Language: UR
حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے خطبات علوم و معارف کا ایک انمول خزانہ ہیں اور پیش گوئی کے الہامی الفاظ ’’وہ علوم ظاہری و باطنی سے پُر کیاجائے گا‘‘ پر شاہدناطق ہیں۔ آپؓ کا دور خلافت نصف صدی سے زیادہ عرصہ پر محیط ہے جو ایک تاریخ ساز دور تھا۔ اس نہایت کامیاب اور طویل دور میں آپؓ نے اپنے خطبات جمعہ کے ذریعہ جماعت کی تعلیم و تربیت میں نہایت اہم کردار ادا کیا۔ سیاسی، سماجی اور مذہبی افقوں پر نمودار ہونےوالے ہر معاملے پر بروقت اور درست رہنمائی عطافرمائی۔ الغرض یہ خطبات جمعہ جماعت احمدیہ کا ایک بہت ہی قیمتی خزانہ اور سرمایہ ہیں۔ جسے فاؤنڈیشن نے یکجا کرکے کتابی شکل دی ہے۔
خطبات مور (خطبات جمعہ) 1953 فرموده سید نا حضرت مرزا بشیرالدین محمود احمد أصلح الموعود خلیفہ ربیع الثانی 34
KHUTBAT-I-MAHMUD by HADRAT MIRZA BASHIR-UD-DIN MAHMUD AHMAD KHALIFATUL MASIH II Published by: Printed by:
بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ پیش لفظ اللہ تعالیٰ کے فضل و احسان سے فضل عمر فاؤنڈیشن کو حضرت مصلح موعود کے خطبات کی چونتیسویں چلد احباب کی خدمت میں پیش کرنے کی سعادت نصیب ہو رہی ہے.الْحَمْدُ لِلَّهِ عَلَى ذَلِک.اس جلد میں 1953 ء کے 44 خطبات جمعہ شامل ہیں.حضرت فضل عمر سلطان البیان کے خطبات علوم و معارف کا انمول خزانہ ہیں اور پیشگوئی کے الہامی الفاظ وہ علومِ ظاہری و باطنی سے پر کیا جائے گا “ پر شاہد ناطق ہیں.حضرت مصلح موعود کا دور خلافت جو کم و بیش 52 سال پر محیط ہے ایک تاریخ ساز دور تھا.اس نہایت کامیاب طویل دور میں حضور کے خطبات نے جماعت کی علمی و روحانی ترقی اور تعلیم وتربیت میں نہایت اہم کردارادا کیا.حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ فرماتے ہیں:.حضرت مصلح موعود کے خطبات آپ کے قریب بیٹھ کر سننے کا موقع ملتا تھا.تمام دنیا کے مسائل کا آپ کے خطبات میں مختلف رنگ میں ذکر آتا چلا جاتا تھا.دین کا بھی ذکر ہوتا اور دنیا کا بھی.پھر ان کے باہمی تعلقات کا ذکر ہوتا تھا.سیاست جہاں مذہب سے ملتی ہے یا جہاں مذہب سے الگ ہوتی ہے غرضیکہ ان سب مسائل کا ذکر ہوتا تھا.چنانچہ قادیان میں یہی جمعہ تھا جس کے نتیجہ میں ہر کس و ناکس ، ہر بڑے چھوٹے اور ہر تعلیم یافتہ و غیر تعلیم یافتہ کی ایک ایسی تربیت ہو رہی تھی جو بنیادی طور پر سب میں قدر مشترک تھی.یعنی پڑھا لکھا یا ان پڑھ، امیریا غریب اس لحاظ سے کوئی فرق نہیں رکھتا تھا کہ بنیادی طور پر احمدیت کی تعلیم اور احمدیت کی تربیت کے علاوہ دنیا کا شعور بھی حاصل ہو جایا کرتا تھا.چنانچہ بہت
سے احمدی طلباء جب مقابلہ کے مختلف امتحانات میں اپنی تعداد کی نسبت زیادہ کامیابی حاصل کرتے تھے تو بہت سے افسر ہمیشہ تعجب سے اس بات کا اظہار کیا کرتے تھے کہ احمدی طلباء میں کیا بات ہے کہ ان کا دماغ زیادہ روشن نظر آتا ہے ان کو عام دنیا کا زیادہ علم ہے.“ خطبات طاہر جلد نمبر 7 صفحہ 10) ہمارا یہ روحانی و علمی ورثہ سلسلہ کے لٹریچر میں بکھرا پڑا تھا اور جماعت کے دوستوں کو اس سے استفادہ کرنا مشکل تھا.فضل عمر فاؤنڈیشن اس جماعتی ضرورت کو پورا کرنے کیلئے ان خطبات کو کتابی شکل میں شائع کر رہی ہے.یہ جواہر پارے اب آپ کے ہاتھوں میں ہیں.ان کی زیادہ سے زیادہ اشاعت سے جہاں ادارہ کے لئے اس کام کو جلد پایہ تکمیل تک پہنچا نا آسان ہوگا وہاں نئی نسل کی تربیت کے لئے بھی یہ بہت مُمد و معاون ہوں گے.اس جلد کی تیاری کے سلسلہ میں جن دوستوں نے ادارہ کی عملی معاونت فرمائی ان میں مکرم عبدالرشید صاحب اٹھوال ، مکرم حبیب اللہ صاحب باجوہ ، مکرم فضل احمد صاحب شاہد، مکرم عبد الشکور صاحب با جوه، مکرم عدیل احمد صاحب گوندل، مکرم ظہور احمد صاحب مقبول ، مربیان سلسله قابل ذکر ہیں.خاکساران سب کا دلی شکریہ ادا کرتا ہے اور دعا گو ہے کہ خدا تعالیٰ ان کے علم وفضل میں برکت عطا فرمائے اور اپنے فضلوں اور رحمتوں سے نوازے.آمین
فہرست مضامین خطبات محمود جلد 34 خطبه نمبر تاریخ بیان فرموده (خطبات جمعہ 1953ء) موضوع خطبه 21 جنوری 1953 ء نئے سال کے متعلق اہم ہدایات 2 جنوری 1953 ء نئے سال میں نئے ارادے، نئی کوشش اور نئی تدبیروں کے ساتھ اپنے پروگرام پر عمل کرو 16 جنوری 1953 ء وقت کی اہمیت اور حالات کی نزاکت کو سمجھو اور سستیوں کو چھوڑ کر اپنی ذمہ واری کو محسوس کرو صفحہ 1 11 19 4 23 جنوری 1953 ء موجودہ وقت میں تحریک جدید میں شامل ہو کر زیادہ سے زیادہ خدمت دین کرو تا خدا تعالیٰ کے سامنے بھی سرخرو ہو جاؤ اور 24 آئندہ نسلیں بھی تمہارا نام عزت سے لیں 30 جنوری 1953 ء روزے انسان کو عبادات میں بڑھانے ،غلطیوں سے بچانے، مشکلات پر قابو پانے اور خدا تعالیٰ کے فضل کو حاصل کرنے میں مدد دیتے ہیں 6 6 فروری 1953 ء سچائی کو اختیار کرو کہ اس کے نتیجہ میں تمہیں دوسری بہت سی نیکیوں کی بھی توفیق مل جائے گی 13 فروری 1953 ء جماعتیں مشورہ کر کے بتائیں کہ انہیں کیا کیا خطرات پیش آسکتے اور ان کا کیا علاج کیا جاسکتا ہے.رکھیں پالآ خر تم ہی کامیاب ہو گے یقین 31 39 41
فہرست مضامین خطبات محمود جلد 34 خطبه نمبر تاریخ بیان فرموده ( خطبات جمعہ 1953ء) موضوع خطبه 1 2 جنوری 1953 ء نئے سال کے متعلق اہم ہدایات 9 جنوری 1953 ء نئے سال میں نئے ارادے، نئی کوشش اور نئی تدبیروں کے ساتھ اپنے پروگرام پر عمل کرو 3 16 جنوری 1953 ء وقت کی اہمیت اور حالات کی نزاکت کو سمجھو اور سُستیوں کو چھوڑ کر اپنی ذمہ واری کو محسوس کرو صفحہ 1 11 19 23 جنوری 1953 ء موجودہ وقت میں تحریک جدید میں شامل ہو کر زیادہ سے زیادہ خدمت دین کرو تا خدا تعالیٰ کے سامنے بھی سرخرو ہو جاؤ اور 24 آئندہ نسلیں بھی تمہارا نام عزت سے لیں 30 جنوری 1953 ء روزے انسان کو عبادات میں بڑھانے ،غلطیوں سے بچانے، مشکلات پر قابو پانے اور خدا تعالیٰ کے فضل کو حاصل کرنے میں مدد دیتے ہیں 6 6 فروری 1953ء سچائی کو اختیار کرو کہ اس کے نتیجہ میں تمہیں دوسری بہت سی نیکیوں کی بھی توفیق مل جائے گی 7 13 فروری 1953 ء جماعتیں مشورہ کر کے بتائیں کہ انہیں کیا کیا خطرات پیش آسکتے اور ان کا کیا علاج کیا جاسکتا ہے.رکھیں بالآخر تم ہی کامیاب ہو گے یقین 31 39 39 41
خطبه نمبر تاریخ بیان فرموده موضوع خطبه 8 20 فروری 1953 ء جو شخص فساد، دنگا اور لڑائی کی تلقین کرتا ہے اس میں یہ جرأت بھی ہونی چاہیے کہ وہ اس کا اقرار کرے 9 27 فروری 1953 ء درس القرآن کی اہمیت نوجوانوں کے اندر قرآن کریم سے دلچسپی اور لگاؤ پیدا صفحہ 46 46 کرنے کے لیے روزانہ ایک رکوع کا درس ہونا چاہیئے.53 10 6 مارچ 1953 ء اگر ہمیں اقلیت قرار دے دیا جائے تو خدا تعالیٰ اکثریت کے دل کھول دے گا اور وہ احمدی ہو جائیں گے اور اس طرح اقلیت اکثریت میں تبدیل ہو جائے گی 11 20 مارچ 1953 ء تمہارا سب سے بڑا عزیز اور دوست خدا تعالیٰ ہے.اس لیے تم اسی کے سامنے جھکو اور اسی سے مدد طلب کرو 12 3 اپریل 1953ء | اگر انسان اپنے ہر کام کے شروع میں سوچ سمجھ کر بِسمِ اللہ پڑھے تو اُس کے دل میں خدا تعالیٰ کی محبت پیدا ہوگی اور غیر معمولی علوم حاصل ہوں گے 13 24 اپریل 1953ء بسم اللہ ہر برکت کی کلید ہے اور اس سے فائدہ اٹھانا ہر مومن کا فرض ہے 14 یکم مئی 1953 ء بسم الله الرَّحْمنِ الرَّحِیمِ پڑھ کر مومن اس بات کا اقرار کرتا ہے کہ ہر کام کا آغاز اور انجام اللہ تعالیٰ ہی کے ہاتھ میں ہے 99 56 65 71 81 91
خطبه نمبر تاریخ بیان فرموده موضوع خطبه 15 8 مئی 1953ء بِسمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِیمِ سے مومن پر خدا تعالیٰ کی عظیم الشان نعمتوں کا انکشاف ہوتا ہے صفحه 99 99 16 22 مئی 1953 ء رمضان کے مبارک ایام سے فائدہ اٹھاؤ اور خدا تعالیٰ کے آگے گریہ وزاری کرو تا اس کی مدد اور نصرت تمہیں حاصل ہو 110 17 29 مئی 1953 ء اللہ تعالیٰ نے جو عبادتیں مقرر فرمائی ہیں اُن کے بغیر انسان کی روحانی زندگی کبھی قائم نہیں رہ سکتی 18 5 جون 1953 ء اپنے اعمال سے دنیا پر واضح کر دو کہ تم دوسروں سے زیادہ اسلام کی تعلیم پر عمل کرنے اور اعلیٰ اخلاق ظاہر کرنے والے ہو 19 12 جون 1953 ء تم اپنے اور اپنے ہمسائیوں، دوستوں اور اولادوں کے اندر غور کرنے کی عادت پیدا کرو.قومی ترقی کے لیے یہ انتہائی ضروری ہے.20 19 جون 1953 ء اگر تم اپنے ان اعمال کو درست کر لو جو دوسروں کو نظر آتے ہیں تو تمہارے باطنی اعمال آپ ہی آپ ہو جائیں گے 1 26 جون 1953 ء مذہب کی اصل غرض اعمال کی اصلاح ہے اور یہ اصلاح کوشش اور محنت کے بغیر کبھی نہیں ہو سکتی 22 جولائی 1953 ء جس کام کے کرنے کا خدا تعالیٰ ارادہ کر چکا ہو اُس کو دنیا کی کوئی طاقت نہیں روک سکتی 116 126 138 147 155 162
خطبه نمبر تاریخ بیان فرموده موضوع خطبه 23 10 جولائی 1953 ء بیرونی ممالک میں مساجد کی تعمیر اسلام کی تبلیغ کا ایک نہایت مؤثر اور کامیاب ذریعہ ہے صفحه 172 24 17 جولائی 1953 ء جو شخص اللہ تعالٰی اور اُس کے رسولوں پر سنجیدگی سے ایمان نہیں لاتا اُس کے سارے کام بے حقیقت ہو جاتے ہیں 184 25 24 جولائی 1953 ء اپنے نمونہ اور عمل کو ایسا پاکیزہ بناؤ کہ تم اپنی ذات میں مجسم تبلیغ بن جاؤ.26 31 جولائی 1953 ء خدائی جماعتوں میں شامل ہونے والوں کو ہر وقت اپنے اعمال کا محاسبہ کرتے رہنا چاہیے.27 7 اگست 1953 ء موجودہ ایام میں تمہیں خصوصیت کے ساتھ سلسلہ کی حفاظت اور عظمت کے لیے دعائیں کرنی چاہیں 28 14 اگست 1953ء جب قرآن کریم کہتا ہے کہ حزب اللہ غالب ہوگا تو ہم کس طرح اس کے خلاف کہہ سکتے ہیں 29 21 اگست 1953ء جمعہ اور عیدین کی نمازیں تحرب الہی حاصل کرنے کے علاوہ قومی مشکلات کو جاننے اور انہیں دُور کرنے کا بھی ایک اعلیٰ ذریعہ ہیں 30 28 اگست 1953ء اپنی نمازوں کو اس طرح سنوار کر ادا کرو کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے تمہاری تائید میں نشان ظاہر ہونے لگیں 31 18 ستمبر 1953 ء حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر ایمان لانے کے بعد یہ ضروری ہے کہ آپ تقوی ، دیانت داری اور دوسرے اخلاق میں دوسروں کے لیے نمونہ بنیں 192 224 230 234 239 248 259
صفحہ 263 274 283 291 298 305 313 319 خطبه نمبر تاریخ بیان فرموده موضوع خطبه 32 25 ستمبر 1953 ء قرآن کریم کو سمجھنا اور اس پر عمل کرنا ہی اسلام ہے جماعتیں اس بات کا انتظام کریں کہ ہر احمدی قرآن مجید کا ترجمہ سیکھے اور اس پر عمل کرے 33 2 اکتوبر 1953 ء اگر تم قرآن کریم پڑھ کر اس سے فائدہ اٹھاتے ہو تو تم سے بڑھ کر خوش قسمت اور کوئی نہیں 9 اکتوبر 1953 ء دنیا کی اصلاح اور اسلام کی تعلیم کو پھر سے رائج کرنے کا کام اللہ تعالیٰ نے تمہارے سپرد کیا ہے 35 16 اکتوبر 1953ء ہمارے ملک میں بعض ایسے فنون ہیں کہ اگر انہیں اب بھی استعمال میں لایا جائے تو ہمارا ملک ترقی کر سکتا ہے 36 23 اکتوبر 1953 ء ان ذرائع کو اختیار کرنے کی کوشش کرو جن سے اللہ تعالیٰ کی اور بنی نوع انسان کی محبت حاصل ہوتی ہے 37 30 اکتوبر 1953ء ربوہ وہ مقام ہے جہاں پر تم محض خدا تعالیٰ کی خاطر ہجرت کر کے آباد ہوئے ہو 38 13 نومبر 1953ء دنیا میں وہی قومیں ترقی کیا کرتی ہیں جو باتوں سے زیادہ کام کی طرف توجہ دیتی ہیں.دوسروں کو نصیحت کرنے سے پہلے خود عمل کر کے دکھلاؤ 39 20 نومبر 1953 ء ایمان اور تہذیب در حقیقت دونوں لازم و ملزوم ہیں.مومن ہمیشہ مہذب ہوتا ہے وہ ہر کام کو مقررہ طریق اور مقرره قانون کے مطابق سرانجام دیتا ہے
خطبہ نمبر تاریخ بیان فرموده موضوع خطبه 40 27 نومبر 1953 ء تم خوشی اور بشاشت سے آگے بڑھو اور تحریک جدید کے چندہ میں بڑھ چڑھ کر حصہ لو تا دنیا میں اشاعت اسلام ہو سکے 41 4 دسمبر 1953 ء جماعت کے ہر فرد کو یہ محسوس کرنا چاہیے کہ اس کی زندگی کے تمام کاموں میں سے سب سے اہم کام تبلیغ و اشاعت اسلام ہے 42 11 دسمبر 1953 ء جلسہ سالانہ پر احباب کثرت کے ساتھ آئیں اور یہاں آکر اپنا سارا وقت دین کے لیے خرچ کریں صفحہ 326 341 352 43 18 دسمبر 1953ء ہمیشہ دوسروں کی خدمت کرنے کی کوشش کرتے رہو یہی وہ چیزیں ہیں جن سے آپس میں محبت قائم ہوتی ہے 363 44 25 دسمبر 1953 ء جلسہ سالانہ کے سلسلہ میں بعض ضروری اور اہم ہدایات 375
$1953 1 1 خطبات محمود نئے سال کے متعلق اہم ہدایات فرموده 2 جنوری 1953ء بمقام ربوہ ) تشہد ، تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا.آج 1953ء کا پہلا جمعہ ہے.1952ء جماعت احمدیہ کی تاریخ کے اہم سالوں میں سے ایک ہے جس میں جماعت نے مظلومیت کا کمال نمونہ دکھایا اور اس کے مخالفوں نے خصوصاً احراریوں نے ظلم کا کمال نمونہ دکھایا.مگر وہ سال بھی گزر گیا.مظالم کی بہت سی روئیں جو اٹھی تھیں وہ بھی گزر گئیں.مظلومیت کی جو حالت جماعت پر آئی تھی وہ بھی گزرگئی.جماعت احمدیہ بھی دنیا میں اُسی طرح موجود ہے جس طرح پہلے موجود تھی.احرار کا گروہ بھی کسی نہ کسی شکل میں دنیا میں موجود ہے.لیکن اب نہ تو احرار کی وہ حالت ہے جس حالت میں وہ 1952ء کے وسط میں تھے یعنی ان کی طاقت مختلف لحاظ سے گر چکی ہے اور نہ احمدی اُس حالت میں ہیں جو 1952 ء کے وسط میں ان کی تھی.ان کی طاقت کئی لحاظ سے بڑھ چکی ہے.پس 1952 ء کا سال جماعت احمدیہ کے لیے مظالم کا سال تھا.1952ء کا سال جماعت احمدیہ کے لیے تختیوں کا سال تھا.لیکن خدا تعالیٰ کے فضل بھی ہم نے 1952ء میں جس طرح دیکھے ہیں وہ دوسری قوموں کو نصیب نہیں ہوئے.وسط 1952ء میں جماعت احمدیہ پر ایسا زمانہ بھی آیا جب عام طور پر یہ سمجھ لیا گیا کہ یہ جماعت جلد ختم کر دی جائے گئی.اس مسجد میں اور اسی جگہ کھڑے ہو کر خطبہ جمعہ پڑھتے ہو.
$1953 2 خطبات محمود میں نے کہا تھا کہ تم میں سے بہت سے لوگ اس مخالفت کی وجہ سے ڈر رہے ہیں، کانپ رہے ہیں لیکن میں تمہیں یہ بتا دینا چاہتا ہوں کہ اب سختیوں کے زمانے جارہے ہیں اور اب یہ مخالفت کمزور پڑتی جائے گی.میرے خطبات الفضل میں سے نکال کر دیکھ لو وہاں میرے یہ الفاظ موجود ہیں.چنانچہ چند ہفتہ کے اندر اندر خدا تعالیٰ نے ایسے سامان پیدا کر دیئے کہ مخالفت کی وہ رو کمزور پڑ گئی.میں یہ نہیں کہتا کہ مخالفت کی اب کوئی کھڑ کی کھلی نہیں.ابھی مخالفت کی کئی کھڑکیاں ہیں جو کھلی ہیں.دشمن کے کئی حملے ہیں جو ابھی باقی ہیں.لیکن سوال تو موجودہ وقت کی حالت کا ہوتا ہے.ایک شخص سمندر میں گو دتا ہے اور پانی کی ایک لہر اُسے ڈھانپ لیتی ہے تو اُسے اس چیز کی ضرورت نہیں ہوتی ہے کہ پانی کی کوئی اور اہر بھی ہے یا نہیں.اُس کی غرض صرف اُس لہر سے ہوتی ہے جس نے اسے ڈھانپ لیا ہے.پھر اور اہر آتی ہے وہ ہٹ جاتی ہے تو اور ہر آتی ہے.پس بجائے اس کے کہ میں کہوں کہ مخالفت کی کوئی رو باقی نہ رہے میں یہ کہوں گا کہ ابھی مخالفت کی اور روئیں باقی ہیں.میری زبان پر یہ لفظ آتے ہی آتے رک گئے ہیں کہ خدا کرے اب یہ مخالفت بالکل ختم ہو جائے.کیونکہ جیسا کہ میں نے پہلے بتادیا تھا جماعت کو تھیٹروں کی ضرورت ہے.ہماری اصل غرض تو اصلاح سے ہے.اگر جماعت کی اصلاح کی تھیٹروں سے ہو تو کبھی کوئی شخص یہ نہیں کہے گا کہ جماعت کو چھیڑے نہ لگیں.جب جماعت اس حد تک پہنچ جائے گی کہ اس کی اصلاح کے لیے تھیٹروں کی ضرورت نہ ہو تو اُس وقت جماعت کے ذمہ دار لوگوں کا حق ہے کہ وہ دعا کریں کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے جماعت کو اور تھپیڑے نہ لگیں.لیکن جب جماعت کی بیداری کی یہی ایک صورت ہو کہ اسے تھیڑے لگیں تو کوئی خیر خواہ ایسا نہیں ہوگا جو یہ دعا کرے کہ جماعت کو آئندہ تھیڑے نہ لگیں.وہ اس چیز کے لیے خدا تعالیٰ سے دعا کرے گا کہ خدا تعالیٰ شریروں کے شر سے محفوظ رکھے، وہ اپنی کی شرارتوں سے باز آجائیں.باقی یہ کہ جماعت آئندہ تھیڑوں سے بچ جائے اس قسم کی دعائیں کوئی خیر خواہ نہیں کر سکتا.یہ دعا اُس وقت ہو سکتی ہے جب یہ یقین ہو جائے کہ آئندہ روحانیت میں ترقی ہے کرنے کے لیے کسی تھیٹڑے کی ضرورت نہیں.ورنہ خیر خواہ سے خیر خواہ انسان منہ سے بے شک کہے گا کہ خدایا! جماعت خطرات سے محفوظ رہے.لیکن دل میں وہ ضرور یہ کہے گا کہ خدایا ! تھوڑ.سے تھپیڑے اور ، خدایا! تھوڑے سے اور تا جماعت کی درستی ہو جائے.
خطبات محمود 3 $1953 اب میں نئے سال کے متعلق بعض باتیں کہنی چاہتا ہوں.میں نے جلسہ سالانہ کے موقع پر یہ اعلان کیا تھا کہ 1953 ء کے شروع میں سات روزے رکھے جائیں اور یہ روزے ہر پیر کے روز ر کھے جائیں.اس طرح پہلا روزہ 5 جنوری کو ہوگا.آج جمعہ ہے اور 2 جنوری ہے.کل ہفتہ ہے اور پرسوں اتوار.اترسوں سوموار ہوگا اور اُسی دن پہلا روزہ ہوگا.ہر احمدی جو تندرست ہے اور طاقتور ہے وہ یہ سات روزے رکھے اور دعا کرے کہ خدا تعالیٰ جماعت کو ان فتنوں کے ضرر سے بچائے رکھے، اس کی ترقی کے سامان پیدا کرے.اور یا ظالموں کے ہاتھ کو روک لے.یا ہمیں اُس صبر کی تو فیق بخشے جو مومن کا حصہ ہوتا ہے.اور ہماری کوششوں کے وہ ثمرات پیدا کرے جو قرآن کریم میں بیان کئے گئے ہیں.اور یہ روزے 12,5, 19, 26 جنوری اور 2, 116,9 فروری کو ہوں گے.جن کے رمضان کے روزوں سے کچھ باقی ہوں وہ حسب طریق سابق اِن روزوں کو ان بقیہ روزوں کی جگہ رکھ سکتے ہیں باقی جماعت بطور نفل کے رکھے.الفضل میں آج اعلان شائع ہوا ہے لیکن غلطی سے 1, 16, 19 فروری شائع ہو گیا ہے.مگر یہ کتابت کی غلطی ہے.حساباً 19 فروری کو سوموار نہیں آتا.یہ دراصل 9 فروری ہے جو 19 فروری بن گئی.لیکن تاہم کئی سادہ لوح ایسے ہوتے ہیں جو صرف الفاظ کو دیکھتے ہیں اُن پر غور نہیں کرتے پس یہ 19 فروری نہیں بلکہ 9 فروری ہے.پس ایک تو میں یہ نصیحت کرتا ہوں کہ جماعت کے دوست یہ سات نفلی روزے رکھیں اور جماعتوں کو چاہیے کہ وہ دوستوں کو ہر جگہ ان روزوں کے متعلق یاددہانی کراتی رہیں.نفلی روزے سفر میں بھی جائز ہیں اس لیے جن کو طاقت ہو ، جو لوگ تندرست ہوں وہ سفر میں بھی یہ روزے رکھیں.بیمار یہ روزے نہ رکھیں کیونکہ بیمار پر کوئی روزہ نہیں.خدا تعالیٰ نے اپنے روزے بھی اُن کے لیے معاف کر دیئے ہیں تو ہم کون ہیں جو انہیں نفلی روزے رکھنے پر مجبور کر ہیں.پس جو بیمار اور بوڑھے ہیں اور روزے نہیں رکھ سکتے اُن پر نہ رمضان کے روزے ہیں اور نہ نفلی روزے.لیکن جو لوگ طاقتور ہیں ، تندرست ہیں اُن کے لیے سفر میں رمضان کے روزے جائز نہیں نفلی روزے جائز ہیں.کیونکہ احادیث سے یہ ثابت ہے کہ جب مسافر کے لیے فرضی روزے منع ہو گئے تو بھی بعض صحابہ شفر اور لڑائیوں میں نفلی روزے رکھ لیتے تھے.ان ایام کو خصوصیت کے ساتھ دعاؤں میں
$1953 4 خطبات محمود گزار و اور اللہ تعالیٰ سے مدد مانگو.ہم یقیناً جانتے ہیں کہ ہمارے سب کام خدا تعالیٰ ہی کرتا ہے.وہ تغیر جو ہمیں نظر آتا ہے اس میں خدا تعالیٰ کا ہاتھ نمایاں نظر آتا ہے.خدا تعالیٰ کے اس ہاتھ کو دیکھتے ہوئے تر ڈو اور رشک کرنا تھی نہایت خطر ناک بیماری کی علامت ہے.جب سورج نکلا ہوا ہو تو صرف وہی لوگ اسے نہیں دیکھتے تھے جن کی بینائی جاتی رہی ہو.اسی طرح عقلمند انسان خدا تعالیٰ کے ہاتھ کو دیکھنے کے بعد شک اور تر ڈر میں نہیں رہتا.یہی وہ امتیاز ہے جو ہماری جماعت اور دوسری قوموں میں پایا جاتا ہے.ہماری جماعت نے خدا تعالیٰ کے تازہ تازہ نشانات دیکھے ہیں.لیکن دوسری قوموں کو خدا تعالیٰ کے نشانات دیکھے بہت دیر ہو چکی ہے.وہ ظاہری طور پر تو خدا تعالیٰ کی قدرت کی قائل ہیں لیکن دل سے اس کی قائل نہیں.وہ دل میں یہ بجھتی ہیں کہ اگر چہ خدا تعالیٰ کا وجود ہے لیکن اب وہ بریکار بیٹھا ہے اسے کسی کام میں دخل حاصل نہیں.حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ نہ وہ پہلے بیکار تھا اور نہ اب بیکار ہے.وہ کبھی قدرت عامہ سے کام چلاتا ہے اور کبھی قدرت خاصہ سے کام لیتا ہے.مثلاً نالے ہیں دریا ہیں.ان میں ہر وقت پانی بہتا رہتا ہے لیکن ان دریاؤں اور نالوں کی وجہ سے یہ نہیں ہوتا کہ بارش نہ ہو.بارش بھی ہوتی ہے اور نالے اور دریا بھی بہتے ہیں.دریاؤں اور نالوں میں پانی چلتا ہے تو یہ اس کی قدرت عامہ کا اظہار ہوتا ہے.اور بارش ہوتی ہے تو یہ اُس کی قدرتِ خاصہ کی وجہ سے ہوتا ہے.اور ظاہر ہے کہ بارش کا فیضان عام ہے دریاؤں کا فیضان عام نہیں.بارش ہر ذرہ ذرہ کو سیراب کر دیتی ہے دریاؤں کے ذریعہ سے ہر ذرہ ذرہ سیراب نہیں ہوتا.لیکن یہ ضرور ہے کہ بارش کبھی کبھی آتی ہے اور ا دریا اور نالے ہر وقت بہتے رہتے ہیں.دوسری چیز جو نہایت ضروری ہے وہ یہ ہے کہ ہم نے اس سال جماعت کے مختلف گروہوں کی اقتصادی حالت کو درست کرنے کے لیے غور و فکر کرنا ہے.میں نے پچھلے سال بھی ہے اقتصادی حالت کو درست کرنے کے متعلق ہدایات دی تھیں.لیکن افسوس ہے کہ نظارت امور عامہ نے اس بارہ میں کوئی قدم نہیں اٹھایا.میں نے خطبات جمعہ میں اس بات کا ذکر کیا تھا.لیکن ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ناظر صاحب امور عامہ یا تو نمازوں میں نہیں آتے اور اگر آتے ہیں تو خطبات میں سوئے رہتے ہیں.کیونکہ اگر وہ مسجد میں آتے اور خطبات سنتے تو وہ اس بارہ میں کوئی نہ کوئی
$1953 5 خطبات محمود قدم تو ضرور اٹھاتے.ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یا تو نماز جمعہ اُن کے لیے ضروری نہیں اور یا وہ مسجد میں آتے ہیں تو ان پر نیند غالب آجاتی ہے اور خطیب کے خطبہ کا انہیں پتا نہیں لگتا.یونہی مسجد میں چلے آئے اور واپس چلے گئے.لیکن اس دفعہ انہیں سونے نہیں دیا جائے گا ، ان کی نیند کو دور کرنے کے جتنے بھی علاج ہیں وہ کئے جائیں گے.انہیں چاہیے تھا کہ وہ فوراً جماعتوں کو منظم کرتے ، جماعت کے احباب سے تبادلہ خیالات کرتے اور کمیٹیاں بنانے کا کام کرتے لیکن افسوس کہ انہوں نے اس کی طرف کوئی توجہ نہیں کی.انہیں فورا کام شروع کر دینا چاہیے.وہ یہ خیال نہ کر لیں کہ ایک ماہ تک جلسہ کی تھکان دور ہوگی ، ایک ماہ سوچنے میں لگ جائے گا، ایک ماہ کسی نتیجہ پر پہنچنے میں لگ جائے گا ، ایک ماہ جماعتوں کو لکھنے میں لگ جائے گا ، ایک ماہ کوئی جواب آنے میں لگ جائے گا ، اس کے بعد کمیٹیوں کے متعلق غور کرنے میں ایک ماہ لگ جائے گا.چھ سات ماہ گزرنے کے بعد وہ یہ خیال کرلیں گے کہ اب تو سال ختم ہو گیا ہے اب اگلے سال کام کریں گے.اب تک ان کا یہی طریق رہا ہے.لیکن یہ طریق نہایت ناجائز ہے اور ایسا کرنا جماعت سے غداری کرنا ہے.کوئی مومن ایسا کی کام نہیں کر سکتا.اگر ایسا ہو تو کوئی قوم ترقی نہیں کر سکتی.پس ناظر صاحب امور عامہ ابھی سے کام کی شروع کر دیں.ان کا فرض تھا کہ وہ یکم جنوری سے کام شروع کر دیتے لیکن انہوں نے ابھی تک کام شروع نہیں کیا.وہ اس خطبہ کے بعد یہ کام فوراً شروع کر دیں.ہم نے اس اعلان کے مطابق اس سال زمینداروں میں تنظیم پیدا کرنی اور ان کی اقتصادی حالت کو درست کرنا ہے.ہم نے اس کی سال عام پیشہ وروں یعنی لوہار، نجار ، معمار وغیرہ میں تنظیم پیدا کرنی اور ان کی اقتصادی حالت کی کو درست کرنا ہے.ہم نے اس سال فنکار پیشہ وروں یعنی ڈاکٹروں، وکیلوں وغیرہ کی تنظیم کرنی اور ان کی اقتصادی حالت کو درست کرنا ہے.ہم نے اس سال تاجروں کی تنظیم کرنی اور ان کی اقتصادی حالت کو درست کرنے کے متعلق غور و فکر کرنا ہے.ہم نے اس سال طالب علموں کی تنظیم کرنی ہے.گویا اس سال ہم نے ان پانچوں گروہوں کو زیادہ سے زیادہ ترقی دینی ہے، ان کے کام میں زیادہ سے زیادہ وسعت پیدا کرنی ہے اور انہیں جماعتی رنگ میں مفید بنانے کے متعلق تجاویز سوچنی ہیں اور ان پر عمل کرنا ہے.تیسری بات جس پر ہم نے اس سال زور دینا ہے وہ تعلق باللہ ہے.اور تعلق باللہ تربیت صحیحہ
$1953 6 خطبات محمود کے ساتھ تعلق رکھتا ہے.کیونکہ حقیقی تربیت سے ہی خدا تعالیٰ ملتا ہے.سو ہم نے اس سال خصوصیت کے ساتھ تربیت کی طرف توجہ کرنی ہے.میں پہلے مقامی انجمنوں کو اس طرف توجہ دلاتا ہوں.مقامی طور پر ہماری کوئی تنظیم نہیں.ہمیں اصلاح احوال کی طرف توجہ کرنی چاہیے.یا درکھو اصلاح دو طرح ہو سکتی ہے.اصلاح یا تو محبت کے ذریعہ ہوسکتی ہے اور یا سختی کے ساتھ ہو سکتی ہے.مجھے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ مقامی کارکنوں کی ان دونوں ذرائع کی طرف توجہ نہیں.اگر یہ چیز ثابت ہو جائے کہ یہاں کوئی جھوٹ بولنے والا نہیں، یہاں کوئی چوری کرنے والا نہیں ، یہاں کوئی ھے سودے میں ملاوٹ کرنے والا نہیں ، یہاں کوئی مہنگے داموں سودا بیچنے والا نہیں.تب تو میں مان لوں گا کہ یہاں کے کارکنوں کو جماعت کی تربیت کرنے کی طرف توجہ کرنے کی ضرورت نہیں ، ان کا یہاں کوئی کام نہیں.لیکن اگر ربوہ میں بھی ایسے لوگ موجود ہیں جو جھوٹ بول لیتے ہیں ، اگر ربوہ میں بھی ایسے لوگ موجود ہیں جو چوری کر لیتے ہیں، اگر ربوہ میں بھی ایسے لوگ موجود ہیں جو نی سودے میں ملاوٹ کر لیتے ہیں، اگر ربوہ میں بھی ایسے تاجر موجود ہیں جو امور عامہ سے ایک بھاؤ کا فیصلہ کرتے ہیں اور بیچتے کسی اور بھاؤ پر ہیں.یا وہ امور عامہ سے کہتے ہیں ہم اس بھاؤ پر سُوکھی لکڑی بچیں گے لیکن وہ بیچتے گیلی لکڑی ہیں.نظارت امور عامہ دودھ کا جو بھاؤ مقرر کرتی ہے وہ تسلیم کرتے ہیں اور اُسی بھاؤ پر دودھ بیچنے کا وعدہ کرتے ہیں لیکن بیچتے کسی اور بھاؤ پر ہیں.اگر ایسے لوگ ربوہ میں موجود ہیں تو یقیناً مقامی انجمن کے کارکنوں کو اُن کی تربیت کی ضرورت ہے.کیا یہ لوگ ان کے لیے خدا ہیں کہ وہ ان کے خلاف کوئی کا رروائی نہیں کر سکتے ؟ اگر ایسے لوگ یہاں سے چلے جائیں تو ہمیں کونسا گھانا پڑ جائے گا.اور اگر ایسے لوگ یہاں آجا ئیں تو کونسا ہمیں نفع ہوگا.یہ لوگ پہلے سے موجود تھے.پھر بھی خدا تعالیٰ نے سلسلہ احمدیہ کو قائم کیا.اس سے ثابت ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ یہ چاہتا ہے کہ ایسے لوگ موجود نہ رہیں.اگر وہ چاہتا کہ ایسے لوگ موجود ہیں تو ی اسے ایک الگ سلسلہ بنانے کی کیا ضرورت تھی.ہم پر اگر کوئی شخص یہ سوال کرتا ہے کہ الگ جماعت بنانے کی کیا ضرورت پیش آئی ؟ تو ہم یہ جواب دیتے ہیں کہ خدا تعالیٰ ایک خالص جماعت بنانا چاہتا تھا.عوام ناخالص تھے اس لیے خدا تعالیٰ نے خالصوں کو الگ کر لیا.اگر ہم نے جماعت سے ناخالصوں کو نہیں نکالنا تھا تو خدا تعالیٰ کو یہ تدبیر کرنے کی کیا ضرورت تھی؟ اُس نے اس جماعت کو
$1953 7 خطبات محمود علیحدہ کھڑا کر کے دنیا میں کیوں فتنہ پیدا کیا ؟ اللہ تعالیٰ کی سکیم یہ تھی کہ خالصوں کو الگ کیا جائے اور یہ سکیم دو طرح سے جاری ہو سکتی تھی.یا تو ناخالصوں میں سے خالصوں کو علیحدہ کیا جاتا.اور یا خالصوں میں سے ناخالصوں کو علیحدہ کیا جاتا.خدا تعالیٰ نے اس سکیم کو جاری کیا اور اس نے ناخالصوں میں سے خالصوں کو علیحدہ کر کے ایک جماعت بنادی.اب اگر اس جماعت میں ناخالص مل گئے ہیں تو ہمیں دوسرے طریق پر عمل کرنا چاہیے یعنی خالصوں میں سے ناخالصوں کو علیحدہ کرنا چاہیے.اس کے بغیر ہمارے لئے کوئی ای چارہ نہیں.لیکن کارکن اس طرف توجہ نہیں کرتے.وہ سمجھتے ہیں کہ اگر خالصوں میں کچھ لوگ نا خالص مل گئے ہیں تو کوئی حرج نہیں.دنیا میں اگر اخلاق بگڑتے ہیں ، اگر تقوی بگڑتا ہے تو ان کے کارکنوں کا کیا نقصان ہے.نقصان تو خدا تعالیٰ کا ہے جس نے دنیا میں اپنا مامور بھیجا اور فتنوں کا سامان کیا تا خالص لوگ الگ ہو جائیں.اگر اُس نے پہلے یہ تدبیر اختیار کی تھی تو اب بھی وہ خالصوں میں سے ناخالصوں کو الگ کرے گا.تم چودھری کون ہو؟ اگر یہ خدا تعالیٰ کا سلسلہ ہے تو (اگر یہ الفاظ کی خدا تعالیٰ کے لیے استعمال کرنے درست ہوتے تو میں کہتا کہ ) وہ اپنی جان جوکھوں میں ڈال کر بھی اس کی کو پاک وصاف کرے گا.تم لوگ خدا تعالیٰ کے قائم مقام بن گئے ہو.تمہارا کام تھا کہ تم تربیت کی طرف توجہ کرتے لیکن تم نے اسے تباہ کر دیا اور خالص اور نا خالص مخلوط ہو گئے تھے.تو یا خالصوں کو ناخالصوں سے علیحدہ کر دینا چاہیے تھا اور یا نا خالصوں کو خالصوں سے علیحدہ کر دینا چاہیے تھا.پہلے چونکہ ناخالص زیادہ تھے اس لیے اللہ تعالیٰ نے خالصوں کو ناخالصوں سے علیحدہ کر لیا.اب چونکہ خالص زیادہ ہیں اس لیے ناخالصوں کو خالصوں سے علیحدہ کرنا چاہیے.کیونکہ زیادہ چیز میں سے تھوڑی چیز کو نکالا جاتا ہے.تھوڑی چیز میں سے زیادہ چیز کو نہیں نکالا جاتا.فرض کرو ایک ہزار من مٹی میں ایک من ماش مل جائیں تو ایک من ماش کو ہزار من مٹی سے علیحدہ کیا جائے گا.لیکن اگر ایک من ماش میں ایک پاؤ مٹی مل گئی ہو تو ہم ماش میں سے مٹی کو نکالیں گے.کیونکہ مٹی تھوڑی ہے اور ماش زیادہ ہیں.اسی طرح جب ناخالص زیادہ ہوں اور خالص کم ، تو ہم خالصوں کو ناخالصوں سے الگ کریں گے.اور اگر خالص زیادہ ہوں اور نا خالص کم ، تو ہم ایسی تدبیر اختیار کریں گے کہ نا خالص، خالصوں سے الگ ہو جائیں.یہ اتنی موٹی بات ہے کہ اسے ہر ایک شخص سمجھ سکتا.ہے.
$1953 8 خطبات محمود لیکن تم لوگ چودھراہٹ سنبھال لیتے ہو.تم خدا کے نام سے عہدے لے لیتے ہو.اور پھر اُسی کی دشمنی کرتے ہو.جماعت کی تربیت کا طریق یہی ہے کہ پہلے محبت سے سمجھایا جائے.اور اگر کوئی محبت سے نہ سمجھے تو اس پر سختی کی جائے اور اسے باہر نکال دیا جائے.چونکہ ایک عرصہ تک خدا تعالیٰ بھی تو بہ کو قبول کرتا ہے اس لیے اگر کوئی شخص تو بہ کرے تو تمہیں بھی اُس کی تو بہ مان لینی چاہیے.لیکن اُس سے تو بہ ضرور کرانی چاہیے، بے تو بہ نہیں چھوڑ نا چاہیے.پس اگر کوئی شخص تو بہ کرتا ہے تو اُس کی کی تو بہ مان لو.لیکن اُس سے لکھوا لو کہ میں آئندہ ایسی غلطی نہیں کروں گا.اور اگر وہ دوبارہ یہی غلطی کی کرتا ہے اور تو بہ کرتا ہے تو اُس کی تو بہ مان لو.لیکن اگر وہ تیسری بار وہی غلطی کرتا ہے تو اُسے کہو خدا تعالیٰ تو بے انتہا تو یہ قبول کرنے والا ہے لیکن ہم انسان ہیں.تم نے دودفعہ غلطی کی اور پھر تو بہ کی تو ہم نے تمہاری تو بہ مان لی.لیکن چونکہ تم غلطی کرنے کے عادی ہو اس لیے ہم آئندہ تمہاری تو بہ نہیں مانیں گے.تمہارا معاملہ خدا تعالیٰ کے ساتھ ہے.اس طرح لوگ اپنی اصلاح کریں گے.پھر مجرموں کو یہ بھی عادت پڑی ہے کہ اُن کی جُرم کرنے کی عادت کوٹ آتی ہے.گورنمنٹ ایسے لوگوں کے نام لکھ لیتی ہے تاوہ دیکھیں کہ انہیں اس مرض کا دوبارہ دورہ تو نہیں ہوتا.اگر انہیں اس مرض کا دوبارہ دورہ ہو جائے تو وہ دوبارہ ان کی اصلاح کی کوشش کرتے ہیں.اس طرح وہ اپنی اصلاح کر لیتے ہیں.یہاں تک کہ بعض تو بہ کرنے والے ایسے بھی ہوتے ہیں جو غیر مجرموں سے نیکی میں بڑھ جاتے ہیں.صحابہ شمارے کے سارے تائب تھے.تم اُن کا ایمان دیکھو اور پھر اُن لوگوں کا ایمان دیکھو جو مسلمانوں کے گھروں میں پیدا ہو کر مسلمان کہلائے تو تمہیں معلوم ہو جائے گا کہ تائب ، غیر مجرموں سے ایمان میں زیادہ تھے.کیونکہ غیر مجرموں کا ایمان نسبی تھا اور تائب ہونے والوں کا ایمان کسی تھا.یہی طریق خدا تعالیٰ سے محبت پیدا کرانے کا ہے.پہلے لوگوں کو ی شرمندہ کیا جائے کہ چند پیسوں کی خاطر تم خدا تعالیٰ کو چھوڑ رہے ہو اور اگر وہ محبت کے ساتھ سمجھانے کی کے بعد بھی اپنی اصلاح نہیں کرتے تو اُن پر سختی کی جائے.خالی پکڑ دھکڑ جاری ہو جائے تو کبھی تزکیہ نفس کی طرف توجہ نہیں ہوگی.لیکن اگر پہلے محبت سے سمجھایا جائے اور اگر پھر بھی ضرورت ہو تو ی سختی کی جائے تو اعمال اور خیالات دونوں درست ہو جائیں گے.یہ چار پانچ چیزیں ہیں جن کی
$1953 9 خطبات محمود طرف 1953ء میں ہم نے خصوصیت کے ساتھ توجہ کرنی ہے.پھر ان سب سے مقدم تبلیغ ہے.حکومت نے اب اعلان کیا ہے کہ کوئی ملازم تبلیغ کرے.اس لیے اب تم ہر ایک افسر کے پاس جاؤ اور اُسے تبلیغ کرو.پہلے تو تمہیں یہ شبہ تھا کہ شاید تمہارے ملازم بھائی نے اُسے تبلیغ کی ہو.لیکن اب تو گورنمنٹ نے یہ اعلان کر دیا ہے کہ ملازم اپنے نائب یا تعلق رکھنے والے کو تبلیغ نہ کرے.اب تم غیر ملازم افسروں اور دوسرے کارکنوں کو اتنی تبلیغ کرو کہ وہ لوگ گورنمنٹ کی منتیں کریں کہ یہ لوگ ہمارا پیچھا نہیں چھوڑتے تم اس قانون کو کہ کوئی ملازم اپنے سے تعلق رکھنے والے لوگوں میں خیالات کی اشاعت نہ کرے، واپس لے لو.جہاں تک اثر کا تعلق ہے صاحب اثر لوگوں کو اس سے فائدہ اٹھانا چاہیے اور ہر شخص کو تبلیغ کرنی اثر چاہیے.اب تو یہ ہورہا ہے کہ ایک احمدی دوست پر اس لیے مقدمہ چلایا جا رہا ہے کہ اس نے اپنے افسر سے ایک احمدی مبلغ کو ملایا ہے حالانکہ چاہیے یہ تھا کہ بجائے اس ماتحت پر مقدمہ چلانے کے کی اس زنخ 1 افسر پر مقدمہ چلایا جاتا کہ وہ افسر ہوتے ہوئے اپنے ماتحت سے کیوں دب گیا.قانون تو یہ تھا کہ افسر اپنے ماتحت پر نا جائز دباؤ ڈال کر اپنے خیالات کی تبلیغ نہ کرے.اب اگر کوئی افسر ماتحت کا دباؤ قبول کرتا ہے تو وہ افسر اس قابل ہی نہیں کہ اُسے افسر رہنے دیا جائے.گورنمنٹ کو چاہیے کہ وہ ایسے زنے افسر کو فوراً باہر نکال دے.ایسا ز نخا افسر جو اپنے ماتحت کے ناجائز دباؤ کو قبول کرتا ہے وہ افسر کس بات کا ہے.پس بجائے اس کے کہ اُس کے ماتحت پر مقدمہ چلایا جاتا اس افسر پر مقدمہ چلانا چاہیے تھا.بہر حال یہ چیز نا جائز ہے.اس کی اصلاح کا طریق یہ ہے کہ پہلے تو شاید اس ایک کارکن کو تبلیغ کا موقع ملتا تھا یا نہیں اب تم چار چار اس افسر کے پاس جاؤ.اسی طرح اپنے رشتہ داروں کو بھی تبلیغ کرو.میں دیکھتا ہوں کہ جماعت کے دوستوں میں یہ کمزوری پائی جاتی ہے کہ وہ اپنے رشتہ داروں کو تبلیغ نہیں کرتے.وہ ان پر اتناد باؤ نہیں ڈالتے جتنا ڈالنا چاہیے.میں نے ایک دفعہ اس پر خاص زور دیا اور بعض احمدیوں نے ایسا کیا.چنانچہ ایک احمدی دوست نے بتایا کہ میں ایک دن اپنے ایک رشتہ دار کے گھر میں بیٹھ گیا اور اُسے کہا یا تو ی تم مجھے اپنا ہم خیال بنالو اور یا تم احمدی بن جاؤ.نتیجہ یہ ہوا کہ میرے دلائل چونکہ معقول تھے وہ اس پر اثر کر گئے اور وہ احمدی ہو گیا.حقیقت یہ ہے کہ اگر کوئی شخص ہمیں یہ سمجھا دے کہ ہم غلطی پر ہیں تو ی
$1953 10 خطبات محمود ہمیں اُس کی بات ماننے میں کیا حرج ہے.لیکن افسوس ہے کہ جماعت کے دوست دلیری سے کامہ نہیں لیتے.صاف بات ہے جس کی دلیل پکی ہوگی وہ یقینا دوسرے شخص کو اپنی طرف مائل کرے گا.اگر تم اس طرح اپنے اپنے رشتہ داروں کے پاس جاؤ تو لاکھوں لاکھ لوگ احمدیت کی طرف متوجہ ہوں گے.آگے پھر اُن کے رشتہ دار ہوں گے وہ انہیں تبلیغ کریں گے.اور اِس طرح پر سلسلہ اتنا غیر معمولی وسیع ہو سکتا ہے کہ ہمارے احساس اور اندازے سے بھی بالا ہو سکتا ہے.الفضل 22 /جنوری 1953ء) 1 زنے بزدل.وہ مرد جو عورتوں کی طرح حرکات کرتا ہے.اصل فارسی لفظ " ز نکہ" ہے.(فیروز اللغات اُردو جامع فیروز سنز لاہور )
$1953 11 2 خطبات محمود نئے سال میں نئے ارادے، نئی کوشش اور نئی تدبیروں کے ساتھ اپنے پروگرام پر عمل کرو فرموده 9 جنوری 1953ء بمقام ربوہ ) تشہد ، تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا." ” میں جمعہ کے لیے تو آ گیا ہوں.لیکن دو دن سے میری لات میں درد شروع ہو گیا ہے.میں ایک گھٹنے پر نی کیپ (Knee cap) باندھ کر مسجد میں آیا ہوں.ورنہ مجھ سے ٹھیک طرح نماز نہیں پڑھی جاتی اور میرے لیے سجدہ کرنا مشکل ہے.بہر حال چونکہ نیا سال شروع ہوا تھا اور اسے ہمیں نئے تھے عزم ، نئے ارادے، نئی کوشش اور نئی تدبیروں کے ساتھ شروع کرنا چاہیے اس لیے میں مسجد میں آگیا ہوں.ہم نے اپنی زندگی میں بہت سے پروگرام بنائے.اور شاید ان میں سے بہت سے توڑے اور بہت سوں میں کامیاب ہوئے.لیکن اگر ہم غور سے اپنے پروگراموں پر نظر ڈالیں تو ہمیں معلوم ہوگا کی کہ جہاں تک ہنگامی کاموں کا سوال ہے ہم ان میں کامیاب رہے ہیں.لیکن مستقل پروگراموں میں جہاں تک قومی پروگراموں کا سوال ہے اس میں تو ہم کامیاب رہے ہیں یعنی ہمیں ایک کے بعد دوسرا آدمی کام سنبھالنے والا ملتا رہا.لیکن جہاں تک انفرادی سوال ہے ہم میں استقلال کی روح نہیں پائی گئی.یعنی کئی نوجوان ایسے آئے جنہوں نے چند سال کام کیا اور گر گئے.کئی نوجوان ایسے آئے
$1953 12 خطبات محمود جنہوں نے دس گیارہ سال کام کیا اور گر گئے.لیکن ایسے آدمی جو عزم کے وقت سے لے کر موت تک اس پر قائم رہیں بہت کم آئے ہیں.اس لیے ہمیں اپنے نئے پروگرام شروع کرنے سے پہلے اپنے آپ کو وقت پر بیدار کر لینا چاہیے.مثلاً اب ہمارا نیا سال شروع ہوا ہے.ہماری مشکلات پہلے سے زیادہ ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ میں مشکلات ایک رنگ میں زیادہ تھیں اور ایک رنگ میں کم تھیں.دس پندرہ آدمی ایسے تھے جو بوجھ برداشت کر کے اپنے کام چھوڑ کر قادیان آگئے تھے تے اور وہ آپ کے کام میں ہاتھ بٹا رہے تھے اور باقی مالی امداد کر لیتے تھے.اُس وقت مالی امداد کام کی نسبت زیادہ اہمیت رکھتی تھی.آج مالی امداد کی نسبت کام زیادہ اہمیت رکھتا ہے.اُس وقت جماعت اگر خدانخواستہ نا کام ہو جاتی تو خطرہ بہت کم تھا اب خطرہ بہت زیادہ ہے کیونکہ جماعت میں سے ایک دوکا ایسا نکل آنا جن کو دنیا سر پھرے کہتی ہے تم انہیں مستقل مزاج سمجھ لوزیادہ مشکل نہیں.ایسے لوگ مل جاتے ہیں.شاہ دولے کے چوہوں کو دیکھ لو کتنے احمق ہوتے ہیں.لیکن دنیا میں ایسے بیوقوف پائے جاتے ہیں جو شاہ دولے کے چوہے بناتے رہتے ہیں.پس پہلے زمانہ میں صرف چند سر پھروں کی ضرورت ہوتی تھی اور وہ اکثر مل جاتے تھے.لیکن اب سینکڑوں اور ہزاروں سر پھروں کی ضرورت ہے اور اتنی ہی تعداد میں سر پھرے ملنے مشکل ہیں.جماعت کی نسبت کے لحاظ سے اب کارکن زیادہ ہیں پہلے کا رکن کم تھے.مثلاً حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کے زمانہ میں مبلغ نہیں تھے.آپ کتابیں لکھتے تھے اور انہیں شائع کر دیتے تھے.شروع میں آپ کے پاس پر یس تک نہیں تھا.آپ کی کتابیں عیسائیوں کے پر لیس میں چھپتی رہیں.بعد میں ایک مسلمان کے پریس میں چھپنے لگیں اور پھر اپنا پر لیں قائم ہوا جو صرف دستی پر لیس تھا.پس اُس زمانہ میں اس لحاظ سے مشکلات زیادہ تھیں کہ ذرائع کم تھے.لیکن اس لحاظ سے ی مشکلات کم تھیں کہ کارکن تھوڑے تھے اور تھوڑے کارکنوں سے کام لینا آسان ہوتا ہے.اس لحاظ سے جماعت اُس زمانہ میں محفوظ تھی.آج ذرائع بے شک زیادہ ہیں لیکن مشکلات بھی پہلے سے بڑھ گئی ہیں.آج کام کرنے والوں کی نگرانی کی زیادہ ضرورت ہے.اگر اس وقت ہمیں کوئی خطر ناک مالی ٹھوکر لگی جیسے اس کے آثار نظر آرہے ہیں تو تم میں سے بہت سے ایسے آدمی ہونگے جواب تو صدقے جاؤں ! واری جاؤں !
$1953 13 خطبات محمود کہہ رہے ہیں لیکن اُس وقت وہ بوریا بستر باندھ کر یہاں سے چلے جائیں گے.حضرت مسیح علیہ السلام نے اپنے حواریوں سے یہ بات کہی تو انہیں بہت بُری لگی.اور انہوں نے کہا استاد! ہم تو آپ کے لیے ہر قسم کی قربانی کرنے کے لیے تیار ہیں.اس لیے آپ ایسا کیوں کہتے ہیں کہ ہم بھاگ جائیں گے.حضرت مسیح علیہ السلام نے فرمایا ایک شخص جو اس وقت میرے پیالہ میں کھانا کھا رہا ہے اور اس کا ہاتھ میرے ہاتھ سے بعض دفعہ چھو جاتا ہے وہ شام تک مجھے پکڑ وادے گا1.اس وقت تین آدمی تھے جن میں سے ایک نکل گیا دو باقی رہ گئے.پطرس نے کہا اے استاد! کیا یہ ہو سکتا ہے کہ ہم آپ کو چھوڑ دیں.ہمیں تو آپ ہمارے مال و جان سے بھی زیادہ پیارے ہیں.حضرت مسیح علیہ السلام نے کہا اے پطرس ! صبح مرغ اُس وقت تک اذان نہیں دے گا جب تک کہ تو مجھ پر تین دفعہ لعنت نہ ڈال لے 2ے.پس ایسی کمزور طبائع بے شک ہوتی ہیں.صرف موجودہ اخلاص اور موجودہ حالت کو نہیں دیکھا جاتا.آج اگر کوئی شخص مخلص ہوتا ہے تو پرسوں کو وہ بھاگ جاتا ہے.کیا تم نے نہیں دیکھا کہ تم میں سے درجنوں نوجوان جنہوں نے اپنی زندگیاں وقف کی تھیں آج بھاگے ہوئے ہیں؟ بعض نوجوانوں نے تو شرافت سے نکلنے کی کوشش کی لیکن بعض مختلف قسم کے بہانے بنا بنا کر اور گندا چھال کر بھاگے ہیں.پس چونکہ اس وقت خطرات زیادہ ہیں اس لیے ہمیں اپنی سکیمیں بدل لینی چاہیں.پہلی چیز تو یہ ہے کہ ہمیں ہمیشہ یہ خیال رکھنا چاہیے کہ ہمارا وقت ضائع نہ ہو.کل پرسوں سے میں نے سوچنا شروع کیا ہے کہ جلسہ کے بعد اب دوسرا جمعہ آ گیا ہے.گویا اگلے پروگرام میں سے اب بارہ دن گزر گئے ہیں.اگر ہم اب بھی نہیں سمجھے اور ایک اور بارہ دن گزر گئے ، پھر ایک اور بارہ دن گزر گئے ، پھر ایک اور بارہ دن گزر گئے تو ہم کو یہ چیز اپنے ارادہ سے اس قدر دور کر دے گی کہ ہمارا جوش پھیکا پڑ جائے گا.پھر جوش ٹھنڈے ہو گئے تو ہم کہیں گے چلو یہ سال تو گزر گیا ہم اب نئے سال سے کام کریں گے اور ہماری ہر کوشش باطل اور بیکار جائے گی.میری آج مسجد میں جمعہ کے لیے آنے کی بڑی وجہ یہی ہے تھی کہ میں جماعت کو اس طرف توجہ دلاؤں کہ نئے سال کے بارہ دن گزر گئے ہیں اور ہمارا یا پروگرام کے بارہ دن پیچھے جا پڑا ہے.جلسہ سالانہ کے ایام میں آپ نے قربانیاں کیں، پہرے دیئے، محنت کی، تکالیف اٹھا ئیں، کئی لوگوں نے لوٹ مار بھی کی جیسا کہ میرے پاس بعض رپورٹیں آئی ہیں.لیکن اکثر لوگوں نے قربانی کا اعلیٰ نمونہ دکھایا.باہر سے آنے والوں نے تو اس حد تک قربانی کا نمونہ دکھایا کہ
$1953 14 خطبات محمود اُن میں سے کئی ایسے آسودہ حال لوگ بھی تھے جو گھروں میں دریوں اور قالینوں پر سونا بھی نا پسند کرتے ہیں لیکن جلسہ کے دنوں میں وہ زمینوں پر سوئے.وہ ایسے مکانوں میں سوئے جن کی چھتیں سروں.لگتی تھیں، جن کی چھتیں گھاس پھوس کی تھیں.پھر اس دفعہ خصوصیت سے بعض بارکوں کو آگ لگ گئی اور ی مستورات کو ساری رات بارکوں (BARRACK) سے باہر گزارنی پڑی.بعض عورتوں نے کہا کہ رات ہی گزارنی ہے چلو باہر بیٹھ کر گزارلو.چنانچہ انہوں نے بارکوں کے سامنے بیٹھ کر رات گزاری.ان ایام میں جو قربانی کے تھے تم میں ایک جوش پیدا ہوا اور تم نے ایک نیا عزم کر لیا، نیا ارادہ کر لیا.اب سوال یہ ہے کہ وہ جوش تو لوگوں کی قربانیوں کو دیکھ کر پیدا ہوا تھا ہمارا کام یہ تھا کہ ہم اس جوش کو قائم رکھتے.لیکن ہم اس جوش کو اُس وقت تک قائم نہیں رکھ سکتے جب تک کہ ہم ایک ایک دن گزارنے پر یہ محسوس نہ کریں کہ ہمارا عزم اور ہمارا ارادہ ختم ہو رہا ہے.تم ان پروگراموں کے متعلق سوچو.کسی پروگرام پر عمل کرنے سے پہلے یہ ہوتا ہے کہ فردسوچتا ہے.میں نے بتایا تھا کہ کوئی قوم اس وقت تک جیتی نہیں جب تک کہ اُس کے افراد میں سوچنے کی عادت پیدا نہ ہو جائے.پس تم پہلے سوچنے کی کی عادت پیدا کرو.تم رات دن سوچو کہ تم کس طرح ترقی کر سکتے ہو.تم کس طرح خدمت اسلامی کر سکتے ہو.تم کس طرح خدا تعالیٰ کے فضلوں ، اس کی برکتوں اور اس کی محبت اور پیار کو حاصل کر سکتے ہی ہو.پھر گروپس (Groups) ہوتے ہیں.یعنی محلوں کی انجمنوں کو سوچنا چاہیے.اگر وہ ہفتہ میں ایک دن اجلاس کرتے ہیں تو ایک دفعہ اس امر کو سامنے رکھ کر غور کریں.اور اگر وہ دو دفعہ اجلاس کرتے ہیں تو ہے دو دفعہ اس امر پر غور کریں اور جماعت کے سامنے یہ بات پیش کریں کہ ہمارا یہ پروگرام تھا اور ہم نے اس حد تک اس ہفتہ میں اس پر عمل کیا ہے.لیکن ہوتا یہ ہے کہ مہینہ دو مہینہ میں ایک دفعہ میٹنگ کی ، چند باتیں کیں اور میٹنگ برخواست کر دی.اب بعض محلوں کی طرف سے یہ اطلاع آئی ہے کہ ہم نے سوچا ہے اور باہم مشورہ کر کے ایک پروگرام بنایا ہے.لیکن اس میٹنگ میں تو صرف ایک دفعہ غور کیا گیا ہے تھا.لیکن کیا ایک دفعہ کھانا کھانا کافی ہوا کرتا ہے؟ جس طرح صرف ایک دفعہ کھانا کھانا کافی نہیں ہوتا ہے اسی طرح ایک دفعہ سوچنا کافی نہیں.ہمیں جماعت کے افراد کے کانوں میں یہ باتیں بار بار ڈالنی چاہیں ہمیں جماعت کے سامنے بار بار یہ بات رکھنی چاہیے کہ ہمارا کیا پروگرام تھا اور اس پر کس قدر ہم نے عمل کیا ہے.ہر محلہ کی انجمن کو ہفتہ میں ایک دفعہ یا دو دفعہ اپنا پروگرام جماعت کے سامنے پیش کرنا چاہیے.
$1953 15 خطبات محمود کہ ہم نے کیا کیا اور کیا نہیں کیا.پھر دیکھیں لوگوں کے اندر ایک جنون پیدا ہوتا ہے یا نہیں.اگر ایک مہینہ میں ایک دفعہ میٹنگ کر لی اور پھر بھول گئے تو اگلے سال تو لوگوں کے دل سخت ہو جائیں گے.پس ایک چیز تو یہ ہے کہ ہر فرد پروگرام کو بار بار اپنے ذہن میں لائے اور کوئی دن ایسا نہ جائے جس دن اُس کی نے اس بات پر غور نہ کیا ہو کہ ہمارا کیا پروگرام تھا.اور اب تک ہم نے اس پر کس حد تک عمل کیا ہے.یہی محاسبہ ہے جسے صوفیاء نے روحانیت کے لیے بڑی ضروری چیز قرار دیا ہے.پس تم بار بار سوچو کہ ہماری یہ ذمہ داری تھی.ہم نے اس سال اپنی پیدائش کی فلاں غرض کو پنے سامنے رکھا تھا.اس کے مطابق ہم نے کس حد تک عمل کیا.ہم نے کس حد تک اپنی اس ذمہ داری کو پورا کیا.سال کے 360 دن ہوتے ہیں.اگر ایک دن ضائع ہو گیا تو آپ کے پروگرام کا 360 واں حصہ ضائع ہو گیا.اگر دو دن ضائع ہو گئے تو 180 واں حصہ پروگرام کا ضائع ہو گیا.اگر تین دن ضائع ہو گئے تو 120 واں حصہ پروگرام کا ضائع ہو گیا.اگر چار دن ضائع ہو گئے تو 90 واں حصہ پروگرام کا ضائع ہو گیا.اگر سات دن گزر گئے تو پچاسواں حصہ پروگرام کا ضائع ہو گیا.اب دیکھو کتنی کتنی جلدی وقت ضائع ہوتا ہے.سات دن کی غفلت سے سال کا دو فیصدی پروگرام ضائع ہو جاتا ہے.اب اگر تمہاری دو فیصدی تنخواہ کم ہو جائے تو تمہیں کتنی تکلیف ہوتی ہے.دو فیصدی غلہ کم ہو تو کتنی تکلیف ملک کو برداشت کرنی پڑتی ہے.پچھلے سال حکومت کے خیال کے مطابق پانچ فی صدی غلہ کم پیدا ہوا جس کی وجہ سے ملک میں قحط پڑا ہوا ہے.میرے نزدیک اگر چہ یہ بات غلط ہے.لیکن چونکہ ہر قسم کا حساب گورنمنٹ کے پاس ہے اس لیے اسے سرسری بھی نہیں کہا جاسکتا.غلہ کی قیمت 6 روپے سے بعض جگہ 32 روپیہ فی من تک پہنچ گئی ہے.گویا چھ گنا قیمت بڑھ گئی ہے.اسی طرح اگر تم سال کا ایک ہفتہ ضائع کی کرو گے تو تم پر اُس سے آدھی آفت آجائے گی جو پانچ فیصدی غلہ کم ہونے کی وجہ سے گورنمنٹ پر آئی.اور اگر دو ہفتے ضائع ہو گئے تو وہی پانچ فیصدی ہو گیا اور آپ لوگوں کو وہی تکلیف اٹھانی پڑے گی جو اس سال پانچ فیصدی غلہ کم ہونے کی وجہ سے تم اٹھا رہے ہو.گو یا اگر تم نے دو ہفتے کام نہیں کیا تو تمہارے کام کا اتناغلہ ضائع ہو گیا جتنا امسال ملک کا کم ہوا اور اسے تکلیف کا سامنا کرنا پڑا اور 6 روپے فی من کی بجائے تمہیں 26 ، 26 روپے فی من یا اس سے بھی زیادہ قیمت ادا کرنی پڑی.اس کا مطلب یہ ہے کہ تم اپنے مقصد اور پروگرام کو جو تم نے اپنے اس سال کے لیے تجویز کیا ہے پورا کرنے کے لیے چار گنا سے بھی
$1953 16 خطبات محمود زیادہ محنت کرو گے، چار گنا سے بھی زیادہ قربانی کرو گے.پس تم بار بار محلہ کی انجمن کے سامنے یہ بات لاؤ کہ اس قدر وقت گزر گیا ہے اور اس عرصہ میں ہم نے اس قدر کام کیا ہے.یہ نہیں کہ ایک دفعہ انجمن کا اجلاس بلایا ، ریزولیوشن پاس کیا اور پھر چپ ہو گئے.باہر کی انجمنوں کو بھی بار بار اجلاس کر کے جماعت کی کے سامنے یہ چیز پیش کرتے رہنا چاہیے کہ اس سال اُن کا یہ پروگرام تھا اور اس عرصہ میں انہوں نے اس قدر کام کیا ہے.جماعت میں بار بار یہ بات پیش کی جائے اور اُن سے پوچھا جائے کہ انہوں نے کی اس وقت تک کیا کام کیا ہے؟ اگر تم اس طرح کرو گے تو دیکھو گے کہ جماعت میں آپ ہی آپ بیداری پیدا ہو جائے گی.جماعت کے سامنے بار بار کارگزاری لانے سے وہ اپنے مقصد کی طرف متوجہ ہو جائے گی.جب کسی انسان کو صدمہ ہوتا ہے تو تم نے دیکھا ہوگا کہ اُس صدمہ کی بات بار بار سننے سے اُسے کتناغم محسوس ہوتا ہے اور وہ کہتا ہے بھئی تم بار بار اس صدمہ کو میرے سامنے نہ لاؤ.اس سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ ایک بات جو گزر چکی ہوا سے بار بار کہنے سے اگر وہ غم کی ہے تو زخم اور گہرا ہو جاتا ہے.اور اگر وہ خوشی کی ہے تو وہ خوشی کو دوبالا کر دیتی ہے.لیکن افسوس کہ ہم اپنے کاموں میں اس بات کو بھول جاتے ہیں.ایک دفعہ مجلس کر لیتے ہیں اور پھر بھول جاتے ہیں.پس محلوں کی مجلس میں اگر وہ ہفتہ میں ایک دفعہ بیٹھتی ہے تو ایک دفعہ، اور اگر زیادہ دفعہ کی بیٹھتی ہے تو زیادہ دفعہ، اس سوال کو پیش کریں کہ ہم نے کیا کام کرنا تھا.سال میں اتنا وقت گزر گیا ہے اور ہم نے اس قدر کام کیا ہے.اسی طرح میں باہر کی جماعتوں کو بھی توجہ دلاتا ہوں کہ تم یہ نہ سوچو کہ ابھی ہم جلسہ سے واپس آئے ہیں.جیسا کہ میں نے بتایا ہے ابھی جلسہ ہی ختم نہیں ہوا بلکہ سال میں سے 12 دن گزر چکے ہیں.دراصل ہمارا سال 29 دسمبر سے شروع ہو جاتا ہے.28 دسمبر کو جلسہ ختم ہوتا ہے اور 29 دسمبر سے نیا سال شروع ہو جاتا ہے.اور ہم کو اُسی وقت سے ان تجاویز پر عمل کرنا شروع کر دینا چاہیے جو ہم جلسہ سالانہ پر تیار کرتے ہیں.اس طرح ہمارے اس سال کے پروگرام میں سے دو فیصدی ضائع ہو گیا ہے.اب دیکھو کہ اس دو فیصدی نقصان کو تم کتنی مشکل سے پورا کرتے ہو.میں نے بتایا ہے کہ ملک میں پانچ فیصدی کم غلہ پیدا ہونے کی وجہ سے گندم کی قیمت
$1953 17 خطبات محمود 6 روپے سے بڑھ کر 26 روپے فی من تک پہنچ گئی ہے.اسی طرح تمہیں بھی اس سال دگنی قیمت کی ادا کرنی پڑے گی.یعنی پہلے جو کام ایک روپیہ میں ہو جانا تھا وہ اب دور و پیہ میں ہو گا.اور اگر اتنے ہی دن اور گزر گئے تو جو کام ایک روپیہ میں ہونا تھا وہ چار روپے میں ہوگا.اور جو کام ایک سو روپیہ میں ہے ہونا تھا وہ چار سو روپیہ میں ہوگا.پہلے اگر ایک رکعت تمہیں خدا تعالیٰ کے قریب لا سکتی تھی تو اب کے تمہیں خدا تعالیٰ کے قریب آنے کے لیے چار رکعتیں پڑھنی پڑیں گی.اور اگر جنوری کا سارا مہینہ ای گزر گیا اور ہم اپنے مقصد اور پروگرام پر عمل کرنے کے قابل نہ ہو سکے تو ہمارا ساڑھے بارہ فیصدی نقصان ہو چکا ہوگا.یعنی جو کام ایک روپیہ میں ہو سکتا تھا اُس کے لیے ہمیں ساڑھے بارہ روپے خرچ کرنے پڑیں گے.اور جو قرب ہمیں ایک رکعت پڑھ کر حاصل ہوسکتا تھا.اُس کے لیے تھے ساڑھے بارہ رکعت نماز پڑھنی ہوگی.ایک دفعہ استغفار کرنے کی بجائے ہمیں بارہ دفعہ استغفار کرنا پڑے گا.اور ایک دفعہ سُبحَانَ اللہ کہنے کی بجائے ہمیں بارہ دفعہ سُبْحَانَ اللہ کہنا پڑے گا.تب جا کر ہمارا گزارہ ہوگا.اگر اس چیز کو حسابی طور پر دیکھا جائے تو تمہیں اندازہ ہو کہ ہمارا اس قدر نقصان ہوگا.پس میں تمہیں وقت پر اس خطرہ سے آگاہ کرتا ہوں کہ اگر یہ سال بغیر کچھ کئے گزر گیا تو سال کے آخر میں تمہارا دل مردہ ہو جائے گا اور تم کہو گے کہ ہمیں تو کچھ بھی نقصان نہیں ہوا.لیکن تمہاری وہ رائے کچھ حقیقت نہیں رکھے گی.کیونکہ اُس وقت تک تم مُردہ ہو چکے ہو گے اور مُردہ دل کو اپنے نقصان کا کوئی احساس نہیں ہوتا.جس طرح جسم کا جو حصہ سُن ہو جاتا ہے، ڈاکٹر اُسے کاٹ دیتا ہے اور اُس شخص کو ذرہ بھر بھی تکلیف محسوس نہیں ہوتی اسی طرح اُس دل کو کیا تکلیف ہوگی جو ای مر چکا ہے.پس میں اُس وقت کے حالات پیش کر کے تمہیں آگاہ نہیں کرتا کیونکہ اُس وقت تو تمہارا دل مر چکا ہوگا اور اُسے اِس بات کا احساس ہی نہیں ہوگا کہ تمہارا کتنا نقصان ہو چکا ہے.میں تمہیں موجودہ حالات کے لحاظ سے آگاہ کرتا ہوں کہ تم اندازہ لگا لو کہ سال کے گزر جانے کے بعد تم کتنا
$1953 18 خطبات محمود نقصان اٹھاؤ گے.پس تم وقت پر ضرورت کو پہچانو اور پھر اُس کے مطابق کام کرو.اللہ تعالیٰ ہماری جماعت کو تو فیق عطا فرمائے کہ اس میں بیداری پیدا ہو جائے اور ہم اُن خطرات کو سمجھ سکیں جو ہمیں پیش آنے والے ہیں اور ان کے مقابلہ میں اُتنا ہی قربانی کو بڑھاتے چلے جائیں بلکہ اُس سے بھی زیادہ بڑھاتے جائیں.1 متی باب 26 آیت 21 تا 24 2 متی باب 26 آیت 35 (الفضل 27 /جنوری 1953ء)
$1953 19 3 خطبات محمود وقت کی اہمیت اور حالات کی نزاکت کو سمجھو اور سُستیوں کو چھوڑ کر اپنی ذمہ داری کو محسوس کرو.(فرموده 16 جنوری 1953 ء بمقام ربوہ ) تشہد ،تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا.میں نے پچھلے جمعہ بھی جماعت کو اس طرف توجہ دلائی تھی اور آج پھر اس طرف توجہ دلاتا ہوں کہ کام، کام کرنے سے بنا کرتے ہیں، باتیں بنانے سے نہیں بنا کرتے.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اچھی سکیمیں نہ ہوں تو کام خراب ہو جایا کرتا ہے لیکن اس میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ اچھا کام نہ ہو تو اچھی تھی سکیمیں بھی فیل ہو جایا کرتی ہیں.ہماری جماعت سکیموں پر زیادہ زور دیتی ہے اس لیے کہ یہ اُن کا کام نہیں ہوتا.سکیم بنانا خلیفہ یا اُس کے قائم مقاموں کا کام ہوتا ہے.پس اچھی سکیموں پر جماعت کے عہدیدار اس لیے زور دیتے ہیں کہ وہ سمجھتے ہیں کہ ہمیں کچھ کرنا نہیں پڑے گا.وہ عمل پر زور نہیں دیتے اس لیے کہ اس طرح انہیں کچھ کام کرنا پڑتا ہے.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ جماعت کے سارے افراد نہ تو سست ہوتے ہیں نہ سارے کے سارے بے توجہ ہوتے ہیں اور نہ سارے کے سارے بے وقوف اور سادہ لوح ہوتے ہیں.اس لیے اگر اچھی سکیمیں پیش ہوتی رہیں تو وہ کچھ نہ کچھ اچھا نتیجہ پیش کریں گی.لیکن یہ نتیجہ اتنا خوش آئند، پسندیدہ اور اچھا نہیں ہوتا جتنا کوشش کرنے اور کام کرنے کے ساتھ ہوتا ہے.
خطبات محمود 20 20 $1953 لیکن یہاں تو یہ حال ہے کہ خلیفہ اور جماعت کے درمیان انجمن کی ایک دیوار کھڑی ہے.کام لینے والی انجمنیں ہیں.سکیم خلیفہ بناتا ہے.اور کام کرنے والی جماعتیں ہیں.انجمنوں نے خلیفہ وقت کی سکیموں کو جماعت کے سامنے کبھی ایسی تفصیلات کے ساتھ پیش نہیں کیا کہ وہ کوئی مفید کام کر سکیں نہ ناظروں نے صحیح طور پر کبھی کام کیا ہے.جب تک سکیمیں جماعت کے سامنے اس صورت میں پیش نہ کی جائیں کہ وہ کوئی مفید نتیجہ پیدا کر سکیں اُس وقت تک لازمی طور پر جماعت کی صحیح راہنمائی کی نہیں ہو سکتی.کاغذی سکیم اور عملی سکیم میں فرق ہوتا ہے.عملی سکیم میں اسے ہر علاقہ کے لوگوں اور ان کے نی حالات کو دیکھ کر ان کے مطابق بنایا جاتا ہے.جب تک افراد کو منظم نہ کیا جائے ، جب تک ان کے حالات کے مطاق سکیم کی شکل نہ بدل جائے ، جب تک ایسے کارکن مقرر نہ کئے جائیں جو اس سکیم پر افراد سے عمل کرائیں اُس وقت تک کوئی کام صحیح طور پر نہیں ہوسکتا.پاکستان اور ہندوستان کے علاوہ دوسرے بیرونی ممالک کے لیے صدر انجمن احمدیہ پاکستان ذمہ دار ہے کہ وہ جماعتوں سے صحیح رنگ میں کام لے.اور ہندوستان کے لیے صدر انجمن احمد یہ ہندوستان مقرر ہے.میں نے پچھلی دفعہ بھی جماعت کو اس طرف توجہ دلائی تھی کہ جب تک عملی طور پر ہم کوئی کوشش نہیں کریں گے ہم کوئی کام نہیں کر سکتے.میں نے کہا تھا کہ ہمارے نئے سال میں سے بارہ دن گزر گئے ہیں اور اب 19 دن گزر گئے ہیں گویا سال کے 52 ہفتوں میں سے 3 ہفتے گزر گئے ہیں اور یہ قریباً سال کا 1/17 حصہ ہے.اور اب ہم اپنے وقت کا 1/17 حصہ ضائع کر چکے ہیں اور اب 16 حصے باقی رہ گئے ہیں.لیکن ابھی بہت سے ایسے لوگ ہوں گے جو جلسہ سالانہ کے چٹخارے لے رہے ہوں گے.جو ابھی تک یہ سوچ رہے ہوں گے کہ کس شان سے ہمارا جلسہ سالانہ گزرا ہے.حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ ہماری اس سال کی زندگی کے 17 حصوں میں سے ایک حصہ گزر چکا ہے.اور اب گویا 7 6 فیصدی مزید زور لگا کر ہم اپنے ے کام میں کامیاب ہو سکتے ہیں.کیونکہ 16 ایک سو کا 64 فیصدی ہوتا ہے اور ہمارے نئے سال کی زندگی کے 17 حصوں میں سے صرف 16 حصے باقی رہ گئے ہیں.یعنی ہمیں اس سال جتنی کوشش کرنی چاہیے تھی اب اُس سے 6 فیصدی زیادہ کوشش کرنی پڑے گی.ورنہ پہلی کوشش سے ہم کامیاب نہیں ہوسکیں گے.کیونکہ ہم نے ایک سال کی زندگی میں سے 1/17 حصہ ضائع کر دیا ہے.لیکن ابھی تک ہمارے
$1953 21 خطبات محمود اداروں میں سے کسی ادارے نے نہ ابھی تک کوئی سکیم تیار کی ہے اور نہ وہ میری ہدایت کے مطابق کام کر سکے ہیں.ہم 5 سال سے وطن سے بے وطن ہیں.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ہم نے گزشتہ 5 سال میں دوسری قوموں سے زیادہ کام کیا ہے.ہم نے قادیان سے نکل کر اس نے شہر کی تعمیر کی ہے اور اب شہر کی کچھ شکل بن گئی ہے.پہلے یہ حال تھا کہ اس جگہ پر لوگ اکیلے چلتے ہوئے بھی ڈرتے تھے.لیکن اب یہاں ہزاروں کی آبادی ہے اور یہ بستی ایک شہر کی شکل اختیار کر گئی ہے.لیکن ابھی بہت کام باقی ہے.ہمارے بہت سے ادارے ابھی بنے ہیں.تعلیم الاسلام کا لج ابھی بننا ہے.کالج کا ہوٹل ابھی بنا نے ہے.زنانہ ہائی اسکول ابھی بنا ہے.زنانہ کالج کا بقیہ حصہ اور اس کا ہوسٹل ابھی بننا ہے.جامعہ احمدیہ اور مدرسہ احمدیہ ابھی بننا ہے.ہسپتال ابھی بننا ہے.ابھی بہت سے کوارٹرز بننے ہیں.پھر جماعت کے دوستوں نے جنہوں نے یہاں زمین خریدی تھی ابھی اپنے مکان بنانے ہیں اور ملک کی اقتصادی حالت روز بروز گر رہی ہے.میں برابر 4 سال سے صدر انجمن احمدیہ کو کہہ رہا تھا کہ وہ اس وقت کے چندوں پر بجٹ کی بنیاد نہ رکھے.لیکن باوجود میری اس ہدایت کے انہوں نے اس چیز کا لحاظ نہیں رکھا.اب سلسلہ کی مالی حالت نہایت خطر ناک صورت اختیار کر چکی ہے.اگر میں اس کی تفصیل بیان کروں تو تم میں سے کئی لوگ ٹھو کر کھا جائیں.لیکن صدرانجمن احمدیہ کو اس کا کوئی احساس نہیں.شاید یہ لوگ سمجھتے ہیں کہ اگر دفاتر کے دروازے بند ہو گئے تو ہم کرسیوں کی خاک جھاڑ کر الگ ہو جائیں گے.بہر حال ایک کٹھن منزل ہمارے سامنے ہے اور اتنی مشکلات ہمیں در پیش ہیں کہ ایک سمجھ دار انسان جسے خدا تعالیٰ پر توکل نہ ہو لیکن بے وقوف نہ ہو اُس کا دل ان مشکلات کو دیکھ کر ساکن ہو جائے اور وہ مر جائے.مگر ہمیں دوسری قوموں پر یہ فضیلت حاصل ہے کہ ہمارا ایک زندہ خدا کے ساتھ تعلق ہے.ہماری حالت ایک بچے کی سی تو ہے.اُس بچے کی سی جو تیر نا نہیں جانتا اور وہ تالاب میں گر گیا ہے اور بظاہر اس کے ڈوبنے کے سامان ہو چکے ہیں.لیکن ہماری حالت اُس بچے کی سی ہے جس کا باپ تالاب کے کنارے پر کھڑا ہے اور وہ دنیا کا بہترین تیراک ہے.پس ہمارے بچہ ہونے میں کوئی شبہ نہیں.ہمارے تالاب میں گر جانے میں کوئی شبہ نہیں.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اُس تالاب کا پانی ایسا ہے کہ اس میں ایک بچہ کھڑا نہیں ہو سکتا.وہ تالاب زیادہ گہرا ہے لیکن ہمیں دوسری قوموں پر یہ فضیلت حاصل ہے کہ ہمارا ایک زندہ خدا کے ساتھ تعلق ہے.ہم اگر چہ تالاب میں گر گئے ہیں اور بظاہر ہمارے
$1953 22 22 خطبات محمود وبنے کے سامان پیدا ہو چکے ہیں، ہم چھوٹے بچے ہیں تیرنا نہیں جانتے لیکن ہمارا خدا اس تالاب کے کنارہ پر کھڑا ہے.اور وہ ہمیں یقیناً بچائے گا.مگر جماعت کو یہ یادرکھنا چاہیے کہ جہاں ہمیں ضعف میں ایک بچہ سے مشابہت ہے.وہاں دماغ کے لحاظ سے ہمیں ایک نوجوان سے مشابہت ہے اس لیے ہمارے متعلق یہ خیال نہیں کیا جاسکتا کہ ہم میں سمجھ نہیں ہے.ہم میں سمجھ ہے اس لیے ہمارا فرض ہے کہ جہاں ہم خدا تعالیٰ پر توکل کریں اور کسی اور پر تو کل نہ کریں وہاں ہم اُن طاقتوں کو بھی استعمال کریں جو ای خدا تعالیٰ نے ہمیں دی ہیں.خدا تعالیٰ ہمارا کام تو بہر صورت کر دے گا.لیکن سب سے بڑی چیز جس کا حاصل کرنا ہمارے لیے ضروری ہے یعنی خدا تعالیٰ کی رضا، وہ ہمیں حاصل نہیں ہو سکے گی.خدا تعالیٰ ہم سے اس بات پر خفا ہوگا کہ ہم نے وہ طاقتیں صحیح طور پر استعمال نہیں کیں جو اس نے ہمیں عطا کی تھیں.جیسے ایک باپ جو کوئی ضروری کام کر رہا ہوتا ہے.اور اُس کا بچہ اُس سے دُور ہوتا ہے.وہ ایک کام کر سکتا ہے لیکن وہ کام خود نہ کرے اور اپنے باپ کو آواز دے کہ آؤ اور میرا کام کر دو تو باپ کہے گا تم میں طاقت تھی اور تم خود اس کام کو کر سکتے تھے.لیکن تم نے یہ کام نہیں کیا اور مجھے یہاں بلا کر میرا وقت ضائع کیا ہے.اسی طرح خدا تعالیٰ کے متعلق ہم یہ تو نہیں کہ سکتے کہ اس کا وقت ضائع ہوتا ہے.لیکن وہ اس کو اپنی ہتک تو سمجھتا ہے کہ ہم اُس سے وہ کام لیتے ہیں جو ہمیں نہیں لینا چاہیے.پس تم وقت کی اہمیت کو سمجھو اور اس کی قیمت کو سمجھو.تم حالات کی نزاکت کو سمجھو تم اپنے کا ماحول کی خطر ناک حالت کو سمجھو اور سستیوں کو چھوڑ کر اپنی ذمہ داریوں کو محسوس کرو.صدر انجمن احمد یہ اور جماعت کے افراد دونوں کو مصائب کے یہ ایام صبر اور استقامت کے ساتھ خدا تعالیٰ پر توکل کرتے ہوئے گزارنے کی کوشش کرنی چاہیے تا کہ اس کے فضل جن کے آنے کا وعدہ ہے وہ ہماری اتنی کوشش ہی کی سے نازل ہو جائیں جتنی کوشش کرنے کی خدا تعالیٰ نے ہمیں توفیق دی ہے.خدا تعالیٰ ہمارا آقا ہے، نوکر نہیں.اس لیے وہ آقا کی صورت میں ہماری مدد کرنے کے لیے تیار ہے، نوکر کی صورت میں مدد کرنے کو تیار نہیں.اس لیے ضروری ہے کہ جہاں ہم اس پر تو کل کریں وہاں ہم اُن طاقتوں کو صحیح طور پر استعمال کی کریں جو خدا تعالیٰ نے ہمیں عطا کی ہیں.بے شک خدا تعالیٰ نے کہا ہے کہ وہ اس جماعت کو بڑھائے گا اور اسے ترقی دے گا.اس لیے اگر تم اپنے فرض کو ادا نہیں کرو گے اور خدا تعالیٰ سے نوکروں کی کی خدمت لو گے تو وہ نوکروں جیسی خدمت بھی کرے گا.اس جماعت کو بڑھائے گا اور ترقی دے گا.لیکن اس کی صورت میں تم یہ امید نہیں کر سکتے کہ وہ تم پر راضی ہو جائے.اگر تم نے اُن طاقتوں کو استعمال نہ کیا.
خطبات محمود 23 23 $1953 جو اُس نے تمہیں عطا کی ہیں اور تم نے انہیں ردی کی ٹوکری میں پھینک دیا تو تم اس ناشکری کے ساتھ خدا تعالیٰ سے یہ امید نہیں کر سکتے کہ وہ تم پر راضی ہو جائے.پس تم اپنے اندر تغیر پیدا کرو اور حالات کو زیادہ خراب ہونے سے بچاؤ.خطبہ ثانیہ کے بعد فرمایا.میں جمعہ کی نماز کے بعد بعض جنازے پڑھاؤں گا یعنی مندرجہ ذیل احباب کے:.1.سید عبدالرؤف صاحب جو سید عبدالغفور صاحب سیالکوٹی کے بھائی تھے فوت ہو گئے ہیں.جنازہ میں بہت کم لوگ شامل ہوئے.میں یہ سمجھ نہیں سکا کہ سیالکوٹ کے لوگ باوجود اس کے کہ وہاں ایک بڑی جماعت ہے جنازہ میں کیوں شامل نہیں ہوئے.2 شیخ نور الحق صاحب کی نانی صاحبہ فوت ہوگئی ہیں.مرحومہ شیخ نور احمد صاحب کی جو ہمارے مختار عام تھے ہمشیرہ تھیں.وہ ربوہ سے باہر رہتی تھیں.لیکن بیماری کی حالت میں یہیں آگئیں اور چند دن ہوئے اس جگہ فوت ہو گئیں.3 جنت بی بی صاحبہ جو ہمارے مبلغ چودھری نذیر احمد صاحب رائے ونڈی مبلغ سیرالیون کی خالہ زاد ہمشیرہ تھیں.رائے ونڈ کے مقام پر فوت ہوگئی ہیں.جنازہ میں بہت کم لوگ شریک ہوئے.-4 سردار بی بی صاحبہ اہلیہ حاجی خدا بخش صاحب میانوالی ضلع سیالکوٹ 25 دسمبر 1952ء کو فوت ہوگئی ہیں.جماعت کے اکثر دوست جلسہ سالانہ پر ربوہ آگئے تھے اس لیے بہت کم لوگ جنازہ میں شریک ہوئے.5.امام دین صاحب جو مونگ ضلع گجرات کے رہنے والے تھے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے صحابی تھے فوت ہو گئے ہیں.جنازہ میں بہت کم لوگ شریک ہوئے.-6 جنت بی بی صاحبہ والدہ شیخ رحمت اللہ صاحب پٹواری جو صحابیہ اور موصیہ تھیں راولپنڈی میں فوت ہوگئی ہیں.مرحومہ بنگہ ضلع جالندھر کی رہنے والی تھیں.جنازہ میں بہت کم لوگ شریک ہوئے.-7 محمد یوسف صاحب کو ٹلی باوا فقیر چند ضلع سیالکوٹ فوت ہو گئے ہیں.احمدی قریب نہیں تھے اس لیے جنازہ غیر احمدیوں نے پڑھا.یہ سات افراد ہیں.نماز جمعہ کے بعد میں ان سب کا جنازہ پڑھاؤں گا.،، الفضل 31 جنوری 1953ء)
24 $1953 4 خطبات محمود موجودہ وقت میں تحریک جدید میں شامل ہو کر زیادہ سے زیادہ خدمت دین کرو تا خدا تعالیٰ کے سامنے بھی سرخرو ہو جاؤ اور آئندہ نسلیں بھی تمہارا نام عزت سے لیں.(فرموده 23 /جنوری 1953ء بمقام ربوہ ) تشہد ، تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا.تحریک جدید کے وعدوں کی میعاد میں جو پاکستان کے لیے ہے ایک مہینہ باقی رہ گیا ہے.غالبا میں نے ہندوستان اور بیرونی ممالک کے لیے کسی تاریخ کا اعلان نہیں کیا تھا.لیکن اس سال بھی وعدوں کے لیے آخری تاریخ وہی ہے جو پچھلے سالوں میں مقرر تھی.یعنی ہندوستان اور مشرقی پاکستان کے لیے اپریل تک کی میعاد ہے اور جون تک دوسرے ممالک کی میعاد ہے.مثلاً امریکہ ہے، انڈونیشیا ہے، ویسٹ افریقہ ہے جن میں ہماری زبان بولنے والے نہیں پائے جاتے یا ہمارے ملک کے افراد کم ہیں.چونکہ اب صرف ایک مہینہ باقی رہ گیا ہے اس لیے جماعت کو میں پھر تحریک جدید کے وعدوں کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں.آج قریباً دو ماہ ہو گئے کہ یہ تحریک ہوئی تھی.شروع شروع میں جس طرح وعدے آئے تھے.اُن سے پتا لگتا تھا کہ جماعت اپنی ذمہ داری کو خوب سمجھ رہی ہے اور اپنے فرض کو ادا کرنے کی طرف متوجہ ہے.لیکن جلسہ کے قریب آکر وعدوں کے آنے میں سستی ہوگئی اور
$1953 25 خطبات محمود ނ شاید گزشتہ انیس سال کے عرصہ میں یہ پہلی مثال ہے کہ اس وقت تک گزشتہ سال جتنے وعدے آگئے تھے.اس سال اس سے تمہیں ہزار کے وعدے کم ہیں.اس میں کچھ حصہ تو وہ ہے جس کا پاکستان کی انجمن.تعلق نہیں.یعنی وہ ہندوستان کے وعدے جہاں سے پچھلے سال بائیس ہزار اور کچھ سو کے وعدے آئے تھے اور اس سال بارہ ہزار اور کچھ سو کے وعدے آئے ہیں.چونکہ یہ رقم وہیں وصول ہوتی ہے اور وہیں خرچ ہوتی ہے اس لیے ممکن ہے کہ وعدوں کے بھیجے جانے میں پوری توجہ نہ دی گئی ہو یا جماعتیں یہاں وعدے بھیجنے کی ضرورت نہ سمجھتی ہوں.لیکن ہندوستان کے وعدوں کو چھوڑ کر پاکستان اور غیر ملکوں سے اس وقت تک جتنے وعدے آجاتے تھے اس سال ان میں بھی بیس ہزار کی کمی ہے.سابق دستور کے مطابق بجائے اس کے کہ ہر سال وعدوں میں زیادتی ہوتی اس سال وعدوں میں کمی واقع ہو گئی ہے.تحریک جدید کا دفتر جو دفتر دوم کہلاتا ہے وہ اگر چہ اب ہمیشہ کے لیے ہے لیکن نام اس کا دفتری دوم ہی رہے گا.کیونکہ جب اس دفتر کا آغاز کیا گیا تو اس کا نام دفتر دوم ہی رکھا گیا تھا.اب آئندہ لوگ کی اس دفتر میں شامل ہوں گے.صرف یہ ہوگا کہ ہر شخص کا کھانہ الگ الگ ہوگا اور اس میں درج ہوگا کہ اس نے کس وقت سے کس وقت تک اشاعت اسلام میں مدد دی ہے.ممکن ہے کہ بعد میں بعض اور ی ذرائع بھی استعمال کئے جائیں کہ ان لوگوں کے نام یادگار کے طور پر محفوظ کر لیے جائیں جنہوں نے کی اشاعت اسلام میں مدددی.لیکن جیسا کہ میرا ارادہ ہے 19 سال کے پورا ہونے پر جن لوگوں نے اس تحریک میں حصہ لیا ہے (اگر چہ یہ چندہ جاری رہے گا.لیکن جن لوگوں نے اس وقت تک اس تحریک میں حصہ لیا ہے.اُن کے نام ریکارڈ میں محفوظ کر لیے جائیں.میرا اراداہ ہے کہ انیس سال کے اختتام پر ایک رسالہ شائع کیا جائے اور اس میں ان سب لوگوں کے نام لکھے جائیں.جنہوں نے اشاعت اسلام میں انیس سال تک مدد دی.اور پھر وہ رقم بتائی جائے جو انہوں نے اس تحریک کے ماتحت اشاعت اسلامی کے لیے دی.اس طرح آئندہ بھی اس رنگ میں مختلف اوقات پر مختلف طریقے استعمال کیے جائیں گے.جن سے ان لوگوں کے نام بطور یادگار محفوظ کر لیے جائیں گے تا بعد میں آنے والے ان کے نقش قدم پر چلنے کی کوشش کرتے رہیں اور ہم آئندہ آنے والوں کے سامنے ان لوگوں کی مثال پیش کر سکیں.لیکن یاد رکھو یہ چندہ عمر بھر کے لیے ہے اور یہ تحریک ہمیشہ جاری رہے گی.بلکہ ہماری فطرت اور ہمارے ایمان کو اس سے انکار کرنا پڑے گا ، اس چیز کو نا پسند کرنا پڑے گا کہ کسی وقت بھی یہ چندہ ان سے
خطبات محمود 26 26 $1953 جا تا رہے اور کہا جائے کہ آئندہ تم سے یہ چندہ نہیں لیا جائے گا.جس طرح ہم یہ پسند نہیں کرتے.ہم یہ سوچ بھی نہیں سکتے ، ہم اس کا خیال بھی نہیں کر سکتے کہ کوئی شخص ہماری طرف یہ بات منسوب کرے.بلکہ ہم اسے بُرا مناتے اور گالی تصور کرتے ہیں کہ کوئی ہمیں کہے کہ تم کسی وقت جا کر باوجود صحت اور طاقت کے روزہ چھوڑ دو گے.جس طرح ہم یہ پسند نہیں کرتے.ہم یہ سنے کی برداشت نہیں کرتے کہ کوئی کہے کہ باوجود اس کے کہ تمہارے پاس مال ہو گا لیکن کسی وقت جا کر تم زکوۃ نہیں دو گے جس طرح ہم یہ پسند نہیں کرتے.ہم یہ سننا برداشت نہیں کرتے کہ کسی وقت جا کر ہم باوجود طاقت اور قوت اور مالی وسعت کے حج نہیں کریں گے.جس طرح ہم یہ سنا پسند نہیں کرتے کہ کوئی کہے ایک دن ایسا آئے گا جب تم سچ کو چھوڑ دو گے.جس طرح ہم یہ نہیں سُن سکتے کہ کوئی شخص ہماری طرف یہ منسوب کرے کہ کچھ دنوں کے بعد یا دس بیس سال کے بعد تم دیانت چھوڑ دو گے.جس طرح ہم یہ نہیں سن سکتے کہ ہمارے متعلق کوئی کہے کہ پندرہ بیس سال تک تو تم عدل و انصاف سے کام لو گے لیکن اس کے بعد تم عدل وانصاف کو چھوڑ دو گے اور تم ظالم بن جاؤ گے.اسی طرح ہم یہ بھی پسند نہیں کرتے ، ہم یہ بھی سنی نہیں سکتے کہ کچھ عرصہ تک تو ہم پر جہاد جس رنگ میں بھی وہ اس زمانہ میں ہم پر فرض ہے واجب رہے گا اور پھر ہمیں معاف ہو جائے گا اور ہم اسے چھوڑ بیٹھیں گے.اگر ہمیں روٹی کھانا معاف نہیں ہوسکتا ، اگر ای ہمیں پانی پینا معاف نہیں ہوسکتا، اگر ہمیں کپڑا پہنا معاف نہیں ہو سکتا تو روحانی زندگی کے سامان کیسے معاف ہو سکتے ہیں.پس یہ تحریک ہے تو دائی اور نہ صرف دائمی ہے بلکہ ہمارے ایمان اور اخلاص کا تقاضا ہے کہ یہ تحریک ہمیشہ جاری رہے.جس طرح روٹی کھانا دائی ہے.خدا تعالیٰ نے ہم پر روٹی کھانا واجب نہیں کیا لیکن جب ہمیں روٹی نہیں ملتی تو ہم چلاتے ہیں ، خدا تعالیٰ کے سامنے گڑ گڑاتے ہیں کہ وہ ہمیں روٹی دے دے.ہم یہ نہیں کہتے کہ بیس سال تک روٹی کھائی ہے اب کہہ دیا گیا ہے کہ تم روٹی نہ کھاؤ تو چلو چھٹی ہوئی.ہمیں روٹی نہ ملے تو ہم اس پر خوش نہیں ہوتے بلکہ ہم خدا تعالی کے سامنے گڑ گڑاتے ہیں کہ وہ ہمیں کھانا دے.انجیل میں بھی یہ دعا سکھائی گئی ہے کہ اے خدا ! تو ہماری روز کی روٹی ہمیں بخش 1 پس اگر ہمیں روٹی ملتی ہے تو ہم خدا تعالیٰ کے ممنون ہوتے ہیں اور اگر روٹی نہیں ملتی تو ہم متفکر ہوتے ہیں.اور خدا تعالیٰ کے سامنے گڑگڑاتے ہیں، روتے ہیں،
$1953 27 خطبات محمود چلاتے ہیں کہ وہ ہمیں روٹی دے.اسی طرح اشاعت دین کی بھی ہمیں ضرورت ہے.اگر ہمیں اشاعت دین کی توفیق ملتی ہے تو ہم خدا تعالیٰ کے ممنون ہوتے ہیں اور اگر ہمیں اشاعت دین کی توفیق نہیں ملتی تو ہم شکر نہیں کرتے بلکہ ہم خدا تعالیٰ کے سامنے گڑ گڑاتے ہیں کہ اُس نے ہم میں کیوں ضعف پیدا کر دیا ہے.ہم دین کی خاطر کیوں اتنی قربانی نہیں کر سکتے جتنی قربانی ہم پہلے کرتے تھے.یہی ایمان کی ایک زندہ علامت ہے.اگر یہ علامت نہیں پائی جاتی تو سمجھ لو کہ ایمان بھی نہیں پایا جاتا.پس جہاں تک چندے کا سوال ہے میں اس کی نوعیت بتا چکا ہوں.بار بار بتانے کی ضرورت ہے اس لیے پیش آئی ہے کہ جن لوگوں نے پہلے نہیں سنا تھا وہ اب سُن لیں.اور پھر بسا اوقات سستی اور غفلت ہو جاتی ہے اور دوبارہ بیان کرنے سے انسان کو موقع مل جاتا ہے کہ وہ ہستی اور غفلت کو ترک کر کے بیدار ہو جائے ، اُسے اس طرف توجہ ہو جائے.لیکن ہمیں یہ بات بھی نہیں بھولنی چاہیے کہ بعض مراحل پر آکر انسان کو خاص اخلاص اور جوش دکھانا پڑتا ہے.جب پہلی تحریک کے جتنے سال مقرر تھے ختم ہونے لگے تو جماعت نے غیر معمولی طور پر اُس سال وعدے کئے اور اتنے غیر معمولی طور پر کئے کہ بعد میں بھی وعدوں کی تعداد اس حد تک نہیں پہنچی.اسی طرح اب یہ انیس سالہ دور ختم ہونے والا ہے.یہ غیر معمولی دور ہے.اگر چہ ہم بعد میں بھی چندہ دیں گے لیکن یہاں وہ دور ختم ہو جاتا ہے جس کی وجہ سے ہم السَّابِقُونَ الاَوَّلُونَ اور دفتر اول والے کہلاتے تھے.یہاں ایک مرحلہ ختم ہو جاتا ہے.اس لیے میری تجویز ہے کہ 19 سال کے خاتمہ پر ان لوگوں کی قربانیوں کا ریکارڈ رکھنے کے لیے ایک رسالہ شائع کر دیا جائے تا لوگوں کے لیے ان کی ایک مثال قائم ہو جائے.شاید سردی کی وجہ سے جو ان دنوں کی خاص طور پر پڑ گئی ہے جماعتیں اس سال دیر سے وعدے لکھوا رہی ہیں اس لیے وعدے گزشتہ سال کی نسبت کم آئے ہیں.گزشتہ سالوں میں ان دنوں وعدے دوبارہ آنے شروع ہو جاتے تھے.لیکن اس کے سال جلسہ سالانہ کی وجہ سے وعدوں کی آمد میں جو روک پڑ جاتی ہے وہ برابر جاری ہے.اس کی وجہ سے بجائے اس کے کہ پچھلے سال سے اس وقت تک زیادہ وعدے آجاتے ہیں ہزار کے وعدے کم آئے ہیں.اس لیے میں پھر جماعت کو توجہ دلاتا ہوں کہ وقت تھوڑا ہے تم اپنی ذمہ داریوں کو سمجھو اور جلد سے جلد وعدے لکھوا ؤ اور انہیں پورا کرنے کی کوشش کرو.میں دفتر دوم والوں کو بھی توجہ دلاتا ہوں.اس سال دفتر دوم والوں کی کوشش ہے کہ دو اڑھائی لاکھ کے وعدے آجائیں تا پنشن پانے والوں اور
$1953 888 28 خطبات محمود وفات پا جانے والوں کی وجہ سے وعدوں میں جو کمی آگئی ہے وہ پوری ہو جائے ، اسی لیے دفتر دوم والوں کے کو بھی خاص طور پر اس طرف توجہ کرنی چاہیے اور اپنے وعدوں کو اس سال کم از کم دواڑھائی لاکھ تک پہنچا دینا چاہیے.یا درکھو کہ اس وقت اشاعت دین کا کام تم ہی کر رہے ہو.تمہارے سوا اور کوئی نہیں کر رہا.دنیا میں صرف تم ہی ایک جماعت ہو جو خدا تعالیٰ کے دین کے جھنڈے کو اٹھائے ہوئے ہو.تمہیں شکوہ کی ہوگا کہ تم ہی وہ لوگ ہو جنہیں خارج از اسلام کہا جاتا ہے ہم ہی وہ لوگ ہو جن کے خلاف مولوی اکٹھے ہو کر کفر کے فتوے لگاتے ہیں.لیکن یہ شکوہ کی بات نہیں اس سے تو تمہارے کام کی عظمت اور شان اور بھی بڑھ جاتی ہے.ایک شخص دین کی اس لیے خدمت کرتا ہے کہ اُسے اس کا بدلہ ملے گا.ایک شخص دین کی خدمت کرتا ہے اور اُسے اُس کا بدلہ نہیں ملتا.اور ایک شخص دین کی خدمت کرتا ہے اور اُسے نہ صرف اس کا بدلہ نہیں ملتا بلکہ الٹا اسے جھاڑیں پڑتی ہیں، اُسے بُرا بھلا کہا جاتا ہے ، گالیاں دی جاتی ہیں.تم دیکھ لو ان تینوں میں سے کس کا درجہ بڑا ہوتا ہے؟ آیا اُس شخص کا درجہ بڑا ہوتا ہے جو دین کی خدمت کرتا ہے اور اُسے اُس کا معاوضہ ملتا ہے؟ یا اُس شخص کا درجہ بڑا ہوتا ہے جو دین کی خدمت کرتا ہے اور اُسے اُس کا معاوضہ نہیں ملتا؟ یا اُس شخص کا درجہ بڑا ہوتا جو دین کی خدمت کرتا ہے اور نہ صرف یہ کہ اُسے اُس کا بدلہ ہی نہیں ملتا بلکہ الٹا اُسے جھاڑیں پڑتی ہیں، اُسے گالیاں دی جاتی ہیں؟ صاف بات ہے کہ جو شخص ان کی حالات میں خدمت دین کرتا ہے کہ نہ صرف یہ کہ اُسے اُس خدمت کا معاوضہ نہیں ملتا بلکہ اسے الٹا جھاڑیں پڑتی ہیں.اُسے گالیاں دی جاتی ہیں اُس کا درجہ ایمان اُس شخص سے بلند ہے جو خدمت دین کرتا ہے اور اسے اُس کا معاوضہ ملتا ہے یا خدمت کرتا ہے اور اُسے اُس کا معاوضہ نہیں ملتا لیکن جھاڑیں بھی نہیں پڑتیں.در حقیقت محبت کامل کا معیا رہی یہی ہوتا ہے.اگر میں غلطی نہیں کرتا تو غالباً ابراہیم ادھم تھے جن سے دوزخ اور جنت کے متعلق سوال کیا گیا تو انہوں نے کہا مجھے جنت اور دوزخ سے کیا غرض ہے.خدا تعالیٰ جہاں مجھے رکھنا پسند کرے گا میں رہوں گا.اگر وہ مجھے جنت میں رکھنا پسند کرے گا تو میں جنت کو پسند کروں گا اور اگر وہ مجھے دوزخ میں رکھنا پسند کرے گا تو میں دوزخ ہی کو پسند کروں گا.پس جو شخص قطع نظر کسی معاوضہ کے دین کی خدمت کرتا ہے بلکہ نہ صرف قطع نظر کسی معاوضہ کے دین کی خدمت کرتا ہے بلکہ اسے معلوم ہے کہ اُسے بجائے کسی معاوضہ کے الٹا جھاڑیں پڑیں گی اور اُسے
$1953 29 29 خطبات محمود گالیاں کھانی پڑیں گی لیکن وہ پھر بھی خدمت سے باز نہیں آتا وہ یقینا خدا تعالیٰ کی محبت اور اُس کے پیار کو بذب کرنے والا ہے.اور اس میں کیا شبہ ہے کہ جب قیامت کے دن سب لوگ خدا تعالیٰ کے سامنے پیش ہوں گے تو انبیاء کے بعد سب سے مقدم وہ شخص ہو گا جس کو دین کی خدمت کا نہ صرف یہ کہ معاوضہ نہ ملا بلکہ اُسے جھاڑیں پڑیں، اُسے گالیاں کھانی پڑیں لیکن وہ خدمت سے پھر بھی باز نہ آیا.اگر روزہ کی رکھنے والوں کے متعلق رسول کریم ﷺ نے یہ فرمایا ہے کہ قیامت کے دن خدا تعالیٰ کہے گا کہ اُن کا معاوضہ میں ہوں 2ے تو یقیناً وہ لوگ جنہوں نے دین کی خدمت کی اور اس حالت میں خدمت کی کہ نہ صرف یہ کہ انہیں کوئی معاوضہ نہ ملا بلکہ انہیں جھاڑیں پڑیں، انہیں برا بھلا کہا گیا، انہیں گالیاں دی گئیں ، انہیں واجب القتل قرار دیا گیا، انہیں اخراج عَنِ الوطن کی دھمکیاں دی گئیں انہیں خدا تعالیٰ قیامت کی کے دن کہے گا کہ اگر انسانوں کے پاس تمہارے لیے کوئی جگہ نہیں تو تمہاری جگہ میری گود میں ہے.اور اگر انسانوں کے نزدیک تم واجب القتل قرار دیئے گئے تھے لیکن تم نے دین کی خدمت پھر بھی نہ چھوڑی تو تمہیں ہمیشہ کے لیے زندہ رکھنا مجھ پر فرض ہے.پس تمہارے لیے خدا تعالیٰ نے اس نعمت کے دروازے کھولے ہیں جس کے دروازے سینکڑوں سال سے دوسروں پر نہیں کھولے گئے.سینکڑوں سال گزر گئے اور دنیا اس نعمت سے محروم رہی.جب اسلام ترقی پر تھا اس وقت اسلام کی خدمت کرنے والوں کی تعریف کی جاتی تھی اُن کی قدر کی جاتی تھی.لیکن آج جب اسلام نہ صرف باطنی لحاظ سے بلکہ ظاہری لحاظ سے بھی گر چکا ہے، وہ نہ غیر مسلموں کے نزدیک مقبول ہے نہ مسلمانوں کے نزدیک مقبول ہے ، خدا تعالیٰ اپنی قبولیت اور اپنا تھی دست محبت تمہاری طرف بڑھاتا ہے، وہ تمہیں اپنی محبت اور پیار کی بشارت دیتا ہے.پس تم اپنی ذمہ داریوں کو سمجھنے کی کوشش کرو اور اپنے فرائض کو ادا کرو اور خدا تعالیٰ کی طرف سے جو رحمتیں اور برکتیں تمہیں ملتی ہیں تم انہیں زیادہ سے زیادہ حاصل کر لو.ایسا زمانہ بہت کم آتا ہے اور مبارک ہوتے ہیں وہ لوگ جو ایسے زمانہ میں پیدا ہوتے ہیں.یہی لوگ نحوست سے دور اور خدا تعالیٰ کی جنت کے زیادہ قریب ہوتے ہیں.خدا تعالیٰ نے قرآن کریم میں یہ جو کہا ہے کہ اُس دن جنت قریب کر دی جائے گی 3 اس کا بھی یہی مفہوم ہے کہ خدا تعالیٰ ایسی جماعت کھڑی کر دے گا جو دین کی خدمت کرے گی اور نہ صرف یہ کہ
خطبات محمود 30 30 $1953 اُسے اس خدمت کا کوئی معاوضہ نہیں ملے گا، اُسے جھاڑیں پڑیں گی ، اُسے گالیاں دی جائیں گی ، دنیا نے اسے دھتکارے گی کہ وہ کیوں خدا تعالیٰ کی ہوگئی ہے اور وہ خدا تعالیٰ کے دین کی کیوں خدمت کر رہی ہے ہے.اس لیے لازمی طور پر خدا تعالیٰ اُسے قبول کرے گا.پس تم ان وقتوں کی قدر کرو اور اپنے لیے زیادہ سے زیادہ ثواب حاصل کر لو تا خدا تعالیٰ کے سامنے بھی تم سرخرو ہو جاؤ اور آئندہ نسلوں کے سامنے بھی تمہارا نام عزت سے لیا جائے.1: متی باب 6 آیت 11 2 بخاری کتاب الصوم - باب فَضْل الصَّوْمِ وَإِذَ الْجَنَّةُ أُزُلِفَتْ (التكوير : 14) الفضل 3 فروری 1953 ء)
$1953 31 5 خطبات محمود روزے انسان کو عبادات میں بڑھانے غلطیوں سے بچانے ، مشکلات پر قابو پانے اور خدا تعالیٰ کے فضل کو حاصل کرنے میں مدد دیتے ہیں.(فرمودہ 30 جنوری 1953ء بمقام ربوہ ) تشہد ، تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا.میں نے اس سال کے شروع میں جماعت کو سات روزے رکھنے کی تحریک کی تھی.ان میں سے چار روزے تو گزر چکے ہیں اور تین روزے باقی ہیں.گویا ان میں سے زیادہ حصہ گزر گیا اور کم حصہ باقی ہے.میں نہیں جانتا کہ مختلف جماعتوں کے دوستوں نے کس حد تک میری اس ہدایت کی تعمیل کی ہے.در حقیقت یہ تحریک ان کے اپنے فائدہ کے لیے تھی.روزوں سے انسان کے اندر نیکی کا مادہ ترقی کرتا ہے اور اسے اپنی غلطیوں پر قابو پانے کی زیادہ تو فیق ملتی ہے.حضرت مسیح ناصری علیہ السلام کہتے ہے ہیں کہ انسان کے نفس کے اندر جو بھوت اور جن پائے جاتے ہیں ، جو بدرو میں اُس کے اندر پائی جاتی ہیں وہ صرف روزے سے ہی بھاگتی ہیں.1.اور کسی چیز سے نہیں بھا گئیں.پھر روزوں میں دعائیں کرنے کا خاص طور پر موقع ملتا ہے جو انسان کے مصائب اور مشکلات کا ازالہ کرتی ہیں.اور پھر صبح اٹھنے کی وجہ سے انسان کو تہجد کی طرف قدم بڑھانے کا موقع ملتا ہے.غرض روزے مختلف جہات سے انسان کوغلطیوں سے بچانے، مشکلات اور مصائب پر قابو پانے ، خدا تعالیٰ کے فضل کو حاصل کرنے اور
$1953 32 32 خطبات محمود عبادات میں ترقی کرنے میں مدد دیتے ہیں.پس میری اس ہدایت کے کہ سال کے شروع میں سات روزے رکھے جائیں یہ معنے نہیں کہ میں نے جماعت سے کسی قربانی کا مطالبہ کیا ہے.درحقیقت میں نے اس تحریک کے ذریعہ ان کی جھولیوں میں خدا تعالیٰ کی برکتیں ڈالنے کی کوشش کی ہے.اس تحریک میں بھی جو شخص سُستی کرتا ہے ، غفلت کرتا ہے اور اس پر عمل کرنیکی کوشش نہیں کرتا وہ اپنا نقصان خود کرتا ہے ہے.اس کی مثال اس شخص کی سی بن جاتی ہے جو سرد علاقہ کا رہنے والا تھا اور شدید گرمی کے دنوں میں دھوپ میں بیٹھا ہوا تھا.دھوپ کی وجہ سے اُس کا جسم جھلس رہا تھا ، اُسے پسینہ آرہا تھا.رستہ سے کوئی شخص گزرا اور اس نے اسے اس طرح کڑ کڑاتی دھوپ میں بیٹھے دیکھا تو اس نے کہا.میاں ! تم اس کے طرح کیوں تکلیف اٹھارہے ہو؟ پاس ہی وہ دیوار ہے.اُس کا سایہ ہے جو ٹھنڈا ہے تم اس سایہ میں بیٹھی جاؤ.اس پر اس نے اپنا ہاتھ آگے بڑھایا اور کہا میں اگر سایہ میں چلا جاؤں تو تم مجھے کیا دو گے؟ یہ تو ایک لطیفہ ہے اور بعض قو میں دوسری قوموں پر ہنسی اڑانے کے لیے اس قسم کے لطیفے بنالیا کرتی ہیں.لیکن اگر ی کوئی شخص اس روزوں کی تحریک کو چھٹی سمجھتا ہے.وہ اس سے گریز کرتا ہے.وہ تو کہانی ہے اور کہانی ہے شاید جھوٹی ہولیکن یہ تو سچ سچ وہی حرکت کرتا ہے جو اس شخص نے کی کہ اگر میں سایہ میں چلا جاؤں تو مجھے کیا دو گے؟ آخر کوئی شخص اگر روزے رکھنے سے گریز کرتا ہے تو اس کے سوائے اس کے کیا معنے ہیں کہ ی میں یہ کام کیوں کروں.اگر کروں تو تم مجھے کیا دو گے حالانکہ جوتحریک میں نے کی ہے یہ اُس کے اپنے ہی فائدہ کی چیز ہے.لوگ تو ایک ایک فائدہ کے حصول کے لیے بڑی بڑی محنت کرتے ہیں.پھر جسے چار چار پانچ پانچ فائدے مل جائیں اُسے اور کیا چاہیے.اگر انسان ایک ایک فائدہ کے لئے قربانی کرتا ہے تو چار پانچ فائدوں کے لیے تو اسے اس سے بڑھ کر قربانی کرنی چاہیے.پس جن لوگوں نے اس تحریک کے سلسلہ میں کوتاہی کی ہے اور روزے نہیں رکھے انہوں نے اپنی جانوں پر ظلم کیا ہے.انہوں نے نہ میرا کوئی نقصان کیا ہے اور نہ سلسلہ کا کوئی نقصان کیا ہے.ربوہ والوں کے متعلق مجھے اطلاع آئی ہے کہ وہ کوشش کر رہے ہیں کہ تمام کے تمام لوگ روزہ رکھیں.لیکن یہ اطلاع نہیں آئی کہ یہاں لوگ سو فیصدی روزے رکھتے ہیں یا نہیں.دوسرے، روزے کے بعد یہ اطلاع ضرور آئی ہے کہ روزے رکھنے والے پہلے سے زیادہ ہو گئے ہیں.اور زیادتی اُس وقت ہو سکتی ہے جب سو فیصدی نہ ہو.جب سو فیصدی لوگوں نے روزہ رکھ لیا تو زیادتی کے کیا معنے.
$1953 33 33 خطبات محمود پس ان کا کہنا کہ پہلے کی نسبت روزہ رکھنے والوں کی تعداد میں زیادتی واقع ہوگئی ہے اس کا مطلب ہے ہے کہ پہلے روزہ رکھنے والوں میں کمی تھی اور اب بھی سو فیصدی لوگوں نے روزہ نہیں رکھا.بہر حال جیسا کہ میں نے بتایا ہے جس شخص نے اس تحریک کے سلسلہ میں کوتاہی کی ہے اُس کی یہ کو تاہی اُس پر ہی لوٹتی ہے.بعض دفعہ اگر ایک شخص بھی خدا تعالیٰ کے سامنے دعا کرتا ہے تو اُس ایک شخص کی دعا ہی قوم کو کہیں کا کہیں پہنچا دیتی ہے.لیکن اجتماعی تحریک سے غرض یہ ہوتی ہے کہ سب لوگوں کو عبادت کرنے کا موقع ملے ورنہ اگر دس آدمی بھی عبادت کرتے ہیں اور دعائیں کرتے ہیں تو ی خدا تعالی انکی دعائیں تو سن لے گا لیکن دوسرے لوگ اس برکت اور رحمت سے محروم ہو جائیں گے جو اس کے بدلہ میں خدا تعالیٰ کی طرف سے انہیں ملنی تھی.پرانی تفسیروں میں لکھا ہے کہ جب حضرت نوح علیہ السلام کے زمانہ میں طوفان آیا ہے تو یہ ایک کہانی، یہ اسرائیلیات میں سے ہے.لیکن بعض دفعہ بنی اسرائیل کی روایات، تفاسیر اور احادیث میں بھی نقل ہو جاتی ہیں.اور بعض اوقات یہ روایات بھی سبق کا کام دے جاتی ہیں.اگر مثنوی رومی اور کلیلہ دمنہ سے ہم فائدہ اٹھا سکتے ہیں تو کوئی وجہ نہیں کہ ہم ان روایات سے فائدہ نہ اٹھائیں جو بنی اسرائیل سے آئیں اور پھر ہماری تفاسیر اور احادیث کی کتب میں بھی آگئیں.بیشک یہ روایات مجروح قرار دے دی جائیں لیکن ان سے جو سبق ملتا ہے وہ تو ہمیں لینا چاہئیے ).بہر حال ایک روایت کی میں ہے کہ حضرت نوح علیہ السلام کے زمانہ میں جب طوفان آیا ایک چڑیا کا بچہ ایک درخت پر اپنے کی گھونسلا میں پیاسا پڑا تھا.اُس کی ماں گھونسلے سے اڑ گئی تھی.پیاس کی وجہ سے وہ چڑیا کا بچہ بار بار اپنا منہ کھولتا تھا.طوفان بڑھنا شروع ہوا اور انسانوں کی آبادی تباہ ہونے لگی.اور دنیا میں تہلکہ مچ گیا.تب فرشتوں نے کہا اے خدا ! کیا ہم طوفان کو تھما دیں؟ کافی لوگ تباہ ہو گئے ہیں.خدا تعالیٰ نے کہا نہیں، تھوڑی دیر اور.چنانچہ جب پانی اور اونچا ہو گیا تو فرشتوں نے پھر خدا تعالیٰ کی طرف توجہ کی اور کہا کہ اب طوفان کو تھما دیں؟ خدا تعالیٰ کی طرف سے حکم نازل ہوا نہیں تھوڑی دیر اور.پانی اور اونچا ہو گیا.تو ی فرشتے پھر خدا تعالیٰ سے ملتیجی ہوئے اور کہا کیا اب طوفان تھمادیں؟ خدا تعالیٰ نے کہا نہیں تھوڑی دیر اور.فلاں درخت پر چڑیا کا ایک بچہ ہے، وہ پیاسا ہے ، پانی اس قدر اونچا کر دو کہ وہ گھونسلے میں سے چونچ باہر نکال کر پانی پی لے.
خطبات محمود 34 =4 $ 1953 اب دیکھو خدا تعالیٰ کے نزدیک اس کی ساری مخلوق اس چڑیا کے بچہ کے مقابلہ میں کچھ بھی نہیں تھی.اس بچہ کی پیاس بجھانے کے لیے خدا تعالیٰ نے اپنی دوسری مخلوق کو تباہ کر دیا.اب ہے تو یہ ایک کہانی اور خواہ یہ کتنی مجروح ہو، کتنی متروک ہو لیکن اس سے یہ سبق ضرور ملتا ہے کہ بعض دفعہ ایک چھوٹے سے اور بے حیثیت آدمی کے مقابلہ میں بھی اُن لوگوں کی پروا نہیں کی جاتی جو با حیثیت ہوتے ہیں لیکن در حقیقت بے حقیقت ہوتے ہیں.ان سب کے مقابلہ میں ایک چھوٹے سے اور بے حیثیت آدمی کی پروا کی جاتی ہے جو بے حقیقت نہیں ہوتا.پس روزے رکھنے والے چاہے چار لاکھ میں سے دس ہزار ہوں چار پانچ ہزار ہوں.صاف بات ہے کہ خدا تعالیٰ کے نزدیک وہی مقبول ہیں.ان دس ہزار یا پانچ ہزار لوگوں نے دعا کر دی تو خدا تعالیٰ کے نزدیک کام ہو گیا.لیکن دوسرے لوگ اس کی برکتوں اور فضلوں سے محروم رہیں گے.حضرت لوط علیہ السلام کی قوم پر جب عذاب آیا تو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے دعا کی.اس کا بائبل میں ذکر ہے.یونہی روایت یا کہانی نہیں.حضرت ابراہیم علیہ السلام نے دعا کی اے اللہ! تو انہیں بخش دے.خدا تعالیٰ نے کہا اس گاؤں یا بستی میں گند بھرا ہے میں انہیں کس طرح بخش دوں.حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کہا اے اللہ ! آخر ساری قوم تو گندی نہیں ہوتی.اگر اس گاؤں کے اندرسو آدمی نیک ہوں تو کیا ان گندے لوگوں کی وجہ سے تو اُن سو آدمیوں کو بھی تباہ کر دے گا ؟ خدا تعالیٰ نے کہا نہیں ابراہیم! اگر اُس بستی میں سو آدمی نیک ہوں تو میں اُس بستی کو تباہ نہیں کروں گا.حضرت ابراہیم نے سمجھا کہ اس گاؤں میں سو آدمی بھی نیک نہیں.تو آپ نے کہا الہی ! اگر سونہیں تو نوے ہی سہی.صرف دس کا فرق ہے.اگر نوے آدمی اس بستی میں نیک ہوں تو کیا تو دوسروں کے ساتھ ان کو بھی تباہ کر دے گا اللہ تعالیٰ نے فرمایا ابراہیم ! اگر نوے آدمی بھی اس بستی میں نیک ہوں تو میں اس بستی کو تباہ نہیں کروں گا.حضرت ابراہیم نے سمجھا کہ اس بستی میں نوے آدمی بھی نیک نہیں.آپ نے کہا اگر اسی آدمی نیک ہوں تو کیا تو ان کو دوسرے لوگوں کے ساتھ تباہ کر دے گا؟.خدا تعالیٰ نے کہا ابراہیم ! اگر استی نیک آدمی بھی ای ہوں تو میں اس بستی کو تباہ نہیں کروں گا.اس طرح حضرت ابراہیم علیہ السلام نے تعداد کم کرتے کرتے کہا.الہی ! اگر اس بستی میں دس نیک آدمی بھی ہوں تو کیا تو اُن کو تباہ کر دے گا؟ اللہ تعالیٰ نے کہا نہیں ابراہیم ! اگر دس آدمی بھی نیک ہوں تو میں اس بستی کو تباہ نہیں کروں گا.اس کے بعد حضرت ابراہیم علیہ السلام
$ 1953 35 35 خطبات محمود مزید اصرار کرنے کی جرات نہ کی اور سمجھ لیا کہ یہ بستی اب تباہ ہوکر رہے گی.تو اگر حقیقی نیک آدمی موجود ہوں تو چاہے وہ کتنے ہی تھوڑے ہوں وہ دعا کے لیے کھڑے ہو جائیں تو ان کی دُعا آفات کو زائل کر دیتی ہے.بد قسمتی باقی لوگوں کی ہوتی ہے کہ وہ اس دعا میں شامل نہیں ہوتے.عذاب سے بچ جانا اور مقام کو حاصل کر لینا دونوں الگ الگ چیزیں ہیں.ضروری نہیں ہوتا ہے کہ اگر ایک شخص عذاب سے بچ جائے تو وہ مقام بھی حاصل کرلے.اللہ تعالیٰ بسا اوقات خفگی کی وجہ سے بھی انسان کو نعمتیں عطا کر دیتا ہے.مجھے یاد ہے ہمارے پاس ایک گائے تھی اُس نے ایک بچہ دیا.ہمارے ہاں رواج ہوتا ہے کہ جانور دوسرے شخص کو دے دیا جاتا ہے کہ وہ اُس کی پرورش کرے.جس بڑا ہو جائے تو اس کی قیمت میں سے ایک حصہ اسے دے دیا جاتا ہے.مثلاً جانو را گر چھوٹا ہو تو ادھیارہ ر لیاجاتاہے اوراگر بڑا ہوتو یہ طے کر لیاجاتا ہے کہ پرورش کے بدلہ میں اسے تیسرا حصہ یا تین چوتھائی دے دیا جائے گا.بہر حال ہم نے وہ گائے کا بچہ ایک شخص کو پرورش کے لیے دے دیا.مجھے یاد نہیں رہا تھا کہ ہم نے اُس سے کونسا حصہ طے کیا تھا.آیا ہم نے تیسرا حصہ دینے کا وعدہ کیا تھا یا نصف دینے کا وعدہ کیا تھا.بہر حال جب وہ بچھڑا بڑا ہوا.تو اُس شخص کی عورت میرے پاس آئی اور اُس نے معاہدہ کے خلاف بات کی.یعنی اگر تیسرے حصہ کا وعدہ تھا تو اُس نے کہا معاہدہ نصف کا تھا یا نصف دینے کا معاہدہ کی تھا تو اس نے دو تہائی کہا.بہر حال جو فیصلہ ہوا تھا اُس نے اسے بڑھا کر کہا.میں نے کہا دیکھو ! تم نے غلط بیانی سے کام لیا ہے اور وعدہ کے خلاف حصہ بتایا ہے.تمہارے خیال میں اگر میں اس حصہ سے کم دوں جو تم بیان کرتی ہو تو میں کمینہ بنتا ہوں.پس میں تمہیں اس کی یہ سزا دیتا ہوں کہ میں یہ گائے تمہیں ہی دے دیتا ہوں.چونکہ سزا کا کوئی اور طریق نہ تھا اس لیے میں نے اُسے یہی سزا دے دی کہ میں گائے ہی تمہیں دے دیتا ہوں.پس سزا کا ایک طریق یہ بھی ہوتا ہے کہ جتنی چیز کوئی مانگتا ہے بعض دفعہ منگی کے طور پر اُس سے ی زیادہ اُسے دے دی جاتی ہے.پس معافی کا مل جانایا ناراضگی کے طور پر کسی نعمت کا زائد طور پر مل جانا اپنی ذات میں اچھا نہیں ہوتا.اپنی ذات میں یہ چیز اچھی ہوتی ہے کہ رضا مل جائے.اگر رضا نہیں ملتی تو نے اس کا کیا فائدہ؟ جیسا کہ میں نے بتایا ہے میں نے اُس عورت سے کہا تم گائے ہی لے لو.میں تم سے کوئی حصہ نہیں لیتا.تم نے ایک چھوٹی سی چیز کولالچ کا رنگ دے دیا ہے.
خطبات محمود 36 $1953 رسول کریم ﷺ نے ایک دفعہ ایک شخص کے پاس آدمی بھجوایا کہ تم زکوۃ ادا کرو.اُس نے کی کہا دیکھو! کتنا عملہ میں نے رکھا ہوا ہے.مجھے ان جانوروں کی خدمت کرنی پڑتی ہے، ان پر یہ یہ ہی اخراجات ہوتے ہیں.لیکن یہ لوگ آجاتے ہیں اور کہتے ہیں دو چندے، اور دوز کو ۃ.جب وہ پیغامبر واپس آ گیا اور اُس نے رسول کریم ﷺ کو سارا واقعہ سنایا تو آپ نے فرمایا اس شخص سے آئندہ زکوۃ نہ لی جائے.بظاہر تو اسے ایک چیز مل گئی.اگر ہزار روپیہ سالانہ زکو تھی تو اسے ہزار روپیہ سالا نہ بچ گیا.لیکن اس شخص کے اندر نیکی تھی.جب رسول کریم ﷺ کا پیغامبر چلا گیا تو اس کی آنکھیں کھلیں اور اس کے الله نے خیال کیا کہ چیز تو مل گئی ہے لیکن خفگی کے ساتھ ملی ہے.چنانچہ وہ زکوۃ لے کر رسول کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا یا رَسُولَ الله ! زکوۃ حاضر ہے.آپ نے فرمایا تم سے زکوۃ نہیں لی جائے گی.چنانچہ وہ روتا ہوا چلا گیا.پھر اگلے سال آیا اور نہ صرف اُس سال کی زکوۃ ساتھ لایا بلکہ پہلے سال کی زکوۃ بھی لایا اور کہا یا رَسُولَ اللہ ! میں نے پچھلے سال کی زکوۃ کے جانور بھی پالے تھے وہ بھی لایا ہوں اور اس سال کی زکوۃ بھی لایا ہوں حضور ! قبول فرما لیں.آپ نے فرمایا نہیں تم سے زکوۃ نہیں ہے لی جائے گی.آپ کی وفات کے بعد وہ شخص حضرت ابو بکر کے پاس زکوۃ لے کر آیا.آپ نے فرمایا ہے جس شخص سے رسول کریم ﷺ نے زکوۃ قبول نہیں کی.اُس سے میں بھی زکوۃ نہیں لوں گا 3.اگر کوئی بے ایمان شخص ہوتا تو کہتا چلو مزے ہو گئے اتنا مال مل گیا ہے.لیکن ایک دیندار شخص یہ سمجھے گا کہ میں کچھ لے کر نہیں آیا.یہ لعنت ہے جو میں نے خریدی ہے.پس اگر کوئی شخص اُس چیز سے بھی گریز کرتا ہے جو اُس کے فائدہ کی چیز ہے.وہ سمجھتا ہے کہ میں نے خوب چکمہ دیا ہے اور اپنا خوب بچاؤ کیا ہے تو وہ کسی کا نقصان نہیں کرتا.حقیقت یہ ہے کہ وہ اس طرح کر کے ایک بھاری نعمت سے محروم رہتا ہے.درحقیقت کی وہ اپنی ناک آپ کاٹتا ہے دوسرے کا کوئی نقصان نہیں کرتا.پس جس شخص سے پہلے غفلت ہوئی ہے خدا تعالیٰ اُسے سمجھ دے تو وہ باقی روزوں کو پورا کرے.اگر چہ وہ باقی روزے رکھ کر اُس ثواب کو حاصل نہیں کر سکتا جو پہلے روزے رکھنے والوں نے ی حاصل کیا.وہ وقت گزر گیا.ایک وقت ہوتا ہے جو اس سے فائدہ اٹھالیتا ہے، اٹھا لیتا ہے.لیکن کہتے ہیں جاتے چور کی لنگوٹی ہی سہی.اگر پہلے روزے نہیں رکھے اور اس طرح ثواب اور ایمان کی ترقی سے محروم رہے تو باقی روزوں کو رکھ کر جو ثواب ملتا ہے اسے کیوں جانے دو.
خطبات محمود 37 $1953 رسول کریم ﷺ نے ایک دفعہ فرمایا کہ اللہ تعالیٰ مومنوں کو یہ یہ انعام دے گا.پھر فرمایا کہ میری امت میں سے بعض لوگ ایسے بھی ہوں گے جن کو خدا تعالیٰ بغیر حساب لئے جنت میں داخل کرے گا.ایک صحابی کھڑے ہوئے اور درخواست کی کہ يَا رَسُولَ الله دعا فرمائیں کہ خدا تعالیٰ مجھے بھی اُن لوگوں میں شامل کرے.آپ نے فرمایا ایسا ہی ہوگا.اس کے بعد ایک اور صحابی کھڑے ہوئے اور عرض کیا کہ يَا رَسُول اللہ ! میرے لیے بھی دعا کریں.آپ نے فرمایا اب نہیں ، جو یہ انعام لے گیا، لے گیا 4.اس کی نقل کرنے سے کچھ نہیں ہو گا.اس طرح تو ساری دنیا نقل کرے گی.پس وقت پر کسی چیز کا خیال آجانا اور پھر عمل کر لینا بھی بھاری نیکی ہوتی ہے.لیکن کم سے کم وہ انسان بد قسمتی سے تو بچ جاتا ہے جسے بے وقت خیال آجائے اور پھر وہ عمل کرے.یہاں کے لوگوں میں سے خدا تعالیٰ جسے ہدایت دے دے تو باقی تین روزے رکھنے کی تو فیق مل جائے گی.لیکن خطبہ چونکہ دیر سے چھپتا ہے اس لیے باہر کی جماعتوں کو دو روزے مزید باقی جماعت کے ساتھ رکھنے کا موقع مل جائے گا.بہر حال جماعت آجکل سخت مشکلات میں سے گزر رہی ہے.دشمن مختلف طریق سے جماعت کو مٹانے کی کوشش کر رہا ہے.جماعت نے خدا تعالیٰ کے فضل سے منا تو نہیں لیکن جو شخص اس کے بچانے کی کوشش کرتا ہے یقیناً وہ خدا تعالیٰ کے حضور میں بڑا مقرب ہے.چونکہ ہم میں کوئی طاقت نہیں اس لیے ہمارے پاس یہی ذریعہ ہے کہ جس ہستی کو اس کی طاقت حاصل ہے ہم اُس کے سامنے عرض کریں کہ حضور ! جماعت کو دشمن کی زد سے محفوظ رکھیئے.گویا ہمارا کام صرف منہ سے کہنا ہے اور رسول کریم ﷺ نے فرمایا ہے کہ جو شخص کسی دوسرے شخص کی شفاعت حسنہ کرتا ہے خدا تعالیٰ اس کو بھی فائدہ سے محروم نہیں کرتا بلکہ اُسے بھی فائدہ پہنچاتا ہے 5.تو جب ایک شخص کی شفاعت حسنہ کرنے سے انسان فائدہ سے محروم نہیں رہتا تو ایک جماعت کی شفاعت کرنے کے بعد وہ کیوں محروم رہے گا.پس دوستوں کو خدا تعالیٰ سے دعائیں کرنی چاہئیں کہ وہ جماعت کی حفاظت کرے، اسلام کی ترقی کے سامان بخشے ، دشمن ناکام و نامراد ہوں ، ہم ان کی ناکامی اپنی آنکھوں سے دیکھیں تا ہمارے دل اللہ تعالیٰ کے فضلوں سے لذت حاصل کریں.یہ بہت بڑی چیز ہے اس کے لیے ہے دوست دعا کریں.بار بار خدا تعالیٰ کے حضور جائیں، بار بار اُس کے سامنے پیش ہوں اور اُس
$1953 88 38 خطبات محمود سے دعا مانگیں.یہ ایسا کام نہیں جود و بر معلوم ہو.یہ کام تو ایسا ہے جو جماعت کے ہر فرد کے لیے فائدہ مند ہے.اگر جماعت بچے گی تو اس کا ہر شخص بچے گا.اگر جماعت ترقی کرے گی تو اس کا ہر فر د ترقی کرے گا.ہماری جماعت اگر چہ تعداد میں تھوڑی ہے لیکن پھر بھی اس وجہ سے کہ جماعت منتظم ہے ہر سال ہزاروں آدمی ایسے ہوتے ہیں جو اس جتھا کی وجہ سے بہت سی مشکلات سے بچی جاتے ہیں.اگر وہ اس جماعت سے باہر ہوتے تو ان مشکلات سے نہ بچتے.بے شک بعض ایسے افراد بھی ہیں جو اپنی بداخلاقیوں اور ستیوں کی وجہ سے نہیں بچتے.لیکن جماعت کا ایک خاصا حصہ ایسا ہے جو جماعت کی تائید کی وجہ سے بچ جاتا ہے.اور بعض اوقات گرے ہوئے لوگ دوبارہ کھڑے ہو جاتے ہیں.ابھی تو ہم تھوڑے ہیں لیکن پھر بھی جتھا کی وجہ سے لوگ فائدہ اٹھا لیتے ہی ނ ہیں.لیکن اگر جماعت بڑھ جائے اور اسے طاقت حاصل ہو جائے تو کمزوروں کو اس وقت.کہیں زیادہ فائدہ حاصل ہوگا.اور وہ ظالموں کے ظلموں سے بچ جائیں گے.دنیوی طور پر بھی اور دینی طور پر بھی.پس جماعت کے لیے دعا در حقیقت اپنے لئے دعا ہے.اگر کوئی شخص جماعت کی ترقی کے لیے دعا کرتا ہے تو درحقیقت وہ اپنے لئے دعا کرتا ہے.وہ کسی پر احسان نہیں کرتا بلکہ اپنے فائدہ کا کام کرتا ہے.»» الفضل 8 فروری 1953 ء) :1 مرقس باب 9 آیات 25 تا 29 میں روزوں کی بجائے دعا کا ذکر ہے.:2 پیدائش باب 18 آیت 20 تا 33 ( مفہوماً) اسد الغابة جلد 1 صفحه 32387 مطبوعہ ریاض 1384ھ :4 بخارى كتاب الرقاق باب يَدْخُلُ الْجَنَّةَ سَبْعُونَ أَلْفًا بِغَيْرِ حِسَابٍ :5 بخارى كتاب الزكواة - باب التَّحْرِيض عَلَى الصَّدَقَة (الخ)
$1953 39 6 خطبات محمود سچائی کو اختیار کرو کہ اس کے نتیجہ میں تمہیں دوسری بہت سی نیکیوں کی بھی توفیق مل جائیگی (فرموده 6 فروری 1953ء بمقام ربوہ ) تشہد ، تعوذ اورسورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا.”پاؤں کے درد کو تو آرام آ گیا تھا لیکن کل ظہر کے بعد سے نزلہ اور کھانسی کی تکلیف شروع ئی ہے اور گلا بند ہے جس کی وجہ سے میں بول نہیں سکتا تاہم میں جمعہ کے لیے آ گیا ہوں.مگر ظاہر ہے کہ میں کوئی لمبی بات نہیں کر سکتا اور خطبہ کے لیے لمبی بات کرنا ضروری بھی نہیں ہوتا.اس لیے مختصر آمیں جماعت کو اس امر کی طرف توجہ دلاتا ہوں کہ وہ اپنی حالت کو بدلے.قرآن کریم سے ثابت ہے کہ سچائی ایک ایسی چیز ہے جس کے ذریعہ دوسری بہت سی نیکیوں کی کی توفیق ملتی ہے.جب انسان سچائی کو اختیار کر لیتا ہے تو وہ اپنے اخلاق کو بہتر بنانے کی طرف متوجہ ہو جاتا تھی ہے.جن اخلاق کو وہ خدا تعالیٰ سے نہ ڈر کر خراب کر رہا تھا انہیں بندوں کے ڈر کی وجہ سے اچھا بنانے لگ جاتا ہے.مگر میں دیکھتا ہوں کہ دنیا میں سچائی کی قیمت سب سے کم ہے.جب بھی کوئی شخص بات کرتا ہے ہے تو وہ اصل بات کو چھپانے کی کوشش کرتا ہے.میں اپنے گردو پیش کے افسروں کو دیکھتا ہوں کہ جب ان سے سوال کیا جائے تو وہ "ہاں" یا " نہ " میں جواب نہیں دیتے.مثلاً اگر اُن سے پوچھا جائے
$1953 40 40 خطبات محمود کہ کیا آپ فلاں جگہ گئے تھے؟ تو وہ یہ جواب نہیں دیں گے کہ ہم وہاں گئے تھے یا نہیں گئے تھے.وہ "ہاں" اس لیے نہیں کہتے کہ شستی کی وجہ سے انہوں نے کام نہیں کیا.اور جہاں انہیں جانے کے لیے کہا گیا تھا وہاں نہیں گئے.اور " نہیں گئے " اس لیے نہیں کہتے کہ اُن کا جرم پکڑا گیا ہے.وہ ہمیشہ یہی کہتے ہیں کہ حضور ! اصل بات یہ ہے کہ فلاں نے فلاں بات کی تھی اور اس کا مطلب اصل میں یوں تھا.میں نے اس سے یہ سمجھا اور اس طرح لمبی بات کرنی شروع کر دیں گے.وہ سیدھا یہ نہیں کہیں گے کہ میں فلاں جگہ نہیں گیا بلکہ بات کو چھپانے کی کوشش کریں گے.اگر جواب "ہاں" ہوتا ہے تو وہ ہاں میں جواب نہیں دیتے.اور اگر جواب " نہیں " ہوتا ہے تو وہ " نہیں " میں جواب نہیں دیتے.یہ ثبوت ہوتا ہے ہے اس بات کا کہ وہ اپنی سستی پر پردہ ڈالنے کی کوشش کر رہے ہیں.حالانکہ اپنی سستی پر پردہ ڈال کر بات تو ہو جاتی ہے لیکن اصلاح نہیں ہو سکتی.حالانکہ سچائی ایک ایسی چیز ہے جس سے اخلاق کی اصلاح ہوتی ہے، خاندان کی اصلاح ہوتی ہے اور قوم کی اصلاح ہوتی ہے.پس میں آپ لوگوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ آپ سچائی کو اختیار کریں اور یہ کوئی مشکل بات نہیں.آخر دنیا میں ہزاروں ہزارراستباز گزرے ہیں اس لیے یہ کوئی ایسی بات نہیں جو نہیں ہو سکتی.تم فیصلہ کر لو کہ ہم نے سچ بولنا ہے چاہے اس کے بدلہ میں ہم ذلیل ہوں ،شرمندہ ہوں یا ہمیں کوئی اور نقصان اٹھانا ہے ہے.پھر دیکھو تمہارے اخلاق کی کتنی جلدی درستی ہو جاتی ہے.پس میں ان مختصر الفاظ میں جماعت کو اس امر کی طرف توجہ دلاتا ہوں کہ وہ سچائی کو اختیار کریں.بات مختصر ہے لیکن ہے بہت بڑی.کہنے کو تو یہ ایک منٹ میں کہی جاسکتی ہے لیکن نتیجہ اس کا صدیوں کی بھلائی اور قومی ترقی ہے.الفضل 14 فروری1953ء)
$1953 41 7 خطبات محمود جماعتیں مشورہ کر کے بتائیں کہ انہیں کیا کیا خطرات پیش آسکتے اور ان کا کیا علاج کیا جا سکتا ہے.یقین رکھیں بالآخر تم ہی کامیاب ہوگے (فرموده 13 فروری 1953ء بمقام ربوہ ) تشہد ، تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا." پچھلے ہفتہ سے مجھے کھانسی کی شکایت ہے.اب آواز تو کچھ صاف ہوگئی ہے لیکن کھانسی ابھی باقی ہے اور بلغم بھی آتا ہے.خصوصاً صبح اور شام کو بلغم زیادہ خارج ہوتی ہے.زیادہ تکلیف اس وقت پاؤں کی ہے.یہ درد نومبر کے آخر یاد دسمبر کے شروع میں ہوئی تھی.میں ایک کمرہ سے دوسرے کمرہ میں جار ہا تھا دہلیز سے ٹھوکر لگی اور پاؤں کو چوٹ آگئی.میں نے اس کا خیال نہ کیا.بعد میں جلسہ سالانہ کے کاموں کی وجہ سے بھی اس طرف توجہ نہ ہوئی.اس کے بعد میں نے جب دیکھا تو معلوم ہوا کہ انگوٹھے کے ناخن کے نیچے زخم ہے.چنانچہ اس کا علاج شروع کیا گیا، ناخن کاٹا گیا تا کہ زخم نگا ہو جائے اور مرہم پٹی کی جاسکے.لیکن ڈیڑھ ماہ کا عرصہ ہو گیا ابھی تک وہی حالت ہے کہ مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی زخم ابھی تک ٹھیک نہیں ہوا.بلکہ اب تو پاؤں میں درد کی وجہ سے رات کو نیند بھی نہیں آتی.اور اگر نیند آجائے تو ہر کروٹ پر لحاف لگ جانے کی وجہ سے درد شروع ہو جاتی ہے.اس طرح میں چل بھی نہیں سکتا.نقرس کی وجہ سے
$1953 42 خطبات محمود میں نے بُوٹ ایسے بنوائے ہوئے ہیں کہ پاؤں کا پنجہ بوٹ سے باہر رہتا ہے.میں وہ بُوٹ پہن کر باہر نکل آتا ہوں ورنہ میرے پاؤں کے لیے بُوٹ کا بوجھ اٹھانا مشکل ہے.احباب کو معلوم ہے کہ احرار اور اُن کے ساتھیوں نے احمدیت کے خلاف نئے سرے سے شورش شروع کر دی ہے.بلکہ اسلام کے اجارہ دار ایک مولوی نے لاہور میں تقریر کرتے ہوئے یہاں نی تک کہہ دیا ہے کہ اگر حکومت نے احمدیوں کو اقلیت قرار دینے کا جلد کوئی فیصلہ نہ کیا تو پاکستان میں احمدیوں اور غیر احمدیوں کے درمیان وہی حالات رونما ہو جائیں گے جو ہندوستان میں مسلمانوں اور ہندوؤں کے درمیان رونما ہوئے.فساد پھیلانے والے مولوی چونکہ ڈرپوک بھی ہوتے ہیں اور منافق بھی اس لیے انہوں نے یہ الفاظ استعمال کئے ہیں.ورنہ اگر اس فقرہ کی تشریح کی جائے کہ " ہندوستان میں جو کچھ ہوا" تو یہی معنے ہوں گے کہ ہندوستان میں ہندوؤں نے جوا کثریت میں تھے مسلمانوں کو جو اقلیت میں تھے مارا." پاکستان میں بھی وہی کچھ ہو گا." اس کے یہی معنے ہوں گے کہ ان مولویوں کے اتباع جواکثریت میں ہیں احمدیوں کو جو اقلیت میں ہیں قتل کر دیں گے اور انکے گھروں کو لوٹ لیں گے.اگر ان لوگوں میں جرات مومنانہ ہوتی.تو یہ لوگ کہتے کہ اگر حکومت نے احمدیوں کو اقلیت قرار نہ دیا تو ہم احمدیوں کو مار دیں گے.مگر ادھر تو یہ لوگ جہاد کا دعویٰ کرتے ہیں اور ادھر اپنی ہر بات میں منافقت کا اظہار کرتے ہیں.حالانکہ جہاد اور منافقت کا آپس میں جوڑ ہی کیا ہے.اگر واقع میں ان لوگوں میں ایمان ہوتا ، اگر ان لوگوں میں شرافت ہوتی ، اگر ان لوگوں میں اسلام ہوتا تو یہ لوگ دلیری سے کہتے کہ ہم احمدیوں کو ماردیں گے.لیکن کہتے یہ ہیں کہ لوگ احمدیوں کو مار دیں گے.بھلا ان لوگوں سے کوئی پوچھے کہ تمہیں اس بات کا کیسے پتا لگا کہ لوگ احمدیوں کو ماردیں گے.صاف ظاہر ہے کہ یہ لوگ جو خواجہ ناظم الدین صاحب کے سامنے تو بیٹھے نہیں تھے.ان کے اس فقرہ کا مطلب یہی ہو سکتا ہے کہ اے لوگو! جو ہمارا وعظ سن رہے ہو، ہماری عزت کا خیال رکھتے ہوئے احمدیوں کو مار دینا.بہر حال دشمن نے وہی کچھ کرنا ہے جو اُس کے ذہن میں آئے گا.اسلام اور اس کے ارکان کا نام تو یہ لوگ دھوکا دینے کے لیے لیتے ہیں.دراصل وہ اپنے دوست شیطان کے ذکر کو بلند کرنا چاہتے ہیں.ہمارے ملک میں مثل مشہور ہے." روندی یاراں نوں لے لے نام بھراواں دا اسلام اور قرآن کی کا نام تو یہ لوگ یونہی اسے بدنام کرنے کے لیے لیتے ہیں.اصل میں فتنہ پرداز لوگ اولیاء الطاغوت
$1953 43 خطبات محمود ہوتے ہیں.ان کی غرض طاغوت کے ذکر کو بلند کرنا اور اُسکے اخلاق کو دنیا میں پھیلا نا ہوتی ہے.میں سمجھتا ہوں کہ ہماری جماعت کو بھی ہوشیار ہو جانا چاہیے.احرار اور ان کےساتھیوں نے 22 فروری کا آخری نوٹس دیا ہے.اس کے معنے یہ ہیں کہ اس کے بعد یہ لوگوں کو احمدیوں کے خلاف اکسائیں گے خود مساجد کے حجروں میں گھس جائیں گے اور عوام کو کہیں گے کہ جاؤ اور احمد یوں کو مار دو.بعد میں کہیں گے دیکھا! ہم نے نہیں کہا تھا کہ اگر حکومت نے احمدیوں کو اقلیت قرار نہ دیا تو لوگ ان کو ی ماردیں گے.اگر واقع میں لوگوں نے احمدیوں کو مارنا تھا تو لوگ خود اس بات کا نوٹس حکومت کو دیتے.ان مولویوں کو نوٹس دینے کی کیا ضرورت تھی.ان مولویوں کو کس طرح پتا لگ گیا کہ لوگ 22 تاریخ کے بعد احمدیوں کو مار دیں گے؟ صاف ظاہر ہے کہ یہ ایک سازش ہے.اس سازش کو چھپانے کے لیے بزدل اور کمینے لوگ دوسروں کا نام لے کر شرارت کرتے ہیں.اگلا جمعہ اس نوٹس کے لحاظ سے آخری جمعہ ہوگا اور اگلے اتوار کو ان کا نوٹس ختم ہو جائے گا.میری کوشش ہوگی کہ یہ خطبہ اتوار کے اخبار میں چھپ جائے.پس جب اور جہاں یہ خطبہ پہنچے جماعت فوراً اجلاس بلائے اور مشورہ کرے کہ ان کے لیے کیا کیا خطرات ممکن ہیں.اور ان کے کیا کیا علاج انہوں نے تجویز کرنے ہیں.اور پھر جن جماعتوں کو خدا تعالیٰ توفیق دے اور انکے پاس اتنا روپیہ ہو کہ وہ مرکز میں آدمی بھجوا سکے وہ مرکز میں آدمی بھجوائے جو مقامی تجاویز لا کر نظارت امور عامہ سے اور نظارت دعوۃ و تبلیغ سے مشورہ کرے.ممکن ہے بعض مشورے ایسے ہوں جن کی اطلاع حکومت تک پہنچانی مقصود ہو.یا لٹریچر کی اشاعت مقصود ہو تو اُسکے متعلق نظارت امور عامہ اور دعوۃ و تبلیغ ہی مفید مشورے دے سکتے ہیں.اور مقامی حالات کو لوکل جماعتیں ہی صحیح طور پر سمجھ سکتی ہیں.اس لیے مرکز کا یہ ہدایت دینا کہ تم یوں کرو بعض اوقات فضول سی بات ہو جاتی ہے.جماعتیں پہلے آپس میں مشورہ کریں اور اس بات پر غور کریں کہ انہیں کیا کیا خطرہ پیش آسکتا ہے.اور پھر اس کا کیا علاج کیا جا سکتا ہے.پھر یہ بھی دیکھا جائے کہ جن لوگوں سے خطرہ ہے انہیں وہاں کیا اہمیت حاصل ہے اور ان کی جرات اور دلیری کی کیا حالت ہے.اُن کے اندر قربانی کا جذ بہ کس حد تک پایا جاتا ہے.پھر آیا وہاں کے حکام دیانت دار ہیں اور وہ اس فتنہ کو دبانے کے لیے تیار ہیں یا نہیں.پھر حکام اگر دیانتدار بھی ہوں اور وہ فتنہ کو دبانے پر آمادہ بھی ہوں تو بعض اوقات کچھ کمزوری باقی رہ جاتی ہے.یا ہو سکتا ہے کہ وہ حکام فتنہ کو دبانے پر آمادہ نہ ہوں تو اس صورت میں اگر کوئی
$1953 44 44 خطبات محمود شورش ہوئی تو کیا جماعت طاقت رکھتی ہے کہ اُس شورش کا مقابلہ کرے.پھر اس مقابلہ کے لیے انہوں نے کیا سکیم تیار کی ہے.یہ باتیں ہیں جن پر غور کرنا ضروری ہے.بہر حال تم یہ سمجھ لو کہ کسی احمدی نے اپنی جگہ کو نہیں چھوڑنا.تمہارا اپنے گاؤں یا اپنے شہر میں اچانک مرجانا یا لڑتے ہوئے مارے جانا تمہارے وہاں سے آجانے سے ہزار ہا درجہ بہتر ہے.اگر کسی احمدی نے اپنی جگہ چھوڑی تو ہمیں اُس سے کوئی ہمدردی نہیں ہوگی.مشرقی پنجاب میں مسلمانوں کے اتنی تعداد میں قتل ہونے کی وجہ ہی یہی تھی کہ انہوں نے اپنی جگہوں کو چھوڑ دیا.اگر وہ میری بات مان لیتے اور اپنی جگہوں کو نہ چھوڑتے تو اس قدر قتل و غارت نہ ہوتی.بے شک بعد میں امن ہو جانے پر ہجرت کر لیتے.ہجرت ہم نے بھی کی.لیکن چونکہ ہم نے قادیان کو فتنہ کے وقت چھوڑا نہیں اس لیے ہم امن ہونے پر خیریت سے یہاں آگئے.پس یادرکھو کہ اگر آپ لوگوں نے اپنی جگہ چھوڑیں تو ہمیں آپ سے کوئی ہمدردی نہیں ہو گی.یہ نہیں کہ تم اپنی جگہ چھوڑ کر یہاں آ جاؤ اور پھر دریافت کرو کہ اب ہم کیا کریں اگر ایسا ہوا تو ہم یہی کہیں گے کہ جس شخص کے مشورہ پر تم نے یہ فعل کیا ہے اُس سے اب بھی مشورہ لو.ہم تو صرف ایک بات جانتے ہیں کہ مومن منظم ہوتا ہے.وہ سیسہ پگھلائی ہوئی دیوار کی طرح مضبوط ہوتا ہے.سیسہ پگھلائی ہوئی دیوار کو کوئی تو ڑ نہیں سکتا.اگر وہ ٹوٹتی ہے تو اکٹھی ٹوٹتی ہے.پس تم اپنی جگہ کو ای مت چھوڑو.آپس میں مشورہ کرو اور مرکز میں اپنی تجاویز پہنچاؤ.تم اندازہ لگاؤ کہ کس حد تک گورنمنٹ کے حکام تمہاری حفاظت کرنے کے لیے تیار ہیں.اور اگر کوئی کمزوری باقی رہ جاتی ہے تو سوچو کہ دشمن کے حملہ کی صورت میں جماعت کیا کرے گی.مثلاً کیا وہ محلہ میں ایک جگہ جمع ہے ہو جائے گی.یا کونسی صورت ہے جسے وہ اختیار کرے گی.پھر جو مشورے ہوں انہیں یہاں لے کر آؤ.ڈاک کے ذریعہ اطلاع بھیجنا فضول اور لغو ہے.ڈاکخانے ہماری ڈاک ضائع کر دیتے ہیں.محکمہ ڈاک کے بعض ملازمین اتنے بے ایمان ہیں کہ وہ روٹیاں تو سرکار کی کھاتے ہیں اور نو کر احرار کے ہیں.اگر آپ لوگوں کی ڈاک پہنچ بھی گئی تو پھر غالبا مرکز کا مشورہ جماعت تک نہیں پہنچے گا.جماعتوں کے نمائندے خود آئیں اور ناظر صاحب امور عامہ اور ناظر صاحب دعوة وتبلیغ سے مشورہ کریں.اور پھر اُس مشورہ پر عمل کریں اور دعائیں کریں.
$1953 45 خطبات محمود یاد رکھو اگر تم نے احمدیت کو سچ سمجھ کر مانا ہے تو تمہیں یقین رکھنا چاہیے کہ احمد بیت خدا تعالیٰ کی قائم کی ہوئی ہے.مودودی ، احراری اور اُن کے ساتھی اگر احمدیت سے ٹکرائیں گے تو اُن کا حال ی اُس شخص کا سا ہوگا جو پہاڑ سے ٹکراتا ہے.اگر یہ لوگ جیت گئے تو ہم جھوٹے ہیں.لیکن اگر ہم بچے نے ہیں تو یہی لوگ ہاریں گے.اِنْشَاءَ اللَّهُ تَعَالَى وَ بِاللَّهِ التَّوْفِيقِ." میں مکر را حباب کو پھر توجہ دلاتا ہوں کہ یہ فتنہ احمدیہ انجمن اشاعت اسلام لاہور سے تعلق رکھنے والوں کے لیے بھی ویسا ہی خطر ناک ہے جیسا ہمارے لئے.اس لئے اُن سے بھی جہاں کی جہاں وہ ہوں مشورہ کریں اور اپنی حفاظت کی سکیم میں اُن کو بھی شامل کریں اور اُن کی حفاظت بھی پورے اخلاص اور جذبہ سے کریں.خدا تعالیٰ آپ کے ساتھ ہو.الفضل 15 فروری 1953ء)
$1953 46 40 8 خطبات محمود جو شخص فساد، دنگا اور لڑائی کی تلقین کرتا ہے اس میں یہ جرات بھی ہونی چاہیے کہ وہ اس کا اقرار کرے تشهد (فرموده 20 فروری 1953ء بمقام ربوہ) تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا.پچھلے دنوں بعض اخبارات میں یہ خبر شائع ہوئی تھی کہ احراریوں کا کوئی جلسہ لاہور میں ہو رہا تھا کہ وہاں کسی احمدی کے مکان پر سے جلسہ میں پتھر پڑے.نہایت تعجب بھی اور افسوس بھی ہوا کہ لاہور کی جماعت نے کوئی صحیح اطلاع ہمیں نہیں پہنچائی.جماعت اور تنظیم کی غرض یہ ہوا کرتی ہے کہ تمام حصے جماعت کے واقعات سے باخبر ر ہیں.اگر کسی جماعت کے کارکن اتنی ذمہ داری بھی محسوس نہیں کرتے کہ ایسے اہم معاملات میں مرکز کو صحیح حالات سے اطلاع دے دیں تو اور کسی بات کی اُن سے کیا اُمید ہوسکتی ہے.پہلا کام تو یہی ہوتا ہے کہ کسی واقعہ کی مرکز کو اطلاع دے دی جائے.باقی کام کرنے بعد میں آتے ہیں.مثلاً تم اپنے منہ میں لقمہ ڈالتے ہو تو سب سے پہلے تمہیں یہی چیز محسوس ہوتی ہے کہ تمہارا منہ کہتا ہے کہ لقمہ اُس میں آ گیا ہے.اگر تمہارے منہ کی یہ حالت ہو کہ تم منہ میں لقمہ ڈالو تو تمہارا منہ تمہیں یہ نہ بتائے کہ اس میں لقمہ آپ ہے تو تم خود ہی سمجھ سکتے ہو کہ پھر کھانا بھی ہضم نہیں ہوسکتا.
