Language: UR
حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے خطبات علوم و معارف کا ایک انمول خزانہ ہیں اور پیش گوئی کے الہامی الفاظ ’’وہ علوم ظاہری و باطنی سے پُر کیاجائے گا‘‘ پر شاہدناطق ہیں۔ آپؓ کا دور خلافت نصف صدی سے زیادہ عرصہ پر محیط ہے جو ایک تاریخ ساز دور تھا۔ اس نہایت کامیاب اور طویل دور میں آپؓ نے اپنے خطبات جمعہ کے ذریعہ جماعت کی تعلیم و تربیت میں نہایت اہم کردار ادا کیا۔ سیاسی، سماجی اور مذہبی افقوں پر نمودار ہونےوالے ہر معاملے پر بروقت اور درست رہنمائی عطافرمائی۔ الغرض یہ خطبات جمعہ جماعت احمدیہ کا ایک بہت ہی قیمتی خزانہ اور سرمایہ ہیں۔ جسے فاؤنڈیشن نے یکجا کرکے کتابی شکل دی ہے۔
خطبات مود خطبات جمعہ 1952 فرموده سیدنا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد الصلح الموعود خلیفہ ایسیح الثانی ح شد زیر اهتمام
KHUTBAT-I-MAHMUD by HADRAT MIRZA BASHIR-UD-DIN MAHMUD AHMAD KHALIFATUL MASIH II Published by: Printed by:
بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ پیش لفظ اللہ تعالیٰ کے فضل و احسان سے فضل عمر فاؤنڈیشن کو حضرت مصلح موعود کے خطبات کی تینتیسویں جلد احباب کی خدمت میں پیش کرنے کی سعادت نصیب ہو رہی ہے.الْحَمْدُ لِلَّهِ عَلَى ذلِکَ.اس جلد میں 1952 ء کے 41 خطبات جمعہ شامل ہیں.حضرت فضل عمر سلطان البیان کے خطبات علوم و معارف کا انمول خزانہ ہیں اور پیشگوئی کے الہامی الفاظ وہ علوم ظاہری و باطنی سے پر کیا جائے گا“ پر شاہد ناطق ہیں.حضرت مصلح موعود کا دور خلافت جو کم و بیش 52 سال پر محیط ہے ایک تاریخ ساز دور تھا.اس نہایت کامیاب طویل دور میں حضور کے خطبات نے جماعت کی علمی وروحانی ترقی اور تعلیم و تربیت میں نہایت اہم کردار ادا کیا.حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحمہ اللہ فرماتے ہیں :.حضرت مصلح موعود کے خطبات آپ کے قریب بیٹھ کر سننے کا موقع ملتا تھا.تمام دنیا کے مسائل کا آپ کے خطبات میں مختلف رنگ میں ذکر آتا چلا جاتا تھا.دین کا بھی ذکر ہوتا اور دنیا کا بھی.پھر ان کے باہمی تعلقات کا ذکر ہوتا تھا.سیاست جہاں مذہب سے ملتی ہے یا جہاں مذہب سے الگ ہوتی ہے غرضیکہ ان سب مسائل کا ذکر ہوتا تھا.چنانچہ قادیان میں یہی جمعہ تھا جس کے نتیجہ میں ہر کس و ناکس ، ہر بڑے چھوٹے اور ہر تعلیم یافتہ و غیر تعلیم یافتہ کی ایک ایسی تربیت ہو رہی تھی جو بنیادی طور پر سب میں قدر مشترک تھی.یعنی پڑھا لکھا یا ان پڑھ، امیریا غریب اس لحاظ سے کوئی فرق نہیں رکھتا تھا کہ بنیادی طور پر احمدیت کی تعلیم اور احمدیت کی تربیت کے علاوہ دنیا کا شعور بھی حاصل ہو جایا کرتا تھا.چنانچہ بہت
سے احمدی طلباء جب مقابلہ کے مختلف امتحانات میں اپنی تعداد کی نسبت زیادہ کامیابی حاصل کرتے تھے تو بہت سے افسر ہمیشہ تعجب سے اس بات کا اظہار کیا کرتے تھے کہ احمدی طلباء میں کیا بات ہے کہ ان کا دماغ زیادہ روشن نظر آتا ہے ان کو عام دنیا کا زیادہ علم ہے.“ ( خطبات طاہر جلد نمبر 7 صفحہ 10) ہمارا یہ روحانی وعلمی ورثہ سلسلہ کے لٹریچر میں بکھرا پڑا تھا اور جماعت کے دوستوں کو اس سے استفادہ کرنا مشکل تھا.فضل عمر فاؤنڈیشن اس جماعتی ضرورت کو پورا کرنے کیلئے ان خطبات کو کتابی شکل میں شائع کر رہی ہے.یہ جواہر پارے اب آپ کے ہاتھوں میں ہیں.ان کی زیادہ سے زیادہ اشاعت سے جہاں ادارہ کے لئے اس کام کو جلد پایہ تکمیل تک پہنچا نا آسان ہوگا وہاں نئی نسل کی تربیت کے لئے بھی یہ بہت ممد و معاون ہوں گے.اس جلد کی تیاری کے سلسلہ میں جن دوستوں نے ادارہ کی عملی معاونت فرمائی ان میں مکرم عبدالرشید صاحب اٹھوال ، مکرم حبیب اللہ صاحب باجوہ ، مکرم فضل احمد صاحب شاہد، مکرم عبد الشکور صاحب باجوہ، مکرم عدیل احمد صاحب گوندل ، مکرم ظہور احمد صاحب مقبول ، مربیان سلسلہ قابل ذکر ہیں.خاکساران سب کا دلی شکر یہ ادا کرتا ہے اور دعا گو ہے کہ خدا تعالیٰ ان کے علم و فضل میں برکت عطا فرمائے اور اپنے فضلوں اور رحمتوں نوازے.آمین سے
صفحہ 1 فہرست مضامین خطبات محمود جلد 33 خطبه نمبر تاریخ بیان فرموده (خطبات جمعہ 1952ء) موضوع خطبه 1 4 جنوری 1952 ء (1) نئے سال کیلئے ایک خاص (Plan) بناؤ اور پھر اُسے پورا کرنے کی کوشش کرو.(2) اپنے کاموں کو منظم کرو تا کہ ہماری تھوڑی سی طاقت زیادہ سے زیادہ فوائد اور نتائج پیدا کر سکے 2 11 جنوری 1952 ء ماضی کی بجائے مستقبل کو اپنے سامنے رکھو اور سوچتے رہو کہ تم نے اپنے فرائض کو کس طرح ادا کرنا ہے 3 18 جنوری 1952ء | اگر تمہیں احمدیت اور اسلام سے سچی محبت ہے تو تحریک جدید میں حصہ لینا تمہارے لئے ضروری ہے 4 یکم فروری 1952 ء کیا یہ بات جرم ہے کہ کوئی کہے کہ ہم ایک دن زیادہ ہو جائیں گے؟ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جو خدمت کی وہ خدا تعالیٰ کی کی ، انگریزوں کی نہیں 5 15 فروری 1952 ء ہمارے سامنے کوئی پروگرام ہونا چاہیے اور پھر اس کے مطابق عمل ہونا چاہیے وقت نہایت قیمتی چیز ہے جو وقت کو استعمال کرے گا وہی جیتے گا اور جو ضائع کرے گا وہ ہار جائے گا 9 12 17 27 27
خطبه نمبر تاریخ بیان فرموده موضوع خطبه 6 29 فروری 1952ء تمہارا فرض ہے کہ اپنے اندر بیداری پیدا کر وہ تبلیغ کرو اور جماعت کو وسیع کرتے چلے جاؤ جو شخص خدا تعالیٰ کے گمراہ بندے کو بچائے گا اُس پر وہ اس قدر صفحه انعام نازل فرمائے گا کہ انسانی عقل اس کا اندازہ نہیں لگا سکتی 35 7 7 مارچ 1952ء ہمیشہ اپنے کاموں میں محبت اور عقل کا توازن قائم رکھو 14 مارچ 1952 ء تم اپنے اندر سچائی پیدا کر و باقی خوبیاں تم میں آسانی سے پیدا ہو جا ئیں گی.9 21 مارچ 1952 ء محض احمدی کہلانا کافی نہیں.اصل چیز یہ ہے کہ تمام اسلامی احکام پر عمل کرنے کی کوشش کی جائے 10 28 مارچ 1952 ء اگر دنیا کی ساری طاقتیں بھی تمہاری مدد کرنے سے انکار کر دیں تو خدا تعالیٰ تمہیں نہیں چھوڑے گا 46 55 65 76 11 4 اپریل 1952 ء ربوہ کے رہنے والوں کا فرض ہے کہ اپنی مساجد کو آباد رکھیں اور اپنے اندر تعاون ، ہمدردی اور قربانی کی روح پیدا کریں 83 12 11 اپریل 1952ء | مجلس شوری کیلئے پختہ کار اور متقی نمائندے چلنے چاہئیں تاوہ صحیح مشورے دے سکیں 13 25 اپریل 1952 ء ہماری جماعت کا فرض ہے کہ وہ اسلام کی اشاعت اور ترقی کے لئے رات اور دن کام کرتی چلی جائے 214 مئی 1952 ء نو جوانوں کی ایسے رنگ میں تربیت کریں جس سے وہ سلسلے کے لئے مفید وجود بن میں 90 96 99 99 103
صفحہ 115 135 151 161 166 173 خطبه نمبر تاریخ بیان فرموده موضوع خطبه 15 مئی 1952 ء دنیا کے نشیب و فراز انسان کے لئے قدرت کے اشارے ہیں کہ بڑھتے اور ترقی کرتے چلے جاؤ آج دنیا کے پردے پر صرف جماعت احمدیہ ہی ہے جسے خدا نے اپنے عرش سے یہ کہا ہے کہ اٹھ اور میں تجھے اٹھاؤں گا 16 16 مئی 1952 ء جو قوم خدا تعالیٰ کے گھر کو آبا در کھنے کی کوشش کرتی ہے دنیا کی بڑی سے بڑی طاقت بھی اُس کے گھر کو ویران نہیں کر سکتی ہماری جماعت کو چاہیے کہ یورپ کے مختلف ممالک میں مساجد تعمیر کرنے کی بابرکت تحریک میں پورے زور سے حصہ لے 17 23 مئی 1952 ء اگر ہم کوشش کریں تو ہمارا چندہ بہت بڑھ سکتا ہے اور ہمارا بار آسانی سے دُور ہوسکتا ہے 18 30 مئی 1952 ء خوش قسمت ہیں وہ لوگ جو رمضان المبارک میں اللہ تعالیٰ کی رحمتوں اور فضلوں سے فائدہ اٹھاتے ہیں 19 6 جون 1952ء رمضان بڑی برکتیں لے کر آتا ہے.مومن کو چاہیے کہ اس سے فائدہ اُٹھائے 20 13 جون 1952 ء رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا وجود ایسا تھا جس کو باوجود دشمنی کے جھوٹا نہیں کہا جا سکتا تھا.اسی طرح بعض باتیں ایسی ہوتی ہیں جنہیں جھٹلایا نہیں جاسکتا
صفحه 179 186 196 204 215 224 237 خطبه نمبر تاریخ بیان فرموده موضوع خطبہ 21 20 جون 1952 ء اپنے اندر یہ روح پیدا کرو کہ تمہارا خدا تعالیٰ سے زندہ تعلق قائم ہو جائے 27 جون 1952ء ہر مصیبت، ہر خوف اور ہر حملہ تمہاری طاقت میں اضافہ کا موجب ہونا چاہیے 3 4 جولائی 1952 ء جو شخص ایمان کا دعوی کرتا ہے اسے ابتلاؤں اور آزمائشوں کی بھٹی میں ضرور ڈالا جاتا ہے ہماری جماعت کو مشکلات کے مقابلہ میں دعا اور نماز کی طرف توجہ کرنی چاہیے.24 11 جولائی 1952 ء صبر کا جو ہر دکھاؤ اور نمازوں اور دعاؤں کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ کی مدد طلب کرو 2 18 جولائی 1952 ء اللہ تعالیٰ کی طرف جھکو اور اُسی پر توکل کرو کہ تمہاری تمام مشکلات کا یہی واحد علاج ہے 26 25 جولائی 1952ء 1 قرآن مجید، احادیث اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تعلیم کی رو سے حکومت وقت کی اطاعت فرض ہے 2 خدا تعالیٰ اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خاطر ہمیں نام اور مقام چھوڑنے پڑے تو ہم چھوڑ دیں گے لیکن اپنا کام کر کے چھوڑیں گے.27 یکم اگست 1952ء مشکلات و مصائب کا زمانہ خدا تعالیٰ کے فضلوں کو حاصل کرنے کا بہترین وقت ہوتا ہے
خطبه نمبر تاریخ بیان فرموده موضوع خطبه 8 اگست 1952ء | عقیدے کا تعلق خدا تعالیٰ سے ہے کسی حکومت کو اس میں دخل دینے کا اختیار حاصل نہیں ہے.جہاں تک حکومت کے قوانین کا سوال ہے تم ان کی پابندی کرو صفحہ جہاں تک عقائد کا سوال ہے تم ان پر مضبوطی سے قائم رہو 243 29 29 اگست 1952ء 1 تمام وہ کام جو انسان کی ملی ، سیاسی، علمی، قومی برتری اور ترقی کیلئے ہوں ذکر الہی میں شامل ہیں اور ان کا مساجد میں کرنا جائز ہے.2 بے تکلفانہ مجالس بازار کی بجائے اپنے گھروں میں لگائیں 253 30 5 ستمبر 1952ء اگر تم دوسروں پر قرآن کریم کی حکومت کو قائم کرنا چاہتے ہو تو اپنے پر بھی اس کی حکومت قائم کرو 31 19 ستمبر 1952 ء زندہ قوموں کی علامت یہ ہوتی ہے کہ اس کے نوجوان اس کوشش میں لگے رہتے ہیں کہ وہ اپنے بڑوں کے قائم مقام بن جائیں 32 26 ستمبر 1952ء | اگر کسی مذہب پر عمل کرنے کے نتیجہ میں خدا تعالیٰ نہیں ملتا تو وہ مذہب محض نام کا مذہب ہے عبادت حسن ظنی ، اطاعت ، دین کے لئے قربانی کا جذبہ نماز اور روزہ وہ ذرائع ہیں جن سے خدا تعالیٰ ملتا ہے 33 10 اکتوبر 1952ء ہماری جماعت ایک مذہبی جماعت ہے ہمارے تمام کاموں کی بنیاد مذہب اور روحانیت پر ہے 264 278 283 289
موضوع خطبه خطبه نمبر تاریخ بیان فرموده 34 17 اکتوبر 1952 ء اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت حاصل کرنے کے لئے ضروری ہے کہ تم اپنے فرائض کو پوری طرح ادا کرو اور قربانیوں میں استقلال دکھلاؤ 35 24 اکتوبر 1952ء غور و فکر کی عادت ڈالو کہ انسان کا بہترین استاد اس کا اپنا نفس ہوتا ہے 36 31 اکتوبر 1952 ء ہماری جماعت دنیا میں ایک عظیم الشان روحانی تغیر پیدا کرنے کے لئے قائم ہوئی ہے اپنے اندر ایک روحانی تبدیلی پیدا کرو کہ اس کے بغیر تم دوسروں کے قلوب کی اصلاح نہیں کر سکتے 37 21 نومبر 1952 ء قومی زندگی نوجوانوں سے وابستہ ہوتی ہے اس لئے انہیں اپنے فرائض منصبی اور قومی ذمہ واریوں کو ادا کرنے کی طرف توجہ کرنی چاہیے 38 28 نومبر 1952ء تحریک جدید ایک دن کی نہیں ، دو دن کی نہیں بلکہ ہر مومن کے لئے ہمیشہ جاری رہنے والی تحریک ہے 39 5 دسمبر 1952ء قحط اور مصائب کے دنوں میں جو دین کی خاطر قربانی کرتے ہیں وہی خدا تعالیٰ کے محبوب ہوتے ہیں تحریک جدید ہمیشہ کے لئے قائم رہنے والا ادارہ ہے.صفحہ 297 302 305 313 324 جب تک قوم زندہ رہے گی یہ اس کے ساتھ وابستہ رہے گا 346
خطبه نمبر تاریخ بیان فرموده موضوع خطبه 40 19 دسمبر 1952ء جلسہ سالانہ پر یہ ارادہ لے کر آؤ کہ تم نے جلسے کی برکات حاصل کرنی ہیں مہمانوں کی خدمت کے لئے اپنے مکانات اور اپنی خدمات پیش کرو 41 26 دسمبر 1952 ء ربوہ آنے کو اپنے لئے زیادہ سے زیادہ موجب برکات بناؤ اور اپنے اوقات ذکر الہی میں صرف کرو صفحه 361 یہ بھی اپنے درجہ کے لحاظ سے ایک مقدس مقام ہے.یہاں رہنے والوں کی اکثریت خدمت دین میں لگی ہوئی ہے 369
1952 1 خطبات محمود (1) نئے سال کیلئے ایک خاص پلان (Plan) بناؤ اور پھر اُسے پورا کرنے کی کوشش کرو.(2) اپنے کاموں کو منظم کرو تا کہ ہماری تھوڑی سی طاقت زیادہ سے زیادہ فوائد اور نتائج پیدا کر سکے فرموده 4 جنوری 1952ء بمقام ربوہ ) تشهد ، تعوذ اورسورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت پر اب یہ نیا سال چڑھ رہا ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے دعوئی کے لحاظ سے باسٹھواں سال ہے اور بیعت کے لحاظ سے چونسٹھواں سال ہے.بیعت پر گویا 63 سال گزر گئے ہیں اور دعوی کے لحاظ سے جماعت پر 61 سال گزر گئے ہیں.اس کے معنی یہ ہیں کہ ہماری جماعت کی عمر صدی کے نصف سے آگے بڑھ جی رہی ہے.مگر کیا ہم جہاں عمر کے لحاظ سے نصف صدی سے اوپر جا رہے ہیں وہاں ہم ترقی کے لحاظ سے بھی نصف صدی سے اوپر جا رہے ہیں یا نہیں.جہاں تک جماعت کے متعدد ممالک میں پھیل جانے کا سوال ہے ہماری ترقی قابل تحسین وفخر ہے.مگر جہاں تک تعداد کا سوال ہے ہماری جماعت ابھی بہت پیچھے ہے.جہاں تک مرکزی طاقت کا سوال ہے ہم اخلاقی اور عقلی طور پر
1952 2 خطبات محمود اپنی پوزیشن قائم کر چکے ہیں.مگر جہاں تک نفوذ کا سوال ہے ہم ابھی بہت پیچھے ہیں بلکہ ہماری کی مخالفت ترقی کر رہی ہے اور اب اُن گروہوں اور جماعتوں میں بھی پھیل رہی ہے جو پہلے ہمیں نظر انداز کر دیتی تھیں یا ہمارے افعال کو خوشی کی نگاہ سے دیکھتی تھیں.پس آنے والے سال میں ہمیں مزید جد و جہد کی ضرورت ہے.ہمیں ایک انقلابی تغیر پیدا کرنے کی ضرورت ہے.ایک کی انقلابی تغیر پیدا کئے بغیر ہم کامیاب نہیں ہو سکتے.یہ انقلاب ہمارے دماغوں میں پیدا ہونا چاہیے.ہماری روحوں میں پیدا ہونا چاہیے.ہمارے دلوں میں پیدا ہونا چاہیے.ہمارے افکار اور جذبات میں پیدا ہونا چاہیے.ہم اپنے دلوں ، روحوں ، اور دماغوں میں عظیم الشان انقلاب پیدا کئے بغیر اس مقام کو حاصل نہیں کر سکتے.یا کم از کم اس مقام کو جلدی حاصل نہیں کر سکتے جس کو حاصل کرنے کے لئے خدا تعالیٰ نے ہمیں پیدا کیا ہے.میں سمجھتا ہوں کہ ہمیں ہر سال اپنے لئے ایک پروگرام مقرر کرنا چاہیے اور اسے پورا کرنے کے لئے کوشش کرنی چاہیے.مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ہمارا کوئی جماعتی پروگرام نہیں ہوتا.ہماری نظارت علیا آج شروع سال میں اپنے آپ کو ویسا ہی محسوس کرتی ہے جس طرح کہ وہ آج ء 30 سال قبل اپنے آپ کو محسوس کرتی تھی.ہماری نظارت دعوۃ و تبلیغ نئے سال میں وہی خیالات اور افکار لے کر داخل ہوتی ہے جو خیالات اور افکار آج سے 30 سال قبل رکھتی تھی.ہماری نظارت امور عامہ اپنا نیا سال انہی خیالات کے ساتھ شروع کرتی ہے جن خیالات سے کی اس نے آج سے 30 سال قبل اپنا نیا سال شروع کیا تھا.حالانکہ ہماری جماعت ایک جہاد کرنے والی جماعت ہے.بے شک ہم تلوار کے اُس جہاد کے مخالف ہیں جو کسی ناکردہ گناہ پر تلوار چلانے کی اجازت دیتا ہے مگر ہم سے زیادہ اس جہاد کا قائل کوئی نہیں جو جہاد ذہنوں ، جذبات اور روحوں سے کیا جاتا ہے.پس حقیقتا اگر کوئی جماعت جہاد کی قائل ہے تو وہ صرف ہماری جماعت ہی ہے.لیکن ہمارے مرکزی عملے جہاد والی روح کے ساتھ اپنا نیا سال شروع نہیں کرتے.وہ بغیر کسی پلان (PLAN) کے بغیر کسی تجویز اور کسی ایسے ارادہ کے کہ جس کے نتیجہ میں انہیں پکڑا جا سکے اپنا سال شروع کرتے ہیں.باقی دنیا کے زندہ محکمے ہر سال ایک پلان اور نجی تجویز بناتے ہیں اور اس کے مطابق کام کرتے ہیں.چھ سات ماہ کے بعد جماعت انہیں پکڑتی
1952 3 خطبات محمود ہے کہ آیا انہوں نے اس پلان اور تجویز کے مطابق کام کیا ہے جو انہوں نے شروع سال میں کی جماعت کے سامنے پیش کی تھی.دنیا میں ہر جرنیل ہر سال ایک خاص پلان اور تجویز کے مطابق کام کرتا ہے اور اُس پلان اور تجویز کی وجہ سے اُس کی قوم اُسے پکڑتی ہے.سوائے ہمارے مرکزی محکموں کے کہ وہ کوئی تجویز اور پلان نہیں بناتے اور جب ان سے پوچھا جاتا ہے کہ انہوں نے کیا کام کیا ؟ تو وہ کہتے ہیں کہ ہم نے اتنے خطوط لکھے، اتنے مبلغوں کو ان کے فرائض کی طرف توجہ دلائی.یہ کام کوئی چیز نہیں.اصل کام یہ ہے کہ کسی علاقہ کو فتح کیا جائے.کسی کی ادارہ یا محکمہ کا مثلاً تصنیف کا محکمہ ہے اشتہارات کا محکمہ ہے یا دینی تعلیم کا صیغہ ہے دنیا پر حاوی ہو جانا اصل چیز ہے.پس ایک تو میں مرکزی محکموں کو اس طرف توجہ دلاتا ہوں کہ وہ نئے سال کے لئے ایک خاص پلان بنائیں اور پھر اسے پورا کرنے کی پوری کوشش کر یں.میں نے تحریک جدید کے محکموں کو جلسہ سالانہ سے قبل اس طرف توجہ دلائی تھی.معلوم نہیں انہوں نے میری ہدایت کے مطابق کام کرنا شروع کر دیا ہے یا نہیں.میں نے انہیں اس طرف توجہ دلائی تھی کہ ہر محکمہ کی ایک پلان اور تجویز ہونی چاہیے.اور پھر اس کے لئے وقت مقرر ہونا چاہیے.مثلاً یہ کہنا چاہیئے کہ ہم فلاں کام چھ ماہ ، سات ماہ ، سال یا ڈیڑھ سال میں کریں گے تا اس عرصہ کے بعد جماعت ان پر گرفت کر سکے کہ آیا انہوں نے اس پلان اور تجویز کے مطابق جو انہوں نے شروع سال میں پیش کی کی تھی کام کیا ہے یا نہیں.شروع سال میں ہر محکمہ اور ہر صیغہ کو اپنی پلان اور تجویز دینی چاہیے اور وہ پلان اور تجویز ایسی ہونی چاہیے کہ جسے واقعات کے لحاظ سے پکڑا جا سکے.مثلاً اگر دعوۃ و تبلیغ والے کہیں کہ ہم اس سال بڑے زور شور سے تبلیغ کریں گے تو زور شور ایسی چیز نہیں جس کی وجہ سے وقت گزرنے پر انہیں پکڑا جا سکے.پلان اور تجویز یہ ہے کہ ہم نے اس سال فلاں تحصیل، فلاں تھانے ، یا فلاں گروہ کو اپنے ساتھ کر لینا ہے یہ پلان ہے.میں یہ نہیں کہتا کہ ہر جرنیل اپنے پروگرام کو سو فیصدی پورا کر لیتا ہے لیکن تم کم از کم پکڑے ضرور جاؤ گے.پس میں ہر صیغہ کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ اپنے کام کے لئے ایک خاص تجویز اور پلان بنائے اور 15 ، 16 جنوری تک اسے پیش کرے کہ وہ کس طرح اپنے کام کو جاری کریں گے.کن کاموں کی طرف اُن کی پہلے
1952 4 خطبات محمود توجہ نہ تھی اور اس سال وہ ان کی طرف توجہ کریں گے تا آئندہ جلسہ سالانہ یا مجلس شوری کے موقع جی پر جماعت کے سامنے یہ بات پیش کی جائے کہ اب مرکز میں زندگی پیدا ہوئی ہے.تمہیں بھی اپنے اندر زندگی پیدا کرنی چاہیے.دوسری چیز جس کے متعلق میں سمجھتا ہوں کہ اسے منظم کرنا چاہیے وہ صوبجاتی نظام کی سکیم ہے.پہلے پنجاب کا صوبہ صوبجاتی نظام سے باہر تھا لیکن اب خدا تعالیٰ کے فضل سے پنجاب کو بھی صوبجاتی نظام میں شامل کر دیا گیا ہے اور یہ خوشی کی بات ہے بلکہ یہ کہنا چاہیے کہ صوبہ پنجاب کے لئے کی یہ خوش قسمتی کی بات ہے کہ اسے ابتداء میں ہی ایسے کارکن مل گئے جو اپنے اندر قربانی اور ایثار کی روح کی رکھتے ہیں.مگر خالی اچھے کارکنوں کا مل جانا کوئی چیز نہیں ہے.ضرورت ہے کہ تمام کارکن اپنا چی پروگرام مقرر کریں اور پھر اس کے لئے وقت مقرر کریں اور اسے پورا کرنے کی کوشش کریں.یہ امرضرور مد نظر رکھا جائے کہ پروگرام ایسا نہ ہو کہ جس پر عمل نہ کیا جا سکے.بعض لوگ خیالی تجاویز بنا لیتے ہیں اور ہر کوئی جانتا ہے کہ وہ انہیں پورا نہیں کر سکیں گے.پروگرام ایسا ہونا چاہیے جس کو وہ مالی لحاظ سے، افراد کے لحاظ سے اور وقت کے لحاظ سے پورا کر سکتے ہیں.یعنی عملی پروگرام ہونا چاہیے.ایسا پروگرام تجویز نہ کیا جائے کہ جس کو مالی لحاظ سے جاری نہ کیا جا سکے.ایسا پروگرام تجویز نہ کیا جائے جس کے لئے اتنے کارکنوں کی ضرورت ہو جو مہیا نہ ہو سکیں.یا ایسا پروگرام ہوتی جس کے لئے زیادہ وقت کی ضرورت ہو.ہر کام معقول اور طاقت کے مطابق ہونا چاہیے.ہماری جو طاقت اور قوت ہے اُسی کے مطابق ہم کوئی پروگرام بنا سکتے ہیں.اور اپنی طاقت کو خواہ وہ کتنی ہی قلیل ہو اگر صحیح طور پر استعمال کیا جائے تو اس سے فوائد حاصل ہو سکتے ہیں.مثلاً ایک کی غریب آدمی ہے.اس کے پاس ایک پیسہ ہے.وہ پہلے بھوکا تھا.اس پیسہ سے وہ آدھی روٹی بھی خرید لے گا تو ایک حد تک اس کی تکلیف ہلکی ہو جائے گی اور اس کا نتیجہ عملی طور پر نظر آئے گا.طاقت کا صحیح استعمال اور اس کے مطابق کام کرنے کا نام پروگرام ہے.یا مثلاً ایک شخص کے پاس ج دس پیسے ہیں.فرض کرو کہ وہ ان کے ساتھ چنیوٹ جا سکتا تو وہ چنیوٹ چلا جائے گا اور تبلیغ کر آئے گا.یا فرض کرو کہ وہ ان کے ساتھ چنیوٹ نہیں جاسکتا تو وہ وہاں پیدل چلا جائے گا اور ان دس پیسوں کی وہ روٹی کھالے گا.پس خواہ کتنی قلیل طاقت ہوا سے خرچ کر کے ہم فائدہ اٹھا سکتے ہیں.
1952 5 خطبات محمود اس کا نام پروگرام ہے.پروگرام اس چیز کا نام نہیں کہ ہم کہہ دیں کہ اس سال ہم ڈیڑھ کروڑ روپیہ کی کے ساتھ تبلیغ کریں گے.یا یہ کہ تبلیغ کا مثلاً ایک لاکھ روپیہ سالانہ کا بجٹ ہے لیکن ہم مفت کام لے کر ایک ہزار اور مبلغ پیدا کر لیں گے.یا ہم افرادِ جماعت پر زور دیں گے کہ وہ اتنے گھنٹے تبلیغ کے لئے دیں.کیونکہ عملی طور پر ایسا نہیں ہوسکتا.پروگرام ایسا ہونا چاہیے جو عقلی لحاظ سے، مالی لحاظ سے، وقت اور افراد کے لحاظ سے ممکن ہو.پھر پوری کوشش کی جائے کہ جو تجویز اور پلان شروع سال میں بنائی جائے اس سے پورا پورا فائدہ اٹھایا جائے.کو بجاتی نظام کے لحاظ سے بھی ایک پروگرام کی ضرورت ہے.پہلا تجربہ ہم یہ کریں گے کہ امراء کو بلا کر شوری کریں گے اور باہمی مشورہ سے ان کے علاقوں کے لئے ایک پروگرام تجویز کریں گے.یہ کام نظارت علیا کا ہوتا ہے.اس کا فرض ہے کہ وہ جلد سے جلد امراء کو بلا کر مشورہ لے اور ان کے لئے ایک پروگرام مقرر کرے.پھر آئندہ ہر سال یہ مجلس ہوا کرے.اور پھر آہستہ آہستہ بیرونی ممالک میں سے بھی اگر کسی میں اتنی طاقت پیدا ہو جائے کہ وہ اس مجلس میں کی شریک ہو سکے تو پھر وہ شریک ہوا کرے اور اس طرح اُسے ایک عالم گیر ادارہ بنا دیا جائے.میرے نز دیک نظارت دعوت و تبلیغ کا جو پروگرام ہے اس میں تنظیم تبلیغ کی زیادہ ضرورت ہے.اس سال ہمارا کام تنظیم تبلیغ پر مشتمل ہونا چاہیے.تبلیغ کا کچھ نہ کچھ کام تو ہوتا ہی رہتا ہے اس لئے جب محکمہ سے یہ کہا جائے کہ تم نے اس سال کیا کام کیا ہے؟ تو وہ ہمارے سامنے یہ بات رکھ دیتے ہیں کہ ہم نے اس سال یہ یہ کام کیا ہے.لیکن تبلیغ اور منظم تبلیغ میں فرق ہے.ہمیں اپنے ملک کا پوری طرح جائزہ لینا چاہیے کہ ملک میں کس حد تک تقریروں کے ذریعہ تبلیغ کی ضرورت ہے، کس حد تک لٹریچر کے ذریعہ تبلیغ کی ضرورت ہے.کون سے گروہ ایسے ہیں جن میں پمفلٹ کی زیادہ مقبول ہو سکتے ہیں، کون سے گروہ ایسے ہیں جن میں اشتہارات زیادہ مقبول ہو سکتے ہیں اور جی کون سے گروہ ایسے ہیں جن میں کتابیں زیادہ مقبول ہو سکتی ہیں.اس وقت نظارت دعوت وتبلیغ پمفلٹ کے ذریعہ تبلیغ کرتی ہے.لیکن پمفلٹ ایسی چیز ہے جس کا بوجھ زیادہ دیر تک نہیں اٹھایا جا سکتا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ میں تبلیغ اشتہارات کے ذریعہ ہوتی تھی.وہ اشتہارات دو چار صفحات پر مشتمل ہوتے تھے اور اُن سے ملک میں تہلکہ مچا دیا جاتا تھا.ان کی کی
خطبات محمود 1952 کثرت سے اشاعت کی جاتی تھی.اس زمانہ کے لحاظ سے کثرت کے معنی ایک دو ہزار کی تعداد کے ہوتے تھے.بعض اوقات دس دس ہزار کی تعداد میں بھی اشتہارات شائع کئے جاتے تھے.لیکن اب ہماری جماعت بیسیوں گنے زیادہ ہے.اب اشتہاری پرو پیگنڈا یہ ہوگا کہ اشتہارات پچاس پچاس ہزار بلکہ لاکھ لاکھ کی تعداد میں شائع ہوں پھر دیکھو کہ یہ اشتہارات کس طرح لوگوں کی توجہ کو اپنی طرف کھینچ لیتے ہیں.اگر اشتہارات پہلے سال میں بارہ دفعہ شائع ہوتے تھے تو اب خواہ انہیں سال میں تین دفعہ کر دیا جائے اور صفحات دو چار پر لے آئیں لیکن وہ لاکھ لاکھ دو دو لاکھ کی تعداد میں شائع ہوں تو پتا لگ جائے گا کہ انہوں نے کس طرح حرکت پیدا کی ہے.پھر کتابی حصہ ہے جو تعلیم یافتہ اور مغرور قسم کے لوگ ہیں انہیں کتابیں پیش کی جائیں.مرکزی اور صوبجاتی جماعت کے لوگ ان کے پاس جائیں اور انہیں کتابیں دیں.بہر حال تبلیغ کو منظم کرنے کے لئے بھی پلان بنانی چاہیے.اس کی بہت ضرورت ہے.میں سمجھتا ہوں کہ ہمیں جلد سے جلد تبلیغ کو منظم صورت میں شروع کر دینا چاہیے.پھر تعلیم کی طرف بھی صوبجاتی جماعتوں کو توجہ نہیں جس کی وجہ سے نو جوانوں کی طاقت ضائع کی ہو رہی ہے.انہیں یہ احساس نہیں کہ اگر وہ اپنے نوجوانوں کو دنیا کمانے پر بھی لگائیں تو اس طرح کی لگائیں کہ جماعت ان سے فائدہ اٹھا سکے.بھیڑ چال کے طور پر نو جوان ایک ہی محکمہ میں چلے جاتے ہیں.حالانکہ متعدد محکمے ہیں جن کے ذریعہ سے جماعت اپنے حقوق حاصل کر سکتی ہے اور اپنے آپ کو شر سے بچا سکتی ہے.جب تک ان سارے محکموں میں ہمارے آدمی موجود نہ ہوں ان سے جماعت پوری طرح کام نہیں لے سکتی.مثلاً موٹے موٹے محکموں میں سے فوج ہے، پولیس ہے، ایڈمنسٹریشن ہے، ریلوے ہے، فنانس (FINANCE) ہے، اکاؤنٹس ہے، کہ ہیں، انجینئر نگ ہے.یہ آٹھ دس موٹے موٹے صیغے ہیں جن کے ذریعہ سے ہماری جماعت اپنے حقوق محفوظ کر سکتی ہے.ہماری جماعت کے نوجوان فوج میں بے تحاشا جاتے ہیں.اس کے نتیجہ میں ہماری نسبت فوج میں دوسرے محکموں کی نسبت سے بہت زیادہ ہے اور ہم اس سے اپنے حقوق کی حفاظت کا فائدہ نہیں اُٹھا سکتے.باقی محکمے خالی پڑے ہیں.بے شک آپ لوگ اپنے لڑکوں کو نوکری کرائیں لیکن وہ نوکری اِس طرح کیوں نہ کرائی جائے جس سے جماعت فائدہ
1952 7 خطبات محمود اٹھا سکے.پیسے بھی اس طرح کمائے جائیں کہ ہر صیغہ میں ہمارے آدمی ہوں اور ہر جگہ ہماری آواز پہنچ سکے.میں دیکھتا ہوں کہ ہمارے لڑکے محنتی ہوتے ہیں.پہلے انجینئر نگ میں کسی اور کی اصول کی بناء پر نوجوان لئے جاتے تھے اب لیاقت کی بناء پر نوجوان لئے جاتے ہیں.اور جب کمپیٹیشن (Competition) ہوتا ہے ہماری جماعت کے نو جوان بوجہ محنتی ہونے کے اس میں آ جاتے ہیں.اس طرح وہ انجینئر نگ کی تعلیم میں اپنی نسبت سے زیادہ آگے آگئے ہیں.لیکن خالی انجینئر نگ میں ترقی کرنا ہمیں کوئی فائدہ نہیں دے سکتا.پولیس، اکاؤنٹس، فنانس ، انکم ٹیکس، ایڈ منسٹریٹو سروس اور دیگر بعض اہم محکمے ہیں ان میں ہمارے لوگ بہت کم ہیں.بلکہ بعض محکموں کی میں تو قریباً فقدان ہے.ایک آدھ لڑ کا اگر ان محکموں میں آ گیا ہے تو اتفاقیہ طور پر آ گیا ہے ہماری وی جماعتی توجہ اس طرف نہیں.نتیجہ یہ ہوگا کہ پنجاب میں احمدی انجینئر تو بہت ہو جائیں گے لیکن دوسرے محکمے خالی رہیں گے.ہمیشہ کام کسی تنظیم کے ماتحت ہو تو زیادہ فائدہ دیتا ہے.کسی ایک محکمہ میں جانے سے زیادہ فائدہ نہیں ہوتا.ہر محکمہ میں اور ہر جگہ جانے سے فائدہ ہوتا ہے.غرض امور عامہ کے لحاظ سے بھی جماعتی تنظیم کی ضرورت ہے.پھر تعلیمی لحاظ سے بھی تنظیم کی ضرورت ہے.لیکن نظارت امور عامہ یا نظارت تعلیم نے کبھی بھی نوجوانوں کی اس طرف راہنمائی نہیں کی.ابھی ایک خاتون میرے پاس آئیں اور انہوں نے کہا کہ مجھے آپ سے اپنے لڑکوں کی تعلیم کے بارہ میں مشورہ لینا ہے.میں نے اس خاتون سے اسی سکیم کے ماتحت بات کی اور اسے بتایا کہ نوجوانوں کو ایک ہی طرف دھکیل دینا مفید نہیں.بعض اوقات ایک ہی محکمہ میں نو جوان زیادہ تعداد میں چلے جاتے ہیں اور ترقی پر آپس میں لڑتے رہتے ہیں.مثلاً فوج میں ہمارے نوجوان کثرت سے گئے ہیں اور اب ایسی شکایات موصول ہو رہی ہیں کہ بعض اوقات ترقی کے سلسلہ میں دو احمدی نوجوان آپس میں لڑ پڑتے ہیں.اگر وہ مختلف جگہوں پر جاتے تو رقابت کے دن بہت دیر سے آتے اور اتنے میں خدا تعالیٰ کوئی اور سامان کر دیتا.پھر پیشے ہیں.وکالت ہے، ڈاکٹری ہے، ٹھیکیداری ہے، تجارت ہے.ان میں بھی کوئی تنظیم نہیں.بھیڑ چال کے طور پر نوجوان ایک ہی پیشہ کی طرف چلے جاتے ہیں.تجارت اور ٹھیکیداری کی بھی بیسیوں قسمیں ہیں.اور اگر اس بارہ میں ناظر امور عامہ سے سوال کیا جائے تو وہ حج بھی ویسا ہی ناواقف نکلے گا جیسے کوئی اور شخص.اس نے کبھی یہ سوچا ہی نہیں کہ ہمیں اس بارہ میں ایک
خطبات محمود 1952 خاص پلان بنانی چاہیے اور پھر اس کے مطابق کام کرنا چاہیے پلان کوئی نہیں.صرف یہ ہوتا ہے کہ کوئی خط کی آیا اور اُس کا جواب دے دیا.انہیں یہ پتا ہونا چاہیے کہ ان پیشوں کی کون سی شاخوں میں ہمارے نوجوان گئے ہیں اور کتنی شاخیں ایسی ہیں کہ ان میں جماعت کے نوجوانوں کو بھیجنا چاہیے.لیکن نظارت امور عامہ کو اس طرف قطعی طور پر کوئی توجہ نہیں.اس میں بھی تنظیم کی ضرورت ہے.تعلیم بھی اس میں آ جائے گی.جب کوئی کچ طالب علم ایک خاص پیشہ کی طرف جانے کا ارادہ کرے تو لازماً وہ اُس کے مطابق اپنی تعلیم کو بھی بدلنا شروع کر دے گا.پس میں سمجھتا ہوں کہ ہمیں اس سال اپنے کام کو زیادہ سے زیادہ منتظم کرنا چاہیے تا ہماری تھوڑی سی جی طاقت زیادہ سے زیادہ فوائد اور نتائج پیدا کر سکے.“ (الفضل 11 جنوری 1952ء)
1952 9 2 خطبات محمود ماضی کی بجائے مستقبل کو اپنے سامنے رکھو اور سوچتے رہو کہ تم نے اپنے فرائض کو کس طرح ادا کرنا ہے ( فرموده 11 جنوری 1952ء بمقام ربوہ) تشهد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: اس ہفتہ میں چونکہ مجھے ضعف قلب کی شکایت رہی ہے اس لئے میں کھڑے ہو کر خطبہ نہیں پڑھ سکتا.بیٹھ کر خطبہ بیان کروں گا.میں سمجھتا ہوں کہ دنیا میں ہر انسان کے اندر کوئی وقت سستی کا آجاتا ہے اور کوئی وقت پستی کا آجاتا ہے.چونکہ اللہ تعالیٰ کا نام باسط بھی ہے اور قابض بھی ہے اس لئے وہ کبھی انسان کی کچ فطرت میں قبض پیدا کر دیتا ہے اور کبھی بسط پیدا کر دیتا ہے.اس حالت کا علاج یہی ہوا کرتا ہے کی کہ انسان اپنے نفس کا محاسبہ کرتا رہے اور اپنے گردو پیش کے حالات کا بھی محاسبہ کرتا رہے.اس کی لئے صوفیاء نے محاسبہ نفس کو ضروری قرار دیا ہے.میرے دل میں خیال گزرا ہے کہ اگر ہم اپنے تمام وقت کا جائزہ لیتے رہتے تو شاید ہم بہت سی بستیوں سے محفوظ رہتے.کسی شاعر نے کہا ہے غافل تجھے گھڑیال یہ دیتا ہے منادی گردوں نے گھڑی عمر کی اک اور گھٹا دی یعنی گھڑیال سے وقت کو دیکھ کر لوگ سمجھتے ہیں کہ فلاں کی عمر زیادہ ہو گئی.لیکن دراصل اُس کی عمر کم ہو جاتی ہے.فرض کرو کسی کی 60 سال عمر مقد رتھی.وہ جب پیدا ہوا تو اُس کی عمر کے
1952 10 خطبات محمود ساٹھ سال باقی تھے.لیکن جب وہ ایک سال کا ہو گیا تو اس کی ایک سال عمر گھٹ گئی.جب وہ مجھ دو سال کا ہو گیا تو اس کی دو سال عمر گھٹ گئی.جب وہ دس سال کا ہو گیا تو اس کی دس سال عمر گھٹ گئی.جب وہ بیس سال کا ہو گیا تو اس کی بیس سال عمر گھٹ گئی.غرض ہر وقت جو اس پر گزرتا جی ہے وہ اس کی عمر کو گھٹاتا ہے.اسی طرح ہماری زندگی ہے.ہمارے بہت اوقات یونہی گزر جاتے ہیں اور ہم خیال تک نہیں کرتے کہ ہمارا وقت ضائع ہو رہا ہے.مثلا کل مجھے خیال آیا کہ کسی وقت ہم جلسہ سالانہ کی تیاریاں کر رہے تھے.رات دن کا رکن اس کام میں لگے ہوئے تھے اور خیال کر رہے تھے کہ جلسہ سالانہ آئے گا تو مہمان آئیں گے.ان کے ٹھہرانے اور ان کی روحانی اور حج جسمانی ضروریات کو پورا کرنے کا سامان ہم نے کرنا ہے.وہ دن آئے ، دوست آئے ، ہم سے ملے جلے اور چلے بھی گئے.ہم دل میں خوش ہوئے کہ ایک سال ختم ہو گیا ہے.مگر سوچنے والی یہ ا بات تھی کہ ہم نے نئے سال کو کس طرح گزارنا ہے.جو سال گزر گیا وہ تو کوتاہیوں سمیت گزر گیا اصل چیز تو آنے والا سال ہے.کل مجھے خیال آیا کہ یا تو ہم اتنے جوش اور زور وشور سے آئندہ جلسہ کی تیاریاں کر رہے تھے اور یا اب اس جلسہ پر چودہ دن گزر گئے ہیں اور ابھی ہم بے کار بیٹھے ہیں.چودہ دن کے معنی دو ہفتے کے ہیں.52 ہفتوں کا سال ہوتا ہے.دو ہفتے گزر جانے کا تج مطلب یہ ہوا کہ سال کا 26 واں حصہ گزر گیا.لیکن ابھی کئی لوگ کہتے ہیں کہ وہ جلسہ سالانہ کی می کوفت دور کر رہے ہیں.دو ہفتے اور گزر گئے تو سال کا تیرھواں حصہ گزر جائے گا.لیکن نئے کی سال کے لئے شورا شوری شروع نہیں ہوگی.چودہ دن اور گزرجائیں گے تو سال کا گیارہ فیصدی حصہ گزر جائے گا.اور چودہ دن اور گزر گئے تو سال کا پندرہ فیصدی حصہ گزر جائے گا.غرض بہت تھوڑی تھوڑی غفلت کے ساتھ ایک بہت بڑی چیز ہمارے ہاتھ سے نکل جاتی ہے.پس ہمیں چاہیے کہ ہم اپنے نفس کا محاسبہ کرتے رہیں.ہر سال جو ہم پر آئے بجائے پچھلے سال کے ہم آئندہ سال پر نظر رکھیں.ہر دن ہم سوچیں کہ کام کے 365 دنوں میں سے ایک دن گزر گیا ہے ہم نے کس قدر کام کرنا تھا.اس میں سے کس قدر کام ہم نے کر لیا ہے اور کس قدر کام کرنا باقی ہے.اگر ہم اس طرح غور کرنا شروع کر دیں تو ہم اپنے وقت کو پوری طرح استعمال کر سکتے ہیں.بشرطیکہ ہم سنجیدگی کے ساتھ غور کریں.بعض لوگ محض رسم و رواج کے ماتحت کسی کی
1952 11 خطبات محمود چیز کے متعلق سوچتے ہیں.بدقسمتی سے مسلمانوں میں نماز کا خیال جاتا رہا ہے.جو نماز پڑھتے ہیں تجھے ان میں سے بھی ایک حصہ رسم و رواج کے طور پر نماز کے لئے جاتا ہے.ان میں عملی قوت نہیں مجھے ہوتی یا وہ عملی قوت پیدا کرنا نہیں چاہتے.جن لوگوں میں عملی قوت ہوتی ہے وہ اس صحیح منبع کی تھی طرف توجہ نہیں کرتے جہاں سے انہیں روشنی ملتی ہے.وہ اپنا وقت محض ضائع کرتے ہیں.لیکن جو لوگ صحیح منبع کی طرف توجہ کرتے ہیں ، اُس کی قدر کو پہچانتے ہیں ، پھر اپنی ذمہ داری کو سمجھتے ہیں ایسے لوگ بہت کم ہوتے ہیں.اگر یہی حصہ اس طرف توجہ کرنے لگ جائے تو کام ہو سکتا ہے.بجائے ماضی کے اگر کوئی مستقبل کے ایک سال کو اپنے سامنے رکھ لے اور غور کر لے کہ اُس پر کیا کیا ج ذمہ داریاں ہیں کس قدر فرائض کو اس نے ادا کر لیا ہے اور کس قدر فرائض کا ادا کرنا ابھی باقی ہے.پھر کیا ان فرائض کو ادا کرنے کے لئے کافی وقت موجود ہے؟ تو لازماً وہ عمل کرنے میں چست ہو جائے گا.اگر انسان ہمت کے ساتھ کھڑا ہو جائے اور یہ خیال کر لے کہ اس نے کام کرنا ہے تو میں سمجھتا ہوں کہ ہمارے وہ نو جوان بوڑھے اور بچے جن کے اندر سنجیدگی پائی جاتی ہے، جو کی سمجھتے ہیں کہ احمدیت کو قبول کر کے وہ اپنے آپ پر ایک اہم فرض عائد کر لیتے ہیں اگر اپنے آپ کو اس رنگ میں ڈھال لیں تو شاید ہمارا یہ سال پہلے سال سے بہتر ہو.لیکن اگر وہ اس نکتہ کو نہ سمجھیں ، یونہی شام آئے اور گزر جائے.دن آئے اور گزر جائے ، نہ دن ان کے اندر کوئی حرکت پیدا کرے اور نہ رات ان کے اندر کوئی افسردگی یا بے چینی پیدا کرے تو انہیں سمجھ لینا کی چاہیے کہ وہ اپنے اس مقصد سے دور جا رہے ہیں جس کے لئے خدا تعالیٰ نے انہیں پیدا کیا.اللہ تعالیٰ ہماری آنکھوں میں نور پیدا کرے، ہمارے دل و دماغ میں روشنی پیدا کرے اور ہمیں صحیح جد و جہد کی توفیق عطا فرمائے.“ ( الفضل 3 فروری 1952ء)
1952 12 3 خطبات محمود اگر تمہیں احمدیت اور اسلام سے سچی محبت ہے تو تحریک جدید میں حصہ لینا تمہارے لئے ضروری ہے (فرموده 18 جنوری 1952ء بمقام ربوہ) تشهد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: " آج جنوری کی اٹھارہ تاریخ ہے اور ایک مہینہ کے اندر اندر تحریک جدید کے وعدوں کی میعاد ختم ہو جائے گی.اس لئے آج میں پھر خطبہ تحریک جدید کے متعلق ہی پڑھتا ہوں.دوستوں کو معلوم ہے کہ اس سال میں نے وضاحت سے بتا دیا ہے کہ تحریک جدید کا کام نہ چند سال کا ہے اور نہ چندا فراد کا ہے.بلکہ در اصل احمدیت کے قیام کی جو غرض تھی یعنی غلبہ اسلام على الاديان اس غرض کو پورا کرنے کے لئے یہ کام جاری کیا گیا ہے.اور ظاہر ہے کہ جس غرض کے لئے احمدیت قائم کی گئی تھی اور جس غرض کے لئے کوئی شخص احمدیت میں داخل ہوتا ہے اس کے متعلق وہ یہ نہیں کہہ سکتا کہ یہ کام دوسروں کا ہے میرا نہیں.اگر یہ اُس کا کام نہ ہوتا تو اُسے احمدیت میں داخل ہونے کی ضرورت کیا تھی.آخری زمانہ میں اسلام ایسی مصیبت کے دور سے گزرنے والا تھا جس نے اس کی عظمت اور شوکت کو مسخ کر دینا تھا.کفر کو اسلام پر پھبتیاں اڑانے کا موقع ملنے والا تھا.کفر کو اسلام کی تضحیک اور تحقیر کرنے کا موقع ملنے والا تھا.اس کے بعد اسلام نے اپنے رتبہ کو دوبارہ حاصل کرنا تھا تجھے
1952 13 خطبات محمود اور اس مقام پر پہنچنا تھا جس کو دیکھ کر کفار اپنی کامیابی اور ترقی سے مایوس ہو جائیں گے.اور یہ کام ہر اُس شخص کے ذمہ ہے یا یہ کام ہر اُس شخص کا ہے جو اپنے آپ کو مسلمان یا احمدی کہتا ہے.پس اسلام کو دوسرے ادیان پر غالب کرنا اور احمدیت کو قائم کرنا وہ کام نہیں جس کے متعلق کوئی مسلمان یا احمدی یہ کہہ سکے کہ یہ کام فلاں کا ہے میرا نہیں.یہ کام ہر احمدی کا ہے اور یہ ہر زمانہ میں زندہ رہے گا اور قیامت تک چلے گا.پس میں نے واضح کر کے بتا دیا تھا کہ تحریک جدید کا کام چند سال کا نہیں اور نہ یہ کام چند افراد کا ہے.اور اب جبکہ میں نے حقیقت کو کھول دیا ہے آئندہ یہ سوال نہیں ہو گا کہ کون چندہ دیتا ہے اور کون چندہ نہیں دیتا.بلکہ اس وضاحت کے بعد ہر شخص جو احمدیت میں شامل ہوتا ہے بلکہ میں کہتا ہوں ہر شخص جو احمدیت سے دلچسپی لیتا ہے خواہ وہ احمدی نہ بھی ہو اُس پر یہ فرض عائد ہو جاتا ہے کہ وہ اس کام میں حصہ لے اور پھر اپنی حیثیت کے مطابق حصہ لے.اب صرف اُن لوگوں سے وعدے لے کر نہیں بھجوانے جو پہلے سے وعدے کرتے آئے ہیں بلکہ آپ لوگوں کا فرض ہے کہ ہر احمدی سے خواہ وہ بچہ ہو ، جوان ہو، یا بوڑھا ہو ، مرد ہو یا عورت ، امیر ہو یا غریب، اور پھر خواہ وہ کسی حیثیت کا ہو اُس کی حیثیت کے مطابق تحریک جدید کے وعدے لے کر بھجوائیں.اور ہر ایک پر واضح کر دیں کہ اسلام کی اشاعت اور غیر مسلموں کو اسلام میں داخل ہونے کے لئے تبلیغ کرنا ہی ایسے کام ہیں جن کی وجہ سے ہم اسلام کو دوسرے ادیان پر غالب کر سکتے ہیں.نہ کفر و اسلام کی جنگ نے قیامت تک ختم ہونا ہے اور نہ قربانیوں کا کی سلسلہ بند ہو سکتا ہے.یہی جہاد ہے جو مختلف رنگوں میں ہمیشہ کے لئے مسلمانوں پر فرض ہے.جو چیز کبھی کبھی آتی ہے اُس کی فرضیت مشکوک ہو جاتی ہے.یہی دیکھ لو کہ تلوار کے جہاد کا دعویٰ سارے مسلمان کرتے رہے ہیں لیکن جب ان کے عقائد کے مطابق تلوار کے جہاد کا وقت آیا تو کسی نے جہاد نہیں کیا.ایک احمدی خدا تعالیٰ کے سامنے یہ کہہ دے گا کہ میں نے جہاد کے جو معنی کی سمجھے تھے اُن کے مطابق میں نے اپنے فرض کو پورا کر دیا.لیکن کروڑوں مسلمان جو سالہا سال تک تلوار کی کے جہاد کا دعوی کرتے رہے تھے خدا تعالیٰ کے سامنے کیا جواب دیں گے.جن وجوہات کی بناء پر وہ کمی انگریزوں کے مقابلہ میں جہاد کو فرض سمجھتے تھے وہ وجوہات اب بھی ہندوستان میں پائی جاتی ہیں.جو شرائط جہاد کی انگریزوں کے وقت میں تھیں وہ اب بھی ہندوستان میں قائم ہیں.لیکن پاکستان کا کی
1952 14 خطبات محمود مسلمان ہندوستان کے مسلمانوں کو یہی مشورہ دیتا ہے کہ وہ امن سے رہیں فساد نہ کریں.اگر ان کی کا یہ مسئلہ صحیح ہے کہ جب مسلمانوں پر غیر کی حکومت ہو اور وہ حکومت اپنا حق سمجھے کہ ایسے قانون کی جاری کر دے جو اسلام کے مطابق نہ ہوں تو مسلمانوں پر اس حکومت سے جہاد کرنا فرض ہو جاتا ہے.تو ان کا ہندوستانی مسلمانوں کو یہ مشورہ دینا کہ وہ امن سے رہیں فساد نہ کریں صحیح نہیں.اگر ان کے خیال کے مطابق انگریزوں سے جہاد کرنا فرض تھا، اگر انگریزوں کی جاری کردہ تعزیرات ہند اسلام کے خلاف تھیں تو وہی تعزیرات ہند اب بھی ہیں اور ملک میں اب بھی غیر مسلم حکومت کی قائم ہے جو اپنا حق سمجھتی ہے کہ وہ جو چاہے قانون بنادے.اب اس سے جہاد کرنا کیوں فرض نہیں؟ جو وجہ انگریز کی حکومت کے وقت پائی جاتی تھی وہ اب بھی موجود ہے.لیکن اب کوئی کچ شخص اس بات کی جرات نہیں کرتا کہ وہ جہاد کا اعلان کرے.ورنہ کیا وجہ ہے کہ انگریزوں سے جہاد کرنا فرض تھا لیکن ہندوؤں سے جہاد کرنا فرض نہیں.جو جرم انگریزوں کا تھا وہی مجرم ہندوؤں کا ہے لیکن باوجود اس کے دوسرے مسلمان ہندوؤں کے خلاف جہاد کا اعلان نہیں کی کرتے.احمدیت کے عقیدہ کے مطابق تلوار کا جہاد نہ پہلے فرض تھا اور نہ اب فرض ہے.کیونکہ اسلام کو مٹانے کے لئے نہ انگریزوں نے بظا ہر کوئی کوشش کی تھی اور نہ ہندو اسلام کو مٹانے کے لئے تلوار سے کام لے رہا ہے.ایک احمدی کے عقیدہ کے مطابق جہاد کی جو شرائط پہلے پائی جاتی تھیں وہ شرائط اب بھی پائی جاتی ہیں.اُس وقت بھی امن کی ضرورت تھی اور اب بھی امن کی ضرورت ہے.جس جہاد کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے پیش کیا تھا اور جو جہاد ہم کر رہے ہیں وہ کسی وقت بھی ہٹ نہیں سکتا.ہر وقت نماز ، جہاد اور ذکر الہی ضروری ہیں.جہاد کے معنی ہیں کی اپنے نفس کی اصلاح کی کوشش کرنا اور غیر مسلموں کو اسلام میں لانے کے لئے تبلیغ کرنا.اور جی روز وشب جماعت سے ہمارا یہی خطاب ہوتا ہے.ہم انہیں یہی کہتے ہیں کہ تم دوسرے لوگوں کو تبلیغ کے ذریعہ مسلمان بناؤ.ہمارا جہاد وہ ہے جو نماز کی طرح روزانہ ہو رہا ہے.اور جو احمدی اِس جہاد میں حصہ لیں گے وہ کہہ سکتے ہیں کہ ہم جہاد کر رہے ہیں.لیکن جو لوگ اس جہاد میں حصہ نہیں لیں گے ہم ان کے متعلق فتویٰ تو نہیں دیتے لیکن جس طرح نماز نہ پڑھنے والا سچا مسلمان کی
1952 15 خطبات محمود نہیں ہو سکتا اسی طرح اسلام کی اشاعت کے لئے قربانی نہ کرنے والا بھی سچا مسلمان یا سچا احمدی نہیں کہلا سکتا.لوگ اپنے چھوٹے چھوٹے مقدمات میں کس طرح اپنی جانیں لڑاتے ہیں.اب کفر و اسلام کے مقدمہ میں جو حصہ نہیں لیتا اور اسے نفلی سمجھتا ہے وہ کیسے سچا مسلمان کہلا سکتا ہے.تحریک جدید نفلی اس لئے ہے کہ ہم اس میں حصہ نہ لینے کی وجہ سے کسی کو سزا نہیں دیتے.لیکن فرض اس لحاظ سے ہے کہ اگر تمہیں احمدیت سے سچی محبت ہے تو تحریک جدید میں حصہ لینا تمہارے لئے ضروری ہے.جب ماں بچہ کے لئے رات کو جاگتی ہے تو کون کہتا ہے کہ اس کے لئے رات کو جاگنا فرض ہے.بچہ کی خاطر رات کو جاگنا فرض نہیں نفل ہے.لیکن اسے رات کو جاگنے سے کون روک سکتا ہے.جس سے محبت ہوتی ہے اس کی خاطر ہر شخص قربانی کرتا ہے اور یہ نہیں کہتا کہ ایسا کرنا فرض نہیں نفل ہے.اس طرح جو شخص اسلام اور احمدیت سے کچی محبت رکھتا ہے وہ یہ نہیں کہے گا کہ ان کی اشاعت کی خاطر قربانی کرنا فرض نہیں.بلکہ اسلام اور احمدیت کی اشاعت کے لئے قربانی کرنا اسے فرض سے بھی زیادہ پیارا لگے گا.کیونکہ وہ سمجھے گا کہ ایسا کرنے سے اسلام کو دوبارہ شوکت وعظمت حاصل ہو جائے گی بلکہ جب تبلیغ جہاد کا ایک حصہ ہے تو اس میں حصہ لینا فرض ہی کہلانے کا مستحق ہے.پس اس خطبہ کے ذریعہ میں جماعت کو اس کے فرائض کی طرف توجہ دلاتا ہوں.اب دوست صرف یہ نہ کریں کہ جو لوگ اس میں حصہ لیتے ہیں اُن سے وعدے لے کر بھجوا دیئے جائیں بلکہ ہر بالغ احمدی کو تحریک جدید میں شامل کریں.بلکہ نابالغ بچوں کو بھی تحریک جدید میں شامل کر سکتے ہیں تا انہیں احساس رہے کہ انہوں نے بڑے ہو کر اسلام کی اشاعت میں حصہ لینا کی ہے.ہمارے گھروں میں نابالغ بچوں کی طرف سے والدین حصہ لے لیتے ہیں اور انہیں بتا دیتے ہیں کہ تمہارا تحریک جدید کا وعدہ اس قدر ہے تا انہیں احساس ہو کہ وہ بڑے ہو کر اس میں حصہ لیں.پس تم اپنے نابالغ بچوں کی طرف سے بھی حصہ لے سکتے ہو.انہیں بتاؤ کہ تمہاری کامیابی کا طریق یہی ہے کہ تمہیں اشاعت اسلام کے کاموں میں رغبت ہو اور بڑے ہو کر اس کام کو پورا کرنے کی کوشش کرو.پس اب جبکہ بہت تھوڑ ا وقت باقی ہے.میں پھر جماعتوں کو توجہ دلا دیتا ہوں میں نے پندرہ فروری آخری تاریخ مقرر کی تھی.
1952 16 خطبات محمود کہ وہ تحریک جدید کے وعدے اس رنگ میں بھجوا ئیں کہ ہر ایک بالغ احمدی اس میں شامل مجھ ہو جائے اور اپنی حیثیت کے مطابق اس میں حصہ لے.ہر ایک احمدی کو بتاؤ کہ اس کا تحریک جدید میں حصہ لینا احمدیت کے قیام کی غرض کو پورا کرنا ہے.اگر کوئی شخص تحریک جدید میں حصہ نہیں لیتا ہ تو اُس کے احمدیت میں داخل ہونے کا کیا فائدہ.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ آپ لوگوں پر بہت زیادہ بوجھ ہے.غرباء کی حالت کو دیکھ کر دل گڑھتا ہے.ان پر اتنا بوجھ ہے جو پہلے کبھی نہیں پڑا.لیکن اس میں بھی کیا شبہ ہے کہ اسلام پر بھی وہ بوجھ آ پڑا ہے جو پہلے کبھی نہیں پڑا.مصیبت کے وقت ہر ایک کو بوجھ اٹھانا ہی پڑتا ہے.جب دنیا میں اسلامی حکومت اس رنگ میں قائم ہو جائے گی کہ ہر ایک شخص کو خوراک اور لباس مہیا کر دیا جایا کرے گا اُس وقت چندہ دینا موجودہ وقت میں چندہ دینے سے سواں حصہ بھی برکت کا موجب نہیں ہوگا.پس بے شک تم پر بوجھ زیادہ ہے اور میں اس بوجھ کو محسوس کرتا ہوں اور ساری دنیا تمہاری تعریف کر رہی ہے لیکن ہمارا کام بھی بہت بڑا ہے اور ہم اسے نظر انداز نہیں کر سکتے.باوجود اس کے کہ ہم پر بوجھ زیادہ ہے ہمیں اسلام کی خاطر قربانی کرنی پڑے گی.کیونکہ ہمارے خدا نے ہم پر اعتبار کر کے یہ کام ہمارے سپرد کیا ہے.“ الفضل 24 جنوری 1952ء)
1952 17 4 خطبات محمود کیا یہ بات مجرم ہے کہ کوئی کہے کہ ہم ایک دن زیادہ ہو جائیں گے؟ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جو خدمت کی وہ خدا تعالیٰ کی کی ، انگریزوں کی نہیں فرموده یکم فروری 1952ء بمقام ربوہ) تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: وو چند دن ہوئے ہماری ایک بیرونی جماعت کے نمائندے ایک بڑے افسر سے وفد کے طور پر ملے اور وہ باتیں جو اُس افسر سے ہوئیں انہوں نے مجھے بتا ئیں.میں سمجھتا ہوں کہ اُن کی باتوں کے متعلق مجھے اپنے خیالات کا اظہار کرنا چاہیے تا کہ وہ دوسروں کی غلط فہمی کے ازالہ میں محمد ہوں اور جماعت کو بھی ان کے متعلق علم ہو جائے.ایک بات جو اُس افسر نے کہی وہ یہ تھی کہ امام جماعت احمدیہ کی جلسہ سالانہ کی تقریر کے متعلق لوگوں میں بہت تشویش پائی جاتی ہے.اُس کا اشارہ میری 27 دسمبر کی تقریر کے اُس حصہ کی طرف تھا جس میں میں نے ایک اخبار کے بیان کے متعلق کچھ کہا تھا.جہاں تک دیانت داری کے ساتھ خلاصہ بیان کیا جا سکتا تھا اخبارات کے نمائندوں نے جو جلسہ سالانہ کے موقع پر ربوہ آئے تھے خلاصہ دیانت داری کے ساتھ لکھا تھا.اور میرے لئے یہ بات نہایت خوشکن تھی کیونکہ اخبارات کے بعض نمائندے بد دیانتی سے اور بعض نمائندے بے احتیاطی سے خلاصہ میں
1952 18 خطبات محمود اکثر غلطی کر جاتے ہیں.مگر خلاصہ بہر حال اصل مضمون کا قائمقام نہیں ہوا کرتا.میرا وہ حصہ تقریر اس بارہ میں تھا کہ ایک اخبار نے لکھا تھا کہ گورنمنٹ پاکستان ایک قانون کی ننانوے فیصدی آبادی کے فائدہ کے لئے جاری کرنا چاہتی ہے.لیکن امام جماعت احمدیہ نے ایک کتاب لکھی ہے اور اس کے خلاف رائے دی ہے.اس لئے حکومت کو چاہیے کہ وہ مرزا صاحب کے خلاف کا رروائی کرے اور انہیں سزا دے.قطع نظر اس کے کہ اخبار نویس نے واقعات کو بگاڑ کر پیش کیا تھا وہ قانون اب پیش ہو رہا ہے اور کتاب جس کی طرف اخبار نے اشارہ کیا تھا آج سے کی دو سال قبل چھپ چکی ہے.پس یہ ایک صحافتی بددیانتی ہے کہ بعد میں آنے والے قانون کے خلاف اُس کتاب کو قرار دیا جائے جو قریباً دو سال پہلے لکھی گئی تھی.اور اس قسم کی بددیانتی کی پہلے بھی اس اخبار میں بعض مثالیں پائی جاتی ہیں.چنانچہ آفاق میں اسی مسئلہ کے متعلق متعدد جھوٹے اور جعلی مضامین شائع ہوئے ہیں جو ایک ہی آدمی نے مختلف ناموں سے شائع کرائے اور ظاہر یہ کیا گیا کہ وہ مختلف لوگوں کے ہیں.گویا کہ بہت سے لوگوں میں جوش پیدا ہو گیا ہے.حالانکہ حقیقت یہ تھی کہ وہ ایک ہی آدمی تھا جس نے وہ سارے مضامین لکھے.جب ایک احمدی نے اس بارہ میں’ آفاق کو چیلنج بھجوایا تو نہ اُس کا مضمون چھاپا گیا نہ اس امر کی تردید کی گئی جس سے اس روایت کی تصدیق ہو جاتی ہے.اس بات کو نظر انداز کرتے ہوئے اصل سوال جو اس اخبار نے لیا تھا اس سے جو مفہوم نکلتا تھا وہ یہ تھا کہ چونکہ امام جماعت احمدیہ نے اکثریت کی کے خلاف رائے ظاہر کی ہے اس لئے وہ سرزنش کے قابل ہے.گورنمنٹ کو چاہیے کہ وہ اس کے خلاف کارروائی کرے.میں نے اس اخبار کو یہ جواب دیا تھا کہ خیالات کا ظاہر کرنا جرم نہیں.یہ تو جمہوریت کے اصول کے مطابق ہے.100 میں سے 10 تو الگ رہے اگر نو کروڑ ننانوے لاکھ نا نوے ہزار نو سو ننانوے کی ایک رائے ہو اور ایک آدمی کی ایک رائے ہو تو ایک آدمی جمہوریت کے مطابق نو کروڑ ننا نوے لاکھ نا نوے ہزار نو سوننانوے سے اختلاف رکھ سکتا ہے اور اسے حق پہنچتا ہے کہ وہ نو کروڑ ننانوے لاکھ ننانوے ہزار نو سو ننانوے کے خلاف رائے دے.مُجرم یہ ہوتا ہے کہ خلاف قانون عمل کیا جائے.اور خلاف قانون عمل خواہ نانوے فیصدی آبادی بھی کرے یا پچاس فیصدی کرے یا چالیس فیصدی کرے وہ ناجائز ہوگا.لیکن اپنی رائے کو ظاہر کرنا کسی
1952 19 خطبات محمود صورت میں بھی ناجائز نہیں خواہ ننانوے فیصدی سے زیادہ اکثریت دوسری طرف ہو.یہ ہمارا نی مسلک ہے جو ہمیشہ سے چلا آتا ہے.اسی سلسلہ میں میں نے اپنی تقریر میں یہ بھی بیان کیا تھا کہ احمدیت صداقت اور سچائی پھیلانے آئی ہے اور چونکہ احمدیت سچائی اور صداقت پھیلانے آئی ہے اس لئے ایک وقت آنے والا ہے کہ ننانوے فیصدی لوگ اس میں داخل ہو جائیں گے اور اُس وقت باقی لوگ یہ خیال کریں گے کہ شاید اب احمدی ان کے خلاف فتویٰ دیں گے لیکن میں نے بتایا تھا کہ ہمارا یہ عقیدہ نہیں کہ اکثریت کے خلاف اقلیت اپنی رائے ظاہر نہیں کر سکتی.بلکہ ہم سمجھتے ہیں کہ اختلاف رائے جرم نہیں.ہاں فتنہ و فساد اور شرارت کرنا جرم ہے اور دیانت کا تقاضا ہوتا ہے کہ ایسے لوگوں کو پکڑا ج جائے.میں نے اپنی تقریر میں کہا تھا کہ جب اللہ تعالیٰ ہمیں اکثریت دے گا تو ہم ایسا نہیں کریں کی گے کہ جو لوگ اختلاف رائے رکھیں انہیں پکڑ لیں.بلکہ جب خدا تعالیٰ ہمیں اکثریت عطا کرے جی گا تو ہم باقی لوگوں سے کہیں گے کہ جو باتیں تم نے پہلے کہی ہیں ہم وہ بھی معاف کرتے ہیں اور آئندہ بھی تم اپنا اختلاف ہم سے ظاہر کر سکتے ہو.یہ مضمون تھا جو میں نے اُس دن بیان کیا تھا.اب کسی جماعت کا خصوصاً جب وہ صداقت پیش کرے یہ عقیدہ رکھنا کہ ایک دن وہ دنیا بھر میں پھیل جائے گی اور اکثریت اُس میں داخل ہو جائے گی کوئی جرم نہیں.کبھی تم نے کوئی ایسی صداقت بھی دیکھی ہے یاد نیا میں کوئی ایسی سچائی بھی آئی ہے جس نے یہ اعلان کیا ہو کہ وہ گھٹے گی بڑھے گی نہیں ؟ کیا حضرت موسیٰ علیہ السلام یہ نہیں کہا کرتے تھے کہ وہ بڑھیں گے گھٹیں گے نہیں ؟ اور جب حضرت موسیٰ علیہ السلام کہا کرتے تھے کہ وہ بڑھیں گے گھٹیں گے نہیں تو کیا وہ کی اُس وقت فساد کرتے تھے اور سرزنش کے قابل تھے؟ کیا حضرت عیسی علیہ السلام یہ نہیں کہا کرتے تھے کہ وہ بڑھیں گے گھٹیں گے نہیں ؟ اور جب وہ کہا کرتے تھے ہم بڑھیں گے گھٹیں گے نہیں تو کیا وہ فساد کرتے تھے یا شرارت کرتے تھے ؟ اور کیا وہ قابل مواخذہ تھے ؟ پھر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی یہی بات کہی کہ ہم بڑھیں گے گھٹیں گے نہیں.اور جب آپ نے یہ بات کہی کہ ہم بڑھیں گے گھٹیں گے نہیں تو کیا آپ فتنہ پھیلا رہے تھے؟ یہ بات تو عقل کے ہی خلاف ہے.جو صداقت بھی دنیا میں آئے گی وہ یہی کہے گی کہ ہم نے بڑھنا ہے.سچائی کی علامت ہی یہی ہوتی ہے
1952 20 خطبات محمود کہ وہ بڑھے.کیا کسی کا کسی عقیدہ کو صحیح سمجھ کر مان لینا فتنہ ہوتا ہے؟ ہرگز نہیں.اگر ہم انگلینڈ میں جا کر کہیں کہ ہم یہاں اتنی تبلیغ کریں گے کہ بادشاہ بھی احمدی ہو جائے گا تو یہ فتنہ نہیں ہوگا ، یہ فساد نہیں ہوگا.وہ اتنا ہی کر سکتا ہے کہ کہہ دے کہ میں احمدی نہیں ہوتا.ہم کہیں گے اچھا تم احمدی نہ ہوئے تو تمہاری اولا د احمدی ہو جائے گی.یہ صداقت ہے جس کا انکار نہیں کیا جا سکتا.گجا یہ کہ اسے فتنہ کہا جائے.جب ہم سمجھتے ہیں کہ احمدیت کچی ہے تو ہم یہ یقین بھی رکھتے ہیں کہ نوے فیصدی تو کیا اس سے بھی زیادہ لوگ اس میں داخل ہوں گے.پھر دوسری بات بھی کہ جب ہم زیادہ ہو جائیں گے سختی نہیں کریں گے کسی فتنہ کا موجب نہیں.آخر یہ کون سی جرم والی بات ہے کہ ہم کہیں ہم جب دنیا میں پھیل جائیں گے یا یہ کہ جب ہم زیادہ ہو جائیں گے تو تھوڑوں پر سختی نہیں کریں گے.اس میں کون سی ہتک والی بات ہے.یہ خلاصہ ہے میری تقریر کا.اب جو شخص اس پر خفگی کا اظہار کرتا ہے اُس کا یہ فعل جائز نہیں.افسر کے تو معنی ہی یہ ہوتے ہیں کہ وہ کسی بات پر ٹھنڈے دل سے غور کرے اور دوسروں کو ٹھنڈے دل سے غور کرنے کی عادت ڈالے.اس افسر کا یہ کام تھا کہ وہ دوسروں سے پوچھتا کہ آخر وہ کون سی کی بات ہے جس پر تمہیں جوش آ رہا ہے.کیا یہ بات مُجرم ہے کہ کوئی کہے ہم ایک دن زیادہ ہو جائیں گے ، ہماری اکثریت ہو جائے گی اور ہم دنیا میں پھیل جائیں گے؟ احمدی کیا دنیا کا ہر فرقہ یہی کہتا ؟ ہے.کون نہیں کہتا کہ ہم زیادہ ہو جائیں گے اور ایک دن ایسا آئے گا کہ اکثریت ہماری ہوگی.یا پھر کیا یہ جرم والی بات ہے کہ کوئی کہے کہ جب ہم زیادہ ہو جائیں گے تو تھوڑوں پر سختی نہیں کریں گے؟ اگر خلاصہ اس رنگ میں بیان کیا جائے تو میں حیران ہوں کہ دوسرے لوگ کس طرح ناراض ہو سکتے ہیں.ہر جماعت اور ہر فرقہ کا یہ حق ہے بلکہ یہ خوبی ہے کہ وہ کہے ہم جب زیادہ ہو جائیں گے تو تھوڑوں پر سختی نہیں کریں گے.یہ تو قابلِ تعریف بات ہے اس میں گھبراہٹ والی کون سی بات ہے.دوسری بات اُس افسر نے یہ کہی اور میں سمجھتا ہوں کہ یہ بات نہایت نا پسندیدہ تھی اُسے ایسا کہنے کا حق نہیں تھا.اُس نے کہا کہ مرزا صاحب نے انگریزوں کو ایک خط لکھا تھا جس میں یہ تحریر کیا تھا کہ میں نے آپ کی بہت سی خدمات کی ہیں لیکن مجھے ان خدمات کا کوئی اجر نہیں ملا..
1952 21 خطبات محمود جہاں تک اس مضمون کا تعلق ہے مجھے یاد نہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ایسا کوئی کی مضمون لکھا ہو.لیکن فرض کرو کہ آپ نے کوئی ایسا خط لکھا تھا تو سوال یہ ہے کہ جس شخص کو یہ خط لکھا گیا تھا اُس نے اس کا کیا مفہوم لیا تھا؟ کیا اس نے بھی اُس خط کا یہی مطلب لیا تھا کہ حضرت مسیح موعود الصلوة والسلام اُس سے اپنی خدمات کا بدلہ مانگ رہے ہیں؟ اور اگر اس نے یہی مطلب لیا تھا تو اس نے آپ کو کیا دیا؟ اس کا آخر کوئی نتیجہ بھی تو ہونا چاہیے.اس کی دو ہی صورتیں ہیں.یا تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ و السلام نے جو خدمات انگریزوں کی کی تھیں وہ انعام حاصل کی کرنے والے مسلمانوں سے حقیر تھیں.اگر ایسا تھا تو پھر تمہیں مرزا صاحب پر غصہ نہیں آنا می علیها چاہیے.اپنے آباؤ و اجداد اور اپنے مولویوں پر غصہ آنا چاہیے جنہوں نے خطاب لئے ، جائیدادیں لیں ، انعامات حاصل کئے.دوسری صورت یہ ہے کہ مرزا صاحب نے دوسرے مسلمانوں سے زیادہ انگریزوں کی خدمات کی تھیں.اگر یہ بات درست ہے تو میں ان افسر صاحب سے پوچھتا ہوں ( میں ذاتی طور پر اُن کو اچھا آدمی سمجھتا رہا ہوں ) کہ آپ کے علماء اور امراء اور رشتہ داروں کو جو انعامات ملے مرزا صاحب کو اُن سے زیادہ کیوں نہ ملے ؟ کیا انگریز اتنا پاگل تھا کہ مرزا صاحب کو بڑی خدمات کا صلہ تو اُس نے نہ دیا اور دوسرے مسلمانوں کو حقیر خدمات کا صلہ اُس نے دیا.اگر کہو کہ مرزا صاحب انگریز کی تعریف منافقت سے کرتے تھے اور دوسرے مسلمان سچے دل سے ، اس لئے انگریز نے دوسرے مسلمانوں کو صلہ دیا مگر مرزا صاحب کو کوئی صلہ نہ دیا.تو میں پوچھتا ہوں کہ انگریزوں کا دلی خیر خواہ اسلام کا دشمن ہے یا وہ جو دل سے تو اُس کا دشمن تھا مگر منہ سے اس کی تعریف کر دیتا تھا؟ انگریزوں کا باوجود ان بڑی خدمات کے جو مرزا صاحب نے کیں ان کو تو صلہ نہ دینا مگر مولویوں میں سے بعض کو اور دوسرے مسلمان لیڈروں میں سے بعض کو صلہ دینا بتا تا ہے کہ انگریز کم سے کم یہ خوب سمجھتا تھا کہ مرزا صاحب مجھ پر احسان نہیں کر رہے.وہ جو کچھ کہہ رہے ہیں اپنے مذہب کے اظہار کے لئے کہہ رہے ہیں.اور حضور علیہ السلام کی تحریرات کا اس سے زیادہ مطلب کچھ نہ تھا کہ میں کسی بدلہ کی خواہش کے بغیر یہ کام کر رہا ہوں.قرآن کریم میں بھی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے متعلق آتا ہے کہ آپ نے فرمایا
1952 22 خطبات محمود میں تم سے اس کام کا کوئی اجر نہیں مانگتا.اس کام کا بدلہ میں خدا تعالیٰ سے لوں گا 1 جس نے یہ کام میرے ذمہ لگایا ہے.کیا اس آیت کا یہ مطلب ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اشارہ کر رہے تھے کہ مجھے کچھ دو؟ یہ صاف بات ہے کہ لوگ انگریزوں کی خدمات بجالاتے تھے اور وہ اُنہیں انعامات بھی دیتے تھے.لیکن ان خدمات اور انعامات کے مقابلہ میں کوئی شور نہیں پڑتا.تمام مسلمان چپ ہیں.لوگ ان انعام یافتوں کی دعوتیں کرتے ہیں اور اس اعزاز کی وجہ سے اُن کا احترام بھی کرتے ہیں.جس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ ان کے اس فعل کو نا پسند نہیں کرتے.اگر مرزا صاحب پر مولوی لوگ اس لئے ناراض ہیں کہ آپ نے انگریزوں سے تعاون کی کیا ، اُن کی مدد کی اور اس طرح اُن کی طاقت کو بڑھایا.تو سوال یہ ہے کہ اگر مرزا صاحب کا انگریزوں سے یہ تعاون کسی غرض کے لئے تھا تو انگریزوں نے ان کی کیا مدد کی؟ پنجاب موجود ہے اس میں دس پندرہ ہزار مربع زمین انگریز کی خدمات کے بدلہ میں لوگوں کو ملی ہے.ان دس پندرہ ہزار مربعوں میں سے مرزا صاحب کو کتنے ملے ہیں؟ یا وہ کون سے خطابات ہیں جو انگریزی کی حکومت نے مرزا صاحب کو دیئے؟ مرزا صاحب تو فوت ہو گئے ہیں آپ کے زمانہ میں حکومت کی کی طرف سے کسی خطاب یا انعام کی آفر (Offer) نہیں آئی تھی لیکن میرے زمانہ میں حکومت کی نے یہ کہا کہ اگر آپ پسند کریں تو ہم آپ کو کوئی خطاب دینا چاہتے ہیں.لیکن میں نے ہر دفعہ یہی کہا کہ میں تمہارے خطاب کو ذلت سمجھتا ہوں.اور جس چیز کو جماعت احمدیہ کا خلیفہ اپنی ذلت اور ہتک سمجھتا ہے اُس کا بانی اس کی کیا حقیقت اور قیمت سمجھتا ہوگا.تین دفعہ حکومت نے یہ کہا کہ ہم کوئی خطاب دینا چاہتے ہیں.ایک دفعہ حکومت ہند کے ایک ممبر نے ایک احمدی کو بلا کر کہا کہ کیا تم اس بات کا پتا کر سکتے ہو کہ اگر ہم مرزا صاحب کو کوئی تکی خطاب دینا چاہیں تو وہ خطاب لے لیں گے ؟ یعنی ان کے دل میں بھی شبہ تھا کہ اگر ہم نے کوئی تھی خطاب دیا تو یہ اسے منظور نہیں کریں گے.جس شخص سے حکومت کے اُس ممبر نے اس بات کا ذکر کی کیا اُس میں اتنا ایمان نہیں تھا وہ سمجھتا تھا کہ اگر خلیفہ کی شان کے مطابق کوئی انعام مل جائے تو می اس میں ہماری عظمت ہو گی.اس نے بیوقوفی سے کہہ دیا کہ اگر آپ ان کی شان کے مطابق کوئی حج انعام دے دیں گے تو وہ لے لیں گے.اور مثال دی کہ جس طرح کا خطاب سر آغا خاں کو دیا گیا ہے جی
1952 23 خطبات محمود اسی قسم کا خطاب دے دیا جائے جو ان کی شان کے مطابق ہو تو وہ انکار نہیں کریں گے.اس کی کے بعد مجھ کو خط لکھا تو میں نے جواب دیا کہ تم کتنے گھٹیا درجہ کے مومن ہو.وہ خلیفہ اسیح کے خطاب سے بڑھ کر کون سا خطاب مجھے دیں گے.میں ایک مامور من اللہ کا خلیفہ ہوں اگر وہ مجھے بادشاہ بھی بنادیں گے تو وہ اس خطاب کے مقابلہ میں ادنیٰ ہو گا.تم فور آ جاؤ اور اُس ممبر سے کہو کہ میں نے جو جواب دیا تھا وہ غلط تھا.اگر آپ انہیں کوئی خطاب دیں گے تو وہ اسے اپنی ذلت اور ہتک سمجھیں گے.اسی طرح ایک دفعہ حکومت کے ایک رکن نے میرے ایک سیکرٹری سے کہا کہ اب خطابات دیئے جانے کا سوال ہے.اگر مرزا صاحب منظور کر لیں تو انہیں بھی کوئی خطاب دے دیا جائے.تو انہوں نے کہا وہ آپ کا کوئی خطاب برداشت نہیں کریں گے.اسی طرح ایک اور افسر نے ایک احمدی رئیس سے کہا کہ اب مربعے مل رہے ہیں.اگر مرزا صاحب پسند کریں تو انہیں بھی کچھ مربعے دے دیے جائیں.انہوں نے مجھ سے اس بات کا ذکر کیا تو میں نے کہا یہ تو میری ذلت اور ہتک ہے کہ میں حکومت سے کوئی انعام لوں.اس کا تو یہ مطلب ہوگا کہ ہم پیسوں کی کے لئے سب کام کرتے ہیں.پس یہ بڑے تعجب کی بات ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے انگریزوں کو کوئی چٹھی لکھی ہو اور اُن سے اپنی خدمات کے بدلہ میں کوئی چیز مانگی ہو اور انگریز خاموش رہا ہو.میری نظر سے تو ایسا کوئی مضمون نہیں گزرا.لیکن فرض کرو اگر آپ نے ایسا کوئی فقرہ لکھا بھی تھا تو جس شخص کو یہ فقرہ لکھا گیا تھا اُس نے اس کے کیا معنی لئے تھے ؟ اگر اس نے یہی معنی لئے تھے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اپنی خدمات کے بدلہ میں اُن سے کچھ انعام مانگ رہے ہیں تو انہوں نے ان لوگوں کو جنہوں نے بعض حقیر خدمات کیں ( ہمارے نزدیک تو ہر نیک کام خدمت ہوتی ہے لیکن یہاں وہ خدمات مراد ہیں جو کسی لالچ اور طمع کی بناء پر کی جائیں ) زمینیں دیں، خطابات دیئے ، اعزاز بھی کئے لیکن حضرت مرزا صاحب کی ان خدمات کا جن پر مولوی کی آج بھی سر پیٹ رہے ہیں کہ مرزا صاحب نے انگریزوں کی مدد کر کے اسلام کی بنیادیں کھوکھلی کچ کر دیں اور ان کی طاقت کو بڑھایا ہے کوئی بدلہ نہ دیا.ان حالات کو دیکھ کر دو باتوں میں سے ایک ہی ماننی پڑتی ہے.یا یہ کہ حضرت مرزا صاحب نے انگریزوں کی کوئی خدمت نہیں کی یا خدمت تو کی تھی مگر اس کا بدلہ لینا پسند نہیں کیا تھا کیونکہ وہ اسے خدا تعالیٰ کی خدمت سمجھتے تھے.
1952 24 خطبات محمود تیسری کوئی صورت ہو ہی نہیں سکتی.اب اگر آپ نے انگریزوں کی خدمات نہیں کی تھیں تو پھر شور مچ کیسا.اور اگر خدمات کی تھیں لیکن ان کا بدلہ لینے کے لئے آپ تیار نہیں تھے تو سیدھی بات ہے کہ وه خدمات در اصل اسلام کی تھیں ، وہ خدمات خدا تعالیٰ کی تھیں اور اس نے ان کا بدلہ دے دیا.اس میں ناراضگی کی کون سی بات ہے.کیا خدا تعالیٰ نے ان خدمات کا یہ بدلہ نہیں دیا کہ مولویوں کی انتہائی مخالفت کے باوجود حضرت مرزا صاحب اور ان کی جماعت بڑھتی چلی گئی ؟ یہ بدلہ ہے جو خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی خدمات کا دیا.پھر انگریز لوگوں کو دس ہیں جی مربعے دیتے تھے مگر خدا تعالیٰ کے صلہ کو دیکھو کہ ہزاروں وہ لوگ جنہیں انگریزوں نے مربعے کی دیئے تھے یا انگریزوں سے پہلے زمانہ کے وہ بڑے زمیندار تھے احمدیت میں داخل ہو گئے.پٹھانوں ،مغلوں اور انگریزوں کی دی ہوئی زمینیں ہمیں مل گئیں.ان کے احمدی ہو جانے کے یہ معنی ہیں کہ یہ خدا تعالیٰ کا مال ہے ان کا نہیں.کیا انگریز یہ بدلہ دے سکتے تھے؟ ان کی دی ہوئی ت زمینیں تو اب حکومت چھین رہی ہے.حکومت نے یہ قانون پاس کر دیا ہے کہ ہر وہ زمین جو علاوہ فوجی خدمات کے کسی اور خدمت کے صلہ میں انگریزی حکومت نے کسی کو دی ہو وہ چھین لی کی جائے.لیکن ہماری زمینیں اور انعامات کوئی چھین تو لے؟ اس کا ایمان کے ساتھ تعلق ہے بچے کی احمدی کے پاس جو چیز ہوگی وہ احمدیت اور اسلام کی ہوگی.یہی مضمون میں نے ایک قطعہ میں بیان کیا ہے جو مجھے رؤیا میں معلوم ہوا اور اب الفضل میں چھپ چکا ہے.میں نے دیکھا کہ کراچی کا کوئی اخبار ہے جو کسی دوست نے مجھے بھیجا ہے.اور اس میں کچھ باتیں احمدیت کی تائید میں لکھی ہوئی ہیں.اُس اخبار پر سرخ سیاہی سے اُس دوست نے نشان کر دیا ہے تا کہ میں اُس کو پڑھ سکوں.میں نے وہ مضمون پڑھا.اس مضمون کی کے نیچے چار کالموں میں چار قطعات دو دو شعر کے چھپے ہوئے ہیں اور اچھے موٹے موٹے حروف میں لکھے ہوئے ہیں.میں نے وہ قطعات پسند کئے اور چاہا کہ میں بھی ایک قطعہ لکھوں.چنانچہ میں نے دو شعر کہے.جوں جوں میں شعر کہتا جاتا تھا وہ چھپتے چلے جاتے تھے.وہ قطعہ یہ تھا.میں آپ سے کہتا ہوں کہ حضرت لولاک ہوتے نہ اگر آپ تو بنتے نہ یہ افلاک
خطبات محمود 25 جو آپ کی خاطر ہے بنا آپ کی شے ہے میرا تو نہیں کچھ بھی یہ ہیں آپ کی املاک 1952 در حقیقت جب ایک شخص صداقت کو قبول کرتا ہے تو اُس کا کچھ نہیں رہتا.جو کچھ اُس کا ہوتا ہے وہ خدا تعالیٰ کا ہو جاتا ہے.ہم نے خدا تعالیٰ کی خاطر سارا کام کیا تھا اور خدا تعالیٰ نے ہمیں وہ بدلہ دیا جو نہ انگریز نہ کوئی اور دے سکتا تھا.انگریزوں کے اپنے سلوک سے ظاہر ہے کہ وہ بھی کی سمجھتا تھا کہ مرزا صاحب میرا انعام نہیں لیں گے.پھر اگر مرزا صاحب انعام لینا قبول بھی کر لیتے کی تو وہ کیا دیتا؟ یہی کہ چند مربعے زمین دے دیتا.لیکن خدا تعالیٰ نے اتنے مربعے دیئے جو انگریزی نہیں دے سکتے تھے.سینکڑوں ایسے لوگ جن کے پاس کئی کئی مربعے زمین تھی اور بعض کے پاس تی سوسو د و دو سو مربع زمین تھی احمدی ہو گئے اور خدا تعالیٰ نے احمدیت کو اتنا کچھ دیا جو انگریزوں کی طاقت سے باہر تھا.اس سے پتا لگتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جو خدمت کی تھی وہ انگریزوں کی نہیں تھی.آخر آپ نے یہی کہا تھا کہ فساد نہ کرو، حکومت کی اطاعت کرو اور امن قائم رکھو اور جہاد کے غلط معنی نہ کرو.اور یہ خدمت اسلام کی خدمت تھی.ہم دیکھتے ہیں جوں جوں دوسرے ممالک کے ساتھ مسلمانوں کا تعلق قائم ہوتا چلا جاتا ہے اقتصادیات ، سیاسیات اور معاشیات کے ماہر یہ کہہ رہے ہیں کہ جہاد کی یہ تعریف نہیں کہ جو مسلمان نہ ہوا سے قتل کر دیا جائے بلکہ جہاد کے معنی محض دفاع کے ہیں.جب پنڈت نہرو نے جہاد کے لفظ پر اعتراض کیا تو موجودہ پرائم منسٹر جو اُس وقت گورنر جنرل تھے انہوں نے اعلان کیا کی کہ جہاد کے تم معنی ہی نہیں سمجھتے.جہاد کے معنی دفاع کے ہیں.اور یہی معنی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے کئے تھے.جب اور کوئی رستہ نہ ملا تو لوگ اب آپ کی نقل کر رہے ہیں.اس سے زیادہ بدلہ اور کیا مل سکتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جو کچھ کیا تھا وہ اسلام کی خدمات تھیں.اگر آپ انگریزوں کی خدمات کرتے تو مانگنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا.آپ اگر اشارہ بھی کرتے تو انگریز دوڑا ہوا آتا.خدا تعالیٰ کا بدلہ دینا بتاتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام نے جو کچھ کیا تھا خدا تعالیٰ کی خاطر کیا تھا اور آپ کی نیت نیک تھی.ورنہ وجہ کیا ہے کہ سارے مولوی اپنا پورا زور احمدیت کے خلاف لگا رہے ہیں لیکن وہ احمدیت کا کچھ بگاڑ نہیں سکے.
1952 26 خطبات محمود خود آفاق کے نمائندے نے جلسہ سالانہ کی ڈائری لکھتے ہوئے کہا ہمارے بڑے بڑے مولوی احمدیت کی مخالفت کرتے آئے ہیں لیکن ہم ان کا کچھ بگاڑ نہیں سکے، یہ بڑھتے چلے جارہے ہیں.آخر ایسا کیوں ہو رہا ہے؟ صاف بات ہے کہ خدا تعالیٰ اس جماعت کی مدد کر رہا ہے.جب دشمن دیکھتا ہے کہ وہ تبلیغ کے ساتھ احمدیت پر غالب نہیں آسکتا تو وہ اشتعال انگیزی شروع کر دیتا ہے.لیکن اس سے بنتا کیا ہے؟ دشمن کی اشتعال انگیزی سے ہمیں عارضی جسمانی نقصان تو پہنچ سکتا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس کے باوجود یہ سلسلہ بڑھتا چلا جائے گا اور بڑھتا ہی کی چلا جائے گا.آسمان ٹل سکتا ہے زمین مل سکتی ہے.مگر اس سلسلہ کی دنیا میں اشاعت کے متعلق جو جی پیشگوئیاں ہیں وہ نہیں مل سکتیں.خواہ تمام دنیا کی طاغوتی طاقتیں مل کر بھی اس کے راستہ میں کیوں نہ کھڑی ہو جائیں.اِنشَاءَ اللهُ تَعَالَى وَ بِفَضْلِهِ وَ رَحْمَتِهِ 1: قُلْ لا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ أَجْرًا - (الشورى : 24) 66 الفضل 13 فروری 1952ء)
1952 27 5 خطبات محمود ہمارے سامنے کوئی پروگرام ہونا چاہیے اور پھر اس کے مطابق عمل ہونا چاہیے وقت نہایت قیمتی چیز ہے جو وقت کو استعمال کرے گا وہی جیتے گا اور جو ضائع کرے گا وہ ہار جائے گا (فرموده 15 فروری 1952ء بمقام ربوہ) تشهد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: میں نے گزشتہ جمعہ جماعت کے کارکنوں کو توجہ دلائی تھی کہ وہ اپنے صیغوں کے متعلق سال کے شروع میں ایک باقاعدہ پروگرام تیار کیا کریں اور پھر اُس پروگرام پر عمل کرنے کی کوشش کیا کریں.ورنہ ہماری ترقی کے امکانات نسبتاً کم ہو جاتے ہیں.میرے دوسرے خطبہ کے بعد بعض ناظروں نے اپنے اپنے محکموں کے نہایت مختصر سے پروگرام بنا کر میرے سامنے کی پیش کئے ہیں.میں انہیں پروگرام تو نہیں کہہ سکتا ، نہ اُن میں کسی غور وفکر کا ثبوت ملتا ہے اور نہ عقل اور تدبیر کا کوئی شائبہ نظر آتا ہے لیکن بہر حال ناظروں نے لفظی فرمانبرداری کا نمونہ دکھایا ہے اور مختصراً جیسے کوئی کسی گھبراہٹ کے وقت کسی عزیز کا اعتراض دُور کرنے کے لئے جلدی سے خط لکھ دیتا ہے اسی طرح انہوں نے پروگرام بنا کر پیش کر دیا ہے اور کہا ہے کہ یہ ہے ہمارا پروگرام.
1952 28 خطبات محمود غرض وہ کچھ ہلے تو ہیں.اگر چہ وہ بالکل تھوڑا ہے ہیں لیکن بہر حال ہلے ضرور ہیں.لیکن اس کے کی مقابلہ میں تحریک جدید کے وکلاء کو اتنی بھی توفیق نہیں ملی کہ وہ بھی اتنا ہی پروگرام بنا کر پیش کر دیتے جتنا ناظروں نے پیش کیا ہے تا معلوم ہوتا کہ اُن کے دماغوں میں بھی اسی قسم کی حرکت پیدا ہوئی ہے.یہ مرض اتنی بڑھتی جا رہی ہے کہ اگر ہم نے اسے جلدی دور نہ کیا تو یقیناً ہم اُن ترقیات کو حاصل نہیں کر سکیں گے یا یوں کہو کہ اُن ترقیات کو اپنے وقت میں حاصل نہیں کر سکیں گے جو ہماری پہنچ کے اندر نظر آتی ہیں اور جن کے لئے خدا تعالیٰ نے ہمیں پیدا کیا ہے یا جس کی قابلیتیں خدا تعالیٰ نے ہمارے اندر رکھی ہیں.در حقیقت ہمارے محکمے پوسٹ آفس سے بنے ہوئے ہیں.باہر سے خط آتا ہے کہ ہمارے لئے ایک مبلغ بھیج دو.اگر مبلغ پاس ہوتا ہے تو وہ کہ دیتے ہیں ہم مبلغ بھیج رہے ہیں اور وہ فلاں وقت آپ کے پاس پہنچ جائے گا.یا اگر مبلغ پاس نہیں ہوتا تو لکھ دیتے ہیں افسوس کہ کوئی مبلغ فارغ نہیں.اگر آپ پھر یاد کرائیں گے تو ہم مبلغ بھیج دیں گے.تو یہ ڈاکخانہ کا سا کام ہے.خود سارے ملک پر غور کرنا اور یہ دیکھنا کہ کہاں کہاں کس کس قسم کے خیالات رائج ہیں، کس جگہ ہم عمدگی سے تبلیغ کر سکتے ہیں، کس کس جگہ ہماری مخالفت زیادہ ہے اور اسے دور کرنے کے لئے کونی سی عائلی قومی تبلیغی اور تربیتی خدمات کی ضرورت ہے اور کس طریق سے اس کا علاج کیا جا سکتا ؟ ہے، کون کون سے مضامین پبلک کے ذہنوں میں پھیل رہے ہیں جو ہمارے رستہ میں روک بن گی رہے ہیں جن کا علاج ہمیں سوچنا ہے.یا کون سے مضامین ہیں جو ہمارے مؤید ہیں اور اُن سے ہم نے فائدہ اٹھانا ہے.ان امور کی طرف ان کی کوئی توجہ نہیں.محض پوسٹ آفس کا کام ہے جو یہاں کیا جاتا ہے.باہر سے خط آیا کہ مبلغ بھیج دو.اگر مبلغ پاس ہوا تو لکھ دیا کہ ہم مبلغ بھیج رہے ہیں اور اگر مبلغ پاس نہ ہوا تو لکھ دیا کہ ہم مبلغ نہیں بھیج سکتے.بعض قسم کے ٹریکٹ بھی شائع ہوئے ہیں مگر چونکہ اُن کا کوئی اثر نظر نہیں آتا اس لئے میں سمجھتا ہوں کہ ان کی اشاعت غلط طریق سے ہوتی ہے.پچھلے دنوں ایک ٹریکٹ شائع ہوا جو نہایت اعلیٰ تھا اور اُس نے پنجاب میں ایک تہلکہ مچا دینا تھا.لیکن مجھے کسی جماعت کی طرف بھی اطلاع نہیں آئی کہ وہ ٹریکٹ اُس کے پاس پہنچا ہے یا ٹریکٹ آیا ہے تو اُس کا کوئی اثر ہوا ہے ނ
1952 29 خطبات محمود یا اس کی وجہ سے مخالفت شروع ہو گئی ہے.اس کے معنی یہ ہیں کہ وہ ٹریکٹ اندر ہی رکھا ہوا ہے کی جماعتوں میں بھیجا نہیں گیا.یا کلرک نے ٹکٹ کھالئے ہیں اور پیکٹ کہیں پھینک دیئے ہیں.یا اس طرح بھیجا گیا ہے کہ جماعتوں میں کوئی احساس پیدا نہیں ہوا.ورنہ جماعت کے اندر یہ بیداری پائی جاتی ہے کہ کوئی تغیر ہوتا ہے تو کوئی نہ کوئی شخص مجھے لکھ دیتا ہے کہ اس کا اثر بُرا ہوا ہے یا نیک.اور اس طرح میں بیدار رہتا ہوں اور جماعت کے حالات کے متعلق مجھے خبر ملتی رہتی ہے.کسی جگہ بھی کوئی خرابی پیدا ہوگی تو کوئی نہ کوئی شخص مجھے ضرور لکھ دے گا.اگر اچھی باتیں ہوں گی تب بھی کوئی نہ کوئی شخص مجھے لکھ دے گا.پس اگر وہ ٹریکٹ (TRACT) باہر جاتا تو کوئی نہ کوئی کی شخص یہ اطلاع دیتا کہ ہمارے پاس فلاں ٹریکٹ پہنچا ہے اور اس سے ہم فائدہ اٹھا رہے ہیں یا ہم نے خود سے دوبارہ شائع کیا ہے.ہر ایک جماعت میں کوئی نہ کوئی خدا کا بندہ ایسا موجود ہوتا ہے جو اس قسم کی باتوں سے مجھے اطلاع دے دیتا ہے اور مجھے جماعت کے حالات معلوم ہوتے رہتے ہیں.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ہمارا کوئی پلان (PLAN) نہیں ہے.جیسے جنگل میں بوٹیاں آپ ہی آپ آگ آتی ہیں.وہ کسی پلان کے ماتحت نہیں اُگتیں.کسی جگہ دیار کی ضرورت ہوتی ہے لیکن وہاں کیکر آگ رہے ہوتے ہیں.کہیں کیکر کی ضرورت ہوتی ہے اور وہاں بیریں 1 اُگ رہی ہوتی ہیں.کہیں گلاب کی ضرورت ہوتی ہے اور وہاں چنبیلی آگ رہی ہوتی ہے اور کہیں کچ چنبیلی کی ضرورت ہوتی ہے اور وہاں گلاب آگ رہا ہوتا ہے.وہی ہماری ترقی کی حالت ہے.لیکن جنگل کی ترقی باغ والی ترقی نہیں ہوتی.ترقی جنگل بھی کرتے ہیں، ترقی طوفان اور آندھیوں سے بھی ہوتی ہے، ترقی سیلاب سے بھی ہوتی ہے.سیلاب بھی کھیتیاں پیدا کرتے ہیں اور نہریں بھی کھیتیاں پیدا کرتی ہیں.لیکن سیلاب اور نہر کی کھیتیاں پیدا کرنے میں فرق ہے.سیلاب کی ترقی اتفاقی ہوتی ہے.کبھی وہ ایسی فصل میں ہوتی ہے جس کی ضرورت نہیں ہوتی اور تج کبھی فصل ایسی زمین میں آگ آتی ہے جو اچھی نہیں ہوتی.لیکن نہر ایک پروگرام اور قانون کے ماتحت ہوتی ہے.جس فصل کی ضرورت زیادہ ہوتی ہے وہ اسے زیادہ پانی دیتی ہے اور جس زمین میں فصل زیادہ ہوتی ہے نہر وہاں زیادہ پانی دیتی ہے.پس ہمیں محض ترقی سے خوش نہیں ہونا چاہیے.ترقی سیلابوں اور طوفانوں سے بھی ہوتی.
1952 30 خطبات محمود لیکن سیلاب یا طوفان جب آتا ہے تو وہ اپنے گھر اور دشمن کے گھر دونوں کو اڑا دیتا ہے.پس جو کی کام بے اصولے اور بے ارادے کے ہوتے ہیں اُن کے نتیجہ میں خواہ ترقی بھی ہو وہ مفید نہیں ہو سکتی.مثلاً ہمارا ملک آب آزاد ہے اور اپنی آزادی کی وجہ سے دیگر مسلم ممالک سے گٹھ جوڑ اور کی اتحاد پیدا کرنے کی کوشش کر رہا ہے.اس سے بڑے بڑے فائدے اٹھائے جا سکتے ہیں.ہمارا کی آدمی اگر انڈونیشیا جائے ، شام جائے ، یا ایران، لبنان ، عراق ، سعودی عرب ، مصر، مرا کو یا تیونس جائے تو اُس پر کتنا وقت خرچ آتا ہے اور اُس پر کتنی رقم خرچ آتی ہے لیکن اب اگر ایک مؤتمر ہوتا ہے تو وہاں 25 ممالک کے نمائندے آ جاتے ہیں اور ہمارا آدمی اس سے فائدہ اٹھا سکتا ہے.لیکن چونکہ پروگرام بنایا نہیں جاتا اس لئے تین مؤتمر 2 ہوئیں لیکن ہمارے محکموں کو اُن کے ساتھ تعلق پیدا کرنے کا قطعی احساس نہیں ہوا.پچھلے سال میں نے حکم دیا.بسا اوقات مصلحنا میں چپ رہتا ہوں.میں چاہتا ہوں کہ وہ کام ہو جائے لیکن میں اس میں دخل نہیں دیتا کیونکہ دخل دینے سے اُتنا فائدہ نہیں ہوتا جتنا ذہنیت کے بدلنے سے ہوتا ہے.اور اگر میں ہر جگہ بولوں تو ذہنیت پست ہو جائے گی.اگر تم الارم سے جاگنے کے عادی ہو گے تو بغیر الارم کے تمہاری آنکھیں نہیں کھلیں گی.اس لئے میں چُپ رہتا ہوں اور جب وقت گزر جاتا ہے تو پوچھتا ہوں.گزشتہ مؤتمر کے موقع پر میں نے وہاں جانے کا حکم دیا.چنانچہ دو افسر سید ولی اللہ شاہ صاحب اور چودھری مشتاق احمد صاحب باجوہ وہاں گئے.ان کو واپس آئے ہوئے 9 ماہ ہو چکے ہیں لیکن انہوں نے ابھی تک کوئی رپورٹ نہیں کی جو اُن کے فرض کے مطابق ہوتی.جماعت کا ایک ہزار کی روپیہ خرچ ہو گیا لیکن انہوں نے نہ کوئی کام کی رپورٹ دی نہ کوئی پروگرام بنا اور نہ اس سے فائدہ اٹھایا گیا.اب مذہبی علماء کی کانفرس کراچی میں منعقد ہو رہی ہے.اس میں شبہ نہیں کہ علماء ہمارے مخالف ہیں لیکن ان میں سے بھی ایک طبقہ شریف ہوتا ہے، ان میں سے بھی بعض دیانتدار ور عقلمند ہوتے ہیں ، ان میں سے بھی بعض خدا تعالیٰ کا خوف رکھنے والے ہوتے ہیں.اس وقت 25 ممالک یا جماعتوں سے علماء آئے ہوئے ہیں.اگر ہمارا وفد وہاں گیا ہوتا اُنہیں ملتا اور تبلیغ کرتا تو اس موقع سے فائدہ اٹھایا جا سکتا تھا.انہوں نے تبلیغ کا بھی پروگرام بنایا ہوا ہے اور احمدیوں کے سوا کون ہے جو اُنہیں اس بارہ میں ہدایت دے سکتا ہے.کتنا اچھا موقع تھا کہ اُن پر جتا دیا جاتا کہ تمہارا اصل کام ہماری مدد کے سوا نہیں ہو سکتا.لیکن ہمارے کارکنوں کے کانوں پر اور
1952 31 خطبات محمود جوں بھی نہیں رینگی.نہ اس موقع پر صدر انجمن احمدیہ نے کوئی پروگرام بنایا ہے اور نہ تحریک جدید نے کوئی پروگرام بنایا ہے اور نہ ان دونوں نے وہاں اپنا نمائندہ بھیجا ہے.ایک ماہ سے میں اخبارات میں پڑھ رہا ہوں کہ فلاں فلاں تاریخوں میں علماء کی میٹنگ ہو رہی ہے اور میرے دل میں گد گدیاں اٹھ رہی تھیں کہ اس موقع سے فائدہ اٹھایا جائے لیکن میں چُپ تھا اور دیکھ رہا تھا تی کہ اتنا شاندار موقع ہے ہمارے کارکن اس سے کیا فائدہ اٹھاتے ہیں.آج اس کا نفرس کا حج افتتاح ہو رہا ہے اور وکالت تبشیر یا نظارت دعوۃ و تبلیغ نے اس عظیم الشان موقع کو ضائع کر دیا ہے.اب اگلے سال میٹنگ ہو تو ہوا اور مؤتمر کا تجربہ تو یہ بتا تا ہے کہ ایک ہزار روپیہ خرچ کر کے ہمارے دو نمائندے وہاں گئے لیکن پھر بھی وہ کوئی پروگرام نہ بنا سکے اور اس موقع کو ضائع کر دیا.میں تفصیل نہیں بتاتا.بعض دفتری باتیں ہوتی ہیں جنہیں میں ظاہر نہیں کر سکتا.اب میں اس سوچ کی میں ہوں کہ اس سستی کو کس طرح دور کروں.اور خطبہ جمعہ میں یہ بات اس لئے بیان کر رہا ت ہوں کہ شوری کے موقع پر میں یہ بات جماعت کے نمائندوں کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں.اُس موقع پر ربوہ کے نمائندے بھی ہوں گے.اسی طرح کراچی، لاہور، راولپنڈی، پشاور اور دوسری جگہوں کے نمائندے بھی ہوں گے اُن کے سامنے یہ سوال رکھا جائے گا.دنیا میں بیداری پیدا کرنے کے کئی ذرائع میں سے ایک ذریعہ یہ بھی ہوتا ہے کہ اخبارات کی میں کارکنوں پر لے دے کی جاتی ہے اور جماعت میں انہیں ذلیل کر کے رکھ دیا جاتا ہے.لیکن ہم نے ایسا کرنے سے روکا ہوا ہے اور ہدایت کی ہوئی ہے کہ جماعتوں کو چاہیے کہ وہ مرکزی کارکنوں کی مدد کریں.اور مدد کرنے کا جو نتیجہ نکلا ہے اُسے دیکھ کر یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ یہ نتیجہ اس بات سے زیادہ خطر ناک تو نہیں کہ کارکنوں پر لے دے کی جاتی اور وہ ہوشیار ہو جاتے.پھر بیداری پیدا کرنے کی ایک صورت یہ ہوتی ہے کہ کارکنوں پر کمیشن بٹھائے جاتے ہیں ، اُن پر جرح کی جاتی ہے اور اگر اُن کا جرم ثابت ہو جاتا ہے تو انہیں نکال دیا جاتا ہے.اِس طریق پر بھی ہمیں غور کرنا چاہیے.اسی طرح اور بھی کئی طریق ہیں جو دنیا میں رائج ہیں.ہمیں دیکھنا یہ ہے کہ ان طریقوں میں سے کون سا طریق ہے کہ اگر اسے اختیار کیا جائے تو کارکنوں میں بیداری پیدا ہو جائے اور وہ اپنی ذمہ داری سمجھیں.اس وقت تو وہ پوسٹ ماسٹر بنے ہوئے ہیں.مثلاً ناظر دعوت وتبلیغ کے یہ معنی ہیں کہ دنیا کی
1952 32 خطبات محمود تبلیغ اس کی حرکت سے ہے لیکن ہوتا یہ ہے کہ جماعتوں کی حرکت سے وہ حرکت کرتا ہے.وکیل التبشیر کے یہ معنی تھے کہ اس نے دنیا کی تبلیغ پر اس طرح قبضہ کر لیا ہو تا کہ غیر احمدی مسلمان تو ایک طرف رہے ہندوؤں اور عیسائیوں کی تبلیغ بھی اس کے ماتحت ہو جاتی.ایک جرنیل جب لڑائی کے لئے جاتا ہے تو اگر وہ ہوشیار جرنیل ہوتا ہے تو وہ اس طرح حرکت کرتا ہے کہ دشمن کی فوج اُس کے بیچھے پیچھے چلتی ہے.اور اچھے جرنیل کی علامت یہ ہوتی ہے کہ دشمن کی فوج اُس کے پیچھے پیچھے چلے.تبلیغ کا بھی یہی اصول ہے کہ جہاں ہم تبلیغ کریں دشمن وہاں جائے.یہ نہیں کہ جہاں دشمن کی گند پھیلائے وہاں ہم جائیں." جب ہم نے ملکانہ میں تبلیغ شروع کی میں نے صوفی عبد القدیر صاحب نیاز اور چودھری فتح محمد صاحب سیال کو ایک وقت میں یا مختلف اوقات میں وہاں بھیجا کہ وہ انداہ لگا کر بتائیں کہ آخر اتنا شور کیوں ہے.مسلمان کہلا کر انہیں اسلام کا لحاظ تو ہونا چاہیے تھا پھر یکدم کیوں ایسا ہوا کہ وہ مرتد ہونے لگ گئے ہیں.ان لوگوں نے وہاں جا کر حالات کا جائزہ لیا اور رپورٹ پیش کی.ہم نے اس سے پہلے وہاں مبلغ نہیں بھیجے تھے.انہوں نے وہاں جا کر جائیزہ لیا اور جور پورٹ پیش کی وہ تج نہایت اعلیٰ درجہ کی تھی اور ہماری بعد کی ساری کامیابی اس کا نتیجہ تھی.70 یا 100 مبلغ ہم نے بھیجا تھا.اگر اُن کی جگہ ہم 700 مبلغ بھی بھیج دیتے تو وہ نتائج پیدا نہ ہوتے جو پیدا ہوئے.ہماری تبلیغ کے نتیجہ میں آریوں کو لوہے کے چنے چبانے پڑے اور گاندھی جی کو مرن برت 3 رکھنا پڑا.اور یہ محض اُس سکیم کا نتیجہ تھا جو ان دونوں افسروں نے پیش کی.یہ لوگ وہاں گئے اور کی حالات کا جائزہ لے کر انہوں نے یہ رپورٹ پیش کی کہ در اصل بات یہ ہے کہ یہاں جو بڑا گاؤں ہوتا ہے وہ حاکم ہوتا ہے ارد گرد کے چھوٹے دیہات پر.جدھر بڑے گاؤں والے چل پڑتے ہیں اُدھر ہی دوسرے دیہات والے چلتے ہیں.چنانچہ ہندوؤں نے پانچ سات گاؤں تجویز کر کے وہاں آدمی بیٹھا دیئے ہیں.ان کا نام انہوں نے مبلغ نہیں رکھا.تاجر کے طور پر وہ وہاں گئے اور وہاں جا کر جو غریب لوگ تھے اُنہیں روپیہ قرض دینا شروع کیا.اور جو بہت زیادہ محتاج دیکھے اُنہیں یہ تحریک کر دی کہ تمہیں مسلمانوں نے کیا فائدہ پہنچایا ہے اگر تم ہندو ہوتے تو ہم کی تمہاری مالی مدد کرتے.اس طرح جو لوگ اُن کے مطلب کے نکل آئے اُنہیں ہند و ظاہر نہ ہونے دیا بلکہ انہیں ہدایت دی کہ وہ مسلمان رہ کر اندر ہی اندر تحریک کریں.اس طرح انہوں نے پانچ سات جگہوں پر کارروائی شروع کی.جہاں وہ دس بارہ آدمی قابو میں لے آتے وہاں بڑے بڑے
1952 33 خطبات محمود ہندو لیڈر جاتے ، جلسے کرتے ، دعوتیں کرتے ، اور اُن میں اعلان کرتے کہ یہ لوگ مشد ھ ہو رہے ہیں.ان لوگوں نے بڑے بڑے لیڈر دیکھے نہیں ہوتے تھے.جب وہ وہاں آتے انہیں گلے لگاتے اور ہار پہناتے.تو ایک روسی چل جاتی اور اس طرح پچاس یا ساٹھ آدمی اور آ جاتے.پھر یہ پروپیگنڈا کیا جاتا کہ اب تم رشتہ داریاں کہاں کرو گے؟ یہ تو آریہ برادری تم کو رشتے نہیں دے گی تو کچھ لوگ اور آ جاتے.اس طرح آریوں کو کامیابی ہو رہی تھی اور مسلمانوں کی ناکامی کی کی یہ وجہ بتائی کہ جہاں شور پڑ جاتا ہے وہاں علماء پہنچ کر مسئلے بیان کرنا شروع کر دیتے ہیں کی حالانکہ مسئلے اُن پر کیا اثر کر سکتے ہیں جب کہ روپیہ اُن کی جیب میں پڑا ہو.60 ، 70 لیڈ روہاں کی گئے ہوتے ہیں.پھر ضلع کے وکیل وہاں آ جاتے ہیں اور انہیں کہتے ہیں کہ ہم تمہارے مقدمات کی کی مفت پیروی کریں گے.اس وجہ سے وہ مسلمانوں کی طرف توجہ نہیں کرتے.پھر انہوں نے کی بتایا کہ یہ مولوی جب وہاں پہنچ جاتے ہیں تو بجائے اس کے کہ ملکانوں کو کوئی آرام ملے انہیں پیغام ملتا ہے کہ فلاں چیز پکاؤ ، فلاں چیز لاؤ، گویا اُن کی روٹی کی چھٹی بھی انہیں پڑ جاتی ہے اور ادھر آریوں کے ذریعہ ان کی جیبیں بھرتی ہیں.پس ان دونوں افسروں نے رپورٹ یہ کی کہ جو لوگ وہاں تبلیغ کرنے جائیں ملکانوں میں سے اگر کوئی ان کی منت بھی کرے کہ میرے ہاں روٹی کھاؤ تو وہ روٹی نہ کھائیں.اور دوسرے جن جگہوں پر شدھی ہو رہی ہے اُنہیں چھوڑ دیا جائے اور اُن کے گرد چند میلوں کے فاصلے پر نئے مراکز بنا کر تبلیغ کی جائے.اس طرح اب تو مسلمان آریوں کے پیچھے پیچھے بھاگ رہے ہیں پھر آر یہ ہمارے پیچھے پیچھے بھاگتے آئیں گے اور ہم جیت جائیں گے کیونکہ ہمارا ثر پہلے سے شروع ہوگا.چنانچہ اس تجویز کے مطابق عمل کیا گیا اور وہ لوگ جو اس علاقہ میں تبلیغ کے لئے جاتے اُن کی سے یہ معاہدہ لیا جاتا کہ تمہاری خواہ کوئی منتیں کرے تم نے کسی کے گھر سے روٹی نہیں کھانی.کی مسلمان چونکہ بالعموم مہمان نواز ہوتے ہیں اس لئے ملکانے کہتے بھی کہ مولوی صاحب چلو جی ہمارے ہاں کھانا کھاؤ تو وہ کہتے نہیں نہیں ہم تو خدمت کرنے آئے ہیں، خدمت کرانے نہیں کی آئے.اور اگر کھانے کا وقت ہوتا تو وہ ملکانوں سے کہتے تم یہاں بیٹھ جاؤ اور ہمارے ساتھ کھانا کی کھاؤ.جو مبلغ آسودہ حال ہوتے وہ روزانہ تین تین چار چار آدمیوں کو ساتھ بٹھا کر کھانا تی کھلاتے.اس طرح تمام علاقہ میں یہ مشہور ہو گیا کہ قادیانی مبلغ عجیب ہیں ہم پر بوجھ بنے کی کی بجائے ہمیں خود کھانا کھلاتے ہیں.پھر مولوی لوگ آریوں کے پیچھے پیچھے بھاگتے تھے لیکن : جو
1952 34 خطبات محمود آریہ ہو گیا وہ بآسانی واپس کیسے آسکتا ہے.لیکن ہمارے آدمی نئی جگہوں پر جاتے تھے نتیجہ ہوا کہ آریہ لوگ ہمارے پیچھے پیچھے بھاگنے شروع ہوئے.پہلے جہاں آریہ جاتے تھے مولوی وہاں جاتے تھے لیکن چونکہ آریہ پہلے جاتے تھے اس لئے وہ گاؤں پر قبضہ کر لیتے تھے.لیکن جب اس سکیم پر عمل کیا گیا تو یہ ہوا کہ جب ہم ایک گاؤں پر قبضہ جما لیتے اور اُس کے رہنے والوں کو اسلام پر پختہ کر لیتے تو پھر آریہ جاتے اور اس طرح وہ اپنی کوششوں میں ناکام رہتے.غرض اُس کی وقت ان دونوں افسروں نے جو سکیم بتائی.اُس پر عمل کرنے کا یہ نتیجہ ہوا کہ سارے ہندوستان نے یہ تسلیم کر لیا کہ احمدیت کا کوئی مقابلہ نہیں کرسکتا.اس وقت بھی ہماری نظارت نے یہ اصول بنایا ہوا ہے کہ جہاں مخالف مولوی جاتے ہیں وہاں ہم جاتے ہیں حالانکہ ہونا یہ چاہیے کہ بجائے اس کے کہ مولوی گند پھیلا جائیں تو ہم جائیں ہم پہلے جا کر وعظ کریں اور پھر مخالف مولوی وہاں جائیں.اس طرح ہم جیتیں گے اور وہ ہاریں کی گے محض پوسٹ آفس بننے سے کام نہیں چل سکتا.ہمارے سامنے کوئی پلان ہونی چاہیے، کوئی پروگرام ہونا چاہیے پھر اس کے مطابق عمل ہونا چاہیے.پس میں جماعت کو توجہ دلاتا ہوں کہ آئندہ شوریٰ میں یہ سوال رکھا جائے گا وہ اِس پر غور کر کے آئیں.اس سستی کو زیادہ دیر تک برداشت نہیں کیا جا سکتا.یا تو کارکنوں پر اخبارات کی میں کھلے طور پر تنقید کی جائے اور یا پھر کمیشن بٹھا کر انہیں سزائیں دی جائیں اور یہ دیکھا جائے کہ کیا تمام ممکن ذرائع انہوں نے استعمال کر لئے ہیں ؟ نہیں تو ان کی موجودہ سستی جماعت سے غداری ہے.میں ربوہ والوں کو بھی بتا دیتا ہوں کہ ان کے نمائندے بھی اس بات پر غور کر لیں.اسی طرح دوسری جماعتوں کو بھی یہ ہدایت دیتا ہوں کہ وہ شوریٰ پر جو نما ئندے بھیجیں وہ اس بات کی پر غور کر کے آئیں.کیونکہ وقت قیمتی ہوتا ہے.جس نے وقت کو استعمال کیا وہ جیتا اور جس نے وقت ضائع کیا وہ ہارا.“ الفضل 23 فروری 1952ء).1: بیریں: بیری کا درخت ( فیروز اللغات اردو جامع مطبوعہ فیروز سنز لاہور ) :2 مؤتمر : مجلس ، مشورہ ، کانفرنس (فیروز اللغات اردو جامع مطبوعہ فیروز سنز لاہور ) 3 مرن برت :.وہ فاقہ جسے کرتے کرتے انسان مر جائے.( فیروز اللغات اردو جامع مطبوعہ فیروز سنز لا ہور )
1952 35 6 خطبات محمود تمہارا فرض ہے کہ اپنے اندر بیداری پیدا کرو، تبلیغ کرو اور پیدا جماعت کو وسیع کرتے چلے جاؤ جو شخص خدا تعالیٰ کے گمراہ بندے کو بچائے گا اُس پر وہ اس قدر انعام نازل فرمائے گا کہ انسانی عقل اس کا اندازہ نہیں لگا سکتی ( فرموده 29 فروری 1952ء بمقام بشیر آباد اسٹیٹ سندھ ) تشهد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: ان علاقوں میں قریباً قریباً زمیندار طبقہ ہی آکر بسا ہے.باقی ملکوں کی آبادی اور اصول پر ہوتی ہے.یہاں کی آبادی اور اُصول پر ہے.مثلاً پہلے جب کسی ملک کے لشکر باہر جاتے تھے تو اُن کے ساتھ علاقہ کے بعض دھوبی ، ترکھان ، لوہار اور دوسرے پیشہ ور بھی چل پڑتے تھے تا کہ فوج کی ضرورتوں کو پورا کرتے جائیں.پھر بعض علاقے زرعی ضرورتوں کے لحاظ سے بھی بڑھتے ہیں.سارا زور زمینداروں پر پڑ جاتا ہے اور باقی شاخیں نظر انداز ہو جاتی ہیں.یہ علاقہ بھی زمیندارہ لحاظ سے آباد ہوا ہے.یہاں اکثر زمیندار آکر آباد ہوئے ہیں.باقی پیشوں کے لوگ بہت کم آئے ہیں.ان زمینداروں کی ضرورتوں کو وہ تھوڑے سے لوگ جو ان کے ساتھ آگئے ہیں یا یہاں کے مقامی لوگ پورا کرتے ہیں.ہر پیشہ ور اپنی ضرورتوں کو سمجھنے کے قابل ہوتا ہے.اس کے معنی یہ ہیں کہ اگر کوئی معاملہ ڈاکٹری کے ساتھ تعلق رکھتا ہے تو ڈاکٹر ہی اسے زیادہ اچھی کچ
1952 36 خطبات محمود طرح سمجھتا ہے.اگر کوئی معاملہ وکالت کے ساتھ تعلق رکھتا ہے تو وکیل ہی اسے زیادہ اچھی طرح کی سمجھتا ہے اور اگر کوئی معاملہ زراعت کے ساتھ تعلق رکھتا ہے تو اسے زمیندار ہی زیادہ اچھی طرح سمجھتا ہے.ہر زمیندار جانتا ہے کہ جہاں کہیں کوئی بیج پڑتا ہے وہ اپنے آپ کو بڑھانے کی کوشش کرتا ہے.اگر کوئی غیر جنس کا یا ناقص قسم کا پودا کھیت میں نکل آتا ہے تو پھر سالہا سال تک اس کی مصیبت زمیندار کے گلے پڑی رہتی ہے.اُسے بار بار ہل چلانے پڑتے ہیں.وہ کوشش کرتا ہے کہ کسی طرح اس غیر جنس کو ضائع کر دے.مثلاً دَب اُگ آتی ہے تو پھر زمیندار سالہا سال کی لکی محنت کے بعد اسے صاف کرنے میں کامیاب ہوتا ہے.اور اگر کامیاب نہیں ہوتا تو بسا اوقات اسے وہ زمین چھوڑنی پڑتی ہے.اور وہ زمین کسی کام کی نہیں رہتی.اسی طرح بعض دفعہ ایسے دانے جو خوراک کے کام نہیں آتے کھیت میں اُگنے لگ جاتے ہیں اور پھر ترقی کرتے کرتے فصل کو تباہ کر دیتے ہیں.کوئی زمین افتادہ پڑی رہتی ہے تو اُس میں جھاڑیاں، بیریاں ، پھلا ہیاں اور ڈیلوں کے درخت اُگنے شروع ہو جاتے ہیں.اور سو دو سو سال کے بعد اگر کوئی نسل اسے آبادی کرتی ہے تو اُسے وہ زمین اس طرح آباد کرنی پڑتی ہے جس طرح ہزاروں سال قبل ہمارے آباء واجداد کو آباد کرنی پڑی تھی.اس سے ہر زمیندار سمجھ سکتا ہے کہ کسی چیز کی طاقت اور زندگی کی علامت یہ ہے کہ وہ آپ ہی آپ بڑھتی چلی جائے.دوسرے پیشہ والوں کے سامنے یہ نظارہ بہت کم آتا ہے.ایک تاجر جتنا آٹا خرید کر لاتا ہے وہ اُتنا ہی رہتا ہے جتنا وہ خرید کر لاتا ہے بڑھتا نہیں.وہ جتنا کپڑا خرید کر لاتا ہے وہ اتناہی رہتا ہے جتنا وہ خرید کر لاتا ہے وہ بڑھتا نہیں.لیکن زمیندار کی ہر چیز بڑھتی ہے.وہ کپاس کے بنولے خرید کر لاتا ہے تو وہ بھی بڑھتے ہیں، وہ دانے خرید کر لاتا ہے تو وہ بھی بڑھتے ہیں اور جہاں اُس کا دخل نہیں ہوتا وہاں بعض ایسی چیزیں مجھ اُگ آتی ہیں جو قدرتی طور پر بڑھتی چلی جاتی ہیں.پس یہ زندگی کی علامت جتنی زمیندار کے سامنے آتی ہے اتنی اور کسی پیشہ ور کے سامنے نہیں آتی.وہ دیکھتا ہے کہ کس طرح قانونِ قدرت کے ماتحت ایک طاقت رکھنے والی چیز اپنے آپ کو بڑھانے پر مجبور ہے.اس کو دیکھتے ہوئے بھی اگر ایک زمیندار اپنے فرائض کے اہم حصہ یعنی تبلیغ میں سستی اور غفلت کرتا ہے تو وہ خدا تعالیٰ کے نزدیک دوسرے پیشہ وروں سے زیادہ مجرم -
1952 37 خطبات محمود شاید ایک تاجر جب خدا تعالیٰ کے سامنے پیش ہو کر کہہ دے کہ مجھے تو یہ خیال ہی نہیں آیا کہ تبلیغ کی جائے اور جماعت کو بڑھایا جائے.ممکن ہے کہ اگر خدا تعالیٰ ایک بڑھئی، لوہار، یا کمہار کو پکڑے تو وہ کہے.اے خدا! میرے تو ذہن میں بھی یہ بات نہیں آئی کہ تبلیغ ضروری چیز ہے.لیکن جب ایک زمیندار کو پکڑا جائے گا تو وہ خدا تعالیٰ کو کیا جواب دے گا.اس کے تو دائیں اور بائیں، آگے اور پیچھے ، نیچے اور اوپر خدا تعالیٰ کا یہ قانون جاری تھا کہ ہر طاقت والی چیز بڑھتی ہے.اگر کی خدا تعالیٰ کا یہ قانون جاری نہ ہوتا تو وہ کمائی کیسے کر سکتا.اگر ہر چیز آپ ہی آپ نہ بڑھتی چلی جاتی تو وہ روٹی کہاں سے کھاتا.اگر خدا تعالیٰ کا یہ قانون جاری نہ ہوتا کہ ایک بنولہ سے سو بنولہ ہو جاتا ہے اور روئی مفت کی آجاتی ہے تو وہ اپنا خرچ کہاں سے چلاتا.خدا تعالیٰ نے یہ قانون بنادیا ہے کہ کچی زندگی کی علامت یہ ہے کہ وہ بڑھے.ایک زمیندار دیکھتا ہے کہ ہر چیز جو وہ لیتا ہے بڑھتی ہے.اس نے بکریاں رکھی ہوئی ہیں وہ بھی بڑھتی ہیں.اس نے بھینسیں رکھی ہوئی ہیں جی وہ بھی بڑھتی ہیں.اس نے مرغیاں پالی ہوتی ہیں وہ بھی بڑھتی ہیں.باقی لوگوں کے سامنے تو کی اپنے اور بیوی بچوں کے بڑھنے کا نظارہ ہوتا ہے.لیکن زمیندار کی ہر چیز بڑھ رہی ہوتی ہے.اُس کا ماش کا دانہ بھی بڑھ رہا ہوتا ہے.اس کا چنے کا دانہ بھی بڑھ رہا ہوتا ہے.اس کا بنولہ بھی بڑھ رہا ہوتا ہے.اس کی بھینسیں بھی بڑھ رہی ہوتی ہیں.اس کی گائے اور بکریاں بھی بڑھ رہی ہوتی ہیں.گو یا خدا تعالیٰ کا قانون کہ بڑھو بڑھو جتنا ایک زمیندار کے سامنے آتا ہے اور کسی پیشہ ور کے سامنے نہیں آتا.ایک لوہار کے سامنے اکثر یہ قانونِ قدرت نہیں آتا.ایک ترکھان کے سامنے اکثر یہ قانون قدرت نہیں آتا.ایک تاجر کے سامنے اکثر یہ قانونِ قدرت نہیں آتا.لیکن یہاں کی چاروں طرف یہ قانون جاری ہے کہ ہر چیز بڑھ رہی ہوتی ہے.اس قانون کو دیکھ کر ہر زمیندار کا فرض ہے کہ جہاں وہ جسمانی طور پر بڑھے وہاں وہ روحانی طور پر بھی بڑھے.جو شخص احمدیت میں داخل ہوتا ہے وہ اقرار کرتا ہے کہ میں دین کو دنیا پر مقدم رکھوں گا.اس کے یہی معنی ہیں کہ اگر میں دنیا میں بڑھوں گا تو دین میں بھی بڑھوں گا.اگر میری گندم بڑھے گی ، اگر میری سرسوں بڑھے گی یا چنے بڑھیں گے تو میرے روحانی بھائی بھی بڑھیں گے.لیکن میں دیکھتا ہوں کہ اس چیز کا احساس بہت کم ہے.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ یورپین ممالک کی نسبت تھی
1952 38 خطبات محمود ہمارا ملک بہت غریب ہے اس لئے ہمارے زمیندار بھی غریب ہیں.مگر آپ جانتے ہیں کہ کی پنجاب میں جو آپ کی حالت تھی آپ کی موجودہ حالت اُس کی نسبت بہت اچھی ہے.وہاں اگر آپ کو خوراک اور لباس مہیا کرنے میں دقت تھی تو آب آسانی پیدا ہوگئی ہے.پس اگر خدا تعالیٰ نے آپ کے رزق کو بڑھوتی عطا فرمائی ہے تو آپ پر بھی یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ آپ تبلیغ کریں اور سچائی کو دوسروں تک پہنچائیں تا جیسے آپ کا بنولہ بڑھتا ہے، جیسے آپ کی گندم اور دوسری کی اشیاء بڑھتی ہیں آپ کی روحانی برادری بھی بڑھے.اگر آپ کا مال بڑھا ہے تو خدا تعالیٰ کا مال کی بھی بڑھے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے جو شخص دنیا میں خدا تعالیٰ کا گھر بناتا ہے خدا تعالیٰ جنت میں اُس کا گھر بنائے گا.1 جولوگ روحانیت کو قبول کرتے ہیں وہ خدا تعالیٰ کی کی روحانی نسل ہوتے ہیں.انسان جہاں دنیا میں اپنی اولا د کو بڑھانے کی کوشش کرے وہاں اسے چاہیے کہ وہ خدا تعالیٰ کی نسل کو بھی بڑھائے.اس پر خدا تعالیٰ کی رحمتیں اور برکتیں تبھی نازل ہوں گی کہ وہ خدا تعالیٰ کا بھی خیال رکھے.لیکن یہ بات مجھے بہت کم نظر آتی ہے.میں جب پوچھتا ہوں کہ تم لوگ تبلیغ کیوں نہیں کرتے ؟ تو کہا جاتا ہے یہ لوگ ہماری بولی نہیں سمجھتے.اور یہ بات نہایت خطر ناک ہے کہ تم اس بات کی امید رکھو کہ سندھی لوگ تمہاری بولی سمجھیں.ایسا کرنا ظلم ہے.اگر تمہارا خیال یہی ہے کہ سندھی لوگ تمہاری زبان سیکھیں تو اگر وہ تمہارے اس خیال کی تج وجہ سے تم سے دشمنی بھی کریں تو ان کا ایسا کرنا جائز ہے.ہم مسافر ہیں اور سندھی اہلِ وطن ہیں.وطن کا یہ کام نہیں کہ وہ ہماری بولی سیکھے.بلکہ ہم لوگ جو باہر سے آنے والے ہیں ہمارا فرض ہے کہ اس ملک کی زبان سیکھیں.اگر ایک سندھی پنجاب میں جائے اور کہے کہ یہ لوگ میری زبان نہیں سمجھتے تو ہر شخص یہی کہے گا کہ یہ بیوقوف ہے.اسی طرح ہمارا یہاں آ کر کہنا کہ یہ لوگ پنجابی بولیں تو ہم تبلیغ کریں گے عقل کے خلاف ہے.اگر ہم انگلینڈ جا کر یہ کہیں کہ انگریز پنجابی یا اردو می بولیں گے تو ہم تبلیغ کریں گے تو یہ معقول بات نہیں ہوگی.ہمارا فرض ہے کہ ہم انگریزی سیکھیں.چین میں اگر ہمارے دس مبلغ جائیں اور چند سالوں کے بعد ہم پوچھیں کہ آپ نے کیا تبلیغ کی ہے؟ اور وہ کہہ دیں کہ چینی ہماری زبان نہیں سمجھتے اس لئے ہم تبلیغ نہیں کرتے تو تم انہیں پاگل کہو گے.تم کہو گے کہ یہ تمہارا کام تھا کہ تم چینی زبان سیکھتے.نہ یہ کہ چینی اردو یا پنجابی سیکھیں.چینی ہندوستان.
1952 39 خطبات محمود آئیں گے تو اردو سیکھیں گے.وہاں جا کر آپ کو اُن کی زبان سیکھنی ہوگی.میں جب احمدیوں سے پوچھتا ہوں کہ تم تبلیغ کیوں نہیں کرتے ؟ تو وہ کہتے ہیں سندھی ہماری زبان نہیں جانتے.حالانکہ یہ سندھیوں کا کام نہیں کہ وہ پنجابی یا اردو سیکھیں.تم باہر سے آ کر یہاں آباد ہوئے ہو.تمہارا پہلا کام یہ تھا کہ تم سندھی زبان سیکھتے.اور اگر تم سندھی زبان سیکھتے اور پھر سندھیوں میں تبلیغ کرتے تو اب تک ہزاروں مبلغ پیدا ہو جاتے اور تمہیں بھی سندھی زبان سیکھنے کی ضرورت باقی نہ رہتی.صداقت ایسی چیز نہیں کہ اسے سندھی قبول نہیں کر سکتا.جس طرح قرآن کریم ہم پر حجت ہے اسی طرح قرآن کریم ایک سندھی مسلمان پر بھی حجت ہے.جس طرح حدیث ہم پر حجت ہے وہ ایک سندھی مسلمان پر بھی حجت ہے.سندھیوں میں ہم سے زیادہ مذہبی روح پائی جاتی ہے.ایک سندھی مذہب کی خاطر اپنی جان پر کھیل جاتا ہے.اس کا طریق غلط ہو تو یہ اور چیز ہے لیکن اس کی نیت نیک ہوتی ہے.وہ چاہتا ہے کہ کسی طرح اپنے خدا کو خوش کرے اور اس کے لئے و اپنی کھیتی باڑی چھوڑ دیتا ہے اور اپناد نیوی کا روبار چھوڑ کر صرف اس بات میں لگ جاتا ہے کہ کسی طرح اس کا خدا خوش ہو جائے.یہ تین چار ہزار خر جو ہیں یہ واقف زندگی ہی ہیں.چاہے ان کا وقف ایک لغوا اور غلط چیز کے لئے ہی ہے لیکن ان کی نیت نیک ہے.ان کی نیت یہی ہوتی ہے کہ کسی طرح خدا تعالیٰ کو خوش کر یں.اس کے لئے وہ دنیا کو جس کے پیچھے تم پڑے ہوئے ہو ترک کر دیتے ہیں.یہ ان کی بدقسمتی ہے کہ انہیں غلط رستہ ملا ہے.لیکن اس کے پیچھے جو روح کام کر رہی ہے وہ قابل قدر ہے.پھر کیا وجہ ہے کہ سندھی احمدیت کا اہل نہیں.کیا وجہ ہے کہ جب اس میں تمہاری نسبت قربانی کا جذبہ زیادہ ہے وہ احمدیت کو قبول نہیں کرتا.یہاں اسلام پہلے آیا اور مسلمان یہاں ایک بڑی تعداد میں آباد ہیں.پاکستان کے دوسرے صوبوں کی نسبت آبادی کے لحاظ سے سندھ میں مسلمان زیادہ ہیں او ر جوں جوں ہم پنجاب کی طرف چلے جاتے ہیں، مسلمانوں کی آبادی کم ہوتی چلی جاتی ہے.سوائے مشرقی بنگال کے کہ وہاں مسلمان زیادہ تعداد میں آباد ہیں.شاید اس لئے کہ وہ مسلمانوں کی سرحدی چھاؤنی تھی ، جہاں سے وہ برما اور چین وغیرہ ممالک پر حملہ کرنا چاہتے تھے.درمیان میں کہیں آٹھ فیصدی مسلمان آباد ہیں، کہیں دس فیصدی ہیں
1952 40 خطبات محمود اور کہیں بارہ فیصدی ہیں.سندھ میں 80 فیصدی کے قریب مسلمان آباد تھے اور پنجاب میں 52 فیصدی کی مسلمان تھے.اگر انہوں نے اتنی زیادہ تعداد میں اسلام قبول کر لیا تھا تو اس کے معنی ہیں کہ ان میں دینی رغبت پائی جاتی ہے.اگر انہوں نے اب تک احمدیت قبول نہیں کی تو یہ ہماری نیستی ہے.ہمارے لوگ یہاں آئے ، خدا تعالیٰ نے انہیں کھانے پینے اور پہنے میں سہولت دے دی لیکن جوں جوں خدا تعالیٰ انہیں خوراک اور لباس میں سہولت دیتا چلا گیا وہ خدا تعالیٰ کو بھولتے چلے گئے.حالانکہ چاہیے یہ تھا کہ خدا تعالیٰ نے ان پر جتنا زیادہ احسان کیا تھا اتنا زیادہ وہ اُسے یاد کرتے.احسان کے نتیجہ میں خدا تعالیٰ کی یادزیادہ ہونی چاہیے.مثنوی رومی میں ایک واقعہ لکھا ہے کہ محمود غزنوی نے ایک غلام لڑکا خریدا جس کا نام ایاز تھا یا محمود نے اس کا نام ایا ز رکھ دیا.بچہ ذہین تھا.جب وہ جوان ہوا تو محمود نے اُس کی ذہانت کی وجہ سے اسے فوج میں ایک عہدہ دے دیا اور آہستہ آہستہ اسے ترقی دیتا گیا اور ایک وقت ایسا آیا کہ محمود نے اسے خزانہ کا افسر مقرر کر دیا.درباریوں نے شکایت کی کہ بادشاہ سلامت ! ہم کئی پشتوں سے آپ کے خاندان کے نمک خوار چلے آتے ہیں لیکن آپ ہمارے مقابلہ میں اس غلام کی قدر زیادہ کرتے ہیں.بھلا ہمارا اور اس کا مقابلہ ہو سکتا ہے؟ ہم اپنی وفاداری میں دیانتدار ہیں لیکن یہ غلام غیر ملکی ہے آپ نے اسے خزانہ کا افسر مقرر کر دیا ہے.ایسا نہ ہو کہ کسی دن ملک سے غداری کر کے کوئی فتنہ کھڑا کر دے.یہ روزانہ رات کو خزانہ میں جاتا ہے.اگر اس کی نیت نیک ہوتی اور اس کی وفاداری مشتبہ نہ ہوتی تو یہ ایسا کیوں کرتا ہے.خزانہ میں روزانہ رات کو جانے کے معنی ہی کیا ہیں.جب ایک کے بعد دوسرے، دوسرے کے بعد تیسرے اور تیسرے کے بعد چوتھے درباری نے یہ شکایت کی اور دربار میں اس بات کا چرچا ہو گیا تو بادشاہ کے دل میں بھی شبہ پیدا ہوا.آخر اُس نے فیصلہ کیا کہ پہلے اس کے کہ میں ایاز کے خلاف کوئی فیصلہ کروں جی میں خود جا کر دیکھ لوں کہ وہ رات کو خزانہ میں جا کر کیا کرتا ہے.چنانچہ وہ ایک دن خزانہ کی طرف گیا اور اس میں چُھپ گیا اور چابی بردار کو ڈانٹا اور اسے تاکید کی کہ وہ ایاز کو اس کی موجودگی کا علم نہ ہونے دے.ایاز بارہ بجے کے قریب آیا اور بادشاہ کا طبہ بڑھ گیا.لیکن اس نے یہ فیصلہ کر لیا می تھا کہ جب تک وہ ساری واردات نہ دیکھ لے ایاز کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کرے گا.اس نے کی
1952 41 خطبات محمود دیکھا کہ ایاز نے خزانہ کے خاص کمرے کا دروازہ کھولا.یہ دیکھ کرمحمود کوسخت حیرت ہوئی کہ میں چ نے تو اس پر اعتماد کیا تھا اور اس اعتماد کی وجہ سے میں نے اسے اس عہدہ پر پہنچا دیا تھا لیکن اب معلوم ہوا ہے کہ یہ شخص اس اعتماد کے قابل نہیں تھا.ایاز کمرہ کے اندر چلا گیا اور دروازہ بند کر دیا.بادشاہ دروازہ کے سوراخوں میں سے دیکھتا رہا.اس کمرہ میں ایک خاص صندوق تھا.اس میں قیمتی اشیاء رکھی ہوئی تھیں.ایاز نے وہ صندوق کھولا.اس پر بادشاہ کا طبہ اور پختہ ہو گیا.لیکن کچ اس نے فیصلہ یہی کیا کہ جب تک وہ سارا واقعہ دیکھ نہ لے ایاز پر کوئی سختی نہیں کرے گا.ایاز نے کی وہ بکس کھولا اور اس سے ایک گٹھڑی نکالی اور اس میں سے پھٹے پرانے کپڑے نکالے اور پہن کر کچ پھر مصلے بچھا کر اس پر نماز پڑھنی شروع کر دی اور خدا تعالیٰ کو مخاطب کر کے نہایت گریہ وزاری کے ساتھ دعا کرنے لگا کہ اے خدا ! میں اُس دن کو نہیں بھولا جب میں ان چیتھڑوں میں ملبوس اس شہر میں داخل ہوا تھا.اے خدا! تو نے مجھ پر احسان کیا اور افسر خزانہ کے بلند عہدے پر پہنچا دیا.میرا یہاں نہ بھائی تھا، نہ باپ تھا اور نہ کوئی اور رشتہ دار تھا.میں ایک غلام تھا تو نے پکواتے کی پکواتے مجھے بادشاہ کے پاس پہنچا دیا.پھر تو نے اس بادشاہ کے دل میں میری محبت ڈالی اور اس نے مجھے فوج میں ایک عہدہ دے دیا اور آہستہ آہستہ درجہ بلند کرتے کرتے مجھے افسر خزانہ کے عہدہ پر پہنچا دیا.لیکن اے خدا ! میں ان چیتھڑوں کو نہیں بھول سکتا.میری یہی حیثیت تھی میں یہی پرانے چیتھڑے لے کر یہاں آیا تھا.باقی تیرا کام ہے.بادشاہ یہ نظارہ دیکھتا رہا.آدھے گھنٹہ کی کے بعد اُس نے نماز ختم کی ، چیتھڑے اتارے اور انہیں ایک پوٹلی میں باندھ کر نہایت احتیاط سے بکس میں بند کر دیا.جب وہ باہر نکلا تو بادشاہ نے کہا ایاز ! درباریوں نے تمہاری شکایت کی تھی اس لئے میں یہاں تحقیقات کے لئے آیا تھا.ایاز کا رنگ زرد ہو گیا.بادشاہ نے کہا تو ڈرتا کیوں کی ہے؟ میں نے سب کچھ دیکھ لیا ہے.شکایت کر نیوالے جھوٹے ہیں تو سچا ہے.میں سمجھتا ہوں کہ تو بڑا نیک ہے اور تمام الزامات سے بری ہے.ایاز نے کہا بادشاہ سلامت ! میں ڈرتا اس لئے ہوں کہ یہ میرے اور خدا تعالیٰ کے درمیان ایک راز تھا لیکن آج راز کو جاننے والا ایک اور ہو گیا.پس دیکھو احسان کی قدر ہی انسان کو شریف بناتی ہے اور آپ لوگوں پر جن میں میں بھی شامل ہوں.خدا تعالیٰ کے بڑے بڑے احسانات ہیں.میری ذاتی زمین بھی یہاں ہے.
1952 42 خطبات محمود میں کوئی شبہ نہیں کہ ہندوستان میں بھی قیمت کے لحاظ سے میری بڑی جائیداد تھی لیکن اب وہ وہیں کی رہ گئی ہے.خدا تعالیٰ کی کوئی حکمت تھی کہ میں نے یہاں زمین خرید لی.ورنہ میں یہاں جائیداد خریدنے کا خیال نہیں کر سکتا تھا.اگر وقت پر خدا تعالیٰ ایسا نہ کرواتا تو آج میں بالکل خالی ہاتھ ہوتا.دراصل میں نے ایک خواب کی بناء پر یہاں زمین خریدی تھی.اس خواب میں مجھے بتایا گیا تھا کہ میں قادیان میں ہوں اور ایک نہر کے کنارے پر کھڑا ہوں.یکدم مجھے شور سنائی دیا اور میں نے پیچھے مڑ کر دیکھا.میرے ساتھ اور لوگ بھی تھے.میں نے انہیں کہا دیکھو ! یہ شور کیسا ہے؟ انہوں نے کہا نہر کا بند ٹوٹ گیا ہے اور پانی دیہات اور شہر بر باد کرتا چلا جا رہا ہے اس لئے لوگ شور مچارہے ہیں.میں نے دیکھا کہ سینکڑوں شہر برباد ہوتے چلے جاتے ہیں ، ہر طرف پانی پھیل گیا ہے.صرف نہر کے بند کا وہ حصہ ہی محفوظ ہے جس پر ہم کھڑے ہیں.لیکن تھوڑی دیر میں پانی کی کا ایک ریلا آیا اور بند کے اُس حصہ کو بھی جس پر ہم کھڑے تھے تو ڑ دیا اور ہم پانی میں گر کر بہنے لگے.ہم نے نہر میں دریائے ستلج کی طرف بہنا شروع کیا یہاں تک کہ ہم فیروز پور یا اُس کے قریب کسی اور جگہ پر پہنچ گئے.میں بہتا جاتا تھا اور خدا تعالیٰ سے دعا کرتا جاتا تھا کہ یا اللہ ! سندھ میں تو پیر لگ جائیں.یا اللہ ! سندھ میں تو پیر لگ جائیں.میں نے کئی دفعہ پیر لگانے کی کوشش کی لیکن پیر نہ لگے.دریا اتنا وسیع نظر آتا تھا کہ یوں معلوم ہوتا تھا کہ اس کا پاٹ سینکڑوں میل کا کی ہے.میں دعا ہی کر رہا تھا کہ ایک جگہ میرے پیر لگ گئے.جب بیراج بنا تو ہم نے ایک کمپنی کی بنائی.اس کمپنی میں انجمن بھی شامل تھی میں بھی شامل تھا.اسی طرح مرزا بشیر احمد صاحب، چودھری فتح محمد سیال صاحب، چودھری محمد ظفر اللہ خاں صاحب اور چودھری بشیر احمد صاحب بھی شامل تھے.ہماری غرض یہی تھی کہ ہم یہاں زمین خرید کر احمد یوں میں تحریک کریں گے کہ وہ ہم سے زمین خرید لیں.وہ زمین خریدلیں گے اور ہم اس تجارت سے کچھ نفع اٹھا ئیں گے.ارادہ تھا کہ فی ایکٹر پانچ روپے زائد لے کر زمین لوگوں کو دے دیں گے.اُس وقت اس مضمون کے کئی اعلانات شائع ہوئے کہ ہمارے پاس زمین ہے کوئی احمدی خرید نا چاہے تو خرید لے لیکن باوجود اس کے کہ زمین بہت سستی تھی کوئی خریدار نہ ملا.آخر کا ر ہم نے فیصلہ کیا ز مین ہم آپس میں تقسیم کر لیں.چنانچہ زمین تقسیم کر لی گئی اور اس طرح یہ جائیداد بن گئی.پھر اور احمدی آئے اور انہوں
1952 43 خطبات محمود نے زمین خریدی اور اب خدا تعالیٰ کے فضل سے 34 ، 35 ہزا را یکٹر یا اس سے زائد زمین احمدیوں کے پاس ہے.نواب شاہ ، تھر پارکر ، حیدر آباد، اور دادو وغیرہ اضلاع میں دو ہزار مربعے کے قریب احمدیوں کی زمین ہے جس میں سے 18 ہزار ایکڑ کے قریب زمین میری اور انجمن کی ہی ہے.آٹھ دس ہزا را یکٹر زمین اس علاقہ میں دوسرے احمدیوں کے پاس ہے.اس کی علاقہ سے باہر ضلع حیدر آباد اور ضلع نواب شاہ اور ضلع لاڑکانہ اور دادو میں بھی بہت سے احمدیوں نے زمین خرید لی ہے.لیکن جب یہ خواب آئی تھی اُس وقت دو مر بعے زمین بھی احمدیوں کے پاس نہیں تھی.شاید کوٹ احمدیاں والے اس سے پہلے سندھ آئے ہوئے تھے.باقی جو سندھی کی زمیندار ہیں وہ بعد میں احمدی ہوئے ہیں اور جن لوگوں نے زمین خرید لی ہے وہ بھی بعد میں آئے جی ہیں.پس یہ اللہ تعالیٰ کا فضل تھا کہ وہ ہمیں یہاں لے آیا.ہم میں سے جن کی حالت پنجاب میں خراب تھی اُن کی حالت اب اچھی ہے.اور پھر ہم نے یہ نظارہ دیکھا کہ ہم میں سے بہت جن کے پاس ہندوستان میں زمین تھی اُن کی زمین چھن گئی.لیکن خدا تعالیٰ نے پہلے سے یہاں ایک ذریعہ بنا دیا تا جائیدادیں چھن جانے کی وجہ سے کوئی پریشانی نہ ہو.اس احسان کے بدلہ میں ایاز کی طرح احمدیوں پر بھی فرض عائد ہوتا ہے کہ انہیں احساس ہو کہ خدا تعالیٰ انہیں یہاں لایا ہے.اگر خدا تعالیٰ نے ہمارے لئے یہاں زمین بنائی ہے تو ہمارا بھی فرض ہے کہ ہم خدا تعالیٰ کے لئے زمین بنائیں اور خدا تعالیٰ کی زمین اس کے بندے ہیں جو ہدایت پا جائیں.لیکن ہوا یہ کہ خدا تعالیٰ نے تو ہمیں زمین دے دی مگر ہم نے اسے زمین دلانے کی کوشش نہیں کی.حالانکہ ہمارے لئے ثواب کا عظیم الشان موقع تھا.اگر ہم اس موقع سے فائدہ اٹھاتے تو دنیا میں ایک عظیم الشان کام کر جاتے اور ہم پر خدا تعالیٰ کی بے شمار برکتیں اور رحمتیں ہوتیں.تمہیں جو آرام کی جگہ ملی ہے وہ انہی لوگوں کی قربانیوں کا نتیجہ ہے جو اپنے وطن کی کو چھوڑ کر سندھ میں آئے.وہ صرف دس پندرہ ہزار تھے اور اب یہاں چالیس پینتالیس لاکھ مسلمان ہیں.ہمارا فرض ہے کہ ہم ان چالیس پینتالیس لاکھ کو چالیس پینتالیس کروڑ بنا ئیں.پہلے ان کو جو اس ملک میں نام کے مسلمان ہیں انہیں سچا مسلمان بنا ئیں اور وہ آگے سارے ہندوستان کو مسلمان بنالیں.ہندوستان میں جو لوگ بستے ہیں وہ بھی خدا تعالیٰ کے ہی بندے ہیں.
