Language: UR
حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے خطبات علوم و معارف کا ایک انمول خزانہ ہیں اور پیش گوئی کے الہامی الفاظ ’’وہ علوم ظاہری و باطنی سے پُر کیاجائے گا‘‘ پر شاہدناطق ہیں۔ آپؓ کا دور خلافت نصف صدی سے زیادہ عرصہ پر محیط ہے جو ایک تاریخ ساز دور تھا۔ اس نہایت کامیاب اور طویل دور میں آپؓ نے اپنے خطبات جمعہ کے ذریعہ جماعت کی تعلیم و تربیت میں نہایت اہم کردار ادا کیا۔ سیاسی، سماجی اور مذہبی افقوں پر نمودار ہونےوالے ہر معاملے پر بروقت اور درست رہنمائی عطافرمائی۔ الغرض یہ خطبات جمعہ جماعت احمدیہ کا ایک بہت ہی قیمتی خزانہ اور سرمایہ ہیں۔ جسے فاؤنڈیشن نے یکجا کرکے کتابی شکل دی ہے۔
خطبات (خطبات جمعہ) هود 1951 فرموده سیدناحضرت مرزا بشیرالدین محمد احمد اصلح الموعود خلیفة اريج الثانی ح محمد
KHUTBAT-I-MAHMUD by HADRAT MIRZA BASHIR-UD-DIN MAHMUD AHMAD KHALIFATUL MASIH II Published by: Printed by:
بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ پیش لفظ اللہ تعالیٰ کے فضل و احسان سے فضل عمر فاؤنڈیشن کو حضرت مصلح موعود کے خطبات کی بتیسویں جلد احباب کی خدمت میں پیش کرنے کی سعادت نصیب ہو رہی ہے.الْحَمدُ لِلَّهِ عَلَى ذلک.اس جلد میں 1951 ء کے 33 خطبات جمعہ شامل ہیں.حضرت فضل عمر سلطان البیان کے خطبات علوم و معارف کا انمول خزانہ ہیں اور پیشگوئی کے الہامی الفاظ وہ علوم ظاہری و باطنی سے پر کیا جائے گا“ پر شاہد ناطق ہیں.حضرت مصلح موعود کا دور خلافت جو کم و بیش 52 سال پر محیط ہے ایک تاریخ ساز دور تھا.اس نہایت کامیاب طویل دور میں حضور کے خطبات نے جماعت کی علمی و روحانی ترقی اور تعلیم وتربیت میں نہایت اہم کردارادا کیا.حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ فرماتے ہیں:.حضرت مصلح موعود کے خطبات آپ کے قریب بیٹھ کر سننے کا موقع ملتا تھا.تمام دنیا کے مسائل کا آپ کے خطبات میں مختلف رنگ میں ذکر آتا چلا جاتا تھا.دین کا بھی ذکر ہوتا اور دنیا کا بھی.پھر ان کے باہمی تعلقات کا ذکر ہوتا تھا.سیاست جہاں مذہب سے ملتی ہے یا جہاں مذہب سے الگ ہوتی ہے غرضیکہ ان سب مسائل کا ذکر ہوتا تھا.چنانچہ قادیان میں یہی جمعہ تھا جس کے نتیجہ میں ہر کس و ناکس ، ہر بڑے چھوٹے اور ہر تعلیم یافتہ و غیر تعلیم یافتہ کی ایک ایسی تربیت ہو رہی تھی جو بنیادی طور پر سب میں قدر مشترک تھی.یعنی پڑھا لکھا یا ان پڑھ، امیریا غریب اس لحاظ سے کوئی فرق نہیں رکھتا تھا کہ بنیادی طور پر احمدیت کی تعلیم اور احمدیت کی تربیت کے علاوہ دنیا کا شعور بھی حاصل ہو جایا کرتا تھا.چنانچہ بہت
سے احمدی طلباء جب مقابلہ کے مختلف امتحانات میں اپنی تعداد کی نسبت زیادہ کامیابی حاصل کرتے تھے تو بہت سے افسر ہمیشہ تعجب سے اس بات کا اظہار کیا کرتے تھے کہ احمدی طلباء میں کیا بات ہے کہ ان کا دماغ زیادہ روشن نظر آتا ہے ان کو عام دنیا کا زیادہ علم ہے.“ 66 ( خطبات طا ہر جلد نمبر 7 صفحہ 10) ہمارا یہ روحانی و علمی ورثہ سلسلہ کے لٹریچر میں بکھرا پڑا تھا اور جماعت کے دوستوں کو اس سے استفادہ کرنا مشکل تھا.فضل عمر فاؤنڈیشن اس جماعتی ضرورت کو پورا کرنے کیلئے ان خطبات کو کتابی شکل میں شائع کر رہی ہے.یہ جواہر پارے اب آپ کے ہاتھوں میں ہیں.ان کی زیادہ سے زیادہ اشاعت سے جہاں ادارہ کے لئے اس کام کو جلد پایہ تکمیل تک پہنچانا آسان ہوگا وہاں نئی نسل کی تربیت کے لئے بھی یہ بہت مُمد و معاون ہوں گے.اس جلد کی تیاری کے سلسلہ میں جن دوستوں نے ادارہ کی عملی معاونت فرمائی ان میں مکرم عبدالرشید صاحب اٹھوال ، مکرم حبیب اللہ صاحب باجوہ ، مکرم فضل احمد صاحب شاہد، مکرم عبد الشکور صاحب باجوہ، مکرم عدیل احمد صاحب گوندل ، مکرم ظہور احمد صاحب مقبول ، مربیان سلسلہ قابل ذکر ہیں.خاکسار ان سب کا دلی شکر یہ ادا کرتا ہے اور دعا گو ہے کہ خدا تعالیٰ ان کے علم وفضل میں برکت عطا فرمائے اور اپنے فضلوں اور رحمتوں سے نوازے.آمین
فہرست مضامین خطبات محمود جلد 32 خطبه نمبر تاریخ بیان فرموده 4 5 (خطبات جمعہ 1951ء) موضوع خطبہ صفحہ 1 1 12 جنوری 1951 ء نئے سال میں اپنے کاموں میں نیا جوش پیدا کر و 16 فروری 1951 ء دُعا کرو کہ اللہ تعالیٰ ان پرفتن ایام میں جماعت کو محفوظ رکھے 6 23 فروری 1951 ء اپنے اندر ایسی تبدیلی پیدا کرو کہ یہ مخالفت رحمت کا موجب بن جائے 2 مارچ 1951 ء خلافت ایک عظیم الشان نعمت ہے جو اس زمانہ میں مسلمانوں کو احمدیت کے ذریعہ دی گئی.ایک دوسے سے ملنا اور مرکزی مقامات میں جمع ہونا بہت بڑے فوائد رکھتا ہے 9 مارچ 1951 ء سندھ میں آ کر آباد ہونے والے احمدی سندھی زبان سیکھیں اور لوگوں کو اسلام کے موٹے موٹے مسائل بار بار آگاہ کریں 6 | 16 مارچ 1951 ء ہماری جماعت کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنی روایات کی بنیاد اخلاق پر قائم کرے.دنیوی لحاظ سے سچائی، دیانت اور محنت اور دینی لحاظ سے.نماز ، دعا اور ذکر الہی وہ گر ہیں جو کامیابی حاصل کرنے کے لیے ضروری ہیں 9 17 32 32 43
خطبه نمبر تاریخ بیان فرموده 7 8 موضوع خطبہ 23 مارچ 1951 ء بہت زیادہ دعاؤں اور ذکر الہی سے کام لوتا کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اس مقصد میں کامیاب کرے جس کے لیے اس نے ہماری جماعت کو قائم کیا ہے 30 مارچ 1951 ء خدا تعالیٰ کی محبت حاصل کرنے کے گر 9 6 اپریل 1951 ء خدا تعالیٰ سے زیادہ کسی اور چیز سے محبت نہیں ہونی چاہیے 10 | 20 اپریل 1951 ء خدا تعالیٰ کی صفات کو بار بار دہرانے سے اس کی محبت پیدا ہوتی ہے 11 18 مئی 1951 ء مذہب کی حقیقی روح پیدا کرنے کے لیے ضروری ہے کہ تم اللہ تعالیٰ سے تعلق پیدا کرو اور ہمیشہ اس کی رضا کو مقدم رکھو.مذہبی جماعتوں کی بنیاد روحانیت پر ہوتی ہے اور روحانیت صفحه 48 56 65 73 تعلق باللہ کے بغیر قائم نہیں رہ سکتی.تم خدا کو مقدم رکھو اور 85 دنیا کو موتر 12 25 مئی 1951 ء بعض باتیں بظاہر معمولی ہوتی ہیں مگر ان میں بڑے بڑے فوائد مضمر ہوتے ہیں مثلاً اذان کی تصحیح اور نماز میں صفیں سیدھی رکھنا | 89 13 یکم جون 1951 ء تسبیح الہی مصائب و مشکلات سے نجات پانے کا گر ہے.اس گر سے وہی فائدہ اُٹھا سکتا ہے جو زندہ خدا پر اور زندہ مذہب پر یقین رکھتا ہو 14 15 جون 1951 ء اگر تم چاہتے ہو کہ خدا تعالیٰ تمہارے حق میں بھی وہی نشانات دکھائے جو اُس نے انبیاء اور بزرگان کے حق میں دکھائے تھے تو ان کے واقعات کو بار بار دہراؤ 93 33 88 98
صفحه 104 112 116 119 131 142 148 155 خطبه نمبر تاریخ بیان فرموده موضوع خطبہ 15 | 22 جون 1951 ء ہر چیز کے لیے یا مادی سامان ہوتا ہے یا روحانی تمہارے پاس صرف دعا کا ہتھیار ہے.سو تم اپنے لیے، سلسلہ کے لیے اور تمام بنی نوع انسان کیلیے خوب دعائیں کرو 16 6 جولائی 1951 ء اسلام کو عزت اور تقویت صرف روحانیت اور محبت الہی سے ہی حاصل ہو سکتی ہے.جھوٹ ظلم اور بدظنی سے بچو اور دین کو دنیا پر مقدم رکھنے کا عہد ہمیشہ اپنے سامنے رکھو 1317 جولائی 1951ء انسان کو ظاہری چیزوں پر نہیں جانا چاہیے.اسے قلب کی حالت پر غور کرنا چاہیے.اگر اس کا دل صحیح ہے تو وہ ایسے مقام پر ہے جو قابلِ رشک ہے 18 31 اگست 1951 ء | مرکز نقطه مرکزی کی حیثیت رکھتا ہے.لہذا اسے سب پہلے بیداری کا ثبوت دینا چاہیے.کوشش کرو کہ سوائے 19 اشد معذوری کے کوئی احمدی بھی تحریک جدید میں حصہ لینے سے محروم نہ رہے 7 ستمبر 1951 ء خدا تعالیٰ کے رنگ کو اختیار کرو اور اُس کا رنگ یہ ہے کہ وہ جو کہتا ہے اُسے پورا کر کے چھوڑتا ہے 20 14 ستمبر 1951 ء مومن کو جہاں سے خوبی ملتی ہے وہ اُسے لے لیتا ہے 21 21 ستمبر 1951 ء قوموں کی زندگی آئندہ نسلوں کی صحیح تربیت پر مبنی ہوتی ہے احمدی والدین کو چاہیے کہ وہ اپنے بچوں کو شروع سے ہی اسلامی رنگ میں ڈھالنے کی کوشش کریں.22 28 ستمبر 1951 ء روحانی جماعتیں اللہ تعالیٰ کی امداد پر انحصار رکھتی ہیں
خطبه نمبر تاریخ بیان فرموده موضوع خطبہ 23 5 اکتوبر 1951 ء سچا علم انسان کو بتا دیتا ہے کہ اس سے بالا ایک اور علیم و حکیم ہستی ہے وہ خدا تعالیٰ ہے 12 اکتوبر 1951ء اپنی پیدائش کی اصل غرض کو سمجھو اور اللہ تعالیٰ سے سچا اور حقیقی تعلق پیدا کرنے کی کوشش کرو 25 26 اکتوبر 1951 ء اسلام کی صحیح تعلیم دنیا میں قائم کی جائے حکومت کے سوا کسی کو شرعی تعزیر دینے کا اختیار نہیں 26 | 9 نومبر 1951ء اسلام نے شہریت کے جو اصول مقرر کیے ہیں ان کی پابندی کو اپنا شعار بناؤ صفحہ 162 166 173 186 27 16 نومبر 1951 ء اذان کے کلمات اپنے اندر بہت بڑی حکمت رکھتے ہیں.ان کلمات کو سمجھنے اور ان کے مطابق کام کرنے کی کوشش کرنی چاہیے 197 28 23 نومبر 1951 ء لاحَولَ وَلَاقُوَّةَ إِلَّا بِاللهِ میں یہ سبق دیا گیا ہے کہ ہر کام میں اللہ تعالیٰ کی مدد کی ضرورت ہے.تم اس نکتے کو مشعل راہ بناؤ پھر دیکھو کہ خدا تعالیٰ کی مدد کیسے آتی ہے 29 30 نومبر 1951ء ہم نے تحریک جدید کے ذریعے دنیا کے چپہ چپہ پر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حکومت قائم کرنی ہے 30 30 7 دسمبر 1951 ء مومن کی علامت یہ ہوتی ہے کہ وہ ہر وقت قربانی کے مواقع کی تلاش میں رہتا ہے 31 14 دسمبر 1951 ء تحریک جدید کے چندے اور اس کی وصولی کو زیادہ منظم اور باقاعدہ کرو.جلسہ سالانہ پر خدمت کے لیے مقامی اور بیرونی 203 212 236 احباب زیادہ سے زیادہ تعداد میں اپنے آپ کو پیش کریں 251
خطبه نمبر تاریخ بیان فرموده موضوع خطبہ 32 21 دسمبر 1951 ء تم اپنے مقام کو پہچانو اور جلسہ سالانہ کے ایام ذکر الہی میں خرچ کرو 33 28 دسمبر 1951 ء جمعہ کے دن ایک ساعت ایسی آتی ہے کہ اس میں خدا تعالیٰ مومن کی دعا ضرور قبول فرماتا ہے.آپ میں سے ہر ایک کو اس ساعت کے پانے کی کوشش کرنی چاہیے صفحہ 267 271
$1951 1 (1) خطبات محمود نئے سال میں اپنے کاموں میں نیا جوش پیدا کرو (فرموده 12 جنوری 1951ء بمقام ربوہ) تشہد، تعوّ ذاورسورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: دن آتے بھی ہیں اور جاتے بھی ہیں ، سال شروع بھی ہوتے ہیں اور ختم بھی ہوتے ہیں.بظاہر تو یہ ایک معمولی اور ایک بے اثرسی چیز نظر آتی ہے.ایک تسلسل ہے جس کی ابتدا کو دنیا کا کوئی انسان نہیں جانتا اور ایک تسلسل ہے جس کی انتہا کو دنیا کا کوئی انسان نہیں جانتا ، نہ آج سے دو ہزار سال قبل کے لوگ ہماری حالتوں سے واقف تھے اور نہ آج سے دو ہزار سال بعد کے لوگوں کے حالات سے ہم واقف ہیں بلکہ ہم ان لوگوں سے بھی كَمَا حَقَّهُ واقف نہیں جو آج سے دو ہزار سال قبل گزر چکے ہیں اور جن میں سے بعض کے واقعات زندگی تاریخ میں محفوظ سمجھے جاتے ہیں.بلکہ حقیقت یہ ہے کہ ہم اس زمانہ کے تمام لوگوں کو بھی نہیں جانتے.بلکہ اس زمانہ کے لوگ تو الگ رہے امریکہ، یورپ، چین اور جزائر کے رہنے والے تو ہماری نظروں سے اوجھل ہیں ہم اپنے ملک کے رہنے والوں کو بھی نہیں جانتے بلکہ ملک کے رہنے والوں کا بھی سوال نہیں ہم اپنے شہر کے رہنے والوں کو بھی نہیں جانتے ، ہم اپنے محلہ کے رہنے والوں کو بھی نہیں جانتے ، ہم اپنے گھر کے لوگوں کو بھی نہیں جانتے.بلکہ کوئی سمجھے یا نہ سمجھے حقیقت یہ ہے کہ خاوند اپنی بیوی کو نہیں جانتا اور بیوی اپنے خاوند کو نہیں جانتی.اگر ایسا نہ ہوتا
$1951 2 خطبات محمود یہ واقعات کیونکر ظہور پذیر ہوتے کہ خاوند اپنی بیوی کو قتل کر دیتا ہے اور بیوی اپنے خاوند کوز ہر دے کر مار دیتی ہے.رات کو میاں بیوی دونوں اکٹھے لیٹتے ہیں بیوی اپنے لحاف میں بے خوف لیٹی ہوئی ہوتی ہے اور مجھتی ہے کہ اس کا ایک محافظ یعنی خاوند گھر میں موجود ہے لیکن وہ یہ نہیں جانتی کہ یہی محافظ گنڈا سے سے اس کا سرکاٹ دے گا.ایک خاوند اپنے کام کاج سے فارغ ہو کر خوشی خوشی اپنے گھر میں داخل ہوتا ہے اور وہ خیال کرتا ہے کہ میرے گھر میں ایک محافظہ موجود ہے.بیوی کھانا پیش کرتی ہے ، وہ تھالی اپنی طرف کھینچتا ہے اس خیال سے کہ اس کے گھر کی محافظہ اور بیوی نے کھانا تیار کیا ہے لیکن وہ نہیں جانتا کہ ہر لقمہ جو وہ اٹھاتا ہے وہ کافی مقدار میں زہر اُس کے اندر ڈال رہا ہے جو چند منٹوں میں اس کا خاتمہ کر دے گا.پس بات یہ ہے کہ ہم کچھ بھی نہیں جانتے لیکن پھر بھی ہر سال اپنے ساتھ نئی امنگیں لاتا ہے، ہر نیا دن اپنے ساتھ نئی نئی اور جدید ترین امیدیں لے کر آتا ہے.بعض لوگ ان اُمیدوں اور اُمنگوں کا خیال کرتے ہوئے کچھ عمل بھی کر لیتے ہیں اور بعض لوگ آنکھیں کھولتے ہیں، حیرت کے ساتھ اپنے دائیں بائیں دیکھتے ہیں اور پھر خاموش ہو جاتے ہیں.نہ کوئی تغیر ان کے اندر پیدا ہوتا ہے اور نہ کوئی تبدیلی.سورج چڑھتا ہے اور ڈوب جاتا ہے ، سال آتا ہے اور گزر جاتا ہے اُن کی زندگی محض اُس لکڑی کی سی حیثیت رکھتی ہے جو دریا میں پڑی ہوئی ہو اور لہروں کے ساتھ بہتی جارہی ہو.دریا کی لہر یں اس کے اندر ارتعاش پیدا کرتی ہیں اور دیکھنے والا سمجھتا ہے کہ وہ لکڑی کا نپتی ہے ، وہ لکڑی ہلتی ہے یا وہ لکڑی چلتی ہے لیکن در حقیقت نہ وہ لکڑی کا نپتی ہے، نہ چلتی ہے اور نہ حرکت کرتی ہے وہ صرف دریا کی لہروں سے متاثر ہوتی ہے.اسی طرح وہ انسان ہوتا ہے جس کے اندر نہ ارادہ ہوتا ہے، نہ اس کے اندر قوت عملیہ ہوتی ہے اور نہ اس کے اندر کوئی حرکت ہوتی ہے وہ محض دریا میں بہنے والا ایک لٹھ لکڑی یا گیلی 1 ہے.مگر خدا تعالیٰ مومن سے یہ نہیں چاہتا.وہ انسان کو ایک طرف تو یہ کہتا ہے تم میری صفات پنے اندر پیدا کروح اور دوسری طرف یہ کہتا ہے کہ كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِي شَأْنٍ - 3 تم پر تو سالوں گزر جاتے ہیں لیکن تم اپنا چولہ نہیں بدلتے لیکن میں ہر روز ایک نئی شان میں جلوہ گر ہوتا ہوں.ایک زہریلا سانپ ، زمین میں رینگنے والا کیڑا اور زمین کے اندھیروں میں رہنے والا زہر یلا جانور ہر چھ ماہ کے بعد اپنی پینچلی بدل دیتا ہے.وہ ہر چھ ماہ کے بعد اپنا چمڑا اُتار دیتا ہے اور اپنے آپ کو ایک نیا رنگ
$1951 3 خطبات محمود اور نیا روپ دے دیتا ہے مگر انسان ، ہاں ! وہ انسان جو اشرف الخلوقات کہلاتا ہے سالوں گزرنے کے بعد بھی اپنی کینچلی نہیں اتارتا ، وہ اپنا چمڑا نہیں بدلتا.اس کا سارا شوق یہی ہوتا ہے کہ اپنا پرانا کپڑا بدل ڈالوں حالانکہ کپڑا جسم کا حصہ نہیں ہوتا کپڑا ایک غیر چیز ہے اور غیر چیز کو بدلنے کا کیا فائدہ.لیکن سانپ اپنے جسم کو بدلتا ہے، وہ اپنی کھال اتار کر پھینک دیتا ہے اور ایک نیا وجود بن کر دنیا کے سامنے آ جاتا ہے.بیشک وہ باوجود پیچلی اتار دینے کے زہریلا سانپ ہی رہتا ہے، بیشک وہ زمین میں رینگنے والا ایک جانور ہی رہتا ہے لیکن اس کا اس میں کوئی قصور نہیں کیونکہ خدا تعالیٰ نے اسے اپنی ماہیت بدلنے کی توفیق نہیں دی.یہ طاقت خدا تعالیٰ نے صرف انسان کے اندر ہی رکھی ہے.بہر حال وہ کوشش کرتا ہے کہ بدل جائے لیکن وہ نہیں بدلتا.اس میں اُس کا کوئی قصور نہیں خدا تعالیٰ کا قانون ہے.اس نے کہا ہے کہ وہ نہ بدلے لیکن اس نے جد و جہد نہیں چھوڑی وہ ہر چھ ماہ کے بعد اپنی کھال اتار پھینکتا ہے اور چاہتا ہے کہ بدل جاؤں مگر قانون قدرت کہتا ہے کہ وہ بدل نہیں سکتا.گویا جس چیز کو خدا تعالیٰ بدلنے کے لیے نہیں کہتا وہ اپنے آپ کو بدلنے کی متواتر کوشش کرتی ہے اور جس کو کہتا ہے کہ بدل جا وہ اپنے اندر کوئی تبدیلی پیدا نہیں کرتا.پس آنے والے نئے سال سے تم کیا امید میں رکھ سکتے ہو جب تم اپنے نفس سے کوئی امید نہیں رکھتے.خدا تعالیٰ نے تو فرمایا ہے كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِي شَأْنٍ.وہ ہر نئے وقت میں ایک نئی.حالت میں ہوتا ہے.گویا وہ بتاتا ہے کہ جہاں تک اُس کی ذات کا تعلق ہے وہ ایک نہ بدلنے والی ہستی ہے.لیکن جہاں تک اس کا تمہارے ساتھ تعلق ہے وہ کہتا ہے ہم بھی بدلتے رہتے ہیں اور ہم اس لیے بدلتے رہتے ہیں کہ تم بدلنے والے ہو اور چونکہ تم بدلتے رہتے ہو اس لیے ہم بھی بدلتے رہتے ہیں تا تمہاری نگرانی اور دیکھ بھال کریں.لیکن عجیب بات یہ ہے کہ جس کے لیے خدا تعالیٰ خود بدلتا ہے وہ نہیں بدلتا.گویا خدا تعالیٰ جو نہ بدلنے والی ہستی ہے وہ بھی بدل جاتا ہے تا وہ انسان کے لیے ہر ضرورت کے وقت نیا سامان پیدا کرے.وہ کپڑا بھی بدلتا ہے جس کی طبیعت میں خدا تعالیٰ نے بدلنا نہیں رکھا، وہ خدا بھی بدلتا ہے جو اپنی صفات میں غیر مبدل ہے.گویاز مین بھی بدل جاتی ہے، ایک زہریلا سانپ اور زمین پر رینگنے والا ایک ذلیل جانور بھی بدل جاتا ہے، آسمان بھی بدل جاتا ہے خدا تعالیٰ کہتا ہے كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِي شَأْنٍ.میں انسان کی ہر ضرورت کے لیے نیا سامان مہیا کرنے کے لیے
خطبات محمود 4 $1951 ہر روز بدلتا رہتا ہوں لیکن درمیان میں رہنے والا انسان اپنی جگہ پر کھڑا رہتا ہے.پس آنے والے سال میں تم کوشش کرو کہ اپنی پہلی کینچلیوں کو اتار کر پھینک دو، تم کوشش کرو کہ اشرف الخلوقات ہوتے ہوئے اتنا تو کرو جتنا ایک سانپ کرتا ہے.سانپ ہر چھ ماہ کے بعد اپنی کینچلی تبدیل کر دیتا ہے گو رہتا وہ سانپ ہی ہے لیکن تم اگر بدل جاؤ تو فرشتے بن جاتے ہو اور فرشتے سے مقرب فرشتے بن جاتے ہو.زمانہ اپنے اندر تبدیلی چاہتا ہے اور وہ تم پر منحصر ہے.انبیاء کی جماعتیں ہمیشہ دنیا کا محور ہوا کرتی ہیں اور دنیا محور پر گھومتی ہے.اگر محور حرکت نہیں کرے گا تو دنیا بھی حرکت نہیں کرے گی.دیکھو! ایک محور جتنی جلدی گھوم جاتا ہے اُس کا دائرہ اُتنی جلدی نہیں گھومتا.محور چونکہ ایک چھوٹے مقام پر ہوتا ہے اس لیے وہ بہت جلدی اپنے دورے کو ختم کر لیتا ہے.پس جتنی جتنی حیثیت کسی چیز کو مرکزی مقام میں حاصل ہوتی ہے اتنی اتنی جلدی وہ اپنے دورہ کو ختم کر لیتی ہے اور جتنی جتنی کوئی چیز اپنے مرکزی مقام سے دور چلتی ہے اتنی اتنی اس کے اندر آہستگی پیدا ہو جاتی ہے.یا جب ہم ظاہری قانون کو دیکھتے ہیں تو کہتے ہیں محور ساکن ہوتا ہے اور باقی دنیا چکر لگا رہی ہے.اس کے معنی یہ نہیں کہ محور فی الواقع ساکن ہوتا ہے.وہ چونکہ اپنی ایک ہی حالت پر قائم رہتا ہے اس لیے بظاہر یوں معلوم ہوتا ہے کہ وہ ساکن ہے لیکن وہ ساکن ہوتا نہیں وہ برابر چکر کاٹ رہا ہوتا ہے.اسی طرح مومن کی تبدیلی بھی ہمیشہ ایک ہی رنگ کی ہوتی ہے اور ایک ہی قسم کی چیز بدلی ہوئی نظر نہیں آتی.تم ایک سفید کپڑے کو سرخ رنگ میں ڈال دو تو وہ سرخ ہو جائے گا.اسے دوبارہ سرخ رنگ میں ڈالو تو وہ سرخ کا سرخ رہے گا.ہاں ! اس کی سرخی ذرا تیز ہو جائے گی.اس کپڑے کو اگر تیسری دفعہ سرخ رنگ میں ڈالو تب بھی وہ سرخ ہی رہے گا.ہاں ! تمہارا ایسا کرنا اس کی سرخی میں کچھ زیادتی پیدا کر دے گا.لیکن اسی کپڑے کو اگر تم سبز رنگ میں ڈالو تو اُس کا رنگ بدل جائے گا.رنگ بدلتے ہیں تو وہ ممتاز نظر آتے ہیں لیکن جو ایک ہی رنگ میں سموئے جاتے ہیں اُن کا امتیاز کرنا مشکل ہوتا ہے.مومن بھی ایک ہی رنگ میں سمویا جاتا ہے.وہ صرف صِبْغَةُ الله کو قبول کرتا ہے اور بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس کے اندر کوئی تبدیلی پیدا نہیں ہوتی حالانکہ وہ اپنے اندر پہلے سے زیادہ تبدیلی پیدا کر رہا ہوتا ہے مگر یکرنگ ہونے کی وجہ سے وہ تبدیلی نظر نہیں آتی.پس آپ لوگ اس نئے سال میں اپنی ذمہ داریوں کو سمجھیں، اپنے کاموں میں جوش پیدا
$1951 5 خطبات محمود کریں، نمازوں میں با قاعدگی پیدا کریں اور اپنی تبلیغ کو منظم کریں اور یہ مد نظر رکھیں کہ کون جانتا ہے کہ کس پر کل آئے گا یا نہیں.پس کوشش کریں کہ تمہاری ایک ہی حرکت میں دنیا کے سارے لوگ اسلام قبول کر لیں.بظاہر یہ کام مشکل نظر آتا ہے لیکن تمہارا ارادہ یہی ہونا چاہیے کہ ہر دن جو چڑھتا ہے تمھیں یقین کر لینا چاہیے کہ تم نے اس میں ساری دنیا کو اسلام میں داخل کر لینا ہے.اگر تمہارا ارادہ یہ ہے تو خدا تعالیٰ اس میں برکت ڈالے گا اور اگر تم یہ کہو گے کہ دنیا کے دل کہاں بدلتے ہیں تو تمہارے کام میں تأثیر پیدا نہیں ہوگی.تاثیر ہمیشہ گھبراہٹ اور جذبات کی شدت سے پیدا ہوتی ہے.جب جذبات ایک نقطہ پر جمع ہو جاتے ہیں تو پھر تا ثیر بھی پیدا ہو جاتی ہے.تم ورما 4 کو ہر منٹ کے بعد بدلتے جاؤ تو لکڑی میں سوراخ نہیں ہو گا لیکن جب تم ورما کو ایک جگہ پر رکھو گے تو لکڑی میں سوراخ کر لو گے.اسی طرح جب جذبات ایک جگہ پر اکٹھے ہو جاتے ہیں تو وہ طبائع میں تاثیر پیدا کر دیتے ہیں لیکن جب وہ بدلتے رہتے ہیں تو وہ صرف داغ لگا دیتے ہیں سوراخ پیدا نہیں کرتے.خطبہ ثانیہ کے بعد فرمایا: میں جمعہ کی نماز کے بعد ایک جنازہ پڑھاؤں گا.یہ جنازہ اُمم طاہر مرحومہ کی بڑی ہمشیرہ زینب بیگم صاحبہ کا ہے جو پچھلے دنوں راولپنڈی میں فوت ہو گئی ہیں.جلسہ کے دنوں میں وفات کی خبر آئی تھی اور جمعہ کے دن میرا ارادہ تھا کہ نماز جنازہ پڑھاؤں لیکن اُس دن چونکہ گاڑی آگئی اور دوستوں نے گاڑی پر جانا تھا اس لیے تشویش کی وجہ سے کہ کہیں گاڑی چھوٹ نہ جائے میں نماز جنازہ پڑھانا بھول گیا.اسی طرح حافظ طیب اللہ صاحب بنگالی کی ہمشیرہ فوت ہو گئی ہیں میں اُن کا بھی جنازہ غائب پڑھاؤں گا“.الفضل 22 مارچ 1951 ء ) 1 : گیلی : تنے کی کائی ہوئی گول لکڑی جس سے شہتیر نکلتے ہیں (فیروز اللغات اردو فیروز سنز لاہور ) :2 صِبْغَةَ اللهِ وَمَنْ اَحْسَنُ مِنَ اللهِ صِبْغَةً وَنَحْنُ لَهُ عُبِدُونَ (البقرة: 139) 3: الرحمان : 30 4 ورما ترکھان / لوہار کا سوراخ کرنے والا ہتھیار (پنجابی اردو لغت صفحه 1498 مرتبه تنویر بخاری مطبوعہ لاہور 1989ء)
$1951 6 2 خطبات محمود دُعا کرو کہ اللہ تعالیٰ ان پرفتن ایام میں جماعت کو محفوظ رکھے (فرموده 16 فروری 1951ء بمقام ربوہ) تشهد ، تعو ذاور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: مجھے کل شام سے پھر پاؤں میں درد شروع ہے جس کی وجہ سے زیادہ دیر کھڑا ہونا بہت مشکل ہے.اس لیے میں صرف ایک دومنٹ میں جماعت کو اس امر کی طرف توجہ دلاتا ہوں.جیسا کہ پہلے اعلان کیا گیا تھا آئندہ چالیس دن ہم خاص رنگ کی دعاؤں میں صرف کریں گے.اس لیے جو احباب اس کی اہمیت کو سمجھتے ہیں انہیں اس تحریک میں حصہ لینا چاہیے.اور میں سمجھتا ہوں کہ ایک احمدی کہلانے والے کے لیے یہ فیصلہ کرنا کہ وہ چالیس دن سلسلہ کی ترقی کے لیے بعض مخصوص دعاؤں کی خاطر وقف نہیں کرے گا اس کے یہی معنے ہو سکتے ہیں کہ وہ احمدیت کے ساتھ کوئی دلچسپی نہیں رکھتا.وہ احمدی صرف نام کا ہے اور کام کے لیے خواہ وہ کتنا ہی آسان یا سستا ہو اور ایسا ہو جس کے لیے روپیہ یا وقت صرف نہیں کرنا پڑتا تیار نہیں.بہر حال آئندہ چالیس دنوں میں ہم نے نمازوں پر زور دینا ہے، درود پر زور دینا ہے ، سُبْحَانَ اللهِ وَبِحَمْدِهِ سُبْحَانَ اللهِ الْعَظِیمِ 1 کا ورد کرنا ہے.نماز ہر ایک
$1951 7 خطبات محمود احمدی پڑھتا ہی ہے صرف فرق یہ ہے کہ وہ نماز میں بعض خاص دعائیں کرے.کچھ لوگ تہجد پڑھنے والے ہیں اور کچھ لوگ تہجد پڑھنے والے نہیں.جو لوگ تہجد پڑھنے والے ہیں انہیں یہ دُعا ئیں تہجد میں کرنی ہیں اور جو لوگ تہجد پڑھنے والے نہیں انہوں نے دو نفل دن میں کسی وقت پڑھ کر ان میں یہ دعائیں کرنی ہیں.اور یہ وہ کام ہے جس پر نہ کوئی خرچ آتا ہے اور نہ اس کے لیے کسی الگ تیاری کی ضرورت ہے.زیادہ سے زیادہ دونفل پڑھنے ہوں گے اور اگر دو نفل بھی نہ پڑھے جاسکیں تو کم از کم مفروضہ نمازوں میں ہی یہ دعائیں کی جائیں.بہر حال اس تحریک میں شامل ہونے کی وجہ سے انسان پر کوئی بوجھ نہیں پڑتا.جو شخص یہ کہے گا کہ میں اس تحریک سے باہر رہنا چاہتا ہوں وہ دوسرے الفاظ میں یہ کہتا ہے کہ میں احمدیت میں صرف نام کے طور پر داخل ہونا چاہتا ہوں اس کے لیے کوئی کام کرنے کے لیے تیار نہیں خواہ اس میں مجھے کوئی تکلیف بھی نہ ہو.بعض دوستوں کو شبہ ہوا ہے کہ شاید آئندہ چالیس دنوں میں ربوہ میں خاص طور پر دعائیں ہوں گی یہ غلط ہے.آئندہ چالیس دنوں میں اپنی اپنی جگہ پر بعض خاص دعا ئیں جن کا میں اعلان کر چکا ہوں کی جائیں گی.میں یہ نہیں کہتا کہ اور دعائیں نہ کی جائیں بلکہ میں یہ کہتا ہوں کہ یہ دعائیں خاص طور پر کی جائیں.مثلاً میں نے کہا ہے کہ ان دنوں میں اَللَّهُمَّ إِنَّا نَجْعَلُكَ فِی نُحُوْرِهِمْ وَنَعُوذُ بِكَ مِنْ شُرُورِهِمْ 2 کی دعا خاص طور پر کی جائے یا تسبیح کے وہ کلمات جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے مسنون ہیں اور جن کی احادیث میں خاص طور پر تعریف آئی ہے بار بار دہرائے جائیں اور درود جو دعاؤں کی قبولیت کا ایک ذریعہ ہے کثرت سے پڑھا جائے.ان کے علاوہ اور دعائیں بھی کی جائیں.اگر عربی میں اور دعائیں یاد ہوں تو وہ بھی کی جائیں.اور اگر اپنی زبان میں زیادہ جوش کے ساتھ دعائیں کی جاسکتی ہوں تو اپنی زبان میں بھی دعائیں کی جائیں کہ خدا تعالیٰ ان پرفتن ایام میں جماعت کو محفوظ الی رکھے اور احمدیت کے دشمنوں کو ناکام و نامراد بنادے.میرے اعلان کے مطابق چلہ کا پہلا دن آج سے شروع ہوتا ہے اور یہ چالیس دن تک جائے گا یعنی 27 مارچ تک.اس عرصہ میں روزوں کی بھی تحریک کی گئی ہے اور یہ روزے بھی صاحب توفیق ہی رکھیں گے ہر ایک کو اس کے لیے نہ مجبور کیا جاسکتا ہے اور نہ وہ مجبور ہوتا ہے.پھر اس میں بھی سہولت کر دی گئی ہے کہ جن کے فرضی روزے رہ گئے ہوں وہ انہیں فرض روزے سمجھ لیں اور اگر
$1951 8 خطبات محمود ان میں ناغہ ہو جائے تو جمعرات کے دن روزہ رکھ لیا جائے.اور اگر جمعرات کو بھی روزہ نہ رکھا جا سکے تو بعد میں جب دوسرے لوگ روزے پورے کر چکیں یہ روزے پورے کر لیے جائیں اور یہ سہل ترین طریق ہے.دشمن ہنسے گا اور اس نے ہنسنا شروع کر دیا ہے.چنانچہ اخبارات میں بعض ایسے مضامین شائع ہورہے ہیں کہ احمدیوں نے کیا تیر مارا ہے.لیکن ہمیشہ وہی چیزیں زیادہ فعال اور مؤثر رہی ہیں جن پر بنسی اُڑائی جاتی ہے.زیادہ تاخیر کرنے والی انبیاء کی جماعتیں رہی ہیں اور انبیاء کی جماعتوں کے متعلق خدا تعالیٰ فرماتا ہے يُحَسْرَةً عَلَى الْعِبَادِ مَا يَأْتِيهِمْ مِنْ رَّسُولٍ إِلَّا كَانُوا بِهِ يَسْتَهْزِمون 3 کہ افسوس لوگوں پر کہ ان میں کبھی کوئی رسول نہیں آیا جس پر انہوں نے ہنسی نہ اڑائی ہو اور لوگوں نے یہ نہ کہا ہو کہ لو یہ بھی تیر مارنے آیا ہے.غرض سب سے فعال اور مؤثر جماعت وہی رہی ہے جس پر لوگوں نے ہنسی اڑائی ہے.اگر دشمن کسی جماعت پر ہنستا ہے تو اس کے یہ معنے ہوں گے کہ وہ بھی ان ہتھیاروں میں سے ایک ہتھیار ہے جو ہمیشہ کامیاب ہوتے رہے ہیں کیونکہ جس جماعت پر ہنسی اڑائی جاتی ہے وہ زیادہ کامیاب ہوتی ہے.پس جماعت کے احباب کو زیادہ سے زیادہ تعداد میں اس میں شامل ہونا چاہیے بلکہ کوشش کرنی چاہیے کہ ان میں سے ہر مرد، عورت اور بچہ اس میں شریک ہو.اس پر کچھ خرچ نہیں آتا صرف دل سے ایک آہ نکلنے کی ضرورت ہے جس سے خدا تعالیٰ کا عرش ہل جائے“.الفضل 29 جون 1951 ء ) 1 : صحیح بخاری کتاب التوحید باب قول الله تعالى "وَنَضَعُ الموازين الْقِسْطَ ليوم القيامة 2 : سنن ابی داؤد کتاب الوتر باب ما يقول الرجلُ إِذَا خَافَ قَوْمًا 3 : يس: 31
$1951 9 3 خطبات محمود اپنے اندر ایسی تبدیلی پیدا کرو کہ یہ مخالفت رحمت کا موجب بن جائے (فرموده 23 فروری 1951ء بمقام ناصر آبادسندھ ) تشهد تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: ” مجھے یہاں آکر معلوم ہوا کہ آجکل گاڑیوں کا وقت تبدیل ہو گیا ہے اور اب جو احمد یہ سٹیٹس کی طرف سے گاڑی آتی ہے وہ ایک بج کر پچیس منٹ پر کنجیجی پہنچتی ہے اور پھر اسٹیشن سے یہاں ( ناصر آباد) تک پہنچنے میں بھی دیر لگتی ہے.اس لیے سمجھنا چاہیے کہ باہر سے آنے والے دوست دو بجے تک یہاں پہنچ سکتے ہیں سوائے اُن لوگوں کے جو پیدل چل کر ارد گرد کے مقامات سے یہاں پہلے پہنچ جائیں.اور گو جمعہ کا مناسب وقت تو یہ ہوتا ہے کہ سوا ایک بجے شروع ہو اور دو بجے نماز ختم ہو جائے مگر اس مجبوری کی وجہ سے یہی فیصلہ کیا گیا ہے کہ ان لوگوں کا انتظار کر کے جو گاڑی کے ذریعہ آتے ہیں دو بجے جمعہ شروع کیا جائے.آج تو زیادہ دیر ہوگئی ہے اور اب پونے تین ہیں کیونکہ جولوگ آئے تھے اُن کو پہلے کھانا کھلایا گیا اور اس وجہ سے نماز میں زیادہ دیر ہوگئی.غالبا یہاں ہمارے دو جمعے اور ہوں گے.پس میں دوستوں کی اطلاع کے لیے یہ اعلان کرنا چاہتا ہوں کہ آئندہ دو بجے جمعہ شروع ہوا
$1951 10 خطبات محمود کرے گا تاکہ ڈیڑھ بجے والی گاڑی سے جو دوست آئیں وہ بھی جمعہ میں شریک ہو سکیں مگر گاڑی کے ذریعہ آنے والے مہمانوں کو کھانا جمعہ کے بعد ہی کھلایا جا سکے گا.آج بھی اس لیے دیر ہو گئی کہ تجویز یہ ہوئی تھی کہ جو دوست آئیں اُن کو کھانا پہلے کھلایا جائے.چنانچہ ان کا انتظار کرنے اور ان کو کھانا کھلانے کے بعداب میں جمعہ کے لیے آیا ہوں.اس کے بعد میں دوستوں کو اس امر کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ آجکل ہماری جماعت کی مخالفت بہت زیادہ ترقی کر چکی ہے.ایک خاصا گر وہ مولویوں کا ایسا ہے جن کا کام سوائے اس کے اب کوئی نہیں رہا کہ وہ ہماری جماعت کے خلاف لوگوں میں جوش پھیلا ئیں اور اُن کو فتنہ وفساد پر آمادہ کریں.چنانچہ ہر دوسرے تیسرے دن کسی نہ کسی جگہ سے ان مولویوں کے جلسہ کی اطلاع آ جاتی ہے.جس گاڑی میں میں آ رہا تھا دوستوں نے بتایا کہ اسی گاڑی میں ہی مولوی عطاء اللہ صاحب بخاری سفر کر رہے تھے جو خان پور کے کسی مخالفانہ جلسہ میں شامل ہونے کے لیے آ رہے تھے.اور اس جلسہ کی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ ایک احمدی دوست سے وہاں کے بعض غیر احمدیوں نے باتیں شروع کر دیں.باتیں کرتے کرتے انہوں نے کہا کہ اگر آپ لوگ سچے ہوتے تو قادیان چھوڑ کر آپ کو کیوں باہر آنا پڑتا ؟ اس سوال سے اُن کی غرض در حقیقت شرارت کرنا تھی اور وہ جماعت کے خلاف فساد پھیلانا چاہتے تھے مگر اُس احمدی دوست کا ذہن اس طرف نہیں گیا اور اُس نے اپنی سادگی میں یہ جواب دے دیا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی تو مکہ چھوڑ کر مدینہ تشریف لے گئے تھے.اس پر انہوں نے فوراً شور مچادیا کہ دیکھو! یہ احمدی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہتک کرتے ہیں.ہم اسے ہرگز برداشت نہیں کر سکتے.یہ لوگ اس قابل ہی نہیں ہیں کہ ان کو زندہ رہنے دیا جائے.ان کو مار دینا چاہیے، ان کو جی قتل کر دینا چاہیے اور ان کی جماعت کو مٹا دینا چاہیے.غرض اسی بات پر انہوں نے شورش برپا کر دی اور آخر جماعت کے خلاف ایک بڑا جلسہ کرنے کا فیصلہ کیا اور بڑے بڑے علماء کو بلوایا.مولوی عطاء اللہ صاحب اسی جلسہ کے لیے خان پور جارہے تھے.حالانکہ کسی شخص کو جھوٹا کہنا اور اس کے ثبوت میں ایک ایسی بات پیش کرنا جو بچوں کے ساتھ ہوتی چلی آئی ہے یہ اعتراض کرنے والوں کو خود جھوٹا ثابت کرتی ہے نہ کہ اس شخص کو جس پر اعتراض کیا جارہا ہے.قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ بار بار فرماتا ہے کہ دیکھو! تم رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آر
$1951 11 خطبات محمود کے صحابہ پر اعتراض کرتے ہو حالانکہ پہلے بھی ایسے نبی گزرے ہیں جن میں یہی باتیں پائی جاتیں تھیں.1 پھر اگر تم ان کو سچا سمجھتے ہو تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر تمہیں کیوں اعتراض سوجھتا ہے.مگر معلوم ہوتا ہے اُس زمانہ کے مولوی اِن مولویوں سے زیادہ شریف تھے کیونکہ وہ اس جواب کو سن کر ورنہیں مچاتے تھے کہ دیکھو انہوں نے نبیوں کی ہتک کر دی.یہ اپنی صداقت کے ثبوت میں پہلے نبیوں کی مثالیں پیش کر رہے ہیں.قرآن کریم میں صاف طور پر ذکر آتا ہے کہ مخالف یہ اعتراض کیا کرتے تھے کہ یہ کیسا نبی ہے.یہ تو عام انسانوں کی طرح کھاتا پیتا ہے 2 اور قرآن کریم اِس کا یہ جواب دیتا ہے کہ پہلے نبی بھی کھاتے پیتے تھے اور پہلے نبیوں کے بھی بیوی بچے تھے.اس پر مخالفین نے یہ نہیں کہا کہ تم ہمارے نبیوں کی ہتک کرتے ہو یا تم پہلے انبیاء کے دشمن ہو بلکہ انہوں نے سمجھا کہ جب ان باتوں سے پہلے انبیاء کی نبوت کی نفی نہیں ہوتی تو اس کی نبوت کی نفی کس طرح ہو سکتی ہے.لیکن کی تعجب ہے کہ اس وقت علماء کہلانے والے، مسلمانوں کے گھروں میں پیدا ہونے والے اور قرآن کریم کو پڑھنے والے اس اصول کو سمجھنے سے عاری ہیں اور جب ان کے سامنے پہلے نبیوں کی مثالیں پیش کی جاتی ہیں تو وہ شور مچانے لگ جاتے ہیں کہ احمدی انبیاء کی ہتک کرتے ہیں.یہ بات بتاتی ہے کہ ان علماء کہلانے والوں میں اب ایسے لوگ پیدا ہو چکے ہیں جو قطعی طور پر دیانت اور انصاف کو بھول چکے ہیں اور وہ اُن علماء سے بھی بدتر ہیں جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور دوسرے انبیاء کے مخالف تھے کیونکہ جب اُن کے سامنے قرآن کریم نے یہ دلیل پیش کی کہ دیکھو یہ یہ بات تو پہلے نبیوں میں بھی پائی جاتی تھی تو انہوں نے شور نہیں مچایا کہ مسلمان پہلے انبیاء کی بہتک کرتے ہیں.یہ الگ بات ہے کہ انہوں نے آپ کو مانا یا نہیں مانا اتنی بات تو بہر حال ثابت ہے کہ انہوں نے یہ نہیں کہا کہ قرآن کریم نے پہلے نبیوں کی ہتک کی ہے.آخر جب کسی کی سچائی پر بحث کی جائے گی تو اُس کے ثبوت میں کسی بچے کی ہی مثال دی جائے گی جھوٹے کی نہیں.اور جب جھوٹ کی مثال دی جائے گی تو کسی جھوٹے کی ہی دی جائے گی بچے کی نہیں.مثلاً اگر کوئی مخالف اپنی صداقت کے ثبوت کے طور پر یہ کہتا ہے کہ اگر ہم جھوٹے ہوتے تو ہم پر آسمان کیوں نہ گرا؟ تو ہم اس کے جواب میں اُسے جھوٹوں کی ہی مثال دیں گے اور کہیں گے کہ شدّاد جھوٹا تھا کیا اُس پر آسمان گرا ؟ نمرود جھوٹا تھا کیا اُس پر آسمان گرا؟ فرعون جھوٹا تھا کیا اس پر آسمان گرا؟ ابوجہل جھوٹا تھا کیا اُس پر آسمان گرا؟ اگر اُن پر آسمان نہیں گرا حالا نکہ تم بھی تسلیم کرتے ہو
$1951 12 خطبات محمود کہ وہ جھوٹے تھے تو تم پر آسمان کیوں گرتا ؟ اسی طرح اگر کسی کی صداقت کے ثبوت کے طور پر کوئی بات پیش کی جائے گی تو مثال کے طور پر وہی بات کسی بچے اور راستباز انسان میں بھی ہمیں ثابت کرنی پڑے گی.مثلاً اگر کوئی شخص یہ کہتا ہے کہ فلاں آدمی اپنے دعوی میں کس طرح سچا اور راستباز ہوسکتا ہے جبکہ وہ سارا دن مصلی پر نہیں بیٹھا رہتا؟ تو ہم اسے جواب میں کہیں گے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ اور کون سچا ہو سکتا ہے مگر ہم تو دیکھتے ہیں کہ آپ بھی سارا دن مصلی پر نہیں بیٹھے رہتے تھے بلکہ اور بھی کئی کام کرتے تھے.آپ وعظ ونصیحت بھی کرتے تھے، آپ قضا کا کام بھی کرتے تھے، آپ لڑائیوں میں بھی جاتے تھے، آپ انتظام مملکت بھی کرتے تھے سارا دن آپ مصلی پر نہیں بیٹھے رہتے تھے.غرض جب سچائی کی مثال دی جائے گی تو لازما کسی بچے کا ذکر کیا جائے گا اور جب جھوٹ کی مثال دی جائے گی تو لازما کسی جھوٹے کا ذکر کیا جائے گا.جب کوئی شخص یہ کہے گا کہ یہ سلسلہ کس طرح سچا ہو سکتا ہے اس پر تو فلاں فلاں اعتراض عائد ہوتا ہے؟ تو اس کے جواب میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا بھی ذکر آئے گا اور آپ کے صحابہ کا بھی ذکر آئے گا، حضرت عیسی علیہ السلام کا بھی ذکر آئے گا اور آپ کے حواریوں کا بھی ذکر آئے گا، حضرت موسی علیہ السلام کا بھی ذکر آئے گا اور آپ کے ساتھیوں کا بھی ذکر آئے گا، حضرت ابراہیم علیہ السلام کا بھی ذکر آئے گا اور آپ کے ساتھیوں کا بھی ذکر آئے گا.غرض جو بھی سچا ہو گا اُس کا ذکر آئے گا.مثال کا تو قاعدہ ہی یہی ہے اور مثال تو دی ہی اُس گروہ میں سے جاتی ہے جس کے ساتھ اس کا تعلق ہوتا ہے.اگر ہجرت کرنا قابلِ اعتراض ہے اور اگر ہجرت کرنا اس بات کی علامت ہے کہ ہجرت کرنے والا جھوٹا ہوتا ہے تو ان کو چاہیے کہ جن نبیوں کو وہ سچا مانتے ہیں اور جنہوں نے ہجرت کی اُن کو کی بھی احمدیوں کے لیے چھوڑ دیں اور اُن سے خود تعلق نہ رکھیں.اور اگر وہ تسلیم کرتے ہیں کہ ہجرت کرنا قابل اعتراض نہیں تو پھر ان کا ہم پر ہجرت کے متعلق اعتراض کرنانا دانی نہیں تو اور کیا ہے.قرآن کریم نے تو ہجرت کو نشان کے طور پر پیش کیا ہے اور بتایا ہے کہ ہجرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذلت کا موجب نہیں بلکہ عزت کا موجب ہے.انبیاء سابقین نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت کے متعلق خبر میں دی ہوئی تھیں.اگر آپ ہجرت نہ کرتے اور لوگ پوچھتے کہ پیشگوئیوں میں تو یہ لکھا تھا کہ آنے والا موعود ہجرت کرے گا تو بتاؤ کہ اس نے کب ہجرت کی؟ تو ہم اس کا کیا جواب دیتے؟
$1951 13 خطبات محمود یسعیاہ نبی نے ہزار بارہ سو سال پہلے خبر دیتے ہوئے بتایا تھا کہ عرب میں ایک نبی پیدا ہو گا جو دشمن کے ظلم سے تنگ آ کر بھاگے گا اور قوم اس کا تعاقب کرے گی.اگر آپ ہجرت نہ کرتے اور اگر لوگ آپ کا تعاقب نہ کرتے تو دشمن کہتا کہ تم یہ کہتے ہو کہ یہ وہ نبی ہے جو موعود ہے اور جو پہلے انبیاء کی پیشگوئیوں کے مطابق آیا ہے حالانکہ پہلے نبیوں نے جو پیشگوئیاں کی تھیں اُن میں سے ایک یہ بھی خبر تھی کہ وہ ہجرت کرے گا تو بتاؤ کہ اس نبی نے کب ہجرت کی اور کہاں کی ؟ ایسی صورت میں ہم کیا جواب دیتے اور دشمن کو کس طرح خاموش کرا سکتے ؟ پس آپ کی ہجرت آپ کی عزت کا ثبوت تھی ، آپ کی ہجرت آپ کی سچائی کا ثبوت تھی اور آپ کی ہجرت آپ کے موعود ہونے کا ثبوت تھی.اسی طرح یہ ہجرت اگر کسی اور نبی میں پائی جائے تو یہ اُس کے جھوٹا ہونے کی علامت نہیں ہو گی بلکہ اُس کے سچا ہونے کی علامت ہوگی.اور اس بات کا ثبوت ہوگی کہ اُس کے لیے بھی خدا نے اس کی ہجرت کو ایک عزت کا ذریعہ بنایا ہے اور اس کے لیے بھی خدا نے اس ہجرت کو بزرگی کے اظہار کا ایک ذریعہ بہ ہے.اصل بات تو یہ ہے کہ انسان میں تقوی ہونا چاہیے اور اسے سوچنا چاہیے کہ جو بات وہ کہہ رہا ہے دلیل اس کی کس حد تک تائید کرتی ہے؟ اگر دلیل اُس کی تائید نہ کرتی ہو تو اُسے اپنی اصلاح کرنی چاہیے.وہ غلط دلیل دیتا ہی کیوں ہے؟ اور اگر وہ غلط دلیل دے گا تو خواہ اسے بُرا لگے یا اچھا بہر حال جن لوگوں کی بزرگی کا وہ قائل ہے انہی نیک اور پاک اور بزرگ لوگوں کا اُسے حوالہ دینا پڑے گا تا کہ اسے اپنی غلطی کا احساس ہو.اور جیسا کہ میں نے بتایا ہے قرآن کریم نے خود یہ طریق اختیار کیا ہے اور کئی جگہ دوسرے انبیاء کی مثال دے کر بتایا ہے کہ تمہارا اعتراض درست نہیں.اگر یہ قابلِ اعتراض چیز ہے تو اور انبیاء میں بھی پائی جاتی ہے.اگر اس وجہ سے تم رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو نہیں مانتے تو دوسرے انبیاء کو کیوں مانتے ہو؟ حقیقت یہ ہے کہ یہ بڑے افسوس کا مقام ہے کہ انسان اتنی بات بھی نہ سمجھ سکے کہ جس بات پر وہ اعتراض کر رہا ہے وہ ان لوگوں میں بھی پائی جاتی ہے جن کو وہ سچا سمجھ رہا ہے.پس رونے کا مقام یہ نہیں کہ ایک احمدی نے کیوں کہہ دیا کہ رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم نے ہجرت کی بلکہ رونے کی بات یہ ہے کہ مسلمانوں کو اب اتنا بھی معلوم نہیں کہ ہجرت کرنا کوئی بُری بات نہیں.نہ صرف یہ
$1951 14 خطبات محمود کہ بُری بات نہیں بلکہ ہجرت انبیاء کی سچائی اور اُن کی راستبازی کا ثبوت قرار دی گئی ہے.وہ مسلمان کہلاتے ہیں مسلمانوں کے گھروں میں پیدا ہوئے ہیں، تاریخیں پڑھتے ہیں جن میں ہجرت کا ذکر آتا ہے، حدیثیں پڑھتے ہیں جن میں ہجرت کا ذکر آتا ہے، قرآن پڑھتے ہیں جس میں ہجرت کا ذکر آتا ہے اور پھر ہجرت پر اعتراض کرتے ہیں.اس سے زیادہ مسلمانوں کی بدبختی اور کیا ہوگی کہ ایک چیز کو مان بھی رہے ہیں اور اس پر اعتراض بھی کر رہے ہیں.حالانکہ ہونا یہ چاہیے تھا کہ اگر کسی ناواقف کے منہ سے اعتراض نکلتا بھی تو دوسرا مولوی اُسے نصیحت کرتا کہ تم کیا اعتراض کرتے ہو نبیوں کی ہجرت کرنا تو قرآن کریم اور حدیث سے ثابت ہے مگر کسی کو احساس نہیں کہ وہ دیانت سے کام لے اور اندھا دھند اعتراض کرتے چلے جاتے ہیں.لوگوں کے اخلاق کا اس قدر گر جانا بتا تا ہے کہ ان کی دشمنی اب کمال کو پہنچ چکی ہے.اور جب لوگوں کی دشمنی کمال کو پہنچ جائے تو ہمیشہ انسان کو فکر کرنا چاہیے.کیونکہ لوگوں کی دشمنی دو ہی وجہ سے اپنے کمال کو پہنچا کرتی ہے.یا تو اُس وقت دشمنی کمال کو پہنچتی ہے جب خدا تعالیٰ مومنوں کوکوئی فتح دینے لگتا ہے اور یا اُس وقت دشمنی کمال کو پہنچتی ہے جب خدا تعالیٰ کی طرف سے کوئی عذاب آنے والا ہوتا ہے.گویا یا تو دنیا کو نشان دکھانے کے لیے تمام لوگوں میں ایک جوش پیدا کر دیا جاتا ہے، وہ مخالفت کرتے اور اسے انتہا تک پہنچا دیتے ہیں.مگر پھر خدا تعالیٰ مخالفت کرنے والوں کو تباہ کر کے دنیا پر اپنا نشان ظاہر کرتا اور انہیں بتاتا ہے کہ دیکھو! انہوں نے اتنا جوش دکھایا، اتنی مخالفت کی ، اتنا جتھا بنایا، اتنی تدابیر کیں مگر پھر بھی میں نے ان کو تباہ کر دیا اور مومن بچ گئے.مگر کبھی یہ مخالفت اللہ تعالیٰ کی طرف سے سزا دینے کے لیے پیدا کی جاتی ہے.لوگوں میں جوش پیدا ہوتا ہے اور رفتہ رفتہ وہ اس قدر غلبہ حاصل کر لیتے ہیں کہ دوسرے فریق کو تباہ کر دیتے ہیں.پس جب بھی دشمنی انتہا کو پہنچ جائے انسان کو اپنے نفس پر غور کرنا چاہیے کہ آیا وہ ایسے مقام پر پہنچ چکا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کے لیے غیرت دکھائے اور اس کے دشمن کو تباہ کر دے؟ آیا اس کے اندر اس قدر نیکی پائی جاتی ہے، اس قدر سچائی پائی جاتی ہے، اس قدر خدا تعالیٰ کی محبت پائی جاتی ہے، اس قدر ذکر الہی کی عادت پائی جاتی ہے، اس قدر قر بانی پائی جاتی ہے، اس قدر عبادت پائی جاتی ہے کہ یہ سب کچھ اس لیے ہورہا ہو کہ خدا تعالیٰ اُس کے لیے دنیا کوکوئی نشان دکھانا چاہتا ہے؟ اگر ایسا ہو تو یہ بڑی خوشی کی بات ہے.لیکن اگر یہ نظر آتا ہو کہ ہم میں کمزوریاں پائی جاتی ہیں، ہم نمازوں میں بھی سست ہیں، ہم سیج پر بھی پوری طرح
$1951 15 خطبات محمود قائم نہیں ، ہم ظلم سے بھی دریغ نہیں کرتے ، ہم دھوکا اور فریب سے بھی کام لے لیتے ہیں تو ہمیں سمجھ لینا چاہیے کہ خدا تعالیٰ ایسے لوگوں کے لیے کوئی نشان نہیں دکھایا کرتا.یہ مخالفت شاید ہمیں سزا دینے کے لیے پیدا کی جارہی ہے.پس جماعت کے لیے یہ ایک بڑ المحہ فکریہ ہے.ہم میں سے ہر شخص کو سوچنا چاہیے اور بار بار سوچنا چاہیے کہ ہماری عملی حالت کیا ہے اور یہ مخالفت کیوں انتہا کو پہنچ رہی ہے.آخر آدمیوں سے ہی قوم بنتی ہے.بیشک زید قوم نہیں، بکر قوم نہیں ، عمر قوم نہیں مگر زید، بکر اور عمر مل کر قوم ہیں.الگ الگ دیکھا جائے تو ہر شخص ایک فرد کی حیثیت رکھتا ہے لیکن انہی افراد کے مجموعہ کا نام قوم ہو جاتا ہے.پس ہم میں سے ہر شخص کو اس مخالفت کو دیکھتے ہوئے یہ سوچنا چاہیے کہ کیا اس میں وہ تقوی پایا جاتا ہے جو انسان کو اللہ تعالیٰ کے عذاب سے محفوظ رکھتا ہے؟ کیا اس میں کامل سچائی پائی جاتی ہے؟ کیا وہ فریب تو نہیں کرتا؟ کیا وہ دھوکا بازی سے تو کام نہیں لیتا؟ کیا وہ نمازوں کا پابند ہے؟ کیا وہ انصاف سے کام لیتا ہے؟ کیا وہ خدا تعالیٰ سے سچی محبت رکھتا ہے؟ کیا وہ اسلام کے لیے ہر قسم کی قربانی کرنے کے لیے تیار ہے؟ کیا وہ بنی نوع انسان کا ہمدرد ہے؟ اگر یہ تمام باتیں اس میں پائی جاتی ہیں تو اُسے سمجھ لینا چاہیے کہ اس مخالفت کے ذریعہ خدا تعالیٰ اسے مارنے نہیں لگا کیونکہ اُس نے کوئی ایسا کام نہیں کیا جو خدا تعالی کو ناراض کرنے والا ہو.لیکن اگر افراد قوم میں کثرت ایسے لوگوں کی ہو جو یہ کہیں کہ ہم میں یہ باتیں نہیں پائی جاتیں، نہ ہمارے دلوں میں خدا تعالی کی سچی محبت پائی جاتی ہے، نہ ہم اس کے لیے قربانی کرتے ہیں، نہ ہمارے اندر دین کی خدمت کا کوئی جوش پایا جاتا ہے، نہ ہم نمازوں کے پابند ہیں، نہ ذکر الہی کے عادی ہیں، نہ جھوٹ اور فریب سے بچتے ہیں، نہ ظلم اور فساد سے پر ہیز کرتے ہیں، نہ اخلاق کے معیار پر پورے اترتے ہیں تو پھر انہیں سمجھ لینا چاہیے کہ یہ مخالفت کسی نشان کے ظہور کا پیش خیمہ نہیں ہو سکتی.یہ انہیں گناہوں کی سزا دینے کے لیے پیدا کی جا رہی ہے.اس صورت میں انہیں بہت زیادہ فکر کرنا چاہیے اور اپنی اصلاح کی کوشش کرنی چاہیے.عام حالات میں انسان کا غافل رہنا بعض دفعہ قابل معافی بھی ہو جاتا ہے لیکن اگر سامان ایسے ظاہر ہورہے ہوں جن سے یہ خطرہ ہو کہ یہ سامان شاید ہماری سزا کے لیے پیدا کیے جا رہے ہیں تو اس کے بعد بھی اگر کوئی شخص اپنی اصلاح نہیں کرتا تو اس کے معنے یہ ہیں کہ وہ اپنے آپ کو اور اپنے خاندان اور اپنی قوم کو تباہ کرتا ہے.