$1953 47 خطبات محمود تعجب یہ ہے کہ نظارت امور عامہ نے بھی ایسی باتیں اخبارات میں پڑھیں لیکن اس نے ان کے متعلق کوئی تحقیقات نہیں کی.اس نے لاہور کی جماعت کے افسروں سے یہ نہیں پوچھا کہ وہ کس مرض کی دوا ہیں؟ وہ کس کام کے لیے ہیں؟ اور انجمن کس بلا کا نام ہے.ایک واقعہ مشہور ہوتا ہے اور اخبارات میں چھپتا ہے لیکن مقامی جماعت مرکز کو اُس کے متعلق کوئی اطلاع نہیں دیتی.بہر حال ایک خبر بعض اخبارات میں چھپی ہے اور کچھ ہمیں افواہیں پہنچی ہیں.مثلاً ایک خبر تو یہ پہنچی ہے کہ کسی پاس کے گھر سے کسی احمدی نے جلسہ پر پتھر مارے.اور ایک خبر یہ پہنچی ہے کہ کسی پاس کے گھر سے بعض گھریلو اختلافات اور جھگڑوں کی وجہ سے جلسہ پر پتھر پڑے لیکن ساتھ کے احمدی کو بدنام کر دیا گیا.پھر ایک خبر یہ بھی پہنچی ہے کہ پتھر ایک احمدی کے گھر سے ہی پڑے ہیں لیکن پتھر مارنے والا ایک پاگل لڑکا تھا جو کچھ عرصہ پاگل خانہ میں بھی رہ چکا ہے.اس نے شور سے گھبرا کر پتھر مارے.بہر حال چونکہ ہمیں کوئی صحیح روایت نہیں پہنچی اور باوجود اس واقعہ پر اتنے دن گزر جانے کے نہ مقامی جماعت کو اپنے فرض کا احساس ہوا ہے اور نہ مرکزی ادارے نظارت امور عامہ کو اپنے فرض کا احساس ہوا ہے کہ وہ اس واقعہ کی تحقیقات کرتا.اس لئے اس پر مزید خاموشی بھی اختیار نہیں کی جاسکتی.اگر پتھر پھینکنے والا ایسا آدمی تھا جو احمدی جماعت سے کوئی تعلق نہیں رکھتا اور اُس نے یہ فعل بعض گھریلو جھگڑوں اور اختلافات کی بناء پر کیا ہے تو ہمیں اس کے متعلق کچھ کہنے کی ضرورت نہیں.وہ آپ کی آپس میں سمجھ لیں.اور اگر وہ کسی احمدی کا لڑکا تھا اور اُس کا پاگل ہونا ثابت ہو اور پھر یہ روایت بھی کی ثابت ہو کہ وہ ایک عرصہ تک پاگل خانہ میں بھی رہ چکا ہے تو یہ افسوسناک امر تو ضرور ہے لیکن ایک پاگل لڑکے کے فعل پر سمجھدار لوگوں کا شور مچانا کوئی پسندیدہ امر نہیں.جو شخص ایک پاگل لڑکے کی حرکت پر جوش میں آجاتا ہے وہ خود بھی عقل کا مظاہرہ نہیں کرتا.لیکن اگر تیسری روایت درست ہے کہ ایک سمجھداری اور عقلمند احمدی نے یہ فعل کیا ہے تو صاف بات ہے کہ ہمارا فرض ہے کہ ہم اُس شخص کے اس فعل سے اپنی براءت کا اظہار کریں.اسلام کسی پر حملہ کرنے کی اجازت نہیں دیتا.اگر کسی عقل مند اور سمجھدار احمدی نے یہ فعل کیا ہے تو زیادہ سے زیادہ وہ یہ کہہ سکتا ہے کہ وہ لوگ جلسہ میں گالیاں دے رہے تھے اس وجہ سے اُسے جوش آ گیا.لیکن قرآن کریم میں یہ مذکور ہے کہ ایسے موقع پر مومن کیا کریں.قرآن کریم کہتا ہے ہے کہ اگر کسی مجلس میں کوئی شخص جہالت کی باتیں کرے تو تم اُس مجلس سے اٹھ کر آ جاؤ یہ نہیں کہ تم اُس
$1953 48 خطبات محمود پر حملہ کر دو.پس جہاں تک گالی گلوچ کا سوال ہے گالی گلوچ کرنے والا اپنے اخلاق کا مظاہرہ کرتا ہے.ایک مومن کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ اُس سے لڑنے لگ جائے.مومن کے لیے قرآن کریم یہ ارشاد فرماتات ہے کہ وہ اُس مجلس کو چھوڑ کر چلا جائے.اگر وہ اُس مجلس میں نہیں بلکہ وہ دوسری جگہ ہے اور وہاں اُسے آواز آتی ہے تو وہ کچھ وقت کے لیے گھر خالی کر کے چلا جائے.اور اگر اُسے یہ خیال ہو کہ گھر چھوڑنے کی وجہ سے ممکن ہے کہ دشمن حملہ کر کے اسے ٹوٹ لے تو وہ کانوں میں روئی ڈال لے.بہر حال قرآن کریم نے یہ کہا ہے کہ مومن ایسی مجلس سے اٹھ کر چلا جائے.چاہے وہ اٹھ کر جانا جسمانی طور پر ہو یا عقلی اور فکری طو پر ہو.مثلاً کانوں میں روئی ڈال لینا بھی مجلس میں اٹھ کر چلے جانے کے برابر ہے.اس کے سوا اور کوئی بات جائز نہیں.پس اگر تیسری روایت درست ہو کہ کسی سمجھدار اور عقلمند احمدی نے یہ فعل کیا ہے تو اُسے یادرکھنا چاہیے کہ اُس نے یہ فعل احمدیت کی تعلیم کے خلاف کیا ہے.اُس نے صرف قانونِ وقت کو ہی نہیں تو ڑا بلکہ قانونِ شریعت ( جو دائمی ہے اور اس پر انسانی زندگی کا انحصار ہے ) کو بھی تو ڑا ہے.احمدیت اس کے اس فعل کو کسی صورت میں بھی جائز قرار نہیں دیتی.جو فعل اسلام کے خلاف ہے وہ احمدیت کے بھی خلاف ہے.اس کے بعد میں پچھلے جمعہ کے خطبہ کے متعلق کچھ کہنا چاہتا ہوں.میرے گزشتہ جمعہ کے خطبہ کے متعلق احراریوں اور اُن کے ساتھیوں نے شور مچایا ہے کہ دیکھو! امام جماعت احمدیہ نے جماعت کو تلقین کی ہے کہ تم اپنی جگہوں پر دشمن سے لڑتے ہوئے مارے جاؤ.میں نے جو کچھ کہا تھا وہ ایک تقریر کے نتیجہ میں کہا تھا جو اس پارٹی کے جو ہمارے خلاف شور مچارہی ہے ایک لیڈر نے کی تھی.میں تو اس کی وقت وہاں موجود نہیں تھا.مجھے بتایا گیا کہ اُس کی یہ تقریر اخبارات میں چھپی ہے.اس لیڈر نے کہا تھا ت کہ اگر حکومت نے احمدیوں کو اقلیت قرار دینے کے متعلق جلد کوئی انتظام نہ کیا تو پاکستان میں وہی کچھ تھی ہوگا جو مشرقی پنجاب میں ہوا تھا.اُس نے قانون کی زد سے بچنے کے لئے یہ الفاظ بولے تھے ورنہ مشرقی پنجاب میں یہی ہوا تھا کہ ہندوؤں اور سکھوں نے جو اکثریت میں تھے مسلمانوں کو مارا تھا، اُن کے گھروں کو ٹوٹا تھا اور اُن کی جائیدادوں کو جلایا تھا.یہی بات اب بھی احراری اور اُن کے ساتھی کرنا چاہتے ہیں.اب اس کے جواب کی دوہی صورتیں ہیں.اول یہ کہ وہ کہہ دیں کہ ہم نے یہ نہیں کہا.اخبارات نے اگر یہ بیان شائع کیا ہے تو غلط شائع کیا ہے.اور اگر وہ یہ بات شائع کر دیں تو بات ہی ختم
$1953 49 49 خطبات محمود ہو جاتی ہے.دوسری بات یہ ہو سکتی ہے کہ وہ کہہ دیں کہ ہم نے کہا تو یہی تھا لیکن مشرقی پنجاب میں تو مسلمانوں کے گلوں میں ہار ڈالے گئے تھے اُن کا اعزاز اور اکرام کیا گیا تھا.اَللهُ اَكْبَرُ کے نعرے بلند کئے گئے تھے.مسلمانوں کو ہندوؤں نے مارا پیٹا تو نہیں تھا.پس جس طرح مشرقی پنجاب میں ہندوؤں اور سکھوں نے مسلمانوں کا اعزاز اور احترام کیا تھا.اسی طرح پاکستان میں بھی احمدیوں کا اعزاز اور احترام کریں گے.تم نے مار نائو ٹنا اور جلانا کہاں سے نکال لیا ہے.اگر وہ ایسا کہیں تو تب بھی ایک بات ہے ہے.مگر کوئی تیسرے معنے (جن کا اس بات سے کوئی تعلق ہی نہیں ) نکالنے کہاں جائز ہیں.یا تو کہنے یا والے نے یہ بات نہیں کہی تھی یا کہی تھی.اس صورت میں ہمارا علم یہی ہے کہ مشرقی پنجاب میں مسلمانوں کو مارا گیا اور ان کے گھروں کو ٹوٹا گیا.بلکہ تیسری بات یہ بھی تھی کہ مسلمان عورتوں کی عصمت دری بھی کی گئی.میں نے اس بات کو جان بوجھ کر چھوڑ دیا تھا.ورنہ مجھے کہنا چاہیے تھا کہ اُس کی لیڈر نے اشارہ مسلمانوں کو تلقین کی ہے کہ تم احمدیوں کو مارو، ان کے مکانوں کو لوٹو اور ان کی عورتوں کی ھے عصمت دری کرو.اور ہمیں پتا لگتا ہے کہ اُس نے فی الواقع مسلمانوں کو احمدیوں کی عورتوں کی عصمت دری کی کرنے کی تلقین کی تھی کیونکہ اس کے بعد سانگلہ ہل میں ہمیں معتین صورت میں یہ شہادت ملی ہے کہ احمدیوں کے گھروں میں رقعے ڈالے گئے اور انہیں کہا گیا کہ تم اپنے عقیدہ سے باز آ جاؤور نہ تمہیں قتل کر دیا جائے گا اور تمہاری عورتوں کی عصمت دری کی جائے گی.پھر اس کا مزید ثبوت یہ ملتا ہے کہ وہی مولوی جس کے متعلق کہا جاتا ہے کہ اُس نے ایسا کہا اُس نے جھٹ غنڈوں کے خلاف جلسے کرنے شروع کر دیئے ہیں تا کہ گورنمنٹ پر یہ ظاہر کیا جا سکے کہ وہ تو غنڈہ گردی کے خلاف ہیں.اگر یہ واقعہ نہیں تھا ہی کہ احمدیوں کو اُن کی عورتوں کی عصمت دری کرنے کی دھمکی دی گئی تھی تو اس کے فوراً بعد غنڈوں کے خلاف جلسے کرنے کا کیا مطلب ہے.ایک طرف تو وہ یہ کہتے ہیں کہ اگر حکومت پاکستان نے احمدیوں کو تھی اقلیت قرار نہ دیا تو یہاں وہی کچھ ہوگا جو مشرقی پنجاب میں ہوا.اور مشرقی پنجاب میں کیا ہوا ؟ یہ مسلمانوں کے متفقہ تجربہ سے ثابت ہے.پھر دوسری طرف احمدیوں کے گھروں میں رفعے گرنے بھی شروع ہو جاتے ہیں.اور تیسری طرف غنڈہ گردی کے خلاف جلسے کئے جاتے ہیں.ان تینوں باتوں کو تھی ملا کر دیکھ لو تو اس کا وہی نتیجہ نکل آتا ہے جو میں نے بیان کیا ہے.آخر غنڈہ گردی آج تو شروع نہیں ہوئی.پھر ایسی تقریروں کے بعد فور اغنڈہ گردی کے خلاف جلسے کیوں شروع کر دیئے گئے.صاف بات کی
$1953 50 50 خطبات محمود ہے کہ قانون کی زد سے بچنے کے لیے ایسا کیا گیا ہے.ورنہ آج سے ایک ماہ پہلے بھی لاہور میں بے ایمان اور بدمعاش لوگ عورتوں کی بے عزتی کرتے تھے.آج سے ایک سال پہلے بھی لاہور میں بے ایمان اور کی بدمعاش لوگ عورتوں کی بے حرمتی کرتے تھے.آج سے دو سال پہلے بھی لاہور میں بے ایمان اور بد معاش لوگ عورتوں کی بے عزتی کرتے تھے.آج سے اڑھائی سال پہلے بھی لاہور میں بے ایمان اور کی بد معاش لوگ عورتوں کی بے حرمتی کرتے تھے.تم اخبارات کو دیکھ لو.اُن میں یہ واقعات چھپتے رہے ہیں کہ فلاں جلسے میں غنڈوں نے عورتوں کی بے حرمتی کی ، فلاں باغ میں غنڈوں نے عورتوں کی بے حرمتی کی.اُس وقت تو غنڈوں کے خلاف تقریریں نہیں کی جاتی تھیں.لیکن اب اُدھر تو یہ تقریر ہوئی ہے کہ اگر حکومت نے احمدیوں کو اقلیت قرار نہ دیا تو یہاں وہی کچھ ہو گا جو مشرقی پنجاب میں ہوا.اور معابعد احمدیوں کے گھروں میں رقعے پڑنے شروع ہو گئے اور اس کے ساتھ ہی غنڈہ گردی کے خلاف تقریریں شروع کر دی گئیں.اس کے صرف یہی معنے تھے کہ چونکہ ہم نے تحریک کی ہے کہ احمدیوں کے گھروں کو کوٹ لو انہیں قتل کردوان کی عورتوں کی عصمت دری کرو.اس لیے اگر ایسا کیا گیا تو یہ نہ ہو کہ حکومت ہمیں کی پکڑے.اس لیے انہوں نے غنڈوں کے خلاف جلسے کرنے شروع کر دیئے تا گورنمنٹ پر ظاہر کیا جائے کہ ہم مسلمانوں کے اس فعل کے خلاف ہیں.حالانکہ سیدھی بات ہے یا تو یہ کہ دو کہ ہم نے یہ بات نہیں ہے کہی.ہم بھی کہہ دیں گے کہ احراریوں اور اُن کے ساتھیوں کا ارادہ فساد کا نہیں ہے ، ہم ان پر باطنی نہیں کرتے.وقت آنے پر دیکھا جائے گا.لیکن اگر انہوں نے یہ بات کہی ہے اور ابھی تک انہوں نے اس کی کوئی تردید نہیں کی بلکہ ان باتوں کے آثار شروع ہو گئے ہیں، احمدیوں کے گھروں میں رھتے پڑنے لگا گئے ہیں کہ تم کو قتل کیا جائے گا اور تمہاری عورتوں کی بے حرمتی کی جائے گی اور پھر قانون کی زد سے بچنے کے لئے غنڈہ گردی کے خلاف جلسے بھی منعقد کرنے شروع کروائے گئے ہیں تو ہم نے اگر یہ مفہوم لے کے لیا کہ احراری احمدیوں کو قتل کرنے ، اُن کے گھروں کو ٹوٹنے ، اُن کی عورتوں کی عصمت دری کرنے کی کا ارادہ رکھتے ہیں.احمدیوں کو چاہیئے کہ بہادری سے ایسے حملہ آوروں کا مقابلہ کریں اور اپنی جگہ نہ چھوڑیں تو کیا ہوا؟ کیا تم ایک بات کہتے ہو پھر اُس کی تردید بھی نہیں کرتے تو ہم اس سے یہ مفہوم نہ لیں تو کیا کریں؟ یہ بات تو ویسی ہی ہے جیسے کہتے ہیں ایک بنیا تھا اُس کی دکان پر چور آ گیا.وہ گھر سے
$1953 51 خطبات محمود با ہرسورہا تھا.اسے پتا لگ گیا کہ دکان کے اندر چور گھس گیا ہے.اس نے باہر سے زنجیر لگالی.چور نے سمجھا کہ بنئے بے وقوف ہوتے ہیں میں اگر اسے دھوکا دوں تو یہ مجھے چھوڑ دے گا.دکان کے کی اندر کھانے پینے کی چیزیں ہیں.اگر میں یہ ظاہر کروں کہ میں بلی ہوں تو بنیا دروازہ کھول دے گا اور میں باہر نکل جاؤں گا.چنانچہ اُس نے دروازہ کے ساتھ پنجہ مار کر میاؤں میاؤں کی آواز نکالنا شروع کر دی.شاید اُسے خیال ہو کہ وہ بلی جیسی آواز اچھی طرح نکال سکتا ہے.مگر بنیا ہوشیار تھا اس نے میاؤں میاؤں کی آواز سنی تو کہا کوئی بات نہیں صبح ہوگی تو میں پہنچوں کو بلاؤں گا.اگر پیچی کہیں گے کہ یہ بلی ہے تو میں بھی مان لوں گا کہ بلی ہے.اسی طرح یہاں تین چیزیں جمع ہیں.ان کو دیکھ کر اگر پانچ عقل مند اور شریف آدمی یہ کہہ دیں کہ اگر چہ کہا تو یہی گیا تھا کہ اگر احمدیوں کو اقلیت قرار نہ دیا گیا تو یہاں وہی کچھ ہو گا جو مشرقی پنجاب میں مسلمانوں اور ہندوؤں میں ہوا تھا.( گومشرقی پنجاب میں ہوا تو یہی تھا کہ مسلمانوں کو قتل کی کیا گیا اُنکے مکان کوٹ لئے گئے ، اُن کی جائیدادوں کو جلایا گیا، اُن کی عورتوں کی بے حرمتی کی گئی اور اس کے بعد احمدیوں کے گھروں میں رفعے بھی پھینکے جانے شروع ہو گئے اور اس کے بعد غنڈہ گردی کے کے خلاف تقریریں بھی شروع ہوگئی ہیں.لیکن ان سب کا مطلب یہی ہے کہ یہاں بالکل امن رہے گا ، فساد نہیں ہوگا تو ہم بھی پہنچوں کی بات مان لیں گے.لیکن اگر ان باتوں کو دیکھ کر پانچ عقل مند اور شریف آدمی یہ کہیں کہ ان الفاظ کے ذریعہ مسلمانوں کو شرارت کی تلقین کی گئی ہے انہیں کہا گیا ہے کہ احمدیوں کو مارو، ان کے گھروں کو لوٹو ، ان کی عورتوں کی بے حرمتی کرو تو ہم مجبور ہیں کہ بلی کو بلی اور چور کو چور سمجھیں جو شخص فساد، دنگا اور لڑائی کی تبلیغ کرتا ہے.اُس میں یہ جرأت بھی تو ہونی چاہیے کہ وہ اعلان کرے کہ ہم ایسا کریں گے.مثلاً غیر احمدی یہ کہتے ہیں کہ جہاد کے یہ معنے ہیں کہ غیر مسلم حکومتوں سے بلا وجہ لڑ پڑو.اور وہ اپنا یہ عقیدہ کھلے بندوں بیان کرتے ہیں.مودودی صاحب نے تو خوب زور سے اس پر مضمون لکھے ہیں.ایسی حالت میں کوئی شخص انہیں یہ نہیں کہہ سکتا کہ وہ دھوکا کر رہے ہیں.لیکن جب وہ ایک طرف ایسی باتیں کرتے ہیں جن میں فساد کی تلقین کی گئی ہے اور دوسری طرف ان پر پردہ ڈالنے کی کی کوشش کرتے ہیں تو کہنا پڑتا ہے کہ وہ لوگوں کو دھوکا دے رہے ہیں.ہم اقلیت ہیں یا نہیں.لیکن پاکستان میں اور اقلیتیں بھی تو ہیں.پاکستان میں عیسائی بستے ہیں، ہندو بستے ہیں، بدھ بستے ہیں.ان
$1953 59 52 خطبات محمود کے علاوہ اور تو میں بھی بہتی ہیں.تم جنہیں چا ہوا قلیت قرار دے لو.لیکن انہیں یہ معلوم بھی تو ہونا چاہیئے کہ ان سے کیا سلوک ہوگا.کیا انہیں مارا جائے گا ؟ کوٹا جائے گا؟ اور ان کی عورتوں کی بے حرمتی کی جائے گی یا انہیں امن سے رہنے دیا جائے گا؟ یہ تو اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے کہ وہ مارے جائیں یا نہ مارے جائیں.لیکن جب تم ایسا کرو گے تو دنیا سے کس سلوک کی امید کرو گے دنیا اس اعلان کے بعد خود فیصلہ کرلے گی کہ ایسے عقیدے رکھنے والوں کے خلاف کیا سلوک کیا جانا چاہیئے.واقعہ صرف اتنا ہے کہ احراریوں کے ایک لیڈر نے تقریر کی ہے.اخبارات میں چھپا ہے کہ اُس نے کہا کہ اگر حکومت نے ہمارے مطالبات کو پورا نہ کیا تو یہاں وہی حالات پیدا ہو جائیں گے جو ی مشرقی پنجاب میں پیش آئے تھے.اور یہ ظاہر ہے کہ مشرقی پنجاب میں مسلمانوں کو قتل کیا گیا.اُن کے گھروں کو لوٹا گیا ، اُن کی جائیدادوں کو جلایا گیا ، اُن کی عورتوں کی بے حرمتی کی گئی.جب تک یہ دونوں چیزیں موجود ہیں ہم مجبور ہیں کہ ہم ان سے یہ نتیجہ نکالیں کہ احمدیوں کو مارا جائے گا ، ان کو لوٹا ہے جائے گا اور ان کی عورتوں کی بے حرمتی کی جائے گی.ورنہ تم ان الفاظ کا انکار کر دو.یا تو تم یہ کہو کہ ہم نے ایسا نہیں کہا.اور یا یہ کہو کہ مشرقی پنجاب میں ایسا نہیں ہوا.تو پھر ہم بھی اپنا نظریہ بدل لیں گے اور سمجھ لیں گے کہ ہم سے غلطی ہوئی.ہم نے سنا تھا کہ مشرقی پنجاب میں مسلمانوں پر ظلم ہوا تھا.لیکن اب پتا لگا ہے کہ وہاں مسلمانوں کی عزت کی گئی تھی، اُن سے پیار کیا گیا تھا، اُن کا احترام کیا گیا تھا.اب مسلمان جو اکثریت میں ہیں وہی اعزاز اور احترام احمدیوں کا کرنا چاہتے ہیں.لیکن اگر ایسا نہیں تو جو نتیجہ میں نے نکالا وہ درست ہی نہ تھا بلکہ جو گند اُس تقریر میں تھا اُسے پوری طرح اُس خطبہ میں ہے بے نقاب نہیں کیا گیا تھا.الفضل 22 فروری 1953ء) :1 وَإِذَا رَأَيْتَ الَّذِيْنَ يَخُوضُونَ فِي ابْتِنَا فَاعْرِضْ عَنْهُمْ حَتَّى يَخُوضُوا فِي حَدِيثٍ غَيْرِهِ وَإِمَّا يُنْسِيَنَّكَ الشَّيْطَنُ فَلَا تَقْعُدْ بَعْدَ الذِّكْرُى مَعَ الْقَوْمِ الظَّلِمِينَ (الانعام: 69)
53 $1953 9 خطبات محمود درس القرآن کی اہمیت نوجوانوں کے اندر قرآن کریم سے دلچپسی اور لگاؤ پیدا کرنے کے لیے روزانہ ایک رکوع کا درس ہونا چاہئے." (فرموده 27 فروری 1953ء بمقام ربوہ) تشہد ، تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا.میرا ارادہ ہے کہ کل سے عصر کی نماز کے بعد قرآن کریم کا درس دینا شروع کر دوں.ایک عرصہ سے درس قرآن کریم بند تھا اور اسکی وجہ جہاں تک میں سمجھتا ہوں ایک حد تک میری بیماریاں بھی کیا ہیں.لیکن بڑی وجہ یہ تھی کہ جس طرز پر میں درس دیتا تھا وہ لمبا ہو جاتا تھا.چنانچہ جتنا درس میں نے اب تک دیا ہے وہ کوئی ڈیڑھ قرآن کے برابر ہے حالانکہ چاہیئے تھا کہ اب تک درس میں قرآن کریم کئی دفعہ ختم ہو چکا ہوتا.چونکہ قرآن کریم کے ایک حصہ کی تفسیر شائع ہو چکی ہے اور اس میں علمی اور بار یک حصہ آگیا ہے اس لیے درس کی طرف سے توجہ ہٹی رہی.لیکن اس کے علاوہ ایک حصہ ایسا بھی ہوتا ہے جو زیادہ علمی اور باریک نہیں ہوتا اس سے مقصد یہاں آنے والے مہمانوں اور جماعت کے نوجوانوں کے اندر قرآن کریم سے دلچسپی اور لگاؤ پیدا کرنا ہوتا ہے.اس کے لئے معانی میں زیادہ گہر ا جانے کی
$1953 54....خطبات محمود ضرورت نہیں ہوتی اور نہ یہ ضرورت ہوتی ہے کہ تفسیر کو اس قدر لمبا کر دیا جائے کہ لوگوں کے ذہنوں پر بوجھ سا محسوس ہونے لگے.پس میں نے تجویز کی ہے کہ جس طرح حضرت خلیفتہ اسیح الاول کا دستور تھا کہ آپ اختصار کے ساتھ قرآن کریم کے ایک حصہ کا روزانہ درس دیا کرتے تھے اسی طرح روزانہ اختصار کے ساتھ ایک رکوع کا درس ہو جایا کرے.اِلَّا مَا شَاءَ اللہ اگر کوئی مضمون ایسا آ جائے جس پر زیادہ وقت لگ جائے اور رکوع ختم نہ ہو سکے تو اور بات ہے ورنہ زیادہ تر یہی ہوگا کہ آیات کی کا ترجمہ کر دیا جائے اور کوئی ایک آدھ بات بیان کر دی جائے تا کہ جماعت کے اندر قرآن کریم سے دلچسپی اور لگاؤ پیدا ہو جائے.اس سال اگر مجھے درس کے لیے سال کا نصف حصہ بھی مل جائے ( کیونکہ درمیان میں جمعہ کی چھٹیاں بھی آجاتی ہیں اور پھر بیماریاں اور سفر بھی آجاتے ہیں ) تو چار سال میں قرآن کریم کا ایک دور ختم ہو جاتا ہے.لیکن درس کا جو پہلا طریق تھا اُس سے تو دس گیارہ سال میں جا کر کہیں قرآن کریم کا ایک دور ختم ہوتا تھا.اگر زیادہ تو فیق مل جائے اور خدا تعالیٰ صحت کی دے دے تو سال میں بھی قرآن کریم کا ایک دور ختم ہوسکتا ہے.بہر حال میں نے مشورہ کے بعد تجویز کیا ہے کہ عصر کی نماز کے معا بعد درس قرآن کریم شروع کر دیا جائے اور سوا چار بجے ختم کر دیا ہے جائے تاکہ سکولوں کے طالب علم کھیلوں میں چلے جائیں.حضرت خلیفتہ اسیح الاوّل کا عام درس ایسا ہی ہوتا تھا کہ اگر کوئی خاص کام آ گیا تو شام کے قریب درس ختم ہو جاتا تھا ور نہ آپ جلدی درس ختم کر دیتے تھے اور طلباء کھیلوں میں حصہ لینے کے لیے چلے جاتے تھے.درس اسی مسجد میں ہوا کرے گا.اس مسجد کا نام ہم نے مسجد مبارک رکھا ہے.لیکن کام یہ مسجد اقصیٰ کا دے رہی ہے.کیونکہ اس میں جمعہ پڑھا جاتا ہے.مجھ پر یہ اثر تھا کہ یہ مسجد، مسجد اقصیٰ سے بڑی ہے.چنانچہ قادیان سے اندازے منگوائے گئے تو معلوم ہوا کہ یہ مسجد، مسجد اقصیٰ سے دگنی ہے ہے.اسی وجہ سے اس میں جمعہ ہو جاتا ہے گواب چونکہ ربوہ کی آبادی بڑھ رہی ہے اور ایسے حالات پیدا ہورہے ہیں کہ بعض دنوں میں جب باہر سے زیادہ مہمان آجاتے ہیں تو جگہ کم محسوس 3 ہوتی ہے.اس لیے شاید یہ مسجد بھی جمعہ کے لیے کافی نہ ہو اور جمعہ کے لیے ہمیں کوئی اور مسجد بنانی پڑے.لیکن روزانہ جماعت کے لحاظ سے یہ مسجد بڑی بن گئی ہے.حالانکہ چاہیے تھا کہ یہ مسجد چھوٹی
خطبات محمود 55 55 ہوتی تاکہ نمازیوں سے بھری ہوئی نظر آتی.موجودہ صورت میں یہ مسجد نماز جمعہ کے لیے تو اچھی.لیکن عام نمازوں کے لحاظ سے زیادہ بڑی نظر آتی ہے.“ (الفضل 6 ستمبر 1961ء) $1953
$1953 50 56 10 خطبات محمود اگر ہمیں اقلیت قرار دے دیا جائے تو خدا تعالیٰ اکثریت کے دل کھول دے گا اور وہ احمدی ہو جائیں گے اور اس طرح اقلیت اکثریت میں تبدیل ہو جائے گی.(فرموده 6 / مارچ 1953ء بمقام ربوہ) تشہد ، تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا.دوستوں کو معلوم ہوگا کہ فتنہ بڑھ رہا ہے.لاہور کی حالت بہت زیادہ نازک بتائی جاتی ہے ہے.ریلوے والوں نے گاڑیاں روک رکھی ہیں اور پولیس اور فوج کو بار بار گولی چلانی پڑتی ہے.اس سے اُتر کر سیالکوٹ کی حالت ہے.لیکن بہر حال لاہور جو ایک مرکزی شہر ہے وہ خطرہ میں ہے.ہمارے پاس ہی کے ایک شہر میں جلوس نکالتے ہوئے" ہندوستان زندہ باد" اور " پاکستان مردہ باد" کے نعرے لگائے گئے ہیں.جس سے معلوم ہوتا ہے کہ تحفظ ختم نبوت کی تحریک ایک سیاسی تحریک ہے جو ماورائے سرحد سے آئی ہے اور یہ مولوی کسی دوسری حکومت کے آلہ کار ہیں.اگر خدانخواستہ یہ نعرے کامیاب ہو جائیں تو سمجھ لو کہ مسلمان کے لیے اس علاقہ میں کوئی بھی ٹھکانا باقی نہیں رہتا.اس لیے میں سمجھتا ہوں اس وقت ہر احمدی کا فرض ہے کہ وہ مستعد رہے اور خدا تعالیٰ
$1953 57 خطبات محمود ނ سے دعائیں کرے.اور جماعتی طور پر اس کی جو ڈیوٹی لگائی جاتی ہے اُسے كَمَا حَقَّہ پورا کرے اور حکومت کے ساتھ پورا پورا تعاون کرے.اس وقت ملک کی حکومت وہی ہے جس کی کوشش.پاکستان وجود میں آیا تھا.لیکن اگر کوئی اور حکومت بھی ہوتی تب بھی وہ ان باتوں کو برداشت نہ کرتی.پس ہر مسلمان کا فرض ہے کہ وہ حکومت کی تائید کرے تا مسلمان اس فتنہ سے بچ جائیں جو ہے برپا کیا گیا ہے.پس میں آج لمبا خطبہ نہیں پڑھنا چاہتا.میں سمجھتا ہوں کہ یہ وقت خطبات کا نہیں، کام کا قت ہے....جو باتیں سن کر سمجھ لیتے ہیں کہ اُن کا فرض ادا ہو گیا.جہاں تک شہر کا تعلق.اس کی حفاظت کی جماعتوں کو بھی لکھیں کہ وہ گورنمنٹ اور ملکی حالات کو خراب کر رہے ہیں.میں نے جماعت کو بعض نصائح کی تھیں.جماعتوں نے ان نصائح پر عمل کیا ہے.جماعتوں کے نمائندے بھی یہاں آئے ہیں اور اُن کو ہدایات دی گئی ہیں.اکثر جماعتوں کے نمائندے حکام سے ملے ہیں اور جماعتوں نے آپس میں بھی تنظیم کی ہے.بہر حال جماعت کے افراد پر یہ بات روشن ہوگئی ہے کہ انہوں نے اپنی جگہوں سے بھا گنا نہیں.موت بہر حال آنی ہے، اور اگر موت بہر حال آنی ہے تو جب وہ اپنی جگہوں پر رہیں گے تو بھاگ کر بُزدل نہیں بنیں گے.باہر سے جو رپورٹیں آرہی ہیں اُن سے معلوم ہوتا ہے کہ جماعت کے افراد نے اس سبق کو اچھی طرح سیکھ لیا ہے اور وہ اس پر عمل کرنے کے لیے تیار اور آمادہ ہیں.میں سمجھتا ہوں کہ جب کوئی قوم مرنے کے لیے تیار ہو جاتی ہے تو اُس کا مارنا مشکل ہو جاتا ہے.اُس وقت خود ذمہ دار افسروں کے اندر بھی بیداری پیدا ہو جاتی ہے.جب تک جماعت مرنے کے لیے تیار نہیں ہو جاتی اُس وقت تک حکام یہ سمجھتے ہیں کہ اگر انہیں ڈرا دھمکا کر بھگا دیا جائے تو ہم پر کیا الزام آئے گا.ہم کہہ دیں گے کہ ہم تو ہی مدد کے لیے آگئے تھے یہ خود بھاگ گئے ہیں.لیکن اگر کسی جگہ دس احمدی بھی رہتے ہیں اور وہ دس احمدی یہ فیصلہ کر لیتے ہیں کہ ہم مر جائیں گے لیکن اپنی جگہ نہیں چھوڑیں گے تو حکام کو بہانہ بنانے کا موقع نہیں مل سکتا.اگر سو جگہوں سے اس قسم کی رپورٹ شائع ہو جائے کہ فلاں فلاں جگہ دس ، پندرہ یا تی ہیں احمدی تھے وہ سارے کے سارے مارے گئے ، افسروں نے اُن کی حفاظت کے لیے کچھ نہیں کیا.و اصل مسودہ میں چند الفاظ پڑھے نہیں جاتے.
$1953 58 خطبات محمود مثلاً یہ شائع ہو جائے کہ ایک ضلع میں ایک ہزار احمدیوں کو مار دیا گیا ہے تو ضلع کا ذمہ دار افسر اپنے عہدہ پر قائم نہیں رہ سکتا چاہے اوپر کے افسر اُس کے ہمدرد ہی ہوں.پھر یہ خبر ساری دنیا میں پھیلنے والی ہے.اس سے حکومت بد نام ہو جائے گی.پس صحیح پالیسی یہی ہے کہ اگر کوئی قوم خطرہ میں ہو تو ی وہ اُس خطرہ کو اپنی ذات پر برداشت کرے.اپنی جگہ سے بھاگ کر بہانہ خورافسروں کو بہانہ ہے بنانے کا موقع نہ دے.وہ دشمن کو ہنسی کا موقع نہ دے اور نہ ہی بھاگ کر اپنے ایمان کو ضائع کرے.اصل دیکھنے والی بات تو یہی ہے کہ کیا کوئی ایسا شخص دنیا میں پایا جاتا ہے جو ہمیشہ زندہ رہے ، مرے نہیں ؟ اور اگر کوئی ایسا شخص نہیں پایا جاتا جس نے ہمیشہ زندہ رہنا ہے.اگر ہر انسان نے مرنا ہے تو پھر وہ عزت کی موت مرے بزدلی کی موت کیوں مرے.دنیا کے تمام مذاہب اور ی اقوام کا یہ متفقہ مسئلہ ہے کہ انسان کو ایسے موقع پر اپنی جگہ سے نہیں ہلنا چاہیئے.اُسے دشمن کے آگے ہتھیار نہیں پھینکنے چاہئیں.یہ مسئلہ ایسا ہے جو دنیا کے نزدیک مسلم ہے.اسلام اور دوسرے مذاہب کے نزدیک مسلمہ ہے.جن لوگوں نے اخلاق پر غور کیا ہے وہ بھی یہی سمجھتے ہیں کہ ایسے موقع پر انسان کو اپنی جگہ سے نہیں ہلنا چاہیے.اُسے ظالم کے سامنے اپنا سر نہیں جھکانا چاہیئے.اس صورت میں اگر وہ مرجائے گا تب بھی اس کا نام زندہ رہے گا اور اگر زندہ رہے گا تو ہر شخص اُسے عزت کی نگاہ سے دیکھے گا.اس لیے کہ اُس نے خطر ناک صورت حالات کا نہایت دلیری سے مقابلہ کیا ہے.اب ایک نیا پہلو اس تحریک کا پیدا ہوا ہے اور وہ یہ ہے کہ بدقسمتی سے بعض سیاسی آدمیوں کی تحریک اور انگیخت پر اس فتنہ نے کراچی کا رُخ کیا ہے.کہا جاتا ہے کہ چونکہ خواجہ ناظم الدین صاحب نے ہمارے مطالبات کو نہیں مانا اس لیے ہم اُن کے گھر پر پکٹنگ (PICKETING) کریں گے یا اور شورش جو ہم کر سکتے ہیں کریں گے.اس فتنہ کے متعلق جو معلومات ہم نے حاصل کی ہیں اُن سے پتا چلتا ہے کہ ان لوگوں کی دو پارٹیاں ہو گئی ہیں.ان میں سے ایک پارٹی وہ تھی جس کو پنجاب کے سرکردہ لوگوں کی مدد حاصل تھی.وہ پارٹی اس بات کے حق میں تھی کہ اس فتنہ کو پنجاب سے نکالا جائے اور دوسری جگہ شروع کیا جائے تا پنجاب کی حکومت ، پنجاب ،مسلم لیگ اور اس کے کارکن بدنام نہ ہوں.دوسری پارٹی یہ بجھتی تھی کہ احمدیوں کا غلبہ پنجاب میں ہے.ہمیں یہیں شورش کرنی چاہیے تا جن لوگوں کے سامنے ہم نے جوش و خروش سے لیکچر دیئے ہیں.ان کے سامنے مرنے مارنے کا اظہار کیا ہے انہیں
$1953 59 59 خطبات محمود اطمینان ہے اگر ہم پنجاب سے باہر چلے گئے تو وہ کیا کہیں گے.اگر ہم نے کراچی جا کر پکٹنگ کی اور وہاں جا کر بیٹھ گئے تو ہمارے اس اقدام سے پنجاب کے لوگ خوش نہیں ہو سکتے.وہ کہیں گے کہ مولوی بھاگ گئے ہیں.اس لیے ہمیں جو کچھ کرنا ہے یہیں کرنا چاہیے.سر دست وہ پارٹی غالب آگئی ہے جس نے یہ تجویز پیش کی تھی کہ ہمیں پنجاب میں کچھ نہیں کرنا چاہیے.لیکن یہ غلبہ عارضی ہے ہمیں ایسی رپورٹیں مل رہی ہیں کہ لوگ کہہ رہے ہیں مولویوں نے ہم سے دھوکا کیا ہے.جب یہ خیالات بڑھ جائیں گے اور مولویوں کو یہ نظر آنے لگے گا کہ ان کی گڈی چھن گئی ہے تو وہ کہیں گے پنجاب میں بھی لوٹ مار کرو تا عوام خوش ہو جائیں.اس لیے ہماری جماعت کو فتنہ کے کراچی میں منتقل ہو جانے کی وجہ سے خوش نہیں ہونا چاہیے.تم بیوقوفی کرو گے اگر یہ سمجھ لو گے کہ فتنہ ٹل گیا ہے.ہم تو اندرونی خبر رکھنے کی کوشش کرتے ہیں اس لیے ہمیں زیادہ حالات معلوم ہیں.ہم ہی چاروں طرف کی خبریں جمع کرتے ہیں اور پھر اُن سے نتیجہ نکالتے ہیں.ہم معلوم کرتے ہیں کہ ان کی میں سے کونسی خبر سچی ہے کونسی جھوٹی ہے اور کون سی خبر میں مبالغہ ہے.اس وقت تک جو خبریں ہمیں ملی ہیں اُن سے معلوم ہوتا ہے کہ خطرہ دبا نہیں.ہاں کچھ وقت کے لیے ٹل گیا ہے.پس جماعتوں کو اپنے انتظامات قائم رکھنے چاہیں اور اس فتنہ کے ملنے کی وجہ سے خوش نہیں ہونا چاہیے.حقیقت یہ ہے کہ فتنہ کا کراچی میں منتقل ہونا ملک کے لیے زیادہ مضر ہے.اس کے معنے بہ ہیں کہ ملک میں ڈکٹیٹر شپ قائم کرنیکی کوشش کی جارہی ہے.جمہوریت اور ڈکٹیٹر شپ میں یہ فرق ہے کہ جمہوریت میں جن اصولوں اور قواعد کے ماتحت پبلک کی آواز حکومت تک پہنچائی جاتی ہے انہیں نظر انداز کر دیا جاتا ہے اور ایک فرد کے ذمہ ساری بات لگا دی جاتی ہے.یہ مطالبہ بظاہر وزیر اعظم پاکستان خواجہ ناظم الدین صاحب سے ہے.مگر لوگ اس کی حکمت کو نہیں سمجھے.بظاہر یہ بات نظر نہیں آتی کہ ملک میں ڈکٹیٹر شپ قائم کی جارہی ہے لیکن در پردہ یہی بات ہے کہ ملک میں ڈکٹیٹر شپ قائم کی جارہی ہے.آخر خواجہ ناظم الدین ایک وزیر ہیں.اور وزیر ہونے کی وجہ سے انہیں قانونی طو پر کوئی زائد حق حاصل نہیں.جمہوریت کا تقاضا ہے کہ وزیر اعظم ہونے کی وجہ سے وہ وہی کچھ کریں جو اُن کی کیبنٹ (Cabinet) کہے اور جمہوریت کا تقاضا ہے کہ کیبنٹ انہیں وہی مشورہ دے جس پر ملک کے نمائندوں کی اکثریت قائم ہے.جمہوریت کہتی ہے کہ جو کچھ
خطبات محمود 60 60 $1953 کوئی لینا چاہتا ہے اسے انتخاب کے ڈنڈے سے حاصل کرے.وہ اپنے ہم خیال لوگوں کو اسمبلی میں بھیجے اور ایسے قوانین پاس کرائے جن سے اُس کا مطلب حل ہو جائے ورنہ صرف یہ کہہ دینا کہ ہمارے ساتھ اکثریت ہے کچھ فائدہ نہیں دے سکتا کیونکہ دوسرا شخص کہہ سکتا ہے کہ ہمیں شبہ ہے کہ اکثریت تمہارے ساتھ شامل نہیں.ہمارا ملک جمہوری ہے اور جمہوریت نے یہ اصول مقرر کیا ہے کہ اکثریت کی رائے کو ان کے نمائندوں کے ذریعہ ظاہر کیا جائے.وہ کہتے ہیں ہم باز آئے اس کی بات کو ماننے سے کہ تمہارے ساتھ ملک کی اکثریت ہے تم اپنے نمائندے مقرر کرو.وہ نمائندے کثرت رائے سے جو بات کہہ دیں گے ہم مان لیں گے.غرض نمائندوں کی کثرتِ رائے وزراء کو مجبور کرتی ہے کہ وہ ان کی خواہش کے مطابق کام کریں.اور وزراء کی کثرتِ رائے وزیر اعظم کو مجبور کرتی ہے کہ وہ اُن کی خواہش کے مطابق کام کرے.جب جمہوریت کا یہ طریق ہے کہ صرف ایک وزیر کچھ نہیں کر سکتا تو اب کسی جماعت کا یہ کہنا کہ فلاں وزیر ایسا کر دے اس کا یہ مطلب ہے کہ تو وزراء کی کثرت رائے کی پروانہ کر.اور اگر وزارت کو یہ کہا جاتا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ تم پبلک کے نمائندوں کی کثرتِ رائے کی پرواہ نہ کرو اور اسی کا نام ڈکٹیٹر شپ ہے.خواجہ ناظم الدین صاحب کو کہا جاتا ہے کہ جمہوریت کو چھوڑ دیں ، سارے حقوق خود لے لیں اور وزراء کی رائے کو نظر اندازی کر دیں.کیبنٹ میں دس گیارہ وزیر ہیں.اب اگر خواجہ ناظم الدین صاحب سے یہ کہا جاتا ہے تو اس کا صاف طور پر یہ مطلب ہے کہ آپ وزارت کی پروا نہ کریں.اور اگر وزارت سے کہا جاتا ہے ہے کہ تم ایسا کرو تو اس کا یہ مطلب ہے کہ اس پر زور دیا جا رہا ہے کہ تم اسمبلی کی پروا نہ کر واگر اسمبلی کے ممبران سے یہ کہا جاتا ہے کہ تم فلاں کام کرو اور وہ نہیں کرتے تو قاعدہ یہ ہے کہ تین چار سال کے بعد اسمبلی کے ممبر بدل جاتے ہیں اگر تم نے کوئی بات منوانی ہے تو آئندہ ایسے نمائندے بھیجو جوانی تمہاری رائے سے متفق ہوں.پس یہ تحریک ، جمہوریت کے بالکل خلاف ہے.خواجہ ناظم الدین کی صاحب ایک جمہوری ملک کے وزیر اعظم ہونیکی وجہ سے خود کچھ نہیں کر سکتے.اگر وہ ایسا کریں گے تو ڈکٹیٹر شپ کا دعویٰ کریں گے.پھر صرف وزارت بھی اُس وقت تک کچھ نہیں کر سکتی جب تک اسمبلی کے ممبروں کی اکثریت یہ نہ کہے کہ تم یوں کرو.اسمبلی جو کام کرنا چاہتی ہے اس کے متعلق قانون بنا دیتی ہے اور قانون بنانے کے بعد جس چیز کو وہ چاہے ڈراپ کر دیتی ہے.وہ
$1953 61 خطبات محمود پس اگر خواجہ ناظم الدین صاحب خود کچھ کرتے ہیں تو اس کا نام ڈکٹیٹر شپ ہے.لیکن تعجب ہے ایک طرف تو یہ کہا جاتا ہے کہ اسلام جمہوریت سکھاتا ہے اور دوسری طرف یہ کہا جاتا.کہ جمہوریت کی پروانہ کی جائے.صرف ایک آدمی جو چاہے فیصلہ کر دے.اگر خواجہ صاحب نہیں کریں گے تو گردن زدنی قرار پائیں گے اور اگر کریں گے تو ڈکٹیٹری کا دعوی کریں گے.ایک دوست نے مجھے بتایا کہ ہم ایک جگہ بیٹھے تھے کہ ایک ہندوستانی مہاجر وہاں آئے اور کہنے لگے کہ ہمارے ہاں جو جانور مارکھنڈ ہو جاتا ہے اُسے کہتے ہیں دو چھری یعنی اُس کو مار دو.اگر خواجہ صاحب قانون کی پابندی کرتے ہیں تو ان لوگوں کے نزدیک گردن زدنی بن جاتے ہیں.اور اگر ان کی بات مان لیتے ہیں تو قانون شکن بن جاتے ہیں.اب دیکھو خواجہ صاحب کے سامنے یہ بات پیش کر کے انہیں کتنی خطر ناک حالت میں ڈال دیا گیا ہے.ان کے لیے دونوں طرف مصیبت ہے.اگر وہ ان کی بات نہیں مانتے تو ان کے نزدیک گردن زدنی قرار پاتے ہیں اور اگر مان لیتے ہیں تو ی ملک سے غداری کرتے ہیں.ملک نے انہیں ایسا کوئی اختیار نہیں دیا کہ وہ اکیلے کوئی فیصلہ دے دیں.قوموں کو اقلیت قرار دینا کسی فرد کا کام نہیں.یہ کام ملک کے آئین کا ہے.اور جب حکومت کو اس قسم کے خطرے میں ڈال دیا جائے تو یہ ڈکٹیٹر شپ کی آواز ہے جسے بلند کیا جاتا ہے.پس تم خوش کیسے ہو سکتے ہو کہ بلا ٹل گئی.اس بلا ء کا تمہارے اور تمہارے بیوی بچوں پر آنا جتنا خطر ناک ہے حکومت اور اس کے وزراء پر آنا اس سے بھی زیادہ خطر ناک ہے.اس کا مطلب یہ ہے کہ ملک کا نظم و نسق سالہا سال تک خراب ہوتا جائے.جیسے جنوبی امریکہ کی ریاستوں میں ہوتا ہے یا بلقان کی ریاستوں میں ہوتا ہے کہ ایک حکومت قائم ہوئی اور ٹوٹ گئی پھر دوسری کی حکومت آئی مگر پھر بغاوت ہوئی اور دوسری پارٹی غالب آگئی.انگریزی میں یہ محاورہ بن گیا ہے کہ جب کسی فتنے کو بیان کرنا ہو تو کہا جاتا ہے کہ یہ بات تو بلقان والی ہے.اسی طرح امریکہ والے کہتے ہیں یہ حالت تو جنوبی امریکہ کی ریاستوں کی سی ہے.وہاں بھی یہی ہوتا ہے کہ کبھی ایک حکومت قائم ہوتی ہے اور کبھی دوسری پارٹی اُس پر غالب آ کر اپنی نئی حکومت قائم کر لیتی ہے.پس یہ لوگ جو چاہیں مطالبہ کریں لیکن اس کا جمہوری طریق یہ ہے کہ وہ آئندہ اسمبلی میں ایسے نمائندے بھیجیں جو ان کی بات کی وہاں تائید کریں اور ان کے منشاء کے مطابق قانون
$1953 62 خطبات محمود بنوادیں.آخر پانچ سال تک جماعت احمدیہ کے اقلیت قرار نہ دیئے جانے کی وجہ سے ان کا کیا نقصان ہوا ہے؟ دو سال اور انتظار کر لیں.اگر نئی اسمبلی یہ فیصلہ دے دے کہ ہم اقلیت ہیں تو ہم کی اقلیت بن جائیں گے.ہمارا کیا ہے.ہم پھر بھی وہی کچھ کہیں گے جو اب کہہ رہے ہیں.ہم سمجھتے ہیں کہ اگر جماعت پر یہ لوگ اس رنگ میں حملہ کریں گے اور زبر دستی اُسے اسلام سے باہر کرنے کی کوشش کریں گے تو خدا تعالیٰ خود ہماری مدد کرے گا.اگر ہمیں اقلیت قرار دے دیا جائے کی تو خدا تعالیٰ اکثریت کے دل کھول دے گا اور وہ احمدی ہو جائیں گے اور اس طرح اقلیت اکثریت میں تبدیل ہو جائے گی.یہ چیز خدا تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے.یہ لوگ خدا تعالیٰ کو جتنا غصہ دلائیں گے اس میں ہمارا ہی فائدہ ہے.ہم نے کب کہا ہے کہ ہم سب کچھ کر سکتے ہیں.ہم تو یہ جانتے ہیں کہ خدا تعالیٰ ہی سب کچھ کرتا ہے.یہ لوگ اُس سے جتنا ٹکرائیں گے ہمارے لیے اُس کی مدد بڑھ جائے گی.میں چند دنوں سے دیکھ رہا ہوں کہ بیعت بڑھ رہی ہے اور چٹھیوں میں یہی لکھا ہوتا ہے کہ موجودہ شورش نے ہماری توجہ احمدیت کی طرف پھیر دی ہے.حالانکہ چاہیے تھا کہ اس شورشی سے ڈر کر لوگوں کی توجہ احمدیت کی طرف سے ہٹ جاتی.لیکن ہمیں نظر آتا ہے کہ لوگوں کی توجہ بڑھا رہی ہے.پس اگر یہ لوگ ہم پر ظلم کریں گے یا ہماری وجہ سے حکومت پر ظلم کریں گے تو ہم یقین رکھتے ہیں کہ خدا تعالیٰ ہماری اور ملک کی مدد کرے گا.لیکن عوام کو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ اگر ملک پر کوئی ہے مصیبت آئی تو ان مولویوں کا کچھ نہیں بگڑئے گا.جب مشرقی پنجاب میں ماردھاڑ ہوئی تو عوام ہی ہے مارے گئے تھے مولوی نہیں مارے گئے تھے.اگر عورتوں کو اغوا کیا گیا تھا تو عوام کی عورتوں کو اغوا کیا ت گیا تھا.اب بھی اگر ملک کا نظم ونسق بدلا اور خدانخواستہ کسی غیر ملک کی فوجیں پاکستان میں داخل ہوئیں تو یہ مولوی بھاگ جائیں گے.مارے جائیں گے تو عوام، پکڑے جائیں گے تو عوام، عورتیں اور بچے اغوا کئے جائیں گے تو عوام کے.پس ملک کو تباہ کر نیکی بجائے تم صحیح طریق اختیار کرو.اگر تم کوئی فیصلہ کروانا چاہتے ہو تو اپنے نمائندوں پر اثر ڈالو.اگر ان کی اکثریت تمہارے حق میں ہو جائے گی تو تمہارے حسب منشاء فیصلہ ہو جائے گا.لیکن تم اس سے پہلے ملک کے نظم و نسق کو کیوں خراب کرتے ہو؟ اگر اتنی دیر تک احمدیوں کو اقلیت قرار نہ دینے سے کوئی فرق نہیں پڑا تو کچھ دیر اور انتظار کر لیں.اس سے کیا فرق پڑے گا.اگر اکثریت تمہاری طرف ہو گئی تو تم ہمیں
$1953 63 خطبات محمود اقلیت قرار دینے میں کامیاب ہو سکتے ہو.اگر اسمبلی کے ممبروں کی اکثریت ہمیں اقلیت قرار دے دے گی تو ہم بھی مان لیں گے.تم قومی زور لگاؤ ہم شرعی زور لگائیں گے.ہم خدا تعالیٰ سے کہیں گے کہ ان لوگوں نے ہمیں اقلیت قرار دیا ہے اب تو اکثریت کے دلوں کو کھول دے کہ وہ احمدیت قبول کر لیں اور اقلیت کو اکثریت میں بدل دے.تم یہ کہو کہ اسمبلی کے ممبروں کی اکثریت تمہاری بات مان لے اور وہ ہمارے قتل کا فیصلہ کر دے.ان دونوں طریقوں کو جمہوریت درست قرار دیتی ہے.ہمارا خدا تعالیٰ سے دعا کرنا بھی جمہوریت ہے اور تمہارا بندوں سے کہنا بھی جمہوریت لوگ بندوں پر زور دیں گے کہ اسمبلی کے ممبران کی اکثریت ان کی طرف آجائے اور احمدیوں کے خلاف فیصلہ کر دے اور ہم خدا تعالیٰ سے دعا کریں گے.بہر حال اسمبلی کے ممبران کی اکثریت جو فیصلہ کرے گی وہ جمہوریت کے مطابق ہو گا لیکن اکیلے خواجہ صاحب کی یا کسی اور فرد کی نہیں چلے گی.باقی ہمارے لیے یہ راستہ کھلا ہے کہ ہم جمہوریت کے باپ کی طرف توجہ کریں اگر ی بیٹے سعید ہوں تو باپ کی مرضی بیٹوں کی مرضی پر غالب آجاتی ہے.لیکن جہاں باپ طاقتور ہو وہاں بیٹے سعید ہوں یا نہ ہوں.بیٹے باپ کی بات مان لیتے ہیں.اور ہمارا خدا تو طاقتور ہے.وہ جب اپنی بات منوانا چاہتا ہے تو دنیا کی کوئی طاقت اُس میں حائل نہیں ہوسکتی.بہر حال ان لوگوں کا موجودہ طریق درست نہیں ان کے طریق کا اگر تجزیہ کیا جائے تو اس کے کا نتیجہ یہ نکلتا ہے.کہ اے خواجہ صاحب! آپ ہماری بات مانیں.وزارت یا اسمبلی کی پروانہ کریں.حالانکہ اس مطالبہ کو منوانے کا صحیح طریق یہ ہے کہ یہ لوگ پہلے لیگ کا مقابلہ کریں اور اُسے شکست دے کر اپنے ساتھیوں کو آگے لائیں اور اکثریت کو اپنی طرف کر لیں.پھر دیکھیں کہ وہ کیا فیصلہ کرتے ہیں.لیکن ان لوگوں کو خوب معلوم ہے کہ اکثریت ان کے ساتھ نہیں اسی لیے یہ لوگ جمہوری طریق اختیار نہیں کرتے.درمیانی طریق اختیار کرنے کے معنے ہی یہ ہیں کہ اکثریت ان کے ساتھ نہیں.جب الیکشن آتا ہے تو یہ لوگ کہہ دیتے ہیں ہم مسلم لیگ کے ساتھ ہیں کیونکہ سمجھتے ہیں کہ ہم اس وقت ننگے ہو جائیں گے.اور جب الیکشن کا وقت گزر جاتا ہے تو یہ لوگ حکومت کے خلاف ہو جاتے ہیں اور کہتے ہیں ہماری بات مانو ! اکثریت ہمارے ساتھ ہے.پس ان لوگوں نے جو طریق اختیار کیا ہے وہ جمہوری نہیں اور نہ ہی ملک کے لیے مفید
$1953 64 خطبات محمود ہے.اگر عوام ان لوگوں کو یہ کھیل کھیلنے دیں گے تو وہ جان لیں کہ یہ آگ اُن کے گھروں تک بھی پہنچے گی.اور اگر اس دوران میں ملک میں دشمن گھس آیا تو اُس کا مقابلہ کرنا مشکل ہوگا.کیونکہ پھٹے ہوئے دل بہادری سے نہیں لڑتے.پس تم ملک کی حفاظت کرو، تم قوم کی حفاظت کرو اور ان مولویوں کو ملک کا امن برباد نہ کرنے دو.اگر تم نے ان مولویوں کو کھلا چھوڑ دیا تو اس کا نتیجہ سار.ملک کے لیے خطر ناک ہوگا.یہ بات تو میں عام لوگوں سے کہتا ہوں.لیکن اپنی جماعت سے میں کہتا ہوں کہ فتنہ ٹل گیا ہے دبا نہیں، اور اگر دب بھی گیا ہے تو پھر بھی انہیں خوش نہیں ہونا چاہیے.اگر جمہوریت کو مارا جاتا ہے تو یہ بات تمہارے لیے بھی مضر ہے اور ملک کے لیے بھی مضر ہے.اگر جمہوری روح ماری گئی اور ایک وزیر کو وہ اختیار دے دیا گیا جو جمہوریت کے اصول کے مطابق اُس کا حق نہیں تو اس کے معنے یہ ہیں کہ وہ ڈکٹیٹر بن گیا ہے.پس اگر یہ روح قائم رہی تو ملک کے لیے نہایت خطر ناک ہوگی اور ملک ان حالات میں کسی صورت میں بھی محفوظ نہیں رہ سکتا.لیکن ہمیں یقین ہے کہ جس خدا نے ہمیں پاکستان دیا ہے وہ اس کی حفاظت بھی کرے گا.غیر مطبوعہ مواد از ریکارڈ خلافت لائبریری ربوہ)
$1953 65 59 11 خطبات محمود تمہارا سب سے بڑا عزیز اور دوست خدا تعالیٰ ہے.اس لیے تم اسی کے سامنے جھکو اور اسی سے مدد طلب کرو (فرموده 20 / مارچ 1953ء بمقام ربوہ ) تشہد ، تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا.انسان خوشی میں بھی اور رنج میں بھی، راحت میں بھی اور مصیبت میں بھی ہمیشہ ہی اپ عزیزوں اور دوستوں کی طرف دوڑنے کی کوشش کرتا ہے.دیکھو! جب شادیاں ہوتی ہیں تو سارے رشتہ دار ا کٹھے ہو جاتے ہیں.موتیں ہوتی ہیں تب بھی سارے رشتہ دار ا کٹھے ہو جاتے ہیں.لیکن عام حالات میں لوگ اپنے اپنے گھروں میں کام کر رہے ہوتے ہیں.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ فطرت انسان کو مجبور کرتی ہے کہ وہ اپنی خوشی میں بھی اپنے عزیزوں کو شامل کرے اور اپنے رنج میں بھی اپنے ای عزیزوں کو شامل کرے.اور جو شخص بھی فطرت کے اس مسئلہ کے خلاف چلتا ہے اُس کے متعلق مانا پڑے گا کہ جس قدر حصہ میں وہ فطرت کے اصول سے خلاف کرتا ہے اسی قدر اس کی فطرت مرچکی ہے.بچے کھیلتے ہیں تو انہیں اگر کوئی ٹوٹی ہوئی ٹھیکری بھی مل جائے اور وہ انہیں پسند آ جائے تو وہ اُسے پکڑ کر گھر کی طرف دوڑتے ہیں اور ماں سے کہتے ہیں اماں! ہمیں یہ چیز ملی ہے.یا اگر انہیں شیشہ کا کوئی ٹکڑامل جائے اور وہ پسند آجائے تو وہ اُسے گھر لے آتے ہیں اور ماں سے کہتے ہیں اماں ! ہمیں یہ شیشے کا ٹکڑا
$1953 66 99 خطبات محمود ملا ہے.حالانکہ ماں کو بتانے سے اُس چیز کی عظمت نہیں بڑھ جاتی.صرف اس لیے کہ فطرت کہتی ہے کہ خوشی کے وقت میں ماں کو بھی شامل کرنا چاہیے بچہ اپنی خوشی میں اپنی ماں کو بھی شریک کر لیتا ہے.پھر بچے کے کو کوئی مارتا ہے تو اُس وقت بھی وہ دوڑتا ہوا گھر آتا ہے.بسا اوقات مارنے والا بہت بڑی شان کا ہوتا ہے اور ماں بے چاری غریب اور مزدور پیشہ ہوتی ہے لیکن ایک بچہ کے لیے تو وہی سب سے بڑی ہوتی ہے ہے.وہ اُس وقت بھی اسی کے پاس فریاد کرتا ہے کیونکہ وہ سمجھتا ہے کہ اس کی ماں اس کے غم میں شریک ہوگی اور شاید ( بلکہ بچے کے نزدیک یقینا) وہ اس کے غم کو دور کرنے کی کوشش کرے گی.سو جہاں حقیقی تعلق ہوتا ہے وہاں خوشی میں بھی اور رنج میں بھی انسان اپنے عزیزوں اور دوستوں کے پاس جاتا ہے اور اگر کوئی فطرت کے اس قانون کے خلاف کرتا ہے اور وہ خوشی اور رنج کے وقت اپنے عزیزوں کے پاس نہیں جاتا تو یہ اس کے جنون اور دیوانگی کی علامت ہوگی.مثلاً اگر بچہ دیوانہ ہے یا نیم دیوانہ ہے تو وہ نہ خوشی میں اپنی ماں کو شریک کرے گا اور نہ رنج میں اس سے مدد حاصل کرے گا.اسی طرح ایک مجنون اور دیوانہ انسان خوشی اور رنج کے وقت اپنے عزیزوں کے پاس نہیں جاتا.لیکن ایک تندرست اور صحیح الدماغ انسان خوشی اور رنج میں ہمیشہ اپنے عزیزوں کے پاس ہی پہنچتا ہے.اور پھر صحیح الدماغ اور تندرست عزیز بھی ہمیشہ اُس کی مدد کرتے ہیں.یہی فلسفہ دعا کا ہے.انسان کا سب سے بڑا عزیز خدا تعالیٰ ہے اور جب انسان کو کوئی خوشی ہے تو جو سچی فطرت والا انسان ہوتا ہے اور خدا تعالیٰ کو اس نے سمجھا ہوا ہوتا ہے وہ بے اختیار خدا تعالیٰ کی طرف دوڑتا ہے اور کہتا ہے الْحَمْدُ لِلهِ ، اَلْحَمْدُ لِلَّهِ کیا ہے؟ اسی امر کا اظہار ہے کہ انسان سمجھتا ہے کہ آخر یہ چیز میرا خیر خواہ اور دوست ہی مجھے دے سکتا ہے.اسے بیٹا ملتا ہے یا نیا عہدہ ملتا ہے یا مال ملتا ہے یا جائیداد ملتی ہے یا ترقی ملتی ہے یا عزت اور شہرت ملتی ہے یا کوئی اچھا کام کرنے کی توفیق ملتی ہے تو انسان کی فطرت کہتی ہے کہ آخر اسے یہ چیز ملی ہے تو کسی دوست سے ہی ملی ہے.دشمن تو یہ چیز نہیں دیا کرتا اور اگر قانون یہ ہے کہ تحفہ خیر خواہ دوست ہی دیا کرتا ہے تو معا اس کی فطرت کہتی ہے کہ خدا تعالیٰ سے بڑا کون خیر خواہ اور دوست ہوسکتا ہے.اس لیے بے اختیار اس کے منہ سے الْحَمْدُ لِلَّهِ نکلتا ہے.پھر جب کوئی رنج انسان کو پہنچتا ہے تو فطرت کہتی ہے میرے اندر آخر کوئی کمزوری تھی تبھی تو مجھے یہ دکھ پہنچا.اگر میں طاقتور ہوتا تو یہ دکھ کیوں پہنچتا.اب اس دکھ کو کوئی طاقتور ہی دور کر سکتا.ہے.
$1953 67 خطبات محمود رنج ہمیشہ اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ کوئی بیرونی طاقت مدد کرے.اور جب انسانی ذہن کو فطرت اس طرف لے جاتی ہے کہ اب کوئی غیر طاقت ہی مدد کرے تو کرے، تو معاً اُس کا دل ادھر مائل ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کون ہے جو اس دکھ کو دور کرے.اور وہ کہتا ہے إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَجَعُونَ میں اللہ تعالیٰ کا ہی ہوں اور میں اُسی سے مدد مانگتا ہوں.اُس کے سوا اور کون ہوسکتا ہے جو میری مدد کرے.إِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ کے یہ بھی معنے ہیں کہ آخر ہم نے بھی اللہ تعالیٰ کے پاس جانا ہے.لیکن اس کے یہ معنے بھی ہیں کہ اگر ہم نے لوٹنا ہے تو خدا تعالیٰ ہی کی طرف لوٹنا ہے.اگر ہم نے گریہ وزاری کرنی ہے تو اُس کے سامنے ہی کرنی ہے.پس اسلام نے یہ دونوں سبق فطرت کے تقاضا کے عین مطابق دیئے ہیں.کامیابی کے وقت رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ تم الحمد للہ کہو 1 اگر تمہاری فطرت صحیحہ ہے اور تمہارے دماغ پر جنون اور دیوانگی طاری نہیں اور تمہیں جب بھی خوشی پہنچی ہے تم عزیزوں کی طرف کو ٹتے ہو لیکن یاد رکھو تمہارا سب سے بڑا عزیز خدا تعالیٰ ہے.اگر تمہیں کوئی خوشی پہنچی ہے تو وہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ہی پہنچی ہے ہے.اسی طرح جب کوئی رنج پہنچتا ہے تو یہ انسان کی کمزوری کی علامت ہوتا ہے.اس لیے وہ خود اسے دور نہیں کر سکتا.وہ طبعا یہ خیال کرتا ہے کہ اس کے دوست اور عزیز اُس کی مدد کریں.مگر یا درکھو تمہارا سب سے بڑا عزیز اور دوست خدا تعالیٰ ہے.تم اُس کے سامنے جھکو اور اُسی سے مدد طلب کرو.جولوگ رسول کریم ہے کے اس سبق پر عمل کرتے ہیں وہ ناکام و نامراد نہیں رہتے.ناکام و نامراد وہی ہوتا ہے جو غیر طبعی فعل کرتا ہے.مثلا رات کو ڈا کہ پڑتا ہے تو عقل مند شخص اپنے عزیزوں اور دوستوں کے پاس جاتا ہے.اور اُن سے مدد طلب کرتا ہے.لیکن بے وقوف انسان دوڑ کر جنگل کی طرف چلا جاتا ہے.حالانکہ جنگل میں اس کی مدد کرنے والا کوئی نہیں ہوتا.اسی طرح روحانی دنیا میں ایک عقل مند انسان تو ای خدا تعالیٰ کی طرف جاتا ہے.لیکن بے وقوف یونہی ہائے اماں! ہائے اماں! کہتا رہتا ہے.اب صاف ظاہر ہے کہ اماں نے کیا کرنا ہے.جو کچھ کرنا ہے خدا تعالیٰ نے کرنا ہے.اور وہ خدا تعالیٰ کے پاس جاتا نہیں.وہ اس کے پاس جاتا ہے جو کچھ نہیں کر سکتا.پس جماعت کے دوستوں کو چاہیئے کہ وہ اپنی زندگی کو اس طریق پر چلا ئیں جو رسول کریم ﷺ نے ہمیں بتایا ہے.یا درکھو! اسلام سب سے زیادہ کامل مذہب اور اعلیٰ تعلیم دینے والا دین ہے.ہماری خوش قسمتی
$1953 68 خطبات محمود صلى الله ہے کہ ہم عیسائی اور ہندو نہیں تھے کہ ہم عیسائیت اور ہندو مذہب چھوڑ کر مسلمان ہوتے.اللہ تعالیٰ نے ہمیں مسلمانوں کے گھر میں پیدا کر دیا.اور اس طرح سب سے بڑا قدم جو ہم نے چلنا تھا خدا تعالیٰ.چلا دیا کہ ہم مسلمانوں کے گھروں میں پیدا ہوئے اور بچپن میں ہی ہمارے کانوں میں یہ باتیں پڑیں کہ اسلام ایک کامل مذہب ہے.رسول کریم ﷺ خاتم الانبیاء اور افضل الانبیاء ہیں.اسلام خدا تعالیٰ کا دین ہے.اسلام ہی ایک مذہب ہے جو انسانوں کو خدا تعالیٰ تک پہنچاتا ہے.قرآن کریم اُس کی آخری کتاب ہے.بچپن سے ہی یہ باتیں ماں باپ نے ہمارے کانوں میں ڈالنی شروع کیں.پھر ہمیں عقل اور ہوش آئی تو ہم نے دیکھا کہ یہ باتیں درست ہیں.دنیا میں یہ بھی ہوتا ہے کہ ماں باپ اولا د کو بعض دفعہ غلط راستہ پر چلا دیتے ہیں اور جب اُسے ہوش آتی ہے تو اسے پتا لگتا ہے کہ جس راستہ پر اُسے اس کے ماں باپ نے چلایا تھا وہ غلط تھا.لیکن ہمیں ہوش آئی تو ہم نے دیکھا کہ ہمارے ماں باپ نے کی جو کچھ بتایا تھا وہ درست تھا.ہمارے ماں باپ نے بتایا تھا کہ قرآن کریم ایک کامل کتاب ہے.ہمیں جب ہوش آئی تو ہم نے دیکھا کہ ان کی یہ بات سچی تھی.قرآن کریم فی الواقع کامل کتاب ہے.پھر ماں باپ نے ہمیں بتایا تھا کہ رسول کریم ﷺ خاتم الانبیاء اور افضل الانبیاء ہیں.جب ہم بڑے ہوئے تو ہم نے دیکھا کہ رسول کریم ﷺ واقع میں خاتم الانبیاء اور افضل الانبیاء ہیں، آپ کی شان نہایت اعلیٰ کی اور برتر ہے.پھر ماں باپ نے ہمیں بتایا تھا کہ اسلام خدا تعالیٰ کا دین ہے.جب ہم بڑے ہوئے اور ہمیں ہوش اور عقل آئی تو ہم نے دیکھا کہ اسلام واقع میں خدا تعالیٰ کا دین ہے.وہ خود اس کی مدد اور نصرت کرتا ہے.اس کی تعلیم ایسی ہے جو صرف خدا تعالیٰ ہی دے سکتا ہے، اس کی سب باتیں معقول ہیں.پس اول تو یہ راستہ ہمیں بغیر محنت کے ملا.ہمیں عیسائیت یا کوئی اور مذہب ترک کر کے اسلام قبول کی نہیں کرنا پڑا.بلکہ ہم مسلمانوں کے گھر میں پیدا ہو گئے اور اس طرح پہلا قدم خدا تعالیٰ نے خود چلا دیا.پھر دوسرا فضل خدا تعالیٰ نے یہ کیا کہ جب سوچ اور فکر کے استعمال کا وقت آیا اُس وقت خدا تعالیٰ نے ہم پر یہ ظاہر کر دیا کہ اسلام ایک کامل اور بے عیب مذہب ہے اور محمد رسول اللہ اللہ اس کے بچے رسول ہیں اور تمام انبیاء سے افضل اور برتر ہیں.گویا پکی پکائی چیز ہمیں مل گئی.اور اگر کسی کو پکی پکائی چیز مل جائے اور وہ پھر بھی اُس کے لینے میں غفلت اور ستی کرے تو کتنے افسوس کی بات ہے.اللہ تعالیٰ نے جب ی رسول کریم ﷺ کو دنیا میں مبعوث کیا تو ابتدائی لوگوں کو آپ کی باتیں کتنی قربانیوں اور مجاہدات کے بعد
$1953 69 69 خطبات محمود سمجھ میں آئیں.آخر آپ پر معاً ایمان لانے والے چار ہی آدمی تھے.حضرت ابو بکر، حضرت خدیجہ ، حضرت علی ، اور حضرت زید بعد میں کروڑوں اور اربوں لوگ مسلمان ہوئے.اور کروڑوں اور کی اربوں سے چار کی نسبت ہی کیا ہے، لیکن ان میں سے کسی نے ایک ماہ مجاہدہ کیا.کسی نے دو ماہ کی مجاہدہ کیا.کسی نے چار ماہ مجاہدہ کیا.کسی نے ایک سال تک مجاہدہ کیا.کسی نے دوسال تک مجاہدہ کیا اور کسی نے دس سال تک مجاہدہ کیا اور پھر اسلام قبول کیا.بلکہ ایسے لوگ بھی تھے جو 20, 20 سال تک رسول کریم ﷺ کا مقابلہ کرتے رہے اور آپ کی وفات کے قریب ایمان لائے اور ایسے لوگ کی بھی تھے جو آپ کی وفات کے بعد ایمان لائے.ان لوگوں کو اتنے بڑے مجاہدوں کے بعد صداقت ملی.مگر ہمیں یہ مجاہدہ نہیں کرنا پڑا.خدا تعالیٰ نے ہمیں ایک مسلمان باپ کی پیٹھ اور ایک مسلمان کی ماں کے رحم میں ڈالا اور دنیا میں ہمیں لا الہ الا الله مَحَمَّدٌ رَّسُولُ اللهِ کہنے والوں کے گھر میں پیدا کر دیا.پھر ہماری عقل کامل ہوئی تو اُس نے ہماری راہنمائی فرما دی کہ جو کچھ ماں باپ نے تمہیں بتایا تھا وہ درست تھا.پس ہمارے لیے صرف اتنی بات رہ گئی کہ ہم اس پر عمل کریں.لیکن افسوس ہے کہ با وجود اتنے بڑے فضل کے انسان خدا تعالیٰ کی طرف بھاگنے کی بجائے غیروں کی طرف بھاگتا ہے.اگر ی وہ کسی مصیبت میں مبتلا ہو جاتا ہے تو کہتا ہے.ہائے ! فلاں ہوتا تو میری مدد کرتا.اسی طرح اگر خوشی ہوتی ہے تو وہ غیروں کی طرف جاتا ہے خدا تعالیٰ کی طرف نہیں جاتا.لیکن ایک سچے مومن کو جب خوشی نصیب ہوتی ہے تو وہ بجائے ہائے اماں ! یا ہائے ابا ! کہنے کے سجدوں میں گر جاتا ہے اور سب سے پہلی خبر خدا تعالیٰ کو دیتا ہے.خدا تعالیٰ بے شک عالم الغیب ہے.لیکن فطرت کہتی ہے کہ تم پہلے خدا تعالیٰ کو یہ خوشی کی خبر بتاؤ اور فور اسجدہ میں گر جاؤ.اگر کسی کے ہاں بیٹا پیدا ہو، اُسے ترقی ملے یا اُسے کوئی اچھا کام کرنے کی توفیق ملے تو وہ سب سے پہلے خدا تعالیٰ کو بتائے اور اس کا شکر ادا کرے اسی طرح اسے رنج پہنچے تو وہ فوراً اِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ ہے.یعنی اگر مجھ پر مصیبت آگئی ہے.تو بقول پنجابی بزرگوں کے ملا دی دوڑ مسیت تک میں نے تو خدا تعالیٰ کی طرف ہی جانا ہے.یہ طبعی چیز ہے جو ہماری صحت مند فطرت میں پائی جاتی ہے.
$1953 70 خطبات محمود پس تمہیں اپنی صحت اور روحانیت کی درستی کا خیال رکھنا چاہیے.اگر تمہاری صحت درست ، تمہاری روحانیت درست ہے اور تم خوشی اور رنج میں خدا تعالیٰ کی طرف ہی دوڑتے ہو تو خدا تعالیٰ کی قسم ! تمہیں کوئی نقصان نہیں پہنچ سکتا اور دنیا کی کوئی بہتری نہیں جو تم حاصل نہیں کر سکتے.1: سنن ابن ماجہ کتاب الادب باب فضل الحامدین ( مفہوما ) المصل (اصلاح و ای میل 1953 ء)
$1953 71 12 خطبات محمود اگر انسان اپنے ہر کام کے شروع میں سوچ سمجھ کر بسم اللہ پڑھے تو اُس کے دل میں خدا تعالیٰ کی محبت پیدا ہو گی اور غیر معمولی علوم حاصل ہوں گے " فرمودہ 3 اپریل 1953ء بمقام ربوہ ) تشہد ، تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا.مجھے پچھلے ہفتہ سے نقرس کے درد کا پھر دورہ ہے.اسی وجہ سے گزشتہ جمعہ میں بھی میں نہیں آسکا.اب عام درد میں تو خدا تعالیٰ کے فضل سے نسبتاً افاقہ ہے اور پاؤں میں جو ورم ہو گیا تھا اُس میں بھی کمی ہے.لیکن ابھی سہارے کے بغیر سیٹرھیاں اترنا میرے لیے ممکن نہیں.اب بھی میں اتنا چل کے آیا ہوں تو پاؤں میں درد شروع ہو گیا ہے.ہموار سطح ہو تو اس پر تکلیف کے بغیر چلا جاتا ہے اور وہ بھی ایسی صورت میں کہ پاؤں میں جوتی نہ ہو.اس لیے میں اختصار کے ساتھ ہی خطبہ بیان کروں گا.اللہ تعالیٰ نے ہمارے لیے قرآن کریم نازل فرمایا ہے اور قرآن کریم کا نزول اس ترتیب سے نہیں تھا جس ترتیب سے وہ اب ہمارے سامنے ہے.مثلاً کثرت سے اس بارہ میں روایات
$1953 72 خطبات محمود آتی ہیں.اور تمام محدث اور مورخ اس بات پر متفق ہیں کہ پہلی آیت جو رسول کریم ﷺ پر نازل ہوئی وہ اِقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ 1 کی تھی.حالانکہ موجودہ قرآن میں وہ سب آخری پارہ میں ہے.اور آخری پارہ کے بھی آخری حصہ میں ہے.اب کجا سب سے پہلے نازل ہونے والی آیت اور کجا قرآن کے سب سے آخری پارہ میں.اور آخری پارہ کے بھی آخری حصہ میں اس کا رکھا جانا یہ بتاتا ہے کہ الہی حکمت کے ماتحت قرآن کریم کے نزول کی دو رتی ہیں لازمی تھیں.ایک ترتیب وہ تھی جو ابتدائی مسلمانوں کے لحاظ سے اُن کے مناسب حال تھی اور ایک ترتیب وہ تھی جو آئندہ آنے والے مسلمانوں کے لحاظ سے جب قرآن مکمل ہو چکا تھا تی مناسب حال تھی.اس کی دنیوی مثال یوں سمجھ لو کہ جیسے کھانا پکانے کے لیے باورچی کام شروع کرتے ہیں تو ی بعض دفعہ کھانے کی ترتیب کے لحاظ سے ایک چیز بعد میں آتی ہے.لیکن پکانے کے لحاظ سے باورچی اُس کو پہلے پکاتا ہے.اور کوئی چیز کھانے میں پہلے آتی ہے لیکن وہ اُس کو بعد میں پکاتا ہے.اور اگر کوئی اعتراض کرے کہ یہ چیز جو پہلے کھانی تھی تم نے بعد میں کیوں پکائی ؟ تو وہ جواب دے گا کہ یہ کھانی بے شک پہلے تھی لیکن اس کے پکانے میں پندرہ منٹ لگتے ہیں.اگر اسے پہلے ہی پکا لیا جاتا تو اس وقت تک یہ خراب اور باسی ہو جاتی.اور جو چیز بعد میں کھانی تھی بے شک وہ کھانی بعد میں تھی مگر اس کے پکانے میں اڑھائی تین گھنٹے لگتے ہیں.اگر اُس کو پہلے نہ پکایا جاتا تو یہ کچی رہتی ہے پس اس کی ترتیب حکمت کے ماتحت ہوتی ہے.پکانے کی اور ترتیب ہوتی ہے اور کھانے کی اور ترتیب ہوتی ہے.جب وہ پکاتا ہے تو اس امر کو نہیں دیکھتا کہ پہلے کونسی چیز کھانی ہے بلکہ وہ یہ دیکھتا ہے کہ جلدی کونسی چیز پکے گی اور دیر سے کونسی چیز پکے گی.جو جلدی پک جاتی ہے اسے وہ بعد میں تیار کر لیتا ہے اور جو دیر میں پکتی ہے اُسے وہ پہلے تیار کرنا شروع کرتا ہے.جو چیز دیر میں پکتی ہے اگر وہ اُسے دیر سے چڑھائے گا تو کھاتے وقت وہ چیز کچی ہوگی.پس وہ دیر سے پکنے والی چیز کو چولہے پر پہلے رکھ لے گا خواہ وہ آخر میں کھائی جانے والی ہو.اور جلدی پکنے والی چیز کو بعد میں تیار کرے گا خواہ وہ پہلے کھائی جانے والی ہو.یہ مثال میں نے اس غرض کے لیے دی ہے کہ بعض چیزوں کی استعمال میں اور ترتیب ہوتی
$1953 73 خطبات محمود ہے اور ان کی تیاری میں اور ترتیب ہوتی ہے.یہی طریق دنیا کے ہر کام میں چلتا ہے.حکومتیں فوجیں تیار کرتی ہیں.ملک کی تنظیم کرتی ہیں.لوگوں کو تعلیم دلاتی ہیں.ان کو مختلف فنون سکھاتی ہیں.تو بعض لوگ جنہوں نے پیچھے کام کرنا ہوتا ہے.اُن کی تیاری پہلے شروع کر دیتی ہیں اور بعض جنہوں نے پہلے کام کرنا ہوتا ہے اُن کی تیاری بعد میں ہوتی ہے.مثلاً کسی کام کی ٹریننگ چھ ماہ میں مکمل ہو جاتی ہے اور کسی کام کی ٹریننگ میں چار سال صرف ہوتے ہیں.اب خواہ ایک ہی ہے وقت میں کام شروع ہونے والے ہوں تب بھی چار سال والے کی ٹریننگ پہلے رکھی جائے گی اور چھ ماہ والے کی بعد میں.یا مثلاً عمارتیں اور پل بنانے میں دیر لگتی ہے.ان کو پہلے بنایا جائے گا اور ریل کی سٹرکیں جو جلدی جلدی تیار کر لی جاتی ہیں ان کو بعد میں رکھا جائے گا.فوجیں بعض دفعہ دس دس ، ہمیں ہیں میل لمبی لائن ایک دن میں بچھا دیتی ہیں.لیکن پل بنانے پر بڑا وقت صرف ہوتا ہے ہے.اس لیے پلوں کا انتظام اور رنگ میں ہوگا اور ریلیوں کا انتظام اور رنگ میں.یہی قرآن کریم کی ترتیب کا حال ہے.قرآن کریم میں جو مضامین اس وقت کے لحاظ سے ضروری تھے.جب وہ نازل ہو رہا تھا.اُن کو خدا تعالیٰ نے پہلے رکھا کیونکہ اُس وقت قرآن کریم ابھی اپنی مکمل صورت میں اُن کے سامنے نہیں تھا.انہیں کچھ معلوم نہیں تھا کہ قرآن کیا ہوتا ہے.اسلام کیا ہوتا ہے.رسول کیا ہوتا ہے.وحی کیا ہوتی ہے.الہام کیا ہوتا ہے.خدا تعالیٰ سے تعلق کیا ہے ہوتا ہے.بلکہ انہیں یہ بھی پتا نہ تھا کہ خدا کیا ہوتا ہے.اس لیے اُس وقت پہلے ایسے مسائل بیان کئے گئے جو بنیادی حیثیت رکھتے تھے.مگر جب وہ مسائل زیر بحث آگئے اور پندرہ بیس سال تک وہ لوگ قرآن کریم کی آیات اور اس کی تعلیم سنتے رہے تو اس کے بعد ان کی جو اولاد ہوئی.اُس نے اپنے ہی ماں باپ سے یہ باتیں سنی شروع کر دیں.اور بچپن سے ہی اُن کے کان میں یہ ڈالا جانے لگا کہ خدا کیا ہوتا ہے، رسول کیا ہوتا ہے، الہام کیا ہوتا ہے.اسلام ہم سے کیا چاہتا ہے.محمد رسول اللہ ﷺ خدا تعالیٰ نے کیوں مبعوث فرمایا.پس جب وہ بڑے ہوئے تو ان کی ذہنیت اور قسم کی تھی اور ان کے کے ماں باپ کی ذہنیت اور قسم کی تھی.قرآن کریم جب نازل ہوا تو اُس وقت قرآن کریم کی بہت سی باتیں لوگوں کے لیے بالکل نئی تھیں.لیکن آئندہ اولاد کے لیے وہ باتیں پرانی ہو چکی تھیں.مثلاً ایک مسلمان گھر میں جب کوئی بچہ پیدا ہوتا ہے تو جاہل سے جاہل ماں باپ بھی اپنے بچہ کو
$1953 74 خطبات محمود یہ ضرور سکھاتے ہیں کہ اگر کوئی تم سے پوچھے کہ تمہیں کس نے پیدا کیا ہے تو تم کہو خدا نے.لیکن یہی سوال مکہ کے بڑے سے بڑے آدمی سے بھی کیا جاتا تو وہ حیرت میں پڑ جاتا کہ میں اس کا کہ جواب دوں کہ مجھے لات نے پیدا کیا ہے یا منات نے پیدا کیا ہے یا مری نے پیدا کیا ہے یاؤ ڈنے کی پیدا کیا ہے یا مہبل نے پیدا کیا ہے.آخر میں کیا کہوں کہ مجھے کس نے پیدا کیا ہے.لیکن ایک مسلمان بچہ کے لیے یہ بالکل معمولی بات ہے.اسی طرح قضاء وقدر کا مسئلہ ہے.اس کے تفصیلی مسائل اور چیز ہیں.لیکن ایک مسلمان بچہ کے لیے تقدیر کا سوال بالکل معمولی ہے اور وہ جانتا ہے کہ جو کچھ کرتا ہے خدا تعالیٰ کرتا ہے.پس جہاں تک ایمان کا تعلق ہے یقیناً ہمارا بچہ اُس سے زیادہ جانتا ہے جتنا ابو جہل جانتا تھا.کیونکہ ابو جہل یہ بحث کرتا تھا کہ بتاؤ تقدیر کیا ہے؟ اور ہمارا بچہ چاہے جانے یا نہ جانے کہ تقدیر کیا ہوتی ہے ہے بڑی دلیری سے کہتا ہے کہ وہی ہوتا ہے جو خدا کی مرضی ہوتی ہے.پس تقدیر پر اس کا ایمان ہوتا ہے.چاہے تفصیلات سے وہ نا واقف ہو.لیکن ابو جہل اور اس کے ساتھیوں کو تو تقدیر کا لفظ بھی عجیب لگتا تھا.وہ تو یہی سمجھتے تھے کہ سارے کام ہمارے بُت کرتے ہیں یا دیوی دیوتا اور جن بھوت اور پر بیت کام کرتے ہیں.وہ سمجھتے تھے کہ قرعہ ڈال کر بکرا کسی دیوی کے نام پر چڑھا دیا تو سب کام ہو گئے.لیکن ہمارا بچہ کہتا ہے کہ سب کام خدا کرتا ہے.وہ اپنی ماں کے پاس جاتا ہے اور ی کہتا ہے اماں ! مجھے فلاں چیز لے دو.تو وہ کہتی ہے بیٹا! اللہ دے گا تو لے دوں گی اور اس جواب سے اس کی تسلی ہو جاتی ہے.کیونکہ اس کے نزدیک تقدیر ایک یقینی چیز ہے.لیکن جب قرآن کریم نازل ہوا اُس وقت یہ ایک بڑا پیچیدہ مسئلہ تھا.اور لوگ حیران ہوتے تھے کہ قرآن نے یہ کیا بات کی کہہ دی ہے.اسی طرح تو حید کو لے لو.توحید کے مسئلہ پر بڑا زور دیا گیا ہے.لیکن جب ابتدا میں یہ تعلیم نازل ہوئی تو مکہ کے لوگ حیران ہوتے تھے کہ یہ توحید کیا چیز ہے.قرآن کریم میں ان کے خیالات کا عجیب نقشہ کھینچا گیا ہے.فرماتا ہے کا فر کہتے تھے یہ محمد رسول اللہ اللہ بھی عجیب انسان ہیں کہ انہوں نے سب معبودوں کو کوٹ کاٹ کر ایک بنا دیا ہے.گویا ان کے نزدیک لات اور منات اور کی عزئی وغیرہ کا قیمہ بنا کر ایک خدا بنادیا گیا تھا.ان کے ذہن میں یہ آہی نہیں سکتا تھا کہ لات اور منات اور عزمی معبود ہیں ہی نہیں.وہ ایک کے یہ معنے سمجھتے تھے کہ ان سب کو ملا کر ایک بنا دیا گیا ہے.
$1953 75 خطبات محمود چنانچہ وہ کہتے تھے.اَجَعَلَ الْآلِهَةَ إِلَهَا وَاحِدًا 2 ہمارے بہت سے معبود تھے.مگر اس نے ان سب کو ایک بنا دیا ہے.وہ یہ نہیں کہتے کہ یہ ایک خدا پیش کرتا ہے یا کہتا ہے کہ دنیا کا ایک ہی پیدا کرنے والا ہے.بلکہ وہ سمجھتے تھے کہ اس نے بہت سارے معبودوں کو اکٹھا کر کے ایک بنا دیا ہے.گویا اُن کے نزدیک توحید کا پیغام لات، منات اور عزیٰ کو کوٹ کاٹ کر ایک کر دینا تھا.اور ی وہ حیران ہوتے تھے کہ یہ کیا تعلیم ہے.لیکن آج ہمارا چھوٹے سے چھوٹا بچہ بھی سمجھتا ہے کہ تو حید کیا تھی چیز ہے.کیونکہ وہ لات اور منات اور عزیٰ کو جانتا ہی نہیں.وہ پیدائش سے ہی سمجھتا ہے کہ ایک خدا ہے.اور ایک چھوٹے بچے کے لیے بھی یہ اتنا حل شدہ مسئلہ ہے کہ اگر اُسے کہو کہ ایک نہیں بلکہ کئی خدا ہیں تو وہ ہنس پڑے گا کہ مجھے بیوقوف بناتے ہو.لیکن ابو جہل کے سامنے جب یہ بات پیش کی جاتی تھی کہ خدا ایک ہے تو وہ بھی ہنس پڑتا تھا اور کہتا تھا کہ مجھے بیوقوف بنایا جارہا ہے.گویا ہمارے بچہ کے نزدیک یہ کہنا کہ ایک سے زیادہ خدا ہیں اُسے بیوقوف بنانا ہے اور ابو جہل کے نزدیک یہ کہنا کہ زیادہ معبود نہیں بلکہ ایک ہی معبود ہے اُسے بیوقوف بنانا تھا.تو بعد میں آنے والوں کے لیے ایک نئی ترتیب کی ضرورت پیش آتی ہے.اس لیے قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے پہلے سورہ فاتحہ رکھی ، پھر سورۃ بقرہ رکھی، پھر سورہ آل عمران رکھی ، پھر سورہ نساء رکھی.نزول کی ترتیب اُن لوگوں کے مطابق تھی جو اُس زمانہ میں تھے اور بعد کی ترتیب آئندہ آنے کی والی نسلوں کی ضرورت کے مطابق ہے.سورہ فاتحہ جو خدا تعالیٰ نے سب سے پہلے رکھی ہے.اس کی پہلی آیت بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِیمِ ہے.کئی لوگ غلطی سے یہ مجھتے ہیں کہ بسم اللہ سورۃ کا حصہ نہیں.حالانکہ بسم اللہ سورۃ کا حصہ ہے.بلکہ ہر سورۃ کا حصہ ہے.اور جب ہم کہتے ہیں کہ ہر سورۃ کا حصہ ہے تو اس سے کسی سورۃ کو بھی مستثنیٰ قرار نہیں دیتے.ممکن ہے کوئی کہے کہ سورہ تو بہ کا تو یہ حصہ نہیں.سو اس کے متعلق یا درکھنا چاہیے کہ وہ مکمل سورۃ نہیں بلکہ سورۃ انفال کا ایک باب ہے.اصل سورۃ سورۃ انفال ہی ہے.مگر چونکہ وہ اس سورۃ کا ایک مہتم بالشان ٹکڑا تھا اسے نمایاں حیثیت دینے کے لیے اسے الگ کر دیا گیا.اسی لیے اس پر بسم اللہ نہیں لکھی گئی.کیونکہ در حقیقت وہ کوئی الگ سورۃ نہیں.پس بسم اللہ قرآن کریم کی ہر مکمل سورۃ کا حصہ ہے.اس میں اللہ تعالیٰ نے بنی نور انسان کو اس طرف توجہ دلائی ہے کہ تمام انسانی افعال یا تعلقات خواہ وہ خدا تعالیٰ سے ہوں
$1953 76 خطبات محمود یا بنی نوع انسان سے ہوں ان میں پہلا واسطہ رحمانیت سے ہوتا ہے.رحمانیت خدا تعالیٰ کی وہ تی صفت ہے جس میں بغیر کسی کام اور استحقاق کے چیز مل جاتی ہے.وہ چیز کسی نماز کے بدلہ میں نہیں ملتی کسی روزہ کے بدلہ میں نہیں ملتی کسی حج کے بدلہ میں نہیں ملتی ، کسی زکوۃ کے بدلہ میں نہیں ملتی بلکہ مفت ملتی ہے.یہ مفت چیزیں خدا تعالیٰ کی طرف سے بھی ملتی ہیں اور بندوں کی طرف سے بھی ملتی تھی ہیں.اور تمام دنیا میں یہ قانون چل رہا ہے.مثلاً ماں باپ مرتے ہیں تو بچے کو ورثہ ملتا ہے.اب وہ کسی کام کے بدلہ میں نہیں ملتا بلکہ مفت ملتا ہے.امیر ماں باپ کے بچہ کو ان کی امارت کے مطابق حصہ مل جاتا ہے اور غریب ماں باپ کے بچہ کو اُن کی غربت کے مطابق حصہ مل جاتا ہے.مگر بہر حال ملتان ضرور ہے.کروڑ پتی ماں باپ ہوں تو بچوں کو پندرہ پندرہ ہمیں نہیں لاکھ مل جائے گا.غریب ماں باپ ہوں تو دو دو تین تین سو مل جائے گا.اور زیادہ غریب ہوں تو دو دو تین تین روپے مل جائیں گے.مگر بہر حال دو ملیں یاد و سولیس یا دو ہزارملیں یا اٹھتی ملے جو کچھ ملتا ہے مفت ملتا ہے.اسی طرح اساتذہ پڑھاتے ہیں.بے شک سکولوں کے اساتذہ تنخواہیں لیتے ہیں.لیکن مسجدوں میں بیٹھ کر جو لوگوں کو تعلیم دیتے ہیں وہ بالکل مفت دیتے ہیں.اس وقت آپ لوگ خطبہ سن رہے ہیں تو مفت سُن رہے ہیں.ہم درس دیتے ہیں تو مفت دیتے ہیں.اور پھر یہی نہیں کہ تمہاری مرضی ہے چاہے تم جمعہ اور درس میں آؤیا نہ آؤ بلکہ ہم مجبور کرتے ہیں کہ آؤ اور ہم سے فائدہ ی اٹھاؤ.اور یہ فائدہ تمہارے کسی کام کے بدلہ میں نہیں ہوتا.اسی طرح ہر مسجد میں خدا تعالیٰ کے ایسے کئی بندے بیٹھے ہوتے ہیں جو لوگوں کو دین کی باتیں سکھاتے ہیں.بے شک کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں جو تنخواہیں لینے پر مجبور ہوتے ہیں اور کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں جو لا لچی ہوتے ہیں.لیکن ایسے بھی ہوتے ہیں جو بغیر کسی اجرت کے خدا تعالیٰ کے تو کل پر بیٹھ جاتے ہیں اور لوگوں کی خدمت کرتے ہیں.اس گرے ہوئے زمانہ میں بھی ہزاروں ایسے آدمی مل جائیں گے جو مساجد میں آکر نمازیں پڑھا دیں گے ، قرآن کا ترجمہ سکھا دیں گے ، موٹے موٹے اسلامی مسائل لوگوں کو بتا دیں گے اور کوئی اجرت نہیں لیں گے.گویا دونوں طرف سے رحمانیت چل رہی ہوتی ہے.اور ی اگر پڑھانے والے کچھ مالی فائدہ بھی اٹھا رہے ہوں تو ایک طرف سے رحمانیت اور ایک طرف سے رحیمیت جاری ہوتی ہے.پڑھانے والا اس لیے پڑھاتا ہے کہ میں ان لوگوں کو فائدہ پہنچاؤں اور گزارہ دینے والا اس لیے دیتا ہے کہ یہ ہمارے فائدہ کا کام کر رہا ہے.لیکن ہزاروں لوگ
$1953 77 خطبات محمود ایسے بھی ہیں جو ان کا موں کے بدلہ میں کوئی پیسہ نہیں لیتے.وہ نمازیں پڑھائیں گے ، درس دیں گے ، مسائل اسلامیہ سے آگاہ کریں گے.مگر کوئی اُجرت نہیں لیں گے.اور یہی لوگ اعلیٰ مومن کی اور متقی امام ہوتے ہیں.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ پیسے لینے جائز ہیں.مگر کامل مومن وہی ہے جو تو کل پر آ بیٹھتا ہے اور وہ سمجھتا ہے کہ اگر خدا کسی کے دل میں تحریک پیدا کر دے گا تو وہ لے آئے گا میں نے نہیں مانگنا اور یہی اللہ تعالیٰ نے بسم اللہ میں ہمیں تعلیم دی ہے.بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ کے یہ معنے ہیں کہ میں اللہ کے نام سے شروع کرتا ہوں جو بغیر کسی محنت، کام اور بدلہ کے آپ ہی ہمیں اپنی نعمتیں عطا کرتا ہے.حقیقت یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے جتنی رحمانیت ظاہر ہوتی ہے بندوں کی طرف سے اتنی ظاہر نہیں ہوتی بندے کی رحمانیت نہایت ہی محدود ہے.بچہ پیدا ہوتا ہے تو اُس کی کئی ضرورتیں ایسی ہوتی ہیں جو ماں باپ پوری ہی نہیں کر سکتے.بچہ اندھا ہو جائے تو ماں باپ اُسے آنکھیں نہیں دے سکتے لنگڑا ہو جائے تو ماں باپ اُسے ٹانگ نہیں دے سکتے.بہرہ ہو جائے تو ماں باپ اُسے کان نہیں دے سکتے.لیکن خدا تعالیٰ کتنوں کو آنکھیں دے رہا ہے.جن کو ان کے ماں باپ نے آنکھیں نہیں دیں.جس کے کان نہیں ہیں اس کو اس کے ماں باپ کان نہیں دے سکتے.لیکن اس میں بھی شبہ نہیں کہ جس کے کان ہیں اُسے اس کے ماں باپ نے کان نہیں دیئے بلکہ خدا نے دیئے ہیں.یہ بھی سچی بات ہے کہ جو شخص لنگڑا ہے اُس کے ماں باپ اسے ٹانگ نہیں دے سکتے مگر ویسی ہی سچی بات یہ بھی ہے کہ جو شخص ہاتھ پیر سلامت لے کر آیا ہے اُسے اُسکے ماں باپ نے ہاتھ پاؤں نہیں دیئے بلکہ خدا نے دیئے ہیں.پس اس کا مقابلہ ماں باپ سے کرنا حماقت اور نادانی کی بات ہے.ماں باپ اپنے بچوں کو روٹی کھلاتے ہیں.تو بعض ماں باپ ایسے بھی ہوتے ہیں کہ کسی وقت دے دیتے ہیں اور کسی وقت غربت کی وجہ سے نہیں دے سکتے.اور پھر ماں باپ اگر بچوں کو کھانا کھلاتے ہیں تو ساتھ ہی ان سے کام بھی لیتے ہیں.بے شک نوکری اس کا نام نہ رکھیں مگر سب ماں باپ گھروں میں اپنے بچوں سے کام لیتے ہیں.مگر خدا تعالیٰ تو کوئی بھی کام نہیں لیتا اور دیتا چلا جاتا ہے.کہتے ہیں راک فیلر 3 اربوں ارب کا مالک ہے.مگر وہ اپنے سارے روپیہ سے ایک آنکھ تو لے دے.سارے روپیہ سے ایک کان تو لے دے.بلکہ آنکھ اور کان تو الگ رہے وہ اپنے سارے روپیہ -
$1953 78 خطبات محمود ایک بال بھی نہیں لے سکتا.مگر یہ ساری چیزیں خدا نے امیر اور غریب سب کو یکساں دی ہیں.ہر ایک کو دو دو آنکھیں تقسیم کر دی ہیں، دو دو کان تقسیم کر دیئے ہیں، ایک ایک ناک تقسیم کر دیا ہے، ایک ایک زبان تقسیم کر دی ہے، بتیس بتیس دانت تقسیم کر دیئے ہیں اور کسی سے نہ پیسہ مانگا ہے نہ خدمت لی ہے.بلکہ الٹا لوگ خدا تعالیٰ کو گالیاں دیتے ہیں.پس حقیقی رحمانیت خدا تعالیٰ میں ہی ہے پائی جاتی ہے.اور یہی سبق بسم اللہ میں دیا گیا ہے.بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ میں بتایا گیا ہے کہ جب انسان کوئی کام شروع کرے تو سوچ لے کہ کیا مجھے اس کام کی توفیق تھی ؟ اگر خدا مجھے اس کام کی توفیق نہ دیتا تو کیا میں کرسکتا ؟ مگر وہ سوچے گا تو اس کی سمجھ میں آجائے گا کہ جو کچھ ہے اللہ تعالیٰ کی رحمانیت کی وجہ سے ہی ہے.امیر آدمی روٹی کھاتا ہے تو کس شان سے اُس کا دستر خوان بچھایا جاتا ہے.کس شان سے نو کر آتے اور کس سلیقہ کے ساتھ کھانے چلتے ہیں.اور پھر وہ کس تکبر کے ساتھ دستر خوان پر بیٹھتا اور لقمہ اپنے منہ میں ڈالتا ہے.لیکن وہ سوچے کہ اگر خدا رحمن نہ ہوتا تو کیا وہ اس شان کا اظہار کر سکتا تھا؟ اگر ی خدا رحمن نہ ہوتا تو جس ہاتھ کو اُس نے کھانے کے لیے بڑھایا ہے وہ ہاتھ ہی نہ ہوتا ، جس منہ میں ہے اُس نے لقمہ ڈالا ہے وہ منہ ہی نہ ہوتا ، جن دانتوں سے اُس نے لقمہ توڑا ہے وہ دانت ہی نہ ہوتے ، جس معدہ میں اُس نے غذا ڈالی ہے وہ معدہ ہی نہ ہوتا ، جو روٹی اُس نے کھائی ہے وہ روٹی ہی نہ ہوتی جو چاول اُس نے کھائے ہیں وہ چاول ہی نہ ہوتے ، جو بوٹی اُس نے کھائی ہے وہ بوٹی ہی نہ ہوتی.یہ ساری چیزیں رحمانیت کے ساتھ ہی تعلق رکھتی ہیں.اسی طرح اگر خدا تعالیٰ رحمان نہ ہوتا تو وہ کی بکرے کہاں سے آتے جن کا گوشت انسان کھاتا ہے.بے شک بکروں کا پالنا بھی ایک بڑا کام ہے مگر سوال یہ ہے کہ بکرا آیا کہاں سے؟ چاول کا ہونا اور چیز ہے.پر چاول آیا کہاں سے؟ گندم کی کاشت بھی محنت چاہتی ہے.لیکن کجا گندم کی کاشت اور کجا گندم کا دانہ مہیا کر نا جس سے ساری دنیا فائدہ اٹھا رہی ہے.پر بسم اللہ میں خدا تعالیٰ نے ہم کو یہ سبق دیا ہے کہ ہر کام کے کرتے وقت یہ سوچ لیا کرو کہ ہم نے کیا کیا ہے اور تم نے کیا کیا ہے.جب اس طرح تم غور کرو گے تو تمہیں ہماری ہے رحمانیت کا پتا لگے گا اور تمہارے دل میں ہماری محبت بھی ترقی کرے گی.ہمارا شوق بھی بڑھے گا ،
$1953 79 خطبات محمود دنیا سے نفرت بھی پیدا ہوگی اور اصل منبع کی طرف توجہ پیدا ہوگی.یہی وجہ ہے کہ رسول کریم ہے.فرمایا کہ ہر کام کے شروع کرتے وقت بسم اللہ پڑھ لیا کر و 4.اس کے معنی یہی ہیں کہ اگر تم بسم الله پڑھو اور اس کے مضمون پر غور کرو تو تمہیں معلوم ہوگا کہ تمہارا غرور اور تکبر سب باطل ہے.ایک استاد جولڑکوں کو پڑھانے لگتا ہے وہ کس تکبر کے ساتھ اپنائید ہلا رہا ہوتا ہے کہ اگر ذرا بھی کسی نے کی حرکت کی تو اُسے مار مار کر سیدھا کر دے گا.پھر کس فخر کے ساتھ وہ بورڈ کی طرف بڑھتا ہے اور کس شان کے ساتھ چاک پکڑ کر اُس پر لکھتا ہے اور یہ ظاہر کرتا ہے کہ میں بہت بڑا عالم ہوں.حالانکہ اگر وہ غور کرے تو اُسے معلوم ہو کہ اُس کی اپنی حیثیت کچھ بھی نہیں.خدا نے علم کے کچھ ٹکڑے اُس کے حافظہ میں جمع کر دیئے ہیں.اگر وہ حافظہ نکال لیا جائے تو وہ ایک پاگل کی حیثیت اختیار کرلے اور بجائے ماسٹر بننے کے پاگل خانہ میں بھجوادیا جائے.لیکن اگر وہ بسم اللہ کہہ کر کمرہ میں داخل ہو تو اسے پتا لگے کہ میں پڑھانے نہیں آیا بلکہ خدا پڑھانے آیا ہے.یا جب وہ شادی کرے گا اور بسم الله کے مضمون پر غور کرے گا تو اُسے معلوم ہوگا کہ مجھے اگر خاوند بننے کی قابلیت دی گئی ہے تو خدا تعالی کی طرف سے دی گئی ہے اور میری بیوی کو اگر بیوی بنے کی قابلیت دی گئی ہے تو وہ بھی خدا تعالیٰ کی طرف سے ہی دی گئی ہے.گویا ہر طرف اللہ تعالیٰ کا فعل ہی چل رہا ہے میں تو صرف ایک کھلونا ہوں.جیسے زمیندار جب اپنی فصل میں جاتا ہے تو کس فخر سے کہتا ہے کہ میری سو ایکڑ زمین ہے، میری ہزا را یکٹر زمین ہے.لیکن اگر وہ بسم اللہ کہے تو اُسے معلوم ہو کہ ایک انچ زمین بھی میں نے نہیں بنائی.سو ایکڑ ہے تب بھی خدا نے بنائی ہے اور ہزار ایکڑ ہے تب بھی خدا نے بنائی ہے.پھر اگر فخر کی چیز پیداوار ہے تو وہ کونسی میں نے بنائی ہے.جو بیج ڈالا گیا ہے وہ خدا نے بنایا ہے.جس زمین میں بیج ڈالا گیا ہے وہ خدا نے بنائی ہے.جو پانی دیا گیا ہے وہ خدا نے بنایا ہے.پھر بیل جو ہل چلاتے ہیں وہ کب میں نے بنائے ہیں.ہلوں کی لکڑی اور لوہا میں نے کب بنایا ہے.غرض اس طرح اگر وہ ایک ایک بات پر غور کرے گا تو اُسے معلوم ہوگا کہ جو کچھ ہے وہ سب خدا تعالیٰ کی طرف سے ہے.میرا تو صرف غرور ہی غرور ہے.غرض انسان اگر اپنے ہر کام کے شروع میں سوچ سمجھ کر بسم اللہ پڑھے تو اُسے غیر معمولی علوم حاصل ہو جائیں.میں نے ایک طریق تمہیں بتادیا ہے.اگر اسی طریق پر تم سوچنے لگو
خطبات محمود 80 80 $1953 تو شام تک بڑے بھاری عالم بن جاؤ اور دوسرے دن اُس سے بھی بڑے عالم بن جاؤ.جو بھی کام کرنے لگو اس سے پہلے بسم اللہ پڑھو اور پھر سوچو تو تمہیں پتا لگ جائے گا کہ اس کام میں تمہارا کتنا حصہ ہے اور خد تعالیٰ کا کتنا حصہ ہے.اگر تم اس طرح غور کرنے کی عادت ڈالو تو دو تین دن کے کے اندر اندر ہی تم عالم اسرار آسانی بن جاؤ گے اور تمہاری ذہنیت اتنی بلند ہو جائے گی کہ تم معمولی انسان نہیں رہو گے بلکہ بڑے مفید اور کارآمد وجود بن جاو گے.افسوس ہے کہ کہنے والا کہہ گیا اور محمد رسول اللہ ﷺ نے ہم کو ایک سبق سکھا دیا.مگر ہم اپنی بدقسمتی سے محمد رسول اللہ ﷺ کے سبق کو یاد نہیں رکھتے اور اس طرح بہت سی نیکیوں اور علوم سے محروم رہتے ہیں.(مصلح 22 اپریل 1953ء) 1: العلق : 2 6: 2 :3 راک فیلر (John Davidson Rockteller) (1839 ء تا 1939ء) امریکہ کا مشہور سرمایہ دار اور صنعت کار.4 سنن ابي داؤد كتاب الاشربة باب فى ايكاء الأنية و صحيح البخارى كتاب التوحيد باب السؤال باسماء الله والاستعاذة بها
خطبات محمود $1953 81 13 بسم اللہ ہر برکت کی کلید ہے اور اس سے فائدہ اٹھانا ہر مومن کا فرض ہے فرموده 24 اپریل 1953ء بمقام ربوہ ) تشہد ، تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا." دو جمعوں کا ناغہ کرنے کے بعد میں آج مسجد میں آسکا ہوں.اس کی مسلسل وجہ تو میرے پاؤں کا زخم ہے.برابر پانچواں ماہ چل رہا ہے اور یہ اچھا ہونے میں نہیں آتا.لیکن پچھلے چند دنوں سے تکلیف بہت زیادہ ہو گئی تھی.کیونکہ انگوٹھے کا ناخن نیچے کی طرف بڑھ کر گوشت کے اندر گھس گیا تھا اور بوجہ وہاں کی جلد کے ذکی الحس ہونے کے اور ناخن کے جُڑا ہوا ہونے کے وہ گوشت سے باہر نہیں نکالا جا سکتا تھا.چنانچہ متواتر کئی دن ناخن کاٹنے والے آلہ کو ریتی کی طرح استعمال کر کے ناخن ہٹایا گیا.یہ مرض ایسا ہے کہ جو لوگ طلب نہیں جانتے انہیں حیرت آتی ہوگی کہ یہ عجیب مرض ہے کہ ٹھیک ہونے میں نہیں آتا.پہلے ہمیں بھی حیرت ہوتی تھی لیکن بعد میں معلوم ہوا کہ اس مرض میں ناخن کا اگلا حصہ ٹیڑھا ہو جاتا ہے اور جب بڑھتا ہے نیچے کی طرف بڑھتا ہے اور گوشت میں گھس
$1953 82 88 خطبات محمود جاتا ہے.جس کی وجہ سے اس کے کاٹنے میں بہت وقت ہوتی ہے.اگر یہ ناخن کٹ جائے تو تکلیف کم ہو جاتی ہے اور اگر بڑھ جائے تو تکلیف بڑھ جاتی ہے.جیسے مجھے تکلیف ہوئی ہے میرا ناخن چاول کے برابر گوشت کے اندر گھس گیا تھا.انگریزی میں اسے Nail in toe کہتے ہیں.انگریزی طب میں ان کا علاج بیہوش کر کے ناخن نکال دینے کے ذریعہ سے کرتے ہیں.بیہوشی سے مجھے ساری عمر گھبراہٹ رہی ہے.اس لیے میں اس طرف مائل نہیں ہوتا اور زخم یوں اچھا نہیں ہوتا.ہومیو پیتھک طب والے لکھتے ہیں کہ بعض اوقات اس کا علاج دوائیوں سے بھی ہو جاتا ہے.میں نے لاہور میں ایک ہومیو پیتھک ڈاکٹر کو کہلا بھیجا ہے کہ وہ اس مرض کا علاج تجویز کرے.لاہور جا کر کسی سرجن کو دکھاتا تو شاید کوئی صورت علاج کی نکل آتی لیکن لاہور میں مارشل لاء ہونے کی وجہ سے میرا جانا مناسب نہیں.مارشل لاء ہونے کی وجہ سے پہریدار ساتھ نہیں جا سکتے کیونکہ ان کے پاس ہتھیار ہوتے ہیں جن کی وہاں اجازت نہیں.بہر حال مارشل لاء کی وجہ سے کئی دقتیں ہیں جن کی وجہ سے میں لاہور نہیں جاسکتا.پھر پچھلے آٹھ دنوں سے دردوں کی تکلیف بھی زیادہ ہوگئی ہے.اس کی زیادہ تر وجہ تو یہ ہے کہ آجکل رات کو سردی ہوتی ہے اور دن کو گرمی ہوتی ہے اور موسم بدلنے کی وجہ سے دردوں کی تکلیف بڑھ جاتی ہے.بہر حال ناخن کا نیچے کی طرف بڑھ جانا اور زخم کا اچھا نہ ہونا ، اسی طرح موسم کی تبدیلی کی وجہ سے جوڑوں کے دردوں کے بڑھ جانے کی وجہ سے پچھلے دو جمعے میں مسجد میں نہیں آسکا.آج بھی اس لیے آیا ہوں کہ پرسوں ہم ناخن کاٹنے میں کامیاب ہو گئے ہیں.پہلے ناخن گوشت کے اندر گھسا ہوا تھا.جب میں چلتا تھا وہ تکلیف دیتا تھا اب وہ کاٹ دیا گیا ہے.اگر چہ اب بھی زخم ٹھیک نہیں ہوا لیکن ناخن گوشت کے اندر نہ ہونے کی وجہ سے تکلیف کم ہوگئی ہے.جب ناخن بڑھے گا تو اللہ تعالیٰ جانتا ہے کیا ہوگا.جب بڑھے گا بہر حال زخم سے ٹکرائے گا اور تکلیف زیادہ ہوگی.میں نے پچھلے خطبہ میں جماعت کو اس طرف توجہ دلائی تھی کہ بسم الله روحانی ترقی کے لیے بڑی بھاری چیز ہے.اسی لیے رسول کریم ﷺ نے فرمایا ہے کہ اگر ہر اہم کام سے پہلے بسم اللہ نہ پڑھی جائے تو اس کام میں برکت نہیں ہوتی 1.برکت سے یہ مراد نہیں کہ وہ کام ہوتا نہیں کیونکہ عیسائی بھی بسم اللہ نہیں پڑھتے اور ان کے کام ہو جاتے ہیں.ہندو بھی بسم اللہ نہیں پڑھتے
$1953 83 خطبات محمود لیکن ان کے کام ہو جاتے ہیں.یہودی بھی بسم اللہ نہیں پڑھتے لیکن ان کے کام ہو جاتے ہیں.پس بسم اللہ کے نہ پڑھنے سے کام کے بے برکت ہونے کے یہ معنے نہیں کہ کام نہیں ہوتا بلکہ اس کے یہ معنے ہیں کہ دنیا میں جتنے بھی کام ہیں وہ مختلف جہات کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں.بظاہر وہ ایک شکل کے ہوتے ہیں لیکن جہت کے ساتھ اُن کی نوعیت بدل جاتی ہے.میں اس کی ایک موٹی مثال دیتا ہے ہوں.مثلاً روٹی ہے.ہمیں بھوک لگتی ہے تو روٹی کھاتے ہیں لیکن ایک فقیر کسی کے گھر پر جا کر روٹی مانگتا ہے تو کئی کنجوس عورتیں کہہ دیتی ہیں کہ دفع ہو.آپ تو کھانے کو ملتا نہیں تمہیں کہاں سے دیں.کئی نرم دل عورتیں ہوتی ہیں وہ یہ تو نہیں کہتیں دفع ہو لیکن وہ اُس فقیر کے آگے اس طرح روٹی کی کو پھینک دیتی ہیں جیسے کتے کے آگے ٹکڑا ڈالا جاتا ہے.اب وہ روٹی بھی انسان کا پیٹ اُسی طرح بھرتی ہے جیسے اپنی کمائی سے پکائی ہوئی روٹی.مگر دونوں روٹیوں میں کتنا بڑا فرق ہے.ایک تو انسان کے آگے گتے کی طرح پھینک دی جاتی ہے اور ایک عزت واحترام سے ملتی ہے.پھر ایک اور رحم دل عورت ہوتی ہے جو روٹی پھینکتی نہیں بلکہ فقیر کو ایک چپاتی دے دیتی ہے اور ساتھ ہی کہتی ہے کہ اللہ تعالیٰ تمہارا بھلا کرے.پھر ایک اور رحم دل عورت ہوتی ہے وہ فقیر کو روٹی بھی دیتی ہے اور اس پر سالن بھی ڈال دیتی ہے.پھر ایک اس سے بھی زیادہ معزز اور شریف عورت ہوتی ہے.وہ فقیر سے کہتی ہے کہ آؤاندر بیٹھ جاؤ اور پھر اس کے آگے کھانا رکھوا دیتی ہے اور کہتی ہے آرام سے بیٹھ کر کھالو.اب یہ سب روٹیاں مانگنے سے ملی ہیں.لیکن ان سب میں زمین و آسمان کا فرق ہے.ایک مانگنے والے کو گالیاں ملتی ہیں.ایک کو کتے کی طرح روٹی پھینک دی جاتی ہے.ایک کو روٹی ملتی ہے اور ایک کو روٹی کے ساتھ سالن بھی مل جاتا ہے.ایک اور نے مانگا تو گھر کی مالکہ نے اسے اندر بٹھا لیا اور عزت کے ساتھ کھانا کھلایا.پھر وہی روٹی عورتیں اپنے خاوندوں کے آگے رکھتی ہے ہیں ، اپنے بیٹوں کے آگے رکھتی ہیں تو کتنی محبت کے ساتھ رکھتی ہیں.اب روٹی ایک ہے لیکن اس کے ملنے کا طریق مختلف ہے.ایک عورت روٹی تو دیتی نہیں لیکن مانگنے والے کو گالیاں دیتی ہے اور کہتی ہے کہ اس نے کتنا تنگ کر رکھا ہے.ایک روٹی دیتی ہے اور کہتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہم پر فضلی کیا اور ہمیں کھانا دیا.اگر وہ ہمیں نہ دیتا تو ہم کہاں سے کھاتے ایک عورت روٹی دیتی ہے اور ساتھ ساتھ یہ کہتی جاتی ہے یہ شخص کتنا غریب ہے کہ دوسرے لوگوں سے مانگتا پھرتا ہے، اللہ تعالیٰ
$1953 84 خطبات محمود اس کے دن بھی پھیرے اور اس کو عزت کی روٹی دے.ایک اور عورت روٹی دیتی ہے تو کہتی ہے ی شخص ہمارا ہی بھائی ہے، اس کی شامت اعمال ہے کہ دوسروں سے کھانا مانگتا پھرتا ہے، اس کو کسی گناہ کی وجہ سے ایسا کرنا پڑتا ہے.ہم بھی اسی کی طرح انسان ہیں اگر ہمیں بھی دوسروں کے گھروں پر جانا پڑتا تو ہمارا کیا حال ہوتا.اللہ تعالیٰ نے ہمیں مانگنے سے بچایا ہے، اس نے ہم پر فضل کیا ہے.اب ہمارا فرض ہے کہ ہم اسے بھی کھانے کے لیے دیں.پھر ایک عورت اپنے بچہ کو روٹی دیتی ہے اور کہتی جاتی ہے " اماں صدقے جائے ، اماں قربان جائے " اور کھاؤ ، ابھی تو تم نے کی کچھ بھی نہیں کھایا.پھر ایک عورت " ماں واری ماں صدقے " تو نہیں کہتی کیونکہ کھانے والا اُس کا خاوند ہوتا ہے وہ اسے کھانا دیتی ہے اور کہتی ہے یہ انہی کا کمایا ہوا ہے ، ہمارے گھر میں تو رونق اور برکت ہی انہی سے ہے، انہی کے ذریعہ خدا تعالیٰ نے ہمیں کھانے کو دیا ہے.اب روٹی تو ایک جیسی ہی ہوتی ہے لیکن اس کے ملنے میں زمین و آسمان کا فرق ہو جاتا ہے.یہی دوسری نعماء کا حال ہے.دنیا کی جتنی نعمتیں ہوتی ہیں یا جتنے کام ہوتے ہیں وہ مختلف ذریعوں سے ہوتے ہیں.بعض بڑے کام ایسے ہوتے ہیں کہ ان میں کوئی دوسری قوم مدد کرے تب وہ مکمل ہوتے ہیں.مثلاً پولینڈ پر حملہ ہوا تو پولینڈ کی طرف سے فرانسیسی اور انگریز بھی لڑے.اب لڑے تو پولینڈ والے بھی لیکن جوشان ایک فرانسیسی اور ایک انگریز کو حاصل تھی وہ پولینڈ والوں کی کو حاصل نہیں تھی.فرانسیسی اور انگریز سمجھتے تھے کہ ہم محسن ہیں اور ان لوگوں کی جانیں بچانے والے ہیں.یہ لوگ دشمن کا مقابلہ نہیں کر سکتے تھے.ہم ان پر رحم کر کے جنگ میں شامل ہو گئے اور ان کے ساتھ مل کر ان کے دشمن کا مقابلہ کیا.اب بات تو ایک ہی تھی لیکن حیثیت الگ الگ تھی.اسی طرح دنیا میں بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ ایک شخص کی گورنمنٹ پنشن لگا دیتی ہے ہمارے ہاں تو یہ رواج نہیں لیکن یورپ میں ایسا ہوتا ہے کہ جب کوئی شخص 60 سال کا ہو جاتا ہے اور اُس کی کوئی کمائی نہیں ہوتی.تو گورنمنٹ اس کو کچھ رقم بطور پنشن دے دیتی ہے وہ اسی سے روٹی کھاتا ہے.اور ایک کی دوسرا شخص جس نے اپنی کمائی سے روپیہ جمع کیا ہوا ہے وہ بھی روٹی کھاتا ہے لیکن کہتا ہے میری محنت نے کی مجھے روٹی دی ہے.اور دوسرا شخص کہتا ہے مجھ پر حکومت نے رحم کر کے پینشن مقرر کر دی ہے.کئی مالدار لوگ قانو نا پنشن کے حقدار ہوتے ہیں لیکن وہ ایسی رقم کے لینے میں اپنی ہتک تصور کرتے ہیں.
$1953 85 55 خطبات محمود دوسرے لوگ حکومت کے شکر گزار ہوتے ہیں کہ اس نے بڑھاپے میں گزر اوقات کے لیے پنشن مقرر کر دی.رقم ایک ہی ہے لیکن ایک اپنی بنک میں جمع شدہ رقم سے ملی اور ایک حکومت کی طرف سے بطور امدا د ملی.اسی طرح دنیا کی دوسری نعماء کا حال ہے.کچھ نعمتیں بندوں کی طرف سے ملتی ہیں اور کچھ خدا تعالیٰ کی طرف سے ملتی ہیں.مثلاً حضرت ابوبکر مسلمانوں کے بادشاہ تھے.جب مسلمانوں نے کی انہیں اپنا خلیفہ تسلیم کر لیا تو آپ کے والد جو فتح مکہ تک اسلام میں داخل نہیں ہوئے تھے فتح مکہ پر ایمان لائے تھے اور انہوں نے مدینہ کی طرف ہجرت بھی نہیں کی تھی انہیں بھی مکہ میں یہ خبر پہنچی.حضرت ابو بکر تھے تو ایک شریف خاندان میں سے لیکن حاکم خاندان میں سے نہیں تھے.ان حاکم صلى الله خاندانوں میں سے ایک خاندان تو محمد رسول اللہ ﷺ کا تھا.ایک خاندان حضرت عمرؓ کا تھا.اسی طرح طلحہ اور زبیر کے خاندان تھے معاویہ کا خاندان تھا.ابو جہل کا خاندان تھا اور حضرت ابو بکر ان خاندانوں میں سے کسی ایک کی نسل میں سے نہ تھے.لیکن تھے ایک شریف خاندان میں سے.جب رسول کریم وہ فوت ہوئے اور حضرت ابو بکر خلیفہ ہوئے تو ایک آدمی یہ پیغام لے کر مکہ پہنچا.مجلس بیٹھی تھی جس میں رؤساء بھی تھے اور اُن کے درباری بھی.انہیں اس پیغا مبر نے اطلاع دی کہ رسول کریم ﷺ فوت ہو گئے ہیں.لوگوں پر رعشہ طاری ہو گیا اور وہ گھبرائے اور کہا اب کیا ہوگا ؟ پیغامبر نے کہا کوئی بات نہیں آپ کا خلیفہ مقرر کر دیا گیا ہے.ان لوگوں نے کہا کون خلیفہ مقرر ہوا ہے؟ تو اس پیغا مبر نے کہا حضرت ابوبکر کو خلیفہ مقرر کیا گیا ہے.حضرت ابوبکر کے والد کی کنیت ابو قحافہ تھی.ابو قحافہ نے دریافت کیا کون ابو بکر ؟ اس نے کہا ابو بکر تمہارا بیٹا.ابو قحافہ یہ سمجھ بھی نہیں سکتے تھے کہ وہ سردار خاندان جو ہر وقت اپنی بڑائی کے قصیدے پڑھتے تھے.ابو بکر کی بیعت کر لیں گے.جب انہیں بتایا گیا کہ تمہارے بیٹے ابو بکر خلیفہ ہو گئے ہیں تو وہ کہنے لگے کیا بنو ہاشم نے اُس کی بیعت کر لی ہے؟ پیغا مبر نے کہاہاں.ابوقحافہ نے کہا کیا بنوامیہ نے اس کی بیعت کر لی ہے؟ اس نے کہا ہاں.پھر ابو قحافہ نے کئی اور خاندانوں کے نام لئے.کے متعلق پیغا مبر نے کہا کہ انہوں نے بیعت کر لی ہے تو ابو قحافہ نے کہا.اَشْهَدُ اَنْ لَّا اِلهَ إِلَّا اللهُ اَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ 2
خطبات محمود 98 86 $1953 گویا اُس دن تک ابو قحافہ پکے مسلمان نہیں ہوئے تھے.جب انہوں نے دیکھا کہ اسلام کی کی وجہ سے عربوں میں اس قسم کا عظیم الشان تغیر پیدا ہو گیا ہے کہ سردار خاندان بھی ابوبکر کے ہاتھ ނ پر بیعت کر چکے ہیں تو اس نے کہا اب میں سمجھ گیا ہوں کہ رسول کریم ہے خدا تعالیٰ کی طرف.تھے.اگر سب سردار خاندان میرے بیٹے ابو بکر کی بیعت کر لیتے ہیں تو یہ محمد رسول اللہ ﷺ کی صداقت کا بہت بڑا نشان ہے.اب دیکھو! ابوبکر بادشاہ بن گئے.لیکن انکا باپ یہ سمجھتا تھا کہ ان کا بادشاہ ہونا ناممکن ہے.کیونکہ انہیں بادشاہت خدا تعالیٰ کی طرف سے ملی تھی.اس کے مقابلہ میں تیمور بھی ایک بڑا بادشاہ تھا لیکن وہ اپنی دنیوی تدابیر کی وجہ سے بادشاہ ہوا تھا نپولین بھی بڑا بادشاہ تھا لیکن وہ اپنی محنت اور دنیوں تدابیر سے بادشاہ بن گیا تھا.نادر شاہ بھی بڑا بادشاہ تھا لیکن اسے بھی بادشاہت کی اپنی ذاتی محنت اور کوشش اور دنیوی تدابیر سے ملی تھی.پس بادشاہت سب کو ملی.لیکن ہم کہیں گے تیمور کو بادشاہت آدمیوں کے ذریعہ ملی.لیکن ابو بکر کو بادشاہت خدا تعالیٰ سے ملی.ہم کہیں گے نپولین کو بادشاہت دنیوی تدابیر سے ملی تھی لیکن حضرت عمرؓ کو بادشاہت خدا تعالیٰ سے ملی.ہم کہیں گے چنگیز خان کو بادشاہت دنیوی ذرائع سے ملی تھی لیکن حضرت عثمان کو بادشاہت خدا تعالیٰ نے دی.ہم کہیں گے نادر شاہ دنیوی تدابیر سے بادشاہ بنا تھا لیکن حضرت علی کو بادشاہت خدا تعالیٰ نے دی.پس بادشاہت سب کو ملی ، دنیوی بادشاہوں کا بھی دبدبہ تھا ، رُعب تھا.اُن کا بھی قانون کے چلتا تھا اور خلفاء کا بھی.بلکہ اُن کا قانون ابوبکر، عمر، عثمان اور علی سے زیادہ چلتا تھا.لیکن یہ خدا تعالیٰ کی طرف سے بادشاہ مقرر ہوئے تھے اور وہ آدمیوں کے ذریعہ بادشاہ ہوئے تھے.پس جب رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ جو شخص کسی اہم کام سے پہلے بسم اللہ نہیں پڑھتا اسے برکت کی نہیں مل سکتی.تو اس کا یہ مطلب نہیں تھا کہ وہ اپنے مقصد میں ناکام رہتا ہے.بلکہ اس کا مطلب یہ تھا کہ اسے وہ مقصد خدا تعالیٰ سے نہیں مل سکتا.جو بادشاہت خدا تعالیٰ کے ذریعہ ملنے والی تھی وہ حضرت ابوبکر، عمر، عثمان اور علی کو ملی.ان کے سوا دوسرے لوگوں کو نہیں ملی.دوسروں کو جو بادشاہت ملی وہ شیطان سے ملی یا انسانوں سے ملی.ورنہ لیفن ، سٹالن اور مالنکوف 3 نے بسم اللہ نہیں
$1953 87 خطبات محمود پڑھی.لیکن بادشاہت ان کو بھی ملی.روز ویلٹ ،رومین اور آئزن ہاور نے بھی بسم اللہ نہیں پڑھی لیکن بادشاہت ان کو بھی ملی.وہ بسم اللہ کو جانتے بھی نہیں اور نہ بسم اللہ کی ان کے دلوں میں کوئی قدر ہے.پس جب رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ بسم اللہ پڑھنے کے بغیر برکت نہیں ملتی تو اس کا یہ مطلب تھا کہ اسے خدا تعالیٰ کی طرف سے کچھ نہیں ملتا.خدا تعالیٰ کی طرف سے صرف کی اسی کو ملتا ہے جو ہرا ہم کام سے پہلے بسم اللہ پڑھ لیتا ہے.اب ہر شخص یہ سمجھ سکتا ہے کہ خدا تعالیٰ کی کی طرف سے ملنے والی چیز زیادہ برکت والی ہوتی ہے یا بندوں سے ملنے والی چیز زیادہ برکت والی ہوتی ہے.انسانی تدابیر سے حاصل کی ہوئی بادشاہت بند بھی ہوسکتی ہے لیکن خدا تعالیٰ کی دی ہوئی بادشاہت بند نہیں ہوسکتی.یزید بھی ایک بادشاہ تھا اُسے کتنا غرور تھا، اُسے طاقت کا کتنا دعوی تھا.اس نے رسول کریم ﷺ کے خاندان کو تباہ کیا.اس نے آپ کی اولا د کو قتل کیا اور اس کی گردن نیچے نہیں ہوتی تھی.وہ سمجھتا تھا کہ میرے سامنے کوئی نہیں بول سکتا.حضرت ابو بکر بھی بادشاہ ہوئے لیکن ان میں عجز تھا ، انکسار تھا.آپ فرماتے تھے مجھے خدا تعالیٰ نے لوگوں کی خدمت کے لیے مقرر کیا ہے.اور خدمت کے لیے جتنی مہلت مجھے مل جائے اُس کا احسان ہے.لیکن یز ید کہتا تھا مجھے میرے باپ سے بادشاہت ملی ہے.میں جس کو چاہوں ماردوں اور جس کو چاہوں زندہ رکھوں.بظاہر یزیدا اپنی بادشاہت میں حضرت ابو بکڑ سے بڑھا ہوا تھا.وہ کہتا تھا میں خاندانی بادشاہ ہوں.کس کی طاقت کی ہے کہ میرے سامنے بولے.لیکن حضرت ابو بکر فرماتے تھے کہ میں اس قابل کہاں تھا کہ بادشاہ بن جاتا.مجھے جو کچھ دیا ہے خدا تعالیٰ نے دیا ہے.میں اپنے زور سے بادشاہ نہیں بن سکتا تھا.میں ہر ایک کا خادم ہوں.میں غریب کا بھی خادم ہوں اور امیر کا بھی خادم ہوں.اگر مجھ سے کوئی غلطی ہے سرزد ہو تو مجھ سے اس کا ابھی بدلہ لے لو.قیامت کے دن مجھے خراب نہ کرنا.ایک سننے والا کہتا ہوگا یہ کیا ہے.اسے تو ایک نمبر دار کی سی حیثیت بھی حاصل نہیں.لیکن وہ یزید کی بات سنتا ہوگا تو کہتا ہوگا یہ باتیں ہیں جو قیصر و کسریٰ والی ہیں.لیکن جب حضرت ابو بکر فوت ہو گئے تو اُن کے بیٹے ، اُن کے پوتے اور پڑپوتے پھر پڑپوتوں کے بیٹے اور پھر آگے وہ نسل جس میں پوتا اور پڑپوتا کا سوال ہی باقی نہیں رہتا وہ برابر ابوبکر سے اپنے رشتہ پر فخر کرتے تھے.پھر اُن کو بھی جانے دو.وہ لوگ جو
$1953 88 خطبات محمود ابوبکر کی طرف منسوب بھی نہیں ، جو آپ کے خاندان کو بھی کبھی نہیں ملے وہ بھی آپ کے واقعات پڑھتے ہیں تو آج تک ان کی آنکھوں میں آنسو آ جاتے ہیں.ان کی محبت جوش میں ہے آجاتی ہے.کوئی شخص آپ کو بُرا کہہ دے تو ان کا خون کھولنے لگتا ہے.غرض اولا د تو الگ رہی غیر بھی اپنی جان ان پر شار کرنے پر تیار ہو جاتے ہیں.ہر کلمہ گو جب آپ کا نام سنتا ہے تو کہتا ہے ہے رَضِيَ اللهُ تَعَالَى عَنْهُ مگر وہ فخر کرنے والا یزید جو اپنے آپ کو بادشاہ ابن بادشاہ کہتے ہوئے نہیں تھکتا تھا جب فوت ہوا تو لوگوں نے اُس کے بیٹے کو اُس کی جگہ بادشاہ بنا دیا.جمعہ کا دن ہے آیا تو وہ ممبر پر کھڑا ہوا اور کہا کہ اے لوگو! میرا دادا اُس وقت بادشاہ بنا جب اُس سے زیادہ بادشاہت کے مستحق لوگ موجود تھے.میرا باپ اُس وقت بادشاہ بنا جب اُس سے زیادہ مستحق لوگ موجود تھے.اب مجھے بادشاہ بنا دیا گیا ہے حالانکہ مجھ سے زیادہ مستحق لوگ موجود ہیں.اے لوگو! مجھ سے یہ بوجھ اٹھایا نہیں جاتا.میرے باپ اور میرے دادا نے مستحقین کے حق مارے ہیں لیکن میں اُن کے حق مارنے کو تیار نہیں.تمہاری خلافت یہ پڑی ہے جس کو چاہو دے دو.میں نہ اس کا کی اہل ہوں اور نہ اپنے باپ دادا کو اس کا اہل سمجھتا ہوں.انہوں نے جابرانہ اور ظالمانہ طور پر حکومت کی پر قبضہ کیا تھا.میں اب حقداروں کو ان کا حق واپس دینا چاہتا ہوں.یہ کہ کر گھر چلا گیا 4.اس کی ماں نے جب یہ واقعہ سنا تو کہا.کمبخت ! تو نے تو اپنے باپ دادا کی ناک کاٹ دی.اس نے ی جواب دیا.ماں ! اگر خدا تعالیٰ نے تجھے عقل دی ہوتی تو تو بجھتی کہ میں نے باپ دادا کی ناک نہیں ہے کائی.میں نے ان کی ناک جوڑ دی ہے.اس کے بعد وہ اپنے گھر میں گوشہ نشین ہو کر بیٹھ گیا اور مرتے دم تک گھر سے باہر نہیں نکلا.اب گجا یزید کا یہ کہنا کہ میرے سامنے کوئی بول نہیں سکتا اور گجا اُس کے بیٹے کا یہ کہنا کہ و غاصب اور ظالم تھا.صحابہ جنہوں نے اسلام کی خاطر قربانیاں دیں اُن کی موجودگی میں اسے بادشاہ بننے کا کیا حق تھا.پھر ان صحابہ کی اولاد کی موجودگی میں میرا کیا حق ہے کہ بادشاہ بن جاؤں.یہ فرق ہے انسانوں کی دی ہوئی بادشاہت میں اور خدا تعالیٰ کی دی ہوئی بادشاہت میں.حضرت ابوبکر کی بادشاہت خدا تعالیٰ کی دی ہوئی تھی.خدا تعالیٰ کی دی ہوئی بادشاہت اب تک چلی آرہی ہے اور قیامت تک ختم نہیں ہوگی.لیکن انسانوں کی دی ہوئی بادشاہت دوسری نسل میں وه
$1953 89 خطبات محمود ہی ختم ہوگئی.پس دنیوی بادشاہوں کو بھی بادشاہت ملی.اس کا انکار نہیں کیا جا سکتا.اگر بسم الله پڑھنے کے بغیر ان کا کوئی کام نہ ہوتا تو کافر ہر کام میں ہارا کرتے.دنیوی بادشاہوں کے ہارٹ (Heart) فیل ہو جاتے.ان کا کوئی بڑا کام بھی مکمل نہ ہوتا.لیکن عملی طور پر انہوں نے بڑے بڑے عظیم الشان اور حیرت انگیز کام کئے ہیں اور اب بھی کرتے ہیں.فرق صرف یہی ہے کہ دوسروں نے جو کچھ لیا وہ فقیروں کی طرح لیا.اور ایک کو خدا تعالیٰ نے دیا اور اُسے بیٹے کی طرح ہے روٹی ملی.پر بسم اللہ پڑھنے سے جو چیز ملتی ہے وہ اپنے حق کے طور پر ملتی ہے.اگر بسم الله پڑھ لینے کے بعد کسی کو کوئی چیز ملتی ہے تو اُس کی گردن قیامت کے دن اونچی رہے گی.وہ کہے گا اے خدا ! یہ چیز تو آپ کی تھی لیکن آپ نے ہی مجھے دے دی تھی میں نے چرائی نہیں.لیکن دوسرے لوگ جب خدا تعالیٰ کے سامنے کھڑے ہوں گے اور انہیں پوچھا جائے گا کہ تم کو یہ چیز کس نے دی؟ تو وہ کہیں گے حضور غلطی ہوگئی ہے.ہم نے اسے اپنی چیز سمجھ کر لے لیا تھا.اب یہ کتنا بڑا فرق ہے ہے.رسول کریم ﷺ نے جب یہ فرمایا کہ جوشخص کام شروع کرنے سے پہلے بسم اللہ نہیں پڑھتا اُس کا کام ابتر ہوتا ہے تو لوگوں نے غلطی سے یہ سمجھ لیا کہ بسم اللہ پڑھنے کے بغیر کوئی بڑا کام ہوتا ہی نہیں.حالانکہ بڑے کام بسم اللہ پڑھے بغیر بھی ہوتے ہیں.لیکن ایسے لوگوں کی کامیابی یزید کی طرح غاصبانہ ہوتی ہے.جو کامیابی بسم اللہ پڑھنے کے بعد ہوتی ہے وہ کامیابی حاصل کرنے کی والے کا حق ہوتی ہے.وہ خدا تعالیٰ کا دیا ہوا مال ہوتا ہے چوری کیا ہوا نہیں ہوتا.اس لیے رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ بسم اللہ پڑھے بغیر جو کامیابی ہوتی ہے وہ حقیقی کامیابی نہیں ہوتی.قیامت کے دن ایسے لوگوں کو شرمندہ ہونا پڑے گا.ایک شخص کے پاس اپنی کمائی کا روپیہ ہوتا ہے.دوسرا ایک اور شخص کی جیب کاٹتا ہے اور روپیہ حاصل کرتا ہے.اب روپیہ تو دونوں کے پاس ہوگا لیکن ایک شخص کو ہر وقت ہتھکڑی کا خطرہ رہے گا اور ایک شخص خوش ہوگا کہ اُس نے خود محنت کی اور روپیه ها ی یہ حاصل کیا.پس جو شخص دنیوی تدابیر کے ذریعہ کوئی چیز حاصل کرتا ہے وہ قیامت کے دن خدا تعالیٰ کے سامنے گردن نہیں اٹھا سکے گا.قیامت کے دن جب یزید اور چنگیز خان سے سوال ہوگا کہ تم نے
$1953 90 خطبات محمود بادشاہت کس سے لی؟ تو وہ کہیں گے غلطی ہوگئی.ہم نے اسے اپنی چیز سمجھ کر لے لیا تھا.لیکن جب یہی سوال حضرت ابو بکڑ سے ہوگا تو آپ فرما ئیں گے یہ چیز حضور کی تھی اور حضور نے ہی مجھے دی.دیکھو یہ کتنا بڑا فرق ہے.پس بسم اللہ کے اندر ایک بہت بڑی برکت ہے.جس کی طرف رسول کریم ﷺ نے اشارہ کیا ہے.لیکن لوگوں نے اسے معمہ بنادیا ہے کہ بسم اللہ کے بغیر کسی کام میں برکت ہوتی ہی نہیں.برکت بیشک ہوتی ہے لیکن وہ غاصبانہ ہوتی ہے.انسان کسی کا مال بغیر اجازت حاصل کئے اٹھا نا ہے.وہ اس کا اپنامال نہیں ہوتا.اپنا مال وہی ہوتا ہے.جو خدا تعالیٰ دیتا ہے.پس جو شخص بسم الله کہ کر کوئی کامیابی حاصل کرتا ہے وہ اس کا حق ہوتا ہے.لیکن جو بسم اللہ پڑھے بغیر کوئی کامیابی حاصل کرتا ہے.وہ اس کا اپنا حق نہیں ہوتا.جو چیز اللہ تعالیٰ کی ہے وہ اللہ تعالیٰ کی اجازت سے ہی لی جاسکتی ہے.پس بسم اللہ ہر برکت کی کلید ہے اور اس سے فائدہ اٹھانا ہر مومن کا فرض ہے.لمصلح 2 مئی 1953 ء) 1: كنز العمال في سنن الاقوال و الافعال كتاب الاذكار الكتاب الثاني في الاذكار من قسم الاقوال الباب السابع الفصل الثانى فى فضائل السُّوَر والآيات والبَسْمَلَة - جزء 1 - صفحہ 277.بیروت لبنان 1998ء 2: اسد الغابہ جلد 3 صفحہ 37 زیر عنوان عبد اللہ بن عثمان بن عامر ( ابوبکر ) بیروت لبنان 2001ء 3 مالنکوف کیورگی ماکسیم ایلیا نوچ (Malenkov Georgi -Makism-ilianovich) روی سیاست دان.آرنبرگ (ORENBURG) خانہ جنگی کے دوران اس نے ریڈ آرمی کے ساتھ خدمات انجام دیں.1946ء میں وزارتی کا بینہ کا نائب صدرنشین ہوا.1953ء میں وزیر اعظم مقرر ہوا.1955ء میں زرعی بحران میں اسے قصور وار ٹھہرایا گیا.چنانچہ اس نے ت عظمیٰ چھوڑ دی اور نائب صدرنشین اور بجلی کا وزیر مقرر ہوا.خروشیف کی بہن سے شادی کی.( اردو جامع انسائیکلو پیڈیا جلد 2 صفحہ 1387 مطبوعہ لاہور 1988ء) 4: الکامل فی التاریخ لابن الاثیر ( تاریخ ابن اثیر ) جلد 4 صفحہ 129 ، 130.بیروت 1965ء
$1953 91 14 خطبات محمود بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِیمِ پڑھ کر مومن اس بات کا اقرار کرتا ہے کہ ہر کام کا آغاز اور انجام اللہ تعالیٰ ہی کے ہاتھ میں ہے فرموده یکم مئی 1953ء بمقام ربوہ) تشہد ، تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا.وو رات کو گرمی کی وجہ سے میں اندرسونہیں سکا اور باہر تیز ہواتھی اس لیے بائیں لات کے گھٹنے میں درد شروع ہوگئی اور چلنا مشکل ہو گیا.مگر چونکہ میں سوٹیوں اور گرج 1 (CRUTCH) کے سہارے چل سکتا ہوں.اس لیے مسجد میں آ گیا ہوں.خطبہ میں بیٹھ کر پڑھوں گا.پچھلے دو جمعوں میں میں نے بسم اللہ کے متعلق بعض باتیں کہی تھیں.آج میں مختصر ا اس کے آیت کے اگلے حصہ کے متعلق بعض باتیں بیان کرتا ہوں.قرآن کریم کی یہ خوبی ہے کہ اس کی آیات کی ترتیب اس قسم کی ہے کہ وہ اپنی ذات میں ہی راہنمائی کرنے والی ہے.اس لیے اس کی طرف خاص طور پر اشارہ کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی.مثلاً ایک جگہ پر ایک باپ کھڑا ہو اور اُس سے نیچے ساتھ ہی اُس کا بیٹا کھڑا ہو.اور کوئی کہے کہ یہ والد ہے اور کی یہ بیٹا ہے.تو اُسے اس تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں کہ باپ اونچی جگہ کھڑا ہے اور بیٹا نیچی جگہ کھڑا کیونکہ الفاظ اپنی ذات میں اُن کے مدارج پر دلالت کر رہے ہیں.قرآن کریم بھی بات کو
$1953 92 خطبات محمود ایسی ترتیب سے بیان کرتا ہے کہ وہ ترتیب اپنے مطلب پر دلالت کر دیتی ہے اور اسے بیان کرنے کی ضرورت باقی نہیں رہتی.لیکن اگر ہم کوئی بات بیان کرتے ہیں تو ہمیں یہ تفصیل بیان کرنے کی ضرورت پیش آتی ہے کہ ہم نے اس بات پر زور کیوں دیا یا زور دیا ہے تو اس کے فلاں حصہ کو پہلے کیوں بیان کیا ہے اور فلاں حصہ کو بعد میں کیوں بیان کیا ہے.چونکہ ہمارے خیالات محدود ہوتے ہیں اور ہمیں مخاطب کے خیالات کا پتا نہیں لگ سکتا اس لیے کئی دفعہ ہم اس بات کو نظر انداز کر دیتے ہیں کہ مخاطب ہماری بات سے کیا نتیجہ اخذ کرے گا.لیکن قرآن کریم اُس خدا کا کلام ہے جو اپنی بات کو بہتر رنگ میں پیش کر سکتا ہے ہے اور یہ بھی جانتا ہے کہ سنے والا یا مخاطب اس سے کیا مطلب اخذ کرے گا، اُس کے ذہن پر کیا اثر ہوگا.اس لیے وہ اپنی بات میں ان خیالات کو بھی مد نظر رکھ لیتا ہے.اب دیکھو بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ میں رحمانیت اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ کوئی ایسی ہستی موجود ہے جو بغیر کسی عمل کے دیتی ہے اور بغیر کسی استحقاق کے دیتی ہے.اور یہ لفظ یہاں "اللہ" کی صفت کے طور پر بیان ہوا ہے.اور "اللہ" نام عربی زبان میں اُس ہستی کا ہے جو تمام صفاتِ حسنہ سے متصف ہوا اور تمام عیوب سے پاک ہو.اور جب دنیا میں کوئی ایسی ہستی موجود ہے جو سب صفاتِ حسنہ سے متصف ہے اور سارے عیوب سے پاک ہے تو لازماً یہ بھی ماننا پڑے گا کہ وہ کی ہستی خالق بھی ہے اور مالک بھی ہے.خلق خود ایک صفتِ حسنہ ہے.اگر یہ صفت حسنہ اُس ہستی میں نہیں پائی جاتی جس کے لیے عربوں نے "اللہ" کا نام مقرر کیا ہے.تو اس لفظ کا استعمال درست نہیں ہوگا.پس " الله " ہے تو ایک ہستی کا نام لیکن وہ مقرر کیا گیا ہے ایک ایسی ہستی کے لیے جو خاص صفات رکھنے والی ہے.یہ لفظ اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ جس ہستی کے لیے یہ لفظ تجویز کیا گیا ہے.اس میں سب صفات حسنہ جمع ہوں اور وہ سب عیوب سے پاک ہو.پس "الله" اسم ذات ہے جو صرف ایک وجود کے لیے ہی وضع نہیں کیا گیا.بلکہ ایک بامعنی وجود کے لیے وضع کیا گیا ہے.جیسے کسی کے ہاں ایک بچہ پیدا ہو.بچہ کی پیدائش سے پہلے اُسے خواب آجائے کہ وہ بڑا نیک ہوگا اور اس خواب کی بناء پر اُس بچہ کا نام وہ طاہر یا اطہر رکھ دے تو طاہر یا اطہر اسم ذات اور علم بھی ہوگا.لیکن ساتھ ہی یہ نام بچہ کی کسی خاص صفت کو مد نظر رکھ کر رکھا گیا ہوگا.پس ایک لحاظ سے وہ اسم ذات اور علم ہوگا اور ایک لحاظ سے وہ کسی خاص صفت کو ظاہر کرنے والا ہو گا.
خطبات محمود 93 $1953 رسول کریم ﷺ کے نام کو لے لو.آپ کا نام "محمد " تھا."محمد " اسم ذات ہے.لیکن الی تصرف کے ماتحت یہ اسم صفت بھی ہے.اب اگر ہم لفظ " محمد " بولتے ہیں تو اس سے اسم ذات اور کی اسم صفت دونوں مراد ہوتے ہیں.جب اسے بطور اسم ذات لیا جاتا ہے تو اس کے یہ معنے ہوتے ہیں کہ بچہ کی پہچان کے لیے اس کا نام والدین نے "محمد " رکھا ہے.اور جب اسم صفت مراد لیا جاتا ہے تو اسکے معنے یہ ہوتے ہیں کہ بچے کا نام الہی تصرف کے ماتحت "محمد" رکھا گیا ہے تا یہ اس کے خاص قسم کے اخلاق اور صفات پر دلالت کرے.پس بعض نام ذاتی بھی ہوتے ہیں اور صفاتی بھی ہوتے ہیں.محمد " ذاتی نام بھی تھا اور صفاتی بھی.اس لیے جب مشرکین مکہ نے رسول کریم ﷺ کو گالیاں دیں تو صحابہ نے چڑھ کر کہا یا رَسُولَ اللہ ! یہ لوگ آپ کو گالیاں دیتے ہیں.عرب لوگ زبان دان تھے.وہ یہ جانتے تھے کہ اگر وہ " محمد " نام لے کر گالیاں دیں گے تو اس کے کوئی معنے نہیں ہوں گے.محمد کے معنے ہیں" تعریف کیا گیا".اب جس شخص کی تعریف کی جائے اُسے گالیاں کس طرح دی جاسکتی ہیں.اگر "محمد " نام لے کر گالیاں دی جائیں گی تو سننے والا کہے گا کہ ایک اچھی صفت رکھنے کی والا بُرا کیسے ہو گیا.اس لیے جب وہ گالیاں دیتے تھے تو "محمد" نہیں کہتے تھے.مُدمم کہا کرتے تھے اور مُذَمَّم کے معنے ہیں جس کی مذمت کی گئی ہو.جیسے ہمیں مرزائی کہہ کر لوگ گالیاں دیتے ہیں احمدی کہہ کر گالیاں نہیں دیتے.کیونکہ لفظ " احمدی" کے معنے ہیں احمد ﷺ سے تعلق رکھنے والا.اب اگر کوئی کہے کہ احمد سے تعلق رکھنے والے بُرے ہوتے ہیں تو اس کا مطلب کیا ہوگا ؟ سننے والا کہے گا.محمد رسول اللہ اللہ سے تعلق رکھنے والا بُرا کیسے ہو گیا.اس لیے یہ لوگ ہمیں احمدی نہیں کہتے مرزائی کہتے ہیں.اسی طرح مشرکین مکہ محمد رسول اللہ ﷺ کو مذمم کہا کرتے تھے.اور مُذَمَّم کے معنی ہیں وہ ی شخص جس کی مذمت کی گئی ہو.جب صحابہ نے رسول کریم ہے کے پاس عرض کیا کہ مشرکین مکہ آپ کو ی گالیاں دیتے ہیں تو آپ نے فرمایا آخر وہ کیا کہتے ہیں.صحابہ نے عرض کیا يَا رَسُولَ الله وہ آپ کو مُذَمَّم کہتے ہیں آپ نے فرمایا میرا نام تو محمد ہے مجھے تو کوئی گالی نہیں دے سکتا ہے.جیسے ہمیں کوئی احمدی کہہ کر گالی نہیں دے سکتا.جب بھی کوئی شخص ہمیں گالیاں دے گا وہ قادیانی یا مرزائی کہے گا.ہم نہ قادیانی ہیں اور نہ مرزائی.اگر وہ ہمیں قادیانی کہتے ہیں تو قادیان میں ہندو اور سکھ بھی آباد تھے.اور اگر مرزائی کہتے ہیں تو ادھر تو ایک مرزا ہے اور ادھر دس لاکھ مرزا ہیں.جب
$1953 94 خطبات محمود وہ ہمیں مرزائی کہہ کر گالیاں دیتے ہیں تو اس سے صرف حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہی مراد نہیں ہوتے بلکہ اس میں سارے مغل آجاتے ہیں.چاہے وہ پاکستان کے ہوں ، ہندوستان کے ہوں یا سمر قند بخارا کے ہوں.اور اگر وہ ہمیں قادیانی کہتے ہیں تو قادیانی کے لفظ میں وہ سب مسلمان، ہندو اور سکھ بھی آجاتے ہیں جو قادیان میں رہتے ہیں یا رہتے تھے.وہ بھی گالیاں دینے والوں سے لڑیں گے.غرض مشرکین مکہ محمد رسول اللہ ﷺ کو گالیاں دیتے وقت محمد ﷺ کا لفظ استعمال نہیں کرتے تھے بلکہ مُدمم کہا کرتے تھے اس لیے رسول کریم ﷺ نے فرمایا میرا نام تو محمد ہے.مُذَمَّم نہیں.اس لیے یہ لوگ مجھے گالیاں نہیں دے رہے."اللہ" کا لفظ بھی اسی رنگ کا ہے.لفظ اللہ کے کوئی معنی نہیں.یہ لفظ محض علم ہے ایک ہستی کے لیے لیکن علمیت کے اعتبار سے یہ لفظ صرف ایک وجود پر دلالت نہیں ہے کرتا بلکہ یہ ایک ایسی ذات کے لیے تجویز کیا گیا ہے جس میں کوئی عیب نہیں اور وہ تمام صفات حسنہ سے متصف ہے.اور جب اُس ذات کو تمام صفات حسنہ سے متصف تسلیم کیا گیا ہے تو وہ خالق بھی ہوگی.اور جب خالق ہوگی تو اس کے معنی ہیں کہ جو چیز بھی چلے گی اُس کے بعد چلے گی.پس اللہ " کا لفظ ہے دلالت کرتا ہے ایسی ہستی پر جو تمام صفات حسنہ سے متصف اور تمام عیوب سے پاک ہے.اب اگر خلق صفتِ حسنہ ہے تو وہ بھی اللہ میں پائی جائے گی.بعض لوگوں کا خیال ہے کہ اللہ تعالیٰ روح و مادہ کا پیدا کی کرنے والا نہیں.اگر وہ روح اور مادہ کو پیدا کرنے والا نہیں تو اس کے معنی یہ ہیں کہ روح و مادہ پیدا کرنا می اچھی بات نہیں.حالانکہ خلق صفات حسنہ میں شامل ہے نقص پر دلالت نہیں کرتی.پس روح و مادہ کو پیدا نہ کر سکنا ایک نقص ہے جو الوہیت کے منافی ہے.پس اگر اللہ ہے تو لازماً دنیا کی ساری چیزیں اُسی نے کی پیدا کی ہیں اور جب ساری چیزیں اللہ تعالیٰ نے ہی پیدا کی ہیں تو وہ اللہ کے بغیر کام کیا کرسکتی ہیں.اگر خدا تعالیٰ نے ساری چیزوں کو پیدا کیا ہے تو وہ کچھ دے گا تو وہ کام کریں گی.مثلاً اگر میں کوئی مکان بناتا ہے ہوں تو میں اُس میں دروازہ بناؤں گا تو بنے گا.میرے بنائے بغیر دروازہ نہیں بن سکتا.میں کھڑ کی ہے بناؤں گا تو بنے گی.میرے بنائے بغیر کھڑ کی نہیں بن سکتی.میں اُس میں طاقچہ رکھوں گا تو طاقچہ رکھا جائے گا.آپ ہی آپ طاقچہ نہیں رکھا جا سکتا.میں روشندان بناؤں گا تو روشندان بنیں گے.میرے بنائے بغیر روشندان نہیں بن سکتے.پس جب اللہ کے لفظ کے نیچے خلق کی صفت آگئی تو لازماً اس سے یہ نتیجہ نکلا کہ اگر کوئی کام کرنا ہے تو اُسی نے کرنا ہے.
