شروع کریں اور اس کی برکتوں کے طفیل مزید برکات حاصل کریں.اس کے سوا اور کوئی غرض ان کے یہاں جلد آنے کی سمجھ میں آتی نہیں.لیکن اگر ان کے جلدی آنے کی یہی غرض ہے کہ وہ اس سال کے جلسہ کو جمعہ کے مبارک دن سے شروع کریں اور اس کی برکتوں کی وجہ سے

Page 432

$1954 422 خطبات محمود مزید برکات حاصل کریں تو جمعہ کو اس طرح استعمال کرنا چاہیے کہ جلسہ کی برکات پہلے.بڑھ جائیں.اور جلسہ کی برکات بڑھنے کا ذریعہ وہی ہو سکتا ہے جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نے فرمایا ہے.آپ نے فرمایا ہے کہ جب بھی کوئی اسلامی اجتماع ہو تو ذکر الہی اور عبادت زیادہ کی جائے.تم تمام اجتماعوں کو دیکھ لو، ان میں اور دوسرے لوگوں کے اجتماعوں میں یہی فرق نظر آتا ہے کہ ان میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ذکر الہی اور عبادت پر زور دیا.اور دوسرے لوگوں کے اجتماعوں میں ذکر الہی اور عبادت نہیں ہوتی.ہم حج کے لیے جاتے ہیں تو وہاں بھی ذکر الہی ہوتا ہے، عیدین کے لیے جاتے ہیں تو وہاں بھی ذکر الہی ہوتا ہے، شادی اور بیاہ کے لیے جاتے ہیں تو وہاں بھی ذکر الہی ہوتا ہے، جنازہ کے لیے جاتے ہیں تو وہاں بھی ذکر الہی ہوتا ہے.گویا ہمارے سب اجتماعوں کو بابرکت بنانے کا نسخہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی بیان فرمایا ہے کہ ان میں ذکر الہی اور عبادت زیادہ کی جائے.اور تمہارے لیے تو یہ اور بھی اہم بات ہے.اس لیے کہ تم کوئی سیاسی جماعت نہیں ہو.تم ایک خالص مذہبی جماعت ہو.اور پھر مذہبی جماعت بھی عیسائی نہیں ہو، ہندو نہیں ہو، زرتشتی نہیں ہو، بدھ نہیں ہو ، تم خالص اسلامی مذہی جماعت ہو اور خالص اسلامی مذہبی جماعت کا مقام در حقیقت یہی ہے کہ وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ڈیوڑھی کے پہریدار ہوتے ہیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو خدا تعالیٰ نے اس دنیا کے لیے قطب بنایا ہے.ساری روحانی دنیا آپ کے گرد گھومتی اس لیے آپ کا وجود دنیا کے قیام کے لیے نہایت ضروری ہے اور جو لوگ آپ کے تابع ہوں اُن کا اصل کام یہی ہوتا ہے کہ وہ آپ کے لائے ہوئے نور کو زندہ رکھیں.اگر یہ نور مٹ گیا تو کہیں روشنی نہیں مل سکے گی.اور اگر یہ نور قائم رہا تو کوئی ظلمت باقی نہیں رہے گی.ظلمت کدہ میں ایک ہی چراغ ہو تو تم جانتے ہو کہ اس کی کتنی قیمت بڑھ جاتی ہے کیونکہ اس کے مجھنے سے اندھیرا ہی اندھیرا ہو جاتا ہے اور اس کے جلنے سے اندھیرے کا گلی طور پر خاتمہ ہو جاتا ہے.پس تمہارا وجود رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ڈیوڑھی کے پہریداروں کے طور : ہے جن کا کام مکین کی حفاظت کرنا ہوتا ہے.لیکن اگر تم غور سے دیکھو تو تمہیں معلوم ہو گا کہ اس کا مکین جس طرح اس دنیا میں یتیم آیا تھا اب بھی اُسی طرح یتیم ہے.ساری دنیا اس کی ہے.جب

Page 433

$1954 423 خطبات محمود ہے اور ہر مذہب و ملت کے لوگ اس کے مخالف ہیں اور آپ کے نور کو ختم کرنے کوشش میں ہیں.پھر تم جانتے ہو کہ جب دشمن تھوڑی تعداد میں ہوتے ہیں تو تھوڑے پہریدار کی منظر بھی کافی ہوتے ہیں لیکن جب دشمن زیادہ تعداد میں ہوں تو تھوڑے پہریدار اپنے فرض کے ادا کرنے میں خطرہ محسوس کرتے ہیں.وہ یہ تو کر سکتے ہیں کہ اپنی جانیں قربان کر دیں لیکن ان کے مقرر کرنے کا صرف یہی مقصد نہیں ہوتا کہ وہ اپنی جانیں قربان کر دیں.بلکہ ان کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ وہ مکین کی حفاظت کریں لیکن جانیں قربان کرنا تو ان کے بس کی بات ہے اپنے مالک اور آقا کی حفاظت کرنا ان کے بس کی بات نہیں کیونکہ حفاظت کرنا دراصل فرشتوں کا کام ہے.جو ہر انسان کا اعمال نامہ جانتے ہیں.وہ جانتے ہیں کہ اصل دشمن کون ہے، زیادہ دشمن کون ہے اور کامیابی کے سامان رکھنے والا دشمن کون ہے.پھر وہ جانتے ہیں کہ دشمن کس طرح حملہ کرے گا اور کس وقت حملہ کرے گا.پس تم آج رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ڈیوڑھی کے پہریدار ہو اور تم اپنا فریضہ ادا کرنے میں تبھی کامیاب ہو سکتے ہو جب ملائکہ تمہارے ساتھ ہوں اور ملائکہ کو اپنے ساتھ کھینچ لانے کا ذریعہ یہی ہے کہ جس مجلس میں خدا تعالیٰ کا ذکر ہوتا ہے خدا تعالیٰ کے فرشتے اُس میں اتر آتے ہیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ جب تم مساجد میں نماز ادا کرتے ہو تو خدا تعالیٰ کے فرشتے اترتے ہیں.1 پس تم اپنے فرض کو اس طرح ادا کرو کہ ذکر الہی تمہاری زبان پر جاری ہو اور نمازوں میں تمہیں شغف اور رغبت ہو.پس جلسہ کی برکات حاصل کرنے اور ان سے فائدہ اُٹھانے کے لیے چاہیے کہ تم ان کی ایام میں ذکر الہی زیادہ کرو.جو لوگ تمہارے بعد آئیں گے وہ بھی مخلص ہوں گے اور نیک ارادہ سے یہاں آئیں گے لیکن تم نے جلدی آکر ثابت کر دیا ہے کہ تم اخلاص کا زیادہ مظاہرہ کرنا چاہتے ہو.تم دو دن قبل یہاں آ گئے ہو تا جمعہ کی برکات سے فائدہ اُٹھا لو.پس تم السَّابِقُونَ الْاَوَّلُونَ ہو اور سابق ہونے کے لحاظ سے تمہارا فرض ہے کہ تم بعد میں آنے والوں کو بھی کہو کہ وہ جلسہ کی برکات سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اُٹھائیں اور ان ایام کو ذکر الہی اور عبادت میں صرف کریں.تم ملک کے ہر علاقہ ، ہر شہر اور ہر حصہ سے آئے ہو.اگر تم