خطبات محمود 16 $1951 پس یہ معمولی حالات نہیں.جماعت کو اپنے اندر بیداری پیدا کرنی چاہیے اور اپنی اصلاح کی.کوشش کرنی چاہیے تا کہ اگر کچھ لوگوں کے اعمال کی وجہ سے یہ سزا کا سامان بھی ہو تب بھی وہ اپنے اندر ایسی تبدیلی پیدا کر لیں کہ یہ عذاب رحمت کا موجب بن جائے.جیسے یوناہ نبی کے زمانہ میں ہوا کہ خدا تعالیٰ نے یوناہ نبی کی قوم پر اپنا عذاب نازل کرنا چاہا مگر جب اُس قوم نے اپنی اصلاح کی اور توبہ اور گریہ و زاری سے کام لیا تو وہی عذاب اُس کے لیے رحمت بن گیا 3.پس ایسا بھی ہو جاتا ہے کہ عذاب آتے ہیں مگر وہ انسانوں کے لیے رحمت بن جاتے ہیں.اسی لیے میں نے یہ تحریک کی ہے کہ ان دنوں اپنی کامیابی اور دشمن کی ناکامی کے لیے متواتر دعائیں کی جائیں اور ہر پیر کے دن روزہ رکھا جائے تا کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے اگر کوئی خرابی یا نقصان اس وقت ہمارے لیے مقدر ہو تب بھی اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے اس کو بدل دے، ہمیں طاقت اور غلبہ عطا فرمائے اور ہمارے دشمنوں کو اُن کی کوششوں میں ناکام بنادے.( الفضل 4 مارچ 1951ء) :1 : مَا يُقَالُ لَكَ إِلَّا مَا قَدْ قِيْلَ لِلرُّسُلِ مِنْ قَبْلِكَ (حم السجده: 44) 2: وَمَا أَرْسَلْنَا قَبْلَكَ مِنَ الْمُرْسَلِينَ إِلَّا إِنَّهُمْ لَيَأْكُلُوْنَ الطَّعَامَ (الفرقان: 21) 3 : یوناہ باب 3 آیت 1 تا 10
$1951 17 4 خطبات محمود خلافت ایک عظیم الشان نعمت ہے جو اس زمانہ میں مسلمانوں کو احمدیت کے ذریعہ دی گئی ایک دوسرے سے ملنا اور مرکزی مقامات میں جمع ہونا بہت بڑے فوائد رکھتا ہے (فرمودہ 2 مارچ 1951ء بمقام ناصر آبادسندھ ) تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: مجھے اس دفعہ یہ دیکھ کر خوشی ہوئی کہ سندھ کی جماعتوں میں یہ احساس پیدا ہوا ہے کہ وہ میرے اس دورہ کے موقع پر یہاں آئیں اور جمعہ کی نماز اس جگہ ادا کریں.چنانچہ دونوں جمعوں میں مختلف اطراف سے جماعت کے احباب جمعہ کی نماز کے لیے یہاں آئے ہیں جو ایک خوشکن امر زندہ قوموں کے اندر کچھ زندگی کی علامتیں ہوتی ہیں اور وہ علامتیں ہی یہ بتاتی ہیں کہ ان کے اندر زندگی کی روح پائی جاتی ہے.وہ علامتیں نہ ہوں تو ان کا زندہ ہونا ایک مشتبہ امر ہوتا ہے.کیونکہ قومی زندگی انسانی زندگی کی طرح نہیں کہ ہم کسی کو سانس لیتا دیکھیں تو سمجھیں کہ وہ زندہ ہے، چلتے پھرتے دیکھیں تو سمجھیں کہ وہ زندہ ہے.قومی زندگی کی علامتیں فردی زندگی سے مختلف ہوتی ہیں.قومی زندگی کی علامتوں میں ترقی کی نیت اور امنگ اور امیدیں اور اصلاح کی طرف توجہ اور جماعتی روح اور نظام کی
$1951 18 خطبات محمود روح وغیرہ شامل ہیں اور یہی چیزیں قومی زندگی کی علامت ہوتی ہیں.جس طرح فردی زندگی کی کی علامتوں میں دیکھنا سننا، بولنا، کھانا، سانس لینا اور فیصلے کا خارج کرنا ہے اور ان علامتوں کو دیکھ کر ہم سمجھ لیتے ہیں کہ ایک چیز زندہ ہے.اسی طرح جب ہم کسی جماعت کے اندر یہ دیکھتے ہیں کہ اُس میں ترقی کا احساس پایا جاتا ہے، جب ہم دیکھتے ہیں کہ جماعت کے قیام کے لیے اُس میں قربانی کا احساس پایانی جاتا ہے، جب ہم دیکھتے ہیں کہ اپنی تنظیم کو مضبوط کرنے اور اسے زیادہ سے زیادہ نمایاں کرنے کا احساس اس میں پایا جاتا ہے، جب ہم دیکھتے ہیں کہ اس کے ایک حصہ پر جب حملہ ہوتا ہے تو باقی سارا حصہ اُس کی اذیت کو محسوس کرتا ہے اور جب ہم دیکھتے ہیں کہ سب کے سب افراد ایک مرکز کی طرف مائل ہیں جو اسلام میں خلیفہ ہوتا ہے.جس طرح جسم کے حصے دل کی طرف جھکے ہوئے ہوتے ہیں تو ان علامتوں کو دیکھ کر ہم سمجھ لیتے ہیں کہ اس جماعت میں زندگی کا مادہ پایا جاتا ہے بلکہ اصل زندگی تو ہی الگ رہی جو تو میں صداقت سے دور ہیں اور جن میں صرف ایک مصنوعی زندگی پائی جاتی ہے وہ بھی بعض دفعہ بڑی بڑی قربانی کرتی نظر آتی ہیں.پچھلے دو سال میں دو دفعہ سر آغا خان کراچی آئے ہیں.مجھے یہ دیکھ کر حیرت ہوئی کہ گلگت سے جو ہزاروں میل پر ہے آغا خانی مذہب کے لوگ چل کر کراچی پہنچے اور آغا خان سے ملے.اُن میں ایسے طبقہ کے لوگ بھی تھے جو د نیوی لحاظ سے بہت بڑے سمجھے جاتے ہیں.چنانچہ دو تو نواب ہی تھے جو گلگت سے کراچی آئے.اس دفعہ بھی اُن کے آنے پر میں نے دیکھا ہے کہ اخباروں میں لکھا تھا کہ سینکڑوں میل سے لوگ ان سے ملنے کے لیے آئے ہیں.اب آغا خانیوں میں جان تو نہیں.ایک انسان کو خدا ماننے والوں یا دنیا میں اسے خدائی کا قائم مقام ماننے والوں میں حقیقی زندگی کہاں ہوسکتی ہے.مگر جو سیاسی زندگی ہے وہ ان میں پائی جاتی ہے اور وہ جانتے ہیں کہ ہمارے جتھے کی تقویت کا ذریعہ یہی ہے کہ ہم ایک شخص کے پیچھے چلیں.اور وہ بعض دفعہ ایسا مظاہرہ بھی کرتے ہیں جس سے وہ دنیا پر یہ ظاہر کرنا چاہتے ہیں کہ ہم ایک ہاتھ پر جمع ہیں گو وہ ہاتھ تسکتی ہی کیوں نہ ہو اور گو وہ ہاتھ ایسے غلط عقیدہ کے ساتھ وابستہ ہی کیوں نہ ہو جسے انسان کی فطرت کبھی مان نہیں سکتی.تو زندگی کے آثار میں سے جماعتی احساس بھی ہوتا ہے.اور جماعتی احساس کا ثبوت جیسا کہ اسلام نے بتایا ہے ہمیشہ ایک مرکز کے ساتھ تعلق رکھنے کے ذریعہ ملتا ہے.جب تک مرکز کے ذریعہ وحدت قائم رہتی ہے ترقی ہوتی
$1951 19 خطبات محمود ا چلی جاتی ہے اور جب مرکز سے تعلق کمزور ہو جاتا ہے تو قو میں گرنے لگ جاتی ہیں.جیسے پہاڑوں پر چڑھائی مشکل ہوتی ہے لیکن جب لوگ کسی پہاڑ پر چڑھنا چاہیں تو اپنی مدد کے لیے کھڈ سٹک پکڑ لیتے ہی ہیں.پھر اور مشکل پیش آئے تو درختوں کی شاخیں پکڑ لیتے ہیں.اور زیادہ خطرناک راستے آ جائیں تو وہاں واقف کار لوگ میخیں گاڑ کر اُن کے ساتھ رستے باندھ دیتے ہیں تا کہ اُن کا سہارا لے کر لوگ اوپر چڑھ سکیں یا جہاں ایسی سیڑھیاں آجائیں جن سے گرنے کا خطرہ ہو وہاں میخوں کے ساتھ لوگوں نے رستے باندھے ہوئے ہوتے ہیں جن کے سہارے لوگ اوپر چڑھ جاتے ہیں.اسی طرح مرکز کمزوروں اور گرنے والوں کے لیے ایک سہارا ہوتے ہیں اور وہ لوگ جو اپنے اندر کمزوری محسوس کرتے ہیں مرکز کے رستوں کو پکڑ کر مضبوطی حاصل کر لیتے ہیں.اسی لیے قرآن کریم نے خلافت کو رحمت قرار دیا ہے اور مومنوں کے ساتھ اُس نے خلافت کا وعدہ کیا ہے 1 مگر ساتھ ہی فرمایا ہے کہ یہ انعام ہے.اور انعام کے وعدے اور حکم میں فرق ہوتا ہے.حکم بہر حال چلتا چلا جاتا ہے اور انعام صرف اُس وقت تک رہتا ہے جب تک انسان اُس کا مستحق سمجھا جاتا ہے.جب مستحق نہیں رہتا تو انعام اُس سے واپس لے لیا جاتا ہے.چنانچہ دیکھ لو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد صرف چار خلافتیں ہوئیں مگر عیسائیوں کی خلافت آج تک قائم ہے.اسلامی خلافت کا زمانہ صرف تمہیں سال تک رہا اور عیسائیوں کی خلافت پر انیس سو سال گزر چکے ہیں اور وہ ابھی تک قائم ہے.بیشک جہاں تک روحانیت کا سوال ہے ان کی خلافت کا روحانیت سے کوئی تعلق نہیں کیونکہ جب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آگئے اور انہوں نے آپ کو نہیں مانا تو وہ ایمان سے خارج ہو گئے اور کافروں میں شامل ہو گئے.اسی طرح جہاں تک نیکی کا سوال ہے وہ بھی ان میں نہیں پائی جاتی.اگر ان میں نیکی ہوتی تو لوٹ کھسوٹ اور کینہ اور کپٹ اور ناجائز تصرف اور دباؤ وغیرہ کی عادتیں ان میں کیوں پائی کی جاتیں.لیکن جہاں تک عیسائیت کو قائم رکھنے کا سوال ہے یہ خلافت اس کو قائم رکھنے کا ایک بہت بڑا ذریعہ ثابت ہوئی ہے اور اسی وجہ سے آج بھی عیسائی کروڑوں کروڑ روپیہ عیسائیت کی اشاعت کے لیے خرچ کر رہے ہیں.بظاہر ان کا مرکز اپنی طاقت کو کھو چکا ہے.چنانچہ پہلے بادشاہت بھی پوپ کے ساتھ ہوا کرتی تھی مگر آہستہ آہستہ بادشاہتیں الگ ہو گئیں اور اب محض چند میل کا علاقہ ادب کے طور پر پوپ کے لیے چھوڑ دیا جاتا ہے تا کہ اس علاقہ میں وہ اپنے آپ کو حاکم سمجھ لے.پانچ دس میل لمبا
$1951 20 20 خطبات محمود اور پانچ سات میل چوڑا علاقہ غالبا ہے جس میں پوپ کی حکومت ہے.بلکہ اسے حکومت بھی نہیں کہنا ہے چاہیے دفاتر کا نظام اُس جگہ قائم ہوتا ہے اور جہاں سارے اپنے ہی کا رکن ہوں وہاں حکومت کا سوال ہی نہیں ہوتا.بہر حال صرف چند میل کا علاقہ ہے جو عیسائیوں نے محض پوپ کے ادب کے لیے آجکل چھوڑ رکھا ہے مگر اُس کی طاقت کا یہ حال ہے کہ اب بھی عیسائی دنیا پوپ کی ناراضگی کو برداشت نہیں کر سکتی.دنیا میں کمیونزم ترقی کر رہا ہے، عیسائی دنیا گھبرا رہی ہے اور بڑے بڑے یورپین مد بر کمیونزم کی ترقی سے کانپ رہے ہیں اور وہ چاہتے ہیں کہ اس کا مقابلہ کریں.اور وہ یہ بھی محسوس کرتے ہیں کہ مذاہب کا اتحادہی وہ اکیلی چیز ہے جس سے کمیونزم کا مقابلہ کیا جاسکتا ہے.ان کی سیاستیں بالکل کھو کھلی ہو چکی ہیں ان کی حکومتیں بالکل بیکار ہو چکی ہیں.اس لیے کہ حکومتوں کا زور تلواروں اور بندوقوں پر ہوتا ہے اور کمیونزم لوگوں کے دلوں میں کھس رہی ہے.اور چاہے کتنی بڑی تو پیں ہوں جب کوئی بات دل پر اثر کر جائے تو تو ہیں اُس کا مقابلہ نہیں کرسکتیں.امریکہ کے پاس اس وقت کتنی بڑی بڑی تو ہیں ہیں لیکن فرض کر وامریکہ کا پریذیڈنٹ کمیونزم کا لٹریچر پڑھتا ہے اور وہ کمیونزم کا شکار ہو جاتا ہے تو تو ہیں کیا کر سکتی ہیں.پس کمیونزم دلوں پر حملہ کر رہی ہے اور حکومتیں دلوں پر حملہ نہیں کر سکتیں.صرف مذہب ہی ہے جو انسان کے دل پر اثر کرتا ہے اور اس وجہ سے مذہب ہی کمیونزم کا صحیح طور پر مقابلہ کر سکتا ہے.چنانچہ اب دنیا میں عام طور پر یہ تسلیم کیا جاتا ہے کہ کمیونزم کا اگر مقابلہ کیا جاسکتا ہے تو مذہب ہی کے ذریعہ سے.مگر عیسائیت اب اتنی بدنام ہو چکی ہے کہ اگر وہ ایشیا کی خیر خواہی کے لیے بھی کوئی بات کہے تو لوگ اسے کہتے ہیں اچھا! اب ہماری خیر خواہی کا جبہ پہن کر تم ہمیں دھوکا دینے لگے ہو؟ ہم تمہارے اس فریب میں آنے کے لیے تیار نہیں.چونکہ پادری کا بجبہ عیسائی سیاست کے ساتھ ہمیشہ وابستہ رہا ہے اور جہاں انگریز کی توپ گئی وہاں پادری کا جبہ بھی جا پہنچا اس لیے اب خواہ وہ کسی اور نیت سے اُن کے سامنے آئیں لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ ایک دھوکا اور فریب کا جبہ ہے اور اپنی سیاست قائم کرنے کے لیے ہماری خیر خواہی کا اظہار کیا جارہا ہے.اور پھر جن ملکوں کے متعلق یہ خطرہ ہے کہ وہ کہیں کمیونزم کے اثر کو قبول نہ کر لیں اُن میں عیسائی کم ہیں اور دوسرے مذاہب کے لوگ بہت زیادہ ہیں.ان ممالک میں تو یوں بھی عیسائی پادریوں کا کوئی اثر نہیں ہو سکتا.مثلاً اگر ہندوؤں میں کھڑے ہو کر کوئی پادری
$1951 21 خطبات محمود یہ کہے کہ انجیل میں یوں لکھا ہے یا تو رات میں یوں آتا ہے تو لوگوں پر اس کا کیا اثر ہو گا ؟ وہ یہی کہیں گے کہ ہم تو انجیل اور تو رات کو مانتے ہی نہیں ہمارے سامنے ان باتوں کے بیان کرنے کا فائدہ کیا ہے؟ ہندوؤں میں وہی شخص کامیاب ہو سکتا ہے جو ہندو مذہب کے لٹریچر اور ویدوں کے حوالہ جات کو پیش کر کے بات کرے.اور مسلمانوں میں وہی شخص مقبول ہو سکتا ہے جو قرآن کریم اور حدیث سے مسائل بیان کرے.اور بدھوں میں وہی شخص مقبول ہو سکتا ہے جو بدھ مذہب کے لٹریچر سے اپنی باتیں نکال کر پیش کرے.پس کمیونزم کے مقابلہ کی صرف یہی صورت ہو سکتی ہے کہ عیسائی بھی ، ہندو بھی اور مسلمان بھی اور بدھ بھی اور زرتشتی بھی سب کے سب جمع ہو جائیں اورمل کر کمیونزم کا مقابلہ کریں.اگر تمام مذاہب کے ماننے والے جمع ہو جائیں اور اپنے اپنے عقائد کے مطابق اپنے ہم خیال لوگوں کو مخاطب کریں مانی تو یقیناً ہندو بھی سنے گا اور عیسائی بھی سنے گا اور مسلمان بھی سنے گا اور بدھ بھی سنے گا کیونکہ وہاں سیاست کا کوئی سوال نہیں ہوگا.وہاں ہر شخص یہی کہے گا کہ ہمارا مذ ہب ہمیں یہ تعلیم دیتا ہے اور کمیونزم اس کے خلاف ہے.دوسری طرف اس کے نتیجہ میں کمیونزم کو بھی اپنے حملہ کا رُخ بدلنا پڑے گا.اب تو کمیونزم یہ کہتی ہے کہ ہم صرف سیاست کے خلاف ہیں.وہ ہے تو مذہب کے خلاف بھی مگر وہ اس کا ذکر نہیں کرتی.جھتی ہے کہ جب حکومت ہمارے ہاتھ میں آ جائے گی تو مذہب کو خود بخود مٹا ڈالیں گے فی الحال حکومتوں کو توڑنا ہمارا کام ہے.مثلاً وہ سمجھتے ہیں کہ سر دست ہم نے خدانخواستہ پاکستان کی حکومت کو توڑنا ہے، ہم نے ہندوستان کی حکومت کو توڑنا ہے.ہم نے افغانستان کی حکومت کو توڑنا ہے، ہم نے یورپین حکومتوں کو تو ڑنا ہے، چین کی حکومت کو تو وہ تو ڑ ہی چکے ہیں.جب تمام حکومتیں ٹوٹ گئیں تو مذہب کے لیے کوئی جگہ نہیں رہے گی کیونکہ جہاں اُن کا غلبہ ہوا وہاں نہ کوئی مذہب کا نام لے سکے گا نہ اُس پر عمل کر سکے گا اور نہ اُس کی اشاعت کے لیے کوئی کوشش کر سکے گا.یہ سکیم ہے جس کے ماتحت کمیونزم اپنے کام کو وسیع کرتا چلا جارہا ہے.مگر مذہبی لوگ خاموش بیٹھے ہیں اور وہ سمجھتے ہیں کہ ہمارا اس سے کیا واسطہ، کمیونسٹ تو صرف سیاست کے خلاف ہیں.اُن کی مثال بالکل ایسی ہی ہے جیسے کوئی شخص دیکھے کہ ایک دشمن کسی بچے کو مار رہا ہے تو وہ اس خیال سے خاموش بیٹھا رہے کہ یہ کسی اور کا بچہ ہے
$1951 22 خطبات محمود مگر جب وہ مر جائے تب اُسے پتا لگے کہ یہ تو میرا ہی بچہ تھا.وہ بھی اس وقت بالکل خاموش بیٹھے ہے اور سمجھتے ہیں کہ ہمیں اس جھگڑے سے کیا واسطہ، یہ تو ایک سیاسی جھگڑا ہے.لیکن اگر سارے کے سارے لوگ کھڑے ہو جائیں اور وہ کہیں کہ یہ دہریت کی تعلیم دینے والے، یہ انبیاء کو جھوٹا اور فریبی کہنے والے، یہ الہام اور وحی کا انکار کرنے والے، یہ الہامی کتابوں کو جھوٹا کہنے والے، یہ خدا اور اُس کے رسولوں کا نام دنیا سے مٹانے والے ہمارے دشمن ہیں اور ہمارا فرض ہے کہ ہم سب مل کر اس کا مقابلہ کریں تو لازماً کمیونزم کو بھی مذہب کا مقابلہ کرنا پڑے گا اور جب وہ مذہب کا مقابلہ کرے گی تو وہ لوگ بھی جو اپنے آپ کو پہلے بے تعلق سمجھا کرتے تھے اس لڑائی میں شامل ہو جائیں گے اور یہ لڑائی تلوار سے ہٹ کر دلیل کی طرف آ جائے گی اور اس میں کمیونزم کا شکست کھا جانا ایک قطعی اور یقینی چیز ہے.یہ ایک اتنی موٹی بات ہے کہ یورپ کے تعلیم یافتہ تو الگ رہے ہندوستان اور افغانستان کے جاہل اور غیر تعلیم یافتہ لوگ سمجھ سکتے ہیں کہ مقابلہ کا اصل طریق یہی ہے مگر وہ کیوں ایسا نہیں کرتے ؟ ابھی پچھلے دنوں اُن کے بعض نمائندے کراچی آئے جن کے سامنے ہمارے بعض دوستوں نے یہی بات پیش کی اور اُن سے کہا کہ کیا آپ اتنی موٹی بات بھی نہیں سمجھ سکتے کہ آپ لوگ سیاسی لڑائی کر رہے ہیں حالانکہ سیاسی لڑائی میں آپ کا پہلو کمزور ہے کمیونزم کا اصل حملہ مذہب پر ہے.باقی سب درمیانی راستے ہیں جو انہوں نے اپنے لیے بنائے ہوئے ہیں.اور مذہب کے خلاف اُن کا حملہ ویسا ہی عیسائیت پر ہے جیسے اسلام پر ہے یا جیسے ہندو مذہب پر ہے یا جیسے بدھ ازم پر ہے یا جیسے دنیا کے اور مذاہب پر ہے.اور جب حالت یہ ہے تو آپ تمام مذاہب والوں سے یہ اپیل کیوں نہیں کرتے کہ مسلمان بھی اور ہندو بھی اور بدھ بھی اور عیسائی بھی سب مل کر کمیونزم کا مقابلہ کریں.یو.این.او کے ان نمائندوں نے جو امریکن تھے اور لاہور آئے ہوئے تھے ہماری جماعت کے دوستوں سے کہا کہ ہم یہ خوب سمجھتے ہیں اور ہم جانتے ہیں کہ کمیونزم سے مقابلہ کا سہل طریق یہی ہے کہ تمام مذاہب کو متحد کیا جائے مگر مصیبت یہ ہے کہ اس طرح پوپ ناراض ہو جاتا ہے اور ہم اُس کا مقابلہ نہیں کر سکتے.یہ مثال میں نے اس لیے دی ہے کہ باوجود اس کے کہ عیسائیت کی خلافت اب محض ایک ڈھانچہ رہ گئی ہے اور وہ اپنی پہلی طاقت کو بالکل کھو چکی ہے پھر بھی عیسائیوں پر اس کا اتنا اثر.سے
$1951 23 خطبات محمود کہ وہ پوپ کی ناراضگی کو برداشت نہیں کر سکتے.وہ اپنی ہلاکت دیکھ رہے ہیں، وہ اپنی تباہی دیکھ رہے ہیں، وہ اپنی بربادی دیکھ رہے ہیں مگر یہ جرات نہیں کر سکتے کہ پوپ کی رضامندی کے خلاف کوئی قدم اٹھا ئیں.تو دیکھو ایک جتھے کا نتیجہ کتنا عظیم الشان ہوتا ہے اور اس میں کتنی بڑی طاقت پائی جاتی ہے.اسلام کا جتھا تو ایک زندہ جتھا ہے اور اسلام جس نظام کو قائم کرتا ہے اس کی بڑی غرض یہ ہے کہ روحانیت کو قائم کیا جائے ، اخلاق کو درست کیا جائے اور ذاتی منافع پر قومی منافع کو ترجیح دی جائے وہ وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَى 2 کی تعلیم دیتا ہے.وہ اس لیے جتھا بنانے کی تعلیم نہیں دیتا کہ ذاتی فوائد حاصل کیے جائیں بلکہ وہ اس لیے جتھا بندی کی تعلیم دیتا ہے تا کہ تمام انسان مل کر نیکی اور تقوای پر قائم رہیں.اور یہ نعمت اللہ تعالیٰ نے اس زمانہ میں مسلمانوں کو احمدیت کے ذریعہ دی ہے.اور اُس نے پھر ایک خلافت کا سلسلہ قائم کیا ہے جس کے ذریعہ وہ مسلمانوں کا ایک ایسا جتھا بنانا چاہتا ہے جو مل کر کفر کا مقابلہ کریں.یہ چیز بظاہر بہت حقیر نظر آتی ہے ، بظاہر بہت کمزور نظر آتی ہے اور دشمن یہ سمجھتا ہے کہ ہم جب چاہیں احمدیت کو کچل سکتے ہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ دنیا کے پردہ پر جو ساٹھ کروڑ کے قریب مسلمان ہیں اُن کو وہ نعمت حاصل نہیں جو ہماری چھوٹی سی جماعت کو حاصل ہے اور وہ ان تمام فوائد سے محروم ہیں جو اس چھوٹی سی جماعت کو خلافت کی وجہ سے حاصل ہورہے ہیں.مثلاً تبلیغ کو ہی لے لو.یہی چیز ہے جسے ہم مخالف کے سامنے پیش کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ دیکھو ! ہم ساری دنیا میں تبلیغ اسلام کر رہے ہیں مگر تم نے کبھی غور کیا کہ یہ تبلیغ کس طرح ہو رہی ہے؟ پی تبلیغ محض خلافت کی وجہ سے ہو رہی ہے.ایک مرکز ہے جس کے ماتحت وہ تمام لوگ جن کے دلوں میں اسلام کا درد ہے اکٹھے ہو گئے ہیں اور اجتماعی طور پر اسلام کے غلبہ اور اس کے احیاء کے لیے کوششیں کر رہے ہیں.وہ بظاہر چند افراد نظر آتے ہیں مگر اجتماعی طور پر ان میں ایسی قوت پیدا ہوگئی ہے کہ وہ بڑے بڑے اہم کام سرانجام دے سکتے ہیں.جس طرح آسمان سے پانی قطروں کی صورت میں گرتا ہے پھر وہی قطرے دھاریں بن جاتے ہیں اور وہی دھار میں ایک بہنے والے دریا کی شکل اختیار کر لیتی ہیں اسی طرح ہمیں زیادہ سے زیادہ طاقت اور شوکت حاصل ہوتی چلی جاتی ہے ورنہ ہمارے احمدی جہاں تک ہمیں معلوم ہے پاکستان اور ہندوستان میں اڑھائی تین لاکھ سے زیادہ نہیں.اور مسلمان ساری دنیا میں
$1951 24 خطبات محمود ساٹھ کروڑ ہیں.ساٹھ کروڑ اور اڑھائی تین لاکھ کی آپس میں کوئی بھی تو نسبت نہیں.اس کے معنے بیہ ہیں کہ وہ ہم سے دو ہزار چار سو گنے زیادہ ہیں.اور پھر یہ زیادتی تو تعداد افراد کے لحاظ سے ہے مالی طاقت اور وسعت کو دیکھا جائے تو وہ ہم سے کئی گنا بڑھ کر ہیں.ہم ایک غریب جماعت ہیں اور وہ پنے ساتھ بادشاہتیں رکھتے ہیں.اس لحاظ سے تو در حقیقت وہ ہم سے دس گنا بڑھ کر ہیں.لیکن اگر کم سے کم ان کی طاقت کو ہم دو گنا بھی فرض کر لیں تو اس کے معنے یہ بنتے ہیں کہ غیر احمدیوں کی طاقت ہم سے پانچ ہزار گنا زیادہ ہے یعنی ہماری جماعت اگر تبلیغی مشنوں پر پانچ لاکھ روپیہ خرچ کرتی ہے تو مسلمانوں کو اڑھائی ارب روپیہ خرچ کرنا چاہیے.گویا مسلمانوں کی ہمارے مقابلہ میں اگر محض دُگنی طاقت ہو جو کسی صورت میں بھی درست نہیں ان کا مال اور ان کی دولت یقیناً بہت زیادہ ہے.بلکہ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان میں بھی بعض ایسے مسلمان تاجر موجود ہیں جو اکیلے اکیلے ہماری جماعت کی تمام جائیداد خرید سکتے ہیں.پس در اصل تو ان کی مالی طاقت فرد فرد کی نسبت سے ہم سے کئی گنا زیادہ اوی ہے.لیکن اگر دُگنی بھی فرض کی جائے تب بھی اڑھائی ارب روپیہ سالانہ انہیں تبلیغ کے لیے خرچ کرنا چاہیے لیکن وہ اڑھائی لاکھ بھی خرچ نہیں کرتے.اس کی وجہ کیا ہے؟ اس کی وجہ محض یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تمہیں خلافت کی نعمت عطا کی ہے جس سے وہ لوگ محروم ہیں.اس خلافت نے تھوڑے سے احمد یوں کو بھی جمع کر کے انہیں ایسی طاقت بخش دی ہے جو منفر دانہ طور پر کبھی حاصل نہیں ہوسکتی.یوں تو ہر جماعت میں کمزور بھی ہوتے ہیں اور ایسے طاقتور بھی ہوتے ہیں جوا کیلے تمام بوجھ کو اُٹھا لیں مگر تمام افراد کو ایک رہتی سے باندھ دینا محض مرکز کے ذریعہ ہوتا ہے.مرکز کا یہ فائدہ ہوتا ہے کہ وہ کمزور کو گرنے نہیں دیتا اور طاقتور کو اتنا آگے نہیں نکلنے دیتا کہ دوسرے لوگ اُس کے مقابلہ میں حقیر ہو جائیں.اگر مرکز نہیں ہوگا تو کمزور گرے گا.اور اگر مرکز نہیں ہوگا تو طاقتور اتنا آگے نکل جائے گا کہ باقی لوگ سمجھیں گے یہ آسمان پر ہے اور ہم زمین پر ہیں ، ہمارا اور اس کا آپس میں واسطہ ہی کیا ہے.لیکن نظام اسلامی میں آکر وہ ایسے برابر ہو جاتے ہیں کہ بعض مواقع پر امیر اور غریب میں کوئی فرق ہی نہیں رہتا.مثلاً ہماری مجلس شورای ہے.اس میں ہماری جماعت کا چوٹی سے چوٹی کا عالم بھی ہوتا ہے، بڑی سے بڑی دنیوی پوزیشن کا آدمی بھی ہوتا ہے اور ایک غریب سے غریب آدمی بھی ہوتا ت ہے جس کے بدن پر پورے کپڑے بھی نہیں ہوتے.اور ہم نے بسا اوقات دیکھا ہے کہ بڑی بڑی
$1951 25 25 خطبات محمود علمیت رکھنے والے اور دنیوی لحاظ سے بڑی حیثیت رکھنے والے میدان ہار جاتے ہیں اور ایک غریب آدمی معقول باتوں کی وجہ سے میدان جیت لیتا ہے.غرض جماعت کی باگیں چونکہ ایک مرکز کے ہاتھ میں ہیں اس لیے کمزور کو کھینچ کر آگے کر دیا جاتا ہے اور طاقتور کو کھینچ کر پیچھے کر دیا جاتا ہے تا کہ وہ اپنے باقی ساتھیوں کے ساتھ چلے اور طاقتور اور کمزور میں غیر معمولی تفاوت پیدا نہ ہو جائے.یوں بھی اسلام نے جماعتی حیثیت کے برقرار رکھنے اور مل کر کام کرنے کو اتنی اہمیت دی ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ نماز با جماعت کا دس گنے زیادہ ثواب ہوتا ہے.3 اب سوال یہ ہے کہ مسجد میں نماز پڑھنے سے کیوں زیادہ ثواب ملتا ہے؟ کیا مسجد کی اینٹوں کی وجہ سے ثواب ملتا ہے؟ مسجد کی اینٹوں کی وجہ سے ثواب نہیں ملتا بلکہ اس لیے ملتا ہے کہ وہاں مومن اکٹھے ہوتے ہیں اور اجتماع قومی طاقت کا ایک بہت بڑا ذریعہ ہے.گویا مسجد بھی ایک کی خلیفہ ہے جو مومنوں کو اکٹھا رکھتی ہے.پس جو مسجد میں نماز پڑھنے کے لیے گیا وہ در حقیقت ایک چھوٹے خلیفہ کے مظہر کے پاس گیا اور اس کی نماز دس گنا زیادہ ثواب لے گئی.ان مساجد سے زیادہ خانہ کعبہ کی مسجد میں لوگ اکٹھے ہوتے ہیں.اس طرح مدینہ منورہ کی مسجد نبوی لوگوں کو اکٹھا کرنے کا ایک ذریعہ ہے اور چونکہ خانہ کعبہ جسے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بنایا اور مسجد نبوی جس میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نمازیں پڑھیں تمام دنیا کے لوگوں کو جمع کرنے کا ایک ذریعہ ہیں اس لیے ان میں نماز پڑھنے کا ثواب دوسری مساجد کی نمازوں سے بھی زیادہ ہے.ورنہ خانہ کعبہ کو کوئی سونے کی اینٹیں نہیں لگی ہوئیں اور نہ مدینہ منورہ کی مسجد میں ہیرے اور جواہرات لگے ہوئے ہیں.ان کی اینٹیں ویسی ہی ہیں جیسے تمام مساجد کی ہوتی ہیں.پھر کیا چیز ہے جس کی وجہ سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان مساجد میں نماز پڑھنا زیادہ ثواب کا موجب قرار دیا ہے؟ وہ چیز یہی ہے کہ یہ مساجد خدا اور رسول کی محبت کی وجہ سے دنیا کے لوگوں کو اکٹھا کرتی ہیں.اور چونکہ یہ باعث ہیں لوگوں کو اکٹھا نہی کرنے کا اور اکٹھا ہونا ایک برکت والی چیز ہے اور اکٹھے مل کر کام کرنے سے بہت بڑے فوائد حاصل ہوتے ہیں اس لیے ان مساجد میں نماز پڑھنا بھی زیادہ ثواب کا موجب قرار دے دیا گیا.بہر حال اسلام کا باجماعت نمازوں کے لیے لوگوں کو مسجد میں جانے کی تلقین کرنا یا ایک امام کے پیچھے ان کو کھڑا ہونے اور اس کی اقتدا کرنے کی نصیحت کرنایا مسجد نبوی اور خانہ کعبہ کی مسجد میں نماز پڑھنے کو بہت زیادہ
$1951 26 خطبات محمود قابل ثواب قرار دینا اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ وہ مرکز جو قوم کو اکٹھا رکھتے ہیں، جو افراد کو ایک جتھا کی صورت میں بدل دیتے ہیں اُن کے ساتھ اللہ تعالیٰ اپنی برکت کو وابستہ کر دیتا ہے.اگر وہ لوگوں کی کو اکٹھا کرنے کا کوئی ذریعہ نہ بنائے تو اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ وہ اکٹھے نہ ہوں گے اور جب وہ اکٹھے نہ ہوں گے تو اُن کی طاقت ٹوٹ جائے گی اور وہ زندگی جو جتھا کی وجہ سے کسی قوم کو حاصل ہو سکتی ہے وہ ان کو حاصل نہیں ہوگی.پھر اگر مساجد کے پتھر اور چونا اور اینٹوں کو محض اس وجہ سے کہ وہ لوگوں کو اکٹھا کرنے کا ایک ریعہ ہیں اللہ تعالیٰ نے اتنی برکت دے دی ہے کہ ان میں نماز پڑھنے کو اس نے کئی گنا زیادہ قابل ثواب قرار دیا ہے تو ظاہر ہے کہ اگر کوئی انسانی مرکز ہوگا تو وہ نہایت ہی برکت کا موجب ہوگا.یہ سیدھی بات ہے کہ ابو بکر اور عمر کے ذریعہ جتنا آدمی اکٹھا ہوا ہے اُتنا آدمی خانہ کعبہ یا مدینہ منورہ کی مسجد کے ذریعہ اکٹھا نہیں ہوا.پھر مسجد محض لوگوں کو جمع کرتی ہے اور انسان ان کو جمع کرنے کے بعد ان سے فائدہ بھی اٹھاتا ہے.اگر لوگوں کو صرف جمع کرنے والے مرکز اتنے بابرکت ہوتے ہیں تو تم سمجھ لو کہ وہ مرکز جولوگوں کو جمع کر کے اُن سے کام بھی لے وہ کتنازیادہ بابرکت ہوگا.پس مجھے یہ دیکھ کر خوشی ہوئی کہ جماعت کے دوست یہاں جمعہ کے لیے کثرت کے ساتھ آنے شروع ہو گئے ہیں.پہلے لوگ آیا کرتے تھے مگر ایک دو سال چونکہ میں بیمار رہا اس لیے میں نے یہ اعلان کروا دیا تھا کہ بیماری کی وجہ سے میں دوستوں سے زیادہ ملاقاتیں نہیں کر سکتا.اس وجہ سے میں نے دیکھا ہے کہ پچھلے دوسالوں میں لوگ کم آتے رہے ہیں غالباً انہوں نے اس کو ایک مستقل اعلان سمجھ لیا تھا.حالانکہ اگر اس کی ضرورت رہتی تو دوبارہ اعلان کیا جاسکتا تھا.بہر حال میرا وہ اعلان صرف بیماری کے دنوں کے لیے تھا اس لیے دوستوں کو چاہیے کہ وہ میرے دورہ کے موقع پر یہاں کثرت کے ساتھ آیا کریں.یوں بھی ہماری جماعت کے دوستوں کو چاہیے کہ وہ آپس میں مل کر مختلف مسائل پر تبادلہ خیالات کیا کریں اور دوسروں کی ضروریات کا خیال رکھا کریں.جب لوگ آپس میں ملتے ہیں اور ایک دوسرے کے حالات دریافت کرتے ہیں تو انہیں بسا اوقات اپنے کسی کمزور یا حاجت مند بھائی کی مدد کرنے کی توفیق مل جاتی ہے.کئی لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ ان میں اپنے بھائی کی مدد کرنے کی طاقت
$1951 27 خطبات محمود ہوتی ہے مگر انہیں یہ معلوم نہیں ہوتا کہ کون مستحق ہے اور وہ کس قسم کی مددکا محتاج ہے اس لیے وہ ثواب سے محروم رہتے ہیں.اگر وہ ایک دوسرے سے ملیں تو انہیں معلوم ہوتا رہے کہ فلاں شخص مشکلات میں ہے، فلاں بیمار ہے، فلاں حاجت مند ہے اور ہمیں اس کی مدد کرنی چاہیے.اس علم کے نتیجہ میں خدا تعالیٰ کئی لوگوں کے دلوں میں نیکی کا جذبہ پیدا کر دیتا ہے اور وہ دوسروں کی تکلیف کو دور کرنے کا موجب بن جاتے ہیں.دنیا میں تمام نیک کام کوئی ایک شخص سرانجام نہیں دیا کرتا.کسی کے دل میں خدا تعالیٰ کوئی بات ڈال دیتا ہے اور کسی کے دل میں کوئی.میں نے ہمیشہ دیکھا ہے کہ جب چندوں کی تحریک ہوتی ہے تو کسی چندہ میں کوئی آگے نکل جاتا ہے اور کسی میں کوئی.کیونکہ اللہ تعالیٰ بعض دفعہ کسی کے دل میں حصہ لینے کی تحریک پیدا کر دیتا ہے اور کسی وقت کسی کے دل میں.اگر آپس میں لوگ ملتے رہیں اور ایک دوسرے کے حالات سے انہیں واقفیت ہوتی رہے اور مساکین اور یتامی اور غرباء کے حالات انہیں معلوم ہوتے رہیں تو اللہ تعالیٰ کبھی کسی کو ان کے ساتھ نیک سلوک کرنے کی توفیق بخش دے گا اور کبھی کسی کو.میں سمجھتا ہوں کہ اگر یہ واقعات جمع کیے جائیں کہ سلسلہ پر کون کون سے نازک مواقع آئے اور ان نازک موقعوں پر کس کس شخص کو نمایاں طور پر خدمت سر انجام دینے اور نیکی میں حصہ لینے کی اللہ تعالیٰ نے توفیق عطا فرمائی تو یہ ایک نہایت دلچسپ کتاب بن سکتی ہے اور لوگوں کو معلوم ہوسکتا ہے کہ سینکڑوں ایسے لوگ بعض مواقع پر نمایاں کام کر گئے جبکہ دوسرے موقعوں پر وہ بہت پیچھے رہے تھے.اس سے پتا لگتا ہے کہ چونکہ خدا تعالیٰ اپنے تمام بندوں کو ثواب میں شریک کرنا چاہتا ہے اس لیے کبھی کسی کو توفیق مل جاتی ہے اور کبھی کسی کو.پس اگر جماعت کے دوست آپس میں ملتے رہیں تو انہیں ثواب کے مواقع بھی مل سکتے ہیں اور ایک دوسرے کی ہمدردی اور مواسات کا راستہ بھی ان کے لیے کھل سکتا ہے اور پھر تبادلہ خیالات کے نتیجہ میں ان کا علم بھی بڑھ سکتا ہے اور تبلیغ کی مشکلات کا بھی انہیں احساس ہوسکتا ہے.مثلاً یہی بات دیکھ لو یہ سندھ کا صوبہ ہے جس میں اس وقت ہم لوگ موجود ہیں اور آپ لوگ مختلف مقامات سے یہاں آ کر جمع ہوئے ہیں لیکن اگر غور کیا جائے تو یہاں صرف ایک فیصدی سندھی نکلیں گے.باقی سب لوگ وہ ہیں جو پنجاب سے آکر آباد ہوئے ہیں.اب یہ ہے تو سندھ اور اس لحاظ سے آنے والوں کی
$1951 28 خطبات محمود زیادہ تعداد سندھیوں کی ہی ہونی چاہیے مگر جمع ہیں پنجابی.یہ بات بتاتی ہے کہ یہاں کی جماعتوں نے کبھی اپنے حالات پر غور نہیں کیا.زندہ قومیں وہ ہوتی ہیں جو ہر بات پر غور کیا کرتی ہیں.قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے یہ کافر کی علامت بیان فرمائی ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کے نشانات پر سے گزر جاتا ہے اور ان پر کبھی غور نہیں کرتا.4 مومن وہ ہوتا ہے جو ہر بات کو دیکھتا اور پھر سوچتا ہے کہ ایسا کیوں ہے.مثلاً وہ کسی کو بڑی سی پگڑی باندھے دیکھتا ہے یا کسی خاص طرز پر اسے پگڑی باندھے دیکھتا ہے تو وہ غور کرتا ہے ہے کہ اس نے اتنی بڑی پگڑی کیوں باندھی ہوئی ہے یا فلاں طرز پر اس نے پگڑی کیوں باندھ رکھی ہے اور اس سے وہ کئی قسم کے نتائج اخذ کرتا ہے.اگر غور کرنے کی عادت ڈالی جائے تو بعض دفعہ چھوٹی چھوٹی چیزوں سے بڑے بڑے اہم نتائج پیدا ہو جاتے ہیں.مثلاً کسی ملک میں تم جاؤ اور دیکھو کہ لوگوں نے بڑی بڑی پگڑیاں باندھی ہوئی ہیں اور تم سوچو کہ یہ لوگ اتنی بڑی پگڑیاں کیوں باندھتے ہیں تو تمہیں معلوم ہوگا کہ وہاں روئی زیادہ ہے اور کپڑا زیادہ تیار ہوتا ہے.گویا غور کرنے کے نتیجہ میں ایک نکتہ تمہیں حاصل ہو جائے گا.اسی طرح تم ایک اور علاقہ میں جاتے ہو اور دیکھتے ہو کہ لوگوں نے چھوٹی چھوٹی دو دو گز کی پگڑیاں باندھی ہوئی ہیں اور تم سوچو کہ ان کی اتنی چھوٹی پگڑیاں کیوں ہیں تو تمہیں معلوم ہوگا کہ وہ خانہ بدوش لوگ ہیں کھیتی باڑی نہیں کرتے ، نہ کپڑا بنتے ہیں.اور چونکہ ان کے ملک میں نہ کپاس پیدا ہوتی ہے، نہ انہیں زیادہ کپڑا میسر آتا ہے اس لیے انہوں نے فیصلہ کر لیا کہ ہم دو دو گز کی پگڑیاں باندھیں گے تا کہ کپڑا بھی زیادہ خرچ نہ ہو اور ہمارا کام بھی چل جائے.یہ میں نے ایک معمولی سی مثال دی ہے.اس پر قیاس کر کے تم سمجھ سکتے ہو کہ سوچنا اور غور کرنا کتنی اہم چیز ہے.پشاور کی طرف چلے جاؤ تو وہاں پگڑیوں سے بھی زیادہ کلاہ کا رواج ہے.اگر تم اس پر غور کرو کہ وہاں کلاہ کا رواج کیوں زیادہ ہے تو تمہیں معلوم ہوگا کہ اُس علاقہ میں بارشیں زیادہ ہوتی ہیں اور گرد و غبار کم اُڑتا ہے اور سردی سخت پڑتی ہے.اگر کلاہ پر پگڑی باندھی ہوئی ہو تو دس دس پندرہ پندرہ دن تک پگڑی چلی جاتی اور اسے بار بار باندھنا نہیں پڑتا اور کلاہ سر کو سردی سے بچاتا ہے.لیکن اگر کلاہ نہ ہو اور علاقہ بارش والا ہو تو پگڑی جلد خراب ہو جائے گی اور اسے بار بار باندھنا پڑے گا اور سرکوسردی لگے گی.غرض سوچنے اور غور کرنے سے انسان نئی نئی چیز میں نکال لیتا ہے.لیکن اگر سوچنے کی عادت
$1951 29 خطبات محمود ترک کر دی جائے تو کئی اہم نتائج سے انسان محروم ہو جاتا ہے.مثلاً یہی بات دیکھ لو کہ علاقہ سندھ کا ہے اور اکٹھے پنجابی ہوئے ہیں اس کے معنے یہ ہیں کہ ہم نے اس صوبہ میں قطعاً کوئی تبلیغ نہیں کی.پنجابی احمدیوں کی زیادتی سے یہ ملک فتح نہیں ہو سکتا.یہ ملک اُسی وقت فتح ہو سکتا ہے جب سندھیوں کی اکثریت احمدیت میں شامل ہو گی.اگر ہم سندھیوں کو اپنے اندر شامل نہیں کرتے اور پنجابی اس صوبہ میں پندرہ یا بیس فیصدی بھی آجاتے ہیں تب بھی ہماری فتح نہیں کہلا سکتی.ہماری فتح تبھی کہلائے گی جب اسی فیصدی سندھیوں میں سے ایک غالب اکثریت کو ہم اپنے ساتھ شامل کر لیں گے.اگر ہم ایسا نہیں کرتے تو یہ یقینی بات ہے کہ جن لوگوں کا یہ ملک ہے انہیں کی بات یہاں چلے گی.اگر کچھ عرصہ کے لیے پنجابیوں کوغلبہ بھی ملے تو وہ عارضی غلبہ ہوگا.جیسے انگریز آیا اور اس نے ہندوستان پر حکومت کی مگر اب وہ کہیں نظر نہیں آتا.جس طرح تم پہلے انگریز کو دیکھ کر ڈرا کرتے تھے اُسی طرح اب وہ تمہیں دیکھ کر ڈرتا ہے کیونکہ وہ جانتا ہے کہ حکومت تمہاری ہے.بلکہ ابھی تو کچھ نہ کچھ انگریزوں کا لحاظ کیا جاتا تو ہے کیونکہ لوگوں کو یہ خیال آجاتا ہے کہ یہ انگریز ہمارے حاکم رہ چکے ہیں ہمیں ان کا خیال رکھنا چاہیے.جب نئی نسل پیدا ہوگی اور وہ لوگ جو انگریز کو حکمران دیکھ چکے ہیں فوت ہو جائیں گے تو انگریز کی حیثیت ایسی گر جائے گی کہ جس طرح شروع زمانہ میں انگریز ایک ہندوستانی کوٹھڈے مارتا تھا اور وہ خاموش ہو جاتا تھا اُسی طرح ایک پاکستانی انگریز کوٹھڈے مارے گا اور وہ آگے سے یہی کہے گا کہ مجھ سے غلطی ہو گئی ہے مجھے معاف کیا جائے کیونکہ حکومت تمہاری ہے اور اس کی حیثیت ایک غیر ملکی کی ہے.اسی طرح تم کتنے بھی بڑھ جاؤ پنجابی بہر حال پنجابی ہیں وہ سندھی نہیں کہلا سکتے.اور یہ ملک سندھ کا ہے اس وجہ سے حکومت کا حق بھی سندھ کے لوگوں کو ہی ہے.اگر پنجابی یہاں مربعے زیادہ خرید لیں یا تجارتوں پر قبضہ کر لیں یا مال و دولت میں ترقی کر جائیں تب بھی ان کا رتبہ محض عارضی ہوگا اور جب بھی سندھی زور میں آئیں گے انہیں باہر نکال دیں گے.پس جب تک تم سندھیوں میں احمدیت کی تبلیغ نہیں کرتے یا جب تک تم ان کے ساتھ اس طرح مل جل نہیں جاتے کہ تمہارا تمدن بھی سندھی ہو جائے ، تمہارے کپڑے بھی سندھیوں جیسے ہو جائیں تمہاری زبانیں بھی سندھی ہو جا ئیں اُس وقت تک تمہاری حیثیت محض ایک غیر ملکی کی رہے گی.ی کتنی واضح چیز ہے جو نظر آرہی ہے مگر سوال یہ ہے کہ کتنے آدمی ہیں جنہوں نے اس حقیقت پر کبھی غور
$1951 30 خطبات محمود کیا ہے؟ اس وقت بیرونی جماعتوں سے سوڈیڑھ سو آدمی یہاں آیا ہوا ہے اور ہم خوش ہیں کہ جماعت میں زندگی کے آثار پائے جاتے ہیں کہ ایک جنگل میں اتنے آدمی اکٹھے ہو گئے ہیں لیکن اگر ہم غور سے کام لیں تو یہ زندگی کے کیا آثار ہیں کہ جس ملک میں ہم بیٹھے ہیں اس ملک کے باشندے ہمارے اندر موجود نہیں.یہ تو ایسی ہی بات ہے جیسے ہم انگلستان میں ایک بہت بڑا جلسہ کریں اور اس میں پاکستان کے پاکستانی، افریقہ کے حبشی، انڈونیشیا کے انڈو نیشین ، سیلون کے سیلونی، برما کے برمی ، افغانستان کے افغان اور عرب ممالک کے عرب سب موجود ہوں لیکن انگلستان کا کوئی آدمی نہ ہو اور ہم بڑے خوش ہوں کہ ہمارا جلسہ نہایت کامیاب ہوا ہے.سوال یہ ہے کہ وہ جلسہ کیا کامیاب رہا جس میں اور ممالک کے لوگ تو موجود تھے اور انگلستان کا کوئی آدمی موجود نہ تھا؟ اس طرح تو ہم نے اپنے روپیہ کو ضائع ہی کیا کیونکہ جس ملک کے لوگوں پر ہم اپنا اثر پیدا کرنا چاہتے تھے اُس ملک کا کوئی فرد اس میں موجود نہیں تھا.اسی طرح ہم جب سندھ میں آئے ہیں تو سندھ کے لوگوں کی خاطر آئے ہیں اور ہمارا فرض ہے کہ ہم سندھیوں میں اپنی تبلیغ کے حلقہ کو وسیع کریں اور ان کو اپنے اندر زیادہ سے زیادہ تعداد میں شامل کریں.غرض اگر غور سے کام لیا جائے اور سوچنے کی عادت ڈالی جائے تو یہ چیز ہمارے سامنے آجاتی ہے اور ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ در حقیقت اس صوبہ میں رہتے ہوئے ہم نے اپنی ذمہ داری کو سمجھا ہی نہیں.حقیقت یہ ہے کہ اس ملک کے رہنے والوں کا حق پنجابیوں سے زیادہ ہے اور ہمارے لیے خوشی کا دن دراصل وہ ہو گا جب ہمارے جلسہ میں اگر پانچ سو آدمی ہوں تو ان میں سے چار سو سندھی ہوں اور ایک سو پنجابی ہو.اگر ہم ایسا تغیر پیدا کر لیں تب بیشک یہ کہا جا سکتا ہے کہ ہم نے اپنے فرض کو ادا کر دیا.اس کے بعد ہم اس خیال سے مطمئن ہو سکتے ہیں کہ خواہ اب ملک میں یہ رو چل پڑے کہ پنجابیوں کو نکال دیا جائے تب بھی احمدیت اس ملک سے نہیں نکل سکتی کیونکہ اس ملک کے باشندوں میں ہم احمدیت کا بیج بو چکے ہیں.مگر جیسا کہ میں نے بتایا ہے ان باتوں کی طرف تبھی توجہ پیدا ہوسکتی ہے جب جماعت کے دوست اکٹھے ہوں اور وہ تمام حالات پر غور کرنے کی عادت ڈالیں کیونکہ آپس میں بار بار ملنے سے یہ باتیں سوجھتی ہیں.اگر ملنے کے مواقع نہ نکالے جائیں اور ایک دوسرے کے حالات سے واقفیت پیدا نہ کی جائے تو جماعت ترقی نہیں کر سکتی.غرض ایک دوسرے سے ملنے اور مرکزی مقامات
$1951 31 خطبات محمود میں جمع ہونے کے بہت بڑے فوائد ہوتے ہیں جن کو آسانی کے ساتھ نظر انداز نہیں کیا جاسکتا“.الفضل 28 مارچ 1951 ء ) 1: وَعَدَ اللهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا الصّلِحَتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْأَرْضِ (النور: 56) 2 : المائدة : 3 3 :بخارى كتاب الاذان باب فضل صلوة الجماعۃ میں 25 اور 27 گنا ثواب کا ذکر ملتا ہے.4: وَكَاتِنُ مِنْ آيَةٍ فِي السَّمَوتِ وَالْأَرْضِ يَمُرُّونَ عَلَيْهَا وَهُمْ عَنْهَا مُعْرِضُونَ (يوسف : 106)
$1951 5 32 32 سندھ میں آکر آباد ہونے والے احمدی سندھی زبان سیکھیں اور لوگوں کو اسلام کے موٹے موٹے مسائل بار بار آگاہ کریں (فرموده 9 مارچ 1951ء بمقام ناصر آبادسندھ ) تشهد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: آج میں اپنی جماعت کے اُن تمام دوستوں کو جو سندھ میں آباد ہو چکے ہیں اس امر کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ جس علاقہ میں وہ مہمان کے طور پر رہ رہے ہیں اس کی مہمان نوازی کا حق ادا کریں.یعنی سندھیوں میں اشاعت احمدیت اور تعلیم و تربیت کا سلسلہ زیادہ سے زیادہ وسیع کریں اور سندھی زبان سیکھنے کی کوشش کریں.میرے نزدیک تو یہاں کوئی شخص بھی ایسا نہیں ہونا چاہیے جو سندھی زبان نہ جانتا ہو.اور ہر شخص کا خواہ وہ سرکاری ملازم ہو یا کسی فرد کے پاس ذاتی طور پر کام کرتا ہو، زمیندار ہو یا تاجر ، فرض ہے کہ وہ سندھی زبان سیکھے تا کہ یہاں کے رہنے والوں سے وہ اختلاط خطبات محمود
$1951 33 خطبات محمود پیدا کر سکے ، اُن سے مل جل سکے ، اپنے خیالات اُن پر ظاہر کر سکے اور اُن کے خیالات سن سکے.مجھے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ باوجود اس کے کہ ہمارے دوستوں کو یہاں رہتے ہوئے کئی سال گزر چکے ہیں پھر بھی انہوں نے سندھی زبان سیکھنے کی کوشش نہیں کی.چنانچہ اگر کوئی سندھی مجھ سے آ کر بات کرے اور میں دوستوں کو اُس کا ترجمہ کرنے کے لیے کہوں تو مجھے بہت کم ایسے لوگ نظر آتے ہیں جو سندھی زبان جانتے ہوں.اور اگر کوئی شخص سندھی زبان جانتا بھی ہے تو ایسی غلط سلط کہ وہ پوری طرح دوسرے کا مفہوم بیان نہیں کر سکتا.میرے نزدیک کسی ملک میں رہنا اور پھر وہاں کی زبان سیکھنے کی کوشش نہ کرنا یہ اس ملک کی مہمان نوازی کی ہتک ہے.جب کوئی شخص کسی ملک میں رہنا شروع کر دیتا ہے تو اُس ملک کا ہر باشندہ میز بان ہوتا ہے اور اس ملک میں رہائش اختیار کرنے والا ہر فرد اُن کا مہمان ہوتا ہے اور مہمان کا فرض ہوتا ہے کہ وہ میزبان کی زبان کو جانتا ہو تا کہ وہ اُس کے سامنے اپنے جذبات کا اظہار کر سکے اور اس کے خیالات سے خود واقف ہو سکے.اگر وہ ملکی زبان نہیں جانتا تو اس کی مثال بالکل ایسی ہی ہوگی جیسے کوئی عورت کہیں بیاہی جائے مگر وہ نہ تو اپنے خاوند کی زبان جانتی ہو اور نہ خاوند کے رشتہ داروں کی زبان جانتی ہو.کسی ملک میں ہجرت کر کے چلے جانا اور وہاں بس جانا درحقیقت ایسا ہی ہوتا ہے جیسے کسی عورت کی کہیں شادی کر دی جائے.اور کوئی عورت سکھر کی زندگی بسر نہیں کر سکتی جب تک وہ اپنے خاوند اور اُس کے رشتہ داروں کی زبان نہ جانتی ہو.بلکہ کوئی عورت صحیح معنوں میں بیوی کہلانے کی حقدار نہیں ہو سکتی جب تک وہ اپنے خاوند اور اُس کے رشتہ داروں کی زبان نہ جانتی ہو.اسی طرح کوئی شخص اُس وقت تک کامیاب زندگی بسر نہیں کر سکتا جب تک وہ اُس ملک کی زبان پوری طرح نہ جانتا ہو جس میں اُس نے رہائش اختیار کی ہوئی ہو.محض اس وجہ سے کہ یہاں نی پنجابی بولنے والے مل جاتے ہیں اگر تم سندھی زبان سیکھنے کی کوشش نہیں کرتے تو یہ چیز تمہارے مجرم کو ہی ہلکا نہیں کر دیتی.تمہارا دن رات اس علاقہ میں رہنا، اِس علاقہ کے طور طریق نہ سیکھنا ، یہاں کی زبانی نہ سیکھنا اور یہاں کے لوگوں سے ملنے جلنے کی خواہش نہ رکھنا بہت ہی قابل ملامت بات ہے.ظاہری تکلیفیں جو کسی ملک یا علاقہ کی زبان نہ جاننے کی وجہ سے انسان کو پہنچتی ہیں اُن کو جانے دو اخلاقی اور مذہبی لحاظ سے بھی ہماری جماعت کے افراد کو چاہیے کہ وہ سندھی زبان سیکھیں، سندھیوں سے میل جول اور تعلقات قائم کریں اور سندھیوں کے طور طریق سیکھنے کی کوشش کریں.