1952 44 خطبات محمود دوسر.خدا کرے کہ سندھ دوبارہ ہندوستان میں اسلام کو پھیلانے کا اڈہ بن جائے.ملکی تقسیم اس لئے کی ہوئی تھی کہ ہم نے تبلیغ کی طرف توجہ نہیں کی تھی.سات آٹھ سو سال کا عرصہ ہمیں ملا تھا.اگر ہم اس عرصہ میں پوری طرح تبلیغ کرتے تو آج ہمیں ہندوستان میں ایک ہندو بھی نظر نہ آتا.رے مسلمانوں کی غفلت تو سمجھ میں آسکتی ہے لیکن احمدیوں کی غفلت سمجھ میں نہیں آسکتی.جو ج قوم حق پر ہوگی لازماً دنیا اس کی دشمن ہو گی.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیثیت حضرت اسماعیل علیہ السلام کی سی ہے.اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کے متعلق بائیبل میں آتا ہے کہ اس کی کے خلاف ہمیشہ اس کے بھائیوں کی تلوار کھینچی رہے گی.3 اس میں یہی پیشگوئی تھی کہ آپ کی نسل کی تبلیغ کرے گی اور جو شخص تبلیغ کرے گا دنیا اُس کی دشمن ہو جائے گی.اور دشمن سے محفوظ رہنے کا ایک ہی ذریعہ ہے کہ ہم اُسے مسلمان کر دیں.اس کے بغیر اسلام اور احمدیت بچ نہیں سکتے.اگر ہم تبلیغ میں سست ہوں گے تو پچھلے دنوں جو کچھ ہندوستان میں ہوا وہی دوسرے ممالک میں بھی ہوگا.صداقت بہر حال غالب ہو کر رہے گی اور چونکہ لوگ سمجھتے ہیں کہ ایک دن صداقت غالب آجائے گی اور وہ مٹ جائیں گے اس لئے وہ صداقت کے دشمن ہو جاتے ہیں.تمہارا فرض ہے کہ اپنے اندر بیداری پیدا کرو، تبلیغ کرو اور جماعت کو وسیع کرتے چلے جاؤ یہاں تک کہ کوئی تج آدمی ایسا نہ رہے جو احمدیت میں شامل نہ ہو.اور اگر کچھ لوگ احمدیت سے باہر رہ جائیں تو وہ مج تھوڑے ہوں.اس طرح ہم محفوظ ہو جائیں گے اور دشمن کی تلوار کٹ جائے گی.پس تبلیغ نہایت اہم چیز ہے اور اس سے غفلت برتنا نہایت خطرناک امر ہے.لیکن یہاں یہ حالت ہے کہ میں نے کوشش کر کے ایک مبلغ کو یہاں بھجوایا تھا اور وہ محمد آباد میں کام کر رہا تھا یہاں آکر مجھے پتا لگا کہ اُسے واپس بلا لیا گیا ہے.اس کی تو میں تحقیقات کروں گا.لیکن مجھے تعجب ہے کہ یہاں سے کسی نے بھی میرے پاس شکایت نہیں کی کہ ہمارے علاقہ کے مبلغ کو واپس بلا لیا گیا ہے.اگر تم میں تبلیغ کا جوش ہوتا تو تم میں سے کوئی ایک شخص تو ایسا ہوتا جو مجھے اطلاع دیتا کہ کی ہمارا مبلغ واپس بلا لیا گیا ہے.ہم نے وعدہ کیا تھا کہ اُس مبلغ کی تنخواہ ہم دیں گے.اگر ہم تنخواہ دیتے تو مبلغ کو واپس نہ بلایا جاتا.معلوم ہوتا ہے کہ احمد یہ اسٹیٹس نے اُن کی تنخواہ کا بوجھ خود نہیں اُٹھایا اس لئے نظارت دعوت کو مبلغ واپس لینے کی جرأت ہوئی.اگر خدا تعالیٰ نے تمہیں زیادہ تھی
1952 45 خطبات محمود دیا ہے تو تم اس میں سے خدا تعالیٰ کا حصہ بھی رکھا کرو.خود بھی تبلیغ کرو اور مبلغ بھی منگوا ؤ.اس کی طرح کچھ عرصہ کے بعد ہماری تبلیغ وسیع ہو جائے گی اور مقامی لوگ احمدیت میں داخل ہو جائیں کی گے.پھر تمہیں زبان سیکھنے کی بھی ضرورت نہیں ہوگی.اس سے پہلے اس علاقہ میں مجھے جمعہ پڑھانے کا موقع نہیں ملا.میں دو دفعہ یہاں آیا ہوں لیکن آج پہلی دفعہ یہاں جمعہ پڑھانے کا موقع ملا ہے.اور معلوم ہوا ہے کہ یہاں ایک مضبوط جماعت ہے.چک احمدیاں میں بھی جماعت ہے، کو تکے میں جماعت ہے اور سنا ہے کہ فیض اللہ چک کے لوگ بھی بشیر آباد کے قریب ایک چک بنا رہے ہیں.گویا یہاں احمدیت کی تبلیغ کے تین چارا ڈے ہیں اور تبلیغ کو تقویت دی جائے تو ہماری طاقت بڑھ سکتی ہے.لیکن ہمارے اندر ذمہ داری کا احساس نہیں.ہم میں بیداری نہیں پائی جاتی.اور ہمیں خدا تعالیٰ کا شکر یہ ادا کرنے کا احساس نہیں کہ اگر اس نے ہمیں رزق میں وسعت دی ہے تو ہم بھی لوگوں کو خدا تعالیٰ کی طرف لائیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک جنگ کے دوران میں دیکھا کہ ایک عورت اپنا ایک بچہ جو گم ہو گیا تھا اور اُسے بڑی تلاش کے بعد واپس ملا تھا گود میں اٹھائے بیٹھی ہے اور اُسے پیار کر رہی ہے.آپ نے صحابہ کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا جب خدا تعالیٰ کا کوئی گمراہ بندہ ہدایت کی پا جاتا ہے تو وہ اس ماں سے بھی زیادہ خوش ہوتا ہے 4 اور اس میں کیا شبہ ہے کہ ماں باپ کی محبت خدا تعالیٰ کی محبت کے برابر نہیں ہو سکتی.اور اگر خدا تعالیٰ کی محبت ماں باپ کی محبت سے یقیناً زیادہ ہے تو جو شخص اُس کے گمراہ بندوں کو بچائے گا.اُس پر وہ جتنا خوش ہوگا اور جس قدر انعام اُسے دے گا اُس کا انسانی عقل اندازہ نہیں کر سکتی.‘‘ (الفضل 16 مارچ 1952ء) 1 مسلم كتاب الزهد باب فَضْل بناءِ الْمَسَاجد 66 :2 مثنوی معنوی مرتبہ مولانا جلال الدین رومی ترجمه قاضی سجاد حسین جلد 5 صفحہ 190 تا 194 و 212 تا 218.لاہور 1976ء :: پیدائش باب 16 آیت 13 ( مفہوما ).:4 بخاری کتاب الادب باب رَحْمَةُ الْوَلَدِ وَ تَقْبِيلِهِ وَ مُعَانَقَتِه -
1952 46 7 خطبات محمود ہمیشہ اپنے کاموں میں محبت اور عقل کا توازن قائم رکھو (فرموده 7 مارچ 1952ء بمقام ناصر آبادسندھ ) تشهد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: دنیا میں عقل اور محبت کے دو نتیجے ہوا کرتے ہیں.عقل یہ کہتی ہے کہ جس رنگ میں کوئی سچائی پائی جائے اُسی طرح اُس کو مانا جائے.اور محبت یہ کہتی ہے کہ جس حد تک ہو سکے جس سے پیار ہو اُس کی طرف عیب منسوب نہ ہونے دیا جائے.یہ دونوں چیزیں مل کر دنیا میں امن پیدا کرتی ہیں اور انسان کے لئے ترقی کے رستے کھولتی ہیں.اگر خالی عقل پر ہی بنیا د رکھی جائے اور محبت اور ہمدردی کو نظر انداز کر دیا جائے تو پھر انسان شبہ اور وہم میں مبتلا ہو جاتا ہے اور خواہ مخواہ جی چلتے پھرتے دوسرے پر بدظنی کرتا رہتا ہے.مثلاً وہ کھانا کھائے گا تو اسے یہ وہم ہوگا کہ شاید اس میں کسی نے زہر ملا دیا ہو.وہ کسی کے ساتھ جا رہا ہو گا تو خیال کرے گا کہ کہیں اس کا ساتھی اس کی پیٹھ میں خنجر نہ مار دے.وہ سودا خریدے گا تو اسے یقین ہوگا کہ دکاندار نے اس کے ساتھ ٹھگی کی ہے اور جب یہ بات بڑھتے بڑھتے انتہاء کو پہنچ جاتی ہے تو انسان جنون میں مبتلا ہو جاتا ہے.قصہ مشہور ہے کہ ایک شخص سے کسی نے کہہ دیا درزی چور ہوتے ہیں اور یہ بات ٹھیک بھی ہے کہ یہ پیشہ ہی ایسا ہے کہ اس میں بعض کترنوں کا ضائع ہو جا ناممکن ہے.اور گرہ گرہ دو دو گرہ کی جو کتر نہیں بچ جاتی ہیں بعض لالچی درزی انہیں جوڑ کر ٹوپی یا کوئی اور معمولی چیز بنا لیتے ہیں اور اس طرح پیسے کما لیتے ہیں.لیکن اس بات کو اتنا وسیع کر لینا کہ کوئی درزی بھی ایماندار نہیں :
1952 47 خطبات محمود انتہا درجہ کا وہم ہے.بہر حال اس شخص پر کسی نے زور دیا اور کہا تم کسی دررزی پر اعتبار نہ کرو درزی ضرور چور ہوتا ہے اور یہ بات اس کے دماغ میں بیٹھ گئی اور اس نے سمجھا کہ اسے ہوشیار رہنے کا موقع مل گیا ہے.ایک دن اس نے کچھ کپڑا خریدا اور اس نے ارادہ کیا کہ اس کپڑے کی ٹوپی بنوائے.چنانچہ وہ ایک درزی کے پاس گیا اور اس سے دریافت کیا کہ کیا اس کپڑے کی ٹوپی بن جائے گی ؟ درزی نے کہا ہاں اس کی ٹوپی بن جائے گی.چونکہ اس شخص کو یقین دلایا گیا تھا کہ درزی ضرور چور ہوتا ہے اس لئے اس نے خیال کیا کہ یہ کپڑا ایک ٹوپی سے زیادہ ہے اور درزی نے اندازہ لگاتے وقت یہ گنجائش رکھ لی ہے کہ اس کے لئے کچھ کپڑا بچ جائے اس لئے کی اس نے پھر دریافت کیا کہ کیا اس کپڑے کی دوٹو پیاں بن جائیں گی؟ درزی نے کہا ہاں ! اس کی دوٹو پیاں بن جائیں گی.جب درزی نے یہ کہا کہ اس کی دو ٹو پیاں بن جائیں گی تو چونکہ اس کی کے استاد نے اسے یقین دلایا ہوا تھا کہ درزی ہمیشہ کچھ کپڑا بچا لیتا ہے اس لئے اس نے پھر یہی سوچا کہ شاید تین ٹو پیاں بن جائیں اس لئے اس نے درزی سے کہا کیا اس کی تین ٹو پیاں بن کج جائیں گی ؟ اس نے کہا ہاں اس کی تین ٹوپیاں بن جائیں گی.درزی کا یہ جواب سن کر اس کا شبہ یقین سے بدل گیا اور اس نے خیال کیا کہ اگر میں ایک ٹوپی بنوا تا تو درزی دو ٹوپیوں کا کپڑا چرالیتا اور اگر میں دوٹو پیاں بنوا تا تو ایک ٹوپی کا کپڑا درزی نے رکھ لینا تھا.اسے یقین ہو گیا کہ کپڑے میں اب بھی گنجائش موجود ہے اور چوتھی ٹوپی بن سکتی ہے.ورنہ درزی یہ نہ کہتا کہ اس کی تین ٹو پیاں بن جائیں گی.اس نے اپنے لئے بھی تو کپڑا بچانا ہے.اس نے پھر دریافت کیا کہ کیا اس کی چارٹو پیاں بن جائیں گی ؟ تو درزی نے کہا ہاں اس کی چارٹو پیاں بن جائیں گی.اس پر اس کا شبہ اور بڑھ گیا اور اس نے خیال کیا کہ اب بھی کچھ کپڑا بچ جائے گا اس لئے اس نے پھر دریافت کیا کہ کیا اس کی پانچ ٹوپیاں بن جائیں گی ؟ درزی نے کہا ہاں اس کی پانچ ٹوپیاں بن چی جائیں گی.اس نے خیال کیا جب درزی پانچ ٹوپیاں بنانی مانتا ہے تو اس کی چھ ٹو پیاں بھی بن ج سکتی ہیں میں کیوں نہ چھوٹو پیاں بنوا لوں.اس لئے اس نے کہا کیا اس کی چھوٹو پیاں بن سکتی ہیں ؟ تو درزی نے کہا ہاں اس کی چھٹو پیاں بن سکتی ہیں.اسے اب بھی یقین تھا کہ درزی نے کپڑا ضرور بچایا ہے.اس لئے اس نے پھر دریافت کیا کہ کیا اس کی سات ٹوپیاں بن سکتی ہیں؟ تو تھی
1952 48 خطبات محمود درزی نے جواب دیا ہاں اس کی سات ٹوپیاں بن سکتی ہیں.اس نے پھر خیال کیا کہ درزی نے کی اب بھی کپڑا بچا لیا ہے اس لئے اس نے پھر کہا کہ اس کی آٹھ ٹو پیاں بن سکتی ہیں ؟ تو درزی نے کہا ہاں اس کی آٹھ ٹو پیاں بھی بن سکتی ہیں.اب اُسے شرم آئی اور اس نے کہا اگر یہ آٹھ ٹو پیوں کے بعد بھی کپڑا چراتا ہے تو چرا لے.اس نے درزی سے کہا یہ ٹوپیاں کب تک تیار ہو جائیں گی ؟ اس نے کہا آٹھ دن کے بعد آنا اور ٹوپیاں لے جانا.چنانچہ وہ آٹھ دن کے بعد واپس آیا.درزی نے ٹوپیاں تیار کی ہوئی تھیں مگر وہ نہایت چھوٹی چھوٹی تھیں جیسے انگشتا نے 1 ہوتے ہیں وہ یہ ٹو پیاں دیکھ کر حیران ہوا اور کہا تو نے میرا کپڑ ا خراب کر دیا ہے.درزی نے کہا می آپ نے خود کہا تھا کہ اس کپڑے سے آٹھ ٹو پیاں بنا دو سو میں نے آٹھ ٹوپیاں بنادی ہیں اور اگر کی کوئی شخص یہ کہہ دے کہ میں نے اس کپڑے میں سے ایک دھجی 2 بھی ضائع کی ہے تو میں مجرم ہوں گا مگر جب اس کپڑے کی آٹھ ٹوپیاں بنیں گی تو اتنے سائز کی ہی بنیں گی چنانچہ وہ شرمندہ ہو کر واپس چلا گیا اور بدظنی کی سزا پالی.غرض اگر خالی عقل ہی استعمال کی جائے تو یہ انسان کو جنون کی طرف لے جاتی ہے.اسی طرح خالی محبت انسان کو احمق اور جاہل بنا دیتی ہے.مثلا کسی کی بیوی جھوٹ بولتی ہے اور لوگ کی کہتے ہیں کہ تمہاری بیوی نے جھوٹ بولا ہے تو وہ انہیں گالیاں دینی شروع کر دیتا ہے اور کہتا ہے میری بیوی جھوٹ نہیں بول سکتی.بیٹا چوری کرتا ہے اور لوگ کہتے ہیں تمہارے بیٹے نے چوری کی ہے تو وہ انہیں بُرا بھلا کہنے لگ جاتا ہے اور کہتا ہے میرا بیٹا ایسا نہیں کرتا.اس نے ان کے دل کی چیر کر نہیں دیکھے ہوتے بلکہ اُس کا علم محض محبت تک محدود ہوتا ہے.وہ سمجھتا ہے کہ چونکہ یہ میری بیوی ہے اس لئے وہ جھوٹ نہیں بول سکتی.چونکہ یہ میرا بیٹا ہے اس لئے یہ چوری نہیں کر سکتا.غرض محبت میں انتہا کو پہنچ جانا انسان کو حماقت تک پہنچا دیتا ہے.پس اگر محض عقل سے کام لیا کی جائے تو اوہام اور شبہات ترقی کرتے جاتے ہیں اور اگر خالی محبت سے کام لیا جائے تو انسان کی احمق اور جاہل بن کر رہ جاتا ہے.سارا محلہ بدگوئی کر رہا ہوتا ہے کہ فلاں کی بیوی جھوٹ بولتی ہے لیکن یہ خوش ہو رہا ہوتا ہے کہ اسے اس سے زیادہ نعمت اور کیا ملے گی.جیسی بیوی اسے ملی ہے ویسی اور کسی کو نہیں مل سکتی.لیکن مومن کا طریق ان دونوں کے درمیان ہوتا ہے.مومن نہ تو محبت
1952 49 خطبات محمود کونظر انداز کرتا ہے اور نہ عقل کو نظر انداز کرتا ہے.وہ ہر بات کو جانچنے کی کوشش کرتا ہے اور پھر ان صحیح ذرائع سے جو خدا تعالیٰ نے مقرر کئے ہیں کام لے کر فیصلہ کرتا ہے.وہ حسنِ ظنی سے بھی کام لیتا ہے اور بلا وجہ شبہات سے بچنے کی بھی کوشش کرتا ہے اور کہتا ہے جب تک کوئی بات مجھ پر اچھی طرح واضح نہ ہو جائے میں اسے نہیں مانتا.مثلاً اگر کوئی کہتا ہے کہ تمہاری بیوی نے ایسا کیا ت ہے تو وہ کہے گا ہر ایک کی بیوی ایسا کر سکتی ہے.اگر تم ثابت کر دو کہ میری بیوی نے ایسا کیا ہے تو کی میں مان لوں گا.اسی طرح اگر کوئی شخص اس کے بیٹے کے متعلق شکایت کرتا ہے کہ اس نے چوری کی کی ہے تو وہ کہے گا ہر ایک کا بیٹا ایسا کر سکتا ہے بلکہ نبیوں کے بیٹے بھی ایسا کر سکتے ہیں.اگر تم ثابت کر دو گے کہ میرے بیٹے نے واقعی طور پر چوری کی ہے تو میں اسے سزا دوں گا.غرض نہ تو وہ محبت میں اتنا آگے چلا جاتا ہے کہ وہ اسے حماقت کے گڑھے میں گرا دے اور نہ وہ محض عقل سے کی کام لیتا ہے کہ وہ وہم اور وسوسہ میں پڑ کر جنون کی حد تک پہنچ جائے.میں دیکھتا ہوں کہ ہماری جماعت میں ایک طبقہ ایسا بھی پیدا ہو گیا ہے جو عقل اور محبت کے درمیان توازن قائم نہیں رکھتا.یا تو وہ اس طرف چلے جاتے ہیں کہ بھائیوں پر بدظنی کرنے لگی جاتے ہیں اور جب بھی وہ اپنے بھائی کے متعلق کوئی بُری بات سنتے ہیں تو اُسے فوراً تسلیم کر لیتے ہیں.اور سمجھتے ہیں کہ عقل کی بات یہی ہے کہ اسے تسلیم کر لیا جائے.یا مثلاً ان میں سے کسی کا دوست کوئی الزام لگا تا ہے تو وہ کہتا ہے میرے دوست نے یہ بات کہی ہے اس لئے سچی ہے.حالانکہ وہ دوست جھوٹا ہوتا ہے اور اتنا جھوٹا ہوتا ہے کہ ہم مان ہی نہیں سکتے کہ اسے معلوم نہ ہو کہ اُس کا دوست جھوٹ بول رہا ہے.لیکن چونکہ وہ دوست ہوتا ہے اس لئے وہ اس کی بات مان لی لینے پر تیار ہو جاتا ہے اور دوسرا آدمی کتنا بھی سچا ہو وہ اس پر الزام لگائے جاتا ہے.گویا اس کے نزدیک نیکی کا معیار یہ ہوتا ہے کہ دوسرا آدمی اُس کا دوست ہے اور دشمنی کا معیار یہ ہوتا ہے دوسرا آدمی نا واقف ہے یا دوست نہیں ہے.گویا سچائی کا تعلق خدا تعالیٰ سے نہیں ، اُس کے رسول سے نہیں بلکہ اُس شخص سے ہے.حالانکہ اصل سچائی یہ ہے کہ جتنا کوئی خدا تعالیٰ اور اس کے رسول کے قریب ہو گا وہ سچا ہو گا.لیکن اس کے نزدیک اصل سچائی یہ ہے کہ جتنا کوئی اُس کے نزدیک ہوگا اُتنا ہی وہ سچا ہو گا.اگر مسیلمہ کذاب بھی اس کے قریب ہے تو وہ سچا ہے اور اگر
1952 50 خطبات محمود رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی اس سے دور ہیں تو وہ نَعُوذُ بِاللہ جھوٹے ہیں.خدا تعالیٰ خود اپنی ذات میں روشنی ہے.اس روشنی سے تم جتنے دور ہو گے اُتنے ہی کی اندھیرے میں جاؤ گے.لیکن جس چیز کا تعلق روشنی سے نہیں اُس سے دور جانے والے روشنی سے کی دُور نہیں جائیں گے.مثلاً اگر تم سورج سے اپنے آپ کو دور کر لیتے ہو تو تم اندھیرے میں چلے جاؤ گے.لیکن اگر باپ کی طرف پیٹھ کر لو گے تو روشنی میں کوئی فرق نہیں آئے گا.تمہیں ساری تھی چیزیں نظر آتی رہیں گی.اس میں شبہ نہیں کہ سورج ماں باپ کی طرح قابل ادب نہیں لیکن خدا تعالیٰ نے اس میں یہ خاصیت رکھی ہے کہ اس سے نو ر وابستہ ہے اور یہ خاصیت ماں باپ میں نہیں پائی جاتی.قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ماں باپ خواہ تم پر سختی کریں ،تمہارے ساتھ بدسلوکی کریں تم انہیں اُف تک نہ کہو.3 پھر خدا تعالیٰ نے ہر جگہ ماں باپ کو تو حید کے ساتھ رکھا ہے.گویا اس نے ان کے وجود کو اپنے ساتھ ملایا ہے.اگر کلمہ میں اس نے اپنی توحید کے کی ساتھ رسول کو ملایا ہے تو تفصیلی احکامات میں ہر جگہ تو حید کے ساتھ ساتھ ماں باپ کا ذکر کیا ہے.غرض جو قدر ماں باپ کی ہے وہ سورج کی نہیں.لیکن سورج میں خدا تعالیٰ نے یہ خاصیت رکھی ہے کہ وہ روشنی دیتا ہے.اگر تم لحاف میں منہ کر لو یا پردہ میں چلے جاؤ تو تم اندھیرے میں چلے جاؤ گے.لیکن ماں باپ میں یہ خاصیت نہیں پائی جاتی.تم بے شک اُن کی طرف پیٹھ کر لو تمہیں ساری تجھے چیزیں نظر آتی رہیں گی.پس ماں باپ کا مقام الگ ہے اور سورج کا مقام الگ ہے.اسی طرح خدا تعالیٰ کا یہ مقام ہے کہ اُس سے تم جتنا دور جاؤ گے اُتنا ہی سچائی سے دور جاؤ گے.خدا تعالیٰ کے سوا اور کسی کو یہ مقام حاصل نہیں.اسی طرح دین کا مقام ہے.دین سچائیوں کا مجموعہ ہے.اور جو شخص سچائیوں کے مجموعہ سے دور ہو گا وہ جھوٹ کی طرف چلا جائے گا.فرض کر و قرآن کریم میں دس ہزا ر سچائیاں ہیں.اگر کوئی شخص ان دس ہزار سچائیوں میں سے پانچ ہزار سچائیوں کو مانتا ہے تو سیدھی بات ہے کہ وہ باقی پانچ ہزار سچائیوں کا منکر ہے.اسی طرح اگر وہ 1/4 ہزار سچائیوں کو مانتا ہے تو ساڑھے سات ہزار سچائیاں ایسی رہ جائیں گی جن کا وہ منکر ہوگا.یا اگر وہ 1/10 سچائیوں کا قائل ہے تو نو ہزار سچائیاں باقی رہ جائیں گی جن کا وہ منکر ہو گا.لیکن ماں باپ یا کسی دوسرے رشتہ دار کو اس چیز کے تی
1952 51 خطبات محمود ساتھ کوئی تعلق نہیں ، ان سے خواہ تم کتنا دور ہو سچائی تمہارے ساتھ رہے گی.زیادہ سے زیادہ یہی ہوگا کہ اگر کوئی بیٹا باپ کا مخالف ہو جائے گا تو چونکہ خدا تعالیٰ نے ماں باپ کے ادب کرنے کا کی حکم دیا ہے اس لئے وہ ایک سچائی کا منکر ہوگا.باقی سچائیاں اس کے ساتھ رہیں گی.پس یہ حماقت کی ہے کہ انسان محض محبت کا خیال رکھے اور عقل سے کام نہ لے کیونکہ ایک وقت ایسا بھی آتا ہے کہ محبت انسان کو تباہ کر دیتی ہے.ہمارے ملک میں ایک قصہ مشہور ہے کہ ایک لڑکے کو چوری کی عادت پڑ گئی تھی.ایک دفعہ جب وہ چوری کرنے کے لئے گیا تو اس نے ایک شخص کو قتل کر دیا اور اس کی وجہ سے اسے پھانسی کی سزادی گئی.یوں قانون تو نہیں لیکن رواج ہے کہ پھانسی دینے سے قبل مجرم سے کہا جاتا ہے کہ اگر اس کی کوئی خواہش ہو تو اس کا اظہار کر دے.اسی طرح اس لڑکے سے بھی کہا گیا کہ اگر تمہاری کوئی خواہش ہے تو بتا دو تو اُس نے کہا میں اپنی ماں کا اکلوتا بیٹا ہوں میری خواہش ہے کہ آخری بار میں اُس سے ملاقات کرلوں.چنانچہ اس کی ماں کو بلایا گیا.لڑکے نے کہا میں اپنی ماں کی کے کان میں کچھ کہنا چاہتا ہوں مجھے اجازت دی جائے.چنانچہ اُسے اجازت دے دی گئی.لیکن جو نہی ماں نے اپنا کان اُس کے منہ کے قریب کیا اُس نے اس کے گلے پر زور سے دانت مارے اور گوشت کا ایک ٹکڑا کاٹ لیا.جو لوگ وہاں موجود تھے اُنہوں نے کہا کم بخت! تجھے معلوم ہے کہ کل تجھے پھانسی کی سزا دے دی جائے گی پھر تو نے آخری وقت میں اپنی ماں کے ساتھ یہ کی سلوک کیوں کیا ؟ اس وقت تو خدا تعالیٰ کا کچھ خوف کیا ہوتا.اُس لڑکے نے کہا میں نے کل اپنی ماں کے فعلوں کی وجہ سے پھانسی کی سزا پانی ہے.میں بچپن میں اپنے ساتھیوں کو دق کرنے کے لئے ان کی پنسلیں اور دوا تیں اٹھالا یا کرتا تھا اور جب مالک ہمارے گھر آتا اور اس سے کہتا کہ تمہارے بیٹے نے میری فلاں فلاں چیز چرائی ہے وہ مجھے دے دو.تو یہ اُسے گالیاں دیتی اور کہتی ہی تم نے کیا میرے بیٹے کو چور سمجھ رکھا ہے؟ چنانچہ وہ واپس چلا جاتا اور وہ چیزیں میرے کام آتیں.اس طرح آہستہ آہستہ مجھے چوری کی عادت پڑ گئی.اگر اسے پتا لگ جاتا کہ کسی کی کوئی چیز میرے پاس موجود ہے تو بسا اوقات اسے چھپاتی تا مالک معلوم نہ کر سکے کہ میں نے اس کا سامان چرایا ہے اور اس طرح اس بُری عادت میں میری مدد کرتی.پھر مدرسہ کی چوریوں سے
1952 52 خطبات محمود بڑی چوریوں کی عادت پڑی.اور ایک چوری کے موقع پر میں نے ایک شخص کو مار دیا جس کی وجہ سے کل مجھے پھانسی کی سزا ملے گی.پس اس پھانسی کا موجب میری ماں ہے.غرض محبت یعنی غلط محبت بعض اوقات انسان کو پھانسی تک لے جاتی ہے.سمجھنے والا سمجھتا ہے کہ وہ اپنے دوست یا عزیز سے ہمدردی کر رہا ہے لیکن وہ اسے تباہ کر رہا ہوتا ہے.پس جہاں محبت انسان کو حماقت میں مبتلا کر دیتی ہے وہاں عقل انسان کو وہم میں مبتلا کر دیتی ہے اور کسی کی دوست یا رشتہ دار کے پاس اس کا اٹھنا بیٹھنا ناممکن ہو جاتا ہے.بیوی مٹھائی بناتی ہے تو وہ سمجھتا کی ہے شاید اس نے اس میں زہر ملا دیا ہو.اور جب وہ محبت کو عقل کے ساتھ نہیں ملا تا تو عقل آوارہ کی ہو جاتی ہے.میں نے یہاں دیکھا ہے کہ لوگ عام طور پر بدظنی میں مبتلا ہیں.کارکن ماتحتوں کے معاملات پر ہمدردانہ غور نہیں کرتے اور یہ کوشش نہیں کرتے کہ وہ دوسرے سے معاملہ کرتے وقت حُسنِ ظنی سے کام لیں اور جب تک کوئی ثبوت نہ ملے اس کے خلاف کوئی کارروائی نہ کریں.اس کی طرح دوسرے لوگ ہیں ہر ایک کو یہ خیال ہے کہ کارکن ان کے ساتھ بے ایمانی کرتے ہیں.لوگ آتے ہیں اور میرے پاس شکایات کرتے ہیں اور بعض دفعہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ میں ان کی شکایات سے متاثر ہو جاتا ہوں.لیکن اکثر دفعہ جب تحقیقات کی جاتی ہے تو یہی معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے محض بدظنی سے کام لیا ہے ورنہ بات کچھ بھی نہیں ہوتی.حالانکہ مومنوں کے آپس کے تعلقات ایسے ہونے چاہیں کہ كَأَنَّهُمْ بُنْيَانٌ مَّرْصُوص 4 گویا وہ سیسہ پلائی ہوئی دیوار ہیں.اس میں کوئی رخنہ نہیں.اگر تمہارے آپس کے تعلقات ایسے نہیں ہونگے تو تمہاری طاقت ضائع ہو جائے گی.جب تم اپنے ساتھی پر بدظنی کرو گے تو تم دشمن کا ڈٹ کر مقابلہ نہیں کر سکو گے.تمہارے دل میں یہ وسوسہ پیدا ہو گا کہ میرے ساتھی نے میرے ساتھ کون سی نیکی کی ہے کہ میں اس کے لئے قربانی کروں.نتیجہ یہ ہوگا کہ دشمن کو موقع مل جائے گا اور وہ تمہیں ایک ایک کر کے مار دے گا اور تبلیغ رک جائے گی.کیونکہ جس شخص کو بدظنی کی عادت ہوتی ہے وہ اُسے اپنے دوستوں میں پھیلاتا ہے اور انہیں کہتا ہے کہ فلاں بڑا بے ایمان ہے اور سمجھتا یہ ہے کہ وہ ان سے ہمدردی کر رہا ہے.پھر آہستہ آہستہ وہ دوستوں سے دشمنوں کی طرف جاتا ہے اور انہیں کہتا ہے فلاں بڑا بے ایمان ہے.اور جب دشمن کو یہ پتا لگ جاتا ہے کہ یہ لوگ آپس میں پھٹ گئے ہیں کہ
1952 53 خطبات محمود اور اگر میں نے ان میں سے کسی کو مارا تو دوسرا اسے بچائے گا نہیں تو وہ سمجھتا ہے اب موقع ہے کہ میں ان پر حملہ کر دوں.پس اگر چہ عقل اور محبت اپنی اپنی جگہ نہایت اہم ہیں لیکن بڑی چیز ان کے درمیان تو ازن قائم رکھنا ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ تو محبت کر لیکن ایک حد تک کر.کیونکہ جس سے تو محبت کر رہا ہے ہو سکتا ہے کہ وہ ایک دن تمہارا دشمن ہو جائے.پھر فرماتے ہیں تو دشمنی بھی کر لیکن ایک حد تک کر کیونکہ بہت ممکن ہے کہ جس سے تو دشمنی کر رہا ہے وہ تمہارا دوست بن جائے.5 محبت کا سب سے بڑا نمونہ میاں بیوی کا ہوتا ہے.لوگ شادیاں کرتے ہیں تو محبت سے ہی کرتے ہی ہیں ایک دوسرے کو دشمن سمجھ کر نہیں کرتے.پھر ولیمے ہوتے ہیں لوگ ایک دوسرے کو مبارکبادی دیتے ہیں.لیکن انہی شادیوں کے بعد بعض اوقات طلاق اور خلع کی صورت پیدا ہو جاتی ہے.اُس وقت کہاں جاتی ہیں وہ خوشیاں اور کہاں جاتے ہیں وہ ولیمے.بسا اوقات خاوند بیویوں کو قتل کر دیتے ہیں اور بیویاں خاوندوں کو زہر دے دیتی ہیں.لیکن کیا شادی کے دن بھی اس کی کا کوئی شائبہ نظر آتا ہے؟ کسی گھر میں بچہ پیدا ہوتا ہے تو کتنی خوشیاں منائی جاتی ہیں.کسی کو یہ پتا نہیں ہوتا کہ بڑا ہو کر یہ بچہ خوشی کا موجب ہوگا بھی یا نہیں.ابو جہل جب پیدا ہوا تو کتنی خوشیاں منائی گئی ہوں گی.اگر پیدائش کے وقت یہ پتا لگ جاتا کہ ابو جہل بڑا ہو کر خدا تعالیٰ کے رسول کی ج مخالفت کرے گا تو والدین بجائے خوشی منانے کے اُس کا گلا گھونٹ دیتے.فرعون جب پیدا ہوا تو ماں باپ نے کتنی خوشیاں منائی ہوں گی.لیکن کسی کو کیا پتا تھا کہ وہ بڑا ہو کر حضرت موسیٰ علیہ السلام کا مقابلہ کرے گا.اگر پیدائش کے وقت یہ پتا لگ جاتا کہ فرعون بڑا ہو کر خدا تعالیٰ کے ایک نبی کا کی مقابلہ کرے گا تو والدین شاید اُس کا گلا گھونٹ دیتے.اسی طرح نمرود اور شداد جب پیدا ہوئے تو کسی کو معلوم نہیں تھا کہ وہ بڑے ہو کر کیا بنیں گے.اسی لئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے کی ہیں کہ ایک حد کے اندر دوستی کرو.اور اگر تم اس دوستی کی وجہ سے خدا تعالیٰ سے الگ ہو جاتے ہو تو یہ دوستی کسی کام کی نہیں.اسی طرح فر ما یا اگر تم دشمنی کرتے ہو تو ایک حد کے اندر کرو اور عقل سے کرو.کیونکہ اگر تم دشمنی کو انتہاء تک پہنچا دو گے تو ہو سکتا ہے کہ جس سے تمہاری دشمنی ہو وہ کی تمہارا دوست بن جائے.اگر تم اُس کے خلاف ہر جگہ پرو پیگنڈا کرتے پھرو گے تو وقت آنے
1952 54 خطبات محمود پر وہ تمہارا مُمد و معاون نہیں بن سکے گا.اس کی حمایت تمہیں کچھ فائدہ نہیں دے گی.کیونکہ تم نے کی خود ہی اس کے خلاف پروپیگنڈا کر کے اس کے رُعب کو کم کر دیا ہو گا.پھر خدا تعالیٰ کا غضب الگ ہو گا کہ تم نے ایک شخص سے ناجائز حد تک دشمنی کی.پس تم ہمیشہ اپنے کاموں کے اندر محبت اور عقل کا توازن قائم رکھو.اگر تم عقل میں حد سے آگے گزر جاؤ گے تو تم وہم میں مبتلا ہو جاؤ گے.اور اگر محبت میں انتہاء کو پہنچ جاؤ گے تو وہ حماقت بن جائے گی اور یہ دونوں باتیں بُری الفضل 20 مارچ 1952ء) ہیں.1 : انگشتانے : انگشتانہ کی جمع ، دھات کی بنی ہوئی ٹوپی جسے کپڑا اسیتے وقت انگلی میں پہن لیتے ہیں.( فیروز اللغات اردو جامع مطبوعہ فیروز سنز لاہور ) 2: دھجی : کپڑے یا کاغذ کی کترن.پرزہ.ٹکڑا.چیتھڑا.( فیروز اللغات اردو جامع مطبوعہ فیروز سنز لاہور ) : إمَّا يَبْلُغَنَّ عِندَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُمَا أَوْ كِلَهُمَا فَلَا تَقُل لَّهُمَا أَفْ (بنی اسرائیل : 24) 4: الصف : 5 :5 ترندی ابواب الْبِرِّ وَ الصَّلَة باب مَا جَاءَ فِي الْإِقْتِصَادِ فِي الْحُبِّ وَ الْبُغْضِ -
1952 55 8 خطبات محمود تم اپنے اندر سچائی پیدا کر و باقی خوبیاں تم میں آسانی سے پیدا ہو جائیں گی.( فرمودہ 14 مارچ 1952ء بمقام محمد آباد اسٹیٹ سندھ ) تشهد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: ”دنیا میں سینکڑں ہی نیکیاں موجود ہیں اور بدیاں بھی سینکڑوں موجود ہیں.جس طرح بُوٹیاں اور بیج آپس میں مل کر نئی نئی شکلیں اختیار کرتے جاتے ہیں اسی طرح انسانی اخلاق بھی کی آپس میں مل کر نئی نئی شکلیں اختیار کرتے چلے جاتے ہیں.جس طرح سبزیوں اور پھلوں میں.بعض کڑوے بنتے چلے جاتے ہیں اور بعض میٹھے بنتے چلے جاتے ہیں اسی طرح انسانی اخلاق میں سے کچھ بد ، تکلیف دہ اور نقصان پہنچانے والے ہوتے ہیں اور کچھ اچھے اور انسان کے اندر اطمینان کی روح پیدا کرنے والے ہوتے ہیں.مگر کچھ چیزیں ایسی ہوتی ہیں جو بنیادی ہوتی ہیں اور انسان کے اخلاق خواہ کتنے ہی بدل جائیں وہ قائم رہتی ہیں اور انسان کے ساتھ ہمیشہ لگی رہتی ہیں.وہ انہیں بھولتا نہیں.ان میں سے ایک خلق صداقت ہے.یہ خلق وہ ہے جس پر بہت کی سے اخلاق بنی ہوتے ہیں.گویا بعض دفعہ یہ خُلق ماں اور باپ کی حیثیت اختیار کر جاتا ہے اور باقی اخلاق اس سے پیدا ہو کر بڑھنے شروع ہو جاتے ہیں.لیکن عجیب بات ہے کہ جس طرح موت سب سے زیادہ یقینی چیز ہے لیکن سب سے زیادہ لوگ اسے کھلاتے ہیں اسی طرح با وجود ایک یقینی چیز ہونے کے لوگ سچائی کو بھول جاتے ہیں.جیسے آج تک کوئی انسان ایسا نہیں گزرا جو جی
1952 56 خطبات محمود فوت نہ ہوا ہو.مگر مسلمانوں نے یہ عقیدہ رکھنا شروع کر دیا ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام آسمان کی پر زندہ بیٹھے ہیں.حالانکہ ان کے باقی آباء واجداد بلکہ انبیاء واولیاء میں سے بھی ہمیں کوئی ایسا کی نظر نہیں آتا جو پیدا ہوا ہولیکن مرا نہ ہو.ایک غلط عقیدہ بنا لینا اور چیز ہے اور واقعہ اور چیز ہے.واقعہ یہی ہے کہ ہر انسان جو پیدا ہوا مرا ہے.گویا موت ایک طبعی چیز ہے.جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہوئے تو چونکہ آپ کی بہت سی پیشگوئیاں ایسی تھیں؟ جو ابھی بظاہر پوری نہیں ہوئی تھیں اس لئے حضرت عمر نے خیال کیا کہ آپ کس طرح فوت کی ہو سکتے ہیں.وہ اپنے گھر سے باہر نکلے اور تلوار سونت کر کھڑے ہو گئے اور کہنے لگے رسول کریم کی صلی اللہ علیہ وسلم محض وقتی طور پر آسمان پر گئے ہیں.اگر کسی نے یہ کہا کہ آپ فوت ہو گئے ہیں تو میں اُس کی گردن اُڑا دونگا.1 یہ بات حضرت ابو بکر تک پہنچی تو آپ باہر تشریف لائے اور سب صحابہ کو مخاطب کر کے فرمایا مَا مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ 2 محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی ایک رسول تھے.اور آپ سے پہلے جو رسول گزرے وہ کی سب فوت ہو چکے ہیں.جب خدا تعالیٰ کا یہ قانون جاری ہے کہ ہر ایک شخص جو پیدا ہوا ہے مرے گا تو تمہارا رسول اس قانون سے کس طرح بچ سکتا ہے.پھر صرف یہی نہیں کہا کہ سارے رسول فوت ہو چکے ہیں بلکہ آگے فرمایا أَفَأَبِنْ مَّاتَ اَوْ قُتِلَ انْقَلَبْتُمْ عَلَى أَعْقَابِكُمْ اگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ فوت ہو جائیں یا قتل کر دئیے جائیں تو کیا تم اپنا دین چھوڑ دو گے اور کیا آپ کے فوت ہو جانے سے تمہارا دین بدل جائے گا ؟ مثلا تم سب لوگ قریباً زمیندار طبقہ سے تعلق رکھتے ہو.ایک شخص تمہیں بتاتا ہے کہ اگر تم اس طرح ہل چلاؤ گے ، اس طرح بیج ڈالو گے اور پھر اس طرح پانی دو گے تو تمہیں فائدہ ہوگا.پھر وہ شخص فوت ہو جائے تو کیا یہ قاعدہ بدل جائے گا ؟ کیا اس کے مرجانے کی وجہ سے گندم بونے کی ضرورت نہیں رہے گی ؟ یقینا تم میں سے ہر شخص یہی کہے گا کہ اُس شخص کے مرنے سے یہ قاعدہ نہیں بدلے گا.اسی طرح خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہو جائیں تو کیا تمہارا دین بدل جائے گا؟ اصل سوال تو یہ ہے کہ جو کچھ خدا تعالیٰ نے فرمایا تھا کیا وہ سچ تھا ؟ اور اگر خدا تعالیٰ نے جو کچھ فرمایا تھا وہ سچ تھا تو آپ کے فوت ہو جانے سے وہ جھوٹ کیوں بن جائے گا.سچ سچ ہی رہے گا.راستیاں اور سچائیاں کی
1952 57 خطبات محمود نہ بدلنے والی چیزیں ہیں.ہاں بعد میں لوگ ان میں بعض چیزیں ملا بھی دیتے ہیں.لیکن آہستہ کی آہستہ خدا تعالیٰ ایسے سامان پیدا کر دیتا ہے کہ بعد میں ملی ہوئی باتیں دور ہو جاتی ہیں.پس صداقت ایک بنیادی چیز ہے اور اس میں سے اور کئی اخلاق نکلتے ہیں.کبھی وہ اخلاق صداقت سے دُور ہو جاتے ہیں تو بگڑ جاتے ہیں اور کبھی اُس سے قریب ہو جاتے ہیں تو اچھے ہو جاتے ہیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک دفعہ ایک شخص آیا اور اُس نے عرض کیا يَا رَسُولَ اللہ ! میں تین گناہوں میں مبتلا ہوں.میں نے انہیں چھوڑنے کی بہت کی کوشش کی ہے لیکن یہ گناہ مجھ سے چھٹتے نہیں.اور وہ گناہ جھوٹ ، شراب پینا اور بدکاری کرنا جی ہیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم مجھ سے ایک سودا کر لو.اور وہ سودا یہ ہے کہ تم ایک گناہ یعنی جھوٹ بولنا چھوڑ دو اللہ تعالیٰ چاہے گا تو تم باقی دو گنا ہوں سے بھی بچ جاؤ گے.اس کی نے کہا یہ تو نہایت آسان بات ہے.ایک گناہ میں چھوڑ دیتا ہوں.چنانچہ اس نے جھوٹ بولنا کی چھوڑ دیا.چند دن کے بعد وہ پھر واپس آیا.اور اس نے عرض کیا کہ يَا رَسُوْلَ اللہ ! میں نے ایک گناہ چھوڑا تھا باقی دونوں گناہ تو آپ ہی آپ چھٹ گئے ہیں.آپ نے فرمایا باقی دو گناہ کی کیسے چھٹ گئے ؟ اس نے کہایا رَسُولَ اللہ ! میرا دل چاہا کہ شراب پیئوں.مگر مسلمانوں کا ماحول تھا.میں نے خیال کیا کہ اگر میں نے شراب پی تو مسلمان بُرا منائیں گے.پھر خیال آیا کہ چوری چھپے پی لوں.لیکن پھر خیال آیا کہ اگر آپ نے پوچھ لیا کہ کیا تم نے شراب پی ہے؟ اور میں نے انکار کیا تو یہ جھوٹ ہوگا اور جھوٹ نہ بولنے کا وعدہ میں نے آپ سے کیا ہے.اور اگر زار کر لیا تو اس کی سزا پاؤں گا.چنانچہ میں نے فیصلہ کیا کہ شراب نہیں پیوں گا تا کہ میں جھوٹ سے بچار ہوں.اسی طرح بد کاری تھی.چونکہ میں نے وعدہ کیا تھا کہ میں جھوٹ نہیں بولوں گا اس لیے اس کے نتیجہ میں میں نے بدکاری کو بھی چھوڑ دیا.کیونکہ اگر میں بدکاری کرتا اور پھر انکار کر دیتا کہ میں نے ایسا نہیں کیا تو یہ جھوٹ ہوتا.اور اگر اقرار کرتا تو اس کی سزا پاتا.پس میں نے فیصلہ کیا کہ بدکاری بھی نہیں کروں گا تا آپ کے پاس جھوٹ نہ بولنا پڑے.4 پس سچائی ایک بنیادی چیز ہے اور اگر تم سچائی پر قائم رہو گے تو باقی بُری عادتیں آپ ہی آپ چھٹ جائیں گی.سچائی ایک اہم ترین چیز ہے اور انسانی قلب پر ایسی چوٹ لگاتی ہے کہ
1952 58 خطبات محمود سخت سے سخت دل بھی ہل جاتا ہے.پرانے زمانہ کا ایک واقعہ ہے کہ حضرت سید عبد القادر جیلانی ابھی بچے ہی تھے کہ ان کی والدہ نے انہیں اپنے بھائی کے پاس بھیجا جو ایک بہت بڑے تاجر تھے.آپ کی والدہ نے آپ کے گرم کپڑے میں (جو پرانا ہو جائے تو لوگ اُسے گدڑی کہتے ہیں) چند اشرفیاں سی دیں اور کہا کہ وہاں پہنچ کر یہ اشرفیاں نکلوا لینا.اتفاق کی بات ہے کہ جس قافلہ میں آپ جا رہے تھے اُس پر ڈا کہ پڑا اور ڈاکوؤں نے سب افراد کو لوٹ لیا.لیکن سید عبد القادر جیلانی کو بچھہ سمجھ کر چھوڑ دیا اور یہ خیال کیا کہ اس کے پاس کیا ہو گا.لیکن ڈاکوؤں میں سے کسی نے اُن کی سے بھی پوچھ لیا کہ کیا تمہارے پاس بھی کچھ ہے؟ آپ نے کہا ہاں میرے پاس اتنی اشرفیاں ہیں.ڈاکو نے دریافت کیا وہ اشرفیاں کہاں ہیں؟ آپ نے گرم کپڑے کی طرف اشارہ کر کے بتایا کہ اشرفیاں اس میں سی ہوئی ہیں.ڈاکوؤں کا سردار اُس ڈا کو پر جو آپ سے باتیں کر رہا تھا جی ناراض ہوا اور کہا اس بچہ کے پاس کیا ہو گا تم یونہی وقت ضائع کر رہے ہوا سے چھوڑ دو.لیکن اس کی نے کہا یہ کہتا ہے میرے پاس اتنی اشرفیاں ہیں.چنانچہ گدڑی کو پھاڑا گیا تو اس میں سے تھی اشرفیاں نکل آئیں.سردار بہت حیران ہوا اور اُس نے سید عبد القادر صاحب جیلانی سے کہا بیوقوف بچے ! ہمیں پتا بھی نہیں تھا کہ تمہارے پاس کچھ ہوگا اس لئے ہم نے تمہیں چھوڑ دیا تھا تم چُپ کیوں نہ کر رہے تم نے یہ کیوں نے کہہ دیا کہ میرے پاس کچھ نہیں.ہوسکتا ہے کہ حضرت سید عبد القادر جیلانی " بوجہ بچہ ہونے کے سچائی کی اہمیت کو نہ سمجھتے ہوں.لیکن وہ یہ ضروری جانتے تھے کہ ” ہے“ کو ” ہے ہی کہنا چاہیئے اور ”نہیں“ کو ”نہیں“ کہنا چاہیے.انہوں نے ڈاکوؤں کے سردار سے کہا جب میرے پاس اشرفیاں تھیں تو میں یہ کیوں کہتا کہ میرے پاس کچھ نہیں.آپ کی اس بات کا سردار پر ایسا اثر ہوا کہ اس نے آئندہ ڈاکہ ڈالنا چھوڑ دیا.5 اس نے کی خیال کیا کہ ایک بچہ تو جھوٹ کو جھوٹ کہتا ہے اور سچ کو سچ کہتا ہے اور ایسا کہنے میں کوئی ڈر محسوس نہیں کرتا لیکن میں جو اتنا بڑا ہوں ، ڈاکے ڈالتا ہوں اور جب حکومت پوچھتی ہے کہ کیا تم نے فلاں کی ڈاکہ ڈالا ہے؟ تو میں جھوٹ بول دیتا ہوں کہ میں تو اُس رات فلاں جگہ گیا ہوا تھا مجھے علم نہیں.چنانچہ آپ کے اسی نمونہ کی وجہ سے یہ مثل مشہور ہو گئی کہ ”چوروں قطب بنایا کیونکہ بچپن میں ہی ,, آپ کے منہ سے ایک ایسی بات نکلی جس کی وجہ سے ڈاکوؤں کے ایک سردار کی اصلاح ہو گئی.
1952 59 خطبات محمود اسی طرح ہماری جماعت میں بھی ایک واقعہ موجود ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر عیسائیوں کی طرف سے ایک مقدمہ چلایا گیا تھا.شروع شروع میں انگریز قانون کی پابندی کی کمی عادت ڈالنے کے لئے بڑی سختی سے کام لیتے تھے.آپ نے ایک مضمون لکھا اور چھپوانے کے لئے ایک عیسائی کے پریس میں بھجوایا.اُس پریس سے آپ عموماً رسالے اور کتب شائع کروایا کرتے تھے.آپ نے اس مضمون کے ساتھ پیکٹ میں ایک رقعہ بھی ڈال دیا.آجکل تو ایسا کی کرنے میں کوئی حرج نہیں سمجھا جاتا لیکن اُن دنوں اس جرم کی سزا چھ ماہ قید یا پانچ صد روپے جرمانہ تھی.اگر چہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اُس عیسائی کے بہت بڑے گا ہک تھے لیکن کی چونکہ آپ عیسائیت کے خلاف لٹریچر شائع کروایا کرتے تھے اس لئے اُسے آپ سے بغض تھا.اس نے سپرنٹنڈنٹ ڈاک خانہ جات کے پاس رپورٹ کر دی.وہ بھی انگریز تھا اس نے کی عدالت میں مقدمہ دائر کر دیا.اس مقدمہ کا فیصلہ کرنے کے لئے بھی ایک انگریز افسر کا تقرر کیا گیا.آپ کی طرف سے جو وکیل مقرر کیا گیا تھا اُس نے کہا کہ مرزا صاحب آپ نے پیکٹ میں خط ڈالا تھا اور اس عیسائی نے پیکٹ کھولا ہے.اس بات کا کوئی اور گواہ نہیں.اس لئے اگر آپ کہہ دیں کہ میں نے خط نہیں ڈالا تو مقدمہ ختم ہو جائے گا.اس مجرم کے آپ خود ہی گواہ ہیں اور قانون مدعا علیہ کو آزادی دیتا ہے کہ وہ جس طرح چاہے عدالت میں بیان دے دے.آپ نے فرمایا جب یہ سچی بات ہے کہ میں نے پیکٹ میں رقعہ ڈالا تھا تو میں جھوٹ کیوں بولوں؟ وہ عیسائی بھی جانتا تھا کہ آپ جھوٹ نہیں بولیں گے اس لئے اس نے حج سے کہہ دیا تھا کہ آپ مرزا صاحب سے ہی پوچھ لیں یہ اس بات کا اقرار کر لیں گے کہ انہوں نے واقع میں پیکٹ میں رقعہ بند کر دیا تھا.اس کے اشارہ پر سپرنٹنڈنٹ صاحب ڈاک خانہ جات نے بھی کہہ دیا کہ مدعا علیہ سے ہی پوچھ لیا جائے کہ کیا اس نے پیکٹ میں رقعہ بند نہیں کیا تھا؟ آپ نے فرمایا کہ ہاں میں نے رقعہ ضرور ڈالا ہے لیکن وہ رقعہ اس رسالے کے متعلق تھا اور اس کی چھپوائی کے متعلق بعض ہدایات دینی گئی تھیں ، کوئی الگ خط نہیں تھا اور مجھے علم نہیں تھا کہ ایسا کرنا جرم ہے.اس پر بحث شروع ہوگئی ہی اور سپر نٹنڈنٹ ڈاک خانہ جات نے کہا کہ یہ لوگ قانون شکنی کے عادی ہیں اسے ضرور سزادی جائے.حج بھی انگریز تھا، سپرنٹنڈنٹ ڈاک خانہ جات بھی انگریز تھا اور رپورٹ کرنے والا بھی انگریز تھا.کی
1952 60 خطبات محمود اور یہ سب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے عیسائیت کا مقابلہ کرنے کی وجہ سے بغض رکھتے تھے.لیکن پھر بھی باوجود سپرنٹنڈنٹ ڈاک خانہ جات کے زور دینے کے مجسٹریٹ نے کہا جس شخص نے عدالت میں سچ بولا ہے میں اُسے کوئی سزا نہیں دوں گا.چنانچہ اس نے آپ کو بری کر دیا.اس نے کہا یہ خود ہی گواہ تھے لیکن پھر بھی اقرار کر رہے ہیں.اس سے زیادہ نیک نیتی اور کیا ہو گی.میں انہیں سز انہیں دوں گا.پس سچائی ہمیشہ دل کو موہ لیتی ہے اور یہ عظیم الشان نیکیوں میں سے ہے.لیکن جس طرح لوگ موت کو بھول جاتے ہیں اسی طرح اسے بھی بھول جاتے ہیں باوجود اس کے کہ یہ ایک یقینی چیز ہے.آخر سچائی کس چیز کا نام ہے؟ سچائی میں تمہیں کوئی یہ نہیں کہتا کہ پہاڑ کو دو، دریا پار کرو، رات دن ورزش کر و یا فلاں کتاب پڑھتے رہو.سچائی نام ہے اس چیز کا کہ تم ” ہے" کو ہے کہ دو اور ”نہیں“ کو نہیں کہہ دو.مثلاً ایک دیوار ہے.سچائی کہتی ہے کہ جب تم سے کوئی پوچھے کہ یہ کیا چیز ہے؟ تو تم کہہ دو یہ دیوار ہے.اس میں نہ سائنس پڑھنے کی ضرورت ہے، نہ کسی غور وفکر کی ضرورت ہے اور نہ کسی محنت کی ضرورت ہے.مثلاً کپڑا ہے.تمہارے پاس کوئی شخص آئے اور دریافت کرے کہ یہ کیا ہے؟ تو تم کہ دو یہ کپڑا ہے.یا وہ کہے کہ یہ روشنی کس کی ہے؟ تو تم کہہ دو یہ روشنی سورج کی ہے.اور یہ بات ہر چھوٹا اور بڑا، جوان اور بوڑھا ، عالم اور جاہل کہہ سکتا ہے اس میں کسی محنت کی ضرورت نہیں لیکن پھر بھی لوگ سچائی سے بھاگتے ہیں.تم اکثر لوگ ایسے دیکھو گے جو کسی وجہ سے یا بلا وجہ سچ کو چھوڑ دیتے ہیں.اب دیکھنے والی بات یہ ہے کہ صاف بات کیوں پوشیدہ ہو جاتی ہے اور جھوٹ کہاں سے پیدا ہوتا ہے.اگر اس چیز پر غور کیا جائے اور وقت پر اصلاح کر لی جائے تو یہ نقص دور ہوسکتا ہے.شروع میں جھوٹ بچوں میں آتا ہے اور ماں باپ کے ذریعہ آتا ہے.مثلاً بچہ لیٹا ہوا ہوتا ہے، اُس کی آنکھیں کھلی ہوتی ہیں.اٹھنا بیٹھنا اسے آتا نہیں.ماں باپ سمجھتے ہیں کہ یہ کچھ سمجھتا نہیں.وہ ماں کو دیکھ کر روتا ہے تو باپ ماں سے کہتا ہے تم اس کی نظر سے اوجھل ہو جاؤ تو یہ چُپ کر جائے گا.بچہ جانتا ہے کہ فلاں عورت میری ماں ہے اور وہ اب چھپ گئی ہے وہ چُپ کر جاتا ہے.لیکن دراصل یہ جھوٹ ہوتا ہے اور ” ہے“ کو ”نہیں“ کہہ دیا جاتا ہے.اور بچہ سمجھتا ہے کہ
خطبات محمود وو ،، وو 61 1952 ” ہے کو ”نہیں“ کہہ دینا اور ”نہیں“ کو ” ہے" کہہ دینا بھی ایک فن ہے.پھر جب بچہ بڑائی ہو جاتا ہے اور چلنے پھرنے لگ جاتا ہے تو ماں باپ سمجھتے ہیں کہ فلاں چیز کھانے سے بچہ کو بد ہضمی ہو جائے گی اس لئے وہ پلیٹ چُھپا لیتے ہیں اور کہتے ہیں وہ چیز ختم ہو گئی.حالانکہ وہ الماری، صندوق یا باورچی خانہ میں پڑی ہوئی ہوتی ہے.بچہ جانتا ہے کہ وہ چیز چھپا لی گئی ہے اور سمجھتا وو وو وو ہے کہ یہ بھی ایک فن ہے کہ ” ہے“ کو ”نہیں“ اور ”نہیں“ کو ” ہے“ کہہ دیا جائے.یا مثلاً ماں باہر گئی ہوتی ہے، بچہ روتا ہے تو بہن بھائی اُس کا دل بہلانے کے لئے کہہ دیتے ہیں کہ اماں آ رہی ہے.لیکن یہ بات واقعہ کے خلاف ہوتی ہے.بچہ جانتا ہے کہ یہ بات درست نہیں ہے.اور سمجھتا ہے کہ یہ بھی ایک عمدہ ترکیب ہے کہ ” ہے“ کو ”نہیں“ کہہ دیا جائے اور ”نہیں“ کو ہے کہہ دیا جائے.پھر مذاق شروع ہو جاتا ہے.ماں باپ یا بہن بھائی مذاقاً ” ہے" نہیں“ اور ”نہیں“ کو ” ہے“ کہہ دیتے ہیں اور بچہ سمجھتا ہے کہ ضرورتا ہے کو نہیں نہیں“ کو ” ہے“ کہا جاسکتا ہے.تم اسے گھوڑا دیتے ہو اور پوچھتے ہو یہ کیا ہے؟ تو وہ کہتا ہے ؟ گھوڑا ہے.وہ جانتا ہے کہ یہ اصلی گھوڑا نہیں لیکن تم اس سے ”نہیں“ کو ” ہے“ کہلوا رہے ہو.پس ماں باپ بچہ کو جھوٹ کی تربیت دیتے ہیں وہ سمجھتے ہیں کہ اس طرح وقت گزر جائے گا یا بچہ رو رہا ہے تو اُس کا دل بہل جائے گا.لیکن بچہ کے دماغ میں گولفظی طور پر جھوٹ نہیں آتا مگر وہ یہ سمجھتا ہے ضرور ہے کہ تم نے ”نہیں“ کو ” ہے “ اور ” ہے“ کو ”نہیں“ کہہ دیا ہے اور بڑے ہو کر اسے جھوٹ کی عادت ہو جاتی ہے.اور جب وہ سمجھتا ہے کہ جھوٹ بولنے سے عارضی فائدہ ہو جاتا ہے تو وہ جھوٹ بولنے لگ جاتا ہے.وو وو پھر غصہ، لالچ ، محبت اور خوف بھی جھوٹ میں ممد ہو جاتے ہیں.غصہ کی حالت میں جب انسان یہ دیکھتا ہے کہ اُس کا دشمن طاقتور ہے اور وہ اُس کا مقابلہ نہیں کر سکتا تو وہ کہہ دیتا ہے یہ جھوٹ بولتا ہے.یا وہ کسی پر افترا کرتا ہے اور اسے گورنمنٹ پکڑ لیتی ہے تو وہ کہتا ہے میں نے تو ایسا نہیں کیا.اسی طرح لالچ ہے.انسان جب یہ دیکھتا ہے کہ فلاں چیز بڑی عمدہ ہے اور وہ چاہتا ہے کہ کاش ! وہ چیز میرے پاس ہو لیکن وہ اسے حاصل نہیں کر سکتا تو عدالت میں جا کر جھوٹ بول دیتا ہے اور کہ دیتا ہے کہ یہ چیز میری ہے.فلاں شخص نے زبر دستی مجھ سے چھین لی ہے.حالانکہ
1952 62 خطبات محمود وہ خوب سمجھتا ہے کہ وہ چیز اُس کی نہیں.لیکن چونکہ بچپن میں اُس نے یہ گر سیکھ لیا ہوتا ہے کہ جھوٹ کی سے عارضی فائدہ ہو جاتا ہے اس لئے وہ جھوٹ بول دیتا ہے اور سمجھتا ہے کہ میں بالکل اُسی طرح کی کہہ رہا ہوں جس طرح میری ماں کہیں باہر گئی ہوتی تھی اور بہن بھائی میرا دل بہلانے کے لئے کہہ دیتے تھے کہ وہ اماں آگئی.اگر ماں باپ کوئی چیز میرے لئے مضر سمجھتے تھے تو اُسے چھپالیتے تھے لیکن مجھے پچپ کرانے کے لئے کہہ دیتے تھے کہ وہ چیز ختم ہو گئی ہے.پھر محبت ہے.محبت کا جذ بہ بھی جب جوش میں آتا ہے تو انسان بعض اوقات جھوٹ بول جاتا ہے.اسی طرح خوف ہے.خوف کی وجہ سے بھی انسان بعض اوقات سچائی کو ترک کر دیتا ہے اور جھوٹ بول دیتا ہے.اگر جھوٹ کو نکال دیا جائے تو دنیا اتنی خوبصورت بن جاتی ہے کہ اس کی حد نہیں رہتی.میں جب دورہ پر آتا ہوں تو لوگ کئی تنازعات میرے پاس لے آتے ہیں.میں انہیں کہتا ہوں کہ یہ تنازعات انجمن میں لے جاؤ.لیکن پھر بھی وہ رقعے دیتے جاتے ہیں اور فریقین میں سے ایک کی فریق ضرور جانتا ہے کہ وہ جھوٹ بول رہا ہے.مثلاً ایک شخص کہتا ہے فلاں نے میرے اتنے روپے دینے ہیں لیکن وہ دیتا نہیں.تو یہ ایسی بات نہیں کہ اس کے لئے اجتہاد میں غلطی ہوگئی ہو.یا تو مدعی جھوٹ بول رہا ہوتا ہے کہ فلاں شخص نے میرے اتنے روپے دینے ہیں حالانکہ اس نے روپے دینے نہیں ہوتے اور یا پھر مد عاعلیہ نے روپے دینے ہوتے ہیں لیکن وہ جھوٹ بول دیتا ہے کہ میں نے اس کے روپے نہیں دینے.بہر حال دونوں میں سے ایک فریق ضرور جھوٹا ہوتا ہے.اگر لوگ سچائی سے کام لیں تو سارے جھگڑے ختم ہو جائیں.یورپ میں ڈپلومیسی (DIPLOMACY) کے باوجود سچائی کا وصف پایا جاتا ہے.سو میں سے پندرہ آدمی ایسے ہوں گے جو جھوٹ بولیں گے.باقی عدالت میں صاف طور پر کہہ دیں گے کہ مدعی کا بیان سچا ہے اور جج فیصلہ کر دے گا.لیکن سچائی کو ترک کر دینے سے معاملہ پیچیدہ ہوتا جائے گا.پھر جس کے خلاف جھوٹ بولا جاتا ہے اس کے دل میں بدظنی پیدا ہو جاتی ہے اور آہستہ آہستہ وہ سمجھنے لگ جاتا ہے کہ سب لوگ بُرے ہیں.قصور ایک شخص نے کیا ہوتا ہے لیکن وہ سمجھتا ہے کہ سارے لوگ ہی ایسے ہیں.اور جو شخص یہ سمجھے گا کہ ساری دنیا گندی ہے وہ خود بھی گندا ہو جائے گا.عیسائیت کو دیکھ لو.عیسائیت کہتی ہے بدی ایک فطری چیز ہے.اس لئے کوئی عیسائی نیک بننے کی کوشش نہیں کی
1952 63 خطبات محمود کرسکتا.اتفاقاً کوئی عیسائی نیک بن جائے تو یہ اور بات ہے ورنہ موجودہ عیسائیت کسی کو نیکی نہیں بناتی.کیونکہ وہ کہتی ہے کہ بدی ایک فطرتی چیز ہے.اور جو شخص فطر تا گندا ہے وہ نیک کس طرح بن سکتا ہے.ہاں جس عیسائی نے اپنے مذہب پر غور نہ کیا ہو اور اس کی غیرت سلامت ہوتو وہ با وجود عیسائیت کے نیک ہو جائے گا.لیکن اُس کا نیک ہونا بوجہ عیسائیت کے نہیں ہوگا.پس تم سچائی کو اختیار کرو.تمہارے اندر اگر کوئی افسر ہے اور اس نے واقع میں اگر کسی سے کچھ وعدہ کیا ہے تو اس میں حرج ہی کیا ہے کہ وہ کہہ دے کہ میں نے فلاں سے یہ وعدہ کیا تھا.کی اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ اس کے سارے ماتحت یہ کہیں گے کہ اس سے غلطی ہوگئی ہے.اگر اس سے کی غلطی ہوگئی ہے تو کیا بات ہے.لیکن جب وہ جھوٹ بولتا ہے تو ماتحت کہتا ہے کہ میں اسے ذلیل کر کے چھوڑوں گا.اسی طرح ہزار ہا اور دوسرے کا رکن بھی سچائی کو معیار قرار دے لیں تو اس کا اتنا اثر ہوگا کہ ہزار ہا لوگ صداقت کی طرف مائل ہو جائیں گے.میں نے بارہا سنایا ہے کہ جھنگ کے ایک دوست مغلہ نامی احمدی ہو گئے.اتفاق سے وہ ربوہ کے قریب کے علاقہ کے ہی ہیں.جب وہ احمدی ہوئے تو انہیں بتایا گیا کہ ہمیشہ سچ بولا کرو.اس پر انہوں نے جھوٹ بولنا ترک کر دیا.ان کی قوم چور تھی اور دشمن کے جانور پھر الینا فخر کی بات سمجھتی تھی.مغلہ کے بھائیوں اور دوسرے رشتہ داروں کو جب یہ پتا لگا کہ وہ احمدی ہو گیا ہے تو انہوں نے اس کے ساتھ کھانا پینا ترک کر دیا اور کہا کہ تم کا فر ہو گئے ہو اور ادھر لوگوں کو یہ کی پتا لگا کہ مغلہ سچ بولنے لگ گیا ہے.جب اُس کے بھائی کسی کے جانور چرا کر لاتے اور لوگ اکٹھے ہو جاتے تو وہ کہتے ہم قرآن اٹھا لیتے ہیں کہ ہم نے تمہارا مال نہیں چرایا.لیکن وہ کہتے تمہاری قسم پر ہمیں اعتبار نہیں.مغلہ اگر کہہ دے کہ تم نے ہمارا مال نہیں چرایا تو ہم مان لیں گے.بھینسیں گھر میں آئی ہوئی ہوتی تھیں.وہ مغلے کی آنکھوں سے پوشیدہ نہیں رہ سکتی تھیں.جب اُن سے گواہی لی جاتی تو وہ کہہ دیتے کیا تم بھینسیں چرا کر نہیں لائے ؟ بعض اوقات اُن کے بھائی کی انہیں مارتے اور اتنا مارتے کہ انہیں یقین ہو جاتا کہ اب مغلہ ان کے حق میں گواہی دے دے گا.چنانچہ وہ اُسے باہر لاتے اور کہتے کیوں مغلے کیا ہم نے ان کی بھینسیں چرائی ہیں؟ وہ کہہ دیتے کہ جب تم نے بھینسیں چرائی ہیں تو میں کس طرح کہوں کہ تم نے بھینسیں نہیں چرائیں.
1952 64 خطبات محمود انہوں نے مجھے خود بتایا کہ میں شروع میں بہانہ بنا دیا کرتا تھا کہ میں تو کافر ہوں اور کافر کی گواہی کی کا اعتبار ہی کیا.لیکن وہ کہتے کہ تم کا فر تو ہو لیکن تم سچ بولتے ہو.اس کا اتنا اثر ہوا کہ سارا علاقہ کہنے لگ گیا کہ احمدی کا فر ہوتے ہیں لیکن سچ بولتے ہیں.اور اس سے زیادہ مزیدار اور کیا چیز ہوگی کہ کوئی کہے تم کافر ہو لیکن رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سچے عاشق ہو.تم کا فر ہولیکن خدا تعالیٰ کے سچے عاشق ہو.تم کا فر ہو لیکن دین کے سچے خادم ہو.اور بڑھتے بڑھتے یہ چیز اس حد تک چلی جائے گی کہ دشمن کی اولاد کہے گی یہ کافر کیسے ہو سکتے ہیں.یہ تو خدا اور اس کے رسول کے سچے عاشق ہیں.ان کے ماں باپ بے شک تمہیں کا فر کہتے جائیں لیکن جب تم اپنا نمونہ پیش کرو گے تو ان میں سے ہر ایک یہ ماننے لگ جائے گا کہ تم کچھ اور بن گئے ہو.پس تم اپنے اندر سچائی پیدا کرو پھر باقی خوبیاں تم میں آسانی سے پیدا ہو جائیں گی.1 : اسد الغابة جلد 3 صفحہ 221.مطبوعہ ریاض 1286ھ الفضل 9 اگست 1961 ء ) :2 آل عمران : 145 - بخاری کتاب المغازى باب مَرَضِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَ وَفَاتِهِ 3: آل عمران : 145 4 تفسیر کبیر امام رازی ، سوره التو به 119: (يَا يُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَكُوْنُوْا مَعَ الصدِقِينَ 5 تربية الاولاد في الاسلام، الجزء الاول صفحہ 175 بیروت 1981ء
1952 65 9 خطبات محمود محض احمدی کہلانا کافی نہیں.اصل چیز یہ ہے کہ تمام اسلامی احکام پر عمل کرنے کی کوشش کی جائے (فرمودہ 21 مارچ 1952ء بمقام ناصر آبا دا سٹیٹ سندھ ) تشهد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: میں آج اپنے ذہن میں خطبہ جمعہ کے لئے ایک مضمون تجویز کر کے آیا تھا.لیکن جب مسجد میں داخل ہوا تو میں نے دیکھا کہ آج لوگ معمول سے زیادہ آئے ہوئے ہیں اور اب جو میں خطبہ کے لئے کھڑا ہوا تو یکدم میرا ذہن ایک ایسی بات کی طرف چلا گیا جسے لوگ عام طور پر مضحکہ خیز سمجھتے ہیں.لیکن اس موقع پر وہ بالکل چسپاں نظر آتی ہے.میں سوچ رہا تھا کہ آج لوگ زیادہ کی تعداد میں کیوں آئے ہیں؟ اس پر میرا ذہن اس طرف منتقل ہوا کہ جس طرح رمضان المبارک کی میں جمعۃ الوداع کے موقع پر قریباً تمام کے تمام لوگ مساجد میں آ جاتے ہیں اسی طرح ہماری جی جماعت کے دوست بھی آج ہمیں وداع کرنے کے لئے آئے ہیں.کیونکہ ہمارا یہ اس سفر میں آخری جمعہ ہے.انہوں نے یہ خیال کیا کہ چلو اپنے خلیفہ کو الوداع کہہ آئیں.مجھے اس وداع پر ہنسی آتی ہے.کیونکہ جیسے دوسرے لوگ خواہ سارا سال نماز پڑھیں یا نہ پڑھیں وہ جمعتہ الوداع میں حاضر ہو جاتے ہیں اور سمجھ لیتے ہیں کہ انہوں نے سارے سال کی نمازیں ادا کر لی ہیں اور کی ان کے سارے گناہ معاف ہو گئے ہیں اسی طرح اِس علاقہ کے دوستوں نے بھی خیال کر لیا کہ اب یہ لوگ جانے لگے ہیں چلو انہیں وداع کر آئیں.لیکن اس وداع سے کیا بنتا ہے.اصل چیز تو جی
1952 66 خطبات محمود یہ ہے کہ اسلام کی تعلیم پر عمل کرنے کی کوشش کی جائے ، اچھے اخلاق دکھائے جائیں اور اسلامی تمدن کی کو دنیا کے سامنے پیش کیا جائے.لیکن واقع یہ ہے کہ ہم ان چیزوں سے ابھی دور نظر آتے ہیں.وہی برہمن و شو در والی بات، حاکم و محکوم اور افسر و ما تحت والی بات جو دنیا کے لئے عذاب کا موجب بن رہی ہے ہم میں سے بعض میں بھی پائی جاتی ہے.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ جو لوگ کم تعلیم یافتہ ہیں یا انہیں کوئی فن نہیں آتا اور وہ چھوٹے کام کرنے پر مجبور ہیں اُن کی تربیت کی بھی ضرورت ہے.لیکن اس میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ جن لوگوں کے سپر د کام کئے جاتے ہیں اُن کو بھی یہ سمجھانے کی ضرورت ہے کہ وہ اپنے آپ کو انسان تصور کریں.جب تک دونوں فریق کی ذہنیت بدل نہ جائے اُس وقت تک اسلام کی تعلیم دلوں کو موہ نہیں سکتی.بے شک ایسی صورت میں زید کی تعلیم پھیلے گی ، بکر کی تعلیم پھیلے گی مگر قرآن کریم کی تعلیم اسی صورت میں پھیل سکتی ہے کہ ہم اپنی ذہنیت کو بدلیں اور اپنی زندگیوں کو اسلامی تمدن کے رنگ میں ڈھالنے کی کوشش کریں.سر آغا خاں جب لاہور آئے تو اُن کے مرید جو گلگت اور دوسری دور دراز جگہوں سے اُن کا استقبال کرنے کے لئے آئے تھے سات دن قبل ہوائی اڈہ میں خیمے لگا کر بیٹھ گئے تھے.میں نے جب یہ خبر اخبارات میں پڑھی تو مجھے ہنسی آئی کہ آجکل بھی اس قسم کے بے وقوف لوگ پائے جاتے ہیں.اسی طرح آج بھی مجھے ہنسی آئی کہ بعض لوگ اپنے اندر احمدیت کی صحیح روح تو پیدا نہیں کرتے لیکن انہوں نے یہ خیال کر لیا کہ یہ اگر ربوہ سے آئے تھے اور اب واپس جانے والے ہیں تو انہیں الوداع کہہ آئیں.گویا جس طرح کشتی دیکھنے کے لئے لوگ جمع ہو جاتے ہیں اسی طرح وہ بھی آگئے.فرق صرف یہ ہے کہ وہاں تو کوئی پہلوان ہوتا ہے لیکن یہاں یہ کہا جاتات ہے کہ ہمارا خلیفہ آیا تھا اسے وداع کر آئیں.اس سے زیادہ جنسی والی بات اور کیا ہوگی.حالانکہ اصل چیز یہ ہے کہ تم اپنے اندر اعلیٰ اخلاق پیدا کرو.مثلاً اسلام کہتا ہے کہ تم ہمیشہ سچ بولو یعنی جب بھی سچ بولنے کا سوال آئے تو سچی بات بیان کر دو.اب اگر لوگ تم سے کوئی بات پوچھتے ہیں اور تم سچ بول دیتے ہو تو بے شک یہ بڑی بات ہے.لیکن اگر تم ایک بات بیان کرتے ہو اور تمہارا باپ بھائی یا بچے اسے جھوٹ سمجھتے ہیں اور کہتے ہیں اس طرح نہیں بلکہ اصل بات یوں ہے تو اس میں خوشی کی کیا بات ہوگی.یا وہ کیا بات ہوگی جو تم نے احمدیت سے حاصل کی.احمدیت تمہیں دنیا کے لئے ایک نمونہ بنانے کے لئے آئی ہے اور اگر تم میں سچ بولنے،
1952 67 خطبات محمود دوسروں سے ہمدردی کرنے ، رحم کرنے ، انصاف سے کام لینے اور دوسروں کو اُن کا حق دینے کی کی عادت پیدا ہو گئی ہے تو بے شک تم نے احمدیت سے کچھ حاصل کر لیا ہے.لیکن اگر یہ چیزیں کی تمہارے اندر پیدا نہیں ہوئیں تو جیسے کیکر سنگھ یا گاما پہلوان کی گشتی دیکھنے کے لئے لوگ اکٹھے ہو جاتے ہیں اسی طرح تم بھی اکٹھے ہو جاؤ گے.تم بھی کہو گے کہ ہمارا ایک پہلوان آیا ہے چلو اس کی کشتی دیکھ آئیں.پس چاہے اس کا نام جمعہ رکھ لو ، چاہے اس کا نام عقیدت رکھ لو ، چاہے اس کا نام خلافت رکھ لولیکن ہے یہ وہی کیکر سنگھ اور گاما پہلوان والی بات.اگر یہ احمدیت والی بات ہوتی تو تم احمدیت والے کام بھی کرتے.لیکن اگر تم احمدیت کے گروں کے بغیر ا کٹھے ہو جاتے ہو تو کی تمہارے جمعہ میں اکٹھے ہو جانے سے یہی مطلب سمجھا جائے گا کہ گاما پہلوان آیا ہے اور تم اُس کی گشتی دیکھنے کے لئے آئے ہو.جمعہ اور کشتی میں ایسی صورت میں فرق ہی کیا رہ جاتا ہے.کی دیکھنے والے بھی جھوٹ بولتے جاتے ہیں اور جمعہ پڑھنے والے بھی جھوٹ بولتے جاتے ہیں.پس جب تک تم اپنے اندر کوئی خاص تبدیلی پیدا نہیں کرتے احمدیت میں داخل ہونے کا تمہیں کوئی فائدہ نہیں ہوسکتا.کیا تم یہ سمجھتے ہو کہ جنت ایک معمولی چیز ہے ؟ لا اِلهَ اِلَّا اللہ کہہ دیا تو گویا خدا تعالیٰ پر احسان کر دیا اور وہ مجبور ہوگا کہ تمہیں جنت میں لے جائے ؟ کیا تم سورج کو سورج کی کہہ کر انعام مانگا کرتے ہو؟ سورج کو سورج کہنے سے انعام نہیں ملا کرتا.اسی طرح اگر تم نے کی رسول اللہ کو رسول اللہ کہہ دیا تو تم نے خدا تعالیٰ پر کون سا احسان کیا کہ وہ اس کے بدلہ میں تمہیں جنت دے دے.کیا تم زمین کو زمین کہہ کر انعام مانگا کرتے ہو؟ کیا تم چاند کو چاند کہہ کر انعام مانگا کرتے ہو؟ یا تمہیں کوئی مکان نظر آئے تو اسے دیکھ کر تم یہ کہتے ہو کہ چونکہ میں نے مکان کو مکان کہہ دیا ہے اس لئے گورنمنٹ مجھے انعام دے دے؟ تم اُس آدمی کو کیا سمجھو گے کہ جو گورنر کو یہ لکھے کہ مجھے ایک گھوڑ ا نظر آیا تھا، میں نے اسے گھوڑا کہہ دیا ہے مجھے دومر بعے دو.یقینا تم اسے پاگل خیال کرو گے اور کہو گے کہ اگر تم گھوڑے کو گھوڑا نہ کہتے تو اور کیا کہتے.اگر تم اسے گدھا کہہ دیتے تو لوگ تمہیں پاگل خیال کرتے.اسی طرح اگر خدا ہے اور وہ ایک ہے اور اس پر زمین اور آسمان دونوں گواہ ہیں تو تم ADATA TALAL AND اللہ کہہ کر اس پر کیا احسان کرتے ہو کہ وہ اس کے بدلہ میں تمہیں جنت دے دے.انسان کو جنت میں لے جانے والی قربانیاں ہوتی ہیں جو وہ صبح و شام
1952 68 خطبات محمود.کرتا ہے.مثلاً اگر وہ اقرار کرتا ہے کہ میں فلاں کام نہیں کروں گا اور پھر وہ بات اس کے سامنے آجاتی ہے اور وہ اپنے اقرار کے مطابق اس سے بچتا ہے تو اس کے بدلہ میں اسے یقیناً جنت ملے گی.یا اس کے پاس کسی کا روپیہ تھا جو اس نے واپس کرنا تھا اب یہ دوسرے کا حق ہے جو اس نے بنا ہے.اگر وہ کہتا ہے کہ میں یہ روپیہ نہیں دیتا تو وہ اسلام کی تعلیم کے خلاف عمل کرتا ہے.لیکن اگر وہ کہتا ہے کہ میں نے واقعی تمہارا روپیہ دینا ہے تم وہ روپیہ لے لو تو خدا تعالیٰ اپنے فرشتوں کی سے کہے گا کہ اس شخص نے دوسرے کا حق ادا کرنے کے لئے اپنے آپ کو تکلیف میں ڈالا.اسے جنت میں لے جاؤ.اسی طرح غفلت ہے ، سستی ہے.تمہارا کسی کام کو جی نہیں چاہتا لیکن تم اپنے نفس پر زور دیتے ہو اور کہتے ہو کہ میں نے لَا اِلهَ إِلَّا اللہ کہہ کر اقرار کیا ہے کہ میں نے یہ کام ضرور کرنا ہے اور تم وہ کام کر دیتے ہو اور اس میں جو تکلیف ہوتی ہے اُسے برداشت کر لیتے ہو تو خدا تعالیٰ فرشتوں سے کہے گا کہ اس نے جو اقرار کیا تھا اسے اس نے پورا کر دیا ہے اسے جنت میں لے جاؤ.لیکن اگر کسی نے رسول کو رسول کہہ دیا تو اس نے سچ کہا.اس پر اُسے کیا انعام ملے گا.انعام محنت اور قربانی کے نتیجے میں ملتا ہے.پہاڑ کو پہاڑ کہہ دینے سے انعام نہیں ملتا ، دریا کو دریا کہہ دینے سے انعام نہیں ملتا، چاند کو چاند کہہ دینے سے انعام نہیں ملتا.بلکہ انعام پہاڑ پر چڑھنے سے ملتا ہے.انعام دریا کو گودنے سے ملتا ہے.انعام سورج کو سورج کہنے سے نہیں ملتا بلکہ انعام اُس کی روشنی سے فائدہ اٹھانے سے ملتا ہے.اسی طرح خدا کو خدا اور کی رسول کو رسول کہنے سے انعام نہیں ملتا.یہ تو سچائیاں ہیں.اگر تم ان کا انکار کرو گے تو دنیا تمہیں پاگل کہے گی.لیکن اگر تم خدا تعالیٰ اور اس کے رسول کی تعلیم پر عمل کرتے ہو تو تم یقیناً جنت کے وارث بنو گے.ہندہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شدید دشمن تھی.اس نے آپ کے بعض رشتہ داروں کی کے متعلق اعلان کیا ہوا تھا کہ ان کا پیٹ چاک کر کے کلیجے نکال لئے جائیں اور ان کے ناک کان کی وغیرہ کاٹ لئے جائیں.عرب میں یہ رسم تھی کہ اپنے دشمن کو ذلیل کرنے کے لئے اُس کے ناک اور کان وغیرہ کاٹ دیئے جاتے.چنانچہ ہندہ نے حضرت حمزہ کا پیٹ چاک کرا کے آپ کا کلیجہ نکلوایا تھا.اسی طرح آپ کے کان اور ناک بھی کٹوائے.جب مکہ فتح ہوا تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم
1952 69 خطبات محمود نے بعض لوگوں کے متعلق جنہوں نے مسلمانوں پر وحشیانہ مظالم کئے تھے اور جو تعداد میں پانچ سات تھے یہ فتویٰ دیا کہ اُنہیں معاف نہیں کیا جائے گا بلکہ جہاں کہیں وہ ملیں انہیں قتل کر دیا جائے.ان میں ہندہ بھی شامل تھی.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب عورتوں کی بیعت لینے لگے تو بیعت میں یہ اقرار بھی لیا جاتا تھا کہ ہم شرک نہیں کریں گی.جب آپ نے یہ الفاظ کہے کہ ہم شرک نہیں کی کریں گی تو ایک عورت بول اٹھی کہ یا رسول اللہ! کیا ہم اب بھی شرک کریں گی؟ کیا اب بھی نہ توحید میں کوئی شبہ باقی ہے؟ ہندہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی رشتہ دار تھیں اور آپ اُس کی تی آواز پہچانتے تھے.آپ نے فرمایا کیا ہندہ ہے؟ مطلب یہ تھا کہ تمہارے لئے تو موت کی سزا کا کی حکم ہے.ہندہ دلیر عورت تھی وہ ہنس کر کہنے لگی یا رَسُوْلَ اللہ ! اب آپ کا زور مجھ پر نہیں چل سکتا ، میں لا الہ الا اللہ پڑھ چکی ہوں اور مسلمان ہو چکی ہوں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا.ٹھیک ہے 1.غرض ہندہ مسلمان ہوئی اور بعد میں اس نے اسلام کی خدمات بھی کیں.اُس کا اُس وقت یہ کہنا کہ کیا ہم اب بھی شرک کریں گی ؟ یہ ایک طبعی فقرہ تھا کہ ہم شرک کرتے تھے اور آپ تو حید کی تعلیم دیتے تھے.آپ اکیلے تھے اور ہمارے ساتھ ساری قوم تھی.ساری قوم نے زور لگایا اور کہا یہ بہت ہے، وہ بُت ہے ہم ان کی مدد سے یوں کریں گے ، یوں جی کریں گے.پھر ہمارے پاس طاقت تھی اور آپ کمزور تھے.لیکن ہم ہار گئے اور آپ جیت کی گئے.ہمارے سارے بُت ٹوٹ گئے لیکن خدا تعالیٰ نے آپ کی مدد کی.کیا اتنا بڑا نقصان دیکھنے کے بعد بھی اس میں کوئی شبہ باقی رہ جاتا ہے کہ خدا ایک ہے.پس خدا تعالیٰ کا ایک ہونا أَظْهَرُ مِنَ الشَّمْسِ ہے.اسی طرح محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا رسول ہونا بھی اَظْهَرُ مِنَ الشَّمْسِ ہے.اور اگر کوئی شخص شرارت سے اس کا انکار نہیں کرتا ، اگر کوئی شخص ضد کی وجہ سے اس کے خلاف فیصلہ نہیں کرتا یا وہ عقل کو جواب نہیں دے دیتا تو وہ اس کا انکار کر ہی نہیں سکتا.پھر خدا تعالیٰ کو ایک کہہ کر یا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو رسول کہہ کر ہم نے ان پر کون سا احسان کر دیا ہے کہ خدا تعالیٰ اس کے بدلہ میں ہمیں جنت دے دے.اگر تم دریا کو دریا کہہ دیتے ہو تو تمہیں کوئی انعام نہیں ملے گا.ہاں اگر کوئی شخص دریا میں ڈوب رہا ہو اور تم اسے بچانے کے لئے دریا میں چھلانگ لگا دو، تم بھنور میں گھر جاؤ اور اپنے آپ کو موت کے کی
1952 70 خطبات محمود منہ میں ڈال دو تو سارے لوگ کہیں گے کہ یہ شخص انعام کا مستحق ہے.حالانکہ دریا تو دو دو ہزار کی میل کے بھی ہوتے ہیں تمہیں اتنے لمبے دریا کو دریا کہنے پر انعام نہیں ملے گا مگر دس گز پانی کو عبور کر کے انعام مل جائے گا.کیونکہ تم نے دو ہزار میل لمبے دریا کو دریا کہہ کر کوئی قربانی نہیں کی.تم نے محض سچائی کا اقرار کیا ہے.لیکن دس گز پانی کو عبور کر کے تم نے قربانی کی ہے اس لئے تم انعام کے مستحق ٹھہرے ہو.یا مثلاً کوہ ہمالیہ ہے.کوہ ہمالیہ ڈیڑھ دو ہزار میل لمبا ہے اور سو ڈیڑھ سو میل تک اس کی پہاڑیاں چلی جاتی ہیں.پھر اس کی بعض چوٹیاں کئی کئی میں اونچی چلی جاتی ہیں.اگر کی تم اس کا رقبہ نکا لو تو کتنا بڑا رقبہ بنتا ہے.لیکن اگر تم ہمالیہ کو ہمالیہ کہو اور انعام طلب کرو تو ہر شخص کی تمہیں پاگل کہے گا.لیکن اگر ہمالیہ کی کسی کھڈ میں کوئی بچہ گر جائے اور تم اُس کھڑ میں اپنے آپ کو گرالو، تمہارا باز وٹوٹ جائے ، جسم زخمی ہو جائے لیکن تم اس بچے کو باہر نکال لاؤ تو ہر ایک مخی کہے گا کہ تم انعام کے مستحق ہو.غرض تمہیں ہمالیہ کے اقرار کرنے سے انعام نہیں ملے گا.ہاں اُس چھوٹی سی کھڈ کی وجہ سے انعام مل جائے گا.کیونکہ انعام انہی چیزوں کی وجہ سے ملتا ہے جنہیں انسان تکلیف اٹھا کر کرتا ہے.یہاں یہ حالت ہے کہ بعض ماتحت اپنے افسروں سے تعاون نہیں کرتے.گواہی کا موقع آتا ہے تو ہیر پھیر اور ایسچ پیچ کرتے ہیں.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ میں نے کوئی احمدی ایسا نہیں دیکھا جو جان بوجھ کر جھوٹ بولتا ہو.لیکن میں نے کئی احمدی ایسے دیکھے ہیں جو گواہی کے وقت ایچ پیچ سے کام لیتے ہیں.اور جب وہ جھوٹ نما باتیں کرتے ہیں تو کی ان کے لئے جھوٹ بولنا آسان ہو جاتا ہے.پس تم اپنی ذہنیت بدلو.جب تم اپنی ذہنیت بدل لو گے تو احمدیت تمہارے لئے ہزاروں برکتوں کا باعث بن جائے گی.ورنہ جس طرح لوگ گشتی دیکھنے کے لئے جمع ہو جاتے ہیں اُسی طرح تمہارا بھی یہاں اکٹھے ہونا سمجھا جائے گا.فرق صرف اتنا ہے کہ دوسرے لوگ گاما پہلو ان کی کشتی کی وجہ سے اکٹھے ہو جاتے ہیں اور تم اپنے خلیفہ یا کسی تی مبلغ کے آنے پر اکٹھے ہو جاتے ہو.حالانکہ جب تک تم ایسے اخلاق ظاہر نہیں کرتے کہ تمہیں دیکھ کر ہر شخص یہ کہنے لگ جائے کہ یہ لوگ جھوٹے نہیں اُس وقت تک تمہارا احمدی ہونا تمہیں کچھ فائدہ نہیں پہنچا سکتا.آج ہی ایک بات میرے سامنے پیش کی گئی ہے کہ بعض افسر اپنے ماتحتوں سے ذاتی کام
1952 71 خطبات محمود لیتے ہیں اور یہ درست نہیں انہیں اس سے روکا جائے.مگر سوال یہ ہے کہ اگر کوئی شخص افسر کو اپنا بھائی یا باپ سمجھ کر اُس کا کام کر دیتا ہے تو اُسے کون منع کر سکتا ہے.ہم یہاں آتے ہیں تو کئی مرد کی اور عورتیں ہمارے گھر آجاتی ہیں اور ہمارا کام کر دیتی ہیں.جب مہمان آجاتے ہیں اور دوست سمجھتے ہیں کہ ایک دو آدمی اُن کی خدمت نہیں کر سکیں گے تو وہ آپ ہی آپ شوق سے آ جاتے ہیں کہ اور ہمارا ہاتھ بٹا دیتے ہیں.پس اگر کوئی شخص کسی افسر کی شوق سے خدمت کرتا ہے تو اسے کوئی تھی روک نہیں سکتا.یہ ایک فطرتی بات ہے کہ جس کسی سے پیار ہوتا ہے انسان اُس کی خاطر ہر قسم کی نجی تکلیف اٹھانے پر تیار ہو جاتا ہے.اور اگر کوئی شخص پیار اور محبت کی وجہ سے ایسا کرتا ہے تو یہ کی بڑی عمدہ بات ہے.اس کے معنی یہ ہیں کہ افسر اُس سے باپ کی طرح سلوک کرتا ہے اور اپنے کی نیک سلوک کی وجہ سے اُس نے اپنے ماتحتوں کے اندر گہرا جذبۂ محبت پیدا کر لیا ہے.لیکن اگر افسر اُس کی ناپسندیدگی کے باوجود کام کرواتا ہے تو وہ ظالم ہے اور اس کا مطلب سوائے اس کے اور کیا ہوسکتا ہے کہ وہ اپنے عہدے سے ناجائز فائدہ اٹھانا چاہتا ہے.یہی چیز ہے جس کی وجہ سے فرانس اور روس میں بغاوت ہو گئی تھی.اگر ہمارے ہاں بغاوت نہیں ہوتی تو اس کی وجہ یہ ج ہے کہ وہ شخص احمدی ہوتا ہے اور جماعت کے نظام کی وجہ سے بغاوت میں حصہ نہیں لیتا کیونکہ اُسے احمدیت بغاوت سے منع کرتی ہے اور وہ شخص ڈرتا ہے کہ اگر اس نے بغاوت کی تو نظام کی طرف سے اُسے سزا دی جائے گی.لیکن اگر وہ میر پور میں ہوتا تو وہ سٹرائک میں شامل ہو جا تا کج اور پھر وہ افسر دیکھتا کہ کس طرح اُسے اُس کی منتیں کرنی پڑتیں.بہر حال اپنے عہد ناجائز فائدہ اٹھانا ظلم ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے.كُلُّكُمْ رَاعٍ وَ كُلُّكُمْ مَسْنُولٍ عَنْ رَعِيَّتِهِ 2 تم میں سے ہر شخص ایک گڈریا ہے اور جو مال اللہ تعالیٰ کی طرف.اُس کے سپرد کیا گیا ہے اُس کے متعلق اُسی سے سوال کیا جائے گا.جس طرح مالک گڈریے سے اپنے مال کے متعلق پوچھتا ہے اسی طرح خدا تعالیٰ بھی تم سے اپنے بندوں کے متعلق سوال کرے گا.اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جو کچھ فرمایا ہے وہ ہر ایک شخص کے متعلق ہے.خاوند سے اُس کی بیوی کے متعلق سوال کیا جائے گا ، ماں باپ سے اُن کی اولاد کے متعلق سوال کیا جائے گا ، اور افسر سے اُس کے ماتحتوں کے متعلق سوال کیا جائے گا.اسی طرح میں تم سے کہتا ہوں کہ اگر تم ے سے
1952 72 خطبات محمود اپنے ماتحت سے اخلاص، ہمدردی اور رحم دلی والا سلوک کرتے ہو تو ہر شخص یہ کہے گا کہ تم انعام کے مستحق ہو.لیکن اگر تم اپنے ماتحت سے بُر اسلوک کرتے ہو تو جس طرح گڈریا تمہاری بھینس کو مارتا ہے تو تم اُس پر خفا ہوتے ہو اسی طرح تم خدا تعالیٰ کے بندوں کو مارو گے تو وہ تم پر خفا ہوگا.اگر تم بھینس یا بکری کو مارنے کی وجہ سے گڈریے پر خفا ہوتے ہو تو خدا تعالیٰ اپنے بندوں کو مارنے کی وجہ سے تم پر کیوں خفا نہ ہو گا.کیا تم یہ سمجھتے ہو کہ تمہیں تمہاری بھینس یا بکری زیادہ پیاری ہی ہے اور خدا تعالیٰ کو اپنا بندہ پیارا نہیں؟ اصل بات یہ ہے کہ چونکہ خدا تعالیٰ نظر نہیں آتا اس لئے لوگ دھاندلی مچاتے ہیں اور اپنے عہدوں سے ناجائز فائدہ اٹھاتے ہیں.ہم سیر کے لئے پہاڑوں پر جاتے ہیں تو باوجود اس کے کہ ہم گھوڑوں پر ہوتے ہیں اور دوسرے لوگ پیدل ہوتے ہیں جب ہم منزل مقصود پر پہنچتے ہیں کی تو وہ لوگ دبانا شروع کر دیتے ہیں اور کہتے ہیں آپ تھک گئے ہوں گے.اور یہ محض محبت کی وجہ کی سے ہوتا ہے.خواہ ہم کتنا اصرار کریں کہ ایسا نہ کریں وہ یہی کہتے جاتے ہیں کہ نہیں نہیں آپ تھک گئے ہیں.اور اس پر عقلاً کوئی اعتراض نہیں کیا جا سکتا.قادیان میں ایک غریب آدمی تھا وہ جہاں کہیں مجھے ملتا تھا کہتا تھا کہ آپ میری دعوت قبول کی نہیں کرتے.آخر کچھ دیر کے بعد اس نے یہ کہنا شروع کر دیا کہ چونکہ میں غریب ہوں اس لئے معلوم ہوتا ہے کہ آپ میری دعوت منظور نہیں فرماتے.جب میں نے دیکھا کہ اب اُس کا دل ٹوٹ جائے گا تو میں نے اُس کی دعوت منظور کر لی اور اُسے کہا کہ زیادہ تکلف نہ کرنا شور بہ وغیرہ کی بنا لینا.چنانچہ اُس نے شور بہ بنالیا اور میں اُس کے ہاں کھانا کھانے چلا گیا.میرے ساتھ صرف پرائیویٹ سیکرٹری تھے اور لوگ مدعو نہیں تھے.کھانے سے فارغ ہو کر جب میں باہر نکلا تو ایک اور احمدی دوست دروازہ کے پاس کھڑے تھے.وہ کہنے لگے کیا آپ اتنے غریب آدمی کی کی دعوت بھی قبول کر لیتے ہیں؟ میں نے کہا میری حالت ہی ایسی ہے کہ دونوں فریق مجھ پر شکوہ کرتے ہیں.اگر غریب کی دعوت منظور نہ کروں تو وہ کہتا ہے میں چونکہ غریب ہوں اس لئے آپ میری دعوت قبول نہیں کرتے.اور اگر غریب کی دعوت مان لیتا ہوں تو امیر کہتا ہے کہ آپ اتنے غریب آدمی کی دعوت کیوں قبول کرتے ہیں.یہ شخص سالہا سال سے میرے پیچھے پڑا تھا کہ میری
1952 73 خطبات محمود دعوت قبول کر لو اور میں اس کی غربت کی وجہ سے اس کی دعوت قبول نہیں کرتا تھا تا اس پر بوجھ نہ پڑے.اب اس ڈر سے کہ اس کا دل نہ ٹوٹ جائے میں یہاں کھانا کھانے آ گیا ہوں لیکن آپ کو یہ بات بھی ناگوار گزری ہے.بہر حال اس قسم کے غلط اعتراضات ہوتے ہی رہتے ہیں.لیکن سوال یہ ہے کہ اگر کوئی ما تحت محبت اور پیار کی وجہ سے افسر کی خدمت کرتا ہے تو یہ قابلِ قد رفعل ہے.یہ اس بات کی علامت ہوگی کہ افسر کا اپنے ماتحتوں سے ایسا اچھا سلوک ہے کہ وہ اسے باپ سمجھتے ہیں.لیکن اگر افسر ماتحت کو خدمت کرنے پر مجبور کرے تو وہ باپ نہیں وہ اپنے آپ کو حاکم سمجھتا ہے اور اپنے ماتحت کو اپنا غلام خیال کرتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ کا ایک واقعہ ہے کہ ایک دوست ابوسعید نامی عرب تھے.رنگون میں اُن کی اچھی خاصی تجارت تھی.وہ احمدی ہو کر قادیان آگئے.بعد میں وہ ٹھوکر کھا گئے.وہ مالدار آدمی تھے اور بڑی تجارت چھوڑ کر آئے تھے لیکن اُن کی طبیعت میں جوش پایا جاتا تھا.اُن کی ہر وقت یہ خواہش ہوتی تھی کہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی خدمت کی کروں.اُس وقت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر ایک مقدمہ دائر تھا اور خواجہ کمال الدین صاحب اس مقدمہ میں وکالت کرتے تھے.ابوسعید صاحب نے یہ خیال کیا کہ خواجہ صاحب اس مقدمہ میں کام کر رہے ہیں میں ان کی خدمت کروں تا مجھے بھی ثواب مل جائے.چنانچہ باوجود اس کے کہ وہ ایک رئیس تھے خواجہ صاحب کے بُوٹ پالش کر دیتے ، انہیں دباتے بلکہ بعض اوقات اُن کا جی پاٹ بھی اٹھا لیتے.خواجہ صاحب کو اُن کی خدمت سے یہ خیال گزرا کہ ابوسعید شاید اُن کی ذات کی وجہ سے ایسا کرتا ہے.ایک دن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام مجلس میں تشریف فرما تھے ، میں بھی موجود تھا ، چٹائی چھوٹی تھی اس لئے کچھ دوست ایسے بھی تھے جنہیں چٹائی پر جگہ نہ ملی.تھوڑی دُور پرے ایک اور چٹائی پڑی تھی.خواجہ صاحب نے ابوسعید صاحب عرب سے کہا.عرب صاحب ! وہ چٹائی ذرا ادھر کر دیں.اس پر وہ فوراً جوش میں آگئے اور انہوں نے کہا کیا میں آپ کے باپ کا نوکر ہوں؟ اب سننے والے حیران تھے کہ یہ کیا ہوا.خواجہ کمال الدین صاحب کا رنگ بھی زرد ہو گیا.بعد میں انہوں نے ابوسعید عرب سے کہا.عرب صاحب ! آپ تو بڑی کی خدمت کرنے والے آدمی ہیں آپ نے اُس وقت کیا کہہ دیا.انہوں نے کہا میں آپ کی خدمت می
1952 74 خطبات محمود اپنی خوشی سے کرتا تھا لیکن آپ کا یہ حق نہیں تھا کہ آپ مجھے حکم دیتے.میں آپ کا غلام نہیں ہوں.پس جو شخص خوشی سے خدمت کرتا ہے اُس پر کوئی شخص اعتراض نہیں کر سکتا.لیکن جو افسر یہ کی سمجھتا ہے کہ فلاں شخص میرا ماتحت ہے اس سے خدمت لے لوں وہ ظالم ہے.اور اگر اُس کا ما تحت اُس کا حکم مانتا ہے تو وہ بے غیرت ہے.محبت سے اگر کوئی کام کرتا ہے چاہے وہ پاخانہ کا پاٹ اٹھائے تو اُس پر کوئی اعتراض نہیں کرتا.میاں بیوی کو دیکھ لو.بیوی اپنے خاوند کی خدمت کرتی ہے، اس کے پاٹ بھی اٹھا لیتی ہے.لیکن اگر کوئی اُسے کہے کہ تم چوڑھی کا کام کرو میں کی تمہیں دس روپے ماہوار دوں گا تو وہ لڑنے لگ جائے گی.بلکہ اس کا خاوند خود اس شخص - لڑ پڑے گا اور کہے گا تم نے میری بیوی کی ہتک کی ہے حالانکہ وہ اپنے بچے کا پاخانہ روزانہ ہیں ہے.پھر باقی لوگوں کو جانے دو چوڑھے بھی اپنی تحقیر برداشت نہیں کر سکتے.ربوہ میں ایک مسلمان خاکروبہ آئی ہے.شروع شروع میں ربوہ میں خاکروب کم تھے.وہ سڑک پر جارہی تھی کی کہ ایک آدمی اُسے ملا اور اُس نے کہا ذرا ٹھہرو.میرا ایک کمرہ ہے تم اُسے روزانہ صاف کر دیا کرو میں تمہیں آٹھ آنے دے دیا کروں گا.وہ خاکروبہ تھی اور صفائی کرنا اُس کا کام تھا لیکن چونکہ وہ سڑک پر جارہی تھی اس لئے اُس نے اس بات کو اپنی بہتک خیال کیا.اور اس شخص کو کہنے لگی کہ میں تمہیں دو روپے روزانہ دیا کروں گی تم مجھ سے ایک جوتی روزانہ کھا لیا کرو.وہ سخت شرمندہ ہوا اور خاموش ہو کر چلا گیا.غرض باوجود اس کے کہ وہ خاکر و بت تھی اور اُس کا کام صفائی کرنا تھا اُس نے اس طرح بات کرنے کو اپنی تحقیر خیال کیا.پس اگر واقعہ میں افسر اپنی افسری کی وجہ سے ماتحت سے خدمت لیتے ہیں تو اُن کی تحقیر کرتے ہیں اور پھر ماتحت کا خدمت کرنا بھی بے غیرتی کج ہے.اس کا یہ کام تھا کہ وہ اُسکے اس حکم کو ر ڈ کر دیتا.لیکن محبت کی وجہ سے تم جو جی چاہے کرو.ہمایوں کا ایک واقعہ مشہور ہے کہ دشمن کی فوجوں نے اُسے پکڑ لیا.اُس کا خادم بہرام بھی اُس کے ہمراہ تھا.جب دشمن نے انہیں پکڑ لیا تو بہرام نے انہیں کہا کہ ہمایوں میں ہوں.ہمایوں بار بار کہتا تھا کہ نہیں یہ جھوٹ بولتا ہے ہمایوں میں ہوں.لیکن اُس نے کہا نہیں یہ میرا غلام ہے اور میری محبت کی وجہ سے اپنے آپ کو ہما یوں کہہ رہا ہے تا کہ میں بچ جاؤں ورنہ دراصل میں ہی ہمایوں ہوں.غرض محبت میں لوگ اپنی جانیں بھی دے دیتے ہیں اور ان کے ایسا کرنے پر
1952 75 خطبات محمود کوئی شخص اعتراض نہیں کرتا.لیکن اگر کوئی اپنی پوزیشن سے ناجائز فائدہ اٹھاتا ہے تو اُس کا ایسا کی کرنا اسلام کے خلاف ہے.ہر احمدی کا فرض ہے کہ وہ دوسرے کا حق اُسے دلائے.اور اگر وہ اسکی خاطر قربانی کرتا اور اس کی خدمت کرتا ہے تو کوئی حرج نہیں لیکن اس کا حق نہیں کہ ماتحت سے خدمت کروائے.فرعون کے متعلق قرآن کریم میں بھی آتا ہے کہ اِنَّ فِرْعَوْنَ عَلَا فِي الْأَرْضِ - 3 فرعون میں یہ عیب تھا کہ وہ دوسروں سے زبر دستی کام لیتا تھا.ورنہ فرعون کے یہ معنی نہیں کہ کسی کی کے پاس بادشاہت اور دولت ہو.وہ اس لئے فرعون تھا کہ دوسروں پر زبر دستی حکومت کرتا تھا تجھے اور دوسروں پر ز بر دستی حکومت کرنے کو ہماری زبان میں بھی فرعونیت کہتے ہیں.اور کسی کی مرضی سے دوسرے کے دل پر حکومت کرنے کو محمدیت اور موسویت کہتے ہیں.محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی حکومت کی تھی اور فرعون سے بڑھ کر حکومت کی تھی.فرعون کے ساتھی بھاگ گئے لیکن محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھیوں نے کہا ہم آپ کے دائیں بھی لڑیں گے اور بائیں بھی لڑیں گے ، آگے بھی لڑیں گے اور پیچھے بھی لڑیں گے اور دشمن ہماری لاشوں پر سے ہی گزر کر آپ کی تک پہنچ سکتا ہے.4 اتنی حکومت فرعون نے کہاں کی ہے.فرق صرف اتنا ہے کہ فرعون نے کی زبر دستی حکومت کی ہے اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زبر دستی حکومت نہیں کی.اسی طرح اگر کوئی ماتحت اپنے افسر کی محبت اور پیار سے خدمت کرتا ہے تو ہم کہیں گے اُس افسر میں ایک حد تک محمدیت اور موسویت آگئی ہے.لیکن اگر وہ زبر دستی حکومت کرتا ہے تو اسی کا نام فرعونیت ( الفضل 30 ستمبر 1961ء) ہے.66 1 : تفسیر کبیر رازی جلد 29 صفحہ 207 مطبوعہ طہران 1328ھ 2 : بخارى كتاب النكاح باب الْمَرْأَةُ رَاعِيَةٌ فِي بَيْتِ زَوْجِهَا.3: القصص : 5 4 بخاری کتاب المغازی باب قَولُ اللهُ تَعَالَى إِذْ تَسْتَغِيثُونَ رَبَّكُمُ (الخ)
1952 76 (10) خطبات محمود اگر دنیا کی ساری طاقتیں بھی تمہاری مدد کرنے سے انکار کر دیں تو خدا تعالیٰ تمہیں نہیں چھوڑے گا (فرمودہ 28 مارچ 1952ء بمقام ربوہ ) تشهد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: متواتر کچھ عرصہ سے یعنی پاکستان بننے کے قریباً ایک یا ڈیڑھ سال بعد سے جماعت احمدیہ کے خلاف شورش پیدا کی جا رہی ہے اور اس کے نتیجہ میں اس وقت تک کم سے کم چار قتل بھی ہو چکے ہیں.اس امر کو دیکھتے ہوئے جماعت میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس کا کیا علاج ہوگا ؟ بعض لوگ تو اس امید میں رہتے ہیں کہ حکومت پاکستان اس کا علاج کرے گی اور جہاں تک قانون کا نی سوال ہے میرے نزدیک صاف بات ہے کہ جماعت کو قانونی لحاظ سے حکومت کو ایسے افعال کی جی طرف بار بار توجہ دلانی چاہیے.کیونکہ حکومت کے ذمہ دار افراد نے خواہ وہ اپنی ذمہ داری ادا نہ کی کریں جو نام اختیار کیا ہے اس کی وجہ سے ان کا فرض ہے کہ وہ اس طرف توجہ کریں.اگر جماعتیں انہیں اس طرف توجہ نہ دلائیں تو وہ دنیا کے سامنے کہہ سکتے ہیں کہ ہم حالات سے واقفی نہیں تھے بلکہ وہ خدا تعالیٰ کے سامنے بھی کہہ سکتے ہیں کہ ہم تیرے بندوں کی حفاظت کے لئے تیار تھے لیکن انہوں نے ہمیں بتایا ہی نہیں.پس دنیا کے دربار میں اور خدا تعالیٰ کے دربار میں بھی حکومت کے افسروں پر حجت پوری کرنے کے لئے ضروری ہے کہ ہم ہر ضلع اور ہر صوبہ کے حکام اور گورنمنٹ پاکستان کے سامنے متواتر اپنے حالات رکھیں اور قطعاً اس بات کا خیال نہ کریں کہ -
1952 77 خطبات محمود اس کا نتیجہ کیا نکلے گا.جتنی دیر سے نتیجہ نکلے گا اتنا ہی وہ انہیں مجرم بنانے اور خدا تعالیٰ کے غضب کو بھڑ کانے کا موجب ہوگا.دنیا کی حکومت جتنی گرفت کر سکتی ہے خدا تعالیٰ کی حکومت یقیناً اس سے زیاده گرفت کر سکتی ہے.لیکن کسی شخص پر حجت تمام کر دنیا سب سے بڑا کام ہے.خود سر جوشیلے اور بے وقوف لوگ اسے فضول سمجھتے ہیں.لیکن عقل مند لوگ جانتے ہیں کہ سب سے بڑی سزا یہ ہے کہ کسی شخص پر حجت پوری ہو جائے اور اس کے ساتھیوں اور دوسرے لوگوں پر حجت پوری ہو جائے.اس کے بعد وہ خواہ عمل نہ کرے اس کے لئے یہی سزا کافی ہے.پھر خدا تعالیٰ جو سزا دے گا وہ الگ ہے.میں اُن لوگوں سے متفق نہیں ہوں جو کہتے ہیں حکومت نے پہلے کیا کیا ہے کہ ہم پھر اس کے پاس جائیں.یہاں اس بات کا سوال نہیں کہ وہ کوئی علاج بھی کرتے ہیں یا تی نہیں.یہ لوگ ہم پر مقرر کر دیئے گئے ہیں اور انہیں خدا تعالیٰ نے ہم پر حاکم مقرر کیا ہے اس لئے ہمارا فرض ہے کہ ہم بھی انہیں اسی نام سے مخاطب کریں اور کہیں کہ تم ہمارے حاکم ہو اور امن قائم رکھنا تمہارا فرض ہے.اور اگر وہ اپنی ذمہ داری ادا نہ کریں تو ہم دوبارہ ان کے پاس جائیں گے اور انہیں اس طرف توجہ دلائیں گے.بعض لوگ کہیں گے کہ وہ پھر بھی کچھ نہیں کریں گے.میں کہتا ہوں یہ درست ہے لیکن ان پر حجت ضرور ہو جائے گی اور حجت قائم ہو جانا بڑی لکی بھاری چیز ہے.اگر وہ پھر بھی اپنی ذمہ داری ادا نہیں کریں گے تو ہم تیسری مرتبہ ان کے پاس جائیں گے اور کہیں گے فساد بڑھ رہا ہے آپ لوگ قیام امن کے لئے کچھ کریں.وہ پھر کوئی بہانہ بنائیں گے اور کہیں گے نہیں نہیں ہم اس طرف توجہ کریں گے.اور اگر وہ پھر بھی توجہ نہیں کریں گے تو ہم چوتھی مرتبہ ان کے پاس جائیں گے.تم کہو گے پھر کیا ہوگا ؟ وہ تو پھر بھی کچھ نہیں کریں گے.میں کہوں گا وہ خواہ کچھ نہ کریں لیکن ان پر چار حجتیں ہو جائیں گی اور عقل و انصاف کی عدالت پر حجت پر حجت قائم ہونا بہت بڑی کامیابی ہے.جو لوگ مادی چیزوں کو لیتے ہیں وہ کسی افسر کے موقوف ہو جانے اور اس کے ڈسمس (DISMISS) ہو جانے کا نام سزار کھتے ہیں.بے شک وہ سزا ہے لیکن وہ سزا گھٹیا درجہ کی ہے.کسی شخص کا مجرم ثابت ہو جانا اُس کا غیر ذمہ دار قرار پانا اور فرض ناشناس قرار پانا اس کے ڈسمس ہو جانے اور معطل ہو جانے سے زیادہ خطر ناک ہے.کتنے آدمی ہیں جو معطل ہوئے.لیکن بعد میں آنے والوں نے انہیں بری قرار دیا.پرانے زمانہ میں کئی کمانڈر اپنی کمانوں.
1952 78 خطبات محمود الگ ہوئے ، کئی بادشاہ اپنی بادشاہتوں سے الگ ہوئے لیکن بعد کی تاریخ نے انہیں بری قرار می دے دیا.وہ کتنے سال تھے جو انہوں نے تکلیف میں گزارے.یہی دس بارہ سال وہ تکلیف کی میں رہے اور انہوں نے ذلت کو برداشت کیا لیکن بعد کی تاریخ نے انہیں اتنا اچھا لا کہ وہی معطل شدہ کمانڈر اور بادشاہ عزت والے قرار پائے.اس کے مقابلہ میں کتنے بڑے سرکش بادشاہ اور کمانڈر گزرے ہیں جنہیں اپنے وقت میں طاقت ، قوت اور دبد بہ حاصل تھا.انہوں نے ماتحتوں پر ظلم بھی کئے لیکن سینکڑوں اور ہزاروں سال گزر گئے کوئی شخص انہیں اچھا نہیں سمجھتا.ہر تاریخ پڑھنے والا انہیں ملامت کرتا ہے اور انہیں حقیر اور ذلیل سمجھتا ہے.ان میں سے بعض ایسے بھی ہیں جن کی اولا د بھی اپنے آپ کو اُن کی طرف منسوب کرنا پسند نہیں کرتی.دنیا میں یزید کی تھی اولا دموجود ہے، ابو جہل کی اولاد بھی موجود ہے، فرعون کی اولا د بھی ہو گی لیکن کون ہے جو اپنے آپ کو ان کی طرف منسوب کرنا پسند کرتا ہو اور یہ کہتا ہو کہ میں ان کی اولاد میں سے ہوں.پس تم یہ مت خیال کرو کہ حکام اس طرف توجہ نہیں کرتے.خدا تعالیٰ نے انہیں اس لئے مقرر کیا ہے کہ وہ دنیا میں امن قائم رکھیں.ملک نے انہیں اس لئے مقرر کیا ہے کہ وہ امن قائم رکھیں.قوم نے انہیں اس لئے مقرر کیا ہے کہ وہ امن قائم رکھیں.اگر تم انہیں اس طرف توجہ دلاتے ہو تی لیکن وہ توجہ نہیں کرتے تو وہ اخلاقی عدالت میں مجرم قرار پائیں گے اور اخلاقی عدالت میں مجرم قرار پا جانے سے سخت سزا اور کیا ہوسکتی ہے.باقی رہی یہ بات کہ لوگ تمہیں دکھ دیتے ہیں تو جب تم نے احمدیت کو قبول کیا تھا اُس وقت تم نے دشمن کو اس بات کی دعوت دی تھی کہ وہ تمہیں دکھ دے.کیا کبھی ایسا بھی ہوا ہے کہ تم ایک شخص کو بطور مہمان بلا ؤ اور جب وہ مہمان آئے تو تم رونے لگ جاؤ کہ وہ روٹی کھا گیا ہے؟ اگر تم نے کسی مہمان کو خود بلایا ہے تو تمہیں اس کی مہمان نوازی کرنی ہوگی.اس طرح جب کوئی شخص کسی سچائی کو قبول کرتا ہے تو وہ سچائی کے دشمنوں کو دعوت دیتا ہے کہ اُس پر حملہ کریں اور وہ اس پر یقینا حملہ کریں گے.اور اگر افسر فرض شناس بھی ہو جائیں بلکہ تمہاری تائید میں ظلم بھی کرنے لگ جائیں تب بھی شیطانی طاقتیں تم پر حملہ آور ہونگی.حکومت کا ساتھ مل جانا یا خلاف ہو جانا کوئی حیثیت نہیں رکھتا.اگر تم حق پر ہوا اور حکومت کا کوئی افسر تمہیں تکلیف دیتا ہے تو تم اسے جی
1952 79 خطبات محمود اخلاقی عدالت میں مجرم ثابت کرو.لیکن اگر تم پر کوئی شخص ظلم اور تعدی کرتا ہے اور تم سمجھتے ہو کہ افسر فرض شناس ہے اور وہ تمہاری مدد بھی کرے گا تو پھر بھی وہ اُس وقت تک ظلم کو نہیں مٹا سکتا جب تک کہ وہ وقت نہ آجائے جو خدا تعالیٰ نے اُسے مٹانے کے لئے مقرر کیا ہے.ایک صداقت کی دشمنی محض یہ نہیں ہوتی کہ اس کے قبول کرنے والے کو مارا جائے بلکہ دشمنی یہ ہوتی ہے کہ اُسے جھوٹا کہا جائے.اب کیا حکومتیں کسی کو جھوٹا کہنے سے روک سکتی ہیں ؟ اگر وہ جلسے روک دیں گی تو تھی لوگ گھروں میں بیٹھے باتوں باتوں میں جھوٹا کہیں گے.اور اگر حکومت اور زیادہ دبائے گی تو وہ دلوں میں جھوٹا کہیں گے.اب دلوں میں بُرا منانے سے کون سی طاقت روک سکتی ہے.اگر ایک کی شخص صداقت سے محروم ہے ، وہ نا واقف ہے اس لئے وہ صداقت سے دشمنی کرتا ہے اور وہ شیطان کے ہاتھ میں پڑ گیا ہے تو جب تک اُس کا دل صاف نہ ہو اُس کی دشمنی کو دور نہیں کیا جاسکتا.اور جس دن اُس کا دل صاف ہو جائے گا تو کیا کوئی ایسی طاقت ہے یا کوئی ایسی حکومت کی ہے جو اس سے مخالفت کروا سکے؟ جو لوگ احمدیت کے دشمن ہیں حکومت اگر چاہے بھی تو اُن کے دلوں سے دشمنی کو نہیں نکال سکتی.اسی طرح جن لوگوں نے احمدیت کو قبول کر لیا ہے اگر حکومت چاہے بھی تو بھی اُن کے دلوں سے بانی سلسلہ احمدیہ کی محبت کو نہیں نکال سکتی.ہمارا مقابلہ اور ہماری جنگ دل سے ہے.اور جب ہمارا مقابلہ اور ہماری جنگ دل سے ہے تو حکومت پر نظر رکھنی فضول ہے.تمہاری فتح دلوں کی فتح ہے.اور جب دل فتح ہو جائیں گے تو تمہیں فتح حاصل ہو جائے گی.اگر تم نے دلوں کو فتح کر لیا تو تم دیکھو گے کہ یہی افسر جو آج کی تمہارے خلاف دوسرے لوگوں کو اُکساتے ہیں ہاتھ جوڑ کر تمہارے سامنے کھڑے ہو جائیں گے اور کہیں گے ہم تو آپ کے ہمیشہ سے خادم ہیں.اگر کوئی شخص با وجود اس کے کہ خدا تعالیٰ ، قوم اور ملک کی طرف سے اسے ایک امانت سپرد کی جاتی ہے اپنے فرض کو ادا نہیں کرتا تو وہ لالچی ہے، حریص ہے ، خود غرض ہے.اور جو شخص لالچی ، حریص اور خود غرض ہے اس سے انصاف کی امید نہیں کی جاسکتی.قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کسی جنگ کے لئے جاتے تھے تو منافق لوگ کہتے تھے ہم ان لوگوں کے ساتھ نہیں جائیں گے اور اپنی جان کو خطرہ میں نہیں ڈالیں گے.لیکن جب آپ کامیاب و کامران کو ٹتے اور مال غنیمت آپ کے
1952 80 خطبات محمود ہاتھ آجا تا تو یہ لوگ دوڑ تے آتے اور کہتے ہم بھی آپ کے بھائی ہیں.1 پس جو دیانت دار آدمی کی ہے اگر آپ لوگوں کو اُس کی اخلاقی مدد بھی مل جائے تو بھی وہ دلوں کو نہیں بدل سکتا.وہ بے شک کوشش کرے گا مثلاً ایک آدمی مارا جاتا ہے تو وہ کوشش کرے گا کہ قاتل کو سزا ہو جائے.اور فرض کرو کہ ایک مجسٹریٹ انصاف سے کام لے کر قاتل کو سزا دے دیتا ہے تب بھی سزا سے بنتا کیا ہے؟ جب لاکھوں لوگ ایسے موجود ہیں جو احمدیت کے دشمن ہیں تو ایک افسر چاہے وہ انصاف سے کام لے کر کیا سکتا ہے.فرض کر و حکومت قانون بنا دیتی ہے کہ احمدیوں کی مخالفت نہ کی جائے.تب بھی اگر اکثریت شرارت پر آمادہ ہو تو وہ حکومت کو بھی بدل سکتی ہے.پس جو دیانتدار افسر ہیں ان کی طاقت محدود ہے اس لئے وہ زیادہ مفید نہیں ہو سکتے.اور جو شخص بددیانت ہے اُس سے اُمید رکھنا فضول ہے.اس لئے تم حکام کو برابر توجہ دلاتے جاؤ تا اُن پر حجت تمام ہو جائے.اس سے خدا تعالیٰ کا غضب بھی بھڑک اٹھتا ہے اور مظلوم کے لئے خدا تعالیٰ کی مدد بھی تیز ہو جاتی ہے.لیکن اس امداد پر تو کل نہ کرو.مگر اس طریق کو جو خدا تعالیٰ نے جاری کیا ہے اُسے بھی اختیار کرو.آخر کوئی حکومت ہو، مسلم ہو یا غیر مسلم، بُری ہو یا اچھی اُس کے بنے میں خدا تعالیٰ کا ہاتھ ضرور ہوتا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے تُؤْتِي الْمُلْكَ مَنْ تَشَاءُ وَتَنْزِعُ الْمُلْكَ مِمَّنْ تَشَاءُ وَتُعِزُّ مَنْ تَشَاءُ وَتُذِلُّ مَنْ تَشَاءُ 2 یعنی حکومت خدا تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے.خدا تعالیٰ جس کو چاہتا ہے حکومت دیتا ہے اور جس سے چاہتا ہے چھین لیتا ہے.لوگ کہتے ہیں فلاں شخص نے لڑائی کی کر کے حکومت لے لی ہے، فلاں شخص نے غصب کر کے حکومت لے لی ہے یا فلاں شخص نے کی بغاوت کر کے حکومت کو اپنے قبضہ میں لے لیا ہے.لیکن ہر حکومت میں خدا تعالیٰ کی مرضی ضروری شامل ہوتی ہے.جس طرح انسان کی پیدائش میں خدا تعالیٰ کی مرضی شامل ہے، جس طرح انسان کی موت میں خدا تعالیٰ کی مرضی شامل ہے، جس طرح رزق میں خدا تعالیٰ کی مرضی شامل مامی ہے اسی طرح اس کی مرضی حکومت میں بھی شامل ہوتی ہے.بے شک اس میں انسانی اعمال کا بھی تھی دخل ہے، بے شک اس میں انسانی کوششوں سستیوں اور غفلتوں کا بھی دخل ہے لیکن خدا تعالیٰ کی فرماتا ہے یہ ہماری طرف سے ہے.جس طرح موت اور حیات خدا تعالیٰ کے اختیار میں ہے اسی کی طرح حکومتوں کا بننا اور ٹوٹنا بھی خدا تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے.کسی قوم کی موت اور حیات ، اُس کا نجی
1952 81 خطبات محمود ٹوٹ جانا اور بننا ہے یہ خدا تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے.جب ہم کہتے ہیں تُؤْتِي الْمُلْكَ مَنْ تَشَاءُ وَتَنْزِعُ الْمُلْكَ مِمَّنْ تَشَاءُ وَتُعِزُّ مَنْ تَشَاءُ وَتُذِلُّ مَنْ تَشَاءُ.تو حکومتوں کا بننا اور ٹوٹنا بھی خدا تعالیٰ کے اختیار میں ہوا.اور جس خدا کے ہاتھ میں حکومت کا قائم کرنا ہے، جس خدا کے ہاتھ میں حکومتوں کا بنا اور ٹوٹنا ہے ، وہی خدا حکم دیتا ہے کہ تم اپنی تکلیفیں افسران بالا کے سامنے لے جاؤ اور اس سے فائدہ نہ اٹھانا بیوقوفی ہے.پس ہمارا فرض ہے کہ ہم مذہبی لحاظ سے بار بار اپنی تکالیف گورنمنٹ تک پہنچا ئیں.اسی کی طرح اگر کوئی افسر فرض شناس ہوگا تو ہماری مدد بھی کرے گا اور ہمیں فائدہ پہنچائے گا.لیکن اگر وہ تمہیں فائدہ نہیں پہنچائے گا تو تم خدا تعالیٰ کے سامنے یہ کہہ سکو گے کہ اے خدا ! جو ذریعہ اصلاح کا تو نے بتایا تھا وہ ہم نے اختیار کیا ہے پھر اس پر جو حجت پوری ہو جائے گی اور جس سزا کا اسے خدا تعالیٰ مستحق قرار دے گا وہ اس پر وارد ہو جائے گی.چاہے وہ سزا آخرت میں ہی ملے یا اس دنیا میں مل جائے.دنیا میں ایسا بھی ہوتا ہے کہ جو لوگ ایک افسر کو اونچا کرنے والے ہوتے ہیں ایک وقت آتا ہے کہ وہی اُسے ذلیل کر دیتے ہیں.ہم دیکھتے ہیں کہ کوئی افسر آتا ہے تو ایک وقت تک لوگ اُس کی تعریفیں کرتے ہیں.بعد میں وہی لوگ اُس کو اتنا تنگ کرتے ہیں کہ وہ مجبور ہو کر اپنا تبادلہ کر الیتا ہے.پس جب حکومت خدا تعالیٰ کے اختیار میں ہے اور جب چاہے وہ اسے توڑ سکتا ہے تو اس کے مقرر کردہ طریق کو نہ بھولو.تم اس بات کو مت بھولو کہ شورشوں کو حکام تک پہنچا نا تمہارا فرض ہے.پھر تم یہ بات بھی مت بھولو کہ تمہارا تو کل خدا تعالیٰ پر ہے حکومت پر نہیں.پھر جہاں تمہارا یہ فرض ہے کہ ان امور کو حکومت کے سامنے لے جاؤ وہاں اگر تمہیں مایوسی نظر آتی ہے تو مایوس مت ہو کیونکہ اصل بادشاہ خدا تعالیٰ ہے اور جو فیصلہ بادشاہ کرے گا وہی ہوگا.انسان جو فیصلہ کرے گا وہ نہیں ہوگا.ایک افسر کی غلطی کی وجہ سے حکام کو توجہ دلانا چھوڑ نہ دو.اور ایک افسر کی غفلت کی وجہ سے فائدہ اٹھانا ترک نہ کرو.محض چند افسران کا اپنی ذمہ داریوں سے غافل ہونا ایسی چیز نہیں کہ تم حکام کے کام سے غافل ہو جاؤ.تم انہیں توجہ دلاتے رہو اور ان کے اس اپنی شکایات لے جاؤ.لیکن تمہارا ایمان تبھی مکمل ہو گا جب تم اپنی شکایات حکومت کے سامنے پیش تو کرو تم ان امور کو لے کر افسران کے پاس جاؤ تو ضرور لیکن یہ خیال مت کرو کہ اگر
1952 82 خطبات محمود وہ توجہ نہ کریں گے تو تم کو نقصان پہنچے گا.اگر یہ کام خدا تعالیٰ کا ہے تو خدا تعالیٰ نے ہی اسے پورا کرنا ہے.جس دن تمہیں یہ یقین ہو جائے گا کہ یہ کام خدا تعالیٰ کا ہے اور وہ اسے ضرور کرے گا تو تم موجودہ مخالفت سے گھبراؤ گے نہیں.ہر انسان میں تھوڑی بہت شرافت ضرور ہوتی ہے تم اگر متواتر افسروں کے پاس جاتے رہو گے تو ایک نہ ایک دن وہ شرما جائیں گے اور وہ خیال کریں گے کہ ہم نے اپنا فرض ادا نہیں کیا لیکن یہ لوگ اپنا فرض ادا کئے جا رہے ہیں.اور جب تم خدا تعالیٰ کی پر توکل کرو گے تو تم جانتے ہو کہ خدا تعالیٰ تمام رحمتوں اور فضلوں کا منبع ہے.یہ کس طرح ہو سکتا تھی ہے کہ وہ ایک جماعت کو خود قائم کرے اور پھر اسے مٹا دے.اس سے بڑی بے دینی اور بدظنی اور کیا ہوسکتی ہے کہ تم خدا تعالیٰ کے متعلق یہ خیال کرو کہ وہ تمہیں چھوڑ دے گا.اگر تم نیکی اور معیارِ دین کو بڑھانے کی کوشش کرتے رہو گے تو وہ تمہیں کبھی نہیں چھوڑے گا، کبھی نہیں چھوڑے گا، کبھی نہیں چھوڑے گا.اگر دنیا کی ساری طاقتیں بھی تمہاری مدد کرنے سے انکار کر دیں تو می خدا تعالیٰ تمہیں نہیں چھوڑے گا.اُس کے فرشتے آسمان سے اتریں گے اور تمہاری مدد کے سامان پیدا کریں گے.“ الفضل 23 مئی 1952 ء ) 1 الَّذِيْنَ يَتَرَبَّصُونَ بِكُمْ فَإِنْ كَانَ لَكُمْ فَتْحٌ مِنَ اللَّهِ قَالُوا أَلَمُ نَكُنْ مَّعَكُمْ (النساء : 142) 2: آل عمران : 27
1952 83 (11 خطبات محمود ربوہ کے رہنے والوں کا فرض ہے کہ اپنی مساجد کو آباد رکھیں اور اپنے اندر تعاون ، ہمدردی اور قربانی کی روح پیدا کریں فرموده 4 را پریل 1952ء بمقام ربوہ ) تشهد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: آج میں ربوہ کے رہنے والوں کو یا ربوہ میں رہنے کا ارادہ کرنے والوں کو اس امر کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ مرکز میں رہنا جہاں اپنی ذات میں بہت بڑی برکات کا موجب ہوتا ہے وہاں وہ رہنے والوں پر بہت سی ذمہ داریاں بھی عائد کرتا ہے.لوگوں میں عام طور پر یہ بات پائی جاتی ہے کہ وہ اپنے فائدہ کی چیزیں لے لیتے ہیں اور جو فرائض اور ذمہ داریاں ان پر عائد ہوتی ہیں انہیں چھوڑ دیتے ہیں.فوائد کے لحاظ سے اگر دیکھو تو ربوہ اپنی ذات میں بعض ایسے فوائد رکھتا ہے کہ پاکستان اور ہندوستان تو الگ رہے دولت مند سے دولت مند ممالک میں کی بھی اس کی مثال نہیں پائی جاتی.مثلاً یہاں قریباً تمام غرباء ، یتامیٰ اور بیوہ عورتوں کو سوائے اس کی کے کہ کوئی نظر انداز ہو جائے یا اس کا معاملہ ہماری سمجھ میں نہ آئے معقول مدد دی جاتی ہے.انہیں پہننے کے لئے کپڑے دیئے جاتے ہیں ، غلہ انہیں ملتا ہے، بیمار ہو جائیں تو علاج کے لئے پیسے انہیں ملتے ہیں ، ان کے بچوں کی شادیاں ہوتی ہیں تو اخراجات میں انہیں امداد دی جاتی ہے، بچے پڑھتے ہیں تو کسی نہ کسی رنگ میں ان کی امداد کی جاتی ہے.بعض لوگوں کو وظائف دیئے جاتے ہیں اور بعض کی فیسیں معاف کر دی جاتی ہیں.یہ فوائد اور کون سے ملک میں حاصل ہو سکتے ہیں.
1952 84 خطبات محمود امریکہ کتنا امیر ملک ہے اس کا کوئی شہر ایسا نہیں جو ان باتوں میں ربوہ کا مقابلہ کر سکے.واشنگٹن امریکہ کا دارالحکومت ہے ، نیو یارک سب سے بڑا شہر ہے ، شکاگو تجارتی اور صنعتی مرکز ہے، اسی طرح دوسرے بڑے بڑے شہر ہیں لیکن ان میں ایک بھی ایسی مثال نہیں مل سکتی کہ مالدار لوگ غرباء کی اس رنگ میں نگرانی کر رہے ہوں جیسی نگرانی ربوہ میں ہو رہی ہے یا اتنی فیصدی مدد کر رہے ہوں جتنی فیصدی مد در بوہ میں کی جاتی ہے.امریکہ کی حکومت ہم سے زیادہ مالدار ہے.امریکن لوگ ہم سے زیادہ مالدار ہیں.اور مالدار بھی معمولی نہیں.ان میں ایسے ایسے مالدار بھی پائے جاتے ہیں کہ اگر ان میں سے کوئی ربوہ کی ساری زمین اور سارے مکان بھی خرید لے تو اُس کے خزانے میں اتنی بھی کمی نہ آئے جتنی کمی ہمارے ملک کے ایک مالدار کی کی جیب میں مٹھائی خرید لینے سے آتی ہے.لیکن پھر بھی امریکہ میں ہزاروں واقعات ایسے پائے جاتے ہیں کہ لوگوں نے فاقہ کی وجہ سے یا اس وجہ سے کہ وہ بیمار تھے اور علاج کے لئے روپیہ نہ مل سکا خود کشی کر لی.میں یہ نہیں کہتا کہ ربوہ میں غرباء ، یتامی اور بیوگان کی سو فیصد ی مدد کی جاتی ہے.ہوسکتا ہے کہ کوئی غریب ہو لیکن ہمیں اس سے متعلق کوئی اطلاع نہ مل سکی ہو یا اس کا معاملہ ہماری سمجھ میں نہ آیا ہو.مثلاً ہم سمجھتے ہوں کہ وہ کوئی کام کرنے کے قابل ہے لیکن درحقیقت وہ کام کرنے کے قابل نہ ہو.اس قسم کی فروگزاشت کا انکار نہیں کیا جا سکتا.لیکن سوال یہ ہے کہ جہاں تک انسانی عقل کا دخل ہے کوئی مثال ایسی نہیں مل سکتی کہ ربوہ میں کوئی معذور آدمی ہو، یتیم ہو، یا کوئی بیوہ عورت ہو اور اُس کی اس حد تک کہ جماعت کی مالی حالت اجازت دے انتہائی مدد نہ کی گئی ہو.دیکھ لو ہم قادیان سے جب نکلے تو ہمارے پاس کچھ بھی نہیں تھا.ہماری حالت دوسرے مہاجرین کی نسبت زیادہ خراب تھی.پھر دوسرے مہاجروں نے یہاں آکر لوٹ مار شروع کر دی لیکن ہم نے لوٹ مار بھی نہیں کی.تاہم دوسرے مہاجر تو لوٹ مار کے بعد بھی شور مچارہے تھے کہ حکومت ان کی امداد کرے لیکن یہ جماعت احمدیہ کی ہی ہمت تھی کہ اس نے گورنمنٹ سے ایک پیسہ کی بھی درخواست نہ کی.پھر ہم سارے کے سارے ایک لمبے عرصہ تک لاہور جیسے گراں شہر میں پڑے رہے اور وہاں اتنی تنگی اور ترشی کے ساتھ گزارا کیا کہ مہینوں راشن کو اس طور پر تقسیم کیا گیا کہ ہر ایک فرد کو ایک روٹی فی وقت مل سکتی تھی.جس کی وجہ سے بڑی عمر کے لوگ تو کیا تی بعض اوقات بچوں کی طرف سے بھی یہ شکایت آتی تھی کہ ان کا پیٹ نہیں بھرتا.لیکن ہمارا یہی تھی
1952 85 خطبات محمود اصول تھا کہ فی کس ایک روٹی دی جائے تا ہر شخص کو کھانے کو کچھ نہ کچھ ضر ورمل جائے.پھر آہستہ آہستہ نظام قائم ہونا شروع ہوا.اس سے پہلے ریل کے تعلقات بند تھے ، رستے بند تھے اور اس لئے ٹوٹی پھوٹی جماعت جو موجود تھی وہ بھی مددنہیں کر سکتی تھی.پھر جماعت کا خزانہ خالی تھا.لیکن باوجود اس کے ہم نے ہجرت کر کے آنیوالوں کو مدد دی.پھر ہم ربوہ آئے.شروع شروع میں کی جب تک لوگ اپنی اپنی جگہ تک نہیں گئے اور انہیں اپنے اپنے رشتہ داروں کا پتا نہیں لگا اور وہ کی وہاں چلے نہیں گئے علاوہ کارکنوں اور ان لوگوں کے جو ہمارے ساتھ آئے تھے ربوہ میں اڑھائی سو یتامی اور بیوگان کے لئے کھانے پینے کا انتظام کیا گیا تھا.اس کی مثال کسی اور جگہ نہیں مل سکتی.حکومت چالیس پچاس یتامی کے لئے کوئی دار الیتا میں کھولتی ہے تو اخبارات میں شور پڑ جاتا ہے کہ حکومت نے فلاں جگہ دار الیتامی کھولا ہے.لیکن ہم نے باوجود سینکڑوں افراد کے کھانے پینے اور رہنے کا سامان کر کے شور نہیں مچایا.پس اُس وقت مرکز میں رہنے والے مرکز سے یہ فائدہ اٹھاتے رہے کہ ان کے لئے ہر قسم کا مفت سامان کیا گیا.اور جو اب مرکز میں رہتے ہیں وہ بھی کچ مرکز سے کافی فائدہ اٹھا رہے ہیں.مرکز سے باہر جماعت میں سینکڑوں بلکہ ہزاروں آدمی ایسے کی تھے جنہیں کوئی مدد نہ مل سکی اور جب وہ ہمارے پاس آتے تو ہم کہتے کہ پہلے مرکز میں آنے کی والوں کو مدد دی جائے گی.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ مرکز سے باہر بھی غرباء ، یتامیٰ اور بیو گان کی کی مدد ہوتی ہے.لیکن وہ مدد مرکز کی نسبت بہت کم ہے.باہر کی آبادی مرکز کی آبادی سے سینکڑوں کی گنے زیادہ ہے.لیکن مرکز سے باہر رہنے والے غرباء، یتامیٰ اور بیوگان کی امدا د مرکز میں رہنے والے غرباء، بیتامی اور بیوگان کی امداد سے سینکڑوں گنے کم ہے.اس کی وجہ یہی ہے کہ مرکز میں رہنے والے لوگ ہمارے سامنے ہیں اور قرآن کریم کے اس حکم کے ماتحت کہ اپنے قریب رہنے والے کا خیال رکھو ہم ان کا خیال رکھتے ہیں.اسی طرح اور بہت سے فوائد ہیں جو مرکز میں رہنے والے مرکز سے حاصل کر رہے ہیں.مثلاً سکول ہے.سوائے گھٹیالیاں (ضلع سیالکوٹ) کے اور کسی جگہ جماعت کا ہائی سکول قائم نہیں.لیکن مرکز کے رہنے والوں کو یہ سہولت حاصل ہے کہ ان کے بچے اپنے سکول میں تو حاصل کرتے ہیں.لیکن دوسروں کو یہ سہولت حاصل نہیں.پھر کالج ہے.اگر چہ وہ اس وقت لا ہور میں ہے لیکن جب کالج قادیان میں تھا تو سینکڑوں احمدی جو اپنے بچوں کو تعلیم نہیں دے کی وقتہ
1952 86 خطبات محمود سکتے تھے.ان کے بچوں نے تعلیم حاصل کی.یہ فوائد ہیں جو تمہیں مرکز میں رہنے کی وجہ سے پہنچتے ہیں.ان کے مقابلہ میں بہت سی ذمہ داریاں بھی ہیں جو یہاں کے رہنے والوں پر عائد ہوتی ہے.علم منطق کے لحاظ سے انسان میں دو قسم کی قوتیں پائی جاتی ہیں.بالفعل اور با لقوۃ یعنی ایک قوت ایسی ہوتی ہے جو عملاً ظاہر ہو رہی ہوتی ہے.اور ایک کے سامان موجود ہوتے ہیں.اور جب موقع ملے تو وہ قوت ظاہر ہو جاتی ہے.اس لحاظ سے یہ نہیں دیکھا جائے گا کہ ربوہ میں کس طرح غرباء کی مدد کی جاتی ہے.بلکہ یہاں امراء کی بھی بالقوۃ مدد کی جاتی ہے.کیونکہ ہوسکتا تج ہے کہ ان پر بھی کوئی وقت تنگی کا آجائے.اور جب ان پر تنگی کا وقت آئے گا ربوہ میں ان کی امداد کے سامان بھی موجود ہوں گے.کیونکہ ایک منظم جماعت سے انہیں بھی بوقت ضرورت امداد کی امید ہو جاتی ہے.اسی لئے امراء بھی بالقوۃ مرکز سے امداد حاصل کر رہے ہیں.اسلامی زکوة کی میں بھی ایک پہلو ایسا رکھا گیا ہے کہ جب کوئی امیر آدمی کسی مصیبت میں مبتلا ہو اور یہ امید ہو کہ وہ اپنے پاؤں پر کھڑا ہو سکے گا تو اسے اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے کے لئے زکوۃ سے مدد دی جائے.گوایسے امراء کا مقام غرباء کی امداد کے بعد آتا ہے لیکن بہر حال ان کے لئے امداد کا رستہ کھلا ہے.گویا ایسے امراء جن کے ذریعہ غرباء مدد حاصل کر رہے ہیں وہ بھی مرکز کے ممنون ہیں کیونکہ وہ بالقوۃ مرکز سے امداد حاصل کر رہے ہیں.اسی طرح دوسرے لوگ بھی مرکز کے ممنون کی ہیں کیونکہ وہ مرکز میں آتے رہتے ہیں اور اس سے روحانی علمی اور جسمانی فوائد حاصل کرتے ہیں.اگر چہ وہ لوگ اس رنگ میں مدد حاصل نہیں کر رہے جس رنگ میں مقامی غرباء ، یتامی اور بیوگان حاصل کر رہے ہیں لیکن بہر حال انہیں کسی نہ کسی رنگ میں مرکز سے مددمل رہی ہے.پھر تاجر ہیں وہ بھی مرکز سے فائدہ حاصل کر رہے ہیں.پچھلے دنوں میرے پاس ایک رپورٹ آئی کہ جب ربوہ میں غلہ کی تنگی ہوئی اور آٹا کی سپلائی کا انتظام کرنے کے لئے دکانداروں کی ایک کمیٹی بنائی گئی تو ایک دکاندار نے کہا سلسلہ نے کونسی میری تنخواہ مقرر کی ہوئی ہے کہ میں اس کا فلاں حکم مانوں.حالانکہ اگر سلسلہ اسے کوئی مدد نہیں دیتا تو وہ یہاں کیوں آیا تھا.اگر وہ یہاں آیا ہے تو بہر حال کوئی نہ کوئی فائدہ اس کے مدنظر تھا.اس دکاندار نے کہا کہ سلسلہ مجھے کون سی تی تنخواہ دیتا ہے.لیکن میں کہتا ہوں کیا یہ تنخواہ کچھ کم ہے کہ اڑھائی تین ہزار لوگوں میں سے سوائے
1952 87 خطبات محمود چند ایک کے سلسلہ نے سب کو رہنے کے لئے مکانات بنا کر دئیے تھے.دکانداروں کے پاس تھی د کا نہیں نہیں تھیں سلسلہ نے انہیں دکانیں مہیا کیں.حالانکہ خود اس کا خزانہ خالی تھا، اس کی کی جائیدادیں تباہ ہو گئی تھیں، اس کے ادارے تباہ ہو گئے تھے.لیکن ان سب باتوں کے باوجود قریباً تی 95 فیصدی دکانداروں کو سلسلہ نے اُس وقت دکانیں بنا کر دیں جب وہ خود دیوالیہ ہو چکا تھا.یہاں رہنے والوں کے پاس جو مکانات ہیں اُن میں سے قریباً 95 فیصدی مکانات وہ ہیں جو سلسلہ نے بنا کر دیئے ہیں.اور اُس وقت بنا کر دئیے جب وہ خود دیوالیہ ہو چکا تھا.تم ذرا کشمیر کے مہاجروں کی حالت دیکھو.باوجود اس کے کہ ایک زبر دست حکومت ان کی مدد کر رہی ہے جس کا سالانہ بجٹ ڈیڑھ ارب روپیہ کا ہے پھر بھی وہ مہاجر جوخو دحکومت کے مہمان ہیں اب بھی بچ چھپروں میں رہ رہے ہیں.اگر سلسلہ ان کی امداد نہیں کرتا تو وہ واہ 1 اور مانسر 2 میں کیوں نہیں گئے.پس سلسلہ نے انہیں ضرور تنخواہ دی ہے.صرف فرق یہ ہے کہ اس تنخواہ کی شکل اور ہے.مرکز نے انہیں وہ فائدہ پہنچایا ہے جو وہ کہیں اور جگہ حاصل نہیں کر سکتے تھے.اور سب سے بڑی بات تو یہ ہے کہ انہیں آکر بنا بنایا گا ہک ملا.یہ بھی سلسلہ کی طرف سے ایک تنخواہ ہے جو ربوہ کے کی ہر دکاندار کومل رہی ہے.آخر وہ کون ہوتے ہیں جو ان سے سودا خریدتے ہیں؟ وہ سلسلہ کے ہی کچ فرد ہوتے ہیں.اور انہی کا نام سلسلہ ہے.پھر اکثر دکانداروں کو دکانیں اور مکانات سلسلہ نے دیئے ہیں.اگر یہ دکانیں اور مکانات نہ ہوتے تو کیا وہ روپیہ کما سکتے تھے؟ پھر اگر سلسلہ کے ادارے یہاں نہ ہوتے تو کیا یہ لوگ یہاں آتے؟ کیا یہ سلسلہ کی طرف سے ان کی امداد نہیں ہو تی رہی ؟ پھر سلسلہ اس سے اپنے لئے کچھ نہیں مانگتا تھا بلکہ وہ گا ہک کا حق مانگتا تھا.سلسلہ اسے یہ نہیں کہتا تھا کہ چندہ زیادہ دو یا اپنے وقت میں سے دو گھنٹے سلسلہ کو دو.بلکہ وہ یہ کہتا تھا کہ جس گا ہک سے تم نے تین سال تک روپیہ کمایا ہے آج جب اس پر تنگی کا وقت آیا ہے تو اس سے ناجائز مطالبہ نہ کرو اور اس کا گلا نہ گھونٹو.سلسلہ اس سے اپنے لئے کچھ نہیں مانگتا تھا بلکہ وہ اس گا ہک کے لئے کچھ مانگتا تھا جس کے پیسے سے دکاندار نے کپڑے پہنے ہیں ، جس کے پیسے سے اس نے روٹی کمائی ہے.سلسلہ نے صرف یہ کہا تھا کہ جس گا ہک سے تم نے پچھلے سالوں میں روپیہ کمایا ہے آج جی اُسے فائدہ پہنچاؤ.آج جب گندم ملنی مشکل ہے تم اسے ٹھیک قیمت پر گندم سپلائی کرو.یہ نہیں کہ کی.
1952 88 خطبات محمود گندم ہیں رو پے من ہو تو تم گندم کی قلت سے فائدہ اٹھا کر گاہک کو چھپیں روپے فی من دو.یہ کی چیز بہت بُری ہے اس سے اجتناب کرنا چاہیئے.غرض یہاں جماعت ہر دکاندار کو تنخواہ دے رہی ہے.بلکہ صرف ربوہ میں ہی نہیں جہاں کی بھی کوئی جماعت منظم ہوتی ہے وہ وہاں رہنے والوں کو تنخواہ دیتی ہے.لیکن اس تنخواہ کی شکل اور ہوتی ہے.یہ تنخواہ گاہک کی شکل میں ملتی ہے، یہ تنخواہ حفاظت کی شکل میں ملتی ہے، یہ تنخواہ مصیبت کی کے وقت میں امداد کی شکل میں ملتی ہے.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ربوہ کے کسی دکاندار کو پچاس ساٹھ وپے ماہوار تنخواہ نہیں ملتی.لیکن جو کچھ وہ کماتا ہے اس میں سے 75 فیصدی اسے سلسلہ دیتا ہے.اگر وہ جنگل میں چلا جاتا تو کیا وہ روپیہ کما سکتا تھا ؟ اگر لوگ یہاں آکر نہ بستے تو کیا وہ اچ روپیہ کما سکتا تھا؟ اگر سلسلہ کے ادارے یہاں نہ ہوتے تو کیا وہ روپیہ کما سکتا تھا؟ اگر ان کے جی اردگر و سلسلہ کے افراد نہ رہتے تو کیا ان کی مال و دولت محفوظ رہ سکتی تھی ؟ پس جو کچھ وہ کماتا ہے کی اس میں کم از کم 3/4 حصہ جماعت کا ہوتا ہے.اسے یہاں حفاظت کے لئے جتھا مل جاتا ہے، اسے گا ہک مل جاتے ہیں.شہروں کے تاجر تو بڑے اکڑے پھرتے ہیں، اعلیٰ سے اعلیٰ کھانے کھاتے ہیں، ان کے پاس کئی کاریں ہوتی ہیں، عمدہ لباس پہنتے ہیں.اور غرباء کو دیکھو کہ وہ منہ کی چڑاتے ہیں.لیکن اگر شہر کے غرباء ان کے پڑوس میں نہ ہوتے تو وہ اتنار و پریہ کبھی نہیں کما سکتے ؟ تھے.اگر ان کے ہمسائے نہ ہوتے تو ان کی دولت محفوظ نہ ہوتی بلکہ ڈاکو اسے لوٹ لیتے.اس لئے اگر چہ غریبوں نے انہیں کچھ نہیں دیا لیکن پھر بھی دیا ہے.انہوں نے اس کا مال سنبھال کر رکھا ہے.پس امداد کے لئے ضروری نہیں ہوتا کہ کسی کو پچاس یا ساٹھ روپے ملیں.اگر محلہ والے نہ ہوں تو کیا کوئی مالدار شخص محفوظ رہ سکتا ہے؟ ان کے اردگرد جو سو یا دوسوغر باء رہتے ہیں ان کی وجہ سے ڈاکو ڈا کہ نہیں ڈالتے.گویا غرباء اسے حفاظت کے ذریعہ تنخواہ دیتے ہیں.اگر غرباء نہ کی ہوتے اور وہ ایک جنگل میں ڈیرا ڈال لیتا تو اپنے مال کی حفاظت کے لئے اسے شاید دس پندرہ مچ پہریدار رکھنے پڑتے.اب اُسے ایک پہریدار بھی کافی ہو جاتا ہے.اگر وہ چار پہریدار بھی کی ملازم رکھتا اور ان میں سے ہر ایک کو 35 روپے ماہوار دیتا تو اسے ایک سو چالیس روپے خرچ کی کرنے پڑتے.پس یہ بات غلط ہے بلکہ ایمانداری کے خلاف ہے کہ کوئی کہے کہ ہمیں سلسلہ تنخواہ بھی
1952 89 خطبات محمود نہیں دیتا.حقیقت یہ ہے کہ جب بھی مصیبت آتی ہے سلسلہ ان کی مدد کرتا ہے.اگر تم نے کی احمدیت کو قبول کیا ہے تو کسی پر احسان کرنے کے لئے قبول نہیں کیا.تم نے خدا تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لئے احمدیت کو قبول کیا ہے.لیکن پھر بھی پارٹیشن کے وقت فسادات میں اگر ہمارے احمدی محفوظ رہے تو سلسلہ کی وجہ سے رہے ہیں.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ سلسلہ کے پاس روپیہ نہیں.لیکن اس کی شہرت ، نظام اور قربانی کی وجہ سے تم پر ہر شخص ہاتھ ڈالنے سے ڈرتا ہے.اس لئے تم میں سے اکثریت خدا تعالیٰ کے فضل سے محفوظ ہے.پس جو شخص یہ کہتا ہے کہ سلسلہ نے میری کون سی مدد کی ہے وہ جھوٹ بولتا ہے.اور ایسا جھوٹ بولتا ہے جسے ہر عقلمند شخص سمجھ سکتا ہے.پس مرکز میں رہنے کے بہت سے فوائد ہیں.لیکن جہاں مرکز میں رہنے والا بہت سے فوائد حاصل کرتا ہے وہاں اُس پر بہت سی ذمہ داریاں بھی عائد ہوتی ہیں.اب اگر وہ ان ذمہ داریوں اور فرائض کو ادا نہیں کرتا جو مرکز میں رہنے کی وجہ سے اُس پر عائد ہوتی ہیں تو اُس کی مثال اُس نو کر کی سی ہے جو تنخواہ تو لیتا ہے لیکن کام نہیں کرتا.اس سلسلہ میں پہلے میں علماء کو لیتا ہوں.علماء پر بہت سی ذمہ داریاں ہیں.علماء جماعت کی ریڑھ کی ہڈی ہوتے ہیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جو شخص میری مسجد میں نماز پڑھتا ہے اُس کو کئی گنا زیادہ ثواب ملتا ہے.3 آخر یہ بات کیوں ہے.بظاہر یہی معلوم ہوتا ہے کہ مسجد نبوی سبھی اینٹوں سے بنی ہوئی ایک مسجد ہے.آخر کیا وجہ ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میری مسجد میں نماز پڑھنے والے کو اتنے گنے زیادہ ثواب ملتا ہے.اس کی وجہ یہی تھی کہ آپ کی مسجد مرکزی مسجد تھی.لوگ باہر سے وہاں آتے تھے اور ان کی تربیت کے لئے علماء کی ضرورت تھی اس لئے فرمایا آنے والے یہاں آئیں گے جن میں علماء بھی شامل ہوں گے.وہ انہیں پڑھائیں گے، انہیں مسائل سکھائیں گے اور ان کی تربیت کریں گے.دوسری مساجد میں نہ علماء جا سکتے ہیں اور نہ ہی دوسرے لوگ وہاں مرکزی مسجد کی طرح جمع ہو سکتے ہیں.در حقیقت کی اللہ تعالیٰ نے مسجد کو مسلمانوں کے اکٹھا ہونے کا ذریعہ بنایا ہے.اس میں عوام بھی آئیں گے اور خواص بھی.امراء بھی آئیں گے جو غرباء کی حالت کا معائنہ کریں گے اور غرباء بھی آئیں گے جو امراء کی حالت کا معائنہ کریں گے.عالم بھی آئیں گے اور وہ جہلاء کی حالت کا معائنہ کریں گے.
1952 90 خطبات محمود اور جہلاء بھی آئیں گے جو علماء کے ذریعہ اپنی جہالت کو دور کریں گے.اسی حکمت کے ماتحت کی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ نماز کے لئے صف اول میں آنے والا زیادہ ثواب حاصل کرتا ہے 4 اس لئے کہ جسے دینی مقام حاصل ہو گا وہ فائدہ اٹھانے کے لئے پہلی صف میں آنے کی کوشش کرے گا.اور جب وہ پہلی صف میں آنے کی کوشش کرے گا تو پچھلی صفوں والے اُس سے دینی مسائل سیکھیں گے.لیکن میں دیکھتا ہوں کہ سلسلے کے علماء مرکزی مسجد میں کم آتے ہیں.میں پاؤں میں درد کی وجہ سے اکثر نمازوں میں نہیں آتا لیکن جب مسجد میں آتا ہوں اور کی اِدھر اُدھر نظر ڈالتا ہوں تو مجھے علماء کم نظر آتے ہیں.حالانکہ جامعۃ المبشرین کے دس گیارہ کی پروفیسر ہیں اور شاید اتنے گراں پروفیسر دنیا میں اور کہیں بھی نہیں.چالیس کے قریب طالب علم ہیں اور 10 ، 11 پروفیسر ہیں.گویا ہر چار طالب علم کے لئے ایک پروفیسر ہے.اس لئے ان کی کے پاس بہت سا وقت فارغ ہوتا ہے.کبھی وہ وقت بھی تھا جب ہمارے پاس صرف ایک پر وفیسر تھا.اور وہ سکول کے کام کے علاوہ فارغ اوقات میں مسجد میں بھی آتا تھا اور نمازیوں کو دینی مسائل میں مشغول رکھتا تھا.لیکن میں دیکھتا ہوں کہ اب بعض لوگ مرکز میں محض ملازمت کی تی وجہ سے رہ رہے ہیں.وہ اپنی ذمہ داریوں کا احساس نہیں رکھتے.مسلمانوں کے لئے جمع ہونے والی جگہ مسجد ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ایک دفعہ شورش ہوئی.اُس وقت خطرہ تھا کہ کہیں قیصر روم حملہ نہ کر دے.چنانچہ ایک رات کچھ شور ہوا تو لوگوں نے سمجھا کہ قیصر کی فوجوں نے حملہ کر دیا ہے.وہ تلواریں اور نیزے ہاتھ میں لے کر باہر نکلے تو سوال پیدا ہوا کہ وہ جائیں کہاں.بعض صحابہ نے مشورہ دیا کہ ہمیں شہر کے دروازے کی طرف جانا چاہیے لیکن بعض نے کہا ہمیں مسجد کی طرف جانا چاہیے اس لئے کہ مسجد ہی مسلمانوں کے لئے جمع ہونے کی جگہ ہے.جس شخص کو بھی خطرہ کا پتا لگے گا وہ مسجد میں آ جائے گا یا کسی آدمی کے ہاتھ اطلاع بھیج دے گا.اگر ہم سب ایک طرف چلے گئے اور دوسری طرف لڑائی ہوگئی تو ہمیں لڑائی کا کیا پتا لگے گا.غرض وہ سب مسجد میں جمع ہو گئے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب شور سنا تو آپ گھوڑے پر سوار ہو کر ا کیلے ہی شور کا پتا کرنے کے لئے چلے گئے.5 جب واپس آئے تو دیکھا کہ صحابہ مسجد میں جمع ہیں.آپ نے اُن کے اس فعل کی تعریف کی اور فرمایا
1952 91 خطبات محمود خطرہ کے وقت میں جمع ہونے کے لئے یہی موزوں جگہ تھی.اگر تم کسی اور جگہ جمع ہوتے تو خبر دینے والا تمہیں کس طرح خبر دے سکتا.اس کا ایک یہی طریق ہے کہ لوگ مرکزی جگہ پر جمع ہوں کی اور وہ مسجد ہے.اس لئے اسلامی طریق یہی ہے کہ امام کا گھر مسجد کے پاس ہوتا ہے.اب بھی جو خلیفہ وقت کے لئے مکان بنا ہے وہ مسجد کے پاس ہی بنا ہے.اور یہ دونوں مرکزی جگہیں ہیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا گھر بھی مسجد کے پاس ہی تھا.مسجد ایسی جگہ ہے کہ مسلمانوں کا کی اس کے ساتھ لگاؤ پیدا کیا گیا ہے اور حکم دیا گیا ہے کہ ہر وقت مومن مسجد میں آئیں اور ذکر الہی کی کریں.اب اگر علماء مرکزی مسجد میں آئیں گے تو وہ آنے والوں کو دینی تعلیم دیں گے ، انہیں دینی مسائل سکھائیں گے.لیکن اگر وہ مسجد میں نہیں گھسیں گے.تو یہ کام کیسے ہوگا.وہ.تو لطیفہ مشہور ہے کہ کسی شخص کا بیل مسجد میں گھس گیا تو لوگ اُسے مارنے لگے.اتنے میں بیل کا مالک آ گیا اور کہنے لگا تم لوگ کتنے ظالم ہو، تم غریبوں کی پروا نہیں کرتے.جانور مسجد میں آ گیا تو کیا ہوا بھلا میں بھی کبھی مسجد میں گھسا ہوں؟ یہ بیوقوف تھا اس لئے مسجد میں آ گیا.میں کبھی مسجد میں آیا تو جو چاہے کہنا.عالم کہلاتے ہوئے بھی اگر تم مسجد میں آنے سے گریز کرتے ہو حالانکہ تمہارا اولین فرض ہے کہ مسجد میں آؤ تو تمہاری مثال اس بیل کے مالک کی سی ہے جس کی نے کہا تھا کہ یہ جانور تھا بیوقوف تھا اس لئے مسجد میں آ گیا.میں مسجد میں آیا تو جو چاہے کہنا.اسی کی طرح تم بھی سمجھتے ہو کہ ہم عالم ہیں ہم مسجد میں کیوں آئیں.پس یہاں کے علماء پر سب سے پہلا فرض یہ ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ نمازیں مرکزی مسجد میں ادا کریں.اسلام پر 1370 سال کا عرصہ گزر چکا ہے.مگر ابھی تک مکہ میں یہ خوبی ہے کہ علماء تو سارا دن خانہ کعبہ میں گھومتے رہتے ہیں.لیکن امراء بھی اکثر نماز میں خانہ کعبہ میں ادا کرتے ہیں.اس زمانہ میں جب کہ مسلمانوں کی حالت نہایت گر چکی ہے میں نے مکہ میں جس قدر نماز دیکھی ہے اور کسی جگہ نہیں دیکھی.اسے دیکھ کر دل خوش ہوتا ہے کہ کم از کم مکہ والوں نے رسما ہی کی اس چیز کو قائم رکھا ہوا ہے کہ لوگ اکثر نمازیں خانہ کعبہ میں ادا کرتے ہیں.چھوٹی مسجد کو وہاں کی زاویہ کہا جاتا ہے.خانہ کعبہ کے علاوہ دوسرے زاویے بھی بھرے رہتے ہیں.لیکن خانہ کعبہ میں ہر نماز میں ہزاروں لوگ شامل ہوتے ہیں اور علماء ہر وقت گوشوں میں پڑھ رہے ہوتے ہیں اور کی
خطبات محمود 92 1952 انہیں دیکھ کر پتا لگتا ہے کہ ان میں کس طرح دین کو زندہ رکھنے کی خواہش پائی جاتی ہے.قادیان میں شروع شروع میں دو ہی علماء تھے.حضرت خلیفہ اول اور حضرت مولوی عبدالکریم صاحب.ان دونوں کا یہی طریق تھا کہ ہر وقت دینی مسائل سکھانے میں لگے رہتے.حضرت خلیفتہ المسیح الاول تو طب بھی کیا کرتے تھے اور پھر طب کے علاوہ جو لوگ باہر سے آتے تھے انہیں آپ دینی مسائل کی بھی سکھایا کرتے تھے اور سارا دن درس و تدریس کا سلسلہ جاری رہتا تھا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی صحت آخری زمانہ میں خراب ہوگئی تھی اور اس سے پہلے بھی آپ کو اکثر تالیف و تصنیف کے کام کی وجہ سے باہر آنے اور مجلس میں بیٹھنے کا بہت کم موقع ملتا تھا.اس لئے قادیان میں جو مہمان آتے وہ خالی اوقات میں حضرت خلیفہ اسیح الاوّل کے پاس ہی بیٹھتے.کوئی قرآن کریم پڑھ رہا ہوتا تو کوئی حدیث کا مسئلہ پوچھ رہا ہوتا.غرض مہمانوں کو ہر وقت ایک شغل ملا رہتا تھا.دینی ماحول کی وجہ سے امام کے ساتھ لا زمانی بعض ایسے کام لگے رہتے ہیں کہ اسے مجالس میں بیٹھنے کا بہت کم وقت ملتا ہے.اس لئے جماعت کی کی تربیت کے لحاظ سے امام کے بعد دوسرا درجہ علماء کا ہوتا ہے.اور ان کے لئے بہترین جگہ مسجد ہے.اگر علماء مساجد میں آئیں اور وہاں ہر وقت دینی کلاسیں لگی رہیں.تو باہر سے آنیوالوں پر بھی اس کا اچھا اثر ہوگا.اگر مسجد میں آباد نظر آئیں گی تو باہر سے آنیوالے اس سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہیں گے.میں ایک دفعہ مصر کی ایک بڑی مسجد میں گیا عصر کی نماز کا وقت تھا.میں نے دیکھا کہ امام محراب کی بجائے ایک کو نہ میں نماز پڑھ رہا ہے.اور چند آدمی اس کی اقتداء میں نماز پڑھ رہے ہیں.میں نے خیال کیا کہ شاید جماعت پہلے ہو چکی ہے.یہ وہ لوگ ہیں جو نماز باجماعت سے رد گئے ہیں.اس لئے یہ ایک کو نہ میں نماز پڑھ رہے ہیں.جب نماز ختم ہو چکی تو میں نے امام سے دریافت کیا کہ آپ ایک کونے میں کیوں نماز پڑھ رہے تھے.اس نے کہا مجھے محراب میں کھڑے ہو کر نماز پڑھانے سے شرم آتی تھی کہ لاکھوں کی آبادی میں سے صرف چار پانچ آدمی نماز پڑھنے آئے ہیں.اس لئے میں محراب کی بجائے ایک کو نہ میں کھڑا ہو کر نماز پڑھ رہا تھا.پس اگر مساجد آباد نہ ہوں تو دیکھنے والوں پر بھی یہ اثر پڑتا ہے کہ ان لوگوں میں دینی روح کی
1952 93 خطبات محمود مرگئی ہے.اگر علماء اپنے فارغ اوقات میں مسجد میں آئیں اور یہاں ہر وقت قرآن کریم کا درس ج ہو رہا ہو.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کتب کا درس ہورہا ہو تو دیکھنے والا اس سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہے گا.اگر مساجد آباد ہوں گی تو ایک دکاندار جب یہ دیکھے گا کہ اس کا دوسراج ساتھی آ گیا ہے اور وہ کچھ دیر کے لئے فراغت حاصل کر سکتا ہے تو وہ مسجد میں آ بیٹھے گا تا وہ دینی تعلیم حاصل کر سکے.ایک کارکن اگر بیمار ہو گا اور وہ بیماری کی وجہ سے دفتر سے چھٹی پر ہوگا تو بجائے گھر میں لیٹنے کے مسجد میں چلا جائے گا اور اس طرح دینی مسائل سیکھ لے گا.پس کیا ہی اچھا ہو کہ ہماری مساجد آباد ہوں اور ہم میں زندگی کے آثار پائے جاتے ہوں اس سے دیکھنے والے کی پر یہ اثر پڑے گا کہ ان لوگوں میں دینی روح سرایت کر گئی ہے.پس علماء کا سب سے پہلا فرض یہ کی ہے کہ وہ مرکزی مسجد میں زیادہ تر نمازیں ادا کیا کریں.بعض اوقات امام بیمار ہو جاتا ہے یا کسی اور وجہ سے مسجد میں نماز پڑھانے نہیں جاتا تو علماء لوگوں کی تربیت میں حصہ لے سکتے ہیں اگر علماء مسجد میں نہ آئیں اور کسی دوسرے شخص کو امام مقرر کرنا پڑے تو یہ ان کی موت کی علامت ہوگی.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نمازوں کو دیکھ لو تم کہیں یہ بات نہیں دیکھو گے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی غیر حاضری میں زید یا بکر نے نماز پڑھائی ہو.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب بھی نماز نہ پڑھا سکتے تو ہمیشہ ابو بکر آگے آجاتے.اور سب مسلمان اس بات پر متفق تھے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اُمت میں سب سے بڑے عالم حضرت ابو بکڑ ہی ہیں.اور جب بھی امام یعنی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیمار ہوتے تھے دوسرے نمبر پر جو عالم دین تھا وہ موجود ہوتا تھا.لیکن اب حالت یہ ہے کہ میں مسجد میں جاتا ہوں تو بعض دفعہ نظر ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ در حقیقت وہاں نماز پڑھانے کے قابل کوئی آدمی نہیں اور ضرورت کے وقت بعض دفعہ ایسے آدمی کو کھڑا کرنا پڑتا ہے جو درحقیقت مرکزی مسجد میں نماز پڑھانے کے قابل نہیں ہوتا اور نہ مقتدیوں میں اس کے پیچھے نماز پڑھنے سے بشاشت پیدا ہوتی ہے.اس کی وجہ یہی ہے کہ ہمارے علماء کے اندر اپنے فرائض کا پورا احساس نہیں پایا جاتا.لڑائی والے کا مقام چھاؤنی ہوتی ہے گھر نہیں.کوئی کہہ سکتا ہے کہ ہم بھی تو آدمی ہیں.ہم کہیں گے کہ جب کوئی کہے کہ فوج میں آؤ اور دوسرا شخص فوج میں چلا جائے تو وہاں آدمیت اور رنگ کی ہو جاتی ہے.ایک شخص جان دیتا.