Page 434

$1954 424 خطبات محمود جلسہ کے ایام سے حقیقی فائدہ اُٹھانا چاہتے ہو تو تم اپنے اوپر یہ فرض عائد کر لو کہ تم اپنے وطن، اپنے علاقہ، اپنے شہر اور اپنے گاؤں کے لوگوں کو سمجھاؤ گے کہ ہم نے یہاں آ کر اپنے یہ فرائض سمجھے ہیں.ہم یہ فرائض آپ کو بتاتے ہیں اور خود بھی ان پر عمل کریں گے.بعد میں آنے والے بھی یقیناً اخلاص اور ایمان رکھتے ہیں اور اگر بعد میں آنے والے بھی اخلاص اور ایمان رکھتے ہیں.تو یہ دو ہزار دوست اگر اس کام میں لگ جائیں تو ان کے لیے یہ مشکل امر نہیں کہ وہ بعد میں آنے والے چالیس پینتالیس ہزار لوگوں کو سمجھا سکیں.ربوہ کے رہنے والوں اور جلسہ کے لیے آئے ہوئے مہمانوں کو ملا کر ربوہ کی آبادی اس وقت آٹھ دس ہزار کی ہو گی.اگر چالیس پچاس ہزار لوگ اور آ جائیں تو اس کا یہ مطلب ہے کہ ایک آدمی کے حصہ میں پانچ پانچ آدمی آئیں گے اور اگر یہاں کے عورتوں اور بچوں کو نکال دیا جائے تو پندرہ ہیں آدمی ایک شخص کے حصہ میں آئیں گے.اور ایک آدمی کا پندرہ بیس آدمیوں تک یہ پیغام اس رنگ میں پہنچا دینا کہ اُن کے اندر خدا تعالیٰ کا خوف پیدا ہو جائے کوئی مشکل کام نہیں.کیونکہ بعد میں آنے والے بھی انہی نیتوں سے یہاں آئیں گے جن نیتوں سے تم یہاں آئے ہو.وہ بھی تمہاری طرح دیندار ہیں اور اخلاص رکھتے ہیں.پس میں امید رکھتا ہوں کہ تم سب صوصیت سے جلسہ کے ایام کو ذکر الہی اور عبادت میں گزارو گے تا خدا تعالیٰ کے فرشتے اتر آئیں اور تمہارا کام جو مشکل ہے آسان ہو جائے.ہمارا کام قلوب سے تعلق رکھتا ہے اور ظاہر ہے کہ ہم لوگوں کے قلوب تک نہیں پہنچ سکتے.جو لوگ بادشاہوں کے پہریدار ہوتے ہیں اُن کے پاس بندوقیں ہوتی ہیں، ریوالور ہوتے ہیں، تلواریں ہوتی ہیں اس لیے اُن کا کام مشکل نہیں ہوتا کیونکہ دشمن کے پاس بھی اس کی قسم کی بندوقیں، ریوالور اور تلوار میں ہوتی ہیں.لیکن وہ فصیلوں اور ڈیوڑھیوں کے اندر ہوتے ہیں اور دشمن باہر ہوتا ہے.اس لیے وہ دشمن سے زیادہ مضبوط ہوتے ہیں.اُن کے آگے اور پیچھے دیوار میں ہوتی ہیں جو انہیں پناہ دینے والی ہوتی ہیں.لیکن دشمن ان سہولتوں سے محروم ہوتا ہے.تمہارے سپرد رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ڈیوڑھی کا پہرہ ہے.اس ڈیوڑھی کا پہرہ بندوقوں، ریوالوروں اور تلواروں کے ذریعہ نہیں دیا جا سکتا.جو شخص اس ڈیوڑھی کا پہرہ

Page 435

$1954 425 خطبات محمود بندوقوں، ریوالوروں اور تلواروں سے دے گا وہ بیوقوف ہے.کیونکہ تمہارا کام تو یہ ہے کہ تم لوگوں کے قلوب تک پہنچو اور اس کے لیے بندوقوں، ریوالوروں اور تلواروں کی ضرورت نہیں ہوتی بلکہ تبلیغ حقہ اور فرشتوں کی مدد کی ضرورت ہوتی ہے جنہیں دلوں کا رستہ معلوم ہوتا ہے.تمہیں کوئی ایسا طریق معلوم نہیں جس سے تم دلوں تک پہنچ سکو لیکن فرشتوں کو دلوں تک پہنچنے کا طریق معلوم ہے.وہ باطن اور ظاہر دونوں پر مقرر ہیں.ان کے ذمہ یہ کام لگایا گیا ہے کہ وہ ان بنی نوع انسان کے اعمال، خیالات اور جذبات لکھیں اور وہ یہ کام اُس وقت تک نہیں کر سکتے.جب تک ان کے قلب اور دماغ تک نہ پہنچیں.پس جس چیز کی حفاظت تمہارے سپرد کی گئی ہے اُس کی حفاظت کے سامان فرشتوں کے پاس ہیں، تمہارے پاس نہیں.پس تم وہ طریق اختیار کرو جس کے ذریعہ تمہیں وہ سامان میسر آجائیں.دنیوی جنگوں میں دیکھ لو، اگر کسی فریق کے پاس گولہ بارود اور دوسرے سامانِ حرب نہ ہوں تو لوگ اسے بیوقوف سمجھتے ہیں.مسلمانوں کو تباہی کے گڑھے میں اس چیز نے گرایا تھا کہ انہوں نے اخلاص اور ایمان کو کافی سمجھا اور کی دنیوی سامانِ حرب مہیا نہ کیا.نتیجہ یہ ہوا کہ دشمن جیت گیا اور مسلمانوں پر آج نکبت اور ذلت کا زمانہ آیا ہوا ہے.انہوں نے اس چیز کے متعلق غور نہ کیا کہ ان کا دشمن کس قسم کے اسلحہ سے سلح ہے.انہوں نے یہی سمجھا کہ اس کے ارادے نیک اور اعلیٰ ہیں.نتیجہ یہ ہوا کہ دشمن جیت گیا اور مسلمان تباہ و برباد ہو گئے.تمہارا گولہ بارود، بندوقیں اور تلوار میں ذکر الہی ہے.ظاہری تلوار، بندوق اور گولہ بارود کی بھی بیشک حکومت کو ضرورت ہے اور تمہارا بھی فرض ہے کہ ضرورت کے وقت تم اپنی جانیں حکومت کے سپرد کر دو.لیکن جماعتی کاموں میں تمہیں ظاہری سامانِ حرب کی ضرورت نہیں.جماعتی کاموں میں تمہیں استغفار اور دعا کی ضرورت ہے.کسی بزرگ کا ایک واقعہ لکھا ہے کہ اُس کا ایک ہمسایہ رات دن ناچ اور گانے میں مشغول رہتا تھا اور اس طرح اُن کی عبادت میں خلل واقع ہوتا تھا.بزرگ نے اُسے کہلا بھیجا کہ تمہارے ہاں رات دن قوالیاں اور ناچ گانا ہوتا ہے جس کی وجہ سے میری عبادت خراب ہوتی ہے.تم ان کاموں سے باز آ جاؤ.اُس ہمسایہ نے کہا میں اپنے گھر میں قوالیاں، ناچ اور گانے کراتا ہوں.اس سے مجھے روکنے کا تمہیں کوئی حق نہیں.تم اپنے گھر میں عبادت کرو مجھے