خطبات محمود 95 55 $1953 پس بسم اللہ کے آگے پہلا قدم رحمانیت کا آئے گا اور دوسرا قدم رحیمیت کا یعنی جو چیزیں خدا تعالیٰ انسان کو دے گا وہی وہ استعمال کرے گا.اور جب وہ استعمال کرے گا تو کوئی نہ کوئی نتیجہ بھی اُس کا نکلے گا.ہو سکتا ہے کہ ایک شخص کسی دوسرے کو ایسی چیز دے جو اس کے کام میں آنے والی نہ ہو.مثلاً ایک جولاہا ہے اُسے اگر میں دس من لوہا دے دوں تو اس سے کوئی نتیجہ نہیں نکلے گا.ایک لوہار کو ایک تانی دے دوں تو اس سے کیا نتیجہ نکلے گا.لوہار کپڑا بننے کا کام تو جانتا نہیں وہ تانی سے کیا فائدہ اٹھائے گا.یا ایک ڈاکٹر کو ادویہ کی بجائے تانت 3 اور بانس دے دوں تو وہ خالی بیٹھا رہے گا.پس وہی ہستی بے عیب سمجھی جائے گی جو ایسی چیزیں دے جو دوسرے کی طاقتوں کے مطابق استعمال ہو سکتی ہوں.دوسرے کمال کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ جو چیزیں وہ دے وہ استعمال کے بعد اس کے لئے مفید بھی ہوں.فرض کرو ایک آدمی کام تو کر سکتا ہے اور وہی چیزیں اُسے دی گئی ہیں جن کو وہ استعمال میں لاسکتا ہے.مثلاً ایک جولا ہے کو ہم ایک تانی دے دیں.اب وہ تانی کو استعمال میں تو لاسکتا ہے لیکن اگر وہ کپڑا بنائے اور وہ کسی کام نہ آتا ہو تو وہ اس سے کیا فائدہ اٹھا سکتا ہے.پس پہلا سوال یہ ہے کہ کیا جس شخص کو کوئی چیز دی گئی ہے وہ اُسے استعمال میں لاسکتا ہے؟.دوسرا سوال یہ ہے کہ وہ اسے استعمال کر کے فائدہ اٹھا سکتا ہے؟.مثلاً ایک لوہار لو ہا استعمال کر سکتا ہے.لیکن اگر اُس کے کام سے کوئی نتیجہ نہ نکل سکے تو اُسے کیا فائدہ پہنچے گا.ایک ڈاکٹر کو ادویہ دے دو.وہ ادویہ کو استعمال میں لاسکتا ہے.لیکن اگر کوئی بیمار ہی نہ ہو تو کسی ڈاکٹر کی عقل ماری ہے کہ وہ ادویہ اٹھائے پھرے.یا مثلاً یہ ہو کہ ایک طرف ڈاکٹر ادو یہ اٹھائے پھرے اور دوسری طرف ملاں چھو کرے اور بیمار تندرست ہو جائے.تو لوگوں کو کیا ضرورت پڑی ہے کہ وہ ادویہ کی قیمت ادا کرتے پھریں.وہ ملاں کے پاس جائیں گے اور وہ چھو کر دے گا اور مریض تندرست ہو جائے گا.انہیں کوئی رقم خرچ نہیں کرنی پڑے گی مفت میں کام ہو جائے گا.پس یہ ساری چیزیں موجود ہونی چاہئیں.سامان بھی موجود ہو.پھر انسان اسے استعمال میں بھی لاسکتا ہو اور استعمال میں لانے سے کوئی نتیجہ بھی مرتب ہوتا ہو اور اسی پر لفظ رحیم دلالت کرتا ہے ہے.اللہ تعالیٰ نے بے انتہا طاقتیں انسان کو دی ہیں اور یہ سب کچھ اس کی صفت رحمانیت کے تحت ہوا تھا ہے.مگر ساتھ ہی وہ رحیم بھی ہے.وہ کام کا اعلیٰ درجہ کا بدلہ دیتا ہے.اور "بدلہ دیتا ہے " کے یہ معنے ہیں کہ اُس نے یہ سامان بھی کیا ہے کہ کام کے نتیجہ میں انسان کو فائدہ پہنچتا ہے.اسی آیت کے مفہوم سے
$1953 96 96 خطبات محمود مومن یہ فائدہ اٹھاتا ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کی دی ہوئی نعماء سے کام لیتا ہے.فرض کرو ایک دولتمند جسے خدا تعالیٰ کی طرف سے دولت ملی ہے وہ اُسے تعیش میں لگا دیتا ہے تو وہ دولت سے صحیح کام نہیں لیتا.لیکن خدا تعالیٰ کی صفت رحیمیت بتاتی ہے کہ جو چیز میں خدا تعالیٰ سے ملی ہیں انہیں صحیح طور پر تصرف اور استعمال میں لانا ضروری ہے.پس جب کوئی مومن بسم اللہ پڑھے تو وہ دیکھے کہ کیا وہ ایسا کام کر رہا ہے جس کا تقاضا خدا تعالیٰ کی صفت رحیمیت کرتی ہے.مثلاً ایک شخص کی سوڈیڑھ سوروپیہ ماہوار تنخواہ ہے.وہ بازار جاتا ہے اور پانچ.روپیہ کی اطلس 4 خرید لاتا ہے.اب اگر وہ اطلس خریدتے وقت بسم الله الرَّحْمنِ الرَّحِیمِ پڑھے گا تو اُس کا نفس اسے ملامت کرے گا کہ تو نے کیا کیا ہے؟ کیا تو نے خدا تعالی کی دی ہوئی نعمت کو اسی طرح استعمال کیا ہے کہ اس کا مفید نتیجہ نکلے جس کا رحیمیت تقاضا کرتی ہے.پس جو چیز تمہیں خدا تعالیٰ نے دیا ہے تم اسے صحیح طور پر استعمال کرو.خدا تعالیٰ کہتا ہے صحیح کام وہ ہے جس کا میں کوئی بدلہ دوں.اب تم اپنی آمد سے زیادہ رقم خرچ کر کے اطلس خرید لو اور زینت کے سامان جمع کر لو تو خدا تعالیٰ تمہیں کیا بدلہ دے گا.خدا تعالیٰ نے یہ ضرور کہا ہے کہ كُلُوا وَاشْرَبُوا 5 کھاؤ اور پیو.لیکن ساتھ ہی کہا لَا تُسْرِفُوا 6 تم اسراف نہ کرو.وہ فرماتا ہے كُلُوا مِنَ الطَّيِّبَتِ وَاعْمَلُوا صَالِحًات - اگر تم رزق طيب استعمال کرو گے تو خدا تعالیٰ تمہارے کام نیک بنادے گا.پس خدا تعالیٰ کی صفت رحیمیت نے جس کا ذکر بسم الله الرَّحْمنِ الرَّحِيمِ میں ہے بتا دیا کہ خدا تعالیٰ کی صفت رحمانیت کے تحت دی ہوئی اشیاء کو تھی اس رنگ میں استعمال کرو کہ اس سے صفتِ رحیمیت ظاہر ہونے لگے.اس میں سارے نیک کام آگئے.ایک شخص کے پاس دانے ہیں.وہ بسم اللہ پڑھتا ہے ، ہل چلاتا ہے، وقت پر دانہ ڈالتا ہے اور پانی دیتا ہے.تو ہم کہیں گے اس شخص نے بسم اللہ پڑھی اور اُس کا حق ادا کیا.کیونکہ رحیم کے معنے یہ تھے کہ وہ خدا تعالیٰ کی دی ہوئی اشیاء کو صحیح طور پر استعمال کرے.اور اُس نے خدا تعالیٰ کی دی ہوئی چیزوں کو صحیح طور پر استعمال کیا.اُس نے ہل چلایا، سہا گا پھیرا، پانی کا وقت آیا تو پانی دیا، بیج ڈالا اور صحیح وقت پر ڈالا.اب اسے رحیمیت بہت سا غلہ دے گی.لیکن ایک اور شخص ہے وہ بسم اللہ پڑھتا ہے لیکن ہل نہیں چلاتا یا اگر ہل چلاتا ہے تو اُسے اچھی طرح دباتا نہیں یونہی زمین کے اوپر ہل چلا دیتا ہے، یا سہا گا نہیں پھیرتا.پھر پانی دیتا ہے تو وتر نہیں رکھتا دانہ پہلے ڈال دیتا ہے.
$1953 97 خطبات محمود یا وتر سوکھ جاتا ہے تو اس وقت بیج ڈالتا ہے.ایسا شخص اگر بسم اللہ پڑھتا ہے تو اس کا کہ فائدہ.فرشتے اُس پر لعنت بھیجتے ہیں اور کہتے ہیں تم نے تو رحیمیت کی ہتک کر دی.خدا تعالیٰ کی صفت رحیمیت تو کہتی تھی کہ تو ہل چلائے ، سہا گا پھیرے، پانی دے.وتر آئے تو صحیح موسم میں بیج ڈالے.کیونکہ خدا تعالیٰ کہتا ہے کہ تم میری دی ہوئی چیزوں کو اس طرح استعمال کرو کہ تمہیں اُس کا بدلہ ملے لیکن تو نے ایسا نہیں کیا.اگر تم اس طرح پر بسم الله الرَّحْمَنِ الرَّحِیمِ پڑھو تو تمہاری زندگی کے سارے اعمال درست ہو جائیں.ہر کام جو تم کرتے ہو دیکھو کہ جس شکل میں تم اُسے کرنے لگے ہو.اُس کے نتیجہ کا خدا تعالیٰ نے وعدہ کیا ہے یا نہیں.اگر نتیجہ کا وعدہ خدا تعالیٰ نے کیا ہے تو ان چیزوں کا استعمال جائز ہے.اس میں صفت رحمانیت بھی آگئی اور صفت رحیمیت بھی.اگر تم دوسرے کا 3 مال چھرا کر استعمال کرتے ہو.تو صفت رحمانیت اُڑ گئی.اور اگر اُسے بے موقع استعمال کرتے ہو تو ی صفت رحیمیت اُڑ گئی.اس قسم کی بسم اللہ پڑھنے کا فائدہ کیا ؟ پس جو بسم اللہ پڑھ کر چوری کرتے ہی ہیں.اور کہتے ہیں کہ بسم اللہ پڑھنے سے برکت حاصل ہوتی ہے لوگ ہمیں پکڑ نہیں سکتے، بعض مالدار ہیں وہ دولت کا غلط استعمال کرتے ہیں.ایسا کرنے سے پہلے بسم اللہ پڑھتے ہیں.اب اس کی میں صفت رحمانیت تو ہے مگر صفت رحیمیت کہاں سے آئے گی.اللہ تعالیٰ نے جو شرط رکھی تھی وہ انہوں نے پوری نہیں کی.عیسائی لوگ لفظ رحیم پڑھتے ہیں رحمان نہیں پڑھتے.انہوں نے رحمانیت کو کسی اور کے وجہ سے چھوڑا ہے اور یہ بات اُن کے عقائد کے مطابق ٹھہرتی ہے.لیکن ایک مسلمان کو حکم ہے کہ جو طاقت اُسے ملی ہے وہ اقرار کرے کہ وہ طاقت اُسے خدا تعالیٰ نے ہی دی ہے.اور وہ اُسے صحیح طور پر استعمال کرے تا اُسے اُس کا وہ بدلہ ملے جس کا خدا تعالیٰ نے وعدہ کیا ہے.گویا ہر کام کا شروع اور آخر اللہ تعالیٰ نے اپنے پاس رکھا ہے.رحمانیت کے اندر آغاز کو بیان کیا گیا ہے اور رحیمیت میں انجام کو بیان کیا گیا ہے.پس الله الرَّحْمنِ الرَّحِیمِ پڑھ کر مومن اس بات کا اقرار کرتا ہے کہ اس کا آغاز بھی اور انجام بھی خدا تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے.اعمال خدا تعالیٰ نے ہی بنائے ہیں.هُوَ الْاَوَّلُ وَالْآخِرُ 8 وہ ابتدا کرنے والا بھی ہے اور اسی طرح انجام بھی اُسی کے ذریعہ ہوتا ہے.یہ ایک ایسی چیز ہے جس کے گرد انسان چکر لگا رہا ہے.جیسے حج کے ایام میں حاجی حجر اسود کے گرد طواف کرتے ہیں.جہاں سے وہ چلتے ہیں وہیں
$1953 98 خطبات محمود آکر اپنا چکر ختم کرتے ہیں.اسی طرح بسم اللہ بھی اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ انسان خدا تعالی کے گرد چکر لگا رہا ہے.وہیں سے یہ ابتدا کرتا ہے اور وہیں جا پڑتا ہے کہ جیسے بعض نہریں دریا سے نکلتی ہے ہیں اور دریا میں ہی جاپڑتی ہیں.پانی کو دیکھو خدا تعالیٰ اسے زمین سے نکالتا ہے پھر بادل کی صورت میں اُسے اوپر اٹھاتا ہے اور پھر بارش کی صورت میں نیچے گراتا ہے اور وہی پانی دوبارہ زمین میں چلا جاتا ہے ہے.پھر دوبارہ خدا تعالیٰ اُسے زمین سے نکالتا ہے.اسی طرح یہ پانی چکر کھاتا رہتا ہے.رہٹ 9 ) دیکھ لو.ایک طرف سے کنویں سے پانی نکالتا جاتا ہے اور دوسری طرف پھر کنویں میں ڈو بنا شروع ہوتا ہے.یہی بسم اللہ کا حال ہے.حقیقی مومن وہی ہے جو خدا تعالیٰ سے نکلتا ہے اور خدا تعالیٰ میں واپس چلا جاتا ہے.اُس کا آنا جانا اللہ تعالیٰ کے ساتھ لگا رہتا ہے.جیسے رہٹ چل رہا ہوتا ہے ویسا ہی مومنانہ زندگی ہوتی ہے.“ 1: گرچ: (CRUTCH) المصلح اسح 13 مئی 1953ء) (Concise Oxford Dictionary) 2 بخاری کتاب المناقب باب ماجاء فِي أَسْمَاءِ رَسُول الله الله 3 تانت: تار، دھاگا (فیروز اللغات اُردو جامع مطبوعہ فیروز سنز لا ہور ) :4 اطلس : ایک قسم کا ریشمی کپڑا (فیروز اللغات اُردو جامع مطبوعہ فیروز سنز لاہور ) 5 الاعراف:32 6 الاعراف : 32 المومنون :52 8 الحديد: 4 رہٹ.وہ چرخ جس کے ذریعہ کنویں سے پانی نکالتے ہیں.فیروز اللغات اردو جامع مطبوعہ فیروز سنز لاہور )
99 $1953 15 خطبات محمود بِسمِ الله الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ سے مومن پر خدا تعالیٰ کی عظیم الشان نعمتوں کا انکشاف ہوتا ہے (فرموده 8 رمئی 1953ء بمقام ربوہ) تشهد ، تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا." بسم الله الرَّحْمنِ الرَّحِیم میں آخری لفظ رحیم کا آتا ہے.در حقیقت رحمن اور رحیم ایک ہی لفظ سے نکلے ہوئے ہیں.لیکن اپنے صیغوں اور وزنوں کے لحاظ سے اور پھر ان شکلوں کے لحاظ سے جو انہیں ملی ہیں عربی زبان کے قواعد کے مطابق ان کے معنوں میں اختلاف پایا جاتا ہے.رحمن کے وزن پر جو الفاظ آتے ہیں اُن کے معنوں میں عام طور پر وسعت اور مفہوم میں شدت پائی جاتی ہے.اور رحیم کے وزن پر جو الفاظ آتے ہیں اُن کے معانی میں لمبائی اور تواتر پایا جاتا ہے.پس لفظ ایک ہی ہے لیکن مختلف وزنوں اور صیغوں کے لحاظ سے معانی میں اختلاف ہو گیا ہے.پھر آگے ایک اور اختلاف بھی ہے اور وہ یہ کہ اللہ تعالیٰ کے لیے جب یہ الفاظ استعمال ہوتے ہیں تو کی ان کی تشریح بھی دیکھنی پڑتی ہے کہ کس حد تک انہیں وسعت دی گئی ہے.مثلاً مالدار کا لفظ ہے جب ہم یہ لفظ بولتے ہیں تو بعض ملکوں کے لحاظ سے صرف سو ڈیڑھ سو روپیہ والا شخص مالدار کہلاتا ہے.ض اور ملکوں کے لحاظ سے ہزار پندرہ سو روپیہ والا مالدار کہلاتا ہے.بعض اور ممالک کے لحاظ - ނ
$1953 100 خطبات محمود دس بارہ ہزار روپیہ والا مالدار کہلاتا ہے.پھر ان سے بڑھ کر بعض ممالک ہیں جن میں لاکھ دو لاکھ روپیہ والا مالدار کہلاتا ہے.پھر اور ممالک ہیں جن میں دس پندرہ لاکھ روپیہ والا مالدار کہلاتا ہے.پھر اور کی ممالک ہیں جن میں پچاس ساٹھ لاکھ روپیہ والا مالدار کہلاتا ہے.بعض اور ممالک ہیں جن میں کروڑ ڈیڑھ کروڑ روپیہ والا مالدار کہلاتا ہے.پھر بعض ممالک ایسے ہیں جن میں دس پندرہ کروڑ روپیہ والا مالدار کہلاتا ہے اس سے نیچے والا مالدار نہیں کہلاتا.ہمارے ملک کی حالت اب بہتر ہورہی ہے.لیکن پھر بھی اس کی ایسی حالت ہے کہ آج سے پچیس سال پہلے گاندھی جی نے ہندوستان کی دولت کا یہ اندازہ لگایا تھا کہ ہمارے ملک میں اوسط ماہوار آمد 4/12 روپے فی کس ہے.اس سے تم اپنے ملک کی دولت کا کی اندازہ لگا لو.اس اندازہ میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جو لاکھ پتی اور کروڑ پتی کہلاتے ہیں.4/12 روپے کی میں سے ان کو بھی حصہ جاتا ہے.تبھی وہ لاکھ پتی یا کروڑ پتی بنیں گے.اگر ان کا لحاظ رکھا جائے تو شاید ایک عام شخص کی ماہوار اوسط آمد 2/8 روپے ہو.2/4 روپے ہمارے بعض آدمیوں کو ہزار پتی یالا کھ پتی ہے بنانے پر لگ جائیں گے اس سے تم اندازہ لگا سکتے ہو کہ الفاظ کے معنوں میں کتنا فرق پایا جاتا ہے.ہر ایک شخص اپنے نظریہ کے مطابق کسی لفظ کے معنے لے لیتا ہے.مشہور ہے کہ کوئی سمندر کا مینڈک کنویں کے مینڈک کے پاس گیا.کنویں کے مینڈک نے کی اُس سے کہا کہ سنا ہے سمندر بڑی چیز ہوتی ہے.سمندر کے مینڈک نے کہا ہاں سمندر بڑی چیز ہے.اس پر کنویں کے مینڈک نے ایک چھلانگ ماری.مینڈک کے لحاظ سے وہ چھلانگ گز ڈیڑھ گز کی ہوگی اور کہا کیا سمندر اتنا بڑا ہے؟ سمندر کے مینڈک نے کہا سمندر بہت بڑی چیز ہے.چھلانگ مارنے سے تم اس کا اندازہ ہی نہیں لگا سکتے ؟.اس پر اُس نے دو چھلانگیں ماریں اور وہ چھلانگیں شاید دو تین گز کی ہوں گی.اور کہا کیا سمند را تنا بڑا ہے؟ سمندر کے مینڈک نے کہا سمندر بہت بڑی چیز ہے وہ اس سے بھی بڑا ہے.اس پر دوسرے مینڈک نے اکٹھی تین چھلانگیں لگائیں.یہ فاصلہ شاید سات آٹھ گز کا ہوگا اور کہا کیا سمندر اتنا بڑا ہے؟ کنویں کا مینڈک زیادہ سے زیادہ 21, 22 فٹ گھیر والی جگہ میں ہوتا ہے.اس لیے وہ سمندر کا اندازہ نہیں لگا سکتا.سمندر کے مینڈک نے کہا سمندر اس سے بھی بڑا ہوتا ہے اس پر کنوئیں کے مینڈک نے اس سے منہ پھیر لیا اور کہا چل جھوٹا کہیں کا.تیرے جیسا جھوٹا میں نے کبھی نہیں دیکھا.اب کنویں کے مینڈک کے نزدیک کوئی علاقہ 21, 22 فٹ سے چوڑا ہو ہی نہیں سکتا اور
$1953 101 خطبات محمود یہ چیز اس کے نزدیک بالکل غیر ممکن تھی.ނ مجھے یاد ہے کوئی تمیں سال کی بات ہوگی کہ میرے پاس گاؤں کی ایک عورت آئی.اس نے ی اپنی مصیبت بیان کر کے نہایت لجاجت سے کہا کہ آپ میری مدد کریں.میں نے اس کی حالت.اندازہ لگایا کہ یہ 50, 60 روپیہ مانگتی ہوگی.میرے دل میں رحم پیدا ہوا اور سمجھا کہ اس قدر مدد میری طاقت سے باہر نہیں.میں اس عورت کی مدد کر سکتا ہوں.اس لیے میں نے اُس عورت سے دریافت کیا کہ تمہیں کس قدر رقم چاہیئے ؟ اس پر اُس عورت نے ہچکچاتے ہوئے کہا.مجھے آٹھ آنے چاہئیں.میں نے اُسے کچھ رقم تو دے دی لیکن اس واقعہ نے میرے دل پر ایک ایسا گہرا زخم چھوڑا جسے میں آج تک نہیں مٹا سکا.اب دیکھ لو ہمارے ملک میں غربا کی کیسی گری ہوئی حالت ہے.اس عورت نے آٹھ آنے کی لینے کے لیے پانچ سات منٹ تک اپنی مصیبت کا اظہار کیا اور پھر نہایت مجھجکتے جھجکتے اپنا آخری مطالبہ پیش کیا.اب اس عورت کے نزدیک دس روپے والا بھی بڑا مالدار کہلائے گا.اسی طرح یہ لطیفہ بھی ہمارے ملک کی گری ہوئی حالت پر دلالت کرتا ہے کہ چند دیہاتی ایک جگہ بیٹھے تھے.ان میں سے ایک نے کہا ملکہ وکٹوریہ کیا کھاتی ہوگی؟ دوسرے شخص نے کہا بھنا ہوا گوشت کھاتی ہوگی.ایک نے کہا وہ حلوہ کھاتی ہوگی.ایک اور شخص نے کہا وہ زردہ کھاتی ہوگی.اس پر ایک بڑھے نے کہا تمہاری عقل ماری گئی ہے کیا ملکہ وکٹوریہ اتنی بڑی بادشاہ ! اور وہ گوشت ، حلوہ یا زردہ کھاتی ہو؟ اُس نے ایک کمرہ ادھر بنایا ہوا ہو گا اور ایک اُدھر.ان میں گڑ کی بھیلیاں 1 بھری ہوئی ہونگی.ادھر جاتی ہوگی تو گرہ کی ایک بھیلی کھا لیتی ہوگی اور اُدھر جاتی ہوگی تو گڑ کی ایک پھیلی کھا لیتی ہوگی.اور ساتھ ہی ساتھ ٹہلتی جاتی ہوگی.یہ حالت کتنی گری ہوئی ہے کہ ہم اپنی دولت کا معیار وہ بتاتے ہیں جو کسی یورپین ملک کے ایک ذلیل سے ذلیل انسان کے معیار سے بھی گرا ہوا ہوتا ہے.اس پر قیاس کرلو کہ ہمارا آدمی رحمان کی تعریف کرتا ہوگا اور اُس کی طاقتوں کا اندازہ لگاتا ہوگا تو کہتا ہوگا اُس کی اتنی طاقت ہوگی کہ کسی کو پچاس روپے دے دیئے.اور اگر رحیم کی تعریف کرے گا تو کہے گا گورنمنٹ نصف تنخواہ پنشن دیتی ہے ہے تو شاید خدا تعالی ساری تنخواہ بطور پینشن دے دے.کیونکہ ہمارے ملک کے لوگوں کے اندر
$1953 102 خطبات محمود وسعت خیال نہیں پائی جاتی.ہم نے غفلت، سستی، لا پرواہی اور اپنی ذمہ داریوں کو ادا نہ کرنے کی وجہ سے اپنے ارد گرد ایسا ماحول پیدا کر لیا ہے جو نہایت گھٹیا ہے.ہمارا ایک پٹواری ہوتا ہے.وہ جب تک آسمان پر نہ چلا جائے پچاس ساٹھ روپے کی نوکری نہیں چھوڑتا.وہ ہر وقت یہ کوشش کرے گا کہ چاہے کوئی نواب ہی ہو وہ اس کی سفارش لے آئے.تا کہ اُس کی نوکری قائم رہے.کوئی پیر آجائے گا تو وہ کہے گا چلو جی! آپ میری سفارش کریں.میری چالیس پچاس کی نوکری جارہی ہے یہ کسی طرح میرے ہاتھ سے نہ جائے.کوئی ڈپٹی کمشنر خوش ہوگا تو وہ اُس سے بھی جا کر کہے گا کہ آپ میری سفارش کریں.غرض ہم ایک ایسے ماحول میں ہیں کہ اگر ہم میں سے کسی کی چالیس پچاس روپے ماہوار کی نوکری بھی جاتی ہے تو اتنی تنخواہ والی نوکری اُسے ملنی مشکل ہو جاتی ہے.لیکن یورپ میں دیکھ لو بڑے بڑے جرنیل، وزیریتی کہ بادشاہ بھی کتنی دلیری سے استعفیٰ دے دیتے ہیں.اور بعض ممالک میں یہاں تک حالت پہنچ جاتی ہے کہ وزارتیں بنانی مشکل ہو جاتی ہیں.آج سے بیس سال پہلے برطانیہ کا ایک مشہور وزیر خزانہ تھا.اس نے اپنے عہدہ سے استعفی کی دے دیا.ہمارا تو نوکریوں پر گزارہ ہوتا ہے لیکن وہ لوگ صرف نوکریوں پر گزارہ نہیں کرتے.اُس وقت انگریز وزیرخزانہ کو سات ہزار پونڈ سالانہ دیتے تھے.اُس نے استعفیٰ دے دیا اور کہا مجھے ایک فرم میں ملازمت مل رہی ہے اور وہ فرم مجھے اس تنخواہ سے ساڑھے چار گنا زیادہ تنخواہ دے رہی ہے اس لیے میں وہاں ملازمت کروں گا.چنانچہ وہ اُس فرم میں ملازم ہو گیا.لیکن ہمارے ہاں آزا د نوکری ملنی مشکل ہوتی ہے ہے.گورنمنٹ کی نوکری ہو تو ہو.اس لئے جب کسی کی نوکری جاتی رہتی ہے تو وہ ہر ممکن کوشش کرتا ہے کہ اُس کی نوکری بحال ہو جائے اور وہ اپنی ملازمت سے چمٹا رہتا ہے.خواہ اس کے ملک کے تمام لوگ اس پر بدظنی کرنے لگ جائیں.یہی وجہ ہے کہ ہمارے ملک میں بدنظمی ، بے ایمانی اور دوسری کئی ای خرابیاں پیدا ہوتی رہتی ہیں.چونکہ ہر ایک ملازم یہ سمجھتا ہے کہ میں نے ملازمت ترک نہیں کرنی.اس لیے جس شخص کے متعلق وہ سمجھتا ہے کہ اُس کی مدد سے اُس کی نوکری قائم رہے گی وہ اُس کی سفارش لا تا ہے اور ایسا کرنے کے لیے وہ مجبور ہوتا ہے.لیکن دوسرے ممالک میں اس چیز کی ضرورت نہیں ہوتی.وہاں نہ کوئی سفارش لاتا ہے اور نہ بے ایمانی کرتا ہے.اگر کوئی کسی ملازم سے ناجائز کام لیتا ہے تو وہ استعفیٰ دے دیتا ہے اور گورنمنٹ کی ملازمت ترک کر کے کسی فرم میں ملازمت اختیار کر لیتا ہے.وہاں
$1953 103 خطبات محمود ملازمت کا معیار قابلیت ہوتا ہے.اس لئے وہ لوگ اپنے اندر قابلیت پیدا کرتے ہیں.لیکن ہمارے ہاں ملازمت کا معیار تعلقات کا ہوتا ہے اس لیے ہر احمق اور ہر قابل ملازم اپنی نوکری کو قائم رکھنے کے لیے سفارش کا محتاج ہوتا ہے.جو احمق ہے وہ تو حماقت کرے گا ہی لیکن ایک قابل شخص بھی جب سمجھتا ہے ہے کہ اس کی ملازمت سفارش کے بغیر قائم نہیں رہ سکتی تو وہ سفارش لانے کے لیے ادھر ادھر دوڑتا ہے.اس طرح دونوں طرف سے بے ایمانی ہوتی ہے.غرض ہم نے اپنی غلطیوں کی وجہ سے اپنا ماحول گندا بنائی لیا ہے اور ترقی سے بہت دور جا پڑے ہیں.امریکہ میں ایسے لوگ پائے جاتے ہیں جن کی دو دو پانچ پانچ یا دس دس لاکھ ڈالر ماہوار آمد ہے.ان کے بعض اخباروں کی آمد صوبہ پنجاب کی آمد کے قریب ہے.پچھلے دنوں لاہور میں ایک اخبار نویس آیا.ہمارے اخبار نویس تو ایک ایک سو روپیہ کی مدد کے لیے ادھر اُدھر ہاتھ پاؤں مارتے رہتے ہیں.لیکن اُس شخص نے بتایا کہ میرے اخبار کے سالانہ اخراجات 16 کروڑ روپیہ ہیں.یعنی گورنمنٹ پنجاب کے بجٹ سے کچھ ہی کم.صوبہ سرحد کی آمد پانچ کروڑ روپیہ ہے.اس لیے اس کی آمد سے تین گنا زیادہ اور صوبہ سندھ سے دو گنا.اس سے اندازہ لگا لو کہ جس اخبار کی آمد بعض پاکستانی کی صوبوں سے بھی زیادہ ہو وہ کس شان کا ہوگا.ان ممالک کے لوگ جب خدا تعالیٰ کی رحمانیت کا اندازہ لگا ئیں گے تو ہیں ہیں ارب، نہیں نہیں کھرب یا ہیں ہیں پدم کا لگائیں گے.لیکن ہمارا آدمی خدا تعالیٰ کی طاقت کا اندازہ لگائے گا تو میں ہزار یا بیس لاکھ روپیہ تک لگائے گا اور کہے گا اس سے زیادہ کیا ہوگا.مگر وہ لوگ جن کے پاس اتنی طاقت ہے کہ وہ دنیا کے تمام کونوں پر حملہ کر سکتے ہیں، ان کے پاس لاکھوں لاکھ فوج ہے، ہزاروں ہوائی جہاز ہیں، ایٹم بم ہیں وہ خدا تعالیٰ کا اندازہ لگائیں گے تو اس سے بہت زیادہ لگائیں گے.ان کے پاس اگر ہزار دو ہزار ایٹم بم ہیں تو وہ کہیں گے خدا تعالیٰ کے پاس دو لاکھ ایٹم بم تو ضرور ہوں گے.لیکن ہمارا آدمی اندازہ لگائے گا تو کہے گا شاید اُس کی شان آدھے ایٹم بم کے برابر ہو.اس سے بڑی بات وہ کیا کرے گا.پس چونکہ انسان اپنی حالت کے مطابق خدا تعالیٰ کا اندازہ کی لگاتا ہے اس لیے خدا تعالیٰ نے قرآن کریم میں رحمان اور رحیم کے معنے کر دیئے ہیں تا کہ لوگ ان کی الفاظ کے معنی کرنے میں غلطی نہ کریں.اور اپنی گری ہوئی حالت اور خراب ماحول کی وجہ سے غلط اندازے نہ لگانے شروع کر دیں کہ خدا تعالیٰ میں اتنی طاقت پائی جاتی ہے.
$1953 104 خطبات محمود میں نے جو باتیں بیان کی ہیں شاید تم انہیں مذاق سمجھتے ہوگے.لیکن یہ واقعات ہیں جن کا کی تاریخ میں بھی ذکر آتا ہے.چنانچہ لکھا ہے کہ جب ہمایوں شیر شاہ سوری پر حملہ کرنے گیا ہے تو اُس کے ساتھ ایک لاکھ سپاہی تھا.میلوں میل تک شاہی لشکر پھیلا ہوا تھا.خیموں میں ایک طرف سے دوسری طرف تک جانا مشکل تھا.اس لشکر کو دیکھ کر ہمایوں کے منہ سے یہ فقرہ نکل گیا کہ یہ لشکر اتنا بڑا ہے کہ اسے تباہ کرتے ہوئے تو خدا تعالیٰ کو بھی کچھ دیر ہی لگے.اُس نے لشکر کی کثیر تعداد دیکھ کر دھوکا کھایا اور یہ فقرہ اس کے منہ سے نکل گیا.لیکن خدا تعالیٰ اُسے سزا دینا چاہتا تھا.جس وقت ہمایوں نے یہ بات کہی اُس کی وقت پٹھانوں کی فوج کا ایک جرنیل بھی یہ بات سن رہا تھا.اُسے یہ بات سن کر غیرت آئی.وہ قید تھا.اُس نے مجنونانہ طور پر زور لگایا تو بیڑیاں ٹوٹ گئیں اور آزاد ہو کر بھاگ کھڑا ہوا اور اپنی قوم میں جا کر کہا ہے کہ ہمایوں نے خدا تعالیٰ کی ہتک کی ہے.قوم میں جوش پیدا ہوا اور ایک لشکر جمع ہو گیا جسے لے کر شیر شاہ نے ہمایوں کی فوج پر حملہ کر دیا اور اسے شکست دی.اور آخر اس نے بھاگ کر ایران میں پناہ لی.اس واقعہ سے تم اندازہ لگا سکتے ہو کہ یہ خیالی بات نہیں.دنیا میں اس قسم کی ہزاروں مثالیں ملتی ہیں.جب کسی شخص کو دنیا میں بڑائی مل گی تو وہ خیال کرنے لگ گیا کہ اب خدا تعالیٰ میں یہ طاقت نہیں کہ مجھے نیچے گرا دے.ہمایوں بادشاہ تھا لیکن اُس نے خیال کیا کہ اب میرے لشکر کو تباہ کرنے میں خدا تعالیٰ کو بھی کچھ دیر لگے گی.لوگ خیال کرتے ہیں کہ جب ہم چھوٹے تھے تو خدا ہمیں مٹا سکتا تھا.اب ہم بڑے ہو گئے ہیں اب خدا ہمیں کس طرح مٹا سکتا ہے.پس چونکہ الفاظ کے معنی کرنے میں لوگ غلطی کر جاتے ہیں اس لیے خدا تعالیٰ نے قرآن کریم میں رحمان اور رحیم کی تشریح کر دی ہے.مثلاً رحمان کی تشریح کرتے ہوئے خدا تعالیٰ سورج اور چاند کا ذکر کرتا ہے.وہ مثال دے کر کہتا ہے کہ میں نے تمہارے لئے سورج بنایا، چاند بنایا، زمین بنائی ، آسمان بنائے ، پانی پیدا کیا.اس لیے تم میری رحمت کا غلط اندازہ نہ لگانا اور یہ نہ سمجھنا کہ صرف چند روپے تم کو دے دیئے ہیں یا انسان دس روپے دے سکتے ہیں تو خدا تعالیٰ پچاس روپے دے سکتا ہوگا.پھر رحیمیت آجاتی ہے تو وہاں یہ سوال آتا ہے کہ اس دنیا میں جب گورنمنٹ رحیمیت کا بدلہ دیتی ہے تو وہ بہت محدود ہوتا ہے.ہمارے ایک زمیندار کے ساتھ اگر کوئی افسر نیک سلوک کرتا ہے تو وہ مارچ اپریل میں ایک کھدر کی چادر میں ستو ڈال لیتا ہے اور اُس افسر کی کوٹھی پر جا کر کہتا ہے یہ ستو ہیں ، آپ نے جو مجھ سے
$1953 105 خطبات محمود فلاں موقع پر حسن سلوک کیا تھا.میں اُس کے بدلہ میں یہ ستو لایا ہوں.پھر اس سے ترقی کر کے بعض لوگ افسروں کو ڈالیاں 2 پیش کرتے ہیں.ان ڈالیوں کے ساتھ یہ امید کا پہلو بھی ہوتا ہے کہ یہ تو پہلے سلوک کا بدلہ ہے اب میرے ساتھ اور نیک سلوک بھی ہونا چاہیے.پھر بعض حکومتیں بھی احسانات کا بدلہ دیتی ہیں تو یہ کر دیتی ہیں کہ کسی کو پانچ مربع زمین دی اور ساتھ ہی کہہ دیا کہ 1700 روپے فی مربع ادا کر دیں.اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ رقم مربع کی پوری قیمت نہیں ہوتی لیکن تاہم وہ کچھ رقم کا مطالبہ کر لیتی ہیں.اگر بڑی مار مارتی ہیں تو کہہ دیتی ہیں کہ اس کو تاحیات اتنی رقم بطور پنشن ملے گی.اس کی وفات پر اس کے بیٹے کو نصف رقم اور اس کے بیٹے کو اس کی نصف رقم ملے گی.اور آہستہ آہستہ اس پنشن کی کو ختم کر دیتی ہیں.ان نظاروں کو دیکھ کر انسان جب خدا تعالیٰ کے متعلق خیال کرے گا تو یہی کرے گا کہ وہ پوری پینشن دے دیتا ہوگا یاوہ پانچ مربعے زمین دے کر کسی رقم کا مطالبہ نہیں کرتا ہوگا اور کیا دیتا ہوگا.جیسے ملکہ وکٹوریہ کے متعلق بعض دیہاتیوں نے خیال کر لیا کہ وہ بھنا ہوا گوشت کھاتی ہوگی یا یہ کہ گری کی بھیلیاں کھاتی ہوگی اور ساتھ ہی ساتھ ٹہلتی بھی جاتی ہوگی.اس طرح خدا تعالیٰ کے متعلق بھی لوگ یہ وی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ وہ رحیم ہے اس لیے وہ ساری پیشن دے دیتا ہوگا.یا ہماری پچاس یا ساٹھ روپے کی قربانی ہے تو وہ پانچ چھ سو روپیہ دے دیتا ہو گا.اگر گورنمنٹ دس پندرہ سال تک پنشن دیتی ہے تو وہ سوسال تک دیتا ہوگا.پس چونکہ لوگ اس قسم کے اندازے لگا سکتے تھے اس لیے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے یہ بات نہیں.یہاں اگر تمہیں نصف تنخواہ پینشن ملتی ہے تو خدا تعالیٰ تمہیں پوری تنخواہ بطور پینشن دے گا.بلکہ یہاں تو انعامات بہت محدود ہیں اگر وہ لاکھوں ہیں تب بھی محدود ہیں.لیکن ہمارا یہ حال ہے.لَهُمْ فِيهَا مَا يَشَاءُونَ 3.ہماری جنت میں جنتی جو کچھ چاہیں گے وہ انہیں ملے گا.اگر کوئی دس ارب روپیہ چاہے گا تو وہ اُسے ملے گا، دس کھرب چاہے گا تو وہ اُسے ملے گا ، دس پدم چاہے گا تو وہ اُسے ملے گا.ہماری پنشن کا یہ حال نہیں کہ اگر یہاں نصف تنخواہ بطور پیشن ملتی ہے تو ہمارے ہاں پوری تنخواہ بطور پنشن مل جائے گی.بلکہ اگر کوئی شخص گودڑی میں ملبوس ہے.اُس کے کپڑے پھٹے پرانے ہیں اور اُسے دنیا میں کوئی حیثیت بھی حاصل نہیں تو اُسے ہمارے ہاں جو کچھ ملے گا سارے امریکہ کی دولت اُس کے مقابلہ میں ایک مکھی کے پر کی حیثیت بھی نہیں رکھتی.بے شک ہم یہاں کہتے ہیں کہ انہیں بہت کچھ ملتا ہے ہے لیکن یہاں جو کچھ ملتا ہے وہ بہر حال محدود ہوتا ہے.
$1953 106 خطبات محمود ہم جب خدا تعالیٰ کے لیے یہ الفاظ استعمال کرتے ہیں تو اس کے معنے اور ہوتے ہیں اور جب اپنے لیے استعمال کرتے ہیں تو اس کے معنی اور ہوتے ہیں.ہمارے نزدیک جو غیر محدود ہے.خدا تعالیٰ کے نزدیک وہ محدود ہے اور اُس کے نزدیک جو محدود لیکن وسیع ہے ہمارے ذہن بھی اُس کا اندازہ نہیں کر سکتے.مثلاً خدا تعالیٰ نے یہ دنیا محدود بنائی ہے اور خدا تعالیٰ خود اس دنیا کے محدود ہونے کی پر زور دیتا ہے.لیکن ہمارے لئے یہ غیر محدود ہے.دنیا کی وسعت کا اندازہ اب سولہ ہزار روشنی کے سالوں تک پہنچ گیا ہے.اور ابھی تک لوگ کہتے ہیں ہمیں کچھ پتا نہیں لگتا کہ دنیا کتنی وسیع ہے.شاید تمہاری سمجھ میں یہ بات نہ آتی ہو.روشنی کی رفتار فی منٹ ایک لاکھ اسی ہزار میل ہوتی ہے.جن چیزوں کی لمبائی اتنی زیادہ ہوتی ہے کہ انہیں ہم میلوں سے نہ ناپ سکیں.اُن کا اندازہ اس طرح لگاتے ہیں کہ یہ روشنی کے اتنے سال لمبی ہیں.مثلاً اگر ہم کہتے ہیں کہ فلاں چیز روشنی کے ایک گھنٹہ جتنی لمبی ہے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ 60x180000 میل لمبی ہے.اور اگر ہم کہتے ہیں کہ فلاں چیز کی لمبائی روشنی کے ایک سال کے برابر ہے.تو اس کے معنی ہیں 365x24x60x180000 گویا جس چیز کی لمبائی اربوں کھربوں اور پدموں سے آگے گزر جائے.تو اُسے روشنی کے سالوں سے ناپتے ہیں.اس وقت تک دنیا کی لمبائی 16000 روشنی کے سالوں کے برابر دریافت ہو چکی ہے.اس کا اگر حساب لگانا شروع کر دیں تو تعداد ار ہوں اور کھر بوں اور پدموں سے گزر کر اس حد تک گزر جائے گی کہ ہم صبح سے ی شام تک اس کی گنتی کو پورانہیں بیان کرسکیں گے.بہر حال ماہرین کہتے ہیں کہ دنیا کی لمبائی 16000 روشنی کے سالوں کی حد تک دریافت ہو چکی ہے.اور ابھی اس کی لمبائی باقی ہے.وہ کہتے ہیں کہ دنیا میں ربڑ کی طرح لچک پائی جاتی ہے.جس طرح ربڑ کو کھینچنے سے اُس کی لمبائی بڑھ جاتی ہے اس طرح دنیا کی لمبائی بھی بڑھ رہی ہے.بہر حال خدا تعالیٰ کے نزدیک جو محدود ہے وہ ہمارے نزدیک ی غیر محدود ہے.ہم اُس کی نہ لمبائی کا اندازہ لگا سکتے اور نہ گہرائی کا اندازہ لگا سکتے ہیں.پھر دنیا کو جانے دو.ایک ذرہ کو لے لو.اس کی وسعت کا اندازہ بھی ہم نہیں لگا سکتے.اب پانی کے قطرہ کے متعلق تحقیقات ہو رہی ہے.ہائیڈ روجن بم پانی سے ہی بنا ہے.گویا حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر اب تک ہم قطرہ کی حقیقت کو بھی نہیں سمجھ سکتے تھے.اب لوگوں نے تحقیقات کر کے اس سے ہائیڈ روجن بم ایجاد کر لیا ہے.پس خدا تعالیٰ کے لیے جو محدود ہے وہ ہمارے لیے غیر محدود.
$1953 107 خطبات محمود اور جسے وہ بے حساب دے دیوے وہ کیا ہو گا.ہم اس کا وہم بھی نہیں کر سکتے.خدا تعالیٰ کہتا ہے.لَهُمْ فِيهَا مَا يَشَاءُونَ.وہ جو چاہیں گے انہیں ملے گا.یہ رحمانیت آگئی تم جتنا مانگو گے تمہیں ملے گا.اب رحیمیت کو لو.خدا تعالیٰ فرماتا ہے.عطاءَ غَيْرَ مَجدُو ذِ 4 یعنی ہم جو تمہاری پنشن مقرر کریں گے وہ ختم ہی نہیں ہوگی.وہ غیر مقطوع ہوگی.وہ کائی نہیں جائے گی.اس میں کوئی وقفہ نہیں ہوگا.پس کنویں کے مینڈک کی طرح تم اپنے اوپر خدا تعالیٰ کا قیاس مت کرو.قرآن کریم نے خود رحمان اور رحیم کے معنی کر دیئے ہیں.خدا تعالیٰ کہتا ہے.لَهُمْ فِيْهَا مَا يَشَاءُونَ وہ جو چاہیں گے انہیں ملے گا.یا مثلاً یہ فرمایا کہ اس دنیا میں ہر ذرہ انسان کو فائدہ پہنچانے کے لیے پیدا کیا گیا ہے اور دنیا کی کی ہر چیز اُس کی خدمت میں لگی ہوئی ہے 5.اور پھر جو کچھ خدمت میں لگا ہوا ہے.ذرا اُس کا اندازہ کرلو.دنیا کو لوگ آج تک ناپ رہے ہیں لیکن وہ ناپی نہیں جاسکی اور نہ قیامت تک لوگ اسے ناپ سکیں گے.یہ رحمانیت ہے.پھر رحیمیت لے لو تو خدا تعالیٰ فرماتا ہے عَطَاء غَيْرَ مَجْذُوذٍ کہ ہمارے انعامات منقطع نہیں ہوں گے.پھر اگلے جہان کی رحمانیت کو لو.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وہاں لوگ جو چاہیں گے انہیں ملے گا.اس کے لیے محنت کا کوئی سوال نہیں ہوگا.وہاں محدود اعمال کے بدلہ میں اس قدر گا جس کا اندازہ لگانا ہماری طاقت سے باہر ہے.اب تم سمجھ لو جو شخص رحیمیت کو دیکھتے ہوئے بسم الله الرَّحْمَنِ الرَّحِیمِ پڑھتا ہے.اس کے اندر کس قدر وسعت خیال پیدا ہو جاتی ہے.وہ ایک غریہ کو ایک پیسہ دینے لگتا ہے اور کہتا ہے بِسمِ اللهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيمِ تو اس کا یہ مطلب ہوتا ہے کہ میں نے اس ایک پیسہ کے بدلے میں رحیمیت لینی ہے.وہ رحیمیت کیا ہے.عَطَاء غَيْرَ مَجْدُوْنِ یعنی اُسے اس ایک پیسے کے بدلے میں ایسا انعام ملے گا جو کبھی ختم نہیں ہوگا.پس جب وہ کسی غریب کو پیسہ دیتا ہے.اور رحیمیت کو ذہن میں رکھ کر بسم الله الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ پڑھتا ہے تو اس کا ذہن فوراً اس طرف جاتا ہے کہ مجھے غیر محدود بدلہ ملنا ہے.یا ایک عورت آدھا پھل کا ایک فقیر کو دیتی ہے اور بسم الله الرَّحْمٰنِ الرَّحِیمِ پڑھ کر دیتی ہے.تو اُس کی اس سے یہ مراد ہوتی ہے کہ اس پھلکے کے آدھے حصہ کے بدلے میں خدا تعالیٰ کی رحیمیت جاری ہوگی.پھر رحیمیت کے وہ یہ معنی لیتی ہے کہ دیتی تو وہ نصف پھل کا ہے ، دیتی تو وہ ایک تولہ آتا ہے.لیکن مانگتی جنت کی نعماء ہے جو کبھی نہ ختم ہونے والی ہیں.اور یہ اُس وقت ہوتا ہے جب وہ پھل کا بسم الله الرَّحْمنِ الرَّحِیمِ پڑھ کر دیتی ہے.
$1953 108 خطبات محمود اب سننے والا تو کہے گایہ کتنی بے شرم ہے کہ دیتی تو نصف پھل کا ہے.اور مانگتی نہ ختم ہونے والی نعماء ہے.لیکن وہ کہے گی تم خود بے شرم ہو.میرے خدا نے کہا ہے تم یہ کچھ مانگو اور میں مانگتی ہوں.وہ آپ کہتا ہے تم جو کچھ مانگو میں دوں گا.اور جب وہ دینے پر آئے تو تم کون ہو منع کرنے والے.خدا تعالیٰ کہتا ہے کہ تم اگر بِسْمِ الله الرَّحْمٰنِ الرَّحِیمِ پڑھ کر چھوٹی سے چھوٹی چیز بھی کسی کو دوگی تو وہ اُس کے بدلہ میں نہ ختم ہونے والی نعما ء دے گا.گویا تمہاری ہر چھوٹی نیکی کامل رحمانیت اور کامل رحیمیت دلاتی ہے.تم اگر رحیمیت اور رحمانیت کو مد نظر رکھ کر بسم الله الرَّحْمنِ الرَّحِیمِ پڑھتے ہو تو تم پر انعامات کی وسعت کھلتی ہے ایک آدمی اگر ایک دفعہ سُبحَانَ اللہ کہہ دیتا ہے.تو وہ سمجھ لے کہ اس نے ایک دفعہ سُبْحَانَ اللہ کہہ کر کتا بڑا انعام لے لیا.پس ہر نیکی کے لیے بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ ایک گاڑی ہے جو اُ سے کہیں کا کہیں پہنچادیتی ہے.پس بدقسمت ہے وہ شخص جس پر رحمتوں کا دروازہ تو کھلا ہے لیکن وہ اس سے حصہ نہیں لیتا.خدا تعالیٰ کے انعامات کا دریا اس کے قریب بہرہ ہے لیکن وہ اس میں ہاتھ نہیں دھوتا.ایک ہندو اور ایک سکھ کو تو بِسْمِ اللهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيمِ سیکھنا پڑتا ہے.لیکن کتنا بد قسمت ہے ایک مسلمان جسے خدا تعالیٰ نے آپ ہی یہ سکھا دیا اور کہا تو مانگ.اور وہ مانگتا نہیں.ہم دیکھتے ہیں ایک ماں اپنے بچہ سے کہتی ہے مانگ! پھر وہ مانگتا ہے اور ماں اسے دیتی بھی جاتی ہے اور پیار بھی کرتی جاتی ہے.وہ پہلے ایک چیز اس کے سامنے کر دیتی ہے.اور اس کا یہ مطلب ہوتا ہے کہ تم مانگو.پھر وہ چیز پیچھے کر لیتی ہے.بچہ آگے آتا ہے پھر ماں باپ کی سمجھتے ہیں کہ بچے کا دل میلا ہوگا تو وہ اُسے سینہ سے چمٹا لیتے ہیں اور وہ چیز اُسے دے دیتے ہیں.ساتھ ساتھ ماں ، ماں واری ، ماں صدقے کہتی جاتی ہے.یہی حالت خدا تعالیٰ کی ہے.وہ رحمان ہے، رحیم ہے.وہ خود کہتا ہے کہ ہر کام سے پہلے بِسمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ پڑھو اور میری رحمانیت اور رحیمیت کو جوش دلاؤ.پھر جب بندہ بسم اللہ پڑھتا ہے تو وہ اپنی دونوں صفات کو جاری کر دیتا ہے ہے.اور پھر اپنے دیئے ہوئے انعامات کے صحیح استعمال پر ممنونِ احسان بھی ہو جاتا ہے.اور کہتا ت ہے میرے بندہ نے یہ کام کیا ہے حالانکہ نہ اُس نے کوئی کام کیا اور نہ خدمت کی اس نے خود ہی خدمت کا رستہ دکھایا اور خدمت کروائی اور پھر اس خدمت کے بدلہ میں اُسے نوازا اور نواز تانی چلا گیا اور نوازتا چلا جائے گا.
$1953 109 خطبات محمود پر بِسمِ اللهِ الرَّحْمنِ الرَّحِیمِ خدا تعالیٰ کی اتنی رحمتوں پر دلالت کرتی ہے.اور اتنی عظیم الشان نعمتوں کا انکشاف مومن پر کرتی ہے.کہ اگر انسان صرف بِسمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّ.کو ہی اپنا ورد بنالے تو اس کے اندر نور اور معرفت اور روشنی پیدا کرنے کا یہ ایک زبر دست ذریعہ ثابت ہوسکتا ہے.“ لمصلح 20 مئی 1953ء) 1 بھیلیاں: گڑ کا گول ڈلا جس کا وزن تین چار سیر کا ہوتا ہے.فیروز اللغات اردو جامع فیروز سنز لاہور ) :2 ڈالیاں: (i) ٹوکری جس میں پھول یا پھل سجا کر اُمراء کو پیش کئے جاتے ہیں.(ii) حاکموں اور امیروں کو نذر دینا (فیروز اللغات اردو جامع فیروز سنز لاہور ) 3: النحل : 32 4 هود : 109 :5 اَلَمْ تَرَوْا أَنَّ اللهَ سَخَّرَ لَكُمْ مَّا فِي السَّمواتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ وَأَسْبَغَ عَلَيْكُمْ ط نِعَمَهُ ظَاهِرَةً وَبَاطِنَةً (لقمان: 21)
110 $1953 16 خطبات محمود رمضان کے مبارک ایام سے فائدہ اٹھاؤ اور خدا تعالیٰ کے آگے گریہ وزاری کروتا اس کی مدد اور نصرت تمہیں حاصل ہو فرموده 22 مئی 1953ء بمقام ربوہ ) تشہد ، تعوذ اورسورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا." ” آج کل رمضان کا مہینہ چل رہا ہے اور اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ وہ ان ایام میں خصوصیت کے ساتھ دعائیں قبول فرماتا ہے.پس میں جماعت کے دوستوں کو اس طرف توجہ دلاتا ہوں کہ وہ تو تھی ہمیشہ اس بیرونی امداد کے محتاج ہیں.ایک کمزور انسان ہر وقت بیرونی امداد کا محتاج ہوتا ہے.ایک کی طاقت رکھنے والا انسان اپنے مخالف کو نیچے گرانے کی طاقت رکھتا ہے.بلکہ یقین رکھتا ہے کہ وہ اُسے گر اسکتا ہے اور اس وجہ سے وہ کسی مددگار کو نہیں بلاتا.لیکن ایک کمزور انسان جب اُس پر کوئی طاقتور ہستی حملہ کرے یا وہ کسی جتھا میں گھر جائے تو اُس وقت اُس کے لیے سوائے اس کے کوئی چارہ نہیں ہوتا کہ اگر اُس کا کوئی دوست قریب ہے تو اُسے مدد کے لیے آواز دے.اور اگر کوئی دوست قریب نہیں تو بغیر کی کسی تعیین کے آواز دے کہ اگر کوئی خدا تعالیٰ کا بندہ اپنے اندر انصاف اور رحم کا مادہ رکھتا ہے تو وہ اس کی ہے مدد کے لیے آئے.
$1953 111 خطبات محمود انسانی فطرت کا یہ خاصہ ہے کہ اگر راہ چلتے اور راہ گزروں پر کوئی حملہ کرتا ہے تو وہ اونچی آواز سے شور مچایا کرتے ہیں کہ ماردیا ، مار دیا.اب یہ فقرہ خبر کے طور پر تو ہوتا نہیں کیونکہ وہ کسی معتین فرد کو آواز نہیں دیتے.بلکہ در حقیقت اس فقرہ کے اندر آواز دینے والے کی نازک کیفیت کا اظہار ہوتا ہے.اور جس کسی شخص کے کان میں آواز پڑتی ہے اُس سے یہ اپیل ہوتی ہے کہ وہ پکارنے والے کی مدد کرے اور اسے مصیبت سے چھڑا لے.یہ آواز ایسی طبعی چیز ہے کہ جانوروں تک میں بھی پائی جاتی ہے.اگر تم کو وں کو پتھر مارتے ہو تو وہ کائیں کائیں کا شور مچاتے ہیں.آخر کائیں کائیں کرنے کا پتھر مارنے سے کیا جوڑ ہے؟ کائیں کائیں کرنے کے یہی معنے ہیں کہ وہ مارے جارہے ہیں اور اگر کوئی ہستی قریب موجود ہے تو وہ اُن کی مدد کو آئے اور مارنے والے سے انہیں بچائے.جب تم گتے کو مارنے کے لیے پتھر اٹھاتے ہو تو وہ چائیں چائیں کرنے لگ جاتا ہے.آخر چائیں چائیں کرنے کا پتھر اٹھانے یا ڈنڈا مارنے سے کیا تعلق ہے؟ چائیں چائیں کے یہی معنے ہوتے ہیں کہ وہ آواز بلند کرتا ہے کہ اگر اس کا کوئی ساتھی قریب ہو تو وہ اُس کی مدد کو آئے.تم بچے کو مارتے ہو تو وہ رونے لگ جاتا ہے اور روتا بھی آہستہ آواز سے نہیں بلکہ بلند آواز سے روتا ہے.اُس کے بلند آواز سے رونے کے بھی یہی معنے ہوتے ہیں کہ وہ اپنی فریا دلوگوں تک پہنچاتا ہے کہ اگر اُن کے دل میں عدل ہے، انصاف ہے، رحم ہے، تو وہ اُس کی مدد کو آئیں.پس کمزور اور مظلوم کا فریاد کرنا ایک طبعی بات ہے.قرآن کریم میں بھی اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ کسی شخص کے عیب کو بیان کرنا جائز نہیں.سوائے مظلوم کے کہ وہ یہ شور مچائے کہ اُس پر ظلم کیا جارہا ہے ہے 1.پس جانوروں کی شہادت اس بات پر موجود ہے، بچوں کی شہادت اس بات پر موجود ہے، بڑوں کی شہادت اس بات پر موجود ہے، قرآن کریم کی شہادت اس بات پر موجود ہے.پھر اور کس شہادت کی ضرورت ہے؟ پس ہماری جماعت جو دنیا بھر میں مظلوم ہے، جو اتنی بے بس اور بے کس ہے کہ اتنی بے کس اور بے بس جماعت دنیا میں کوئی نہیں.جس کی مثال مسیح کے اس قول سے ملتی ہے کہ پرندوں کے لیے گھونسلے ہیں اور درندوں کے لیے بھٹ ہیں.لیکن ابنِ آدم یعنی مسیح کے لیے سر چھپانے کی بھی کوئی جگہ 2.حقیقت یہ ہے کہ تمہاری حالت چڑیوں، فاختاؤں ، کبوتروں ، کووں ، بیٹروں اور چھوٹے سے چھوٹے جانوروں سے بھی بدتر ہے.کیونکہ اُن کے رہنے کے لیے کوئی نہ کوئی جگہ موجود ہے، اُن کا کوئی
$1953 112 خطبات محمود ملک ہے.جنگل کے درندوں اور میدانوں کے چرندوں کے لیے بھی جگہ موجود ہے کیونکہ دنیا میں ایسی جگہیں موجود ہیں جو انہیں پناہ دینے کے لیے تیار ہیں.لیکن تمہارے لئے پناہ کی کوئی جگہ نہیں سوائے اس کے کہ کوئی خدا تعالیٰ کا خوف رکھنے والا بندہ تمہیں پناہ دے.آخر خدا تعالیٰ کا خوف رکھنے والے بندے ہر ملک اور ہر قوم میں موجود ہوتے ہیں جن میں خواہ اپنی شہرت کی خاطر خواہ خدا تعالیٰ کے خوف سے،انصاف اور عدل پیدا ہوجاتا ہے.رسول کریم ہے جب طائف کے لوگوں کو وعظ کرنے کے لیے تشریف لے گئے اور طائف کی والوں نے آپ سے بُر اسلوک کیا، پتھر مارے اور آپ کو شہر سے نکال دیا تو ملکہ کی روایات کے مطابق کہ جب تک کوئی شخص کسی شہر میں رہتا تھا وہ شہری حقوق کا حقدار ہوتا تھا لیکن جب وہ اپنی مرضی سے شہر چھوڑ کر چلا جاتا تو وہ شہری حقوق کا اُس وقت تک حقدار نہیں رہتا تھا جب تک کہ شہر میں رہنے والے پھر اُسے شہری حقوق نہ دے دیں.اس لیے مکہ والے سمجھتے تھے کہ طائف جانے کے بعد رسول کریم ہے مکہ کے شہری حقوق سے دستبردار ہو گئے ہیں.آپ اور آپ کے ساتھی بھی یہ جانتے تھے کہ جب تک نئے سرے سے مکہ کے شہری حقوق آپ کو نہ ملیں آپ کا مکہ میں داخل ہونا آسان نہیں.چنانچہ جب آپ طائف سے واپس آئے اور آپ کو اس بات کی امید نہ رہی کہ طائف اور اُس کے گردونواح کے لوگ آپ نیک سلوک سے پیش آئیں گے تو آپ نے اپنے ساتھی حضرت زیڈ سے فرمایا زید! چلو ہم مکہ میں واپسی چلتے ہیں.زید نے جواب دیا یا رَسُولَ الله ! کیا مکہ والے آپ کو دوبارہ داخل ہونے دیں گے؟.یعنی ای وہ تو پہلے سے ہی مخالف ہیں اور پھر جب آپ ایک دفعہ شہر چھوڑ کر آگئے ہیں تو عرب کے رواج کے مطابق آپ نے مکہ کے شہری حقوق چھوڑ دیئے ہیں.اب وہ آپ کو مکہ میں داخل نہیں ہونے دیں گے.آپ نے فرمایا زید اتم وائل کے پاس جاؤ اور اُسے کہو کہ اگر تم مجھے پناہ دو تو میں مکہ میں دوبارہ آ جاؤں.مکہ کی ریاست کے اندر ہر رئیس کا یہ حق تھا کہ وہ کہے میں فلاں شخص کو شہر میں رہنے کا حق دیتا ہوں.اس لیے آپ نے زیڈ کو وائل کے پاس بھیجا کہ اگر تم ہمیں پناہ دینے کے لیے تیار ہو تو ہم شہر میں آجائیں.حضرت زید نے عرض کیا یا رَسُولَ الله ! وہ تو ہمارا شدید ترین دشمن ہے، وہ ہمیں پناہ کیوں دے گا !! رسول کریم ﷺ نے فرمایا تم جاؤ.وائل بے شک دشمن ہے لیکن ساتھ ہی اس کے اندر یہ شان اور خوبی بھی پائی جاتی ہے کہ اگر اُس سے کوئی پناہ مانگے تو پناہ نہ دینے میں وہ اپنی ہتک محسوس کرتا ہے.
$1953 113 خطبات محمود وائل اُن چند چوٹی کے دشمنوں میں سے تھا جو آپ کی ہمیشہ ہی مخالفت کیا کرتے تھے.لیکن رسول کریم صلى الله کے ارشاد کے ماتحت زید اُس کے پاس گئے اور کہا وائل ! مجھے رسول کریم ﷺ نے بھیجا ہے اور کہانی ہے کہ اگر تم مجھے شہری حقوق دینے کے لیے تیار ہو.جس کے یہ الفاظ مقرر تھے کہ اگر تم مجھے پناہ دو یعنی یہ کہہ دو کہ میں حفاظت کا ذمہ دار ہوں.آپ مکہ میں واپس آجائیں تو میں دوبارہ مکہ میں آجاؤں.محمد رسول اللہ ﷺ نے وائل کی فطرت کو پڑھا.وائل آپ کا شدید ترین دشمن تھا.اُس نے گیارہ سال تک آپ کو اور آپ کے ساتھیوں کو دکھ دیا تھا.اُس کے پانچ لڑکے تھے.اُس نے زیڈ کی بات سنتے ہی پنے لڑکوں کو بلایا اور اُن سے کہا تم تلوار میں نکال لو محمد ﷺ نے مجھ سے پناہ مانگی ہے اور میں خاندانی عزت اور وقار کے لحاظ سے اس بات پر مجبور ہوں کہ اُسے پناہ دوں.شاید مکے والے ہمارا مقابلہ کریں صلى الله اس لیے تمہارا فرض ہے کہ تم ایک ایک کر کے مرجاؤ لیکن محمد ( رسول اللہ ﷺ پر کوئی آنچ نہ آنے دو.اور وہ خود بھی اپنے لڑکوں کے ساتھ مکہ کے دروازہ کے پاس گیا اور آپ کو ساتھ لے آیا 3.اس قسم کے نظارے اب بھی ملتے ہیں.پچھلے فسادات میں بھی بعض لوگوں نے بڑی شرافت کی دکھائی ہے اور حکومت کے بعض ارکان نے بھی اپنی شرافت کا ثبوت دیا ہے لیکن بہر حال وہ انفرادی مثالیں ہیں.جمہوریت کے نام پر جو آواز اٹھائی گئی تھی وہ تمہارے خلاف تھی.میں تو اُسے اکثریت کی آواز نہیں کہتا مگر وہ مخالفت سے اکثریت ہی کی آواز کہتے تھے.حکومت در حقیقت جمہوریت کی ہی ہوتی ہے.شریف الطبع لوگوں کا ہمدردی کرنا ایک جزوی چیز ہے.قانونی اور اصولی نہیں.حق یہی ہے کہ تمہارے لیے اس زمین پر جس کو دنیا والے اپنی کہتے ہیں کوئی ٹھکانا نہیں.لیکن ایک اور ہستی بھی ہے جو اس زمین کی ملکیت کی مدعی ہے.یہ زمین بغیر نزاع کے کسی کی ملکیت نہیں.بلکہ اس کے دو مدعی ہیں.ایک مدعی حکومت اور جمہوریت ہے.میں نے حکومت کا نام اس لیے لیا ہے کہ بعض جگہ جمہوریت نہیں ہوتی بلکہ شخصی حکومت ہوتی ہے.لیکن اس زمین کی ملکیت کا ایک مدعی خدا تعالی بھی ہے.خدا تعالیٰ بھی کہتا ہے یہ زمین میری ہے اور دنیا بھی کہتی ہے کہ زمین ہماری ہے.اب پناہ دینے والا مالک ہوتا ہے.اگر زمین کے مالک انسان ہیں تو یا درکھو تمہارے لیے اس زمین پر کوئی ٹھکانا نہیں.تم آج بھی مرے اور کل بھی مرے.لیکن اگر زمین کا مالک خدا تعالیٰ ہے اور حقیقتاً اس کا وہی مالک ہے اور تم اُسے پکارتے ہو اور اُس سے دعائیں کرتے اور مدد مانگتے ہو اور وہ تم کو اس زمین پر
$1953 114 خطبات محمود ہنے کی اجازت دیتا ہے اور تمہیں اس پر رہنے کا حق دیتا ہے.اور کہتا ہے کہ تم عزت اور آبرو کے ساتھ میری زمین پر رہ سکتے ہو تو اگر وہ اس زمین کا مالک ہے تو تم اس زمین پر رہ سکتے ہو.اور اگر وہ مالک نہیں تو تم باوجود اُس کی اجازت کے اس زمین پر نہیں رہ سکتے.اب تم خود اپنے یقین کے لحاظ سے فیصلہ کرلو کہ روئے زمین کا مالک خدا تعالیٰ ہے جو عرش پر بیٹھا ہے یا انسان ہیں جو اس کی ملکیت کے دعویدار ہیں.اگر اس کے مالک انسان ہیں تو وہ تمہیں ہر وقت گرانے کے لیے تیار ہیں.اور اگر اس کا مالک خدا تعالیٰ ہے اور تم اُس سے دعائیں کرتے ہو، التجائیں کرتے ہو تو تم یا درکھو ان لوگوں کے دل بھی خدا تعالیٰ کے ہاتھ میں ہیں.تو میں ہمیشہ ایک رنگ میں نہیں رہا کرتیں.جیسا کہ میں نے بتایا ہے.وائل رسول کریم ﷺ کا کتنا شدید ترین دشمن تھا.لیکن جب رسول کریم ﷺ نے اس سے مدد مانگی تو وہ آپ کی مدد کے لیے تیار ہو گیا اور خدا تعالیٰ نے اُسے کہا تمہیں مدد دینی پڑے گی.چنانچہ جس شخص کی ہے تلوار رسول کریم ہے کے مقابلہ میں اٹھتی تھی اُس نے اپنے سارے بیٹوں کو اپنے ساتھ لیا اور کہا.تم ایک ایک کر کے مرجاؤ لیکن محمد رسول اللہ ﷺ کوکوئی تکلیف نہ پہنچنے دو.وہی خدا آب بھی موجود ہے اور وہی دنیا بھی ہے.اگر تم ان دنوں سے فائدہ اٹھاؤ، خدا تعالیٰ کے آگے گریہ وزاری کرو اور اُس سے مدد مانگو، تو اس میں یہ طاقت ہے کہ وہی لوگ جو تمہاری مخالفت کر رہے ہیں تمہاری تائید کرنے لگی جائیں، جو لوگ تمہارے مارنے کا ارادہ رکھتے ہیں وہ تمہاری زندگی کا موجب ہو جائیں، وہی لوگ جو تمہارے دشمن ہیں تمہارے دوست بن جائیں.کیونکہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے سب کچھ میرے ہاتھ میں ہے.میں دشمن کو دوست بنا سکتا ہوں.اور یہ بات بھی سچ ہے کہ وہ دوست کو دشمن بھی بنا سکتا ہے.پس تم اِن دنوں سے فائدہ اٹھاؤ اور خدا تعالیٰ سے دعائیں مانگو تا اُس کی مدد اور نصرت کی سے تمہاری مصیبت کے دن مل جائیں.حقیقت یہ ہے کہ مصیبت کے ان دنوں کا ٹلنا اصل چیز نہیں.اس سے ہم صرف زندہ رہ سکتے ہیں.مگر زندہ تو ہم اُس وقت بھی تھے جب ہم احمدی نہیں ہے تھے ، زندہ ہم تب بھی رہ سکتے ہیں اگر ہم اسلام کو چھوڑ دیں اور عیسائی ہو جائیں ، زندہ ہم تب بھی رہ سکتے ہیں اگر ہم یہودی ہو جائیں، ہندو ہو جائیں یا سکھ ہو جائیں.پس زندگی ہمارا اصل مقصود نہیں.ہمارا اصل مقصود یہ ہے کہ وہ تعلیم جو قرآن کریم اس دنیا میں لایا ہے اُس کے مطابق ہم اپنی زندگی گزارنے کی کوشش کریں.صرف زندہ رہنے کے لیے ہم کوشش نہ کریں بلکہ کوشش
$1953 115 خطبات محمود صلى الله کریں کہ قرآن کریم کی حکومت جاری ہو.ہم سچے مسلمان بن جائیں تا دنیا میں وہی چیز قائم ہو جائے جس کے قائم کرنے کے لیے رسول کریم ﷺ اس دنیا میں مبعوث ہوئے تھے.اگر ہم باقی لوگوں کے لیے نمونہ بن جائیں تو ہمارا وجود قیمتی ہو جاتا ہے اور ہماری موت خطر ناک ہو جاتی ہے.لیکن اگر ہم باقی لوگوں کے لیے نمونہ نہ بن سکیں تو خدا تعالیٰ ہمیں زندہ تو رکھے گا لیکن ہماری مثال اس گتے کی سی ہوگی جسے روٹی ڈال دی جاتی ہے.خدا تعالیٰ یہ دیکھ کر کہ ہم مظلوم ہیں اگر چہ بریکاری ہیں ہمیں بھی بچالے گا.گتا بھی چلاتا ہے تو اُسے بچالیا جاتا ہے.لیکن ہماری زندگی کسی کام کی نہیں ہوگی.پس زندگی اصل چیز نہیں.مسلمان ہو کر زندہ رہنا اصل چیز ہے.تم صرف زندہ رہنے کی کوشش نہ کرو بلکہ مسلمان بن کر زندہ رہنے کی کوشش کرو ، لمصل اسح 30 مئی 1953ء) :1 لَا يُحِبُّ اللَّهُ الْجَهْرَ بِالسُّوءِ مِنَ الْقَوْلِ إِلَّا مَنْ ظُلِمَ (النساء: 149) 2 متی باب 8 آیت 21 ( لومڑیوں کے لیے بھٹ ہوتے ہیں اور ہوا کے پرندوں کے لیے گھونسلے...3:السيرة الحلبية جلد اول صفحہ 507 بيروت لبنان 2002 ء میں مطعم بن عدی کے حوالہ سے واقعہ درج ہے.
$1953 116 17 خطبات محمود اللہ تعالیٰ نے جو عبادتیں مقررفرمائی ہیں اُن کے بغیر انسان کی روحانی زندگی کبھی قائم نہیں رہ سکتی (فرموده 29 مئی 1953ء بمقام ربوہ) تشہد ،تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا.اللہ تعالیٰ نے انسان کی روحانی ترقی اور اس کی اصلاح کے لیے مختلف عبادتیں مقرر فرمائی کی ہیں جن میں سے چار عبادتیں فرض ہیں.اور ہر مومن کے لیے جس میں کسی قسم کی طاقت بھی پائی جاتی ہے ان عبادات کا بجالانا ضروری ہوتا ہے.یعنی نماز ، روزہ ، زکوۃ اور حج.لیکن ان عبادتوں کے ادا کرنے میں کبھی کبھی انسان معذور بھی ہو جاتا ہے.مثلاً انسان بیمار ہوتا ہے تو وہ نماز میں کھڑا نہیں ہوسکتا یا بعض دفعہ بیٹھ کر بھی نماز ادا نہیں کر سکتا یا لیٹ کر بھی نماز ادا نہیں کر سکتا.بعض اوقات اس کے دماغ پر ایسا اثر ہوتا ہے کہ وہ نماز کے کلمات ڈہر انہیں سکتا.نماز کے کلمات اُسے یاد نہیں رہتے.لیکن دوسری طرف نماز انسان کی اصلاح کا ذریعہ بھی ہے.جس طرح غذا انسانی جسم کی اصلاح کا ذریعہ ہے نماز روحانی جسم کی اصلاح کا ذریعہ ہے.جس طرح ایک بیمار جسم محض یہ کہہ کر اس بات سے بچ نہیں سکتا کہ وہ بیمار ہے اور بیمار ہونے کی وجہ سے وہ روٹی نہیں کھا سکتا، اسی طرح ایک روحانی جسم بھی یہ کہ کر موت سے نہیں بچ سکتا ہے کہ وہ بیمار ہے اور نماز نہیں پڑھ سکتا.باوجود اس کے کہ ایک شخص بیمار ہے اور وہ کھانا کھا ہی نہیں سکتا.
$1953 117 خطبات محمود مثلاً اُس کے گلے میں ورم ہو گیا ہے یا جبڑا جڑ گیا ہے یا معدہ غذا کو اپنے اندر رکھ نہیں سکتا یا غذا کو انتریوں کی طرف دھکیل دیتا ہے یا منہ کی طرف سے باہر پھینک دیتا ہے یا کوئی رسولی پیدا ہوگئی.یا سرطان ہو گیا ہے اور غذا معدہ میں ٹھہرتی نہیں بلکہ قے ہو جاتی ہے یا غذا معدہ کے اندر جاتی نہیں یا انتڑیوں میں کوئی بیماری لاحق ہے اس لیے انتڑیوں میں غذا ٹھہرتی نہیں یا بچتی نہیں.ان وجوہات سے انسان غذا سے فائدہ نہیں اٹھا سکتا اور غذا نہ کھانے کا نتیجہ موت ہے.لیکن اس وجہ سے کہ کوئی شخص بیمار ہے اور وہ روٹی نہیں کھا سکتا ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ وہ مرے گا نہیں اس لیے کہ روٹی کے بغیر انسانی جسم بیچ نہیں سکتا.باوجود اس کے کہ اُس کا روٹی نہ کھانا منہ بند ہو جانے کی وجہ سے ہوتا ہے، باوجود اس کے کہ اس کا روٹی نہ کھانا گلے میں سوزش کی وجہ سے ہوتا ہے، باوجود اس کے کہ اس کا روٹی نہ کھانا معدہ میں رسولی کی وجہ سے ہوتا ہے.باوجود اس کے کہ اُس کا معدہ غذا قبول نہیں کرتا یا کھانا قے کر کے باہر نکال دیتا ہے یا انتڑیوں کی طرف دھکیل دیتا ہے، باوجود اس کے کہ اُس کا روٹی نہ کھانا اس وجہ سے ہوتا ہے کہ اس کی انتڑیوں میں سوزش ہوتی ہے اور وہ غذا کو اندر ٹھہر نے نہیں دیتیں یا مثلاً قولنج کا دورہ ہو جاتا ہے اور غذا کھانا ناممکن ہو جاتا ہے.اور باوجود اس کے کہ یہ وجوہ اُسے معذور قرار دیتے ہیں پھر بھی وہ روٹی کی نہ کھانے کی وجہ سے مرے گا.اس لیے کہ انسانی جسم روٹی کھائے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا.اس کے لیے تی کوئی عذر مسموع نہیں ہوگا، کوئی دلیل قبول نہیں ہوگی ، کوئی مجبوری تسلیم نہ کی جائے گی.اصل چیز یہ ہے کہ روٹی کھائی نہیں گئی.خواہ روٹی نہ کھانا کسی شرارت کی وجہ سے تھا یا کسی مجبوی کی وجہ سے تھا انسان بہر حال مرے گا.یہی حال نماز کا بھی ہے.اگر کوئی شخص نماز پڑھنے سے معذور ہو جاتا ہے.خواہ کسی وجہ سے ہو جائز وجہ سے ہو یا نا جائز وجہ سے اُس کی روحانیت مرجاتی ہے کیونکہ روحانیت کی زندگی نماز سے وابستہ ہے.اگر کوئی شخص نماز نہیں پڑھے گا تو وہ مرے گا.بالکل اُسی طرح جس طرح ایک شخص روٹی نہ کھائے تو اُس کا انجام موت ہوتا ہے.کوئی شخص یہ نہیں کہہ سکتا کہ وہ کیوں مرے گا اُس نے جان کر تو ایسا نہیں کیا.اُس کا گلائو جا ہوا تھا اِس لیے وہ روٹی نہیں کھا سکا ، اُس کا پیٹ سُو جا ہوا تھا اس لیے وہ روٹی نہیں کھا سکا.اُس کی انتڑیوں میں سوزش تھی اس لیے وہ روٹی نہیں کھا سکا.اُس کا جبڑا جڑ گیا تھا اس لیے ہے وہ روٹی نہیں کھا سکا.باوجود اس کے کہ اُس کا گلا خراب تھا اس لیے وہ کھانا نہیں کھا سکا وہ پھر بھی مرے گا.
$1953 118 خطبات محمود باوجود اس کے کہ اس کے معدہ میں رسولی تھی جس کی وجہ سے غذا معدہ کے اندر ٹھہر نہیں سکتی تھی اس لیے ی اس نے روٹی نہیں کھائی وہ پھر بھی مرے گا.باوجود اس کے کہ اُس کی انتڑیوں میں سوزش تھی جس کی وجہ سے اُس کی غذا وہاں ٹھہر نہ سکی.اُس نے کوئی شرارت نہیں کی مگر وہ روٹی نہ کھانے کی وجہ سے پھر بھی ای مرے گا.اسی طرح باوجود اس کے کہ ایک شخص کسی جائز عذر کی وجہ سے نماز نہیں پڑھتا وہ مرے گا.بعض لوگ عدم فراست اور عدم شناخت کی وجہ سے یہ خیال کر لیتے ہیں کہ چونکہ وجہ جائز ہے اس لیے نتیجہ نہیں نکل سکتا اُن کا یہ خیال درست نہیں.وجہ جائز ہو یا ناجائز نتیجہ ضرور نکلے گا.تم اپنے سر پر اپنی کمائی سے خریدا ہوا تیل لگاؤ یا چوری سے حاصل کیا ہوا تیل لگاؤ سر ضرور چکنا ہوگا.یہ نہیں کہ اپنی کمائی سے حاصل کردہ تیل سے سر چکنا ہو جاتا ہے اور چوری کے تیل سے سرسوکھا رہ جاتا ہے.یہ نہیں کہ اپنی کمائی سے حاصل کئے ہوئے کپڑے سے تمہارا جسم ڈھک جائے اور چوری کئے ہوئے کپڑے سے جسم نہ ڈھکے.کپڑا چاہے چوری کا ہو یا اپنی کمائی سے خریدا ہوا اُس سے جسم ڈھک جائے گا.جیسے اپنی کمائی سے خریدے ہوئے کپڑے سے جسم ڈھک جاتا ہے اسی طرح چوری سے حاصل کئے ہوئے کپڑے سے بھی جسم ڈھک جاتا ہے.نتیجے دونوں کے ایک سے ہوں گے.روٹی کا نہ کھانا تو انسان پھر بھی برداشت کر سکتا ہے.مثلاً وہ خیال کر سکتا ہے کہ اگر وہ مرجائے گا تو کیا ہوگا.اُسے اگلے جہان میں تو ی زندگی ملے گی یعنی اُسے موت کے بعد اگلے جہان کی زندگی مل جاتی ہے.لیکن روحانی موت کا کوئی قائم مقام نہیں.جسمانی موت کے متعلق تو تم کہ دو گے سارے لوگ مرتے ہیں ہمیں موت آجائے گی تو کیا ہوا اگلے جہان میں ہمیں زندگی مل جائے گی.لیکن اگر تمہیں روحانی موت آجائے تو تم کیا کرو گے ؟ روحانی موت کا تو کوئی قائمقام نہیں.اس لیے ضروری تھا کہ اللہ تعالیٰ اس کا کوئی علاج مقرر کرے.چنانچہ اصلاح نفس کے جتنے فرائض مقرر ہیں اللہ تعالیٰ نے اُن کے قائمقام بھی مقرر کر دیئے ہیں.یعنی اگر تم فلاں فرض ادا نہ کر سکو تو فلاں چیز اس کا قائمقام ہو جائے گی.مثلاً اگر تم کھڑے ہو کر نماز نہیں پڑھتے تو تم بیٹھ کر نماز پڑھ لو.یہاں تک تو جسمانی طور پر بھی قائمقام مقرر ہے.مثلاً اگر تم روٹی نہیں کھاتے سکتے تو چاول کھالو.پھر فرمایا اگرتم بیٹھ کر نماز نہیں پڑھ سکتے تو لیٹ کر نماز پڑھ لو.جسمانی طور پر ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ اگر تم چاول نہیں کھا سکتے تو تم حریرہ 1 استعمال کر لو، دودھ کی لسی پی لو.فرمایا اگر تم لیٹ کر بھی نماز نہیں پڑھ سکتے تو تم اشارہ سے نماز ادا کر لو.یہاں جسم کا قائم مقام ختم ہو جاتا ہے.اس سٹیج پر
$1953 119 خطبات محمود ہے جسم موت قبول کر لیتا ہے.سوائے اس کے کہ ڈاکٹر معدہ میں سوراخ کر کے غذا داخل کر دے یا ٹیکے کے ذریعہ غذا جسم کے اندر پہنچا دے.یا نمک کا پانی جسم میں داخل کر دے.اس سے عارضی زندگی تو مل سکتی ہے ہے مستقل زندگی نہیں مل سکتی.لیکن روحانی لحاظ سے یہاں قائم مقام مقرر ہے.مثلاً اگر وہ کسی طرح بھی نماز ادا نہیں کرسکتا تو وہ سُبْحَانَ اللهِ ، سُبْحَانَ الله ہی کہتا رہے.پھر ایسا وقت بھی آسکتا ہے کہ انسان سُبْحَانَ اللہ بھی نہ کہہ سکے.مثلاً وہ بیہوش ہو جائے اور سُبحَانَ الله یا دوسرے کلمات بھی نہ دہرا سکے تو شریعت کہتی ہے کہ اگر تم سُبحَانَ اللہ بھی نہیں کہہ سکتے تو اگر تمہارا ارادہ یہ تھا کہ تم ساری عمر نماز پڑھو گے تو تمہاری بیہوشی ہی نماز کی قائم مقام ہو جائے گی اور بعد میں اگر افاقہ ہو جائے تو تمام نماز ظاہراً بھی ادا کر سکو گے.یہی حال روزے کا ہے.سارے لوگ روزے نہیں رکھ سکتے.لیکن روزہ روحانی زندگی کے لیے ضروری ہے.قرآن کریم خود کہتا ہے کہ بیمار روزہ نہ رکھے 2ے.بلکہ جنہوں نے قرآن کریم اور احادیث پر غور کیا ہے انہوں نے فتویٰ دیا ہے کہ جو شخص باوجود بیمار ہونے کے فرضی روزہ رکھے گا وہ گنہ گار ہوگا.پھر سفر میں بھی روزہ رکھنا جائز نہیں 3.فرضی روزہ سفر میں نہیں رکھا جاسکتا.ہاں نفلی روزے رکھے جاسکتے ہیں.اگر کوئی سفر میں روزہ رکھے گا تو خدا تعالیٰ کے نزدیک وہ فرضی روزہ نہیں ہو گا نفلی رو ہوگا.لیکن بیماری میں کوئی روزہ نہیں.بیماری میں نہ فرضی روزہ رکھا جاسکتا ہے اور نہ نفلی روزہ.سفر میں تو اگر کوئی روزہ رکھے گا تو خدا تعالیٰ کے نزدیک وہ روز فضلی شمار ہوگا.لیکن اگر کوئی بیماری میں روزہ رکھے گا تو وہ خدا تعالیٰ کے نزدیک نہ نفلی روزہ شمار ہوگا اور نہ فرضی روزہ.خدا تعالیٰ کے نزدیک وہ کچھ بھی نہیں ہوگا.لیکن روح کے لیے غذا کی بہر حال ضرورت ہے.اس کا علاج کیا ہے؟ رسول کریم ﷺ نے فرمایا ہے کہ روزے کے دو حصے ہیں.ایک حصہ ظاہری غذا کا ترک کرنا ہے اور ایک حصہ بعض روحانی افعال کے ہیں 4 مثلاً بے ایمانی نہ کرنا، بددیانتی نہ کرنا، جھوٹ نہ بولنا، فریب نہ کرنا، جھگڑا نہ کرنا ، حرا مکاریوں سے بچنا.اگر انسان اس حصہ کو پورا نہیں کرتا تو خدا تعالیٰ کے نزدیک اُس کا روزہ روزہ نہیں.خدا تعالیٰ کے نزدیک وہ محض بھوکا مرتا ہے.گویا روزے کے دو حصے ہیں.ایک روحانی اور ایک جسمانی.جو شخص جسمانی روزہ نہیں رکھ سکتا اور وہ روحانی روزہ رکھتا ہے تو اُس کا روحانی روزہ جسمانی روزہ کی کمی کو پورا کر دے گا.لیکن ظاہری غذا میں یہ بات نہیں.ظاہری غذا نہ بھی ملے تو کوئی حرج نہیں.انسان مرے گا روزه
$1953 120 خطبات محمود تو اُسے نئی زندگی مل جائے گی.لیکن روحانی لحاظ سے اگر غذا نہیں ملتی تو اس کا قائم مقام ملنا ضروری ہے.کیونکہ اس کے بغیر گزارہ نہیں ہوسکتا اس لیے خدا تعالیٰ نے ہر روحانی غذا کا قائم مقام رکھا ہے.چنانچہ روزہ کا بھی قائم مقام موجود ہے.لیکن کتنا بد قسمت ہے وہ شخص جو روزہ سے محروم رہتا ہے.حالانکہ یہ سب سے پہلی چیز ہے جو انسان کے اخلاق اور اس کے ایمان کی کیفیت کا اظہار کرتی ہے.مجھے نہایت افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ہماری جماعت نے بھی اس طرف پوری توجہ نہیں دی.جب ربوہ کی بنیاد رکھی گئی تو اس بات کا اعلان کیا گیا تھا کہ یہاں صرف مخلصین آباد کئے جائیں گے.لیکن آہستہ آہستہ جب آبادی بڑھی تو ہر قسم کے لوگ یہاں آنے شروع ہو گئے.اور اب تو یہ حالت ہے مجھے ایک شخص نے خط لکھا ہے کہ آپ تو کہتے تھے کہ یہاں مخلص آباد کئے جائیں گے لیکن مجھے تو یہ نظر آرہا ہے کہ ربوہ میں قادیان سے بھی زیادہ بے ایمان لوگ جمع ہو گئے ہیں.کئی دکاندار دھوکا باز ہیں، فریبی ہیں، وہ ایک روپیہ کی چیز پانچ روپیہ کو بیچتے ہیں اور پھر چندے بھی نہیں دیتے.دکانداروں کی فہرست میں سے جو 60, 70 کی ہے 46 دکاندار نادہند ہیں.13 شرح کے مطابق چندہ نہیں دیتے.صرف تین چار دکاندار ایسے ہیں جو منہ سے کہتے ہیں کہ ہم شرح کے مطابق چندہ دیتے ہی ہیں.ممکن ہے یہ تین چار دکاندار بھی اپنے دعوئی میں جھوٹے ہوں.اب یہ کونسا ایمان ہے؟ ایک شخص جو یہاں سے مدد حاصل نہیں کرتا وہ باہر کا آدمی ہے اور اُس سے غیر لوگ ہی سود اخریدتے ہیں وہ تو ایماندار ہے لیکن ربوہ کے دکاندار جن کو یہ سہولت حاصل ہے کہ انہیں گاہک تلاش نہیں کرنا پڑتے ، ربوہ کے سارے لوگ انہی سے سودا خریدتے ہیں وہ بے ایمان ہیں.یہ بے ایمانی آگے کئی قسم کی ہے.مثلا لبعض دکاندار یہ نیت کر لیتے ہیں کہ ہم ٹیکس ادا نہیں کریں گے چنانچہ وہ نظر بچا کر ادھر ادھر بھاگنے کی کوشش کرتے ہیں.میں نہیں کہہ سکتا کہ سارے دکاندار روزے رکھتے ہیں یا نہیں.اور اگر رکھتے ہیں تو کیا وہ بعض عوام والے روزے تو نہیں رکھتے کہ باہر نہ کھایا ت اور اندر کھالیا؟ لیکن اگر وہ روزہ رکھتے ہیں تو اس کا کیا فائدہ؟ روزہ تو دو چیزوں کے مرکب کا نام تھا لیکن تم نے جو چیز چھوڑی جا سکتی تھی.اُسے لے لیا اور جو چیز چھوڑی نہیں جاسکتی تھی اُسے چھوڑ دیا.روزے کا ایک حصہ تھا روٹی نہ کھانا.یہ حصہ بیماری اور سفر میں چھوڑا جاسکتا ہے.لیکن ایک حصہ روزہ کا ہے رزق حلال کھانا، گند نہ اچھالنا، جھوٹ نہ بولنا، دھوکا نہ دینا، فریب نہ کرنا.روزہ کا یہ حصہ کسی حالت میں
$1953 121 خطبات محمود بھی چھوڑ انہیں جاسکتا.مجھے یہ یقین نہیں کہ تم سارے روزے رکھتے ہو.لیکن اگر روزہ رکھتے ہو تو اس کا فائدہ کیا کہ ادھر روزے رکھتے ہو اور اُدھر بے ایمانی کرتے ہو.میں سمجھتا ہوں کہ تم میں سے بہت.آدمی جو اب سر ہلا رہے ہیں وہ بھی اس بے ایمانی کے ذمہ دار ہیں.اگر تم اپنے عزیزوں اور دوستوں اور ماتحتوں کو بچاتے ہو تو تم بھی بے ایمان ہو.ورنہ تم ایسے لوگوں کو کیوں نہ پکڑ واؤ.اگر ساری قوم یہ فیصلہ کرلے کہ وہ بددیانتی کو پنپنے نہیں دے گی تو کوئی دکاندار بے ایمانی نہیں کر سکتا.مثلاً یہاں کے تاجر کا کاروبار ہمارے سودا خریدنے پر چلتا ہے.اب اگر کوئی تاجر جھوٹ بولتا ہے اور سودا خریدنے والے میں غیرت ہے تو وہ اُس سے سودا نہ لے.اور اُس کے خلاف شور مچادے.پہلے وہ تحقیقات کرلے.اگر ی تحقیقات کرنے پر یہ ثابت ہو جائے کہ وہ دکاندار جھوٹ بولتا ہے تو اُس سے سودا نہ خریدے.اسی طرح دوسرے لوگ کریں تو چند دنوں میں ہی دکانداروں کو ہوش آ جائے.پس تم اس بے ایمانی میں شریک ہو کیونکہ تم اُن کا ساتھ دیتے ہو اور تمہاری یہ کوشش ہوتی ہے کہ وہ بے ایمانی میں اور بھی بڑھیں.پھر جو ذمہ دار افسر ہیں وہ بھی ان کے ہم پیالہ و ہم نوالہ ہیں.مثلاً اگر کوئی دکاندار کسی افسر کا دوست ہے یا رشتہ دار ہے یا ہم قوم ہے یا ہم وطن ہے یا ہم علاقہ ہے تو وہ اس پر پردہ ڈالتا ہے.حالانکہ قرآن کریم کہتا ہے کہ اگر تمہارا بیٹا یا تمہاری ماں یا تمہارا باپ بھی ہو تو تم اُس کی ناجائز حمایت نہ کرو 5.کجا یہ کہ تم اُس کے ہم قوم ہو، یا ہم پیشہ ہو، یا ہم علاقہ ہو، یا ہم قرابت ہو.ان چیزوں کی تو کوئی حقیقت ہی نہیں.رسول کریم ﷺ نے تو فرمایا ہے کہ تم اپنے سگے ماں باپ ، بھائی بہن اور بیٹے کی بھی ناجائزہ حمایت نہ کرو اگر واقع میں پریذیڈنٹ اور سیکرٹری نگی تلواریں بن جائیں تو بے ایمانی ہو ہی نہیں سکتی.پہلے تو جو افسر رپورٹ کرتے ہیں انہی کی بے ایمانی کا پتا لگتا ہے.کیونکہ وہ لکھتے ہیں کہ انہیں موقع دیا گیا ہے تھا لیکن ان کی اصلاح نہیں ہوئی.سوال یہ ہے کہ اگر وہ بے ایمان ہے اور پھر اسے موقع دیا گیا ہو تو ایسا افسر بے ایمان ہے اور اس دکاندار کی بے ایمانی میں شامل ہے.بے ایمانی کے لئے کوئی موقع دینے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا.اگر کسی شخص کی بے ایمانی ثابت ہو جاتی ہے تو اُسے اُسی جگہ روک لینا چاہیے.جو افسر اسے موقع دیتا ہے وہ گویا یہ کہتا ہے کہ میں نے اُس کے ساتھ کافی دیر تک دوڑ کی ہے.لیکن اب تھک گیا ہوں اس لیے رپورٹ کرتا ہوں.پس افسر بھی اس بے ایمانی میں شریک ہیں.
$1953 122 خطبات محمود پھر مرکزی محکمہ یعنی نظارت امور عامہ جس کے سپرد یہ کام کیا گیا ہے وہ بھی اس میں شریک ہے.مثلاً میں نے ہدایت کی ہوئی تھی کہ جود کا ندار یہاں آئیں پہلے تم خود ان کی تحقیقات کرو.اور پھر مجھ سے پوچھو اس کے بعد انہیں یہاں دکان کرنے کی اجازت دو.لیکن کئی ایسے دکانداروں کے نام میرے پاس آتے ہیں جنہیں میں نے اجازت نہیں دی.بلکہ بعض دکانداروں کا مجھے علم ہے کہ وہ بے ایمان ہیں.اور اگر مجھ سے پوچھ لیا جاتا تو میں انہیں کبھی اجازت نہ دیتا.شاید وہ ان لوگوں سے چند شکے لے لیتے ہیں اور انہیں دکان کی اجازت دے دیتے ہیں اور مجھ سے پوچھتے تک نہیں.تم رمضان میں اتنا کام تو کرو کہ ربوہ میں بے ایمانی کوختم کر دو.اگر تم میں سے ہر ایک شخص میری اس ہدایت پر عمل کرے تو کوئی شخص یہاں بے ایمانی نہیں کر سکتا.تم یہ نیت کر لو کہ ہم نے اُس وقت تک سانس نہیں لینا جب تک کہ بے ایمانی کو ختم نہ کر لیں.تم اگر دیکھتے ہو کہ کوئی دکاندار بے ایمانی کرتا ہے تو بازاروں اور مسجدوں میں شور مچاؤ.میرے پاس رقعے بھیجو کہ آپ مجھے بے ایمان قرار دے دیں یا تھی اُسے، مگر فیصلہ ضرور کریں.اگر تم میں سے ایک سو آدمی بھی ایسا کھڑا ہو جائے جو یہ نیت کر لے کہ انہوں نے بے ایمانی کوختم کر دینا ہے تو دس دن میں بے ایمانی ختم ہو جاتی ہے اور اصلاح کی صورت نکل آتی ہے ہے.رسول کریم ﷺ فرماتے ہیں کہ ادنی ایمان یہ ہے کہ اگر کوئی شخص بُری بات دیکھے تو اُسے دل میں نا پسند کرے.اور اچھے ایمان کی علامت یہ ہے کہ اگر کوئی شخص بُری بات دیکھے تو وہ اُس کی اصلاح کی ہے کوشش کرے 6.میں سمجھتا ہوں کہ تمہاری حالت ادنی ایمان والی بھی نہیں.اگر تم اسے نا پسند کرتے تو ی تمہارے اندر سے کبھی تو آہ نکلتی.تمہارے ساتھ جو گزرتی ہے اُس پر تم شور مچاتے ہو.لیکن جو چیز تمہارے ساتھ نہیں ہوتی اگر چہ وہ تمہارے سامنے ہوتی ہے کہ تم اُس پر شور نہیں مچاتے.تم لوگوں میں غیرت نہیں.اگر تم میں غیرت ہوتی تو تم اپنے سامنے بے ایمانی ہوتے برداشت نہ کر سکتے.لوگوں نے بعض بہانے بنائے ہوئے ہیں.مثلاً میونسپل کمیٹی ہے.لوگ سمجھتے ہیں کہ اگر ی میونسپل کمیٹی کا نقصان کر دیا تو کیا ہوا.اس لیے وہ ٹیکس ادا نہیں کرتے.حالانکہ وہ کمیٹی کو نقصان پہنچا کر تمام شہر کو نقصان پہنچاتے ہیں.مثلاً یہاں گلیوں میں گند پڑا ہوتا ہے.اب میونسپل کمیٹی کے پاس روپیہ ہوگا تو وہ صفائی کا انتظام کرے گی.اگر اس کے پاس روپیہ نہیں ہوگا تو وہ کیا انتظام کرے گی.باہر سے آنے والے کہتے ہیں کہ کیا یہ احمدیت ہے؟ اگر تمہاری حکومت آئے گی تو تم گندہی ڈالو گے اور کیا
$1953 123 خطبات محمود کرو گے.اور یہ اعتراض درست ہے.آخر یہ گند کیوں ہوتا ہے؟ یہ گند اس لیے ہوتا ہے کہ تم چوری کرتے ہو.تم میونسپل کمیٹی کو اُس کے مقرر کردہ ٹیکس ادا نہیں کرتے.گویا ایک چھوٹی سے چھوٹی بے ایمانی بھی جو تم گورنمنٹ سے کرتے ہو وہ تم پر پڑتی ہے.اس لیے کہ حکومت افراد سے بنتی ہے اور حکومت کو افراد نے ہی چلانا ہوتا ہے.ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے پاس ایک شخص آیا.کسی دوست نے اُس کی کے متعلق بیان کیا کہ اس شخص میں بڑا اخلاص ہے.کیونکہ اس کے پاس یہاں آنے کے لیے کرایہ نہیں تھا یہ بغیر ٹکٹ خریدے یہاں آ گیا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جیب سے ایک روپیہ نکالا اور ی اُس شخص سے کہا.یہ چوری ہے.یہ روپیہ لے لو اور جاتے ہوئے ٹکٹ خرید کر جاؤ.پس یہ حماقت ہے کہ گورنمنٹ ، میونسپل کمیٹی یا انجمن کی چوری چوری نہیں.گورنمنٹ ، میونسپل کمیٹی اور انجمن کی چوری بھی کی چوری ہے بلکہ وہ بڑی چوری ہے.کیونکہ تم اس چوری کے ذریعہ ہزاروں لاکھوں آدمیوں کو نقصان پہنچاتے ہو.اگر تم کسی فرد کی جیب سے روپیہ نکالتے ہو تو ہے تو یہ گندی چیز لیکن تم ایک شخص کو نقصان پہنچاتے ہو لیکن اگر ڈاک خانہ، میونسپل کمیٹی ، ریل یا گورنمنٹ کی چوری کرتے ہو تو لاکھوں لاکھ آدمیوں کو نقصان پہنچاتے ہو.پس تم اپنے اندر ایمانداری پیدا کرنے کی کوشش کرو ورنہ تمہارے روزے روزے نہیں.تم اگر جسمانی حصہ کو پوا کرتے ہو اور روحانی حصہ کو ترک کر دیتے ہو تو تمہارے روزے کا کوئی فائدہ نہیں.ظاہری روزہ سفر میں معاف ہے، بیماری میں معاف ہے، بڑھاپے میں معاف ہے.لیکن روحانی روزہ نہ سفر میں معاف ہے، نہ بڑھاپے میں معاف ہے اور نہ بیماری میں معاف ہے اور یہ روزہ سچ بولنے ، جھوٹ سے بچنے ، دھوکا، فریب سے بچنے اور حرام کاری نہ کرنے کا ہے.تم اگر بیمار ہوتے ہو ، یا سفر میں ہوتے ہو تو تمہیں ظاہری روزہ معاف ہو جاتا ہے.لیکن روحانی روزہ نہ سفر میں معاف ہے نہ بیماری میں.کیونکہ جھوٹ بولنا، دھوکا دینا، بیماری میں یا بڑھاپے میں معاف نہیں ہو جاتے بلکہ پہلے سے بھی زیادہ سخت ہو جاتے ہیں.مثلا تم پر بڑھاپا آتا ہے اور تم روزہ نہیں رکھتے تو لوگ کہتے ہیں اُس نے روزہ ھے نہیں رکھا تو اچھا کیا ہے فقہاء نے بڑھاپے میں روزہ رکھنے سے منع کیا ہے.کیونکہ وہ کہتے ہیں بڑھا پانی بھی ایک بیماری ہے اور بیماری میں روزہ رکھنا منع ہے.لیکن اگر کوئی شخص بڑھاپے میں جھوٹ بولتا ہے،.
$1953 124 خطبات محمود ریب کرتا ہے یا حرام کاری کرتا ہے تو لوگ کہتے ہیں لعنت ہے اس شخص پر کہ یہ بڑھا بھی ہوگیا اور پھر بھی اُس نے جھوٹ بولنا، فریب کرنا، اور حرامکاری کرنا ترک نہیں کیا.گویا بڑھاپے میں یہ جرم اور بھی زیادہ ہے ہو جاتا ہے.پس تم اپنے اندر نیکی پیدا کرو اور قوم کی اصلاح کرو.اگر تم اب اپنی قوم کی اصلاح نہیں کر سکتے تو آج سے سو دو سو سال کے بعد تمہاری جماعت ڈاکوؤں کی جماعت ہوگی.آج احمدیت کی تعلیم ابھی تازہ ہے، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی زندگی کے حالات جاننے والے ابھی موجود ہیں.اگر آج تم میں بے ایمانی پیدا ہو جاتی ہے، حرام خوری پیدا ہو جاتی ہے تو تمہارے مرکز میں آنے اور احمدیت قبول کرنے کا کیا فائدہ.اگر آج تم بے ایمانی اور حرام خوری کو نہیں نکال سکتے تو سو دوسوسال کے بعد تمہاری اولادیں اس کی اصلاح نہیں کر سکیں گی.وہ لوگ تو اُس وقت خوش ہوں گے.زندگی کے ہر شعبہ میں تم میں سے کچھ کمزور ہیں.تمہاری کمپنیاں ہیں تو ان میں سے بعض میں دھوکا بازی ہوتی ہے.تمہارے افراد تجارت کرتے ہیں تو ان میں سے بعض جھوٹ بولتے ہیں.تمہارے دکاندار ہیں تو ان میں سے بعض بے ایمان ہیں.انہیں یہ احساس ہی نہیں ہوتا کہ انہوں نے احمدیت کو زندہ درگور کر دیا ہے.جو شخص ظاہری موت قبول کرتا ہے اسے اگلی زندگی مل جاتی ہے.لیکن جس کی روحانی زندگی ختم ہو جاتی ہے اُس کا کوئی علاج نہیں ہو سکتا.پس تم اپنے ماحول کا جائزہ لو.تم اس وقت اس مرض کا علاج کی کر سکتے ہو.کیونکہ تم اگر خدا تعالیٰ کی طرف ایک قدم اٹھاؤ گے تو خدا تعالیٰ تمہاری طرف دو قدم اٹھائے گا.لیکن اگر تم نے اس وقت اس کی پروانہ کی اور حرامخوری کی حقیقت کو نہ سمجھا تو تم نے اپنی موت کا خود فتویٰ دیدیا.جیسے عربی کی ایک مثل ہے کہ بکری نے اپنی موت خود اپنی ایڑی سے نکال لی Z.کہتے ہیں کسی شخص نے ذبح کرنے کے لیے ایک بکری کولٹایا ہوا تھا.لیکن چھری مٹی کے نیچے دب گئی.بکری نے کی گھبرا کر لاتیں مارنی شروع کیں تو مٹی ہٹ گئی اور چھری نکل آئی.اس پر یہ شل بن گئی کہ بکری نے اپنی ہی لات سے اپنی موت نکال لی.تمہاری مثال بھی وہی ہوگی.تم اب ان برائیوں کو چھوڑ سکتے ہو.تم اب اپنی اصلاح کر سکتے ہو.جن باتوں کو لاکھوں لاکھ عیسائی کر رہا ہے وہ تم کیوں نہیں کر سکتے تم میں سے ایک طبقہ کے سب کاموں میں حرامخوری اور بے ایمانی پائی جاتی ہیں.پھر دوسرے لوگ گونگے بن جاتے ہیں وہ بولتے.
$1953 125 خطبات محمود نہیں.تم سب کو بولنا چاہیے.تمہارے ہمسایہ میں آگ لگ جاتی ہے تو تم شور مچاتے ہو کہ آگ لگ گئی ہے آگ لگ گئی.تم آسمان سر پر اٹھا لیتے ہو.اس لیے کہ تمہیں خطرہ ہوتا ہے کہ آگ بڑھ کر تمہارے مکان کو بھی خطرہ میں ڈال دے گی.یہ بھی ایک آگ ہے جو تمہیں جلا ڈالے گی.اور اگر فرض کرو کہ تم میں ابھی بے ایمانی پیدا نہیں ہوئی تو کل کو پیدا ہو جائے گی.کیونکہ جب اپنے ارد گرد بے ایمانی دیکھ کر لوگ اُسے برداشت کر لیتے ہیں تو دوسرے لوگ بھی بے ایمان ہو جاتے ہیں.المصلح 17 جون 1953 ء) :1 حریرہ میٹھی اور گاڑھی چیز جو میدے کو کھانڈ میں گھول کر پکائی جاتی ہے.(فیروزاللغات اردو جامع فیروز سنز لا ہور) 3،2 : وَمَنْ كَانَ مَرِيضًا أَوْ عَلَى سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِنْ أَيَّامٍ أُخَرَ (البقره: 186) 4: صحيح البخاری کتاب الصوم باب مَنْ لَمْ يَدَعْ قَول الزور والعمل به فى الصّوم و هَلْ يَقُوْلُ إِنِّي صَائِمٌ إِذَا شِئْتُمْ : يَا يُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُونُوا قَومِينَ بِالْقِسْطِ شُهَدَاءَ لِلَّهِ وَلَوْ عَلَى أَنْفُسِكُمْ اَوِ الْوَالِدَيْنِ وَالْأَقْرَبِينَ (النساء : 136) مسلم كتاب الايمان باب بيان كون النهى عن الْمُنْكَرِ مِنَ الْإِيمَانِ (الخ) : كَالشَّاةِ تَبْحَثُ عن سكين جزار (المستتقصى فى امثال العرب الزمخشري باب الكاف مع الالف.جزء2 صفحہ 206 بیروت 1987ء)
$1953 126 18 خطبات محمود اپنے اعمال سے دنیا پر واضح کر دو کہ تم دوسروں سے زیادہ اسلام کی تعلیم پر عمل کرنے اور اعلیٰ اخلاق ظاہر کرنے والے ہو (فرموده 5 جون 1953ء بمقام ربوہ) تشہد ،تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا." ” سب سے بڑی مصیبت جو انسان پر آتی ہے اور اُسے ہلاکت اور بربادی کے گڑھے میں گرا دیتی ہے وہ یہی ہے کہ وہ دوسرے لوگوں کو اندھا اور بہرہ سمجھ لیتا ہے.حضرت مسیح ناصری علیہ السلام نے فرمایا ہے انسان کو اپنی آنکھ کا شہتیر نظر نہیں آتا لیکن اُسے دوسروں کی آنکھ کا تنکا بھی نظر آ جاتا ہے 1.پس بڑی خرابی یہی ہوتی ہے کہ انسان دوسرے کے عیب کو بڑا بنا کر دیکھتا ہے.اور اس وجہ سے اپنے عیب کے متعلق سمجھتا ہے کہ وہ کسی کو نظر نہیں آسکتا.دنیا میں جب کوئی شخص دوسرے کے عیب کو بڑھا کر دکھاتا ہے تو علاوہ اس کے کہ وہ جھوٹ بولتا ہے عیب چینی کے نتیجہ میں وہ اپنے عیب کو بھول جاتا ہے.جب اسے کہا جاتا ہے کہ تم نے جھوٹ بولا ہے تو وہ کہہ دیتا ہے کہ ساری دنیا ہی جھوٹ بولتی ہے اور سمجھتا ہے کہ ایسا کر کے اس نے اپنا عیب کمزور کر لیا ہے.یا جب کوئی احمدی سینیما دیکھتا ہے اور اُس سے کہا جاتا ہے کہ تم کیوں سنیما دیکھتے ہو؟ تو وہ کہہ دیتا ہے
$1953 127 خطبات محمود کہ سارے احمدی ہی سنیما دیکھتے ہیں.گویا اُسے فوراً سارے احمدی سینیما دیکھنے والے نظر آنے لگی جاتے ہیں.اسی طرح اگر ایک احمدی چندہ نہیں دیتا اور اُسے کہا جائے کہ تم چندہ کیوں نہیں دیتے ؟ تو وہ فوراً یہ جواب دیتا ہے کہ کوئی احمدی بھی اپنی آمدنی کے مطابق چندہ نہیں دیتا.غرض دوسروں کے عیوب کو بڑھا کر پیش کرنے اور ان کی طرف عیوب منسوب کرنے کی وجہ سے انسان اپنے عیوب پر پردہ ڈالنے کی کوشش کرتا ہے اور یہ مصیبت ایسی مصیبت ہے کہ اس کی وجہ سے انسان اپنی اصلاح کی طرف توجہ نہیں دے سکتا.وہ دوسروں کو عیب دار خیال کرتا ہے اور خود یہ سمجھتا ہے کہ میرے عیب کوئی نہیں دیکھتا.پہلے وہ دوسروں کو اندھا خیال کرتا ہے.یعنی وہ سمجھتا ہے کہ دوسرے اس کے عیب کو نہیں دیکھتے اور پھر وہ خود اندھا ہو جاتا ہے کیونکہ اُسے خود بھی اپنے عیب نظر نہیں آتے.اس کی مثال ایسی ہی ہوتی ہے جیسے بلی آتی ہے تو کبوتر اپنی آنکھیں بند کر لیتا ہے.آنکھیں بند کرنے سے اُسے بلی نظر نہیں آتی.لیکن وہ سمجھتا یہ ہے کہ بلی بھی اُسے نہیں دیکھ رہی.اگر انسان دوسروں کو اندھا تی نہ سمجھے اور یہ خیال نہ کرے کہ دوسرے لوگ اُس کے عیوب کو نہیں جانتے تو اس کا نتیجہ یہ ہو کہ اسے اپنے عیوب نظر آجائیں اور اس طرح وہ اپنے عیوب کی اصلاح کرنے میں کامیاب ہو جائے.1912ء میں جب میں نے حج کیا تو میرے ایک ماموں جو ہماری نانی صاحبہ مرحومہ کی بہن کے لڑکے تھے اور برطانوی قونصلیٹ (CONSULATE) میں کام کرتے تھے، مجھے سمندر کے کنارے ایک جگہ لے گئے.اور کہنے لگے یہاں ایک عجیب واقعہ ہوا تھا جو میں آپ کو بتانا چاہتا ہوں.چند سال ہوئے ایک آغا خانی جو سر آغا خاں کے چاتھے یا کوئی اور قریبی رشتہ دار تھے حج کے لیے آئے.ان کے ساتھ اُن کا لڑکا بھی تھا.وہ بڑے آدمی تھے اُن کا اپنے شرکاء کے ساتھ جائیداد کا جھگڑا تھا.شرکاء انہیں وہ جائیداد نہیں دینا چاہتے تھے.مقدمہ چل رہا تھا.اُس مقدمہ کے دوران میں انہیں خیال پیدا ہوا کہ میں حج کر آؤں.چنانچہ وہ اپنے بیٹے کے ہمراہ حج کے لیے روانہ ہو گئے.بڑے آدمیوں کو اپنے کی آرام کا بڑا خیال ہوتا ہے.وہ سفر میں بھی جہاں تھوڑی دیر ٹھہرنا ہو اپنے آرام کا سامان کر لیتے ہیں.چنانچہ جب وہ جہاز سے اترے تو اُن کے نوکروں نے آرام کرسیاں بچھا دیں اور کہا آپ تشریف رکھیئے ، ہم سامان وغیرہ اتار لیں.وہ آرام کرسیوں پر جا بیٹھے.تھوڑی دیر کے بعد ہی کسی نے پستول سے اُن دونوں کو ہلاک کر دیا.چونکہ وہ بمبئی سے روانہ ہوئے تھے اور بمبئی انگریزی علاقہ میں تھا اور جہاز بھی
$1953 128 خطبات محمود برطانوی تھا اس لیے اُن کی وفات کی خبر ہمیں ملی تو برطانوی قونصل پولیس لے کر موقع پر پہنچے.جب وہ وہاں پہنچے تو انہوں نے دیکھا کہ دو نو کر وہاں کھڑے تھے.انہیں بتایا گیا کہ انہی دونوں نے پستول کے ذریعہ انہیں مارا ہے.چنانچہ پولیس نے آگے بڑھ کر انہیں گرفتار کر لیا.پہلے تو وہ دونوں بڑے اطمینان سے کھڑے تھے لیکن گرفتاری کے بعد اُن کے چہروں پر ہوائیاں اڑنے لگیں.جس طرح ایک انسان کسی نی اچانک واقعہ سے جس کی اُسے امید نہ ہوگھبرا جاتا ہے اسی طرح وہ گھبرا کر کہنے لگے کیا آپ نے ہمیں یکھ لیا ہے؟ ہمیں تعجب ہوا کہ انہیں یہ خیال کیسے آیا کہ ہم انہیں دیکھ نہیں رہے.ہم نے انہیں کہا کہ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ ہم تمہیں دیکھ نہیں رہے.وہ کہنے لگے جن لوگوں کے کہنے پر ہم نے قتل کیا ہے انہوں نے نے ہمیں دو پڑیاں دی تھیں اور کہا تھا کہ قتل کے بعد تم یہ دونوں پڑیاں کھا لینا ان کے کھانے سے تم کسی کو ی نظر نہیں آؤ گے.درحقیقت اُن پڑیوں میں زہر تھا.چنانچہ تھوڑی دیر کے بعد ہی انہیں خون کے دست آنے شروع ہو گئے اور وہ دونوں مر گئے.اب یہ اُن لوگوں کی حماقت تھی کہ انہوں نے سمجھا کہ ہم کسی کو نظر نہیں آتے.اور شاید جو شخص بھی یہ واقعہ سنے گا کہے گا کہ کیا دنیا میں ایسے بے وقوف بھی ہوتے ہیں جو یہ سمجھتے ہیں کہ ہم کسی اور کو نظر نہیں آتے.جیسے چھوٹے بچے سمجھتے ہیں کہ حضرت سلیمان کی ایک ٹوپی ی تھی.اگر کوئی شخص وہ ٹوپی اپنے سر پر رکھ لیتا تھا تو وہ کسی اور کو نظر نہیں آتا تھا.لیکن بڑی عمر کے لوگ اس وہم میں مبتلا نہیں ہوتے.ہاں مذہب کے سلسلہ میں بڑی عمر کے لوگ بھی بعض دفعہ اس مرض میں مبتلا ہو جاتے ہیں.وہ کی یہ تو نہیں سمجھتے کہ ہم کسی اور کو نظر نہیں آتے لیکن وہ یہ ضرور سمجھتے ہیں کہ اُن کے اعمال کسی اور کو نظر نہیں آتے.وہ جھوٹ بولتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ اُن کا یہ فعل کسی اور کو نظر نہیں آتا.وہ ظلم کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ انہیں کوئی اور دیکھ نہیں رہا.وہ نمازوں کے تارک ہوتے ہیں لیکن سمجھتے ہیں کہ کوئی محلہ والا یہ نہیں ہے جانتا کہ وہ نمازوں کے تارک ہیں.وہ چندے نہیں دیتے اور سمجھتے ہیں کہ سارے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ وہ چندے دیتے ہیں.گویا وہ اپنے جسم کے متعلق تو یہ خیال نہیں کرتے کہ اسے کوئی دیکھ نہیں ہے رہا.لیکن جھوٹ ، دھوکا، فریب ، کینہ، کپٹ ، حسد اور ظلم کے متعلق وہ یہ خیال کر لیتے ہیں کہ انہیں کوئی نہیں دیکھتا.جب انسان ایسے مقام پر پہنچ جاتا ہے تو اُس کی مرض لا علاج ہو جاتی ہے.انسان کی اصلاح کا بڑا ذریعہ یہ ہے کہ لوگ اُس کے عیوب کو دیکھیں اور اُسے کہیں کہ تم میں فلاں عیب ہے.
$1953 129 خطبات محمود اسی طرح وہ اپنے اُس عیب کی اصلاح کر لیتا ہے.جب وہ اپنے وہم سے اس ذریعہ کو بھی مٹاد.تو جو چاہے کرے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ میں ایک لڑکی تھی.جواب فوت ہو گئی ہے.اس کی آنکھیں کمزور تھیں.اُس کے والد کثرت سے قادیان آتے تھے اور اکثر ہمارے گھروں میں ہی ہے رہتے تھے.اُس کی آنکھ کا پوٹا جھکا ہوا تھا اور وہ بڑی کوشش سے پیوٹے اٹھا کر دیکھ سکتی تھی اور بڑی عمر تک اس کا یہی حال تھا.میں نے اسے ادھیڑ عمر تک دیکھا ہے.اُسے پہلے سے تو آرام تھا لیکن پھر بھی وہ تھی بڑی مشکل سے دیکھتی تھی.چونکہ اُس کی آنکھوں میں نقص تھا اور وہ دوسرے کو دیکھ نہیں سکتی تھی اس لیے ی وہ بچپن میں سمجھتی تھی کہ لوگ بھی اُسے نہیں دیکھتے.اُن دنوں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ایک ضروری کتاب لکھ رہے تھے.آپ کی کوشش یہ ہوتی تھی کہ بچے آپ کو ستائیں نہیں تا کتاب کا مضمون خراب نہ ہو.ہم تو ایسی عمر کے تھے کہ یہ بات سمجھ سکتے تھے.میری عمر اُس وقت پندرہ سولہ سال کی تھی، میاں بشیر احمد صاحب دس گیارہ سال کے تھے اور میاں شریف احمد صاحب آٹھ نو سال کے تھے.اس لیے ہم تو سمجھ سکتے تھے کہ ہمارے وہاں جانے سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے کام میں حرج واقع ہو گا.لیکن ہماری چھوٹی بہن امتہ الحفیظ بیگم جو میاں عبداللہ خاں صاحب سے بیاہی ہوئی ہیں ڈیڑھ دو سال کی تھیں وہ یہ بات نہیں سمجھ سکتی تھیں.اس لیے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام مٹھائی منگوا کر اپنے پاس رکھ لیتے تھے.جب امتہ الحفیظ بیگم باتیں شروع کر دیتیں تو آپ انہیں مٹھائی دے دیتے اور وہ باہر آجاتیں.اس طرح آپ اپنے وقت کا بچاؤ کر لیتے تھے.ہماری بہن کا نام تو ہے امتہ الحفیظ بیگم ہے لیکن اس وقت پھیچی بھیجی کہا کرتے تھے.اُس لڑکی نے جب یہ بار بارسنا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ بھیجی مٹھائی لے لوتو خیال کیا کہ میں بھی مٹھائی لاؤں.اُس نے خیال کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام میری طرح دیکھتے تو ہیں نہیں.اس لیے انہیں پتا نہیں لگے گا کہ میں کون ہوں.چنانچہ وہ اپنی چھوٹی بہن کو ساتھ لے کر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے پاس گئی اور ہاتھ پھیلا کر کہنے لگی حضرت صاحب جی ! میں بھیجیے ہوں مجھے مٹھائی دیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اسے مٹھائی دے دی.لیکن بعد میں گھر میں بتایا کہ یہ مجھتی ہے کہ اس کی طرح ہمیں بھی نظر نہیں آتا.اپنی وفات سے کوئی ایک سال پہلے وہ لڑکی
$1953 130 خطبات محمود میرے پاس ملنے آئی تو میں نے اُسے کہا کیا تمہیں اپنے بچپن کا لطیفہ یاد ہے؟ تو اُس نے کہا ہاں خوب یاد ہے.کیونکہ اُس کے ماں باپ اور رشتہ دار وغیرہ اُسے وہ لطیفہ ساری عمر یاد دلاتے رہے تھے.یہی حالت عام لوگوں کی ہے وہ سمجھتے ہیں کہ دنیا میں سارے لوگ ہی اندھے ہیں اور کوئی اُن کی کے عیب کو نہیں دیکھ رہا.حالانکہ یہ بالکل غلط بات ہے.جب تم یہ بیان کرتے ہو کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام دنیا کی اصلاح کے لیے مبعوث ہوئے ہیں.دنیا بالکل خراب ہو گئی تھی اس لیے خدا تعالیٰ نے آپ کو بھیجا تا کہ آپ اخلاق اور ی روحانیت کو قائم کریں.اور تم یہ سمجھتے ہو کہ جب تک ہم ایک غیر احمدی سے یہ باتیں منوائیں گے نہیں ، وہ حضرت مرزا صاحب کو مانے گا نہیں ، کیونکہ جب کوئی خرابی ہے ہی نہیں تو خدا تعالیٰ کو یہ شور مچانے کی کیا ضرورت تھی.لیکن جب تم کسی مخالف کو یہ دلیل دیتے ہو تو وہ ہنس پڑتا ہے اور کہتا ہے کہ حضرت مرزا صاحب نے کیا تغیر پیدا کیا ہے؟ اگر یہ کہا جائے کہ تم لوگ جھوٹ بولتے تھے حضرت مرزا صاحب نے بیچ بلو ا دیا، تم حرامخوری کرتے تھے حضرت مرزا صاحب نے حرامخوری کو بند کر واد یا تم نماز کے پاس نہیں جاتے تھے حضرت مرزا صاحب نے تمہیں نماز پڑھادی ہتم روزے نہیں رکھتے تھے حضرت مرزا صاحب نے تمہیں روزے رکھوا دیئے ، تم زکوۃ نہیں دیتے تھے حضرت مرزا صاحب نے تم سے زکوۃ دلوادی.تو بے شک ہم کہہ سکتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے دنیا میں ایک عظیم الشان تغیر پیدا کیا ہے اور اس میں کوئی شبہ نہیں کہ بعض احمد یوں میں یہ تغیر ضرور پیدا ہوا ہے.اور یہ بھی ٹھیک ہے کہ اکثر احمد یوں کی میں کچھ نہ کچھ تغیر پیدا ہوا ہے.لیکن جن لوگوں میں کوئی تغیر پیدا نہیں ہوا یا کچھ نہ کچھ تغیر پیدا ہوا ہے انہیں دیکھنے والے سمجھتے ہیں کہ اگر ان لوگوں میں کچھ اچھے آدمی پائے جاتے ہیں تو ہم میں بھی کچھ اچھے آدمی پائے جاتے ہیں.ہم میں اور ان لوگوں میں کوئی نمایاں فرق نہیں کہ ہمیں ان کی جماعت میں داخل ہونے کی ضرورت ہو.جماعت میں داخل ہونے اور جماعت سے باہر رہنے میں فرق تب ظاہر کی ہو گا جب وہ دیکھیں کہ اُن میں ظلم پایا جاتا ہے لیکن تم میں نہیں پایا جاتا.اُن میں فریب اور دھوکا دہی پائی جاتی ہے لیکن تم میں نہیں پائی جاتی.اُن میں نکما پن، چغلخوری ، عیب جوئی اور دوسری برائیاں پائی جاتی ہیں لیکن تم ان سے پاک ہو چکے ہو.ورنہ دیکھنے والے کہتے ہیں کہ آخر مرزا صاحب نے کیا تغیر پیدا کیا ہے؟ آپ کے آنے سے سارے عالم اسلام میں جوش پیدا ہوا.اور لوگ ہمارے مخالف ہو گئے لیکم
$1953 131 خطبات محمود اس کی کوئی وجہ بھی تو ہونی چاہیے.کیا تم سمجھتے ہو کہ پچھلے فسادات میں جو کچھ ہوا وہ کچھ کم تھا ؟ احمدیوں کو مارا گیا ، اُن کے گھر لوٹے گئے اور عوام میں اس قدر جوش پیدا کر دیا گیا کہ گورنمنٹ بھی ہل گئی.اُن کا دنوں عرب ، مصر اور امریکہ سے جو لوگ آتے تھے وہ بھی ہم سے یہی پوچھتے تھے کہ جماعت کے خلاف یہ جوش کیوں ہے؟ اگر ہم انہیں یہ کہتے کہ ہم سارے بچے ہیں اور راستباز ہیں ، نیک ہیں ، غرباء سے ہمدردی کرتے ہیں، مخلوق خدا سے ہمیں محبت ہے، ہم میں قربانی اور ایثار پایا جاتا ہے.لیکن ان لوگوں میں چونکہ یہ باتیں نہیں پائی جاتیں اس لیے یہ چاہتے ہیں کہ ہمیں مٹا دیں تا کہ ہمارے آئینہ میں ان کو اپنی خراب شکل نظر نہ آئے.تو یہ بات سب لوگ سمجھ جاتے ہیں.لیکن ہمیں یہ جواب دینا پڑتا تھا کہ یہ لوگ حیات مسیح کے قائل ہیں.اور ہمارا عقیدہ یہ ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام دوسرے لوگوں کی طرح فوت ہوگئے ہیں.ہم جہاد کی اور تشریح کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ کوئی زمانہ تبلیغی جہاد کا ہوتا ہے اور کوئی زمانہ تلوار کے جہاد کا ہوتا ہے.لیکن یہ لوگ کہتے ہیں کہ ہر حالت میں تلوار کا جہاد فرض ہے.اس اختلاف کی وجہ سے یہ لوگ ہمیں مارتے ہیں، کوٹتے ہیں اور بُرا بھلا کہتے ہیں.ہمارا یہ جواب خواہ کی کتنا بھی معقول ہوتا ، اُن لوگوں کی سمجھ میں نہیں آتا تھا اور وہ حیران ہوتے تھے کہ اس اختلاف کی وجہ سے لوگ اتنی مخالفت کیوں کرتے ہیں.امریکن اور یورپین لوگ آئے تو انہوں نے بھی یہی سوال کیا کہ آخر کوئی وجہ تو ہے جس کی وجہ سے سب لوگ آپ کے خلاف ہیں.ہم اس کا یہ جواب دے سکتے تھے تھے اور دیتے بھی تھے کہ آپ اُن سے پوچھیں.غصہ انہیں آتا ہے ہمیں تو نہیں آتا.اس لیے وہی بتا سکتے ہے ہیں کہ ان کے غصہ کی کیا وجہ ہے لیکن وہ لوگ کہتے ہم آپ سے بھی پوچھنا چاہتے ہیں.آپ بھی تو اسی ملک میں رہتے ہیں آپ کو پتا ہونا چاہیے کہ آخر ان کے غصہ میں آنے کی کیا وجہ ہے.اس پر ہم اختلافات بیان کرتے.لیکن وہ ان اختلافات کو سمجھ نہیں سکتے تھے.مثلاً اگر ایک جاپانی ہم سے اس قسم کا سوال کرتا ہے تو وہ حضرت مسیح علیہ السلام اور رسول کریم ﷺ کی صداقت کا ہی قائل نہیں.اُس کے سامنے اگر ہم یہ بات بیان کرتے ہیں کہ یہ لوگ حیات مسیح کے قائل ہیں اور عقیدہ رکھتے ہیں کہ حضرت مسیح علیہ السلام بجسد عنصری آسمان پر موجود ہیں.لیکن ہم کہتے ہیں کہ آپ دوسرے لوگوں کی طرح وفات پاگئے ہیں.تو اُس کے لیے یہ بالکل بے حقیقت چیز ہے.اگر ہم کہتے ہیں کہ ہم جہاد کا یہ مفہوم پیش کرتے ہیں اور اُن کا عقیدہ جہاد سے متعلق یہ ہے.تو وہ اس کی کوئی قیمت نہیں سمجھتا.
خطبات محمود 132 $1953 لیکن ایک دہر یہ بھی جو کسی مذہب کا قائل نہیں ہوتا سچ بولنا ظلم نہ کرنا ، رحم اور انصاف سے کام لینا، غرباء سے ہمدردی کرنا اور قربانی اور ایثار کرنا ضروری سمجھتا ہے.ہم ایک جاپانی سے یہ امید نہیں رکھتے کہ وہ وفات مسیح کے عقیدہ کو سمجھے.لیکن ایک جاپانی، چینی، افریقی اور مصری اس حقیقت کو ضرور سمجھتا ہے ہے کہ دنیا میں امن قائم ہونا چاہیے، انصاف کرنا چاہیے ، عدل سے کام لینا چاہیے.تم ایک دہریہ کو کہو کہ تم نماز پڑھو تو وہ تمہاری شکل دیکھ کر خیال کرے گا کہ تم پاگل ہو گئے ہو.لیکن اگر تم اُسے کہو کہ سچ بولو تو با وجود اس کے کہ وہ کسی مذہب کا بھی قائل نہیں وہ اس بات کو وزن دے گا.وہ تمہیں یا تو یہ کہے گا کہ میں سچ بولتا ہوں یا کہے گا میں کمزور ہوں.میں معافی مانگتا ہوں آئندہ ہمیشہ سچ بولوں گا.وہ یہ نہیں کہے گا کہ یہ بات میری سمجھ میں نہیں آئی.تم ایک ہند و یا ایک سکھ کو یہ ہوکہ تم ظلم ہ کرو تو وہ یاتو یہ کہے گا کہ میں ظلم نہیں کرتا یا کہے گا کہ بے شک مجھ سے غلطی ہوگئی ہے میں آئندہ ایسی غلطی نہیں کروں گا.لیکن اگر تم اُسے یہ کہو کہ تم قرآن کریم پڑھا کرو تو وہ ہنس پڑے گا اور کہے گا کہ کیا میں مسلمان ہوں؟ اگر تم ایک دہریہ کو کہو کہ تم می ہستی باری تعالیٰ پر ایمان لاؤ تو وہ ہنس پڑے گا.لیکن اگر اُسے یہ کہو کہ تم کمزور پر ظلم نہ کرو تو باوجود اس کے کے کہ کمزور پر ظلم نہ کرنا خدا تعالیٰ کی ہستی پر ایمان لانے کے مقابلہ میں نہایت چھوٹی سی چیز ہے پھر بھی ایک دہر یہ اس کا انکار نہیں کر سکتا.وہ اس بات پر ہنس نہیں سکتا.وہ یہ کہے گا کہ آپ کو غلط فہمی ہو گئی ہے میں کمزوروں پر ظلم نہیں کرتا.یا یہ کہے گا مجھ سے غلطی ہو گئی ہے آئندہ ایسا نہیں کروں گا.یا یہ کہے گا کہ تم کون ہوتے ہو میرے معاملات میں دخل دینے والے لیکن یہ نہیں کہے گا کہ یہ بات کوئی وزن نہیں ہے رکھتی.بہر حال وہ تمہاری اس بات کے تین جواب ہی دے گا.یا یہ کہ میں ظلم نہیں کرتا آپ کو غلط نہی ہوگئی ہے.یا یہ کہ میں نے اس دفعہ غلطی کی ہے آئندہ غلطی نہیں کروں گا.یا یہ کہ آپ کون ہوتے ہیں میرے معاملات میں دخل دینے والے.لیکن اس کے مقابلے میں اگر ہم اُسے یہ کہیں کہ خدا تعالیٰ پر ایمان لاؤ رسول پر ایمان لاؤ ، قرآن کریم پر ایمان لاؤ ، تو وہ کہے گا اس میں کیا رکھا ہے؟ پس تم دنیا کے سامنے یہ بات پیش نہیں کر سکتے کہ ہم خدا تعالیٰ کے وجود پر ایمان رکھتے ہیں، اس کے رسول پر ایمان رکھتے ہیں ، قرآن کریم پر ایمان رکھتے ہیں.ہاں ہم یہ بات پیش کر سکتے ہیں کہ ہم راستباز ہیں، سچے ہیں، شریعت پر عمل کرنے والے ہیں.ہم فریب نہیں کرتے ، دھوکا نہیں دیتے ، دوسرے کا مال نہیں کھاتے ، کینہ نہیں رکھتے ، غرباء سے ہمدردی کرتے ہیں، قربانی اور ایثار کا مادہ ہم
$1953 133 خطبات محمود میں زیادہ پایا جاتا ہے.اسی طرح تم اسلام کے دوسرے فرقوں کے سامنے یہ چیز پیش نہیں کر سکتے کہ ہم خدا، اس کے رسول اور قرآن کریم پر ایمان رکھتے ہیں.کیونکہ ان چیزوں پر دوسرے مسلمان بھی یقین رکھتے ہیں.ہاں تم اُن کے سامنے یہ چیز پیش کر سکتے ہو کہ تم نے اسلام کی تعلیم کو ترک کر دیا ہے لیکن ہم اس پر عمل کرتے ہیں، ہم سارے کے سارے نمازیں پڑھتے ہیں، جن پر حج فرض ہے وہ حج کرتے ہی ہیں، جنہیں روزہ رکھنا منع نہیں وہ روزہ رکھتے ہیں.پھر ہم قرآن کریم کی دوسری تعلیموں پر بھی عمل کرتے ہیں لیکن تم لوگ عمل نہیں کرتے.اگر تم یہ چیز پیش کرو تو دوسرے مسلمان چُپ ہو جائیں گے.پس سب سے واضح تعلیم جس کو ساری دنیا مانتی ہے وہ اخلاق کی تعلیم ہے.پھر اس سے اتر کر دوسری باتیں ہیں.پس ایک مسلمان کو تم کہہ سکتے ہو کہ ہم تم سے زیادہ شریعت پر عمل کرتے ہیں اور اگر تم واقع میں ایسا کرتے ہو تو دوسرے لوگ اس سے ضرور متاثر ہوں گے.اور متاثر ہوتے بھی ہیں.چنانچہ جہاں بھی ایسے احمدی پائے جاتے ہیں جو اچھا نمونہ دکھا رہے ہیں وہاں دوسرے لوگ یہی کہتے ہیں کہ ہم تھی مانتے ہیں کہ آپ لوگ شریعت پر ہم سے زیادہ عمل کرتے ہیں.اس پر ہم انہیں پکڑ لیتے ہیں کہ اگر ہم لوگ شریعت کے احکام پر تم سے زیادہ عمل کرتے ہیں تو ہم کا فرکس طرح ہوئے.پس میں جماعت کو عموماً اور بوہ کے رہنے والوں کو خصوصاً اس امر کی طرف توجہ دلاتا ہوں کہ تم اپنے اعمال سے یہ بات واضح کرو کہ تم سچے مومن ہو.اگر تم ایسا کرو اور تمہاری مسجد میں اور تمہارے بازار اس بات پر شاہد ہوں کہ تم نمازوں میں زیادہ پختہ ہو تم غرباء کی خبر گیری کرتے ہو، تم ہمیشہ سچ بولتے ہو، تمہاری زبان عیب چینی نہیں کرتی تم ظلم و تعدی نہیں کرتے تو ہر شخص ہے اقرار کرے گا کہ مرزا صاحب نے عظیم الشان کام کیا ہے.اُس سے کسی لمبی بحث کی ضرورت نہیں ہوگی.لیکن اگر تم کہو گے کہ حضرت عیسی علیہ السلام وفات پاگئے ہیں تو ہے تو یہ کچی بات اور دوسرے مسلمانوں کا عقیدہ غلط ہے لیکن تمہیں ایک لمبی بحث کے بعد انہیں یہ بات منوانی پڑے گی کہ اس بات کا ماننا اسلام کے لیے مضر ہے.تمہارا مخاطب شروع میں یہ کہہ دے گا کہ حضرت مسیح علیہ السلام زندہ ہیں یا وفات یافتہ ، اس میں کیا رکھا ہے؟ لیکن اگر تم یہ کہو کہ تم مسلمانوں نے نمازیں چھوڑ دیں تھیں حضرت مرزا صاحب نے ہم سے نمازیں پڑھوانی شروع کر دیں تم لوگوں نے زکوۃ دینی ترک کر دی تھی حضرت مرزا صاحب نے ہم سے زکوۃ دلوانی شروع کردی،
$1953 134 خطبات محمود تم لوگوں نے ذکر الہی ترک کر دیا تھا حضرت مرزا صاحب نے ذکر الہی شروع کروا دیا، تم لوگوں نے بیچ بولنا ترک کر دیا تھا حضرت مرزا صاحب نے ہم سے بیچ بلوانا شروع کروادیا تم لوگوں میں رشوت خوری ، جنبہ داری ظلم و تعدی اور دوسروں کا مال کھانے کی بد عادات پائی جاتی تھیں حضرت مرزا صاحب نے ہم سے یہ عادات چھڑ وادیں تو اس کے جواب میں کوئی شخص یہ نہیں کہہ سکتا کہ مرزا صاحب نے کیا ر پیدا کیا ہے.مگر افسوس ہے کہ ہماری جماعت کی اکثریت نے ابھی اپنے اندر ایسا تغیر پیدا نہیں کیا کہ ہم غیروں کے سامنے یہ دعوی کرسکیں کہ ہماری عملی حالت اُن سے بہتر ہے.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ جہاں تک ارکانِ اسلام پر عمل کرنے کا سوال ہے ہماری جماعت زیادہ تعہد کے ساتھ ان کو بجالاتی ہے.مسلمان ارکانِ اسلام کی بجا آوری میں بھی بہت کمزور ہیں.مثلاً ی روزہ کو ہی لے لو.ہندوستان میں روزہ تو رکھا جاتا ہے مگر عموماً بناوٹی ہوتا ہے.یعنی کوئی بچے سے روزہ رکھوا رہا ہے تو کوئی سفر میں بھی روزہ رکھ رہا ہے.حالانکہ نہ بچوں پر روزہ فرض ہے اور نہ سفر میں روزہ کی فرض ہے.ایسے ہندوستانی مسلمان بھی ہیں جو روزہ نہیں رکھتے یا بریکار روزہ رکھتے ہیں.یعنی روزہ رکھنے کے باوجود گالی گلوچ ، جھوٹ اور دھو کا وفریب کو ترک نہیں کرتے.پھر حج کے لیے بھی اکثر ایسے لوگ جاتے ہیں.جن پر حج فرض نہیں ہوتا.مثلاً بھک منگے چلے جاتے ہیں امراء نہیں جاتے.مگر یہی چیز ہمیں اپنی جماعت میں بھی نظر آتی ہے.کتنے ہی لوگ ایسے ہیں جنہیں حج کرنے کی توفیق ہے لیکن وہ حج کے لیے نہیں جاتے.اگر تمہارے نزدیک کسی کے پاس دس کروڑ روپیہ ہو تب اُس پر حج فرض ہوتا ہے تو دس کروڑ روپے رکھنے والا تو یقیناً احمدیوں میں کوئی تھی نہیں.لیکن اگر توفیق سے مُراد ہزار دو ہزار روپیہ ہے تو ایسے سینکڑوں لوگ ہماری جماعت میں موجود ہیں.ابھی ربوہ بن رہا ہے یہاں چھپیں چھپیں سو روپے میں ایک کنال زمین یکی ہے.بعض لوگ تین تین ہزار روپے فی کنال بھی لے رہے ہیں.پھر جن لوگوں نے اس قیمت پر زمین خریدی ہے انہوں نے مکان بھی بنوانا ہے.اس قدر رو پید رکھنے والا احمدی یقیناً حج کر سکتا ہے ہے.لیکن کتنے ہیں جو حج کے لیے جاتے ہیں؟ مجھے تو حج کے معاملہ میں احمدیوں اور غیر احمد یوں میں کوئی فرق نظر نہیں آتا.جیسا دوسروں کا حال ہے ویسا ہی ہمارا حال ہے.لیکن باقی چیزوں میں احمدی نسبتاً اچھے ہیں.لیکن مقابلہ میں نسبتاً اچھا ہونا فائدہ نہیں دیتا.کیونکہ مخالف لوگ
$1953 135 خطبات محمود کمزوروں کو پیش کر کے اچھے لوگوں کے اثر کو بھی دور کر دیتے ہیں.مثلاً اگر کہیں سو احمدی ہیں اور دو نماز نہیں پڑھتے تو مخالف اُن دو احمدیوں کو پیش کر کے کہہ دے گا کہ احمدی بھی نمازیں نہیں پڑھتے.پس تم اپنے اندر تغیر پیدا کرو.ورنہ احمدی ہونے کا تمہیں فائدہ کیا.تم تو احمدیت کو بد نام کرتے ہو.اگر تم نماز کے پابند نہیں ، اگر تم روزہ نہیں رکھتے ، اگر تم زکوۃ نہیں دیتے ، اگر تم حج نہیں کرتے ، اگر تم میں دیانت نہیں پائی جاتی ، اگر تم میں حلال روزی کھانے کی عادت نہیں پائی جاتی تو احمدی ہونے کا فائدہ کیا.یہی چیز ہے جو دوسرے لوگوں نے دیکھنی ہے.لیکن تم اپنے اندر تغیر پیدا نہیں کرتے.تم اپنی اولادوں کو نماز ، روزہ کی تلقین نہیں کرتے.حالانکہ قرآن کریم میں لکھا ہے کہ حضرت اسمعیل علیہ السلام اپنی اولاد کو نماز اور زکوۃ کی تحریک کیا تھی کرتے تھے.لیکن تمہاری مساجد اتنی آباد نہیں ہوتیں.جو لوگ اس وقت جمعہ کے لیے یہاں کی بیٹھے ہیں ان لوگوں کو ربوہ کی تمام مساجد میں پھیلایا جائے تو کیا تم سمجھتے ہو کہ اتنے آدمی مساجد میں روزانہ آتے ہیں؟ اگر ربوہ میں دس مساجد ہیں تو کیا ان لوگوں کا دسواں حصہ ہر مسجد میں حاضر ہوتا ہے؟ یہ غلطیاں ایسی ہیں جو دوسروں کے لیے ٹھوکر کا موجب ہوتی ہیں.اب رمضان آیا ہے تم اتنی تو کوشش کرو کہ تمہیں اس ماہ میں فرائض کی طرف توجہ پیدا ہو جائے.آخر خدا تعالیٰ کی نے اسلام کو دنیا میں قائم کرنا ہے.اگر لوگ سیدھی طرح سے نہیں مانیں گے تو وہ ڈنڈے سے منوائے گا.پس تم کوشش کرو کہ تم میں عدل قائم ہو ، انصاف ہو، روزے کی پابندی ہو ، نماز کو سنوار کر ادا کرو.اگر تم میں سے کسی کے پاس کوئی معاملہ آئے تو چاہے وہ معاملہ اس کے باپ کا ہو ، ماں کا ہو، بیٹے کا ہو یا بھائی کا ہو تم عدل اور انصاف سے منہ نہ موڑو.اس کے علاوہ بعض اور بھی ہے مسائل ہیں جن کی طرف توجہ دینا ضروری ہے.مثلاً دنیا امن چاہتی ہے وہ تمہاری خدمت کی ضرورت محسوس کرتی ہے.دنیا پر بتا ہیاں آتی ہیں، مصائب آتے ہیں، بلائیں آتی ہیں لیکن تم لوگ اپنے مخصوص مسائل میں ہی پڑے رہتے ہو.دوسرے لوگ تباہ ہور ہے ہوتے ہیں اور تم احمدیت کی صداقت کے متعلق اشتہا رلکھ رہے ہوتے ہو.اس سے لوگوں پر بہت بُرا اثر پڑتا ہے.