1952 94 خطبات محمود اور دوسرا شخص اپنی جان محفوظ کرتا ہے.تاجر کی آدمیت اور ہے اور سپاہی کی آدمیت اور ہے.کی تاجر کا کام ہے کہ وہ اپنی جان بچائے اور سپاہی کا کام ہے کہ وہ اپنی جان دے.پس دونوں میں فرق ہے.جب ایک آدمی عالم ہوتا ہے تو اُس کا فرض ہوتا ہے کہ وہ مسجد میں اپنی زندگی گزارے.ہاں اگر سلسلہ کا کام اسے دوسری جگہ لے جائے تو اور بات ہے.مثلاً سلسلہ کی طرف سے اس کے سپر د تالیف و تصنیف کا کام کیا جائے تو تالیف و تصنیف کا کام مسجد میں نہیں کی ہوگا.تالیف و تصنیف کا کام کسی گوشہ میں ہوگا اور وہ مجبوراً کسی گوشہ میں چلا جائے گا.لیکن جن کی کے سپر د پڑھانے کا کام ہے وہ جہاں تک تنخواہ کا سوال ہے اپنے مقررہ اوقات میں اسکول جائیں.لیکن کچھ وقت مسجدوں میں بھی دیں.اگر تنخواہ والا اسکول جاتا ہے اور وہاں پڑھاتا ہے تو اُس نے مالک کا حق ادا کیا ہے لیکن یہ نہیں کہ خدا تعالیٰ بھی اُس پر خوش ہو جائے.یہ کوئی خوبی اور قابل تعریف بات نہیں کہ ایک شخص تنخواہ کے لئے مقررہ اوقات میں سکول میں جائے اور پڑھاتی آئے.ایک مدرس کے خادم دین ہونے کا ثبوت یہ ہے کہ وہ تنخواہ والے وقت کے بعد فارغ وقت میں خدمت دین میں لگ جائے.اس سے پتا لگ جائے گا کہ اگر اُس کا تنخواہ کے بغیر گزارہ ہو جاتا تو وہ تنخواہ نہ لیتا بلکہ مفت خدمت دین میں لگا رہتا.لیکن اگر وہ فارغ وقت میں خدمت دین کے علاوہ اور کاموں میں مصروف ہو جاتا ہے تو وہ خادم دین نہیں وہ محض تنخواہ کے لئے کام کر رہا ہے.نبی اور ایک عام آدمی میں یہی فرق ہے.نبی بھی روٹی کھاتا ہے اور دوسرا آدمی بھی روٹی کھاتا ہے.لیکن نبی کے کھانے اور دوسرے آدمی کے روٹی کھانے میں فرق ہے.ایک نبی کو روٹی ملے یا نہ ملے وہ کام کرتا ہے.لیکن دوسرے آدمی کو روٹی نہ ملے تو وہ کام نہیں کرتا.اس کی طرح ایک مومن اور ایک عام آدمی میں فرق ہے.مومن بھی روٹی کھاتا ہے اور ایک عام آدمی بھی روٹی کھاتا ہے.لیکن ایک مومن کو کام کا بدلہ ملے یا نہ ملے وہ کام کرتا ہے.دوسرا آدمی اگر اسے اس کے کام کا بدلہ نہ ملے تو وہ کام نہیں کرتا.پس کسی انتظامی جماعت کا ممبر ہونا بُری بات نہیں.بشرطیکہ یہ ثابت ہو جائے کہ وہ پیٹ پالنے کے لئے تنخواہ لینے پر مجبور ہے.لیکن ہے مبلغ.کیونکہ وہ فارغ اوقات میں خدمت دین میں لگا رہتا ہے.
1952 95 خطبات محمود پرانے علماء نے اس بات پر بحث کی ہے کہ دین پڑھانے کی مزدوری جائز ہے یا نا جائز.اور اکثریت کا یہ فتوی ہے کہ دین پڑھانے کی اجرت یا تنخواہ لینا نا جائز ہے.اقلیت کے نزدیک مزدوری لینا جائز ہے اور اس کی دلیل انہوں نے یہی دی ہے کہ اسے کھانے کے لئے بھی کچھ چاہیے.گو اس کی نیت یہی ہے کہ وہ دین کا کام کرے.لیکن اس لئے کہ اسے کھانے کے لئے کچھ چاہیے وہ مجبوراً کچھ تنخواہ لے لیتا ہے.لیکن جب وہ فارغ اوقات میں سلسلہ کا کام نہیں کرتا تو اس بات کی کیا دلیل ہے کہ وہ سلسلہ کا خادم ہے.اگر وہ تنخواہ کے لئے چار گھنٹے پڑھاتا ہے اور کی پھر سارا دن تبلیغ کرتا ہے تو کوئی شخص یہ نہیں کہہ سکتا کہ وہ تنخواہ دار ہے.کیونکہ وہ صرف چار گھنٹے تنخواہ کے لئے کام کرتا ہے اور باقی وقت خدمت دین میں مفت صرف کرتا ہے.اور یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ مومن ہے.وہ ایسا کرنے سے عباد اللہ میں داخل ہو جاتا ہے عِبادُ النَّاس میں نہیں.کیونکہ اس کی زندگی بتا رہی ہے کہ وہ ہر وقت خدمت دین میں لگا رہتا ہے.پس سب سے پہلے میں علماء کو اس طرف توجہ دلاتا ہوں کہ وہ اپنے اندر زندگی کی روح پیدا کریں اور اپنے مقام کو سمجھیں.وہ جتنی نمازیں مرکزی مسجد میں پڑھ سکیں پڑھیں.اگر کوئی عالم پانچوں نمازیں مرکزی مسجد میں ادا نہیں کرتا تو چار ہی پڑھ لے.یا دوسرے کے ساتھ یہ طے کرے کہ تم فلاں فلاں نماز مرکزی مسجد میں ادا کرو اور میں فلاں فلاں نماز مرکزی مسجد میں ادا ای کروں گا.بہر حال مرکزی مسجد میں ہر وقت علماء اور ان کے نمائندوں کا ہونا ضروری ہے تا کہ وہ بوقت ضرورت نماز پڑھا سکیں اور مسجد میں آنے والوں کو مسائل دینیہ سکھا سکیں.“ 66 (الفضل 25 جنوری 1961ء) :1: واہ ضلع راولپنڈی میں پشاور روڈ پر ٹیکسلا کے ساتھ واقع ایک شہر جو تقسیم ہند کے بعد مہاجر کیمپ کے طور پر استعمال کیا گیا.2 مانسر: ضلع اٹک میں دریائے سندھ پر واقع ایک قصبہ جو تقسیم ہند کے بعد مہاجر کیمپ کے طور پر استعمال کیا گیا.3 صحیح بخارى كتاب فضل الصلاة في مسجد مكة والمدينة :4 صحیح بخاری کتاب الاذان باب الاستهام في الاذان ( مفهوما ) 5: صحیح بخاری کتاب الجهاد والسير باب الحمائل وتعليق السَّيف بالْعُنُقِ
1952 96 (12) خطبات محمود مجلس شوری کیلئے پختہ کار اور متقی نمائندے چنے چاہئیں تا وہ صحیح مشورے دے سکیں فرموده 11 اپریل 1952ء بمقام ربوہ ) تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: جیسا کہ احباب کو معلوم ہے اب جمعہ کے بعد ہماری مجلس شوری کا اجلاس شروع ہوگا.جیسا کہ آپ جانتے ہیں شوری جماعت کے نمائندوں کی ایک مجلس ہے جس میں جماعتی معاملات ہی عموماً اور سالانہ میزانیہ پر بحث کی جاتی ہے اور مشورے لئے جاتے ہیں اور مشورے دیئے جاتے ہیں.مال دنیا میں آتے بھی ہیں اور خرچ بھی ہوتے ہیں.دنیا میں لوگ مشورے دیتے بھی ہیں اور مشورہ لینے والے مشورہ لیتے ہیں.لیکن باوجود اس کے کئی مشورہ لینے والے اور مشورہ دینے والے صحیح راہ سے بھٹکے ہوئے ہوتے ہیں.کئی روپے کو خود بخو د خرچ کرنے والے اپنے خرچ میں زیادہ محتاط ہوتے ہیں.لیکن مشورہ لے کر کام کرنے والے یا مشورہ دینے والے بسا اوقات بے احتیاطیاں کر جاتے ہیں.یہ ایک ایسی حقیقت ہے جو دنیا کی ہر قوم میں پائی جاتی ہے.اور ہر زمانہ میں اس کی مثال ملتی ہے.اِس سے معلوم ہوتا ہے کہ در حقیقت کتنی ہی خوش شکل کی اور کتنے ہی اعلیٰ اصول پر بنی ہوئی مشین کیوں نہ ہو جب تک پُرزے اچھے نہ ہوں مشین کی بناوٹ اور اصول کام نہیں دے سکتے.ہمارے ملک میں ایک مشہور مثال ہے کہ سو سیانے اگومت“ یعنی اگر سو عقل مند مشورہ دیں گے تو وہ ایک ہی بات کا مشورہ دیں گے.کیونکہ حقیقت ایک ہے
1952 97 خطبات محمود اور عقل مند حقیقت تک پہنچ جاتا ہے.پس چاہے ایک عقل مند ہو، دس عقل مند ہوں یا سو عقلمند کی ہوں وہ ایک ہی بات کریں گے.اور اس کے مقابلہ میں چاہے سو بیوقوف جمع ہو جا ئیں ان کی تج باتیں بیوقوفی پیدا کریں گی.تم دس کھوٹے پیسوں سے ایک کھرا پیسہ نہیں بنا سکتے.تم دس جھوٹ کی سے ایک بچ نہیں بنا سکتے.اسی طرح جب تک کسی قوم کے افراد اپنے اندر صحیح تبدیلی پیدا نہ کریں ، وہ اپنے اندر سچا تقویٰ پیدا نہ کریں، وہ اپنے اندر درمیانہ روش کی روح پیدا نہ کریں، وہ اپنے اند ر سو چنے اور فکر کرنے کی روح پیدا نہ کریں یا وہ اپنے اندر عقل اور دانائی سے کام لینے کی روح پیدا نہ کریں اُس کے نمائندے بھی حقیقت صحیح رستہ اور سچائی سے ایسے ہی دور ہونگے جیسے اُس جماعت کے افراد جس کا کوئی نمائندہ نہیں ہوتا.پس یہ جو ہم شوری کرتے ہیں وہ اس غرض کو تو پورا کرتی ہے کہ اگر جماعت کے افراد صحیح ہوں تو شوریٰ مفید ہوسکتی ہے.لیکن اس غرض کو پورا نہیں کرتی کہ اس کے افراد ٹھیک ہوں.افراد کا ٹھیک ہونا ان کے اپنے ارادے اور کوشش کے صحیح ہونے پر مبنی ہے.یہ وہ کام ہے جو آپ لوگ کر سکتے ہیں کوئی نمائندہ نہیں کر سکتا.دل کی اصلاح کے لئے انسان کی اپنی جدو جہد کی ضرورت تھی ہے، اس کی اپنی کوشش کی ضرورت ہے.اگر تم ٹھیک ہو جاؤ تو تمہاری شوری اور مشورے بھی کچ ٹھیک ہو جائیں اور پھر صحیح مشورے پورے بھی ہو جائیں.کیونکہ اگر تم صحیح ہو گے تو تم اپنے مشوروں کو پورا کرنے کی کوشش کرو گے.لیکن اگر افراد صیح نہیں تو نمائندے چونکہ انہی میں سے ہوں گے اور وہ ٹھیک نہیں ہوں گے اس لئے جب نمائندہ عقل و خرد، تقویٰ اور میانہ روی سے عاری ہو تو اُس کا مشورہ بھی ٹھیک نہیں ہوگا.اور اگر اتفاقاً کوئی مشورہ ٹھیک ہو بھی تو اُس کا کچھ فائدہ نہیں ہو گا.اگر تمہاری اصلاح نہیں ہوگی تو تمہارا سارا وقت خراب ہو گا.اور اگر نمائندے غلط مشورہ دیں گے تو اُس پر عمل بھی نہیں ہوگا.یہ ساری گنجی فرد کے ہاتھ میں ہے.یہی وجہ ہے کہ اسلام انفرادیت پر خاص زور دیتا ہے.کیپٹل ازم اور کمیونزم میں جوٹکراؤ ہے وہ اس وجہ سے ہے کہ انفرادیت اور اجتماعیت میں توازن قائم نہیں رکھا جاتا.اسلام انفرادیت کو اس نقطہ نگاہ سے نہیں لیتا جس نقطہ نگاہ سے اسے کمیونزم لیتی ہے.اسلام کہتا ہے کہ جو قوم انفرادیت کو مار دیتی ہے اُس میں ترقی کی روح باقی نہیں رہتی.اس کی مثال ایسی ہی ہے کہ تم ایک پیسے کو دھگا دیتے ہو تو کی وہ کچھ دُور تک چلا جاتا ہے.لیکن یہ ایک وقت تک ہوتا ہے.ہر ایک شخص جب پیسے کو دھکا دے گا ج
1952 98 خطبات محمود تو وہ سیدھا چل پڑے گا اور کچھ دور تک وہ چلتا جائے گا.کیونکہ پیسے میں یہ خاصیت ہے کہ وہ کی دھکا دینے سے کچھ دور تک چلا جاتا ہے اور دیکھنے والا یہ خیال کر سکتا ہے کہ شاید اس میں رُوح ہے یا شاید اُس میں دماغ ہے.لیکن پچاس ساٹھ گز کے بعد وہ گر جائے گا.لیکن ایک انسان کی میلوں میں چلے گا اس لئے کہ اُس میں دماغ ہے ، ارادہ ہے.ایک پہیہ دھگا دینے سے میلوں میں نہیں چلے گا بلکہ کچھ دور جا کر گر جائے گا.اس لئے کہ انسان میں انفرادیت پائی جاتی ہے لیکن پیسے میں انفرادیت نہیں پائی جاتی.ایک پرزہ کو دھگا دو تو تھوڑی دور جا کر اُس کی حرکت ختم ہو جاتی ہے.لیکن چلنے والا انسان پرزہ نہیں وہ ایک مستقل وجود ہے، اس کی انفرادیت زندہ ہے، اُس کے اندر ارادہ اور مقصد پایا جاتا ہے اس لئے وہ اُس وقت تک چلتا جائے گا جب تک اُس کا مقصد پورا نہ ہو.مگر پہیہ ایسا نہیں کرے گا.اسلام انفرادیت کو ایک قیمتی وجود قرار دیتا ہے اور اس پر خاص زور دیتا ہے.پس تم اپنی شخصیت اور انفرادیت کو پختہ کرو.اگر تم اجتماعی روح کے ساتھ انفرادیت اور کی شخصیت کی روح کو اُجاگر کرو گے تو تم جن لوگوں کو اپنا نمائندہ چنو گے وہ پختہ کار اور متقی ہوں گے.اور اگر نمائندے پختہ کار اور متقی ہوں گے تو جو مشورہ وہ دیں گے وہ صحیح ہوگا.اور جو مشورہ وہ دیں گے وہ پورا بھی ہوگا.کیونکہ اگر تم پختہ کار اور متقی نمائندے چنو گے تو تم بھی پختہ کار اور کی سنجیدہ بنو گے اور ان کے مشورہ پر عمل کر کے دکھا دو گے.تم اس چکر کو صحیح بناؤ تا تمہارا نام صحیح نتائج کے پیدا کرے اور وہ کام جو خدا تعالیٰ نے ہمارے سپرد کیا ہے اور خدا تعالیٰ نے اسے جاری کیا ہے یا اُس نے اُسے جاری کرنے کا فیصلہ کیا ہے وہ ہو بھی جائے اور ہمارے ہاتھوں سے بھی کی الفضل 23 اپریل 1952ء) ہو جائے.
1952 99 (13) خطبات محمود ہماری جماعت کا فرض ہے کہ وہ اسلام کی اشاعت اور ترقی کے لئے رات اور دن کام کرتی چلی جائے فرمودہ 25 اپریل 1952ء بمقام ربوہ ) تشهد ، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: وو مجھے چار دن سے لمبے گو (LUMBAGO)1 اور شیاٹیکا (SCIATICA) کی کمی تکلیف ہے.ہمارے ہاں پنجابی میں لمبے گو کوچک پڑنا یا نکلنا کہتے ہیں.اس میں انسان صرف کی ایک طرف جھک کے کھڑا ہو سکتا ہے اور وہ بھی تکلیف سے.آج سے کسی قدرجسم سیدھا تو ہونے لگ گیا ہے لیکن ابھی حرکت میرے لئے تکلیف دہ ہے.اسی وجہ سے میں کھڑے ہو کر خطبہ نہیں کر رہا بلکہ بیٹھ کر خطبہ کر رہا ہوں.انسانی زندگی اگر اس سے انسان صحیح طور پر فائدہ اٹھا نا چاہے تو وہ صرف عمل کا نام ہے.دنیا میں یہ ایک قطعی اور یقینی چیز ہے کہ انسان آتا ہے اور فوت ہو جاتا ہے.لیکن شاید پچاس ساٹھ سال کی عمر تک تو انسان خیال بھی نہیں کرتے کہ انہوں نے مرنا ہے.اور اس کے بعد کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ زندہ ہی مر جاتے ہیں.یعنی ہر وقت مرنے کا ہی سوچتے رہتے ہیں.گویا بیشتر حصہ انسانوں کا ایسا ہے کہ ایک وقت تک تو وہ سمجھتا ہے کہ مرنا ہی نہیں اور دوسرے وقت سمجھتا ہے کہ میں مر چکا ہوں.اِس طرح اُس کی دونوں زندگیاں بیکار چلی جاتی ہیں.جب وہ سمجھتا ہے کہ میں نے مرنا نہیں اُس وقت بھی وہ اپنی زندگی کسی مفید کام میں نہیں لگاتا.اور جب وہ سمجھتا ہے کہ
1952 100 خطبات محمود میں مر گیا اُس وقت بھی وہ اپنی زندگی کسی مفید کام میں صرف نہیں کرتا.اصل اور صحیح طریقہ یہی کچ ہے کہ انسان سمجھے کہ مجھے اللہ تعالیٰ نے اس دنیا میں کام کرنے کے لئے بھیجا ہے.جتنا بھی کام کرلوں وہی میری زندگی کا مقصد اور وہی اس کا ماحصل ہے.پس انسان کو ہر تنگی ، ترشی ، مصیبت ، آرام، خوشی اور رنج میں اپنے خیالات صرف اس طرف لگائے رکھنے چاہئیں کہ اگر میرے خاندان میں کوئی کمی ہے یا میری قربانیوں میں کوئی کمی رہ گئی ہے تو اُس کو پورا کروں تا کہ میری موت کا وقت میرے لئے رنج کا موجب نہ ہو بلکہ خوشی کا موجب ہو.کسی شاعر نے عربی زبان کی میں کہا ہے انْتَ الَّذِي وَلَدَتْكَ أُمُّكَ بَاكِياً وَ النَّاسُ حَوْلَكَ يَضْحَكُونَ سُرُورًا 3 تو وہ شخص ہے کہ تیری ماں نے تجھے اس حالت میں جنا تھا کہ تو رورہا تھا.بچہ پیدا ہوتا ہے روتا ہے.پس وہ اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتا ہے کہ تو وہ ہے کہ ماں نے جب تجھے ؟ تھا تو تو روتا تھا.وَ النَّاسُ حَوْلَكَ يَضْحَكُونَ سُرُوْرًا لیکن لوگ تیرے ارد گرد بیٹھے خوشی سے ہنس رہے تھے کہ بیٹا ہو گیا، بیٹا ہو گیا.گویا تو تو روتا تھا مگر تیرے رونے پر انہیں رنج نہیں تھا بلکہ وہ خوش تھے اور ہنس رہے تھے.تو رور ہا تھا کہ میں تکلیف سے اور ایک دردناک طبعی آپریشن کے ساتھ جنا گیا ہوں اور وہ خوش ہو رہے تھے کہ ہمارے خاندان میں ایک بیٹا آ گیا.فَاخْرِصُ عَلَى عَمَلٍ تَكُونُ إِذَا بَكَوا فِي وَقْتِ مَوْتِكَ ضَاحِكاً مَسْرُورًا 4 پس تو اس بات کو دیکھ کر آب پکا عزم اور ارادہ کر لے کہ میں اب دنیا میں ایسے اعمال کروں گا کہ میری موت پر اور لوگ تو رور ہے ہوں گے اور میں ہنس رہا ہوں گا.لوگ روتے ہوں کہ اتنی خدمت کرنے والا اور اتنے کام کرنے والا مر رہا ہے اب ہم کیا کریں گے اور تو خوش ہو رہا ہو کہ ان کاموں کے بعد اب میں خدا کے پاس جا رہا ہوں جو نہ معلوم مجھے کیا کچھ انعام دے گا.
1952 101 خطبات محمود حقیقت یہی ہے کہ انسان کو اپنی زندگی میں زیادہ سے زیادہ کام کرنے کی عادت ڈالنی کی چاہیئے اور زیادہ سے زیادہ مفید کام کرنے کی عادت ڈالنی چاہیئے.اگر وہ اس بات کی عادت کی ڈال لے تو اس کے پاس کوئی وقت بیچ ہی نہیں سکتا جو غلط خیالات اور پراگندہ خیالات میں صرف ہو سکے.پراگندہ خیالات اور غلط خیالات اُس شخص کے دل میں پیدا ہوتے ہیں جس کا وقت رائیگاں جا رہا ہو.لیکن جو شخص کام میں لگا ہوا ہو گا اُس کے دل میں پراگندہ اور غلط خیالات پیدا ہی کس طرح ہوں گے.اور اگر کسی کو کوئی ایسا صدمہ پہنچے گا بھی جو اُس کے خیالات کو پراگندہ کرنے والا ہو تو وہ فوراً اُس پر غالب آجائے گا.کیونکہ کام اُس کے سامنے ہوگا اور وہ اس میں مشغول ہو جائے گا.ہماری جماعت کو خصوصاً یہ امر مدنظر رکھنا چاہیئے.کیونکہ خدا تعالیٰ نے انہیں ایسے زمانہ میں پیدا کیا ہے جب ان کے سامنے کام ہی کام ہے.دنیا میں مختلف زمانے آتے ہیں اور ان زمانوں میں خدا تعالیٰ کی مختلف صفات اور تجلیات کا ظہور ہوتا ہے.قرآن کریم میں بھی اس طرف اشا کیا گیا ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے الہامات میں بھی اللہ تعالیٰ کے متعلق یہ الہام آتا ہے کہ اُفُطِرُ وَ اَصُومُ 5 یعنی کبھی کبھی میں روزہ کھولتا ہوں اور کبھی کبھی روزہ رکھتا ؟ ہوں.یعنی کبھی تو ہم دنیا میں ایسی تقدیر جاری کرتے ہیں کہ کام ہی کام انسان کے سامنے ہوتا ت ہے.جیسے افطاری کا وقت آ جائے تو کام بڑھ جاتا ہے اور لوگ ایک دوسرے سے کہتے ہیں کہ جلدی کرو.شربت لاؤ، برف لاؤ، کھجور میں لاؤ.اور کبھی روزے کا وقت ہوتا ہے جب انسان چپ کر کے بیٹھارہتا ہے.خدا تعالیٰ کی دو صفتیں ہیں جن کا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اس الہام میں ذکر آتا ہے.نادان کہتا ہے کہ کیا خدا روزہ رکھتا ہے؟ یا کیا خدا روزہ کھولتا ہے اور اُس وقت اسے بھوک لگ رہی ہوتی ہے؟ وہ شخص جو ایسا کہتا ہے وہ بیوقوف ہے.وہ یہ نہیں جانتا کہ یہ ایک استعارہ ہے اور اس کے معنی یہ ہیں کہ کبھی دنیا میں ایسے تغیرات پیدا ہوتے ہیں کہ کام ہی کام انسان کے سامنے ہوتا ہے اور کبھی ایسے تغیرات پیدا ہوتے ہیں جب کام کا غلبہ نہیں ہوتا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا زمانہ وہ ہے جو کام کا زمانہ ہے.جب دوسرے وقتوں میں بھی جو کام کاج وقت نہیں ہوتا انسانی زندگی کا ماحصل کام کرنا ہے تو پھر اس زمانہ میں جو کام کا ہی زمانہ ہو کام کی کی
خطبات محمود 102 1952 اہمیت کتنی بڑھ جاتی ہے.اور پھر ان لوگوں کا کیا حال ہونا چاہیے جنہیں اسی غرض کے لئے پیدا کیا گیا ہو کہ وہ کام کریں اور کرتے چلے جائیں.جس طرح شہد کی مکھیاں سارا دن شہد جمع کرنے میں مشغول رہتی ہیں، جس طرح چیونٹیاں سردی کے موسم کے شروع میں غلہ جمع کرنے میں مشغول رہتی ہیں اسی طرح ہماری جماعت کا فرض ہے کہ وہ اسلام کی اشاعت اور اسلام کی ترقی کے لئے رات اور دن کام کرتی چلی جائے.اور اس کام کو اتنی تندہی کے ساتھ سرانجام دے کہ جو شخص بھی انہیں دیکھے وہ یہ نہ سمجھے کہ یہ انسان ہیں بلکہ وہ یہ سمجھے کہ یہ شہد کی مکھیاں ہیں جو اپنے چھتا میں شہد جمع کر رہی ہیں یا یہ چیونٹیاں ہیں جو سردی کے موسم کے لئے غلہ جمع کرنے میں لگی ہوئی ہیں اور ان کو سوائے اِس کام کے اپنے تن من دھن کی کوئی ہوش ہی نہیں.“ 1 لمبے گو: چک ، وجع المفاصل.کمر درد.گنٹھیا کا درد.66 ( الفضل 2 مئی 1952 ء ) 2 : شیاٹیکا: ٹانگ کا درد جوHIP سے پاؤں تک کے مختلف حصوں میں ٹیس کی شکل میں اُٹھتا ہے.4،3 مجانى الادب الجزء الثانى مطبوعہ بیروت صفحہ 43 پر یہ شعر اس طرح ہیں "يَاذَا الَّذِى وَلَدَتْكَ أُمُّكَ بَاكِياً وَالنَّاسُ حَوْلَكَ يَضْحَكُونَ سُرُورًا اخرِصُ عَلَى عَمَلٍ تَكُونُ بِهِ مَتى يَكُونَ حَوْلَكَ ضَاحِكاً مَّسْرُورًا : تذکرہ صفحہ 421.ایڈیشن چہارم
1952 103 (14) خطبات محمود نوجوانوں کی ایسے رنگ میں تربیت کریں جس سے وہ سلسلے کے لئے مفید وجود بن سکیں فرمودہ 2 مئی 1952ء بمقام ربوہ ) تشهد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: جماعتیں عمارت کے طور پر ہوتی ہیں جن میں مختلف حصے مختلف ضرورتوں کو پورا کر رہے ہوتے ہیں.جس طرح مکان کی کوئی چیز بھی خراب ہو تو مکین کے لئے تکلیف کا موجب ہوتی ہے اسی طرح اگر جماعتوں کا کوئی حصہ ناقص ہو تو ساری جماعت اُن سے محروم ہو جاتی ہے.خصوصاً جو جماعتی ادارے ہوتے ہیں اُن کی خرابی کے ساتھ جماعت کے تمام نظام میں خرابی آجاتی ہے.ہماری جماعت مختلف قسم کے کام کر رہی ہے.کوئی محکمہ مال کا ہے، کوئی تعلیم کا ہے ، کوئی امور عامہ کا ہے، کوئی امور خارجہ کا ہے، کوئی تصنیف کا ہے ، کوئی تبلیغ کا ہے، کوئی زراعت کا محکمہ ہے، کوئی کی تربیت کا محکمہ ہے، کوئی اشاعت کا محکمہ ہے.یہ محکمے اپنی اپنی جگہ پر نہایت ہی اہم ہیں اور ہر ایک کمی محکمہ عمارت کے ایک حصہ کی حیثیت رکھتا ہے.جیسے مکان میں کوئی سونے کا کمرہ ہوتا ہے، کوئی چی نہانے کا ہوتا ہے ، کوئی پاخانے کا ہوتا ہے، کوئی سٹور کا ہوتا ہے، کوئی بیٹھنے کا ہوتا ہے، کوئی کھانے کی کا ہوتا ہے، ان میں سے کسی میں بھی خلل آجائے تو گھر والے بے چینی محسوس کرتے ہیں اور ان کا نجی امن خراب ہو جاتا ہے.کھانے کے کمرے میں خرابی آجائے تو اتنے دن جن کو کمرہ میں بیٹھ کر کی کھانا کھانے کی عادت ہوتی ہے بے چین سے رہتے ہیں.کوئی کچھ کہتا ہے اور کوئی کچھ.بچے
1952 104 خطبات محمود الگ بڑ بڑاتے ہیں اور بڑے الگ تکلیف محسوس کرتے ہیں.ادنیٰ سے ادنی کمرہ پاخانہ کا سمجھا جاتا ہے وہ خراب ہو جاتا ہے تو سارے گھر والوں کو تکلیف ہو جاتی ہے.بعض پاخانہ روکنے کی ج وجہ سے بیمار ہو جاتے ہیں اور بعض شرم و حیا کی وجہ سے دوسری جگہ قضائے حاجت نہیں کر سکتے اور اس طرح تکلیف محسوس کرتے ہیں.غرض ایک ایک کمرہ اپنی جگہ پر ضروری ہوتا ہے.اسی طرح ایک ایک محکمہ جو ضرورت کے مطابق جماعت بناتی ہے اُن میں سے کسی ایک کو تو ڑ دو تو سارا نظام خراب ہو جائے گا.اگر باہمی جھگڑے اور تنازع دُور کرنے اور ایک دوسرے کے حقوق دلوانے والے محکمہ میں خرابی آجائے تو لازماً تربیت کا محکمہ کمزور ہو جائے گا.لوگوں کے اندر شبہات پیدا ہوں گے ، شکوے پیدا ہوں گے، بے چینی پیدا ہوگی اور تربیت والوں کا کام اس حد تک بڑھ جائے گا کہ ان کا محکمہ جو عام حالات کے لئے بنایا گیا ہے اس کے لئے کافی نہیں ہو گا.پھر جماعت کے لوگوں میں تشویش پیدا ہونے کی وجہ سے وہ اپنے وقت کو صحیح طور پر استعمال نہیں کرسکیں گے.جو لوگ آپس میں ایک دوسرے کے خلاف باتیں کرتے رہیں گے وہ لازماً تبلیغ نہیں کر سکیں گے.اگر وہ اچھے تاجر یا اچھے زمیندار یا اچھے عہد یدار ہیں تو ان جھگڑوں کی وجہ سے کی وہ اپنی کمائی کی طرف زیادہ توجہ نہیں کر سکیں گے.اور جب ان کی کمائی کم ہو گی تو سلسلے کے چندے کم ہو جائیں گے اور مرکزی کام رُکنے لگیں گے.تو بظاہر اس محکمہ کا جماعت کی ترقی سے کوئی تعلق نہیں لیکن حقیقتا اگر دیکھا جائے تو بڑا تعلق ہے.اسی طرح اگر تربیت کے محکمہ میں نقص ہو گا تو جماعت کی اخلاقی حالت کے گرنے کی وجہ سے تبلیغ مشکل ہو جائے گی.لوگ کہیں گے تم کی ہمیں کیا کہتے ہو.تم میں تو یہ یہ خرابی پائی جاتی ہے.پھر امور عامہ کا کام بھی بہت بڑھ جائے گا کیونکہ جب اخلاقی تربیت نہیں ہوگی تو جھگڑے بہت بڑھ جائیں گے.غرض تربیت کی کمی کی وجہ سے اگر جھگڑے بڑھ جائیں تو امور عامہ جو عام حالات کے مطابق بنایا گیا تھا اپنے کام میں کمزور ہو جائے گا اور اس طرح جماعت پر ایک بُرا اثر پڑے گا.تعلیم کا بھی یہی حال ہے.اگر تعلیم صحیح طور پر نہیں دی جائے گی جس کا تربیت ایک جزو ہے تو جماعت کا علمی معیار گر جائے گا.علمی معیار کے گر جانے کی وجہ سے اس کی تمدنی حالت گر جائے گی.اسی طرح اس کی مالی حالت گر جائے گی.تعلیم کی کمی کی وجہ سے لوگ اچھے عہدوں پر نہیں جاسکیں گے.اور جب تعلیم میں کمی ہو گی تو تبلیغ میں بھی لازماً کمی آجائے گی.غرض ہر محکمہ آپس میں اس طرح ملا ہوا ہے جس طرح
1952 105 خطبات محمود عمارت کا ایک حصہ اُس کے دوسرے حصہ سے ملا ہوا ہوتا ہے.ایک حصہ کو خراب کر دو تو باقی حصے می بھی خراب ہونے لگیں گے.اس لئے جماعت کے ہر محکمہ کو اپنی اپنی ذمہ داری کو سمجھتے ہوئے کی اپنے کام کو بہتر بنانا چاہیے.اس وقت بعض محکموں کی ایسی حالت ہے کہ اگر اُن کو توڑ دیا جائے یا اُن کا عملہ موجودہ تعداد سے کم کر دیا جائے تو کچھ بھی فرق پیدا نہیں ہوگا.ان کے بند ہو جانے پر بھی کام اسی طرح چلتا رہے گا جس طرح پہلے چل رہا ہے.حالانکہ زندگی کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ اگر کسی محکمہ کو بند کر دیا جائے تو سارا کام خراب ہو جائے.جیسے بیت المال کا محکمہ ہے.اس کے بند کرتے ہی سارے کام بند ہو جائیں گے.یہی بات ہر دوسرے محکمہ میں ہونی چاہیے.یہی کچ بات تصنیف کے محکمہ میں بھی ہونی چاہیے.یہی بات اشاعت کے محکمہ میں بھی ہونی چاہیئے کہ ان تجھے کے کام کے بند ہونے کے ساتھ ہی جماعت کے سارے کام بند ہو جائیں.یہی بات تعلیم کے محکمہ میں بھی ہونی چاہیئے.یہی بات امور عامہ کے محکمہ میں بھی ہونی چاہیئے.اس وقت در حقیقت ساری جماعت کی ذمہ داری صرف دو محکموں پر ہے.ایک محکمہ مال پر اور ایک محکمہ تبلیغ پر.باقی محکموں کی مثال ایسی ہی ہے جیسے کسی کمرہ کی دیوار میں چھوٹی چھوٹی ہوں اور اُس کی چھت ہوا میں معلق ہو جس کے گرنے کا ہر وقت خطرہ ہو.کیونکہ وہ محکمے اپنی ضرورت کو پورا نہیں کر رہے.موٹا محکمہ تعلیم کا ہے.ہمارے ہاں اب کئی ہائی سکول ہیں ، دینیات کے سکول ہیں ، کالج ہے، تین تو ہائی سکول ہی ہیں.ایک زنانہ اور دومردانہ.ایک سیالکوٹ میں اور دور بوہ میں.ایک کالج ہے لاہور میں.اس کے علاوہ کئی مڈل سکول ہیں ، پرائمری سکول ہیں.یہ سارے محکمہ تعلیم کی عمارت ہیں.بے شک یہ سکول تھوڑے ہیں لیکن بہر حال جب جماعت نے ان کو قائم کیا ہے تو اس نے ان کی ضرورت کو سمجھا اور ان کے مقصد کو تسلیم کیا ہے.پھر ہمارے سکولوں اور کالجوں کی نگرانی کرنے والا ایک ذمہ دار ادارہ ہے جس کا کام یہ ہے کہ وہ جماعتی رنگ میں نو جوانوں کی تعلیم کے بارہ میں مدد دے اور ان کے نشو و نما میں حصہ لے.لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ جو نو جوان نکل رہے ہیں اُن میں دین کا وہ مادہ نہیں پایا جاتا جو پرانے آدمیوں میں پایانی جاتا ہے.پرانے آدمی قربانی میں بہت زیادہ ہیں اور نئے آدمی ابھی ان سے بہت پیچھے ہیں.ایک بڑھنے والی جماعت جس میں باہر سے لوگ آکر مل رہے ہوں اُسی صورت میں ترقی کر سکتی ہے جب اُس میں پیدا ہونے والے نوجوان پہلوں سے زیادہ قربانی کرنے والے ہوں.اگر
1952 106 خطبات محمود باہر سے شامل ہونے والوں کو نظر انداز کر دو تب بھی اولاد کے ذریعہ ہماری جماعت خدا تعالیٰ کی کے فضل سے ترقی کر رہی ہے.عام طور پر ایک ایک آدمی کے تین تین چار چار بچے ہوتے ہیں.اگر پچھلے کو ایک قرار دیا جائے تو آنے والوں کو ہم تین چار ضرور کہیں گے یا کم سے کم دو گنے ضروری ہوں گے.پھر ملک کی اقتصادی حالت جس طرح ترقی کر رہی ہے اُس کو مد نظر رکھتے ہوئے یقیناً کی پچھلا شخص اگر دس روپے کماتا ہے تو اگلا ہیں روپے کمائے گا.پس اگر ایک شخص کے دو بیٹے ہوں کی تو سمجھنا چاہیئے کہ باپ اگر دس کماتا تھا تو بیٹے چالیس کمائیں گے.گویا ان کی قربانی پہلوں سے کم سے کم چار گنا ہونی چاہیے.مگر تحریک جدید کے چندہ کو لے لو تو ہمیں یہ نظر آتا ہے کہ پہلے لوگ جو تھے اُنہوں نے تین لاکھ تک اس چندہ کو پہنچایا.جس کے معنی یہ ہیں کہ نئے آدمیوں کو اس کی حساب سے بارہ لاکھ تک چندہ پہنچانا چاہیئے تھا مگر ان کا چندہ ایک لاکھ چالیس ہزار تک پہنچا ہے.گو یا دفتر دوم میں شامل ہونے والے پہلوں سے قریباً نواں حصہ قربانی کر رہے ہیں.اگر ان کی جی مالی حالت کی زیادتی کو دیکھا جائے ، اگر ان کی تعداد کی زیادتی کو دیکھا جائے اور پہلوں کے مقابلہ پر اسے رکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ نواں حصہ قربانی کر رہے ہیں.گویا وصیت جس کو اموال بڑھانے کا ذریعہ قرار دیا گیا تھا وہ وصیت والا طریق اولاد نے اس رنگ میں اختیار کر لیا ت ہے کہ باپ جتنی قربانی کرتا تھا بیٹا اُس کا نواں حصہ قربانی کرتا ہے.اس کی ذمہ داری یقیناً ہمارے سکولوں اور کالج پر ہے.اگر وہ نوجوانوں میں صحیح روح پیدا کرتے ، اگر وہ سلسلہ سے تعاون کرتے اور کوشش کرتے کہ ان میں پہلوں سے زیادہ قربانی کا مادہ پیدا ہو تو یہ نتیجہ بھی پیدا نہ ہوتا.ظاہر ہے کہ ہمارے سکولوں اور کالج نے صرف اتنا سمجھ لیا ہے کہ نتیجے اچھے دکھا دو.وہ بھی کوئی خاص طور پر اچھے نہیں.لیکن اگر ہم نے نتائج ہی اچھے دکھانے ہیں تو پھر جماعت کو ان پر اس قدر روپیہ خرچ کرنے کی کیا ضرورت ہے.جتنا احمدی طالب علم ہمارے سکولوں اور کالج کی میں پڑھتا ہے اس سے کئی گنا زیادہ احمدی لڑکا دوسرے کالجوں اور سکولوں میں تعلیم پاتا ہے.اگر نولڑ کے دوسرے سکولوں میں پڑھ رہے ہیں اور ایک لڑکا ہمارے سکول میں پڑھ رہا ہے تو ایک بھی دوسرے سکول میں پڑھ سکتا ہے اس پر ہزاروں روپیہ سالانہ جماعت کو خرچ کرنے کی کیا ضرورت ہے.ہماری غرض تو یہ تھی کہ اس طرز پر جماعت کے نو جوانوں کو زیادہ سے زیادہ جماعتی اور کی ملی روح سے بھرا جائے.اور جب اس تجربہ کی بناء پر ان کے اخلاص اور ان کی قربانی میں ترقی ہو تو کی
1952 107 خطبات محمود پھر اور کالج اور سکول قائم کئے جائیں.یہاں تک کہ ہماری جماعت کے نوجوان جو اپنے کالجوں کے اور سکولوں میں تربیت حاصل کر چکے ہوں اُن میں ایک نیا ایمان اور نئی قوت اور نئی تازگی پیدا ہو جائے.ورنہ صرف درسی کتب کی تعلیم کے لئے نہ ہمیں سکولوں کی ضرورت ہے نہ کالج کی.دنیا کی میں سینکڑوں سکول اور کالج موجود ہیں اُن میں ہماری جماعت کے طلباء بھی پڑھ سکتے ہیں اور ہمیں کوئی ضرورت نہیں رہتی کہ ہم ان اداروں پر ہزاروں روپیہ سالانہ خرچ کریں.پس آج میں اپنے تعلیمی اداروں اور مرکزی محکمہ تعلیم کو اس امر کی طرف توجہ دلاتا ہوں کہ وہ اپنے پروگرام کو ایسی طرز پر بنائیں کہ ان کے سکولوں کا باقی جماعت کو فائدہ ہو اور ان کے سکولوں سے نکلے ہوئے لڑکے دوسرے لوگوں کی قربانی سے پندرہ ہیں گنے زیادہ قربانی کرنے والے ہوں.اگر نظارت تعلیم ایسی لسٹ پیش کرے جس سے یہ ظاہر ہوتا ہو کہ ان کے سکولوں.فارغ ہونے والے نوجوان پہلوں سے زیادہ ترقی یافتہ ، پہلوں سے زیادہ ہمت والے ، پہلوں سے زیادہ بلند حوصلوں والے، پہلوں سے زیادہ قربانی اور ایثار سے کام لینے والے اور پہلوں سے زیادہ بوجھ برداشت کرنے والے ہیں تو پھر بے شک یہ امر ہماری خوشی کا موجب ہو سکتا کی ہے.لیکن اگر وہ ایسا نہ دکھا سکیں تو پھر جماعت پچاس ہزار سکول پر اور ایک لاکھ کالج پر کیوں خرچ کرے.کیوں نہ یہ روپیہ تبلیغ پر ہی صرف کیا جائے تاکہ نئے آنے والے نیا جوش اور نیا خون کی لے کر آئیں اور اُن کے اندر قربانی کا وہ جذبہ ہو جو نو مسلموں کے اندر پایا جاتا ہے.جب تک ہمارے سکولوں اور کالجوں سے نکلنے والے نو مسلموں والا اخلاص اپنے اندر نہیں رکھتے اُس وقت تک وہ محض بریکار ہیں.اگر انہوں نے پیدائشی احمد یوں والا رنگ ہی رکھنا ہے تو پھر ضرورت کیا ج ہے کہ ان کے لئے اتنا روپیہ خرچ کیا جائے.پس ان کو اپنی اصلاح کی طرف توجہ کرنی چاہیے.بہت سا طالب علم ان کے قبضہ میں ہوتا ہے اور وہ اگر چاہیں تو آسانی سے ان میں نمازوں کی عادت پیدا کر سکتے ہیں ، انہیں محنت کا عادی بنا سکتے ہیں، ان میں دیانت اور امانت پیدا کر سکتے ؟ ہیں اور انہیں سچائی کا عادی بنا سکتے ہیں.میں نے ایک دفعہ سکول کے طلباء سے پوچھا کہ بتاؤ تم میں سچ بولنے والے کتنے ہیں؟ تو اس کی پر بہت کم نو جوانوں کی تعدا د نکلی جنہوں نے اقرار کیا کہ وہ ہمیشہ سچ بولتے ہیں.پھر میں نے پوچھا کی کہ تم میں سے جو بیچ نہیں بولتے کیا تم اُن کا معاملہ بھی سلسلہ کے نوٹس میں بھی لائے ہو یا نہیں؟
1952 108 خطبات محمود اس پر بھی بہت کم طلباء نے اس کا اقرار کیا.حالانکہ یہ چیز ہماری جماعت میں ایک معیاری رنگ کی رکھتی تھی.لوگ سمجھتے تھے کہ جو شخص احمدی ہے وہ جھوٹ نہیں بول سکتا.مگر اب اس میں کمی آتی جارہی ہے.اور اس کی ذمہ داری بڑی حد تک تعلیمی اداروں پر ہے.اگر ایک استاد لمبے عرصہ تک ایک طالب علم کے ساتھ رہتا ہے تو میری سمجھ میں تو نہیں آ سکتا کہ اُس کو لڑکے کی کمزوری کا علم کیوں نہیں ہو سکتا.یہ بات تو تھوڑے سے تجربہ میں ہی ظاہر ہو جاتی ہے.لڑکوں کی شکایات پر اسا تذہ کو اکثر جواب طلبی کرنی پڑتی ہے.اس جواب طلبی میں اُن کو فور آپتا لگ سکتا ہے کہ کون لڑکا کی جھوٹ بولتا ہے.اور پھر اگر وہ کوشش کریں تو اس کی اصلاح بھی کر سکتے ہیں.لیکن جب جھوٹا آدمی یہ سمجھے کہ میرے افعال کو نا پسند نہیں کیا جاتا تو وہ اپنی اصلاح سے غافل ہو جاتا ہے.پس سچائی کی عادت اور محنت اور قربانی کی عادت نوجوانوں میں پیدا کرنی چاہیے.نئے کارکن جو ہمارے سلسلہ میں آتے ہیں اُن کے متعلق بھی افسر یہی شکایت کرتے ہیں کہ وہ محنت نہیں کرتے.اسی طرح دیانت میں بھی ان کا پہلو کمزور ہوتا ہے.پچھلے دنوں تین واقفین زندگی پر یہ الزام لگے کہ انہوں نے دیانت سے کام نہیں کیا اور سلسلہ کا روپیہ مین کیا ہے.اور یہ واقعات دو تین مہینہ کے اندراندر ہو گئے ہیں.بے شک اس کی ذمہ داری اُن افراد پر بھی ہے لیکن اس کی بڑی ذمہ داری سکول کے اساتذہ، ہیڈ ماسٹر اور ناظر تعلیم پر آتی ہے.کیونکہ نو جوانوں کے اخلاقی معیار کو بلند کرنا ہی ہمارے سکولوں کا اصل کام ہے.ورنہ دوسرے سکول بھی چل رہے ہیں اور ہماری جماعت کے لڑکے اگر چاہیں تو ان میں بھی تعلیم حاصل کر سکتے ہیں.جماعت کے لڑکوں کی تعلیم کے لئے الگ درسگا ہیں کر لینے کا مقصد یہی ہے کہ احمدیت کے ماحول میں ان کی تربیت کی جائے.اور اگر غور کیا جائے تو کسی کے متعلق یہ معلوم کرنے میں کوئی دقت ہی نہیں ہوتی کہ وہ جھوٹ بولتا ہے یا سچ بولتا ہے.بعض اساتذہ اس بات سے ڈرتے ہیں کہ اگر ہم نے لڑکوں پر سختی کی تو وہ بھاگ جائیں گے.میں اسے بھی بیوقوفی سمجھتا ہوں.لڑکے کی عمر ایسی کی ہوتی ہے جس میں ایک حد تک سختی اُس پر کی جاسکتی ہے اور اس پر کسی عقلمند کو اعتراض نہیں ہوسکتا.یہ نادانی ہوتی ہے کہ جب اساتذہ سے پوچھا جائے تو ان میں سے بعض یہ جواب دے دیتے ہیں کہ ہم نے یہ سمجھا تھا کہ اگر ہم نے سختی کی تو ماں باپ ناراض ہو جائیں گے یا لڑ کے سکول.
1952 109 خطبات محمود چلے جائیں گے.اگر کوئی لڑکا جھوٹ بولتا ہے ، اگر وہ محنت نہیں کرتا ، اگر وہ دیانت سے کام نہیں کی لیتا اور تم اُس پر سختی کرتے ہو تو تمہاری سختی کا یہی نتیجہ نکلے گا کہ یا تو وہ اپنی اصلاح کرلے گا اور یا سکول سے الگ ہو جائے گا.اگر وہ اصلاح کرلے گا تو یہ ہمارے لئے خوشی کا موجب ہوگا اور اگر وہ نکل جائے گا تو باقی لڑکے اُس کے گندے اثر سے بچ جائیں گے.اصل بات یہ ہے کہ لڑکوں کی اصلاح انفرادی نگرانی کے بغیر کبھی نہیں ہو سکتی.بچوں کی تعلیم اور اُن کی تربیت کی مثال ایسی ہی ہے جیسے باغ لگانا ہوتا ہے.ہمارے خاندان میں باغ لگانے کا شوق ورثہ کے طور پر آیا ہے اور میں نے ہمیشہ دیکھا ہے کہ جب بھی کوئی مالی پودوں کی اصلاح کی کے لئے انفرادی توجہ نہیں کرتا باغ تباہ ہو جاتا ہے.اور جب توجہ دلائی جائے اور اُسے پکڑا جائے تو وہی درخت جو پہلے مر رہے ہوتے ہیں بچنے لگ جاتے ہیں.میں جب بھی باغ میں جاتا ہوں مالیوں سے یہی کہا کرتا ہوں کہ جو اچھا درخت ہے وہ تمہاری توجہ کا مستحق نہیں.تمہاری توجہ کا می مستحق وہ درخت ہے جو بیمار ہے.ایسے درختوں پر نشان لگاؤ اور روزانہ ان کی نگہداشت کرو.نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ جب بھی کوئی ایسا مالی ملتا ہے جو محنت کے ساتھ کام کر نے کا عادی ہوتا ہے تو اس توجہ دلانے کے نتیجہ میں وہ پودے ترقی کرنے لگ جاتے ہیں.اور جب کوئی ایسا مالی ملتا ہے جو کچھ اس رنگ میں کام کرنے کا عادی نہیں ہوتا تو وہ ہمیشہ یہی کہتا ہے کہ دیکھئے فلاں درخت کیسا اچھا ہے، فلاں کیسا اچھا ہے.میں کہا کرتا ہوں یہ تو قدرتی طور پر اچھا ہے تمہارا کام یہ ہے کہ تم بیمار پودوں کے متعلق بتاؤ کہ تم ان کے متعلق کیا کر رہے ہو.اچھوں کو اپنے کام کی عمدگی کے ثبوت کی میں پیش کر دینا تو ایسا ہی ہے جیسے کوئی ہسپتال میں جائے اور کہے دیکھئے اس ڈاکٹر کی صحت کیسی اچھی ہے، یہ نرس کیسی مضبوط ہے، یہ کمپونڈ ر کیسا تندرست ہے اور بیماروں کا ذکر بھی نہ کرے.حالانکہ اگر وہ اچھے ہیں تو اس سے ہسپتال کے اچھا ہونے کا کوئی ثبوت نہیں مل سکتا.ہسپتال کا اچھا ہونا اس بات پر موقوف ہے کہ بیماروں کے متعلق بتایا جائے کہ ان میں سے کتنے تندرست ہوئے کی ہیں.اس طرح اساتذہ کا یہ کام ہے کہ وہ یہ بتائیں کہ اتنے لڑکوں میں سچائی کی عادت نہیں پائی تھی جاتی تھی ہم نے ان کو سچائی کا پابند بنایا.اتنے لڑکوں میں ہم نے دیانت پیدا کی ، اتنے لڑکوں کو ہم جی نے محنت کا عادی بنایا.یہ کہنا کہ ہمیں پتا نہیں لگتا بالکل غلط بات ہے.اگر ایک سکول کے بیس پچپیں اساتذہ کو بھی پتا نہیں لگتا کہ ان کے لڑکوں کی اخلاقی حالت کیسی ہے تو اس کے معنی یہ ہیں کہ وہ کی
1952 110 خطبات محمود نابینا ہیں.جھگڑوں کے وقت بڑی آسانی سے پتا لگ جاتا ہے کہ کون سچ بولنے کا عادی ہے اور کی کون جھوٹ بولتا ہے.مگر مشکل یہ ہے کہ بعض اساتذہ بھی جنبہ داری سے کام لیتے ہیں.اس کا کی نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ لڑکے جن کے وہ طرفدار ہوتے ہیں وہ جھوٹ بھی بولتے ہیں تو انہیں سچ کی معلوم ہوتا ہے.اور جن کے خلاف ان کی رائے ہوتی ہے وہ سچ بھی بولتے ہیں تو انہیں جھوٹ نظر آتا ہے.پس یہ ان کا ذاتی نقص ہے کیونکہ جنبہ داری کا مرض انسان کو نا بینا بنا دیتا ہے.استاد کے لئے ضروری ہوتا ہے کہ اُس کا کسی کے ساتھ کوئی خاص جوڑ نہ ہو.چاہے کوئی اُس کا بھائی ہو، عزیز ہو، اس کے دوست کا بیٹا ہو سب کو ایک نگاہ سے دیکھے.اگر وہ سب کو ایک نگاہ سے دیکھے گا تو اُس کی نظر تیز ہو جائے گی اور وہ آسانی سے پتا لگالے گا کہ فلاں میں غفلت کی عادت ہے، فلاں میں جھوٹ کی عادت ہے ، فلاں میں بددیانتی کی عادت ہے.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اس کی ذمہ داری ایک حد تک ماں باپ پر بھی ہے.ان کا بھی فرض ہے کہ اپنے لڑکوں کی تربیت کے سلسلہ میں اساتذہ سے تعاون کریں.یورپ میں تو یہ طریق ہے جی کہ جب کوئی زیادہ بیمار ہو جائے تو اُس کا معالج ڈاکٹر کہتا ہے کہ اب فلاں ڈاکٹر سے مل کر مشورہ کی کرتا ہوں تا کہ بیمار کے لئے مناسب علاج تجویز کیا جا سکے.اسی طرح اساتذہ کا فرض ہے کہ جب وہ دیکھیں کہ ان کی کوششیں کامیاب نہیں ہو رہیں تو وہ اُن کے ماں باپ سے مشورہ کریں تی اور ان کی اصلاح کی تدابیر سوچیں.مگر یہ طریق صرف اُن لڑکوں کے متعلق اختیار کیا جاسکتا ہے جو بورڈنگ میں نہیں رہتے.جولڑ کے بورڈنگ میں رہتے ہیں ان کی تو سو فیصدی ذمہ داری اساتذہ اور نگران عملہ پر ہی عائد ہوتی ہے.یہی ضرورت میں سمجھتا ہوں دینیات کے مدارس میں بھی ہے وہاں بھی یہی غفلت پائی جاتی ہے.لڑکے تعلیم پارہے ہوتے ہیں اور ہم یہ سمجھ رہے ہوتے ہیں کہ میں مبلغ تیار ہو جائیں گے.مگر ہوتا یہ ہے کہ ہمیں بے دین یا نہیں سکتے یا ہیں ناکارہ یا ہیں جاہل پیدا ہو جاتے ہیں.مجھے یاد ہے ایک دفعہ مدرسہ احمدیہ کے متعلق مجھے شکایت پہنچی کہ فلاں فلاں علوم مدرسہ میں پڑھائے جاتے ہیں.مگر اساتذہ نے ابھی کورس کی کتابوں کے صرف چند صفحات ہی پڑھائے ہیں اور سال ختم ہو گیا ہے.مثلاً اگر سوصفحہ کتاب کا تھا تو اساتذہ نے سارے سال میں صرف دس ہیں صفحے پڑھائے تھے.میں نے لڑکوں کو بلایا اور ان سے باتیں کیں.انہوں نے کہا بات ٹھیک ہے.
1952 111 خطبات محمود 02 استاد باتیں کرتے رہتے ہیں اور پڑھائی رہ جاتی ہے.اس کے بعد میں نے اساتذہ کو بلایا اور کی ان سے دریافت کیا تو میری حیرت کی کوئی انتہاء نہ رہی جب میں نے یہ دیکھا کہ بعض اساتذہ کی نے آگے بڑھ بڑھ کر یہ کہنا شروع کر دیا کہ یہ ٹھیک ہے.اِدھر اُدھر کی باتیں کرنی بھی ضروری جی ہوتی ہیں اور اس طرح اتنا ہی پڑھایا جا سکتا تھا زیادہ نہیں پڑھایا جا سکتا تھا.گویا بجائے اس کے کہ وہ اپنے فعل پر پردہ ڈالتے اُنہوں نے بڑی عمدگی اور دلیری سے تسلیم کیا کہ ادھر اُدھر کی باتیں بھی ہوتی ہیں اور اس طرح اصل پڑھائی رہ جاتی ہے.حالانکہ استاد کا نہ صرف یہ کام ہے کہ وہ اپنے کورس کو پورا کرے بلکہ اُس کا یہ بھی کام ہے کہ وہ زائد سٹڈی کروائے.کوئی طالب علم صحیح طور پر تعلیم حاصل نہیں کر سکتا جب تک اُس کا مطالعہ اس قدر وسیع نہ ہو کہ وہ اگر ایک کتاب مدرسہ کی پڑھتا ہو تو دس کتابیں باہر کی پڑھتا ہو.باہر کا علم ہی اصل علم ہوتا ہے.استاد کا پڑھایا ہوا علم صرف علم کے حصول کے لئے مُمد ہوتا ہے، سہارا ہوتا ہے.یہ نہیں ہوتا کہ اس کے ذریعہ وہ سارے علوم پر حاوی ہو سکے.دنیا میں کوئی ڈاکٹر ، ڈاکٹر نہیں بن سکتا اگر وہ اتنی ہی کتابیں پڑھنے را اکتفاء کرے جتنی اُسے کالج میں پڑھائی جاتی ہیں.دنیا میں کوئی وکیل ، وکیل نہیں بن سکتا اگر وہ صرف اتنی کتابوں پر ہی انحصار رکھے جتنی اُسے کالج میں پڑھائی جاتی ہیں.دنیا میں کوئی مبلغ مبلغ نہیں بن سکتا اگر وہ صرف اُنہی کتابوں تک اپنے علم کو حد و در کھے جو اُ سے مدرسہ میں پڑھائی جاتی تج ہیں.وہی ڈاکٹر ، وہی وکیل اور وہی مبلغ کامیاب ہو سکتا ہے جو رات اور دن اپنے فن کی کتابوں کی کا مطالعہ رکھتا ہے اور ہمیشہ اپنے علم کو بڑھاتا رہتا ہے.پس جب تک ریسرچ ورک کے طور پر نئی چی نئی کتابوں کا مطالعہ نہ رکھا جائے اُس وقت تک لڑکوں کی تعلیمی حالت ترقی نہیں کر سکتی.مجھے تعجب آتا ہے کہ آجکل دینیات کے مدرس بھی انگریزی سکولوں اور کالجوں کی نقل میں تعلیم کے لئے پانچ پانچ اور چھ چھ گھنٹے کے الفاظ استعمال کرنے لگ گئے ہیں.حالانکہ ہمارے پرانے اساتذہ جو د مینیات پڑھایا کرتے تھے وہ دس دس بارہ بارہ گھنٹے پڑھاتے چلے جاتے تھے.لیکن اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ وہ پانچ چھ گھنٹے مسلسل پڑھاتے ہیں تب بھی تربیت کے لئے ان کے پاس بڑا کافی وقت بچ سکتا ہے.کیونکہ انکی کتا میں ایسی ہوتی ہیں جنہیں بار بار بدلا نہیں جاتا.سکولوں اور کالجوں کا کورس اکثر بدلتا رہتا ہے.کبھی کہا جاتا ہے فلاں مصنف کی کتابیں پڑھاؤ کی اور کبھی کہا جاتا ہے فلاں کی.لیکن دینیات کا اکثر کورس ایسا ہوتا ہے جس کو ہم بدل ہی نہیں سکتے.
1952 112 خطبات محمود کالجوں میں تو یہ کہا جاتا ہے کہ فلاں مصنف کی کتاب نہ پڑھاؤ فلاں کی پڑھاؤ وہ زیادہ اچھی ہے.لیکن ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ اب قرآن پڑھانا چھوڑ دو یا حدیث پڑھانا چھوڑ دو اور ان کی بجائے فلاں فلاں کتابیں پڑھاؤ.پس جبکہ دینیات کا کورس بدلا نہیں جاتا اور ساری عمر اساتذہ کو قرآن ہی پڑھانا پڑتا ہے یا حدیثیں ہی پڑھانی پڑتی ہیں تو ان کے ذہن میں تو یہ علوم اس قدر راسخ ہونے چاہئیں کہ سب باتیں انہیں زبانی یاد ہوں.بے شک نئی نئی تحقیقا تیں بھی ہوتی ہیں لیکن جہاں تک طالب علموں کا تعلق ہے اُن کو پڑھانے والی باتیں اساتذہ کو حفظ ہونی چاہئیں.اسی طرح حدیث ہے.اس میں بے شک باریک اور نازک مسائل کی بحث بھی آتی ہے لیکن حدیث کے موٹے موٹے مسائل دو تین سال میں اُستاد کو اس طرح حفظ ہو جانے چاہیں کہ اگر کتاب اُس کے سامنے نہ ہو تب بھی وہ پہلا دریغ ان کو پڑھاتا چلا جائے.ہم بچپن میں پڑھا کرتے تھے تو ہمارے جغرافیہ کے ایک استاد تھے میں اُن کا نام نہیں لیتا وہ یہ دکھانے کے لئے کہ انہیں جغرافیہ میں کتنا کمال حاصل ہے کہا کرتے تھے کہ نقشہ لٹکاؤ.میں آنکھیں بند کر کے کھڑا ہو جاتا ہوں.تم کسی شہر کا نام لو میں اپنے پاؤں کے اشارہ سے تمہیں بتا دوں گا کہ وہ فلاں جگہ شہر ہے.چنانچہ ہم اسی طرح کرتے وہ آنکھیں بند کر کے دوڑتے ہوئے آتے اور پیر اٹھا کر وہاں لگا دیتے.مگر بچپن کی عمر شرارتی ہوتی ہے.جب وہ کہتے کہ کسی شہر کا نام لو تو بعض لڑکے کسی ایسے شہر کا نام لے دیتے جو نقشہ میں بہت اونچا ہو.مثلاً ولاڈی واسٹک 1 ( Vladivostok ).اب ولاڈی واسٹک نقشہ کے اوپر کی جہت میں ہے.جب وہ استاد یہ لفظ سن کر دوڑ کر نقشہ کی طرف آتے تو بعض دفعہ جوش سے پاؤں اٹھانے کی وجہ سے وہ گر جاتے اور لڑکے ہنسنے لگ جاتے.بہر حال اُن میں یہ کمال تھا کہ وہ آنکھیں بند کر کے آتے اور شہر بتا دیتے.چونکہ سکولوں کا کی جغرافیہ ایک محدود مضمون ہے اور وہی اساتذہ کو بار بار پڑھانا پڑتا ہے اس لئے دو تین سال کے بعد انہیں ان مضامین کی تیاری کے لئے کوئی ذہنی کوفت برداشت نہیں کرنی پڑتی اور ان کے پاس کی کافی وقت اپنے مطالعہ کو وسیع کرنے اور طلباء کی نگرانی کرنے کے لئے بیچ جاتا ہے.پس میں اس خطبہ کے ذریعہ سکولوں اور کالجوں اور دینیات کے کالجوں اور ان کے اساتذہ کو اس امر کی طرف توجہ دلاتا ہوں کہ انہیں زیادہ سے زیادہ طلباء کی نگرانی کرنی چاہیے اور ان کے اندر محنت کی عادت اور قربانی اور ایثار کی عادت پیدا کرنی چاہیے.اگر افراد میں محنت اور
1952 113 خطبات محمود قربانی کی عادت پیدا ہو جائے تو چھوٹی جماعت بھی بڑی جماعتوں پر غالب آ جایا کرتی ہے.قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ كَمُ مِنْ فِئَةٍ قَلِيلَةٍ غَلَبَتْ فِئَةً كَثِيرَةً بِإِذْنِ اللہ 2 دنیا میں کتنی ہی چھوٹی جماعتیں ہوئی ہیں جو بڑے بڑے گروہوں پر اللہ تعالیٰ کے حکم سے غالب آ گئی ہیں.اس غلبہ کی وجہ یہی تھی کہ ان میں قربانی اور ایثار کا مادہ تھا.وہ اپنا وقت ضائع کی کرنے کی بجائے اسے مفید کاموں میں صرف کرنے کے عادی تھے.ان میں دیانت تھی ، ان کی میں صداقت تھی ، ان میں محنت کی عادت تھی ، ان کے حوصلے بلند تھے، ان کے ارادے پختہ تھے اور ان کے مقابل پر جو لوگ کھڑے تھے وہ ان اوصاف سے خالی تھے.نتیجہ یہ ہوا کہ قلیل غالب آگئے اور کثیر مغلوب ہو گئے.حقیقت یہ ہے ایک ایک آدمی جس میں ایثار کا مادہ ہوتا ہے وہ درجنوں پر بھاری ہوتا ہے.پاگل کو ہی دیکھ لو لوگ اُس کا مقابلہ کرنے سے گھبراتے ہیں.حالانکہ وہ اکیلا ہوتا ہے.اس کی وجہ یہی ہے کہ لوگ ڈرتے ہیں کہ اُنہیں چوٹ نہ آجائے ، ان کو زخم نہ لگ جائے اور وہ اپنی طاقت کو صرف ایک حد تک استعمال کرتے ہیں لیکن پاگل کے لئے چوٹ اور زخم بلکہ موت کا بھی کوئی سوال نہیں ہوتا.اسی لئے وہ اپنی طاقت اس حد تک استعمال کرتا ہے جس حد تک ایک سمجھدار انسان استعمال کرنے کے لئے تیار نہیں ہوتا اور وہ اکیلا ہونے کے باوجود دوسروں پر غالب آ جاتا ہے.اسی طرح اگر ہمارے نوجوانوں میں قربانی اور ایثار کا مادہ ہو اور اگر دینی طور پر وہ مجنونانہ رنگ اپنے اندر رکھتے ہوں اور وہ اپنی محنت اور اپنی قربانی کو اس حد تک پہنچا دیں کہ جس حد تک پہنچانے سے دوسرے لوگ گھبراتے ہوں تو پھر ہمارے ایک ایک آدمی کے مقابلہ میں اُن کے دس دس پندرہ پندرہ بلکہ ہمیں ہمیں آدمی بھی بیچ ہو جائیں گے.غرض تعلیمی محکمہ آئندہ نسل کی اصلاح اور اُس کی درستی کو مدنظر رکھتے ہوئے بہت بڑی اہمیت رکھتا ہے اور ہمارے تمام سکولوں اور کالجوں کا فرض ہے کہ وہ اپنی ذمہ داری کو سمجھیں اور نو جوانوں کی ایسے رنگ میں تربیت کریں کہ وہ سلسلہ کے لئے مفید وجود بن سکیں.وہ نسل جس میں قربانی اور ایثار کا مادہ نہیں جو جوش اور جنون سے خالی ہے وہ ہمارے آنے والے دس سال کو ضائع کر دیتی ہے اور یہ ہمارے لئے ایک بہت بڑے خوف کا مقام ہے.کیونکہ دس سال کے بعد پھر ہمیں ایک نئی جدوجہد کرنی پڑے گی.اور پھر ایک اور نسل کی تربیت کر کے اُس کے اخلاق کو کی
1952 114 خطبات محمود اسلامی رنگ میں ڈھالنا پڑے گا.حالانکہ ہمارے سپر د جو کام کیا گیا ہے وہ اتنا عظیم الشان ہے کہ اُس کو مدنظر رکھتے ہوئے ایک ایک دن کا ضائع ہونا بھی ہمارے لئے نا قابل برداشت ہونا (الفضل یکم جون 1952ء) می چاہیے.“ :1 : ولاڈی واسٹک : ( ولادی وستوک ) بحر الکاہل میں روس کی سب سے بڑی بندرگاہ.2 : البقرة : 250
1952 115 (15) خطبات محمود دنیا کے نشیب و فراز انسان کے لئے قدرت کے اشارے ہیں کہ بڑھتے اور ترقی کرتے چلے جاؤ آج دنیا کے پردے پر صرف جماعت احمدیہ ہی ہے جسے خدا نے اپنے عرش سے یہ کہا ہے کہ اُٹھ اور میں تجھے اٹھاؤں گا فرموده 9 مئی 1952ء بمقام ربوہ ) تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور نے حسب ذیل آیات قرآنیہ کی تلاوت کی : إِنَّ فِي خَلْقِ السَّمَوَاتِ وَالْاَرْضِ وَاخْتِلَافِ الَّيْلِ وَالنَّهَارِ لَايَتٍ لِأُولى الْأَلْبَابِ الَّذِينَ يَذْكُرُونَ اللهَ فِيمَا وَ قَعُودًا وَ عَلَى جُنُوبِهِمْ وَيَتَفَكَّرُونَ فِي خَلْقِ السَّمَوتِ وَالْأَرْضِ رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ هَذَا بَاطِلاً سُبْحَنَكَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ - 1 اس کے بعد فرمایا: انسان کو اللہ تعالیٰ نے سب سے بڑی دولت غور وفکر کی عطا فرمائی ہے اور یہی وہ دولت ہے جو کہ انسان کو دوسرے جانوروں سے ممتاز کرتی ہے.انسان کی تعریف منطقیوں نے حیوانِ ناطق کے الفاظ میں کی ہے.جب منطق کی ابتدا ہوئی تو پہلے پہل لوگوں نے یہ سمجھا کہ انسان اور دوسرے جانوروں میں یہ فرق ہے کہ انسان بولتا ہے اور دوسرے جانور نہیں بولتے.لیکن آہستہ آہستہ
1952 116 خطبات محمود جب انہیں معلوم ہوا کہ بعض جانور بھی انسانی زبان سیکھ لیتے ہیں جیسے طوطے ہیں یا مینا ئیں وغیرہ کی ہیں ، جب انہیں معلوم ہوا کہ جانوروں کی چیں چیں بھی اپنے اندر کچھ معنی رکھتی ہے ، جب انہوں نے دیکھا کہ چیونٹیاں جب چل رہی ہوتی ہیں اور وہ ایک دوسرے سے ملتی ہیں تو جو چیونٹی غلہ یا کوئی اور چیز دیکھ کر ایک جگہ سے آ رہی ہوتی ہے وہ آنے والی چیونٹی سے ہاتھ ملاتی ہے اور وہ کی آنے والی چیونٹی سیدھی اُس جگہ چلی جاتی ہے جہاں غلہ ہوتا ہے اور اسے سنبھال لیتی ہے، جب انہوں نے دیکھا کہ شہد کی مکھیاں جہاں پھولوں کا ذخیرہ ہوتا ہے وہاں اکٹھی ہو جاتی ہیں اور کی ایک دوسرے کی راہنمائی سے شہر کے مخازن کا پتا لگا لیتی ہیں، جب انہوں نے اس قسم کے کی اشارات جانوروں میں دیکھے تو انہوں نے سمجھ لیا کہ جہاں تک بولی کا تعلق ہے اس کے لحاظ سے تو آدمیوں کی بولی میں بھی بڑا فرق پایا جاتا ہے.کوئی انگریزی بول رہا ہے، کوئی فرانسیسی بول رہا ہے، کوئی جرمن بول رہا ہے، کوئی نارو تسکین بول رہا ہے ، کوئی سویڈش بول رہا ہے، کوئی فنش بول رہا ہے، کوئی رشین بول رہا ہے، کوئی پولش بول رہا ہے، کوئی عربی بول رہا ہے، کوئی سواحیلی بول رہا ہے، کوئی فیٹی (FANTI) بول رہا ہے، کوئی پنجابی بول رہا ہے ، کوئی اردو بول رہا ہے، کوئی بنگالی بول رہا ہے، کوئی چینی بول رہا ہے، کوئی ملائی بول رہا ہے.غرض الگ الگ قسم کی سینکڑوں کی بولیاں دنیا میں پائی جاتی ہیں.کچھ لوگوں کی اور بولی ہوتی ہے اور دوسروں کی اور.مگر باوجود اس کے جب سب کو بولنے والا سمجھا جاتا ہے تو کیا وجہ ہے حلق سے نکلنے والی بولی کو تو بولی کہانی جائے اور پاؤں یا ہا تھ سے نکلنے والی بولی کو بولی نہ سمجھا جائے.آخر اپنے اپنے رنگ میں بندر بھی بولتے ہیں ، چڑیاں بھی بولتی ہیں اور ان کی آوازوں میں اشارے ہوتے ہیں اور ہم دیکھتے ہیں کہ ان اشاروں کے بعد جانور ایک خاص رُخ اختیار کر لیتے ہیں.پس یہ نہیں کہا جا سکتا کہ انسان کی تو بولتا ہے مگر جانور نہیں بولتے.جب منطقیوں نے یہ دیکھا تو انہوں نے سمجھا کہ حیوانِ ناطق کی یہ تشریح غلط کی گئی ہے.تب انہوں نے ناطق کے اور معنی کر لئے اور کہا کہ ناطق کے معنی یہ ہیں کہ وہ فکر کر کے نئی ایجادات کرتا ہے اور ترقی کی طرف اس کا قدم بڑھتا چلا جاتا ہے.پس حیوانِ ناطق کی آخری تشریح انہوں نے یہ کی کہ اس کے یہ معنی نہیں کہ جو بولتا ہے وہ انسان ہے.کیونکہ بولتے جانور بھی ہیں چاہے ان کی بولیاں اور رنگ کی ہیں بہر حال چڑیوں میں ، طوطوں میں،
1952 117 خطبات محمود کبوتروں میں ، ہلیوں میں ، سب میں کوئی نہ کوئی بولی پائی جاتی ہے.جو فرق ہے انسان میں اور اُن میں وہ یہ ہے کہ انسان فکر کر کے اپنے لئے ترقی کا ایک نیا میدان تجویز کر لیتا ہے اور وہ ہر فکر کے بعد پہلی سطح سے اونچا چلا جاتا ہے.لیکن دوسرے جانوروں میں یہ بات نمایاں طور پر نہیں پائی جاتی.تھوڑی بہت ایجادیں ان میں بھی نظر آتی ہیں جیسے اور بلا و 2 ہیں.ان کے گھروں کی ساخت کو دیکھا جائے تو پہلے زمانوں کے لحاظ سے ان میں کسی قدر فرق پایا جاتا ہے.کسی حد تک ان میں طب بھی پائی جاتی ہے.وہ زخمی ہوتے ہیں تو علاج کرتے ہیں.ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ ابتدائے عالم سے یہ بات ان میں چلی آرہی ہے.یہی معلوم ہوتا ہے کہ غور اور فکر کے بعد انہوں نے کسی حد تک ارتقاء کی طرف اپنا قدم بڑھایا ہے.ہم بچے تھے تو ہم نے ایک فاختہ ماری.جب میں نے اسے اٹھایا تو مجھے اُس کے پیٹ پر کوئی سخت سی چیز معلوم ہوئی.جب میں نے اسے دیکھا تو معلوم ہوا کہ اُس فاختہ کو کوئی زخم لگا تھا جس کو تنکے کی چھال کے ساتھ سیا گیا تھا.گویا جس طرح ڈاکٹر ایک گہرے زخم کو سیتا ہے اُسی طرح اُس فاختہ ہے اُس کے کسی ساتھی نے اس زخم کو سیا تھا اور وہ زخم اُس وقت اچھا ہو چکا تھا.صرف تنکا باقی تھا.تو جانوروں میں بھی ایک حد تک ترقی تو ہے مگر وہ اتنی محدود ہے کہ اس کا اندازہ لگانا مشکل ہے.اور انسان کی ترقی اتنی غیر محدود ہے کہ اس کی ترقی کے متعلق یہ اندازہ لگانا کہ وہ کس سُرعت سے ہو رہی ہے یہ بھی مشکل ہے.گویا جہاں جانوروں کے متعلق یہ پتا لگا نا سخت مشکل ہوتا ہے کہ انہوں نے ترقی کی ہے یا نہیں وہاں انسان کے متعلق یہ اندازاہ لگا نا سخت مشکل ہے کہ وہ کتنا ترقی کر چکا ہے اور اس کا پہلا قدم کتنا پیچھے رہ چکا ہے.پس اصل چیز جو انسان کو دوسرے جانوروں کی سے ممتاز کرتی ہے وہ اُس کی قوت فکر ہے.وہ غور کرتا ہے، وہ کائنات عالم کے اسرار کے متعلق فکر کرتا ہے، وہ ان سے بعض نتائج اخذ کرتا ہے اور پھر نتائج کے استنباط کے نتیجہ میں وہ اپنے فکر کی سطح کو ، اپنے اخلاق کی سطح کو ، اپنے ماحول کی سطح کو ، اپنے تمدن کی سطح کو اور اپنے تعیش کی سطح کو اور اونچا کر دیتا ہے.پھر وہ اور زیادہ غور شروع کرتا ہے.پھر نئے زاویوں سے کائنات کے رازوں کی جستجو کرتا ہے.پھر وہ اور زیادہ تحقیق اور تجسس سے کام لیتا ہے اور اس سطح کو اور زیادہ کی اونچا کر دیتا ہے.صرف نیک اور بد میں ، مومن اور کافر میں یہ امتیاز ہوتا ہے کہ ارتقائی قدم تو ہے دونوں ہی اٹھاتے ہیں ، ترقی کی طرف تو دونوں ہی جا رہے ہوتے ہیں اور قوت فکر یہ کے لحاظ
1952 118 خطبات محمود سے دونوں ہی مُردہ بھی ہوتے ہیں اور زندہ بھی ہوتے ہیں.روحانی زندے روحانی دنیا میں اور انجی جسمانی زندے جسمانی دنیا میں ترقی کر رہے ہوتے ہیں مگر اُن کی ترقی دو مختلف رنگ اپنے اندر رکھتی ہے.روحانی انسان جب اونچا جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ اُس سے ملنے کے لئے نیچے اتر آتا تھی ہے.اللہ تعالیٰ کو ہمیشہ روحانی طور پر اونچائی اور بلندی سے نسبت دی جاتی ہے اور انسان کو نیچے کی طرف نسبت دی جاتی ہے.کیونکہ انسان ارضی ہے اور اللہ تعالیٰ سماوی ہے.یہ سب ایک تشیبی زبان کے الفاظ ہیں.مگر ان کے بغیر ہمارا گزارہ نہیں چلتا اور ہم یہ الفاظ بولنے پر مجبور ہیں.بہر حال جس وقت روحانی انسان ترقی کرتا ہے سماوی طاقتیں یعنی خدا اور اُس کے فرشتے کی نیچے کی طرف آنا شروع کرتے ہیں.یہاں تک کہ درمیان میں آ کر خدا اور اُس کے بندے کا کی آپس میں اتصال ہو جاتا ہے.اس کی طرف قرآن کریم میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق ان الفاظ میں اشارہ پایا جاتا ہے کہ دَنَا فَتَدَتی 3 - محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خدا تعالی سے ملنے کے لئے اوپر گئے اور خدا آپ سے ملنے کے لئے نیچے آیا اور درمیان میں آ کر خدا اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مل گئے.مگر جو مادی لوگ ہوتے ہیں.اُن کی ترقی کا رنگ اِس سے کی اُلٹ ہوتا ہے.وہ جوں جوں اونچے جاتے ہیں خدا تعالیٰ اور زیادہ اونچا ہوتا چلا جاتا ہے.روحانیت میں خدا تعالیٰ کا طریق دَنَا فَتَدَتی والا ہے.جوں جوں روحانی انسان کائناتِ عالم کے اسرار معلوم کرنے میں کامیاب ہوتا چلا جاتا ہے اور وہ اللہ تعالیٰ سے ملنے کے شوق میں اوپر کی طرف چڑھتا ہے خدا تعالیٰ بھی اُس سے ملنے کے شوق میں نیچے اُترنا شروع کر دیتا ہے.مگر مادی لوگ جوں جوں اونچے ہوتے ہیں خدا تعالیٰ اس سے بھی زیادہ تیزی سے اونچا ہونا شروع ہو جاتا ہے.اگر یہ دس فٹ اونچے ہوتے ہیں تو بجائے خدا تعالیٰ کے قریب ہونے کے خدا تعالیٰ اُن سے سوفٹ اور پرے چلا جاتا ہے.فرض کرو خدا تعالیٰ ان سے ایک ہزار فٹ کے فاصلہ پر ہے اور یہ لوگ دس فٹ فاصلہ طے کر لیتے ہیں تو بجائے اِس کے کہ خدا تعالیٰ اور ان کے درمیان کی نوسونوے فٹ کا فاصلہ رہ جائے خدا تعالیٰ اور اُن کے درمیان ایک ہزار ایک سوفٹ کا فاصلہ پیدا ہو جاتا ہے.ورنہ ترقی دونوں کرتے ہیں.زندہ دونوں میں ہوتے ہیں اور مُردہ بھی دونوں میں ہوتے ہیں.دینی لحاظ سے بھی بعض لوگ زندہ ہوتے ہیں اور بعض مُردہ اور مادی لحاظ سے بھی بعض مادی لوگ زندہ ہوتے ہیں اور بعض مُردہ.روحانیت میں مُردہ ہونے کی وجہ سے وہ ا.
1952 119 خطبات محمود عالم میں مردوں کی حیثیت رکھتے ہیں اور مادیت میں مُردہ ہونے کی وجہ سے وہ اپنے عالم میں مُردوں کی حیثیت رکھتے ہیں.چنا نچہ دیکھ لو مسلمانوں میں آجکل جتنے ذکر کرنے والے، زاویوں میں بیٹھ کر عبادتیں کرنے والے اور قرآن کریم پڑھنے والے لوگ ہیں وہ روحانیت سے یکسر خالی ہیں.اب اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ ذکر الہی نہیں کرتے.وہ اب بھی ذکر کرتے ہیں ، وہ اب بھی مسجدوں میں عبادتیں کرتے ہیں ، وہ اب بھی زاویوں میں بیٹھ کر اللہ تعالیٰ کا نام لیتے ہیں مگر انہیں خدا نہیں ملا.پس روحانی لحاظ سے وہ مُردہ ہیں.اسی طرح دنیوی لحاظ سے افریقہ کے وحشی قبائل یا ایشیا کے وہ ممالک جو تنزل میں گرے ہوئے ہیں وہ بھی دنیا کمانے میں لگے ہوئے ہیں.مگر ایسے بے علم اور غافل ہیں کہ دنیوی ترقی کے لحاظ سے وہ مُردہ ہیں.اگر ہم یورپ کو دیکھیں ، اگر ہم امریکہ کو دیکھیں ، اگر ہم اُن کی ترقی کو دیکھیں اور اس کے کی مقابلہ میں ان لوگوں کو دیکھیں تو یہ محض مُردہ نظر آتے ہیں.اس کی یہ وجہ نہیں کہ یہ لوگ دنیا کمانے کی کوشش نہیں کرتے بلکہ وجہ یہ ہے کہ دنیا کمانے کے لئے جس غورا اور فکر اور تدبیر کی ضرورت ہے کہ اس سے وہ کام نہیں لیتے.اسی طرح روحانی عالم کے مولویوں اور پنڈتوں کو دیکھیں تو وہ محض مُردہ نظر آتے ہیں.اس لئے نہیں کہ وہ دنیا میں لگے ہوئے ہیں بلکہ اس لئے کہ گووہ دین کے کام میں لگے ہوئے ہیں مگر اس کے لئے جس غور اور فکر کی ضرورت تھی ، کائناتِ عالم کے جن اسرار کے معلوم کرنے کی ضرورت تھی، ارتقائی میدانوں میں جس سُرعت سے آگے بڑھنے کی ضرورت تھی اس سے وہ یکسر غافل اور لا پرواہ ہیں.اس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتامی اِنَّ فِي خَلْقِ السَّمَوتِ وَالْأَرْضِ وَاخْتِلَافِ الَّيْلِ وَالنَّهَارِ لَا يَتٍ لِأُولى ہے الْأَلْبَابِ الَّذِينَ يَذْكُرُونَ اللهَ فِيمَا وَقُعُودًا وَعَلَى جُنُوبِهِمْ وَيَتَفَكَّرُونَ فِي خَلْقِ السَّمواتِ - وَالْأَرْضِ رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ هَذَا بَاطِلاً سُبْحَنَكَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ - زمین و آسمان کی پیدائش اور لیل و نہار کا اختلاف یعنی اُس کا آگے پیچھے آنا ہے اس میں عظمند لوگوں کے لئے بڑے بڑے نشانات ہیں.وہ سوچتے ہیں کہ یہ دنیا ہے اس میں اللہ تعالیٰ نے زمین بنائی ہے اور آسمان بنایا ہے.یعنی کچھ سماوی طاقتیں ہیں اور کچھ ارضی طاقتیں ہیں، کچھ بلندیاں ہیں اور کچھ نشیب یہاں اختلاف سے مراد تفاوت نہیں بلکہ آگے پیچھے آنا ہے.
1952 120 خطبات محمود ہیں.ان تمام چیزوں کو دیکھ کر انسان کو احساس ہوتا ہے کہ آخر یہ چیز کسی نہ کسی غرض کے لئے بنائی گئی ہے.نشیب وفراز بتاتے ہیں کوئی ہمیں بلندی کا سبق دے رہا ہے ، کوئی ہمارے دلوں میں قوت عملیہ کا شوق پیدا کر رہا ہے.جیسے تم نے گھروں میں اپنے چھوٹے بچوں کو یا بھائیوں کو اور بھتیجوں کے بچوں کو دیکھا ہو گا کہ جب کوئی بچہ چلنے لگتا ہے تو ماں باپ یا بھائی وغیرہ روٹی کا کوئی ٹکڑا یا پھل یا پھول اُسے دکھاتے ہیں کہ کھڑے ہو کر ہم سے لے لو.بچہ اُسے دیکھتا ہے اور وہ کی کانپتے اور لڑ کھڑاتے ہوئے کھڑا ہوتا ہے.اس پر وہ اپنا ہاتھ ذرا پیچھے کر لیتے ہیں تا کہ بچہ ایک کی قدم آگے بڑھے اور اسے لینے کی کوشش کرے.چنانچہ بچہ بڑی مشکل سے ایک قدم چلنے کی کوشش کرتا ہے.بعض دفعہ وہ رگر بھی پڑتا ہے مگر پھر اُٹھتا ہے اور ایک قدم چل کر روٹی کا ٹکڑا یا پھل یا تی پھول لے لیتا ہے اور وہ خوش ہوتا ہے کہ میں نے بڑی کامیابی حاصل کر لی.اُس کے چند گھنٹہ بعد وہ پھر اُسے روٹی کا ٹکڑا دکھاتے ہیں اور بچہ سمجھتا ہے کہ ایک قدم پر یہ ٹکڑا مجھے مل جائے گا.مگر اب کی دفعہ ایک قدم پر اُسے وہ چیز نہیں دی جاتی بلکہ دو قدم اُٹھانے پر اُسے چیز دی جاتی ہے.اسی طرح اُس کا حوصلہ بڑھتا چلا جاتا ہے.اُس کی طاقت زیاد ہوتی چلی جاتی ہے اور پھر وہ رفتہ رفتہ اتنی طاقت پیدا کر لیتا ہے کہ سینکڑوں میل تک چلتا چلا جاتا ہے.مسلسل نہیں بلکہ اگر اسے مہینہ دو ی مہینے یا سال بھر بھی پیدل سفر کرنا پڑے تو وہ کر لیتا ہے.چنانچہ کئی لوگ ایسے ہوئے ہیں جن کی کی ساری عمر سفروں میں ہی گزرگئی ہے.اور انہوں نے اپنی زندگی میں بڑے بڑے سفر کئے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ میں ایک دوست ہوا کرتے تھے.وہ میرے استاد بھی تھے.انہیں حساب میں بڑا ملکہ تھا.مگر ساتھ ہی اُن کے دماغ میں بھی کچھ نقص تھا.انہیں یہ وہم ہو گیا تھا کہ محمدی بیگم والی پیشگوئی اُن کے ذریعہ سے پوری ہوئی ہے اور اس وجہ سے وہ کئی ایسی حرکتیں کرتے رہتے تھے جو تکلیف دہ ہوا کرتی تھیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تج عادت تھی کہ بات کرتے وقت بعض دفعہ اپنی ران پر ہاتھ مارتے تھے.حدیثوں میں بھی پیشگوئی کی آئی ہے کہ مسیح موعود فخذ پر ہاتھ مار کر بات کرے گا.4 بہر حال حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة في والسلام نے جب کبھی مجلس میں بات کرتے ہوئے ران کی طرف ہاتھ لا نا تو انہوں نے جھٹ گو کر آگے آجانا.لوگوں نے پوچھنا آپ کو کیا ہوا؟ وہ کہتے تمہیں معلوم نہیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے در حقیقت مجھے اشارہ کیا تھا.اس طرح مجلس میں بہت بدمزگی پیدا ہو جاتی.ایک دفعہ
1952 121 خطبات محمود تنگ آکر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اُن سے کہہ دیا کہ آپ قادیان سے چلے جائیں.انہیں گو جنون تھا مگر بہر حال عشق والا جنون تھا دشمنی والا جنون نہیں تھا.انہوں نے پہلے تو اڑنا شروع کیا کہ میں نہیں جاتا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی عادت تھی کہ جب کوئی ج تحریر لکھتے نیچے خاکسار غلام احمد لکھا کرتے تھے.رقعہ انہیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے میرے ذریعہ سے ہی بھجوایا تھا.میں نے انہیں رقعہ دیا تو کہنے لگے میں نہیں جانتا مرزا غلام احمد ولد مرزا غلام مرتضیٰ کون ہوتا ہے میں اس حکم کی اطاعت کے لئے تیار نہیں ہوں.میں نے یہی بات حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو جا کر کہہ دی.آپ نے قلم اٹھایا اور اپنے نام کے آگے مسیح موعود لکھ دیا.میں پھر وہ رقعہ لایا تو دیکھ کر کہنے لگے اب تو بڑی مصیبت ہے اب تو قادیان سے جانا ہی پڑے گا.چنانچہ وہ چل پڑے.اُس وقت ظہر کا وقت تھا.ظہر کے وقت و نکلے اور پیدل چل کر جالندھر گئے.جالندھر سے ہوشیار پور گئے.ہوشیار پور جا کر پھر قادیان واپس آئے.مگر قادیان کے قریب پہنچ کر پھر گھبراہٹ میں امرتسر یا لاہور چلے گئے اور تیسرے دن صبح ان سب مقامات کا چکر لگا کر قادیان واپس آگئے.اور کہنے لگے آئندہ میں آپ کو تنگ نہیں کروں گا مجھے معاف کیا جائے.میں قادیان سے باہر نہیں رہ سکتا.غرض دو تین دن میں و قادیان سے جالندھر گئے.جالندھر سے ہوشیار پور گئے.ہوشیار پور سے واپس آکر پھر امرتسر یا لاہور گئے اور پھر واپس قادیان آگئے.گویا قریب دو تین سومیل کا سفر انہوں نے طے کرلیا.ان کی انہی حرکتوں کی وجہ سے ایک دفعہ گورداسپور کے مقدمہ میں جبکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام و ہیں تشریف رکھتے تھے آپ نے فرمایا یہ روز مجھے دق کرتے ہیں ان کا کوئی انتظام کرنا چاہیے.چنانچہ وہ دوست جو ساتھ تھے انہوں نے آپس میں مشورہ کر کے ان سے کہا کہ قادیانی سے ایک ضروری کتاب لانی ہے آپ جائیں اور کتاب لے آئیں.گورداسپور سے قادیان 16 میل کے قریب ہے.عشاء کے وقت وہ گئے اور رات کے بارہ بجے کتاب لے کر واپس آگئے.لوگوں نے تو یہ تدبیر اس لئے کی تھی کہ کسی طرح ان کو وہاں سے نکالیں مگر وہ راتوں رات پھر واپس پہنچ گئے.اس پر دوست پھر آپس میں مشورہ کرنے لگے کہ اب کیا کرنا چاہیے.وہ ہنس کر کہنے لگے مجھے پتا ہے کہ آپ لوگوں نے مجھے کیوں بھجوایا تھا.میں وعدہ کرتا ہوں کہ اب میں کوئی شرارتی نہیں کروں گا.غرض بتیس میل سفر انہوں نے دو چار گھنٹوں میں کر لیا.اور پھر یہ بھی نہیں کہ اس کی وہ
1952 122 خطبات محمود قد رسفر کے بعد وہ بارہ گھنٹے آرام کرتے ہوں بلکہ جب بھی انہیں کسی اور کام کیلئے بھجوایا جا تا فوراتی تیار ہو جاتے تھے.تو دنیا میں بڑے بڑے تیز چلنے والے بھی پائے جاتے ہیں اور شدید ترین ئست اور غافل بھی پائے جاتے ہیں.وہی بچہ جس کو دو قدم چلنے پر روٹی یا پھل یا پھول انعام کے طور پر دیا جاتا ہے بعد میں ایک بڑا سیاح بن جاتا ہے اور دو تین سو میل دو چار دن میں پیدل چ سفر طے کر لیتا ہے.اب غور کرو اتنا تیز چلنے والا کون تھا ؟ وہی تھا جو کل ایک قدم بھی انعام کے کی لالچ کے بغیر نہیں اٹھا سکتا تھا.تو اِنَّ فِي خَلْقِ السَّمَوتِ وَالْأَرْضِ وَاخْتِلَافِ الَّيْلِ وَالنَّهَارِ لَا يَتِ لِأُولِى الالباب - انسان دیکھتا نہیں کہ زمین و آسمان میں ایک تفاوت پایا جاتا ہے.بلندی کے بعد بلندی اور اونچائی کے بعد اونچائی آتی ہے.یہ نشیب اور فراز ، یہ پستی اور بلندی کیا چیزیں ہیں؟ یہ قدرت کے اشارے ہیں.اس امر کی طرف کہ بڑھتے چلے آؤ، ترقی کرتے چلے جاؤ.پہاڑوں پر ہم جاتے ہیں تو اسی طرح اس کی چوٹیوں پر پہنچتے ہیں.اگر یکدم دو میل سیدھا اونچائی پہاڑ انسان کے سامنے آجائے تو اس کی ہمت پست ہو جائے اور وہ اس پر چڑھنے کا نام بھی نہ لے.مگر اب کیا ہوتا ہے پچاس ساٹھ فٹ اونچا ایک ٹیلا ہمارے سامنے آتا ہے اور ہم کہتے ہیں کہ کہ یہ ٹیلا تو کچھ زیادہ اونچا نہیں آؤ ہم اس پر چڑھ کر نظارہ دیکھیں.چنانچہ ہم اُس ٹیلے پر چڑھ جاتے ہیں.وہاں پہنچتے ہیں تو ایک دوسرا ئیلا نظر آتا ہے.پھر ہم اُس پر چڑھ جاتے ہیں.اس کی طرح قدم بقدم ہمارا دل لگتا چلا جاتا ہے اور چوٹی کے بعد چوٹی ہمارے سامنے آتی چلی جاتی ہے ہے.یہاں تک کہ ہم مونٹ ایورسٹ کی چوٹی پر بھی چڑھ جاتے ہیں جو 29 ہزار فٹ اونچی ہے گو یا پانچ میل لمبی اس کی اونچائی ہے.اگر اتنی اونچی پہاڑی یہاں ربوہ میں ہی ہو تو کوئی شخص اس پر چڑھنے کی جرات نہ کرے.لیکن تدریجی طور پر جب ایک بلندی کے بعد دوسری بلندی آتی ہے تو انسان سہولت کے ساتھ ان بلندیوں کو طے کر جاتا ہے.گویا ایک ٹیلا تحریک پیدا کرتا ہے دوسرے ٹیلے پر چڑھنے کی اور دوسرا ئیلا تیسرے ٹیلے پر چڑھنے کی دعوت دیتا ہے.جیسے بچے کو پہلے ایک قدم پر روٹی کا ٹکڑا دیا جاتا ہے.مگر جب وہ ایک قدم پر چلنے کی استطاعت اپنے اندر پیدا کر لیتا ہے تو پھر اسے ایک قدم پر نہیں بلکہ دو قدم پر انعام دیا جاتا ہے اور اگر وہ ایک قدم پر کی
1952 123 خطبات محمود بھی روٹی یا پھل لینے کے لئے ہاتھ بڑھائے تو ماں باپ اپنا ہاتھ پیچھے کھینچ لیتے ہیں.اسی طرح کی نیچر نے ہمارے سامنے ترقیات کا ایک غیر محدود میدان رکھا ہے مگر اس کے لئے تدریج اور ارتقاء کا پہلو ساتھ ساتھ رکھا ہے تا کہ شوق ترقی کرے انسانی ہمت بڑھے اور اس کا حوصلہ وسیع ہو.جب ترقی کا ایک قدم ہم طے کر لیتے ہیں تو ہم سمجھتے ہیں کہ ہم نے سب کچھ پالیا لیکن وہاں پہنچتے ہی ایک اور چوٹی نظر آتی ہے اور ہمیں کہا جاتا ہے ہمت کرو اور اس چوٹی تک پہنچو.چنانچہ ہوتے ہوتے ایک دن ہم مونٹ ایورسٹ کی چوٹیوں پر پہنچ جاتے ہیں، ہوتے ہوتے ہم نالوں اور کی دریاؤں اور سمندروں کو پار کر لیتے ہیں، ہوتے ہوتے ہم اپنی روحانی اور اخلاقی اور تمدنی مشکلات کو حل کر لیتے ہیں.مشکلات بھی کبھی انتہائی رنگ میں انسان کے سامنے نہیں آتیں.ہمیشہ قدم بقدم اس کے سامنے آتی ہیں اور وہ قدم بقدم ان پر غالب آتا چلا جاتا ہے.دنیا میں بڑی سے بڑی جنگ بھی ہو رہی ہو تو ایک دو سال کا بچہ یہ سمجھ ہی نہیں سکتا کہ دنیا کے سامنے کون سی مشکلات ہیں.ایک چھوٹے بچہ کے سامنے سب سے بڑی مشکل یہی ہوتی ہے کہ میں کسی طرح چند قدم چلنے لگ جاؤں.میں ابا یا اماں کا لفظ بول سکوں.لڑائیاں ہو رہی ہوں، ملک تباہ ہو رہے ہوں ، جانیں ہلاک ہو رہی ہوں، بچے کے نزدیک اس کی سب سے بڑی مشکل یہی ہوتی ہے کہ میں ابا اور اماں کا لفظ صحیح بول لوں یا میں اپنی ٹانگوں سے ایک دو قدم چل لوں.آخر ایک دن آتا ہے کہ وہ ان مشکلات کو حل کر لیتا ہے اور اب اس کی عمر تین چار سال کی ہو جاتی ہے ، اب اس کا ذہن پہلے سے زیادہ روشن ہوتا ہے اور اس کی مشکلات بھی پہلے سے مختلف ہوتی ہیں.اب اس کی سب سے بڑی مشکل یہ ہوتی ہے کہ وہ الف اور ب لکھ لے.اس کی سب سے بڑی مشکل یہ ہوتی ہے کہ وہ قاعدہ یسر نا القرآن پڑھ لے.اب بھی وہ بائرن 5 (Byron) کا کلام نہیں سمجھ سکتا.وہ ٹینی سن (Tennyson) کے کلام کو سمجھنے کی استعداد نہیں رکھتا، وہ کیٹس (Keats) کے کلام کو نہیں سمجھتا.وہ ورڈز ورتھ (Wordsworth) کے کلام کو نہیں سمجھتایا ہمارے ملک کے لحاظ سے وہ غالب 9 یا مومن 10 یا ناسخ 11 کا کلام سمجھنے کی استعداد نہیں رکھتا.اس کے نزدیک ٹینی سن (Tennyson) کے کلام کے کوئی معنی نہیں ہوتے.ناسخ اور غالب کا کلام اس کے نزدیک بے معنی ہوتا ہے.وہ سعدی 12 اور حافظ 13 اور عرفی 14 کے کلام سے بیگانہ ہوتا ہے.وہ
1952 124 خطبات محمود صرف اتنا جانتا ہے کہ میرے سامنے بڑی مشکل یہی ہے کہ مجھے الف ب لکھنا آجائے.اور جب وہ الف ب لکھنے لگ جاتا ہے تو بے انتہاء خوش ہوتا ہے اور سمجھتا ہے کہ میں نے اپنا مقصد پا لیا.جب وہ الف ب اب یاب ت بث لکھنے لگ جائے تو وہ خوش ہوتا ہے.یا جب وہ اتنا یا اماں کہنے لگ جائے تو بڑا خوش ہوتا ہے اور سمجھتا ہے کہ تمام علوم پر میں نے قبضہ کر لیا ہے اور تمام مشکلات پر میں کی نے قابو پالیا ہے.بلکہ جب پہلی دفعہ وہ پاجامہ پہنے لگتا ہے یا تہہ بند باندھنے لگتا ہے تو پاجامہ پہن کی کر یا تہہ بند باندھ کر بھی وہ سمجھتا ہے کہ میں نے اپنی مشکلات کو حل کر لیا.اس کے بعد وہ آٹھ دس کی سال کی عمر میں پہنچ جاتا ہے اور اب اس کی مشکلات اور زیادہ وسیع ہو جاتی ہیں.اب اس کے سامنے یہ سوال آتا ہے میں پرائمری پاس کرلوں.پھر اور عمر بڑھتی ہے تو اس کے سامنے یہ سوال آتا ہے کہ کچھ انگریزی آنی چاہیے، کچھ عربی آنی چاہیے، کچھ مسائل دینیہ سے واقفیت ہونی چاہیئے.اُس وقت اگر اُسے نماز کا ترجمہ بھی سکھایا جاتا ہے تو معمولی.اسی طرح نماز ، روزہ ، حج ، زکوۃ وغیرہ کے چند موٹے مسائل اُسے بتا دیے جاتے ہیں.دنیا کی مشکلات ابھی اُس کے کی ذہن میں نہیں ہوتیں اور نہ وہ اُن کے سمجھنے کی استعداد رکھتا ہے.وہ امریکہ اور چین اور کوریا کے جھگڑوں سے ناواقف ہوتا ہے.وہ صرف اتنا چاہتا ہے کہ مجھے اے ، بی ،ہی ، ڈی آجائے یا مجھے نہانا دھونا آ جائے.یا کوئی عیسائی ہے تو اُسے کھانے اور سونے کی دعا آجائے.یہی مشکلات اُس کے سامنے ہوتی ہیں اس سے زیادہ نہ وہ سوچ سکتا ہے اور نہ کسی بات کو سمجھنے کی اہلیت اور استعداد رکھتا ہے.پھر اسی طرح وہ قدم بقدم چلتا چلا جاتا ہے اور دنیا کی مشکلات سے آگاہ ہوتا جاتا ہے.مگر پھر بھی بسا اوقات اپنے ایک مخصوص ماحول میں رہنے کی وجہ سے بڑی عمر ہو جانے کے باوجود وہ دنیا کی مشکلات کو پوری طرح نہیں سمجھ سکتا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام لطیفہ سنایا کرتے تھے کہ کوئی چوہڑا ایک دفعہ لاہور کے قریب سے گزرا.اس نے دیکھا کہ سارے لاہور میں کہرام مچا ہوا ہے.دکانیں بند ہیں اور مرد عورتیں اور بچے سب رو ر ہے ہیں اور پریشانی کے عالم میں اِدھر اُدھر پھر رہے ہیں.اُس دن مہا راجہ رنجیت سنگھ کی موت واقع ہوئی تھی.مہاراجہ رنجیت سنگھ کوئی متمدن بادشاہ نہیں تھا مگر چونکہ طوائف الملو کی کے بعد اس نے پنجاب میں حکومت قائم کی تھی اور سکھ قبائل کی طرف سے جو
1952 125 خطبات محمود مظالم ہو رہے تھے ان کو اُس نے دور کیا تھا اس لئے ہندو اور مسلمان سب اس سے محبت رکھتے ہی تھے.پس ان لوگوں کے لئے جو لاہور کے رہنے والے تھے اور سیاسیات کو سمجھتے تھے اور جنہیں سکھوں کے انتہائی مظالم اور لوٹ مار کے بعد مہاراجہ رنجیت سنگھ کے عہد میں امن میسر آیا تھا یہ کی صدمہ واقع میں پریشان کن تھا.لیکن چوہڑے کے پاس تو کچھ تھا ہی نہیں اُسے سکھوں نے کوٹنا تج کیا تھا.مسلمانوں کے پاس دولت تھی اس لئے سکھ انہیں کو ٹا کرتے تھے.لیکن چوہڑا جو ایک گاؤں میں رہ رہا تھا اُس کا تو یہی کام تھا کہ ٹوکری اٹھائے اور گھر آ جائے یا مزدوری کرے اور کی واپس آجائے.اور مزدوری کے لحاظ سے ایک ہندو بھی اسے من ڈیڑھ من بوجھ اٹھواتا اور ایک کمی مسلمان بھی اسے اتنا ہی بوجھ اٹھوا تا اور اس کے بعد اسے روکھی سوکھی روٹی اور پیاز دے دیتا یا چند پیسے دے دیتا اور وہ گھر چلا جاتا.پس اس کے نزدیک تو نہ پنجاب میں کبھی کوئی فساد ہوا تھا اور نہ کسی نے اسے دور کیا.اس نے جو اتنے بڑے لوگوں کو پریشانی کے عالم میں ادھر اُدھر پھرتے دیکھا تو اس نے حیران ہو کر پوچھا کہ ان لوگوں کو کیا ہو گیا ہے کہ یہ اس طرح رو ر ہے ہیں؟ کسی نے کہا کہ مہاراجہ رنجیت سنگھ فوت ہو گیا ہے.اب اُس کے لئے یہ بات اور بھی زیادہ کی تعجب خیز تھی کہ ایک آدمی کے مرنے پر اتنے آدمی رونے لگ جائیں.وہ سر پہ ہاتھ رکھ کر کہنے لگا کہ پتا نہیں لوگوں کو کیا ہو گیا ہے.باپو جیسے مر گئے تے رنجیت سنگھ بیچارے دی کی حیثیت ہے.یعنی جب میرے باپ جیسے لوگ مر گئے تو مہاراجہ رنجیت سنگھ بیچارے کی کیا حیثیت تھی.گویا اُس چوہڑے کے نزدیک دنیا کی بہترین چیز یا نظم کو قائم رکھنے والی طاقت اُس کا باپ تھا کیونکہ وہ مج اپنے ماحول میں اس سے زیادہ حیثیت کسی چیز کی سمجھ ہی نہیں سکتا تھا.لیکن اگر غور کریں تو رنجیت سنگھ کی حیثیت بھی دنیا کے مقابلہ کیا تھی.لا ہور کے رہنے والے صرف اپنے ماحول کو دیکھتے تھے.ان کو بھی دنیا کے مستقبل یا دنیا کی طاقتوں کا کچھ علم نہیں تھا.جب مہاراجہ رنجیت سنگھ ہوا ہے اُس وقت انگریزوں کی ایک کمپنی ہندوستان میں حکومت کر رہی تھی اور یورپین قوموں کو اتنی طاقت حاصل تھی کہ ان کی ایک بریگیڈ لا ہور والوں کو شکست دے سکتی تھی.پس ان کے سامنے بھی صرف اپنی مشکلات تھیں.نہ یونائیٹڈ اسٹیٹس امریکہ کی طاقت ان کے سامنے تھی ، نہ فرانس کی طاقت ان کے سامنے تھی ، نہ جرمنی کی ج
1952 126 خطبات محمود طاقت ان کے سامنے تھی.صرف چند ڈاکوؤں کی لوٹ مار اور ان کی غارت گری کے واقعات ان کے سامنے تھے.اور چونکہ مہاراجہ رنجیت سنگھ نے ان کو دور کیا اس لئے ان کی نگاہ میں مہا راجہ کی رنجیت سنگھ بہت بڑا بادشاہ تھا.لیکن بہر حال اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ ان کا مطمح نظر اس چوہڑے سے بہت اونچا تھا.اور ان سے یورپ اور امریکہ کے لوگوں کا صحیح نظر بہت اونچا تھا.وہ اس سے زیادہ سوچتے تھے جتنا لا ہور والے سوچتے تھے.اور وہ اس سے زیادہ دنیا کی مشکلات کی کا علم رکھتے تھے جتنی مشکلات کا لا ہور والوں کو علم تھا.پھر بھی وہ ان مسائل کو اس طرح نہیں سوچ کی سکتے تھے جس طرح اس زمانہ میں یورپ اور امریکہ کے لوگ سوچ رہے ہیں.اس زمانہ میں جس قسم کی تو ہیں نکلی ہیں ، جس قسم کے ہوائی جہاز نکلے ہیں، جس قسم کے ہتھیار نکلے ہیں، جس قسم کا ایٹم بم ایجاد ہوا ہے ان ایجادات اور ہتھیاروں کی پہلے لوگوں کو کہاں خبر تھی.وہ سو چتے تھے تو اپنے زمانہ کے حالات کے مطابق.اور اس زمانہ کے لوگ سوچتے ہیں تو اپنے حالات کے مطابق.اگر اس کی زمانہ کی ترقیات کا پہلے زمانہ کے لوگوں کے سامنے ذکر کیا جاتا تو وہ ان باتوں کو ویسا ہی لغو سمجھتے جیسے اگر اُس چوہڑے کے سامنے چھ کارتوس والی رائفل کا ذکر کیا جاتا تو وہ کہتا کہ یہ بالکل جھوٹ ہے.میں ایسی لغو بات کو ماننے کے لئے تیار نہیں ہوسکتا.غرض ہر ترقی مختلف تدریجی منازل کو طے کرنے کے بعد حاصل ہوتی ہے.ورنہ انسان اپنا کی حوصلہ قطعی طور پر ہار بیٹھے اور وہ کسی ترقی کو بھی حاصل نہ کر سکے.اس چوہڑے کے لئے یہی ضروری تھا کہ وہ مہاراجہ رنجیت سنگھ کے عہد حکومت کو دیکھتا لیکن مہاراجہ رنجیت سنگھ کے سامنے دتی کے بادشاہ رہتے تھے اور دلی کے بادشاہوں کے سامنے وہ حکمران رہتے تھے جنہوں نے ان سے بھی زیادہ شاندار حکومت کی.اسی طرح پر ایک شخص سیکھتا چلا گیا اور چونکہ قدم بقدم ایک کے بعد دوسری چوٹی آئی اس لئے ہر ایک نے سمجھا کہ اس چوٹی کو سر کیا جا سکتا ہے.تو اللہ تعالیٰ فرماتاتی إِنَّ فِي خَلْقِ السَّمَوتِ وَالْأَرْضِ وَاخْتِلَافِ الَّيْلِ وَالنَّهَارِ لَايَةٍ لِأُولى الْأَلْبَابِ.کیا تم دیکھتے نہیں کہ کس طرح پستی کے بعد بلندی اور ہر بلندی کے بعد اور بلندی آجاتی ہے.پستی کے نیچے اور پستی پائی جاتی ہے اور بلندی کے اوپر اور بلندی موجود ہے.تم گرتے ہو تو تمہیں پتا بھی نہیں لگتا کہ تم کہاں آ کر گرے ہو.اگر وہی حالت جو آج مسلمانوں کی ج
1952 127 خطبات محمود ہے بنوامیہ یا بنوعباس کے زمانہ میں یکدم مسلمانوں کی ہو جاتی.تو میں سمجھتا ہوں اس صدمہ کی شدت کی وجہ سے اُن کی جانیں نکل جاتیں اور وہ سارے کے سارے مر جاتے.مگر آج وہ خوش ہیں ان میں کوئی بے چینی نہیں.کوئی بے کلی نہیں سوائے چند سیاسی لوگوں کے باقی سب سمجھتے ہیں کی کہ یہ ایک طبعی حالت ہے جو ان پر وارد ہوئی ہے.حالانکہ اگر ہم غور کریں اور مسلمان کی اُس طاقت کو سمجھیں جو کسی زمانہ میں اس کو حاصل تھی تو اُس کا آج تنزل اتنا خوفناک ہے کہ اس کا ج تصور کر کے بھی دل بیٹھنے لگتا ہے.ایک زمانہ مسلمانوں پر وہ گزرا ہے جب ایک ادنیٰ سے ادنی کی مسلمان بھی یہ سمجھتا تھا کہ میرے پیچھے میری قوم کی بہت بڑی طاقت ہے.جرمنی آج کل عارضی طور پر دبا ہوا ہے لیکن جس زمانہ میں جرمنی طاقتور تھا ایک ادنیٰ سے ادنی جرمن بھی اگر چین میں جاتا یا جاپان میں جاتا بلکہ اگر جرمنی کا ایک چوہڑا بھی وہاں چلا جاتا تو وہ سمجھتا تھا کہ مجھے چھیڑ : کوئی آسان کام نہیں میرے پیچھے جرمنی کی تو ہیں ہیں میرے پیچھے جرمنی کے ہوائی جہاز اور جرمنی کی فوجیں ہیں.یہی حال امریکہ کا ہے.امریکہ کا ایک معمولی سے معمولی آدمی بھی دنیا کے کسی خطہ میں چلا جائے لوگ اس پر ہاتھ ڈالنے سے گھبراتے ہیں.کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ اس شخص کی پشت پر امریکہ کی تو ہیں، امریکہ کے جہاز اور امریکہ کی فوجیں ہیں.لیکن ہندوستان کا ایک نواب بھی وہاں جاتا تھا تو ڈرتا تھا کیونکہ سمجھتا تھا کہ میری پشت پر کوئی طاقت نہیں.غرض یہاں کا کی نواب بھی باہر جا کر ڈرتا ہے.مگر طاقتور حکومتوں کا چوہڑا بھی باہر جاتا ہے تو اکڑ کر چلتا ہے کیونکہ سمجھتا ہے کہ میرے پیچھے میری قوم کے جہاز اور تو ہیں ہیں.اور میرے پیچھے میری قوم کی طاقت ہے اور اسی چیز نے اس کی عزت اور رتبہ کو قائم کیا ہوا ہے.یہی حال کسی وقت مسلمان کا تھا.آن پاکستان آزاد ہے مگر چونکہ ابھی پورے طور پر اس کی طاقت مضبوط نہیں ہوئی اس لئے پاکستان کا نجی رہنے والا خواہ جرمنی چلا جائے یا انگلستان چلا جائے یا فرانس چلا جائے یا چین اور جاپان میں چلا ہی جائے اسے وہ عزت حاصل نہیں ہوتی جو ایک امریکن یا انگلستان کے رہنے والے کو ہمارے ملک میں حاصل ہوتی ہے.کیونکہ ایک امریکن کے پیچھے امریکہ کے جہاز اور امریکہ کی فوجیں اور امریکہ کی تو پیں کھڑی ہیں.لیکن ایک مسلمان کے پیچھے یہ چیزیں نہیں ہیں.اس لئے دنیا ایک امریکن کی عزت کرتی ہے، ایک انگلستان کے رہنے والے کی عزت کرتی ہے لیکن ایک مسلمان کی تھی
1952 128 خطبات محمود عزت نہیں کرتی.مگر یہی چیز دنیا کے پردہ پر کسی وقت مسلمان کو حاصل تھی.ایک ادنیٰ سے ادنیا حیثیت کا مسلمان بھی جب باہر نکلتا تھا تو دنیا کی طاقتیں جانتی تھیں کہ گو یہ مسلمان ان پڑھ ہے، مزدور ہے لیکن اگر ہم نے اس مسلمان کو چھیڑا تو چین سے لے کر اندلس تک ساری اسلامی دنیا میں تہلکہ مچ جائے گا.سیلون سے ایک قافلہ آتا ہے اور ہندوستان میں لوگ اسے لوٹ لیتے ہیں ، کچھ عرب عورتیں بھی قید ہو جاتی ہیں اور وہ کسی کے ذریعہ سے عراق میں پیغام بھجواتی ہیں کہ عرب عورتوں کی عزت تمہارے ہاتھ میں ہے.وہ اپنے ناموس کے تحفظ کا تم سے مطالبہ کرتی ہیں.اُس وقت بنو امیہ کی مج ایران سے ایک طرف اور پین سے دوسری طرف جنگ کی تیاریاں ہو رہی تھیں کہ اچانک یہ کی پیغام پہنچتا ہے کہ ہندوستان میں مسلمانوں کا ایک قافلہ لوٹا گیا ہے اور کچھ مسلمان قید کر لئے گئے ہیں.بادشاہ نے کہا اس وقت ہمارے سامنے ایک بہت بڑی مہم ہے میں اس وقت کسی اور طرف توجہ نہیں کر سکتا.لیکن جب اسے یہ پیغام دیا گیا کہ ان قید ہونے والوں میں کچھ مسلمان عورتیں کی بھی تھیں جنہوں نے اپنے ناموس اور اپنی عزت کے تحفظ کا ملک سے مطالبہ کیا تھا تو بادشاہ یکدم کھڑا ہو گیا اور اس نے کہا کہ باوجود موجودہ جنگوں کے لشکر فوراً ہندوستان کی طرف روانہ کرو.چنانچہ مسلمان لشکر ہندوستان میں پہنچا اور وہ اُس وقت تک واپس نہیں گیا جب تک ا نے اس ملک کو فتح نہیں کر لیا مگر یہ تو طاقت کے زمانہ کی بات تھی.جب مسلمان اپنی شاندار حکومت قائم کر رہے تھے.اس زمانہ میں جب مسلمان بالکل گر چکے تھے ، خلافت صرف نام کی باقی رہ گئی تھی ، اسلامی خلیفہ صرف بغداد کا خلیفہ کہلاتا تھا، عرب کی الگ حکومت قائم ہو چکی تھی ، حلب کی الگ حکومت قائم ہو چکی تھی ، مصر کی الگ حکومت قائم ہو چکی تھی ، خراسان کی الگ حکومت کی قائم ہو چکی تھی گویا مسلمان حکومت ٹکڑے ٹکڑے ہو چکی تھی صرف خطبوں میں خلیفہ کا نام لیا جاتا تھا.اور کہا جاتا تھا کہ خدا فلاں عباسی خلیفہ کی شہرت کو بڑھائے اور اس کی عزت کو قائم کرے لیکن عملاً ہر علاقہ میں الگ الگ حکومتیں قائم تھیں.خلافت کا اقتدار مٹ چکا تھا، صلیبی جنگیں شروع ہو گئی تھیں اور عیسائی پھر مسلمان ممالک کو فتح کرنے کے خواب دیکھ رہے تھے.ان کی فوجیں فلسطین میں اتر رہی تھیں اور عہ انہوں نے فتح کر لیا تھا.اُس وقت ایک مسلمان عورت کو عیسائیوں نے پکڑی
1952 129 خطبات محمود لیا.وہ عورت ان پر انے جاہل طبقہ کے لوگوں میں سے تھی جو انگریزوں کے زمانہ میں بھی یہ خطبہ کی پڑھا کرتے تھے کہ خدا ہمارے بادشاہ جہانگیر کی عزت بلند کرے.وہ بے چاری بھی ایسی ہی تھی اُسے پتا نہیں تھا کہ خلیفہ کیا ہوتا ہے.صرف اس نے سُنا ہوا تھا کہ مسلمانوں کا ایک خلیفہ ہوتا ہے اور اس کی بڑی طاقت ہوتی ہے.جب اس عورت کو گرفتار کرنے کے لئے عیسائیوں نے ہاتھ ڈالا تو اس خیال کے ماتحت کہ مجھے کیا ڈر ہے جبکہ ہمارا ایک خلیفہ موجود ہے.اس نے زور سے آواز دی کہ میں خلیفہ سے اپنی فریاد کرتی ہوں.اُس وقت ایک مسلمان قافلہ وہاں سے گزررہا تھا ؟ اُس نے یہ آواز سنی اور ہنستے ہوئے وہاں سے چل پڑا کہ یہ عورت کیسی بیوقوف ہے اسے اتنا بھی کی معلوم نہیں کہ ہمارے خلیفہ کی آجکل کیا حالت ہے اور وہ اس کی کچھ مدد بھی کر سکتا ہے یا نہیں.چلتے چلتے قافلہ ایک دن بغداد پہنچا.قافلہ کے پہنچنے پر شہر کے تمام لوگ اکٹھے ہو گئے اور باتوں باتوں میں پوچھنے لگے کہ سفر کی کوئی عجیب بات سناؤ.انہوں نے ہنستے ہوئے کہا کہ سب سے بڑا عجوبہ ہم نے یہ دیکھا کہ ایک مسلمان عورت کو عیسائیوں نے پکڑ لیا تو وہ عورت بلند آواز سے کہنے لگی کہ میں خلیفہ سے اپنی فریاد کرتی ہوں حالانکہ ہمارا خلیفہ تو بغداد سے بھی نہیں نکل سکتا اور وہ شام میں بیٹھی ہوئی خلیفہ کو اپنی مدد کے لئے بلاتی ہے.یہ لطیفہ شہر میں پھیلنا شروع ہوا.یہاں تک کہ پھیلتے پھیلتے دربار خلافت میں بھی پیش ہو گیا.کسی شخص نے خلیفہ وقت سے کہا کہ اس طرح کی شام کے علاقہ میں ایک مسلمان عورت کو عیسائیوں نے گرفتار کر لیا ہے اور ہم نے سنا ہے کہ جب وہ گرفتار ہوئی تو اُس نے بلند آواز سے کہا کہ میں خلیفہ کو اپنی مدد کے لئے پکارتی ہوں.خلافت اُس وقت مٹ چکی تھی ، اسلامی حکومت تنزل میں جا رہی تھی لیکن ابھی وہ زمانہ نہیں آیا تھا کہ بادشاہت کی یو بھی ان کے دماغ سے اُڑ گئی ہو.جب یہ روایت خلیفہ کے سامنے بیان کی گئی تو وہ عباسی بادشاہ اپنے تخت سے فوراً نیچے اتر آیا اور اُس نے کہا خدا کی قسم ! اگر اس مسلمان عورت نے مجھ پر اعتبار کیا ہے تو میں بھی اب واپس نہیں لوٹوں گا جب تک کہ اس عورت کو آزاد نہ کرالوں.اُس وقت مسلمان گو متفرق ہو چکے تھے مگر خلافت سے محبت ابھی کچھ باقی تھی اور اسلام کی طاقت کی یا دان کے ذہنوں میں تھی.جب انہوں نے دیکھا کہ اس مُردہ اور سڑے گلے جسم میں بھی زندگی کا خون دوڑ نے لگ گیا ہے تو سارے شہر میں ایک آگ لگ گئی.بغداد پندرہ بیس لاکھ کا کچھ
1952 خطبات محمود 130 و شہر تھا، ہزاروں ہزار مسلمان کھڑا ہو گیا اور انہوں نے قسمیں کھا ئیں کہ ہم واپس نہیں لوٹیں گے جب تک مسلمان عورت کو آزاد نہ کرا لیں.جب یہ خبر ارد گرد پھیلی تو وہی آزاد حکومتیں جو اس بات کی پر خلیفہ سے جھگڑ رہی تھیں کہ تم کون ہوتے ہو ہم پر حکومت کرنے والے! ہم آزاد ہیں انہی کی طرف سے پیغام آنے شروع ہو گئے کہ ہم اپنی فوجیں آپ کی مدد کے لئے بھجوا رہے ہیں.چنانچہ اسلامی لشکر گیا اور عیسائیوں سے لڑا اور اس عورت کو آزاد کرالیا تو ایک زمانہ وہ تھا جب مسلمان اتنی بڑی طاقت کا مالک تھا مگر آج مسلمان کی یہ حالت ہے کہ دنیا میں سب سے زیادہ ذلیل اس کو سمجھا جاتا ہے.اگر وہی کیفیت جو آج مسلمانوں کی ہے.یکدم ان پر وارد ہو جاتی تو میں سمجھتا ہے ہوں کہ شاید ان میں سے ایک بھی نہ بچتا ساروں کی جان نکل جاتی.ہٹلر کو دیکھ لو چونکہ وہ یکدم گرا تھا اس لئے خود کشی کر کے مر گیا.اُس سے یہ برداشت نہ ہوسکا کہ گجا میری یہ حالت تھی کہ مجھے جرمنی پر حکومت حاصل تھی اور حکومت بھی استبداد والی اور گجا یہ کہ اب مجھے روسیوں اور امریکنوں کی غلامی اختیار کرنی پڑے گی.یہ چیز اس کی طاقت برداشت سے باہر ہو گئی اور وہ مر گیا.اسی طرح ہزاروں ہزار واقعات دنیا میں نظر آتے ہیں کہ جب لوگوں کی طاقت برداشت سے کوئی بات بڑھ گئی تو وہ خود کشی کر کے مر گئے.پس میں سمجھتا ہوں کہ اگر یکدم مسلمانوں کی یہ حالت ہو جاتی تو شاید کچھ ہی لوگ جو بہت ہی کی بے غیرت ہوتے بچ جاتے باقی سب کے سب مر جاتے.اگر مامون اور امین کے زمانہ سے حالات یکدم گر کر آج کی حالت پیدا ہو جاتی تو نوے پچانوے فیصدی مسلمان تو ضرور اس صدمہ سے مرجاتے.وہ خود کشی تو نہ کرتے کیونکہ خود کشی اسلام میں منع ہے مگر وہ مرضرور جاتے.لیکن چونکہ وہ آہستہ آہستہ گرے، باپ کی حالت سے بیٹے کی حالت کمزور ہو گئی اور بیٹے کی حالت سے پوتے کی حالت گر گئی اس لئے ان میں طاقت برداشت بھی پیدا ہوتی چلی گئی.یہاں تک کہ جی آج مسلمان اس حالت کو پہنچ گیا ہے کہ اس کی عزت اور ناموس کی کوئی قیمت نہیں رہی.یہی وجہ کی ہے کہ باوجود اس کے کہ آج ہماری جماعت کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے مسلمانوں کو ترقی کا ایک نیا موقع بخشا گیا ہے ان میں وہ بیداری نہیں پائی جاتی جو زندہ اور فعال جماعتوں میں پائی جانی چاہیئے.ان میں وہ جنون نہیں پایا جاتا جو دنیا کو کھا جانے والی قوموں میں پایا جاتا ہے.ان
1952 131 خطبات محمود میں مُردنی چھا چکی ہے.وہ عادی ہو چکے ہیں ذلت کے ، وہ عادی ہو چکے ہیں رسوائی کے ، وہ جی غلامی کی کڑیوں کو اپنے لئے زیور سمجھتے ہیں.وہ اپنے سروں پر لدے ہوئے بوجھ کو اپنے لئے عزت کا موجب سمجھتے ہیں اس لئے ان میں وہ بیداری نہیں ، وہ عزم نہیں ، وہ بے چینی نہیں جو حقیقی ذلت کے پہچاننے والے انسانوں میں ہوا کرتی ہے.اسی لئے اللہ تعالیٰ اپنا ما مور بھیجتا ہے کیونکہ مج وہ جانتا ہے کہ یہ قوم اب پچھلی مصیبتوں کی عادی ہو چکی ہے.اب ان کے دلوں میں اگلی امید میں کی پیدا کرو تا کہ یہ مُردہ قوم پھر زندہ ہو سکے.یہی فرق ہے مولویوں میں اور خدا تعالیٰ کی طرف سے آئے ہوئے ماموروں میں.مولوی ہمیشہ پچھلی مصیبتیں یاد دلاتا ہے اور اس طرح قوم کے ارادوں کو پست کرتا ہے.اور خدا تعالیٰ کالج ماموران کے دلوں میں نئی امیدیں پیدا کر کے انہیں آئندہ کی ترقی کے لئے ابھارتا ہے.اور انہیں بتاتا ہے کہ تم طاقتور ہو، تم دنیا پر غالب آنے کے لئے پیدا کئے گئے ہو تم آگے بڑھو کہ دنیا کی قوموں کی باگ ڈور تمہارے ہاتھ میں آنیوالی ہے.لیکن بوجہ ایک پرانی عادت کے پڑ جانے کی کے ہزاروں ہزار لوگ ایسے ہیں جن کو جھنجھوڑنا پڑتا ہے ، جن کو جگانا پڑتا ہے ، جن کو بیدار کر نا پڑتا چ ہے.مگر وہ پھر سو جاتے ہیں، وہ پھر گر جاتے ہیں ، وہ پھر سُست اور غافل ہو جاتے ہیں.پس حقیقت یہی ہے کہ اِنَّ فِي خَلْقِ السَّمواتِ وَالْأَرْضِ وَاخْتِلَافِ الَّيْلِ وَالنَّهَارِ لايت لأولى الْأَلْبَابِ سمجھدار انسان کے لئے اس دنیا کے پردہ پر ہزاروں بیداری کی کی چیزیں ہیں.کسی کے لئے یہ امر بیداری پیدا کرنے کا موجب ہوتا ہے کہ میں گر کر کہاں سے کہاں کی پہنچ گیا اور کسی کے لئے یہ امر بیداری پیدا کرنے کا موجب ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ نے میری ترقی کے لئے کہاں تک سیڑھیاں لگا رکھی ہیں کہ میں ان سیڑھیوں کے ذریعہ زمین سے نکل کر آسمان تک پہنچ سکتا ہوں.غرض کسی کے لئے رات ہدایت کا موجب ہو جاتی ہے اور کسی کے لیے دن کی ہدایت کا موجب ہو جاتا ہے اور یہ رات اور دن کا چکر چلتا چلا جاتا ہے.قدرت کے قانون کے مطابق راتوں کا آنا بھی ضروری ہے اور دنوں کا آنا بھی ضروری ہے.لیکن اگر رات کو دن سے بدلا جا سکے تو کون ہے جو یہ پسند نہیں کرے گا کہ میرے کام کا زمانہ لمبا ہو اور میری غفلت اور سونے کا زمانہ کم ہو.ہم مانتے ہیں کہ دن بھی ضروری ہے اور رات بھی ضروری.لیکن سوال یہ
1952 132 خطبات محمود ہے کہ اگر دن لا نا ہمارے اختیار میں ہو تو ہم کام کے وقت رات کو لائیں گے ہی کیوں؟ ہم تو یہی کی چاہیں گے کہ کام کا زمانہ لمبا ہو.عقلمند انسان جو قشر کو نہیں دیکھتا بلکہ مغز پر نگاہ رکھتا ہے، جو ظا ہر کو نہیں بلکہ باطن کو دیکھتا ہے اس کی اصل توجہ ہمیشہ اپنے حکام کی طرف رہتی ہے.وہ اس بات کی پروا نہیں کرتا کہ اسے کام کے بدلہ میں کچھ تنخواہ بھی ملتی ہے یا نہیں.کیونکہ وہ جانتا ہے کہ جس چیز کے پیچھے میں لگا ہوا ہوں وہی میری روٹی ، وہی میرا کپڑا اور وہی میری زندگی کا سہارا ہے.واقع کی یہی ہے کہ انسان روٹی سے نہیں بلکہ خدا تعالیٰ کے کلام سے زندہ رہتا ہے.دنیا میں دو قسم کی روٹی ہوتی ہے.ایک وہ روٹی ہوتی ہے جو سینکڑوں سال کے لئے مل جاتی ہے اور ایک وہ روٹی ہوتی ہے جس کے لئے صبح بھی محنت کرنی پڑتی ہے اور شام کو بھی.قرآن کریم میں عیسائیوں کے متعلق کی ذکر آتا ہے کہ انہوں نے حضرت مسیح ناصری سے کہا کہ آپ خدا تعالیٰ سے دعا کریں کہ وہ ہمیں وہ مائدہ دے جو آسمان سے نازل ہو 15.اس کے معنی بھی یہی تھے کہ وہ ہمیں روحانی بادشاہت کی عطا کرے.کیونکہ روحانی بادشاہت میں ایک ایسی چیز ہے جو آسمان سے اترتی ہے اور جس کے حصول کے بعد صبح وشام کی محنت جاتی رہتی ہے.اسی لئے وہ قو میں جو مذہب کے ذریعہ دنیا میں ترقی کیا کرتی ہیں اُن کے لئے صبح و شام کی محنت جاتی رہتی ہے کیونکہ وہ دنیا کی حاکم ہو جاتی ہیں، دنیا کے خزانے ان کے ہو جاتے ہیں اور انہیں بے محنت آپ ہی آپ اللہ تعالیٰ کی طرف سے روزی مہیا ہوتی رہتی ہے.لیکن جب روحانی بیداری ختم ہو جاتی ہے تو جیسے موسیٰ" کے بعد ہوا اور جیسے عیسی کے بعد ہوا اور جیسے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ہوا پھر وہ قوم سزا پاتی ہے اور ہر شخص اپنے کئے کا نتیجہ بھگتا ہے.تمہارے اندر بھی اس وقت خدا تعالیٰ کی طرف سے ایک نئی روح پیدا کی گئی ہے.تمہارے لئے بھی ایک نیا مقصد مقرر کیا گیا ہے.تمہارے لئے بھی ایک نئی زندگی پیش کی گئی ہے.امریکہ کو با وجود اُس کی ساری طاقت کے کوئی یہ کہنے والا نہیں کہ اُٹھ ! اور میں تجھے اٹھاؤں گا.انگلستان کو با وجود اتنا طاقتور ملک ہونے کے کوئی یہ کہنے والا نہیں کہ اُٹھ ! اور میں تجھے اٹھاؤں گا.اسی طرح جرمنی، فرانس، سپین، روس، چین، جاپان اور ہندوستان کو کوئی یہ کہنے والا نہیں کہ اُٹھ ! اور میں تجھے اٹھاؤں گا.صرف ایک احمدی جماعت ہی اس دنیا کے پردہ پر ایسی ہے جسے خدا نے ا.
1952 133 خطبات محمود عرش سے یہ کہا کہ اُٹھ ! اور میں تجھے اٹھاؤں گا.اگر ہم پھر بھی نہیں اٹھتے تو ہم سے زیادہ بد بخت اور کون ہوسکتا ہے.“ 1: آل عمران: 191، 192 ( الفضل 6 جون 1952ء) 2: أود بلا و: بلی سے مشابہہ ایک جانور جو دریاؤں کے کنارے رہتا اور مچھلی مینڈک کھاتا ہے.بیوقوف آدمی 3: النجم : 9 :6 :4 القول المختصر فى علامات المهدى المنتظر لابی عباس الهیتمی صفحہ نمبر 40 مکتبہ سید احمد شہید لاہور 5: بائرن : (Byron)(1788ء-1824ء) انگریزی کا رومانی شاعر.1798ء میں لارڈ کا موروثی خطاب پایا.یونان اور سپین کا سفر کیا اور واپس آکر یونان کی جنگ آزادی کے حق میں نظم لکھی.وکی پیڈیا آزاد دائرہ معارف زیر لفظ 'لارڈ بائرن) : ٹینی سن (Tennyson)(1809ء-1892ء) پورا نام Alfred Tennyson تھا.انگریز شاعر جس کی سب سے مشہور نظم ”Inmemoriam‘ تھی.یہ ایک طویل مرثیہ تھا جو شاعر نے اپنے دوست کی وفات پر لکھا.اسی سال شاعر کو ملک الشعراء کا خطاب ملا.اسی طرح مینی سن کو لارڈ کا خطاب بھی دیا گیا.( وکی پیڈیا آزاد دائرہ معارف زیر لفظ "الفریڈ ٹینی سن) کیٹس: (Keats) (1795ء-1821ء) انگریزی ادب کا ایک عظیم شاعر.اس کی خوبصورت شاعری حسوں کو متاثر کرتی ہے.پورا نام John Keats ہے.وکی پیڈیا آزاد دائرہ معارف زیر لفظ ” جان لیٹس) ورڈزورتھ (William Wordsworth)(1770ءتا1850ء) برطانیہ کا ایک مشہور رومانی شاعر تھا.1843 ء سے اپنی وفات تک برطانیہ کا ملک الشعراء “ رہا.انگریزی ادب میں رومانیت کا آغاز کرنے والے دو ابتدائی شعراء میں سے ایک تھا.وکی پیڈیا آزاد دائرہ معارف.زیر لفظ ولیم ورڈزورتھ) :9 غالب (مرزا اسد اللہ خاں غالب ) (1797ء تا 1869ء ) اردو زبان کے سب سے بڑے شاعر سمجھے جاتے ہیں.1850ء میں بہادر شاہ ظفر نے مرزا غالب کو نجم الدولہ، دبیر الملک نظام جنگ کا خطاب عطا فر مایا.وکی پیڈیا آزاد دائرہ معارف زیر لفظ ”مرزا اسد اللہ غالب) 10 مومن : ( مومن خان مومن ) ( 1800 ء تا 1851ء) مومن بچپن سے ہی ذہین طبع تھے ،
1952 134 خطبات محمود حافظہ بہت اچھا تھا چنانچہ عربی و فارسی ، طب و نجوم اور موسیقی میں جلدی کمال حاصل کر لیا.اصناف شاعری میں قصیدہ ، رباعی ، غزل ، ترکیب بند، مثنوی سبھی پر طبع آزمائی کی ہے.مومن نہایت آزاد مزاج ، قانع اور وطن پرست تھے.وکی پیڈیا آزاد دائرہ معارف زیر لفظ "مومن خان مومن :11: ناسخ: (امام بخش ناسخ ) (1776 ء تا 1838 ء ) مغل دور کے مشہور اردو شاعر تھے.وکی پیڈیا آزاد دائرہ معارف زیر لفظ "امام بخش ناسخ) :12: سعدی: ( شیخ سعدی) مصباح الدین شیخ سعدی آج سے تقریبا 800 برس پہلے ایران کے شہر شیراز میں پیدا ہوئے.آپ ایک بہت بڑے معلم مانے جاتے ہیں.آپ کی دو کتابیں گلستان اور بوستان بہت مشہور ہیں ، گلستان نثر کی کتاب اور بوستان نظم کی کتاب ہے.وکی پیڈیا آزاد دائرہ معارف زیر لفظ " شیخ سعدی) :13: حافظ ( حافظ محمد شیرازی) فارسی شاعر حافظ شیرازی کی زندگی کا زمانہ 726 سے 792 ہجری شمار کیا جاتا ہے.حافظ کی زندہ جاوید تصنیف اس کا دیوان ہے جو غزلیات، قصائد ، قطعات اور رباعیوں پر مشتمل ہے.علاوہ ازیں حافظ نے تفسیر قرآن بھی تحریر کی.محمد گل اندام کے نزدیک حافظ شیرازی نے کشاف اور مصباح کے حواشی بھی تحریر کئے.وکی پیڈیا آزاد دائرہ معارف زیر لفظ " حافظ شیرازی :14: عرفی ( عرفی شیرازی ) 16 ویں صدی کے مشہور فارسی شاعر تھے.یہ شیر از ایران میں پیدا ہوئے اور ہندوستان کی طرف ہجرت کی.ہندوستان میں اکبر بادشاہ کے درباری شاعر رہے.آپ کا شمار ہندوستانی انداز میں فارسی کے سب سے مستند شعراء میں ہوتا ہے.وکی پیڈیا آزاد دائرہ معارف زیر لفظ عرفی شیرازی) :15: اذْقَالَ الْحَوَارِيُّوْنَ يُعِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ هَلْ يَسْتَطِيعُ رَبُّكَ أَنْ يُنْزِلَ عَلَيْنَا مَا بِدَةً مِنَ السَّمَاءِ قَالَ اتَّقُوا اللهَ إِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِينَ (المائدة: 113)
1952 135 (16 خطبات محمود جو قوم خدا تعالیٰ کے گھر کو آبا در کھنے کی کوشش کرتی ہے دنیا کی بڑی سے بڑی طاقت بھی اُس کے گھر کو ویران نہیں کر سکتی ہماری جماعت کو چاہیے کہ یورپ کے مختلف ممالک میں مساجد تعمیر کرنے کی بابرکت تحریک میں پورے زور سے حصہ لے (فرموده 16 مئی 1952ء بمقام ربوہ ) تشهد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا : پچھلے جمعہ میں بھی میں نے دیکھا کہ سائبان نہیں لگے ہوئے تھے.مگر اُس دن ہوا تیز چل رہی تھی اور جو میں کسی قدر خنکی تھی.میں نے اسے اس بات پر محمول کیا کہ سلسلہ کے مال کی حفاظت کے لئے جبکہ لوگوں کو اتنی تکلیف نہیں پہنچ سکتی تھی منتظمین نے عقل اور تدبر سے کام لیا ہے.لیکن آج ہوا نہیں چل رہی ، دھوپ تیز ہے پھر بھی میں دیکھتا ہوں کہ سائبان نہیں لگائے گئے جس کی وجہ سے باہر بیٹھنے والے لوگوں کے لئے بیماری کا خطرہ ہے.لوگ سمٹ کر مسجد کے اندر تو بیٹھے ہوئے ہیں لیکن نمازوں کے لئے انہیں باہر نکلنا پڑے گا.اور آجکل کی گرمی میں دو چار منٹ بھی ساکن بیٹھنا یا کھڑا ہونا مشکل ہوتا ہے.چلتے پھرتے ہوئے اور بات ہوتی ہے اُس کی وقت کچھ نہ کچھ ہوا لگتی رہتی ہے اور انسان گرمی کی شدت کو زیادہ محسوس نہیں کرتا.پس میں نہیں تھی
1952 136 خطبات محمود سمجھتا کہ منتظمین نے اس میں کیا حکمت مد نظر رکھی ہے.جلد میں نے انہیں توجہ دلائی تھی کہ وہ ایسی تدبیر کریں کہ ہوا کے دنوں میں سائبان پھٹیں نہیں وہ کھڑے رہیں اور دیواروں پر ان کا بوجھ نہ پڑے کیونکہ دیوار میں کمزور ہیں.جو تجویز میں نے بتائی تھی اُس کو تو انہوں نے رد کر دیا اور لکھا کہ انجینئر اس کا فائدہ نہیں سمجھتے گو میرے نزدیک اس سے فائدہ ہوسکتا تھا.مگر جو تجویز اس کے مقابلہ میں پیش کی گئی تھی اس پر عمل نہیں کیا گیا اور اس وجہ سے ڈر ہے کہ جو لوگ باہر بیٹھیں گے خصوصاً بوڑھے اور کمز ور لوگ ان کی صحت کو کوئی نقصان نہ پہنچ جائے.آج میں جماعت کو اس فیصلہ کی طرف متوجہ کرنا چاہتا ہوں جو شوری میں مساجد بنانے کے متعلق ہوا ہے.شوری میں یہ تحریک پاس ہوئی تھی کہ لوگ مختلف تقریبوں پر اور مختلف پیشہ ورا اپنی آمد نیوں پر کچھ نہ کچھ رقم مساجد کے لئے دیتے رہیں جس سے غیر ممالک میں جہاں مساجد کا بہ تبلیغی نقطہ نگاہ سے ضروری ہے مساجد تعمیر ہوتی رہیں.اُس وقت جماعت نے اخلاص بھی دکھایا، جوش بھی دکھایا بلکہ چار ہزار روپیہ نقد بھی جمع کر دیا اور ساری ہی تجاویز کو انہوں نے پسند کیا اور کی منظور کیا بلکہ بعض نے تجویز کردہ سے زائد چندہ تجویز کیا اور کہا کہ چندے کو اِس اِس شکل میں رکھا ج جائے تا کہ مساجد کی تعمیر کے لئے زیادہ سے زیادہ روپیہ آ سکے.لیکن عملی طور پر میں دیکھتا ہوں کہ سوائے چندلوگوں کے باقیوں نے اس طرف توجہ نہیں کی.تاجروں میں سے میرے سامنے صرف ایک مثال آئی ہے اور وہ کوئٹہ کے ایک دوست شیخ محمد اقبال صاحب کی ہے جو بڑے تاجروں میں سے ہیں.فیصلہ یہ تھا کہ بڑے تاجر ہر مہینہ کے پہلے دن کے پہلے سودے کا جو نفع ہو وہ مسجد فنڈ میں دے دیا کریں.پس میرے سامنے اب تک صرف یہی ایک مثال آئی ہے کہ انہوں نے اڑھائی سوتی روپیہ اس چندہ میں بھجوایا ہے.باقی کچھ لوگ جنہوں نے مجھ سے نکاح پڑھوائے تھے ان کو میں نے یاد دلا دیا کہ خوشی کی تقاریب پر مساجد کے لئے چندہ دینا بھی ضروری ہے اور انہوں نے کچھ چندہ دے دیا.اب لاہور میں ایک دوست حیدر بخش صاحب جو گجرات کے رہنے والے ہیں انہوں نے مسجد کے لئے سور و پیہ دیا ہے.انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ یہ سورو پیدا نہوں نے کس اصول کے مطابق دیا ہے.بعض اور رقمیں بھی انہوں نے دی تھیں.میں سمجھتا ہوں کہ کسی خوشی کی بعد میں منتظمین نے بتایا کہ صبح ہوا چلی تھی جس سے سائبانوں کو بہت نقصان پہنچ گیا.
1952 137 خطبات محمود تقریب پر انہوں نے یہ چندہ دیا ہے.یہ نہیں کہ کسی تجارتی اصول پر یہ روپیہ انہیں ملا ہو.کیونکہ بظاہر یہ رقم ان کے حالات سے زیادہ معلوم ہوتی ہے.چھوٹے تاجروں کے متعلق یہ فیصلہ ہوا تھا کہ وہ ہر ہفتہ کے پہلے دن کے پہلے سودے کا نفع اس غرض کے لئے دے دیا کریں.کیونکہ چھوٹے تاجروں کا جو نفع ہوتا ہے وہ بعض دفعہ ایک پیسہ ہوتا ہے ، بعض دفعہ ایک دھیلا ہوتا ہے.اگر زیادہ بھی نفع ہو جائے تو چھوٹے تاجر کو ایک سودے میں دو آنے یا چار آنے مل جاتے ہیں.پس چونکہ ان کا نفع معمولی ہوتا تھے ہے اس لئے ان کے متعلق یہ فیصلہ ہوا تھا کہ وہ ہر ہفتہ کے پہلے دن کے پہلے سودے کا نفع مساجد کے کی لئے دے دیا کریں.ربوہ میں ہمارے پچاس کے قریب تاجر ہیں.چار ہفتوں کے پہلے دن بھی ان جی پر گزرے ہیں اور چار ہفتوں کے پہلے دنوں میں کوئی نہ کوئی ان کا پہلا سودا بھی ہوا ہو گا لیکن جہاں تک مجھے علم ہے ان پچاس میں سے کسی ایک نے بھی اس پر عمل نہیں کیا.یہ فرض کرو ان کا اوسط منافع ایک آنہ تھا تو چار ہفتوں میں ان کی طرف سے دو سو آنہ آنا چاہئے تھا.بلکہ اب تو غالبا پانچواں ہفتہ شروع ہو چکا ہے.کیونکہ ہر مہینہ میں ہفتہ سے کچھ زائد دن بچ رہتے ہیں اور شوری پر بھی اب تک ایک ماہ سے تین دن زائد گزر چکے ہیں.پس اگر اوسط نفع ایک آنہ بھی سمجھا جاوے تو پانچ ہفتوں میں ان کی طرف سے اڑھائی سو آنہ آنا چاہیے تھا یعنی قریباً سولہ روپے.مگر جہاں تک میرا خیال ہے ربوہ کے کسی تاجر نے بھی اس تجویز کو یاد نہیں رکھا اور نہ اس پر عمل کرنے کی کوشش کی ہے.جیسا کہ میں نے بار ہا بتایا ہے مرکز کے لوگ دوسروں کے لئے نمونہ ہوتے ہیں.اگر وہ اچھا نمونہ دکھا ئیں تو باہر کے لوگ بھی ان کی نقل کرتے ہیں اور کوشش کرتے ہیں کہ وہ بھی اچھے ہو جا ئیں.اور اگر مرکز کے لوگ اچھا نمونہ نہ دکھا ئیں تو باہر کے لوگ سمجھتے ہیں کہ اچھا نمونہ دکھانا کوئی ضروری چیز نہیں.بلکہ باہر کے کمزور لوگ تو جھوٹی باتیں بھی مرکز کی طرف منسوب کر کے جی اپنے لئے رستے نکالتے رہتے ہیں.عورتوں میں چونکہ زیادہ کمزوری ہوتی ہے اس لئے جب وہ اپنے خاوندوں سے فائدہ اٹھانا چاہتی ہیں اور خاوند نہیں کہتے ہیں کہ ہم پر چندوں کا بوجھ زیادہ ہے ہم ان ضروریات کو پورا نہیں کر سکتے تو ان میں سے بعض یہ جواب دے دیتی ہیں کہ خلیفہ المسیح کی بیویاں تو پانچ پانچ سوروپیہ کے جوڑے پہنتی ہیں اور تم ہمیں پچاس بھی نہیں دیتے.اسی طرح اب انجمن ربوہ نے اس پر عمل شروع کروا دیا ہے اور چندہ داخل ہونا شروع ہو گیا ہے.
1952 138 خطبات محمود کے اور بھی بہت سے جھوٹ میرے سامنے آتے رہتے ہیں.میں مذاقا اس قسم کے لوگوں کو یہ تھی جواب دیا کرتا ہوں کہ تم اپنی بیوی کو لے آؤ اور ہمارے گھر کی تلاشی لے کر فی جوڑا اڑھائی سوی ہمیں دے دو اور جوڑے لے جاؤ تم کو سو فیصدی فائدہ پہنچ جائے گا.پانچ سو کا جوڑا اڑھائی سو میں مل جائے گا اور ہمیں بھی نفع رہے گا.تو اعتراض کرنے والے ہمیشہ کرتے ہیں.اب سال بھر سے اس مضمون کا کوئی خط مجھے نہیں آیا لیکن اس سے پہلے ایسے خط آتے رہتے تھے.بلکہ ہجرت کے بعد بھی ایک دو خط مجھے آئے تھے جن میں اسی قسم کے اعتراضات درج تھے.بعض خاوند جو زیادہ سمجھدار ہوتے ہیں وہ تو اپنی بیویوں کا مقابلہ کرتے ہیں اور ساتھ ہی مجھے اطلاع دے دیتے کی ہیں کہ ہماری بیوی نے یہ جھوٹ بولا ہے.اور بعض دھو کے میں آجاتے ہیں اور کہتے ہیں اوہو! ہم تج نے غلطی کی.ہمیں چاہیے تھا کہ تمہارے ساتھ بھی ہم اس معیار پر سلوک کرتے.تو بیر و نجات میں کمزور لوگ ہمیشہ جھوٹ بول بول کر لوگوں کو ورغلایا کرتے ہیں.پھر جہاں سیچ مل جائے وہاں تو می وہ لوگوں کو بڑی آسانی کے ساتھ دھوکا دے سکتے ہیں.پس سب سے پہلے میں مرکز کے تاجروں کو اس امر کی طرف توجہ دلاتا ہوں کہ یہ کوئی ایسا بوجھ نہیں ہے جس کا اٹھانا تمہارے لئے ناقابلِ برداشت ممکن ہے تمہارا پہلا سودا ایک دمڑی نفع والا ہو یا ایک دھیلا نفع والا ہو یا ایک آنے کا نفع ہی اس میں ہو.اور یہ بھی ممکن ہے کہ خدا تعالیٰ تمہارا امتحان لینا چاہے اور پہلا سود ہی بڑے نفع والا کی آ جائے.مگر اس کے یہ معنی ہوں گے کہ یا تو تم بہت ہی نیک ہو اور خدا تمہیں اس ذریعہ سے بہت زیادہ ثواب دینا چاہتا ہے اور یا پھر تم کمزور ہو اور خدا اِس ذریعہ سے تمہارا امتحان لینا چاہتا؟ ہے اور یہ دیکھنا چاہتا ہے کہ تم لالچ میں آ کر گر جاتے ہو یا اپنے ایمان میں پکے رہتے ہو.بہر حال یہ دونوں چیزیں ہی انسان کے لئے مفید ہیں.اگر خدا ہمیں زیادہ ثواب دینا چاہتا ہے تو زہے قسمت.اور اگر خدا ہمارا امتحان لینا چاہتا ہے اور یہ دیکھنا چاہتا ہے کہ ہم اس خدائی تحفہ کے نفع کو کہاں استعمال کرتے ہیں اپنی ذاتی ضروریات میں یا خدا کے گھر کی تعمیر میں.تب بھی زہے قسمت.کیونکہ کم سے کم اس ذریعہ سے ہمیں اپنی کمزوری کا علم ہو گیا.پس میں پھر ان فیصلہ جات کو دُہرا دیتا ہوں ممکن ہے زبانی بیان کرنے کی وجہ سے کوئی غلطی ہو جائے.اگر ایسا ہوا تو خطبہ پر نظر ثانی کے وقت اس کی اصلاح کر دی جائے گی.بہر حال جہاں تھی
1952 139 خطبات محمود تک مجھے یاد ہے تجویز یہ ہوئی تھی کہ پیشہ ور لوگ یعنی وکلاء، ڈاکٹر اور کنٹریکٹر وغیرہ پہلے اپنے کیے گزشتہ سال کی آمد معین کریں.اور پھر اس تعیین کے بعد اگلے سال ان کی آمد میں جو زیادتی ہواس کا دسواں حصہ وہ مسجد فنڈ میں ادا کر دیا کریں.مثلاً ایک وکیل ہے.پچھلے سال اس کی آمد چھ ہزار رو پی تھی.اگلے سال خدا تعالیٰ اس کی آمد کو سات ہزار روپیہ تک پہنچا دیتا ہے.اب اسے جو ایک ہزار روپیہ گزشتہ سال سے زائد ملا ہے اس کا دسواں حصہ وہ مسجد فنڈ کے لئے دے دے.یا اگر چھ کا آٹھ ہزار ہو گیا ہے تو پھر دو ہزار کا دسواں حصہ دے.اس طرح مرزا عبد الحق صاحب کی تجویز کی کے مطابق جسے بعد میں وکلاء اور ڈاکٹروں نے مان لیا تھا یہ بھی فیصلہ ہوا تھا کہ علاوہ سالانہ آمد کی کی زیادتی کا دسواں حصہ دینے کے وہ بجٹ کے سال کے پہلے مہینہ یعنی ما مئی کی آمد کا پانچ فیصدی کی مسجد فنڈ میں ادا کیا کریں یہ اسی طرح ایک تجویز یہ بھی پاس ہوئی تھی کہ تمام ملازم خواہ وہ گورنمنٹ کی ملازمتوں میں ہوں یا دوسرے اداروں میں کام کرتے ہوں ہر سال جو انہیں سالانہ ترقی ملے اُس میں سے پہلے مہینہ کی ترقی وہ مساجد کی تعمیر کے لئے دے دیا کریں.مثلاً ایک شخص کو دس روپیہ سالانہ ترقی ملی ہے.اب فرض کرو اس نے ہیں سال اور ملازمت کرنی ہے تو اُس کو تو بائیس سو ملیں گے.اور اسے مسجد کے لئے ہیں سال میں دو سو روپے دینے پڑیں گے.اسی طرح یہ بھی فیصلہ ہوا تھا کہ جب کوئی شخص پہلی دفعہ ملازم ہو تو وہ پہلی تنخواہ ملنے پر اُس کا دسواں حصہ مسجد فنڈ کے لئے دے دیا کرے.زمینداروں کے متعلق چندہ کی جو تحریک کی گئی تھی اُس کا حساب کچھ غلط ہو گیا تھا.بعد میں میں نے غور کیا تو مجھے محسوس ہوا کہ زمینداروں پر بہت زیادہ بوجھ پڑ گیا ہے.ان کے لیے ہر فصل کی قیمت کا دسواں حصہ بطور چندہ مقرر کیا گیا تھا مگر یہ بوجھ پیشہ وروں اور ملازموں کی نسبت زیادہ بن جاتا ہے.اب میں نے سوچا ہے کہ وہ فی ایکڑ صرف دو آنے دے دیا کریں ہ اس کی حکمت انہوں نے یہ بتائی تھی کہ بعض پیشہ وروں کی آمد بڑھے گی نہیں اور وہ ثواب سے محروم رہ جائیں گے.میں نے خطبہ میں ایک آنہ کہا تھا لیکن بعد میں غور کرنے سے معلوم ہوا کہ اس حساب سے الہ کا حصہ بہت کم ہو جاتا ہے.سو خطبہ درست کرتے ہوئے میں نے دوآنہ فی ایکڑ تجویز کیا ہے اور یہ بھی کوئی خاص بوجھ نہیں.ہاں جن کی زمین دس ایکڑ سے کم ہو اُن کے لیے وہی ایک آنہ فی ایکڑ چندہ مسجد کا ہوگا.