Page 436

$1954 426 خطبات محمود اس سے کوئی تعلق نہیں.میں آپ کو اس سے منع نہیں کرتا.انہوں نے جواب دیا آپ کے ناچ اور گانے میری عبادت میں مخل ہوتے ہیں لیکن میری عبادت آپ کے کاموں میں مخل نہیں ہوتی.اس لیے مجھے حق ہے کہ میں آپ کو ان حرکات سے روکوں.اُس نے کہا میں ناچ اور گانے کراؤں گا تم میں طاقت ہے تو مجھے روک لو.اس پر اُس بزرگ نے کہا اچھا میں تمہیں ان باتوں سے روکوں گا.وہ شخص بادشاہ کا منظور نظر تھا.اُس نے بادشاہ سے کہا فلاں شخص.مجھے اس طرح دھمکی دی ہے میری حفاظت کا سامان کر دیا جائے.چنانچہ بادشاہ نے فوج کا ایک دستہ اُس کی حفاظت کے لیے مقرر کر دیا.بادشاہ کی مدد پہنچنے کے بعد اُس شخص نے اپنے ہمسائے کو کہلا بھیجا کہ شاید آپ نے مجھ سے لڑائی کرنی تھی.میں نے بادشاہ سے فوج کا ایک دستہ حاصل کر لیا ہے.اگر آپ مقابلہ کرنا چاہتے ہیں تو بیشک کر لیں.اُس بزرگ نے جواب دیا ہم تمہارا مقابلہ تو کریں گے لیکن ظاہری سامان اور ہتھیاروں سے نہیں بلکہ ہم رات کے تیروں سے تمہارا مقابلہ کریں گے.تم مقابلہ کے لیے تیار ہو جاؤ.اُس شخص کے اندر خدا تعالیٰ کا کسی قدر خوف باقی تھا.وہ مسلمان کہلاتا تھا اور قرآن کریم سنتا تھا.اُس کے اندر کی روحانیت کی چنگاری بھڑ کی اور جب اس بزرگ کے پیغامبر نے اُسے یہ پیغام دیا تو اُس کی چیخ نکل گئی اور اُس نے کہا تم ان سے کہہ دو آئندہ ناچ اور گانے نہیں ہوں گے کیونکہ رات کے تیروں کا مقابلہ کرنے کی طاقت نہ مجھ میں ہے اور نہ بادشاہ میں ہے.پس تم نے لوگوں کے قلوب تک پہنچنا ہے اور اس کے لیے تمہیں فرشتوں کی مدد کی ضرورت ہے.اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے کہ فرشتوں کی مدد اُس وقت آتی ہے جب تم ذکر الہی اور عبادت کرو 2 پس تم ان ایام کو ذکر الہی اور عبادت میں صرف کرو اور آنے والوں کو بھی سمجھاؤ.شاید بعد میں آنے والے پہلے آنے والوں سے زیادہ عمل کرنے والے ہوں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک دفعہ فرمایا تم میری باتوں کو دوسروں تک پہنچاؤ کیونکہ ممکن ہے کہ وہ سننے والوں سے زیادہ عمل کرنے والے ہوں.3 اگر تم اس ہدایت پر عمل کرو تو میں سمجھتا ہوں کہ چند سال میں تمہاری کایا پلٹ سکتی ہے.لیکن مشکل ہے کہ تم خطبات سنتے ہو لیکن اُن پر عمل نہیں کرتے.تم ایک کان سے بات سنتے ہو

Page 437

$1954 427 خطبات محمود اور دوسرے سے نکال دیتے ہو.تم پیغام کو دوسروں تک نہیں پہنچاتے ، اگر تم خطبات سن کر ان ان پر عمل کرو اور پھر انہیں دوسروں تک پہنچاؤ تو تم دیکھ لو گے کہ فرشتے تم پر نازل ہوں گے اور تمہارا کام جو اس وقت مشکل نظر آ رہا ہے آسان ہو جائے گا.دنیا میں سحر اور جادو کی باتیں مشہور ہیں.ہمارے نزدیک تو یہ باتیں درست نہیں لیکن اگر یہ بچی بھی ہوں تو خدا تعالیٰ کا سحر ان سے بہت بڑا ہے.تم نے جادو کی بعض کتابیں پڑھی ہوں گی.بعض لوگوں کے نزدیک ان کا پڑھنا جائز نہیں.میں نے تو یہ کتابیں بھی پڑھی ہیں.گوان کو وہم اور جنون سمجھتا ہوں اور اب بھی موقع ملے یا طبیعت خراب ہو تو اس قسم کی کتابیں اُٹھا کر پڑھ لیتا ہوں.اس سے طبیعت بہلنے کے علاوہ دوسرے لوگوں کی بیوقوفیاں بھی ظاہر ہو جاتی ہیں.بہر حال اگر تم نے اس قسم کی کتابیں پڑھی ہوں تو تم نے پڑھا ہوگا کہ فلاں نے جادو کیا اور زنجیریں آپ ہی آپ کھل گئیں.جادو سے زنجیریں کھلتی ہیں یا نہیں اس کو چھوڑ دو لیکن جب خدا تعالیٰ کے فرشتے آ جاتے ہیں تو دل کی زنجیریں ضرور کھل جاتی ہیں.کیونکہ خدا تعالیٰ نے انہیں اس کام پر مقرر کیا ہے کہ وہ ہر جگہ جائیں اور انسان کے جذبات ، خیالات اور اعمال لکھتے جائیں تم دیکھتے ہو کہ جس شخص کو گورنمنٹ نے مقرر نہیں کیا وہ کسی کے گھر جاتا ہے تو اُسے پہلے دروازہ کھٹکھٹانا پڑتا ہے.لیکن اگر گورنمنٹ پولیس کو کسی کی جائیداد ضبط کرنے کا حکم دے تو اُسے اندر جانے کی اجازت لینے کی ضرورت نہیں ہوتی.اسی طرح فرشتوں کی بھی ڈیوٹیاں مقرر ہیں.انہیں اپنی ڈیوٹی کے سلسلہ میں کسی مکان کے اندر جانا ہو تو اجازہ لینے کی ضرورت نہیں ہوتی.جس طرح کسی لنگر کے باورچی یا نان پز کولنگر میں آنے کے لیے اجازت کی ضرورت نہیں ہوتی، بورڈنگ کے طالبعلم کو بورڈنگ کے اندر آنے کے لیے کسی اجازت کی ضرورت نہیں ہوتی، ہوٹل کے کمرے میں رہنے والے کو ہوٹل میں جانے کے لیے اجازت طلب کرنی نہیں پڑتی.اسی طرح فرشتے جنہیں دلوں کی نگرانی کے لیے خدا تعالیٰ مقرر کیا ہے وہ بھی اندر جانے کے لیے کسی کی اجازت کے محتاج نہیں.اُن کے آگے دلوں کے دروازے آپ ہی آپ کھل جاتے ہیں.پس اگر تم اپنے مقصد میں کامیاب ہونا چاہتے ہو تو تمہارا فرض ہے کہ تم فرشتوں کو اپنی مدد کے لیے بلاؤ اور ان سے کام لو.

Page 438

خطبات محمود.428 $1954 میں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے خود سنا ہے کہ جب کوئی بادشاہ بہ امیر کسی جگہ جاتا ہے تو اُس کا اردلی بھی ساتھ جاتا ہے.اُسے اندر جانے کی اجازت طلب کرنی نہیں پڑتی.مثلاً اگر وائسرائے کسی گورنر کو بلائے تو وہ تو بلاوے پر جائے گا مگر اس کا اردلی گورنر جنرل کے گھر پر بغیر کسی کی دعوت کے جائے گا.گورنر کی دعوت میں اُس کے محافظ اور خادم شامل ہوں گے.اس لیے تمہاری حالت کتنی بھی ادنی ہو اگر تم فرشتوں سے تعلقات پیدا کر لو تو وہ جہاں بھی جائیں گے تم اُن کے ساتھ جاؤ گے.تم اُن کے اردلیوں اور چپڑاسیوں میں شامل ہو جاؤ گے.اگر وہ لوگوں کے دلوں اور دماغوں میں جائیں گے تو تم بھی اُن کے ساتھ جاؤ گے.پس تم اس عظیم الشان طاقت کو سمجھو جسے خدا تعالیٰ نے تمہارے لیے بنایا ہے.تمہاری کی قوت، روحانیت کے ساتھ وابستہ ہے.تم اسے مضبوط بنانے کے لیے فرشتوں کے ساتھ زیادہ کی سے زیادہ تعلقات پیدا کرو تا تمہیں لوگوں کے قلوب تک پہنچ حاصل ہو جائے.اگر تمہیں لوگوں کے قلوب تک پہنچ حاصل ہو جائے تو سارے پر دے دور ہو جائیں گے اور جہاں خدا تعالیٰ کا نور پہنچے گا تم بھی وہاں پہنچ جاؤ گے.پس تم اپنی ذمہ داریوں کو سمجھو اور جس شوق سے تم یہاں آئے ہو اُسے پورا کرنے کے سامان پیدا کرو.اس طرح نہ ہو کہ جس طرح کشتی دیکھنے کے لیے کچھ لوگ پہلے آ جاتے ہیں تم بھی یہاں آگئے ہو.تمہارا یہاں آنے کا مقصد وہی ہے جو اَلسَّابِقُونَ الأَوَّلُونَ کا مقصد ہوتا ہے.اور سابق کا اصل مقام یہ ہوتا ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کا مقرب بنے.پس اپنے پہلے آنے کی لاج رکھتے ہوئے تم اپنے آپ کو خدا تعالیٰ کا مقرب بناؤ اور دوسروں کو بھی اپنے ساتھ شامل کرنے کی کوشش کرو تا تمہارا یہاں آنا خدا تعالیٰ اور دوسر.لوگوں کی نظر میں مقبول ہو.الفضل 9 جنوری 1955ء) 1 : صحیح بخاری كتاب الصلواة باب الصلاة في مسجد الشوق - (مفہوما ) 2 : صحیح بخاری کتاب الدعوات باب فضل ذكر الله عزوجل.3 : صحیح بخاری کتاب الحج باب الْخُطْبَةِ أَيَّامَ مِنِّي