$1953 136 خطبات محمود اور وہ کہتے ہیں کہ ہم تو مر رہے ہیں اور یہ لوگ اشتہار لکھنے میں لگے ہوئے ہیں ، انہیں ہم سے کوئی ہمدردی نہیں.لیکن اگر تم میں محبت ہو ، خدمت خلق کا مادہ ہو ، اگر لوگ بھو کے ہوں اور تم اُن کی روٹی کا فکر کرو تو سب لوگ تمہاری طرف متوجہ ہو جائیں.مان لیا کہ ہم غریب ہیں لیکن ان کاموں میں ہمارا کچھ نہ کچھ دخل تو ہونا چاہیے.ہم دیکھتے ہیں کہ احمدیت کے مخصوص مفاد سے تعلق رکھنے والی کوئی تحریک ہو تو جماعت کے لوگ اس کے میں کثرت سے چندہ دیتے ہیں.لیکن اگر ملک کی کسی مصیبت کے لیے چندہ کا اعلان کیا جائے تو ی لوگ اُس کی طرف بہت کم توجہ کرتے ہیں.جس سے معلوم ہوتا ہے کہ عام مخلوق کی ہمدردی کا مادہ ہماری جماعت میں کم پایا جاتا ہے.مثلاً فلسطین پر مصیبت آئی اور جماعت میں چندہ کی تحریک کی گئی تو دو سال کے عرصہ میں کل چار ہزار روپیہ چندہ ہوا.لیکن اسی مسجد کے لیے میں نے ہیں پچیس ہزار روپے کی تحریک کی تھی لیکن چھپن ہزار روپیہ آ گیا.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ مسجد ایک اہم چیز ہے لیکن جب مسلمان تباہ ہو رہے ہوں تو اُن کی ہمدردی زیادہ ضروری ہوتی ہے ہے.لیکن عموماً دیکھا گیا ہے کہ کوئی سیلاب آجائے یا کوئی اور تباہی آجائے تو جماعت میں جوش پیدا نہیں ہوتا کہ والنٹیئر جائیں اور لوگوں کی مصیبت میں مدد کریں.لیکن اگر میں اعلان کر دوں کہ فلاں کتاب شائع ہو رہی ہے اُس کے لیے چندہ کی ضرورت ہے تو مطلوبہ رقم سے زیادہ چندہ جمع ہو جائے گا.میں یہ نہیں کہتا کہ تم کتاب کے لیے چندہ نہ دو.لیکن یہ ضرور کہوں گا کہ تم دوسری باتوں میں بھی حصہ لو.کہتے ہیں دریا میں رہنا اور مگر مچھ سے ہیرے لوگوں میں رہنا اور اُن کا درد نہ رکھنا کتنی بڑی حماقت کی بات ہے.بندوں میں رہنا ہو تو اُن کی خدمت کا جذبہ بھی رکھنا چاہیے.اگر تم میں بیواؤں کی خدمت ، غرباء کی امداد ، اور تباہیوں میں تباہ حالوں کی خبر گیری کرنے اور اُن کے لیے چندے دینے کی عادت نہیں پائی جاتی تو تم میں کچھ بھی نہیں پایا جاتا.تمہارا فرض ہے کہ تم مسلمانوں کی ہمدردی کے کاموں میں حصہ لو اور جو تحریکات سارے ملک کے ساتھ تعلق رکھتی ہوں اُن میں بھی شوق سے شامل ہونے کی کوشش کرو.لیکن عموماً یہی ہے دیکھا گیا ہے کہ اگر ملک کی کسی مصیبت کے لیے چندہ کا اعلان ہو ، اگر اسلام کی مخصوص ضرورت کی ہو تو جماعت اُس طرف بڑی توجہ دیتی ہے.اس نقص کی وجہ سے دوسرے لوگوں کو ٹھو کر لگتی ہے
خطبات محمود 137 $1953 اور وہ سمجھتے ہیں کہ ہم ان سے کوئی ہمدردی نہیں رکھتے.مذہب بالکل اور چیز ہے.ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ہم فلاں کے پیچھے نماز نہیں پڑھتے.لیکن اگر کوئی عیسائی ہو اور اُس کے گھر کو آگ لگی جائے اور تم اُس کی مدد نہ کرو تو کیا خدا تعالیٰ تمہیں صرف اس وجہ سے چھوڑ دے گا کہ وہ عیسائی تھا مسلمان نہیں تھا اگر کوئی شخص ڈوب رہا ہو اور تم اُسے بچاؤ نہیں تو کیا خدا تعالیٰ تمہیں اس لیے چھوڑ دے گا کہ وہ عیسائی تھا یا چوہڑا تھا اگر تم ایسے وقت میں ڈوبنے والے کی مدد نہیں کرتے تو ی خدا تعالیٰ تمہیں ضرور پکڑے گا.لیکن اگر مصیبت کے وقت تم دوسرے لوگوں کی مدد کرتے ہو تو ی خدا تعالیٰ بھی تم سے خوش ہوگا اور اُن کا یہ خیال بھی جاتا رہے گا کہ تمہیں اُن سے کوئی ہمدردی نہیں.تم سمجھتے ہو کہ دین کے لیے چندہ دے دیا تو اپنے فرض کو پورا کر دیا.بے شک یہ بات بھی اہم ہے لیکن اس میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ خدا تعالیٰ کی مخلوق سے محبت رکھے بغیر خدا تعالیٰ کی محبت حاصل نہیں ہوسکتی.جو شخص محبت الہی کا دعوی کرتا ہے ضروری ہے کہ اُسے خدا تعالیٰ کے بندوں سے بھی محبت ہو.یہ ایک فطرتی چیز ہے.اگر تمہیں خدا تعالیٰ کی مخلوق کے ساتھ محبت نہیں تو خدا تعالیٰ بھی تم سے محبت نہیں کرے گا.کیونکہ وہ کہے گا کہ یہ لوگ میرے ساتھ تو محبت کا دعوی کرتے ہیں لیکن میرے بچوں کے ساتھ کوئی محبت نہیں کرتے.پس تم اپنی اصلاح کرو اور جہاں تم خدا تعالیٰ سے محبت کرو وہاں مخلوق سے ہے بھی محبت کرو تا تم خدا تعالیٰ اور اُس کے بندوں دونوں کے سامنے سُرخرو ہوسکوں،، :1 متی باب 7 آیت 3 تا 5 (مفہوماً) 2 وَكَانَ يَأْمُرُ اهْلَهُ بِالصَّلوةِ وَالزَّكوة (مريم:56) المصلح 26 اع 26 جون 1953ء)
$1953 138 19 خطبات محمود تم اپنے اور اپنے ہمسائیوں ، دوستوں اور اولادوں کے اندر غور کرنے کی عادت پیدا کرو.قومی ترقی کے لیے یہ انتہائی ضروری ہے.وو (فرموده 12 جون 1953ء بمقام ربوہ) تشہد ، تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا.آج رمضان کا آخری روزہ ہے.گوجنتریوں کے لحاظ سے کل آخری روزہ ہو گا لیکن چاند سے بظاہر آج ہی آخری روزہ معلوم ہوتا ہے.بہر حال آج درس میں قرآن کریم ختم کیا جائے گا اور قرآن کریم کے اختتام پر دعا بھی ہوگی چاہے کل روزہ ہی ہو.کیونکہ امکان کے لحاظ سے ہوسکتا ہے کہ کل عید نہ ہو.پس قرآن کریم کا درس آج ہی ختم کیا جائے گا اور اس کے اختتام پر دعا بھی ہو گی.مجھے سر درد کا دورہ ہے اور درد اتنا شدید ہے کہ معلوم نہیں میں دعا میں آسکتا ہوں ؟ نہیں.اس لیے میں نہایت اختصار کے ساتھ بعض باتیں بیان کر دیتا ہوں.ہمارے ملک میں یہ رواج ہو گیا ہے کہ لوگ سوچتے کم ہیں اور باتیں زیادہ کرتے ہیں.حالانکہ کوئی قوم اُس وقت تک ترقی نہیں کر سکتی جب تک کہ اُس کے افراد زیادہ نہ سوچیں اور باتیں کم نہ کریں.ہم مسلمان اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں لیکن رسول کریم نے کے طریق پر چلنے کی کوشش نہیں کرتے.یہ بھی اس بات کی علامت ہے کہ ہم سوچتے کم ہیں اور باتیں زیادہ کرتے ہیں.حضرت عائشہ نے ایک دفعہ لوگوں کو مسجد میں باتیں کرتے دیکھا تو فرمایا رسول کریم ہے اس طرح باتیں نہیں کیا کرتے تھے.یعنی آر
$1953 139 خطبات محمود معاملات پر غور زیادہ فرمایا کرتے تھے اور باتیں کم کیا کرتے تھے.جس طرح بعض لوگوں کی عادت ہوتی ہے کہ وہ تیزی سے باتیں کرتے چلے جاتے ہیں.آپ کا طریق ایسا نہیں تھا.لیکن آجکل یہ رواج پڑ گیا ہے.کہ لوگ باتیں زیادہ کرتے ہیں اور سوچتے کم ہیں.حالانکہ دن اور قومی ترقی وابستہ ہے سوچنے کے ساتھ.ہمیں بعض دفعہ یورپین لوگوں کی کتابیں پڑھ کر شرم آ جاتی ہے.وہ لوگ اپنی کتابوں میں جو کچھ ہے بیان کرتے ہیں وہ ایسا علم نہیں ہوتا جو سائنس کے اس گہرے مطالعہ کا نتیجہ ہو جو اُن میں پایا جاتا ہے لیکن ہم میں نہیں پایا جاتا.وہ جو کچھ بیان کرتے ہیں وہ ایسا علم نہیں ہوتا جو جغرافیہ کے اُس گہرے مطالعہ کا نتیجہ ہو جو اُن میں پایا جاتا ہے لیکن ہم میں نہیں پایا جاتا.وہ ایسا علم نہیں ہوتا جو حساب کے ایسے گہرے مطالعہ کا نتیجہ ہو جو اُن میں پایا جاتا ہے لیکن ہم میں نہیں پایا جاتا.وہ ایسا علم نہیں ہوتا جو تاریخ کے اس گہرے مطالعہ کا نتیجہ ہو جوان میں پایا جاتا ہے لیکن ہم میں نہیں پایا جاتا.بلکہ جن باتوں سے انہوں نے استنباط کیا ہوتا ہے ہے چاہے وہ جغرافیہ سے متعلق ہوں یا تاریخ سے وہ سائنس سے متعلق ہوں یا حساب سے اُن کا علمی ہمارے پاس بھی موجود ہے.فرق صرف یہ ہے کہ وہ لوگ ہر بات پر فکر کرتے ہیں لیکن ہمارے آدمی ان کی کی پروا نہیں کرتے.وہ گہرے مطالعہ کی وجہ سے ایسے نتائج نکال لیتے ہیں جن نتائج تک ہمارے لوگوں کے ذہن نہیں پہنچتے.مجھے شرم آجاتی ہے یہ دیکھ کر کہ عربی زبان کی باریکیوں ، اس کے محاوروں اور اس کی بناوٹ کے متعلق وہ لوگ ایسی باتیں لکھ جاتے ہیں جو ہمارے علماء اور ادیبوں نے نہیں لکھیں.وہ قرآن کریم کی آیات میں جو الفاظ استعمال ہوتے ہیں ان کی ایسی تحقیق بیان کر جاتے ہیں جو ہمارے مفسرین اور علماء نے بیان نہیں کی ہوتی.مجھے حیرت آتی ہے کہ وہ لوگ دشمن ہوتے ہوئے بھی ان باتوں تک پہنچ گئے اور ہمارے لوگ دوست ہونے کے باوجود ان تک نہیں پہنچتے.اس کی وجہ یہی ہے کہ ہم لوگ غور نہیں ہے کرتے.وہ ہر بات پر غور کرتے ہیں اور پھر اس سے کوئی نہ کوئی نتیجہ اخذ کرتے ہیں.صبح کی نماز کے بعد مجھے سونے کی عادت ہے.اُس وقت چاروں طرف سے قرآن کریم یا کی تلاوت کی آوازیں میرے کان میں آتی ہیں تو میرا دل یہ دیکھ کر خوش ہوتا ہے کہ لوگ قرآن کریم کی تی کثرت سے تلاوت کرتے ہیں.لیکن ساتھ ہی یہ دیکھ کر کوفت بھی ہوتی ہے کہ یہ لوگ طوطے کی طرح پڑھ رہے ہیں اور قرآن کریم کے معانی پر غور نہیں کرتے.اس لیے ان پر علوم قرآنیہ آشکار نہیں ہوتے.لیکن ایک عیسائی سال میں قرآن کریم کا ایک صفحہ ایک دفعہ دیکھتا ہے لیکن اس طرح دیکھتا ہے کہ اس
$1953 140 خطبات محمود سے کوئی نہ کوئی نتیجہ اور مفہوم بھینچ لاتا ہے.لیکن ہمارے لوگ قرآن کریم کے مطالب سے اس طرح گزر جاتے ہیں جیسے چکنے گھڑے پر سے پانی بہہ جاتا ہے اور اس پر کوئی اثر نہیں پڑتا.ایک عیسائی ہے مصنف سال میں صرف ایک صفحہ پڑھ کر بھی اس سے نتیجہ نکال لیتا ہے.چاہے وہ دشمنی سے ہی ایسا کرتا ہے.وہ قرآن کریم پر غور کر کے بعض اعتراض کر دیتا ہے.اگر چہ وہ اعتراض معمولی ہوتے ہیں.لیکن اُن کا جواب دینے کے لیے ہمیں غور کرنا پڑتا ہے.اس سے صاف پتا لگتا ہے کہ اُس نے قرآن کریم کے اُس حصہ کا گہرا مطالعہ کیا ہے.تم شاید دواڑھائی ہزار کی تعداد میں یہاں بیٹھے ہو.تم سے اگر یہ دریافت کیا جائے کہ قرآن کریم کی وہ کونسی آیات ہیں جو بظاہر ایک دوسرے کے خلاف نظر آتی ہیں تو ہے چاہے تم نے 50, 60 دفعہ قرآن کریم پڑھا ہو گا تم کہو گے ہمیں پتا نہیں.حالانکہ تم ان آیات پر غور نہیں کرتے تو یہ کیونکر معلوم کرو گے کہ بظاہر اختلاف نظر آنے والا بہت بڑے پر حکمت مضامین پر دلالت کی کرتا ہے.لیکن ایک عیسائی جس نے دس بارہ صفحے پڑھے ہوں گے فوراً کہنا شروع کر دے گا کہ فلاں آیت فلاں کے خلاف ہے، فلاں آیت فلاں کے خلاف ہے.وہ ایک دفعہ پڑھنے کے باوجود اس سے کوئی نہ کوئی بات نکال لے گا لیکن تم سو دفعہ رٹنے کے بعد بھی اس سے کوئی بات نہیں نکال سکتے.کیونکہ تم قرآن کریم کو محض تبرک کے طور پر پڑھتے ہو.تم کہتے ہو کہ اگر کوئی شخص قرآن کریم کو پچاس دفعہ پڑھے لے تو وہ جنت میں چلا جاتا ہے.لیکن حقیقت یہ ہوتی ہے کہ پچاس دفعہ پڑھنے کے بعد بھی تم کسی نتیجہ پر نہیں پہنچتے.اور ایک معاند عیسائی جس نے ایک دفعہ بھی قرآن کریم نہیں پڑھا ہوتا اس سے کوئی نہ کوئی مطلب نکال لیتا ہے.چاہے وہ دشمنی کے نتیجہ میں ہی ہو.پھر سورتوں کی ترتیب ہے.ہمارے علماء اور مفسرین میں سے جو لوگ چوٹی کے گنے کی جاتے ہیں اور جن کے نام کے آگے ہمارے سر ادب سے جھک جاتے ہیں وہ بھی اس کی ترتیب کو نہیں سمجھ سکے.لیکن جرمن مستشرق نولڈ کے 1 لکھتا ہے کہ میں نے پہلے قرآن کریم کو پڑھا تو یہ سمجھا کہ یہ ایک بے جوڑ سی کتاب ہے.لیکن آخری عمر میں جا کر اس نے یہ لکھا کہ گہرے مطالعہ کے بعد میں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ میں نے جو کچھ لکھا تھا وہ غلط تھا.قرآن کریم کی آیات میں ایک زبردست مفہوم ملتا ہے ہے 2 باوجود اس کے کہ وہ دشمن تھا اور باوجود اس کے کہ وہ کئی بار اس کے خلاف لکھ چکا تھا وہ قرآنی مطالب کی ترتیب کا اقرار کرتا ہے.اُس نے تو ایک آدھ دفعہ قرآن کریم پڑھا ہوگا لیکن تم تو سال میں دس بارہ دفعہ قرآن کریم پڑھ جاتے ہو.رمضان میں ہی قریباً ہر ایک کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ وہ پانچ ، چھ سات یا
$1953 141 خطبات محمود آٹھ دفعہ قرآن کریم پڑھ جائے.اب جتنا قرآن کریم رمضان میں تم پڑھ لیتے ہونو لڈ کے نے ساری عمر میں نہیں پڑھا ہوگا.لیکن وہ اس نتیجہ پر پہنچ گیا کہ جو بات اُس نے پہلے لکھی تھی وہ غلط تھی.قرآن کریم کی میں زبر دست ترتیب موجود ہے.اور پھر اُس نے اپنے اس دعوی کے دلائل بھی دیئے ہیں کہ میں نے جو ی نتیجہ پہلے نکالا تھاوہ غلط تھا.میں نے سمجھا تھا کہ بڑی سورتیں پہلے رکھ دی گئی ہیں اور چھوٹی سورتیں بعد میں.لیکن اب مطالعہ کیا تو معلوم ہوا کہ کئی بڑی سورتیں بعد میں رکھی گئی ہیں اور چھوٹی سورتیں پہلے آگئی ہیں.اور اس کے علاوہ اُس نے اور بھی کئی نتائج نکالے ہیں.پس تم اپنے اندر تبدیلی پیدا کرو.اگر تم نے اپنے نفس کے اندر اور اس دنیا کے اندر تبدیلی پیدا کرنی ہے تو تم اپنے دماغ میں بھی تبدیلی پیدا کرو تم سوچنے کی عادت ڈالو.قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے کا فروں کی یہ علامت بیان فرمائی ہے کہ وہ واقعات سے گزر جاتے ہیں اور انہیں ان کا احساس تک نہیں ہوتا 3 تم بھی واقعات سے یونہی گزر جاتے ہو اور ان سے سبق حاصل نہیں کرتے.یہی واقعات جو پچھلے دنوں ہوئے ہیں.اگر اُن کے متعلق سوال کیا جائے تو تم میں سے سو کے سو آدمی کوئی جواب نہیں دے سکیں گے.حالانکہ ان واقعات سے کئی نتائج نکلتے ہیں.تم اس سے زیادہ کچھ نہیں کہہ سکو گے کہ خدا تعالیٰ کا فضل ہوا کہ ہماری جماعت محفوظ رہی.لیکن ان واقعات کی کے کیا کیا اسباب تھے ؟ کس کس طرح آگ لگائی گئی تھی ؟ کس وجہ سے ان لوگوں میں تنظیم پیدا ہوگئی تھی؟ کس وجہ سے یہ زہر سارے ملک میں پھیل چکا تھا؟ پھر وہ کون کونسے ذرائع تھے جن کی وجہ سے ی یہ فتنہ ختم ہوگیا؟ اور اب کن صورتوں میں ان واقعات کے آئندہ دوبارہ پیدا ہونے کا احتمال ہے؟ یہ ساری باتیں ان واقعات سے نکلتی ہیں.لیکن تم نے ان پر غور نہیں کیا.اگر یہ واقعات دوبارہ رونما ہوئے تو تم کہو گے ہمیں تو ان کا پتا نہیں تھا.حالانکہ تمہیں ان کا پتا ہونا چاہیے تھا.تم پر پانچ چھ دفعہ یہ واقعات گزرچکے ہیں.تمہاری مثال تو شیخ چلی کی سی ہے جس کے متعلق مشہور ہے کہ وہ ایک دفعہ جس ٹہنی پر بیٹھا تھا اُسے ہی کاٹنے لگ گیا.اُس کے پاس سے کسی گزرنے والے نے کہا کہ تم گر جاؤ گے.تم اُسی ٹہنی کو کاٹ رہے ہو جس پر تم بیٹھے ہو شیخ چلی نے کہا بڑا پیغمبر آیا ہے تو.تجھے کیسے پتا لگا کہ میں گر جاؤں گا.حالانکہ یہ تو ی ایک بچہ بھی جانتا ہے کہ جس ٹہنی پر کوئی بیٹھا ہوا گر اُسے کاٹ دیا جائے تو وہ نیچے گر جائے گا.تمہاری حالت بھی وہی ہے.جو شیخ چلی کی تھی.تمہارے سامنے سے ایک چیز گزرتی ہے اور تم کہتے ہو اوہو! یہ کیا ہو گیا.حالانکہ تمہیں اُس کا پہلے سے علم ہوتا ہے.فرق صرف یہ ہوتا ہے کہ تم میں غور کرنے کی عادت نہیں ہوتی.تم
$1953 142 خطبات محمود نے سوچا نہیں ہوتا.تم نے اپنی آنکھیں نہیں کھولی ہوتیں.پس تم ہر بات پر سوچنے کی عادت ڈالو.غوری کرنے سے ہی لوگ فلاسفر اور صوفی بن جاتے ہیں.صوفی اور فلاسفر میں صرف یہ فرق ہے کہ صوفی، مذہب اور خدا تعالیٰ سے تعلق رکھنے والی باتوں کے متعلق غور کرتا ہے اور فلاسفر دنیا کی باتوں میں غور وفکر کرتا ہے.ہوتے دونوں ایک ہی ہیں.صوفی خدا تعالیٰ کی باتوں ، اُس کے قانون ، سنت ، احکام، تقدیروں اور اس کے کلام پر غور کرتا ہے اور فلاسفر دنیا پر غور کرتا ہے.جب کوئی شخص پیدائش عالم پر غور کرتا ہے اور اس سے نتیجہ نکالتا ہے تو وہ فلاسفر کہلاتا ہے.اور جب کوئی شخص شریعت اور قانون شریعت پر غور کرتا ہے تو وہ صوفی کہلاتا ہے.لوگوں نے یونہی صوفیاء کے متعلق بیہودہ باتیں بنالی ہیں.اور کہتے ہیں صوفی وہ ہوتا ہے جو صوف کا کپڑا پہنے.تم اس کے معنے صوف کا کپڑا پہننے والے کے لے لو یا دل صاف رکھنے والے کے.بہر حال جو صوف کے کپڑے پہن لیتا ہے وہ بھی دنیا سے الگ ہو جاتا ہے اور صرف خدا تعالیٰ کی طرف متوجہ ہو جاتا ہے.پس تم کوئی معنے لے لو.اصل بات یہی ہے کہ جو دنیا سے قطع تعلق کر کے خدا تعالیٰ کی باتوں پر غور کرنے لگ جائے وہ صوفی ہے.اور جو شخص قانونِ قدرت ؟ غور کرے وہ فلاسفر ہے.فلاسفر کی زندگی بھی ایسی ہوتی ہے کہ وہ دنیا کی عیاشی میں بہت کم حصہ لیتا ہے.حالانکہ فلاسفروں میں سے کئی ایسے بھی تھے جو خدا تعالیٰ کی ہستی کے منکر تھے.اور بعض ایسے بھی تھے جو کہتے تھے کہ اس دنیا سے جتنا بھی فائدہ اٹھایا جائے کم ہے.لیکن وہ صرف ایک طرف لگ جاتے تھے اور باقی چیزوں سے منہ موڑ لیتے تھے.آج ہی میں اپنی ایک بچی کو ایک قصہ سنا رہا تھا کہ بچپن میں ہم پڑھا کرتے تھے کہ سکندر ایک جگہ دورہ کرتے ہوئے پہنچا.وہاں اُسے ایک فلسفی دیو جانس کلبی 4 کا پتا لگا.اس کا جی چاہا کہ وہ اُس کی زیارت کرے.چنانچہ وہ اس فلسفی کے پاس گیا.وہ دھوپ سینک رہا تھا.سکندر نے خیال کیا کہ فلسفی اس سے خود بات کرے گا اور مجھ سے جو کچھ مانگے گا میں اسے دوں گا.لیکن وہ فلسفی چپ کر کے بیٹھا رہا اور سکندر سے اُس نے کوئی بات نہ کی.تھوڑی دیر خاموش رہنے کے بعد سکندر نے خیال کیا کہ وہ خود کوئی بات شروع کرے.چنانچہ اس نے فلسفی کو مخاطب کر کے کہا میں نے آپ کے متعلق سا تھا اس لیے آپ سے ملنے آ گیا.میری خواہش ہے کہ آپ مجھ سے کچھ مانگیں تو میں آپ کی ضرورت کو پورا کروں.اس فلسفی نے کہا اور تو میری کوئی خواہش نہیں صرف اتنی خواہش ہے کہ میں دھوپ سینک رہا تھا آپ سورج کے
$1953 143 خطبات محمود سامنے آ کر کھڑے ہو گئے آپ میرے آگے سے ہٹ جائیں.چنانچہ سکند رسورج کے آگے سے ہٹ گیا.تو دیکھو! اس فلسفی نے اپنی خواہش کا اظہار کیا تو یہی کیا کہ میں دھوپ سینک رہا ہوں تم آگے سے ہٹ جاؤ.حالانکہ وہ بزرگ نہیں تھا، وہ کوئی خدا رسیدہ نہیں تھا.لیکن وہ دنیا چھوڑ چکا تھا.وہ سوچنے میں لگا ہوا تھا اور دوسری باتوں کے لیے اُس کے پاس کوئی وقت نہیں تھا.غرض چاہے کوئی فلسفی کی سائنس سے متعلق امور پر غور کر رہا ہو.یا حساب میں غور کر رہا ہو عیاشی کی زندگی سے وہ منہ موڑ لے گا.اسی طرح اقلیدس 5 کے متعلق آتا ہے کہ وہ کسی مسئلہ کے متعلق سوچ رہا تھا لیکن پوری بحث اُس کے ذہن میں نہیں آتی تھی.ایک دفعہ وہ نہا رہا تھا کہ سوچتے سوچتے وہ بات حل ہوگئی اور وہ اسی محویت میں ننگا ہی باہر نکل آیا.اور کہنے لگا میں نے پالیا میں نے حل کر لیا.لوگوں نے کہا تھا تمہیں کیا ہو گیا تم تو ننگے ہی باہر پھر رہے ہو؟ اُس نے کہا مجھے تو اس کا خیال ہی نہیں رہا.میں تو اسی خوشی میں کہ میرا مسئلہ حل ہو گیا باہر دوڑ پڑا 6.اب دیکھو اقلیدس قرآن کریم پر غور نہیں کر رہا تھا.وہ تو رات اور انجیل پر غور نہیں کر رہا تھا.وہ صرف ایک دنیوی چیز پر غور کر رہا تھا لیکن اسی غور میں وہ دنيا وَمَا فِيهَا سے غافل ہو گیا.غور و فکر کرنے کا یہ لازمی نتیجہ ہوتا ہے کہ انسان محو ہو جاتا ہے.بعض - لوگ تو اس قدر محو ہو جاتے ہیں کہ اُنہیں اپنے قریب کے ماحول کا بھی پتا نہیں لگتا.پس تم غور کی عادت ڈالو اور جو واقعہ تمہاری نظر کے سامنے آئے یا تمہاری قوم اور ملک سے گزرے اُس پر غور کرو.عیسائی اس بات پر غور کرتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ کے بعد خلافت کے بارہ میں مسلمانوں میں کیوں جھگڑا پیدا ہو گیا لیکن تم اس بات پر غور نہیں کرتے.حالانکہ اُن کو اسلام سے کوئی غرض نہیں ہوتی.تم عیسائیوں کی کتابیں پڑھو تو تمہاری آنکھیں کھل جائیں.انہوں نے غور کر کے اپنی کتابوں میں لکھا ہے کہ اسلام میں تنزل کیوں پیدا ہوا.لیکن تم نے اس پر کبھی غور نہیں کیا کہ کبھی وہ زمانہ تھا کہ تم دنیا کے فاتح تھے لیکن اب تم لکھے ہو گئے ہو.اس کی کیا وجہ ہے؟ تمہارے عالم بھی جاہل ہیں اور جاہل بھی جاہل ہیں.تمہاری حسن ماری گئی ہے ، تمہاری اُمنگیں ماری گئی ہیں.آخر تمہیں کیا ہو گیا ہے کہ تم عضو معطل ہو گئے ہو؟ اس کی وجہ یہی ہے کہ تم سوچتے ہی نہیں ہو.لیکن عیسائی اس بات پر غور کر رہے ہیں ؟ جس کی غرض یہ ہے کہ تم مرو اور تمہارا نام مٹ جائے.وہ تو غور کر رہے ہیں اور تمہیں اس بات پر غور کرنے کا احساس نہیں.یہ کتنے افسوس کی بات ہے.حالانکہ دماغ اُن کو بھی ملا ہے اور تمہیں بھی.وہ امریکہ اور انگلستان میں بیٹھے ان باتوں
$1953 144 خطبات محمود پر غور کر رہے ہیں لیکن تم بے حس ہو کر بیٹھے ہو.یہ ایسی باتیں تھیں کہ اگر تم ان باتوں پر غور کرتے تو اُن سے اچھے نتائج پر پہنچتے کیونکہ اُن کے نتائج میں تعصب پایا جاتا ہے.وہ رنگین عینک سے دیکھتے ہیں لیکن تم انصاف سے ان باتوں پر غور کرو گے.اگر تم غور کرتے تو تمہارے نفس کی بھی آہستہ آہستہ اصلاح ہو جاتی.جیسے کوئی شخص اچانک تمہاری طرف انگلی کرے تو تم ڈر جاتے ہو اور پیچھے ہٹ جاتے ہے ہو، تمہیں یہ فکر ہوتا ہے کہ کہیں تمہیں نقصان نہ پہنچ جائے.اسی طرح اگر تم غور کرتے تو تمہیں معلوم ہوجا تا کہ تمہارا کینہ، کپٹ، ظلم، چوری، حرام خوری ، فریب اور دھوکا بازی تمہاری قوم کو تباہ کر رہی ہے.تم قوموں کی دوڑ میں پیچھے جا رہے ہو.تم پر کسی قوم کو اعتبار نہیں رہا.دنیا میں حکومتیں قائم ہو رہی ہیں لیکن تم حکومت میں آتے ہو تو بے ایمانیاں کرتے ہو.تم بے ایمانوں کی روپے اور سفارش سے مدد کرتے ہو.نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ تمہاری قوم ترقی نہیں کرتی اور دوسری قو میں لازماً تم پر حاکم ہو جاتی ہیں.اگر تم غور کرنے لگ جاؤ گے تو لازماً تمہارا نفس ان باتوں سے انکار کرنے لگے جائیگا.آخر وجہ کیا ہے کہ ایک یورپین اور ایک امریکن بے ایمانی نہیں کرتا لیکن تم میں بے ایمانی پائی جاتی ہے.تم میں علیم قرآن ہے لیکن تم اس پر عمل نہیں کرتے.لیکن ایک یورپین اور ایک امریکن اس کے پر عمل کرتا ہے.وہ قرآن کریم کی خاطر اس پر عمل نہیں کرتا بلکہ اس لئے عمل کرتا ہے کہ اس نے اس پر غور کر لیا ہے.فکر کر لیا کہ اگر میں نے ایسا نہ کیا تو میں بھی تباہ ہو جاؤں گا اور میری قوم بھی تباہی ہو جائے گی.اس نے سوچنے کے بعد یہ نکتہ معلوم کر لیا ہے کہ اخلاق فاضلہ کے بغیر کوئی قوم زندہ نہیں رہ سکتی اور کوئی فرد قوم کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا.پس اُس پر یہ بات حل ہو گئی ہے.لیکن تمو اس بات کا پتا نہیں لگ سکا.تم سمجھتے ہو کہ دس روپے کسی سے لے لئے اور پھر اُسے واپس نہ کئے تو کیا ہوا.لیکن تمہیں پتا نہیں ہوتا کہ دس روپے نہ دینے سے تمہاری قوم دس سال پیچھے جا پڑی ہے.اور جب قوم دس سال پیچھے جا پڑے گی تو تمہاری نسل سو سال پیچھے جا پڑے گی.قوم کی ترقی اخلاق فاضلہ پر منحصر ہے.اور تمہاری ترقی تمہاری قوم کی ترقی پر منحصر ہے.تم اگر سوچتے تو یورپین اور امریکن لوگوں سے زیادہ فائدہ حاصل کر لیتے.لیکن حقیقی نتائج پر غور کرنے اور پھر اُن پر عمل کرنے کا موقع آتا ہے ہی نہیں.تم کام کے متعلق تقریریں کرو گے.لیکن جب کام کا موقع آئے گا تو تم لمبی تان کر سو جاؤ گے.فسادات ہوئے.تمہیں ماریں پڑ رہی تھیں اور مجھے شکایات آ رہی تھیں کہ فلاں شخص گھر چھوڑ کر بھاگ گیا اور اس کی تجارت کو اور اُس کے مکان کو نقصان پہنچ گیا.گویا وہ شخص یہ سمجھتا تھا کہ
$1953 145 خطبات محمود دوسرا شخص اُس کے گھر کی حفاظت کرے گا.یہ کتنی شرم کی بات ہے کہ ایک نیم پاگل کو بھی اگر سمجھاؤ کہ اگر تمہیں اپنی جان بچانے کا شوق ہے تو دوسرے شخص کو اپنی جان بچانے کا خیال کیوں نہ ہوگا.تو وہ یہ بات سمجھ جائے گا.پھر اگر وہ شخص بھی چلا جائے تو تجارت اور مکان کی حفاظت کے لیے وہاں کون رہے گا.یہ سوچنے والی بات تھی.لیکن تمہارا دماغ خراب تھا.تمہیں فکر کرنے کی عادت نہیں ہے تھی.تم نے پاگلوں کی سی حرکت کی.بلکہ ایک پاگل بھی بعض دفعہ ایسی باتیں سوچ لیتا ہے.حضرت خلیفتہ اسیح الاوّل سے ایک دفعہ ایک رشتہ دار نے درد شکم کی شکایت کی.آپ نے اُس کی سے کہا کہ تم ذرا لیٹ جاؤ تا میں معلوم کروں کہ تمہارے پیٹ میں شدہ تو نہیں.جب آپ نے اس کے پیٹ کو انگلی سے دبایا تو وہ ہو ہو کر کے اُٹھ بیٹھا.حضرت خلیفہ اسیح الاوّل حیران ہوئے کہ اسے کیا ہوا.پوچھنے پر اس نے کہا کہ آپ کی توجہ بڑی زبر دست ہے.جب آپ دبانے لگے تھے تو آپ اگر ذرا زیادہ توجہ کرتے تو انگلیاں میرے پیٹ میں چلی جاتیں.غرض اپنے نفع اور نقصان کو سمجنے کا مجنونا نہ قسم کا مادہ اس کے اندر بھی پایا جا تا تھا لیکن تمہاری یہ حالت تھی کہ تم کچلے جارہے تھے، بڑوں اور چھوٹوں میں تمہارے خلاف جوش تھا.لیکن تم میں سے بعض یہ کرتے تھے کہ مکان اور دکان چھوڑ کر بھاگ جاتے تھے اور اُن کے مکان اور اُن کے کاروبار کو نقصان پہنچ جاتا تھا.اگر اس حالت میں کسی کے مکان پر دو سو آدمی حملہ کرنے آجائے تو انہیں روکنے والا کون ہوگا.اگر تم ہمسایہ سے امید رکھو کہ وہ تمہاری جائیداد کی حفاظت کرے تو وہ کہے گا تم بھی چلے گئے تھے اور محض بہانہ بنا کر مجھے اکیلا چھوڑ گئے تھے.میں نے بھی تم کو چھوڑ دیا.آخر کیا وجہ ہے کہ وہ تمہاری حفاظت کرے اور تم اُس کی حفاظت نہ کرو.ایسے ہی لوگوں کے بھاگنے کی وجہ سے اب تک پچاس ہزار مسلمان عورتیں مشرقی پنجاب میں ہیں.اگر مسلمان سوچتے اور دشمن کے مقابلہ میں کھڑے ہو جاتے تو مشرقی پنجاب میں ایک کروڑ مسلمان تھے.ان پر حملہ کرنے کی کسی میں طاقت نہ تھی.اگر دشمن حملہ کرتا تو مہینوں لڑائی ہوتی اور اس سے ی سارے ملکوں میں شور پڑ جاتا اور تمہاری مد کو غیر ملکی فوجیں بھی آجاتیں.اب تو ساری قو میں یہ بجھتی تھیں کہ کچھ لوگ بے شک مارے جارہے ہیں لیکن دوسرے لوگ بھاگ کر دوسرے علاقہ میں جارہے ہیں اور اس کی طرح امن قائم ہو رہا ہے.ہمارا کیا نقصان ہے.امن خراب ہونے کا خطرہ تو تب تھا جب یہ لوگ لڑتے.اب یہ لوگ بھاگ جائیں گے تو امن قائم ہو جائے گا.پس تم اپنے اندر غور کرنے کی عادت پیدا کرو اور اپنے ہمسایوں، دوستوں اور اپنی اولادوں میں
$1953 146 خطبات محمود لمصلہ بھی غور کی عادت پیدا کرو.تا تم میں سے ہر شخص فلاسفر بن جائے اور اس پر جو سوال ہواس کا وہ معقول جواب دے.اب تو تم قریب کے سوالوں کا بھی جواب نہیں دے سکتے.اس لیے تم دنیا کی نظروں میں بھی ذلیل ہو اور خدا تعالیٰ کی نظروں میں بھی ذلیل ہو." (اصلح یکم جولائی 1953ء) 1: نولڈ کے: (THEODOR NOLDEKE)(1930-1836) ایک ممتاز جرمن مستشرق جو اپنے وقت میں سامی زبانوں کا سب سے بڑاما ہر تسلیم کیا جاتا تھا.سامی زبانوں کے علاوہ اس نے ایران کی قدیم تاریخ اور اسلامی مذہب اور تاریخ کے متعلق بھی محققانہ کتابیں لکھیں.اس نے اپنی عمر کا بیشتر حصہ سٹر اس برگ (STRASSBURG) کی یونیورسٹی میں ایک نامور پروفیسر کی حیثیت سے گزارا اور بہت سے لائق شاگرد پیدا کئے.اسکی تالیف میں سے تاریخ القرآن خاص طور پر قابلِ ذکر ہے.اس نے شاھنامہ فردوسی پر ایک مطول مقالہ لکھا تھا جسے پروفیسر محمد اقبال نے اردو میں منتقل کر دیا تھا.اردو جامع انسائیکلو پیڈیا جلد 2 صفحہ 1759 مطبوعہ لاہور 1988 ء ) 2: انسائیکلو پیڈیا برٹینیکا زیر لفظ قرآن 3 وَكَايْنَ مِنْ آيَةٍ فِي السَّمَوتِ وَالْأَرْضِ يَمُرُّونَ عَلَيْهَا وَهُمْ عَنْهَا مُعْرِضُونَ.(يوسف: 106) 4 دیوجانس: (Diogenes) تقریبا 412-323 ق م یونانی کلبی فلسفی.وہ ایتھنز میں رہتا تھا جہاں اس نے ایک ٹب میں رہ کر سادہ زندگی بسر کرنے کے عقیدے پر زور دیا.جب سکندر اعظم نے از راہ اخلاق پوچھا کہ میں تمہارے لئے کیا کر سکتا ہوں ؟ تو اس فلسفی نے جواب دیا.” آپ میرے لئے فقط دھوپ چھوڑ دیجیے سکندر کا سایہ اُس وقت دھوپ روک رہا تھا.کہتے ہیں کہ دیو جانس روز روشن میں لائین لے کر انسان ( یعنی صحیح انسانی نیکیوں کا مظہر ) کی تلاش میں نکلا کرتا تھا.(اردو جامع انسائیکلو پیڈیا جلد 1 صفحہ 614 مطبوعہ لاہور 1987ء) اقلیدس (EUCLID) یونانی ماہر ریاضیات جس نے تقریبا 330 ق م کا زمانہ پایا.اپنی تصنیف ELEMENTS (مبادی) کی وجہ سے مشہور ہے جو موضوعہ اصولوں ، قاعدوں اور اثباتی و عملی مسئلوں کا مجموعہ ہے.یہ اقلیدسی ھند سے (EUCLIDEAN GEOMETRY) کی بنیاد اور نظر یہ اعداد میں اردو جامع انسائیکلو پیڈیا جلد 1 صفحہ 114 مطبوعہ لاہور 1987 ء) بہت اہم ہے.Wikipedia The Free Encyclopedia Underword"Archimedes":6 کے مطابق یہ واقعہ ارشمیدس (Archimedes) کا ہے.
$1953 147 20 20 خطبات محمود اگر تم اپنے اُن اعمال کو درست کر لو جو دوسروں کو نظر آتے ہیں تو تمہارے باطنی اعمال آپ ہی آپ درست ہو جائیں گے (فرموده 19 جون 1953ء بمقام ربوہ ) تشہد ،تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا.سردیاں آتی ہیں اور گزر جاتی ہیں.گرمیاں آتی ہیں اور گزر جاتی ہیں.بہار کا موسم آتا ہے اور گزر جاتا ہے.خزاں کا موسم آتا ہے اور گزر جاتا ہے.کبھی چھوٹے دن آ جاتے ہیں اور کبھی بڑے دن آجاتے ہیں.کبھی چھوٹی راتیں آجاتی ہیں اور کبھی بڑی راتیں آجاتی ہیں.مگر سورج وہی رہتا ہے جو سردیوں میں تھا ، جو گرمیوں میں تھا، جو بہار میں تھا یا خزاں میں تھا.چاند وہی رہتا ہے جو گرمیوں میں تھا، جو سردیوں میں تھا ، جو بہار میں تھا اور جو خزاں میں تھا.اس لیے گرمی اور سردی اور بہار اور خزاں کوئی حقیقت نہیں رکھتے.لیکن سورج اور چاند بڑی حقیقت رکھتے ہیں.تم گرمی اور سردی کی سے وسطی علاقے اور شمالی اور جنوبی علاقے میں جا کر بچ سکتے ہو تم پہاڑوں اور میدانی علاقوں میں جاتے کر ان سے بیچ سکتے ہو.گرمیوں میں تم پہاڑ پر چلے جاؤ تو گرمیوں سے محفوظ رہ سکتے ہو اور سردیوں میں میدانی علاقوں میں چلے جاؤ تو سردیوں سے محفوظ رہ سکتے ہو.رات اور دن کی بڑائی اور چھوٹائی سے ہے بھی تم دنیا کے جنوبی اور شمالی کونوں پر جا کر بچ سکتے ہو.مگر سورج اور چاند کے اثرات کے تم ہر جگہ
$1953 148 خطبات محمود حتاج بھی ہو اور جہاں کہیں تم جاؤ تم ان اثرات سے بچ بھی نہیں سکتے.اسی طرح دنیا میں تکلیفوں کی اور دکھوں کے زمانے آتے ہیں.جہالتوں اور علم کے زمانے آتے ہیں.حکومتوں اور غلامی کے زمانے آتے ہیں.مخالفتوں اور صلح کے زمانے آتے ہیں.اور یہ چیز میں بدلتی چلی جاتی ہیں.لیکن انسان کا خدا نہیں بدلتا.وہ جس طرح ہے اُسی طرح چلتا چلا جاتا ہے.پس انسان سمجھ سکتا ہے کہ الہی تعلق اور الہی ضرورت ان چیزوں سے مقدم ہے جو بدلنے کی والی ہیں.جس طرح سورج اور چاند مقدم ہیں گرمی اور سردی سے ، دن اور رات سے.اسی طرح مصیبتیں اور دُکھ ، خوشیاں اور غمیاں ، راحتیں اور رنج ، ترقیاں اور تنزل، یہ سب چیزیں ماتحت ہیں.یہ سب چیزیں تابع ہیں خدا تعالیٰ کی ذات کے.جس طرح انسان دن اور رات ، سردی اور گرمی کو تو بدل سکتا ہے مگر وہ سورج کو نہیں بدل سکتا.اسی طرح انسان خوشی اور رنج ، تکلیف اور سکھ کو کی بدل سکتا ہے لیکن خدا تعالیٰ کے تعلق کو نہیں بدل سکتا.لیکن افسوس ہے کہ لوگ ان حکمتوں کو نظر انداز کر دیتے ہیں.اور وہ اُن چیزوں کے پیچھے جو بدل سکتی ہیں یا بدلی جاسکتی ہیں اور جو عارضی اور ہے غیر مستقل ہیں لگے رہتے ہیں.اور خدا تعالیٰ اور خدا تعالیٰ سے تعلق رکھنے والی چیزوں مثلاً راستی ، دیانت محنت اور پستی کو چھوڑ دیتے ہیں.اور جھوٹ ، بے ایمانی ، کینہ، کیپٹ ، دھوکا بازی، اور فریب کو لے لیتے ہیں.اور پھر کہتے ہیں ان سے ضرورت پوری ہوتی ہے.حالانکہ وہ ضرورت بھی عارضی ہوتی ہے اور وہ پورا ہونا بھی عارضی ہوتا ہے.حضرت خلیفہ المسیح الاوّل فرمایا کرتے تھے کہ اُن کے گاؤں میں کوئی عورت تھی جو بیوہ تھی اور سارا دن محنت کر کے وہ اپنا پیٹ پالتی تھی.وہ دن بھر سُوت کا تی تھی اور پھر اُس سوت کو بیچ کہ اُس کی قیمت سے گزارہ کرتی اور کچھ رقم جمع بھی کرتی رہتی.اُسے سونے کے کڑوں کا بڑا شوق تھا.وہ دس بارہ سال تک رقم جمع کرتی رہی اور اُس رقم سے اُس نے کڑے بنوائے.ایک دن ایک چور اُس کے گھر آیا اور اُس نے زبردستی سے اور اُسے ڈانٹ ڈپٹ کر سونے کے کڑے اُتر والئے.چونکہ وہ غریب عورت تھی اور اُس نے بڑی محنت سے ایک رقم جمع کر کے سونے کے کڑے بنوائے تھے.اس لیے کڑے اترواتے وقت بڑی چھینا جھپٹی ہوئی.اُس نے لازماً چور کے مقابلہ میں زور لگایا اور چور کو کڑے اُتروانے میں دیر لگی اس لیے اُسے چور کی شکل کی شناخت زیادہ ہوگئی.اور
$1953 149 خطبات محمود چور کا چہرہ اس کے دماغ پر عکس ہو گیا.اس واقعہ پر کئی سال گزر گئے.ایک دن اتفاقاً وہ عورت گھر سے باہر گلی میں بیٹھ کر چرخہ کات رہی تھی اور دوسری بعض عورتیں بھی اُس کے پاس بیٹھی باتیں کر رہی تھیں کہ وہی چور پاس سے گزرا.وہ بالکل نگ دھڑنگ تھا.اس کے جسم پر سوائے لنگوٹی کے کوئی کپڑا نہیں تھا.رفاہت 1 اور آرام کے آثار اُس کے جسم پر نہیں تھے.جب وہ چور اُس عورت کی کے پاس سے گزرا تو اُسے اُس کی شکل یاد آ گئی.چور چند ہی قدم آگے گزرا تھا کہ اُس عورت نے اُسے آواز دی اور کہا بھائی ! میری بات سننا.چور کو سونے کے کڑوں کا واقعہ یاد تھا اس لیے جب اُس عورت نے آواز دی تو وہ دوڑا.اُس عورت نے پھر آواز دی اور کہا میں تمہیں کچھ نہیں کہتی.میں تمہیں صرف یہ بتانا چاہتی ہوں کہ میرے ہاتھ میں پھر سونے کے کڑے ہیں اور تمہاری وہی لنگوٹی کی لنگوٹی ہے.پس یہ چیزیں آتی ہیں اور بدل جاتی ہیں.پھر نامعلوم انسان کیوں ان چیزوں کی وجہ سے خدا تعالیٰ کے احکام کو چھوڑ دیتا ہے اور بد دیانتی ، فریب اور دھوکا بازی میں لگ جاتا ہے.میں نے پچھلے کئی خطبوں میں ربوہ والوں کو اس طرف توجہ دلائی تھی کہ وہ پہلے اپنی اصلاح کی کریں اور پھر دوسروں کی اصلاح کریں.میں نہیں جانتا کہ میرے ان خطبوں کا ربوہ کے رہنے کی والوں پر کوئی اثر ہوتا ہے یا نہیں.اور ان کے نتیجہ میں ربوہ والوں نے اپنی کوئی اصلاح کی ہے یہ نہیں.بظاہر کوئی اثر نہیں ہوا.اور میرے پاس اس قسم کی کوئی رپورٹیں نہیں آئیں جن سے معلوم ہو کہ میرے خطبوں کے بعد یہاں کے رہنے والوں کے اندر کوئی احساس پیدا ہوا ہے یا کوئی تغیر پیدا ہوا ہے.پس میرا اثر یہی ہے کہ میری بات اُسی طرح گزرگئی ہے جیسے چکنے گھڑے پر سے پانی گزری جاتا ہے.حالانکہ تم اخلاق فاضلہ کے بغیر کوئی چیز دوسرے لوگوں کے سامنے پیش نہیں کر سکتے.صرف اخلاق فاضلہ ہی ایک ایسی چیز ہیں جو دنیا دیکھ سکتی ہے.بہت سی نیکیاں ایسی ہیں جو دوسرے لوگ نہیں دیکھ سکتے.جیسے بعض مادی چیزیں ایسی ہیں جو لوگ نہیں دیکھ سکتے.مثلاً گرمی ہے.گرمی کو ی جسم محسوس کرتا ہے لیکن آنکھ اسے دیکھ نہیں سکتی.خوشبو ہے اسے ناک سونگھتا ہے لیکن کان اسے سن نہیں سکتے.آواز ہے کان اسے سنتے ہیں لیکن ناک اسے سونگھتا نہیں.ہاتھ اُسے چھوتا نہیں ، آنکھ اسے دیکھتی نہیں.غرض مختلف چیزیں ہیں جو مختلف حواس سے معلوم کی جاسکتی ہیں.اسی طرح انسانی اعمال اور عقائد میں سے عقائد کوکوئی شخص دیکھ نہیں سکتا.جب اپنے عقائد کی عینک سے وہ کسی چیز کو
$1953 150 خطبات محمود دیکھتا ہے تو کہتا ہے یہ بات ٹھیک ہے.لیکن دوسری باتوں کو جو اُس کے عقائد کے خلاف ہوتی ہیں وہ غلط کہہ دیتا ہے.مثلاً ایک یہودی کو تم کہو کہ ہم کو رنہیں کھاتے تو وہ کہے گا مسلمان بڑے اچھے ہیں.ایک ہندو کو اگر کوئی شخص کہے کہ وہ گائے کا احترم کرتا ہے تو وہ کہے گا یہ بڑا اچھا آدمی ہے ہے.حالانکہ وہ اور دوسرے لوگ سور کے گوشت کی حقیقی حرمت کو سمجھ نہیں سکتے.خدا تعالیٰ نے کہا ہے کہ سور کا گوشت حرام ہے اس لیے ہم اسے مان لیتے ہیں.اس سے زیادہ اس کی کوئی حقیقت کی نہیں سینکڑوں سالوں کے بعد اب ڈاکٹروں نے یہ بات نکالی ہے کہ سور کا گوشت کھانے کی وجہ سے انتڑیوں میں ایک قسم کا کیڑا پیدا ہو جاتا ہے جس سے انسانی صحت خراب ہو جاتی ہے.یا ایک لمبے عرصہ کے بعد ہم نے بعض اخلاقی باتیں معلوم کی ہیں کہ سور میں بعض خرابیاں پائی جاتی ہیں جو لازماً گوشت کھانے والوں میں بھی سرایت کر جاتی ہیں.لیکن یہ ایسی دلیلیں نہیں کہ انہیں ہر شخص مان لے.ان باتوں سے ہزاروں لاکھوں لوگ اختلاف رکھتے ہیں اور انہیں محض وہم سمجھتے ہیں.وہی ڈاکٹر جنہوں نے بڑی تحقیقات کے بعد یہ لکھا ہے کہ سور کا گوشت کھانے کی وجہ سے انتریوں کی میں ایک قسم کا کیڑا پیدا ہو جاتا ہے اور اس سے انسانی صحت خراب ہو جاتی ہے صبح و شام سؤر کا گوشت کھاتے ہیں اور کہتے ہیں یہ بات درست ہے کہ اس کے گوشت سے انسانی صحت خراب ہوتی ہے.لیکن وہ کونسی چیز ہے جس سے انسان کو ضر ر نہیں پہنچتا.اگر کسی چیز سے کسی انسان کو ضرر پہنچتا ہے تو کیا ہم اپنی غذا اس خیال سے چھوڑ دیں؟ شراب کو لے لو.شراب کے متعلق ہزاروں کتابیں لکھی گئی ہیں لیکن لکھنے والے خود شراب پیتے ہیں.وہ کہتے ہیں کہ ہم نے تو وہ وحشیوں کے متعلق لکھا تھا.وہ کثرت سے شراب پی لیتے ہیں جس کی وجہ سے انہیں نقصان ہوتا ہے.ویسے اگر ہم شراب بالکل استعمال نہ کریں تو ہم میں طاقت باقی نہیں رہتی.مسلمانوں کو لے لو.ان کی بھی یہی حالت ہے.ایک لارڈ مسلمان ہوا اور لوگوں نے اُس سے کہا کہ سور کا گوشت اور شراب حرام ہے.تو وہ کہنے لگا محمد رسول اللہ ہے گرم ملک کے رہنے والے تھے اس لیے آپ نے شراب اور سور کے گوشت کو حرام قرار دے دیا.اگر آپ سرد ملک کے ہوتے تو آپ خود کہتے کہ شراب اور سؤر استعمال کرو.اب دیکھو شراب اور سور کے خلاف دلیل خود ایک مسلمان انگریز کی سمجھ میں بھی نہ آسکی.
$1953 151 خطبات محمود تم دنیا کے کسی کنارا پر چلے جاؤ تم جاپان میں چلے جاؤ.چین میں چلے جاؤ.یورپ میں چلے جاؤ.ایشیا کے تمام ممالک میں چلے جاؤ.عیسائیوں میں چلے جاؤ.ہندوؤں میں چلے جاؤ.بدھوں میں چلے جاؤ سکھوں میں چلے جاؤ.اور کہو سچ بولنا اچھا ہے یا جھوٹ بولنا اچھا ہے؟ ہر ایک شخص بلا استثناء یہ کہے گا کہ سچ بولنا اچھا ہے.تم اگر کہو گے کہ ظلم کرنا اچھا ہے یا انصاف کرنا اچھا ہے؟ تو چاہے کوئی شخص ظالم ہو یا منصف ، وہ یہی کہے گا کہ انصاف کرنا اچھا ہے.تم کسی ایسی مجلس میں چلے جاؤ جس میں دو چار چور بھی بیٹھے ہوں اور دریافت کرو کہ چوری کرنا اچھی چیز ہے یا بری ؟ تو جولوگ چور ہوں گے وہ سب سے اونچی آواز میں کہیں گے کہ چوری بُری چیز ہے.اور ی باقی لوگ بھی اُسے بُرا کہیں گے.پس کوئی چیز انسان کو نظر آتی ہے اور کوئی نہیں.اگر تم نظر نہ آنے والی چیزوں پر انحصار کرتے ہو تو تم بے وقوف ہو.ہمیں لوگوں کے سامنے نظر آنے والی چیزیں پیش کرنی چاہئیں.جب وہ انہیں دیکھیں گے تو وہ ہمارے قریب آجائیں گے.لیکن اگر تم نظر نہ آنے والی چیزوں پر ای زور دو گے تو گو میری سمجھ میں یہ بات نہیں آسکتی کہ تم دن کو تو دودھ میں پانی ملا کر بیچو اور رات کو تہجد پڑھنے لگ جاؤ ، یا دن کے وقت تو تم انگلی مار کر گاہک کو سیر کی بجائے 15 چھٹانک دیتے ہو اور تی رات کو تہجد پڑھتے ہو جیے.جو شخص موٹی موٹی چیزوں کو نہیں چھوڑ سکتا اُس کے متعلق یہ خیال کر لینا کہ وہ عبادت میں خاص لذت محسوس کرتا ہے یا دعاؤں میں اُسے خاص توجہ پیدا ہوتی ہے غلط ہے.لیکن فرض کرو کہ وہ عبادت میں خاص لذت بھی محسوس کرتا ہے تو تم غور کرو کہ یہ بات بتانے کے بعد کتنے عیسائی، ہندو، یہودی اور سکھ اس سے متاثر ہوں گے؟ کتنے دہریے اس سے متاثر ہوں گے؟ لیکن سچ بولنے ، دیانت سے کام کرنے ، ٹھیک تول کر دینے اور لوٹ مار نہ کرنے سے کتنے لوگ ہمارے قریب آ سکتے ہیں؟ تمہارا دعائیں کرنا اور تہجد پڑھنا دوسروں کو تو کیا احمدیوں کو بھی متاثر نہیں کرتا.ان میں سے بعض کہیں گے یہ شخص بڑا بے ایمان ہے یہ دکھاوے کے طور پر تہجد پڑھتا ہے.لیکن اگر کوئی سچ بولے، لین دین میں دھوکا نہ کرے فریب نہ کرے،انصاف سے کام لے لطیفہ یہ ہے کہ اس خطبہ کے بعد منتظم بازار نے رپورٹ کی کہ ربوہ کے کھانڈ کے ڈپو میں سیر تولنے کے لیے ترازو اسی طرح رکھا گیا تھا کہ پندرہ چھٹانک میں سیر معلوم ہو.گرفت پر کہا گیا کہ ہمیں گورنمنٹ سے کم وزنی کھا نڈ ملاتی ہے.
$1953 152 خطبات محمود تو اُس کے متعلق کوئی شخص یہ نہیں کہہ سکتا کہ اس نے یہ کام محض دکھاوے کے طور پر کئے ہیں.تم دنیا میں لاکھوں لاکھ ایسے آدمی دیکھو گے جو کسی کو نماز پڑھتا دیکھ کر یہ کہہ دیں گے کہ یہ شخص محض دکھاوے کے طور پر ایسا کر رہا ہے.لیکن ایسا شخص ایک نہ ملے گا جو ایسے شخص کو جو دیانت سے کام لے کہے کہ یہ دھوکا سے کام لے رہا ہے.کیونکہ یہ دونوں باتیں متضاد ہیں اور کسی صورت میں بھی اکٹھی نہیں ہوسکتیں.میں جب خلیفہ ہوا ہوں.اُس وقت میری عمر چھوٹی تھی.غیر مبائع طعنے دیتے تھے کہ انہوں نے ایک بچے کو اپنا لیڈر بنالیا ہے.اُس وقت میری نسبت ایسا کہنا کوئی مستبعد امر نہ تھا.لیکن اب میری خلافت پر 39 سال گزر چکے ہیں.اب میں کہہ سکتا ہوں جیسے حضرت داؤد علیہ السلام نے کہا تھا کہ میں نے اپنی عمر میں یہ امر نہیں دیکھا کہ کوئی شخص سچ بولتا ہو تو دھوکا دینے کے لیے بولتا نی ہو.وہ ٹھگی سے بچتا ہو تو دھوکا دینے کے لیے بچتا ہو.کیونکہ سچ دھوکا دینے کے لیے بولا ہی نہیں کی جاتا.دھوکا، ٹھگی کرنے کے لیے کیا جاتا ہے.تم ہزاروں نہیں ، لاکھوں لوگ ایسے دیکھو گے جو کہیں گے فلاں شخص نماز دھوکا دینے کے لیے پڑھتا ہے، وہ لین دین میں دھوکا کرتا ہے ، فریب کرتا ہے ہے، ہر بات میں جھوٹ بولتا ہے.لیکن تم چوہڑوں اور چماروں سے بھی یہ بات نہیں سنو گے کہ فلاں شخص ایمانداری کرتا ہے تو دھوکا دینے کے لیے کرتا ہے.فلاں شخص انصاف کرتا ہے تو دھوکا دینے کے لیے کرتا ہے.فلاں سچ بولتا ہے تو دھوکا دینے کے لیے بولتا ہے.جاہل سے جاہل آدمی کی بلکہ ایک نیم پاگل سے بھی یہ بات نہیں سنو گے.کیونکہ یہ چیز نظر آتی ہے اور دوسری چیز نظر نہیں آتی.پس تم اپنے اندر تغیر پیدا کرو.ورنہ یہ مت سمجھو کہ دیکھنے والے تمہیں دیکھتے نہیں اور فیصلہ کرنے والے تمہارے متعلق کوئی فیصلہ نہیں کرتے.پھر جس کے سامنے تم نے جانا ہے وہ تو تمہیں دیکھتا ہے اور اُس نے تمہارے متعلق فیصلہ کرنا ہے.تمہیں تو اس دنیا کے اندھے ، نیم عقل والے اور دہریے بھی دیکھتے ہیں.اور جس امر کو ایک دہریہ ، نیم پاگل اور جاہل مطلق انسان بھی دیکھتا ہو اس کے متعلق تمہارا یہ خیال کر لینا کہ اُسے خدا تعالیٰ نہیں دیکھتا تمہارا پاگل پن نہیں تو اور کیا ہے.پس تم اپنے اندر تغیر پیدا کرو اور دوسروں کو نظر آنے والے اعمال درست کرو تا تمہارے باطنی اعمال آپ ہی آپ درست ہو جائیں.اس طرح دیکھنے والے کو یہ موقع نہیں ملے گا کہ وہ کہے کہ یہ
$1953 153 خطبات محمود لوگ دکھاوے سے ایسا کرتے ہیں.اگر یہ سودا سلف میں دیانتداری سے کام لے گا تو دوسرا شخص چپ ہو جائے گا.کیونکہ دنیا میں کوئی پاگل سے پاگل انسان بھی ایسا نہیں جو یہ کہے کہ فلاں شخص دکھاوے کی دیانتداری کرتا ہے فلاں شخص سچ بولتا ہے تو دکھاوے کا سچ بولتا ہے کیونکہ سچ بولنے اور دیانتداری کو دکھاوے سے کوئی تعلق نہیں.ہاں لوگ اس طرح کہہ سکتے ہیں کہ یہ لوگ موقع پر جھوٹ بول لیتے ہیں.لیکن یہ کوئی نہیں کہے گا کہ یہ سچ بولتا ہے لیکن دکھاوے کے لیے بولتا ہے.ہاں یہ کہے گا کہ فلاں شخص دو تین پیسے کے لیے بے ایمانی نہیں کرتا ہاں ہزاروں کے لیے بے ایمانی کر لیتا ہے.مگر یہ نہیں کہے گا کہ فلاں دیانتداری سے کام لیتا ہے تو دھوکا دینے کے لیے ایسا کرتا ہے.پس تم اپنے اُن اعمال کی درستی کرو جو دوسروں کو نظر آتے ہیں تا اُن اعمال کی درستی ہو جائے جو نظر نہیں آتے.تا تم اُس ذات کے ساتھ صلح کر لو جو تمہارے ظاہر و باطن کو دیکھتی ہے." خطبہ ثانیہ میں فرمایا " نماز جمعہ کے بعد میں بعض جنازے پڑھاؤں گا.1.ایس.کے داؤد صاحب 1943ء میں بیعت کی تھی.مخلص احمدی تھے 21 جنوری 1953 ء کوفوت ہوئے.2.عبدالحمید صاحب جو عبدالرشید صاحب ایم.اے کے چچا تھے فوت ہو گئے ہیں.پرانے احمدی تھے.ان کے بہت سے بھائی حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر ابتدائی ایمان لانے والے تھے منشی عبدالعزیز صاحب بھی اسی خاندان میں سے تھے.فاطمہ بی بی صاحبہ جو مولوی خلیل الدین احمد صاحب، پدن پیدا اُڑیسہ کی بچی تھیں فوت ہو گئی ہیں.مرحومہ مویہ تھی اور تحریک جدید میں شروع سے حصہ لیتی آرہی تھیں.جنازہ صرف چار احمد یوں نے پڑھا.4.چودھری علی محمد صاحب کچھ عرصہ بیمار رہ کر فوت ہو گئے ہیں.مرحوم نے 1934ء میں بیعت کی تھی.کوٹلی گوجراں متصل کا ہنوں وال کے رہنے والے تھے.مخلص احمدی اور پابند صوم وصلوٰۃ تھے.تہجد گزار بھی تھے.چک نمبر 344 نز د دنیا پور میں وفات پائی.جنازہ میں دو تین آدمی شریک ہوئے.5.سید قمر الحق صاحب دفتر وصیت ربوہ کی بڑی ہمشیرہ اپنے مکان کے تالاب میں ڈوب کر فوت ہو گئیں.نزدیک کوئی جماعت نہیں تھی.صرف گھر کے چند افراد نے جنازہ پڑھا.6 عبدالعزیز صاحب دفتر محاسب اطلاع دیتے ہیں کہ ان کے چھوٹے بھائی عبد الحکیم صاحب ! گاؤں چاہ اسرا تحصیل لودھراں ضلع ملتان میں فوت ہو گئے ہیں.نزدیک کی جماعتوں احمدی دوست جنازہ میں شریک نہ ہو سکے.صرف میں نے اکیلے جنازہ پڑھا.ނ
$1953 154 خطبات محمود 7 نصیر الحق صاحب جو ہمارے مختار شیخ نور احمد صاحب مرحوم کے نواسے تھے حرکت قلب بند ہو جانے کی وجہ سے کراچی میں فوت ہو گئے ہیں..چودھری باغ دین صاحب چک 86 گ.ب ضلع لائکپور میں فوت ہو گئے ہیں.صرف چار آدمی جنازہ میں شریک ہوئے.9.سید محمد شاہ صاحب پنڈی چری ضلع شیخو پورہ میں فوت ہو گئے ہیں.مخلص احمدی تھے.جنازہ میں زیادہ احمدی شامل نہ ہو سکے.10.حافظ عبدالرحمن صاحب چک 45 میں غریب الوطنی کی حالت میں فوت ہو گئے.جنازہ میں بہت کم لوگ شامل ہوئے.11.حافظ عبدالعزیز صاحب نون حلال پور گاڑی کے حادثہ میں فوت ہو گئے ہیں.جنازہ میں بہت کم لوگ شریک ہوئے.12.پائلٹ آفیسر سلیم الدین احمد صاحب ولد شیخ رفیع الدین احمد صاحب ریٹائر ڈ ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ پولیس 11 مئی کو ہوائی جہاز کے حادثہ میں فوت ہو گئے ہیں.مرحوم موصی بھی تھے اور مخلص احمدی تھے.جنازہ میں بہت کم لوگ شریک ہوئے.13 علی محمد صاحب جو جڑ یا خان صاحب پریذیڈنٹ جماعت احمد یہ باڈہ سندھ کے بیٹے تھے.ریل گاڑی کے حادثہ سے فوت ہو گئے ہیں.14 - سید محمد شاء اللہ صاحب تاندلیا نوالہ کی لڑکی فوت ہو گئی ہیں.جنازہ میں بہت کم لوگ شامل ہوئے.15.مرزا اکبر الدین احمد صاحب جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پرانے صحابی تھے اور لکھنو کے رہنے والے تھے لکھنو میں فوت ہو گئے ہیں.16 - محمد مشتاق صاحب ہاشمی ٹریکٹر کے حادثہ میں فوت ہو گئے ہیں.مرحوم نو جوان تھے.تجہیز وتکفین پر کوئی بھائی نہ پہنچ سکا.نماز جمعہ کے بعد میں ان سب کا جنازہ پڑھاؤں گا.(المصلح 5 جولائی 1953 ء )) ء) 1: رفاہت خوشی.بھلائی.بہتری آرام (فیروز للغات اردو جامع فیروز سنز لاہور )
$1953 155 21 خطبات محمود وو مذہب کی اصل غرض اعمال کی اصلاح ہے اور یہ اصلاح کوشش اور محنت کے بغیر کبھی نہیں ہو سکتی (فرموده 26 جون 1953 ء بمقام ربوہ ) تشہد ، تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا.میں گزشتہ کئی ہفتوں سے ربوہ کے لوگوں کو خصوصاً اور تمام احمد یہ جماعت کو عموماً اس کی طرف توجہ دلا رہا ہوں کہ مذہب کی آخر کوئی غرض ہوتی ہے.مذہب اصلاح نفس کے لیے آتا ہے.عقائد پر بیوقوف لوگ زیادہ لڑتے ہیں حالانکہ عقائد کا مان لینا کوئی خرچ نہیں چاہتا.لوگ بڑی سے بڑی بات مان لیتے ہیں اور بڑی سے بڑی بات کا انکار کر دیتے ہیں.مگر اس پر ان کا کوئی خرچ نہیں آتا.ایسے لوگ دنیا میں موجود ہیں جو ذرا سے اشتعال دلانے پر کہ دیتے ہیں.ہم نہیں ہے جانتے خدا تعالی کیا چیز ہے، ہم نہیں جانتے رسول کیا چیز ہے، ہم نہیں جانتے قرآن کریم کیا چیز ہے.پھر وہ لوگ بھی موجود ہیں، جو معمولی سا لالچ دلانے پر اپنا مذہب تبدیل کرنے پر تیار ہو جاتے ہیں.میرے پاس اس قسم کے اکثر خطوط آتے رہتے ہیں کہ احمدیت بڑی اچھی چیز ہے، میں اس پر ایمان لا چکا ہوں.مگر آپ جانتے ہیں کہ خدا تعالیٰ نے انسان کے ساتھ کھانا پینا بھی
$1953 156 خطبات محمود لگایا ہوا ہے اگر میں احمدی ہو جاؤں تو آپ کیا دیں گے؟ ایسا شخص دوسروں کے ورغلانے سے ؟ اپنے باطنی گند کی وجہ سے یہ خیال کر لیتا ہے کہ اگر مجھے کچھ پیسے مل جائیں تو میں اپنا مذ ہب بدل لوں.پس دنیا میں چھوٹی چھوٹی چیزوں کے لیے بعض بڑی بڑی چیزیں چھوڑ دی جاتی ہیں.اسی طرح بعض بڑی بڑی چیزیں کسی قربانی کے بغیر لوگ قبول کر لیتے ہیں.مثلاً خدا تعالیٰ کی ہستی کو لے لو.خدا تعالیٰ کی ہستی کتنی بڑی ہے.لیکن اگر ہم سوچیں کہ خدا ہے یا خدا ایک ہے تو اس میں ہاتھ ہلانے ، زبان ہلانے یا روپیہ خرچ کرنے کی ضرورت پیش نہیں آتی.یونہی دل میں خیال آیا اور ی مان لیا.لیکن اس کے مقابلہ میں پانی پینے کے لیے کتنی حرکت کرنی پڑتی ہے.اگر کسی شخص نے پانی پینا ہے اور اسکے پاس اس کا کوئی نوکر یا رشتہ دار موجود نہیں تو اُسے کو زہ پانی کا ہاتھ میں پکڑنا پڑتا ہے ہے.پھر کھڑا ہو کر اسے اٹھانا پڑتا ہے، پھر مٹکے سے بھرنا پڑتا ہے، پھر پانی ہونٹوں تک اٹھا کر لے جانا پڑتا ہے، پھر اُسے ہونٹوں سے لگا نا پڑتا ہے، پھر ہونٹوں میں کشش پیدا کرنی پڑتی ہے تا کہ وہ ای پانی کو منہ کے اندر لے جائیں، پھر گلے میں حرکت پیدا کرنی پڑتی ہے کہ وہ پانی کو معدہ میں لے جائے.اتنی کوشش کے بعد ہم ایک کوزہ پانی پیتے ہیں.لیکن خدا تعالیٰ کو خالق و مالک ماننے میں ہمیں اس کا ہزارواں حصہ بھی حرکت نہیں کرنی پڑتی.پس عقائد کا ماننا اور انہیں چھوڑ نا کوئی کوشش اور محنت نہیں چاہتا.وہ لوگ بیوقوف ہیں جو کہتے ہیں کہ ہم نے بعض عقائد کو مان لیا ہے ہمیں عمل کی ضرورت نہیں.عقائد سے بڑی چیز بھی دنیا میں کوئی نہیں لیکن ماننے کے لحاظ سے ان سے چھوٹی چیز بھی دنیا میں کوئی نہیں.کیونکہ ان کے لیے کوئی قربانی نہیں کرنی پڑتی.بے شک جو لوگ ان عقائد کو نہیں مانتے اُن تک پہنچنے کی ضرورت ہوتی ہے.لیکن یہ ساری کوششیں محض اس لیے ہوتی ہیں کہ انسان صداقت کو ماننے کے لیے تیار نہیں ہوتا.اگر انسان صداقت کو ماننے کے لئے تیار ہو جائے تو ی اس کے لیے کسی مبلغ اور سمجھانے والے کی ضرورت نہیں ہوتی.وہ خود ہی صداقت پر ایمان لا سکتا ہے ہے.لیکن عمل کا حصہ چاہے کتنا چھوٹا ہو اس کے لیے کوشش اور محنت کی ضرورت ہوتی ہے اور بعض دفعہ دوسرے شخص سے مدد بھی لینی پڑتی ہے.مثلاً ایک شخص بیمار ہے تو اسے ایک کوزہ پانی کے لیے بھی دوسرے ے شخص کی مدد کی ضرورت ہے.یا اگر وہ پیشاب اور پاخانہ کرنا چاہتا ہے اور وہ چل کر دوسری جگہ نہیں جاسکتا تو اُسے پیشاب اور پاخانہ کرنے کے لیے ایک یا دو آدمیوں کے سہارے کی
$1953 157 خطبات محمود ضرورت ہوگی.لیکن خدا کو ایک ماننے کے لیے کسی سہارے اور قربانی کی ضرورت نہیں ہوتی.دنیا کو جو چیز نظر آتی ہے وہ تمہارے اعمال ہیں.اگر تم میں دیانت نہیں پائی جاتی کسی کی چیز کو واپس دینے میں تم بہانے بناتے ہو، کسی کو سودا دینے لگتے ہو تو کم تول کر دیتے ہو.تو تمہیں ہر شخص دیکھتا ہے اور تمہارے متعلق فیصلہ کرتا ہے کہ تمہارے اندرونے کی کیا حالت ہے.دنیا کے لیے تم کس حد تک مفید ہو یا مضر ہو.آخر دوہی صورتیں ہیں.کچھ لوگ ایسے ہیں جو کہتے ہیں کہ سارا جھگڑا پریٹ کا ہے.اگر روٹی مل جائے تو سب کچھ ہے.مثلاً کمیونسٹ ہیں انہوں نے یہ فیصلہ کر دیا ہے کہ ہماری اصل غرض پیٹ کا بھرنا ہے.ہمیں اس سے کوئی غرض نہیں کہ خدا ہے ، نبی ہے یا کوئی کتاب ہے.ان کے نزدیک عقائد ، خوبصورت نظریات کے سوا اور کچھ نہیں.ان کے نزدیک سب فضول باتیں ہیں.وہ محنت کر کے دو پیسے کما لیتے ہیں اور پیٹ بھر لیتے ہیں.یہی ان کی سب سے بڑی غرض ہے.دوسرے لوگ جو مذہب کو حقیقت دیتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ اگر خدا تعالیٰ ہے تو تھی ہمیں اُس نے کیا دیا ہے.بے شک ہمیں خدا تعالیٰ کی ہستی کی ضرورت ہے.لیکن سوال یہ ہے کہ اگر خدا تعالیٰ موجود ہے تو اس نے ہمیں کیا فائدہ پہنچایا ہے.ہم نے دوسروں سے لڑائیاں کیں، چند عقائد بنالئے اور دوسروں سے جھگڑے مول لئے لیکن اس کا فائدہ کچھ بھی نہ ہوا.وہی دھوکا بازی ،لڑائیاں ، بغض، کینے، ماردھاڑ ، فریب اور فساد دُنیا میں موجود ہیں.پھر ہمیں خدا تعالیٰ کا کیا فائدہ.اگر خدا ہوتا تو ہماری ان باتوں کا کوئی نتیجہ نکلتا.ٹھنڈے پانی کے قطرے سے جسم ٹھٹھر جاتا ہے لیکن خدا تعالیٰ پر ایمان لانے سے کوئی نتیجہ نہیں نکلا.اگر کسی کو کھوٹا پیسہ بھی مل جائے تو وہ اُس سے بھی ایک چھٹانک چنے خرید لیتا ہے لیکن خدا پر ایمان لانے سے اتنا فائدہ بھی لوگوں کو حاصل نہیں ہوتا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ میں ایک شخص تھا.اُس کے دماغ میں کوئی نقص پیدا ہو گیا تھا.انسان جس قوم سے تعلق رکھتا ہوا گر وہ پاگل ہو جائے تو وہ اُسی قوم کی باتوں کی سی باتیں سوچتا ہے.مثلاً جس قوم میں الہام پر زور ہو اُس کا فرد پاگل ہونے پر الہامی باتیں ہی سوچتا ہے.احمد یہ جماعت میں میں نے دیکھا ہے کہ جس کسی کا دماغ خراب ہو جاتا ہے وہ نبی اور ولی بن جاتا ہے.ہمارے مدرسہ میں حضرت خلیفہ اسیح الاوّل کے زمانہ میں ایک چپڑاسی تھا جس کا نام
$1953 158 خطبات محمود محمد بخش تھا.اس کے دماغ میں نقص پیدا ہوا تو اس نے کہنا شروع کر دیا کہ مجھے الہام ہوتا ہے.اس نے سکول کے لڑکوں سے کہا کہ مجھے مان لو.لڑکوں نے جواب دیا کہ ہم تمہیں کیوں مان لیں؟ وہ کہنے ے لگا تم نے مرزا صاحب کو بھی مانا ہے مجھے بھی مان لو.بعض لڑکوں نے کہا ہم نے مرزا صاحب کو اس لیے مانا ہے کہ آپ کے بعض نشانات دیکھے ہیں.اُس نے کہا میرے پاس بھی نشانات ہیں لڑ کے باریکیاں نہیں سمجھتے.ایک لڑکے نے کہا مرزا صاحب انگریزی نہیں جانتے لیکن آپ کو انگریزی میں الہامات ہوتے ہیں.اس نے کہا مجھے بھی انگریزی میں الہام ہوتے ہیں.حالانکہ میں انگریزی نہیں جانتا.لڑکوں نے کہا اچھا کوئی الہام سناؤ.اِس پر اُس نے کہا مجھے الہام ہوا ہے " آئی وٹ وٹ" what what ) اُس نے " آئی " (1) اور " وٹ " (What) کے الفاظ سنے تھے.لیکن اُسے یہ پتا نہیں تھا کہ ان الفاظ کے معنے کیا ہیں.لڑکوں نے اُس کا نام ہی آئی وٹ وٹ رکھا ہے دیا.پس قدرتی طور پر ہر ایک شخص یہ سوچتا ہے کہ اگر ہمیں خدا ملا ہے تو ہمیں کیا فائدہ پہنچا ہے.وہ شخص پاگل تھا اُس نے کہا مجھے خدا مل گیا ہے.لیکن ایک بچے کو بھی اتنی عقل ہوتی ہے کہ اگر خدا ملے تو اُس سے کچھ فائد ہ ہونا چاہیے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کے زمانہ میں ایک احمدی تھا وہ پاگل ہو گیا.اُس نے صوفیاء کی باتیں سنی ہوئی تھیں.اس لیے جب اُس کا دماغ خراب ہوا تو اُس نے یہی باتیں کہنی شروع کر دیں کہ میں نبی ہوں، ولی ہوں، میں عرش پر نمازیں پڑھتا ہوں.وہ قادیان آگیا ت تھا.اُس کے دماغ پر یہ اثر تھا کہ وہ بڑا آدمی بن گیا ہے.خدا تعالیٰ اُسے موسیٰ اور عیسیٰ کہتا ہے اس لیے وہ تھی مسجد میں نہیں آتا تھا.مہمان خانہ میں ہی رہتا تھا.لوگوں نے اُسے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی خدمت میں پیش کیا اور عرض کیا کہ یہ شخص بیمار ہو گیا ہے اور کہتا ہے خدا تعالیٰ مجھے کہتا ہے کہ تو محمدی بن گیا ہے، تو موسیٰ بن گیا ہے، تو عیسی بن گیا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام نے فرمایا میاں! اگر خدا تعالیٰ کی طرف سے تمہیں الہام ہوتا ہے کہ تم محمد بن گئے ہو تو کیا وہ محمد بیت والی برکات بھی تمہیں دیتا ہے؟ یا جب وہ کہتا ہے کہ تم موسیٰ بن گئے ہو یا عیسی بن گئے ہو تو جو باتیں حضرت موسیٰ اور حضرت عیسی علیہما السلام کو لی تھیں خدا تعالیٰ وہ باتیں تمہیں بھی دیتا ہے؟ وہ کہنے لگا خدا تعالیٰ دیتا تو کچھ نہیں صرف یہ کہتا ہے کہ تم محمد بن گئے ہو تم موسیٰ بن گئے ہو تم عیسی بن گئے ہو.
$1953 159 خطبات محمود آپ نے فرمایا یہ شیطان ہے جو تمہیں ایسی باتیں کہتا ہے.جب خدا تعالیٰ کسی کو محمد کہتا ہے تو وہ محمد کی برکات بھی اُسے دیتا ہے.وہ اگر کسی کو موسیٰ اور عیسیٰ کہتا ہے تو موسیٰ اور عیسی والی برکات بھی اُسے دیتا ہے.پس جب خدا تعالیٰ کہتا ہے کہ تم مومن ہو تو وہ مومن والی برکات بھی تمہیں دیتا ہوگا.صرف یہ کہنا کہ تم نے محمد رسول اللہ ﷺ کو مان لیا ہے.اس سے تمہیں یا دنیا کوکوئی فائدہ نہیں پہنچتا.محمد رسول اللہ ہے جس کام کے لیے اس دنیا میں تشریف لائے تھے اُس سے اگر تم نے فائدہ نہیں اٹھایا، تمہیں سچ بولنے کی عادت نہیں تم میں دیانت نہیں پائی جاتی تمہیں محنت کی عادت نہیں تم میں حسن سلوک اور مہربانی کی عادت نہیں ، تم میں مظلوموں اور بیواؤں کی مدد کرنے کی عادت نہیں تو تم نے خدا تعالیٰ کو مان کر کیا پایا.ابھی میں نے بازار کے انتظام کے لیے ایک افسر مقرر کیا ہے.جب وہ کھانڈ کے ڈپو پر گیا تو اُس نے دیکھا کہ ڈپو ہولڈر کا سیر کا بٹہ پندرہ چھٹانک کا ہے.جب اُسے کہا گیا کہ تم کھانڈ کم تول کر کیوں دیتے ہو؟ تو اُس نے کہا ہمیں کم ملتی ہے اس لیے ہم دوسروں کو کم دیتے ہیں.حالانکہ جہاں تک میں نے تحقیقات کی ہے مجھے معلوم ہوا ہے کہ گورنمنٹ سٹاک زیادہ دیتی ہے تا نقصان پورا ہو سکے.اسی طرح برف والوں کو بلایا گیا تو ایک دکاندار نے کہا.ہمیں نو روپے میں چار من برف ملتی ہے.پھر نقصان بھی ہو جاتا ہے اس لیے نقصان ملا کر ہمیں دو من برف دس روپے میں پڑتی ہے.اس لیے ربوہ میں تین آنے فی سیر بیچنے میں ہمیں نہایت قلیل ملتا ہے.چار آنہ فی سیر بیچیں تب بھی زیادہ نفع نہیں ہوتا.حالانکہ نقصان کے بعد بھی اگر انہیں پچاس فیصدی نفع مل جائے تو انہیں کیا چاہیے.دوسرے لوگوں کو روپیہ کے بعد ایک آنہ یا دو آنے ملتے ہیں.اگر روپیہ کے بعد ایک آنہ ملتا ہے تو انہیں سولہواں حصہ نفع ملتا ہے.اور اگر دو آنے ملتے ہیں تو آٹھواں حصہ نفع ملتا ہے.لیکن انہیں ایک روپیہ کے بعد ایک آنہ ملنے کی بجائے ایک آنہ پر دو پیسے مل جائیں تو اور کیا چاہیے.لیکن اس دکاندار نے پھر بھی یہی کہا کہ ہم پر ظلم کیا جارہا ہے.ہمیں دوآنہ فی سیر برف گھر پڑتی ہے.اور تین آنہ فی سیر بیچنے کو کہا جاتا ہے.یہ کتنا بڑا ظلم ہے جو ہم پر کیا جارہا ہے.میں نے کہا دکاندار سے کہا جائے کہ وہ تمام لوگوں سے یہ واقعہ بیان کرے کہ سارے نقصان ملا کر مجھے دوآنہ فی سیر برف گھر پڑتی ہے اور مجھے تین آنہ فی سیر بیچنے کو کہا جاتا ہے اور ی
$1953 160 خطبات محمود اس طرح مجھ پر ظلم کیا جاتا ہے.وہ اتنا بے حیا تھا کہ بازار میں یہ بات کہتا رہا.اب تم سمجھ سکتے ہو کہ ایسا بے حیا انسان بھی کہیں مل سکتا ہے.اگر اُس میں انسانیت ہوتی تو وہ ایسا کبھی نہ کرتا اور یہاں سے چلا جا تا کہ میری کمینگی اور میر اظلم گھل گیا ہے.میرے نزدیک ان لوگوں نے یہ بھی جھوٹ بولا ہے کہ نو روپے میں چارمن برف ملتی ہے.ایک احمد یہ کمپنی کو گوجرہ میں برف کی ایک مشین ملی ہے.وہاں سے رپورٹ ملی ہے کہ ایک من برف کا ریٹ 1 روپے 12 آنے مقرر ہے اور جب تحقیقات کرائی گئی تو چنیوٹ سے یہ پتا لگا ہے کہ چھ روپے کو چارمن کا ایک بلاک ملتا ہے.گویا گوجرہ میں 1 روپیہ 12 آنے کو ایک من برف ملتی ہے اور چنیوٹ میں 1 روپیہ 8 آنے کو.اگر یہ بات درست ہے اور 1 روپیہ 8 آنے ہی نقصان لگا لو.تو یہ تین روپے فی من ہو گئے گویا سارے خرچ لگانے کے بعد بھی قریباً 1 آنہ 3 پائی فی سیر پڑی.اب دکاندار کو 3 آنے فی سیر کے حساب سے بیچنے کو کہا گیا تو اُس پر کون سا ظلم ہوا.حقیقت یہ ہے کہ جب تک یہ لوگ گاہکوں کی کھال نہ کھینچ لیں اور اُن کے کپڑے نہ اُتار لیں ان کے کا پیٹ نہیں بھرتا.ایسا ظالم اگر کہے کہ میں ایمان لے آیا ہوں تو اس سے کیا بنتا ہے.وہ ایمان کا بے شک دعویٰ کرتار ہے لیکن احمدیت تو الگ رہی ایک ہندو سکھ اور ایک دہر یہ خاندان سے تعلق رکھنے والا آدمی بھی اتنا ظالم نہیں ہوتا.پس تمہارا کام ہے کہ تم اس بے ایمانی کو دور کرو.یہ نہیں کہ تم صرف عمل کراؤ کیونکہ ہوسکتا ہے کہ ظاہر صاف ہو اور باطن گندار ہے.طاقت کے استعمال سے مکمل اصلاح نہیں ہوتی.طاقت سے ظاہر کی اصلاح ہو جاتی ہے لیکن دل کا گند باقی رہتا ہے.اس لیے جب بھی تمہاری طاقت کم ہو جائے گی.تو یہ لوگ بگڑ جائیں گے.تمہارا کام ہے کہ تم اخلاق - تدبیر سے اور اپنی نفرت سے یہ ثابت کر دو کہ تم اس بے ایمانی کو برداشت نہیں کر سکتے.جب تمہارے ہمسایہ سے بے ایمانی نکل جائے گی تو تم محفوظ ہو جاؤ گے.صحابہ کی دیانت کو دیکھو.ایک صحابی دوسرے صحابی کے پاس گھوڑا بیچنے گئے اور کہا میرا گھوڑا مثلاً دو ہزار روپے کا ہے.لیکن دوسرے صحابی نے کہا میں اسے تین ہزار روپے میں خریدنا چاہتا ہوں.میں گھوڑوں کا کاروبار کرتا ہوں.تمہیں پتا نہیں کہ یہ گھوڑا کتنی قیمت کا ہے.میں جانتا ہوں یہ گھوڑا تین ہزار روپے کا ہے.گھوڑے کے مالک نے کہا میں نے اس کی قیمت دو ہزار روپے تھے سے،
$1953 161 خطبات محمود لگائی ہے میں اس سے زیادہ نہیں لوں گا 1.تو دیکھو یہ کتنی شاندارلڑائی تھی.ایک کہتا ہے کہ میں اس گھوڑے کے دو ہزار روپے لوں گا لیکن دوسرا کہتا ہے نہیں میں اس کے تین ہزار روپے دوں گا.لیکن تمہارا یہ حال ہے کہ دو آنے کی چیز کی قیمت تین آنے مقرر کی جائے تو پھر بھی اُسے ظلم کہتے ہو.اگر تم مہاجر ہو تو کیا ہوا.کیا دوسرے لوگ مہاجر نہیں ؟ بسا اوقات دوسرا آدمی تم سے ނ زیادہ مصیبت میں ہوتا ہے.لیکن تمہاری یہ حالت ہے کہ لُوٹ کھسوٹ کی وجہ سے تم دوسروں نے زیادہ کمارہے ہو.میں جانتا ہوں کہ یہاں کے بعض دکانداروں کی حالت قادیان سے اچھی ہے.پس میں دکانداروں سے کہتا ہوں کہ تم یہ سب بے ایمانیاں ترک کر دو.اور دوسروں کو یہ نصیحت کرتا ہوں کہ تم یہ بے ایمانیاں ترک کراؤ.برف ایسی چیز ہے کہ اگر تم میں حسن ہوتی تو دکانداری دو دن میں سیدھے ہو جاتے.آخر وہ علاقے بھی ہیں جہاں برف نہیں ملتی.اگر تم ایک دن اکٹھے ہو کر یہ فیصلے کر لیتے کہ ہم برف نہیں لیں گے تو جود کا ندار اب دو آنے فی سیر بیچنے کو بھی ظلم کہہ رہے ہیں وہ تمہارے سامنے ہاتھ جوڑتے اور کہتے تم ڈیڑھ آنہ فی سیر لے لو.ہمیں ایک غیر مبائع دوستی نے کہا ہے کہ اگر مجھے دکان کی اجازت دی جائے تو میں پانچ پیسے فی سیر کے حساب سے برف بیچوں گا.میں نے کہا یہ لوگ مہاجر ہیں پہلے انہیں سمجھا لو.اگر انہوں نے اپنی اصلاح نہ کی تو ہم مجبور ہوکر ایسا انتظام کر لیں گے پھر ہم دیکھیں گے کہ برف پانچ پیسے فی سیر بکتی ہے کہ نہیں.جب تک تم اپنے نفس کی اصلاح نہیں کر لیتے ، جب تک دیکھنے والا یہ نہ کہے کہ ان لوگوں کے ایمان میں اور ہمارے ایمان میں فرق ہے، جب تک وہ یہ نہ کہے کہ خدا تعالیٰ اور اس کے رسول پر ایمان لا کر ان لوگوں کے عمل میں بھی نیکی پیدا ہوگئی ہے، جب تک وہ یہ نہ کہے کہ قرآن کریم کو ماننے کے نتیجہ میں ان لوگوں کے کاروبار میں بھی دیانت آگئی ہے.اُس وقت تک تمہارا ایمان اور تمہارے عقائد چیتھڑوں اور کاغذ کے ٹکڑوں کے برابر بھی نہیں بلکہ ان سے بھی زیادہ بے کار چیزیں ہیں.“ لمصلح 12 جولائی 1953ء) 1: المعجم الكبير حافظ ابو القاسم سلیمان بن احمد الطبرانی جلد 2 صفحہ 334 ، 335 حدیث نمبر 2395.دارالاحياء التراث العربي.
$1953 162 22 22 خطبات محمود جس کام کے کرنے کا خدا تعالیٰ ارادہ کر چکا ہو اُس کو نیا کی کوئی طاقت نہیں روک سکتی.(فرموده 3 جولائی 1953ء بمقام ناصر آبادسندھ ) تشہد ، تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا." کل دوپہر سے مجھے سردرد کے دورہ کی شکایت ہے جو برابر چلتا چلا جا رہا ہے.غالباً اس کی وجہ وہ ٹھنڈی ہوا ہے جو یہاں رات کے وقت چلتی ہے.چنانچہ رات کو درد بڑھ جانے کی وجہ سے مجھے کمرہ کے اندر جانا پڑا.مگر باوجود اس کے کہ دواؤں سے درمیان میں کچھ افاقہ سامحسوس ہوتا ہے پھر دوبارہ درد شروع ہو جاتا ہے.جس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ خالی درد کا ہی دورہ نہیں ہے بلکہ انفلوئنزا کا بھی حملہ ہے.جس کی وجہ سے گلے پر نزلہ گر رہا ہے اور آواز پوری طرح نہیں نکلتی.اسی طرح کانوں میں بھی درد اور خارش ہے.اس وجہ سے میں آج زیادہ بول نہیں سکتا.اس وقت جو احباب یہاں آئے ہوئے ہیں ان میں سے اکثر وہ ہیں جو گزشتہ فتنہ کے ایام میں سندھ میں ہی رہے ہیں.پنجاب جانے کا ان کو موقع نہیں ملا.اور کچھ وہ لوگ ہیں جو میرے ساتھ آئے ہیں اور انہوں نے اُن حالات کو اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے جو پنجاب میں گزرے ہیں.اُن دنوں گورنمنٹ کی پالیسی یہ تھی کہ حالات کو چھپایا جائے اور دبایا جائے اور لوگوں پر بہ
$1953 163 خطبات محمود ظاہر کیا جائے کہ ہر طرح امن ہے.اور اس میں وہ معذور تھی کیونکہ پولیٹیکل اصول کے مطابق تسلیم کیا گیا ہے کہ اگر فتنہ و فساد کی خبریں پھیلیں تو لوگوں میں اور بھی جوش پھیل جاتا ہے.پس گورنمنٹ کے اکثر حکام کی یہ کارروائی کسی بدنیتی پر مبنی نہیں تھی بلکہ مصلحت اس بات کا تقاضا کرتی تھی.لیکن اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ باہر کی جماعتیں مرکز اور پنجاب کے حالات سے ناواقف رہیں.یہاں تک کہ جب حکومت نے دیکھا کہ خطوں کے ذریعہ ناظر دعوۃ و تبلیغ باہر کی جماعتوں کو اپنے حالات سے اطلاع دیتے ہیں تو انہوں نے اُن خطوط کو بھی کسی قانونی عذر کے ماتحت روک دیا.اُن دنوں پنجاب کے اکثر اضلاع کے احمدیوں کی حالت ایسی ہی تھی جیسے لومڑ کا شکار کرنے کے لئے شکاری کتے اس کے پیچھے پیچھے دوڑے پھرتے ہیں اور کو مڑ اپنی جان بچانے کے لیے کبھی ادھر بھاگتا ہے اور کبھی اُدھر بھاگتا ہے.اُن ایام میں لا ریاں کھڑی کر کر کے احمدیوں کو نکالا جا تا ہے اور انہیں پیٹا جاتا.اسی طرح زنجیریں کھینچ کر گاڑیوں کو روک لیا جا تا اور پھر تلاشی لی جاتی کہ گاڑی میں کوئی احمدی تو نہیں.اور اگر کوئی نظر آتا تو اُسے مارا پیٹا جاتا.اسی طرح ہزاروں ہزار کے جتھے بن کر دیہات میں نکل جاتے اور گاؤں کے دس دس پندرہ پندرہ احمدیوں پر حملہ کر دیتے.یا اگر ایک گھر ہی کسی احمدی کا ہوتا تو اُسی گھر پر حملہ کر دیتے.مال اسباب ٹوٹ لیتے ، احمدیوں کو مارتے ہے پیٹتے.اور بعض شہروں میں احمدیوں کے گھروں کو آگ بھی لگائی گئی.بیسیوں جگہوں پر احمدیوں کے لیے پانی روک دیا گیا اور تین تین چار چار دن تک وہ ایسی حالت میں رہے کہ انہیں پانی کا ایک قطرہ تک بھی نہیں مل سکا.اسی طرح بعض جگہ ہفتہ ہفتہ دو دو ہفتے وہ بازار سے سودا بھی نہیں خرید سکے.بیرونی جماعتیں ان حالات سے ناواقف تھیں وہ گورنمنٹ کے اعلانوں کو سن کر کہ ہر طرح امن ہے اور خیریت ہے خوش ہو جاتی تھیں.حالانکہ جس وقت خیریت کے اعلان ہوتے تھے وہی سب سے زیادہ احمدیوں کے لیے خطرے کا وقت ہوتا تھا.لیکن جیسا کہ میں نے بتایا ہے کہ حکومت کے اکثر افسروں کی نیت نیک تھی اور وہ سمجھتے تھے کہ اگر ملک میں یہ خبریں پھیلیں کہ لوگ احمدیوں پر سختی کی کر رہے ہیں تو دوسری جگہوں کے لوگ بھی ان پر سختی کرنے لگ جائیں گے.اس لیے امن کے قیام کے لیے ضروری ہے کہ متواتر یہ اعلان کیسے جائیں کہ سب جگہ امن ہے تا کہ شورش دب جائے اور لوگ سمجھ جائیں کہ جب سب جگہ امن ہے تو ہمیں فساد کرنے کی کیا ضرورت ہے.پس ہم ان
$1953 164 خطبات محمود میں سے اکثر کی نیت پر شبہ نہیں کرتے.ہمیں سیاسیات کا علم ہے اور ہم نے تاریخ کا بھی مطالعہ کیا ہوا ہے.ہم جانتے ہیں کہ تمام حکومتیں ایسا ہی کرتی ہیں.کیونکہ علم النفس کے ماتحت لوگوں کے جوش اُسی وقت ٹھنڈے ہوتے ہیں جب انہیں معلوم ہو کہ سب جگہ امن ہے.اگر انہیں پتا لگے کہ بعض ا مقامات پر امن نہیں تو وہ خود بھی امن سے نہیں بیٹھتے.کیونکہ سمجھتے ہیں کہ اگر ہم نے کوئی شورش نہ کی تو لوگ ہمیں طعنہ دیں گے کہ تم نے تو کچھ بھی نہیں کیا.اسی وجہ سے حکومتوں کا عام دستور یہی ہے کہ ابتدا میں جو خبر میں نکل جائیں سو نکل جائیں بعد میں وہ یہ پروپیگنڈا شروع کر دیتی ہیں کہ سب جگہ امن قائم ہو گیا ہے.تا کہ ایک جگہ کے لوگ دوسری جگہوں کی خبریں سن کر بیٹھ جائیں اور فتنہ وفساد کو کی ترک کر دیں.بہر حال ان حالات میں سے دو اڑھائی ماہ کے قریب ہماری جماعت گزری.بسا اوقات ہمیں بیرونی جماعتوں کی طرف سے پچٹھیاں پہنچتی تھیں کہ اَلْحَمْدُ لِلہ پنجاب میں امن قائم ہو گیا ہے اور جماعت کے خلاف شورش دب گئی ہے.مگر اُسی وقت ہمیں پنجاب کی مختلف اطراف سے یہ اطلاعات پہنچ رہی ہوتی تھیں کہ فلاں کا گھر لوٹ لیا گیا ہے فلاں جگہ عورتوں اور بچوں پر حملے کئے جار ہے ہیں.اور انہیں بچا بچا کر محفوظ مقامات پر پہنچایا جارہا ہے، فلاں کا گھر جلا دیا گیا ہے.مگر باہر کی جماعتوں کی طرف سے مبارک باد اور خوشی کے خطوط پہنچ رہے ہوتے تھے کہ الحَمدُ لِلہ گورنمنٹ کے اعلانات سے معلوم ہوتا ہے کہ اب ہر طرح خیریت ہے.پس آپ لوگ کی اس مصیبت کا اندازہ نہیں لگا سکتے جس میں سے پنجاب کے لوگوں کو گزرنا پڑا.کیونکہ سندھ ، سرحد اور بنگال میں اُن فسادات کا ہزارواں حصہ بھی ظاہر نہیں ہوا جو پنجاب میں ظاہر ہوئے.اس وجہ سے یہاں کے لوگ امن میں رہے اور خیریت سے رہے.لیکن باوجود اس کے کہ ان فسادات نے پنجاب میں انتہائی نازک صورت اختیار کر لی تھی وہ تغیرات جو گورنمنٹ میں پیدا ہوئے اُن کی وجہ سے بھی اور کچھ اس وجہ سے بھی کہ حکام کا ایک حصہ ایسا تھا جو دیانت دار تھا اور اپنے فرائض کو ادا کرنا چاہتا تھا یہ فتنہ آخر دب گیا.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اس فتنہ کی روح ابھی باقی ہے.اور اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ اگر ی آئندہ فتنہ اٹھے تو وہ شاید پنجاب کی بجائے سندھ میں پیدا ہو یا بنگال میں پیدا ہو یا ممکن ہے پنجاب
$1953 165 خطبات محمود میں ہی پیدا ہو کیونکہ ہمیں نظر یہ آتا ہے کہ اس دفعہ جو فتنہ اٹھا ہے یہ خالص مذہبی نہیں تھا بلکہ سیاسی تھا.ہمارے ملک میں حکومت لیگ کی ہے اور لیگ کی حکومت جب سے پاکستان بنا ہے برا بر چلتی ہے چلی جارہی ہے اور بظاہر آثار ایسے نظر آتے ہیں کہ ایک لمبے عرصہ تک مسلم لیگ کی حکومت ہی قائم رہے گی.لیکن بدقسمی سے لیگ کے کارکنوں کا ایک حصہ جس نے پاکستان بننے کے وقت بڑی قربانی کی تھی اپنے دوسرے ساتھیوں سے اختلاف ہو جانے کی وجہ سے لیگ سے علیحدہ ہونے پر مجبور ہو گیا.مگر چونکہ اُس وقت نیا نیا پاکستان بنا تھا ملک کا بیشتر حصہ یہ چاہتا تھا کہ ہمارے ملک میں زیادہ پارٹیاں نہ بنیں اور نظم و نسق ایک ہی ہاتھ میں رہے.چنانچہ باوجود اس کے کہ یہ جُدا ہونے والے مشہور آدمی تھے اور انہیں خیال تھا کہ اکثریت اُن کا ساتھ دے گی لوگوں نے ان کا ساتھ نہ دیا.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ان کی قربانیاں بڑی تھیں ، وہ ملک کے خیر خواہ بھی تھے ، انہیں لوگوں میں رسوخ بھی حاصل تھا اور وہ سمجھتے تھے کہ اگر ہم لیگ سے الگ ہو گئے تو لیگ کا اکثر حصہ ہمارے ساتھ شامل ہو جائے گا.لیکن لوگوں کے دلوں میں جو یہ احساس پیدا ہو چکا تھا کہ زمانہ نازک ہے ہمیں اس نازک زمانہ میں اپنے اندر تفرقہ پیدا نہیں کرنا چاہیے یہ اتنا مضبوط ثابت ہوا کہ وہ لیگ سے باہر نکل کر ایک عضو بے کار بن کر رہ گئے اور اکثریت نے ان کا ساتھ چھوڑ دیا.جب انہوں نے دیکھا کہ ہم سیاسیات کے ذریعہ لیگ کو شکست نہیں دے سکے.بوجہ اس کے کہ مسلمانوں میں اتحاد کا جذ بہ موجود ہے اور وہ اپنی حکومت کے قائم کرنے میں ناکام رہے ہیں تو انہوں نے سوچا کہ اب ہمیں کوئی اور تدبیر اختیار کرنی چاہیے.اور ایسے رستہ سے حکومت کے اندر داخل ہونے کی کوشش کرنی چاہیے جس میں عوام کی تائید ہمارے ساتھ شامل ہو.چنانچہ اس غرض کے لیے انہوں نے علماء کو بچنا تا کہ لوگوں کو یہ محسوس نہ ہو کہ یہ حکومت اور لیگ کی مخالفت ہے بلکہ وہ یہ سمجھیں کہ یہ مخالفت صرف مذہب اور لا مذہبی کی ہے اور اس غفلت اور جہالت میں وہ اپنے اصل مؤقف کو چھوڑ دیں.اور ایسے مواقع پیدا کر دیں جو بعد میں ان لوگوں کے لیے حکومت سنبھالنے کا موجب ا بن جائیں.چنانچہ اس فتنہ کی تمام تاریخ اس بات پر شاہد ہے حتی کہ عملی طور پر اس فتنہ سے دلچپسی رکھنے والے اور مذہبی طور پر ہم سے اختلاف رکھنے والے وزراء نے بھی جب تقریریں کیں تو انہوں نے تسلیم کیا کہ یہ فتنہ سیاسی ہے مذہبی نہیں.اور سیاسی فتنہ اُس وقت تک قائم رہتا ہے
$1953 166 خطبات محمود جب تک کہ فتنہ پیدا کرنے والوں کو اُن کا اصل مقصد حاصل نہ ہو جائے.اب بظاہر تو یہ فتنہ اٹھا اور دب گیا اور لوگوں نے محسوس کیا کہ اس کا نتیجہ اچھا نہیں رہا کیونکہ حکومت کے حصول میں وہ پھر بھی ناکام رہے اور انہیں وہ مقاصد حاصل نہ ہوئے جو وہ چاہتے تھے.لیکن اس فتنہ سے اتنا ضرور پتا لگ گیا ہے کہ ہمارے ملک کا مسلمان اتنا سادہ ہے کہ اُسے جوش دلا دیا جائے تو وہ مذہب کے نام پر ہر کام کرنے کے لیے تیار ہو جاتا ہے.امریکہ کا ایک بڑا پروفیسر ایک دفعہ ربوہ میں مجھ سے ملنے کے لیے آیا.اس نے بتایا کہ مجھے سارے ایشا کے حالات کا مطالعہ کرنے اور یہ دیکھنے کے لیے بھجوایا گیا ہے کہ یہاں کمیونزم کے پھیلنے کے کس حد تک امکانات ہیں.چنانچہ اُس نے کہا کہ میں جاپان میں بھی گیا ہوں، چائنا میں بھی گیا ہوں ، انڈونیشا میں بھی گیا ہوں ، برما میں بھی گیا ہوں ، ہندوستان میں بھی گیا ہوں اور پاکستان میں بھی پھرا ہوں.مجھ پر یہ اثر ہے کہ کسی اور جگہ کمیونزم پھیل جائے تو پھیل جائے پاکستان میں یہ کبھی نہیں پھیل سکتا.میں نے کہا کیوں؟ کہنے لگا اس لیے کہ اسلام کی تعلیم کو میں نے کی دیکھا ہے وہ کمیونزم کے خلاف ہے.جب اسلام کی تعلیم ہی کمیونزم کے خلاف ہے تو کم از کم پاکستان میں تو کمیونزم نہیں پھیل سکتا.میں نے کہا آپ کو دھوکا لگا ہے.کہنے لگا کس طرح.میں نے کہا اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اسلام کی تعلیم کمیونزم کے خلاف ہے؟ لیکن کبھی آپ نے یہ بھی سوچا کہ مسلمانوں میں سے کتنے ہیں جو اسلام کی تعلیم سے واقف ہیں؟ آپ گاؤں میں چلے جائیں اور ی لوگوں سے باتیں کریں آپ کو معلوم ہوگا کہ دس ہزار میں سے ایک بھی اسلامی تعلیم سے واقف نہیں.کہنے لگا مولوی تو واقف ہیں.میں نے کہا ٹھیک ہے لیکن کبھی آپ نے اس امر پر بھی غور کیا کہ ہمارے ملک کے مولوی کا گزارہ کیا ہے؟ سو میں سے ننانوے مولوی ایسا ہے جس کی ماہواری آمدن تو دس روپیہ سے زیادہ نہیں.گویا اُس کی حیثیت ایک کمی سے بھی زیادہ حقیر ہے.اور جس کا گزارہ اتنا معمولی ہے اور جسے لوگ اپنے گھر کی بچی کچھی روٹی اور سری گلی ترکاری دینے کے عادی ای ہیں.اُسے خرید نا کونسا مشکل کام ہے.ہمارے ملک میں لطیفہ مشہور ہے.کہ کوئی لڑکا ملاں کے پاس آیا اور کہنے لگا اماں نے.آپ کے لیے کھیر بھجوائی ہے اُس نے کہا تمہاری اماں کو آج کیا خیال آیا کہ اُس نے کھیر
$1953 167 خطبات محمود بھجوا دی.پچاس سال مجھے کام کرتے ہو گئے آج تک تو اُس نے کبھی کھیر نہیں بھجوائی تھی.آج اُسے یہ کیا خیال آ گیا ؟ لڑکا کہنے لگا کھیر میں کتا منہ ڈال گیا تھا.اماں کہنے لگی کہ جاؤ اور جا کر مولوی صاحب کو دے آؤ.اُسے غصہ آیا اور اس نے برتن اٹھا کر زمین پر دے مارا.مٹی کا برتن تھا زمین پر پڑتے ہی وہ ٹوٹ گیا.یہ دیکھ کر لڑ کا رونے لگ گیا.اُس نے کہا تو کیوں روتا ہے کھیر اگر ی میں نے نہیں کھائی تو میری مرضی ہے.تیرے لیے اس میں رونے کی کونسی بات ہے؟ کہنے لگا میں روتا اس لیے ہوں کہ یہ برتن وہ تھا جس میں اماں بچے کو پاخانہ پھروایا کرتی تھی.وہ ٹوٹ گیا ہے.اور اب اماں مجھے مارے گی..غرض اکثریت مولویوں کی ایسی ہی ہے جن کے گزارے نہایت ادنی ہیں.سوائے شہروں کے چند مولویوں کے کہ انہیں لوگوں میں عزت حاصل ہے.کیونکہ حکومت کی طرف سے انہیں وظیفے ملتے ہیں یا انہوں نے تجارتوں میں حصہ لیا ہوا ہے یا اپنے نام الاٹمنٹیں کروا رکھی ہیں.باقی سب ایسے ہیں جو جمعرات کی روٹی پر گزارہ کرتے ہیں.اور یا پھر شادی بیاہ یا کسی کی موت پر تھی نہایت ذلیل کام کر کے چونی یا ٹھنی لے لیتے ہیں.اور یا پھر عید الاضحیہ کے موقع پر قربانی ہوتی ہے تو اُس کی کھالیں لے لیتے ہیں.مگر اب عید کی کھالوں پر بھی چیل کی طرح کبھی کوئی مدرسے والا جھپٹا مارتا ہے کبھی کوئی خانقاہ والا جھپٹا مارتا ہے اور کبھی کوئی بتامی و مساکین اور بیوگان کے نام پر اس میں شریک ہو جاتا ہے.غرض قربانی کی کھال بھی اب صرف آدھی یا پونی ملاں کو ملتی ہے.گویا سارے سال میں دس پندرہ روپے اُسے کھال کے مل جاتے ہیں.میں نے کہا جو شخص اتنا بھک منگان ہے اور جس کا مالی لحاظ سے اتنا بُرا حال ہے اُس کو خرید لینا کونسا مشکل کام ہے.جس دن کمیونسٹوں نے چند ایک ملانوں کی چار چار پانچ پانچ سو روپیہ تنخواہ مقرر کر دی تم دیکھو گے کہ وہ باقی ملانوں کو اپنے ساتھ ملالیں گے اور سب مل کر سارے ملک کو اپنے ساتھ ملالیں گے کیونکہ ہمارا ملک مولوی کے اثر کے نیچے ہے.کہنے لگا اگر اس بات کو مان بھی لیا جائے تو آخر وہ اسلام کی تعلیم کے خلاف کیا کہیں گے؟ میں نے کہا تم نے ہمارے ملک کے کیریکٹر کا مطالعہ نہیں کیا.ہمارے ملک کا کیریکٹر قرآن اور حدیث کے نہ جانے کی وجہ سے یہ ہے کہ اگر مولوی کھڑا ہو جائے اور کہے کہ اس وقت قرآن سے محمد رسول اللہ ﷺ کی عزت اور اسلام کی عزت خطرہ میں ہے اس وقت قرآن پر عمل نہیں کرنا چاہیئے.
$1953 168 خطبات محمود صلى الله تو سارے مسلمان کہیں گے اسلام زندہ باد، محمد رسول اللہ ﷺ زندہ باد.اس طرح جس دن مولویوں کے نے کہا کہ کمیونزم عین اسلام ہے.جو کچھ قرآن کہتا ہے.وہی لینن اور سٹالن کہتا ہے.رازی نے قرآن کو نہیں سمجھا ، قرطبی نے قرآن کو نہیں سمجھا ، ابن حیان نے قرآن کو نہیں سمجھا ، ابنِ جریر نے قرآن کو نہیں سمجھا، سیوطی نے قرآن کو نہیں سمجھا.قرآن سمجھا ہے تو لینن اور سٹالن نے سمجھا ہے.تو ی سارے مسلمان کہہ اٹھیں گے لینن زندہ باد، سٹالن زندہ باد ، اسلام زندہ باد.پس ہم سے زیادہ کمیونزم کے خطرے میں اور کوئی نہیں.کیونکہ اور ممالک کے لوگوں تک پہنچنے کے لیے عقل کی ضرورت ہے اور ہمیں صرف بے وقوف بنانے کی ضرورت ہے.ہمارے ملک کا مسلمان یہ نہیں سوچے گا کہ یہ تعلیم قرآن کے خلاف ہے.وہ صرف اتنا سنے گا کہ " اسلام خطرہ میں ہے " اور اس کے بعد وہ اسلام کے نام پر ہر خلاف اسلام کام کرنے کے لئے تیار ہو جائے گا.وہ یہ نہیں جانتا کہ اسلام ہے کیا.مگر اُسے یقین دلا دو کہ اسلام خطرہ میں ہے تو پھر چاہے اسلام کے خلاف ہی اُس سے لڑائی شروع کر وا دو وہ لڑنے کے لیے تیار ہو جائے گا.کیونکہ اگر کسی مسلمان کو جوش آ سکتا ہے تو صرف ان الفاظ سے کہ اس وقت اسلام خطرہ میں ہے بلکہ تم اگر یہ کہو کہ تو حید کے ماننے سے اس وقت اسلام خطرہ میں ہے تو وہ یہ بھی نہیں سوچے گا کہ توحید کتنی اہم چیز ہے.وہ فوراً اسلام کے نام پر تو حید کے خلاف لڑنے کے لیے تیار ہو جائے گا.پس میں نے اُسے کہا کہ تم غلطی پر ہو.سب سے زیادہ خطرہ کمیونزم سے پاکستان کو ہی ہے.اس لیے نہیں کہ ہمارا مذ ہب اس کی تائید میں ہے.ہمارا مذہب یقیناً اس کے خلاف ہے.اس لیے بھی نہیں کہ ہماری اقتصادی حالت ایسی ہے کہ یہاں کمیونزم پھیل سکتا ہے.ہماری اقتصادی حالت بے شک گری ہوئی ہے لیکن پھر بھی وہ اس حد تک گری ہوئی نہیں کہ کمیونزم کے پھیلنے کے اس میں ایشیا کے دوسرے ممالک سے زیادہ امکانات ہوں.یہاں اگر کمیونزم کو خطرہ ہے تو صرف اس لیے کہ مسلمانوں کو نعرہ بازی کی عادت ہے.ایک لیڈ راٹھ کر کوئی نعرہ لگا دے تو سارے مسلمان اُس کے پیچھے چلنے کے لیے تیار ہو جاتے ہیں.چنانچہ باوجود اس کے کہ ہماری جماعت کے خلاف جو فتنہ اٹھایا گیا تھا اس میں انہیں ناکامی ہوئی میں دیکھتا ہوں کہ ہمارے ملک کے بعض لیڈر پھر یہ سوچ رہے ہیں کہ اس سلوگن اور لمصل نعرہ بازی سے فائدہ اٹھایا جائے اور پھر مسلمانوں کو فتنہ و فساد پر آمادہ کیا جائے.چنانچہ کل " مصلح
$1953 169 خطبات محمود آیا تو میں نے اُس میں پڑھا کہ سہروردی صاحب نے کراچی میں تقریر کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان میں ایک مذہبی تحریک اٹھی اُسے حکمرانوں نے قوت سے دبا دیا ، علماء کو جیل میں بند کر دیا گیا اور آج بڑے بڑے لوگ کہہ رہے ہیں کہ مسلمان غلط راستہ پر ہیں.یہ لوگ چاہتے ہیں کہ اگر کوئی ہمارے رسول کو آخری نبی نہ مانے تو ہم اُس کو مسلمان مان لیں.گویا یہ بڑے بڑے عہدوں والے اب ہمیں اسلام سکھا رہے ہیں اور کہتے ہیں کہ اگر ہم ان کی بات نہیں مانیں گے تو دوسروں کی طرح ہمارا بھی وہی حشر ہوگا.‘1 یہ ایک خطرے کا الارم ہے جس سے ہماری جماعت کو ہوشیار ہو جانا چاہیئے.سہروردی صاحب پھر اس نسخہ کو آزمانے کا ارادہ رکھتے ہیں جس کو مسلمان ایک دفعہ آزما چکے ہیں.حالانکہ ہر شخص جانتا ہے کہ یہ کوئی سوال ہی نہیں کہ جو لوگ رسول کریم ﷺ کے بعد کسی نبی کے آنے کے قائل ہیں اُن کو مسلمان مان لو.بلکہ اگر کوئی شخص یہ بحث کرتا ہے کہ احمدی مسلمان ہیں یا نہیں تو ہم اس کو بھی بیوقوفی کی بات سمجھتے ہیں.اگر کوئی شخص ہم کو مسلمان سمجھ لے گا تو کیا اُس کے مسلمان سمجھ لینے سے ہم واقع میں مسلمان بن جائیں گے؟ یا اگر کوئی شخص ہم کو کا فرسمجھ لے گا تو اُس کے کا فرسمجھ لینے سے ہم واقع میں کافر بن جائیں گے؟ اسلام کا تعلق تو خدا سے ہے کسی انسان سے نہیں.پس اس سے زیادہ بیوقوفی کی بات اور کیا ہوگی کہ مجھے یہ فکر لاحق ہے کہ سہر وردی صاحب مجھے کیا سمجھتے ہی ہیں.وہ مجھے کا فر بلکہ کفر بھی سمجھ لیں تو میرے لیے اس میں کوئی حرج کی بات نہیں.اسی طرح یہ بھی خلاف عقل بات ہے کہ میں کسی کو کیا سمجھتا ہوں.کیونکہ میں اگر کسی کو کا فرکہوں تب بھی میرے کا فر کہنے سے اُس کا کچھ بگڑ نہیں سکتا.ہاں اگر خدا تعالیٰ اُسے کافر کہے گا تب بے شک اُس کے لیے فکر کی بات ہو سکتی ہے.لیکن اگر خدا کا فرنہیں کہتا اور میں اُسے کا فر کہتا ہوں یا وہ مجھے کا فر کہتا ہے تو نہ اُس کے کافر کہنے سے میرا کوئی نقصان ہے اور نہ میرے کافر کہنے سے اُس کا کوئی نقصان ہے.پس یہ تو کوئی سوال ہی نہیں تھا کہ سہروردی صاحب کو یہ کہنے کی ضرورت پیش آتی کہ " یہ لوگ چاہتے ہیں کہ اگر کوئی ہمارے رسول کو آخری نبی نہ مانے تو ہم اُس کو مسلمان مان لیں." آخر کب گورنمنٹ نے اعلان کیا ہے کہ احمدیوں کو مسلمان سمجھو؟ یا کب گورنمنٹ نے کسی کو سزا دی ہے کہ تم کیوں احمدیوں کو مسلمان نہیں سمجھتے ؟ جب ایسا کوئی واقعہ ہی نہیں ہوا تو ان الفاظ کا
$1953 170 خطبات محمود سوائے اس کے اور کیا مطلب ہو سکتا ہے کہ جھوٹ بول کر لوگوں کو اشتعال دلایا جائے کہ اگر کوئی رسول کریم ﷺ کو آخری نبی نہ مانے تب بھی ہمیں مجبور کیا جاتا ہے کہ ہم اُس کو مسلمان مان لیں.حالانکہ نہ گورنمنٹ نے ایسا کہا ہے اور نہ اس بناء پر اُس نے آج تک کسی کو کوئی سزا دی ہے کہ احمدیوں کو کیوں مسلمان نہیں سمجھا جاتا.حقیقت یہ ہے کہ ہمیں کافر کہنے میں وہ گھی طور پر آزاد ہیں.اور اس سے نہ خواجہ ناظم الدین صاحب اُنہیں روک سکتے تھے اور نہ محمد علی صاحب روک سکتے ہیں.سُہر وردی صاحب گھر میں بیٹھی کر یا بازاروں میں کھڑے ہو کر سارا دن ہمیں کافر کہتے رہیں.تو نہ حکومت انہیں روک سکتی ہے نہ پارلیمنٹ انہیں روک سکتی ہے اور نہ کوئی اور طاقت انہیں روک سکتی ہے.پس یہ کہنا کہ ہمیں کافر کہنے سے روکا جاتا ہے جھوٹ ہے.اور یہ جھوٹ محض اس لیے بنایا گیا ہے تا کہ سیاسی چالوں کے ذریعہ سے لوگوں میں اشتعال پیدا کر کے انہیں اپنے ساتھ شامل کیا جائے اور حکومت کی مخالفت کی جائے.اس سے پتا لگتا ہے کہ وہ شورش جو بظاہر دبی ہوئی نظر آتی ہے اصل میں دبی نہیں.یہ تو اللہ تعالی ہی کے اختیار میں ہے کہ وہ اس شورش کو دبادے یا اس کو اُبھرنے دے.بہر حال سہروردی صاحب نے اس فتنہ کو پھر جگانے کی کوشش کی ہے اور جیسا کہ اُن کی تقریر سے ظاہر ہے انہوں نے جھوٹ بولنے سے بھی گریز نہیں کیا.گویا وہ چاہتے ہیں کہ جس طرح بھی ہو اس فتنہ کو ہوا دی جائے اور لوگوں کو ایک بار پھر اشتعال دلا کر فساد پر آمادہ کیا جائے.لیکن انہیں یا درکھنا چاہیے کہ اس دنیا پر نہ لیگ حاکم ہے نہ خواجہ ناظم الدین صاحب حاکم تھے اور نہ مسٹرمحمدی علی حاکم ہیں.اس دنیا پر زمین و آسمان کے خدا کی حکومت ہے اور جس کام کے کرنے کا خدا ارادہ کر چکا ہو اُس کو نہ سہر وردی صاحب روک سکتے ہیں اور نہ دنیا کی کوئی اور طاقت روک سکتی ہے.اگر خدا ان فتنوں سے ہم کو بچانا چاہتا ہے اور جیسا کہ ہم جانتے ہیں وہ یقیناً ہم کو بچانا چاہتا ہے تو ی خواہ عارضی طور پر ہمیں بعض تکلیفیں بھی پہنچیں اور ہماری جماعت کے بعض افراد کو نقصان بھی ہو.یقیناً آخری فتح ہماری ہی ہوگی.اور چونکہ ہمارا نام لے کر حکومت کو مٹانے کی کوشش کی جاتی ہے اس لیے میں یہ بھی بتا دینا چاہتا ہوں کہ ان کی ان کوششوں کے بداثرات سے اللہ تعالیٰ حکومت کو بھی محفوظ رکھے گا.کیونکہ وہ محض ہماری وجہ سے بدنام ہو رہی ہے.حکومت کا سوائے اس کے اور کوئی
$1953 171 خطبات محمود مقصد نہیں کہ وہ چاہتی ہے کہ ملک میں امن قائم ہوا اور فتنہ پیدا کرنے والے عناصر کو سر اُٹھانے کا موقع نہ ملے.اور چونکہ یہ ہمارے خلاف لوگوں کو اُکسا کر حکومت پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں اسی طرح اللہ تعالیٰ صرف ہماری ہی تائید نہیں فرمائے گا بلکہ وہ اس حکومت کی بھی تائید فرمائے گا جو ہماری وجہ سے بلکہ یوں کہو کہ انصاف قائم رکھنے کی کوشش کی وجہ سے مطاعن 2 کا ہدف بنی ہوئی ہے.اللہ تعالیٰ کی یہ سنت ہے کہ جب کوئی شخص ناراستی 3 کی وجہ سے کسی قوم کو اپنا ہدف بنا تا نی ہے.تو خدا تعالیٰ کی غیرت نہ صرف مظلوم کو بچانے کے لیے بھڑکتی ہے بلکہ وہ اُن لوگوں کو بھی بچاتی ہے جو اُس مظلوم کا ساتھ دینے کی وجہ سے دنیا کی نگاہ میں بدنام ہو رہے ہوں.پس سُہر وردی صاحب نے جو کچھ کہا ہے اس سے انہوں نے اپنے لیے کوئی کامیابی کا راستہ نہیں کھولا بلکہ اپنی انا کامیابی کے راستہ میں اُنہوں نے کانٹے بچھالئے ہیں.انہوں نے حکومت کے مثانے کی کوشش کی ہے لیکن حکومت کا مقابلہ کرتے ہوئے انہوں نے خدا تعالیٰ پر حملہ کر دیا ہے.خدا اس دنیا میں امن قائم کرنا چاہتا ہے.خدا اس دنیا میں انصاف قائم کرنا چاہتا ہے.اگر کوئی شخص امن کو مٹانا چاہتا ہے اور انصاف کی بجائے ظلم اور تعدی کا راستہ کھولنا چاہتا ہے تو وہ خدا تعالیٰ کا مقابلہ کرتا ہے اور خدا ایسے شخص کو کبھی کامیاب نہیں ہونے دیتا.بے شک بعض زمانے ایسے بھی ہوتے ہیں جن میں خدا تعالیٰ لوگوں کو گھلا چھوڑ دیتا ہے کہ جو تمہارے جی میں آتا ہے کرو میں تمہارے معاملات میں دخل دینے کے لیے تیار نہیں.لیکن یہ وہ زمانہ ہے جس میں خدا دخل دے رہا ہے.اور ایسے زمانہ میں جب خدا دنیا کے معاملات میں دخل دے رہا ہو اگر کوئی شخص کی خدا تعالیٰ کا مقابلہ کرتا اور دنیا میں ظلم اور نا انصافی کو قائم کرنا چاہتا ہے تو خدا اُس کے شر اور ضرر سے دنیا کوضرور بچاتا ہے اور وہ اپنے ارادہ میں کبھی کامیاب نہیں ہوسکتا.1 المصلح 2 جولائی 1953 صفحہ 2 2 مطاعن مطعن کی جمع بمعنی طعنے.عیب (مصلح 14 جولائی 1953ء) ناراستی ناراست: ٹیڑھا.جھوٹ.نامناسب سمج.دروغ
$1953 172 23 23 خطبات محمود بیرونی ممالک میں مساجد کی تعمیر اسلام کی تبلیغ کا ایک نہایت مؤثر اور کامیاب ذریعہ ہے (فرمودہ 10 جولائی 1953ء بمقام ناصر آبادسندھ ) تشہد ، تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا.رسول کریم ﷺ کے زمانہ میں جب زکوۃ کے احکام نازل ہوئے تو آپ نے ایک وہ کے پاس جو مالدار تھا اپنا نمائندہ روانہ کیا تا کہ وہ اس سے زکوۃ وصول کرے.جب و نمائندہ اُس شخص کے پاس پہنچا تو بجائے اس کے کہ وہ زکوۃ ادا کرتا اُس نے کہا کیا ہمارے اپنے خرچ تھوڑے ہوتے ہیں؟ ہم پر اتنے بوجھ پڑے ہوئے ہیں اور یہ اٹھتے ہیں تو کہتے ہیں چندہ کی دے دو، زکوۃ دے دو.ان کو چندے اور زکوۃ لینے کی ہی پڑی رہتی ہے اور ہمارے بوجھ اور ذمہ داریوں کا خیال نہیں ہوتا.جب رسول کریم ﷺ کو یہ خبر پہنچی تو آپ نے فرمایا کہ آئندہ اس کی شخص سے زکوۃ وصول نہ کی جائے.اس شخص کے دل میں ایک حد تک ایمان پایا جاتا تھا.کہنے کو تو ہے اُس نے یہ بات کہہ دی لیکن چونکہ اس کے دل میں ایمان تھا.بعد میں اُسے خیال پیدا ہوا کہ میں نے غلطی کی ہے اور خدا تعالیٰ کا حق میں نے ادا نہیں کیا.چنانچہ وہ جلدی جلدی رسول کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا.اور اُس نے کہا يَا رَسُولَ الله! مجھ سے غلطی ہو گئی تھی ، میں زکوۃ لایا ہوں.
$1953 173 خطبات محمود اب مجھ سے زکوۃ لے لی جائے.آپ نے فرمایا اب نہیں ، کیونکہ ہم نے حکم دے دیا ہے کہ تم سے زکوۃ وصول نہ کی جائے.اگر وہ آجکل کے لوگوں کی طرح ہوتا تو شاید خوش ہوتا کہ چلو چھٹکار ہو گیا.مگر باوجود اس کے کہ وہ ضیعف الایمان تھا آجکل کے ایمانداروں سے وہ زیادہ ایمانداری تھا.چنانچہ اس انکار سے وہ خوش نہیں ہوا کہ چلو چھٹی ہو گئی بلکہ اُس کے دل کو صدمہ پہنچا.اور اُس نے سمجھا کہ مجھ سے زکوۃ لینے سے جو انکار کیا گیا ہے یہ میرے لیے سزا ہے انعام نہیں.اور وہ افسوس کا اور ندامت کا اظہار کرتا رہا.مگر رسول کریم ﷺ نے اُس سے زکوۃ وصول نہیں کی.رسول کریمی کی وفات کے بعد وہ حضرت ابوبکر کے زمانہ خلافت میں پھر ز کوۃ لے کر آپ کی خدمت میں حاضر ہوا.مگر حضرت ابو بکر نے فرمایا جس سے رسول کریم اللہ نے زکوۃ وصول نہیں کی.اُس سے میں بھی زکوۃ وصول نہیں کر سکتا.اور وہ روتا ہوا واپس چلا گیا 1.صل الله غرض انسان مختلف نقطہ ہائے نگاہ سے اپنے حالات کو دیکھتا ہے.کئی غریب لوگ ہوتے ہی ہیں جنہیں دین کی خدمت کا موقع ملے تو وہ اتنے خوش ہوتے ہیں کہ یوں معلوم ہوتا ہے انہیں کوئی بہت بڑی دولت مل گئی ہے.اور کئی آسودہ حال لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ ان کی جان نکلتی ہے اور دین کی خدمت کے لیے اپنا روپیہ خرچ کرنے اور اپنی ذمہ داریوں کو ادا کرنے سے وہ اس طرح بھاگتے ہیں جس طرح دیوانہ کتے سے انسان بھاگتا ہے.یہاں سندھ میں بھی میں نے دیکھا ہے.کنری اور بعض دوسرے مقامات پر جو احمدی دوست موجود ہیں وہ إِلَّا مَا شَاءَ اللہ قریباً سب کے سب ایسے ہیں جو ہجرت سے پہلے مالی لحاظ سے مختلف قسم کی مشکلات میں مبتلا تھے مگر ہجرت کے بعد ی ان کی مالی حالت اچھی ہو گئی.یا ہجرت سے پہلے ان کی کوئی تجارت نہیں تھی یا اگر تجارت تھی تو اس کے میں نقصان ہی نقصان ہوا کرتا تھا مگر کنری میں آئے تو انہیں دُکانیں بھی مل گئیں زمینیں بھی مل گئیں نی اور ان کی تجارتیں کامیاب طور پر چل نکلیں.یا اگر پہلے ان کے پاس کوئی زمین نہیں تھی تو یہاں سلسلہ کی اسٹیٹس پر مزارع بن کر انہوں نے زمینیں خرید لیں.لیکن باوجود اس کے کہ یہاں کے لوگوں کی مالی حالت پہلے سے بہت زیادہ اچھی ہے جہاں تک میں سمجھتا ہوں ان لوگوں میں اپنی ذمہ داریوں کو ادا کرنے کا احساس بہت کم ہے.مثلاً گزشتہ سال میں نے مختلف ممالک میں تعمیر کرنے کے لیے جماعت میں ایک تحریک کی اور میں نے کہا کہ وہ زمیندار جن کی زمین دس ایکڑ
$1953 174 خطبات محمود سے کم ہے وہ ایک آنہ فی ایکڑ کے حساب سے اور جن کے پاس اس سے زیادہ زمین ہے وہ دو آ.فی ایکڑ کے حساب سے مسجد فنڈ میں چندہ دیں.اسی طرح وہ مزارع جن کے پاس دس ایکڑ سے کم مزارعت ہے وہ دو پیسہ فی ایکڑ کے حساب سے اور اس سے زائد مزارعت والے ایک آنہ فی ایکڑ کے حساب سے رقم ادا کریں.اسی طرح تاجروں کے متعلق میں نے کہا کہ جو بڑے تاجر ہیں مثلاً منڈیوں کے آڑھتی ہیں یا کمپنیوں اور کارخانوں والے ہیں وہ ہر مہینہ کے پہلے دن کے پہلے سودے کا منافع مسجد فنڈ میں دیا کریں اور جو چھوٹے تاجر ہیں وہ ہر ہفتہ کے پہلے دن کے پہلے سودے کا منافع مسجد فنڈ میں دیا کریں.لیکن جہاں تک میرا علم ہے شاید ہی اس علاقہ میں سے کسی نے اس تحریک میں حصہ لیا ہو.* * یا اگر کسی نے حصہ لیا ہے تو میرے سامنے اُس کی مثال نہیں آئی.اوروں کو جانے دو یہاں جو مالک زمیندار ہیں اُن کی طرف سے بھی اس تحریک میں کوئی حصہ نہیں لیا گیا.جہاں تک میری ذات کا سوال ہے میں کہہ سکتا ہوں کہ اس بارہ میں مجھ پر کوئی الزام نہیں.کیونکہ میں نے اپنے دفتر کے انچارج کو اس طرف متواتر توجہ دلائی ہے.مگر باوجود اس کے حقیقت یہی ہے کہ یہ چندہ میری طرف سے بھی ادا نہیں ہوا.اور خود انجمن کی طرف سے بھی ادا نہیں ہوا.اس طرح جو احمدی مزارع ہیں انہوں نے بھی اس تحریک کی طرف کوئی توجہ نہیں کی.گویا جہاں تک میر اعلم ہے سندھ کے زمینداروں کا اس تحریک میں قریباً صفر حصہ ہے.یہی حال تاجروں کا ہے.کنری میں بھی اور نبی سر روڈ اور جھڈو میں بھی ہمارے احمدی تاجر پائے جاتے ہیں.مگر انہوں نے بھی غفلت سے کام لیا ہے اور اس چندہ کی اہمیت کو نہیں سمجھا.یہ چیز یا تو اس لیے پیدا ہوتی ہے کہ انسان کے پاس جوں جوں پیسے آتے جاتے ہیں وہ مست اور غافل ہوتا چلا جاتا ہے.اور یا پھر اس لیے پیدا ہوتی ہے کہ بعض لوگ اپنے آپ کو چودھری سمجھنے لگ جاتے ہیں.اور خیال کرتے ہیں کہ جتنے حکم ہیں وہ دوسروں کے لیے ہیں ہمارے لیے نہیں.ی تمام تفاصیل 11 مئی 1952ء کے خطبہ جمعہ میں درج ہیں جو الفضل 22 جون 1952ء میں شائع ہو چکا ہے.نبی سر روڈ کے احمدی تاجروں نے لکھا ہے کہ وہ اس پر عمل کر رہے ہیں تحقیق بعد میں ہوگی.* میرے اس خطبہ کے بعد میرے دفتر کے انچارج نے چندہ ادا کر دیا.
خطبات محمود.175 $1953 حضرت خلیفتہ المسیح الاوّل کی عادت تھی کہ آپ اپنے اوقات کا اکثر حصہ باہر ہی گزارتے تھے.یہ میری عادت نہیں اور نہ ہی حضرت مسیح موعود علیہ السلام ایسا کیا کرتے تھے.بہر حال چونکہ آپ زیادہ تر باہر ہی تشریف رکھتے تھے اس لیے جب آپ کی طبیعت علیل ہوتی تو چونکہ بیمار آدمی کی بعض دفعہ دوسروں کی موجودگی کی وجہ سے تکلیف محسوس کرتا ہے اس لیے جب آپ بیٹھے بیٹھے تھک کے جاتے تو فرماتے کہ اب لوگ چلے جائیں.اگر اُس وقت ہیں بائیس آدمی آپ کے پاس ہوتے تو ی یہ بات سُن کر بارہ تیرہ آدمی چلے جاتے اور آٹھ دس آدمی بیٹھے رہتے.آپ پانچ سات منٹ انتظار فرماتے اور پھر دوبارہ فرماتے کہ اب لوگ چلے جائیں مجھے تکلیف ہو رہی ہے.اس عرصہ میں دو چار اور نئے آدمی آپ کی مجلس میں آکر بیٹھ جاتے تھے.آپ کی یہ بات سُن کر چھ سات اور چلے جاتے اور چار پانچ پھر بھی بیٹھے رہتے.اس پر آپ پانچ دس منٹ اور انتظار فرماتے اور پھر فرماتے کہ اب چودھری بھی چلے جائیں.یعنی میں دو دفعہ ایک بات کہہ چکا ہوں مگر ہر دفعہ کہنے کے بعد کچھ لوگ بیٹھے رہتے ہیں.جو سمجھتے ہیں کہ یہ حکم ہمارے لیے نہیں ، دوسروں کے لیے ہے.گویا وہ اپنے آپ کو چودھری سمجھتے ہیں.اس لیے آپ فرماتے کہ اب چودھری بھی چلے جائیں.تو کچھ لوگ دنیا میں ایسے بھی ہوتے ہیں جو اپنے آپ کو چودھری سمجھتے ہیں.وہ خیال کرتے ہیں کہ تمام احکام دوسروں کے لیے ہیں ان کے لیے نہیں.جب کہا جائے چلے جاؤ تو وہ سمجھتے ہیں کہ یہ اوروں کے لیے حکم ہے ہمارے لیے نہیں.جب کہا جائے چندے دو تو وہ سمجھتے ہیں یہ دوسروں کو چندہ دینے کا حکم دیا گیا ہے ہمیں چندہ دینے کا حکم نہیں دیا گیا.جب کہا جائے احمدیت پر جو اعتراضات ہوتے ہیں اُن کے جوابات دو اور لوگوں کے بغض اور کینہ کو دُور کرنے کی کوشش کی کرو تو وہ سمجھتے ہیں کہ یہ حکم بھی دوسروں کے لیے ہے ہمارے لیے نہیں.پس اس غفلت اور جمود کی ہے ایک وجہ تو یہ ہے کہ بعض لوگ مغرور ہو جاتے ہیں اور جتنا جتنا پیسہ انہیں ملتا جاتا ہے اُتنا ہی وہ اپنے کی آپ کو خدائی احکام سے آزاد سمجھنے لگ جاتے ہیں.اور بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ جو حکم بھی د جائے اُس کے متعلق وہ سمجھتے ہیں کہ یہ دوسروں کے لیے ہے ہمارے لیے نہیں.اس مسجد میں اس وقت دو اڑھائی سو آدمی موجود ہے.اگر مجھے پیاس لگے تو معقول بات تو یہ ہوگی کہ میں کسی شخص کو مخاطب کر کے کہوں کہ میرے لیے پانی لاؤ.لیکن اگر میں کسی کو مخاطب نہیں کرتا اور صرف اتنا کہہ دیتا ہوا
$1953 176 خطبات محمود کہ کوئی شخص پانی لائے تو دو چارسو آدمیوں میں سے بعض دفعہ صرف ایک شخص اٹھے گا اور بعض دفعہ ایک بھی نہیں اٹھے گا.اور ہر شخص یہ خیال کر لے گا کہ یہ بات دوسروں سے کہی گئی ہے مجھے نہیں کہی گئی.گویا وہ سب اپنے آپ کو چودھری سمجھنے لگ جائیں گے اور صرف ایک شخص ایسا ہو گا جو اپنے آپ کو اس حکم کا مخاطب سمجھے گا.اور بعض دفعہ ایک شخص بھی ایسا نہیں ہوگا.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اگر خطیب ایسا فقرہ بولتا ہے تو اُس کا یہ منشاء نہیں ہوتا کہ ساری مجلس اٹھ کر چلی جائے اور وہ اکیلا مسجد میں رہے.اور نہ اس فقرہ کو کلی طور پر صحیح قرار دیا جاسکتا ہے ہے.حقیقتاً اسے کسی ایک شخص کو مخاطب کرنا چاہیے اور بجائے مبہم فقرہ استعمال کرنے کے اُسے کسی معتین شخص کو کہنا چاہیے کہ وہ جائے اور پانی لائے.لیکن اگر وہ غلطی سے ایسا نہیں کرتا تو پھر اس فقرہ ہر شخص مخاطب ہوگا اور ہر شخص کا فرض ہوگا کہ وہ اٹھے اور پانی لائے.ہاں اگر انہیں تسلی ہو جائے کہ کوئی ایک شخص پانی لانے کے لیے چلا گیا ہے تو پھر باقی لوگ بیٹھ سکتے ہیں.لیکن جب تک یہ اطمینان نہ ہو ہر شخص اس حکم کا مخاطب ہوگا اور ہر شخص کا فرض ہوگا کہ وہ اس کے مطابق عمل کرے.غرض چودھریت والا احساس کہ ہم مخاطب نہیں دوسرے لوگ مخاطب ہیں.ہمیشہ انسان کی کو نیکی سے محروم کر دیتا ہے.رسول کریم ﷺ ایک دن مسجد میں تقریر فرما رہے تھے کہ بعض لوگ آئے اور کناروں پر کھڑے ہو کر تقریر سننے لگ گئے.ان کے بعد جو اور لوگ آئے وہ اُن کھڑے ہونے والوں کی وجہ سے رسول کریم ﷺ کی آواز پوری طرح سن نہیں سکتے تھے.جب رسول کریم ہے نے دیکھا کہ بعض لوگ بعض دوسروں کو تقریر سننے سے محروم کر رہے ہیں تو آپ نے فرمایا بیٹھ جاؤ.جب آپ نے فرمایا بیٹھ جاؤ تو اس سے مراد وہی لوگ تھے جو آپ کے سامنے کھڑے تھے.مگر چونکہ آپ نے بلند آواز سے یہ بات کہی آپ کی آواز باہر بھی پہنچ گئی.حضرت عبداللہ بن مسعود اُس وقت تقریر سننے کے لیے آ رہے تھے اور ابھی آپ مسجد کے باہر ہی تھے کہ یہ آواز ان کے کانوں میں پہنچ گئی.جب انہوں نے سنا کہ رسول کریم ﷺ یہ فرما رہے ہیں کہ بیٹھ جاؤ تو وہ اُسی جگہ بیٹھے گئے اور بچوں کی طرح گھسٹتے ہوئے انہوں نے مسجد کی طرف بڑھنا شروع کر دیا.کوئی اور شخص پیچھے سے آیا تو اُس نے کہا عبداللہ بن مسعودؓ ! تم یہ کیا بچوں والی حرکت کر رہے ہو؟ انہوں نے کہا ابھی رسول کریم ﷺ کی آواز میرے کانوں میں آئی تھی کہ بیٹھ جاؤ اس لئے میں یہیں بیٹھ گیا.اُس نے کہا
$1953 177 خطبات محمود رسول کریم ﷺ نے آپ کو نہیں دیکھا.انہوں نے تو اُن لوگوں کو فر مایا ہو گا جو آپ کے سامنے کھڑے ہوں گے.اس لیے آپ اس حکم کے مخاطب نہیں ہو سکتے.انہوں نے کہا ٹھیک ہے رسول کریم ہے صلى الله نے انہی لوگوں کو فرمایا ہے کہ بیٹھ جاؤ.مگر زندگی کا اعتبار نہیں میں نے سمجھا کہ اگر اُس جگہ پہنچے.پہلے پہلے میری جان نکل گئی اور اللہ تعالیٰ نے کہا کہ ایک حکم رسول کریم اللہ کا تم نے نہیں مانا تو میں اس کا کیا جواب دوں گا.اس لیے خواہ یہ حکم میرے لئے ہو یا نہ ہو میں نے سمجھا کہ جب یہ آواز میرے کان میں پڑ گئی ہے.تو اب میرا فرض ہے کہ میں اس پر عمل کروں 2ے.اسی طرح ایک دفعہ صحابہ بیٹھے تھے.اور شراب پی رہے تھے.اُس وقت تک ابھی شراب کی مناہی کا حکم نازل نہیں ہوا تھا.کوئی شادی تھی جس کی خوشی میں شرابیں پی جا رہی تھیں اور گانے گائے جارہے تھے کہ اتنے میں شراب کی حرمت کا حکم نازل ہو گیا.رسول کریم ﷺ کا عام طریق یہی تھا کہ جب آپ پر کوئی نیا حکم نازل ہوتا تو آپ مسجد میں تشریف لاتے اور ذکر فرماتے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے مجھ پر یہ وحی نازل ہوئی ہے.پھر جو لوگ وہاں موجود ہوتے وہ آپ سے سن کر آگے دوسرے لوگوں میں بات پھیلا دیتے اور اس طرح سب میں مشہور ہو جاتی.اُس دن آپ مسجد میں تشریف لائے اور فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے شراب کو حرام قرار دے دیا ہے.جو لوگ وہاں موجود تھے وہ یہ سنتے ہی بھاگ کھڑے ہوئے.اور جس گلی کوچہ میں سے گزرتے یہ اعلان کرتے جاتے کہ شراب حرام ہو گئی ہے.جب اعلان کرنے والا اُس گلی میں سے گزرا جہاں لوگ دعوت کھا رہے اور شرا میں پی رہے تھے اور وہ ایک مٹکا ختم کر چکے تھے اور دوسرا مٹکا شروع کرنے والے تھے.یہاں تک کہ بعض لوگ مخمور ہو چکے تھے اور بعض مخمور ہونے کے قریب تھے تو اُس نے وہاں بھی اعلان کیا کہ خدا تعالیٰ نے آج سے شراب حرام کر دی ہے.جب یہ آواز اُن کے کانوں میں پڑی تو ایک صحابی نے دوسرے سے کہا کہ ذرا اُٹھ کر اس شخص سے پوچھو تو سہی کہ کیا بات ہے اور کیا واقع میں شراب حرام ہوگئی ہے؟ جس شخص سے یہ بات کہی گئی تھی اُس نے بجائے اعلان کرنے والے سے دریافت کرنے کے، سونٹا اٹھایا اور زور سے شراب والے مکے پر مار کر اسے توڑ دیا اور کہا پہلے میں شراب کا مٹکا توڑوں گا اور پھر اس سے پوچھوں گا کہ کیا حکم ہے؟ یعنی جب رسول کریم میایی کے نام سے ایک بات بیان کی جارہی ہے تو ہمارا فرض ہے کہ پہلے اس پر عمل کریں اور پھر اگر
$1953 178 خطبات محمود تحقیقات کرنا چاہیں تو بے شک تحقیقات کریں.غرض زندہ قوموں کے لیے ضروری ہوتا ہے کہ اس کی کے افراد کے اندر اپنی ذمہ داریوں کا احساس ہو.ہم نے ساری دنیا میں تبلیغ اسلام کرنی ہے.اور جہاں ہم تبلیغ اسلام کریں گے وہاں لازماً مساجد بھی بنانی پڑیں گی اور اسلام کے نشانات بھی قائم کئے جائیں گے اور یہ کام ہماری جماعت کے افراد نے ہی کرنا ہے.اس لیے سب کا فرض ہے کہ خواہ وہ امیر ہوں یا غریب اس ذمہ داری کی ادائیگی کے لیے اپنے آپ کو ہر وقت تیار رکھیں.لیکن اگر ہر شخص چودھری بن جائے اور یہ کہے کہ یہ کام دوسروں نے ہی کرنا ہے میں نے نہیں کرنا تو یہ کام کس طرح ہوگا.پس اپنے اندر قربانی کا مادہ پیدا کرو اور اپنی ذمہ داریوں کا احساس ہر وقت زندہ رکھو.مسلمان صرف چھ سات سو تھے جب ان کی قربانیوں سے ساری دنیا گونج اٹھی تھی.یا کم سے کم عرب کا علاقہ گونج گیا تھا.اور پھر جب وہ ہزاروں اور لاکھوں کی تعداد میں ہو گئے تو ساری دنیا ان کی قربانیوں سے گونج اٹھی.تو اب تو ساٹھ کروڑ مسلمان ہے لیکن دنیا پھر بھی اسلام سے نا واقف ہے.اس کی وجہ یہی ہے کہ آج ہر شخص یہ سمجھتا ہے کہ اسلام کی اشاعت کی ذمہ داری ہے دوسروں پر ہے اُس پر نہیں.لیکن جب وہ ہزاروں یا لاکھوں کی تعداد میں تھے تو ہر فرد کے دل میں یہ احساس تھا کہ اسلام کو میں نے ہی پھیلانا ہے.یہی حال آج ہماری جماعت کا ہے.ہماری جماعت کی تعداد تھوڑی ہے.لیکن اسلام کی اشاعت کی ذمہ داری اس نے اپنے اوپر عائد کی ہوئی ہے.اور اسلام کی اشاعت یا مبلغوں کے ذریعہ ہوگی اور یا مساجد کے ذریعہ ہوگی.غیر ممالک میں مساجد کے پاس سے جب بھی گزرنے کی والے گزریں گے سوال کریں گے کہ یہ کیا عمارت ہے؟ اس پر لوگ انہیں بتائیں گے کہ یہ مسجد ہے؟ وہ پوچھیں گے کہ مسجد کیا چیز ہوتی ہے؟ اس پر انہیں بتایا جائے گا کہ جیسے عیسائیوں میں گرجے ہوتے ہیں اسی طرح مسلمانوں نے اپنی عبادت کے لیے مسجد میں بنائی ہوئی ہیں.اور چونکہ مسجد ان کے لیے ایک بالکل نئی چیز ہوگی وہ اس کے دیکھنے کی طرف مائل ہو جائیں گے.کیونکہ انسانی فطرت میں یہ بات داخل ہے کہ کوئی نئی چیز آجائے تو لوگ اُس کو دیکھنے کے لیے دوڑ پڑتے ہیں.آخر یہ تماشا گا ہیں اور سیر گاہیں جن میں لوگوں کا ہر وقت ہجوم رہتا ہے یہ کیا چیز ہیں اور کیوں ان کی طرف لوگ کھچے چلے جاتے ہیں؟ صرف اس لیے کہ یہ ایک نئی چیز ہوتی ہیں.آدمی وہی ہوتے ہیں،
$1953 179 خطبات محمود گھوڑے وہی ہوتے ہیں، شیر، چیتے وہی ہوتے ہیں.لیکن سرکس آ جائے تو سب لوگ اُسے دیکھنے کے لیے دوڑ پڑتے ہیں.کیونکہ اُن کے کانوں میں یہ آواز پڑتی ہے کہ سرکس میں گھوڑے پر کھڑے ہو کر اُسے دوڑایا جاتا ہے.اور چونکہ یہ نئی چیز ہوتی ہے اس لیے لوگ اس کے دیکھنے کے لیے دوڑ پڑتے ہیں.یہاں تک کہ سرکس جب گاؤں میں چلے جاتے ہیں تو لوگ اُس کو دیکھنے کے لیے اپنے برتن تک بیچ ڈالتے ہیں.یا مثلاً تھیٹر کو ہی لے لو.آدمی وہی ہوتے ہیں مگر انہوں نے کسی کا نام ہریش چندر رکھا ہوا ہوتا ہے.کسی کا نام سکندر رکھا ہوا ہوتا ہے.کسی کا نام دارا رکھا ہوا ہوتا ہے، کسی کا نام بابر رکھا ہوا ہوتا ہے اور وہ ایک کھیل کھیلتے ہیں.چونکہ یہ دیکھنے والوں کے لیے ایک نئی چیز ہوتی ہے اس لیے وہ تھیٹر دیکھنے کے لیے بیتاب ہو جاتے ہیں اسی طرح جب مسجد کے پاس سے گزرنے والا شخص پوچھتا ہے کہ یہ کیا چیز ہے؟ اور اُسے بتایا جاتا ہے کہ یہ مسلمانوں کی مسجدی ہے تو وہ حیران ہو کر دریافت کرتا ہے کہ مسجد کیا ہوتی ہے اس پر لوگ اسے بتاتے ہیں کہ جیسے گر جاتی میں تم لوگ جمع ہو کر عبادت کرتے ہو اسی طرح مسلمان مسجدوں میں اکٹھے ہو کر عبادت کرتے ہیں.جب اُسے یہ بات بتائی جاتی ہے تو اُس کے دل میں خواہش پیدا ہوتی ہے کہ مجھے دیکھنا تو ای چاہیے کہ مسلمان کیا کرتے ہیں.اور وہ اپنے دل میں سوچتا ہے کہ کبھی فرصت ملی تو میں مسجد کو ضروری دیکھوں گا.ایسے سو آدمی بھی اگر مسجد کے سامنے سے گزرتے ہیں تو وہ سو کے سو اپنے دل میں یہ کی فیصلہ کر لیتے ہیں کہ ہم فرصت ملنے پر کسی دن مسجد ضرور دیکھنے آئیں گے.مگر پھر ان سو میں سے نوے بھول جاتے ہیں اور دس کو توفیق مل جاتی ہے اور وہ کسی وقت مسجد دیکھنے کے لیے آجاتے ہیں.وہاں امام موجود ہوتا ہے.وہ مسجد دیکھنے کے بعد اُس سے سوال کرتے ہیں کہ اسلام کیا چیز ہے؟ تم لوگ عیسائی کیوں نہیں ہو جاتے ؟ اسلام میں عیسائیت سے بڑھ کر کیا بات پیش کی جاتی ہے ہے؟ اور وہ ان باتوں کا جواب دیتا ہے.نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ان دس میں سے ایک شخص ایسا بھی نکلے آتا ہے کہ جس کے دل پر زیادہ گہرا اثر پڑتا ہے اور وہ بار بار مسجد میں آتا اور امام سے ملنا شروع کر دیتا ہے اور آخر وہ مسلمان ہو جاتا ہے.تو مسجد بھی ایک مبلغ ہے.جس طرح مبلغ ایک مبلغ ہے.پس ہماری جماعت کے لیے ضروری ہے کہ وہ غیر ممالک میں مساجد کے قیام کی اہمیت کو سمجھیں اور اس کے لیے ہر ممکن جد و جہد اور قربانی کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کی کوشش کریں.
خطبات محمود 180 $1953 یورپ میں اسلام کا بہترین اشتہار مسجد ہے.بلکہ عیسائی ممالک کے لیے ہی نہیں ہندو ممالک کے لیے بھی اور چینی ممالک کے لیے بھی اور جاپانی ممالک کے لیے بھی مسجد ایک عجو ہے.جس طرح لوگ پرانے مقابر اور محلات دیکھنے کے لیے جاتے ہیں اُسی طرح وہ مسجد دیکھنے کے لیے جاتے ہیں.اور جب وہ جاتے ہیں تو ان کا امام سے تعلق ہو جاتا ہے اور تبلیغ اسلام کا رستہ کھل جاتا ہے.جب تک ہماری جماعت اپنے اس فرض کو نہیں سمجھتی اس وقت تک اس کا یہ امید کر لینا کہ وہ اسلام کو دنیا پر غالب کرنے میں کامیاب ہو جائے گی غلط ہے.اس کی مثال بالکل ایسی ہی ای ہوگی جیسے چھپکلی کی دُم کاٹ دی جائے تو وہ دُم تھوڑی دیر کے لیے تڑپ لیتی ہے لیکن پھر ہمیشہ کے لیے ختم ہو جاتی ہے.ہمیں سوچنا چاہیے کہ آیا ہماری غرض صرف اتنی ہی تھی کہ ہم دنیا میں شور مچال دیں؟ اور اگر یہی ہماری غرض تھی تو یہ کام ہم نے کر لیا ہے.اب ہمیں کسی مزید کام کی ضرورت نہیں.اور یا پھر ہماری غرض یہ تھی کہ ہم دنیا میں اسلام پھیلائیں.اور اگر یہی ہماری غرض ہے تو اس کے لیے متواتر قربانیوں اور جد و جہد اور نیک نمونہ کی ضرورت ہے.اور ہماری تبلیغ تبھی کامیاب ہوسکتی ہے جب ہمارا عملی نمونہ اسلامی تعلیم کے مطابق ہو.اگر ہمارے اندر دیانت پائی جاتی ہے، اگر ہمارے اندر سچائی پائی جاتی ہے.اگر ہمارے اندر نیک چال چلن پایا جاتا ہے اگر ہمارے اندر معاملات کی صفائی پائی جاتی ہے تو ہر شخص جو ہمیں دیکھے گا وہ سمجھے گا کہ اس جماعت کے ساتھ مل کر دین کی خدمت کی جاسکتی ہے ہے.لیکن اگر ہمارا نمونہ اچھا نہیں تو وہ کہے گا کہ " دُور کے ڈھول سہانے".باتیں تو ہم بڑی سنتے تھے لیکن پاس آکر دیکھا تو ہمیں معلوم ہوا کہ اس کا پھل ایسا میٹھا نہیں.پس اپنی ذمہ داریوں کو سمجھو اور چندہ مساجد کی تحریک میں حصہ لو.اگر ہماری جماعت کے تمام دوست اس چندے میں حصہ لینا شروع کر دیں تو ہر سال کی ایک خاص رقم اس غرض کے لیے جمع ہو سکتی ہے.مگر میں دیکھتا ہوں کہ جہاں پاکستان کی اور سب جماعتوں میں اپنی ذمہ داری کا احساس ہے وہاں اس جگہ ہر شخص اپنے آپ کو چودھری سمجھتا ہے اور وہ خیال کرتا ہے کہ یہ تحریکات دوسروں کے لیے ہیں اس کے لیے نہیں.اب میں اس سفر میں دیکھوں گا کہ یہاں کی جماعتوں نے اس چندہ میں کس حد تک حصہ لیا ہے.اسٹیٹیوں کے دورہ کے وقت مالکان زمین کے متعلق بھی یہ دیکھا جائے گا کہ انہوں نے اس تحریک میں کتنا حصہ لیا ہے اور ی
$1953 181 خطبات محمود دکانداروں کا بھی جائزہ لیا جائے گا کہ انہوں نے اس تحریک میں حصہ لیا ہے یا نہیں لیا.آخر وہ تجارت کرتے ہیں اور اپنا اور اپنے بیوی بچوں کا پیٹ پالتے ہیں وہ بتائیں کہ اس عرصہ میں انہیں کوئی آمدن ہوئی ہے یا نہیں ؟ کوئی نفع ہوا ہے یا نہیں؟ اگر ہوا ہے تو انہوں نے خدا کا حق کیوں اداری نہیں کیا.چھوٹے تاجروں کو یہ کہا گیا تھا کہ وہ ہر ہفتے کے پہلے دن کے پہلے سودے کا منافع مسجد فنڈ میں دیا کریں.فرض کرو ان کے ایک دن میں ہیں سودے ہوتے ہیں تو سات دن میں ایک سنہ چالیس سو دے ہوئے.اور چونکہ ہفتہ کے ایک دن کے ایک سودے کا منافع اس تحریک کے لیے رکھا گیا ہے اس لیے اس کے معنی یہ ہیں کہ انہیں اپنے نفع کا1/140 حصہ دینا پڑا.اور ایک سو چالیسواں حصہ دینا ہر گز کوئی ایسا بوجھ نہیں جو کسی معمولی سے معمولی تاجر کے لیے بھی نا قابل برداشت ہو.اسی طرح وہ زمیندار جن کے پاس دس ایکڑ سے زیادہ زمین ہے اُن کے لیے دوآنہ فی ایکڑ کے حساب سے چندہ دینا کوئی بڑی بات نہیں.دس ایکڑ سے کم زمین والوں کے لیے صرف ایک آنہ فی ایکڑ کے حساب سے چندہ مقرر کیا گیا ہے.اسی طرح مزارعین کے لیے یہ تجویز کیا گیا ہے کہ جن کے پاس دس ایکڑ سے کم مزارعت ہو وہ دو پیسہ فی ایکڑ کے حساب سے اور اس سے زائد مزارعت والے ایک آنہ فی ایکڑ کے حساب سے رقم ادا کریں.اگر کوئی سولہ ایکڑ کا شت کرے تو سولہ ایکڑ کے حساب سے صرف ایک روپیہ اُسے ادا کرنا پڑے گا.اور اگر چو بیس ایکڑ کاشت کرے تو ڈیڑھ روپیہ دینا پڑے گا.اسی طرح مالکوں میں سے اگر کسی کے پاس سو ایکٹر زمین ہے تو ی اُسے دوسو آ نہ دینا پڑے گا.اور اگر ہزار ایکڑ زمین ہے تو دو ہزار آنہ دینا پڑے گا.اور سوا سیکٹر پر دو سوآنہ یا ہزارا ایکڑ پر دو ہزار آنہ دے دینا کوئی بڑی بات نہیں.یہ اس قسم کا ہلکا اور آسان چندہ ہے کہ ہنسی خوشی سے ایک لاکھ روپیہ سالانہ چندہ جمع ہو سکتا ہے.مگر اب یہ حالت ہے کہ امریکہ میں مسجد کے لیے زمین خریدی گئی تو با وجود اس کے کہ تین سال گزر گئے اب تک زمین کی قیمت کا بھی چندہ نہیں ہوا.پچھلے سال یہ تحریک کی گئی تو 25 ہزار چندہ جمع ہوا.حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ اگر ساری جماعت لیتی تو ایک لاکھ روپیہ سے زیادہ آنا چاہیے تھا.36,35 ہزار پہلے آیا ہوا تھا.گویا صرف ساٹھ ہزار روپیہ امریکہ کی مسجد کے لیے آیا ہے.حالانکہ ایک لاکھ چالیس ہزار کی صرف زمین تھی.