1952 140 خطبات محمود فرض کرو کسی کے پاس ایک مربع یعنی 25 ایکڑ زمین ہے.آٹھ ایکڑ وہ کپاس کرتا ہے.فرض کی کرو اس کی آٹھ من فی ایکڑ پیداوار ہوتی ہے تو گویا چونسٹھ من کپاس اس کے پاس آگئی.تمیں روپے بھی اگر قیمت رکھو تو یہ دو ہزار ہو گئے.دو ہزار کا دو سواں حصہ دس روپے بنتا ہے.پھر گندم آتی ہے، کماد آتا ہے ان کی مجموعی آمدن بھی قریباً قریباً کپاس کے برابر ہو جاتی ہے.نہ ہو تو پندرہ سو کے قریب تو ضرور آسکتا ہے.گویا مجموعی طور پر اسے پینتیس سو روپیہ ملا.جس کے معنی یہ کی ہیں کہ فی مربع اسے پندرہ روپے دینے پڑے اور یہ رقم دوسرے لوگوں سے بہت زیادہ بن جاتی ہے.پس میں نے تجویز کیا ہے کہ وہ آئندہ فی ایکڑ دو آنہ دے دیا کریں.اس کے معنی یہ ہیں کہ ایک مربع والے کو تین روپے دو آنے دینے پڑیں گے.یوں عام آمدن کے لحاظ سے اسے پندرہ روپے دینے پڑتے تھے.اور جن کی زیادہ آمد نہیں ہیں انہیں چھپیں چھیں دینے پڑتے تھے.مگر اب دو آنہ فی ایکڑ کے حساب سے سال بھر میں انہیں صرف تین روپے دو آنے دینے پڑیں گے.لیکن جو مزارع کے طور پر کام کرتے ہیں چونکہ نصف مالک کو دیتے ہیں ان کے لئے ایک آنہ اور ی دو پیسے فی ایکٹر کی شرح ہو گی.دس سے اوپر ایکڑ جس کے پاس مزارعت کے ہوں اُس پر ایک آنہ فی ایکڑ.اور دس یا اس سے کم جس کے پاس مزارعت کے ہوں اُس پر فی ایکڑ دو پیسے چندہ مسجد واجب ہوگا.پہلے طریق کے مطابق زمینداروں کے لئے اپنی آمدنیوں کا حساب کرنا مشکل تھا.لیکن دو آنہ یا آنہ فی ایکڑ کے لحاظ سے ان کے لئے حساب کی مشکل اڑ جاتی ہے.فرض کرو کسی کے پاس تین ایکڑ ہیں ایک ایکٹر گندم کرتا ہے اور ایک ایکڑ کپاس کرتا ہے یا کپاس نہیں کرتا تچ تو سبزی ترکاری ہوتا ہے تو اس کی آمدن بھی چھ سات سو بن جاتی ہے گو اس میں بیلوں کے بھی اخراجات ہیں اس طرح اُس کے دوسرے اخراجات بھی اس میں شامل ہیں.بہر حال نہری زمینوں کے لحاظ سے اس کی رقم کوئی تین چار روپے بنتی تھی جو اسے مسجد کے لئے دینی چاہیے تھی لیکن اس حساب سے اس کی رقم صرف تین آنے بنے گی.کیونکہ دس ایکڑ سے کم کے مالک پر ایک آنہ فی ایکڑ واجب کیا گیا ہے اور تین آنے اور تین روپے میں بڑا بھاری فرق ہے.پس اس تحریک کے ساتھ ہی میں زمینداروں کے پہلے چندہ میں تبدیلی کا بھی اعلان کرتا ہوں.مجلس شوری میں سواں حصہ مقرر کیا گیا تھا بعد میں جب یہ سکیم شائع ہوئی تو دوسواں حصہ کر دیا گیا تھا.
1952 141 خطبات محمود اُس وقت حساب پہلا ہو گیا تھا اور غلط حساب ہو جانے کی وجہ سے ان کی رقم زیادہ بن گئی تھی.میں نے دیکھا ہے زمینداروں میں سے جو کمزور ہوتے ہیں وہ بھی انتہائی کمزور ہوتے ہیں کہ اور جو مخلص ہوتے ہیں وہ بھی انتہائی مخلص ہوتے ہیں اور ان کی قربانی بہت سے کھاتے پیتے کی لوگوں سے بھی زیادہ ہوتی ہے.یہی حال مزدوروں کا میں نے دیکھا ہے.حقیقت یہ ہے کہ اگر غریب اور بھو کے مرنے والوں میں سو میں سے ہیں اچھے مخلص ہوتے ہیں تو کھاتے پیتے لوگوں کی میں سے سو میں سے دوا چھے مخلص ہوتے ہیں.پس جہاں ان کا اخلاص قابلِ قدر ہے وہاں یہ بھی تھی ضروری ہے کہ ان کی رقم دوسروں جتنی ہی رکھی جائے اُن سے زیادہ نہ رکھی جائے.میں نے کی اندازہ لگایا ہے کہ دو آنہ کے لحاظ سے بھی پندرہ بیس ہزار روپیہ سالانہ ہماری جماعت کے زمینداروں سے حاصل ہو سکتا ہے.ہماری جماعت کے زمینداروں کی زمین کسی صورت میں بھی دو اڑھائی لاکھ ایکڑ سے کم نہیں ہے.پھر بیرون جات میں بھی لوگوں کے پاس زمینیں ہیں.انڈونیشیا تو غریب ملک ہے مگر افریقہ اور امریکہ وغیرہ میں روپے کی قیمت زیادہ ہے اور پیداوار بھی زیادہ ہے.اس لئے ان کے پاس روپیہ زیادہ ہے خصوصاً ایسٹ افریقہ میں.پس اگر اللہ تعالیٰ چاہے تو اس ذریعہ سے بھی ہزاروں روپیہ سالانہ مساجد کی تعمیر کے لئے اکٹھا ہوسکتا ہے.تاجروں کے متعلق میں نے بتایا ہے کہ تجویز یہ پاس ہوئی ہے کہ بڑے تاجر ہر مہینہ کے پہلے دن کے پہلے سودے کا منافع مسجد فنڈ میں دے دیا کریں.بڑے تاجروں کا بعض دفعہ ایک ایک سودے کا منافع چار چار پانچ پانچ سو روپیہ ہوتا ہے.جیسے میں نے بتایا ہے کہ کوئٹہ کے ایک دوست نے صرف ایک سودے کا منافع اڑھائی سو روپیہ بھجوا دیا ہے.چھوٹا تاجر اگر ہزار سودوں کا منافع جمع کرے تب شاید وہ اڑھائی سو روپیہ تک پہنچے.ہماری جماعت میں ایسے تاجر جو بڑی تجارتیں کرتے ہیں خدا تعالیٰ کے فضل سے چار پانچ سو کے قریب ہیں.جیسے منڈیوں کے آڑھتی ہیں ، کمپنیوں والے ہیں، کارخانوں والے ہیں یا دوسرے تاجر ہیں.اور چھوٹا تاجر تو کئی ہزار ہے.چھوٹے تاجروں کے لئے جیسا کہ میں نے بتایا ہے یہ فیصلہ ہے کہ وہ ہر ہفتہ کے پہلے دن کے پہلے سودے کا منافع مسجد فنڈ میں دے دیا کریں.مثلاً ایک شخص ان کے پاس آیا اور اس نے کہا کہ مجھے ایک آنے کا تیل دے دیں.اب اس میں اس کا نفع ایک دھیلا یا دمڑی ہوگی.یا کوئی آیا مچ
1952 142 خطبات محمود اور اس نے کہا کہ مجھے آٹھ آنے کا آٹا دے دیا جائے یا مٹی کے تیل کی ایک بوتل دے دی جائے کی پہلے ایک بوتل ڈیڑھ آنہ میں آجایا کرتی تھی اب چار پانچ آنے میں آ جاتی ہے.بہر حال ایسے سودوں میں دھیلا ، پیسہ یا دو پیسے کا ہی نفع ہو سکتا ہے.لیکن یہ بھی ہو سکتا ہے کہ کسی دن اچھا سودا ہو جائے اور کوئی گاہک آکر کہے کہ مجھے آٹے کی ایک بوری دے دی جائے اور آٹے کی بوری کی میں آجکل کی مہنگائی کو دیکھتے ہوئے تاجر کو روپیہ ڈیڑھ روپیہ نفع مل جاتا ہے.یا کوئی شخص آگیا اور اُس نے کہا کہ مجھے دس ہیں گز کپڑا دے دیا جائے.یا کوئی بوٹ خریدنے کے لئے آ گیا.آجکل بوٹ بہت مہنگے ہیں.وہ سلیپر جو پہلے چودہ آنے میں آیا کرتے تھے اب سات آٹھ روپے کو آتے ہیں.اس میں بھی تاجر کو روپیہ یا آٹھ آنے کا نفع ہو جاتا ہے.بہر حال ہر ہفتہ کے پہلے دن جو بھی پہلا سودا ہو خواہ تھوڑے نفع والا ہو خواہ زیادہ نفع والا ہو وہ نفع مسجد فنڈ میں دے دیا جائے.یہ نفع ہمیشہ کم و بیش ہوتا رہے گا اور چونکہ یہ کسی معین رقم کی شکل میں نہیں اس لئے انسانی نی طبیعت پر اس کا دینا کچھ گراں نہیں گزرتا.جیسے انگریز قوم میں ہر غریب سے غریب اور امیر سے امیر میں یہ عادت ہے کہ وہ کچھ نہ کچھ گھوڑوں پر شرطیں باندھنے میں ضرور صرف کرتا ہے اور یہ خرچ اُس کی طبیعت پر گراں نہیں گزرتا کیونکہ اس میں مقابلہ پایا جاتا ہے.اسی طرح اگر ہر شخص یہ عہد کر لے کہ میں ہفتہ کے پہلے دن پہلا سودا خدا کے نام پر کروں گا تو ہر ہفتہ کے دن اُس کے دل میں یہ خواہش پیدا ہوگی کہ دیکھیں آج خدا کے سودے کے لئے دس روپے کا گا ہک آتا ہے یا دو پیسے کا گاہک آتا ہے.بہر حال دو پیسے کا گاہک آئے یا دو آنے کا یا دو روپے کا اُس کا فرض یہی ہے کہ وہ ہفتہ کے پہلے دن کے پہلے سودے کا منافع مساجد کی تعمیر کے لئے دے دیا کرے.اسی طرح مستریوں ، لوہاروں اور مزدوروں وغیرہ کے متعلق یہ فیصلہ ہوا تھا کہ وہ ہر مہینہ کے پہلے دن کی مزدوری کا یا کوئی اور دن مقرر کر کے اُس دن کی مزدوری کا ) دسواں حصہ مسجد فنڈ میں دے دیا کریں.بالکل ممکن ہے کہ مہینہ کے پہلے دن انہیں مزدوری ہی نہ ملے یا ممکن ہے ملے تو آدھے دن کی مزدوری ملے.بہر حال اُسے جو بھی مزدوری ملے پورے دن کی ملے یا آدھے دن کی ملے اُس کا دسواں حصہ دینا اُس کے لئے ضروری ہوگا.اگر ایک ترکھان کو تین روپے مزدوری ملتی ہے تو ساڑھے چار آنے اور اگر آدھے دن کی مزدوری ملتی ہے تو سوا دو آنے اُسے دینے پڑیں گے.
1952 143 خطبات محمود ނ نہ ملے تو کچھ بھی نہیں دینا پڑے گا.اسی طرح اگر مزدور کو ڈیڑھ روپیہ ملے گا تو اُس پر اڑھائی آنے کی مسجد کا چندہ لگ جائے گا.غرض یہ ایک اس قسم کا پُر لطف کام ہے کہ بجائے طبیعت پر بوجھ ہونے کے انسان کو اس میں لطف آتا ہے اور طبائع میں انشراح قائم رہتا ہے.کیونکہ یہ طریق ایسا ہے جس میں چندہ کی کوئی مقدار معین نہیں اور پھر خدا تعالیٰ کے شکر کا بھی موقع نکلتا رہتا ہے.اب تو تاجر سا را دن بیٹھا رہتا ہے اور اُس کے دل میں خدا تعالیٰ کی طرف کوئی توجہ ہی پیدا نہیں ہوتی لیکن مہینہ کے پہلے دن کے پہلے سودے کے لئے وہ ضرور سوچے گا کہ دیکھوں آج مجھے کیا ملتا ہے اور میں خدا تعالیٰ.کتنا ثواب حاصل کرتا ہوں.اس طرح قدم بقدم خدا تعالیٰ کے قریب ہوتا چلا جائے گا.پھر مسجد میں ایسی چیز ہیں کہ اُن کا قیام قوم کے لئے بڑی برکت کا موجب ہوتا ہے.دیکھو وصیت کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے صاف طور پر لکھا ہے کہ بہشتی مقبرہ کی زمین کسی کو بہشتی نہیں بناتی بلکہ انسان کے اعمال اُسے بہشتی بناتے ہیں 1 لیکن ہماری جماعت میں صرف اسی نام کی وجہ سے کہ اُسے بہشتی مقبرہ کہا جاتا ہے اور خدا تعالیٰ کے خاص فضلوں کے وعدے اُس کے ساتھ وابستہ ہیں اب وصیت کی آمدن زیادہ ہے اور دوسرے چندوں کی آمد کم ہے کیونکہ اس کے ساتھ معین صورت میں نام آ گیا ہے کہ اس کے بدلہ میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے جنت کا وعدہ ہے.وصیت کی طرح مسجد بنانے والے کے لئے بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے جنت کا وعدہ ہے.چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے فرمایا کہ جو شخص میرے لئے مسجد بناتا ہے میں اُس کے لئے آخرت میں گھر بناتا ہوں 2.گویا یہ بھی ایک کی وصیت جیسی تحریک ہے کیونکہ خدا تعالیٰ کا وعدہ اس کے ساتھ موجود ہے کہ جو شخص مسجد بنائے گا اُس کے لئے خدا جنت میں گھر بنائے گا.اور پھر وہی وصیت والی شرط یہاں بھی پائی جاتی ہے کہ قربانی کرنے والا نیک ہو.اگر کوئی کنچنی مسجد بنا دے تو ہم کہیں گے کہ اُس نے خدا تعالیٰ کے ساتھ مزاح کیا ہے.اسی طرح اگر کوئی شخص نماز ہی نہیں پڑھتا اور روزے نہیں رکھتا ، سچ نہیں بولتا ، جھوٹ اور فریب سے کام لیتا ہے، دوسروں پر ظلم کرتا ہے، اُن کے حقوق ادا نہیں کرتا تو اُس کا مسجد کے لئے چندہ دینا اُسے جنت میں نہیں لے جاسکتا.لیکن اگر کوئی شخص نمازیں پڑھتا ہے، روزے رکھتا ہے، سچ بولتا ہے، جھوٹ ، ظلم اور فریب سے بچتا ہے، دین سے محبت رکھتا ہے،
1952 144 خطبات محمود اس کو دنیا میں پھیلانے کی کوشش کرتا ہے تو اس میں کوئی شبہ نہیں کہ دوسرا شخص جو مسجد نہیں بنا تا تج اُس سے یہ زیادہ یقینی جنتی ہے.تمہیں اپنی کمزوری کے اوقات میں کئی دفعہ خیال آتا ہو گا کہ فلاں نے کیسا اچھا مکان بنالیا ہے لیکن افسوس کہ ہمارا کوئی مکان نہیں.یا اگر تمہارے ہمسائے نے کوئی اچھا سا کمرہ بنالیا ہے تو تمہارے بچے سمجھتے ہیں کہ اگر ہمارا بھی کوئی ایسا ہی کمرہ بن جائے تو کیا اچھا ہو.مگر وہ تو تمہاری محض خواہشات ہوتی ہیں اور یہ وہ وعدہ ہے جو خدا تعالیٰ نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی معرفت کیا کہ اگر تم میرے لئے دنیا میں گھر بناؤ گے تو میں بھی تمہارے لئے آخرت میں گھر بناؤں گا اگر ایک شخص کی کوٹھی دس ہزار روپے کی ہوا اور تمہاری کوٹھی اُس کے مقابلے میں ہیں ہزار روپے کی ہو تو تمہارے لئے یہ امر کتنی خوشی اور فخر کا موجب ہوگا.اس طرح اگر جنت میں ایک شخص کو اپنی نیکیوں کی وجہ سے چاندی کا مکان ملے گا تو مسجد بنانے کی وجہ سے خدا تعالیٰ سونے کا مکان دے دے گا.یا ایک کو سونے کا مکان ملا اور تمہیں بھی سونے کا مکان ہی کی ملنا چاہیے تھا تو چونکہ تم نے مسجد بنائی اس لئے تم کو موتیوں کا مکان ملے گا.یا ایک اور شخص کو موتیوں کا گھر ملا اور تمہیں بھی موتیوں کا گھر ہی ملنا تھا لیکن اس لئے کہ تم نے مسجد بنائی خدا تمہیں موتیوں کی بجائے ہیروں کا مکان دے دے گا ( موتی ہیرے کے الفاظ تمثیلی ہیں.کوئی یہ نہ خیال کرے کہ میرے نز دیک اُس دنیا کی نعماء اس دنیا کی قسم سے ہیں.بہر حال تم دوسروں سے فضیلت میں رہو گے.اور اگر دوسرے بھی وہی نیکی کرنے لگ جائیں گے تو یہ تمہارے لئے اور زیادہ خوشی کا موجب ہوگا.کیونکہ اس کے یہ معنی ہوں گے کہ تمہاری ساری قوم ہی اونچی ہوگئی.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک دفعہ غرباء آئے اور انہوں نے کہا يَا رَسُوْلَ الله ! امیر لوگ نیکیاں کرتے ہیں جن کی ہمیں توفیق نہیں ہوتی.وہ چندے دیتے ہیں، وہ صدقہ و خیرات کرتے ہیں اور اس طرح نیکیوں میں ہم سے آگے نکل جاتے ہیں.باقی نیکیاں ایسی ہیں جو ہم بھی کرتے ہیں اور وہ بھی کرتے ہیں.جہاد ہم بھی کرتے ہیں اور وہ بھی کرتے ہیں.نمازیں ہم بھی پڑھتے ہیں اور وہ بھی پڑھتے ہیں.روزے ہم بھی رکھتے ہیں اور وہ بھی رکھتے ہیں.لیکن روپیہ ہمارے پاس نہیں وہ چندے دینے کی وجہ سے ہم سے آگے نکل جاتے ہیں.اب ہم اس کا مج کس طرح ازالہ کریں؟ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا آؤ میں تمہیں ایک ایسی بات بتاؤں ھے
1952 145 خطبات محمود کہ اگر تم اس پر عمل کرو گے تو قیامت کے دن اُن سے زیادہ درجہ پا لو گے اور وہ یہ ہے کہ ہر نماز کی کے خاتمہ پر تینتیس دفعہ الْحَمْدُ لِلهِ تین تین دفعہ سُبحَانَ اللہ اور چونتیس دفعہ اللهُ اَكْبَر کہہ لیا لی کرو.وہ بڑے خوش ہوئے.اُنہوں نے اس پر عمل شروع کر دیا.مگر کسی طرح امیروں کو بھی اس کی بات کا پتا لگ گیا اور انہوں نے بھی ہر نماز کے بعد سُبحَانَ اللهِ ، اَلْحَمْدُ لِلهِ ، اور اللہ اکبر کا ورد شروع کر دیا.غریب صحابہ پھر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور انہوں نے کہايَا رَسُولَ اللہ ! ان امراء کو روکئے.پہلے یہ چندے دیتے تھے اور ہم ان سے آگے نہیں بڑھ سکتے تھے.آپ نے ہمیں آگے نکلنے کی ایک ترکیب بتائی تو اب اُس پر بھی امراء نے کی عمل شروع کر دیا ہے اور وہ پھر ہم سے آگے نکل گئے ہیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر خدا کسی کو نیکی کا موقع دیتا ہے تو میں اُسے کس طرح روک سکتا ہوں 3.تم بھی مت گھبراؤ کہ اگر قوم کے سارے افراد ہی مساجد بنانے میں حصہ دار بن گئے تو تمہاری فضیلت کیا رہی.کیونکہ پھر تمہارے لئے یہ ایک اور فخر کا مقام پیدا ہو جائے گا کہ تمہاری کی قوم کے سارے افراد ہی اونچے اور بلند مراتب رکھنے والے ہیں.پس دوسروں سے مقابلہ بھی اپنی جگہ پر اچھا ہے.لیکن اگر ساری قوم بھی مقابلہ میں شریک ہو جائے تو پھر یہ دوسرا فخر کا مقام حاصل ہو جاتا ہے کہ میں ایک ایسی قوم کا فرد ہوں جس کا ہر فرد ہی اونچا ہے.پس یہ کام ایسا ہے جی جس کے ساتھ بڑی بڑی برکات وابستہ ہیں.مگر اس کے لئے طریق ایسا نکالا گیا ہے جو کسی پر گراں نہیں گزرتا اور نہ کسی کو کوئی خاص بوجھ محسوس ہوتا ہے.اور اگر کسی کے لئے یہ کام بو جھل بنتائج ہے تو اس کی دو ہی وجوہات ہو سکتی ہیں.یا یہ کہ خدا تعالیٰ اُسے زیادہ ثواب دینا چاہتا ہے اور یا یہ کہ خدا تعالیٰ اس کا امتحان لینا چاہتا ہے.جب خدا تعالیٰ تمہیں زیادہ ثواب دینا چاہے گا تو وہ کی مہینہ کے پہلے دن کوئی بڑا سودا تمہارے سامنے لے آئے گا اور تم اُس کا نفع خدا تعالیٰ کی راہ میں خرچ کر کے زیادہ ثواب لے لو گے اور تمہاری ایمان میں ترقی کرنے کی خواہش پوری ہو جائے گی.اور یا پھر خدا تعالیٰ تمہارا امتحان لینے کے لئے مہینہ کے پہلے دن کوئی بڑا ئو دا تمہارے سامنے لے آئے گا.اُس وقت کمزور آدمی ڈگمگا جائے گا اور وہ خیال کرے گا کہ اس میں تو میرا آٹھ آنے نفع ہے اور باقی سارے دن کے سو دوں میں کسی میں آنہ نفع ہے اور کسی میں دو پیسے.
1952 146 خطبات محمود پس اس کے دل میں قربانی کرنے سے انقباض پیدا ہوگا اور وہ خیال کرے گا کہ میں تو گھائے جی میں رہا.جب اس کے دل میں انقباض پیدا ہوگا تو اگر مومن ہوگا تو اُسے فور پتا لگ جائے گا کہ میرا ایمان کامل نہیں کیونکہ میں نے یہ نفع اپنے پاس سے نہیں دینا تھا بلکہ خدا تعالیٰ پر چھوڑا تھا کہ وہ جس کو چاہے میرے پاس لے آئے.خدا تعالیٰ اپنے حصہ کو پہلے لے آیا اور مجھے بُرا لگا.پس معلوم ہوا کہ میں خدا سے خوش نہیں.چنانچہ اگر اُس کے دل میں خدا تعالیٰ کا خوف ہوگا تو وہ لازماً اپنی اصلاح کی کوشش کرے گا اور جب وہ اپنی اصلاح کرلے گا تو خدا تعالیٰ اس کے پہلے سودے بھی اچھے کر دے گا اور اس کے بعد کے سودوں میں بھی برکت رکھ دے گا.اسی طرح میں نے تحریک کی تھی کہ خوشی کی مختلف تقاریب پر مسجد فنڈ کے لئے کچھ نہ کچھ دیتے رہنا چاہیئے.مثلاً کسی کی شادی ہوئی ہے تو وہ اس خوشی میں حسب توفیق کچھ چندہ مساجد کے لئے دے دے.کسی کے ہاں بچہ پیدا ہوا ہے تو وہ اس خوشی میں کچھ دے دے.کسی نے مکان بنا یا تی ہے یا بنوانے لگا ہے تو اس خوشی میں کچھ دے دے.اگر اس نے پانچ ہزار روپے میں مکان بنایا ت ہے تو پانچ دس روپے خدا کے گھر کے لئے دے دینا اس کے لئے کون سی بڑی بات ہے.ہمارا خدا ہم پر بے انتہا احسانات کرتا ہے مگر اس نے اپنا حصہ اتنا تھوڑا رکھا ہوا ہے کہ اگر انسان غوری کرے تو اسے شرم آجاتی ہے.چوبیس گھنٹہ میں نماز اور ذکر الہی پر جتنا وقت صرف ہوتا ہے اگر تم می اس کا حساب کرو تو تمہیں معلوم ہو گا کہ محض سونے کا وقت جس کے متعلق ہر شخص سمجھتا ہے کہ وہ کچھ ضائع چلا گیا ہے.وہ بھی نماز اور ذکر الہی کے وقت سے زیادہ ہے.غرض اور کام تو الگ رہے انسان کے سونے کا وقت بھی زیادہ ہے اور نماز روزے کا وقت اس کے مقابلہ میں بہت کم ہے.پس اللہ تعالیٰ نے اپنا حق بہت ہی چھوٹا کر کے رکھا ہے.اگر اس چھوٹے سے حق کے دینے میں بھی ہمارے دلوں میں انقباض پیدا ہو تو یہ ہماری بڑی بدقسمتی کی علامت ہے.کوشش تو ہماری یہ کی ہونی چاہیے کہ ہم اپنی ترقی کے قدم کو بڑھاتے چلے جائیں اور قربانیوں کے نئے نئے رستے سوچیں تا کہ ہمیں زیادہ سے زیادہ ثواب حاصل ہو.نہ یہ کہ جو رستے ہمارے سامنے آئیں اُن پر بھی چلنے کی ہم کوشش نہ کریں.صحابہ کی طرف دیکھو.حضرت ابو ہریرۃ جن سے ہزاروں حدیثیں مروی ہیں وہ آخری کی دنوں میں مسلمان ہوئے تھے.ان سے پہلے کوئی صحابی بارہ سال سے ایمان لا چکے تھے، کوئی چی
1952 147 خطبات محمود رض پندرہ سال سے ایمان لا چکے تھے، کوئی بیس سال سے ایمان لا چکے تھے.حضرت ابو ہریرہ ہے جب کی ایمان لائے تو انہوں نے دیکھا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اب بڑھاپے کی عمر میں ہیں اور زیادہ وقت گزر چکا ہے.چنانچہ انہوں نے قسم کھائی کہ میں اب مسجد میں ہی بیٹھا رہوں گا اور جب بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم باہر تشریف لائیں گے میں آپ کی باتیں سنوں گا.اس نے التزام کا نتیجہ یہ ہوا کہ گو وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سے صرف تین سال پہلے مسلمان حج ہوئے تھے مگر اس تین سالہ عرصہ میں چونکہ انہوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ساتھ نہیں چھوڑا اس لئے جتنی حدیثیں ابو ہریرہ سے مروی ہیں اتنی کسی پرانے سے پرانے صحابی سے بھی مروی نہیں.حالانکہ وہ دس دس پندرہ پندرہ سال پہلے ایمان لا چکے تھے.وجہ یہی تھی کہ وہ اور کام بھی کرتے رہتے تھے اور حضرت ابو ہریرۃ ہر وقت مسجد میں بیٹھے رہتے تھے.ایسے ہی لوگوں میں کی سے حضرت عبداللہ بن عمرؓ بھی تھے.خدا تعالیٰ نے ان کو ( غالباً) یہ فضیلت عطا فرمائی تھی کہ حضرت عمر ان کے باپ بعد میں مسلمان ہوئے تھے اور وہ خود پہلے مسلمان ہو چکے تھے.غالباً وہ چھوٹے بچے ہی تھے جب مسلمان ہو گئے.وہ بھی ہر وقت کوشش کرتے تھے ( گوابو ہریرۃ جتنی نہیں ) کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی باتیں سنیں اور ان پر عمل کریں.ย ایک دفعہ آپ حج کے لئے جا رہے تھے کہ لوگوں نے دیکھا کہ ایک جگہ پہنچ کر انہوں نے قافلہ ٹھہرا لیا اور راستہ سے ہٹ کر ایک مقام پر اس طرح کھڑے ہو گئے جس طرح کوئی شخص پیشاب کرنے کے لئے کھڑا ہوتا ہے اور پھر واپس آگئے.ایک ساتھی نے دیکھا کہ جہاں وہ چی کھڑے ہو گئے تھے وہاں پیشاب کا ایک قطرہ بھی نہیں گرا.اس پر اس نے پوچھا کہ آپ نے یہ کیا کیا ہے؟ ہم نے تو یہ سمجھا تھا کہ آپ کو پیشاب آیا ہوا ہے مگر وہاں تو ایک قطرہ بھی نہیں گرا.انہوں نے فرمایا اصل بات ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب فتح مکہ کے بعد حج کے لئے تشریف لے گئے تو یہاں آپ نے کھڑے ہو کر پیشاب کیا تھا.( معلوم ہوتا ہے وہ جگہ گندی تھی ہی اور انسان بیٹھ نہیں سکتا تھا ورنہ عام حالات میں کھڑے ہو کر پیشاب کرنا منع ہے ) جب میں یہاں کی سے گزرتا ہوں تو میرے دل میں خیال آتا ہے کہ چلو آپ کی اس سنت پر بھی عمل کر لوں.چنانچہ گوی مجھے پیشاب نہیں آیا تھا مگر میں نے کوشش کی کہ میں وہ کام کر لوں جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نے کیا تھا 4.
1952 148 خطبات محمود اب بظاہر ان کو دیکھنے والا یہی خیال کرے گا کہ بڑا سادہ لوح آدمی ہے کیونکہ اس میں کوئی کچھ خوبی نظر نہیں آتی.صرف محبت کی آنکھ سے دیکھنے والے کو خوبی نظر آسکتی ہے.جس کی محبت کی آنکھ کھلی ہوگی وہ وجد میں آ جائے گا اور کہے گا کیا عشق ہے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا.صحابہ کرام ہمیشہ یہ کوشش کیا کرتے تھے کہ انہیں جو بات بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی معلوم ہو اُس پر عمل کریں.پس کوشش تو ہماری یہ ہونی چاہیے کہ ہم نئے نئے راستے سوچیں جن سے ہم اسلام کی خدمت سرانجام دے سکیں اور جن سے زیادہ سے زیادہ دین کے قیام اور اس کی اشاعت میں مدد ملے نہ یہ کہ آسان ترین تدبیریں ہمارے سامنے آئیں اور ہم ان کو نظر انداز کر دیں.پس میں جماعت کے اُن دوستوں کو جور بوہ میں رہتے ہیں اس امر کی طرف توجہ دلاتا ہوں کہ ایک مہینہ گزر چکا ہے اور انہوں نے اس بارہ میں ابھی تک کوئی عملی قدم نہیں اٹھایا.اب نہ پچھلا مہینہ واپس آسکتا ہے، نہ پچھلے ہفتے واپس آسکتے ہیں اور نہ اس مہینے کا پہلا سو دایا ہر ہفتے کا پہلا سو دا وا پس آسکتا ہے.اب انہیں اپنے دل میں خود غور کرنا چاہیے کہ وہ اس کمی کا کس طرح ازالہ کر سکتے ہیں.اور اگر پہلی کمی کا ازالہ نہ کر سکتے ہوں تو کم سے کم آئندہ کے لئے ہی انہیں ہوشیار ہو جانا چاہیے.مزدوروں کے لئے بھی مہینہ کا پہلا دن مقرر ہے اور مستریوں اور لوہاروں کے لئے بھی مہینے کا پہلا دن مقرر ہے کہ ہر مہینہ کی پہلی تاریخ یا مہینہ کا کوئی اور دن مقرر کر کے ) اُس دن جو مزدوری مل جائے اُس کا دسواں حصہ مسجد فنڈ میں دے دیا کریں.تاجروں میں سے تھوک فروش تاجروں کے لئے یہ فیصلہ ہے کہ وہ ہر مہینہ کی پہلی تاریخ کا پہلاسو دا خدا تعالیٰ کے نام پر کریں اور اس کا منافع مسجد فنڈ کے لئے دے دیں.چھوٹے تاجر ہر ہفتہ کے دن کے پہلے سو دے کا منافع مسجد فنڈ میں دیا کریں.جن پیشہ وروں ، تاجروں اور مزدوروں وغیرہ نے ایک مہینہ ضائع کر دیا ہے اُن کا علاج بہر حال اُن کے ذمہ ہے.وہ خود سوچیں اور مافات کی تلافی کی کوشش کریں اور آئندہ کے لئے بہتر نمونہ قائم کریں تا کہ اس کا اثر بیرونی جماعتوں پر بھی پڑے کی اور وہ دیکھیں کہ ربوہ والوں نے اپنے عہد کو کس خوبی سے نباہا ہے.میں سمجھتا ہوں جوں جوں ہماری جماعت خدا تعالیٰ کے فضل سے ترقی کرتی جائے گی کروڑوں کروڑ روپیہ اس سکیم کے ماتحت ہر سال مسجدوں کے لئے جمع ہو جایا کرے گا.اب بھی اگر پوری تنظیم سے کام لیا جائے تو ساٹھ ستر بلکہ اسی ہزار روپیہ بڑی آسانی سے جمع ہوسکتا ہے.
1952 149 خطبات محمود ابھی ہمارے سامنے مختلف عیسائی ممالک میں مساجد تعمیر کرنے کا کام ہے.جیسے امریکہ ہے کہ وہاں مکان تو خرید لیا گیا ہے مگر ا بھی مسجد نہیں بنی اور مکان کا قرض بھی ابھی تک ادا نہیں ہوا.اسی طرح ہالینڈ میں ہم نے مسجد بنانی ہے گو یہ صرف عورتوں کے چندہ سے بنے گی.اسی طرح کی سوئٹزر لینڈ ہے ، جرمنی ہے، فرانس ہے ، سپین ہے یہ چار ممالک یورپ کے ایسے ہیں جہاں ہم نے مسجد میں بنانی ہیں.امریکہ کو بھی شامل کر لیا جائے تو پانچ ممالک بن جاتے ہیں.اگر ہم وہاں کی کے حالات اور اخراجات کو مدنظر رکھیں تو ان پانچ مساجد میں سے ہر مسجد پر اوسطاً ڈیڑھ ڈیڑھ کی لاکھ روپیہ خرچ ہو گا.یعنی بعض جگہ ایک لاکھ میں کام بن جائے گا، بعض جگہ سوا لاکھ خرچ آئے گا کی اور امریکہ میں تین لاکھ کا اندازہ ہے جس میں سے ڈیڑھ لاکھ خرچ ہو چکا ہے.بہر حال یہ پانچ جگہیں ایسی ہیں جہاں ہم نے سر دست مسجدیں بنانی ہیں اور جیسے میں نے بتایا ہے ان مساجد پر سات آٹھ لاکھ روپیہ کے خرچ کا اندازہ ہے.اگر ہماری ساری جماعت کا چندہ پچھتر ہزار روپیہ کے قریب ہو تو سمجھو کہ قریباً دس گیارہ سال میں جا کر یہ کام پورا ہوگا.لیکن حقیقت یہ ہے کہ اگر ہماری جماعت پورے زور سے اس کام کو شروع کر دے تو خدا اس دنیا میں بھی ہمارے گھر بڑھانے شروع کر دے گا.یعنی زیادہ سے زیادہ لوگ احمدیت میں داخل ہونے شروع ہو جائیں کی گے.یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ ایک قوم خدا تعالیٰ کے گھر دنیا میں بنا رہی ہو ، ایک قوم خدا تعالیٰ کی کے گھروں کو آباد کرنے کی کوشش کر رہی ہو اور صبح شام ان میں نمازیں پڑھتی اور انہیں ہر وقت آباد رکھتی ہو اور خدا اُس قوم کے افراد کے گھروں کو ویران کر دے.اگر تم اس بات کی کوشش کرو گے کہ خدا کا گھر ویران نہ ہو جائے تو کیا تم سمجھ سکتے ہو کہ خدا دشمنوں کو اس بات کی توفیق دے دے گا کہ وہ تمہارے گھروں کو ویران کر دیں ؟ وہ قوم جو خدا تعالیٰ کے گھر کو آباد رکھنے کی کوشش کرتی ہے معمولی مولوی اور ملا تو الگ رہے بڑی سے بڑی طاقتیں اور قو تیں بھی اگر اُن کی کے گھروں کو ویران کرنا چاہیں تو وہ ایسا نہیں کر سکتیں.گورنروں کی کوٹھیوں پر پولیس کا پہرہ ہوتا ت ہے، بادشاہوں کے محلات پر فوجیوں کا پہرہ ہوتا ہے لیکن ان کے گھروں کے دروازوں پر خدا کا پہرہ ہو گا.کوئی شخص پولیس کے پہرہ میں سے آگے نکل نہیں سکتا.اگر کوئی شخص فوج کے پہرہ میں سے آگے نکل نہیں سکتا تو کون ساماں کا بچہ ہے جو خدا کے پہرہ میں سے گزرنے کی طاقت رکھتا ہو.کی
1952 150 خطبات محمود پس ایک برکت کی چیز ہے جو خدا نے تمہارے سامنے رکھی ہے مگر اس سے فائدہ اٹھا نا تمہارا کام 1: رساله الوصیت روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 321 حاشیہ 2: بخاری کتاب الصلوة باب مَنْ بَنِى مَسْجِدًا ( الفضل 3 جون 1952ء) 3 مسلم كتاب المساجد باب استحباب الذكر بَعْدَ الصَّلوة (الخ) :4 اسد الغابۃ جلد 3 صفحہ 43 زیر عنوان عبد اللہ بن عمر بن الخطاب بیروت لبنان 2001ء
1952 151 (17) خطبات محمود اگر ہم کوشش کریں تو ہما را چندہ بہت بڑھ سکتا ہے اور ہمارا بار آسانی سے دُور ہوسکتا ہے (فرمودہ 23 مئی 1952ء) تشهد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: آج سائبان تو نظر آتے ہیں لیکن اب تک اس امر پر غور نہیں کیا گیا کہ مسجد کی عمارت اور سائبانوں کو کس طرح بچایا جائے.غالبا یہ تیسرا ہفتہ ہے جب میرے سامنے نظارت تعلیم و تربیت کی نے ایک تجویز پیش کی تھی لیکن آج بھی سائبان لگا دیئے گئے ہیں، رستے دیوار کے ساتھ باندھے ہیں ، ہوائیں آرہی ہیں اور سائبان اُڑ رہے ہیں.گزشتہ ہفتہ نظارت نے رپورٹ کی ہے کہ تین چی سائبان پھٹ گئے ہیں چنانچہ ایک سائبان سیا ہوا نظر آتا ہے لیکن وہ اُسی طرح کا سیا ہوا ہے جس طرح کسی اناڑی اور بے پروا شخص کا گر نہ پھٹ جائے تو وہ ہلمل میں لٹھا لگا لیتا ہے، لٹھے میں مکمل لگا لیتا ہے یا سفید کپڑے میں رنگ دار چھینٹ لگا لیتا ہے.سائبان پھٹے ہیں تو دو سوتی پر جو رنگ دار اور نقش و نگار والی ہے سفید کپڑ لگا دیا گیا ہے جو نہ اُس جتنا مضبوط ہے اور نہ دیکھنے میں اچھا معلوم ہوتا ہے.اصل چیز یہ ہے کہ اس کا صحیح علاج سوچا جائے.اگر اس چھوٹی سی چیز کو بھی تین ہفتہ میں نہیں سوچا گیا تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اسے قیامت تک نہیں سوچا جائے گا.اس کے بعد میں جماعت کو ایک اہم سوال کی طرف توجہ دلاتا ہوں اور وہ سوال ہے چندوں کی کی وصولی کا.الفضل میں اس ہفتہ چندوں کے متعلق ایک اعلان شائع ہوا ہے.یہ اعلان ایک ہی
1952 152 خطبات محمود ایسی جماعت کے متعلق ہے جو ساری زمیندار جماعتوں میں سے سب سے زیادہ آسودہ ہے.گوئی تعداد میں کم ہے لیکن اخلاص اور قربانی میں بہت اچھی ہے.اور وہ سرگودھا کے ضلع کی جماعت ہے.یہ اعلان پڑھا تو سب نے ہو گا لیکن جمعہ کے احترام کے طور پر میں یہ نہیں کہتا کہ بتاؤ کس شخص نے اس اعلان پر غور کیا ہے.میں سمجھتا ہوں کہ 99 فیصدی لوگ ایسے ہوں گے جنہوں نے اس اعلان کو دیکھا، اس پر نظر ڈالی اور چل دیئے لیکن اس قسم کا اعلان ایسا نہیں کہ اس پر غور نہ کیا جائے.اس لئے اس قسم کے اعلانات شائع کئے جانے چاہئیں.میرے منہ سے یہ نکلنے لگا تھا کہ اس قسم کے اعلانات شائع کئے جاتے ہیں.لیکن مجھے فوراً خیال آگیا کہ یہ بات غلط ہے.اصل کی میں یہی لفظ درست ہیں کہ اس قسم کے اعلانات شائع کرنے چاہئیں.اس لئے کہ اگر میں یہ کہتا تج کہ اس قسم کے اعلانات شائع کئے جاتے ہیں تو اس سے بیت المال کی براءت ہو گی حالانکہ ج حقیقت یہ ہے کہ بیت المال نے یہ اعلان شائع کر کے اپنے آپ کو مجرم بنا لیا ہے.اس لئے کہ اس نے اعلان کے نیچے میزان نہیں دی.جب پندرہ ہیں بائیس جماعتوں کا نقشہ شائع کیا جاتا ہے تو اس کی غرض یہ ہوتی ہے کہ ان کا آپس میں مقابلہ کیا جائے اور مقابلہ میز ان کے بغیر نہیں ہو سکتا.ہر انسان قلم پنسل لے کر نہیں بیٹھ سکتا اور نہ ہر انسان میں اتنا جوش ہوتا ہے کہ وہ اس قسم کے اعلانات پڑھ کر حساب لگائے.میں نے حساب لگایا تو آٹھ دس منٹ لگ گئے.پھر چونکہ میں کی نے زبانی حساب لگایا تھا اس لئے ہو سکتا ہے کہ اس میں کچھ غلطی رہ گئی ہو کیونکہ زبانی حساب لگانے میں بھول ہو جاتی ہے لیکن میں نے جو حساب لگا یا اگر چہ میں نہیں کہہ سکتا کہ وہ پورا صحیح تھا اس سے جو نتیجہ نکلا وہ نہایت خطر ناک تھا.نقشہ سے معلوم ہوتا ہے کہ تمیں ہزار روپیہ کی وصولی ہوئی ہے اور پینتالیس ہزار کی نادہندگی ہے.گو یا اتنی بڑی شاندار جماعت کی وصولی 40 فیصدی ہے.دوسری جماعتیں جو قربانی میں اس جماعت سے کم ہیں جن کو نہ تو اچھا امیر نصیب ہوا ہے اور نہ ان کی مالی حالت اچھی ہے اور نہ وہ قربانی کے جوش میں اچھے سمجھے جاتے ہیں ان کی وصولی تو 15، 20 یا 30 فیصدی ہوگی.یہ علامت نہایت خطرناک ہے.اور اس سے جو رنج کا پہلو پیدا ہوا ہے وہ یہ ہے کہ بہترین جماعتوں میں سے ایک جماعت صرف 40 فیصدی چندہ دیتی ہے.بلکہ حقیقت یہ ہے کہ
1952 153 خطبات محمود یہ حساب بھی غلط بنتا ہے.اس لئے کہ وصول شدہ چندہ میں سے 13 ہزار سات سو پچاس روپیہ کی رقم شہر سرگودھا کی ہے جس کا چندہ سو فیصدی ادا ہوا ہے.یعنی جتنے چندے کا وعدہ تھا جماعت نے وہ سو فیصدی دے دیا ہے.جس کے معنی یہ نکلتے ہیں کہ جماعت کا امیر تعہد سے کام لے رہا ہے اور جماعت کا جتنا حصہ اس کے قریب تھا اس سے اس نے پورا چندہ وصول کر لیا ہے.اب اگر 75 ہزار روپیہ میں سے 13 ہزار کی رقم نکال لی جائے تو 62 ہزار روپیہ کی رقم باقی رہ جاتی ہے.اور اگر 30 ہزار میں سے 13 ہزار روپیہ کی رقم نکال دی جائے تو 17 ہزار کی رقم باقی رہ جاتی ہے.اور کچھ وصولی شہر سرگودھا کو چھوڑ کر چالیس فیصدی نہیں ہوگی بلکہ اندازہ 26 فیصدی کے قریب آ جائے گا اور یہ اندازہ نہایت افسوسناک ہے.اس سے اس امر کی بھی تصدیق ہوتی ہے کہ میر.اندازے کے مطابق 25 لاکھ روپیہ چندہ وصول ہونا چاہیے اور موجودہ چندہ کی نسبت سے یہ بات قریب قریب درست نظر آتی ہے.اس وقت جماعت کا گل چندہ 11.1/2 لاکھ روپیہ ہے.اور اگر یہ فرض کر لیا جائے کہ یہ رقم گل چندہ کا 40 فیصدی ہے تو بجٹ 25 لاکھ روپیہ سالانہ تک پہنچ جاتا ہے.بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ بعض جماعتوں کی وصولی 40 فیصدی بھی نہیں.اگر ضلع سرگودھا کی جماعتوں میں سے سرگودھا شہر کی جماعت کو نکال دیا جائے تو یہ نسبت بھی قائم نہیں رہتی.سرگودھا کی جماعت نے سو فیصدی چندہ ادا کر دیا ہے.گو جلسہ سالانہ کے چندہ میں کچھ کمی کی ہے لیکن عام چندہ اور وصیت کا چندہ اس نے سو فیصدی ادا کر دیا ہے اور ایسی جماعتیں بہت کم ہوتی ہیں.شوری میں جو فہرست پیش ہوئی تھی اس سے یہ علم نہیں ہوسکتا تھا کہ کسی جماعت نے سو فیصدی چندہ ادا کر دیا ہے.لیکن اب جو فہرست ضلع سرگودھا کی جماعت کی چھپی ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ سرگودھا شہر اور ضلع سرگودھا کی تین چار اور جماعتیں ایسی ہیں جنہوں نے سو فیصدی چندہ ادا کر دیا ہے.اپنی جگہ پر یہ ایک نہایت عمدہ مثال ہے.لیکن جو نادہند ہیں انہوں نے بھی کی اپنی جگہ پر کمال کر دیا ہے.انہوں نے صرف دس ہیں یا تمہیں فیصدی چندہ دیا ہے.ایسی جماعتیں کی جنہیں میں مخلصوں کی جماعتیں سمجھتا تھا مثلاً چک نمبر 33 اور چک نمبر 35 کی جماعتیں ہیں.یا چک نمبر 38 چک نمبر 99 کی جماعتیں ہیں.لیکن سوائے چک 35 کے باقی جماعتوں کے چندہ کی وصولی نہایت خطرناک ہے.حالانکہ یہ سب لوگ مخلص ہیں ، پرانے قربانی کرنے والے ہی
1952 154 خطبات محمود اور مالدار ہیں.لائل پور کی جماعت سرگودھا کی جماعت سے تعداد میں بہت زیادہ ہے لیکن فی کس کی کے لحاظ سے اس کی مالی حالت اتنی اچھی نہیں، مالدار نہیں اور اس وجہ سے ہمیں اس کے حساب کی میں رعایت سے کام لینا پڑتا ہے.اس کے چندہ کا نقشہ ابھی شائع نہیں ہوا اس لئے نہیں کہہ سکتے کہ اس کا کیا حال ہے.ہمارے لئے اس اعلان میں ایک خوشی کا پہلو بھی ہے اور وہ یہ کہ ہمارے لئے موقع ہے کہ اگر ہم کوشش کریں تو ہما را چندہ بڑھ سکتا ہے اور ہمارا بار آسانی سے دور ہو سکتا ہے.اس سال گیارہ لاکھ اکاون ہزار روپیہ کا بجٹ بنا تھا.جس میں سے ہمیں ایک لاکھ بائیس ہزار روپیہ کا ناتنی پڑا یعنی گیارہ لاکھ اکاون ہزار کو دس لاکھ انتیس ہزار کرنا پڑا.اگر چندے پوری طرح وصول کی ہوتے تو بجٹ پچیس لاکھ روپیہ کا ہوتا.اور اگر یہ آمد ہوتی تو اس کے معنی یہ ہوتے کہ ہمیں کوئی رقم کاٹنے کی ضرورت نہ ہوتی.اور نہ صرف کوئی رقم کاٹنے کی ضرورت نہ ہوتی بلکہ سال کے اندراندر ہم اپنے قرضے اُتار لیتے.اگر پچپیس لاکھ روپیہ کی بجائے ہیں لاکھ روپیہ آمد بھی ہوتی تب بھی ہم اپنا خرچ پورا کرتے اور قرضے بھی اتار لیتے اور پانچ دس سال میں اعلیٰ درجہ کا ریز رو فنڈ قائم ہوکر ہماری اشاعتی حیثیت اور بڑھ جاتی.ہمارے پاس اس وقت سوا سو کے قریب مبلغ ہیں یا شاید مبلغین کی تعداد اس سے کچھ کم ہو.بہر حال یہ مبلغ کام کے لحاظ سے اس قد رتھوڑے ہیں کہ غیروں میں تبلیغ تو الگ رہی پاکستان کی جماعتوں کی نگرانی بھی نہیں ہو سکتی.مثلاً پاکستان میں ہماری انجمنیں 800 سے اوپر ہیں اور سوا سو مبلغین کے معنی ہیں کہ ہمارے مبلغین احمدی جماعتوں میں بھی نہیں پہنچ سکتے.فرض کرو ہمارے پاس ریز روفنڈ ہو اور پھر چھپیں تمھیں لاکھ روپیہ کا بجٹ ہو تو عملہ کی زیادتی تو بہت کم ہوگی ، خط و کتابت سکولوں اور کالج کے خرچ کی بھی بہت کم زیادتی ہوتی ہے.اگر عملہ کو ہم انتہا تک بھی پہنچا دیں تو ہمارا بجٹ اخراجات ساڑھے دس لاکھ روپیہ کی بجائے ساڑھے تیرہ لاکھ روپیہ کا ہو جائے گا.اگر ہماری آمد میں لاکھ روپیہ سالانہ بھی ہو تو ساڑھے چھ لاکھ روپیہ بچ گیا.اور اگر ایک سو روپیہ ماہوار فی مبلغ کا خرچ رکھ لیا جائے تو اس کے معنی یہ ہیں کہ پانچ سو مبلغ زائد کیا جا سکتا ہے.اگر کچھ روپیہ اشاعت کے لئے رکھ لوتو چار سو مبلغ ہی سہی.اگر چار سو مبلغ اور بن جائیں تو قریباً ایک سو جماعتوں
1952 155 خطبات محمود میں ایک مبلغ ہو جائے گا.اس طرح ہماری تبلیغ کتنی وسیع ہو جائے گی.گویا اگر جماعت اپنی ذمہ داری کو صحیح طور پر ادا کرے تو موجودہ جماعت چار سو مبلغ اور رکھ سکتی ہے.پھر جہاں چارسو مبلغ کام کر رہا ہو اور لٹریچر کی اشاعت بھی بڑھ جائے تو بیعت بھی زیادہ ہوگی اور اس طرح لاکھ دولاکھ روپیہ کی سالا نہ زیادتی ممکن ہے.اور چار پانچ سال کے اندر عظیم الشان تغیر پیدا ہوسکتا ہے.اگر ان کی اعداد و شمار کو سامنے رکھ کر کام کیا جائے تو حیرت ناک طور پر ترقی ہو سکتی ہے.بلکہ اگر جماعت تھی 80 فیصدی ذمہ داری بھی ادا کرے تو چار پانچ سال تک ہمارا سالانہ بجٹ تمہیں لاکھ روپیہ تک پہنچ جائے.اس طرح ہم بڑی تعداد میں مبلغ بھی رکھ سکتے ہیں اور پھر کافی لٹریچر بھی شائع ہوسکتا ہے ہے.اب ہمارا بجٹ گیارہ بارہ لاکھ کا ہے.اگر پچیس لاکھ کا بجٹ ہو جائے تو علاوہ مبلغ بڑھانے کی کے ہم پچاس ہزار روپیہ ماہوار کا لٹریچر شائع کر سکتے ہیں.اگر ہم زائد مبلغ رکھ لیں اور تین لاکھ روپیہ سالانہ کا لٹریچر شائع کریں تو ہماری آواز دس پندرہ لاکھ آدمیوں تک پہنچ جائے اور دس کی پندرہ لاکھ میں سے بیس تیس ہزار آدمی لے لینا کوئی مشکل امر نہیں.ہماری غفلت کا نتیجہ ہے کہ جماعت پوری طرح اپنی ذمہ داری کو ادا نہیں کر رہی.اگر یہ نقشہ غلط نہیں تو یہ بات میری سمجھ میں نہیں آتی کہ اس قسم کی مخلص جماعت جب کپاس کی قیمت 40، 40 روپیہ فی من تک پہنچی ہے.اگر 15، 16 فیصدی چندہ دیتی ہے تو جب قیمتیں گریں گی تو ان کا کیا حال ہو گا.یہ جماعت مخلصین کی ہے اور دولت کی فراوانی کے باوجود اگر چندہ میں کی ان کی حالت اتنی افسوسناک ہے تو دوسری جماعتوں کا کیا حال ہوگا.زمیندار کی اپنی گندم ہوتی ہے.دیہات میں گوشت ہوتا نہیں.گوشت کی ضرورت ہو تو مرغی انڈہ کھا کر لوگ گزارہ کر لیتے ہیں.یا کبھی کبھی کچھ آدمی اکٹھے ہو کر کوئی گائے یا بیل ذبح کر لیتے ہیں ورنہ دال ، ساگ ،گڑ ،شکر پر گزارہ کرتے ہیں.پھر دودھ، گھی اپنا ہوتا ہے، ایندھن اپنا ہوتا ہے اس طرح کھانے کا خرچ کی بہت کم ہوتا ہے.پھر آج کل دو اڑھائی ہزار روپیہ فی مربع اوسط آمدن ہے.سرگودھا کے ضلع میں بعض علاقے ایسے ہیں جن کی زمین ادنی ہے.باقی علاقوں کی زمین نہایت اعلیٰ ہے.اور وہاں 25 ، 25 ، 35 ، 35 من فی ایکڑ گندم ہوتی ہے.پھر بہترین زمین ہونے اور پانی کی زیادتی کی وجہ سے 110 فیصدی بلکہ بعض جگہوں میں 140 اور 150 فیصدی تک زمین بوئی جی
1952 156 خطبات محمود جاتی ہے.سندھ میں ہم 60 فیصدی تک زمین بو سکتے ہیں لیکن یہاں 110 فیصدی تک عام زمین بوئی جاتی ہے.لائل پور میں 150 فیصدی تک زمین بوئی جاتی ہے.گویا ایک ایکڑ کو سال میں ایک سے زیادہ چکر دیئے جاتے ہیں.ترکاریوں اور چارے وغیرہ کی فصلوں کو ملا لیا جائے تو سرگودها، لائل پور وغیرہ میں سال میں ایک ایکڑ سے دو فصل بلکہ بعض اوقات اس سے زیادہ فصل بھی لئے جاتے ہیں.جب ہم قیمت لگاتے ہیں تو 66 فیصدی کی لگاتے ہیں لیکن جو شخص 150 یا 160 فیصدی زمین بوتا ہے وہ تو دُگنی آمد پیدا کر لیتا ہے.بلکہ در حقیقت وہ اس سے بھی زیادہ کی آمد پیدا کر لیتا ہے کیونکہ جو اندازہ ہم نے 66% کاشت کا لگایا ہے اس میں خرچ اکثر شامل تھی ہو گئے ہیں.مثلاً کام کرنے والے کی مزدوری اور بیل وغیرہ کا خرچ جو سب سے بڑا ہے ہم نے شامل کر لیا ہے.پس اس سے اوپر کی آمد زائد آمدن ہوگی.خرچ اس میں سے نہ نکالا جائے گا.بظا ہر حالات آئندہ کپاس کی قیمت چھپیں تمیں روپیہ فی من تک آ جائے گی.لیکن جن لوگوں نے اُس وقت سستی کی جب کپاس کی قیمت 40، 50 روپیہ فی من تھی جب کپاس کی قیمت 25 ، 30 روپیہ فی من پر آگئی تو ان کا کیا حال ہوگا.میں سرگودھا کی جماعت کو توجہ دلاتا ہوں کہ ایک زمانہ تھا جب کپاس کی قیمت دس پندرہ روپیہ فی من تھی.اُس وقت قربانی میں تم پیچھے نہیں تھے.تمہارے اندر اُس وقت اخلاص پایا جاتا تھا.جب تمہاری آمدن موجودہ آمد سے ایک چوتھائی تھی اُس وقت تم اپنا بوجھ اٹھاتے تھے پھر کیا وجہ ہے کہ تم آب سستی کر رہے ہو.اس وقت جبکہ مرکز تمہارے قریب آ گیا ہے اگر چہ مرکز ضلع جھنگ کی میں ہے لیکن دراصل یہ سرگودھا کا ہی ایک حصہ ہے کیونکہ یہ چناب کے پار ہے.اور اس طرف ضلع جھنگ کی صرف ایک سب تحصیل ہی ہے.پس با وجود اس کے کہ مرکز تمہارے قریب ہے، با وجود اس کے کہ تنظیم بہتر ہوگئی ہے کیونکہ پہلے امراء اور افسر اس قدر اعلیٰ درجہ کی قربانی کرنے والے نہیں تھے جتنی قربانی کرنے والے افسر آب ہیں.اگر آپ کے چندہ کی نسبت 10 فیصدی یا تی پندرہ فیصدی تک آگئی ہے تو یہ نہایت خطرہ کا مقام ہے.تم اپنی اصلاح کرو اور قربانی کی صحیح روح کی اپنے اندر پیدا کرو.اور ہر جماعت کو سو فیصدی کی جگہ ایک سو دس یا ایک سو بیس فیصدی مرزا عبد الحق صاحب امیر جماعت سرگودھا مجھے اس کے بعد ملے اور انہوں نے بتایا کہ یہ نقشہ غلط چھپا ہے.اس میں سالہا سال گزشتہ کے بقائے بھی درج کر دیئے گئے ہیں.اصل میں وصولی بیاسی فیصدی ہے
1952 157 خطبات محمود چندہ ادا کر نے کی کوشش کرنی چاہیے.جیسا کہ میں نے بتایا ہے ہمارے لئے خوشی کا مقام بھی ہے کیونکہ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ہماری آمد زیادہ ہونے کے امکانات بہت ہیں.بیت المال کو اس طرف توجہ کرنی چاہیے.ان کی کا اعلان انہیں خود مجرم بنا رہا ہے.اول اس لئے کہ انہوں نے نقشے کے نیچے میزان نہیں دی.اگر ان نقشوں سے ان کی غرض یہ تھی کہ جماعتوں کا آپس میں مقابلہ کیا جائے تو انہیں میزان دینی ج چاہیے تھی.دوسرے جب انہیں مرض کا پتا لگ گیا تھا، جب انہیں معلوم ہو گیا تھا کہ خطرہ ظاہر ہے تو پھر وہ اسے دور کرنے کی کیا کوشش کر رہے ہیں.اب تو ناظر بھی تین ہیں.تین ناظروں کے باوجود انہوں نے کیا کیا ہے.عملہ بڑھ جانے کے باوجود اور پھر گریڈوں میں ترقی کے باوجود می وصولی اس قدرکم ہے کہ سب سے اچھے ضلع میں وصولی چند 0 40 فیصدی ہے پھر میں دیکھتا ہوں کہ شہری جماعت سے چندہ کی وصولی بآسانی ہو جاتی ہے لیکن کراچی اور لاہور کی آمد 60 ، 70 فیصدی ہے.سرگودھا شہر کی جماعت نہایت اچھی ہے.اس نے سو فیصدی چندہ ادا کر دیا ہے.پھر ضلع کی تین چار اور جماعتیں بھی ایسی ہیں کہ انہوں نے سو فیصدی چندہ ادا کر دیا ہے.یہ نقشہ اتفاقی طور پر شائع کیا گیا ہے ورنہ جماعت کے امراء کا اپنا کام ہے کہ وہ مرکز سے اس قسم کے نقشے منگوایا ای کریں کہ اُن کے ضلعوں کی جماعتوں کی وصولی کیا ہے.پھر اخباروں میں ایسے نقشے شائع کئے جائیں تا جماعتوں کا آپس میں مقابلہ ہو اور تا افراد کو اپنی اصلاح کا خیال رہے.اس جماعت میں بیداری پیدا ہوتی ہے.میں پھر کہوں گا کہ سب سے زیادہ ذمہ داری مرکز پر ہوتی ہے.ربوہ کو باقی جماعتوں کے کی سامنے اپنا اعلیٰ نمونہ پیش کرنا چاہیے.پچھلے دنوں میں نے تحریک کی کہ پریذیڈنٹ صاحبان ربوہ کی جماعت کے ایسے افراد کی فہرست تیار کریں جن کی عمر بارہ سال سے اوپر ہے.اس پر جنرل پریذیڈنٹ صاحب میرے پاس ایک نقشہ بنا کر لائے.میں نے اس پر جرح کی اور کہا کہ بقیہ حاشیہ: سوالحَمدُ لِلهِ کہ اس جماعت کا ایساست حال نہیں جیسا کہ ناظر بیت المال نے ظاہر کیا.ایسا نقشہ اس بے احتیاطی سے شائع کرنا اور جماعت کو صدمہ پہنچانا نہایت افسوس ناک امر ہے اور ایک بہت بڑا گناہ ہے.مگر پھر بھی کمی ، کمی ہے.ہی میں بتا چکا ہوں کہ اس میں بھی نظارت بیت المال کی غلطی ہے.وصولی بیاسی فیصدی ہے.
1952 158 خطبات محمود اس قسم کا نقشہ آنا چاہیے.اس کے بعد تین ہفتے گزر گئے ہیں وہ نقشہ دوبارہ پیش نہیں کیا گیا.مجھے پریذیڈنٹ صاحب نے یہ سمجھ لیا کہ یہ نقشہ بنا کر میں نے اپنی زندگی کا مقصد پورا کر لیا ہے.اگر وہ حج کام کر رہے ہیں تو ایسے کام کے لئے تین ہفتہ کی دیر معقول نہیں.تین چار دن کی مہلت کافی تھی.اور کی اگر وہ تین چار دن میں وہ کام نہیں کر سکتے تھے تو انہیں ساتھ ساتھ رپورٹ کرتے رہنا چاہیے تھا.اگر وہ رپورٹ پیش کرتے رہتے تو اس کے معنی تھے کہ کوئی روک پیدا ہو گئی ہے جس کی وجہ سے وہ کام پورا نہیں کر سکے.ویسے وہ کام کر رہے ہیں لیکن دیر کرنا اور پھر اس کی رپورٹ نہ کرنا افسوسناک امر ہے.میں جب سے خلیفہ ہوا ہوں جماعت کو اس امر کی طرف توجہ دلا رہا ہوں کہ دیر کا ہونا بُری کی بات نہیں ، بعض دفعہ مجبوری ہوتی ہے.لیکن اگر تین چار دن سے زیادہ دیر لگتی ہے تو اس کی رپورٹ دیتے رہنا چاہیے.اگر میں دریافت کروں کہ تم نے دیر کیوں لگا دی ہے؟ تو یہ جائز ، درست اور ضروری اثر مجھ پر پڑے گا کہ تم غافل ہو.لیکن اگر تم رپورٹ کرتے رہو گے کہ فلاں کی وجہ سے دیر ہو رہی ہے تو میں سمجھوں گا کہ بعض مشکلات ہیں جن کی وجہ سے ابھی تک کام مکمل نہیں ہوا.گویا میرا پوچھنا تمہیں مجرم ثابت کرتا ہے لیکن تمہارا رپورٹ کرنا ایک حد تک یہ ثابت کرتا ہے کہ تم صحیح طور پر کام کر رہے ہو اور میرے لئے یہ موقع ہوگا کہ میں محنتی اور غیر محنتی میں فرق کر سکوں.اگر تم رپورٹ نہیں کرتے تو اس کے لازمی معنی ہیں کہ تم اپنے کام کی طرف توجہ نہیں کرتے اور سمجھتے ہو کہ کام ہو گیا تو ہو گیا اور میں بھول جاؤں تو اچھی بات ہے.امر مُشَارٌ إِلَيْهِ میں تین ہفتے ہو گئے.ابھی تک رپورٹ نہیں آئی.جس سے میں یہ سمجھنے پر مجبور ہوں کہ انہوں نے یہ خیال کیا کہ ان پر پہلی رپورٹ کا یہ اثر ہے کہ کام ہو گیا ہے ان کے پاس سینکڑوں کام ہیں وہ بھول گئے ہوں گے انہیں یاد کرانے کی کیا ضرورت ہے.یہ طریق نہایت افسوسناک ہے.میرا تجربہ ہے کہ میں کام کی بات نہیں بھولا کرتا.اس لئے ان کا یہ ٹرک (Trick ) ان کے لئے فائدہ مند نہیں.میرا حافظہ اپنی ذات میں کمزور ہے میں کوئی لمبی چیز یاد نہیں کر سکتا.میں نے کئی شاعروں کے شعر پڑھے ہیں لیکن شاید مجھے چھے سات شعر یاد ہوں.قرآن کریم ہزاروں دفعہ پڑھا ہے لیکن جب ضرورت پڑے مجھے آیت کا آدھا ٹکڑا یا درہتا ہے اور آدھا نہیں اور میں کسی حافظ سے پوچھتا ہوں بتائیے یہ آیت کیا ہے؟ لیکن واقعات میں نہیں بھولا کرتا.میرے پاس ڈاک آتی ہے بعض اوقات پرائیوٹ سیکرٹری دس دس پندرہ پندرہ دن کے بعد بعض خطوط کا خلاصہ پیش کرتے ہی
1952 159 خطبات محمود ہیں اور میں کہہ دیتا ہوں یہ بات غلط ہے.اصل خط میں یہ بات نہیں.اور جب وہ خط لایا جاتا ہے ہے تو وہ واقعی غلط خلاصہ ہوتا ہے.میرے ساتھ کام کرنے والے جانتے ہیں کہ جو واقعات سے تعلق رکھنے والا امر ہو.اُس کے متعلق خدا تعالیٰ نے مجھے غیر معمولی حافظہ دیا ہے ورنہ دوسری ج باتوں میں میرا حافظہ کمزور ہے.ممکن ہے کہ ایک دن مجھے ذھول ہو جائے لیکن وہ بات میرے ج دماغ کی لائبریری میں محفوظ رہتی ہے اور وہ پھر باہر نکال دیتی ہے اور دو چار دن کے بعد مجھے وہ بات یاد آ جاتی ہے.غرض یہ ایک ضروری امر ہے کہ ربوہ کے کارکنوں کی اصلاح ہو جائے.یہ اگر درست ہو جائیں تو اس کا اثر دوسری جماعتوں پر بھی پڑے گا.میرا اپنا اندازہ ہے کہ ربوہ کی جماعت کا ایک لاکھ چندہ ہونا چاہیے.شاید تمہاری نظر میں یہ عجیب بات ہو.لیکن در حقیقت یہ عجیب بات نہیں ساٹھ ہزار روپے کابل صدر انجمن احمدیہ کا ہوتا ہے اور سولہ ہزار کے قریب تحریک جدید کا بل ہوتا ہے اور آٹھ ہزار روپیہ کا مشترک بن کر آتا ہے.کارکنوں کے چندہ کی کٹوتی بلوں میں ہوتی ہے.اسی کی طرح 80 ہزار روپیہ چندہ آجاتا ہے.باقی جو آزا د لوگ ہیں ، تاجر ہیں، پیشہ ور ہیں ، ہمیں ہزار کے قریب ان کا چندہ ہونا چاہیے.اس سے کم نہیں زیادہ ہونا چاہیے.گویا صرف ربوہ کا چندہ ایک لاکھ روپیہ سے کم نہیں ہونا چاہیے.لیکن اس طرف توجہ نہیں کی جاتی جس کی وجہ سے اس میں کمی آجاتی ہے.حقیقت یہ ہے کہ صدر انجمن احمدیہ کا سالانہ بجٹ 20، 30 لاکھ روپیہ سے کم نہیں ہونا چ چاہیے اور ادھر تحریک جدید کا سالانہ بجٹ چھ لاکھ روپیہ سے کم نہیں ہونا چاہیے.لیکن یہ بجٹ بھی بہت کم ہے اور وہ بجٹ بھی بہت کم ہے.تحریک جدید کے دونوں دفتروں کے چندے ملا کر چار لاکھ سالانہ ہوتا ہے اور صد را منجمن احمدیہ کا دس گیارہ لاکھ روپیہ کا بجٹ ہے.بیرونی جماعتوں کا چندہ اس کے علاوہ ہے.ربوہ کے کارکنوں کو اس طرف توجہ کرنی چاہیے.مرکز میں جب کوئی عہد یدار مقرر ہوتا ہے ہے تو اُس کے لئے یہ بات ابتلاء کا موجب بھی ہوتی ہے.کیونکہ وہ خدا تعالیٰ کے محاسبہ میں آ جاتا ہی ہے.مرکز میں عہد یدار مقرر ہونا آسان امر نہیں.مرکز میں جو عہد یدار مقرر ہوتا ہے اُس پر زیادہ ذمہ داری ہوتی ہے.جب تک مرکز کے عہد یدار اپنا نمونہ پیش نہ کریں لوگ ٹھوکر کھا جاتے ہیں.کی وہ مرکز کی مثال پر چلنے کی کوشش کرتے ہیں.تم لوگوں نے سو فیصدی چندہ ادا نہیں کیا لیکن
1952 160 خطبات محمود سرگودھا شہر اور سرگودھا ضلع کی چار پانچ اور جماعتوں نے سو فیصدی چندہ ادا کر دیا ہے.اب یہ کتنے شرم کی بات ہے کہ ربوہ کو کہا جائے کہ تم سرگودھا، خوشاب یا کسی اور گاؤں کے پیچھے چلو اور اُس سے نمونہ حاصل کرو.ہاں یہ کہنا درست ہے کہ اے لوگو! تم ربوہ کے پیچھے چلو.اگر تم سو فیصدی چندہ ادا نہیں کرتے تو یہ بات دوسری جماعتوں کے لئے ٹھوکر کا موجب ہوگی.پس تم دوسری جماعتوں کے سامنے اپنا نمونہ پیش کرو.اور زیادہ سے زیادہ کام کرو تا تبلیغ کے کام کو وسیع کیا جائے اور لٹریچر کی اشاعت کو زیادہ کیا جائے.اگر تم غفلت سے کام لیتے ہو تو دوسرے لوگ بھی غافل ہو جائیں گے اور اس طرح تم اپنا کام وسیع نہیں کر سکو گے.دشمن شرارتوں میں بڑھتا جائے گا اور اس کا علاج تمہاری طاقت سے باہر ہو جائے گا.“ ( الفضل 12 جون 1952ء)
1952 161 (18) خطبات محمود خوش قسمت ہیں وہ لوگ جو رمضان المبارک میں اللہ تعالیٰ کی رحمتوں اور فضلوں سے فائدہ اٹھاتے ہیں فرموده 30 مئی 1952ء بمقام ربوہ ) تشہد ، تعوذ اورسورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: یہ مہینہ رمضان کا ہے اور آج اس پر پانچواں دن گزر رہا ہے.چونکہ گزشتہ مہینہ میں دن کا ہو اتھا اس لئے اگر رؤیتِ ہلال میں کوئی غلطی نہیں ہوئی تو پھر یہ رمضان کا مہینہ 29 دن کا ہوگا.کیونکہ میں تھیں دن کے دو مہینے جمع نہیں ہوا کرتے.پس آج کے بعد رمضان کے 24 دن رہ گئے ہیں اور آج پہلا جمعہ رمضان کا ہے.جمعہ اور رمضان کو آپس میں ایک مشابہت حاصل ہے اور وہ یہ کہ جمعہ بھی قبولیت دعا کا دن کی ہے اور رمضان بھی قبولیت دعا کا مہینہ ہے.جمعہ کے متعلق رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ اگر کوئی شخص نماز کے لئے مسجد میں آجائے اور خاموش بیٹھ کر ذکر الہی میں لگا رہے، امام کا انتظار کرے اور بعد میں اطمینان کے ساتھ خطبہ سنے اور نماز باجماعت میں شامل ہو تو اس کے لئے خاص طور پر خدا تعالیٰ کی برکات نازل ہوتی ہیں 1 اور پھر ایک گھڑی جمعہ کے دن ایسی بھی کی آتی ہے کہ جس میں انسان جو دعا بھی کرے قبول ہو جاتی ہے.2ے قانونِ الہی کے ماتحت اس حدیث کی یہ تعبیر تو ضرور کرنی پڑے گی کہ وہی دعائیں قبول ہوتی ہیں جو سنت اللہ اور قانونِ الہی کے مطابق ہوں.لیکن جہاں یہ بہت بڑی نعمت ہے وہاں یہ آسان امر بھی نہیں.جمعہ کا وقت قریباً
1952 162 خطبات محمود دوسری اذان سے یا اس سے کچھ دیر پہلے سے شروع ہو کر نماز کے بعد سلام پھیر نے تک ہوتا ہے.اگر یہ دونوں وقت ملالئے جائیں اور خطبہ جمعہ چھوٹا بھی ہو تو یہ وقت آدھا گھنٹہ ہو جاتا ہے اور اگر خطبہ لمبا ہو جائے تو یہ وقت گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹہ بھی ہوسکتا ہے.اس ایک گھنٹے یا ڈیڑھ گھنٹے میں کی ایک گھڑی ایسی آتی ہے کہ جب انسان کوئی دعا کرے تو وہ قبول ہو جاتی ہے.لیکن اس نوے منٹ کے عرصہ میں انسان کو یہ علم نہیں ہوتا کہ آیا پہلا منٹ قبولیت دعا کا ہے، دوسرا منٹ قبولیت دعا کا ہے یا تیسرا منٹ قبولیت دعا کا ہے.یہاں تک کہ 90 منٹ کے آخر تک انسان کسی منٹ کے متعلق بھی یہ نہیں کہہ سکتا کہ وہ قبولیت دعا کا وقت ہے.گویا وہ گھڑی جس میں ہر دعا قبول ہوتی ہے 90 منٹ میں تلاش کرنی پڑے گی.اور وہی شخص قبولیت دعا کا موقع تلاش کرنے میں کامیاب ہو سکے گا جو برابر 90 منٹ تک دعا کرتا رہے.اور 90 منٹ تک برابر دعا میں لگے رہنا اور توجہ کو قائم رکھنا ہر ایک کا کام نہیں.بعض لوگ تو پانچ منٹ تک بھی اپنی توجہ قائم نہیں رکھ سکتے.مثلاً میں اس وقت نماز کے لئے آیا ہوں.انسان اِدھر اُدھر نظر مارتا ہی ہے.میں نے خطبہ سے پہلے بعض لوگوں کو دیکھا ہے کہ وہ سنتیں پڑھ رہے تھے اور یکدم ان کی کج آنکھ ادھر ادھر جا پڑتی تھی.سنتوں پر ڈیڑھ دو منٹ لگتے ہیں مگر اس تھوڑے سے وقت میں بھی وہ ج کبھی دائیں دیکھتے تھے کبھی بائیں دیکھتے تھے کبھی زمین کی طرف دیکھتے تھے کبھی آسمان کی طرف دیکھتے تھے.جب ڈیڑھ دو منٹ تک توجہ کو قائم رکھنا مشکل ہے تو نوے منٹ تک دعا کرتے رہنا، ذکر الہی میں لگے رہنا اور توجہ کو ایک ہی طرف قائم رکھنا آسان امر نہیں ہوسکتا.پس بظاہر یہ آسان بات نظر آتی ہے.چنانچہ بعض لوگ کہتے بھی ہیں کہ یہ کتنا آسان گر ہے لیکن باوجود اس کے کہ یہ آسان گر ہے دس ہزار تو کیا دس لاکھ میں سے ایک آدمی بھی ایسا نہیں جو اس وقفہ میں دعا قبول کرانے کی کوشش کرتا ہو.اگر ہر ایک سے پوچھا جائے کہ تم نے اپنی 20، 30، یا 40 سال کی عمر میں کتنی دفعہ اس موقع پر دعا قبول کرانے کی کوشش کی ہے؟ تو غالباً 99 فیصدی بلکہ 99.3/4 فیصدی ایسے لوگ نکلیں گے جو کہیں گے ہمیں تو کبھی اس کا خیال ہی نہیں آیا.ہو سکتا ہے کہ کوئی کہہ دے میں نے دعا مانگی ہے لیکن کو ئی شخص یہ نہیں کہہ سکتا کہ اس نے اس گھڑی کو پکڑنے کی کوشش کی ہے.غرض اس مبارک گھڑی کو پکڑنے کے لئے ضروری ہے کہ انسان خطبہ کے شروع سے نماز
1952 163 خطبات محمود کے ختم ہونے تک برابر دعا میں لگا رہے.کہنے ک تو ہر شخص کہہ سکتا ہے کہ یہ بڑا آسان گر ہے لیکن ج حقیقت یہ ہے کہ جس چیز کو گر کہا جاتا ہے کروڑوں میں سے ایک شخص بھی اسے پورا کرنے کی ا کوشش نہیں کرتا.بہر حال یہ دن بھی اُن دنوں میں سے ہے جن میں دعا قبول ہوتی ہے.ادھر رمضان کے متعلق خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ ان ایام میں دعائیں قبول ہوتی ہیں.جو لوگ راتوں کو اٹھتے ہیں خدا تعالیٰ ان کے قریب ہو جاتا ہے اور ان کی مشکلات کو دور کر دیتا ہے.غرض رمضان کے ایام بھی ایسے ہیں جن میں دعائیں قبول ہوتی ہیں خصوصاً لیلتہ القدر میں دعاؤں کی قبولیت کا قرآن کریم کی میں وعدہ کیا گیا ہے.اس رات کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے لَيْلَةُ الْقَدْرِ خَيْرٌ مِنْ أَلْفِ شَهْرٍ تَنَزَّلُ الْمَليكَةُ وَالرُّوحُ فِيهَا بِإِذْنِ رَبِّهِمْ مِنْ كُلِّ اَمْرِفُ سَلَمُ هِيَ حَتَّى مَطْلَعِ الْفَجْرِ - 3 یعنی سورج ڈوبنے سے لے کر صبح تک کلام الہی لانے والے فرشتے اترتے رہتے ہیں.سلامتی ، رحمتیں اور برکتیں بنی نوع انسان پر چھا جاتی ہیں.غرض جمعہ اور رمضان دونوں اپنے اندر برکتیں رکھتے ہیں.لیکن اگر جمعہ اور رمضان دونوں جمع ہو جائیں تم سمجھ سکتے ہو کہ اُس وقت کتنی برکات کا اجتماع ہو جائے گا.آج جمعہ بھی ہے اور رمضان بھی ہے.پنجابی میں مثل ہے.”چپڑی پھر دو دو اور کیا چاہیے.ہمارا ملک غریب تھا کی لوگ سمجھتے تھے کہ چپڑی ہوئی روٹی ایک ہی مل سکتی ہے دو نہیں.اس لئے یہ مثل بن گئی کہ روٹی تھی چپڑی ہوئی ہو اور پھر دو دومل جائیں تو اور کیا چاہیے.اگر ایک شخص کو دو چپڑی ہوئی روٹیاں مل کی جاتی ہیں تو وہ کہتا ہے مجھے اور کیا چاہیے.اسی طرح جسے قبولیت دعا کے دو مواقع مل جائیں اسے اور کیا چاہیے.رمضان کی اس دفعہ بندش کچھ ایسی ہے کہ اس میں چار جمعے آئیں گے.بعض سالوں میں رمضان میں پانچ پانچ جمعے بھی آ جاتے ہیں.مثلاً مہینہ جمعہ یا ہفتہ سے شروع ہو گیا تو اس میں پانچ جمعے بھی آجاتے ہیں.لیکن اس سال رمضان میں پانچ جمعے نہیں آئیں گے چار آئیں گے اور ان کے علاوہ باقی ایام بھی برکت والے ہوتے ہیں.ضرورت اس بات کی ہوتی ہے کہ انسان ان ایام سے فائدہ اٹھائے.کئی لوگ ہوتے ہیں کہ ان پر برکتوں کے دن آتے ہیں لیکن وہ ان سے فائدہ اٹھانے کی توفیق نہیں رکھتے.مثلاً نا بالغ بچے ہیں ان پر روزے فرض نہیں اور نہ وہ روزے رکھ سکتے ہیں.یا بوڑھے ہیں ان کے قومی انہیں جواب دے چکے ہوتے ہیں.کتی
1952 164 خطبات محمود روزے ان پر فرض بھی نہیں اور وہ رکھتے بھی نہیں.یا مثلاً بیمار ہیں ان کی قوت مضمحل ہو چکی ہوتی ہے اور روزہ رکھنے سے خدا تعالیٰ نے انہیں منع فرمایا ہے.لیکن کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جن کو ان ایام سے فائدہ اٹھانے کی توفیق بھی حاصل ہوتی ہے اور ان میں روزہ رکھنے کی طاقت بھی ہوتی ہے اور ماحول بھی ایسا ہوتا ہے جو انہیں روزہ رکھنے پر مجبور کرتا ہے.لیکن خدا تعالیٰ کے اس کی فضل اور احسان سے کہ جو بیمار ہیں وہ روزہ نہ رکھیں وہ ناجائز فائدہ اٹھاتے ہیں اور بیمار بن جاتے ہیں.لوگ کہتے ہیں کہ تم سوئے ہوئے کو تو جگا سکتے ہو لیکن جو مچلا بنتا ہے اور وہ جاگنا نہیں کی چاہتا اسے نہیں جگا سکتے.اس لئے کہ سوئے ہوئے شخص کو یہ پتا نہیں ہوتا کہ کوئی شخص اسے جگا رہا ہے اس لئے جو نہی تم اسے ہاتھ لگاؤ گے وہ جاگ اٹھے گا.لیکن جو جان بوجھ کر سویا ہوا بنتا ہے اسے علم ہوتا ہے کہ کوئی شخص اسے جگا رہا ہے اس لئے وہ نہیں جاگے گا.اسی طرح جو لوگ بیمار بنتے ہیں اور خدا تعالیٰ کے اس فضل اور احسان سے جو بیماروں پر ہے ناجائز فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتے ہیں ان کا تو کوئی علاج ہی نہیں.لیکن کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ خدا تعالیٰ نے انہیں صحت دی ہوتی ہے، ایمان دیا ہوتا ہے وہ رمضان کی قدر و وقعت کو سمجھتے ہیں پھر وہ روزہ رکھنے کا ارادہ رکھتے ہیں.ایسے لوگوں کے لئے ایک مہینے کے برابر لمبی سرنگ آجاتی ہے جس میں سے گزرتے ہوئے وہ خدا تعالیٰ کے فضلوں کو حاصل کر لیتے ہیں اور خدا تعالیٰ سے اپنی وہ کی دعا ئیں منواتے ہیں جن کو قبول کروانے کی صورت پہلے نظر نہیں آتی تھی.یہ لوگ جب رمضان منی میں داخل ہوتے ہیں تو ان کی حالت اور ہوتی ہے اور جب رمضان سے نکلتے ہیں تو ان کی حالت اور ہوتی ہے.بعض دفعہ وہ رمضان کے مہینے میں ننگے داخل ہوتے ہیں اور خدا تعالیٰ کی عطا کی ج ہوئی خلعتوں سے لدے ہوئے نکلتے ہیں.بعض دفعہ وہ روحانی بیماریوں سے مضمحل اور خمیدہ کمر کے ساتھ رمضان میں داخل ہوتے ہیں لیکن چست و چالاک اور تندرست شخص کی شکل میں نکلتے ہیں.کئی لوگ روحانی طور پر اندھے ہوتے ہیں لیکن سجا کھے ، دیکھنے والے اور تیز نظر والے نکلتے ہیں.کئی لوگ دل کے جذامی اس مہینہ میں داخل ہوتے ہیں لیکن جب یہ مہینہ ختم ہوتا ہے تو ان کے چہروں پر خوبصورتی ، رعنائی اور شادابی کا منظر ہوتا ہے جسے ہر شخص دیکھتا ہے اور واہ واہ کرتا ہے.پس خوش قسمت ہیں وہ لوگ جو اس کی رحمتوں اور فضلوں سے فائدہ اٹھاتے ہیں.اور
1952 165 خطبات محمود بد قسمت ہیں وہ لوگ جن کے لئے خدا تعالیٰ خود اپنی رحمتوں اور برکتوں کے دروازے کھولتا اور وہ منہ پھیر لیتے ہیں اور ان سے فائدہ اٹھانے کی کوشش نہیں کرتے.اللہ تعالیٰ ان پر بھی فضل کرے جو خدا تعالیٰ کی برکتوں اور رحمتوں سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتے ہیں اور ان کو بھی ہدایت دے جو اپنی طبعی نابینائی کی وجہ سے اس کی رحمتوں اور فضلوں سے فائدہ نہیں اٹھاتے.“ افضل 17 جون 1952ء) 1 بخارى كتاب الجُمُعَة باب الدُّهُنُ لِلْجُمُعَةِ.2: بخارى كتاب الجُمُعَةِ بَاب السَّاعَةِ الَّتِي فِي يَوْمِ الْجُمُعَةِ.3: القدر 4 تا 6
1952 166 (19) خطبات محمود رمضان بڑی برکتیں لے کر آتا ہے.مومن کو چاہیے کہ اس سے فائدہ اُٹھائے ( فرموده 6 جون 1952ء بمقام ربوہ ) تشهد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے مندرجہ ذیل آیت قرآنیہ کی تلاوت فرمائی: يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِينَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ ) - 1 اس کے بعد فرمایا : آج رمضان کا دوسرا جمعہ ہے.قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے روزوں کی طرف توجہ دلاتے ہوئے مسلمانوں کو پہلے اس بات کی طرف توجہ دلائی ہے کہ يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمُ القِيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِينَ مِنْ قَبْلِكُمْ.دنیا میں بعض تکلیفیں ایسی ہوتی ہیں جو منفرد ہوتی ہیں.اکیلے انسان پر آتی ہیں اور وہ ان سے گھبراتا ہے ، شکوہ کرتا ہے کہ میں ان کی تکالیف کے برداشت کرنے کی طاقت نہیں رکھتا.لیکن بعض تکلیفیں ایسی ہوتی ہیں جن میں ہے سارے لوگ شریک ہوتے ہیں.ان تکالیف پر جب کوئی انسان گھبراتا ہے ، شکوہ کرتا ہے تو لوگ اسے یہ کہ کر تسلی دیا کرتے ہیں کہ میاں! یہ دن سب پر آتے ہیں اور کوئی شخص اُمید نہیں کر سکتا کہ وہ ان تکلیفوں سے بچ جائے.کوئی عقلمند یہ کوشش نہیں کرتا کہ وہ ان تکلیفوں سے بچ جائے.مثلاً موت ہے.موت ہر انسان پر آتی ہے.دنیا میں کوئی احمق سے احمق انسان بھی ایسا نہیں مل سکتا تجھے
1952 167 خطبات محمود جو کہے کہ میں کوشش کر رہا ہوں کہ مجھ پر موت نہ آئے.موت اُس پر ضرور آئے گی چاہے چند دن کی پہلے آئے یا بعد میں.كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِينَ مِنْ قَبْلِكُمْ کہہ کر خدا تعالیٰ نے مسلمانوں کو اس طرف توجہ دلائی ہے کہ روزے ایسی نیکی ، ثواب اور قربانی ہیں جن میں سارے ہی ادیان شریک ہیں.عیسائی بھی اس میں شریک ہیں.حضرت مسیح علیہ السلام فرماتے ہیں کہ بدروحوں کو نکالنا سوائے روزے اور دعا کے نہیں ہو سکتا.یہودی بھی اس میں شریک ہیں وہ بھی روزے رکھتے ہیں.ہندو، زرتشتی اور دوسری قومیں بھی اس میں شریک ہیں.غرض ساری اقوام کسی نہ کسی رنگ میں روزے رکھتی ہیں.اور انہوں نے خدا تعالیٰ کے اس حکم کو پورا کیا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اے مسلمانو! تم اپنے آپ کو خیر الام کہتے ہو.تم اپنے آپ کو آخری امت کا نام دیتے ہو.پھر کتنے افسوس کی بات ہے کہ وہ نیکی اور تقویٰ جس کے حصول کے لئے ساری قومیں کوشش کرتی ہیں تم اس سے بچنے کی کوشش کرتے ہو، تم اس سے گریز کرتے ہو، اگر یہ کوئی نیا حکم ہوتا، اگر روزے صرف تم پر ہی فرض ہوتے تو تم دوسرے لوگوں کو کہہ سکتے تھے کہ تم اسے کیا جانو تم نے اس کا مزہ چکھا ہی نہیں تمہیں ہماری تکلیفوں کا احساس کیسے ہو سکتا ہے.لیکن وہ لوگ جو اس کی دروازے میں سے گزر چکے ہیں ، جو اس بوجھ کو اُٹھا چکے ہیں انہیں تم کیا جواب دو گے.لازماً مسلمانوں پر حجت انہی احکام میں ہو سکتی ہے جو پہلی قوموں کو بھی دیئے گئے اور انہوں نے اُن احکام کو پورا کیا لیکن مسلمانوں نے ان سے گریز کیا.تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اے مسلمانو! تم کی ہوشیار ہو جاؤ.ہم تم پر روزے فرض کرتے ہیں اور ساتھ ہی تمہیں بتا دیتے ہیں کہ روزے پہلی قوموں پر بھی فرض کئے گئے تھے اور انہوں نے اس حکم کو اپنی طاقت کے مطابق پورا کیا تھا.اگر تم اس حکم کو پورا کرنے میں سستی کرو گے تو وہ قومیں تم پر اعتراض کریں گی اور کہیں گی ہمیں بھی کچ خدا تعالیٰ نے روزوں کا حکم دیا تھا اور ہم نے اُسے پورا کیا ہے.اب تم پر روزے فرض کئے گئے ہیں تو تم اس حکم کو صحیح طور پر ادا نہیں کر رہے.غرض مسلمانوں کی غیرت اور ہمت کو بڑھانے کے لئے یہ کہا گیا ہے کہ روزے صرف تم پر ہی فرض نہیں کئے گئے بلکہ پہلی قوموں پر بھی فرض کئے گئے تھے اور ان قوموں نے اپنی طاقت کے مطابق اس حکم کو پورا کیا تھا.پھر فرماتا ہے تم یہ نہیں کہہ سکتے کہ اس حکم کا کوئی فائدہ نہیں.اس حکم کے کئی فائدے ہیں فرماتا ہے لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ.یہ روزے تم پر اس لئے فرض کئے گئے ہیں تا کہ تم بیچ جاؤ.اس کے
1952 168 خطبات محمود کئی معنی ہو سکتے ہیں مثلاً ایک معنی تو یہی ہیں کہ ہم نے تم پر روزے فرض کئے ہیں تا تم ان قوموں تجھے کے اعتراضوں سے بچ جاؤ جو روزے رکھتی رہی ہیں، جو بھوک پیاس کی تکلیف برداشت کرتی رہی ہیں، جو موسم کی شدت کو برداشت کر کے خدا تعالیٰ کو خوش کرتی رہی ہیں.اگر تم روزے نہیں رکھو گے تو وہ کہیں گی تمہارا دعویٰ ہے کہ ہم باقی قوموں سے روحانیت میں بڑھ کر ہیں لیکن وہ تقویٰ تم میں نہیں جو دوسری قوموں میں پایا جاتا تھا.غرض اگر اسلام میں روزے نہ ہوتے تو مسلمان دوسری قوموں کے سامنے ہدف ملامت بنے رہتے.عیسائی کہتے یہ بھی کوئی مذہب ہے اس میں روزے نہیں جن سے قلوب کی صفائی ہوتی ہے ، جن کے ساتھ روحانی ساکھ بیٹھتی.جن کے ذریعہ انسان بدی سے بچتا ہے.یہودی کہتے کہ ہم نے سینکڑوں سال روزے رکھے لیکن مسلمانوں میں روزے نہیں.اسی طرح زرتشتی ، ہندو اور دوسری سب قو میں کہتیں اسلام بھی کوئی مذہب ہے.اس میں روزے نہیں.ہم روزے رکھتے ہیں اور اس طرح خدا تعالیٰ کو خوش کرتے ہیں.غرض ساری دنیا متحدہ طور پر مسلمانوں کے مقابلہ میں آجاتی اور کہتی مسلمانوں میں روزے کیوں نہیں.پس فرمایا.اے مسلمانو! ہم تم پر روزے فرض کرتے ہیں.لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ تا تم دشمن کے اعتراضات سے بچ جاؤ.اگر اسلام میں روزہ نہ ہوتا یا تم روزے نہ رکھتے تو غیر مذاہب ہے، والے تم پر جائز طور پر اعتراض کرتے اور تم ان کی نگاہوں میں حقیر ہوتے.لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ میں دوسرا اشارہ اس طرف ہے کہ اس ذریعہ سے خدا تعالیٰ روزہ دار کا محافظ بن جاتا ہے.کیونکہ اتقاء کے معنی ہیں ڈھال بنانا ، وقایہ بنانا ، نجات کا ذریعہ بنانا.پس آیت کے معنی ہوئے تا کہ تم خدا تعالیٰ کو اپنی ڈھال بنا لو.جو لوگ روزے رکھتے ہیں خدا تعالیٰ ان کی حفاظت کا وعدہ کرتا ہے.اسی لئے روزے کے ذکر کے بعد خدا تعالیٰ دعا کی قبولیت کا ذکر کرتا ہے اور فرماتا ہے میں دعاؤں کو سنتا ہوں.پس روزے خدا تعالیٰ کے فضل کو جذب کرنے والی چیز ہیں.روزے رکھنے والا خدا تعالیٰ کو اپنی ڈھال بنالیتا ہے.اور سب سے بڑی چیز یہ ہے کہ روزہ رکھنے والا برائیوں اور بدیوں سے بچ جاتا ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے روزہ اس چیز کا نام نہیں کہ کوئی اپنا منہ بند رکھے اور سارا دن نہ کچھ کھائے اور نہ پیئے.بلکہ روزہ یہ ہے کہ منہ کو کھانے پینے سے ہی نہ روکا جائے بلکہ اُسے ہر روحانی نقصان دہ اور ضرر رساں چیزوں سے بھی بچایا جائے.2 اب دیکھو زبان پر
1952 169 خطبات محمود قابورکھنے کا حکم تو ہمیشہ کے لئے ہے.لیکن روزہ دار خاص طور پر زبان پر قابورکھتا ہے کیونکہ اگر وہ کی ایسا نہ کرے تو اُس کا روزہ ٹوٹ جاتا ہے.اگر کوئی شخص ایک مہینہ تک اپنی زبان پر قابو رکھتا ہے تو یہ امر باقی گیارہ مہینوں میں اس کے لئے حفاظت کا ذریعہ ہوتا ہے.لوگ روزہ ٹوٹنے سے زیادہ ڈرتے ہیں اس لئے وہ خاص طور پر اسی مہینہ میں ناپسندیدہ چیزوں سے بچتے ہیں.لیکن مصیبت یہ ہے کہ ہمارے ہاں روزوں کو حقیر سمجھ لیا گیا ہے اور یہ خیال کر لیا گیا ہے کہ روزہ روٹی نہ کھانے کی اور پانی نہ پینے کا نام ہے.حالانکہ در حقیقت روزہ اس چیز کا نام ہے کہ انسان جائز اور نا جائز چیز کو خدا تعالیٰ کے حکم سے چھوڑ دے.اور جب وہ خدا تعالیٰ کے حکم سے روٹی کھانا چھوڑ دے، پانی پینا چھوڑ دے، بیوی سے تعلقات قائم کرنا جو جائز ہے چھوڑ دے.اس لئے کہ ایسا کرنے کے لئے خدا تعالیٰ نے کہا ہے.لیکن وہ جھوٹ نہ چھوڑے، غیبت نہ چھوڑے تو اُس کا روزہ ٹوٹ جائے گا.اگر وہ گالی گلوچ نہ چھوڑے تو اُس کا روزہ ٹوٹ جائے گا.غرض جتنی چیزوں میں انسان کا نفس استعمال ہوتا ہے مادی طور پر یا روحانی طور پر ان ساری چیزوں سے بچنے کا نام روزہ ہے.روزہ ہمیں یہ سبق دیتا ہے کہ جب تم جائز امور کو بھی خدا تعالیٰ کی خاطر چھوڑ دیتے ہو تو ؟ کیوں ناجائز امور کو نہ چھوڑو گے.روزہ رکھنے والا یہ نہیں کہتا کہ میں شراب نہیں پیوں گا کیونکہ شراب پینا پہلے ہی منع ہے.روزہ رکھنے والا یہ نہیں کہتا کہ میں سور کا گوشت نہیں کھاؤں گا.سو ر کانی گوشت تو وہ ہمیشہ ہی نہیں کھاتا.روز دار یہ نہیں کہتا کہ میں مُردار نہیں کھاؤں گا کیونکہ مُردار تو وہ ای ہمیشہ ہی نہیں کھاتا.وہ رمضان میں فجر سے لے کر غروب آفتاب تک کیا کیا چیز میں نہیں کھاتا.وہ کچی ایسی چیزیں نہیں کھاتا جو حلال اور طیب ہیں ، وہ گوشت نہیں کھاتا جو جائز ہے، وہ تر کاری نہیں تھی کھاتا جو جائز ہے ، وہ روٹی نہیں کھاتا جو جائز ہے ، وہ پانی نہیں پیتا جو جائز ہے ، وہ کھجور نہیں کھاتا تھی جس سے روزہ کھولنا مستحب سمجھا گیا ہے.غرض ایک روزہ دار تمام اُن طیبات کو چھوڑ دیتا ہے جن کی سے پر ہیز کرنے اور انہیں چھوڑنے کو دوسرے دنوں میں خدا تعالیٰ نے ناجائز قرار دیا ہے.وہ خدا تعالیٰ کے حکم کے مطابق انہیں چھوڑ دیتا ہے اور افطار تک برابر ان سے پر ہیز کرتا ہے.اور جب ایک شخص تمام حلال اور طیب چیزوں کو ترک کر دیتا ہے اس لئے کہ وہ روزہ دار ہے تو یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ وہ ناجائز چیزوں کو نہ چھوڑے.ایک شخص تر کاری چھوڑ دیتا ہے جو جائز ہے، گوشت کھانا تج ترک کر دیتا ہے جو جائز ہے، روٹی کھانا چھوڑ دیتا ہے جو جائز ہے، پانی پینے سے اور مٹھائی کھانے کی
1952 170 خطبات محمود سے پر ہیز کرتا ہے جو جائز چیزیں ہیں تو یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ وہ نا پاک اشیاء کھانے لگ جائے.کی کیونکہ گندے الفاظ کا منہ سے نکالنا ، جھوٹ بولنا ، گالی گلوچ ، غیبت یہ سب نجاستیں ہیں.کیا تم سمجھ سکتے ہو کہ کوئی شخص کہے میں نے ساری چیزوں کے استعمال نہ کرنے کا عہد کیا ہے اور پھر گندی کی چیزیں کھانے لگ جائے؟ اور جب کوئی پوچھے تو کہے میں نے تو اچھی چیزوں سے پر ہیز کیا ہے بُری چیزوں سے نہیں ہر شخص یہ کہے گا کہ یہ جہالت ہے.جب ایک شخص ایسی چیز کو چھوڑ دیتا ہے جو مرغوب ہے ، پسندیدہ ہے، حلال ہے، طیب ہے ، خدا تعالیٰ کا عطیہ اور نعمت ہے تو جن چیزوں کی سے خدا تعالیٰ نے منع فرمایا ہے انہیں وہ کیسے اختیار کرے گا.غرض روزہ ہمیں یہ سبق دیتا ہے کہ ہم اُن تمام چیزوں کو چھوڑ دیں جو نا جائز اور نا پسندیدہ ہیں اور ایک ماہ کے عمل کے بعد اگر انسان چاہے تو اسے ایسی چیزوں سے پر ہیز کی عادت پڑ جاتی ہے.کسی کو تمبا کو پینے کی عادت پڑ جائے تو وہ کہتا ہے میں تمبا کو چھوڑ نہیں سکتا.ڈاکٹر کہتے ہیں کہ اگر کوئی نشہ پانچ چھ دن تک چھوڑ دیا جائے تو وہ چھوٹ جاتا ہے.مثلاً افیون ہے اگر کوئی شخص پانچ سات دن تک افیون کھانا ترک کر دے تو وہ اسے مستقل طور پر چھوڑ سکتا ہے.شراب ہے اگر کوئی شخص پانچ چھ دن تک اسے چھوڑ دے تو وہ اسے مستقل طور پر چھوڑ سکتا ہے.بھنگ ہے چرس ہے یا دوسرے نشے ہیں اگر ان کا استعمال سات آٹھ دن تک چھوڑ دیا جائے تو یہ مستقل طور پر چھوٹ جاتے ہیں.غرض اللہ تعالیٰ فرماتا ہے تم ایک ماہ تک پر ہیز کرو.اگر اس کے بعد بھی کوئی شخص ان نشوں میں مبتلا ہو جاتا ہے تو یہ عادت کی وجہ سے نہیں بلکہ اپنی مرضی سے ہوتا ہے.مثلاً گالی دینے کی عادت ہے اگر ایک ماہ تک وہ اس سے پر ہیز کرتا ہے تو نتیجةً یہ عادت چھوٹ جائے گی.اگر بھنگ پینا ، چرس پینا ، افیون کھانا ، شراب پینا، تمباکو پینا یہ سب عادتیں سات آٹھ دن تک چھوڑ دینے سے مستقل طور پر چھوٹ جاتی ہیں تو کون سی بد عادتیں ہیں جو ایک ماہ تک ترک کرنے کے بعد چھوٹ نہ جائیں.ایک ماہ تک اگر نا پسندیدہ اور ناجائز چیزوں سے پر ہیز کیا جائے گا تو وہ یقیناً مستقل طور پر چھوٹ جائیں گی بشرطیکہ کوئی شخص بعد میں خودان میں مبتلا نہ ہو جائے.اگر کوئی شخص فجر سے غروب آفتاب تک کھانا نہیں کھاتا، پانی نہیں پیتا لیکن چغلی کرنا، جھوٹ بولنا اور بدگوئی کرنا نہیں چھوڑ تا تو وہ یہ امید کیسے کر سکتا ہے کہ رمضان کے بعد وہ ان.بچ جائے گا.یہ چیز عقل کے خلاف ہے.لیکن جو شخص رمضان کو سب شرائط کے ساتھ گزارے وہ
1952 171 خطبات محمود اس سے فائدہ اٹھا لیتا ہے.اول خدا تعالیٰ اس کا محافظ بن جاتا ہے.دوسرے وہ دشمن کے اعتراضات سے بچ جاتا ہے.تیسرے بد عادتوں سے بچ جاتا ہے.غرض رمضان میں بہت سے فوائد اور برکتیں ہیں لیکن بہت کم لوگ اس سے فائدہ اٹھاتے ہیں.جہاں وہ لوگ بھی ہیں جو شدت میں پڑ جاتے ہیں یعنی جن میں خدا تعالیٰ نے روزہ رکھنا منع کیا ہے اُن دنوں میں بھی وہ روزہ رکھتے ہیں ، بیماری میں روزہ رکھنا منع ہے لیکن وہ بیمار ہونے کے باوجود روزہ رکھتے ہیں، بڑھاپے میں قومی مضمحل ہو جاتے ہیں اور روزہ رکھنا مشکل ہو جاتا ہے ہے اور پھر ایسی حالت میں روزہ رکھنا فرض بھی نہیں لیکن وہ روزے رکھتے ہیں.پھر بعض لوگ بچپن میں روزے رکھتے ہیں حالانکہ بچپن میں روزہ رکھنا فرض نہیں.اس کے مقابلہ میں ایسے لوگ بھی ہیں جن میں روزہ رکھنے کی طاقت ہوتی ہے، وہ بیمار بھی نہیں ہوتے ، ایسے بوڑھے بھی نہیں ہوتے جن کے قومی مضمحل ہو گئے ہوں لیکن وہ روزہ نہیں رکھتے اور بہانے بناتے ہیں.دنیا میں دو باتوں کی وجہ سے انسان کسی چیز سے بچنے کی کوشش کرتا ہے.اوّل یہ کہ صرف اُسے حکم دیا گیا ہے دوسرے کو نہیں.ایک بچے کو کوئی کام کرنے کے لئے کہا جائے تو وہ بھی کہتا ہے کہ مجھے ہی کہتے ہیں دوسرے بھائی کو نہیں کہتے.اللہ تعالیٰ نے اس کا جواب دے دیا ہے.فرماتا ہے.يَاأَيُّهَا الَّذِينَ امَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِينَ مِنْ قَبْلِكُمْ اے مسلمانو! ہم نے تم پر روزے فرض کئے ہیں اور صرف تم پر ہی روزے فرض نہیں کئے بلکہ ہم نے ان لوگوں پر بھی روزے فرض کئے تھے جو تم سے پہلے گزرے ہیں.گویا ہم نے صرف تمہیں کی روزہ رکھنے کے لئے نہیں کہا بلکہ تم سے پہلے تمہارے بھائیوں کو بھی روزہ رکھنے کا حکم دیا تھا اور کی انہوں نے اس حکم کو نباہا.پھر لوگ کہتے ہیں اس حکم کا فائدہ کیا ہے؟ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اس کے کئی فائدے ہیں.اس سے میری رضا حاصل ہوتی ہے، محنت کشی کی عادت پڑتی ہے، قربانی کی کچ عادت پڑتی ہے، نیکی اور تقویٰ کی عادت پڑتی ہے اور پھر تم دوسری قوموں کے اعتراضات سے بھی بچ جاتے ہو.غرض رمضان بڑی برکتیں لے کر آیا ہے.مومن کو چاہیے کہ وہ اس سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کرے.جہاں خدا تعالیٰ نے روزہ رکھنے سے منع فرمایا ہے وہاں مناسب یہی ہے کہ روزہ کی نہ رکھا جائے.لیکن جہاں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے روزہ رکھو وہاں ہر شخص کو کوشش کرنی چاہیے کہ وہ مجھے
1952 172 خطبات محمود روزہ رکھے.بعض لوگ کہتے ہیں کہ ہمیں روزہ رکھنے سے تکلیف ہوتی ہے اس لئے ہم روزہ نہیں کی رکھتے.یہ ایسی ہی بات ہے جیسے کوئی شخص کسی سے کہے کپڑا پہنو اس سے تمہارا نگ ڈھک جائے گا لیکن وہ کہے میں کپڑا نہیں پہنتا اس سے میرا جسم ڈھک جاتا ہے.روزہ کی حکمت ہی یہی ہے کہ اس سے تکلیف برداشت کرنے کی عادت پڑتی ہے.بعض قربانیاں ایسی ہوتی ہیں جنہیں انسان آرام سے کر لیتا ہے اور بعض قربانیاں ایسی ہوتی ہیں جن میں قربانی کرنے والے کو تکلیف برداشت کرنی پڑتی ہے.روزے بھی اسی قسم کی قربانیوں میں سے ہیں جو انسان کو تکلیف میں کی ڈالتی ہیں.اس کے ذریعہ انسان تقویٰ اور طہارت کے حصول کے علاوہ جفا کش بھی ہو جاتا ہے جی اور اس سے ان قربانیوں کی بھی عادت پڑتی ہے جن میں انسان کو تکلیف برداشت کرنی پڑتی ہے.مثلاً جہاد ہے جہاد میں گرمی کو برداشت کرنا پڑتا ہے، کھانے پینے کی وقتیں برداشت کرنی پڑتی ہیں.روزے رکھنے والے کو یقیناً جہاد دوسروں سے زیادہ آسان معلوم ہوگا.اس کے علاوہ کی اور بھی بہت سی قربانیاں اور خدمتیں ہیں جو رمضان کی وجہ سے آسان ہو جاتی ہیں.اگر کوئی شخص روزے نہیں رکھتا اور بہانہ یہ بناتا ہے کہ اس سے اُسے تکلیف ہوتی ہے تو اُس کی مثال ایسی ہی ہے کہ جیسے کسی شخص کو کہا جائے تم روٹی کھاؤ تو وہ کہے میں روٹی نہیں کھا تا میرا پیٹ بھر جائے گا.اسے کہا جائے تم پانی پیئو تو وہ کہے میں پانی نہیں پیتا میری پیاس بجھ جائے گی.اسے کہا جائے تم کپڑا پہنو تو وہ کہے میں کپڑا نہیں پہنتا اس سے میرا جسم ڈھک جائے گا.حالانکہ روٹی کی غرض ہی کی یہی ہے کہ پیٹ بھر جائے.پانی پینے کی غرض ہی یہی ہے کہ پیاس بجھ جائے اور لباس پہننے کی غرض ہی یہی ہے کہ جسم ڈھک جائے.“ ( الفضل 22 جون 1952ء) 1:البقرة:184 2 : بخاری کتاب الصوم باب فَضْل الصَّوم
1952 173 (20 خطبات محمود رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا وجود ایسا تھا جس کو باوجود دشمنی کے جھوٹا نہیں کہا جا سکتا تھا.اسی طرح بعض باتیں ایسی ہوتی ہیں جنہیں جھٹلایا نہیں جاسکتا ( فرموده 13 جون 1952ء بمقام ربوہ ) تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: و بعض سچائیاں ایسی ہوتی ہیں کہ جو چھپائے نہیں چُھپ سکتیں اور زور لگا کر بھی مخفی نہیں کی جاسکتیں.اور بعض بچے انسان بھی ایسے ہوتے ہیں کہ انکی سچائی کو چھپانے کی ہر قسم کی کوششیں ناکام و نامراد رہتی ہیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب دعوئی فرمایا تو مکہ کے لوگوں نے آپ کے دعوی کو ایک عجیب اور نئی بات سمجھ کر اُسے رڈ کر دیا.ابھی آپ کی باتوں اور اخلاق کا اثر دلوں سے مٹا نہیں تھا اور وہ فوری طور پر آپ کو جھوٹا نہیں کہہ سکتے تھے اس لئے عام طور پر مکہ والوں نے یہی خیال کیا کہ ایک اچھا بھلا شریف آدمی پاگل ہو گیا ہے.ایک دن آپ ایک بلند مقام پر کھڑے ہوئے اور آپ نے مکہ والوں کو بلا نا شروع کیا.جن لوگوں تک آپ کی آواز پہنچی تھی یا جو لوگ آپ سے وابستگی رکھتے تھے یا ان کے دلوں میں آپ کا ادب و احترام تھا وہ جمع ہو گئے اور آپ نے انہیں مخاطب کرتے ہوئے فرمایا اے مکہ کے لوگو! اگر میں تمہیں کہوں کہ جبل ابومبیس (Qubais) کے پیچھے ایک لشکر بیٹھا ہے اور مکہ پر حملہ کرنا چاہتا ہے تو کیا تم
1952 174 خطبات محمود ނ اسے مان لو گے؟ مکہ والوں نے کہا ہاں ہاں ہم نے تجھے کبھی جھوٹ بولتے نہیں دیکھا اس لئے کی ہم تمہاری بات کو سچا تسلیم کریں گے.1.حالانکہ مکہ کی وادی ایسی ہے کہ درمیان میں گو بعض چھوٹی چھوٹی پہاڑیاں ہیں لیکن اگر انہیں نظر انداز کر دیا جائے تو انسان کی نظر میلوں میل تک چلی جاتی ہے اور ساری چیزیں دکھائی دیتی ہیں اور یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ جبل ابو تیس کے پیچھے کوئی لشکر ہو اور وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سوا اور کسی کو نظر نہ آسکے.گویا آپ نے ایک ایسی بات کہی جو مکہ والوں کے لئے ناممکن التسلیم تھی.لیکن ایک غیر ممکن التسلیم بات کے متعلق بھی انہوں نے کہہ دیا کہ ہم اُسے ضرور مانیں گے اس لئے کہ ہم نے آپ کو کبھی جھوٹ بولتے نہیں دیکھا.اس کے بعد رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے مکہ والو! میں تمہیں خبر دیتا ہوں کہ میں خدا تعالیٰ کی طرف.تمہیں ڈرانے کے لئے بھیجا گیا ہوں اور خدا تعالیٰ نے مجھے تمہاری اصلاح کے لئے مبعوث کیا ہے.تب وہ فوراً بگڑ گئے اور کہا یہ شخص پاگل ہو گیا ہے.2 غرض رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا وجود ایسا تھا جس کو باوجود دشمنی کے جھوٹا نہیں کہا جاسکتا تھا.اسی طرح بعض باتیں ایسی ہوتی ہیں جنہیں جھٹلایا نہیں جا سکتا.انسان انہیں روزانہ دیکھتا اور مشاہدہ کرتا ہے اور جو اس کے سامنے ایک ہی رنگ اور شکل میں آتی ہیں.اس لئے یہ ناممکن ہوتا ہے کہ کوئی شخص ان کا انکار کر دے.پھر کیسا ہی عجیب وہ انسان ہو گا جو ایسی باتوں کو باوجود ہر روز مشاہدہ کرنے کے رد کر دے.مکہ والے باوجود اس کے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم ان کے رسم و رواج، طور و طریق اور روایات اور مذہب کے خلاف تھی آپ کو جھوٹا نہیں کہہ سکتے تھے.اس لئے کہ انہوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سچائی کا بار بار تجربہ کیا تھا.وہ اس کی بات کو نظر انداز نہیں کر سکتے تھے کہ آپ ایک راست باز انسان ہیں.حالانکہ مکہ کے کافر وہ ازلی شقی تھے جن کے لئے عذاب الیم مقدر تھا.جو جنگوں ، وباؤں اور بعض جنگی درندوں کا شکار ہو کر تباہ کئے گئے.وہ بھی ایک دیکھی ہوئی چیز کا انکار کر نیکی طاقت نہیں رکھتے تھے.پھر یہ ہو سکتا ہے کہ ایک مومن جس کو ہمیشہ سچائی کی تلقین کی جاتی ہے اور اُسے اُس پر عمل کرنے کی تاکید کی جاتی ہے ایک سچائی کو دیکھے اور اُسے نظر انداز کر دے؟ مجھے تعجب آتا ہے اُن احمدیوں پر جو روزانہ اپنی مخالفت تو دیکھتے ہیں ، وہ روزانہ اُن منصوبوں اور سازشوں کو دیکھتے ہیں جو احمدیت کے خلاف کی جاتی ہیں کی
1952 175 خطبات محمود اور ان کے اندرا ہم طور پر اس بات کا احساس پیدا نہیں ہوتا کہ ہماری حالت اس زبان سے بھی کی بدتر ہے جو بتیس دانتوں کے اندر ہے.کیونکہ اُس زبان کے لئے جو بہتیں دانتوں کے اندر ہے موقع ہے کہ وہ دانتوں کی ضرب سے اپنے آپ کو بچا سکے اور دانتوں میں بھی اللہ تعالیٰ نے یہ ملکہ رکھا ہے کہ وہ زبان کو زخمی ہونے سے بچاتے ہیں.مگر جن بتیس دانتوں میں تم ہو وہ تمہیں ہر وقت زخمی کرنے کے لئے تیار ہیں.پھر تمہارے لئے بھی کوئی موقع نہیں کہ تم ان کی ضرب سے بچ سکو.تم دیکھتے ہو کہ صبح و شام سچائی کورڈ کیا جاتا ہے، تم دیکھتے ہو کہ دشمن ہر روز ظلم کرتا ہے لیکن تم سمجھتے ہو کہ ہمیں ڈر ہی کیا ہے.تم نے دیکھا ہے کہ 99 فیصدی مخالف بلکہ اس سے بھی زیادہ جھوٹ بولتے ہیں.اگر تمہارا مقابلہ کسی خدا ترس سے ہوتا تو تم کہتے وہ خدا تعالیٰ کے خوف کو کہاں لے کے جائے گا.لیکن تم دیکھتے ہو کہ جن لوگوں سے تمہارا مقابلہ ہے وہ سو فیصدی جھوٹ کے عادی ہیں.ان میں قطعاً نہ تقویٰ ہے نہ خدا تعالیٰ کا خوف نہ صداقت کی بیچ ہے اور نہ راستی کی عظمت اور احترام.ان لوگوں کو دیکھتے ہوئے آخر تمہارے اندر کیا کیفیت پیدا ہونی چاہیے.مثلاً یہی چیز ہے کہ انسان ہمیشہ گھبراہٹ سے اپنی حالت کو ظاہر کرتا ہے لیکن میں دیکھتا ہوں کہ ربوہ میں ایک ہزار آدمی بستا ہے مگر اس ایک ہزار میں سے ایک شخص بھی اس مخالفت کے خلاف آواز نہیں نکالتا.جس کے معنی یہ ہیں کہ ہزار میں سے کم سے کم 999 آدمی وہ ہیں جن کو پتا ہی نہیں کہ باہر کیا ہو رہا ہے.اور اگر کچھ آدمی ایسے ہیں جنہیں علم ہے کہ باہر کیا کچھ ہو رہا ہے تو ابھی تک انہیں اپنے ایمان کی فکر پیدا نہیں ہوئی.سیدھی بات ہے کہ اگر کوئی شورش پیدا ہوتی ہے تو اس کے نتیجہ میں انسان کے اندر دو قسم کے خیالات پیدا ہوتے ہیں.اول یہ کہ اس کی اور اس کے بیوی بچوں کی موت کا وقت قریب آ گیا ہے اس لئے دشمن کا مقابلہ کرنے کے لئے تیار ہو جانا چاہیے.اور یا یہ کہ جب لوگ اُسے پکڑیں گے تو وہ احمدیت سے انکار کر دے گا.یہ دو ہی باتیں ہیں جو شورش کے وقت انسان کے اندر پیدا ہوتی ہیں.جو شخص یہ سمجھتا ہے کہ لوگوں کے اندر اس کے خلاف دشمنی کا چی جذبہ پیدا ہو گیا ہے اور یہ کہ اس کی عزت ، مال اور قومیت خطرہ میں پڑ گئی ہے تو وہ کچھ نہ کچھ کرتا ہے.لیکن میں دیکھتا ہوں کہ ربوہ میں رہنے والوں میں یہ احساس مفقود ہے.یوں تو میرے پاس کی بہت سے لوگ آتے ہیں کہ میرا بچہ بیمار ہے اس کی صحت کے لئے دعا کی جائے.میری مرغی نے کی
1952 176 خطبات محمود انڈے دینے بند کر دیئے ہیں دعا کی جائے.کسی کا ایک ہفتہ کا بچہ مر جاتا ہے جس نے نہ دنیا دیکھی ہوتی ہے اور نہ اس کی پیدائش کے نتیجہ میں اسلام کو کوئی فائدہ پہنچتا ہے یا کسی کا بچہ ضائع ہو جاتا ہے تو لکھا ہوتا ہے کہ اس کے لئے دعا کی جائے.بلکہ باوجود بار بار سمجھانے کے چٹھیاں آجاتی ہیں کہ میرا چھوٹا بچہ فوت ہو گیا ہے حضور اس کا جنازہ پڑھا دیں.حالانکہ چھوٹے بچے اس بات سے مستغنی ہوتے ہیں کہ کسی ذمہ دار آدمی کے جنازہ پڑھانے کا سوال پیدا ہو.لیکن وہ یہ نہیں سمجھتے کہ دشمن جماعت کے خلاف شورش پیدا کر رہا ہے اس کے متعلق اُن کا رد عمل کیا ہے.وہ اس کی بات کی ضرورت محسوس نہیں کرتے کہ انہوں نے اس شرارت کا مقابلہ کرنا ہے.جب کہ میں نے کی بتایا ہے کہ سیدھی بات ہے شورش کے نتیجے میں دو طرح کا ہی رد عمل ہو سکتا ہے.ایک تو یہ کہ میرے لئے اپنی جان دینے کا وقت آگیا ہے.میرے لئے اپنا گھر ، مکانات اور مال کو قربان کرنے کا وقت آگیا ہے.اس سے زیادہ خوش قسمتی کیا ہوگی کہ میں اپنی جان، مال اور مکان کو قربان کر دوں.میرا سب کچھ حاضر ہے.قرآن کریم میں آتا ہے مومن صبر کرتے ہیں اور صبر کی تلقین کرتے ہیں.مومن مستقل رہتے ہیں اور دوسروں کو مستقل بنانے کی کوشش کرتے ہیں.3 اگر صبر کرنے کا سوال پیدا ہوتا ہے تو مومن بولتا ہے.قرآن کریم کہتا کہ وہ چپ نہیں کرتا اُسے فوراً اس بات کی فکر ہوتی ہے کہ میں نے تو صبر کر لیا ہے میرے ساتھیوں کا کیا بنے گا.وہ فورا اپنے ساتھیوں کو کہتا ہے کہ ہمت کرو.خدا تعالیٰ کے رستہ میں جان قربان کرنے سے بہتر اور کوئی چیز کی نہیں.غرض جب بھی صبر کرنے کا فیصلہ ہوتا ہے مثلاً یہ فیصلہ ہوتا ہے کہ مرنا ہے تو وہ اپنے ساتھیوں کی کو کہتا ہے میں نے مرنا ہے تم بھی موت کے لئے تیار ہو جاؤ.اس وقت خدا تعالیٰ کے رستہ میں جان قربان کرنے کا سوال ہے.ہمت کرو اور اپنی جانیں پیش کرو.وہ ایسے وقت میں اپنے ساتھیوں کی تعداد بڑھانے کی کوشش کرتا ہے.چُپ وہ اُس وقت کرتا ہے جب اس کا بزدلی کی دکھانے کا ارادہ ہوتا ہے.غرض ایک فیصلہ وہ ہے جو انسان کرتا ہے تو پچپ نہیں رہتا.دوسرے میں چُپ رہتا ہے اور وقت آنے پر پیچھے ہٹ جاتا ہے.جس شخص کے اندر منافقت ہوگی وہ کہتا ہے اس وقت اس بات کو دبا دو پہلے ظاہر کرنے کی کیا ضرورت ہے وقت آئے گا تو بز دلی دکھا دیں گے.پس مجھے تعجب آتا ہے کہ موجودہ شورش کے مقابلہ میں جماعت نے جو خاموشی اختیار کی ہے،
1952 177 خطبات محمود جماعت نے جوستی دکھائی ہے اس کے معنی کیا ہیں.جیسا کہ میں نے بتایا ہے دو ہی باتیں ہو سکتی ہیں.ایک بات تو میں مان نہیں سکتا کیونکہ قرآن کریم کہتا ہے کہ جب کسی مومن کے سامنے صبر کا سوال پیدا ہوتا ہے وہ بولتا ہے اور دوسروں کو صبر کی تلقین کرتا ہے.لیکن تم خاموش بیٹھے ہو اور کی تمہیں ذرا بھی احساس نہیں کہ کیا ہو رہا ہے.پھر دوسری بات بھی میں نہیں سُن سکتا.یعنی یہ کہ تم وقت پر بزدلی دکھاؤ گے.کیونکہ میرا تجربہ ہے کہ جب جماعت پر کوئی خطرہ کا وقت آیا تو مرکز نے کی باقی جماعتوں سے زیادہ اچھا نمونہ دکھایا.لیکن تمہارا عمل یہ ہے کہ گویا تم نے بزدلی دکھانے کا کی فیصلہ کر لیا ہے.تم سمجھتے ہو کہ جب بھی احمدیوں کی پکڑ دھکڑ ہو گی ہم کہہ دیں گے کہ ہم احمدی نہیں کی ہیں.ورنہ یہ ممکن ہوسکتا تھا کہ ایک یا دو ہزار آدمیوں کے اندر یہ ارادہ پیدا ہو جاتا کہ ہم نے اپنی جانیں قربان کرنی ہیں تو دشمن کھڑا رہتا ؟ مومن ایسے وقت میں یہ کوشش کرتا ہے کہ وقت آنے سے پہلے پہلے اپنی تعداد بڑھائے.وہ دنیوی کا روبار میں اُس وقت مشغول نہیں ہوتا.وہ جب ج جانتا ہے کہ میرے کپڑے چھین لئے جائیں گے، میرے دودھ کے برتن توڑ دیئے جائیں گے، میرا گھر ٹوٹ لیا جائے گا، آٹا اور دال تقسیم کر دیا جائے گا تو وہ ان باتوں میں محو نہیں ہوتا بلکہ اپنی تعداد بڑھانے کی فکر کرتا ہے.وہ اپنا پیٹ بھرنے کی وجہ سے مجبور ہے کہ کوئی کام کرے.اس لئے وہ پیٹ پالنے کے لئے کوئی نہ کوئی کام ضرور کرتا ہے لیکن اس میں محو ہو کر نہیں رہ جاتا.وہ جی دوسروں کو صبر کی تلقین کرتا ہے اور اپنی تعداد کو بڑھانے کی فکر میں رہتا ہے تا کہ دشمن ایک ہزار کو نہ مارے بلکہ اس کی جگہ دو ہزار کو مارے.دشمن دو ہزار کو نہ مارے بلکہ چار ہزار کو مارے مگر تم میں یہ روح نہیں پائی جاتی.میں نے پچھلے خطبہ میں بتایا تھا کہ رمضان مومن کو مشقت کا عادی بنانے کے لئے آتا ہے لیکن رمضان کی گزر گیا اور تم مصائب برداشت کرنے کے لئے تیار نہیں ہوئے.رمضان کے معنی ہی ہیں شدت گرمی.پھر اس سال ظاہری طور پر بھی سخت گرمی ہے اور روحانی تکالیف اور مصائب بھی ہیں.لیکن تمہارے اندر گرمی پیدا نہیں ہوئی.تم ہی بتاؤ کہ لوگ تمہارے متعلق کیا سمجھتے ہوں گے.یہ تو شتر مرغ والی بات ہے.شتر مرغ سے کسی نے کہا تم تو شتر ہو آؤ تم پر بوجھ لادیں، تو اُس نے کہا میں شتر نہیں، مرغ ہوں، لیکن جب اُسے کہا گیا کہ تم مرغ ہو تو اُڑ و تو اُس نے کہا میں مرغ تو نہیں اونٹ ہوں.یہ کیفیت کسی معقول انسان کی نہیں ہو سکتی.یا تو یہ مانا تھی
1952 178 خطبات محمود پڑے گا کہ تم نے پکا عہد کر لیا ہے کہ ہم اپنی جانیں دے دیں گے.اگر تم نے پکا عہد کر لیا ہے کہ ہم اپنی تھی جانیں دے دیں گے تو تمہیں ان نظاروں کو دیکھ کر سمجھ لینا چاہیے کہ ہماری موت کا وقت آ گیا ہے.اب ہمیں اپنا پیچ چھوڑنا چاہیے تا کہ وہ ہمیں ماریں تو ہماری جگہ اور لوگ موجود ہوں.وہ انہیں ماریں تو اُن کی ج جگہ اور لوگ ہوں.انہیں ماریں تو اُن کی جگہ اور لوگ ہوں.یا تمہیں فیصلہ کرنا ہو گا کہ ہم نے محض جتھا تی بندی کے طور پر جماعت بنائی ہے.جب لوگ گرفت کریں گے اور پکڑ دھکڑ شروع ہوگی تو ہم کہہ دیں کی گے کہ ہم احمدی نہیں.بہر حال تمہیں کوئی ایک فیصلہ کرنا ہو گا.اگر تم کوئی فیصلہ نہیں کرتے تو ماننا پڑے گا کہ تمہارا دماغ خراب ہے کیونکہ جس کا دماغ صحیح ہوتا ہے وہ آرام نہیں کیا کرتا.اگر تم آرام کرتے ہو، اگر تم پرستی اور غفلت چھائی ہوئی ہے تو یہ بھی ماننا پڑے گا کہ تمہارا دماغ خراب ہے.“ غیر مطبوعہ مواد از ریکارڈ خلافت لائبریری ربوہ) 2،1: بخاری کتاب التفسير تفسير سورة تَبَّتْ يَدَا أَبِي لَهَبٍ - وَتَوَاصَوْا بِالْحَقِّ وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ ـ (العصر :4)
1952 179 (21) خطبات محمود اپنے اندر یہ روح پیدا کرو کہ تمہارا خدا تعالیٰ سے زندہ تعلق قائم ہو جائے فرموده 20 جون 1952ء بمقام ربوہ ) تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: آج رمضان کا آخری جمعہ ہے.یہ رمضان ایسے موقع کا رمضان ہے کہ 36 سال کے بعد ایسا سخت رمضان آئے گا.یعنی اس دفعہ رمضان عین اُن دنوں میں آیا ہے جو کہ سال کے سب سے بڑے دن ہوتے ہیں اور عین اُن دنوں میں روزے ہوئے ہیں جو کہ سال میں سب سے زیادہ گرم دن ہوتے ہیں.اس گرمی میں اُن لوگوں کو چھوڑ کر کہ جن کے قومی مضبوط ہیں اور جو اس گرمی میں وہ کام کرتے ہیں جس کا دوسرے لوگ خیال بھی نہیں کر سکتے.مثلاً مزدور ہیں وہ اس شدید گرمی میں لکڑیاں اینٹ اور گارا لاتے ہیں، معمار ہیں وہ اس چلچلاتی دھوپ میں کی کام کرتے ہیں ان کو چھوڑ کر کہ شاید وہ خدا تعالیٰ کی اور قسم کی مخلوق ہیں باقیوں کا حال میں نے کی دیکھا ہے.گھر اور باہر ان کا ایک ہی حال ہے.مسجد میں میں نے دیکھا ہے لوگ گیلے تو لئے اور کی گیلی چادر اوپر لئے ہوئے ہوتے ہیں.یہی حال گھروں میں ہے.ایک شخص غسل خانہ سے نکلتا ہے تو دوسرا غسل خانہ میں داخل ہوتا ہے.چار پائیوں پر لوگ پانی چھڑک چھڑک کر گزارہ کرتے ہی ہیں.غرض اتنی شدید گرمی ہے اور اتنے لمبے دن ہیں کہ سال کے دوسرے دنوں میں اتنے شدید اور لمبے دن نہیں ہوتے.پھر ان شدید گرم اور لمبے دنوں میں جن لوگوں کو روزے رکھنے کی توفیق ملی ہے
1952 180 خطبات محمود یا اپنی معذوریوں اور مجبوریوں کے دن چھوڑ کر باقی دنوں کے روزے رکھنے کی توفیق انہیں ملی ہے اُن کی یہ عبادت 36 سال کی عبادتوں میں سے خاص عبادت ہے.در حقیقت یہ دن عام طور پر انسان پر ایک ہی دفعہ آتے ہیں.پندرہ سال کی عمر کو اگر بلوغت کی عمر سمجھ لیا جائے گو بلوغت کی اصل عمر 18 سال کی ہوتی ہے لیکن اگر اسے 15 سال ہی سمجھ لیا جائے تو اس کے معنی یہ ہیں کہ اس عمر کا انسان 32 سال کے بعد 47 سال کا ہوگا اور ہمارے ملک میں اوسط عمر 26 سال ہے.گویا انسانوں کا ایک خاصہ حصہ ایسا ہوتا ہے کہ اگر وہ اس عمر میں جا کر بالغ ہوں جبکہ یہ موسم گزر چکا ہو.مثلاً جبکہ وہ 13 ، 14 سال کے تھے تو اُن پر یہ موسم آیا اور جب و ہ 17 ، 18 سال کے تھے تو یہ موسم گزر چکا تھا تو نصف کے قریب وہ لوگ نکلیں گے جن کو یہ روزے نصیب ہی نہیں ہوں کی گے.اور ایسے لوگ جن کو یہ روزے نصیب ہونگے اُن میں سے نصف وہ ہوں گے جن کو ایک دفعہ یہ روزے نصیب ہوں گے.اور نصف یعنی گل آبادی کا چوتھائی حصہ وہ ہوں گے جن کو دو دفعہ یہ روزے نصیب ہوں گے.گویا ایک چوتھائی ایسے لوگ ہونگے جن کو عمر میں صرف ایک دفعہ یہ روزے نصیب ہوں گے.اور ایک چوتھائی ایسے لوگ ہوں گے جن کو عمر میں دو دفعہ یہ روزے نصیب ہوں گے.اور یہ تو ظاہر ہی ہے کہ کروڑوں میں سے ایک انسان ہی ایسا ہوگا جس کو عمر میں کی تین دفعہ یہ روزے نصیب ہوں.کیونکہ 36 کو تین سے ضرب دیا جائے تو ایک سو آٹھ سال بنتے ہیں اور اگر ایک شخص پندرہ سال کی عمر میں جا کر بالغ ہوا ہو تو اس کے معنی یہ ہیں کہ وہ 123 سال کی عمر پائے.اور پھر اسے ایسی غیر معمولی طاقت حاصل ہو کہ اس کے لئے ایسی شدید گرمی میں روزے رکھنے ممکن ہوں.تب وہ تین دفعہ یہ روزے رکھ سکتا ہے.ظاہر ہے کروڑوں اور اربوں کی میں ایسا کوئی ایک انسان ہی نکلے گا جو 123 سال کی عمر کو پہنچے اور پھر اس کے قومی بھی اتنے مضبوط ہوں کہ وہ ایسی شدید گرمی کے دنوں میں روزے رکھ سکے.کسی بڑے شہر میں بھی تلاش کیا کی جائے تو 123 سال کی عمر کا ایسا انسان شاید کوئی نہ نکلے گا جو روزے رکھنے کی طاقت رکھتا ہو.میں نے دو آدمی ایسے دیکھے ہیں جنہوں نے اس قدر عمر پائی ہے.ان میں سے ایک دوست گجرات کے تھے.وہ ایک دن مغرب کے بعد مجھے مسجد میں ملے اور کہا میں نے بیعت کرنی ہے.میں نے کہا آپ کہاں سے تشریف لائے ہیں؟ تو انہوں نے کہا میں لاہور سے آیا ہوں.میں نے کہا آپ کہاں کے رہنے والے ہیں؟ تو انہوں نے کہا میں گجرات کا رہنے والا ہوں.
1952 181 خطبات محمود لیکن اس وقت لاہور سے آیا ہوں.قادیان میں ابھی گاڑی نہیں آئی تھی بٹالہ سے گاڑی کے اوقات میں اگے آتے تھے.لیکن جس وقت وہ میرے پاس آئے وہ اگوں کا وقت نہیں تھا.میں کی نے کہا آپ یہاں کب پہنچے ہیں ؟ تو انہوں نے کہا میں ابھی یہاں پہنچا ہوں.میں نے پھر کہا کہ اگوں کا تو یہ وقت نہیں آپ کیسے آئے ہیں؟ تو انہوں نے کہا میں پیدل آیا ہوں.میں نے کہا کیا آپ بٹالہ سے پیدل آئے ہیں ؟ تو انہوں نے کہا نہیں میں لاہور سے پیدل آیا ہوں.میں نے کہا تج آپ لاہور سے کب چلے تھے ؟ تو انہوں نے کہا میں صبح لاہور سے چلا تھا.میرا اندازہ یہ تھا کہ اس کی وقت ان کی عمر پچاس سال کی ہے.میں نے کہا یہ عجیب بات ہے آپ کی پچاس سال کے لگ بھگ عمر ہے اور اتنا لمبا فاصلہ پیدل چل کر آپ آئے ہیں.انہوں نے کہا میری عمر پچاس سال کی نہیں ایک سو دس سال کی ہے.اب میں نے دل میں سوچا کہ یا تو یہ شخص جھوٹا ہے یا پاگل ہے.میں نے کہا آپ کہتے ہیں کہ میری عمر 110 سال کی ہے لیکن آپ 110 سال کے نظر نہیں آتے.انہوں نے کہا عمر تو میری 110 سال کی ہی ہے ہاں بعض لوگوں کے قومی مضبوط ہوتے ہیں کی میرے قومی مضبوط ہیں.پھر انہوں نے بتایا میں جوان تھا اور میں ایک مولوی صاحب سے جو بزرگ مشہور تھے پڑھا کرتا تھا کہ مہاراجہ رنجیت سنگھ پشاور کی طرف حملہ کے لئے گیا.اس کا خیال ہے تھا کہ یہ لڑائی خطرناک ہوگی اور شاید میں پٹھانوں سے عہدہ برآ نہ ہو سکوں اس لئے وہ اس کی بزرگ کے پاس آیا جس سے میں پڑھا کرتا تھا اور کہا میں پشاور کی طرف جا رہا ہوں آپ میری کامیابی کے لئے دعا کریں.چنانچہ اُس نے میرے ایک استاد صاحب کو ایک بھینس بطور تحفہ دیا اور انہوں نے وہ بھینس مجھے دی اور کہا کہ اسے نہلا کر لاؤ.اُس وقت میری عمر 18 سال کی تھی.کی میرے لئے یہ بات نہایت حیرت کی تھی.بہر حال انہوں نے بیعت کی اور چلے گئے.کچھ عرصہ تک ان کے متعلق کوئی پتا نہ لگا.ایک دفعہ اُس علاقہ کے ایک دوست سے ذکر ہوا.میں نے کہانی میں خیال کرتا ہوں کہ وہ جھوٹا یا حواس باختہ شخص تھا.انہوں نے کہا وہ شخص سچا تھا.وہ بیعت کر کے واپس گیا اور 128 سال کی عمر میں فوت ہوا ہے.گویا 17 ، 18 سال کے بعد وہ دوست فوت ہو گئے اور غالبا یہ ملاقات کا واقعہ 1915 ء ، 1916 ء ، یا 1917 ء کا ہے.پس ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں لیکن یہ لوگ شاذ ہوتے ہیں.
1952 182 خطبات محمود پس یہ دن خاص دن تھے اور اب یہ دن 36 سال کے بعد ہی آسکتے ہیں.جن لوگوں کی تھی عمریں اب چالیس سال کے قریب ہیں چھتیس سال کے بعد یا تو وہ زندہ نہیں ہوں گے اور یا اس کی قابل نہیں ہوں گے کہ اتنے شدید گرم دنوں میں روزے رکھ سکیں کیونکہ 36 سال کے بعد ان کی ج عمر 76 سال کی ہوگی اور اس عمر میں بیشتر حصہ لوگوں کا یا تو مر چکا ہوتا ہے یا ان کے قومی اتنے مضمحل ہو جاتے ہیں کہ وہ روزہ رکھنے کے قابل نہیں رہتے.ہاں جو نو جوان ہیں اور ان کی عمر 17 ، 18 سال کی ہے اور انہیں اس سال روزے رکھنے کی توفیق ملی ہے ان کے لئے امکان ہے کہ وہ 36 سال کے بعد ان دنوں میں روزے رکھ سکیں کیونکہ 36 سال کے بعد ان کی عمر 54،53 سال کی ہوگی.غرض یہ دن خاص تھے اور موسم نے انہیں اور بھی خاص بنا دیا تھا.درحقیقت اس موسم کی شدت ایسی تھی کہ علاوہ روزوں کے انسانی دماغ بھی اس سے متاثر ہوئے ہیں.بسا اوقانہ بعض چیزوں کے نام بھی یاد نہیں رہتے کیونکہ شدت گرمی کی وجہ سے حواس پورے طور پر کام نہیں کرتے.اب غالباً تین دن اور باقی ہیں بلکہ بعض لوگ کہتے ہیں کہ اب صرف دو ہی دن باقی ہیں کیونکہ اُن کے نزدیک چاند ایک دن بعد دیکھا گیا ہے.اگر پہلی صورت ہے تو یہ مہینہ لا زما انتیس دن کا ہو گا اور اس لحاظ سے عید پیر کے دن ہو گی اور اگر چاند ایک دن بعد میں دیکھا گیا ہے اور گزشتہ مہینہ میں دن کا تھا تو اٹھائیس روزوں کے بعد عیدا تو ار کو ہوگی.اور اگر پہلا مہینہ انتیس دن کا تھا تو یا اتوار کو یا پیر کو عید ہو گی.یہ ساڑھے تین دن جو باقی ہیں ( نصف دن جمعہ کا ) ان میں ہمیں زیادہ سے زیادہ دعائیں کرنی چاہئیں.در حقیقت مذہب نام ہے روحانیت کا.مذہب قشر اور چھلکے کا نام نہیں.مذہب محبت کے اس تعلق کو مضبوط کرنے کا نام ہے جو انسان کو خدا تعالیٰ سے ہے.اگر انسان کو خدا تعالیٰ.محبت نہیں تو ساری باتیں زبانی کھیل ہیں اور کچھ نہیں.اگر انسان کو خدا سے محبت کا تعلق نہیں تو یہ نماز جو ہم پڑھتے ہیں ، یہ روزے جو ہم رکھتے ہیں ، یہ زکوۃ جو ہم دیتے ہیں، یہ حج جو ہم کرتے ہیں ، یہ بنی نوع انسان کی خدمات جو ہم کرتے ہیں یہ چونکہ ساری کی ساری اظلال ہیں پس اگر اصل چیز ہے ہی نہیں تو ظل کہاں سے آئے گا.اگر کسی کو ظل اچھا لگتا ہے تو لا زما وہ اصل کی طرف جائے گا.تم کسی چیز کی تصویر دیکھتے ہو تو وہ تصویر تمہارے اندر کیا جذبہ پیدا کرتی ہے.ایک اچھی چی
1952 183 خطبات محمود تصویر تم دیکھو گے کہ وہ تمہارے اندر پسندیدگی کا جذبہ پیدا کرے گی بلکہ پسندیدگی کے جذبہ سے زیادہ تمہارے اندر یہ جذبہ پیدا ہو گا کہ تم اس چیز کو خود دیکھو.جب کوئی شخص سوئٹزر لینڈ ، امریکہ اور انگلینڈ وغیرہ ممالک کے نظاروں اور اُن کی تہذیب کے نظاروں کی تصویر میں دیکھتا ہے تو اُس کی کے اندر یہ جذبہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ یہ جگہیں خود جا کر دیکھے.غرض جب انسان اظلال کو دیکھتا ہے کی تو اس کی توجہ فوراً اصل کی طرف جاتی ہے.مثلاً وہ نماز پڑھتا ہے جو اُسے پسند ہے، وہ حج کرتا ہے جو اُ سے پسند ہے، وہ زکوۃ دیتا ہے جو اُ سے پسند ہے، وہ صدقہ و خیرات کرتا ہے جو اسے پسند ہے، وہ قومی خدمات کرتا ہے جو اسے پسند ہیں اور قربانی اور ایثار کا نمونہ دکھاتا ہے جوا سے پسند ہے.تو یہ ساری چیزیں اظلال ہیں صفات الہیہ کا.ان کی اور کوئی حیثیت نہیں.ان کی غرض محض یہ ہے کہ ان اظلال کو دیکھ کر اصل کی طرف توجہ اور رغبت ہو.ایک ایسی چیز جو فنا ہونے والی ہے جس کا حقیقی وجود کوئی نہیں وہ مقصود نہیں ہو سکتی.پس جب کہ حقیقت خدا تعالیٰ ہے جو دائمی ہے اور ازلی ابدی ہے تو ان اظلال سے اُس کی طرف جانے کی توجہ ہونی چاہیئے.یہ الگ بات ہے کہ کسی کے دل میں خدا تعالیٰ پر یقین نہ ہو.لیکن سوال یہ ہے کہ اُسے کسی نہ کسی چیز پر یقین تو ہوتا ہے.اگر خدا تعالیٰ نہیں تو کیا چیز باقی رہ جاتی ہے جس پر وہ یقین کرتا ہے.اگر ماحول، ابتدا اور آخر کو دیکھ کر کسی چیز کا وجود نظر نہیں آتا تو وہ سارا خیال اور وہم ہے.پس یا خدا تعالیٰ ہے یا سب کچھ محض و ہم اور خیال ہے.اگر کسی شخص کو اظلال اصل چیز کی طرف توجہ نہیں دلاتے تو معلوم ہوا کہ اُس کی کے جذبات غیر طبعی ہیں.مثلاً اگر وہ کسی بڑے دریا کی تصویر دیکھتا ہے اور وہ خیال کرتا ہے کہ یہ کتنا بڑا دریا ہے جو چکر کھاتا ہوا دور تک نکل جاتا ہے، اس سے آبشار میں نکلتی ہیں اور وہ اسے نہایت پسند کرتا ہے لیکن اس کے اندر یہ خواہش پیدا نہیں ہوتی کہ وہ اس دریا کو اپنی شکل میں دیکھے تو اس کی پسندیدگی اور رغبت غیر طبعی ہے.اگر اس کی پسندیدگی اور رغبت طبعی ہوتی تو تصویر دیکھ کر اس کے دل میں یہ خواہش پیدا ہو جاتی کہ کاش! اسے اصل چیز کو دیکھنے کا موقع مل جائے.بعض دفعہ ایک طبعی خواہش بھی حد سے گزر جائے تو عجیب معلوم ہونے لگتی ہے.ایک دوست جوا بھی زندہ ہیں اُن کی عادت تھی کہ جب کبھی اُن کے سامنے کسی چیز کا ذکر ہوتا اور انہیں کہا جاتا کہ چلو فلاں چیز دیکھیں مثلاً کوئی میچ ہے یا کوئی اور نظارہ ہے اور انہیں کہا جاتا کہ چلو فلاں میچ یا نظارہ دیکھ آئیں تو طالب علمی کے وقت میں اُن کی طرف سے ہمیشہ یہ جواب ملتا تھا کہ وہ چیز کی
1952 184 خطبات محمود دیکھنے کی کیا ضرورت ہے.قرآن کریم کہتا ہے کہ ساری چیزیں جنت میں مل جائیں گی اور جب ساری چیز میں جنت میں مل جائیں گی تو یہاں دیکھنے کی کیا ضرورت ہے.تھی تو یہ درست بات.لیکن یہ ایک طبعی جذبہ تھا جو حد سے نکل گیا تھا.ایک ماں اور ماؤں سے زیادہ محبت کرتی ہے تو ہم کہیں گے یہ طبعی جذبہ ہے جو حد سے زیادہ بڑھ گیا ہے.لیکن اگر ایک غیر ماں ، ماں سے زیادہ محبت کرتی ہے تو ہم اُسے طبعی جذبہ نہیں کہتے بلکہ فریب یا فریب نفس کہتے ہیں.مثل مشہور ہے ”ماں سے زیادہ چاہے کٹنی کہلائے، یعنی اگر ایک غیر ماں، ماں سے زیادہ محبت کرتی ہے تو وہ ٹھگ ہے.لیکن اگر ایک ماں دوسری ماؤں سے زیادہ محبت کرتی ہے تو ہم اُسے ٹھگ نہیں کہتے.ملہ ہم یہ کہتے ہیں کہ ہے تو یہ طبعی جذ بہ لیکن اس جذبہ کے اظہار میں یہ عورت حد سے گزرگئی ہے اور شاید بیمار ہے.گویا غیر طبعی جذ بہ ٹھگی کہلاتا ہے.لیکن جب کوئی شخص کسی طبعی جذ بہ میں حد سے گزر جاتا ہے تو وہ ٹھگی نہیں کہلا تا بلکہ ایسا ہونا اس کی بیماری کی علامت ہوتا ہے.پس محبت الہی کا بہ اگر غیر طبعی ہو جائے تو تمہاری جسمانی بیماری کی علامت تو کہلائے گا لیکن یہ تمہاری روحانی بیماری کی علامت نہیں ہوگا.لیکن اگر باوجود نماز ، روزہ ادا کرنے کے خدا تعالیٰ کی محبت کا جذ بہ تم میں پیدا نہیں ہوتا تو یہ تمہاری روحانی بیماری اور منافقت کی علامت سمجھا جائے گا.خدا تعالیٰ کی محبت ، خدا تعالیٰ پر یقین اور وثوق پیدا کرنا اور اُسے ملنے کی کوشش کرنا ایک طبعی جذ بہ ہے لیکن کتنے نو جوان ہیں جو ایسا کرنے کی کوشش کرتے ہیں.جب حضرت مسیح موعود کی علیہ الصلوۃ والسلام نے دعوئی فرمایا تھا اُس وقت ہر انسان کا ایک ہی مقصد تھا کہ وہ آپ کے کی ذریعہ خدا تعالیٰ کو ملے گا.وہ لوگ آگے بڑھتے تھے کیونکہ ان میں سے ہر ایک یہ سمجھتا تھا کہ اگر کسی چیز نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو دوسرے علماء پر امتیاز دیا ہے تو وہ یہی چیز ہے کہ آپ کی پیروی کرنے سے خدا ملتا ہے.مسائل دوسرے علماء بھی جانتے ہیں.اگر آپ کی وجہ سے کوئی فرق پیدا ہوا ہے تو وہ یہی ہے کہ آپ کی پیروی سے خدا تعالیٰ سے ملتا ہے.آپ کا دعوی ہے کہ خدا تعالیٰ کو ملنے کا دروازہ کھلا ہے بند نہیں.لیکن اب کتنے نوجوان ہیں جو خدا تعالیٰ کو ملنے کی کوشش کرتے ہیں.جتنا وقت دور ہوتا جاتا ہے لوگوں سے یہ خواہش مٹتی جاتی ہے حالانکہ چاہیے یہ تھا کہ ہمت اور کوشش سے اس جذبہ کو ابھارا جاتا.اگر ایسا نہیں کیا جاتا تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا آنا بھی بیکا ر ہے.