Page 439

$1954 429 40 خطبات محمود بیشک دنیا کماؤ لیکن دین کو بھی نظر انداز نہ کرو بلکہ ہمیشہ اس کو دنیا پر مقدم رکھو (فرموده 31 دسمبر 1954ء بمقام ربوہ ) تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: اللہ تعالیٰ کے فضل اور رحم کے ساتھ اس سال کا جلسہ سالانہ خیریت سے گزر گیا ہے.آنے والے آئے اور کچھ دن یہاں گزار کے چلے بھی گئے.لیکن اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے کہ ان میں سے کتنے خدا تعالیٰ اور اُس کے فرشتوں کی نظر میں آئے اور کتنے خدا تعالیٰ اور اُس کے فرشتوں کی نظر میں باوجود جسمانی طور پر یہاں آنے کے پھر بھی نہیں آئے.جب.کی تاریخ شروع ہوئی ہے اور جب سے آدم کی اولاد دنیا میں پھیلی ہے اُس وقت سے ایک بات انسان میں نظر آتی ہے کہ اس کی حالت اپنے ماحول کے اثر کے نیچے بدلتی رہتی ہے.ہیں.دلیلیں وہی ہوتی ہیں، براہین وہی ہوتے ہیں لیکن ان کے نتائج کسی اور رنگ میں نکلتے اللہ تعالیٰ کی ہستی کے ثبوت جو آدم کے زمانہ میں تھے وہی اب بھی ہیں.آدم کے وقت میں جو انبیاء کی سچائی کے ثبوت تھے وہی ثبوت اب بھی ہیں.آدم کے زمانہ میں بعث بعد الموت کے

Page 440

$1954 430 خطبات محمود جو دلائل تھے وہی دلائل اب بھی ہیں.خدا تعالیٰ بھی نہیں بدلا، رسالت بھی نہیں بدلی، مابعد الموت بعثت کے متعلق بھی کوئی نئی شکل پیدا نہیں ہوئی مگر باوجود اس کے دنیا پر یہ دور آتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ کبھی لوگ ماننے لگ جاتے ہیں اور کبھی منہ پھیر لیتے ہیں، کبھی انہیں کسی رسول پر ایمان لانے کی توفیق ملتی ہے اور کبھی اس پر ایمان لانے کی توفیق نہیں ملتی ، کبھی انہیں موت کے بعد کی زندگی پر یقین ہوتا ہے اور کبھی نہیں ہوتا.اگر ان کے دلائل اور براہین بدلتے ، تو ہم کہتے کہ دلائل اور براہین کے بدلنے سے ان کی حالت بدل گئی ہے.لیکن دلائل وہی نظر آتے ہیں جو پہلے تھے.یہ کہ کسی زمانہ میں کسی مامور کے ذریعہ خدا تعالیٰ کے بعض نشانات ظاہر ہوئے تو یہ اور بات ہے.آدم کے زمانہ سے زمانہ کے حالات کے مطابق نشانات بدلتے رہے ہیں.اگر کسی وقت کسی نبی نے اپنے بیٹے کی پیدائش کی یا اپنی جماعت کی ہجرت کی خبر دی ہے اور یہ خدا تعالیٰ کی ہستی پر دلالت کرنے والا ایک نشان بن گیا تو یہ نشان کی بہرحال ایک نشان ہی ہے لیکن خدا تعالیٰ کی توحید کے جو دلائل پہلے تھے وہی اب بھی ہیں.فرق صرف یہ ہے کہ کسی نے زبان کے محاورہ کے مطابق یا اُس زمانہ کے لوگوں کے خیالات کے مطابق انہیں کسی اور رنگ میں بیان کر دیا لیکن مغز تقریر یہ ہے کہ خدا ایک ہے، اُس کے سوا اور کوئی معبود نہیں.اب ایک ہی قسم کے دلائل کے ہوتے ہوئے جو زمانہ بدلتا رہتا ہے تو اس کے صاف معنے یہ ہیں کہ انسان اپنے ماحول سے متاثر ہوتا ہے.اور جب ماحول میں بھی ایک شیر ہوتی ہے تو ہمیں دیکھنا چاہیے کہ وہ کونسا ماحول ہوتا ہے جس سے انسان متاثر ہوتا ہے.اگر کوئی نبی دنیا میں آتا ہے اور وہ ایک نئی جماعت پیدا کر جاتا ہے، وہ لوگوں میں کی خدا تعالی کی ہستی پر یقین پیدا کر جاتا ہے یا بعث بعد الموت پر یقین پیدا کر جاتا ہے اور ساری قوم ایک رنگ میں رنگین ہو جاتی ہے تو پھر وہ کون سا ماحول ہوتا ہے جس کے نتیجہ میں ایمانور میں کمزوری پیدا ہونی شروع ہو جاتی ہے.اگر یہ ہوتا کہ وہ ایک ملک میں ہوتا تو اور حالت ہوتی اور دوسرے ملک میں ہوتا تو اور حالت ہوتی، تو ہم کہتے ملکی یا قومی ماحول بدل گیا ہے لیکن واقع یہ ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک ہی ماحول تھا.وہی آپ کے صحابہؓ کو ملا، پھر تابعین ہوئے اور پھر تبع تابعین ہوئے مگر جو یقین صحابہ کو حاصل تھا وہ تابعین اور

Page 441

$1954 431 خطبات محمود تبع تابعین کو حاصل نہ تھا.اس سے پتا لگتا ہے کہ ماحول جو بدلتا ہے وہ زیادہ تر اقتصاری بناء پر بدلتا ہے.ہمیں یہ چیز ہر نبی کے زمانہ میں نظر آتی ہے کہ اس کی جماعت میں آہستہ آہستہ ترقہ اور مالی ترقی پیدا ہوتی ہے اور پھر یہ چیز لازمی نظر آتی ہے کہ ظاہری اموال اور دولت کی ترقی کے ساتھ ساتھ ایمان کم ہوتا جاتا ہے.جب تک اموال کی زیادتی نہیں ہوتی اُس وقت تک ایمان باقی رہتا ہے اور جوں جوں ترقہ اور مالی ترقی آتی جاتی ہے ایمان کمزور ہوتا جاتا ہے.ایسا کیوں ہوتا ہے؟ یا تو ہم یہ سمجھیں کہ جب کسی نبی کے اردگرد غرباء اکٹھے ہوتے ہیں تو وہ اس خیال سے جمع ہوتے ہیں کہ اس کے ماننے سے انہیں دنیا ملے گی.جیسے ہندوؤں اور یہودیوں کا عقیدہ ہے کہ نبی کا سب سے بڑا کام اور پیغام یہی ہوتا ہے کہ اُس کے ماننے.لوگوں کو دنیا ملتی ہے.یہودیوں کی کتابوں میں مرنے کے بعد کی زندگی کا بہت کم ذکر ہے.یہی حال ہندو کتابوں کا ہے.ہندو سمجھتے ہیں کہ نبی آنے کے نتائج دنیوی ترقی کی شکل میں ظاہر ہوتے ہیں.اور جب اُن کی کتابوں میں یہ چیز موجود ہوتی ہے کہ جب بھی کوئی نبی دنیا میں آتا ہے تو اُس کے ماننے سے لوگوں کو دنیا ملتی ہے تو وہ اُسے مانتے ہی اس لیے ہیں.لیکن بعض قو میں ایسی بھی ہیں جن میں یہ بات نہیں پائی جاتی.مثلاً عیسائی ہیں ان کی کتابوں میں مابعد الموت زندگی پر یہود سے زیادہ زور ہے، زرتشتیوں میں بھی اس پر یہودیوں سے زیادہ زور ہے، اسلام کے زمانہ میں انسانوں کی کمزوری دیکھ کر خدا تعالیٰ نے مسلمانوں کے لیے تدبیر کی کہ قرآن کریم میں اگلے جہان کی ترقی کے الفاظ سے اسی دنیا کی ترقی کی خبر دی گئی اور اسی لیے عیسائیوں نے قرآن کریم پر یہ الزام لگایا ہے کہ قرآن کریم میں کوئی نشان نہیں پایا جاتا.در حقیقت قرآن کریم میں جو دنیوی فتوحات کا ذکر آتا ہے وہ بھی اگلے جہان کے انعامات کے ذکر میں آتا ہے.یعنی مراد اس سے فلسطین اور مصر کی فتوحات ہوتی ہیں لیکن الفاظ اس قسم کے کی استعمال کیے جاتے ہیں جو اگلے جہان پر دلالت کرتے ہیں.ایسا کرنے سے خدا تعالیٰ کا لوگوں کو یہ ہدایت دینا مقصود ہوتا ہے کہ انسانی زندگی کا اصل مقصود اگلا جہان ہے.لیکن بعض لوگ اس رو میں بہہ گئے کہ انہیں دنیوی ترقیات مل جائیں.صحابہؓ کے بعد جو جماعت آئی اُن کا بڑا ا کام یہی نظر آتا ہے کہ انہیں کوئی دنیوی فتح مل جائے یا کر نیلی اور جرنیلی مل جائے.