$1953 182 خطبات محمود اور تقریباً ڈیڑھ لاکھ روپیدا بھی مسجد کی تعمیر کے لیے اس پر اور خرچ ہو گا.موجودہ رفتار کو مد نظر رکھتے ہوئے اگر جماعت میں موجودہ اخلاص برابر قائم رہے تو دس سال میں صرف امریکہ کی مسجد کے لیے چندہ جمع ہوسکتا ہے.حالانکہ اگر سب دوست با قاعدہ چندہ دیں تو دس سال میں تین چار مسجد میں بن سکتی ہیں.اور امریکہ کی مسجد بڑی آسانی سے دو اڑھائی سال میں تیار ہوسکتی ہے.یہ چیز اپنی ذمہ داری کے احساس کے ساتھ تعلق رکھتی ہے.جتنا جتنا کسی میں اپنی ذمہ داری کا احساس ہوتا ہے اُتنا ہی اُس کے اندر جوش اور قربانی کا مادہ پایا جاتا ہے.اگر ہمارے یہ دعوے جھوٹے ہیں کہ ہم نے دنیا میں اسلام کی اشاعت کرنی ہے تو ہمیں ساری دنیا سے لڑائی مول لینے کی بجائے ان کے ساتھ مل جانا چاہیے.اور جس طرح وہ مُردہ ہیں اُسی طرح خود بھی مُردہ بن جانا چاہیے.اور اگر ہمارے اندر زندگی کے آثار ہیں اور ہم اپنے دعووں میں بچے ہیں تو پھر ہمیں یہ نہیں دیکھنا پڑے گا کہ ہمارے حالات کیا ہیں اور ہم پر کس قدر بوجھ پڑے ہوئے ہیں.بلکہ ہمیں آخر دم تک دین کی خدمت کے لیے اپنی ہر چیز کو قربان کرنے کے لیے تیار رہنا پڑے گا.اور خدا تعالیٰ کا فضل ہے کہ ہماری جماعت میں ایسے لوگ پائے جاتے ہیں جو ہر قسم کی قربانی کے لیے پوری بشاشت کے ساتھ تیار رہتے ہیں.ہماری جماعت میں ایک غریب سقہ تھا.جب بھی چندہ کی کوئی تحریک ہوتی تو وہ فوراً آجاتا اور کچھ نہ کچھ چندہ دے دیتا.اُس کی تنخواہ صرف تمہیں روپے ماہوار تھی مگر آہستہ آہستہ اُس کی کے چودہ پندرہ روپے چندہ میں جانے لگے اور وہ ہر نئی تحریک پر اصرار کرتا کہ اس میں میرا بھی حصہ شامل کیا جائے.وہاں کے امیر جماعت نے مجھے لکھا کہ ہم اس کو بار بار سمجھاتے ہیں کہ تمہاری مالی حالت کمزور ہے تم ہر تحریک میں حصہ نہ لیا کرو، ہر تحریک غرباء کے لیے نہیں ہوتی.مگر وہ کہتا کہ یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ چندہ کی تحریک ہو اور پھر میں اس میں حصہ نہ لوں اس لئے آپ سے کہا جاتا ہے ہے کہ آپ اُسے روکیں.چنانچہ میں نے اُسے پیغام بھجوایا کہ آپ چندوں میں اس قدر زیادہ حصہ نہ لیا کریں.تب کہیں جا کر وہ رُکا.تو ایسے لوگ ہماری جماعت میں پائے جاتے ہیں.مگر اُن کی تعداد کم ہے.زیادہ تر وہی لوگ ہیں جو اپنے آپ کو تو چودھری سمجھتے ہیں اور جن کو اپنی ذمہ داریوں کا احساس نہیں.وہ احمدیت
$1953 183 خطبات محمود میں داخل ہو گئے ہیں بغیر اس کے کہ اس امر پر غور کریں کہ احمدیت کیا چیز ہے.اور بغیر اس کے کہ ނ اس امر پر غور کریں کہ احمدیت کی وجہ سے ان پر کیا ذمہ داریاں ہیں.مگر یہ وہ لوگ نہیں جن.احمدیت ترقی کرے گی ، یہ وہ لوگ نہیں جن کے ذریعہ اسلام دنیا میں پھیلے گا.احمدیت اگر پھیلے گی اور اسلام اگر ترقی کرے گا تو انہیں لوگوں کے ذریعے جو سمجھتے ہیں کہ جو کچھ کرنا ہے ہم نے ہی کرنا ہے.اور یہ کہ اللہ تعالیٰ ہم سے اپنے دین کی خدمت کا کوئی کام لے رہا ہے تو یہ ایک انعام ہے جو ہم پر کیا جارہا ہے.اور اللہ تعالیٰ کا احسان ہے کہ اُس نے ایسے زمانہ میں ہم کو اسلام کی خدمت کے لیے چنا جب کہ اسلام کمزور ہو رہا ہے اور مسلمان صرف نام کے مسلمان رہ گئے ہیں.ایسے ہی لوگ ہیں جو ہمیشہ کے لیے زندہ رکھے جائیں گے اور اُن کے نام اسلام کے مجاہدین میں شمار کیے جائیں گے.لمصلح 22 جولائی 1953ء) 1 اسد الغابة جلد 1 صفحه 238,237 مطبوعہ ریاض 1384ھ 2: اسد الغابة جلد 3 صفحہ 157 مطبوعہ ریاض 1286ھ ، ابوداؤد کتاب الصلواة باب الامام يكلم الرَّجُل فِي خُطْبَتِهِ :3 صحیح مسلم كتاب الاشربة باب تحريم الخمر وبيان انها تكون من عصير العنب....(مفہوماً)
$1953 184 24 24 خطبات محمود جو شخص اللہ تعالیٰ اور اُس کے رسولوں پر سنجیدگی سے ایمان نہیں لاتا اُس کے سارے کام بے حقیقت ہو جاتے ہیں (فرمودہ 17 جولائی 1953ء بمقام ناصر آبادسندھ ) تشہد ،تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا.وو دنیا میں سب چیزوں سے اہم اور سب چیزوں سے زیادہ بھروسا کے قابل انسان کی سنجیدگی ہوتی ہے.جب تک اس میں سنجیدگی نہ ہو اُس وقت تک اس کے کسی کام پر نہ اعتبار ہوسکتا ہے ہے اور نہ بھروسا ہو سکتا ہے اور نہ ہی اس کا کوئی نتیجہ نکل سکتا ہے.خدا تعالیٰ کی ذات کتنی اہم اور کتنی مقدم ہے.ساری کائنات کا پیدا کرنے والا ہے.ساری ہستیاں اُس کی محتاج ہیں اور سارے کام اس کے ساتھ وابستہ ہیں.لیکن اس کے باوجود اگر کوئی شخص خدا تعالیٰ پر سنجیدگی سے ایمان نہیں لاتا اور اُس کی ذات اُس کے سامنے ہر وقت حاضر نہیں رہتی تو اُس کے سارے کام بے حقیقت ہو جاتے ہیں.اسی طرح خدا تعالیٰ کے رسول کتنی شان کے مالک ہیں اور رسالت کتنی اہم چیزی ہے.لیکن اگر کوئی شخص رسالت کے ساتھ بھی سنجیدگی سے تعلق نہیں رکھتا تو رسالت پر ایمان لانا اسے فائدہ نہیں دے سکتا.چنانچہ دیکھ لوصحابہ بھی رسول کریم ﷺ پر ایمان لائے تھے اور آجکل الله
$1953 185 خطبات محمود کے مسلمان بھی رسول کریم اللہ پر ایمان رکھتے ہیں.جہاں تک زبان کا سوال ہے.وہ بھی لا الہ الا اللہ سے بڑھ کر کچھ نہیں کہتے تھے اور آجکل کے مسلمان بھی لا إِلهَ إِلَّا الله سے کچھ کم نہیں کہتے.مگر باوجود اس کے ان کو لا إِلهَ إِلَّا الله و نے جس مقام پر پہنچا دیا تھا.اس مقام پر آجکل کا مسلمان لَا إِلَهَ إِلَّا اللہ کہہ کر نہیں پہنچا.اس کے یہ معنی نہیں کہ لَا اِلهَ إِلَّا اللہ میں کوئی نقص ہے.یہ لَا إِلهَ إِلَّا الله کا نقص نہیں بلکہ اس سنجیدگی کا نقص ہے جو مسلمانوں میں مفقود ہو چکی ہے.وہ لَا إِلَهَ إِلَّا اللہ کہتے ہیں مگر سنجیدگی : سے اس پر ایمان لانے اور ہر چیز پر لا الہ الا اللہ کو مقدم کرنے کے لیے تیار نہیں.بلکہ حقیقت کی تو یہ ہے کہ وہ ہر دوسری چیز کو لا الہ الا اللہ پر مقدم کرنے کے لیے تیار ہو جاتے ہیں.وہ ذاتی فوائد کے حصول کے لیے اپنا ایمان بیچنے کے لیے تیار ہو جاتے ہیں.وہ اپنے اخلاق بیچنے کی کے لیے تیار ہو جاتے ہیں.وہ اپنی دیانت بیچنے کے لیے تیار ہو جاتے ہیں.وہ اپنا حسب ونسب بیچنے کے لیے تیار ہو جاتے ہیں.وہ اپنے عزیز ترین وجود بیچنے کے لیے تیار ہو جاتے ہیں.بلکہ اپنی قوم اور اپنی ملت بیچنے کے لیے تیار ہو جاتے ہیں.غرض ذاتی طور پر انہیں جو فوائد بھی کی نظر آتے ہوں اُن کے لیے وہ اپنی ہر چیز بیچنے کے لیے تیار ہو جاتے ہیں.جس کے معنی یہ ہیں کہ وہ لا إِلهَ إِلَّا الله پر سنجیدگی سے ایمان نہیں رکھتے.وہ عقیدةُ لَا إِلَهَ إِلَّا الله کے قائل ہیں اور اُسے مانتے ہیں.مگر محض ماننے سے کوئی فائدہ نہیں ہو سکتا جب تک انسان اپنی عملی زندگی بھی اُس کا کے مطابق ڈھالنے کے لیے تیار نہ ہو.آج کل ایک طرف تو احرار کی طرف سے یہ شور مچایا جاتا ہے کہ جو احمدی ہوا سے مار دو اور لُوٹ لو اور دنگا اور فساد کرو.اور دوسری طرف انہی لوگوں میں سے بعض کی طرف سے مہینہ میں ایک دفعہ ، بعض دفعہ ہر پندرھویں دن اور بعض دفعہ ہر ہفتہ بلکہ بعض دنوں میں دو دو تین تین خط مجھے اس قسم کے آجاتے ہیں کہ ہم احمدی ہونے کے لیے تیار ہیں آپ ہمیں یہ کی بتائیں کہ اگر ہم احمدی ہو گئے تو آپ ہمیں کیا دیں گے.گویا دوسرے لفظوں میں وہ یہ کہتے ہیں کہ ہم اپنے عقیدہ کو چند پیسوں پر بیچنا چاہتے ہیں.اس قسم کے خط لکھنے والے بعض دفعہ اچھے چھے خاندانوں میں سے ہوتے ہیں بعض دفعہ وہ علماء کی اولاد میں سے ہوتے ہیں اور بعض دفعہ
$1953 186 خطبات محمود وہ فقہاء کی اولاد میں سے ہوتے ہیں، بعض دفعہ وہ مغربی تعلیم یافتہ لوگوں کی اولاد میں ہوتے ہیں ، بعض دفعہ وہ قومی کارکنوں کی اولاد میں سے ہوتے ہیں.مگر اس کے باوجود وہ ہمیں یہ لکھنا کوئی معیوب نہیں سمجھتے کہ اگر ہماری تعلیم کا انتظام کر دیا جائے یا ہماری ملازمت کا انتظام کر دیا جائے یا ہماری شادی کا انتظام کر دیا جائے تو ہم احمدی ہونے کے لیے تیار ہیں.ہم تو ایسے لوگوں کو یہ جواب دے دیا کرتے ہیں کہ مذہب بیچا نہیں جاتا.آپ لوگ مذہب کو بیچنا چاہتے ہیں اور ہم میں اس کے خریدنے کی طاقت نہیں.مگر سوال تو یہ ہے کہ لکھنے والے کو یہ جرات ہوتی کیوں کی ہے؟ ایک لکھنے والا جب لکھتا ہے کہ میں آپ کے مذہب میں داخل ہونا چاہتا ہوں.آپ اس کے بدلہ میں مجھے کیا دیں گے؟ تو میں تو سمجھتا ہوں اگر اُس میں ذرا بھی سنجیدگی ہوتی تو یہ الفاظ لکھتے وقت اُس پر فالج گر جاتا یا اُس کا دل بند ہو جاتا اور اس میں ذرہ بھر بھی ایمان ہوتا تو وہ یہ خیال بھی اپنے دل میں نہ لاتا کہ مذہب کو دوسرے کے پاس بیچا جاسکتا ہے.اب خواہ یہ مولویوں کے ورغلانے کا نتیجہ ہو یا کسی کے اپنے ہی ایمان کی کمزوری اس کا باعث ہو بہر حال وہ اتنا بڑا فقرہ اپنے خط میں لکھتا ہے کہ جس مذہب اور عقیدہ کا میں پابند ہوں وہ ہے تو سچالیکن اگر آپ میری تعلیم کا انتظام کر دیں یا میری شادی کا انتظام کر دیں یا میری نوکری کا انتظام کر دیں تو میں اپنے عقیدہ اور مذہب کو چھوڑنے کے لیے تیار ہوں.اس سے پتا لگتا ہے کہ اس زمانہ میں لوگ ایمان کا تو ی دعوی کرتے ہیں.لیکن اُن کے ایمانوں میں سنجیدگی نہیں پائی جاتی.ذرا جرح کرو تو وہ کہنے لگی جاتے ہیں کہ ارے ہے کیا.اصل چیز تو پیسہ ہی ہے.یوں شاید " اسلام زندہ باد " کے نعرے لگانے میں وہ سب سے آگے آگے ہوں.لیکن پرائیوٹ ملاقات ہو تو کہتے ہیں کہ اصل چیز تو پیسہ ہی ہے.پھر ہر ایک کے دو دو تین تین مذہب ہوتے ہیں.زبان کا مذہب اور ہوتا ہے.خیالات کی کا مذہب اور ہوتا ہے اور جذبات کا مذہب اور ہوتا ہے.پھر خلوت کا مذہب اور ہوتا ہے اور جلوت کا مذہب اور ہوتا ہے.دوستوں کی مجلس میں بیٹھتے ہیں تو بے تکلفی سے مذہب پر ہنسی اور تمسخر اڑانا شروع کر دیتے ہیں اور جب باہر جلسوں میں جاتے ہیں تو گلے پھاڑ پھاڑ کر مذہب کی تائید میں تقریریں کرنا شروع کر دیتے ہیں.جب وہ سوچتے اور غور کرتے ہیں تو انہیں مذہب کی
$1953 187 خطبات محمود تعلیم پر قسم قسم کے اعتراضات نظر آنے لگتے ہیں.اور جب جذبات کا سوال آتا ہے تو ان کی ساری محبت اپنے بیوی بچوں اور روپیہ کی طرف چلی جاتی ہے خدا اور اُس کے رسول کی طرف نہیں جاتی.گویا جس طرح آج کل کئی کئی کپڑوں کے جوڑے اور کئی کئی بوٹ خریدنے کا رواج ہے اسی طرح اُن کی خلوت کا مذہب اور ہوتا ہے اور ان کی جلوت کا مذہب اور ہوتا ہے.ان کے ذکر کا مذہب اور ہوتا ہے اور ان کے فکر کا مذہب اور ہوتا ہے.ان کے جذبات کا مذہب اور ہوتا ہے اور ان کے خیالات کا مذہب اور ہوتا ہے.لیکن حقیقی مذہب ان ساری چیزوں پر حاوی ہوتا ہے.اور جب انسان اسے قبول کرتا ہے تو اس کے خیالات بھی اس سے متاثر ہو جاتے ہیں، اس کے جذبات بھی اس کے متاثر ہو جاتے ہیں ، اس کے افکار بھی اس سے متاثر ہو جاتے ہیں، اور اس کے اذکار بھی اس سے متاثر ہو جاتے ہیں.اس کی خلوت بھی اس کے تابع ہوتی ہے اور اس کی جلوت بھی اس کے تابع ہوتی ہے ہے.اور وہ جہاں بھی ہو اور جس حالت میں بھی ہو اس عقیدہ اور مذہب کے تابع رہتا ہے اور کبھی اسے ترک کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتا خواہ اُسے مار دیا جائے.گزشتہ شورش میں بعض جگہ ہماری جماعت کی مستورات نے ایسی بہادری دکھائی کہ جب شرارتی عنصر نے انہیں پکڑا اور احمدیت سے منحرف کرنا چاہا تو انہوں نے کہا کہ تم ہمیں ماردو ہمیں اس کی پروا نہیں.بلکہ اگر تم ہمارے جسم کے ستر ستر ٹکڑے کر دوتب بھی ہمیں خوشی ہے کیونکہ ہمارے ستر ٹکڑے ہی خدا تعالیٰ کی رحمت کے مستحق ہوں گے.لیکن اس کے مقابلہ میں بعض ایسے مرد بھی.تھے جنہوں نے بزدلی دکھائی اور کمزوری ایمان کا اظہار کیا.اگر وہ احمدیت کو جھوٹا سمجھ کر چھوڑ جاتے تو ہمارے لئے اس میں کوئی رنج کی بات نہیں تھی.ہر شخص اپنی نجات کا آپ ذمہ دار ہے.اگر ایک شخص دیانتداری سے سمجھتا ہے کہ شیعیت میں میری نجات ہے احمدیت میں نہیں تو وہ ہر وقت کی آزاد ہے کہ احمدیت کو چھوڑ دے اور شیعیت کو اختیار کر لے.اس سے نہ کوئی جماعت اُسے روک سکتی ہے نہ کوئی قوم اُسے روک سکتی ہے اور نہ کوئی حکومت اُسے روک سکتی ہے اسی طرح اگر کوئی ہے شخص سمجھتا ہے کہ خارجیت میں میری نجات ہے تو اس کا فرض ہے کہ وہ خارجیت کو قبول کر لے اور احمدیت کو ترک کر دے.یا اگر ایک شخص یہ سمجھتا ہے کہ منفی جو کچھ کہتے ہیں وہ درست ہے تو اُس کا
$1953 188 خطبات محمود ا دیانتداری کے ساتھ فرض ہے کہ وہ حنفی بن جائے.یا اگر کوئی حنفی یہ سمجھتا ہے کہ اہل حدیث جو کچھ کہتے ہیں وہ درست ہے تو اس کا فرض ہے کہ وہ حنفیت کو چھوڑ دے اور اہلِ حدیث بن جائے.یا اگر کوئی اہل حدیث یہ سمجھتا ہے کہ خفی سچائی پر ہیں تو اُس کا فرض ہے کہ وہ فرقہ اہلحدیث کو چھوڑ دے اور حنفیت اختیار کر لے.لیکن جو شخص اس خیال سے کسی مذہب کو چھوڑتا ہے کہ اگر میں اس پر قائم رہا تو لوگ مجھے مارڈالیں گے تو وہ جس طرح ایک جگہ بے ایمان رہا اُسی طرح دوسری جگہ بھی بے ایمان رہے گا.اُس کا نہ یہاں اعتبار کیا جاسکتا ہے اور نہ وہاں اعتبار کیا جاسکتا ہے اور در حقیقت ایسا وہی کرتا ہے جس نے مذہب کو ساری چیزوں پر مقدم نہیں کیا ہوتا.قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ اس بارہ میں مومنوں کو ایک اصولی ہدایت دیتا ہے.اور ی فرماتا ہے.یايُّهَا الرُّسُلُ كُلُوا مِنَ الطَّيِّبَتِ وَاعْمَلُوا صَالِحًا 1 یعنی یہ مقام که انسان برای قسم کے تزلزل سے بچ جائے اور اسے روحانیت اور مذہب پر ثبات حاصل ہو جائے حلال کھانے کی کے نتیجہ میں حاصل ہوتا ہے.اگر تم حلال کھاؤ گے تو اس کے نتیجہ میں لازمی طور پر تمہیں عملِ صالح کی توفیق ملے گی.جس طرح آج کل کمیونزم نے یہ بات نکال لی ہے کہ سارا دھندا پیٹ کا ہے.چنانچہ جہاں بھی کمیونسٹوں سے بات کرنے کا کسی کو موقع ملے وہ یہی کہتے ہیں کہ اور مسائل کو جانے دیجئے سارا جھگڑا ہی پیٹ کا ہے.اسی طرح قرآن کریم بھی یہی کہتا ہے کہ پیٹ ہی اصل چیز ہے.مگر اُنہوں نے تو یہ کہا ہے کہ جس نے پیٹ کا مسئلہ حل کر لیا وہ کامیاب ہو گیا اور قرآن یہ کہتا ہے کہ جس نے اپنے پیٹ کو ہر قسم کے حرام سے بچا لیا وہ کامیاب ہو گیا ، جس نے حلال اور حرام میں ہمیشہ امتیاز کیا اور جس نے طیبات کا استعمال ہمیشہ اپنا معمول رکھا وہی ہے جسے عملِ صالح کی توفیق ملتی ہے ہے.یعنی نماز کی بھی اُسے ہی توفیق ملتی ہے جو حلال کھاتا ہے، اور روزہ بھی اُسی کو نصیب ہوتا.جو حلال کھاتا ہے، اور حج بھی اُسی کو نصیب ہوتا ہے جو حلال کھاتا ہے اور زکوۃ کی بھی اُسی کو تو ملتی ہے جو حلال کھاتا ہے.بظاہر یہ ایک بے جوڑ سی بات معلوم ہوتی ہے اور انسان حیران ہوتا ہے کہ حلال کی روٹی کھانے سے نماز کی کس طرح توفیق مل سکتی ہے.مگر قرآن ہمیشہ اصولی باتیں پیش کرتا ہے جن پر اگر مضبوطی کے ساتھ عمل کیا جائے تو ان کے نتائج سے انسان محروم نہیں رہ سکتا.یہ اصولی ہدایت کی
$1953 189 خطبات محمود قرآن کریم نے اس لیے دی ہے کہ عام طور پر مذہب اور بے ایمانی کو لوگ متضاد نہیں سمجھتے.چھوٹے چھوٹے لالچوں کی وجہ سے بے ایمانی پر اتر آتے ہیں.اور سمجھتے ہیں کہ اگر ہم نے کچھ ی بے ایمانی کر لی تو اس میں کیا حرج ہے.بلکہ وہ فخر کے ساتھ اس امر کا اظہار کرتے ہیں کہ ہم نے فلاں چالا کی کی.اور بعض دفعہ تو وہ ایسے بیوقوف ہوتے ہیں کہ دین کے نام پر چالا کی کرتے ہیں اور خیال کرتے ہیں کہ اگر ہماری اس چالا کی یا دھوکا بازی کے نتیجہ میں دین کو فائدہ کی پہنچ جائے تو اس میں حرج ہی کیا ہے.مجھے حیرت ہوئی جب اسی سفر میں مجھے معلوم ہوا کہ یہاں کی ایک جماعت کے نمائندوں نے جماعت کی خاطر بے ایمانی کی ہے تا کہ اس بے ایمانی کے نتیجہ میں جماعت کو فائدہ حاصل ہو.مجھے جب یہ بات معلوم ہوئی تو میں نے کہا کہ اس صورت میں تو مسیح موعود مومنوں کے مسیح موعود نہ ہوئے بلکہ نعوذ باللہ ڈاکوؤں اور چوروں کے امام ہوئے.اگر ہمارے سلسلہ اور نظام نے بھی بے ایمانی سے روپیہ کمانا ہے تو پھر یہی کہنا پڑے گا کہ مسیح موعود ڈاکوؤں اور چوروں کے امام ہیں.جیسے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ایک چازاد بھائی تھے جنہوں نے چوہڑوں کے پیر ہونے کا دعوی کر دیا تھا.اس طرح ہمیں کہنا پڑے گا کہ مسیح موعود علیہ السلام نے کوئی نیک جماعت پیدا نہیں کی بلکہ دھوکا بازوں کی جماعت پیدا کی ہے.اس سے تم اندازه ی لگا سکتے ہو کہ وہ شخص جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تعلیم کے خلاف اپنے آپ کو ایسے مقام پر کھڑا کرتا ہے جس مقام پر کھڑا ہونے کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت بھی لوگوں کی نگاہ میں مشتبہ ہو جاتی ہے وہ کتنا بے ایمان اور دشمن اسلام ہے.اگر یہ خدا کا سلسلہ ہے تو اس کے لیے حرامخوری کی کیا ضرورت ہے اور اگر یہ خدا کا سلسلہ نہیں تو پھر چاہے ساری دنیا کی حرام خوریاں کر لو اس سے اس سلسلہ کو کیا فائدہ پہنچ جائے گا.یا درکھو کمیونزم کی طرح اسلام نے بھی اس امر کو تسلیم کیا ہے کہ اصل سوال پیٹ کا ہے.مگر کمیونزم تو یہ کہتی ہے کہ جس نے پیٹ بھر اوہی ہما را نجات دہندہ ہے.اور قرآن یہ کہتا ہے کہ جس نے اپنے پیٹ میں حلال ڈالا وہی ہمارا بندہ ہے.اور اس کے نتیجہ میں اس کے لیے نیکیوں کی کے رستے کھلتے ہیں.جب تک وہ اس امر کی پروا نہیں کرتا کہ اُس کا رزق حلال ذرائع سے کمایا ای
$1953 190 خطبات محمود ہوا ہے یا حرام ذرائع سے اُس وقت تک نہ اُس کالا اِلهَ إِلَّا اللہ کہنا اُسے کوئی فائدہ پہنچا سکتے ہے نہ احمدی کہلا نا اسے کوئی فائدہ پہنچا سکتا ہے.نہ حنفی سنی، شیعہ، چکڑالوی یا اہلحدیث کہلا کر وہ خدا تعالیٰ کو خوش کر سکتا ہے.خدا تعالیٰ اُسی وقت خوش ہوگا جب وہ اپنے پیٹ میں حلال روزی ڈالے گا.اگر وہ دھوکا بازی کے ساتھ روپیہ کماتا ہے اور حرام روٹی اپنے پیٹ میں ڈالتا نی ہے تو اُس کا یہ سمجھنا کہ اس کے نتیجہ میں وہ نیک اعمال بجالا سکے گا بالکل غلط ہے.لیکن اگر وہ حلال روزی کھائے گا تو اس کے نتیجہ میں اسے نیک اعمال کی بھی توفیق مل جائے گی.یعنی اس کے بعد اگر وہ سنوار کر نماز پڑھنا چاہے تو پڑھ سکتا ہے.اگر وہ احتیاط کے ساتھ روزہ رکھنا چاہے تو رکھ سکتا ہے.اگر وہ شرائط کے مطابق زکوۃ دینا چاہے تو دے سکتا ہے.یہ نہیں کہ آپ ہی آپ اُس سے یہ اعمال صادر ہونے شروع ہو جائیں گے.آپ ہی آپ کی کوئی عمل ظاہر نہیں ہو سکتا.صرف ان کے لیے ایک رستہ کھل جاتا ہے.پس اس کے یہ معنے نہیں کہ اگر ایک ہند و حلال روزی کھائے گا تو وہ نماز پڑھنے لگ جائے گا.یا ایک سکھ حلال روزی کھائے گا تو وہ روزہ رکھنا شروع کر دے گا.یا ایک عیسائی حلال روزی کھائے گا تو وہ ذکر الہی کرنے لگ جائے گا.بلکہ اس کے یہ معنے ہیں کہ ان نیکیوں کا رستہ اس کے لیے کھل جائے گا.اگر وہ نماز اور روزہ اور ذکر الہی کو اختیار کرنا چاہے گا تو ان نیکیوں کی اُسے توفیق مل جائے گی.لیکن اس کے بغیر وہ عمل صالح کی امید رکھے تو اُس کی یہ امید پوری نہیں ہو سکتی.ہماری جماعت کو چاہیے کہ وہ اس گر کو اچھی طرح سمجھ لے.کمیونسٹوں نے یہ مشہور کر رکھا ہے کہ دنیا میں سب پیٹ کا ہی دھندا ہے.چنانچہ کی ہندوستان کے جس مزدور اور کسان سے بھی بات کرو.وہ یہی کہے گا کہ اور باتوں کو جانے دو.دنیا میں تو اصل چیز پیٹ کا دھندا ہے.اگر کمیونسٹ ایک بات کو بار بار رٹنے سے اس قدر پھیلا سکتے ہیں تو تم سمجھ سکتے ہو کہ اگر خدا کی بات کو رٹنا شروع کر دیا جائے تو وہ کیوں نہیں پھیلے گی.اور قرآن کی یہ کہتا ہے کہ جس کے پیٹ میں حلال رزق جائے گا وہی دنیا میں عمل صالح بجالا سکے گا.اگر ہم اپنی باتوں میں اور خطبات میں اور تقاریر میں اور آپس کے لین دین میں یہی فقرہ دُہرانا شروع کر دیں تو دنیا اس کی قائل ہو جائے گی.لوگ پوچھا کرتے ہیں کہ ہم خدا تعالیٰ سے کس طرح محبت کریں
خطبات محمود 191 $1953 اور نیکیوں میں کس طرح ترقی کریں؟ گناہوں اور مختلف قسم کی بدیوں سے کس طرح بچیں؟.مقاصد میں کامیابی کس طرح حاصل کریں؟ اللہ تعالیٰ ان سب سوالات کا جواب یہ دیتا ہے کہ كُلُوا مِنَ الطَّيِّبَتِ وَاعْمَلُوا صَالِحًا اگر تم یہ چاہتے ہو کہ عملِ صالح تم سے صادر ہوں تو تم حلال اور طیب چیزیں استعمال کرو.اگر تم حرام خوری کرو گے تو تم میں دھوکا بھی ہوگا ، فریب بھی ہوگا ، دغا بازی بھی ہوگی اور لالچ بھی ہوگا.معاملات میں خرابی بھی ہوگی.اس کے بعد یہ امید رکھنا کہ تم نیکیوں میں ترقی کرنے لگ جاؤ گے اور خدا تعالیٰ کی محبت تمہارے دلوں میں پیدا ہو جائے گی محض خام خیالی ہے.تمہیں دونوں میں سے ایک چیز بہر حال چھوڑنی پڑے گی یا تو تمہیں اعمال صالح چھوڑ نے پڑیں گے اور یا حرام خوری چھوڑنی پڑے گی.جو شخص ان دونوں کو اکٹھا کرنا ہے چاہے گا وہ ہمیشہ ناکام ہو گا.کامیاب وہی ہوگا جو حرام خوری کو چھوڑ دے اور حلال اور طیب رزق حاصل کرنے کی کوشش کرے.(مصلح 28 جولائی 1953 ء) 1 المؤمنون : 52
192 $1953 25 خطبات محمود اپنے نمونہ اور عمل کو ایسا پاکیزہ بناؤ کہ تم اپنی ذات میں مجسم تبلیغ بن جاؤ.(فرمودہ 24 / جولائی 1953ء بمقام احمد آباد سندھ ) تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا.احمد آباد کی زمین ہمیشہ ہی ایک الہی معجزہ کی یاد دلاتی ہے.1915 ء سے 1917ء میں کسی عرصہ کی بات ہے کہ میں نے رویا میں دیکھا کہ میں ایک جگہ پر کھڑا ہوں.نہر کا کنارہ ہے، کچھ اور دوست بھی میرے ساتھ کھڑے ہیں کہ اتنے میں زور کی آواز آئی جیسے پانی گرنے یا آبشار کا شور ہوتا ہے.میں نے حیران ہو کر ادھر اُدھر دیکھنا شروع کیا کہ یہ کیا بات ہے.اس پر بعض دوستوں نے جو میرے ارد گر د تھے اوپر کی طرف اشارہ کیا.اور مجھے معلوم ہوا کہ نہر کا بند ٹوٹ گیا ہے اور پانی تمام علاقہ میں پھیل گیا ہے.میں نے دیکھا کہ پانی کا بہاؤ ایسا تیز ہے جیسے کسی بڑے بھاری دریا کا بند ٹوٹ جاتا ہے.پانی سرعت کے ساتھ پھیلتا چلا جاتا ہے اور اردگرد کے گاؤں اور قصبات اس کی زد میں آتے چلے جاتے ہیں.چنانچہ مجھے اُس وقت کئی گاؤں اور قصبات نظر آتے ہی ہیں اور میں دیکھتا ہوں کہ جب پانی ان کے پاس پہنچتا ہے تو وہ ان کے نیچے کی زمین کو اس طرح
$1953 193 خطبات محمود کاٹ کر پھینک دیتا ہے جس طرح زمیندار اپنے گھر پے سے گھاس کی جڑیں اکھیڑ دیتا ہے.پانی آتا ہے اور آن کی آن میں انہیں اچھال کر پرے پھینک دیتا ہے.چنانچہ بیسیوں گاؤں اور قصبات مجھے دکھائی دیئے جو پانی کے اس بہاؤ کی وجہ سے برباد ہو گئے.لیکن پہلے تو وہ پانی پرے پرے جا رہا ہے اور ہم سمجھتے ہیں کہ جس جگہ پر ہم کھڑے ہیں وہ محفوظ ہے.لیکن اتنے میں جو دوست میرے ساتھ تھے انہوں نے مجھے بتایا کہ پانی کا رُخ اب اس طرف پھر گیا ہے اور وہ چکر کاٹ کر دائیں طرف سے بائیں طرف کو آنے لگا ہے.چنانچہ دیکھتے ہی دیکھتے پیشتر اس کے کہ ہم بھاگ کر اپنے بچاؤ کی تدبیر کرتے سیلاب نے ہمیں آلیا اور جس جگہ پر ہم کھڑے تھے اُس بند کے نیچے کی زمین اُس نے کاٹ دی اور ہمیں بھی پانی میں پھینک دیا.جب میں پانی میں گرا تو میں نے تیرنا شروع کیا.مگر اس وقت پانی اتنا گہرا ہو گیا کہ یہ معلوم نہیں ہوتا تھا کہ یہ کس نہر کا پانی ہے.بلکہ یوں معلوم ہوتا تھا جیسے گہرا دریا یا سمندر ہے.میں پیر لگانے کی کوشش کرتا لیکن زمین مجھے ملتی نہیں تھی.میں نے بعض دفعہ غوطہ لگا کر زمین کی تہہ معلوم کرنے کی کوشش کی مگر پھر بھی میں ناکام رہا اور میں کی ނ اسی طرح بہتا چلا گیا یہاں تک کہ میں نے سمجھا کہ اب فیروز پور آ گیا ہے.پھر میں فیروز پور آگے کی طرف بہتا چلا گیا.مگر میرا پاؤں کہیں لگا نہیں.اُس وقت میں نے خدا تعالیٰ سے دعا کرنی شروع کی اور یہ فقرہ میری زبان پر جاری ہو ا جو پہلے بھی کئی دفعہ شائع ہو چکا ہے کہ "یا اللہ سندھ میں تو پیر لگ جائیں.یا اللہ سندھ میں تو پیر لگ جائیں." یہ دعا میں کرتا چلا گیا یہاں تک کہ میں نے محسوس کیا کہ اب پانی کم ہو گیا ہے اور میں نے اپنے پاؤں زمین پر لگانے کی کوشش کی تو میرے پاؤں لگ گئے اور میں پانی سے باہر نکل آیا.یہ 1915ء سے 1917 ء تک کے کسی سال کی بات ہے.جب مجھے خلیفہ ہوئے ابھی کی ایک سال یا دو سال یا تین سال ہی ہوئے تھے.اُس وقت حالات ایسے تھے کہ ہماری جماعت کو کوئی خاص اہمیت حاصل نہیں تھی اور نہ ہی دنیا میں وہ معروف تھی.ہمارا کوئی تبلیغی مشن بھی سوائے انگلستان کے اُس وقت تک قائم نہیں ہوا تھا.جماعت کی تبلیغی جد و جہد صرف افراد تک محدود تھی.یعنی اس غرض کے لیے مبلغ مقرر نہیں تھے بلکہ احمدی افراد ہی تبلیغ کرتے اور لوگ ان کی وجہ سے احمدیت میں داخل ہو جاتے.غرض اس وقت تک کوئی ایسے حالات نہ تھے جن سے یہ ظاہر ہوتا کہ
$1953 194 خطبات محمود ہماری جماعت کے لیے کہیں باہر جانے کا بھی موقع ہوگا.اور کوئی ایسے حالات نہ تھے جن سے سمجھا جاسکتا کہ کسی وقت ہم سندھ کی طرف جائیں گے اور وہاں پناہ لیں گے.یہ خواب آئی اور وہ سال گزر گیا پھر دوسرا سال آیا اور گزر گیا.تیسرا سال آیا اور گزر گیا.چوتھا سال آیا اور گزر گیا.پانچواں سال آیا اور گزر گیا.چھٹا سال آیا اور گزر گیا.ساتواں سال آیا اور گزر گیا.آٹھواں سال آیا اور گزر گیا.نواں سال آیا اور گزر گیا.دسواں سال آیا اور گزر گیا.گیارہواں سال آیا اور گزر گیا.بارہواں سال آیا اور گزر گیا.تیرھواں سال آیا اور گزر گیا.تیرہ سال کے بعد ایک اخبار میں میں نے پڑھا کہ گورنمنٹ نے سندھ میں نہروں کی ایک بڑی بھاری سکیم منظور کی ہے اور وہاں بہت سی قابل کاشت زمین نکلی ہے.اُس وقت گورنمنٹ کو یہ خیال کی بھی نہیں تھا کہ کوئی شخص اس زمین کو خریدے گا.زیادہ تر یہی خیال تھا کہ زمین تقسیم کی جائے گی اور بہت سستی اور آسان شرائط پر لوگوں کو دے دی جائے گی.جس وقت یہ اعلان ہوا مجھے اپنا رویا یاد آگیا اور میں نے دوستوں سے کہا کہ یہ ایک اچھا موقع ہے.خواب میں مجھے سندھ کا علاقہ ہی دکھایا گیا تھا جہاں میرے پاؤں لگے.اور پنجاب کے دریاؤں کا بھی سندھ سے ہی تعلق ہے.پنجاب کے دو بڑے بھاری دریا ستلج اور بیاس فیروز پور کے پاس آکر ملتے ہیں.اور پھر پانچوں کی دریا، دریائے سندھ میں شامل ہو جاتے ہیں.غرض یہ اعلان پڑھ کر میں نے سوچا کہ اس علاقہ میں جو نہریں بنے والی ہیں یہ ضرور خدائی حکمت کے ماتحت ہیں اور خدا تعالیٰ کا منشاء یہ معلوم ہوتا ہے کہ ہم ان زمینوں کو آباد کرنے کی کوشش کریں.چنانچہ میں نے دوستوں میں تحریک کی اور اخباروں میں بھی اعلان کروا دیا کہ اگر کوئی ای احمدی وہاں زمین خریدنا چاہے تو یہ بڑا عمدہ موقع ہے.مگر کسی نے اس طرف توجہ نہ کی.اس پر مجھے خیال پیدا ہوا کہ ہم ایک کمیٹی بنا کر یہ زمین خرید لیں اور آگے چل کر دوسروں کے پاس فروخت کر دیں.چنانچہ ہم نے ایک کمیٹی بنالی اور فی کس ایک ایک سوروپیہ کا حصہ رکھا.دس حصے میں نے خریدے.آٹھ حصے انجمن نے خریدے اور ایک ایک حصہ یا اس سے زیادہ بعض اور دوستوں نے خرید لئے.گل 30 حصے تھے.اور ہمارا ارادہ تھا کہ جب تین ہزار روپیہ جمع ہو جائے گا تو ہم اپنا آدمی بھجوا کر شرائط کا پتالیں گے اور اس کے بعد اگر ہم نے مناسب سمجھا تو ممکن ہے ہم یہ زمین
$1953 195 خطبات محمود خرید ہی لیں.چنانچہ روپیہ جمع ہوا اور ہم نے بعض دوست یہاں زمین دیکھنے اور شرائط وغیرہ معلوم کرنے کے لیے بھجوائے.جب ہمارے دوست یہاں آئے اور انہوں نے شرائط معلوم کیں تو اُس وقت ان زمینوں سے لوگوں کی اس قدر بے رغبتی تھی کہ گورنمنٹ کی طرف سے جو افسر مقرر تھا اس کے نے ہماری جماعت کے دوستوں سے کہا کہ اگر احمدی جماعت اس زمین کو آباد کرنے کی کوشش کرے تو ہم اس کو کمیشن دینے کے لیے تیار ہیں.مجھے جب ان دوستوں نے یہ رپورٹ دی تو میں نے کہا کہ کمیشن کی بجائے اگر وہ کچھ حصہ زمین کا ہی ہمیں دے دے تو یہ زیادہ اچھا ہوگا.چنانچہ ہمارے نمائندہ نے اُس سے بات کی.مگر چونکہ اُس وقت ان زمینوں کو کوئی خاص اہمیت حاصل نہیں تھی اس لیے فیصلہ ہونے میں تین چار مہینے لگ گئے.اتنے میں کچھ گا ہک بھی آنے لگ گیا.اس پر اس افسر نے کہا کہ اب تو ہمارا یہ ارادہ نہیں کہ ہم کسی کمیشن کے ماتحت یہ زمین دیں.اب ہم اس زمین کو فروخت کرنے یا ٹھیکے پر دینے کا ارادہ رکھتے ہیں.اُس وقت ہزاروں ایکڑ زمین پڑی ہے تھی اور گورنمنٹ ٹھیکے پر دے کر بھی خوش ہوتی تھی.جو صاحب یہاں آئے تھے انہوں نے میرے پاس رپورٹ کی کہ اس طرح زمین ملتی ہے.اُس وقت ہماری تجویز یہ تھی کہ دو حصے ٹھیکے پر لئے ی جائیں اور ایک حصہ خرید لیا جائے یا ایک حصہ ٹھیکے پر لیا جائے اور دو حصے خرید لئے جائیں.لیکن کی اُن کی اپنی رائے یہ تھی کہ زمین خریدی نہ جائے صرف ٹھیکے پر لی جائے.انہوں نے کہا میں نے سنال ہے کہ سندھ کی زمین کارآمد نہیں اس لیے مناسب یہی ہے کہ یہ زمین ٹھیکے پر لے لی جائے.اس کے پر ہماری میٹنگ ہوئی کہ ہمیں کیا کرنا چاہیے.کچھ لوگوں کی یہ رائے تھی کہ ہمیں یہ زمین خریدنی نی چاہیے ٹھیکے پر نہیں لینی چاہیے اور کچھ لوگوں کی یہ رائے تھی کہ ہمیں یہ زمین ٹھیکے پر ہی لینی چاہیے خریدنی نہیں چاہیے.میری رائے دونوں کے درمیان تھی کہ کچھ زمین خرید لی جائے اور کچھ زمین ٹھیکہ پر لے لی جائے.جن صاحب کی یہ رائے تھی کہ یہ زمین ٹھیکہ پر ہی لینی چاہیے انہوں نے جب ہ فیصلہ سنا تو انہوں نے اپنا حصہ چھوڑ دیا اور صرف 29 حصے رہ گئے.حصہ دار صرف سات تھے.چنانچہ ہمارے آدمی یہاں زمین کا انتخاب کرنے کے لیے آئے اور وہ زمین جہاں اب ڈینی سراسٹیٹ ہے اس کے متعلق درخواست دے دی گئی کہ ہم پچیس ہزار ایکڑ اس جگہ سے لینا کی چاہتے ہیں.یہ درخواست گورنمنٹ کو بھجوادی گئی.مگر ہفتوں گزر گئے اس کا کوئی جواب نہ آیا.
$1953 196 خطبات محمود پھر مہینوں گزرے اور اس کا کوئی جواب نہ آیا.جب بہت دیر ہوگئی تو ہم نے اپنا آدمی بھیجوایا کہ پتا تو ہے لو کہ بات کیا ہوئی ؟ جب وہ متعلقہ افسر سے جا کر ملا تو اس نے کہا کہ آپ کی درخواست تو پہنچ چکی ہے.مگر ابھی ہم سوچ رہے ہیں.مجھے جب یہ جواب ملا تو میں حیران ہوا کہ سارے سندھ میں زمین تقسیم ہورہی ہے لیکن ہماری درخواست کا کوئی فیصلہ ہونے میں ہی نہیں آتا اور کہا جاتا ہے کہ ابھی غور ہو رہا ہے آخر یہ غور کبھی ختم بھی تو ہونا چاہیے.مگر اس جواب پر ہم نے پھر انتظار کیا.مگر جب کچھ مدت تک کوئی جواب نہ ملا تو میں نے پھر اپنا آدمی بھیجوایا کہ جا کر پتا لو کہ ہماری درخواست کا کیا بنا؟ اُسے پھر یہی جواب دیا گیا کہ سوچ رہے ہیں.تب میرے دل میں شبہ پیدا ہوا کہ ان کی لوگوں کو زمین دینے میں جو تر ڈر ہے اور ہماری درخواست کو پیچھے ڈالا جارہا ہے اس میں ضرور کوئی بات ہے.پنجاب کے گورنر سرا ڈوائر جو ریٹائر ہو کر ولایت جاچکے تھے اُن سے چونکہ دوران ملازمت میں واقفیت تھی اس لئے خیال ہوا کہ اُن کو لکھا جائے کہ مسٹرڈو سے جو سندھ کی زمینوں کے افسر تھے اور اُس وقت چھٹی پر انگلستان گئے ہوئے تھے پوچھ کر حقیقت بتا ئیں.چنانچہ میں نے انگلستان کے مبلغ کو لکھا کہ اس اس طرح واقعہ ہوا ہے.تم سراڈ وائر سے ملو اور انہیں کہو کہ ہمارے معاملہ کو اس طرح پیچھے ڈالا جا رہا ہے.اس وقت اتفاقاً ڈ وصاحب بھی وہیں موجود ہیں آپ اُن سے ملکر ہمیں بتائیں کہ اس میں روک کیا ہے اور کیوں ہماری درخواست کو منظور نہیں کیا جا تا.اس وقت انگلستان میں جو ہمارے مبلغ تھے اُن کی اتفاقاً جارج لائڈ سے بھی واقفیت تھی جنہوں نے بیرج ورکس کی سکیم نکالی تھی اور جو کچھ سال پہلے بمبئی کے گورنر تھے.چنانچہ انہوں نے ایک طرف تو ی میرا پیغام سرا ڈوائر کو دیا اور دوسری طرف خود جارج لائڈ سے ملے اور اسے کہا کہ ڈو آیا ہوا ہے آپ کی اس سے مل کر پتالے دیں کہ ہماری درخواست کو کیوں منظور نہیں کیا جاتا.چونکہ لارڈ جارج لائڈ سے ہمارے مبلغ کے تعلقات معمولی تھے اُس نے صرف اتنا کہہ دیا کہ میں نے ڈو سے آپ کی بات کہہ دی ہے اور وہ اس کا خیال رکھے گا.لیکن سراڈ وائر چونکہ پنجاب رہ چکے تھے اور ہمارے ساتھ اچھے تعلقات رکھتے تھے انہوں نے ہمارے مبلغ سے کہا کہ گو مسٹر ڈو نے مجھے آپ کو یہ بات بتانے سے کی منع کیا ہے مگر چونکہ میرے آپ لوگوں سے گہرے تعلقات ہیں اس لیے میں وہ بات چھپا نہیں سکتا ہے اورصاف صاف کہ دیتا ہوں.کہ وہ زمین آپ کی جماعت کو نہیں مل سکتی وہ انہوں نے انگریزوں کو
$1953 197 خطبات محمود دینی ہے.مسٹر ڈو نے مجھے بتایا ہے کہ گورنر بمبئی نے اسے لکھا ہے کہ مجھے وائسراے کی چٹھی ملی ہے کہ یہ زمین کسی اور کو نہ دی جائے بلکہ فلاں انگریز کو دی جائے.اس کے بعد میری کیا طاقت ہے کہ میں اس حکم کو رڈ کر دوں اور یہ زمین انہیں دے دوں.لیکن ادھر ان کی درخواست بھی آئی ہوئی ہے.اور ان کی درخواست پہلے کی ہے اگر ہم اس درخواست کو رد کر دیں اور انگریزوں کو زمین دے دیں تو اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ سارے ہندوستان میں شور مچ جائے گا کہ انگریز جو غیر ملکی ہیں ان کی کو زمین محض رسمی مقاطعہ 1 پر دے دی گئی ہے اور خود ہندوستانیوں کو زمین قیمت پر بھی نہیں دی گئی.حالانکہ ان کی درخواست پہلے کی ہے.اس وجہ سے ہم خاموش ہیں اور ٹلا رہے ہیں تا کہ ایک دن خود ہی یہ تنگ آکر چلے جائیں اور ہم یہ کہہ سکیں کہ چونکہ اس زمین کا کوئی اور گا ہک نہیں رہا اس لیے ہم نے یہ زمین انگریزوں کو دے دی ہے.یہ حالات بتا کر سرا ڈوائر نے کہا کہ آپ اس زمین کا خیال چھوڑ دیں اور کسی اور زمین کے متعلق درخواست دے دیں.جب ہمیں یہ جواب ملا تو ہم نے پھر اپنے آدمی بھیجے کہ جاؤ اور پھر کسی زمین کا انتخاب کرو.چنانچہ وہ آئے اور انہوں نے اس زمین کا انتخاب کیا جہاں اب احمد آباد اور محمود آباد ہیں.انہوں نے لکھا کہ یہ زمین بھی پہلی زمین کے ساتھ ہی ایک پہلو میں ہے اور ایک ٹکڑا اس کے اگلے ہے رخ پر ہے.اگر آپ چاہیں تو اٹھارہ سوا ایکڑ محمود آباد میں اور اکیس بائیس سو ایکڑ احمد آباد میں خریدی لئے جائیں.میں نے کہا اجازت ہے.چنانچہ پھر ان دوٹکڑوں کے متعلق درخواست دے دی گئی.مگر اس درخواست کے بعد پھر خاموشی طاری ہو گئی اور جب کچھ عرصہ کے بعد ہم نے یاد دہانی کرائی تو پھر ہمیں یہی جواب ملا کہ ہم غور کر رہے ہیں.ہم حیران ہوئے کہ یہ عجیب بات ہے کہ اور کی سب لوگوں کی درخواستیں منظور کر لی جاتی ہیں اور جب ہماری درخواست آئے تو کہا جاتا ہے کہ ابھی ہم غور کر رہے ہیں اس کی تہہ میں ضرور کوئی بات ہے.چنانچہ ہم نے اپنا آدمی بھجوایا کہ وہ افسر انچارج سے ملے اور اس بارہ میں گفتگو کر کے اس کے خیالات معلوم کرنے کی کوشش کرے.ڈوصاح کو اُس وقت ترقی مل گئی تھی اور ان کی جگہ مسٹر گوڑ والہ ایک پارسی کام کر رہے تھے.ان کا ایک پی اے 2 نارائن داس تھا.چودھری فتح محمد صاحب مسٹر گوڑ والہ سے ملے اور اس سے پوچھا کہ بات کیا ہے؟ اس نے کہا بات یہ ہے کہ اس انگریز نے پھر درخواست دے دی ہے کہ یہ زمین بھی میرے مطالبے میں شامل ہے.پھر
$1953 198 خطبات محمود اس نے کہا کہ میں ہوں تو پارسی لیکن میں سمجھتا ہوں کہ یہ سخت ظلم ہے کہ انگریزوں کو زمین دے دی جائے اور آپ لوگ جو اس ملک کے باشندے ہیں آپ کو زمین نہ دی جائے.لیکن میرے لئے کوئی راستہ کھلنا چاہیے جس پر چل کر میں آپ لوگوں کا حق آپ کو دلا سکوں.اس نے کہا کہ ڈینی سر والوں کا بیس ہزا را یکٹر زمین کا مطالبہ تھا.ساڑھے سترہ ہزا را یکٹر زمین انہوں نے منتخب کر لی ہے اور اڑھائی ہزارایکٹر زمین ابھی باقی ہے.وہ کہتے ہیں کہ جب تک یہ اڑھائی ہزا را یکٹر زمین بھی ہم منتخب نہ کر لیں اُس وقت تک یہ زمین کسی اور کو نہ دی جائے.جس وقت وہ یہ باتیں کر رہا تھا نرائن داس اُس کے سامنے بیٹھا تھا.جب وہ اپنی بات ختم کر چکا تو نرائن داس کھڑا ہو گیا.یہ اُس کا پی.اے تھا جسے اُس زمانہ میں چٹ نو لیس کہا کرتے تھے.اس نے کھڑے ہو کر کہا صاحب ! کیا آپ بیچ بیچ ان کو زمین دینا چاہتے ہیں؟ اس نے کہا یہ بالکل درست ہے.میں واقع میں ان کو زمین دینا چاہتا ہوں اور مجھے یہ بُرا لگتا ہے کہ انگریز یہ ساری جائیداد لے جائیں.مگر میرے لیے کوئی راستہ ہونا چاہیے جس پر چل کر میں انہیں زمین دے سکوں.نرائن داس نے کہا اگر آپ سچ سچ ان کو زمین دینا چاہتے ہیں تو راستہ میں بتا دیتا ہوں.چنانچہ اُس نے اپنی میز سے ایک چٹھی نکالی جو میجر و زمین کی لکھی ہوئی تھی.( یہی انگریز تھے جنہوں نے اس زمین کا سودا کیا تھا) اور وہ مسٹر گوڑ والہ کو پڑھ کر سنائی.اس چٹھی کا مضمون یہ تھا کہ ہم نے ہمیں ہزا را یکٹر کی درخواست دی ہوئی تھی جس میں سے ساڑھے سترہ ہزارایکڑ زمین ہم نے چن لی ہے.باقی زمین چونکہ رڈی ہے اس لیے ہم وہ نہیں لینا چاہتے.جب اس نے یہ چٹھی نکال کر دکھائی تو مسٹر گوڑ والہ نے کہا لا ؤ کا غذا بھی میں ان کی زمین منظوری دیتا ہوں.اب مجھے قانونی حق حاصل ہو گیا ہے جس کی بنیاد پر میں ڈینی سر کی درخواست کو رد کر سکتا ہوں.چنانچہ اس نے کاغذات پر دستخط کیے اور یہ زمین ہمیں مل گئی.بعد میں ہمیں پتا لگا کہ میجر ون مین نے جو اپنے نمائندے اس زمین کو دیکھنے کے لئے بھجوائے تھے انہوں نے اپنے گھوڑے سامنے کی طرف سے ڈالنے کی بجائے پیچھے کی طرف سے ڈالے.چنانچہ جب وہ محمود آباد کے پاس پہنچے ( اُن کی زمین محمود آباد کے ساتھ ہی لگتی ہے ) تو اتفاقاً وہاں کچھ ردی زمین تھی.انہوں نے اُس ٹکڑا کو دیکھتے ہی اپنے گھوڑے موڑ لیے اور پھر وہ آگے گئے ہی نہیں.انہوں.یہی خیال کر لیا کہ یہ سب زمین رڈی اور نا قابلِ کاشت ہے.ادھر احمد آباد کے پاس انہوں نے سڑک
$1953 199 خطبات محمود کے پاس سے زمین دیکھنی شروع کی تو وہ حصے اُن کے سامنے آئے جیسے اٹھارہ واٹر کورس والی زمین ہے.اور اس کو بھی انہوں نے رڈی قرار دے دیا.اس طرح مگر مچھ کے منہ سے یہ لقمہ بچا.اس کے بعد گورنمنٹ سے کچھ اور زمین خریدی گئی.چنانچہ اب بتیس سو ایکڑ محمود آباد میں اور بہتیس سو ایکٹری ہی احمد آباد میں ہے.یہ ایک نشان تھا جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ظاہر ہوا.کہ پہلے اس نے بتایا کہ سندھ میں ایک موقع نکلنے والا ہے جو ہماری جماعت کی ترقی کا ایک ذریعہ ہوگا اور مجھ سے رویا میں دعا کروائی.اور اس کے بعد انگریزوں سے ٹکر ہوئی اور وائسرائے تک نے سفارش کی.مگر اتنی تی مخالفت کے باوجود اللہ تعالیٰ نے ان کے منہ سے نکال کر یہ زمین ہمیں عطا کی اور محمود آباد اور احمد آباد میں ہمیں زمین مل گئی.اس کے بعد ایک نئی صورت یہ نکلی کہ ناصر آباد میں لاہور کے دو زمیندار آئے اور انہوں نے وہ زمین خرید لی.مگر اس کے بعد ان دونوں میں لڑائی ہوگئی اور اس پر ان دونوں میں سے ایک شخص قادیان میں میرے پاس آیا اور اس نے کہا کہ میں اپنا حصہ فروخت کرنا چاہتا ہوں.چنانچہ میں نے اُس سے زمین خرید لی.دوسرے حصہ دار نے اپنا حق گورنمنٹ کو واپس کر دیا کہ میں اس زمین کی قیمت نہیں دے سکتا.جب اس نے گورنمنٹ کو یہ زمین واپس کی تو اتفاقاً اُس وقت ہمارا ایک عزیز وہاں موجود تھا.اس نے فوراً یہ زمین خرید لی.جس سے میں نے بوجہ مقاربت اوری ہمسائیکت یہ زمین خود لے لی اور اس طرح ناصر آباد کی آبادی کی صورت پیدا ہوئی.محمد آباد کی زمین اِس طرح ملی کہ یہ حصہ کسی نے شروع میں پانچ سال کے مقاطعہ پر لیا ہوا تھا.تحریک نے اس مقاطعہ کے دوران میں ہی اس زمین کی قیمت داخل کر دی اور کہا کہ جب یہ مقاطعہ ختم ہوگا تو پھر یہ زمین ہماری ہوگی.چنانچہ مقاطعہ ختم ہونے پر محمد آباد کی زمین تحریک کو ملے گئی.اس طرح صدر انجمن احمدیہ، تحریک جدید اور بعض دوسرے احمدیوں کی ایک بہت بڑی کی جائیدا دسندھ میں بن گئی.اُس وقت یہ حالت تھی کہ جب ہم نے یہ زمین کی تو ہم نے اپنی جماعت کے دوستوں سے بار بار کہا کہ یہ زمین خرید لومگر اس وقت ایک ایکٹر کی درخواست بھی کسی کی طرف سے نہ آئی.
$1953 200 خطبات محمود اُس وقت صرف میں نے چھ سو ایکڑ زمین خریدی تھی.مگر اتفاق ایسا ہوا کہ شروع میں گھانا ہونا ہے شروع ہوا.اس پر ایک بیوہ جو حصہ دار تھی اس نے کہا کہ میں اس گھاٹے کو برداشت نہیں کر سکتی اور اس نے اپنی اڑھائی سو ایکڑ زمین میرے پاس فروخت کر دی.اس کے بعد ایک اور ساتھی گھبرایا اور اس نے بھی اپنا اڑھائی سوایکڑ میرے پاس فروخت کر دیا.غرض مختلف حصہ داروں نے گھبرا گھبرا کر اپنی زمین بیچنا شروع کر دی.اس طرح محمود آباد میں جونئی زمین خریدی گئی تھی وہ بھی اور کچھ پرانی زمین بھی میرے پاس آگئی.گویا جماعت کی بے توجہی کے باوجود اور گورنمنٹ کی مخالفت کے باوجود اللہ تعالیٰ نے ایسے سامان پیدا کر دئیے کہ یہاں ایک بہت بڑی جائیداد ہماری جماعت کی قائم ہوگئی.اس دوران میں نواب عبداللہ خان صاحب جو پہلے اس بات کی تائید میں تھے کہ صرف مقاطعہ پر زمین لینی چاہیے خریدنی نہیں چاہیے انہیں چونکہ ادھر بار بار آنا پڑا اور افسروں سے اُن کے تعلقات ہو گئے اِس لیے گورنمنٹ نے انہیں نواب شاہ میں مقاطعہ پر کچھ زمین دے دی.نصرت آباد کی زمین اُس وقت کسی اور کے پاس مقاطعہ پر تھی.وہ غریب خاندان میں سے تھا.جب روپیہ آیا تو اس نے بے تحاشا اُس روپیہ کولکھا نا شروع کر دیا.جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ مقروض کی ہو گیا اور گورنمنٹ کو قسطیں ادا نہ کر سکا.اس پر اُس نے چاہا کہ کسی اور سے اس زمین کا تبادلہ کرے.نواب عبداللہ خان صاحب کو جب یہ معلوم ہوا تو وہ اس سودے میں کود پڑے کیونکہ انہیں یہ فائدہ نظر آیا کہ اس طرح ہم سب احمدی ایک جگہ اکٹھے رہیں گے.چنانچہ اس نے نواب شاہ والی زمین لے لی اور میاں عبداللہ خان صاحب نے نصرت آبا دوالی زمین لے لی.اس عرصہ میں ڈینی سر نے یہاں ایک فیکٹری بنائی.ہم نے انہیں کہا کہ ہمیں بھی اسی فیکٹری میں شامل کر لو.یہ فیکٹری کپاس بیلنے والی تھی.انہوں نے ایسی شرطیں پیش کر دیں جن کے نتیجہ میں انہیں تو ہم سے فائدہ پہنچ سکتا تھا مگر ہمیں کوئی فائدہ نہیں تھا.لیکن ہم نے کہا بہت اچھا ہمارا حصہ ڈال لو.چنانچہ اس پر ہمارے دوست اُن سے ملے اور وہ ہمارے دوستوں سے ملے.انہوں نے ہمیں اپنے پاس بلوایا اور ہم نے اُن کی دعوت کی اور اس موضوع پر گفتگو شروع ہوئی.انہوں نے کہا کہ آپ ہمیں دولاکھ روپیہ دے دیں.اس کے بعد جو آمد ہو اُس میں سے چھ آنے آپ کے
$1953 201 خطبات محمود اور دس آنے ہمارے ہوں گے.ہم نے دوستوں سے مشورہ کیا تو انہوں نے کہا کہ ایک لاکھ میں تو یہ پر لیس لگالیں گے.اور ایک لاکھ ان کے باقی سارے کارخانے کی قیمت ہے.گویا یہ چاہتے ہیں کہ ان کے کارخانہ کی قیمت بھی انہیں مل جائے، پریس بھی لگوا لیں اور پھر ہمارے روپیہ سے ہی تجارت کر کے چھ آنے ہمیں دے دیں اور دس آنے اپنے پاس رکھیں.چنانچہ ہم نے ان پر زور دیا ت کہ ان شرطوں کو کچھ نرم کیا جائے.مگر انہوں نے شرطیں نرم نہ کیں.اس پر خدا تعالیٰ نے میرے دل میں تحریک پیدا کی کہ کنری میں جگہ لو اور وہاں اپنا کارخانہ بناؤ.چنانچہ کنری میں ہم نے اُس کی وقت کارخانہ بنایا ہے جب وہاں ایک جھونپڑی بھی نہ تھی.ہمارے کارخانہ کی بدولت ہی یہ کنری شہر بنا ہے.اس طرح خدا تعالیٰ نے اپنے فضل سے ہمیں کارخانہ بھی دے دیا اور پھر اس کارخانہ کی وجہ سے وہاں آبادی ہوگئی اور شہر بن گیا.اسی طرح نبی سر روڈ میں بھی جو آبادی ہوئی وہ اسی اسٹیٹ کی وجہ سے ہے.اور جس دن خدا تعالیٰ نے ہمیں نبی سر روڈ میں دُکانیں اور مکان بنانے کی توفیق عطا فرما دی تم دیکھو گے کہ یہ بھی ہے سے دو ایک اچھا خاصا شہر بن جائے گا.صرف دو جگہیں باقی رہ گئی ہیں.ایک ناصر آباد اور ایک محمد آباد - ناصر آباد دتوریل سے میل پرے ہے.لیکن محمد آباد اسٹیشن سے قریب ہے اور گوا بھی وہاں کوئی شہر نہیں لیکن اب اللہ تعالی کی طرف سے ایسے سامان پیدا ہو رہے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ ٹاہلی بھی عنقریب شہر بننے والا ہے.یہ ایک الہی تصرف تھا جس کے ماتحت اس علاقہ میں ہمیں اتنی بڑی زمین مل گئی.ہمارے ملک میں ایک گاؤں عموماً پانچ سو ایکڑ میں بسایا جاتا ہے.اور یہاں ہماری جماعت کے افراد، صدرا انجمن احمد یہ اور تحریک جدید کی جو زمین ہے اگر اس کو جمع کیا جائے تو اکیس ہزا را یکڑ بنتی ہے.گویا اگر ہم پنجاب کے نمونہ پر یہاں گاؤں بسانا چاہیں تو بیالیس گاؤں بسا سکتے ہیں.پھر یہ ہماری زمین ریلوے لائن کے قریب ہے.اور ہماری اپنی جنگ فیکٹری (Ginning Factory) اور پر لیس وغیرہ ہے.غرض یہ ایک بہت بڑی جائیداد ہے جو اللہ تعالیٰ نے ہمیں عطا فرمائی ہے.گو بدقسمتی سے ہم اپنی اس جائیداد کو ابھی تک ایسے رنگ میں نہیں لا سکے کہ سلسلہ کو معتد بہ آمد ہو سکے.کئی سال کے بعد اب صدر انجمن کا زمینی قرضہ اترا ہے.مگر تحریک کا ابھی آٹھ لاکھ کے قریب قرض
$1953 202 خطبات محمود باقی ہے.اس کی زمین کی قیمت زیادہ تر چندوں سے ادا کی گئی.اور کچھ اسی زمین کی آمدن سے اور کچھ دوستوں سے قرض لے کر.ان زمینوں سے زیادہ اچھی آمد نہ ہونے میں کچھ ہمارے انتظام کے نقص کا بھی دخل تھا.کیونکہ شروع میں ہمیں ایسے کارکن ملے جو زیادہ تجربہ کار نہیں تھے.مگر اب بظاہر حالات ایسے نظر آتے ہیں کہ اگر اللہ تعالیٰ نے چاہا تو ان زمینوں سے زیادہ آمد شروع کی ہو جائے گی.کیونکہ کچھ تو اخراجات پر تصرف کر لیا گیا ہے اور کچھ زمین اس طرح درست ہو گئی ہے کی کہ اب آسانی سے اس کی نگرانی کی جاسکتی ہے.ٹیلے وغیرہ کاٹ دیئے گئے ہیں، گڑھے پر کر دیئے گئے ہیں، جھاڑیاں ہٹا دیں گئی ہیں اور ایسی صفائی ہو گئی ہے کہ اب ایک نظر ڈال کر سب زمین کو دیکھا جاسکتا ہے.جب میں پہلی دفعہ یہاں آیا ہوں تو اُس وقت اس علاقہ میں ریلوے لائن نہیں تھی.ہم جھڈواسٹیشن پر اترے اور گھوڑوں پر سوار ہو کر یہاں آئے.اُس وقت یہاں جنگل کی یہ حالت تھی کہ ہم حیدرآباد سے ایک موٹر اپنے لیے لے آئے تھے.میر پور خاص کی بھی اُس وقت کوئی حیثیت نہیں تھی.جب ہم احمد آباد سے محمود آباد گئے تو ہم نے ایک آدمی موٹر میں پہلے بھجوا دیا کہ وہ ہمارے پہنچنے سے پہلے دوستوں کو ہمارے آنے کی اطلاع دے دے.تھوڑی دُور تک جانے کے بعد اس کی نے موٹر ٹھہرایا اور واپس آکر کہا کہ کیا آپ کی طرف سے ہم وہاں یہ بھی کہہ دیں کہ آپ کے پہنچنے کی سے پہلے دستر خوان پر کھانا لگا دیا جائے کیونکہ اُس وقت آپ کو بھوک لگی ہوئی ہوگی.میں نے کہا تی کہہ دیا جائے.مگر اُس وقت راستوں کی یہ کیفیت تھی کہ موٹر دو گھنٹوں کے بعد پہنچا اور ہم گھوڑوں پر ان سے پہلے پہنچ گئے.جب موٹر وہاں پہنچا تو میں نے اُن سے مذاقاً کہا کہ آپ نے تو ہمارے لیے کھانا نہیں لگوایا مگر ہم نے آپ کے لیے کھانا لگا رکھا ہے.پھر محمود آباد کے جنگل کی اِس قدر خطر ناک حالت تھی کہ رات کو کوئی شخص اکیلا پا خانہ کے لیے نہیں جا سکتا تھا بلکہ تین آدمی مل کر جاتے ہے تھے.ایک پاخانہ بیٹھتا تھا اور دوسرا ہاتھ میں لالٹین لیے پچاس یا سوفٹ تک کھڑا رہتا تھا.اور پھر اس سے پچاس یا سوفٹ کے فاصلے پر ایک اور شخص اپنے ہاتھ میں لالٹین لیے کھڑا ہوتا تھا.اور پھر تھوڑی تھوڑی دیر کے بعد وہ ایک دوسرے کو آواز دیتے تھے.یہ معلوم کرنے کے لیے کہ وہ زندہ ہے بھی ہے یا نہیں.کیونکہ بڑی کثرت کے ساتھ سانپ ہوا کرتے تھے.اور کئی ایسے زہریلے ہوتے
$1953 203 خطبات محمود تھے کہ اُدھر سانپ کا تھا تھا اور ادھر وہ شخص مرجاتا تھا.ہمارے آنے سے چند دن پہلے ہی یہاں ایک تحصیلدار دورہ کے لیے آیا اور وہ کرسی پر بیٹھ کر کام کرتا رہا.جب وہ تھک گیا تو اُس نے اپنا پاؤں نیچے لٹکا یا.مگر ادھر اُس نے اپنا پاؤں زمین پر رکھا اور ادھر فوراً اُسے کسی سانپ نے ڈس لیا اور وہ مر گیا.غرض یہ حالت تھی اس علاقہ کی.مگر اب یہ حالت ہے کہ لائل پور اور سرگودھا کی طرح یہ علاقہ بھی ترقی کر رہا ہے اور آٹھ دس سال کے بعد کسی کو خیال بھی نہیں رہے گا کہ یہاں جنگل ہوا کرتا تھا اور لوگ اس علاقہ میں آتے ہوئے اور رات کو باہر نکلتے ہوئے ڈرا کرتے تھے.ہمارا کوئی دورہ محمود آباد اور احمد آباد کا ایسا نہیں ہوا کرتا تھا جس میں ہمیں سانپ کاٹے کا علاج نہ کرنا پڑتا ہو.مگر اب اللہ تعالیٰ کے فضل سے بہت ہی شاذ کوئی ایسا کیس ہوتا ہے.پس اللہ تعالیٰ نے اس جگہ کو ایک نشان کے طور پر بنایا ہے.جیسے اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام سے مکہ کی بنیاد رکھوائی اور اُن سے یہ دعا کروائی کہ اے خدا ! تو اس کی وادی غیر ذی زرع کو برکت دے اور یہاں ایسے لوگ آئیں جو تیرے نام کو بلند کرنے والے اور تیرے دین کی خدمت کرنے والے ہوں.اسی کے نمونہ اور نقشِ قدم پر خدا تعالیٰ نے یہ نشان ہے دکھایا ہے اور ہمیں ایسی جگہ لے آیا جہاں ہمارے آنے کا کوئی امکان نہیں تھا.ایسی جگہ لے آیا جہاں گورنمنٹ تک ہمیں زمین دینے کی مخالف تھی.اور ایسی جگہ لے آیا جہاں اُس وقت ریل تک بھی نہیں تھی.اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے اس مقام کو برکت دی.اور جب ریل گزری تو اللہ تعالیٰ کی کے فضل کے ماتحت ریل کی پٹڑی ایسی جگہ رکھی گئی کہ ہر جگہ ہماری ہی زمینیں ریلوے لائن کے قریب آئیں اور ڈینی سر والے پیچھے رہ گئے.چنانچہ احمد آباد کی زمین نبی سر روڈ کے قریب ہے جو ریلوے اسٹیشن ہے.محمد آباد کی زمین کے قریب ٹاہلی اسٹیشن بنا اور محمود آباد کے قریب کنری کا اسٹیشن بنا اور ناصر آباد کے قریب کنجیجی کا اسٹیشن بنا.غرض ریل بھی گزری تو ایسی طرز پر کہ وہ ہماری ہی زمینوں کو طاقت دیتی چلی گئی.یہ ایک الہی نشان ہے جو ظاہر ہوا.اور جس کی اہمیت کی ہماری جماعت کے افراد کو اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے.احمد آباد میں جب ہم پہلی دفعہ آئے تو یہاں صرف دو کمرے تھے جن میں مینیجر رہا کرتا تھا.اور باقی لوگ جھونپڑوں میں رہا کرتے تھے.پھر اس سال جب ہم ناصر آباد میں گئے تو تھی
$1953 204 خطبات محمود میرے ٹھہرنے کے لیے جو جگہ بنائی گئی وہ ایک درخت کے نیچے تھی.گھاس پھونس کی چھت ڈال کر ایک جھونپڑا سا بنالیا گیا تھا جس میں میں نے رہائش اختیار کی.مگر اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے دیکھتے ہی دیکھتے ہماری حالت بدل دی اور مکان بھی بن گئے اور احمدی مزار عین بھی آگئے.مگر یہ دولت کی اور زمین اُسی وقت مفید ہو سکتے ہیں اور یہ احمدی اُسی وقت بابرکت ہو سکتے ہیں جب یہ سب کچھ خدا تعالیٰ کے کام آئے.صرف ہمارے کام آنا ہمارے لیے کسی خوشی کا موجب نہیں ہو سکتا.یوں تو ہے عیسائیوں کے پاس بھی بڑی جائیدادیں ہیں، ہندؤوں کے پاس بھی بڑی جائیداد میں ہیں، یہودیوں کے پاس بھی بڑی جائیدادیں ہیں اور اسی طرح اور کئی قوموں کے پاس بھی بڑی جائیدادیں ہیں.اگر اسی رنگ میں ہمارے پاس بھی کچھ جائیدادیں ہو جائیں تو یہ ہمارے لیے کسی فخر کا موجب نہیں ہوسکتیں.ہماری جائیدادیں ہمارے لیے تبھی فخر کا موجب ہو سکتی ہیں اور تبھی ہم ان کے ملنے پر خوشی محسوس کر سکتے ہیں جب وہ خدا کے کام آئیں.اور خدا تعالیٰ کے کام ہمارے اموال اور ہماری جائیدادیں اسی رنگ میں آسکتی ہیں جب ہم لوگوں کے دلوں کو خدا تعالیٰ کی طرف مائل کر سکیں ، ان کے کینہ اور بغض کو دور کر سکیں اور وہ خود ہم سے حقیقت حال معلوم کرنے کی کوشش کریں.اور جب وہ ہمارے قریب آئیں تو ہمارے عملی نمونہ کو دیکھ کر ان کے دل بالکل صاف ہو جا ئیں.بغض ان کے دلوں سے نکل جائے اور وہ صداقت کو قبول کرنے کے لیے تیار ہو جائیں.پھر یہاں کی زمین اس طرح بھی خدا کے کام آسکتی ہے کہ یہ زمین ہمیں اتنا نفع دینے لگے کہ اس کی آمد سے ہم بیرونی ممالک میں اور زیادہ تبلیغی مشن قائم کر دیں.ہمارے بیسیوں مشن عیسائی ممالک میں ہوں، بیسیوں مشن ہندوستان میں ہوں ، بیسیوں مشن سکھوں میں کام کر ر.ہوں ، بیسیوں مشن چینیوں میں کام کر رہے ہوں، بیسیوں مشن جاپانیوں میں کام کر رہے ہوں.غرض تمام دنیا میں اشاعت اسلام ہو رہی ہو اور ہر جگہ محمد رسول اللہ اللہ کا نام بلند کیا جا رہا ہو.مگر ابھی یہ زمینیں ہمیں اتنا نفع نہیں دے رہیں.بلکہ حقیقت یہ ہے کہ پنجاب سے دسواں حصہ کم روپیہ یہ زمینیں ہمیں دے رہی ہیں.پنجاب میں ایک مربع عام طور پر اڑھائی ہزار روپیہ سالا نہ ٹھیکے چڑھتا ہے.ہمارے ایک دوست ہیں جن کے سات مربعے ہیں اور وہ سات مربعے اکیس ہزار
$1953 205 خطبات محمود روپیہ ٹھیکہ پر چڑھے ہیں.تحریک جدید کا سندھ میں چار سو مربع ہے.اس لحاظ سے اسے بارہ لاکھ سالانہ کی آمدن ہونی چاہیے.لیکن ان زمینوں نے صرف پچھلے دوسالوں میں ایک لاکھ روپیہ دیز شروع کیا ہے.غرض پنجاب اور سندھ کی زمینوں کا آپس میں کوئی مقابلہ ہی نہیں.وہاں بعض دفعہ ایک ایک مربع پانچ پانچ سات سات ہزار روپیہ پر بھی چڑھ جاتا ہے.اگر پانچ ہزار روپیہ پر یہاں بھی ایک مربع چڑھے تو تحریک جدید کو بیس لاکھ روپیہ اور سات ہزار پر چڑھے تو اٹھائیں لاکھ روپیہ ملنا چاہیے.مگر ہمیں صرف ایک لاکھ روپیہ ملتا ہے.پس جہاں تک آمد کا سوال ہے یہاں کی زمینوں کی آمد پنجاب کی آمد کے پاسنگ بھی نہیں.بلکہ پنجاب کی آمد کے مقابلہ میں بیسواں حصہ بھی نہیں.جتنی زمین سے وہاں ہیں روپے کمائے جاتے ہیں اتنی زمین سے یہاں ایک روپیہ بھی نہیں کمایا جا سکتا ہے.پس وہ دن تو ابھی دور ہے جب اس زمین سے ہمیں اس قدر نفع حاصل ہونا شروع ہو جائے کہ ہم دنیا کے گوشہ گوشہ میں اپنے تبلیغی مشن قائم کر سکیں.لیکن ہم اتنا تو کر سکتے ہیں کہ اس نشان کی طرف لوگوں کو توجہ دلائیں اور انہیں بتائیں کہ اس زمانہ میں صرف احمدیت ہی خدا تعالیٰ کے زندہ نشانات کو پیش کرتی ہے.اور اس کے ساتھ وابستگی انسان کے اندر حقیقی تقویٰ پیدا کرتی اور اس کا خدا تعالیٰ سے سچا تعلق پیدا کر دیتی ہے.حقیقت یہ ہے کہ سچائی کے لیے کسی بڑی نمائش کی ضرورت نہیں ہوتی.سچائی انسان کے عمل سے ثابت ہو جاتی ہے.اور خواہ کتنا ہی کسی کو دبایا جائے ، کتنا ہی کسی کو مٹایا جائے اگر اس کے دل میں نور ہو تو وہ کبھی چُھپ نہیں سکتا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام سنایا کرتے تھے کہ ایک شخص کے دل میں ریا تھا اُس نے مسجد میں رات دن عبادت شروع کر دی تا کہ کسی طرح وہ لوگوں میں ولی مشہور ہو جائے.لیکن باوجود سارا دن عبادت کرنے کے اور ہر وقت مسجد میں رہنے کے جب وہ باہر نکلتا تو لڑکوں نے اُس سے مذاق کرنا اور عورتوں نے بھی اس کی طرف کی انگلیاں اٹھا کر کہنا کہ یہ بڑا منافق انسان ہے.اس کے دل کے کسی گوشہ میں بھی ایمان نہیں پایا جاتا.محض ریاء کاری کے لیے نمازیں پڑھتا ہے.یہاں تک کہ چھ سات سال گزر گئے وہ برا برای لوگوں میں بزرگ اور ولی مشہور ہونے کے لیے نمازیں پڑھتا رہا اور لوگ اُسے منافق اور ریاء کار
$1953 206 خطبات محمود کہتے رہے.آخر سات سال گزرنے پر اُسے خیال آیا کہ میں نے تو اپنی عمر بر باد کر دی.جس چیز کو حاصل کرنے کے لیے میں نمازیں پڑھتا رہا وہ اب تک مجھے حاصل نہیں ہوئی.میں چاہتا ہے تھا کہ لوگوں میں ولی مشہور ہو جاؤں مگر لوگ مجھے منافق اور ریاء کار کہتے رہے.اب میں اس کی بے ایمانی کو چھوڑتا ہوں اور خالص اللہ تعالیٰ کے لیے عبادت کرتا ہوں.چنانچہ وہ جنگل میں چلانی گیا.اس نے وضو کیا اور پھر نماز میں کھڑے ہو کر اللہ تعالی سے دعا کی کہ الہی ! اتنے عرصہ تک میں نے بناوٹی ولی بننے کی کوشش کی.مگر نہ میں بناوٹی ولی بنا اور نہ ہی مجھے تو ملا.اب دنیا والے مجھے جو چاہیں کہیں مجھے ان کی پروانہیں میں صرف تیری رضا کے لیے عبادت کروں گا اور صرف تجھ سے تعلق رکھوں گا.اس کے بعد وہ مسجد میں آیا اور اس نے اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے سچے دل سے عبادت شروع کر دی.ابھی اُس کے اس عزم پر چوبیس گھنٹے بھی نہیں گزرے تھے کہ لوگ اس کی طرف انگلیاں اٹھا کر اشارہ کرنے لگے کہ یہ تو بڑا بزرگ ہے.اس کے چہرے سے تو خدا تعالیٰ کا نور ظاہر ہوتا ہے تو جب کوئی خدا کا ہو جائے تو لوگ اُسے تبلیغ سے خواہ کتنا روکیں آپ ہی آپ تبلیغ ہوتی چلی جاتی ہے.کیونکہ اس کا منہ بتا رہا ہوتا ہے کہ اُس پر خدائی نور چمک رہا ہے.لوگ ایک دوسرے کو اُس کی طرف آنے سے روکتے ہیں.مگر خدا آپ لوگوں کے دلوں میں تحریک کرتا ہے اور انہیں ہدایت کے قبول کرنے کے لیے کھینچ کر لے آتا ہے.اور جب خدا کسی کو آپ تحریک کرے تو اور کون ہے جو اُ سے روک سکے.یہ لوگ زید کو کہہ سکتے ہیں کہ تم کسی کومت تبلیغ کرو اور زید اس ہدایت کی پابندی کرے گا.لیکن جب خدا کسی سے کہے گا کہ جا اور زید سے جا کر پوچھ کہ یہ کیا بات ہے؟ تو وہ اُس شخص کو زید کے پاس آنے سے کس طرح روک سکیں گے.وہ تو کہے گا کہ مجھے خدا نے تمہاری طرف بھیجا ہے میں اُس وقت یہاں سے نہیں بلوں گا جب تک میں تم سے بیہ دریافت نہ کرلوں کہ وہ کیا چیز ہے جو تم دنیا کے سامنے پیش کر رہے ہو.دنیا میں کوئی انسان ساری دنیا پر حکومت نہیں کر سکتا.وہ اُس کے صرف ایک حصہ پر حکومت کر سکتا ہے ، وہ اس کے صرف ایک ٹکڑے پر حکومت کر سکتا ہے.وہ ایک وقت کے لیے ساری دنیا کی کچھ چیزوں پر بھی حکومت کر سکتا ہے.لیکن ساری دنیا میں ساری چیزوں پر ہمیشہ.لیے صرف خدا ہی کی حکومت ہوتی ہے.کسی یورپین فلاسفر نے یہ ایک نہایت ہی کچی بات کہی ہے
$1953 207 خطبات محمود کہ تم دنیا کے ایک حصے کو ہمیشہ کے لیے دھوکا دے سکتے ہو، تم ساری دنیا کو کچھ دنوں کے لیے بھی دھوکا دے سکتے ہو.لیکن تم ساری دنیا کو ہمیشہ کے لیے دھوکا نہیں دے سکتے.جس طرح یہ ایک بہت بڑی سچائی ہے جو اُس نے بیان کی.اسی طرح یہ بھی اس سے کم سچائی نہیں کہ انسان دنیا کے کچھ حصوں پر لمبے عرصہ کے لیے حکومت کر سکتا ہے.انسان ساری دنیا پر کچھ دنوں کے لیے حکومت کر سکتا ہے.لیکن سارے انسانوں پر اور ساری دنیا پر ہمیشہ کے لیے خدا کی ہی حکومت ہوتی ہے.اس لیے کوئی سچائی نہیں جسے دنیا کی کوئی حکومت روک سکے.کوئی سچائی نہیں جسے دنیا کی کوئی بادشاہت دبا سکے.کیونکہ جب خدا کے قبضہ میں سب دل ہیں اور وہ خود انسانی قلوب پر قابض اور متصرف ہے اور وہ آپ کسی سے کہے کہ جاؤ اور اس ہدایت کو تسلیم کر لو تو کونسی چیز ہے جو اس کو ہدایت پانے سے روک سکتی ہے.رسول کریم ﷺ کے زمانے میں ایک شخص نے سنا کہ مکہ میں کسی شخص نے نبوت کا دعوی کیا تا ہے.اُس نے اپنے بھائی سے کہا کہ جاؤ اور تحقیقات کر کے آؤ کہ یہ کیا بات ہے.وہ مکہ میں آیا تو ہے قریش اور دوسرے بڑے بڑے سردار اس سے ملے اور اس سے پوچھا کہ تم مکہ میں کس طرح آئے ہو؟ اس نے کہا میں اس لیے آیا ہوں کہ اس شخص سے ملوں جس نے نبوت کا دعوی کیا ہے اور اس کی کے حالات دریافت کروں.انہوں نے کہا کہ تم بھی عجیب آدمی ہو کہ اتنی دُور سے اُس کے حالات کی معلوم کرنے کے لیے آگئے.وہ تو پاگل ہے اور اُس کا دماغ خراب ہو گیا ہے.ہم اُس کے رشتہ داری ہیں اور اس کے حالات کو خوب جانتے ہیں.وہ تو بڑا فریبی اور ٹھگ انسان ہے تم اس کے پاس جان کر اپنے وقت کو کیوں ضائع کرتے ہو.تمہارے لیے یہی بہتر ہے کہ تم واپس چلے جاؤ.چنانچہ وہ مکہ سے واپس آ گیا.اُس کے بھائی نے اس سے پوچھا کہ سناؤ تم نے کیا تحقیقات کی ؟ اس نے کہا کہ وہ تو ایک ٹھگ اور فریبی انسان ہے.بھائی نے کہا تمہارے پاس اس کی کیا دلیل ہے؟ کیا تم خود اس شخص سے ملے تھے اور اس سے تم نے باتیں کیں تھیں ؟ اُس نے کہا میں تو نہیں ملا مگر مجھے اس کے رشتہ دار مل گئے تھے.ان سے میں نے دریافت کیا تو انہوں نے بتایا کہ وہ بڑا دھو کے باز انسان ہے.اس لیے میں اس کے پاس گیا ہی نہیں.اس کے بھائی کے دل میں تقویٰ تھا.اُس نے جب یہ بات سنی تو اپنے بھائی کو ڈانٹا اور کہا کہ تجھے شرم نہیں آتی کہ تو نے دوسروں کی بات پر اعتبار
$1953 208 خطبات محمود کر لیا اور واپس آگیا.تجھے تو اس لیے بھجوایا گیا تھا کہ تو خود جا کر اپنے کانوں سے اُس کی باتیں سنے اور اپنی آنکھوں سے اس کے حالات دیکھے.نہ یہ کہ جو کچھ لوگ کہتے ہیں اُسے سُن کر واپس آجائے.یہ تو ہم یہاں بیٹھے بھی جانتے ہیں کہ لوگ اُس کی مخالف کرتے ہیں اور اسے بُرا بھلا کہتے ہے ہیں.اب میں خود جاؤں گا اور اس سے مل کر آؤں گا3.چنانچہ وہ خود مکہ میں گیا.مکہ میں داخل ہوتے ہی رسول کریم میے کے مخالف رشتہ دار اُسے مل گئے اور انہوں نے پوچھنا شروع کر دیا کہ کہاں سے آئے ہو اور مکہ میں تمہارا کیا کام ہے؟ اس نے کہا میں فلاں قبیلے سے آیا ہوں اور یہاں مجھے ایک ضروری کام ہے.انہیں شبہ پڑ گیا کہ کہیں یہ محمد رسول اللہ ﷺ سے ملنے کے لیے ہی نہ آیا ہو.چنانچہ انہوں نے کہا کہ اچھا ہم تمہیں ایک بات بتائے دیتے ہیں تم یہاں جس کام کے لیے آئے ہو وہ تو بے شک کرو لیکن اتنا ضرور یاد رکھنا کہ یہاں ایک شخص نے نبوت کا دعویٰ کیا ہے ممکن ہے کہ وہ تمہیں مل جائے اور تمہیں ورغلانے ی کی کوشش کرے.تم اس کے پھندے میں نہ پھنسنا.وہ بڑا چال باز اور فریبی انسان ہے.اور ہم اس کے حالات کو خوب جانتے ہیں.ہمارا وہ قریبی رشتہ دار ہے اور ہم جانتے ہیں کہ وہ ٹھگی کر رہا تا ہے.چنانچہ اس بات کو مزید پختہ بنانے کے لیے کسی نے کہا کہ میں اس کا چاہوں، کسی نے کہا میں اس کی پھوپھی کا بیٹا ہوں کسی نے کہا کہ میں اس کا بھائی ہوں ، اور ہم اچھی طرح جانتے ہیں کہ اس کی نے محض ایک دکان کھولی ہے اور چاہتا ہے کہ کسی طرح لوگ اس کے پھندے میں پھنس جائیں اور سے عزت اور شہرت حاصل ہو جائے.اس نے کہا آپ تسلی رکھیے میں ایسا بیوقوف نہیں ہوں کہ اُس کی باتوں میں آجاؤں.جب اس نے مکہ والوں کی مخالفت دیکھ لی اور اس نے سمجھ لیا کہ ان کے لوگوں کو آپ سے بلا وجہ پیر ہے تو اس نے مناسب سمجھا کہ اس بارہ میں مزید احتیاط کی جائے اور کسی شخص سے کچھ دریافت نہ کیا جائے.صرف اپنے طور پر اس شخص کو تلاش کرنے کی کوشش کی جائے.چنا نچہ اُس نے بازاروں میں اور گلیوں میں گھومنا شروع کیا کہ شاید اُسے رسول کریم کہیں نظر آجائیں مگر آپ اُسے کہیں دکھائی نہ دیئے.مکہ میں اُن دنوں چونکہ شدید مخالفت تھی اس کی لیے رسول کریم وہ حضرت اُم ہانی کے گھر میں بیٹھ کر تبلیغ کا کام کیا کرتے تھے.اس لیے باوجود سارا دن باہر پھرنے کے وہ رسول کریم اللہ کی تلاش میں کامیاب نہ ہوسکا.شام کے قریب اُسے صلى الله
$1953 209 خطبات محمود حضرت علی ملے اور انہوں نے کہا کہ آج میں نے تمہیں سارا دن مکہ کا چکر لگاتے دیکھا ہے کیا تمہیں یہاں کچھ کام ہے؟ اُس نے کہا کام تو ہے مگر ابھی جس غرض کے لیے میں آیا تھا وہ پوری نہیں ہوئی.انہوں نے پوچھا کہ کیا تمہارا کوئی ٹھکانا بھی ہے؟ اس نے کہا، ٹھکانا تو کوئی نہیں.حضرت علیؓ نے کی کہا کہ پھر میرے ساتھ چلو اور جس مکان میں میں ٹھہرا ہوا ہوں وہیں رات گزار لو.چنانچہ وہ حضرت علیؓ کے ساتھ آیا.آپ نے اسے کھانا کھلایا اور پھر وہ آپ کے مکان کے ایک کو نہ میں ہی سوتی گیا.اُسے یہ معلوم نہ ہو سکا کہ جس شخص سے ملنے کے لیے میں مکہ میں آیا ہوں وہ بھی اسی مکان میں رہتا ہے.دوسرے دن وہ پھر صبح کو نکلا اور شام تک اِدھر اُدھر پھرتا رہا.حضرت علیؓ نے اُسے پھر دیکھ لیا کہ وہ مکہ کی گلیوں میں اپنی جوتیاں گھسا رہا ہے.چنانچہ وہ پھر شام کو آپ سے ملے اور کہا معلوم ہوتا ہے کہ آپ کا کام ابھی ہوا نہیں.کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ آپ کو کیا کام ہے؟ اس نے کہا مجھے ایک آدمی کی تلاش ہے.حضرت علیؓ نے کہا ، پھر کیا آج بھی کوئی ٹھکانا ہے یا نہیں ؟ اس نے کہا کہ ٹھکانا تو کوئی نہیں.حضرت علی اُسے ساتھ لے گئے ، کھا نہ کھلایا اور اپنے مکان میں سونے کو جگہ دی.تیسرے دن وہ پھر صبح کو اٹھا اور اُس نے گلیوں اور بازاروں کا چکر لگانا شروع کر دیا اور شاء تک اسی طرح پھرتا رہا.پھر حضرت علی اُسے ملے اور اُسے اپنے مکان پر لے آئے ، کھانا کھلایا اور سونے کو جگہ دی.جب وہ صبح اُٹھ کر باہر جانے لگا تو حضرت علیؓ نے کہا کہ میزبان پر مہمان کا اور مہمان پر میزبان کا حق ہوتا ہے.تین دن تمہیں یہاں پھرتے گزر گئے.اب تو بتا دو کہ تم کس غرض کے کے لیے آئے ہو، تا کہ اگر میں بھی کچھ تمہاری مدد کر سکوں تو مدد کر دوں.اس نے کہا میں وہ بات اس لیے نہیں بتا تا کہ ڈرتا ہوں کہ مکہ والے مخالفت نہ کریں.آپ نے کہا میں تم سے وعدہ کرتا ہوں کہ تمہاری بات کا کسی اور سے ذکر نہیں کروں گا.اس نے کہا کہ اگر آپ دیانتداری کے ساتھ یہ کی وعدہ کرتے ہیں تو پھر میں آپ کو یہ بتاتا ہوں کہ میں یہاں اس لیے آیا ہوں کہ میں نے سنا ہے کیا یہاں کسی شخص نے نبوت کا دعویٰ کیا ہے.میں چاہتا ہوں کہ اُس سے ملوں اور خود اس کے حالات دریافت کروں.حضرت علیؓ نے کہا تم نے ناحق اپنے تین دن ضائع کر دئیے.اگر یہی بات تھی تو تم نے پہلے کیوں نہ بتادی.چنانچہ وہ اُسے اُس جگہ لے گئے جہاں رسول کریم ﷺ تشریف رکھتے تھے تے اور آنے جانے والوں کو تبلیغ کرتے تھے.اُس نے آپ کی باتیں سنیں اور مسلمان ہو گیا.اور ی
$1953 210 خطبات محمود مسلمان ہونے کے بعد بھی کچھ دنوں تک رسول کریم ﷺ کی صحبت میں رہا.جب کئی دن گزر گئے تو ی اُس نے رسول کریم اللہ سے عرض کیا کہ اب مجھے واپس جانے کی اجازت دیجئے.اور ساتھ ہی اس بات کی بھی اجازت دیجئے کہ کچھ دنوں تک میں اپنے دل کی بات کو مخفی رکھوں.آپ نے فرمایا بہت اچھا اجازت ہے.اس پر وہ باہر نکلے اور اپنے قبیلہ کی طرف واپس جانے لگے.عربوں میں رواج تھا کہ جب وہ مکہ میں داخل ہوتے یا کہیں باہر جانے کے لیے مکہ سے نکلتے تو خانہ کعبہ کا ضر ور طواف کیا کرتے تھے.اس دستور کے مطابق وہ بھی خانہ کعبہ کا طواف کرنے کے لیے گئے تو انہوں نے دیکھا کہ وہاں ابو جہل اور دوسرے بڑے بڑے عمائد بیٹھے ہیں.رسول کریم ﷺ کو بُرا بھلا کہہ رہے ہیں.اسلام پر ہنسی اڑا رہے ہیں اور بڑے فخر کے ساتھ باتیں کر رہے ہیں.انہوں نے جب یہ باتیں سنیں تو اُن کا جوش ایمان ظاہر ہو گیا اور وہ غصہ سے ان کے سامنے کھڑے ہو گئے.اور کہنے کی لے اَشْهَدُ اَنْ لَّا إِلهُ إِلَّا اللهُ وَاَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُولُ اللهِ.ان کالا إِلهُ إِلَّا الله کہنا تھا کہ سب لوگ جوش میں آگئے اور اُن پر ٹوٹ پڑے اور انہیں خوب مارا پیٹا.وہ مارتے جاتے تھے اور یہ بار بار کہتے چلے جاتے تھے کہ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ مُحَمَّدٌ رَّسُولُ الله - جب پتے پتے بہت ہی نڈھال ہو گئے تو اتفاقاً حضرت عباس وہاں سے گزرے اور انہوں نے پوچھا کہ یہ کون شخص ہے اور اسے کیا ہو گیا ہے؟ لوگوں نے کہا یہ صابی ہو گیا ہے اور خانہ کعبہ میں کفر بکتا ہے.حضرت عباس آگے بڑھے اور انہوں نے اُس سے پوچھا کہ تم کہاں کے رہنے والے ہو؟ انہوں نے کہا کہ میں غفار قبیلہ کا رہنے والا ہوں اور غفار قبیلہ ایسی جگہ پر تھا جہاں سے مکہ والوں کا غلہ گزرتا تھا.حضرت عباس نے جب یہ بات سنی تو انہوں نے مکہ والوں سے کہا کہ کمبـخـتـو! تمہاری عقل ماری گئی ہے.بے شک یہ مسلمان ہو گیا ہے مگر ہر قوم میں بیچ ہوتی ہے.اگر غفار قبیلہ والوں کو پتا لگا کہ مکہ والوں نے ہمارے ایک غفاری کو مارا ہے تو وہ مکہ میں غلہ نہیں آنے دیں گے اور تم بھو کے مر جاؤ گے.اس پر انہیں چھوڑ دیا.دوسرے دن پھر طواف کرنے کے لیے گئے تو دیکھا کہ پھر اسلام کو گالیاں دی جارہی ہیں.انہوں نے پھر بلند آواز سے کلمہ شہادت پڑھا اور لوگوں نے پھر انہیں مارنا شروع کر دیا.اتفاقاً پھر حضرت عباس آگئے اور انہوں نے آپ کو اُن کے نرغہ سے چھوڑایا.تیسرے
$1953 211 خطبات محمود دن بھی اسی طرح ہوا اور وہ پھر اپنے قبیلہ میں واپس آئے 4.اب دیکھو غفار قبیلہ میں اسلام کی تبلیغ کس نے پہنچائی ؟ کون اسے کہنے کے لیے گیا تھا کہ آؤ اور محمد رسول اللہ ہے کی باتیں سنو؟ کوئی مسلمان نہیں تھا جس نے اُسے تبلیغ کی ہو.کوئی مسلمان نہیں تھا جس نے اُسے محمد رسول اللہ ﷺ کا پیغام دیا ہو.صرف زمین و آسمان کا خدا تھا.جس نے ابوذرغفاری کو اس طرف متوجہ کیا اور اُسے کہا کہ جا اور محمد رسول اللہ اللہ کی باتیں سن.پس اگر ہر مسلمان کی زبان بندی کی جائے ، اگر ہر مسلمان کو تبلیغ سے روک دیا جائے ، اگر ہر مسلمان کو خدا اور اُس کے رسول کا پیغام پہنچانے سے منع کر دیا جائے تب بھی خدا کا پیغام رُک نہیں سکتا.خدا خود آسمان سے لوگوں کے دلوں پر الہام نازل کرتا ہے اور وہ خود بخود ہدایت کی کی طرف دوڑے چلے آتے ہیں.ہمارے پاس بیسیوں خطوط اس قسم کے آتے ہیں کہ ہم نے فلاں کی اب دیکھی ہے جس کی وجہ سے ہم احمدیت کو قبول کرتے ہیں.ابھی امریکہ سے وہاں کے مبلغ نے کی ایک شخص کی چٹھی بھجوائی ہے جو ایم.اے ہے اور جس میں اُس نے لکھا ہے کہ میں نے رویا میں دیکھا ہے کہ ایک شخص بلند آواز سے کہہ رہا ہے." اس زمانہ میں محمود سے بڑھ کر اسلام کا کوئی خادم نہیں ".اسی طرح بعض لوگ لکھتے ہیں کہ ہمیں رسول کریم یہ نظر آئے اور آپ نے ہمیں کہا کہ اس شخص کو قبول کر لو.اور جب خدا کسی کو آپ بتائے گا کہ یہ سچائی ہے تو خدا تعالیٰ کی بتائی ہوئی بات کو رڈ کرنے کی کون شخص طاقت رکھتا ہے.گورنمنٹ دروازوں پر پہرے لگا سکتی ہے ، گورنمنٹ مکانوں پر پہرے لگا سکتی ہے مگر گورنمنٹ جبریل کی زبان پر کس طرح پہرہ لگا سکتی ہے.گورنمنٹ یہ کس طرح اعلان کر سکتی ہے کہ جبریل کسی کو کوئی بات نہ بتائے یا کسی کو کوئی ایسی خواب بھی نہ آئے جس میں اُسے سچائی کی خبر دی گئی ہو.دنیا کی کوئی طاقت اور حکومت نہیں جو ایسا کر سکے.دنیا کی کوئی طاقت اور حکومت نہیں جو اُس بات کو روک سکے جس بات کو خدا دنیا میں پھیلانا چاہتا ہو.پس یہ جگہ خدا تعالیٰ کے نشانوں کی جگہ ہے اور تم جو اس مقام پر بس رہے ہو تمہارا فرض ہے ہے کہ اپنے اندر ایسی نیک تبدیلی پیدا کرو کہ تمہیں دیکھنے والے یہ بات محسوس کریں کہ تم ایک نئی چیز ہو.دنیا میں جب بھی کوئی ایسی چیز نظر آئے جو غیر معمولی ہو تو لوگ اُس کے متعلق خود بخود دریافت کرنا شروع کر دیتے ہیں کہ یہ کیا چیز ہے اور اس کی کیا حقیقت ہے.میں ایک دفعہ قادیان میں دریا
$1953 212 خطبات محمود پر سیر کے لیے گیا.جب ہم کشتیوں پر سوار ہوئے اور وہ چلنے لگیں تو ایک سوار نے اُس وقت قرآن کریم کی یہ آیت پڑھی کہ بِسْمِ اللهِ مَجْرَتهَا وَ مُرْسَهَا 5 یہ آیت ایسی ہے جسے نانوے فیصد مسلمان غلط پڑھتے ہیں یعنی بجائے مجر تھا پڑھنے کے اُسے مَجْرِهَا پڑھتے ہیں.چنانچہ مجھے اس کے متعلق ایک لطیفہ یاد ہے.قادیان میں ایک عرب رہتے تھے جو حافظ بھی تھے.ایک دفعہ کی حضرت خلیفہ اول درس دے رہے تھے کہ یہی آیت آ گئی.آپ نے فرمایا میں دوستوں کو ہوشیار کر دینا چاہتا ہوں کہ عام طور پر لوگ اس آیت کو غلط پڑھتے ہیں اور پھر آپ حافظ صاحب کی طرف مخاطب ہوئے اور فرمایا کیوں حافظ صاحب ! کیا یہ درست ہے یا نہیں کہ لوگ عموماً یہ آیت غلط پڑھتے ہیں؟ انہوں نے کہا ہاں حضور ! لوگ غلط پڑھتے ہیں.اس کے بعد آپ نے فرمایا میں نے تو تھی دیکھا ہے کہ ننانوے فیصدی مسلمان یہ آیت غلط پڑھتے ہیں.حافظ صاحب نے بھی کہا کہ ہاں ! حضور واقعہ یہی ہے کہ ننانوے فیصدی مسلمان یہ آیت غلط پڑھتے ہیں.آپ نے ہنس کر فرمایا عرب صاحب کہیں وہی بات نہ ہو جائے جو پرانے زمانہ میں ایک عالم کے ساتھ ہوئی تھی.پھر چی آپ نے سنایا کہ سیبویہ جو مکہ کا ایک بہت بڑا عالم گزرا ہے وہ ایک دفعہ ایک عباسی خلیفہ کی مجلس میں بیٹھا تھا کہ کسی لفظ کے متعلق بحث شروع ہوگئی.سیبویہ نے کہا کہ یہ لفظ یوں ہے اور بادشاہ کے استاد نے کہا کہ یوں ہے.بادشاہ کو سیبویہ پر غصہ آیا کہ جب ہمارا استاد کہتا ہے کہ یہ لفظ یوں ہے تو تم اس کے خلاف کیوں کہتے ہو؟ سیبویہ نے کہا کہ حضور ! شہر کے باہر بعض قبائل تجارت کے لیے آئے ہوئے ہیں اُن کی زبان زیادہ شکستہ اور صاف ہوتی ہے.آپ اُن میں سے کسی کو بلا کر پوچھ لیجیئے کہ یہ لفظ کس طرح ہے.بادشاہ نے کہا بہت اچھا.اور اس نے ایک شخص کو بھجوادیا کہ وہ باہر جا کر کسی شخص کو اپنے ساتھ لے آئے.وہ شخص جو قبائلیوں کو بلوانے کے لیے بھیجا گیا تھا وہ بادشاہ کا خوشامدی تھا.راستہ میں انہیں سمجھاتا چلا آیا کہ بادشاہ کے استاد اور سیبویہ کی آپس میں بحث شروع ہوگئی ہے.سیبو یہ کہتا ہے کہ یہ لفظ یوں ہے اور ہمارے بادشاہ کا استاد کہتا ہے کہ یوں ہے.تم سے بھی اس بارہ میں دریافت کیا جائے گا.تم وہی کہنا جو بادشاہ کا استاد کہتا ہے.اس طرح تمہیں بادشاہ کی طرف سے انعام مل جائے گا.جب وہ دربار میں آئے تو بادشاہ نے کہا.دیکھو! فلاں عالم کہتا ہے کہ یہ لفظ اس طرح ہے اور سیبویہ کہتا ہے اس طرح ہے تم یہ بتاؤ کہ یہ لفظ کس طرح ہے؟ انہوں نے کہا
$1953 213 خطبات محمود حضور ! جو آپ کا استاد کہتا ہے وہی ٹھیک ہے.سیبویہ صرف نحو کے لحاظ سے اسلامی دنیا میں سب سے بڑا آدمی سمجھا جاتا ہے اور وہ بڑا ذہین اور ہوشیار آدمی تھا.فوراً سمجھ گیا کہ اس سے یہ بات کہلوائی گئی ہے.چنانچہ سیبویہ نے کہا کہ حضور! اس سے کہیے کہ یہ لفظ بول کر دکھائے.چنانچہ جب اُس نے بولا تو اُس طرح بولا جس طرح سیبویہ کہتا تھا.چونکہ اُس کو اِس طرح بولنے کی عادت پڑی ہوئی تھی اس لیے گو اُس نے کہہ تو دیا کہ یہ لفظ اُس طرح ہے جس طرح بادشادہ کا استاد کہتا ہے مگر بولتے وقت عادت اُس پر غالب آگئی اور وہی بات درست نکلی جو سیبویہ نے کہی تھی.کہیں وہی بات اب بھی نہ ہو.اس لیے عرب صاحب ! آپ یہ آیت پڑھ کر بتا ئیں.جب عرب صاحب نے آیت پڑھی تو مجلس زعفران کا کھیت بن گئی.کیونکہ عرب صاحب نے اُسی طرح غلط آیت پڑھی جس طرح عوام پڑھتے ہیں.ہاں تو میں یہ واقعہ سنا رہا تھا کہ میں دریا پر سیر کے لیے گیا تو ایک شخص جو شکل وصورت سے زمیندار معلوم ہوتا تھا.اس نے قرآن کریم کی یہ آیت بالکل صحیح پڑھی.بِسْمِ اللهِ مَجْرَبَهَا وَ مُرْسُهَا چونکہ لوگ عموماً یہ آیت غلط پڑھتے ہیں میرے دل میں خیال پیدا ہوا کہ اس سے دریافت کرنا چاہیے کہ اس نے یہ آیت ٹھیک رکس طرح پڑھ لی.جب کہ مسلمان عموماً اس آیت کو غلط پڑھتے ہیں.چنانچہ میں نے ایک دوست سے کہا کہ وہ اس سے دریافت کرے کہ اس نے کہاں تعلیم پائی ہے؟ اب بجائے اِس کے کہ وہ اُس سے سیدھی طرح دریافت کرتے کہ آپ نے کہاں تعلیم پائی ہے؟ انہوں نے مختلف سوالات شروع کر دئیے.آپ کہاں سے آئے ہیں ، کدھر جا رہے ہیں؟ کہ کام کرتے ہیں؟ اس پر اُسے غصہ آ گیا اور اس نے کہا کہ کیا آپ پولیس افسر ہیں کہ مجھ سے ایسے سوالات کر رہے ہیں؟ آپ کی جو غرض ہے وہ بتائیے.بلا ضرورت سوالات کرنے کا کیا فائدہ ہے.اس پر میں خود آگے بڑھا اور میں نے کہا کہ بات دراصل یہ ہے کہ میں نے ہی ان سے کہا تھا تو کہ آپ سے یہ دریافت کریں کہ آپ نے کہاں تعلیم پائی ہے.کیونکہ آپ نے ابھی قرآن کریم کی ایک آیت بالکل صحیح پڑھی ہے.حالانکہ بعض مولوی تک اس آیت کو غلط پڑھتے ہیں.میرے دل میں شوق پیدا ہوا کہ میں اس بارہ میں آپ سے دریافت کروں.مگر انہوں نے بجائے سیدھی طرح سوال کرنے کے اِدھر اُدھر کے سوالات شروع کر دئیے جس سے آپ کو تکلیف
$1953 214 خطبات محمود.ہوئی ہے.اس پر اُس نے بتایا کہ میں فلاں گاؤں کا رہنے والا ہوں اور اپنے ایک بزرگ کا جو اس کے دادا یا چچا تھے نام لے کر کہا کہ انہیں علم کا بڑا شوق تھا.انہوں نے دیو بند سے خاص طور ایک قاری بلوا کر اپنے خاندان کے افراد اور گاؤں کے دوسرے بچوں کو قرآن کریم پڑھایا تھا اور اس وجہ سے میں نے یہ آیت ٹھیک پڑھی ہے.غرض دنیا میں جب کوئی عجیب چیز نظر آتی ہے تو لوگ آپ کی ہی آپ اس کے متعلق دریافت کرنا شروع کر دیتے ہیں.مجھے چونکہ یہ ایک عجیب بات نظر آئی کہ ایک ایسا شخص جو زمیندار معلوم ہوتا ہے اُس نے قرآن کریم کی وہ آیت جو عمو ما غلط پڑھی جاتی ہے صحیح پڑھی ہے اس لیے میں نے اُس سے یہ پوچھا کہ یہ کیا بات ہے؟ اور جب پوچھا تو اس نے بتایا کہ اس کی وجہ یہ ہے کہ دیو بند سے ایک قاری بلوا کر ہمیں قرآن کریم پڑھایا گیا تھا.اسی طرح اگر کوئی شخص نیک اعمال بجالائے ، نیکی اور تقویٰ میں نمونہ بن جائے ، ہر قسم کے بُرے اور نا پسندیدہ کاموں سے بچے ، لوگوں کی خیر خواہی اور ان کی ترقی کے کاموں میں حصہ لے تو ہر شخص اس.خود بخود پوچھے گا کہ اس دنیا میں رہتے ہوئے آپ کس قسم کے اعمال بجالا رہے ہیں.میہ دنیا بے نمازی ہے مگر آپ پانچوں وقت نماز پڑھتے ہیں، یہ دنیا بے روز ہے مگر آپ با قاعدہ روزے رکھتے ہیں، یہ دنیا فریب کاری اور مکاری سے کام لیتی ہے مگر آپ ہر قسم کے فریب اور مکر کے کاموں سے بچتے ہیں، یہ دنیا دوسرے لوگوں کے اعمال کو کھا جاتی ہے مگر آپ ان کے اعمال کی حفاظت کرتے ہیں.آپ آخر کہاں سے آگئے ہیں؟ وہ کہے گا کہ میرا وطن احمدیت ہے.اس پر وہ کہے گا کہ اگر احمدیت ایسی ہی چیز ہے جو بندے کا خدا سے تعلق پیدا کر دیتی ہے تو میں اس احمدیت کو قبول کیے بغیر نہیں رہ سکتا.غرض تمہارا اپنا عمل اور تمہارا چلن سب سے بڑی تبلیغ ہے.اگر تم اپنے عمل کو درست رکھو اور اپنا چلن پاکیزہ بناؤ تو کوئی وجہ نہیں کہ دنیا تمہاری طرف ނ خود بخود متوجہ نہ ہو.پس اس نشان سے فائدہ اٹھاؤ اور اپنے اندر ایک نیک تبدیلی پیدا کرو.میں نے بتایا ہے کہ یہ ویسا ہی نشان ہے جیسے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ذریعے خدا تعالیٰ نے مکہ میں ظاہر فرمایا.حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جب بیت اللہ کی بنیاد میں اٹھا ئیں تو انہوں نے اللہ تعالیٰ سے یہی دعا کی تھی کہ الہی ! میں اولا د کو یہاں اس لیے بسا رہا ہوں تا کہ وہ تیرے دین کی اشاعت کرے، تیرے ذکر کو بلند کرے اور تیری عبادت میں اپنی عمر بسر کرے.6
$1953 215 خطبات محمود یہی مقاصد ہیں جو اس جگہ کے رہنے والوں کو بھی اپنے مد نظر رکھنے چاہیں.کیونکہ خدا جب کوئی نشان دکھاتا ہے تو اس لیے دکھاتا ہے کہ لوگ اپنے اندر تبدیلی پیدا کریں اور وہ دنیا کی بجائے دین کی خدمت میں اپنے آپ کو لگائے رکھیں.پس ان اسٹیوں میں بسنے والوں کو چاہیے کہ وہ اپنے اعمال کا ہمیشہ جائزہ لیتے رہیں اور نیکی اور تقویٰ میں ترقی کرنے کی کوشش کریں.خدا تعالیٰ کے اس عظیم الشان نشان کو دیکھتے ہوئے ان کا فرض ہے کہ اپنے چال چلن کو درست کریں اور اپنا نیک نمونہ لوگوں کے سامنے پیش کریں.اگر تم اپنا نیک نمونہ دکھاؤ کہ بغیر اس کے کہ تم اپنی زبان - ایک لفظ نکالو تو لوگوں کے دل تمہاری طرف آپ ہی آپ ٹھیک ہو جائیں گے اور وہ کہیں گے کہ جو کچھ تم کہتے ہو ٹھیک ہے.جب انسان کو دوسرے کے متعلق یقین پیدا ہو جاتا ہے تو پھر وہ اُسے جھوٹا نہیں کہہ سکتا.بعض دفعہ بیویاں جھوٹی ہوتی ہیں مگر انہوں نے اپنے خاوندوں کو دھوکا دیا ہوا ہوتا ہے اور خاوند اُن کی شرافت کے قائل ہوتے ہیں.ایسی صورت میں اگر دس شریف آدمی بھی مل کر کہیں کہ تمہاری بیوی جھوٹ بولتی ہے تو وہ کبھی نہیں مانتے.اسی طرح بعض بیویوں کو اپنے خاوند پر یقین ہوتا ہے.اگر ان کی بیویوں کو کہا جائے کہ تمہارے خاوند نے فلاں جرم کیا ہے تو وہ کہیں گی کہ ایسے کہنے والا جھوٹ بولتا ہے ہمارے خاوند تو بڑے نیک اور پاک باز ہیں.غرض جب کسی شخص کے متعلق یقین پیدا ہو جائے تو انسان اس کے متعلق اپنے عقیدہ میں ایسا پختہ ہو جاتا ہے کہ وہ اس کے پیچھے چلنے میں فخر محسوس کرتا ہے.پس اپنے آپ کو ایسا بناؤ کہ تمہیں دیکھنے والا اور تمہاری باتوں کو ی اپنے کانوں سے سنے والا ہر شخص اس یقین پر قائم ہو جائے کہ جو کچھ تم کہتے ہو وہ ٹھیک ہے.اگر تم اپنے اندر تغیر پیدا کر کے لوگوں کے دلوں میں اپنے متعلق ایسا یقین اور وثوق پیدا کر دو.تو دنیا کی کوئی طاقت لوگوں کو تمہاری طرف مائل ہونے سے روک نہیں سکتی.وہ خود بخود تمہاری طرف کھنچے چلے آئیں گے اور جو کچھ تم کہو گے اُس کو صحیح اور درست سمجھیں گے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ میں ایک دوست میاں نظام الدین صاحب ہوا کرتے تھے.انہیں حج کا بڑا شوق تھا.سات حج انہوں نے اپنی زندگی میں کئے تھے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے بھی دوست تھے اور مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کے بھی دوست تھے.میاں نظام الدین صاحب ایک دفعہ حج سے واپس آئے تو لوگوں نے انہیں
$1953 216 خطبات محمود بتایا کہ آپ کا ایک دوست تو پاگل ہو گیا ہے اور اس نے عجیب و غریب دعوے شروع کر دیئے ہیں.اور دوسرے دوست نے اس پر کفر کا فتویٰ لگا دیا ہے.انہوں نے حیران ہو کر پوچھا کہ کیا ہوا؟ اس پر انہیں بتایا گیا کہ مرزا صاحب کہتے ہیں کہ حضرت عیسی علیہ السلام فوت ہو گئے ہیں.اور مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی نے انہیں کا فرقرار دے دیا ہے.وہ کہنے لگے میں مولوی محمد حسین کو جانتا ہوں.اُس کی طبیعت میں جوش پایا جاتا ہے جس کی وجہ سے وہ تحقیق نہیں کرتا.اور ی مرزا صاحب کو بھی میں جانتا ہوں وہ قرآن کریم کے خلاف کبھی کوئی بات نہیں کر سکتے.انہیں ضرور کوئی غلطی لگی ہے یا لوگ ان کے متعلق جھوٹ بولتے ہیں.بہر حال میں اتنا ضرور جانتا ہے ہوں کہ مرزا صاحب کو قرآن کریم سے کوئی بات دکھا دی جائے تو وہ اس کے خلاف نہیں ہے جاسکتے.پھر کہنے لگے کہ اچھا اب میں اس جھگڑے کو نپٹانے کی کوشش کرتا ہوں.اور پہلے مرزا صاحب کے پاس جاتا ہوں تا کہ ان سے دریافت کروں کہ بات کیا ہے.چنانچہ وہ حضرت مسیح موعود کی کے پاس قادیان پہنچے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے انہیں دیکھتے ہی فرمایا.میاں نظام الدین صاحب ! حج سے واپس آگئے ؟ انہوں نے کہا حضور ! حج سے تو واپس آ گیا ہوں مگر یہاں پہنچتے ہی میں نے ایک ایسی بات سنی ہے جس کی وجہ سے میرے پیروں تلے سے زمین نکل گئی ہے.آپ نے فرمایا کیا بات سنی ہے؟ انہوں نے کہا میں نے سنا ہے کہ آپ کہتے ہیں حضرت عیسی علیہ السلام فوت ہو گئے ہیں ؟ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا یہ ٹھیک ہے.میں یہی کہتا ہوں کیونکہ قرآن کریم سے بھی یہی ثابت ہوتا ہے.اگر قرآن سے اس کے خلاف بات ثابت ہو تو ہم اس کو چھوڑنے کے لیے تیار ہیں.وہ کہنے لگے الْحَمدُ لِلہ میرے دل پر سے ایک بڑا بوجھ اُتر گیا ہے.میں یہی کہتا تھا کہ مرزا صاحب قرآن کریم کے خلاف نہیں جا سکتے.اب آپ کی بتائیں کہ اگر میں قرآن کریم سے سو آیتیں ایسی لے آؤں جن سے یہ ثابت ہوتا ہو کہ حضرت عیسی علیہ السلام آسمان پر زندہ موجود ہیں تو کیا آپ اپنے عقیدہ کو چھوڑ دیں گے؟ وہ چونکہ ہر وقت یہی سنتے چلے آئے تھے کہ حضرت عیسی علیہ السلام آسمان پر زندہ ہیں اس لیے سمجھتے تھے کہ اس کے متعلق سو آمیتیں تو قرآن کریم میں ضرور ہوں گی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا میاں نظام الدین صاحب ! اگر ایک آیت بھی نکل آئے تو ہم اپنے عقیدہ کو چھوڑنے کے لیے تیار ہیں.انہوں نے کہا خدا آپ
$1953 217 خطبات محمود پر رحم کرے یہی بات میں لوگوں سے کہتا آرہا ہوں کہ مرزا صاحب قرآن کے خلاف ایک قدم بھی نہیں اٹھا سکتے.بہر حال اگر سو نہیں تو پچاس آیتیں تو میں ضرور لے آؤں گا.آپ نے فرمایا ہماری ہے طرف سے پچاس کی کوئی شرط نہیں ہے.اگر آپ ایک آیت بھی ایسی لے آئے تو بات صاف ہو جائے گی.اس پر انہیں خیال پیدا ہوا کہ شاید پچاس آیتیں بھی قرآن کریم میں نہ ہوں اور میری بات غلط ہو جائے اس لیے انہوں نے کہا اچھا! اگر میں ہیں آیتیں بھی ایسی لے آیا جن سے حضرت مسیح زندہ ثابت ہوئے تو کیا آپ اپنے اس عقیدہ کو چھوڑ دیں گے؟ حضرت مسیح موعود نے کی فرمایا.میاں نظام الدین صاحب! ہم نے کہ تو دیا ہے کہ اگر آپ ایک آیت بھی لے آئے تو ہم یہ عقیدہ چھوڑ دیں گے.انہوں نے یہ بات سُن کر خیال کیا کہ ممکن ہے میں آیتیں بھی نہ ہوں اور میری بات غلط ہو جائے اس لیے کہنے لگے اچھا نہیں کو بھی چھوڑئیے اگر میں دس آیتیں بھی ایسی لے آؤں تو کیا آپ پھر بھی مان جائیں گے؟ وہ چونکہ بچپن سے یہی سنتے چلے آئے تھے کہ حضرت عیسی علیہ السلام آسمان پر زندہ موجود ہیں اس لیے انہوں نے خیال کیا کہ دس سے کم تو قرآن کریم میں اس کے متعلق آیتیں نہیں ہوں گی.آپ نے فرمایا ہماری طرف سے دس کی بھی کوئی شرط نہیں آپ ایک آیت ہی لے آئیں ہم اسی ایک آیت کو ہی تسلیم کر لیں گے.اس پر وہ خوش خوش قادیان سے بٹالہ پہنچے اور مولوی محمد حسین صاحب کا جا کر پتا کیا.انہیں معلوم ہوا کہ مولوی صاحب لاہور گئے ہوئے ہیں.اتفاق کی بات ہے کہ اُنہی دنوں حضرت خلیفہ اول جو جموں کے راجہ کے حکیم تھے.ایک مہینہ کی چھٹی لے کر لاہور آئے ہوئے تھے اور اپنے داماد کے ہاں ٹھہرے ہوئے تھے.مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کو جب یہ معلوم ہوا کہ آپ لاہور آئے ہوئے ہیں.تو انہوں نے جھٹ اشتہار دے دیا کہ میرے ساتھ حیات ، وفات مسیح پر بحث کر لی جائے.حضرت خلیفہ اول نے اس کے جواب میں اشتہار شائع کیا.پھر اس کا جواب الجواب مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی نے لکھا اور پھر اُس کا جواب حضرت خلیفہ اول نے دیا.غرض دس پندرہ دن اسی میں گزر گئے اور کوئی معاملہ طے ہونے میں نہ آیا.حضرت خلیفہ اول فرماتے تھے کہ اس مسئلہ پر قرآن کریم کی رُو سے بحث ہونی چاہیے اور مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی یہ کہتے تھے.کہ اس مسئلہ پر حدیثوں کے لحاظ سے بحث ہونی چاہیے.جب جھگڑ المبا ہو گیا تو بعض دوستوں نے کہا
$1953 218 خطبات محمود کہ اس طرح تو بلا وجہ وقت ضائع ہو رہا ہے.کسی نہ کسی بات کا فیصلہ ہونا چاہیے تا کہ اصل بحث شروع ہو.چنانچہ انہوں نے حضرت خلیفہ اول سے کہا کہ کیا آپ کوئی بھی حدیث ماننے کے لیے تیار ہیں یا نہیں ؟ حضرت خلیفہ اول نے اس جھگڑے کو نپٹانے کے لیے کہا کہ اچھا قرآن کے علاوہ اگر آپ بخاری پیش کرنا چاہیں تو وہ بھی پیش کر سکتے ہیں.اب مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی بڑے خوش ہوئے کہ میں نے اپنی بات آخر منوالی.وہ اہلِ حدیث تھے اور طبعا انہیں اس بات پر خوشی ہونی چاہیے تھی کہ اور نہیں تو کم از کم بخاری کو پیش کرنا تو انہوں نے تسلیم کر لیا ہے.وہ چینیاں والی مسجد کے امام بھی تھے.ایک دن مسجد میں بیٹھے بڑے فخر سے بیان کر رہے تھے کہ نورالدین سارے ہندوستان میں مشہور ہے اور بڑا عالم فاضل بنا پھرتا ہے.لیکن میرے مقابلہ میں آیا تو اُسے اپنے گھٹنے ٹیک دینے پڑے.وہ کہتا تھا کہ صرف قرآن سے اس مسئلہ پر بحث کرو حدیث کی طرف آنے کا وہ نام نہیں لیتا تھا.میں بار بارا سے اس طرف لا تا مگر وہ ادھر آنے کا رُخ ہی نہیں کرتا تھا.آخر اس نے یوں بھاگنے کی کوشش کی اور میں نے اسے یوں پکڑا.پھر اس نے اس طرح بچنے کی کوشش کی اور میں نے اسے یوں رگیدا.پھر اس نے یہ بہانہ بنایا اور میں نے اسے یوں گردن سے مروڑا.اور آخر میں نے اُس سے منوالیا کہ قرآن کے علاوہ بخاری بھی پیش کی جاسکتی ہے ہے.جب وہ بڑے زور سے یہ بیان کر رہے تھے کہ میں نے نورالدین کو یوں رگیدا اور اس طرح رگڑا انا اور اس طرح چاروں شانے چت گرایا تو ان کی بدقسمتی سے عین اُسی وقت میاں نظام الدین صاحب وہاں جا پہنچے اور بے تکلفی سے مولوی صاحب سے کہنے لگے کہ مولوی صاحب ! میں نے آپ کو بڑا بے سمجھایا ہے کہ آپ جوش میں نہ آیا کریں مگر آپ پھر بھی جوش میں آجاتے ہیں.بھلا نورالدین کا اس میں کیا دخل ہے.میں قادیان گیا تھا اور میں مرزا صاحب سے منوا آیا ہوں کہ اگر میں قرآن کریم کی دس آیتیں ایسی لے آیا جن سے حضرت عیسی علیہ السلام کی حیات ثابت ہوتی ہو.تو وہ میرے ساتھ شاہی مسجد میں آکر اپنے عقیدہ سے تو بہ کر لیں گے.اور سب لوگوں کے سامنے ہے اس بات کا اقرار کر لیں گے کہ میں جو کچھ کہا کرتا تھا وہ غلط تھا.( انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی سے ملتے وقت یہ بھی کہا تھا کہ اگر میں قرآن کریم سے دس آمیتیں ایسی لے آیا تو آپ کو میرے ساتھ شاہی مسجد لاہور میں چل کر اپنے عقیدہ سے تو بہ کرنی پڑے گی اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام
$1953 219 خطبات محمود نے فرمایا تھا کہ بہت اچھا ہم اس کے لیے بھی تیار ہیں.) میاں نظام الدین صاحب نے اس واقعہ کو ان کے کے سامنے دہرایا اور کہا کہ اس بحث کو بند کیجئے اور جلدی سے مجھے قرآن کریم کی دس آیتیں ایسی لکھا کر دے دیجئے.میں مرزا صاحب کو شاہی مسجد میں لا کر سب کے سامنے ان سے تو بہ کرواؤں گا.اب ایک جس کا سارا فخر ہی اس بات پر تھا کہ نورالدین قرآن کی طرف جاتا تھا مگر میں اُسے حدیثوں کی طرف لانا چاہتا تھا اور آخر میں نے اُسے اس طرح رگیدا اور مروڑا اور گرایا اور پچھاڑا کہ وہ حدیث کو تسلیم کرنے پر مجبور ہو گیا اُس کے لیے اُسی مجلس میں یہ بات بم کا ایک گولہ ثابت کی ہوئی.مولوی محمد حسین صاحب نے بڑے غصہ سے میاں نظام الدین صاحب کی طرف دیکھا اور کہا ! تمہیں کس احمق نے کہا تھا کہ تم اس بحث میں گو دپڑو؟ میں تین ہفتے سے بحث کر کر کے نورالدین کو حدیث کی طرف لایا تھا.تو پھر اس بحث کو قرآن کی طرف لے گیا.اب غصہ سے یہ فقرہ تو اُن کے کی منہ سے نکل گیا مگر ایک سچے مومن کے لیے یہ فقرہ ایک تازیانہ سے کم نہیں تھا.میاں نظام الدین کے صاحب یہ بات سنتے ہی سر پکڑ کر بیٹھ گئے اور دو تین منٹ تک خاموش بیٹھے رہے.پھر اُٹھے اور کہنے لگے اچھا مولوی صاحب ! سلام ! جدھر قرآن ہے اُدھر ہی ہم ہیں.اور یہ کہہ کر وہاں سے واپس آئے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت کر لی.اب دیکھو ان کو قرآن پر اعتبار تھا اس لیے وہ قرآن کے پیچھے چل پڑے.اہلِ حدیث کو ی حدیث پر اعتبار ہوتا ہے جب ان کے سامنے کوئی بات حدیث سے ثابت کر دی جائے تو وہ فوراً اس کے کے پیچھے چل پڑتے ہیں.ایک دوسرے مومن کو قرآن پر اعتبار ہوتا ہے.جب اس کے سامنے کوئی بات قرآن سے ثابت کر دی جائے تو وہ فورا اس کو ماننے لگ جاتا ہے.بعض لوگوں کو کسی تجربہ کار انسان پر اعتماد ہوتا ہے اس لیے جو کچھ وہ کہتا ہے اُسے وہ بلا دریغ ماننے لگ جاتے ہیں.بعض کو کسی نیک انسان پر اعتماد ہوتا ہے جب وہ دیکھتے ہیں کہ وہ ایک کام کر رہا ہے تو وہ بھی ویسا ہی کام کرنے کی لگ جاتے ہیں.تم بھی اپنی زندگیاں ایسی بناؤ کہ سب لوگ تمہارے متعلق یہ کہیں کہ یہ لوگ جھوٹ کی نہیں بولتے ، یہ دھوکا اور فریب نہیں کرتے ، نیکی اور پاکیزگی میں اپنی عمر بسر کرتے ہیں.اگر تم اپنے متعلق لوگوں کے دلوں میں یہ اعتماد پیدا کرلو تو نہ کوئی حکومت کسی کو تمہارے پاس آنے سے روک سکتی ہے، نہ کوئی پارٹی تمہاری آواز کو دبا سکتی ہے ، نہ لوگوں کے باہمی معاہدات تمہیں کوئی
$1953 220 خطبات محمود نقصان پہنچا سکتے ہیں.محض زبانی تبلیغیں اُن کے لیے ضروری ہوتی ہیں جن کے عمل مشتبہ ہوں.زبانی تبلیغیں اُن کے لیے ضروری ہوتی ہیں جن کے اندر رشد اور ہدایت پر قائم رہنے والے آدمی موجود نہ ہوں.زبانی تبلیغیں ان کے لیے ضروری ہوتی ہیں جن کے اندر خدا تعالیٰ کے انوار موجود نہ ہوں.جن کے ساتھ خدا کا تعلق ہو ، جو اپنے نیک نمونہ سے لوگوں کے دلوں کو گھائل کر چکے ہوں ، جو اپنی نیکی اور تقویٰ کی وجہ سے لوگوں کا اعتماد حاصل کر چکے ہوں ، جو اٹھتے اور بیٹھتے شرافت کی اور دیانت کا ایک مجسمہ ہوں اُن کا ہر قدم تبلیغ ہوتا ہے.اُن کا ہر لفظ تبلیغ ہوتا ہے، اُن کی ہر حرکت تبلیغ ہوتی ہے.اُن کا ہر سانس تبلیغ ہوتا ہے.اور دنیا کی کوئی طاقت لوگوں کو اُن کے نیک اثر سے محروم نہیں کر سکتی.وہ لوگ جو ان کی بات سننا تک گوارا نہیں کرتے ، وہ لوگ جو ان کی شکل دیکھ کر بھاگنا چاہتے ہیں وہ بھی ان کے نمونہ کو دیکھ کر ان کے پاؤں پکڑ کر برکت حاصل کرنے کے خواہش مند ہوتے ہیں.پس اپنے نمونہ اور عمل سے اپنے آپ کو ایسا بناؤ کہ تم اپنی ذات میں ایک مجسم تبلیغ بنا جاؤ.جس طرح سورج کو دیکھنے کے بعد انسان کے لیے کسی دلیل کی احتیاج باقی نہیں رہتی.اسی طرح جب کوئی شخص تم کو دیکھ لے تو وہ یہ یقین ہی نہ کرے کہ مرزا صاحب جھوٹے تھے.تم اپنی وہی ہے حالت بناؤ جو حضرت منشی اروڑے خان صاحب مرحوم کی تھی.ایک دفعہ لوگ ان کے پاس آئے اور انہوں نے کہا کہ مولوی ثناء اللہ صاحب یہاں آئے ہوئے ہیں آپ بھی چل کر اُن سے بات کی کریں.منشی اروڑے خان صاحب کے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے آپ کے دعوی سے بھی پہلے کے تعلقات تھے.جب وہ ان کی مجلس میں گئے تو مولوی ثناء اللہ صاحب نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے خلاف پانچ دس منٹ تک تقریر کی اور بتایا کہ فلاں فلاں دلیل سے ثابت ہوتا ہے کہ حضرت مرزا صاحب سچے نہیں تھے.منشی اروڑے خان صاحب ان کی تقریر سنتے رہے.جب وہ خاموش ہوئے تو کہنے لگے مولوی صاحب ! بات اصل میں یہ ہے کہ آپ نے کی مرزا صاحب کو نہیں دیکھا اور میں نے آپ کو دیکھا ہوا ہے.وہ منہ جھوٹوں والا نہیں تھا.انہوں نے پھر پانچ دس منٹ تقریر کی اور آپ کے خلاف اور دلیل پیش کی.جب وہ تقریر کر کے بیٹھ گئے تو منشی اروڑے خان صاحب نے پھر کہا مولوی صاحب ! آپ مجبور ہیں کیونکہ آپ نے مرزا صاحب کو
$1953 221 خطبات محمود نہیں دیکھا لیکن میں نے ان کو دیکھا ہے وہ منہ جھوٹوں والا نہیں تھا.مولوی صاحب نے پھر تیسری دفعہ تقریر کی اور آدھ گھنٹہ تک تقریر کرتے رہے.مگر منشی اروڑے خان صاحب نے پھر یہی کہا کہ مولوی صاحب! آپ کی دلیلیں بالکل بیکار ہیں آپ کتابوں کی طرف جاتے ہیں اور میں اپنی آنکھوں کی طرف جاتا ہوں.میں نے ان کو دیکھا ہوا ہے اور میں جانتا ہوں کہ وہ منہ جھوٹوں والا ہے نہیں تھا.اس مشاہدہ کے بعد آپ کی دلیلیں مجھ پر کیا اثر کر سکتی ہیں.آپ ہزار دلیلیں دیں میرے نزدیک ان کی کوئی قیمت نہیں.کیونکہ میں نے آپ کو دیکھا ہوا ہے.اب دیکھو ان کے نزدیک سب سے بڑی دلیل آپ کی صداقت کی یہی تھی کہ انہوں نے آپ کو دیکھ کر پہچان لیا تھا کہ یہ شخص جھوٹا نہیں ہو سکتا.اب اس یقین کے بعد خواہ کسی کے سامنے لاکھ دلائل رکھ دو وہ اُن کو اٹھا کر پرے پھینک دے گا.اور یہی کہے گا کہ یہ سب باتیں غلط ہیں.جس شخص کو میں نے دیکھا ہوا ہے وہ جھوٹا نہیں ہوسکتا.ہمارے ہاں ایک نو کر تھا جس کا نام پیرا تھا.در حقیقت وہ بیمار ہو کر قادیان آیا تھا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس کا علاج کیا اور وہ اچھا ہو گیا.اس بات کا اُس پر ایسا اثر ہوا کہ پھر وہ کی اپنے وطن کی طرف گیا ہی نہیں قادیان میں ہی رہ گیا.اُن دنوں بٹالہ تک ریل پر سفر کرنا پڑتا تھا.اس کے بعد تانگوں پر لوگ قادیان جاتے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے نام جب کوئی پلٹی وغیرہ آتی تو آپ عموماً پیرے کو ہی پلٹی لینے کے لیے بٹالہ بھجوا دیا کرتے تھے.مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کی عادت تھی کہ وہ گاڑی کے اوقات میں عموماً اسٹیشن پر پہنچ جاتے اور جب دیکھتے کہ گاڑی سے کوئی ایسا شخص اُترا ہے جو قادیان جانا چاہتا ہے تو اس سے باتیں شروع کر دیتے اور پھر اسے روکنے کی کوشش کرتے اور کہتے کہ وہاں جا کر کیا لو گے وہ تو محض دھوکا اور فریب ہے.ایک دن کے اتفاقاً گاڑی سے کوئی احمدی نہ اُترا یا اگر اترا تو ان کے ہاتھ سے نکل گیا.وہ ادھر اُدھر پھر رہے ہی تھے کہ انہوں نے پیرے کو دیکھ لیا.چونکہ لوگوں کو روکنے کی عادت پڑی ہوئی تھی انہوں نے پیرے کو ہی بلا لیا اور کہا پیرے ! تم قادیان میں کیوں رہتے ہو؟ مرزا صاحب تو بالکل جھوٹا دعوی کر رہے ہیں.اس نے کہا مولوی صاحب مجھے تو مذہب کا کچھ پتا نہیں میں تو گنٹھیا سے بیمار تھا.قادیان آیا اور حضرت مرزا صاحب نے علاج کیا.جس سے میں اچھا ہو گیا.اس کے بعد میں اپنے گھر واپس
$1953 222 خطبات محمود نہیں گیا انہی کے پاس رہنے لگ گیا.مگر مجھے دین کا اب تک کچھ پتا نہیں ، مجھے کوئی دلیل نہیں آتی.مولوی صاحب نے پھر اُس پر زور دیا کہ آخر تم ایک اسلام کے دشمن کے پاس کیوں ٹھہرے ہو.ہو.آخر تنگ آکر پیرے نے کہا کہ مولوی صاحب ! میں اور تو کچھ جانتا نہیں لیکن میری آنکھیں ہیں اور میں نے ایک بات خوب اچھی طرح دیکھی ہے.اور وہ یہ کہہ آپ روزانہ اسٹیشن پر آتے ہیں اور جو لوگ قادیان جانے کے لیے یہاں اترتے ہیں آپ اُن سے ملتے ہیں اور انہیں ورغلانے کی تی کوشش کرتے ہیں.اور کہتے ہیں دیکھنا ! مرزا صاحب کے پاس نہ جانا وہ بڑے گندے اور فریبی ہے انسان ہیں.اگر تم وہاں گئے تو تمہارا ایمان خراب ہو جائے گا.یہ طریق آپ نے مدتوں سے اختیار کر رکھا ہے.آپ روزانہ اسٹیشن پر آتے ہیں اور اُن آدمیوں کی تلاش کرتے ہیں جو قادیانی جانے والے ہوتے ہیں.اور شاید آپ کی اب تک کئی جوتیاں اس کوشش میں گھس گئی ہوں گی.لیکن لوگ آپ کی بات پھر بھی نہیں مانتے.دوسری طرف میں دیکھتا ہوں کہ مرزا صاحب اپنے گھر میں بیٹھے رہتے ہیں اور لوگ ان سے ملنے کے لیے گھنٹوں اُن کے دروازہ پر انتظار کرتے رہتے ہیں اور وہ اس انتظار میں ایک خوشی اور لذت محسوس کرتے ہیں.آخر کوئی تو بات ہے کہ باوجود اس کے کہ وہاں نہ ریل جاتی ہے اور نہ پختہ سڑک جاتی ہے پھر بھی لوگ مرزا صاحب کی طرف دوڑے چلے جاتے ہیں.اور وہ کسی تکلیف کی پروا نہیں کرتے.اب دیکھو ! وہ ایک جاہل آدمی تھا ، ان پڑھ تھا لیکن اس دلیل کو وہ بھی سمجھتا تھا کہ خدا لوگوں کو پکڑ پکڑ کر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دروازے پر لا رہا ہے.اور جس کے آگے خدا لوگوں کو خود کھینچ کر لے آئے اُس کی طرف آنے سے کسی کو کون روک سکتا ہے.پس تم اپنے عمل سے اپنے آپ کو ایسا بناؤ کہ دنیا تمہارے پیچھے چلنے پر مجبور ہو.دنیا تم سے محبت کرنے پر مجبور ہو.دنیا تمہارے سایہ عاطفت میں پناہ لینے پر مجبور ہو.جس طرح اگر کسی جنگل میں سے لوگ گزر رہے ہوں اور اُس جنگل میں کوئی خطر ناک شیر رہتا ہو تو لوگ سمٹ کر کسی زبر دست شکاری کی پناہ میں چلے جاتے ہیں.اسی طرح دنیا سمجھ لے کہ ہر جگہ آفتیں اور مصیبتیں نازل ہوتی ہیں مگر جہاں تم کھڑے ہو وہاں کوئی مصیبت آسمان سے نازل نہیں ہوتی.اگر تم ایسا مقام حاصل کر لو تو دنیا تمہاری طرف آنے پر خود بخود مجبور ہو جائے گی.اگر کسی جگہ آگ کی بارش
$1953 223 خطبات محمود ہو رہی ہو اور صرف ایک مقام ایسا ہو جو اس آگ کی بارش سے محفوظ ہوا اور اُس وقت کوئی عورت کی اپنے بچہ کو لے کر آجائے تو کیا تم سمجھتے ہو کہ دنیا کی کوئی حکومت اور دنیا کی کوئی طاقت اُس عورت کو وہاں آنے سے روک سکتی ہے؟ نہ حکومتیں اُسے روک سکتی ہیں ، نہ فوجیں اسے روک سکتی ہیں ، نہ پولیس اُسے روک سکتی ہیں.کیونکہ وہ سمجھتی ہے کہ میرا بچہ اس وقت تک نہیں بچ سکتا جب تک میں اس جگہ نہ جاؤں.پس اپنے اندر وہ روح پیدا کرو جو سچے مومنوں میں ہونی چاہیے.تم دیکھو گے کہ خدا آپ ہی آپ ساری دنیا کو تمہارے قدموں میں سمیٹ کر لے آئے گا.تب تمہاری کامیابی میں کوئی شبہ نہیں ہوگا اور تمہارے پاس آنے سے لوگوں کو روکنے والا ہوائے حسرت اور خسر ان کے اور کچھ حاصل نہیں کر سکے گا“.1 مقاطعہ ٹھیکہ (فیروز اللغات اردو جامع فیروز سنز لاہور ) پی اے: (Personal Assistant) ا سمح 23 ستمبر 1953ء) 4،3 بخاری کتاب مناقب الانصار باب إِسْلَامُ أُبَوذَر الغفاري 5 هود : 42 : وَاذْ يَرْفَعُ إِبْرهِمُ الْقَوَاعِدَ مِنَ الْبَيْتِ وَاسْمعِيل رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا إِنَّكَ أَنْتَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ رَبَّنَا وَ اجْعَلْنَا مُسْلِمَيْنِ لَكَ وَمِنْ دُرِيَّتِنَا أُمَّةً مُلِمَةً لَكَ وَارِنَا مَنَاسِكَنَا وَتُبْ عَلَيْنَا إِنَّكَ أَنْتَ التَّوَّابُ الرَّحِيمُ (البقرة: 128 129 )
$1953 224 26 خطبات محمود خدائی جماعتوں میں شامل ہونے والوں کو ہر وقت اپنے اعمال کا محاسبہ کرتے رہنا چاہیے فرموده 31 جولائی 1953ء بمقام محمد آباد.سندھ ) تشہد ،تعوذ اورسورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا.بارہ بج کر چون منٹ پر عام طور پر یہاں سے گاڑی چلتی ہے.اور بارش کی وجہ سے آنے میں بھی دیر ہوگئی ہے اور جانے میں بھی بجائے پانچ سات منٹ میں اسٹیشن پر پہنچنے کے 25, 26 منٹ لگ جائیں گے.اس لیے میں اختصار کے ساتھ خطبہ پڑھ کر نماز پڑھا دوں گا.اور چونکہ ہم نے سفر کرنا ہے اور دوسرے لوگ بھی اردگرد سے آئے ہوئے ہیں اس لیے جمعہ کی نماز کے ساتھ ہی میں عصر کی نماز بھی پڑھا دوں گا.اور چونکہ ہم مسافر ہیں میں دوگا نہ پڑھوں گا دوسرے دوستوں کو چاہیے کہ وہ بعد میں اپنی نماز مکمل کر لیں.محمد آباد کی اسٹیٹ تبلیغ اسلام کے ارادہ سے تحریک جدید نے قائم کی ہے.اور گورنمنٹ کی جو موجودہ قیمتیں ہیں.ان کے لحاظ سے اس کی قیمت بشیر آباد کو ملا کر چھپیس لاکھ روپیہ ہے.چونکہ ساری زمین یکدم خریدی نہیں گئی بلکہ قسطوں میں ہم نے اس کی قیمت ادا کی ہے.اور جب
$1953 225 خطبات محمود قسطوں میں قیمت دی جائے تو گورنمنٹ اصل قیمت سے کچھ زائد لیتی ہے اس لیے اس کی قیمت میں ہماری طرف سے تمیں لاکھ سے بھی زیادہ روپیہ دیا گیا ہے.یہ روپیہ ظاہر ہے کہ جماعت احمدیہ نے جو نہایت غریبوں کی جماعت ہے دیا ہے.کچھ حصہ اس کا ایسا بھی ہے جو لوگوں سے قرض لیا گیا ہے.اور کچھ حصہ اس زمین کی آمدن سے بھی ادا ہوا ہے.لیکن بہت سا حصہ اُن چندوں سے ہی ادا ہوا ہے جو ہماری جماعت کے دوستوں نے دیئے لیکن پھر بھی ساڑھے آٹھ لاکھ روپیہ قرض ابھی باقی ہے.گورنمنٹ کو تو ہم نے تمام رو پید ادا کر دیا ہے.لیکن لوگوں کا ساڑھے آٹھ لاکھ رو پیدا بھی رہتا ہے جو ہم نے ادا کرنا ہے.اس کی ادائیگی کے بعد یہ زمین سلسلہ اور تحریک جدید کی ہوگی.بہر حال ایک نیک ارادہ کے ساتھ یہ اسٹیٹ بنائی گئی ہے.اور جب خدا کے نام سے ایک چیز بنائی جائے تو اُس کے ساتھ تعلق رکھنے والوں کے کام بھی ویسے ہی ہونے چاہئیں جیسے خدا والوں کے کام ہوا کرتے ہیں.دنیا میں ہر انسان اپنے آقا کی نقل کیا کرتا ہے جو د نیوی آقا کا غلام ہو وہ اُس کی نقل کرتا ہے ہے اور جو کسی نیک انسان کے ماتحت کام کرتا ہو وہ اُس کی نقل کرتا ہے.اور جو خدائی جماعت میں شامل ہو وہ خدا کی نقل کرتا ہے.اس لیے رسول کریم ﷺ نے مومنوں کو یہ ہدایت دی ہے کہ تَخَلَّقُوا بِاَخْلاقِ اللهِ 1 یعنی اللہ تعالیٰ کے اخلاق اپنے اندر پیدا کرنے کی کوشش کرو.پس جو لوگ اپنے آپ کو خدا تعالیٰ کی طرف منسوب کرتے ہوں اُن کے لیے ضروری ہوتا ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کی کے رنگ میں رنگین ہونے کی کوشش کریں اور اُسی کے اخلاق اپنے وجود سے ظاہر کریں.مگر مجھے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ وہ چیزیں جو ابتدائی اخلاق میں سے ہیں یعنی سچائی اور دیانت اور امانت وغیرہ وہ بھی مجھے ابھی لوگوں میں نظر نہیں آتیں.خواہ وہ دین کی طرف منسوب ہوں یات خدا تعالیٰ کے خادم کہلاتے ہوں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں کوئی شخص باہر سے آیا تو ی کسی نے کہا ان کو حضور سے اس قدر محبت ہے کہ یہ بغیر ٹکٹ کے ہی گاڑی پر سوار ہو کر یہاں آگئے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اُن کے کرایہ کا اندازہ کر کے ایک رو پیدا اپنی جیب سے نکال کر دیا اور فرمایا کہ جب آپ واپس جائیں تو ٹکٹ لے کر جائیں.کیونکہ گورنمنٹ کو دھوکا دینا بھی ویسا ہی جرم ہے جیسے کسی فرد کو دھوکا دینا.یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ اگر میں زید یا بکر کا حق مارلوں تو یہ گناہ ہے.
$1953 226 خطبات محمود لیکن اگر گورنمنٹ کا حق مارلوں تو یہ کوئی گناہ نہیں.اسی طرح دین اگر ہے تو صرف خدا کا.قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ متواتر بیان فرماتا ہے کہ دین وہ ہے جو خدا تعالیٰ کی طرف سے آئے 2 اگر ہم اپنی طرف سے کسی چیز کو دین قرار دے لیں تو ہمارے کہنے سے وہ چیز دین نہیں بن جائے گی.ہم اگر دین کو سچا نی سمجھتے ہیں تو صرف اس لیے کہ خدا نے اُسے نازل کیا ہے.اگر دین ہمارا بنایا ہوا ہوتا اور ہمیں اجازت ہوتی کہ ہم اپنی طرف سے جو چاہیں دین بنا دیں تو اس کے بعد اگر ہم حرام کو حلال اور حلال کو حرام کہہ دیتے تو یہ ہمارے لیے جائز ہوتا.لیکن اگر دین خدا نے بنایا ہے اور ہم اس کے کسی حکم کے خلاف چلتے ہیں تو یقینا ہم گناہ کرتے ہیں.پس یہاں کے کارکنوں، رہنے والوں اور ارد گرد کے لوگوں کو چاہیے کہ وہ اپنے اندر تقویٰ پیدا کریں.خدا تعالیٰ کی خشیت پیدا کریں.نیک نمونہ دکھا ئیں ، اور ہر قسم کی برائیوں سے بچنے کی کوشش کریں.اگر ہمارے اندر تقویٰ نہیں اور اگر ہمارا نمونہ اچھا نہیں تو ہم خدا تعالیٰ کے حضور دُہرے مجرم ہوں گے.وہ یہ نہیں کہے گا کہ فلاں موقع پر چونکہ تم نے دین کو فائدہ پہنچانے کے لیے بددیانتی کی تھی یا سلسلہ کی خیر خواہی کے لیے فلاں دھوکا کیا تھا اس لیے میں تمہیں کچھ نہیں کہتا.بلکہ وہ ہمیں دوسروں سے زیادہ سزا دے گا کہ ایک تو تم نے بد دیانتی کی اور دوسرے میرے نام پر کی.آخر ہم یہ کیا حق رکھتے ہیں کہ جس بات سے خدا نے منع کیا ہے اُس کو دین اور مذہب کی خیر خواہی کے نام سے جائز قرار دے دیں.جس چیز کو خدا تعالیٰ نے ممنوع قرار دیا ہے وہ بہر حال ی ممنوع رہے گی.کیونکہ خدا تعالیٰ جو کچھ کہتا ہے وہی درست ہوتا ہے.دنیا میں بعض دفعہ کو ئی شخص بیمار ہوتا ہے تو ڈاکٹر کہتا ہے اسے شراب پلاؤ.اب چاہے وہ شراب پینے سے انکار کرے تیماردار، اسے بہانوں سے شراب دے دیتے ہیں کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ بیمار کی عقل ٹھیک نہیں.صحیح مشورہ کی وہی ہے جو ڈاکٹر نے دیا ہے.مگر کیا ہم خدا تعالیٰ کو بھی کہہ سکتے ہیں کہ تیری عقل ٹھیک نہیں.خدا ، خدا ہی ہے ، اور بندہ ، بندہ ہی ہے اور انسانی عقل خدائی علم کے مقابلہ میں بالکل نیچ ہے.اگر خدا ای کہتا ہے کہ ایسا مت کرو اور ہم وہی کام کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم خدا کے لیے ایسا کرتے ہیں تو اس کے معنی یہ ہیں کہ ہم اپنے نفس کو بھی فریب دیتے ہیں اور خدا اور اُس کے رسول کو بھی بدنام کرتے ہیں.اگر ایک شخص اپنے لیے حرام خوری کرتا ہے تو وہ بھی گناہ کرتا ہے.مگر جو شخص خدا کے
$1953 227 خطبات محمود نام پر حرام خوری کرتا ہے وہ اس سے بہت زیادہ خطرناک گناہ کا ارتکاب کرتا ہے.کیونکہ اس میں صرف اُس کی اپنی بدنامی ہی نہیں ہوتی بلکہ خدا اور اس کے رسول کی بھی بدنامی ہوتی ہے.دنیا میں بڑے بڑے بادشاہ گزرے ہیں جنہوں نے لوگوں کو مار مار کر اُن کی لاشوں کے ڈھیر لگا دیے تھے.مگر اُن کی وجہ سے اُن کے مذہب کو کوئی بدنام نہیں کرتا.لیکن بعض فیج اعوج کے کی مسلمان کہلانے والے بادشاہوں نے جہاد کے نام سے تلوار اٹھائی تو اُن کی وجہ سے اسلام اور محمد رسول اللہ ﷺ کو آج تک بد نام کیا جارہا ہے.اب مارنے والا بے ایمان کوئی اور انسان تھا مگر الزام ہمارے آقا پر آ گیا.اُس بے ایمان نے اپنے نفسانی جوش کی وجہ سے خون ریزی کی.مگر چونکہ اُس نے دین کا نام لے کر خون ریزی کی اور کہا کہ میں اسلام اور رسول کریم ہے کے حکم کے ماتحت ایسا کر رہا ہوں اس لیے اسلام بدنام ہو گیا.حالانکہ اسلام میں ایسے اعلیٰ درجہ کا نمونہ دکھانے کی والے لوگ بھی گزرے ہیں جنہوں نے خود تکلیفیں اٹھا کر معاہدات کی پابندی کی اور دشمن کے ہر قسم کے مظالم کے باوجود اُن سے حسن سلوک کیا.لیکن اُن کی نیکیاں بھی ان بے ایمانوں کی وجہ سے چھپ گئیں.جو کچھ ابو بکڑ نے کیا ، جو کچھ عمر نے کیا ، جو کچھ عثمان نے کیا ، جو کچھ علی نے کیا اور جو کچھ بنوامیہ کے کئی بادشاہوں نے کیا اور بنو عباس کے کئی بادشاہوں نے کیا بلکہ ان کے بعد بھی مختلف ملکوں کے مسلمان بادشاہوں نے کیا وہ ان کے اخلاق اور حسنِ کردار کا ایک بہت بڑا ثبوت ہے.انہوں نے اپنے دشمن سے جو سلوک کیا آدم سے لیکر آج تک کسی بادشاہ کے متعلق یہ ثابت نہیں کیا جا سکتا کہ اُس نے ایسا اعلیٰ نمونہ دکھایا ہو.لیکن اُن کی نیکیاں بھی چُھپ گئیں.کیونکہ بعض بے ایمانوں نے خدا کے نام پر لڑائیاں کیں اور جہاد کے نام پر فساد کئے اور خدا کے نام پر لوگوں کی گردنیں اڑانا جائز قرار دے دیا.اگر وہ یہ کہہ کر لوگوں کی گردنیں اڑاتے کہ ہمارا دل چاہتا ہے کہ گرد نہیں اُڑائیں تو یہ زیادہ بہتر ہوتا.آخر ہندوؤں نے لوگوں کی گردنیں اڑائیں ہیں یا نہیں؟ عیسائیوں نے گردنیں اڑائیں ہیں یا نہیں؟ لیکن باوجود اس کے کہ عیسائیوں نے بہت زیادہ ظلم کیے ہیں بلکہ میں سمجھتا ہوں مسلمانوں نے تیرہ سو سال میں اُتناظلم نہیں کیا جتنا عیسائیوں نے صرف ایک صدی میں کیا ہے پھر بھی عیسائیت بدنام نہیں ہوئی.کیونکہ عیسائی یہ کہا کرتے تھے کہ ہماری طبیعت چاہتی ہے کہ ہم ایسا کریں.اور مسلمان یہ کہا کرتے تھے کہ ہم خدا اور اُس کے رسول کے حکم
$1953 228 خطبات محمود کے ماتحت ایسا کرتے ہیں.نتیجہ یہ ہوا کہ عیسائی مذہب بد نام نہ ہوا کیونکہ لوگوں نے کہا یہ اُن کا ذاتی فعل تھا.لیکن خدا اور اُس کا رسول بدنام ہو گئے.غرض خدا کے کام میں اگر غلطی ہو جائے تو زیادہ بدنامی کا موجب ہوتی ہے.اسی طرح خدا کی جماعت میں شامل ہو کر اگر کوئی غلطی کی جائے تو وہ غلطی بھی زیادہ بدنامی کا موجب ہوتی ہے.غیر احمدی سو میں سے ننانوے نماز نہیں پڑھتا اور سب مسلمان اس کو برداشت کرتے ہیں.لیکن اگر ایک احمدی بھی نماز نہیں پڑھتا تو سب لوگ کہنے لگ جاتے ہے ہیں کہ تم میں اور ہم میں فرق کیا ہے.اگر ہم نماز نہیں پڑھتے تو فلاں احمدی بھی نماز نہیں پڑھتا.وہ یہ نہیں دیکھتے کہ ہمارا سو میں سے ایک نماز نہیں پڑھتا اور غیر احمدیوں کے سو میں سے ننانوے نماز نہیں پڑھتے.وہ صرف اتنا دیکھتے ہیں کہ یہ اپنے آپ کو ایک خدائی جماعت کی طرف منسوب کرتا ہے اور پھر نماز نہیں پڑھتا گویا اس ایک کا فعل ساری جماعت کو بد نام کر دیتا ہے.تو ی اللہ تعالیٰ کے کام میں حصہ لینے والوں اور خدائی جماعتوں میں شامل ہونے والوں پر بہت بڑی ہے ذمہ داری عائد ہوتی ہے.اور ان کا فرض ہوتا ہے کہ وہ ہر وقت اپنے اعمال کا محاسبہ کرتے ہے ر ہیں اور دیکھتے رہیں کہ انہوں نے کوئی ایسا قدم تو نہیں اٹھایا جو خدا اور اس کے رسول کو بد نامی کرنے والا ہو.پھر خدا تعالیٰ سے دعا بھی کرنی چاہیے کہ وہ اپنی حفاظت شاملِ حال رکھے.انسانی عقل چونکہ کمزور ہے اس لیے زندگی میں وہ کئی دفعہ غلطی بھی کر بیٹھتا ہے.مگر اس کی بدنامی بعض دفعہ سوسو سال تک چلتی چلی جاتی ہے.اس کا علاج صرف دعا ہے.سورۃ فاتحہ جو ہم روزانہ پڑھتے ہیں اس میں بھی یہی دعا سکھلائی گئی ہے کہ الہی ! میں کمزور ہوں ، مجھ سے غلطیاں بھی سرزد ہوں گی اور کمزوریاں بھی ظاہر ہوں گی.مگر تو ایسے مواقع پر اپنے فضل سے میرے ہاتھ کو روک لیا کرتی تا کہ میں کسی گڑھے میں گر کر تباہ نہ ہو جاؤں.چونکہ اصل علم غیب رکھنے والا خدا ہی ہے اس لیے کی مومنوں کو اس سے دن رات دعائیں کرنی چاہیں کہ ہم کوئی ایسی غلطیاں نہ کر بیٹھیں جو سلسلہ کی
$1953 229 خطبات محمود بدنامی کا موجب ہوں.اگر کوئی اور شخص غلطی کرے گا تو اس کا الزام صرف اُس پر آئے گا.لیکن اگر ہم غلطی کریں گے تو خدا اور اُس کے رسول ﷺ کی بدنامی ہوگی.پس اول تو تمہیں اپنی عقل سے کام لینا چاہیے اور پھر خدا تعالیٰ سے دعا کرنی چاہیے کہ وہ خود تمہیں ہدایت دے اور دعا غلط رستوں پر چلنے سے بچائے.1 اح 26 ستمبر 1953ء) تفسير روح البيان.سورة الاعراف زیر آیت 180 ولله الاسماء الحسنیٰ' جلد 3 صفحہ 283 مطبعه عثمانیہ 1330ھ 2: قَدْ جَاءَكُمْ مِنَ اللهِ نُورُ وَكِتُبُ مُّبِينٌ (المائدة: 16) أَفَغَيْرَ دِينِ اللهِ يَبْغُونَ (آل عمران: 84) وَمَنْ يَبْتَغِ غَيْرَ الْإِسْلَامِ دِينًا فَلَنْ يُقْبَلَ مِنْهُ ( آل عمران : 85)
$1953 230 27 27 خطبات محمود موجودہ ایام میں تمہیں خصوصیت کے ساتھ سلسلہ کی حفاظت اور عظمت کے لیے دعائیں کرنی چاہیں تشهد (فرموده 7 /اگست 1953ء بمقام ناصر آباد.سندھ ) تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا.آج بارش کی وجہ سے چونکہ راستے خراب ہیں اس لیے میں دونوں نمازیں جمع کر کے پڑھاؤں گا.اسی طرح میری طبیعت بھی خراب ہے اس لیے میں خطبہ بھی بہت مختصر پڑھاؤں گا.اصل بات جس کے متعلق میں آج کچھ کہنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ عام طور پر ہماری جماعت کے لوگ اُن حالات سے واقف نہیں ہوتے جو جماعت کے خلاف ملک کے مختلف جہات کی اور اطراف میں یا مختلف ملکوں میں پیدا ہوتے ہیں.چونکہ ایسی تمام اطلاعات مرکز میں آتی ہیں اور وہ اطلاعات نہ ساری شائع کی جاسکتی ہیں اور نہ ہی اُن سب کا شائع کرنا مناسب ہوتا ہے اس لیے صرف چند لوگ ہی ایسے ہوتے ہیں جو اُن سے واقف ہوتے ہیں.اگر مصیبت آتی ہے تو انہی کے کندھوں پر آتی ہے اور اگر کوئی خوشی کی خبر آتی ہے تو اس سے بھی وہی لذت محسوس کرتے ہیں.لیکن ایک چیز ایسی ہے جس کو جماعت کا ہر فرد سمجھ سکتا ہے اور وہ یہ ہے کہ ہماری جماعت کی مثال بالکل ایسی ہی ہے جیسے بتیس دانتوں میں زبان ہوتی ہے.بظاہر اس کی کوئی دنیوی وجہ نہیں پائی جاتی
$1953 231 خطبات محمود کیونکہ ہماری جماعت کے لوگ دوسروں سے حسن سلوک کرتے ہیں، ان سے نیک معاملہ کرتے ہیں، ان سے اچھے تعلقات رکھتے ہیں، ان سے اچھے تعلقات قائم رکھنا چاہتے ہیں اور ان کے بہی خواہ ہیں لیکن پھر بھی ان کی مخالفت ہوتی ہے.آج ہی میں قادیان کی ایک رپورٹ پڑھ رہا تھا جس میں لکھا تھا کہ ہم ایک باغیچہ میں گئے وہاں کچھ مہاجر بیٹھے آپس میں باتیں کر رہے تھے اور کچھ مقامی لوگ بھی وہاں بیٹھے تھے.شروع شروع میں جب پاکستان سے ہندو اور سکھ مہاجر وہاں گئے تو چونکہ وہ بہت چڑے ہوئے تھے.ور مسلمانوں کے سلوک سے تنگ تھے اس لیے وہ پاکستان یا مسلمانوں کی تعریف کسی مسلمان سے ئن نہیں سکتے تھے.اور اگر کوئی تعریف کرتا تو اُس سے لڑ پڑتے اور کہتے کہ تو بڑا غدار ہے.لیکن آہستہ آہستہ قادیان والوں کے حُسنِ سلوک کی وجہ سے لوگوں میں تبدیلی پیدا ہوئی.چنانچہ اب ان کی مہاجرین میں سے بھی ایک حصہ ایسا ہے جو کبھی کبھی جماعت کی تعریف کر دیتا ہے.بہر حال اس کی رپورٹ میں ذکر تھا کہ وہاں جو مہاجرین بیٹھے ہوئے تھے اُن میں سے بعض نے تعریف کی اور کہا ہے کہ احمدی بڑے اچھے ہیں اور یہ اپنے معاملات میں دوسرے مسلمانوں سے مختلف ہیں.اُن کا اتنا کہنا تھا کہ ایک مقامی سکھ جو اپنے دل میں جوش دبائے بیٹھا تھا کھڑا ہو گیا اور اُس نے دس بارہ منٹ تک تقریر کی اور کہا کہ ان لوگوں کے ہم سے ایسے اچھے تعلقات تھے کہ جب سے یہ گئے ہیں ہم تو یہ سمجھتے ہیں کہ قادیان اور اس کے گردو نواح کی رونق ہی چلی گئی ہے.ان لوگوں کے پاس طاقت کی اور یہ اگر چاہتے تو ہمیں تباہ کر سکتے تھے.مگر اتنی طاقت کے باوجود ان لوگوں نے ہماری حفاظت کی اور ہمیں کسی قسم کا نقصان پہنچنے نہیں دیا.چنانچہ واقعہ یہی ہے کہ گو بعد میں ہندوستانی حکومت غالب آگئی مگر سوال تو یہ ہے کہ اُس وقت کون سمجھتا تھا کہ گورداسپور کا ضلع اُدھر چلا جائے گا.اُس وقت اگر ہمارے بھی وہی جذبات کی ہوتے جو ہندوؤں اور سکھوں کے تھے تو دس دس میل کے حلقہ میں ایک ہندو اور سکھ بھی نہ بچتا.مگر ی ہم نے اُن کے مردوں اور عورتوں اور بچوں کی اُسی طرح حفاظت کی جس طرح ہم اپنے مردوں اور عورتوں اور بچوں کی حفاظت کرتے تھے.اور نہ ہم نے زبان سے انہیں کوئی لفظ کہا ، نہ اُن کی دل شکنی کی اور نہ گالی گلوچ سے کام لیا.بلکہ اگر ہمیں کسی احمدی کے متعلق ذرا بھی شکایت پہنچتی تو ہم
$1953 232 خطبات محمود سختی سے اُس کے پیچھے پڑ جاتے.دوسری طرف جو لوگ ارد گرد کے مقامات سے بھاگ بھاگ کر قادیان میں آئے ہم نے اُن کی اتنی خاطر تواضع کی کہ سارے ہندوستان میں اس کی مثال نہیں ملا سکتی.ہم نے اپنے آدمیوں کو بُھو کا رکھا اور اُن کو کھانا کھلایا.اور ایک دن تو ایسا آیا کہ ہم نے ساتھ ہزار آدمیوں کو کھانا دیا.حالانکہ قادیان کی کل سولہ ہزار کی آبادی تھی.جس میں سے تیرہ ہزار احمدی تھے.مگر وہی لوگ جب یہاں پہنچے تو کچھ مدت تک تو احمدیوں کی تعریفیں کرتے رہے مگر اب وہی ہے لوگ احمدیوں کو کشتی اور گردن زدنی قرار دے رہے ہیں.اور وہ سارے احسان اور سلوک جو ہم نے اُن سے کیسے تھے اُن کو بُھلا بیٹھے ہیں.امرتسر کے شہر پر مصیبت آئی تو کئی دفعہ ہم نے غلہ مہیا کیا اور جو لوگ قومی کام کر رہے تھے.ان کو رقمیں بھی دیتا رہا.چنانچہ پارٹیشن تک باقاعدہ کئی ہزار روپیہ ہم نے اُن کو دیا.مگر اب وہی لوگ احمدیت کی مخالفت میں پیش پیش ہیں.اور کہتے ہیں کہ احمدیوں کو مار دینا چاہیے ، ان کو قتل کی کر دینا چاہیے ، ان کے مال و اسباب کو لوٹ لینا چاہیے.یہ چیز تو آپ لوگوں کو نظر آتی ہے.بے شک جو سلسلہ کی مخالفت کی خبریں ہمیں ملتی ہیں وہ آپ لوگوں کو نہیں ملتیں ، جو سلسلہ کی ترقیات کی ہے خبریں ہمیں ملتی ہیں وہ آپ لوگوں کو نہیں ملتیں.مگر یہ بات تو آپ لوگوں سے مخفی نہیں کہ لوگ بلا وجہ اور ی بغیر کسی قصور کے ہم سے دشمنی رکھتے ہیں.گواگر ہم زیادہ غور کریں تو اس کی ایک وجہ بھی موجود ہے.اور وہ یہ کہ لوگ دیکھتے ہیں کہ خدا نے ان لوگوں کو اچھے عقیدے دیئے ہیں ، خدا نے ان کے اندرا خلاص پیدا کیا ہے، خدا نے ان کے اندر قربانی کا مادہ پیدا کیا ہے، خدا نے ان کو کام کرنے کی ہمت بخشی ہے جس کا لازمی نتیجہ یہ ہوگا کہ یہ لوگ بڑھتے چلے جائیں گے اور ہم گھٹتے چلے جائیں گے.جب دشمن دیکھتا ہے کہ یہ لوگ بڑھنے والے ہیں اور ہم گھٹنے والے ہیں.تو وہ مخالفت پر اُتری آتا ہے.پس اس مخالفت کی ایک نفسیاتی وجہ تو موجود ہے لیکن جسمانی وجہ کوئی نہیں.دنیوی لحاظ سے ہماری جماعت کا سلوک لوگوں سے اتنا اچھا ہے کہ اگر وہ تعصب سے علیحدہ ہو کر ہماری جماعت کو دیکھتے تو بجائے مخالفت کرنے کے وہ احمدیوں کے ہاتھ چومتے اور ان کی خدمت میں فخر محسوس کرتے.بہر حال یہ ایسی بات ہے جس کا ہر احمدی کو پتا ہے اور جب پتا ہے تو کیا وجہ ہے کہ وہ
$1953 233 خطبات محمود دعاؤں میں کوتاہی کرتے ہیں.یہ دن تو ایسے ہیں کہ ان میں اپنے نفس کو بھی بھول جانا چاہیے اور دن رات اللہ تعالیٰ سے یہ دعائیں کرنی چاہئیں کہ وہ جماعت کو ان فتنوں سے بچائے جو آج کل اس کے خلاف پیدا کیے جارہے ہیں.اب حکومت مسلمانوں کی ہے اور مولوی یہ سمجھتے ہیں کہ وہ لوگ جو حکومت پر قابض ہیں اُن کے غلام ہیں اور وہ جو چاہیں اُن سے قانون بنوا سکتے ہیں.پھر پبلک میں سے بھی ایک حصہ ان کے پیچھے چلنے والا موجود ہے.اس کی وجہ سے حکومت کا کچھ حصہ ڈر بھی جاتا ہے.اور جب ایسے حالات ہوں جیسے کہا جاتا ہے کہ کوتوال ہمارا دوست ہے اب ڈر کس بات کا.تو تمہارے لیے حفاظت کا سوائے اس کے اور کونسا ذریعہ باقی رہ جاتا ہے کہ تم اللہ تعالیٰ کے آستانہ پر جھکو اور اُس سے مدد اور نصرت طلب کرو.غرض یہ دن تمہارے لیے ایسے نازک ہیں کہ تمہیں رات اور دن سلسلہ کے بچاؤ کے لیے دعائیں کرنی چاہیں.صرف خدا ہی کی مدد ہے جو ہمیں بچا سکتی ہے.ورنہ ہمارے خلاف ایسی ایسی تدابیر کی جارہی ہیں کہ اگر ان تدبیروں میں انہیں کامیابی حاصل ہو جائے تو آج نہیں تو کل وہ سلسلہ کے مٹانے میں کامیاب ہو جائیں گے.یہ تو ہم جانتے ہیں کہ خواہ کتنے بڑے ابتلاء آئیں دشمن ہمیں مٹانے میں کامیاب نہیں ہوسکتا.مگر اس کی یہ وجہ نہیں کہ اس کے مقابلہ کی ہم میں طاقت ہے.بلکہ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمیں اللہ تعالیٰ نے کھڑا کیا ہے.اور اگر ہم مرتے ہیں تو صرف ہم ہی نہیں مرتے بلکہ خدا کا نام بھی دنیا سے مٹ جاتا ہے.پس اگر ہماری خاطر نہیں تو اپنی خاطر خدا تعالیٰ اس بات پر مجبور ہے کہ وہ اس کام کو جاری رکھے جس کام کے لیے اُس نے ہمیں کھڑا کیا ہے.مگر ہمیں اپنی کوتاہیوں اور غفلتوں کو بھی نہیں بھلانا چاہیے.خدا تعالیٰ میں طاقت ضرور ہے لیکن ہو سکتا ہے کہ ہم میں اتنی کمزوریاں ہوں کہ وہ ہمیں چھوڑ کر کسی اور کو اپنے کام کے لیے منتخب کرلے.پس ہمارے لیے ضروری ہے کہ ہم دعاؤں میں لگے رہیں اور خدا تعالیٰ سے اُس کی مدد چاہیں اور اپنی ذاتی دعاؤں کو بھی ترک کر کے دن رات سلسلہ کی حفاظت اور اُس کی عظمت کے لیے اپنی دعائیں مخصوص کر دیں.تاکہ اللہ تعالیٰ کی نصرت نازل ہو اور وہ ہماری ناکامیوں کو کامیابیوں میں تبدیل کر دے اور ہمیں حقیقی خوشی اور مسرت عطا فرمائے.آمین،، - لمصلح 30 اکتوبر 1953ء)
$1953 234 88 28 خطبات محمود جب قرآن کریم کہتا ہے کہ حزب اللہ غالب ہوگا تو ہم کس طرح اس کے خلاف کہہ سکتے ہیں (فرموده 14 راگست 1953ء بمقام ناصر آباد.سندھ ) تشہد ،تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا.دنیا میں دو قسم کی حکومتیں ہوا کرتی ہیں.ایک عقل اور سمجھ سے کام لینے والی اور دوسری کی زور اور طاقت سے کام لینے والی.ہر زمانہ کے محاورے الگ الگ ہوتے ہیں.آج کل جو حکومت کی عقل اور سمجھ سے کام لے اُس کو جمہوریت کہتے ہیں اور جو حکومت زور اور تشدد اور طاقت سے کام لے اُس کو ڈکٹیٹر شپ یا ہٹلر ازم بھی کہہ دیتے ہیں.مگر نام خواہ کچھ ہی ہو جب سے دنیا بنی ہے یہ دونوں طاقتیں کام کرتی آرہی ہیں.حضرت آدم کے زمانہ سے یہ کام شروع ہوا اور اب تک جاری ہے.قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت آدم کے دو بیٹے تھے.ایک کی اللہ تعالیٰ نے قربانی قبول کر لی اور دوسرے کی رد کر دی 1.ایک کے پیچھے اخلاص اور تقویٰ تھا اس لیے اُس کی قربانی قبول ہوئی تھی اور دوسرے کی قربانی کے پیچھے چونکہ اخلاص اور تقویٰ نہیں تھا اس لیے وہ رد ہوئی.اب دانا ئی تو یہ تھی کہ دوسرا شخص جس کی قربانی قبول نہیں ہوئی تھی اپنے اندر تقویٰ ، بجز اور انکسار پیدا کرتا ، اور سمجھتا تھے
$1953 235 خطبات محمود کہ اس کی قربانی خدا نے رد کی ہے، اس کے بھائی کی وجہ سے رد نہیں ہوئی.مگر وہ لٹھ لے کر اپنے بھائی کی کے پاس پہنچا اور کہا کہ میں تجھ کوقتل کر دوں گا.اگر یہ شخص عقل اور دانائی سے کام لیتا اور خدا تعالیٰ سے معافی مانگتا تو خدا تعالیٰ اس کی قربانی بھی قبول کر لیتا.لیکن بجائے اس کے کہ وہ خدا تعالیٰ سے معافی مانگتا ، اُس نے یہ سمجھا کہ اس کے بھائی کی وجہ سے اس کی قربانی قبول نہیں ہوئی چنانچہ اس نے اپنے تھی بھائی سے کہا کہ میں تجھ کو قتل کر دوں گا.گویا جو خدا تعالیٰ کا فعل تھا وہ اس نے اس کی طرف منسوب کی کیا.مگر اس کے بھائی نے دلیل والا طریق اختیار کیا اور کہا کہ میں تجھے مارنے کی کوشش نہیں کروں گا.قربانی قبول کرنا خدا تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے.اگر تجھے اس بات پر غصہ آیا ہے کہ خدا تعالیٰ نے تیری قربانی قبول کیوں نہیں کی تو اس میں میرا کیا قصور ہے.میں تو اپنے آپ کو ایک عاجز بندہ سمجھتا ہے ہوں.یہ فطرت پرانے زمانہ کی تھی.اس وقت نہ ڈکٹیٹر شپ کے الفاظ تھے نہ جمہوریت کے مگر وہ روح موجود تھی جس سے یہ دونوں چیزیں پیدا ہوئی ہیں.یہ روح جب سے حضرت آدم علیہ السلام پیدا کی ہوئے ہیں یا دنیا پیدا ہوئی ہے متوازی چلی آرہی ہے.دنیا میں ایک طبقہ ایسا چلا آیا ہے جو ہمیشہ حق اور انصاف کا قائل ہوتا ہے اور دوسرا اپنے زور اور طاقت پر فخر کرتا ہے.اور کہتا ہے کہ بہر حال ہم نے اپنی مرضی پوری کرنی ہے.اگر لوگ ہماری مرضی کے مطابق نہ چلیں گے تو ہم حکومت ، جتھا اور طاقت سے دوسروں کو سیدھا کر دیں گے اور اپنی مرضی چلائیں گے.مشہور ہے کہ ایک بھیٹر یا اور بکری کا بچہ ایک ندی کا پانی پی رہے تھے.بھیڑ یا اس طرف تھا جس طرف سے پانی آرہا تھا.بھیڑیے نے جب اس کا نرم نرم گوشت دیکھا تو اس کا جی چاہا کہ اسے کھالے چنانچہ اس نے غصہ سے اسے کہا کہ تم میرے پانی کو گدلا کیوں کر رہے ہو؟ بکری کے بچے نے کہا کہ حضور! میں پانی گدلا نہیں کر رہا کیونکہ پانی تو آپ کی طرف سے آرہا ہے.اس پر بھیڑیے نے اس کے زور سے تھپڑ مارا.اور یہ کہتے ہوئے اُسے چیر پھاڑ دیا کہ کم بخت! آگے سے جواب دیتا ہے.گویا پہلے اس نے ایک غلط دلیل دی اور جب اسے اپنی غلطی کی طرف توجہ دلائی گئی ہے تو اس نے دوسرا بہانہ بنالیا کہ آگے سے جواب دیتا ہے اور اسے مارڈالا.یہی حال احمدیت کے دشمنوں کا ہے.جب ان کے سوالوں کا ہماری جماعت کے دوست جواب دیتے ہیں تو وہ شور مچادیتے ہیں کہ ہمیں اشتعال دلاتے ہیں.جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام
$1953 236 خطبات محمود نے دعوی کیا تو مولویوں نے آپ پر کفر کے فتوے لگائے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بار بار ان لوگوں سے کہا کہ میرا کیا قصور ہے میں تو اسلام کی تعلیم ہی پیش کرتا ہوں.مگر مولوی اپنی مخالفت میں بڑھتے چلے گئے.چنانچہ 1891ء میں مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی نے سارے ملک کا دورہ کیا اور مولویوں سے کفر کا فتویٰ لے کر شائع کروایا.جس میں آپ کو کافر مرتد ، دجال، نمرود، ی شداد ، فرعون اور ابلیس وغیرہ کہا گیا.پھر یہ بھی کہا گیا کہ ان کی عورتیں بھگا لینا جائز ہے.ان کی کی اولا د ولد الزنا ہے اور ان کو مسجدوں میں داخل ہونے دینا منع ہے.بلکہ قبرستانوں میں ان کو دفن کرنے کی بھی اجازت نہیں.غرض جو کچھ ممکن تھاوہ انہوں نے کیا لیکن حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہی فرمایا کہ میں تو اسلام کو زندہ کرنے کے لیے آیا ہوں.تم کیوں میرے پیچھے پڑ گئے ہو؟ میں تمہارا کیا بگاڑتا ہوں ؟ مگر اس پر بھی لوگ باز نہ آئے اور وہ متواتر دس سال تک گالیاں دیتے چلے گئے.اس پر 1901 ء میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام نے اعلان فرمایا کہ اس حدیث کی کے مطابق کہ ایک مسلمان کو کافر کہنے والا خود کا فر ہو جاتا ہے 3.مجھے کا فرقرار دینے والے خود کافر ہو چکے ہیں 4 یہ سن کر مولویوں نے پھر شور مچا دیا کہ ہم پر کفر کے فتوے لگائے جاتے ہیں.اور یہی شور اب تک مچایا جا رہا ہے.کوئی نہیں سوچتا کہ پہلے فتوے لگانے والے کون تھے.اور انہوں نے ہم کو کیا کچھ کہا.ہم نے تو اس کا 1/80 حصہ بھی کسی کو کچھ نہیں کہا.جس قدر کہ ان مولویوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے حق میں کہا ہے مگر پھر بھی یہ سیخ پا ہوئے جاتے ہیں.اگر ہم کو کافر دجال ، ملحد ، ابلیس ، شداد، فرعون اور ابو جہل وغیرہ کہنا اُن کے لیے جائز ہو گیا تھا.تو کیا ان کے ایسا کہنے سے اشتعال پیدا نہ ہوتا تھا ؟ حقیقت یہی ہے کہ ان لوگوں کو اپنی کثرت اور طاقت پر گے گھمنڈا ہے.جیسے بھیڑیے نے بکری کے بچے کو کہا تھا کہ آگے سے جواب دیتا ہے؟ وہی سلوک ہمارے ساتھ کیا جا رہا ہے.گزشتہ شورش کے دنوں میں میں نے کہا تھا کہ خدا ہمیں فتح دے گا.اس پر حکومت نے ی سیکیورٹی ایکٹ کے ماتحت مجھے کہا کہ تمہاری زبان بندی کی جاتی ہے کیونکہ تم نے اشتعال دلایا ہے.حالانکہ جب سے دنیا پیدا ہوئی ہے کوئی مصلح ایسا نہیں ہوا جس نے اصلاح کا دعوی کیا ہو اور پھر یہ کہا ہو کہ میں ہاروں گا.ہر ایک نے یہی کہا ہے کہ میں جیتوں گا.قرآن کریم میں بھی اللہ تعالیٰ
$1953 237 خطبات محمود فرماتا ہے کہ فَإِنَّ حِزْبَ اللهِ هُمُ الْغُلِبُونَ 5 - اب کیا قرآن کریم نے اپنے ان الفاظ میں کی غیر مسلموں کو اشتعال دلایا ہے؟ پھر ہمارا کیا قصور ہے؟ ہمارا یہی قصور ہے کہ ہم نے خدا کی بات کہی کہ ہم حزب اللہ ہیں اور بچے ہیں اور ہمیں یقین ہے کہ ہم غالب آئیں گے.دنیا میں ہر شخص اپنے آپ کو ایمان دار اور صالح قرار دیتا ہے خواہ وہ جھوٹا ہی کیوں نہ ہو.لیکن ان لوگوں نے خود ہٹلر والا قانون اختیار کر رکھا ہے.بلکہ میں تو کہوں گا کہ کسی ظالم سے ظالم حکومت نے بھی کبھی یہ نہیں کہا کہ کہو ہم ہاریں گے اور ہم جھوٹے ہیں.جب قرآن کریم نے فرمایا ہے کہ حزب اللہ غالب ہوگا تو پھر ہم کس طرح کہہ سکتے ہیں کہ ہم ہاریں گے.یہ بات قطعی طور پر ناممکن ہے کیونکہ ایسا ہم اُس وقت کہہ سکتے ہیں جب کہ ہم اپنے جھوٹا ہونے کا اقرار کریں.سو ہمارا قصور اس کے سوا اور کچھ نہیں کہ قرآن کریم کے مطابق ہم کہتے ہیں کہ ہم غالب آئیں گے.لوگوں نے سختیاں دوسروں پر بھی کی ہیں.لیکن کسی کو یہ کہنے کے لیے مجبور نہیں کیا کہ تم کہو کہ ہم جھوٹے ہیں.سو اگر خدا تعالیٰ نے اپنی جماعت کو کہا ہو کہ تم جیتو گے تو اس میں ہماری کیا غلطی ہے کہ ہم سے یہ مطالبہ کیا جاتا ہے.گو کھلے لفظوں میں نہیں لیکن مطلب یہی ہوتا ہے کہ تم یہ نہ کہو کہ ہم جیتیں گے بلکہ یہ کہو کہ ہم ہارنے والے ہیں.مگر ہم نے تو قرآن کی بات ماننی ہے لوگوں کی نہیں.قرآن کریم کے مطابق ہم یہی کہتے ہیں کہ ہم حزب اللہ ہیں اور ہم جیتیں گے.اور اگر یہ لوگ ہم سے کہیں کہ نعوذ باللہ خدا اور ی رسول جھوٹے ہیں تو ہم کس طرح کہہ سکتے ہیں کہ وہ جھوٹے ہیں.ہم تو وہی کہیں گے جو قرآن کہتا ہے ہے.اور پھر یہ بھی غلط ہے کہ اس سے اشتعال پیدا ہوتا ہے، خواہ کسی کو اچھا لگے یا بُرا لگے.جو اس کو بُرا مناتا ہے تو قرآن کریم کی آیت کو بدل دے.مگر جب تک قرآن کریم کی آیت موجود ہے ہم یہی کہتے رہیں گے.کوئی ان مخالفوں سے تو پوچھے کیا وہ کہتے ہیں کہ ہم ہاریں گے؟ پس ہمارے حزب اللہ کے کہنے میں ہمارا کیا قصور ہے.اِس سے اُن کے دل جلتے ہیں تو جلتے رہیں.خدا کے حکم ٹلا نہیں کرتے حزب اللہ بہر حال جیتیں گے.اگر اس سے اشتعال پیدا ہوتا ہے تو وہ اعلان کر دیں کہ وہ ہاریں گے ، وہ دنیا میں نہیں پھیلیں گے.اور اگر وہ یہ کہہ بھی دیں تو وہ دیانتدار نہیں کہلا سکتے.کیونکہ ان کی کتابوں میں لکھا ہے کہ حزب اللہ جیتا کرتا ہے اور وہ اپنے آپ کو حزب اللہ سمجھتے ہیں.میں سمجھتا ہوں کہ موجودہ حالات میں وہ حکام جو ان کی پیٹھ پر ہیں وہ بھی بد دیانت ہیں.