1952 185 خطبات محمود پس ان دنوں میں دعائیں کرو.نوجوان اپنے اندر یہ روح پیدا کریں کہ خدا تعالیٰ کا زندہ کی تعلق حاصل ہو جائے.پہلے اگر ایک شخص جاتا تھا جسے خدا تعالیٰ سے تعلق ہوتا تھا تو اُس کی جگہ کئی اور پیدا ہو جاتے تھے.تھے.بجائے اس کے کہ تم یہ کہو کہ اب ایسا کوئی شخص نہیں جس کا تعلق خدا تعالیٰ سے ہو یا جسے الہام ہوتا ہو تم خود کوشش کرو کہ اگر ایک ایسا شخص مرجائے تو 20 اور ایسے آدمی پیدا ہو جائیں.اور اگر 20 آدمی مر جائیں تو 200 اور ایسے آدمی پیدا ہو جا ئیں.اگر 200 آدمی مر جائیں تو 20 ہزار اور ایسے آدمی پیدا ہو جائیں.یہ چیز ہے جو تمہارے حوصلوں کو بڑھائے گی اور دنیا کو مایوس کر دینے والی ہوگی.دنیا مادی ہتھیاروں کی طرف دیکھتی ہے.اگر ہزاروں لوگ کی ایسے پیدا ہو جائیں جو خدا تعالیٰ سے ہم کلام ہونے والے ہوں.خدا تعالیٰ کے نشانات دیکھنے کی والے ہوں ، خدا تعالیٰ پر یقین رکھنے والے ہوں اور اس کا ظہور اپنی ذات میں محسوس کرنے کی والے ہوں تو دوسرے لوگ خود بخود مایوس ہو جائیں گے.کیونکہ دوسرے لوگ قصے سناتے ہیں اور یہ لوگ آپ بیتی سنائیں گے.اور جگ بیتی آپ بیتی جیسی نہیں ہوتی.جب ہزاروں کی تعداد کی میں ایسے لوگ پیدا ہو جائیں گے جن کا خدا تعالیٰ سے تعلق ہو گا تو جگ بیتی بھاگ جائے گی اور آپ بیتی غالب آجائے گی کیونکہ سنی سنائی بات دیکھی ہوئی بات پر غالب نہیں آسکتی.“ ( الفضل 8 جولائی 1952ء)
خطبات محمود 1952 186 (22) ہر مصیبت، ہر خوف اور ہر حملہ تمہاری طاقت میں اضافہ کا موجب ہونا چاہیے (فرمودہ 27 جون 1952ء بمقام ربوہ ) تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: موسم کی تبدیلی کے ساتھ دو تین دن سے مجھے دورانِ سر کی تکلیف ہے.انسان جب ضعف کی طرف جاتا ہے تو ہر تغیر اس کے لئے تکلیف دہ ہی ہوا کرتا ہے.جب جھلسنے والی گرمی پڑتی تھی تو میں گھر میں کہا کرتا تھا کہ اصل تکلیف دہ تو یہ گرمی ہے جب برساتی ہوا چلنے لگ جائے گی تو انسان گرمی کو برداشت کرنے لگ جائے گا.لیکن جب برساتی ہوا چلنے لگی تو معلوم ہوا کہ میرے لئے یہ موسم بھی خطرناک ہے.حقیقت یہ ہے کہ جب صحت کا توازن بگڑ جاتا ہے تو ہر چیز اس کے لئے بُری بن جاتی ہے.بہر حال انسان نے کام کرنا ہے وہ خواہ کسی حالت میں ہوا سے پنا فرض ادا کرنا ہے.ایک ایسے شخص کے لئے جو اپنی ذمہ داریوں کو سمجھتا ہے اس کے لئے ایسا کرنا نہایت ضروری ہوتا ہے اور اس حالت کو نظر انداز کرنا یا تکلیف کی جس کو کم کرنا اُس کا فرض ہوتا ہے.کسی شاعر نے کہا ہے کسی کی شب ہجر روتے کٹے ہے کسی کی شب وصل سوتے کٹے ہے
خطبات محمود ہماری 187 شب کیسی شب ہے اٹھی نہ روتے کئے نہ سوتے کئے ہے ہے 1952 یعنی کوئی مہجور ایسا ہوتا ہے جو اپنے محبوب سے دور ہوتا ہے وہ اس کی یاد میں رو رو کر رات کاٹ دیتا ہے.اور کسی کو اپنے محبوب کا قرب اور وصال حاصل ہوتا ہے تو وہ خوشی میں سوسو کر اپنی رات گزار دیتا ہے.شاعر کہتا ہے کہ میری شب ہجر کیسی ہے کہ نہ تو یہ سوئے کلتی ہے اور نہ روتے کلتی ہے.اسی طرح جب انسان کی صحت گر جاتی ہے اور اس کی عمر تنزل کی طرف جاتی ہے تو اس کی کے لئے در حقیقت کسی تبدیلی سے کسی اچھے امکان کا پیدا ہونا ناممکن ہوتا ہے.جو جو تبدیلی بھی ہوتی ہے اُس کے لئے نقصان دہ ہوتی ہے کیونکہ بیماری اس کے اندر ہوتی ہے اور وہ ظاہری نجی تغیرات پر قیاس کرتا ہے کہ شاید کسی نہ کسی تغیر پر وہ صحت کی طرف قدم اٹھانے لگ جائے.لیکن کی ہر ظاہری تغیر اس کے لئے تکلیف کا موجب ہوتا ہے.جو قانون انسانی جسم کے متعلق جاری ہے وہی قانون قوموں کے متعلق بھی پایا جاتا ہے.جب قو میں تندرست ہوتی ہیں ، جب قو میں اپنی اُٹھان کے وقت میں ہوتی ہیں تو ہر تغیر ان کے لئے ایک نیک نتیجہ پیدا کرتا ہے.اگر ان کا دشمن بھاگتا ہے تب بھی وہ جیتی ہیں اور اگر ان کا دشمن حملہ کرتا ہے تب بھی وہ جیتی ہیں.غرض کوئی تغیر ان کے لئے تکلیف کا موجب نہیں ہوتا.دوسرے کی لوگ ، جب ان کے دشمن جمع ہوتے ہیں یا مخالف اُن پر حملہ کے لئے تیار ہوتے ہیں تو وہ سمجھتے ہیں کہ یہ ایک مصیبت اور ابتلاء ہے.لیکن قرآن کریم صحابہ کے متعلق فرماتا ہے کہ جب جنگ احزاب کے موقع پر چاروں طرف سے دشمن مدینہ پر چڑھ آئے ، جب اندر کے دوست بھی دشمن سے مل گئے اور باہر والے غیر متعلق لوگ بھی دشمن کے ساتھ مل گئے اور مسلمان اس حد تک خطرات میں گھر گئے کہ منافق جیسے بزدل لوگوں نے بھی یہ کہنا شروع کر دیا کہ نکلے تھے دنیا کو فتح کرنے لیکن اب ان کو پاخانہ کرنے کو بھی جگہ نہیں ملتی 1.تو اللہ تعالیٰ کہتا ہے کہ مومن اُس وقت اپنے ایمان میں اور بھی بڑھ گئے اور ان کی خوشی اور ترقی کر گئی.اور وہ کہنے لگے کہ یہ مصائب تو وہی ہیں جن کی خدا تعالیٰ نے ہمیں پہلے سے خبر دے رکھی تھی.خدا تعالیٰ نے ہمیں پہلے سے بتا دیا تھا کہ لوگ تمہیں تباہ کرنے اور مٹانے کے لئے اکٹھے ہوں گے 2.قرآن کریم کی یہ پیشگوئی کس طرح کچی ثابت ہوئی ہے.غرض بجائے اس کے کہ دشمن کا تی
1952 188 خطبات محمود اجتماع اور اتحاد اور اس کا حملہ مومنوں کے دلوں کو کمزور کرتا یہ خبر سن کر اُن کے دل اور بھی مضبوط کی ہو گئے.بجائے اس کے کہ اُن کے ایمان متزلزل ہوتے وہ اور مضبوط ہو گئے.اسلام پر یہ دن جوانی کے تھے.ہر چیز ، ہر مصیبت اور ہرا بتلاء جو اُن پر آتا تھا مسلمان اسے ہضم کر جاتے تھے اور کی وہ ان کے لئے ایمان میں ترقی کا موجب ہوتا تھا.پھر اسلام پر تنزل کا وقت آیا تو ہر مصیبت اور ہر ابتلاء جو اُن پر آیا وہ ان کی کمزوری کا موجب ہوا.یا تو ہر مصیبت اور ابتلاء ان کے ایمانوں کو بڑھا دیتا تھا اور یا پھر اسلام کے اضمحلال کے زمانہ میں ہر مصیبت جو اسلام پر آئی وہ مسلمانوں کے لئے نقصان کا موجب ہوئی.جب اسلام ظاہر ہوا عیسائیت زوروں پر تھی.اسلام کے ظہور کے قریب ترین زمانہ میں بلکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات میں ہی عیسائیوں کو ایک عظیم الشان سلطنت پر فتح حاصل ہوئی تھی یعنی روم نے ایران کو شکست دی تھی.اس طاقت اور قوت کے زمانہ میں اسلام اٹھا، پھیلا ، اور روم کی سلطنت سے ٹکرایا اور رومیوں کو ایک حد تک پیچھے دھکیل دیا.لیکن ابھی دشمن کی موجود تھا، ابھی اسے طاقت اور تنظیم حاصل تھی ، ابھی وہ دنیا میں زبردست شہنشاہیت سمجھی جاتی تھی کی کہ مسلمانوں نے آپس میں لڑنا شروع کر دیا.حضرت عثمان کو شہید کر دیا گیا.حضرت علی کے کی مقابلہ میں مسلمانوں کا ایک حصہ کھڑا ہو گیا.روم کے بادشاہ نے چاہا کہ وہ مسلمانوں کے اس تفرقہ سے فائدہ اٹھائے اور ان پر حملہ کر دے تا وہ اپنی کھوئی ہوئی طاقت کو دوبارہ حاصل کر سکے.جب بادشاہ روم کا مسلمانوں پر حملہ کرنے کا ارادہ ہوا تو ایک پادری نے جو مسلمانوں کے علاقہ میں رہ چکا تھا اور ان کی حالت سے واقف تھا بادشاہ کو کہا میں ایک بات کہنی چاہتا ہوں، اس کے بعد آپ جو چاہیں کریں.میں مسلمانوں کے علاقہ میں رہ چکا ہوں اور ان کے حالات قریب سے دیکھ چکا ہوں.وہ پادری عیسائی تھا مسلمان نہیں تھا.وہ بغض و کینہ میں دوسرے عیسائیوں سے کم نہیں تھا.لیکن سیاسی لحاظ سے وہ سمجھتا تھا کہ مسلمانوں پر حملہ کرنا اچھا نہیں.اس نے مثال گندی دی لیکن اس کے نقطہ نگاہ سے وہ مثال درست تھی.اس نے بادشاہ سے کہا آپ وکتے لیجئے اور ان کو کچھ دن بھوکا رکھئے.پھر ان کے آگے گوشت ڈالئے.چنانچہ کتے بھو کے رکھے گئے اور پھر ان کے آگے گوشت ڈالا گیا.کتے کو عادت ہوتی ہے کہ وہ دوسرے کو کھا تا دیکھ نہیں سکتا.کتوں نے جب گوشت دیکھا تو ایک دوسرے کو دیکھ کر غرانے لگے اور غرانے کے
1952 189 خطبات محمود بعد ایک دوسرے پر حملہ کرنے لگے.پادری نے کہا اب ایک شیر منگوائیے اور اسے ان کتوں پر چی چھوڑ دیجئے.چنانچہ شیر منگوایا گیا اور کتوں پر چھوڑ دیا گیا تو دونوں گتے اپنی پیٹھ جوڑ کر اُس کا مقابلہ کرنے کے لئے کھڑے ہو گئے.اس پادری نے کہا جو حالت ان کتوں کی ہے وہی حالت مسلمانوں کی ہے.آپ کو خبر مل رہی ہے کہ ( حضرت ) علی اور ( حضرت ) معاویہؓ آپس میں لڑ رہے ہیں.لیکن اُن کی لڑائی ذاتی ہے.جب اسلام پر مصیبت آئی تو دونوں اکٹھے ہو جائیں گے.اگر جانور مصیبت کے وقت اپنا اختلاف بھول جاتے ہیں تو مسلمان جو ایک زندہ قوم ہے آپ کے حملہ ہونے پر کیوں نہ اکٹھا ہو جائیں گے.روم کے بادشاہ نے اس پادری کی بات پر زیادہ توجہ نہ دی اور مسلمانوں پر حملہ کرنے کی تیاری شروع کر دی.جب معاویہ کو یہ خبر پہنچی کہ حضرت علی اور ان کی آپس کی لڑائی کو دیکھ کر بادشاہ روم ان پر حملہ کرنا چاہتا ہے اور اس تفرقہ سے فائدہ اٹھانا چاہتا ہے تو چونکہ سب سے پہلے معاویہ کا علاقہ ہی آتا تھا انہوں نے اپنا ایک ایچی بادشاہ روم کے پاس بھیجا اور کہا میں نے سنا ہے کہ تمہارا مسلمانوں پر حملہ کرنے کا ارادہ ہے.لیکن یاد رکھو کہ اگر تم نے اسلامی ممالک پر حملہ کیا تو سب سے پہلا جرنیل جو حضرت علی کی طرف سے تمہاری فوجوں کے مقابلہ میں آئے گا وہ میں ہوں گا.3 حضرت معاویہؓ نے یہ نہیں کہا کہ سب سے پہلے میں تم سے لڑوں گا بلکہ یہ کہا کہ لڑیں گے تجھ سے حضرت علی ہی لیکن میں علی کا جرنیل ہونے کی حیثیت سے تم سے لڑوں گا اور سب سے پہلے میں تمہارے مقابلہ میں آؤں گا.یعنی ہمیں کی اُس وقت ساری رقابت بھول جائے گی اور ہم اکٹھے ہو کر تمہارا مقابلہ کریں گے.بادشاہ روم کو نی جب یہ خبر پہنچی تو اس نے اسلامی ممالک پر حملہ کرنے کا ارادہ ترک کر دیا اور مسلمانوں کا یہ ضعف بھی اُن کی شوکت کا موجب ہوا.اگر مسلمانوں میں تفرقہ نہ ہوتا تو یہ شوکت ظاہر نہ ہوتی اور کسی کو یہ معلوم نہ ہوسکتا کہ مسلمانوں پر جوانی کا وقت ہے.اس وقت ان کا تفرقہ اور ضعف بھی ان کی طاقت کا موجب ہے.یہ دن اسلام کی اُٹھان کے ہیں.اس وقت جو چیز بھی آئے گی مسلمانوں کی طاقت کا موجب ہوگی.جب انسانی معدہ اچھا ہوتا ہے تو وہ چنے کھاتا ہے تو ہضم ہو جاتے ہیں ، وہ ماش کھاتا ہے تو ہضم ہو جاتے ہیں، وہ گوشت کھاتا ہے تو ہضم ہو جاتا ہے، وہ روٹی کھا تاج ہے تو ہضم ہو جاتی ہے.غرض ہر چیز جو وہ کھاتا ہے اُس کے اندر طاقت پیدا کرتی ہے.لیکن جب انسانی معدہ خراب ہو تو وہ پلاؤ کھائے گا تب بھی بیمار ہو جائے گا ، وہ مرغ کھائے گا تب بھی بیمار
1952 190 خطبات محمود ہو جائے گا ، وہ روٹی کھائے گا تب بھی بیمار ہو جائے گا.غرض ہر چیز جو وہ کھا تا ہے اس کی صحت کو نیچے گرا دیتی ہے.لیکن جس نوجوان کا معدہ ٹھیک ہو چاہے اُسے چوڑی 4 ہوئی ہڈیاں دے دی جائیں، اُسے دال دے دی جائے ، اُسے مڈھل 5 کی روٹی دے دی جائے تو وہ اس کے اندر کی طاقت پیدا کرتی ہے.پس جوانی کی علامتوں اور اس کے زمانے میں اور کمزوری کی علامتوں اور اس کے زمانے میں فرق ہوتا ہے.تمہارا زمانہ بھی جوانی کا ہے.قوم کی عمر انسان کی عمر کے برابر نہیں ہوتی.قوم کی عمر انسانی زندگی سے بہر حال زیادہ ہوتی ہے.سلسلہ احمدیہ اور میری عمر ایک ہی ہے.جس سال حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے دعویٰ کیا ہے اور بیعت لی ہے میں اُسی سال پیدا ہوا تھا.گویا جتنی میری عمر ہے اتنی عمر سلسلہ کی ہے.لیکن افراد کی عمروں اور قوم کی عمر میں فرق ہوتا ہے.ایک فردا گر 70 یا 100 سال زندہ رہ سکتا ہے تو قو میں 300 ، 400 سال تک زندہ رہ سکتی ہیں.اگر تین سو سال بھی کسی قوم کی زندگی رکھ لیج جائے تو اُس کی جوانی کا زمانہ اُس کے چوتھے حصہ کے قریب سے شروع ہوتا ہے.اگر ایک کی انسان کی عمر 72 ، 74 سال فرض کر لی جائے تو اس کی عمر کے چوتھے حصہ سے جوانی شروع ہوتی ہے.یعنی 18 ، 19 سال سے انسان جوانی کی عمر میں داخل ہوتا ہے.اس طرح اگر کسی قوم کی عمر 300 سال قرار دے لی جائے تو اُس کی جوانی 75 سال کی عمر سے شروع ہو گی.تمہاری عمر تو می ابھی 13 سال کی ہے.گویا تم ابھی جوان بھی نہیں ہوئے.ہاں تم اُن دنوں کے قریب آرہے ہو جب تم جوان ہو گے.پس تمہارے حالات اُن قوموں سے مختلف ہونے چاہئیں جو بوڑھی ہوچکی ہیں جو اپنا زمانہ دیکھ چکی ہیں.تمہارے لئے ہر خوف ، تکلیف اور دشمن کا حملہ ایسا ہی ہونا چاہیے جیسے جوان آدمی کے لئے پتھر اور روڑے.ایک جوان آدمی جو کچھ کھاتا ہے اُسے ہضم کر لیتا ہے اور وہ اُس کی طاقت کا موجب ہوتا ہے.اسی طرح تم بھی ابھی جوانی میں داخل ہور ہے ہو.اس لئے ہر خوف، ہر حملہ اور ہر مصیبت تمہاری طاقت میں اضافہ کا موجب ہونی چاہیے.جو دشمن اٹھے جو منصوبہ کرے تمہارے لئے ضعف کا موجب نہیں ہونا چاہیے.ایک جوان آدمی کے لئے سخت اور نرم غذا کا سوال نہیں ہوتا.وہ جو کچھ کھائے گا اُس کی طاقت کا موجب ہوگا.جانوروں میں دیکھ لو.قطاة 6 ایک جانور ہے جو پتھر اور روڑے کھاتا ہے اور یہی پتھر اور روڑے اُس میں کی خون پیدا کرنے کا موجب ہوتے ہیں.اسی طرح انسانوں میں بھی ایسے لوگ پائے جاتے ہیں
1952 191 خطبات محمود جو بڑی سخت چیزیں کھا جاتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ میں ایک شخص پیرا نامی تھا جو پہاڑی تھا.نقرس کی وجہ سے اس کے گھٹنے جُڑ گئے تھے.اُس کے رشتہ داروں نے کہیں سے سنا کہ حضرت مرزا صاحب بڑے اچھے آدمی ہیں.کھانا بھی گھر سے دیتے ہیں اور علاج بھی کرتے ہیں.چنانچہ وہ اسے علاج کے لئے قادیان لے آئے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے درخواست کی کہ آپ اس کا علاج کریں.آپ نے فرمایا اس کی بیماری بہت پرانی ہے اس کے لئے لمبائی علاج درکار ہے.انہوں نے کہا اچھا آپ علاج شروع کر دیں چنانچہ آپ نے علاج شروع کی کر دیا.لیکن وہ لوگ اسے چھوڑ کر چلے گئے.آپ علاج کرتے رہے.جب وہ اچھا ہو گیا اور کی اس کے رشتہ داروں نے سنا کہ پیرا تندرست ہو گیا ہے تو وہ اُسے لینے کے لئے آگئے.پہاڑیوں کو آدمیوں کی ضرورت ہوتی ہے.پیرا جاہل تھا لیکن جب اُس کے رشتہ دار اُسے لینے کے لئے آگئے تو اُس نے ساتھ جانے سے انکار کر دیا اور کہا کہ بیماری میں جو شخص میرے کام آیا ہے وہی میرا رشتہ دار ہے.چنانچہ وہ قادیان میں ہی رہا اور وہیں فوت ہوا.وہ بڑا مضبوط کی نوجوان تھا.اُس کا جسم اتنا قوی تھا کہ اُسے مٹی کے تیل سے بھی طاقت حاصل ہوتی تھی اور وہ کہا تجھے کرتا تھا کہ تیل مٹی کا ہو یا سرسوں کا اس میں فرق ہی کیا ہے ، ایک ہی چیز ہے.جب اُس نے یہ کی بات کہنی تو لوگوں نے کہنا اچھا مٹی کا تیل پی جاؤ تو وہ مٹی کا تیل پی لیتا تھا اور وہ اس سے بیمار نہیں ہوتا تھا.باہر سے لوگ آتے اُسے چار آنے کے پیسے دیتے اور کہتے مٹی کا تیل پی کے دکھاؤ تو وہ پی جا تا.بلکہ وہ کہا کرتا تھا اس کا مزہ اچھا ہے چاہے دال میں ڈال کر کھا لو.چنانچہ وہ دال میں مٹی کے تیل کی بوتل ڈال کر کھا لیتا تھا اور وہ اسے نقصان نہیں دیتا تھا بلکہ اُس کی طاقت کا موجب ہوتا تھا.غرض جو ان آدمی کو ہر چیز طاقت دیتی ہے.یہی حال جوان قوموں کا بھی ہے.ان کی مثال بھی انسان کی طرح ہی ہے.ہر دکھ اور ہر تکلیف ان کے لئے کھاد کی طرح ہوتی ہے.اور تمہاری مثال تو ایک ایسے شخص کی طرح ہے جو ابھی جوان ہو رہا ہے.تم تو ابھی پوری جوانی کو بھی نہیں پہنچے.گجا یہ کہ تم میں بڑھاپے کے آثار پیدا ہو جائیں.تمہاری عمر ابھی وہ بھی نہیں کہ جب انسان اپنی طاقت کی انتہاء کو پہنچتا ہے.پھر طاقت کا زمانہ بھی لمبا ہوتا ہے.اگر انسان 18 سال کا جوان ہوتا ہے تو اس سے ڈیوڑھا عرصہ
1952 192 خطبات محمود اُس کی جوانی میں لگتا ہے.یعنی 27 سال اس کی جوانی کے ہوتے ہیں گویا 45 سال کا انسان ہو تب اس میں کمزوری کے آثار پیدا ہونے چاہئیں.بلکہ بڑھا پا تو اس سے بھی بعد میں آتا ہے.لوگ کہتے ہیں سا ٹھا باٹھا.گویا اگر قومی لحاظ سے 75 سال کے بعد تم جوان ہو تو 75+35=110 سال تمہاری جوانی کی عمر ہو گی.گویا اگر ضعف کے آثار تم میں پیدا ہوں تب بھی 185 سال کے بعد پیدا ہونے چاہئیں اور یہ ایک صدی سے زیادہ بھر پور جوانی کا وقت ہو گا.اور پھر نیم جوانی کا وقت 75 سال اور سمجھ لو.گویا ڈیڑھ صدی یا پونے دوصدیوں کے بعد اضمحلال کا زمانہ شروع ہوگا.پھر مرتے مرتے بھی تو میں وقت لیتی ہیں.یہ نہیں ہوتا کہ انسان ساٹھ سال کا ہوتے ہی سوٹا پکڑ لے.بلکہ وہ آہستہ آہستہ کمزوری کی طرف بڑھتا ہے اور دیکھتے دیکھتے بغیر کسی خیال کے اس کی حالت تبدیل ہوتی جاتی ہے.یہی حال قوموں کا ہے.ہماری جماعت کو یا د رکھنا چاہیے کہ وہ ابھی جو ان بھی نہیں ہوئی.اس پر ابھی وہ زمانہ ہے کہ جب انسان کچھ بھی کھالے تو وہ اسے ہضم ہو جاتا ہے.ہزاروں مخالفتیں ہوں ، مصائب ہوں، ابتلاء ہوں، یہ اس کی قوت کے بڑھانے کا موجب ہونے چاہئیں کمزوری کا موجب نہیں.اگر تم اس چیز کو سمجھ لو تو یقینا تمہارے حالات اچھے ہو جائیں گے.جو لوگ جسمانی بناوٹ کے ماہر ہیں ان کا خیال ہے کہ انسانی جسم اس یقین کے ساتھ بڑھتا ہے کہ اس کی طاقت بڑھ رہی ہے.طاقت کا مشہور ماہر سینڈوح گزرا ہے.اس نے طاقت کے کئی کرتب دکھائے ہیں اور کئی تج بادشاہوں کے پاس جا کر اس نے اپنی طاقت کے مظاہرے کئے ہیں.اس نے ایک رسالہ لکھا ہے کہ مجھے ورزش کا کہاں سے خیال پیدا ہوا اور میرا جسم کیسے مضبوط ہوا.وہ لکھتا ہے کہ مجھے ایسے رنگ میں کام کرنے کا موقع ملتا تھا کہ میرے بازو بنیان سے باہر رہتے تھے.میں نے ایک دن اپنے باز و دیکھ کر خیال کیا کہ میرے بازو مضبوط ہو رہے ہیں.اس خیال کے آنے کے بعد میں نے ورزش شروع کر دی اور آہستہ آہستہ میرا جسم مضبوط ہوتا گیا.سینڈو کا یہ خیال تھا کہ ورزش لنگوٹا باندھ کر کرنی چاہیے تا ورزش کرنے والے کی نظر اُس کے جسم کے مختلف حصوں پر پڑتی رہے اور اسے یہ خیال رہے کہ اس کا جسم بڑھ رہا ہے.وہ لکھتا ہے کہ میں نے لنگوٹا باندھ کر ورزش شروع کی.میں ہمیشہ یہ خیال کرتا تھا کہ میرے جسم کا فلاں حصہ بڑھ رہا ہے اور مجھ پر یہ اثر ہوا کہ صحت کی درستی خیال کے ساتھ ساتھ چلتی ہے.جب تک انسان کا خیال اس کی مدد نہیں کرتا اُس کا کی
1952 193 خطبات محمود جسم مضبوط نہیں ہوتا.اور یہ اسی صورت میں ہو سکتا ہے کہ ورزش کرنے والا اپنے جسم کو دیکھ رہا ہے ہو.یہ نہایت کامیاب اصل ہے.ہزاروں نے اس کا تجربہ کیا ہے اور اسے کامیاب پایا اور انہوں نے اپنے جسموں کو درست کیا.تمہیں بھی اٹھتے بیٹھتے یہ خیال رکھنا چاہیے کہ تم ہمت محسوس کر رہے ہو اور تمہیں یہ سمجھ لینا چاہیے کہ تم تو ابھی جو ان بھی نہیں ہوئے.تمہاری عمر ابھی 63 سال کی ہے.اور اگر تمہاری کم سے کم عمر بھی قرار دے لی جائے تو تم نے 75 سال کے بعد جا کر جوان ہونا ہے.اور پھر 150 ، 175 سال جوانی کے بھی گزرنے ہیں.حضرت مسیح علیہ السلام کی قوم کی عمر کو لیا جائے تو اُس کی جوانی کی عمر 500 سال کی تھی.270 سال گزر جانے کے بعد ان کی جوانی کا وقت شروع ہوا تھا.ہم سمجھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعو علیہ الصلوۃ والسلام سے جو وعدے کئے ہیں.اُن کے مطابق ہماری جوانی پہلے شروع ہو گی.بہر حال ہماری اُن سے حج کچھ مشابہت تو ہونی چاہیے.ممکن ہے ہماری جوانی کا وقت 100 یا سوا سو سال سے شروع ہو.اس صورت میں جوانی کا زمانہ پونے دوسو سے اڑھائی سوسال تک کا ہوگا.یہ ایک ثابت شدہ حقیقت ہے کہ جن کی جوانی میں دیر لگتی ہے اُن کی عمریں بھی لمبی ہوتی ہیں اور جن کی عمر میں چھوٹی ہوتی ہیں اُن کی جوانی بھی جلدی آتی ہے.جانوروں کو دیکھ لو.جن جانوروں کی عمر چار پانچ سال کی ہوتی ہے.اُن کی جوانی مہینوں میں ہوتی ہے اور جو جانور 27 ، 28 سال تک زندہ رہتے ہی ہیں.اُن کی جوانی سالوں میں آتی ہے.گھوڑے کو لے لو.اس کی عمر میں پچیس سال کی ہوتی ہے ج اور اس کی جوانی کی عمر کہیں چار سال سے شروع ہوتی ہے.لیکن بکری اور بلی چوتھے پانچویں ماہ جوان ہو جاتے ہیں.گویا جتنی کسی کی عمر چھوٹی ہو گی اُسی نسبت سے اُس کی جوانی پہلے آئے گی اور جتنی کسی کی عمر لمبی ہو گی اُسی نسبت سے اُس کی جوانی بھی بعد میں آئے گی.تمہاری زندگی کا لمبائی ہونا مقدر ہے اور یہ نیک فال ہے کہ ابھی تمہاری جوانی کا وقت نہیں آیا.اگر تم 63 سال کی عمر میں بھی نیم جوانی کی حالت میں ہو تو معلوم ہوا کہ تمہاری عمر لمبی ہے.عمر اور جوانی میں کچھ نسبت ہوتی ہے.لمبی عمر ہو تو جوانی دیر سے آتی ہے اور اگر جوانی دیر سے آئے تو معلوم ہوا کہ عمر لمبی ہوگی.بہر حال اس زمانہ تک جماعت احمدیہ کی ترقی نہ کرنا حیرت کا موجب نہیں.63 سال جماعت پر گزر چکے ہیں.اگر 63 سال میں جماعت غالب نہیں آئی تو یہ خوشی کی بات ہے.عیسائیوں پر پونے تین سو سال میں جوانی آئی اور آج تک وہ پھیلتے چلے جارہے ہیں.ایک لمبے
1952 194 خطبات محمود عرصہ تک انہیں مصائب جھیلنے پڑے، تکالیف برداشت کرنی پڑیں اور وہ غور و فکر کرتے رہے جس کی کی وجہ سے انہیں ہر کام کے متعلق غور کرنے اور فکر کرنے کی عادت پڑ گئی اور اس کے نتیجہ میں انہوں نے بعد میں شاندار ترقی حاصل کی.پس ہماری جماعت پر جوانی کا وقت آنے میں جو دیرلگی ہے اس کی وجہ سے ہمیں گھبرانا نہیں چاہیے.جوانی دیر سے آنے کے یہ معنی ہیں کہ جماعت کی عمر بھی لمبی ہوگی اور احمد بیت دیر تک قائم رہے گی.یہ چیزیں تمہاری گھبراہٹ کا موجب نہیں ہونی چاہئیں بلکہ تمہیں خوش ہونا چاہیے کہ خدا تعالیٰ جماعت کو لمبی عمر دینا چاہتا ہے.تم سوچنے اور فکر کرنے کی عادت ڈالو.تمہاری طاقت ،تمہارا ایمان تمہاری قوت مقابلہ اور عقل سوچنے سے بڑھے گی.قرآن کریم میں آتا ہے کہ بہت سے لوگ حقائق پر سے اس حالت میں گزر جاتے ہیں کہ وہ اُن پر غور نہیں کرتے.پس تم ہر چیز پر غور کرو اور فکر کرو کیونکہ جو شخص بغیر فکر کی عادت پیدا کرنے کے مرتا ہے وہ جانور کی موت مرتا ہے.وہ انسان کی موت نہیں مرتا.بلکہ بلی ، گھوڑے اور گائے کی موت مرتا ہے.انسان وہ ہے جو ہر بات پر غور کرتا ہے اور اس سے نتیجہ اخذ کرتا ہے اور پھر اس کے مطابق اپنی زندگی کو ڈھالنے کی عادت ڈالتا ہے.“ حضور نے فرمایا: میں نماز کے بعد بعض جنازے پڑھاؤں گا.مہاشہ حمد عمر صاحب مبلغ کے لڑکے عزیز احمد جماعت ہشتم فوت ہو گئے ہیں.مرحوم امتحان دے جار ہا تھا کہ گاڑی کی لپیٹ میں آ گیا اور فوت ہو گیا.جنازہ میں بہت کم لوگ شریک ہوئے.چودھری دین محمد صاحب مدار ضلع شیخو پورہ میں فوت ہو گئے ہیں.مرحوم جمعدار فضل الدین صاحب اوورسیئر کے چچا تھے.جنازہ میں بہت کم لوگ شریک ہوئے.سردار حق نواز صاحب صحابی تھے.سردار نذیرحسین صاحب کے ماموں تھے.جنازہ میں بہت تھوڑے لوگ شریک ہوئے.سراج الحق صاحب سب انسپکٹر پولیس.حاجی نصیر الحق صاحب کے چھوٹے بھائی تھے.جنازہ میں بہت کم لوگ شریک ہوئے.جیواں بیگم صاحبہ کیپٹن شاہ نواز صاحب کی خالہ تھیں ، صحابہ تھیں، جنازہ میں بہت کم لوگ شریک ہوئے.
1952 195 خطبات محمود ارشاد احمد صاحب ربوہ اطلاع دیتے ہیں کہ ان کی پھوپھی بھاگ بھری صاحبہ بیوہ امام بخش صاحب قادیانی فوت ہو گئی ہیں.مرحومہ اپنے بعض رشتہ داروں کو ملنے کے لئے گھسیٹ پور ضلع لائل پور میں آئی تھیں.وہاں چند دن بیمار رہ کر فوت ہو گئیں.مرحومہ صحابیہ تھیں.صوم وصلوٰۃ کی پابند تھیں.مرحومہ نے مرتے وقت یہ وصیت کی تھی کہ ان کا جنازہ میں پڑھاؤں.سعیده با نو صاحبہ بنت سید عبدالمجید صاحب مرحوم ماڈل ٹاؤن لا ہو ر ا طلاع دیتی ہیں کہ ان کے خاوند پیر عبد السلام صاحب تاج انسپکٹر ایگریکلچر وفات پا گئے ہیں.نماز جنازہ پڑھانے کی درخواست ہے.نماز کے بعد میں ان سب کا جنازہ پڑھاؤں گا.“ ( الفضل 12 جولائی 1952ء) :1 وَلَمَّارَاَ الْمُؤْمِنُونَ الْأَحْزَابَ قَالُوا هَذَا مَا وَعَدَنَا اللهُ وَرَسُولُهُ وَصَدَقَ الله وَرَسُولُهُ وَمَا زَادَهُمْ إِلَّا إِيمَانًا وَتَسْلِيمًا ( الاحزاب : 23) 2 سیرت ابن ہشام جلد 3 صفحہ 233 غزوة الخندق مطبوع مصر 1936ء :3 : البداية والنهاية جلد 8 صفحہ 126 مطبوعہ بیروت 2001ء 4: چچوڑی : بار بار چوسی ہوئی.:5 مٹھل ایک اناج جس کے دانے باریک ہوتے ہیں ( پنجابی دی لغت مرتبه تنویر بخاری صفحه 1401 لاہور 1989ء) :6 قطاة ( قطا) کبوتر کے برابر ایک ریگستانی پرندہ ، سنگ خوار ( اردو لغت تاریخی اصولوں پر، جلد 14 صفحہ 280، کراچی) سینڈو: (Sandow) (1867ء - 1925ء) پورا نام Eugen Sandow تھا.مشہور جرمن باڈی بلڈر جو " Father of Moderen Body Building“ کے نام سے جانے جاتے ہیں.German Kingdom of Prussia میں Konigsberg میں پیدا ہوئے جو موجودہ دور میں روس کے شہر Kaliningrad کے نام سے جانا جاتا ہے.وفات لندن میں ہوئی.سینڈو نے باڈی بلڈنگ میں جدید ٹیکنیک کو متعارف کروایا.وکی پیڈیا آزاد دائرہ معارف زیر لفظ Eugen Sandow) : وَكَائِنْ مِنْ آيَةٍ فِي السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ يَمُرُّونَ عَلَيْهَا وَهُمْ عَنْهَا مُعْرِضُونَ - (يوسف : 106)
1952 196 (23) خطبات محمود جو شخص ایمان کا دعویٰ کرتا ہے اسے ابتلاؤں اور آزمائشوں کی بھٹی میں ضرور ڈالا جاتا ہے ہماری جماعت کو مشکلات کے مقابلہ میں دعا اور نماز کی طرف توجہ کرنی چاہیے.(فرمودہ 4 جولائی 1952ء بمقام ربوہ ) تشهد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ کیا لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ وہ دعویٰ تو یہ کریں کہ ہم ایمان لائے ہیں لیکن ان کو آزمائشوں اور ابتلاؤں کی بھٹی میں نہ ڈالا جائے ؟ أَحَسِبَ النَّاسُ أن يُتْرَكُوا أَنْ يَقُولُوا أَمَنَّا وَهُمْ لَا يُفْتَنُونَ 10 - کیا لوگ یہ وہم بھی کر سکتے ہیں؟ کیا مسلمان اس قسم کے خیالات میں مبتلا ہیں کہ انہیں یونہی چھوڑ دیا جائے گا ؟ انہیں آزمائشوں اور ابتلاؤں کی بھٹی میں نہ ڈالا جائے گا ؟ انہیں تکالیف اور مصائب کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا ؟ انہیں ٹھوکریں نہیں لگیں گی ؟ حالانکہ وہ دعوی یہ کرتے ہیں کہ وہ ایمان لائے.یہ قاعدہ کلیہ ہے جو شخص ایمان کا دعویٰ کرتا ہے اسے ابتلاؤں اور آزمائشوں کی بھٹی میں ضرور ڈالا جاتا ہے.اگر یہ قاعدہ کلیہ نہ ہوتا تو اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو ابتدائے اسلام میں یہ نہ فرما تا کہ تم کس طرح یہ خیال کرتے ہو کہ تم دعوئی تو یہ کرو کہ ہم ایمان لائے لیکن تمہیں ابتلاؤں اور آزمائشوں میں نہ ڈالا جائے.دعوئی ایمان کی
1952 197 خطبات محمود اور ابتلاء و آزمائش لازم و ملزوم ہیں.یہ ممکن نہیں کہ کسی تحریک کے شروع میں ایک شخص ایمان لا یا تی ہو اور وہ اپنے ایمان میں سچا ہو اور پھر آزمائشوں اور ابتلاؤں میں نہ ڈالا جائے ، اسے ٹھو کر میں نہ کی لگیں ، وہ مخالفت کی آگ میں نہ پڑے.پس ہماری جماعت کو ہمیشہ یہ امر مد نظر رکھنا چاہیے کہ جب اس نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ ہم ایک مامور من اللہ کی آواز پر لبیک کہنے والے ہیں تو انہیں ابتلاؤں اور آزمائشوں کی بھٹی میں ڈالا جائے گا.خدا تعالیٰ فرماتا ہے وَهُمْ لَا يُفْتَنُونَ اگر یہ سچ ہے کہ تم ایمان لائے ہو تو یہ بات کی بھی سچ ہے کہ تمہیں ابتلاؤں میں ڈالا جائے گا.میں سمجھتا ہوں کہ کچھ لوگ تو احرار کے بہکانے سے سمجھ لیتے ہیں کہ جو شخص احمدی ہوتا ہے احمدی لوگ اسے روپیہ دیتے ہیں، پڑھاتے ہیں، اسے نوکری دلاتے ہیں ، اس کی شادی کراتے ہی ہیں.اس قسم کی بکواس سن کر لوگ ہمارے پاس آجاتے ہیں یا وہ خطوط لکھ دیتے ہیں کہ ان کی اس کی قسم کی مدد کی جائے.ہر ہفتہ دو تین ایسے آدمی یہاں پہنچ جاتے ہیں یا دو تین ایسے خطوط آ جاتے ہیں جن میں یہ مضمون ہوتا ہے.ہم تو ان کے اس فریب میں نہیں آتے.ہم کہتے ہیں جاؤ ایمان کا شرائط لگانے کے ساتھ کوئی تعلق نہیں.لیکن وہ لوگ اپنی جماعت کو کتنا بے ایمان بنارہے ہوتے ہیں.آخر آنے والا انہی میں سے آتا ہے.اور جو اس خیال سے یہاں آتا ہے کہ اگر اُس کی مدد کر دی جائے تو وہ احمدی ہو جائے گا تو اُس کا ایمان کہاں رہ گیا.ایک طرف تو احرار یہ کہتے ہیں کہ کہ احمدی لوگ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہتک کرتے ہیں اور دوسری طرف روپے کی خاطر وہ لوگوں کو یہاں بھیجتے ہیں.گویا وہ لوگوں کے اندر یہ روح پیدا کرتے ہیں کہ چند حقیر پیسے لے کر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہتک کر لیا کرو.اگر ہم واقع میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہتک کرنے والے ہوتے تو انہیں کروڑوں روپے پر بھی تھوکنا نہیں چاہیے تھا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی جس قدر بلندشان ہے اُس کے مقابلہ میں ساری دنیا ایک مچھر کی حیثیت بھی نہیں رکھتی.پس جو ملاں یا جو مولوی کسی شخص کو یہ کہہ کر یہاں بھیجتا ہے کہ جاؤ احمدی لوگ تمہاری مدد کریں گے حالانکہ وہ یہ بھی خیال کرتا ہے کہ ہم رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نَعُوذُ بِاللهِ تک کرتے ہیں تو وہ مسلمانوں کو بے ایمان بناتا ہے.وہ ان کی غیرت کو مار رہا
1952 198 خطبات محمود ہوتا ہے، وہ ان کی محبت رسول کو مار رہا ہوتا ہے ، وہ ان کے دین کے تعلق کو مار رہا ہوتا ہے.کی بہر حال یہ ایک ضمنی بات ہے.ان لوگوں کو اختیار ہے کہ وہ اپنے ساتھیوں سے جو چاہیں کہیں اور ان کے ساتھیوں کو اختیار ہے کہ وہ ان کے کہنے پر جو چاہیں کریں.لیکن ہماری جماعت اس بات کو نظر انداز نہیں کر سکتی کہ ایمان کے ساتھ ابتلا اور آزمائشیں بھی ہوا کرتی ہیں.اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا خدا تعالیٰ نے ان سے بچاؤ کی بھی کوئی صورت بتائی ہے؟ اللہ تعالیٰ یہ تو فرماتا ہے کہ اگر تم ایمان کا دعویٰ کرتے ہو تو یہ بات مت نظر انداز کرو کہ تمہاری مخالفت کی جائے گی گی تم پر ابتلاء اور مصائب آئیں گے تمہیں ٹھوکریں لگیں گی تمہیں مارا جائے گا، تمہیں بے حرمت کیا جائے گا، تمہیں بے وطن کیا جائے گا.لیکن اُس نے اس کا کوئی علاج بھی بتایا ہے ؟ ہم قرآن کریم کی دیکھتے ہیں تو قرآن کریم میں خدا تعالیٰ نے اس کا علاج بھی بتایا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَاسْتَعِينُوا ط بِالصَّبْرِ وَالصَّلوةِ وَ إِنَّهَا لَكَبِيرَةُ إِلَّا عَلَى الْخَشِعِينَ 2 کہ جب تم پر مصائب آئیں، ابتلاء اور آزمائشیں آئیں ٹھو کر میں لگیں تو اس کے دو ہی علاج ہیں جو خدا تعالیٰ کے مقرر کردہ ہیں.اور وہ صبر اور صلوٰۃ ہیں.مگر یہ صبر و صلوۃ آسان بات نہیں اِنَّهَا لَكَبِيرَةٌ.یہ بڑی بوجھل چیزیں ہیں.مگر جو لوگ خاشع ہیں، جن لوگوں کے دلوں میں خدا تعالیٰ کا ڈر اور خوف ہوتا ہے وہ اس بوجھل چیز کو اٹھانے پر تیار ہو جاتے ہیں.عملاً دیکھ لو مسلمانوں میں کتنے لوگ نمازی ہیں.وہ لوگ جو یہ تقریر میں کرتے ہیں کہ پاکستان میں اسلامی دستور کا نفاذ ہونا چاہیے شاید پانچ نمازوں میں سے ایک آدھ نماز پڑھ لیتے ہیں.اگر مساجد کو دیکھا جائے تو بہت تھوڑی مساجد آباد ہیں اکثر مساجد غیر آباد ہوتی ہیں.زمینداروں کو لیا جائے تو ان میں نوے فیصدی وہ لوگ ہیں جو زمیندارہ کے اوقات میں نماز نہیں پڑھتے دوسرے اوقات میں وہ رسماً نماز ادا کر لیتے ہیں.ہماری جی جماعت کو یہ ایک فضیلت حاصل ہے اور فضیلت ہونی چاہیے کہ ہم میں سے ہر شخص نماز کی قدر کو سمجھتا ہے.لیکن وہ لوگ جو نمازوں میں سست ہیں وہ آخر کیوں سست ہیں؟ اس لئے کہ وہ کہتے ہیں کہ نماز پڑھنے میں بہت سی وقتیں ہیں.خدا تعالیٰ بھی یہی فرماتا ہے کہ یہ بڑی بوجھل چیز ہے.وہ یہ نہیں کہتا کہ یہ بڑی آسان چیز ہے.وہ خود کہتا ہے کہ یہ بڑی مشکل چیز ہے لیکن ساتھ ہی یہ فرماتا ہے کہ جس شخص کے دل میں خوف ہوتا ہے وہ اس بوجھ کو بھی خوشی سے اٹھانے کے لئے تیار
1952 199 خطبات محمود ہو جا تا ہے.دوسرے اوقات میں تو ممکن ہے کسی میں کبر ہو، غرور ہو ،لیکن جب وہ مصائب میں پس رہا ہو تو اُسے خدا تعالیٰ کے سامنے جھکنے میں کیا روک ہو سکتی ہے.پس ہماری جماعت کو مشکلات کے مقابلہ میں دعا اور نماز کی طرف توجہ کرنی چاہیے.میرے تو کبھی وہم میں بھی یہ نہیں آیا کہ کوئی احمدی نماز چھوڑتا ہے.لیکن اگر کوئی ایسا احمدی ہے جو نماز کا پابند نہیں تو میں اُسے کہوں گا کہ وقت کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے اس وقت تم پر نماز گراں نہیں ہونی چاہیے.مصیبت کے وقت میں نماز گراں نہیں ہوتی.مصیبت کے وقت لوگ دعائیں مانگتے ہیں، گریہ وزاریاں کرتے ہیں.1905ء میں جب زلزلہ آیا تو اُس وقت ہمارے ماموں میر محمد اسمعیل صاحب لاہور میں پڑھتے تھے.آپ ہسپتال میں ڈیوٹی پر تھے کہ زلزلہ آیا.آپ کے ساتھ ایک ہندو طالب علم بھی تھا جود ہر یہ تھا اور ہمیشہ خدا تعالیٰ کی ذات کے متعلق ہنسی اور مذاق کیا کرتا تھا.جب زلزلہ کا جھٹکا آیا تو وہ رام رام کر کے باہر بھاگ آیا.جب زلزلہ رُک گیا تو میر صاحب نے اسے کہا تم رام پر جنسی ملی اڑایا کرتے تھے اب تمہیں رام کیسے یاد آ گیا ؟ اُس وقت خوف کی حالت جاتی رہی تھی ، زلزلہ ہٹ گیا تھا اُس نے کہا یونہی عادت پڑی ہوئی ہے اور منہ سے یہ الفاظ نکل جاتے ہیں.پس حقیقت یہ ہے کہ مصیبت کے وقت خدا تعالیٰ یاد آ جاتا ہے.جس شخص کو مصیبت کے وقت بھی خدا تعالی یاد نہیں آتا تو سمجھ لو کہ اُس کا دل بہت شقی ہے.وہ اب ایسا لا علاج ہو گیا ہے کہ خطرہ کی حالت بھی اُسے علاج کی طرف توجہ نہیں دلاتی.پس اگر ایسے لوگ جماعت میں موجود ہیں جو نماز کے پابند نہیں تو میں انہیں کہتا ہوں کہ یہ وقت ایسا ہے کہ انہیں اپنی نمازوں کو پکا کرنا چاہیے.اور جو نماز کے پابند ہیں میں انہیں کہتا ہوں آپ اپنی نماز میں سنوار میں.اور جو لوگ نماز سنوار کر پڑھنے کے عادی ہیں میں انہیں کہتا ہوں کہ بہتر وقت دعا کا تہجد کا وقت ہے نماز تہجد کی عادت ڈالیں.دعائیں کریں کہ خدا تعالیٰ ہماری مشکلات کو دور فرمائے اور لوگوں کو صداقت قبول کرنے کی توفیق دے.مجھے اس سے کوئی واسطہ نہیں کہ دشمن کیا کہتا ہے.لیکن یہ ڈرضرور ہے کہ جب اس قسم کا پرو پیگنڈا کیا جاتا ہے تو اکثر لوگ صداقت کو قبول کرنے سے گریز کرتے ہیں.پس ہماری سب سے مقدم دعا یہ ہونی چاہیے کہ خدا تعالیٰ ہماری اُن مشکلات کو دور
1952 200 خطبات محمود کر دے جولوگوں کے صداقت قبول کرنے میں روک ہیں اور ان کی توجہ اس طرف پھیر رہی ہیں.ابتلاء مانگنا منع ہے لیکن اس کے دور ہونے کے لئے دعا مانگنا سنت ہے.اس لئے یہ دعائی کریں کہ خدا تعالیٰ وہ روکیں دور کر دے جولوگوں کو صداقت قبول کرنے سے ہٹا رہی ہیں اور ہماری فکر مندیوں کو دور کر دے.ہاں وہ ہمیں ایسا بے فکر اور بے ایمان نہ بنائے کہ جس کی وجہ سے ہمارے ایمان میں خلل واقع ہو.در حقیقت ایمان کا کمال یہ ہے کہ انسان خوف اور امن دونوں حالتوں میں خدا تعالیٰ کے سامنے جھکے.اگر کوئی شخص خوف اور امن دونوں حالتوں میں خدا تعالیٰ کے سامنے جھکتا ہے تو خدا تعالیٰ بھی اسے امن دیتا ہے.لیکن جو مومن خوف کی حالت میں خدا تعالیٰ کے سامنے جھکتا ہے امن کی جی حالت میں نہیں خدا تعالیٰ اس کے لئے ٹھوکریں پیدا کرتا ہے.اگر خدا تعالیٰ اسے مرتد کرنا چاہتا ؟ ہے تو وہ اس کے لئے امن کی حالت پیدا کر دیتا ہے اور وہ آہستہ آہستہ خدا تعالیٰ سے دور ہو جاتا ہے ہے.پس جو لوگ نماز کے پابند ہیں وہ نما ز سنوار کر پڑھیں اور جو نما ز سنوار کر پڑھنے کے عادی ہیں وہ تہجد کی عادت ڈالیں.پھر نوافل پڑھنے کی عادت ڈالیں.پھر نہ صرف نوافل پڑھیں بلکہ دوسروں کو بھی نوافل پڑھنے کی عادت ڈالیں.خدا تعالیٰ نے لوگوں کو روزہ کی عادت ڈالنے کے لئے ایک ماہ کے روزے فرض کئے ہیں.روزے فرض ہونے کی وجہ سے ایک مسلمان ایک ماہ جاگتا ہے اور پھر اپنے ساتھیوں کو بھی جگاتا ہے.ڈھول پیٹتے ہیں اور اس طرح تمام لوگ اس کی مہینہ میں تہجد کی نماز پڑھ لیتے ہیں.اگر ایک ہمسایہ روزہ کے لئے نہ اٹھتا تو دوسرا بھی نہ اٹھتا.لیکن چونکہ ایک آدمی روزہ کے لئے اٹھتا ہے تو اس کی وجہ سے دوسرا بھی بیدار ہو جاتا ہے.خدا تعالیٰ کے اس طرح روزے فرض کرنے میں ایک حکمت یہ بھی تھی کہ سب لوگوں کو اس عبادت کی عادت پڑ جائے.پس اس قسم کی تدبیریں اور کوششیں جاری رکھنا بھی ضروری ہے.ربوہ کی جماعت کے افسران اور عہدیداران محلوں میں تہجد کی تحریک کریں.اور جو لوگ تہجد پڑھنے کے لئے تیار ہوں اور یہ عہد کریں کہ وہ تہجد پڑھنے کے لئے تیار ہیں اُن کے نام لکھ لیں.اور جب وہ چند دنوں کے بعد اپنے نفوس پر قابو پالیں تو انہیں تحریک کی جائے کہ وہ باقیوں کو بھی جگائیں.جب سارے لوگ اٹھنا شروع ہو جائیں، پیسے بجنے لگ جائیں تو کئی لوگ ایسے بھی تھی
1952 201 خطبات محمود ہوتے ہیں جن کا نماز پڑھنے کو دل تو چاہتا ہے لیکن نیند کے غلبہ کی وجہ سے بیدار نہیں ہوتے وہ بھی کچ تہجد کے لئے اُٹھ بیٹھیں گے.رمضان میں لوگ اٹھ بیٹھتے ہیں اس لئے کہ ارد گر د شور ہوتا ہے.اکیلے آدمی کو اٹھا ئیں تو وہ سو جاتا ہے.لیکن رمضان میں وہ نہیں سوتا اس لئے کہ ارد گرد آواز میں کی آتی ہیں.کوئی قرآن کریم پڑھتا ہے ، کوئی دوسرے کو جگاتا ہے، کوئی دوسرے آدمی سے یہ کہتا تج ہے کہ ہمارے ہاں ماچس نہیں ذرا ماچس دے دو، ہمارے ہاں مٹی کا تیل نہیں تھوڑا سا مٹی کا تیل کی دو، کوئی کہتا ہے کہ ہمارے ہاں آگ نہیں آگ دو، کوئی کہتا ہے میں سحری کھانے کے لئے کی تیار ہوں روٹی تیار ہے؟ یہ آوازیں اُس کا سونا دو بھر کر دیتی ہیں.وہ کہتا ہے نیند تو آتی نہیں لیٹنا کی کیا ہے چلو چند نفل ہی پڑھ لو.رمضان بے شک برکت ہے لیکن رمضان میں جاگنے کا بڑا ذریعہ یہی ہوتا ہے کہ ارد گرد سے آواز میں آتی ہیں اور وہ انسان کو جگا دیتی ہیں.ایک آدمی آٹھ بجے سوتا ہے اور اسے دو بجے بھی جاگ نہیں آتی.لیکن ایک آدمی بارہ بجے سوتا ہے لیکن تین بجے اٹھ بیٹھتا ہے اس لئے کہ ارد گرد سے آوازیں آتی ہیں ، ذکر الہی کرنے کی آواز میں آتی ہیں، قرآن کریم پڑھنے کی آوازیں آتی ہیں ، کوئی کسی کو جگا رہا ہوتا ہے اور کوئی کھانا پکا رہا ہوتا ہے اور اس کی آواز اسے آتی ہے.اس لئے صرف تین گھنٹے سونے والا بھی اٹھ بیٹھتا ہے.یہ ایک تدبیر ہے جس سے جاگنے کی عادت ہو جاتی ہے.پس مقامی عہدیداروں کو چاہیے کہ وہ اس کا محلوں میں انتظام کریں اور پھر اسے باہر بھی پھیلایا جائے تا آہستہ آہستہ لوگ تہجد کی نماز کے عادی ہو جائیں.پھر اگر کوئی تہجد کا مسئلہ پوچھے تو اُسے کہو کہ اگر تہجد رہ جائے تو اشراق کی نماز پڑھو جو دو رکعت ہوتی ہے.وہ بھی رہ جائے تو ضحی پڑھو جو تہجد کی طرح دو سے آٹھ رکعت تک ہوتی ہے.اس طرح تہجد اور نوافل کی عادت پڑ جائے گی.صلوۃ کے دو معنی ہیں نماز اور دعا.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.وَاسْتَعِينُوا بِالقَبُرِ وَالصَّلوة - تم مدد مانگو، صبر، نماز اور دعا سے.اور جو شخص خدا تعالیٰ سے مدد طلب کرتا ہے اس میں شبہ ہی کیا ہے کہ کوئی شخص اُس پر غالب نہیں آ سکتا.اگر خدا تعالیٰ ہے تو سیدھی بات ہے کہ اس سے زیادہ طاقتور اور کوئی نہیں.اگر خدا تعالیٰ سے زیادہ طاقتور اور کوئی نہیں تو یقیناً وہی شخص جیتے گا جس کے ساتھ خدا تعالیٰ ہے.بے شک کسی کے ساتھ دنیا کی سب طاقتیں ہوں، جلسے ہوں، جلوس ہوں،.
1952 202 خطبات محمود نعرے ہوں قتل و غارت ہو، قید خانے ہوں، پھانسیاں ہوں ، لعنت و ملامت ہو لیکن جیتے گا وہی جس کے ساتھ خدا تعالیٰ ہے.دلوں کی حالت کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اَنَّ اللهَ يَحُولُ بَيْنَ الْمَرْءِ وَقَلْبِم - 3 اللہ تعالیٰ ہی دلوں کے بھید جانتا ہے.وہی دلوں کو بدل سکتا ہے.خدا تعالیٰ جانتا ہے کہ انسان کے کیا خیالات ہیں اور ان کا رد عمل کیا ہے.وہ دلوں کو جانتا ہے ، وہ اعمال کو جانتا ہے اور ان کے رد عمل کو جانتا ہے.خدا تعالیٰ کہتا ہے کہ جو میری طرف آتا ہے اُسے دلوں کی کی طرف ایک سرنگ مل جاتی ہے.آخر دلوں کو بدلنے کا کون سا ذریعہ ہے؟ سوائے اس کے کہ ہم خدا تعالیٰ سے دعا کریں.خدا تعالیٰ نے اس کا ذریعہ صبر وصلوۃ مقرر کر دیا ہے.صبر کے یہ معنی ہیں کہ انسان کو خدا تعالیٰ سے کامل محبت ہو.وہ سمجھتا ہے کہ خدا تعالیٰ مقدم ہے اور باقی ہر چیز مؤخر ہے.اس لئے وہ اس کے لئے ہر مشکل اور تکلیف کو برداشت کر لیتا ہے.گویا صبر میں جبری طور پر خدا تعالیٰ کی محبت کا اظہار ہوتا ہے اور صلوٰۃ میں عشقیہ طور پر خدا تعالیٰ سے محبت کا اظہار ہوتا ہے.صبر جبری محبت ہے اور نماز طوعی محبت.ہم کچھ کام جبری طور پر کرتے ہیں اور کہتے ہیں ہم نے خدا تعالیٰ کو نہیں چھوڑ نا ، یہ چیز جبری ہے.مشکلات اور مصائب تم خود پیدا نہیں کرتے.دشمن مشکلات اور مصائب لاتا ہے اور تم انہیں برداشت کرتے ہو اور خدا تعالیٰ کو نہیں چھوڑتے.لیکن نماز طوعی ہے.نماز تمہیں کوئی اور نہیں پڑھا تا نماز تم خود پڑھتے ہو.پس تم صبر میں جبری طور پر خدا تعالیٰ کی محبت کا ثبوت دیتے ہو اور نماز میں طوعی طور پر اس کا اظہار کرتے ہو.اور جب یہ دونوں چیزیں مل جاتی ہیں تو محبت کامل ہو جاتی ہے اور خدا تعالیٰ کا فیضان جاری ہو جاتا ہے.تم خدا تعالیٰ کے فیضان کو حاصل کرنے کی کوشش کرو اور اس سے صبر وصلوٰۃ کے ساتھ مدد مانگو.خدا تعالیٰ کا دلوں پر قبضہ ہے وہ انہیں بدل دے گا.میں جب تم سے کہتا تھا کہ جماعت پر مصائب اور ابتلاؤں کا زمانہ آنے والا ہے اس لئے تم بیدار ہو جاؤ اس وقت تم میری بات پر یقین نہیں کرتے تھے.تم ہنسی اڑاتے تھے اور لکھتے تھے کہ آپ کہاں کی باتیں کرتے ہیں ہمیں تو یہ بات نظر نہیں آتی.اور جب کہ فتنہ آ گیا ہے میں تمہیں دوسری خبر دیتا ہوں کہ جس طرح ایک بگولا آتا ہے اور چلا جاتا ہے یہ فتنہ مٹ جائے گا.یہ سب کارروائیاں هَبَاءً منثورًا 4 ہو جائیں گی.خدا تعالیٰ کے فرشتے آئیں گے اور وہ ان
1952 203 خطبات محمود مشکلات اور ابتلاؤں کو جھاڑو دے کر صاف کر دیں گے.لیکن خدا تعالیٰ فرماتا ہے اس لئے ضروری ہے کہ تم صبر اور صلوۃ کے ساتھ میری مدد مانگو میں تمہیں مدد دوں گا.لیکن تم دو باتیں کرو.اوّل مصائب اور ابتلاؤں پر گھبراؤ نہیں انہیں برداشت کرو.دوسرے نمازوں اور دعاؤں پر زور دو تا مجھے پتا لگ جائے کہ تمہاری محبت کامل ہو گئی ہے.اور جب تمہاری محبت کامل ہو جائے گی تو میں بھی ایسا بے وفا نہیں ہوں کہ میں اپنی محبت کا اظہار نہ کروں.“ 1 : العنكبوت: 3 2: البقرة : 46 3: الانفال : 25 4: الفرقان: 24 66 الفضل یکم اگست 1952ء)
1952 204 (24) خطبات محمود صبر کا جو ہر دکھاؤ اور نمازوں اور دعاؤں کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ کی مدد طلب کرو فرموده 11 جولائی 1952ء بمقام ربوہ ) تشهد ، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: میں نے گزشتہ ایام میں جماعت کو توجہ دلائی تھی کہ ان دنوں ہم جن حالات میں سے گزر رہے ہیں ان کا علاج قرآن کریم نے یہی بیان فرمایا ہے کہ اِسْتَعِينُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلوة 1 یعنی ایک طرف تو تم صبر کا جو ہر دکھاؤ، مصائب برداشت کرو، تکلیف اٹھاؤ.اور دوسری طرف تم اللہ تعالیٰ کے حضور دعائیں کرو، نمازیں زیادہ پڑھو اور عبادت کرو.کیونکہ جب بنی نوع انسان کسی کو دھتکارتے ہیں تو لَا مَلْجَأَ وَ لَا مَنْجَا مِنْكَ إِلَّا اِلَیک 2 کے مطابق اس کی پناہ کی جگہ صرف خدا تعالیٰ ہی ہوتا ہے.پس تم اس مصیبت کے نتیجہ میں خدا تعالیٰ کی طرف جھکو.جتنے کی لوگ تم پر خفا ہوتے ہیں در حقیقت اُتنا ہی دنیا یہ فیصلہ کرتی ہے کہ تم ہمارے غلام ہو.اگر تمہیں کسی کی کی احتیاج نہیں ، اگر تمہیں کسی سے ناواجب محبت نہیں، اگر تمہیں کسی سے نا واجب ڈر نہیں تو لوگ تمہارے خلاف شور کیوں کرتے ہیں.آخر جب ایک شخص شور کرتا ہے تو کسی چیز سے ڈرانے کے لئے کرتا ہے.اگر وہ یہ سمجھتا ہے کہ تم اس کی احتیاج نہیں رکھتے تو وہ ڈرا تا کس چیز سے ہے.اگر تم کسی کو دھتکار تے ہو تو اسی لئے کہ تم سمجھتے ہو کہ وہ تم سے ڈرتا ہے اور وہ سمجھتا ہے کہ تم اسے سزا دے سکتے ہو.اگر تم یہ سمجھتے ہو کہ وہ تمہیں اتنا طاقتور نہیں سمجھتا کہ تم اسے سزا دے سکو ، وہ جی
1952 خطبات محمود 205 پنے آپ کو تم سے زیادہ قوی، دلیر اور بہادر سمجھتا ہے تو تمہیں ڈرانے کی جرات نہیں ہو سکتی ڈرانے والا کسی کو صرف اسی لئے ڈراتا ہے کہ وہ سمجھتا ہے کہ دوسرا شخص اس سے ڈرتا ہے.اسی لئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جب تمہیں کوئی شخص یا جماعت ڈرائے تو تم نماز میں شروع کر دو.اگر ایک شخص دوسرے شخص کے ڈرانے کے نتیجہ میں نماز شروع کرتا ہے تو وہ کہتا ہے کہ میں کسی کی پروان نہیں کرتا.میں بندہ خدا ہوں.اور جب میں بندہ خدا ہوں تو مجھے کسی کا کیا ڈر.پس جب تمہیں کوئی شخص ڈراتا ہے یا وہ تم پر حملہ کرتا ہے تو تم خدا تعالیٰ کے سامنے جھک جاؤ.کیا تم نے دیکھا نہیں کہ ایک بچہ جو نادان ہوتا ہے، جس کی عقل کم ہوتی ہے اسے بھی کوئی شخص مارنے لگتا ہے تو وہ ی ماں کے پاس چلا جاتا ہے.چاہے اس کی ماں کتنی ہی کمزور ہو وہ خیال کرتا ہے کہ وہ اپنی ماں کے کی پاس جا کر محفوظ ہو گیا ہے.مومن کو کیا خدا تعالیٰ پر اتنا یقین بھی نہیں ہونا چاہیے جتنا ایک بیوقوف اور کم عقل بچہ کو اپنی کمزور ماں پر ہوتا ہے ؟ جب اس پر کوئی حملہ کرنے لگتا ہے تو وہ اپنی ماں کے پاس آ جاتا ہے.مومن کو بھی چاہیے کہ جب وہ مشکل حالات میں سے گزرے تو وہ خدا تعالیٰ کے پاس آئے اور اس سے مدد مانگے.اگر اسے خدا تعالیٰ سے ماں جتنی محبت بھی ہے تو وہ اس کے پاس دوڑا آئے گا.آخر عبادت کیا ہے؟ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کچی عبادت یہ ہے کہ تم یقین ہو کہ تم خدا تعالیٰ کو دیکھ رہے ہو یا کم از کم تمہیں یقین ہو کہ خدا تعالیٰ تمہیں دیکھ رہا ہے.3 اگر یہ یقین ہو جائے کہ خدا تعالیٰ تمہیں دیکھتا ہے تو یہ ادنی عبادت ہے.اعلیٰ عبادت یہ ہے کہ خدا تعالیٰ تمہیں نظر آ رہا ہو.کیونکہ عبادت قُرب اور رؤیت کا نام ہے.اگر تم خدا تعالیٰ کو ماں کے برابر بھی سمجھتے ہو اگر تمہیں یقین ہے کہ خدا تعالیٰ ایک زندہ وجود ہے تو سیدھی بات ہے کہ تم اُسی کے پاس بھاگ کر جاؤ گے.عبادت اس بات کی شہادت ہوتی ہے کہ عبادت کرنے والے کے اندر نہیں ایمان پایا جاتا ہے.عبادت اس بات کی شہادت ہوتی ہے کہ اسے کسی کی پروا نہیں.میں نے گزشتہ جمعہ میں یہ تحریک کی تھی کہ تم ربوہ سے یہ سکیم شروع کرو کہ پانچ نمازوں کے علاوہ لوگ تہجد بھی ادا کیا کریں.اگر کوئی شخص صرف پانچ نمازیں ہی ادا کرتا ہے جو فرض ہیں تو یہ کوئی بڑی بات نہیں کیونکہ اگر وہ انہیں ادا نہیں کرتا تو وہ مسلمان کیسے رہ سکتا ہے.وہ تو نجات کا دروازہ اپنے ہاتھ سے اپنے اوپر بند کرتا ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک دفعہ.
1952 206 خطبات محمود ایک شخص آیا اور اس نے آپ کو قسم دے کر کہا کہ آیا خدا تعالیٰ نے آپ کو روزانہ پانچ نمازوں کا حکم دیا ہے؟ تو آپ نے فرمایا ہاں.اس نے پھر آپ کو قسم دے کر کہا کیا خدا تعالیٰ نے آپ کو تیں روزوں کا حکم دیا ہے؟ آپ نے فرمایا ہاں.اس نے پھر آپ کو قسم دے کر کہا کیا خدا تعالیٰ نے یہ حکم دیا ہے کہ تم اپنے مالوں میں سے زکوۃ نکالا کرو؟ تو آپ نے فرمایا ہاں.اس نے پھر کہا کیا خدا تعالیٰ نے یہ حکم دیا ہے کہ اگر طاقت ہو تو تم حج کرو؟ آپ نے فرمایا ہاں.اس شخص نے کہا ت پھر میں بھی خدا تعالیٰ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ جتنی نمازیں فرض ہیں میں انہیں پورا کروں گا.جتنے روزے فرض ہیں میں رکھوں گا ، زکوۃ دوں گا اور اگر طاقت ہوئی تو حج کروں گا.خدا کی قسم ! میں نہ اس سے زیادہ کروں گا اور نہ کم.آپ نے فرمایا اگر اس شخص نے اپنا عہد پورا کیا تو جنت میں چلا جائے گا 4 مگر یہ ایک ادنیٰ عہد ہے اور مومن صرف ادنی عہد نہیں کرتا.اسے یہ خواہش ہوتی تھ ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کے زیادہ قریب جائے اور قریب جانے کے لئے نوافل ادا کرنے ضروری ہوتے ہیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ نوافل کے ذریعہ تم خدا تعالیٰ کے اتنے قریب ہو جاؤ گے کہ خدا تعالیٰ تمہاری آنکھیں بن جائے گا جن سے تم دیکھتے ہو.خدا تعالیٰ تمہارے کان بن جائے گا جن سے تم سنتے ہو.خدا تعالیٰ تمہارے ہاتھ بن جائے گا جن سے تم پکڑتے ہو.خدا تعالیٰ تمہارے پاؤں بن جائے گا جن سے تم چلتے ہو 5.پس قرب کی راہیں نوافل سے کھلتی ہیں.وہ شخص جس کی میں نے مثال دی ہے وہ بدوی تھا اس لئے حضرت ابو بکر نے ایسا نہیں کہا.یہ صحیح بات ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما یا تج کہ وہ بدوی جنت میں داخل ہو جائے گا اگر اس نے اپنے عہد کو پورا کیا.لیکن خدا تعالیٰ کا مقرب وہی ہوگا جو نوافل ادا کرتا ہے.حضرت ابو بکر اور حضرت عمرؓ نے یہ بھی نہیں کہا کہ ہم صرف اتنا ہی کام کریں گے.بلکہ حدیثوں سے پتا لگتا ہے کہ وہ ہمیشہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آکر یہ عرض کرتے تھے کہ یا رسول اللہ ! کوئی اور کام بتائیں یا رسول اللہ ! کوئی اور کام بتا ئیں.بہر حال میں نے گزشتہ جمعہ یہ تحریک کی تھی کہ ربوہ والے دوسروں کے لئے نمونہ بنیں اور محلوں میں تحریک کی جائے کہ لوگ نماز تہجد ادا کیا کریں.اور جو دوست اس بات کا عہد کر لیں کہ وہ نماز تہجد ادا کی کیا کریں گے اُن کے نام لکھ لئے جائیں.مجھے جنرل پریذیڈنٹ کی طرف سے آج ایک ہفتہ کے بعد یہ رپورٹ ملی ہے کہ مختلف محلوں میں تحریک کی گئی ہے.دارالصدر کے الف محلہ کے دوسو سے اوپر
1952 207 خطبات محمود دوستوں نے وعدہ کیا ہے کہ وہ با قاعدہ تہجد ادا کرنے کی کوشش کریں گے اور محلہ ج کے سوتی آدمیوں نے اس قسم کا وعدہ کیا ہے اور محلہ ب کے متعلق انہوں نے یہ لکھا ہے کہ بار بار توجہ دلانے کے باوجود صدرمحلہ نے کوئی جواب نہیں دیا.یہ سستی بھی قوم کو خراب کرتی ہے.قوم کا بوجھ در حقیقت وہی لوگ اٹھا سکتے ہیں جو ہر کام کو اس کے وقت پر کرتے ہیں.جو کام کو دوسرے وقت پر ٹلا دیتے ہیں وہ قوم کے لئے مفید وجود نہیں بن سکتے.درحقیقت اخلاق فاضلہ کے بغیر کامیابی نہیں ہوسکتی.ایک غیر مومن اپنے جتھوں کے پاس جاتا ہے.وہ اپنے طاقتور ساتھیوں کے پاس جاتا ہے.لیکن اگر تم مومن ہو اور تم میں ایمان ہے تو تمہیں خدا تعالیٰ کے پاس جانا چاہیے جو سب سے زیادہ طاقتور ہے.اگر تم خدا تعالیٰ کے پاس نہیں جاتے تو تمہاری تباہی میں کیا شبہ رہ جاتا ہے.اس کے لئے نہ کسی رؤیا کی ضرورت ہے نہ کسی الہام کی ضرورت ہے.کیونکہ تم نے دنیا کو بھی مخالف بنالیا اور خدا تعالیٰ سے بھی تعلق قائم نہ رکھا.ایک بزرگ کے متعلق مشہور ہے کہ وہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کر ذکر الہی کیا کرتے تھے.ان کا ہمسایہ ایک امیر آدمی تھا جو بادشاہ کا درباری تھا.وہ ناچ گانے کیا کرتا تھا.اس کی بزرگ نے اسے کہلا بھیجا کہ یہ بات درست نہیں تم ناچ گانا بند کر دو.اس درباری نے کہا میں ناچ گانا بند نہیں کرتا.اس بزرگ نے کہا اگر تم ناچ گانا بند نہیں کرو گے تو ہم زور سے اسے بند کرائیں گے.تم ہمیں ذکر الہی نہیں کرنے دیتے اور نہ نمازیں پڑھنے دیتے ہو.وہ شخص بادشاہ کا درباری تھا.اُس نے بادشاہ کے پاس شکایت کی کہ فلاں بزرگ نے مجھے دھمکی دی ہے.حالانکہ مومن کا انحصار بندہ پر نہیں ہوتا اُس کا انحصار تو خدا تعالیٰ پر ہوتا ہے.بادشاہ نے اس کی حفاظت کے لئے فوج کا ایک دستہ مقرر کر دیا.اس پر اُس درباری نے اپنے ہمسایہ بزرگ کو کہلاتی بھیجا کہ اب تم میرا مقابلہ کر لو.بادشاہ نے میری حفاظت کے لئے فوج کا ایک دستہ مقرر کر دیا کی ہے.ان کا تو یہ منشاء ہی نہ تھا کہ وہ اس درباری سے زیادہ طاقت رکھتے ہیں.وہ شروع سے ہی جی یہ سمجھتے تھے کہ انکی مدد خدا تعالیٰ نے کرنی ہے اور وہ اس کے سامنے مدد کے لئے جھکیں گے.انہوں نے اپنے ہمسایہ کے پیغام کے جواب میں کہلا بھیجا کہ ہم تمہارا مقابلہ کریں گے لیکن ظاہری حج تیر و تفنگ اور تلواروں سے نہیں بلکہ ہم تمہارا مقابلہ رات کے تیروں سے کریں گے.یعنی راتوں کی کو اٹھ کر دعائیں کریں گے اور خدا تعالیٰ ہماری مدد کرے گا.یہ ایمان اور یقین سے نکلا ہوا فقرہ کی
1952 208 خطبات محمود تھا جس کے اندر تو کل اور یقین کی روح بھری ہوئی تھی.مجلسِ سرود گی ہوئی تھی کہ پیغا مبر نے کی ہمسایہ درباری کو اس بزرگ کا پیغام سنایا کہ انہوں نے کہا ہے ہم تمہارا مقابلہ کریں گے لیکن ظاہری توپ و تفنگ اور تلواروں سے نہیں بلکہ ہم تمہارا مقابلہ رات کے تیروں سے کریں گے.یہ فقرہ اُس در باری کے دل پر اس طرح لگا کہ اُس کی چیخ نکل گئی.اُس نے سارنگیاں اور طبلے چھوڑ دیئے اور کہا ان تیروں کے مقابلہ کی نہ مجھ میں طاقت ہے اور نہ میرے بادشاہ میں طاقت ہے.تو حقیقت یہ ہے کہ اگر تم دعاؤں پر زور دو اور اللہ تعالیٰ کی نصرت حاصل کر لو تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ تمہارے پاس وہ طاقت ہے کہ ساری دنیا بھی اس کا مقابلہ نہیں کر سکتی.لیکن افسوس ہے کہ تم چشمے پر بیٹھے ہوئے پانی نہیں پیتے.تم ندی کے کنارے بیٹھے ہولیکن تم نہاتے نہیں.خدا کے خزانے تمہارے پاس ہیں لیکن تم انہیں لینے کی کوشش نہیں کرتے.ارادہ اور کوشش ہی انسان کو کامیاب کرتے ہیں.ایک دن میں نہ کوئی انسانیت میں کامل بن جاتا ہے اور نہ کوئی نبی بن جاتا ہے.نبی بھی عام انسانوں کی طرح ماں کے پیٹ سے پیدا ہوتا ہے.ایک عرصہ تک کی ماں کی چھاتیوں سے دودھ پیتا ہے.پھر وہ گھٹنوں کے بل چلتا ہے، پھر وہ ایک ایک دو دو لفظ سمجھتا ہے.کانپتے کانپتے بچوں کی طرح چلتا ہے.اُس پر بھی بچپن کا زمانہ آتا ہے جب وہ آداب سیکھتا ہے.پھر اُس پر جوانی کا زمانہ آتا ہے پھر اُس کے اندر خدا تعالیٰ کی محبت پیدا ہوتی ہے.اور پھر آہستہ آہستہ ترقی کر کے وہ خدا تعالیٰ کے فیضان کو حاصل کرتا ہے.پس ولایت اور انسانیت ایک کی دن میں نہیں ملتیں.انسان بھی کہیں چالیس سال میں جا کر انسان بنتا ہے.انسان 30 ، 40 سال میں ولی بنتا ہے لیکن وہ بنتا شروع کے تجربہ کی وجہ سے ہے.جب تک کوئی شخص پہلی جماعت میں داخل نہیں ہوتا وہ پرائمری پاس کیسے کرے گا.جب تک وہ مڈل کی پہلی جماعت پاس نہیں کرتی لیتا وہ مڈل پاس کیسے کرے گا.جب تک وہ ہائی کلاسز میں داخل نہیں ہوتا وہ میٹرک کا امتحان کیسے پاس کرے گا.جب تک وہ کالج کی پہلی جماعت میں داخلہ نہیں لے گا وہ بی اے اور ایم اے کیسے بنے گا.پس متواتر کوشش کے بغیر مدعا اور مقصد حاصل نہیں ہو سکتا.پہلی جماعت میں داخل کی ہونے کے معنی کوشش شروع کرنے کے ہیں.تم کوشش شروع کرو.اگر تم ساری رات سوئے ہو اور دن کو بھی اس کی کسر پوری نہیں
1952 209 خطبات محمود کرتے تو تم نے خدا تعالیٰ کو ملنے کے لئے کوشش ہی نہیں کی.اگر تم پہلی جماعت میں داخل نہیں ہے ہوتے تو تم ایم اے پاس کیسے کرو گے.پھر حسرت کے ساتھ تم کہو گے کہ ہمیں خدا نہیں ملا.می حالانکہ خدا تعالیٰ کو ملنے کے لئے بھی کلاسز ہیں.جب تک تم پہلی کے بعد دوسری اور دوسری کے بعد تیسری کلاس پاس نہیں کرو گے تم خدا تعالیٰ کو مل نہیں سکتے.تم نے خدا تعالیٰ کو ملنا ہو تو پہلے پہلی جماعت پاس کرو.دوسری جماعت پاس کرو.تیسری جماعت پاس کرو.چوتھی جماعت پاس کرو.پانچویں جماعت پاس کرو.چھٹی جماعت پاس کرو.ساتویں جماعت پاس کرو.مڈل پاس کرو.میٹرک کا امتحان پاس کرو.کالج کی پہلی جماعت پاس کرو.دوسری جماعت پاس کی کرو.تیسری جماعت پاس کرو.چوتھی جماعت پاس کرو.پانچویں جماعت پاس کرو.چھٹی کی جماعت پاس کرو.تب جا کر تم ایم اے پاس کر سکتے ہو.تم نے پہلی جماعت پاس نہیں کی لیکن تم یہ شکوہ کرتے ہو کہ ہم نے ایم اے پاس نہیں کیا.تم نے قاعدہ شروع نہیں کیا اور رور ہے ہو کہ ہم نے ایم اے پاس نہیں کیا.جو شخص پہلی جماعت پاس نہیں کرتا اور کہتا ہے کہ مجھے ایم اے میں چ داخل کرا دو وہ بے وقوف ہے.پس تم اپنے نفس کو آہستہ آہستہ ان مشکلات اور مصائب میں ڈالو جن کے بعد روحانی درجات ملتے ہیں.پھر انسان اور ترقی کرتا ہے اور اس قابل بن جاتا ہے کہ خدا تعالیٰ کا فضل اُس پر نازل ہو.اگر تم ایسا نہیں کرتے تو تمہیں وہ نتیجہ نہیں مل سکتا جو قر بانیوں کے بعد ملتا ہے.تم ان راستوں پر چلو جن راستوں پر چل کر تم اعلیٰ مقامات حاصل کر سکتے ہو.اللہ تعالیٰ نے مسیح موعود کو بھیجا تھا تو اسی لئے کہ جو اس کے ہاتھ میں ہاتھ رکھے گا وہ ولی اللہ بن جائے گا.لیکن اللہ تعالیٰ کی سنت تبدیل نہیں ہو سکتی.خدا تعالیٰ کی سنت قائم ہے.ولی اللہ بننے کے لئے جو کلاسیں مقرر ہیں جب کوئی شخص انہیں پاس کر لے گا تو وہ ولایت کے درجہ کو حاصل کر لے گا.لوگوں نے حماقت سے یہ سمجھ لیا ہے کہ جب تک عربی زبان نہ آئے کوئی شخص ولی اللہ ع نہیں بن سکتا حالانکہ اگر کوئی شخص قرآن کریم سُن سکتا ہے اور وہ سنتا ہے تو یہی بات اس کے لئے کافی ہے.یہ نہیں ہو سکتا کہ وہ قرآن کریم پڑھنا نہیں جانتا اور وہ سنتا بھی نہیں تو وہ ولی اللہ بن جائے.ولی اللہ بننے کے لئے یہ ضروری نہیں کہ وہ کوئی بڑا مفسر ہو.اگر وہ قرآن کریم کا سا دا ، ترجمہ سن لیتا ہے اور اُس پر عمل کرنے کی کوشش کرتا ہے تو ولی اللہ بننے کیلئے یہ بات کافی ہے.عالم کہلانے کے لئے صرف کی ضرورت ہے ، نحو کی ضرورت ہے، علم بدیع کی ضرورت ہے،
1952 210 خطبات محمود علم معانی کی ضرورت ہے ، فصاحت کی ضرورت ہے، لغت کی باریکیاں جاننے کی ضرورت کی ہے.لیکن ولی اللہ بننے کے لئے ان باتوں کی ضرورت نہیں.ہر ولی اللہ مفسر نہیں ہوتا اور نہ ہر مفسر ولی اللہ ہوتا ہے.بعض ایسے مفسر بھی گزرے ہیں جن کے متعلق کہا جاتا ہے کہ وہ دین سے بے بہرہ تھے.مثلاً صاحب کشاف ہیں ان کی تفسیر نہایت اعلیٰ ہے لیکن کہتے ہیں کہ وہ نیچری تھے اس لئے انہوں نے روحانیت کو چھوڑ دیا ہے.لیکن جہاں تک صرف، نحو، علمِ، معانی، علم، کلام، علم بدیع فصاحت و بلاغت اور لغت کا تعلق تھا انہوں نے قرآن کریم کی نہایت اعلیٰ تفسیر کی ہے.پس یہ ضروری نہیں کہ جو قرآن کریم کی خدمت کرے وہ ضرور خدا رسیدہ ہوتا ہے.نحو، صرف، علم معانی ،علم کلام اور لغت جاننے والا بھی یہ کام کر سکتا ہے.اسی طرح روحانیات کے عالم کے لئے ضروری نہیں کہ وہ تفسیر بھی جانتا ہو.ہاں یہ دونوں چیزیں جمع ہو سکتی ہیں.روحانیات کا جاننے والا ظاہری علوم سے بھی واقف ہو سکتا ہے.اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ظاہری علوم کا جاننے والا روحانیات کا عالم بھی ہو.لیکن یہ ضروری نہیں کہ ہر روحانی عالم ظاہری علوم کا بھی عالم ہو.یا ہر ظاہری علوم کا جاننے والا روحانی عالم بھی ہو.ہر ایک شخص جو ولایت کے رستوں پر چلے گا وہ امید کر سکتا ہے کہ خدا تعالیٰ اس کی مدد کرے.اپنی نمازوں کو سنوارو ، تم اپنی عبادت کو سنوارو اور آہستہ آہستہ تم اس بات کی عادت ڈالو کہ رمضان کے علاوہ تم دوسرے ایام میں بھی روزے رکھو.فرض زکوۃ کے علاوہ تمہیں زائد صدقہ دینے کی بھی عادت ہو.اور ہو سکے تو تم حج بھی کرو.جہاں تک میں سمجھتا ہوں آج کل حج پر وہ چی لوگ جاتے ہیں جن پر حج فرض نہیں اور وہ لوگ حج کے لئے نہیں جاتے جن پر حج فرض ہے.مثلاً بیمار حج کے لئے جاتے ہیں تا وہ بیت اللہ میں جا کر دعا کریں کہ وہ تندرست ہو جائیں یا خدا تعالیٰ انہیں اولا داور مال دے.لیکن وہ امیر اور مالدار شخص جس پر حج فرض ہے وہ آرام سے بیٹھا رہتا ہی ہے.اور اگر وہ حج کرتا ہے تو محض شہرت کے لئے یا اپنی تجارت کو وسعت دینے کے لئے ، اس جی سے زیادہ نہیں.تم وہ اعمال کرو جن سے خدا تعالیٰ ملتا ہے.خدا تعالیٰ نوافل سے ملتا ہے.فرائض حتی تو خدا تعالیٰ نے مقرر کر دئیے ہیں.ان کو پورا کرنے سے انسان جنت میں چلا جاتا ہے لیکن اُسے خدا تعالیٰ کا قرب حاصل نہیں ہوتا.خدا تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے کے لئے تم نوافل کی عادت کی ڈالو.یہ مصائب عارضی ہیں.بڑی چیز خدا تعالیٰ کا ملنا ہے.اگر کوئی مصیبت نہ بھی ہو تب بھی خدا تعالیٰ کی
1952 211 خطبات محمود کو پانے کی ضرورت ہے.اگر کوئی اپنی مصیبت ٹلانے کو عبادت کا مقصد قرار دے لیتا ہے تو یہ نہایت کی ادنی اور ذلیل بات ہے.اگر خدا خدا ہے، اگر مذہب مذہب ہے تو خدا تعالیٰ کے مقابلہ میں ساری نعماء حقیر ہیں.اصل چیز خدا تعالیٰ کو خوش کرنا ہے.دنیا کو خوش کرنا اصل چیز نہیں.خدا تعالیٰ کو خوش کرنے کے لئے اُن قربانیوں کی ضرورت ہے جن سے خدا تعالیٰ کی رحمت نازل ہوتی ہے.لیکن ہمارے بعض نوجوانوں میں دین کی محبت کمزور ہے.وہ نمازوں میں سست ہیں.اس سے تمہاری نسل اور تمہارا خاندان خدا تعالیٰ کا قرب کیسے حاصل کر سکتا ہے.اگر تم اپنی اولاد کی تربیت نہیں کرتے تو تم خدا تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے سے محروم رہ جاؤ گے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے صحابی مولوی برہان الدین صاحب مزاحیه طبیعت رکھتے تھے.ان کی ساری زندگی نہایت سادگی میں گزری تھی.ایک دن مولوی عبد الکریم صاحب نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام سے عرض کیا کہ مولوی برہان الدین صاحب ایک خواب سنانا چاہتے ہیں.آپ نے فرمایا سنا ئیں.مولوی برہان الدین صاحب کہنے لگے میں نے خواب میں اپنی فوت شدہ ہمشیرہ کو دیکھا کہ وہ مجھ سے ملی ہیں.میں نے اُن سے پوچھا بہن سناؤ تمہارا کیا حال ہے؟ کہنے لگی خدا نے بڑا فضل کیا ہے اُس نے مجھے بخش دیا ہے اور اب میں جنت میں آرام سے رہتی ہوں.میں نے کہا بہن وہاں کرتی کیا ہو؟ کہنے لگی بیر بیچتی ہوں.میں نے کہا تج بہن ہماری قسمت بھی عجیب ہے کہ ہمیں جنت میں بھی بیر ہی بیچنے پڑے.اس خواب کی تعبیر تو نہایت اعلی تھی.بیر جنت کا ایک پھل ہے اور اس سے مراد ایسی کامل محبت ہوتی ہے جو لا زوال ہو.اور جنت کا پھل بیچنے کے یہ معنی تھے کہ میں اللہ تعالیٰ کی لازوال محبت لوگوں میں تقسیم کرتی کج پھرتی ہوں.لیکن مولوی برہان الدین صاحب کا ذہن اس تعبیر کی طرف نہ گیا اور ظاہری الفاظ کی کے لحاظ سے انہوں نے یہ سمجھ لیا کہ بیر بیچنا تو بڑی معیوب بات ہے.بہر حال یہ خواب سنا کر اُن کی پر رقت طاری ہو گئی اور کہنے لگے حضور ! ہم سنا کرتے تھے کہ مسیح آئیں گے تو وہ شخص بڑا خوش کی قسمت ہو گا جو مسیح کو دیکھے گا.پھر ہم نے مسیح موعود کی آواز کو سنا، آپ پر ایمان لائے.پھر سنا کہ فلاں شخص آپ پر ایمان لایا اور اسے قرب کا مرتبہ مل گیا.اسے الہام ہونے لگے ، اسے رؤیا و کشوف ہوتے ہیں.اس پر اُن کی چیخ نکل گئی اور کہنے لگے لیکن میں تے پھر بھی جھڈو دا جھڈ وہی رہیا.“ مجھے آج تک پتا نہیں لگا کہ جھڈو کے کیا معنی ہیں.لیکن جہاں تک اس کے مفہوم کا تعلق.
1952 212 خطبات محمود وہ یہی تھا کہ میں نہایت ادنیٰ قسم کا آدمی ہوں کہ میں نے مسیح موعود سے کسی قسم کا کوئی فائدہ نہیں ہے اٹھایا.ان کی تو یہ غلط فہمی تھی لیکن اس میں کیا محبہ ہے کہ تم حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر ایمان لائے اور آپ کی جماعت میں داخل ہوئے.تم ایسے طبیب کے پاس گئے جس کے پاس ایسا سر مہ تھا جی جس کے لگانے سے انسان خدا تعالیٰ کو دیکھ سکتا ہے.لیکن جسے پھر بھی خدا تعالیٰ دکھائی نہ دیا اُس سے زیادہ بد قسمت اور کون ہو گا.تم ہسپتال میں داخل ہوئے لیکن بیماری کی حالت میں ہی اُس سے باہر چلے گئے.لوگ موتیا بند کا آپریشن کرتے ہیں اور جس کا آپریشن خراب ہوتا ہے وہ ساری عمر حسرت سے کہتا ہے کہ لوگ آئے اور آپریشن کرایا، بینائی حاصل کی اور چلے گئے.لیکن میں نے ج اپنا آپریشن بھی کروایا پھر بھی میری آنکھ نہ بنی.اس شخص سے زیادہ خراب حالت اُس شخص کی ہے جو اس جماعت میں داخل ہوا ، جس کی غرض ہی خدا تعالیٰ کا وصال تھی لیکن وہ خدا تعالیٰ سے ملے بغیر گزر گیا.قرآن کریم میں آتا ہے يَمُرُّونَ عَلَيْهَا وَهُمْ عَنْهَا مُعْرِضُونَ - 6 - وہ خدا تعالیٰ کے نشانات پر سے گزرتے ہیں لیکن ان کی طرف دیکھتے نہیں.تم وہ طریق تو اختیار کرو جن سے خدا تعالیٰ ملتا ہے.تم قدم تو اٹھاؤ تم حج کے لئے ارادہ تو کرو.تم زکوۃ کے لئے ہاتھ تو بڑھاؤ تم روزوں کے لئے نیند تو توڑو.اس کے بعد دوسرا قدم اٹھے گا پھر تیسرا قدم اٹھے گا.پہلے دن ہی مج ولایت نہیں مل جائے گی تم قدم اٹھاؤ گے تو وہ ملے گا.آخر تم ان لوگوں کی طرح کیوں ہو گئے جو یہ مجھتے ہیں کہ لوگ خود بخود اُن کا کام کر دیں گے.حضرت خلیفۃ اسیح الاوّل ایک واقعہ سنایا کرتے تھے کہ دو شخص ایک جنگل میں لیٹے پڑ تھے کہ انہیں دور سے ایک شخص نظر آیا.ان میں سے ایک نے اسے بلایا اور کہا میری چھاتی پر بیر پڑا ہے اٹھا کر یہ میرے منہ میں ڈال دو.اول تو وہ شخص سپاہی ہی تھا اور سپاہی مغرور ہوتا ہے.پھر وہ اپنی ڈیوٹی پر جا رہا تھا.اُس نے خیال کیا کہ یہاں جنگل میں کوئی مصیبت زدہ ہے میں جلدی اس کی مدد کو پہنچوں.لیکن جب وہ وہاں گیا تو اس نے کہا میری چھاتی پر پیر پڑا ہے یہ میرے منہ میں ڈال دو.اُسے غصہ آیا اور اُس نے اُس شخص سے جس نے اُسے آواز دی تھی کہا تو بڑا بے حیا ہے، میں اپنی ڈیوٹی پر جا رہا تھا کہ تو نے آواز دی.میں نے سمجھا کہ کوئی مصیبت زدہ ہے اس لئے میں یہاں آگیا تا تمہاری مدد کروں.لیکن یہاں آیا تو تم نے کہا میری چھاتی پر بیٹڑ پڑا ہے یہ بیراٹھا کر میرے منہ میں ڈال دو.کیا تمہارا ہاتھ نہیں تھا تم نے بیر خود منہ
1952 213 خطبات محمود میں کیوں نہ ڈال لیا؟ اس پر دوسرے شخص نے کہا میاں ! خفا کیوں ہوتے ہو؟ یہ بہت ذلیل آدمی کی ہے، اس پر خفا ہونا بے فائدہ ہے.ساری رات گتا میرا منہ چاھتا رہا لیکن اس کمبخت نے ہش تک نہیں کی.اس پر وہ سپاہی چُپ کر کے چلا گیا.پس تم اپنی حالت ان جیسی نہ بناؤ.اگر تم نے ابھی کوشش ہی نہیں کی ، قربانی ہی نہیں کی تم نے اُس رستہ پر قدم ہی نہیں رکھا جس رستہ پر چلنے سے خدا ملتا ہے تو پھر تم کس طرح یہ امید کر سکتے ہو کہ چونکہ تم اُس جماعت میں سے ہو جو خدا تعالیٰ کو پہچانتی ہے اس لئے خدا تعالی تمہیں مل جائے گا.تمہاری آوازوں سے تو دنیا کا گوشہ گوشہ گونج جانا چاہیے.تمہارے گھروں سے قرآن کریم پڑھنے کی اس قدر آواز میں آنی چاہئیں کہ دنیا حیران ہو جائے.ہم جب قادیان کی گلیوں میں سے گزرتے تھے تو ہر گھر سے قرآن کریم پڑھنے کی آوازیں آتی تھیں.لیکن یہاں صبح کی یہ کیفیت نہیں ہوتی.انسان جتنا گرتا ہے اُتنی ہی اُسے شور مچانے اور چلانے کی ضرورت ہوتی ہے.تم مصائب میں گھرے ہوئے ہو.تمہیں تو بہت زیادہ چلا نا چاہیئے.مجھے خوشی ہوئی ہے کہ کچھ لوگ تہجد پڑھنے کے لئے تیار ہوتے ہیں لیکن ابھی بہت لوگ باقی ہیں.اس میں شبہ نہیں کہ آبادی کا ایک حصہ بچے ہیں ، پھر عورتیں ہیں.ان کا 1/3 حصہ ایسا ہوتا ہے جو نماز نہیں پڑھتا.پھر کچھ بیمار اور کچھ بوڑھے ہیں.اگر انہیں کل آبادی کا 1/5 حصہ بھی سمجھ لیا جائے تب بھی ربوہ کی آبادی پانچ چھ ہزار کی ہے.اس میں سے ایک ہزار تو تہجد گزار ہونا چ چاہیے لیکن ابھی تک تین چارسو کے نام میرے پاس پہنچے ہیں.چھ سات سو اشخاص باقی ہیں کہ جنہیں تہجد پڑھنی چاہیے.پھر سکول کے طالب علموں کو بھی تہجد کی عادت ڈالنی چاہیے.پندرہ سولہ سال کے لڑکے کو کم سے کم ہفتہ میں ایک دفعہ تو تہجد کے لئے اٹھانا چاہیے.پھر انہیں تلاوت قرآن کریم کی عادت ڈالنی چاہیے اور اساتذہ کو اس کی نگرانی رکھنی چاہیے.لیکن جب طلباء کو اس قسم کی تحریک نہیں ہوگی تو وہ خیال کر لیں گے کہ خود ہمارے اساتذہ کو بھی دین کی ج قدر نہیں اور اس طرح وہ بہت مست ہو جائیں گے.پس تم روحانیت پیدا کرنے کی کوشش کرو.تہجد اور نوافل پڑھنے کی عادت ڈالو.تلاوت قرآن کریم کی عادت ڈالو تا ساری جماعت اس مرکز پر جمع ہو جائے جو دنیا میں روحانیت کا سرچشمہ ہے.“ (الفضل 28 جون 1952ء) 1: البقرة : 154
1952 214 خطبات محمود 2 بخاری کتاب الوضوء - باب فَضْلُ مَنْ بَاتَ عَلَى الوُضوء - بخارى كتاب الإيمان باب سُوَّالُ جِبْرِيلَ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الْإِيْمَانِ (الخ) :4 بخاری كِتَابُ الْإِيمَانِ بَاب الزَّكواةُ مِنَ الْإِسْلَامِ - 5 بخاری کتاب الرقاق باب التَّوَاضُع - 6: يوسف : 106
1952 215 (25) خطبات محمود اللہ تعالیٰ کی طرف جھکو اور اُسی پر توکل کرو کہ تمہاری تمام مشکلات کا یہی واحد علاج ہے (فرمودہ 18 جولائی 1952ء بمقام ربوہ ) تشہد ، تعوذ اورسورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: " شاید 1911ء کی بات ہے جبکہ میں شملہ گیا ہوا تھا.وہاں میں نے ایک رؤیا دیکھا کہ گویا مجھے کسی کام پر مقرر کیا گیا ہے.یہ مجھے یاد نہیں رہا کہ آیا اللہ تعالیٰ نے وہ کام میرے سپرد کیا تی تھا یا اس کے کسی فرشتے نے اس کام پر مجھے مقرر کیا.ممکن ہے اُس وقت یہ چیز میرے ذہن میں ہو مگر اس وقت نہیں.بہر حال کسی بالا ہستی نے میرے سپر د ایک کام کیا اور اُس کام پر روانہ ہوتے وقت مجھے یہ نصیحت کی کہ جس کام کے لئے تمہیں بھجوایا جارہا ہے اس کے رستہ میں تمہیں بڑی بڑی مشکلات پیش آئیں گی.چاروں طرف سے تمہیں ڈرانے اور دھمکانے کی کوشش کی جائے گی اور کتی لوگ تمہیں تمہارے اصل مقصد سے غافل رکھنے کی کوشش کریں گے مگر تم اُن کی طرف کوئی توجہ نہ کی کرنا اور سیدھے چلتے چلے جانا.پھر یہ بھی کہا کہ تمہاری توجہ کو پھرانے کے لئے یہ مشکلات کئی جی شکلوں میں آئیں گی.کبھی وہ غیر مرئی ہوں گی اور کبھی مرئی ہوں گی.کبھی وہ ڈرانے والی شکلوں کی میں تمہارے سامنے آئیں گی اور کبھی یونہی آوازیں سنائی دیں گی مگر تم ان کی پروا نہ کرنا اور یہی کہتے چلے جانا کہ ” خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ ”خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ.چنانچہ میں اس کام کے لئے روانہ ہو گیا.ابھی تھوڑی دور ہی گیا تھا کہ 9966
1952 216 خطبات محمود وو 66 ایک بھاری جنگل رستہ میں آگیا اور ایک دشوار گزار پہاڑی رستہ سے مجھے گزرنا پڑا.میں ایک پگڈنڈی پر جارہا تھا کہ مجھے اپنے دائیں اور بائیں اور آگے اور پیچھے سے مختلف قسم کی آوازیں آنے لگیں اور مجھے مختلف طریق سے اپنے مقصد سے پھرانے لگیں.کبھی وہ مجھے دوستانہ رنگ میں بلاتی تھیں اور کبھی دشمنی کے رنگ میں بلاتی تھیں.کئی دفعہ مجھے بلانے والے نظر نہیں آتے تھے اور کبھی ڈرانے والی چیزیں مجھے نظر آتی تھیں.کبھی شیر کی شکل ہوتی تھی تو انسان کا دھڑ ہوتا تھا، کبھی انسان کی شکل ہوتی تھی تو شیر کا دھڑ ہوتا تھا.کبھی انسان کا منہ ہوتا تھا اور گدھے کا جسم ہوتا تھا اور کبھی گدھے کا منہ ہوتا تھا اور انسان کا جسم ہوتا تھا.کبھی خالی سر پھرتے نظر آتے تھے اور کبھی خالی دھڑ باتیں کرتے ہوئے نظر آتے تھے.غرض جب چاروں طرف اسی قسم کے نظارے نظر آتے اس پر میں کہتا ” خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ “.اور جب میں ” خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ کہتا تو ڈرانے والی چیزیں سب غائب ہو جاتیں.اگر وہ آواز میں غیر مرئی ہوتی تھیں تو بند ہو جاتیں.اگر خالی دھڑ ہوتے تو غائب ہو جاتے.مگر تھوڑی دور چل کر پھر اور شکلیں ظاہر ہو جاتیں.لیکن جب میں پھر خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ کہتا تو وہ سب غائب ہو جاتیں.پھر ایک نیا فتنہ کھڑا ہوتا اور تھوڑی دیر کے بعد وہ فتنہ غائب ہو جاتا.پھر ایک نیا فتنہ کھڑا ہوتا اور تھوڑی دیر کے بعد وہ بھی مٹ جاتا.یہاں تک کہ میں سفر طے کر کے منزلِ مقصود تک پہنچ گیا.یہ چالیس سال پہلے کی خواب ہے جس میں در حقیقت ان آنے والی مصیبتوں اور مشکلات کا علاج بتایا گیا تھا جو ازل سے خدا کی طرف سے جماعت احمدیہ کے لئے مقرر ہیں.اس خواب کے کئی پہلو متفرق اوقات میں پورے ہو کر جماعت کے لئے ازدیاد ایمان کا موجب ہوئے اور اب تک ہو رہے ہیں.ہماری جماعت پر اس قدر مصائب اور ابتلاء آئے اور آتے رہے کہ ہر وقت سمجھا گیا کہ یہ جماعت ختم ہو گئی ہے لیکن ہر فتنہ کے بعد دنیا نے یہی دیکھا کہ احمدیت پہلے سے بھی زیادہ مضبوطی سے قائم ہے.آپ لوگوں نے بارہا دیکھا کہ خدا تعالیٰ نے شدید مخالفتوں کے کی باوجود جماعت کو بڑھایا اور جس چیز کی اس نے پہلے سے خبر دے دی تھی اُس کو ہمیشہ پورا کیا.اتنے واضح نشانات دیکھنے کے بعد بھی اگر ہماری جماعت کبھی متر ڈو ہو تو اس کو یقین دلانے کا کیا ذریعہ ہو سکتا ہے.ہمیں بتایا گیا ہے کہ مشکلات آئیں گی اور مختلف شکلوں اور مختلف اوقات میں آئیں گی.اور پھر بتایا گیا ہے کہ اس کا یہ علاج نہیں کہ تم فساد کر نے لگ جاؤ بلکہ اس کا علاج صرف
1952 217 خطبات محمود 66 ایک ہی ہے کہ تم خدا تعالیٰ کی طرف توجہ کرو اور اُس کی مدد اور اُس کا فضل اور رحم مانگو.مخالفین کے منصوبوں اور اُن کی کوششوں کا یہ علاج نہیں کہ تم بھی منصوبے کرو بلکہ اس نے ان کا جو علاج کی مقر ر کیا ہے وہ کرتے چلے جاؤ اور ” خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ کہتے چلے جاؤ.جب تم سچے دل سے یہ کہو گے کہ خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ تو سب مشکلات دور ہو جائیں گی.یہ اتنا لمبا تجربه شده نسخه روحانی جماعتوں کا ہے کہ اس کے لئے کسی رؤیا کی ضرورت نہیں.گور دیا اللہ تعالیٰ نے اپنے نشان کو تازہ کرنے کے لئے دکھایا ہے.ورنہ یہ سنت اللہ ہے کہ جب بھی خدا تعالیٰ کے مامورین ، مصلحین اور اس کے نیک اور بزرگ بندے دنیا میں آئے تو اُن کی ہمیشہ ہی مخالفت ہوتی رہی.اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے.يُحَسْرَةً عَلَى الْعِبَادِ مَا يَأْتِيهِمْ مِنْ رَّسُولٍ إِلَّا كَانُوا بِهِ يَسْتَهْزِءُونَ 1 - ہائے افسوس! ان بندوں پر کہ کبھی بھی کوئی نبی دنیا میں ایسا نہیں آیا کہ جس سے لوگوں نے ہنسی اور مذاق نہ کیا ہو.لوگ ان چیزوں اور دعووں پر جو غلط ہوتے ہیں ٹھٹھا اور مذاق نہیں کرتے کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ وہ خود بخود ختم ہو جائیں گے.لوگ جھوٹ بولیں ، کسی کو اپنا معبود بنالیں، کسی کو خدا تعالیٰ کا نام دے دیں ، کسی کو شارع سمجھ لیں ان کی مخالفت نہیں ہوتی.لیکن تم سچے ہو کر انسان ہونے کا دعوی بھی کرو تو لوگ تمہاری مخالفت کریں گے.کیونکہ بچے کی ہمیشہ مخالفت ہوتی ہے ، اور قرآن کریم نے بتایا ہے کہ جب بھی نبیوں یا اُن کے پر مصائب آئے اُن کا علاج یہی تھا کہ وہ خدا تعالیٰ کے سامنے جھکے، خدا تعالیٰ کی طرف انہوں نے توجہ کی اور اُس سے مدد مانگی.آخر ایک دن خدا تعالیٰ کی مدد آئی اور وہی مخالفتیں جو لوگ کر رہے تھے اُن کے لئے کھا د کا کام دے گئیں اور جماعت کے ترقی کرنے اور آگے بڑھنے کا وقت آگیا.اسلامی تاریخ کے پڑھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے بزرگوں کے ساتھ بھی ایسے بہت سے واقعات گزرے ہیں.مثلاً خواجہ نظام الدین صاحب اولیاء کے متعلق ہی تاریخ میں ایک واقعہ بیان ہوا ہے کہ دہلی کے بہت سے لوگ آپ کے مرید تھے اور بعض بارسوخ لوگ بھی آپ کی کے مریدوں میں شامل تھے.بعض دشمنوں نے بادشاہ کے دل میں یہ وسوسہ پیدا کیا کہ حضرت کی خواجہ نظام الدین صاحب باغی ہیں اور ایک دن آپ کے مقابلہ میں کھڑے ہو جائیں گے.آہستہ آہستہ بادشاہ اُن کی باتوں سے متاثر ہو گیا.بادشاہ اُن دنوں ایک مہم پر جانے والا تھا.وہ کی
1952 218 خطبات محمود کہنے لگا اس مہم سے فارغ ہو جائیں تو ان کا فیصلہ کریں گے.چنانچہ وہ مہم پر چلا گیا.بعض مریدوں نے حضرت خواجہ نظام الدین صاحب کے کانوں میں بھی یہ بات ڈال دی کہ بعض حاسدوں نے آپ کے متعلق بادشاہ کے دل میں یہ شبہ ڈالا ہے کہ آپ حکومت کے باغی ہیں اور اب بادشاہ نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ سفر سے واپس آکر آپ کو سزا دے گا.اس کا کوئی علاج کرنا چاہیے اور بادشاہ کے درباریوں کو سمجھا کر اس بات پر تیار کرنا چاہیے کہ وہ بادشاہ کو حقیقت سے آگاہ کر دیں.خواجہ نظام الدین اولیاء نے فرمایا ہم نے کچھ نہیں کیا ہم اس کا کیا علاج کر سکتے ہی ہیں.ہمارے پاس جو کچھ ہے وہ یہی ہے کہ خدا تعالیٰ سے دعا کریں.مگر چونکہ مرید گھبرائے ہوئے تھے اس لئے وہ بار بار خواجہ صاحب کے پاس آتے اور کہتے کہ حضور ! اس طرف توجہ فرما ئیں کیونکہ بادشاہ نے کہا ہے کہ مہم سے فارغ ہونے کے بعد وہ کوئی نہ کوئی کارروائی کرے گا مگر آپ یہی فرماتے رہے کہ ہمارے اختیار میں کچھ نہیں ، خدا تعالیٰ کے اختیار میں سب کچھ ہے.ہم صرف یہی کر سکتے ہیں کہ خدا تعالیٰ سے دعا کریں.آخر بادشاہ مہم سے کامیابی کے ساتھ لوٹا اور جب دہلی میں خبر آئی کہ بادشاہ مہم کو سر کرنے کے بعد دہلی واپس آ رہا ہے تو وہ پھر حضرت خواجہ صاحب کے پاس آئے اور کہنے لگے بادشاہ واپس آرہا ہے.بہتر ہے کہ اُس کے منہ چڑھوں سے اُس کے پاس سفارش کروائی جائے.حضرت خواجہ نظام الدین صاحب نے فرمایا.” ہنوز دلی دور است.ابھی دتی بہت دور ہے گھبراہٹ کی کوئی بات نہیں.اُس زمانہ میں بادشاہ پڑا ؤ کرتے آتے تھے.جب بادشاہ کچھ فاصلہ پر اور آگے آگیا.تو حضرت خواجہ نظام الدین صاحب اولیاء کے مرید پھر آپ کے پاس گئے اور عرض کیا بادشاہ دہلی کے اور قریب آ گیا ہے.آپ نے فرمایا ” ہنوز دلی دور است ابھی دتی بہت دور ہے.آخر وہ نصف فاصلہ طے کر آیا.پھر وہ دو تہائی کی فاصلہ طے کر آیا.پھر ایک چوتھائی فاصلہ پر پہنچ گیا.ہر دفعہ مرید حضرت خواجہ صاحب کے پاس کی پہنچتے لیکن آپ یہی فرماتے کہ ہنوز دلی دور است.ابھی دلی بہت دور ہے.آخر وہ دن کی آ گیا جب بادشاہ کو شام کے قریب دہلی کے پاس پہنچنا تھا.اُس وقت یہ قاعدہ تھا کہ بادشاہ جب سفر سے واپس کو ٹتے تو صدر مقام کے قریب رات کو قیام کرتے اور صبح کو شہر میں جلوس کی صورت میں داخل ہوتے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بھی یہی سنت تھی.بادشاہوں نے شہر کے باہر کچھ محلات بنائے ہوتے تھے.جب کبھی سفر سے واپس لوٹتے تو رات کو ان محلات میں قیام
1952 219 خطبات محمود کرتے تالوگ ان کے استقبال کے لئے مناسب تیاری کر لیں.بادشاہ اس قاعدہ کے مطابق شہر کے باہر کچھ فاصلہ پر ٹھہر گیا.ولیعہد کی طرف سے بادشاہ کو ایک پر تکلف دعوت دی گئی.مرید کی حضرت نظام الدین صاحب اولیاء کے پاس آئے اور عرض کیا حضور ! اب تو بادشاہ شہر کے بالکل قریب آگیا ہے اور صبح شہر میں داخل ہو جائے گا.آپ نے پھر یہی جواب دیا کہ ہنوز دلی دور است " رات کی کو بادشاہ کے اعزاز میں اور مہم کو کامیابی سے سر کرنے کے سلسلہ میں خوشی کا اظہار کرنے کے لئے جشن منایا گیا اور اس کا انتظام محل کی چھت پر کیا گیا.شاید گرمی کا موسم تھا جس کی وجہ سے ایسا کی کیا گیا.بہر حال بادشاہ کی مقبولیت کی وجہ سے لوگوں نے اس قدر دعوت نامے لئے کہ چھت کی گر گئی.اور بادشاہ اُس چھت کے نیچے دب کر ہلاک ہو گیا.پس بعض دفعہ خدا تعالیٰ اپنا فضل اس رنگ میں بھی نازل کرتا ہے.لیکن کبھی وہ مخالفین کے دلوں کو ایمان سے بھر دیتا ہے اور وہ ایمان لا کر متبعین میں شامل ہو جاتے ہیں.جیسے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ میرا شیطان مسلمان ہو گیا ہے.2 یعنی جو بات بھی وہ میرے دل میں ڈالتا ہے وہ ہدایت کی ہوتی ہے.اسی طرح ایک دفعہ جب آپ ایک جنگ سے واپس کوٹے تو ایک شخص جس کا بھائی ایک جنگ میں مارا گیا تھا اور اُس نے قسم کھائی تھی کہ وہ اپنے بھائی کا بدلہ لے گا وہ آپ کے ساتھ آیا اور اس نے فیصلہ کیا کہ وہ اپنے بھائی کے بدلہ میں رسول کریم کی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو قتل کرے گا.صحابہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اکیلا نہیں رہنے دیتے تھے.وہ شخص کئی منزلیں آپ کے ساتھ ساتھ آیا لیکن وہ اپنے ارادہ میں کامیاب نہ ہوسکا.ہر گھڑی اُس نے صحابہ کو آپ کی حفاظت کرتے ہوئے پایا.جب قافلہ مدینہ کے قریب پہنچا تو صحابہ سے کچھ غفلت ہوئی انہوں نے خیال کیا کہ اب ان کا اپنا علاقہ ہے دشمنوں کا نہیں.اس لئے وہ باغ میں اردگرد پھیل گئے اور سو گئے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی ایک جگہ لیٹ گئے اور صحابہ نے پہرہ کی کوئی ضرورت نہ سمجھی.انہیں کیا پتا کہ دشمن چوری چوری ساتھ آیا ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آرام فرمارہے تھے کہ وہ شخص آپ کے پاس آیا.اس نے آپ کی تلوار اٹھائی ، اُسے میان سے باہر نکالا اور آپ کو جگا کر کہا میں فلاں شخص ہوں.آپ کے ساتھیوں نے میرے بھائی کو مارا ہے میں اس کا بدلہ لینے کے لئے آپ لوگوں کے ساتھ ساتھ آیا ہوں.اب بتائیں آپ کو میرے ہاتھ سے کون بچا سکتا ہے؟ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی
1952 220 خطبات محمود نے بغیر کسی گھبراہٹ کے فرمایا اللہ ! یعنی اللہ مجھے بچا سکتا ہے.یہ بظاہر ایک لفظ تھا لیکن جو یقین اور وثوق اور ایمان اس کے پیچھے تھا اُس نے اُس پر ایسا اثر کیا کہ اُس کے ہاتھ سے تلوار گر گئی.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جلدی سے وہ تلوار پکڑ لی اور کھڑے ہو گئے اور فرمایا اب تم بتاؤ تمہیں میرے ہاتھ سے کون بچا سکتا ہے؟ اس نے کہا حضور ہی رحم فرما ئیں تو میری جان بچ سکتی ہے ورنہ نہیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم نے میری زبان سے اللہ کا لفظ سنا اور پھر بھی نہ سمجھا کہ تمہیں اللہ ہی بچا سکتا ہے میں نہیں بچا سکتا.پھر آپ نے اسے معاف فرما دیا اور وہ کی ایمان لے آیا.3 اب دیکھو وہ شخص آپ کا سخت مخالف تھا اور آپ کو قتل کرنے کے لئے کئی منزلیں طے کر کے آیا تھا لیکن اللہ تعالیٰ نے اسے ایماندار بنا دیا.غرض ایمانیات میں اس قسم کی بہت سی کتی مثالیں ملتی ہیں.ایک شخص دشمن ہوتا ہے لیکن خدا تعالیٰ اُسے دوست بنا دیتا ہے.اسی قسم کا ایک اور واقعہ بھی تاریخ میں آتا ہے.فتح مکہ کے بعد جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم غزوہ حنین کے لئے تشریف لے گئے تو دو ہزار کفار بھی لشکر میں شامل ہو گئے.انہوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے درخواست کی کہ ہمیں بھی اپنے لشکر میں شامل کر لیں ، ہم وہاں اپنے جوہر دکھا ئیں گے.جب دشمن نے آپ پر حملہ کیا تو ان سے برداشت نہ ہوسکا ، اُن کے پاؤں اُکھڑ گئے اور وہ پیچھے بھاگے.اُن کے بھاگنے کی وجہ سے مسلمانوں کے گھوڑے بھی بھاگ نکلے.یہاں تک کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک وقت میں صرف بارہ آدمی رہ گئے پھر ایک ریلا آیا تو یہ بارہ آدمی بھی پیچھے دھکیل دیئے گئے.اس وقت ایک شخص جس کا نام غالباً ابوسفیان تھا.( یہ ابو سفیان وہ شخص ہے جس کے پاس کعبہ کی کنجی تھی.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی فتح مکہ کے بعد کعبہ کی کنجی اسی کے سپرد کی تھی اور ترکوں کے وقت تک اسی کی اولاد کے پاس کنجی چلی آئی ہے.اب پتا نہیں ابن سعود کی حکومت نے وہ کنجی اس قبیلہ سے واپس لے لی ہے یا نہیں.اگر کوئی شخص کعبہ کی زیارت کرنا چاہتا تھا تو اس سے کنجی لیتا تھا اور زیارت کے بعد اسے واپس کر دیتا تھا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ایک دفعہ کعبہ کی زیارت کرنی چاہی تو اس کی سے کنجی لی اور زیارت کی.وہ بظاہر ایمان لے آیا تھا لیکن اس کی نیت یہ تھی کہ اگر موقع ملا تو وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کر دے گا.وہ کہتا ہے میں بھی اُس وقت قریب تھا اور اس تاک می میں تھا کہ اگر موقع مل جائے تو آپ پر حملہ کر دوں.میں نے میدان خالی پایا تو آپ کے قریب کی
1952 221 خطبات محمود پہنچا اور نیت کی کہ آپ پر حملہ کر دوں.لیکن مجھے دیکھ کر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے اللہ! تو اس کے دل سے سارا بغض نکال دے.پھر آپ نے میرے سینہ پر ہاتھ رکھا اور دعا کی کہ اے اللہ ! تو اس کے دل سے سارا بغض نکال دے.یہ فقرہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے منہ سے نکلنا ہی تھا کہ مجھے یوں معلوم ہوا کہ گویا بجائے اس کے کہ میں آپ کو قتل کرنے آیا ہوں آپ پر جان نثار کرنے آیا ہوں.میرے اندر محبت کا اتنا جوش پیدا ہوا کہ وہی تلوار جس سے میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر وار کرنا چاہتا تھا ہاتھ میں لے کر میں نے آپ کی سواری کے آگے آگے لڑنا شروع کیا.اُس وقت میرے اندرا تا جوش تھا کہ خدا کی قسم ! اگر اس وقت میرے سامنے میرا باپ بھی آجاتا تو میں تلوار سے اُس کی گردن اڑا دیتا.4 دیکھو وہ شخص رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کرنے آیا تھا لیکن اللہ تعالیٰ نے اس کے اندر تبدیلی پیدا کر دی اور وہ ایمان لے آیا.پس ایک ذریعہ یہ بھی ہے کہ خدا تعالیٰ مخالف کو دوست بنا دیتا ہے.اور ایک ذریعہ وہ ہے جو حضرت خواجہ نظام الدین صاحب اولیاء کے مخالف کے مقابلہ میں اختیار کیا گیا.اُس بادشاہ کا مرجا نا خواجہ نظام الدین صاحب اولیاء کے اختیار میں نہیں تھا.یہ سب کچھ خدا تعالیٰ کے ہاتھ میں تھا اور فرشتوں کی مدد سے ایسا ہوا.پس بعض دفعہ خدا تعالیٰ مخالف کو ہدایت دے دیتا ہے اور وہ دوست بن جاتا ہے.اور بعض دفعہ وہ اُسے مار دیتا ہے.ہمیں کسی خاص طریق کے مانگنے کی ضرورت نہیں.بلکہ یہ دعا مانگنے کی ضرورت ہے کہ جو لوگ بھی مخالف ہیں خدا تعالیٰ ہمیں اُن کے شر سے محفوظ رکھے اور ہم پر اپنا فضل نازل کرے.ہاں کوئی مخالف ایسا بھی ہوتا ہے جو شر میں بڑھ جاتا ہے اور اس کے لئے ہمیں بددعا بھی کرنی پڑتی ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اپنے بعض دشمنوں کے لئے بددعا کی ہے.حضرت نوح علیہ السلام نے بھی اپنے بعض دشمنوں کی کے لئے بددعا کی ہے.لیکن عام طور پر ہمارا یہی اصول ہونا چاہیے کہ ہم کسی کے لئے بددعا نہ کریں.بلکہ ہمیں اپنے مخالفین کے لئے دعا کرنی چاہیے.آخر انہوں نے ہی ایمان لانا ہے.مولوی عبدالکریم صاحب فرمایا کرتے تھے کہ میں چوبارہ میں رہتا تھا اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام مکان کے نچلے حصہ میں تھے کہ ایک رات نچلے حصہ سے مجھے اس طرح کی رونے کی آواز آئی جیسے کوئی عورت دردزہ کی وجہ سے چلاتی ہے.مجھے تعجب ہوا اور میں نے
1952 222 خطبات محمود کان لگا کر آواز کو سُنا تو معلوم ہوا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام دعا کر رہے ہیں.اور آپ کہہ رہے ہیں کہ اے خدا ! طاعون پڑی ہوئی ہے اور لوگ اس کی وجہ سے مررہے ہیں.اے خدا! اگر یہ سب لوگ مر گئے تو تجھ پر ایمان کون لائے گا.اب دیکھو طاعون وہ نشان تھا جس کی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خبر دی تھی.طاعون کے نشان کا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام کی پیشگوئیوں سے بھی پتا لگتا ہے.لیکن جب طاعون آتی ہے تو وہی شخص جس کی صداقت کو ظاہر کرنے کے لئے وہ آتی ہے خدا تعالیٰ کے سامنے گڑ گڑا تا ہے اور کہتا ہے کہ اے اللہ ! اگر یہ لوگ مر گئے تو تجھ پر ایمان کون لائے گا.پس مومن کو عام لوگوں کے لئے بددعا نہیں کرنی چاہیے.کیونکہ وہ انہی کے بچانے کے لئے کھڑا ہوتا ہے.اگر وہ ان کے لئے بددعا کرے گا تو وہ بچائے گا کس کو؟ احمدیت قائم ہی اس لئے ہوئی ہے کہ وہ اسلام کو بچائے ، احمدیت قائم ہی اس لئے ہوئی ہے کہ وہ مسلمانوں کو بچائے.انسان کی عظمت انہیں واپس دلائے.بنو عباس اور بنوامیہ کے زمانہ میں مسلمانوں کو جو شوکت اور عظمت حاصل تھی آج وہی شوکت اور عظمت احمدیت مسلمانوں کو دینا چاہتی ہے.مگر ساتھ ہی وہ یہ بھی چاہتی ہے کہ بنوعباس اور بنو امیہ کی خرابیاں ان میں نہ آئیں.پس جن لوگوں کو اعلیٰ مقامات پر پہنچانے کے لئے ہمیں کھڑا کیا گیا ہے ان کے لئے ہم بددعا کیسے کر سکتے ہیں.آخر تم سے زیادہ خدا تعالیٰ کی غیرت ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو خدا تعالیٰ نے اپنے الہام میں فرمایا ہے.اے دل تو نیز خاطر ایناں نگاه دار کارتر کنند دعویٰ پیمبرم 5 اس میں خدا تعالیٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے دل کو مخاطب کرتے ہوئے آ.کے منہ سے کہلاتا ہے.اے میرے دل ! تو ان لوگوں کے خیالات ، جذبات اور احساسات کا خیال رکھا کر.تا ان کے دل میلے نہ ہوں.یہ نہ ہو کہ تو تنگ آکر بد دعا کرنے لگ جائے.آخر کی ان کو تیرے رسول سے محبت ہے اور وہ اسی محبت کی وجہ سے جو انہیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سے ہے تجھے گالیاں دیتے ہیں.یہی اصل چیز ہے.ہم جانتے ہیں کہ ہمارے مخالفوں میں سے ایک حصہ نا واجب مخالفت کر رہا ہے.لیکن ایک حصہ محض اُن کے جال میں پھنس گیا ہے اس لئے وہ ہماری مخالفت کرتا ہے.
1952 223 خطبات محمود گویا ان کی مخالفت ہمارے آقا کی محبت کی وجہ سے ہے.جب ان پر یہ بات کھل جائے گی کہ ہم تی رسول کریم ﷺ سے محبت کرنے والے ہیں تو وہ کہیں گے کہ یہ لوگ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت قائم کرنے والے ہیں ، ان کی مدد کرو.یہ دن ضرور آئے گا.آخر غلط فہمیاں کب تک جائیں گی.ایک انگریز مصنف نے لکھا ہے کہ تم ساری دنیا کو چند دن کے لئے دھوکا دے سکتے ہو، تم کچھ لوگوں کو ہمیشہ کے لئے دھوکا دے سکتے ہو.لیکن تم ساری دنیا کو ہمیشہ کے لئے دھوکا نہیں دے سکتے.یعنی یہ ممکن ہے کہ سو فیصدی لوگ چند دن کے لئے گمراہ ہو جائیں یا دس آدمی ہمیشہ کے لئے گمراہ ہو جائیں.لیکن یہ نہیں ہوسکتا کہ ساری دنیا ہمیشہ کے لئے گمراہ ہو جائے.حقیقت یہ ہے کہ سچائی آہستہ آہستہ کھل جاتی ہے.آخر تم کہاں سے آئے ہو؟ پیدائشی احمدیوں کو جانے دو باقی وہی ہیں جو احمدیوں کو گالیاں دیتے تھے.مجھے کئی لوگ ایسے ملتے ہیں جو کہتے ہیں کہ ہم آپ کو قتل کرنے آئے تھے پھر ایمان لے آئے.آخر انہی لوگوں میں سے تم آئے ہو.یہ تعلق خدا تعالیٰ نے پیدا کیا ہے.جس خدا نے تمہارے اندر یہ تغیر پیدا کیا ہے اُسے طاقت حاصل ہے کہ ان لوگوں کے اندر بھی تغیر پیدا کر دے.پس خدا تعالیٰ کی طرف توجہ کرو اور آگے بڑھتے چلے جاؤ.تم اپنے نفسوں پر تو کل نہ کرو.تمہارا تو کل محض خدا پر ہونا چاہیے کیونکہ انسان بے وفا ہوتا ہے.انسان ڈرپوک ہوتا ہے اور وہ کی بسا اوقات ڈر کے مارے سچائی کو چھوڑ دیتا ہے.پس تم خدا تعالیٰ کے سامنے جاؤ ، اُسے طاقت بھی حاصل ہے اور وہ بے وفا بھی نہیں.وہ جب دیکھتا ہے کہ اُس کے بندوں کی بلا وجہ مخالفت ہو رہی ہے ہے تو اُس کی غیرت بھڑک اٹھتی ہے.اور جب مخالف کہتا ہے کہ ہم نے اپنے حریف کو ماردیا تو وہ مرے ہوئے انسان میں نئی طاقت اور نئی زندگی پیدا کر دیتا ہے اور وہ آدم کی طرح تمام دنیا پر (الفضل14 جون 1961ء) چھا جاتا ہے.1: يس: 31 66 :2 مسلم کتاب صفات المنافقين باب تحريش الشَّيْطَان.(الخ) 3: السّيرَةُ النَّبوِيَّة فى فتح الْبَارِى جزء ثانى صفحہ 361.مطبوعہ کو یت 2001ء 4 سیرت ابن ہشام جلد 4 صفحہ 87 ، مطبوعہ مصر 1936ء (مفہوما ) 5 درثمین فارسی صفحه 107 شائع کردہ نظارت اشاعت و تصنیف ربوہ.
1952 224 (26 خطبات محمود 1 قرآن مجید، احادیث اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تعلیم کی رو سےحکومت وقت کی اطاعت فرض ہے 2 خدا تعالیٰ اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خاطر ہمیں نام اور مقام چھوڑنے پڑے تو ہم چھوڑ دیں گے لیکن اپنا کام کر کے چھوڑیں گے.(فرمودہ 25 جولائی 1952ء بمقام ربوہ ) تشهد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: جیسا کہ احباب کو معلوم ہے مختلف شہروں میں ہماری جماعت کے خلاف سخت فتنے پیدا ہو رہے ہیں.اگر چہ گورنمنٹ نے یہ اعلان کیا ہے کہ مجلس احرار کے لیڈروں نے اسے یقین دلا دیا ہے کہ انہوں نے فساد میں کوئی حصہ نہیں لیا اور یہ کہ وہ امن و قانون کو بحال رکھنے کے سلسلہ میں آئندہ بھی مسلم لیگ کی حکومت سے کامل تعاون کریں گے اور حکومت کو علماء کے اس وعدے پر یقین بھی آگیا ہے.لیکن واقع یہ ہے کہ فتنہ ابھی تک جاری ہے اور بعض جگہوں میں اب نئے سرے سے فتنہ سر اٹھا رہا ہے.بہر حال جو اطلاعات ہمیں خود احراری کارکنوں ہی سے پہنچی ہیں اُن سے معلوم ہوتا ہے کہ اندرونِ خانہ کچھ اور باتیں ہوئی ہیں گو بہر حال احرار ظاہری طور پر ایک لکی وعدہ دے کر اپنے مستقبل کو صدمہ پہنچا چکے ہیں.پس میں سمجھتا ہوں کہ دوستوں کو ابھی دعاؤں پر زور دیتے چلے جانا چاہیے تا کہ خدا تعالیٰ ہماری جماعت کی مشکلات کو دور کرے اور اس فتنہ
1952 225 خطبات محمود سے اسے محفوظ رکھے.مومن جماعت کا اگر کوئی والی وارث ہے تو وہ اللہ تعالیٰ ہی ہے.رسول کریم کی صلی اللہ علیہ وسلم نے سوتے وقت جو دعا سکھائی ہے اُس کا ایک حصہ یہ ہے کہ لَا مَلْجَأَ وَلَا مَنْجَا مِنْكَ إِلَّا إِلَيْک - 1 اس میں یہی مضمون بیان کیا گیا ہے یعنی اے اللہ ! جس طرح خیر تیری طرف سے آتی ہے اسی طرح تو ہی شریر لوگوں کو موقع دیتا ہے کہ وہ تیرے بندوں کے خلاف اپنی من مانی کا رروائیاں کریں.پس اُن سے اگر کوئی پناہ کا ذریعہ ہے تو وہ بھی تو ہی ہے.پس ہم تیری طرف ہی رجوع کرتے ہیں.اس کے علاوہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اور بھی کی مختلف دعا ئیں سکھائی ہیں.مثلاً آپ نے یہ دعا سکھائی ہے.اللَّهُمَّ إِنَّا نَجْعَلُكَ فِي نُحُوْرِهِمْ وَ نَعُوذُ بِكَ مِنْ شُرُوْرِهِمْ.اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا الہام ہے.رَبِّ كُلُّ شَيْءٍ خَادِمُكَ رَبِّ فَاحْفَظْنَا وَ انْصُرُنَا وَارْحَمْنَا.3 یا آپ کا الہام ہے.يَا حَفِيظٌ يَا عَزِيزُ يَا رَفِيقُ.4 یہ سب دعا ئیں ردِ بلا کے لئے ہیں.اسی طرح قرآن کریم اور احادیث کی اور بہت سی لکی دعائیں ہیں جو خاص طور پر ان دنوں میں کرنی چاہئیں.مجھے افسوس ہے کہ اس فتنہ میں چند ا حمد یوں نے کمزوریاں دکھائی ہیں.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اکثر اعلانات جو کئے گئے ہیں وہ جھوٹے ہیں.لیکن پانچ سات جگہوں پر بعض احمد یوں نے کمزوری بھی دکھائی ہے اور انہوں نے احمدیت سے انکار کر دیا ہے.گو لفظ مرزائی کا استعمال کر کے اپنے دل کو خوش بھی کر لیا ہے بعد میں اگر چہ انہوں نے منفی پیغام بھجوایا ہے کہ ہم احمدی ہی ہیں.لیکن دشمن سے ڈر کر انہوں نے کمزوری ضرور دکھائی.جماعت کا اگر ایک آدمی بھی کمزوری کی دکھائے تب بھی جماعت کے لئے یہ ڈر کا مقام ہے اسی لئے خدا تعالیٰ نے ہمیں یہ دعا سکھائی ہے که رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا ذُنُوبَنَا وَ اِسْرَافَنَا فِي أَمْرِنَا وَثَبِّتُ اَقْدَامَنَا وَانْصُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ } الكَفِرِينَ - 5 ہر کمزوری گناہوں اور غلطیوں کے نتیجہ میں ہوتی ہے.اس لئے خدا تعالیٰ نے مسلمانوں کو یہ حکم دیا ہے کہ تم یہ دعا مانگو کہ اے اللہ ! تو و ہمارے گناہ معاف کر دے.اسی طرح تو اس اسراف کو بھی بخش دے جو ہم نے کیا.وَثَبِّتْ أَقْدَامَنَا اور ہمیں ثابت قدم رکھ.کی
1952 226 خطبات محمود ہمارے قدموں میں کسی قسم کا تزلزل اور کمزوری پیدا نہ ہو.اور نہ صرف ہمارے قدموں میں کسی تی قسم کا تزلزل اور کمزوری پیدا نہ ہو بلکہ وَ انْصُرُنَا عَلَى الْقَوْمِ الْكَفِرِينَ مُمکن ہے کہ دشمن ہم پر غلبہ پا جائے.اس لئے اے اللہ ! تو دشمن کے مقابلہ میں ہماری مدد و نصرت فرما.جہاں چندا فراد نے بزدلی سے کام لیا ہے وہاں شاندار نمونے بھی ہیں.ایک عورت کو کسی نے کہا کہ تیرا بیٹا احمدیت سے تائب ہو گیا ہے.اِس پر اُس نے بڑے زور سے کہنا شروع کیا.(یاد رکھو وہ اس کا اکلوتا بیٹا ہے.( اے اللہ ! اس کی موت کی خبر میں بے شک سنوں اُس کے ارتداد کی خبر میں نہ سنوں.خدام الاحمدیہ ملتان ، لائل پور اور بہت سی دوسری جگہوں کے خدام نی نے بڑی ہمت سے کام لیا ہے.جَزَاهُمُ الله اَحْسَنَ الْجَزَاءِ.بہر حال فتنہ ہے اور بہت بڑا ہے اور اس کا علاج دعائیں ہی ہیں.ہمارا غلبہ تلوار سے نہیں دعاؤں سے ہوگا.اور جب ہمارا غلبہ دلیلوں سے ہے تلواروں سے نہیں تو جب خدا تعالیٰ چاہے گا مخالفوں کے دل کھول دے گا.دلوں کا تبدیل کرنا جہاں مشکل امر ہے وہاں آسان بھی.کیونکہ خدا تعالیٰ انہیں ایک منٹ کے اندر بدل بھی سکتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے پاس ایک عرب آیا.اُس کا جوش دیکھ کر آپ پر یہ اثر ہوا کہ اگر وہ ہدایت پا جائے تو عرب میں تبلیغ کے لئے مفید رہے گا.مگر وہ اپنی ضد پر قائم رہا.آخر آپ نے دعا کی اور دعا کے بعد جب اُس سے چند منٹ بحث کی تو خدا تعالیٰ نے اُس کا دل کھول دیا.اور یا تو وہ باتوں باتوں میں گالیوں پر اتر آتا اور یونہی جوش میں آجاتا تھا اور یا وہ آپ کا چند منٹ میں ہی معتقد ہو گیا.پس دلوں کا بدلنا مشکل بھی ہے اور آسان بھی ہے.خدا تعالیٰ جب چاہتا ہے ایک منٹ میں دلوں کو بدل دیتا ہے.بادشاہ تلواروں کی لڑائیاں لڑتے ہیں اور یہ لڑائیاں سالہا سال تک چلتی ہیں.تو میں آپس میں گتھم گتھا ہوتی رہتی ہیں لیکن دل بدلتے ہیں تو ایک منٹ میں بدل جاتے ہیں.پس دعائیں کرو اور کرتے جاؤ.دشمن تلوار چلاتا ہے.لوٹ مار کرتا ہے، آگ لگاتا ہے، بعض احمد یوں کو اس نے قتل بھی کر دیا ہے.لیکن تمہاری لڑائی تلواروں کی نہیں.تمہاری لڑائی دلیلوں کی ہے اور تمہاری دلیلوں کو مقبول خدا تعالیٰ نے بنانا ہے.اگر خدا تعالیٰ ہدایت دے دے تو آج جو شخص تمہارا شدید دشمن ہے ممکن ہے وہ کل کو تمہارا گہرا دوست اور مددگار بن جائے.اسی سلسلہ میں میں ایک اور بات بھی بیان کر دینا چاہتا ہوں.موجودہ شورش سے متاثر ہو کر
1952 227 خطبات محمود ایک انگریزی اخبار کے نمائندے یہاں آئے اور انہوں نے مجھ سے انٹر ویولیا جو سول اینڈ ملٹری گزٹ میں شائع ہوا ہے اس میں ایک غلطی رہ گئی ہے جس کی تردید سول اینڈ ملٹری گزٹ کو بھجوا دی گئی ہے اور اگر خدا تعالیٰ نے چاہا تو وہ پرسوں یا اترسوں کے پرچہ میں شائع ہو جائے گی.حملہ اس کے علاوہ جی باقی انٹرویو جو شائع ہوا ہے وہ قریباً قریباً صحیح ہے.میں نے قریباً قریباً صحیح اس لئے کہا ہے کہ عبارت میں بعض معمولی غلطیوں کا رہ جانا ممکن ہے.بعض جگہ معروف کی جگہ مجہول فعل استعمال ہو جائے تو مفہوم میں کچھ نہ کچھ فرق پڑ جاتا ہے اور لکھنے والا چاہے کتنا ہوشیار ہو اُس سے اس قسم کی غلطیاں ہو جاتی ہیں اور ان کے نتیجہ میں مطالب میں بھی تھوڑا سا فرق پڑ جاتا ہے.لیکن ہر غلطی کی تر دید مشکل ہوتی ہے.اگر ہر معمولی غلطی کی تردید کی جائے تو گزارہ مشکل ہو جاتا ہے.گھروں میں اکثر اسی قسم کی اکثر غلطیاں ہوتی رہتی ہیں.میرے ساتھ بھی گھر میں ایسے واقعات ہوتے ہتے ہیں.کبھی پگڑی کا شملہ کوٹ کے اندر رہ جاتا ہے یا اسی قسم کی اور کوئی غلطی ہو جاتی ہے تو بیویاں کہتی ہیں ٹھہرئیے ٹھہریئے ذرا شملہ ٹھیک کر لیں.اور بعض دفعہ پگڑی کا کوئی حصہ اونچا ہو جاتا ہے تو اس پر وہ آواز دینے لگ جاتی ہیں.وہ ہمارے ہی مطلب کی بات ہوتی ہے مگر اتنی چھوٹی کہ جب ضروری کام کے وقت ایسا کیا جاتا ہے تو طبیعت پر گراں گزرتا ہے.بہر حال یہ کی چھوٹے چھوٹے نقائص ہوتے ہیں انہیں اگر رہنے دیا جائے تو کوئی حرج نہیں ہوتا.جب انسان کی چھوٹی چھوٹی گرفت یا غلطی کی اصلاح میں لگ جاتا ہے تو گزارہ مشکل ہو جاتا ہے.اور اس کی ج حالت اُس شخص کی سی ہو جاتی ہے جس کے متعلق مشہور ہے کہ وہ نماز کی نیت باندھتے وقت پہلے کہتا تھا پیچھے اس امام کے اور پھر فہبہ کرتا تھا کہ شاید اشارہ ٹھیک نہیں ہوا.آخر بڑھتے بڑھتے امام کے پاس پہنچ جاتا اور پہلے ڈور سے اشارہ کرتا اور پھر امام کو دھکے دینے لگ جاتا کہ پیچھے اس امام کے تب نماز کی نیت باندھتا.پس اتنے وہم میں بھی نہیں پڑنا چاہیے.صرف خدا تعالیٰ ہی ایک ایسی ذات ہے جو عیوب سے پاک ہے.انسان میں بہت سے عیوب اور نقائص ہیں.اور عیوب اور نقائص بعض اوقات اس کے لئے برکت کا موجب بن جاتے ہیں.میرے اس بیان میں جو ایک انگریزی اخبار کے نمائندے نے لیا اور وہ سول اینڈ ملٹری گزٹ میں بھی شائع ہوا بعض کمزوریاں رہ گئی ہوں تو ممکن ہے لیکن سوائے اس غلطی کے کہ جس کا ازالہ یہ ترمیم شائع ہو چکی ہے.دیکھو سول اینڈ ملٹری گزٹ صفحہ 3 مورخہ 1952-7-25.
1952 228 خطبات محمود.کیا جا رہا ہے بیان شائع کرنے والے نے اسے نہایت ایمانداری سے شائع کیا ہے.ہمارے ز ودنو لیس بھی بعض دفعہ لکھنے میں غلطیاں کر جاتے ہیں.پس اگر بیان میں کوئی معمولی غلطی رہ گئی تھی ہو تو کوئی حرج نہیں.میں اُن کا ممنون ہوں اور اُن کی تعریف کرتا ہوں کہ انہوں نے اس مضمون کو اس طرح لکھا ہے کہ شاید کوئی احمدی بھی اس طرح نہ لکھتا.اس بیان کی وجہ سے جو بے چینی بعض احمد یوں میں پیدا ہوئی ہے وہ ان کی ناتجربہ کاری اور نا واقفیت کی وجہ سے ہے.بعض لوگ کام کے وقت تو آگے نہیں آتے لیکن جرح کے وقت پیش پیش رہتے ہیں.بعض لوگوں نے کی میرے ادب کی وجہ سے یہ لکھ دیا ہے کہ شاید مضمون نویس نے یہ بیان غلط لکھ دیا ہو.لیکن میں ایسا کی آدمی نہیں جو اپنی غلطی کو دوسرے کی طرف منسوب کر دوں.اگر بیان میں کوئی غلطی ہے تو وہ میری کچھ ہے اور اگر بیان صحیح ہے تو وہ میرا ہے.مضمون لکھنے والے نے نہایت دیانت داری سے مضمون لکھا ہے.آخر میں اُسے کچھ غلط فہمی ہو گئی ہے جس کی اصلاح کر دی گئی ہے.میں پہلے مضمون کی سنا دیتا ہوں.اخباروں کا قاعدہ ہے کہ وہ بعض اہم شخصیتوں کے پاس جا کر اُن پر بعض سوال کرتے ہیں اور پھر اُن کے جوابات حاصل کر کے اپنے اخبار میں شائع کرتے ہیں.اس سے اُن کی کی غرض یہ ہوتی ہے کہ اگر اُن کے اخبار میں کوئی نیا مضمون آئے گا تو اُن کے اخبار کی قدرو قیمت } بڑھے گی.اگر وہ عوام الناس کے خیال کے متعلق کوئی روشنی ڈال دیں تو اس سے اخبار کی جی خریداری میں اضافہ ہو جاتا ہے اور وہ عوام میں مقبول ہو جاتی ہے.اسی غرض کے پیش نظر ایک انگریزی اخبار کے نامہ نگار میرے پاس آئے.انہوں نے دیکھا کہ احمدیوں کے خلاف پیگنڈا کیا جا رہا ہے کہ یہ حکومت میں داخل ہو کر اس پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں.انہوں نے سمجھا کہ وہ میرے پاس آئیں اور معلوم کریں کہ احمدی کیا چاہتے ہیں.آیا احمدی یہ چاہتے ہیں کہ وہ حکومت پر قبضہ کر لیں یا نہیں ؟ احراری علماء کے خیال میں ( یا اُن کے افتراؤں کے مطابق ) احمدی انقلاب بر پا کر کے حکومت پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں.بالکل اُسی طرح جیسے شام کی میں کئی دفعہ انقلاب بر پا ہوچکا ہے.اور جیسے اب مصر اور ایران میں انقلاب بر پا ہوا.اردن میں بھی ایک شکل میں انقلاب بر پا ہو چکا ہے اگر چہ وہ پوری طرح نہیں ہوا.بہر حال باہر مولویوں کی طرف سے مشہور کیا جاتا ہے کہ احمدی بھی اپنے آدمیوں کو حکومت میں داخل کر کے اس قسم کا انقلاب بر پا کرنا چاہتے ہیں.انہوں نے جب یہ پروپیگنڈا سنا تو وہ یہاں آئے اور انہوں نے کی
1952 229 خطبات محمود مجھ سے دریافت کیا کہ کیا آپ کا ایسا خیال ہے؟ اس کا جواب جو انہوں نے میری طرف منسوب کر کے شائع کیا ہے وہ صحیح ہے.میں نے کہا میرے خیال میں ایسا نہیں اور نہ کوئی عقلمند ایسا خیال کرسکتا ہے.ہماری جماعت اتنی چھوٹی ہے کہ سینکڑوں میں سے ایک احمدی ہے.اگر احمدی حملہ کر کے کراچی کے دفاتر پر قبضہ بھی کر لیں تو وہ کتنے دنوں تک اس قبضہ کو قائم رکھ سکیں گے.اکثریت کے پاس اسلحہ ہے، فوج ہے.اگر احمدی ایسی حماقت کریں گے تو وہ چند منٹ میں ختم ہو جائیں گے.اور وہ کون سا احمدی ہو گا جو ایسا کرے.یہ تو ہماری حماقت کی علامت ہوگی کہ ہم ایسا کام کریں جو ایک جاہل سے جاہل شخص بھی نہیں کر سکتا.دراصل ان کی غرض تھی کہ عوام الناس کے شبہات دور ہو جائیں اور ان پر واضح ہو جائے کہ احمدی حکومت پر قبضہ کرنے کا ارادہ نہیں رکھتے.میں نے ان کے امام سے پوچھا ہے.انہوں نے اس کی تردید کی ہے.میں نے انہیں یہ دلیل دی کہ ایسا کرنا عقلاً بھی درست نہیں.دوسرا سوال یہ تھا کہ خلیفہ کی اطاعت ضروری ہے یا گورنمنٹ کی ؟ اگر جماعت اور گورنمنٹ میں اختلافات بڑھ جائیں تو جماعت آپ کی فرمانبرداری کرے گی یا گورنمنٹ کی ؟ یہ سوال کئی سال سے چلا آتا ہے.انگریزوں کے وقت میں بھی یہ سوال اٹھا تھا کہ ہمارا اور آپ کا اتحاد کیسے کی ہوسکتا ہے؟ جب کہ جماعت آپ کی فرمانبرداری کو ضروری خیال کرتی ہے.اس سوال کا جو جواب میں نے دیا تھا وہ بھی انہوں نے درست لکھا ہے کہ ہماری مذہبی تعلیم یہ ہے کہ حکومت وقت کی اطاعت کی جائے.ہم آیات قرآنیہ نکال نکال کر کہتے ہیں کہ حکومت وقت کی فرمانبرداری ضروری ہے.ہم احادیث نکال نکال کر کہتے ہیں کہ حکومت وقت کی فرمانبرداری ضروری ہے.پھر میں اپنے متبوع کی نافرمانی کیسے کر سکتا ہوں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بھی تو یہی لکھتے آئے ہیں کہ حکومت وقت کی اطاعت کی جائے اور میں خود 35 ، 36 سال سے یہی کہتا چلاتی آیا ہوں کہ حکومت وقت کی اطاعت کرو.آخر میں اپنے قول کی مخالفت کیونکر کر سکتا ہوں.می دراصل ہمارا عقیدہ یہ ہے کہ خلیفہ کا محافظ خدا تعالیٰ ہے.وہ اس سے ایسی غلطیاں سرزد نہیں ہونے دے گا جو اصولی امور کے متعلق ہوں.پس اس سوال کا اصل جواب تو یہ تھا کہ خلیفہ ایسی غلطی نہیں کر سکتا.لیکن اس جواب سے غیر احمدیوں کی تسلی نہیں ہو سکتی تھی کیونکہ وہ جماعت احمدیہ کے خلیفہ کے متعلق یہ اعتقاد نہیں رکھتے کہ وہ ایسی غلطی نہیں کر سکتا.اس قسم کے سوال فرضی کہلاتے ہیں.
1952 230 خطبات محمود ان کے جوابات بھی دیئے جا سکتے ہیں اور یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ یہ سوال فرضی ہے اس لئے میں نے اس کا جواب نہیں دیا.لیکن اگر میں ایسا جواب دیتا تو نتیجہ یہ ہوتا کہ غیر احمدیوں کے شبہات دور نہ ہوتے بلکہ وہ کہتے یہ سوال کو ٹلا گئے ہیں.پس میرے اس جواب سے ( جو ہوتا تو بالکل درست) سچائی ظاہر نہیں ہو سکتی تھی.ایسے موقع پر مناسب یہی ہوتا ہے کہ اس فرضی سوال کا ج جواب بھی دیا جائے.چنانچہ میں نے اس سوال کے جواب میں اس نمائندے سے یہ کہا کہ جب جماعت کا خلیفہ باوجود اس کے کہ قرآن کریم کا یہ حکم ہے کہ حکومت وقت کی اطاعت کرو، احادیث سے یہ پتا چلتا ہے کہ حکومتِ وقت کی اطاعت کرنی چاہیے ، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنی کتابوں میں یہی لکھا ہے کہ حکومت وقت کی اطاعت کرو، میں خود 35 ، 36 سال سے اس بات کی تلقین کر رہا ہوں کہ حکومت وقت کی اطاعت ضروری کی ہے ، حکومتِ وقت کی نافرمانی کی تعلیم دے گا تو لازماً جماعت اس سے پوچھے گی کہ یہ حوالے کہاں گئے ؟ آپ ہمیں اب کہاں لے جانا چاہتے ہیں؟ در حقیقت ہمارا عقیدہ یہ ہے کہ خلیفہ خدا تعالیٰ کی حفاظت میں ہوتا ہے اور وہ اسے اس قسم کی غلطی نہیں کرنے دیتا جو اصولی امور سے تعلق رکھتی ہو.پس یہ سوال ہی غلط ہے.ایسا موقع آہی نہیں سکتا کہ جماعت احمدیہ کا سچا خلیفہ حکومت وقت سے بغاوت کی تعلیم دے.وہ خدا تعالیٰ کی حفاظت میں ہے اور وہ یہ غلطی نہیں کر سکتا.لیکن بعض دفعہ فرضی سوال کا فرضی جواب بھی دینا پڑتا ہے.قرآن کریم میں بھی اس قسم کے جوابات دیئے گئے ہیں.خدا تعالیٰ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہتا ہے کہ تو ان لوگوں سے کی کہہ دے کہ اگر خدا تعالیٰ کا کوئی بیٹا ہو تو میں سب سے پہلے اس کی عبادت کروں گا 6.اب کیا کوئی کہہ سکتا ہے کہ خدا تعالیٰ کا کوئی بیٹا ہے ہی نہیں تو اس کی عبادت کیسی ؟ لیکن اس قسم کے جواب کی کی ضرورت تھی.کیونکہ دشمنانِ اسلام کے دلوں میں یہ شبہات تھے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم باوجود اس کے کہ وہ خدا تعالیٰ کی ہستی پر ایمان لاتے ہیں اُس کے بیٹے کے منکر ہیں.وہ کہتے تھے کہ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ خدا تعالیٰ پر ایمان بھی لایا جائے اور اس کے بیٹوں کا انکار بھی کیا جائے.گو حقیقت یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کا بیٹا ہے ہی نہیں.لیکن یہ چیز دشمنانِ اسلام کے ذہن میں آہی نہیں سکتی تھی.اگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم صحیح جواب پر اصرار کرتے تو دشمنانِ اسلام آپ کی بات نہیں سمجھ سکتے تھے.اس لئے آپ کی طرف سے اللہ تعالیٰ نے اس کا یہ جواب دے دیا کہ
1952 231 خطبات محمود اگر خدا تعالیٰ کا کوئی بیٹا ثابت ہو تو تم لوگوں سے بھی پہلے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی تی عبادت پر تیار ہو جائیں گے کیونکہ وہ خدا تعالیٰ کے سچے عاشق ہیں.پس اصل بات تو یہ ہے کہ خلیفہ حکومت وقت کی نافرمانی کر ہی نہیں سکتا.وہ خدا تعالیٰ کی حفاظت میں ہے.وہ معمولی امور میں غلطی کر سکتا ہے لیکن اہم امور میں غلطی نہیں کر سکتا.خدا تعالیٰ اس کی نگرانی کرے گا اور اہم امور میں غلطی کرنے سے اسے بچائے گا.لیکن غیر احمدی یہ چیز نہیں سمجھ سکتے.اگر اس سوال کا یہ جواب دیا جاتا کہ خلیفہ ایسی غلطی نہیں کر سکتا تو وہ کہتے کہ خلیفہ انسان ہے اور جب وہ انسان ہے تو وہ غلطی بھی کر سکتا ہے.پس اُن کے لئے مناسب جواب یہی تھا ج که فرض کرو یہ مسئلہ نہ بھی ہوتا کہ خدا تعالیٰ خلیفہ کی حفاظت کرتا ہے اور خلیفہ ایسی تعلیم دے دے تو چونکہ وہ تعلیم قرآن و حدیث اور سلسلہ کی تعلیم کے خلاف ہو گی احمدی اُس کی بات کبھی نہ ما نہیں گے اور کہیں گے ہم تمہاری بات نہیں مانتے کیونکہ تعلیم قرآن وحدیث کے خلاف ہے جس کی رو سے حکومتِ وقت کی اطاعت واجب ہے.بہر حال میرا یہ جواب ایک فرضی سوال کا جی جواب تھا.اگر اصل جواب دیا جاتا کہ خلیفہ ایسا کر ہی نہیں سکتا تو غیر احمدی اس جواب کو نہیں سمجھ سکتے تھے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے یہی لکھا ہے کہ اگر میرا الہام قرآن کریم کے خلاف ہوتا تو میں اسے پھینک دیتا 7 اب اس کا مطلب یہ تو نہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام کے الہامات قرآن کریم کے خلاف ہوتے تھے.بلکہ در حقیقت اس کے یہی معنی ہیں کہ آپ کے الہامات قرآن کریم کے خلاف جاہی نہیں سکتے تھے.پس ہمارا یہ عقیدہ ہے کہ خلیفہ قرآن کریم کے احکام کے خلاف نہیں جا سکتا.خلیفہ کے لئے ناممکن ہے کہ احادیث کے خلاف جائے.وہ ہمیشہ حکومت کی اطاعت کرے گا کیونکہ اس کے لئے یہ ممکن نہیں کہ وہ اپنے متبوع کے خلاف جائے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنی کتاب میں صاف طور پر فرمایا ہے کہ حکومتِ وقت کی اطاعت فرض ہے 8 لیکن اگر ہم یہ فرض کریں کہ خلیفہ اس کے الٹ جا سکتا ہے تو ہمیں یہ بھی تسلیم کرنا ہوگا کہ جماعت بھی اس صورت میں اس کی نافرمانی کر سکتی ہے.پھر ایک سوال یہ کیا گیا کہ اگر گورنمنٹ یہ فیصلہ کر دے کہ احمدی مسلمان نہیں تو آپ کیا ؟ کریں گے؟ یہ سوال بھی فرضی تھا.اصل جواب تو یہ تھا کہ گورنمنٹ ایسا کیوں کرے گی ؟ اگر گورنمنٹ ایسا کرے گی تو وہ بدنام ہو جائے گی.لیکن ایک غیر احمدی کے نزدیک یہ بات بھی
1952 232 خطبات محمود قابل تسلیم نہیں.اُس کے دل میں یہ خیال ہے کہ احمدی کبھی نہ کبھی بغاوت کریں گے.مولویوں نے دوسرے مسلمانوں کے دلوں میں یہ ڈال دیا ہے اور ہمیں اُنہیں یہ یقین دلانا مجی ضروری ہے کہ مولویوں کا یہ پروپیگنڈ اغلط ہے.اگر ہم اس فرضی سوال کا جواب نہ دیتے تو ان کا کی شبہ قائم رہتا اور اس کی حقیقت نہ کھلتی.بے شک یہ ہمارا فرض ہے کہ ہم فرضی سوالوں سے بچتے رہیں.لیکن ہمارا یہ فرض بھی ہے کہ اگر ان فرضی سوالوں کے جواب نہ دینے سے دھوکا لگتا ہو تو ہم عام طریقہ چھوڑ کر اُن کے جواب دیں.سوال یہ تھا کہ اگر حکومت احمدیوں کو غیر مسلم قرار دے دے تو آپ کیا کریں گے؟ اس کا ایک ہی جواب ہو سکتا تھا.خواہ وہ جواب کسی احمدی کی سمجھ میں آئے یا نہ آئے کہ ہم احمدی نام اُڑا دیں گے.خدا تعالیٰ نے ہمارا نام احمدی نہیں رکھا.احمدی نام سینس (Census) کے لئے رکھا گیا تھا.اور اسلام خدا تعالیٰ کا رکھا ہوا نام ہے.خدا تعالیٰ نے قرآن کریم میں کہا ہے کہ ہم نے تمہارا نام مسلمان رکھا ہے.اب یہ سیدھی بات ہے کہ چھوٹی چیز کو بڑی چیز کے لئے قربان کیا جا سکتا ہے.خدا تعالیٰ کے رکھے ہوئے نام پر جب کوئی مجبوری پیش آئے تو آدمیوں کے رکھے ہوئے نام کو قربان کرنا ہوگا.اگر کوئی حکومت یہ فیصلہ کر دے کہ احمدی، مسلمانوں کے حقوق سے محروم ہیں تو وہ ہمارے ناموں سے تو فیصلہ نہیں کر سکتی.نام تو ہم سب کے ایک سے ہیں.وہ سوال کرے گی کہ تم کون ہو؟ ہم مسلمان ہیں اور ہمارے نوجوان کی کہیں گے کہ ہم مسلمان ہیں.وہ زیادہ سے زیادہ یہ سوال کریں گے کہ کون سے مسلمان ؟ ہم کہیں کی گے وہی مسلمان جو قرآن میں مذکور ہیں.وہ اور تشریح کروائیں گے کہ کون سے فرقے سے متعلق مجی ہیں کہ قرآن میں جو فرقے لکھے ہوں تو وہ بیان کر دیں.میں بتا سکوں گا مجھے تو قرآن میں مسلمان ہی کا لفظ نظر آیا ہے.غرض اگر گورنمنٹ قانونا احمدی لفظ پر پابندی لگا دے گی تو ہمارے لوگ اپنے آپ کو احمدی نہیں کہیں گے بلکہ مسلمان کہیں گے.پہلے بھی ایسی شرارتیں کی گئی ہیں.چنانچہ ایک افسر نے آرڈر دے دیا تھا کہ اُس کے ماتحت جتنے افراد ہیں اُن کی فرقہ وار فہرست می تیار کی جائے.مجھے بعض دوستوں نے خطوط لکھے کہ اب کیا کیا جائے؟ تو میں نے کہا تم اپنے فرقہ کا نام نہ لکھاؤ بلکہ تم کہو ہم مسلمان ہیں.اگر وہ پوچھیں کون سے مسلمان ؟ تو تم کہو ہم وہی مسلمان کی ہیں جن کو قرآن کریم نے مسلمان کہا ہے.اتنے میں حکومت کو پتا لگ گیا اور اس نے کہا کہ اس قسم کے سوال نہیں کرنے چاہئیں.پس ہمارا اصل نام مسلمان ہے.صرف دوسرے فرقوں سے اپنے
1952 233 خطبات محمود آپ کو ممتاز کرنے کے لئے ہم نے اپنا نام احمدی رکھا ہوا ہے.اور کیا یہ عجیب بات نہیں ہوگی کہ مج کوئی شخص اُس نام کو تو اہمیت نہ دے جو خدا تعالیٰ نے رکھا ہے اور اس نام کو اہمیت دے جو دوسرے لوگوں سے امتیاز رکھنے کے لئے مقرر کیا گیا ہے.ہمارا نام خدا تعالیٰ نے مسلمان رکھا ہے.احمدی نام تو سینس ( Census) میں اپنے آپ کو الگ طور پر دکھانے کے لئے رکھا گیا تھا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دو نام تھے.ایک محمد جو جلالی نام تھا اور ایک احمد جو جمالی نام تھا.یہ زمانہ آپ کی صفتِ جمالی کے ظہور کا تھا اور چونکہ ہم بھی جمالی تعلیم دیتے ہیں اس لئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صفتِ احمد سے نسبت رکھتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جماعت کا نام احمدی رکھ دیا ہے.پس احمدی نام ضرورت کی وجہ سے رکھا گیا ہے کسی الہام کی بناء پر نہیں رکھا گیا.اور اس من سے زیادہ حماقت اور کیا ہوگی کہ جانیں ضائع ہوں ، نوکریاں جائیں لڑکوں کی تعلیم بند ہو جائے لیکن ہم اُس نام کو محکمانہ طور پر استعمال کرنے پر اصرار کریں جو ضرورت کی بناء پر دوسرے فرقوں سے امتیاز کے لئے رکھا گیا تھا.پس جس مجلس میں اس نام پر پابندی لگائی جائے گی ہم اُس مجلس میں یہ نام چھوڑ دیں گے.اگر عدالت میں اس نام پر پابندی لگائی گئی تو ہم عدالت میں کہیں گے کہ ہم مسلمان ہیں.اگر عدالت سے باہر کوئی پوچھے گا تو ہم کہیں گے کہ ہم احمدی مسلمان ہیں.جس سے قانون رو کے گا ہم رُک جائیں گے.فرض کرو اگر حکومتِ پاکستان یہ قانون بنا دے کہ احمدی مسلمان نہیں تو ہم حکومت کے جس دفتر میں جائیں گے اپنے آپ کو مسلمان کہیں گے.آخر وہ یہی قانون بنائیں گے کہ وہ مسلمان جو کسی وقت اپنے آپ کو احمدی مسلمان کہتے تھے اب مسلمان نہیں.مگر یہ کیسی جنسی والی بات ہوگی کہ حکومت پاکستان ایسے قواعد بنا رہی ہے کہ وہ ای مسلمان جو کسی وقت احمدی کہلاتے تھے اب مسلمان نہیں رہے.پس خدا تعالیٰ نے ہمیں یہ حربہ دیا ہے کہ ہم مسلمان ہیں.باقی روحانیت میں کوئی اونچا ہوتا ہے اور کوئی نیچا.مثلاً آم ہے.سڑا ہوا بھی آم ہوتا ہے اچھا آم بھی آم ہوتا ہے.ایک اچار والا آم ہوتا ہے دوسرا کھانے والا آم ہوتا ہے.ایک کھٹا آم ہوتا ہے تو ایک میٹھا آم ہوتا ہے.چاہے تم اسے ردی کی ٹوکری میں پھینک دو آم آم ہی ہے.پس نہ ہم دوسروں کو اسلام کے نام سے محروم کر سکتے ہیں اور نہ وہ ہمیں محروم کر سکتے ہیں..