خطبات محمود 34 $1951 زبانوں کے فرق سے بعض بڑے بڑے عجیب اختلافات رونما ہو جاتے ہیں بلکہ جہاں ایک زبان ہوتی ہے وہاں بھی ضلعوں کے فرق کی وجہ سے بعض الفاظ کا مفہوم بالکل بدل جاتا ہے.مجھے یاد ہے حضرت خلیفہ اول کے ایک رشتہ دار کی بہن ایک دفعہ قادیان آئیں اور انہوں نے باتوں باتوں میں حضرت خلیفہ اول کی تعریف کرتے ہوئے کہیں کہہ دیا کہ ” اوہ بڑا شہدا ہے.ٹھہدے کا لفظ ضلع گورداسپور میں بدمعاش کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے لیکن بھیرہ میں اس کے معنے نیک اور شریف آدمی کے ہیں.یہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا زمانہ تھا اور آپ ابھی خلیفہ نہیں ہوئے تھے مگر آپ کے تقوی اور بزرگی کی وجہ سے تمام جماعت میں آپ کی عزت اور شہرت تھی.جب اُس نے آپ کے متعلق مہدے کا لفظ استعمال کیا تو عورتیں اُس سے لڑ پڑیں کہ تم حضرت مولوی صاحب کی ہتک کرتی ہو!! مگر وہ بار بار یہی کہتی جائے کہ ”ہاں ہاں! اوہ بڑا نشہدا ہے.جب ضلعوار زبانوں کے فرق سے اتنا بڑا اختلاف پیدا ہو جاتا ہے تو یہ تو علاقہ ہی اور ہے.اگر ہماری جماعت کے افراد اس کی علاقہ کی زبان نہیں سیکھیں گے تو ایک دوسرے کے خیالات کو سمجھنے میں بڑا بھاری نقص واقع ہو جائے گا.پس ضرور ہے کہ ہماری جماعت کے دوست سندھی زبان سیکھنے کی کوشش کریں تا کہ سندھیوں.وہ زیادہ سے زیادہ تعلقات پیدا کرسکیں.جیسا کہ میں نے بتایا ہے اس علاقہ میں سندھی میزبان ہیں اور ہم ان کے مہمان ہیں.چاہے ہم اپنا کھاتے ہوں اور اپنا کا روبار کرتے ہوں مگر ہیں ہم مہمان ہی.در حقیقت یہ ساری زمینیں خواہ لوگوں نے روپیہ دے کر خریدی ہیں اصل میں سندھیوں کی ہیں اور انہوں نے ہی سینکڑوں سال تک ان زمینوں کی حفاظت کی اور دشمن کو ان پر قبضہ کرنے سے روکا.پھر انگریزوں نے ان سے زمین لے کر آگے فروخت کر دی اور دوسرے لوگ آباد ہو گئے.مگر زمین خریدنے کے یہ معنے نہیں کہ ہم سندھ کے مالک ہو گئے ہیں بلکہ جیسے ایک ادنی مالک ہوتا ہے اور ایک اعلیٰ مالک ہوتا ہے ہم ادنی مالک ہیں.اور سندھی اعلیٰ مالک ہیں کیونکہ سالہا سال تک ہم نے ان زمینوں کو دشمنوں کے حملہ سے نہیں بچایا بلکہ سندھیوں نے بچایا.جب سندھ پر حملہ ہوتا تھا تو اُس وقت کون مقابلہ کرتا تھا ؟ پنجابی مقابلہ نہیں کرتے تھے بلکہ سندھی مقابلہ کرتے تھے.اسی طرح جب ڈاکو اور لٹیرے آئے تھے تو اُن کا کون مقابلہ کرتا تھا ؟ یہ صاف بات ہے کہ سندھی ڈاکوؤں اور لٹیروں کا مقابلہ کیا کرتے تھے.اسی طرح اس ملک کے
$1951 35 خطبات محمود درندوں کو کس نے صاف کیا ؟ سندھیوں نے ہی صاف کیا.اس ملک میں آبادیاں کس نے قائم کیں؟ سندھیوں نے ہی قائم کیں.پس در حقیقت وہی اس کے مالک ہیں اور جب تک ہم علاقہ کے مالک کی جس میں ہم مہمان کے طور پر آ کر بس گئے ہیں زبان نہیں سیکھتے ہم اس اخلاقی فرض کو ادا نہیں کرتے جو میزبان کا مہمان پر ہوتا ہے.لوگ کہتے ہیں کہ سندھی پنجابیوں سے اچھے تعلقات نہیں رکھتے.میں کہتا ہوں تم ان کا حق ادا کرو وہ تمہارا حق خود بخو دا دا کرنے لگ جائیں گے.آخر تم میں سے کتنے ہیں جو سندھی زبان جانتے ہیں؟ تھوڑے بہت الفاظ تو میں بھی جانتا ہوں.مثلاً بنی اور سائیں وغیرہ الفاظ مجھے آتے ہیں مگر اس کے یہ معنے نہیں کہ مجھے سندھی زبان آتی ہے.اسی طرح اگر تم بھی سندھی زبان کے چند الفاظ جانتے ہو تو یہ اس بات کا ثبوت نہیں کہ تمہیں سندھی آتی ہے.سندھی جاننے کے معنے یہ ہیں کہ اگر تمہیں سندھی میں تقریر کرنی پڑے تو تم تقریر کر سکو ، اپنا مطلب انہیں سمجھا سکو اور ان کا مطلب خود سمجھ سکو.جہاں تک مجھے معلوم ہے یہاں ایک شخص بھی ایسا نہیں جو سندھی میں تقریر کر سکتا ہو.مولوی محمد ابراہیم صاحب بقا پوری کو جب یہاں مبلغ بنا کر بھیجا گیا تھا تو وہ سندھی میں تقریر کرنے لگ گئے تھے لیکن اور کسی نے سندھی زبان سیکھنے کی کوشش نہیں کی.پس پہلی نصیحت تو میں یہ کرنا چاہتا ہوں کہ تم سندھی زبان سیکھو اور لوگوں کو اسلامی مسائل سکھاؤ.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ہر شخص الگ الگ استعداد رکھتا ہے مگر ہماری کوشش یہی ہونی چاہیے کہ ہم ہر شخص کو اسلام کا سپاہی بنانے کی کوشش کریں.پھر جو لوگ قابلیت رکھنے والے ہوں گے وہ خود بخود آگے نکل آئیں گے کھیتی باڑی میں بھی یہی اصول نظر آتا ہے.جب کھیت میں بیج ڈالا جاتا ہے تو ہر دانے کا سقہ نہیں بنتا.کوئی دانہ تو ایسا ہوتا ہے جو اُگتا ہی نہیں، کوئی اُگتا ہے تو اس پر زیادہ دانوں والا سقہ نہیں لگتا اور کوئی ایسا ہوتا ہے کہ جس کا ستہ زیادہ دانوں والا ہوتا ہے.غرض کھیتوں کو لے لو، سبزیوں، ترکاریوں کو لے لو، جانوروں کو لے لو ہر چیز کی پیدائش میں تمہیں اختلاف نظر آئے گا.جانوروں میں سے ہی کسی کا بچہ تو پیٹ میں ہی ضائع ہو جاتا ہے، کوئی چھوٹی عمر میں مرجاتا ہے، کوئی بڑا تو ہو جاتا ہے مگر تمام عمر کمزور رہتا ہے اور کوئی بڑا ہو کر طاقتور اور مضبوط بن جاتا ہے.یہی حال انسانوں کا ہے.انسانوں میں بھی کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جن کے دلوں میں خدا تعالیٰ کی محبت اور اُس کے دین کے لیے غیرت پائی جاتی ہے.کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جن کے دلوں میں دین کا شوق تو ہوتا ہے مگر تھوڑا.
$1951 36 خطبات محمود وہ دوسروں کو دیکھ کر آگے نکلنے کی کوشش کرتے ہیں.اور کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ جن کے دلوں میں دوسروں کو دیکھ کر بھی یہ احساس پیدا نہیں ہوتا کہ وہ ترقی کریں.اسی طرح ہر شخص معلم اور مربی نہیں بن سکتا.لیکن فرض کروسو میں سے دس بن سکتے ہوں اور ادھر سندھ میں سو میں سے پانچ شخص سندھی زبان جانتے ہوں تو یہ لازمی بات ہے کہ وہ پانچ بھی ہمارے لیے بیکار ہو جائیں گے کیونکہ ہمیں دس میں سے ایک شخص مل سکتا تھا اور وہ صرف پانچ ہیں.اس کے معنے یہ ہیں کہ ہمیں نصف آدمی ملا اور نصف چونکہ ہو ہی نہیں سکتا اس لیے ہم اس انتخاب میں صفر تک آجائیں گے.لیکن اگر تمام لوگ سندھی زبان جانتے ہوں تو ان میں سے دس ہمیں کام کے آدمی مل جائیں گے اور ہماری ضرورت پوری ہو جائے گی.پس میری پہلی ہدایت تو یہ ہے کہ یہاں کے رہنے والے تمام افراد کو سندھی زبان سیکھنی چاہیے اور سندھ کی تمام جماعتوں کے پریذیڈنٹوں اور سیکرٹریوں کو اپنی رپورٹوں کے فارم میں ایک خانہ ایسا بنانا چاہیے جس میں یہ ذکر ہو کہ انہوں نے جماعت کے اندر سندھی زبان سیکھنے کے لیے کیا بیداری پیدا کی اور کتنے افراد ان کی تحریک پر سندھی زبان سیکھ رہے ہیں؟ میں ربوہ واپس جا کر اس بارہ میں متعلقہ ڈیپارٹمنٹ کو ہدایت دوں گا کہ وہ سندھ کی جماعتوں کی نگرانی کرے اور سیکرٹریان جماعت سے با قاعدہ رپورٹیں منگوائے کہ انہوں نے سندھی زبان سکھلانے کے لیے کیا کوشش کی ہے اور کتنے افراد سندھی سیکھ رہے ہیں؟ ہمارے ملک میں پٹھان آتے ہیں تو وہ اردو بولنے لگ جاتے ہیں، انگریز آتے ہیں تو وہ بھی اردو میں باتیں کرنے لگ جاتے ہیں، جرمن آتے ہیں تو وہ اردو میں گفتگو شروع کر دیتے ہیں پھر کیا وجہ ہے کہ ہم سندھی نہیں بول سکتے ؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم اپنے دل میں یہ فیصلہ کر لیتے ہیں کہ ہم نے سندھی نہیں سیکھنی اور جب ہم یہ فیصلہ کر لیتے ہیں تو پھر ہمیں سندھی نہیں آتی.پس میں تمام جماعتوں کے پریذیڈنٹوں اور سیکرٹریوں کو ہدایت دیتا ہوں کہ وہ اپنی رپورٹ میں آئندہ اس امر کی تصریح کیا کریں کہ ان کی جماعت کے کتنے افراد ہیں؟ کتنے سندھی زبان جانتے ہیں اور کتے نہیں جانتے.اور جو لوگ نہیں جانتے اُن کو سندھی زبان سکھانے کی کیا کوشش کی جا رہی ہے.یہ تحریک ایسی ہے جس میں عورتوں اور بچوں کو شامل کرنا چاہیے اور ہر مرد اور ہر عورت اور ہر بچہ کو سندھی زبان آنی چاہیے.
خطبات محمود 37 $1951 دوسری نصیحت میں یہ کرنا چاہتا ہوں کہ یہ علاقہ ابھی جنگل کی طرح ہے اور ایسی طرز پر آباد نہیں ہوا کہ ہرقسم کی تعلیموں سے یہاں کے رہنے والے فائدہ اُٹھا سکیں.ایسے حالات میں لوگ بعض دفعہ اہم مسائل جو تعلیم و تربیت سے تعلق رکھتے ہیں اُن کو بھول جاتے ہیں.پس یہاں جو واعظ اور خطیب ہیں اُن کا بھی اور پریذیڈنٹوں اور سیکرٹریوں کا بھی فرض ہے کہ وہ بار بار دین کے موٹے موٹے مسائل لوگوں کے ذہن نشین کراتے رہا کریں.جب ہم مکان بناتے ہیں تو سب سے پہلے ہم چھت کی اینٹ نہیں رکھتے بلکہ بنیادی اینٹ رکھتے ہیں.اسی طرح دین کی تکمیل کے لیے بڑے بڑے مسائل بعد میں آتے ہیں پہلے چھوٹے چھوٹے مسئلے لوگوں کو آنے چاہیں.اگر چھوٹے چھوٹے مسائل ہی لوگوں کو نہ آتے ہوں تو بڑے بڑے مسائل ان کے سامنے بیان کرنا چنداں مفید نہیں ہوتا.میں دیکھتا ہوں کہ یہاں عورتوں میں دین سے اتنی ناواقفیت پائی جاتی ہے کہ وہ جہالت جو کسی زمانہ کی عورتوں میں ہم سنا کرتے تھے وہ اس جگہ کی بعض عورتوں میں نظر آتی ہے اور حیرت ہوتی ہے ہے کہ ان کی ناواقفیت کس حد تک پہنچی ہوئی ہے.ایک عورت جو پنجابی ہے مگر ایک عرصہ سے یہاں رہائش رکھتی ہے اس کی زبان سے میں نے ایسا فقرہ سنا ہے کہ کم از کم پنجاب میں میں نے ایسا فقرہ کسی عورت کے منہ سے آج تک نہیں سنا تھا.وہ میرے سامنے اپنی ایک شکایت لائی اور اس نے کہا کہ میری لڑکی کی شادی ایک ایسی جگہ ہوئی تھی جہاں دوسرے فریق نے یہ وعدہ کیا تھا کہ وہ اپنی لڑکی میرے لڑکے کو دے دیں گے مگر اب وہ میری لڑکی کو تو آباد کرنا چاہتے ہیں لیکن میرے لڑکے کولڑ کی دینے کے لیے تیار نہیں.اس لیے اب میں اپنی لڑکی کا نکاح فسخ کرنا چاہتی ہوں.میں نے اسے بہتر سمجھایا کہ تم رشتہ دے چکی ہو اب تمہارا کوئی حق نہیں کہ تم رشتہ واپس لو.میں مانتا ہوں کہ انہوں نے شادی کے وقت یہ وعدہ کیا ہو گا کہ تمہارے لڑکے کو اپنی لڑکی دے دیں گے ، دنیا میں عام طور پر لوگ ایسی دھوکا بازیاں کر دیتے ہیں لیکن نکاح کے لحاظ سے اس وعدہ کی کوئی حقیقت نہیں.اخلاقیات کے لحاظ بیشک ہم کہہ دیں گے کہ وہ بہت بُرے تھے، بڑے دھو کا باز تھے، پہلے ایک وعدہ کیا اور پھر انکار کر دیا مگر جہاں تک تمہاری لڑکی کے رشتہ کا سوال ہے وہ ہو چکا ہے اور اب وہ تو ڑا نہیں جاسکتا.پھر میں نے اسے کہا اگر تم پہلے ہی خدا اور اُس کے رسول کی بات سن لیتیں تو یہ مصیبت تم پر کیوں آتی.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صاف اور واضح الفاظ میں فرمایا ہے کہ بقا کی شادی نہ کر و 1 اور جب
$1951 38 خطبات محمود.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی ممانعت فرمائی ہے تو مجھے تم سے کیا ہمدردی ہو سکتی ہے.اسلام کہتا ہے کہ ہمیں یہ کام نہیں کرنا چاہیے اور تم اقرار کرتی ہو کہ تم نے یہ کام کیا.جب اسلامی حکم کی تم نے خود خلاف ورزی کی ہے تو اب تمہارے ساتھ میں کس طرح ہمدردی کر سکتا ہوں.اس پر اس نے بڑی سادگی سے جواب دیا کہ مجھے پتا ہے کہ اسلام نے بقا کی شادی کو ناجائز قرار دیا ہے لیکن میں تو اس کو جائز سمجھتی ہوں.یہ بات اس نے ایسی صفائی سے کی کہ یوں معلوم ہوتا تھا وہ اپنے آپ کو خدا تعالیٰ سے بھی بڑا سمجھتی ہے کہ ایک تو خدا نے حکم دیا ہے اور ایک میرا حکم ہے.بیشک اسلام نے اس کو جائز قرار نہیں دیا لیکن میں جو اس کو جائز قرار دیتی ہوں تو پھر اس پر کیا اعتراض ہو سکتا ہے.میں نے اسے کہا اب میں تجھے اور کیا کہوں جب تم خدا کی بات ماننے کے لیے ہی تیار نہیں تو میں اس معاملہ میں کیا دخل دے سکتا ہوں.یہ نتیجہ ہے اِس بات کا کہ چھوٹی چھوٹی باتیں لوگوں کو نہیں بتائی جاتیں.ان کو بتایا نہیں جاتا کہ اسلام کے احکام کی کیا قدرو قیمت ہے اور کیوں ان معاملات میں ہمیں بولنے کا حق حاصل نہیں.اس عورت نے تو یہ بات ایسے رنگ میں بیان کی تھی کہ یوں معلوم ہوتا تھا اُس کے نزدیک جس طرح دنیا خدا تعالیٰ کو مانتی ہے اُسی طرح اُس کی بات بھی ماننی چاہیے مگر اتنی بڑی غلطی اسے کیوں لگی؟ اسی لیے لگی کہ چھوٹی چھوٹی باتیں عورتوں ، مردوں اور بچوں کو سکھائی نہیں جاتیں.خالی وفات مسیح وغیرہ کے مسائل بتا دینے کا کیا فائدہ ہو سکتا ہے.جب ایک شخص کا دماغ یہ سوچتا ہو کہ جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حق حاصل ہے وہ اسے بھی حاصل ہے یا خدا نے بیشک ایک چیز کو نا جائز قرار دیا ہے مگر میں تو اُس کو جائز سمجھتا ہوں.یہ مسائل ہیں جولوگوں کے ذہن نشین کرانے چاہیں اور اُن کو بار بار بتانا چاہیے کہ خدا تعالیٰ کا ادب کرنا چاہیے، دین کا ادب کرنا چاہیے، رسول کا ادب کرنا چاہیے اور اس کے احکام کو سن کر فوراً اپنا سر جھکا دینا چاہیے.یہ مسئلے عوام الناس کے لیے زیادہ ضروری ہوتے ہیں.اور در حقیقت ان کو سیکھنے کے بعد ہی کوئی شخص دین کے لیے مفید وجود بن سکتا ہے ورنہ ایک شخص اگر وفات مسیح پر دھواں دھار تقریر کرے اور بعد میں کسی بات پر آ کر کہہ دے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیشک ایسا کہا ہو گا مگر میرا نظریہ یہ ہے تو سب لوگ ہنس پڑیں گے کہ اس کی مولویت تو معلوم ہو گئی.
خطبات محمود 39 $1951 پس لوگوں کو دین کے موٹے موٹے مسائل سے واقف کرو.مثلاً نہانے دھونے کے مسائل ہیں یا نماز کے مسائل ہیں کہ اس طرح کھڑا ہونا چاہیے، اس طرح رکوع کرنا چاہیے، اس طرح سجدہ کرنا تھی چاہیے،صفوں کو سیدھا رکھنا چاہیے، جلدی جلدی نماز نہیں پڑھنی چاہیے، نماز کے لیے دوڑ کر نہیں آنا چاہیے.نماز باجماعت پڑھنی چاہیے.اسی طرح شادی بیاہ کے مسائل ہیں، عورتوں کے حقوق کے مسائل ہیں یہ چیزیں ہیں جو لوگوں کے سامنے متواتر آنی چاہیں اور اُن کو بتانا چاہیے کہ اسلام نے ان پر کیا ذمہ داریاں عائد کی ہیں.اسی طرح ایک اور شکایت ہے جو یہاں آنے پر اکثر سننے میں آتی ہے اور وہ یہ کہ ایک میاں ہے جو اپنی بیوی کو خرچ نہیں دیتا اور اسے مارتا رہتا ہے.ابھی میں خطبہ کے لیے آ رہا تھا کہ مجھے پیغام ملا کہ فلاں لڑکی کہتی ہے آپ میرے خاوند کو بھی سمجھانے کی کوشش کریں وہ ہمیشہ مجھے تنگ کرتا رہتا ہے.سمجھ میں نہیں آتا کہ آخر وہ شخص کس شریعت پر عمل کرتا ہے.ڈنڈا لے کر اپنی بیوی کو مارنے لگ جانا، اُس کو گھر سے نکال دینا اور خرچ تک نہ دینا یہ کس قانون کے ماتحت جائز ہے اور کونسی شریعت اُسے اس بات کا حق دیتی ہے.وہ کہتی ہے میں خاوند کے پاس بھی رہوں تو وہ مجھے اخراجات کے لیے کچھ نہیں دیتا اور کہتا ہے کہ گزارہ چلاؤ.اب سوال یہ ہے کہ وہ گزارہ کس طرح چلائے ؟ یا تو اُسے کوئی پیشہ سکھانا چاہیے مثلاً درزی کی دکان اُسے کھول دی جائے اور کہا جائے کہ اس دکان میں سے گزارہ چلاؤ یا کوئی اور صورت پیدا کی جائے لیکن اِدھر اُس کو گھر میں بٹھا رکھنا اور اُدھر یہ کہنا کہ وہ اس کے مطالبات پورے کرے یہ دونوں باتیں کسی طرح اکٹھی نہیں ہوسکتیں.بہت سی خرابیاں دنیا میں اس وجہ سے پیدا ہوتی ہیں کہ لوگ اپنی بیویوں کو خرچ نہیں دیتے اور اپنے مطالبات جاری رکھتے ہیں.نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ ناجائز ذرائع سے روپیہ کمانے کی کوشش شروع کر دیتی ہیں.کہا جاتا ہے کہ ایک دفعہ وہ اپنی بیوی سے لڑا اور اُس نے کہا کہ میں اس کی ناک کاٹ ڈالوں گا.یہ میرے مطالبات کو پورا نہیں کرتی.شور سن کر لوگ جمع ہو گئے تو اُس کی بیوی نے کہا کہ اس سے پوچھو کہ یہ ہر روز یہ فرمائشیں کرتا ہے کہ آج یہ پکا، آج وہ پکا.کبھی اس نے مجھے پیسے بھی دیئے ہیں؟ یہ کتنے بڑے ظلم کی بات ہے کہ اتنی موٹی باتیں بھی ہماری جماعت کے لوگوں کو معلوم نہیں اور وہ بیویوں کو مارنا اور اُن کو خرچ نہ دینا جائز سمجھتے ہیں حالانکہ شریعت نے ان کو اس قسم کا کوئی حق نہیں دیا.یہ مسائل جو لوگوں پر واضح
$1951 40 40 خطبات محمود کرنے چاہیں بیشک یہ ابتدائی مسائل ہیں لیکن زمیندار انہی ابتدائی مسائل کے زیادہ محتاج ہوتے ہیں یہ نسبت بڑے دینی مسائل کے.وہ ختم نبوت اور توحید کی باریکیوں کو نہیں سمجھ سکتے اُن کے لیے صرف اتنا جاننا ہی کافی ہے کہ اللہ ایک ہے اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اُس کے رسول ہیں اور ان کا فرض ہے کہ وہ خدا اور اس کے رسول کے احکام کی اطاعت کریں.اس کے بعد انہیں یہ بتایا جائے کہ بحیثیت ایک انسان ہونے کے اُن پر کیا ذمہ داریاں عائد ہیں یا بحیثیت ایک باپ اور بیٹا ہونے کے ان پر کیا ذمہ داریاں ہیں.اسی طرح عورتوں کو یہ بتایا جائے کہ بحیثیت ایک بیٹی ہونے کے عورت پر کیا ذمہ داریاں ہیں یا بحیثیت ایک ماں ہونے کے عورت پر کیا ذمہ داریاں ہیں.پھر انہیں بتایا جائے کہ ہمسائیوں کے کیا حقوق ہیں، دوستوں کے کیا حقوق ہیں، میاں کے بیوی پر کیا حقوق ہیں اور بیوی کے میاں پر کیا حقوق ہیں، رشتہ داروں کے کیا حقوق ہیں، جو لوگ کا روبار میں شریک ہوں اُن کے کیا حقوق ہیں.یہ باتیں ہیں جو آہستہ آہستہ ان کو سمجھائی جائیں تا کہ وہ اپنی ذمہ داریوں کو سمجھیں اور ظلم اور انصاف ، دیانت اور بدیانتی اور محنت اور سستی میں فرق کریں اور اپنے آپ کو قوم کا ایک مفید وجود بناسکیں.جب یہ چیزیں ان کے دماغ پر روشن ہو جائیں گی تو پھر بڑے بڑے مسئلے سمجھنے بھی ان کے لیے آسان ہو جائیں گے.بہرحال ایسے دور افتادہ علاقوں میں پریذیڈنٹوں اور سیکرٹریوں اور مبلغوں کو چاہیے کہ وہ چھوٹے چھوٹے مسائل دینیہ لوگوں کو بار بار سمجھاتے رہا کریں.مگر یہ یا درکھا جائے کہ خالی وعظ کرنا کافی نہیں ہوتا بلکہ یہ بھی معلوم کرتے رہنا چاہیے کہ لوگ ان باتوں پر عمل کرتے ہیں یا نہیں.اور آیا وہ با تیں انہوں نے سمجھ لی ہیں یا ابھی اُن کو اور سمجھانے کی ضرورت ہے.بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ خواہ اُن کے سامنے کتنی لمبی تقریر کرو بعد میں دریافت کرنے پر پتا لگتا ہے کہ انہوں نے کچھ بھی نہیں سمجھا.مثلاً میرا خطبہ اس وقت تمام لوگ سن رہے ہیں لیکن نماز کے بعد اگر لوگوں سے دریافت کیا جائے کہ میں نے کیا خطبہ دیا ہے تو بعض ایسے ہوں گے جو بالکل خاموش ہو جائیں گے اور جب دوبارہ ان سے دریافت کیا جائے گا تو وہ کہیں گے ہمیں یاد نہیں رہا لیکن پاس بیٹھنے والا ساتھی فوراً بول اٹھے گا کہ یہ تو اُس وقت سور ہے تھے تو انہوں نے بیان کیا کرنا ہے.پس چونکہ ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں جو سمجھنے کا مادہ اپنے اندر کم رکھتے ہیں اس لیے ضروری ہوتا ہے کہ مسائل کو بار بارد ہرایا جائے.
خطبات محمود 41 $1951 مجھے یاد ہے ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے عورتوں میں تقریریں شروع کیں اور متواتر کئی دن آپ تقریریں فرماتے رہے.زیادہ تر وفات مسیح اور دوسرے اختلافی مسائل کا آپ نے اپنی تقریروں میں ذکر فرمایا تھا.باہر سے ایک مہمان عورت آئی ہوئی تھیں جو بڑے التزام سے ان جلسوں میں شریک ہوئیں.وہ سب سے آگے بیٹھا کرتی تھیں اور جب حضرت مسیح موعود کی علیہ السلام تقریر فرما رہے ہوتے تھے تو وہ بار بار سُبحَانَ اللهِ سُبْحَانَ اللهِ کہتی چلی جاتی تھیں.چند دنوں کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو خیال آیا کہ عورتوں کا امتحان بھی لینا چاہیے تا کہ یہ معلوم ہو سکے کہ انہوں نے میری باتیں کہاں تک سمجھی ہیں.آپ نے اس عورت کو مخاطب کر کے فرمایا بی بی ! مجھے اتنے دن وعظ کرتے گزر گئے ہیں اور تم بڑے شوق سے ان جلسوں میں شامل بھی ہوتی رہی ہو تم بتاؤ کہ میں نے اپنی تقریروں میں کیا کہا ہے؟ اس پر وہ کہنے لگی تساں خدا اور رسول دیا گلاں ہی کیتیاں ہو نیا بین ہور کی کیا ہونا ہے.یعنی آپ نے خدا اور رسول کی باتیں ہی کی ہوں گی اور آپ نے کیا کرنا تھا.گویا کئی دنوں کی تقریروں کے بعد بھی اسے یہ یقین نہیں تھا کہ آپ نے خدا اور اس کے رسول کی باتیں بیان کی ہیں بلکہ وہ اس بارہ میں بھی ابھی متذبذب تھی اور بجھتی تھی کہ آپ نے غالبا اسی قسم کی باتیں بیان کی ہوں گی.جن لوگوں کی دماغی کیفیت اس قسم کی ہو اُن کو ایک یا دو دفعہ کوئی بات بتا کر یہ تسلی نہیں ہو سکتی کہ انہوں نے اس بات کو سمجھ لیا ہے.پس لوگوں کو صرف مسائل بتانے پر ہی اکتفا نہیں کرنا چاہیے بلکہ ان سے بار بار پوچھنا چاہیے اور سوال کرنا چاہیے کہ انہوں نے کیا سمجھا ہے.اس بارہ میں خدام الاحمدیہ اور لجنہ اماءاللہ دونوں کو توجہ کرنی چاہیے.خدام الاحمدیہ کو چاہیے کہ وہ اپنے جلسوں میں نو جوانوں سے بار بار یہ مسائل پوچھیں اور دیکھیں کہ پریذیڈنٹوں یا سیکرٹریوں اور مبلغوں نے جو باتیں بتائی تھیں وہ نو جوانوں نے سیکھی ہیں یا نہیں ؟ اسی طرح لجنہ اماءاللہ کو چاہیے کہ وہ عورتوں کا امتحان لے اور اس امر کی نگرانی کرے کہ عورتوں نے ان مسائل کو کس حد تک سیکھا ہے.اگر اس رنگ میں جماعت کی تربیت جاری رہے تو چھ ماہ یا سال میں ہی جماعت کی کافی حد تک تربیت ہوسکتی ہے.اس کے بعد بڑے بڑے مسئلوں کی باری آ جائے گی.دنیا میں یہی قاعدہ ہے.جب چھوٹا بچہ ہوتا ہے تو اُسے دودھ پلایا جاتا ہے.پھر آہستہ آہستہ جب اس میں مضبوطی آ جاتی ہے تو اسے دوسری غذا ئیں دی جاتی ہیں.اسی طرح قومی تربیت کے لیے
$1951 42 خطبات محمود پہلے موٹے موٹے مسائل لینے چاہیں اور ان کو دماغوں میں داخل کرنا چاہیے.جب ان مسائل کو سیکھ کر انسانی ذہن رسا ہو جاتا ہے تو پھر وہ بڑے بڑے مسئلے بھی آسانی سے سیکھ لیتا ہے“.1 صحيح البخارى كتاب النكاح باب الشَّغَارِ ( الفضل یکم اپریل 1960 ء )
$1951 43 6 خطبات محمود ہماری جماعت کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنی روایات کی بنیا د اخلاق پر قائم کرے دنیوی لحاظ سے سچائی ، دیانت محنت.اور دینی لحاظ سے نماز ، دعا اور ذکر الہی وہ گر ہیں جو کامیابی حاصل کرنے کے لیے ضروری ہیں (فرمودہ 16 مارچ 1951ء بمقام ربوہ ) تشہد ، تعو ذاورسورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: ” میں نے اپنے خطبات میں بارہا جماعت کو عموماً اور ربوہ اور قادیان یعنی مرکز کے ساکنین کو خصوصاً اس امر کی طرف توجہ دلائی ہے کہ مذہب کی بنیا د اخلاق پر ہوتی ہے.جب تک اخلاق کو درست نہ کیا جائے اُس وقت تک نہ فرد کے اندر مذہب داخل ہوسکتا ہے اور نہ قوم کے اندر مذہب داخل ہوسکتا ہے ہے اور نہ وہ کوئی اچھے نتائج پیدا کرتا ہے.میں محسوس کرتا ہوں کہ ہماری جماعت اخلاقی پہلو کی طرف سے بہت کچھ غافل ہے اور ابھی محتاج ہے اس بات کی کہ اسے جگایا جائے ، وہ محتاج ہے اس بات کی کہ اسے جھنجھوڑا جائے ، وہ محتاج ہے اس بات کی کہ اسے بار بار اس امر کی طرف توجہ دلائی جائے.یہ قدرتی ہے کہ آہستہ آہستہ نام حقیقت بننے لگ جاتے ہیں اور جہاں یہ امر برکت کا موجب ہوتا ہے
خطبات محمود 44 $1951 ނ وہاں بعض اوقات یہ امر لعنت کا موجب بھی بن جاتا ہے.یہ امر برکت کا موجب اسی طرح ہوتا.کہ ناموں کے ساتھ بعض ٹریڈیشنز (Traditions) اور روایات وابستہ ہوتی ہیں اُن ٹریڈیشنز اور روایات کے رکھنے والوں کو ان پر چلنا بہ نسبت دوسروں کے زیادہ آسان ہوتا ہے.دنیا کی ادنیٰ سے ادنی قوم میں بھی بعض روایات ہوتی ہیں اور تم دیکھو گے کہ وہ قوم ان روایات پر عمل کرنے میں ساری اقوام سے زیادہ کامیاب ہوتی ہے.مثال کے طور پر میں اس قوم کو لیتا ہوں جود نیا میں سب سے زیادہ بدنام ہے اور وہ کنچنیاں ہیں.میں غیر اقوام کی کنچنیوں کو نہیں جانتا.ہاں! مسلمان کنچنوں میں نیک کاموں کے لیے روپیہ خرچ کرنے کی بڑی عادت ہوتی ہے اور غالباً یہ طریق ان میں اس لیے رائج ہے کہ وہ خیال کرتی ہیں کہ ہم روزانہ گناہ کرتی ہیں چلو! ان کاموں میں بھی کچھ خرچ کر لیا جائے تا کہ گناہ کا بوجھ کچھ ہلکا ہو جائے.اسی طرح بعض روایات چوہڑوں میں پائی جاتی ہیں.مثلاً اپنی قوم میں شادی کرنا ہے.جو قو میں چھوٹی سمجھی جاتی ہیں وہ بھی اس جذبہ میں بڑی قوموں سے پیچھے نہیں ہوتیں.چنانچہ جس مشکل سے ایک پٹھان ، ایک سید، ایک مغل، ایک قریشی، ایک راجپوت یا ایک برہمن اپنی لڑکی کا رشتہ غیر اقوام کو دینے کے لیے تیار ہو گا تم دیکھو گے کہ اسی مشکل سے ایک چوہڑا بھی اپنی لڑکی کا رشتہ غیر قوم کے لڑکے کو دینے کے لیے تیار ہو گا.مجھے یاد ہے قادیان میں میں نے ایک لڑکی کے لیے رشتہ تجویز کیا.جن کی لڑکی تھی وہ پیشہ کے لحاظ سے دُھنے یعنی پینجے تھے جو روئی دھنکتے ہیں.ویسے وہ کشمیری تھے.اور جس نوجوان سے رشتہ کی تجویز کی گئی تھی وہ درزی تھا اور بادی النظر میں یہی سمجھا جاتا تھا کہ دُھنیے سے درزی اچھا ہے.اُس کی کمائی بھی زیادہ تھی اور پھر اُس کی دکان بھی تھی.پس میں نے سمجھا کہ میں نے اس لڑکی کا رشتہ ایک آسودہ حال خاندان میں کروایا ہے.اس لڑکی کی دادی زندہ تھی اور گوا سے حق ولایت حاصل نہیں تھا.حق ولایت لڑکی کے والد کو حاصل تھا جو زندہ تھا.لیکن عام طور پر دادیاں سمجھتی ہیں کہ پوتیوں پر اُن کا بھی حق ہے اس نے بیٹے کو رشتہ سے انکار کر دینے پر ا کسایا لیکن وہ نہ مانا کیونکہ وہ دیکھ رہا تھا کہ اس میں اس کی لڑکی کا ہی فائدہ ہے.وہ بڑی پردہ دار عورت تھی اور ہم اسے بڑی صالح اور شرم و حیا والی عورت سمجھا کرتے تھے لیکن جب اس کی غیرت کو یہ ٹھوکر لگی کہ ایک شریف دُھنیا کی لڑکی ایک کذات درزی سے بیاہی جا رہی ہے اور اسے معلوم ہوا کہ اس نکاح کی تحریک میں میرا بھی حصہ ہے
$1951 45 خطبات محمود تو غیرت اس کی شرم و حیا اور پردہ پر غالب آ گئی.اُس نے بال بکھیر لیے اور پیٹھ پر ایک چار پائی اُٹھاتی لی اور ننگے سر اور ننگے منہ پاگلوں کی طرح باتیں کرتے ہوئے ہندوؤں کے محلہ سے جس میں اُن کی رہائش تھی ہوتی ہوئی احمدی محلہ کی طرف اس نے رُخ کر لیا.کبھی وہ اوٹ پٹانگ شعر پڑھتی اور کبھی ئین کرتی ہوئی کہتی ہائے ! لڑکی کذاتاں نوں دے دتی.اسی طرح شور کرتی ہوئی وہ گول کمرہ کے پاس جہاں میرا دفتر تھا پہنچی.بعض دوستوں نے مجھے اطلاع دی کہ فلاں عورت پاگل ہوگئی ہے.وہ بال کھولے، ننگے سر اور ننگے منہ پیٹھ پر چار پائی اٹھائے گلیوں میں پھر رہی ہے اور شور مچارہی ہے.میں نے کہا وہ پاگل نہیں بلکہ مجھے ڈرا رہی ہے.چنانچہ میں نے باہر نکل کر اُس عورت سے کہا اللہ تعالیٰ نے تمہیں ولی نہیں بنایا ولی لڑکی کے باپ کو بنایا ہے جو اس رشتہ میں راضی ہے اور وہ اسے اچھا سمجھتا ہے تو بیشک شور مچا اور گلیوں میں پاگلوں کی طرح پھر لیکن یہ رشتہ رک نہیں سکتا.اس کے بعد میں نے ایک دو احمدیوں سے کہا کہ اسے اپنے ساتھ لے جاؤ اور احمدی محلوں میں پھراؤ.جب اسے پتا لگا کہ یہ ڈریں گے نہیں اور لڑکی کا رشتہ ہو کر رہے گا تو یا تو اُس نے سر ننگا کیا ہوا تھا اور بال کھولے ہوئے تھے اور پیٹھ پر چار پائی اٹھائے ہوئے تھی اور یا پھر اس نے چارپائی نیچے رکھی ، منہ پر کپڑا لیا اور نہایت اطمینان - اپنے گھر واپس چلی گئی.اب دیکھو! پیشہ کے لحاظ سے لڑکا زیادہ کمانے والا تھا اور لڑکی کا باپ کم کمائی کرنے والا تھا اور پھر وہ بالکل نکتا تھا.گویا قومی لحاظ سے بھی وہ ایک درزی سے کم تھا اور پیشے کی کمائی کے لحاظ سے بھی ایک دُھنیا کی کمائی درزی سے کم ہوتی ہے لیکن چونکہ کچھ مدت سے اُن میں دُھنیے کا پیشہ چل پڑا تھا اس لیے وہ سمجھتے تھے کہ ہماری لڑکی کذات درزی سے بیاہی جارہی ہے.غرض کسی قوم میں جو روایات چل پڑتی ہیں اگر چہ بعض اوقات انہیں عقل تسلیم نہیں کرتی لیکن پھر بھی اس کے افراد ان پر بڑی سختی سے عمل کرتے ہیں.اور اگر بدقسمتی سے بد روایات چل پڑیں تو ان کا بداثر نکلنا شروع ہو جاتا ہے.ابتدائی حالتوں میں جب قو میں بنتی ہیں اور جب ان کے اندر یہ جذبہ پایا جاتا ہے کہ وہ اپنے لیے ایک مستقل رستہ ، اعلیٰ روایات اور شاندار مستقبل تیار کریں اُس وقت اگر اُن کا قدم غلط طرف اٹھ جائے تو غلط روایات ان کے لیے لعنت بن جاتی ہیں اور ان سے نکلنا اُن کے لیے مشکل ہو جاتا ہے.پس قوم کے ابتدائی دور میں بہ نسبت اس دوسرے دور کے جس میں روایات قائم ہو
$1951 46 خطبات محمود جاتی ہیں بہت زیادہ احتیاط کی ضرورت ہے.ہماری جماعت جس دور میں سے گزر رہی ہے اور جن حالات کا انہیں سامنا کرنا پڑ رہا ہے ان کے لحاظ سے ضروری ہے کہ ان میں جو روایات قائم ہوں ان کی بنیاد ا خلاق پر ہو.موٹے موٹے اخلاق جن سے تمام نقائص کی اصلاح ہو جاتی ہے دنیوی لحاظ سے سچائی ، دیانت اور محنت ہیں اور دینی لحاظ سے نماز ، دعا اور ذکر الہی ہے.اگر ہم یہ مجھ لیں کہ بغیر اخلاق کے اور بغیر نماز پڑھنے کے محض تبلیغ کے ذریعہ ہم اپنے مقصد کو پالیں گے تو یہ غلط ہے.یہ ناممکن ہے کہ ہم محض تبلیغ کے ذریعہ دنیا میں کامیاب ہو جائیں.جس طرح یہ ناممکن ہے کہ خالی نمازیں پڑھنے سے ہم کامیاب ہو جائیں ، جس طرح یہ ناممکن ہے کہ خالی تبلیغ سے کامیابی حاصل ہو جائے ویسے ہی یہ بات بھی ناممکن ہے کہ محض محنت ، بانی اور ایثار کے ذریعہ دنیا میں ہم کامیاب ہو جائیں.یہ تینوں کونے ہیں جنہیں کامیابی حاصل کرنے کے لیے درست رکھنا ضروری ہے.بغیر تبلیغ کے لوگوں کو تمہارے مافی الضمیر کا پتا نہیں لگے گا اور خدا تعالیٰ کے فضل کے بغیر تمہارا مافی الضمیر دوسروں کے دلوں پر اثر نہیں کر سکتا.اسی طرح بغیر دیانت، محنت اور جد وجہد کے تمہاری ایک ایسی مادی مثال لوگوں کے سامنے نہیں آ سکتی جو انہیں تمہاری برتری کا اقرار کرنے پر مجبور کرے.اگر کسی قوم میں نماز، دعا اور ذکر الہی کی عادت پیدا ہو جاتی ہے تو دیکھنے والے پر سب سے پہلا اثر یہ ہوتا ہے کہ یہ قوم روحانی ہے.پھر فرشتے ان کے دل کی تا شیرات کو باہر پھیلاتے ہیں.اور پھر اگر اس میں دیانت، محنت، قربانی، ایثار اور سچائی کی عادت پائی جائے تو دیکھنے والا یہ سمجھتا ہے کہ یہ شخص مجھ سے بالا ہے اور اس کی قوم میری قوم سے بالا ہے.اور جب تبلیغ ہوتی ہے تو وہ اپنے اندرونی خیالات کو دوسروں تک پہنچا دیتا ہے.گویا تبلیغ وہ نہر ہے جس سے پانی گزرتا ہے، تبلیغ لوہے کی وہ ریلیں ہیں جن پر سے ٹرین گزرتی ہے تبلیغ وہ سمندر ہے جس میں سے جہاز گزرتا ہے.اگر سمندر کو خشک کر دو تو جہاز بیکار ہو جائے گا، اگر لوہے کی ریلیں اکھیڑ دو تو ٹرینیں چلنی بند ہو جائیں گی، اگر سڑک تو ڑ دو تو موٹریں چلنا بند ہو جائیں گی ، نہر میں گرا دو تو پانی چلنا بند ہو جائے گا، دریا کا پاٹ ریت سے بھر دو تو دریا کی روانی بند ہو جائے گی.لیکن دریا کے اندر جو تا ثیر ہے ، آگ کے اندر جو تاثیر ہے، ریلوں، سڑکوں اور نہروں میں جو تا ثیر پائی جاتی ہے یہ سب چیزیں خدا تعالی کی نعمتیں ہیں.ان کا نام ایجاد رکھ لیتے ہیں لیکن در حقیقت یہ ایجاد نہیں بلکہ خدا تعالیٰ کے ایک راز کی
$1951 47 خطبات محمود دریافت ہوتی ہے.خدا تعالیٰ جو کائنات کا پیدا کرنے والا ہے وہ کسی چیز کے اندر کوئی راز چھپا دیتا ہے اور انسان ایک وقت میں جا کر اسے دریافت کر لیتا ہے مگر اس کے لیے انسان کے اندر قابلیت کا پایا جانا بھی ایک ضروری شرط ہے.مادی چیزیں بھی تکوین کے لیے تین چیزیں چاہتی ہیں.ایک تو وہ قوت فاعلہ کو چاہتی ہیں، ایک وہ سامان چاہتی ہیں جس کو استعمال کیا جائے اور پھر وہ طاقت چاہتی ہیں جو قوت فاعلہ کو عمل میں بدل دے.کھڑا ہوا گھوڑا بھی ایسا ہی ساکن ہوتا ہے جیسے لوہے کا گولا ، کھڑی ہوئی موٹر بھی ویسے ہی ساکن ہوتی ہے جیسے ایک چٹان ، اس میں چلنے کی قوت موجود ہوتی ہے لیکن جب تک چلانے والا اُسے چلاتا نہیں وہ بیکار ہوتی ہے.دنیا میں جتنی چیزیں ہیں خدا تعالیٰ انہیں چلاتا ہے اور اس کی مدد حاصل کرنے کے لیے دینی ہتھیاروں میں دعا ہے، نماز ہے اور ذکر الہی ہے.پس ہماری جماعت کے اندر نماز، دعا اور ذکر الہی کی عادت ہونی چاہیے.تمہاری ترقی کی جگہ اور تمہاری کامیابی کا گر مسجدیں ہیں.اگر تم مسجدوں کو آباد کرو گے تو تمہارے دل بھی اللہ تعالیٰ کی محبت سے آباد ہوں گے.اور اگر تمہاری مسجد میں آباد نہیں اور تم خیال کرتے ہو کہ تمہاری کوششیں کامیاب ہو جائیں گی یا تمہارے دل نورانی ہو جائیں گے تو یہ ایک ایسا جھوٹ ہے جس کی مثال دنیا میں ملنی مشکل ہے.(الفضل 16 ستمبر 1959ء)
$1951 48 (7) خطبات محمود بہت زیادہ دعاؤں اور ذکر الہی سے کام لو تا کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اس مقصد میں کامیاب کرے جس کے لیے اس نے ہماری جماعت کو قائم کیا ہے (فرمودہ 23 مارچ 1951ء بمقام ربوہ ) خطبہ شروع کرنے سے پہلے میں دوستوں کو یہ کہنا چاہتا ہوں کہ یہ پہلی مستقل مسجد ہے جو ہجرت کے بعد ربوہ میں بنی ہے اور جیسے قادیان میں ہمارے گھر کے پاس ایک مسجد تھی جسے چھوٹی مسجد یا مسجد مبارک کہتے تھے اُسی طرح یہ مسجد بھی قصر خلافت کے پاس بنائی گئی ہے.اس کے علاوہ ایک اور مسجد بھی بنائی جائے گی جو جامع مسجد ہوگی اور مجلس شورای کے اجلاس بھی اس میں ہوا کریں گے.چونکہ ایک مستقل مسجد میں آنے کا یہ پہلا موقع ہے جسے خدا تعالیٰ اور اسلام کے نام کو بلند کرنے کے لیے بنایا گیا ہے اس لیے ضروری تھا کہ اس کا افتتاح کرنے سے قبل بطور شکرانہ نوافل ادا کیے جاتے لیکن یہ موقع یسا نہیں کہ صحیح اور منظم طور پر نوافل ادا کیے جاسکیں.اس لیے میری خواہش ہے کہ ہم افتتاح سے پہلے خدا تعالیٰ کے حضور بطور شکرانہ ایک سجدہ کر لیں کہ اس نے ہمیں ربوہ میں پہلی مستقل مسجد بنانے کی توفیق عطا فرمائی اور یہ کہ وہ ایک رنگ میں مکمل کر لی گئی ہے.اس کے بعد حضور نے ایک لمبا سجدہ شکر ادا فرمایا اور حضور کی اقتدا میں باقی تمام دوست بھی
$1951 49 خطبات محمود سجدہ میں گر گئے.سجدہ سے سر اٹھانے کے بعد حضور نے تشہد ، تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کی اور فرمایا: چونکہ مجھے نقرس کا دورہ ہے اس لیے میں خطبہ جمعہ کھڑے ہو کر نہیں پڑھا سکتا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ابتدا میں یہ حکم تھا کہ جب امام کھڑے ہو کر نماز نہ پڑھا سکے تو مقتدی بھی بیٹھ کر نماز پڑھا کریں 1 لیکن بعد میں خدا تعالیٰ کی ہدایت کے ماتحت آپ نے اس حکم کو بدل دیا اور فرمایا کہ اگر امام کسی معذوری کی وجہ سے بیٹھ کر نماز پڑھائے تو مقتدی نہ بیٹھیں بلکہ وہ کھڑے ہو کر ہی نماز ادا کیا کریں.2 پس چونکہ میں کھڑے ہو کر نماز نہیں پڑھا سکتا اس لیے میں بیٹھ کر نماز پڑھاؤں گا اور دوست کھڑے ہوکر نماز ادا کریں.یہاں نماز جمعہ ادا کرنے کے بعد ہم شورای کی جگہ پر جائیں گے.چونکہ وہاں کمیٹیاں بنیں گی اور ان کمیٹیوں کو بہت سا کام کرنا ہو گا اس لیے نماز جمعہ اور نماز عصر اکٹھی پڑھی جائیں گی اور بعد میں شوری کا کام شروع کیا جائے گا.یہاں جو دوست نماز جمعہ ادا کرنے آئے ہیں انہیں دیکھ کر معلوم ہوتا ہے کہ مجلس شورای میں شریک ہونے کے لیے بیرونی جماعتوں سے نمائندگان اور مہمانوں کی ایک خاصی تعداد آئی ہے.پھر یہاں کے مقامی لوگ بھی ہیں.اس لیے مسجد اگر چہ بڑی ہے بلکہ قادیان کی مسجد اقصی سے بھی بڑی ہے پھر بھی بہت سے لوگ باہر کھڑے ہیں.اس موقع پر میں پہلی نصیحت تو یہ کرنا چاہتا ہوں کہ اگر چہ اجتماعی برکت کا موجب ہوتے ہیں لیکن بعض اجتماع مختلف قسم کی خرابیوں کا موجب بھی ہو جاتے ہیں کیونکہ وہ بعض اوقات میلوں کی صورت اختیار کر جاتے ہیں اور جب اجتماع میلوں کی شکل اختیار کر جاتے ہیں تو ان کی برکتیں چھن جاتی ہیں.اس لیے باہر سے آنے والے احباب اس طرف خاص طور پر توجہ کریں اور کوشش کریں کہ ہمارے اس قسم کے اسلامی اجتماع میلوں کی شکل اختیار نہ کریں.احباب کو اسلامی جماعتوں کے مطابق اپنا پروگرام بنانا چاہیے اور اکثر وقت ذکر الہی میں صرف کرنا چاہیے.جو لوگ اس قسم کے اجتماعوں کی غرض کو پورا نہیں کرتے اور خدا تعالیٰ کی رضا کو حاصل کرنے کے لیے اپنے وقت کو کسی پروگرام کے ماتحت خرچ نہیں کرتے اور کہیں ہانکنے اور بازاروں میں ادھر ادھر پھرنے سے اپنے آپ کو روک نہیں سکتے ان کے لیے، ان کے خاندان کے لیے اور دین کے لیے یہ زیادہ برکت والی بات ہوگی کہ وہ یہاں نہ آئیں کیونکہ اُن کا یہاں آنا اور پھر اپنے وقت کو لغو باتوں میں ضائع کر دینا
$1951 50 خطبات محمود اُن کے لیے اور اُن کے خاندان کے لیے خدا تعالیٰ کی ناراضگی کا موجب ہو جاتا ہے.پس جو دوست یہاں آئیں وہ اس طرز سے یہاں رہیں کہ اپنا زیادہ سے زیادہ وقت اپنے ایمان کی ترقی اور دین کے سیکھنے میں خرچ کریں.جو لوگ ادھر اُدھر کھڑے ہو کر گئیں ہانکتے ہیں اُن کا نہ آنا یہاں آنے سے بہتر ہے.اگر ان کے یہاں کچھ رشتہ دار ہیں اور وہ ان مواقع پر یہاں اس لیے آتے ہیں کہ وہ انہیں مل لیں تو وہ کسی اور وقت یہاں آیا کریں تا ہمارے اجتماع جو خالص اسلامی طرز کے ہوتے ہیں میلوں کا رنگ اختیار نہ کر جائیں.آخر جہاں مرکز ہوتا ہے وہاں جماعت کے دوستوں کے بعض رشتہ دار بھی ہوتے ہیں اور وہ انہیں ملنے کے لیے ضرور آئیں گے میں انہیں ایسا کرنے سے روکتا نہیں.میری نصیحت کی صرف یہ ہے کہ وہ اس غرض کے لیے اِن دنوں میں یہاں نہ آیا کریں تا ہمارے اجتماع میلوں کا رنگ اختیار نہ کریں.جیسے عام طور پر لوگ میلوں پر اس لیے چلے جاتے ہیں تا وہ میلہ بھی دیکھ آئیں اور اپنے رشتہ داروں کو بھی مل آئیں.وہ انہیں ملنے کے لیے دوسرے اوقات میں سے کوئی وقت نکال لیا کریں تا ان کا یہاں آنا ثواب کی بجائے عذاب کا موجب نہ بنے.دوسری بات میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ ہماری موجودہ حالت ایک مہاجر کی سی ہے.اس زمانہ میں ہجرت ایک خاص رنگ اختیار کر گئی ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ میں بھی ہجرت ہوتی تھی لیکن وہ ہجرت اس قسم کی تھی کہ دو دو تین تین آدمی ہجرت کر کے چلے جاتے تھے اور انصار میں ملتے جاتے تھے.لیکن یہ ہجرت ایسی ہے کہ سب لوگ اکٹھے ہجرت کر کے آگئے ہیں اور کوئی جگہ ایسی نہیں تھی جہاں وہ بس سکیں.ہم پر خدا تعالیٰ نے فضل کیا اور ہمیں ایک مرکز دیا.لیکن اس مرکز کے بنانے میں بہت دیر لگ گئی ہے.گو یہ خدا تعالیٰ کا فضل ہے کہ باوجود مصائب کے اور بے بس اور بے کس ہونے کے ہماری جماعت کی حالت ایسی مایوس کن نہیں جیسی دوسری اقوام کی ہے.میں نے کسی احمدی کو اس حالت میں نہیں دیکھا کہ وہ حیران اور پریشان ہو اور اس کے چہرے پر مایوسی چھائی ہوئی ہو.مجھے ایک دفعہ ایک ملکی کام کے لیے لاہور سے راولپنڈی جانا پڑا.ہم موٹر میں جا رہے تھے.رستہ میں سڑک کے نزدیک میں نے ہزاروں ہزار آدمیوں کو ڈنڈے کھڑے کر کے اور اُن پر چادر میں ڈال کر کھیتوں میں پڑے ہوئے کسمپرسی کی حالت میں دیکھا.میں نے سمجھا کہ شاید یہ لوگ خانہ بدوش ہیں یا مزدور ہیں جنہوں نے عارضی طور پر یہاں خیمے لگائے ہوئے ہیں.میرے ساتھ میرا ایک لڑکا بھی تھا.