Page 442

خطبات محمود 432 $1954 پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا زمانہ آیا.آپ نے بھی قرآنی اصطلاح میں یہ اقرار لیا کہ میں دین کو دنیا پر مقدم کروں گا.اس پر لوگ آپ کی بیعت کرنے لگے.لیکن آپ کی جماعت کا بھی وہی حال ہے جو پہلے انبیاء کی جماعتوں کا تھا.آہستہ آہستہ وہ سب باتیں مٹتی جاتی ہیں جن پر ابتدا میں زور دیا جاتا تھا.ابتد میں استغفار، ذکر الہی اور عبادت پر زور تھا لیکن اب اس بات کو بڑا سمجھا جاتا ہے کہ فلاں جرنیل بن گیا ہے، فلاں کرنیل بن گیا ہے، فلاں حکومت کا سیکرٹری بن گیا ہے.اور جو شخص جرنیل یا کرنیل بن جاتا ہے جماعت جمجھتی ہے کہ وہی زیادہ معزز ہے.اور جو شخص عبادت گزار ہوتا ہے اُس کے متعلق یہ سمجھا جاتا ہے کہ یہ شخص دماغی طور پر کمزور تھا اس لیے کوئی بڑا عہدہ حاصل نہیں کر سکا.اب یہ اپنا دل خوش کرنے کے لیے عبادت میں مشغول رہتا ہے.غرض جوں جوں جماعت کو دنیوی ترقیات مل رہی ہیں دین کی عظمت کم ہوتی جاتی ہے.ہم یہ دعا بھی نہیں کر سکتے کہ خدا تعالیٰ ہماری جماعت کو دنیوی ترقیات نہ دے کیونکہ اُس کا جماعت سے وعدہ ہے کہ وہ اسے دنیوی ترقیات بھی دے گا.لیکن جس چیز کا وعدہ ہے وہ یہ ہے کہ تم یہ دنیوی ترقیات خدا تعالیٰ کے ہاتھ سے لو، دنیا کے ہاتھ سے نہ لو.لیکن میں یہ بات کی دیکھتا ہوں کہ اس زمانہ میں جب دنیا کی زندگی پر ساتواں ہزار سال جا رہا ہے یا سائنس دانوں کے اندازہ کے مطابق اس پر چھ یا سات اربواں سال جا رہا ہے دنیا اُسی مقام پر کھڑی ہے جس پر پہلے..چھ ہزار سال یا چھ ارب یا سات ارب سال کا عرصہ کم نہیں ہوتا.آدمی ایک کام ایک گھنٹہ میں سیکھتا ہے، ایک کام چھ گھنٹے میں سیکھتا ہے، ایک کام چھ ماہ میں سیکھتا ہے، ایک کام چھ سال میں سیکھتا ہے لیکن دنیا میں ایسی کوئی پڑھائی نہیں جو چھ ہزار سال تک چلی جائے.عام طور اے تعلیم کا آخری درجہ ہے اور اسے ہمارے ہاں سولھویں جماعت کہا جاتا ہے.اگر کوئی لڑکا یم.اے میں تعلیم حاصل کر رہا ہو تو اُس کے متعلق کہا جاتا ہے کہ وہ سولھویں جماعت میں پڑھتا ہے.گویا ایک شخص ایم.اے بھی جو عام طور پر تعلیم کا آخری درجہ ہے سولہ سال میں پاس کر لیتا ہے لیکن بنی نوع انسان نے یہ سبق چھ ہزار سال میں بھی نہیں سیکھا.ہمیں اس پر غور کرنا چاہیے اور اس کی کنبہ کو معلوم کرنا چاہیے کہ اس بیماری کو کس طرح دور کیا جا سکتا ہے.

Page 443

$1954 433 خطبات محمود بڑی بڑی ایجادوں میں لگی ہوئی ہے.ڈاکٹروں نے بڑے بڑے تجربات کے بعد سلفونامائیڈ پنسلین (Sulphonamide Penicillin) ، کلورو مائنسین (Chloromycetin) اور اسی قسم کی دوائیں ایجاد کر لی ہیں.اسی طرح ہر فن کے لوگ اپنے اپنے فن میں نئی ایجادیں کی کرنے میں مشغول ہیں.روحانی لوگوں کو بھی چاہیے کہ وہ اس بیماری کی گنہہ کو معلوم کریں اور ی اسے پکڑنے کی کوشش کریں.ہو سکتا ہے کہ چھوٹی چھوٹی حرکات سے خیالات بدلتے جاتے ہوں.جیسے ریل کے کانٹے بدلتے ہیں، ریل یکدم چکر نہیں کاٹ جاتی بلکہ آہستہ آہستہ چکر کاٹتی ہے اور یہ چھوٹے چھوٹے کانٹے ایک تغیر پر دلالت کرتے ہیں.اگر دنیوی لوگوں نے اس قسم کی ایجادیں کی ہوئی ہیں تو کیا وجہ ہے کہ مذہبی لوگ اپنے آپ کو اس طور پر نہ لگائیں کہ وہ انسانی دماغ کے کانٹے کو معلوم کریں.اس کے بعد نوجوانوں کو تحریک کی جا سکتی ہے کہ وہ اپنے آپ کو اس رنگ میں ڈھال لیں اور والدین کو تحریک کی جا سکتی ہے کہ وہ اپنے بچوں کی کی اِس طرح تربیت کریں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرمایا کرتے تھے کہ مجھے ایک صوفی کا یہ قول بہت پسند ہے کہ دست درکار دل بایار یعنی اصل حقیقت یہی ہے کہ انسان دنیا کے کام بھی کرے اور خدا تعالیٰ کو بھی یاد رکھے.لیکن یہاں یہ حال ہے کہ دست درکار ہوا تو دل یار سے جُدا ہو گیا.دنیا کے نزدیک یہ چیز چاہے کتنی اچھی ہو دین کے لحاظ سے یہ چیز اچھی نہیں.پرانے لوگوں میں سے بعض نے یہ سمجھ رکھا تھا کہ دست درکار نہیں ہونا چاہیے.اس وجہ سے انہوں نے اپنی زندگی کو نہایت ذلیل بنا لیا.اور بعض نے یہ سمجھ لیا کہ دل بایار نہیں ہونا چاہیے صرف دست درکار ہونا کافی ہے.پس دنیا میں دو کیمپ بن گئے.جس طرح اس وقت سیاسی لحاظ سے دو کیمپ ہیں ایسٹرن اور ویسٹرن.اسی طرح مذہبی لحاظ سے بھی دو کیمپ ہیں.ایک کیمپ والے دین کو بیکار سمجھتے ہیں اور دوسرے کیمپ والے دنیا کو بیکار سمجھتے ہیں حالانکہ صداقت ان کے درمیان درمیان تھی.صداقت یہ تھی کہ دین کے ساتھ ساتھ دنیا بھی کمائی جائے.