1952 234 خطبات محمود پھر ایک سوال یہ تھا کہ اگر گورنمنٹ صد را مجمن احمدیہ کو خلاف قانون قرار دے دے تو آر کیا کریں گے؟ یہ بھی فرضی سوال تھا.اس کا ایک جواب یہ بھی ہو سکتا تھا کہ یہ سوال فرضی ہے.گورنمنٹ ایسی پاگل کیوں ہونے لگی کہ وہ یہ خلاف عقل بات کرے.اگر میں یہ جواب دیتا تو غیر احمدیوں کے دلوں میں یہ بات گڑ جاتی کہ انہوں نے جواب سے گریز کیا ہے.درحقیقت ان کے ارادے حکومت کے بارہ میں اچھے نہیں.پس با وجود فرضی سوال ہونے کے میرے لئے جواب دینا ضروری تھا تا غلط نہی پیدا ہی نہ ہو.اس لئے میں نے جواب دیا کہ یہ ایک حقیقت ہے کہ ہمارا مذہب ہے کہ تم حکومت سے نہ لڑو.قرآن کریم کہتا ہے کہ تم حکومت سے نہ لڑ وتم حکومت وقت کی اطاعت کرو یا اس ملک سے چلے جاؤ.پس گو میں اس سوال کا یہ جواب دے سکتا تھا کہ یہ فرضی سوال ہے اور میں اس کا جواب نہیں دیتا لیکن سوال کرنے والے نے حکومت کو مد نظر رکھ کر یہ سوال نہ کیا تھا اُس نے یہ سوال پبلک کو مد نظر رکھ کر کیا تھا.اور یہ پبلک مولویوں سے متاثر ہو کر میری خاموشی سے یہ نتیجہ نکالتی کہ انہوں نے کسی وقت حکومت سے ضروری لڑنا ہے تبھی جواب سے گریز کر گئے ہیں.پس میں نے باوجو دسوال کے فرضی ہونے کے اس کا جواب دے دیا اور کہا کہ اگر گورنمنٹ نے صدر انجمن احمد یہ کو خلاف قانون قرار دے دیا تو ہم اس کا کوئی اور نام رکھ دیں گے.حکومت آخر نام کو ہی خلاف قانون قرار دے گی.حکومت یہ قانون تو نہیں بنا سکتی کہ سکول بنا نا خلاف قانون ہے، تبلیغ کرنا خلاف قانون ہے ، بیواؤں کی مدد کرنا خلاف قانون ہے.اور یہی کام ہیں جو ہم کرتے ہیں.اگر حکومت ایسا قانون بنائے گی تو دوسری حکومتیں اس پر ہنسیں گی.پھر دوسری انجمنیں بھی اس قانون کی زد میں آجائیں گی.پس ج میں نے اس سوال کا یہ جواب دیا کہ اگر حکومت نے صدرانجمن احمد یہ پر پابندی عائد کر دی تو اس کا نام بدل دیا جائے گا.اِس کے سوا اور جواب کیا ہوسکتا ہے.اگر ہم نام نہیں بدلیں گے تو ہمیں حکومت کے ساتھ لڑنا ہوگا اور حکومت کے ساتھ لڑنا ہماری تعلیم کے لحاظ سے ناجائز ہے.اور یا پھر ہمیں اپنا کام چھوڑ دینا ہو گا ، ہمیں اسلام کی خدمت چھوڑ دینی ہوگی.یہ چیز بھی جائز نہیں.ب یہ دونوں چیز میں نا جائز ہیں تو وہی چیز باقی رہ گئی جو میں نے کہی ہے.ایک شخص نے بڑا تیر مارا ہے.اس نے لکھا ہے کہ کیا ہم وہ نام چھوڑ دیں گے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے رکھا تھا ؟ مجھے اس پر ہنسی آگئی کیونکہ یہ نام حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام
1952 235 خطبات محمود نے جس فقرہ میں رکھا ہے اُس میں یہ بھی لکھا ہے کہ اس انجمن کا مستقل مرکز قادیان رہے گا.اگر کی اس نام کو چھوڑ نا حرام تھا تو قادیان کیوں چھوڑا؟ دراصل یہ پیشگوئی ایک لمبے عرصہ کے لئے تھی.بیچ میں بعض روکیں بھی آسکتی ہیں.ہمارا اصل کام خدمتِ اسلام ہے ہمیں ناموں اور جگہوں سے کی کوئی واسطہ نہیں.جس طرح سے ہم یہ کام کر سکیں گے اور جس ملک میں یہ کام کر سکیں گے کریں کی گے.احمدی نام اگر اس کام میں روک بنے گا تو ہم اسے چھوڑ دیں گے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ کی والسلام نے جس فقرہ میں یہ نام رکھا ہے وہاں یہ بھی لکھا ہوا ہے کہ مقام اس انجمن کا قادیان رہے گا کیونکہ خدا تعالیٰ نے اس کو برکت دی ہے.اگر ہم قادیان چھوڑ کر یہاں آگئے ہیں تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا رکھا ہوا نام ہم کیوں نہیں چھوڑ سکتے.اگر تم وہاں یہ کہتے ہوئے کہ قادیان چھوڑنے میں ہمارا کوئی اختیار نہیں تھا.حکومت نے ہمیں وہاں سے نکال دیا ہم آگئے.تو پھر فرض کرو اگر کوئی حکومت ہماری انجمن کو خلاف قانون قرار دے دے تو تمہیں اس کی انجمن کو یا دوسرے لفظوں میں اس کے نام کو چھوڑنا پڑے گا.ہمارا اصل کام یہ ہے کہ ہم دنیا میں خدا تعالیٰ اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حکومت قائم کر دیں.خواہ یہ کام کسی نام کے نیچے کرنا چ پڑے.واقعہ مشہور ہے کہ کسی راجہ نے بینگن کھائے.اسے بینگن اچھے لگے اس نے دربار میں ذکر کیا کہ بینگن بڑی اچھی چیز ہے.اس پر ایک درباری نے کھڑے ہو کر کہا واقعی بینگن بڑی اچھی چیز ہے.طب میں اس کی یہ یہ خصوصیات بیان ہیں.خون میں گرمی پیدا کرتا ہے، سرد مزاجوں کے لئے مفید چیز ہے، پھر حضور دیکھنے میں اس کی شکل بالکل یوں معلوم ہوتی ہے گویا کوئی صوفی ہے جس نے سر پر سبز امامہ رکھا ہوا ہے اور درختوں کے جھنڈ میں بیٹھا عبادت کر رہا ہے.بادشاہ نے دو چار دن متواتر بینگن کھائے تو اُسے بواسیر ہو گئی.اُس نے دربار میں پھر اس کا ذکر کیا اور کہا ہم تو سمجھتے تھے کہ بینگن بڑی اچھی چیز ہے یہ تو بڑی نقصان دہ چیز ہے.اس پر وہی درباری پھر کھڑا ہو گیا اور اُس نے کہا حضور ! بھلا یہ بھی کوئی سبزی ہے.آخر طب میں ایک چیز کے فوائد لکھے ہوتے ہیں وہاں نقائص بھی لکھے ہوتے ہیں.اس درباری نے اس کے نقائص گنے شروع کئے.پھر کہا حضور! دیکھئے.اس کی شکل بالکل ایسی ہے جیسے کسی چور کا منہ کالا کر کے پھانسی پر لٹکایا گیا ہو.دوسرے درباریوں نے اُسے ڈانٹا کہ یہ کیا کر رہے ہو؟ اُس دن تو بینگن کی تعریف کر رہے تھے ؟
1952 236 خطبات محمود اب اس کی مذمت کر رہے ہو؟ اُس نے کہا میاں ! میں بینگن کا نوکر نہیں راجہ کا نوکر ہوں.پس نام میں کیا رکھا ہے.نام بے شک مقدس ہے لیکن رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے نام سے زیادہ مقدس نہیں.نام بے شک پیارے ہیں لیکن اسلام کے نام سے زیادہ اور کوئی پیارا نام نہیں.اگر خدا تعالیٰ اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خاطر ہمیں نام اور مقام چھوڑ نے پڑیں تو ہم انہیں چھوڑ دیں گے لیکن اپنا کام کر کے چھوڑیں گے.ہم نے اسلام کا جھنڈا دنیا میں دوبارہ گاڑنا ہے.اپنا یا بیگا نہ کوئی اعتراض کرے پروا نہیں.ہونا وہی ہے جو میں نے کہا ہے اور وہی ایک دن ہم کر کے رہیں گے.انشاء اللہ الفضل 29 جولائی 1952ء) 1: بخاری کتاب الوضوء باب فَضْلُ مَنْ بَاتَ عَلَى الوضوء - 2: ابوداؤد كتاب الوتر باب مَا يَقُولُ الرَّجُلِ إِذَا خَافَ قَوْمًا - 3: تذکرہ صفحہ 654.ایڈیشن چہارم میں یہ دعا ان الفاظ میں ہے رَبِّ كُلَّ شَيْءٍ خَادِمُكَ رَبِّ فَاحْفَظْنِي وَ انْصُرُنِي وَ اَرْحَمُنِي - 4: تذکرہ صفحہ 485 ایڈیشن چہارم 5 آل عمران : 148 : قُل اِنْ كَانَ لِلرَّحْمَنِ وَلَدٌ فَاَنَا اَوَّلُ الْعَبدِينَ (الزخرف: 82) : آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن جلد 5 صفحہ 21 روئیداد جلسه دعا، روحانی خزائن جلد 15 صفحہ 619 و: يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنْكُمْ (النساء: 60) قَالُوا كُنَّا مُسْتَضْعَفِينَ فِي الْأَرْضِ قَالُوا أَلَمْ تَكُنْ اَرْضُ اللَّهِ وَاسِعَةً فَتُهَا جِرُوا فِيهَا (النساء: 98)
1952 237 (27) خطبات محمود مشکلات و مصائب کا زمانہ خدا تعالیٰ کے فضلوں کو حاصل کرنے کا بہترین وقت ہوتا ہے فرموده یکم اگست 1952ء بمقام ربوہ ) تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: ان ایام میں جو فتنہ پاکستان کے مختلف حصوں خصوصاً پنجاب کے مختلف مقامات میں پیدا ہورہا ہے اگر چہ حکومت کے بعض اعلانات سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کی رپورٹوں کے مطابق اس کی میں کمی آ رہی ہے لیکن جو ہماری اطلاعات ہیں اُن سے معلوم ہوتا ہے کہ اس میں کمی نہیں آ رہی ہی بلکہ وہ اپنی جگہ بدل رہا ہے.بعض جگہوں سے ہٹتا ہے اور پھر آگے بعض دوسری جگہوں کی طرف کی منتقل ہو جاتا ہے.جہاں تک فتنہ کا سوال ہے میرے نزدیک کوئی اول درجہ کا ناواقف اور جاہل کی احمدی ہی ہو گا جو یہ کہے کہ یہ فتنہ ایسی چیز ہے جس کی مجھے امید نہیں تھی.تم دریا میں گو دتے ہو اور کی بعد میں شکایت کرتے ہو کہ تمہارا جسم گیلا ہو گیا ہے یا تمہارے کپڑے گیلے ہو گئے ہیں.تم آگ میں ہاتھ ڈالتے ہو اور کہتے ہو میری انگلی جل گئی ہے.یا تم دھوپ میں بیٹھتے ہو اور کہتے ہو مجھے گرمی لگتی ہے.یا تم برف پیتے ہو اور کہتے ہو مجھے ٹھنڈک محسوس ہوتی ہے تو یہ کوئی عقل کی دلیل نہیں.تم برف پیتے ہو تو یہ سمجھ کر پیتے ہو کہ تمہیں ٹھنڈک لگے گی.تم دھوپ میں بیٹھتے ہو تو یہ سمجھ کر بیٹھتے ہو کہ تمہیں گرمی لگے گی.تم آگ میں ہاتھ ڈالتے ہو تو یہ سمجھ کر ہاتھ ڈالتے ہو کہ تمہارا جسم جل جائے گا.یا تم دریا میں گو دتے ہو تو تم یہ جانتے ہوئے گو دتے ہو کہ تمہارا جسم گیلا ہو گا.پس ج
1952 238 خطبات محمود جب تم ایک صداقت کی تائید کے لئے کھڑے ہوئے ہو اور تم نے مسلمانوں کے اندر بیداری پیدا کرنے کی آواز کو جو خدا تعالیٰ کی طرف سے بلند ہوئی ہے سناء یا مان لیا تو تمہیں لازماً اس بات تھی کے لئے بھی تیار ہونا پڑے گا کہ لوگ تمہاری مخالفت کریں ، شورشیں برپا کریں اور تمہارے خلاف منصو بہ بازی کی جائے.پس کون احمدی ہے جس کے حواس درست ہوں اور وہ یہ کہہ سکے اوہو! یہ کیسا فساد ہے.مجھے تو اس کی امید نہیں تھی.حالانکہ جب وہ احمدی ہوا تھا تو یہ سمجھ کر ہوا تھا کہ لوگ اُس کے خلاف فساد کریں گے ، شورش کریں گے اور منصو بہ بازی کریں گے.اس کا کام یہ ہے کہ ان فسادوں ، شورشوں اور منصوبہ بازیوں سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھائے.دیکھو رمضان کے مہینہ میں اپنی مرضی اور ارادے سے ایک پروگرام کے ماتحت انسان تکلیف اٹھاتا ہے.وہ رات کو اٹھتا ہے.بے شک وہ یہ تدبیر کر لیتا ہے کہ اگر گرمی ہو تو وہ ٹھنڈے پانی سے وضو کرے اور اگر سردی ہو تو وہ گرم پانی سے وضو کرے، پھر اگر گرمی کا موسم ہو تو وہ چھت سے باہر تہجد کی نماز پڑھ لے اور اگر سردی ہو تو چھت کے نیچے تہجد کی نماز پڑھ لے یا گرم لباس پہن لے.پھر اگر وہ بیمار ہے تو بیٹھ کر نماز پڑھ لے.صحت اچھی نہیں ہے تو زیادہ عمدہ غذا کھالے یا اگر معدہ خراب ہے تو نرم غذا کھا لے.پیاس کے دن ہوں تو دو تین گلاس پانی کے اکٹھے پی لے یا چائے کی ایک پیالی پی لے تا تکلیف دور ہو.دن کو گرمی کی تکلیف ہو تو وہ سائے اور ٹھنڈک میں رہے تا گرمی کی شدت کم ہو.مگر باوجود اس کے کہ رمضان میں تمہارے پاس یسے ذرائع موجود ہوتے ہیں جن سے تم گرمی کی شدت کو کم کر سکتے ہو.پھر بھی تمہاری تکلیف کو دیکھ کر خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ رمضان کے مہینہ میں میں دعائیں سننے کے لئے آسمان سے نیچے اتر آتا ہوں اور کہتا ہے مجھ سے مانگو میں تمہیں دوں گا.پس اگر خدا تعالیٰ روزہ میں جس کی تکلیف کم کی جاسکتی ہے، جس کے ضرر سے بچنے کے لئے تدابیر اختیار کی جاسکتی ہیں مومن کے لئے اتنی رعایت کرتا ہے کہ وہ کہتا ہے چونکہ تم تکلیف اٹھاتے ہو اس لئے میں تمہارے قریب ہو جاتا جی ہوں.أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ -1- میں اس پکارنے والے ( یعنی روزہ دار ) کی آواز کو سنتا ہوں اور میں اس کی دعائیں قبول کرتا ہوں.پھر ان تکالیف اور مصائب میں جو تمہارے اختیار میں نہیں جن کو کم کرنے کے لئے تم کوئی تدبیر نہیں کر سکتے ان میں وہ تمہارے کس قد رقریب ہو جائے گا.ظاہر ہے کہ اگر روزہ میں خدا تعالیٰ تمہارے لئے بے چین ہو جاتا ہے
1952 239 خطبات محمود کہ جس میں ہر قسم کی سہولت بہم پہنچانا تمہارے اختیار میں ہوتا ہے تو دوسرے آلام اور مصائب کی میں وہ کتنا قریب ہو جاتا ہوگا.مومن کو ابتلاؤں میں خوشی محسوس ہوتی ہے کہ خدا تعالیٰ اس کے قریب آ گیا ہے.بچہ ماں کے قریب جاتا ہے تو کتنا خوش ہوتا ہے.دنیا میں خدا تعالیٰ نے غریبوں کے دلوں کو تسکین دینے کے لئے کیا کیا اسباب بنائے ہیں.امیراعلیٰ کھانا کھاتے ہیں، اعلیٰ لباس پہنتے ہیں اور تم کہہ سکتے ہو کہ وہ روپے کی وجہ سے خوش ہیں.لیکن تم ایک غریب ماں کو دیکھتے ہو.اُس نے بچہ گود میں اٹھایا ہوتا ہے.اس کے اوپر ایک آدھ کپڑا ہوتا ہے.بچہ نے ماں کے گلے میں باہیں ڈالی ہوئی ہوتی ہیں اور اس سے پیار کر رہا ہوتا ہے.اُس کی غریب عورت کو جس نے چیتھڑے پہنے ہوئے ہوتے ہیں اور فاقہ کی وجہ سے اُس کا چہرہ پچکا ہوا ہوتا ہے اپنے بچہ کو دیکھ کر جتنی خوشی ہوتی ہے وہ اس عورت سے کم نہیں ہوتی جو محلات میں رہتی ہے.ماں کو بچہ کے قریب ہونے سے خوشی ہوتی ہے اور بچہ کو ماں کے قریب ہونے سے خوشی ہوتی ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جنگ بدر میں ایک عورت کو دیکھا.اُس وقت کفار میں افراتفری پھیلی ہوئی تھی.اس عورت کا بچہ کہیں گم ہو گیا.جنگ میں عورتیں بھی آئی ہوئی تھیں.ان کی نیت نیک نہیں تھی.وہ اس ارادہ سے میدانِ جنگ میں آئی تھیں تا اپنے مردوں کو مسلمانوں کے خلاف جنگ کے لئے اُکسا ئیں.خدا تعالیٰ نے ان کی خواہش کو پورا نہ کیا.دشمن کی فوج میں بھا گڑ 2 بچ گئی اور اس کے نتیجہ میں بہت سے بچے اپنی ماؤں سے جدا ہو گئے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا کہ ایک عورت میدانِ جنگ میں اِدھر اُدھر پھر رہی ہے.وہ ہر بچے کے پاس جی جو اسے دکھائی دیتا ہے جاتی ہے اور اسے اٹھا کر پیار کرتی ہے اور پھر آگے چلی جاتی ہے.یہاں تک کہ اُس کا اپنا بچہ مل گیا.اُس نے اُسے اپنی چھاتی سے لگا لیا اور ایک طرف ہٹ کر ایک پتھر پر کی اطمینان کے ساتھ جا بیٹھی.لوگ مارے جا رہے تھے لیکن وہ اس سے بے فکر ہو کر ایک طرف اپنے بچے کو لے کر بیٹھ گئی.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کو مخاطب کر کے فرمایا تم نے اس عورت کو دیکھا.یہ میدانِ جنگ میں اِدھر اُدھر بھاگی پھرتی تھی.اب اسے بچہ مل گیا ہے تو جی کس آرام سے ایک طرف ہٹ کر بیٹھ گئی ہے.آپ نے فرمایا جب ایک گنہ گار انسان تو بہ کر کے اپنے رب کی طرف آتا ہے تو اُسے بھی اس قدر خوشی ہوتی ہے جس قدر خوشی اس ماں کو اپنے گم شدہ چی بچہ کے ملنے سے ہوئی ہے.3
1952 240 خطبات محمود پس مصائب کے وقت خدا تعالیٰ ہمارے قریب آجاتا ہے اور قریب آنے سے جو خوشی اسے جی ہوتی ہے اس کا کوئی اندازہ نہیں لگا سکتا.وہ مستغنی ہے ، وہ صمد ہے اور اس کو ہماری احتیاج نہیں.ہمیں اس کی احتیاج ہے.بھوک کا وقت آتا ہے تو ہمیں اس کی احتیاج ہوتی ہے کہ وہ ہمیں کھانے کو کچھ دے.پیاس کا وقت ہوتا ہے تو ہمیں اس کی احتیاج ہوتی ہے کہ وہ ہمیں پینے کو کچھ دے.کپڑے پہنے کا وقت آتا ہے تو ہمیں اس کی احتیاج ہوتی ہے کہ وہ ہمیں کپڑے دے.تعلیم کا وقت آتا ہے تو ہمیں اس کی احتیاج ہوتی ہے کہ وہ ہمیں تعلیم دے.ملازمت کا وقت آتا ہے تو ہمیں اس کی احتیاج ہوتی ہے کہ وہ ہمیں کوئی روزگار دے.شادی ہوتی ہے تو ہمیں اس کی تھی احتیاج ہوتی ہے کہ میاں بیوی کے تعلقات اچھے رہیں.خاوند کو اس کی احتیاج ہوتی ہے کہ بیوی اس سے محبت کرے.بیوی کو اس کی احتیاج ہوتی ہے کہ خاوند ا سے پال سکے اور محبت کر سکے.پھر آگے بچوں کی ضرورتیں شروع ہو جاتی ہیں.اس تمام دوران میں اسے ہماری احتیاج نہیں ہوتی.ہم بھو کے ہوتے ہیں تو ہمیں احتیاج ہوتی ہے کہ وہ ہمیں کھانے کو کچھ دے.پھر خدا تعالیٰ ہمارے قریب کیوں آتا ہے.ہم جب پیاسے ہوتے ہیں تو خدا تعالیٰ کے پاس جاتے ہیں کہ وہ ہماری پیاس کو بجھا دے.لیکن خدا تعالیٰ ہمارے قریب کیوں آتا ہے؟ اسے تو پیاس نہیں ہوتی.پھر ہم جوان ہوتے ہیں تو خدا تعالیٰ کے پاس جاتے ہیں کہ وہ ہمیں کوئی اچھا ساتھی دے دے.لیکن خدا تعالیٰ ہمارے قریب کیوں آتا ہے؟ اسے کیا ضرورت ہوتی ہے کہ وہ ہمارے پاس آئے ؟ غرض اس سارے اُتار چڑھاؤ میں ہم ہی خدا تعالیٰ کے پاس جاتے ہیں اور ہمیں کوئی نہ کوئی ضرورت ہوتی ہے جس کے پورا ہونے کے لئے ہم خدا تعالیٰ کے پاس جاتے ہیں.لیکن وہ ہمارے پاس آتا ہے اور بےضرورت آتا ہے.جتنی تڑپ ہمیں خدا تعالیٰ کے قریب جانے کی ہو سکتی ہے کوئی وجہ نہیں کہ وہی تڑپ خدا تعالیٰ کو ہمارے ملنے کیلئے ہو.مگر جب وہ تڑپ رکھتا ہے کہ ہمارے قریب آئے تو ہماری کتنی بدقسمتی ہوگی کہ ہم اُس سے وہ محبت نہ کر سکیں جو وہ ہم سے کرتا ہے.ہم اُس کے قرب کی اتنی قدر نہ کر سکیں جتنی لذت وہ ہمارے قرب سے حاصل کرتا ہے.مصائب کا وقت ایک مومن کے لئے خوشی کا موقع ہوتا ہے.اس لئے کہ خدا تعالیٰ اس کے قریب آ جاتا ہے.جتنا جتنا دشمن اُس کے قریب آتا جاتا ہے خدا تعالیٰ اُس سے بھی زیادہ تھی
1952 241 خطبات محمود تیز قدمی سے اُس کے قریب آجاتا ہے.اور جب دشمن اس کے قریب آجاتا ہے تو خدا تعالیٰ اُس کے اندر داخل ہو چکا ہوتا ہے.اس طرح جب دشمن مومن پر وار کرتا ہے تو وہ خدا تعالیٰ پر وار کرتا ہے.پس تمہارے لئے عزت کے حاصل کرنے کا موقع ہے.تم بہادری کے ساتھ کام کرو.اگر یہ موقع تمہارے ہاتھوں سے چلا گیا تو تمہارے لئے عزت کے حاصل کرنے کا اور کون سا موقع آئے گا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرمایا کرتے تھے.بدقسمتی سے مسلمانوں میں یہ رواج پڑ گیا ہے کہ وہ نماز کے بعد دعا کرتے ہیں حالانکہ وہ دعا کا وقت نہیں ہوتا.دنیا میں تم کسی افسر سے کچھ مانگتے ہو تو اُس وقت مانگتے ہو جب ملاقات کا وقت ہوتا ہے نہ کہ ملاقات کے بعد.اسی طرح خدا تعالیٰ سے مانگنے کا وقت وہ ہوتا ہے جب تم اُس کے دربار میں گئے ہوتے ہو.جب تم نماز پڑھ رہے ہوتے ہو.اگر وہ موقع تم ہاتھ سے ضائع کر دیتے ہو تو بعد میں دعا کرنا کوئی فائدہ نہیں دے سکتا.اسی طرح جب مشکلات آتی ہیں ، مصائب آتے ہیں تو خدا تعالیٰ مومن کے قریب آجاتا ہے اور یہ وقت دعا کی قبولیت کا ہوتا ہے.اگر تم اُس وقت کو ضائع کر دیتے ہو تو تمہیں خدا تعالیٰ پر کیا امید ہو سکتی ہے کہ وہ تمہاری دعائیں سنے گا ؟ جب ہم نے اُس وقت خدا تعالیٰ سے کچھ نہ مانگا جب وہ ہمارے قریب تھا تو اُس وقت کس طرح مانگیں گے جب وہ دُور ہوگا.بہترین مچی وقت خدا تعالیٰ کے فضلوں کے حصول کا وہی ہوتا ہے جب تم مشکلات اور مصائب میں پڑے ہوتے ہوتے ہو.مشکلات اور مصائب کے وقت تمہارا ایمان بڑھنا چاہیے اور تمہیں خوش ہونا چاہیئے کہ خدا تعالیٰ تمہاری دعائیں سنے گا.تمہیں خوش ہونا چاہیے کہ وہ تمہارے زیادہ قریب آ گیا ہے.تمہیں خوش ہونا چاہیئے کہ اس کے وصال کا وقت آ گیا ہے.جب ایک عورت کو اُس کا گم شدہ بچہ مل جاتا ہے تو وہ خوشی میں دنیا وَ مَا فِيهَا سے غافل ہو جاتی ہے.تو جب تمہیں خدا تعالیٰ ملکی جائے تو تمہیں تمہارا دشمن نظر ہی کیوں آئے.جب تمہیں خدا تعالیٰ مل جائے گا تو تم محسوس ہی نہیں کرو گے کہ کوئی شخص تم سے دشمنی کرتا ہے کیونکہ تم خدا تعالیٰ کی گود میں ہو گے.میں نے بسا اوقات دیکھا ہے کہ جب کسی غریب ماں کے بچہ کو کوئی دوسرا بچہ مارتا ہے تو وہ کی اپنی ماں کی گود میں بھاگ جاتا ہے اور پھر اُسے گھورتا ہے اور کہتا ہے آتو سہی !! حالانکہ اُس کی ماں خود فقیر ہوتی ہے اور مارنے والا کسی امیر خاندان سے تعلق رکھتا ہے.لیکن جب وہ اپنی ماں کی کی گود میں چلا جاتا ہے تو اُسے تسلی ہو جاتی ہے کہ وہ محفوظ ہو گیا ہے.پھر کتنی شرم کی بات ہے کہ تم مجھے
خطبات محمود 242 1952 خدا تعالی کی گود میں جاؤ اور پھر دشمن سے ڈرو.کون ہے جو تمہارا کچھ بگاڑ سکتا ہے یا کون سی قوم ہے جو تمہارے مقابلہ میں کھڑی ہو سکتی ہے؟ دنیا کی سب قومیں ، دنیا کی سب طاقتیں ، دنیا کی تج سب حکومتیں خدا تعالیٰ کے قبضہ میں ہیں.وہ جس کا بھی چاہے دل بدل سکتا ہے ، اور تمہارے دشمن خواہ کتنا ہی جتھار کھتے ہوں تمہارے مقابل میں بیچ ہیں کیونکہ تم خدا تعالیٰ کی گود میں ہو.اور جو تلوار لے کر تمہارے سامنے کھڑا ہوتا ہے وہ تم پرحملہ نہیں کرتا خدا تعالیٰ پر حملہ کرتا ہے.خدا تعالیٰ لوگوں کے دل تمہاری تائید میں پھر ا دے گا اور سچائی کو لوگوں پر ظاہر کر دے گا.اور یہ مصائب کے بادل فضل کی ہواؤں سے بکھر جائیں گے اور انشاء اللہ تم امن میں آجاؤ گے.“ 1 : البقرة: 187 ( الفضل 8 راگست 1952ء) 2 بخاری کتاب الادب - باب رَحْمَةُ الْوَلَدِ وَ تَقْبِيْلِهِ وَ مُعَانَقَتِهِ - 3: بھا گڑ بھگڈر
1952 243 (28) خطبات محمود عقیدے کا تعلق خدا تعالیٰ سے ہے کسی حکومت کو اس میں دخل دینے کا اختیار حاصل نہیں ہے جہاں تک حکومت کے قوانین کا سوال ہے تم ان کی پابندی کرو جہاں تک عقائد کا سوال ہے تم ان پر مضبوطی سے قائم رہو فرموده 8 /اگست 1952ء بمقام ربوہ ) تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: اللہ تعالیٰ نے انسان کو مرکب القومی بنایا ہے اور انسان کے حالات بھی مرتب قسم کے ہوتے ہیں.اس سے ایک ہی قسم کے اخلاق اور عادات کا اظہار نہیں ہوتا.اور یہی فرق دراصل انسان اور حیوان میں ہے.اسی لئے اللہ تعالیٰ نے اسلام کو وسطی مذہب قرار دیا ہے کیونکہ اس کی کے ماننے والے درمیانی طریق پر چلتے ہیں.یعنی ان کو ایسے احکام ملتے ہیں جو بظاہر متضاد ہوتے ہیں لیکن ایک مومن ان کے درمیان ہو کر چلتا ہے.یہی وہ مسئلہ ہے جس کو ہماری شریعت میں تمثیلی زبان میں جسرِ صراط قرار دیا گیا ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے جنت میں جانے والے لوگ ایک پل پر سے گزریں گے جو تلوار کی دھار سے زیادہ تیز اور باریک ہوگا 1.مومن تو کی اُس پر سے گزر جائیں گے.اس لئے کہ ان میں یہ قابلیت ہوگی کہ وہ درمیانی راستہ پر سے گزریں.مجھ
1952 244 خطبات محمود لیکن دوسرے لوگ گر جائیں گے.کیونکہ ان میں طاقت نہیں ہوگی کہ وہ درمیانی راستہ کا خیال رکھیں.میں نے اعلان کیا تھا کہ اگر ہم نے حکومت سے ٹکرانا نہیں اور یقیناً ہم اس سے نہیں ٹکرائیں گے تو ہمیں بعض غیر اہم امور کو چھوڑنا پڑے گا.اوّل تو آج کل کوئی حکومت ایسا قانون نہیں بنائی سکتی جس سے کسی فرد کو اس کے مذہبی فرائض سے روکا جائے.وہ ایسا قانون اُسی وقت بنا سکتی کی ہے جب وہ ساری دنیا سے ٹکر لینے کے لئے تیار ہو جائے.دنیا کے لوگ اب ایک دوسرے کے اتنے قریب ہو چکے ہیں کہ وہ دوسری حکومت کے احکام پر نکتہ چینی کر سکتے ہیں.بعض دفعہ بعض حکومتیں سختی بھی کرتی ہیں مثلاً ترکی نے حکم دے دیا تھا کہ مسلمان اذان ترکی زبان میں دیا کریں اور ایک حد تک حکومت نے اس قانون کو قائم بھی رکھا لیکن پھر دنیا سے متاثر ہو کر عربی زبان میں اذان دینے کی اجازت دے دی.اسی طرح بعض اور حکومتوں نے افراد کے مذہب میں روکیں ڈالیں اور پھر یہ روکیں ہٹا دی گئیں.روس میں بھی جو مادر پدر آزاد کہلانے کا مستحق ہے ایسے دور آتے ہیں جن میں مخالف حکومتوں کے اثر سے ڈر کر وہ بعض دفعہ مذہب کو آزادی دے دیتا ہے.آج کل کے زمانہ اور پرانے زمانہ میں بہت فرق ہے.پہلے زمانہ میں لوگ ایک دوسرے سے پورے طور پر آگاہ نہیں تھے اور انسانی فطرت کا خیال نہ رکھنے والا بعض اوقات زیادتی بھی کر دیتا ت تھا اور انسانی فطرت کے خلاف حکم دے دیتا تھا.لیکن اب جبکہ ذرائع رسل و رسائل آسان کی ہو جانے کی وجہ سے دنیا کے لوگ آپس میں مل گئے ہیں اور وہ ایک دوسرے کے احکام پر نکتہ چینی کرتے ہیں.اس قسم کے احکام نہیں دیئے جا سکتے.پس جب میں نے کہا کہ اگر حکومت ہمارے کی مذہبی امور میں دخل اندازی کرے گی تو غیر اہم امور کو اہم امور کے لئے چھوڑ بھی سکتے ہیں تو یہ ایک فرضی بات تھی جو میں نے کہی.ورنہ ایسے ممالک جو آپس میں مل کر رہنا چاہتے ہیں وہ ایسے احکام نہیں دے سکتے.میں نے کہا تھا کہ اگر حکومت احمدی نام کو خلاف قانون قرار دیدے تو ہم احمدی ماجی مسلمان کی جگہ محض مسلمان کہلا نا شروع کر دینگے کیونکہ ہمارا اصل نام مسلمان ہے.احمدی تو اس کے کی ساتھ صرف امتیاز کے طور پر شامل کیا گیا.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.هُوَ سَمَّكُمُ الْمُسْلِمِينَ - 2 اس نے تمہارا نام مسلمان رکھا ہے.پس جب ہمارا اصل نام مسلمان ہی ہے تو اگر کوئی حکومت کی احمدی نام پر پابندی لگائے گی تو ہم صرف مسلمان کہلانے لگ جائیں گے.بعض لوگوں نے اس پر اعتراض کیا ہے اور بعض اخبارات نے بھی لکھا ہے کہ آج کل کی حکومتیں ایسی نہیں جو محض
1952 245 خطبات محمود نام پر پابندی عائد کرنے پر اکتفاء کریں.آج کل نظم ونسق اس قسم کا ہے کہ جب لوگ سوال کی کرتے ہیں تو اس سے کوئی چیز باہر نہیں نکل سکتی.یہ درست ہے کہ انسان اگر کر نے پر آئے تو کیا کچھ نہیں کر سکتا لیکن یہ بات بھی درست ہے کہ جہاں ہم اس بات کو جائز سمجھتے ہیں کہ اگر کوئی حکومت ایسا حکم دے جو افراد کے مذہب سے تعلق رکھتا ہو اور وہ ہماری اصولی چیزوں سے ٹکرا تاج نہ ہو تو ہم جماعت کو یہ تعلیم دیں گے کہ وہ حکومت کی اطاعت کرے.وہاں شریعت یہ بھی کہتی ہے کہ اگر تمہارے ایمان کا امتحان ہو اور تمہارے سروں پر آرے رکھ کر تمہیں چیر دیا جائے تو تم آخر تک چر جاؤ لیکن ایمان کو ضائع نہ ہونے دو.پس جہاں یہ ٹھیک ہے کہ کوئی حکومت ایسی بھی ہو سکتی کج ہے جو اس قسم کے عقل کے خلاف احکام دے دے اور وہ افراد کے مذہب میں مداخلت کرے ی وہاں یہ بھی ٹھیک ہے کہ دنیا میں ایسے مست بھی ہو سکتے ہیں جو مذہب کے لئے جائز قربانیاں کرتے چلے جائیں اور ایمان پر قائم رہیں.جس شخص کو ہم نے مانا ہے اُس کا شعر ہے در کوئے تو اگر سر عشاق را زنند اول کسے کہ لاف تعشق زند منم 3 یعنی اگر تیرے کو چہ میں عشاق کے سروں کو کاٹنے کا حکم دے دیا جائے تو سب سے پہلے جو عشق کا شور مچائے گا وہ میں ہوں گا.پس یہ ٹھیک ہے کہ بعض حکومتیں ایسا ظلم بھی کر سکتی ہیں جیسا تج کہ روس میں ہورہا ہے کہ وہاں مذہب کو بالکل بیکار کر دیا گیا ہے.اسی طرح اور بھی ایسے ممالک کی ہو سکتے ہیں.لیکن میرے خیال میں روس سے زیادہ ان میں مذہب پر پابندی نہیں ہوسکتی.آجکل کی ظاہری روش اور جمہوری خیالات کے نتیجہ میں کوئی حکومت روس کا ساطریق اختیار نہیں کر سکتی اور کوئی قوم ایسی نہیں جو مذہب میں اس حد تک دخل دے.پس عقلی بات تو یہی ہے کہ کوئی تھی حکومت افراد کے مذہب میں دخل نہیں دے سکتی.لیکن کوئی حکومت اگر عقل سے باہر جا کر ایسے می قوانین بنادے جو مذہب میں روک پیدا کر دیں اور الفاظ کی تبدیلی سے کام نہ بنے تو ہم بھی کہیں گے کہ تم ہمیں گولی مار دو لیکن ہم اپنے اصول کو نہیں چھوڑیں گے.ہم مرتے جائیں گے لیکن کی صداقت کا انکار نہیں کریں گے.موت سے زیادہ حقیر چیز اور ہے ہی کیا ؟ ساری چیزوں پر کچھ نہ کچھ خرچ ہوتا ہے.دستخطوں کے لئے سیاہی لینے جائیں تو اس پر بھی دھیلا خرچ آجاتا ہے لیکن موت پر کچھ بھی خرچ نہیں ہوتا.موت آخر آنی ہے.اور جو چیز ضرور آتی ہے اُس پر خرچ کیا آئے گا؟
1952 246 خطبات محمود پس یہ ٹھیک ہے کہ جہاں تک ہم سمجھتے ہیں کہ آج کل کی متمدن دنیا میں کسی حکومت کے قوانین مذہب کے بارہ میں اس حد تک نہیں جایا کرتے کہ وہ ظالمانہ صورت اختیار کر جائیں.بعض جگہوں پر حکومتیں ایک حد تک سختی کرتی ہیں مثلاً ساؤتھ افریقہ کی حکومت نے یہ قانون بنایا ہے کہ کالے گوروں سے الگ رہیں لیکن وہ یہ نہیں کہہ سکتی کہ کالے ملک میں نہ رہیں.اس نے یہ کہا ہے کہ گورے اور کالے ریلوں میں اکٹھے سفر نہ کریں.لیکن اس نے یہ نہیں کہا کہ کالے سفر ہی نہ کریں.اس نے یہ کہا ہے کہ گوروں کے ہسپتال میں کالے نہ جائیں.لیکن اس نے یہ نہیں کہا کہ کالوں کا علاج ہی نہ ہو.اس نے یہ کہا ہے کی کہ گورے اور کالے آپس میں شادی نہ کریں.لیکن وہ یہ نہیں کہتی کہ کالے شادی ہی نہ کریں.پس بعض ممالک میں بے شک سختیاں ہوتی ہیں مگر ایک حد تک.لیکن دنیا چونکہ متمدن ہو چکی ہے اس لئے اب کوئی ایسی حکومت نہیں ہو سکتی جو کوئی ایسا قانون بنائے جو عقل کے خلاف ہو.لیکن فرض کرو کہ اگر کوئی ایسی حکومت ہو جو عقل سے باہر جا کر ایسے قانون بنا سکتی ہو تو عاشق بھی عقل سے باہر جا کر اپنی جانوں کو شہادت کے لئے پیش کر سکتے ہیں اور یہ کوئی عجیب بات نہیں کی جس پر لوگوں کو حیرت ہو.ہماری جماعت امن پسند جماعت ہے لیکن جن ملکوں میں احمدیوں کے لئے امن نہیں رہا وہاں ہم نے اپنے آپ کو بچایا نہیں.کابل میں دیکھ لواحدی پتھر کھاتے گئے مگر مرتد نہیں ہوئے.پس حکومت کی فرمانبرداری اور چیز ہے اور عقائد اور چیز ہیں.متمدن دنیا افراد کے مذاہب میں دخل نہیں دیتی.متمدن دنیا خریت ضمیر میں دخل نہیں دیتی.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب مکہ میں تھے جہاں تک آئین کا سوال تھا آپ مکہ کی حکومت کے قانون کے پابند تھے اور کی حکومت کی اطاعت کرتے تھے.لیکن آپ نے تبلیغ کو ترک نہیں کر دیا تھا.سچ کو آپ نے ترک نہیں کر دیا تھا.کسی کے کہنے پر آپ نے اپنا کام نہیں چھوڑ دیا تھا.لیکن جہاں تک آئین ا قانون کا سوال تھا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حکومت کے قوانین کی پابندی کی.اور جہاں تک عقائد کا سوال تھا آپ نے اپنے آپ کو ان پر مضبوطی سے قائم رکھا.حضرت مسیح علیہ السلام پر بھی ہماری طرح متضاد سوالات کئے جاتے تھے.عوام الناس کے پاس کی جاتے تو کہتے کہ یہ حکومت کے خوشامدی ہیں اور حکومت کے پاس جاتے تو کہتے کہ یہ باغی ہیں.ہمارے متعلق بھی یہی کہا جاتا ہے.مخالفوں کی کتب میں وہ مضامین بھی موجود ہیں جن میں لکھا گیا کی ہے کہ ہم حکومت کے خوشامدی ہیں.اور حکومت کے نام ایسے محضر نا مے بھی موجود ہیں جن میں کہا تھی
1952 247 خطبات محمود گیا ہے کہ ہم حکومت کے باغی ہیں.ایک طرف باغی کہنا اور دوسری طرف خوشامدی کہنا دونوں کی چیزیں اکٹھی کیسے ہو سکتی ہیں.لیکن لوگ اکثریت کے گھمنڈ میں سب کچھ کہہ لیا کرتے ہیں.وہ مج طاقت کے گھمنڈ میں یہ خیال نہیں رکھتے کہ سچ کیا ہے.لوگ اکثریت کے گھمنڈ میں بجائے دوسروں کے احساسات کا خیال رکھنے کے یہ کہتے ہیں کہ تم نے ہماری بات نہ مانی تو ہم ڈنڈا ماریں گے.مثل مشہور ہے کہ کوئی بھیٹر یا ندی کے کنارے پانی پی رہا تھا.ایک بکری کا بچہ آیا اور اس نے بھی پانی پینا شروع کر دیا.بکری کا بچہ دیکھ کے بھیڑیے کے منہ میں پانی بھر آیا اور اس نے یہ چاہا کہ اُسے کھا لے.انسانوں اور حیوانوں کے حالات ایک سے نہیں ہوتے.انسان دلیل دیتا ہے لیکن ایک حیوان دلیل نہیں دیتا.مثال میں چونکہ دلیل دی گئی ہے اس لئے یہاں بھیڑیے کی سے مراد وہ آدمی ہے جو بھیڑیے کے سے خصائل رکھتا ہو.اور بکری کے بچہ سے وہ آدمی مراد ہے جو اس کے سے خصائل رکھتا ہو.بہر حال بھیڑیے کو یہ لالچ پیدا ہوا کہ کسی نہ کسی طرح بکری کے بچہ کو کھا لے.چنانچہ وہ بکری کے بچہ کو دیکھ کر کہنے لگا کہ تمہیں شرم نہیں آتی کہ تو میرا پانی گدلا کر رہا ہے؟ بکری کے بچہ نے کہا سر کا ر! یہ کون سی بات ہے.آپ نے سوچا نہیں کہ آپ اوپر ہیں اور میں نیچے.آپ کا پیا ہوا پانی میری طرف آرہا ہے نہ کہ میرا پیا ہوا پانی آپ کی طرف جا رہا ہے.بھیڑیے نے آگے بڑھ کر بکری کے بچہ کو تھپڑ مارا اور اُسے مار دیا اور کہا نالائق ! آگے سے جواب دیتا ہے.پس زبر دست کثرت پر گھمنڈ کرتا ہی ہے جیسے آج کل احراری اخبار آزاد، زمیندار اور آفاق کر رہے ہیں.وہ کہیں گے اور ہم سنیں گے.اور چونکہ ہم تھوڑے ہیں اس لئے ہم تھوڑے ہونے کی سزا بھگتیں گے یہاں تک کہ ہمارے خدا کی غیرت بھڑک اٹھے اور وہ ہمیں اقلیت - اکثریت میں تبدیل کر دے.لیکن جب تک ہم تھوڑے ہیں ہمیں تھوڑے ہونے کی سزا بھگتنی پڑے گی ، ماریں کھانی پڑیں گے ، گالیاں سنی پڑیں گی.کئی احمدی میرے پاس آتے ہیں اور کہتے ہیں کہ آخر ہم کب تک ان تکالیف کو برداشت کریں گے؟ میں انہیں یہی کہتا ہوں تم تھوڑے ہو اور جب تک تم تھوڑے ہو تمہیں تھوڑا ہونے کی کی سزا بھگتنی پڑے گی.خدا تعالیٰ اگر تمہیں دکھوں میں مبتلا نہ کرنا چاہتا تو وہ تمہیں اقلیت میں نہ رہنے دیتا.لیکن جس طرح کثرت ، دماغ میں غرور پیدا کر کے عقل مار دیتی ہے اسی طرح عشق بھی ایک کی عاشق صادق کے اندر کبریائی پیدا کر دیتا ہے.مگر عشق ہمیشہ کبریائی کے نشہ میں آکر مرتا ہے، مارتا نی
1952 248 خطبات محمود نہیں.چنانچہ دیکھ لو عاشقوں نے معشوقوں کے لئے اپنی جانیں دی ہیں اور کثرت والوں نے کی تھوڑی تعداد والوں کو غرور میں آکر مارا ہے.پس خدا تعالیٰ کی یہ تقدیر ہے جو بدل نہیں سکتی.تم کوئی نئی جماعت نہیں جو اقلیت میں ہو.کثرت والے کہتے ہیں ہم تمہیں اقلیت بنادیں گے.ہم کہتے ہیں بنانے کا کیا سوال ہے.ہم تو پہلے ہی اقلیت میں ہیں کیونکہ ہم تھوڑے ہیں.جس چیز کا کی ہمیں انکار ہے وہ یہ ہے کہ ہم وہ اقلیت نہیں جس کے معنی غیر مسلم کے ہیں.کیا مسلمان ہندوستان کی میں اقلیت میں نہیں ؟ ہندوستان میں ہندو زیادہ ہیں اور مسلمان کم ہیں.پھر اگر پاکستان میں کوئی نا جائز سلوک اقلیت سے ہو سکتا ہے تو کیا وہی سلوک ہندوستان میں مسلمانوں سے بھی ہوسکتا ہے؟ ؟ یا چین میں مسلمانوں سے ہو سکتا ہے؟ اگر اقلیت پر سختی کرنا جائز ہے تو پھر وہی سلوک انگلستان میں کمی بھی مسلمانوں سے جائز ہے.یہ کتنی بے حیائی ہے کہ ایک قوم متمدن ہونے کا دعوی بھی کرے اور کی پھر وہ یہ خیال کرے کہ اگر وہ اقلیت والوں سے اپنی کثرت کی وجہ سے کوئی بُر اسلوک کرتی ہے تو جائز ہے لیکن دوسری شریف حکومتوں سے جہاں وہ قوم خودا قلیت میں ہے یہ امید رکھے کہ وہ اس سے ایسا سلوک نہیں کرے گی.کتنے تعجب کی بات ہے کہ اسلام جو سب سے زیادہ شرافت سکھا تاج ہے اس کی طرف منسوب ہونے والے آج غیر قوموں کی شرافت سے تو ناجائز فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم تمہارے ملک میں تھوڑے ہیں اس لئے ہمارے ساتھ اچھا سلوک کی کرو لیکن اپنے ملک میں تھوڑوں پر ظلم کرنا چاہتے ہیں اور تھوڑ اسمجھ کر ان کو آزادی سے محروم کرنا چاہتے ہیں.کیا یہ شرافت ہے کہ ہم اقلیت سے جو سلوک کرتے ہیں وہی سلوک اگر وہ ممالک ہم سے کریں جہاں ہم اقلیت میں ہیں تو اُن کا یہ طریق جائز ہوگا.لیکن ہم اسے جائز نہیں کہتے.جو سلوک ہندوستان میں مسلمانوں سے ہو رہا ہے کوئی احمدی ہو یا غیر احمدی اسے بُرا مناتا ہے کیونکہ مسلمان بھی حکومت کے اعضاء ہیں اور حکومت میں سب کو برابر ہونا چاہیے.یہی سلوک پاکستان میں بھی ہونا چاہیے.جو شخص لا إلهَ إِلَّا اللهُ مُحَمَّدٌ رَّسُولُ الله پر ایمان رکھتا ہے اور اُس کا قرآن کریم کے احکام اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم پر ایمان ہے وہ مسلمان ہے.اور پھر جتنا جتناوہ احکام قرآن اور احکامِ رسول پر عملاً ایمان لاتا ہے اُتنا اتنا وہ حقیقتا مسلمان ہے.لیکن جب وہ جی منہ سے کہتا ہے کہ میں مسلمان ہوں تو وہ ظاہر میں سو فیصدی مسلمان ہے.کیونکہ وہ منہ سے کہتا ہے کہ میں مسلمان ہوں.اور نام کے لحاظ سے منہ سے کہنا کافی ہے اور عمل حقیقت کے لحاظ
1952 249 خطبات محمود ضروری ہے.یہ خدا تعالیٰ کا کام ہے کہ وہ فیصلہ کرے کہ کوئی کیسا مسلمان ہے بندے کا کام نہیں کی بندے کا کام یہ ہے کہ جب کوئی شخص اپنے آپ کو مسلمان کہے تو وہ اُسے مسلمان کہے.اگر میں کی کہتا ہوں میں مسلمان ہوں تو اُسے مجھے مسلمان ماننا پڑے گا.اگر زید کہتا ہے میں مسلمان ہوں تو اُسے زید کو مسلمان ماننا پڑے گا چاہے وہ شافعی ہو ، حنفی ہو، مالکی ہو، حنبلی ہو.پس اکثریت اگر گھمنڈ میں آکر تمہیں مارتی ہے تو اُسے مارنے دو.تم یہ تسلیم کرتے ہو کہ تم تھوڑے ہو.اس لئے نہیں کہ تم مسلمان نہیں بلکہ اس لئے کہ احمدی کہلانے والے مسلمان غیر احمدی کہلانے والے مسلمانوں سے کم ہیں اور عربی زبان میں اسے اقلیت کہتے ہیں.اقلیت کے یہ معنی نہیں کہ ہم مسلمان نہیں کیونکہ ہم منہ سے اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں اور قیامت تک اپنے آپ کو مسلمان کہتے جائیں گے یہاں تک کہ ہم بڑھ جائیں.اور اگر خدا تعالیٰ کی تقدیر چاہتی ہے کہ وہ احمدیہ کو قائم رکھے تو یقیناً ہم بڑھیں گے اور بڑھتے چلے جائیں گے.میں دیکھتا ہوں کہ اس فتنہ کے ایام میں بھی جن لوگوں میں جرات ہوتی ہے وہ لوگوں کے غلط الزامات کی تردید کر دیتے ہیں.ایک دوست نے مجھے خط لکھا کہ میں احمدی نہیں میں سیاسی آدمی کی ہوں مذہبی نہیں لیکن جوں جوں میں نے اخبارات میں پڑھنا شروع کیا کہ احمدی پاکستان کے غدار ہیں تو مجھے پتا لگا کہ ایسا کہنے والے جھوٹے ہیں.میں کٹر پاکستانی تھا.میں نے پاکستان کی خاطر بہت سی قربانیاں کیں اور میرے وفادار ساتھیوں میں سے بعض احمدی بھی تھے.پس جب میں اخبارات میں پڑھتا ہوں کہ احمدی غدار ہیں تو میں سمجھتا ہوں کہ ایسا کہنے والے جھوٹے ہیں.یہ خیالات ہزاروں کے نہیں لاکھوں کے ہیں لیکن سب میں یہ جرات نہیں کہ اس کا اظہار کریں.لیکن ایک وقت آئے گا جب لوگ جرات سے اس کا اظہار کریں گے.لاہور، گورداسپور، فیروز پور وغیرہ کے لاکھوں آدمی ہیں جن کے ساتھ احمدی مل کر کام کرتے رہے.راولپنڈی کا اخبار تعمیر آج کل ”زمیندار“ کا ہمنوا ہے.لیکن آج سے کچھ سال پہلے ایڈیٹر نے اپنے ایک ناول میں لکھا تھا کہ احمدیوں نے پاکستان کی خاطر بہت سی قربانیاں کی ہیں.آج کی وہ جو کچھ چاہتے ہیں کہیں.لیکن سوال یہ ہے کہ اُس وقت ایڈیٹر اخبار تعمیر نے کیا لکھا تھا.مصیبت کے وقت اُس کے منہ سے سچ نکل گیا تھا.پس یہ چیزیں وقتی ہیں مومن اور شریف آدمی وہی ہے جس کے ہاتھ سے ایک چیونٹی کو بھی ضرر نہیں پہنچتا.وہ قانون کا بڑا ہی پابند ہوتا ہے، وہ قانون ہے
1952 250 خطبات محمود بڑا چلنے والا ہوتا ہے اور بڑا ہی بے ضرر ہوتا ہے.جیسے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہؓ نے ایسے سینیا اور مکہ میں رہ کر وہاں کی حکومتوں کے قواعد کی پابندی کی لیکن ساتھ ہی وہ نڈر بھی ہوتا تج ہے.کوئی اسے مارتا ہے یا گالیاں دیتا ہے تو وہ اس کی پروا نہیں کرتا.ایک صحابی جو پہلے مسلمان نہیں تھے بعد میں وہ مسلمان ہو گئے ہمیشہ یہ واقعہ سنایا کرتے تھے.اس وقت میں سارا واقعہ تو سنا نہیں سکتا اختصار کے ساتھ بیان کر دیتا ہوں.وہ کہتے ہیں میں مسلمان نہیں تھا میں ایک لڑائی میں شامل ہو گیا اور ہم نے مسلمانوں کو مارنا شروع کیا.اتنے میں مسلمانوں کا ایک لیڈر بیچ میں اُتر آیا.ہم میں سے دو تین آدمیوں نے اُس پر حملہ کر دیا اور کی ایک شخص نے آگے بڑھ کر اُس کے سینہ میں نیزہ مارا اور وہ گر پڑا.جب وہ گرا تو اُس کی زبان کی سے نکلا فُزُتُ بِرَبِّ الْكَعْبَةِ 4 کعبہ کے رب کی قسم میں کامیاب ہو گیا.میں نے کہا یہ عجیب آدمی ہے گھر سے دور ہے ، بے وطن ہے، بیوی بچے پاس نہیں ، دھوکا میں اسے یہاں لایا گیا ؟ ہے،اسے وصیت کرنے کا بھی موقع نہیں ملا مگر بجائے اس کے کہ یہ روتا وہ نعرہ مارتا ہے کہ فزت بِرَبِّ الْكَعْبَةِ کعبہ کے رب کی قسم میں کامیاب ہو گیا.وہ صحابی بیان کرتے ہیں کہ میں اُس کی قبیلے کا آدمی نہیں تھا جس نے اس شخص کو شہید کیا.میں ان کے ہاں بطور مہمان مقیم تھا اور لڑائی میں ان کے ساتھ شامل ہو گیا تھا.اس واقعہ کو دیکھ کر میں مدینہ آ گیا تا دیکھوں کہ یہ کیسے لوگ ہیں جنہیں موت میں لذت محسوس ہوتی ہے.چنانچہ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں کی حاضر ہوا اور چند دن وہاں رہا.مجھے صداقت کا احساس ہوا اور میں مسلمان ہو گیا.پھر آگے وہ صحابی کہتے ہیں کہ خدا کی قسم ! اتنے سال گزر گئے کہ یہ واقعہ ہوا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال پر بھی اتنے سال گزر گئے لیکن میں جب بھی یہ واقعہ سناتا ہوں وہ نظارہ میرے سامنے آجاتا ہے اور میرے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں اور میں اس نظارہ کو بھول نہیں سکتا 5- پس جہاں تک قانون کا سوال ہے جماعت اس کی پابندی کرے گی.لیکن جہاں تک لٹھ بازی کا سوال کی ہے ہر مخلص احمدی لاٹھیاں کھاتا جائے گا اور صداقت کا اظہار کرتا جائے گا.بعض کمزور کمزوریاں کی دکھا چکے ہیں اور ممکن ہے آئندہ بھی دکھائیں کیونکہ بعض طبائع کمزور بھی ہوتی ہیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھی اُحد میں بھاگے تو آپ نے فرمایا تم لوگ فرار نہیں ہو کرار ہو.کیونکہ تمہارا جنگ میں دوبارہ جانے کا ارادہ تھا.اسی طرح ایک اور صحابی تھے اُن پر مخالفین کی
1952 251 خطبات محمود نے سختی کی.وہ ابھی بچے تھے.مخالفین نے اُن کے منہ سے بعض الفاظ نکلوا لئے.رسول کریم کی صلی اللہ علیہ وسلم کو پتا لگا تو آپ نے محبت سے اُن کی پیٹھ پر ہاتھ پھیرا اور ایسے الفاظ کہے جن سے اُن کی دلجوئی ہو.مومن کی شان یہی ہے کہ جتھے اُسے مارتے ہیں تو مارتے رہیں.اگر اکثریت اپنی طاقت کے گھمنڈ میں اُس پر ظلم کرتی ہے تو کرتی رہے وہ اُسے برداشت کرتا جاتا ہے.لوگ اسے صداقت سے پھیرنا چاہتے ہیں لیکن وہ پھرتا نہیں وہ صداقت پر قائم رہتا ہے.لیکن اگر کوئی کمزور طبیعت شخص کمزوری دکھا جاتا ہے تو طاقتوروں کو بھی چاہیے کہ وہ کمزور کا خیال رکھیں.آپ اُس کے ساتھ ایسے رنگ میں پیش آئیں کہ اسے پشیمانی محسوس ہو اور وہ تو بہ کرے.بہر حال ایک مومن ڈر ، رُعب اور جتھے سے ڈر کر اپنا ایمان نہیں چھوڑتا.وہ دوسروں پر خود حملہ نہیں کرتا.وہ خود آئین شکنی اور فساد نہیں کرتا.وہ دوسروں سے لڑتا نہیں.لیکن جہاں تک عقائد کا سوال ہے وہ قانون سے بالا ہیں کیونکہ خدا تعالیٰ اور بندے کے درمیان کوئی واسطہ نہیں.خدا اور بندے کے درمیان کوئی حکومت بھی کھڑی نہیں ہو سکتی.جہاں تک مذہب اور ایمان کا سوال ہے کسی حکومت کو اس میں دخل حاصل نہیں.ایسی کوئی حکومت نہیں جو کسی کے مذہب میں دخل دے.اگر کوئی کہتا ہے کہ حکومت پاکستان ایسا کرے گی تو حکومت کو اُسے پکڑنا چاہیئے کیونکہ وہ حکومت کو پاگل اور وحشی قرار دیتا ہے.مذہب میں دخل دینے والے وحشی ہوتے ہیں.اور جو شخص یہ کہتا ہے کہ حکومت پاکستان مذہب میں دخل دے گی وہ حکومت کو وحشیوں کی طرح دنیا کے سامنے پیش کرتا ہے.عقیدہ کا تعلق خدا تعالیٰ سے ہے.یہ حکومت کے زور سے بدلا نہیں جاسکتا.اگر عیسائی کسی مسلمان کو ماریں اور کہیں کہ تم تین خدا تسلیم کر لو تو یہ کیسے ہو سکتا ہے.اگر کوئی شخص مجھے پکڑلے اور کہے تم یہ کہو کہ میں ایک نہیں دو ہوں تو خواہ وہ کتنا عذاب دے میں اپنے آپ کو ایک ہی کہوں گا.پس اگر خدا تعالیٰ ایک ہے تو کون کہے گا کہ خدا تین ہیں.اگر کمزور طبیعت کا کوئی شخص تین خدا کہہ بھی دے تو اس کا اپنا دل یہ تسلیم کرے گا کہ میں ایسا کہنے میں سچا نہیں.جان بچانے کی خاطر میں نے جھوٹ بولا ہے.پس اگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بچے ہیں تو خواہ سارا شہر چڑھ آئے لاکھ دولاکھ کا جتھا حملہ کر دے، ڈرائے اور طاقت کا رُعب دے کر کہے تم کہو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام (نعوذ باللہ ) جھوٹے ہیں تو ہم کس طرح آپ کو جھوٹا کہیں گے.کمزور طبیعت انسان اگر
1952 252 خطبات محمود کہہ بھی دے تو اُس کا دل اُسے جھوٹا کہہ رہا ہو گا.وہ سمجھتا ہو گا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة في والسلام بچے ہیں.جھوٹا میں ہوں جس نے بزدلی دکھائی ہے.پس تم اپنے ایمان کو مضبوط کرو اور کی ساتھ ہی اپنے جذبات پر قابو رکھو.میرے پاس کئی لوگ آتے ہیں اور وہ کہتے ہیں ہم کیا کریں؟ اُن کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ آخر ہم کب تک مار کھاتے جائیں گے.میں اُن کی اِس بات کا یہی جواب دیتا ہوں کہ تم ماریں کھاتے جاؤ.جب خدا تعالیٰ نے تمہیں اس مقام پر کھڑا کیا ہے کہ تم ماریں کھاؤ تو میں کون ہوں جو تمہیں بچا سکوں.جس حرکت پر معشوق راضی ہوتا ہے عاشق وہی کی کرتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے لکھا ہے.جہاد کرنا بڑی اچھی چیز ہے.لیکن اگر خدا تعالیٰ نے تم سے انگریزوں کے مقابلہ میں جہاد کروانا ہوتا تو وہ تمہارے ہاتھ میں تلوار دیتا.اگر اُس نے ان کے مقابلہ میں تم سے تلوار چھین لی ہے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ انگریزوں سے جہاد کرنے کا موقع نہیں Z.اب تلوار ہمارے ہاتھ میں آ گئی ہے.پاکستان آزاد ہو چکا ہے.اب ہم بھی کہتے ہیں کہ اگر کوئی پاکستان کی آزادی میں فرق لائے تو جہا دفرض ہو جائے گا.یہی دلیل ہمیں بھی اپنے مد نظر رکھنی چاہیے.اگر خدا تعالیٰ نے ہمیں مار سے بچانا ہوتا تو وہ ہماری تعداد زیادہ کیوں نہ کر دیتا.خدا تعالیٰ آج یہ نظارہ دیکھنا چاہتا ہے کہ تم ماریں کھاؤ.جتنی زیادہ ماریں تم کھاؤ گے خدا تعالیٰ تم سے اُتنا ہی راضی ہو گا.“ الفضل 19 اگست 1952ء 66 :1 كنز العمال فى سنن الاقوال ، حرف القاف كتاب القيامة ، الباب الاول الصراط نمبر 39036 جلد نمبر 14 صفحہ 386 مطبوعہ حلب 1975ء 2: الحج : 79 3 : در تمین فارسی صفحہ 143 - شائع کردہ نظارت اشاعت و تصنیف ربوه 4 بخاری کتاب المغازى باب غزوة الرَّجيع (الخ) :5 سیرت ابن ہشام جلد 3 صفحہ 196 مطبوعہ مصر 1936ء :6 كتاب المغازى للواقدى غزوة موته - جزء 2 صفحہ 764 ، 765 قاہرہ مصر 1965ء میں یہ واقعہ جنگ موتہ کے حوالہ سے درج ہے.:7 ملفوظات جلد 4 صفحہ 521
1952 253 29 خطبات محمود 1 تمام وہ کام جو انسان کی ملی ، سیاسی ، علمی ،قومی برتری اور ترقی کیلئے ہوں ذکر الہی میں شامل ہیں اور ان کا مساجد میں کرنا جائز ہے 2 بے تکلفانہ مجالس بازار کی بجائے اپنے گھروں میں لگائیں فرموده 29 /اگست 1952ء بمقام ربوہ ) تشهد ، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: پچھلے سال جولائی میں شاید 6، 7 تاریخ کو مجھے در دنقرس کا دورہ ہوا تھا اور پھر یہ دورہ ہر سال گزشتہ سالوں سے زیادہ شدید ہوتا تھا.لیکن اس دفعہ خدا تعالیٰ کے فضل سے تیرھواں ماہ جا رہا ہے کہ درد کا شدید دورہ نہیں ہوا.درمیان میں 6 ، 7 دفعہ درد کا دورہ شروع ہوا لیکن دو دو چار چار دن میں ختم ہو گیا.اس ہفتہ میں دو دفعہ درد کا دورہ شروع ہوا ہے.ایک دفعہ تو جوڑوں سے شروع ہوا اور دوسری دفعہ دائیں پاؤں کے انگوٹھے سے شروع ہوا اور باوجود اس کے کہ یوں محسوس ہوتا تھا کہ اس دفعہ درد کا دورہ شدت اختیار کرے گا لیکن دونوں دفعہ اس نے شدت نہیں پکڑی.پچھلی دفعہ یہ دورہ جلد ہٹ گیا تھا.دوسری دفعہ بھی تقریباً ہٹ گیا ہے گو ا بھی دائیں گھٹنے میں درد ہوتا ہے.گو یا بیماری کی شدت کی یہ ایک نئی شکل ہے جو پہلے چار پانچ سال میں نہیں کی تھی.پہلے درد کا دورہ شدت اختیار کر جاتا تھا اور مہینہ مہینہ دو دو مہینے رہتا تھا لیکن اس دفعہ یہ دورہ جلد ہٹ جاتا رہا اور بہت خفیف ہوتا رہا.
1952 254 خطبات محمود در دنقرس کی وجہ سے میں روزانہ نمازوں کے لئے مسجدوں میں نہیں آسکتا اور یہی وجہ ہے کہ آج جمعہ کے دن میں نے نکاح کا اعلان کیا ہے.یوں میری صحت ایسا رنگ اختیار کر گئی ہے کہ یہ نہیں کہا جا سکتا کہ موسم کے ٹھنڈے ہونے پر صحت ترقی کرے گی.ہر سال لوگ کہا کرتے ہیں کہ اس سال گرمی زیادہ ہے.اس وجہ سے گرمی کو زیادہ الزام نہیں دیا جا سکتا.بہر حال میری تھی صحت ایسا رنگ اختیار کر گئی ہے کہ کسی موسم کا کوئی تغیر برداشت نہیں کر سکتی.مثلا گزشتہ دو ماہ کی اس طرح گزرے جیسے لوگ کہتے ہیں نہ جیتے گزرتی ہے اور نہ مرتے گزرتی ہے.یوں تو ملاقات بھی کرتا تھا اور دفتر سے جو کاغذات اور خطوط آتے تھے انہیں پڑھتا اور اُن کا جواب بھی دیتا تھا لیکن تاہم میں نے کوئی اہم کام نہیں کیا اور نہ میں کوئی اہم کر سکتا تھا.میری طبیعت بوجھ برداشت کی کرنے کے لئے تیار نہیں تھی.وقت کے لحاظ سے تو وقت مل جاتا ہے مثلاً دفتر ی ڈاک کا لفافہ ہی کی آتا ہے تو گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹہ وہی چلتا ہے کیونکہ لفافہ میں 70 ، 80 خطوط اور مسلیں ہوتی ہیں.انہیں خالی پڑھنے کے لئے کافی وقت درکار ہوتا ہے.اگر ایک چٹھی کے پڑھنے میں دو منٹ بھی لگیں اور لفافے میں پچاس کا غذات ہوں تو 100 منٹ تو یہی ہو گئے یعنی ایک گھنٹہ چالیس منٹ.پھر ہر کاغذ کا جواب سوچنا اور لکھنا ہوتا ہے.اس کے لئے اگر کم سے کم وقت بھی لگایا جائے تو وہ دو اڑھائی گھنٹہ سے بڑھ جاتا ہے.پھر ملاقات ہوتی ہے اور دوسرے کام ہوتے ہیں.ملاقات بھی ایک ایک، دو دو گھنٹے روزانہ لے لیتی ہے.پس وقت کو روزانہ لگا نا پڑتا ہے چاہے بیماری ہو یا تندرستی.لیکن تندرستی کی حالت میں جو ذہن کی صفائی ہوتی ہے وہ صفائی بیماری میں کی نہیں ہوتی.تندرستی میں ذہن جلدی جلدی کام کرتا ہے، واقعات کو سوچتا اور عمل کرتا ہے لیکن کی بیماری میں یوں محسوس ہوتا ہے کہ گویا روح گھسٹتی ہوئی ایک مقام سے دوسرے مقام پر جا رہی ہے ہے.اب موسم میں تغیر آرہا ہے.شاید میری صحت کے لئے کوئی بہتری کی صورت پیدا ہو جائے.لیکن پچھلے تجربہ سے معلوم ہوا ہے کہ موسم کے تغیر کے وقت اگر طبیعت اچھی ہوتی ہے تو یہ وقتی بات ہوتی ہے.موسم کی تبدیلی کی وجہ سے صحت پر جو اثر پڑتا ہے وہ بہت تھوڑے وقت تک رہتا ہے.ہاں اتنا فرق ہے کہ سردی کا علاج آسان ہوتا ہے.دروازے بند کر لئے ، اوپر کپڑے لے لئے ، آگ جلالی اور کام کرتے رہے.اور آج کل تو ایک اور چیز نکل آئی ہے اور وہ ربڑ کی بوتلیں ہیں.گرم پانی کیا، بوتل میں بھرا اور بوتل پہلو میں رکھ لی اور کام شروع کر دیا.گویا سردی کا علاج ہے
1952 255 خطبات محمود آسان ہوتا ہے لیکن گرمی میں پوری سردی حاصل نہیں کی جاسکتی ہاں سردی میں گرمی پیدا کی کچ جاسکتی ہے.آج میں جماعت سے ایک ایسے امر کے متعلق کچھ کہنا چاہتا ہوں جس کی طرف باہر سے آئے ہوئے ایک نوجوان نے مجھے توجہ دلائی ہے.وہ نو جوان باہر سے تعلیم حاصل کرنے کے لئے ربوہ آئے ہوئے ہیں.انہوں نے مجھے ایک رقعہ لکھا ہے کہ مسجد میں لوگ آتے ہیں تو ؟ ذکر اٹھی کی بجائے ادھر اُدھر کی باتیں کرتے ہیں اور اس طرح وہ اپنا وقت بھی ضائع کرتے ہیں اور دوسرے لوگوں کے ذکر الہی کرنے میں بھی روک بنتے ہیں.پھر اس نوجوان نے یہ بھی لکھا ہے کہ بازاروں میں لوگ نہایت بے تکلفی کی باتیں کرتے ہیں ، ایک دوسرے پر اعتراض کرتے ہیں اور آپس میں لڑتے جھگڑتے ہیں.پہلے میں پہلی شکایت کو لیتا ہوں میں نے متعدد بار جماعت کو اس طرف توجہ دلائی ہے کہ مساجد ذکر الہی کے لئے ہوتی ہیں اور انہیں اسی غرض کے لئے استعمال کرنا چاہیے.لیکن جب ہم اسلام کا اور خصوصاً قرونِ اولیٰ کا گہرا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ اسلام نے ی مساجد کو صرف ذکر الہی کی جگہ ہی نہیں بنایا بلکہ بعض دنیوی امور کے تصفیہ کا مقام بھی بنایا ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مجالس میں ہم دیکھتے ہیں کہ لڑائیوں کے فیصلے بھی مساجد میں ہوتے تھے ، قضا ئیں بھی وہیں ہوتی تھیں، تعلیم بھی وہیں ہوتی تھی.جس سے معلوم ہوتا ہے کہ مساجد صرف اللہ اللہ کرنے کے لئے ہی نہیں بلکہ بعض دوسرے کام بھی جو قومی ضرورت کے ہوتے ہیں کہ مساجد میں کئے جاسکتے ہیں.ہاں مساجد میں خالص ذاتی کاموں کے متعلق باتیں کرنا منع ہے.مثلاً رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے اگر کسی کی کوئی چیز گم ہو جائے تو وہ اُس گمشدہ چیز کے متعلق مسجد میں اعلان نہ کرے اگر وہ اس گمشدہ چیز کے متعلق اعلان کرے تو خدا تعالیٰ اس میں برکت نہ ڈالے 1.پس ایک طرف تو مساجد میں جنگی مجلسیں منعقد ہوتی ہیں، تعلیم دی جی جاتی ہے، قضا ئیں ہوتی ہیں لیکن دوسری طرف گمشدہ چیز کے متعلق اعلان کرنا مسجد میں منع کیا گیا تو ہے.اس کے معنی یہ ہیں کہ مسجد میں جو کام ہوں وہ قومی ہوں ذاتی نہیں.گویا مسجد اجتماعی جگہ ہے اور وہاں ایسے کام ہو سکتے ہیں جو اجتماعی اور قومی ہوں.لیکن شرط یہ ہے کہ جو کام وہاں ہوں وہ قومی کی فائدہ کے بھی ہوں اور نیکی کے بھی ہوں.جو کام نیک ہے اور قومی فائدہ کا ہے اُسے ذکر الہی کا
1952 256 خطبات محمود قائمقام قرار دیا گیا ہے.اس کی تصدیق رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس قول سے بھی ہو جاتی ہے کہ آپ فرماتے ہیں جو شخص وضو کر کے مسجد میں آئے اور وہاں امام کے انتظار میں بیٹھے خدا کے نزدیک وہ ایسا ہی ہے کہ گویا وہ نماز پڑھ رہا ہے 2.اِس قول سے معلوم ہوتا ہے کہ کسی قومی کام کے لئے انتظار میں بیٹھنا نماز کا قائم مقام ہوگا.پس مساجد خالی سُبْحَانَ اللهِ سُبْحَانَ اللهِ کرنے کے لئے نہیں بلکہ ان میں قومی کام بھی کئے جا سکتے ہیں.بشرطیکہ وہ کام امن صلح اور نیکی کے ہوں.مثلاً اگر لوگ مسجد میں سیاسی کی جلسے کریں اور قانون شکنی کریں اور یہ کہہ دیں کہ مسجد خدا تعالیٰ کا گھر ہے ہمیں حکومت مسجد میں قانون شکنی کی وجہ سے نہ پکڑے تو اُن کا ایسا کہنا غلط ہو گا.مساجد قانون شکنی اور ناجائز کاموں کی کے لئے نہیں بلکہ مساجد جائز قومی اجتماعوں کے لئے بنائی گئی ہیں.گویا مساجد میں ہر وہ کام جو اجتماعی حیثیت رکھتا ہو کیا جا سکتا ہے.مگر وہ کام جو قانون کے مطابق ہو، صلح کی غرض سے ہو ، قیامِ امن کی غرض سے ہو.خدا تعالیٰ نے مساجد کو حکومت کے خلاف فساد کی جگہ بنانا ناجائز قرار دیا ہے اور نہ صرف ناجائز قرار دیا ہے بلکہ اس قسم کی مساجد کو گرا دینے کا حکم دیا ہے.پس ایک تو میں پھر اپنے اس مضمون کی طرف جماعت کو توجہ دلاتا ہوں کہ دوست مساجد میں زیادہ سے زیادہ ذکر الہی کریں.لیکن میں ذکر الہی کو محدود نہیں کرتا.مساجد میں قومی اور اجتماعی کام بھی کئے جا سکتے ہیں.مثلاً مساجد ہی ہیں جن میں یہ پتا لگ سکتا ہے کہ کون با ہر سے آیا ہے.فرض کرو کوئی احمدی گوجرانوالہ، لائل پور، یا ملتان سے یہاں آتا ہے وہاں چونکہ آج کل شورش ہو رہی ہے اس لئے قدرتا ہر ایک احمدی کو یہ شوق ہوگا کہ اُسے پتا لگے کہ وہاں جماعت کا کی کیا حال ہے اور اس کی حفاظت کے لئے گورنمنٹ کیا کر رہی ہے.اب اگر وہ مسجد میں اس کی احمدی سے یہ باتیں نہیں پوچھتا تو اُس کا اجتماعی علم نا مکمل رہ جاتا ہے.اگر چہ بظاہر یہی سمجھاتی جائے گا کہ وہ اس سے دنیوی باتیں پوچھ رہا ہے لیکن حقیقت میں وہ دنیوی باتیں نہیں.اگر وہ چی اس قسم کی باتیں پوچھتا ہے تو وہ اجتماعی اور قومی حالت سے واقفیت حاصل کرتا ہے اور یہ ذکر الہی کی ہے.بظا ہر تو یہ ہو گا کہ اُس کے لڑکے کو کسی نے طمانچہ مارا ہے یا فلاں لڑکے کو سکول سے نکال دیا گیا ہے.یا مثلاً فلاں استانی کو سکول سے ہٹا دیا گیا ہے یا کنویں سے پانی بھرنے سے احمدیوں کو روک دیا گیا ہے.لیکن یہ سب باتیں دینی ہوں گی اور ذکر الہی کہلائیں گی.پس ایسے اہم امور کی
1952 257 خطبات محمود کے متعلق مساجد میں باتیں کرنا جائز ہے اور دین کا ایک حصہ ہے.لیکن اگر کوئی اس قسم کی باتیں کرے کہ تم فلاں جگہ سودا لینے گئے تھے وہاں چاول کا کیا بھاؤ ہے.میں بھی چاول لینے وہاں کی جاؤں گا.یا آج کل قربانی کے بکرے کا کیا بھاؤ ہے؟ تو یہ قومی بات نہیں.اس لئے مسجد میں ایسی ہی بات کرنا نا جائز ہے إِلَّا مَا شَاءَ الله - کسی خاص حالت میں اگر وہ یہ پوچھتا ہے کہ فلاں جگہ سے تم نے چاول خریدے ہیں کیا وہاں چاول کستے ہیں تا میں بھی چاول وہیں سے لاؤں؟ تو یہ ناجائز بات ہے.لیکن اگر کسی علاقہ میں قحط کی صورت ہے اور وہ یہ پوچھتا ہے کہ فلاں جگہ غذائی حالت کیسی ہے چاول کا کیا بھاؤ ہے؟ دال کا کیا بھاؤ ہے؟ گیہوں کا کیا بھاؤ ہے؟ تو یہ باتیں جائز ہونگی کیونکہ ان کا قوم اور ملک سے تعلق ہے اور ان باتوں کے لئے ہی مساجد بنی ہیں.پس یہ فرق یا درکھو کہ مساجد اصل میں ذکر الہی کے لئے بنی ہیں لیکن ذکر الہی کا قائم مقام وہ کام بھی ہیں جو قومی فائدہ کے ہوں.خواہ وہ کھانے پینے کے متعلق ہوں یا قضاء کے متعلق ہوں، جھگڑے فسادات کے متعلق ہوں تعلیم کے متعلق ہوں یا کسی اور رنگ میں مسلمان قوم کی ترقی اور تنزل کے ساتھ تعلق رکھتے ہوں.ان کاموں کے متعلق مساجد میں باتیں کی جاسکتی ہیں.خواہ بظاہر یہ باتیں دنیوی معلوم ہوتی ہیں لیکن دراصل یہ قوم سے تعلق رکھتی ہیں اور دین ان سے ہی بنتا ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم مساجد میں اس قسم کی باتیں کیا کرتے تھے، بخشیں کیا کرتے تھے اور اس قسم کے دوسرے معاملات طے کیا کرتے تھے.پس مساجد میں اس قسم کے کام جائز ہیں کہ اس لئے کہ خدا تعالیٰ نے ان امور کو دین کا جزو بنایا ہے.ہمارے دین میں ذکر الہی اس کا نام نہیں کہ انسان اللہ اللہ کرتا رہے بلکہ اگر کوئی بیوہ کی خدمت کرتا ہے تو وہ بھی دین ہے، اگر کوئی یتیم کی پرورش کرتا ہے تو وہ بھی دین ہے ، اگر کوئی شخص قوم کی خدمت کرتا ہے تو وہ بھی دین ہے، اگر کوئی شخص جھگڑوں کو دور کرتا ہے، مقدمے طے کرتا ہے صلح کرا تا ہے تو یہ بھی دین ہے.پس تمام وہ قومی کام جن سے قوم کو فائدہ پہنچے ، وہ قوم کے اخلاق اور اُس کی دنیوی حالت کو اونچا کریں ذکر الہی میں شامل ہیں اور ان کا مساجد میں کرنا جائز ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس قسم کے کام مساجد میں ہی کیا کرتے تھے.مثلاً اگر کوئی مہمان آجاتا تو آپ صحابہ کو مخاطب کر کے فرماتے فلاں مہمان آیا ہے تم میں سے کون اسے ساتھ لے جائے گا ؟ تو ایک صحابی اٹھتا اور عرض کرتا اسے میں ساتھ لے جاتا ہوں.یا زیادہ مہمان آتے تو کوئی کہتا میں ایک لے جاتا
1952 258 خطبات محمود ہوں ، میں دولے جاتا ہوں، میں چار لے جاتا ہوں بظاہر یہ روٹی کا سوال تھا لیکن یہ دین تھا.اس لئے کہ اس سے ایک دینی ضرورت پوری ہوتی تھی.در حقیقت لوگوں نے دین کو محدود کر دیا ہے اور اس کے معنی اس قدر کمزور کر دیئے ہیں کہ کوئی چیز دین میں باقی نہیں رہی.ورنہ دنیا کی سب چیزوں کو خدا تعالیٰ نے پیدا کیا ہے اور ان سب چیزوں سے تعلق پیدا کرنا دین ہے.خدا تعالی براہ راست کسی کو نہیں ملتا بلکہ خدا تعالیٰ یتیم کی پرورش کرنے سے ملتا ہے، بیوہ کی خدمت کرنے سے ملتا ہے ، کا فر کو تبلیغ کرنے سے ملتا ہے، ج مومن کو مصیبت سے نجات دلانے سے ملتا ہے.یہ چیزیں خدا تعالیٰ کے ملنے کے ذرائع ہیں.یہ نہیں کہ خدا تعالیٰ نیچے اُتر آتا ہے.اس میں کوئی شک نہیں کہ روحانی بینائی اور معرفت کے مطابق انسان پر ایسی حالت آتی ہے کہ وہ محسوس کرتا ہے کہ خدا تعالیٰ آ گیا ہے لیکن اس کا ذریعہ بیوہ کی خدمت کرنا ہوتا ہے، یتیم کی تھی پرورش کرنا ہوتا ہے یا دوسرے قومی کام کرنا ہوتا ہے اور یہی دین ہے.اگر تم مساجد میں ذاتی باتیں کرتے ہو مثلاً کہتے ہو تمہاری بیٹی کی شادی کے متعلق کیا بات ہے یا میری ترقی کا جھگڑا ہے افسر مانتے نہیں میں کوشش کر رہا ہوں تو یہ باتیں کرنا مسجد میں جائز نہیں.سوائے امام کے کہ اُس کے ذمہ قوم کی خدمت ہے اور نہ صرف ان باتوں کا کرنا مسجد میں جائز نہیں بلکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بد دعا بھی ہے کہ خدا تعالیٰ اُس کام میں برکت نہ دے.اب اگر کسی شخص کو شوق ہے کہ وہ کی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بددعا لے تو میں ایسے دلیر شخص کو کچھ نہیں کہہ سکتا.لیکن اگر کسی کو یہ شوق ہے کہ وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دعائیں لے تو وہ مسجد سے نکل کر ایسی باتیں کرے.پس مساجد کے اندر ذکر الہی کرو لیکن ذکر الہی کے وہ تنگ معنی نہیں جو ملاں ملنٹے کرتے ہیں.ذکر الہی اُن تمام باتوں پر مشتمل ہے جو انسان کی مسلی ، سیاسی علمی اور قومی برتری اور ترقی کے لئے ہوں.لیکن تمام وہ باتیں جو لڑائی ، دنگا یا قانون شکنی کے ساتھ تعلق رکھتی ہوں کی خواہ اُن کا نام ملی رکھ لو ، سیاسی رکھ لو ، قومی یا دینی رکھ لو مساجد میں اُن کا کرنا نا جائز ہے.دوسری بات جس کے متعلق اس نوجوان نے مجھے تحریر کیا ہے وہ یہ ہے کہ بازاروں میں لوگ بے تکلف مجالس کرتے ہیں اور لڑتے جھگڑتے ہیں.اس معاملہ میں سوائے دوسرے لوگوں کی باتیں سننے کے میں کچھ نہیں کہ سکتا کیونکہ میں بازار میں نہیں جاتا.لیکن اگر کوئی شخص بازار میں
1952 259 خطبات محمود بے تکلف مجالس کرتا ہے یا لڑتا جھگڑتا ہے تو میرا فرض ہے کہ میں جماعت کے دوستوں کو اس کی طرف توجہ دلاؤں کہ وہ اس قسم کی حرکات سے بچے رہیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے متعلق آتا ہے کہ آپ بازار میں بیٹھنا یا باتیں کرنا پسند نہیں فرماتے تھے.لیکن آج کل ہم دیکھتے ہیں کہ لوگ ان باتوں کو معیوب خیال نہیں کرتے اور نہ صرف معیوب خیال نہیں کرتے بلکہ ان باتوں کو فیشن ایبل خیال کیا جاتا ہے.بجائے اس کے کہ لوگ اپنے دوستوں کو اپنے گھروں پر بلائیں وہ مناسب سمجھتے ہیں کہ بازاروں میں کسی چبوترے پر بیٹھ کر مجلس کریں.وہ آپس میں بے تکلفی سے مذاق کرتے ہیں نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ بعض لوگ اس کے اہل نہیں ہوتے اور وہ اس مذاق پر لڑائی جھگڑے پر اتر آتے ہیں.یہ نا پسندیدہ امر ہے اس سے اجتناب کرنا چاہیے.دوستوں کو چاہیے کہ وہ اس قسم کی مجالس اپنے گھروں پر کیا کی کریں.اپنے گھروں پر اپنے دوستوں کو بلا ؤ اور بے شک اُن سے بے تکلفانہ باتیں کرو.اسلام یہ نہیں کہتا کہ تم سوشل نہ بنو، اسلام یہ نہیں کہتا کہ تم ہر وقت چڑ چڑا پن اختیار کئے رکھو.اسلام مذاق کی اجازت بھی دیتا ہے، اسلام سوشل بنے کو پسند کرتا ہے.مثلاً اسلام کہتا ہے کہ یہ بھی صدقہ ہے کہ تمہیں کوئی دوست ملے تو وہ تمہارے چہرے پر بشاشت دیکھے 4.اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام میں سوشل بننا منع نہیں.لیکن ہر چیز کا موقع اور محل ہوتا ہے.شریعت بھی کہتی ہے کہ دینی اور قومی کام مسجد میں کرو.باقی ذاتی کام گھر میں کیا کرو.بازاروں میں بیٹھ کر ایسی مجالس کر نامنع ہیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کسی صحابی نے کھانے پر بلایا.بعض صحابہ بھی مدعو تھے جن میں حضرت علیؓ بھی شامل تھے.آپ کی عمر نسبتاً چھوٹی تھی اس لئے بعض صحابہ کو آپ سے مذاق کی سوجھی.وہ کھجور میں کھاتے جاتے تھے اور گٹھلیاں حضرت علی کے سامنے رکھتے جاتے تھے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی اسی طرح کر رہے تھے.حضرت علیؓ جوان تھے کھانے میں مصروف رہے اور اس طرف نہیں دیکھا.جب دیکھا تو گٹھلیوں کا ڈھیر آپ کے سامنے لگا ہوا تی و تھا.صحابہ نے مذاقاً حضرت علی سے کہا تم نے ساری کھجوریں کھالی ہیں !! یہ دیکھو! ساری گٹھلیاں کجی تمہارے آگے پڑی ہیں.حضرت علیؓ کی طبیعت میں بھی مذاق تھا چڑ چڑا پن نہیں تھا.چڑ چڑا پن کی ہوتا تو آپ صحابہ سے لڑ پڑتے اور کہتے کہ آپ مجھ پر یہ الزام لگاتے ہیں یا مجھ پر بدظنی کرتے ہی
1952 260 خطبات محمود ہیں.حضرت علی سمجھ گئے کہ یہ مذاق ہے جو ان سے کیا گیا ہے.اب میری خوبی یہ ہے کہ میں بھی کی اس کا جواب مذاق میں دوں.آپ نے فرمایا، آپ سب گٹھلیاں بھی کھا گئے ہیں لیکن میں گٹھلیاں رکھتا رہا ہوں.اور ثبوت اس کا یہ ہے کہ کٹھلیوں کا ڈھیر میرے سامنے پڑا ہے.صحابہ پر یہ مذاق اُلٹ پڑا.پس اس قسم کی باتیں اپنی مجالس میں کی جاسکتی ہیں.خوش طبعی سے اسلام روکتا نہیں.لیکن اگر ایسی باتیں بازاروں میں کی جائیں تو کئی لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جن کے اخلاق بلند نہیں ہوتے ، وہ مذاق بگاڑ کر کریں گے اور اگلا آدمی اور بگاڑے گا.یعنی یہ مذاق کی بڑھتا جائے گا اور لڑائی جھگڑے پر منتج ہو گا.اس لئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کی کہ تم ایسی مجالس بازاروں میں نہ کیا کرو.کیونکہ تم یہ نہیں سمجھ سکتے کہ کون سا شخص اس قابل ہے کہ تم اُس سے مذاق کرو.اور کون سا شخص تمہارے مذاق کو سمجھے گا نہیں.بعض دفعہ انسان کسی شخص سے ایسا مذاق کر لیتا ہے جو جائز ہوتا ہے لیکن اس کا نتیجہ صحیح نہیں نکلتا سننے والے اس سے اور نتیجہ نکال لیتے ہیں.انشاء اللہ خاں انشاء ایک مشہور شاعر گزرے ہیں.بادشاہ اُن سے دوستانہ رنگ میں سلوک کی کرتا تھا.دربار میں مذاق کی بات ہوتی تو دوسرے لوگ اپنی طبیعت کو قابو میں رکھتے تھے لیکن ج ނ انشاء اللہ خاں انشاء اپنی طبیعت کو قابو میں نہیں رکھ سکتے تھے.اس کا نتیجہ یہ تھا کہ وہ جلدی مذاق کا جواب دینے کی کوشش کرتے تھے اور یہ خیال نہیں کرتے تھے کہ جواب مناسب حال ہو اور مناسب الفاظ استعمال کئے جائیں.اتفاق سے بادشاہ لونڈی زادہ تھا.درباروں میں لوگ بادشاہوں کی خوشامدیں کرتے ہی ہیں.کسی شخص نے کہا فلاں شخص نجیب ہے.اس پر کسی درباری نے کہا ہمارے بادشاہ کیا کم نجیب ہیں؟ انشاء اللہ خاں انشاء کو یہ عادت تھی کہ وہ چھلانگ مار کر کے آگے نکل جانا چاہتے تھے.انہوں نے کہا ہمارے بادشاہ سب سے زیادہ شریف ہیں اور اس کے لئے عربی کا لفظ انجب“ استعمال کیا جو نجیب‘ کا اسم تفضیل ہے اور اس کے عام معنی ”سب سے بڑے شریف کے ہیں.اور انشاء اللہ خاں انشاء نے اِن معنوں کے لحاظ سے ہی بادشاہ کو کی انجب“ کہا تھا لیکن بدقسمتی سے بادشاہ لونڈی زادہ تھا اور اس لفظ کے دوسرے معنی لونڈی زادے کے بھی ہیں.عربی میں یہ لفظ لونڈی زادے کے لئے بطور طنز استعمال کیا جاتا ہے.عرب میں لونڈی زادے کو شریف خیال نہیں کیا جاتا تھا اس لئے طنز ا ا اسے اَنْجَبْ “ کہا جاتا تھا.
1952 261 خطبات محمود بعض دفعہ بات کر لی جاتی ہے اور سننے والے کا ذہن اس طرف نہیں جاتا اس لئے اس کا بُرا اثر کی نہیں پڑتا.لیکن اُس وقت درباروں میں علماء کی کثرت ہوتی تھی.اُن سب کا ذہن اسی طرف گیا کہ انجب “ کے معنی لونڈی زادے کے ہیں اس لئے اس شخص نے بجائے تعریف کے بادشاہ کی مذمت کی ہے.انشاء اللہ خاں انشاء کی زبان سے انجب “ کا لفظ سن کر مجلس پر سناٹا چھا گیا.اگر بات جاری رہتی تو کوئی بات نہیں تھی لیکن اس خاموشی نے اس بات کو واضح کر دیا کہ انجب “ کے دوسرے معنی جو لونڈی زادے کے ہیں وہی استعمال کئے گئے ہیں.بادشاہ بھی سمجھ گیا کہ مجھے بھرے دربار میں لونڈی زادہ کہہ کر میری ہتک کی گئی ہے.چنانچہ اُس کے بعد اس کی نے انشاء اللہ خان انشاء کو گرا نا شروع کیا اور آخر رفتہ رفتہ اسے بالکل تباہ کر دیا.تو بعض طبائع مذاق میں ایک حد تک رُک جاتی ہیں آگے نہیں جاتیں.لیکن بعض طبائع آگے نکل جاتی ہیں.اگر اس قسم کی باتیں برسر عام کی جائیں تو بعض لوگ حد سے گزر جاتے ہیں کیونکہ انہیں اپنی طبیعت پر قابو نہیں ہوتا.وہ آگے بڑھ جاتے ہیں اور اس کے نتیجہ میں وہی مذاق جو شریعت کے لحاظ سے جائز تھا چھپتی اور تمسخر بن جاتا ہے اور دوسرے کے لئے ہتک کا موجب بن جاتا ہے.اس لئے شریعت نے بعض جائز چیزوں سے بھی روکا ہے.مثلاً ہر مسلمان جانتا ہے کہ بیوی سے پیار کرنا جائز ہے لیکن کیا شریعت نے اس بات کی اجازت دی ہے کہ بیوی.برسر عام پیار کیا جائے؟ ہر گز نہیں.قرآن کریم کہتا ہے کہ جب تم میاں بیوی اکٹھے ہوتے ہو، جب تم دونوں بے تکلفی سے لیٹتے ہو اور کپڑے اُتار دیتے ہو تو تمہارا اپنا بچہ بھی اُس کمرہ میں بے.داخل نہ ہو 5 حالانکہ ہر شخص جانتا ہے کہ یہ بات جائز ہے لیکن اسلام نے اس کے ظاہر کرنے سے منع کیا ہے.اس لئے کہ بچہ میں یہ تمیز نہیں ہوتی کہ فلاں بات جائز ہے یا نا جائز.وہ جب اپنے والدین کو آپس میں پیار کرتے دیکھے گا تو وہ حد سے گزر جائے گا جو جائز نہیں ہوگا.پرائیویٹ مجالس میں ایک دوست دوست سے مذاق کرتا ہی ہے اور ایسی مجالس منعقد ہی اس لئے کی جاتی ہیں کہ خوش طبعی کا سامان ہو لیکن اگر یہی مجالس بازاروں میں کی جائیں تو لازمی امر ہے کہ اسے بعض اس قسم کے لوگ بھی دیکھیں گے جو اس کے اہل نہیں ہوں گے کہ وہ سمجھ سکیں کہ مذاق اور خوش طبعی کی حد کیا ہے.وہ آپ کو دیکھ کر ایسے مذاق کرنے لگ جائیں گے جو نا جائز ہوں گے.مثلاً ایک بچہ اگر اپنے ماں باپ کو آپس میں پیار کرتا دیکھ لے گا تو وہ اُسے ایک عام چیز خیال کرے گا اور
1952 262 خطبات محمود ہوسکتا ہے کہ وہ باہر نکل کر کسی لڑکی کو پکڑلے اور اُسے پیار کرنے لگ جائے.اور کہے ایسا کرنا تج جائز ہے میں نے باپ کو ماں سے پیار کرتے دیکھا ہے.وہ یہ خیال نہیں کرے گا کہ میاں بیوی کو کچ آپس میں پیار کرنے کا حق ہے دوسروں کو نہیں.اس طرح وہ حد سے گزر جائے گا.چونکہ اس قسم کی مجالس سے بہت سی خراب باتیں پیدا ہونے کا اندیشہ ہے اس لئے شریعت نے اس قسم کی مجالس کو بازاروں یا عام جگہوں پر منعقد کرنے سے منع کیا ہے.جیسے کہا اگر تم اپنی بیوی سے بے تکلفانہ لیٹے ہوئے ہو تو اُس کمرے میں تمہارا اپنا بچہ بھی داخل نہ ہو.پس اگر تم نے ایسی مجالس کرنی ہوں تو اپنے گھروں پر کیا کرو اور شریعت کے قوانین کی کی پابندی کی عادت ڈالو.تم بازار سے سودا خرید نے بے شک جاؤ ، ریسٹورانٹ اور ہوٹلوں میں کی بے شک چائے پیو اور کھانا کھاؤ.اسلام نے ایسے مشاغل سے روکا نہیں.لیکن شریعت نے جن کی باتوں کو پرائیوٹ مجالس میں کرنے کے لئے کہا ہے انہیں عام نہ کرو کیونکہ ہوسکتا ہے کہ وہ چیز کسی کی سمجھ میں نہ آئے اور وہ اُسے دیکھ کر حد سے گزر جائے یا دیکھنے والا عقلمند نہیں تو وہ اُس سے بُرائی نتیجہ اخذ کر لے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس بارہ میں بہت احتیاط فرمایا کرتے تھے.ایک دفعہ آپ اپنی کسی بیوی کے ساتھ باہر تشریف لے جا رہے تھے.رات کا وقت تھا کہ آپ نے کی دو آدمیوں کو گزرتے دیکھا.آپ نے اُن سے فرما یا ٹھہر جاؤ.جب وہ ٹھہر گئے تو آپ نے فرمایا یہ میری بیوی ہے.انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! کون بد بخت ہو گا جو آپ پر بدظنی کر سکے.آپ نے فرمایا پھر بھی میں تمہیں بتا دینا چاہتا ہوں کہ یہ میری بیوی ہے.چنانچہ آپ نے پردہ اٹھا کر فرمایا دیکھو! میری فلاں بیوی ہے 6.پھر دودھ کے رشتے ہیں.ان کے متعلق وہی حکم ہے جو خونی رشتوں کے متعلق ہوتا ہے.ہمارے گھروں میں بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ بعض لڑکیاں جو دودھ کے ساتھ محرم ہوتی ہیں آتی ہیں اور مجھ سے مصافحہ کرتی ہیں.اگر اُس وقت دوسری عورتیں موجود ہوں تو اُس وقت بتانا پڑتا ہے کہ یہ لڑکی ہماری دودھ کی بیٹی ہے.اگر یہ نہ بتایا جائے کہ یہ دودھ کی رشتہ دار ہے تو دیکھنے والے کا ذہن فوراً اس طرف جائے گا کہ غیر محرم عورتوں سے مصافحہ جائز ہے.غرض ان باتوں سے غلط فہمیاں پیدا ہو سکتی ہیں اور ان کے بارہ میں احتیاط سے کام لینا چاہیے.میں اس بات کا قائل نہیں اور نہ اسلام اس کا حکم دیتا ہے کہ انسان رونی شکل بنالے
1952 263 خطبات محمود اسلام ہنسی مذاق کی اجازت دیتا ہے.مگر اس طرح کہ دوسرے لوگوں کو دھوکا نہ ہو.عام مجالس کی میں ایسا کرنا مناسب نہیں.پھر گالی گلوچ پر اُتر آنا اور لڑائی دنگا کرنا تو بہت نا مناسب ہے.فرض کرو تم نے ایک ہی دن لڑائی جھگڑا کیا اور اُسی دن بعض لوگ تحقیقات کے لئے یہاں آئے کی ہوئے تھے.تو تم نے بے شک ایک ہی دن لڑائی دنگا کیا لیکن وہ لوگ تو پہلی دفعہ آئے تھے وہ آپ کو دیکھ کر یہی نتیجہ اخذ کریں گے کہ یہاں لوگ گند بولتے اور لڑتے جھگڑتے ہیں.پھر فرض کرو کہ تم نے گالی دی یا کسی کے متعلق سخت الفاظ کا استعمال کیا اور بعد میں اِسْتِغْفَار کیا.لیکن تمہارا اِسْتِغْفَار کرنا اُنہوں نے تو نہیں سُنا.پس ان چیزوں میں احتیاط اور پر ہیز ہونا چاہیے.“ الفضل 11 / دسمبر 1952ء) 1 مسلم كتاب المساجد باب النَّهْيُ عَنْ نَشْدِ الضَّالَّةِ (الخ) 2 بخاری کتاب الاذان باب فَضْل صلوة الجَمَاعَة 3:3 صحیح مسلم کتاب اللباس والزينة باب النهي عن الجلوس في الطرقات و اعطاء الطريق حقه 4 ترمذی ابواب البر والصلة باب ما جاء فى صنائع المعروف میں تبسمک فی وجه اخیک لک صدقۃ“ کے الفاظ ہیں.:5: يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لِيَسْتَأْذِنْكُمُ الَّذِينَ مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ وَالَّذِيْنَ لَمْ يَبْلُغُوا الْحُلُمَ مِنْكُمُ ثَلَثَ مَرَّتٍ مِنْ قَبْلِ صَلوةِ الْفَجْرِ وَحِينَ تَضَعُوْنَ ثِيَابَكُمْ مِنَ الظَّهِيرَةِ وَمِنْ بَعْدِ صَلوةِ الْعِشَاءِ وَإِذَا بَلَغَ الْأَطْفَالُ مِنْكُمُ الْحُلُمَ فَلْيَسْتَأْذِنُوا كَمَا اسْتَأْذَنَ الَّذِيْنَ مِنْ (60.59:1) قبلهم (النور: 59، 60 ) صحیح بخارى كتاب الاعتكاف باب زيارة المرأة زوجها في اعتكافه -
1952 264 (30) خطبات محمود اگر تم دوسروں پر قرآن کریم کی حکومت کو قائم کرنا چاہتے ہو تو اپنے پر بھی اس کی حکومت قائم کرو فرموده 5 ستمبر 1952ء بمقام ربوہ ) تشهد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: جیسا کہ احباب کو معلوم ہے کہ عرصہ سے میری طبیعت خراب چلی آ رہی ہے اس لئے میں کی روزانہ نمازوں میں نہیں آسکتا.إِلَّا مَا شَاءَ الله بعض نمازوں میں آجاتا ہوں.پھر اس بیماری کی وجہ سے ذہن پر بھی اثر ہے.میں کئی دفعہ اس تکلیف میں لوگوں کے نام بھول جاتا ہوں اور بسا اوقات دوسرے سے پوچھنا پڑتا ہے کہ فلاں کا کیا نام تھا.ربوہ سے کسی نے میرے پاس ایک شکایت کی ہے.اس کے متعلق آج میرا کچھ بیان کرنے کا ارادہ تھا.لیکن جو اصل بات تھی وہ تو بھول گئی ہے.اور ایک ضمنی بات یاد رہ گئی ہے.اور میں سمجھتا ہوں کہ چونکہ میری طبیعت خراب ہو گئی ہے اس لئے اگر وہ بات یاد بھی رہ جاتی تو میں اتنا لمبا بول نہیں سکتا تھا.اب جو بات یا درہ گئی ہے اُس کے متعلق کچھ بیان کروں گا.شکایت کرنے والے نے جو چٹھی میرے نام بھیجی ہے اُس کے نیچے اُس نے اپنا نام نہیں لکھا بلکہ اُسے چھپانے کی کوشش کی ہے.چنانچہ اس نے چٹھی کے نیچے لکھا ہے ”حمزادی“.میرے علم بس ہندوستان یا کسی اور ملک میں حمزادی کوئی نام نہیں.اسی طرح اگر اسے کسی جگہ کی طرف بھی منسوب کیا جائے تو میرے علم میں کسی ملک، شہر یا جگہ کا نام بھی ایسا نہیں جس کی طرف منسوب کر
1952 265 خطبات محمود کے یہ نام بن سکے.میں جس نتیجہ پر پہنچا ہوں وہ یہی ہے کہ لکھنے والے نے اپنا نام چھپایا ہے.پس سب سے پہلی یہی مشکل ہے جو اس نے میرے سامنے پیش کر دی.یہ کم سے کم اس نے جوا اپنا نام لکھا ہے اس سے میں نے یہی اثر قبول کیا ہے کہ اس نے اپنا نام چھپایا ہے.پس میرے لئے یہ امر مشکل ہو گیا ہے کہ میں اس شکایت کی تحقیقات کرسکوں.اور مشکل بھی ایسا کہ میرے لئے کوئی چارہ نہیں کہ یا تو میں اس کی بات کو رڈ کر دوں یا قرآن کریم کو ر ڈ کر دوں.اب سیدھی بات ہے کہ میں قرآن کریم کی بات کو رد نہیں کر سکتا.میں اسی کی بات ہی کو رڈ کروں گا.قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر تمہارے پاس کوئی شکایت پہنچتی ہے تو پہلے اس کی تحقیق کرو.اور تحقیق کرنے سے پہلے یہ بات دیکھنی پڑتی ہے کہ شکایت کرنے والا کیسا ہے ، وہ مومن ہے یا فاسق.اور اگر تمہیں معلوم ہو جائے کہ شکایت کرنے والے کا کیریکٹر مشتبہ ہے تو پھر تم اپنے طور پر اس خبر کی تحقیقات کرو اور تحقیقات کے بعد معلوم کرو کہ آیا جو کچھ وہ کہتا ہے وہ سچ ہے یا نہیں.یہ قرآنی تعلیم ہے.قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اِن جَاءَكُمْ فَاسِقٌ بِنَا فَتَبَيَّنُوا 1 - اگر تمہارے پاس کوئی فاسق شکایت لے کر آتا ہے اور وہ تمہارے سامنے کسی کے متعلق کوئی بُری بات کہتا ہے تو تم اس کی تحقیقات کرو پھر کوئی اور کارروائی کرو.اب اس شخص نے جو بات بتائی ہے بظا ہر نظر آتا ہے کہ وہ خود مجرم ہے.جب اللہ تعالیٰ کہتا ہے کہ کم سے کم اگر کوئی فاسق تمہارے پاس شکایت لے کر آتا ہے تو پہلے اُس کی تحقیق کر لو.تو اب اگر لکھنے والے نے اپنا نام ظاہر نہیں کیا تو ہمیں یہ پتا کیسے لگے گا کہ وہ فاسق ہے یا مومن.اس آیت میں ایک نکتہ یہ بھی ہے کہ تم دیکھ لو کہ آیا شکایت کرنے والا جو شیلا اور لڑا کا تو نہیں.آیا وہ معمولی سی بات کو بڑا تو نہیں بنالیتا وہ بات بات پر جوش میں تو نہیں آ جاتا ؟ فاسق کے معنی صرف بدکار کے ہی نہیں.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ عربی میں بدکارکو بھی فاسق کہہ لیتے ہیں.لیکن لغت کے لحاظ سے فاسق اُس شخص کو بھی کہتے ہیں جو تیز طبیعت ہو ، بات بات پرلڑ پڑتا ہو.فاسق عربی کا لفظ ہے اردو کا نہیں.اور عربی میں اسکے مفہوم میں چھوٹی چھوٹی باتیں بھی آ جاتی ہیں.فستق کبھی بدکاری کے معنوں میں بھی آتا ہے اور کبھی اس کے معنی عدم اطاعت کے بھی ہوتے ہیں.یہ لفظ وسیع المعانی ہے.جس طرح مکر“ کا لفظ قرآن کریم میں کافروں کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے اور خدا تعالیٰ کے لئے بھی استعمال ہوا ہے.اسی طرح فاسق کا لفظ
1952 266 خطبات محمود بھی کئی معنوں میں استعمال ہوتا ہے.فاسق کے معنی صرف بد کار کے ہی نہیں.فاسق کے معنی تیز مزاج کے بھی ہیں، فاسق کے معنی لڑا کے اور تعاون نہ کرنے والے کے بھی ہیں.فاسق کے معنی اُس شخص کے بھی ہیں جو لوگوں کے چھوٹے چھوٹے قصوروں کو لے کر بڑھا کر پیش کرتا ہے اور انہیں کمال تک لے جاتا ہے.اس کے نزدیک یہ باتیں معمولی نہیں ہوتیں بلکہ ان کا کرنے والا واجب القتل ہوتا ہے.پشاور کے ایک دوست تھے حافظ محمد اُن کا نام تھا.بڑے مخلص احمدی تھے.ان کی طبیعت میں یہ مرض تھا کہ وہ چھوٹی چھوٹی باتوں کو لے کر کفر سے ورے نہیں ٹھہرتے تھے.فرض کرو کوئی شخص تشہد میں اپنے دائیں پاؤں کی انگلیاں سیدھی نہیں رکھتا تو اُن کے نزدیک وہ کفر کی حد تک پہنچ جاتا تھا.میں نقرس کی وجہ سے کئی سال سے دائیں پاؤں کی انگلیاں تشہد کی حالت میں سیدھی نہیں رکھ سکتا.پہلے رکھا کرتا تھا اب اُن کا سیدھا رکھنا مشکل ہے.اگر حافظ محمد صاحب اب زندہ ہوتے تو غالبا کی شام تک وہ مجھ پر کفر کا فتویٰ لگا دیتے.اس لئے کہ یہ پاؤں کی انگلیاں سیدھی نہیں رکھتے اور ایسا کرنا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے خلاف ہے.پس معلوم ہوا اُن کا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان نہیں.اور اگر اُن کا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان نہیں تو اُن کا قرآن کریم پر بھی ایمان نہیں.اور اگر اُن کا قرآن کریم پر ایمان نہیں تو اُن کا خدا تعالیٰ پر بھی ایمان نہیں.ہم جب چھوٹی عمر کے تھے اُس وقت مسجد مبارک کے پاس ایک نالہ تھا.یہ نالہ دراصل ایک بڑی نالی تھی جس میں بسا اوقات گھٹنے گھٹنے تک گند بہتا تھا.اس نالہ پر ایک پھٹا ڈالا ہوا تھا جس کی پر سے لوگ گزرتے تھے.مجھے خوب یاد ہے کہ حافظ محمد صاحب ایک دن اُس پھٹا پر بیٹھے ہاتھ اٹھائے دعا مانگ رہے تھے کہ اے خدا! تیرے مسیح کے اردگر دسارے کفار اور فاسق جمع ہو گئے ہیں تو اپنے مسیح کی حفاظت فرما.صرف ڈیڑھ مومن ہیں پورا میں اور آدھے مولوی نورالدین، باقی سب لوگ فاسق اور کافر ہیں.حافظ محمد صاحب ، مولوی عبد الکریم صاحب کے تو شروع سے مخالف تھے کیونکہ وہ تیز مزاج تھے.ویسے حافظ صاحب نہایت مخلص اور قربانی کرنے والے احمدی تھے اور اپنی نیکی کی وجہ سے مشہور تھے.اُن دنوں اگر کوئی ہندوستانی پولیٹیکل ایجنٹ کے عہدے پر پہنچ جاتا تھا تو یہ ایک بہت بڑی ترقی سمجھی جاتی تھی.حافظ محمد صاحب بڑے بڑے افسروں اور پولٹیکل ایجنٹ کے مکان پر رات کو چلے جاتے تھے اور کہتے تھے میں نے خیال کیا کہ
1952 267 خطبات محمود پتانہیں میں نے رات کو مر جانا ہے یا زندہ رہنا ہے اس لئے میں آپ کو خدا تعالی کی تعلیم کی طرف توجہ دلا دوں.وہ سب لوگ ان کی طبیعت سے واقف تھے اس لئے اکثر جھوٹ بول دیتے تھے کہ کی اس وقت طبیعت خراب ہے یا ضروری کام ہے آپ کل صبح تشریف لائیں.پس قرآن کریم کی تی تعلیم کے ماتحت سب سے پہلے شکایت کرنے والے کا پتا کرنا پڑتا ہے کہ وہ کس قسم کا آدمی ہے.کیونکہ خلیفہ کے پاس اتنا وقت نہیں ہوتا کہ وہ ہر شکایت کرنے والے کی شکایت سنے اور اس کی تحقیقات کرتا پھرے.شکایت کرنے والے کا درجہ معلوم ہونا چاہیے کہ آیا وہ ایسا آدمی تو نہیں جو روزانہ دوسروں پر بدظنی کرتا ہے اور ہم اُس کی باتوں پر اعتبار نہیں کر سکتے.ربوہ میں اس قسم کے پچاس ساٹھ آدمی ہوں گے.اگر ان سب کی شکایات کی روزانہ تحقیق کی جائے تو ان کے لئے پچاس خلیفے ہونے چاہئیں تا وہ روزانہ لکھتے رہیں کہ فلاں فلاں میں یہ یہ خرابی ہے، فلاں میں یہ بحبث ہے، فلاں نے یہ کام کیا ہے اور وہ اس کی تحقیقات کرتے رہیں.اگر اس قسم کے پچاس آدمی ربوہ میں موجود ہیں تو پچاس ہی خلیفے چاہئیں.اور اگر بیرونی جماعتوں کو ملا کر جماعت میں ایک ہزار ایسے آدمی ہوں تو ایک ہزار خلیفے ہونے چاہئیں.کیونکہ ان لوگوں کی طبائع تیز ہوتی ہیں؟ اور ان کو کبھی بھی سکون اور اطمینان نصیب نہیں ہوتا.پس تحقیقات میں پہلی روک تو یہ ہے کہ لکھنے والے نے اپنا نام ظاہر نہیں کیا یا تو میری غلطی ہے کہ اس نے اصل نام لکھا ہے لیکن میں سمجھ نہیں سکا.اور اگر اُس نے اصل نام نہیں لکھا جیسا کہ میں نے خیال کیا ہے کیونکہ ہم نے اس قسم کا نام ابھی تک نہیں سُنا تو لکھنے والے کو معلوم ہونا چاہئے کہ اُس کا یہ فعل قرآن کریم کی تعلیم کے خلاف ہے.کیونکہ قرآن کریم کہتا ہے کہ پہلے شکان کرنے والے کی تحقیق کرو.خلیفہ اور امراء جماعت کو اور بہت سے اہم کام کرنے ہوتے ہیں اگر ہر جگہ سے اس قسم کی چٹھیاں آتی رہیں تو جماعت کا بیڑا غرق ہو جائے.لازما جو شخص خلیفہ ہوگا یا امیر ہو گا اُسے جماعت کے کام کرنے ہوں گے.اور بسا اوقات اُسے انفرادی کاموں کو نی چھوڑنا پڑے گا.اور جب افراد لاکھوں کی تعداد میں ہو جائیں تو پھر اُسے انتخاب کرنا ہوگا.اور یہ انتخاب دو طرح سے ہوگا.اول معاملہ اہم ہے اور اس کا ثبوت واضح ہے.یا وہ شخص اہم ہے اور اس کی بات رد نہیں کی جاسکتی.کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ وہ بڑا محتاط ہے، راستباز ہے مخلص ہے.اگر وہ کسی کی شکایت کرتا ہے تو لازماً اُس کی تحقیق کرنا ہوگی.اگر یقین ہو جائے کہ شکایت
1952 268 خطبات محمود کرنے والا غلطی نہیں کیا کرتا تو پھر اس معاملہ کی تحقیق کرنا ہوگی کیونکہ کوئی فرد یہ نہیں کہ سکتا کہ کی چونکہ میں یوں کہہ رہا ہوں اس لئے یوں ہی سمجھنا چاہیئے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک دفعہ نماز پڑھا رہے تھے کہ آپ سے کوئی غلطی ہو گئی.حضرت علی بھی مقتدیوں میں شامل تھے.آپ کی نے لقمہ دیا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم آپ پر ناراض ہوئے اور فرمایا کہ تمہیں کس نے کہا ہے کہ لقمہ دو.اس ناپسندیدگی کا ایک مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ تمہارے ذمہ اور بڑے بڑے کام ہیں ان چھوٹے کاموں کو اوروں کے لئے رہنے دو.اور یہ بھی کہ یہ کام اُن قاریوں کا ہے جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے قرآن سیکھتے تھے.تم یہ کام اُن کے لئے رہنے دو.پس یہ ہو سکتا ہے کہ اگر شکایت کرنے والا کوئی بڑا آدمی ہو تو میں اُسے کہوں کہ تم ان باتوں کو کسی اور کے لئے چھوڑ دو اور اپنے اصل کام کی طرف متوجہ رہو.پس پہلی چیز تو یہی ہے کہ لکھنے والے نے اپنا نام ظاہر نہیں کیا جس کی وجہ سے اُس کی حیثیت اور درجہ کا علم نہیں ہوسکتا.دوسری بات یہ ہے کہ اُس نے ناظر صاحب امور عامہ، اور ناظر صاحب دعوۃ و تبلیغ اور لجنہ اماءاللہ کے بعض عیوب بیان کئے ہیں اور پھر میرے پہریداروں کے بعض عیوب کو بیان کیا ہے.اور یہ کہا ہے کہ فلاں فلاں میں یہ عیب ہے.یعنی ایک طرف تو وہ ان لوگوں کی شکایت کر رہا ہے کہ وہ قرآن کریم اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم کے خلاف کام کرتے ہیں.کیونکہ اگر کوئی مسلمان قرآن کریم اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم کے خلاف کوئی حرکت نہیں کرتا تو وہ کوئی عیب نہیں کرتا اور دوسری طرف ایسی شکایت کے کرنے میں وہ خود قرآن کریم کے خلاف جاتا ہے کہ اُس نے شکایت اور اس کے ثبوت کی جو شرائط مقرر کی ہیں وہ خود اُن کو توڑ دیتا ہے.ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام حضرت اماں جان کو ساتھ لے کر اسٹیشن پر پھر رہے تھے.اُن دنوں پر دہ کا مفہوم بہت سخت لیا جاتا تھا.اسٹیشن پر ڈولیوں میں عورتیں آتی تھیں، پھر ڈبہ تک پردہ کا انتظام کیا جاتا تھا اور جب ڈبے میں بیٹھ جاتی تھیں تو کھڑکیاں بند کر دی جاتی ہے تھیں.یہ پردہ تکلیف دینے والا تھا اور اسلام کی تعلیم کے خلاف تھا اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اسلام کی تعلیم پر عمل کرتے تھے.حضرت اماں جان برقع پہن لیتی تھیں اور سیر کے لئے باہر چلی جاتی تھیں.اُس دن بھی حضرت اماں جان نے برقع پہنا ہوا تھا اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی
1952 269 خطبات محمود آپ کو ساتھ لیے پلیٹ فارم پر ٹہل رہے تھے.مولوی عبد الکریم صاحب کی طبیعت تیز تھی.آپ نے جب دیکھا تو کہا بڑا غضب ہو گیا ہے.کل کو اشتہارات اور ٹریکٹ نکل آئیں گے کہ مرزا صاحب پلیٹ فارم پر اپنی بیوی کو ساتھ لئے پھر رہے تھے.ان میں خود تو اتنی جرات نہیں تھی کہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام کو اس طرف توجہ دلاتے.حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل کے پاس گئے اور کہا مولوی صاحب! غضب ہو گیا کل اخباروں میں شور پڑ جائے گا ، اشتہارات اور نجی ٹریکٹ نکل آئیں گے کہ مرزا صاحب پلیٹ فارم پر اپنی بیوی کو ساتھ لے کر پھر رہے تھے.اور اگر ایسا ہوا تو بہت خرابی ہو گی.آپ خدا کے واسطے حضرت صاحب کو سمجھا ئیں.حضرت خلیفہ اسبح الاول نے فرمایا کہ آخر اس میں کون سی برائی ہے؟ گاڑی میں طبیعت گھبرا جاتی ہے.اگر حضرت صاحب اپنی بیوی کو ساتھ لے کر باہر ٹہل رہے ہیں تو اس میں کون سا حرج ہے؟ میری سمجھ میں تو یہ بات نہیں آتی.آپ کو اگر یہ بات بُری لگتی ہے تو خود جائیے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے یہ بات کہہ دیجئے میں تو نہیں جاؤں گا.مولوی عبد الکریم صاحب نے فرمایا بہت اچھا میں خود جاتا ہوں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام عملتے ٹہلتے بہت دور جا چکے تھے مولوی صاحب وہاں گئے.واپس آئے تو گردن جھکائی ہوئی تھی.حضرت خلیفہ امسیح الاوّل فرماتے ہیں کہ مجھے شوق پیدا ہوا کہ پوچھوں کیا جواب ملا ہے.چنانچہ میں نے دریافت کیا مولوی صاحب ! حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے کیا فرمایا ہے؟ مولوی صاحب نے کہا میں نے جب کہا ت حضور ! آپ کیا کر رہے ہیں؟ کل اخبارات شور مچادیں گے کہ مرزا صاحب اپنی بیوی کے ساتھ اسٹیشن پر پھر رہے تھے.تو آپ نے فرمایا کہ آخر وہ کیا کہیں گے؟ یہی کہیں گے نا کہ مرزا صاحب اپنی بیوی کو ساتھ لئے ہوئے پھر رہے تھے.مولوی صاحب شرمندہ ہو کر واپس آگئے.واقعی بات یہی تھی حضرت اماں جان نے پردہ کیا ہوا تھا اور پھر میاں بیوی کا اکٹھے پھر نا قابلِ اعتراض بھی تو نہیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی اپنی بیویوں کے ساتھ پھرتے تھے.ایک دفعہ لشکر کے سامنے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت عائشہ دوڑے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہار گئے اور حضرت عائشہ جیت گئیں.دوسری دفعہ پھر دوڑے تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جیت گئے اور حضرت عائشہ ہار گئیں کیونکہ حضرت عائشہ کا جسم کچھ موٹا ہو گیا تھا.اس پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم
1952 270 خطبات محمود نے فرمایايَا عَائِشَةَ تِلْكَ بِتِلْكَ عائشہ! اُس ہار کے بدلہ میں یہ ہار ہو گئی 2.غرض رسول کریم انجی صلی اللہ علیہ وسلم اپنی بیویوں کے ساتھ پھرنا معیوب خیال نہیں فرماتے تھے اور جس بات کی ج اجازت اسلام نے دی ہے اُس کو عیب نہیں کہا جاسکتا.پس اگر کوئی شخص کسی دوسرے پر اعتراض کرتا ہے تو اس کے یہ معنی ہیں کہ اس کے نزدیک و شخص اسلامی تعلیم پر عمل نہیں کرتا.لیکن شکایت کرنے والے نے اپنے خط میں لکھا ہے کہ فلاں چھوٹے درجہ کا ہے، فلاں کمینہ ہے.اور بعض الزامات ایسے لگائے ہیں جس کے متعلق شریعت کی نے گواہ طلب کئے ہیں اور گواہ بھی سنگی رؤیت کے طلب کئے ہیں.یعنی شریعت اس کے متعلق یہ کہتی ہے کہ نگی رؤیت کے چار گواہ ہوں.گو وہ شخص شکایت کرنے میں حق پر ہے ورنہ نہیں.لیکن عجب بات یہ ہے کہ دین کی غیرت ایسے شخص کو پیدا ہوئی ہے جو خود قرآن کریم کی تعلیم کے خلاف عمل کرتا ہے اور دوسروں پر ایسے الزامات لگاتا ہے جن سے قرآن کریم نے منع فرمایا ہے.اور نہ صرف منع فرمایا ہے بلکہ ان پر حد مقرر کی ہے کہ ایسا کہنے والے کو 80 کوڑے لگاؤ3.گویا شریعت نے اس بارہ میں جو اتنا شدید حکم دیا ہے وہ اُسے توڑتا ہے اور کہتا ہے کہ فلاں شخص قرآنی تعلیم کے خلاف چلتا ہے حالانکہ وہ خود قرآنی تعلیم کے خلاف چل رہا ہوتا ہے.اب دیکھو اس شکایت کی کرنے والے کی حیثیت کیا ہوئی؟ پہلے تو اُس نے اپنا نام ظاہر نہیں کیا.پھر جو ثبوت ضروری ہیں وہ پیش نہیں کئے.شریعت کے قواعد سے نہ تو میں آزاد ہوں نہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام آزاد ہیں اور نہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم آزاد ہیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم خود شریعت کے قواعد چلنے کے لئے مجبور تھے.پس اس شخص نے بعض ایسے اعتراضات کئے ہیں جن پر شریعت حد لگاتی ہے اور شریعت نے ان کے لئے گواہی کا جو طریق مقرر کیا ہے اس طریق پر چلنا ضروری ہے.لیکن وہ کہتا ہے کہ فلاں نے قرآن کریم کا فلاں حکم تو ڑا ہے اُسے سزاد و لیکن مجھے کچھ نہ کہو.مجھے بچپن کا ایک لطیفہ یاد ہے.اُس وقت میں نے اس سے بہت مزا اٹھایا تھا اور اب بھی وہ کچی مجھے یاد آتا ہے تو ہنسی آجاتی ہے.پانچویں یا چھٹی جماعت میں میں پڑھتا تھا.ہمارے اُستاد نے یہ طریق مقرر کیا ہوا تھا کہ اُن کے سوال کا جواب جو طالب علم وقت مقررہ میں دے دے وہ اوپر کے نمبر پر آجائے گا.ہم کھڑے تھے ، اُستاد نے سوال کیا ، ایک لڑکے نے اس کا جواب دیا.دوسرے نے ہاتھ بڑھا کر کہا ماسٹر جی ! یہ جواب غلط ہے.ماسٹر صاحب نے پہلے لڑکے سے کہا تم می
1952 271 خطبات محمود نیچے آ جاؤ اور دوسرے کو کہا تم اوپر چلے جاؤ.نیچے آتے ہی اُس لڑکے نے جو پہلے اوپر کے نمبر پر کی تھا کہا کہ مولوی صاحب ! اس نے میری غلطی نکالتے ہوۓ غَلَط لفظ کو غلط کہا ہے جو غلط ہے.اس اُستاد نے پھر اُسے سابق جگہ پر کھڑا کر دیا اور دوسرے لڑکے کو پھر نیچے گرا دیا.یہی حالت بعض معترضوں کی ہوتی ہے.وہ دوسرے پر غلط یا صحیح اعتراض کرتے ہیں لیکن اعتراض کا طریقہ مجرمانہ اختیار کرتے ہیں اور اس طرح اُس کو سزا دلاتے دلاتے خود سزا کے مستحق ہو جاتے ہیں.اور پھر شور مچاتے ہیں کہ مجرم کو کوئی نہیں پکڑتا جو توجہ دلاتا ہے اُسے سزا دیتے ہیں.حالانکہ سزا دینے والے کیا کریں وہ بھی تو شریعت کے غلام ہیں.اگر تم قرآن کریم کی حکومت کو قائم کرنا چاہتے ہو تو اپنے پر بھی خدا تعالیٰ کی حکومت کو قائم کرو.اگر تم یہ چاہتے ہو کہ دوسروں پر تو خدا تعالیٰ کی حکومت قائم ہو اور تم پر خدا تعالیٰ کی حکومت قائم نہ ہو تو یہ درست بات نہیں.میں شکایت کرنے والے سے کہتا ہوں.ایاز قدرے خود بشناس.تمہاری حیثیت ہی کی کیا ہے تم تو اپنا نام بھی چھپاتے ہو اور جب تم اپنا نام چھپاتے ہو تو دنیا تمہاری بات کیوں مانے.خدا تعالیٰ مالک ہے، وہ سب کا آقا ہے، سب کی پیدائش اور موت اُس کے اختیار میں ہے ، وہ تی سب کو رزق دیتا ہے ، سب پر اُس کا احسان ہے.اس کی بات تو مانی جائے گی تمہاری بات کیوں مانی جائے.تم اگر چاہتے ہو کہ دوسروں کو شریعت کے احکام کے مطابق سزا دی جائے تو تم اقرار کرتے ہو کہ تمہیں بھی شریعت کے احکام کے ماتحت سزادی جائے.پھر جب تم دوسروں پر الزام لگاتے ہو اور اس کا جائز اور شرعی ثبوت نہیں دیتے تو کیوں نہ تم کو سزا دی جائے.باقی اگر کوئی کہے کہ تم میری بات مان لو تو یہ درست بات نہیں.شریعت کے مطابق جو گواہ اور ثبوت ضروری ہیں وہ مہیا کرنے بہر حال ضروری ہیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک دفعہ دو جھگڑنے والے آئے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا خدا تعالیٰ نے مجھے کہا ہے کہ میں تم میں سے ایک فریق کو قسم دوں.اس پر الزام لگانے والے نے کہا اگر آپ نے قسم دی اور اس پر فیصلہ دے دیا تو یہ مقدمہ جیت گیا.یہ تو سو جھوٹی قسمیں بھی کھا سکتا ہے.اس پر آپ نے فرمایا جو خدا تعالیٰ نے کہا ہے میں مانوں گا تمہاری بات نہیں مانوں گا.اگر یہ جھوٹی قسم کھائے گا تو خدا تعالیٰ اسے خود سزا دے گا.پس بعض لوگ تیز طبع ہوتے ہیں، ان میں جوش ہوتا ہے.اس لئے وہ کہہ دیتے ہیں چونکہ
1952 272 خطبات محمود ہم نے یوں کہا ہے اس لئے یہ درست ہے.لیکن میں کہتا ہوں وہ لوگ راست باز ہیں یا خدا تعالیٰ راست باز ہے؟ سیدھی بات ہے کہ جو کچھ خدا تعالیٰ کہے گا وہی ہو گا.اگر اس کے مقابلہ میں کروڑوں لوگ ایک بات کہیں تو اُس پر عمل نہیں ہو گا.خدا تعالیٰ کہتا ہے دو گواہ لاؤ تو دو گواہ لئے جائیں گے.اگر ایک گواہ ہو چاہے وہ بہت بڑا آدمی ہو تو اُسے قبول نہیں کیا جائے گا.اگر خدا تعالیٰ کہتا ہے چار گواہ لاؤ تو چار گواہ ہی لئے جائیں گے.اگر تم تین بادشاہ بھی لے آؤ تو اُن کی گواہی پر اعتبار نہیں کیا جائے گا.پھر خدا تعالیٰ نے گواہی کا جو طریق مقرر کیا ہے اُس طریق پر گواہی لی جائے گی.یہ کہ دینا کہ فلاں کمینہ نے فلاں ذلیل ہے، محض بیہودہ بات ہے.اسلام میں کوئی کمینہ اور ذلیل نہیں.حضرت ابو بکر جب خلیفہ ہوئے تو آپ نے فرمایا کہ جب تک ایک طاقتور کو اُس کا حق نہ مل جائے اور جب تک ایک ضعیف کو اُس کا حق نہ مل جائے میں اُس کے لئے لڑوں گا.اور اُس وقت تک لڑوں گا جب تک کہ انصاف قائم نہ ہو جائے 4.اگر ایک معزز شخص چور کی حیثیت میں کی عدالت میں پیش ہوتا ہے تو اس کی وہی حیثیت ہوگی جو بظاہر ایک کمینہ شخص کی ہو گی.اسی طرح اگر ایک امیر شخص کسی کو تھپڑ مارے تو اسلام میں اُس کی وہی حیثیت ہوگی جو اس قسم کا جرم کرنے والے ایک غریب آدمی کی ہوگی.جبلہ بن ایہم ایک امیر شخص تھا جو اپنے علاقہ کا بادشاہ تھا وہ مسلمان ہو گیا اور حج کے لئے مکہ آیا.وہ رستہ میں ایک مجلس میں بیٹھ گیا.عربوں میں رواج تھا کہ جتنا تہہ بند کسی کا لٹک رہا ہو وہ کی اُتنا ہی معزز سمجھا جاتا تھا.جیسے ہمارے علاقہ میں زمیندار لوگ تہہ بند لٹکا لیتے ہیں اسی طرح عرب لوگ بھی تہہ بند لمبا ر کھتے تھے.جبلہ بن ایم جب اس مجلس میں بیٹھا تو پاس سے گزرنے والے ایک غریب آدمی کا پاؤں اُس کے تہہ بند کے کنارے پر جا پڑا.جبلہ اپنے آپ کو بادشاہ تصور کرتا تھا.اُس نے اِس کو اپنی ہتک خیال کیا اور اُس شخص کو غصہ میں آکر تھپڑ مار دیا.وہ غریب آدمی تھا خاموش ہو گیا اور شاید وہ اس لئے خاموش رہا کہ اُس نے خیال کیا کہ یہ شخص نیا نیا مسلمان ہوا ہے چلو خاموش رہو.لیکن جبلہ کا شکوہ تھپڑ مارنے کے بعد بھی پورا نہ ہوا.وہ غصہ میں حضرت عمرؓ کے پاس آیا.حضرت عمر کو یہ واقعہ پہنچ چکا تھا لیکن آپ کو تفصیل کا علم نہیں تھا.جبلہ نے کہا عمر ! آپ کے لوگوں میں تہذیب بھی نہیں ، یہ لوگ شائستہ نہیں ، انہیں شائستگی سکھاؤ ، میں بڑا
1952 273 خطبات محمود آدمی ہوں ، بادشاہ ہوں ، ایک گنوار شخص نے میرے تہہ بند پر اپنا پاؤں رکھ دیا ہے.آپ کی فرمانے لگے جبلہ ! تم نے اُس پر سختی تو نہیں کی؟ جبلہ نے کہا میں نے اُسے صرف ایک تھپڑ مارا ہے اور اصل سزا کی شکایت کرنے آپ کے پاس آیا ہوں.حضرت عمرؓ نے فرمایا خدا کی قسم ! اگر تم نے اُس شخص کو تھپڑ مارا ہے تو میں ساری مجلس کے سامنے تمہیں تھپڑ ماروں گا.جبلہ کوئی بہانہ بنا کر وہاں سے نکل گیا اور واپس جا کر دوبارہ عیسائی ہو گیا 5.پس اسلام میں کوئی کمینہ نہیں سوائے اُس شخص کے جو خدا تعالیٰ کے قائم کردہ نظام کا خیال نہیں رکھتا.جو شخص خدا تعالیٰ کے قائم کردہ نظام کا احترام رکھتا ہے وہ کمینہ نہیں.کوئی شخص ج رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کا جو اپنی گردن سے نہیں اُتار تا غریب نہیں.ہاں جو آپ کی اطاعت کا جوا اُتار دیتا ہے وہ یقیناً غریب ہے.جو شخص کسی کو اُس کی غربت یا اُس کے خاندان کے کسی نقص کی وجہ سے کمینہ کہتا ہے وہ خود کمینہ ہے.جو شخص کسی پر اتہام لگاتا ہے خواہ وہ پھوڑھا ہی کیوں نہ ہو وہ خود مجرم ہے اور اُس سزا کا مستحق ہے جو قرآن کریم نے اس جرم کی مقرر کی ہے.تم اچھی طرح کان کھول کر سُن لو کہ اگر تم میں سے کوئی بے نام کی رپورٹ کرتا ہے تو قرآن کریم کہتا ہے وہ رپورٹ نہیں سننی چاہیے.قرآن کریم کہتا ہے اِن جَاءَكُمْ فَاسِقٌ بِنَبَا فَتَبَيَّنُوا تم پہلے دیکھ لو کہ خبر لانے والا فاسق ہے یا مومن ، پھر دیکھو وہ خبر اہم ہے غیراہم ، کیونکہ خدا تعالیٰ نے اس آیت میں خبر کا لفظ نہیں لکھا.” با “ کہا ہے.اور نَبا “ کسی اہم خبر کو کہتے ہیں.پس دوسری بات یہ دیکھی جائے گی کہ وہ خبر اہم بات ہے یا غیر اہم.کیونکہ خلیفہ یا اس کے مقررہ کردہ افسران اور امراء کے پاس اتنا وقت نہیں کہ اس قسم کی شکایات کی تحقیق میں اسے ضائع کریں.کسی نے کہہ دیا کہ فلاں شخص کے ٹخنہ سے کپڑا اٹھا ہوا تھا.خلیفہ کا کیا کام ہے کہ وہ لوگوں کے ٹخنے دیکھتا پھرے.دوسرے لوگ اُسے خود سمجھا لیں گے.پس پہلے یہ دیکھنا ہو گا کہ شکایت کرنے والا ہے کون؟ اور جب وہ نام ظاہر نہیں کرتا تو اس کی تحقیق نہیں کی ہوسکتی.اور دوسرے یہ دیکھنا ہو گا کہ وہ خبر اہم ہو.اگر یہ دونوں باتیں ثابت ہو جائیں تو قرآن کی کریم کہتا ہے تم اس بات کی تحقیق کرو.اور جب یہ ثابت ہو جائے کہ وہ بات سچ ہے تو اس کے خلاف کارروائی کرو.
1952 274 خطبات محمود ہم قرآن کریم کا حکم چلانے کے لئے کھڑے ہوئے ہیں اس لئے تم بھی کوئی قدم اصلاح کا اٹھاؤ تو وہی قدم اٹھاؤ جو قرآن کریم کے مطابق ہو.ہو سکتا ہے کہ بعض دفعہ تم کوئی غلطی دیکھو جس کا ثبوت مہیا نہ ہو سکے تو خلیفہ اس کے متعلق کچھ نہیں کر سکتا.جس طرح خدا تعالیٰ میرے سامنے آتا ہے تمہارے سامنے بھی آتا ہے.تم راتوں کو اٹھو اور خدا تعالیٰ سے کہو کہ وہ جماعت سے اس عیب کو دور کرے.گمنام خطوط لکھنا اس کا علاج نہیں.اگر میں ان خطوط پر غور کروں تو میں بھی مجرم ہو جاؤں گا.جب کوئی شخص کہتا ہے کہ فلاں نے یہ مجرم کیا ہے اور اس کے پاس کوئی ثبوت کی نہیں تو وہ بھی مجرم ہے.اور پھر اگر وہ معاملہ میرے سامنے لے آتا ہے اور میں اس پر غور کرتا ہوں تو میں بھی مجرم ہوں.گویا تین مجرم ہوئے.اگر تین کی بجائے ایک جرم رہنے دیا جاتا تو بہتر تھا.کہتے ہیں کہ کوئی تین آدمی نماز پڑھ رہے تھے کہ ایک شخص مسجد میں داخل ہوا اور اس نے اَلسَّلامُ عَلَيْكُمُ کہا.اس پر ایک شخص نے کہا وَ عَلَيْكُمُ السَّلَامُ جب اُس نے وَعَلَيْكُمُ السَّلام کہا تو دوسرے نے کہا نماز میں بولا نہیں کرتے تمہاری نماز ٹوٹ گئی.اس پر امام نے کہا تج الْحَمْدُ لِلَّهِ ! میں تو نہیں بولا.گویا تینوں مجرم بن گئے.یہی بات یہاں ہوتی ہے.فرض کرو ایک شخص نے چوری کی ہے.قرآن کریم اس جرم کو جائز قرار نہیں دیتا.اب اگر کوئی دوسرا شخص اس معاملہ کو میرے سامنے لاتا ہے اور کسی کو مجرم قرار می دے دیتا ہے اور اُس کا کوئی ثبوت نہیں دیتا تو وہ بھی مجرم ہے.اور اگر میں بلا ثبوت اس کے کی خلاف تحقیق شروع کر دیتا ہوں تو میں بھی مجرم ہوں.پس یہ مجرم کو بڑھانے والی بات ہے اصلاح کی کی نہیں.تم وہ اصلاح پیش کرو جو قرآن کریم کے مطابق ہو.ورنہ راتوں کو اٹھو اور خدا تعالیٰ سے دعائیں کرو کہ خدا تعالیٰ ان عیوب کو جماعت سے دور کر دے کیونکہ ان عیوب کا یہی علاج ہے کی گمنام خطوط لکھنے کا کچھ فائدہ نہیں.“ خطبہ ثانیہ کے بعد فرمایا: گلاب بی بی صاحبہ عرف پٹھانی میر پور خاص میں فوت ہو گئی ہیں.مرحومہ موصیہ تھیں، جنازہ میں بہت تھوڑے دوست شامل ہوئے.مرحومہ کی خواہش تھی کہ میں ان کا جنازہ پڑھاؤں.غلام قادر صاحب بہوڑ و چک نمبر 18 ضلع شیخو پورہ وفات پاگئے.مرحوم موصی تھے.ان
1952 275 خطبات محمود کی بھی خواہش تھی کہ میں ان کا جنازہ پڑھاؤں.0 ہمشیرہ صاحبہ مولوی نظام الدین صاحب احمد نگر کا لاکیمپ ضلع جہلم میں وفات پاگئی ہیں.وہاں جماعت کے بہت تھوڑے افراد ہیں جو جنازہ میں شامل ہوئے.فاطمہ بیگم صاحبہ اہلیہ میر عنایت علی صاحب لدھیانوی حیدر آبادسندھ میں وفات پاگئی ہیں.حیدر آباد اور کوٹری کے بہت تھوڑے احمدی احباب جنازہ میں شامل ہوئے.مرحومہ نہایت مخلص خاتون تھیں.کہتے ہیں کہ انہوں نے 1900 ء میں بیعت کی لیکن در حقیقت ان کا تعلق احمدیت سے بہت پرانا تھا.ان کے خاوند میر عنایت علی صاحب لدھیانوی اُن چالیس آدمیوں میں سے تھے جنہوں نے لدھیانہ کے مقام پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی پہلے دن بیعت کی.ان کی بیوی بھی درحقیقت اُسی دن سے احمدیت سے تعلق رکھتی تھیں.ان کی طبیعت تیز تھی میر عنایت علی صاحب کی طبیعت نرم تھی.آپ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ابتدائی صحابہ میں سے تھے، بہت دعائیں کرنے والے اور مستجاب الدعوات تھے.میاں بیوی کا اختلاف ہو جاتا تھا تو اکثر میر صاحب کو ایک طعنہ دیتی تھیں جو نہایت پر لطف ہے.بات یہ ہوئی کہ بیعت کرنے والوں کی ترتیب جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے مقرر فرمائی تھی اُس کے لحاظ سے میر صاحب کی بیعت غالباً ساتویں نمبر پر تھی لیکن میر صاحب اپنے ایک رشتہ دار یا دوست خواجہ علی صاحب کو جو پرانے بزرگوں میں سے ایک ہیں بلانے چلے گئے.انہیں ڈھونڈنے میں دیر لگ گئی.اس وجہ سے اُن کی بیعت بجائے ساتویں نمبر کے غالباً 37 ویں نمبر پر ہوئی.تو جب بھی میاں بیوی کی لڑائی ہوتی بیوی خاوند کو ہمیشہ یہ طعنہ دیتی تھیں کہ تمہاری حیثیت تو کی یہی ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بیعت کے لئے تمہیں ساتواں نمبر ملا تھا لیکن تم اپنی بیوقوفی کی وجہ سے 37 ویں نمبر پر پہنچے.پس مرحومہ در حقیقت پرانا تعلق رکھنے والی خاتون تھیں ظاہری بیعت گودیر سے کی ہو.سید محمد اشرف صاحب ریٹائر ڈ کلرک بھی وفات پاگئے ہیں.مرحوم موصی تھے اس لئے کراچی میں بطور امانت دفن کئے گئے.ان کی طبیعت بھی تیز بھی اور قریباً سب احمدی دوست انہیں جانتے تھے.ان کی عادت تھی کہ وہ ہر جگہ بول پڑتے تھے.اطلاع دینے والے نے تحریر کیا ہے کہ وہ پرانے احمدی تھے مگر یہ درست نہیں.وہ پرانے احمدی نہیں تھے لیکن اپنے اخلاق کی وجہ سے انہوں نے
1952 276 خطبات محمود اپنی زندگی اس رنگ میں گزاری کہ پرانے احمدی بن گئے.ان کے بھائی ڈاکٹر غلام دستگیر صاحب کی ان سے پہلے کے احمدی تھے اور سید محمد اشرف صاحب اُن دنوں سخت مخالف تھے.مجھے یاد ہے 1905ء میں میری آنکھوں میں لگرے پڑے ہوئے تھے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے مجھے علاج کے لئے لاہور بھجوا دیا.جہاں میرے کئی آپریشن ہوئے.میر محمد اسماعیل صاحب اُن دنوں وہاں ہاؤس سرجن تھے.میر صاحب کو رہنے کے لئے جو جگہ ملی تھی اُس کے ساتھ ایک نو کر خانہ تھا.اُس نو کر خانہ میں ایک آدمی آتا جاتا تھا.شام کو آتا اور صبح کو چلا جاتا تھا.میں نے میر صاحب سے دریافت کیا کہ یہ شخص کون ہے؟ تو انہوں نے مجھے بتایا کہ ان کا نام غلام دستگیر ہے ، ڈاکٹری میں پڑھتے ہیں، یہاں رہتے ہیں اور یہیں کھانا پکاتے ہیں.ان کے بھائی سخت مخالف ہیں اس لئے انہیں دقت ہے پس اصل میں ڈاکٹر صاحب ان سے پہلے احمدی تھے.ہاں جب یہ احمدی ہوئے تو ان میں اتنا جوش پیدا ہو گیا کہ ہر مجلس اور ہر کام میں حصہ لیتے تھے.اس لئے لوگ انہیں پرانا احمدی سمجھنے لگے چند دن ہوئے ربوہ میں زمین لینے کے خیال سے آئے تھے.میں نے کہا کہ اب زمین ختم ہو گئی ہے.ہاں اگر اور زمین خریدی گئی تو آپ کو مل سکے گی.اس پر وہ واپس چلے گئے اور چند ہفتوں کے بعد ان کی وفات کی خبرا چانک ملی.میاں عبد الرحمن صاحب چک نمبر 203 جھڈو گرام سندھ میں فوت ہو گئے ہیں.جنازہ کی میں بہت کم احمدی دوست شریک ہوئے.والدہ صاحبہ جمعدار محمد افضل خاں صاحب وفات پاگئی ہیں.بہت تھوڑے احمدی دوست جنازہ میں شریک ہوئے.چودھری محمد عبد اللہ صاحب لائل پوری در ویش قادیان وفات پاگئے ہیں.یہ موصی تھے اور اپنی ساری جائیداد خدمت سلسلہ کے لئے وقف کر چکے تھے.پھر اپنی زندگی وقف کر کے قادیان چلے گئے.یہ پہلے قادیان میں نہیں رہتے تھے فساد کے بعد قادیان گئے.مولوی تاج الدین صاحب لائل پوری قاضی سلسلہ کے بڑے بھائی تھے.میر مرید احمد صاحب تالپور سندھ، حال میں ان کی وفات کی خبر آئی ہے.بہت کم لوگ جنازہ میں شریک ہوئے.میر صاحب ریاست خیر پور کے شاہی خاندان میں سے تھے.طالب علمی
1952 277 خطبات محمود کی حالت میں قادیان رہے اور شاید وہیں سے مولوی فاضل کا امتحان پاس کیا اور بعد میں ان کی نجی شادی ہوئی.احمدی ہو جانے کی وجہ سے اپنے خاندان سے بہت تکالیف اٹھا ئیں.ریاست کی خیر پور میں فاریسٹ آفیسر تھے.نواب صاحب خیر پور کی والدہ نے انہیں میرے پاس بھیجا کہ باپ کے بعد میرے بیٹے کا نواب ہونے کا حق ہے لیکن باپ بیٹے پر خفا ہے.آپ دعا کریں کہ میرا بیٹا نواب ہو جائے.میں نے کہا اچھا میں دعا کروں گا.لیکن وہی بیٹا جب نواب بنا تو اُس نے انہیں ڈسمس کر دیا.آپ موصی تھے اور نہایت مخلص احمدی تھے.ان کی اولا د بھی مخلص احمدی ہے.میں نماز جمعہ کے بعد ان سب کا جنازہ پڑھاؤں گا.(الفضل 8 اکتوبر 1952ء) 1: الحجرات: 7 2:سنن ابی داؤد، كتاب الجهاد باب في السبق على الرجل میں ”هذه بِتِلْكَ السَّبْقَةِ“ کے الفاظ ہیں.: وَالَّذِينَ يَرْمُونَ الْمُحْصَنَتِ ثُمَّ لَمْ يَأْتُوا بِأَرْبَعَةِ شُهَدَاءَ فَاجْلِدُ وَهُمْ ثَمِنِيْنَ جَلْدَةً (النور: 5) 4:تاريخ الخلفاء للسيوطي صفحه 67 فصل في مبايعته رضی اللہ عنہ بیروت 1969ء 5 : فتوح البلدان بلاذری ، صفحہ 142 مطبوعہ مصر 1319ھ
1952 278 (31) خطبات محمود زندہ قوموں کی علامت یہ ہوتی ہے کہ اس کے نوجوان اس کوشش میں لگے رہتے ہیں کہ وہ اپنے بڑوں کے قائم مقام بن جائیں (فرموده 19 ستمبر 1952ء بمقام ربوہ ) تشهد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا : پچھلے ہفتہ سے یعنی جمعرات کے دن سے یا شاید بدھ کے دن سے پھر مجھ پر نقرس کا حملہ ہوا.جس کی وجہ سے میں نمازوں میں نہیں آسکا لیکن کل سے خدا تعالیٰ کے فضل سے درد سے افاقہ ہے.جیسا کہ پہلے بھی میں نے بیان کیا تھا اس دفعہ نقرس کے حملے پہلے حملوں کے مقابلہ میں بہت ہلکے ہوئے ہیں.یہ حملہ بھی اتنا تو تھا کہ میں باہر نہیں جا سکتا تھا، سیڑھیاں اتر چڑھ نہیں سکتا تھا لیکن کی پھر بھی جو پہلے حملے ہوتے رہے ہیں اُن کے مقابلہ میں اس کی کوئی نسبت ہی نہیں تھی.وہ بہت زیادہ شدید ہوتے تھے اور بسا اوقات میں بستر پر کروٹ بھی خود بدل نہیں سکتا تھا.لیکن موجودہ حملہ میں میں برآمدہ میں بیٹھ کر ملاقاتیں بھی کر لیتا تھا، پیشاب پاخانہ کے لئے بھی جا سکتا تھا اور کی ایک کمرہ سے دوسرے کمرہ میں بھی آ جا سکتا تھا.صرف نیچے اوپر آنا یا زیادہ دیر تک پاؤں لٹکا کر کی بیٹھنا یا کھڑے ہونا مشکل تھا.اس دوران میں ایک تکلیف میرے بازو میں بھی ہوئی جس کی وجہ کی سے دوستوں کو بھی تکلیف ہوئی اور کچھ غلط نہی بھی ہوئی.گو ایک لحاظ سے وہ غلط فہمی بھی نہیں تھی.بہت سی چیزیں سرحد پر ہوتی ہیں.ذرا ادھر ہو جائیں تو اور شکل اختیار کر لیتی ہیں.اور ذرا اُدھر می ہو جائیں تو اور شکل اختیار کر لیتی ہیں بہر حال پچھلے چند دنوں میں میرے ہاتھ میں یکدم ایسی کی
1952 279 خطبات محمود حالت پیدا ہو گئی کہ اعصاب شل ہو جاتے تھے ، اس کا ہلانا مشکل ہو جاتا تھا، انگلیاں ٹیڑھی ہو جاتی تھیں اور بازو میں بے حسی پیدا ہو جاتی تھی.گویا جوا بتدائی حالتیں بعض قسم کے فالجوں میں پائی جاتی ہیں ویسی ہی حالت پیدا ہو گئی.فالج دو قسم کے ہوتے ہیں ایک تو وہ ہوتے ہیں جو یکدم گرتے ہیں اور ایک سیکنڈ میں انسان کو بے کار کر دیتے ہیں اور بعض فالج ایسے ہوتے ہیں جو آہستہ آہستہ حملہ کرتے ہوئے انسانی جسم میں قائم ہوتے ہیں.ان کا نام ہی طب میں آہستگی سے بڑھنے والے فالج رکھا گیا ہے.اس کی وجہ سے بعض دوستوں میں جنہوں نے طب نہیں پڑھی اور جوصرف اتنا ہی جانتے ہیں کہ فالج میں انسانی جسم کا ایک حصہ یا دھڑ مارا جاتا ہے بے چینی پیدا ہوئی اور انہوں نے فکر اور تشویش کا اظہار کیا.اس مرض سے بھی خدا تعالیٰ کے فضل سے بہت کچھ افاقہ ہے.لیکن ابھی وہ ہاتھ مجھے محسوس ہوتا ہے.تندرست حصہ کی علامت یہ ہوتی ہے کہ وہ کچھ حصہ انسان کو محسوس نہیں ہوتا.مثلاً ہر ایک کا ناک ہے مگر کسی کو محسوس نہیں ہوتا کہ اُن کے منہ پر ناک ہے.لیکن جب اُسے نزلہ ہوتا ہے تب اسے محسوس ہونے لگتا ہے کہ اس کے منہ پر ناک بھی ہے.آنکھ ہر انسان کی ہے لیکن کسی کو محسوس نہیں ہوتی کہ اُس کی دو آنکھیں ہیں.لیکن جب اس کی آنکھیں دُکھنے آتی ہیں تب اسے محسوس ہوتا ہے کہ میری آنکھیں بھی ہیں.اسی طرح ہر ایک کا سہ ہے.مگر کسی کو محسوس نہیں ہوتا کہ اس کا سر ہے.لیکن جب اسے سر درد ہوتا ہے تب اسے معلوم ہوتا ہے کہ میرا ایک سر بھی ہے.غرض طبیب بیماری کی بڑی علامت یہی بتاتے ہیں کہ بیمار عضو کا انفرادی احساس ہونے لگتا ہے.اسی طرح گو اب مرض میں افاقہ ہے مگر دائیں بازو کا مجھے الگ احساس نہیں ہو رہا.لیکن بایاں بازو الگ محسوس ہو رہا ہے اور وہ ہاتھ تھکا ہوا اور بوجھل معلوم ہوتا ہے.بہر حال جو شدت کی تکلیف شروع ہوئی تھی وہ خدا تعالیٰ کے فضل سے رُک گئی ہے.اور جیسا کہ میں نے ایک پہلے خطبہ میں بھی بتایا تھا حقیقت تو یہ ہے کہ عمروں کے ضعف کے ساتھ ساتھ بیماریاں بھی لگ جاتی ہیں.اور جہاں دو باتیں جمع ہو جا ئیں یعنی انسان کی عمر بھی انحطاط کی طرف جارہی ہو اور پھر دشمن سے مقابلے بھی بڑھ جائیں وہاں دماغی کوفت اور جسمانی کوفت مل کر انسان کے لئے زیادہ مشکلات پیدا کر دیتی ہیں.بہر حال ہر ایک انسان نے جو پیدا ہوا مرنا ہے.اور زندہ قوموں کی یہ علامت ہوا کرتی.کہ ان کے نوجوان اس کوشش میں لگے رہتے ہیں کہ وہ اپنے بڑوں کے قائم مقام بن جائیں.
1952 280 خطبات محمود جس قوم میں یہ بات پیدا ہو جاتی ہے وہ کبھی نہیں مرتی.اور جس قوم کے اندر یہ بات پیدا نہ ہو اُس کو کوئی زندہ نہیں رکھ سکتا.خواہ کتنا ہی زور لگا لو وہ قوم ضرور مرے گی.لیکن جس قوم میں یہ کی خوبی موجود ہو کہ اُس کے نوجوان ہمتوں والے ہوں ، بلند ارادوں والے ہوں، صحیح کام کرنے والے ہوں ، اچھی نیتیں رکھنے والے ہوں تو وہ مرتی نہیں بلکہ بڑھتی چلی جاتی ہے اور خواہ کوئی بھی اسے مٹانا چاہے مٹا نہیں سکتا.ایک دفعہ ایک عباسی بادشاہ نے اپنے دولڑ کے ایک بڑے امام کے پاس پڑھنے کے لئے بٹھائے.اُس امام کا اتنا رعب تھا اور اس نے اپنی قابلیت کا اتنا سکہ بٹھایا ہوا تھا کہ ایک دن جب بادشاہ اُس کی ملاقات کے لئے گیا اور امام اُس کے استقبال کے لئے اٹھا تو دونوں شہزادے دوڑے کہ وہ اپنے امام کی جوتی اُس کے آگے رکھیں.ایک کی خواہش تھی کہ میں جوتی رکھوں اور کی دوسرے کی خواہش تھی کہ میں جوتی رکھوں.بادشاہ نے جب یہ نظارہ دیکھا تو کہا کہ تیرے جیسا آدمی کبھی مر نہیں سکتا.یعنی جس نے اپنی روحانی اور علمی اولاد کے دل میں اتنا جوشِ اخلاص پیدا کر دیا ہے اور اتنی علم کی قدر پیدا کر دی ہے اس نے کیا مرنا ہے.وہ مرے گا تو اور لوگ اُس کی کی جگہ لے لیں گے.غرض بے ساختہ بادشاہ کے منہ سے یہ فقرہ نکل گیا کہ ایسا آدمی مر نہیں سکتا.حقیقت یہ ہے کہ انسان تو مرتے چلے آئے ہیں اور مرتے چلے جائیں گے.قوموں کے لئے دیکھنے والی بات یہ ہوتی ہے کہ ان کے اندر زندگی کی روح پائی جاتی ہے یا نہیں.اگر وہ کوئی کی مفید کام کرنا چاہتی ہیں تو ان کا فرض ہوتا ہے کہ وہ نیکیوں کا ایک تسلسل قائم کر دیں.آدم کے کی متعلق خدا تعالیٰ نے یہی بات قرآن کریم میں بیان فرمائی ہے کہ اس نے ایک تسلسل قائم کر دیا.فرماتا ہے خَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا وَبَثَّ مِنْهُمَا رِجَالًا كَثِيرًا وَنِسَاءَ 1 آدم کا کیا کمال تھا ؟ آدم کا یہی کمال تھا کہ وہ صرف ایک مرد اور ایک عورت تھے.مگر پھر بَثَّ مِنْهُمَا رِجَالًا كَثِيرًا وَنِسَا آگے نسل در نسل پیدا ہوئی.اور مرد اور عورت اتنی کثرت سے ہوئے کہ یا تو کوئی زمانہ اس دنیا پر ایسا گزرا ہے جب فلسفیوں اور سائنسدانوں کا سب سے بڑا قابلِ غور مسئلہ یہ ہوا کرتا تھا کہ اس دنیا کو آباد کس طرح کیا جائے.اور یا اب وہی دنیا ہے مگر اب فلسفیوں اور کی سائنس دانوں کے نزدیک سب سے بڑا سوال جو حل کرنے کے قابل ہے یہ ہے کہ اس دنیا کی کی آبادی کو روٹی کہاں سے کھلائی جائے.