$1951 51 خطبات محمود اس نے مجھے بتایا کہ یہ لوگ مہاجر ہیں.گورنمنٹ ان کے لیے کوئی انتظام کرتی تو ان کی یہ حالت نہ ہوتی.میں نے موٹر کو وہاں کھڑا کیا اور بعض لوگوں سے دریافت کیا کہ تم کون ہو؟ تو مجھے معلوم ہوا کہ وہ واقع میں مہاجر ہیں.ان کی حالت نہایت خراب تھی لیکن ہماری جماعت کے دوستوں کی یہ حالت نہیں.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ہمارے کچے مکانات ہیں اور وہ بھی اتنے اچھے نہیں اور انہیں مکانوں میں غریب اور امیر سب رہتے ہیں لیکن پھر بھی یہ مکانات اُن جھونپڑوں کی نسبت بہت اچھے اور صاف ستھرے ہیں.پس دوسرے لوگوں کی نسبت ہماری حالت بہر حال اچھی ہے.صرف بات یہ ہے کہ پوری تنظیم کے نہ ہونے کی وجہ سے کام نہیں ہوا اور مرکز کے آباد کرنے میں دیر لگ رہی ہے.خدا تعالیٰ کی تقدیر تو پوری ہوگی اور پوری ہو رہی ہے لیکن ضروری ہے کہ انسانی تدبیر کا جو حصہ ہے وہ بھی پورا ہو.خدا تعالیٰ کی تقدیر نے ہمیں ایک مرکز دے دیا ہے اور دوسری قوموں کی نسبت ہماری حالت بدر جہان بہتر ہے لیکن جماعت تدبیر والے حصہ کو پورا نہیں کر رہی.خدا تعالیٰ تو نشانات ظاہر کر رہا ہے اور اپنی تقدیر کو بڑھ چڑھ کر پورا کر رہا ہے کوتاہی صرف ہماری طرف سے ہو رہی ہے.بہر حال یہ حالت جتنی دیر رہے گی ہمارے لیے نقصان دہ ہے.جولوگ دور سے آتے ہیں وہ سمجھتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کا کوئی نشان ظاہر نہیں ہوا لیکن جو یہاں رہتے ہیں اُن پر خدا تعالیٰ کے نشانات کی عظمت ظاہر ہے.صرف فرق یہ ہے کہ تم خود وہ کام نہیں کر سکے جو تمہارے سپر دتھا یعنی انسانی تدبیر کا جہاں تک سوال تھا اُسے پورا نہیں کیا گیا.اس وقت حالت یہ ہے کہ افراد اپنے مکان نہیں بنا سکتے کیونکہ ان کی جائیدادیں اور اموال مشرقی پنجاب میں لٹ گئے اور اب وہ اس حالت میں نہیں کہ مکان بنا سکیں.بعض کی زمین کھلی پڑی ہوئی ہے ، بعض کی بنیاد میں گھری پڑی ہیں، بعض نے بنیاد میں کھڑی کر لی ہیں تو ابھی دیوار میں نہیں بنیں اور اگر دیوار میں بنی ہیں تو چھتیں نہیں پڑیں.پھر ابھی دفاتر بھی تعمیر نہیں ہو سکے ، سکول اور کالج کی عمارتیں بھی نہیں بنیں ، مہمان خانہ نہیں بنا، کارکنوں کے رہائشی کوارٹر تیار نہیں ہوئے.ان حالات میں ضروری ہے کہ ہم خدا تعالیٰ کے حضور دعائیں کریں کہ وہ ہماری مشکلات کو دور فرمائے اور یہ ایک ہی ہتھیار ہے جو ہم ہر جگہ استعمال کر سکتے ہیں.جو لوگ باہر سے آئے ہیں وہ دیکھ رہے ہیں کہ ہمارا کام ابھی تشنہ تکمیل ہے.ابھی ہمیں
$1951 52 خطبات محمود بہت سا کام کرنا ہے.اس لیے آؤ ہم خدا تعالیٰ کے حضور عاجزانہ دعائیں کریں کہ وہ جلد سے جلد ہمارے اس عارضی مرکز کو آباد کرے تا اشاعت کا کام جو ہمارے سپرد کیا گیا ہے سُرعت کے ساتھ دنیا میں پھیل جائے.میں سمجھتا ہوں کہ ہمیں یہ بھی دعائیں کرنی چاہیں کہ اللہ تعالیٰ اس مرکز کو آئندہ کے لیے آباد رکھنے کی بھی کوئی صورت پیدا کر دے.ہم جب قادیان چلے جائیں گے ایک بڑی پرابلم (Problem) ہمارے سامنے آ جائے گی کہ یہ عارضی مرکز جو بنایا گیا ہے اسے کس طرح آباد رکھا جائے.اس کے لیے ہمیں آج سے ہی دعائیں شروع کر دینی چاہیں کہ خدا تعالیٰ اس جگہ کو آبادرکھنے کی بھی کوئی صورت بنا دے.مکہ اور مدینہ میں کوئی بڑا فاصلہ نہیں تھا لیکن پھر بھی ملکہ کی موجودگی میں مدینہ کی ضرورت باقی تھی.اس لیے یہ سوال تو پیدا نہیں ہوسکتا کہ قادیان کی موجودگی میں ربوہ کی کوئی ضرورت نہیں رہے گی بلکہ سوال یہ ہے کہ جماعت اُس وقت تک اس قدر بڑھ جائے کہ اس کے لیے ایک سے زیادہ مراکز ضروری ہو جائیں.اگر جماعت بڑھ جائے تو ایک کالج کیا دس ہزار کا لج بھی کی ہمارے لیے تھوڑے ہیں.ایک اسکول کیا ایک لاکھ اسکول بھی ہماری ضرورت کو پورا نہیں کر سکتے.پس جماعت بڑھ جائے تو پھر کوئی بات نہیں یہاں بھی ایک مرکز رہے اور قادیان بھی مرکز رہے بلکہ ہمیں مشرقی بنگال میں بھی ایک مرکز بنانے کی ضرورت ہے لیکن موجودہ حالات میں جماعت اتنی تھوڑی ہے کہ اس کے لیے دو مرا کز کو قائم رکھنا مشکل ہے اور بظاہر حالات دو جگہ پر پوری طاقت کے ساتھ بیٹھنا مشکل نظر آتا ہے لیکن خدا تعالیٰ میں یہ طاقت ہے کہ وہ لوگوں کے دلوں کو کھول دے اور جماعت ایک سال میں دس گنا ہو جائے.پھر دونوں مرکز آبادرہ سکتے ہیں بلکہ پھر یہ سوال بھی آجائے گا کہ ایسٹ پاکستان میں بھی ایک مرکز قائم کیا جائے.یہ بات یا درکھنی چاہیے کہ جو جماعت بھی فعال ہو گی اُسے دوسروں سے الگ مرکز بنانا پڑے گا.مثلاً لا ہور یا کسی اور شہر میں ہم رہتے تو ہمیں دوسروں کا حصہ بن کر رہنا پڑتا لیکن کسی جماعت کا مرکز اُس جگہ کو کہتے ہیں جہاں اُسے کثرت حاصل ہو اور جہاں اُس کا اپنا ماحول ہو.اس لیے ہمیں بہر حال اپنا مرکز دوسروں سے الگ بنانا پڑے گا تا ہماری وہاں کثرت ہو اور اپنا دینی ماحول ہو.قادیان کو خدا تعالیٰ نے بطور مرکز اس لیے چنا تھا کہ وہ ایک چھوٹا سا گاؤں تھا جہاں ہمارا اپنا ما حول آسانی کے ساتھ بن سکتا تھا.پس مرکز کے لیے جو جگہ بھی منتخب ہوگی وہ جنگل میں ہی ہوگی لاہور، کراچی، پشاور،
$1951 53 خطبات محمود ڈھا کہ یا چٹا گانگ میں نہیں ہوگی.مرکز بہر حال کسی چھوٹی جگہ یا کسی جنگل میں بنے گا جہاں ہم اٹھتے بیٹھتے، سوتے جاگتے ، چلتے پھرتے اپنے آپ کو ایک خاص ماحول میں اور ایک خاص پروگرام کے ماتحت رکھ سکیں.اور ایسی جگہ لاہور میں نہیں ہو سکتی ، لندن میں نہیں ہو سکتی ، واشنگٹن میں نہیں ہو سکتی ، نیو یارک میں نہیں ہو سکتی، بلکہ وہیں ہو سکتی ہے جہاں اپنا ماحول بناناممکن ہو، اپنے سکول ہوں اور اپنی اکثریت ہو اور یہ ہمیں بنے بنائے شہروں میں حاصل نہیں ہوسکتی.سب انبیاء کے زمانوں میں یہی طریق اختیار کیا گیا ہے.مکہ کو دیکھ لو خدا تعالیٰ نے مکہ والوں پر احسان کیا کہ اُس نے ان میں اپنا عظیم الشان رسول بھیج دیا لیکن وہ بھی کوئی بڑا شہر نہ تھا محض ایک قصبہ تھا لیکن کئی سال تک انہوں نے اسے قبول نہ کیا.اس پر خدا تعالیٰ نے اسے مدینہ بھیج دیا جو ایک چھوٹی سی جگہ تھی جہاں خدا تعالیٰ نے جلد ہی ایک دینی ماحول پیدا کر دیا اور اس کے ماننے والوں کو غلبہ دیا.جب مدینہ میں دین پھیل گیا تو اس کی کے بعد آہستہ آہستہ مکہ والوں نے بھی اسلام قبول کر لیا لیکن یہ اُسی وقت ہوا جب مدینہ مرکز بنا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب تک مکہ میں رہے اُس وقت تک مکہ والوں نے اسلام قبول نہیں کیا تھا.پس مرکز یا تو کسی نئی جگہ بنے گا یا کسی گاؤں یا چھوٹے قصبہ میں بنے گا جہاں جماعت جلد از جلد پھیل جائے اور اسے ایک دینی ماحول میسر آ جائے.یہ بات میں نے اس لیے بتائی ہے کہ بعض لوگ کہہ دیتے ہیں کہ آخر ایک نئی جگہ بنانے کی ضرورت ہی کیا تھی.جس شہر میں بھی مرکزی دفاتر ہوتے وہی ہمارا مرکز ہوتا.میں نے بتایا ہے کہ یہ بات غلط ہے.مرکز اُسی مقام کو کہتے ہیں جہاں کسی جماعت کی اکثریت ہو اور جہاں کا ماحول اس کا اپنا ہو.اگر کسی مقام کو یہ خصوصیت حاصل نہیں تو وہ مرکز نہیں.اس کی مثال سمندر میں ایک کارک کی سی ہے.لاہور میں ایک اسکول کیا ہم دس اسکول بنالیں سینکڑوں مبلغ تیار کر لیں لیکن وہ لاہور کی آبادی کا ایک حصہ ہی ہوں گے.لاہور دس لاکھ کی آبادی کا شہر ہے.وہاں درجنوں سکول ہیں.اگر وہاں ہم ایک کی بجائے دس اسکول بھی بنالیں تب بھی وہ شہر کا ایک حصہ ہی ہوں گے، ایک کالج کی بجائے چار کالج بھی بنالیں تب بھی وہ شہر کا ایک حصہ ہی ہوں گے.لیکن ان سے چوتھا حصہ تعلیمی ادارے بنا کر ہم ربوہ کو مرکز بنا سکتے ہیں جہاں ہمارا اپنا ماحول ہوگا، اپنی اکثریت ہوگی اور جہاں ہمیشہ ذکر الہی ہوگا ، قرآن کریم کا درس ہوگا، مسجد میں ہم خدا تعالیٰ کے نام کو بلند کرسکیں گے، اسلام کا ہمیں صحیح مفہوم حاصل
$1951 54 خطبات محمود ہو گا جو تمام قسم کے زنگوں اور آلائشوں سے پاک ہوگا اور پھر یہاں رہ کر ہم اسلام کو تمام دنیا میں پھیلانے کی تدابیر سوچ سکیں گے.یہ باتیں لاہور یا کسی اور شہر میں ہمیں میسر نہیں آسکتیں.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ خدا تعالیٰ کی طاقت میں سب کچھ ہے مگر بظاہر حالات اگر ہمیں وہاں اکثریت بھی حاصل ہو تب بھی وہ اکثریت کہیں پچھپیں چھبیس سال میں حاصل ہوگی لیکن یہاں فوری طور پر اکثریت حاصل ہو جائے گی.یہ بالکل اُجڑی ہوئی جگہ تھی.یہاں کوئی آبادی نہ تھی.جب یہاں دس پندرہ خیمے لائے گئے تب بھی یہاں ہمیں اکثریت حاصل تھی اور اب جب کچھ مکانات بن گئے ہیں تب بھی ہمیں اکثریت حاصل ہے لیکن لاہور میں ہم پندرہ سو مکانات کے ساتھ بھی مرکز نہیں بنا سکتے تھے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام اگر دہلی میں تشریف لے جاتے اور ہزاروں آدمی وہاں ایمان لے آتے تب بھی وہ مرکز نہ ہوتا لیکن قادیان مرکز ہو گیا کیونکہ وہ ایک چھوٹی سی جگہ تھی اور وہاں جماعت جلد پھیل گئی اور اس نے اکثریت حاصل کر لی ، اپنا دینی ماحول پیدا کر لیا.اور مرکز کے معنے ہی یہ ہوتے ہیں کہ ایسی جگہ جو دوسروں سے الگ ہو، جہاں ایک ہی خیال کے لوگ بستے ہوں اور اسلام کی اشاعت اور اس کو تمام دنیا میں پھیلانے کی تجاویز صبح، دوپہر، شام اور رات ہمارے کانوں میں پڑتی ہوں.ایسے مراکز کی ہمیں ہر جگہ ضرورت ہو گی.پنجاب میں بھی ان کی ضرورت ہو گی، سندھ میں بھی ان کی ضرورت ہوگی سرحد میں بھی ان کی ضرورت ہوگی ، بنگال میں بھی ان کی ضرورت ہوگی تا کہ ہم تبلیغی اور تعلیمی کام کو جاری رکھ سکیں.لیکن اس کے لیے روپیہ کی ضرورت ہے تا کہ ہم سلسلہ کے دفاتر بنا سکیں اور لوگوں کی صحیح رنگ میں نگرانی کی جا سکے.اگر یہ سب چیزیں میسر آجائیں تو متعدد مراکز قائم ہو سکتے ہیں.اور اگر یہ چیزیں میسر نہ آئیں تو ایک جگہ میں بھی مرکز قائم رکھنا مشکل ہے.پس ہمیں خدا تعالیٰ سے دعائیں کرنی چاہیں کہ وہ ہمارے اس عارضی مرکز کو برکت دے اور اسلام کی اشاعت کی تقدیر جو اس نے جاری کی ہے وہ اسے وسیع کرنے کی ہمیں توفیق دے موجودہ ضعف اور کمزوری کے دوروں سے جماعت کو جلد نکالے اور ہمارے نوجوانوں میں دینی روح پیدا کرے تاکہ دین کی طرف انہیں رغبت پیدا ہو.کیونکہ جب تک آئندہ دین سے رغبت رکھنے والی نسل پیدا نہ ہو وہ قوم کبھی کامیاب نہیں ہو سکتی اور اس کا کام اس کے ساتھ ختم ہو جاتا ہے.لیکن ہم نے اسلام کی اشاعت کے کام کو ختم نہیں کرنا بلکہ اسے زیادہ سے زیادہ وسیع کرنا ہے.پس ہمیں
$1951 55 خطبات محمود بہت زیادہ دعاؤں اور ذکر الہی سے کام لینا چاہیے تاکہ اللہ تعالیٰ ہمیں اس مقصد میں کامیاب فرمائے الفضل 3 جولائی 1951 ء ) جس کے لیے اس نے ہماری جماعت کو قائم فرمایا ہے“.1 : صحيح البخارى كتاب الاذان باب إِنَّمَا جُعِلَ الْإِمَامُ لِيُؤْتَمَّ بِهِ و صحيح مسلم كتاب الصّلاة باب انْتِمَامِ المَأْمُوْمِ بِالْإِمَامِ 2 صحيح البخاری کتاب الاذان باب إِنَّمَا جُعِلَ الْإِمَامُ لِيُؤْتَمَّ بِهِ ٠
$1951 8 56 99 خدا تعالیٰ کی محبت حاصل کرنے کے گر (فرمودہ 30 مارچ 1951ء بمقام ربوہ) تشہد ،تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: ”مذہب کی بنیاد یا یوں کہو کہ مذہب کے عملی حصہ کی بنیاد محبت الہی پر ہے جسے عام اصطلاح میں تعلق باللہ کہتے ہیں.علق“ کے معنے چمٹ جانے کے ہیں اور چمٹنے والی چیز کو علقہ کہتے ہیں.گویا تعلق باللہ کے یہ معنے ہوں گے کہ انسان اللہ تعالیٰ کے ساتھ چمٹ جائے.علاقہ“ کا لفظ بھی اسی قسم کا ہے.” مجھے اس سے علاقہ نہیں“ کے معنے ہوتے ہیں مجھے اس کے ساتھ کوئی لگاؤ نہیں یا مجھے اس کے ساتھ کوئی جوڑ نہیں.تو مذہب کی بنیاد تعلق باللہ پر ہے اور محبت الہی پر ہے.اور مذہب کے تمام حصص اسی قسم کے ہیں جنہیں بندہ اور خدا تعالیٰ میں محبت پیدا کرنے کے لیے اختیار کیا گیا ہے.لیکن بعض چیزیں ایسی ہوتی ہیں جو ہر ایک انسان کی پہنچ میں نہیں ہوتیں اور بعض چیزیں ہر انسان کی پہنچ میں ہوتی ہیں.خدا تعالیٰ کے باریک در بار یک فیوض اور مخفی در مخفی فیضان پر ہر انسان کی پہنچ نہیں ہوتی.بہت سے لوگ تو ان کو جانتے ہی نہیں اور بہت سے لوگ جان کر ان کو پہچاننے کے قابل نہیں ہوتے.پس جو چیز میں عام لوگوں کے ساتھ تعلق رکھتی ہیں وہی تمام بنی نوع انسان کے کام آ سکتی ہیں لیکن تعجب کی بات ہے کہ لوگ بالعموم ان چیزوں کو نظر انداز کر دیتے ہیں اور قریب ترین سامان جو ان کی نجات اور خطبات محمود
$1951 57 خطبات محمود بچاؤ کے موجب ہو سکتے ہیں انہیں بھلا دیتے ہیں.اور ایسی چیزوں کی تلاش میں رہتے ہیں جو یا تو انہیں میسر ہی نہیں آسکتیں اور اگر میسر آجائیں تو ان کے لیے بڑی جدوجہد اور بھاری قربانی کرنی کی پڑتی ہے.اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ نہ تو وہ چیز جو وہ تلاش کرتے ہیں انہیں ملتی ہے اور نہ وہ اُس چیز سے جو اُن کے ہاتھ میں ہوتی ہے کوئی فائدہ اُٹھا سکتے ہیں.مجھے یاد ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ایک دفعہ فرمایا کہ بعض دفعہ ہم تسبیح کہتے ہیں تو ایک ہی دفعہ کی تیج میں ہمیں خدا تعالیٰ کا اس قدر قرب حاصل ہو جاتا ہے کہ دوسرا انسان ہزاروں ہزار دفعہ ویسی تسبیح کر کے بھی اس سے اتنا فائدہ نہیں اُٹھا سکتا.میں اُس مجلس میں نہیں تھا کسی ہمارے ہم عمر نے یہ بات سن لی.وہ مجھے ملے تو انہوں نے تعجب سے کہا پتا نہیں اس میں کیا راز ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے معلوم نہیں کی تسبیح کا ذکر کیا ہے.اس نے مجھ سے ذکر کیا تو یہ بات فوراً میرے ذہن میں آ گئی کہ ایک تسبیح دل سے نکلتی ہے اور ایک تسبیح زبان سے نکلتی ہے.جب تسبیح دل سے نکلتی ہے تو یکدم ایسا معلوم ہوتا ہے کہ انسان کہیں سے کہیں پہنچ گیا ہے.اور جو تبی زبان سے نکلتی ہے وہ خواہ کوئی انسان ہزاروں دفعہ دہرائے وہ وہیں کا وہیں بیٹھارہتا ہے.میں نے اسے کہا میں سمجھ گیا ہوں.جو تیج دل سے نکلتی ہے اس کا اثر فوراً ظاہر ہو جاتا ہے اور جو صرف زبان سے نکلتی ہے اُس کا کوئی اثر پیدا نہیں ہوتا.وہ ہنس پڑے اور کہا لا حَولَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللهِ.آپ نے بھی کس طرح ایک اہم بات کو چٹکیوں میں اُڑادیا.غرض جو چیز سہل الحصول ہوا سے لوگ چھوڑ دیتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ انہیں کوئی جنتر منتر مل جائے حالانکہ خدا تعالیٰ کے ملنے کے لیے کسی جنتر منتر کی ضرورت نہیں ہوتی بلکہ ان فطرتی چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے جو ہر انسان میں پائی جاتی ہیں.جس طرح لوگ اپنے ماں باپ اور بیٹے بیٹی اور بھائی بہنوں سے تعلق پیدا کر لیتے ہیں، جس طرح لوگ کسی کو اپنا دوست بنا لیتے ہیں وہی طریق خدا تعالیٰ سے تعلق پیدا کرنے کے لیے ہیں.تم اپنے ارد گرد دیکھ لو کہ لوگ ایک دوسرے کے کس طرح دوست بنتے ہیں.دنیا میں وہ کونسا انسان ہے جس کا کوئی دوست نہیں ، جس کا کوئی ساتھی نہیں ، جس کا کوئی بے تکلف نہیں.آخر وہ کیسے دوست بن گئے؟ وہ کیسے بے تکلف بن گئے ؟ جس طرح وہ بے تکلف بن جاتے ہیں اسی طرح خدا تعالیٰ سے بھی تعلق پیدا کیا جا سکتا ہے.تمہیں بہت سی
$1951 58 خطبات محمود چھوٹی چھوٹی چیزیں نظر آئیں گی جن سے کوئی شخص تمہارا دوست بن گیا تھا اور تم دوسروں کے دوست بن گئے تھے.تمہیں نظر آئے گا کہ مثلا تم دونوں کسی جگہ اکٹھے رہے یا کسی اسکول میں یا ایک ہی کلاس میں تعلیم حاصل کرتے رہے اور قریب رہنے سے آہستہ آہستہ تمہارے تعلقات بڑھتے گئے اور بغیر اس کے کہ کوئی خاص جہد و جہد کرنی پڑتی تم دونوں آپس میں دوست بن گئے یا تم دونوں ایک ہی گاؤں میں رہتے تھے اور صبح سویرے اکٹھے بیل لے کر کھیت میں جایا کرتے تھے.اسی طرح آہستہ آہستہ تم دونوں میں دوستی ہو گئی اور اس میں کسی خاص جد و جہد کی ضرورت پیش نہ آئی.یہی حال خدا تعالیٰ کا بھی ہے.جب کوئی انسان خدا تعالیٰ کے ساتھ اکٹھا رہتا ہے تو خدا اور اس کے درمیان دوستی پیدا ہو جاتی ہے.کوئی شخص یہ نہیں کہہ سکتا کہ میں جاہل ہوں اس لیے مجھے ان ذرائع کا علم نہیں جن کے ذریعہ محبت الہی پیدا کی جاسکتی ہے.ہر جاہل سے جاہل اور ادنیٰ سے ادنی شخص کا بھی کوئی نہ کوئی دوست ہوتا ہے.آخر وہ دوست کیسے بن گیا؟ جس طرح وہ اس کا دوست بن گیا ہے اسی طرح وہ خدا تعالیٰ کا دوست بھی بن سکتا ہے.دنیا میں کوئی انسان بھی ایسا نہیں جو یہ کہہ سکے کہ میرا کوئی دوست نہیں.صدمہ اور تکلیف کے وقت بعض دفعہ انسان کہہ دیا کرتا ہے کہ دنیا میں میرا کوئی دوست نہیں لیکن اس کے معنے نہیں ہوتے کہ اُس کا واقع میں کوئی دوست نہیں بلکہ اس کے یہ معنے ہوتے ہیں کہ اُس کے دوست اس قابل نہیں کہ اس صدمہ میں اُس کی مدد کر سکیں.ویسے دوست ہوتے ضرور ہیں چاہے وہ اس جیسے بے کس اور بے بس ہوں.در حقیقت دنیا میں کوئی بھی انسان ایسا نہیں جس نے دل لینے یا کسی کو اپنا دل دینے کا تجربہ نہ کیا ہو اور وہ یہ نہ جانتا ہو کہ اس کا کیا طریق ہے.ہر جاہل سے جاہل اور ادنیٰ سے ادنی آدمی بھی جانتا ہے ہے کہ دنیا میں کسی کو اپنا دل کیسے دیا جاتا ہے اور دوسرے کا دل کیسے لیا جاتا ہے.یہی چیز جو اس جگہ تجربہ میں آئی ہے خدا تعالیٰ کے لیے بھی استعمال کی جاسکتی ہے یا پھر یہ ہوسکتا ہے کہ کسی شخص نے ایک دوسرے شخص سے اتفاقاً کوئی نیکی کر دی اور یہ چیز اس کی دوستی کا موجب ہو گئی.مثلاً شریف الطبع ان لوگ ماں باپ سے محبت کرتے ہیں.آخر اس کی کیا وجہ ہوتی ہے؟ اس کی وجہ یہی ہوتی ہے کہ ماں دودھ پلاتی ہے اور بچہ اُس کا دودھ پیتا ہے اور بغیر سوچنے کے یہ معلوم کر لیتا ہے کہ یہ دودھ اُسے اُس کی ماں دے رہی ہے.اسی طرح ایک لمبے عرصہ تک اسے دیکھنے کے بعد اس کے دل میں اس کی محبت
$1951 59 خطبات محمود پیدا ہو جاتی ہے.یا کوئی استاد ہے ایک شخص اُس سے پڑھتا ہے اور آہستہ آہستہ اُسے یہ احساس ہوتا ہے کہ وہ استاد اس کی حالت اچھی بنا رہا ہے، اس کی بدولت وہ روزی کمانے لگ جائے گا اور دنیا میں وہ عزت حاصل کرے گا.اس کے بعد اس کے دل میں استاد کے لیے محبت پیدا ہو جاتی ہے.یا پھر کسی چیز کے حسن اور اس کی ذاتی خوبی کی وجہ سے اس سے محبت ہو جاتی ہے.غرض پاس رہنا یا حسن یا احسان آپ ہی آپ قلوب میں تبدیلی پیدا کر دیتے ہیں اور انسان کو کسی حسین محسن یا اپنے ساتھ رہنے والے سے محبت ہو جاتی ہے اور یہ ہم میں سے ہر ایک کا تجربہ ہے.آدمیوں کو جانے دو جانوروں کو دیکھ لو.گتا ہے ، بلی ہے یا بعض لوگ خرگوش پالتے ہیں ، طوطا اور مینار کھتے ہیں.ان سب جانوروں کو اپنے پالنے والے سے محبت ہو جاتی ہے.وہ اس آدمی سے جو انہیں روٹی ڈالتا ہے یا جس کے پاس وہ رہتے ہیں پیار کرنے لگ جاتے ہیں.مثلاً بلی کو جگہ سے محبت ہوتی ہے گھر والے کہیں چلے جائیں تب بھی بلی اُس جگہ کو نہیں چھوڑے گی.گتے کو اپنے مالک سے محبت ہوتی ہے مالک کہیں چلا جائے گتا وہیں چلا جاتا ہے.طوطا اور مینا جو لوگ پالتے ہیں وہ جانتے ہیں کہ انہیں اپنے پالنے والے سے کس قدر انس ہو جاتا ہے.انہیں خواہ پنجرے سے نکال بھی دیا جائے تب بھی وہ کہیں نہیں جائیں گے وہیں بیٹھے رہیں گے.ایسا کیوں ہوتا ہے؟ صاف ظاہر ہے کہ یہ احسان کو متواتر دیکھنے کی وجہ سے ہوتا ہے.صرف ضرورت اس بات کی ہے کہ اس طرف لوگوں کو توجہ دلائی جائے لیکن انہیں اس طرف توجہ دلائی نہیں جاتی.ماں باپ سے ہر ایک انسان محبت کرتا ہے اس لیے کہ ان کی طرف آپ ہی آپ توجہ ہو جاتی ہے اور وہ خود بھی اسے یاد دلاتے رہتے ہیں کہ ہم تمہارے خیر خواہ ہیں.لیکن استادوں سے لوگوں کو بہت کم محبت ہوتی ہے اس لیے کہ وہ عام طور پر اپنے احسانات کو دہراتے نہیں.اللہ تعالیٰ کی ذات ماں اور استاد سے بھی زیادہ مخفی ہے.اس لیے وہاں توجہ کی زیادہ ضرورت ہے.اس کی محبت پیدا کرنے اور اس کے قُرب کو حاصل کرنے کے لیے چیزیں وہی ہیں، گروہی ہیں لیکن ضرورت صرف توجہ کی ہے.بعض موٹی موٹی چیزیں ہیں جن پر لوگ عمل نہیں کرتے.اس لیے وہ رب الہی سے محروم رہتے ہیں.مثلاً رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے جب کھانا کھاؤ تو پہلے بِسمِ اللهِ پڑھ لیا کر و.1 اب کھانا شروع کرنے سے پہلے بسم اللہ کہنے کے یہی معنے ہیں کہ یہ کھانا
خطبات محمود 60 60 $1951 مجھے خدا تعالیٰ نے دیا ہے.بِسمِ اللہ کے لفظی معنے تو یہ ہیں کہ میں خدا تعالیٰ کے نام کے ساتھ شروع کرتا ہوں لیکن اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ یہ کھانا خدا تعالیٰ کا ہے.میرا کوئی حق نہ تھا کہ اسے کھاؤں مگر خدا تعالیٰ نے مجھے ایسا کرنے کی اجازت دی ہے اور اس نے کہا ہے تم کھا لو اس لیے میں کھا رہا ہوں.نہ گندم میری پیدا کی ہوئی ہے، نہ پانی میرا بنایا ہوا ہے، نہ نمک میرا بنایا ہوا ہے، نہ مرچ میری پیدا کی ہوئی ہے، نہ گوشت میرا پیدا کیا ہوا ہے، نہ ترکاریاں میں نے پیدا کی ہیں.یہ سب چیزیں میرے باپ دادا کی پیدائش سے بھی پہلے کی ہیں.بڑے سے بڑے خاندان کا ذکر بھی سو پشتوں سے آگے نہیں جاتا لیکن گندم ، پانی ، تر کاری، گوشت، نمک، مرچ اور مونگ و غیرہ ہزار پشتوں سے بھی پہلے سے موجود ہیں اور جب یہ سب اشیاء میری پیدائش بلکہ میرے باپ دادا کی پیدائش سے بھی پہلے کی ہیں تو یہ میری تو ای نہیں ہوسکتیں.بسم اللہ کے معنے ہی یہ ہیں کہ سب چیزیں خدا تعالیٰ کی ہیں لیکن اس نے ہمیں اجازت دی ہے کہ تم اسے کھا لو اور ہم کھا رہے ہیں.گویا یہ اس بات کا اظہار اور اقرار ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ چیزیں دے کر ہم پر احسان کیا ہے ورنہ ہم میں طاقت نہیں تھی کہ اسے خود مہیا کر سکتے.اسی طرح جب ہم پانی پیتے ہیں تو ہم غور کرتے ہیں کہ یہ پانی خدا تعالیٰ نے زمین کی تہوں میں رکھا ہے.خدا تعالیٰ قرآن کریم میں بار بار فرماتا ہے کہ اگر ہم اس پانی کو بھینچ لیں تو تم پانی کہاں سے لا ؤ2 اور یہ سچی بات ہے کہ ہم میں ایسی طاقت نہیں کہ پانی مہیا کر سکیں.یہ سب خدا تعالیٰ کا فضل ہے کہ اس نے یہ سب ضروری اشیاء ہمیں مہیا کر دی ہیں.اگر تھوڑی دیر ہی میں ہمیں پانی نہ ملے تو ہمیں بڑی دقت کا سامنا کرنا پڑتا ہے.جن علاقوں میں پانی کی کمی ہے وہاں لوگ ایسی ایسی چیزیں پیتے ہیں جن کو ہمارے علاقہ میں پانی نہیں کہہ سکتے.مثلاً سندھ اور بلوچستان کے بعض علاقے ہیں وہاں لوگ کیچڑ پیتے ہیں لیکن ہمارے ملک والے ایسا نہیں کر سکتے.ہاں ! یہ الگ بات ہے کہ انہیں کوئی تھی مشکل پیش آ جائے تو اس قسم کا پانی پی لیں ورنہ عام حالات میں ہمارے ہاں اسے پانی نہیں سمجھا جاتا.اب دیکھ لو یہ کتنا آسان سا ذریعہ ہے خدا تعالیٰ کے قرب کے حاصل کرنے کا.لوگ کہتے ہیں ہمیں خدا تعالیٰ سے محبت پیدا کرنے کے گر بتاؤ.لیکن کتنے لوگ ہیں جو اس چھوٹی سی بات پر ہی عمل کرتے ہیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ کھانے سے پہلے بسم اللہ پڑھ لیا کرو.اب اگر میں پوچھوں کہ تم میں سے کتنے لوگ اس ہدایت پر عمل کرتے ہیں؟ تو شاید پانچ فیصدی لوگ کھڑے ہوں
$1951 61 خطبات محمود حالانکہ واقعہ یہی ہے کہ خدا تعالیٰ کی محبت کو اسی طرح حاصل کیا جا سکتا ہے.جیسے دنیا میں دوسر.لوگوں کی محبت کو لوگ حاصل کر لیا کرتے ہیں، انہیں دوست بنالیا کرتے ہیں خدا تعالیٰ کی محبت کو پیدا کرنے کے لیے کوئی خاص گر نہیں ہوتے.دنیا میں لوگ ماں باپ سے محبت کرتے ہیں اور یہ محبت اسی لیے پیدا ہو جاتی ہے کہ ان کے احسانات بار بار اس کے سامنے آتے ہیں ورنہ ماں باپ کی محبت کہیں باہر سے تو نہیں آتی.کبھی یہ ہوتا ہے کہ محبت کے بھرے ہوئے گھڑے باہر سے لائے جارہے ہوں یہ محبت آپ ہی آپ پیدا ہو جاتی ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں جُبِلَتِ الْقُلُوبُ عَلَى حُبِّ مَنْ اَحْسَنَ إِلَيْهَا 3 خدا نے انسان کی فطرت میں یہ بات رکھی ہے کہ جو شخص اس پر احسان کرتا ہے اس کی محبت اس کے دل میں جاگزیں ہو جاتی ہے.چاہے تم کوشش کرو یا نہ کرو یہ محبت خود بخود پیدا ہو جائے گی اس کے لیے کسی خاص جد و جہد اور کوئی خاص تدبیر اختیار کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی.کبھی تم نے کوئی ایسا بچہ دیکھا ہے جو یہ پوچھے کہ ماں باپ کی محبت کس طرح پیدا کی جاتی ہے؟ جب تک کوئی بچہ جوان نہیں ہو جاتا اور اس کی بیوی اس کے ماں باپ کی محبت چھین نہیں لیتی وہ ماں باپ کا عاشق ہوتا ہے.اور ہر بچہ اور ہر بچی اپنے ماں باپ سے فطرتی طور پر محبت کرتی ہے نہ کبھی کسی نے اس کو پیدا کرنے کے لیے کوئی جدوجہد کی اور نہ کسی نے دوسروں سے اس بارہ میں مشورہ لیا.یہ محبت آپ ہی آپ پیدا ہو جاتی ہے.پھر خدا تعالیٰ کی محبت پیدا کرنے کے لیے کسی خاص گر کی کیا ضرورت ہے.اس کی محبت پیدا کرنے کے بھی یہی طریق ہیں لیکن تم انہیں اختیار نہیں کرتے.تمہیں کون کہتا ہے کہ تم کھانا شروع کرنے سے پہلے بِسمِ اللهِ نہ پڑھو.بات صرف یہ ہے کہ تمہیں توجہ دلانے والا کوئی نہیں.یہ تو ایسی ہی بات ہے جیسے بچہ ماں باپ سے دور ہو، ماں باپ اُسے خرچ بھیج رہے ہوں لیکن اسے یہ معلوم نہ ہو کہ یہ خرچ میرے ماں باپ کی طرف سے آ رہا ہے.اس لیے اس نے دل میں ان کی محبت پیدا نہیں کی ہوگی.اسی طرح جب تم خدا تعالی کو یاد نہیں کرتے اور تم غور نہیں کرتے کہ تمہیں کھانا کون بھیج رہا ہے تو تم کہتے ہو کہ اچھا خدا ہے کہ اس نے تو ہماری کبھی خبر بھی نہیں لی.لیکن اگر کوئی یاد دلا دے کہ یہ کھانا اُسی نے دیا ہے، یہ پانی اُسی نے دیا ہے تو خود بخود اُس کی محبت تمہارے دلوں میں پیدا ہو جائے گی.تقرب الہی کے حصول کا جو موٹا گر ہے اسے تم چھوڑ دیتے ہو اور یہ پوچھتے ہو کہ اس کو حاصل کرنے کے لیے کون سا گر.