Page 444

$1954 434 خطبات محمود دنیا سے بالکل منہ نہ موڑ لیا جائے.لیکن ہوا یہ کہ ایک فریق تو خالص دنیا ساتھ لے گیا اور ی ایک فریق نے خالص دین لے لیا اور انہوں نے یہ نہ سمجھا کہ اگر دنیا میں خالص دین ہوتا تو اوی خدا تعالیٰ یہ کیوں فرماتا کہ مَنِ اسْتَطَاعَ إِلَيْهِ سَبِيلًا 1 کہ جوشخص استطاعت رکھے وہ حج کرے.پھر زکوۃ کے متعلق کیوں فرمایا کہ جس شخص کے پاس اس قدر رقم ہو وہ زکوۃ دے.پھر یہ کیوں کہا کہ اگر تمہارے پاس مال ہو تو تم جہاد اور غریبوں کی ترقی کے لیے خرچ کرو.دراصل خدا تعالیٰ اس قسم کے احکام دے کر اس طرف اشارہ کرتا ہے کہ تم دین کے ساتھ ساتھ اپنے پاس مال بھی رکھو.پھر اگر خدا تعالیٰ یہ چاہتا ہے کہ صرف دین لیا جائے ، دنیا سے منہ موڑ لیا جائے تو وہ یہ کیوں فرماتا کہ اگر تم نے عورتوں کو ڈھیروں ڈھیر سونا بھی دیا ہو تو اُن سے واپس نہ لو 2 اگر مال اپنے پاس رکھنا ہی نہیں تو دینا کہاں سے ہے.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ دنیا میں ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں جنہیں خدا تعالیٰ نے لوگوں کے لیے نمونہ کے طور پر پیدا کیا ہوتا ہے.میں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے ہی سنا ہے کہ کسی نے ایک بزرگ سے سوال کیا کہ کتنے روپوں پر زکوۃ فرض ہے؟ انہوں نے جواب دیا کہ تمہارے لیے یہ مسئلہ ہے کہ تم چالیس روپیہ میں سے ایک روپیہ زکوۃ دو.اُس نے کہا ”تمہارے لیے کا کیا مطلب ہے؟ کیا زکوۃ کا مسئلہ بدلتا رہتا ہے؟ انہوں نے کہ ہاں تمہارے پاس چالیس روپے ہوں تو اُن میں سے ایک روپیہ زکوۃ دینا تمہارے لیے ضروری ہے.لیکن اگر میرے پاس چالیس روپے ہوں تو مجھ پر اکتالیس روپے دینے لازم ہیں.کیونکہ تمہارا مقام ایسا ہے کہ خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ تم کماؤ اور کھاؤ لیکن مجھے و مقام دیا ہے کہ میرے اخراجات کا وہ آپ کفیل ہے.اگر بیوقوفی سے میں چالیس روپے جمع کر لوں تو میں وہ چالیس روپے بھی دوں گا اور ایک روپیہ جرمانہ بھی دوں گا.غرض بعض لوگوں کا فرض ہوتا ہے کہ وہ صرف دین کی طرف اپنی توجہ رکھیں لیکن باقی سب دنیا کا یہی مقام ہے کہ وہ دنیا کمائیں اور اپنے وقت کا کچھ حصہ مناسب نسبت کے ساتھ عبادت اور دین کے کاموں میں بھی لگائیں.وہ ذکر الہی کریں، وظائف کریں، تہجد پڑھیں، استغفار اور دعاؤں سے کام لیں.پس جماعت کو چاہیے کہ وہ ان باتوں کی طرف بھی توجہ رکھے.وہ

Page 445

خطبات محمود 435 $1954 ابھی وہ زمانہ ہے جبکہ ہماری باگیں خدا تعالیٰ کے ہاتھ میں ہیں.وہ ایک وقت تک جماعت کی باگیں اپنے ہاتھ میں رکھتا ہے اور پھر ایک وقت ایسا آتا ہے جب اسے کھلا چھوڑ دیتا ہے.جب تک ہماری جماعت کی باگیں خدا تعالیٰ کے ہاتھ میں ہیں اُس وقت تک ہماری مثال اُس گھوڑے کی سی ہے جو گاڑی میں جتا ہوا ہو.جس طرف گاڑی والا گھوڑے کو پھیرے گا وہ اُسی طرف پھرے گا.لیکن جب وہ باگیں چھوڑ دے گا تو وہ جس طرف چاہے گا چل پڑے گا.چراگاہ والے گھوڑے اور گاڑی میں بجتے ہوئے گھوڑے سے ایک سا سلوک نہیں ہوتا.چراگاہ والا گھوڑا جہاں چاہے جاتا ہے لیکن گاڑی میں جتا ہوا گھوڑا اپنے مالک کی مرضی پر چلتا ہے.اُس نے مقصد گاڑی کھینچنا ہوتا ہے اس لیے وہ سیدھا چلتا چلا جاتا ہے.ہماری حالت بھی اس وقت گاڑی میں بجتے ہوئے گھوڑے کی سی ہے.جس طرح ایک چراگاہ والے گھوڑے کو دیکھ کر اگر گاڑی میں جتا ہوا گھوڑا یہ چاہے کہ وہ آزاد پھرے تو یہ اُس کی بیوقوفی ہو گی.اسی طرح ہماری کا جماعت بھی دوسری جماعتوں کو دیکھ کر ان کے پیچھے چلنا چاہے تو یہ درست نہیں ہو گا.جماعت کے سامنے دو ہی صورتیں ہیں یا تو وہ سیدھی چلتی چلی جائے اور یا وہ کوڑے کھانے کے لیے تیار رہے.تم جب کہتے ہو کہ ہم ایک مامور کو ماننے والے ہیں تو اس کا یہی مطلب ہے کہ ہم ایک گاڑی میں بجتے ہوئے ہیں.اب اگر ایک گاڑی میں بنتا ہوا گھوڑا یہ خیال کرے کہ اُس سے چراگاہ میں چرنے والے گھوڑے کا سا سلوک ہو گا تو درست نہیں.اسی طرح تمہارے ساتھ بھی دوسرے لوگوں کا سا سلوک نہیں کیا جا سکتا.جہاں تمہارے ساتھ انعامات اور فضل کے وعدے ہیں وہاں کوڑوں کے بھی وعدے ہیں.پس تم اپنی ذمہ داریوں کو سمجھو اور اپنے اعمال کا جائزہ لو.جو سال ختم ہوا ہے اُسے آئندہ کے لیے نیک عزم اور نیک ارادوں کے ساتھ ختم کرو.اور بیشک دنیا کماؤ لیکن دین کو بھی نظر انداز نہ کرو بلکہ ہمیشہ دین کو دنیا پر مقدم ( الفضل 18 جنوری 1955ء) رکھو.1 : آل عمران 98.:2 وَإِنْ أَرَدْتُمُ اسْتِبْدَالَ زَوْجٍ مَّكَانَ زَوجِ وَأَتَيْتُمُ احْدُهُنَّ قِنْطَارًا فَلَا تَأْخُذُوا مِنْهُ شَيْئًا (النساء : 21)

Page 446

1 انڈیکس مرتبہ : تکریم فضل احمد شاہد صاحب 35 7 8 12 17 آیات قرآنیہ احادیث نبویہ الہامات حضرت مسیح موعود اسماء مقامات کتابیات -1 -2 -3 -4 _5 -6