$1953 238 خطبات محمود وہ جن کی پیٹھ ٹھونک رہے ہیں وہ بھی یہی دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ جیتیں گے.خدا کے حکم کو چھپانے کے والا مردود ہوتا ہے.پس ہم جیتیں گے خواہ ہمارا ایسا کہنا کسی کو بُرا لگے.اگر وہ دیانتدار ہیں تو کہہ دیں کہ وہ ہاریں گے.اور اگر وہ ایسا کہ دیں تو بیشک ہم ان کو دیانت دار سمجھ لیں گے.اس ہفتہ ہم انشاء اللہ واپس جائیں گے.محمد آباد اور احمد آباد کے راستہ سے جائیں گے کیونکہ اس طرف اکثر جماعتیں ہیں.منگل کے روز ہم بارہ بجے کی گاڑی سے روانہ ہوں گے.دوستوں کی اطلاع کے لیے یہ اعلان کیا جاتا ہے.“ ( أصلح 13 اکتوبر 1953ء) 21 وَاتْلُ عَلَيْهِمْ نَبَا ابْنَى أَدَمَ بِالْحَقِّ إِذْ قَرَّبَا قُرْبَانًا فَتُقُبِّلَ مِنْ أَحَدِهِمَا وَلَمْ يُتَقَبَّلُ مِنَ الْآخَرِ قَالَ لَأَقْتُلَنَّكَ (المائدة: 28) :3 مسلم کتاب الایمان باب بیان حال ایمان (الخ) 4 تریاق القلوب روحانی خزائن جلد 15 صفحہ 433 کمپیوٹرائزڈ ایڈیشن 2008 ء 5 المائدة: 57
خطبات محمود 239 29 سال 1953ء جمعہ اور عیدین کی نمازیں قرب الہی حاصل کرنے کے علاوہ قومی مشکلات کو جاننے اور انہیں دُور کرنے کا بھی ایک اعلیٰ ذریعہ ہیں (فرموده 21 راگست 1953ء بمقام کراچی) تشہد ، تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا.شریعت نے اس بات کی اجازت دی ہے کہ اگر عید اور جمعہ اکٹھے ہو جائیں تو جائز ہے کہ جمعہ کی بجائے ظہر کی نماز پڑھ لی جائے 1.لیکن یہ بھی جائز ہے کہ عید اور جمعہ دونوں پڑھ لیے جائیں 2.کیونکہ ہماری شریعت نے ہر امر میں سہولت کو مد نظر رکھا ہے.چونکہ عام نمازیں اپنے کی اپنے محلوں میں ہوتی ہیں لیکن جمعہ کی نماز میں سارے شہر کے لوگ اکٹھے ہوتے ہیں اسی طرح عیدی کی نماز میں بھی سب لوگ اکٹھے ہوتے ہیں.اور ایک دن میں دو ایسے اجتماع جن میں دُور دُور سے لوگ آکر شامل ہوں مشکلات پیدا کر سکتا ہے اس لیے شریعت نے اجازت دی ہے کہ اگر لوگ برداشت نہ کر سکیں تو جمعہ کی بجائے ظہر پڑھ لیں.بہر حال اصل غرض شریعت کی یہ ہے کہ مسلمان اپنی ای زندگی میں زیادہ سے زیادہ عرصہ کے لیے اکٹھے بیٹھ سکیں.کیونکہ اسلام صرف دل کی صفائی کے لیے
خطبات محمود 240 سال 1953ء نہیں آیا.اسلام قومی ترقی اور معاشرت کے ارتقاء کے لیے بھی آیا ہے.اور قوم اور معاشرت کا لی پیتا بغیر اجتماع میں شامل ہونے کے نہیں لگ سکتا ہے.ایک انسان اپنے گھر میں بیٹھے خواہ کتنا ہی ہے اللہ اللہ کرتار ہے، کتنا ہی ذکر الہی میں مشغول رہے جب تک وہ اپنے ہمسایہ سے نہیں ملتا اُس وقت تک اسے اپنے ہمسایہ کی مصیبتوں اور اُس کی مشکلات کا علم نہیں ہو سکتا.لیکن جب وہ ملتا ہے تب اُسے پتا لگتا ہے کہ دنیا میں کن حالات میں سے لوگ گزر رہے ہیں.مثلاً ابھی پیچھے ملک میں تفرقہ ہے پیدا ہوا اور لاکھوں لاکھ آدمی اُدھر سے ادھر آگئے اور لاکھوں لاکھ ادھر سے اُدھر چلے گئے.اخباروں میں پڑھنے سے اور لوگوں کے حالات سننے سے کچھ نہ کچھ اندازہ تو ہوتا تھا کہ مہاجرین کو کیا کیا تکالیف ہیں اور وہ کن مصیبتوں میں سے گزر رہے ہیں.لیکن دیکھنے سے کچھ اور ہی اندازہ ہوتا ہے.مجھے یاد ہے 1948ء میں میں کسی سفر پر لاہور سے گیا.واپسی پر لاہور سے چالیس میل کے فاصلے پر میں نے ہزاروں آدمیوں کا اجتماع دیکھا جو کھلے میدان میں بانس کھڑے کر کے اور اُن کے اوپر چادر میں تان کر ڈیرہ ڈالے پڑے تھے.مجھے وہ اجتماع کچھ عجیب سا معلوم ہوا.بظاہر اُن کی شکل ایسی ہی تھی جیسے خانہ بدوش ہوتے ہیں.مگر ان کی اتنی تعداد نہیں ہوا کرتی.میں نے کی اپنے بعض ساتھیوں سے پوچھا تو انہوں نے کہا کہ یہ وہی خانہ بدوش قو میں معلوم ہوتی ہیں.مگر اُن کی کے اس جواب سے میرے دل کو تسلی نہ ہوئی.اور میں نے لوگوں سے پوچھا کہ یہ کیا بات ہے؟ تو ی معلوم ہوا کہ یہ مہاجرین ہیں جو اس طرح کھلے میدان میں بانس گاڑ کر اور اُن کے اوپر چادریں ڈال کر ہزاروں کی تعداد میں یہاں ڈیرہ ڈالے پڑے ہیں حالانکہ اُس وقت تک ہجرت پر آٹھ نوتی مہینے گزر چکے تھے.مگر باوجود اس کے کہ اُس وقت تک آٹھ نو مہینے گزر چکے تھے ابھی تک وہ لوگ چادر میں تان کر میدان میں گزارہ کر رہے تھے.جب میں نے اُن کو دیکھا اُس وقت سردی کا موسم گزر چکا تھا اور گرمی کا موسم شروع تھا.گویا ستمبر، اکتوبر نومبر دسمبر اور پھر جنوری فروری ، مارچ اور اپریل آٹھ مہینے گزر چکے تھے.مئی یا جون کا مہینہ شروع ہو چکا تھا اور ابھی وہ لوگ اس طرح کے کھلے میدانوں میں پڑے تھے کہ انہیں اپنی رہائش کے لیے جھونپڑی تک بھی میسر نہیں تھی.میرے واہمہ اور گمان میں بھی نہیں آسکتا تھا کہ ہزاروں آدمی اس طرح اپنی زندگی بسر کر سکتے ہیں.لیکن اُس وقت اُن لوگوں کو دیکھنے سے معلوم ہوا کہ مہاجرین کی کیا حالت ہے.اور وہ کیسی تکلیف.
خطبات محمود 241 سال 1953ء اپنی زندگی کے دن بسر کر رہے ہیں.پھر اب جو میں کراچی آ رہا تھا تو جب حیدر آباد کے پاس ریل پہنچی میں نے دیکھا کہ ہزاروں ہزار جھونپڑیاں جو محض تنکوں کی بنی ہوئی تھیں اُن میں بارش کی وجہ سے اتنا پانی بھرا ہوا تھا کہ جہاں تک نظر جاتی تھی پانی ہی پانی نظر آتا تھا.اور جو جھونپڑیوں کے درمیان گلیاں سی بنائی گئی تھیں اُن میں بھی گھٹنوں گھٹنوں تک پانی چل رہا تھا.میں نے دیکھا کہ اُس وقت وہ لوگ اپنے ہی جھونپڑوں سے نکل کر اپنے اپنے ہمسائیوں کے ساتھ کھڑے اس مزے سے باتیں کر رہے تھے جیسے کوئی اعلیٰ درجہ کی گلیوں میں کھڑا ہو.اس نظارہ کو دیکھ کر تعجب بھی ہوا کہ ایسی حالت میں بھی ان کے کے دلوں میں کتنا جوش پایا جاتا ہے.اور ساتھ ہی ان کی حالت کو دیکھ کر سخت صدمہ بھی محسوس ہوا کہ اتنا لمبا عرصہ گزر جانے کے باوجود حکومت نے اب تک ان کو بسانے کی طرف کوئی توجہ نہیں کی.ہر حکومت جب قائم ہوتی ہے تو وہ بڑے زور سے اعلان کرتی ہے کہ وہ مہاجرین کی آبادی کا مسئلہ حل کرنے کے لیے اپنی پوری کوشش صرف کر دے گی.مگر متواتر اعلانات کے باوجود مہاجرین کی آبادکاری کی طرف کوئی توجہ نہیں کی جاتی.پھر وہ وزارت بدل جاتی ہے اور دوسری وزارت آجاتی ہے اور وہ بھی ایک ایسا ہی اعلان کر دیتی ہے.مگر عملی رنگ میں وہ بھی کوئی کام نہیں کرتی اور صرف الفاظ سے مہاجرین کو تسلی دلانے کی کوشش کرتی ہے.سمجھ میں نہیں آتا کہ آخر اس کے میں مشکلات کیا ہیں اور کیوں ان مہاجرین کو اب تک باعزت طریق پر بسایا نہیں جاسکا.اور ہم پر اعتراض کیا جاتا ہے کہ ربوہ کی زمین جو ایک ہزار سال سے آباد نہیں ہوئی تھی او جس کو گورنمنٹ نے کئی دفعہ ٹھیکہ پر بھی دیا تا کہ لوگ اسے کسی طرح آباد کریں مگر ٹھیکہ دار ہیں ہیں ، تمیں تمیں ہزار روپیہ لگا کر بھاگ گئے اس زمین کو خرید کر ہم نے پاکستان کو لوٹ لیا.اور یہ نہیں ہے دیکھا جاتا کہ ہم نے اس زمین کو آباد کرنے اور اپنی جماعت کے مہاجرین کو بسانے کے لیے کتنے لاکھ روپیہ خرچ کیا.ان لوگوں میں جو گھاس پھوس کے جھونپڑوں میں رہائش رکھ رہے ہیں گاؤں کے کے نمبر دار بھی ہوں گے اور وہ لوگ بھی ہوں گے جو ہندوستان میں سوسو ڈیڑھ ڈیڑھ سو روپیہ ماہوار کی آمد رکھتے ہوں گے.مگر واقع یہ ہے کہ ہمارے ربوہ کے ایک چوہڑے کا مکان بھی اُن کے جھونپڑوں سے بدرجہا بہتر ہے.ہم نے تین چار لاکھ بلکہ اس سے بھی زیادہ روپیہ خرچ کر کے
خطبات محمود 242 سال 1953ء لوگوں کی رہائش کے لیے پہلے عارضی مکانات بنائے اور پھر لاکھوں لاکھ روپیہ خرچ کر کے عارضی مکانات کو مستقل مکانات میں تبدیل کیا.غالباً اس وقت تک چالیس پچاس لاکھ روپیہ خرچ ہو چکا تھی ہوگا یا شاید اس سے بھی زیادہ.لوگوں نے اعتراض بھی کیے اور کہا کہ قوم کا روپیہ ضائع کیا جارہا ہے اور اس کے خرچ میں اسراف سے کام لیا جا رہا ہے.مگر میں نے اس کی پروا نہیں کی کیونکہ میں نے سمجھا کہ اس وقت سب سے بڑا مسئلہ یہی ہے کہ وہ لوگ جو بے گھر ہو چکے ہیں اُن کی رہائش کا انتظام کیا جائے.ہم لوگ تو خود مہاجر تھے.اگر ہم نے اپنے لیے یہ انتظام کر لیا تو کیا وجہ ہے کہ گورنمنٹ اس قسم کا انتظام نہیں کرسکتی.اصل بات یہ ہے کہ گورنمنٹ اپنی آنکھوں سے ان کے حالات کو نہیں دیکھتی.مجھے پہلے یقین نہیں آتا تھا کہ ہزاروں ہزار مہاجر ابھی اس بے کسی کی حالت میں پڑے ہیں کہ انہیں اپنا سر چھپانے کے لیے بھی جگہ نہیں مل رہی.لیکن دیکھنے کے بعد معلوم ہوا کہ ان کی ایسی حالت ہے کہ انسانیت کی اس سے زیادہ بے عزتی ناممکن ہے.پاکستان کے قیام پر چھ سال کا عرصہ گزر چکا ہے اور اب ساتواں سال شروع ہے.اس چھ سال کے عرصہ میں ابھی تک گورنمنٹ اس قابل نہیں ہوئی کہ لوگوں کو عارضی مکانات ہی دے سکے.حالانکہ عارضی مکانات بنانے پر کچھ زیادہ روپیہ خرچ نہیں ہو سکتا.اگر ہم فرض کر لیں کہ دس لاکھ مہاجر ابھی تک آباد نہیں ہوئے تو چونکہ اوسط آبادی کی انسان کے خاندان کی چار پانچ سبھی جاتی ہے اس لیے دس لاکھ مہاجرین کی آبادی کے یہ معنے ہیں کہ ہمیں ان کے لیے دولاکھ مکانوں کی ضرورت ہے.ہم نے ربوہ میں تجربہ کیا ہے کہ بارہ بارہ سو میں ایک کچا مکان بن سکتا ہے.ایسا مکان کہ جس میں دو کمرے ہیں، غسل خانہ ہے، پاخانہ ہے.باورچی خانہ ہے اور چار دیواری ہے.اگر مہاجرین کے لیے صرف ایک کمرہ پر کفایت کر لی جائے اور مکانات کی تعمیر میں خود اُن سے بھی مدد لی جائے تو ایک مکان پر اس سے بھی کم رقم خرچ ہو سکتی ہے.اگر صرف ایک کمرہ رکھا جائے اور اس کے ساتھ فسل خانہ، پاخانہ اور باورچی خانہ بھی بنایا جائے اور مزدوری کے کاموں میں مہاجرین سے بھی مدد لی جائے تو میرے خیال میں چار سو روپیہ میں اس قسم کا مکان بن سکتا ہے جس میں انسان بارش سے بچ سکتا ہے، سردی گرمی کے اثرات سے محفوظ رہ سکتا ہے اور اپنی زندگی باعزت طریق پر بسر کر سکتا ہے.اس طرح دولاکھ مکانات پر تھی
خطبات محمود 243 سال 1953ء آٹھ کروڑ روپیہ خرچ ہو گا.مگر اس آٹھ کروڑ کے نتیجہ میں جتنا کام وہ اب کر رہے ہیں اس سے دگنا کام کرنے کے وہ قابل ہو جائیں گے.اور جتنی کمائی وہ اب کرتے ہیں اس سے دگنی کمائی کرنے کی کے قابل ہو جائیں گے.اور نہ صرف مہاجرین کی حالت سدھرے گی بلکہ ہمارے ملک کی ترقی کی رفتار بھی پہلے سے تیز ہو جائے گی.ہمارے ملک کا میزانیہ، اب سوا ارب سے ڈیڑھ ارب تک جاچکا ہے.ایسے ملک کے لیے آٹھ دس کروڑ روپیہ قرض لے لینا کوئی بڑی بات نہیں.یہ قرض آسانی سے دو چار سال میں اتارا جا سکتا ہے.ہمارے ملک کی طرف سے امریکہ کا بڑا شکر یہ ادا کہ جاتا ہے کہ اس نے ہمارے لیے میں کروڑ کی گندم کا انتظام کیا.اگر اُس کا دل اتنا نرم ہوسکتا.ہمارا دل اپنے بھائیوں کی مصیبت کو دیکھ کر کیوں نرم نہیں ہوسکتا.مگر مصیبت یہ ہے کہ ہم لوگ جب بھی کوئی کام کرتے ہیں ہم یورپ اور امریکہ کی نقل کرنا شروع کر دیتے ہیں.حکومت کی طرف سے جب ٹاؤن پلیز (Town Planner) یا پراونشل ٹاؤن پلیز (Provincial Town Planner) مقرر کیے جاتے ہیں تو وہ چاہتے ہیں کہ ایسی سکیم بنائیں جس پر زیادہ سے زیادہ روپیہ خرچ ہو.حالانکہ جب مصیبت آئے تو اُس وقت بڑی بڑی سکیمیں نہیں سوچی جاتیں بلکہ ساری کوشش صرف سے دو مصیبت کو دور کرنے پر صرف کی جاتی ہے.جب تک ہم ان لوگوں کی نقل کرتے رہیں گے جو ہم.چار سو سال پہلے ترقی کے میدان میں آگے نقل چکے ہیں، اُس وقت تک ہم اپنے کاموں میں کامیاب نہیں ہو سکیں گے.ہم شام کو اپنے گھر سے نکلتے ہیں اور اُس شخص سے دوڑ کر ملنا چاہتے ہیں جو ہم سے بارہ گھنٹے پہلے نکل چکا ہے.ظاہر ہے کہ ایسی صورت میں ہماری کوشش کبھی کامیاب نہیں ہوسکتی.میں دیکھتا ہوں کہ یہاں عمارتوں کے لیے ایسے ایسے قوانین بنائے جاتے ہیں جو امریکہ اور نیو یارک میں بھی نہیں.وہاں چھوٹی چھوٹی گلیاں بھی موجود ہیں، کم خرچ والی عمارتیں بھی موجود ہیں لیکن یہاں مجبور کیا جاتا ہے کہ فلاں طرز کی عمارتیں بنائی جائیں اور اتنی چوڑی گلیاں رکھی ہے جائیں.حالانکہ ہمارے ملک میں زمینیں کم ہیں اور آدمی زیادہ ہیں.اگر ایسے ہی قوانین جاری کی رکھے گئے تو نتیجہ یہ ہوگا کہ زمین ختم ہو جائے گی اور لوگ ابھی غیر آباد پڑے ہوں گے.یہ ساری خرابیاں اسی بات کا نتیجہ ہیں کہ باہر نکل کر لوگوں کے حالات کو نہیں دیکھا جاتا اور گھر بیٹھ کر خیالی سکیمیں تجویز کر لی جاتی ہیں.حالانکہ خیالی دنیا بالکل اور چیز ہے اور واقعاتی دنیا بالکل اور چیز ہے.
خطبات محمود 244 سال 1953ء گھر بیٹھ کر اندازے لگانے والے کی ایسی ہی مثال ہوتی ہے.جیسے کوئی شخص اپنے کنبہ کو لے کر دریا کے دوسری طرف جانے لگا تو کنارے پر بیٹھ کر پہلے اُس نے اربعہ 3 لگایا کہ دریا میں کتنا پانی ہوگا.اس نے کنارے پر دیکھا کہ کتنا پانی ہے.پھر دریا کی چوڑائی کا اندازہ کیا اور حساب لگا کر فیصلہ کری لیا کہ دریا میں اتنا پانی ہوگا.حالانکہ دریاؤں میں عام طور پر کناروں پر چھوٹا پانی ہوتا ہے اور درمیان میں بڑا گہرا ہوتا ہے.جب وہ اپنے کنبہ کو لے کر دریا میں داخل ہوا تو ابھی بمشکل اس کے نصف تک ہی پہنچا تھا کہ گہرا پانی آگیا اور اُس کا سارا کنبہ ڈوب گیا.یہ دیکھ کر وہ باہر نکلا اور کنارے پر بیٹھ کر پھر حساب کرنے لگا اور جب وہی حساب نکلا جو پہلے نکل چکا تھا تو حیران ہو کر کہنے لگا کہ اربعہ تو جوں کا توں لگا ہے پھر کنبہ کیوں ڈوبا ہے.حقیقت یہ ہے کہ خالی حسابوں سے کام نہیں چلا کرتا.ضرورت ہوتی ہے کہ انسان واقعاتی دنیا کو بھی دیکھے.اور اگر ہم واقعاتی دنیا کو دیکھنا چاہتے ہیں تو ہمارا فرض ہے کہ ہم باہر نکلیں اور دیکھیں کہ لوگوں کا کیا حال ہے.ہمارے لیے یورپ کی نقل کا کوئی سوال ہی نہیں.ہمارے لیے پہلا سوال یہ ہے کہ کسی طرح سب لوگ چھتوں کے نیچے بیٹھ سکیں تا کہ وہ سردی گرمی سے بچ سکیں، بارش آئے تو محفوظ رہ سکیں ، سامان کو کمروں میں تالے لگاکر محفوظ کرسکیں.اس کے بعد یہ سوال آئے گا کہ اتنی چوڑی سڑکیں ہوں اور اتنی کھلی گلیاں ہوں.میں نے سنا ہے کہ اب حکومت کے افسر جمعہ وغیرہ میں جانے لگے ہیں جس سے انہیں لوگوں کے حالات کا کچھ نہ کچھ اندازہ ہونے لگا ہے.ورنہ اگر بڑے افسر لوگوں سے نہ ملیں تو ان کی کی وہی حالت ہوتی ہے جو فرانس کی ایک ملکہ کے متعلق مشہور ہے جسے بعد میں لوگوں نے مشتعل ہو کر مار ڈالا.وہ ایک دفعہ گزر رہی تھی کہ اُس نے دیکھا کہ ہزاروں ہزار آدمی جمع ہیں اور وہ شور مچان رہے ہیں.روٹی روٹی ! ہزاروں کا اجتماع اور لوگوں کا شور سن کر وہ شہر گئی اور اُس نے پوچھا کہ یہ لوگ کیوں شور مچا رہے ہیں؟ اُس کے مصاحبوں نے بتایا کہ یہ لوگ کہتے ہیں کہ ہمیں کھانے کے لیے روٹی نہیں ملتی.اُس نے جب یہ بات سنی تو کہنے لگی کہ یہ بڑے بیوقوف لوگ ہیں اگر روٹی نہیں ملتی تو کیک کھا لیں.اُس نے چونکہ حقیقی دنیا نہیں دیکھی تھی اور وہ خود کیک اور پیسٹریاں کھاتی تھی اس لیے اُس نے سمجھا کہ روٹی اور کیک پیسٹری یہ سب برابر کی چیزیں ہیں کبھی بیل گئی اور کبھی وہ ہل گئی.یہی اُن لوگوں کا حال ہوتا ہے.جو گھر بیٹھ کر دنیا کے حالات کا اندازہ لگاتے ہیں.پس ضروری ہے
خطبات محمود 245 سال 1953ء کہ لوگوں تک خود پہنچا جائے اور ان کے حالات کو اپنی آنکھوں سے دیکھنے کی کوشش کی جائے.میں نے پہلے بھی کئی دفعہ سنایا ہے کہ ایک دفعہ ایک عورت میرے پاس آئی اور اس نے ی اپنے دکھ اور مصیبت کی داستان بیان کرنی شروع کی.وہ بار بار کہتی کہ میں اس وقت سخت مصیبہ میں مبتلا ہوں.اور میں آپ کے پاس اس لیے آئی ہوں کہ میں سمجھتی ہوں میری مصیبت کا علاج سوائے آپ کے اور کوئی نہیں کر سکتا.اگر آپ میری مدد کر دیں تو میں اس مشکل سے نجات حاصل کرلوں گی.جب اُس نے اپنی مشکلات کا بار بار ذکر کیا تو میں نے چاہا کہ اُس سے پوچھوں کہ اُسے کتنی مدد کی ضرورت ہے.میں نے سمجھا کہ شاید وہ سو ، دوسو یا تین سو روپیہ مانگے گی.چنانچہ میں نے کہا مائی ! میں نے تمہاری بات تو سن لی ہے اب تم اپنی ضرورت بھی بیان کرو کہ تمہیں کتنی مدنی دی جائے ؟ اس پر اس نے کہا مجھے آٹھ آنے چاہیں.اُس کا یہ جواب میری آنکھیں کھولنے والا تھا تی کہ اس دنیا میں ایسے غریب لوگ بھی موجود ہیں جنہیں اتنی معمولی مدد کے لیے بھی کئی منٹ تک اپنی مصیبت کی داستان بیان کرنی پڑتی ہے.میں نے اُس وقت سمجھا کہ اُس کے دل میں ہماری شقاوت قلبی کا کتنا یقین ہے یہ ہمیں اتناشقی القلب سمجھتی ہے کہ خیال کرتی ہے کہ اتنی خطرناک حالت میں بھی کوئی شخص اُس کو آٹھ آنے دینے کے لیے تیار نہیں ہوسکتا.دوسری طرف اُس کی غربت کتنی بڑھی ہوئی تھی کہ اُسے آٹھ آنے کے لیے اتنی لمبی تمہید بیان کرنی پڑی.غرض ایسے امور کا اندازہ انسان لوگوں سے مل کر ہی کر سکتا ہے.اس لیے ہماری شریعت نے ہمارے لیے حج مقرر کیا ہے.جس میں ساری دنیا کے لوگ اکٹھے ہوتے ہیں.پھر عید میں مقرر کیں جن میں شہر اور اُس کے اردگرد کے لوگ جمع ہوتے ہیں.پھر جمعہ مقرر کیا ہے جس میں سارے شہر کی کے لوگ اکٹھے ہوتے ہیں.لیکن جانے والے پھر بھی ان اجتماعوں سے بہت کم فائدہ اٹھاتے کی ہیں.ہماری شریعت نے حکم دیا ہے کہ امراء اور قوم کے لیڈر جمعہ اور دوسری نمازیں خود پڑھایا کریں.مرکز میں مقدم حق خلیفہ وقت کا ہے.اگر وہ نہ ہو تو اُس کے نائب پڑھائیں ، ملک کے افسر پڑھائیں ، امراء اور لیڈران قوم پڑھائیں.اس میں بھی بڑا مقصد یہی ہے کہ اجتماع میں جانے سے غرباء کی تکالیف نظر آجاتی ہیں.اور پھر اُن کو دُور کرنے کے لیے اجتماعی رنگ میں کوشش کی جاسکتی ہے ہے.جب تک کسی لیڈر کو اظہارِ خیال کا موقع نہیں ملتاوہ چپ کر کے واپس آ جاتا ہے اور لوگوں کی تکلیف کو
خطبات محمود 246 سال 1953ء دور کرنے کے لیے عملی رنگ میں کوئی جد و جہد نہیں کرتا.لیکن اگر وہ مجلس میں جائے اور اُسے تقریریں کرنے کا موقع ملے تو اُس کے بعد اگر وہ غرباء کی تکالیف کو دیکھنے کے باوجود ان کے حالات کے متعلق کچھ بولے گا نہیں تو لوگوں میں اُس کے متعلق چہ مگوئیاں شروع ہو جائیں گی کہ اُس نے ہمارے حالات کو دیکھا مگر پھر بھی اُس نے کچھ نہیں کہا اور اگر اُن کی تکالیف کو دیکھ کر وہ کچھ بولے گا تو اُسے کچھ نہ کچھ شرم آئے گی اور وہ کوشش کرے گا کہ عملی رنگ میں بھی اُن کی مشکلات کو دُور کرنے کی کوشش کرے.غرض وہ اگر کچھ نہیں کہے گا تو لوگوں میں اس کے خلاف شور پیدا ہوگا.اور اگر کچھ کہے گا تو پھر اسے کچھ کرنا بھی پڑے گا.مگر اب یہ نہیں ہورہا.اب مولویوں کا حق سمجھا جاتا ہے کہ وہ نمازیں پڑھائیں.نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ امراء بہت کم نمازوں میں شامل ہوتے ہیں.اور اگر کبھی مسجدوں میں آجائیں تو لوگوں کے لیے ایک عجوبہ سا بن جاتا ہے.ایک غیر احمدی دوست ہیں.وہ جلسہ سالانہ پر آئے تو انہوں نے اپنی ایک نظم سنائی جس میں یہ مضمون تھا کہ پاکستان کے گورنر جنرل اور روز یر اعظم نماز کے لیے آئے تو لوگوں نے اس کے طرح لپک لپک کر انہیں دیکھنا شروع کر دیا گویا نماز انہیں بھول گئی اور صرف ایک مقصد سامنے رہ گیا کہ کسی طرح وزیر اعظم یا گورنر جنرل انہیں مسکرا کر دیکھ لیں.لیکن بہر حال کام کرنے سے ہی ہوتے ہیں.اگر یہ طریق جاری رہے تو آہستہ آہستہ اس کے مفید نتائج بھی پیدا ہونے شروع ہو جائیں گے.اصل چیز یہی ہے کہ قوم کے سردار خود نمازیں پڑھانے کے لیے آگے آئیں.مگر اب اس کو ایک پیشہ سمجھ لیا گیا ہے جو مولویوں کے لیے مخصوص کر دیا گیا ہے.اگر قوم کے سردار لوگوں کو نمازیں پڑھائیں تو جہاں نمازوں کے ذریعہ ایک طرف روحانیت پیدا ہوگی وہاں وہ قوم کی مشکلات اور اُس کی تکالیف کو دور کرنے میں حصہ لیں گے اور اس طرح دین اور دنیا دونوں کا ایک لطیف امتزاج ہو جائے گا.حقیقت یہ ہے کہ اگر ہم غور کر کے دیکھیں تو جتنے بھی دنیوی کام ہیں ان میں اگر خدا تعالیٰ کا نام آجائے تو وہ دینی کام بن جاتے ہیں.اور جتنے دینی کام ہیں ان میں دنیا کا بھی ایک حصہ رکھا تھا گیا ہے.مثلاً ہم روٹی کھاتے ہیں، کپڑا پہنتے ہیں، جوتی بناتے ہیں، ہل چلاتے ہیں.اب یہ سب دنیوی کام ہیں.مگر رسول کریم ﷺ فرماتے ہیں کہ ہر دنیوی کام سے پہلے بسم اللہ پڑھ لیا کرو -4.اب اگر ہم اسی بسم اللہ کہہ کر روٹی کھاتے ہیں یاہل چلاتے ہیں یا کپڑا پہنتے ہیں یا جوتی بناتے ہیں تو یہ سارے دنیوی نام دینی بن جاتے ہیں.اسی طرح جتنے دینی کام ہیں ان کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے دنیا کو بھی سمویا ہوا ہے.
خطبات محمود 247 سال 1953ء مثلاً روزے کا حکم دیا تو ساتھ صدقہ بھی رکھ دیا اور کہہ دیا کہ غرباء کو کھانا بھی کھلا ؤ 5.حج کا حکم دیا تو ساتھ قربانی رکھ دی اور کہہ دیا کہ لوگوں کو گوشت کھلاؤ6.اسی طرح زکوۃ ہے یہ بھی عبادات میں شامل ہے.مگر اس کا فائدہ بھی زیادہ تر قوم کے غرباء کو ہی پہنچتا ہے.پھر نمازیں ہیں ان میں بھی لوگوں کی اصلاح کا پہلو مد نظر رکھا گیا ہے.کیونکہ حکم دیا گیا ہے کہ قوم کے ائمہ کو بھی نماز میں پڑھانی چاہیں..تاکہ وہ لوگوں کے حالات کو اپنی آنکھوں سے دیکھ سکیں اور پھر اُن کی اصلاح کرنے کی کوشش کریں.غرض ہر دنیوی کام میں دین کا اور ہر دینی کام میں دنیا کا اللہ تعالیٰ نے حصہ رکھا ہے.اور اُس نے دین اور دنیا کو اس طرح ملایا ہے کہ روحانیت اور جسم دونوں کو ایک کر دیا ہے.کوئی شخص اسلام کو مان کر ایسی روحانیت اختیار نہیں کر سکتا جس میں وہ دنیا کو بالکل چھوڑ دے.اور کوئی شخص اسلام کو مان کر ایسی دنیا اختیار نہیں کر سکتا جس میں وہ روحانیت کو بالکل چھوڑ دے.غرض جمعہ اور عیدین وغیرہ کی نمازیں نہ صرف قرب الہی کا ذریعہ ہیں بلکہ قومی مشکلات کے معلوم کرنے اور پھر اُن کو دُور کرنے کا بھی ایک اعلیٰ ذریعہ ہیں.اور ہر مومن کا فرض ہے کہ وہ نہ صرف اللہ تعالیٰ سے اپنے تعلق کو مضبوط رکھے بلکہ عوام کی مشکلات کو دور کرنے میں بھی عملی حصہ لے.حقیقت یہی ہے کہ کوئی شخص اپنی زندگی نہ دنیا کے لحاظ سے کامیاب بسر کر سکتا ہے اور نہ دینی لحاظ سے جب تک اس کا خدا تعالیٰ کے ساتھ تعلق نہ ہو.اسی طرح کوئی شخص اپنی زندگی خدا تعالیٰ کے لیے بسر نہیں کر سکتا جب تک قوم کے لیے اور قوم کے افراد کے لیے قربانی اور ایثار کی روح اُس میں پیدا نہ ہو.(مصلح 20 اکتوبر 1953ء) 1 سنن ابي داؤد كتاب الصلواة باب اذا وافق يوم الجمعة يوم عيد 2 سنن ابی داؤد كتاب الصلواة باب اذا وافق يوم الجمعة يوم عيد اربعہ: اربع لگانا: تین عددوں یار قموں کی مدد سے چوتھا غیر معلوم عدد یار تم دریافت کرنے کا قاعدہ ( اردو لغت تاریخی اصول پر جلد 1 صفحہ 349) 4 کنز العمال جلد 1 صفحہ 277 كتاب الاذكار الكتاب الثاني في الاذكار من قسم الاقوال الباب السابع الفصل الثانى فى فضائل السور والآيات والبسملة بیروت لبنان 1998ء مین "كل أمر ذى بال لايبدأ فِيهِ بِسْمِ الله الرحیم اقطع “ کے الفاظ ہیں.
خطبات محمود 248 سال 1953ء 5.يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِينَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ أَيَا مَا مَّعْدُودَتٍ فَمَنْ كَانَ مِنْكُمْ مَّرِيضًا أَوْ عَلَى سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِنْ أَيَّامٍ أُخَرَ وَعَلَى الَّذِينَ يُطِيقُونَهُ فِدْيَةٌ طَعَامُ مِسْكين (البقرة: 185،184) : وَاَتِمُّوا الْحَجَّ وَالْعُمْرَةَ لِلهِ فَإِنْ أَحْصِرْتُمْ فَمَا اسْتَيْسَرَ مِنَ الْهَدْي (البقرة: 197) 7: المعجم الكبير - الطبرانى ما اسند مرثد بن ابی مرثد الغنوی.جلد 20 صفحہ 328، نمبر 777 القاهر 14040ھ میں ”فَلْيَؤُ مَّكُمْ خِيَارُكُمْ “ کے الفاظ ہیں.
$1953 249 30 خطبات محمود اپنی نمازوں کو اس طرح سنوار کر ادا کرو کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے تمہاری تائید میں نشان ظاہر ہونے لگیں (فرموده 28 اگست 1953 ء بمقام کراچی) تشہد ، تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا.وو ” سب سے پہلے تو میں اللہ تعالیٰ کا اس امر پر شکریہ ادا کرتا ہوں کہ اس نے ہماری جماعت کو یہاں ایک مسجد بنانے کی توفیق عطاء فرمائی ہے.خصوصاً جب کہ پہلے بھی جماعت ایک وسیع ہال بنا چکی ہے.جس میں نمازیں ادا کی جاتی ہیں.گو وہ ہال کراچی کی ضروریات کے لحاظ سے کافی نہیں.بہر حال اب اللہ تعالیٰ نے جماعت کو یہاں بھی ایک مسجد بنانے کی توفیق عطا فرمائی ہے.مجھے نہیں معلوم کہ آیا سرکاری طور پر اس جگہ پر مسجد بنانے کی اجازت ہے یا نہیں لیکن آج ہی ہے مجھے جماعت کی طرف سے ایک چٹھی ملی تھی کہ اس مسجد کا کوئی نام رکھ دیا جائے.مسجد کا نام تو مسجد ہی ہے.یہی نام اللہ تعالیٰ نے رکھا ہے.باقی محلوں کے لحاظ سے اور شہروں کے لحاظ سے بعض دفعہ مساجد کے نام بھی رکھ دیئے جاتے ہیں.اس کے لحاظ سے اگر اس مسجد کا بھی کوئی نام رکھ لیا جائے تو کوئی حرج نہیں لیکن اس کا نام ”مسجد کراچی رکھنا مناسب نہیں ہوگا.کیونکہ ابھی جماعت نے بڑھنا
$1953 250 خطبات محمود اور ترقی کرنا ہے.اور یہ مسجد اتنی وسیع نہیں کہ سارے کراچی کے احمدی یہاں نمازیں پڑھ سکیں.در حقیقت مسجد کراچی ، وہی کہلائے گی جس میں کراچی کے تمام موجودہ اور آئندہ آنے والے احمدی سما سکیں.پس اس کا کوئی اور نام رکھ لیا جائے جو موجودہ حالات کے لحاظ سے مناسب ہو.اس کے بعد میں جماعت کو اس امر کی طرف توجہ دلاتا ہوں کہ نماز ، روزہ ، حج ، اور زکوۃ یہ ساری کی ساری عبادات صرف ایک ظاہری شکلیں ہیں جو اپنی ذات میں مقصود نہیں.ہم مساجد میں جاتے ہیں، اُن کا احترم بھی کرتے ہیں اور مساجد کے سامنے باجا بجانے یا شور و غل مچانے پر گشت وخون بھی ہو جاتے ہیں.لیکن اگر ہم غور کریں کہ مسجد کیا ہے؟ تو ہمیں معلوم ہوتا ہے؟ محض ایک زمین کا ٹکڑا ہوتا ہے جس کا احاطہ کر لیا جاتا ہے اور پھر فیصلہ کیا جاتا ہے کہ لوگ یہاں نمازیں پڑھیں گے.گویا ہمارا اصل مقصد مسجد نہیں ، اصل مقصود نماز باجماعت ادا کرنا ہوتا ہے.بلکہ حقیقت تو ہے کہ اگر ہم مزید غور کریں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ نماز بھی اپنی ذات میں مقصود نہیں.بلکہ وہ بھی کسی اور مقصد کے حصول کے لیے پڑھی جاتی ہے.پس جس غرض کے لیے نماز ادا کی جاتی ہے درحقیقت وہی غرض ہمارا اصل مقصود کہلائے گی.قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے که اِنَّ الصَّلوةَ تَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرِ 1 یعنی نماز انسان کو نخش اور نا پسندیدہ باتوں سے روکتی ہے اور رسول کریم ﷺ فرماتے ہیں کہ ادنیٰ سے ادنیٰ درجہ کی نماز یہ ہے کہ تو یہ سمجھے کہ خدا تجھے دیکھ رہا ہے.اور اعلیٰ درجہ کی نماز یہ ہے کہ تو یہ سمجھے کہ تو اپنی آنکھوں سے خدا کو دیکھ رہا ہے 2ے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ صرف نماز اپنی ذات میں کوئی چیز نہیں.نماز کی اصل غرض یہ ہوتی ہے کہ عملی زندگی میں وہ انسان کو فحشاء ومنکر سے روکے.گویا اصل مقصود یہ ہوا کہ انسان فحشاء ومنکر سے رُکے اور روحانی لحاظ سے نماز کی غرض یہ ہے کہ انسان خدا تعالیٰ کے سامنے آجائے اور وہ یہ سمجھے کہ وہ خدا تعالیٰ کو دیکھ رہا ہے.اب یہ جو رسول کریم ﷺ نے فرمایا ہے کہ تو یہ سمجھے کہ تو خدا تعالیٰ کو دیکھ رہا ہے.اور اگر ای ، یہ مقام حاصل نہیں تو تو یہ سمجھے کہ خدا تجھے دیکھ رہا ہے.اس کے متعلق یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ خدا تو ہر انسان کو ہر حالت میں دیکھ رہا ہے.کیا اسلام کی رُو سے یہ کہنا جائز ہوگا کہ خدا فلاں کو دیکھ رہا ہے اور فلاں کو نہیں دیکھ رہا؟ یا خدا عیسائیوں کو نہیں دیکھ رہا ، ہندوؤں کو نہیں دیکھ رہا ،سکھوں کو
$1953 251 خطبات محمود نہیں دیکھ رہا؟ لیکن مسلمانوں کو دیکھ رہا ہے؟ یا زید نماز نہ پڑھنے والے کو خدا تعالیٰ نہیں دیکھ رہا اور زید نماز پڑھنے والے کو خدا تعالیٰ دیکھ رہا ہے؟ اگر ایسا ہوتا کہ جب بندہ نماز کے لیے کھڑا ہوتا تبھی ہے خدا اُسے دیکھتا ، تو کئی لوگ جان بوجھ کر نماز چھوڑ دیتے.اور سمجھتے کہ نہ ہم نماز پڑھیں گے اور نہ خدا ہمیں دیکھے گا.جیسے بچے بعض دفعہ غلطیاں کر بیٹھتے ہیں تو ماں باپ کے سامنے آنے سے گریز کرتے ہیں.اور وہ ڈرتے ہیں کہ کہیں ماں باپ انہیں دیکھ نہ لیں.اسی طرح اگر نماز نہ پڑھنے والے کو ی خدا تعالیٰ نہ دیکھتا اور پڑھنے والے کو دیکھتا تو کمز ور لوگ کبھی نماز کے قریب بھی نہ جاتے.وہ سمجھتے ہے کہ نہ ہم نمازیں پڑھیں گے اور نہ اللہ تعالیٰ ہمیں دیکھے گا.پس جب رسول کریم ﷺ نے یہ فرمایا کہ نماز کا ادنی مقام یہ ہے کہ انسان یہ سمجھے کہ خدا اُسے دیکھ رہا ہے تو اس کے یہ معنے تو نہیں ہو سکتے کہ انسان یہ سمجھے کہ خدا نماز پڑھنے والے کو تو دیکھتا ہے اور جو نماز نہیں پڑھتا اُسے نہیں دیکھتا.کیونکہ اس صورت میں کمزور لوگ نماز نہ پڑھنے کو اپنے لیے زیادہ برکت کا موجب سمجھتے اور وہ کی خیال کرتے کہ نہ ہم نماز پڑھیں گے اور نہ ہمیں خدا دیکھے گا.پھر ایک اور معنے بھی اس کے لیے جا سکتے ہیں اور وہ یہ کہ فی الواقع تو خدا انسان کو نہیں ہے دیکھ رہا.لیکن تم یہ سمجھو کہ خدا تمہیں دیکھ رہا ہے.اگر یہ معنے لیے جائیں تو یہ جھوٹ بن جاتا ہے.اگر خدا ہمیں نہیں دیکھ رہا اور ہم یہ سمجھ رہے ہیں کہ خدا ہمیں دیکھ رہا ہے تو ہم اپنے نفس کو دھوکا دیتے ہی ہیں.اور ایک جھوٹا تصور اپنے ذہن میں پیدا کرتے ہیں.پس یہ دونوں معنے نہیں لیے جا سکتے.نہ معنے لیے جاسکتے ہیں کہ خدا تعالیٰ ہم کو عام طور پر نہیں دیکھتا لیکن جب ہم نماز پڑھتے ہیں تو وہ ہمیں دیکھتا ہے.اور نہ یہ معنے لیے جا سکتے ہیں کہ خدا تعالیٰ ہم کو حقیقتا نہیں دیکھ رہا لیکن ہمیں یہ سمجھنات چاہیے کہ وہ ہمیں دیکھ رہا ہے.جب یہ دونوں معنے غلط ہیں تو لازماً ہمیں اس کے کوئی اور معنے لینے کی پڑیں گے جو قرآن کریم کی تعلیم کے مطابق ہوں.اور وہ معنے یہی ہیں کہ اس جگہ سمجھ لو کہ معنے یقین ہے کر لینے کے ہیں.گویا رسول کریم ﷺ کا یہ فرمانا کہ تم سمجھ لو کہ خدا تمہیں دیکھ رہا ہے.اس کے معنے یہ ہیں.کہ تمہیں یقینی طور پر اس بات کو محسوس کرنا چاہیے کہ خدا تمہیں دیکھ رہا ہے.اور یقینی علم اور محض خیال اور وہم میں زمین و آسمان کا فرق ہے.ایک آدمی صرف خیال کرتا ہے کہ خدا اُسے دیکھ رہا ہے.اور ایک آدمی اس یقین کامل پر قائم ہوتا ہے کہ خدا اُسے دیکھ رہا ہے.بظاہر دونوں
$1953 252 خطبات محمود یہی سمجھتے ہیں کہ خدا انہیں دیکھ رہا ہے.لیکن ایک کا تصور محض وہم پر مبنی ہوتا ہے جو جھوٹ بھی ہوسکتا ہے.اور دوسرا یقین کی مضبوط بنیادوں پر قائم ہوتا ہے.ایک کو بڑی آسانی کے ساتھ متزلزل کیا تو جاسکتا ہے.اور دوسرا شخص جو اپنے اندر کامل یقین پیدا کیے ہوئے ہوتا ہے اُسے دنیا کی کوئی طاقت متزلزل نہیں کر سکتی.پس رسول کریم ہے کے اس ارشاد کا یہ مطلب نہیں کہ گو یہ واقعہ تو نہیں کہ خدا تمہیں دیکھ رہا ہے مگر تم نماز پڑھتے وقت یہ تصور کر لیا کرو کہ خدا تمہیں دیکھ رہا ہے.بلکہ اس کے معنی یہ ہیں کہ نماز کا ادنی درجہ یہ ہے کہ انسان اس یقین کامل پر قائم ہو جائے کہ خدا اُسے دیکھ رہا ہے.یہاں دیکھنے کے عام معنی تو ہو نہیں سکتے کیونکہ وہ کا فرکو بھی دیکھ رہا ہے اور مومن کو بھی دیکھ رہا ہے ، عیسائی کو بھی دیکھ رہا ہے اور ہندو کو بھی دیکھ رہا ہے، نماز پڑھنے والے کو بھی دیکھ رہا ہے اور نماز نہ پڑھنے والے کو بھی دیکھ رہا ہے.ایسی صورت میں ایک نماز پڑھنے والا بھی اگر یہ سمجھ لیتا ہے کہ خدا اسے دیکھ رہا ہے تو اس میں اسے کوئی خصوصیت حاصل نہیں ہوسکتی.کیونکہ خدا جس طرح اُسے دیکھ رہا ہے اُس طرح ایک کافر اور منافق کو بھی دیکھ رہا ہے.خصوصیت اُسے تبھی حاصل کی ہو سکتی ہے جب دیکھنے کے بھی اور معنے لیے جائیں.اور وہ معنے ” حفاظت اور مدد کرنے کے لیے اس کی طرف متوجہ ہونے کے ہیں.جیسے قرآن کریم میں ہی اللہ تعالیٰ ایک دوسرے مقام پر رسول کریم ﷺ کی نسبت فرماتا ہے کہ فَإِنَّكَ بِأَعْيُنِنَا وَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ حِينَ تَقُومُ 3 پس تو ہماری آنکھوں کے سامنے ہے اور چاہیے کہ جب تو ( نماز کے لیے ) کھڑا ہو تو ہماری تسبیح کیا کر.اب آنکھوں کے سامنے ہونے کا یہ مطلب تو نہیں کہ رسول کریم ﷺ تو خدا تعالیٰ کی آنکھوں کے سامنے تھے لیکن رسول کریم ﷺ کا دشمن خدا تعالیٰ کی آنکھوں کے سامنے نہیں تھا.بلکہ اس کا مطلب یہی ہے کہ تو ایسے مقام پر پہنچ گے ہے کہ اب ہم تیرا خاص خیال رکھتے ہیں.کوئی تجھ کو چھیڑ نہیں سکتا ، کوئی تجھ پر حملہ نہیں کرسکتا، کوئی تجھے ذلیل اور رسوا نہیں کر سکتا ہے.جیسے حفاظت کے لیے اگر کسی کی ڈیوٹی مقرر ہو تو وہ حملہ آور کو دیکھ کر چُپ نہیں رہ سکتا.اسی طرح ہمارا تیرے ساتھ ایسا تعلق قائم ہو چکا ہے کہ اب ہم تجھ پر حملہ ہوتے دیکھ کر چُپ نہیں رہ سکتے.دنیا میں بھی انسان جب کسی معاملہ میں دخل دینا مناسب نہیں سمجھتا تو آنکھیں پھیر لیتا ہے.اور جب دخل دینا چاہتا ہے تو کہتا ہے " میں دیکھ رہا ہوں ".بہر حال
$1953 253 خطبات محمود جب رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ ادنیٰ سے ادنی درجہ نماز کا یہ ہے کہ انسان یہ سمجھے کہ خدا اُسے دیکھ رہا ہے تو اس کے معنے یہی ہیں کہ اسے یہ یقین کامل حاصل ہونا چاہیے کہ میری نماز اتنی درست ہے کہ اب میرے ساتھ کوئی شخص ایسا سلوک نہیں کر سکتا جسے خدا نظر انداز کر دے.جیسے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو اللہ تعالیٰ نے الہاماً فرمایا کہ إِنِّي مُعِيُنٌ مَنْ أَرَادَ إِعَانَتَكَ وَانّي مُهِينٌ مَنْ أَرَادَ إِهَانَتَك 4 جو شخص تیری مددکا ارادہ کرے گا میں اس کی مددکروں گا اور جو شخص تیری اہانت کا ارادہ کرے گا میں اس کی اہانت کروں گا.گویا اس مقام پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے نیکی اور بدی دونوں کا رد عمل ظاہر ہو جاتا ہے.اور وہ اپنے بندے سے نیکی کرنے والے کی نیکی کو ضائع نہیں ہونے دیتا، اور نہ اپنے بندے کے ساتھ برائی کرنے والے کی برائی کو نظر انداز کرتا ہے.اگر کوئی اُس سے نیکی کرتا ہے تو وہ اُس سے بڑھ کر اُس کے ساتھ نیک سلوک کرتا ہے اور اگر کوئی اُس کے ساتھ بدی کرتا ہے تو وہ اُس سے بڑھ کر اس کے ساتھ بُرا سلوک کرتا ہے.اور یہ ادنی درجہ ہے جو رسول کریم ﷺ کے ارشاد کے مطابق ہر مومن کو حاصل ہونا چاہیے.اس کے بعد رسول کریم ﷺ نماز کے اعلی درجہ کی طرف مومنوں کو توجہ دلاتے ہیں اور فرماتے ہیں.اصل مقام یہ ہے کہ تو نماز پڑھتے وقت یہ سمجھے کہ میں خدا کو دیکھ رہا ہوں.یہاں بھی گانگ تَرَاہ کے الفاظ استعمال کیے گئے ہیں.اب اس کے بھی یہ معنے نہیں ہو سکتے کہ تو فرض کرے کہ میں خدا کو دیکھ رہا ہوں.کیونکہ یہ جھوٹ بن جاتا ہے.اول تو جو چیز ہے ہی نہیں اُس کے متعلق کسی نے سمجھنا ہی کیا ہے.اور اگر کوئی ایسا کمزور دل ہو جو اپنے دل پر بار بار یہی اثر ڈالنے کی کوشش کرے کہ میں خدا کو دیکھ رہا ہوں تو اس کا فائدہ کیا ہوسکتا ہے.پس گانگ تَرَاهُ کے یہ معنے تو نہیں ہو سکتے کہ تو یہ فرض کر لے کہ تو خدا کو دیکھ رہا ہے.در حقیقت اس کے معنے یہ ہیں کہ پہلا مقام حاصل ہو جانے کے بعد مومن ایسے مقام پر پہنچ جاتا ہے.کہ اللہ تعالیٰ کے اعمال کی حقیقت اس پر واضح ہو جاتی ہے اور وہ خدا تعالیٰ کے سلوک اور اس کے نشانات کو اپنی آنکھوں سے بھی دیکھ لیتا ہے.قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم زمین و آسمان میں اپنے کتنے ہی نشانات ظاہر کرتے ہیں مگر لوگ ان نشانات پر سے آنکھیں بند کر کے گزر جاتے ہیں.وَهُمْ عَنْهَا مُعْرِضُونَ 5 اور وہ ان سے کوئی فائدہ نہیں اٹھاتے.اس کیفیت کے بالکل الٹ ایک مومن کو جب اعلیٰ درجہ کا
$1953 254 خطبات محمود روحانی مقام حاصل ہوتا ہے تو وہ خدا تعالیٰ کا ہر نشان محسوس کرنے لگتا ہے اور اس کا ہر سلوک اسے اپنی آنکھوں سے نظر آنے لگتا ہے.گویا پہلا مقام تو یہ تھا کہ اللہ تعالیٰ اس کے ساتھ نیکی کرنے کے والے کی نیکی کو نظر انداز نہیں کرتا اور بدی کرنے والے کی بدی کو نظر انداز نہیں کرتا اور وہ اپنے کی بندے کا نگہبان ہو جاتا ہے.مگر یہ مقام ابھی ناقص تھا کیونکہ اگر خدا تو کسی کے ساتھ حسن سلوک کرے لیکن بندہ کو وہ سلوک نظر نہ آئے تو اللہ تعالیٰ کے اس سلوک کا رد عمل مکمل نہیں ہوگا.قرآن کریم میں ہی اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم بعض لوگوں کو اپنے خاص فضل سے ترقی دیتے ہیں.مگر جب انہیں ترقی حاصل ہو جاتی ہے تو وہ کہتے ہیں قَالَ إِنَّمَا أُوتِيتُهُ عَلَى عِلْم - 6-ہم نے اپنے زور سے یہ ترقی حاصل کی ہے.ہم بڑے لائق تھے.ہم بڑے قابل تھے.ہم نے جدو جہد کی اور یہ ترقی حاصل کر لی.گویا خدا تعالیٰ تو ان پر احسان کرتا ہے مگر وہ اس احسان کو دیکھنے کی قابلیت نہیں رکھتے.پس پہلا درجہ تو یہ تھا کہ اللہ تعالیٰ اُس کے ساتھ نیک سلوک کرنے والے سے نیک سلوک کرتا ہے اور بدسلوک کرنے والے سے بُرا سلوک کرتا ہے.لیکن اگر اس نے خدا تعالیٰ کے اس کی سلوک کو نہیں دیکھا تو خدا تو اس کے ساتھ یہ سلوک کر دے گا.لیکن اس کے مقابل میں خود اس کے اندر جور د عمل پیدا ہونا چاہیئے تھا وہ پیدا نہیں ہوگا.انسانی فطرت میں یہ بات داخل ہے کہ جب و کسی کے سلوک کو پہچانتا نہیں تو اسکے متعلق بدظنی سے کام لینے لگ جاتا ہے.وہ تاریخوں میں برمکہ Z کے زمانہ کا واقعہ آتا ہے کہ ایک شخص جو ایک برمکی وزیر کا دوست تھا اور ان دونوں کے آپس میں گہرے تعلقات تھے اُسے بعض قرضوں کی ادائیگی اور دوسری ضروریات کے لیے کچھ روپیہ کی ضرورت پیش آگئی.وہ اپنے دوست کے پاس گیا اور اُس کے سامنے اُس نے ضرورت پیش کی.مگر اس نے کوئی توجہ نہ کی.اور وہ سخت مایوس اور بد دل ہوکر واپس آ گیا اور اس نے سمجھا کہ یہ بڑے لوگ ایسے ہی ہوتے ہیں.ظاہر میں اپنی دوستی اور محبت کی کا اظہار کرتے ہیں مگر وقت آنے پر منہ پھیر لیتے ہیں.حالانکہ حقیقت یہ تھی کہ اس برمکی وزیر نے ی جب اپنے دوست کو اس حالت میں دیکھا تو اُس نے فوری طور پر اُس کو مدد دینے کا فیصلہ کر لیا.مگر اُسے خیال آیا کہ اگر میں لوگوں کے سامنے اسے کچھ دوں گا تو یہ شرمندہ ہوگا کہ میں آج اس حالت کو پہنچ چکا ہوں کہ مجھے اپنی ضروریات کے لیے مانگنا پڑا ہے.چنانچہ وہ اُس وقت خاموش رہا اور
$1953 255 خطبات محمود اس نے کچھ جواب نہ دیا.لیکن جب وہ اپنے گھر پہنچا تو اس نے دیکھا کہ وزیر کے آدمی روپیہ لیے کھڑے ہیں.انہوں نے بتایا کہ اتنا روپیہ آپ کے قرضہ کے لیے بھجوایا گیا ہے اور اتنا روپیہ آپ کے کھانے پینے کی ضروریات کے لیے دیا گیا ہے.اب دیکھ لو جب تک اُس پر حقیقت ظاہر نہیں ہوئی تھی اُس کے دل میں نفرت کے جذبات پائے جاتے تھے کہ یہ شخص مجھ سے اتنے تعلق کا اظہار کرتا تھا.مگر وقت آنے پر بالکل بے وفا ثابت ہے ہوا مگر جب اس پر حقیقت کھلی تو یقینا اس کے دل میں شرمندگی پیدا ہوئی ہوگی کہ میں نے بلا وجہ اس پر بدظنی کی.تو اللہ تعالیٰ جب اپنے کسی بندے سے نیک سلوک کرے اور اسے پتا نہ ہو کہ اللہ تعالیٰ مجھے سے یہ سلوک کر رہا ہے تو اُس کے دل میں اللہ تعالیٰ کی محبت پیدا نہیں ہوتی.لیکن جب اُسے نظری آجائے کہ میرے ساتھ حسن سلوک کرنے والے سے خدا تعالیٰ حُسنِ سلوک کرتا ہے اور میرے ساتھ بُرا سلوک کرنے والے سے خدا تعالیٰ بُرا سلوک کرتا ہے.اور اسے دکھائی دینے لگے کہ اگر اس میں خدا کا ہاتھ کام کر رہا ہے تو اس کی حالت بالکل بدل جاتی ہے اور اس کے دل میں خدا تعالیٰ کی محبت اتنی ترقی کر جاتی ہے کہ کوئی چیز اس کی اس محبت کو کاٹ نہیں سکتی.اور وہ اس کے قرب میں بڑھتا چلا جاتا ہے.پس نماز کا اعلیٰ مقام یہ ہے کہ انسان جب نماز پڑھنے کے لیے کھڑا ہو تو اُسے یہ یقین کامل ہو کہ وہ خدا تعالیٰ کو دیکھ رہا ہے.اس کے یہ معنے نہیں کہ جیسے ہندو کہتے ہیں کہ انسان عبادت کے وقت یہ سوچنا شروع کر دے کہ ایک بت جو اس کے سامنے ہے وہ خدا ہے، اسی طرح وہ مسلمان بھی سوچنا شروع کر دے.کیونکہ اسلام و ہم نہیں سکھاتا، اسلام کوئی جھوٹا تصور انسانی ذہن میں پیدا نہیں کرتا.اسلام یہ سکھاتا ہے کہ جب تم نماز کے لیے کھڑے ہو تو تمہیں اس امر کی کامل معرفت حاصل ہوتی کہ تم سے نیک سلوک کرنے والے سے خدا تعالیٰ نیک سلوک کرتا ہے اور تم سے بُرا سلوک کرنے والے سے خدا تعالیٰ بُرا سلوک کرتا ہے.اگر تم کو بھی یہ نظر آ جائے اور تم کو بھی یہ محسوس ہونے لگ جائے کہ جس نے تمہارے ساتھ نیک سلوک کیا تھا اسکے ساتھ خدا تعالیٰ نے نیک سلوک کیا اور جس نے تمہارے ساتھ بُرا سلوک کیا تھا اس کے ساتھ خدا تعالیٰ نے بُرا سلوک کیا.تو اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ
$1953 256 خطبات محمود تمہاری محبت الہی کا مل ہو جائے گی.اور تمہاری نماز اپنی ذات میں مکمل ہو جائے گی.غرض اسلام واہمہ کی تعلیم نہیں دیتا.اسلام ہمیں یقین اور معرفت کے مقام پر پہچانا چاہتا ہے.اسلام ہم سے تقاضا کرتا ہے کہ ہم اپنی نمازوں کو اس طرح سنوار کر ادا کریں اور انہیں اتنا اچھا اور اعلیٰ درجہ کا بنائیں کہ ایک طرف تو خدا تعالیٰ ہم سے اتنا تعلق رکھے کہ ہمارے ساتھ حسن سلوک کرنے والے سے وہ حسن سلوک کرے اور ہمارے ساتھ بُرا سلوک کرنے والے سے وہ بُر اسلوک کرے.اور دوسری طرف ہماری اپنی آنکھیں اتنی روشن ہوں اور ہمارے دل میں اتنا نور بھرا ہو کہ ہم کو خود بھی نظر آجائے کہ خدا تعالیٰ ہماری تائید میں اپنے نشانات ظاہر کرتا ہے.جب یہ مقام کی شخص کو حاصل ہو جائے تو وہ ہر قسم کے شکوک وشبہات سے بالا ہو جاتا ہے، اللہ تعالیٰ کے روشن نشانات اس کی تائید میں ظاہر ہونے لگتے ہیں اور وہ اس یقین سے لبریز ہو جاتا ہے کہ خدا اُسے ضائع نہیں کرے گا.کیونکہ وہ خدا تعالیٰ کے نشانات کو دیکھ رہا ہوتا ہے، وہ اس کے حسن سلوک اور انعامات کا مشاہدہ کر رہا ہوتا ہے اور وہ اس یقین پر مضبوطی سے قائم ہوتا ہے کہ دنیا اُسے چھوڑ دے مگر خدا اُسے نہیں چھوڑے گا.نادان اس کو نہیں سمجھ سکتا.مگر وہ جس نے خدا تعالیٰ کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا ہو وہ ایسی مضبوط چٹان پر قائم ہوتا ہے کہ دنیا کی کوئی طاقت اُس کے عزم کو متزلزل نہیں کر سکتی.پچھلے دنوں جب فسادات ہوئے تو مجھے جماعت سے خطاب کرنا پڑا اور میں نے کہا کہ کیا تم نے گزشتہ چالیس سال میں کبھی دیکھا کہ خدا تعالیٰ نے مجھے چھوڑ دیا ہو؟ پھر کیا وہ مجھے اب چھوڑ دے گا ؟ ساری دنیا مجھے چھوڑ دے مگر وہ مجھے کبھی بھی نہیں چھوڑے گا بلکہ وہ تو میری مدد کے لیے دوڑا آ رہا ہے.میرے اس اعلان سے گورنمنٹ نے سمجھا کہ فساد ہو جائے گا.اور اس نے سیفٹی ایکٹ کے ماتحت میری زبان بندی کر دی.مگر واقعہ یہی تھا کہ خدا میری طرف دوڑا چلا آ رہا تھا اور جب مجھے دکھائی دے رہا تھا تی کہ خدا میری طرف آرہا ہے تو میں اس کو کس طرح چھپا سکتا تھا.اور سیفٹی ایکٹ خدا تعالیٰ کی تائید سے ہمیں کس طرح محروم کر سکتا تھا.وہ شخص جس نے خدا تعالیٰ کی تائیدات کو نہیں دیکھا وہ اگر انکار کرتا ہے تو اپنی نا بینائی کی وجہ سے کرتا ہے.لیکن وہ شخص جس نے الہی نشانات کو بارش کی طرح برستا دیکھا ہو اور اس کی محبت کا مشاہدہ کیا ہوا سے یہ کہنا کہ تم نے ایسا کیوں کہا ہے بالکل ایسی ہی
$1953 257 خطبات محمود بات ہے جیسے اس وقت میرے سامنے ہزاروں آدمی بیٹھے ہیں اور میں انہیں دیکھ رہا ہوں لیکن گورنمنٹ کی طرف سے کہا جائے کہ تم کہو کہ میں ان آدمیوں کو نہیں دیکھ رہا.بھلا اس سے زیادہ حماقت کی اور کیا بات ہوگی.میں خدا تعالیٰ کو دیکھ رہا ہوں اور گورنمنٹ یہ کہے کہ تم کیوں کہتے ہو کہ ی میں خدا تعالیٰ کو دیکھ رہا ہوں.جب وہ مجھے نظر آ رہا ہے تو میں یہی کہوں گا کہ وہ مجھے نظر آ رہا ہے.اور جب مجھے دکھائی دے کہ وہ میری تائید کے لیے دوڑا چلا آ رہا ہے تو میں یہی کہوں گا کہ وہ میری تائید کے لیے دوڑا چلا آ رہا ہے.اس پر اگر سیفٹی ایکٹ کے ماتحت مجھے نوٹس بھی دے دیا جائے تب بھی یہ محض ایک عارضی چیز ہے.جب میرا خدا میری مدد کے لیے آئے گا تو سیفٹی ایکٹ آپ ہی آپ ختم ہو جائے گا.کیونکہ اصل سیفٹی خدا تعالیٰ کی طرف سے آتی ہے.بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ سیفٹی ایکٹ بنانے والے خود ہمارے خدا سے محفوظ نہیں ہیں اور وہ اس کے ایک اشارہ پر ختم ہو سکتے تھے ہیں.پھر ہمیں خوف کس بات کا ہو سکتا ہے.ایک بچہ جسے بھوک لگی ہوئی ہو وہ بے شک بھوک کی وجہ سے رونے لگ جائے گا لیکن اگر باورچی خانہ میں اس کی ماں پچھلکے پکا رہی ہو یا ہنڈ یا تیار کر رہی ہے ہو.تو دیکھنے والا یہ کبھی نہیں کہہ سکے گا کہ وہ کچھ نہیں کر رہی.اسی طرح جب ہمیں نظر آرہا ہو کہ خدا ہماری تائید کے لیے دوڑا چلا آرہا ہے، جب ہمیں نظر آرہا ہو کہ خدا ہمارے دشمنوں کو کبھی کامیاب نہیں ہونے دیتا ، جب ہمیں نظر آ رہا ہو کہ اللہ تعالیٰ کی قضاء ہمارے حق میں ہے.تو خواہ کوئی مانے ی یا نہ مانے ، اقرار کرے یا انکار کرے، اچھا سمجھے یا بُرا منائے ، ہوگا وہی جس کا خدا نے ارادہ کیا ہے.پس نماز کے متعلق رسول کریم ﷺ نے جو یہ فرمایا ہے کہ تم نماز کو اس واسطے ادا کرو کہ گویا تم خدا کو دیکھ رہے ہو.اور اگر یہ مقام تمہیں حاصل نہیں تو تمہیں کم از کم یہ سمجھنا چاہیے کہ خدا تعالیٰ تمہیں دیکھ رہا ہے.اس میں کسی وہم کی تعلیم نہیں دی گئی بلکہ بتایا گیا ہے کہ مومن کو اپنی نمازیں خدا تعالیٰ سے تعلق پیدا کرنے والی بنانی چاہیں اور اس رنگ میں ادا کرنی چاہئیں کہ خدا تعالی کا اُس سے اس قسم کا تعلق ہو جائے کہ خدا اُس کے لیے نشان دکھانے لگ جائے اور وہ بھی سمجھ جائے کہ خدا اس کی تائید کے لیے نشان دکھا رہا ہے.جب یہ مقام کسی شخص کو حاصل ہو جاتا ہے تو دنیا کی بڑی سے بڑی مخالفت بھی اسے مرعوب نہیں کر سکتی.وہ ایک مضبوط چٹان کی طرح
$1953 258 خطبات محمود دشمنوں کے نرغہ میں کھڑا رہتا ہے اور سلامتی کے ساتھ اُن کی جلائی ہوئی آگ میں سے نکل آتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر جن دنوں گورداسپور میں کرم دین نے مقدمہ کیا ہوا تھا.خواجہ کمال الدین صاحب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے پاس گھبرائے ہوئے آئے اور انہوں نے کہا کہ آریوں نے مجسٹریٹ پر زور دے کر اُس سے وعدہ لے لیا ہے کہ وہ حضور کوضر سزا دے گا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جب یہ سنا تو آپ نے فرمایا خواجہ صاحب ! آپ کیسی باتیں کرتے ہیں کس میں طاقت ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کے شیر پر ہاتھ ڈال سکے.اب خواجہ صاحب کو تو نظر نہیں آتا تھا لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو دکھائی دے رہا تھا کہ خدا آپ کی تائید میں کھڑا ہے اس لیے دشمن آپ کو سزا دلانے کے ارادہ میں کامیاب نہیں ہوسکتا.پھر وہی مجسٹریٹ جس نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو سزا دینے کا ارادہ کیا تھا اُسے خدا نے اِس قدر آفات اور مصائب میں مبتلا کیا کہ میں ایک دفعہ دتی سے آرہا تھا کہ لدھیانہ اسٹیشن پر وہ خود چل کر میرے پاس آیا اور اس نے کہا کہ میں جو کچھ غلطی کر چکا ہوں اس کی سزائیں مجھے اب تک مل رہی ہیں.آپ خدا کے لیے میرا قصور معاف ہونے کے لیے دعا کریں.میں سخت نادم اور پشیمان ہوں.غرض رسول کریم ﷺ کا یہ فرمانا کہ مومن عبادت کرتے وقت یہ سمجھتا ہے کہ وہ خدا کو دیکھتے رہا ہے اس کے یہ معنی نہیں کہ وہ خدا تعالیٰ کو ایک بت سمجھتا ہے اور اس کا تصور اپنے ذہن میں لانے کی کوشش کرتا ہے.بلکہ اس کے معنی یہ ہیں کہ اُسے اپنی آنکھوں سے دکھائی دیتا ہے کہ خدا اُس کی تائید میں اپنے نشانات ظاہر کر رہا ہے، خدا اُس کی تائید کرنے والوں کی تائید کرتا ہے ، خدا اُس کی مخالفت کرنے والوں کی مخالفت کرتا ہے، خدا اس کے دشمنوں کو ہلاک کرتا اور اس کے دوستوں کو ترقی دیتا ہے.اور یہی مقام ہے جو ہر مومن کو حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے.ورنہ کی رسول کریم ﷺ کی ہرگز یہ مراد نہیں کہ تم نماز میں خدا تعالیٰ کی تصویر بنانے کی کوشش کرو اور اس کا جھوٹا تصور اپنے ذہن میں لاؤ.اسلام مومن کے دل میں کوئی جھوٹا تصور پیدا نہیں کرتا بلکہ وہ عملاً سے ایسے مقام پر پہنچاتا ہے کہ صفاتِ الہیہ کا ظہور اس کے لیے شروع ہو جاتا ہے.اور خدا اس کے لیے زمین و آسمان میں بڑے بڑے نشانات دکھا نا شروع کر دیتا ہے.اور خود اُسے بھی و روحانی آنکھیں میسر آجاتی ہیں جن سے وہ خدا تعالیٰ کے چمکتے ہوئے ہاتھ کا مشاہدہ کر لیتا ہے.وہ
$1953 259 خطبات محمود اور جب یہ مقام کسی مومن کو حاصل ہو جاتا ہے تو پھر دنیا اُس کا کچھ بگاڑ نہیں سکتی.ساری دنہ بھی اگر اُس کے خلاف کوشش کرے تو وہ ناکام رہتی ہے.کیونکہ خدا اُس کی پشت پر ہوتا ہے.اور جس کی تائید میں خدا ہود نیا اس کا مقابلہ کرنے کی طاقت نہیں رکھتی." 1: العنكبوت: 46 3 الطور: 49 المصلح 27 اکتوبر 1953ء) بخاری کتاب التفسير : تفسير سورة لقمان باب قولِهِ - أَنَّ اللَّهِ عِنْدَهُ عِلْمُ السَّاعَةِ 4 تذکرہ صفحہ 524 ایڈیشن چہارم میں الہام کے الفاظ بدیں طور ہیں "اپنی مُهِينٌ مَنْ أَرَادَ إِهَانَتَكَ وَإِنِّي مُعِيْنٌ مَنْ أَرَادَ إِعَانَتَكَ" 5 يوسف: 106 6 القصص: 79 7 برمکه: برمکی خاندان کو عباسیہ عہد میں اقتدار نصیب ہوا اور انہوں نے 803 ء تک وزارت کے کے منصب پر فائز رہ کر عباسیہ سلطنت پر بالواسطہ فرمانروائی کی.اس خاندان کا بانی خالد بن برمک ایک ایرانی نو مسلم تھا جس کی ماں کو قطیبہ ابن مسلم نے 705ء میں بلخ سے گرفتار کر کے خالد کے باپ جو ایک بدھ راہب خانہ کے منتظم ہونے کے باعث سردار کا ہن یعنی ( برمک ) کہلاتا تھا ) کے عقد میں دے دیا.اس کے بطن سے خالد ابن برمک پیدا ہوا جو برمکی خاندان کا سب سے پہلا وزیر بنا.وکی پیڈیا.آزاد دائرۃ المعارف - زیر لفظ برا مکه ( برمکه)
$1953 260 31 خطبات محمود حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر ایمان لانے کے بعد یہ ضروری ہے کہ آپ تقومی ، دیانت داری اور دوسرے اخلاق میں دوسروں کے لیے نمونہ بنیں (فرموده 18 ستمبر 1953ء بمقام ربوہ) تشہد ، تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا.ا بھی مجھے آتے ہوئے کہا گیا ہے کہ چونکہ یہاں سے دو مائیکروفون چوری ہو چکے ہیں اس لیے مجھے چاہیے کہ میں اپنا منہ آلہ کے ساتھ لگا کر بولوں کیونکہ یہ آلہ ناقص ہے.میری عقل اور سمجھ سے یہ بات بالکل باہر ہے کہ ہمارے مرکز سے دو مائیکروفون کس طرح چوری ہو گئے.میرے نزدیک مائیکروفون رکھنے والا اور مسجد کا محافظ دونوں اس میں شامل ہیں.ورنہ ان دو کے شامل ہوئے بغیر یہ چوری ہو ہی نہیں سکتی.آخر اگر اس قسم کی چیز رکھی جاتی ہے تو تالے کے بغیر نہیں رکھی ہے جاتی.اور اگر تالے کے بغیر نہیں رکھی جاتی تو ظاہر ہے کہ تالا ایسا ہونا چاہیے جسے چور کھول نہ سکے.محض خیالی تالا لگانے کا کوئی فائدہ نہیں ہو سکتا.وہ تالے جو ڈیڑھ ڈیڑھ ، دو دو روپے میں ملتے ہیں اُن کی ہر ایک کے پاس چابی ہوتی ہے.وہ تالا لگا کر یہ کہنا کہ پوری طرح حفاظت کر لی گئی.ہے
$1953 261 خطبات محمود محض دھو کے بازی اور بد دیانتی ہے.شاید ناظروں کی عقل مجھ سے زیادہ ہے.اُن کی سمجھ میں یہ چوریاں آجاتی ہوں گی.لیکن میری سمجھ میں یہ چوریاں نہیں آتیں.نہ میری سمجھ میں یہ آتا ہے کہ ایسے تالوں پر اعتبار کیا جائے جن کی چابیاں ہر ایک کے پاس ہوتی ہیں.اور نہ میری سمجھ میں یہ آتا ہے کہ مضبوط تالے لگانے کے بعد بھی کوئی شخص آئے اور ہمارے مرکز سے ایک چیز اٹھا کر لے جائے.اس لیے میں تو سمجھتا ہوں کہ ہمارے کارکن اس میں شامل ہیں.زیادہ سے زیادہ بد دیانتی کی کے ساتھ شامل ہیں.اور بادی النظر میں چوری کے ساتھ شامل ہیں.بہر حال میں جماعت کو پہلے بھی توجہ دلا چکا ہوں اور اب پھر توجہ دلاتا ہوں کہ سلسلہ کے قیام کی کوئی غرض ہونی چاہیے.اللہ تعالیٰ نے جو اپنا مامور بھیجا ہے وہ ہمیں دوسروں سے ممتاز کی کرنے کے لیے بھیجا ہے.اگر ہم دوسروں سے ممتاز نہیں تو ہم کو کوئی حق نہیں کہ ہم اُن سے کہیں کہ وہ مرزا صاحب کو کیوں جھوٹا سمجھتے ہیں.کیونکہ وہ منہ سے اُن کو جھوٹا کہتے ہیں اور ہم اپنے عمل سے ان کو جھوٹا اور کذاب کہتے ہیں.ہم میں اور احراریوں میں کوئی فرق نہیں.اگر فرق ہے تو صرف اتنا کہ وہ دیانتدار ہیں ، وہ اگر دل میں ایک شخص کو جھوٹا سمجھتے ہیں تو منہ سے بھی اس کو جھوٹا کہتے ہیں.لیکن ہم اتنے بے ایمان ہیں کہ ہم دل میں تو وہی عقیدہ رکھتے ہیں جو اُن کا ہے اور منہ سے سچائی کا اقرار کرتے ہیں.اگر تم واقع میں حضرت مرزا صاحب کو مانتے ہو اور اُن پر سچے دل.ایمان لاتے ہو تو تمہیں سوچنا پڑے گا کہ تمہاری زندگیوں میں کیا تبدیلی پیدا ہوئی.تمہیں اب معاملات میں اور اپنی عبادات میں اور اپنی راستی میں اور اپنے فکر میں اور اپنی دیانت میں اور اپنے اعمال میں کم سے کم ایک امتیازی جد و جہد پیش کرنی پڑے گی.اور حقیقتا ایک اعلیٰ درجہ کا نمونہ پیش کرنا پڑے گا.کم سے کم میں نے اس لیے کہا ہے کہ وہ شخص جو ابھی نیا نیا احمدیت میں شامل ہوا ہے چونکہ اُسے آئے ابھی تھوڑا عرصہ ہی ہوا ہے اس لیے ہوسکتا ہے کہ وہ اس وقت اپنی کوشش میں کامیاب نہ ہو اور وہ اس کے لیے جد و جہد شروع کر دے اور دو چار ماہ کے بعد اپنے اندر ایک امتیازی رنگ پیدا کر لے.لیکن وہ شخص جو سال ڈیڑھ سال سے احمدیت میں شامل ہے اُس کے لیے صرف جدو جہد کا سوال نہیں ہوسکتا.اس کے لیے ضروری ہوتا ہے کہ وہ اپنا نمونہ دوسروں کے سامنے پیش کرے.جب تک تم اس قسم کے غور اور فکر کی عادت نہیں ڈالو گے، جب تک تم میں ایسے
$1953 262 خطبات محمود لوگ نہیں ہوں گے جو یہ باتیں سوچنے پر تم کو مجبور کر دیں، جب تک تم میں ایسے لوگ نہیں ہوں گے جو تمہارے اعمال کا محاسبہ کر کے تمہیں بتائیں کہ تم صحیح راستہ پر چل رہے ہو یا نہیں ، جب تک تم میں ایسے لوگ نہیں ہوں گے جو خلاف اسلام حرکات دیکھتے ہی جماعت میں شور مچا دیں اور تمہیں ان سے باز رکھنے کی کوشش کریں.اُس وقت تک تمہارا سارا کاروبار محض دھوکا بازی محض فریب اور محض بے ایمانی ہے.تمہارے اندر جماعتی طور پر وہ دیانت ہونی چاہیے، تمہارے اندر وہ امانت کی ہونی چاہیے.تمہارے اندر وہ سچائی ہونی چاہیے، تمہارے اندر وہ راست بازی ہونی چاہیے.تمہارے اندر وہ اخلاق ہونے چاہیں.تمہارے اندر وہ حلم ہو نا چاہیے، تمہارے اندر وہ بردباری ہونی چاہیے ، تمہارے اندر وہ غریبوں کی پرورش ہونی چاہیے، تمہارے اندر وہ لوگوں کی ہمدردی ہونی چاہیے تمہارے اندر بنی نوع انسان سے وہ اخلاص ہونا چاہیے جو دوسری قوموں میں نہیں پایا جاتا.جب یہ ساری باتیں تمہارے اندر ہوں اور پھر ساتھ ہی خدا تعالیٰ کی محبت ہو تو تم کامیاب ہو.اور اگر یہ نہیں تو تمہارے دعوے محض ڈھکوسلے ہیں.تم نے دنیا میں بلا وجہ ایک شور برپا کیا ہوا ہے اور محض فتنہ اور فساد کو بھڑ کا یا ہوا ہے.لوگ تمہیں دیکھ کر چڑتے ہیں، وہ تمہیں دیکھ کر بگڑتے ہیں.بے شک ان کا بھی کوئی حق نہیں کہ وہ تمہیں دیکھ کر بگڑیں اور شور مچائیں.مگر تمہار بھی کوئی حق نہیں کہ تم اُن سے جھگڑو جب کہ تم نے ایک الگ وجود بنانے کا اپنے آپ کو حقدار ہی ہے ثابت نہیں کیا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے ایک دفعہ سوال کیا گیا کہ آپ نے ایک الگ جماعت کیوں بنائی ہے؟ آپ نے فرمایا اگر ایک شخص کے پاس ایک سیر دودھ ہو اور دوسرے کے پاس دوسیر رہی ہو تو کیا اُس دودھ اور دہی کو آپس میں ملایا جا سکتا ہے؟ اگر دودھ کو دہی میں ڈال دیا جائے گا تو دودھ پھٹ جائے گا اور وہ کسی کام کا نہیں رہے گا.اسی طرح میرے پاس تھوڑے سے آدمی ہیں جو دین دار اور تقوی شعار ہیں اگر یہ دوسروں کے ساتھ مل جائیں تو ان میں بھی خرابیاں پیدا ہو جا ئیں.بے شک مسلمانوں کے پاس قرآن موجود ہے ، حدیث موجود ہے لیکن اصل بات جود یکھنے والی ہے وہ یہ ہے کہ قرآن اور حدیث سے کتنا فائدہ اٹھایا گیا ہے اور باوجود ماننے کے اُس سے فائدہ نہیں اٹھاتے.اور ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے ماننے والے قرآن اور حدیث سے
$1953 263 خطبات محمود فائدہ اٹھائیں.پس میں اپنے تھوڑے سے آدمیوں کو ان میں ملا کر خراب نہیں کرنا چاہتا.میں چاہتا ہوں کہ مجھ پر ایمان لانے والے اپنے تقویٰ اور دیانتداری میں دوسروں کے لیے نمونہ ہوں.اور واقع میں اگر ہماری جماعت کے افراد ایمان دار ہوں اور ان کے اندر صحیح اسلامی روح پائی جاتی ہو تو مسلمان تو الگ رہے، دوسرے لوگ بھی جو قرآن اور حدیث کو نہیں مانتے ان کی تعریف کرنے پر مجبور ہو جائیں.مسلمان تو قرآن اور حدیث کو مانتے ہیں اور وہ ہمارے بھائی ہیں اور ہماری اُن سے علیحدگی کے یہ معنی نہیں کہ ہم اُن سے قطع تعلق کر لیتے ہیں ، علیحدگی کے یہ معنی نہیں کہ ہم ان کے دُکھ سکھ میں شریک نہیں ہوتے ، علیحدگی کے یہ معنی نہیں کہ ہم اُن کی خوشیوں میں شریک نہیں ہوتے ، علیحدگی کے یہ معنی نہیں کہ ہم ان کی ترقی کے امور میں دلچسپی نہیں لیتے.ہم اُن کی ہر خوشی اور غم میں شریک ہوتے ہیں اور ان کی ترقی کے ہر معاملہ میں دلچسپی لیتے ہیں.لیکن پھر اپنا علیحدہ وجود اور نظام بھی قائم رکھتے ہیں تا کہ ہم اسلام کی خدمت کر سکیں.اور دوسروں کو بھی تحریک ہو کہ وہ بھی اسی رنگ میں اسلام کی خدمت میں حصہ لیں.یہی غرض احمدیت کی ہے ورنہ نہ ہمارا قرآن نیا ہے نہ حدیث نئی ہے نہ فقہ کی کوئی ایسی کتابیں ہمارے پاس ہیں جو دوسروں کے پاس نہیں.اُن کے پاس بھی وہی قرآن، اور وہی حدیث اور وہی فقہ کی کتابیں ہیں.لیکن اُن کے دلوں میں ان کتابوں کی کوئی قدر نہیں رہی تھی.اب اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ تم ان چیزوں کی قدر کرو.اور اگر تم بھی قدر نہ کرو تو تمہارے وجود کا کوئی فائدہ نہیں اور تمہارے الگ وجود بنانے کا کوئی مقصد نہیں.“ (غیر مطبوعہ مواد از ریکارڈ خلافت لائبریری ربوہ )
$1953 264 32 خطبات محمود قرآن کریم کو سمجھنا اور اس پر عمل کرنا ہی اسلام ہے جماعتیں اس بات کا انتظام کریں کہ ہر احمدی قرآن مجید کا ترجمہ سیکھے اور اس پر عمل کرے (فرموده 25 ستمبر 1953ء بمقام ربوہ ) تشہد ، تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اسلام کے بعض ضروری امور اور تفصیلات ، حدیث اور فقہ سے معلوم ہوتی ہیں.لیکن اسلام کی اصولی تعلیم قرآن کریم سے ہی معلوم ہو سکتی ہے.قرآن کریم ایک جامع کتاب ہے جو انسانی زندگی کے ہر پہلو پر روشنی ڈالتی ہے.اور اسلام ایک زندہ مذہب ہے جو انسان کے ہر مقصد اور ہر مدعا میں رہنمائی کرتا ہے.پس اسلام کو قبول کرنے کے معنی یہ ہیں کہ انسان اس کی راہنمائی اور ہدایت کو تلاش کرنے اور عمل کرنے پر آمادگی کا اظہار کرے.اور اسلام کے قبول کرنے کے معنی یہ ہیں کہ انسان قرآن کریم کی ہدایات اور اس کی کامل تعلیم پر یقین اور ایمان رکھے.اسلام بے شک کامل مذہب ہے لیکن اسلام کی زبان قرآن کریم ہے.محمد رسول اللہ ہے بے شک ایک کامل نبی ﷺ ہیں لیکن محمد رسول اللہ ﷺ کی زبان قرآن کریم ہے.اللہ تعالیٰ بے شک ہر نقص سے پاک اور ہر خوبی کا جامع خدا ہے لیکن اُس کی زبان قرآن کریم ہے.اصولی تعلیم خدا تعالیٰ کی طرف سے قرآن کریم
$1953 265 خطبات محمود - کے سوا اور کہیں نہیں ملتی.اصولی تعلیم محمد رسول اللہ ﷺ کی طرف سے قرآن کریم کے سوا اور کہیں نہیں ملتی.اصولی تعلیم کا ماخذ فقہائے اسلام اور مفکرین اسلام کے لیے سوائے قرآن کریم کے اور کوئی خا.جو کچھ مفکرین اسلام نے بیان کیا ہے، جو کچھ مجتہدین اسلام نے بیان کیا ہے، جو کچھ فقہائے اسلام نے بیان کیا ہے اگر وہ صحیح ہے تو وہ قرآن کریم کی تفسیر ہے.جو کچھ محمد رسول اللہ اللہ کی طرف منسوب کیا جاتا ہے اگر وہ واقع میں آپ تک پہنچ جائے تو وہ قرآن کریم کی تفسیر ہے، جو کچھ خدا تعالیٰ کی طرف منسوب کیا جاتا ہے اگر واقع میں وہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ہے تو وہ قرآن کریم کی تفسیر ہے.ہاں جزئیات ایسی ہیں جو قرآن کریم نے ایسے الفاظ میں بیان نہیں کیں.کہ انہیں ایک عام آدمی سمجھ سکے.الہی ارشاد اور وحی میں محمد رسول اللہ ﷺ کے ذہن کو اس طرف توجہ دلائی ہے.یا وہ جزئیات ایسی ہیں کہ اصولی تعلیم میں ان کو بیان کرنے کی ضرورت نہیں تھی.وحی جلی یا خفی میں محمد رسول اللہ اللہ کو ان کی طرف توجہ دلا دی گئی.وہ بے شک قرآن کریم کی خفی تفسیر حاشیہ کہلا سکتی ہیں لیکن وہ محض جزئیات ہیں.اصولی تعلیم قرآن کریم میں ہی ہے.لیکن بد قسمتی.مسلمان قرآن کریم پڑھنے اور سیکھنے سے محروم ہیں.ނ ہمارے ربوہ کے سکولوں میں لڑکے اور لڑکیاں آتی ہیں.یا قادیان کے سکولوں میں لڑکے اور لڑکیاں آتی تھیں تو افسوس کے ساتھ یہ بات معلوم ہوتی تھی اور معلوم ہوتی ہے کہ ان میں سے بعض دسویں جماعت تک بھی قرآن کریم ناظرہ نہیں پڑھ سکتے.اب یہاں کالج بنا ہے اس میں بعض ایسی لڑکیاں آئی ہیں جنہیں سورۃ فاتحہ کا ترجمہ بھی نہیں آتا.اگر یہ حالت ہے تو سوال یہ ہے کہ جب قرآن کریم سے ان کا کوئی تعلق نہیں تو مذہب سے ان کا کیسے تعلق پیدا ہو سکتا ہے.اسلام قرآن کریم کا نام ہے.تم اسلام کی کوئی تعریف کرو وہ نامکمل ہوگی.حقیقی تعریف یہی ہے کہ قرآن کریم کو سمجھنا اور اس پر عمل کرنا اسلام ہے.اس کے سوا جتنی باتیں بھی تم لاؤ گے وہ ایک دائرہ تو بنا دیں گی مگر تفصیلی تعریف اسلام کی نہیں کریں گی.جیسے لوگ گر بنا لیتے ہیں.تجارت اور صنعت و حرفت والے بعض گر بنا لیتے ہیں مگر یہ گر تفصیل کا قائم مقام نہیں ہو سکتے.گر کسی کو مؤرخ یا حساب دان نہیں بنا سکتے.ایک مؤرخ کے لیے ضروری ہے کہ اسے تمام قسم کی ضروری تفصیلات یاد ہوں.ایک حساب دان کے لیے ضروری ہے
$1953 266 خطبات محمود کہ حساب کے متعلق اسے ہر قسم کے ضروی اُصول یاد ہوں.اسی طرح ایک مسلمان کے لیے ضروری ہے کہ اُسے اسلام کے تمام ضروری اُصول اور احکام یاد ہوں.محض یہ کہ دینا کہ اسلام کی تعریف ہے کہ کلمہ پڑھ لو یہ اسلام کی مکمل تعریف نہیں.اگر ہم کہتے ہیں کہ کلمہ شہادت اسلام کی تعریف ہے تو اس کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ کلمہ کے پیچھے جو حقیقت ہے اُس پر ایمان لانا اور عمل کرنا اسلام ہے.جب ہم کہتے ہیں کہ لَا إِلهَ إِلَّا اللہ کہنے سے انسان مسلمان ہوتا ہے تو اس سے ہماری یہی مراد ہوتی ہے ہے کہ عقائد کے متعلق جو تعلیم قرآن کریم نے دی ہے وہ اس پر ایمان رکھتا ہے.جب ہم کہتے ہیں کہ محمد رسول اللہ ﷺ پر ایمان لانا اسلام کومکمل کرنا ہے تو اس کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ محمد رسول اللہ ﷺہے جو قرآن کریم لائے اور اُس کی جو تشریح آپ نے فرمائی، جو شخص اُس کے مطابق عمل کرتا ہے وہ مسلمان ہے.اگر صرف لَا إِلَهَ إِلَّا الله کہہ دینے سے انسان مکمل مسلمان بن جاتا ہے.تو لَا إِلَهَ إِلَّا الله من سے تو ہزاروں عیسائی بھی پڑھتے ہیں.پس خالی لا الہ الا اللہ سے کیا بنتا ہے.صلى الله صلى الله منه پس حقیقتا جو اسلام ہے.وہ قرآن کریم پر ایمان اور عمل ہے.کلمہ سے ہم محض اس طرف اشارہ کرتے ہیں اور عمل سے بھی ہم محض اس طرف اشارہ کرتے ہیں.گویا نہ صرف لفظی توحید سے انسان مسلمان ہوتا ہے اور نہ قرآن کریم کے تمام احکام پر عمل کرنے سے ہی انسان لا زما مسلمان ہو سکتا ہے.ہوسکتا ہے کہ قرآن کریم کے بعض احکام اس کے لیے ضروری نہ ہوں.مثلاً زکوۃ ہے.ایسے بھی مسلمان ہیں جن پر زکوۃ واجب نہیں.حج ہے وہ ہر مسلمان کے لیے ضروری نہیں.حج صرف صاحب استطاعت لوگوں پر فرض ہے.پھر اس قسم کی لاکھوں جزئیات ہو سکتی ہیں جن پر کسی انسان کا علم حاوی نہیں ہے ہوسکتا.تو پھر کیا ایسا انسان مسلمان نہیں رہ سکتا ؟ پس علم توحید کا اصولی علم جس کے ساتھ انسان مسلمان ہوتا ہے لَا إِلَهَ إِلَّا اللہ پڑھ لینے سے حاصل نہیں ہوتا.علم تو حید کا اصولی علم قرآن کریم سے حاصل ہوتا ہے.اور وہ عملی اصول جن سے ایمان اور اسلام مکمل ہوتا ہے.محمد رسول اللہ اللہ کہنے سے حاصل نہیں ہوتے بلکہ وہ قرآن کریم کی تعلیم میں ہیں.اور قرآن کریم پڑھنے سے آتے ہیں.بغیر قرآن کریم پڑھے اور اس کا مطلب سمجھے لا اله الا اللہ کہنا یا مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللہ کہنا ایک گر تو ہے.یہ ایک منتر تو ہے لیکن اس کے پیچھے کوئی حقیقت نہیں.لَا إِلهَ إِلَّا اللهُ مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللهِ میں جان تب پڑتی ہے جب اس میں قرآن کریم ڈالا جائے.اور جب قرآن کریم ڈالا جائے
$1953 267 خطبات محمود تو لا إِله إِلَّا الله بھی زندہ ہو جاتا ہے اور محمد رسول اللہ بھی زندہ ہو جاتا ہے.پس قرآن کریم کے پڑھے بغیر اسلام قطعی طور پر نہیں آسکتا.افسوس ہے کہ ہماری جماعت کے افراد بھی جنہیں اصلاح کا دعوی ہے قرآن کریم پوری طرح نہیں جانتے.بڑی مصیبت یہ ہے کہ ہمارے ملک میں لوگ قرآن کریم کے الفاظ تو پڑھتے ہیں ترجمہ نہیں پڑھتے.پھر اس سے بھی بڑی مصیبت یہ ہے کہ مولوی کہتے ہیں قرآن کریم کا ترجمہ نہیں پڑھنا چاہیے.حالانکہ اگر ترجمہ پڑھنے کی عادت ڈالی جائے تو انسان سو فیصد نہیں تو ساٹھ فیصد تو مسلمان ہو جائے.اور یہ بہتر ہے کہ انسان ساٹھ فیصد مسلمان ہو یا یہ بہتر ہے کہ اس میں ایک فیصد بھی ایمان نہ ہو؟ پس جماعت میں یہ عادت ڈالی جائے کہ قرآن کریم پڑھو تو ترجمہ بھی پڑھو.اگر یہ عادت ڈال دی جائے تو یقیناً لوگوں کے اندر اسلام کی صحیح روح پیدا ہو جائے گی.حقیقت یہ ہے کہ جو شخص عربی نہیں جانتا وہ قرآن کریم نہیں سمجھ سکتا.کیونکہ انسانی عادت ہے کہ کوئی بات اُس کی زبان میں ہو تو وہ فورا سمجھ جاتے تھے ہیں.لیکن وہی بات دوسری زبان میں ہو تو اسے پہلے اپنے ذہن میں اُس کا ترجمہ کرنا پڑتا ہے اور پھر کہیں جا کر عبارت کا مفہوم اس کے ذہن میں آتا ہے.پس جب ہم قرآن کریم کا اُردو ترجمہ پڑھیں گے تو عبارت کا مفہوم ہماری سمجھ میں آجائے گا.بشرطیکہ ترجمہ ایسا ہو جس سے مفہوم سمجھ میں آ جائے.اس قسم کا ترجمہ نہ ہو کہ "شک نہیں ہے کوئی بیچ اس کتاب کے." بیچ اس کتاب کے " کہنے سے ہم مفہوم نہیں سمجھ سکتے.ہم تو یہ جانتے ہیں کہ اس کتاب میں کوئی شک والی بات نہیں ہے." اس سے مفہوم ہمارے ذہن میں آجاتا ہے.جو شخص " بیچ اس کتاب کے " کہے گا وہ " بیچ اس کتاب " میں ہی پڑا ر ہے گا.الْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ 1 کے معنی جو شخص یہ کرے گا کہ اللہ جو تمام جہانوں کی ربوبیت کرنے والا ہے وہی سب تعریفوں کا مستحق ہے.تو سب مفہوم سمجھ لیں گے.لیکن اگر کوئی یہ ترجمہ کرے کہ سب تعریف واسطے اس خدا کے جو پالنے والا ہے سب جہانوں کا.تو اس کا مفہوم جلد ذہن میں نہیں آئے گا.یہ سب حماقتیں ہیں جن سے بچنا چاہیے.ہر ایک چیز جب اپنی حد سے گزر جاتی.تو حماقت بن جاتی ہے.مثلاً نیت کو ہی لے لو.نماز کے لیے نیت باندھنا ضروری ہے.مقلدین اور غیر مقلدین سب کا اس پر اتفاق ہے.امام بخاری جو غیر مقلدین کے سردار ہیں.انہوں نے بھی اپنی کتاب
$1953 268 خطبات محمود بخاری شروع کی تو الاعْمَالُ بِالنِيَّات 2 کی حدیث سے کی.مقلدوں نے بھی کہا ہے کہ جب تم نمازی کے لیے کھڑے ہو تو چار رکعت نماز ظہر کی یا دورکعت نماز جمعہ کی ذہن میں لاؤ تا تمہارا ذہن عبادت کے ساتھ چلنے کے لیے تیار رہے.غرض نیت انسان کے اندر بڑا بھاری تغیر پیدا کرتی ہے.نیت کو اڑاتی دیں تو ہمارا عمل یقیناً کمزور پڑ جاتا ہے.لیکن نیست پر غیر معمولی زور بھی درست نہیں ہو سکتا.نیت پر بھی غیر معمولی زور دیں تو یہ حماقت کی حد تک پہنچ جاتی ہے.ہم اگر اسلام اور قرآن کو سمجھنا چاہتے ہیں تو ہمیں اُس ذریعہ کو اختیار کرنا چاہیے جو اس کے سمجھنے کے لیے ضروری ہے.ہمیں وہ طریق اختیار کرنا چاہیے جس سے اس کے معنے ہماری سمجھ میں آجائیں.ورنہ اگر ہم وہ ذریعہ اور طریق چھوڑ دیں گے تو لازمی بات ہے کہ ہم صحیح مفہوم سمجھنے پر قادر نہیں ہوں گے.پس ہماری جماعت کو چاہیے کہ وہ قرآن کریم کے ترجمہ کو ضروری قرار دے.بلکہ میں تو یہاں تک کہتا ہوں کہ اگر ہماری جماعت کے افراد یہ فیصلہ کر لیں کہ ہم نے کسی ایسے لڑکے کو اپنی لڑکی نہیں دینی جو قرآن کریم نہ پڑھ سکتا ہو یا ہم فلاں لڑکی اپنے لڑکے کے لیے نہیں لیں گے کیونکہ وہ قرآن کریم پڑھنا نہیں جانتی.تو اس میں کوئی حرج نہیں ہوگا.اس طرح ایک بھاری تغیر پیدا ہوسکتا ہے.اب بھی اگر پوچھا جائے کہ کتنے نو جوان قرآن کریم کا ترجمہ جانتے ہیں؟.تو مجھے شبہ ہے کہ نصف کے قریب ایسے نوجوان یہاں بھی ہوں گے جو قرآن کریم کا ترجمہ نہیں جانتے.اور اس کی ساری ذمہ داری اُن لوگوں کی ہے جنہوں نے قرآن کریم کے الفاظ پر اتنا غیر ضروری زور دے دیا جیسے اُس لطیفہ والے کے متعلق مشہور ہے جو نماز سے پہلے " چار رکعت نماز پیچھے اس امام کے " کہنا ضروری سمجھتا تھا.احادیث میں بھی آتا ہے کہ نماز کے لیے نیت ضروری ہے 3 اس سے ذہن عبادت کی طرف متوجہ ہو جاتا ہے.لیکن اس شخص نے اس چیز کو حماقت کی حد تک پہنچادیا تھا.وہ جب " چار رکعت نماز پیچھے اس امام کے " کہتا تھا تو ہے بعض دفعہ وہ کسی صف میں ہوتا اور بعض دفعہ کسی صف میں.بعض دفعہ وہ پہلی صف میں ہوتا.اور بعض دفعہ دوسری یا تیسری صف میں ہوتا.جب وہ تیسری صف میں ہوتا اور نماز سے قبل نیت باندھتا کہ چار رکعت نماز پیچھے اس امام کے تو اُسے خیال آتا کہ میرے آگے تو ایک اور صف بھی ہے اس کی لیے میری نیت درست نہیں.اس پر وہ صف چیر کر ایک صف آگے آجا تا اور پھر کہتا ” چار رکعت نماز پیچھے اس امام کے لیکن پھر یہ خیال کرتا کہ ابھی اس کے آگے اور لوگ ہیں اس لیے اُس کی نیت ٹھیک
$1953 269 خطبات محمود نہیں ہے.اس پر وہ صف چیر کر پہلی صف میں امام کے پیچھے آجاتا اور سمجھتا کہ اب اس کی نیت ٹھیک ہوگی اور وہ کہتا " چار رکعت نماز پیچھے اس امام کے " لیکن پھر یہ خیال آجاتا کہ پتا نہیں ان الفاظ کا اشارہ امام کی طرف ہے یا میری انگلی دائیں بائیں ہوگئی ہے.اس پر وہ امام کی طرف ہاتھ بڑھا کر انگلی سے اشارہ کرتا اور کہتا چار رکعت نماز پیچھے اس امام کے " لیکن پھر یہ خیال کرتا کہ شاید اشارہ ٹھیک طرح نہ ہوا ہو.صرف کپڑوں کی طرف اشارہ ہوا ہو اس پر وہ انگلی امام کے جسم میں چھوتا اور کہتا " چار رکعت نماز پیچھے اس امام کے " لیکن پھر یہ سمجھتا کہ شاید انگلی پوری طرح امام کے جسم کو چھوٹی نہیں.اس پر وہ امام کو زور سے انگلی مارتا اور کہتا " چار رکعت نماز پیچھے اِس امام کے " اس طرح وہ اپنی نماز بھی خراب کر دیتا اور امام کی بھی.تو یہ حد سے آگے نکل جانے والی بات ہے.بے شک قرآن کریم سمجھنا ضروری ہے مگر جو شخص قرآن کریم نہیں سمجھتا اُسے قرآن کریم کے ترجمہ سے محروم تو نہ کرو.میرے نزدیک علماء نے یہ بہت بڑی غلطی کی کہ انہوں نے ترجمہ کو بالکل گرا دیا.حالانکہ قرآن کریم کا مفہوم سمجھنے کے لیے ترجمہ کا جاننا ضروری ہے.عربی جاننا ناممکن امر نہیں.لیکن فی الحال جہاں تک ہمیں ذرائع حاصل ہیں اگر سارے مسلمان بھی عربی بولنے لگ جائیں تو ہمارا تجربہ یہی ہے کہ ابتدائی زبان کا جاننا مفہوم کو اتنا قریب نہیں کرتا کہ انسان بولتے ہی مفہوم سمجھ جائے.بہت کم آدمی ایسے ملیں گے جو مثلاً الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِيْنَ بولنے سے اس کا مفہوم سمجھ جائیں.پورا مفہوم ی سمجھنے کے لیے انہیں اس کا ترجمہ کرنا پڑتا ہے.جس طرح ہم کسی بات کا مفہوم اردو میں سمجھ سکتے ہیں.غیر زبان میں نہیں سمجھ سکتے.ایک عرب اَلْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ کہے گا تو فوراً اُس کے ذہن میں اس کا مفہوم آ جائے گا.لیکن پاکستانی خواہ عربی بولنا جانتے بھی ہوں اس کا مفہوم فورا نہیں سمجھ سکیں گے.انہیں اس کا مفہوم سمجھنے کے لیے اس کا ترجمہ کرنا پڑے گا.إِلَّا مَا شَاءَ اللہ جو شخص عربی زبان پر قادر ہو جائے وہ ایسا کر سکتا ہے.لیکن یہ مہارت کافی مشق سے حاصل ہوتی ہے.یہی حال باقی زبانوں کا ہے.اگر تم انگریزی بولنے کی عادت ڈالو گے تو تمہیں فقرے کا ترجمہ کرنے کی ضرورت نہیں ہوگی.اس کے لیے انگریزی زبان سیکھنے میں ترجمہ کی عادت نہیں ڈالی جاتی.عربی میں اس خیال سے کہ قرآن کریم آجائے شروع سے ترجمہ کی عادت ڈالی جاتی ہے اور بعد میں اس سے ہٹانا مشکل ہوتا ہے.اب تو یہ زمانہ آ گیا ہے کہ استادوں کی توجہ اس طرف سے ہٹ گئی ہے کہ بچہ کو "الف" پر زیر "ب "ساکن پڑھایا جائے.
$1953 270 خطبات محمود لیکن پہلے بچہ کو اس طرح پڑھنے کی عادت ڈالی جاتی تھی.پس جماعت کو قرآن کریم کا ترجمہ سیکھنے کی طرف توجہ کرنی چاہیے.الفاظ کا ترجمہ کرنا چاہیئے.مرکب فقرات کا ترجمہ کرنے کی عادت نہیں ڈالنی چاہیئے.اس طرح مفہوم کا سمجھنا آسان ہو جاتا ہے.انگریزی میں الفاظ کا ترجمہ کیا جاتا ہے عبارت کا نہیں اس لیے انگریزی عبارت کا مفہوم سمجھنا آسان ہوتا ہے ہے.اگر عبارت کا ترجمہ کرنے کی عادت ڈالی جائے گی تو زبان نہیں آئے گی.مثلاً الْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعَلَمِینَ کا ترجمہ نہیں کرنا چاہیے.آل - حَمْدُ - لِلَّهِ - رَبِّ اور العَالَمِيْنَ کا ترجمہ سیکھیں تو پھر مفہوم صحیح طور پر مجھ میں آجاتا ہے.مگر محض اس لیے کہ عبارت کا ترجمہ کرنے کی ابتداء سے ہی عادت ڈال دی جاتی ہے عبارت کا مفہوم وہ لوگ بھی نہیں سمجھ سکتے.جو ابتدائی زبان جانتے ہیں.ایسے لوگ بھی جب تک ٹھہر ٹھہر کر نہ پڑھیں عبارت کا مفہوم نہیں سمجھ سکتے.ایسے لوگوں کے لیے بھی ترجمہ پڑھنا مفید ہوگا.اگر آٹھ ، نو رکوع کے الفاظ پڑھ لیے جائیں اور پھر اُس کا ترجمہ پڑھ لیا جائے.تو یہ امر زیادہ بہتر ہوگا.بجائے اس کے کہ ہم عبارت کے ساتھ ساتھ ترجمہ کرتے جائیں.باقی جو لوگ عربی زبان پر قادر ہو جاتے ہیں وہ عربی میں ہی سوچنے اور غور کرنے لگ جاتے ہیں.میں اُن کا ذکر نہیں کرتا.میں صرف اُن لوگوں کا ذکر کرتا ہوں جنہوں نے عربی زبان پوری طرح نہ پڑھی ہو.صرف قرآن کریم کا ترجمہ پڑھا ہو.ایسے لوگوں کے لیے اُردو کا ترجمہ پڑھنا ضروری ہے.پس جماعت میں قرآن کریم کا اردو ترجمہ پڑھنے کی عادت ڈالنی چاہیئے.ہر شخص جو اردو پڑھ سکتا ہے اُس سے پوچھو کہ کیا وہ قرآن کریم کا اُردو ترجمہ پڑھتا ہے؟ اگر نہیں تو اُسے اس طرف توجہ دلاؤ.عربی الفاظ کی تلاوت بھی ضرور کرو مگر اس طرح کہ ایک ربع پڑھ لیا اور پھر اُس کا ترجمہ اردو میں پڑھ لیا.عربی اس لیے پڑھنی چاہیے تا متن محفوظ رہے.جو لوگ کتاب کی زبان کو بھول جاتے ہیں وہ لوگ تحریف سے واقف ہونے سے محروم ہو جاتے ہیں.اگر کوئی شخص عربی عبارت نہ بھی جانے صرف ترجمہ پڑھتا ہو تو بھی عربی عبارت بار بار پڑھنے سے اُسے ایسا ملکہ ہو جائے گا کہ جب کوئی شخص اُس کی کے سامنے کوئی غلط مفہوم بیان کرے گا تو وہ کہہ دے گا یہ بات غلط ہے وہ کسی کے دھوکے میں نہیں آئے گا.پس عربی کے الفاظ بھی پڑھنے چاہیں تا تحریف کی نگرانی ہو سکے.لیکن جو لوگ قرآن کریم کو عربی میں نہیں سمجھ سکتے انہیں ترجمہ کے فائدہ سے محروم نہیں رکھنا چاہیے.پس ہر احمدی کو یہاں بھی اور باہر بھی
$1953 271 خطبات محمود ترجمہ پڑھنے کی عادت ڈالنی چاہیے.محکمہ تعلیم اور لوکل انجمن بھی اس بات کا انتظام کرے اور پھر اس کی نگرانی کرے.ہر گھر میں دیکھا جائے کہ آیا اس میں ترجمہ والا قرآن کریم ہے؟ اور پھر گھر والوں کو کہا جائے کہ وہ ترجمہ پڑھنے کی عادت ڈالیں.اور جو شخص بالکل نہیں پڑھ سکتا اُسے مجبور کیا جائے کہ وہ کسی دوسرے سے ترجمہ سنے.ربوہ میں تو یہ سہولت ہے کہ ہر گھر میں اول تو مرد اور عورت دونوں قرآن کریم کا ترجمہ پڑھنا جانتے ہے ہیں.ورنہ بیوی نہیں جانتی تو خاوند پڑھنا جانتا ہے.خاوند نہیں جانتا تو بیوی جانتی ہے.اگر دونوں نہیں ہے جانتے تو کوئی نہ کوئی لڑکا یالڑ کی جانتی ہے.ہزار، دو ہزار گھروں میں سے شاید کوئی گھر ایسا ہو جس میں کوئی ترجمہ پڑھنے والا نہ ہو.اس لیے کوئی وجہ نہیں کہ ربوہ میں سب لوگ آسانی کے ساتھ قرآن کریم کا ترجمہ نہ پڑھ سکیں.عید الفطر اور بعض دوسری تقاریب پر غرباء کو کپڑوں وغیرہ کے لیے روپیہ دیا جاتا ہے.کیا وجہ ہے کہ انہیں قرآن کریم خرید کر نہ دیا جائے.آخر ہر سال ہزاروں روپیہ غربا کے لیے خرچ کیا جاتا ہے.اگر انہیں خود احساس نہیں تو اسی مدد سے قرآن کریم با ترجمه خرید کر دینے کے لیے کچھ رقم کاٹ لو.اور اس کے سے انہیں قرآن کریم خرید کر دے دو.اگر اس کے نتیجہ میں انہیں اخراجات میں تنگی محسوس ہو تو اُس کی ذمہ داری خود اُن پر عائد ہوگی.پس ہر گھر کی نگرانی کرو.اور اُن سے کہو کہ وہ ترجمہ قرآن کریم پڑھیں.اگر تم ایسا کرنے لگ جاؤ گے تو یقینا تم اپنے عمل میں بھی تغیر محسوس کرو گے.مجھے افسوس ہے کہ عیسائی مبدل ومحرف بائیبل کے واقعات سے بہت زیادہ واقف ہیں.لیکن مسلمان قرآن کریم سے واقف نہیں.عیسائیوں میں سے ایک ادنی جاہل، نوکر ، باورچن، کپڑے دھونے والا ، برتن مانجنے والا اور جھاڑو دینے والی عورت بھی بائیبل کچھ نہ کچھ جانتی ہے.اور اُن کا طریق ہے کہ کی ہر خاندان میں ایک فیملی بائیل ہوتی ہے.اور وہ چار چار پانچ پانچ پشتوں سے خاندان کے پاس محفوظ رہتی ہے.اور باری باری خاندان کے ہر بڑے شخص کے پاس منتقل ہوتی رہتی ہے.اگر کسی کو قسم دینی ہوتی ہے تو خاندانی بائیبل لے کر اس پر قسم دیتے ہیں.اور پھر یہ ریکارڈ رکھا جاتا ہے کہ یہ بائیبل فلاں کے پاس تھی.پھر فلاں کے پاس آئی، اُس کے بعد فلاں کے پاس آئی.اس طرح خاندان میں بائیبل کا تھی احترام آتا جاتا ہے.اگر یہ اصول عیسائیوں نے اختیار کر لیا ہے تو کوئی وجہ نہیں کہ ہم اس لیے اختیار نہ کریں
$1953 272 خطبات محمود کہ وہ ہم سے پہلے ایسا کر رہے ہیں.پھر ہم یہ بھی تو کہہ سکتے ہیں کہ ہم اُن سے چھ سو سال بعد میں آئے ہیں.اگر بعض باتیں انہوں نے اچھی نکالیں تو اس میں کیا حرج ہے.پس ترجمہ والا قرآن کریم ہر گھر کی میں موجود ہونا چاہیے.پھر ہر شخص کو یہ عادت ڈالنی چاہیے کہ وہ ترجمہ پڑھے یا سنے.اس طرح ہر ایک کے دل میں یہ شوق پیدا ہو جائے گا کہ وہ عربی سیکھے اور قرآن کریم کا ترجمہ سیکھے.ایک عیسائی کو یہ شوق نہیں ہوگا کیونکہ اُن کے پاس جو بائیل ہے اُس کے اوپر یونانی لاطینی یا عبرانی الفاظ نہیں ہوتے.صرف اُن کی اپنی زبان میں اُس کا ترجمہ ہوتا ہے.لیکن قرآن کریم کے الفاظ لا ز ما ساتھ ہوتے ہیں اس لیے جب کوئی شخص ترجمہ پڑھے گا تو وہ عربی الفاظ کے معنی سیکھنے کی بھی کوشش کرے گا.اس طرح اس کی تعلیم مکمل ہو جائے گی.بلکہ میں تو کہتا ہوں کہ ایک عام عربی دان اور ایک عام مولوی کے لیے بھی زیادہ فائدہ بخش یہی چیز ہے کہ وہ ترجمہ پڑھے.کیونکہ اپنی زبان میں جس طرح مفہوم سمجھ میں آجاتا ہے دوسری زبان میں نہیں آتا.چند دن بھی ایسا کرو تو تم دیکھو گے کہ تمہیں اتنا دین آجائے گا.جو تمہیں بیسیوں سال میں نہیں آیا تھا.اس لیے نہیں کہ تمہاری عربی ناقص تھی بلکہ اس لیے کہ تمہیں اس میں ہے 66 سوچنے کی مشق یہ تھی.“ خطبہ ثانیہ کے بعد فرمایا:.میں نماز کے بعد بعض جنازے پڑھاؤں گا.میں چونکہ پہلے سفر پر تھا اور پھر بیمار ہو گیا تو اس لیے بہت سے جنازے جمع ہو گے ہیں.19 آدمیوں کے جنازے ہیں جو میں نماز جمعہ کے بعد پڑھاؤں گا.1 - سید مشتاق احمد صاحب ہاشمی ٹریکٹر کے اچانک اُلٹ جانے کی وجہ سے فوت ہو گئے ہیں.2.چودھری عمر دین صاحب بنگہ صحابی تھے.فالج گرنے کی وجہ سے جھنگ میں فوت ہو گئے ہیں.3.آمنہ بی بی صاحبہ بیوه ناصرالدین صاحب صدر گوگیرہ موصیہ تھیں.بہت کم لوگ جنازہ میں شریک ہوئے.4.محمد عثمان صاحب ولد سردار محمد نواز خان صاحب جھڈو.پٹرول میں آگ لگ جانے کی وجہ سے وفات پاگئے ہیں.بہت کم لوگ جنازہ میں شریک ہوئے.5.چودھری فضل احمد صاحب ڈسکہ صحابی تھے.ان کی خواہش تھی کہ میں نماز جنازہ پڑھاؤں.
$1953 273 خطبات محمود 6.گلاب دین صاحب چک 35 سرگودھا دس ماہ قبل بیعت کی تھی.گاؤں میں احمدی کم تعداد میں تھے.بشیر احمد صاحب چغتائی راولپنڈی کے لڑکے پانی میں ڈوب گئے تھے.بہت مخلص نو جوان تھے.سلامت بی بی صاحبہ صدر گوگیرہ موصیہ تھیں.ایک بچہ وقف بھی ہے.بہت کم دوست جنازہ میں شریک ہوئے..ماسٹر عبدالعزیز صاحب نوشہرہ کے زیاں صحابی تھے مخلص احمدی تھے تین چار احمدی جنازے میں شریک ہوئے.پیر بخش صاحب چک نمبر R-103/7 صحابی تھے.اور عمر 80 سال تھی جنازہ میں بہت کم لوگ شریک ہوئے.11.والد صاحب عبدالاحد خان صاحب بھاگلپوری روہڑی سندھ 21 راگست کو جمعہ اور عید کے دن کی فوت ہو گئے جنازہ میں بہت کم لوگ شریک ہوئے.12 - صدرالدین صاحب مدار ضلع شیخو پورہ 27, 28 اگست کی رات کو فوت ہو گئے.جنازہ صرف چھ آدمیوں نے پڑھا.13.ملک سعید احمد صاحب جاوید سمبڑیال ضلع سیالکوٹ کی پھوپھی تلہار سندھ میں فوت ہو گئی ہیں.جنازہ میں بہت کم لوگ شریک ہوئے.-14.میر محمد افضل صاحب بمبئی کو کسی نے قتل کر دیا ہے.احمدی جماعت قریب نہیں تھی اس لیے احمدیوں نے جنازہ نہیں پڑھا.فہمیدہ بیگم صاحبہ اہلیہ بشیر احمد صاحب لالہ موسیٰ گجرات جنازہ میں بہت کم احمدی شامل ہوئے.16 - ناصرہ بیگم صاحبہ اہلیہ مولوی عبد الرحمن صاحب فاضل ناظر اعلیٰ قادیان کی ابھی تھوڑا ہی عرصہ ہوا تھا تا شادی ہوئی تھی.اب خبر آئی ہے کہ ان کی اہلیہ بریلی میں وفات پاگئی ہیں.جنازہ میں بہت کم لوگ شریک ہوئے ہیں.17 - سید عبدالحئی صاحب گوٹھ لالہ چورنجی لال سندھ، اڑھائی سال قبل باولے کتے نے کاٹا تھا اسی بیماری کی وجہ سے 12 ستمبر کو فوت ہو گئے.18.رضوان عبداللہ صاحب حبشہ سے دینی تعلیم حاصل کرنے کے لیے یہاں آئے تھے.دریا میں ڈوب کر فوت ہو گئے.
خطبات محمود 274 $1953 19.چودھری غلام حسین صاحب سفید پوش پچھلے دنوں وفات پاگئے ہیں.لاش یہاں لائی گئی.لیکن میں جنازہ نہیں پڑھ سکا.چونکہ میری طبیعت خراب تھی.ان سب کا جنازہ میں نماز جمعہ کے بعد پڑھاؤں گا.“ 1: الفاتحة: 2 (مصلح 13 نومبر 1953ء) بخاری کتاب بدء الوحي با ب كَيْفَ كَانَ بدء الوحي إلى رَسُولِ الله الله (الخ) صحیح البخاری کتاب بدء الوحى باب كيف كان بدء الوحي الى رسول الله ﷺ و صحیح مسلم کتاب صلوة المسافرين باب الدعاء في صلوة الَّيْل (مفهومًا )
$1953 275 33 خطبات محمود اگر تم قرآن کریم پڑھ کر اس سے فائدہ اٹھاتے ہو تو تم سے بڑھ کر خوش قسمت اور کوئی نہیں فرموده 2 /اکتوبر 1953ء بمقام ربوہ) تشہد ، تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا.” ہر ایک کام اپنی تکمیل کے لیے مختلف مدارج چاہتا ہے.یہاں تک کہ چھوٹے سے چھوٹے کام بھی یکدم نہیں ہو جایا کرتے اور وہ بھی مختلف مدارج میں سے گزرتے ہوئے اپنی تکمیل کو پہنچتے ہیں.بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کے کام بھی تدریجی طور پر ہوتے ہیں.اسی وجہ سے خدا تعالیٰ کا نام رَبُّ اTAKANWALANDAUTO_G ہے یعنی وہ آہستگی کے ساتھ ایک چیز کو درجہ بدرجہ ترقی دیتے ہوئے اسے اس کے کمال تک پہنچاتا ہے.رب العالمین کے الفاظ نے دونوں طرف کے حالات کو بیان کر دیا ہے.خدا تعالیٰ کی صفات کے ظہور کے لیے لفظ " ربّ " ہے.کہ وہ یکدم کسی چیز کو کمال تک نہیں پہنچادیتا.بلکہ پیدا کرنے کے بعد تدریجی طور پر اسے ترقی دیتا چلا جاتا ہے.اور مخلوق کے حالات کو " العَالَمِین " کے لفظ نے بیان کیا ہے کہ یہ قانون کسی ایک چیز کے لیے نہیں بلکہ وہ ہر ایک چیز کے لیے " رَبِّ " ہے.پس " رَبِّ" کے لفظ نے بتادیا کہ خدا تعالیٰ جو کام بھی دنیا میں کرتا ہے وہ تدریجی طور پر آہستہ آہستہ کرتا ہے.اور " العَالَمِين " نے بتادیا کہ یہ قانون مخلوق کے کسی
$1953 276 خطبات محمود ایک حصے یا مخلوق کی ضرورتوں میں سے کسی ایک ضرورت کے لیے نہیں بلکہ ساری کی ساری مخلوق کے لیے اور اس مخلوق کی ساری کی ساری ضرورتوں کے لیے ہے.اس مضمون سے بیسیوں اور مضمون پیدا ہوتے ہیں.لیکن میں ان سب مضامین کو بیان کرنے کے لیے کھڑا نہیں ہوا.میں اس وقت صرف خدا تعالیٰ کی صفت " ربّ" کی طرف اشارہ کر رہا ہوں.اور بتای رہا ہوں کہ جب خدا تعالیٰ کے لیے یہ قانون ہے کہ وہ ہر چیز کو پیدا کر کے بتدریج اُسے اُس کی کے کمال تک پہنچاتا ہے تو بندہ تو اِس بات پر مجبور بھی ہے کہ وہ کسی کام کو یکدم نہ کرے.دیکھو! یہی قرآن کریم جو خدا تعالیٰ کو رَبِّ الْعَلَمِینَ 1 فرماتا ہے دوسری جگہ خدا تعالیٰ کے متعلق فرماتا ہے.إِنَّمَا أَمْرُهُ إِذَا أَرَادَ شَيْئًا أَنْ يَقُولَ لَهُ كُنْ فَيَكُونُ 2 یعنی خدا تعالى کسی چیز کو پیدا کرنا چاہتا ہے تو وہ اُسے کہتا ہے ہو جا اور وہ ہو جاتی ہے.اب " ہو جا ہو جاتی ہے " کے الفاظ سرعت پر بھی دلالت کرتے ہیں.اور اس کی کامل تخلیق پر بھی دلالت کرتے ہیں.پس جب " کن " کہنے والی ہستی بھی " رَبُّ الْعَالَمِينَ " کی صورت میں "كُنْ فَيَكُونُ " آہستہ آہستہ اور بتدریج ظاہر کرتی ہے تو جو مخلوق معذور اور مجبور ہے.وہ تو معذور اور مجبور.ہی.اُس کی تخلیق تو لازماً آہستہ آہستہ ہوگی.اس لیے اس کا ہر فعل ایک تدریج چاہتا ہے.یہ تدریج بعض دفعہ زمانہ کے لحاظ سے محسوس نہیں ہوتی لیکن ہوتی ضرور ہے.مثلاً ہم کسی چیز کو چھوتے ہیں تو ہاتھ لگاتے ہی ہمیں یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ وہ چیز سخت ہے یا نرم ہے، صافی ہے یا گھر دری ہے.ہم کسی چیز کو پکڑتے ہیں تو پکڑتے ہی ہمیں معلوم ہو جاتا ہے کہ وہ چیز سخت ہے یا نرم ہے، صاف ہے یا گھر دری ہے.لیکن ہمار یہ احساس نتیجہ ہے.ہمارے اس نقص کا کہ ہم زمانہ کا احساس سیکنڈوں سے کم میں نہیں کر سکتے.حالانکہ زمانہ کا احساس سیکنڈ کے ہزارویں ، لاکھویں کے بلکہ کروڑویں حصہ میں بھی ہوتا ہے.جیسے ہم فوٹو لیتے ہیں.آج کل فوٹو لینے کا بہت چرچا ہے.اب کی ایک شخص ایک کیمرا خریدتا ہے تو وہ اسے پندرہ بیس روپے کو مل جاتا ہے.دوسرا شخص کیمرا خرید تات ہے تو اُسے سود و سوروپے میں مل جاتا ہے.ایک اور شخص کیمرا خریدتا ہے تو وہ اُسے آٹھ نوسو یا ایک ہزار روپیہ میں ملتا ہے.یہ قیمتوں کا فرق کیوں ہے؟ قیمتوں میں فرق کیمرا کی حسن کی تیزی کی وجہ سے ہوتا ہے.مثلاً ایک کیمرا ایسا ہوتا ہے جو ایک سکینڈ کے سویں حصہ میں فوٹو کھینچتا ہے.لیکن چونکہ
$1953 277 خطبات محمود سیکنڈ کے سویں حصہ میں حرکت ہو جاتی ہے اس لیے تصویر ناقص ہو جاتی ہے.ایک اور کیمرا ہوتا ہے جو ایک سیکنڈ کے ہزارویں حصہ میں فوٹو کھینچتا ہے.اس کا تصویر کھینچنا چونکہ انسانی جسم کی حرکت تانی سے زیادہ تیز ہوتا ہے اس لیے تھوڑی سی حرکت کا اثر تصویر پر نہیں پڑتا.مثلاً انسان اُس وقت سر ہلا دیتا ہے تو کیمرا پر اُس کا اثر نہیں ہوتا.تصویر ٹھیک آجاتی ہے.کیونکہ سر ہلانے میں ایک سیکنڈ کے ہزارویں حصہ سے زیادہ وقت لگتا ہے.جس کی نسبت سے کیمرا کی حسن زیادہ تیز ہوتی ہے.لیکن ایک اور کیمرا ہوتا ہے جو ایک سیکنڈ کے لاکھویں اور دولاکھویں حصہ میں بھی فوٹو کھینچ لیتا ہے.اس کیمرا کے ذریعہ دوڑتے ہوئے گھوڑے اور اُڑتے ہوئے جہاز کا بھی فوٹو لیا جا سکتا ہے.کیونکہ وہاں زمانہ کا احساس زیادہ چھوٹا ہوتا ہے.اگر وہ کیمرا جو ایک سیکنڈ کے لاکھویں حصہ میں تصویر کھینچ لیتا ہے اُس کی جسن تمہارے ہاتھ میں ہوتی تو تمہیں معلوم ہوتا کہ جب تم کسی چیز کو چھوتے ہو اور چھوتے ہی تمہیں معلوم ہو جاتا ہے کہ وہ چیز صاف ہے یا گھر دری.نرم ہے یا سخت.تو اس چھونے میں اور احساس میں وقت کا فرق پایا جاتا ہے.لیکن وہ فرق نہایت قلیل ہوتا ہے.حقیقت کی یہ ہے کہ جب تم کسی چیز پر ہاتھ رکھتے ہو تو فوراً ایک تار دماغ کو جاتی ہے.اور دماغ ہاتھ کی چیز کا جائزہ لیکر وہ احساس پیدا کرتا ہے جو تم محسوس کرتے ہو.تم کو صرف ہاتھ رکھنے اور ایک احساس حاصل کرنے کا پتا لگتا ہے.لیکن حقیقت ہاتھ کے چھونے میں اور احساس میں دوتاروں کے چلنے اور ی ایک حکم کے آنے کا زمانہ شامل ہوتا ہے.جسے تم وقت کے احساس کی کمی کی وجہ سے محسوس نہیں ہے کرتے.اسی طرح تم آنکھ سے دیکھتے ہو تو آنکھ کھولتے ہی تمہیں ایک چیز نظر آجاتی ہے.اور تم سمجھتے ہو کہ آنکھ کھلنے اور اس چیز کو دیکھنے میں کوئی وقفہ نہیں.اُس کی وجہ بھی یہی ہوتی ہے کہ تم وقفہ کا صحیح اندازہ نہیں کر سکتے.حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ آنکھ کھولنے سے آنکھ کے پچھلے اعصاب پر اثر پڑتانی ہے.اور اُن اعصاب کے ذریعہ دماغ کو اطلاع جاتی ہے.اور دماغ اُسی دیکھے ہوئے نقشہ کو ی محسوس کرتا ہے.اور تم سمجھتے ہو کہ آنکھ دیکھ رہی ہے.مگر یہ کام اتنی جلدی ہو جاتا ہے کہ تم اس وقفہ کا اندازہ نہیں کر سکتے.تمہارے پاس اس وقفہ کو معلوم کرنے کا کوئی آلہ نہیں.تصویر کے کیمرا میں وقفہ کا احساس ہوتا ہے.سائنسدانوں نے غور کر کے ایسا آلہ نکال لیا ہے جس سے وہ تیز سے تیز.
$1953 278 خطبات محمود چیزوں کی تصویر لے لیتے ہیں.چنانچہ ایسے کیمرے بھی پائے جاتے ہیں جو ایٹم کے بخارات کی تصویر لے لیتے ہیں.حالانکہ ایٹم کے بخارات ایک سیکنڈ میں دس دس پندرہ پندرہ میں چلے جاتے ہی ہیں.ان بخارات کی تصویریں لینے کے لیے خاص قسم کے کیمرے ایجاد کیے گئے ہیں.ان کی تصویروں کے ذریعہ ہی سائنسدان ایٹم کی تحقیقات کے سلسلہ میں بعض اور باتوں کا پتا لگاتے ہیں.پس چونکہ تمہارے پاس وہ آلہ نہیں ہوتا جس کے ذریعے تم چھوٹے سے چھوٹے وقفہ کا اندازہ لگاتی سکو اس لیے تم سمجھتے ہو کہ چھونے اور پکڑنے اور اس کا احساس کرنے میں کوئی وقفہ نہیں ہوتا.حالانکہ چھوٹے سے چھوٹا کام بھی بتدریج ہوتا ہے.اگر تمہارے پاس وقفہ معلوم کرنے کا آلہ ہوتا تو تمہیں معلوم ہوتا کہ جب تم کسی چیز کو ہاتھ لگاتے ہو تو اُس کا فیصلہ پہلے دماغ نے کیا تھا.پھر وہ فیصلہ ہاتھ کو گیا.اور اُس نے اُس چیز کا احساس کیا.لیکن چونکہ یہ بات جلدی ہو جاتی ہے اس لیے تمہیں اس کا احساس نہیں ہوتا.پس ہر چیز میں ایک تدریج پائی جاتی ہے.اور ایک کے بعد دوسرا اور کی دوسرے کے بعد تیسرا، تیسرے کے بعد چوتھا اور چوتھے کے بعد پانچواں قدم اٹھ رہا ہے.یا مثلاً تم کھانا کھاتے ہو تم منہ میں لقمہ ڈالتے ہو.لیکن صرف منہ میں لقمہ ڈالنے سے کھانا ہضم نہیں ہوتا.اگر محض منہ میں لقمہ ڈالنے سے ہی تمہیں غذا کا فائدہ حاصل ہو جاتا تو خدا تعالیٰ دانتوں کو پیدا نہ کرتا.لقمہ منہ میں ڈالنے کے بعد دانتوں سے اُسے چبایا جاتا ہے.پھر اگر صرف دانتوں سے چبانے سے ہی ہم غذا سے فائدہ اٹھا لیتے تو خدا تعالیٰ معدہ پیدا نہ کرتا.پھر غذا معدہ کی میں جاتی ہے اور معدہ مدہانی کی طرح کام کرتا ہے.جس طرح ہم کسی برتن میں دہی ڈال کر اُسے مدہانی سے بلو تے ہیں اسی طرح معدہ غذا کو ہلاتا ہے.تم یہ مجھ لوکہ کھا نا دودھ ہے، دانت اُسے دہی بناتے ہیں اور معدہ اُس دہی کو مدہانی کی طرح پتلا کرتا ہے.پھر وہ پتلی کی ہوئی غذا انتڑیوں میں جاتی ہے اور انتڑیاں اُسے ہضم کرتی ہیں.پھر آگے انتڑیوں کے تین حصے ہوتے ہیں.لیکن اگر تم انہیں ایک چیز ہی سمجھ لو تب بھی ایک لقمہ جو منہ میں ڈالا گیا چوتھی جگہ جا کر ہضم کے قابل ہوا.اگر وہ لقمہ کسی ایک ہی جگہ رکھ دیا جائے تو انسان مر جائے.انسان کا معدہ نکال دیا جائے یا اس کی انتڑیاں نکال دی جائیں تو انسان مر جائے یا اس کی زندگی و بال ہو جائے.اگر لقمہ والی غذا معدہ میں ڈالی جائے.منہ میں نہ ڈالی جائے تو انسان مر جائے.یہی وجہ ہے کہ سوائے دودھ کے کوئی
$1953 279 خطبات محمود غذا معدہ میں داخل نہیں کی جاتی.کیونکہ معدہ غذا چبانے کا کام نہیں کر سکتا.پس غذا ہضم ہو.کے لیے بھی خدا تعالیٰ نے بعض مدارج مقرر کیے ہیں.اسی طرح روحانی غذا کے ہضم ہونے کے لیے بھی کچھ مدارج ہیں.یہاں بھی منہ اور معدہ اور انتڑیاں ہوتی ہیں جن میں غذا آہستہ آہستہ ہضم ہوتی ہے.جو لوگ اس نقطہ کو نہیں سمجھتے وہ اپنی عمر ضائع کر دیتے ہیں اور وہ صحیح فائدہ نہیں اٹھا سکتے.مسلمان کی زندگی کا دارو مدار قرآن کریم پری ہے.قرآن کریم ایک غذا ہے جس پر ہمارا گزارہ ہے.آگے غذا کی کئی شکلیں ہیں.مثلاً آئے سے روٹی بناتے ہیں.سوکھا آٹا پھانک نہیں جاتا.آئے کو گوندھا جاتا ہے اور پھر اُسی سے پراٹھے ، پھلکے اور تنور کی روٹیاں بنائی جاتی ہیں.اسی طرح آئے سے تم پنجیری بنا لیتے ہو.گویا تم اس آئے کوئی ہے شکلوں میں تبدیل کرتے ہو تب جا کر وہ کھانے کے قابل ہوتا ہے.اسی طرح قرآن کریم کی غذا کئی شکلوں میں تبدیل ہو گئی ہے.کہیں یہ غذا نماز کی شکل اختیار کر گئی ہے.کہیں یہ روزہ کی شکل اختیار کر گئی ہے، کہیں یہ حج کی شکل اختیار کر گئی ہے، کہیں یہ زکوۃ کی شکل اختیار کر گئی ہے.گویا کہیں یہ پکوڑے بن گئی ہے، کہیں پر اٹھا بن گئی ہے، کہیں پنجیری بن گئی ہے، کہیں گلگلے بن گئی ہے.مگر ہے وہی چیز.لیکن ان چیزوں کا بن جانا کافی نہیں جب تک ہم انہیں چبائیں نہیں ، انہیں نگلیں نہیں.جب وہ غذا معدہ اور انتڑیوں کے دور سے نہ نکلے اس سے فائدہ حاصل نہیں کیا جاسکتا.اس لیے میں نے " ذہنی جگالی" کی ایک اصطلاح بنائی ہوئی ہے.یعنی بغیر " ذہنی جگالی " کے روحانی غذا ہضم نہیں ہوتی.ایک جانور معدے سے چارہ نکالتا ہے، پھر اسے چباتا ہے.کیونکہ اُس کے معدے میں اتنا سامان نہیں ہوتا کہ وہ چارہ کو ہضم کرے.اور چونکہ معدہ اُس غذا کو ہضم نہیں کرتا اس لیے وہ پہلے جلدی جلدی چارہ کھا لیتا ہے.اور جب کھرلی پر بیٹھتا ہے تو وہ جگالی کرتا ہے.کیونکہ ایک جانور چوبیس گھنٹے تک خوراک جنگل میں نہیں کھا سکتا ہے.اس لیے وہ جلدی جلدی خوراک کھاتا جاتا ہے.لیکن جب گھر لی پر آتا ہے تو پہلے ایک لقمہ نکالتا ہے اور جگالی کرتا ہے اور اُسے خوب چباتا ہے ہے.پھر ایک اور لقمہ نکالتا ہے اور اُسے چباتا ہے.اور پھر ایک اور لقمہ نکالتا ہے اور اُسے چباتا ہے.اسی طرح روحانی جگالی کی کیفیت ہوتی ہے.جو شخص قرآن کریم پڑھ لیتا ہے یا اس کی تلاوت کر لیتا ہے قرآن کریم اُسے ہضم نہیں ہوتا.اس کی مثال ایسی ہی ہوتی ہے جیسے ایک جانور گھاس کھاتا
$1953 280 خطبات محمود لیتا ہے.یا انسان کوئی لقمہ منہ میں ڈال لیتا ہے.اگر تم لقے نگلتے جاؤ اور انہیں چباؤ نہیں تو تمہاری ہے انتڑیوں میں سوزش پیدا ہو جائے گی ، دست آنے لگ جائیں گے یا قے آجائے گی اور روٹی باہر نکل آئے گی.یہی حال روحانی غذا کا ہے.جو لوگ جگالی نہیں کرتے وہ اس غذا سے کوئی فائدہ حاصل نہیں کر سکتے.یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم نے یہودیوں کی مثال اُس گدھے سے دی ہے جس کی پیٹھ پر ی کتابیں لدی ہوئی ہوں 3.جو لوگ جگالی نہیں کرتے.وہ کتاب تو پڑھ لیتے ہیں لیکن اس پر غور و فکر نہیں کرتے اور اس وجہ سے اس سے فائدہ نہیں اٹھا سکتے.قرآن کریم سے فائدہ اٹھانے کے لیے ضروری ہے کہ اسے ان مراتب سے گزارا جائے جس سے اس کے مضامین ہضم ہو جائیں.تک اسے اُن مراتب سے گزارا نہیں جائے گا وہ ہضم نہیں ہوگا.پس قرآن کریم پڑھنے کے بعد سوچنے کی عادت ڈالو.اور سوچنے کے بعد اس کی جو تاثیریں ہوتی ہیں اُن پر غور کرو اور دیکھو کہ وہ کہاں کہاں روشنی ڈالتی ہیں.تم غور کرو گے تو اس کے کی مطالب خود بخود نکلتے آئیں گے.مثلاً لالٹین کی روشنی جہاں تک روشنی کا سوال ہے وہ میل سے بھی نظر آ جاتی ہے.لیکن جہاں تک رستہ دیکھنے کا سوال ہے وہ پچاس ساٹھ گز تک ختم ہو جاتی ہے.تم ایک جگہ پر لالٹین رکھ کر آگے چلے جاؤ تو پچاس ساٹھ گز کے بعد تمہیں رستہ نظر نہیں آسکے گا.اب اس مثال کو اپنے سامنے رکھتے ہوئے تم سوچو تو تمہیں پتا لگے گا کہ روشنی کی مختلف تاثیریں ہوتی ہے ہیں.مثلاً غور کرنے پر تمہیں پتا لگے گا کہ روشنی دائیں گئی ہے بائیں گئی ہے.آگے گئی ہے، پیچھے ہے.اوپر گئی ہے نیچے نہیں گئی.کیونکہ نیچے زمین ہے ورنہ وہ نیچے بھی چلی جاتی.چنانچہ اگر تم ایک مشعل اٹھا لو تو تم دیکھو گے کہ اُس کی روشنی نیچے بھی جائے گی.گویا اُس کا عمل چھ طرف ہوگا.لیکن اگر تم پانی بہاتے ہو تو تم دیکھو گے کہ پانی ہمیشہ نچلی طرف جاتا ہے.اگر ایک طرف زمین نیچی ہے تو پانی ایک طرف جائے گا.اگر دو طرف نچلی زمین ہے تو پانی دو طرف جائے گا.اگر تین طرف نچلی زمین ہے تو پانی تین طرف جائے گا.اگر چاروں طرف چلی زمین ہے تو پانی چاروں طرف جائے گا.اور اگر سب طرف اونچی زمین ہے تو پانی و ہیں ٹھہرا رہے گا.یہی حال روحانی تعلیم کا ہے.بعض تعلیمیں ایسی ہوتی ہیں.جو چاروں طرف اثر کرتی
$1953 281 خطبات محمود ہیں.بعض تعلیمیں دوطرف اثر کرتی ہیں.بعض تعلیمیں اوپر کی طرف اثر ڈالنے والی ہوتی ہیں.اور بعض نیچے اثر ڈالنے والی ہوتی ہیں.مثلاً گیس ہے یا دھواں ہے.گیس اور دھواں ہمیشہ اوپر کی طرف جاتے ہیں.اسی طرح بعض روحانی تعلیمیں خدا تعالیٰ پر اثر کریں گی.اور بعض تعلیمیں ہے انسانوں پر اثر کریں گی اور بعض صرف اصلاح نفس کے کام آئیں گی.گویا وہ ایسی ہوں گی جیسے کٹورے میں پانی ڈال لیا جاتا ہے.غرض اگر تم قرآن کریم پر غور کرو گے تم اُس سے کئی نتائج نکال لو گے.محض الفاظ پڑھنے کی مثال تو ایسی ہی ہے جیسے تم معدہ میں کھانا ڈالتے جاؤ اور اُسے دانتوں میں چباؤ نہیں اس صورت میں تمہیں خون کے دست آنے لگ جائیں گے.تم ہڈیاں ڈالتے جاؤ انہیں چباؤ نہیں تو اس سے تمہیں اپنڈے سائنٹس (Appendicitis) 4 اور دوسری کی امراض لگ جائیں گی.حالانکہ ہڈی کے اندر گودا اور کھانا ہضم کرنے والا مادہ موجود ہوتا ہے.پس تم قرآن کریم پر سوچنے اور پھر سوچ کر اُس پر عمل کرنے کی کوشش کرو.ورنہ تمہاری مثال اُس شخص کی سی ہوگی جو کوئی ایسی چیز استعمال کرتا ہے جس کا نتیجہ مخالف پڑتا ہے.مثلاً وہ روشنی والا کام پانی کی سے لیتا ہے اور پانی والا کام روشنی سے لیتا ہے.دھوئیں سے پانی والے کام لیتا ہے اور پانی سے دھوئیں والے کام لیتا ہے.اگر تم ایسا کرو گے تو تمہیں کوئی فائدہ نہیں پہنچے گا.خدا تعالیٰ ہر چیز سے بالا ہے.یوں تو وہ ہر جگہ ہے لیکن جہت کے لحاظ سے وہ سب سے بالا ہے.اُس کے معلوم کرنے کے لیے اوپر جانے والی یعنی دھواں اور گیس کی خاصیت رکھنے والی تعلیموں کی ضرورت ہے.اور بنی نوع کی اصلاح کے لیے پانی اور روشنی کی خاصیت رکھنے والی تعلیم کام دے گی.اور اپنے نفس کی اصلاح کے لیے وہ چیز چاہیے جو ایک جگہ ہی ٹھہری رہے.اگر روحانی تعلیم کو بھی ضرورت کے مطابق استعمال نہ کیا جائے تو وہ بریکا ررہتی ہے اور اُس کا کچھ فائدہ نہیں ہوتا.بعض لوگ کہتے ہیں کہ خدا تعالیٰ سب کچھ کر سکتا ہے.اس میں کوئی شک نہیں کہ خدا تعالیٰ سب کچھ کر سکتا ہے.لیکن کیا وہ پاگل ہے کہ ہر چیز جو عقل میں آتی ہے یا نہیں آتی کرنے لگے جائے ؟ خدا تعالیٰ سب کچھ کر سکتا ہے.وہ چاہے تو سب کو یکدم ماردے.لیکن وہ سب کو کیوں ماردے؟ اسی طرح روحانیات میں سب کچھ قواعد کے ماتحت ہوتا ہے.اگر قواعد کے ماتحت کام نہ
$1953 282 خطبات محمود کیا جائے تو نہ خدا تعالیٰ کچھ فائدہ دے سکتا ہے، نہ رسول فائدہ دے سکتا ہے اور نہ قرآن کریم فائدہ ی دے سکتا ہے.پس تم اپنی زندگیوں کو اس طرح ڈھالو کہ تم زیادہ سے زیادہ فائدہ حاصل کر سکو.قرآن کریم پڑھو اور اس پر غور کرو، فکر کرو اور اپنی ضرورت کے مطابق اس سے فائدہ اٹھاؤ.خدا تعالیٰ کی صفات کو ہی لے لو.ان کو بھی ضرورت کے مطابق استعمال کرنے سے فائدہ ہوتا ہے.اگر کوئی شخص یہ کہے کہ یا حی و قیوم خدا ! فلاں شخص کو مار دے تو یہ دعا درست نہیں ہوگی.زندہ اور قائم رکھنے والا خدا کسی کو مارے گا کیوں.قبولیت دعا کے لیے ضروری ہے کہ اُن صفات کو استعمال کیا جائے جن کا دعا کے ساتھ جوڑ ہو.مثلاً ہم یہ کہیں اے حی و قیوم خدا ! تو میری قوم کو زندہ کر اور اے منتقم خدا ! تو میرے دشمن کو مار دے.تو یہ درست ہوگا.لیکن یہ کہنا درست نہیں ہوگا کہ اے حَي و قیوم خدا ! تو میرے دشمن کو مار دے.اور اسے منتقم اور قہار خدا ! تو میری قوم کو ترقی دے.کیونکہ زندہ رکھنے والی اور ترقی دینے والی صفات اور ہیں.اور مارنے والی صفات اور ہیں.یا مثلا رزق کا سوال ہے.ہم یہ نہیں کہیں گے کہ اے حسی و قیوم خدا ! تو ہمیں رزق دے.بلکہ یہ کہیں گے کہ اے رازق و باسط خدا ! تو ہمیں رزق دے.یا اگر ہم بیمار ہیں تو یہ نہیں کہیں گے کہ اے رازق خدا ! تو ہمیں شفا دے.رازق کی صفت بے شک اچھی ہے لیکن شفا ینے کا اس صفت سے کوئی تعلق نہیں.اگر شفا کے لیے دعا کرنی ہے.تو خدا تعالیٰ کی صفت شافی کا ذکر کرو.اور کہو اے شافی خدا ! تو مجھے شفا دے.غرض ان صفات کے استعمال میں بھی بڑے غور کی ضرورت ہے.اور دعا جو صفات الہیہ کا ایک چھوٹا سا حصہ ہے اس میں بھی غور و فکر کی ض ور نہ کوئی دعا کام نہیں دیتی.پس تم سوچنے کی عادت ڈالو.قرآن کریم پڑھو اور پھر اس پر غور کرو.اور غور کرنے کے بعد اس پر عمل کرو.اگر تم ایسا کرو گے تو تم ایک زندہ اور فعال قوم نظر آنے لگ جاؤ گے.اور دنیا تمہیں دیکھ کر حیران رہ جائے گی.لوہے کو دیکھ لو.یورپ اس سے انجن بناتا ہے لیکن تم اس سے محض ہتھوڑے وغیرہ بناتے ہو.یا زیادہ سے زیادہ قینچیاں بنا لیتے ہو.پرانے زمانے میں عورتیں سیرسیر سونا کانوں میں ڈال لیتی تھیں.اُن کے کان لٹک جاتے تھے ، اُن میں بڑے بڑے سوراخ
$1953 283 خطبات محمود وجاتے تھے اور وہ سمجھتی تھیں کہ ہم بڑی مالدار ہیں.لیکن اسی سونے سے یورپ کے ممالک.بعض اشیاء تیار کیں اور ان کے ذریعہ دوسرے ممالک سے کئی گنا زیاہ مال لے آئے.پس کسی چیز کا موجود ہونا کافی نہیں.تم اس بات پر فخر نہ کرو کہ تمہارے پاس قرآن کریم موجود ہے.اگر تمہارے پاس قرآن کریم موجود ہے تو سوال یہ ہے کہ تم نے اس سے کیا فائدہ اٹھایا ؟ اگر تم قرآن کریم پڑھ کر اس سے فائدہ اٹھاتے ہو تو تم سے بڑھ کر خوش قسمت اور کوئی نہیں.اور اگر تم اس سے کی فائدہ نہیں اٹھاتے تو تم سے بڑھ کر بد قسمت بھی اور کوئی نہیں.کیونکہ تمہاری جیبوں میں سونا بھرا ہے مگر تم اس سے کوئی فائدہ نہیں اٹھا سکے.“ (مصلح 15 نومبر 1953ء) 1 الفاتحه : 2 2 يس: 83 3 مَثَلُ الَّذِينَ حَمِلُوا الثَّوريةَ ثُمَّ لَمْ يَحْمِلُوهَا كَمَثَلِ الْحِمَارِ يَحْمِلُ أَسْفَادًا ( الجمع : 6) 4 اپنڈے سائٹس: (APPENDICITIS) وہ مرض جس میں آنت سُوج جاتی ہے.
$1953 284 34 دنیا کی اصلاح اور اسلام کی تعلیم کو پھر سے رائج کرنے کا کام اللہ تعالیٰ نے تمہارے سپرد کیا ہے فرموده 9 /اکتوبر 1953ء بمقام.ربوہ) : تشہد ، تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا.کچھ لوگ دنیا میں ایسے ہوتے ہیں جو خدا تعالیٰ کی طرف سے مامور ہوتے ہیں یا یوں ہے کہو کہ وہ کہتے ہیں کہ ہم خدا تعالیٰ کی طرف سے مامور ہیں.اور کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جو خدا تعالیٰ کی طرف سے مامور نہیں ہوتے یا یوں کہو کہ وہ سمجھ رہے ہوتے ہیں کہ ہم خدا تعالیٰ کی طرف سے مامور نہیں.مامور سے میری مراد وہ انسان نہیں جس کو خدا تعالیٰ الہام کر کے کسی خاص مقصد کے لی لیے کھڑا کرتا ہے.بلکہ اس سے مراد اس کے عام عربی معنی ہیں کہ کسی شخص کو ایک حکم دیا گیا ہو.پس مامور کے معنے ہیں وہ جسے حکم دیا گیا، کوئی کام سپر د کیا گیا.مثلاً ایک سپاہی کو کسی جگہ کھڑا کیا گیا ہو اور اُسے یہ حکم دیا گیا ہو کہ وہ کسی کو دروازے سے اندر نہ آنے دے.اُس کے پاس اُس کا کوئی عزیز یا رشتہ دار یا دوست آتا ہے.اور وہ خواہش کرتا ہے کہ میں تمہارا عزیز ہوں، رشتہ دار ہوں یا دوست ہوں مجھے اندر جانے کی اجازت دے دو.تو وہ کہتا ہے کہ میں مجبور ہوں، میں مامور ہوں.خطبات محمود
$1953 285 خطبات محمود مجھے یہاں اس لیے مقرر کیا گیا ہے کہ میں کسی کو اندر نہ جانے دوں اس لیے میں آپ کو اندر جانے یا کی اجازت نہیں دے سکتا.گویا وہ سپاہی بھی ایک مامور ہے.پھر ایک مامور وہ ہوتے ہیں جن کو خدا تعالیٰ دنیا میں مبعوث کر کے بھیجتا ہے تا وہ دنیا تک اس کا پیغام پہنچائیں یا اس کے پیغام کی اشاعت کریں اور ایک ہر شخص اور ہر قوم مامور ہوتی ہے جس کو کسی خاص مقصد کے لیے کھڑا کیا گیا ہو یا اُس کے سپر د کوئی خاص کام کیا گیا ہو.پس ہر ای مرسل ، ہر نبی اور ہر وہ شخص جس کو دنیا کی اصلاح کے لیے کھڑا کیا گیا ہو اور ان سے اُتر کر ظلی طور پر ہر ملہم علیہ اور ہر مصلح مامور ہیں.پھر اُن کے ساتھ اُن کی جماعتیں بھی مامور ہوتی ہیں.یعنی اُن کی کے سپر د بھی ایک خاص مقصد ہوتا ہے.دنیا میں کوئی ایسا انسان نہیں آیا کہ خدا تعالیٰ نے اُسے مامور کیا ہواور اُس کی جماعت مامور نہ ہو.یہ بات ناممکن ہے اس لیے کہ دنیا میں کوئی مامور ایسا نہیں آیا جس کے سپر د کوئی ایسا کام ہو جو ایک شخص سے تعلق رکھتا ہو.حضرت آدم علیہ السلام سے اس وقت تک کوئی مامور ایسا نہیں گزرا جس کا کام صرف اُس کی ذات سے تعلق رکھتا ہو.بلکہ اُس کے سپرد ہمیشہ ایسے کام ہوتے ہیں جو ہزاروں ، لاکھوں اور کروڑوں لوگوں سے تعلق رکھتے ہیں.جب تک وہ ہزاروں لاکھوں اور کروڑوں لوگ کام نہ کریں وہ کام پورا نہیں ہو سکتا.اسی لیے مسیح ناصری علیہ السلام نے کہا تھا کہ میں تو اس دنیا سے جاتا ہوں اور ہر ایک آدمی کے لیے اس دنیا سے جانا ہی مقدر ہے.کیونکہ جب تک میں اس دنیا سے نہ جاؤں وہ کام پورا نہیں ہوسکتا جو تمہارے سپرد کیا گیا ہے اور جوان ہمیشہ رہنے والا اور دائمی ہے.اور یہی وجہ تھی کہ رسول کریم ﷺ نے حجة الوداع کے موقع پر اسلام کے اہم اصول کو ایک ایک کر کے بیان فرمایا اور کہا.هَلْ بَلَّغْتُ اے مسلمانو! کیا میں نے وہ فرض ادا نہیں کر دیا جو خدا تعالیٰ کی طرف سے میرے سپرد کیا گیا تھا ؟ 1.پھر یہی وجہ تھی کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے " الوصیت "میں تحریر فرمایا کہ:." تمہارے لیے دوسری قدرت کا بھی دیکھنا ضروری ہے اور اس کا آنا تمہارے لیے بہتر ہے.کیونکہ وہ دائمی ہے.جس کا سلسلہ قیامت تک منقطع نہیں ہوگا.اور وہ دوسری قدرت نہیں ہے آسکتی جب تک میں نہ جاؤں.لیکن میں جب جاؤں گا تو پھر خدا اس دوسری قدرت کو تمہارے لیے بھیج دے گا جو ہمیشہ تمہارے ساتھ رہے گی 2.