$1951 62 خطبات محمود اور جانتے نہیں کہ وہ گر موجود ہے لیکن تم اس سے کام نہیں لیتے.خدا تعالیٰ کی محبت پیدا کرنے کے وہی گر ہیں جن سے تمہارے دلوں میں ماں باپ، بیوی بچے اور بہن بھائیوں کی محبت پیدا ہو جاتی ہے.خدا تعالیٰ کا قرب اور اس کی محبت حاصل کرنے کے لیے خدا تعالیٰ نے آسان آسان چیزیں سکھائی ہیں.مثلاً یہ بات بھی اسلام نے سکھائی ہے کہ جب تم کھانا کھا چکو تو الحَمْدُ لِلهِ کہا کرو اور دوسری دفعہ خدا تعالیٰ کو یاد کر لیا کرو.جس طرح دنیا میں کوئی آدمی کسی دوسرے کو کھانا کھلائے تو کھانے سے فارغ ہو کر وہ کہتا ہے شکریہ.اسی طرح جب انسان کھانا کھا لیتا ہے تو وہ الْحَمْدُ لِلَّهِ کہتا ہے.گویا الْحَمْدُ لِلهِ کہنا خدا تعالیٰ کے احسان کا دوسری بار شکریہ ادا کرنا ہے.اگر کوئی انسان اس پر مداومت اختیار کرے تو آپ ہی آپ اس کے دل میں خدا تعالیٰ کی محبت پیدا ہو جائے گی لیکن افسوس کہ ہم ان راستوں کو اختیار نہیں کرتے.خدام الاحمدیہ کو خاص طور پر ان باتوں کی عادت ڈالنی چاہیے اور کوشش کرنی چاہیے کہ بچوں کو ابھی سے ان باتوں کی عادت ڈالی جائے.کسی زمانہ میں عیسائیوں میں یہ ہوتا تھا کہ ہر خاندان میں کھانا تی کھانے سے پہلے گریس 4(GRACE) کرتے تھے.جب خاندان کے تمام افراد کھانا کھانے لگتے تو ماں باپ دعائیہ فقرے کہتے.میرے دل میں کئی دفعہ خیال آیا ہے کہ اگر گھر کا بڑا آدمی روزانہ اسی طرح دعا کر لیا کرے تو گھر کے تمام افراد کو آپ ہی آپ یہ خیال پیدا ہو جائے گا کہ یہ کھانا ہمیں خدا تعالیٰ نے دیا ہے.غرض جس طریق سے ماں باپ کی محبت پیدا ہوتی ہے اُسی طریق سے خدا تعالیٰ کی محبت پیدا ہوتی ہے.ان ذرائع کو چھوٹا نہیں سمجھنا چاہیے.بظاہر یہ چھوٹی چھوٹی باتیں ہیں لیکن ان کو اختیار کرنے سے انسان بڑے بڑے فوائد حاصل کر لیتا ہے.مثل مشہور ہے کہ کسی شخص کا ایک بھتیجا تھا.اس نے اپنے بھتیجے سے کہا کہ اگر تم ہمارے گھر آؤ تو میں تمہیں اتنا بڑا لڈو کھلاؤں گا جس کے بنانے میں کئی ہزار لوگوں نے ہاتھ لگایا ہو گا.وہ لڑکا اپنے ماں باپ کے پیچھے پڑا کہ مجھے میرے چچا کے ہاں بھیجو.اُس کا خیال تھا کہ وہ لڈو عجیب قسم کا ہوگا جس کو کوئی ہزار لوگوں نے مل کر بنایا ہوگا.آخر وہ چا کے پاس گیا.اس نے اپنے حسب وعدہ ایک لڈولا کر دیا.وہ عام لڈوؤں کی طرح معمولی قسم کا تھا جو اس لڑکے نے ای کئی دفعہ دیکھا تھا اور کھایا بھی تھا.اس نے کہا کیا یہ وہی لڈو ہے جس کے کھلانے کا آپ نے
$1951 63 خطبات محمود وعدہ کیا تھا؟ چچا نے کہا ہاں اور پھر اس نے بتا نا شروع کیا کہ اس لڈو میں آٹا پڑا ہے، اتنے آدمیوں نے آٹا تیار کیا ہے اور پھر آٹا گندم کا بنا ہے جس کو اتنے زمینداروں نے کاشت کیا ہے، پھر جن بیلوں نے ہل چلایا تھا ان کے پالنے والوں کو گنو، پھر جو لوگ لو ہالائے اُن کو گنو، جو لکڑی لائے ان کو گنو، پھر لوہا کانوں سے نکلتا ہے کانوں میں جن لوگوں نے کام کیا ہے ان کو گنو، پھر وہ لوہار میلوں اور گڈوں پر لایا گیا اس کے لانے والوں کو گن تو یہ ہزاروں آدمی بن جاتے ہیں جنہوں نے اس لڈو کے بنانے میں حصہ لیا.حقیقت یہ ہے کہ بظاہر دنیا کی ایک ایک چیز ہمیں معمولی نظر آتی ہے لیکن جب غور کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ ان کے بنانے میں ہزاروں لوگوں نے حصہ لیا ہے اور وہ دنیا کا ایک طلسم ہیں.غرض توجہ نہ کرنے کی وجہ سے خدا تعالیٰ کی محبت پیدا کرنے کے ہزاروں مواقع ہم اپنے ہاتھوں سے کھو دیتے ہیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جو شخص کسی کی نماز جنازہ ان میں شامل ہوتا ہے اسے ایک قیراط کا ثواب ہوتا ہے اور جو جنازہ ادا کرنے کے بعد میت کے ساتھ قبرستان تک جاتا ہے میت کے دفن ہونے تک وہیں رہتا ہے اُسے دو قیراط کا ثواب ہوتا ہے اور یہ قیراط اُحد پہاڑ کے برابر ہوتا ہے.ایک دفعہ ایک صحابی کسی جنازہ میں شامل ہوئے.جب نماز جنازہ پڑھ چکے اور قبرستان کی طرف چلے تو ان کے ساتھی نے کہا اب واپس چلیں اور کوئی اور کام کریں.انہوں نے جواب دیا میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا ہے کہ جو شخص کسی کی نماز جنازہ میں شامل ہوتا ہے تو اسے ایک قیراط کے برابر ثواب ہوتا ہے اور جو جنازہ کے بعد میت کے ساتھ قبرستان تک جاتا ہے اور میت کے دفن ہونے تک وہیں ٹھہرتا ہے اسے دو قیراط کے برابر ثواب ہوتا ہے اور قیراط اُحد پہاڑ کے برابر ہوتا ہے.5 ان کے ساتھی نے کہا آپ اچھے دوست ہیں آپ نے پہلے یہ مسئلہ بتایا ہی نہیں.معلوم نہیں اب تک ہم نے کتنے قیراط ثواب ضائع کر دیا ہے.اب دیکھو! بعض دفعہ ایک بات چھوٹی سی ہوتی ہے لیکن اس کے نتائج نہایت اہم ہوتے ہیں.دنیا میں جتنی اہم چیزیں ہوتی ہیں ان کے حصول کے ذرائع انسان کے قریب رکھے جاتے ہیں ورنہ ان کا حصول انسان کے لیے مشکل ہو جا تا لیکن لوگ ان ذرائع کو چھوڑ دیتے ہیں اور کسی اور گر کی تلاش میں رہتے ہیں.اسی طرح بہت سے لوگ اس گر کو بھلا دیتے ہیں جس سے خدا تعالیٰ کی محبت حاصل ہو سکے اور وہ نہیں جانتے ہی کہ خدا تعالیٰ کی محبت انہی چھوٹی چھوٹی چیزوں سے پیدا ہوتی ہے.اور انہیں چھوڑ کر ہم اس کی
$1951 64 خطبات محمود محبت کبھی حاصل نہیں کر سکتے.بلکہ وہ امیروں اور فقیروں سے خدا تعالیٰ کی محبت کے گر پوچھتے پھرتے ہیں.بغل میں لڑکا اور شہر میں ڈھنڈورا 6.الفضل 10 جولائی 1951 ء ) 1 : بخاری کتاب الاطعمة باب التسمية على الطعام و الاكل باليمين 2: قُلْ أَرَعَيْتُمْ إِنْ أَصْبَحَ مَاؤُكُمْ غَوْرًا فَمَنْ يَأْتِيَكُمْ بِمَاءٍ مَّعِينٍ (الملک (31) 3 كنز العمال في سنن الاقوال والافعال جلد 16 صفحه 48.حدیث نمبر 44095 بيروت لبنان 1998ء 4 گریس: (Grace) عیسائی عقیدہ کے مطابق غیر محدود خدائی فضل اور مدد مانگنے کی دعا.(The Concise Oxford Dictionary) 5 : بخاری کتاب الجنائز باب من انتظر حتى تُدْفَنَ بغل میں بچہ (لڑکا) شہر میں ڈھنڈورا ( ڈھنڈیا) کہاوت: چیز تو پاس ہے اور دنیا بھر میں اس کی تلاش ہو رہی ہے.( اردو لغت تاریخی اصول پر جلد 2 صفحہ 1176 کراچی 1979 ء)
$1951 65 59 9 خطبات محمود خدا تعالیٰ سے زیادہ کسی اور چیز سے محبت نہیں ہونی چاہیے (فرمودہ 6 اپریل 1951ء بمقام ربوہ ) تشہد ،تعوّ ذاورسورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: ”میں نے گزشتہ خطبہ جمعہ میں بتایا تھا کہ بعض لوگ روحانیت اور تعلق باللہ پیدا کرنے کے لیے گر پوچھا کرتے ہیں حالانکہ روحانیت اور تعلق باللہ کے معنے محبت کے ہی ہیں.جیسے زید اور بکر میں محبت پیدا ہو جاتی ہے، ماں اور بیٹے میں محبت ہوتی ہے، باپ اور بیٹے میں محبت ہوتی ہے، بیٹی اور ماں میں محبت ہوتی ہے، بھائی بھائی میں محبت ہوتی ہے، بہن بہن میں محبت ہوتی ہے، بیٹی بیٹی یا بیٹے بیٹے میں محبت ہوتی ہے اور دوسرے رشتہ داروں میں محبت ہوتی ہے وہی جذ بہ جب انسان میں خدا تعالیٰ کے متعلق پیدا ہو جاتا ہے تو اسے تعلق باللہ کہتے ہیں.تعلق کے معنے ہیں لٹکنا اٹکنا.ہمارے ہاں بھی کہتے ہیں دل اٹکا ہوا ہے، دل لٹکا ہوا ہے.اسی کا نام تعلق باللہ اور روحانیت ہے.اور اس کا امتحان اس طرح ہو جاتا ہے کہ انسان خدا تعالیٰ کی خاطر قربانی کرتا ہے اور دوسرے رشتوں اور تعلقات کو اگر وہ خدا تعالیٰ کی محبت میں روک پیدا کریں تو انہیں قربان کر دیتا ہے.دوسری محبتوں میں یہ ضروری نہیں ہوتا کہ کسی خاص شخص کی محبت کسی میں زیادہ ہو، بعض اوقات بھائی دشمنی کر جاتا ہے لیکن دوست وفا کر جاتا ہے، بیوی دھوکا کر جاتی ہے لیکن ماں وفاداری سے کام لیتی ہے، ماں دھوکا کر جاتی ہے لیکن بیوی وفادار
$1951 66 خطبات محمود رہتی ہے.پھر بعض دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ کسی عورت کے ماں باپ اُس سے بے وفائی کر جاتے ہیں لیکن اُس کا خاوند اس کے لیے قربانی کر جاتا ہے.اور بعض دفعہ خاوند بے وفائی کرتا ہے اور ماں باپ قربانی کی کرتے ہیں.لیکن تعلق باللہ میں یہ شرط ہے کہ انسان کو خدا تعالیٰ سے زیادہ کسی اور چیز سے محبت نہ ہو.اگر خدا تعالیٰ کی محبت سے کسی اور چیز کی محبت کا ٹکراؤ ہو جائے تو وہ خدا تعالیٰ کو ترجیح دے دے.حضرت علی سے ایک دفعہ حضرت حسنؓ نے پوچھا کہ آپ توحید پر پوری طرح قائم ہیں یا نہیں ؟ انہوں نے جواب دیا ہاں میں توحید پر قائم ہوں.حضرت حسنؓ نے پھر سوال کیا ، کیا آپ کو مجھ سے بھی محبت ہے؟ حضرت علی نے فرمایا ہاں مجھے تم سے محبت ہے.حضرت حسنؓ نے کہا آپ کو اللہ تعالیٰ سے بھی محبت ہے اور مجھ سے بھی محبت ہے تو آپ نے مجھے خدا تعالیٰ کے برابر قرار دیا یہ تو شرک ہے.حضرت علیؓ نے فرمایا صرف محبت کا ہونا شرک نہیں بلکہ اس کے درجہ میں فرق ہونا شرک ہے.اس میں شبہ نہیں کہ مجھے خدا تعالیٰ سے بھی محبت ہے اور تم سے بھی لیکن جب تمہاری محبت خدا تعالیٰ کی محبت سے ٹکرائے گی تو میں تمہیں چھوڑ دوں گا اور خدا تعالیٰ کو ترجیح دوں گا.غرض تعلق باللہ میں صرف اتنی شرط ہوتی ہے کہ خدا تعالیٰ کی محبت دوسری محبتوں سے زائد ہو.ویسے ہوتی وہ محبت ہی ہے کوئی علیحدہ چیز نہیں ہوتی.میں نے گزشتہ خطبہ جمعہ میں بتایا تھا کہ جو طریقے محبت کے انسانوں کے لیے مقرر ہیں وہی خدا تعالیٰ کی محبت پیدا کرنے والے ہیں.جس طرح باپ سے محبت کی جاتی ہے، جس طرح بھائی بھائی میں محبت ہوتی ہے، جس طرح بھائی بہن یا بہن بہن میں محبت پیدا ہوتی ہے، جس طرح ماں بیٹا یا ماں بیٹی میں محبت پیدا ہوتی ہے، جس طرح باپ بیٹا یا باپ بیٹی میں محبت پیدا ہوتی ہے، جس طرح بیوی اور خاوند یا اور رشتہ داروں کی محبت پیدا ہوتی ہے اسی طرح خدا تعالیٰ کی محبت پیدا ہوتی ہے.اس کی محبت کے نئے گر تلاش کرنا حماقت ہے.جب روحانیت، محبت اور تعلق باللہ ایک ہی ہیں اور پھر خدا تعالیٰ کی محبت بھی وہی ہے جو انسانوں کی ہوتی ہے تو اس کے گر بھی ایک ہی ہونے چاہیں.اور انسانوں کی محبت کا گر یہی ہوتا ہے کہ یا احسان سے محبت پیدا ہوتی ہے یا حسن سے محبت پیدا ہوتی ہے اور یا پھر لمبے تعلق سے محبت پیدا ہوتی ہے.محبت کو پیدا کرنے کے یہی تین گر ہیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں جُبِلَتِ الْقُلُوبُ عَلى حُبِّ مَنْ اَحْسَنَ إِلَيْهَا - 1 انسان کے دل میں خدا تعالیٰ نے یہ مادہ رکھ دیا ہے کہ جو شخص اس پر احسان کرتا ہے اس سے محبت کرتا ہے.
خطبات محمود 67 $1951 میں نے گزشتہ خطبہ میں بتایا تھا کہ اسلام نے خدا تعالیٰ کی محبت پیدا کرنے کے لیے ایک آسان گر بتایا ہے اور وہ یہ ہے کہ کھانا پینا اور پہننا خدا تعالیٰ مہیا کرتا ہے اور جب یہ سب چیزیں خدا تعالیٰ ہی مہیا کرتا ہے تو اس کا احسان موجود ہے لیکن باوجود اس کے کہ یہ گر موجود ہے پھر بھی خدا تعالیٰ کی محبت پیدا کرنے کے لیے ہمیں کوئی اور سبب تلاش کرنا پڑتا ہے.میں نے بتایا تھا کہ خدا تعالیٰ کا انسان پر احسان تو ہوتا ہے لیکن اس کی شناخت اور چیز ہے.اگر کسی کو کوئی گمنام شخص منی آرڈر کر دے اور اپنا نام ظاہر نہ کرے تو اُسے منی آرڈر کرنے والے سے محبت نہیں ہوگی کیونکہ اُسے علم نہیں ہو گا کہ منی آرڈر کس نے کیا ہے.اسی طرح خدا تعالیٰ بھی انسان سے مخفی ہے اور وہ پس پردہ احسان کرتا ہے اور اگر چہ اس کے احسان بہت زیادہ ہیں لیکن لوگ انہیں محسوس نہیں کرتے.ماں اپنی چھاتیوں سے دودھ پلاتی ہے اور بچہ اپنی عقل کے مطابق سمجھتا ہے کہ ماں اُس پر احسان کرتی ہے، وہ سمجھتا ہے کہ ماں تکلیف سے اُسے خون چہاتی ہے حالانکہ یہ قربانی کا جذبہ ماں نے خود پیدا نہیں کیا یہ جذ بہ اس کی پیدائش سے بھی پہلے اس کے اندر رکھا گیا تھا.چھوٹی چھوٹی لڑکیاں گڑیاں بناتی ہیں اور اُن سے کھیلتی ہیں.یہ وہی بچہ پالنے کا جذبہ ہوتا ہے جو ان کے اندر پایا جاتا ہے.ان کے اندر یہ جس خدا تعالیٰ نے ہی پیدا کی ہے خواہ وہ عقل کے ماتحت ایسا کرتی ہیں یا بے عقلی کے ماتحت ایسا کرتی ہیں بہر حال عورت کے اندر خدا تعالیٰ نے اولاد سے محبت کا مادہ رکھا ہے.اور یہ وہ چیز ہے کہ جو ماں نے خود اپنے اندر پیدا نہیں کی بلکہ اس کی پیدائش سے بھی پہلے اس کے اندر رکھ دی گئی تھی اور جب یہ مادہ ماں کی پیدائش سے پہلے کا اُس کے اندر پایا جاتا ہے تو پھر یہ اُس کا پیدا کیا ہوا نہ ہوا.اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب یہ مادہ ماں کا پیدا کیا ہوا نہیں تو آخر یہ مادہ ماں کے اندر کس نے پیدا کیا ہے؟ بہر حال وہ کوئی اور ہستی ہے اور ہمیں یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ وہ ہستی جس نے سب مخلوقات کو پیدا کیا ہے اُسی نے یہ مادہ ماں کے اندر رکھا ہے.مگر ہم دیکھتے ہیں کہ بچہ ماں سے محبت کرتا ہے خدا تعالیٰ سے محبت نہیں کرتا.کیوں بچہ خدا تعالیٰ سے محبت نہیں کرتا؟ اس لیے کہ خدا تعالیٰ اُسے نظر نہیں آتا.جب اُس کی ماں اپنی ماں کے پیٹ میں تھی اور خدا تعالیٰ کے فرشتے اُس کے دل میں اولاد کی خواہش اور محبت پیدا کر رہے تھے تو اُس نے اس نظارہ کو دیکھا نہیں تھا.اس نے صرف اتنا ہی دیکھا ہے کہ ماں اسے اپنی چھاتیوں سے دودھ پلا رہی ہے خواہ وہ فاقہ ہی کر رہی ہو اور بھوک کی وجہ سے نڈھال ہو رہی ہو، وہ سوکھ کر کانٹا.
$1951 68 88 خطبات محمود ہوگئی ہو، اُس کا گوشت گھل گیا ہو اور ہڈیاں نکل آئی ہوں لیکن ادھر بچہ رویا اور اُدھر ماں نے اپنے سُوکھے ہوئے پستان اُس کے منہ میں دے دیئے.خواہ پستانوں میں دودھ کا کوئی قطرہ ہو یا نہ ہو.ماں کے اندر یہ جذبہ جس ہستی نے پیدا کیا ہے وہ بچہ کو نظر نہیں آتی.اس لیے وہ اُس سے محبت نہیں کرتا.ماں اپنی چھاتیوں سے دودھ پلاتی ہوئی اُسے نظر آتی ہے اس لیے وہ اس سے محبت کرنے لگ جاتا ہے.انسان کھانا کھاتا ہے جس شخص نے اسے گندم دی اور اس نے اس سے روٹی بنائی وہ اس کا شکریہ ادا کرتا ہے یا جس کی نوکری کر کے اس نے پیسے کمائے اور ان سے اس نے گندم خریدی وہ اس کا شکریہ ادا کرتا ہے، جس ماں اور بیوی نے اسے روٹی پکا کر کھلائی وہ اس کا شکر یہ ادا کرتا ہے لیکن جس نے گندم بنائی ، جس نے نمک بنایا، جس نے پانی بنایا وہ اُس کا شکریہ ادا نہیں کرتا.کیوں؟ اس لیے کہ گندم مہیا کرنے والا یا نوکری دینے والا اُسے نظر آتا تھا، ماں اُسے نظر آتی تھی کہ وہ گرمی کے دنوں میں آگ کے آگے بیٹھی روٹی پکا رہی ہے، بیوی اسے نظر آتی ہے کہ گرمی میں آگ کے آگے بیٹھی روٹی پکا رہی ہے.یا سردی میں جب وہ خود لحاف سے باہر نہیں نکلتا وہ صحن میں بیٹھی اُس کے لیے ناشتہ تیار کر رہی ہے چونکہ وہ اُسے نظر آتی ہے اس لیے اس کے اندر احساس شکریہ پیدا ہو جاتا ہے جُبِلَتِ الْقُلُوبُ عَلَى حُبِّ مَنْ اَحْسَنَ إِلَيْهَا.خدا تعالیٰ نے انسان کے دل میں یہ مادہ رکھ دیا ہے کہ اُسے جو شخص احسان کرتا نظر آتا ہے اس کا وہ شکر گزار ہوتا ہے.اور چونکہ اُسے اس احسان کا اصل بانی نظر نہیں آتا اس کی لیے اُسے یہ خیال نہیں آتا کہ دراصل یہ احسان کسی اور ذات نے کیا ہے.ہمارے ملک میں لطیفہ مشہور ہے وَ اللَّهُ أَعْلَمُ وہ سچا ہے یا عام حالات میں وہ خود بنالیا گیا ہے.جب ہمارے ملک پر انگریز حاکم تھے لوگوں میں انہیں خوش کرنے کے لیے ڈالیاں پیش کرنے کا رواج تھا.بعد میں اگر چہ یہ قانون بنا دیا گیا تھا کہ افسروں کو ڈالیاں پیش نہ کی جائیں لیکن حکام اور ان رؤساء شہر کو جب موقع ملتا اور وہ انگریز افسروں کو ملنے کے لیے جاتے تو اُن میں سے بعض ہوشیار لوگ ڈالیاں بھی لے جاتے تھے.کہتے ہیں کہ ایک انگریز افسر کو ایک ای.اے سی اور ایک تحصیلدار ملنے کے لیے گئے.ای.اے سی ڈالی بھی ساتھ لے گیا.یہ تو سارے جانتے ہیں کہ ای اے سی بڑا ہوتا ہے اور تحصیلدار چھوٹا ہوتا ہے.کئی علاقوں کا چارج ای.اے سی کے پاس ہوتا ہے اور تحصیلدار اُس کے ماتحت ہوتا ہے.پس جب وہ دونوں ملاقات کے لیے گئے تو اتفاقاً انگریز افسر کے پاس جی
$1951 69 خطبات محمود ملاقات کا وقت تھوڑا تھا اس لیے بجائے اس کے کہ وہ دونوں کو الگ الگ بلاتا اُس نے کہلا بھیجا کہ دونوں آ جاؤ.جب ای.اے سی ڈالی کو اٹھانے لگا تو تحصیلدار نے آگے بڑھ کر ڈالی کو اُٹھا لیا اور کہانی حضور! ہمارے ہوتے ہوئے آپ یہ تکلیف کیوں کریں؟ چنانچہ تحصیلدار نے ڈالی اُٹھالی اور بڑے آرام سے اندر جا کر انگریز افسر کے سامنے رکھ دی اور یہ نہ کہا کہ یہ ڈالی ای.اے سی نے پیش کی ہے.وہ انگریز افسر اس اثر کے ماتحت کہ ڈالی تحصیلدار نے پیش کی ہے ای.اے سی کی طرف پیٹھ کر کے اور تحصیلدار کی طرف منہ کر کے بیٹھ گیا اور اس سے حالات پوچھنے لگا.ای.اے سی دل ہی دل میں گڑھ رہا تھا لیکن وہ کیا کر سکتا تھا برا بر دو گھنٹے تک ڈپٹی کمشنر تحصیلدار سے باتیں کرتا رہا اور اس نے ای.اے سی کو پوچھا تک نہیں.ملاقات سے فارغ ہو کر جب باہر آئے تو ای.اے سی نے غصہ نکالنا شروع کیا کہ تم نے کیوں یہ حرکت کی؟ تحصیلدار نے کہا حضور! یہ کس طرح ہو سکتا تھا کہ آپ میرے سامنے بوجھ اٹھاتے.اب ڈالی تو لایا تھا ای.اے سی لیکن چونکہ وہ ڈالی تحصیلدار نے انگریز افسر کے آگے رکھی تھی اس لیے وہ اس پر مہربان ہو گیا.یہی حال انسان کا ہے اللہ تعالیٰ کی طرف سے اسے ڈالی آتی ہے لیکن ماں باپ، بیوی بچہ، بہن یا بھائی وہ ڈالی اُٹھا کر اُس کے سامنے رکھ دیتے ہیں.اس لیے وہ سمجھتا ہے کہ اصل ڈالی پیش کرنے والا وہی ہے اور وہ خدا تعالیٰ کو پوچھتے ہی نہیں.یہی وجہ ہے کہ اسلام نے انسان کو یہ یاد دلانے کے لیے کہ حقیقی محسن خدا تعالیٰ ہی ہے یہ ترکیب رکھ دی کہ جب تم کھا نا کھا دیا پانی پی تو اس کے شروع کرنے سے پہلے بسم اللہ پڑھ لیا کروح اور کھانے سے پیشتر بِسْمِ اللہ پڑھنے کے یہ معنے ہیں کہ یہ کھانا تمہارے سامنے رکھا تو ماں نے ہے لیکن بھیجا خدا تعالیٰ نے ہے یا کھانا تمہارے سامنے رکھا تو بیوی نے ہے لیکن بھیجا خدا نے ہے یا کھانا تمہارے سامنے رکھا تو بھائی نے ہے لیکن بھیجا خدا تعالیٰ نے ہے.پھر کھانا کھانے کے بعد الْحَمْدُ لِلهِ کہہ کر خدا تعالیٰ کے احسان کا شکر یہ ادا کیا جاتا ہے.غرض اسلام نے ہمیں ایسا گر سکھایا تھا کہ اگر مسلمان اس گر پر عمل کرتے تو یقینا محبت الہی پیدا کر لیتے.لیکن ہوتا یہ ہے کہ اس قیمتی چیز کو کہا جاتا ہے کہ معمولی بات ہے.خدا تعالیٰ کی محبت پیدا کرنے کا کوئی اور گر بتاؤ.کوئی کہے کہ گھوڑے کی سواری کا کیا گر ہے؟ تو دوسرا شخص یہی جواب دے گا میاں! گھوڑے پر چڑھ جاؤ اور اس کو چلاؤ یا کوئی کہے لکھنے کا کیا گر ہے تو دوسرا یہی کہے گا کہ
$1951 70 خطبات محمود میاں! ہاتھ میں قلم پکڑو او رکھو اس میں کسی خاص گر کی کیا ضرورت ہے.اسی طرح اسلام نے تعلق باللہ کے پیدا کرنے کا جو سیدھا سا دا طریق بیان کیا تھا اُسے ہم بھول جاتے ہیں اور اسے بیہودہ سمجھ کر چھوڑ دیتے ہیں.ہم سمجھتے نہیں کہ اس میں اشارہ ہے کہ اگر چہ تحصیلدار نے ڈالی سامنے رکھی ہے لیکن دراصل اسے ای اے سی نے پیش کیا ہے.اس سے یہ یاد کرانا مقصود تھا کہ کھانا تمہیں بظاہر تمہاری ماں، بہن، بھائی یا بیٹے بیٹیاں پیش کرتی ہیں مگر وہ اس میں واسطہ بنتے ہیں اصل میں یہ کھانا خدا تعالیٰ نے دیا ہے.اور جب انسان کو پتا لگ جاتا ہے اور بار بار یہ مضمون اُس کے سامنے دہرایا جاتا ہے کہ در حقیقت یہ نعمتیں عطا کرنے والا خدا تعالیٰ ہے ، وہی ہمیں کھانا دیتا ہے ، وہی ہمیں پانی دیتا ہے، وہی ہمیں پہنے کو کپڑا مہیا کرتا ہے تو آہستہ آہستہ اس کی طرف دل مائل ہو جاتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی محبت پیدا ہو جاتی ہے.میں نے پچھے خطبہ میں اس بات پر زور دیا تھا کہ چھوٹے چھوٹے بچوں کو اس بات کی عادت ڈالی جائے کہ وہ کھانا کھانے سے پہلے بسم اللہ پڑھ لیا کریں، پانی پئیں تو پہلے بسم اللہ پڑھ لیں، کپڑا پہنیں تو پہلے بسم اللہ پڑھ لیں، اسی طرح کوئی اور نئی چیز استعمال کریں تو بسم اللہ پڑھا لیں.اس کے معنے یہ ہیں کہ یہ چیزیں خدا تعالیٰ کی ہیں اس لیے اُس کا شکریہ ادا کرتے ہوئے ، اُس کا نام لے کر اور اُس کے احسان کو مانتے ہوئے ہم اس کا استعمال کرتے ہیں.اور جب انسان کوئی چیز استعمال کر لیتا ہے تو وہ کہتا ہے الْحَمدُ لِلهِ.یعنی وہ دوبارہ خدا تعالیٰ کا شکریہ ادا کرتا ہے.الْحَمُدُ للہ میں وہ پچھلے شکریوں کو بھی ملا لیتا ہے.جب وہ بسم اللہ کہتا ہے تو کسی خاص چیز کی طرف اشارہ کر کے کہتا ہے میں یہ کھانا خدا تعالیٰ کا نام لے کر استعمال کرنے لگا ہوں لیکن اَلْحَمْدُ لِلهِ کہتے ہوئے کوئی خاص چیز اس کے سامنے نہیں ہوتی بلکہ وہ تمام پچھلی چیزوں کا بھی شکریہ ادا کرتا ہے.کھانا کھانے کے بعد کوئی الحَمدُ لِلهِ کہتا ہے تو اس کے معنے یہ ہوتے ہیں کہ میں اس کھانے اور اس سے پہلے جو کھانے میں کھا چکا ہوں اُن سب کے عطا کرنے پر شکریہ ادا کرتا ہوں.یا مثلاً وہ کپڑا پہنتا ہے تو وہ کہتا ہے میں اس کپڑے اور اُن سب کپڑوں کا جو اس سے پہلے میں پہن چکا ہوں شکر یہ ادا کرتا ہوں.یا جوتی پہنتا ہے تو وہ کہتا ہے میں اس جوتی اور اُن سب جوتیوں کے لیے جو میں نے اس سے پہلے پہنی ہیں خدا تعالیٰ کا شکریہ ادا کرتا ہوں.یا عقل و دانش ہے وہ کہتا ہے میں اس تدبیر کا جو تو.
$1951 71 خطبات محمود سکھائی اور اُن تمام رستوں کا جو تو نے مجھے ماں کے پیٹ سے ہی سکھانے شروع کیے تھے شکریہ ادا کرتا ہوں.پھر وہ بسم اللہ کہہ کر اپنے ماں باپ، بہن بھائی ، بیٹا بیٹی، بادشاہ رعایا بلکہ جانوروں اور نباتات اور جمادات جن کے ذریعہ اُسے کھانا پہنچتا ہے سب کو اکٹھا کر کے کہتا ہے اے خدا ! میں خوب جانتا ہوں کہ یہ تیری ہی طرف سے ہے.اب دیکھو! یہ ایک چھوٹی سی چیز ہے لیکن یہ ایک طبعی رستہ ہے.اب کوئی کہے کہ ماں سے محبت کیسے پیدا ہوتی ہے؟ تو ہم اسے کہیں گے یہ تو سیدھی سادی بات ہے.ماں تمہیں دودھ پلاتی ہے اور تم اسے روزانہ دودھ پلاتے دیکھ کر اُس سے محبت کرنے لگ جاتے ہو اس میں نیا گر کیا ہے.دنیا میں تم سے کوئی انسان بھی نہیں پوچھے گا کہ ماں کی محبت پیدا کرنے کا کیا گر ہے؟ لوگ بیوی سے محبت کرتے ہیں، ماں باپ سے محبت کرتے ہیں، بہن بھائیوں سے محبت کرتے ہیں، اولاد سے محبت کرتے ہیں اور تم کبھی دوسروں سے ان کی محبت پیدا کرنے کا گر نہیں پوچھتے.صرف اس لیے کہ یہ محبت ہم اس طبعی ذریعہ سے پیدا کرتے ہیں جو خدا تعالیٰ نے بنایا ہے.لیکن خدا تعالیٰ کے معاملہ میں لوگ تماشا چاہتے ہیں اور کہتے ہیں یہ تو بتائیے کہ تعلق باللہ پیدا کرنے کا کونسا گر ہے.وہ سمجھتے ہیں کہ تعلق باللہ کے لیے کسی خاص طریق پر عمل کرنے کی ضرورت ہے اور امید رکھتے ہیں کہ انہیں بتایا ہے جائے گا کہ قبرستان میں جاؤ اور ٹانگیں آسمان کی طرف کر کے لٹک جاؤ یا پانی میں ریت ملا کر پیا کرویا صبح اٹھ کر ایک ٹانگ پر کھڑے ہو کر فلاں منتر پڑھا کرو تو خدا تعالیٰ کی محبت پیدا ہو جائے گی حالانکہ ان چیزوں کو خدا تعالیٰ کی محبت کے ساتھ کوئی تعلق نہیں.سیدھی بات ہے کہ خدا تعالیٰ کا احسان مخفی ہے جس کی وجہ سے تمہارے اندر اس کی محبت پیدا نہیں ہوتی.تم اس کے احسانات کو نمایاں طور پر اپنے سامنے لاؤ تو اس کی محبت پیدا ہو جائے گی اور اسے نمایاں طور پر سامنے بسم اللہ اور الحمد لله لاتی ہیں اس میں کسی گر کی ضرورت نہیں.لیکن لوگ اسے بھول جاتے ہیں اور گدی نشینوں ، مولویوں اور پیروں کے پاس سالہا سال تک بیٹھے رہتے ہیں کہ وہ کبھی خوش ہو کر انہیں بتائیں کہ تم ایک ٹانگ پر کھڑ.ہوکر فلاں وظیفہ پڑھا کرو تو خدا تعالیٰ کی محبت پیدا ہو جائے گی.یہ طریق غیر طبعی ہے.تم کبھی یہ نہیں کہتے کہ ایک ٹانگ پر کھڑے ہو کر تم فلاں وظیفہ پڑ ھوتو ماں کی محبت پیدا ہو جاتی ہے یا اپنی نگی پیٹھ پرس کوڑے مارو تو باپ کی محبت پیدا ہوتی ہے.اگر تمہیں ایسا کہا جائے تو تم کہو گے ان چیزوں کا
$1951 72 خطبات محمود ماں باپ کی محبت کے ساتھ کیا تعلق ہے لیکن خدا تعالیٰ کی محبت پیدا کرنے کا سوال آتا ہے تو تم گر پوچھنے لگ جاتے ہو اور وہی بے جوڑ بات تمہیں درست معلوم ہونے لگ جاتی ہے.غرض تعلق باللہ کا یہ ایک بڑا نسخہ ہے جو میں نے گزشتہ خطبہ جمعہ میں بیان کیا تھا اور میر امنشا تھا کہ آج کوئی نئی چیز بیان کروں لیکن میری طبیعت اچھی نہیں.اچھا ہوا کہ میں نے پچھلے خطبہ کے مضمون کو پھر دہرا دیا.نقش ثانی نقشِ اوّل سے اچھا ہوتا ہے.پھر کسی موقع پر اور باتیں بیان کروں گا.اب صرف یہ کہنا چاہتا ہوں کہ تم اپنے بچوں کو یہ باتیں سکھاؤ اور پھر ان کا مطلب سمجھاؤ.جب تم ہر کام سے پہلے بسم اللہ کہو گے تو انہیں خیال پیدا ہو گا کہ اصل احسان خدا تعالیٰ کا ہے کہ اس نے ہمیں کھانے کو دیا، پینے کو دیا، پہننے کو دیا.بسم اللہ کہ کر ہم اقرار کرتے ہیں کہ بیشک روٹی ماں نے پکا کر دی ہے، بیشک روٹی بیوی نے پکا کر دی ہے لیکن گندم خدا تعالیٰ نے دی ہے.یا تم کہتے ہو کہ روٹی تو ماں نے پکائی ہے اور پیسے باپ نے دیئے ہیں لیکن ماں کو ہاتھ خدا تعالیٰ نے دیئے ہیں.اگر خدا تعالی ہاتھ عطا نہ کرتا ہے تو وہ روٹی کس طرح پکاتی ؟ اسی طرح جب بھی کوئی چیز شروع کرنے سے پہلے تم بسم اللہ پڑھو گے تو خدا تعالیٰ کا احسان تمہیں یاد آ جائے گا اور اس طرح تمہارے دل میں اُس کی محبت پیدا ہو گی اور محبت طبعی طریق سے پیدا ہوگی غیر طبعی طریقوں سے نہیں.تم اگر دروازے کے ذریعہ مکان میں داخل نہیں ہوتے بلکہ دیوار پھاند کر آتے ہو تو یہ طبعی طریق نہیں.اس سے بجائے فائدہ کے تمہیں نقصان ہو گا.ہوسکتا ہے تمہاری ٹانگیں ٹوٹ جائیں یا کوئی اور نقصان پہنچ جائے یا ہو سکتا ہے کہ کوئی تمہیں چور سمجھ لے اور وہ تمہیں پکڑ وادے اور حکومت سے سزا دلوائے.غرض یہ چھوٹے چھوٹے رستے ہی طبعی راستے ہیں جو انسان کے لیے نجات اور محبت الہی کے پیدا کرنے کا موجب ہوتے ہیں“.الفضل 13 جولائی 1951 ء) 1: كنز العمال في سنن الاقوال والافعال جلد 16 صفحه 48.حدیث نمبر 44095 بيروت لبنان 1998ء 2 : صحيح بخارى كتاب الأطْعِمَة بابُ التَّسْمِيَةِ عَلَى الطَّعَامِ
$1951 73 (10) خطبات محمود خدا تعالیٰ کی صفات کو بار باردُ ہرانے سے اس کی محبت پیدا ہوتی ہے (فرموده 20 را پریل 1951ء بمقام ربوہ ) تشہد ،تعو ذاورسورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: پچھلا جمعہ تو بوجہ بیماری کے میں پڑھا نہیں سکا اس لیے پہلے دو جمعوں سے میں ایک مضمون بیان کرتا چلا آرہا ہوں اور وہ مضمون محبت الہی کا تھا.میں نے بتایا تھا کہ دنیا میں ہمیں محبت پیدا کرنے یا محبت پیدا ہونے کے تین ذرائع معلوم ہوتے ہیں اور وہ تین ذرائع حسن ، احسان اور صحبت ہیں.یعنی محبت یا تو حسن سے پیدا ہوتی ہے یا احسان سے پیدا ہوتی ہے اور یا صحبت سے پیدا ہوتی ہے.صحبت میں علاقہ یعنی تعلق بھی شامل ہوتا ہے.صحبت دو قسم کی ہوتی ہے عقلی اور عملی.عقلی صحبت علاقہ کی شکل میں ظاہر ہوتی ہے اور عملی صحبت پاس رہنے سے ظاہر ہوتی ہے.میں نے ان ذرائع میں سے احسان کو پہلے لیا تھا کہ وہ لوگ جو کہتے ہیں کہ ہم محبت الہی کس طرح پیدا کریں؟ انہیں دیکھنا چاہیے کہ دنیا میں کس طرح محبت پیدا ہوتی ہے.اگر تمام دنیا میں احسان کے ذریعہ محبت پیدا ہوتی ہے تو پھر اس سے خدا تعالیٰ کو کیوں مستفی کیا جائے.جیسے احسان کے ذر
$1951 74 خطبات محمود دنیا میں دوسرے لوگوں کی آپس میں محبت ہوتی ہے ویسے ہی خدا تعالیٰ کی محبت بھی پیدا کی جاسکتی ہے.اگر کوئی روک ہوگی تو صرف یہ کہ تمہیں معلوم نہیں ہو گا کہ خدا تعالیٰ نے تم پر کیا احسان کیا ہے.اگر واقع میں تمہیں یقین ہو جائے کہ خدا تعالیٰ تمہارا حسن ہے اور یہ نکتہ سمجھ آ جائے کہ سب سے بڑا محسن تمہارا خدا تعالیٰ ہے تو لازما محبت الہی خود بخود پیدا ہو جائے گی.ضرورت صرف اس بات کی ہے کہ انسان اپنے اندر یہ یقین پیدا کر لے کہ خدا تعالیٰ اُس کا سب سے بڑا محسن ہے.وہ اس کے احسانات کو گنے ، ان پر غور کرے ،سوچے اور انہیں دل میں جمانے کی کوشش کرے.جیسا کہ میں نے بتایا ہے شریعت نے اس کے لیے ایک آسان گر مقرر کر دیا ہے اور وہ یہ ہے کہ جب کوئی کام کرو، کھانا کھاؤ، پانی پیو یا کوئی اور کام کر و اُس سے پہلے بسم اللہ پڑھا لیا کرو 1 اور بسم اللہ پڑھنے کا یہ مطلب ہوتا ہے کہ سب نعمتیں خدا تعالیٰ نے ہی دی ہیں.پھر جب وہ کام ختم کرو تو الحَمدُ لِلهِ کہو.2 اگر اس نکتہ کو مسلمان سمجھتے اور اگر ایک مسلمان بچپن میں ہی ان باتوں کا عادی ہو جاتا تو یقینا کچھ عرصہ کے بعد یہ باتیں راسخ ہوتی ہوتی اُس کے اندر گڑ جاتیں اور یہ سوال پیدا ہی نہ ہوتا کہ خدا تعالیٰ کی محبت کس طرح پیدا کی جائے.خدا تعالیٰ کے ہم پر احسان ہیں یا نہیں ؟ اس کے احسان تو بچوں کے دلوں میں بھی گڑ جاتے ہیں.میں نے بچوں اور جوانوں سے اس بارے میں سوالات کیے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ واقع میں اس بارہ میں غفلت برتی جارہی تھی یا غفلت برتی جارہی ہے.اکثر نے مجھ سے کہا ہے کہ ہمیں اس مسئلہ کا علم تو ہے لیکن ہم اسے اکثر بھول جاتے ہیں.اس کی وجہ یہی ہے کہ ماں باپ نے یہ بات اُن کے ذہن نشین نہیں کرائی.انہوں نے سمجھ لیا ہے کہ یہ معمولی بات ہے.اگر کر لیا تو خیر ورنہ اس کے نہ کرنے میں کوئی حرج نہیں.لیکن حقیقت یہ ہے کہ محبت الہی اس ذریعہ سے پیدا ہوتی ہے.اگر محبت الہی کوئی اہم نکتہ ہے تو یہ چھوٹی چھوٹی باتیں بھی نہایت اہم ہیں کیونکہ انہی سے محبت الہی پیدا ہوتی ہے.پس نو جوان خود بھی ان باتوں کی اپنے اندر عادت پیدا کریں اور پھر بچوں کے اندر ان باتوں کی عادت پیدا کریں، پھر استاد شاگردوں کے اندر اس کی عادت پیدا کریں.سپرنٹنڈنٹوں کو چاہیے کہ وہ بورڈنگوں کے طلباء کے درمیان یہ عادت پیدا کریں، مجلس کو مجلس کے ممبران کے اندر اور دوست کو پنے دوستوں میں ان باتوں کی عادت پیدا کرنی چاہیے.ایک دوسرے کے تعاون اور مدد سے یہ خیال
$1951 75 خطبات محمود رکا ہو جائے گا اور ان باتوں کی عادت پیدا ہو جائے گی اور عادت کے نتیجہ میں قلوب میں محبت پیدا ہو جاتی ہے.دوسری چیز جس سے محبت پیدا ہوتی ہے وہ حسن ہے.در حقیقت اگر ہم محبت کا تجزیہ کریں تو اس کے صرف یہ معنے ہوتے ہیں کہ ایک چیز دوسری چیز کو اپنانا چاہتی ہے اور یہ جذبہ ہی اصل میں محبت کہلاتا ہے.جب کوئی شخص یہ سمجھتا ہے کہ یہ چیز میری ہے یا وہ یہ سمجھے کہ میں فلاں کا ہوں تو اسی کا نام محبت ہوتا ہے.اور یہ جذبہ کہ فلاں چیز میری ہو جائے ہمیشہ حسن سے پیدا ہوتا ہے.خدا تعالیٰ کے لیے بھی یہی چیز استعمال ہو سکتی ہے.نئے نکتے بنانے اور نئے گر بنانے کی کیا ضرورت ہے.ہم بازار میں جاتے ہیں.کسی دکان پر ہمیں ایک نئی اور عمدہ جوتی نظر آتی ہے.اُسے دیکھ کر ہمیں یہ خیال پیدا ہوتا ہے کہ میں یہ جوتی لے لوں.عورتیں بازار میں سے گزرتی ہیں اور دکانوں پر کپڑے دیکھتی ہیں تو خیال کرتی ہیں کہ اگر پیسے ہوں تو فلاں کپڑا خرید لیں.سنگار کی کوئی چیز دیکھتی ہیں یا فرنیچر اچھا دیکھتی ہیں تو ی خیال کرتی ہیں کہ کاش! یہ چیزیں اُن کی ہو جائیں.ایک جاندار چیز کے لیے جس چیز کو ہم ”محبت“ کہتے ہیں بے جان کے لیے ہم اُسی کے لیے پسند کا لفظ بولتے ہیں.ایک عورت اپنے بچہ سے محبت کرتی ہے یا اسے کسی جوتے کی وضع پسند ہوتی ہے تو وہ کہتی ہے یہ جو تا خریدلوں، اسے کوئی زیور پسند ہے تو اسے لینے کی وہ خواہش کرتی ہے، دکان پر کمخواب 3 دیکھتی ہے تو اسے خریدنے کو اُس کا جی چاہتا ہے.گویا لفظ ”پسند“ اور ”محبت“ ایک ہی چیز ہے لیکن ہمارے ملک میں عام طور پر پسند کا لفظ بے جان چیزوں کے لیے استعمال ہوتا ہے اور ”محبت“ کا لفظ جاندار چیزوں کے لیے استعمال ہوتا ہے.ب پسند کا طریق یہی ہے کہ کوئی اچھی چیز نظر آتی ہے تو جی چاہتا ہے کہ اُسے حاصل کیا جائے.اگر وہ چیز اُس کی طاقت کے مطابق ہے تو وہ اُسے خرید لیتا ہے اور اگر وہ اس کی طاقت سے بالا ہوتی ہے تو وہ اسے پسند تو کر لیتا ہے لیکن اس کے حصول کی خواہش دل سے نکال دیتا ہے.مثلاً ایک شخص بازار جاتا ہے اور دکان پر کوئی کپڑا دیکھ کر اُس کا بھاؤ پوچھتا ہے اور دکاندار اسے بتاتا ہے کہ یہ کپڑا دس روپے یا بارہ روپے فی گز ہے.وہ سوچتا ہے کہ میں تو ایک غریب شخص ہوں.ایک دو روپے فی گز ہوتا تو میں خرید بھی لیتا لیکن اب تو یہ میری طاقت سے باہر ہے.اس لیے وہ اس کے خریدنے کا خیال دل سے نکال دیتا ہے لیکن بہر حال اسے پسند کر لیتا ہے.گویا جہاں کوئی اچھی چیز نظر آئے گی انسان اسے پسند
$1951 76 خطبات محمود کرے گا لیکن دل کو یہ کہے گا کہ اس کے خریدنے کا ارادہ نہ کرنا اور آہستہ آہستہ وہ دل سے اس کے خریدنے کا خیال نکال دے گا.بہر حال وہ یہ تو کہ سکتا ہے کہ یہ قیمت میری طاقت سے بالا ہے لیکن یہ نہیں ہوسکتا کہ وہ چیز پسندیدہ بھی نہ ہو، وہ چیز اچھی تو بہر حال ہے.بازار میں بے موسم پھل آتے ہیں اور وہ روپیہ دو روپیہ فی سیر ہوتے ہیں.اس بھاؤ پر غرباء اسے خرید کر نہیں کھا سکتے.اس لیے کہ وہ اُن کی طاقت سے بالا ہیں مگر بہر حال وہ انہیں پسند ہوتے ہیں.وہ پسند ضرور کر لیتے ہیں.آگے انسانوں میں بھی یہی حالات ہیں.انسانوں میں حُسنِ صورت کے ساتھ ساتھ حسن سیرت بھی لگا رہتا ہے.یہی وجہ ہے کہ ہمارے ملک میں محبت کا لفظ بدل دیا گیا ہے.گو عربی میں یہ دونوں جگہ پر استعمال ہوتا ہے.کپڑے پر بھی محبت کا لفظ بولا جائے گا، زیور پر بھی محبت کا لفظ بولا جائے گا لیکن ہمارے ملک میں یہ امتیاز پیدا کر دیا گیا ہے کہ محبت جاندار چیزوں کے لیے ہوتی ہے اور پسند کا لفظ غیر جاندار چیزوں کے لیے استعمال ہوتا ہے.جو چیز بھی حسین ہوگی اُس سے انسان کو محبت پیدا ہو جائے گی.حسن دیکھنے کے علاوہ سننے سے بھی انسان کے اندر اثر کرتا ہے.مثلاً پہاڑ ہے.بعض پہاڑوں کو تو ہم دیکھ کر پسند کرتے ہیں لیکن بعض پہاڑوں کے متعلق کتابوں میں پڑھتے ہیں کہ وہاں فلاں فلاں نظارے ہیں، عمدہ چشمے ہیں اور فلاں فلاں قسم کے پھل ہیں اور اس طرح ہم انہیں پسند کرنے لگ جاتے ہیں.کشمیر کو ہزاروں نے دیکھا ہے لیکن لاکھوں نے صرف کتابوں میں پڑھا ہے یا دوسروں کی زبانی سنا ہے کہ کشمیر بڑی اچھی جگہ ہے.اس لیے اُن کا اسے دیکھنے کو جی چاہتا ہے.غرض عشق آنکھوں سے بھی پیدا ہوتا ہے اور کانوں سے بھی پیدا ہوتا ہے.پھر عشق جسم کی آنکھ سے بھی پیدا ہوتا ہے اور دل کی آنکھ سے بھی پیدا ہوتا ہے.اب خدا تعالیٰ کی ذات ایسی ہے جو وراء الوری ہے.اس لیے اُس کی محبت اسے ظاہری آنکھ سے دیکھ کر پیدا نہیں ہوتی.تم دنیا میں بعض موٹی موٹی چیزیں بھی آنکھ سے نہیں دیکھ سکتے تم بجلی کو ظاہری آنکھ سے نہیں دیکھ سکتے.پھر وہ قو تیں جو مادہ کے پیچھے کام کر رہی ہیں مثلاً بجلی کی طاقت، انہیں بھی تم ظاہری آنکھ سے نہیں دیکھ سکتے.ان چیزوں کو اُن کی تأثیر سے معلوم کیا جاتا ہے.اسی طرح خدا تعالیٰ کی ہستی وراء الورا ہے اور ظاہری آنکھ سے وہ پوشیدہ ہے.اُسے دل کی آنکھ سے دیکھا جائے گا اور اُس کی آواز کو دل کے کان سے سنا جائے گا..شریعت نے اس کے لیے یہ طریق بیان کیا ہے کہ خدا تعالیٰ کے حسن کو الفاظ میں بیان کیا جائے ،
$1951 77 خطبات محمود اُسے بار بار دہرایا جائے اور آنکھوں کے سامنے اُس کی تصویر لائی جائے تا انسان مجبور ہو جائے کہ اُس کی سے پیار کرے.اور اس کا نام قرآن کریم میں ذکر الہی رکھا گیا ہے.جیسے فرمایا فَاذْكُرُوا الله كَذِكْرِكُمْ أَبَاءَ گم 4 تم خدا تعالیٰ کو اس طرح یاد کرو جیسے تم اپنے باپ دادوں کو یاد کرتے ہو.جیسے ایک چھوٹا بچہ کہتا ہے کہ میں نے اماں کے پاس جانا ہے اسی طرح تم بار بار خدا تعالیٰ کا ذکر کرو تا کہ وہ تمہیں یاد ہو جائے.خدا تعالیٰ وراء الور ا ہستی ہے اُس کا حسن براہِ راست انسان کے سامنے نہیں آتا بلکہ اُس کا حسن انسان کے سامنے کئی واسطوں سے آتا ہے.اگر اس کے حُسن کو الفاظ میں بیان کیا جائے اور پھر ہم اس پر غور کریں اور سوچیں تو آہستہ آہستہ وہ نقش فِی الحَجَر کی طرح ہو جائے گا اور معنوی طور پر اس کی شکل ہمارے سامنے آجائے گی.خدا تعالیٰ کے جوننانوے نام بتائے جاتے ہیں وہ دراصل یہی چیز ہے.خدا تعالیٰ کے صرف ننانوے نام نہیں بلکہ اُس کے نام ننانوے ہزار میں بھی ختم نہیں ہوتے.عدد محض تقریبی ہے.یہ کوئی شرعی مسئلہ نہیں.صوفیاء یا گزشتہ انبیاء نے ذہن نشین کرنے کے لیے یہ اصطلاح وضع کر دی کیونکہ ان ان ناموں کا ذکر یہودیوں کی کتابوں میں بھی آتا ہے.خدا تعالیٰ کے اگر موٹے موٹے نام بھی گنے جائیں تو وہ بھی ننانوے سے بڑھ جاتے ہیں.پھر نام در نام آ جاتے ہیں.پھر ان کی تشریح آ جاتی ہے اور اس طرح یہ نام کئی ہزار کیا کئی لاکھ تک جا پہنچتے ہیں.ہم لفظ رب بولتے ہیں تو اس کا ہم پر کوئی خاص اثر نہیں ہوتا.اس لیے کہ یہ لفظ ہماری زبان کا نہیں.خدا تعالیٰ نے انسانی دماغ اس طرح کا بنایا ہے کہ جس چیز کو انسان بچپن میں سمجھ لے وہ چیز فوراً اس کے ذہن میں آتی ہے باقی چیزیں براہِ راست ذہن میں نہیں آتیں.دماغ ان کا ترجمہ کرتا ہے.پھر وہ ترجمہ ہمارے ذہن میں آتا ہے.مثلاً جب ہم لفظ " آقا " بولتے ہیں تو اس کا مفہوم فوراًہمارے ذہن میں آجاتا ہے، اس کا ہمیں ترجمہ نہیں کرنا پڑتا.لیکن جب ہم مالک اور ماسٹر کہتے ہیں تو ذہن ان کا ترجمہ کرتا ہے.بیشک بعض الفاظ ایسے بھی ہیں جو غیر زبانوں کے ہیں اور وہ ہماری زبان میں استعمال ہوتے ہیں.وہ جب بولے جائیں تو اُن کا مفہوم براہ راست ہمارے ذہن میں آجائے گا لیکن وہ الفاظ صرف محدود معنوں میں ہماری زبان میں استعمال ہوتے ہیں اور انہی محدود معنوں میں وہ ہمارے ذہن میں آتے ہیں.مثلاً رب کا لفظ ہے.عربی زبان میں اس کے معنے بہت وسیع ہیں لیکن جب یہ لفظ اردو میں استعمال ہو گا تو محدود معنوں میں ہو گا.
$1951 78 خطبات محمود ا ان محدود معنوں کے لیے ترجمہ پیش کرنے کی ضرورت پیش نہیں آئے گی.لیکن دوسرے معنوں میں جب یہ لفظ استعمال ہوگا تو پھر ترجمہ کی ضرورت پیش آئے گی.جب یہ لفظ وسیع معنوں میں استعمال ہوتا ہے تو پہلے ہم اس کے معنے ذہن میں لاتے ہیں اور پھر اس کا ترجمہ کرتے ہیں، اس کے بعد اسے دماغ کی لائبریری میں رکھا جاتا ہے.اسی طرح مالک کا لفظ ہے.عربی میں یہ بہت وسیع معنوں میں استعمال ہوتا ہے.اپنے مادے کے لحاظ سے یہ کئی کیفیتوں پر دلالت کرتا ہے لیکن اردو زبان میں یہ لفظ محدود معنوں میں استعمال ہوتا ہے.جب ان معنوں میں یہ لفظ استعمال ہوگا تو ہمارے دماغ کو اس کا ترجمہ نہیں کرنا پڑے گا بلکہ اس کا مفہوم براہ راست ہمارے ذہن میں آ جائے گا.لیکن جب یہ دوسرے معنوں میں استعمال ہوگا تو پہلے ہم اس کے معنی ذہن میں لائیں گے اور پھر اس کا اپنی زبان ان میں ترجمہ کریں گے.اسی طرح رحمان ہے، رحیم ہے.ان کا مفہوم بھی براہ راست ذہن میں نہیں آتا ہے بلکہ دماغ ان کا پہلے ترجمہ کرتا ہے پھر وہ معنے دماغ کی لائبریری میں محفوظ ہو جاتے ہیں.تم اپنے دل میں انہیں رکھ کے دیکھ لو تمہیں ابھی پتا لگ جائے گا کہ اس کے کیا معنے ہیں.اگر تم رب کا لفظ کہو تو فوراً اس کے بعض معانی ہمارے ذہن میں آجائیں گے کیونکہ یہ لفظ اردو میں بھی استعمال ہوتا ہے.لیکن رحمان کہو تو یہ فوراً ہمارے ذہن میں نہیں آئے گا حالانکہ یہ لفظ ہم نے ہزاروں دفعہ استعمال کیا ہوگا کیونکہ یہ لفظ ہماری زبان میں استعمال نہیں ہوتا دماغ پہلے اس کا ترجمہ کرے گا.اسی طرح غفور اور غفار کے الفاظ ہیں.یہ عام الفاظ ہیں اور ہم انہیں اپنی زندگی میں ہزاروں بار استعمال کر چکے ہوں گے لیکن ان کا مفہوم ہمارے ذہن میں فورا نہیں آئے گا.ہمارے ذہن میں جو کچھ آئے گا وہ اس کا ترجمہ ہوگا اور اس میں کچھ وقت لگے گا خواہ وہ وقت سیکنڈ کا ہزارواں حصہ ہی کیوں نہ ہو.جیسے تصویر کے کیمرے ہوتے ہیں.بعض کیمرے سیکنڈ کے سویں حصہ میں تصویر کھینچ لیتے ہیں.پھر جو ان سے بڑ.کیمرے ہوتے ہیں وہ سیکنڈ کے ہزارویں حصہ میں تصویر کھینچ لیتے ہیں اور جو ہوائی جہازوں میں کیمرے ہوتے ہیں وہ تو ان سے بھی بہت بڑے ہوتے ہیں.بہر حال وقت ضرور لگے گا خواہ وہ کتنا ہی قلیل ہو.تم رحمان، رحیم، غفور یاستار کا لفظ بولو اور پھر تجربہ کر کے دیکھ لو تمہیں یہ محسوس ہوگا کہ ان کے معنے سمجھنے پر وقت لگا ہے خواہ وہ وقت کتنا ہی قلیل ہو.لیکن جو الفاظ اردو زبان کے ہوں گے ان پر کوئی وقت نہیں لگے گا.اسی طرح جو غیر زبانوں کے الفاظ ہماری زبان میں مستعمل ہوتے ہیں جنہیں ہم
$1951 79 خطبات محمود کثرت سے بولتے اور سنتے ہیں وہ ہمارے دماغ میں براہِ راست داخل ہو جاتے ہیں.لیکن وہی معنے ہمارے دماغ میں داخل ہوں گے جن میں وہ ہماری زبان میں استعمال ہوتے ہیں.لیکن جن معنوں میں وہ ہماری زبان میں استعمال نہیں ہوتے وہ چاہے کوئی ماہر زبان ہی کیوں نہ ہو تر جمہ ہو کر اس کے دماغ میں داخل ہوں گے.یہ محنت طلب بات ہے.خالی ربّ ، مالک، رحمان، رحیم کہنے سے اُس وقت تک کوئی فائدہ نہیں ہوتا جب تک تم ترجمہ کر کے اسے ذہن میں دہراؤ گے نہیں کہ اس کے یہ معنے ہیں.جب تم انہیں بار باردہراؤ گے تو وہ دماغ کی فلم پر آجائیں گے اور ایک لفظ بار بار دماغ میں آنے کے بعد تصویر کا ایک حصہ بن جائے گا.پھر متعدد الفاظ سے خدا تعالیٰ کی ایک تصویر بن جائے گی اور پھر اُس تصویر سے خدا تعالیٰ کا وجود سمجھ لیا جائے گا.خدا تعالیٰ کی کوئی صفت روحانی ماتھا بنادے گی ، کوئی صفت روحانی کان بنادے گی، کوئی صفت روحانی آنکھ بنا دے گی اور اس طرح ایک تصویر بن جائے گی.بہر حال خدا تعالیٰ کی تصویر روحانی طور پر سامنے آئے گی جس سے تم یہ سمجھو گے کہ خدا تعالیٰ ایک حسین چیز ہے.اور جب تم یہ سمجھو گے کہ خدا تعالیٰ ایک حسین چیز ہے تو اس کی محبت خود بخود پیدا ہو جائے گی.اسی چیز کا نام ذکر الہی ہے.اس کا رواج ہماری جماعت میں نہیں دوسرے لوگوں میں اس کا رواج ہے.مثلاً پیروں اور فقیروں کی جماعتوں میں اس کا رواج عام طور پر پایا جاتا ہے لیکن انہوں نے اسے ایک کھیل بنا دیا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام ایک پیر کا واقعہ سنایا کرتے تھے.وہ پیر شکار کا بہت شوقین تھا.وہ ایک دن گھوڑے پر سوار ہو کر شکار کے لیے گیا اور بڑی کوشش کے بعد اس نے ایک ہرن مارا.جب اس ہرن کو تیر لگا تو وہ تیز دوڑا.پیر صاحب نے اس کے پیچھے گھوڑا دوڑایا.آخر بڑی محنت کے بعد اسے پکڑنے میں کامیاب ہوئے.پیر صاحب کو غصہ تھا کہ میرا گھوڑا بہت تھک گیا ہے.وہ جب ہرن کو ذبح کرنے لگے تو اپنے خیال میں وہ تکبیر کہہ رہے تھے لیکن کہہ یہ رہے تھے سو را ! تو نے میرا گھوڑا مار دیتا ، سو را! تو نے میرا گھوڑا مار دیتا.اس کا نام انہوں نے ذکر الہی رکھ لیا تھا حالانکہ وہ لفظوں میں بھی نہیں ہور ہا تھا لیکن اُن کی تسبیح چلی جارہی تھی.میں نے پہلے بھی کئی دفعہ سنایا ہے کہ ہمارے ماموں مرزا علی شیر صاحب تھے.وہ ہماری سوتیلی والدہ کے بھائی تھے.شاید میاں عزیز احمد صاحب کی دادی کے حقیقی بھائی یا قریبی رشتہ دار تھے.