Page 447

34 == 379 378 378 3 البقرة آیات قرآنیہ التوبة وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يُعْجِبُكَ هُوَ أُذُنٌ...(61) (206-205) 181 بِأَنَّ لَهُمُ الْجَنَّةَ (53) 243 الشعراء وِإِذَا قِيلَ لَهُ اتَّقِ اللَّهَ (111) 114 الَشِرُذِمَةٌ قَلِيلُونَ (207) 182 ، 183 كُونُوا مَعَ الصَّادِقِينَ (55) مَتَى نَصْرُ اللهِ (119) 185 الروم (215) 123 الرعد ظَهَرَ الْفَسَادُ فِي الْبَرِّ 268 343 إِنَّ اللَّهَ لَا يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ وَالْبَحْرِ (42) آل عمران مَنِ اسْتَطَاعَ إِلَيْهِ سَبِيلًا.(98) (12) 434 الحجر وَلَتَكُن مِنكُمْ أُمَّةٌ يَّدْعُونَ رُبَمَا يَوَدُّ الَّذِينَ كَفَرُوا (105) (3) 291 تَوَفَّنَا مَعَ الْأَبْرَارِ.بنی اسرائیل 185 كُلًّا تُمِدُّ هَؤُلَاءِ (149) (21) الاعراف خُذُوا زِيْنَتَكُمْ عِندَ كُلَّ الفرقان مَسْجِدٍ (32) 12 جَاهِدُهُمُ بهِ جِهَادًا 391 يس يحَسْرَةً عَلَى الْعِبَادِ (31) 419 الذّرِيَات وَفِي أَمْوَالِهِمْ حَقٌّ (20) 212 الحديد اهُوَ الْاَوَّلُ وَالْآخِرُ (4)

Page 448

146 4 الاعلى الغاشية فَذَكَّرُ اِنْ نَّفَعَتِ الذِكرى لَسْتَ عَلَيْهِمْ بِمُسَيْطِرٍ (23) 146 (10)

Page 449

LO 5 احادیث الف اخِرُ الدَّوَاءِ الْكَيُّ 136 کھانا کھلایا 400 تم مجھے مشورہ دو الْقَاسِمُ مَحْرُومٌ میں بھوکا تھا تم نے برکت 29 جب خطبہ ہو رہا ہو 31 عائشہ ! آج تم خفا معلوم میں خدا کے فضل سے ہوتی ہو جنت میں جاؤں گا 33 تم حوض کوثر پر ان برکتوں کو لینا ہوگا ؟ 55 جو شخص مال کو تقسیم تَزَوْجُوا وَدُودًا ح 316 طلحہ تمہارا کیا حال حُبُّ الْوَطَن مِنَ الْإِيمَان 235 جو شخص طلحہ کو مارے گا 55 کرتا ہے ل طلحہ تجھ پر میرے ماں نماز میں جواب نہیں 56 دینا چاہیے 157 158 162 174 200 204 اگر خدا کے سواکسی کو سب مومن بھائی ہیں 226 لَا تَسُبُّوا الدَّهْرَ 160 باپ قربان نُصِرْتُ بِالرُّعْبِ 381 | خلیل بناتا و 76 اگر محمد کی بیٹی فاطمہ جب کوئی بندہ تو بہ کرتا ہے 84 چوری کرے 241 وَلِنَفْسِكَ عَلَيْكَ لوگو! تم کو کیا ہو گیا ہے 93 جنازہ نہیں پڑھاؤں گا 244 اللہ نے آگ کا عذاب اپنے اگر اجازت دو تو دودھ حَقٌّ 267 اختیار میں رکھا ہے 109 ابوبکر کو دوں احادیث بالمعنى اگر یہ مختصر گروہ ہلاک اگر تم عیوب دیکھو سارے مرد اور عورتیں ہو گیا 123 جب تم مسجد میں آؤ عید پر حاضر ہوں 24 کچھ لوگ مجلس میں آئے یہ بھی ثواب ہے خدا بلال کی تعریف کر رہا ہے 147 ،148 | اگر کوئی گالی دیتا ہے 246 248 267 267 272 25 | جمعرات کے دن سفر میں اگر کوئی ہدایت پاتا ہے 275

Page 450

422 426 426 6 اللہ رزق دیتا ہے 293 اسلام پر ایک وقت اگر عورت خاوند سے نفرت آئے گا کرے 327 ایک شخص مومن اگر یہ چھوٹی جماعت ہلاک سوئے گا جب بھی کوئی اسلامی 387 | اجتماع فرشتوں کی مدداُس وقت 387 آتی ہے ہو گئی 341 اکڑ کر چلنا خدا کو میری باتوں کو دوسروں تک بعض انبیاء کو ایک شخص نے نا پسند ہے 389 پہنچاؤ مانا 379 شیشوں کا لحاظ رکھو 403

Page 451

78 397 7 الہامات حضرت مسیح موعود عربی الہامات اردو الہامات وَسِعُ مَكَانَكَ 398،20 بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے 205 ل لاہور میں پاک ممبر ہیں لنگر اُٹھا دو

Page 452

8 اسماء اللہ بخش چ آدم علیہ السلام.حضرت ایک شاعر ) 403 چراغ (ایک پرانا ملازم) 247،244،242،168، الہی بخش اکاؤنٹسٹ 430،429 | ایاز 355 آمنه بی بی ابراہیم علیہ السلام.حضرت بابر 163،162،89، برامکہ 73 254 255 چراغ الدین میاں 258 چمن لال 93 حزقیل 290.289 73 334.333 乙 338 247،244،242، 379 بروہی.اے.کے 312 حسن.حضرت امام ابن عباس.حضرت 281 بشیر احمد.حضرت مرزا 326.316.315 ابوبکر حضرت $92.76 47،44 حسن محمد بابا 170،93، 203، 218 ، بلال.حضرت 25 خ 403 246، 315، 316، 326، بھاگ بھری 355 خالد بن ولید - حضرت 380 380 ابو جہل 169 ،218 تاج الدین میاں 73 خان.ڈاکٹر 306،305، 312 ابو حنیفہ - حضرت امام 220 تمیز الدین خاں مولوی 296 خلیل احمد ناصر چودھری 352 ابوہریرہ.حضرت $75 292،76 293 ٹیمپل ڈڈلارڈ 335 دانیال.حضرت 338 احمد شاہ اسد اللہ خان چودھری اکبر امیر خسرو 258 152 258 221 داؤد علیہ السلام.حضرت 338 ج جهانگیر 17 جیون خاں 355 رام چندر 90

Page 453

رام لال.دیوان 333 9 ع 326.316.315 رحمت الله شیخ 84،83، 289 عائشہ حضرت 33، 55، عثمان بن مظعون.حضرت رحمت علی مولوی ز 403 162 عبدالحامد بدایونی 296 | عزیز احمد.حضرت مرزا زبیر حضرت 55 عبد الحفیظ ملک 355 عطاء محمد بابو زرتشت علیہ السلام - حضرت 90 عبدالحکیم سید 354 علی.حضرت زینب.اہلیہ ملک محمد انور عبدالحمید خاں غزنوی 302 151.150 62 354 $76.55 179 لاہور س 355 سرور شاہ - حضرت سید 115 سلطان احمد.حضرت مرزا 366.62 عبد الرحیم درد.حضرت مولانا عمر حضرت 93،92،76، 315.301.300.203 306.44 عبدالرحیم.نواب 48 380.328.326 عبد الغفار خان 305 306 عنایت اللہ خاں سلطان محمود شاہد 282 عبدالقادر جیلانی.سید عیسی علیہ السلام.حضرت 354 سلیمان علیہ السلام.حضرت سہیل.حضرت سیموئیل.ہور 338 300 335 شاہ جہاں شبیر احمد عثمانی مولوی 17 297 شکر اللہ خان چودھری 152 44.43 $99.90.89.27 عبدالمالک مولانا مبلغ کراچی 123 ، 161 ، 162 ، 205 ، عبد اللہ بن عباس.حضرت 243.242.222.210 138 338.325.263.245 417 416.380.379 76 عبداللہ بن عمرؓ حضرت 74 غ 293،77،75 غزالی امام شیر علی.حضرت مولوی 115 عبدالله تیما پوری 210،208 غلام احمد قادیانی b 274.273 عبداللہ خاں چودھری 152 حضرت مرزا مسیح موعود علیہ السلام طلحہ حضرت 55 تا 57 | عثمان - حضرت 301،76 ، 1 <72.48.42.20