خطبات محمود 286 $1953 پس مامور کی مثال اُن انسانوں کی طرح ہوتی ہے جو گاڑی یا موٹر کو دھگا دیتے ہیں.جب کوئی گاڑی کہیں پھنس جاتی ہے.تو لوگ اُسے دھکا دیتے ہیں.اور اس کے بعد وہ خود بخود چلتی ہے.اگر دھگا دینے کے بعد بھی وہ خود نہیں چلتی تو یہ سمجھا جاتا ہے کہ وہ خراب ہے.اگر دھنگالی دینے کے بعد گاڑی چل پڑتی ہے اور چلتی چلی جاتی ہے تو یہ سمجھا جاتا ہے کہ اس کے سامنے کوئی عارضی روک تھی اور اب وہ روک دور ہوگئی ہے.پس مامورین جب دنیا میں آتے ہیں تو اُن کے آنے کی غرض گاڑی کو دھکا دینا ہوتا ہے.وہ منزل مقصود تک نہیں پہنچاتے.آج تک دنیا میں کوئی ہے صلى الله ایسا ما مور نہیں آیا جس نے ماموریت کے پیغام کو انتہا تک پہنچا دیا ہو.محمد رسول اللہ ﷺ سے بڑھ کر کوئی انسان نہیں لیکن آپ کے بعد بھی خلفاء آئے جنہوں نے آپ کے کام کو جاری رکھا.پھر خلفاء کے بعد اولیائے امت نے آپ کے کام کو جاری رکھا.یہاں تک کہ مسلمان تھک کر چھ رہو گئے اور انہوں نے اس گاڑی کو دھکا دینے سے انکار کر دیا جس کو محمد رسول اللہ ﷺ نے دھکا دے کر چلایا تھا.ہماری جماعت کو بھی اس قسم کے مقصد کے لیے خدا تعالیٰ نے کھڑا کیا ہے.اب دو ہی کی باتیں ہیں یا تو ہم یہ کہیں کہ ہم مامور نہیں اور ہمیں کسی مقصد کے لیے کھڑا نہیں کیا گیا.اور یا یہ کہیں کہ ہمیں جس مقصد کے لیے کھڑا کیا گیا ہے وہ پورا نہیں ہوسکتا.اور یا یہ مانیں کہ جس مقصد کے لیے ہمیں کھڑا کیا گیا ہے وہ پورا ہو سکتا ہے بشرطیکہ ہم اپنا فرض ادا کریں.جہاں تک اس چیز کا سوال ہے کہ ہمیں کسی مقصد کے لیے کھڑا نہیں کیا گیا یہ بالکل غلط ہے.اگر ہم یہ کہیں کہ ہمیں کسی مقصد کے لیے کھڑا نہیں کیا گیا تو ہمارا تمام دعوی باطل ہو جاتا ہے.کیونکہ جب ہم یہ کہتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر خدا تعالیٰ نے الہام نازل کیا ہے اور آپ کو دنیا کی اصلاح کے لیے مبعوث کیا ہے تو ہم تسلیم کرتے ہیں کہ خدا تعالیٰ نے آپ کی جماعت کو بھی مامور کیا ہے.اور جیسا کہ میں نے بتایا ہے کہ تاریخ ، مذہب احادیث اور روایتوں سے کوئی ایسا نبی ثابت نہیں جس کا کام اُس کی ذات تک محدود ہو، کوئی مرسل ایسا ثابت نہیں جس کا کام اُس کی ذات تک محدود ہو، کوئی نبی ایسا ثابت کی نہیں جس کا کام اس کی ذات تک محدود ہو.کوئی مصلح اور کوئی مجدد بھی ایسا ثابت نہیں جس کا کام اُس کی ذات تک محدود ہو.اب مرزا صاحب کو تم مرسل کہہ لو مصلح کہ لو، مجدد کہ لو.کم از کم مجدد سے نیچے آپ کو ماننے والا تو کوئی نہیں جا سکتا.اور جب دنیا میں کوئی مسجد دبھی ایسا نہیں آ
$1953 287 خطبات محمود جس کا کام اُس کی ذات تک محدود ہو اور اُس کی جماعت اُس کے کام میں شریک نہ ہو تو اگر مرزا صاحب مامور تھے اور جب کہ ہمارا عقیدہ ہے کہ آپ کو دنیا میں اسلام کو دوبارہ زندہ کرنے کے لیے مبعوث کیا گیا تھا تو تمہیں یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ تم بھی مامور ہو.اگر مرزا صاحب مُلْهُمْ إِلَيْهِ تھے تو تم حاملِ الہام ہو.آپ کی طرف خدا تعالیٰ نے اپنا کلام نازل کیا اور پھر وہ کلام تمہاری طرف منتقل کیا.جس طرح کہ تمام مامورین خلفاء اور مجددین کے کام ہوتے چلے آئے ہیں.اسی طرح آپ کا کام بھی آپ کے بعد جاری رہے گا.پس تم یہ نہیں کہہ سکتے کہ تمہیں کسی مقصد کے لیے کھڑا نہیں کیا گیا.شاید تم یہ کہو کہ تمہارے سپر د جو کام کیا گیا تھا وہ پورا کرنا مشکل تھا.یعنی بنی نوع انسان کو اسلام کی طرف لانا اور محمد رسول اللہ ﷺ کی لائی ہوئی تعلیم کو دوبارہ قائم کرنا مشکل امر ہے.اگر تم ایسا کہو تو یہ بھی غلط ہے.کیونکہ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے لَا يُكَلِّفُ اللهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا 3 کہ اللہ تعالیٰ کسی جان کے سپر دکوئی ایسا کام نہیں کرتا جس کے کرنے کی اُس میں طاقت نہ ہو.اس لیے جو شخص یہ کہتا ہے کہ اُس کے سپرد ایسا کام کیا گیا ہے جو ہو نہیں سکتا وہ خدا تعالیٰ کو جھوٹا قرار دیتا ہے، وہ قرآن کریم کی تکذیب کرتا ہے، وہ محمد رسول اللہ ﷺ کے دین کی تردید کرتا ہے.وہ قرآن کریم جو ساری کتابوں سے اکمل اور مکمل کتاب ہے ، وہ قرآن کریم جو آخری شریعت ہے، وہ قرآن کریم جو خاتم النبین پر نازل ہوا تھا جس کی شان کی اور کوئی کتاب نہیں وہ کہتا ہے لَا يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا یعنی اللہ تعالیٰ کبھی بھی کسی جان کے سپر د ایسا کام نہیں کرتا جس کے کرنے کی اُس میں طاقت نہ ہو.اس لیے ماموروں کے سلسلہ میں یہ بات پائی جاتی ہے کہ جب کوئی کام کسی کے سپر د کیا جاتا ہے تو وہ اس کے متعلق یہ سوچتا نہیں کہ آیا میں اس کام کو کر سکتا ہوں یا نہیں.حالانکہ دنیا میں جب کسی انسان کے سپر د کوئی کام کیا جاتا ہے تو وہ سوچتا ہے کہ شاید میں اس کام کو نہ کر سکوں.اگر کوئی بادشاہ کسی جرنیل کو یہ حکم دیتا ہے کہ فلاں جگہ بغاوت ہو گئی ہے ہم اس بغاوت کو فرو کرنے کے لیے تمہیں کھڑا کرتے ہیں.تو وہ سوچتا ہے کہ معلوم نہیں وہ اس بغاوت کو دور بھی کر سکتا ہے یا نہیں.اگر کسی کالج کا نظام بگڑا ہوا ہو.اور کسی شخص کو کہا جائے کہ تمہیں اس کا پرنسپل مقرر کیا جاتا ہے.تم اس کی اصلاح
$1953 288 خطبات محمود کرو.تو ہوسکتا ہے کہ وہ سوچے کہ آیا وہ نظام صحیح ہو سکتا ہے یا نہیں.اگر ایک مشین ٹوٹ جائے یا بگڑ جائے اور مالک کسی مستری کو بلائے اور اُس سے کہے کہ میں تمہارے سپرد یہ کام کرتا ہوں.تو ی ہو سکتا ہے کہ وہ مستری یہ پوچھے کہ مشین اپنی آخری حد کو بھی پہنچ سکتی ہے.معلوم نہیں کہ وہ صحیح ہو سکتی ہے ہے یا نہیں.لیکن کیا کبھی یہ بھی ہو سکتا ہے کہ انسانوں ، فطرتوں ، عقلوں ، قوتوں اور طاقتوں کا پیدا کرنے والا خدا کسی کو یہ کہے کہ تم یہ کام کرو یا فلاں چیز کی درستی کرو تو وہ سوچنے لگے کہ یہ کام ہو بھی سکتا ہے یا نہیں ؟ اگر وہ کام ہو نہیں سکتا تھا تو اُس نے اُس کے سپر د کیوں کیا ؟ ہوسکتا ہے کہ ایک مالدار شخص کسی مستری کے سپر د ایسا موٹر کرے جو درست نہ ہو سکے.لیکن یہ نہیں ہوسکتا کہ ایک ماہر انجینئر کسی کے سپر دالیسا کام کر دے.جو نہ ہو سکتا ہو.کیونکہ وہ خود سب کام جانتا ہے.اگر وہ یہ ای سمجھے گا کہ فلاں کام نہیں ہوسکتا تو وہ اس کام کو کسی کے سپر د کیوں کرے گا.ایک کروڑ پتی جو موٹر کی مشینری سے واقف نہیں ، ہو سکتا ہے کہ اُس کی موٹر کسی چیز سے ٹکڑائے اور اُس کے تمام اندرونی کی پرزے ٹوٹ چکے ہوں.وہ کسی مستری کو بلا کر یہ کہے کہ تم اس کو درست کر دو میں تمہیں انعام دوں گا.لیکن ایک ماہر انجینئر جس کا کام اُس موٹر کے پرزوں کو بنانا ہے ایسی حماقت نہیں کر سکتا کہ وہ جانتا ہو کہ اب موٹر کی مرمت نہیں ہو سکتی اور کسی مستری کو کہے کہ تم اسے درست کر دو.اسی طرح اگر خدا تعالیٰ کہتا ہے کہ تم نے فلاں کام کرنا ہے.تو اس کے معنی ہیں کہ تم وہ کام یقینا کر سکتے ہو.پس اگر تم کہتے ہو کہ تم وہ کام نہیں کر سکتے تو اس سے زیادہ حماقت اور کوئی نہیں.اگر تم یہ کہتے ہو کہ تم می فلاں کام نہیں کر سکتے.تو اس کے یہ معنی ہیں کہ تم خدا تعالیٰ سے زیادہ علم رکھنے والے ہو.مجھے یاد ہے پارٹیشن (Partition) کے بعد میں ایک جگہ پر گیا.وہاں ہوائی جہازوں کا ایک بڑا افسر اور صوبہ کے وزیر اعظم بھی تھے.مجلس میں سے بعض نوجوانوں نے مذہب کے متعلق بعض اعتراضات کرنے شروع کیے.چونکہ دوسرے لوگ اور باتیں کر رہے تھے میں.وزیر اعظم سے کہا ان نو جوانوں نے مذہب کے متعلق بعض اعتراضات کیے ہیں اگر آپ بُرا نہ منائیں تو میں ان کو ان اعتراضات کے جوابات دے دوں.وہ کہنے لگے آپ جواب دیں ہمیں بھی اس سے فائدہ ہوگا.چنانچہ میں نے ان اعتراضات کے جوابات دینے شروع کیے.جیسا کہ قاعدہ ہے مجلس میں بات چکر کھا جاتی ہے.اسی طرح بات چکر کھاتے کھاتے اُسی فوجی افسر تک پہنچی جو چوٹی کا افسر تھا.
$1953 289 خطبات محمود یا یوں کہوں کہ وہ اپنے محکمہ میں اپنے حصہ کا کمانڈنگ آفیسر تھا.تھوڑی دیر گفتگو کرنے کے بعد میں نے اُسے ایسا مجبور کیا اور اُسے ایسے مقام پر لا کر کھڑا کر دیا کہ اُسے اس کے بغیر چارہ نہیں تھا کہ وہ کی اقرار کرتا کہ میں غلطی پر ہوں.اور خدا تعالیٰ کا فیصلہ میرے خلاف ہے.اُس موقع پر میں نے اُس سے اس رنگ میں سوال کیا کہ اب یہ پوزیشن ہے کہ قرآن کریم کی آیات اور احادیث سے.بات واضح ہے اور احمدی غیر احمدی سب اس پر متفق ہیں.اب آپ کے لیے کوئی چارہ نہیں کہ آؤ فیصلہ کریں کہ خدا تعالیٰ عقل مند ہے یا آپ عقل مند ہیں.تھوڑی دیر خاموش رہنے کے بعد اُس چہرے کا رنگ متغیر ہوا اور اُس نے کہا میں تو سمجھتا ہوں کہ میں خدا سے زیادہ عقل مند ہوں.رحقیقت یہ اُس کی شکست کا اعتراف تھا.اس کے یہ معنی نہیں تھے کہ وہ خدا تعالیٰ سے بہتر سمجھتا ہے.بلکہ در حقیقت بات یہ تھی کہ وہ جانتا نہیں تھا کہ خدا ہے اور اُس کی تعلیم کیا ہے.اُس کی اس بات پر ساری مجلس ہنس پڑی اور وہ خود بھی ہنس پڑا.یہی پوزیشن اُس احمدی کی ہے جو ایک طرف یہ کہتا ہے کہ مرزا صاحب سچے ہیں اور آپ کو الہام کر کے خدا تعالیٰ نے اسلام کے دوبارہ احیاء کے لیے کھڑا کیا ہے اور دوسری طرف یہ کہتا ہے کہ وہ کام جو مرزا صاحب کے سپر دکیا گیا وہ میں نہیں کر سکتا.اس سے زیادہ جہالت اور کیا ہے.پس تمہارے سپر د ایک کام ہے.اور وہ ہے دنیا کی اصلاح اور اسلام کی تعلیم کو پھر سے رائج کرنا.پس پہلی چیز اس تعلیم کو اپنے نفس میں رائج کرنا ہے.جب تک تم اسے اپنے نفس میں ہے رائج نہیں کرتے تم اسے دنیا میں بھی رائج نہیں کر سکتے.لیکن تم میں سے کتنے ہیں جو ایسا کرتے ہیں جب تم کہتے ہو کہ ہم نے دنیا سے جھوٹ کو مٹانا ہے اور تم کہتے ہو کہ خدا تعالیٰ نے ہمیں اس لیے ی کھڑا کیا ہے کہ ہم دنیا سے جھوٹ کو مٹادیں تو یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ تم دنیا سے تو جھوٹ مٹانے کی طاقت رکھتے ہو اور تم جھوٹ کو اپنے دل سے نہ مٹا سکو.اگر تمہیں اس لیے کھڑا کیا گیا ہے کہ تم شرک کو دنیا سے مٹا دو تو یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ تم اسے اپنے دل سے نہ مٹا سکو اور دنیا سے مٹا دو.اگر تمہیں اس لیے کھڑا کیا گیا ہے کہ تم دنیا سے فتنہ وفساد مٹا دو تو یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ تم اسے اپنے دل سے نہ مٹا سکو اور دنیا سے مٹا دو.یہ ساری باتیں ناممکن ہیں.پس اس رنگ میں حقیقت پر غور کرو اس سے زیادہ حماقت اور کوئی نہیں کہ تم کہو مرزا صاحب وفات مسیح کا مسئلہ لے کر دنیا میں
$1953 290 خطبات محمود مبعوث ہوئے تھے.میرے خیال میں صرف ایک فاتر العقل ہی ایسا سمجھ سکتا ہے.کبھی ایسے مص دنیا میں نہیں آسکتے جو ساری دنیا کی طرف مبعوث ہوں جب تک کہ ساری اصلاحیں اُن کے سپر ہوں.ایک چو ہڑی آتی ہے اور وہ پاخانہ صاف کر کے چلی جاتی ہے.بیلدار آتے ہیں اور وہ باغ صاف کر کے چلے جاتے ہیں.گھر کی نوکرانی گھر کے کمرے صاف کر کے چلی جاتی ہے.دھو بن گھر کے کپڑے صاف کر کے چلی جاتی ہے.کلرک ، یا دفتری ، لائبریری کا کمرہ صاف کر کے چلانی جاتا ہے.لیکن مالک اور مالکہ گھر کی ساری جگہیں ہی صاف کیا کرتے ہیں.کوئی مالک یا مالکہ یہ نہیں کہتی کہ یہ صفائی میرے سپرد نہیں.چو ہڑی کہہ دے گی کہ پاخانہ صاف کرنے کے سوا میرا اور کوئی کام نہیں.دھو بن کہہ دے گی کہ کپڑے صاف کرنے کے سوا میرا اور کوئی کام نہیں.بیلدار کہہ دے گا کہ باغ صاف کرنے کے سوا میرا کوئی کام نہیں.مالی کہہ دے گا کہ میں نے لائبریری میں جا کر مار کھانی ہے.میرا کام باغ کی درستی کرنا ہے.دفتری کہہ دے گا کہ میرا کام تو لائبریری صاف کرنا ہے.گھر کے کمرے صاف کرنا نہیں.لیکن مالک کے سپر دسب کام ہیں.وہ جسے مالک کی اپنا نمائندہ بناتا ہے اُس کے سپر دسب کام ہوتے ہیں.محمد رسول اللہ ﷺ کو گھر کا مالک بنایا گیا تھا.اس لیے دنیا کی ہر اصلاح آپ کے سپرد تھی.اور اب جو آپ کا نائب ہوگا اُس کے سپر د بھی امت کے سب ہی فرائض ہوں گے.پس کوئی کام ایسا نہیں جس کے متعلق ایک مسلمان کہے کہ وہ میرے سپرد نہیں.مرزا صاحب کو خدا تعالیٰ نے کی صلى الله اس وقت داروغہ مقرر کیا ہے.کیونکہ محمد رسول اللہ ہے اس کے اصل مالک تھے.اور اب آپ ﷺ فوت ہو گئے ہیں.اب مرزا صاحب آپ کے ایجنٹ کے طور پر آئے ہیں اور تم ان کی جماعت ہو.پس ساری مرضوں کا دُور کرنا تمہارے سپرد کیا گیا ہے اور تمہاری طاقت میں رکھا گیا ہے.اگر یہ باتیں تمہاری طاقت میں نہیں تھیں تو لَا يُكَلِّفُ اللهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا والی آیت جھوٹی ہے.اور اگر قرآن کریم کی ایک آیت جھوٹی ہے تو سارا قرآن کریم جھوٹا ہے.خدا تعالیٰ کا کلام وہی ہو سکتا ہے جس کا ایک شوشہ بھی جھوٹا نہ ہو اور پھر جس کلام کا ایک شوشہ بھی جھوٹا نہیں ہوسکتا اُس کی ایک عظیم الشان آیت کیسے جھوٹی ہو سکتی ہے.جھوٹے ہو تو تم ہو.کیونکہ خدا تعالی کہتا ہے ہے کہ تم یہ کام کر سکتے ہو.اور تم کہتے ہو ہم نہیں کر سکتے.ایک استاد اپنے شاگر د کو دو سال تک
$1953 291 خطبات محمود فقہ پڑھاتا ہے.دو سال کے بعد اگر کوئی کہے کہ کیا تمہیں فقہ آتی ہے؟ اور وہ کہے کہ نہیں آتی.تو استاد کہے گا تو جھوٹا ہے.پس اگر خدا تعالیٰ کہتا ہے کہ تم فلاں کام کر سکتے ہو ، اگر خدا تعالیٰ نے تمہاری فطرت میں رکھا ہے کہ تم یہ کام کر سکتے ہو تو تم کیسے کہہ سکتے ہو کہ ہم فلاں کام نہیں کر سکتے.جس نے تمہیں کپڑے خود پہنائے وہ کیسے کہہ سکتا ہے کہ تم ننگے ہو.جس ہستی نے تمہارا دماغ بنایا ہے ، جس نے تمہاری تمام قوتیں بنائی ہیں وہ اگر کہتی ہے کہ تم فلاں کام کر سکتے ہو 66 تو تم ہزار بار کہو کہ تم فلاں کام نہیں کر سکتے تو تم جھوٹے ہی کہلاؤ گے بچے نہیں کہلا ؤ گے.“ خطبہ ثانیہ کے بعد فرمایا مجھے اس ہفتہ پاؤں کے آپریشن کے لیے لاہور جانا پڑے گا.اس پر ایک دو ہفتے لگ جائیں گے.اس لیے میں ایک دو جمعے یہاں نہیں پڑھا سکوں گا.دوست دعا کریں تکلیف لمبی ہوتی چلی جاتی ہے.ایک سال ہو گیا ہے.اور لوگ ڈراتے ہیں کہ پرانا ہو جانے کی وجہ سے زخمی اندر سے خراب ہو گیا ہے.حملے لمصلح 19 نومبر 1953 ء) اس کے بعد آپریشن یہیں ہو گیا اور لاہور جانے کی ضرورت پیش نہ آئی.:1 بخاری کتاب المغازى باب حجة الوداع 2 الوصیت روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 305 3: البقرة:287
$1953 292 35 خطبات محمود ہمارے ملک میں بعض ایسے فنون ہیں کہ اگر انہیں اب بھی استعمال میں لایا جائے تو ہمارا ملک ترقی کر سکتا ہے (فرموده 16 اکتوبر 1953ء بمقام ربوہ) تشہد ، تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا.پچھلے جمعہ میں میں نے کہا تھا کہ اس ہفتہ میں لاہور آپریشن کے لیے جاؤں گا.کیونکہ پاؤں کے زخم کو تقریباً ایک سال کا عرصہ ہو گیا ہے.چند دن ہی سال میں سے رہ گئے ہیں.پچھلے سال نومبر میں چوٹ لگی اور یہ زخم ہو گیا.پہلے خیال گزرا کہ یہ معمولی زخم ہے چند دنوں میں ٹھیک ہو جائے گا لیکن جلسہ سالانہ کے بعد زخم زیادہ خراب ہو گیا.اس کے بعد خیال پیدا ہوا کہ بوٹ کے دباؤ کی وجہ سے تکلیف زیادہ ہوگئی ہے مگر بعد میں یہ تکلیف اتنی بڑھی کہ رات کو سونا مشکل ہو گیا.اور اگر نیند آجاتی تھی تو ہر کروٹ کے ساتھ تکلیف بڑھ جاتی اور جب تک پاؤں کو آرام سے ہے پکڑ کر ایک طرف سے دوسری طرف نہ رکھا جاتا حرکت نہیں کر سکتا تھا.اس کے بعد کچھ عرصہ تک کی قیاسی طور پر علاج ہوتا رہا اور خیال تھا کہ زخم انگوٹھے کے کنارہ تک ہے کیونکہ جب ناخن کا ٹا جاتا تھا تو انگوٹھے پر تھوڑ اسا سرخ نشان دکھائی دیتا تھا جس سے معلوم ہوتا تھا کہ ناخن کے نیچے زخم ہے اور اُسی حد تک اس کا علاج ہوتا رہا.جب ناخن بڑھ جاتا تھا اُس کو کاٹ دیا جا تا تھا اور پھر زخم نظر
$1953 293 خطبات محمود آجاتا تھا.اس کے بعد خیال کیا گیا کہ ناخن گوشت کے اندر گھس گیا ہے.انگریزی میں اس کو ی Ingrowing Toe nail کہتے ہیں.اس بیماری میں ناخن گوشت کے اندر گھسنا شروع ہو جاتا ہے.مئی کے آخر میں یا جون کے شروع میں میں لاہور گیا.اور ایک ڈاکٹر کو زخم دکھایا تو اُس نے بھی کہا کہ یہی بیماری ہے.اور اس کا آپریشن کرانا ضروری ہے.چونکہ جلد ہی میں نے سفر سندھ پر جانا تھا اور وہاں جا کر کام کے سلسلہ میں گھوڑوں پر سواری بھی کرنی پڑتی ہے اس لیے ی خیال کیا کہ سواری کرنے کی وجہ سے تکلیف بڑھ جائے گی اس لیے سفر سے پہلے آپریشن نہ کرایا جائے.ڈاکٹر صاحب کو جب سفر کے متعلق بتایا گیا تو انہوں نے بھی تسلیم کیا کہ اس طرح بیماری بڑھ جائے گی اور اس عمر میں زخم دیر میں ٹھیک ہوتا ہے.اس لیے انہوں نے اس بات کی اجازت دے دی کہ آپریشن سفر سے واپسی پر کر ا لیا جائے.میں نے بھی یورپ کے سفر پر جانا ہے اُس وقت تک میں بھی سفر سے واپس آ جاؤں گا.اسی تسلسل میں جب ہم سفر سے واپس آئے تو سر جن کو اطلاع دی لیکن ساتھ ہی بعض مشکلات پیش تھیں جن کی بناء پر سفر مشکل معلوم ہوتا تھا.اسی کشمکش میں ہر دفعہ سفر آٹھ دس دن تک ملتوی ہوتا رہا.اب جس دن لاہور جانے کا ارادہ تھا اُس سے ایک دن پہلے ایک احمدی جراحی محمد اسماعیل صاحب شیخو پورہ ) آگئے.انہوں نے کہا کہ میں نے بھی ایسے علاج کیسے ہیں.میرے خیال میں اس زخم کا علاج ہو سکتا ہے.آپ مجھے زخم دکھا دیں.چنانچہ میں نے انہیں زخم دکھایا.انہوں نے بتایا میں نے اس سے قبل اس قسم کے علاج کیے ہیں.میرے نزدیک میں اس زخم کا علاج کر سکتا ہوں.آپ دو دن تک اس زخم پر پانی کی پٹی کریں.اور کچھ تدبیر میں بتائیں کہ دو دن تک ایسا کریں.تیسرے دن آکر میں آپریشن کر دوں گا.میں نے کہا ناخن کاٹنے سے تکلیف ہوگی.انہوں نے کہا ناخن کاٹنے کی وجہ سے کسی تکلیف کا احتمال نہیں ہوسکتا.چونکہ ہمارے ملک سے پرانے پیشے مفقود ہور ہے ہیں اس لیے مجھے اُن کے ایسا کہنے سے تسلی نہ ہوئی.عام طور پر ی جتنے بھی پیشے تھے باوجود اس کے کہ وہ نہایت قیمتی تھے لوگوں کی نظر میں گر گئے ہیں.چونکہ اول تو تجربہ کے ساتھ ساتھ علم کا ہونا ضروری ہوتا ہے اور وہ علمی حصہ ہمارے ملک سے جاتا رہا ہے.ہمارے ملک میں بڑے بڑے ماہر فن انجینئر ہیں.مگر علمی طور پر وہ اس کے متعلق کچھ نہیں جانتے.
$1953 294 خطبات محمود وہ یہ تو کہہ دیں گے کہ ہم ایسا کر دیں گے لیکن وہ یہ نہیں بتا سکتے کہ ایسا کیوں ہو جائے گا.کیونکہ علمی حصہ انہیں معلوم نہیں ہوتا.اگر کسی یورپین صناع سے پوچھا جائے تو وہ نہ صرف کوئی کام کر دے گا بلکہ اُس کے ساتھ ہی وہ یہ بھی بتائے گا کہ ایسا کیوں ہو جائے گا.ایک دفعہ میرے پاس ایک پرانے خاندانی معمار آئے انہوں نے کہا وہ ان لوگوں میں سے ہیں جنہوں نے شاہی قلعوں اور شاہی محلات میں فوارے بنائے تھے.اور یہ کہ وہ ایسے ایسے فوارے لگا سکتے ہیں.انہوں نے مجھے فواروں کی بڑی عجیب عجیب قسمیں بتا ئیں اور کہا اگر آپ چاہیں تو میں آپ کے باغ میں یا دار الحمد میں ایسے فوارے لگا دوں.میں نے کہا ہمارے ہاں تو ی فواروں کا رواج نہیں ہاں علمی طور پر مجھے ان باتوں سے دلچسپی ہے.میں علمی طور پر اس کے متعلق کی آپ سے بات کر لیتا ہوں.جب میں نے اُن پر جرح کی تو انہوں نے کہا کہ مجھے یہ پتا نہیں کہ یہ کیسے ہو جاتا ہے لیکن میں اس قسم کا فوارا بنا سکتا ہوں.میں نے کہا جب تک مجھے آپ یہ نہیں بتائیں گے کہ یہ کام کیسے ہو جاتا ہے مجھے تسلی نہیں ہو سکتی.دوسرے کی تسلی کے لیے ضروری ہوتا ہے کہ یہ بھی بتایا جائے کہ فلاں کام کس طرح ہو جاتا ہے.یورپین لوگوں کو دیکھ لو.جب اُن سے کوئی بات ہے دریافت کی جاتی ہے تو سب سے پہلے وہ کالج کی سند نکال کر رکھ دیتے ہیں.اور کہتے ہیں ہم اتنے ہی سال تک فلاں جگہ پڑھے ہیں اور فلاں سند ہمارے پاس ہے.اس سے سننے والے کو تسلی ہو جاتی ہے کہ اُس نے جو کچھ پڑھا ہے اُس کی وجہ سے یہ اس لائق ہے کہ اس پر اعتبار کر لیا جائے.بعض دفعہ وہ شخص نالائق بھی ہوتا ہے لیکن پانچ فیصدی ایسے کیس ہوں گے کہ وہ نالائق ہوگا.پچانوے فیصدی ایسے ہوں گے کہ وہ لائق ہو گا.بہر حال اتنا قیاس تو ہو سکتا ہے.میں نے اُس معمار سے کہا تھا کہ تمہارے پاس علمی لحاظ سے کیا دلیل ہے کہ تم پر اس بارہ میں اعتماد کر لیا جائے ؟ انہوں نے کہا میرے باپ دادے ایسے تھے.میں نے کہا مجھے اس سے کس طرح تسلی ہو سکتی ہے.میں آپ کے باپ دادوں کو تو جانتا نہیں.اُس نے کہا میں اتنا بتا سکتا ہوں کہ میں اس قسم کی چیزیں بنا سکتا ہوں.غرض ہمارے ملک میں جتنے پیشے تھے وہ اب مٹتے جا رہے ہیں اور اس کی وجہ یہ ہے کہ آہستہ آہستہ علمی حصہ ہرفن کا گر گیا ہے اور صرف عملی حصہ باقی رہ گیا ہے.اور چونکہ علمی حصہ باقی نہیں رہا اس لیے تعلیم یافتہ اور عقل مند لوگ ان پیشوں سے فائدہ اٹھانے سے گریز کرتے ہیں.ایک جاہل تو تھی
$1953 295 خطبات محمود کہہ دے گا اچھا! تمہیں فلاں فن آتا ہے.اگر وہ یہ کہہ دے گا کہ میں مُردے زندہ کر سکتا ہوں تو ایک جاہل کہہ دے گا اچھا! تم مردہ زندہ کر سکتے ہو.میرا باپ بھی مر گیا ہے تم اُسے زندہ کر دو.لیکن ایک عقل مند اُس سے پہلے یہ پوچھے گا کہ تم نے پڑھا کیا ہے؟ مثلاً اگر وہ کہے گا کہ میں بخار کا علاج کرسکتا ہوں تو وہ اُس سے دریافت کرے گا بخار کیا ہوتا ہے اور کیسے ہوتا ہے اگر وہ یہ جواب دے گا کہ مجھے پتا نہیں کہ بخار کیا ہوتا ہے تو ایک تعلیم یافتہ اور عقل مند آدمی با وجود اُس کے بیچ بولنے کے اس پر اعتبار نہیں کرے گا.پس یہ ہمارے ملک کی بدقسمتی ہے کہ سب پرانے فنون مٹ گئے ہیں.ہمارے ملک میں بڑے بڑے ماہر فن تھے جو ختم ہو گئے.رید مجھے یاد ہے ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ السلام دہلی تشریف لے گئے بعد میں آپ نے نانا جان میر ناصر نواب صاحب کو بھی وہاں بلا لیا.وہاں نانا جان کے پیٹ میں شد درد ہوئی ڈاکٹروں کو دکھایا گیا تو انہوں نے بتایا یہ اپنڈے سائٹس (APPENDICITIS) ہے اور اُس کا آپریشن کرانا پڑے گا.اور آپریشن بھی تین چار گھنٹے کے اندراندر کرانا پڑے گا ور نہ مریض کی جان خطرے میں ہے.آپ مریض کو فوری طور پر ہسپتال بھیج دیں.میر صاحب کا دل کمزور تھا.وہ آپریشن سے گھبراتے تھے.انہوں نے کہا آپریشن سے بھی مرنا ہے اور یوں بھی مرنا ہے.آپ میرا کوئی اور علاج کریں آپریشن نہ کرائیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو علم ہوا تو آپ نے فرمایا آپریشن میں زبر دستی تو نہیں کی جاسکتی.مریض کی مرضی سے ہی آپریشن کی کروایا جا سکتا ہے.اگر میر صاحب آپریشن کروانا پسند نہیں کرتے تو کسی طبیب سے علاج کرایا ہائے.چنانچہ ایک پرانا طبیب بلایا گیا.اُس نے آپ کو دیکھا اور کہا کہ میں ابھی دوا بھجواتا ہوں.وہ دوا مریض کو کھلا دی جائے.اور ایک دوا پیٹ پر لگا دی جائے درد ہٹ جائے گا.چنانچہ انہوں نے دوا بھجوائی اور وہ میر صاحب کو کھلائی گئی اور دوسری دوا پیٹ پر لگائی گئی.ہمیں پچیس منٹ کے بعد آپ سو گئے.اور چار پانچ گھنٹے کے بعد آپ بالکل تندرست ہو گئے اور چلنے پھرنے لگے گئے.اب دیکھو ایک طرف ڈاکٹر کہتا تھا یہ ا پنڈے سائٹس (APPENDICITIS) ہے اس کا فوری طور پر آپریشن کروانا پڑے گا ورنہ مریض کی جان خطرہ میں ہے.اور دوسری طرف ایک طبیب یہ کہتا ہے کہ یہ معمولی تکلیف ہے دوا سے ٹھیک ہو جائے گی.غرض کئی فنون تھے جو ہمارے
$1953 296 خطبات محمود ملک میں موجود تھے لیکن بد قسمتی سے جس طرح ہم نے دین کو ضائع کر دیا ہے.اسی طرح فنون کو ی بھی ضائع کر دیا ہے.اب یا تو وہ فنون بالکل مٹ گئے ہیں اور اگر باقی رہ گئے ہیں تو اُن کے عملی حصے باقی رہ گئے ہیں.اور بوجہ اس کے کہ اُن کی بیک گراؤنڈ (BACKGROUND) یا علمی بنیا د اچھی نہیں ان کی قدر گر گئی ہے.اب جو باتیں ایک انجینئر کہتا ہے وہی باتیں ایک معمار کہتا ہے.لیکن جب فن کے متعلق کوئی بات ہوتی ہے تو انجینئر آگے آجاتے ہیں اور معمار پیچھے بیٹھے رہتے ہیں اس لیے ان لوگوں کا اعتبار مٹ گیا ہے.جس وقت وہ حجراح میرے پاس آئے تو لازماً میرے دل میں بھی شبہ پیدا ہوا.لیکن چونکہ لا ہور جانے میں مشکلات تھیں.اس لیے میں نے خیال کیا چلو ان سے علاج کرالو.چنانچہ انہوں نے مجھے بعض تدابیر بتائیں.سو وہ تدابیر میں نے کر لیں.حقیقت یہ ہے کہ مجھے یقین نہیں تھا تے کہ وہ اس کا علاج کر سکیں گے.میں سمجھتا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے میرے لا ہور نہ جانے کے سامان پیدا ن کر دئیے ہیں.اگر میں یہیں علاج کرالوں تو میری گھبراہٹ دور ہو جائے گی.چنانچہ میں نے کل اُس جراح کو بلایا.میں نے ہدایت دی کہ ڈاکٹر منور احمد کو بھی بلا لیا جائے.چنانچہ انہیں بھی بلا لیا گیا.میں نے کہا ناخن کاٹنے سے شدید درد ہو گی.کیا اُسے روکنے کی بھی کوئی تجویز کر لی ہے؟ جراح نے کہا کہ ایسا نہیں ہوگا.میں آرام سے ناخن کاٹ دوں گا، کوئی تکلیف نہیں ہوگی.میں نے کہا آپ نے پانی کی پٹی کیوں کروائی ہے؟ انہوں نے کہا پانی کی پٹی سے گوشت الگ ہو جاتا ہے ہے.ڈاکٹر منور احمد نے کہا جہاں تک ناخن ہے بس اُس قدر کاٹا جائے.جراح نے کہا اُس قدر ناخن کاٹنے سے فائدہ نہیں ہوگا.لیکن ڈاکٹر منور احمد نے کہا اس سے زیادہ نہ کاٹیں.چنانچہ اُس نے آدھا ناخن کا ٹا اور وہ ناخن اس طرح کٹ گیا جیسے روئی کائی جاتی ہے.اور میری طبیعت پر یہ اثر پڑا کہ جراح کو یہ فن آتا ہے.ناخن کے کٹ جانے سے زخم ننگا ہو گیا اور معلوم ہوا کہ زخم ابھی آگے جاتا ہے.چنانچہ جراح نے اور ناخن کاٹنا چاہا.لیکن میاں منور احمد نے مزید ناخن کاٹنے کی تی اجازت نہ دی اور کہا مزید ناخن کاٹنے سے تکلیف ہوگی.جراح نے کہا ایسا ہر گز نہیں ہوگا.مجھے تو اب تسلی ہو چکی تھی اس لیے میں نے ناخن کے اگلے حصہ کو کاٹنے کی بھی اجازت دے دی.چنانچہ اُس.بقیہ حصہ بھی اس طرح کا ٹاکہ مجھے کوئی تکلیف نہ ہوئی.بعد میں ضرور تکلیف ہوئی.کیونکہ ناخن کا ایک
$1953 297 خطبات محمود ނ حصہ زخم میں گھسا ہوا تھا.پہلے تو یہ خیال کیا کہ یہ اگر رہ جائے تو کوئی حرج نہیں.لیکن بعد میں خیال کیا گیا کہ اگر یہ حصہ رہ گیا تو تکلیف ہوگی اس لیے جراح نے اُسے اوزار ڈال کر کھینچا جس.کافی تکلیف ہوئی.بہر حال ناخن کاٹنے کے بعد پٹی کر دی گئی.اور آج زخم کی بظا ہر کیفیت ایسی تھی جیسے آنکھ میں پھولا نکلا ہوا ہوتا ہے.اور زخم ناخن سے اونچا ہو گیا تھا.تاہم حالت درمیانی دور میں ہے.زیادہ خراب نہیں.میں نے یہ تمام قصہ جمعہ میں بیان کر دیا ہے.کیونکہ دوست ملنے آتے ہیں یا خطوط لکھتے ہیں تو بات کو گرید تے رہتے ہیں.روزانہ پیغام آتے رہتے ہیں اب کیا حال ہے کیا علاج کیا؟ اس سے کیا فائدہ ہوا؟ آئندہ کیا علاج کرانے کا ارادہ ہے؟ اس سے طبیعت گھبرا جاتی ہے ہے.اور بعض دفعہ تو ملاقات میں یہ سلسلہ اتنا بڑھ جاتا ہے کہ ترشی سے بات ختم کرنا پڑتی ہے.حضرت خلیفتہ اسیح فرمایا کرتے تھے.بندر کا زخم جلد اچھا نہیں ہوتا.جب کسی بندر کو کوئی زخم ہو جاتا ہے تو دوسرے بندر آکر زخم میں انگلی ڈال ڈال کر دیکھتے ہیں.جس سے زخم بڑھ جاتا ہے ہے اور زخمی بندر چڑ جاتا ہے اور پھر بھاگ کر جنگل کے کسی کونے میں چلا جاتا ہے.بہر حال بار بار ایک ہی قسم کے سوال سے طبیعت چڑ جاتی ہے.میری طبیعت تو بچپن سے کمزور ہے.مجھے یاد ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنی وفات سے دس پندرہ دن پہلے ہے ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب کو بلایا اور فرمایا ذرا محمود کو دیکھئے.مجھے تو اپنی صحت سے زیادہ اس کی صحت کا خیال ہے.میری اُس وقت ایسی حالت تھی کہ عام طور پر یہ خیال کیا جا تا تھا کہ میری عمر تمیں پینتیس سال سے زیادہ نہیں ہوگی.لیکن خدا تعالیٰ کا فضل ہے کہ میں اب اس سے قریباً دگنی عمر کو پہنچ چکا ہوں.طبیعت اگر چہ کمزور ہی رہتی ہے.کبھی کوئی تکلیف ہو جاتی ہے اور کبھی کوئی تکلیف.لیکن پھر بھی اتنی عمر تک پہنچ چکا ہوں.یہ محض خدا تعالیٰ کا فضل ہے.ہمارے ایک غیر احمدی دوست تھے بعد میں وہ احمدی ہو گئے.وہ احمدی ہونے سے چار پانچ سال پہلے قادیان آیا کرتے تھے.وہ جب بھی قادیان آتے مجھے ملنے کے لیے ضرور آتے.اور جب بھی آتے مجھے کھانسی یا کوئی اور تکلیف ہوتی.ایک دن کہنے لگے آپ کو اتنی کھانسی ہے آپ جلسہ پر تقریر کیسے کریں گے؟ لیکن جب تقریر کی تو وہ چھ گھنٹے کی لمبی تقریر ہو گئی.دو تین سال بعد وہ دہلی کی جماعت کے ساتھ مجھے ملنے آئے تو کہنے لگے میں ایک بات پوچھنا چاہتا ہوں.میں نے کہا تھا
$1953 298 خطبات محمود بڑے شوق سے پوچھیں.کہنے لگے کہ آپ سچ سچ بیمار رہتے ہیں یا بہانے بنایا کرتے ہیں؟ میں اُن کی کے اس سوال پر حیران ہوا.وہ کہنے لگے ہم جب آپ کی مجلس میں آتے ہیں تو آپ کھانس رہے ہوتے ہیں.اور اس قدر کھانسی ہوتی ہے کہ ہم سمجھتے ہیں آپ چھوٹی سی تقریر بھی نہیں کر سکیں گے.لیکن جب تقریر کرتے ہیں تو وہ چھ چھ گھنٹے تک کی لمبی ہو جاتی ہے.میں نے کہا یہ خدا تعالیٰ کا فضل ہے کہ بیمار بھی ہوتا ہوں تو وہ مجھ سے کام لے لیتا ہے.پس میں نے یہ سارا واقعہ اس لیے بیان کر دیا ہے کہ لوگ محبت کی وجہ سے زخم کے متعلق پوچھتے رہتے ہیں.سوکل ناخن کاٹا گیا ہے.اب دباؤ پڑے تو تکلیف ہوتی ہے ورنہ درمیانی کیفیت ہے.گوشت کا ٹکڑا لمبا ہو گیا ہے اور پھولا سا معلوم ہوتا ہے.دوسرے مجھے اس سے خیال آیا کہ ہمارے پاس جو علوم تھے اور جن کی وجہ سے ہم دنیا میں سر بلند ہو سکتے تھے افسوس کہ ہم نے ان سے پوری طرح فائدہ نہیں اٹھایا.اس بیماری کے کی سلسلہ میں ڈاکٹر حشمت اللہ صاحب لاہور گئے ہوئے تھے.انہوں نے ایک احمدی ڈاکٹر سے اس بات کا ذکر کر دیا کہ میں ایک جراح سے علاج کروانا چاہتا ہوں تو وہ ڈاکٹر صاحب چونکہ دیسی طب کے سخت خلاف ہیں اس لیے کہنے لگے آپ حضور سے میری طرف سے عرض کر دیں کہ ایسا ہر گز نہ کرائیں.اور اگر ایسا کرانا ہی ہے تو پھر ہمیں بھی داتا گنج بخش صاحب کے دربار میں جانے کی اجازت دے دیں.یعنی جس طرح وہاں جانا بیوقوفی کی بات ہے اسی طرح کسی دیسی جراح سے جانا کی.علاج کروانا بھی بیوقوفی کی بات ہے.بہر حال ہمارے ملک میں بعض ایسے فنون ہیں کہ اگر انہیں اب بھی استعمال میں لایا جائے تو ہمارا ملک ترقی کرسکتا ہے.“ غیر مطبوعہ مواد از خلافت لائبریری ربوہ )
$1953 299 36 خطبات محمود ان ذرائع کو اختیار کرنے کی کوشش کرو جن سے اللہ تعالیٰ کی اور بنی نوع انسان کی محبت حاصل ہوتی ہے (فرموده 23 اکتوبر 1953ء بمقام ربوہ) تشہد ، تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا.سفر سندھ سے واپسی کے فوراً بعد پہلے تو مجھے ایک مسا 1 کا آپریشن کروانا پڑا جو میر - پیٹ پر تھا.اس کے چند دن بعد پاؤں کے انگوٹھے کا ناخن کٹوایا جس کی وجہ سے میں چلنے پھرنے سے معذور رہا.اس دوران میں پچھلے جمعہ کے لیے میں مسجد میں آ گیا.جس کی وجہ سے تکلیف بڑھ گئی.میری صحت کو سارا دن لیٹے رہنے اور حرکت نہ کر سکنے کی وجہ سے اچھا خاصا نقصان پہنچا ہے.اگر صحت ہو جائے تو چلنے پھرنے سے حالت ترقی کر سکتی ہے.لیکن چلنا پھرنا بھی مشکل ہے.سارا دن حرارت رہتی ہے، گلا خراب رہتا ہے اور آواز بھی بیٹھی ہوئی ہے.اس وجہ سے میں آج خدام الاحمدیہ کے اجتماع میں افتتاح کے لیے بھی نہیں جاسکتا.لیکن میں اس خطبہ کو ہی اپنی افتتاحی تقریر کے ساتھ ملا دیتا ہوں.اور بعض نصائح خدام الاحمدیہ کو کر دیتا ہوں تا وہ انہیں اپنے سامنے رکھیں اور انہیں اپنا مقصد بنا ئیں.
خطبات محمود 300 $1953 اسلام کا ابتدائی مسئلہ بلکہ ہر مذہب کا ابتدائی مسئلہ اللہ تعالیٰ پر یقین رکھنا ہے.خدام الاحمدیہ بھی چونکہ ایک مذہب کے متبع ہیں بلکہ ایک ایسے مذہب کے متبع ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے آخری زمانہ کے لیے چنا اور قیامت تک کے لیے پکا یعنی نبی عربی یا اللہ کا لایا ہوا اسلام.اس لیے ان کے لیے سب سے زیادہ ضروری ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی ہستی پر اپنا یقین بڑھا ئیں.جتنی خرابیاں دنیا میں پیدا ہوتی ہیں وہ خدا تعالیٰ پر یقین کی کمزوری کی وجہ سے پیدا ہوتی ہیں.پھر اس کے ساتھ ضروری بات یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے احسانوں اور ان نیکیوں کو یا درکھیں جو وہ اپنے بندوں کے ساتھ عموماً اور اپنے ایمان دار بندوں کے ساتھ خصوصاً کرتا ہے.تم اُس کی صفات کو کنو.تمہیں اکثر ایسی صفات نظر آئیں گی جو رحم کرنے والی ہیں.اور بہت کم ایسی صفات نظر آئیں گی جو سزا دینے والی ہیں.میں نے خدا تعالیٰ کی سزا دینے والی صفات گئی تو نہیں شاید ننانوے صفات میں سے جو مشہور ہیں چھ سات صفات سز ا والی نکلیں.اور اس کے مقابلے میں شاید پچاس ساٹھ وہ صفات نکلیں جو انعام ، اکرام، احسان اور خبر گیری کرنے والی ہیں.اور کچھ ایسی صفات نکلیں گی جو خدا تعالیٰ کی الوہیت کے ساتھ خاص تعلق رکھتی ہیں.بظاہر وہ انسانوں کے ساتھ تعلق نہیں رکھتیں.اس سے بھی پتا لگ جائے گا کہ اسلام کا خدا محبت کرنے والا خدا ہے.تم یہ نہی دیکھو کہ مولوی خدا تعالیٰ کو کس طرح پیش کرتے ہیں.تم یہ دیکھو کہ قرآن کریم خدا تعالیٰ کو کیسے پیش کرتا ہے ہے.مولوی جب خدا تعالیٰ کو پیش کرتا ہے تو وہ اُسے ہوا کی شکل میں دکھاتا ہے.مگر جب تم قرآن کریم پڑھتے ہو تو تم اُسے شروع ہی اس آیت سے کرتے ہو.کہ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ الرَّحْمَنِ الرَّحِیم 2 کہ وہ رب العالمین خدا ہے.رحمان خدا ہے.رحیم خدا ہے.سورۃ فاتحہ میں جو صفات الہیہ بیان کی گئیں ہیں اُن میں سے چوتھی صفت مُلِكِ يَوْمِ الدِّينِ 3 ہے.جس میں سزا کا ذکر ہے.لیکن جتنا سزا کا ذکر ہے اُتنا ہی انعام کا بھی ذکر ہے.گویا آٹھواں حصہ سزا کا ہے.یا سو میں سے ساڑھے بارہ حصے سزا ہوئی اور ساڑھے ستاسی حصے رحم کے ہوئے.لیکن چونکہ وہ خدا فرماتا ہے کہ ہمارا رحم ہر چیز پر غالب ہے اس لیے مُلِكِ يَوْمِ الدِّینِ میں سے سزا کا حصہ نصف نہیں ماننا پڑے گا.اگر اسے آدھا فرض کیا جائے تو پھر صورت یہ ہوگئی کہ پونے چورانوے حصے رحم کے ہیں اور صرف سوا چھ حصے سزا کے ہیں.لیکن جس طرح ایک مولوی خدا تعالیٰ
$1953 301 خطبات محمود کو پیش کرتا ہے اس میں ننانوے حصے عذاب کے آتے ہیں اور ایک حصہ رحم آتا ہے.پس ہمارا ی فرض ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ کی صفات اور اُس کی محبت پر ایمان رکھیں.جس طرح اللہ تعالیٰ نے اپنی صفات کو بیان کیا ہے نہ کہ جس طرح لوگوں نے بیان کیا ہے ، لوگوں کو خدا تعالیٰ کا کیا پتا خدا تعالیٰ کو خود اپنا پتا ہے.اس لیے یہ دیکھنا چاہیے کہ خدا تعالیٰ نے کیا کہا ہے.صلى اللهم پھر تم اپنی ذات میں اس تعلیم کے لانے والے انسان کو یادرکھو اور اس کے احسانوں کو تازہ رکھو.محمد رسول اللہ ﷺ نے اپنے نمونہ، قربانی اور خدمت سے جو کام کیا وہ تو ہے ہی.سب سے بڑی چیزی جو ہے وہ قرآن کریم ہے جو آپ لائے.قرآن کریم کے اندر اتنی ہدایت ہے، اتنا عرفان ہے، اتناعلم ہے کہ اگر ہم سوچیں سمجھیں اور صحیح طور پر عمل کریں تو کسی اور چیز کی ضرورت باقی نہیں رہتی.بلکہ اگر ہم اسے صحیح طور پر سمجھیں سوچیں اور اس پر عمل کریں تو ہمارے پاس وہ کچھ آجاتا ہے جو باقی دنیا کے پاس نہیں.بلکہ حقیقت یہ ہے کہ ہمارے پاس وہ کچھ آجاتا ہے کہ اسے دیکھ کر ہمیں دوسری دُنیا حسرت کے ساتھ دیکھتی ہے.جیسا کہ قرآن کریم میں ہی آتا ہے کہ رُبَمَا يَوَدُّ الَّذِينَ كَفَرُوا لَوْ كَانُوا مُسْلِمِينَ 4 - پھر تمہیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ جیسے ایک سمندر میں گودنے والے ایک دوسرے کا خیال رکھتے ہیں جیسے سفروں میں لوگ آپس میں محبت کا سلوک کرتے ہیں اور ایک دوسرے سے تعلق قائم کر لیتے ہیں.ایک ہندوستانی جب جاپان میں جاتا ہے تو وہ سب دشمنی بھول جاتا ہے اور باقی ہندوستانیوں کے ساتھ محبت اور پیار سے رہتا ہے.اس دنیا میں بھی انسانوں کی یہی حالت ہے.اگر ہم خدا تعالیٰ کو سمجھیں تو یہ دنیا ایسی ہی ہے.بچہ ماں کے پیٹ سے آتا ہے.وہ اپنے ساتھ کچھ نہیں لاتا اور نہ اس جہان کے متعلق اسے کچھ علم ہوتا ہے.جس طرح کشتی سمندر میں چھوڑ دی جاتی اوی ہے اُسی طرح وہ اس دنیا میں آجاتا ہے.گویا ہم سارے اس دنیا میں آنے والے ایک ہی ملک کے ہیں یعنی حضرت الہی سے آئے ہیں.اگر خدا تعالی خالق ہے تو ہمیں ماننا پڑے گا کہ اُسی کے حضور سے ساری مخلوق آئی ہے.گویا ایک ہی ملک کے باشندے ایک جگہ پر آئے ہیں.اور جو جذ بہ غیر ملک کے رہنے والوں میں ہوتا ہے کیا وجہ ہے کہ وہ انسانوں میں نہ ہو.لیکن عملی طور پر ہم میں وہ جذ بہ نہیں پایا جاتا.اس کی وجہ یہی ہے کہ ہم اس چیز کو بھول جاتے ہیں کہ ہم ایک ہی مقام
$1953 302 خطبات محمود سے آئے ہیں.کوئی کہتا ہے میں خود بخود اس دنیا میں آگیا ہوں.کوئی کہتا ہے مجھے برہمانے پیدا کیا ہے.کوئی کہتا ہے مجھے خدا نے پیدا کیا ہے.کوئی کہتا ہے مجھے گاؤ نے پیدا کیا ہے.اور کوئی کہتا ہے کہ مجھے پر میشور نے پیدا کیا ہے.کوئی کہتا ہے مجھے اللہ نے پیدا کیا ہے.اور یہ نہیں جانتے کہ یہ سارے ایک ہی وجود ہیں.پر میشور بھی وہی ہے، برہما بھی وہی ہے، اللہ بھی وہی ہے.فرق صرف ی یہ ہے کہ غیر قوموں نے اللہ تعالیٰ کو صفاتی نام دے دیئے ہیں اور عربوں نے اسے ایک ذاتی نام دے دیا ہے.اور ذاتی نام صفاتی نام سے زیادہ مکمل ہوتا ہے.اگر لوگ سمجھتے کہ وہ سارے ایک ہی ملک سے آئے ہوئے ہیں، اگر وہ سمجھتے کہ ہم اس دنیا میں بالکل ایک وارث کی طرح ہیں تو وطنیت کی وجہ سے وہ ایک دوسرے سے محبت کرتے.نیکی کا سلوک کرتے.وہ سمجھتے کہ ہم سب کا ایک ہی مشن ہے، ایک ہی کام ہے.اس لیے ہمیں مل کر کام کرنا چاہیے تا قیامت کے دن حضرت الہی کی عزت کے ساتھ ہمارا استقبال کریں.غرض بنی نوع انسان کی محبت کو بڑھانے کی کوشش کرنی کی چاہیے.اور اُن ذرائع کا استعمال کرنا چاہیے جن پر عمل کرنے سے خدا تعالیٰ کی محبت حاصل ہوتی ہے.اور وہ ذرائع نماز ، روزہ ، زکوۃ، حج اور ذکر وفکر ہیں.یه ساری باتیں ایسی ہیں جن سے خدا تعالیٰ کی محبت اور اسکی اطاعت کا اظہار ہوتا ہے.اللہ تعالیٰ پر ایمان لانا اور چیز ہے اور اُس سے محبت کرنا اور چیز ہے.مثلاً تمہارے گھر میں کوئی بچہ بیمار ہو جاتا ہے.اس کے لیے تم کوئی دوا تلاش کرتے ہو.وہ دوا تمہیں بازار سے ملتی نہیں.تم مایوس ہو جاتے ہو.ڈاکٹر کہتے ہیں کہ اگر یہ دوانہ ملی تو بچہ کی جان نہیں بچ سکتی.اُدھر ماں روتی ہے ادھر باپ غمگین ہوتا ہے.اچانک رات کو کوئی آکر دروازہ پر دستک دیتا ہے.تم دروازہ کھولتے ہو تو وہ تمہیں وہی دوا جس کی تمہیں ضرورت ہے دیتا ہے اور چلا جاتا ہے.اب تمہیں یہ تو خیال رہے گا کہ رات کو جس شخص نے تمہیں وہ دوا دی تھی اُس نے تم پر بڑا احسان کیا ہے اور تمہارے بچے کی جان بچانے میں اس نے تمہاری مدد کی ہے.لیکن تمہارے اندر اس کے متعلق ہمدردی کا کوئی جذبہ نہیں ہوگا.کیونکہ تم نے اُسے دیکھا نہیں.وہ اندھیرے میں آیا اور اندھیرے میں غائب ہو گیا.اگر وہی شخص جس نے تم پر اتنا بڑا احسان کیا ہو تمہیں مل جائے تو تم اس کی طرف کوئی توجہ نہیں کرو گے.لیکن اگر تمہیں پتا لگ جائے کہ فلاں شخص نے تم پر احسان کیا ہے اور وہ تمہیں رستہ میں مل جائے تو تم
$1953 303 خطبات محمود اُس سے چمٹ جاؤ گے.اسی طرح اللہ تعالیٰ کو ماننا اور چیز ہے اور اسکے احسانوں کو جانا اور اُن کا ذکر کرنا اور چیز ہے.اگر کوئی شخص کسی سے اندھیرے میں احسان کر جائے تو وہ اس کا ذکر تو کرتا رہے گا.لیکن ذاتی طور پر اس سے محبت کے جذبات پیدا نہیں ہوں گے.اسی طرح جس ذات نے تمہیں پیدا کیا ہے.اُس پر ایمان لانا بالکل اور چیز ہے.اور یہ سمجھنا کہ جو کچھ تمہارے پاس ہے اُسی کا دیا ہوا ہے اس کے ساتھ جو جذ بہ محبت پیدا ہوتا ہے وہ بالکل اور چیز ہے.پس تم نماز ، روزہ ، زکوۃ ، اور ذکر و فکر سے خدا تعالیٰ سے محبت پیدا کرو.یہ تمام چیزیں خدا تعالیٰ سے محبت پیدا کرنے کے ذرائع ہیں.ان ذرائع کو اختیار کئے بغیر تم خدا تعالیٰ کے ساتھ محبت پیدا نہیں کر سکتے.ہزاروں لوگ دنیا میں ایسے پائے جاتے ہیں جو ماں باپ کے احسانوں کو دیکھتے ہوئے بھی ان کے ساتھ محبت نہیں کرتے.اور کئی ایسے لوگ ہیں جو ماں باپ سے محبت کرتے ہی ہیں.اور کئی لوگ ایک وقت تک بھٹکے رہتے ہیں اور پھر اُن کے اندر اطاعت پیدا ہو جاتی ہے.اللہ تعالیٰ کی عبادات کے ذریعہ بھی دل میں صفائی پیدا ہوتی ہے.اور وہ زنگ دور ہوتا ہے جس کے ساتھ انسان کے اندر طبعی جذبات پیدا نہیں ہو سکتے.انسان کی فطرت تو یہ ہے کہ وہ اپنے محسن سے محبت کرنے لگ جاتا ہے.جیسے رسول کریم ﷺ نے فرمایا.جُبِلَتِ الْقُلُوبُ على حُبِّ مَنْ اَحْسَنَ إِلَيْهَا 5- یعنی انسانوں کے دل اس طرح پیدا کئے گئے ہیں کہ جو شخص ان پر احسان کرے انہیں اُس سے محبت پیدا ہو جاتی ہے.لیکن کئی لوگ ایسے ہیں جو خدا تعالیٰ کے سارے احسانوں کے باوجود اسے بھول جاتے ہیں.یہ چیز غیر طبعی ہے.ورنہ انسان کی فطرت یہی ہے کہ وہ اپنے احسان کرنے والے سے محبت کرتا ہے.لیکن کئی دفعہ گنا ہوں اور بد عادتوں کی وجہ سے انسانی فطرت سے دور جا پڑتا ہے.فطرتی جذبات کو دوبارہ ابھارنے کے لیے نماز ، روزہ، زکوۃ ، اور ذکر الہی کی ضرورت ہے.یہ چیزیں انسان کو یکدم ہوش دلا دیتی ہیں کہ اُس نے فلاں ڈیوٹی ادا کرنی ہے.اکثر آدمی ایسے ہوتے ہیں جو اپنے فرائض کو بھول جاتے ہیں.پھر سونٹے سے انہیں اس طرف توجہ پیدا ہوتی ہے.ہمارے صلحاء اور اولیاء میں سے ایک بزرگ ولایت کے مقام کو حاصل کرنے سے پہلے دنیا دار تھے.وہ دنیاوی کاموں اور لہو و لعب میں ہمیشہ مشغول رہتے تھے.ایک بزرگ نے جو اُن سے پہلے کے
$1953 304 خطبات محمود واقف تھے دیکھا کہ وہ حج بیت اللہ کر رہے ہیں.اور انہیں عبادت میں اتنا خشوع وخضوع حاصل ہے کہ وہ دوسروں کے لیے نمونہ بنے ہوئے ہیں.انہوں نے ان سے پوچھا کہ تمہاری حالت تو یہ تھی کہ تم ہر وقت لہو ولعب میں مشغول رہتے تھے اور خدا تعالیٰ کی طرف تمہیں توجہ پیدا ہی نہیں ہوتی تھی.اب تم میں یہ خشوع و خضوع اور تقویٰ کیسے پیدا ہو گیا.انہوں نے کہا میں ایک دن اپنے مکان پر بیٹھا تھا تھا.دوسرے دوست بھی میرے ساتھ تھے.مغنیات گانے کے لیے آئی ہوئی تھیں.باجے گاجے پاس رکھے تھے.گویا تعیش کے سب سامان موجود تھے.اور قریب تھا کہ مجلس گرم ہوتی ہے کہ ایک شخص رستہ سے گزرا.جب وہ میرے مکان کے نیچے پہنچا تو یہ آیت پڑھتا جارہا تھا کہ اَلَمْ يَأْنِ لِلَّذِينَ آمَنُوا أَن تَخْشَعَ قُلُوبُهُمْ لِذِكْرِ اللهِ 6- کیا مومنوں پر ابھی وہ گھڑی میں آئی کہ خدا تعالیٰ کا نام سن کر اُن کا دل ڈر جائے اس بزرگ نے کہا مجھے پتا نہیں اس شخص کی زبان میں کیا تاثیر تھی.اس آیت کا میرے کانوں میں پڑنا تھا کہ میں نے آگے بڑھ کر باجے گاجے تو ڑی دیئے اور دوستوں کو باہر نکال دیا.وضو کیا اور نماز پڑھی اور اللہ تعالیٰ سے اپنے گناہوں کے لیے ستغفار کیا اور اس کے بعد سب جائیدا دلٹا کر حج کے لیے روانہ ہو گیا..اور اب ہجرت کر کے یہیں آ گیا ہوں.دوسرے بزرگ کہتے ہیں مجھے تعجب ہوا کہ اللہ تعالیٰ کس طرح دلوں کو بدل دیتا ہے کہ عین مجلس تعیش میں ایک انسان جس نے شاید بطور تصنع بھی سادہ قرآن کریم نہ پڑھا ہو کسی کی زبان سے قرآن کریم کی ایک آیت سنتا ہے اور اس سے اُس کے دل کی کھڑ کی کھل جاتی ہے اور ی وہ اپنے گنا ہوں سے تو بہ کر لیتا ہے.پس انسان پر مختلف اوقات آتے رہتے ہیں.لیکن ان کے لانے کے لیے کوشش کرنی پڑتی ہے.پس تم نماز ، روزہ ، ذکر الہی اور فکر کی عادت پیدا کرو.انسان خدمت خلق کے ذریعہ دنیا میں امن قائم کرتا ہے تو نماز، روزہ اور ذکر الہی کے ساتھ اپنے دل میں امن پیدا کرتا ہے.اور کامل امن اُسی وقت نصیب ہوتا ہے جب گھر میں بھی امن ہو اور باہر بھی امن ہو.تم بھی خدا تعالیٰ کی کے سپاہیوں میں شامل ہو.اس لیے تم یا درکھو کہ خدا تعالیٰ کے سپاہی لٹھ باز نہیں ہوتے.خدا تعالیٰ کی کے سپاہی اپنی زبانوں کو اُس کے ذکر سے تر رکھنے والے ہوتے ہیں.کہلاتے دونوں سپاہی ہی ہیں.دنیا دار بھی اور دین دار بھی.لیکن ایک سپاہی کا کام عجز وانکساری اور فروتنی ہوتا ہے اور
خطبات محمود 305 $1953 دوسرے سپاہی کا کام لاف زنی ، تکبر اور غرور ہوتا ہے.کبھی کبھی یہ سپاہی بھی اچھا کام کر لیتا ہے.لیکن اس کے کام کو دوسرے کے کام سے کوئی نسبت نہیں ہوتی.کیونکہ یہ انسانوں سے آزادی دلاتا ہے اور دوسرا شیطانوں سے آزادی دلاتا ہے.“ ہفت روزه بدر قادیان 14 جنوری 1954ء 1 مشا: گوشت کا سیاہ دانہ جو بدن پر پڑ جاتا ہے.بڑاتل.خال کلاں (فیروز اللغات اردو جامع فیروز سنز لاہور ) 2: الفاتحہ: 2،3 3: الفاتحہ : 4 4 : الحجر :3 5 كنز العمال في سنن الاقوال و الافعال الباب الثالث فى الحكم و جوامع جلد 16 صفحہ 48 نمبر 44095.بیروت لبنان 1998ء.الحديد : 17 تذکرة الاولياء صفحہ 59 تا 61 مطبوعہ لاہور 2008ء
$1953 306 37 خطبات محمود ربوہ وہ مقام ہے جہاں پر تم محض خدا تعالیٰ کی خاطر ہجرت کر کے آباد ہوئے ہو (فرموده 30 اکتوبر 1953ء بمقام ربوہ) تشہد ، تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا.دو کسی فارسی شاعر نے کہا ہے.ہر سخن وقتے و پرنکته مقامی دارد یعنی ہر بات کا ایک محل ہوتا ہے اور ہر نکتہ ایک مقام رکھتا ہے.جب کوئی بے محل بات کی جائے تو وہ طبیعتوں پر گراں گزرتی ہے اور جب کوئی بے موقع نکتہ بیان کیا جائے تو وہ بھی شاق گزرتا ہے.اسی طرح اگر کسی محل کے مطابق کوئی ضرورت ہو اور وہ پوری نہ کی جائے تو وہ بھی طبیعتوں پر گراں گزرتی ہے.اور اگر کسی جگہ کوئی نکتہ بیان کرنے کی ضرورت ہو اور وہ بیان نہ کیا جائے تو بھی طبیعتیں اُسے پسند نہیں کرتیں.یہ ایک شاعر کا کلام ہے.لیکن یہ کلام اپنے اندر ایک حکمت رکھتا ہے.اس کے اندر ایک صداقت بیان کی گئی ہے جس کا انکار انسانی عقل اور سمجھ نہیں کر سکتی.کوئی بات جو بے موقع کہی جائے طبائع اُسے نا پسند کرتی ہیں اور اُسے بے وقوفی جماعت یا بچپن قرار دیتی ہیں.
خطبات محمود 307 $1953 مثلاً تم مسجد میں نماز کے لیے جمع ہو اور سارے کے سارے قبلہ رو ہو کر بیٹھے ہو.خطبہ ہو رہا ہے اور اس کے مناسب حال تم خاموش بیٹھے ہو.اور عبادت کے پیش نظر تم ذکر الہی کرر.ہو اور دینی خیالات تمہارے دلوں میں پیدا ہورہے ہیں.تو یہ نظارہ دیکھ کر ہر ایک کے دل پر نیک اور اچھا اثر ہو گا.لیکن یہاں سے اٹھا کر اگر تمہیں میدانِ جنگ میں لے جایا جائے اور وہاں تم اسی کی طرح بیٹھ جاؤ تو تمہاری یہی حرکت جو یہاں پسندیدہ ہے وہاں نا پسندیدہ ہو جائے گی.مثلاً اگر دشمن مشرق کی طرف ہے اور تم مغرب کی طرف منہ کر کے بیٹھ جاؤ اور ذکر الہی میں مصروف ہو جاؤ تو کوئی شخص تمہیں یہ نہیں کہے گا کہ تم مومن ہو یا تمہارا ایمان کامل ہے.ہر ایک یہی کہے گا کہ تم بڑے بے وقوف ہو.یا مثلاً کھیل کے میدان میں نوجوان کھیلنے جاتے ہیں تو بڑی عمر کے لوگ بھی اُن کی حوصلہ افزائی کی اور کھیل سے لطف اندوز ہونے کے لیے وہاں چلے جاتے ہیں.کھیل کے میدان میں فٹ بال رکھا ت ہوتا ہے.ایک لڑکا دوڑ تا آتا ہے اور اُسے زور سے پیر مارتا ہے.اُس کے دوڑنے کے طریق کو لوگ پسند کرتے ہیں اور جس شان سے وہ پیراٹھاتا ہے لوگ اُسے بھی پسند کرتے ہیں.اور جس طرح وہ فٹ بال کو پیر لگاتا ہے اُسے بھی پسند کرتے ہیں.لیکن اگر ہم نماز کے لیے بیٹھے ہوں اور کوئی شخص دوڑتا ہوا آئے اور وہ اپنا پیراٹھا کر زور سے کسی شخص کی پیٹھ پر مارے تو کوئی شخص اس کی حرکت پر واہ واہ نہیں کہے گا.بلکہ اردگرد کے لوگ کھڑے ہو جائیں گے اور کہیں گے کوئی پاگل آگیا ت ہے.اور اگر انہیں یہ معلوم ہو جائے کہ وہ شخص پاگل نہیں تو وہ اُسے ناشائستہ اور بد تہذیب قرار دیں گے.حرکت وہی ہے جو ایک کھلاڑی کی ہے.لیکن اس پر کوئی شخص تحسین و مرحبا نہیں کہتا.بلکہ لوگ اُسے بے وقوف ، پاگل یا بد تہذیب قرار دیتے ہیں اور ناشائستہ کہتے ہیں.زکوۃ کتنی ضروری چیز ہے.بنی نوع انسان کی ہمدردی اور ان کی ضروریات کو پورا کرنے کی کی کوشش کرنا ، پسندیدہ امر سمجھا گیا ہے.اور اسے دین کا جزو قرار دیا گیا ہے.لیکن اس کے متعلق کی بھی اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم اپنے ہاتھوں کو بالکل بھی نہ کھول دو 1.اور رسول کریم ﷺ فرماتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کے راستے میں اپنا سب کچھ دے دینا.اور اس کا یہ نتیجہ ہونا کہ رشتہ دار دوسروں کے آگے ہاتھ پھیلاتے پھریں کوئی نیکی نہیں ھے.پس ہر چیز موقع کے لحاظ سے اچھی ہوتی ہے.کھیل
$1953 308 خطبات محمود کی جگہ کھیل ہو.عبادت کی جگہ عبادت ہو.کھیل کے میدان میں جاؤ تو بے شک کھیلو گو دو لیکن اگر عبادت کی جگہ میں آؤ تو عبادت میں لگ جاؤ.نماز کے وقت تو نماز ہوتی ہی ہے.لیکن اگر نماز کے وقت کے بعد بھی تم مسجد میں جاؤ تو یہی حکم ہے کہ ادب سے بیٹھو اور ذکر الہی کرو.یہ مقام یعنی ربوہ جس کو خدا تعالیٰ نے تمہارے لیے بطور مقام ہجرت پچتا ہے یہ بھی ایسے ہی ہی مقامات میں سے ہے جن کی مثال ایک مسجد کی سی ہے.اور اس جگہ جب کوئی شخص آکر بستا ہے، خواہ وہ چھوٹا ہو یا بڑا، عورت ہو یا مرد ، پڑھا ہوا ہو یا ان پڑھ، اس کا فرض ہوتا ہے کہ وہ اس کی اہمیت کو مد نظر رکھ کر اپنی زندگی گزارے.رسول کریم ﷺ فرماتے ہیں ہجرت کئی قسم کی ہوتی ہے.کوئی ہجرت ایسی ہوتی ہے کہ انسان خدا تعالیٰ کے لیے ہجرت کر کے جاتا ہے.پس وہ خدا تعالیٰ کی کے لیے ہی اپنی زندگی وقف کرتا ہے.اور کوئی ایسی ہجرت ہوتی ہے کہ انسان کسب مال کے لیے ہجرت کرتا ہے.اس پر وہ اپنے اوقات کو کسب مال کے لیے ہی خرچ کرتا ہے.پھر کوئی ہجرت کی ایسی ہوتی ہے کہ انسان کو کوئی عورت پسند آجاتی ہے تو وہ اُس کے حصول کی کوشش کے لیے ہجرت کر کے جاتا ہے 3.پس وہ ہر وقت اسی دھن میں لگا رہتا ہے کہ لڑکی والے اُس پر خوش ہو جائیں اور اسے رشتہ مل جائے.پس جس کام کے لیے انسان اپنے گھر سے باہر نکلتا ہے وہ اپنا وقت اس کی کے مطابق خرچ کرتا ہے.جب وہ اُس کام کے مطابق اپنا وقت خرچ نہیں کرتا ہے تو اُسے لغوا اور بے ہودہ قرار دیا جاتا ہے.اب جو ہجرت دین کے لیے ہوتی ہے اور جو مقام مقامِ دین قرار پاتا ہے وہ سارے کا سارا ایک قسم کا مسجد کا رنگ اختیار کر لیتا ہے.خانہ کعبہ کو لے لو.وہ تو مسجد ہے ہی.لیکن خود مکہ میں رہنا بھی ایک قسم کا مسجد میں رہنا ہے.جو شخص مکہ میں رہے اُس کا فرض ہے کہ اپنے فارغ اوقات کو عبادت میں لگائے.مسجد نبوی بھی ایک مسجد ہے.لیکن جو شخص اُس کے ماحول میں رہتا ہے اُس سے بھی یہ اُمید کی جائے گی کہ وہ سمجھے کہ وہ مسجد میں رہ رہا ہے.کیونکہ ہر جگہ کے مناسب حال انسان کے اندر خیالات پیدا ہوتے ہیں.اگر ماحول نیک ہے تو اس کے مطابق انسان کے اندر نیک خیالات پیدا ہونگے.مثلاً کوئی میت پڑی ہو تو اس کے ارد گر د خاموش رہنا ہے اور ہنسی مذاق نہ کرنا اخلاق کا ایک ضروری حصہ ہے.اس ماحول کو دیکھ کر ہر نئے آنے والے کے اندر دعا کی تحریک پیدا ہوتی ہے.لیکن اگر کوئی لاش پڑی ہو اور اُس کے اردگرد بیٹھے ہوئے لوگ
$1953 309 خطبات محمود ہاتھ پر ہاتھ مار رہے ہوں اور قہقہے لگا رہے ہوں تو یہ امید کرنا غلط ہوگا کہ باہر سے آنے والا اس ماحول سے متاثر ہو کر اپنے اندر غم کی کیفیت پیدا کرے گا.بلکہ اس قسم کے ماحول کو دیکھ کر نیا آنے والا شخص حیران ہو جائے گا.یا اُسے دیکھ کر اس طرف متوجہ ہوئے بغیر گزر جائے گا.اسی طرح کسی کے ہاں بچہ پیدا ہو اور اردگرد بیٹھے ہوئے لوگ رونے لگ جائیں تو آنے والا یہ خیال کرے گا کہ : تو بچہ مُردہ پیدا ہوا ہے یا پیدا تو زندہ ہوا تھا لیکن بعد میں مرگیا ہے اور یا ماں مرگئی ہے.وہ وہاں آکر نہیں کہے گا کہ مبارک ہو.کیونکہ انسان ماحول سے متاثر ہوتا ہے.حضرت خلیفہ امسیح الاول سنایا کرتے تھے کہ کوئی خاکروبہ تھی جو کسی بادشاہ کے محل میں کام کیا کرتی تھی.ایک دن وہ محل سے نکلی اور دربار میں آکر صفائی کرنے لگی.وہ صفائی کر رہی تھی کہ اچانک اُسے کوئی خیال آیا اور وہ دیوار پر سر رکھ کر رونے لگ گئی.اتنے میں اسباب رکھنے والے یا نو کر آئے اور انہوں نے اُس خاکروبہ کو روتے دیکھا تو انہوں نے خیال کیا کہ یہ محل کے اندر کام کی کرتی ہے شاید محل میں کوئی حادثہ ہو گیا ہے اس لیے یہ رورہی ہے.ہمیں اس حادثہ کا علم نہیں ہوا.ایسا نہ ہو کہ ہمیں بے وفا خیال کر لیا جائے.انہوں نے بھی گھٹنوں پر اپنے سر رکھے اور رونا شروع کر دیا.اتنے میں چوبدار 4 آئے اور انہوں نے دیکھا کہ سب نو کر رو رہے ہیں.اس پر انہوں نے بھی خیال کیا کہ ہمیں محل کے پورے حالات سے خبر نہیں ہوسکی.شاید اندر کوئی حادثہ ہو گیا ہے جس کی وجہ سے یہ سب لوگ رو ر ہے ہیں.ایسا نہ ہو کہ ہمارے متعلق یہ خیال کر لیا جائے کہ ہم سب بے وفا ہیں.اس خیال کے آنے پر انہوں نے بھی دیواروں پر سر رکھے اور رونا شروع کر دیا.پھر چھوٹے درباری آئے انہوں نے جب ان سب کو روتے دیکھا تو یہ خیال کیا کہ شاید محل میں کوئی حادثہ ہو گیا ہے.ہم نے محل کے حالات سے پوری طرح خبر نہیں رکھی.چنانچہ انہوں نے بھی آنکھوں پر رومال رکھے اور رونا شروع کر دیا.اتنے میں بڑے وزیر آئے انہوں نے بھی جب سب درباریوں کو روتے دیکھا تو اُن سے رونے کی وجہ پوچھنے کی جرات نہ کی اور خیال کیا کہ اگر وہ نہ روئے تو یہ خیال کر لیا جائے گا کہ یہ لوگ محل کے حالات سے اس قدر بے خبر ہیں کہ انہیں پتا ہی نہیں کہ رات کومحل میں کیا حادثہ ہوا ہے.اس لیے انہوں نے بھی آنکھوں پر رومال رکھ لیے اور رونے کی شکل بنالی.اتنے میں سب سے بڑا وزیر آیا.وہ زیادہ سمجھ دار تھا.وہ رویا نہیں خاموش ر
$1953 310 خطبات محمود اور ایک وزیر کے پاس کرسی پر بیٹھ کر اُس سے پوچھنے لگا کہ آخر ہوا کیا ہے جس کی وجہ سے تم سب لوگ رو ر ہے ہو؟ اُس وزیر نے کہا مجھے تو کوئی پتا نہیں.میں نے اُس پاس والے وزیر کو روتے دیکھا تو میں نے بھی اپنی آنکھوں پر رومال رکھ لیا تا کہ مجھے بے وفا خیال نہ کر لیا جائے.تب اُس کی نے ساتھ والے وزیر سے پوچھا کہ تمہارے رونے کا کیا سبب ہے؟ تو اُس نے بھی یہی کہا کہ مجھے علم نہیں میں نے ان سب کو روتے دیکھا تو آنکھ پر رومال رکھ لیا تا دیکھنے والے مجھے بے وفا نہ خیال کریں.ورنہ میں رو نہیں رہا.ہوتے ہوتے بات خاکروبہ تک جا پہنچی.اُس سے دریافت کیا کہ تم کی کیوں رو رہی تھی ؟ تو اُس نے کہا محل میں تو کوئی واقعہ نہیں ہوا.میں نے ایک سور کا بچہ پال رکھا تھا ت وہ مرگیا ہے.میں دربار میں جھاڑو دے رہی تھی کہ مجھے وہ بچہ یاد آ گیا.اُس بچہ سے مجھے بہت محبت تھی.اس محبت کی وجہ سے میں رونے لگ گئی.تو دیکھو! ما حول کا بھی ایک اثر ہوتا ہے.یہ ہے تو ایک لطیفہ لیکن یہ ایک امر واقعہ ہے کہ ایک مجلس میں لوگ چاہے رونے کی مشق ہی کر رہے ہوں تم اُس مجلس میں آؤ گے تو لوگوں کو روتا ہے دیکھ کر خاموش ہو جاؤ گے.اور ظاہری طور پر غم کی کیفیت پیدا کر لو گے.پھر تسلی سے بیٹھ کر انہیں سمجھاؤ گے کہ صبر سے کام لینا چاہیے.لیکن اگر وہ قہقہہ مار کر کہیں کہ ہم رونے کی مشق کر رہے تھے تو تم حیران ہو جاؤ گے.تو ماحول انسان کو اپنی طرف کھینچ لیتا ہے.اگر مسجد کا ماحول خراب ہوگا تو مسجد میں جانے والوں کی حالت بھی خراب ہو گی.اگر مکہ میں رہنے والے اپنی توجہ کو دین کی طرف نہ لگائیں اور اپنے فارغ اوقات کو ذکر الہی میں خرچ نہ کریں تو خانہ کعبہ میں جا کر بھی وہ جذ بہ اور رقت پیدا نہیں ہوگی جو وہاں جا کر انسان کے اندر پیدا ہونی چاہیے.اگر مدینہ والے اپنے فارغ اوقات کو ذکر الہی میں نہ لگائیں.اور اپنے اوقات کو لغویات میں ضائع کریں تو لازمی بات ہے کہ مسجد نبوی میں جا کر بھی عبادت میں وہ لذت حاصل نہیں ہوگی جو ہونی چاہیے.غرض انسان کا ماحول سے متاثر ہونا ضروری ہے.روتا ہوا انسان فوراً ہنستا نہیں اور نہ ہنسنے والا فوراً روسکتا ہے.لہو ولعب سے تقویٰ کی زندگی فوراً پیدا نہیں ہوتی.نہ سنجیدہ حالت سے انسان فورا غیر سنجیدہ بن جاتا ہے.پس جب اس مقام کو خدا تعالیٰ نے تمہارے لیے مقامِ ہجرت کے طور پر چنا ہے تو تم لوگوں پر فرض ہے کہ تم اپنے اوقات کو اس کے مطابق بناؤ.پچھلے سالوں میں مسلمان کتنی آفتوں میں
$1953 311 خطبات محمود الله سے گزرے ہیں.باپ کسی جگہ تھا تو بیٹا کسی جگہ.بھائی کسی جگہ تھا تو بہن کسی جگہ.ایک لمبے عرصے تک بیوی کو خاوند کا اور خاوند کو بیوی کا پتا نہ لگ سکا.ان تکلیف کے دنوں میں تم سب نے ایک جگہ پر رہنا تجویز کیا تو کیوں؟ صرف اس لیے کہ تم سمجھتے تھے کہ تمہارے سپر د ایک ایسا فرض ہے جس کو تم اکٹھے ہوئے بغیر ادا نہیں کر سکتے.گویا تم نے یہ تسلیم کر لیا کہ ہم سب نے خدمت دین کرنی ہے.اور خدمت دین اُس وقت تک ہو نہیں سکتی جب تک تم ایک جگہ پر اکٹھے نہ ہو جاؤ، ایک دوسرے سے مشورہ نہ کرو اور ایک دوسرے سے تعاون نہ کرو.اس لیے تم نے اس مقام کو خدا تعالیٰ اور اُس کی کے دین کی خدمت کے لیے چن لیا.یہی مقامات مقدسہ کی تعریف ہے کہ خدمت دین کے لیے انہیں بچن لیا جائے.رسول کریم ﷺ کی جوتی بھی مقدس تھی.کیونکہ محمد رسول اللہ ﷺ کا وجود مقدس تھا.اسی طرح جب یہ مقام خدا تعالیٰ کے لیے ہو گیا ہے تو اس کے مکان اور اس کی گلیاں بھی ہے مقدس ہیں.لیکن جب کوئی جگہ مقدس ہو جاتی ہے تو پہلی تقدیس اپنے ارادہ سے ہوتی ہے اور ی دوسری تقدیس اللہ تعالیٰ کی قبولیت سے ہوتی ہے.پہلے تو ہم ارادہ کر لیتے ہیں کہ فلاں مقام ہم تی نے خدا تعالیٰ کو دے دیا ہے.جیسے حضرت مریم کی والدہ نے فرمایا کہ اے اللہ ! میرے پیٹ میں تی جو بچہ ہے میں اُسے تیری راہ میں وقف کرتی ہوں 5.لیکن جب بیٹی پیدا ہوئی تو اسے بھی خدا تعالیٰ کی کی راہ میں وقف کر دیا 6.دوسری تقدیس اس وقت پیدا ہوئی جب خدا تعالیٰ نے اُسے قبول کر لیا 7.پس پہلی نقد میں وقف کرنے سے ہوتی ہے اور دوسری تقدیس خدا تعالیٰ کے قبول کر لینے کی سے ہوتی ہے.اور یہ دونوں چیزیں مل کر تقدیس کو پورا کر دیتی ہیں.خدا تعالیٰ کی طرف سے تقدیس دو طرح سے ظاہر ہوتی ہے.اول خدا تعالیٰ کی بتائی ہوئی خبروں سے دوم اُس کی تائید اور نصرت سے.جب پہلی پیشگوئیوں اور خبروں میں یہ بات تھی.کہ ایک ایسا مقام ہوگا جس کی طرف جماعت احمد یہ ہجرت کرے گی تو خدا تعالیٰ نے اس کی تقدیس کی خبر دے دی.پھر خدا تعالیٰ کا عمل بھی اس کی تصدیق کر رہا ہے.کتنے فتنے تھے جو جماعت کے خلاف اُٹھے اور پھر اُن فتنوں میں خدا تعالیٰ نے ربوہ کو کس طرح محفوظ رکھا.اور جماعت کے کام میں برکت دی اور اسے خدمت کی توفیق بخشی.خدا تعالیٰ کا یہ فعل بتاتا ہے کہ اُس نے جماعت کی قربانی کو قبول کر لیا.اور اس مقام کو مقدس بنا دیا ہے.پس تم سب کو بڑوں کو بھی اور چھوٹوں کو بھی ،
$1953 312 خطبات محمود عورتوں کو بھی اور مردوں کو بھی ، اس جگہ کو عبادت کی جگہ بنانا چاہیے.یہ شہر دوسرے شہروں کی طرح نہ ہو بلکہ اسے ایک خاص امتیاز حاصل ہو.جو وقت بچے اُسے تم عبادت ، بنی نوع انسان کی بہتری، اُس کی آسائش اور آرام کے ذرائع سوچنے اور ان کے مہیا کرنے میں لگاؤ.کیونکہ دین دو ہی ہے چیزوں پر مشتمل ہے.(1) خدا تعالیٰ کی معرفت علم اور اُس سے تعلق پیدا کرنا اور (2) بندوں کی محبت.بندوں سے محبت اور ان کی خدمت کرنا خدا تعالیٰ کی صفات کا اظہار ہے.اگر کوئی شخص بنی نوع انسان سے محبت کرتا ہے اور اُن کی خدمت کرتا ہے تو وہ ربوبیت کی صفت کو ظاہر کرتا ہے.گویار بوبیت کو ظاہر کرنے کا نام ہی شَفْقَتْ عَلى خَلْقِ اللہ ہے.پھر خدا تعالیٰ رحمان ہے.اور معرفتِ تامہ کے لیے ضروری ہے کہ انسان رحمان بنے.اب خدا تعالیٰ پر تو کوئی احسان نہیں ہے کر سکتا.انسان رحمان اسی طرح بن سکتا ہے کہ وہ بنی نوع انسان پر احسان کرے اور اُن کی ی خدمت کرے.گویا انسان ربوبیت کی صفت کا اُس وقت تک مظہر نہیں بن سکتا جب تک کہ وہ بندوں کا رب نہ بنے.وہ رحمانیت کا مظہر نہیں بن سکتا جب تک کہ بندوں کے لیے رحمان نہ بنے.وہ ستاریت کا مظہر نہیں بن سکتا جب تک وہ بندوں کا ستار نہ بنے.وہ غفاریت کا مظہر نہیں بن سکتا.جب تک وہ بندوں کے لیے غفار نہ بنے.پس معرفتِ تامہ کا لازمی نتیجہ ہے.شَفْقَتْ عَلى خَلْقِ الله.ہم انہیں دو چیزیں کہہ دیتے ہیں لیکن دراصل ہیں یہ ایک ہی چیز.یہ دونوں چیزیں ہر وقت تمہارے سامنے ہونی چاہیں.اور انہی کے مطابق تمہیں اپنی زندگی کو ڈھالنا چاہیے.یہ کوئی نیکی نہیں کہ میں نے خطبہ پڑھا یا تقریر کی تو تمہارے رونگٹے کھڑے ہو گئے اور تم کانپ گئے.لیکن جب گھر گئے تو پہلی سی کیفیت طاری ہو گئی.مسجد میں آگئے تو ربوہ بن گیا.گھروں میں گئے تو چونڈہ اور لائل پور بن گئے.یہ دین نہیں بلکہ دین کے ساتھ تمسخر ہے.اگر تم اپنے ہمسایہ کے گھر جانا چاہو اور ایک قدم آگے رکھو اور دوسرا قدم پیچھے رکھو تو تم اپنے گھر میں ہی رہو گے.ہمسائے کے گھر نہیں جاسکو گے.اسی طرح اگر یہاں مسجد میں میرا خطبہ یا تقریر سُن کر تمہارے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں لیکن گھر جا کر تم پر پہلی سی حالت طاری ہو جاتی ہے تو اس کی مثال ایسی ہی ہے جیسے تم ایک قدم آگے رکھو اور ایک قدم پیچھے رکھو.جو شخص ایک قدم آگے رکھتا ہے اور ایک قدم پیچھے رکھتا ہے وہ آگے نہیں بڑھ سکتا بلکہ وہ وہیں رہتا ہے جہاں سے وہ چلا تھا.
خطبات محمود 313 $1953 پس تم یہ پختہ عزم کرو کہ تم جب کوئی بات سنو تو وہ بات تم پر اثر کرے.پھر تم گھروں میں جاؤ تو تمہارے گھروں میں ، باورچی خانوں میں سونے کے کمروں میں اور دفتر کے کمروں میں بھی تم پر وہی بات حاوی ہو.جب وہ بات تم پر اس طرح حاوی ہو جائے گی تو وہ تمہارے جسم کا ایک حصہ بن جائے گی تم کپڑے اتار کر پھینک سکتے ہو لیکن اپناسرا تار کر نہیں پھینک سکتے.اسی طرح جو چیز تمہارے جسم کا ایک حصہ بن جائے گی اُسے تم کبھی اپنے آپ سے جدا نہیں کر سکو گے.“ (الفضل 11 فروری 1958ء) :1 وَلَا تَبْسُطْهَا كُلَّ الْبَسْطِ (بنی اسرائیل: 30) 2 بخاری کتاب الفرائض باب ميراث البنات بخاری کتاب الايمان باب مَا جَاءَ اَنَّ الَّا عُمَالَ بالنِّيَّةِ وَ الْحِسْبَةِ :4 چوبدار: نقیب.عصا بر دار، وہ نوکر جو سونے چاندی کا خول چڑھا ہوا عصا لے کر امیروں کے آگے چلتا ہے (فیروز اللغات اردو.فیروز سنز لاہور ) 5: إِذْ قَالَتِ امْرَأَتُ عِمْرَنَ رَبِّ إِنِّى نَذَرْتُ لَكَ مَا فِي بَطْنِى مُحَرَّرًا فَتَقَبَّلْ مِنِى إِنَّكَ أَنْتَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ ) ( آل عمران : 36) : فَلَمَّا وَضَعَتْهَا قَالَتْ رَبِّ إِنِّي وَضَعْتُهَا أُنثى وَاللَّهُ أَعْلَمُ بِمَا وَضَعَتْ وَلَيْسَ الذَّكَرُ كَالْأُنثَى وَإِنِّي سَمَّيْتُهَا مَرْيَمَ وَإِنِّي أَعِيْدُهَا بِكَ وَذُرِّيَّتَهَا مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّجِيمِ ( آل عمران : 37) 7 فَتَقَبَّلَهَا رَبُّهَا بِقَبُول حَسَنٍ ( آل عمران: 38)
$1953 314 38 38 دنیا میں وہی قومیں ترقی کیا کرتی ہیں جو باتوں سے زیادہ کام کی طرف توجہ دیتی ہیں.دوسروں کونصیحت کرنے سے پہلے خود عمل کر کے دکھلاؤ (فرموده 13 نومبر 1953ء بمقام ربوہ ) تشہد، تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا.آج میں جماعت کو اس امر کی طرف توجہ دلاتا ہوں کہ خالی با تیں دنیا میں کبھی کوئی نتیجہ پیدا نہیں کیا کرتیں.جب قوموں میں تنزل کے آثار پیدا ہو جاتے ہیں تو اُن میں باتیں زیادہ کی ہو جاتی ہیں اور کام کم ہو جاتا ہے.دنیا میں وہی قومیں ترقی کرتی ہیں اور وہی تو میں قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کی رحمت کے سایہ کے نیچے ہوں گی جن میں باتوں سے زیادہ کام کا خیال اور احساس ہوتا ہے.قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.یا يُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لِمَ تَقُولُونَ مَا لَا تَفْعَلُونَ 1 اے مومنو! جو کام تم نے کیا نہیں اُس کے متعلق تم باتیں کیوں کرتے ہو؟ منہ سے بہادر بننے سے کوئی انسان بہادر نہیں بن جاتا.منہ سے اپنے آپ کو سخی کہنے سے کوئی آدمی سنی نہیں بن جاتا.منہ سے انصاف کا دعوی کرنے والا منصف نہیں کہلا سکتا.بلکہ تم دیکھو گے کہ اکثر رشوت لینے والے مجلسوں میں رشوت کے خلاف تقریریں کرتے ہیں وہ جب بھی تقریر کریں گے یہی کہیں گے کہ رشوت بہت بُری چیز ہے، ہماری قوم میں رشوت بہت پھیل گئی ہے، حالانکہ وہ خود رشوت لیتے ہیں.تم اکثر خطبات محمود
$1953 315 خطبات محمود بددیانتوں کو دیکھو گے کہ وہ شور مچاتے ہیں کہ ساری دنیا بد دیانت ہے.حالانکہ وہ خود بددیانت ہوتے ہیں.مجھے یاد ہے قادیان میں ایک جلسہ کے موقع پر میں نے ایک تقریر کی اور اس میں میں نے اس بات کا ذکر کیا کہ جماعت کی اقتصادی حالت کی درستی کے لیے تجارت سے کام لینا نہایت ضروری ہے.لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ تجارت کے لیے روپیہ کہاں سے لائیں میں نے کہا میرا پہلے خیال تھا کہ ہماری جماعت کے پاس روپیہ نہیں.لیکن اب بہت سے لوگ مجھ سے مشورہ پوچھتے ہیں کہ فارغ روپیہ کو کس کام پر لگا ئیں.اس سے مجھے پتا لگتا ہے کہ جماعت کے پاس روپیہ ہے.لیکن ایسے آدمی نہیں ملتے جو اس روپیہ سے خود بھی فائدہ اٹھائیں اور مالک کو بھی فائدہ پہنچائیں.اگر ایسے دیانتدار لوگ مل جائیں جو خود بھی فائدہ اٹھائیں اور مالکوں کو بھی فائدہ پہنچائیں تو میں سمجھتا ہوں کہ میں روپیہ مہیا کر سکتا ہوں.لیکن پہلے میری تسلی ہونی چاہیے کہ وہ دیانتدار ہیں.روپیہ خود تو نہیں کھا جائیں گے؟ یا تجربہ نہ ہونے کی وجہ سے روپیہ ضائع تو نہیں ہوگا ؟ اگر میری تسلی ہو جائے تو جماعت کے پاس روپیہ موجود ہے.دوسرے دن مجھے تین آدمیوں کی چٹھیاں ملیں کہ آپ کو مبارک ہو آپ کی بیان کردہ خوبیاں ہم میں موجود ہیں.ہم دیانتدار بھی ہیں ، تجارت کا فن بھی ہمیں آتا ہے اور ہم روپیہ والوں کو فائدہ بھی پہنچائیں گے.تمہیں یہ سن کر حیرت ہوگی کہ اُن مینوں کا نام اول درجہ کے بددیانتوں میں تھا اور میں انہیں اپنا بھی کوئی پیسہ دینے کے لیے تیار نہیں تھا.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ جماعت میں ایماندار اور پھر تجربہ کا رلوگ بھی تھے.لیکن میری اُس کی تقریر کے جواب میں صرف تینوں آدمیوں نے لکھا کہ ہم ایماندار ہیں ، تجربہ کار ہیں ، آپ روپیہ ہمیں دیں حالانکہ وہ تینوں کے تینوں وہ تھے جن کے متعلق ہمارا علم اور تجربہ یہ تھا کہ وہ سب کے سب اول درجہ کے بددیانت اور بے ایمان ہیں.پس خدا تعالیٰ فرماتا ہے.لِمَ تَقُولُونَ مَا لَا تَفْعَلُونَ تم کیوں وہ بات کہتے ہی ہو جو تم نے کی نہیں؟ جب قوموں میں اس قسم کے لوگ پیدا ہو جاتے ہیں جو ایسی باتیں کرتے ہیں جن میں حقیقت نہیں ہوتی تو اُن کا اعتبار اٹھ جاتا ہے.در حقیقت زبان ہی ہے جس سے کسی انسان کے حالات معلوم ہو سکتے ہیں.اگر کسی مجلس میں کوئی شخص یہ کہتا ہے کہ میں ڈاکٹر ہوں
$1953 316 خطبات محمود یا وکیل ہوں یا کارخانہ دار ہوں تو ہمیں پتا لگتا ہے کہ وہ ڈاکٹر ، وکیل یا کارخانہ دار ہے.اگر وہ ہمیں خود نہ بتائے تو ہمیں اُس کے ڈاکٹر ، وکیل اور کارخانہ دار ہونے کا پتہ نہیں لگ سکتا.پس پہلا علم زبان سے ہوتا ہے.ایک آدمی چاہتا ہے کہ میرے پاس جو روپیہ ہے.اُسے میں کسی تجارت پر لگاؤں اور پاس ہی دوسرا آدمی شور مچا رہا ہوتا ہے کہ فلاں آدمی بے ایمان ہے.اس نے فلاں کا مال لوٹ لیا، فلاں سے بددیانتی کی.لیکن میں نے فلاں کو فائدہ پہنچایا ، فلاں کو فائدہ پہنچایا تو اس سے وہ روپیہ والا دھوکا میں آجائے گا اور اُ سے روپیہ دے دے گا.لیکن اس کی کے بعد اُس کا روپیہ ضائع ہو جاتا ہے تو وہ چیختا ہے.حالانکہ اُسے روپیہ دینے کے لیے کسی اور نے نہیں کہا تھا بلکہ وہ اپنی بے وقوفی اور سادگی کی وجہ سے خود وہاں پھنس گیا.دوسرے نے اپنا سرٹیفکیٹ آپ دیا اور وہ مان گیا.حالانکہ ہر بات کو سوچ سمجھ کر تسلیم کرنا چاہیے.اور تو اور نبیوں کے متعلق بھی خدا تعالیٰ کہتا ہے کہ ہم نے ان کی صداقت کے اظہار کے لیے تمہارے پاس نشانات بھیجے ہیں تاکہ تمہیں پتا لگ جائے کہ یہ رسول جو ہماری طرف سے آنے کا دعویٰ کرتا ہے فی الواقع سچا اور راستباز ہے 2.گویا ایسے اخلاق اور نمونہ والے لوگ جو نبوت سے پہلے ہی برگزیدہ سمجھتے جاتے ہیں اُن کے متعلق بھی خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ ان لوگوں کو بے دلیل نہ مان لو.وہ بھی اگر میری طرف سے آنے کا دعوی کریں تو اُن سے اُن کی صداقت کے دلائل طلب کرو.گویا نبوت پر فائز ہونے والا اور دنیا میں اعلیٰ زندگی بسر کرنے والا بھی اگر کہتا ہے کہ میں خدا تعالیٰ کی طرف سے ہوں تو خدا تعالیٰ کہتا ہے کہ تم نے اُسے یونہی نہیں مان لینا.اُس سے اُس کی صداقت کی دلیل پوچھنی ہے.اگر وہ اپنی صداقت کی دلیل دے تو اُسے مانو.پھر خدا تعالیٰ خود دلیلیں بیان کرتا ہے.کہتا ہے اُس کی صداقت کی فلاں دلیل ہے، فلاں دلیل ہے اور اس طرح انسان کو فیصلہ کرنے میں مدد مل جاتی ہے.مثلاً قرآن کریم کہتا ہے کہ ہر نبی جو گزرا ہے لوگوں نے اُسے مجنون کہا ہے 3.اب یہ نبیوں کی صداقت کی ایک دلیل ہے کہ اُن کی باتیں دنیا والوں کو غیر معقول نظر آتی ہیں اسی لیے وہ انہیں مجنون کہتے ہیں.لیکن آئندہ زمانہ میں یہی اُس کی صداقت کی دلیل بن جاتی ہے.کیونکہ مجنون کی بات دنیا میں پھیل نہیں سکتی ، مجنون کی بات پر دنیا عمل نہیں کر سکتی.کیا تم نے کوئی پاگل
$1953 317 خطبات محمود سنا ہے کہ اُس نے ایک بات کہی ہو اور سو سال کے بعد لوگ اُس کو درست سمجھنے لگ گئے ہوں؟ پاگل کی بات تو ہوا میں اُڑ جاتی ہے.پس جب ایک شخص کو ہم پاگل کہتے ہیں تو اس کے معنے ہوتے ہیں کہ وہ دنیا کی عقل کے خلاف بات کرتا ہے.اگر ہمارے پاس کوئی شخص آتا ہے اور وہ اس قسم کی پاگلا نہ باتیں کرتا ہے تو ہم کہتے ہیں یہ شخص پاگل ہے.مثلاً ایک شخص ہمارے پاس آئے اور کہے میں بادشاہ ہوں اور سارے لوگ جانتے ہوں کہ وہ حقیقت میں بادشاہ نہیں تو لوگ اُسے پاگل کہتے ہیں.یا مثلاً ایک شخص ہمارے پاس آتا ہے اور وہ کہتا ہے میں ہے ایم.اے پاس ہوں حالانکہ سب لوگ جانتے ہیں کہ وہ پرائمری پاس بھی نہیں تو لوگ کہتے ہیں یہ پاگل ہے.کیونکہ اُس کی باتیں اس وقت کے معروف لوگوں کی رائے اور اُن کے علم کے خلاف ہوتی ہیں.جب قرآن کریم نے کہا کہ نبیوں کو ہمیشہ پاگل کہا جاتا ہے تو اس کا یہی مطلب تھا کہ لوگ انہیں اس لئے پاگل کہتے ہیں کہ اُن کی باتیں ان کی رائے کے خلاف ہوتی ہیں.لیکن جب اُن کی تعلیم پھیل جاتی ہے اور وہ جیت جاتے ہیں تو وہی معترض جو پہلے انہیں پاگل قرار دیا کرتا تھا کہتا ہے کہ یہ باتیں تو پھیلنی ہی تھیں.یہ تو ساری عقلی با تیں ہیں.گویا جب وہ دلائل دیں تو لوگ انہیں پاگل کہتے ہیں اور جب وہ جیت جائیں تو کہتے ہیں کہ یہ باتیں تو ہونی ہی تھیں.یہ ایک دلیل ہے جو کسی نبی کی صداقت کے معلوم کرنے کے متعلق قرآن کریم نے دی ہے اور ہر شخص اس سے فائدہ اٹھا سکتا ہے.لیکن بعض لوگ اس دلیل کا بھی غلط استعمال کرتے ہیں.قادیان میں ایک شخص تھا جس نے اپنے جنون میں یہ کہنا شروع کر دیا کہ میں نبی ہوں.جماعت کے ایک دوست میرے پاس آئے اور انہوں نے مجھ سے دریافت کیا کہ کیا ت میں اُسے سمجھاؤں؟ یہ حضرت خلیفہ اول کے زمانہ کی بات ہے.میں نے کہا وہ تو پاگل ہے لیکن اگر تمہیں شوق ہے تو جاؤ.چنانچہ وہ اُس کے پاس گئے.جب واپس آئے تو وہ بہت گھبرائے ہوئے تھے؟ کہنے لگے اُس نے اپنی باتوں سے مجھے پریشان کر دیا ہے.میں نے سے کہا تھا کہ تم پاگل ہو.اس پر وہ کہنے لگا دیکھو ! یہی قرآن کریم کہتا ہے کہ ہر نبی کو لوگ پاگل کہا کرتے ہیں.پس یہ بات تو میری سچائی کی علامت ہے.میں نے اُسے کہا کہ تمہیں
$1953 318 خطبات محمود کس نے کہا تھا کہ وہاں جاؤ ؟ اگر تمہارا علم اتنا کوتاہ ہے تو تم وہاں گئے ہی کیوں تھے پھر میں نے کہا قرآن کریم نے یہ کہا ہے کہ ہر نبی کو لوگ پاگل کہتے ہیں.مگر یہ نہیں کہا کہ ہر پاگل کو نبی کہتے ہیں.اللہ تعالیٰ نے نبوت کا پہلے ذکر کیا ہے اور کہا ہے کہ ہر نبی کو لوگ پاگل کہتے ہیں.لیکن اسے تو ہم نے رسیاں پہلے باندھی تھیں اور نبوت کا اس نے بعد میں دعویٰ کیا ہے.ڈاکٹروں نے اس کے متعلق کہا یہ پاگل ہے.اور لوگوں نے یہ خطرہ محسوس کیا کہ یہ کہیں لوگوں کو نقصان نہ پہنچائے چنانچہ ہم نے اسے رسیاں باندھ دیں.اگر یہ شخص پہلے نبوت کا دعویٰ کرتا اور پھر لوگ اسے پاگل کہتے تو اس کا دعوی سچا ہوتا.لیکن یہاں تو یہ حال ہے کہ پہلے لوگوں نے اسے پاگل کہنا شروع کیا.اُس نے کہا میری نیند اڑ گئی ہے اور حضرت خلیفہ اول نے اُسے برومائڈ (BROMIDE) وغیرہ دیا اور علاج کیا.پھر اُس نے جنون کی حالت میں یہ کہنا شروع کر دیا میں نبی ہوں.پس یہاں گھوڑا آگے نہیں، گاڑی آگے ہے اور گھوڑا پیچھے ہے.پس دعویٰ تو ہر شخص کر لیتا ہے لیکن ہر بات دلیل کے ساتھ ثابت کی جانی چاہیے.اللہ تعالیٰ نے نبیوں کے لیے بھی دلائل رکھے ہیں.لیکن لوگ ان کے سمجھنے میں پھر بھی غلطی کر جاتے ہیں.جیسے اس شخص نے کہا کہ لوگ مجھے پاگل کہتے ہیں اس لیے میں سچا ہوں.حالانکہ خدا تعالیٰ نے یہ نہیں کہا کہ ہر پاگل کو نبی کہا جاتا ہے بلکہ اُس نے یہ کہا ہے کہ ہر نبی کو پاگل کہا جاتا ہے.پس خدا تعالیٰ نے انبیاء کی صداقت کے بھی دلائل دیئے ہیں.اور ان کے ماننے کو ان دلائل سے وابستہ کیا ہے.پھر دنیوی معاملات میں تم کسی کی بات کو بے دلیل کیوں مانتے ہو.بسا اوقات انسان کا قول و فعل ایک نہیں ہوتا.اور جو شخص ایسا ہوتا ہے اُس کو دنیا میں کوئی پوزیشن اور درجہ حاصل نہیں ہوتا.اور خدا تعالیٰ کے نزدیک بھی اُسے عزت نہیں ملتی.اور جب کسی دوسرے کا بلا دلیل دعوی کرنا اُسے قابل عزت نہیں بنا دیتا تو اگر یہی بات تم میں ہو تو تمہاری عزت کس طرح ہو سکتی ہے.اگر یہ چیز غیر میں بُری ہے تو تم میں بھی بُری ہے.اگر چوری کرنا زید کے لیے بُرا ہے تو تمہارے لیے بھی بُرا ہے.اگر جھوٹ بولنا زید کے لیے بُرا ہے تو تمہارے لئے بھی برا ہے.پس تم اپنی زندگی میں غور کرو کہ کیا تمہارے اعمال اور اقوال
$1953 319 خطبات محمود یکساں ہیں؟ اگر تم خود عمل نہیں کرتے تو تمہیں یاد رکھنا چاہئیے کہ قرآن کریم کہتا لِمَ تَقُولُونَ مَا لَا تَفْعَلُونَ اگر تم کہتے ہو کہ احمدیت کی یہ یہ تعلیم ہے اور تم اس پر عمل عمل کرتے ہو اور پھر دوسروں سے کہتے ہو.اس پر عمل کرو تو تم کہہ سکتے ہو ہم سچ کی تعلیم دیتے ہیں.تم ہماری زندگی دیکھو اور پھر ہمارے ہمسائیوں اور ہمارے ساتھ کام کرنے والوں سے دریافت کر لو؟ کیا ہم سچ بولتے ہیں یا نہیں؟ جب ہم خود سچ بولتے ہیں تو ہمارا حق ہے کہ دوسروں سے کہیں کہ تم بھی سچ بولو.راسی طرح دیانت ہے.تم پہلے خود اپنے اندر دیانت پیدا کرو اور پھر لوگوں سے دیانت پیدا کرنے کے لیے کہو.قرآن کریم نے یہ نہیں کہا کہ تم بولو نہیں بلکہ یہ کہا ہے کہ کام سے پہلے نہ بولو.قرآن کریم نے یہ نہیں کہا کہ تم نصیحت نہ کرو بلکہ یہ کہا ہے کہ تم خود وہ کام کرو اور پھر دوسروں سے کرنے کی کے لیے کہو.تم پہلے سچ بولو پھر دوسروں کو سچ بولنے کے لیے کہو.تم پہلے خود دیانت اختیار کرو تو پھر کی دوسروں کو دیانت دار بنے کی تحریک کرو.پہلے خود انصاف کرو پھر دوسرے سے انصاف کرنے کے لیے کہو.خود عمل کرنے سے پہلے کسی کو کسی امر کی نصیحت کرنا بے کار ہے.اس کا کچھ فائدہ نہیں ہوتا بلکہ الٹا نی نقصان ہوتا ہے.قوموں کے اعضاء ڈھیلے ہو جاتے ہیں اور اُن میں عمل کی قوت مفقود ہو جاتی.کیونکہ کوئی شخص نصیحت کرنے والے سے تعاون نہیں کرتا اور اُس کی بات کو کوئی اہمیت نہیں دیتا.“ الفضل 30 اگست 1961ء) 1 الصف: 3 :2 فَلَمَّا جَاءَهُمْ مُوسَى بِايْتِنَا بَيِّنت (القصص: 37) هُوَ الَّذِي يُنَزِّلُ عَلَى عَبْدِة ايتٍ بَيِّنَتٍ لِيُخْرِجَكُمْ مِنَ الظُّلمتِ إِلَى النُّورِ (الحديد: 10) 3 وَيَقُولُونَ أَبِنَّا لَتَارِكُوا لِهَتِنَا لِشَاعِرٍ مَّجْنُوْنِ (الصَّفْت : 37) ثُمَّ تَوَلَّوْا عَنْهُ وَقَالُوْا مُعَلَّم مَّجْنُونٌ (الدخان: 15) فَتَوَلَّى بِرُكْنِهِ وَقَالَ سُحِرٌ أَوْ مَجْنُونٌ (الذريت: 40)
$1953 320 39 39 خطبات محمود ایمان اور تہذیب در حقیقت دونوں لازم و ملزوم ہیں.مومن ہمیشہ مہذب ہوتا ہے وہ ہر کام کو مقررہ طریق اور مقررہ قانون کے مطابق سرانجام دیتا ہے فرموده 20 رنومبر 1953ء بمقام ربوہ) تشہد ،تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا.میں آج دوستوں کو اس امر کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ مومن ہمیشہ مہذب ہوتا ہے.ایمان اور تہذیب در حقیقت دونوں لازم و ملزوم اور قریب کی چیزیں ہیں.تہذیب ایک میع مضمون ہے لیکن میں اس وقت صرف ایک موٹی سی بات کی طرف جو اس مضمون سے تعلق رکھتی ہے دوستوں کو توجہ دلاتا ہوں.دنیا میں ہر انسان اپنے لیے ایک طریق عمل تجویز کر لیتا ہے اور اُسے اپنی رہنمائی کا موجب بنا لیتا ہے.اور چونکہ وہ اپنے لیے ایک طریق عمل تجویز کر لیتا ہے اس لیے تھے لازماً اُسے اُن وجوہات کے متعلق غور کرنا پڑتا ہے جن کی وجہ سے وہ بعض اعمال کو اختیار کرتا ہے.کسی خاص طریق عمل کو اختیار کرنے والے اور نہ اختیار کرنے والے میں یہ فرق ہوتا ہے کہ کسی طریق عمل کو اختیار کرنے والا اپنے ارادہ کے زمانہ سے اپنے کاموں کو ایک خاص قانون کے ماتحت لے آتا ہے اور پھر انہیں خوب سوچ سمجھ کر بجالاتا ہے.اور اس کے تمام پہلوؤں پر غور کر لیتا ہے.
$1953 321 خطبات محمود اور کسی طریق عمل کو اختیار کیے بغیر کام کرنے والا وقتی اثرات اور وقتی جوشوں کے ماتحت کام کرتا ہی ہے.اُس نے کام شروع کرنے سے پہلے اُس پر غور نہیں کیا ہوتا کہ اس کے اعمال کی کیا حکمت ہے.جو شخص کسی طریق عمل کو اختیار کرتا ہے اُس کو مہذب کہتے ہیں.کیونکہ جب وہ اعمال اور اُن کے موجبات اور ان کی حکمتوں پر غور کرتا ہے تو وہ بعض کاموں کو چھوڑ دیتا ہے اور بعض کو اختیار کر لیتا ہے.تہذیب کے معنے شاخ تراشی کے ہیں یعنی ٹہنیوں کے زائد حصہ کو کاٹ دینا.مہذب آدمی کو مہذب اس لئے کہا جاتا ہے کہ وہ ایک وقت میں بیسیوں نتائج پر غور کرتا ہے.بعض امور کو وہ مناسب خیال کرتا ہے اور انہیں اختیار کر لیتا ہے اور بعض امور کو وہ غیر مناسب خیال کرتا ہے اور انہیں ترک کر دیتا ہے.جو شخص کوئی کام وقتی جوش کے زیراثر کرتا ہے وہ اپنے لیے اصول مقرر نہیں کرتا.اس لئے جوش کی حالت میں چند نعرے لگا لینے اور عملی طور پر کام نہ کرنے والے کو غیر مہذب کی کہا جاتا ہے.یعنی اُس نے اپنے اعمال کی شاخ تراشی نہیں کی.جس طرح سکھوں کی مونچھیں بڑھا جاتی ہیں یا جس طرح جنگل میں درختوں اور جھاڑیوں کی شاخیں بڑھ جاتی ہیں اور انہیں تراشا نہیں جا تا اسی طرح اُس کے اعمال کی حالت ہوتی ہے.وہ وقتی جوش کے نتیجہ میں بعض کام کر گزرتا ہے اور ان کے متعلق غور نہیں کرتا کہ آیا وہ کام کرنا اُس کے لیے مناسب بھی ہے یا نہیں.لیکن مومن مہذب ہوتا ہے وہ اپنے لئے ایک طریق عمل مقرر کرتا ہے اور پھر اس قانون کی اتباع کرتا ہے.اور اگر غفلت کی وجہ سے وہ کوئی کام نہ کر سکے تو وہ اپنے اعمال کی پردہ پوشی کرتا ہے.مثلاً بیماریاں ہیں.بعض بیماریاں غلیظ ہوتی ہیں جنہیں دیکھ کر دوسروں کو گھن آتی ہے.جیسے کوئی آدمی ایسا ہوتا ہے جس کی انگلیوں میں کوڑھ کی قسم کے زخم ہو جاتے ہیں.اب سمجھدار آدمی تو دستانے پہن لے گا اور اپنی بیماری کو دوسروں کی نظر سے چھپالے گا.لیکن ایک غیر مہذب انسان اپنے ہاتھ ننگے رکھے گا.اُس سے رطوبت بہ رہی ہوگی.مکھیاں زخموں پر بیٹھی ہوئی ہوں گی اور دیکھنے والے شخص کو اُس سے ی گھن آئے گی.یا کسی شخص کو نزلہ اور زکام کی تکلیف ہے.تو اگر وہ مہذب ہوگا تو ناک صاف کر کے مجلس میں آئے گا.بلکہ اگر ہو سکے تو مجلس میں آئے گا ہی نہیں.اور اگر آئے گا تو اپنے ساتھ رومال لائے گا.اور اگر ناک سے رطوبت بہے گی تو رومال سے پونچھ لے گا.لیکن جو غیر مہذب
$1953 322 خطبات محمود ہوگا اُس کا ناک بہ رہا ہوگا، اُس پر لکھیاں بیٹھی ہوئی ہوں گی اور دوسرے لوگ اُس سے نفرت کریں گے.پس اپنے عیب کو ظاہر ہونے دینا ، چاہے وہ مجبوری اور بے گناہی کا نتیجہ ہو ، بدتہذ یہیں ہے کیونکہ اس سے دوسروں کے اندر نفرت پیدا ہوتی ہے.اور مزید براں بیوقوفوں کو اُس کی نقل کرنے کی خواہش پیدا ہوتی ہے.یا مثلاً کوئی شخص دوسرے کے ساتھ کھانا کھانے بیٹھے تو اُس کے آگے سے بوٹی اٹھالے اور خیال کرے کہ کیا ہے.وہ دوست ہی تو ہے.تو یہ بد تہذ یہی ہوگی.کیونکہ مومن کو یہ حکم ہے کہ كُل بِيَمِينِكَ وَ كُل مِمَّا یلیک 1 یعنی دائیں ہاتھ سے کھاؤ اور اُس چیز کو کھاؤ جو تمہارے سامنے ہو.آخر مومن کے بھی دوست ہوتے ہیں.لیکن دوسرے کے کھانے میں اُس کی اجازت کے بغیر ہاتھ ڈالنا وہ جائز نہیں سمجھتا.بے شک اسلام نے یہ اجازت کی دی ہے کہ دو تین آدمی مل کر ایک برتن میں کھانا کھا سکتے ہیں.لیکن یہ کہ بغیر دوسرے کی مرضی کے اس کے آگے سے کھانا کھا لیا جائے.یہ جائز نہیں.مثلاً دوسرے کے سامنے گردہ کی بوٹی رکھی.وہ اٹھا کر کھالی.اب چاہے دوسرے کو گردہ نا پسند ہی ہولیکن یہ اُس کا کام ہے کہ وہ دوسرے کو دے.دوسرے کا حق نہیں کہ وہ خود اٹھا کر کھالے.اب یہ بات بظاہر معمولی ہے.لیکن ایک شخص کو ہم مہذب کہتے ہیں اور دوسرے کو غیر مہذب کہتے ہیں.کیونکہ ایک شخص اپنی خواہش کو چھپالیتا ہے اور دوسرا شخص اپنی خواہش چھپا نہیں سکتا.اور یہ بھی ایک عیب ہے کہ دوسرے کی چیز کی خواہش کی جائے اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں صراحتاً فرما تا نی ہے.وَلَا تَمُدَّنَّ عَيْنَيْكَ إِلى مَا مَتَعْنَابِةٍ أَزْوَاجًا مِنْهُمْ زَهْرَةَ الْحَيَوةِ الدُّنْيَا 2 - یعنی ہم نے جو کچھ بعض لوگوں کو دنیوی زندگی کی زیبائش کے سامان دے رکھے ہیں.تو اس کی طرف اپنی دونوں آنکھوں کی نظر کو پھیلا پھیلا کر مت دیکھ.جیسے دوسرے کے آگے سے گردہ یا کلیجی کی بوٹی اٹھا کر کھالی جائے یا انڈا اور آلو کا ٹکڑا اٹھا کر کھا لیا جائے.تو یہ جائز نہیں ہوگا.بے شک گردہ ، کلیجی ، انڈا اور آلو حلال ہیں.لیکن جو چیزیں دوسرے کے آگے پڑی ہیں وہ اُس کے لیے حلال نہیں.کیونکہ الہی حکم ہے کہ لَا تَمُدَّنَّ عَيْنَيْكَ إِلَى مَا مَتَعْنَابِةٍ أَزْوَاجًا مِنْهُمْ اٹھانے والا بے شک ایک حلال چیز اٹھاتا ہے.لیکن اُسے یاد رکھنا چاہیے کہ جب وہ حلال چیز کسی سرے شخص کے آگے پڑی ہوگی تو اُس کے لیے حلال نہیں ہوگی.کیونکہ رسول کریم ﷺ
$1953 323 خطبات محمود فرمایا ہے.كُلْ بِيَمِينِكَ وَ كُلْ مِمَّایلیک دائیں ہاتھ سے کھا اور اُس سے کھا جو تیرے سامنے ہے.اب اگر کوئی شخص برتن میں ادھر اُدھر ہاتھ مارتا ہے تو وہ رسول کریم ﷺ کے اس ارشاد کی خلاف ورزی کرنے والا ہو گا.اسی طرح وہ قرآن کریم کے اس حکم کی بھی خلاف ورزی کی کرنے والا ہوگا کہ لَا تَمُدَّنَّ عَيْنَيْكَ إِلى مَا مَتَعْنَابِةٍ أَزْوَاجًا مِنْهُمْ جو چیز ہم نے دوسروں کو دی ہے اُسے تم انہی کے لیے رہنے دو.اُس کی طرف ہاتھ نہ بڑھاؤ.غرض بعض اوقات حلال چیزیں بھی حرام بن جاتی ہیں.اور جو حرام ہیں وہ تو ہیں ہی حرام ، اُن کا چھپا نا تو اور بھی ہے ضروری ہے.قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت لوط علیہ السلام کی قوم پر اس لیے عذاب آیا کہ وہ اپنے عیوب پر مجلسوں میں فخر کرتی تھی.3.گویا عیب کا اظہار کرنا بھی گناہ ہے.چوری کرنا اپنی ذات میں گناہ ہے.لیکن اس بات کا اظہار کرنا کہ میں نے چوری کی ہے یہ بھی ایک گناہ ہے.اور یہ چیز انسان کو غیر مہذب بنا دیتی ہے.میں دیکھتا ہوں کہ ہماری جماعت کے بعض افراد بھی ابھی تہذیب اور شائستگی کے اصول کی سے واقف نہیں.مثلاً اگر کوئی شخص سنیما دیکھتا ہے اور جماعت کا کوئی فرد ہمیں اطلاع دیتا ہے کہ ال شخص سینما دیکھتا ہے، آپ اُس کی اصلاح کریں تو یہ ایک معقول بات ہے.لیکن بعض بے وقوف کہتے ہیں.دیکھو! فلاں سنیما دیکھتا ہے اور انہیں تو کوئی منع نہیں کرتا اور ہمیں منع کیا جاتا ہے.اس کے معنے یہ ہیں کہ اس کا دل چاہتا ہے کہ میں سینما دیکھوں.لیکن وہ دوسروں کے عیوب ظاہر کر کے اپنے لیے رستہ ہموار کرنا چاہتا ہے.ہم دوسرے کی تو تحقیقات کریں گے ہی لیکن اس شخص نے تو اپنا عیب خود ہی ظاہر کر دیا ہے.یا مثلاً جھوٹ ہے اسلام نے جھوٹ بولنے سے منع فرمایا ہے.اب اگر ایک شخص یہ کہے کہ ہمیں تو کہتے ہیں کہ جھوٹ نہ بولو لیکن فلاں شخص جھوٹ بولتا ہے.فلاں افسر جھوٹ بولتا ہے.تو ایسا کہنا دوسرے کی اصلاح کے پیش نظر نہیں ہوتا ، بلکہ وہ یہ ظاہر کرنا چاہتا ہے کہ اُس کا دل جھوٹ کے لیے تڑپ رہا ہے.جب کہا جاتا ہے کہ تم جھوٹ نہ بولو اور وہ جھوٹ بولنا چاہتا ہے تو وہ دوسروں کے عیوب بیان کرتا ہے تا کہ اُسے وہی کام کرنے کا موقع مل جائے.اس کی مثال اُس دھوبی کی سی ہوتی ہے جس کے متعلق یہ بیان کیا جاتا ہے کہ وہ اپنے بیوی بچوں سے ہمیشہ لڑتا رہتا تھا اور اکثر روٹھ کر باہر چلا جاتا تھا.اور کہا کرتا تھا اب میں گھر نہیں آؤں فلاں
$1953 324 خطبات محمود گا میں تمہاری شکلیں نہیں دیکھنا چاہتا.گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹہ کے بعد اُس کی بیوی بچوں کو خیال آتا کہ اُسے بھوک لگی ہوگی ، اُس نے روٹی نہیں کھائی ، وہ سوئے گا کہاں.تو وہ وفد کی صورت میں اس کے پاس جاتے اور اُسے منا کر ساتھ لے آتے.اس طرح اُسے عادت پڑ گئی تھی.وہ اکثر روٹھ جاتا اور گھر والے اُسے منا لاتے.ایک مدت کے بعد جب اس کے بچے جوان ہو گئے وہ اپنی بیوی اور بچوں کی سے لڑا.بچوں نے کہا روز روز کی لڑائی اور پھر منانا درست نہیں.انہوں نے والدہ سے کہا اگر یہ روٹھ کر جاتا ہے تو جانے دو آج ہم نے منانا نہیں.چنانچہ انہوں نے فیصلہ کر لیا کہ ہم باپ کو منانے کے لیے نہیں جائیں گے اور ماں کو بھی منوالیا کہ وہ اُسے منانے نہیں جائے گئی.دھوبی نے حسب عادت ہے کچھ دیر انتظار کیا.لیکن اُسے منانے کے لیے کوئی نہ آیا.اُس کی ہمت ختم ہو گئی.اس کا دل چاہتا تھا تی کہ میں گھر جاؤں لیکن بلانے کے لیے کوئی نہ آیا.آخر اس نے اپنا بیل کھلا چھوڑ دیا اور خود اُس کی کی دم پکڑ لی.دھوبی کا بیل ہمیشہ گھر کی طرف ہی جاتا ہے.اُس نے دُم پکڑ کر چلنا شروع کر دیا اور ساتھ ساتھ کہتا جاتا تھا جانے بھی دو میں گھر جانا نہیں چاہتا.مجھے زبردستی کیوں گھر لے جاتے ہو.یہی حالت اس قسم کے انسان کی ہوتی ہے.چوری کا وہ خود شائق ہوتا ہے لیکن وہ چاہتا ہے کہ دو چار آدمیوں کا نام لے کر وہ مجرم کروں.وہ بجائے سیدھی طرح جھوٹ بولنے کے دس ہیں آدمیوں کا نام لے دیتا ہے کہ وہ بھی جھوٹ بولتے ہیں تا کہ اُس کا مُجرم قابل گرفت نہ رہے.کوئی شخص ظلم کا شائق ہوتا ہے لیکن خود ڈرپوک اور منافق ہوتا ہے.وہ ڈرتا ہے کہ اگر میں نے ظلم کیا تو نظام میرے خلاف کا رروائی کرے گا.اِس لیے وہ دس ہیں آدمیوں کو بد نام کرتا ہے اور کہتا ہے ہے فلاں ظلم کرتا ہے فلاں ظلم کرتا ہے.ایسا شخص غیر مہذب ہوتا ہے.کیونکہ وہ خود تو ظالم ہے ہی لیکن وہ اپنے غیر کو بھی ظالم بنانے کی کوشش کرتا ہے.اسی طرح وہ تہذیب کے دائرے سے نکل جاتا ہے اور اصلاح کے امکان کو کم کر لیتا ہے.مہذب آدمی نزلہ کو چھپاتا ہے اور غیر مہذب مجلس میں بیٹھ جاتا ہے.اُس کا نزلہ بہ رہا ہوتا ہے اور مکھیاں اُس پر بیٹھی ہوتی ہیں.گویا اپنے نقص کو چھپانا تہذیب ہے اور اسے ظاہر کرنا عدم تہذیب ہے.پس گناہ سرزد ہو بھی تو اُسے پوشیدہ رکھو.جب مجلس میں تم کہتے ہو کہ ہمیں سینما دیکھنے سے روکا جاتا ہے لیکن فلاں شخص سینما دیکھتا ہے اُسے کوئی کچھ نہیں کہتا.تو اس کے معنی یہ ہوتے ہیں
$1953 325 خطبات محمود کہ میں سینما کے لیے مرتا ہوں.مجھے خواہش ہے کہ میں سینما دیکھوں.اگر کوئی شخص کہتا ہے کہ ہمیں جھوٹ بولنے سے منع کیا جاتا ہے لیکن فلاں شخص جھوٹ بولتا ہے اُسے منع نہیں کیا جاتا.تو اس کے معنے یہ ہوتے ہیں کہ میں جھوٹ بولنا چاہتا ہوں.اگر کوئی شخص کہتا ہے ہمیں سود لینے سے منع کیا جاتا ہے اور فلاں شخص سو د لیتا ہے اُسے کوئی نہیں منع کرتا.تو اس کے معنے یہ ہوتے ہیں کہ میں سود لینے کے کے لیے بے تاب ہوں.اس طرح وہ دوسرے کو بد نام نہیں کرتا بلکہ اپنے نقص کو ظاہر کرتا ہے.اور ی سوچتا نہیں کہ جو لفظ میرے منہ سے نکلے ہیں ان سے ہر شخص یہ سمجھ لے گا کہ مجھے بھی اس جرم کی خواہش ہے.اس قسم کا انسان دوسرے پر الزام نہیں لگا تا بلکہ اپنے نقائص کا خود اعلان کرتا ہے.شریعت کہتی ہے کہ تم اپنے نقائص کی ستاری کرو اور دوسروں کے عیوب کی بھی ستاری کرو.4 خدا تعالیٰ کی صفات میں سے ایک صف ستار ہے.پس اگر کوئی شخص گناہ کا مرتکب ہوتا ہے ارادت یا غیر ارادنا تو شریعت کہتی ہے تم اسے چھپاؤ.خدا تعالیٰ اگر تمہارے عیب کو ظاہر نہیں کرتا تو تم بھی اُسے ظاہر نہ کرو.ایک شخص رسول کریم ﷺ کے پاس آیا اور اُس نے کہايَا رَسُولَ اللہ ! میں نے بدکاری کی ہے.آپ نے دوسری طرف منہ پھیر لیا.وہ اُس طرف گیا اور کہایا رَسُولَ اللہ ! میں نے بدکاری کی ہے.آپ نے پھر دوسری طرف منہ پھیر لیا.پھر وہ چکر کھا کر آپ کی طرف آیا اور کہنے لگایا رَسُولَ اللہ ! میں نے بدکاری کی ہے اُس پر آپ نے پھر اس کی طرف سے منہ پھیر لیا.لیکن پھر وہ آپ کے سامنے گیا اور کہنے لگا یا رَسُولَ اللہ ! میں نے بدکاری کی ہے.آپ نے کی فرمایا کیا تم پاگل ہو؟ یعنی میں تو چاہتا تھا کہ تمہارا گناہ چھپا رہے اور تو سمجھتا تھا کہ میں نے سنا ہی ہے نہیں.حالانکہ میں تجھ پر ظاہر کرنا چاہتا تھا کہ جب خدا تعالیٰ نے تیری ستاری کی ہے تو تو اپنے گناہ کو کیوں ظاہر کرتا ہے پھر اس وجہ سے کہ اُس نے چار دفعہ اپنے گناہ کا اعتراف کیا تھا آپ نے اُس کی سزا کا حکم جاری کر دیا 5.غرض جب کوئی شخص دوسرے پر الزام لگا کر کوئی بات کہتا ہے تو وہ در حقیقت اپنی خواہش کا اظہار کرتا ہے.خدا تعالیٰ تو جانتا ہے کہ اس کا دل چاہتا ہے یا نہیں.یا وہ کتنی دفعہ گناہ کر چکا ہے ہے.لیکن دونوں صورتوں میں اُس کا دوسروں پر الزام لگا نا گناہ کی علامت ہے.اور وہ اس گناہ کالی خود ذمہ دار ہوتا ہے کیونکہ اُس نے آپ اپنے عیب کا اظہار کیا اُس کے کسی رشتہ دار یا ہمسایہ نے
$1953 326 خطبات محمود نہیں کیا.اور اُس سے زیادہ احمق کون ہوگا جس کا گناہ خدا تعالیٰ نے تو پردے میں چھپایا لیکن اُس نے اُسے ظاہر کر دیا.اسی کا نام عدم تہذیب ہے.پس یا درکھو مومن مہذب ہوتا ہے.وہ اپنی کمزوری کو چھپاتا ہے اور دوسرے کے سامنے اُسے ظاہر نہیں کرتا.لیکن ایک غیر مہذب انسان اپنی کمزوری کو بیان کر کے اُسے خود ظاہر کر دیتا ہے ہے.اور جب وہ کمزوری ظاہر ہو جاتی ہے تو اصلاح کا موقع کم ہو جاتا ہے.اُس کے لیے موقع تھا کہ وہ اپنی کمزوری کو چھپا دے.لیکن اُس کا اظہار کر کے وہ اُسے دبانے کے امکان کو بند کر دیتا ہے اور اس طرح اپنے لیے خود ہلاکت کا گڑھا کھودتا ہے.“ 66 (الفضل 30 ستمبر 1959ء) 1 كنز العمال في سنن الاقوال والافعال.كتاب المعيشة من قسم الافعال اَدَبُ الاكل.نمبر 41699 جلد 15 صفحہ 182.بیروت لبنان 1998ء 2 طه 132 أَنَّكُمْ لَتَأْتُونَ الرِّجَالَ وَتَقْطَعُونَ السَّبِيْلَ وَتَأْتُونَ فِي نَادِيكُمُ الْمُنْكَرَ فَمَا كَانَ جَوَابَ قَوْمِةٍ إِلَّا أَنْ قَالُوا انْتِنَا بِعَذَابِ اللهِ إِنْ كُنْتَ مِنَ الصُّدِقِينَ (العنكبوت : 30) 4 جامع الترمذی کتاب البر والصلة باب فى الستر على المسلمين، و صحیح بخاری کتاب الادب باب ستر المؤمن على نفسه ( مفهوما ) 5 صحیح بخاری کتاب المحاربين من اهل الكفر والرَّدَّةِ باب سؤالِ الْإِمَامِ المُقِرَّهَلْ أَحْسَنْتَ و صحیح مسلم کتاب الحدود باب من اعترف على نفسه بالزنا
$1953 327 40 خطبات محمود تم خوشی اور بشاشت سے آگے بڑھو اور تحریک جدید کے چندہ میں بڑھ چڑھ کر حصہ لو تا دنیا میں اشاعت اسلام ہو سکے فرموده 27 /نومبر 1953ء بمقام ربوہ ) تشہد، تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا.وو جیسا کہ میں نے احباب کو پچھلے جمعہ کے خطبہ میں بتایا تھا کہ میں جمعہ کے دن شام کو ا لا ہور گیا تھا تاکسی ماہر ڈاکٹر سے اپنے گلے اور دوسری امراض کے لیے مشورہ لے سکوں.جہاں تک گلے کا سوال ہے اس کے بارہ میں گلا کے فن کے ماہروں کی رائے یہ ہے کہ گلے کے اندر سوزش ہے لیکن کوئی خاص بیماری نہیں.ضعف کی وجہ سے پٹھے اور چمڑا ڈھیلا ہو گیا ہے.اور گلے میں جو مختلف مواد پیدا ہوتے ہیں اُن کو جلانے یا نکالنے کی اس میں طاقت نہیں رہی.اس لیے ان کی رائے میں اب صرف ایسا علاج کرنا چاہیے جس سے پٹھوں میں طاقت پیدا ہو.چنانچہ انہوں نے ٹیکوں کے علاوہ بعض معمولی علاج بتائے ہیں جو بظاہر تو میرے لیے مشکل معلوم ہوتے ہی ہیں.کیونکہ میری طبیعت بہت زیادہ حساس واقع ہوئی ہے.ڈاکٹر صاحب نے مجھے یہ علاج بتا یا ت ہے کہ میں تیز ٹھنڈے پانی کے غرارے کروں اور اس کے معا بعد گرم پانی کے غرارے کروں.لیکن مجھے سردی اور گرمی کا امتزاج بہت مضر پڑتا ہے.نہانے کے سلسلہ میں بھی بعض ڈاکٹر
$1953 328 خطبات محمود ایسی تدابیر بتاتے ہیں.لیکن میں اس طرح ہمیشہ بیمار ہو جاتا ہوں.پس میں ان تدابیر پر عمل کرنے کی کوشش تو کروں گا.لیکن بظاہر ایسا کرنا میرے لیے مشکل ہے.گلے کی تکلیف کے علاوہ جو دوسری بیماریاں تھیں.اُن کے لمبے امتحانات کئے گئے.خون ٹیسٹ کیا گیا اور مختلف حالتوں کے ایکسرے بھی لئے گئے.مجھے شبہ پڑتا تھا اور ڈاکٹروں کو بھی بعض علامات سے شبہ پڑا کہ پیٹ کے اندر رسولی نہ پیدا ہوگئی ہو.لیکن ایکسرے سے یہ شبہ دور ہو گیا گوانتڑیوں میں سوزش پائی گئی ہے.بہر حال میں دوائیاں لے آیا ہوں.بیماری کی بنیاد ڈاکٹری اصول کے لحاظ سے ایسی چیزوں پر ہے جو زیادہ اہم نہیں.ڈاکٹر اس نقطہ نگاہ سے دیکھتے ہے ہیں کہ کوئی بیماری ایسی نہیں جو فوراً مہلک ہو اور زیادہ سخت ہو.لیکن انسانی طبیعت ڈاکٹری اصول کے بالکل الٹ دیکھتی ہے.طبیعت یہ کہتی ہے کہ اگر ایک شخص تریسٹھ چونسٹھ سال کا ہو گیا ہے.اُس کا کے اعضاء اور گوشت بیماری کا مقابلہ نہیں کرتے تو یہ زیادہ خطر ناک ہے بہ نسبت اس کے کہ کوئی معتین مرض ہو.کیونکہ معتین مرض کا علاج کیا جاسکتا ہے.لیکن ایک خاص عمر تک پہنچنے کے بعد جسم میں بیماری کا مقابلہ کرنے کے لیے طاقت نہیں ہوتی.بڑی عمر والے کا بخار تو تو ڑا جا سکتا ہے، بڑی عمر والے شخص کے جگر کی اصلاح کی جاسکتی ہے بلکہ اب بعض طریقوں سے سرطان اور کینسر کا علاج بھی ہوسکتا ہے.لیکن یہ امید نہیں کی جاسکتی کہ اس عمر والے کو بیس پچیس سال کی عمر کی طاقت دے دی جائے.جو عام بیماریوں کا مقابلہ کر سکے.اس لیے ڈاکٹر کی نظر میں جو بیماری کم ہے در حقیقت کی طبیعت کے فیصلہ کے مطابق وہ بہت زیادہ ہے کیونکہ اس کا علاج معلوم نہیں ہو سکا.دنیا میں کوئی ایسا طبیب نہیں جو ساٹھ ستر سال کی عمر والے شخص کو بیس پچیس سال کی عمر کا بنا سکے.آج میں حسب دستور سابق تحریک جدید کے وعدوں کے لیے جماعت میں تحریک کرنا چاہتا ہوں.پہلے دفتر کے لوگوں کے لیے بھی کہ جن کے لیے ابتداء تین سالوں کی تحریک کی گئی.اور ان تین سالوں کو بعض لوگ ایک ہی سال سمجھتے رہے.پھر وہ تحریک دس سال تک ممتند کی گئی.پھر اس کے لیے انیس سال کی حد لگائی گئی.اس سال خدا تعالیٰ کے فضل سے وہ انہیں سال بھی پورے ہو جاتے ہیں.اس اثناء میں تحریک جدید کے کام کو وسیع کرنے کے بعد خدا تعالیٰ نے میرا ذہن اس طرف پھیرا کہ تمہارے منہ سے جو عر صے بیان کروائے گئے تھے وہ محض کمزور لوگوں کو ی
$1953 329 خطبات محمود ہمت دلوانے کے لیے تھے.ورنہ حقیقتاً جس کام کے لیے تو نے جماعت کو بلایا تھا وہ ایمان کا ایک جزو ہے.اور ایمان کو کسی حالت میں اور کسی وقت بھی معطل نہیں کیا جاسکتا اور اسے کسی صورت میں ترک نہیں کیا جاسکتا.جس خدا نے آسمان سے محمد رسول اللہ ﷺ پر وحی نازل کر کے مسلمانوں کو نماز صلى الله پڑھنے کی تلقین فرمائی ، جس خدا نے آسمان سے محمد رسول اللہ ﷺ پر وحی نازل کر کے مسلمانوں کو زکوة کی تلقین فرمائی ، جس خدا نے آسمان سے محمد رسول اللہ ﷺ پر وحی نازل کر کے مسلمانوں کو روزے کی تلقین فرمائی ، جس خدا نے آسمان سے محمد رسول اللہ ﷺ پر وحی نازل کر کے مسلمانوں کو حج کی تلقین فرمائی.اُسی خدا نے آسمان سے محمد رسول اللہ ﷺ پر وحی نازل کی کہ ہر مسلمان کا فرض ہے کہ وہ اسلام کی تعلیم کو دنیا کے کناروں تک پہنچائے.اور کوئی روح ایسی باقی نہ رہے جس تک خدا تعالی کا کلام پہنچ نہ جائے.اُس نے اپنے کلام میں اس تعلیم کا نام جہاد رکھا.اور اپنے پیارے رسول کو مخاطب کر کے فرمایا.وَجَاهِدُهُمْ بِهِ جِهَادًا كَبِيرًا 1 تو اس قرآن کے ذریعے ساری دنیا کے لوگوں کے ساتھ جہاد کر.پس اگر کوئی شخص یہ کہہ سکتا ہے کہ آؤ میری خاطر انہیں سال نماز پڑھ لو، اگر کوئی شخص یہ کہہ سکتا ہے کہ آؤ میری خاطر انیس سال زکوۃ دے لو، اگر کوئی شخص یہ کہہ سکتا ہے کہ آؤ میری خاطر انیس سال تک روزے رکھ لو.تو وہ یہ بھی کہہ سکتا ہے کہ میری خاطر انیس سال اشاعت اسلام میں حصہ لے لو.لیکن اگر کسی شخص کے لیے یہ ممکن نہیں کہ وہ مسلمانوں کو مخاطب کر کے یہ کہے کہ تم میری خاطر انیس سال نماز ادا کر لو یا یہ کہے کہ تم میری خاطر انیس سال زکوة دے لو یا میری خاطر تم انہیں سال روزے رکھ لو تو اُس کے لیے یہ بھی ممکن نہیں کہ وہ کسی کو انیس سال کے لیے تبلیغ اسلام اور جہا دروحانی کے لیے بلائے.کوئی کہہ سکتا ہے کہ تم نے خود جماعت کو انیس سال کے لیے تبلیغ اسلام اور جہاد روحانی کے لیے بلا کر اس فعل کا ارتکاب کیا ہے.تو میرا جواب یہ ہوگا کہ اس فعل کا ارتکاب تو میں نے ی نہیں کیا ، ہاں اس جرم کا مرتکب ضرور ہوا ہوں کیونکہ زمانہ تبلیغ اسلام اور جہادروحانی کے فرض کو اتنا بھول گیا تھا اور لوگ اس سے اتنے غافل اور نا واقف ہو گئے تھے کہ میری عقل نے بھی خیال کیا کہ انیس سال تک کی کوششوں کے بعد ان کے گناہوں کا ازالہ ہو جائے گا.لیکن انیس سال کام کرنے کے بعد مجھے اس کا یہ انعام ملا کہ میرا دماغ روشن ہو گیا.اور میں نے اپنی غلطی محسوس کر لی کہ میرا
$1953 330 خطبات محمود انیس سال کی جہاد روحانی کے لیے تحریک کرنا لغو بات تھی.پس مجھے تو نقد جزا مل گئی.تم کو تو تمہاری ہے قربانیوں کے بدلے میں اگلے جہان انعام ملے گا لیکن مجھے اس کا انعام نقد و نقد مل گیا ہے.میں نے خیال کیا تھا کہ شاید انہیں سال کے بعد میں تم کو فارغ کر سکوں گا.لیکن انہیں سال ختم ہونے ، پہلے خدا تعالیٰ نے مجھے نور بخشا اور میں نے اپنی غلطی کو محسوس کر لیا اور سمجھا کہ میرا انیس سال کے لیے تحریک کرنا لغو بات تھی.جس طرح نماز روزہ ، زکوۃ ایک مسلمان پر قیامت تک کے لیے فرض ہیں جہاد روحانی اور تبلیغ اسلام بھی اس پر قیامت تک کے لیے واجب اور فرض ہے.پس میری مثال اُس شخص کی سی ہوگئی جو ایک ایسا درخت لگا رہا تھا جو بہت دیر میں پھل دینے والا تھا.بادشاہ اُس جگہ سے گزرا.اُس کا وزیر بھی ساتھ تھا اور وزیر کو بادشاہ کا یہ حکم تھا کہ جب میں کسی شخص کے کام پر خوش ہو کر ز یعنی " مرحبا یا آفرین“ کا لفظ کہہ دوں تو اُسے تین ہزار درھم دے دیا کرو.بادشاہ نے جب اُس بڑھے کو دیر سے پھل دینے والا درخت لگاتے دیکھا تو اُس نے کہا بڑھے ! کیا تیری عقل ماری گئی ہے کہ تو یہ درخت لگا رہا ہے؟ یہ درخت تو بڑی دیر سے پھل دیتا ہے.جب یہ درخت پھل لائے گا اُس وقت سے پہلے تم قبر میں جا پڑو گے.بڑھے نے کہا بادشاہ سلامت ! آپ کہتے ہیں کہ میں یہ کام کیوں کر رہا ہوں.حالانکہ یہی کام میرے باپ دادا نے بھی کیا تھا.اگر یہی خیال میرے باپ دادا کو بھی آتا تو وہ یہ درخت نہ لگاتے اور آج میں اس کا پھل نہ کھاتا.انہوں نے یہ درخت لگایا اور ہم نے پھل کھایا.اب میں یہ درخت لگاؤں گا اور میرے بچے اس کا پھل کھائیں گے.پھر وہ یہ درخت لگائیں گے اور ان کی اولا د پھل کھائے گی.جب شروع سے یہ طریق چلا آرہا ہے کہ باپ درخت لگاتا ہے اور اولا د اُس کا پھل کھاتی ہے تو میں اس کے خلاف کس طرح کر سکتا تھا.میں یہ درخت لگا رہا ہوں تا میری اولاد اس کا پھل کھائے.بادشاہ نے یہ جواب سُن کر کہا."زہ " واقع میں اس بڑھے نے درست کہا ہے.اگر پرانے لوگ یہ درخت نہ لگاتے تو ہم اس کا پھل نہ کھا سکتے.بادشاہ نے "زہ " کہا تو اُس کے حکم کے ماتحت وزیر نے تین ہزار درھم اُس دہقان کے سامنے رکھ دیئے.وہ بڑھا تھا بڑا ہوشیار اُس نے جھٹ کہا بادشاہ سلامت آپ تو فرماتے تھے کہ تو مر جائے گا اور اس درخت کا پھل نہیں کھائے گا لیکن میں تو ابھی اس درخت کو لگا کر گھر بھی نہیں گیا اور اس کا پھل کھا لیا ہے.بادشاہ نے پھر کہا
$1953 331 خطبات محمود زہ اور وزیر نے تین ہزار درھم کی ایک دوسری تحصیلی اُس کے سامنے رکھ دی.اس پر بڑھے نے کہا بادشاہ سلامت ! آپ تو فرماتے تھے کہ تو مر جائے گا اور اس درخت کا پھل نہیں کھائے گا.لوگ درخت لگاتے ہیں تو سالوں بعد وہ پھل لاتا ہے.اور لوگ اس کا پھل سال میں ایک دفعہ کھاتے ہیں لیکن میں نے ایک گھنٹہ میں دو دفعہ اس کا پھل کھا لیا ہے.بادشاہ نے کہا " زہ" اور وزیر نے تین ہزار درھم کی ایک اور تھیلی اُس کے سامنے رکھ دی.اس پر بادشاہ نے وزیر سے کہا یہاں سے جلدی چلو ورنہ یہ بڑھا تو ہمیں ٹوٹ لے گا.پس اُس بڑھے کی طرح مجھے بھی ہاتھوں ہاتھ انعام مل گیا.یہ ایک ایسی غلطی تھی جس کا موجب مسلمانوں کا جمود اور سستی تھی.میں نے خیال کیا کہ انیس سال تک کام کرنے کی وجہ سے یہ جمود، غفلت اور سستی دُور ہو جائے گی.حالانکہ انیس ہزار سال تک بھی یہ کام کیا جاتا تو اس کو ختم کی کرنے کا سوال پیدا نہیں ہو سکتا تھا.فرض کر لو اس دنیا کی زندگی ابھی انیس لاکھ سال ہے تو جس کی طرح نماز ، روزے، زکوۃ اور حج انیس لاکھ سال تک جائیں گے تحریک جدید بھی انیس لاکھ سال کی تک جائے گی.اگر فرض کر لو کہ دنیا کی زندگی ابھی انیس ہزار سال ہے تو جس طرح نماز ، روزے، زکوۃ اور حج انیس ہزار سال تک جائیں گے تحریک جدید بھی انیس ہزار سال تک جائے گی.اگر فرض کر لو کہ دنیا کی زندگی ابھی انہیں سو سال ہے تو جس طرح نماز ، روزے ، زکوۃ اور حج انیس سو سال تک جائیں گے تحریک جدید بھی انیس سو سال تک جائے گی.تحریک جدید نام تو تمہارے اندر ایک امنگ پیدا کرنے کے لیے رکھا گیا ہے.ورنہ ہے یہ وہی چیز جو وَجَاهِدُهُمْ بِهِ جِهَادًا كَبِيرًا میں بیان کی گئی ہے.کہ تو قرآن کو لے کر ساری دنیا میں جہاد کر.قرآن کریم میں متعدد بار نیکی کو پہنچانے ، پھیلانے اور اس کی تبلیغ کرنے کے ارشاد آئے ہیں.اور ان کی تعداد کم نہیں.جیسے نماز ، روزہ ، اور زکوۃ کے لیے قرآن کریم میں کی احکام نازل ہوئے ہیں ویسے ہی جہاد روحانی اور تبلیغ اسلام کے متعلق بھی ارشادات نازل ہوئے رسول کریم ﷺ نے بھی اس کی جو تعریف کی ہے وہ تھوڑی نہیں.ایک دفعہ آپ نے حضرت علیؓ کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا.اے علی ! یہ سامنے دونوں پہاڑوں کے درمیان جو وادی
$1953 332 خطبات محمود نظر آتی ہے.اگر اس وادی میں اونٹ اور گھوڑے بھرے ہوں اور وہ سب اونٹ اور گھوڑے تجھے مل جائیں تو یہ کتنی بڑی بات ہے.پھر فرمایا اگر تجھے اتنے اونٹ اور گھوڑے مل جائیں تو اس.بہت زیادہ یہ دولت ہے کہ کسی ایک انسان کو تیرے ذریعے ہدایت مل جائے 2ے.ނ دیکھو تبلیغ کرنے اور دوسروں کو ہدایت کی طرف لانے کی کتنی فوقیت اور عظمت آپ نے بیان فرمائی ہے.پس یہ وہ کام ہے جس کو کسی وقت بھی چھوڑا نہیں جاسکتا.پس میں انیس سال کا دور ختم ہونے پر یہ مانتے ہوئے کہ میں نے یہ کہا تھا کہ انیس سال کے بعد یہ دور ختم ہو جائے گا، یہ جانتے ہوئے کہ میں نے یہ الفاظ کہہ کر تمہارے اندر یہ امید پیدا کر دی تھی کہ اس عرصہ کے بعد بہ مالی بوجھ تمہاری پیٹھ سے اُتر جائے گا، بیسویں سال کے وعدوں کی تحریک کرتا ہوں.چاہے تم یہ کہہ لو کہ میں بے شرم ہو کر پھر مانگتا ہوں یا یہ سمجھ لو کہ میں اب زیادہ نور پا کر آ گیا ہوں یا پہلے میں غلطی کا مرتکب ہوا تھا اور اب خدا تعالیٰ نے مجھے غلطی سے نکال لیا ہے.تم یوں بھی کہہ سکتے ہو اور یوں بھی کہہ سکتے ہو.میری مثال وہی ہے جیسے رسول کریم ﷺ نے جب مکہ فتح کیا اور اس کے بعد طائف کی لڑائی ہوئی اور فتح کے بعد غنیمت کے اموال آئے تو آپ نے مکہ والوں کو نئے مسلمان سمجھ کر ان کی استمالت قلب 3 کے لیے اور انہیں اپنی طرف کھینچنے کے لیے اور تالیف قلوب کے لیے اموال اُن کی میں تقسیم کر دیئے.اس پر مدینہ کے انصار میں سے ایک نوجوان نے کہا.خون تو ہماری تلواروں کی کے سروں سے ٹپک رہا ہے اور اموال آپ نے اپنے رشتہ داروں اور خاندان کے افراد میں تقسیم کر دیئے ہیں.یہ بات آپ تک بھی پہنچی.آپ نے انصار کو بلایا اور فرمایا اے انصار ! مجھے اطلاع ملی ہے کہ تم میں سے بعض لوگوں نے یہ بات کہی ہے کہ خون تو ہماری تلواروں سے ٹپک ر ہے لیکن محمد رسول اللہ ﷺ نے اموال اپنے رشتہ داروں میں تقسیم کر دیئے ہیں.انصار نے کہا يَا رَسُولَ اللہ یہ درست ہے کہ ہم میں سے بعض نوجوانوں نے ایسا کہا ہے لیکن ہم ان سے متفق نہیں ہیں.آپ نے فرمایا انصار ! جو بات کسی کے منہ سے نکل گئی نکل گئی.اے انصار ! تم یہ کہہ سکتے ہو کہ محمد رسول اللہ ﷺ مکہ میں پیدا ہوئے.جب بڑے ہو کر آپ نے دعوی نبوت کیا تو قوم نے آپ کو رڈ کر دیا.مکہ والوں نے آپ کو دھتکار دیا اور اپنے گھر سے نکال دیا.ہم جو غیر تھے اور صلى الله
$1953 333 خطبات محمود سینکڑوں میل دور رہتے تھے ہم نے آپ کو پناہ دی اور آپ کو مکہ والوں کے خلاف مدد دی.مکہ والے غصہ میں آکر مدینہ پہنچے اور آپ پر حملہ کیا.اس پر ہم آپ کے دائیں بھی لڑے اور بائیں بھی ای لڑے ، آگے بھی لڑے اور پیچھے بھی لڑے.ہم نے اپنی جانیں قربان کر کے آپ کا وطن فتح کر کے دیا.مگر جب ہمارے خونوں سے آپ کی عزت قائم ہوئی اور آپ کا وطن مکہ فتح ہوا تو محمد رسول اللہ ﷺ نے سارا مال اپنے رشتہ داروں میں تقسیم کر دیا اور ہمیں اس سے محروم کر دیا.انصار ایک بڑی مومن قوم تھے ، وہ محمد رسول اللہ ﷺ کی باتیں سنتے جاتے تھے اور آہ وزاری سے ان کی ہچکیاں بندھتی جاتی ہے تھیں.انہوں نے عرض کیا یا رَسُولَ اللہ ! ہم نے یہ نہیں کہا.ہم میں سے بعض بے وقوف نو جوانوں الله نے ایسا کہا ہے بڑوں نے یہ بات نہیں کہی.ہم سب اس سے بیزار ہیں.آپ نے فرمایا اے انصار ! اس مسئلہ کا ایک دوسرا رخ بھی ہے.تم یوں بھی کہہ سکتے ہو کہ خدا تعالیٰ نے اپنا آخری نبی کی مکہ میں بھیجا اور اس کی وجہ سے مکہ والوں کو عزت بخشی گئی.لیکن مکہ والوں کی بدقسمتی اور ان کے بد اعمال کی وجہ سے وہ اپنے رسول کو مدینہ لے گیا اور جو نعمت مکہ کے لیے مقدر تھی وہ مدینہ کو دے دی گئی.پھر خدا تعالیٰ کے فرشتے نازل ہوئے اور غیر معمولی نشانوں کی مدد سے اُس نے اپنے رسول کو فتح نصیب کی جب اس نے مکہ فتح کر لیا اور کفر کو وہاں سے نکال دیا.تو مکہ والوں کو یہ امید پیدا ہوئی کہ اُن کی نعمت انہیں واپس مل جائے گی.لیکن ہوا یہ کہ مکہ والے تو اونٹ اور بکریاں ہانک کر لے گئے اور مدینہ والے خدا تعالیٰ کے رسول کو اپنے ساتھ لے گئے.کیونکہ باوجود مکہ فتح ہونے کے رسول کے کریم ﷺ نے مدینہ نہیں چھوڑا.پس آپ نے فرمایا اے انصار ! تم اس طرح بھی کہہ سکتے ہو.انصار کی روتے روتے پھر ہچکیاں بندھ گئیں.اور کہا یا رَسُولَ اللہ ! ہم نے یہ بات نہیں کہی 4.اسی طرح آج انیس سال کے بعد یہ بھی ہو سکتا تھا کہ میں تمہارے اموال واپس کر دیتا ہے صلى الله اور کہتا انہیں سال تک جو مال تم نے دیاوہ مال تم لے جاؤ اور اپنے گھروں میں رکھو.مگر جیسا کہ فتح مکہ کے بعد ہوا.یہ بھی ہو سکتا تھا کہ میں کہتا مال اور دولت کی کوئی قیمت نہیں.تم مال اور دولت اپنے کی گھروں میں نہ لے جاؤ بلکہ خدا تعالیٰ کا فضل اور اُسکی رحمت اپنے گھروں میں لے جاؤ تم میں سے کوئی شخص مجھے بیوقوف سمجھے یا عقلمند سمجھے لیکن میں نے تمہارے لیے دوسری چیز کو قبول کیا.جب انیس سال ختم ہونے کو آئے تو میں نے فیصلہ کیا کہ میں تحریک جدید کو اُس وقت تک جاری رکھوں گا
$1953 334 خطبات محمود جب تک کہ تمہارا سانس قائم ہے تا خدا تعالیٰ کا فضل اور اُس کی رحمت صرف انیس سال تک محدود نہ رہے بلکہ وہ تمہاری ساری عمر تک چلی جائے.اور جس کی ساری زندگی تک خدا تعالیٰ کے فضل اور اس کے انعام جاتے ہیں اُس کے مرنے کے بعد بھی وہ اُس کے ساتھ جاتے ہیں.پس میں پھر تم کو تحریک جدید کے وعدوں کی طرف بلاتا ہوں.اُن کو بھی جن کو ابتدائی دور میں حصہ لینے کی توفیق ملی.اور اُن کو بھی جو بعد میں آئے اور وہ اپنے بزرگوں کے نقشِ قدم پر چلنے کے کی کوشش کر رہے ہیں یا انہیں کوشش کرنی چاہیے.میں نے سوچا ہے اب تحریک جدید کی یہ شکل کر دی جائے کہ ہر دفتر جو بنے گا اُس کے دور اول اور ثانی بنتے چلے جائیں.اور ہر ایک انیس سال کا ہو.جن احباب نے بچپن سے وعدے کئے تھے ممکن ہے کہ انہیں چار یا پانچ دور میں حصہ لینے کی توفیق مل جائے.مثلاً اگر چار دور میں حصہ لینے کی کسی کو توفیق ملے تو انہیں کو چار سے ضرب دینے سے 76 سال بن جاتے ہیں.اب اگر کسی شخص نے تیرہ سال کی عمر میں تحریک جدید میں حصہ لیا ہو اور چار دوروں میں شریک رہا ہو اور اسی سال اُس کی عمر ہو تو وہ چار دوروں میں شامل ہو جائے گا.اور اگر کوئی شخص تو ے سال یا سو سال کی عمر کو پہنچ جائے تو وہ پانچ دوروں میں شامل ہو سکتا ہے.اس کے بعد دوسرے لوگ بھی اسی طرح انیس انیس سال کے دوروں میں حصہ لیتے چلے جائیں گے.انیس سال میں میں نے جو حکمت رکھی تھی میں اسے بدلنا نہیں چاہتا.ہر دور کے بعد ایک کتاب لکھی جائے جس میں تمام حصہ لینے والوں کے نام محفوظ کئے جائیں.اور اس کتاب کو جماعت کی لائبریریوں اور مساجد میں رکھا جائے.تا آئندہ آنے والے اُسے پڑھیں.اپنی قربانیوں کا اُس سے مقابلہ کریں اور دیکھیں کہ انہوں نے کس روح سے کام کیا ہے.اس وقت تک دفتر دوم نے قربانی کا وہ نمونہ نہیں دکھایا جس کی ان سے امید کی جاتی تھی.دفتر دوم کے افراد کی قربانی دفتر اول کے افراد کی قربانی سے نصف بھی نہیں.اگر دفتر اول کے چندہ کی نسبت ان کی آمد کا بارھواں ، دسواں یا آٹھواں حصہ بنتی ہے، تو دور دوم کے چندے کی نسبت دور اول کے چندہ کی نسبت کا 1/4 یا 1/2 ہو گی.اس کی یہی وجہ ہے کہ اگر چہ ہمارے نو جوان تنخواہوں کے لحاظ پہلوں سے بہت بڑھ گئے ہیں لیکن ان کے تحریک جدید کے وعدے کم ہیں اور وصولی اور بھی کم ہے.جب کتاب چھپے گی تو دفتر دوم والوں کو معلوم ہوگا کہ ان کی قربانیاں ان کے بزرگوں کی نسبت
$1953 335 خطبات محمود کتنی گری ہوئی ہیں.اسی طرح یہ انہیں سال کا دور اگلوں میں تحریک کرتا جائے گا.ہرا نہیس سالہ دور کے بعد حصہ لینے والوں کی نسبت نکالی جائے گی اور اسے کتاب میں محفوظ رکھا جائے گا تو آئندہ آنے والے اس سے سبق حاصل کریں اور اپنی قربانیوں کو پہلے لوگوں کی نسبت سے زیادہ بڑھائیں.میں آخری وعدوں کی میعاد مقرر نہیں کرتا کیونکہ میں ابھی دفتر سے بات نہیں کر سکا.اور نہ پچھلے سالوں کی تاریخیں مجھے یاد ہیں.یہ تاریخیں غالباً مارچ تک جاتی ہیں.ہاں جماعت کو یا درکھنا تھی چاہیے کہ تحریک جدید کی وصولی اس سال نہایت خطر ناک طور پر کم رہی ہے.ممکن ہے اگر وصولی کا یہی حال رہا تو کام رُک جائے.ابھی تک صرف چھ ماہ کا خرچ ادا ہوا ہے اور ابھی چھ ماہ باقی ہیں.لیکن جو خرچ متوقع ہے اس کے مقابلہ میں خزانہ میں جو روپیہ ہے وہ بہت کم ہے.بجائے اس کے کہ آئندہ چھ ماہ کا خرچ جمع رہتا.کیفیت یہ ہے کہ مجھے ڈر آ رہا ہے کہ موجودہ رقم سے ہم خرج ادا نہیں کرسکیں گے.اور اگر یہی حالت رہی اور دو تین ماہ کا خرچ قرض اٹھا کر کرنا پڑا تو تحریک جدید کی ایسی لپیٹ میں آجائے گی جس سے نکلنا اس کے لیے مشکل ہو گا.تحریک جدید کی جائیداد بھی اس کی کے خرچ میں مدد نہیں کر سکتی.ابھی تک قرضے اُتارے جا رہے ہیں.اُن اخراجات کی وجہ سے جو ی اس جائیداد کی خرید کے سلسلہ میں اس پر ہوئے.یا اُس وقت تحریک جدید نے بعض قرضے لئے تحریک جدید پر ساڑھے آٹھ لاکھ کا قرض تھا.اس لیے جائیداد سے جو آمد ہوتی ہے وہ قرضہ اتارنے میں خرچ ہو جاتی ہے.میں سمجھتا تھا کہ تحریک جدید دفتر دوم اور جائیداد کی آمد دونوں کو ملا کر قرضے اتارے جائیں گے.لیکن اب تو اتنا بوجھ پڑ گیا ہے کہ دفتر اول سے اسی فی صدی رقم دینے کے بعد بھی اخراجات پورے نہیں ہوتے.پس میں اُن دوستوں کو جن کے ذمہ بقائے ہیں توجہ دلاتا ہوں کہ وہ اپنے بقائے جلد ادا کر دیں.وہ مجھے یہ بات یاد نہ دلائیں کہ اس وقت کی مشکلات بہت زیادہ ہیں.یہ بات ہر شخص کو معلوم ہے.تم کو بھی معلوم ہے اور مجھے بھی معلوم ہے.تم بھی اسی ملک کے رہنے والے ہو اور میں بھی اسی ملک کا رہنے والا ہوں.تم میں سے اکثر کی آمد کے ذرائع بھی وہی ہیں جو میرے ہیں.یعنی تمہاری آمدنی کا ذریعہ بھی زمینداری ہے اور میری آمدنی کا ذریعہ بھی زمینداری ہے.بلکہ میری زمین ایسے علاقہ میں ہے جس کی فصل اس سال قطعی طور پر ماری گئی ہے.