$1951 80 خطبات محمود وہ قادیان میں آنے والوں کو ہمیشہ ورغلاتے رہتے تھے اور کہا کرتے تھے دیکھو! میں مرزا صاحب کا قریبی رشتہ دار ہوں میں بھی انہیں نہیں مانتا.مرزا صاحب نے دکان بنا رکھی ہے.صرف دکان.مرزا علی شیر صاحب تسبیح خوب پھیرا کرتے تھے.مجھے خوب یاد ہے کہ منکے پر منکا چلتا تھا.انہیں باغبانی کا شوق تھا اس لیے انہوں نے ایک باغیچہ لگایا ہوا تھا جس میں وہ سارا دن کام کرتے رہتے تھے.جہاں آجکل قادیان میں دُور الضعفاء ہیں وہاں اُن کا باغیچہ تھا.درختوں سے انہیں عشق تھا.اس لیے جو نہی کسی نے کسی درخت کو چھوا تو انہیں غصہ آیا اور وہ اُس کے پیچھے بھاگ پڑے.بچے شرارتیں کرتے ہیں.ہم تو بہت احتیاط کرتے تھے کیونکہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے شدید مخالف تھے لیکن دوسرے بچے انہیں چھیڑا کرتے تھے.مثلاً کوئی بیدانہ 5 کا درخت ہے تو بچوں نے پتھر مارنا اور اس طرح بیدا نہ اُتار کر کھانا.ماموں علی شیر صاحب نے جب بچوں کو پتھر مارتے دیکھنا تو اُن کے پیچھے بھاگنا اور گالیاں دیناسور، بدمعاش ! لیکن تسبیح کے منکے برابر چلتے جاتے تھے.ہم اُس وقت بھی حیران ہوتے تھے کہ انہوں نے تو تسبیح پر سود فعہ خدا تعالیٰ کا نام لینا تھا لیکن اس میں سے پچاس دفعہ تو انہوں نے سو ر اور بدمعاش کہہ دیا ہے.اب انہوں نے یہ طریق اختیار کیا ہوا تھا لیکن اس کے یہ معنے نہیں کہ اصل ذکر الہی بھی چھوڑ دیا جائے.ہمارے ہاں ذکر الہی کا رواج نہیں.مسجد میں جاؤ تو وہاں آپس میں یہ گفتگو شروع ہوتی ہے کہ سنا ہے آپ نے بھینس خریدی ہے؟ کیسی ہے؟ کتنے کو لی؟ فلاں جگہ آپ نے جانا تھا گئے نہیں؟ آپ کی ترقی کے معاملہ کا کیا بنا؟ وغیرہ وغیرہ.مسجدوں میں خدا تعالیٰ کا نام لو، مالک کا نام لو اور اُس کی مالکیت کو ذہن میں لاؤ، قدوس کا نام لو اور اُس کی قدوسیت کو ذہن میں لاؤ ، ستار کا نام لو اور اُس کی ستاریت کو ذہن میں لاؤ، غفور کا نام لو اور اُس کی غفوریت کو ذہن میں لاؤ، غفار کا نام لو اور اس کی غفاریت کو ذہن میں لاؤ.جب تم تصویر ہی نہیں کھینچو گے تو خدا تعالیٰ کی محبت کس طرح پیدا ہوگی؟ محبت کے لیے ضروری ہے کہ یا تو کسی کا وجود سامنے ہو اور یا اس کی تصویر سامنے ہو.مثلاً اسلام نے یہ کہا ہے کہ جب تم شادی کرو تو شکل دیکھ لو 6 اور جہاں شکل دیکھنی مشکل ہو وہاں تصویر دیکھی جاسکتی ہے.میری جب شادی ہوئی میری عمر چھوٹی تھی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ڈاکٹر رشید الدین صاحب کو لکھا کہ لڑکی کی تصویر بھیج دیں.انہوں نے تصویر بھیج دی اور
$1951 81 خطبات محمود حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے وہ تصویر مجھے دے دی.میں نے جب کہا کہ مجھے یہ لڑکی پسند ہے تب آپ نے میری شادی وہاں کی.پس بغیر دیکھنے کے محبت ہو کیسے؟ یہ تو ایسی ہی چیز ہے کہ خدا تعالیٰ تمہارے سامنے آئے اور تم آنکھوں پر ہاتھ رکھ لو اور پھر کہو کہ خدا تعالیٰ کی محبت ہو جائے وہ محبت ہو کیسے ؟ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا ایک شعر ہے دیدار گر نہیں ہے تو گفتار ہی سہی حُسن و جمال یار کے آثار ہی سہی Z یعنی کچھ تو ہو.اگر محبوب خود سامنے نہیں آتا تو اس کی آواز ہی سنائی دے.اس کے حسن کی کوئی نشانی تو نظر آئے.یہ تصویر ہے خدا تعالیٰ کی.رب ، رحمان، رحیم، ، مَالِكِ يَوْمِ الدِّينِ ، ستار، قدوس ، مومن، هیمن ،سلام، جبار اور قہار اور دوسری صفات الہیہ یہ نقشے ہیں جو ذہن میں کھینچے جاتے ہیں.جب متواتر ان صفات کو ہم ذہن میں لاتے ہیں اور ان کے معنوں کو ترجمہ کر کے ذہن میں بٹھای لیتے ہیں تو کوئی صفت خدا تعالیٰ کا کان بن جاتی ہے، کوئی صفت آنکھ بن جاتی ہے، کوئی صفت ہاتھ بن جاتی ہے اور کوئی صفت دھڑ بن جاتی ہے اور یہ سب مل کر ایک مکمل تصویر بن جاتی ہے.یہ تصویر الفاظ سے نہیں بنتی بلکہ اس حقیقت سے بنتی ہے جو اس کے پیچھے ہے.ان صفات کی تشریح کو دماغ میں لانے سے یہ دماغ کے اندر جمتی جاتی ہیں اور آہستہ آہستہ محبت الہی پیدا ہو جاتی ہے.یہ کوشش کرنا کہ تصویر کو سامنے لائے بغیر محبت ہو جائے یہ حماقت ہے.اللہ تعالیٰ کی تصویر کو سامنے لانے کا ذریعہ ذکرِ الہی ہے اور یہ قرآن کریم میں مذکور ہے.اب اگر کوئی کہے کہ محبت الہی کا کوئی اور گر بتاؤ تو یہ بیوقوفی ہوگی.کسی شخص کو یہ بتایا جائے کہ تم ایک ٹانگ پر کھڑے ہو کر فلاں صاحب کا اتنی دفعہ ذکر کیا کرو تو وہ کہے گا سُبْحَانَ اللهِ ! کیا ہی عمدہ گر ہے محبت الہی کے پیدا کرنے کا.لیکن اگر یہ کہیں کہ ذکر الہی کیا کرو تو وہ ای کہے گا یہ بھی کوئی گر ہے.یا اگر کسی کو کہا جائے کہ سر کے بل لٹک کر فلاں ورد کیا کرو تو وہ خوش ہو جائے گا.لیکن اگر کہیں ستار ، غفار ، رحمان اور رحیم کا ورد کرو تو وہ کہے گا یہ تو پرانی بات ہے.غرض لوگ سیدھا رستہ چھوڑ کر بے راستہ چلیں گے.ان کی مثال ایسی ہی ہے جیسے کوئی منہ کی بجائے کان میں روٹی ٹھونس لے اور کہے یہ پیٹ میں کیوں نہیں جاتی؟ کان میں روٹی ٹھونسنے سے وہ پیٹ میں نہیں جائے گی بلکہ اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ وہ مر جائے گا.اسی طرح محبت الہی بھی تصویر کو
$1951 82 خطبات محمود یکھنے سے ہوتی ہے.اور جو شخص یہ کوشش کرتا ہے کہ بغیر تصویر کے محبت الہی پیدا ہو جائے وہ بیوقوف ہے.ہزاروں بار دیکھنے، پڑھنے اور سننے میں آیا ہے کوئی شخص گار بو یا کسی اورایکٹریس پر عاشق ہو گیا حالانکہ گار بو یاوہ ایکٹریس اُس نے دیکھی بھی نہیں ہوتی.سکرین پر شکل دیکھی اور اُس پر تو ہو گیا.اس نے سے معلوم ہوا کہ محبت صرف دیکھنے سے ہی پیدا نہیں ہوتی سننے اور تصویر دیکھنے سے بھی پیدا ہو جاتی ہے اور غیر مرئی چیز کی تصویر اُس کی صفات ہوتی ہیں.اگر کوئی خدا تعالیٰ کی صفات کو بار بار ذہن میں لائے تو آہستہ آہستہ اُس کا نقشہ بنتا جائے گا.تم پانی یا ملائی کی برف بناتے ہو تو اُس کو بار بار ہلاتے ہو.کیا پہلے جھٹکے میں ہی برف بن جاتی ہے؟ اُس پر بہر حال وقت لگتا ہے اور بار بار ہلانے سے برف بنتی ہے.اسی طرح محبت الہی بار بار ذکر الہی کرنے سے پیدا ہوتی ہے.ایک ایک، دودو دفعہ ذکر الہی کرو گے یا غلط طور پر ذکر الہی کرو گے تو انجام کار تمہاری کوشش ضائع ہو جائے گی.لیکن تم اگر ٹھیک طور پر ذکر الہی کرو گے اور بار بار کرو گے تو اس سے محبت الہی پیدا ہوگی.صفات الہیہ کا بار بار دہرانا اور تو اتر سے دہرانا اس سے خدا تعالیٰ کی تصویر بنتی ہے اور اس تصویر کی وجہ سے محبت پیدا ہوتی ہے.خدا تعالیٰ کی تصویر کو نظر انداز کر کے غیر طبعی طور پر محبت الہی کو پیدا کر نا حماقت کی چیز ہے اور ایسے لوگ سر مار مار کر مر جاتے ہیں لیکن انہیں ملتا کچھ نہیں“.خطبہ ثانیہ کے بعد حضور نے فرمایا: میں نماز کے بعد بعض دوستوں کے جنازے پڑھاؤں گا.حسین بخش صاحب کے بیٹے نے اطلاع دی ہے کہ اُن کے والد فوت ہو گئے ہیں.وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابی تھے.ان کی وفات موضع بونگا بلوچاں ضلع لاہور میں ہوئی ہے جہاں جنازہ پڑھنے والا کوئی احمدی نہیں تھا.محمد اکبر صاحب اطلاع دیتے ہیں کہ محمد یوسف صاحب درویش کے لڑکے فوت ہو گئے ہیں.مرحوم خلص اور سلسلہ کا خدمت گزار تھا.دوست محمد صاحب حجانہ نے اطلاع دی ہے کہ صوفی اللہ بخش خان صاحب لغاری بلوچ پٹواری نہر ڈیرہ غازیخان فوت ہو گئے ہیں.مرحوم مخلص احمدی تھے اور تبلیغ کا بہت شوق رکھتے تھے.منشی سکندر علی صاحب چک نمبر 260 تحصیل سمندری ضلع لاسکپور سے اطلاع دیتے ہیں کہ
$1951 83 خطبات محمود اُن کے بیٹے عطاء اللہ صاحب فوت ہو گئے.گاؤں میں صرف ایک گھر احمدیوں کا ہے جنہوں نے جنازہ پڑھا.عبد القادر صاحب اعوان لکھتے ہیں کہ ہمشیرہ نے اطلاع بھجوائی ہے کہ ان کی لڑکی طلعت فوت ہوگئی ہے.کوئی احمدی جنازہ پڑھنے والا نہ تھا غیر احمدیوں نے جنازہ پڑھا.محمد نذیر صاحب فاروقی نے اطلاع دی ہے کہ اُن کی لڑکی مبارکہ بیگم بہاولنگر ست بہاولپور میں فوت ہوگئی ہے.چند دوست نماز جنازہ میں شامل ہوئے.شیخ سبحان علی صاحب اطلاع دیتے ہیں کہ اُن کی والدہ حسین بی بی صاحبہ زوجہ منشی گو ہر علی صاحب فوت ہوگئی ہیں.مرحومہ موصیہ تھیں اور خواہش رکھتی تھیں کہ میں ان کا جنازہ پڑھاؤں.ملک بشیر احمد صاحب اطلاع دیتے ہیں کہ ان کے بھائی ملک عبدالعزیز صاحب ریٹائرڈ اسٹنٹ ہیڈ ماسٹر فوت ہو گئے ہیں.یہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابی اور میرے ہم جماعت تھے.ہم اکٹھے پڑھتے رہے ہیں.نہایت شریف اور نیک شخص تھے لیکن کانوں سے بہرے تھے.میں نے ابھی ابھی ذکر الہی کا ذکر کیا ہے ان کو میں نے دیکھا ہے کہ یہ بچپن سے ہی ذکر الہی کے عادی تھے اور نہایت مخلص احمدی تھے.مستری محمد رمضان صاحب قادیان کے پرانے مستری تھے.چالیس سال ہوئے احمدی ہوئے اور احمدی ہوتے ہی قادیان آبسے.قادیان کی بہت سی عمارتیں انہوں نے بنائی تھیں.وہ آج فوت ہو گئے ہیں.نماز جمعہ کے بعد میں ان سب کا جنازہ پڑھاؤں گا.الفضل 19 جولائی 1951 ء) 1 : صحيح بخارى كتاب الاطعمة باب التسمية على الطعام والاكل باليمين 2 : جامع الترمذى كتاب الدعوات باب مايقول اذا فرغ من الطعام کمخواب: ایک قسم کا ریشمی کپڑا جو زری کی تاروں کی آمیزش سے بنا جاتا ہے.زربفت فیروز اللغات اردو جامع مطبوعہ فیروز سنز لا ہور ) 4 : البقرة: 201
$1951 84 خطبات محمود 5 : بیدانہ: (بے دانہ ) وہ پھل جس میں بیج نہ ہو.ایک قسم کا انار ( فیروز اللغات اردو جامع مطبوعہ فیروز سنز لاہور ) 6 : سنن ابن ماجه ابواب النكاح بابُ النَّظْرِ إِلَى الْمَرْأَةِ إِذَا أَرَادَ أَنْ يَتَزَوَّجَهَا.1: در مشین اردو نظم محاسن قرآن کریم صفحہ 101 مرتبہ شیخ محمد اسماعیل پانی پتی 1962ء
$1951 55 85 (11.خطبات محمود مذہبی جماعتوں کی بنیا دروحانیت پر ہوتی ہے اور روحانیت تعلق باللہ کے بغیر قائم نہیں رہ سکتی تم خدا کو مقدم رکھو اور دنیا کو موتر (فرموده 18 مئی 1951ء بمقام ربوہ ) تشهد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: ”آج میں جماعت کو اس امر کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ مذہبی جماعتوں کی بنیاد روحانیت پر ہوتی ہے.اگر کسی جماعت میں روحانیت باقی ہے تو وہ گرنے کے بعد دوبارہ اُبھرنے کا موقع پالیتی ہے.اور اگر کسی جماعت کی روحانیت مرجائے تو ایسی جماعت اپنی ظاہری اور جسمانی ترقی کے باوجود بھی دوبارہ زندہ نہیں ہو سکتی.پس ہماری جماعت کو اپنے تمام امور میں اس امر کو مدنظر رکھنا چاہیے کہ انہیں تعلق باللہ حاصل ہو اور اس طرح روحانیت قائم رہتی ہے.جو شخص اپنے سارے کاموں میں خدا تعالیٰ کی طرف نظر رکھتا ہے اس میں مذہب کی روح باقی رہتی ہے اور جو د نیوی سامانوں اور تدبیروں کی طرف توجہ کرتا ہے وہ مُردہ ہے.یہ چھوٹی چھوٹی چیزیں ہیں لیکن ان سے قوموں کی زندگی بدل جاتی ہے اور افراد کے نظریے بھی تبدیل ہو جاتے ہیں.
خطبات محمود 86 $1951 اس میں کوئی شبہ نہیں کہ خدا تعالیٰ کی خدمت کرنے والے کھاتے بھی ہیں، پیتے بھی ہیں ، وہ چی کپڑوں اور مکان کے محتاج بھی ہوتے ہیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی کھاتے تھے، پیتے بھی تھے، کپڑے بھی پہنتے تھے اور مکان میں بھی رہتے تھے.قرآن کریم میں کفار کا یہ اعتراض درج ہے کہ یہ کیسا نبی آ گیا؟ یہ تو ہماری طرح بازار میں چلتا پھرتا ہے، کھانا کھاتا ہے، پانی پیتا ہے.1 اب اگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم حوائج انسانی سے مستعفی نہیں تھے تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ پھر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور ایک عام دنیا دار میں کیا فرق ہے؟ وہ فرق صرف یہی ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم خدا تعالیٰ کے لیے زندہ رہتے تھے.کھانا، پینا، کپڑا پہنا درمیانی شغل تھا.لیکن ایک دنیا دار دنیا میں صرف کھانے پینے کے لیے زندہ رہتا ہے.ہاں! کبھی کبھی خدا تعالیٰ کا بھی ذکر کر لیتا ہے.مثلاً رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ لو آپ نے ان چیزوں کا انکار کیا ہے، انہیں دھتکارا اور ردّ کیا ہے.آپ نے یہ نہیں کہا کہ مجھے پچاس روپے کی ضرورت ہے مجھے مہیا کر کے دو.اور اگر تم مجھے پچاس روپے نہیں دیتے تو تم جہنم میں جاؤ میں تمہیں قرآن نہیں پڑھا تا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو کفار نے فاقے بھی دیئے، آپ کے رستے بھی روکے، آپ کو اور آپ کے متبعین کو مارا پیٹا بھی ، آپ کی ہتک بھی کی اور آپ کے عزیزوں اور پیاروں کو دُکھ بھی دیئے لیکن آپ نے فرمایا تم جو چاہو کرو میں نے یہ کام کرنا ہے.گویا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم قرآن پڑھاتے ہیں اور اس کے بدلہ کا ذکر نہیں کرتے بلکہ کہتے ہیں کہ تم نہیں دیتے تو نہ دو.لیکن ایک دنیا دار کہتا ہے کہ تم دو گے کیا ؟ اگر وہ اسے کچھ نہیں دیتے تو وہ کہتا ہے میں نے کیا بھوکا مرنا ہے؟ میں کوئی اور کام تلاش کر لیتا ہوں.تم نے کی اگر قرآن پڑھنا ہے تو میرے گزارے کا بھی انتظام کر دو.گویا ایک مولوی بھی قرآن پڑھاتا ہے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی قرآن پڑھاتے تھے مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور ایک عام مولوی میں یہ فرق ہے کہ مولوی کہتا ہے میرا چالیس روپے ماہوار میں گزارہ نہیں ہوتا لیکن رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ تم چالیس روپے مجھ سے لے لو، مجھے گالیاں دے لو میں نے تو اپنا کام کرنا ہے.بظاہر یہ معمولی فرق ہے لیکن اس کے نتیجہ میں ایک رسول بن جاتا ہے اور ایک مولوی.اور ایک رسول اور ایک مولوی میں جو فرق ہے تم اس کا اندازہ بھی نہیں کر سکتے.انسان یہ تو اندازہ لگا سکتا ہے کہ دُور کا ایک ستارہ جو سورج سے بھی ہزاروں میلوں کے فاصلہ پر ہے وہ زمین -
$1951 87 خطبات محمود کتنی دُور ہے لیکن تم یہ اندازہ نہیں لگا سکتے کہ ایک رسول اور ایک مولوی میں کیا فرق ہے.یہ کیوں ہوا؟ یا یہ اسی لیے ہوا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مَا اسْتَلُكُمْ عَلَيْهِ مِنْ أَجْرٍ - 2 میں قرآن کریم کے بدلہ میں تم سے کچھ نہیں مانگتا.لیکن ایک مولوی کہتا ہے کہ میں تمہیں قرآن پڑھاؤں گا،حدیث سناؤں گا لیکن تم مجھے دو گے کیا ؟ غرض رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور ایک مولوی میں یہ فرق ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن پڑھانے کے بدلہ میں کچھ نہیں مانگا لیکن مولوی اس کے نی بدلہ میں اپنے گزارے کے لیے کچھ مانگتا ہے.یہی وجہ ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے متبعین میں سے کوئی موسیٰ کا مثیل ہوا، کوئی عیسی کا مثیل ہوا، کوئی داؤڈ کا مثیل ہوا اور کوئی سلیمان کا مثیل ہوا.آپ کے سب صحابہ شستارے تھے جو دنیا کے لیے راہ نمائی کا موجب بنے.لیکن عام علماء میں سے وہ لوگ بھی ہیں جن کے متعلق رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ دنیا کے پردے پر اگر کوئی ذلیل ترین وجود دیکھنا ہو تو وہ انہیں دیکھ لے.گویا ایک کے متبعین میں سے ادنیٰ سے ادنی افراد بھی ستارے ہیں اور ایک کے ساتھیوں میں سے وہ وجود بھی ہیں جو دنیا کے پردے پر ذلیل ترین سمجھے جاتے ہیں.یہ فرق صرف روحانیت کا ہے.پس تم خدا کے لیے ہو جاؤ.خدا تعالیٰ یہ نہیں کہتا کہ تم کھانا نہ کھاؤ، پانی نہ پیو، کپڑا نہ پہنو اور مکان میں نہ رہو بلکہ وہ کہتا ہے کہ تم میرے پاس آجاؤ میں تمہیں یہ سب چیزیں دوں گا.ہاں ! تم نیت کرلو یہ چیزیں ملتی ہیں تو ملیں نہیں ملتی تو نہ ملیں.ہم نے کبھی کوئی ایسا نبی نہیں سنا جسے پہنے کے لیے کپڑے میسر نہ ہوں.انہیں بھی بہر حال کپڑے میسر آ جاتے ہیں.یہ الگ بات ہے کہ جیسے کپڑے مل جائیں مل جائیں لیکن پہنتے ضرور ہیں.اور کپڑے ایک مولوی ، ایک عام دنیا دار مسلمان اور ایک عیسائی بھی پہنتا ہے.ان میں یہی فرق ہے کہ ایک نے اللہ تعالیٰ کو مقدم رکھا اور دنیا کو مؤ تحر اور دوسرے نے مقدم رکھا اور خدا کو مؤخر اور یہی تھوڑا سا فرق ہے جس کی وجہ سے ایک رسول بن گیا اور ایک دنیا دار مولوی بن گیا.غرض روحانیت کے لیے ارادہ اور نیت کی ضرورت ہے.تم خدا تعالیٰ کو اپنے تمام امور میں مقدم کر لو تمہیں روحانیت مل جائے گی.اور روحانیت والا گھوڑے کو آگے باندھتا ہے اور گاڑی کو ہے.لیکن ایک دنیا دار گاڑی کو آگے باندھتا ہے اور گھوڑے کو پیچھے.کہنے کو تو یہ ایک معمولی سی بات
$1951 88 خطبات محمود ہے لیکن اگر کوئی ایسا کرے تو لوگ اُس پر ہنسنے لگ جائیں.پس تم خدا کو مقدم رکھو اور دنیا کو مؤ تحر.اسی کا نام روحانیت ہے.لیکن اگر تم خدا تعالیٰ کو مقدم اور دنیا کو مؤخر نہیں رکھتے تو اس کا نام روحانیت نہیں.( الفضل 7 جون 1961 ء ) 1: وَقَالُوا مَالِ هَذَا الرَّسُوْلِ يَأْكُلُ الطَّعَامَ وَيَمْشِي فِي الْأَسْوَاقِ (الفرقان: 8) 2 : الفرقان : 58 :3 شعب الايمان للبيهقى - الجزء الثانی - صفحہ 311 نمبر 1908 بیروت لبنان 1990ء
$1951 89 69 (12) خطبات محمود بعض باتیں بظاہر معمولی ہوتی ہیں مگر ان میں بڑے بڑے فوائد مضمر ہوتے ہیں مثلا اذان کی تصحیح اور نماز میں صفیں سیدھی رکھنا (فرمودہ 25 مئی 1951ء بمقام ربوہ ) تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: آج پھر طبیعت کی خرابی کی وجہ سے میں اُس مضمون کو نہیں لے سکتا جس پر صحت کے ایام - میں میں خطبہ پڑھ رہا تھا لیکن آج میں اُس سے ملتی جلتی ایک اور بات کے متعلق مختصراً کچھ بیان کرنا چاہتا ہوں.جو مضمون میں پہلے بیان کرتارہا ہوں اُس کا خلاصہ یہ تھا کہ بعض باتیں چھوٹی چھوٹی نظر آتی ہے ہیں لیکن ہوتی بہت بڑی ہیں اور ان سے بڑے بڑے فوائد حاصل کیے جاسکتے ہیں.پس اُن چیزوں کو چھوٹا سمجھ کر نظر انداز نہیں کر دینا چاہیے بلکہ ان کے فوائد کو مد نظر رکھ کر اُن پر زیادہ سے زیادہ عمل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے.میں یہ بات محبت الہی کے سلسلہ میں بیان کر رہا تھا لیکن اس کے علاوہ دوسرے امور میں بھی یہی قاعدہ چلتا ہے.
خطبات محمود 90 $1951 مثلاً نماز کو ہی لے لو اس میں بھی یہی قاعدہ چلتا ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں نماز میں صفیں سیدھی رکھو.اگر تم نماز میں صفیں سیدھی نہیں رکھو گے تو تمہارے دل ٹیڑھے ہو جائیں گے.1 اب صفوں کا سیدھا رکھنا بظاہر ایک غیر دینی چیز ہے یا محض نظام کا ایک حصہ ہے خود نماز کے مقصد اور اس کے فخر کے ساتھ اس کا زیادہ تعلق نہیں.لیکن باوجود اس کے کہ نماز میں صفیں اپنی ذات میں مقصود نہیں ہوتیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اتنی اہمیت دی کہ فرمایا اگر تم نماز میں صفیں سیدھی نہیں کرو گے تو تمہارے دل ٹیڑھے ہو جائیں گے.کیونکہ گو بعض چیزیں اپنی ذات میں مقصود نہیں ہوتیں لیکن اُن کا اثر ایسا پڑتا ہے کہ وہ اپنے سے بڑی چیزوں کو بھی اپنی زد میں بہالے جاتی ہیں.یہی وجہ ہے کہ اسلام کے بعض علماء نے اپنے وقت میں قشر پر زیادہ زور دیا تھا لیکن ان سے غلطی یہ ہوئی کہ انہوں نے اس پر اتنا زور دیا کہ مغز جا تا رہا.حقیقت یہ ہے کہ مغز ہی اصل مقصود ہوتا ہے اور اگر مغز کو نظر انداز کر دیا جائے تو چھلکا کسی کام کا نہیں ہوتا.چنانچہ صوفیاء نے یہ دیکھتے ہوئے کہ علماء اسلام چھلکے پر زیادہ زور دے رہے ہیں مغز پر زور دینا شروع کر دیا.مگر یہ بھی ان کی غلطی تھی کیونکہ مغز چھلکے کے بغیر نہیں رہ سکتا.ایک اخروٹ جس کا چھلکا قائم ہو وہ سال بھر بھی رہ جائے گا اور اس کا مغز محفوظ رہے گا.لیکن اگر اس کی گرمی نکال کر رکھ لو اور چھلکا پھینک دو تو اُسے کیڑا لگ جائے گا اور اُس کے ٹکڑے بھر نے شروع ہو جائیں گے.ایک آم جس پر چھلکا قائم ہو مہینہ مہینہ رہ جائے گا.لیکن اگر آم کا چھلکا اتار دو تو اُسے انسان شام کو بھی نہیں کھا سکتا.وہ تیز اب بن جائے گا یا نجاست کا رنگ اختیار کر لے گا.غرض جن لوگوں نے قشر پر زیادہ زور دے دیا اور مغز کو نظر انداز کر دیا انہوں نے بھی غلطی کی ہے.حقیقت یہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے کوئی چیز بلا وجہ پیدا نہیں کی.جس خدا نے چھلکا بنایا ہے اُسی نے مغز بھی بنایا ہے اور اس کے معنے یہ ہیں کہ خدا تعالیٰ نے چھلکے اور مغز دونوں کو قیمت بخشی ہے.میں نے یہ تمہید اس لیے باندھی ہے کہ میں نے بار بار اس طرف توجہ دلائی ہے کہ ہماری جماعت بعض اوقات چھلکے کو نظر انداز کر دیتی ہے اور صرف مغز کو مد نظر رکھتی ہے.مثلاً نماز میں صفوں کو سیدھارکھنا ہے.ہماری جماعت اس طرف توجہ نہیں کرتی.یا پھر اذان ہے اس کی تصحیح کی طرف توجہ نہیں دی جاتی.ایک نقص خلقی ہوتا ہے اس پر اعتراض کرنا جائز نہیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے
$1951 91 خطبات محمود موذن حضرت بلال تھے جو حبشی تھے اور حبشی لوگ ”ش“ نہیں بول سکتے.حبشیوں کے بعض قبائل ش کوس کہتے ہیں.اس لیے حضرت بلال جب اذان دیتے تو اَشْهَدُ کی بجائے اَسْهَدُ کہہ دیتے 2 لیکن اس نقص کے باوجود رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو مؤذن مقرر کیا ہوا تھا.اُن کا اَشْهَدُ کی بجائے اَشهَدُ کہنا کسی جہالت یا بناوٹ کی وجہ سے نہیں تھا اور نہ یہ اُن کی سستی اور غفلت یا دین سے لا پرواہی کی وجہ سے تھا بلکہ اُن کا یہ نقص پیدائشی تھا.بعض ممالک کی آب و ہوا کی وجہ سے وہاں کے باشندوں کے گلے ایسے ہوتے ہیں جو ش نہیں بول سکتے.ایک دفعہ جب بعض لوگ حضرت بلال کی اذان پر ہنسے تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بلال جب اذان دیتا ہے تو بعض لوگ ہنستے ہیں لیکن خدا تعالیٰ بلال کی اذان سن کر عرش پر خوش ہوتا ہے.2 آپ نے یہ اسی لیے فرمایا کہ حضرت بلال کا اَشْهَدُ کو اسُهَدُ کہنا جان بوجھ کر دین سے لا پرواہی اور جہالت کی وجہ سے نہیں تھا بلکہ خدا تعالیٰ نے اُن کا گلا ہی ایسا بنایا تھا.اگر کسی لڑائی کے موقع پر لوگ بھاگ بھاگ کر میدان جنگ کی طرف جائیں لیکن ایک تندرست آدمی جو دوڑ میں اوّل ، دوم یا سوم رہتا ہے وہ لنگڑا کر چلنا شروع کر دے تو ایسا شخص لعنتی ہو گا.لیکن اگر ایک لنگر شخص کو دگو دکر جائے تو اُس کا ی فعل خدا تعالیٰ کے قرب کا موجب ہوگا.وہ اپنی معذوری کی وجہ سے اگر لڑائی میں نہ جاتا تب بھی کوئی حرج نہ تھا لیکن باوجود معذور ہونے کے وہ حفاظت دین کے لیے اپنا کوئی عذر پیش نہیں کرتا.پس اُس کا یہ فعل خدا تعالیٰ کے قرب کا موجب ہو گا.لیکن جب ایک تندرست آدمی لڑائی کا موقع آنے پر لنگڑا لنگڑا کر چلے تو اُس کا یہ فعل خدا تعالیٰ کی ناراضگی کا موجب ہوگا.اس لیے کہ وقت پر اس نے غذر اور بہانے تلاش کر کے لڑائی سے بچنا چاہا.میں نے کئی دفعہ بتایا ہے کہ پنجابیوں کے گلے خدا تعالیٰ نے ایسے بنائے ہیں کہ وہ ہر زبان کو صحیح ادا کر سکتے ہیں.اور اگر کوئی نقص ہوتا ہے تو وہ بہت معمولی ہوتا ہے.ابھی ایک نوجوان نے اذان دی ہے.میں نہیں جانتا کہ وہ کون ہے.اُس نے اذان دیتے وقت صلوۃ کو صلاۃ اور فلاح کو فلاح کہا ہے.یہ ایسی غلطیاں نہیں کہ انہیں کوئی پنجابی دور نہ کر سکے.یہ بظاہر معمولی بات ہے لیکن معمولی معمولی باتوں کو نظر انداز کرنے کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ انسان بڑھتے بڑھتے یہ کہنے لگ جاتا ہے کہ اگر خدا تعالی کو پر میشر کہہ لیا تو کیا ہو یا مسجد کی بجائے مندر یا گرجا میں چلے گئے تو کیا ہوا.اور یہ بہت
$1951 92 خطبات محمود خطر ناک چیز ہے.بہر حال اس چیز کی اصلاح ہو سکتی ہے.یہ نہیں کہ پنجابی لوگ ان الفاظ کو ادا نہیں کہ سکتے.پنجابی انہیں ادا کر سکتے ہیں.لیکن بات یہ ہے کہ محکمہ کے افسر یو نہی کسی شخص کو کہہ دیتے ہیں کہ تم اذان دو.پہلے اُس سے اذان سنتے نہیں تا کہ معلوم ہو جائے کہ اس میں کیا کیا نقائص ہیں.بہر حال جو شخص فلاح کہ سکتا ہے اور وہ نہیں کہتا یا جوشخص فلاح فلاح کہنا سیکھ سکتا ہے لیکن وہ نہیں سیکھتا یا صلوة کہنا وہ سیکھ سکتا تھا لیکن وہ نہیں سیکھتا دوسرے لفظوں میں وہ یہ کہتا ہے کہ خدا تعالیٰ کی بات مانی جائے یا نہ مانی جائے اس میں کوئی حرج نہیں.اور یہ چیز نہایت خطرناک ہے.فلاح کی جگہ فلاح کہ لینا بڑی بات نہیں.اصل بات یہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے کہا ہے کہ یوں کہو اور ہم کہ بھی سکتے ہیں لیکن کہتے نہیں.مجھے یاد ہے میرے پاس ایک دفعہ ایک نوجوان آیا اور اُس نے میرے ساتھ بحث شروع کر دی کہ داڑھیوں میں کیا رکھا ہے، بال منڈوا لیے یا نہ منڈوائے اس کا محبت الہی ، دماغ کے تنوع اور ذہن کی روشنی کے ساتھ کیا مقصود ہے؟ میں نے اُسے کہا بال رکھنے یا نہ رکھنے کا بظاہر محبت الہی پر کوئی اثر نہیں پڑتا لیکن رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بات مانے یا نہ ماننے کا ضرور اثر پڑتا ہے.میں نے کہا میں جانتا ہوں اور یقین رکھتا ہوں کہ یہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی کہی ہوئی بات ہے اور اس کا رد کرنا درست نہیں.اسی طرح جب خدا تعالیٰ نے ان الفاظ کو ایک خاص زبان میں اُتارا ہے تو ضروری ہے کہ ہم انہیں اُس زبان میں اور پھر صحیح طور پر ادا کرنے کی کوشش کر یں خصوصاً جبکہ ہم انہیں صحیح طور پر ادا بھی کر سکتے ہیں.لیکن اگر ہم انہیں صحیح طور پر ادا نہیں کرتے تو دوسرے الفاظ میں ہم یہ کہتے ہیں کہ ان باتوں میں کیا رکھا ہے؟ کسی طرح کہ لیا.اور اس طرح آہستہ آہستہ بڑی بڑی چیزوں کے ترک پر بھی انسان دلیر ہو جاتا ہے.پس اسے چھوٹی چیز مت سمجھو.بظاہر یہ ایک چھوٹی چیز ہے لیکن خدا تعالیٰ کی فرمانبرداری چھوٹی چیز نہیں بلکہ بہت بڑی چیز ہے.الفضل 28 مارچ 1962ء) 1 : صحیح بخاری كتاب الاذان باب اقامة الصف من تمام الصلوة :2 المغني لابن قدامة كتاب الصلاة باب الاذان من يقدم في الاذان و يلحن به.جلد 1 صفحہ 430.دارالفکر بیروت 1405ھ
$1951 93 (13) خطبات محمود تسبیح البی مصائب و مشکلات سے نجات پانے کا گر ہے اس گر سے وہی فائدہ اُٹھا سکتا ہے جو زندہ خدا پر اور زندہ مذہب پر یقین رکھتا ہو (فرمودہ یکم جون 1951ء بمقام ربوہ) تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: آج میں اختصار کے ساتھ قرآن کریم کی ایک تحریک کی طرف اشارہ کرتا ہوں جو مصائب اور مشکلات کے وقت انسان کو نجات اور کامیابی کا رستہ دکھاتی ہے.قرآن کریم کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ دنیا میں کوئی انسان ایسا نہیں، کوئی قوم ایسی نہیں جس پر رنج اور راحت کے زمانے نہ آتے ہوں.جو شخص یہ خیال کرتا ہے کہ دنیا میں کوئی شخص ایسا بھی ہے جس پر رنج کا زمانہ نہیں آتا یا وہ خیال کرتا ہے کہ دنیا میں کوئی غمگین ایسا بھی ہے جس پر خوشی کا زمانہ نہیں آئے گا تو وہ احمقوں کی جنت میں بسنے والا انسان ہے.وہ حقائق سے واقف نہیں.اسی طرح جو شخص یہ خیال کرتا ہے کہ کوئی قوم ایسی بھی گزری ہے جس پر رنج کا زمانہ نہیں آیا یا کوئی قوم ایسی بھی گزرچکی ہے جس پر خوشی کا زمانہ نہیں آیا تھا تو وہ بھی جہالت کی ظلمتوں میں مبتلا ہے اور حقائق کی وادیوں میں چلنے کا اُسے موقع نہیں ملا.غرض قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ مومنوں پر بھی خوشی کا دور آتا ہے اور کافروں پر بھی خوشی کا دور آتا ہے.اسی طرح قرآن کریم سے یہ بات بھی معلوم ہوتی ہے کہ ہر انسان پر خواہ وہ کافر ہو یا مومن خوشی
$1951 94 خطبات محمود اور راحت کی گھڑیاں آتی ہیں.مگر اس کے یہ معنے نہیں کہ کوئی انسان کسی ایسی چیز پر تسلی پاسکے جو غیر طبعی جائز خوشی بھی ایک طبعی چیز ہے اور جائز غم بھی ایک طبعی چیز ہے.لیکن بعض اوقات جائز غم بھی غیر طبعی بن جاتا ہے اور جائز خوشی بھی غیر طبعی بن جاتی ہے.جب کسی دوسرے شخص کو رنج پہنچتا ہے تو جائز خوشی بھی ناجائز ہو جاتی ہے.مثلاً کسی کے ہاں بچہ پیدا ہو جائے تو یہ بات اس کے لیے جائز خوشی کی ہے.لیکن فرض کرو وہ ایک دوست کے ساتھ باتیں کر رہا تھا کہ ایک پیغامبر نے اُسے یہ خبر دی کہ تمہارے ہاں بچہ پیدا ہوا ہے، تمہیں مبارک ہو.مگر وہ دوست جس کے ساتھ وہ باتیں کر رہا ہے اُسے یہ پیغام ملتا ہے کہ اُس کا نوجوان بیٹا فوت ہو گیا ہے.اب جہاں تک خوشی کی بات ہے وہ ایک طبعی چیز ہے لیکن اُس موقع پر اُس شخص کا خوشی کا اظہار کرنانا جائز ہے.بیشک خوشی طبعی چیز ہے لیکن اُس وقت اُس کا اظہار اور اسے اپنے نفس پر غالب آنے دینا نا جائز ہوگا کیونکہ جب اُسے خوشی کی خبر پہنچی تو دوسرے کو رنج پہنچانے والا پیغام ملا اور اس کا فرض ہے کہ وہ اپنی خوشی کو دبائے بلکہ اگر اسے اپنے دوست کے ساتھ کامل محبت ہے تو اس کے غم سے اس کی خوشی دب جانی چاہیے.ان غیر طبعی باتوں کا علاج خدا تعالیٰ نے قرآن کریم میں بیان فرمایا ہے.چنانچہ وہ فرماتا ہے کہ جب کسی گھر پر کسی خاندان پر کسی قوم یا ملک پر مصائب آتے ہیں تو سب سے پہلی چیز جسے مد نظر رکھنا چاہیے وہ یہ ہے کہ انہیں تسبیح سے کام لینا چاہیے.تسبیح کیا ہوتی ہے؟ تسبیح اللہ تعالیٰ کے تمام عیوب سے پاک ہونے کا اقرار ہے.جب کسی انسان کو غم پہنچتا ہے تو وہ سب سے پہلے اس بات کا اقرار کرتا ہے کہ تم میرے ساتھ مخصوص ہیں خدا تعالیٰ ان سے پاک ہے.گویا وہ نقص اور کمزوری کو پورے طور پر اپنے اردگرد لے لیتا ہے.اگر وہ تسبیح نہ کرے تو اس کا یہ مطلب ہے کہ خدا تعالیٰ کو تمام نقائص اور کمزوریوں سے منزہ قرار دے دینے کی طرف اسے توجہ نہیں.لیکن جب وہ کہتا ہے سُبْحَانَ الله تو اس کے یہ معنے ہیں کہ خدا تعالیٰ سب عیوب، نقائص اور کمزوریوں سے پاک ہے.گویا وہ سُبْحَانَ اللہ کہ کر اپنے عیوب اور نقائص سے خدا تعالیٰ کو پاک قرار دے لیتا ہے.ނ پھر فرماتا ہے فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ - 1 خدا تعالیٰ کو صرف عیوب اور نقائص پاک قرار ہی نہ دو بلکہ ساتھ ہی یہ اقرار بھی کرو کہ ہر قسم کی نیکیاں ، ہر قسم کی خوبیاں اور ہر قسم کی اچھائیاں خدا تعالیٰ نے ہی پیدا کی ہیں.گویا پہلے تو اُس نے خدا تعالیٰ سے ایک چیز کو سلب کیا تھا مگر دوسرے فقرہ
$1951 95 خطبات محمود میں اس نے ایک بات خدا تعالیٰ کی طرف منسوب کی اور وہ یہ ہے کہ وہ سب خوبیوں ، سب نیکیوں اور سب اچھائیوں کا مالک ہے اور اس میں یہ بھی شامل ہے کہ وہ کسی غمزدہ اور مصیبت زدہ کی مدد کرے.گویا انسان خدا تعالی کو پہلے تو تمام عیوب اور نقائص سے مبرا اور منزہ قرار دے اور دوسرے قدم پر اس کی تعریف کرے.اس کے یہ معنے ہوتے ہیں کہ خدا تعالیٰ مصیبت زدہ کی مدد کرتا ہے اور سب خوبیاں اُسی کی طرف سے آتی ہیں.گویا دوسرے الفاظ میں اس کے یہ معنے ہوتے ہیں کہ میں بھی اس کی مدد کا نی محتاج ہوں.گویا خدا تعالیٰ کی تسبیح کر کے اس سے ہر قسم کے عیب اور نقص کو دور کر دیا اور پھر اس کی تعریف کر کے اس کے فضل کو بھی طلب کر لیا.پھر خدا تعالیٰ فرماتا ہے وَاسْتَغْفِرُهُ - 2 اللہ تعالیٰ کی مدد تو آتی ہے لیکن اگر تم ایک بند گھڑے پر پانی ڈالتے ہو تو وہ پانی گھڑے کے اندر نہیں جاتا بلکہ گھڑے پر سے نیچے گر جاتا ہے.اسی طرح خدا تعالیٰ کی مدد کسی انسان کے کام نہیں آتی جب تک وہ اپنے آپ کو اُس کا مستحق نہیں بنالیتا، جب تک اُس کے گھڑے کا منہ کھلا نہ ہو، تا خدا تعالیٰ کی رحمت کا پانی اُس میں پڑ سکے.اگر خدا تعالیٰ کی رحمت کا پانی اُس کے گھڑے میں نہیں پڑتا تو وہ خدا تعالیٰ کی مدد سے محروم ہو جائے گا.اسی لیے خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر تم نے خدا تعالیٰ سے اُس کی رحمت طلب کی ہے تو ساتھ ہی یہ بھی طلب کرو کہ وہ خطائیں جو خدا تعالیٰ کی رحمت کو جذب کرنے سے روکتی ہیں معاف ہو جائیں تا خدا تعالیٰ جب اپنا فضل اور رحمت نازل کرے تو اُس کا برتن کھلا ہو، تا خدا تعالیٰ کے فضل اور رحمت کا پانی اُس کے اندر داخل ہو جائے.پھر انسان کے اندر ایک وسوسہ پیدا جاتا ہے اور یہی وسوسہ انسان کو دعا اور خدا تعالیٰ کی طرف توجہ کرنے سے محروم رکھتا ہے اور وہ یہ ہے کہ جو لوگ خدا تعالیٰ کو مانتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کہاں اور ہم کہاں؟ ہماری خدا تعالیٰ سے کیا نسبت؟ کیا پدی اور کیا پدی کا شور با.چنانچہ ایک تعلیم یافتہ گروہ کہتا ہے کہ بیشک خدا ہے لیکن اُسے کیا ضرورت پڑی ہے کہ وہ ہمارے سب کاموں میں دخل دے.یہی وسوسہ ہے جو اس گروہ کو خدا تعالیٰ کے فضلوں سے محروم کر دیتا ہے.خدا تعالیٰ فرماتا ہے اِنَّهُ كَانَ تَوَّابًا - 3 یہ مت خیال کرو کہ خدا کہاں اور ہم کہاں؟ وہ زمین و آسمان کو پیدا کرنے والا اور ہم ایک چھوٹے سے براعظم کے ایک چھوٹے سے ملک اور پھر ایک چھوٹے سے گاؤں کے
$1951 96 خطبات محمود حقیر آدمی.ہماری اور اس کی کیا نسبت؟ ہمیں اس سے کیا واسطہ؟ خدا تعالیٰ فرماتا ہے اِنَّهُ كَانَ تَوَّابًا.تمہارا اُس سے یہ واسطہ ہے کہ تم اگر اُس کی طرف ایک دفعہ جاؤ تو وہ تمہاری طرف دس دفعہ آتا ہے.تو اب کے معنے ہیں بار بار آنے والا.گویا اگر تم خدا تعالیٰ کی طرف ایک دفعہ متوجہ ہوتے ہو تو وہ تمہاری طرف دس دفعہ ہیں دفعہ سو دفعہ بلکہ ہزار دفعہ آتا ہے.تم اُس کی رحمت اور فضل سے مایوس نہ ہو بلکہ اُسے جذب کرنے کے لیے سب ذرائع استعمال کرو.یہ مت کہو کہ خدا تعالیٰ کو ہم سے کیا نسبت؟ وہ بلند وارفع شان والی ہستی ہے اور ہم حقیر انسان.ہم ایک ذرہ کو پیدا نہیں کر سکتے بلکہ ریت کا ایک ذرہ بھی ہمارے اندر جا کر اپنڈے سائیٹس (Appendicitis) پیدا کر دیتا ہے، ہم اس کا علاج نہیں جانتے بلکہ بعض دفعہ ہمارے ڈاکٹر بھی حیران رہ جاتے ہیں.پس وہ خدا جس نے آسمان اور زمین کو پیدا کیا ، جس نے وسیع جو اور دوسری سب چیزوں کو پیدا کیا ہمیں اس سے کیا نسبت؟ اگر ہم پر کوئی مصیبت نازل ہوتی ہے یا ہماری بیوی ، بچوں ، ماں، باپ، بہن، بھائیوں اور دوستوں کو کوئی تکلیف پہنچتی ہے یا ہماری تجارت میں گھانا پڑتا ہے تو ہمیں اُس سے کیا واسطہ؟ فرمایا تم اس طرح نہ کرنا کیونکہ تمہارا خدا تعالیٰ کے ساتھ اتنا واسطہ نہیں جتنا واسطہ اُس کا تمہارے ساتھ ہے.تم اگر اُس کی طرف ایک دفعہ توجہ کرتے ہو تو وہ تمہاری طرف سو دفعہ توجہ کرتا ہے.صرف فرق یہ ہے کہ تم اُس کی طرف توجہ کرنا جانتے نہیں.تم اُس کی تسبیح کرو تحمید کرو، استغفار کرو.تمہارے ایک دفعہ توجہ کرنے کے نتیجہ میں خدا تعالیٰ تمہاری طرف دس ہمیں دفعہ، سود فعہ بلکہ ہزار دفعہ توجہ کرے گا.غرض خدا تعالیٰ نے مصائب سے بچنے کا یہ گر بتایا ہے لیکن اُس سے وہی شخص فائدہ اُٹھا سکتا ہے جو زندہ خدا پر یقین رکھتا ہے، جو روحانیت پر یقین رکھتا ہے.پھر وہ یہ یقین رکھتا ہے کہ خدا تعالیٰ اور انسان کے درمیان تعلق قائم ہو سکتا ہے.لیکن وہ لوگ جو زندہ خدا اور زندہ مذہب پر یقین نہیں رکھتے ، جو تمام دنیا کی پیدائش کو اتفاقی حادثات کا نتیجہ خیال کرتے ہیں، جو اپنے نفس کو کافی سمجھتے ہیں اور ہستی باری تعالیٰ کے دلائل کو بیچ اور محض اوہام سمجھتے ہیں وہ اس گر سے فائدہ نہیں اُٹھا سکتے.لیکن مومن اور بھی ہوشیار ہو جاتا ہے کیونکہ اس کے یہ معنے ہیں کہ اُس کے پاس وہ زبر دست روحانی ہتھیار ہے جو دوسروں کے پاس نہیں.دوسرے وہ ہتھیار تیار نہیں کر سکتے.وہ اس ہتھیار کی قدر نہیں جانتے.صرف یہی اس کی قدر جانتا ہے.اور جس شخص کے پاس ایسا کارگر
خطبات محمود 97 ہتھیار ہو جو دوسروں کے پاس نہ ہو اُس کی فتح میں کیا شبہ ہو سکتا ہے".1 : النصر : 4 2 : النصر : 4 3 : النصر : 4 $1951 الفضل 26 جولائی 1961 ء ) 4: اپنڈے سائیٹس (Appendicitis) وہ مرض جس میں زائد آنت سوج جاتی ہے.