Page 454

10 95.83.79.77.75.73 96، 106، 108، 122، قیس 153، 156، 158، 163، قیصر 213 211 205.167 ق 157 153.150.149 173.163160 158 11 190 189.176.174 358 210 204202.200 215، 217، 233، 244 ، کرشن علیہ السلام - حضرت 90 222 ، 226 تا 228، 235 ، 272.266.2480241 $289 283.279 278.275 365.364 315.300 293 292 258t256 325 321 318.316 365 341.338.329 389387 382 378 کمال الدین خواجہ کولمبس 275 264 263.247 324 295 290.289 353-348346.325 383 381 366.355 428 406 402.397 434 432 گاندھی 114 320،115 ل غلام حسین.ہدایت اللہ 297 لیکھرام 418 415 403.400 150 430 426 4240422 84 محمد احسن امروہی مولوی 95 11 محمد اسحاق.حضرت میر 233 288.234 48 غلام محمدحکیم امرتسری 366 لیلی مبارک احمد.مرزا محمد ( رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم محمد اسماعیل.حضرت میر 54 محمد اکرم خان 385 386 حضرت خاتم الانبیاء (14،13، محمد انور ملک محمد حسین بٹالوی.مولوی 355 96.95.73 محمد حسین قریشی حکیم 18 ، 73 ، 289 46.45 241 355 3630.28.26 24 90 84.76.75.5754 289 113.112.109.93 122 غلام محمد ملک گورنر جنرل 147.139.138.136 387.385 ف فاطمہ حضرت فتح دین منشی فضل الرحمان - مفتی فقیر محمد خان

Page 455

11 محمد شاہ 258 محی الدین ابن عربی 256 نورالدین.حضرت مولانا.حکیم محمد ظفر اللہ خان.حضرت سر مریم صدیقہ.حضرت سیدہ 45 44 تا 61،47، 67، مسولینی 152 ، 194 ، 195 ، 236 ، مسیلمہ کذاب محمد علی بوگرا 332 تا334 | مطعم بن عدی 311 مظفر الدین میاں محمد علی جناح قائداعظم ) 333،317 معاویہؓ.حضرت محمود احمد.حضرت مرزا..105.79.64 153 144 138.122 32 6 208 207.198 154 176 253.234.233.21014 323.299.290.28873 405 402.366.32474 406 381.75 364 302 مصلح موعود 28، 42 تا 46 ، معراج الدین میاں 73 | نولڈ کے 66 67 81 تا 84، 95، موسی علیہ السلام.حضرت نیک محمد خاں غزنوی 152.149 146.137 210208.193.153 295 294 290.289 366.343.342.305 401 387385.367 6.205.90.89 242،222 تا244 ، 338، ہارون الرشید ن 380-379 ہٹلر ہمایوں ناصر نواب.حضرت میر 233 ہمدانی شیخ 93 320 258 81 338 75.74 338 289 نظام الدین اولیاء 309 310 ی نوح علیہ السلام.حضرت رمیاه 244.242.90.89 379.247 یزید يسعياه ا یعقوب بیگ مرزا 416-415-402 280 199 255.254 محمود اللہ شاہ.سید محمود خاں حکیم محمود غزنوی مبارکہ بیگم.حضرت نواب 82

Page 456

آزاد کشمیر آسٹریلیا 1 12 مقامات 351 تا 353، 356، 358، برما 363354، 364، 372، 415، بغداد 351.321 417 418 بلغاريه 281،54،53، بلوچستان 352، 363 انڈونیشیا 194 ،268 ، 294، 351، 356، 359 بنگال 320 ، 357 358 انگلستان 67.53 احمد آباد 333،314193 تا 335 ، 352 بہار ارجنٹائن 268 357 358 ، 363 تا 365 ، بہاولپور افریقہ $119.53 415،386،385 بھوپال 363.54 174.109 391.357 369 $231.230 404 318.317 369.368 207 358.357 268،109،90، بیلجیئم 356،351 360 تا 362 | ایران افغانستان امرتسر امریکہ $255.159 307.268 72 54،53،45، بابل 1 6، 119، 139، 191، ہے ہالی 227،215،194، 251، بخارا 256 تا 258 ، 268، 281، بٹالہ 314، 315، 320، 322، | برازیل 301 351،321،119 پاکستان <45.34.2 140.139.101.54.46 235 232 230 226 338 279 276 269.236 408 296 284 282 281 110 109 310.307 305.297 73.42 322.321.313.311268

Page 457

13 350.329.326.324 368،364،360،359 تا چارسده 370، 376 ملی چ پٹیالہ 199 چنیوٹ پیشاور 305،73، 312 چوہر منڈہ پنجاب 46، 159، چین 194 193 166.165 196، 225، 230 ، 306، حبشہ پنجیری پولینڈ پیرس جاپان جرمنی 369.368 354 حجاز 357 51.6.2.1 385 راولپنڈی 268 | ربوه 51.43.40.22.21.20 271.194 101.99.98.58.52 355 194.119.115.105 269.268 $238.229.225 223 て 270 265 259.250.112 287.286.277.271 383.381.113 337 330.311.304 13 393 375 356 346 388 187 حیدرآباد 166 ،225، 269 تا 397،395، 409، 410، で 215،194، خانیوال 363.351.268 خ 286 | روس 429.424.421 $357.319.109 199،67،17 ، رومانیہ 131،53 ، دہلی 372 357 357.351.319.268 363.358 386 385.324.309 ڈ ز زنجبار جھڈو 196 ڈنگہ 354 78 ، 355 ڈنمارک 357 سین 362 $268.256

Page 458

154.153 $28.20 14 358.357 368، 369، شام 385 شکار ماچھیاں ش 351.301.54 فیروز پور ق 355 | قادیان 137.129.115.42 78 194.168 167.153 b $289.208.197.196 1513.405.317.295 406 ک 361 128.113.90 سرحد سرینگر 81 شیخو پوره شیخوپوره 109 سندھ 110، 165 166، 169، طائف 196.192.185.176 202، 212 ، 223، 224 ، عراق 230، 231، 269، 297، | عرب.79.46.19 297،268،150،129 کراچی 369.355 143.136.127.104 غ 385 166.155.152.146 268، 351، غانا ( گولڈ کوسٹ ) سنگاپور سوئٹزرلینڈ 232.225.224.193 362.360 369.297.269.235 411.370 $319.268 $305.81 364.358.357 334.333.361.301 195 384.225 363.268 سوڈان 418.358.357 59 ف سونگڑہ 354 | فرانس سویڈن 357 سیالکوٹ 286،78، | فلسطين 348.346 431 کنری سیلون 281،54، فلپائن 363 کوئٹہ 363 | فن لینڈ 357 کینیڈا

Page 459

15 گ 202-196.193.192397.388.301 284 225 224.217.212 گجرات 78 ، 354 355 مرا کو 46 205،139،128، نجد 383.381 196 187 187 DO 232.43 431،304،301،268 نصرت آباد 270 | مکہ 13 تا 15 ، نیویارک لائل پور لالیاں لاہور 113 112.90.31 30 18.16.11.10 174 173 151 149 77.73.72.52.46.19 300 284 283.278152.95.86.83.78 225.214.197.194 401،397،388،381 ہالینڈ 238، 259، 260، 261، مکھیانہ 271، 282، 286 تا 288 ، ملایا 324، 355، 363، 364، ملتان 368 369 ملکانه 358.357.351 355 | ہندوستان 90،67، 254، 308 306 281.269 363.54 352 350 324 322 286 381.368.354 317 357 $62.59.25 ی 286،78 | ہنگری 363 177.119.109.96.65 360 227 215 213.191 358.357 281.262.234.233.165.155 72 اختگمری لدھیانہ 187 میلا لندن محمد آباد 192 ،195 نا پیجیریا محمود آباد 193،167 | ناروے مل بینه 30 تا 74،32 ، ناصر آباد <333-326-318.297185.181.176.168283.173.113.112

Page 460

358.357 357 | یونان 16 357 ، 358، 365، 386، یوگوسلاویہ 415

Page 461

88 82 387 316.315 254 17 کتابیات $84.73.72 209 در مشین دعوة الامير مثنوی رومی 77 360 براہین احمدیہ پیغام صلح الف $289.269.237 353.352 الفضل بائبل 257 ٹروتھ بخاری 233

Page 461