1952 281 خطبات محمود آج سے دو یا چار ہزار سال پہلے کمیونزم کسی ملک میں پنپ نہیں سکتا تھا لیکن اب کہتے ہیں اس کا مال چھینو اور اُس کو دو، اُس کا چھینو اور اس کو دو.دس ایکڑ زمین جس کے پاس ہے اُس کی سے لے کر دو دو ایکڑ اوروں میں تقسیم کر دو.لیکن جب دنیا میں کسی جگہ صرف پانچ گھر تھے اور کی پچاس ہزارایکٹر زمین اُن کے ارد گرد فارغ پڑی تھی اُس وقت اگر کوئی کمیونزم کی بات کرتا تو کی پاگل سمجھا جا تا اور ہر شخص کہتا کہ اس کی پانچ ایکٹر زمین کیوں چھینتے ہو؟ پچاس ہزا را یکڑ زمین جو فارغ پڑی ہے اُس پر قبضہ کیوں نہیں کرتے.پس کمیونزم محض اس زمانہ کی پیدائش ہے.ہمیشہ کے لئے قانون نہیں ہو سکتا.یہی فرق ہوتا ہے مذہب اور غیر مذہب میں.مذہب کے علاوہ جس قدر مسائل پیدا ہوتے ہیں وہ صرف مقامی اور وقتی ہوتے ہیں.لیکن مذہب ایک دائمی صداقت ہوتا ہے.تم کسی زمانہ میں بھی اسلام کو لے جاؤ اس پر ہمیشہ عمل کیا جا سکتا ہے.لیکن کئی دور ایسے آئیں گے جن میں کمیونزم نہیں چل سکتا.کئی دور ایسے آئیں گے جن میں سوشلزم نہیں چل سکتا.کئی کی دور ایسے آئیں گے جن میں کیپٹل ازم نہیں چل سکتا.جب کبھی ملک کی آبادی بڑھ جائے گی اور کتی دولت گھٹ جائے گی کیپٹل ازم کبھی قائم نہیں رہ سکتا.اور جب ملک کی آبادی کم ہو جائے گی اور کی ذرائع دولت بڑھ جائیں گے اُس وقت کمیونزم کبھی قائم نہیں رہ سکتا.جب ملک کی آبادی کم ہو جائے گی تو کسی سے چھینے کا کوئی سوال ہی نہیں رہتا.ہر شخص کہے گا کہ جاؤ اور زمینوں پر قبضہ کرلو.اور جب ملک کی آبادی بڑھ جائے گی تو پھر کیپٹل ازم قائم نہیں رہ سکتا.یہ سارے کے سیارے سوالات ملک کی آبادی کی کمی یا زیادتی سے پیدا ہوتے ہیں.تم آبادی کو کم کر دولا زمانی کیپٹل ازم قائم ہو جائے گا اور لوگ منتیں کریں گے کہ تم زمینوں کو سنبھالو.ہمیں تو جتنی ضرورت تھی ہم نے لے لی ہے.لیکن جب آبادی بڑھ جائے گی تو وہی آدمی جس کے دادا پڑدادا کہہ رہے تھے کہ زمینیں سنبھا لو ہمیں اس کی ضرورت نہیں وہی شور مچانے لگ جائیں گے کہ تمہارے پاس سو ایکڑ زمین ہے دس دس ایکڑ ہمیں دے دو.پس یہ محض حالات بدلنے کے نتائج اور مجبوریاں ہیں.لیکن مذہب ایسی چیز ہے جو ہمیشہ قائم رہتی ہے.اور یہ تمام چیزیں اسی نکتہ کے ساتھ وابستہ ہیں کہ انسان کی نسل آگے ترقی کرتی اور بڑھتی چلی جاتی ہے.اسی طرح جو سچی قو میں ہوتی ہیں وہ بھی آدم کے مشابہ ہوتی ہیں اور ان کی کامیابی کا طریقہ بھی یہی ہوتا ہے کہ ان میں نئی نسلیں پیدا ہوتی ہیں.پھر اور پیدا ہوتی ہیں ، پھر اور پیدا ہوتی ہیں کی
1952 282 خطبات محمود اور وہ اس معیارِ ایمان اور میعار تقویٰ کو قائم رکھتی ہیں.جس کو قائم رکھنا خدا تعالیٰ کا منشاء ہے اور جس معیارِ ایمان اور میعار تقویٰ کے قیام کے لئے خدا تعالیٰ کے انبیاء دنیا میں آتے ہیں.پس ہمیشہ ہی خدا ئی جماعتوں اور خدائی سلسلوں کو یہ امر مد نظر رکھنا چاہیے کہ اُن کے اندر زندگی کی روح پیدا ہو.اُن کے اندر ایسے نوجوان پیدا ہوں جو دین کی خاطر اپنے آپ کو وقف کرنے والے اور تقویٰ کے ساتھ کام کرنے والے ہوں.دھڑے بازی کی عادت اُن میں نہ ہو.وہ قضاء کے مقام پر پورے اُترنے والے ہوں اور دوسروں کا حق دینے کے معاملہ میں نہ دشمنی اُن کے راستہ میں روک ہو، نہ دوستی اُن میں جنبہ داری کا مادہ پیدا کرنے والی ہو.جب اُن سے کوئی تھی مسئلہ پوچھے تو وہ یہ نہ دیکھیں کہ ہماری دوستیاں کن لوگوں سے ہیں اور ہمارے اس جواب کا اثر ان پر کیا پڑے گا.بلکہ وہ صرف یہ دیکھیں کہ خدا اور اس کے رسول نے کیا کہا ہے اور قرآن میں کی کیا لکھا ہے.جب ایسے آدمی کسی قوم میں پیدا ہو جائیں تو پھر وہ قوم آدمیوں کی محتاج نہیں رہتی بلکه براه راست خدائی نصرت کے نیچے آجاتی ہے.کسی انسان کی موت سے اُس کی موت وابستہ نہیں ہوتی.کسی انسان کی بیماری سے اُس کی بیماری وابستہ نہیں ہوتی.کسی انسان کے فقدان سے کی اُس کا فقدان وابستہ نہیں ہوتا.وہ ہر میدان میں اور ہر قسم کے کاموں اور مقابلوں میں قائم رہتی ہے.جیتی ہے اور بڑھتی ہے کیونکہ اُس میں زندگی کا بیج ہوتا ہے.اور جس میں زندگی کا بیج ہوتی اُسے کوئی مار نہیں سکتا.جس طرح خدا نے جس میں موت کا بیج پیدا کر دیا ہوا سے کوئی زندہ نہیں الفضل 26 ستمبر 1952ء) رکھ سکتا.“ 1 : النساء:2
1952 283 (32) خطبات محمود اگر کسی مذہب پر عمل کرنے کے نتیجہ میں خدا تعالیٰ نہیں ملتا تو وہ مذہب محض نام کا مذہب ہے عبادت محسن ظنی ، اطاعت، دین کے لئے قربانی کا جذبہ نماز اور روزہ وہ ذرائع ہیں جن سے خدا تعالیٰ ملتا ہے (فرمودہ 26 ستمبر 1952ء بمقام ربوہ ) تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: مذہب جس کے پیچھے دنیا کا اکثر حصہ فریفتہ ہے اور جس کے نام سے اور جس کی خاطر ہر سال ہزاروں اور لاکھوں بے گناہوں کو قتل کر دیا جاتا ہے، ہزاروں اور لاکھوں بے قصوروں پر ظلم کیا جاتا ہے اور ہزاروں اور لاکھوں مستحقین امداد کو امداد سے محروم کیا جاتا ہے وہ اپنے اندر در حقیقت ایک ہی خصوصیت رکھتا ہے.اور وہ خصوصیت یہ ہے کہ خدا تعالیٰ اور بندہ کے درمیان کی تعلق پیدا کیا جائے.دنیا میں کئی قسم کی نیکیاں پائی جاتی ہیں.لیکن اگر مذہب نہ بھی ہو تو بھی لوگ وہ کام کرتے ہیں اور دوسروں سے کرواتے ہیں.مثلاً ماں باپ سے محبت کرنا ہے.ایک دہریہ بھی اپنے ماں باپ سے محبت کرتا ہے.ایک فلسفی بھی ماں باپ سے محبت رکھتا ہے.ایک حریص اور لالچی انسان جو دوسروں کا مال لوٹ کر اپنا گھر بھرنا چاہتا ہے وہ بھی جب ماں باپ کے کی
1952 284 خطبات محمود سامنے آتا ہے تو اس کی آنکھوں میں محبت کی جھلک آجاتی ہے.ایک ڈاکو اور قاتل انسان بھی ماں باپ سے محبت کرتا ہے.اور بسا اوقات وہ قاتل اور ڈاکو بنتا ہی اس لئے ہے کہ کسی نے اس کے ماں باپ، بہن بھائی یا کسی اور رشتہ دار پر ظلم کیا ہوتا ہے اور وہ اس کا بدلہ لینے کے لئے اس ظالم کو قتل کر دیتا ہے ، وہ اس کا بدلہ لینے کے لئے ڈاکو بن جاتا ہے.اور مذہب بھی یہی کہتا ہے کہ ماں باپ سے محبت کا سلوک کرو اور ان کا احترام کرو.پھر مذہب کہتا ہے بیوی سے محبت کرو اور اس کا احترام کرو.مذہب کہتا ہے عورت اپنے خاوند سے محبت کرے اور اس کا احترام کرے.لیکن اگر مذہب نہ بھی ہو تو بھی لوگ اپنی بیویوں سے محبت کریں گے.اگر مذہب نہ بھی ہو تو بھی کی عورتیں اپنے خاوندوں سے محبت کریں گی اور ان کا احترام کریں گی.پھر مذہب کہتا ہے جھوٹ نہ بولو.اب اس کے لئے کسی مذہب کی ضرورت نہیں.جن قوموں میں کوئی مذہب نہیں پایا جاتا مثلاً پرانے حبشی قبائل ہیں جو خدا اور اُس کے رسول اور کتاب پر ایمان نہیں رکھتے انہیں دیکھ لو.وہ بھی شریف انسان کی یہی تعریف کریں گے کہ وہ جھوٹ نہیں بولتا حالانکہ وہ کسی مذہب کے متبع نہیں ، ان کا رسول اور کتاب پر ایمان نہیں ہوتا.لیکن شرافت کے ساتھ سچ کا تعلق وہ بھی مانتے ہیں.پھر چوری چکاری کے ساتھ بھی مذہب کا کوئی تعلق نہیں.مذہب بے شک یہ کہتا ہے کہ چوری نہ کرو لیکن جہاں مذہب نہیں وہاں بھی شرافت یہ کہتی ہے کہ چوری کرنا بُرا ہے.پھر لڑائی کی جھگڑا ، دنگا فساد، غیبت اور دوسرے سے بغض اور کینہ رکھنا ہے.مذہب ان سے منع کرتا ہے.لیکن اگر مذہب نہ بھی ہو تو بھی ایک شریف انسان ان برائیوں سے اجتناب کرے گا.پس یہ تمام چیزیں ایسی ہیں کہ جہاں مذہب نہیں وہاں بھی پائی جاتی ہیں اور جہاں مذہب ہے وہاں بھی یہ سب موجود ہیں.اگر کوئی چیز ایسی ہے کہ جہاں مذہب ہے وہاں تو وہ موجود ہے لیکن جہاں مذہب نہیں وہاں وہ موجود نہیں.تو وہ خدا تعالیٰ سے تعلق پیدا کرنے کا خیال ہے.اگر مذہب نہیں تو انسان خدا تعالیٰ سے تعلق پیدا کرنے کا خیال نہیں رکھتا.وہ کہے گا مجھے خدا تعالیٰ سے تعلق پیدا کرنے کی کیا ضرورت ہے یا وہ سرے سے خدا تعالیٰ سے ہی انکار کر دے گا.لیکن ایک مذہب کا پابند انسان خدا تعالیٰ سے تعلق پیدا کرنے کا محتاج ہوتا ہے.ہر مذہب کا ماننے والا کہے گا کہ مجھے خدا تعالیٰ سے تعلق پیدا کرنے کی ضرورت ہے.لیکن اس امتیازی نشان کو کس حد تک اختیار کیا لی
1952 285 خطبات محمود جاتا ہے؟ کہنے کو تو ہر مذہب والا یہی کہتا ہے کہ مجھے خدا تعالیٰ سے تعلق پیدا کرنے کی ضرورت تھی ہے لیکن کتنے لوگ ہیں جن میں تعلق باللہ پیدا کرنے کا احساس اُس شدت سے پایا جاتا ہے جس کی شدت سے وہ پایا جانا چاہیے.100 میں سے 99 نہیں.ہزار میں سے 999 نہیں.بلکہ ایک لاکھ میں سے نانوے ہزار نو سو ننانوے اور شاید اس سے بھی کم وہ لوگ نکلیں گے جن میں مذہب کا خیال تو ہے لیکن خدا تعالیٰ سے محبت نہیں.اور صرف یہی نہیں کہ انہیں خدا تعالیٰ سے محبت نہیں بلکہ خدا تعالیٰ سے محبت پیدا کرنے کا خیال بھی ان میں نہیں پایا جاتا.ایک انسان تندرست ہے تو می اچھی بات ہے.لیکن اگر ایک شخص بیمار ہے اور اسے خواہش ہے کہ اُس کا علاج ہو تو بھی اُس کے اچھے ہونے کی امید ہے.لیکن اگر ایک انسان بیمار ہے اور وہ اپنے علاج کا خیال بھی نہیں کرتا تو اُس کے اچھا ہونے کی امید نہیں ہو سکتی.ایک لاکھ میں سے نا نوے ہزار نو سو ننانوے کو تو خواہش ہی نہیں کہ اُن کا علاج ہو.اس لئے امید نہیں کہ وہ اچھے ہوں.بیماری سے وہی شخص شفا پا سکتا ؟ ہے جس کو یہ احساس ہو کہ میں بیمار ہوں اور اس بیماری سے نجات حاصل کرنے کے لئے مجھے کوشش کرنی چاہیے.ہماری جماعت ایک نئی قائم شدہ جماعت ہے.اس پر ابھی جوانی کا وقت بھی نہیں آیا لیکن زمانہ کی رو اور گرد و پیش کے حالات کی وجہ سے میں دیکھتا ہوں کہ ہمارے لوگوں میں یہ جذ بہ نہیں کہ خدا تعالیٰ سے تعلق پیدا کیا جائے ، خدا تعالیٰ سے محبت پیدا کی جائے.روزانہ 50 ، 60 خطوط دعا کے لئے مجھے آتے ہیں اور اگر رقعے وغیرہ ملالئے جائیں تو سو سوا سو بن جاتے ہیں.ان تمام خطوط کو نکال کر دیکھ لو اُن میں یہی ذکر ہوگا کہ میری بیوی بیمار ہے دعا کریں کہ وہ تندرست ہو جائے.میں نے ایک سودا کیا ہے دعا کریں کہ یہ سودا با برکت ہو، میں نے شادی کرنی ہے دعا کریں کہ کوئی اچھی بیوی مل جائے ، میرے گھر بچہ پیدا ہونے والا ہے دعا کریں کہ لڑکا پیدا ہو، میری ترقی کا وقت آگیا ہے دعا کریں کہ میرے آفیسر مجھے ترقی دے دیں، میں نوکری کرنے والا ہوں دعا کریں کہ مجھے کوئی اچھی ملازمت مل جائے ، میں ایک دکان کھولنے والا ہوں دعا کریں کہ اس دکان میں خدا تعالیٰ برکت ڈالے.میں نے فلاں فصل بوئی ہے دعا کریں کہ بارش ہو جائے اور فصل اچھی ہو.غرض سو سوا سو خطوط اسی قسم کے ہوں گے اور معلوم
1952 286 خطبات محمود ہو گا کہ ہرانسان کا ذہن، دکان، نوکری ، کلر کی ، صحت، تندرستی وغیرہ کی طرف جا رہا ہے اور اگر کوئی خانہ خالی ہے تو وہ صرف خدا تعالیٰ کا ہے.بہت کم خطوط ایسے نکلیں گے جن کے لکھنے والوں کی میں خدا تعالیٰ سے تعلق پیدا کرنے کی تڑپ پائی جاتی ہو.سو سوا سو خطوط میں سے ایک دو خط ایسے کی ہوں گے جن میں تعلق باللہ اور خدا تعالیٰ سے محبت پیدا کرنے کے لئے دعا کی درخواست کی جاتی ہے.خصوصاً نوجوانوں میں میں دیکھتا ہوں کہ ان میں خدا تعالیٰ سے ملنے کی خواہش بہت کم ہے.ان کی زبان زیادہ لمبی ہوتی ہے ، وہ دوسروں پر اعتراضات کریں گے ، ان میں نقص نکالیں کی گے لیکن ان میں سے کوئی اپنی طرف نہیں دیکھے گا کہ اس میں فلاں نقص ہے اور اس کی اصلاح کی تھی ضرورت ہے.حضرت مسیح علیہ السلام نے فرمایا ہے تمہیں دوسرے کی آنکھ کا تنکا تو نظر آتا ہے لیکن اپنی آنکھ کا شہتیر نظر نہیں آتا 1.یہ فقرہ کیا ہی سچا فقرہ ہے.دنیا میں بہت سے لوگ ایسے پائے جاتے ہیں جو اپنے آپ کو مصلح اور ریفارمر قرار دینا چاہتے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہ گند میں سے مشک نکالنے کی کوشش کرتے ہیں.بھلا کوئی انسان پیشاب اور پاخانہ سے بھی مُشک نکال سکتا ہے.مشک کے لئے خدا تعالیٰ نے جو ذرائع بتائے ہیں انہیں ذریعوں سے وہ حاصل ہوگی.اور عبادت حسن ظنی ، اطاعت، دین کے لئے قربانی کا جذبہ نماز اور روزہ وغیرہ ہی ایسے ذرائع ہیں جن سے خدا تعالیٰ ملتا ہے.اگر تم خدا تعالیٰ سے تعلق پیدا کرنا چاہتے ہو تو اُس کے حصول کے جوذ رائع ہیں اُن سے غافل نہیں ہونا چاہیے.میں نے جماعت کو پہلے بھی کئی بار کہا ہے اور اب پھر کہنا چاہتا ہوں خصوصاً نو جوانوں کو میں کہتا ہوں کہ اگر تم احمدیت ، اسلام اور مذہب سے کوئی فائدہ اٹھانا چاہتے ہوتو وہ فائدہ تم اُس وقت تک نہیں اٹھا سکتے جب تک کہ تمہیں خدا تعالیٰ نہ ملے.باقی چیزیں اس کی تابع ہیں.بے شک احمدیت کی ترقی اچھی چیز ہے لیکن اگر ایک گاؤں سارے کا سارا احمدی ہو جائے اور اسے خدا تعالیٰ نہ ملے تو صرف اتنی بات ہوگی کہ اس سیاہی سے منہ کالانہیں کیا اُس سیاہی کی سے منہ کالا کر لیں.اس گندے جو ہڑ سے پانی نہیں پیا اُس گندے جو ہڑ سے پانی پی لیا.اگر خدا تعالیٰ نہیں ملتا تو سیاہی نور نہیں بن جائے گی.اگر خدا تعالیٰ نہیں ملتا تو جو ہر آب زمزم نہیں بنے گا.سیاہی سیاہی ہی ہے چاہے اس کا نام ہندو رکھ لو ، عیسائی رکھ لو، مسلمان رکھ لو یا احمدی رکھ لو.چھپڑا جس کو اردو میں جو ہر کہتے ہیں وہ جو ہڑ ہی ہے وہ آب زمزم نہیں کہلا سکتا چاہے اُس کا کوئی تج
1952 287 خطبات محمود نام رکھ لو جب تک وہ فی الواقع آب زمزم نہیں بن جاتا.اسی طرح احمدیت اور اسلام تمہیں اُس کی وقت تک کوئی فائدہ نہیں دے سکتے جب تک تمہیں خدا تعالیٰ نہیں مل جاتا.تم اگر عرق گاؤ زبان کی بوتل پر روح کیوڑہ لکھ دو تو کیا وہ روح کیوڑہ بن جائے گا؟ پانی پر اگر روح گلاب لکھ لیا جائے تو ی اس سے کیا بنتا ہے.جب اندر روح گلاب نہ ہو.یہ تو دھوکا ہو گا.دھوکا باز عطار اسی طرح کرتے ہیں.علاقہ میں و با شروع ہوتی ہے مثلاً ملیر یا شروع ہوتا ہے اور حکیم لکھنا شروع کر دیتے ہیں کہ مریض کو عرق مکو اور عرق گاؤ زبان پلاؤ.تو ایک دیانتدار عطار بعض دفعہ کہہ دے گا کہ کی میرے پاس عرق مکو اور عرق گاؤ زبان تیار نہیں لیکن بددیانت عطار کہے گا میرے پاس دونوں کی چیزیں موجود ہیں.وہ پانی لے گا، بوتل میں بھرے گا اور کہے گا یہ عرق مکو ہے، یہ عرق کاسنی 2 ج ہے، یہ عرق گلاب ہے، تم جو عرق بھی مانگو گے وہ اس کے پاس موجود ہوگا.ہماری تاریخ طب کی کتابوں میں ایک تاریخی واقعہ لکھا ہے کہ ایک دفعہ ایک عباسی بادشاہ نے کہا اب طب ترقی کر رہی ہے.تو کسی نے کہا طب ترقی کیسے کر سکتی ہے.جب تک دوائیں بیچنے والوں میں دیانت پیدا نہ ہو تم چاہے کوئی نسخہ لکھو اُس سے کیا فائدہ ہوگا.بادشاہ نے کہا بغداد میں دوا فروشوں کی پانچ چھ سود کا نہیں ہیں تم تجربہ کر لو.اس پر انہوں نے کسی دوائی کا مصنوعی نام رکھ لیا اور کہا یہ دوا منگوا دو.وہ دوا آنی شروع ہوئی کسی دوا فروش نے ملٹھی بھیج دی اور کہہ دیا یہی وہ دوا ہے، کسی نے عناب بھیج دیئے اور کہہ دیا یہی وہ دوا ہے.غرض سب دکانداروں نے یہی طریق اختیار کیا.صرف ایک دکاندار ایسا نکلا جس نے کہا کہ میرے پاس یہ دوا نہیں میں نے ج یہ نام نہیں سنا.بادشاہ نے دریافت کیا کہ کس دکاندار نے سچ بولا ہے؟ تو طبیبوں نے کہا سب جھوٹ بولتے ہیں سچا وہی ہے جو کہتا ہے کہ میں نے یہ نام پہلے نہیں سنا کیونکہ ہم نے مصنوعی نام رکھ کر یہ تجربہ کیا تھا.اسی تجربہ کی وجہ سے مسلمان بادشاہوں نے دوا سازی کا بھی امتحان رکھا تھا.( پاکستان میں بھی اب یہ کوشش ہو رہی ہے ) دوائیوں کی پہچان کے لئے سکول بنائے گئے تھے اور جو شخص وہ مخصوص امتحان پاس کر لیتا تھا اُسی کو دوائی بیچنے کی اجازت دی جاتی تھی.اسی طرح تم کوئی نام رکھ لو.تم مٹی کا نام سونا رکھ لو تو مٹی سونا نہیں بنے گی.تم دنیا داری کا نام مذہب رکھ لیتے ہو تو تمہیں مذہب کوئی فائدہ نہیں دے گا.مذہب اُس وقت تک کوئی فائدہ
1952 288 خطبات محمود نہیں دیتا جب تک کہ تعلق باللہ پیدا نہ ہو.مذہب خدا تعالیٰ سے تعلق پیدا کرنے کا نام ہے.آپ کی لوگ نمازیں پڑھیں ، ذکر الہی کی عادت ڈالیں ، غور و فکر کی عادت پیدا کریں ، ہر ایک بات کو سوچیں اور اس سے نتیجہ نکالیں.آج کل لاکھوں میں کوئی ایک ہوگا جسے سوچنے کی عادت ہو.سب لوگ نقل کے عادی ہوتے ہیں.بات سن لی اور نقل کر دی.یہ نہیں کہ خود سوچ بچار کر کے کوئی نتیجہ اخذ کیا جائے.وہ خود اس بات پر غور نہیں کرتے کہ سچ کی کیا تعریف ہے، قو میں کیسے بنتی ہیں ، کن ذرائع سے بھلائیاں بُرائیاں نظر آتی ہیں اور بُرائیاں بھلائیاں نظر آتی ہیں.جب انسان بجائے غور و فکر کے محض جذبات سے کام لیتا ہے تو وہ ٹھوکر کھاتا ہے.تم اگر کامیاب ہونا چاہتے ہو، تم اگر بامراد ہونا چاہتے ہو، تم اگر خوشی کی موت مرنا چاہتے ہو تو تم اپنی زندگی کو مفید بناؤ.جیسا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ بہتر عبادت یہی ہے کہ تم یہ محسوس کرو کہ تم خدا تعالیٰ کو دیکھ رہے ہو.اور اگر تم خدا تعالیٰ کو نہیں دیکھ رہے تو تمہیں یہ یقین ہو کہ خدا تعالیٰ تمہیں دیکھتا ہے 3 تم بھی اپنے اندر یہی رنگ پیدا کرو تا جب موت آئے تو اگر تم خدا تعالیٰ کو نہیں دیکھتے تو تمہیں یقین ہو کہ خدا تعالیٰ تمہیں دیکھ رہا ہے.اس کے بغیر حقیقی راحت حاصل نہیں کی ہوسکتی.باقی چیزیں سب ڈھکوسلے ہیں ان میں کوئی حقیقت نہیں.اگر کسی مذہب پر عمل کرنے کے 66 نتیجہ میں خدا تعالیٰ نہیں ملتا تو وہ مذہب محض نام کا مذہب ہے اُس کے اندر کوئی حقیقت نہیں.“ الفضل 14 / اکتوبر 1952ء) 1 : متی باب 7 آیت 3 2: کاسنی: سلاد کے پتوں سے مشابہ ایک بوٹی جو اندرونی ورم میں فائدہ دیتی ہے.اس کے بیج اور عرق بھی دوا کے طور پر استعمال ہوتے ہیں.( اردو لغت تاریخی اصول پر.جلد 14 صفحہ 481 کراچی 1992ء) بخاری کتاب الایمان - باب سُؤالِ جِبْرِيلَ النَّبِي صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الْإِيمَان.(الخ)
1952 289 (33) خطبات محمود ہماری جماعت ایک مذہبی جماعت ہے ہمارے تمام کاموں کی بنیاد مذہب اور روحانیت پر ہے (فرموده 10 اکتوبر 1952ء بمقام ربوہ ) تشهد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: ڈیڑھ ماہ سے مجھے حرارت ہے اور اس حرارت کی حالت میں ہی میں جمعہ پڑھانے آجا تا تی رہا ہوں.لیکن کچھ دنوں سے مجھے نزلہ کی شکایت ہے جس کا گلے پر بھی اثر ہے اور جیسا کہ میری کی آواز سے ظاہر ہے میں اچھی طرح بول نہیں سکتا.لیکن چونکہ آج تکلیف میں افاقہ ہے اس لئے میں نے خیال کیا کہ جمعہ خود ہی پڑھا آؤں.ہماری جماعت ایک مذہبی جماعت ہے اور ہمارے تمام کاموں کی بنیاد مذہب اور روحانیت پر ہے.میں کچھ عرصہ سے جماعت کے دوستوں کو اس امر کی طرف توجہ دلا رہا ہوں کہ وہ اس جماعت کی غرض وغایت کو سمجھیں.میں یہ نہیں کہتا کہ ہر شخص سو فیصدی مکمل ہو جائے.سو فیصدی مکمل تو صحابہ کی جماعت بھی نہیں تھی.آخر انسانوں میں تفاوت ہوتا ہی ہے.کوئی انسان بڑا ہوتا چ ہے اور کوئی چھوٹا.کچھ لوگ آگے نکل جاتے ہیں اور کچھ دوڑنے کی کوشش تو کرتے ہیں لیکن انہیں آگے نکلنے کی توفیق نہیں ملتی.پھر کئی لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جو دوڑ بھی نہیں سکتے.وہ جلدی جلدی چلتے ہیں.اور پھر کئی لوگ ایسے ہوتے ہیں جو چل بھی نہیں سکتے لیکن ان میں حرکت کرنے کی خواہش ہوتی ہے اس لئے وہ گھسٹتے ہیں.لیکن بہر حال سب کے اندر کچھ نہ کچھ حرکت 09.
1952 290 خطبات محمود ضرور ہوتی ہے.ارادہ رکھنے والے لوگ بے حرکت نہیں ہوتے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں قیامت کے دن لوگ پل صراط کے اوپر - جو بال سے بھی زیادہ باریک اور تلوار کی دھار سے بھی زیادہ تیز ہوگی گزریں گے.کچھ لوگ تو ایسے ہوں گے کہ وہ پل صراط پر سے بجلی کی طرح گزر جائیں گے.کچھ ہوا کی تیزی کی طرح اس پر سے گزر جائیں گے.کچھ گھوڑے کی طرح دوڑتے ہوئے اس پر سے گزر جائیں گے.کچھ لوگ تیزی سے چلتے ہوئے اس پر سے گزر جائیں گے.کچھ ایسے لوگ ہوں گے جو گھسٹتے ہوئے اس پر سے گزر جائیں گے 1.در حقیقت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حدیث میں مومن محج کی کوششوں کا نقشہ کھینچا ہے.بعض لوگ اس بے وقوفی کی امید میں ہیں کہ قیامت کے دن منجی خدا تعالیٰ ایک لمبی تلوار لے کر ایک پل بنائے گا.اُس تلوار کی دھار پر سے کوئی گھوڑے کی طرح انجی دوڑتا ہوا نکل جائے گا ، کوئی آدمی کے تیز دوڑنے کی طرح دوڑتا ہوا نکل جائے گا ، کوئی آدمی کے کی چلنے کی طرح چل کر اس پر سے گزر جائے گا اور کوئی سرینوں کے بل گھسٹتا ہوا اُس پر سے گزر جائے گا.مگر کیا تلوار کی دھار جیسے تیز پل پر سے گزرنا ممکن بھی ہے؟ کیا بال سے بار یک پل پر سے گزرنا انسان کی طاقت میں ہے؟ ذرا ایک بال پر گھٹنے رکھ کر دیکھو تم اسے کتنا بھی مضبوط اتصور کر لو.کیا تم اُس پر ایک کے بعد دوسرا گھٹنہ رکھ سکتے ہو.نٹ 2 رستے باندھ کر اُن پر نا چا کرتے ہیں.لیکن نٹ بھی رستوں پر ناچتے ہیں بال پر یا تلوار کی دھار پر نہیں.پھر بجلی کی طرح چلنا تو انسان کی طاقت میں نہیں.ہوا کی طرح اڑنا انسان کی طاقت میں نہیں.بے شک احادیث ، پتا لگتا ہے کہ قیامت کے دن بعض لوگ پل صراط پر سے بجلی کی طرح تیزی سے گزریں گے.اور گزشتہ انبیاء کی روایات سے بھی پل صراط پر سے تیز دوڑ کر گزرنے کا پتا لگتا ہے.لیکن یہ سب تمثیلی زبان ہے.اور پھر سوال یہ ہے کہ ہم اگلے جہان میں وہ گڑھا کہاں پائیں گے جس کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک ہمیں پل سے گزر کر جانا ہو گا.وہ پل کن دو سروں کو ملاتا ہو گا ؟ اس دنیا اور اگلی دنیا کا تو آپس میں کوئی تعلق نہیں.یہ دنیا جسمانی ہے اور اگلی دنیا روحانی.اس لئے اس دنیا سے اگلی دنیا میں جانے کے لئے کسی پل کی ضرورت ہی نہیں.عزرائیل جان نکالتا ہے اور انسان اگلے جہان میں چلا جاتا ہے.لاکھوں انسان ہر روز اگلے جہان میں جاتے ہیں.ان کے جانے کے لئے کسی پل کی ضرورت نہیں.وہ پل جو بال سے
1952 291 خطبات محمود زیادہ باریک ہوگا ہمیں تو نظر نہیں آتا.وہ پل جو تلوار کی دھار سے زیادہ تیز ہوگا ہمیں دکھائی نہیں تھی دیتا.وہ پل جس پر سے لاکھوں روحیں روزانہ جاتی ہیں کسی نے نہیں دیکھا.پھر یہ پل کس لئے ؟ ہے؟ اگر یہ پل انسانوں کے گزرنے کے لئے ہے تو لاکھوں روحیں روزانہ اگلے جہان جاتی ہیں.ہم دیکھتے ہیں کہ ان کے جانے کے لئے کسی پل کی ضرورت نہیں ہوتی.عزرائیل آتا اور جان نکالتا ہے.روح اگلے جہان کو پرواز کر جاتی ہے اور جسم اس مادی دنیا میں رہ جاتا ہے.ان لاکھوں روحوں کے لئے جو اس جہان سے دوسرے جہان میں جاتی ہیں کسی پل کی ضرورت ہے نہیں.پھر انسان کے لئے اگلے جہان میں کسی پل کی کیا ضرورت ہوگی.دراصل یہ تمثیلی زبان ہے.نادانوں نے اسے حقیقت سمجھ کر مادیات کی طرف لے جانے کی کوشش کی ہے.حالانکہ اگر اسے مادیات کی طرف لے جایا جائے تو یہ بات ہنسی کے قابل بن جاتی ہے.درحقیقت یہ پل صراط وہ فاصلہ ہے جو مادیت اور روحانیت کے درمیان ہے.پل صراط وہ فاصلہ نہیں جو اس دنیا اور دوسری دنیا کے درمیان ہے کیونکہ لاکھوں روحیں روزانہ بغیر کسی پل کے جارہی ہیں.لیکن یہ چیز کہ انسان مادی دنیا سے روحانی دنیا کی طرف کس طرح جاتا ہے اس کے سمجھانے کے لئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تمثیلی زبان اختیار کی اور فرمایا کہ مادیت سے روحانیت کی طرف انسان ایک پل کے ذریعہ جاتا ہے جو بال سے زیادہ باریک اور تلوار کی دھار سے زیادہ تیز ہے.جس طرح اُس پل پر جو بال سے زیادہ باریک اور تلوار کی دھار سے زیادہ تیز ہو چلنا مشکل ہوتا ہے اسی طرح مادیت کو روحانیت سے بدلنا مشکل ہوتا ہے.لیکن باوجود اس کے کہ مادیت کو روحانیت سے بدلنا نہایت مشکل ہے.بعض لوگ جو اولوالعزم ہوتے ہیں وہ مادیت اور روحانیت کے درمیانی فاصلہ کو بجلی کی طرح طے کر جاتے ہیں.بعض لوگ جن میں عزم تو ہوتا ہے لیکن وہ زیادہ پختہ نہیں ہوتا وہ اسے ہوا کی طرح تیز اڑا کر طے کر جاتے ہیں.کچھ لوگ پختہ ارادہ رکھتے ہیں لیکن اُن میں عزم نہیں ہوتا وہ گھوڑوں کی طرح کی تیز دوڑتے ہوئے اسے پار کر جاتے ہیں.کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جن کے ارادے زیادہ پختہ اور اعلیٰ نہیں ہوتے وہ انسانوں کی طرح دوڑتے ہوئے اس فاصلہ کو طے کر جاتے ہیں.کچھ لوگ کمزور ارادہ کے ہوتے ہیں وہ چلتے ہوئے اس فاصلہ کو طے کرتے ہیں.کچھ لوگ بہت کمزور ارادہ کے ہوتے ہیں وہ گھسٹ کر اس فاصلہ کو طے کرتے ہیں.ان کی ایک نماز اور دوسری نماز کی
1952 292 خطبات محمود میں بعض دفعہ سالوں میں جا کر فرق پڑتا ہے.جیسی نماز انہوں نے آج پڑھی ہے بجائے اس کے کہ اس سے اچھی نماز پڑھنے کی توفیق انہیں دوسری نماز میں مل جائے یا دوسرے دن مل جائے کی بعض دفعه سال سال بعد ملتی ہے یا کئی سالوں کے بعد ملتی ہے.جس طرح گھسٹ کر چلنے والے کی نجی کوئی رفتار نہیں ہوتی ان کی بھی کوئی رفتار نہیں ہوتی.جتنے اخلاص کے ساتھ انہوں نے اس سال روزے رکھے ہیں اس سے زیادہ اخلاص کے ساتھ روزے رکھنے کی توفیق انہیں اگلے سال نہیں ملتی بلکہ کئی سال گزرنے کے بعد ملتی ہے.گویا اُن کے اعمال میں اتنا تھوڑا فرق ہوتا ہے جتنا گھسٹ کر چلنے والے کی رفتار میں ہوتا ہے.جو بچہ گھٹنوں کے بل چلتا ہے وہ ایک عرصہ تک ہماری آنکھ کے سامنے رہتا ہے لیکن جو شخص گھوڑے پر سوار ہوتا ہے وہ بہت جلد ہماری آنکھوں کے سامنے سے گزر جاتا ہے.پھر بجلی کا تو پتا نہیں لگتا.پس ایک اعلیٰ درجہ کا مومن تو اپنے ایمان میں اتنی جلدی ترقی کرتا ہے کہ دوسرے کو پتا بھی نہیں لگتا.ایک دن وہ کوشش شروع کرتا ہے.دوسرے دن وہ صالحین میں شامل ہو جاتا ہے.تیسرے دن وہ شہید بن جاتا ہے.چوتھے دن وہ صدیق بن جاتا ہے اور اگر اسے نبوت کے درجہ پر فائز ہونا ہے تو پانچویں دن وہ نبوت کا درجہ حاصل کر لیتا ہے اور وہ بجلی کی سی تیزی سے آگے نکل جاتا ہے.یہی پل صراط ہے جس کا حدیثوں میں ذکر آتا ہے اور اس کی ساری حکمت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حرکت میں بتائی ہے.روحانی مدارج کے فرق کو آپ نے حرکت کے ذریعہ واضح کیا ہے اور آپ نے بتایا ہے کہ کوئی شخص سرین کے بل گھسٹ رہا ہوتا ہے.کوئی شخص چار پایوں کی طرح چار پاؤں پر چل رہا ہوتا ہے.کوئی انسان کی طرح دوڑ رہا ہوتا ہے اور کوئی بجلی کی طرح دوڑ رہا ہوتا ہے.ہر شخص جانتا ہے کہ یہ سب لوگ حرکت کر رہے ہوتے ہیں.لیکن بعض بد بخت ایسے ہوتے ہیں جو چل نہیں کی رہے ہوتے جنہیں یہ احساس بھی نہیں ہوتا کہ خدا تعالیٰ نے انہیں چلنے کے لئے پیدا کیا ہے.نمازیں پڑھنے کا اگر خدا تعالیٰ نے انہیں حکم دیا ہے تو وہ کبھی غور نہیں کرتے کہ یہ حکم انہیں کیوں دیا ت گیا ہے.عرش پر بیٹھے ہوئے ساری حکمتوں کے مالک خدا کو کیا ہوا کہ اس نے انسان کو یہ حکم دیا تی کہ وہ کھڑا ہو کر رکوع میں جائے پھر سجدہ میں جائے پھر اٹھے.اسے کیا شوق آیا تھا کہ اس نے کی انسان کو یہ حکم دے دیا کہ وہ ایک سال کے بعد پورا ایک مہینہ رات کو اٹھے کھانا کھائے.دن کے وقت نہ وہ کھانا کھائے اور نہ پانی پئے اور غروب آفتاب کے بعد وہ روزہ افطار کرے.اسے
1952 293 خطبات محمود اس کھیل کی کیا ضرورت تھی؟ اور اگر اللہ تعالیٰ کے ان احکام میں کوئی حکمت ہے تو انسان کو سوچنا ہے چاہیئے کہ میں اُسے پورا کر رہا ہوں؟ کیا اس کے لئے میں نے تھوڑی بہت کوشش کی ہے؟ اگر وہ کسی اس حکمت کو پورا کرنے کی کوشش کر رہا ہے تو اُس کی نماز ، اُس کا روزہ ، اُس کی زکوۃ ، اُس کا چندہ اور اُس کا صدقہ درست ہو جاتے ہیں.اگر اسے یہ احساس ہے کہ اسے کوشش کرنی چاہیے تو بہر حال وہ کسی نہ کسی گروہ میں شامل ہو جائے گا.وہ پل صراط میں سے ضرور گزر جائے گا چاہے وہ سرین کے بل گھسٹ رہا ہو چاہے وہ پیدل چل رہا ہو.وہ گھوڑے کی طرح دوڑ رہا ہو چاہے وہ کی ہوا کی طرح اڑ رہا ہو اور چاہے وہ بجلی کی سی تیزی کے ساتھ جارہا ہو.ہر شخص یہ سمجھے گا کہ وہ چل ج رہا ہے.اگر وہ اگلے منٹ میں نہیں پہنچتا تو ایک گھنٹہ تک پہنچ جائے گا.اگر وہ ایک گھنٹہ تک نہیں کہ پہنچ سکتا تو وہ اگلے دن وہاں پہنچ جائے گا.اگر وہ اگلے دن نہیں پہنچتا تو وہ اگلے سال پہنچ جائے ہے گا.اگر وہ ایک سال کے بعد بھی نہیں پہنچتا تو وہ دس سال ہیں سال کے بعد پہنچ جائے گا.اگر کوئی کی شخص سرین کے بل بھی چلنا شروع کر دے تو چاہے وہ پچاس سال کے بعد اپنی منزل مقصود پر پہنچے وہ پہنچ جائے گا لیکن جو شخص کھڑا ہے وہ ہیں صدیوں میں بھی اپنی منزل تک نہیں پہنچ سکے گا.جس شخص کے اندر احساس نہیں ، آرزو نہیں ، اُمنگ نہیں ، خواہش نہیں اس نے چلا س نے چلنا کیا ہے.09.نکلنے بد بخت جیسے ماں کے پیٹ سے نکلا ویسے ہی یہاں سے چلا جائے گا.نہ ماں کے پیٹ.نے اُس کے اندر کوئی تغیر پیدا کیا اور نہ قبر کے اندر جانے نے اُس کے اندر کوئی تغیر پیدا کیا.ان کی معنوں میں نہیں کہ وہ ماں کے پیٹ سے گناہوں سے پاکیزہ نکلا بلکہ ان معنوں میں کہ جس طرح وہ گند میں لت پت ماں کے پیٹ سے نکلا اُسی طرح وہ اِس جہان سے گند میں لت پت چلا گیا.پس مومن کو اپنی پیدائش کے مقصد پر غور کرنے کی کوشش کرنی چاہیے.قرآن کریم میں کثرت سے اس طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو کس لئے پیدا کیا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے میں نے کسی چیز کو عبث پیدا نہیں کیا 3.لیکن کتنے ہیں جنہوں نے اس بات کی عادت تھی ڈال رکھی ہے کہ وہ روزانہ دو چار منٹ کے لئے ہی اس بات پر غور کر لیں کہ خدا تعالیٰ نے انسان مجھے کو کیوں پیدا کیا ہے.اتنے بڑے خدا کو اس کھیل کی کیا ضرورت پڑی تھی.جو صفات خدا تعالیٰ نے کی قرآن کریم میں بیان کی ہیں اُن پر غور کرو پھر اپنی طرف دیکھو.کیا خدا تعالیٰ نَعُوذُ بِاللهِ بے عقل تھا کہ اُس نے تمہیں پیدا کر دیا اور پھر اُسے یہ کھیل کھیلنے میں کیا لطف آیا ؟ وہ سب
1952 294 خطبات محمود سے زیادہ عالم ہے ، وہ سننے والا ہے، وہ جاننے والا ہے، وہ مُحِيطٌ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ ہے.اس کی نظر اربوں ارب ذرات جو دنیا میں ہیں اُن کے اربویں حصہ تک بلکہ اس سے آگے اربویں کی حصہ پھر اس کے اربویں حصہ تک ایک سیکنڈ میں بلکہ اس کے اربویں حصہ میں بلا تعیین پہنچ جاتی ہے.ہر چیز اس کے حسن کہنے سے بن جاتی ہے.ربوہ میں صرف 2300 مکانات بننے ہیں لیکن تین سالوں میں ہم سے یہ 2300 مکانات نہیں بن سکے.پھر ربوہ ضلع جھنگ کے مقابلہ میں کتنا چھوٹا ہے.ضلع جھنگ مغربی پنجاب کے مقابلہ میں کتنا چھوٹا ہے.مغربی پنجاب مغربی پاکستان کے مقابلہ میں کتنا چھوٹا ہے.مغربی پاکستان ، پاکستان کی کے مقابلہ میں کتنا چھوٹا ہے.پاکستان ہندوستان کے مقابلہ میں کتنا چھوٹا ہے.ہندوستان ایشیا کے مقابلہ میں کتنا چھوٹا ہے.ایشیا د نیا کے مقابلہ میں کتنا چھوٹا ہے.پھر یہ دنیا عالم شمسی کے مقابلہ میں کتنی چھوٹی ہے.یہ زمین عالم شمسی کے مقابلہ میں بالکل ایسی ہے جیسے کہ ایک بڑے باغ میں کوئی مالٹا رکھا ہو.مثلاً شالا مار باغ میں کوئی مالٹا یا بیر پڑا ہو تو اُس بیر یا مالٹے کی جو حیثیت شالا مار کے مقابلہ میں ہے اس زمین کی عالم شمسی کے سامنے اتنی حیثیت بھی نہیں.پھر عالم شمسی یعنی سورج کے ساتھ جو سیارے وغیرہ ہیں ان کی حیثیت قطب ستارے کے نظام کے مقابلہ میں اتنی بھی نہیں جتنی ایک بیر کی حیثیت باغ کے مقابلہ میں یا ایک مکھی کی حیثیت شہر کے مقابلہ میں ہوتی ہے.پھر قطب ستارے کے ساتھ جو دنیا ہے اس کی حیثیت معلوم دنیا کے مقابلہ میں (جو کی معلوم نہیں اس کا تو ذکر ہی کیا اتنی بھی نہیں جتنی ایک مکھی کی شہر کے مقابلہ میں.اگر تم اس کا اندازہ لگا نا شروع کرو کہ عالم خلق کے مقابلہ میں مکھی کی کیا حیثیت ہے پھر اس عالم خلق کے مقابلہ میں انسان جو ایک خورد بینی ذرے کی حیثیت رکھتا ہے بلکہ وہ اس کے مقابلہ میں اس خورد بینی ذرے کے اربویں حصہ تو کیا اس کے اربویں حصہ کے اربویں حصہ کی حیثیت رکھتا ہے کی اس کی اس دنیا میں کیا حیثیت ہے.جتنا نظامِ عالم نظر آتا ہے اس کے مقابلہ میں ایک ذرہ کی کو رکھو.اس ذرہ کی اس عالم کے مقابلہ میں جو حیثیت ہے انسان کی ساری کائنات کے مقابلہ میں اس سے بھی کم حیثیت ہے.اس انسان کو پیدا کرنے کا خیال خدا تعالیٰ کو کیوں آیا ؟ وہ انسان کی جو کہتا ہے کہ مکہ ماروں تو تمہارے دانت نکال دوں فرشتوں کے نزدیک اس کی حیثیت ایک چیونٹی کے پنجے کی طرح ہے.جس طرح چیونٹی (اگر اسے زبان مل جائے ) کہے کہ میں لات مار کر کی.
1952 295 خطبات محمود امریکہ کو اُڑا دوں تو تمہیں کتنی ہنسی آئے گی.اسی طرح جب انسان کہتا ہے کہ میں مکہ مار کر تمہارے دانت نکال دوں گا تو فرشتوں کے نزدیک اس کی حیثیت چیونٹی کے ایک پنجے کی سی بلکہ اس سے بھی کم ہوتی ہے.گویا عا کم مخلوق کے مقابلہ میں انسان کی کچھ بھی حیثیت نہیں.صرف بہ ہے کہ اُسے جوش دلا دو تو اس کا دماغ کہیں سے کہیں پہنچ جاتا ہے.اس جنون کی حالت کو الگ کر دو تو وہ ہے ہی کیا چیز.جو بڑے لوگ ہیں اُن کو نکال دو تو باقی دنیا میں ہے ہی کیا.ایک وقت میں ایک دو ہزار آدمی ایسے ہوتے ہیں جو کچھ کر رہے ہوتے ہیں.باقی لوگ تو ایسے ہوتے ہیں جیسے گاڑی میں کیل لگا ہوا ہو یا تیل کا قطرہ جو اس کی چولوں میں دیا ہوا ہو.اس دنیا کو چلانے والے ایک یا دو ہزار آدمی ہوتے ہیں.یہ ایک دو ہزار آدمی بھی باقی نظام عالم کے مقابلہ میں کیا حیثیت کی رکھتا ہے.وہی سٹالن جو کہتا ہے میں یوں کر دوں گا تو ساری دنیا میں شور مچ جاتا ہے وہی ٹرومین جو کہتا ہے میں روس کو یوں کر دوں گا اور سارے روس میں کھلبلی مچ جاتی ہے ان کے جسم میں ایک بار یک خورد بینی کیڑا دق ، سل یا ہیضہ کا چلا جاتا ہے تو وہ تڑپنے لگ جاتے ہیں اور ایک معمولی ڈاکٹر کے سامنے چلاتے ہیں کہ ڈاکٹر صاحب ! خدا کے لئے میرا علاج کریں، مجھے سخت تکلیف کی ہے.یا تو وہ اپنے سامنے کسی دوسرے کو سمجھتے ہی کچھ نہیں اور یا وہ دو چار سو روپیہ پانے والے ایک ڈاکٹر کے سامنے تڑپ رہے ہوتے ہیں.وہ ڈاکٹر جس کے دل میں ان کی تندرستی کے دنوں میں اگر انہیں ملنے کی خواہش ہو تو وہ انہیں مل بھی نہ سکے وہ بیماری میں اس کے آگے سر بسجو د ہوتے ہیں.پس انسان کو سوچنا چاہیے کہ آخر اُس کی پیدائش کی کیا غرض ہے؟ اس کی پیدائش کی کوئی مج غرض تو ہوگی.قرآن کریم کہتا ہے کہ خدا تعالیٰ نے کوئی چیز بے فائدہ اور عبث پیدا نہیں کی.میں یہ تو مانتا ہوں کہ ہر کام ہر انسان نہیں کر سکتا.مگر تم مجھے یہ یقین دلانا چاہتے ہو کہ انسان کوئی کام بھی نہیں کی کر سکتا.جس طرح یہ غلط ہے کہ ہر کام ہر انسان کر سکتا ہے اُسی طرح یہ بھی غلط ہے کہ کوئی انسان کی کوئی کام بھی نہیں کر سکتا.کم از کم وہ کچھوے اور جوں کی طرح ہی چلے گا.کچھ نہ کچھ حرکت تو ہر انسان کر سکتا ہے.ایسا کوئی انسان نہیں جو کوئی حرکت بھی نہیں کر سکتا.اگر تم کچھ کر رہے ہو اور پھر تم سوچتے ہو کہ تمہاری پیدائش کی کیا غرض ہے.تو تمہاری رفتار تیز ہو جائے گی اور ممکن ہے کہ تم میدان کے شہسوار بن جاؤ.لیکن اگر تم اپنی پیدائش پر غور نہیں کرتے ، اگر تمہیں پتا ہی نہیں کہ جی
1952 296 خطبات محمود تمہاری پیدائش کی کیا غرض ہے تو تمہاری ہستی بے غرض ہی دنیا میں آئے گی اور بے غرض ہی اس کی الفضل 22 /اکتوبر 1952ء) 66 دنیا سے چلی جائے گی.“ 1 كنز العمال في سنن الاقوال، حرف القاف، كتاب القيامة الباب الاول الصراط حدیث نمبر 39036 جلد 14 صفحہ 386،مطبوعہ حلب 1975ء 2 نٹ : بازی گر.وہ لوگ جو ڈھول بجا کر اور رشتی پر چڑھ کر کرتب دکھاتے ہیں.3: وَمَا خَلَقْنَا السَّمَاءَ وَالْأَرْضَ وَمَا بَيْنَهُمَا بَاطِلًا ( ص : 28)
1952 297 (34) خطبات محمود اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت حاصل کرنے کے لئے ضروری ہے کہ تم اپنے فرائض کو پوری طرح ادا کرو اور قربانیوں میں استقلال دکھلاؤ فرموده 17 اکتوبر 1952ء بمقام ربوہ ) تشهد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: اللہ تعالیٰ کی سنت پر نظر ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ دنیا میں ہمیشہ ہی اتار چڑھاؤ کے زمانے آتے رہتے ہیں.خصوصاً الہی جماعتوں کی ابتدا میں ایسے زمانے کثرت سے آتے ہیں اور بعض دفعہ تو ایسے حالات پیدا ہوتے ہیں کہ دنیا سمجھتی ہے یہ جماعت ختم ہوگئی لیکن پھر خدا تعالیٰ کی کی طرف سے اُن فتنوں کو مٹانے کے سامان پیدا ہو جاتے ہیں اور لوگ حیران رہ جاتے ہیں کہ یہ لوگ تو تباہی کے گڑھے پر کھڑے تھے مگر اب تو بالکل امن کی حالت میں زندگی بسر کر رہے ہیں.ہماری جماعت کی ساری تاریخ اس بات پر شاہد ہے بلکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ کی ساری تاریخ بھی اس پر شاہد ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب دعوی نبوت فرمایا تو مخالفت کے لحاظ سے وہ وقت کیسا خطر ناک تھا.پھر جب صحابہ کی جماعت بڑھنی شروع ہوئی اور نبوت کے چوتھے سال ہجرت حبشہ ہوئی تو وہ کیسا خطرناک وقت تھا.پھر وہ کیسا خطر ناک وقت تھا جب مدینہ کی طرف ہجرت اولی ہوئی جس میں کچھ صحابہ مکہ کے مشرکین کے ظلم وستم سے تنگ آکر مدینہ کی طرف ہجرت کر گئے.می پھر وہ کیسا خطر ناک وقت تھا جب آپ کو اور آپ کے ساتھیوں کو مکہ کی ایک چھوٹی سی وادی میں
1952 298 خطبات محمود محصور ہونا پڑا اور مکہ کے رہنے والوں کی طرف سے آپ کا بائیکاٹ کر دیا گیا.اُس وقت کی مشکلات ایسی تھیں کہ اُن کی تاب نہ لا کر حضرت خدیجہ اور آپ کے چچا حضرت ابو طالب فوت ہو گئے جس کا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو شدید صدمہ ہوا.پھر وہ کیسا خطرناک وقت تھا جب آپ کی کو مدینہ کی طرف ہجرت کرنی پڑی.پھر جنگِ بدر کا وقت کیسا خطر ناک تھا.جنگِ اُحد کا وقت کیسا خطر ناک تھا.جنگ احزاب کا وقت کیسا خطر ناک تھا.پھر وہ کیسا خطر ناک وقت تھا جب رومی فوج مسلمانوں کے مقابلہ میں کھڑی ہو گئی.پھر ارتداد کا وقت آیا تو وہ کیسا خطر ناک تھا.غرض ہر وقت ایسا تھا جب لوگوں نے یہ سمجھا کہ اب یہ جماعت ختم ہوگئی مگر خدا تعالیٰ نے ہر خطرہ کے بعد اسلام کو اور زیادہ عروج بخشا.اس طرح جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے دعوئی فرما یا تو آپ کو ماننے والے صرف چند آدمی تھے مگر اس کے بعد آتھم کے ساتھ آپ کا مقابلہ ہوا تو لوگوں پر ایک ابتلا آیا اور انہوں نے سمجھا کہ آپ کی پیشگوئی اپنے ظاہری الفاظ کے لحاظ سے پوری نہیں ہوئی.پھر لیکھر ام سے آپ کا مقابلہ ہوا تو گو آپ کی پیشگوئی نہایت شان سے پوری ہوئی مگر ہندوؤں میں آپ کے خلاف جوش پیدا ہو گیا اور انہوں نے آپ کی سخت مخالفت شروع کر دی.اسی طرح مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کے فتووں کا وقت آیا تو جماعت پر ایک ابتلاء آیا.پھر ڈاکٹر عبد الحکیم کے ارتداد کا وقت آیا تو جماعت پر ابتلاء آیا.غرض مختلف اوقات میں ایسے زور سے شورشیں اٹھیں کہ دیکھنے والوں نے سمجھا کہ اب یہ لوگ ختم ہو گئے.لیکن خدا تعالیٰ نے ان سب فتنوں کو مٹانے کے سامان پیدا کر دیئے اور وہ فتنے بجائے جماعت کو تباہ کرنے کے اُس کی ترقی اور عزت کا موجب بن گئے.اسی کی طرح اب ہو رہا ہے تم دیکھ لو کہ کس کس رنگ میں جماعت کے خلاف شورشیں اٹھیں ، فساد ہوئے اور کس طرح لوگوں نے سمجھ لیا کہ اب احمدیت مٹ جائے گی.مگر ہر بار بجائے مٹنے کے جماعت کی خدا تعالیٰ کے فضل سے پہلے سے بھی زیادہ ترقی کر گئی.جس طرح جنگِ احزاب کے موقع پر کی منافقوں نے یہ کہنا شروع کر دیا تھا کہ مسلمانوں کو پاخانہ پھرنے کے لئے تو کوئی جگہ نہیں ملتی لیکن کچ دنیا میں پھیلنے اور اس کو فتح کرنے کے خواب دیکھ رہے ہیں.اسی طرح ہمارے متعلق بھی بعض کی ایسے لوگوں نے جن کو طعنے دینے میں مزا آ سکتا تھا عجیب وغریب باتیں پھیلائیں اور انہوں نے ہمیں طعنے دینے شروع کر دیئے.مگر آخر انہیں شرمندہ ہونا پڑا اور جماعت کو پہلے سے بھی زیادہ کی
1952 299 خطبات محمود ثبات حاصل ہو گیا.غرض سچائی کی ہمیشہ مخالفت ہوتی ہے اور ہوتی رہے گی.سچائی کے معنی ہی یہ ہیں کہ لوگوں کے خیالات کے خلاف بات پیش کی جائے اور جب کسی زمانہ یا ملک یا قوم کے خیالات کے خلاف بات پیش کی جائے گی تو لازماً وہ بات اُنہیں بُری لگے گی.ہم امریکہ میں جاتے ہیں تو وہاں جا کر بھی یہی کہتے ہیں کہ حضرت عیسی علیہ السلام جن کو تم اپنا خدا سمجھتے ہو وفات پاچکے ہیں.وہ ایک انسان تھے اور سرینگر میں آپ کی قبر ہے.ہم وہاں جا کر بھی یہی کہتے ہیں کہ حضرت عیسی علیہ السلام کی نبوت کا زمانہ ختم ہو چکا ہے، اب عیسائیوں کو مسلمان ہو جانا چاہیے.ہم انگلستان جاتے ہیں تو وہاں بھی یہی کہتے ہیں اور اس کے نتیجہ میں اُن کا مخالفت کرنا ایک لازمی امر ہے.میں جب انگلستان گیا تو ہماری طرف سے اسلام کی تائید میں کچھ لٹریچر شائع کیا گیا اور جماعت کے دوستوں نے ایک جگہ جہاں سینٹ پیٹر کا گر جا تھا اُسے تقسیم کیا.اس گر جا میں لارڈ اور نواب ہی آتے ہیں.جب لٹریچر تقسیم کیا گیا تو بعض لارڈ اور نواب ایسے تھے جنہوں نے آستینیں چڑھا لیں اور لڑنے کے لئے تیار ہو گئے حالانکہ عیسائی خود ساری دنیا میں عیسائیت کی تبلیغ کرتے ہیں.اگر ہم نے اُن کے گر جاکے سامنے اپنا لٹریچر تقسیم کر دیا تو کیا اندھیر ہو گیا.لیکن وہ لوگ جوش میں آگئے اور اس بات کو برداشت نہ کر سکے کہ ہم اُن کے ملک میں اسلام کی تبلیغ کریں.دراصل جہاں تک کمزور انسانی فطرت کا تعلق ہے یہ لازمی بات ہے کہ ہماری ہر جگہ مخالفت ہوگی اور جہاں تک عادل حکومت کا سوال ہے ہو سکتا ہے کہ بعض جگہ ایسے افسر ہوں جو کہیں کہ ہم تم سے بے انصافی نہیں ہونے دیں گے.اور ایسے مقامات جہاں ہم قلیل تعداد میں ہیں وہاں کی لوگ ہمیں اپنے خیال میں ایک مچھر یا مکھی کی مانند سمجھتے ہیں.جس طرح ایک مچھر یا مکھی مکان منجی کے اندر آتی ہے تو کوئی فلٹ (FLIT) استعمال نہیں کرتا لیکن جب وہی مچھر اور مکھیاں بڑی تھی تعداد میں جمع ہو جاتی ہیں تو لوگ اُن کے پیچھے پڑ جاتے ہیں.اسی طرح جہاں سچائی کمزور ہوتی تھی ہے وہاں لوگ سچ کے حامیوں کو مکھیاں تصور کرتے ہیں اور اُن کی مخالفت نہیں کرتے لیکن جہاں تھی ہماری جماعت بڑھ جائے گی وہاں لازماً ہماری مخالفت ہو گی.اگر امریکہ میں ہماری جماعت کے خلاف اس وقت کوئی شورش نہیں تو اس کے یہ معنی نہیں کہ وہ ہمیں برداشت کر رہے ہیں بلکہ وہ ہمارے خلاف اس لئے شورش برپا نہیں کرتے کہ وہ سمجھتے ہیں بوجہ قلیل التعداد ہونے کے ہم ان کی
1952 300 خطبات محمود کے لئے کسی خطرہ کا موجب نہیں ورنہ وہ مورمن 1 لوگوں کے خلاف کیوں شورش کرتے ہیں.حبشیوں کو وہاں کیوں مار پیٹ ہوتی ہے.اس لئے کہ حبشی تعداد میں زیادہ ہیں اور امریکن لوگ ان سے ڈرتے ہیں.لیکن احمدی تھوڑے ہیں اس لئے وہ ہمیں کسی خطرہ کا موجب نہیں سمجھتے.وہ ہمیں ہنسی اور مذاق سمجھتے ہیں.ورنہ جب ہماری جماعت بڑھ گئی تو لا ز ما وہاں بھی ہماری مخالفت کی ہو گی.لیکن سوال یہ ہے کہ اگر ہماری جماعت خدا تعالیٰ کے منشاء کے ماتحت قائم ہوئی ہے تو انسان بیشک کہیں کہ ہم اسے ختم کر دیں گے لیکن وہ اسے کبھی ختم نہیں کر سکتے.کیونکہ جس چیز کے متعلق خدا تعالیٰ چاہتا ہے کہ بڑھے وہ بڑھ کر رہتی ہے.صرف دیکھنے والی بات یہ ہے کہ کیا ہماری کی نیتیں خدا تعالیٰ کی نیت سے مل گئی ہیں.دنیا میں تغیر بھی پیدا ہوتا ہے جب انسان کی نیت خدا تعالیٰ کی نیت سے مل جائے.لیکن ہماری طرف سے اس بارہ میں بڑی کوتا ہی ہو رہی ہے.میں نے بالعموم دیکھا ہے کہ جب خطرہ پیدا ہو جماعت بیدار ہو جاتی ہے اور جب امن قائم ہو جائے تو بیٹھ جاتی ہے.حالانکہ اگر امن اور خطرہ دونوں حالتوں میں جوش قائم رہے تب ہمیں کامیابی نصیب ہوسکتی ہے.اگر جماعت امن میں بیٹھ جاتی ہے اور خطرہ پیدا ہو تو بیدار ہو جاتی ہے تو ہماری کامیابی میں دیر لگ جائے گی.کیونکہ اگر ہم سوتے ہیں اور خدا تعالیٰ ہمارے لئے جاگتا ہے تب ج بھی ہمیں کامیابی نہیں ہو سکتی اور اگر ہم جاگتے ہیں لیکن خدا تعالیٰ کو ہماری کمزوریوں کی وجہ سے ہماری طرف توجہ نہیں تب بھی ہمیں کامیابی نہیں ہو سکتی.ہماری کامیابی تبھی ہو گی جب ہمارے نیک اعمال کو دیکھتے ہوئے خدا تعالیٰ بھی فیصلہ کرے کہ اُس نے ہمیں کامیاب کرنا ہے اور ہم بھی بیدار اور ہوشیار ہوں اور اپنے فرائض کو ادا کرنے والے ہوں.پس اپنے اندر بیداری پیدا کرو اور قربانیوں میں ایسا استقلال دکھاؤ کہ خدا تعالیٰ کے سامنے تم یہ کہہ سکو کہ ہم نے جہاں قدم مارا تھا اُس سے پیچھے نہیں ہے بلکہ آگے بڑھے ہیں.دلوں کو بدلنا خدا تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے.جب ہم ہر قدم آگے بڑھاتے چلے جائیں گے تو خدا تعالیٰ کے فرشتے آسمان سے نازل ہوں گے اور اس کی نصرت ہمیں حاصل ہوگی جو ہمیں کامیاب و کامران کر دے گی.عیسائیت کو دیکھ لو تین سو سال تک عیسائیوں نے مصائب اور تکالیف برداشت کیں آخر تین سوسال کے بعد ایک بادشاہ کے دل پر فرشتہ کا نزول ہوا اور وہ عیسائی ہو گیا.بادشاہ کی عیسائی ہوا تو اُس ملک کے سب لوگ عیسائی ہو گئے اور ایک دو سال میں سارے یورپ پر ان کا جی
1952 301 خطبات محمود قبضہ ہو گیا.تمہاری تبلیغ کیا ہے ؟ تم کبھی یہاں تبلیغ کرتے ہو اور کبھی وہاں تبلیغ کرتے ہو.یہ تو صرف جھنڈا کھڑا کرنے والی بات ہے.جھنڈا گاڑ نا خدا تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے اور جب خدا تعالیٰ جھنڈا گاڑنے پر آتا ہے تو یکدم لوگوں کے دلوں میں ایک بیداری کی لہر پیدا ہو جاتی ہے اور وہ کی ہدایت کی طرف توجہ کرنا شروع کر دیتے ہیں.دیکھ لو تیرہ سال تک محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تو حید کے لئے وعظ ونصیحت کرتے رہے مگر لوگ ایمان نہ لائے لیکن فتح مکہ کے بعد قبائل کے قبائل اسلام میں داخل ہونے شروع ہوئے اور چند ماہ کے اندراندر عرب کی اکثریت مسلمان ہوگئی.پس جب خدا تعالیٰ فتح دینے پر آتا ہے تو وہ اس طرح دلوں کو بدل دیتا ہے کہ انسان حیران کی رہ جاتا ہے.تم اپنے اندر وہ تبدیلی پیدا کرو جس کے بعد خدا تعالیٰ کا میابی دیتا ہے.اس سے پہلے تم نہ کسی کی تعریف پر خوشی مناؤ اور نہ کسی کی مخالفت سے گھبراؤ.دنیا میں ہمیشہ دو فریق ہوتے ہیں نہ سب لوگ مخالف ہوتے ہیں اور نہ سب لوگ موافق ہوتے ہیں.صرف چند لوگ مخالف ہوتے ہیں جو دوسروں کو جوش دلا دیتے ہیں وہ بھی ان کی کی ہاں میں ہاں ملانے لگ جاتے ہیں.یہ لوگ اس قابل نہیں ہوتے کہ ان پر ناراضگی کا اظہار کیا ت جائے بلکہ اس قابل ہوتے ہیں کہ ان کے لئے دعا کی جائے کہ خدا تعالیٰ ان پر رحم کرے اور انہیں ہدایت دے تا کہ وہ بُرے کاموں سے نجات پا جائیں.“ ( الفضل 14 مارچ 1962ء ) 1 مورمن: Mormon) عیسائیت میں احیائے دین کے نظریات پر 1830ء میں جوزف سمتھ کی طرف سے قائم کیے گئے گروپ کا نام.جس کی بنیاد ان کے عقائد کے مطابق مورمن کی کتاب میں موجود الہام کی بنیاد پر رکھی گئی.(The Concise Oxford Dictionary of Current English)
1952 302 (35) خطبات محمود روفکر کی عادت ڈالو کہ انسان کا بہترین استاداس کا اپنا نفس ہوتا ہے فرموده 24 اکتوبر 1952ء بمقام ربوہ ) تشهد تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: آج ایک مہمان پروفیسر امریکہ سے آئے ہوئے تھے جس کی وجہ سے کھانا وغیرہ میں دیری ہو گئی اور اب صرف اتنا وقت ہے کہ پانچ سات منٹ ہی خطبہ ہو سکتا ہے.یوں میرے گلے میں بھی تکلیف ہے اور میں زیادہ دیر تک بول نہیں سکتا.بہر حال خطبہ پانچ منٹ چھوڑ ایک منٹ کا بھی ہوسکتا ہے.اہلِ حدیث عام طور پر کہا کرتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا خطبہ جمعہ آپ کی نماز سے چھوٹا ہوا کرتا تھا اس لئے سنت یہی ہے کہ خطبہ نماز سے چھوٹا ہو.ہم لوگ جو بڑے لمبے خطبوں کے عادی ہوتے ہیں انہیں یہ جواب دیا کرتے ہیں کہ اُس وقت کے لوگوں کے دل کھلے ہوتے تھے اور وہ چھوٹی سی بات سن کر بھی اسے مان لیتے تھے لیکن آج کل کے لوگوں کے دل کھلے نہیں اور انہیں مار مار کر بات سمجھانی پڑتی ہے.بہر حال خطبہ کی اصل غرض یہی ہے کہ انسان کو اپنے فرائض اور اسلام کی ضرورتوں کو سمجھنے کی طرف توجہ پیدا ہو.اگر لوگ اپنے فرائض سمجھنے لگ جائیں ، اسلام کی ضرورتوں کو سمجھنے لگ جائیں تو باقی کام بہت چھوٹا سا رہ جاتا ہے.جس شخص کے دل میں محبت ہوتی ہے اسے اپنی ذمہ داری کا احساس پیدا ہو جاتا ہے.ایک اجیبی شخص کسی بیمار کو دیکھتا ہے تو وہ اس کی طرف توجہ نہیں کرتا.زیادہ سے زیادہ اسے گرا ہوا دیکھ کر کہ
1952 303 خطبات محمود دیتا ہے کہ میاں اٹھو! اگر وہ نہیں اٹھتا تو اُسے چھوڑ کر آگے چل پڑتا ہے.لیکن ایک ماں کے دل کی میں بچے کی محبت ہوتی ہے.اس کے بچے کے منہ کا رنگ ذرا سا بھوسلا نظر آئے تو وہ ہزاروں طبیبوں کے نام سوچتی ہے، وہ ہزاروں علاج سوچتی ہے ، وہ ہزاروں نسخے نکالتی ہے اور اس کے دماغ میں علوم کا ایک چشمہ پھوٹ پڑتا ہے.پس اصل چیز غور وفکر کی عادت ہوتی ہے.اگر مومن اپنے اندر سوچنے کی عادت پیدا کر لیں ، اگر وہ اپنی ذمہ داریوں پر غور کریں جو عام لوگ نہیں کرتے تو کام بہت چھوٹا رہ جاتا ہے.سب سے زیادہ غور کرنے کا موقع ہماری جماعت کے لئے ہے لیکن افسوس کہ ہماری جماعت بھی غور کرنے کی عادی نہیں.بہت کم لوگ ایسے ہیں جو اپنی ذمہ داریوں کو سمجھتے ہیں ، جو اسلام کی ضرورتوں کو سمجھتے ہیں اور ان پر غور کرتے ہیں.اکثر لوگ ایسے ہیں جو چاہتے ہیں کہ پکی پکائی کی روٹی ان کے آگے رکھ دی جائے.اکثر لوگ جب مجھے ملنے آتے ہیں تو کہتے ہیں حضور کوئی نصیحت فرمائیں.میں انہیں کہتا ہوں نصیحت کی کیا ضرورت ہے.آپ لوگوں کو علم ہے کہ سارے لوگ آپ کے دشمن ہیں.مجھے تو لوگ صرف گالیاں دیتے ہیں لیکن آپ اُن کے پاس ہوتے ہیں وہ آپ کو مارتے ہیں قتل کی دھمکیاں دیتے ہیں.آپ کو اپنے حالات معلوم ہیں آپ اپنے متعلق خود سوچا کریں.اگر آپ سوچیں گے نہیں تو میری نصیحت کیا کام دے گی.ملتان ہنٹنگمری ، شیخو پورہ یا سرگودھا میں کوئی جھگڑا ہوتا ہے تو لوگ دوڑ کر میرے پاس آتے ہیں اور کہتے ہیں ہمیں کوئی نصیحت فرمائیے.میں انہیں یہی کہتا ہوں کہ آپ کو اپنے حالات معلوم ہیں میں کیا نصیحت کروں.پس غور کی عادت ڈالو.مگر غور بھی ایک حد تک ہونا چاہیے.مجھے ایک احمدی کا لطیفہ یاد ہے اور میں نے دوستوں کو پہلے بھی ایک دفعہ وہ لطیفہ سنایا ہے.ہم ایک گاؤں میں گئے.وہاں آٹا نہیں ملتا تھا ہم مقامی احمدیوں سے آٹا پسواتے تھے.کسی احمدی نے ایک پاؤ آٹا پیس دیا ، کسی نے آدھ سیر آٹا پیس دیا اور کسی نے سیر بھر آٹا پیس دیا.میرے پاس مہمان کثرت سے آتے تھے اور زیادہ آٹا کی ضرورت تھی.کئی دفعہ 15، 20 سیر آٹے کی ایک وقت میں ضرورت ہوتی تھی اور احمدی عورتوں کو آٹا پینے کی تکلیف محسوس ہوتی تھی.وہاں پن چکیاں تھیں میں نے کہا دو تین بوری کی گندم آٹا پسوا لو.چنانچہ ایک احمدی دوست کو بلایا گیا اور انہیں کہا گیا کہ دو بوری گندم لے جاؤ
1952 304 خطبات محمود اور آٹا پسوالا ؤ.میرے پاس 50 ، 60 مہمان روزانہ آ جاتے ہیں اور ان کے لئے آٹا مہیا کرنا کی گاؤں والوں کے لئے مشکل امر ہے.اس نے کہا بہت اچھا.میں نے کہا آپ شام تک آٹا پسوائی لا ئیں اور اگر شام تک نہ آسکیں تو کل صبح ضرور آٹا پسوالا ئیں.اس نے کہا بہت اچھا شام کو آٹا نہ آیا میں نے کہا صبح آ جائے گا.لیکن دوسرے دن میرے پاس باور چی آیا.اس نے کہا آٹا نہیں ہے.میں نے کہا مقامی احمدیوں کو تکلیف تو ہو گی لیکن آج کے لئے آٹا کا انتظام کر لو شام تک آٹا آجائے گا.چنانچہ اُس دن گزارہ کیا گیا.لیکن آٹا شام کو بھی نہ آیا.تیسرے دن باور چی پھر آیا اور اس نے کہا آٹا نہیں ہے.میں نے کہا کوشش کرو کہ آٹا مہیا ہو جائے اور آج کا دن پھر گزارہ کی کرلو.جب اڑھائی دن تک آٹا نہ آیا تو میں نے آدمی بھجوایا کہ اُس شخص کو تلاش کرو اور اُسے کہو ہیں چکیاں ہیں ، ایک گھنٹے کا کام ہے، اتنی دیر کیوں لگائی؟ بڑی تلاش کے بعد وہ شخص اُس کے گھر پہنچا اور دروازہ کھٹکھٹایا وہ باہر نہ آیا.آخر کا ر اُس کی بیٹی کو اٹھایا اور کہا اپنے باپ سے کہو حضرت صاحب بہت خفا ہو رہے ہیں کہ ابھی تک آتا نہیں پسا.اس پر وہ شخص باہر نکلا اور کہا السَّلَامُ عَلَيْكُمْ.فرمایئے کیا کام ہے؟ پیغا مبر نے کہا آپ کو تاکید کر کے بھیجا گیا تھا کہ شام تک کی آٹا پسوا کر لے آؤ.لیکن آج تیسرا دن ہے آپ واپس نہیں گئے.کیا آٹا پس گیا ہے؟ اس نے کہا تج اسیں اجے غور کرنے آں یعنی ہم آٹا پسوانے کے متعلق ابھی غور کر رہے ہیں.پس ایسا غور بھی نہ کرو.مگر ہر بات کو ضرور سوچو.جب تم یہ سوچو گے کہ یہ بے دینی کیوں ہے؟ ہر نفس میں کیوں شرارت ہوتی ہے؟ مایوسی کیوں ہوتی ہے؟ تمہارے لئے کیوں مصیبت پیدا ہوگئی ہے؟ اور تمہارے خلاف دشمن کو کیوں جرات ہوگئی ہے؟ تمہارے ہمسایہ میں کیوں کی کمزوری پیدا ہوگئی ہے؟ تو تم اپنا کام کر سکو گے.تم راتوں کو غور کرو.دن کو غور کرو.اٹھتے بیٹھتے غور کرو اور سوچو انسان کا بہترین استاد اور بہترین رقیب اس کا اپنا نفس ہوتا ہے.تم اپنے نفس کو چ استاد بنالو اور اس سے سیکھنا شروع کر دو.اگر تم اپنے نفس کو استاد بنا کر اس سے سیکھنا شروع کر دو گے تو تمہیں لمبے خطبوں کی ضرورت نہیں رہے گی.تمہارے لئے ساتویں دن جمعہ نہیں ہوگا کی بلکہ تمہارے لئے ہر وقت جمعہ ہوگا.کیونکہ عقل اور نفس ہی بہتر رقیب اور بہتر استاد ہوتے ہیں.“ ( الفضل 5 نومبر 1952 ء ) 66
1952 305 (36) خطبات محمود ہماری جماعت دنیا میں ایک عظیم الشان روحانی تغیر پیدا کرنے کے لئے قائم ہوئی ہے اپنے اندر ایک روحانی تبدیلی پیدا کرو کہ اس کے بغیر تم دوسروں کے قلوب کی اصلاح نہیں کر سکتے (فرموده 31 اکتوبر 1952ء بمقام ربوہ ) تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: دنیا میں تغیر پیدا کرنے کے دو ہی ذرائع ہوتے ہیں.ایک اندرونی اور ایک بیرونی.بعض علوم اور بعض تغیرات باہر سے اندر کی طرف جاتے ہیں اور بعض علوم اور بعض تغییرات اندر سے باہر کی طرف جاتے ہیں.قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا ہے.ہم نے تیرے دل پر کلام نازل کیا 1.یعنی اللہ تعالیٰ کی طرف سے وحی پہلے دل پر نازل ہوئی اور اس کے بعد اس نے افکار ، آنکھوں اور کانوں پر اثر کیا.پس ج بعض علوم باہر سے اندر کی طرف آتے ہیں.پہلے وہ کانوں اور آنکھوں پر اثر انداز ہوتے ہیں.پھر احساسات اور جذبات پر اثر انداز ہوتے ہیں.پھر دماغ پر اثر کرتے ہیں اور اس کے بعد دل پر اثر کرتے ہیں.لیکن بعض علوم پہلے دل پر نازل ہوتے ہیں.پھر افکار یعنی دماغ پر ان کا اثر
1952 306 خطبات محمود ہوتا ہے.پھر ان کا اثر کانوں اور آنکھوں پر ہوگا.قرآنی علم کے متعلق خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ وہ چھی باہر سے اندر آنے والا علم نہیں بلکہ وہ اُن علوم میں سے ہے جو اندر سے باہر کی طرف آتے ہیں.پہلے وہ دلوں پر نازل ہوتے ہیں، اس کے بعد وہ افکار اور کانوں اور آنکھوں پر اثر انداز ہوتے ہیں.ان کا چشمہ غیب سے پھوٹتا ہے اور وہ خدا تعالیٰ کی طرف سے بھیجے جاتے ہیں.پہلے وہ دل کی صفائی کرتے ہیں.پھر دماغ کی صفائی کرتے ہیں.اس کے بعد وہ کانوں اور آنکھوں کی صفائی کج کرتے ہیں.پس دنیا میں اصلاحات اور تغیرات کے دو ہی طریق ہیں.اندرونی اور بیرونی اندرونی تغیرات وہ ہوتے ہیں جو پہلے دل پر اثر انداز ہوں اور پھر باہر کی طرف آئیں.اور بیرونی تغیرات وہ ہوتے ہیں جو پہلے کانوں اور آنکھوں پر اثر انداز ہوں پھر اندر کی طرف جائیں.اور روحانی طریق وہی ہوتا ہے جو خدا تعالیٰ نے بیان فرمایا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر جو کلام نازل ہوا وہ پہلے دل پر نازل ہوا.پھر وہ دماغ کی طرف آیا اور دماغ کے بعد وہ کانوں اور آنکھوں کی طرف آیا.پس اعلیٰ طریق یہی ہے کہ تغیر اندر سے باہر کی طرف آئے.کیونکہ یہی طریق خدا تعالیٰ نے اختیار کیا ہے.ہماری جماعت کو بھی جبکہ وہ اصلاحات کے ایک عام دور میں سے گزر رہی ہے اپنے اندر اس قسم کا تغیر پیدا کرنا چاہیے.دنیا میں شاید کبھی اتنی اصلاحی تحریکیں جاری نہیں ہوئیں جتنی اس زمانہ میں جاری ہوئی ہیں.اس زمانہ میں متعدد تحریکیں مختلف ناموں پر جاری ہوئی ہیں.کوئی کی بولشو ازم کے نام پر ہے.کوئی سوشلزم کے نام پر ہے.کوئی ناسزم کے نام پر ہے.کوئی کی ڈیموکرٹیک انسٹی ٹیوشن کے نام پر ہے.کوئی جمہوریت کے نام پر ہے.کوئی استقلال کے نام پر کی ہے اور کوئی حریت کے نام پر ہے.غرض اس زمانہ میں اتنی سیاسی ، تمدنی اور مذہبی تحریکیں جاری ہی ہیں کہ اس سے قبل شاید بلکہ یقینا دنیا میں اتنی تحریکیں جاری نہیں ہوئیں.پرانے زمانہ کا معیار یہ تھا کہ ایک ایک چیز لو، اُسے پر کھتے جاؤ اور اُس کی درستی کرتے جاؤ.یہاں تک کہ وہ تکمیل تک پہنچ جائے.اسی لئے آج سے ہزار سال قبل جو کپڑے ہمارے آباء واجداد تھ پہنتے تھے وہ آج بھی دیکھنے میں آتے ہیں.پرانے زمانہ میں وہی چیزیں چلتی تھیں جن میں آہستہ آہستہ ارتقاء ہوتا جاتا تھا.چند قسم کے کپڑے تھے جو پرانے زمانہ میں معروف تھے اور وہ آج تک
1952 307 خطبات محمود موجود ہیں.مثلاً تافتہ ہے، زربفت ہے محمل ہے.سینکڑوں سال پہلے ہمارے آباء واجداد بہ کپڑے پہنتے تھے اور آج بھی لوگ یہ کپڑے پہنتے ہیں.لیکن اس کے مقابلے میں یورپ کو دیکھ لو.اگر کسی کو ایک کپڑا پسند آ گیا ہے اور وہ اگلے سال وہی کپڑا تلاش کرنے نکلے تو وہ کپڑا اُسے نہیں ملے گا.اگر کوئی بازار جائے اور دکاندار سے کہے کہ مجھے اس کوٹ کا کپڑا پسند ہے یہ کپڑا مجھے دو.تو وہ دکاندار کہے گا بارہ ماہ قبل اس کا رواج تھا آج تو اس کا رواج نہیں.آج کل اور ڈیزائن آگئے ہیں.غرض تافتہ ، دمشقی مشتمل اور زربفت کے کپڑے جو ہزاروں سال پہلے کے ہیں.وہ تو آج بھی ملتے ہیں لیکن یورپ کا بنا ہوا کپڑا اگلے سال بھی نہیں ملے گا.حالانکہ وہ چیز اچھی بھی ہوتی ہے اور لوگوں میں مقبول بھی ہوتی ہے.لیکن فیشن بدلنے کا شوق ہوتا ہے اس لئے اگلے سال کپڑے کا کوئی نیا ڈیزائن بازار میں آجائے گا اور پہلا ڈیزائن غائب ہو جائے گا.بلکہ بعض دفعہ ایک عام استعمال میں آنے والی چیز بھی ایسی غائب ہو جاتی ہے کہ اسے تلاش کرنا نج مشکل ہوتا ہے.مثلاً ہمارے ملک کے تجربہ نے یہ بتایا ہے کہ نمبر 26 کی ململ کی پگڑی اچھی ہوتی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بھی نمبر 26 کی ململ کی پگڑی ہی پہنا کرتے تھے اور میں بھی نمبر 26 کی ململ کی پگڑی ہی پہنتا ہوں.لیکن اب یہ ململ بازار سے غائب ہوگئی ہے اور اس کا حاصل کرنا مشکل ہو گیا ہے.اب کوئی واقف کار ملتا ہے تو اُسے کہا جاتا ہے کہ کہیں سے نمبر 26 کی ململ لا دو.کیونکہ اسی ململ کی پگڑی باندھنے کی عادت پڑی ہوئی ہے.دوسری ململ موٹی ہو جاتی ہے اور اس کی پگڑی ہاتھ میں نہیں آتی اور یا پھر پتلی ہو جاتی ہے.لیکن ابھی ایک کی نسل بھی نہیں گزری کہ یہ عمل بازار میں نہیں ملتی.بچپن میں جو لٹھا آپ لوگ پہنا کرتے تھے وہ آج جی نہیں ملتا.جس لٹھے کے کپڑے تم اب پہنتے ہو وہ تمہارے بڑھاپے کے وقت نہیں ہو گا.لیکن جہاں تھوڑے تھوڑے عرصہ کے بعد فیشن بدل جاتا ہے وہاں تمہارا پرانا طریق نہیں بدلتا.وہی زربفت آج پائی جاتی ہے جو سینکڑوں سال پہلے لوگ پہنا کرتے تھے.وہی مخمل اور دمشقی آج کی پائی جاتی ہے جو آج سے ہزاروں سال پہلے مستعمل تھی.کیونکہ پرانا طریق یہ تھا کہ اگر کوئی اچھی چیز ہو تو اُسے لئے چلو.مثلاً کنگھیوں کو ہی لے لو.کتنی معمولی چیز ہے.کنگھیاں ہزاروں سال کی چ چلی ہوئی ہیں.جو کنگھیاں آج بنائی جاتی ہیں وہی کنگھیاں ہمارے باپ دادا بنایا کرتے تھے.وہی کنگھیاں دسویں صدی میں بنائی جاتی تھیں.وہی کنگھیاں نویں صدی میں بنائی جاتی تھیں.
1952 308 خطبات محمود وہی کنگھیاں آٹھویں اور ساتویں صدی میں بنائی جاتی تھیں.وہی کنگھیاں چھٹی اور پانچویں صدی میں بنائی جاتی تھیں.وہی کنگھیاں تیسری اور دوسری صدیوں میں بنائی جاتی تھیں.لیکن یورپ کی کنگھیوں کو لو وہ روز بدلتی ہیں.کبھی لمبائی کم ہو جاتی ہے.کبھی رنگ بدل جاتا ہے.کبھی چوڑائی بدل جاتی ہے.کبھی دھات بدل جاتی ہے.کسی وقت لکڑی کی کنگھیاں بنائی جاتی ہیں.کسی وقت لوہے کی کنگھیاں بنائی جاتی ہیں اور کبھی پلاسٹک کی کنگھیاں بنائی جاتی ہیں.کبھی دندانوں میں فرق پڑ جاتا ہے.غرض تمہاری کنگھیاں ہزاروں سال سے نہیں بدلیں.لیکن یورپ کی کنگھیاں جو آج سے چند سال قبل تھیں اب نہیں ملتیں.ملتان میں مٹی کے برتن بنتے ہیں.آج جی سے ہزاروں سال قبل جس رنگ ، ٹھپے اور نقش کے برتن بنتے تھے اُسی رنگ اور ٹھپے اور نقش کے کی برتن آج بھی بنتے ہیں.پرانے شہر کھودے جا رہے ہیں ان سے اسی ٹھپے ، رنگ اور نقش کے برتن مل رہے ہیں جو آج کل بنائے جاتے ہیں.لیکن انگریزی پیالی جو آج سے دس سال قبل بازار میں ملتی تھی آج نہیں ملے گی.کارخانے وہی ہوتے ہیں لیکن نئے ڈیزائن آجاتے ہیں اور پرانے ڈیزائن ختم ہو جاتے ہیں.غرض دلوں سے نکلی ہوئی اور خدا تعالیٰ کے منبع سے آئی ہوئی چیز جو ہوتی ہے وہ پائیدار ہوتی ہے اور پرانے لوگ چاہتے تھے کہ ان کی بنائی ہوئی چیزیں بھی خدا تعالیٰ کی بنائی ہوئی چیزوں کی طرح پائیدار ہوں جس طرح ایک مذہب کا پیر و اس بات پر فخر کرتا تھا کہ میرا مذہب ہزاروں سال سے ہے اس میں کوئی تغیر نہیں ہوا.اسی طرح ایک مٹی کے برتن بنانے والا اس بات پر فخر کرتا تھا کہ سالہا سال سے وہ اسی قسم ، اسی رنگ اور اسی ٹھپے کے برتن بنارہے ہیں لیکن آجکل تو مذہب اور دین بھی بدل رہے ہیں اور نئی نئی باتیں مذاہب میں داخل کی جا رہی ہیں.غرض دنیا میں اب نئی سے نئی چیزیں آرہی ہیں.نہ پرانے کپڑے ملتے ہیں، نہ پرانے برتن ملتے ہیں ، نہ پرانی قسم کا فرنیچر ملتا ہے.اور بظاہر کوئی وجہ نظر نہیں آتی کہ وہ کیوں بدل گئیں.کرسی کو لے لو.آج سے چند سال پہلے اس کی جو شکل تھی وہ آج نہیں.اس کی لکڑی کی موٹائی پہلے کی نسبت کم ہوگئی ہے.تو کیوں اس کی شکل بدل دی گئی ہے؟ اس میں کیا فائدہ نظر آیا ہے؟ ایک دکاندار کہے گا کہ اس کا فائدہ تو کچھ نہیں فیشن بدل گیا ہے.فیشن کیوں بدلا ؟ اس کی وہ کوئی وجہ بیان نہیں کر سکے گا.
1952 309 خطبات محمود میں نے اب مکان بدلا تو میں لاہور گیا اور میں نے چاہا کہ بعض وہ چیزیں خریدوں جو کچ قادیان میں ہمارے گھروں میں ہوتی تھیں.لیکن دکاندار کہنے لگا اب فیشن بدل گیا ہے وہ چیزیں تھی اب نہیں مل سکتیں.گویا آج سے پانچ سات سال قبل جو چیزیں قادیان میں ہمارے استعمال میں ނ آتی تھیں آج بازار میں نہیں ملتیں.ان کی جگہ نئی چیزوں نے لے لی ہے.میں نے دکاندار - کہا پرانی فہرست ہی دکھا دو تو وہ کہنے لگا پرانی فہرست کون رکھتا ہے.اب نئی فہرستیں ہیں ، نئی چیزیں ہیں.پس آج کل کی ہر چیز بدلتی ہے.لیکن ہمارا پرانا طریق برابر قائم ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ پرانے لوگ ہر چیز میں سوچ سمجھ کر اور آہستہ آہستہ تغیر کرتے تھے.لیکن آج کل محض فیشن کے بدلنے پر چیزیں بدل جاتی ہیں.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ تغیر واقع ہونا ایک لازمی چیز ہے اور اس کے بغیر دنیا قائم نہیں رہ سکتی.لیکن اندھا دھند تغیر پیدا کرنا تباہی کا موجب ہوتا ہے.جس طرح یہ کی بات خطر ناک ہے کہ جو بات حضرت امام ابو حنیفہ آج سے بارہ سو سال پہلے کہہ گئے تھے وہ نہیں بدلے گی ، جس طرح یہ بات خطر ناک ہے کہ امام شافعی بارہ پونے بارہ سو سال پہلے جو بات کہ گئے تھے وہ نہیں بدلے گی یا امام احمد بن حنبل "بارہ ساڑھے بارہ سو سال پہلے جو بات کہہ گئے تھے تھے وہ نہیں بدلے گی.اسی طرح بلکہ اس سے بھی زیادہ خطرناک بات یہ ہے کہ ایک شخص قرآن اور تجھے حدیث کو پوری طرح سمجھتا نہ ہو اور وہ نئے نئے مسائل نکالتا رہے.تغیر چاہے کتنا ہی قلیل ہوتی بڑے تجربہ ، غور وفکر کے بعد کرنا چاہیے.مگر اس زمانہ میں مذہب میں اسی طرح دست درازی ہو رہی ہے کہ لوگ نئے نئے مسائل مذہب میں داخل کر رہے ہیں اور انہیں یہ بھی محسوس نہیں ہوتا کہ یہ کتنی شرم کی بات ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ میں ایک دوست مہر نبی بخش صاحب تھے.وہ بٹالہ کے رہنے والے تھے.بعد میں احمدی ہوئے اور نہایت مخلص احمدی ہوئے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے یہ مسئلہ نکالا کہ عربی زبان اتم الالسنہ ہے.یعنی سب زبانیں اسی سے نکلی ہیں.مہر نبی بخش صاحب نے اس مسئلہ کو لے لیا اور اسی کام میں مشغول ہو گئے کہ ہر لفظ کا عربی کی زبان سے نکلا ہوا ثابت کریں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام تو لغت کے واقف تھے ،صرف ونحو کے واقف تھے ، زبان کے واقف تھے.آپ جو مسئلہ نکالتے تھے علم کی بناء پر
1952 310 خطبات محمود نکالتے تھے.جب آپ نے یہ کہا تھا کہ سب کچھ قرآن کریم میں موجود ہے تو اس سے آپ کی یہ مراد تو نہیں تھی کہ قرآن کریم میں یہ بھی لکھا ہوا ہے کہ بڑھئی کا کام کس طرح کیا جائے.یا اس میں یہ بھی ذکر آتا ہے کہ کھیتی باڑی کے کیا اصول ہیں.سب کچھ سے مراد یہ تھا کہ تمام ضروریاتِ دینیہ قرآن کریم میں موجود ہیں.لیکن مہر نبی بخش صاحب نے خیال کر لیا کہ سب کچھ قرآن کریم میں موجود ہے.چنانچہ کسی نے اُن سے کہہ دیا کہ آلو اور مرچوں کا قرآن کریم میں کہاں ذکر ہے؟ وہ کہنے لگے.اللولو و الْمَرْجَانُ ( جس کے معنی موتی اور مونگا کے ہیں ) آلو اور مرچیں ہی ہیں اور کیا ہے.پس ایک طرف تو اتنا اندھیر ہے کہ بعض کے نزدیک خدا تعالیٰ کے قول کی طرح فقہاء کا قول بھی نہیں بدلتا.اور دوسری طرف لوگ تغیر و تبدل کرتے ہیں تو اندھیر مچا دیتے ہیں کوئی اُصول اور کی قاعدہ نہیں ہوتا حالانکہ اصل طریق وسطی ہے.انسان کو تغیر قبول کرنے کے لئے تیار رہنا چاہیے.لیکن تغیر پیدا کرنا خدا تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے.وہ جب چاہتا ہے تغیر پیدا کرتا ہے اور جب وہ تغیر پیدا کرتا ہے تو دنیا اسے تغیر پیدا کرنے سے روک نہیں سکتی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ میں ایک شخص قادیان آیا وہ مخلص احمدی تھا.اس نے کہا اگر حضرت مرزا صاحب کو کہا جاتا ہے کہ آپ ابراہیم ہیں ، نوح ہیں ، موسیٰ ہیں ، عیسی ہیں ، محمد ہیں.تو مجھے بھی خدا تعالیٰ ہر وقت ہی کہتا ہے کہ تو محمد ہے.لوگ اُسے سمجھانے لگے تو اس کی نے کہا خدا تعالی کی آواز مجھے آتی ہے، وہ خود مجھے کہتا ہے کہ تو محمد ہے.تمہاری دلیلیں مجھ پر کیا اثر کر سکتی ہیں.جب لوگ سمجھاتے سمجھاتے تھک گئے تو انہوں نے خیال کیا کہ بہتر ہے اسے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام کی خدمت میں پیش کیا جائے.چنانچہ انہوں نے حضرت خلیفة امسیح الاوّل سے درخواست کی کہ آپ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے ذکر کر کے وقت لے دیں.حضرت خلیفہ امسیح الاوّل نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے عرض کیا کی اور آپ نے فرمایا اچھا اس شخص کو بلا لو.چنانچہ وہ شخص حضور کی خدمت میں لایا گیا.اور اُس نے کہا کہ خدا تعالیٰ مجھے ہر وقت یہ کہتا ہے کہ تم محمد ہو.آپ نے فرمایا مجھے تو خدا تعالیٰ ہر وقت یہ نہیں کہتا کہ میں ابراہیم ہوں ، موسیٰ ہوں، ہمیسی ہوں.لیکن جب وہ کہتا ہے کہ تم عیسی ہو تو وہ عیسی والی صفات بھی مجھے دیتا ہے.جب وہ کہتا ہے کہ تم موسیٰ ہو تو موسیٰ والے نشانات بھی مجھے دیتا ہے.
1952 311 خطبات محمود اگر وہ آپ کو ہر وقت محمد کہتا ہے تو کیا وہ آپ کو قرآن کریم کے معارف ، لطائف اور حقائق بھی دیتا ہے یا نہیں ؟ اس نے کہا دیتا تو کچھ نہیں.آپ نے فرمایا دیکھو ! سچے اور جھوٹے میں یہی فرق ہوتا ہے.اگر کوئی شخص بچے طور پر کسی کو مہمان بناتا ہے تو وہ اسے کھانے کو دیتا ہے.لیکن اگر کوئی کسی سے مذاق کرتا ہے تو وہ یونہی کسی کو بلا کر اس کے سامنے خالی برتن رکھ دیتا ہے اور کہتا ہے یہ کی پلاؤ ہے، یہ زردہ ہے.خدا تعالیٰ مذاق نہیں کرتا.شیطان مذاق کرتا ہے.اگر آپ کو محمد کہا جاتات ہے اور پھر قرآن کریم کے معارف ، لطائف اور حقائق نہیں دیئے جاتے تو ایسا کہنے والا شیطان کی ہے خدا نہیں.خدا تعالیٰ اگر کچھ کہتا ہے تو وہ اس کے مطابق چیز بھی انسان کے آگے رکھ دیتا ہے.اگر آپ کے سامنے کوئی چیز نہیں رکھی جاتی تو آپ یقین کر لیں کہ آپ کو محمد کہنے والا خدا کی نہیں شیطان ہے.حقیقت یہ ہے کہ تغیر خدا تعالیٰ پیدا کرتا ہے.اس نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو پر تو لوگوں کی توجہ آپ ہی آپ، آپ کی طرف ہو گئی.یہ نہیں ہوا کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دعوئی سنا ہو اور اس نے آپ کو کوئی اہمیت نہ دی ہو.اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی مخالفت بھی بتا رہی ہے کہ لوگ آپ کو اہمیت دیتے ہیں.پس ہماری جماعت کو اپنے اند راستقلال پیدا کرنا چاہیے.خدا تعالیٰ نے انہیں ایک عظیم الشان روحانی تغیر کا ذمہ دار قرار دیا ہے اور عظیم الشان تغیر دلوں کی اصلاح سے ہی ہوسکتا ہے بیرونی اصلاح سے نہیں.یورپین تحریکیں بیرون سے اندرون کی طرف چلتی ہیں اور خدا تعالیٰ کی تحریکیں اندرون سے بیرون کی طرف چلتی ہیں.مجھے اس خطبہ کی تحریک خدام الاحمدیہ کے سالانہ اجتماع سے ہوئی ہے.نوجوانوں کا جلسہ ہو رہا ہے اور وہاں لیفٹ رائٹ لیفٹ رائٹ ہو رہا ہے.اس میں کوئی کی شبہ نہیں کہ اس سے بھی اصلاحیں ہوتی ہیں لیکن یہ اصلاحیں زیادہ دیر تک نہیں چل سکتیں.اس کے کی مقابلہ میں رسول مقبول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جو تبدیلی پیدا کی وہ دل سے تعلق رکھتی تھی.اس کی کا تعلق اندرون سے تھا.اس لئے آپ ایک حقیقی تبدیلی پیدا کر گئے.آج آپ کی لائی ہوئی تھی تعلیم پر چودہ سو سال گزرنے کو ہیں لیکن اس کے نقش ابھی قائم ہیں.فلاسفروں کی کتب پڑھنے کی والے آج بھی ہزاروں ہوں گے.جالینوس کی کتابیں پڑھنے والے سینکڑوں ہوں گے.لیکن اُن جی پر عمل کرنے والا کوئی نہیں ملے گا.لیکن محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی لائی ہوئی تعلیم پر عمل کرنے کی
1952 312 خطبات محمود کی کوشش کرنے والے اس گئے گزرے زمانہ میں بھی لاکھوں کی تعداد میں ہوں گے.اس کے کی مقابل پر آپ کے بعد جو فلسفی آئے اُن کی تعلیم پر عمل کرنے والے دس افراد بھی نہیں ملتے.پس جس تغیر کے نقش مستقل ہوتے ہیں وہی تغیر بابرکت ہوتا ہے ورنہ صرف ظاہری تبدیلی اچھی نہیں.دنیا ایک روحانی تغیر چاہتی ہے اور وہ تغیر ضرور ہو کر رہے گا.اس تغیر کو کوئی نہ کوئی جماعت پیدا کرے گی.کیونکہ خدا تعالیٰ کی سنت یہی ہے کہ ایسا تغیر کوئی جماعت ہی پیدا کرتی ہے.پس جب ایسا تغیر مقدر ہے تو ہمارے نوجوانوں کو چاہیے کہ وہ کوشش کریں کہ ہمیشہ ہمیش یادگار قائم کرنے والا کام ان سے ہو جائے.اگر وہ ایسا کرنا چاہتے ہیں تو وہ یا د رکھیں کہ یہ تغیر دلوں سے پیدا ہو گا.ظاہر سے دل نہیں بدلتا.دل سے ظاہر بدلتا ہے.بے شک بعض دفعہ ظاہر سے بھی دل بدل جاتے ہیں لیکن نہایت آہستہ آہستہ.صحیح طریق یہی ہے کہ پہلے دلوں کی اصلاح کی جائے اور پھر ظاہر کو بدلا جائے کیونکہ روحانی تبدیلی دل سے پیدا ہوتی ہے اور پھر باہر سے تعلق پیدا الفضل 2 فروری 1961 ء ) کرتی ہے.“ 1 : قُلْ مَنْ كَانَ عَدُوا لِجِبْرِيلَ فَإِنَّهُ نَزَّلَهُ عَلى قَلْبِكَ - (البقرة : 98) 2 الرحمن 23
1952 313 (37) خطبات محمود قومی زندگی نو جوانوں سے وابستہ ہوتی ہے اس لئے انہیں اپنے فرائض منصبی اور قومی ذمہ واریوں کو ادا کرنے کی طرف توجہ کرنی چاہیے فرموده 21 نومبر 1952ء بمقام ربوہ ) تشهد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: میں پچھلے دو جمعے نہیں پڑھا سکا.اور اس کی وجہ پہلے تو یہ ہوئی کہ میرے پاؤں میں درد کا کی شدید دورہ ہو جاتا رہا اور آخری ایام میں دوبارہ بخار شروع ہو گیا.پہلے تو یہ ہوتا رہا کہ چھ سات کی ماہ یا سال کے بعد درد کا سخت دورہ ہو گیا ، پندرہ بیس دن رہا اور پھر آرام آ گیا.لیکن اس سال کی پچھلے تین چار ماہ سے ( شاید یہ موسم کے تغیر کا نتیجہ ہے یا مرض نے پلٹا کھایا ہے ) اصل مرض قائم رہتا ہے اور بجائے اِس کے کہ سال میں یا چھ سات ماہ میں ایک دفعہ دورہ ہو ایک دن دورہ ہو جی جاتا ہے اور دوسرے دن تخفیف ہو جاتی ہے یا تین چار دن دوره رہتا ہے اور تین چار دن آرام رہتا ہے.بلکہ بعض اوقات دورہ متواتر گھنٹوں میں بدلتا ہے اور بعض اوقات ہفتہ کے ایام میں بدلتا ہے.لیکن یہ بات ضرور ہے کہ درد کا دورہ اتنا شدید نہیں ہوتا کہ میں چار پائی پر لیٹنے پر مجبور ہو جاؤں.لیکن اس قدر ضرور ہوتا ہے کہ مجھ سے زیادہ چلا نہیں جاتا.خصوصاً سیڑھیاں اتر نے میں تکلیف ہوتی ہے اور اس طرح نماز کے لئے مسجد میں نہیں آ سکتا.اسی طرح پچھلے تین مہینوں کی
1952 314 خطبات محمود میں متواتر بخار چلتا رہا.ڈاکٹروں نے جیسا کہ اُن کی عادت ہوتی ہے اسے ملیر یا قرار دیا ہے.چنانچہ میں نے کونین کھائی، امبرین کھائی ، پلیو ڈرین کھائی ، پلازما کو نین کھائی.لیکن کسی دوا سے بھی فائدہ نہ ہوا.چونکہ بخار ہلکا رہتا تھا اور متواتر رہتا تھا شروع میں چودہ چودہ پندرہ پندرہ یا سولہ سولہ گھنٹے متواتر بخار رہتا تھا اور سل دق میں ایسا ہی ہوتا ہے کہ بخار ہر روز چڑھتا ہے اور شروع میں ہلکا بخار رہتا ہے.اس لئے گو ڈاکٹروں نے تو یہ کہا کہ سینہ صاف ہے اس میں کوئی تکلیف نہیں لیکن میں نے خود یہ خیال کیا کہ شاید سل کا کوئی شائبہ نہ ہو.چنانچہ میں نے تریاق سل کھانا شروع کیا.اور میں نے دیکھا کہ اس کے استعمال سے بخارا تر نا شروع ہو گیا اور پھر پندرہ کی ہیں دن تک بخار نہ ہوا چار پانچ دن ہوئے میں نماز کے لئے مسجد میں آ گیا تو گھر جانے پر جسم میں تکان محسوس ہوئی اور میں نے خیال کیا کہ شاید بخار دوبارہ ہو گیا ہے.میں نے سمجھا کہ ایک کی عرصہ کے بعد میں نماز کے لئے مسجد میں چلا گیا ہوں.لیکن دوسرے دن بخار زیادہ ہو گیا.میں نے پھر تریاق سل کا استعمال کیا.نتیجہ یہ ہوا کہ پرسوں میں نے تریاق سل کھائی اور کل بخار کم ہو گیا.اسی طرح بخار کا وقت بھی کم ہو گیا.پہلے جب بخار ہوا تھا تو صبح آٹھ نو بجے بخار ہو جاتا تھا.بلکہ کبھی اس سے بھی پہلے بخار ہو جاتا تھا اور رات کو دس گیارہ بجے کے درمیان اترتا تھا اس کی طرح پندرہ سولہ گھنٹے متواتر بخار رہتا تھا.بہر حال اس مجبوری کی وجہ سے میں اندر بیٹھ کر کرنے والے کام تو کر لیتا ہوں مگر یہ بیماری ایسی ہے کہ اس میں حرکت کر نا مضر ہوتا ہے اور اسے میں برداشت نہیں کر سکتا.اس لئے میں مسجد میں نماز کے لئے نہیں آ سکتا کیونکہ اب اس کے لئے سیٹرھیاں اترنا پڑتی ہیں.مرض کے متعلق ابھی تو کچھ نہیں کہا جا سکتا.ڈاکٹر کہتے ہیں کہ سینہ صاف ہے لیکن سینہ کے علاوہ سل کا مادہ بعض دوسرے اعضاء پر بھی حملہ کر دیتا ہے.چنانچہ سل کا اثر گلا پر بھی ہوتا ہے، انتڑیوں میں بھی سل ہوتی ہے.گلا پر اس کا اثر زیادہ نمایاں ہوتا ہے یعنی گلا بالکل بیٹھ جاتا ہے.لیکن میرا گلا ٹھیک ہے، اس میں کوئی تکلیف نہیں.ہاں انتریوں میں اس کا اثر ہوسکتا ہے.کیونکہ مجھے اجابت کم ہوتی ہے.جلاب لیتا ہوں تو اجابت ہوتی ہے ورنہ نہیں.کی بہر حال اس بیماری کے اثر کے نیچے اور کچھ اس خوف کی وجہ سے کہ یہ مرض بڑھ نہ جائے میں مسجد میں نہیں آسکا.کیونکہ پہلے تجربہ سے معلوم ہوا ہے کہ حرکت کرنا مضر ہے اور چونکہ خطرہ ہوتا ہے کہ مرض بڑھ نہ جائے اس لئے ہمت ہو بھی تو میں احتیاط کرتا ہوں مگر گھر میں بیٹھ کر جو کام کر سکتا ہوں کی
1952 315 خطبات محمود وہ کرتا ہوں.آج کل تفسیر بھی لکھ رہا ہوں ، خطوط کا جواب بھی دیتا ہوں ، ملاقات بھی کرتا ہوں کی اور دوسرے دفتری کام بھی کرتا ہوں.اب میں نو جوانوں کو خطاب کر کے انہیں اس طرف توجہ دلاتا ہوں کہ وہ اپنے فرائض منصبی اور قومی ذمہ داریوں کے ادا کرنے کی طرف توجہ کریں.ان کے ماں باپ بھی اس وقت میرے مخاطب ہیں.قومی زندگی نو جوانوں کی ترقی کے ساتھ وابستہ ہے.میں دیکھتا ہوں کہ جس وقت احرار کا فتنہ 1934 ء میں شروع ہوا تھا اُس وقت نہ معلوم کیا حالات تھے جن کی وجہ سے کی جماعت میں اتنی بیداری پیدا ہوئی کہ سینکڑوں نوجوانوں نے زندگیاں وقف کیں اور پھر ایسے کی حالات میں اپنی زندگیاں وقف کیں جو آج کل کے حالات سے بالکل مختلف تھے.آج کل تو ی واقفین کے گزارے ایک حد تک معقول ہیں لیکن اُس وقت جو گزارے دیئے جاتے تھے وہ بہت قلیل تھے لیکن اس کے باوجود سینکڑوں نوجوانوں نے اپنی زندگیاں وقف کیں.اب جو نو جوان کی باہر جاتے ہیں انہیں علاوہ مکان اور دوسرے ضروری اخراجات کے گیارہ پاؤنڈ ماہوار دیے جاتے ہیں.اگرچہ پونڈ کے علاقوں میں گیارہ پونڈ بھی بہت کم ہیں مگر پھر بھی مبلغ کو مکان کے اخراجات، پانی کے اخراجات، بجلی کے اخراجات وغیرہ علاوہ مل جاتے ہیں.لیکن اُس وقت ہم انہیں اس سے بھی کم اخراجات دیتے تھے اور بعض اوقات تو کچھ بھی نہیں دیتے تھے بلکہ کہتے تھے کہ جاؤ اور کام کرو.بعض اوقات چھ سات پونڈ دے دیتے تھے اور کہتے تھے اسی رقم سے مکان، پانی ،خوراک اور بجلی وغیرہ کا انتظام کرو.لیکن اس زمانہ میں جب احمدیت کے خلاف پہلے سے بھی زیادہ شدید مخالفت اٹھی اور احمدیت سے محبت رکھنے والوں کے دل میں یہ خطرہ پیدا ہو گیا کہ اب دین کی حالت نہایت نازک ہے مجھے جماعت کے نوجوانوں میں وہ بیداری نظر نہیں آئی جو جی پہلے ان میں پیدا ہوئی تھی.احرار کے پہلے فتنہ کے وقت تو یہ حالت تھی کہ اسے دیکھ کر سینکڑوں کی نو جوانوں نے زندگیاں وقف کر دیں.لیکن شورش کے وقت میں میں دیکھتا ہوں کہ سینکڑوں کی نو جوانوں کا زندگیاں وقف کرنا تو ایک طرف رہا درجنوں نو جوانوں نے بھی زندگیاں وقف نہیں کی کیں.بلکہ ہفتہ دو ہفتہ میں ایک آدھ درخواست ایسی آجاتی ہے کہ مجھے وقف سے فارغ کر دیا تی جائے کیونکہ میں تکالیف کو برداشت نہیں کر سکتا.میں سمجھتا ہوں کہ ایسے حالات میں ایسے شخص کا چی ایمان کوئی ایمان نہیں.اس وقت اس کے لئے دو ہی راستے کھلے ہیں.یا تو اپنی جان کی قربانی کی
1952 316 خطبات محمود دے کر دین کو اپنے پاؤں پر کھڑا کرنا اور یا مرتد ہو جانا.دشمن اسے اس سے ورے نہیں چھوڑتا.دشمن اس دنیا میں اُسے ان دو چیزوں میں سے ایک چیز ضرور دے گا یا تو وہ اُسے مرتد کر دے گا جی اور یا اُسے موت دے گا.اور جب ارتداد اور موت ایک طرف ہوں تو مال اور جان کی قیمت ہی کیا رہ جاتی ہے.انسان سمجھتا ہے کہ چلو جہاں دین سلامت رہتا ہے وہیں چلو میں اپنی جان کی قربانی دے دیتا ہوں.د نیوی جنگوں کے موقع پر لاکھوں لاکھ لوگ اپنی جانیں پیش کر دیتے ہیں.پچھلی جنگِ عظیم میں 60 لاکھ انگریز جنگ میں شامل ہوئے اور 70 ، 80 لاکھ کے قریب جرمن تھے جنہوں نے جنگ کے لئے اپنی زندگیاں پیش کیں.ان کی جانیں بھی ہماری جانوں کی طرح تھیں.لیکن جب انہوں نے دیکھا کہ ہمارا ملک اور ہماری قوم خطرہ میں ہے اور اس کے بغیر کوئی چارہ نہیں کہ ہم اپنی زندگیاں ملک اور قوم کی خاطر پیش کر دیں تو انہوں نے اپنی جانیں پیش کر دیں.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اُس میں ایک حد تک کنسکر پشن (CONSCRIPTION) بھی تھی یعنی کی جبری بھرتی.لیکن اگر 60 لاکھ انگریزوں میں سے 40 لاکھ ایسے نکل آئیں جو جبر ابھرتی کر لئے ހނ گئے تھے تب بھی 20 لاکھ نوجوان ایسے تھے جنہوں نے ملک وقوم کی خاطر اپنی جانیں خوشی.قربان کیں اور یہ ایک بڑی تعداد ہے.اگر ایک کروڑ امریکنوں میں سے جنہوں نے جنگ میں شمولیت کی 2/3 ایسے لوگ نکال دیئے جائیں جو جبراً بھرتی کر لئے گئے تو 33 لاکھ ایسے آدمی رہا جی جاتے ہیں جنہوں نے بطور والنٹیئر اپنی جانیں پیش کیں.اسی طرح اگر 70 لاکھ جرمنوں میں سے 40 لاکھ ایسے لوگ ہوں جنہیں حکومت نے جبراً بھرتی کر لیا ہوتو پھر بھی ملک کی خاطر قربانی دینے والے 30 لاکھ باقی رہ جاتے ہیں.بہر حال جب خطرہ کا وقت ہوتا ہے تو ملک اور قوم کی خاطر جان دینے والے بڑی تعداد میں آگے آجاتے ہیں.اب گجا یہ لوگ کہ وہ اپنے ملک اور قوم کی خاطر قربانیاں دیتے ہیں اور جانی ہم جو ایک متمدن ملک میں رہتے ہیں.یہاں کبھی کبھی تو ایسا ہوتا ہے کہ چند احراریوں نے حملہ کر دیا ،لٹھ چلا دی یا مکان کوٹ لیا لیکن ہر وقت ایسا نہیں ہوتا.آخر لاکھوں کی جماعت میں کتنے ایسے واقعات ہوئے ہیں.قریباً ایک درجن ایسے واقعات ہوں گے کہ احمدیوں کے مکانوں اور دُکانوں کو لوٹ لیا گیا ہو، انہیں گھروں سے نکال دیا گیا ہو.اور ایسی حرکات چور چکار کرتے ہی
1952 317 خطبات محمود ہیں.مگر جن بے امن ملکوں میں ایسا ہوتا ہے وہاں پبلک طور پر یہ ہوتا ہے کہ فلاں کو ماردو، فلاں کو پھانسی دے دو.ہم تو ایک متمدن ملک میں رہ رہے ہیں.جس کے وزراء اور افسر چاہے ان میں سے بعض لوگ احرار کی پیٹھ ٹھونکتے ہوں دوسری حکومتوں کے رُعب کی وجہ سے یا نیک نامی حاصل کرنے کی خاطر یا اسلام کی محبت کی وجہ سے یہ برداشت نہیں کر سکتے کہ کسی کو مذہب کی وجہ سے قتل کیا جائے.پس جب ہمیں اتنی بڑی قربانیاں نہیں کرنی پڑتیں جو پہلوں کو کرنی پڑیں یا اب بھی بعض قو میں کر رہی ہیں تو کیا وجہ ہے کہ ہم قربانی کرنے میں پس و پیش کریں.یہ یقیناً ہماری کمزوری کی علامت ہے.پھر جو لوگ قربانی پیش کرتے ہیں انہیں بھی دیکھتا ہوں کہ وہ بھی ج کمزوری دکھاتے ہیں.انسان کو کم از کم کسی ایک طرف تو ہونا چاہیے.انسان یا تو خدا تعالیٰ کا ہو گی رہے یا دنیا کا ہور ہے.ہمارے ہاں پنجابی میں کہاوت ہے کہ یا توں اُس دے لڑ لگ جایا اس دے لڑ لگ جائے یہ ایک محاورہ ہے.جس کے معنی ہیں کہ تو کسی کے دامن سے وابستہ ہو جا.کیونکہ دنیا میں عزت اُسی کی ہوتی ہے جو کسی کے دامن سے وابستگی رکھتا ہے.یا تو خدا تعالیٰ کے دامن سے وابستہ ہو جا اور یا دنیا کا دامن پکڑ لے.یہ نہیں کہ تو کسی کے دامن سے بھی وابستہ نہ ہو.میں نے بار ہا نو جوانوں کو توجہ دلائی ہے کہ وہ اپنی تعلیم کی طرف توجہ کریں.وہ ان باتوں کو نہ دیکھیں کہ فلاں قسم کی تعلیم حاصل کرنے سے انہیں فلاں محکمے میں ملازمت مل جائے گی.حقیقت تو یہ ہے کہ انہیں یہ خیال بھی نہیں کرنا چاہیے کہ انہیں کوئی ملازمت مل جائے گی.کیونکہ ہم دیکھتے ہیں کہ جس ملک کا بھی تمدن اعلیٰ ہے اُس کے کاریگر اور دوسرے پیشہ ور، ملازموں کی نسبت زیادہ مُرفه الحال 1 ہوتے ہیں.آبادی کا بہت تھوڑا حصہ ملازموں کا ہوتا ہے زیادہ حصہ دوسرے لوگوں کا ہوتا ہے.ایشیائیوں کی خواہش تو یہ ہے کہ وہ ترقی کریں لیکن جن ذرائع سے ترقی ہوتی ہے انہیں اختیار کرنے کی طرف ان کی توجہ نہیں.کوئی چیز بھی قربانی کے بغیر حاصل نہیں ہو سکتی.ادھر تو یہ شور مچایا جا رہا ہے کہ برطانیہ، امریکہ اور فرانس ساری دولت لے گئے ہیں اور ادھر اعمال وہ ہیں جو دولت کمانے والے نہیں.جب ایشیائی لوگ وہ اعمال نہیں کریں گے جو دولت دینے والے ہوں تو دولت آئے گی کس مرح.ملازم دولت کما نہیں رہا ہوتا وہ دولت کھا رہا ہوتا ہے.مثلاً پولیس وغیرہ ہے وہ ملک کی کی
1952 318 خطبات محمود دولت کھا رہی ہوتی ہے دولت کما نہیں رہی ہوتی.ملک کو دولت دینے والے اُس کے تاجر ، پیشہ ور ، کارخانہ دار، ایکسپورٹ امپورٹ کرنے والے، بینکوں والے، کمپنیوں والے، اور زمیندار وغیرہ ہوتے ہیں.نوکر دولت کھاتے ہیں لیکن ہمارے ملک میں دولت کھانے والوں کی تعداد بہت زیادہ ہے اور دولت دینے والوں کی تعداد کھانے والوں کی نسبت بہت کم ہے.چنانچہ ہر زمیندار کا لڑکا جب جوان ہوتا ہے تو وہ یہ خیال کرتا ہے کہ وہ تھانیدار بنے گا ، وہ تحصیلدار بنے گا ، یا جج بنے گا.کوئی بھی ایسا نوجوان نہیں ہوگا جو یہ کہے کہ بجائے اس کے کہ میں تھانیدار بنوں ،تحصیلدار بنوں یا جج بنوں میں کما کر ملک کو کھلاؤں گا.پس ہمارا دنیوی حصہ بھی بہت کمزور نظر آتا ہے.میرے نزدیک جتنے لوگوں کی حکومت کو ضرورت ہے اُن کے علاوہ دوسرے لوگوں کو خود آزاد پیشوں کے ذریعہ روزی کمانے کی طرف توجہ کرنی چاہیے.اس سے ملک کو ترقی حاصل ہوگی.بے شک انہیں شروع میں نقصان بھی اٹھانا پڑے گا لیکن جتنے موجد دنیا میں گزرے ہیں اُن کے حالات پڑھ لو بعض لوگوں نے تو کئی سالوں کے فاقہ کے بعد ایجادیں کی ہیں.مشہور واقعہ ہے.جرمنی میں ایک نواب تھا.اُسے خیال پیدا ہوا کہ لو ہے یا تانبے کے برتنوں پر اگر کسی طرح چینی چڑھا دی جائے تو اس سے بڑا فائدہ پہنچ سکتا ہے.چنانچہ اُس نے تام چینی یار کرنے کے متعلق تجربات کرنے شروع کئے.وہ اپنی ساری جائیداد بیچ کر تام چینی تیار کرنے پر لگا تا رہا.لیکن اپنی ساری جائیداد لگانے کے بعد بھی اُسے کام میں کامیابی نہ ہوئی.لیکن جتنی کامیابی ہوئی وہ سمجھتا تھا کہ وہ اُتنا ہی اپنے مقصد کے قریب ہوتا جا رہا ہے.وہ غریب ہو گیا اور دوستوں اور رشتہ داروں نے اُس کی امداد کرنی شروع کر دی.چنانچہ وہ بھیک پر گزارہ کرتا تھا اور رات دن تام چینی تیار کرنے میں لگا رہتا تھا.ایک دن اُس کے رشتہ داروں یا کسی دوست کے ہاں اُس کی دعوت تھی.انہوں نے نہایت اصرار سے اُسے بلایا تھا.لیکن اُس نے اپنی بیوی کی کو وہاں بھیج دیا اور خود دھونکنی چلانے میں مصروف رہا تا کہ تام چینی تیار ہو جائے.آگ جلاتے ہی جلاتے لکڑیاں ختم ہو گئیں.اُس کے پاس پیسے نہیں تھے کہ وہ اور لکڑیاں خرید لیتا.اس نے کرسیاں اور میز توڑ کر جلانے شروع کئے.جب وہ آخری سامان جلا کر تام چینی تیار کرنے میں کی مصروف تھا تو اُس نے ایک روشنی دیکھی جس کے متعلق اُس کا یہ خیال تھا کہ وہ کامیابی کے وقت اُسے نظر آئے گی.لیکن ادھر اُس نے کامیابی دیکھی اور اُدھر لکڑیاں ختم ہو گئیں.اُس کے پاس کی
1952 319 خطبات محمود ایک ہی کرسی باقی رہ گئی تھی جس پر وہ خود بیٹھا کرتا تھا.اُس نے اپنے بیٹے کو جو اس کے ساتھ کام کر رہا تھا آواز دی کہ اس کرسی کو توڑ ڈال اور بھٹی میں ڈال دے تا کہ کام خراب نہ ہو.لڑکے نے ہچکچاہٹ ظاہر کی تو اُس نے اُسے خود توڑا اور بھٹی میں جھونک دیا.یہ آخری ایندھن جب وہ جلا رہا تھا تو اُسے وہ روشنی نظر آگئی جو اُس کی کامیابی کا پیغام اُسے دے رہی تھی.وہ خوشی میں نیچے گر گیا اور اس نے اپنے بیٹے سے مخاطب ہو کر کہا.اب تمہاری تکلیف کے دن ختم ہو گئے ہیں.غرض یہ تام چینی جس سے تمہارے کھانے کے برتن ، پیشاب اور پاخانہ کے برتن بلکہ آگ پر چڑھانے والی کیتلیاں بھی اب تیار ہونے لگی ہیں تم نہیں جانتے کہ اُس مالدار شخص نے اپنی ساری جائیداد اس کی تیاری میں تباہ کر دی تھی اور اب دنیا میں تام چینی کے سینکڑوں کارخانے چل رہے ہیں.پس بغیر قربانی کے تم کامیابی کی امید کیسے کر سکتے ہو.کوئی جلسہ ہوا اور پاکستان زندہ باد کے نعرے لگا دیئے گئے تو اس سے پاکستان زندہ کیسے ہوا.جب عمل مُردہ باد والا ہے تو پاکستان زندہ کیسے ہو سکتا ہے.پس ہمارے نوجوانوں کو محنت کی عادت پیدا کرنی چاہیے.مثلاً زمیندار ہیں.آج کل قحط کی وجہ سے وہ کتنا شور مچارہے ہیں.مجھے بھی لوگ کہتے ہیں کہ کوئی ایسی تدبیر کیجئے یا ہمیں کوئی تجویز بتائیے جس پر عمل کر کے ہم اس قحط کا مقابلہ کرسکیں.لیکن سوال یہ ہے کہ اس قحط میں ہمارا بھی کوئی حصہ ہے یا نہیں ؟ کیا ہمارا زمیندار زمین میں اُسی طرح دانے ڈالتا ہے جس طرح دانے ڈالنے کی ضرورت ہے؟ کیا وہ اُسی طرح تلائی کرتا ہے جس طرح ملائی کی کرنے کی ضرورت ہے؟ کیا وہ اُسی طرح ہل چلاتا اور کھیت کو پانی دیتا ہے جس طرح ہل چلانے اور پانی دینے کی ضرورت ہے؟ کیا وہ دانے بے اصول نہیں ڈال دیتا؟ کیا جب وہ کھیت کو پانی دیتا ہے تو پانی ادھر اُدھر تو نہیں نکل جاتا ؟ کیا اُس کے کھیت میں اس قدر گھاس پیدا تو نہیں ہو جا تا تج کہ اصل فصل نظر ہی نہ آئے؟ کیا جب وہ ہل چلاتا ہے تو اس طرح نہیں ہوتا کہ وہ ہاتھ میں حقہ پکڑے ہوئے ہوتا ہے؟ بیل ٹھو کر کھاتا ہے اور ہل زمین سے اوپر اٹھ جاتا ہے اور بیچ میں کچھ جگہ خالی چھوٹ جاتی ہے.جہاں ہل نہیں چلا ہوتا یا ناقص ہل چلتا ہے؟ اگر وہ یہ ساری احتیاطیں کرتا ت تو آج ہمارے ملک میں دو گنی پیداوار ہوتی.اور اگر ہماری گندم کی پیدا وار ڈبل ہوتی تو آج قحط کی کیوں پڑتا.لیکن ہوا یہ کہ آج گندم 22، 23 روپے فی من پک رہی ہے اور اس میں زمیندار کا اپنا قصور ہے.اگر وہ ذرا سی بھی توجہ کرتا تو آج ملک میں قحط نہ ہوتا.
1952 320 خطبات محمود قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ اڑھائی تین سومن فی ایکڑ گندم نکل سکتی ہے.مجھے اچھی طرح یاد نہیں رہا.ایک دفعہ میں نے قرآن کریم پر غور کر کے شاید یہ عدد نکالا تھا.اُن دنوں ایک پروفیسر اس بات میں لگے ہوئے تھے کہ زمین میں جو مادے ہیں ان کے لحاظ سے ہم فی ایکڑ کتنی پیداوار نکال سکتے ہیں.وہ کہتے تھے کہ ملک میں زراعت سے بے توجہی پائی جاتی ہے.اگر ذرا سی کوشش کی جائے تو پیدا وار کئی گنا زیادہ ہو سکتی ہے.وہ مجھے ملنے کے لئے آئے تو میں نے انہیں کہا قرآن کریم کی آیات پر غور کر کے میں نے یہ اندازہ لگایا ہے کہ فی ایکٹر تین سو من تک پیداوار کی جاسکتی ہے.وہ ہندو تھا لیکن میری یہ بات سن کر وہ دنگ رہ گیا اور اُس نے کہا ہماری نئی تحقیقات کے لحاظ سے بھی اندازہ دو سومن سے اوپر تک پہنچ گیا ہے.زمین میں جو کیمیکلز پائے جاتے ہیں انہیں اگر ہم پوری طرح استعمال میں لائیں تو اتنے من فی ایکڑ پیداوار ہوسکتی ہے.اب سارے ملک کی اوسط پانچ من فی ایکڑ ہے اگر یہ پیداوار دگنی ہو جائے اور اوسط پانچ من فی ایکڑ سے دس من فی ایکڑ ہو جائے تو کتنا فرق ہو جائے.اور اگر یہ پیدا وار پانچ من فی ایکڑ سے اڑھائی سو یا تین سو من فی ایکڑ ہو جائے تو دنیا میں غلہ کی جو کمی بیان کی جاتی ہے وہ یقیناً دور ہو جائے.اس وقت لوگ پانچ من فی ایکڑ پیداوار پر گزارہ کر رہے ہیں.اگر یہ پیداوار بڑھ کر اڑھائی سویا تین سومن فی ایکڑ ہو جائے تو دنیا کی آبادی کئی گنا بڑھ سکتی ہے.اگر ہم صحیح طور زراعت کریں اور قرآنی تعلیم ، سائنس اور تجربہ سے پورا فائدہ اٹھائیں اور غلہ بڑھا ئیں تو آبادی ایک کھرب بتیس ارب تک بڑھ سکتی ہے اور دنیا میں ایک عظیم الشان تغیر پیدا ہوسکتا ہے.پھر کئی غیر آباد علاقے ہیں انہیں آباد کیا جائے تو پیداوار میں اور بھی زیادتی ہو سکتی ہے.مثلاً افریقہ کے علاقے ہیں جو ابھی غیر آباد پڑے ہیں.آسٹریلیا اور کینیڈا کے علاقوں میں ابھی بہت کم آبادی ہے اگر اُن کی طرف توجہ کی جائے تو زمینداری بڑھ سکتی ہے.تم محنت کی عادت ڈالو.سؤر کی عادت ہوتی ہے کہ وہ سیدھا چلتا جاتا ہے وہ سامنے کے خطرات کو نہیں دیکھتا.سؤر کا شکار کرنے والے نیزہ پکڑ کر رستہ پر بیٹھ جاتے ہیں سو رسیدھا آتا ہے اور اس پر نیزہ گر جاتا ہے.لیکن چیتا، شیر اور دوسرے جنگلی جانور خطرہ دیکھ کر رستہ سے ہٹ جاتے ہیں.اسی طرح مومن بھی خطرات کا خیال رکھتا ہے اور وہ سور کی طرح سیدھا نہیں چلتا جا تا.یہ عادت گندے جانور کی ہے کہ وہ سیدھا چلا جاتا ہے.پس سمجھدار نو جوانوں کا کام ہے کہ وہ اپنے ملک کے حالات اور
1952 321 خطبات محمود ماحول پر غور کریں اور دیکھیں کہ ملک اور قوم کی ترقی کے لئے کون سے ذرائع ہیں.اُن ذرائع کو کی استعمال کریں تا ملک ترقی کرے.ملک میں جو صنعتیں اور تجارتیں پہلے نہیں ان کی طرف توجہ دی جائے.اگر نو جوان اس طرف توجہ کریں تو بے شک ابتدا میں وہ تکلیف بھی اٹھا ئیں گے لیکن آخر میں ایسے حالات پیدا ہو جائیں گے جو اُن کے خاندان اور ملک کے لئے مفید ہوں گے.جیسا کہ میں نے بتایا ہے انگریزوں اور امریکنوں میں ہزاروں ایسے آدمی ہوں گے جنہوں نے اپنی جائیدادوں کو تباہ کیا تا ملک کے لئے وہ کوئی مفید چیز ایجاد کر یں.لیکن ہماری جماعت میں ایسا کوئی آدمی نہیں جس نے کسی ایسی ایجاد کی طرف توجہ کی ہو.اس کے مقابلہ میں بعض ان پڑھ آدمی ایسے پائے جاتے ہیں جنہوں نے اس بات کی طرف توجہ کی اور وہ کئی ایجادات لانے میں کامیاب ہو گئے.ایک صاحب محمد حسین تھے جو دہلی کے رہنے والے تھے.پہلے وہ کانگرسی تھے اور گاندھی جی کے ساتھ ان کے تعلقات تھے.انہوں نے 24 کے قریب ایجادیں کی تھیں لیکن بدقسمتی کی وجہ سے ملک کے لوگوں کی اس طرف توجہ نہیں تھی اس لئے وہ ترقی کی نہ کر سکے.وہ ایجادیں کرتے تھے اور باوجو د غریب ہونے کے ایجادیں کرتے تھے لیکن وہ جو چی ایجاد کر تے تھے تاجر اُس طرف متوجہ نہیں ہوتے تھے.انہوں نے جو ایجادات کیں اُن میں سے کی ایک ایجاد چرخہ کے ساتھ تعلق رکھتی تھی اور ان کا دعویٰ تھا کہ اگر ہماری جماعت مدد کرے تو وہ عظیم الشان کام کر سکتے ہیں.وہ گاندھی جی اور دوسرے کانگرسی لیڈروں کے خطوط بھی دکھاتے تھے جو اُن ایجادات کی تعریف میں انہوں نے لکھے تھے.وہ میرے پاس بھی آئے اور درخواست کی کہ میں جماعت میں تحریک کروں کہ اُن کی مدد کی جائے.لیکن میں نے کہا ہمارے نوجوان سخت نا واقف ہیں.انہوں نے صنعتی تجربات حاصل نہیں کئے کہ وہ آپ کی مدد کریں.چنا نچہ وہ مایوس ہو کر چلے گئے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے دعوئی کے ابتدئی زمانہ کی بات ہے.میں چھ سات کی سال کا تھا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ایک دفعہ سیر کے لئے نکلے.آپ مسجد مبارک کے سامنے جو چوک ہے اس میں پہنچے تو حضرت خلیفہ اسیح الاوّل نے ایک شخص کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ دوست حضور کی تصویر لینے کی خاطر یہاں آئے ہیں.یہ 1894ء 1895ء کی بات ہے.اُس زمانہ میں ابھی کیمرہ کا زیادہ رواج نہیں تھا.اس شخص نے ایک
1952 322 خطبات محمود سٹینڈ کھڑا کیا اور اُس کے اوپر گتے کی ایک چیز رکھ کر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی فوٹو کی لی.جب آپ سیر کے لئے آگے تشریف لے گئے تو اُس شخص کے متعلق بات شروع ہوئی اور کی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو بتایا گیا کہ وہ شخص مڈل تک تعلیم رکھتا ہے اور اس نے بڑی کی محنت کے ساتھ کیمرہ کی ایجاد کی ہے اور یہ کیمرہ جس سے آپ کی فوٹو لی گئی ہے اُس کا اپنا ایجاد کردہ کی ہے.اُس شخص نے ایجادات کے شوق میں روس تک کا سفر بھی کیا ہے اور متعدد ایجادیں کی ہیں.وہ دوست جلد ہی فوت ہو گئے کیونکہ اس کے بعد وہ دکھائی نہیں دیئے.پس محنت اور کوشش کے ساتھ ہی انسان انسان بنتا ہے.یا تو تم موجودہ حالتوں پر قائم رہ کر اپنی غلامی کے دور کو اور لمبا کرو گے اور یا غلامی کے طوق کو اُتار کر سرداری کے تخت کو جیتو گے.یہ دونوں حالتیں تمہارے سامنے ہیں.یا تو تم کوشش نہیں کرو گے اور یہ خیال کرو گے کہ موجودہ کی حالت کو بدلنے کی ضرورت نہیں.اس حالت میں بھی روٹی مل جائے گی لیکن اس طرح تم غلامی کی تی حالت میں رہو گے.پاکستان کے آزاد ہو جانے سے تم آزاد نہیں ہو جاتے کیونکہ جو ملک صنعتی طور پر دست نگر ہو وہ پورا آزاد نہیں کہلا سکتا.اپنے آپ کو آزاد کرنے کے لئے ، اپنے ملک کو آزاد بنانے کے لئے قربانی کی ضرورت ہے.اگر صنعتی اشیاء کے لئے ہم دوسرے ممالک کے محتاج رہے تو ہمیشہ یہ شکوہ رہے گا کہ فلاں ملک ہماری روئی نہیں لیتا ، ہمارا زمیندار مر رہا ہے وہ ہمیں فوجی سامان نہیں دیتا جس کی وجہ سے ہماری فوج غیر مسلح ہے.یہ آزادی محدود آزادی ہے.آزادی اس چیز کا نام ہے کہ ہمارا ملک دوسرے ممالک کو چیلنج کر سکے کہ تم ہمارا مقاطعہ کرتے ہو تو کرو مجھے کوئی خطرہ نہیں.تو ہیں یہاں بن رہی ہوں، ہوائی جہاز یہاں بن رہے ہوں ، ریلیوں کے انجن یہاں بن رہے ہوں، ٹریکٹر، لاریاں ، موٹر اور دوسری چیزیں یہاں تیار کی جا رہی ہوں.یہ خیال کر لینا کہ روٹی تو ہر حالت میں ملتی ہے زیادہ کوشش کی کیا ضرورت ہے ہماری غلامی کو لمبائی کرتا ہے.لیکن اگر ہم روٹی کو لات ماریں اور تجارتوں ، ایجادوں ، زراعتوں ، اور صنعتوں میں لگ جائیں تو شاید کچھ عرصہ تک ہمیں تکلیف بھی ہو یا ہماری نسل بھی کچھ عرصہ تک تکلیف اٹھائے لیکن ایک وقت ایسا آئے گا جب ہم اپنے خاندان اور ملک کے لئے ایک مفید وجود بن سکیں گے اور ہماری ساری تکالیف رفع ہو جائیں گی.پس میں اپنے نو جوانوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ وہ تعلیم محض اس لئے حاصل نہ کریں کہ اس کی
1952 323 خطبات محمود کے نتیجہ میں انہیں نوکریاں مل جائیں گی.نوکریاں قوم کو کھلانے کا موجب نہیں ہوتیں بلکہ نوکر نیچ ملک کی دولت کو کھاتے ہیں.اگر تم تجارتیں کرتے ہو ، صنعتوں میں حصہ لیتے ہو، ایجادوں میں لگ جاتے ہو تو تم ملک کو کھلاتے ہو.اور یہ صاف بات ہے کہ کھلانے والا کھانے والے سے بہتر ہی ہوتا ہے.نوکریاں بے شک ضروری ہیں لیکن یہ نہیں کہ ہم سب نوکریوں کی طرف متوجہ ہو جا ئیں.ہمیں یہ کوشش کرنی چاہیے کہ ہم زیادہ سے زیادہ پیشے اختیار کریں تا کہ ملک کو ترقی حاصل ہو.اور کم سے کم ملازمتیں کریں صرف اتنی جن کی ملک کو اشد ضرورت ہو.“ : مُوَفَّهُ الحال: آسوده حال خوش حال ( الفضل 14 دسمبر 1952ء)
1952 324 (38) خطبات محمود تحریک جدید ایک دن کی نہیں ، دو دن کی نہیں بلکہ ہر مومن کے لئے ہمیشہ جاری رہنے والی تحریک ہے فرموده 28 نومبر 1952ء بمقام ربوہ ) تشهد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: - اس وقت سوا بارہ بجے ہیں جس کے یہ معنی ہیں کہ پرانے وقت کے لحاظ سے ایک بج چکا ہے.ساڑھے بارہ بجے (جو پرانے 12 بجے ہوتے تھے ) زوال کا وقت ہوتا تھا.گویا چی ساڑھے بارہ بجے سے نماز کا وقت شروع ہوتا تھا.جمعہ کے لئے شریعت نے کوئی وقت اس لئے کی مقر رنہیں کیا کہ نماز جمعہ سے قبل خطبہ ہوتا ہے.اس خطبہ کے بعد نماز جمعہ صحیح وقت پر پڑھی جانی چھی چاہیے.شریعت نے اس بات کی اجازت دی ہے کہ جمعہ کو زوال سے بھی پہلے شروع کر دیا تھی جائے تا نماز سے پہلے خطبہ بھی دیا جا سکے اور پھر نماز بھی صحیح وقت پر پڑھی جائے.لیکن زوال کے ج بعد تو نماز کا وقت شروع ہو جاتا ہے.لیکن باوجود اس کے کہ اب سوا بارہ بج چکے ہیں جس کے معنی یہ ہیں کہ پرانے وقت کے لحاظ سے اب سوا ایک بج چکا ہے ابھی تک نصف کے قریب بھی لوگ نماز پڑھنے نہیں آئے.جس کے یہ معنی ہیں کہ نہ صرف حکومت نے گھڑیوں کو ایک گھنٹہ پیچھے کر دیا ہے بلکہ تم نے بھی شریعت کے مقرر کردہ وقت کو ایک گھنٹہ پیچھے کر دیا ہے.جماعت کے اس فعل کی کے یہ معنی ہیں کہ جمعہ ایک بجے یعنی پرانے وقت کے مطابق دو بجے شروع کرنا چاہیے اور ختم اڑھائی بجے یا اس کے بعد ہونا چاہیے.یعنی پرانے وقت کے مطابق ساڑھے تین بجے کیونکہ نماز
1952 325 خطبات محمود سے قبل خطبہ بھی ہوتا ہے اور اُس وقت نماز عصر کا وقت شروع ہو جاتا ہے.بعض دفعہ ظاہری چیز کے تغیر کے ساتھ باطن میں بھی تغیر ہو جاتا ہے لیکن شریعت میں تغیر نہیں ہوتا.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ حکومت نے کسی جغرافیا کی وجہ سے یا کسی اور مصلحت کی بناء پر گھڑیوں کو ایک گھنٹہ پیچھے کر دیا ہے لیکن نماز تو اُسی وقت پڑھی جائے گی جس وقت وہ پہلے پڑھی جاتی تھی.اس میں تو کوئی تبدیلی نہیں ہوگی.اگر اب بھی جمعہ پہلے کی طرح ایک بجے ہی ہوگا تو چونکہ نماز سے قبل خطبہ بھی ہوتا ہے اور پھر نماز بھی ادا کرنا ہوتی ہے اس لئے دو اڑھائی بجے تک وقت چلا جائے گا.گویا نماز پرانے وقت کے مطابق تین ساڑھے تین بجے ختم ہو گی.سورج تو اُسی وقت چڑھتا ہے جس وقت وہ پہلے چڑھا کرتا تھا تو پھر وجہ کیا ہے کہ ہم غافل ہو گئے ہیں.اگر سورج بھی ایک گھنٹہ پیچھے کی چڑھتا تو پھر تو تم کہہ سکتے تھے کہ پہلے سورج ایک گھنٹہ پہلے چڑھتا تھا اب وہ ایک گھنٹہ بعد چڑھتا ہے اس لئے آج دیر سے آئے ہیں.لیکن سورج تو اُسی وقت چڑھتا ہے اور آج بھی اُسی وقت چڑھا ہے اور بارہ بجے تک تمہیں اتنا وقت مل گیا تھا جتنا وقت تمہیں سٹینڈرڈ ٹائم بدلنے سے قبل ایک بجے تک مل جایا کرتا تھا.کیونکہ آج کل کے بارہ بجے پرانے سٹینڈرڈ ٹائم کے لحاظ سے ایک بجے کا وقت ہوتا ہے.اس کے بعد میں آج کا خطبہ شروع کرتا ہوں جو تحریک جدید کے انیسویں سال کے متعلق ہے.تحریک جدید 1934ء میں شروع ہوئی.1934 ء کے نومبر میں اس کا اعلان ہوا اور اب 1952ء کا نومبر ہے.گویا وعدوں کے لحاظ سے 18 سال ختم ہو گئے ہیں اور انیسواں سال شروع ہو گیا ہے اور ادائیگی کے لحاظ سے اگلے سال نومبر تک انیسواں سال ختم ہو جائے گا.تحریک جدید کی بنیاد در حقیقت انہی اصول پر ہے جن پر اسلام کی بنیا د رکھی گئی ہے.اسلام کی بنیاد بھی اس بات پر رکھی گئی تھی کہ خدا تعالیٰ کے کلام کی تشہیر اور ترویج کی جائے.اللہ تعالیٰ نے ہمیں جو پیغام دیا ہے ہمارا فرض ہے کہ ہم اس پیغام کو ساری دنیا تک پہنچا ئیں.اگر ہم اس پیغام کو چ ساری دنیا تک پہنچاتے ہیں تو دنیا اس پیغام سے غافل نہیں ہوگی اور لوگوں کو ایمان لانے کا موقع مل جائے گا.اگر کسی شخص کو خدا تعالیٰ کا پیغام پہنچ جاتا ہے اور وہ ایمان نہیں لاتا تو ہماری ذمہ داری کی ختم ہو جاتی ہے اور اس کی ذمہ داری شروع ہو جاتی ہے.اور اگر اُس تک خدا تعالیٰ کا پیغام نہیں پہنچتا تو ہماری ذمہ داری رہ جاتی ہے اور اُس کی ذمہ داری شروع نہیں ہوتی.اللہ تعالیٰ ظالم نہیں..وہ
1952 326 خطبات محمود اس شخص پر گرفت کرتا ہے جس پر حجت پوری ہو جاتی ہے.اگر ہم اس تک خدا تعالیٰ کے پیغام کو پہنچا ئیں گے تو حجت بھی پوری ہوگی.اور اگر ہم اُس تک خدا تعالیٰ کا پیغام نہیں پہنچاتے تو اُس پر حجت پوری نہیں ہو سکتی.پس تحریک جدید کی بنیاد ہی اس بات پر ہے کہ اسلام کے نام کو روشن کیا جائے اور قرآن کریم کے پیغام کو دنیا تک پہنچایا جائے.اسی غرض کو پورا کرنے کے لئے تحریک جدید کے ماتحت بیرونی دنیا میں مبلغ بھجوائے گئے.تحریک جدید کے جاری ہونے سے قبل صرف چند ممالک میں ہمارے مبلغ تھے.ایک مبلغ امریکہ میں تھا، ایک مبلغ انگلینڈ میں تھا ، ایک شام میں تھا ، می افریقہ اور انڈونیشیا میں بھی ہمارے مبلغ تھے لیکن تحریک جدید کے جاری ہونے کے بعد انڈونیشیا کی کے مبلغ کئی گنا زیادہ ہو گئے.امریکہ کے مبلغ چار گنا زیادہ بڑھ گئے.ہالینڈ ، جرمنی ، سپین، سوئٹزر لینڈ اور ایک عرصہ تک فرانس میں نئے مشن کھولے گئے اور اب خدا تعالیٰ کے فضل سے وہاں جماعتیں قائم ہیں اور دین سیکھنے کے لئے بعض طالب علم بھی یہاں آئے ہیں.چنانچہ جرمنی کے ایک نوجوان عبد الشکور کنزے اس وقت یہاں دین کی تعلیم حاصل کر رہے ہیں تا بعد میں وہ ج اپنے ملک میں اسلام اور احمدیت کی تبلیغ کر سکیں.امریکہ سے بھی اس تحریک کے سلسلہ میں ایک نوجوان یہاں پہنچے ہیں اور وہ بھی دین کی تعلیم حاصل کر رہے ہیں.ایک اور نوجوان کے متعلق بھی اطلاع آئی ہے کہ وہ دین کی تعلیم حاصل کرنے کے لئے ربوہ آ رہے ہیں اور وہ غالبا جلسہ سالانہ تک یہاں پہنچ جائیں گے.اسی طرح جرمنی سے بھی اطلاع آئی ہے کہ ایک اور نو جوان دین کی تعلیم حاصل کرنے کے لئے ربوہ آرہے ہیں.اس سے قبل غیر ممالک کے طالب علم مرکز سلسلہ میں نہیں آئے تھے لیکن تحریک جدید کے جاری ہونے کے بعد باہر سے بھی طلباء آنے شروع ہو گئے اور اب 30 کے قریب غیر ملکی طالب علم ربوہ میں موجود ہیں.چین کے طالب علم بھی ہیں ، انڈونیشیا کے طالب علم بھی ہیں، برما کے طالب علم بھی ہیں ، سیلون کے طالب علم بھی ہیں ، سوڈان کے طالب علم بھی ہیں، ایسے سینیا کے طالب علم بھی ہیں ، شام کے طالب علم بھی ہیں ، جرمنی اور کی امریکہ کے طالب علم بھی ہیں ، انگلینڈ کے طالب علم بھی ہیں ، سمالی لینڈ 1 کے طالب علم بھی ہیں اور کی ابھی مزید طلباء کے آنے کی اطلاع موصول ہوئی ہے.آج بھی ایسے سینیا سے ایک نو جوان کا خط ملا ہے کہ وہ تعلیم دین کے حصول کی خاطر ربوہ آنا چاہتے ہیں.اسی طرح سمالی لینڈ سے بھی اطلاع ملی آئی ہے کہ وہاں سے بھی بعض اور طالب علم یہاں آ رہے ہیں.گویا اس تحریک کے نتائج اس کی
1952 327 خطبات محمود رنگ میں ظاہر ہوئے ہیں کہ بیرونی ممالک کے طلباء جن میں سے بعض واقف زندگی ہیں اور بعض واقف زندگی نہیں یہاں تعلیم حاصل کرنے کے لئے آئے ہیں.بے شک بعض نو جوان واقف زندگی نہیں.وہ اپنے طور پر تعلیم حاصل کر رہے ہیں لیکن اگر وہ اخلاص سے دنیوی کا روبار کے ساتھ ا ساتھ اشاعتِ اسلام بھی کرتے رہیں تو یہ بھی اسلام کی ایک بھاری خدمت ہو گی.بہر حال اس کی میں کوئی شبہ نہیں کہ باہر سے آنے والے سارے نوجوان واقف زندگی نہیں.کچھ واقف زندگی ہیں اور کچھ نہیں.لیکن جو واقف زندگی نہیں وہ بھی ایسے ممالک سے آئے ہیں جن تک تحریک جدید سے قبل احمدیت کی تعلیم نہیں پہنچی تھی.جب یہ نوجوان تعلیم حاصل کرنے کے بعد اپنے ملکوں میں پہنچیں گے تو اسلام کی اشاعت کے نئے ذرائع نکل آئیں گے.غرض تحریک جدید سے پہلے تو تین چار مبلغ بیرونی ممالک میں تبلیغ کر رہے تھے لیکن تحریک جدید کے اجراء کے بعد میرے خیال میں یہ مبلغ پچاس کے قریب ہو گئے ہیں.گویا دس گنے زیادتی ہوئی ہے.اور ابھی تو ابتدا ہے.صاف بات ہے کہ جب تک مبلغ پیدا نہیں ہوں گے اسلام کو ساری کی دنیا میں نہیں پھیلایا جا سکتا.میں ان کی موجودہ زیادتی کو نہیں دیکھتا بلکہ آئندہ کا نقشہ دیکھ رہا نچ ہوں.اس وقت تحریک جدید کا ایک کالج قائم ہے.اس میں سے آٹھ دس مبلغ سالا نہ نکلتے ہیں کی جن میں سے نصف تو صدر انجمن احمدیہ لے لیتی ہے اور نصف تحریک جدید لے لیتی ہے.اگر تحریک جدید اور صد را مجمن احمدیہ کو ملنے والے مبلغین کی تعداد پانچ پانچ بھی ہو تو اس کے معنی یہ ہیں کہ پچھلے انیس سال میں دس گنا مبلغ ہوئے ہیں اور اگلے 19 سال میں ان کی تعداد میں گنے ہو جائے گی.یعنی جو مبلغ ابتدا میں تھے اُن سے موجودہ مبلغین کی تعداد اُس وقت تک تمہیں 30 گنے زیادہ ہو جائے گی.کون کہہ سکتا ہے کہ جماعت آئندہ ترقی نہیں کرے گی.اگر جماعت اخلاص اور نجی ارادے میں بڑھ جائے تو جامعتہ المبشرین کے فارغ ہونے والے طلباء کی تعداد آٹھ دس نہیں رہے گی بلکہ ان کی تعداد پندرہ ہیں تک یا چالیس پچاس تک بڑھ جائے گی اور اس صورت میں نجی آئندہ 19 سال کے بعد مبلغین تحریک جدید سے پہلے کے مبلغین سے تہیں گنے زیادہ نہیں ہو جائیں گے بلکہ پچاس گنے یا سو گنے سے زیادہ ہو جائیں گے.غرض تحریک جدید کے اجراء کے بعد نہ صرف کئی ممالک میں نئے مشن قائم ہو گئے ہیں بلکہ زائد بات یہ ہوئی ہے کہ براہِ راست ان ممالک سے بعض طالب علم یہاں آئے ہیں اور وہ تعلیم حاصل کر رہے ہیں.اپنی تعلیم سے فارغ
خطبات محمود 328 1952 ہونے کے بعد وہ اپنے اپنے ملک میں جا کر اسلام کی اشاعت کریں گے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ مدینہ ایک بھٹی کی طرح ہے جس طرح بھٹی میں کچیل کو دور کر دیتی ہے 2ے اسی طرح جس شخص میں روحانی لحاظ سے میل کچیل ہوتی ہے یعنی جو شخص مخلص نہیں ہوتا وہ یہاں آکر اسلام سے اور بھی دور ہو جاتا ہے.اسی طرح ربوہ بھی ایک بھٹی ہے بعض آنے والے اپنی شامت اعمال کی وجہ سے ٹھو کر بھی کھائیں گے.مگر جو لوگ یہاں آکر نیک نیتی سے اور اخلاص سے تعلیم حاصل کریں گے وہ دین کی خدمت کریں گے.اگر وہ اپنا دنیوی کا روبار بھی کریں گے تو وہ بھی اس کے ساتھ ساتھ اشاعتِ اسلام میں مدد دیں گے.مثلاً سماٹرا سے ایک نو جوان یہاں آئے تھے اگر چہ انہوں نے وقف نہیں کیا تھا اور واپس جا کر انہوں نجی نے ایک پرائیوٹ ملازمت اختیار کر لی لیکن وہ نہایت مخلص ثابت ہوئے ہیں.میں سمجھتا ہوں کہ ہندوستان اور پاکستان کے لوگ بھی وصیت کی اتنی پابندی نہیں کرتے جتنی وہ نو جوان پابندی کر رہے ہیں.وہ بدھوں سے احمدی ہوئے ہیں.اُن کی اولاد میں بھی جوش ہے.میرے پاس اُن کے بچوں کے بھی خطوط آتے رہتے ہیں.پس بعض لوگ اگر چہ واقف زندگی نہیں وہ اپنا چی کا روبار کرتے ہیں تاہم وہ اشاعتِ اسلام میں سلسلہ کی مدد کرتے رہتے ہیں.ان میں سے ایک ڈاکٹر نذیر احمد صاحب ہیں.وہ اس وقت سالی لینڈ میں ہیں.وہ ملازم ہیں لیکن میں نہیں کہہ سکتا کہ وہ کسی واقف زندگی سے کم ہیں.ان کے ذریعہ سے وہاں جماعتیں قائم ہو رہی ہیں اور اس رنگ میں قائم ہو رہی ہیں کہ یوں معلوم ہو گیا ہے کہ اُن کے اخلاص کی وجہ سے آسمان بھی اُن کی تائید کر رہا ہے.مجھے وہاں سے اکثر خطوط آتے ہیں جن میں یہ لکھا ہوتا ہے کہ ہمیں خواب آئی اور کی خواب میں ہمیں ہدایت کی گئی کہ تم نذیر احمد کی طرف توجہ کرو.وہاں کے لوگوں کو کثرت سے خوا میں آ رہی ہیں کہ نذیر احمد کی طرف توجہ کرو گویا اُن کا اخلاص اس حد تک بڑھا ہوا ہے کہ آسمان پر خدا تعالیٰ بھی اُن کی تائید میں فرشتوں کو حکم دیتا ہے کہ لوگوں کو اُن کی طرف متوجہ کریں.جیسا کہ میں نے پہلے بتایا ہے تحریک جدید کے اجراء سے پہلے کوئی مشنری کا لج نہیں تھا.اب مشنری کالج کا اجراء ہو گیا ہے اور اس کالج سے ایسے نو جوان نکل رہے ہیں جو پہلے طلباء سے علم میں زیادہ ہیں.میں یہ نہیں کہتا کہ وہ معیار کے عین مطابق ہیں.ابھی ان کے لئے اخلاقی، علمی اور دینی ترقی کی بہت گنجائش ہے.لیکن بہر حال وہ پہلوں سے زیادہ عالم ہیں.پھر تحریک جدید
1952 329 خطبات محمود کے اجراء سے پہلے ہمارے پاس ایسے گریجوایٹ نہیں تھے جو د مینیات سے بھی واقف ہوں.لیکن کی اب ایسے نوجوان موجود ہیں جو مولوی فاضل ہیں اور گریجوایٹ بھی ہیں یا بی اے ہیں.اور آئندہ مولوی فاضل بن جائیں گے اور اس قابل ہو جائیں گے کہ اگر وہ انگریز دانوں کی مجلس میں کی جائیں اور وہ کہیں کہ یہ ملاں ملنٹے ہیں تو وہ کہہ سکتے ہیں کہ ہم بھی تمہاری طرح انگریزی جانتے ؟ ہیں.اور اگر مولویوں کی مجلس میں جائیں اور وہ کہیں کہ تم انگریزی دان ہو تو وہ کہہ سکتے ہیں کہ ہم مولوی فاضل بھی ہیں اور دین سے ہمیں واقفیت ہے.گویا جو کچھ تم جانتے ہو وہ ہم بھی جانتے ہیں.غرض تبلیغ اور اشاعت اسلام کی نئی راہیں کھل رہی ہیں اور کچھ عرصہ تک علم دین اور علم دنیا میں جو خلیج حائل ہے وہ پاٹ جائے گی اور اس پر ایسے پل بن جائیں گے جن کے ذریعہ تمام اختلافات دور ہو جائیں گے.تحریک جدید کے اجراء کے وقت اس میں یہ بات بھی شامل کی گئی تھی کہ ہمارے سارے پروگرام سادہ ہوں، ہم سادہ کپڑے پہنیں ، سادہ خوراک استعمال کریں، دعوتوں اور شادیوں میں سادگی اختیار کریں.کچھ عرصہ تک تو اس پر عمل ہوتا رہا لیکن اب اس میں ایک حد تک کمزوری کی پیدا ہو گئی ہے.دراصل اس میں بعض باتیں اصلاح طلب تھیں مثلاً بعض بیمار ہوتے ہیں وہ بیمار ہونے کی وجہ سے اس تحریک پر پوری طرح عمل نہیں کر سکتے تھے.یا بعض جگہوں پر ملکی رسم و رواج کی کے مطابق کھانے کی طرز ایسی ہوتی ہے کہ ایک کھانے میں کفایت نہیں ہو سکتی.مثلاً جب یہ تحریک شروع ہوئی تو مجھے بہار اور بنگال سے خطوط آنے شروع ہوئے کہ ہمارے ہاں کھانے کا دستور ایسا ہے کہ ہم اس سکیم پر پوری طرح عمل نہیں کر سکتے.وہاں چھوٹے چھوٹے گھروں میں بھی ایک دو کھانے تیار ہو جاتے ہیں.مثلاً وہ لوگ اُبلے چاول کھاتے ہیں.خشکہ چاول کو کھانے کے لئے کی اور اسے صحیح طور پر ہضم کرنے کے لئے کسی پہلی چیز کی ضرورت ہوتی ہے.وہ لوگ پتلی سی دال بنات لیتے ہیں اور اس سے چاولوں کو تر کر لیتے ہیں.لیکن وہ ہمیشہ اس سادہ دال سے طاقت قائم نہیں کی رکھ سکتے اس لئے وہ تھوڑا سا سالن بھی ساتھ پکا لیتے ہیں.دال کے ساتھ خشکہ کو کھانے کے قابل کی کر لیتے ہیں اور صحت کو برقرار رکھنے کے لئے تھوڑا سا سالن بھی استعمال کر لیتے ہیں.غرض ی کھانے کے دستور کے مطابق چھوٹے سے چھوٹے گھر میں بھی دوستم کا سالن تیار ہو جاتا ہے.اب اگر یہ حکم دیا جائے کہ وہ ایک سالن پکائیں تو اس کا یہ مطلب ہوگا کہ یا تو وہ صرف دال پر
1952 330 خطبات محمود گزارہ کریں اور اس سے ان کی صحتیں خراب ہوں گی اور یا پھر سالن پکائیں.اگر وہ روزانہ کی سالن پکائیں گے تو اس پر خرچ زیادہ ہو گا.پس چاہیے تھا کہ ہم آہستہ آہستہ ان کی مشکلات کو دور کرتے اور انہیں ایسا بنا دیتے کہ وہ اس سکیم پر عمل کر سکتے.اسی طرح بیمار اور بوڑھے ہیں ان کے لئے بھی ایک کھانے پر گزارہ کرنا مشکل ہے.اس لئے چاہیے تھا کہ ایسی تجاویز اختیار کی جاتیں کہ احمدی اپنی صحت اور قوت کو بھی برقرار رکھ سکتے اور پھر بھی سادہ رہتے.لیکن چونکہ ان کی باتوں پر پہلے غور نہیں کیا گیا اس لئے بعض لوگوں کے لئے یہ سکیم نا قابلِ عمل ہو گئی اور آہستہ آہستہ وہ لوگ اس پر عمل کرنے میں کمزوری دکھانے لگے.مگر ضرورت ہے کہ بعض طریق ایسے اختیار کئے جائیں کہ جماعت کے لوگ سادگی کی زندگی بسر کریں اور اس کے لئے وقتاً فوقتاً غور ہوتا رہے.مثلاً شادیوں اور بیاہوں پر ہم نے دعوتوں کو روک دیا تھا.بعض لوگ چودھری ہوتے ہیں کی اور سمجھتے ہیں کہ ان کے لئے کوئی حکم نہیں.میں بعض دعوتوں پر گیا تو چو دھری قسم کے لوگوں نے کی چائے وغیرہ تیار کر دی.میں نے چائے نہ پی اس پر آہستہ آہستہ ان لوگوں نے بھی دعوتوں کو ختم کر دیا اور یہ دستور کم سے کم اب مرکز میں قائم ہو گیا ہے.بہر حال کچھ چیزیں ایسی ہیں جنہیں جاری کرنا ضروری ہے.لیکن چونکہ ہم بعض باتوں کو جاری نہیں رکھ سکے اس لئے ہم اپنے مقام سے ہٹ گئے حالانکہ کھانے وغیرہ میں سادگی نہایت ضروری چیز ہے.آج کل قحط کے آثار ہیں.مال مفت دل بے رحم.صدر انجمن احمدیہ نے میرے پاس سفارش کر دی کہ کارکنوں کے قحط الاؤنس پھر مقرر کر دیئے جائیں حالانکہ جب قحط پڑ جاتا ہے تو آمد کم ہو جاتی ہے.یا تو چار چار پانچ پانچ ہزار روپیہ روزانہ آتا تھا اور یا اب بارہ تیرہ سو یا پندرہ سولہ سو کی روزانہ آمد ہوتی ہے.اور ایک دن تو اتنی کم آمد ہوئی کہ جب ہم ہجرت کے بعد لاہور آئے اور چندے آنے شروع ہوئے تو اُس وقت جتنی آمد ہوئی تھی اُس دن اس سے بھی کم آمد تھی.یعنی اُس دن دوسور و پی ! اس سے کچھ زیادہ کی آمد ہوئی حالانکہ اس سے پہلے دو ہزار سے چار پانچ ہزار روپیہ کی روزانہ آمد ہوتی تھی.صدر انجمن احمدیہ کے کارکنوں کی تنخواہوں پر چالیس ہزار روپیہ سے زائد خرچ ہوتا ہے اور اگر سائر اور جلسہ سالانہ کے اخراجات کو ملا لیا جائے تو نوے ہزار تک خرچ جا پہنچتا ہے.اب اگر روزانہ چند سو روپیہ کی آمد ہوگی تو الاؤنس کی زیادتی کون دے گا؟ صدر انجمن احمد یہ کے لحاظ سے ان کی یہ سفارش بھی غلط تھی کہ مہنگائی الاؤنس بڑھائے جائیں کیونکہ کارکنوں کو سال کے
1952 331 خطبات محمود شروع میں کہہ دیا گیا تھا کہ قرضے لے لو اور گندم خرید لو.چنانچہ انہوں نے گندم کے نام سے کی قرض انجمن سے لے لئے.در حقیقت قحط صرف گندم کا ہے باقی کسی چیز کی قیمت نہیں بڑھی.آج جی ہی میں ذکر کر رہا تھا تو ایک خاتون نے کہا کہ اب تو لکڑی بھی مہنگی ہو گئی ہے.میں نے کہا جب چاول مہنگے تھے اُس وقت تو مہنگائی الاؤنس بڑھانے کا سوال پیدا نہیں ہوا تھا.ان چیزوں کی قیمتوں میں تھوڑا بہت اُتار چڑھاؤ تو رہتا ہی ہے اور مہنگائی الاؤنس بڑھانے کا سوال تب پیدا ہوتا ہے جب یہ اُتار چڑھاؤ غیر معمولی ہو.آج کل گندم کا بھاؤ میں یا بائیس روپے فی من ہے.لیکن جن کا رکنوں نے سال کے شروع میں گیارہ بارہ روپے فی من گندم خرید لی تھی اُن پر اس مہنگائی کا کیا اثر ہے.پھر بات کر نیوالے نے کہا کہ دراصل بات یہ ہے کہ پیشگی لے کر کسی نے تو کپڑے بنا لئے تھے اور کسی نے روپیہ مکان پر خرچ کر لیا تھا.میں نے کہا پھر اس تکلیف کا وہ خود ذمہ دار ہے.حقیقت یہ ہے کہ یہ باتیں تو ہوتی ہی رہتی ہیں عقلی بات یہ ہے کہ جماعت ایک جگہ کی جماعت کا نام نہیں.جب قحط پڑ گیا تو اس سے سارے لوگ متاثر ہوں گے اور لازمی طور پر کمزور لوگ چندہ دینے میں سستی دکھا ئیں گے اور اس طرح چندہ کی آمد کم ہوگی.اس لئے اخراجات کی کسی طرح بھی نہیں بڑھائے جا سکتے.جو جماعتیں چندہ سے چلنے والی ہوں انہیں ان دنوں اپنا چی خرچ کم کرنا ہو گا.چاہے آدمیوں کو کم کرنے سے ہو یا تنخواہوں کے کم کرنے سے ہو.اگر اخراجات کم نہیں ہوں گے تو روپیہ آئے گا کس طرح.اس قحط کا ایک ہی علاج ہے کہ اپنی ضروریات کو کم کر دیا جائے ، اپنی غذا کو کم کر دیا جائے.جب ہم لاہور آئے تو میں نے یہ قاعدہ بنادیا تھا کہ صرف ایک روٹی کھاؤ.اس بات کو دیکھ کر کہ زیادہ خوراک کھانے والوں کے لئے ضرورت ہے کہ اُن کے سامنے نمونہ پیش کیا جائے.میں نے اپنے گھر میں بھی یہ حکم دے دیا تھا کہ ایک وقت میں صرف ایک روٹی کھائی جائے.ہم اپنا پکاتے تھے لیکن پھر بھی ایک ہی روٹی پر گزارہ کیا جاتا تھا.وہ وقت عام مصیبت کا تھا اور اُس کی وقت نمونہ دکھانا ضروری تھا.اور یہ تحریک مہینوں چلی.یہ عرصہ ستمبر سے جنوری فروری تک چلا گیا.اس دوران میں لنگر خانہ میں بھی ایک ہی روٹی دی جاتی تھی اور ہم لوگ گھروں پر بھی ایک روٹی ہی کھاتے تھ تھے.جو مہمان آتے تھے وہ بھی خوشی سے ایک ہی روٹی کھا لیتے تھے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے مومن ایک آنت میں کھاتا ہے اور کا فرسات آنت میں کھاتا ہے 3.اس کے معنی یہ ہیں کی
1952 332 خطبات محمود کہ کافر بے سوچے سمجھے کھاتا ہے لیکن مومن کے سامنے ہر قسم کی مشکلات ہوتی ہیں، اس پر کئی ذمہ داریاں تے ہوتی ہیں جن کو وہ کھاتے وقت مدنظر رکھتا ہے.اس لئے وہ ایک آنت میں کھاتا ہے.پس جب کی ایسے دن آئیں تو اپنی غذا کم کر دو.در حقیقت جو غذا ہم کھاتے ہیں وہ ساری کی ساری ہضم نہیں ہوتی.بعض میرے جیسے جسم والے لوگ بھی کھانے بیٹھیں تو پانچ پانچ سات سات روٹیاں کھا جاتے ہیں لیکن میں کبھی ایک روٹی کھاتا ہوں اور کبھی آدھ روٹی کھاتا ہوں پھر دیکھ لو میں زندہ ہوں.اور جب میں ایک آدھ روٹی کھا کر زندہ رہ سکتا ہوں تو میرے جیسا دوسرا آدمی بھی اتنی غذا کھا کر کم سے کم چھ سات ماہ تھی گزار سکتا ہے.صرف فرق یہ ہے کہ وہ لوگ کہتے ہیں کہ ہمیں بھوک زیادہ لگتی ہے.لیکن ہم کہیں تجھے گے جو میسر ہے وہ کھاؤ اور باقی پر صبر کرو.اب دیکھ لو گندم بیس بائیس روپے من ہے لیکن اگر لوگ کی آدھی غذا کھانا شروع کر دیں تو گندم گیارہ روپے فی من پر ان کے لئے ہو جائے گی.پھر جو کی لوگ ملازم ہیں اُن کو سال کے شروع میں رو پیدل گیا تھا اور انہوں نے گیارہ روپے فی من کے حساب سے گندم خرید لی تھی.اگر وہ آدھی غذا کھا نا شروع کر دیں تو اُن کی گندم کا خرچ چوتھا حصہ رہ جائے گا.گویا پانچ چھ روپے من انہیں گندم پڑ گئی اور قحط چھوڑ ان کے لئے آسانی پیدا ہو جائے گی.حقیقت یہ ہے کہ ہم صحیح طریق اختیار نہیں کرتے.اگر ہم صحیح طریق اختیار کریں تو کام بن جائے.پھر میں نے گھروں میں دیکھا ہے کہ بالعموم آٹے کا دس فیصدی خرچ خشکہ کا ہوتا ہے.بعض باورچی ایک تہائی زیادہ خرچ کر دیتے ہیں.وہ زیادہ خشکہ لگاتے ہیں اور اپنے آرام کی خاطر آٹے کا تیسرا حصہ ضائع کر دیتے ہیں.بعض لوگ بغیر خشکہ کے روٹی پکا لیتے ہیں.لیکن کم از کم انہیں زیادہ خشکہ تو نہیں لگانا چاہیے.کم خشکہ لگانے میں زیادہ محنت، وقت اور توجہ کی ضرورت ہوتی ہے اس لئے وہ زیادہ خشکہ کا استعمال کرتے ہیں.پھر بعض اوقات کچھ حصہ کھانے کا ضائع ہو جاتا ہے.بعض لوگ اس میں احتیاط کرتے ہیں تو لوگ انہیں بخیل کہتے ہیں لیکن اصل مدبر وہی ہوتے ہیں جو جتنا پکاتے ہیں کھا لیتے ہیں کھانا ضائع نہیں کرتے اگر ضرورت کے مطابق کھانا پکایا جائے تو بہت کچھ کفایت ہو سکتی ہے.بخیل آدمی ہمیشہ اس طرح کرتے ہیں.پھر کیا وجہ ہے کہ تم تکلیف کے وقت بھی ایسا نہ کرو.لیکن لوگ یہ چاہتے ہیں کہ انہیں قحط میں بھی اتنا آرام ملے جو تعیش اور آرام کے وقت میں بھی نہ ملتا ہو.