$1951 (14) 98 888 اگر تم چاہتے ہو کہ خدا تعالیٰ تمہارے حق میں بھی وہی نشانات دکھائے جو اُس نے انبیاء اور بزرگان کے حق میں دکھائے تھے تو ان کے واقعات کو بار بار دہراؤ (فرمودہ 15 جون 1951ء بمقام ربوہ ) تشهد ، تعو ذاورسورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: دنیا میں کسی عزیز یا باپ کو یا در رکھنے کا یہی طریق ہوتا ہے کہ اُسے بار بار یاد کیا جائے.جیسے کسی شاعر نے کہا ہے گاہے گاہے بازخواں ایں قصہ پارینہ را اگر کسی کو یاد رکھنا ہوتو پرانا قصہ کبھی کبھی دہرا لینا چاہیے.قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ حضرت نوح علیہ السّلام، حضرت ابراہیم علیہ السّلام، حضرت اسحاق ، حضرت اسماعیل ، حضرت یعقوب ، حضرت موسی حضرت داؤد، حضرت عیسی علیهم السَّلامُ اور دوسرے نبیوں کا ذکر کرتا ہے.اور بعض نبیوں کا بار بار ذکر کرتا ہے.یہاں تک کہ یورپین مع مصنفین خطبات محمود
$1951 99 خطبات محمود نے اعتراض کیا ہے کہ قرآن کریم میں تکرار پایا جاتا ہے جس سے ہمارا دل اچاٹ ہو جاتا ہے.جہاں تک عقل کا تعلق ہے اس میں کوئی طبہ نہیں کہ اس تکرار کی وجہ سے ان کا دل اچاٹ ہو جاتا ہوگا لیکن جہاں تک دل کا تعلق ہے اس تکرار سے دل اچاٹ ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا.ایک شخص باہر سے آتا ہے اور ہمیں خبر دیتا ہے کہ فلاں شخص نے کہا تھا کہ میں ہفتہ کے دن تمہیں ملنے کو آؤں گا.یہ کہہ کر وہ خاموش ہو جاتا ہے تو اس سے طبیعت گھبرائے گی نہیں.لیکن اگر وہ تھوڑی دیر کے بعد پھر کہے کہ فلاں شخص نے کہا تھا کہ میں ہفتہ کے دن تمہیں ملنے کو آؤں گا.پھر تیسری بار کہے کہ فلاں شخص نے کہا تھا کہ میں ہفتہ کے دن تمہیں ملنے کو آؤں گا تو دوسری دفعہ تو شاید ہم برداشت کر لیں لیکن تیسری بار ہم زچ ہو جائیں گے.لیکن ہمارے سامنے ایک ماں اپنے بچہ کو اپنے ساتھ چمٹاتی ہے اور کہتی ہے میری جان، میری جان.وہ ایک دفعہ کہتی ہے، دوسری بار کہتی ہے، تیسری بار کہتی ہے، چوتھی بار کہتی ہے بلکہ سویں دفعہ بھی اگر وہ اسے دہراتی ہے تو کوئی یہ نہیں کہتا کہ میں تنگ آ گیا ہوں چھوڑو اس قصہ کو.پھر مصافحہ ہے جہاں تک عقل کا تعلق ہے ایک شخص ہم سے مصافحہ کرتا ہے پھر ہاتھ اپنی طرف کھینچ لیتا ہے.وہ اگر دوسری دفعہ مصافحہ کے لیے ہاتھ بڑھاتا ہے تو ہماری طبیعت گھبرا جاتی ہے.پھر اگر وہ تیسری دفعہ ہاتھ بڑھاتا ہے تو طبیعت اور گھبرا جاتی ہے کیونکہ اُس کے ہمارے ساتھ ماں جیسے تعلقات نہیں.لیکن ماں اپنے بچہ کو چومنا شروع کرتی ہے اور بعض دفعہ اتنا چومتی ہے کہ اُس کا چہرہ لال ہو جاتا ہے.ہم مصافحہ کرنے والے کو زچ ہو کر یہ کہیں گے کہ چھوڑو بھی اس بات کو.لیکن ماں کو یہ بات نہیں کہتے اور نہ ماں سے محبت کے جذبات رکھنے والا اور اُس کی پیار کی باتوں کو سننے والا اس بات پر کسی اعتراض کو قبول کرنے کے لیے تیار ہوتا ہے.پس جہاں تک عقل کا سوال ہے قرآن کریم میں یہ بات دیکھ کر طبیعت زچ ہوگی کہ سلیمان کی کے ساتھ یوں واقعہ پیش آیا، داؤڈ کے ساتھ یوں ہوا.پھر دس صفحے آگے چل کر لکھا ہوا ہوتا ہے کہ ابراہیم کے ساتھ یوں ہوا ، موسی کے ساتھ یوں ہوا ہیٹی کے ساتھ یوں ہوا.ایک دو دفعہ تو انسان اس بات کو برداشت کر لیتا ہے لیکن پندرہ سولہ صفحات کے بعد پھر یہ لکھا ہوتا ہے کہ موسٹی کے ساتھ یوں ہوا، داوڑ کے ساتھ یوں ہوا، سلیمان نے یہ یہ قربانیاں کیں، عیسی نے یہ یہ قربانیاں کیں ، لوگوں نے فلاں فلاں نبی کے ساتھ یوں کیا.غرض جو شخص عقلی طور پر قرآن کریم کو دیکھتا ہے لیکن اُس کی عادت
$1951 100 خطبات محمود نہیں کہ یہ کہہ سکے کہ ہر جگہ ایک نئی غرض کے لیے ہر واقعہ بتایا گیا ہے وہ ظاہر پر نظر کر کے کہتا ہے اس کی میں تکرار پائی جاتی ہے.لیکن جو شخص قرآن کریم کو اس خیال سے پڑھتا ہے کہ یہ کتاب اُس کی اصلاح اور اُس کے اندر خاص جذبات پیدا کرنے کے لیے آئی ہے (خواہ وہ ان باریکیوں کا عارف نہ ہو) وہ اسے بالکل اور نقطہ نگاہ سے دیکھتا ہے.وہ قرآن کریم کو اس نقطہ نگاہ سے دیکھتا ہے جس نقطہ نگاہ سے بچہ ماں کو دیکھتا ہے اور اس کی پیاری باتوں کو سنتا ہے.خالی عقل سے دیکھنے والا جب ماں کو دو چار دفعہ دیکھتا ہے ہے اور اُسے جانی جانی کہتے سنتا ہے تو وہ تنگ آ جاتا ہے.لیکن بچہ کو جب ماں دس ہمیں دفعہ اپنے ساتھ چمٹا کر چھوڑ دیتی ہے تو اُس کا پھول سا چہرہ مرجھا جاتا ہے.وہ سہا سہا پھرتا ہے کہ اُس کی ماں اُس سے کیوں خفا ہوگئی ہے.غرض وہی چیز جو ایک شخص کو تنگ کرنے کا موجب ہے دوسرے کے لیے وہ ایسی ہے جیسے باغ کے لیے پانی.ماں جب اپنے بچہ کو جانی جانی کہتی ہے تو وہ اُکتا نہیں جاتا.جب ماں جانی جانی کہتی ہے تو بچہ کا دل بڑھتا ہے، اس کے قومی مضبوط ہوتے ہیں، اُس کا حوصلہ بڑھتا ہے اور اُس کے اعصاب مضبوط ہو جاتے ہیں حالانکہ یہی چیز ایک منطقی اور عقلی طور پر دیکھنے والے کو شاق گزرتی ہے.گویا جو چیز ایک شخص کے لیے بکواس ہے وہی دوسرے کے لیے پانی اور خون ہے.جو شخص قرآن کریم کو اس خیال سے پڑھتا ہے کہ وہ اُس کے اندر نئے جذبات پیدا کرتا ہے، وہ سمجھتا ہے کہ یہ روحانی باپ ہے، روحانی ماں ہے جو اپنے بچہ کے ساتھ گہرے تعلقات کا اظہار کر رہا ہے وہ اس بات پر گھبرائے گا نہیں کہ قرآن کریم حضرت ابراہیم ، حضرت موسی ، حضرت عیسی علیهم السلام اور دیگر نبیوں کا بار بار ذکر کیوں کرتا ہے بلکہ وہ کہے گا کہ اگر وہ ان کا بہیں دفعہ اور ذکر کر دیتا تو بہتر ہوتا.ماں بچہ کو بار بار چومتی اور جانی جانی کہتی ہے.ایک منطقی یہ کہے گا کہ وہ کیوں ایسا کرتی ہے؟ لیکن بچہ ماں کے چھوڑ دینے پر سہما سہا پھرے گا کہ شاید اُس کی ماں اُس پر ناراض ہو گئی ہے.دونوں کے نقطہ نگاہ کا فرق ہے.قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ حضرت اسحاق ، حضرت اسماعیل، حضرت یعقوب، حضر، یوسف، حضرت موسیٰ اور حضرت عیسی علیھم السلام اور دیگر نبیوں کا بار بار ذکر کرتا ہے تو وہ اپنے اس تعلق کو جوا سے اپنے بندوں سے ہے ظاہر کرنے کے لیے ایسا کرتا ہے.پھر اس میں ہمیں سبق دیا گیا ہے کہ کسی کے ساتھ محبت کے تعلقات بڑھانے کے لیے ضروری ہے کہ اُس کا بار بار ذکر کیا جائے.
$1951 101 خطبات محمود قرآن کریم کہتا ہے کہ اگر تم آپس میں محبت کے تعلقات بڑھانا چاہتے ہو تو یوں کرو.حوا نے بھی اپنے بچہ سے اسی طرح پیار کیا ہوگا.حوا آخر ایک عورت ہی تھی.وہ سقراط نہیں تھی ، افلاطون نہیں تھی یا آجکل کے فلسفیوں ہیکل اور برکلے کی طرح نہ تھی کہ وہ اپنے بچہ کے ساتھ بار بار پیار نہ کرتی.حوا کے جذبات وہی تھے جو آجکل ایک گنوار سے گنوار عورت کے اندر پائے جاتے ہیں.وہ اگر اپنے بچہ کو چومنا شروع کرتی ہے تو ختم کرنے میں نہیں آتی.اسی طرح حوا کرتی ہو گی.آجکل جس طرح ایک ماں ” میں واری میں قربان کرتی چلی جاتی ہے اسی طرح حوا کرتی ہو گی.لیکن جب حوا ایسا کرتی تھی تو اس کی کے دو مفہوم تھے یا جب آجکل ایک ماں ایسا کرتی ہے تو فطرت بچہ کے اندر دو باتیں پیدا کروانا چاہتی ہے.اوّل وہ اپنے بچہ پر یہ اثر ڈالنا چاہتی ہے کہ تو لا وارث نہیں تجھ پر جان دینے والا اور اپنا آ.قربان کرنے والا ایک اور وجود پاس بیٹھا ہے.تو بیشک معصوم ہے، کمزور ہے، تو چلتے چلتے ٹھوکر کھا جاتا ہے لیکن اور وجود ایسا پاس موجود ہے جو تیری حفاظت کرے گا اور تجھے بچائے گا.دوسرے فطرت ہمیں یہ سبق سکھاتی ہے کہ تو جب بڑا ہو گا تو تیرے بھی بچے ہوں گے.اُن کی محبت حاصل کرنے اور ان کے حوصلے درست کرنے کے لیے تمہیں بھی یہی کچھ کرنا ہو گا.یہی حال قرآن کا ہے.قرآن کریم ایک طرف تو حضرت موسیٰ اور حضرت عیسی علیہما السلام اور دیگر انبیاء کے واقعات بیان کر کے اُن سے اپنی محبت کے تعلقات کا اظہار کرتا ہے اور دوسری طرف وہ ہمیں یہ سبق دیتا ہے کہ تم بھی انہیں دہراؤ.یہاں تک کہ تمہیں محسوس ہو جائے کہ خدا تعالیٰ نے جس طرح حضرت موسیٰ اور حضرت عیسی علیہما السلام اور دیگر انبیاء کو چھوڑا نہیں اُسی طرح وہ تمہیں بھی نہیں چھوڑے گا.انبیائے بنی اسرائیل کی کتابوں میں وعظ بھی ہوتا ہے اور الہام بھی ہوتے ہیں.تو رات بھی جی ساری کی ساری الہام نہیں.اس میں سے اکثر حصہ وعظ ہے.اس میں یہی آتا ہے کہ خدا تعالیٰ نے ابراہیم کے ساتھ یوں کیا موٹی کے ساتھ یوں کیا، داؤد کے ساتھ یوں کیا تمہارے ساتھ بھی وہ ایسا ہی کرے گا.اُس نے حضرت اسحاق علیہ السّلام کے ساتھ یوں کیا، اس نے حضرت یعقوب اور حضرت یوسف علیہما السلام کے ساتھ یوں کیا وہ تمہارے ساتھ بھی ایسا ہی کرے گا.انہوں نے اس سے سبق سیکھا اور خدا تعالیٰ کے ساتھ اپنے تعلقات کو ظاہر کیا تھا.تم بھی اس سے سبق حاصل کرو
$1951 102 خطبات محمود اور خدا تعالیٰ کی محبت کو بڑھاؤ.میں دیکھتا ہوں کہ ہماری جماعت طبعی سبقتوں کی طرف کم توجہ کرتی ہے اور دنیوی فلسفیوں کی طرف زیادہ توجہ رکھتی ہے.ہماری جماعت کے کتنے واعظ ہیں جن کے وعظوں میں اس بات پر زور دیا.جاتا ہے کہ خدا تعالیٰ حضرت ابراہیم ، حضرت اسحاق ، حضرت اسماعیل ، حضرت یوسف اور حضرت موسی عليهم السلام کی طرح تمہیں بھی نہیں چھوڑے گا.کتنے واعظ ہیں جو ان واقعات کو بیان کر کے یہ بتاتے ہوں کہ وہ خدا جس نے فلاں موقع پر نشان دکھائے اب بھی تمہارے حق میں اپنے محبت بھرے تعلقات کا اظہار کرے گا.دُور نہ جاؤ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے معجزات اور نشانات کے دہرانے سے بھی ایمان بڑھتا ہے.جس طرح بار بار کے یاد کرنے سے ایک چہرہ سامنے آ جاتا ہے اسی طرح ان نشانات اور معجزات کے پڑھنے سے ایک ایماندار کا دل دھڑکنے لگ جاتا ہے.بھول جاؤ مخالفت کو.کیونکہ تمہارا بھی وہی خدا ہے جو حضرت یعقوب علیہ السلام کا خدا تھا، جو حضرت موسی علیہ السلام کا خدا تھا، جو محد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خدا تھا یا جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کا خدا تھا اور درمیان میں جو دوسرے بزرگ گزرے ہیں اُن کا خدا تھا.اگر تم چاہتے ہو کہ خدا تعالیٰ تمہارے حق میں بھی وہی نشانات دکھائے جو اس نے ان نبیوں اور بزرگوں کے حق میں دکھائے تھے تو ان واقعات کو بار بار دہراؤ.گا ہے گاہے بازخواں ایں قصہ پارینہ را قرآن کریم نے ہمیں یہ سبق دیا ہے.اگر ایک دفعہ بات کرنا کافی ہوتی تو وہ ان واقعات کو بار بار نہ دہرا تا.وہ تو ان واقعات کو اتناد ہراتا ہے کہ یورپین مصنفین کا قرآن کریم پر سب سے بڑا یہ اعتراض ہے کہ اس میں تکرار پایا جاتا ہے.بے شک انہیں قرآن کریم پر یہ اعتراض ہونا چاہیے کیونکہ وہ غیر ہیں.غیر جب ماں کو بچہ کے ساتھ پیار کرتے دیکھتا ہے، اس کے پیار کی باتوں کو سنتا ہے تو کہتا ہے ایک دفعہ ہو گیا یہ کیا بار بار ایک ہی بات کو دہرایا جاتا ہے.آخر کوئی حساب بھی ہو.لیکن ماں اُسے اس نقطہ نگاہ سے نہیں دیکھتی جس نقطہ نگاہ سے اُسے غیر دیکھتا ہے.تمہیں بھی قرآن کریم کو غیر کے نقطہ نگاہ سے نہیں دیکھنا چاہیے بلکہ اسی طرح دیکھنا چاہیے جس طرح بچہ ماں کی پیار بھری باتوں کو سنتا ہے اور اس کی محبت کو محسوس کرتا ہے.جس طرح ماں جب بچہ سے پیار کرتی ہے تو فطرت اُسے
$1951 103 خطبات محمود سبق دیتی ہے کہ بڑے ہو کر تمہیں بھی اپنے بچوں کی محبت حاصل کرنے اور ان کے حوصلوں کو بلند کرنے کے لیے ایسا کرنا ہو گا.اسی طرح تمہیں بھی یادرکھنا چاہیے کہ تمہارے اندر بھی ایمان اُسی وقت پیدا ہو گا جب تم ان واقعات کو دہرانے لگ جاؤ گے تم اپنی مجلسوں اور اپنے گھروں میں بار بار بیان کرو کہ جو خدا حضرت اسحاق علیہ السّلام، حضرت موسی علیہ السلام، حضرت عیسی علیہ السلام اور دیگر انبیاء کا تھا وہی خدا تمہارا ہے.جس طرح خدا نے اپنے ان پیارے بندوں کو نہیں چھوڑا تھا تم بھی اگر اُس کے ساتھ ویسے تعلقات پیدا کر لو گے تو وہ تمہیں بھی نہیں چھوڑے گا.جب تمہاری مجلسوں اور تمہارے گھروں میں اس بات کا چرچا شروع ہو جائے گا تو ہر بچہ کے اندر یہ یقین پیدا ہوگا کہ ہمارے خدا نے یوں کہا ہے.پس ان باتوں کو بار بار دہراؤ ، عورتیں، علماء، واعظ، اساتذہ اور مصنف سب اِن باتوں کو دہرائیں.بار باران باتوں کو ذہن میں لائیں اور لوگوں کے سامنے بیان کریں تا وہ حقیقت کہ جس سے زیادہ رحمت کسی فرد پر ہو نہیں سکتی دلوں میں گھر کر جائے.اور رات دن یہ بات تمہارے سامنے رہے کہ ایک زندہ خدا ایک ہاتھ میں تلوار برہنہ لیے اور ایک ہاتھ میں رحمت کا پانی لیے تمہارے سر پر کھڑا ہے.مخالفت کرنے والا اُس کی تلوار کو گردن پر لے لیتا ہے اور اُس سے محبت کرنے والا اُس کی رحمت کو جذب کرنے کی کوشش کرتا ہے“.غیر مطبوعه مواد از ریکارڈ خلافت لائبریری ربوہ )
خطبات محمود $1951 104 (15) تمہارے پاس صرف دعا کا ہتھیار ہے.سو تم اپنے لیے، سلسلہ کے لیے اور تمام بنی نوع انسان کے لیے خوب دعائیں کرو (فرمودہ 22 جون 1951ء بمقام ربوہ) تشهد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: رمضان کا مہینہ اب نصف سے اوپر گزر چکا ہے.جہاں تک آثار سے معلوم ہوتا ہے یہ رمضان 29 کو ختم ہو جائے گا کیونکہ ایک تو پچھلا مہینہ میں دن کا تھا اور دو مہینے متواتر تمیں دن کے نہیں ہو سکتے.دوسرے عرب میں دو دن پہلے چاند دیکھا گیا ہے اور یہ انتہائی فاصلہ ہے.اس سے زیادہ فاصلہ ہو ہی نہیں سکتا.اس کے معنے یہ ہیں کہ میں دن جو پچھلے مہینہ کے لیے گئے تھے وہ درست تھے.پھر چاند کے نکلنے سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ یہ مہینہ 29 کا ہوگا کیونکہ چودہ تاریخ کو چاند کچھ دیر سے نکلا ہے.پس وہ دن اور راتیں جو دعاؤں کے خاص دن ہوتے ہیں وہ دن بھی آ رہے ہیں اور وہ راتیں بھی
$1951 105 خطبات محمود آ رہی ہیں.رمضان کے یہ ایام ایسے شدید گرم تھے اور غالباً تین سال تک اور شدید گرم رہیں گے کہ ان دنوں کے روزے مومنوں کے لیے ایک آزمائش اور امتحان تھے.لیکن دنیا میں ایسے لوگوں کی کمی جی نہیں جو اس آزمائش اور امتحان کے دور میں سے شوق سے گزر جاتے ہیں اور یہ تکلیف اُن کے لیے راحت کا موجب ہو جاتی ہے.اور اگر واقع میں انسان کا دل کسی چیز کے شوق میں ہو تو اردگرد کی تکالیف اُسے زیادہ سخت معلوم نہیں ہوتیں.مجھے یاد ہے اس سے پہلی گرمیوں میں جو رمضان کے مہینے آئے تھے اُس وقت بعض مہینوں میں میں درس قرآن بھی دیتا تھا اور روزے بھی رکھتا تھا.اور آجکل کے درس القرآن کی طرح وہ صرف گھنٹہ دو گھنٹے کے لیے نہیں ہوتا تھا بلکہ بعض دفعہ چھ چھ سات سات گھنٹے تک چلا جاتا تھا لیکن باوجود بیماری کے چونکہ جوانی کی عمر تھی اس لیے یہ تکلیف ایسی زیادہ محسوس نہیں ہوتی تھی.پھر خالی یہی نہیں کہ میں درس دیتا تھا بلکہ درس کی تیاری کے لیے بعض دفعہ رات کے بارہ ایک بجے تک میں نوٹ لکھتا رہتا ہے تھا اور صبح اٹھ کر درس شروع کر دیتا تھا جو ظہر تک چلا جاتا تھا.بلکہ چند دن مجھے ایسے بھی یاد ہیں جب صبح سے ظہر تک درس ختم نہ ہوا تو ظہر کے بعد پھر درس شروع کر دیا گیا جو عصر تک چلا گیا.مگر بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں جو شریعت کی اجازتوں سے ناجائز فائدہ اٹھاتے ہیں.مثلاً وہ کہتے ہیں ہم بیمار ہیں اس لیے روزہ نہیں رکھ سکتے لیکن اُن کی بیماری کی حقیقت یہ ہوتی ہے کہ سارا سال انہوں نے علاج نہیں کروایا ہوتا.اگر واقع میں وہ بیمار ہوتے تو علاج کیوں نہ کرواتے؟ اُن کا باقاعدہ علاج نہ کرانا بتاتا ہے کہ اُن کی بیماری کاغذ رمحض جھوٹا ہے.علاج کے لیے تو انہیں بیماری یاد نہیں آتی لیکن روزہ رکھنا ہو تو بیماری یاد آ جاتی ہے.ایسے لوگوں کو میں بتانا چاہتا ہوں کہ اس قسم کے غیر معقول عذروں سے وہ اس جہان کی گرمی میں تو روزے رکھنے سے بچ جائیں گے لیکن اگلے جہان میں وہ کیا کریں گے اور اُس کی گرمی اور سے کیسے بچ سکیں گے؟ مجھے افسوس ہے کہ بعض ایسے خاندانوں کے لڑکے بھی جن کو دوسروں کے لیے نمونہ ہونا چاہیے تھا محض بہانہ سازی سے روزوں سے بچنے کی کوشش کرتے ہیں.ہماری شریعت نے یقیناً بیمار کو روزہ رکھنے سے منع کیا ہے.ہمارا غیر احمدیوں کی طرح یہ اعتقاد نہیں کہ روزہ کسی حالت میں بھی ترک نہیں کرنا چاہیے مگر ہم بیماری اُس کو کہیں گے جس کو انسان اچھا کرنے کی کوشش کرے.اگر سالہا سال بیماری شکتی چلی جاتی ہے اور وہ اس بیماری کا کوئی علاج نہیں کرتا تو اس کے معنے یہ ہیں کہ وہ
$1951 106 خطبات محمود اسے بیماری نہیں سمجھتا.اگر وہ اسے بیماری سمجھتا تو اس کے لیے کوئی نہ کوئی کوشش بھی کرتا.اور پھر وہ مرتا یا اچھا ہوتا ادھر ہوتا یا اُدھر ہوتا بہر حال کسی ایک نتیجہ پر وہ پہنچ جاتا.مگر ایک طرف اس کا نام بیماری رکھنا اور دوسری طرف اس کے علاج کے لیے تعہد نہ کرنا محض بہانہ سازی ہوتی ہے.اس میں کوئی محبہ نہیں کہ ان ایام میں بعض دن ایسے بھی آئے ہیں جبکہ روزہ دار تو الگ رہے بے روزہ بھی یوں معلوم ہوتا تھا کہ دم توڑ رہے ہیں.اور جو بیمار تھے یا بوڑھے اور کمزور تھے انہیں بہت ہی تکلیف ہوئی.مگر حقیقت یہ ہے کہ یہی دن انسان کے لیے زیادہ ثواب اور برکت کا موجب ہوتے ہیں اور انہیں دنوں میں انسان کی ہمت کا پتا لگتا ہے.ایسے لوگ بھی میں نے دیکھے ہیں جن پر میں رشک کرتا ہوں اور میں سمجھتا ہوں کہ اُن کے برابر روزے میں نہیں رکھ سکتا.مثلاً مولوی سید سرور شاہ صاحب ہیں 75 سال کی عمر کے تھے مگر باوجود منع کرنے کے وہ برابر روزے رکھتے تھے.چاہے یہ حد سے زیادہ تقشر 1 کہلائے مگر اس سے پتا لگتا ہے کہ اگر انسان ارادہ کرلے تو بعض جگہ وہ شریعت کی اجازت سے بھی آگے نکل جاتا ہے.بہر حال یہ دن اب اس رمضان کے آخری ایام ہیں اور نو جوانوں کے لیے ان کی عمر کے لحاظ سے مجاہدے کے دن ہیں.اگلی دفعہ جب یہ روزے گرمیوں میں آئیں گے تو اُس وقت تک وہ بوڑھے ہو چکے ہوں گے.اور اُس وقت وہ یہ عذر کریں گے کہ اب روزہ کی کوفت برداشت نہیں ہو سکتی اور خدا تعالیٰ نے بھی اُس عمر میں ان کو روزہ نہ رکھنے کی اجازت دی ہوئی ہوگی.در حقیقت انسان کی عمر میں ایک دور ہی ایسا آ سکتا ہے جس میں وہ صیح طور پر روزے رکھ سکتا ہے.چھتیس سال میں روزوں کا ایک چکر پورا ہوتا ہے اور دوسری دفعہ وہی دن آنے تک انسان ساٹھ سال سے اوپر ہو چکا ہوتا ہے.کوئی ستر سال کا ہو جاتا ہے، کوئی بہتر سال کا ہو جاتا ہے اور کوئی پچھتر سال کا ہو جاتا ہے.چونکہ سال کے مختلف مہینوں سے عمر شروع ہوتی ہے.کوئی مارچ میں پیدا ہوتا ہے، کوئی اپریل میں پیدا ہوتا ہے، کوئی مئی میں پیدا ہوتا ہے، کوئی جون میں پیدا ہوتا ہے اس لیے کسی کے دوسرے روزے گرمی کے موسم میں اُس وقت آئیں گے جب وہ ساٹھ سال کا ہو چکا ہو گا.کسی کے ستر سال کی عمر میں آئیں گے، کسی کے بہتر سال کی عمر میں آئیں گے.گویا وہ ایسا زمانہ آجاتا ہے جس میں تھوڑی سی کوفت اور تھوڑی سی بیماری وی انسان کو معذور بنا دیتی ہے.پس در حقیقت اگر کسی نوجوان کی زندگی میں یہ دن آئیں
$1951 107 خطبات محمود اور وہ ان دنوں کو غفلت میں ضائع کر دے تو اس کے معنے یہ ہوں گے کہ اب قیامت تک اُسے کوئی دوسرا موقع اس قسم کے روزوں کا مل ہی نہیں سکتا.کیونکہ جب دوسرا موقع آئے گا اُس وقت وہ ستر ، بہتر سال کا ہو چکا ہو گا اور اُس وقت شریعت بھی یہی کہے گی کہ اب تمہارے لیے مناسب یہی ہے کہ تم روزہ چھوڑ دو.یہ کتنی سوچنے والی بات ہے اور کتنے غور اور فکر کرنے والی بات ہے.میں ہمیشہ افسوس کیا کرتا ہوں کہ ہماری جماعت اپنے کاموں پر غور کرتے ہوئے حساب نہیں لگاتی حالانکہ اگر میری بات حساب لگا کر دیکھی جائے تو اس کے کئی مخفی پہلو نمایاں ہو جاتے ہیں.یہی بات دیکھ لو کہ روزوں کا ایک چکر چھتیس سال میں پورا ہوتا ہے اور دوسرے روزے وہی شخص رکھ سکتا ہے جو بہتر سال تک پہنچ جائے یا ساٹھ سال سے اوپر اُس کی عمر ہو جائے ورنہ دوسرے روزے اُس کی زندگی میں آہی نہیں سکتے.بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ جس شخص کی اپریل یا مئی میں پیدائش ہو اس کے لیے نی ناممکن ہے کہ وہ دوسرے روزے رکھ سکے.صرف دسمبر اور جنوری کی پیدائش والوں کے لیے یہ ممکن ہے کہ وہ اُس وقت تک ساٹھ باسٹھ سال کے ہو جائیں اور روزے رکھ لیں.اپریل مئی میں پیدا ہونے والا اُس وقت تک ستر سال تک جا پہنچے گا.اور پھر سو میں سے دس پندرہ ہی ایسے رہ جائیں گے جو مضبوط قوی والے ہوں اور اُن کی صحتیں ایسی اچھی ہوں کہ وہ رمضان کے روزے رکھ سکیں.پس ساری عمر میں صرف ایک دفعہ جو دن آتے ہیں اُن کو بہانوں سے گزار دینا نہایت افسوسناک بات ہے.اگر انسان ان دنوں میں تکلیف برداشت کر کے بھی روزے رکھ لے تو وہ بڑی عمر میں جا کر فخر کر سکتا ہے اور لوگوں سے کہ سکتا ہے ایسی گرمی میں ہم بھی روزہ رکھا کرتے تھے اور ہم خوشی خوشی اس تکلیف کو برداشت کیا کرتے تھے.پھر یہ دعاؤں کے دن ہیں جن سے ہماری جماعت کو زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانا چاہیے.در حقیقت اگر ہم غور سے کام لیں تو ہماری جماعت کے پاس سوائے دعا کے اور ہے ہی کیا ؟ جب کوئی مشکل پیش آتی ہے ہمارے لیے سوائے اس کے اور کوئی دروازہ نہیں ہوتا کہ ہم اللہ تعالیٰ کے حضور جھک جائیں اور اُس سے اپنے کاموں کے لیے مدد مانگیں.جس طرح لوگ کہتے ہیں ملاں کی دوڑ مسیت تک.اسی طرح مومن کی دوڑ خدا تک ہوتی ہے.اس کو جب بھی کوئی دکھ پہنچتا ہے وہ خدا تعالیٰ کا دروازہ کھٹکھٹاتا ہے کیونکہ سوائے خدا کے اس کا کوئی والی وارث نہیں ہوتا(خدا ہی اس کا باب
$1951 108 خطبات محمود ہوتا ہے، خدا ہی اس کی ماں ہوتی ہے، خدا ہی اس کا بھائی ہوتا ہے اور خدا ہی اس کی بہن ہوتی ہے ).پس جب کوئی مصیبت اس پر یا اس کی قوم پر آتی ہے وہ خدا تعالیٰ کی طرف دوڑتا ہے.دنیا میں دو قسم کے علاج ہوتے ہیں.ایک علاج ازالہ اور دوسرا علاج احتیاطی - علاج ازالہ تو یہ ہے کہ جب بیماری آتی ہے تو انسان اُس کے ازالہ کی کوشش کرتا ہے.مثلاً بخار ہو جاتا ہے تو وہ چاہتا ہے کہ میں کوئی ایسی دوا کھاؤں جس سے بخار دور ہو جائے.کھانسی ہوتی ہے تو وہ چاہتا ہے کہ میں کوئی ایسی دوا کھاؤں جس سے کھانسی دور ہو جائے.پھوڑے پھنیساں ہوتی ہیں تو وہ چاہتا ہے کہ میں ایسی دوا کھاؤں جس سے پھوڑے پھنسیاں دور ہو جائیں.لیکن ایک علاج دفاعی ہوتا ہے یعنی بیماری تو نہیں آتی مگر علاج کیا جاتا ہے تا کہ بیماری آنے ہی نہ پائے.اور ڈاکٹروں اور تمام ماہرینِ فن کی رائے یہ ہے کہ علاج ازالہ کی نسبت احتیاطی علاج زیادہ اچھا ہوتا ہے کیونکہ علاج ازالہ میں بیماری حملہ کرتی ہے اور کچھ نہ کچھ جسم کو نقصان پہنچا دیتی ہے لیکن جو پہلے سے دفاع کر لیتا ہے اور اپنی حفاظت کے لیے مضبوط قلعہ بنالیتا ہے اُس پر بیماری حملہ ہی نہیں کرتی اور وہ تندرست رہتا ہے.اسی طرح ایک دعائے ازالہ ہوتی ہے اور ایک دعائے احتیاطی ہوتی ہے.دعائے ازالہ تو یہ ہے کہ مصیبت آئی اور تم اللہ میاں کے پاس چلے گئے کہ خدایا! ہم پر یہ مصیبت آئی ہے تو اپنے فضل سے اس کو دور کر دے.اور دعائے احتیاطی یہ ہے کہ خدایا! کوئی مصیبت آئے ہی نہ.رمضان کی دعائیں احتیاطی دعائیں ہوتی ہیں کیونکہ رمضان میں کوئی خاص شتر انسان کو نہیں پہنچتا جس کے لیے دعاؤں پر زور دینا ضروری ہو.رمضان میں اگر دعائیں کی جاتی ہیں تو احتیاطی طور پر.اس لیے اللہ تعالیٰ نے اس کے آخر میں ایک عشرہ مقرر کر دیا ہے جس میں دعاؤں کی قبولیت کا اس نے خاص طور پر وعدہ فرمایا ہے.وہ اپنے بندوں سے کہتا ہے کہ تم پر کوئی بلا ہو یا نہ ہو تم ہمارے پاس آجایا کرو تا کہ آئندہ تم پر کوئی بلا نہ آئے.پس رمضان کی دعائیں، دعائے احتیاطی ہیں جو کسی مصیبت کو دور کرنے کے لیے نہیں ہوتیں بلکہ ان دعاؤں میں بندہ یہ عرض کرتا ہے کہ خدایا! مجھ پر کوئی مصیبت آئے ہی نہ.پس یہ علاج اُس علاج سے اچھا ہے جو مصیبت کے آنے پر کیا جاتا ہے.ان دنوں میں اللہ تعالیٰ نے ہمارے لیے خود دس دن مقرر کر دیئے ہیں اور کہا ہے کہ اپنی ساری ضرورتیں اور حاجات ہم سے مانگ لو تا کہ اگلے سال جو مصیبتیں تم پر آسکتی ہیں وہ نہ آئیں.اور اگر کسی پر آجائیں تو پھر اس کے لیے بھی
$1951 109 خطبات محمود دعاؤں کا دروازہ کھلا ہے مگر بہر حال وہ دعائے ازالہ ہوگی.اور یہ یقینی بات ہے کہ دعائے ازالہ اتنی اعلیٰ نہیں ہوتی جتنی دعائے احتیاطی.جیسے جسمانی بیماریوں سے احتیاط کرنے والے کی صحت زیادہ اعلیٰ ہوتی ہے اور وہ شخص جس پر بیماری آ جائے اُس کی صحت ایسی اعلی نہیں ہوتی کیونکہ بیماری اسے کچھ نہ کچھ ضرور جھنجوڑ دیتی ہے.پس یہ دعاؤں کے دن ہیں تمہیں چاہیے کہ ان ایام میں خاص طور پر دعائیں کرو.اپنے لیے ، سلسلہ کے لیے اور تمام بنی نوع انسان کے لیے.یہ دن معمولی نہیں ہیں.ان میں وہ سب سے بڑا فتنہ پیدا کیا گیا ہے جس کا نام فتنہ دجال اور فتنہ یاجوج ماجوج رکھا گیا ہے.یعنی ایک طرف کمیونزم کا فتنہ ہے اور دوسری طرف عیسائیت کا فتنہ ہے.یہ دو بلائیں ہیں جو منہ کھولے آ رہی ہیں.اور یہی وہ دو بلائیں ہیں جن کی طرف سورہ فاتحہ میں غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ 2 کہہ کر اشارہ کیا گیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ ایک نی غضب الہی کے نیچے آئی ہوئی قوم اسلام پر حملہ آور ہوگی اور ایک گمراہی اور صداقت سے دوری میں مبتلا مذہب اسلام پر حملہ آور ہو گا.گویا ایک طرف عیسائیت ہوگی اور دوسری طرف کمیونزم ہوگا.ایک طرف مذہب ہو گا مگر گمراہی کا اور دوسری طرف ایک طریق ہو گا جو خدا تعالیٰ سے دور لے جانے والا اور اُس کی ناراضگی اور غضب کا انسان کو مورد بنانے والا ہوگا.ان دو سانڈوں کے درمیان اسلام کا چھوٹا سا یتیم بچہ ہو گا اور ہر سانڈ کی ادنیٰ سے ادنی ٹھو کر بھی اُس کو کچل دینے کے لیے کافی ہو گی.اسی لیے سورۃ فاتحہ میں اللہ تعالیٰ نے یہ سکھایا کہ تم ہمیشہ یہ دعا کرتے رہو کہ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمُ وَلَا الضَّالِّينَ.خدایا! تو ہمیں کمیونزم کے فتنہ سے بھی بچا اور عیسائیت کے فتنہ سے بھی محفوظ رکھ.کمیونزم کی پیرو وہی مغضوب قوم ہے جس کا بائیبل میں بھی اِن الفاظ میں ذکر آتا ہے کہ دیکھ اے جوج روش اور مسک اور توبل کے فرمانروا میں تیرا مخالف ہوں.3 اور یہ کہ اُن ایام میں جب جور اسرائیل کی مملکت پر چڑھائی کرے گا تو میرا قہر میرے چہرہ سے نمایاں ہوگا“.4 غرض ایک قوم تو وہ ہے جو مذہب سے بیزار اور خدا تعالیٰ کے غضب اور قہر کی مورد.اور ایک قوم خدا خدا تو کر رہی ہے مگر عقائد کے لحاظ سے وہ خطرناک گمراہی میں مبتلا ہے اور لوگوں کو ایک غلط مذہب کی طرف کھینچ رہی ہے.ایسے زمانہ میں پیدا ہونے والی قوم جس کے پاس کوئی طاقت اور قوت کی بھی نہ ہو اُس کے لیے سوائے دعا کے کامیابی کا اور کیا ذریعہ ہو سکتا ہے.تمہاری حالت تو یہ ہے کہ
$1951 110 خطبات محمود اگر تمہارے گاؤں کا نمبر دار بھی تمہاری مخالفت کرتا ہے تو تم شور مچانے لگ جاتے ہو کہ ظفر اللہ کو کھو، ظفر اللہ کو تار دو.جہاں انسان کی اتنی ہمت ہو کہ ایک نمبر دار اور ہمسایہ کی مخالفت سے بھی وہ کانپنے لگے اور اُس کا ایمان متزلزل ہو جائے وہاں اُس نے اور کیا کرنا ہے؟ وہ قومیں جو اس وقت ساری دنیا پر چھائی ہوئی ہیں اُن کا مقابلہ کرنے کی تم میں کہاں ہمت ہے؟ تم اسی طرح امن میں رہ سکتے ہو کہ یا تو جس طرح چھچھوندرزمین میں سوئی رہتی ہے اُسی طرح تم بھی سو جاؤ اور بھول جاؤ اس بات کو کہ تمہارے خلاف کوئی فتنہ بر پا ہے.اور یا پھر خدا تعالی کی گود میں پناہ لے لو.اطمینان انسان کو دو ہی طرح حاصل ہوسکتا ہے.یا تو فتنہ کو کھول کر اور یا پھر خدا تعالیٰ کی گود میں پناہ لے کر مگر خطرہ کو بھلا کر جو امن حاصل ہوتا ہے وہ انسان کو تباہ کر دینے والا ہوتا ہے.جس شخص کے گردہ میں پتھری ہو اور وہ افیون کھا کر اپنے درد کو دور کر لیتا ہو اور سمجھتا ہو کہ مجھے آرام ہے وہ ایک دن ہلاک ہو جائے گا.لیکن وہ شخص جو ڈا کٹر کے پاس جائے گا اور آپریشن کروائے گا وہ بچ جائے گا.اسی طرح اگر تم بھی افیون والا علاج کرتے ہو اور دجالی فتنہ کی طرف سے اپنی آنکھیں بند کر لیتے ہو اور سمجھتے ہو کہ ہم امن میں ہیں تو تم اپنا وقت غفلت میں گزار رہے ہو.تمہیں سمجھ لینا چاہیے کہ یہ امن امن نہیں بلکہ تباہی اور بربادی کا پیش خیمہ ہے.لیکن اگر تم خدا تعالی کی گود میں پناہ لے لیتے ہو تو تم اپنے درد کا صحیح علاج کرتے ہو.کیونکہ جو شخص خدا تعالیٰ کی گود میں بیٹھ جاتا ہے اُسے سلایا نہیں جاتا بلکہ اُس کے مرض کو دور کیا جاتا ہے اور اس کی صحت کو زیادہ اچھا بنایا جاتا ہے.اور اگر تم سمجھو تو یہی حقیقی علاج ہے.تلوار تمہارے پاس نہیں، گولہ بارود تمہارے پاس نہیں، تو ہیں تمہارے پاس نہیں ، حکومت تمہارے پاس نہیں، روپیہ تمہارے پاس نہیں، فوجیں تمہارے پاس نہیں ، ہوائی جہاز تمہارے پاس نہیں ایٹم بم تو دور کی بات ہے.یا تو تم یہ کہو کہ ہم وہ جماعت نہیں جس نے کفر کو مٹانا ہے.اور اگر تم کہتے ہو کہ ہم وہی جماعت ہیں جس نے کفر کو دنیا سے نابود کرنا ہے تو تمہارے پاس اس غرض کے لیے کونسا سامان ہے؟ آخر آپ ہی آپ کوئی چیز نہیں ہو سکتی.ہر چیز کے لیے کوئی نہ کوئی سامان ہوتا ہے یا مادی سامان ہوتا ہے.یا روحانی سامان ہوتا ہے.مادی سامان تمہارے پاس ہے نہیں.پس تم ایک ہی جواب دے سکتے ہو کہ ہمارے پاس تیر نہیں، تفنگ نہیں، توپ نہیں ، ہوائی جہاز نہیں.ہمارے پاس صرف دعا کا ہتھیار ہے.میں کہوں گا ٹھیک ہے.مگر سوال یہ ہے کہ اگر تلوار تمہارے گھر میں
$1951 111 خطبات محمود پڑی ہوئی ہو اور دشمن تمہارے سر پر ہو تو کیا اس تلوار کی موجودگی تمہیں کچھ فائدہ پہنچاسکتی ہے؟ اگر تم نے دشمن کا مقابلہ کرنا ہے تو پھر تلوار کا چلانا بھی تمہیں سیکھنا پڑے گا اور تلوار کو اپنے ہاتھ میں بھی رکھنا پڑے گا.اسی طرح دعاؤں پر ایمان رکھنے والے کو میں یہ کہوں گا کہ بیشک دعا ہی سب سے بڑا ہتھیار ہے اور نہایت اہم ہتھیار ہے لیکن سوال یہ ہے کہ کیا تم نے کبھی دعا کی؟ اگر نہیں کی تو وہ آپ ہی آپ تمہیں کس طرح فائدہ پہنچا دے گی؟ یہ تو ویسی ہی حماقت کی بات ہے جیسے پیر منظور محمد صاحب سنایا کرتے تھے کہ بچپن میں ایک ہم شکار کے لیے گئے.ہمارے ساتھ ایک بنیا بھی چل پڑا.چند چھوٹے چھوٹے لڑکے اور بھی تھے.ہم نے بندوق اپنے کندھے پر رکھی ہوئی تھی کہ اُس کا منہ اُس پیسے کی طرف ہو گیا اور وہ ڈر کر ہائے ہائے کہہ اُٹھا.ہم نے اُسے بتایا کہ ابھی ہم نے اس میں کارتوس نہیں بھرے اور اگر بھرے ہوئے ہوتے تب بھی وہ آپ ہی نہیں چل پڑتے انہیں چلانے کے لیے دباؤ کی ضرورت ہوتی ہے.اس پر وہ کہنے لگا یہ درست ہو گا مگر انگریز کی بنائی ہوئی چیز کا پھر بھی اعتبار نہیں.تم بھی اُس پیسے کی طرح کہتے ہو کہ دعا آپ ہی آپ چل جایا کرتی ہے.حالانکہ دعا چلانے سے چلا کرتی ہے یونہی نہیں.جو شخص دعا کرتا ہے اُسے دعا بہت بڑا فائدہ پہنچاتی ہے.اور جو دعا نہیں کرتا اُس کے لیے وہ ایک لغو اور بریکار چیز ہوتی ہے بلکہ اس تلوار سے بھی بدتر ہوتی ہے جو گھر میں رکھی ہوئی ہو کیونکہ وہ شخص جس نے تلوار اپنے گھر میں رکھ لی اور اُسے چلایا نہیں اُس کو تو لوگ صرف ملامت کرتے ہیں.لیکن وہ شخص جود عا پر ایمان رکھتا اور پھر اُس سے کام نہیں لیتا اُس پر لوگ لعنت کرتے ہیں.غیر مطبوعہ مواد از ریکارڈ خلافت لائبریری ربوہ ) 1 : تقشر چھل جانا، چھلکا علیحدہ ہونا ( اردو لغت تاریخی اصول پر جلد 5 صفحہ 385 کراچی) تَقَشَّرَ (قِشْرَةُ): چھال، خول، چھلکا (فیروز اللغات عربی اردو فیروز سنز لاہور ) 2 : الفاتحة : 7 3 : حزقی ایل باب 39 آیت 1 4 : حزقی ایل باب 38 آیت 19
$1951 112 (16) خطبات محمود اسلام کو عزت اور تقویت صرف روحانیت اور محبت الہی سے ہی حاصل ہو سکتی ہے جھوٹ ، ظلم اور بدظنی سے بچو اور دین کو دنیا پر مقدم رکھنے کا عہد ہمیشہ اپنے سامنے رکھو (فرمودہ 6 جولائی 1951 ء بمقام ربوہ) تشهد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: شرعاً تو یہ جائز تھا کہ آج صرف عید کی نماز ادا کی جاتی اور جمعہ کی نماز چھوڑ دی جاتی کیونکہ جب عید اور جمعہ دونوں اکٹھے ہو جائیں تو یہ جائز ہوتا ہے کہ جمعہ کی بجائے صرف عید کی نماز ادا کر لی جائے.مگر جمعہ اپنی ذات میں بڑا مقدس دن ہے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ اولیاء اور علماء امت نے جمعہ کو عیدین پر فضیلت دی ہے کیونکہ عیدین کا ذکر احادیث میں آتا ہے لیکن جمعہ کے متعلق قرآن کریم میں احکام دیئے گئے ہیں.بلکہ اسے فرض قرار دیا گیا ہے اور اس نام کی ایک سورۃ اتاری گئی ہے اس لیے افضل یہی ہے کہ جمعہ کو حسب قاعدہ ادا کیا جائے.لیکن لازمی طور پر جب یہ دونوں تقاریب اکٹھی ہو جائیں تو خطبہ اختصار کے ساتھ پڑھا جائے گا تاسنے والوں پر زیادہ بوجھ نہ پڑے.میں نے خطبہ عید میں بیان کیا تھا کہ عیدین جہاں ہمارے لیے خوشی کا پیغام لاتی ہیں
$1951 113 خطبات محمود وہاں وہ ہمارے زخموں کو بھی ہرا کر دیتی ہیں.یہ ہمیں اسلام کے وہ شاندار ایام یاد دلاتی ہیں جب وہ ساری دنیا پر قابض تھا.جب ایک اکیلا مسلمان دنیا کی حکومتوں اور اس کی سیاسیات پر بھاری تھا.جب کسی مسلمان کو چھیڑ نا یا اُسے دق کرنا خواہ وہ دنیا کے ایک دور کنارے پر ہو ایسا ہی تھا جیسے ایک نہتہ انسان شیر کی کچھار میں منہ ڈال دے.لیکن آج مسلمان کی عزت اور اس کا ناموس ایک فٹبال کی طرح ہے جو چاہتا ہے اسے ٹھڈ امار دیتا ہے اور جہاں چاہے اسے پھینک دیتا ہے.بدقسمتی سے مسلمانوں نے اس کا یہ علاج سمجھ رکھا ہے کہ وہ سیاسی طور پر منظم ہو جائیں اور وہ یہ عظیم الشان نکتہ بھول گئے ہیں کہ اسلام کو عزت اور تقویت سیاسی تنظیم سے نہیں بلکہ روحانیت اور محبت الہی سے ملی تھی.جس نسخہ کو وہ ایک دفعہ آزما چکا تھا اس کا کام تھا کہ وہ دوبارہ اُسی کو آزما تا لیکن وہ سارے نسخے استعمال کرتا ہے اور وہی نسخہ استعمال نہیں کرتا جس کو وہ پہلے آزما چکا ہے.ہم دیکھتے ہیں کہ ایک جاہل سے جاہل عورت ، ایک جاہل سے جاہل زمیندار جس کو نہ طب سے کوئی واسطہ ہوتا ہے اور نہ ڈاکٹری کا علم ہوتا اُس کو کبھی کھانسی کی ہوئی ہوتی ہے اور کسی واقف یا حکیم کا کوئی نسخہ اُس نے استعمال کیا ہوتا ہے جس سے اُسے آرام آ گیا، اُس کو کبھی بخار آ جاتا ہے یا دست آنے شروع ہو جاتے ہیں اور وہ کسی کا بتایا ہوا نسخہ استعمال کرتا ہے اور وہ اسے فائدہ دے دیتا ہے تو جب وہ کوئی ویسا ہی مریض دیکھتا ہے تو وہ اپنے آپ کو ایک بڑا ماہر طبیب اور قابل ڈاکٹر سمجھ کر اور ویسی ہی شکل بنا کر سر ہلاتا ہے اور کہتا ہے مجھ سے پوچھو.اسے لسوڑھیاں، ملٹھی اور بنفشہ ابال کر پلاؤ یا چرائتا 1 کا پانی ابال کر رکھ لو اور اسے تھوڑا تھوڑا پلا دیا کرو.پہلے نسخہ سے کھانسی دور ہو جائے گی اور دوسرے نسخہ سے بخار اتر جائے گا.اسی طرح خواہ ایک ماہر طبیب علاج کر رہا ہوا ایک بڑھیا کہے گی میری سنو! اسے فلاں چیز دوا سے فورا آرام آ جائے گا.اس میں راز صرف یہی ہوتا ہے کہ دس بارہ سال پہلے اُس نے وہ نسخہ استعمال کیا تھا اور اُسے آرام آ گیا تھا.وہ اپنے تجربہ کی بناء پر جب کوئی ویساہی مریض دیکھتی ہے تو وہ نسخہ لے کر بیٹھ جاتی ہے اور کہتی ہے یہ ڈاکٹر جاہل ہیں ، فضول ہیں.انہیں کیا آتا ہے؟ تم میری سنو اور اسے لسوڑھیاں، ملٹھی اور بنفشہ ابال کر دو سے آرام آجائے گا.وہ بڑھیا اپنے ایک دفعہ کے آزمائے ہوئے نسخہ کو جو ایک حقیر آزمائش ہوتی ہے اور ایک فرد کی آزمائش ہوتی ہے اور پھر وہ ایک ایسے امر کے متعلق ہوتی ہے جس میں اتفاقی طور پر بھی مریض کثرت سے اچھے ہوتے ہیں اتنی اہمیت دے دیتی ہے.اطباء کا خیال ہے کہ ستر فیصدی امراض
$1951 114 خطبات محمود خود بخو دٹھیک ہو جاتی ہیں اور تمیں فیصدی امراض ایسی ہوتی ہیں جو علاج کی محتاج ہوتی ہیں مگر وہ بڑھیا کی ان سب اتفاقات کو بھول جاتی ہے.پھر وہاں تو یہ سوال بھی ہوگا کہ دونوں مریضوں کی شکل ایک ہو، اُن کے کوائف اور حالات ایک جیسے ہوں مگر یہاں تو شکل بھی ایک ہے.جس قوم کے ساتھ تمہارا معاملہ ہے اُس کی بیماری، اس کے کوائف اور حالات وہی ہیں جن سے تمہارا واسطہ پڑ چکا ہے.ساری کی ساری باتیں وہی ہیں لیکن ایک مسلمان نہیں آزما تا تو اُسی نسخہ کو نہیں آزماتا جس سے اُسے ایک دفعہ پہلے شفا ہو چکی ہے.پھر دوسروں کا کیا رونا ہے؟ تمہاری اپنی بھی یہی حالت ہے کہ تم میں اور دوسرے مسلمانوں میں یہ فرق ہے کہ تم میں خدا تعالیٰ کا ایک مامور آیا ہے جس نے تمہیں تمہاری غلطیوں پر ہوشیار کیا ہے لیکن دوسروں کے مصائب برداشت کرنے کا کیا فائدہ جبکہ تم اس مقصد کو پورا نہیں کرتے جس کے لیے تم اس دنیا میں پیدا کیے گئے ہو.تم نے اقرار کیا ہے کہ ہم دین کو دنیا پر مقدم رکھیں گے لیکن کہاں ہے وہ دین جس کو تم دنیا پر مقدم رکھتے ہو؟ اور کہاں ہے وہ دنیا جس کو تم دین سے پیچھے کرتے ہو؟ تم میں سے بعض کی دنیا دین سے آگے نظر آتی ہے.جب تک تم اس روح کو کچل نہیں ڈالتے ، جب تک تم اس چونہ کو تار نہیں پھینکتے ، جب تک تم وہی نسخہ استعمال نہیں کرتے جو تم پہلے آزما چکے ہو تم یہ امید نہیں کر سکتے کہ خدا تعالیٰ تم پر اپنا وہ خاص فضل نازل کرے گا جس کا قرآن کریم نے تمہارے ساتھ وعدہ کیا ہے، جس کا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے تمہارے ساتھ وعدہ کیا ہے.تم اپنے اندر تبدیلی پیدا کرو.میں یہ نہیں کہتا کہ دنیا کمانا چھوڑ دو.صحابہ بھی دنیا کے کام کرتے تھے لیکن وہ دنیا کو دین کے مقابلہ پر رکھ کر دیکھتے تھے اور جہاں وہ دنیا کو دین پر مقدم دیکھتے تھے اُسے چھوڑ دیتے تھے اور دین کو اُس کی پر ترجیح دیتے تھے.مثلاً دنیا کہتی ہے کہ تم تھوڑا سا جھوٹ بول لوتو گاہک قابو آ جائے گا لیکن دین کہتا ہے ہے کہ جس کام کا زیادہ کرنا گناہ ہے اُس کا تھوڑا کرنا بھی گناہ ہے.کیا یہ درست ہے کہ اگر انگلی کے ساتھ پاخانہ لگا کر کھا لو تو وہ گند نہیں ؟ یا یہ کہ تم پاٹ بھر کر پیشاب پی لو تو وہ گند ہے لیکن ایک گھونٹ پیشاب پی لو تو وہ گند نہیں ؟ تم جھوٹ خواہ پہاڑ کے برابر بولو یا چیونٹی کے پاؤں کے برابر وہ گند کا گند ہے.وہ تمہارے ایمان کو ضائع کر دے گا.ظلم خواہ پہاڑ کے برابر ہو یا سرخ چیونٹی کے پاؤں یا اس کی
$1951 115 خطبات محمود مونچھ کے برابر ہو وہ ظلم ہے.اور ظلم ایک گند ہے.کسی کی بدگوئی کرنا، بدظنی کرنا، فتنہ پردازی بلکہ اپنے حق پر اتنا اصرار کرنا جس سے قوم میں فتنہ پیدا ہو یہ بھی گناہ ہے.تم یہ نہیں کہہ سکتے کہ فلاں نے میرے کی و پیسے دینے تھے اس لیے میں نے ایسا کیا ہے.خدا تعالیٰ کہے گا تم نے دو پیسے کی خاطر قوم کا بیڑا غرق کر دیا جاؤ جہنم میں تم یہ نہیں کہہ سکتے کہ میرا حق تھا ایسا کرتا.خدا کہے گا تم نے اپنے حق کو اس فتنہ کے مقابلہ میں رکھ کر دیکھ لیا ہوتا تو تم اس پر اتنا اصرار نہ کرتے.گویا ظلم تو الگ رہا اپنے حق پر اتنا اصرار کرنا جو فتنہ کا موجب ہو وہ بھی برائی ہے.جب تک تم اس ذہنیت کو بدلتے نہیں تنظیم قائم نہیں ہو سکتی“.(الفضل 14 اگست 1962 ء ) 1: چرائتا: ایک قسم کی کڑوی لکڑیاں جو مصفی خون ہوتی ہیں.( فیروز اللغات اردو جامع فیروز سنز لاہور)
$1951 116 (17) خطبات محمود انسان کو ظاہری چیزوں پر نہیں جانا چاہیے اسے قلب کی حالت پر غور کرنا چاہیے اگر اس کا دل صحیح ہے تو وہ ایسے مقام پر ہے جو قابلِ رشک ہے (فرمودہ 13 جولائی 1951ء بمقام سکیسر ضلع سرگودھا) تشهد ، تعو ذاور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: جیسا کہ میں نے ابھی ڈاکٹر صاحب کو بتایا ہے مجھے پرسوں سے پھر گاؤٹ (Gout) یعنی نقرس کا دورہ شروع ہو گیا ہے جس کی وجہ سے کھڑا ہونا مشکل ہے.اس لیے میں خطبہ بھی صرف چند فقروں میں ختم کر دوں گا اور نماز بھی بیٹھ کر پڑھاؤں گا کیونکہ کھڑے ہو کر نماز پڑھنے سے تکلیف بڑھ جائے گی.ہم ابھی دو دن ہوئے ربوہ سے آئے ہیں اور ربوہ میں جو گرمی کی حالت تھی اور اس کے مقابلہ میں یہاں جو حالت ہے ان میں ایک نمایاں فرق ہے.اور یہ فرق اتنے تھوڑے فاصلہ پر ہو جاتا ہے اور اس طرح ہو جاتا ہے کہ اس کا سمجھنا مشکل ہے اور یہ اپنی ذات میں ایک بڑا مضمون معلوم ہوتا ہے.یہاں والے یہ قیاس نہیں کر سکتے کہ میدان میں رہنے والوں کا کیا حال ہے اور میدان میں رہنے والے یہ قیاس نہیں کر سکتے کہ یہاں والوں کا کیا حال ہے.صرف تخمینہ اور قیاس سے دونوں فریق
$1951 117 خطبات محمود ایک غیر مکمل سا نقشہ کھینچ لیتے ہیں.میں نے دیکھا ہے کہ چند دن پہاڑ پر رہنے کے بعد لوگ یہ سمجھ لیتے ہیں کہ میدانوں میں بھی موسم اچھا ہو گیا ہوگا.اس طرح انسان سمجھ سکتا ہے کہ جس طرح پاس پاس کی جگہوں میں فرق ہو جاتا ہے اسی طرح پاس پاس کے انسانوں میں بھی فرق پیدا ہو جاتا ہے.ان کے حالات ایک سے معلوم ہوتے ہیں لیکن دراصل وہ مختلف ہوتے ہیں.جس طرح پاس پاس کی زمینوں میں فرق ہوتا ہے کہ ایک جگہ گرمی پڑتی ہے اور ایک جگہ سردی، ایک جگہ اونچی ہوتی ہے اور ایک جگہ نشیب والی ہوتی ہے.اسی طرح پاس پاس کے رہنے والے انسانوں کا حال ہے.ایک کا کچھ ہوتا اور دوسرے کا کچھ.انبیاء جب دنیا میں آتے ہیں تو اُن کے ہمسایہ میں بعض اوقات ایک اشتر ترین کا فر ہوتا ہے جس پر خدا تعالیٰ کی لعنت ہوتی ہے لیکن ایک ہی جگہ اور ایک ہی وقت میں وہ دونوں اس طرح نشو ونمان پاتے ہیں کہ ایک کا دوسرے پر قیاس کرنا مشکل ہو جاتا ہے.مکہ والوں کی سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ مسلمان اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے درمیان رہ کس طرح سکتے ہیں.جس طرح آجکل احراری کہتے ہیں کہ احمدی پاکستان میں رہ کس طرح سکتے ہیں؟ ان کی سمجھ میں یہ بات آ ہی نہیں سکتی.اسی طرح محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سمجھ میں یہ بات نہیں آسکتی تھی کہ مکہ والے انہیں نکال کیسے دیں گے.چنانچہ ورقہ بن نوفل نے کہا کہ آپ کو جو الہام ہوا ہے وہ اُسی قسم کا ہے جیسے حضرت موسی علیہ السلام کو ہوا تھا.کاش! میں اُس وقت زندہ ہوتا جب آپ کی قوم آپ کو مکہ سے نکال دے گی تو میں آپ کی مدد کرتا.اس پر آپ نے حیرت سے فرمایا اَوَ مُخْرِجِيَّ هُمُ 1- کیا وہ مجھے مکہ سے نکال دیں گے ؟ آخر میرے اندروہ کونسی چیز پیدا ہوگئی ہے جس کی وجہ سے میری قوم مجھے مکہ سے نکال دے گی ؟ گویا ایک ہی شہر میں پاس پاس رہنے کے باوجود ایک فریق یہ خیال کرتا ہے کہ میرے شہر سے نکالنے کا سوال ہی کیسے پیدا ہوسکتا ہے؟ لیکن ویسے ہی کان، ناک ، آنکھ رکھنے والا آدمی کہتا ہے کہ یہ ہمارے درمیان رہ کیسے سکتا ہے؟ اس کو شہر سے باہر نکال کر پھینکنا چاہیے.یہ وہی فرق ہے جو پہاڑ اور میدان کا ہوتا ہے.ایک جگہ گرمی ہوتی ہے تو دوسری جگہ سردی، ایک جگہ انسان گرمی سے بیتاب ہو رہے ہوتے ہیں تو دوسری جگہ انسان راحت محسوس کرتے ہیں.پس انسان کو ظاہری چیزوں پر نہیں جانا چاہیے.اسے قلب کی حالت پر غور کرنا چاہیے.