$1953 336 خطبات محمود اور یہ سال اس علاقہ کے زمینداروں کے لیے بغیر قرض لئے بظاہر گزارنا مشکل ہے.اِلَّا مَا شَاءَ الله پس میں یہ چیز بھی جانتا ہوں.اس کے دُہرانے کی ضرورت نہیں.لیکن تم بھی یہ جانتے ہو کہ باوجودان مشکلات کے تم اپنے بیوی بچوں کو خرچ دے رہے ہو.تم اپنے گھر کے تمام اخراجات چلا رہے ہو تم تعلیم کے اخراجات چلا رہے ہو.اگر تم باوجود ان مشکلات کے اپنے سارے کام کر رہے ہو اور سمجھتے ہو کہ شاید اللہ تعالیٰ اگلے سال ہمیں فراخی دے دے تو جیسے تم دوسرے کام کرتے ہو.یہ کام بھی کر لو.آخر اس قسم کی تباہیاں ہمیشہ نہیں آیا کرتیں.آٹھ دس سال کے بعد ایسا ہوتا ہے کہ شدید بارش ہو جائے اور فصل تباہ ہو جائے.لیکن ہر سال ایسا نہیں ہوتا.یہی ہوتا ہے کہ کسی سال پندرہ ہیں فی صدی فصل زیادہ ہو گئی.اور کسی سال اسی قدر فصل کم ہوگئی.یہ تباہی کہ فصل پچیس تھیں فی صدی تک آ جائے جس کی وجہ سے اخراجات تو سب اٹھانے پڑیں لیکن نفع کا حصہ سارا ضائع ہو جائے.کیونکہ مالیہ وغیرہ تو دینا ہی پڑتا ہے یہ ہمیشہ نہیں ہوتا.پچھلے سال ہمارے ملک میں کپاس کم ہوئی.زمیندار بہت گھبرائے اِس سال بھی ایسا ہی ہوا ہے.پھر پچھلے سال جہاں کپاس کم پیدا ہوئی وہاں قیمتیں بھی بہت زیادہ گر گئیں.مگر کسی کے خیال میں بھی یہ بات نہیں تھی کہ گندم کی قیمت یکدم بڑھ جائے گی.چنانچہ سات روپے من سے ساڑھے بارہ روپے من تک وہ پہنچ گئی.بلکہ کئی علاقوں میں پندرہ سولہ روپے فی من کے حساب سے گندم یکی.اب اگر کپاس کی فصل اچھی نہ ہونے اور بھاؤ گر جانے کی وجہ سے کسی زمیندار کی آمد 300 کی بجائے 150 روپے رہ گئی تھی تو گندم کے مہنگا ہونے کی وجہ سے اس کی آمد 300 کی بجائے 600 ہو گئی.اور اس طرح کپاس کی قیمت کی کمی نے زمیندار کی آمد کو کم نہ کیا.بلکہ گندم کی قیمت کی بڑھوتی نے اُس کی آمد کو اور زیادہ کرے دیا.پس جو کمی ایک فصل کی خرابی کی وجہ سے ہوئی.اُسے دوسری فصل نے دُور کر دیا.اس سال بھی یہی سننے میں آرہا ہے کہ اس علاقہ کی کپاس کی فصل تقریباً تباہ ہوگئی ہے.اللہ تعالیٰ اس کمی کو دور کرنے کے سامان پیدا کرے گا.ممکن ہے گندم یا دوسری فصلوں میں مثلاً سماد میں جو ابھی بیلا نہیں گیا اور اس سے گر نہیں نکالا گیا اس سے اتنی آمد ہو جائے کہ کپاس کی تباہی کی سے آمد میں جو کمی ہوئی وہ دور ہو جائے.اور پھر ممکن ہے بعض علاقوں میں کپاس کی فصل اچھی
$1953 337 خطبات محمود ہوئی ہو.آمدنوں کا اندازہ خیالی باتوں پر نہیں رکھنا چاہیے.یہ عقل کی بات نہیں کہ ایک سال بعض اتفاقی واقعات کی بناء پر قیمت چڑھ جائے تو آئندہ سال اپنی آمدن کا اندازہ اُس اتفاقی قیمت پر رکھ لیا جائے.جو لوگ خیالی قیمتوں پر اپنی آمد کا اندازہ لگاتے ہیں وہ ہمیشہ نقصان اٹھاتے ہیں.مثلاً پچھلے سے پچھلے سال کپاس کی قیمت 40 روپے من ہو گئی تھی اور اُس سے پہلے اس کی قیمت 55 روپے من تک پہنچ گئی تھی.اب جو شخص اپنی آمد کا اندازہ اس قیمت کے حساب سے لگائے گاوہ حماقت کرے گا.کپاس کی اصل قیمت سات آٹھ سے دس روپے فی من ہوتی ہے.55 روپے نہیں ہوتی.ان قیمتوں کا مل جانا تو ایسا ہی ہے جیسے کسی شخص کو بازار سے گزرتے ہوئے روپوں کی تحصیلی مل جائے.پس ہمیں اپنے اخراجات کا اندازہ لگاتے وقت یہ خیال رکھنا چاہیے کہ کپاس کی کی قیمت سات آٹھ یا حد سے حد دس روپے فی من ہے اور گندم کی قیمت پانچ چھ روپے فی من ہے.اگر لوگ ایسا کریں گے تو ان کے حالات درست ہو جائیں گے اور وہ اپنی آمد کو بڑھانے کی ضرورت محسوس کریں گے.یہی فصل یورپ اور امریکہ میں بھی ہوتی ہے.لیکن وہ لوگ ہم سے زیادہ فائدہ اٹھاتے ہیں جب جاپان میں پاکستانی وفد گیا تو اگر چہ اس میں کسی حد تک مبالغہ بھی تھا لیکن اُس وفد کی رپورٹ تھی کہ وہاں فی خاندان تین ایکڑ زمین ہوتی ہے.لیکن اُس کی آمد 6000 روپے سالانہ وتی ہے.یہ قیمت ہمارے ملک کے لحاظ سے بہت زیادہ ہے.یہ آمد ہم سے ہیں گنے زیادہ ہے.ہمارے ملک میں جس شخص کے پاس ایک مربع زمین ہوتی ہے اور اس کو پانی وغیرہ خوب مالتا ہے تو اُسے خوشحال سمجھا جاتا ہے.ایک مربع کو تین ایکڑ زمین سے ایک اور آٹھ کی نسبت ہے.جاپان کی آمد میں اور کی ہمارے ملک کی آمد میں ہیں گنے کا فرق ہے.یہ فرق اسی وجہ سے ہے کہ انہوں نے سوچا ، غور کیا، محنت کی اور اپنے حالات کو درست کرنے کے بعد ایسی تدابیر نکالیں جس سے ان کی آمد ہم سے کئی گنا زیادہ بڑھ گئی.جو لوگ 55 روپے فی من کے حساب سے کپاس کی آمد کا اندازہ لگاتے ہیں انہیں آمد بڑھانے کے متعلق سوچنے کی ضرورت باقی نہیں رہتی.جب وہ کپاس کی قیمت سات آٹھ روپیہ فی من لگائیں گے اور گندم کی قیمت پانچ چھ روپے فی من لگائیں گے تو انہیں اپنی آمد
$1953 338 خطبات محمود بڑھانے کی فکر ہوگی اور اس سے یقیناً انہیں فائدہ ہوگا.حال ہی میں میں نے مکئی کے متعلق تحقیقات کی ہے.میں امریکہ سے مکئی کا بیج منگوانا چاہتا ہے تھا.ہمارے مبلغ ہو.این.او کے ماہرین زراعت کو ملے.تو انہیں معلوم ہوا کہ اس زمانہ میں ایسے بیج بھی ایجاد ہوئے ہیں جن سے پچاس من سے سومن تک فی ایکڑ پیداوار ہوتی ہے.اب تم سمجھ لو کہ ہماری آمد کو اُن کی آمد سے کیا نسبت ہے.یہاں مکئی کی پیداوار دس من سے بیس من تک ہے.اچھے اچھے علاقوں میں 30 ، 35 من فی ایکڑ ہے.گویا تمہاری ادنیٰ پیداوار یعنی دس من کے مقابلہ میں ان کی پیداوار پچاس من ہے.اور تمہاری اعلیٰ پیداوار 20 من کے مقابلہ میں ان کی پیداوار سومن ہے.اب تم سمجھ لو کہ اگر ایک شخص کے پاس چارا یکٹر زمین ہو اور وہ اس میں سے دوا یکٹر میں مکئی بولے تو اس سے سومن فی ایکڑ کے حساب سے دو سومن مکئی حاصل ہو گی.اب اگر مکئی کی قیمت پانچ روپے فی من بھی فرض کر لی جائے تو تین سو من مکئی سے اسے 1500 روپے مل جائیں گے اور اس کے پاس دوا یکڑ زمین پھر بھی رہ جائے گی.فرض کر لو وہ پھر ایک ایکڑ میں گنا ہوتا ہے.اب گڑ کے لحاظ سے مدراس سے ماریشس تک الگ الگ نسبتیں ہیں.بعض ملکوں میں تین چار سومن بھی گڑ حاصل ہو جاتا ہے بلکہ گنے کے حساب سے تو یہاں تک ترقی کی گئی ہے کہ ایک دفعہ کا بویا ہو اگنا گیارہ گیارہ سال تک کام آتا ہے.اب اگر 300 من گڑ فی ایکٹر فرض کر لیا جائے تو دو ایکڑ سے 600 من گرد میسر آ جائے گا.اگر گرہ کی پرانی قیمت بھی لگالویعنی پانچ روپے فی من بھی لگا لو تو اس کی ہے آمد تین ہزار روپے کی ہوگی.اور اگر کئی کی قیمت 1500 روپے اس رقم میں شامل کر دئیے جائیں تو کل آمد 4500 روپے کی ہوئی.اور زمین صرف تین ایکڑ تھی.اور یہ معمولی آمد ہے جو دوسرے ملکوں میں پیدا کی جاتی ہے.پس بجائے مہنگا اناج فروخت کرنے کے اگر یہ کوشش کرو کہ تمہیں اچھے بیج مل جائیں پھر زمین میں اچھے بل دیئے جائیں اور پانی دیا جائے تو یہ زیادہ بہتر ہوگا.لیکن اگر قیمت کا اندازہ پہلے ہی پچاس روپے فی من لگا لیا جائے تو زمیندار کو فصل زیادہ کرنے کی کوشش کرنے کی کیا ضرورت ہے.حالانکہ اتنی زیادہ قیمت ہر سال نہیں ملتی.ہر سال جو حالات ہوتے ہیں اُن کو مد نظر رکھا جائے تو قیمت یہی ہوگی.بہر حال اگر کسی ملک میں کسی سال غلہ کم ہوتا ہے تو وہ تکلیف اٹھاتا ہے اور
$1953 339 خطبات محمود و اگلے سال ضر ور فصل زیادہ پیدا کرنے کی کوشش کرتا ہے.مگر حکومتی معیار پر یہ بات کبھی کامیاب نہیں ہوتی.اس میں زمیندار کا تعاون لازمی ہے.اس کے تعاون کے بغیر حکومت کی سب تدبیر بسیجی جاتی ہے.دیکھ لو اس دفعہ امریکہ سے غلہ منگوایا گیا.لیکن گورنمنٹ کے تمام افسر، پیداوار زیادہ کی کرنے کے لیے زور لگا رہے ہیں اور جب ملک میں غلہ بڑھ جائے گا اور باہر سے غلہ کم آئے گا.تو ی اس کی قیمت گر جائے گی.پچھلی جنگ کے بعد گندم کی قیمت سوا رو پید فی من تک پہنچ گئی تھی.ایک دفعہ لائل پور کے ایک خوشحال زمیندار قادیان آئے اور انہوں نے مجھ سے کہا کہ میری سرسکندرحیات صاحب کے پاس سفارش کریں ( وہ اُن دنوں ریو نیومنسٹر تھے ) میں اس بات کے لیے تیار ہوں کہ حکومت مجھ سے ساری گندم لے جائے لیکن گرفتار نہ کرے.اس سال گندم کی قیمت اتنی کم ہے کہ میں ریونیو سا را ادا نہیں کر سکتا.پچھلے سال زیورات بیچ کر میں نے مالیہ ادا کیا تھا.اس سال زیورات بھی نہیں ہیں مجھے بند ہونے کا خطرہ ہے.کیونکہ میں سخت کانگریسی رہا ہوں.اس وقت مجھے آپ کے سوا کوئی نظر نہیں آیا جس کے سامنے دستِ سوال دراز کروں.آپ اتنی مہربانی کریں کہ اُن کے پاس میری یہ سفارش کر دیں کہ حکومت ساری گندم لے لے اور باقی مالیہ مجھ پر قرض رکھے کیونکہ میں اُس کے ادا کرنے کی طاقت نہیں رکھتا.یہ بات بہت ہی تکلیف دہ تھی.میں نے سر سکندر حیات صاحب کو خط لکھا کہ اگر یہ واقعات صحیح ہیں تو ہر شریف آدمی کا دل رحم سے بھر جائے گا.آپ اس واقعہ کو دیکھ لیں.اگر یہی حالات ہوں تو محض اس لیے کہ وہ کسی وقت کی کانگرسی تھا یا اب کا نگر سی ہے اُسے مارنے سے کوئی فائدہ نہیں.وہ آدمی شریف الطبع تھے.انہوں نے چوتھے یا پانچویں دن اِس کا جواب لکھوایا.انہوں نے خود تو خط نہ لکھا بلکہ میاں محمد ممتاز صاحب دولتانہ کے والد مرحوم سے لکھوایا جن کے مجھ سے بھی دوستانہ تعلقات تھے اور سردار سکندرحیات صاحب سے بھی دوستانہ تعلقات تھے.انہوں نے لکھا کہ جن صاحب کے نام آپ کی سفارش آئی کی تھی انہوں نے کہا ہے کہ آپ کے مشورہ کے مطابق کام کر دیا جائے گا.بہر حال اُس وقت گندم کی قیمت گر جانے کی وجہ سے یہاں تک نوبت پہنچی تھی کہ ایک شخص جو آسودہ حال تھا وہ ضلع لائکپور میں نہایت اعلیٰ سات آٹھ مربعوں کا مالک تھا لیکن گندم کی قیمت اتنی گر گئی تھی کہ ساری گندم کے دے دینے کے بعد بھی مالیہ رہ جاتا تھا اور وہ ادا نہیں کر سکتا تھا.
$1953 340 خطبات محمود بہر حال قبل از جنگ اوسط قیمت گندم کی تین ساڑھے تین روپے فی من تھی.اب حالت یہ ہے کہ میرا خیال ہے کہ پانچ ، چھ روپے فی من سے قیمت نہیں گرے گی.پس فصل کی قیمت بڑھانے کی بجائے ہمیں پیداوار کو بڑھانے کی کوشش کرنی چاہیے اور یہ کام ہم نہیں کرتے.ہم فصل کی قیمت بڑھا کر اپنی آمد کو زیادہ کرتے ہیں.حالانکہ چاہیے یہ تھا کہ ہم اپنی فصل بڑھا کر آمد بڑھاتے.مثلاً کپاس اور گڑ ہے.گڑ کی پیداوار ہمارے ملک میں پچاس سے سومن فی ایکڑ ہے لیکن یہ بھی خاص ضلعوں میں لیکن ان ممالک میں 300 من فی ایکڑ پیداوار ہے.تم اسے مہنگا تی کرلو تو سارا ملک چیختا ر ہے گا.لیکن اگر اس کی مقدار زیادہ کر لو تو 1500 روپے فی ایکڑ آمد ہو سکتی ہے.یہ سب باتیں میں جانتا ہوں اور ان کے جواب بھی جانتا ہوں بلکہ زمینداروں کو تو میں کہتا ہے ہوں کہ جو تباہیاں تمہاری فصلوں پر آئی ہیں وہ میری فصلوں پر بھی آئی ہیں.جن حالات سے تم ہی گزرے ہوا نہی حالات سے میں بھی گزرا ہوں.اس لیے تم یہ نہ کہو کہ ہماری آمد کم ہوگئی ہے.میں جانتا ہوں کہ اگر تمہاری آمد ایک طرف سے کم ہو جاتی ہے تو دوسری طرف بڑھنے کے امکان بھی ہوتے ہیں.ہمیں زمین اور زمینی چیزوں سے صلح نہ رکھنی چاہیے.ہمیں اُس ہستی سے صلح کرنی چاہیے جس نے زمین کو پیدا کیا ہے، جس نے طاقت پیدا کی ہے.اگر تم اس سے صلح کرو گے ، اگر تم اسے اپنی قربانیوں سے خوش کرو گے تو وہ زمین سے سونا اُگلوائے گی اور تمہارے گھروں کو آرام کی اور راحت سے بھر دے گی.خدا تعالیٰ جب کہتا ہے کہ جنت میں مومنوں کو ایسی نہریں ملتی ہیں جن کی میں دودھ اور شہد چلتا ہے 5.خدا تعالیٰ جب کہتا ہے کہ مومنوں کو جنت میں صاف شفاف محل ملتے ہیں 6 خدا تعالیٰ جب کہتا ہے کہ جنت میں مومن جو چیز مانگیں گے وہ انہیں میسر آجائے گی 7 انہیں جنت میں اعلیٰ سے اعلیٰ غذا ئیں ملیں گی 8 تو ہمارا خدا صرف اگلے جہان کا ہی خدا نہیں.وہ اس جہان کا بھی خدا ہے.اگر تم اس کے بنائے ہوئے طریق پر چلو اور محنت سے کام کرو تو اس دنیا تھی میں بھی وہ تمہیں دودھ اور شہد کی نہریں دے گا.اس دنیا میں بھی وہ تمہارے لیے فراوانی کے سامان پیدا کر دے گا اور تم اس کی رحمتوں اور فضلوں کو دیکھ لو گے.لیکن اگر یہ ہو کہ جس دن تمہارے پاس روپیہ آئے اُسی دن تم خدا تعالیٰ کی نافرمانی کرنے لگو، غریبوں پر ظلم کرنے لگو ، زمین پر اکڑ کر چلنے لگو ،
$1953 341 خطبات محمود ہمسایوں سے میٹھے منہ بات بھی نہ کرو.تو وہ تم پر کیوں فضل کرے گا ؟ وہ تمہیں اس دنیا میں جنہ کیوں دے گا جب کہ تم نے خود دوزخ لے لیا.وہ کہے گا میں جنت تھا تم نے مجھے اپنے دلوں.نکال دیا اور شیطان ، جو دوزخ تھا اُسے اپنے دلوں میں جگہ دے دی.پس اپنے عظیم الشان مقصد کو سامنے رکھتے ہوئے اور یہ یا در کھتے ہوئے کہ جس قدرتم قربانی کرتے ہو اس قدر تم خدا تعالیٰ کے قریب ہو جاؤ گے.اور یہ جانتے ہوئے کہ تمہاری ان کے حقیر قربانیوں ہی کی وجہ سے ہر جگہ مجھے نیچے دکھانے والے ناکام رہے تم خوشی اور بشاشت سے آگے بڑھو اور پہلے سے بڑھ چڑھ کر وعدے لکھواؤ تا دنیا میں اشاعت اسلام ہو سکے اور تمہارا نام مجاہدوں کی فہرست میں لکھا جائے.“ (مصلح 11 دسمبر 1953ء) 1: الفرقان: 53 2 صحیح بخاری کتاب فضائل اصحاب النبی ا باب مناقب علی ابن ابی طالب.3 استمالت قلب: دل جوئی، تالیف قلب ( اردو لغت تاریخی اصول پر جلد اول صفحہ 463 کراچی 1977ء) :4 صحیح بخاری کتاب المغازی باب غزوة الطائف في شوال.....5: مَثَلُ الْجَنَّةِ الَّتِي وُعِدَ الْمُتَّقُونَ فِيهَا أَنْهُرُ مِنْ مَّاءٍ غَيْرِ أُسِنٍ ۚ وَأَنْهُرٌ مِنْ لَبَنٍ لَّمْ يَتَغَيَّرُ طَعْمُهُ وَأَنْهرُ مِنْ خَمْرٍ أَذَةٍ لِلفَرِبِينَ وَأنهُرُ مِنْ عَسَلٍ مُّصَفًّى ( محمد : 16) : تَبْرَكَ الَّذِي إِنْ شَاءَ جَعَلَ لَكَ خَيْرًا مِنْ ذَلِكَ جَنَّتٍ تَجْرِى مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهرُ وَيَجْعَلْ نَّكَ قُصُورًا (الفرقان: 11) وَلَكُمْ فِيهَا مَا تَشْتَهِيَ أَنْفُسُكُمْ وَلَكُمْ فِيهَا مَا تَدَّعُوْنَ ( حم السجدة : 32) مَا : فِيْهِمَا فَاكِهَةٌ وَنَخْلُ وَرُمَّانَ (الرحمن (69) حَدَابِقَ وَأَعْنَابًا (النبا : 33) كُلُوا وَاشْرَبُوا هَيْنَا بِمَا كُنتُمْ تَعْمَلُونَ (المرسلت :44) :
$1953 342 41 خطبات محمود جماعت کے ہر فرد کو یہ محسوس کرنا چاہیے کہ اس کی زندگی کے تمام کاموں میں سے سب سے اہم کام تبلیغ واشاعتِ اسلام ہے فرموده 4 / دسمبر 1953ء بمقام ربوہ ) تشہد ، تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا.گزشتہ جمعہ میں میں نے تحریک جدید کے نئے سال کا اعلان کیا تھا.اُس وقت میں نے وقت کی تعیین نہیں کی تھی.مغربی اور مشرقی پاکستان کے وعدے کس تاریخ تک مرکز میں آجانے چاہیں.آج میں عارضی طور پر مغربی پاکستان کے لیے 15 فروری کی تاریخ مقرر کرتا ہوں اور ی مشرقی پاکستان کے لیے آخر مارچ کی تاریخ مقرر کرتا ہوں.یعنی ان تاریخوں تک ان علاقوں سے وعدے مرکز میں پہنچ جانے چاہیں.اگر بعد میں صیغہ کی سفارش کے مطابق اس میعاد کو بڑھانا پڑا تو بڑھا دیا جائے گا.میں جیسا کہ پچھلے سال کہہ چکا ہوں اور اس سال بھی میں نے کہا ہے تحریک اپنے نئے نام کی وجہ سے کوئی نئی چیز نہیں بن جاتی بلکہ یہ وہی چیز ہے جس کے متعلق قرآن کریم نے ہر مسلمان کو توجہ دلائی ہے اور جو کام کرنا خدا تعالیٰ نے ہر مسلمان پر فرض قرار دیا ہے قرآن کریم نے امت محمدیہ
$1953 343 خطبات محمود کا یہ وصف بیان کیا ہے کہ اُس کا ہر فرد دوسرے لوگوں کو خیر کی طرف بلاتا ہے 1.اور اس میں شبہ ہی کیا ہے کہ سب سے بڑی خیر قرآن کریم اور اسلام ہے.لوگ تو محض اپنے تعلق کی وجہ سے ایک ناقص چیز کو بھی اچھا سمجھنے لگ جاتے ہیں.پھر کتنا افسوس ہو گا مسلمانوں پر کہ وہ اپنے تعلق کی بناء پر اچھی چیز کو بھی اچھا نہ سمجھیں.ایک قصہ بیان کیا جاتا ہے کہ ایک بادشاہ نے اپنے دربار کے ایک حبشی غلام کو ایک ٹوپی دی اور اُسے ہدایت کی کہ تمہارے خیال میں جو سب سے زیادہ خوبصورت بچہ ہو یہ ٹوپی اُس کے سر پر رکھ دو.وہ غلام سیدھا اپنے بچہ کے پاس گیا اور اُس نے وہ ٹوپی اُس کے سر پر رکھ دی.اس پر سب لوگ ہنس پڑے کیونکہ اُس کا بیٹا کالے رنگ کا تھا.اُس کی شکل بہت بد نما تھی ، اس کی آنکھیں پھٹی پھٹی تھیں، بال چھوٹے اور کنڈلوں والے تھے.دوسرے بچے سفید رنگ کے تھے.اُن کے کی نقش نازک اور خوبصورت تھے.لیکن اُس غلام نے ٹوپی پہنائی تو اپنے بد شکل بچہ کو.بادشاہ نے کہا میں نے تو تمہیں کہا تھا کہ یہ ٹوپی اُس بچہ کو پہناؤ جو تمہارے نزدیک سب سے زیادہ خوبصورت ہو.مگر تم نے یہ کیا کیا کہ ایک بدشکل کو یہ ٹوپی پہنادی؟ اُس غلام نے کہا بادشاہ سلامت ! آپ نے ٹوپی میرے ہاتھ میں دی تھی اور کہا تھا کہ تمہارے نزدیک جو بچہ خوبصورت ہے یہ ٹوپی 1 پہنا دو.اور مجھے یہی بچہ سب سے زیادہ خوبصورت نظر آتا ہے.اس واقعہ سے یہ بتانا مقصود ہے کہ تعلق کی وجہ سے بھی کسی چیز میں حسن پیدا ہو جاتا ہے.حسن دو قسم کے ہوتے ہیں.ذاتی 2 اضافی.ایک حُسن تو ایک پینٹر اور نقاش کے نقطہ نگاہ میں ہوتا ہے.وہ ایک چیز کو ایسا حسن دینا چاہتا ہے کہ دنیا کے اکثر افرادا سے حسین سمجھ لیں.لیکن ایک حُسن وہ ہے جو تعلق کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے.مثلاً خاوند کے نزدیک سب سے زیادہ خوبصورت بیوی اسکی اپنی بیوی ہو گی.اگر یہ جھگڑا چل پڑے کہ فلاں کی بیوی خوبصورت ہے اور میری بدصورت ہے.تو دنیا سے امن اور تقویٰ اُٹھ جائے.اللہ تعالیٰ نے انسانی فطرت ایسی بنائی ہے کہ ایک حُسن اُس کی نظر میں اُس کے تعلق کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے.اور اس سے دنیا کا امن قائم رہتا ہے.پس بیوی جو خاوند کی خدمت کرتی ہے، اُس کے گھر کو سنبھالتی ہے، اس کے بچہ کی ماں ہوتی ہے وہی اُس کی نگاہ میں خوبصورت ہوتی ہے.خاوند مصوروں کے نقطہء خیال کو نہیں دیکھتا.
$1953 344 خطبات محمود وہ فطرت کو دیکھتا ہے اور فطرت اپنی بیوی کو ہی حسین دکھاتی ہے.پس حسن دو قسم کے ہوتے ہیں.ایک ذاتی اور دوسرا اضافی.یعنی وہ حسن جو تعلق کی وجہ سے نظر آ جاتا ہے.مثلاً ایک بچہ ہو وہ چاہے کتنا ہی بدصورت ہو اُس کی ماں اُس سے پیار کرتی ہے اور کہتی ہے "واری جاؤں صدقے جاؤں" میں تیرے لئے اپنی جان قربان کر دوں.حالانکہ دوسرے لوگوں کو اُسے دیکھ کر بعض دفعہ گھن آ جاتی ہے.ایک بچہ رورہا ہوتا ہے.دوسرے لوگ چاہتے ہیں کہ اس کا سر پھاڑ دیں.لیکن اُس کی ماں یہی کہتی ہے ہے.واری جاؤں ، صدقے جاؤں، آؤ میں تمہیں فلاں چیز دوں، فلاں چیز دوں.یہ حسن کیا ہے؟ یہ حسنِ اضافی ہے.یعنی اپنا بچہ ہونے کے احساس نے اُسے خوبصورت کر کے دکھا دیا.زلزلے کے ایام میں جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام عارضی طور پر باغ میں جا کر ٹھہرے.تو اتفاقاً مولوی عبد الکریم صاحب کی جو جھونپڑی بنائی گئی وہ پیر افتخار احمد صاحب مرحوم کی جھونپڑی کے ساتھ تھی.اتفاق کی بات ہے کہ مولوی عبد الکریم صاحب اور پیر افتخار احمد صاحب شہر میں بھی قریب قریب رہتے تھے.مولوی عبدالکریم صاحب مسجد مبارک کے اوپر والے کمروں کی میں رہتے تھے اور مسجد کے نیچے ایک دو کو ٹھڑیاں تھیں جن میں پیر افتخار احمد صاحب رہتے تھے.لیکن بہر حال وہاں کچھ نہ کچھ فاصلہ تھا لیکن باغ میں جا کر فاصلہ بالکل نہ رہا.پیر صاحب کے بچے عام طور پر زیادہ روتے تھے لیکن پیر افتخار احمد صاحب بڑے مزے سے انہیں کھلاتے رہتے تھے.ہمارے ملک کے عام دستور کے خلاف پیر صاحب بچے خود کھلایا کرتے تھے اور انکی بیوی بچوں کی کی طرف بہت کم توجہ دیا کرتی تھیں.ایک دفعہ پیر صاحب کے بچے رو ر ہے تھے.پیر صاحب انہیں تھپکیاں دے کر چپ کرا رہے تھے کہ مولوی عبدالکریم صاحب نے کہا پیر صاحب ! میرا تو جی چاہتا ہے ہے کہ اس بچہ کو باپ سے چھین کر زمین پر شیخ دوں.یہ اتنا شور مچاتا ہے کہ میرا خون کھولنے لگ جاتا ہے.اور میری تو سمجھ میں نہیں آتا کہ آپ اس شور کو کس طرح برداشت کر لیتے ہیں؟ پیر صاحب نے کہا میری سمجھ میں بھی یہ بات نہیں آتی کہ بچہ میرا ہے، میں اسے کھلا رہا ہوں اور مجھے تو کوئی غصہ نہیں آرہا لیکن آپ کو غصہ کیوں آ رہا ہے.اب وہ شور بھی انہیں اچھا لگتا تھا کیونکہ وہ اُن کا اپنا بچہ تھا.غرض اپنی چیز کا بھی ایک حُسن ہوتا ہے.اور یہ حسن اضافی کہلاتا ہے.یعنی یہ حسن دوسروں کو نظر آئے یا نہ آئے تعلق رکھنے والوں کو نظر آتا ہے.
خطبات محمود 345 $1953 اب ایک مسلمان کے لیے یہ کتنی خوشی کی بات ہے کہ اُس کے مذہب کا حسن اضافی بھی ہے اور حسن حقیقی بھی ہے.یعنی وہ چیز دوسروں کو بھی اچھی نظر آتی ہے.اور پھر وہ حسن اضافی بھی رکھتی ہے یعنی ہر مسلمان کو اپنے تعلق کی وجہ سے وہ حسین نظر آنی چاہیے.گویا اس کے لیے کسی جد و جہد اور کوشش کی ضرورت نہیں وہ چاروں طرف سے مذہب کے حسن میں لپٹا ہوا ہے.اگر غیر مذاہب والے اپنے مذہب کے لیے جو اپنے اندر خرابی رکھتا ہے اور اپنی ذات میں خوبصورتی نہیں.صرف حُسنِ اضافی کی وجہ سے قربانی کرتے ہیں تو کتنے تعجب کی بات ہوگی کہ مسلمان جس کا مذہب حسن اضافی بھی رکھتا ہے.اور حسن ذاتی بھی ، وہ اس کے لیے قربانی نہ کرے.ایک شخص کی جیب میں رنگا رنگ کے پتھر پڑے ہوئے ہیں.اور وہ ان کو اپنا ہونے کی وجہ سے بچانا چاہتا ہے.جیسے بچے ہوتے ہیں وہ خوبصورت پتھروں کی وجہ سے آپس میں لڑ پڑتے ہیں.اور ایک شخص کی ہے جیب میں ہیرے ہوتے ہیں.ان میں حُسنِ ذاتی بھی ہوتا ہے.کیونکہ ہیرے ہر ایک کو اچھے لگتے تھے ہیں اور حُسن اضافی بھی ہوتا ہے.یعنی اپنی ذات میں بھی وہ قیمتی ہوتے ہیں.اور جس کی ملکیت میں وہ ہوں اس کے لیے وہ حُسنِ اضافی بھی رکھتے ہیں.وہ یونہی پڑے ہوں تب بھی وہ قیمتی ہیں اور کسی کے پاس ہوں تب بھی قیمتی ہیں.اب کیا کوئی عقلمند انسان یہ سمجھ سکتا ہے کہ اول الذکر تو پتھروں کی حفاظت کرے گا لیکن دوسرا شخص ہیروں کی حفاظت نہیں کرے گا ؟.پس مسلمانوں کو اللہ تعالیٰ نے ایسے مقام پر کھڑا کیا ہے کہ وہ مقام دوسروں کے مقام سے نرالا ہے.علاوہ اس کے کہ اسلام اُس کا اپنا مذہب ہے اور اُس کے لیے حسن اضافی رکھتا ہے.وہ اپنی ذات میں بھی ایک حسین چیز ہے اور دوسروں کے لیے بھی اس کا حسن اپنے اندر کشش رکھتا ہے ہے.جب رسول کریم ﷺ نے دعویٰ کیا تو مکہ والوں نے آپ کا مقابلہ کیا.ایسے لوگوں نے بھی اپنے وقت کے انبیاء کا مقابلہ کیا تھا.وہ لوگ کیوں مقابلہ کرتے تھے؟ قرآن کریم کہتا ہے کہ وہ کہتے تھے کیا ہم اُس مذہب کو چھوڑ دیں جس پر ہمارے آباؤ اجداد قائم تھے 2ے.گویا وہ ذاتی حسن کو نہیں دیکھتے تھے.بلکہ صرف حُسنِ اضافی اُن کے پیش نظر تھا.اور حسنِ اضافی بھی اتنا پسندیدہ ہوتا تھی ہے کہ باوجود اس مذہب کے خراب ہونے کے ان لوگوں نے اپنے مذہب کو چھوڑنا نہ چاہا.اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ اگر تمہارے آباؤ اجداد بیوقوف ہوں گے تو کیا پھر بھی تم اس کی
$1953 346 خطبات محمود مذہب کو نہیں چھوڑو گے 3.غرض باوجود اس کے کہ وہ جاہلانہ باتیں تھیں ان لوگوں نے ان کی کے لیے اپنا مال، وطن اور عزیز قربان کئے تا وہ چیزیں جو محض جاہلانہ ہیں لیکن ان کی ہیں بچ جائیں.لیکن افسوس ہے ایک مسلمان پر کہ وہ اس چیز کے لیے بھی کوئی کوشش نہیں کر رہا جو حُسنِ اضافی بھی رکھتی ہے اور اپنی ذات میں بھی اچھی ہے.عیسائی لوگ عیسائیت کی تبلیغ کے لیے دنیا کے کناروں تک پھیلے ہوئے ہیں.آج سے کی بھیس میں سال پہلے میں نے ایک رسالہ میں پڑھا تھا کہ رومن کیتھولک اور پروٹسٹنٹ عیسائیوں کے پادری بشمولیت چھوٹے پادریوں کے یعنی اُن لوگوں کے جو مدرس کے طور پر ، ڈاکٹر کے طور پر یا نرسوں کی شکل میں مقرر کر دیے جاتے ہیں.56 لاکھ ہیں.اب اس سے اندازہ لگا لو کہ اگر چرچ کے ساتھ تعلق رکھنے والا کام یعنی تبلیغ ، تصنیف، تدریس ، ڈاکٹر اور نرسوں کا کام 56 لاکھ آدمی کر رہا ہے ہے تو ان پر کتنا روپیہ خرچ ہو رہا ہوگا.ہمارے ملک کے گزاروں اور تنخواہوں سے اُن ملکوں کے گزارے اور تنخواہیں بہت زیادہ ہیں.ہمارے ملک میں پچاس ساٹھ روپے ماہوار پر ایک آدمی رکھا جاسکتا ہے.لیکن امریکہ میں چھوٹی سے چھوٹی تنخواہ 120 ڈالر یعنی چار سو روپیہ ماہوار ہے.اگر اس سے کم تنخواہ دی جائے تو حکومت اس پر مواخذہ کرتی ہے.اسی طرح انگلستان میں اُن سکلڈ لیبر (Unskilled Labour) پر دو تین پونڈ ہفتہ واری لگ جاتے ہیں.جو ہمارے ملک کے لحاظ سے سو سو سو روپیہ بنتا ہے.اور فنی مزدور پر تو سات آٹھ پاؤنڈ ہفتہ وار خرچ آجاتا ہے.یعنی ان کی تنخواہ تین تین چار چار سو روپیہ ماہوار ہوتی ہے.ہمارے ہاں ہائی اسکول کے ایک ہیڈ ماسٹر کی تنخواہ تین یا چار سو روپیہ ماہوار ہوتی ہے.لیکن اُن کے ایک مزدور کی اس قدر تنخواہ ہوتی ہے.اور اگر اُن ملکوں میں ایک مزدور کی اس قدر تنخواہ ہوتی ہے تو تم خود اندازہ لگا لو کہ ان 56لاکھ مشنریوں ، مصنفوں ، ڈاکٹروں ، ٹیچروں ، نرسوں ، خدمت گاروں پر کیا خرچ آتا ہوگا.اگر کم از کم ایک سو روپیہ ماہوار خرچ فی فرد بھی لگا لیا جائے تو 56 کروڑ روپیہ ماہوار خرچ آجاتا ہے.لیکن ظاہر ہے کہ وہ خرچ اِس سے کہیں زیادہ ہے.جو صیغے عیسائیت کی ترقی کے لیے کام کر رہے ہیں یہ تمام صیغے چاہے وہ ڈاکٹر ہوں ، نرسیں ہوں ، اسکول ہوں، کالج ہوں ، سوال و جواب لکھانے والے ہوں یا سبق یاد کرانے والے ہوں.مثلا مسیح کون تھا؟ اور وہ کیوں آیا ؟ جیسے
$1953 347 خطبات محمود ہم نے دیہاتی مبلغین رکھے تھے.لڑ یچر تقسیم کرنے والے ہوں جن کا کام پمفلٹ تقسیم کرنا ہوتا ہے.ان کا مقابلہ صرف ہماری جماعت کر رہی ہے.باقی سارے مسلمان حکومتوں ، بادشاہتوں اور وزارتوں کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں.صرف ہماری ہی جماعت ہے جس کی بادشاہت صرف اسلام ہے، جس کی حکومت صرف اسلام ہے.جس کی عزت صرف اسلام ہے.تعجب کی بات ہے کہ وہ مسلمان جو حکومتوں ، بادشاہتوں اور وزارتوں کے متلاشی ہیں اور رات دن انہی کے پیچھے مارے مارے پھر رہے ہیں ہم پر الزام لگاتے ہیں کہ تم سیاسی انقلاب بر پر کرنا چاہتے ہو.حالانکہ جہاں تک یہ سوال ذہنیت کے ساتھ تعلق رکھتا ہے ہر ایک شخص انقلاب برپا کرنا چاہتا ہے.کیا ایک مزدور نہیں چاہتا کہ اُس کی حالت پہلے سے اچھی ہو ؟ کیا اس خواہش اور جذبہ کی بناء پر اُسے باغی قرار دیا جائے گا ؟ کیا اُسے حکومت کا تختہ اُلٹنے والا قرار دیا جائے گا ؟ کہ ایک ڈسپنسر نہیں چاہتا کہ اس کی تنخواہ بڑھ جائے اور ڈاکٹر اُس پر زیادہ بختی نہ کر سکیں ؟ اس قسم کا ذہنی انقلاب ہر ایک شخص میں ہوتا ہے.پس ہمارا یہ خواہش کرنا کہ اسلام کی تعلیم دنیا میں پھیلے اور تمام ادیان پر غالب آجائے سیاسی انقلاب نہیں.سیاسی انقلاب وہ ہوتا ہے جس کے لیے سیاسی تراکیب استعمال کی جائیں.پس جہاں تک ہماری یہ خواہش ہے کہ اسلام اور رسول کریم علیہ تعلیم تمام دنیا پر غالب آجائے ہمیں اس کا انکار نہیں.لیکن ایک ادنی عقل والا بھی اسے سیاست کی نہیں کہہ سکتا.یہ ایک خالص مذہبی خواہش ہے یہ خواہش سیاسی تب بنتی ہے جب اس کے حاصل کی کرنے کے لیے سیاسی جتھے بنائے جائیں، سیاسی پارٹیاں بنا ئی جائیں تا حکومت پر قبضہ کیا جائے.تب اس کا نام سیاست ہوگا.اس سے پہلے یہ صرف مذہب ہے.پھر صرف مذہب ہی نہیں چاہتا کہ وہ دوسروں پر غالب ہو ، فلسفہ بھی یہی چاہتا ہے.جب کوئی شخص فلسفہ پڑھتا ہے اور اقتصادی اور معاشی حالات کے ماتحت علم حاصل کرتا ہے تو وہ بھی یہی چاہتا ہے کہ ان میں سے اچھی باتوں کو دنیا میں جاری کیا جائے.اس خواہش کی بناء پر ہم اسے ایک فلسفی تو کہیں گے لیکن ایک انقلابی نہیں کہیں گے.جس طرح اسلام کے متعلق اس قسم کی خواہش رکھنے والے کو ہم مذہبی کہیں گے انقلابی نہیں کہیں گے.اسی طرح فلسفیانہ تجربوں کے ماتحت اقتصادی اور معاشی تغیر کی خواہش رکھنے والے کو ہم صرف
$1953 348 خطبات محمود فلسفی کہیں گے.لیکن جب اس کے لیے جوڑ تو ڑ شروع ہوں گے اور اس کے لیے آئینی طریقے استعمال کیے جائیں گے تو ہم کہیں گے یہ آئینی سیاست ہے.اور جب یہ جوڑ تو ڑ غیر آئینی ہے طریقوں سے ہوں گے تو ہم اسے غیر آئینی سیاست کہیں گے.لیکن منبع کے لحاظ سے وہ صرف فلسفہ ہوگا یا صرف مذہب ہوگا.غرض دوسرے لوگ کچھ کہیں.حقیقت یہ ہے کہ ہم دنیوی حکومت نہیں چاہتے.ہم صرف ا یہ چاہتے ہیں کہ ہماری زندگیاں تبلیغ اور اشاعت اسلام میں لگ جائیں.باقی یہ کہ کسی جگہ احمدی عالی زیادہ ہو جائیں اور جمہوریت کے لحاظ سے وہ زیادہ نمائندگی کا حق رکھتے ہوں تو یہ ہماری تحریک کا حصہ نہیں.یہ ایک اتفاقی حادثہ ہو گا.ہماری دلچسپی صرف اس میں ہے کہ دنیا کے کونے کونے میں اسلام کی تبلیغ پھیل جائے اور پھر اسلام تمام ادیان پر غالب آ جائے.جس طرح کہ وہ قدیم ایام کی میں غالب تھا بلکہ اُس سے بھی بڑھ کر.اور اسی کام کے لیے تحریک جدید کو جاری کیا گیا ہے.اور ی یہی کام ہر مسلمان پر واجب قرار دیا گیا ہے.پس یہ تحریک کسی خاص گروہ سے مختص نہیں.بلکہ ہر احمدی کا فرض ہے کہ وہ اس میں حصہ لے.جو احمدی اس تحریک میں حصہ نہیں لے گا ہم اسے احمدیت اور اسلام میں کمزور سمجھیں گے.کیونکہ جس شخص کے دل میں یہ خواہش نہیں کہ وہ اسلام کی خدمت اور احمدیت کی اشاعت کے لیے کچھ خرچ کرے اُس کا اسلام لانا یا احمدیت قبول کرنا محض بے کا رہے.میں نے جیسا کہ پہلے بھی بتایا ہے پہلے دور والوں اور دوسرے دور والوں میں میں نے فرق رکھا ہے.اس کے معنے یہ ہیں کہ وہ اَلسَّابِقُونَ الْاَوَّلُوْنَ ہیں.انیس سال کے بعد ان کے نام چھپوا کر لائبریریوں میں رکھے جائیں، جماعتوں کے اندر پھیلائے جائیں ، خود ان کے پاس یادگار کے طور پر بھیجے جائیں تا وہ انہیں اپنی زندگی میں بطور یادگار رکھیں اور اپنے بعد اپنی نسلوں کے لیے یادگار کے طور پر چھوڑ جائیں.میں نے یہ بھی بتایا تھا کہ پہلے لوگوں نے انتہائی قسم کی قربانی کی ہے.مجھے معلوم ہے کہ جماعت کے بعض مردوں اور عورتوں نے اس تحریک میں اپنی پانچ پانچ چھ چھ ماہ کی آمد لکھوادی تھی.اور اس کی وجہ یہ تھی کہ یہ تحریک پہلے محدود عرصہ کے لیے تھی اور انہوں نے خیال کیا کہ چلو
$1953 349 خطبات محمود اتنے سال ہم قربانی کر لیں.اب اسے ہمیشہ کے لیے کر دیا گیا ہے.پس میں سمجھتا ہوں کہ اُن کے لیے اتنی قربانی کرنا در حقیقت اب بوجھ ہے کہ اسے ہر شخص نہیں اٹھا سکتا.ہوسکتا ہے کہ بعض کے لوگ بغیر اولاد کے ہوں یا وہ اپنے اخراجات بہت کفایت سے کرتے ہوں.اُن کو مستنی سمجھا جاسکتا ہے.وہ اگر چاہیں تو اپنی قربانی کو اس معیار پر رکھیں لیکن باقی لوگوں کے لیے جنہوں نے پہلے سالوں میں بہت زیادہ قربانی کی میری تجویز یہ ہے کہ وہ اپنے معیار قربانی کو گرا دیں.مگر یکدم گرانے سے چونکہ بجٹ کو نقصان پہنچے گا اس لیے وہ یکدم نہ گرائیں بلکہ ہر سال دس دس فی صدی کمی کرتے جائیں.میرے نزدیک موجودہ آمدنوں کو مدنظر رکھتے ہوئے اگر کوئی شخص اپنی ایک ماہ کی آمد کا پچاس فی صدی دے دیتا ہے تو یہ ایک اچھی قربانی ہے کیونکہ اس کے ساتھ دوسرے چندے بھی ہیں جو فرضا دینے پڑتے ہیں.پس اگر کوئی شخص اپنی ایک ماہ کی آمد کا نصف دے دیتا ہے مثلاً اُس کی سو روپیہ ماہوار آمد ہے تو پچاس روپیہ وعدہ لکھوا دے تو سمجھا جائے گا کہ اُس نے اچھی قربانی کی ہے.اور اگر وہ ایک ماہ کی پوری آمد یعنی سو کی سوروپے ہی بطور وعد ہ لکھوا دے تو ہم سمجھیں گے کہ اس نے تکلیف اٹھا کر قربانی کی ہے.لیکن جنہوں نے پانچ پانچ یا چھ چھ ماہ کی آمد نیاں چندہ میں لکھوادی ہیں وہ اگر اپنی قربانی کو آئندہ بھی اس معیار پر رکھیں تو وہ گھر کے نظام کو بگاڑنے والے ہوں گے.سوائے چند افراد کے کہ جن کے اخراجات محدود ہیں.عام حالات میں یہ اجازت ہے بلکہ میں یہ پسند کروں گا کہ ایسے لوگ اس سال دس فیصدی کے حساب سے اپنا چندہ کم کرتے جائیں.یہاں تک کہ چندہ ایک ماہ کی آمد کے برابر ہو جائے تا اتنے عرصے میں دور دوم کو ترقی حاصل ہو جائے اور چندہ کی مقدار بڑھ جائے.پس ہر احمدی مرد اور ہر احمدی بالغ عورت کا فرض ہے کہ اس تحریک میں شامل ہو بلکہ بچوں میں بھی تحریک کی جائے اور رسمی طور پر انہیں اپنے ساتھ شامل کیا جائے.مثلاً اپنے وعدہ کے ساتھ اُن کی طرف سے بھی کچھ حصہ ڈال دیں.چاہے ایک پیسہ ہو ، دو پیسے ہوں یا ایک آنہ ہو.اس سے ان کے دلوں میں تحریک ہو گی.بلکہ بجائے بچہ کی طرف سے خود وعدہ لکھوانے کے اُسے کہو کہ وہ خود وعدہ لکھوائے اِس سے اُس کے اندر یہ احساس پیدا ہوگا کہ میں چندہ دے رہا ہوں.بعض لوگ بچوں کی طرف سے چندہ لکھوا دیتے ہیں لیکن انہیں بتاتے نہیں اس سے پورا
$1953 350 خطبات محمود فائدہ حاصل نہیں ہو سکتا.بچے کی یہ عادت ہوتی ہے کہ وہ سوال کرتا ہے.جب تم اُس سے کہو گے کہ جاؤ تم اپنی طرف سے چندہ لکھواؤ تو وہ پوچھے گا چندہ کیا ہوتا ہے؟ اور جب تم چندہ کی تشریح کرو گے تو وہ پوچھے گا یہ چندہ کیوں ہے؟ پھر تم اُس کے سامنے اسلام کی مشکلات اور اُس کی خوبیاں بیان کرو گے.پس بچہ کے اندر اللہ تعالیٰ نے یہ مادہ رکھا ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ سوال کرتا ہے.اگر تم ایسا کرو گے تو اُن کے اندر نئی روح پیدا ہوگی اور بچپن سے ہی اُن کے اندر اسلام کی خدمت کی رغبت پیدا ہوگی.جیسا کہ میں نے بتایا ہے.مغربی پاکستان کے لیے وعدوں کی آخری تاریخ 15 فروری ہوگی اور مشرقی پاکستان کے لیے میں آخر مارچ کی میعاد مقرر کرتا ہوں.ایسے غیر ممالک کے لیے جن میں ہندوستانی بکثرت آباد ہیں حسب دستور آخری اپریل تک کی میعاد ہے.اور جن ممالک کی میں ہندوستانی کثرت سے نہیں پائے جاتے اُن کے لیے وعدوں کی آخری میعاد 15 جون ہوگی.ان تاریخوں تک وعدوں کی لسٹیں آجانی چاہیں.مگر چونکہ بجٹ دسمبر میں بن جاتا ہے اس لیے تمام جماعتوں کو یہ کوشش کرنی چاہیے کہ وہ اپنے وعدے 21 دسمبر تک بھجواد ہیں تا کہ اس پر آئندہ بجٹ کی بنیا درکھی جاسکے.میں پہلے دور والوں سے یہ کہتا ہوں.کہ وہ بجائے سُستی کے کہ میں نے اُن کے لیے نرمی پیدا کر دی ہے، اپنے اندر چستی پیدا کریں.اور ان میں سے ہر ایک، دو اور آدمیوں کو تحریک ا کر کے اُن کے وعدے لکھوائے.اس طرح امید ہے کہ دور دوم کی اتنی رقم ہو جائے گی کہ اس سے تبلیغ وسیع کی جاسکے.سر دست دفتر دوم والوں کی قربانی کا معیار بہت کم ہے اور وصولی بھی بہت کم ہے.پچھلے دو سالوں کا لحاظ رکھا جائے تو وصولی 95,94 ہزار کی ہوتی ہے اور وعدے سوا ڈیڑھ لاکھ کے ہوتے ہیں.اب ظاہر ہے کہ 94, 95 ہزار کے ساتھ دنیا میں تبلیغ نہیں ہو سکتی.تحریک جدید کا سالانہ بجٹ کم سے کم ساڑھے چار لاکھ کا بنتا ہے.اور صاف ظاہر ہے کہ یہ کام 95 ہزار روپے سے نہیں ہوسکتا.اور موجودہ بجٹ سے بھی جو کام ہوتا ہے وہ بہت ناقص ہے.جب تک ہم اپنے ا مشنوں کا سائز کا بجٹ نہ بڑھائیں ، انہیں کتابوں اور لٹریچر کی اشاعت کے لیے رقم نہ دیں ، انہیں دوروں کے لیے خرچ نہ دیں تبلیغ وسیع نہیں ہو سکتی.ایک آدمی کوکسی غیر ملک میں بٹھا دینا اور اس
$1953 351 خطبات محمود کو ڈیڑھ دو سو روپیہ ماہوار دے دینا اس سے تبلیغ وسیع نہیں ہو سکتی.اتنی رقم تو اُن ملکوں کے لحاظ سے ایک مبلغ کی خوراک کے لیے بھی کافی نہیں.ہم نے اگر تبلیغ کو وسیع کرنا ہے تو آہستہ آہستہ ہمیں مبلغوں کے اخراجات کو کم از کم اُن ملکوں کے مزدور کے برابر کرنا پڑے گا.اور انہیں کافی مقدار میں سائر اخراجات دینے پڑیں گے تا وہ ملک میں دورے کر سکیں ، لیکچر دے سکیں ، کتب اور پمفلٹ شائع کر سکیں.اگر موجودہ مشوں کے پر ہی ہم آئندہ تبلیغ کی بنیاد رکھیں اور سائز کے اخراجات کافی مقدار میں دیں تو موجودہ اخراجات سے دو گنے اخراجات کم سے کم ہمیں برداشت کرنے ہوں گے.اس وقت ہمارا کل بجٹ ساڑھے چارلاکھ کا ہے.گویا ہم نو لاکھ روپے سے محمد و دطور پر تبلیغ کر سکتے ہیں.لیکن اگر ہم یورپین طریق پر چلیں تو ہم موجودہ مبلغوں سے اٹھارہ لاکھ روپیہ خرچ کر کے کام لے سکتے ہیں.اگر ہم اٹھارہ لاکھ کی روپیہ تبلیغ کے لیے خرچ کریں تو ہمارے مبلغ دورے کر کے مختلف شہروں میں لیکچر دے سکتے ہیں.لیکچروں کے لیے ہال کرایہ پر لے سکتے ہیں، بڑے لوگوں سے مل سکتے ہیں لٹریچر شائع کرنے اور کی سے تقسیم کرنے کے ذریعہ تبلیغ کو وسیع کر سکتے ہیں.لیکن ہمارے موجودہ مبلغین تو نہایت محدود تعداد میں ہیں.کجا چھپن لاکھ اور گجا دوسو.گویا ہماے مبلغین عیسائی مبلغین کا اٹھائیس ہزارواں کی حصہ ہیں.یعنی اٹھائیس ہزار روپے کے مقابلہ میں تمہاری حیثیت صرف ایک روپیہ کی ہے.لیکن پھر بھی اگر موجودہ مشنوں کو اعلی پیمانے پر قائم کیا جائے ، اگر انہیں سائر اخراجات عمدگی سے دیئے جائیں تو وہ کئی گنا زیادہ کام کر سکتے ہیں.ہم عام طور پر ایک مبلغ کو چار پانچ پونڈ ماہوار تبلیغ کے لیے یتے ہیں.اب تم سمجھ سکتے ہو کہ کیا وہ اس رقم میں ملک کے وسیع دورے کر سکتا ہے.وہ لٹریچر شائع کر سکتا ہے؟ وہاں تو ایک لیکچر کے لیے اتنی رقم میں ایک دفعہ ایک ہال ہی کرایہ پر لیا جاسکتا ہے.پھر وہ اس جگہ تک پہنچے گا کس طرح ؟ پھر انٹرسٹ رکھنے والوں کو لٹریچر کیسے مہیا کرے گا ؟ حقیقت یہ ہے کہ اگر ہم اپنے مبلغین کو کم از کم سو سو پونڈ ماہوار سائر کے لیے دیں تو انہیں کسی حد تک آزادی نصیب ہوسکتی ہے کہ وہ ملک کے دورے کریں ، لیکچر دیں اور لٹریچر تقسیم کری سکیں.اُس دن کے لیے ہمیں تیار ہونا چاہیے اور یہ تیاری تبھی ہوسکتی ہے جب جماعت کا ہر فرد یہ محسوس کرے کہ اُس کی زندگی کے تمام کاموں میں سے سب سے اہم کام تبلیغ اور اشاعت اسلام ہے.
$1953 352 خطبات محمود اس وقت ہمارے مشن زیادہ تر افریقن اور ایشیائی ممالک میں ہیں.کچھ مشن یورپین اور امریکن ممالک میں بھی ہیں.ہم نے ان مشنوں کی تعداد کو بڑھانا ہے.اور انہیں اس قدر مضبوط کرنا ہے کہ ہم اسلام کو پھیلا سکیں.اگر ہم ایسا نہ کریں تو جو بیج ہم نے پھینکا ہے وہ بھی رائیگاں جائے گا.تم جانتے ہو کہ جب تم کسی کھیت میں گندم بوتے ہو تو پھر اُس کی نگہداشت کرتے ہو، اُسے وقت پر پانی دیتے ہو.تب جا کر تم اس کھیت سے فصل حاصل کرتے ہو.لیکن اگر تم ایک ایکٹر میں ہیں پچیس سیر دانے پھینک دو اور پھر اس میں ایک لوٹا پانی کا گرا دو.تو تمہارے ہیں بچھپیس سیر دا نے جو تم نے پیج کے طور پر پھینکے تھے وہ بھی ضائع ہو جائیں گے اور کسی فصل کی بھی تم امید نہیں کر سکو گے.اس طرح اگر ہم نے تبلیغ کے اخراجات کو نہ بڑھایا تو موجودہ دوسو مبلغ بھی ضائع ہو جائیں گے.اگر ان مبلغین کے لیے سامان بہم پہنچائے گئے تو ظاہر ہے کہ موجودہ حالت میں تو ہم ان کے لیے خوراک بھی مہیا نہیں کرتے.پس چاہیے کہ جماعت قربانی کے لیے تیار ہو جائے.ہر احمدی فردی ہر سیکرٹری اور پریذیڈنٹ اور ہر بارسوخ آدمی کا فرض ہے کہ وہ جماعت کے تمام افراد میں تحریک کر کے اُن سے تحریک جدید کے وعدے لے، ان وعدوں کی اطلاع مرکز کو دے اور پھر ان کی وصولی کے لیے پوری کوشش کرے.دور اول سے دور دوم کی طرف آنے کی وجہ - تحریک جدید کو نقصان نہ پہنچے بلکہ وہ پہلے سے بھی زیادہ ترقی کر جائے.“ مصلح 13 دسمبر 1953ء) :1 وَلَتَكُنْ مِنْكُمْ أُمَّةً يَدْعُونَ إِلَى الْخَيْرِ ( آل عمران : 105) 2 وَإِذَا قِيلَ لَهُمُ اتَّبِعُوا مَا أَنْزَلَ اللهُ قَالُوا بَلْ نَتَّبِعْ مَا الْفَيْنَا عَلَيْهِ أَبَاءَنَا ( البقرة: 171) اَوَلَوْ كَانَ آبَاؤُهُمْ لَا يَعْقِلُونَ شَيْئًا وَلَا يَهْتَدُونَ (البقرة: 171)
$1953 353 42 خطبات محمود جلسہ سالانہ پر احباب کثرت کے ساتھ آئیں اور یہاں آکر اپنا سارا وقت دین کے لیے خرچ کریں (فرموده 11 دسمبر 1953ء بمقام ربوہ) تشہد، تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا.آج دسمبر کی 11 تاریخ ہو چکی ہے اور جلسہ کے دن قریب آرہے ہیں.اس لیے میں جلسہ کے متعلق بیرون جات کے احباب کو اور مقامی احباب کو توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ گزشتہ سال یہ شکایت پیدا ہوئی تھی کہ یہاں جن لوگوں نے مکانات بنائے ہیں انہوں نے جلسہ کے مہمانوں کے لیے بہت کم مکانات دیئے ہیں.اور منتظمین اس بات پر بھروسہ کئے بیٹھے رہے کہ مکانات بن رہے ہیں اُن کا معتد بہ حصہ جلسہ کے مہمانوں کے ٹھہرانے کے لیے ہمیں مل جائے گا.اس سال جو بیر کیں بن رہی ہیں اول تو وہ ناقص ہیں اور پھر شاید ان میں اتنے آدمی نہ آئیں جتنے گزشتہ سالوں میں آئے تھے.زنانہ بیرکوں کے متعلق مجھے اطلاع ملی ہے کہ پچھلے سالوں میں وہ اتنی کھلی تھیں کہ تین عورتیں آگے پیچھے سو سکتی تھیں.لیکن اس سال ایسی بیر کیں بنائی جارہی ہیں کہ ان میں صرف ایک عورت بیرک کی چوڑائی میں سو سکے گی.پس گو بظاہر اتنی ہی بیر کیں بنائی جارہی ہیں جتنی پچھلے
$1953 354 خطبات محمود سالوں میں بنائی گئی تھیں.لیکن در حقیقت ان میں گنجائش ایک تہائی کی ہے.پس پہلے تو میں اُن دوستوں کو جنہوں نے ربوہ میں مکانات بنائے ہیں نصیحت کرتا ہوں کہ جہاں تک ہو سکے وہ اپنے مکانوں کا ایک حصہ جلسہ سالانہ کے مہمانوں کے ٹھہرانے کے لیے دیں.اب خدا تعالیٰ کے فضل سے ربوہ میں قریباً ایک ہزار مکان بن چکا ہے.بعض لوگ پورا پورا مکان بھی جلسہ کے لیے دے سکتے ہیں کیونکہ وہ جلسہ سالانہ کے موقع پر ربوہ نہیں آسکیں گے.اور ی بعض لوگ ایسے ہیں جن کے مکانات میں 5, 5-16,6 کمرے ہیں.اگر وہ خود دو تین کمروں میں گزارہ کر لیں تو جلسہ کے لیے سلسلہ کو دو تین کمرے دے سکتے ہیں.لیکن اگر اوسط ایک ایک کمرہ فی مکان کی بھی لگالی جائے تو جلسہ کے لیے ہمیں ایک ہزار کمرے مل سکتے ہیں.اور ایک کمرہ میں دس بارہ مہمان ٹھہرائے جاسکتے ہیں.گویا پرائیویٹ مکانوں میں دس بارہ ہزار مہمانوں کی گنجائش ہو سکتی ہے ہے.پھر مہمان خانہ بھی ہے، اسکول ہیں.اسی طرح ضرورت کے موقع پر مساجد بھی استعمال میں لائی جاسکتی ہیں.یہاں ربوہ میں ایسی سردی نہیں پڑتی جتنی سردی قادیان میں پڑتی تھی.اکثر حصہ موسم سرما کا یونہی گزر جاتا ہے اور محسوس بھی نہیں ہوتا کہ سردیاں آگئی ہیں.ہوا چلتی ہے تو سردی محسوس ہوتی ہے.پھر جلسہ سالانہ کے موقع پر ہجوم زیادہ ہوتا ہے جس کی وجہ سے قدرتا سردی کم ہو جاتی ہے.پس ان دنوں میں مساجد کو بھی رہائش کی جگہ بنایا جاسکتا ہے.اگر ربوہ کی ساری مساجد کو لے لیا جائے تو دو ہزار مہمانوں کے لیے گنجائش نکالی جاسکتی ہے.پھر پرانے دفاتر خالی ہو گئے ہیں انہیں اور سلسلہ کی نئی عمارتوں کو ملا کر دو تین ہزار مہمانوں کے لیے گنجائش نکالی جاسکتی ہے.کارکنوں کو چاہیے کہ وہ جلسہ کے دنوں میں تکلیف اٹھا کر بھی سلسلہ کی عمارتوں کا زیادہ سے زیادہ حصہ خالی کریں.پھر جن لوگوں نے مکانات بنائے ہیں اگر اُن کے ہاں زیادہ مہمان نہیں ہے آ رہے.بعض گھروں میں جلسہ سالانہ کے موقع پر بہت زیادہ مہمان آجاتے ہیں اور وہ پورا کمرہ جلسہ کے لیے نہیں دے سکتے.اُن کو معذور سمجھا جائے.کیونکہ وہ مہمان در حقیقت جلسہ کے مہمان ہی ہوتے ہیں.اور بسا اوقات وہ لوگ دُہری تکلیف برداشت کرتے ہیں.مہمانوں کو جگہ بھی کی دیتے ہیں اور کھانے کو بھی دیتے ہیں.ایسے لوگوں کو مستی کرتے ہوئے باقی دوست اپنے مکانات کا زیادہ سے زیادہ حصہ جو وہ خالی کر سکیں جلسہ سالانہ کے مہمانوں کے ٹھہرنے کے لیے دیں.
خطبات محمود 355 $1953 دوسری چیز خدمت ہوتی ہے.چند لوگ تو ایسے ہوتے ہیں جو مقررہ دنوں میں ہر سال ملے جاتے ہیں.مثلاً ہائی اسکول ، کالج، اور جامعہ احمدیہ کے اساتذہ اور طالب علم ہیں یہ تو بن بنایا ذخیرہ ہیں.جن سے وقت پر کارکن لے لیے جاتے ہیں.ضرورت صرف اس بات کی ہے کہ وقت سے پہلے انہیں اس بات کی ٹرینینگ دی جائے.کوئی بات بھی بغیر سمجھانے اور مشق کرنے کے نہیں ہے آتی.چھوٹی سے چھوٹی چیز کو بھی مشق کرنے اور پوری طرح سمجھنے سے پہلے کیا جائے تو اس میں نقص رہ جاتا ہے.یور بین لوگوں میں یہ خوبی ہے کہ وہ ہر کام سے پہلے ریہرسل (REHEARSAL) کرتے ہیں.ابھی ملکہ برطانیہ کی تاجپوشی ہوئی تو وہاں تمام امور کا ریہرسل کیا گیا.جس سے ہر شخص کو یہ پتا لگ گیا کہ اس نے کہاں سے آنا ہے.کہاں بیٹھنا ہے اور کیا کام کرنا ہے.سب لوگوں کی مشق ہوگئی اور وقت پر کسی غلطی کا امکان نہ رہا.ہمارے ہاں بھی ہر کام کی ریہرسل ہونا چاہیے.اسکولوں میں جو سہ ماہی ، ششماہی اور نو ماہی امتحانات ہوتے ہیں اُن کی غرض بھی یہی ہوتی ہے کہ طلباء کو بتایا جائے کی کہ انہوں نے سالا نہ امتحان کے موقع پر کیا کرنا ہے اور کیا کیا احتیاطیں اُن کے لیے ضروری ہیں.جلسہ سالانہ سے قبل اگر تمام طالب علموں کو اُن کے کام کی ریہرسل کرا دی جائے تو وقت پر غلطی کا امکان کم ہو جاتا ہے.تمام کارکن اپنے اپنے کام پر مقرر ہوں اور مصنوعی طور پر یہ فرض کر لیا جائے کہ آج کام شروع ہے.جن کارکنوں نے گھروں پر کھانا لے جانا ہے.ان کے حصہ کے مکان ان کو بتا کر اُن سے تجربہ کام لیا جائے.وہ اُن گھروں پر پہنچ جائیں ، اُن کو پہچانیں اور گھر والوں کے واقف ہوں.اور جن کا رکنوں نے لنگر خانہ میں کام کرنا ہے اُن کے لیے ایک جگہ کو مصنوعی طور پر لنگر خانہ تجویز کر لیا جائے اور فرض کر لیا جائے کہ کام شروع ہے.سب کا رکن وقت پر کیں اور اپنا اپنا کام سنبھال لیں.اس ریہرسل کا نتیجہ یہ ہوگا کہ وقت پر دقت نہیں ہوگی.جو ملک امن کے دوران میں اپنی فوجوں کو جنگ کی مشق کراتے رہتے ہیں اُن کی فوجیں وقت آنے پر اچھی طرح لڑتی ہیں.اور جو ملک امن کے دوران میں اپنی فوجوں کو جنگی مشق نہیں کراتے اُن کی فوجیں محض ہجوم ہوتی ہیں.اس سے زیادہ ان کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی.دشمن کے حملے کے وقت اُن سے پوری طرح فائدہ نہیں اٹھایا جا سکتا.آج سے سو سال پہلے ایشائی ممالک میں عام طور پر اس قسم کی فوجیں ہوتی تھیں کہ امن کے وقت میں انہیں جنگی مشق نہیں کرائی جاتی تھی.
$1953 356 خطبات محمود صرف وقت آنے پر بعض لوگوں کو بھرتی کر لیا جاتا تھا اور وہ لڑائی میں چلے جاتے تھے.دوتین سو سال قبل یورپ میں بھی یہی حالت تھی.جب لڑائی ہوتی تو بادشاہ نوابوں کو بلواتے.جن کے ذمہ پہلے ہی ایک تعداد لگادی جاتی تھی.اور نواب اپنے ماتحتوں کو حکم بھجوا دیتے کہ اتنے آدمی مہیا کئے جائیں.اُن میں سے بعض موچی ہوتے ، بعض لوہار ہوتے ، بعض ترکھان ہوتے ، بعض دھوبی ہوتے اور بعض نائی ہوتے.وہ اپنے نیزے اور تلوار میں لے کر جمع ہو جاتے.اس زمانہ میں لڑائیاں بھی درحقیقت ایک اکھاڑا ہوا کرتی تھیں.اکھاڑا میں لوگ جمع ہوئے ، گشتی ہوئی اور ی گھروں کو واپس چلے گئے.جب سے فوجیں با قاعدہ اور منظم ہوئی ہیں ،لڑائی کی شکل بدل گئی ہے ہے.اب ہر فوجی قدم ملا کر چلتا ہے.وہ اپنے فرض کو سمجھتا ہے اور وقت پر وہ اپنا فرض ادا کرتا ہے ہے.ہر شخص کو یہ سکھایا جاتا ہے کہ تمہارا دشمن تم پر حملہ کرنے کے لیے کیا کیا طریق اختیار کرے گا اور تم نے دفاع کے لیے کیا کیا طریق اختیار کرنے ہیں.اگر تم نے دشمن پر حملہ کرنا ہے تو حملہ کرنے کی کے لیے کون کون سی جگہیں مناسب ہوں گی.حملہ کے وقت تمہیں کس کس قسم کی تیاری کی ضرورت کی ہے.فوج کے کتنے حصے بنانے ہیں.توپ خانہ اور سواروں اور آج کل موٹروں سے کس طرح کا مالی لینا ہے.یہ ساری باتیں وقت سے پہلے سپاہیوں کو سکھا دی جاتی ہیں.اور پھر وہ سارا سال ان باتوں کی مشق کرتے رہتے ہیں.اسی لئے اب جو جنگیں ہوتی ہیں وہ ماہرینِ فن کی ہوتی ہیں.یہی حال باقی چیزوں کا ہے.اسکولوں میں بھی دیکھ لو استاد ٹرینڈ ہوتے ہیں.ا استادوں کو ٹرینڈ کرنے کی ضرورت اس لیے پیش آتی ہے کہ یہ محسوس کیا گیا ہے کہ خالی تعلیم کا فی نہیں تعلیم دینے کا ملکہ ہونا بھی ضروری ہے.اسکولوں کو فوج سے کوئی تعلق نہیں.لیکن چونکہ یہ کام اہم تھا اور اس کا تعلق تمام ممالک سے تھا اس لیے استادوں کی ٹریننگ کی ضرورت تسلیم کی گئی ہے.اسی طرح باقی کاموں میں بھی آہستہ آہستہ تربیت کا طریق جاری کیا جا رہا ہے.مثلاً ڈاکٹروں کے متعلق یہ فیصلہ کیا گیا ہے کہ وہ امتحان پاس کرنے کے بعد تین سال تک گورنمنٹ سروس کریں.اس سے جہاں یہ فائدہ ہے کہ سرکاری ہسپتالوں میں قابل ڈاکٹر مہیا ہو سکیں گے وہاں یہ فائدہ بھی ہے کہ وہ کامیاب اور تجربہ کار ڈاکٹروں کے ماتحت کام کر کے ٹریننگ حاصل کر لیں گے اور پھر کامیابی سے پرائیویٹ پریکٹس کر سکیں گے..
خطبات محمود 357 $1953 ہمارے کارکنوں کو بھی چاہیے کہ وہ جلسہ سے قبل تمام کام کی مکمل ریہرسل کرائیں اور کام کرنے والوں کو پوری طرح مشاق بنا دیں.اور پھر چونکہ ہمارا کام اخلاقی ہے.اس لیے کارکنوں کو اخلاقی تربیت دینا بھی ضروری ہے.مثلاً کارکنوں کو یہ سبق سکھانا چاہیے کہ اگر کوئی مہمان جوشیلا ہو اور وہ سخت کلامی کرے تو اُن کا کیا رویہ ہونا چاہیے.یا بعض دفعہ کوئی شخص غیر معقول ہوتا ہے وہ عقل کی بات نہیں کرتا محض ضد کرتا ہے.ایسے موقع پر کارکنوں کو کیا طریق اختیار کرنا چاہیے.کھانا پکانے کے اور برتانے کے متعلق بھی ہر سال بعض قواعد وضوابط بنائے جاتے ہیں.اُن کی بھی مشق کروانی مالی چاہیے.پچھلے سال میں نے کہا تھا کہ جلسہ سالانہ کے موقع پر بہت سا کھانا ضائع ہوتا ہے اس لیے یہ احتیاط کی جائے کہ کھانا ضائع نہ ہو.میری اس ہدایت پر ایک حد تک عمل بھی کیا گیا.لیکن میں ہمیشہ دیکھتا ہوں کہ کچھ دن تو ہدایت کے مطابق عمل کیا جاتا ہے لیکن آخری دو تین دنوں میں زیادہ احتیاط نہیں کی جاتی.جس کی وجہ سے خرچ بڑھ جاتا ہے.پچھلے سال بھی یہی ہوا.پہلے دنوں میں کا فی احتیاط کی گئی لیکن آخری دنوں میں اِس طرف توجہ نہیں کی گئی جس کی وجہ سے خرچ بڑھ گیا.اس کے میں کوئی شبہ نہیں کہ گزشتہ سال ایک حد تک اخراجات میں کفایت ہوئی.لیکن اگر کوشش کی جاتی تو اس سے بھی زیادہ کفایت کی جاسکتی تھی.آخری دو دنوں میں بھی قواعد وضوابط کی پابندی کی جاتی تو اتنا خرچ نہ ہوتا.کھا نا اس رنگ میں ضائع ہوتا ہے کہ بعض مہمان گھروں میں ٹھہر جاتے ہیں.اور وہاں کمز ور لوگ غلطیاں کرتے ہیں.اور بعض اوقات شرارتیں بھی کر جاتے ہیں.پھر بعض اوقات سستی اور غفلت سے بھی کھانا ضائع ہو جاتا ہے.مثلاً ایک کارکن کو دو گھروں پر مقرر کیا جاتا ہے.ان دنوں میں مہمانوں کا اس قدر زور ہوتا ہے کہ آج صبح آٹھ مہمان ہیں تو شام کو سولہ ہیں.دوسری صبح بتیں ہیں تو شام کو چونسٹھ ہیں.اور جو شخص سُست ہوتا ہے وہ آپ ہی آپ حساب لگا لیتا ہے کہ آج صبح چار مہمان ہیں تو شام کو آٹھ ہوں گے.حالانکہ یہ بھی ممکن ہے کہ شام کو آٹھ مہمان آئیں اور یہ بھی ممکن ہے کہ شام کو چار ہی مہمان رہیں.یا کسی مہمان کو کام پڑ جائے تو وہ ایک ہی دن جلسہ سن کر واپس چلا جائے اور مہمان پہلے سے کم ہو جائیں.لیکن وہ بغیر تحقیقات کے آپ ہی حساب لگا لیتے ہیں اور کہتے ہیں اتنے مہمان ہیں اُن کے لیے کھانا دیں.اور جب اتنے مہمانوں کی روٹی جاتی ہے تو
$1953 358 خطبات محمود وہ لازماً ضائع ہو جاتی ہے اور گھروں والے بچے ہوئے ٹکڑے کام کرنے والے لوگوں کو دے دیتے ہیں.پھر کا رکن بھی شرماتا ہے کہ اگر ٹکڑے واپس لے گیا تو افسروں کو میری سستی اور غفلت کی کا پتا لگ جائے گا.پس جلسہ سے قبل کارکنوں کو یہ بات اچھی طرح ذہن نشین کرا دی جائے کہ جلسہ کے موقع پر ان کا خدمت کرنا ان کے لیے ثواب کا موجب ہے.اگر وہ اس قسم کی غلطیاں کریں گے تو یہ ثواب ان کے لیے عذاب بن جائے گا.اور انہیں خدا تعالیٰ کی خوشنودی حاصل نہیں ہوگی بلکہ خدا تعالیٰ کی ناراضگی ملے گی.آجکل جماعت سخت مالی مشکلات میں سے گزر رہی ہے.اس کے ذمہ ساری دنیا کی تبلیغ ہے.ابھی تک یورپ، امریکہ ، ایشیاء کے مشرقی جنوبی علاقوں اور افریقہ کے بعض حصوں میں اسلام کا نام نہیں گیا.اور اگر گیا ہے تو ایسی بُری صورت میں کہ لوگوں کو اس سے نفرت ہے.ان سب ممالک میں ہم نے اسلام کی تبلیغ کو وسیع کرنا ہے.اور یہ معمولی بات نہیں بلکہ ہماری چھوٹی سی تی جماعت کے لیے تو یہ کام قریباً ناممکن ہے.اگر سارے مسلمان بھی اس کام میں ہمارے ساتھ مل جائیں تب بھی یہ کام بہت زیادہ ہے.لیکن باقی مسلمانوں کا لا کھواں حصہ بھی تو ہمارے ساتھ متفق نہیں.ایسی صورت میں جبکہ خدا تعالیٰ نے یہ کام ہمارے ذمہ لگایا ہے اور ہم نے یہ بوجھ اٹھانا ہے ہے.جب تک ہم ایک ایک پیسے، ایک ایک دھیلے اور ایک ایک پائی کا حساب نہ رکھیں اور اپنے ہی اموال کو بچا کر اپنے اس کام کے لیے خرچ نہ کریں جو خدا تعالیٰ نے ہمارے ذمہ لگایا ہے.اُس کی وقت ہم اپنے فرض کو ادا نہیں کر سکتے.پس ہر طالب علم کے ذہن میں یہ بات داخل کی جائے کہ تم جو پیسے بچاؤ گے خدا تعالیٰ کے دفتر میں وہ تمہاری طرف سے چندہ شمار ہوگا.کیونکہ جو شخص محنت اور قربانی کر کے سلسلہ کا مال بچا تانی ہے وہ گویا سلسلہ کے لیے چندہ دیتا ہے.مثلاً اگر کوئی طالب علم اچھی طرح کام کرتا ہے اور جو مہمان اس کے ذمہ لگائے گئے تھے اُن کی خدمت کرتا ہے اور اپنی احتیاط کی وجہ سے وہ دس روپے بچالیتا ہے تو خدا تعالیٰ کے دفتر میں یہ لکھا جائے گا کہ اس نے دس روپے چندہ دیا.رسول کریم ہے فرماتے ہیں کہ جو شخص خدا تعالیٰ کی راہ میں دیتا ہے اُس کو بھی ثواب ملتا ہے اور جس کے ہاتھ سے خدا تعالیٰ کی راہ میں کچھ دیا جاتا ہے.اس کو بھی ثواب ملتا ہے 1.خالی اس کو ثواب نہیں ملتا جو خرچ
$1953 359 خطبات محمود کرتا ہے بلکہ اُسے بھی ثواب ملتا ہے جو دیانتداری سے تقسیم کرتا ہے.اگر یہ بات طلباء کے ذہن نشین کرا دی جائے کہ تمہارے لیے کس قدر ثواب کے مواقع موجود ہیں تو وہ کفایت اور احتیاط کو ملحوظ رکھ کر سلسلہ کے اخراجات میں بہت کچھ کمی کا موجب بن سکتے ہیں.ނ پہلی دفعہ باوجود بار بار ہدایات دینے کے سیالکوٹ کے مہمانوں کی طرف شکایت آئی کہ جہاں پر کھانا تقسیم کیا جارہا تھا وہاں ہائی اسکول کے ایک ماسٹر اور کچھ طالب علم دیگ سے اپنے ہاتھ سے بوٹیاں نکال نکال کر کھا رہے تھے.یہ بات جہاں غلیظ ہے اور دیکھنے والوں کو نفرت آتی ہے وہاں دیکھنے والوں پر اس کا بُرا اثر پڑتا ہے کہ جو لوگ ہمیں کھانا کھلانے پر مقرر ہیں ہ پہلے اپنا پیٹ بھر رہے ہیں.اگر ہر دفعہ طلباء کو اس قسم کی نصائح کی جائیں تو یہ چھوٹی چھوٹی شکائیتیں رفع ہو جائیں.اور پھر ہر محکمہ خود بھی تربیت کرے.مثلاً ایک تربیت تو وہ ہے جو افسران جلسہ کرتے ہی ہیں.لیکن اگر اسکول والے اپنے اساتذہ اور طلباء کو جمع کر کے یہ کہیں کہ اگر تم اس قسم کی غلطی کرو گے تو اسکول کی ناک کاٹو گے تم میں سے ایک شخص کی غلطی کی وجہ سے سارے اسکول کا نام بدنام ہو گا.تم خدا تعالیٰ سے کسی قسم کا ثواب حاصل نہیں کر سکو گے.تم محض خدمت کرنے نہیں جاتے بلکہ اسکول کی عزت قائم کرنے بھی جاتے ہو.اگر تم اس قسم کی غلطیاں کرو گے تو اسکول بدنام ہوگا.اسی طرح جامعہ والے اپنے طلباء کو لیکچر دیں اور انہیں نصیحت کریں کہ وہ محض خدمت نہیں کرنے کی جاتے بلکہ وہ خدمت کا اعلیٰ معیار قائم کر کے کالج کے لیے عزت کا باعث ہوتے ہیں.اگر انہوں نے کوئی غلطی کی تو ادارہ کی عزت برباد ہوگی.اگر سارے ادارے ایسا کریں تو منتظمین کا کام آسان ہو جائے گا اور کارکنوں میں کام کا احساس زیادہ ہوگا اور غلطی کم ہو گی.جلسہ کے کارکن عموما انہیں اداروں کے اساتذہ اور کارکن ہوتے ہیں اور ان دنوں میں جن افسروں سے اُن کا تعلق ہوتا ہے وہ چند دن کے لیے مقرر ہوتے ہیں.اس لیے ان کو ان افسروں کی عزت کا اتنا پاس نہیں ہے ہوتا جتنا اُن لوگوں کا جو ان کا مستقل حصہ ہوتے ہیں.مثلاً ایک طالب علم کو افسر جلسہ کا اتنا پاس نہیں کی ہوتا جتنا اسے ہیڈ ماسٹر کی عزت کا پاس ہوتا ہے.کیونکہ افسر جلسہ سے اُس کا چند دن کا تعلق ہے ہے اور ہیڈ ماسٹر سے اُس کا لمبا تعلق ہوتا ہے.اگر ہیڈ ماسٹر اُن کو بلا کر اس قسم کی نصائح کریں کہ اس وقت اسکول کی عزت کا سوال ہے تم میں سے اگر کوئی طالب علم غلطی کرے گا تو اس ایک طالب علم کی
$1953 360 خطبات محمود غلطی سے سارا اسکول بدنام ہو گا.تم کو آج بالکل عُریاں کر کے جماعت کے سامنے پیش کیا جاتا ہے تا وہ تمہارا امتحان لے.اگر تم اس امتحان میں فیل ہو گئے تو ہمارا ادارہ ذلیل ہو گا.تم اپنے ادارہ کو بدنام نہ کرو بلکہ اس کی عزت کو قائم کرو تو طلباء پر اس کا گہرا اثر ہوگا اور وہ غلطیوں سے بچنے کی کوشش کریں گے.پس خالی افسران جلسہ کا ہی یہ کام نہیں کہ وہ اپنے کام کی مشق کرائیں.بلکہ ہر ادارہ کا فرض ہے کہ وہ اپنے اساتذہ اور طلباء کو کام پر بھیجنے سے پہلے ایک پرائیویٹ میٹنگ کرے اور انہیں نصیحت کرے اور سمجھائے کہ وہ ادارہ کی عزت قائم کرنے جا رہے ہیں.اُن کی غلطیاں ادارے کی طرف منسوب ہوں گی.پھر میں باہر کی جماعتوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ وہ کثرت سے جلسہ پر آئیں.جب سے ربوہ قائم ہوا ہے باوجودیکہ یہ ایک کھلی سڑک پر واقع ہے جماعت کے اندر یہ احساس پیدا نہیں ہوا کہ وہ کثرت سے اور بار بار یہاں آئے.جن لوگوں کی یہاں رشتہ داریاں ہیں یا انہوں نے یہاں کی مکان بنائے ہیں وہ تو یہاں آجاتے ہیں.لیکن دوسرے لوگوں میں یہاں آنے کا اُس طرح احساس پیدا نہیں ہوا جس طرح قادیان آنے کا انہیں احساس تھا.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ قادیان کی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا مولد و مدفن تھا.لیکن در حقیقت اس کی اصل فضیلت یہی تھی تھے کہ وہاں دین کا کام کیا جاتا تھا.اور یہی چیز ربوہ کو بھی حاصل ہے.جو شخص اپنے آپ کو محض کسی مقام سے وابستہ کر لیتا ہے اُسے خدا تعالیٰ سے کوئی تعلق نہیں ہوتا.وہ جو کام کرتا ہے اپنی دلچسپی کی وجہ سے کرتا ہے.حالانکہ جس کا خدا تعالیٰ سے اصل تعلق ہوتا ہے وہ اُس چیز سے تعلق رکھتا ہے.جو خدا تعالیٰ کے مقرر کردہ مقصد اور اُس کے ارادہ کے مطابق ہوتی ہے.کسی کا قول مشہور ہے کہ وہ راجہ کا نوکر ہے بینگن کا نوکر نہیں.حقیقت یہی ہے کہ مومن اپنے ظاہری لگاؤ اور دلچسپیوں کو حقیقی چیزی پر قربان کر دیتا ہے.اگر کہیں دونوں چیزیں مل جائیں تو فبہا لیکن جب مالک اور آقا کا یہ منشاء ہوتی کہ وہ ظاہر اور باطن کو الگ الگ کر دے تو اُس کا فرض ہے کہ وہ ظاہر پر وقت ضائع کرنے سے گریز کرے اور باطن کی طرف جائے.اس وقت تک یہی ہوتا ہے کہ لوگ جلسہ پر ربوہ آجاتے ہیں.پس دوست اس موقع پر ضرور آئیں.کیونکہ دوسرے دنوں میں انہیں یہاں آنے کا موقع کم ملتا ہے.اور یہ ارادہ کر کے
$1953 361 خطبات محمود آئیں کہ وہ یہ دن ضائع نہیں کریں گے.میں پچھلے کئی سالوں سے جماعت کو اس طرف توجہ دلا رہا ہوں.لیکن میری اس نصیحت پر صحیح طور پر عمل نہیں ہوا.لوگ تقاریر کے دوران میں اِدھر اُدھر پھر کرا اپنا وقت ضائع کر دیتے ہیں.پس یہ وقت دینی کاموں میں لگائیں.تین دن تو انسان پھانسی کے ستون پر بھی گزار سکتا ہے.اور یہ رہائش اُس سے تو بہر حال آسان ہے.ان تین دنوں میں یہی فرق ہوتا ہے کہ کچھ رہائش میں کمی آجاتی ہے اور کچھ کھانے میں کمی آجاتی ہے اور کیا ہوتا ہے.پھر کیوں وہ یہ تین دن دینی کاموں میں خرچ نہیں کر سکتے.پس جب تم سالانہ جلسہ پر آؤ تو اپنا سارا وقت دین کے لیے خرچ کرو.اور جو دوست تمہارے ساتھ جلسہ پر آئیں اُن کی بھی نگرانی کرو کہ وہ اپنا وقت دینی کاموں میں لگائیں تا تم خدا تعالیٰ کی رضا کو حاصل کر سکو.شریعت میں اعتکاف کی عبادت بھی رکھی ہے.یہ اعتکاف کیوں رکھا ہے؟ اس کی حکمت بھی یہی ہے کہ جب انسان اپنے ارادہ کو کلی طور پر خدا تعالیٰ کی طرف منتقل ہے کر دیتا ہے تو خدا تعالیٰ کے فضل اُس پر نازل ہونے لگ جاتے ہیں.اسی طرح جب کوئی شخص اپنے دنیوی کاموں سے منہ موڑ کر خدا تعالیٰ کے لیے مسجد میں بیٹھ جاتا ہے اور دن رات وہیں رہتا ہے ہے تو وہ خدا تعالیٰ کے فضلوں کو جذب کر لیتا ہے.لیکن اگر کوئی شخص اعتکاف بیٹھے اور سارا دن باہر پھر تار ہے تو تم جانتے ہو کہ اس کا اعتکاف اعتکاف نہیں ہوتا.اسی طرح ایک لڑکا اگر اسکول جاتا تو ہے لیکن وہ اکثر وقت باہر پھرتا رہتا ہے، کلاس میں نہیں جاتا تو تم جانتے ہو کہ اُسے اسکول کا فائدہ ی حاصل نہیں ہوتا.یہی حال جلسہ سالانہ کا ہے.جو شخص جلسہ کے لیے ربوہ آتا ہے اور پھر اپنے سارے وقت کو دینی کاموں میں نہیں لگاتا اسے جلسہ کا فائدہ کم ہوتا ہے.اور خدا تعالیٰ کے فضل بھی اسی نسبت سے اُسے کم ملتے ہیں.اگر کوئی شخص اپنا وقت خدا تعالیٰ کی راہ میں لگائے تو چاہے اُسے کوئی بات سمجھ آئے یا نہ آئے خد تعالیٰ کے فرشتے تو جانتے ہیں کہ وہ سارا وقت خدا تعالیٰ کی راہ میں ہے بیٹھا رہا اور یہ بھی ثواب کا موجب ہوتا ہے اس سے کسی شخص کا خانہ خالی نہیں رہ سکتا چاہے وہ ایک لفظ بھی نہ سمجھ سکے.اللہ تعالیٰ کے دربار میں لکھا جائے گا کہ وہ ہماری خاطر بیٹھا رہا.جب انسان ارادہ کر کے بیٹھ جاتا ہے.تو چاہے وہ کوئی زبان بولتا ہو اور کسی ملک میں رہتا ہو اس کے نام پر یہ لکھا جاتا ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کی خاطر بیٹھا رہا اور اس نے اتنا وقت خدا تعالیٰ کی خدمت میں گزارا.
$1953 362 خطبات محمود میں سمجھتا ہوں کہ قرآن کریم میں رسول کریم ﷺ کو جو عبد اللہ کہا گیا ہے 2.اس میں لوجو یہی حکمت ہے کہ آپ نے اپنی ساری زندگی خدا تعالیٰ کی راہ میں لگا دی تھی.باقی لوگ تھوڑی ہے تھوڑی مدت کے لیے عباداللہ بنتے ہیں.کچھ بلوغت سے وفات تک کے عرصہ کے لیے عبد الله ہوتے ہیں کچھ ایسے ہوتے ہیں جو دن کے کچھ حصوں میں عبداللہ ہوتے ہیں اور باقی حصوں میں عَبْدُ الدُّنْيَا ياعبد الدينار ہوتے ہیں.کچھ ایسے ہوتے ہیں جو عبد اللہ کم ہوتے ہیں اور عبد الدُّنيا اور عبد الدينار زیادہ ہوتے ہیں.لیکن رسول کریم و کامل ترین عبداللہ تھے.جن کی زندگی کی ایک ایک ساعت خدا تعالیٰ کی رضا مندی میں گزری.اور یہ وہ مقام ہے جس میں نہ کوئی پہلے آپ کا شریک ہوا اور نہ آئند ہ شریک ہوسکتا ہے.بہر حال اس پیچیدہ زندگی میں تین دن عبداللہ بننے کی کوشش کرنا کوئی بڑی بات نہیں.دوسرے دنوں میں رات دن دوسری طرف کھینچنے والی چیزیں موجود ہوتی ہیں لیکن جلسہ کے دنوں کی میں صرف دین کی طرف کھینچنے والی چیز میں باقی رہ جاتی ہیں.لاہور اور کراچی میں تو یہ حال ہے کہ انسان دین کی طرف کوشش کر کے جاتا ہے.دنیا کی طرف کھینچنے والے موجبات زیادہ ہوتے ہیں.لیکن جلسہ کے دنوں میں دنیا کی طرف کھینچنے والی چیزیں نہیں ہوتیں.ساری کشش دین کی طرف ہوتی ہے.اگر کوئی شخص ان دنوں میں بھی دنیا کی طرف جاتا ہے تو وہ رستہ کاٹ کر جاتا ہے.اور یہ کتنی بد قسمتی ہے کی بات ہے کہ کسی کو تین دن عبد اللہ بننے کے لیے ملیں اور ان کو بھی وہ ضائع کر دے.میں یہ بھی کہہ دینا چاہتا ہوں کہ ملاقاتوں کے متعلق پروگرام گو بنا دیا گیا ہے لیکن جیسا کہ جماعت کو معلوم ہے میری بیماری بڑھتی جارہی ہے.خطبہ کے بعد بھی میرا کئی دن تک گلا بیٹھا رہتا ہے.اس لیے میں یہ نہیں کہ سکتا کہ جلسہ کے موقع پر میں کس حد تک بول سکوں گا.انتڑیوں کے تشنج کے علاج کے طور پر میں جو دوائی استعمال کرتا ہوں وہ نہ صرف ضعف پیدا کرتی ہے بلکہ نیند بھی لاتی ہے.بسا اوقات کام کرتے کرتے اونگھ آجاتی ہے.میں نے ایک دو دن کے لیے دوائی کا استعمال کی چھوڑ دیا تھا.لیکن تکلیف دوبارہ شروع ہو گئی اس لیے دوائی کا استعمال دوبارہ شروع کر دیا گیا ت ہے.پس ملاقاتوں کے لیے وقت تو رکھ دیا گیا ہے اور میں کوشش کروں گا کہ ہر جماعت کو ملاقات کا موقع دیا جا سکے.لیکن ہر شخص کو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ معذوری اور بیماری انسان کے اختیار میں نہیں
$1953 363 خطبات محمود ہوتی.ہوسکتا ہے کہ ملاقاتوں کو بیماری کی وجہ سے درمیان میں بند کر دینا پڑے.طبیعت کی کمزوری یا دوائی کے اثر کا کوئی انسان مقابلہ نہیں کر سکتا.آج کل رات کو میں کام نہیں کر سکتا.کیونکہ رات کا دن دوائی کا نشہ سا رہتا ہے.ڈاکٹروں نے اس دوائی کا استعمال ضروری سمجھا ہے اور ان کی ہدایت یہی ہے کہ اسے جاری رکھا جائے.انتڑیوں کے درد کے احساس کو کم کرنے کے لیے اس کو استعمال ضروری ہے.ایسی حالت میں دوستوں کو اس امر کے لیے تیار رہنا چاہیے.بعض نازک مزاج ایسے ہوتے ہیں جو چڑ جاتے ہیں اور کہتے ہیں ہم سال میں ایک دفعہ آئے تھے مگر پھر بھی ملاقات کا موقع نہیں ملا.ہم کوشش کریں گے کہ سب کو ملاقات کا موقع مل جائے لیکن انہیں بھی ہم سے تعاون کرنا چاہیے تا کہ سارے دوست مصافحہ کر سکیں.گفتگو کو اتنا لمبانہ کیا جائے کہ دوسرے دوست مصافحہ سے ہی رہ جائیں.یہ بھی ممکن ہے کہ باوجود اس کے کہ اوقات ٹھیک مقرر کر دیئے گئے ہیں انہیں کم کر دیا جائے.“ المصلح 16 دسمبر 1953ء) 1 صحیح بخارى كتاب الزكاة باب اجر الخادم اذا تصدق بِأَمْرِ صَاحِبِهِ غَيْرَ مُفْسِدِ 2: الجن: 20
$1953 364 43 خطبات محمود ہمیشہ دوسروں کی خدمت کرنے کی کوشش کرتے رہو یہی وہ چیزیں ہیں جن سے آپس میں محبت قائم ہوتی ہے (فرموده 18 دسمبر 1953ء بمقام ربوہ) تشہد ،تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا.کل شام کے وقت ہمارے قریب کے علاقہ میں ایک ایسا واقعہ ہوا کہ میں سمجھتا ہوں کہ وہ اس قابل ہے کہ اس سے سبق حاصل کیا جائے اور ایسے واقعات کے لیے آئندہ بعض قوانین مقرر کئے جائیں.وہ واقعہ یہ ہے کہ یہاں سے چند میل کے فاصلے پر ریل گزر رہی تھی اور کسی پاس کے قصبہ سے ایک ٹیکسی آ رہی تھی.اُس میں پانچ چھ آدمی سوار تھے.غالبا ڈرائیور نے یہ سمجھا کہ ی پیشتر اس کے کہ ریل اس جگہ پہنچے میں سواریوں کو لے کر دوسری طرف نکل جاؤں گا.لیکن ابھی وہ لائن سے پار نہیں پہنچے تھے کہ گاڑی آگئی.بعض دفعہ میں نے دیکھا ہے کہ گاؤں والے لوگ بھی اگھرڑ ہوتے ہیں اور ڈرائیور کو تنگ کرتے ہیں کہ چلو آگے گزر جاؤ، یہاں کیوں دیر کرتے ہو.اور بعض دفعہ اس قسم کی کوئی اور غلطی ہو جاتی ہے.بہر حال گاڑی آ رہی تھی ، اور ڈرائیور نے بجائے اس کے کہ وہ ریل کے گزر جانے کا انتظار کرتا ، چاہا کہ وہ اُس سے قبل لائن سے گزر جائے.لیکن اُس کی
$1953 365 خطبات محمود کا اندازہ غلط نکلا.اور مین جس وقت کا را بھی ریلوے لائن پر ہی تھی ریل گاڑی آگئی.اور وہ واقعہ پیش آیا جس کے متعلق میں نے شروع میں بیان کیا ہے.کار کی ساری سواریاں بچ گئیں.عامہ حالات میں تو یہ امکان نہیں ہوتا کہ ریل سے کوئی چیز ٹکرائے اور پھر انجن اس کو کافی فاصلہ تک دھکیلتا ہوا لے جائے اور پھر سواریاں بچ جائیں.لیکن یہ ایک نشان معلوم ہوتا ہے کہ باوجود اس کے کہ کار کو انجن دواڑھائی فرلانگ تک دھکیلتا چلا گیا اور وہ ٹوٹ کر ٹکڑے ٹکڑے ہوگئی لیکن سب سواریاں بچ گئیں.جب کار سے انجن ٹکرایا تو اکثر حصہ سواریوں کا اُچھل کر ایک طرف باہر جاتے پڑا.اور ریل کار کے ایک حصہ کو دھکیلتی ہوئی چوتھا حصہ میل تک لے گئی.باقی کارٹوٹ گئی اور لائن کی کے ایک طرف جا پڑی.پھر جب ریل ٹھہر گئی تو کار کے باقی ماندہ حصہ سے بھی جسے ریل دھکیل کر دُور تک لے آئی تھی ایک مسافر زندہ نکلا.اڑھائی فرلانگ تک ریل کے انجن کے دباؤ کے نیچے چلتے چلے جانا اور پھر بھی زندہ بچ جانا یہ ایک نشان ہے.معلوم ہوتا ہے کہ ان مسافروں میں سے کسی نے کوئی ایسی نیکی یا ایسا کام کیا تھا جو خدا تعالیٰ کو پسند آیا اور اُس کی وجہ سے خدا تعالیٰ نے سب سواریوں کو بچالیا.یہ تو اس کا معجزانہ حصہ ہے جو ہر مومن کو ہمیشہ یاد رکھنا چاہیے.جب خدا تعالیٰ بچانا چاہتا ہے.تو ایسے خطرات سے بھی بچا لیتا ہے جن سے بظاہر زندہ بچ جانے کا کوئی امکان نہیں ہوتا.اس سے ہر انسان کو یہ سمجھنا چاہیے کہ موت بے شک ظاہری اسباب کے ساتھ بھی وابستہ ہے لیکن اللہ تعالیٰ نے اُسے بالکل آزاد بھی نہیں کیا.جب وہ چاہتا ہے دخل دیتا ہے اور با وجود اس کے کہ سب سامان جمع ہو جاتے ہیں موت پھر بھی نہیں آتی.لیکن جب وہ دخل نہیں دیتا اُس وقت صرف ظاہری سامان نتیجہ پیدا کرتے ہیں یعنی موت کے سامانوں کا نتیجہ موت ہوتا ہے.اور حیات کے سامانوں کا نتیجہ حیات ہوتا ہے.ہمارے ملک میں لطیفہ مشہور ہے کہ ایک غریب آدمی تھا اُسے نوکری نہیں ملتی تھی اور ی بریکاری کی وجہ سے گھر میں فاقوں پر فاقے آرہے تھے.اُس کی بیوی اُسے کہتی رہتی تھی کہ نوکری کرلو لیکن وہ یہ جواب دیتا تھا کہ نوکری نہیں ملتی.اتفا قائلڑائی شروع ہوگئی اور فوج میں بھرتی شروع ہوئی بیوی نے کہا تم فوج میں بھرتی ہو جاؤ.اُس نے خفا ہو کر کہا کہ کیا تم مجھے مروانا چاہتی ہو؟
$1953 366 خطبات محمود فوج میں جانے کے معنے ہی یہ ہیں کہ میں مارا جاؤں.اُس کی بیوی خاموش ہو گئی ایک دن وہ چکی لی پیس رہی تھی اُس نے دیکھا کہ جو دانے اس نے چکی میں ڈالے ہیں اُن میں سے بعض سالم باہر نکل آئے ہیں.اس پر اُس نے اپنے خاوند سے کہا دیکھو ! جس کو خدا تعالیٰ رکھنا چاہتا ہے وہ چکی کے پاٹ سے بھی سلامت نکل آتا ہے.پھر تم کیوں یہ سمجھتے ہو کہ اگر تم فوج میں جاؤ گے تو مر جاؤ گے جو لوگ فوج میں جاتے ہیں وہ سارے کے سارے مر نہیں جاتے.وہ شخص بزدل تھا اُس نے کہا تو مینوں دلیاں ہویاں وچ ہی سمجھ لے " یعنی بے شک چکی کے پاٹ سے بھی بعض دانے سالم نکل آئے ہیں.لیکن تو مجھے سالم دانوں میں سے کیوں بجھتی ہے تو مجھے پسے ہوئے دانوں میں سے سمجھ.ہے تو یہ بُزدلی کے اظہار کے لیے ایک لطیفہ، لیکن اس کا ایک حصہ اپنے اندر یہ سبق رکھتا ہے ہے کہ بڑے سے بڑے خطرناک حالات سے بھی خدا تعالیٰ انسان کو زندہ باہر نکال لاتا ہے.حقیقتا یہی نشان ہے جو حضرت آدم علیہ السلام سے لیکر اس وقت تک چل رہا ہے.اگر یہ نشان نہ ہوتا تو ی صداقت باقی نہ رہتی.جب بھی صداقت دنیا میں آئی ہے لوگوں نے اُسے مٹانے اور مارنے کی کوشش کی ہے.لیکن انہی میں سے ایک حصہ ایسا نکل آیا جس نے صداقت کو قبول کیا.بڑے بڑے عظیم الشان جابر بادشاہ دنیا میں گزرے ہیں.انہوں نے اپنے مخالف عصر کو کچلنے کی پوری کوشش کی لیکن وہ مرگئے اور وہ عنصر جسے انہوں نے مٹانے کی کوشش کی وہ پھر بھی کسی نہ کسی صورت میں باقی تھا.جب ہلاکو خان نے تباہی مچائی تو کہتے ہیں اُس وقت اتنے لوگ قتل ہوئے تھے کہ پہاڑیوں کی مانند لاشوں کے ڈھیر لگ جاتے تھے.لیکن مخالف عصر پھر بھی موجود تھا.بہر حال کہیں نہ کہیں مخالفت کا بیج باقی رہ جاتا ہے اور وہ کسی وقت باہر نکل آتا ہے یورپ میں تین بڑے تغیرات ہوئے ہیں.ایک نپولین کے وقت، دوسرا ہٹلر کے وقت اور تیسرا روس کے ماتحت.ان تینوں کی زمانوں میں ان کے مخالف عصر باقی رہے ہیں.نپولین نے اپنے مخالف عصر کو کچلنے کی بڑی کوشش کی کی لیکن وہ اس کے بعد بھی موجود تھا.ہٹلر کی سب سے بڑی مخالفت یہودیوں سے تھی لیکن ہٹلر کے پیدا ہونے اور برسراقتدار آنے سے پہلے جو یہودیوں کی طاقت تھی اب ان کی طاقت اُس سے کہیں زیادہ ہے.وہ مارے گئے ، تباہ ہوئے لیکن باوجود تمام سختیوں کے وہ پھر بھی دنیا میں موجود ہیں.پھر روس جن عناصر کو کچلنا چاہتا ہے وہ پھر بھی باہر نکل آتے ہیں.روس میں بے شک ڈکٹیٹرانہ حکومت ہے.
$1953 367 خطبات محمود لیکن مخالفت کی روح وہاں بھی موجود ہے.یہ تو دنیوی نظارے ہیں.دین کو دیکھو تو یہ نظارے اتنی کثرت سے اتنے نمایاں نظر آتے ہیں جس کی کوئی حد نہیں.حضرت آدم علیہ السلام سے لیکر اب تک جو انتہائی مشکلات تھیں وہ انبیاء کی جماعتوں کو پیش کی آئیں لیکن وہ پھر بھی محفوظ نکل آئیں.یوں معلوم ہوتا ہے کہ سمندر کی ایک لہر اٹھتی ہے اور وہ کشتی ہے پر گر جاتی ہے.پہلے خیال گزرتا ہے کہ وہ ہر کشتی کو ساتھ بہا کر لے گئی لیکن جب لہر گزر جاتی ہے تو وہ کشتی دوڑتی ہوئی سمندر میں نظر آتی ہے.پس الٹی تدبیریں دنیا میں ہمیشہ سے چل رہی ہیں اور ی چلتی رہیں گی.بیوقوف ہے وہ شخص جو یہ سمجھتا ہے کہ یہ سب کچھ دنیا کی تدبیروں سے ہورہا ہے.ان میں خدا تعالیٰ کا ہاتھ موجود نہیں.حقیقت یہ ہے کہ اُس کا ہاتھ ہر جگہ ہے اور ہمیشہ رہے گا.وہ کسی چیز کوکسی زمانہ میں آزاد نہیں چھوڑے گا.اگر وہ آزاد چھوڑ دے تو اس پر ایمان لا نا مشکل ہو جائے.دوسرا سبق اِس واقعہ سے ہمیں یہ ملتا ہے کہ اس قسم کے حادثات کے لیے پہلے سے ہر جماعت اور ہر محلہ میں انتظامات ہونے چاہیں.یورپ کے لوگوں کو ہم بُرا سمجھتے ہیں لیکن ان میں بعض اس قسم کی خوبیاں ہیں جو بہت نمایاں ہیں.مثلاً ریڈ کر اس یا اسی قسم کی دوسری سوسائٹیاں ہیں جو ایسے حادثات پر فوراً پہنچ جاتی ہیں، تکلیف زدوں کو امداد پہنچاتی ہیں اور ان تکلیفوں کو کم کرنے کی کوشش کرتی ہیں.اس طرح ملک کو بہت بڑا فائدہ پہنچ جاتا ہے.حادثات کسی کو بتا کر نہیں آتے.ان مسافروں کو ہی لے لو جب وہ گھر سے چلے تھے انہیں یہ پتا نہیں تھا کہ آج انہیں ایسا حادثہ پیش آئے گا.پھر جب ٹکر ہوئی اس سے پہلے ریل والوں کو بھی پتا نہیں تھا کہ اس قسم کا حادثہ پیش آنے والا ہے.نہ کا روالے اپنے ساتھ ڈاکٹر لے کر چلے تھے ، اور نہ ریل والے اپنے ساتھ ڈاکٹر لائے تھے ، نہ کار والوں کے پاس دوائیاں تھیں اور نہ ریل والوں کے پاس دوائیاں تھیں.اگر ہمارے ملک میں بھی اس قسم کے انتظامات ہوتے جس قسم کے انتظامات یورپ میں ہوتے ہیں.تو ارد گرد کے دیہات والے فوراً جائے وقوعہ پر پہنچ جاتے اور تکلیف زدوں کو امداد پہنچاتے.ہمارے ملک میں ان کاموں سے غفلت برتی جاتی ہے.جب یہ حادثہ ہوا ، ریل والوں نے اپنی ذمہ داری کو سمجھتے ہوئے لائل پور اپنے افسر کو تار دی.اُس افسر کو خدا تعالیٰ نے سمجھ دی تو اُس نے ہمیں تار دے دی کہ میں اِس وقت اور کوئی انتظام
خطبات محمود کام 368 $1953 نہیں کر سکتا.صدرانجمن احمد یہ اس کا انتظام کرے.یہ تار ناظر صاحب اعلیٰ کو پہنچی تو انہوں نے یہ خدام الاحمدیہ کے سپر د کر دیا.اور مجھے اطلاع دیدی.میں نے پرائیویٹ سیکرٹری کو بلا کر ہدایت دی کہ اس کام میں کوئی سستی نہیں ہونی چاہیے.مجھے دس دس منٹ کے بعد رپورٹ کرتے جائیں کہ اب تک کیا ہوا ہے.میں نے یہ ہدایت بھی دی کہ سارے قافلہ کا انتظام تو فوراً نہیں کیا جاسکتا.جو سواری تیار ہوا سے جائے وقوعہ پر بھیج دو.مجھے یہ پتا نہیں لگا کہ خدام الاحمدیہ نے کی ریڈ کر اس کے طور پر کوئی انتظام کیا ہوا ہے یا نہیں.لیکن یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ خدام کے اندر چونکہ کام کرنے کی سپرٹ اور رُوح پائی جاتی ہے انہوں نے جلدی انتظام کر لیا.لیکن ہونا یہ چاہیے کہ پہلے سے اس قسم کا انتظام موجود ہو.جس سے پتا لگے کہ ایسے مواقع پر فلاں فلاں شخص کی ڈیوٹی کی ہوگی کہ وہ اطلاع ملتے ہی فوراً جائے وقوعہ پر پہنچ جائے.خدام نے ہوشیاری کا نمونہ دکھایا کہ جب انہیں اطلاع ملی ایک لاری سڑک سے گزر رہی تھی انہوں نے چار پانچ آدمیوں کو اس پر بھیج دیا اور پھر بعض لوگوں کو سائیکلوں پر روانہ کیا.پھر موٹروں میں جانے شروع ہوئے.لیکن مجھے یہ سُن کر افسوس ہوا کہ پہلے ڈاکٹری وفد نے اپنے کام میں غفلت سے کام لیا.وہ میرے پاس آئے اور کہا کہ ہم وہاں گئے تھے اور اب واپس آگئے ہیں.سب کچھ ٹھیک ہے.تمام آدمیوں کو ریل والے ریل میں بٹھا کر لے گئے ہیں.حالانکہ انہیں یہ سمجھنا چاہیے تھا کہ ریل والے جن لوگوں کو ساتھ لے گئے ہیں وہ صرف اسٹیشن تک انہیں لے جائیں گے.کیونکہ گاڑی صرف اسٹیشن تک جاتی ہے.شہر کی گلیوں میں نہیں جاتی.انہیں اسٹیشن سے ہسپتال تک کون لے جائے گا.پس ہمارے ڈاکٹری وفد کو غور کرنا چاہیے تھا کہ اسٹیشن پہنچ کر شاید ان لوگوں کو ہسپتال تک لے جانے کی ضرورت ہو یا شاید ان میں سے کسی کو سرگودھا یا لائل پور پہنچانا پڑے.اور پھر نہایت خطر ناک غلطی یہ کی کہ دوائیاں اپنے ساتھ ہی واپس لے آئے.آخری وفد میں جو ڈاکٹر تھا اُس نے لالیاں (جو حادثہ کا مقام تھا ) جا کر دیکھا کہ ایک دو آدمیوں میں تو طاقت تھی.وہ ٹانگوں پر سوار ہو کر اپنے گھر چلے گئے.لیکن باقی لوگ اسٹیشن پر ہی پڑے تھے.اُس نے انہیں ہسپتال پہنچایا.یہ ہسپتال بالکل بریکا رتھا.ایک مریض کے متعلق یہ خیال تھا کہ شاید اُسے ٹینس (Tetanus) ہو جائے.اُس کی ایک ٹانگ کا سارا چھڑا اُتر گیا تھا.لالیاں چھوٹا سا قصبہ ہے وہاں اس کا کوئی علاج نہ تھا.ہسپتال کا ڈاکٹر سمجھتا تھا کہ میں
$1953 369 خطبات محمود اس کی پٹی کر دوں تو کافی ہے.لیکن امدادی وفد میں جو ڈاکٹر تھے وہ فوجی تجربہ کار تھے.انہوں نے کی کہا یہ علاج کافی نہیں.ممکن ہے یہ بیماری جسے تم معمولی خیال کر رہے ہو خطر ناک صورت اختیار کر جائے اور اس کی ٹانگ پر اور چمڑا لگا نا پڑے.اب اگر پہلا وفد غلطی نہ کرتا اور دوائیاں واپس نہ لے آتا تو شاید وہ اُسے طبی امداد پہنچانے سکتے.اب اگر مریض کو سر گودھا پہنچا دیا گیا ہے تو وہ بچ جائے گا اور اگر اُسے سرگودھا نہیں پہنچایا گیا تو ڈر ہے کہ وہ خطر ناک طور پر بیمار نہ ہو جائے اور اُس کی جان ضائع نہ ہو جائے.پس جو لوگ جانے والے ہیں انہیں یا درکھنا چاہیے کہ وہ جو کام بھی کریں اُسے پورے طور پر کیا کریں.کام کو ادھورا چھوڑ دینا کوئی خدمت نہیں.مجھے یاد ہے کہ پارٹیشن کے بعد میں ایک دفعہ پشاور جارہا تھا.ہم کاروں پر سوار تھے.مستورات بھی ساتھ تھیں.شام کے قریب ہم ایک ایسے علاقے میں پہنچے.جہاں ڈا کے پڑتے کی تھے اور موٹریں وہاں سے تیزی سے گزر جاتی تھیں.اُس معین علاقہ میں جب پہنچے تو ہم نے دیکھا کہ ایک جیپ جو سامنے سے آرہی ہے جس میں پٹھان سوار ہیں وہ جیپ یکدم خراب ہو گئی.پہلے تو ی یہ سمجھا گیا کہ یونہی چلتی چلتی ٹھہر گئی ہے.زور لگانے اور دھکا دینے سے حرکت میں آجائے گی.چنانچہ انہوں نے زور لگایا اور جیپ چل پڑی لیکن دو چار قدم چل کر پھر رک گئی.جب ہم پاس سے گزرے تو میں نے دونوں موٹروں کو کھڑا کر لیا اور ڈرائیوروں سے کہا کہ دونوں جا کر اُن کی مدد کرو.انہوں نے ان کی مدد کی اور کہا کہ یہ کام ایک گھنٹہ سے پہلے نہیں ہوگا.میرے ساتھیوں نے مجھے مشورہ دیا کہ ہم ایک ایسی جگہ پر ہیں جہاں اکثر ڈا کے پڑتے ہیں.اور مستورات ساتھ ہیں.ہمیں یہاں سے جلدی گزر جانا چاہیے.اور لاریاں آئیں گی تو ان لوگوں کو مددمل جائے گی.مگر ی میں نے کہا یہ غلط ہے.اللہ تعالیٰ نے جب ان کی تکلیف ہمیں دکھائی ہے تو ہمارا فرض ہے کہ ہم ان کی کی مدد کریں.ورنہ وہ ہمیں اِن کی تکلیف نہ دکھاتا.اگر ہم یونہی یہاں سے گزر جائیں تو یہ ہمارا اخلاقی جرم ہوگا.ہم نے ان لوگوں کی تکلیف دیکھی ہے اس لیے اب ہم آگے نہیں جا سکتے.چنانچہ جیپ کے درست کرنے پر ایک گھنٹہ لگا.وہ لوگ بھی یہ محسوس کرتے تھے کہ ہم خطرہ برداشت کر کے ان کی مدد کر رہے ہیں.ان کے افسر نے کہا.آپ تشریف لے جائیں اور اپنے آپ کو خطرہ میں نہ
$1953 370 خطبات محمود ނ ڈالیں.جیپ ٹھیک ہو جائے گی.لیکن میں نے کہا جب تک جیپ ٹھیک نہ ہو جائے ہم آگے نہیں جائیں گے.آخر جیپ ٹھیک ہو گئی اور ہم آگے روانہ ہو گئے.اور پھر خدا کا فضل ہوا کہ ہمیں کوئی خطرہ پیش نہ آیا.پہلے ہم راولپنڈی گئے اور پھر پشاور گئے.اُس افسر نے مجھے بتایا تھا کہ میں شنگاری قبیلہ کا چیف ہوں.دو تین دن کے بعد وہ پشا ور آیا اور اُس نے ذکر کیا کہ میں کشمیر فرنٹ پر لڑ رہا تھا.ایک ضرورت کے پورا کرنے کے لیے میں گورنمنٹ کے پاس گیا تو مجھے معلوم ہوا کہ آپ پشاور آئے ہوئے ہیں.میں نے سمجھا کہ میرا اخلاقی فرض ہے کہ پشاور پہنچ کر آپ کا شکریہ ادا کروں.چنانچہ میں کام چھوڑ کر یہاں آیا ہوں.اب دیکھو! نہ میں اُسے جانتا تھا اور نہ اس سے کوئی دوستانہ تعلقات تھے.مگر ایک گھنٹہ کی تکلیف جو ہم نے اٹھائی اُس کی وجہ سے وہ میدان جنگ.پشاور پہنچا تا کہ میرا شکر یہ ادا کرے.پس ہمیشہ دوسروں کی خدمت کرنے کی کوشش کرتے رہو.یہی وہ چیزیں ہیں جن.آپس میں محبت قائم ہوتی ہے.اگر ہم ایک دوسرے کی خدمت نہیں کرتے تو آپس میں محبت کیسے پیدا ہوگی.ایک عیسائی کہتا ہے کہ ہمیں ہمارا مذ ہب کہتا ہے کہ ایک دوسرے سے محبت کرنی چاہیے.ایک ہندو کہتا ہے کہ مجھے میرا مذ ہب کہتا ہے کہ دوسرے سے محبت کروں.ایک مسلمان کہتا ہے کہ مجھے میرا مذ ہب دوسروں سے محبت کرنے کا حکم دیتا ہے.لیکن ان میں سے کوئی بھی نہیں سمجھتا کہ یہ محبت پیدا کیسے ہوگی.عیسائی لاکھ شور مچائیں کہ ہمیں مذہب ایک دوسرے سے محبت کرنے کا حکم دیتا ہے مگر جب تک وہ ٹیو نیشیا 1 اور مرا کو اور دوسرے ملکوں کی دولت کو ٹوٹتے رہیں گے محبت کی کہاں پیدا ہوگی.اگر ہندوؤں کے ملک میں مسلمانوں سے سختی برتی جاتی ہے اور تھوڑی سی بات پر بھی اُن پر شبہات کئے جاتے ہیں اور انہیں مارا جاتا ہے تو محبت کہاں پیدا ہو گی.پھر اگر مسلمان کی ممالک میں غیر مذاہب والوں اور کمزور قوموں سے ہمدردی کا سلوک نہیں کیا جاتا تو وہ لاکھ قرآن پیش کریں محبت پیدا نہیں ہوگی.محبت عمل سے پیدا ہوتی ہے.اگر تم عمل نہیں کرتے محض ظاہری دکھاوا کے طور پر لیکچر دے دیتے ہو کہ آپس میں محبت کرنی چاہیے تو اس سے کوئی نتیجہ نہیں نکل سکتا.پس ہر ایک انسان اور پھر ہر ایک مسلمان کا یہ فرض ہونا چاہیے اور پھر ہر احمدی کا یہ فرض ہونا چاہیے کہ وہ ایسے مواقع پر صحیح طور پر خدمت کرے.یہ نہیں کہ وہ سرسری طور پر چلا جائے.اس کا سرسری
$1953 371 خطبات محمود طور پر چلا جانا تو نہ جانے کے برابر ہے.اگر وہ کسی کے کام نہ آئے تو اُس کے گھر سے نکلنے کا فائدہ ہے.اگر وہ گھر سے کسی خدمت کے لیے نکلتا ہے تو اُسے سرے تک پہنچانا اُس کا فرض ہے.اس کا طبائع پر اثر ہوتا ہے.جب میں لندن گیا تو مجھے ایک کتاب کے خریدنے کی ضرورت پیش آئی.یہ کتاب ایک ایسے کتب فروش سے ملتی تھی جو ایک غیر معروف علاقہ کا رہنے والا تھا اور اُس کے اردگرد کے لوگ انگریزی کو بگاڑ کر بولتے تھے اور اسے کا کنی زبان کہا جاتا تھا.ایک جگہ پر ایک شخص آوازیں دے رہا تھا.چودھری ظفر اللہ خان صاحب نے مجھے کہا.کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ یہ شخص کیا کہہ رہا ہے؟ میں نے دو تین دفعہ کان لگا کر اُس کی آواز کو نا.لیکن اس کا مفہوم نہ سمجھ سکا.چودھری صاحب ہنس کر کہنے لگے.یہ کہتا ہے روزانہ اخبار لے لو.وہ ڈیلی پیپر کو " ڈائلی پائی پر " کہہ رہا تھا.اور ہم ڈیلی پیپر کو جانتے تھے " ڈائلی پائی پر " کو نہیں جانتے تھے.جب ہم اُس علاقے میں پہنچے تو اتفاقاً ہم نے ایک پولیس مین سے پوچھا کہ فلاں شخص کہاں رہتا ہے اُس نے کہا میری ڈیوٹی نئی لگی ہے میں اس علاقہ سے ناواقف ہوں اور اس شخص کو نہیں جانتا.چنانچہ ہم آگے چلے گئے.ہم جس شخص سے بھی پوچھتے وہ " ڈائلی پائی پر " والی زبان بولتا جو ہمیں سمجھ نہیں آتی تھی.ہم نے ایک شخص سے پوچھا، دوسرے سے پوچھا، تیسرے سے پوچھا وہ سب وہی بولی بولتے تھے.ہم حیران تھے کہ کیا کریں.ایک عورت سڑک پر سے گزری، وہ تعلیم یافتہ تھی.وہ کہنے لگی آپ نہ تو ان کے لوگوں کی زبان سمجھ سکتے ہیں اور نہ انہیں سمجھا سکتے ہیں.یہ لوگ کا کنی زبان بولتے ہیں.آپ نے کہاں جانا ہے؟ ہم نے کہا ہم فلاں کتب فروش کے پاس جانا چاہتے تھے.وہ کہنے لگی مجھے اُس کا علم ہے.چنا نچہ اُس نے ہمیں اس کا پتا بتایا.ہم نے اُس کا شکریہ ادا کیا.مگر اُس نے کہا میں آپ کے ساتھ جاؤں گی.کہیں آپ پھر غلطی نہ کر جائیں.اگر ایسا ہوا تو پھر آپ کو مشکل پیش آ جائے گی چنانچہ وہ ڈیڑھ فرلانگ تک ہمارے ساتھ گئی.یہ چیز تھی جس کی وجہ سے ہم نے اُس کی ہمدردی کی روح کو محسوس کیا اور ہمارے دلوں میں اس قوم کی عظمت پیدا ہوئی کہ کس طرح یہ لوگ بیماروں ، بوڑھوں اور کمزوروں کی خدمت کے لیے پہنچتے ہیں.وہ تو ڈیڑھ فرلانگ تک ہمارے ساتھ گئی.لیکن ڈیڑھ صدی تک اُس نے ہمارے دل میں اپنی اور اپنی قوم کی عظمت پیدا کر دی.پس خدام کو اس قسم کے واقعات کے لیے پہلے سے تیار رہنا چاہیے.اور قبل از وقت اس.
$1953 372 خطبات محمود قسم کی پارٹیاں بنالینی چاہیں.جنہیں یہ نصیحت ہو کہ ادھورا کام نہیں چھوڑنا.یہ نہ ہو کہ وہ کہہ دیں ہم نے سن لیا تھا.سب ٹھیک ہے.اس لیے ہم آگئے.ایک دفعہ میں نے اس قسم کی غلطی کی تھی.مگر پھر مجھے سبق آ گیا.اور میں نے اس قسم کی غلطی نہیں کی.ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو درد گردہ کی تکلیف تھی اس لیے آپ جمعہ کی نماز کے لیے تشریف نہیں لے گئے تھے.اُس وقت میری عمر پندرہ سولہ سال کی تھی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہمیشہ ہم پر حسن ظنی کیا کرتے تھے.آپ سمجھتے تھے کہ ہم دوسروں کو نصیحت کرتے ہیں تو یہ بھی اس نصیحت کو مانیں گے.چنانچہ ہم سے آپ کسی بات کے متعلق تعہد سے نہیں پوچھتے تھے.اُس دن اتفاق کی بات ہے کہ میں نماز کے لیے دیر سے گیا.راستہ میں مسجد سے ساٹھ ستر گز ؤرے مجھے ایک شخص واپس آتا ہوا ملا.میں نے اُس سے پوچھا کیا نماز ہوگئی ہے؟ اُس نے جواب دیا نماز تو نہیں ہوئی لیکن آج تو مسجد میں اتنے آدمی ہیں کہ جگہ نہیں ملی اور میں واپس آ گیا ہوں.اُس کا جواب سن کر میں بھی واپس آ گیا.لیکن اللہ تعالیٰ مجھے ایک سبق دینا چاہتا تھا اس لیے گھر میں داخل ہے ہی ہوا تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مجھ سے پوچھ لیا.محمود ! تم نماز کے لیے نہیں گئے ؟ میں نے کہا مسجد میں اتنے آدمی ہیں کہ وہاں کوئی جگہ باقی نہیں رہی.حالانکہ میں خود مسجد میں نہیں گیا تھا.صرف اُس شخص کی بات پر میں نے یقین کر لیا تھا جو راستہ میں مجھے ملا تھا.تھوڑی دیر کے بعد مولوی عبدالکریم صاحب بھی آگئے.آپ نماز پڑھایا کرتے تھے.نماز کے بعد عیادت کے لیے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پاس آئے.میں نے جیسا کہ بتایا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہمیشہ ہم پر حسن ظن رکھتے تھے اور کسی چیز کے متعلق ہم سے پوچھا نہیں کرتے تھے اور نہ تحقیقات فرماتے تھے.لیکن جب مولوی صاحب آئے تو آپ نے اُن سے خلاف عادت پوچھا کہ مولوی صاحب! کیا آج جمعہ میں زیادہ لوگ تھے میں یہ سوال سن کر دھک سے رہ گیا.کیونکہ مجھے ذاتی طور پر علم نہیں ہے تھا.لیکن خدا تعالیٰ پر دہ رکھنا چاہتا تھا.مولوی صاحب نے کہا.حضور ! آج تو مسجد میں اتنے ہے آدمی تھے کہ تل رکھنے کو جگہ نہیں تھی.اب اللہ جانتا ہے کہ انہوں نے مبالغہ کے طور پر یہ الفاظ کی کہہ دیئے یا واقع میں ایسا ہی تھا.لیکن میں نے کانوں کو ہاتھ لگائے کہ آئندہ کبھی سنی ہوئی بات یقین نہیں کروں گا.
خطبات محمود 373 $1953 پس سنی ہوئی بات پر یقین کرنا درست نہیں ہوتا.جو لوگ اس موقع پر امداد کے لیے گئے ہی تھے انہیں یہ سوچنا چاہیے تھا کہ ریل والے اُن لوگوں کو ساتھ لے گئے ہیں تو وہ انہیں اسٹیشن پر چھوڑ دیں گے.شہر کے اندر کیسے پہنچائیں گے.اسٹیشن پر پہنچنے کے بعد بھی وہ مدد کے محتاج ہیں.انہیں یہ سمجھ لینا چاہیے تھا کہ لالیاں ایک چھوٹا سا قصبہ ہے.اگر چہ اُس کی آبادی زیادہ ہے لیکن وہاں اتنے سامان موجود نہیں جتنے ہمارے پاس ہیں.وہاں جو ڈا کٹر ہیں وہ گھٹیا قسم کے ہیں.چنانچہ جیسا کہ مجھے پتا لگا ہے ایک مریض کی حالت خطر ناک تھی مگر وہاں کا ڈاکٹر زخم کی اہمیت کو محسوس نہیں کرتا تھا، ہمارے آدمیوں نے اُسے توجہ دلائی کہ جس زخم کو وہ معمولی سمجھ رہا ہے وہ معمولی نہیں.پس ضروری تھا کہ وہ لوگ اسٹیشن پر جاتے ، اُن کا علاج کرتے اور انہیں ہسپتال پہنچاتے.یہاں تک کے کہ انہیں یقین ہو جاتا کہ اُن میں سے ہر ایک شخص بچ گیا ہے.اب محبہ ہے کہ ان میں سے ایک کی جان بچی ہے یا نہیں؟ بہر حال یہ واقعہ ایک تو ہمیں خدا تعالیٰ کے اس نشان کی طرف توجہ دلاتا ہے کہ اگر وہ کسی کی کو بچانا چاہتا ہے تو باوجود موت کے سارے سامان موجود ہونے کے اُسے بچا لیتا ہے.کوئی شخص یہ قیاس بھی نہیں کر سکتا کہ ایک کا رکو دو فرلانگ تک انجن دھکیلتا ہوا لے جائے اور پھر اُس کے اندر کی سواریاں سلامت رہ جائیں.مجھے تو یقین ہے کہ ان میں سے کسی کی نیکی خدا تعالیٰ کو اتنی پیاری لگی ہے ہے کہ اُس کی خاطر اُس نے ان سب کو بچالیا.بعض اوقات ایک دنیا دار بھی ایسا کام کر لیتا ہے.جو اللہ تعالیٰ کو پیارا لگتا ہے.دوسرا سبق ہمیں اس واقعہ سے یہ ملتا ہے کہ خدام کو اپنے طور پر ریڈ کر اس کا سا محکمہ قائم کرنا چاہیے.اور پھر کوئی علامت مقرر کر یں.مثلاً فلاں قسم کی گھنٹی بجے تو فلاں شخص اردلی کے طور پر ، فلاں فلاں کمپونڈر کے طور پر اور فلاں فلاں ڈاکٹر کے طور پر فوراً پہنچ جائیں.موقع پر آدمیوں کو اکٹھا کرنا مشکل ہوتا ہے.کوئی خاص نشان مقرر کر لیا جائے.مثلاً رکھ لیا جائے کہ اگر ہسپتال پر گھنٹی بجے تو فلاں شخص اردلی کے طور پر ، فلاں کمپونڈر کے طور پر اور فلاں ڈاکٹر کے طور پر فلاں مقام پر پہنچ جائے.پھر گاڑی والوں کو کہا جائے کہ وہ فوراً اپنی گاڑی پیش کریں، اور پھر بعض سائیکلوں والے مقرر کر دئیے جائیں کہ وہ ایسے موقع پر پہنچ جایا کریں تا اس میں زیادہ دیر نہ لگے.مجھے خوشی ہوئی ہے کہ خدام نے بہت جلد اس کام کو سنبھال لیا اور وہ آدھ گھنٹہ میں امداد کے لیے
$1953 374 خطبات محمود یہاں سے نکل گئے.لیکن اگر اس قسم کا انتظام ہوتا تو شاید وہ دس منٹ میں ہی باہر نکل جاتے.پس ان باتوں کو مد نظر رکھ کر اس قسم کا کام کرنا چاہیے تا حقیقی خدمت کے مواقع ضائع نہ ہوں.صحابہ کرام خدمت کے مواقع کو ضائع نہیں کرتے تھے.ایک دفعہ بعض صحابہ کسی جنازہ میں شامل ہوئے.جب جنازہ ہو گیا تو کچھ صحابہ واپس جانے لگے.ایک صحابی نے کہا میں تو جنازہ کے ساتھ جاؤں گا کیونکہ میں نے رسول کریم ﷺ سے سنا ہے کہ جو شخص نماز جنازہ میں شامل ہو پھر وہ جنازہ کے ساتھ قبرستان میں جائے ، وہاں دفن ہونے تک انتظار کرے اور پھر دعا کر کے واپس آئے تو اُسے دو قیراط ثواب ملے گا.قیراط تو رتی کو کہتے ہیں.مگر اس صحابی نے کہا میں نے رسول کریم ﷺ سے سنا ہے کہ ایک قیراط ایک اُحد پہاڑ کے برابر ہے.دوسرے صحابہ نے کہا تم نے یہ حدیث ہمیں پہلے کیوں نہیں بتائی.معلوم نہیں ہم نے کتنے قیراط ثواب ضائع کر دیا ہے 2.غرض صحابہ کی ہمیشہ یہ خواہش ہوتی تھی کہ نیکی کے مواقع ضائع نہ جائیں.اور یہی رُوح کسی قوم کو ی نیکی اور تقویٰ میں بڑھانے والی ہوتی ہے.“ خطبہ ثانیہ کے بعد فرمایا." نماز کے بعد میں بعض جنازے پڑھاؤں گا.دفتر کی طرف سے مجھے اُن لوگوں کی ایک لسٹ دی گئی ہے جو ان ایام میں فوت ہو گئے ہیں.ان میں سے بعض صحابی تھے اور بعض ایسے لوگ تھے جن کے جنازوں میں بہت کم لوگ شامل ہوئے.1 رحیم بخش صاحب چک نمبر 1 - 28/15 تحصیل خانیوال ضلع ملتان.21 نومبر کو فوت ہوئے.جنازہ میں بہت کم لوگ شامل ہوئے.2 رشیدہ بیگم صاحبہ بنت سردار فیض اللہ خان صاحب مور جھنگی ڈیرہ غازی خان.17 اکتوبر کو فوت ہوئیں.جنازہ صرف تین آدمیوں نے پڑھا.3 چودھری محمد بخش صاحب آف بھینی با نگر متصل قادیان چک نمبر 107 تحصیل خانیوال ضلع ملتان میں وفات پاگئے ہیں.جنازہ پڑھانے والا کوئی نہ تھا.اہلیہ صاحبہ ڈاکٹر ثناء اللہ صاحب چھمیال تحصیل شکر گڑھ فوت ہو گئیں ہیں.سوائے ان کے خاوند کے اور کوئی احمدی جنازہ میں شریک نہیں ہو سکا.
$1953 375 خطبات محمود 5.عائشہ بی بی صاحبہ اہلیہ ہدایت اللہ صاحب ما نسرکیمپ ضلع کیمبل پور - 19 اکتو بر کو فوت ہوگئیں ہیں.ان کی انتہائی خواہش تھی کہ جنازہ میں پڑھاؤں.6 - سلطان محمد صاحب رحیم یار خاں ریاست بہاولپور سے اطلاع دیتے ہیں کہ اُن کے والد چودھری حکیم فتح محمد صاحب فوت ہو گئے ہیں.نماز جنازہ پڑھائی جائے.7.ماسٹر فقیر اللہ صاحب اطلاع دیتے ہیں کہ اُن کے بھانجے محمد عبد اللہ خاں صاحب فوت ہو گئے ہیں.گاؤں میں کوئی احمدی نہیں تھا.اس لیے نماز جنازہ میں کوئی احمدی شامل نہ ہوا.“ غیر مطبوعہ مواد از خلافت لائبریری ربوہ) 1 ٹیونیشیا (TUNISIA) جمہوریہ تیونس.شمالی افریقہ اور بحیرہ روم کے ساحل پر واقع ایک ملک ہے.اس کی سرحدیں مغرب میں الجزائر اور جنوب مشرق میں لیبیا سے ملتی ہیں.ملک کا چالیس فیصد حصہ صحرائے اعظم پر مشتمل ہے.( وکی پیڈیا آزاد دائرۃ المعارف زیر لفظ Tunisia) : صحیح مسلم کتاب الجنائز بابُ فَضْلِ الصَّلَاةِ عَلَى الجَنَازَةِ و اتباعها -
خطبات محمود $1953 376 44 جلسہ سالانہ کے سلسلہ میں بعض ضروری اور اہم ہدایات (فرموده 25 دسمبر 1953ء بمقام ربوہ ) تشہد ، تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا." آج میں کارکنان جلسہ سالانہ کو اس امر کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ بار بار کے تجربہ کا نتیجہ یہ ہونا چاہیے کہ ہر سال پہلے سے اچھا انتظام ہو اور پچھلے تجربہ سے فائدہ اٹھایا جائے.خالی تجربہ کوئی چیز نہیں بلکہ اصل چیز تجربہ سے فائدہ اٹھانا ہوتا ہے.ورنہ دنیا میں کوئی انسان بھی ایسا نہیں جو ہر وقت تجربہ نہیں کر رہا.جاہل سے جاہل انسان بھی دنیا میں زندگی بسر کرتا ہے تو کئی باتیں اُسے بار بار پیش آتی ہیں لیکن وہ اُن سے فائدہ نہیں اٹھاتا.پس کام کو متواتر کرنا مفید چیز نہیں بلکہ ہر دفعہ کام کرنے میں جو نقائص رہ جائیں اُن کو نوٹ کر لینا اور دوسری دفعہ انہیں دُور کرنا اصل کام ہے.تم دیکھ لو مسلمانوں پر متواتر تباہیاں آئیں.اُن کی حکومتیں تباہ ہوگئیں ان کے ملک تباہ ہو گئے اور یورپین قوموں نے انہیں کچل دیا.اگر محض متواتر کام کرنا مفید ہوتا تو مسلمان اس سے سبق حاصل کرتے.اور اگر بار بار کے تجربہ سے انسان تجربہ کار کہلاتا تو مسلمان اصلاح پذیر ہو جاتے.لیکن ہوا یہ کہ جب کوئی ملک تباہ ہونے لگا اور غیر اقوام نے اُس پر حملہ کیا تو ہر مسلمان سلطنت نے یہ خیال کیا کہ وہ ہم پر حملہ آور نہیں ہورہا نتیجہ یہ ہوا کہ آہستہ آہستہ سب مسلمان حکومتیں
$1953 377 خطبات محمود تباہ کر دی گئیں.جب انگریزوں نے ٹیپو سلطان کو ہلاک کرنا چاہا تو اُس نے سب مسلمان بادشاہوں اور رؤساء کو کہلا بھیجا کہ یہ حملہ صرف مجھ پر نہیں بلکہ باری باری تم سب پر ہوگا آؤ ہم سب مل کر ان کا ی مقابلہ کریں.اگر ہم لڑتے ہوئے مر گئے تو بہادر کہلائیں گے اور ہماری حسرت بھی نکل جائے گی کہ ہم نے مقابلہ کر لیا.لیکن کوئی مسلمان بادشاہ یا نواب اُس کی مدد کو نہ آیا.نتیجہ یہ ہوا کہ ٹیپو سلطان کی مدد نہ باہر والوں نے کی اور نہ ملک کے اندر والوں نے کی.وہ نیک شخص تھا اور بہادر تھا.وہ اکیلا ہی لڑا لیکن اُس میں اتنی طاقت نہیں تھی کہ انگریزوں کا مقابلہ کر سکتا.آخر اس نے مقابلہ کرتے ہوئے کی جان دے دی.اور وہ ایک ہندو ریاست بنادی گئی.پھر حیدر آباد پر قبضہ کر لیا گیا.اب نہ وہ رہا اور نہ یہ، دونوں سلطنتیں مٹا دی گئیں.پس بار بار کوئی کام کرنا مفید نہیں ہوتا.بلکہ کسی چیز کے بار بار ہونے سے نتائج اخذ کرنا اور ان کے مطابق اپنی تدبیر کو بدلتے جانا مفید ہوتا ہے.اگر کوئی شخص یہ کہے کہ دس جلسے ہو گئے ہیں.اس لیے ہمیں تجربہ ہو گیا ہے تو یہ حماقت ہے.اگر ایک سال کے جلسے سے بعض نتائج کو حاصل نہیں کیا گیا اور اُس کے نقائص کو نوٹ کر کے دوسرے سال انہیں دور نہیں کیا گیا اور پھر دوسرے سال کے نقائص کو نوٹ کر کے تیسرے سال ان کی اصلاح نہیں کی گئی تو کوئی تجربہ نہیں ہوا ، چاہے میں جلسے ہی کیوں نہ گزرجائیں.دوسری بات جو میں کہنا چاہتا ہوں یہ ہے کہ کل ایک دوست نے میرے پاس یہ شکایت کی ہے کہ اس سال کھانے میں خرابی ہو رہی ہے.افسروں کے پاس شکایات لے کر جاتے ہیں تو وہ اس طرف توجہ نہیں کرتے.اس دوست نے لکھا ہے کہ میں نے بعض لوگوں کو یہ کہتے ہوئے سنا ہے کہ یہاں تو کوئی شخص ہمیں پوچھتا نہیں ہم کل واپس چلے جائیں گے.جس دوست نے یہ شکایت لکھی ہے وہ مخلص احمدی ہیں اور تعلیم یافتہ ہیں اور پھر جماعت کے ایک ذمہ وار کام پر مقرر ہیں.لیکن بعض لوگوں کی جس زیادہ تیز ہوتی ہے.وہ چھوٹی بات کو بڑا بنا لیتے ہیں.ممکن ہے ان کی جس بھی تیز ہو اور ذکاوت حس کی وجہ سے وہ ایک چھوٹی بات کو بڑا سمجھ بیٹھے ہوں.لیکن اگر اس دوست کی روایت ٹھیک ہے تو جس نے بھی ایسی بات کہی ہے مجھے اس سے کوئی ہمدردی نہیں.ایک بیمار پر جس طرح رحم کیا جاتا ہے میں اُس پر رحم تو کر سکتا ہوں لیکن اُس کی تکلیف کی وجہ سے مجھے کوئی
$1953 378 خطبات محمود تکلیف محسوس نہیں ہوتی.اس نے جو فقرے کہے ہیں وہ کسی ایمان دار شخص کے منہ سے نہیں نکل سکتے.یہاں کوئی شخص کھانے کے لیے نہیں آتا اور نہ ایسی تقریبیں تعیش اور آرام کے لیے مقرر کیا جاتی ہیں.بلکہ اس قسم کی تقریبیں اس لیے مقرر کی جاتی ہیں تا لوگ دین کی باتیں سنیں اور اللہ تعالیٰ کے ذکر سے فائدہ اٹھائیں.دنیا کی مجالس میں سے اگر کسی مجلس سے جلسہ سالانہ کو تشبیہہ دی جاسکتی ہے تو وہ صرف حج کا اجتماع ہے.اس کا یہ مطلب نہیں ہے ہم اسے حج کا درجہ دیتے ہیں.جیسے مخالف لوگ کہتے ہیں کہ ہم قادیان جانے کو حج کہتے ہیں.حج وہی ہے جسے اسلام نے مقرر کیا ہے.لیکن لوگوں کے جمع ہونے کی وجہ سے اس تقریب کو اگر کسی چیز سے مشابہت دی جاسکتی ہے تو وہ حج کا اجتماع ہے.حج کو 1300 سال سے اوپر عرصہ ہو رہا ہے.بلکہ اسلام سے بھی پہلے کئی ہزار سال سے حج کی تقریب چلی آرہی ہے.لیکن مکہ میں ایک شخص کی روٹی کا بھی انتظام نہیں.1300 سو سال سے زیادہ عرصہ سے مسلمان حج کے لیے مکہ مکرمہ میں جاتے ہیں.اور ان میں سے کوئی بھی یہ نہیں کہتا کہ چونکہ ی یہاں روٹی کا انتظام نہیں اس لیے ہم واپس چلے جاتے ہیں.لیکن یہاں تو کھانے کا انتظام بھی ہے ہے.اور جہاں ہزاروں کے لیے رہائش اور کھانے کا انتظام کرنا تھوڑے آدمیوں کے سپر د ہو وہاں بعض کمزور لوگوں سے غلطیاں بھی ہوں گی.اور پھر بعض طاقت ور لوگ بھی طاقت سے زیادہ کام ہونے کی وجہ سے غلطی کریں گے.بہر حال یہ غلطیاں تو ہونگی.لیکن ایک عقل مند شخص جو احمدیت کی حقیقت کو سمجھتا ہے اسے یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ یہ ایک زائد چیز ہے.زمانہ کے حالات کی وجہ سے یہ درت پیدا ہوگئی ہے کہ یہاں آنے والوں کے لیے کھانے اور رہائش کا انتظام کر دیا جاتا ہے.ور نہ حج کے موقع پر ایسا کوئی انتظام نہیں ہوتا.اور پھر کوئی شخص شکایت نہیں کرتا.عرسوں کو دیکھ لو.بزرگوں کی قبروں پر عُرس ہوتے ہیں اور وہاں قوالیوں اور ناچ گانے کے سوا کیا ہوتا ہے.لیکن عام لوگ عقیدت کی وجہ سے وہاں چلے جاتے ہیں.وہاں ہر شخص کو صرف ایک روٹی اور تھوڑی سی دال دی جاتی ہے اور اسی غذا پر تین دن تک گزارہ کیا جاتا ہے.حج میں لوگ چار دن تک جنگل میں بغیر کسی مکان کے گزارہ کرتے ہیں.وہاں اس قسم کی تکلیف ہوتی ہے کہ جاوی لوگ روٹیاں پکا کر ساتھ لے جاتے ہیں.اور جب بھوک لگتی ہے تو انہیں بھگو کر کھا لیتے ہیں.یہاں تو سب سہولتیں صورت ہوتا
$1953 379 خطبات محمود بہم پہنچائی جاتی ہیں.اس لیے اس قسم کا فقرہ منہ سے نکالنا درست نہیں.جن لوگوں نے یہ کہا ہے کہ یہاں تو ہمیں کوئی پوچھتا نہیں ہم واپس چلے جاتے ہیں.میں اُن سے کہوں گا کہ اُن کا یہاں آنا ہی مناسب نہیں تھا.انہوں نے یہاں آکر غلطی کی ہے.اور بجائے ثواب کے گناہ حاصل کیا ہے.پھر میں ذمہ وار کارکنوں سے یہ کہتا ہوں کہ وہ اپنے فرائض کو خوش اسلوبی اور بشاشت سے ادا کریں.اور چاہے کسی کو شکایت ہو یا نہ ہو وہ خوشی سے ان باتوں کو برداشت کریں.اللہ تعالیٰ نے جماعت کے لیے یہ ثواب کے دن مقرر کیے ہیں.باہر والے اس موقع پر یہاں آتے ہیں ، سفر کی صعوبتیں برداشت کرتے ہیں، کام کاج چھوڑ کر آتے ہیں، یہاں وہ کئی تکالیف برداشت کرتے ہیں، راتوں کو زمین پر سوتے ہیں ، غذا بھی بعض اوقات ان کو مناسب حال نہیں ملتی.وہ خدا تعالیٰ کی باتیں سنتے ہیں اور اس طرح ثواب کماتے ہیں.یہاں کے رہنے والوں کو سفر کی صعوبتیں برداشت نہیں کرنی پڑتیں.وہ اپنے کام کاج چھوڑ کر یہاں نہیں آتے.ہاں وہ باہر سے آنے والوں کی مہمان نوازی کرتے ہیں اور اس طرح ثواب حاصل کرتے ہیں.اگر باہر کی والے اس موقع پر مرکز میں نہ آتے تو وہ ثواب سے محروم رہتے.اور اگر یہاں رہنے والے مہمان نوازی کا کام نہ کرتے تو سارا ثواب باہر والے ہی لے جاتے.اللہ تعالیٰ نے دونوں کے لیے ثواب کے مواقع بہم پہنچائے ہیں.باہر والوں کے لیے بھی اور یہاں رہنے والوں کے لیے بھی.اس لیے دونوں کو خوش ہونا چاہیے کہ خدا تعالیٰ نے ان کا خانہ خالی نہیں چھوڑا اور دونوں کے لیے اپنے قرب کی راہیں کھول دی ہیں.“ (الفضل 6 دسمبر 1961ء)
1 انڈیکس مرتبہ: مکرم فضل احمد شاہد صاحب -1 آیات قرآنیہ -2 احادیث نبویہ 3.الہامات حضرت مسیح موعود 4.اسماء 5- مقامات 6.کتابیات 3 4 5 6 10 13
3 الفاتحة آیات قرآنیہ الْحَمْدُ لله.....(2) وَلَا تَمُدَّنَّ عَيْنَيْكَ (132) 300,276,267 الرَّحْمَنِ الرَّحِيم (3) 300 المومنون مَالِكِ يَوْمِ الدِّينِ (4) 300 البقرة الطور فَإِنَّكَ بِأَعْيُنِنَا (49)252 322 | الحديد هُوَ الْأَوَّلُ وَالْآخِرُ (4) 97 يَا أَيُّهَا الرُّسُلُ كُلُوا.ألَمْ يَأْنِ لِلَّذِينَ آمَنُوا (17)304 (52) لا يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفْساً إِلَّا كُلُوا مِنَ الطَّيِّبَاتِ.وُسْعَهَا المائده (52) 287 (287) الفرقان فَإِنَّ حِزْبَ اللهِ هُمُ الْغَالِبُونَ وَجَاهِدُهُمْ بِه.....188 96 الصف يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوالِمَ تَقُولُونَ (3) العلق اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ (2) 314 72 329 254 (53) 237 (57) الاعراف القصص كُلُوا وَاشْرَبُوا (32) 96 قَالَ إِنَّمَا أُوتِيتُهُ هود عَلَى عِلْمٍ (79) بِسمِ اللهِ مَجُرهَا (42) 212 العنكبوت عَطَاء غَيْرَ مَجُذُوذٍ (109)107 - إِنَّ الصَّلَاةَ تَنْهَى عَن يوسف الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَر (46) 250 | وَهُمْ عَنْهَا مُعْرِضُونَ يسين (105) 253 إِنَّمَا أَمْرُهُ إِذَا أَرَادَ (83)276 الحجر ربَمَا يَوَدُّ الَّذِينَ كَفَرُوا (3) 301 | أَجَعَلَ إِلا لِهَةَ إِلَهَا وَاحِداً (6)75
احادیث ہر کام کے شروع میں ہجرت کئی قسم کی ہوتی ہے 308 الأَعْمَالُ بِالنِّيَّاتِ 268 بسم اللہ پڑھو 79 اے علی ! کسی شخص کو تیرے اگر ہرا ہم کام سے پہلے ذریعہ ہدایت لے 332,331 اے انصار ! تم اس طرح تَخَلَّفُوا بِاَخلاقِ اللهِ 225 بسم اللہ نہ پڑھی جائے 82 で میرا نام محمد ہے جُبلَتِ الْقَلُوبُ 303 روزے کے دو حصے ہیں ک تم اپنے سگے ماں باپ کی 93 119 كُلِّ بِيَمِينِكَ 322 بھی ناجائز حمایت نہ کرو 121 ادنی ایمان یہ ہے هَلْ بَلَّغْتُ 285 | اس شخص سے زکوۃ وصول حدیث بالمعنی سن کی بجائے 122 172 کہہ سکتے تھے 333 جو شخص خدا کی راہ میں دیتا ہے 358 جو شخص جنازہ میں شامل ہو 374 بیٹھ جاؤ 176 روزہ کا معاوضہ میں ہوں 29 اس سے زکوۃ نہ لی جائے 36 اگر عید اور جمعہ اکٹھے ہوں 239 ہر د نیوی کام سے پہلے جو شخص شفاعتِ حسنہ کرتا ہے 37 خدا تعالیٰ بغیر حساب کے بسم الله جنت میں داخل کرے گا.ادنی درجہ کی نماز یہ ہے تم الْحَمدُ لِلَّهِ کہو 37 67 خدا کے راستے میں سب کچھ دے دینا 246 250 307
LO 5 الہامات حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام عربی الہامات إِنِّي مُعِيُنٌ مَنْ اَرَادَ إِعَانَتَكَ.253
221,220 374 143 6 اسماء اقلیدس آئزن ہاور 87 اکبر الدین احمد مرزا 154 | ثناء اللہ مولوی آدم علیہ السلام.حضرت 106 امام بخاری 267 | ثناء اللہ ڈاکٹر 23 ج 23 367,366,235,234 | امام دین آغا خاں سر آمنه بی بی 272 127 امتة الحفیظ بیگم.حضرت سیدہ جنت بی بی (والدہ شیخ رحمت الله ) 23 129 جنت بی بی ( خالہ زاد مکرم چودھری ابراھیم علیہ السلام.حضرت ام ہانی.حضرت 208 نذیر احمد رائے ونڈی) 214,203,34 چ ابراهیم ادهم ابن جریر 168 | بشیر احمد حضرت میاں 129 ابن حیان ابوبکر حضرت 85,69,36 273 خ 28 باغ دین چودھری 154 چنگیز خان 168 بشیر احمد چغتائی ( راولپنڈی) حشمت اللہ ڈاکٹر 173,90,8886, 227 | بشیر احمد (لالہ موسیٰ والے) 273 خدا بخش حاجی ابو جہل 210,85,75,74 ابوذرغفاری.حضرت 211 پطرس ابو قحافہ.حضرت 86,85 پیرا اڈوائر.سر 197,196 | پیر بخش اروڑے خان.حضرت منشی خدیجہ حضرت 13 خلیل الدین احمد 222,221 و 273 داتا گنج بخش حضرت 89,86 298 23 23 69 153 298 152 153 142 } 197,196 داؤد علیہ السلام حضرت 221,220 | تیمور 86 داؤد.ایس.کے اسمعیل علیہ السلام.حضرت دیوجانس کلبی 135 ٹرومین 87 افتخار احمد.حضرت پیر 344 ٹیپوسلطان 377 ڈو
7 ڈینی سر 200 ش شریف احمد حضرت مرزا 129 رازی.حضرت امام 168 شیر شاہ سوری عبدالکریم سیالکوٹی.حضرت مولوی 372,344 104 عبد اللہ بن مسعود - حضرت 176 راک فیلر 77 ص عبداللہ خان نواب 200,129 رحیم بخش 374 صدر الدین مدار 273 عثمان.حضرت رشید بیگم 374 رضوان عبد الله 273 طلحہ حضرت b 85 علی.حضرت 227,86 86,69 331,227,209 رفیع الدین احمد.شیخ 154 ع علی محمد چودھری ( کوٹلی گوجراں) روز ویلٹ 87 عائشہ حضرت عائشہ بی بی زبیر حضرت 85 عباس - حضرت زید.حضرت 113,112,69 | عبد الاحد خان س سٹالن سردار بی بی عبدالحمید 168,86 عبدالحلیم 23 عبدالحئی سید سعید احمد جاوید ملک 273 عبدالرشید ایم.اے 143,142 | عبد الرحمن مولوی فاضل 339 ناظر اعلی قادیان سکندر سکندر حیات سر سلامت بی بی سلطان محمد 375 عبدالروف سید غ 273 غلام احمد قادیانی حضرت مرزا 273 عبد الرحمن حافظ 154 مسیح موعود علیہ السلام 23,12 138 375 210 273 272 153 153 133,131,126,111,31 273 285,218 216,159,158 153 علی محمد (باڈہ.سندھ ) عمر حضرت 227,86,85 عمر دین چودھری عیسی علیہ السلام - حضرت 13 153 154 130,129,124,123,94 23 سلیم الدین احمد 154 عبد العزیز ( دفتر محاسب) 153 157,154,153,134,133 سلیمان علیہ السلام - حضرت 128 عبدالعزیز (منشی) 215,205,189,175,158 153 169 تا 171 عبدالعزیز نون حافظ حلال پور 154 258,253,236,235,225,222 سہروردی 213,212 | عبدالعزیز ماسٹر سیوطی 168 عبدالغفورسید.سیالکوٹی 273 290,287 285,263,261 23 372,360,344,297,295
8 غلام حسین چودھری 27 | لینن 168,86 | محمد شاہ سید 154 ف م محمد ظفر اللہ خان.سر چودھری 371 فاطمه بی بی 153 مالنكوف 86 محمد عبد اللہ خان فتح محمد چودھری 197 محمد رسول الله.حضر- محمد عثمان فتح محمد حکیم 375 خاتم الانبیاء محمد علی فضل احمد چودھری 272 67,37,36,29 تا 72,69 تا محمد مشتاق ہاشمی فقیر اللہ ماسٹر فہمیدہ بیگم فیض اللہ خان سردار 375 115112,94,93,90,89 273 143,138,131,122,121,119| 374 172,170167,159,158 79,74 تا 86,85,82,81 محمد ممتاز دولتانہ محمد نواز خان سردار محمد یوسف 375 272 170 154 339 272 23 ق محمود احمد حضرت مرزا بشیر الدین.قطبی 204,184,177,176,173 مصلح موعود 227,225,211208,207 قمر الحق سید کرم دین کسرای کمال الدین خواجہ گاندھی گلاب دین گوڑ والہ لانڈ جارج لوط علیہ السلام 101,53 168 192,152,130,129,127 153 257,253 250,246,229 241,240,214 211,193| 87 287285,267 264,258 298 294,288,256 308,303,301,300,290 372*369 258 329,325,323,322,311 272 مریم علیہا السلام - حضرت 311 مشتاق سید 293 منور احمد صاحبزادہ ڈاکٹر 296 87 358,347,345,3330331 374,362 258 محمد اسمعیل 100 محمد افضل میر 273 | معاویہ.حضرت 273 محمد بخش چودھری 374 | مودودی 85 51 198,197 محمد بخش (ایک چپڑاسی 158 موسیٰ علیہ السلام حضرت 158 159 - ) 196 323,34 محمد ثناء اللہ سید محمد حسین بٹالوی مولوی 154 نادر شاه 215تا236,221,219 نارائن داس 86 198,197
366,237 375 366 104 89687 ہٹلر ہدایت اللہ ہلاکو خان ہمایوں ی یزید یعقوب بیگ ڈاکٹر مرزا 297 23 9 ناصر الدین 272 نور الحق ناصر نواب.حضرت میر 295 | نورالدین حضرت مولانا حکیم 273 175,157,148,145,54 42 309,297,219 217,212| 170,61 58 318,317 366,86 141,140 نولڈ کے 23 154 114112 105,101 198 ناصرہ بیگم ناظم الدین خواجہ نپولین نذیر احمد چودھری نصیر الحق نظام الدین میاں 215 تا 219 وائل نوح علیہ السلام - حضرت 33 وکٹوریہ ملکہ نور احمد شیخ ( مختار عام 154,23 و زمین میجر
10 بنگال مقامات 164 ٹیونیشیا 370 احمد آباد 192 بنگہ 23 197 تا 238,203,202,199 | بہاولپور 375 جاپان 337,301,166,151 افریقہ 358 بھینی با نگر 374 جالندھر امرتسر 232 جڑیا خان امریکہ 103,61,24 | پاکستان 25,24,20 چھڑو U62,59,56,51,49,48,42 181,166,143,131,105 231,180,169165,94,64 339 337,243,211,182 350,342,246,242,241 358,346 23 154 272,202,174 217 272 انڈونیشیا 166,24 پدن پدا 153 چاه سرا سرا انگلستان 143,102 | پشاور 370,369 | چک L-28/15 355,346,196,193 پنجاب 48,44 تا 52 | چک 35 ایران 145,103,62,59,58|104 45 ایشیا 358,168,166,151 162 تا 196,194,164 چک 86 گ.ب 205,204,201 103 باڑہ (سندھ) 154 | پنڈی چری 154 | چک 107 بٹالہ 221,217 | پولینڈ 84 | چنیوٹ بخارا 94 چونڈہ برما 166 | تاندلیانوالہ 154 | چھمیال بشیر آباد 224 تلہار 273 | چین بلقان 61 بیتی 273,197,196,127 ٹاھلی 203,201 حبشہ 153 374 273 154 154 273 374 160 312 374 166,151 273
11 حلال پور 154 رحیم یارخان حیدرآباد 377,241,202 روس خ روہڑی خانیوال 374 375 366 | فرانس 273 فلسطین فیروز پور 244 136 194,193 سانگلہ ہل 49 ق دنیا پور پھلی 153 | سرحد 297,295,258 سرگودھا 164,103,56 | قادیان دیوبند 214 سمبڑیال ڈسکہ 272 | سمرقند ڈیرہ غازی خان 374 سندھ 54,44,21,12 158,129,120,94,93 273,203 216,212,211,199,161 369,368 232,231,222,221,218 273 317,315,297,273,265 94 378,374,360,354,339| 164,162,103 ک 192,184,174 172 رائے ونڈ 23 224,205,199,195 | کاہنوں وال راولپنڈی ربوه 370,273,23 299,293,273,234,230 کراچی 23,19,11,6,1 سیالکوٹ 3.359,273,155,154 56,54,46,41,39,32,31 153 169,59,58 362,250,249,241,239 149,56,23 203 203,201,173 23 153 375 110,99,91,81,71,65 سیرالیون 23 گنری 133,126,122,120,116 ش کوٹلی با و فقیر چند 151,149,147,138,135 | شکر گڑھ 374 کوٹلی گوجراں 241,166,159,155,153 271,265,264,260,242 شیخو پوره 293,273,154 b کیمبل پور 308,299,292,284,275 طائف 332,112 گجرات 342,327,320,312,311 ع 376,364,361,360,354,353 | عر ب 178,131 گوٹھ لالہ چورنجی لال 273,23 273 160
12 گورداسپور 285,231 مکہ 94,93,85,74 گوگیرہ 273,272 | 207,203,113,112 تا 210 یورپ 102,84 ل 244,243,180,151 332,310,308,214,212 لائل پور 203,154 368,367,339,312 ملتان لالہ موسیٰ لالیاں لاہور 273 میانوالی ضلع سیالکوٹ 373,368 | میرپور 45,42 تا 47 مور جھنگی 217,199,103,82,56,50 | مونگ 296,293291,240,218 362,327,298 | ناصر آباد 356,337,293,282 378,345,333 367,366,358 374,153 23 202 374 23 172,162 203,201,199,184 258 لدھیانہ لکھنو 154 لندن 371 نبی سر روڈ لودھراں 153 نصرت آباد نواب شاہ ماریشس 338 | نوشہرہ مانسر کیمپ 375 نیو یارک محمد آباد 238,224,203,201,199 | محمود آباد 197 تا 203,202,200 | ہندوستان مدراس مبینہ مرا کو 234,230 203,174 200 200 273 243 25,24,20 338 134,100,94,56,42 333,332,310,85 218,204,197,190,166 370 241,232 131
33 33 33 13 کتابیات الفضل 3,2 بائبل 272,271 | کلیله دمنہ المصلح 168 | بخاری 268,218 انجیل مثنوی رومی 143 الوصیت 285 | تورات 143