1952 333 خطبات محمود پس قحط میں بھی ایسا انسان اپنے لئے خود تکلیف پیدا کرتا ہے.خدا تعالیٰ کی طرف سے اس پر کوئی کچھ تکلیف نہیں آتی.پھر سالنوں کو بھی کم کیا جاسکتا ہے.روٹی تھوڑے سے سالن کے ساتھ بھی کھائی جاسکتی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام ایک چمچہ چائے کا سالن لے لیتے تھے اور روٹی کھا لیتے تھے.پس تم یہ چیزیں کم استعمال کرو تو تمہاری تکلیف کم ہو جائے گی.لیکن اگر تم قحط میں بھی ان چیزوں کو کم نہیں کرتے تو تم یہ امید کیسے کرتے ہو کہ جو چیز نہیں وہ تمہیں مل جائے.جو چیز موجود نہیں وہ نہیں مل سکتی.ہم نے تحریک جدید کے اجراء کے ساتھ ساتھ کفایت کا سلسلہ اس لئے شروع کیا تھا کہ انسان پر قحط کا وقت بھی آتا ہے.جب ایسا وقت آ جائے تو وہ اشاعت اسلام میں کی سستی نہ کرے.وہ برابر چندے دے تا کام رُکے نہیں.جب اسے سادگی کی عادت ہوگی تو لا زمانی خرچ بھی کم ہوگا اور جب خرچ کم ہوگا تو وہ قحط میں بھی چندے ادا کر سکے گا.لیکن جو شخص رفاہیت اور کھانے پینے میں تکلفات کا عادی ہے وہ شخص چندوں میں بھی سست ہو جائے گا.بے شک مومن تو ہر حالت میں مالی قربانی کرے گا لیکن جو کمزور ایمان والا ہے وہ سہولت کے دنوں میں تو چندہ دے گا لیکن جب قحط کی حالت ہوگی تو وہ چندوں میں سستی کرے گا اور اس طرح اپنے ثواب کو کم کر لے گا.میں نے تحریک جدید کے اجراء کے وقت خاص طور پر عورتوں کو سادگی کی طرف توجہ دلائی تھی.لیکن افسوس ہے کہ انہوں نے پوری طرح تعاون نہیں کیا اور مجھے یہ کہنا پڑتا ہے کہ لجنہ اماءاللہ نے اپنے فرضِ منصبی کو پورا نہیں کیا.وہ اس بات پر خوش ہیں کہ انہوں نے مکان اور دفتر بنا لیا ہے.ممکن ہے کہ مجھے لجنہ اماءاللہ کو تو ڑ کر عورتوں کی تنظیم کسی اور رنگ میں کرنی پڑے کیونکہ ان میں کام کی صحیح روح نہیں پائی جاتی.باہر سے مجھے چٹھیاں آتی ہیں کہ لجنہ اماءاللہ مرکزیہ کی طرف سے کوئی تھی تحریک نہیں آئی.چٹھیوں کا جواب نہیں دیا جاتا.چنانچہ امریکہ سے مجھے خط آیا ہے کہ سال بھر کی میں مرکز کی طرف سے کوئی تحریک نہیں آتی اور ہمیں پتا نہیں کہ ہم نے کیا کرنا ہے.حقیقت یہ ہے کہ دنیا خدا تعالیٰ اور دین سے دور جا چکی ہے.اور اب اس پر اتنے مصائب اور آفتیں آئی ہیں کہ اس میں تڑپ پیدا ہوگئی ہے کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے کوئی آواز آنی کی چاہیے.خدا تعالیٰ کی آواز کے بغیر اُن کا گزارہ نہیں.بیرونی ملکوں سے بھی اب اس قسم کے خطوط کی آتے ہیں کہ دنیوی ذرائع سے اب ہم اتنے تنگ آگئے ہیں کہ اب خدا تعالیٰ ہی مدد کرے تو جی
1952 334 خطبات محمود کرے ہماری تمام تدابیر فیل ہو گئی ہیں.غیر اور دشمن تو اسلام سے ناواقف ہے ہی ، وہ اسلام کو ایسے رنگ میں دنیا کے سامنے پیش کرتا ہے کہ انسان کو گھن آتی ہے.لیکن بڑی مصیبت یہ ہے کہ اپنے بھی اسلام کو بدنام کر رہے ہیں.اب مولویوں کا بڑا کام یہی ہے کہ جب احمدیت کہتی ہے کہ اسلام بالجبر نہیں پھیلا اور جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ اسلام تلوار سے پھیلا ہے وہ جھوٹے ہیں.تو غیر احمدی مولوی کہتے ہیں یہ کافر ہو گئے کیونکہ یہ جہاد کے منکر ہیں.جب ایک احمدی کہتا ہے کہ قرآن ہی ایک ایسی کتاب ہے جو محفوظ ہے اور یہی ایسی کتاب ہے جو دوسری الہامی کتابوں کی کے مقابلہ میں سر اٹھا سکتی ہے باقی تمام کتابیں محرف و مبدل ہو چکی ہیں لیکن قرآن کریم ہر قسم کی تحریف و تبدل سے پاک ہے تو غیر احمدی مولوی کہتے ہیں یہ لوگ قرآن کریم میں نسخ کے قائل نہیں اس لئے کا فر ہیں.جب ایک عیسائی کہتا ہے کہ مسیح بے گناہ تھا.اس لئے اس نے سب گوں کے گناہ اٹھالئے تو ایک احمدی کہتا ہے کہ تمہاری یہ تھیوری غلط ہے سارے انبیاء بے گناہ تھے.تو غیر احمدی کہتے ہیں دیکھو جی! ان کے نزدیک نبی گناہوں سے پاک ہوتے ہیں حالانکہ کئی نبیوں نے گناہ کئے ہیں.اوروں کو تو جانے دو اپنے باپ کو کوئی بُر انہیں کہتا.لیکن غیر احمدی علماء ایسی احادیث پیش کرتے ہیں جن میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق پر حملہ کیا گیا ہے.گویا دشمن تو الگ رہا دوست بھی اس قدر گراوٹ تک چلے گئے ہیں کہ اسلام کی شکل مسخ ہوگئی ہے.لوگ محرم میں امام حسین کا ماتم کرتے ہیں.ہم بھی تسلیم کرتے ہیں کہ امام حسین مظلومی کی حالت میں شہید ہوئے لیکن حضرت امام حسین کو مارنے والا تو ان کا ایک دشمن تھا.محمد رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم ان سے زیادہ مظلوم ہیں.کیونکہ آپ کو مارنے والے خود آپ کو ماننے والے ہیں.اسی شخص کا خنجر رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سینہ پر اٹھ رہا ہے جس کو آپ نے دودھ پلا کر پالا تھا.وہی شخص جسے آپ نے قرآن کریم کی تعلیم کے ساتھ انسان بنایا تھا طرح طرح کے گند پھیلا کر اور آپ پر الزام لگا کر آپ کے وجود کو گھناؤنے طور پر دنیا کے سامنے پیش کر رہا ہے.پس اگر کسی کا نتج ماتم ہونا چاہیے تھا تو وہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات تھی کہ آپ سے زیادہ مظلوم ہستی اور کوئی نہیں.غیروں نے آپ کے متعلق ایسی کتابیں لکھیں کہ ایک حقیقی مسلمان انہیں پڑھ نہیں سکتا اور اپنوں نے آپ کی تعلیم کو مسخ کر کے رکھ دیا.پس آج اگر کسی ماتم کا دن ہے تو ماتم محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم) کا دن ہے ماتم حسین کا دن نہیں کیونکہ آپ کے اپنے ماننے والوں نے آپ
1952 335 خطبات محمود پر الزامات لگائے اور آپ کو بدنام کیا.میں نے انہی حالات کو دیکھتے ہوئے اور ان کی غرض و غایت کو پہچانتے ہوئے جماعت کے سامنے یہ تجویز پیش کی کہ نوجوان آگے آئیں اور اشاعت اسلام کے لئے اپنی جانیں پیش کریں.وہ اپنی زندگیاں سلسلہ کے لئے وقف کریں اور باقی لوگ اپنی جیبیں کھولیں اور چندے دیں.خدا تعالیٰ نے آپ لوگوں کے دل کھول دیئے اور آپ نے تحریک جدید میں چندہ دے کر حصہ لیا اور نو جوانوں کے دل کھولے اور انہوں نے اپنی زندگیاں وقف کر دیں.لیکن اب آہستہ آہستہ لوگوں کو مصیبت کے دن بھول گئے ہیں.حالانکہ مصائب آگے سے بھی زیادہ ہیں.اب نوجوان کی پہلے کی طرح اپنی زندگیاں وقف نہیں کر رہے.بلکہ جنہوں نے اپنی زندگیاں وقف کی تھیں.اُن کی میں سے بعض نے آہستہ آہستہ کھسکنا شروع کر دیا ہے.شروع میں میں نے یہ طریق رکھا تھا کہ جو واقف زندگی اپنے وقف سے بھاگے اُسے جماعت سے خارج کر دیا جاتا تھا.لیکن بعد میں میں نے سمجھا کہ جو اس قسم کے گندے لوگ ہیں ہمیں اُن کو رکھنے کی کیا ضرورت ہے.جو شخص ہمارا نہیں اسے ہم کیوں لیں.اس لئے جو شخص جاتا ہے اُسے جانے دو.چنانچہ جن نو جوانوں نے کہا ت کہ ہم وقف میں نہیں رہنا چاہتے اور اُن کے ذمہ کوئی تعلیمی یا دوسرا قرض نہ تھا میں نے انہیں فارغ کرنا شروع کر دیا.اس میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ یہ لوگ کسی نہ کسی معیار کے کمزور ضروری ہیں.یا تو وہ پورے غدار ہیں یا آدھے غدار ہیں یا چوتھا حصہ غدار ہیں یا ان میں دسواں ، بیسواں پچاسواں ،سواں یا ہزارواں حصہ غداری کا پایا جاتا ہے.اور غداری نہیں تو کمزوری ضرور ہے.بہر حال وہ شخص جو ایک دفعہ وقف کرتا ہے اور پھر اس سے پیچھے ہلتا ہے غداری یا کمزوری سے پاک نہیں.اب ہماری یہ پالیسی ہے کہ جس شخص نے ہمارا روپیہ استعمال نہیں کیا وہ اگر وقف سے فراغت مانگتا ہے تو مانگ لے.ہم اُسے اجازت دے دیتے ہیں.ہاں ہم ان کو بُرا ضرور مانتے ہ ہیں جو وقف سے بھاگنا تو چاہتے ہیں لیکن وہ ہمارے منہ سے کہلوانا چاہتے ہیں کہ تم چلے جاؤ.مثلاً وہ کام خراب کرنا شروع کر دیتے ہیں ایسے لوگ یقیناً غدار ہیں.لیکن جو شخص خود کہتا ہے کہ میں وقف سے فارغ ہونا چاہتا ہوں ہم اُسے فارغ کر دیتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ اس کی کے ایمان میں کمزوری ہے.شاید باہر جا کر اس کا ایمان مضبوط ہو جائے.لیکن جو شخص ہمیں دھوکا کی دینا چاہتا ہے وہ باہر جا کر بھی کمزور اور بے ایمان ہی رہے گا.
1952 336 خطبات محمود چندوں کے لحاظ سے بھی جب میں نے 1934 ء میں تحریک جدید کا اجراء کیا تھا.اُس وقت جماعت کی مالی حالت آج کی نسبت بہت کم تھی.اس کی تعداد بھی آج کی نسبت بہت کم کنی تھی.اب تعداد بہر حال بہت زیادہ ہے اور مالی حالت تو اُس زمانہ کی نسبت بہت اچھی ہے.لیکن اُس وقت جس طرح تحریک جدید کا خیر مقدم کیا گیا تھا ویسا خیر مقدم اب نہیں کیا جاتا.اب کی بھی لوگ تحریک جدید میں حصہ لیتے ہیں لیکن زیادہ تر تعداد حصہ لینے والوں کی اُنہی لوگوں کی ہے جنہوں نے شروع میں ہی میری آواز پر لبیک کہا تھا.بے شک بعد والوں میں بھی جوش ہے لیکن کی اُتنا جوش نہیں جتنا ابتداء میں لوگوں میں پایا جاتا تھا.اس وقت کام کی ابتداء ہے.ابھی تک دنیا کی دوارب بیس کروڑ کی آبادی میں ہمارے پچاس مبلغ کام کرتے ہیں.اگر اس آبادی کے لحج چوتھے حصہ تک بھی ہم خدا تعالیٰ کا پیغام پہنچائیں اور سال میں پچاس کروڑ انسانوں کو چار صفحہ کا اشتہار صرف ایک دفعہ پہنچا ئیں تو اس کے معنی یہ ہیں کہ اگر ایک ہزار اشتہار شائع کیا جائے تو اس مج پر بارہ روپے خرچ آتے ہیں.پھر ان اشتہارات کو لوگوں تک پہنچانے کو لیا جائے تو کل خرچ کی قریباً ہمیں روپے تک آئے گا.اور اگر ایک لاکھ اشتہارات چھپوائیں تو دو ہزار روپیہ خرچ آئے کی گا.ایک کروڑ اشتہارات چھپوائیں تو دو لاکھ روپیہ خرچ آئے گا اور اگر پچاس کروڑ اشتہارات کی شائع کریں تو ایک کروڑ روپیہ لگے گا.یعنی ایک کروڑ روپیہ سے ہم دنیا کی چوتھائی آبادی کو صرف ایک دفعہ چار صفحہ کا ایک اشتہار بھیج سکتے ہیں.وہ بھی اس امید پر کہ چار میں سے ایک شخص ا.پڑھے گا اور باقیوں کو سنا دے گا.اب آپ لوگ خود اندازہ لگا سکتے ہیں کہ کتنا بڑا کام ہمارے سامنے ہے.ابھی تو ہمارا لٹریچر اردو زبان میں بھی مکمل نہیں ہوا غیر زبانیں تو ابھی بالکل تشنہ ہیں.ابھی تک ہم نے بیرونی ملکوں کے احمدیوں میں اسلام کے موٹے موٹے اصول پھیلائے کی ہیں.لیکن اب وہ کہتے ہیں ہم موٹے اصول پر کفایت نہیں کر سکتے اب تو تفصیلی احکام بتاؤ ، فقہ لاؤ، ان کتابوں کے ترجمے لاؤ، ابھی ایک ڈاکٹر صاحب جو انگلینڈ میں ہیں اور انہوں نے سوچ سمجھ کر اسلام قبول کیا ہے اُن کا مجھے خط آیا ہے کہ میری بیٹیوں میں سعادت تو ضرور پائی جاتی تھی ہے، اسلام کی طرف انہیں رغبت بھی ہے اور انہوں نے مجھے دیکھ کر اسلام قبول بھی کر لیا ہے لیکن میرے پاس وہ کتابیں نہیں کہ جن سے میں انہیں بتا سکوں کہ ان پر کیا کیا ذمہ داریاں ہیں.دراصل بات یہ ہے کہ جن چیزوں کی ضرورت پہلے اسلامی دنیا کو تھی اب ان چیزوں کی باہر
1952 337 خطبات محمود بھی ضرورت ہے.اب ہمیں حدیث، تصوف، فقہ ، قرآن کریم اور دوسرے ضروری مسائل کا تھی ترجمہ کر کے باہر پھیلانا ہو گا.اگر ایک زبان میں دس دس صفحات کی چھوٹی چھوٹی کتابیں بھی پھیلائی جائیں تو دنیا میں پندرہ ہیں ہزار زبانیں ہیں.اگر بڑی بڑی زبانوں کو ہی لیا جائے تو وہ مجھ ہیں تمہیں زبانیں ہو جاتی ہیں.اگر ان زبانوں میں ہی ہم ایک ایک لاکھ صفحات شائع کریں تو یہ تھی تمیں لاکھ صفحات ہو جاتے ہیں.اور اگر ہر کتاب کے دس دس ہزار نسخے بھی رکھ لئے جائیں تو یہ کی اربوں صفحات بن جاتے ہیں.اور پھر کہیں جا کر ہم ان لوگوں کو اسلام کے ابتدائی مسائل سمجھا سکتے ہیں.لیکن ابھی تو انہیں یہ بھی پتا نہیں لگا کہ اسلام کی حقیقت کیا ہے.مثلاً ہم انہیں کہتے ہیں ج روزہ رکھو لیکن انہیں یہ علم نہیں کہ روزہ کیسے ٹوٹتا ہے.وہ روزے رکھ لیتے ہیں لیکن ہو سکتا ہے کہ وہ روزہ کی حالت میں بعض چیزیں کھا لیتے ہوں.مثلاً ان قوموں میں اگر روزہ کا یہ طریق ہے کہ ڈبل روٹی نہیں کھانی ہاں دودھ وغیرہ استعمال کر لینا چاہیے تو شاید وہ دودھ کا استعمال کر لیتے ہوں.شیخ رحمت اللہ صاحب مخلص احمدی تھے بعد میں وہ پیغامی ہو گئے لیکن وہ بد گو نہیں تھے وفات کے وقت انہوں نے ندامت کا اظہار بھی کیا اس لئے ہم تو یہی دعا کرتے ہیں کہ خدا تعالیٰ انہیں معاف کر دے اور ان کی قربانیوں کا اچھا بدلہ انہیں دے کیونکہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بہت پیارے تھے.انہوں نے بتایا کہ ایک دفعہ میں انگلینڈ گیا ہوا تھا.وہ اکثر کاروبار کے سلسلہ میں ولایت جاتے تھے ) ایک دن اتفاقاً میں باورچی خانہ میں چلا گیا تو نوکرانی ہنڈیا پکا رہی تھی.میں نے اسے ہدایت کی ہوئی تھی کہ میرا کھانا الگ پکا نا.میں نے اُس سے دریافت کیا کہ کیا تم نے میرا کھانا الگ پکایا ہے؟ اُس نے کہا گھبرائیں نہیں آپ کا کھانا الگ پک رہا ہے.مجھے سور کے گوشت کی خوب پہچان ہے اس لئے جب میں آپ کے لئے سالن ڈالتی ہوں تو سور کی بوٹیاں الگ کر لیتی ہوں.میں نے کہا یہ کیا حماقت ہے، سور کا گوشت تو میرے مذہب میں حرام ہے اور تم میرے لئے اس ہنڈیا میں سالن پکاتی ہو جس میں سور کا گوشت پک رہا ہے اور کی کہتی ہو کہ میں بوٹیاں الگ کر لیتی ہوں.اس نے کہا اچھا آئندہ الگ کھانا تیار کیا کروں گی.مج کچھ دنوں کے بعد میں دوبارہ باورچی خانہ میں گیا اور دیکھا کہ اگر چہ دو الگ الگ ہنڈیاں پک رہی ہیں لیکن اُس کے ہاتھ میں ایک ہی چمچہ ہے.وہ وہی چہ کبھی ایک ہنڈیا میں پھیرتی ہے اور کبھی کچ دوسری ہنڈیا میں.میں نے کہا یہ تم کیا کر رہی ہو، ایک ہی چمچہ میری ہنڈیا میں اور دوسری ہنڈیا میں کی
1952 338 خطبات محمود پھیر رہی ہو؟ اُس نے کہا تو یہ کیا اِس طرح بھی کھانا حرام ہو جاتا ہے؟ اچھا آئندہ میں احتیاط کی کروں گی.پس ان کی ناواقفیت ایسی ہے کہ کوئی تعجب نہیں کہ وہ روزے رکھ لیتے ہوں اور روزہ کی حالت میں بعض چیزوں کا استعمال بھی کر لیتے ہوں.مثلاً ہندو روزے میں چولہے کی پکی ہوئی چیز نہیں کھاتے لیکن وہ دو دو تین تین سیر خربوزے کھا لیتے ہیں ، انگور سیر بھر کھا لیتے ہیں.اب جو شخص ہندوؤں سے مسلمان ہوا ہو.ہو سکتا ہے کہ روزہ کی حالت میں وہ چولہے کی پکی ہوئی چیز نہ کھا تا ہو دوسری چیزیں کھا لیتا ہو.غرض جب تک تفصیلات سے دوسری قوموں کو واقفیت نہیں ہوگی وہ صحیح طور پر اسلام کی تعلیم پر عمل نہیں کر سکتیں.اس لئے ضروری ہے کہ کتب کا اُن کی جی زبانوں میں ترجمہ کیا جائے.ہماری منزل تو ابتدا کی ہے ابھی انتہا بہت دور ہے.اگر ہم ابتدائی میں ہی تھک کر رہ گئے تو آخر میں ہمارا کیا حال ہوگا.میں تو سمجھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے بڑا احسان کیا ہے کہ اس نے ابتدا میں یہ تحریک مجھ سے کی غفلت میں کروائی.اگر وہ پہلے اس بات کا انکشاف کر دیتا کہ یہ تمہارے لئے اور تمہاری آئندہ نسلوں کے لئے ہے تو شاید تم میں سے بہت لوگ اس ثواب سے محروم رہ جاتے.اس نے مجھ سے یہ بات چھپائے رکھی اور صرف تین سال کے لئے تحریک کروائی.اور پھر اس صورت میں بھی حقیقت پردہ میں رکھی کہ میرے الفاظ خطبہ میں مبہم رنگ میں چھپ گئے اور بعض لوگوں نے یہ خیال کر لیا کہ ہم ایک سال چندہ دیں گے اور وہ آئندہ تین سالوں میں خرچ ہوگا.لیکن جب دوسرے سال اُن سے چندہ مانگا گیا اور انہیں بتایا گیا کہ یہ تحریک تین سال تک رہے گی تو انہوں نے کہا اچھا یہ بات ہے، ہم تو یہ خیال کرتے تھے کہ صرف ایک سال چندہ دینا ہے اچھا چندہ لے لو.تین سال گزرنے پر میں نے اس تحریک کو دس سال تک بڑھا دیا تو لوگوں نے یہ خیال کر لیا ؟ کہ سات سال اور ہیں چلو اتنے سال اور چندہ دے دیں.دس سال گزرنے پر آپ لوگ اس قابل ہو گئے تھے کہ لمبا قدم اٹھا سکیں اس لئے میں نے اس تحریک کو 19 سال تک بڑھا دیا.چونکہ یہ فاصلہ زیادہ تھا اس لئے بعض لوگ اس دفعہ گر گئے اور انہوں نے خیال کر لیا کہ چلو دس سال کی پورے ہو گئے ہیں.پھر جب یہ تحریک 19 سال کے قریب آئی تو اللہ تعالیٰ نے میرے دل میں یہ سوال پیدا کیا کہ میں نے یہ کام کس غرض کے لئے جاری کیا تھا ؟ میں نے کہا یہ کام میں نے تبلیغ اسلام
1952 339 خطبات محمود کے لئے جاری کیا تھا.اس پر خدا تعالیٰ نے مجھ پر القاء کیا کہ کیا تبلیغ اسلام صرف 19 سال تک کی ہوگی ؟ بعد میں یہ کام معاف ہو جائے گا ؟ تب میری آنکھیں کھلیں اور میں نے جماعت پر یہ واضح کی کیا کہ یہ کام قیامت تک جاری رہے گا.اور جس دن بھی ہم نے اس کام کو چھوڑ دیا ہم مرے.اس کی مثال تو بالکل ایسی ہی ہے جیسے میں ایک دفعہ جمعہ پڑھ کر بیٹھا تھا تو ایک دوست نے کہا ایک پیر صاحب آئے ہیں اور وہ چاہتے ہیں کہ آپ سے ملاقات کریں.میں نے کہا انہیں آگے لے آئیں.چنانچہ وہ پیر صاحب آئے اور کہا میں یہاں آیا تھا اس لئے میں نے خیال کیا کہ آپ سے ملاقات بھی کرلوں.وہ سید بھی تھے اور پیر بھی ، انہوں نے کہا مجھے ایک مسئلہ بتا ئیں.اگر ایک دریا کو عبور کرنے کے لئے کوئی شخص ایک کشتی میں بیٹھے تو کیا جب کشتی دوسرے کنارے تک پہنچ جائے تو وہ کشتی سے اُتر جائے یا کشتی پر ہی بیٹھا رہے؟ میں فوراً سمجھ گیا کہ ان کا مطلب یہ ہے کہ عبادت تو خدا تعالیٰ کے ملنے کے لئے کی جاتی ہے، جب خدا تعالیٰ مل جائے تو عبادت کی کیا تج ضرورت ہے؟ نماز ، روزہ اور دوسری عبادات تو اُن لوگوں کے لئے ہیں جنہیں خدا تعالیٰ نہیں ملا.جنہیں خدا تعالیٰ مل گیا ہے انہیں ان عبادات کی کیا ضرورت ہے.میں نے کہا پیر صاحب ! اگر دریا کا کنارہ ہے تب تو اُتر جانا چاہیے کشتی میں بیٹھ رہنے کا کوئی فائدہ نہیں.لیکن اگر دریا کا کنارہ ہی نہیں تو جہاں آپ اُترے وہیں ڈوبے.حقیقت یہ ہے کہ خدا تعالیٰ غیر محدود ہے اگر اُس کا ایک کنارہ نظر آتا ہے تو وہاں پہنچنے پر دوسرا کنارہ نظر آ جائے گا.اور اگر انسان اُس دوسرے کنارے پر پہنچے گا تو اُسے ایک اور کنارہ نظر آ جائے گا.اگر کوئی انسان ہو تو اُسے بغل گیر ہو کر دوسرا شخص مل سکتا ہے لیکن خدا تعالیٰ تو غیر محدود ہے.اگر ا سے ایک جگہ چھو لیا ہے تو اُس کا وجود اور بھی ہے اور اگر اُس جگہ چھو لیا تو اور باقی ہے.اسی طرح تبلیغ بھی ہمیشہ کے لئے ہے.خدا تعالیٰ حضرت مسیح علیہ السلام کو مخاطب کرتے ہوئے فرماتا ہے تمہارے ماننے والے نہ ماننے والوں پر قیامت تک غالب رہیں گے 4.اس کے یہ معنی ہیں کہ ہمیشہ ایسے آدمی موجود رہیں گے جو حضرت مسیح علیہ السلام پر ایمان نہیں لائیں گے.اور جب حضرت مسیح علیہ السلام پر ایمان لا نا قرآن کریم نے بھی ضروری قرار دیا ت ہے تو جو لوگ مسیح کو نہیں مانیں گے قرآن کریم کو بھی نہیں مانیں گے.پس لازماً قیامت تک کچھ ایسے لوگ بھی موجود رہیں گے جو اسلام میں داخل نہ ہوں گے.اور اگر قیامت تک ایسے لوگ
1952 340 خطبات محمود موجود رہیں گے جو اسلام میں داخل نہ ہوں گے تو اُن کو منوانے کے لئے بھی بعض مبلغین کی کی ضرورت رہے گی.لڑکیاں ایک کھیل کھیلتی ہیں.اب تو وہ کھیل کھیلتے میں نے لڑکیوں کو نہیں کی دیکھا، پہلے اس کھیل کا رواج زیادہ تھا.وہ کھیل اِس طرح کی ہوتی ہے کہ پانچ چھ لڑ کیاں ایک طرف کھڑی ہو جاتی ہیں اور پانچ چھ لڑکیاں ایک طرف کھڑی ہو جاتی ہیں.ایک طرف کی لڑکیاں دوسری طرف کی لڑکیوں کے پاس آتی ہیں تو وہ غالباً اُن سے رشتہ مانگتی ہیں یا کوئی اور چیز مانگتی ہیں.بہر حال وہ سائل بن کر آتی ہیں اور اپنا سوال پیش کرتی ہیں.تو دوسری طرف کی لڑکیاں کہتی ہیں ہم نے نہیں دینا.اور جب وہ کہتی ہیں نہیں دینا تو کھیل شروع ہو جاتی ہے.ایک طرف کی لڑکیاں کہتی ہیں.نہیوں دینا دوسری کہتی ہیں ”لے کے رہنا اور دیر تک یہ مشغلہ جاری رہتا ہے دونوں فریق اپنی ضد پر مُصر ہوتے ہیں.اسی طرح قرآن کریم کہتا ہے کہ قیام تک کچھ لوگ ایسے موجود رہیں گے جو کہیں گے ہم نے نہیں ماننا.تو تمہارا بھی یہ کام ہے کہ تم کہو ہم نے منوا کر چھوڑنا ہے.تمہارا ایمان اور جذبہ بہر حال چھوٹی بچیوں سے زیادہ ہونا چاہیے.تمہاری غیرت اُن سے زیادہ ہونی چاہیے.اگر اُن میں سے ایک فریق یہ کہتا ہے کہ ہم نے نہیں دینا تو وہ دوسری لڑکیاں کہتی ہیں کہ ہم نے لے کر جانا ہے.تو تمہارا بھی یہ کام ہے کہ اگر کچھ ایسے لوگ ہوں جو کہیں ہم نے نہیں ماننا تو تم کہو ہم نے منوا کر چھوڑ نا ہے.غرض یہ خدا تعالیٰ کی حکمت ہے کہ اس نے پہلے مجھ سے چند سال کے لئے تحریک کر وائی اور کی پھر ا سے اور بڑھوا دیا.اور جب آخری سال یعنی انیسواں سال قریب آیا تو اُس نے یہ ظاہر کر دیا ج کہ یہ انیس کا عدد کوئی چیز نہیں.جب تک میں اور آپ لوگ زندہ ہیں یہ فرض ہے جو خدا تعالیٰ نے ہمارے ذمہ لگایا ہے.اور جب تک ہماری اولادیں زندہ رہیں گی اُس وقت تک یہ فرض ہے جو جی اُن کے ذمہ لگایا گیا ہے اسے کوئی ہٹا نہیں سکتا.اور اسی طرح ہر نسل پر واجب ہوتا جائے گا.اگر تم ایک زندہ قوم ہو تو یہ فرض تم سے تمہاری اولادوں کی طرف اور تمہاری اولادوں سے اُن کی یی اولادوں کی طرف قیامت تک منتقل ہوتا رہے گا.اور اگر تم زندہ قوم نہیں ہو تو تم میں سے جن کی میں سچا ایمان پایا جاتا ہے وہ جب تک زندہ رہیں گے اور موت اس دنیا سے انہیں دوسری دنیا می میں نہیں لے جاتی اُس وقت تک وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا نام بلند کرتے رہیں گے.گویا می تحریک جدید ایک دن کی نہیں وہ دو دن کی نہیں بلکہ ہر مومن کے لئے ہمیشہ کے لئے ہے.اس کا کی
1952 341 خطبات محمود ذکر قرآن کریم کی اس آیت میں ہے کہ قیامت تک تم میں ایک ایسی جماعت رہنی چاہیے جو کی تبلیغ اسلام کا کام کرے 5.یہ آیت ایک دن کے لئے نہیں، یہ آیت دو دن کے لئے نہیں بلکہ یہ آیت قیامت تک کے لئے ہے.اسی طرح تحریک جدید بھی قیامت تک کے لئے ہے کیونکہ یہ اس آیت کا ترجمہ ہے.جو شخص اپنی اس ذمہ داری کو سمجھتا ہے وہ قرآن کریم کو مانتا ان ہے.اور جو اپنی اس ذمہ داری کو نہیں سمجھتا وہ قرآن کریم کو نہیں مانتا.اور جتنا جتنا کوئی شخص اس کی تحریک سے دور ہے اُتنا ہی وہ خدا تعالیٰ کی اطاعت اور فرمانبرداری سے دور ہے.پس میں آج تحریک جدید کے انیسویں سال کا اعلان کرتا ہوں.اگر تم میں ایمان ہے تو تمہیں یہ کہنا چاہیے کہ خدا تعالیٰ اس انہیں کو اڑ میں بنائے اور اڑتمیں کو چھہتر بنائے اور اس تحریک کو اُس وقت تک لمبا کرے جب تک کہ ہم آخری سانس موت کے حوالہ نہ کر دیں.لڑائی میں مارا جانے والا سپاہی اور وہ سپاہی جو لڑائی میں مارا نہیں جاتا ( ہاں وہ حکومت کا فرمانبردار ہوتا ہے ) بظاہر دونوں برابر معلوم ہوتے ہیں.لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ لڑائی میں مارا جانے والا سپاہی دوسرے سپاہی سے درجہ میں بلند ہے.جہاد قلمی اور سیفی دونوں طرح کا ہوتا ہے.جس طرح سیفی جہاد میں مارا جانے والا شخص بلند مرتبہ پاتا ہے.اسی طرح جو شخص تنظیم اور تبلیغ کے جہاد میں مرتا ہے اُس کا مقام بھی بہت بلند ہوتا ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق کون کہہ سکتا ہے کہ آپ جہاد کرتے ہوئے فوت نہیں ہوئے.آپ آخری دم تک تبلیغی تنظیمی اور تعلیمی جہاد کرتے رہے اور اسی جہاد کے دوران میں آپ فوت ہوئے.پس ہر مومن جو اس جہاد میں حصہ لیتا رہے گا وہ اسے لمبا کرتا جائے گا.ہاں چونکہ اب مختلف دور بن جائیں گے اس لئے جو لوگ اس جہاد میں پہلے شریک ہوئے وہ اَلسَّابِقُونَ الاَوَّلُونَ کا خطاب پائیں گے.کیونکہ سب.پہلے دین کے جھنڈے کو بلند کیا.اور باقی لوگ صرف مجاہد کہلائیں گے.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ان مجاہدین میں سے بھی بعض لوگ اَلسَّابِقُونَ الاَوَّلُونَ ہوں گے.لیکن جو لوگ ابتدا میں اس جہاد میں شریک ہوئے وہ بحیثیت جماعت السَّابِقُونَ الاَوَّلُونَ قرار پائیں گے.اور بعد میں آنے والے صرف انفرادی طور پر اس مقام کو حاصل کر سکتے ہیں.جب بیعت رضوان ہوئی تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فیصلہ کر لیا تھا کہ آپ مرتے دم تک مکہ والوں کے ساتھ لڑیں گے.آپ نے حضرت عثمان کو بطور ایچی مکہ والوں کی طرف
1952 342 خطبات محمود بھیجا تھا.اور ان کے متعلق مشہور ہو گیا تھا کہ مکہ والوں نے انہیں قتل کر دیا ہے.اور ایلچی کا قتل کیا جانا نہ صرف مسلمانوں میں بلکہ اُس وقت کے کفار میں بھی بُراسمجھا جاتا تھا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دل میں فیصلہ کر لیا کہ اگر یہ بات سچی نکلی تو آپ مکہ والوں سے لڑیں گے اور پیچھے نہیں ہٹیں گے.بعض لوگوں کی نظریں ایمان کی وجہ سے وسیع ہوتی ہیں.بنو اسد کا ایک آدمی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور عرض کیا یا رسول اللہ ! میں آپ کی بیعت کرنا چاہتا ہوں.آپ نے فرمایا کہ تم کس بات پر بیعت کرنا چاہتے ہو؟ اُس نے عرض کیا میں اُس چیز کے لئے بیعت کی کرنا چاہتا ہوں جو آپ کے دل میں ہے.وہ آپ کے چہرہ مبارک کو دیکھ کر پہچان گیا تھا کہ آپ کا فیصلہ کیا ہے.آپ نے فرمایا میرے دل میں کیا ہے؟ اُس شخص نے کہا یہی کہ خدا تعالیٰ کی راہ میں مارے جائیں یا فتح حاصل کر لیں.آپ نے اپنا ہاتھ بڑھا دیا اور اُس شخص نے بیعت کر لی.کی غرض وہ پہلا شخص تھا جس نے بیعت رضوان کے موقع پر خود پیش ہو کر بیعت کی.اس کے بعد باقی ہی صحابہ آگے بڑھے اور سب نے آپ کے ہاتھ پر بیعت کی 6.اور اس واقعہ کے بعد جب کبھی صحابہ بنو اسد کے کسی شخص سے ملتے تو ہمیشہ کہا کرتے تھے کہ بیعت رضوان میں تم لوگوں کو ہم پر فضیلت حاصل ہے.کیونکہ تم نے اس بات میں ابتدا کی اور اس طرح اس فخر کو حاصل کر لیا.تو مومن ایمان کی وجہ سے یہ کوشش کرتا ہے کہ وہ آگے بڑھے اور اپنی خدمات پیش کرے.بے شک دنیا میں تغیرات بھی آئیں گے، خرابیاں بھی ہوں گی ، قحط بھی پڑیں گے، مصائب اور آفات بھی آئیں گی.لیکن جو شخص مومن ہے اُس کا قدم آگے ہی آگے بڑھتا چلا جائے گا.قحط اور مصائب اس کے قدم کو سُست نہیں کریں گے.پس تحریک جدید کو آگے بڑھانا ہمارا کام ہے.کام کہیں ختم نہیں ہوتا.پہلی جماعت جس نے اس میں حصہ لیا وہ اَلسَّابِقُونَ الْاَوَّلُونَ کہلائے گی اور جو بعد میں آئے وہ مجاہد کہلائیں گے.پھر ان مجاہدین میں سے بھی بعض اپنے اپنے وقت میں سَابِقُونَ ہوں گے.لیکن یہ صرف بحیثیت فرد سا بقُونَ ہوں گے.اور جو جماعت پہلے دور میں اس جہاد میں شریک ہوئی وہ مِنْ حَيْثُ الْجَمَاعَتْ السَّابِقُونَ الأَوَّلُونَ ہوگی.میں تحریک جدید کے کارکنوں کو بھی اس بات کی طرف توجہ دلاتا ہوں کہ وہ اپنے اندر ایمان پیدا کریں.افسوس ہے کہ کا رکن کام کو اس طرح نہیں کرتے کہ چندے سو فیصدی جمع ہوں.مثلاً دور دوم کا ہمیشہ ہی یہ حال رہا ہے کہ وہ کبھی سو فیصدی پورا نہیں ہوا.میں یہ نہیں سمجھتا کہ اس دور کی
1952 343 خطبات محمود میں حصہ لینے والے اخلاص میں کم ہیں.لیکن میں یہ ضرور کہوں گا کہ کارکن کام میں سست ہیں.اس لئے اس دور کا چندہ پورے طور پر وصول نہیں ہوتا.وعدوں کے لحاظ سے دور دوم کے مخلصین بھی ترقی کر رہے ہیں.پچھلے سال ایک لاکھ بیس ہزار کے وعدے تھے اور اس سال ایک لاکھ چالیس ہزار کے وعدے تھے.لیکن پچھلے سال 69 فیصدی وعدے وصول ہوئے تھے اور اس سال 64 فیصدی وعدے وصول ہوئے ہیں.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اس سال گزشتہ سال کی نسبت رقم زیادہ آئی ہے مگر فیصدی نسبت کم ہوگئی ہے.اسی طرح میں واقفین کو بھی توجہ دلاتا ہوں کہ وہ اپنے اخلاص کو دیکھیں وقت کو نہ دیکھیں.عاشق وقت کو نہیں دیکھا کرتا نو کر وقت کو دیکھتا ہے.ہمارے ہاں تو اصل غرض کام سے ہے.کام کو وقت پر کریں.اب تو یہ ہوتا ہے کہ اگر کہیں کوئی نقص ہو جاتا ہے تو میں دفتر کو توجہ دلاتا ہوں.پھر کچھ عرصہ کے بعد دوبارہ دریافت کرتا ہوں تو مجھے بتایا جاتا ہے کہ تین ماہ ہوئے ہم نے ایک خط لکھا تھا مگر اس کا کوئی جواب نہیں آیا.گویا ایک خط لکھ کر تین ماہ تک خاموشی طاری رہتی ہے.حالانکہ چاہیے یہ تھا کہ ہر دس دن کے بعد خط لکھا جاتا.میں یاد کراتا ہوں تو خط لکھتے ہیں.سستی کی علامت ہے اور مومن کو اس سے بچنا چاہیے.میں نو جوانوں سے کہتا ہوں کہ وہ وقت کی قدر کو سمجھیں.جو بھاگنے والے ہیں میں انہیں کچھ نہیں کہتا.بلکہ میں خدا تعالیٰ کا شکر کرتا ہوں کہ ہمیں اُن سے نجات مل گئی.لیکن جو نوجوان وقف میں نہیں آئے انہیں میں کہتا ہوں کہ اخلاص سے آگے آؤ.ہمیں لاکھوں نوجوانوں کی ضرورت ہے.اگر ہر پانچ سو افراد پر بھی ایک مبلغ ہو تو دوارب بیس کروڑ کی آبادی کے لئے ہمیں نہ پچاس لاکھ مبلغین کی ضرورت ہے.ابھی وہ زمانہ نہیں آیا کہ ہم تبلیغ کے فرض سے فراغت حاصل کرلیں اور نہ کوئی ایسا وقت آ سکتا ہے.اگر ایسے موقع پر نوجوان قربانی نہیں کریں گے تو اور کون کرے گا.تم کو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ انسان کی زندگی کا بہترین مصرف یہی ہے کہ وہ خدا تعالی کی ی راہ میں خرچ ہو.جو شخص اسے پھٹی سمجھتا ہے اُس کے ایمان میں کمزوری پائی جاتی ہے اس کمزوری کو دور کرنا چاہیے.جس کا ایمان مضبوط ہوتا ہے وہ اس موقع پر آگے بڑھتا ہے.صحابہ کو دیکھ لو اُن میں یہ رُوح کس حد تک پائی جاتی ہے.حضرت ابو ہریرۃ بہت بعد میں مسلمان ہوئے تھے.لیکن جب مسلمان ہوئے تو پھر ہمیشہ مسجد میں ہی رہے.آپ فرماتے تھے کہ رض
1952 344 خطبات محمود میں چاہتا ہوں کہ اب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہر بات سنوں ، آپ کی ہر مجلس میں بیٹھوں تا کی کہ بعد میں آنے کی وجہ سے جو کمی رہ گئی ہے وہ پوری ہو جائے 7.چنانچہ آپ ہر وقت مسجد میں بیٹھے رہتے تھے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہر بات سنتے تھے.یہی وجہ ہے کہ اگر حضرت ابو بکر، حضرت عمرؓ، اور دوسرے عشرہ مبشرہ کی ساری روایات بھی اکٹھی کر لی جائیں تو وہ حضرت ابو ہر سی اے کی روایتوں سے تعداد میں کم ہیں.کیونکہ جب وہ مسلمان ہوئے تو آپ نے کوئی موقع جانے نہیں دیا.آپ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہر مجلس میں حاضر ہوتے تھے.آپ نے مسجد میں ہی ڈیرہ لگالیا تا ایسا نہ ہو کہ کسی وقت غیر حاضر رہنے کی وجہ سے آپ کی باتیں سُن نہ سکیں.تم بھی وقف کی عظمت کو سمجھو.وقف کا بدلہ پیسوں اور عہدوں سے نہیں ملتا.وقف کا بدلہ خدا تعالیٰ سے ملتا ہے.سلسلہ کے ابتدائی زمانہ میں علماء نے دین کی بہت خدمت کی ہے.لیکن اب تعلیم بھی زیادہ ہے، سامان اور سہولتیں بھی میسر ہیں لیکن علماء مسجدوں میں نہیں آتے.دنیا کے پیچھے لگے رہتے ہیں.انہیں عہدوں اور تنخواہوں کا خیال زیادہ رہتا ہے.یہ بات بتاتی ہے کہ انہیں صرف عہد وں اور مال سے دلچسپی ہے.حالانکہ عہدوں سے روحانیت کو کوئی فائدہ نہیں پہنچتا.جن کی کاموں کی وجہ سے خدا تعالیٰ کا قرب حاصل ہوتا ہے وہی کام کرنے چاہئیں اور انہی کی طرف دوڑنا چاہیے.“ ( الفضل 4 دسمبر 1952ء) 1 سمالی لینڈ (Somaliland) سمالی لینڈ یا صومالی لینڈ ، صومالیہ کا ایک خطہ تھا جس نے 1991ء میں آزادی کا اعلان کیا مگر تا حال اسے کسی ملک نے تسلیم نہیں کیا.اس کی سرحدیں ایتھوپیا اور جبوتی سے ملتی ہیں.یہ لوگ عربی بولتے ہیں اور بیشتر آبادی مسلمان ہے.وکی پیڈیا.آزاد دائرہ معارف زیر عنوان Somaliland) 2 صحیح مسلم كتاب الحج باب المدينة تنفى خُبُثَهَا و تسمى طَابَة و طِيْبَة بخارى كتاب الأطعمة باب المؤمن يأكل في معي واحد :4 إِذْ قَالَ اللهُ يُعِيسَى إِنِّي مُتَوَفِّيكَ وَرَافِعُكَ إِلَى وَمُطَهِّرُكَ مِنَ الَّذِينَ كَفَرُوا وَجَاعِلُ الَّذِينَ اتَّبَعُوكَ فَوْقَ الَّذِينَ كَفَرُوا إِلَى يَوْمِ الْقِيِّمَةِ ( آل عمران : 56) 5 : وَلْتَكُن مِنكُمْ أُمَّةٌ يَدْعُوْنَ إِلَى الْخَيْرِ وَيَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ (آل عمران : 105)
1952 345 خطبات محمود 6: كنز العمال في سنن الاقوال والافعال جلد 14 صفحہ 38 كتاب الفضائل باب فضائل الامة وو 66 بنو اسد بیروت لبنان 1998ء.”بنو 7 : اسد الغابۃ جلد 5 صفحہ 121 ابوھریرة ، بیروت لبنان 2001ء(مفہوما )
1952 346 (39) خطبات محمود قحط اور مصائب کے دنوں میں جو دین کی خاطر قربانی کرتے ہیں وہی خدا تعالیٰ کے محبوب ہوتے ہیں تحریک جدید ہمیشہ کے لئے قائم رہنے والا ادارہ ہے.جب تک قوم زندہ رہے گی یہ اس کے ساتھ وابستہ رہے گا فرموده 5 دسمبر 1952ء بمقام ربوہ ) تشهد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: میں نے گزشتہ جمعہ تحریک جدید کے نئے سال کا اعلان کیا تھا اور ساتھ ہی جماعت کو اس امر کی طرف بھی توجہ دلائی تھی کہ تحریک جدید ہمیشہ کے لئے قائم رہنے والا ادارہ ہے.جب تک قوم زندہ رہے گی یہ ادارہ قوم کے ساتھ وابستہ رہے گا.اور جب افراد میں زندگی منتقل ہو جائے گی یعنی جماعت کے کچھ افراد مُردہ ہو جائیں گے اور کچھ زندہ رہیں گے تو یہ ادارہ زندہ افراد کے ساتھ وابستہ ہو جائے گا.اسلام کی گزشتہ تاریخ میں جہاں مسلمانوں سے بعض بڑی بڑی غلطیاں سرزد ہوئی ہیں وہاں ایک اہم ترین غلطی اُن سے یہ ہوئی کہ تبلیغ کو انفرادی فرض سمجھ لیا تی گیا.بے شک مسلمانوں میں مبلغ رہے.گزشتہ صدیاں تو الگ رہیں قریب کے زمانہ تک بھی مسلمانوں میں مبلغ رہے بلکہ اس زمانہ تک رہے جس کے متعلق ہم کہتے ہیں کہ اس میں اسلام مٹ گیا اور مسلمانوں پر موت طاری ہو گئی اس میں بھی خدا تعالیٰ کے کچھ بندے ایسے تھے جو زندہ
1952 347 خطبات محمود تھے اور تبلیغ اسلام کے فرض کو ادا کرنے میں خوشی ، رغبت اور لذت محسوس کرتے تھے.پہلی صدی کی کو تو جانے دو جب ہر مسلمان ہی ایک مبلغ تھا.دوسری صدی کو بھی جانے دو.تیسری صدی کو بھی اجی جانے دو.چوتھی ، پانچویں، چھٹی اور ساتویں صدی کو بھی جانے دو.جب تبلیغ کرنے والے اور اس کا انتظام کرنے والے بڑے اہم آدمی تھے.ان کے بعد کی صدیوں کو بھی جانے دو.جب تبلیغ نہایت محدود دائرہ کے ساتھ وابستہ رہ گئی تھی لیکن پھر بھی لوگ دوسرے ملکوں میں جاتے تھے.میں تو تیرھویں صدی کے متعلق کہتا ہوں بلکہ چودھویں صدی کی ابتدا کے متعلق کہتا ہوں جب بظاہر مسلمانوں پر موت آ گئی کہ اس وقت بھی خدا تعالیٰ کے ایسے بندے موجود تھے جو اسلام کی تبلیغ کرتے تھے.مثلاً مغربی افریقہ ہے.اس میں اسلام بہت قریب کے زمانہ میں پھیلا ہے.یعنی اس ملک میں تبلیغ 60 ، 70 یا 100 سال کے اندر ہوئی ہے.بالعموم بر بری ، شامی اور سوڈانی کی لوگ وہاں گئے اور انہوں نے اسلام کی تبلیغ کی جس کے نتیجہ میں لاکھوں لوگ مسلمان ہوئے.پس انفرادی حیثیت سے مسلمانوں میں آخر تک تبلیغ ہوتی رہی ہے گو محدود ہوئی ہے.لیکن اجتماعی رنگ میں تبلیغ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد ہی قریباً مفقود ہوگئی کیونکہ خلفاء ان جنگوں میں جو عیسائیوں اور زرتشتیوں کے خلاف لڑی گئیں اس قدر اُلجھ گئے کہ اُس وقت جہاد اور تبلیغ دونوں کو ایک سمجھ لیا گیا اور خلفاء کے بعد مسلمانوں پر جمود طاری ہو گیا.وہ کی دنیوی شان و شوکت اور ترقیات کو اپنا منتہائے مقصود سمجھ بیٹھے اور تبلیغ کی اصل روح کو بھول گئے.پس انفرادی طور پر اسلام میں نہایت عظیم الشان لوگ پیدا ہوئے ہیں جنہوں نے تبلیغ اسلام کے فرض کو اچھی طرح ادا کیا.افغانستان میں مسلمان پھیل گئے ، افریقہ میں وہ گئے اور وہاں تبلیغ کی.وہ چین، جاپان، انڈو نیشیا اور ہندوستان میں آئے اور یہاں اسلام کی تبلیغ کی اور لاکھوں لوگ اُن کے ذریعہ مسلمان ہوئے.غرض انہوں نے تبلیغ کی اور بڑی شان سے تبلیغ کی.لیکن یہ انفرادیت تھی اجتماعیت نہیں تھی.حالانکہ قرآن کریم میں خدا تعالیٰ نے فرمایا تھا.وَلْتَكُنْ مِنْكُمْ أُمَّةٌ يَدْعُونَ إِلَى الْخَيْرِ وَيَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ 1 - یعنی تم میں ہمیشہ ایک ایسی امت ہونی کی 1.چاہیے جو لوگوں کو بھلائی کی طرف بلائے اور انہیں نیکی کا حکم دے اور برائی سے منع کرے اور انجی امت کے معنی ایسی ہی جماعت کے ہیں جو اپنے اندر نظم رکھتی ہو.چونکہ امت اور امام ایک ہی کی مادے سے نکلے ہیں اس لئے در حقیقت امت وہی ہے جو اپنا مرکز رکھتی ہو.جب وہ مرکز سے نکل جائے گی ہم اسے امت نہیں کہیں گے.یہی وجہ ہے کہ ہم مسلمانوں کو امت محمد یہ کہتے ہیں.
1952 348 خطبات محمود مسلمانوں میں چاہے کتنا اختلاف ہو جائے ، چاہے ان کے کتنے فرقے بن جائیں امت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی رہے گی.اسی وجہ سے ہم باوجود حضرت مسیح موعود کو نبی کہنے کے اپنے آپ کو آپ کی اُمت نہیں کہتے.ہمارے بچوں تک سے پوچھو تو وہ کہیں گے کہ میں اللہ کا بندہ ہوں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت ہوں.مسیح موعود کی جماعت میں سے ہوں.ہم عیسائیوں اور یہودیوں کو اُمت نہیں کہتے.عیسائی اور یہودی حضرت عیسی علیہ السلام اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کے وقت میں اُمت تھے.اب وہ اُمت نہیں رہے.اب وہ جماعت بھی نہیں رہے.وہ ایک طائفہ ہیں، گروہ ہیں ، حزب ہیں، اُمت نہیں.کیونکہ کوئی اُمت صرف اُس وقت تک امت می کہلاتی ہے جب تک اُس میں اتحاد ہو.اُمت اُس وقت تک اُمت کہلاتی ہے جب تک وہ امام کے گرد چکر کھاتی ہو.اُمت اُس وقت تک اُمت کہلاتی ہے جب تک وہ خاص مقاصد لے کر کھڑی ہوئی ہو.اُتم کے معنی خاص مقصد کے ساتھ چلنے کے بھی ہیں.اور امت وہی کہلاتی ہے جو کسی خاص مقصد کو لے کر کھڑی ہو ، اس میں نظم ہو، وہ کسی مرکزی نقطہ کے گرد چکر کھا رہی ہو.وَلَتَكُن مِّنكُمْ أُمَّةً يَدْعُونَ إِلَى الْخَيْرِ وَيَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ المُنكَرِ میں مسلمانوں کو ہمیشہ کے لئے یہ حکم دیا گیا تھا کہ ان میں ایسے لوگ پیدا ہوتے رہیں جو مقصد تبلیغ کو لے کر کھڑے ہوں.ان کا عمر بھر یہی کام ہو کہ وہ ایک نظام کے ماتحت رہیں.لیکن یہ بات رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد نہیں ہوئی.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ہمیں یہ نظر آتا ہے کہ آپ لوگوں کو ادھر ادھر بھیج رہے ہیں اور فرما رہے ہیں کہ تم فلاں جگہ پر جاؤ اور انہیں اسلام کی تعلیم دو.آپ کے زمانہ میں ہمیں یہ نظر آتا ہے کہ آپ کے اردگر دلوگ ہیں تا کہ وہ دین سیکھیں.ہمیں نظر آتا ہے کہ وفود باہر جا رہے ہیں تا وہ دوسرے لوگوں کو اسلام کی کچ تعلیم سکھائیں اور باہر سے وفود آ رہے ہیں تا مدینہ میں آکر وہ اسلام کی تعلیم حاصل کریں.خلفاء کے وقت میں صحابہ جنگوں میں اُلجھ گئے اور اس طرح کی تبلیغ کے لئے وہ وقت نہ نکال سکے.اور ان کے بعد لوگ سستی اور غفلت کی وجہ سے اس طرف سے ہٹ گئے اور انہوں نے اپنے مقصد کو بھلا دیا.چونکہ درمیان میں وقفہ پڑ گیا تھا اس لئے بعد میں آنے والے اپنے اس مقصد کو بھول گئے.اور وَلْتَكُنْ مِنْكُمْ أُمَّةٌ يَدْعُونَ إِلَى الْخَيْرِ وَيَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ پر عمل نہ ہوا.
1952 349 خطبات محمود اب تبلیغ جیسے عظیم الشان کام کو جاری کرنے کے لئے سلسلہ احمدیہ نے تحریک جدید جاری کی ہے تا باہر سے لوگ بلوائے جائیں جو یہاں آکر دین سیکھیں.اور ان میں سے ایسے لوگ تیار کئے جائیں جو باہر جا کر لوگوں کو دین سکھائیں.یہی قرآن کہتا ہے کہ تم باہر کے لوگوں کو تحریک کرو کہ وہ تمہارے پاس آکر دین سیکھیں.اور مرکز میں تم ایک ایسی جماعت تیار کرو جو باہر جائے اور لوگوں کو دین سکھائے.تحریک جدید ان دونوں مقاصد کو پورا کرتی ہے.تیرہ سو سال کے عرصہ میں بعد از زمانہ نبوت صحابہ کے وقت میں مجبوراً اور ان کے بعد مسلمانوں کی غفلت کی وجہ سے ہمیں یہ چیز نظر نہیں آتی.آج صرف ہماری جماعت کو اس بات کی توفیق ہے.یہ کتنا عظیم الشان کام ہے.اس ایک کام کی وجہ سے تمہیں دوسروں پر فضیلت ہو جاتی ہے اور تمہارے مقابلہ میں کوئی اور ٹھہر نہیں سکتا.یہی وجہ ہے کہ مصری لوگ اگر چہ ہم سے بہت کم واقفیت رکھتے ہیں.ہمارے ساتھ اُن کے تعلقات قائم نہیں اور اس وجہ سے وہ عام طور پر ہماری مخالفت کرتے ہیں.لیکن متواتر کچھ عرصہ کے بعد مصری اخبارات میں ایسے مضامین نکلتے رہتے ہیں جن میں بتایا جاتا ہے کہ 1300 سال تک کسی نے وہ کام نہیں کیا جو آج جماعت احمد یہ کر رہی ہے.حال ہی میں چودھری ظفر اللہ خان صاحب اور جماعت احمدیہ کے خلاف مصر کے مفتی اعظم نے فتویٰ دیا ہے.ایک شخص نے اپنے اخبار میں اس کے متعلق ایک مضمون لکھا.مگر ایک طرف وہ اس فتوی کی تائید کی کرتا ہے اور دوسری طرف یہ کہتا ہے کہ جماعت احمد یہ دنیا میں ایک واحد جماعت ہے جو تبلیغ کام کر رہی ہے.اس کے ہندوستان اور دوسرے ممالک میں کئی مبلغ ہیں جو یہ کام کر رہے ہیں.اگر چہ اُس نے جھوٹ کو عظمت دی ہے لیکن ساتھ ہی اُسے یہ اقرار کرنا پڑا ہے کہ تبلیغ صرف جماعت احمد یہ ہی کر رہی ہے.اور یہ ایک فضیلت ہے جو خدا تعالیٰ نے تمہیں دوسرے منہ پر دی ہے.اور یہ فضیلت ایسی ہے کہ لوگ اس کی نقل بھی نہیں کر سکتے.اب احراری شور مچارہے ہیں کہ مسلمان ایک کروڑ روپیہ چندہ دیں تا مبلغ تیار کئے جائیں اور یہ مبلغ دوسرے ممالک میں جا کر احمدیوں کے خلاف پروپیگنڈا کریں.مگر یہ لوگ اپنے گھر کیا کر رہے ہیں؟ اس کا اس امر سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ جنرل نجیب جو موجودہ مصری حکومت کا ہیڈ ہے اعلان کرتا ہے کہ مسلمانو! تم خدا کے لئے ہماری اس بات میں مدد کرو کہ ہم لوگوں کو بتائیں کہ اسلام نرمی کرنے والا اور رحم کرنے والا مذہب ہے ، وہ جبر نہیں کرتا.اور ملکوں کے لوگ
1952 350 خطبات محمود تو اس طرح چل رہے ہیں لیکن ہمارے ملک میں مسلمان ہمارا مقابلہ کرنے کی تیاری کر رہے ہی ہیں.ہمارا مبلغ باہر جائے گا تو وہ کہے گا کہ اسلام میں بے شک جہاد ہے لیکن جہاد کے معنی دفاع ملی کے ہیں.اب کون احمق ہوگا جو کہے کہ تمہارے ملک پر حملہ ہو جائے تو تم لڑائی نہ کرو.کون احمق ہو گا جو اس بات کی تردید کرے گا.کون ایسا شخص ہو گا جو کہے گا کہ تم پر چاہے ظلم ہو رہا ہولیکن تمہارے مذہب کو لڑائی کی تعلیم نہیں دینی چاہیے تم ظلم ہونے دو.اگر کوئی مذہب کہتا ہے کہ جب تم پر ظلم ہو ، جب تمہارے ملک پر کوئی دوسرا حملہ کر دے تو اُس سے لڑائی کرو اور اپنے ملک کی خاطر قربانیاں دو تو ہر شخص کہے گا کہ یہ بالکل درست ہے.کیونکہ مذہب کا تعلق اخلاق اور روحانیت سے ہے.اور اخلاق اور روحانیت یہ چاہتے ہیں کہ ظلم کو روکا جائے.اگر مذہب اس میں دخل دیتا ہے تو اس کا حق ہے کہ اس میں دخل دے اور کہے کہ تمہارے ملک پر کوئی حملہ کرتا ہے تو تم اُس می کا مقابلہ کرو.اگر تم یہ لڑائی ملک کے بچانے کی خاطر کرتے ہو تب بھی ثواب کے مستحق ہو گے.اور اگر مذہب کے بچانے کے لئے لڑائی کرتے ہو تو اور بھی زیادہ ثواب کے مستحق ہو گے.یہ ایک ایسی تعلیم ہے کہ امریکہ، انگلستان، جرمنی ، فرانس، انڈونیشیا، چین اور جاپان غرض کوئی ملک بھی اس کا انکار نہیں کر سکتا.جو شخص بھی کہے گا کہ چاہے تم پر حملہ ہو تم دوسرے سے نہ لڑو.تو ہم اس سے کہیں گے کہ اگر تم پر حملہ ہو جائے تو تم دشمن سے لڑو گے یا نہیں؟ اگر روس پر حملہ ہو گا تو کیا روی یہ کہیں گے کہ ہم تو صلح پسند ہیں ہم نہیں لڑیں گے؟ اگر کوئی ہم سے کہے گا کہ تمہاری تعلیم اچھی نہیں ہے کیونکہ وہ لڑائی کا حکم دیتی ہے تو ہم اُس سے دریافت کریں گے کہ اگر دشمن تم پر حملہ کر دے تو کیا تم اس سے لڑو گے یا نہیں ؟ وہ فوراً کہے گا ہاں ہم اُن سے لڑیں گے.تو ہم اُس سے کہیں گے کہ یہی حکم ہمارا مذ ہب دیتا ہے اور یہ حکم فطرت کے عین مطابق ہے.جہادصرف ایک دنیوی چیز کو مذہبی تائید حاصل ہونے کا نام ہے.اگر کوئی دشمن ملک پر حملہ کر دیتا ہے اور لوگ اُس کا دفاع کرتے ہیں تو خدا تعالیٰ کہتا ہے تمہارا ایسا کرنا صرف فطرت کا تقاضا ہی نہیں خدا تعالیٰ بھی اُسے پسند کرتا ہے.فرق صرف یہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے ایک دنیوی فعل ہے کو نقد میں دے دی ہے.مثلاً ایک شخص دوسرے شخص کو کھانا کھلاتا ہے یہ ایک دنیوی فعل ہے.لیکن اگر وہ ایک یتیم کو کھانا کھلاتا ہے تو اللہ تعالیٰ اُس کے اس فعل کو تقدیس دے دیتا ہے کہ وہ ایک یتیم کو کھانا کھلاتا ہے جو خدا تعالیٰ کی خوشنودی کا موجب ہے.پس کھانا ایک ہی ہے لیکن کی
1952 351 خطبات محمود خدا تعالیٰ نے ایک کھانے کو نقدیس دے دی ہے.اسی طرح لڑائی ایک ہی ہے اور ہر ملک لڑ تا تج ہے لیکن اگر مذہب پر حملہ ہو تو اُس وقت شریعت اس لڑائی کو نقد میں دے دیتی ہے اور کہتی ہے کہ اب خدا تعالیٰ بھی تمہاری مدد کرے گا ، جو شخص اس لڑائی میں مارا جائے گا وہ شہید ہوگا اور جو شخص پیٹھ پھیرے گا وہ خدا تعالیٰ کو ناراض کرے گا.اس کا نام جہاد ہے.لوگ سفر کرتے ہیں اور ہمیشہ کرتے ہیں.حج بھی ایک سفر ہے لیکن خدا تعالیٰ نے اسے تقدیس دے دی ہے.لاہور، کلکتہ اور کراچی کے سفروں کو نقد یں نہیں دی.کام ایک ہی ہے.سفر میں روپیہ خرچ ہوتا ہے.لوگ بیوی بچوں کو چھوڑتے ہیں.ریلوں اور جہازوں پر سفر کرتے ہیں.کچھ عرصہ باہر رہتے ہیں اور پھر واپس آجاتے ہیں.یہی حج میں ہوتا ہے.صرف فرق یہ ہے کہ ایک سفر کو خدا تعالیٰ نے تقدیس دے دی اور وہ حج ہو گیا.اور ایک سفر د نیوی اغراض کے لئے ہے اس لئے وہ سفر کا سفر رہا.جب ہم یہ تعلیم لوگوں کے سامنے پیش کرتے ہیں اور کہتے ہیں جہاد کے یہ معنی ہیں تو ہر ایک اس کی تائید کرتا ہے اور تائید کرنے پر مجبور ہوتا ہے.جو شخص تائید نہیں کرے گا وہ اپنے ملک کا غدار ہوگا.اگر ایک انگریز کہتا ہے کہ اگر کوئی تم پر حملہ کرے تو تم اُس کا دفاع کرو تو تم ذلیل ہو تمہیں ایسا نہیں کرنا چ چاہیے.تو ہم کہیں گے کہ اگر برطانیہ پرحملہ ہوتو تو تم دشمن کا مقابلہ کرو گے یا نہیں ؟ اگر وہ کہے گا ہم مقابلہ نہیں کریں گے تو وہ غدار ہوگا.اس کی ایسی ہی مثال ہے جیسے کہتے ہیں کہ حضرت امام ابو حنیفہ کا کوئی دشمن تھا.وہ بغداد کے خلیفہ کے پاس گیا اور اُسے کہا آپ امام ابو حنیفہ کو بلائے.میں اُس سے چند باتیں پوچھوں گا اور آپ کو بتاؤں گا کہ وہ آپ کے دشمن ہیں.خلیفہ نے آپ کو بلایا.جب امام ابو حنیفہ دربار میں پہنچے تو اُس شخص نے خلیفہ کو مخاطب کرتے ہوئے سوال کیا کہ آپ کے دادا ابن عباس فرماتے ہیں کہ اگر کوئی شخص عہد کرے اور چند دن کے بعد اُس کے ساتھ کوئی شرط لگا دے تو یہ جائز ہوگا.کیا ان کے نزدیک یہ بات درست ہے؟ حضرت امام ابو حنیفہ نے کہا یہ غلط ہے.شرط عہد کرتے کی ہی لگائی جائے تو درست ہو گا.اُس شخص نے کہا دیکھئے حضور! اِن کا آپ کے دادا کے متعلق یہ خیال ہے کہ انہوں نے جو کچھ کہا ہے غلط کہا ہے.اس پر خلیفہ غصہ میں آ گیا.حضرت امام ابو حنیفہ نے فرمایا حضور یہ دوست جو اعتراض کر رہے ہیں اِن کا مذہب کیا ہے؟ اِن سے بھی دریافت فرمائیے کہ ان کا عقیدہ ہے کہ حضور کو اپنی فوجوں پر کوئی اختیار نہیں.پھر آپ نے کہا کہ کیا آپ
1952 352 خطبات محمود کے جرنیلوں اور افسروں نے آپ کی بیعت کی ہوئی ہے؟ خلیفہ نے کہا ہاں.حضرت امام ابو حنیفہ نے فرمایا میں کہتا ہوں ان کی بیعت پکی ہے لیکن یہ شخص کہتا ہے کہ ان کی بیعت پکی نہیں ہے.کیونکہ اس کے نزدیک بعد میں شرط لگانا جائز ہے.اگر آپ کے جرنیلوں اور افسروں نے آپ کی کی بیعت کر لی ہے لیکن گھر جا کر وہ اس کے ساتھ یہ شرط لگا لیں کہ آپ کی فلاں بات مانیں گے کی اور فلاں نہیں مانیں گے تو ان کے نزدیک یہ درست ہے.اس پر خلیفہ گھبرا گیا.باہر آ کر اُس شخص نے حضرت امام ابو حنیفہ سے کہا کہ تم تو آج مجھ کو مروانے لگے تھے.حضرت امام ابو حنیفہ نے فرمایا تم بھی مجھے مروانے لگے تھے لیکن میں نے دونوں کی جان بچالی.واقع یہی ہے کہ اگر عہد کرنے کے بعد اس کے ساتھ بعض شرائط لگالی جائیں تو عہد ہی ختم ہو گیا.اسی طرح اگر ہمارے مبلغ کسی مجلس میں جائیں اور کہیں کہ ہم جہاد کے قائل ہیں لیکن جہاد کے معنی دفاع کے ہیں.مثلاً ہم کسی امریکی مجلس میں جائیں اور کوئی امریکن یہ اعتراض کرے کہ آپ کا یہ عقیدہ درست نہیں تو ہم اُسے باغی ثابت کر دیں گے.کیونکہ اگر وہ کہے گا کہ دفاع کے لڑنا جرم ہے تو ہم کہیں گے اگر امریکہ پر حملہ ہو گیا تو کیا تم لڑو گے یا نہیں؟ اگر وہ کہے میں لڑوں گا تو ہم کہیں گے تب تو یہ ظلم نہیں رہا ہمارا بھی یہی عقیدہ ہے.اور اگر اُس نے کہا کہ میں نہیں لڑوں گا تو وہ ملک کا غدار ہو جائے گا.اسی طرح اگر کوئی انگریز کہے گا کہ تمہارا عقیدہ درست نہیں تو ہم کہیں گے کہ اگر دشمن برطانیہ پر حملہ کر دے تو کیا تم دفاعی جنگ کرو گے یا نہیں؟ اگر وہ کہے گا کہ ہم دفاعی جنگ کریں گے تو مسئلہ ہی حل ہو گیا.ہم کہیں گے ہمارا بھی یہی عقیدہ ہے.لیکن اگر وہ کہے ہم جنگ نہیں کریں گے تو وہ اپنے ملک کاغذ ارثابت ہو گیا کہ خطرہ کے وقت بھی وہ ملک کے لئے قربانی کرنے پر تیار نہیں.غرض کوئی ایسی قوم دنیا کی نہیں جو ہمارے اس عقیدہ پر اعتراض کرے اور پھر وہ غدار ثابت نہ ہو جائے یا جھک مار کر ہماری تائید نہ کرنے لگ جائے.پس ہمارے مبلغ باہر جائیں گے تو یہ تعلیم پیش کریں گے.لیکن احراری مبلغ کیا کریں گے؟ وہ وہاں جائیں گے تو کہیں گے یہ بالکل جھوٹ ہے.جہاد کے معنی یہ ہیں کہ تلوار اُٹھاؤ اور ہر کوئی جو اسلام قبول نہ کرے اُسے قتل کر دو.اول تو وہ اُسے اُسی وقت ملک سے باہر نکال دیں گے.دوسرے اگر کوئی شخص سنے گا اور وہ اسلام کا مداح ہوگا تو وہ کہے گا میں تو اسلام پر ایمان لانے ہی لگا تھا مگر معلوم ہوا ہے کہ اسلام اتنا ہی.
خطبات محمود 353 1952 گندا مذہب ہے.اور اگر وہ سنجیدہ انسان ہو گا اور دل سے اسلام کا مداح ہوگا تو وہ کہے گا یہ شخصی ذلیل ہے جو اسلام کے متعلق غلط خیالات پھیلا رہا ہے.ورنہ اسلام جبر کو روا نہیں رکھتا.غرض یا وہ شخص ذلیل ہوگا.اور یا اسلام ذلیل ہو گا.اگر دشمن احراری مبلغ کی بات کو مان لے گا تو اسلام ذلیل ہو گا اور اگر وہ اس کی بات نہیں مانے گا تو احراری مبلغ ذلیل ہو گا.وہ کہے گا اسلام تو ایسا مذہب نہیں تم ہی ذلیل انسان ہو جو ایسے خیالات پھیلا رہے ہو.معصوم پھر ہم کہیں گے انبیا ء سب معصوم تھے.عیسائی کہیں گے مسیح کفارہ ہو گیا اس لئے کہ وہ بے گناہ تھا اور کفارہ بے گناہ کا ہوتا ہے.ہمارا مبلغ کہے گا کہ انبیاء سب معصوم تھے ، آدم بھی معصوم تھے ، موسیٰ بھی معصوم تھے ، ہارون بھی معصوم تھے ، یونس بھی معصوم تھے ، عیسی " بھی معصوم تھے.احراری کہے گا یہ غلط کہتا ہے.انبیاء سب گناہ کرتے تھے صرف حضرت عیسیٰ علیہ السلام تھے.پھر دو ہی چیزیں ہوں گی.یا تو سننے والا کہے گا میں اسلام کو قبول کرنے والا تھا ، میرا خیال تھا کہ سب انبیاء معصوم تھے ، حضرت عیسی علیہ السلام کو کوئی خصوصیت حاصل نہیں لیکن اب معلوم ہوا کہ معصوم صرف حضرت عیسی علیہ السلام ہی تھے باقی سب انبیاء گناہ کرتے تھے.اچھا ہوا کہ تم نے مجھے بچالیا.اور اگر اس شخص میں شرافت ہوگی تو وہ اسلام پر قائم رہے گا اور کہے گا کہ تم بے حیا ہو، اسلام کی یہ تعلیم نہیں تم مسلمان کہلاتے ہوئے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کیریکٹر پر حملہ کرتے ہو.غرض وہ کون سا مسئلہ ہے جس میں احراری لوگ ہمارے مقابلہ میں کھڑے ہوسکیں گے.خدا تعالیٰ نے ہمیں صداقت دی ہے کہ یہ لوگ ایک کروڑ تو کیا دس ارب روپیہ بھی جمع کر لیں تو ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکیں گے.جہاں بھی وہ جائیں گے اور جو بھی دلیل وہ دیں گے اُس کے مقابلہ میں ہماری دلیل زیادہ مضبوط ہو گی.ہم ان کے مقابلہ میں زیادہ سچی تعلیم پیش کریں گے اور ہر جگہ ہم ہی غالب ہوں گے نہ کہ مغلوب.ہمیں تو خوشی ہوگی کہ یہ لوگ اپنے مبلغ بیرونی ممالک میں بھی بھیجیں.اوّل تو خدا گنجے کو ناخن نہ دے.یہ لوگ یہ کام کر ہی نہیں سکتے.یہ تو دس کروڑ روپیہ بھی لکی ہوگا تو کھا جائیں گے.لیکن اگر یہ لوگ مبلغ بھیجیں گے تو ان کا یہ اقدام ہمارے لئے خوشی کا تجھے موجب ہوگا.ان کا مبلغ ہمارے مقابلہ میں جو مسئلہ بھی پیش کرے گا وہ اسے ذلیل کرے گا.مثلاً ی اگر وہ ہمارے متعلق یہ کہے گا کہ ہم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خاتم النبین نہیں مانتے اس لئے
1952 354 خطبات محمود ہم آپ کی ہتک کرتے ہیں تو ہم کہیں گے ہم تو آپ کو خاتم النبیین مانتے ہیں.پھر بھی اگر ہم ہتک کرتے ہیں تو کیا وہ شخص آپ کی عزت کرتا ہے جو کہتا ہے کہ آپ نعوذ باللہ اپنی پھوپھی کی لڑکی حضرت زینب کو ننگا دیکھ کر اُس پر عاشق ہو گئے تھے؟ یہ شخص تو آپ پر ایسا گندا الزام لگا کر بھی آپ کی ہتک نہیں کر رہا اور ہم ہتک کر رہے ہیں جو آپ کو ان تمام اتہامات سے پاک جانتے ہی ہیں؟ آخر وہ کون سا انسان ہو گا جو ان لوگوں کی تائید کرے گا.ہر ایک شخص کہے گا کہ یہ شخص تو کی اپنے نبی کو بھی گالیاں دیتا ہے.عیسائیوں نے اگر کفارہ کو مانا ہے تو کم از کم انہوں نے حضرت مسیح علیہ السلام کو تو گناہ سے نکالا ہے.لیکن یہ شخص اپنے نبی پر بھی الزام لگا تا ہے.غرض وہ کون سی چیز ہے جس میں یہ لوگ ہمارا مقابلہ کریں گے.پس اللہ تعالیٰ نے ہمیں توفیق دی ہے کہ تم تبلیغ کرو اور دوسروں کا رستہ اُس نے روک دیا ہے.اب یا تو وہ احمدی ہو کر تبلیغ کریں گے اور یا ایسے مسائل کو پیش کریں گے جن پر دوسرے لوگ ہنسیں گے.ممکن ہے کہ یہ لوگ سیاسی طور پر یورپین لوگوں کو اپنی طرف کر لیں کیونکہ یورپین لوگ جتھے کی طرف جاتے ہیں.وہ اس بات کی پروا نہیں کریں گے کہ احمدیت کیا سچائیاں پیش کرتی ہے اور غیر احمدیت کیا کچھ اسلام کے خلاف پیش کرتی ہے.وہ اکثریت کی طرف کی ہو جائیں گے اور کہیں گے ہمیں ان سے مل کر فائدہ ہے، ان میں طاقت ہے، جتھا بندی ہے.لیکن احمدی تو اقلیت میں ہیں.لیکن جو شخص اخلاق کو مانتا ہے، مذہب کو مانتا ہے وہ کسی صورت میں بھی غیر احمد یوں کی بات نہیں مان سکتا.پس اللہ تعالیٰ نے تمہیں عظیم الشان موقع عطا کیا ہے.اگر تم اسے اپنے ہاتھ سے چھوڑ دو گے تو تم کتنے بدقسمت ہو گے.پس یہ تحریک اپنے ساتھ بہت بڑی اہمیت رکھتی ہے.اتنی بڑی اہمیت کہ تیرہ سو سال تک کسی شخص کو اس کام کی توفیق نہیں ملی جو کچ اس تحریک کے ماتحت کیا جارہا ہے.دوسرے خدا تعالیٰ نے ایسے سامان پیدا کر دیئے ہیں کہ اس کام میں کوئی شخص تمہارا مقابلہ نہیں کر سکتا.یا تو اُسے احمدی ہونا پڑے گا اور یا شرمندہ ہونا پڑے گا.دیکھ لو! پچھلے دنوں اخبارات میں اسلام کی تائید میں بعض مضامین نکلے ہیں.لیکن وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کتابوں کی نقل تھی.جن پر کفر کا فتویٰ لگایا گیا تھا.گویا حضرت مرزا صاحب کا نام آئے یا نہ آئے لیکن آج اسلام وہی ہے جو آپ نے پیش کیا ہے.یہ خدا تعالیٰ کی تقدیر ہے اسے کوئی ہٹا نہیں سکتا.گو میرے نزدیک اب ایک دور ایسا آ رہا ہے کہ غیر احمدی ہمارے کی
1952 355 خطبات محمود عقیدے لے لیں گے اور کفر ہم پر لگا دیں گے.مگر پھر نو جوانوں کا ایسا طبقہ آئے گا جو کہے گا کہ تو وہی باتیں ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے کہی ہیں اس لئے آپ پر کفر کا فتویٰ لگانے کے کیا معنی ! ان کو ماننا چاہیے.پس تحریک جدید خدا تعالیٰ کے فضل اور برکت سے آئی ہے اور ہر شخص کو اس میں حصہ لینے کی کوشش کرنی چاہیے.میں نے پچھلی دفعہ کہا تھا کہ یہ قحط کا زمانہ ہے مصائب اور آفات کا زمانہ ہے لیکن جس طرح ایک ماں اپنے آپ کو فاقہ میں رکھتی ہے لیکن اپنے بچہ کو فاقہ نہیں آنے دیتی.اسی طرح تم بھی دین سے ماں جیسی محبت کرو.تم خود فاقہ کرو لیکن دینی کاموں میں سستی نہ آنے دو.احادیث میں آتا ہے کہ ایک دفعہ حضرت عائشہ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا یا رسول اللہ! آج ایک بات کو دیکھ کر مجھے بڑی تکلیف ہوئی اور میرے دل پر اس کا گہرا اثر ہے.یا رسول اللہ ! ایک غریب عورت آج میرے پاس آئی.اُس کے دائیں اور بائیں دو بچے تھے.اُس نے میرے پاس آکر کہا میں بھوکی ہوں مجھے کھانے کو کچھ دو.میرے پاس کچھ نہیں تھا.میں نے کہا اچھا دیکھتی ہوں.اگر کچھ کھانے کو ہوا تو تمہیں دیتی ہوں.یا رسول اللہ ! مجھے سوائے ایک کھجور کے اور کچھ نہ ملا.اُس عورت کا چہرہ سوکھا ہوا تھا اور اُس کے چہرے پر بھوک کی وجہ سے اضمحلال کے آثار تھے.میں نے اُسے وہ کھجور دے کر کہا میرے پاس یہی ایک کھجور ہے اس کے سوا اور کچھ نہیں.يَا رَسُولَ الله ! اُس عورت نے اُسی وقت دانتوں سے اُس کھجور کے دو حصے کئے.اور ایک حصہ ایک بچہ کو دے دیا اور دوسرا حصہ دوسرے بچے کو دے دیا.يَا رَسُولَ الله ! اُس نے خودا سے چکھا بھی نہیں 2.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تبھی تو خدا تعالیٰ نے ماؤں کے قدموں کے نیچے جنت رکھی ہے.3 پس مائیں خود بھوکی رہتی ہیں.لیکن بچے کو بھوکا نہیں کی رہنے دیتیں.کیا ہمارا ایمان ہمیں اتنا سبق بھی نہیں دیتا کہ ہم ماؤں سے زیادہ نہیں تو ماؤں جتنی ہی خدا تعالیٰ کے دین سے محبت کریں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک دفعہ حضرت عمر کی آئے اور عرض کیا یا رسول اللہ ! کیا وجہ ہے کہ ہم بچوں کے لئے اتنی قربانیاں کرتے ہیں لیکن بچے کی ہمارے لئے کوئی قربانی نہیں کرتے ؟ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا لطیف جواب دیا.فرمایا کی اس لئے کہ ہم نے بچوں کو جنا ہے بچوں نے ہمیں نہیں جنا.ماں باپ واقع میں بچوں کے لئے بہت کچھ کرتے ہیں لیکن بچے اس کا خیال نہیں رکھتے.
1952 356 خطبات محمود.مختلف قسم کے بہانے بنادیتے ہیں.اس میں کوئی شک نہیں کہ بعض بچے اپنے ماں باپ کی خدمت کی بھی کرتے ہیں.لیکن ایسا بہت کم ہوتا ہے کہ وہ خود تکلیف اٹھا ئیں ، فاقہ کریں اور اپنے ماں باپ کی کو کھلائیں.بالعموم یہی ہوتا ہے کہ کچھ زائد بچ گیا تو دے دیا.اور بعض بچے تو اتنے بے حیا ہوتے ہیں کہ بچا ہوا بھی ماں باپ کو نہیں دیتے.پس کم سے کم ماں جتنی محبت تو ہمیں دین سے ظاہر کرنی چاہیے.خدا تعالیٰ ہم سے ماں سے بھی زیادہ محبت کرتا ہے.ہمیں خدا تعالیٰ تو نظر نہیں آتا.اُس کا دین نظر آتا ہے اس لئے ہمارا فرض ہے کہ ہم ماں سے زیادہ دین سے محبت کریں.اور اگر زیادہ محبت نہیں کر سکتے تو کم از کم ماں جتنی محبت تو کریں.غالباً جنگ بدر کا واقعہ ہے کہ جنگ کے بعد رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کو ایک عورت کی طرف توجہ دلائی جس کا بچہ گم ہو گیا تھا.وہ اپنا بچہ تلاش کر رہی تھی اُسے کوئی بچہ نظر آتا تو وہ اس کے پاس دوڑ کر جاتی.اُسے اٹھالیتی اور پیار کرتی.پھر آگے چلی جاتی.یہاں تک کہ اُسے اپنا بچہ مل گیا.اس نے اسے پیار کیا.پھر اُسے لے کر ایک پتھر پر بیٹھ گئی.اُسے یہ خیال بھی نہیں تھا کہ لڑائی ہورہی ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا تم نے دیکھا اس عورت کا بچہ گم ہو گیا تھا.وہ کسی اور کا بچہ دیکھتی تو اُسے پیار کرتی اور کچ آگے چلی جاتی.لیکن جب اسے اپنا بچہ مل گیا تو اس نے اسے گلے لگایا، پیار کیا اور آرام سے ایک پتھر پر بیٹھ گئی.اسے اس بات کا ذرا بھی احساس نہ رہا کہ عرب پر تباہی آئی ہے، اس کی قوم کے بڑے بڑے جرنیل مارے گئے ہیں.آپ نے فرمایا اگر خدا تعالیٰ کا کوئی گمراہ بندہ اُس کی طرف لوٹ آتا ہے تو اُسے اس ماں سے بھی زیادہ خوشی ہوتی ہے.4 پس ایسا محبت کرنے والا اور چاہت دکھانے والا خدا تعالیٰ ہمیں نظر نہیں آتا.لیکن اُس کا دین تو نظر آتا ہے.ہمارے دل میں دین کی محبت ماں کی محبت سے زیادہ ہونی چاہیے.اور اگر زیادہ نہیں تو ماں جتنی تو ہو.جس کو فاقہ تھا، بھوک لگی تھی ، ایک کھجور ملی تو اُس نے چکھی نہیں بلکہ نصف نصف کر کے اپنی لڑکیوں میں بانٹ دی.پس بے شک یہ دن قحط کے ہیں، مصائب کے ہیں ، آفات کے ہیں.لیکن دین کی خدمت کرنے والا بھی تو تمہارے سوا اور کوئی نہیں.اگر دین کو فاقے مارو گے تو تم ہی مارو گے.اور اگر اسے پالو گے تو تم ہی پالو گے.اگر اس کی خاطر فاقہ کرو گے تو تم ہی کرو گے.اور کوئی قربانی کرو گے تو تم ہی کرو گے ، اور کوئی نہیں کرے گا.اس کا وجود خدا تعالیٰ نے تمہارے سپر د کیا ہے.تم ہی اس کے ولی ہو، تم ہی اس کے متکفل ہو تم ہی اس کی
1952 357 خطبات محمود.کے مربی ہو اور تم ہی اس کے محافظ ہو.اس کا ولی اور محافظ تمہارے سوا اور کوئی نہیں.نہ کوئی آج کچی تمہارے سوا اسلام کی خبر پوچھنے والا ہے، نہ کوئی اس کی خاطر قربانی کرنے والا ہے ، اور نہ کوئی کی اس سے محبت کرنے والا ہے.اگر تم غفلت کرو گے تو یہ مُردہ ہو جائے گا.اور اگر تم ہوشیار رہو گے تو یہ جئے گا.اگر اس کی خاطر قربانی کرو گے تو تم کرو گے.لیکن یاد رکھو اگر تم دین کے لئے قربانی کرو گے تو تم بھی زندہ رہو گے.کیونکہ جو شخص خدا تعالیٰ اور اُس کے دین کی خاطر قربانی کرتا ہے خدا تعالیٰ اُسے مرنے نہیں دیتا.دنیا میں لوگوں پر فاقے آتے ہی ہیں، لوگوں پر مصائب اور آفات آتی ہی ہیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ پر بھی فاقے آئے، مصائب آئے ، آفات آئیں اور ہم پر بھی مصائب، تکالیف اور فاقے آئیں گے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ نے اُن فاقوں اور آفات و مصائب میں بھی دین کی خاطر قربانی کرنے کی سے دریغ نہیں کیا.ہمیں بھی اُن کی طرح نمونہ دکھانا ہو گا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک نجی دفعہ کسی غرض کے لئے صحابہ سے چندہ مانگا.حضرت علی باہر گئے.گھاس کاٹا اور اسے بیچ کر جو ؟ قیمت ملی وہ چندہ میں دے دی.اسی طرح ایک صحابی ایک کنویں پر تشریف لے گئے اور وہاں جا کر لوگوں کا پانی بھرا اور اس کی جو اُجرت ملی وہ چندہ میں دے دی.اُس وقت لوگ ان کی حقیر قربانی پر ہنسے.لیکن وہ تمسخر کی وجہ سے ہنسے.اس کے مقابلہ میں خدا تعالیٰ بھی آسمان پر ہنسا.لیکن کی وہ خوشنودی کی وجہ سے ہنسا.لوگ کہتے تھے کہ یہ لوگ کیسے حقیر ہیں.یہ اس بات پر ناز کرتے ہیں کہ انہوں نے اپنے دین کی خاطر مٹھی بھر کو دے دیئے.اس سے وہ دنیا پر فتح حاصل کر لیں گے؟ لیکن خدا تعالیٰ بھی آسمان پر ہنسا اور اُس نے کہا یہ کمزور انسان بھی کس طرح قربانی کرتے ہی ہیں، یہ کتنی بلند پروازی کرتے ہیں، یہ چوٹی کو پاؤں تلے روند کر میرے عرش پر ہاتھ مارتے ہیں.غرض ہنسے دونوں ہی.خدا تعالیٰ بھی ہنسا اور لوگ بھی ہنسے.لیکن ایک اعجاب کی بناء پر ہنسا اور ایک تمسخر کی وجہ سے ہنسا.اور اس میں کیا شبہ ہے کہ خدا تعالیٰ کی ہنسی ہی پوری ہوتی ہے.تمہیں خدا تعالیٰ نے وہ موقع عطا فرمایا ہے جو سال دو سال میں تو کیا دوسرے لوگوں کو صدیوں میں بھی میسر نہیں آیا.یہ عید سینکڑوں سال کے بعد آئی ہے.عام عید آتی ہے تو لوگ گھروں میں خوشیاں مناتے ہیں، ان کے چہروں پر خوشی کے آثار نمایاں ہوتے ہیں لیکن تمہاری کی عید اور تمہارا چاند تو نرالا ہے.دنیا کے مصائب اور آفات تمہارے دلوں کو افسردہ نہیں کر سکتیں،
1952 358 خطبات محمود دنیا کے رنج و آلام تمہارے چہروں پر غم کے آثار پیدا نہیں کر سکتے ،مخالفتیں تمہیں قربانی سے پیچھے نہیں ہٹا سکتیں.اس لئے کہ تمہیں وہ کچھ ملا ہے جو پچھلی تیرہ صدیوں میں دوسروں کو نہیں ملا.خوش قسمتی سے یہ موقع تمہیں کو کئی صدیوں کے بعد ملا ہے.صدیاں گزر جاتی ہیں اور یہ مبارک موقع کسی کو نہیں ملتا.اور صدیاں گزر گئیں یہ موقع کسی کو نہیں ملا.یہ موقع بڑی قسمت کے ساتھ ملا کرتا ہے.ایک لحاظ سے دین کا ضعف بھی انسان کے لئے طاقت کا موجب ہوتا ہے.ان تکالیف اور مصائب کے وقت میں وہی لوگ قربانیاں کرتے ہیں جو خدا تعالیٰ کے مقرب اور محبوب ہوتے ہیں.جولوگوں کے لئے مثال اور نمونہ بنتے ہیں ، جنہیں آنی والی نسلیں فخر کے ساتھ یاد کرتی ہیں ، ان کے کارناموں کو دیکھ کر وہ حسرت سے دعائیں کرتی ہیں کہ خدا تعالیٰ انہیں ان منجی کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق دے.تمہیں وہ دن نصیب ہوا ہے تم اسے ضائع نہ کرو تم قربانیاں کرو، دین کی خاطر ہر مصیبت اٹھاؤ اور اسلام کی خدمت کرنے میں برکت تلاش کر و.خدا تعالیٰ تم سے محبت کرنے لگ جائے گا.جیسا کہ ہر سال ہوتا ہے میں نے اس سال بھی وعدوں کی آخری تاریخ 21 فروری مقرر کی ہے.یعنی تمام وعدے 21 فروری تک ہو جانے چاہئیں.سوائے پاکستان کے باہر کے ملکوں کے جن کے متعلق جلد اعلان کیا جائے گا.بہر حال ہر ایک احمدی کی کوشش یہی ہونی چاہیے کہ وعد جلسہ سالانہ سے پہلے آجائیں تا آئندہ سال کا بجٹ تیار کرنے میں سہولت ہو.اب چونکہ تحریک جدید متی ہمیشہ کے لئے ہے اس لئے اگلے سال سے آگے بڑھنے کی جو پابندی تھی وہ نہیں رہے گی.حالات اور آمد کی تبدیلی پر وعدے میں بھی تبدیلی ہو سکے گی.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ وصیت کی طرح تحریک جدید کے لئے آمد کا کوئی جزو مقرر نہیں.لیکن یہ ضرور ہے کہ جس طرح وصیت کا چندہ آمد کے کم اور زیادہ ہونے کی وجہ سے بدل جاتا ہے.مثلاً سوروپے ماہوار آمد ہے تو 10 روپے چندہ وصیت ہوگا اور اگر 60 روپے آمد ہوگئی ہے تو چھ روپے ماہوار چندہ ہوگا اسی طرح تحریک جدید میں بھی حالات کے تبدیل ہو جانے پر تبدیلی ہو سکے گی.اگر ایک شخص پہلے سو روپے چندہ دیتا تھا اور بعد میں اس کے حالات بدل گئے.مثلاً ملازم تھا ریٹائر ہو گیا تو اُس کا چندہ تحریک جدید کم ہو سکتا ہے.ایسے شخص کو چاہیے کہ وہ دفتر سے خط و کتابت کرے اور خط و کتابت کے بعد چندہ کو چ گھٹا لے.یا آمد زیادہ ہو گئی ہے تو چندہ کو بڑھا لے.دفتر کو چاہیے کہ وہ ایسے لوگوں کے ساتھ
1952 359 خطبات محمود تعاون کرے.اور جو لوگ مستحق ہیں اور جن کی آمد کم ہو گئی ہے اور وہ اپنا چندہ گھٹانا چاہتے ہیں کی اُن کا چندہ گھٹا دیں.لیکن ساتھ ہی ہمیں یہ امید بھی رکھنی چاہیے کہ سلسلہ کا لحاظ بھی رکھا جائے.جہاں سلسلہ کمزور کی تائید کرتا ہے وہاں سلسلہ یہ امید بھی کرتا ہے کہ جو مالدار ہو وہ اپنا چندہ بڑھا بھی دے تا توازن قائم رہے.اگر بعض لوگ چندہ کم کر دیں تو بعض لوگ چندہ کو زیادہ کر دیں.زندہ قوموں میں یہی ہوتا ہے.بہر حال یہ یاد رکھیں کہ اب یہ پابندی نہیں ہوگی کہ ہر شخص ہر سال وعدہ میں کچھ زیادتی کرے.اگر آمد ا چھی ہو جائے تو چندہ زیادہ کر دو.اور اگر آمد کم ہو جائے تو دفتر سے خط و کتابت کی کر کے اپنا چندہ گھٹا دو.اس میں شرم نہ کیا کرو اس سے آپ لوگ گنہگار بنیں گے.جب آمد کم ہو جائے تو یہ غلطی نہ کریں کہ آپ چپ چاپ بیٹھ جائیں.بعض لوگ آٹھ آٹھ سال سے چندہ ادا نہیں کر رہے ہوتے لیکن لکھ دیتے ہیں کہ پچھلے سال میرا پانچ سو روپے کا وعدہ تھا بعض وجوہات کی کی وجہ سے میں ادا نہیں کر سکا.اس سال میں ایک ہزار روپے کا وعدہ کرتا ہوں.اگلے سال وہ کچی ہزار روپے بھی ادا نہیں کرتے اور ڈیڑھ ہزار کا وعدہ کر دیتے ہیں.سوال یہ ہے کہ جب تم نے چندہ ادا ہی نہیں کرنا تھا تو سیدھا 10 کروڑ کا وعدہ کیوں نہ کر دیا.یونہی رقوم لکھ دینے سے کچھ نہیں بنتا.مثلاً میرا خیال ہے کہ ہمارے جلسہ سالانہ پر اتنا خرچ نہیں ہوتا جتنا حساب میں دکھایا جاتا ہے.ہر شخص جو سمجھتا ہے کہ جس نے بارہ کس کی حاضری مانگی ہے تو گو وہ غلطی ہو مگر اُس کے لکھے رہنے سے سلسلہ کی عظمت ہوتی ہے کیونکہ مہمانوں کی آمد زیادہ نظر آتی ہے.حالانکہ کام کرنے والوں کو چاہیے کہ وہ صحیح اندازہ لگائیں تا کہ جلسہ کا خرچ ان غلط اعداد کی وجہ سے بڑھ نہ جائے.پس دفتر کے کارکن وعدوں کو چیک کر لیں.اگر کسی شخص کی یہ حالت ہے کہ وہ وعدہ ادا نہیں کرسکتا تو اُس کو رد کر دیا جائے.بعض خوشیاں جھوٹی ہوتی ہیں.حقیقی خوشی یہ ہے کہ انسان کو کی نیکی کی توفیق ملے.یہ نہیں کہ پانچ چھ ہزار روپیہ لکھا دے اور ادا کچھ بھی نہ کیا جائے.اگر حالات کی ٹھیک نہیں ، مالی حالت کمزور ہوگئی ہے تو دفتر سے کہو کہ پچھلا چندہ معاف کر دو اور آئندہ حالات کے مطابق وعدہ کرو.اگر پہلے سو روپے کا وعدہ تھا لیکن وہ ادا نہیں ہوا تو اُس کی معافی لے لی جائے اور آئندہ اپنی مالی حالت کے مطابق چاہے وہ پانچ روپے ہو وعدہ لکھایا جائے تو یہ زیادہ بہتر ہو گا.لیکن جماعتی طور پر یہ کوشش ہونی چاہیے کہ قدم آگے بڑھے.جماعت دن بدن بڑھ
1952 360 خطبات محمود رہی ہے.اگر جماعت کے تمام افراد اپنے فرائض کو ادا کر تے تو کوئی وجہ نہیں تھی کہ موجودہ تحریک جسے دفتر دوم کہتے ہیں پانچ چھ لاکھ تک پہنچ جاتی.لیکن بات یہ ہے کہ جماعت کے ہر فرد سے وعدہ کی نہیں لیا جاتا.اگر جماعت کے ہر مرد اور عورت ، جوان اور بوڑھے سے وعدے لئے جائیں تو کی میں سمجھتا ہوں کہ تحریک کے وعدے موجودہ وعدوں سے دُگنے لگنے ہو جائیں.اور اگر ایسا ہو جائے تو ہم اپنے کام کو بہت کچھ وسیع کر سکتے ہیں.“ 1 : آل عمران : 105 ( الفضل 17 دسمبر 1952ء ) : صحیح بخاری کتاب الادب بابُ رَحْمَةِ الْوَلَدِ وَ تَقْبِيْلِهِ وَ مُعَانَقَتِهِ 3 كنز العمال في سنن الاقوال جزء 16 حدیث نمبر 45431 كتاب الأم الباب الثامن في بر الوالدين حرف النون بيروت لبنان 1998ء :4 صحیح بخاری کتاب الادب بابُ رَحْمَةِ الْوَلَدِ وَ تَقْبِيْلِهِ وَ مُعَانَقَتِهِ -
1952 361 (40 خطبات محمود جلسہ سالانہ پر یہ ارادہ لے کر آؤ کہ تم نے جلسے کی برکات حاصل کرنی ہیں مہمانوں کی خدمت کے لئے اپنے مکانات اور اپنی خدمات پیش کرو (فرموده 19 دسمبر 1952ء بمقام ربوہ ) تشهد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا : میری طبیعت چونکہ کمزور ہے خصوصاً کل یکدم سردی پڑنے کی وجہ سے میرے دل اور اعضاء پر اس کا اثر پڑا ہے اس لئے میں زیادہ لمبا خطبہ نہیں پڑھ سکتا.مختصراً میں جماعت کو آنے والے جلسہ کے متعلق جو اگلے جمعہ سے شروع ہو جائے گا توجہ دلاتا ہوں کہ احباب زیادہ سے زیادہ مکان مہمانوں کی رہائش کے لئے دیں اور زیادہ سے زیادہ دوست مہمانوں کی خدمت کے لئے اپنے آپ کو پیش کریں.آج سے پہلے ہم مکانوں کا نام نہیں لے سکتے تھے کیونکہ پہلے یہاں مکانات نہیں تھے.اب خدا تعالیٰ کے فضل سے سینکڑوں مکانات بن چکے ہیں.پس احباب کو جلسہ سالانہ کے لئے زیادہ سے زیادہ مکانات دینے چاہئیں اور زیادہ سے زیادہ اپنی خدمات پیش کرنی چاہئیں.ابھی ربوہ کی آبادی بہت کم ہے اور اگر چہ مہمان اتنے زیادہ نہیں آتے جتنے
1952 362 خطبات محمود - قادیان میں آخری دو جلسوں میں آئے تھے.لیکن ان کی تعداد اب بہت حد تک اُن کے قریب پہنچ گئی ہے.کچھ تو اس وجہ سے کہ تقسیم ملک کی وجہ سے جو مصائب جماعت پر اور دوسرے لوگوں پر آئے اُن کی وجہ سے لوگ ایک حد تک بیدار ہو گئے ہیں.اور کچھ اس لئے کہ ربوہ ایسے مقام پر واقع ہے جہاں سے ریل بھی گزرتی ہے اور لاریاں بھی خوب گزرتی ہیں.مجھ سے کسی نے بیان کی کیا تھا کہ صرف ایک طرف کی سولاریاں روزانہ ربوہ سے گزرتی ہیں.اس کے معنی یہ ہیں کہ ہر روز ربوہ کے پاس سے اڑھائی تین ہزار سواریاں گزر جاتی ہیں.ان مسافروں میں سے کئی لوگ ایسے ہوتے ہیں جن کے دلوں میں یہ خواہش پیدا ہوتی ہے کہ ہم منزل مقصود پر آسانی سے کی پہنچ جائیں گے.چلو ایک آدھ دن کے لئے یہاں ٹھہر جائیں اور وہ یہاں اُتر جاتے ہیں.قادیان میں یہ سہولت میسر نہیں تھی.قادیان رستہ چھوڑ کر واقع تھا.کوئی پختہ سڑک نہیں تھی جو شہر کے پاس سے گزرتی ہو.اس لئے لاریوں کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا.ہاں ریل قادیان جاتی تھی لیکن وہ بھی وہیں ختم ہو جاتی تھی.آگے نہیں جاتی تھی.اس لئے وہاں وہی لوگ جاتے تھے جو ارادہ قادیان جانے کے لئے گھروں سے روانہ ہوتے تھے.لیکن یہاں ریل آتی ہے اور پھر یہیں ختم نہیں ہو جاتی بلکہ وہ آگے گزر جاتی ہے.اور اس طرح دونوں طرف کی سواریاں یہاں سے گزرتی ہیں.اور پھر سر گودھا اور لائل پور کے تعلق کی وجہ سے لا ریاں اتنی گزرتی ہیں کہ جلسہ دیکھنے کی خواہش رکھنے والے مسافروں کو کچھ دیر یہاں ٹھہرنے کا موقع مل جاتا ہے.بہر حال ربوہ آبادی کے لحاظ سے ابھی قادیان سے بہت چھوٹا ہے.قادیان کی آبادی پندرہ ہزار کے قریب تھی.لیکن ربوہ کی آبادی ابھی ساڑھے تین ہزار یا پونے چار ہزار نفوس پر کی مشتمل ہے گو جلد جلد بڑھ رہی ہے.گویار بوہ کی آبادی ابھی قادیان کی آبادی کا ایک چوتھائی ہے ج اور جلسہ پر آنے والوں کی تعداد قادیان میں آنے والوں کی نسبت 70 ، 80 فیصدی تک پہنچ چکی ہے.گویا جن مہمانوں کی خدمت پہلے سو آدمیوں کو کرنی پڑتی تھی اب ان کے 70، 80 فیصدی مہمانوں کی خدمت 25 آدمیوں کو کرنی پڑتی ہے.اس لئے اب پہلے کی نسبت زیادہ محنت اور توجہ کی ضرورت ہے.میں باہر سے آنے والوں کو بھی اِس طرف توجہ دلاتا ہوں.میں یہ نہیں کہتا کہ وہ جلسہ سالانہ پر نہ آئیں.وہ جلسہ سالانہ پر آئیں اور خوب آئیں.اور غیر از جماعت دوستوں کو اپنے ساتھ لائیں.
1952 363 خطبات محمود لیکن میں اُن سے اتنا ضرور کہوں گا کہ کچھ عرصہ سے جلسہ پر آنے والوں میں یہ میلان پیدا ہو گیا کی ہے کہ جلسہ کا نام آرام، سہولت اور مہمان نوازی رکھ لیا گیا ہے.بہت سے لوگ جلسہ سالانہ پر آکر بھی اس کی برکات سے محروم رہتے ہیں.وہ جلسہ دیکھنے آتے ہیں جلسہ سنے نہیں آتے.ایسے کی لوگوں کو میں کہوں گا کہ وہ یہاں تقاریر نہ سن کر گناہ کا بوجھ اٹھاتے ہیں.اگر انہوں نے یہاں آکر تقاریر نہیں سنی تو بہتر ہے کہ وہ یہاں نہ آئیں.اور اس طرح وہ غیر از جماعت افراد جو اُن کے ساتھ آئیں.اگر وہ جلسہ کی تقاریر سننے کے لئے تیار نہیں یا جو انہیں ساتھ لاتے ہیں وہ انہیں جلسہ میں بٹھانے پر قادر نہیں تو میں انہیں بتا دینا چاہتا ہوں کہ اُن کا میلہ کے رنگ میں یہاں آنا انہیں خود بھی گنہگار بناتا ہے اور دوسرے سینکڑوں اور ہزاروں لوگ جو انہیں دیکھتے ہیں وہ بھی ان کی ج وجہ سے گنہگار بنتے ہیں.وہ انہیں دیکھ کر اُن کی سی حرکات کرنے لگ جاتے ہیں.ہمارے ملک میں مثل مشہور ہے کہ خربوزہ خربوزے کو دیکھ کر رنگ پکڑتا ہے.اگر محلہ میں ایک شخص نماز نہیں پڑھتا تو اُسے دیکھ کر دو چار اور بچے بھی ایسے نکل آتے ہیں جو نماز چھوڑ دیتے ہیں.اگر ان میں سے کسی بچہ کو ماں کہتی ہے کہ تم نماز پڑھا کرو تو وہ کہتا ہے تم مجھے نماز کے لئے کہتی ہو فلاں شخص بھی نماز نہیں پڑھتا.اس لئے اگر میں نے نماز نہ پڑھی تو کیا ہوا.پھر جب دو تین کی بچے ست ہو جاتے ہیں تو پانچ سات اور ایسے ہو جاتے ہیں جو اُن کی نقل میں نماز پڑھنا چھوڑ دیتے ہیں.مائیں ڈانٹتی ہیں تو وہ کہتے ہیں سارا محلہ نماز نہیں پڑھتا میرا کیا ہے.اگر چہ محلہ میں صرف پانچ سات اشخاص ہی ایسے ہوتے ہیں جو نماز نہیں پڑھتے لیکن وہ کہتے یہی ہیں کہ سارا محلہ نماز نہیں پڑھتا.اس طرح آہستہ آہستہ نماز کی عادت کم ہو جاتی ہے.یہی حال رسم و رواج کا ہے.آخر جب تک سگریٹ نہیں نکلا تھا لوگ اس کے بغیر گزارہ کرتے تھے.لیکن اب جس کو بھی کہا جاتا ہے کہ تم سگریٹ نہ پٹو تو وہ بہانے بناتا ہے لیکن سگریٹ کی ترک نہیں کرتا.اس کی وجہ یہی ہے کہ لوگ دوسروں کو سگریٹ پیتے دیکھتے ہیں تو انہیں بھی سگریٹ پینے کا شوق آتا ہے اور وہ شوق میں سگریٹ پینا شروع کر دیتے ہیں.مجھے یاد ہے کہ ایک دفعہ میں نے اور میر محمد اسحق صاحب نے حضرت اماں جان کو گھر میں پیتے دیکھا.آپ کو اُن دنوں نفخ کی تکلیف تھی جس کی وجہ سے چند دنوں کے لئے حکیم نے علاج کے طور پر حقہ پینا بتایا تھا.ہم نے حقہ گھر میں دیکھا تو حقہ پینے کا شوق ہوا.چنانچہ ہم دونوں کی
1952 364 خطبات محمود حقہ لے کر بیٹھ گئے اور اتنا حقہ پیا کہ مجھے بخار چڑھ گیا اور مجھے وہاں سے اُٹھا کر بستر پر لٹایا گیا.حضرت اماں جان نے ہمیں حقہ پینے کی اجازت بچہ سمجھ کر دے دی اور خیال کیا کہ یونہی منہ میں لے کر چھوڑ دیں گے اور خود کسی گھر تشریف لے گئیں.مگر ہم کھیل کھیل میں ایک دوسرے کے مقابل پر شرطیں لگا کر حقہ پیتے گئے یہاں تک کہ بخار چڑھ گیا.پس عام طور پر لوگ ایک دوسرے کی نقل کرتے ہیں.اگر کوئی شخص چائے کی دکان پر بیٹھتا ہے تو دوسرا شخص اُسے دیکھ کر وہاں بیٹھ جاتا ہے اور سمجھتا ہے فلاں شخص یہاں بیٹھا ہے.میں بھی بیٹھ جاؤں تو کیا حرج ہے.پھر دو تین اور آجاتے ہیں وہ ان دونوں کو وہاں بیٹھا ہوا دیکھتے ہیں کی تو وہ بھی وہاں بیٹھ جاتے ہیں.پھر دس ہیں اور آ جاتے ہیں اور پہلے چار پانچ آدمیوں کو وہاں بیٹھے دیکھ کر وہ بھی بیٹھ جاتے ہیں.ہوتے ہوتے جلسہ گاہ سے کافی تعداد سامعین کی غائب ہو جاتی ہے.حضرت خلیفہ المسیح الا ول ایک لطیفہ سنایا کرتے تھے.فرماتے تھے ایک بادشاہ کے دربار میں صفائی کرنے کے لئے ایک خاکروبہ اور ایک خاکروب آیا کرتا تھا.اُس خاکروب اور خاکروبہ نے سور پال رکھے تھے.اتفا قاسؤر کا ایک بچہ مر گیا.پالے ہوئے جانور سے انسان کو محبت ہو جاتی ہے.چاہے وہ سو ر ہو یا کوئی اور جانور.اُن کے لئے سور کا بچہ ایسا ہی تھا جیسے ہمارے لئے گھوڑا یا کوئی اور جانور.دربار کی صفائی کرتے ہوئے خاکرو بہ کو اُس سور کے بچے کا نجی خیال آگیا اور وہ دربار کی ایک دیوار کے ساتھ اپنا سر رکھ کر رونے لگ گئی.اتنے میں دربار کا ایک چپڑ اسی آیا.اُس نے خاکروبہ کو روتے ہوئے دیکھ کر یہ خیال کیا کہ خدانخواستہ اندر کوئی حادثہ ہو گیا ہے ، مجھے پتا نہیں لگا.اگر کسی نے مجھے دیکھ لیا کہ میں رونہیں رہا تو مجھ پر بے وفائی کا ج شبہ کر لیا جائے گا اس لئے وہ بھی رونے لگ گیا.پھر ایک اور چوب دار 1 آیا اُس نے کہا یہ دونوں رور ہے ہیں ضرور کوئی واقعہ ہوا ہے مجھے پتا نہیں لگا.اگر کوئی شخص آگیا اور اس نے دیکھ لیا تھی کہ میں رو نہیں رہا تو وہ خیال کرے گا کہ مجھے نواب صاحب سے کوئی تعلق نہیں.یہ خیال کر کے و بھی مصنوعی طور پر رونے لگ گیا.پھر کلرک آئے انہوں نے بھی ان لوگوں کو دیکھ کر رونا شروع کر دیا.پھر چھوٹے افسران آئے ، درباری آئے اور وزراء آئے تو انہوں نے خیال کیا کہ ہمارا تو کام تھا کہ ہم ہر وقت خبر رکھیں.لیکن ہمیں اس حادثہ کا کوئی علم نہیں ہوا.ضرور کوئی بات
1952 365 خطبات محمود ہوئی ہے جس کی وجہ سے یہ لوگ رور ہے ہیں.اگر ہم نہ روئے تو ہم پر بے وفائی کا شبہ کر لیا جائے کی گا.یہ خیال کر کے وہ بھی رونے لگ گئے.بڑے آدمیوں نے کرسیوں پر بیٹھے ہوئے آنکھوں پر رومال رکھ کر رونا شروع کر دیا.اتنے میں ایک بڑا وزیر آیا وہ کچھ عقلمند تھا.وہ رویا نہیں.اُس نے پاس والے وزیر سے دریافت کیا کہ کیا بات ہوئی ہے؟ اُس نے کہا مجھے تو علم نہیں.میرے پاس والے وزیر رور ہے تھے اس لئے میں بھی رونے لگ گیا.اُس نے کہا اس سے پوچھو کیا بات ہے؟ جب اُس نے اس سے پوچھا تو اُس نے کہا مجھے تو علم نہیں میرے ساتھ والا وزیر ر و ر ہا تھا.آخر بات خا کرو بہ پر پہنچی.اس سے دریافت کیا گیا تو اُس نے بتایا کہ میرا اسور کا بچہ مر گیا تھا مجھے وہ یاد آ گیا تو میں نے رونا شروع کر دیا.اب دیکھو! خاکروبہ نے سور پالا تھا.اُس کا بچہ مر گیا اور وہ محبت کی وجہ سے رونے لگ گئی.تو اُسے دیکھ کر سا را در بار رونے لگ گیا.اگر اُس وقت بادشاہ دربار میں آجاتا تو سب کو معطل کر دیتا کہ تم میری بدخواہی چاہتے ہو.پس انسان میں نقل کی عادت ہوتی ہے.ایک شخص اگر کوئی کام کرتا ہے تو اُسے دیکھ کر دوسرا بھی وہی کام کر نے لگ جاتا ہے.پس میں جماعت کو متنبہ کر دیتا ہوں کہ جلسہ سالانہ پر وہ لوگ آئیں جو جلسہ گاہ میں بیٹھ کر تقاریر سنیں.اور جو لوگ تقاریر نہیں سن سکتے وہ جلسہ پر ہرگز نہ آئیں ، ہر گز نہ آئیں.پھر دوست صرف اُن غیر از جماعت لوگوں کو ساتھ لائیں جن کو وہ جلسہ گاہ میں تقاریر کے دوران میں بٹھا سکتے ہیں.جو غیر از جماعت لوگ یہاں آکر تقاریر نہیں سنتے وہ فساد کی نیت سے یہاں آتے ہیں حصول علم کے لئے نہیں آتے.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ بیماریاں بھی ہوتی ہیں میں ان کا انکار نہیں کر سکتا.جو لوگ یہاں آکر بیمار ہو جائیں یا پہلے سے بیمار ہوں لیکن جلسہ پر اخلاص کی وجہ سے آجائیں اور وہ جلسہ گاہ میں سارا وقت نہ بیٹھ سکیں تو وہ بازاروں میں نہ پھریں.دکانوں پر نہ بیٹھیں بلکہ اپنی بیرکوں یا اُن جگہوں میں بیٹھیں جہاں وہ ٹھہرے ہوئے ہیں.رمضان میں ہر سال یہ شور پڑتا ہے کہ بازاروں میں کھانے پینے کی دکانیں بندر ہیں.اس کی وجہ یہی ہے کہ اگر کھانے پینے کی عام اجازت ہو تو بچوں اور دوسرے لوگوں کی نظر میں روزہ کی کوئی اہمیت نہ رہے.پس میں یہ نہیں کہتا کہ بیمار بھی جلسہ گاہ میں بیٹھیں.انہیں تندرست رکھنا ہمارا کام ہے.انہیں اپنی صحت کو بچانے کی کوشش کرنی چاہیئے.وہ بے شک آرام کریں لیکن کچھ
1952 366 خطبات محمود انہیں یہ طریق اختیار نہیں کرنا چاہیے کہ وہ بازاروں میں جائیں اور دکانوں پر بیٹھیں.وہ جلسہ گاہ کی سے بے شک باہر چلے جائیں لیکن اپنی بیرکوں اور بیٹھکوں میں بیٹھیں.اگر انہیں کوئی کرانک (Chronic) بیماری 2 ہے تو الگ بات ہے ورنہ ہمارا ڈاکٹر موجود ہو گا اُس کے پاس جا کر علاج کرانا چاہیے.بہر حال انہیں گھروں میں بیٹھنا چاہیے تا کہ دوسرے لوگ اُن کے بُرے نمونہ سے متاثر نہ ہوں.جماعت کے معنی ہی یہ ہیں کہ اس میں ایک نظم پایا جا تا ہو.ہمارے ہاں تو ایک شخص بھی ایسا نہیں ہونا چاہیے جو تقاریر کے دوران جلسہ گاہ میں نہ بیٹھے.سوائے پہریداروں کے یا اُن لوگوں کی کے جو کھانا پکانے اور کھلانے پر مقرر ہوں.میں اُنہیں بھی کہوں گا کہ وہ اپنے فارغ وقت میں کی جلسہ گاہ میں بیٹھ کر تقاریر سنیں.لیکن اگر وہ ڈیوٹی کے لئے جلسہ گاہ سے اٹھ کر چلے جاتے ہیں تو ی دوسرے لوگوں کو اُن کی نقل نہیں کرنی چاہیے.آخر 39 ، 40 ہزار افراد کا کھانا پکانا آسان امر نہیں.39 40 ہزار افراد کے لئے بیسیوں نان پر 3 ہوتے ہیں.بیسیوں پیڑے کرنے والے ہوتے ہیں، بیسیوں دیکھیں پکانے والے باورچی ہوتے ہیں ، سینکڑوں خدمت گار ہوتے ہیں.39 ، 40 ہزار افراد کی خدمت کرنے والوں کی تعداد پانچ سات سو یا ہزار تک پہنچ جاتی ہے.ان لوگوں کو جلسہ گاہ سے اٹھنا پڑتا ہے، انہیں اپنی ڈیوٹیوں کے سلسلہ میں ادھر اُدھر چلنا پھرنا پڑتا ہے.اگر وہ جلسہ گاہ سے باہر نہ جائیں تو باقی لوگ بھی جلسہ نہ سن سکیں.لیکن یہ لوگ اس لئے ڈیوٹی پر رہتے ہیں تا باقی لوگ جلسہ سن سکیں اور بچے گم نہ کم نہ ہوں.یہ پہریدار ہی ہوتے ہیں جن کی وجہ سے گم شدہ بچے مل جاتے ہیں.پچھلے جلسہ پر ایک دوست نے سنایا کہ وہ سڑک پر جا رہا تھا کہ دوعورتیں باتیں کرتی ہوئی پاس سے گزریں.ایک نے اپنے پاس والی عورت سے کہا تم اپنے بچہ کی پوری حفاظت نہیں کرتیں.ایسا نہ ہو وہ گم ہو جائے.اُس نے کہا تم پہلے سال یہاں آئی ہو میں کئی سال سے یہاں آ رہی ہوں یہاں کوئی بچہ کم نہیں ہوتا.جو گم ہوتا ہے لوگ پکڑ کر دے جاتے ہیں.اس کی وجہ یہی ہے کہ ہمارے پہریدار ہوشیاری سے کام کرتے ہیں.بلکہ یہاں تو بعض دفعہ دو دو دن کے بعد بھی بچے مل جاتے ہیں کیونکہ میں نے پہریداروں کو یہ ہدایت دی ہوئی ہے کہ اگر تم کسی کو بچہ اٹھائے لے جاتے دیکھ لو اور بچہ گھبرایا ہوا ہو یا وہ رورہا ہو تو تم اُسے روک لو.اور اُس وقت تک.
1952 367 خطبات محمود بچه اسے جانے نہ دو جب تک وہ اپنے آپ کو اُس بچہ کا باپ ثابت نہ کر دے.اگر کوئی شخص اٹھائے ہوئے لے جا رہا ہو تو اگر وہ شرارت سے ایسا کر رہا ہے تو بچے کی شکل سے ہی معلوم ہو جائے گا کہ اٹھا کر لے جانے والے کا بچہ سے کوئی رشتہ نہیں.لازماً بچہ گھبرایا ہوا ہوگا.بے شک بعض دفعہ مٹھائی وغیرہ دے کر بھی بچوں کو چُپ کرا لیا جاتا ہے لیکن بچے گھبرائے ہوئے ضرور ہوتے ہیں اور اُن کے چہروں سے یہ معلوم ہو جاتا ہے کہ وہ شخص انہیں جبراً اٹھا کر لے جارہا ہے.اسی وجہ سے میں نے یہ مستقل ہدایت دی ہوئی ہے کہ جب بھی ایسا بچہ دیکھو اُس شخص کو دفتر میں لے جاؤ اور جب تک وہ اپنے آپ کو اُس بچہ کا باپ ثابت نہ کر دے اسے نہ چھوڑو.یہی وجہ ہے کہ چالیس سال سے جماعت کے اتنے بڑے جلسے ہو رہے ہیں لیکن ابھی تک خدا تعالیٰ کے فضل سے ایک واقعہ بھی ایسا نہیں ہوا کہ جلسہ کے موقع پر کوئی بچہ گم ہو گیا ہو.خدا تعالیٰ کرے کہ آئندہ بھی ایسا ہی ہو.پس ان کاموں کے لئے بعض آدمیوں کو لگا نا پڑتا ہے.دوسرے لوگوں کو یہ خیال رکھنا چاہیے کہ اگر یہ لوگ پھرتے ہیں تو اپنی ڈیوٹیوں کی وجہ سے پھرتے ہیں.انہیں اُن کی نقل کر کے جلسہ گاہ سے نہیں اٹھنا چاہیے.یہ لوگ جاگتے ہیں اس لئے کہ تم سوؤ.یہ لوگ چوکس رہتے ہیں اس لئے کہ تمہارے بچے گم نہ ہوں.اگر انہیں دیکھ کر تم ان کی نقل کرنے لگ جاتے ہو تو یہ ایک بُر ابدلہ ہے جو تم اُن کی خدمت کا دیتے ہو.پس باہر والے لوگ اگر جلسہ گاہ میں بیٹھ سکتے ہیں اور تقاریرین سکتے ہیں تو وہ جلسہ سالانہ پر آئیں ورنہ نہ آئیں.اگر احمدی دوست جلسہ سالانہ کے موقع پر بعض غیر از جماعت لوگ ساتھ لاتے ہیں تو وہ پہلے یہ دیکھ لیں کہ آیا وہ ان چند دنوں کے لئے اُن پر کنٹرول کر سکتے ہیں یا نہیں.اگر وہ سمجھتے ہیں کہ وہ اُن پر کنٹرول کرلیں گے تو انہیں ساتھ لائیں.اگر وہ پہلے سے بیمار ہیں لیکن کی شوق کی وجہ سے جلسہ سالانہ پر آ جاتے ہیں یا یہاں آکر بیمار ہو جاتے ہیں تو وہ اپنی بیٹھکوں اور کچی بیرکوں میں لیٹ کر آرام کریں.بیمار ہیں تو ڈاکٹر کے پاس جا کر علاج کرائیں.وہ بازاروں میں نہ پھریں، دکانوں پر نہ بیٹھیں کیونکہ وہ خود تو معذور ہیں لیکن دوسرے لوگ دیکھ کر اُن کی نقل کریں گے.پس میں باہر سے آنے والوں کو یہ نصیحت کرتا ہوں کہ وہ اِس سال اس ارادہ کے ساتھ یہاں آئیں کہ وہ تقاریر پورے انہماک سے سنیں گے.اور جلسہ کے دوران میں اِدھر اُدھر
خطبات محمود 368 1952 بازاروں میں نہ پھریں گے تا جماعت کے دوستوں کو جلسہ کے موقع پر تقاریر سننے کی عادت پڑ جائے اور ہمارا جلسہ جو کچھ عرصہ سے میلوں کا سا رنگ پکڑ رہا ہے پھر سے جلسہ کا رنگ اختیار کرلے.ہمارا جلسہ اپنے ساتھ بہت سی روحانی برکات رکھتا ہے.اگر کوئی شخص مسجد میں جاتا ہے اور وہاں یونہی بیٹھ رہتا ہے، عبادت نہیں کرتا تو کیا تم اُس کے اس فعل کو عبادت کہو گے؟ اس طرح جو لوگ جلسہ سالانہ پر مرکز میں آتے ہیں اگر وہ یہاں آکر جلسہ کی تقاریر سے پوری طرح مستفید نہیں ہوتے تو اُن کا یہاں آنا بھی کسی برکت کا موجب نہیں ہوگا.پس باہر سے آنے کی والوں اور یہاں کے مقامی لوگوں دونوں کو اپنی اصلاح کر لینی چاہیے.پچھلے جمعہ میں میں نے مقامی لوگوں کو نصیحت کی تھی کہ وہ اس سال ایک روٹی بھی ضائع نہ کی ہونے دیں.یہ سخت مہنگائی کا زمانہ ہے.جو شخص جلسہ کے موقع پر ایک روٹی بھی ضائع کرتا ہے کی وہ جماعت سے غداری کرتا ہے.وہ اُن کارکنوں سے غداری کرتا ہے جن کو زیادہ اخراجات ہو جانے کی وجہ سے آئندہ تنخواہیں نہیں ملیں گی.وہ ربوہ کے دکانداروں سے غداری کرتا ہے جن کے کاروبار محض کارکنوں کو تنخواہیں نہ ملنے کی وجہ سے تباہ ہو جائیں گے.“ 66 الفضل 23 دسمبر 1952ء) :1 چوب دار عصا بردار، نقیب.وہ نوکر جو سونے یا چاندی کا خول چڑھا ہوا عصا لے کر امیروں کے آگے آگے چلتا ہے.2: کرانک بیماری: پرانی بیماری 3: نان پر : نانبائی
1952 369 (41 خطبات محمود ربوہ آنے کو اپنے لئے زیادہ سے زیادہ موجب برکات بناؤ اور اپنے اوقات ذکر اٹھی میں صرف کرو یہ بھی اپنے درجہ کے لحاظ سے ایک مقدس مقام ہے.یہاں رہنے والوں کی اکثریت خدمت دین میں لگی ہوئی ہے فرمودہ 26 دسمبر 1952ء بمقام ربوہ ) تشهد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: کئی اور دوستوں کی بھی خواہش ہوتی ہے کہ وہ اس موقع پر مجھ سے نکاح پڑھوائیں.اُن کی اصل غرض تو یہ ہوتی ہے کہ مرکزی جماعت کے لوگ دعا میں شریک ہو جائیں.لیکن ساتھ ہی کی ہ یہ بھی چاہتے ہیں کہ دو دفعہ آنے کی بجائے اب جلسہ سالانہ پر آئے ہیں تو ساتھ ہی نکاح بھی خطبہ جمعہ سے قبل حضرت خلیفہ مسیح الثانی نے صاحبزادہ مرزا رفیع احمد صاحب کے نکاح کا اعلان فرمایا جو سیدہ امتہ السمیع صاحبہ بنت میر محمد اسماعیل صاحب کے ساتھ بعوض مبلغ ایک ہزار روپیہ مہر قرار پایا.اسی طرح حضور نے سیدہ آنسہ بنت میر محمد اسحاق صاحب کے نکاح کا اعلان بھی فرمایا جو قاضی محمود شوکت صاحب ابن قاضی محمد حنیف صاحب کے ساتھ بعوض مبلغ تین ہزار روپے مہر قرار پایا.
1952 370 خطبات محمود پڑھوا لیں.اس غرض کے لئے بیسیوں لوگ اپنی شادیاں ملتوی کر دیتے ہیں.ایسے دوستوں کی نج خواہش ہو گی کہ میں اُن کے نکاح کے اعلان پڑھوں.لیکن چونکہ نکاحوں کے اعلان پر گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹہ لگ جاتا ہے اور جلسہ سالانہ کے پروگرام میں اتنی دیر تک رُکا نہیں جاسکتا اس لئے میں نے فیصلہ کیا ہے کہ 28 دسمبر کو مغرب اور عشاء کے درمیان نکاحوں کا اعلان کر دیا جائے.سو دوست یا درکھیں 28 دسمبر کو شام اور عشاء کے درمیان نکاحوں کا اعلان کر دیا جائے گا.جو دوست مجھ سے نکاح پڑھوانا چاہتے ہیں وہ اپنے اپنے کاغذات تیار رکھیں اور 28 دسمبر کو جمع کر کے دفتر پرائیوٹ سیکرٹری میں پہنچا دیں.میں آج ہی نکاحوں کا اعلان کر دیتا لیکن ایجاب و قبول میں اتنا وقت لگ جاتا ہے کہ نہ صرف خطبہ اور نماز کے لئے وقت نہ بچتا بلکہ جلسہ کا کچھ وقت بھی اس میں کی صرف ہو جا تا.اس لئے مجبوراً میں نے نکاحوں کا اعلان نہیں کیا.ایک دو اعلان ہوتے تو میں انہیں ان نکاحوں کے اعلانات کے ساتھ شامل کر لیتا.ایسے موقع پر وقت نہایت قیمتی ہوتا ہے اور تھوڑا ہوتا ہے.اس لئے ہمیں کوشش کرنی چاہیے کہ اس سے ہم زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھائیں.آج جلسہ کا دن ہے اور ساتھ ہی جمعہ کا دن بھی ہے اس لئے گویا جمعہ کے اندر جلسہ کا تداخل ہو گیا ہے یعنی جلسہ کے اندر جمعہ کا تداخل نہیں ہوا.اس لئے کہ جمعہ دائی چیز ہے اور جلسہ عارضی چیز ہے.اس لئے ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ جلسے کے اندر جمعہ کا تداخل ہو گیا ہے بلکہ یوں کہنا چاہیئے کہ جمعہ کے اندر جلسہ کا تداخل ہو گیا ہے.اس لئے میں اختصار کے ساتھ خطبہ جمعہ کو ایک دومنٹ میں ختم کرنا چاہتا ہوں تا نماز کے لئے وقت بچ سکے.افسوس ہے کہ آج افتتاحی تقریر کے موقع پر گو میں صرف دو چار منٹ بولا لیکن اتنا بولنے کی وجہ سے بھی میرا گلا بیٹھ گیا اور ڈر ہے کہ میں آئندہ تقاریر کے موقع پر بول سکوں گا یا نہیں.میں علاج میں لگا ہوا ہوں لیکن تاہم آواز بیٹھ رہی ہے.صرف ایک دومنٹ میں اتنا کہنا چاہتا ہوں کہ جو لوگ جلسہ کے موقع پر یہاں آتے ہیں وہ جلسہ سننے کے لئے یہاں آتے ہیں اس لئے اُنہیں اپنے اوقات کو زیادہ سے زیادہ مفید کاموں میں خرچ کرنا چاہیے.یہ دن در اصل عبادت کے قائمقام ہیں.مسلمانوں پر حج فرض کیا گیا ہے.اس فرض کو پورا کرنے کے لئے لوگ مکہ جاتے ہیں جہاں ہمارے آقا سید الانبیاء محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پیدا ہوئے.اور پھر ایک لمبے عرصہ تک اپنی زندگی وہاں گزاری تا آپ کی وجہ سے جو برکات مکہ مکرمہ کومیں اُن سے وہ بھی کچ
1952 371 خطبات محمود حصہ لیں.لیکن ہر شخص حج کے لئے مکہ نہیں جا سکتا.پھر مکہ سے اتر کر مدینہ کا مقام ہے جہاں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہجرت کے بعد تشریف لے گئے اور وفات کے بعد وہیں مدفون منی ہوئے.وہاں بھی مسلمان جاتے ہیں، دعائیں کرتے ہیں اور عبادتیں کرتے ہیں تا آپ کی کی برکت کی وجہ سے، آپ کے قرب کی وجہ سے کہ آپ وہاں مدفون ہیں.اُن پر بھی فضل ہو جائے اور تا وہ بھی اُن رحمتوں اور فضلوں میں شامل ہو جائیں جو آپ کے وجود کی وجہ سے اُس بستی پر ہور ہے ہیں.اسی طرح لوگ جلسہ کے موقع پر ربوہ آتے ہیں تا موجودہ وقت میں جو برکات اس مقام کو ملی ہیں اُن سے وہ بھی حصہ لیں.یہ ایک حقیقت مسلمہ ہے اور تمام اولیا ء اس بات پر متفق ہیں کہ انسانی برکات بدل جاتی ہیں لیکن مقامات کی برکات نہیں بدلتیں.وہ ہمیشہ قائم رہتی ہیں.اس کی وجہ یہ ہے کہ انسان کے حالات بدلتے رہتے ہیں لیکن مقام کے حالات نہیں بدلتے.مقام گناہ نہیں کرتا.وہ جس رنگ میں ایک دفعہ رنگا گیا.ہاں یہ ضرور ہوتا ہے کہ ایک لمبا عرصہ گزر جانے کے بعد لوگ اُس کے اندر خرابیاں کرنے لگ جاتے ہیں.لیکن وہ خرابیاں لوگوں کی طرف منسوب ہوں گی اُس مقام کی کی طرف منسوب نہیں ہوں گی کیونکہ مقامات مُجرم نہیں کرتے.پس خدا تعالیٰ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور دوسرے انبیاء کی وجہ سے بعض مقامات کو مقدس بنا دیا ہے.جیسے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بیت اللہ بنایا اور اس وجہ سے مکہ مقدس قرار پایا.اس کے بعد رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم وہاں پیدا ہوئے جس کی وجہ سے مکہ کی برکات میں اور بھی اضافہ ہو گیا.اسی طرح اور مقامات ہیں جو مقدس ہیں.یہ مقام بھی اپنے درجہ کے لحاظ سے مقدس ہے.یہاں وہ لوگ بیٹھے ہیں جو یہ ارادہ لے کر یہاں آئے ہیں کہ وہ دین کی خدمت کریں جی گے.یہاں دینی تعلیم دی جاتی ہے اور دینی تعلیم کے حصول کے لئے بہت دور دور کے ممالک سے تی لوگ یہاں آتے ہیں.اگر کوئی یہاں آئے گا اور چاہے گا کہ اُس کی اصلاح ہو جائے تو اُس کی اصلاح ہو جائے گی.حقیقت یہ ہے کہ جو لوگ یہاں رہتے ہیں ان میں اکثر دین کی خدمت میں کی لگے ہوئے ہیں.اور جب تک یہاں کے رہنے والوں کی اکثریت خدمت دین میں لگی ہوئی ہی ہے.اُس وقت تک وہ لوگ بھی مقدس ہیں اور یہ مقام بھی مقدس ہے.جب یہاں کے رہنے والوں کی اکثریت خدمت دین سے ہٹ جائے گی تو اُن سے تقدیس بھی چلی جائے گی لیکن یہ
1952 372 خطبات محمود مقام پھر بھی مقدس رہے گا کیونکہ جب کوئی جگہ مقدس ہو جاتی ہے تو اُس کی برکتیں اُس سے واپس نہیں لی جاتیں.اس لئے کہ اُس کے حالات نہیں بدلتے.وہ گناہ نہیں کرتا مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کی مقدس جگہیں ہیں اور قیامت تک مقدس رہیں گی.لیکن افسوس کہ وہاں کے رہنے والوں نے خدمت دین سے منہ موڑ لیا اس لئے جہاں تک ان جگہوں کا سوال ہے وہ مقدس ہیں.لیکن جہاں کی تک ان کے رہنے والوں کا سوال ہے اب ان سب کو نیک نہیں کہا جا سکتا.مگر اس سے مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کی تعلیم میں کوئی فرق نہیں آتا.اس وقت ربوہ ہی ایک ایسا مقام ہے جہاں کے رہنے والوں کی اکثریت خدمت دین کے لئے لگی ہوئی ہے.اس لئے یہ مقام بھی مقدس ہے.اور اسے آئندہ ایک زمانہ تک کے لئے دین کا مرکز بنایا گیا ہے.اور یہاں کے رہنے والے بھی مقدس ہیں کیونکہ وہ اس کی تقدیس میں مدد دے رہے ہیں.یہاں کے رہنے والوں کی اکثریت خدمت دین میں لگی ہوئی ہے.بے شک جہاں تک انسان کا سوال ہے وہ کمزور ہوتا ہے اور اس سے کمزوریاں سرزد ہوتی رہتی ہیں.اسی طرح اگر یہاں کے رہنے والوں میں بعض کمزوریاں پائی جاتی ہوں تو تو بہ واستغفار سے خدا تعالیٰ ان کمزوریوں کو معاف کر دے گا.ایسے مقام پر آکر وقت ضائع کرنا نہایت افسوسناک امر ہوتا ہے.مجھے آج خوشی ہوئی کہ نماز جمعہ میں بھی اور صبح دعا کے وقت بھی سوائے ایک معمولی تعداد کے باقی سب لوگ بیٹھے تھے.میں سمجھتا ہوں کہ دوستوں نے میرے اعلان کو اہمیت دی ہے.تین دن بیٹھ رہنا کوئی بڑی بات نہیں.خدا تعالیٰ نے اسلام میں دس دن کا اعتکاف رکھا ہے.معتکف دس دن تک مسجد میں بیٹھتا ہے لیکن یہاں تو صرف تین دن تک بیٹھنا ہوتا ہے.پھر اعتکاف میں انسان 24 گھنٹے ایک گی بیٹھتا ہے لیکن یہاں صرف جلسہ کے دوران میں بیٹھنا ہوتا ہے.پھر آپ اپنی بیوی بچوں اور دوستوں کے پاس جا سکتے ہیں لیکن اعتکاف میں یہ نہیں ہوتا.اعتکاف میں انسان اپنے بیوی بچوں سے بھی جدا رہتا ہے اور پھر دس دن تک سارا وقت مسجد میں ہی کاٹتا ہے.پس اس تھوڑے.وقت کو زیادہ سے زیادہ ذکر الہی اور دعاؤں میں صرف کرو.میں نے بتایا ہے کہ بعض مقامات مقدس ہوتے ہیں.ربوہ بھی ایک مقدس مقام ہے.رہنے والے بھی مقدس ہوں اور مقام بھی مقدس ہو اور دل بھی دعا میں لگا ہوا ہو تو دعا کی قبولیت
1952 373 خطبات محمود میں کون سی کسر رہ جاتی ہے.خدا تعالیٰ تو قدوس پہلے سے ہے.پس تم اپنے یہاں آنے کو زیادہ سے زیادہ موجب برکات بناؤ.تم نے سردی برداشت کی ہے، یہاں آنے کے لئے پیسے خرچ کئے ہیں، تم بیوی بچوں سے جدا ہوئے ہو، اپنے کاموں کا نقصان کیا ہے.پس اس تکلیف کا کچھ تو صلہ ملنا چاہیے.تمہیں اتنے دن تک زمین پر سونے کا بھی تو صلہ ملنا چاہیے.یا د رکھو خدا تعالیٰ تمہیں ان چیزوں کا صلہ دینے کے لئے تیار ہے.لیکن صلہ لینے کے لئے تمہیں برتن بھی تو پیش کرنا چاہیے.اگر تم اپنا برتن پیش نہیں کرتے تو خدا تعالیٰ صلہ کیسے دے گا.پس تم دعاؤں میں لگ جاؤ.اپنے اوقات کو زیادہ سے زیادہ ذکر الہی میں خرچ کرو اور اپنے یہاں آنے کو زیادہ سے زیادہ موجب برکات بناؤ تو یہ برتن بن جائے گا جس میں خدا تعالیٰ اپنا می صلہ ڈال دے گا.اگر ہم ایسا نہیں کرتے تو یہ اُس جلا ہے والی حرکت ہو گی جو بازار میں تیل لینے گیا اور برتن چھوٹا ہونے کی وجہ سے اُس نے سارا تیل ضائع کر دیا.کہتے ہیں کسی جلا ہے نے اپنے بیٹے کو بازار سے تیل خریدنے کے لئے بھیجا.اس نے ایک برتن لے لیا اور اندازہ لگایا کہ اس میں سارا تیل آجائے گا.وہ برتن ایک کٹورا تھا جس کے پیچھے ایک حلقہ سا بنا ہوتا ہے.اس نے دکاندار سے کہا اس برتن میں تیل ڈال دو.دکاندار نے اُس کی برتن میں تیل ڈال دیا.برتن بھر گیا اور کچھ تیل بیچ رہا.دکاندار نے کہا کہ اتنا تیل بچ گیا ہے.جلا ہے کے لڑکے نے کہا کوئی بات نہیں.اُس نے برتن اُلٹا دیا اور کہا باقی تیل اس حلقہ میں ڈال دو.جونہی اُس نے برتن اُلٹا ، سارا تیل بہہ گیا.اور جب کٹورے کے پیندے میں تیل ڈلوا کر اُس نے کٹورا سیدھا کیا تو وہ سارا تیل بھی گر گیا.پس ایسا آدمی جو جلسہ سننے کی غرض سے یہاں آتا ہے اور یہاں آکر اپنا وقت باتوں میں ضائع کر دیتا ہے اُس کی مثال اس جلا ہے کے بیٹے کی سی ہے جس نے اپنا سارا تیل ضائع کر دیا.تم اپنے اوقات کو اس طرح استعمال کرو کہ کوئی وقت ضائع نہ جائے.ایک تاجر ایک ایک دمڑی کا حساب رکھتا ہے تب کہیں جا کر فائدہ اٹھاتا ہے.اسی طرح ایک دیندار شخص بھی دمری دمڑی کا حساب رکھتا ہے کیونکہ وہ خدا تعالیٰ سے سودا کرتا ہے.قرآن کریم نے اسے تجارت ہی قرار دیا ہے.اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے اِنَّ اللهَ اشْتَرى مِنَ الْمُؤْمِنِينَ أَنْفُسَهُمُ وَاَمْوَالَهُمْ بِأَنَّ لَهُمُ الْجَنَّةَ 1- یعنی اللہ تعالیٰ نے مومنوں کی جانوں اور مالوں کو خرید لیا ط.
1952 374 خطبات محمود ہے.اور ان کے بدلہ میں انہیں جنت دے دی ہے.گویا یہ بھی ایک سودا ہے.جیسے ایک تاجر کی کوڑی کوڑی کے حساب کے بعد نفع اٹھاتا ہے اسی طرح ایک مومن بھی کوڑی کوڑی کا حساب کر کے نفع پائے گا.صحابہ میں نیکیوں میں ترقی کرنے کا اتنا شوق پایا جاتا تھا کہ ایک دفعہ صحابہ ایک جنازہ پر گئے.جب جنازہ کی نماز ختم ہوگئی تو ایک صحابی نے کہا میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ جو شخص کسی میت کی نماز جنازہ میں شریک ہوا سے ایک قیراط ثواب ملے گا.اور جو شخص جنازہ کے ساتھ جائے اور وہاں اتنی دیر ٹھہرے کہ میت کو دفن کر لیا جائے اُسے دو قیراط ثواب ملے گا.اور ایک قیراط احد پہاڑ کے برابر ہے 2.جب اُس صحابی نے یہ روایت سنائی تو بعض صحابہ سخت ناراض ہوئے اور کہنے لگے کہ تم نے یہ بات ہمیں پہلے کیوں نہ بتائی.نا معلوم ہم نے کتنے قیراط ثواب ضائع کر دیا ہے 3.کہتے ہیں قطرہ قطره میشود در یا.قطرہ قطرہ مل کر دریا بن جاتا ہے.اسی طرح ایک نیکی کے کرنے سے دوسری نیکی کی توفیق ملتی ہے.اگر تم جلسہ میں بیٹھ کر تقاریر سنو گے تو تمہیں اس سے کی فائدہ پہنچے گا.پھر اگر تم تقاریر سننے کے لئے بیٹھو گے تو تم کہو گے ذرا کان لگا کر سُن لیں تا کوئی مفید بات ہاتھ آجائے.پھر جب تم کان لگا کر سنو گے تو اُن پر عمل بھی کرو گے.پھر جب تم عمل کرنے کی لگ جاؤ گے تو تم کہو گے اتنی دیر عمل کیا ہے چلو کچھ دیر اور عمل کر لو.پھر دوسرے دن بھی تمہیں اس بات کی تحریک ہو گی.یہاں تک کہ تمہاری ساری زندگی ایمان اور عمل کے لحاظ سے قابل ہو جائے گی.مجھے اس بات کی خوشی ہے کہ دوستوں نے اس سال میری نصیحت پر ایک حد تک عمل کیا ہے.اللہ تعالیٰ آپ لوگوں کو اس سال مزید توفیق دے.اور پھر اس کے نتیجہ میں ہمیشہ کے لئے آپ کو تقاریر سننے اور اُن پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے.“ 1 : التوبة: 111 ( بدر قادیان 25 جنوری 1953ء) 2 بخاری کتاب الإيمان باب اتِّبَاعُ الْجَنَائِزِ مِنَ الْإِيمَان - :3 مسلم كتاب الجنائز باب فَضْلُ الصَّلواةِ عَلَى الْجَنَازَة - (الخ)
10 13 4 5 LO 6 3 1 انڈیکس مرتبہ : مکرم فضل احمد شاہد صاحب -1- آیات قرآنیہ 2.احادیث نبویہ 3.الہامات حضرت مسیح موعود 4.اسماء 5- مقامات 6.کتابیات YYYYYYYYYYYYYYYY
196 217 265 118 العنكبوت أَحَسِبَ النَّاسُ أَن يُتْرَكُوا.(3) 280 يسين 3 البقرة آیات قرآنیہ النساء اسْتَعِينُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلوة خَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا (2) 204 الانفال (154) يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمُ (184) 166 إِنَّ اللَّهَ يَحُولُ بَيْنَ الْمَرْءِ يحَسْرَةً عَلَى الْعِبَادِ.(25) أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ 238 التوبة (187) (31) 202 الحجرات كُمْ مِنْ فِئَةٍ قَلِيْلَةِ غَلَبَتْ إِنَّ اللَّهَ اشْتَرَى مِنَ الْمُؤْمِنِينَ إِنْ جَاءَ كُمْ فَاسِقٌ بِنَبَا (250) آل عمران (111) 113 يوسف تُؤْتِي الْمُلْكَ مَنْ تَشَاءُ يَمُرُّونَ عَلَيْهَا.(27) وَلَتَكُنْ مِنْكُمُ أُمَّةٌ يَدْعُونَ (106) 80 (7) 373 النجم دَنَا فَتَدَلَّى (9) 212 | الرحمان اللُّؤْلُقُ وَالْمَرْجَانُ.الحج (105) 347 هُوَ سَمَّكُمُ الْمُسْلِمِينَ.(23) 310 وَمَا مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُوْلٌ..(145) (79) 56 رَبَّنَا اغْفِرُ لَنَا ذُنُوبَنَا (148) 225 (24) الفرقان هَبَاءً مَّنثُورًا (5) 202 | القدر 244 | الصف كَأَنَّهُمْ بُنيَانٌ مُرُصُوْضٌ 52 إِنَّ فِي خَلْقِ السَّمَوَاتِ القصص وَالْأَرْضِ 115 (192.191) (5) إِنَّ فِرْعَوْنَ عَلَا فِي الْأَرْضِ لَيْلَةُ الْقَدْرِ خَيْرٌ مِّنْ أَلْفِ شَهْرٍ (64) 75 163
4 ) احادیث بات کرے گا 120 گمشدہ چیز کا اعلان اللَّهُمَّ إِنَّا نَجْعَلُكَ 225 جو میرے لیے مسجد بناتا ہے 143 جو شخص وضو کر کے مسجد میں ک كُلُّكُمْ رَاعٍ ل 71 آؤ میں ایک ایسی بات بتاؤں آئے 255 256 144 ،145 | چہرے کی بشاشت صدقہ ہے 259 میں کسی کو نیکی سے کیسے روک سکتا مجالس بازاروں میں نہ کرو 260 لَا مَلْجَا وَلَا مَنْجَا مِنْكَ ہوں ی 145 تمھیں کس نے کہا کہ لقمہ دو 268 204، 225 ایک گھڑی جمعہ کے دن ایسی خدا نے مجھے کہا کہ ایک فریق کو يَا عَائِشَةُ تِلْكَ ِبتِلْكَ 270 | آتی ہے 161 | قسم دوں اگر کوئی شخص مسجد میں آئے 161 بہتر عبادت یہی ہے روزہ یہ ہے کہ......168 لوگ پل صراط سے گزریں کچی عبادت یہ ہے 205 | گے احادیث بالمعنى جو شخص دنیا میں خدا کا گھر ی شخص جنت میں جائے گا 206 مومن ایک آنت میں کھاتا ہے بناتا ہے محبت ایک حد تک کر 38 نوافل کے ذریعہ خدا کے قریب 53 ہو جاؤ گے 206 ماؤں کے قدموں کے نیچے تم جھوٹ بولنا چھوڑ دو 57 میرا شیطان مسلمان ہو گیا 219 جنت جو شخص میری مسجد میں نماز اے اللہ تو اس کے دل سے بغض ہم نے بچوں کو جنا پڑھتا ہے صف اول میں آنے والا زیادہ ثواب حاصل کرتا ہے 89 90 نکال دے 221 اگر خدا کا بندہ اس کی طرف 239 جو شخص نماز جنازہ میں شریک ہو جب انسان خدا کی طرف آتا ہے لوٹے جنت میں جانے والے پل سے خطرہ کے وقت جمع ہونے کی جگہ 91 گزریں گے 243 مسیح موعود دران پر ہاتھ رکھ کر تم لوگ فرار نہیں کرار ہو 250 271 288 290 331 355 355 356 374
225 5 عربی الہامات الہامات حضرت مسیح موعود رَبِّ كُلَّ شَيْءٍ عَادِمُكَ يَا حَفِيظٌ يَا عَزِيزُ يَا رَفِيقُ 225 101 افْطِرُ وَاصُومُ
194 123 334 194 68 136 298 275 194 6 اسماء امین 130 | جیواں بیگم 298 انشاء اللہ خان انشاء 260 261 آدم علیہ السلام - حضرت 223 ایاز 353.281.280 آغا خان - سر 66.22 بائرن ابراہیم علیہ السلام.حضرت ابن سعود 220 43،41،40 حافظ حسین.حضرت امام 123 حق نواز.سردار 371،310 برہان الدین مبلی حضرت مولوی حمزہ - حضرت ابن عباس.حضرت 351 بشیر احمد.چودھری ابوبکر حضرت $56 211 حیدر بخش خ 42 بشیر احمد حضرت مرزا 42 خدیجہ - حضرت 195 خواجه علی 74 دین محمد.چودھری 191.93 ابو جہل ابو حنیفہ - حضرت امام 344.272.206 78.53 309 بھاگ بھری بہرام 351 352 پیرا ابوسفیان.حضرت البوسعيد ابوطالب.حضرت ابو ہریرۃ.حضرت 220 73 298 146 343،147 ٹرومین رحمت اللہ شیخ 337 تاج الدین مولوی 276 رفیع احمد - صاحبزادہ مرزا 369 رنجیت سنگھ مہاراجہ 124 تا 126 ، 181 354 295 194 295 123 احمد بن حنبل.حضرت امام 309 مینی سن ارشاد احمد 195 اسماعیل علیہ السلام - حضرت 44 زینب.حضرت جالینوس 311 س جبلہ 272 273 سٹالن 129 سراج الحق 195 369 امام بخش امة السمیع سیده
7 سعدی سعیده بانو سینڈو شافعی.حضرت امام 123 357-268-260.259 355.354.348 276 274 195 عمر حضرت 56، 147 ، غلام دستگیر.ڈاکٹر 192 206، 272 ، 344،273، غلام قادر 355 غلام مرتضی.حضرت مرزا 121 309 عنایت علی میر لدھیانوی 275 شاہنواز کیپٹن 194 عیسی علیہ السلام - حضرت 19 فاطمہ بیگم شداد ع ف 53 132،56، 167، 193، 246 ، فتح محمد سیال.چودھری حضرت 334 310 299.286 عائشہ.حضرت 339355،269، 348، 353، 354 فرعون عبد الحق.حضرت مرزا 156 عبدالحکیم.ڈاکٹر 298 غالب غ 123 فضل الدین جمعدار ق عبدالرحمان.میاں 276 غلام احمد قادیانی حضرت مرزا.قیصر عبد السلام پیر 195 مسیح موعود علیہ السلام عبدالشکور.کنزے عبدالقادر جیلانی.سید 326 58 1 ،14،5، 20، 21 تا کمال الدین خواجہ 92،79،73،60،59،25، کیٹس عبدالقدیر نیاز.صوفی 32 101،93، 120، 124،121، کیکر سنگھ 275 42.32 78.75.53 194 90 90 73 123 67 70.67 321.32 274 298 ل م 191-190-184.143 گاما پہلوان گاندھی 269-266-221.211.92 212 211.209.193 147 $226.225.222.221 229 تا 231 ، 233 تا 335 ، گلاب بی بی 268تا276،275،270، لیکھرام 195 $266.252.251.241 341.188 123 311309.307.298 194 1.337.333.322.321.189.188 عبدالکریم سیالکوٹی.حضرت مولانا عبد اللہ بن عمر.حضرت عبدالمجید.سید عثمان.حضرت عرفی عزیز احمد علی.حضرت
8 مامون 130 محمد حضرت خاتم الانبیاء صلی اللہ محمد اشرف.سید علیہ وسلم 199، 276 ، 369 | مشتاق احمد باجوہ 275 معاویہ.حضرت 19، 21، محمد افضل خان - جمعدار 276 مغله 22، 38، 44، 45، 50، محمد اقبال شیخ 64،57،56،53، 69،68، محمد حافظ 30 189 63 136 موسی علیہ السلام - حضرت 19.353-348-310.132.53 266 71 ، 75، 79 ، 89 تا 91، 93، محمد حسین بٹالوی.مولوی 298 مومن 118، 132 ، 143 تا 145 محمد حسین (دہلی کا ایک شخص) 321 147، 148، 161، 168، محمد حنیف قاضی 369 | تاریخ 173، 174 ، 188، 197 ، محمد ظفر اللہ خان.حضرت سر نبی بخش مهر 349،42 | نجیب.جنرل 223 218 206 205 225 230 231 ، 233، محمد عبداللہ لائلپوری 276 | نذیر احمد ڈاکٹر 235 236، 239، 243، محمد عمر مہاشہ 194 نذیرحسین - سردار 123 123 310.309 349 328 194 120 نصرت جہاں بیگم.حضرت سیدہ 363.268 246، 248، 250، 251، محمدی بیگم 255 تا 260، 262، 266، محمود احمد.حضرت مرزا بشیر الدین.268 تا 1 27، 273، 288، مصلح موعود 25،24، نصیر الحق.حاجی 290 تا 292، 297، 298، 72، 73، 91، 92، 117، نظام الدین اولیاء 217 تا219، $215.190.159.158 306.305.302.301 310، 11 3، 328، 331، 216، 266، 270، 276 ، نظام الدین (مہمان ).مولوی 363 322.321.309344 342 340.334 356 353.348.347 369،364 نمرود 357، 370 371 ، محمود شوکت قاضی 369 نوح علیہ السلام - حضرت 374 محمود غزنوی محمد اسحاق.حضرت میر 363 | مرید احمد میر محمد اسماعیل.حضرت میر مسیلمہ کذاب 41.40 194 221 275 53 310.221 276 نورالدین حضرت مولوی 49 $266.212.92
364 321 310.269 نہرو.پنڈت 9 25 ہارون علیہ السلام - حضرت 353 ہٹلر ورڈز ورتھ 123 | ہمایوں ولی اللہ شاہ.سید حضرت 130 ہندہ 130 یزید ی 69.68 78 74 یونس علیہ السلام.حضرت 353
10 مقامات تیونس 30 50 آسٹریلیا 320 بٹالہ 309.181 احمد نگر 275 | برما 39، 326 جاپان $127 أردن 228 | بشیر آباد 45.35 افریقہ 141،119، بغداد 128 ، جالندھر 350-347.132 121 347-326-320.246 351.287.129 افغانستان 347 بنگال 329،39 | جرمنی 130.127.125 امرتر 121 بہار 326 318.149.132 329 امریکہ 84، 119 ، بہوڑو چک 274 141.132.127124 149، 183، 295، 299، پاکستان 13، 18، 76،39، 198.158.154.127.83 326 317 302 249 248 237.233 352 350.333 جھڈو گدام جہلم 350 276 275 294.156.63 أندلس انڈونیشیا انگلستان 128 251، 252، 287، 294، چک احمدیہ 141،30، 319، 322، 328، 358 چک نمبر 33 266،181،31 | چک نمبر 35 350،347،326 پشاور 28،22،7،4، چک نمبر 38 38،20، پنجاب 248.183.132.127 336 326 317.299 352 350 337 38تا124،43،40 ، 125، چک نمبر 99 ایران 228،188،128،30 | ترکی ایشیا 294،119| تھر پارکر 237، 294 چنیوٹ چین 45 153 153 153 153 4.124.39.38 248.132.128.127 244 43 350.347.326
.129.30 326.228 84 215 11 283 278 276 267 حبشہ ( ایسے سینیا) 250 ،289326، 294، 297، 302، شام 326 324 313.305 128 275،43 346، 361، 362، 368، شکاگو ش 372،371،369 | شملہ 73 | شیخوپوره 303-274-194 244.132.71 ع 350.322.295.245 128.68.30 132،188،90 | عراق 128.30 328 149.132.128 128 رنگون 160 روس روم 277.276 43 حلب حیدرآباد خ خراسان خوشاب خیر پور , 218،217،126 | سپین دادو دہلی.132.125.71 350-326-317.149 326 فرانس 157152 128 249.42 45.73.72.42 سماٹرا 299 فیروز پور 328 فیض اللہ چک سمالی لینڈ 328.326 ق سندھ 35، 39، 40، قادیان راولپنڈی 249،31 سرگودھا ربوه 12.9.1 27،17، 31، 34، 63، 66، سرینگر 362،303،160 فلسطين 99.96.88 83.76.74 122 115 105 103 157.148.137.135 181 121.92.85.84156.65.55.46.4442 173.166 161-159 276 235 213.191 276.275 سوئٹزرلینڈ 149 ،183 ،326 277، 309، 310، 362 246 275 سوڈان 326 سیالکوٹ 105،85 | کابل اسیلون 326،128 کالا کیمپ 195 186 179.175 206204 200.196 237 224 215 213 264.255.253.243
کراچی 12 24، 30، 31، 195، 199، 249، 276، ملکانه 309351،275،229،157، 330، 331، 351 منٹگمری 32 303 87 لبنان 30 | میرپور 274.71 کلکتہ 351 الدھیانہ 275 پریم 141،136 کونے 45 ناصر آباد کوٹ احمد یاں 43 نواب شاہ کوٹری 275 | مانسر 87 نیویارک 65.46 43 84 کوریا 124 | محمد آباد 55.44 مدار 194 واشنگٹن گجرات 187، واہ 136، 180 مدینہ گلگت 66 219، 250، 297، 298، ولاڈی واسٹک 84 87 112 گوجرانوالہ 372 371 348.328 256 گورداسپور 121 ، 249 مراکو 30 ہالینڈ 326.149 گھٹیالیاں 128،92،30 ، 349 ہندوستان 38،34،14،13، 85 | مصر گھسیٹ پور 195 مکہ 127.125.83 44 42 9168 لائل پور 264.248.132.128 220 174.173.147 349 347 328.294 297.272 250 246 156.154 121 195، 362،256،226 298 ، 301، 341، 342، ہوشیار پور لاڑکانہ لاہور 43 84،66،31، ملتان 126124.121.85 181 180.157.136 ی یورپ 126،119،110،62، 3720370 226 308.303-256 308 307 300-149
227 123 40 40 س 13 کتابیات الف آزاد (اخبار) 247 | بائبل 44 سول اینڈ ملٹری گزٹ آفاق (اخبار) 18 ق الفضل (اخبار) 151.24 247،26 | تعمیر (اخبار) زمیندار (اخبار) 247 249 مثنوی رومی 249 قاعده سیسرنا القرآن ز