خطبات محمود 118 $1951 اگر اُس کا دل صحیح ہے تو خواہ وہ دنیا کو نظر آئے یا نہ آئے وہ ایسے مقام پر ہے جو قابلِ رشک.اور اگر اُس کے دل کی حالت صحیح نہیں تو خواہ اُس کی حالت لوگوں کو نظر آئے یا نہ آئے وہ ان رحمتوں اور برکتوں کا مستحق نہیں ہوسکتا جو خدا تعالیٰ نازل کرنا چاہتا ہے.غیر مطبوعہ مواد از ریکارڈ خلافت لائبریری ربوہ ) 1 : صحیح بخاری کتاب بدء الوحي باب كيف كان بَدْءُ الوحي إلى رسول الله صلی الله عليه وسلم
$1951 119 (18) خطبات محمود مرکز ایک نقطہ مرکزی کی حیثیت رکھتا ہے لہذا اسے سب سے پہلے بیداری کا ثبوت دینا چاہیے کوشش کرو کہ سوائے اشد معذوری کے کوئی احمدی بھی تحریک جدید میں حصہ لینے سے محروم نہ رہے (فرموده 31 اگست 1951ء بمقام ربوہ) تشهد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: ایک لمبے عرصہ کے بعد میں مسجد میں آنے کے قابل ہو سکا ہوں.ابھی میرے گھٹنے کی تکلیف پوری طرح رفع نہیں ہوئی تاہم میں اس قابل ہو گیا ہوں کہ چل پھر سکوں، سیڑھیوں پر ابھی چڑھنا ذرا مشکل ہے.اب جبکہ میں مسجد کی طرف آ رہا تھا مجھے سیڑھیوں کا خیال نہیں تھا اس لیے جب سیڑھیوں پر چڑھنے لگا تو مشکل معلوم ہوئی اور دو تین سوٹیوں کا سہارا لے کر میں تین سیڑھیاں چڑھ سکا.ویسے میدان میں میں بغیر سہارے کے چل پھر سکتا ہوں مگر تھوڑا.
خطبات محمود 120 $1951 آج میں آپ لوگوں کو ایک حدیث کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں اَللَا فِي الْجَسَدِ مُضْغَةٌ إِذَا صَلُحَتْ صَلُحَ الْجَسَدُ كُلُّهُ وَإِذَا فَسَدَتْ فَسَدَ الْجَسَدُ كُله -1 خوب کان کھول کر سن لو کہ انسانی جسم میں گوشت کا ایک لوتھڑا ہے اِذَا صَلَحَتْ صَلَحَ الْجَسَدُ كُلُّه.جب وہ گوشت کا لوتھڑا ٹھیک ہوتا ہے تو سارا جسم انسانی ٹھیک ہو جاتا ہے وَإِذَا فَسَدَتْ فَسَدَ الْجَسَدُ كُلُّه اور جب وہ لوتھڑ ا خراب ہو جاتا ہے تو سارا انسانی جسم خراب ہو جاتا ہے.پھر فرمایا اَلا وَ هِيَ الْقَلْبُ.سنو! وہ گوشت کا لوتھڑا دل ہے.قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ قلوب کے متعلق فرماتا ہے کہ وہ صُدُور میں ہیں.قرآن کریم میں جب ” قلب “ کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے تو اس سے مراد وہی قلب ہوتا ہے جو سینہ میں ہوتا ہے اور وہ دل جو انسانی جسم کو خون مہیا کرنے والا ہے وہ بھی سینہ میں ہی واقع ہے.اور لوگوں نے خصوصاً اس زمانہ کے سائنسدانوں کی اور تشریح ابدان والوں نے کہا ہے کہ وہ چیز جو انسانی اعمال ، افعال، ارادوں اور خواہشات کو منضبط کرتی ہے اور انہیں ایک نظام کے نیچے لاتی ہے آیا وہ دل ہے یا دماغ.موجودہ سائنسدانوں کا فیصلہ یہی ہے کہ وہ دل نہیں دماغ ہے.سائنسدانوں سے ڈر کر بعض مسلمان علماء نے بھی قرآن کی آیات کی ایسی تفسیر شروع کر دی ہے جس سے یہ نکلتا ہے کہ قلب سے مُراد قلب انسانی نہیں اس سے مراد محض وہ مقام ہے جو انسانی جسم پر حکومت کرتا ہے چاہے وہ دماغ ہی ہو.میرے نزدیک یہ تو جیہ محض ڈر کی وجہ سے ہے.کئی لوگوں نے کوشش کی ہے کہ وہ سائنس کے ڈر کی وجہ سے قرآنی آیات کو موجودہ سائنس کے نظریات کے ماتحت کر دیں.لیکن جہاں تک قرآن کریم پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے میرے نزدیک قلب سے مراد وہی چیز ہے جو سینہ میں ہوتی ہے اور اس چیز کو دماغ قرار دینا محض دھینگا مشتی اس وقت میں اس حدیث کے لفظی معنوں کے متعلق کچھ نہیں کہنا چاہتا بلکہ اس کے عمومی استدلال کی طرف آپ لوگوں کو توجہ دلانا چاہتا ہوں.اعمال کی صفائی دل کی صفائی کے ساتھ وابستہ ہے.تم اپنے ہاتھوں کی صفائی کر کے پاک نہیں ہو سکتے تم اپنے منہ کی صفائی کر کے پاک نہیں ہو سکتے ، تم اپنے سر کی صفائی کر کے پاک نہیں ہو سکتے کیونکہ پاکیزگی کا منبع دل ہے.لیکن اگر تم اپنے دل کی صفائی کر لو گے تو تمہارا منہ پاک ہو جائے گا تمہارے ہاتھ بھی پاک ہو جائیں گے، تمہارے پاؤں بھی
$1951 121 خطبات محمود پاک ہو جائیں گے.جسم کی صفائی کے ساتھ دل کی صفائی لازمی نہیں.ممکن ہے جسم کی صفائی کے ساتھ دل صاف ہو اور یہ بھی ممکن ہے کہ صاف نہ ہو.اگر جسم کی صفائی کے ساتھ دل صاف ہو جاتا ہے تو یہ ایک اتفاقی امر ہے ورنہ دل کی صفائی اور جسم کی صفائی آپس میں لازم ملزوم نہیں.ہاں ! اس سے یہ استدلال ضرور ہوتا ہے کہ دنیا کے تمام نظاموں میں ایک چیز کو قلب کی حیثیت حاصل ہوتی ہے اور دوسری چیزوں کو جوارح کی.اس سے جہاں یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ جسمانی صفائی دل کی صفائی پر منحصر ہے وہاں یہ نتیجہ بھی نکلتا ہے کہ دنیا کے تمام نظاموں میں جس چیز کو دل کی حیثیت حاصل ہوگی باقی.چیزوں کی صفائی اُس کی صفائی پر منحصر ہوگی.ہماری جماعت بھی ایک نظام کے ماتحت ہے.وہ بھی ایک جسم انسانی کے مشابہ ہے.جن چیزوں میں نظام ہوتا ہے وہ ایک دوسرے کا اثر قبول کرتی ہیں.لیکن جن چیزوں میں نظام نہیں ہوتا وہ ان ایک دوسرے کا اثر قبول نہیں کرتیں.مثلاً ایک دیوار ہے دوسری دیوار اس سے سو گز یا ڈیڑھ سو گز کے فاصلہ پر ہے.اب اگر ایک دیوار گر جائے یا اُسے کوئی صدمہ پہنچے تو دوسری کو اس سے کوئی نقصان نہیں پہنچے گا.لیکن اگر دونوں دیواریں ایک مکان کا حصہ ہوں تو ایک کے گرنے سے دوسری کو صدمہ پہنچے گا ، مکان بیکار ہو جائے گا اور وہ نئے سرے سے بنانا پڑے گا.غرض جو چیزیں نظام سے وابستہ ہوتی ہیں اُن کا ایک قلب ہوتا ہے.بالکل اسی طرح جس طرح انسانی جسم میں ایک قلب ہوتا ہے.جب انسانی جسم میں اس کے نظام کو برقرار رکھنے کے لیے قلب کی ضرورت ہے تو جہاں اس قسم کی دوسری چیزیں پائی جائیں گی وہاں بھی یہی قانون جاری ہو جائے گا اور جو چیز بھی انسانی جسم کے مشابہ ہوگی وہاں یہ اصول جاری ہو جائے گا.مثلاً یہی مثال لے لو کہ ایک شخص کافر ہو گیا ہے.وہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان نہیں لاتا.وہ حضرت عیسی علیہ السلام کو خدا کا بیٹا تسلیم کرتا ہے.ایسے شخص کے متعلق قرآن کریم میں جو احکام ملتے ہیں اُس سے ملتے جلتے شخص پر بھی وہی احکام لگیں گے.یہ نہیں کہ وہ احکام صرف ایک عیسائی یا صرف ایک یہودی کے لیے ہیں بلکہ جو بھی ایک عیسائی یا یہودی کی طرح اعمال کرے گا اُس پر وہی احکام جاری ہوں گے.مثلاً مجوسی ہیں اُن پر بھی عیسائیوں اور یہودیوں والے احکام جاری ہوں گے.چنانچہ مجوسیوں کے متعلق حضرت عمرؓ کے زمانہ میں صحابہ نے یہی فیصلہ کیا تھا کہ اُن سے وہی سلوک کیا جائے گا
$1951 122 خطبات محمود جو عیسائیوں سے کیا جاتا ہے.حالانکہ مجوسیوں کے متعلق قرآن کریم میں تفصیلی ذکر نہیں آتا.قرآن کریم ان کا اشاروں میں ذکر کرتا ہے.پس جو چیز بھی انسانی جسم کے مشابہ ہوگی اور جہاں بھی یہ معلوم ہوگا کہ ایک چیز دوسری چیز کے تابع ہے اور وہ ایک دوسری پر اثر انداز ہوتی ہے وہاں یہ ماننا پڑے گا کہ ان دونوں چیزوں کو آپس میں جسم اور قلب کی حیثیت حاصل ہے.وَإِذَا فَسَدَتْ فَسَدَ الْجَسَدُ كُلُّه جب ان کا مرکزی نقطہ خراب ہو جائے گا تو وہ ساری چیزیں خراب ہو جائیں گی جو اُن کے تابع ہوں گی.وَ إِذَا صَلَحَتْ صَلَحَ الْجَسَدُ كُلُّہ اور جب ان کا مرکزی نقطہ صحیح ہو جائے گا تو وہ ساری چیزیں صحیح ہو جائیں گی جو اُن کے تابع ہوں گی.بالکل اسی طرح جس طرح دل کے خراب ہونے سے سارا جسم انسانی خراب ہو جاتا ہے اور اس کے صحیح ہونے سے سارا جسم انسانی صحیح ہو جاتا ہے.مثلاً اسلام کا ایک نقطۂ مرکزی خدا تعالیٰ ہے.پھر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مرکزی نقطہ ہیں.پھر قرآن کریم ایک مرکزی نقطہ ہے.پھر اس زمانہ کی ضرورتوں کے لحاظ سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام ایک نقطہ مرکزی ہیں.پھر خلافت نقطہ مرکزی ہے.پھر ان کے ساتھ مرکز بھی ایک نقطہ مرکزی ہے.ایک زمانہ میں قادیان مرکز تھا اب عارضی طور پر ربوہ مرکز ہے.پھر علاقوں علاقوں کی مرکزی جماعتیں نقطہ مرکزی کی حیثیت رکھتی ہیں اور وہ بیرونی جماعتوں کو متاثر کیے بغیر نہیں رہ سکتیں.بہر حال مرکز میں کوئی خرابی پیدا ہوگی تو بیرونی جماعتیں بھی اس سے متاثر ہوں گی.مثلاً اگر مرکز میں نمازوں میں سستی یا پچستی پیدا ہو جائے تو باہر سے جب کوئی مہمان آئے گا تو وہ یہاں سے کچھ باتیں اخذ کرے گا اور اپنے گاؤں جا کر کہے گا کہ میں نے ربوہ میں دیکھا ہے کہ لوگ نمازوں کے بہت پابند ہیں آپ کیا کر رہے ہیں؟ اس طرح بہت حد تک اس جماعت کے لوگ نمازوں کے پابند ہو جائیں گے.لیکن اگر وہ مہمان مرکز سے بُرا اثر لے کر گیا ہے تو جب کوئی مہمان اٹھ کر لوگوں کو نماز کی پابندی کرنے کی تلقین کرے گا تو وہ شخص کہے گا میں ربوہ میں گیا تھا وہاں بھی لوگ نماز کے پابند نہیں.اس طرح جماعت میں سستی پھیل جائے گی.پس إِذَا فَسَدَتْ فَسَدَ الْجَسَدُ كُلُّهُ وَإِذَا صَلَحَتْ صَلَحَ الْجَسَدُ كُله مرکز وہ جگہ نہیں ہوسکتی جہاں باہر سے لوگ نہ آئیں.اور جب لوگ باہر سے آئیں گے تو نہ اُن کی آنکھیں بند کی جاسکتی ہیں، نہ اُن کے کانوں میں روئی ٹھونسی جاسکتی.
$1951 123 خطبات محمود اور نہ اُن کی زبانیں کائی جاسکتی ہیں.وہ جب آئیں گے وہ دیکھیں گے بھی ، وہ سنیں گے بھی اور وہ اپنے اپنے گاؤں میں واپس جا کر باتیں بھی کریں گے.پس ربوہ پر ویسی ہی ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں جیسی ذمہ داریاں پہلے قادیان پر تھیں اور اب بھی ہیں.بلکہ اب ربوہ کا جماعت پر زیادہ وسیع اثر ہے کیونکہ عارضی طور پر خلافت ربوہ میں آگئی ہے.جب خدا تعالیٰ چاہے گا اور وہ کامیابی اور کامرانی کے ساتھ مسلمانوں کو واپس اُن کے گھروں میں لے جائے گا تو پھر قادیان مرکز بن جائے گا.لیکن جیسا کہ میں نے بتایا ہے اس کے یہ معنے نہیں ہوں گے کہ ربوہ مرکز نہیں رہے گا.ربوہ کیا، ہمیں سینکڑوں اور مراکز کی ضرورت ہے کیونکہ ہر ملک اور ہر علاقہ میں ایک مرکز کا ہونا ضروری ہے.اور اس وقت مختلف ممالک میں بعض جگہیں مراکز کی حیثیت رکھتی ہیں.مثلا گولڈ کوسٹ ( مغربی افریقہ) کے لوگ جب سالٹ پانڈ جاتے ہیں تو کہتے ہیں ہم مرکز میں گئے تھے.ان کے لیے سالٹ پانڈ ہی مرکز ہے کیونکہ انچارج مبلغ وہاں رہتا ہے اور وہیں سے انہیں ہدایات ملتی ہیں.پھر نائیجیریا میں لیگوس کی جماعت بیرونی جماعتوں پر اثر انداز ہوتی ہے کیونکہ وہاں مرکزی مبلغ رہتا ہے اور وہیں سے تمام جماعتوں کو احکام جاری ہوتے ہیں.اب امریکہ میں واشنگٹن کو مرکز کی حیثیت حاصل ہے اور ضروری ہے کہ اُس کا اثر دوسری جماعتوں پر پڑے.انڈونیشیا میں جکارتا جماعت کا مرکز ہے.حکومت کا مرکز بھی وہی ہے.پس لازمی ہے کہ وہاں کی جماعت کی کوتاہیوں یا خوبیوں کا اثر تمام دوسری جماعتوں پر پڑے.لیکن ربوہ کو ان مراکز سے زیادہ حیثیت حاصل ہے.خلافت یہاں ہے اور اُس وقت تک خلافت یہیں رہے گی جب تک کہ ہندوستان میں امن قائم نہیں ہو جا تا ہمیں وہاں تبلیغ کی پوری آزادی نہیں مل جاتی اور ہم دوسرے مسلمانوں کے ساتھ مل کر وہاں امن کی زندگی بسر نہیں کر سکتے.نادان احراری ہم پر اعتراض کرتے ہیں کہ ہمیں قادیان واپس جانے کی خواہش ہے.ان کے ذہن میں یہ بات نہیں آتی کہ مکہ مسلمانوں کا مرکز ہے جو اس وقت اہلِ حدیث کے ماتحت ہے.کیا سنیوں کو وہاں جانے کی خواہش نہیں؟ لیکن ذلّت کے ساتھ زندگی گزارنا اور عزت کے ساتھ کہیں رہنا دونوں برابر نہیں ہو سکتے.ہم ذلت کے ساتھ واپس جانا نہیں چاہتے.ہم اُس وقت واپس جانے کی خواہش رکھتے ہیں جب ہمارے ساتھ دوسرے مسلمانوں کو بھی وہاں مکمل آزادی حاصل ہو گی.
$1951 124 خطبات محمود کیونکہ جہاں تک ہندوؤں اور عیسائیوں کا تعلق ہے وہ ہمیں ویسے ہی مسلمان سمجھتے ہیں جیسے دوسرے مسلمانوں کو.اس لیے یہ شور مچانا محض احمقانہ بات ہے اور یا پھر اس بات کی علامت ہے کہ ان کی ہمتیں ٹوٹ چکی ہیں اور ان کے ارادے پست ہو چکے ہیں.اس لیے وہ اپنی آبائی عزت کو واپس لینا نہیں چاہتے.یا یہ بات محض دشمنی کی وجہ سے ہے کیونکہ انسان عداوت کی وجہ سے ایسی باتیں بھی کر لیتا ہے بلکہ عداوت میں آکر وہ اپنے ماں باپ، بہن بھائیوں اور دوسرے عزیزوں کو گالیاں بھی دے لیتا ہے.پس جب تک ربوہ میں خلافت ہے اسے بہت زیادہ اہمیت حاصل ہے اور یہ اہمیت ساری دنیا پر اثر انداز ہو گی.پھر جب قادیان واپس مل جائے گا تب بھی یہ مرکز رہے گا کیونکہ یہاں اللہ تعالیٰ کے حضور بے شمار دعائیں کی گئی ہیں.مگر اُس وقت یہ اپنے علاقہ کا مرکز ہو جائے گا اور اس کی وہ حیثیت نہیں رہے گی جو اب ہے.گزشتہ سترہ سال سے میں نے تحریک جدید کو جاری کیا ہے اور سب سے پہلے میں نے قادیان کے لوگوں کو مخاطب کیا تھا اور اب میرے سامنے ربوہ کے لوگ بیٹھے ہیں.مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ چند سالوں سے جماعت کی تحریک جدید کی طرف وہ توجہ نہیں رہی جو پہلے تھی حالانکہ کام پہلے سے بیسیوں گنے بڑھ گیا ہے.مبلغوں کی تعداد جو اب ہے اس سے پہلے اس کا بیسواں حصہ بھی نہیں تھی ، جماعت کی جو تنظیم اب ہے اس سے پہلے اس کا بیسواں حصہ بھی نہیں تھی.إِلَّا مَا شَاءَ اللهُ - بعض جگہوں پر جماعت کم ہو گئی ہے ورنہ عام طور پر جماعت بڑھی ہے لیکن ابھی تک ہماری تبلیغ اتنی بھی نہیں جتنا آٹے میں نمک ہوتا ہے.اس وقت ہمارا مخاطب طبقہ دس پندرہ لاکھ کی تعداد میں ہے اور دنیا کی تعداد اڑھائی ارب ہے.ہم نے تو اس تعداد کو دس کروڑ بنانا ہے اور پھر اڑھائی ارب لیکن ہم ابھی سے سو گئے ہیں.جو تعداد ہماری مخاطب ہے وہ اڑھائی ارب میں اڑھائی ہزارواں حصہ بھی نہیں.اتنا حصہ نمک اگر آٹے میں ڈال دیا جائے تو اس کا پتا بھی نہیں لگے گا.مثلاً آدھ سیر آٹا ہو تو آدھ سیر میں چالیس تو لے ہوتے ہیں.اور چالیس تولے میں چار سواتی ماشے ہوتے ہیں.اور چارسوائی میں اڑ میں سو چالیس رتیاں ہوتی ہیں.گویا ہم اگر دنیا کی آبادی کے لحاظ سے اپنی تبلیغ کا اندازہ لگائیں تو اس کے معنے یہ ہیں کہ جس طرح آدھ سیر آٹے میں رتی یا ڈیڑھ رتی نمک ڈالا جائے.
$1951 125 خطبات محمود اگر آدھ سیر آٹے میں رتی ڈیڑھ رتی نمک ڈالا جائے تو اس کا پتا بھی نہیں لگے گا بلکہ اگر اتنی مقدار نمک کی ایک لقمہ میں بھی ڈالی جائے تو وہ زیادہ محسوس نہ ہوگا.لیکن اتنی بات پر ہی ہم میں غفلت پیدا ہو گئی ہے حالانکہ چاہیے تو یہ تھا کہ ہماری تبلیغ زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچتی.پھر یہ بھی سوچو کہ سارے لوگ ہماری بات نہیں مانتے.دس گیارہ لاکھ آدمی کے یہ معنے ہیں کہ ہزار، دو ہزار آدمی ہماری بات مانیں گے باقی لوگ ہمارے مخالف ہو جائیں گے یا بات سن کر اس پر عمل نہیں کریں گے.اگر تمہارا یہی فیصلہ ہے کہ ہماری تبلیغ ساری دنیا میں پھیلے تو دس ہیں یا تمیں ہزار کیا دو تین لاکھ آدمی ہماری باتیں سنیں اور انہیں مانیں تب کام ہوگا.پھر بعض دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ جب کسی علاقہ میں سچائی پھیل جاتی ہے تو سارا ملک کا ملک اُس سچائی کو قبول کر لیتا ہے.حضرت موسی علیہ السلام کے پاس بھی پہلے ایک ایک کر کے آدمی آئے ، حضرت عیسی علیہ السلام کے پاس بھی پہلے ایک ایک کر کے آدمی آئے ، محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس بھی پہلے ایک ایک کر کے آدمی آئے پھر سب لوگ آگئے.اسی طرح اگر ہمارے پاس کسی جزیرہ کے لاکھ دولاکھ آدمی آجائیں اور وہ وہاں کی آبادی کے تمہیں چالیس فیصدی ہو جائیں تو باقی ساٹھ ستر فیصدی ایک دن میں ایمان لے ئیں گے.پھر ایک جزیرہ سے دوسرا جزیرہ متاثر ہوگا اور وہاں کے لوگ ایمان لے آئیں گے.لیکن اُس دن کو لانے کے لیے کوئی معیار تو ہونا چاہیے کہ ہماری تبلیغ اڑھائی ارب لوگوں میں پھیل جائے لیکن ہم دس پندرہ لاکھ سے بھی نیچے اتر رہے ہیں.دفتر سے مجھے روزانہ کا غذات آتے ہیں کہ فلاں کام کو بند کر دیا جائے، فلاں محکمہ کو توڑ دیا جائے کیونکہ اب سارا کام قرضہ پر چل رہا ہے.میں سمجھتا ہوں کہ اس میں سب سے بڑی ذمہ داری مرکز پر آتی ہے.قادیان باقی دنیا سے پوشیدہ ہے وہ صرف اب ہندوستان کا مرکز ہے.وہ اب بور نیو، ملایا ، سماٹرا، جاوا، سلیبس 2 ، انگلینڈ، جرمنی ، ہالینڈ ، سوئٹزرلینڈ ، امریکہ ، ایسٹ افریقہ یعنی ٹانگانیکا، کینیا کالونی اور یوگنڈا، مغربی افریقہ یعنی گولڈ کوسٹ، نائیجیریا، سیرالیون، عراق، شام، عرب، فلسطین، پاکستان اور سیلون وغیرہ کے سامنے نہیں.پس ہمیں مرکز کو پکڑنا چاہیے اور ہمیں مرکز میں کام اس قدر مکمل کر لینا چاہیے کہ ہم باہر کی جماعتوں کو چیلنج کر سکیں کہ مرکز نے اپنے اندر اس قدر تبدیلی پیدا کرلی ہے تمہیں بھی اپنے اندر تبدیلی پیدا کرنا چاہیے.ہمیں اپنی تحریکوں میں جو کامیابی ہوئی ہے اس کی بڑی وجہ یہی تھی کہ مرکز پکا ہوتا تھا.اور جب مرکز پکا ہوتا.
خطبات محمود 126 $1951 تو پھر کہنے کی ضرورت باقی نہیں رہتی لوگ خود بخود اپنے اندر بیداری پیدا کر لیتے ہیں.جلسہ تو اتوار کو ہے لیکن شاید بیماری کی وجہ سے مجھے وہاں آنے کا موقع نہ ملے.اس لیے میں اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے آپ لوگوں کو اس طرف توجہ دلاتا ہوں ربوہ کی تمام مجلسیں، ادارے، پریذیڈنٹ صاحبان، سیکرٹری مل کر ایسی کوشش کریں کہ ہر مرد اور عورت جس کے لیے مادی لحاظ سے تحریک جدید میں حصہ لینا ممکن ہے وہ اس میں حصہ لے اور پھر اپنے وعدہ کو جلدی سے پورا کرے.اور یہ بھی ہو سکتا ہے جب باقی شرائط کو بھی پورا کیا جائے.میں نے دیکھا ہے کہ باقی شرائط پر ہمارے گھر میں بھی اب پوری طرح عمل نہیں ہو رہا.اور وہ شرائط سادہ زندگی بسر کرنا، فضول خرچی سے بچنا، زیورات اور کپڑوں پر زیادہ خرچ نہ کرنا، ایک سالن کھانا، سینما اور تماشوں میں نہ جانا.ہمیں پہلے یہ شکایت نہیں تھی کہ جماعت کے نو جوان سینماؤں میں جاتے ہیں لیکن اب بعض اوقات ایسی شکایات ملتی ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ سارے تو نہیں لیکن ایک تعداد نو جوانوں کی سینماؤں میں جاتی ہے.اگر سولڑ کا سینما میں جائے اور چار چار آنہ کا بھی ٹکٹ ہو تو تین سو روپیہ سالانہ ہمارا اس طرح ضائع ہوتا ہے.اگر یہ روپیہ تحریک میں جاتا تو اس سے عظیم الشان فائدہ ہوتا.پھر کھانے میں صحیح طور پر بچت کی جائے تو پانچ چھ روپے ماہوار کی بچت ہو جاتی ہے اور ایک غریب سے غریب آدمی بھی اٹھنی ماہوار بچا لیتا ہے.اب اگر ٹھتی ماہوا کا بھی اندازہ رکھا جاے تو کتنی بچت ہوسکتی ہے.اگر جماعت کا ہر بچانے والا اٹھنی ماہوار بھی بچالے اور اس کا نصف بھی تحریک میں دے تو لاکھوں روپے کی آمد ہوسکتی ہے.اگر ایک ایک آنہ بھی ماہوار آئے تو موجودہ بجٹ سے پچھتر ہزار روپیہ زیادہ کی آمد ہو سکتی ہے.ہر چیز کے لیے کوئی نہ کوئی رستہ ہوتا ہے اور اُسی رستہ کے ذریعہ اُس چیز کو حاصل کیا جاسکتا ہے.قرآن کریم میں آتا ہے وَأتُوا الْبُيُوتَ مِنْ اَبْوَابِهَا 3 یعنی گھروں میں دروازوں کے رستہ داخل ہو.اگر تم دیوار میں پھاند کر اندر داخل ہونا چاہو گے تو یہ طریق درست نہیں ہوگا.اگر تم تلوار چلانا اور ہتھیار سے کام لینا سیکھو نہیں اور دفاع اور حملہ کے طریق نہ سیکھو بلکہ یونہی سینہ تان کر دشمن کے سامنے چلے جاؤ اور وہ تمہیں گولی مار کر ہلاک کر دے تو اس سے ملک کو کیا فائدہ ہوگا؟ اس سے تمہاری قوم کو کیا فائدہ ہوگا؟ اگر چھوٹی سے چھوٹی تلوار بھی ہو، چاقو ہو یاڈنڈا ہی ہو اور اُس سے کام لینے کا فن تمہیں آتا ہو تو تم قوم کے لیے مفید وجود بن سکتے ہو.لیکن اگر تمہیں تلوار یا لاٹھی چلانا نہیں آ :
$1951 127 خطبات محمود تو سوائے عورتوں کی طرح بیٹھنے اور بددعائیں دینے کے تم کر ہی کیا سکتے ہو؟ یا یہ کہ دس بارہ ہزار کی 3 تعداد میں جمع ہو کر چند نعرے مارلو گے کیا اس سے کام ختم ہو جائے گا؟ یا اگر احرار کے ٹائپ کے لوگ ہوں گے تو وہ احمد یوں کو گالیاں نکال لیں گے اور کہہ دیں گے ان کا بیڑا غرق ہو اور وہ سمجھ لیں گے کہ جونہی انہوں نے کہا کہ احمدیوں کا بیڑا غرق ہو اسلام عرش پر پہنچ جائے گا.یہ سب لغو باتیں ہیں جن سے بچنا چاہیے.اور میں دیکھتا ہوں کہ آجکل لوگ اپنے خون کے ساتھ دستخط کر رہے ہیں.مجھے یہ خبریں سن کر ہنسی آجاتی ہے.میں چند دن ہوئے اپنا خون ٹیسٹ کروانے کے لیے لاہور ہسپتال میں گیا تھا.انہوں نے میری پانچوں انگلیوں سے اس قدر خون نکالا کہ اُس سے چالیس دستخط ہو سکتے تھے.خون سے دستخط کرنے سے کیا انسان میں بہادری آ جاتی ہے؟ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سنایا کرتے تھے کہ ایک بیوقوف بادشاہ تھا.اُس کے درباریوں نے اُسے مشورہ دیا کہ فوج پر اتنا خرچ ہورہا ہے اس کی کیا ضرورت ہے؟ انہیں فارغ کر دیا جائے.جب لڑائی ہو گی قصائیوں کو بلا لیا جائے گا اور وہ اس کام کو سر انجام دیں گے.بادشاہ نے خیال کیا کہ چلو یہی روپیہ عیاشی میں خرچ کرلوں گا.اُس نے فوج کو توڑنے کے احکام صادر کر دیئے اور قصائیوں کو بلا کر انہیں حکم دیا کہ وہ ملکی دفاع کریں.جب اردگرد کے بادشاہوں کو اس کی حماقت کا علم ہوا تو انہوں نے ملک پر فوج کشی کر دی.بادشاہ نے تمام ملک کے قصائیوں کو حکم دیا کہ وہ دشمن کا مقابلہ کریں.قصائی اپنی چھریاں تیز کر کے باہر نکلے.وہ دودو، تین تین مل کر اور پینترے بدل کر ایک سپاہی کو پکڑتے اور اُس کو قبلہ رُخ لٹا کر بِسمِ اللهِ اللهُ اَكْبَر کہہ کر اُس کا گلا کاٹتے.انہوں نے دس پندرہ آدمیوں کو ہی مارا ہوگا کہ دشمن نے اُن کے پندرہ بیس فیصدی آدمیوں کو قتل کر دیا.یہ دیکھ کر وہ سب دوڑتے ہوئے دربار میں حاضر ہوئے اور فریاد! فریاد! فریاد! پکارنے لگے.بادشاہ نے کہا کیا ہوا؟ انہوں نے کہا بادشاہ سلامت ! بالکل بے انصافی ہو رہی ہے.ہم تو دو تین مل کر بڑی اُستادی کے ساتھ ایک سپاہی کو پکڑتے اور اُس کو قبلہ رُخ لٹا کر ذبح کرتے ہیں لیکن وہ بے قاعدہ ہمیں قتل کرتے ہی چلے جارہے ہیں.اتنے میں دشمن کی فوج آگئی اور انہوں نے بادشاہ کو قید کرلیا.غرض جو کام قاعدہ کے مطابق کیے جاتے ہیں وہی صحیح ہوتے ہیں.نعرہ ہائے تکبیر بلند کرنے سے کام نہیں ہوتا اور نہ ہی خون کے ساتھ دستخط کرنے سے کسی جرأت کا اظہار ہوتا ہے
$1951 128 خطبات محمود کسی بُز دل سے بُز دل آدمی کو میرے پاس لے آؤ میں اُس کے خون کے ساتھ ایک کیا کئی دستخط کروا دوں گا.خون کے نکالنے سے کیا تکلیف ہوتی ہے.نلکی لگائی اور خون نکال لیا.ایک دفعہ جتنا خون سوئی کے ساتھ باہر آجاتا ہے اُس سے چالیس دستخط ہو سکتے ہیں.کام فن سیکھنے سے ہوتا ہے.بجائے اس کے کہ تم دس دس ہیں ہمیں ہو کر خون کے ساتھ کھیلو پچاس یا سو آدمی آ کر یہ کہو کہ ہم نے جنگی کام کی پوری سکھلائی کرلی ہے تم ہمارا ٹیسٹ لے لو تو تمہارا کام قدر کی نگاہ سے دیکھا جا سکتا ہے.خالی خون سے دستخط کرنا نہایت لغو چیز ہے.یہ کام دونوں طرف ہو رہا ہے.ہندوستان میں بھی مہا سبھائی اور سنگھ والے معاہدات پر خون کے ساتھ دستخط کر رہے ہیں اور پاکستان میں بھی بعض لوگوں کے متعلق معلوم ہوا ہے کہ انہوں نے معاہدہ پر خون کے ساتھ دستخط کیے ہیں.حالانکہ یہ نہایت معمولی بات ہے.ایک شخص کا خون نکال کر بغیر اس کے کہ اُسے اس بات کا احساس ہو پچاس دستخط کیے جا سکتے ہیں.پرانے زمانہ میں فصد 4 لینے کا رواج تھا اور فصد میں آدھ آدھ سیر خون نکلوا دیا جاتا تھا اور آدھ سیر خون سے لاکھوں دستخط کیے جا سکتے ہیں.حکماء لوگوں کو یہ مشورہ دیتے تھے کہ موسم بہار کے شروع ہونے سے پہلے پہلے فصد لے لینی چاہیے تا اس موسم کا جسمانی صحت پر کوئی اثر نہ ہو.اور یہ فصد بادشاہ بھی نکلواتے تھے ، وزیر بھی نکلواتے تھے اور عوام بھی نکلواتے تھے.جالینوس نے بھی اپنی کتابوں میں فصد پر زور دیا ہے اور بوعلی سینا نے کی بھی فصد پر زور دیا ہے.اگر یہ ایسی خطرناک بات ہوتی تو ایک گھٹیا سے گھٹیا اور بُز دل سے بُزدل آدمی فصد کیوں نکلوا تا؟ خون کے ساتھ دستخط کرنے کا جرات کے ساتھ کوئی تعلق نہیں.جرات کا تعلق ارادہ اور عزم کے ساتھ ہوتا ہے.اگر تم آ کر یہ بتاتے ہو کہ ہم نے دشمن کا مقابلہ کرنے کے لیے تیاری کرلی ہے اور ایک گھنٹہ روزانہ خرچ کر کے دوسال میں ٹرینینگ مکمل کر لی ہے تو یہ بات بیشک قابل قدر ہوگی ورنہ نعرے مار لینا یا خون کے ساتھ دستخط کر دینا ملک اور قوم کے لیے کسی صورت میں بھی مفید نہیں ہوسکتا.یہ بالکل لغو چیزیں ہیں.اور اگر دنیا ایسا کرتی ہے تو اُسے کرنے دو.تم لغو باتوں سے الگ ہو جاؤ.اور خواہ ملک کے لیے قربانی کا سوال ہو یا مذہب کے لیے وہ راستہ قربانی کا اختیار کرو جو خدا تعالیٰ نے مقرر کیا ہے.نہ نعرے ملک کے کام آتے ہیں، نہ وعدے دین کے کام آتے ہیں، ٹیکسوں کا صحیح ادا کرنا اور دفاع کے اصول سیکھنا ملک کے لیے
$1951 129 خطبات محمود ضروری ہے.اور چندوں کے وعدے کرنا اور پھر وقت پر ادا کرنا اور نیک نمونہ تبلیغ دین کے لیے ضروری ہے." تم میں سے بعض جب غیر احمدیوں سے بات کرتے ہیں تو اُن کے منہ سے جھاگ آنے کی لگتی ہے کہ ہم نے فلاں ملک میں تبلیغ کی ہے، فلاں ملک میں مبلغ بھیجے ہیں حالانکہ انہوں نے تحریک جدید میں پانچ روپے کا حصہ بھی نہیں لیا ہوتا.جس شخص نے سو روپیہ دیا ہوتا ہے وہ تو خاموش رہتا ہے لیکن جس نے اس میں سرے سے حصہ ہی نہیں لیا ہوتا وہ جب کسی غیر احمدی سے بات کرتا ہے تو اُس کے منہ سے جھاگ آنے لگتی ہے.اگر یہ بات واقعی اچھی اور قابل فخر ہے کہ جماعت نے غیرممالک میں مشن کھولے ہیں جن کے ذریعہ اسلام کی تعلیم کو پھیلایا جا رہا ہے تو تم تکلیف اُٹھا کر بھی تحریک جدید میں حصہ لو.یہ کوشش کرو کہ سوائے اشد معذور پن کے سب لوگ اس میں حصہ لیں.کوئی ایسا آدمی جو مالی لحاظ سے اس تحریک میں حصہ لینے کے قابل ہے اس سے پیچھے نہ رہے.اور پھر باہر کی جماعتوں میں اپنا نمونہ پیش کرو.میں نے اپنے گھر کے افراد کو چیک کیا ہے اور مجھے معلوم ہوا ہے کہ پچھلے تین سالوں سے ہمارے خاندان کے افراد کی طرف سے بھی چندہ تحریک جدید کی وصولی کم ہوئی ہے.گو اس بات کا آپ کو پتا نہیں لیکن مشہور ہے ” دل کو دل سے راہ ہوتی ہے.خاندان مسیح موعود کے دلوں کا ربوہ کی جماعت کے دلوں پر اثر پڑا اور انہوں نے بھی سستی کی اور پھر اِذَا فَسَدَتْ فَسَدَ الْجَسَدُ كُلُّه جب مرکزی خرابی ہوئی دوسروں پر بھی اس کا اثر ہوا.پس تم کو کم سے کم جو چیز سامنے ہو اُس کی تو تنظیم کر لینی چاہیے اور یہ کوئی مشکل امر نہیں.اگر آپ اپنی مکمل تنظیم کر لیں تو پھر آپ دوسری جماعتوں کو کہہ سکتے ہیں کہ ہم سب مہاجر ہیں.شاذ و نادر ہی ہم میں سے کوئی مقامی ہو، اگر ہم اتنی قربانی کر سکتے ہیں تو آپ کیوں نہیں کر سکتے ؟ ہم نے کام کو بڑھانا ہے گرانا نہیں.مگر اسے گرنے سے بچانا زیادہ مقدم ہے.بچہ پیدا کرنے کے لیے تم کیا کیا جتن نہیں کرتے.کئی احمدی دوا فروش حَبّ اٹھرا بیچ رہے ہیں.اب کوئی شخص حَبّ اٹھرا خریدے اور اُدھر بچے کا گلا گھونٹ دے تو اُسے کون عقلمند خیال کرے گا.جب وہ حَبّ اٹھرا پر رقم خرچ کرتا ہے تو اس کے معنے یہ ہیں کہ وہ بچہ کو بچانا چاہتا ہے.یہ نہیں کہ ایک طرف وہ حَبّ اٹھرا خریدے اور دوسری طرف وہ بچہ کا گلا گھونٹ دے.پس اگر یہ بات سچی ہے کہ
$1951 130 خطبات محمود تم لوگ تمام دنیا کو مسلمان بنانا چاہتے ہو تو ضروری ہے کہ اگر تمہارا مخاطب دس بارہ لاکھ کا طبقہ تو اُسے کروڑ تک پہنچا دو.اگر تمہاری قربانی یہ نتیجہ پیدا نہیں کرتی تو تمہارا دعوای یقیناً جھوٹا ہے اور تم ساری دنیا کو ہرگز مسلمان نہیں کر سکتے“.الفضل 15 ستمبر 1951ء) 1 بخاری کتاب الایمان باب فَضْلِ مَنِ اسْتَبْرَأَ لِدِينِهِ 2 : سلیبس (Celebes) انڈونیشیا کا جزیرہ جو عام طور پر Sulawesi کے نام سے بھی جانا جاتا ہے.( وکی پیڈیا آزاد دائرہ معارف زیر لفظ "Celebes اور’Sulawesi‘) 3 : البقرة: 190 4 فصد : رگ سے خون نکالنا ( فیروز اللغات اردو جامع فیروز سنز لاہور )
$1951 131 (19 خطبات محمود خدا تعالیٰ کے رنگ کو اختیار کرو اور اُس کا رنگ یہ ہے کہ وہ جو کہتا ہے اُسے پورا کر کے چھوڑتا ہے (فرمودہ 7 ستمبر 1951ء بمقام ربوہ ) تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: پچھلا ہفتہ تحریک جدید کا ہفتہ تھا.اتوار کے دن ساری احمدی جماعتوں یا اکثر جماعتوں نے اپنی اپنی جگہ جلسے کیے اور تحریک جدید کے مختلف مقاصد کے متعلق لیکچر دیئے.لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ان جلسوں سے وہ عقدہ حل ہو گیا جس کے حل کی فکر میں ہم تھے؟ کیا ان جلسوں کی وجہ سے جماعت میں بیداری پیدا ہوگئی ہے؟ اور جنہوں نے غفلت، سستی اور لا پرواہی کی وجہ سے چندہ کی ادائیگی کی کوشش نہیں کی تھی یا انہوں نے اس طرف توجہ نہیں کی تھی کیا انہوں نے چندے ادا کر دئیے اور ہمارے کام کی مشکلات دور ہوگئیں؟ اگر تو ان جلسوں سے یہ نتیجہ نکلا ہے کہ جماعت کے ان لوگوں نے جنہوں نے ابھی تک وعدے ادا نہیں کیسے تھے انہوں نے وعدے ادا کر دئیے ہیں تب تو یہ بڑی خوشی کی بات ہے کہ جماعت کے اندر ہوشیاری اور بیداری پیدا ہو گئی ہے.اور اگر جلسے ہوئے اور ان میں تقریریں ہوئیں جیسا کہ مجھے کئی جماعتوں سے چٹھیاں وصول ہوئی ہیں کہ دھواں دھار اور شاندار تقریریں ہوئیں میں
$1951 132 خطبات محمود نے تین گھنٹہ دھواں دھار تقریر کی اور فلاں نے اڑھائی گھنٹے تقریر کی لیکن اس کا نتیجہ کوئی نہیں نکلا تو یہ تقریریں میرے لیے خوشی کا پیغام نہیں لا ئیں.بلکہ رنج کا پیغام لائیں کہ جماعت کے لوگ اس قدر سُست ہو گئے ہیں کہ انہیں دھواں دھار تقریریں بھی بیدار نہیں کر سکیں.یا ان تحریروں اور رپورٹوں کا میں یہ مطلب نکال سکتا ہوں کہ یہ محض حسنِ ظنی ہے کہ تقریریں ہوئیں ورنہ نہ کوئی اڑھائی گھنٹہ تقریر ہوئی ہے اور نہ دھواں دھار اور شاندار تقریر ہوئی ہے.یونہی پھپھی اور بد دل کرنے والی باتیں کی گئیں ہیں.غرض میں صرف دو نتیجے نکال سکتا ہوں کہ یا تو دھواں دھار تقریریں نہیں کی گئیں صرف رپورٹوں کے کاغذوں کو سیاہ کیا گیا ہے.اور یا پھر یہ کہ جماعت میں ایسے لوگ پیدا ہو گئے ہیں (جو) تھوڑے بہت تو ہر جگہ ہوتے ہیں اور ہر زمانہ میں ہوتے ہیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں بھی ایسے لوگ تھے ) اور ان کی اتنی تعداد ہوگئی ہے کہ ان کی کمزوری کی وجہ سے اب تحریک جدید کا چلنا قریباً ناممکن ہو گیا ہے.اور یہ دونوں نتائج نہایت تکلیف دہ ہیں.یہ کہہ دینا کہ جماعت کے سات، آٹھ فیصدی طبقہ میں سستی پیدا ہوگئی ہے جو تحریک جدید میں جا کر پچاس ساٹھ فیصدی ہوگئی ہے یہ بڑی خطرناک چیز ہے.اس کے معنے یہ ہوں گے کہ تحریک جدید میں وعدہ کرنے والے سب مخلص نہیں بلکہ جماعت کا کمزور طبقہ محض دکھاوے کی خاطر اس میں وعدہ کر دیتا ہے.یہ کتنی خطرناک بات ہے.یا پھر یہ بات ہے کہ رپورٹ کرنے والوں نے سچائی سے کام نہیں لیا.تقریریں کرنے والے جلسہ میں آئے اور تقریریں کر کے چلے گئے اور چندہ کی وصولی یا وصولی کے معتین وعدے نہیں لیے اور جماعت میں قربانی اور ایثار کا مادہ پیدا نہیں ہوا.اس قسم کے جلسوں کا بھلا فائدہ ہی کیا ہے.جو دھواں دھار تقریریں ہوا کرتی ہیں وہ دلوں کو ہلا دیتی ہیں اور اُن کے نتیجہ میں انسان اپنے اندر تبدیلی محسوس کرتا ہے.یہ جلسے اس لیے کیے گئے تھے کہ جن لوگوں نے سستی اور غفلت کی وجہ سے ابھی تک وعدے ادا نہیں کیے انہیں کہا جائے کہ اگر تم اب وعدے ادا نہیں کرو گے تو کب کرو گے؟ اگر تم نے ابھی تک وعدہ نہیں کیا یا اس کی ادائیگی میں سستی کی ہے تو اس سے جماعت کو کیا؟ خواہ تم فاقہ کرو، تکلیف برداشت کرو اس وعدہ کو ادا کرو.جن کے پاس رقوم ہیں وہ ابھی ادا کر دیں اور جن کے پاس اب گنجائش نہیں وہ وعدہ کریں کہ جلد سے جلد کس دن ادا کر دیں گے.اگر اس طرح کیا گیا ہے تب تو جلسہ کا کوئی مطلب ہو اور نہ خالی تقریریں کسی کام کی نہیں.
خطبات محمود 133 $1951 بعض دفعہ تقریر کرنے والا سمجھتا ہے کہ اُس نے دھواں دھار تقریر کی ہے حالانکہ وہ دھواں دھار تقریر ہی کیا جس کے نتیجہ میں نہ کسی نے وعدہ کیا اور نہ کسی نے اپنا وعدہ پورا کیا.وہ خالی دھواں ہو سکتا ہے جس کے تلے آگ نہیں.وہ محض مٹی اور غبار تھا جو اُڑا اور نہ جہاں آگ لگی ہو وہاں عشق کے آثار پیدا ہو جاتے ہیں.یہ کبھی نہیں ہوسکتا کہ حقیقی دھواں ہو اور پھر اُس کے نیچے آگ نہ ہو.یہ کبھی نہیں ہوسکتا کہ تمہارے اندر آگ ہو اور تمہارا ہمسایہ اُس سے کوئی اثر قبول نہ کرے.اگر تمہارے گھر کو آگ لگتی ہے تو اول تو تمہارے ہمسایہ کا گھر بھی جل جاتا ہے ورنہ وہ جھلستا ضرور ہے.اس رح اگر تمہارے دل میں آگ لگی ہوئی ہے تو تمہارے ہمسایہ کے اندر بھی آگ لگ جائے گی.اگر آگ نہیں لگتی تو وہ بیتاب ضرور ہو جائے گا.پس اگر ان تقریروں کے نتیجہ میں سننے والوں کے اندر آگ نہیں لگی تو پھر یہ کس قسم کی دھواں دھار تقریریں تھیں؟ نہ تو وہاں دھواں نظر آتا ہے، نہ دھار نظر آتی این ہے صرف زیب داستاں کے لیے رپورٹیں بھیج دی جاتی ہیں.اس کے یہ معنی نہیں کہ ساری جماعتوں نے ایسا کیا ہے.ان رپورٹوں میں سے جو میرے پاس آئی ہیں بعض ایسی بھی ہیں جو بہت خوش گن ہیں.جماعت کے دوستوں کو بلا کر اُن پر زور دیا گیا ہے کہ وعدے ادا کرو اور اگر وعدے نہیں کیسے تو آب وعدے کر و اور یہ وعدے جلد ادا کرو.غرض ان سے معین صورت میں وعدے لیے گئے ہیں.لیکن نصف کے قریب رپورٹیں ایسی ہیں جن میں صرف قلم سے لکھ دیا گیا ہے کہ دھواں دھار تقریریں کی گئیں لیکن نہ اُن میں دھواں تھا اور نہ دھار تھی.ان کے نتیجہ میں نہ کسی نے وعدہ کیا اور نہ کسی نے وعدہ ادا کیا.حالانکہ چاہیے یہ تھا کہ جماعت کے دوستوں کو بلا کر اُن سے پوچھا جاتا کہ وہ وعدے کب ادا کریں گے؟ دس دن کے بعد ادا کریں گے یا پندرہ دن کے بعد ادا کریں گے؟ اور اگر وہ کہتے کہ ہمیں تکلیف کی ہے تو انہیں کہا جاتا تم نے یہ مشکل خود اپنے لیے پیدا کی ہے.اگر پہلے سے اس طرح توجہ کرتے تو یہ مشکل پیدا نہ ہوتی.اب اگر تم تکلیف میں پڑ گئے ہو تو اس کی سزا تمہیں بھگتنی پڑے گی اس کی سزا سلسلہ کیوں بھگتے ؟ اگر ایسا کیا جاتا تو لازمی بات تھی کہ اس کا نتیجہ فورا نکلتا.لیکن بعض لوگوں کی طبائع ایسی ہوتی ہیں کہ وہ اپنی تعریف آپ کرنا چاہتے ہیں اور کہہ دیتے ہیں کہ ہم نے وہ وہ دلائل دیئے ہیں، ہم نے وہ وہ باتیں کی ہیں کہ کسی کے خواب و خیال میں بھی نہیں آ سکتیں اور اس طرح وہ اپنی تعریف کے پل باندھ دیتے ہیں.لیکن وہ سب دلائل اور باتیں رطب و یابس ہوتی ہیں.
خطبات محمود 134 $1951 بعض طبائع ایسی ہوتی ہیں کہ وہ دھواں دھار تقریریں کر ہی نہیں سکتیں.مولوی شیر علی صاحب بڑے مستعد اور کام کرنے والے آدمی تھے.وہ دن رات جاگتے اور سلسلہ کے کام سرانجام دیتے لیکن اُن کی طبیعت میں جوش نہیں تھا.ان میں پارہ والی کیفیت پیدا نہیں ہوتی تھی.ایک دفعہ میں نے کوئی ضروری مضمون لکھنا تھا لیکن میں بیمار ہو گیا.میں نے مولوی صاحب کو بلایا اور کہا کہ آپ اس اس طرح ایک مضمون لکھیں اور جماعت کے اندر جوش پیدا کریں.چنانچہ انہوں نے ایک مضمون لکھ دیا اور میں نے چھپنے کے لیے بھی دے دیا لیکن وہ پڑھ کر مجھے بہت ہنسی آئی کہ وہ جوش دلانے والا نہ تھا.البتہ ہر دسویں فقرہ کے بعد یہ لکھا ہوا ہوتا تھا میں تمہیں زور سے کہتا ہوں“.پس بعض طبائع ایسی بھی ہوتی ہیں.لیکن بعض لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں کہ وہ مفت میں تعریف کرانے اور انعام حاصل کرنے کا شوق رکھتے ہیں.کوئی ایک آدھ بات کریں گے اور کہہ دیں گے کہ میں نے دھواں دھار تقریر کی.دھوئیں سے تو رونا آتا ہے.کیا تمہاری تقریر سے سامعین کی آنکھوں میں آنسو آ گئے تھے؟ پھر آنکھوں سے پانی گرتا ہے کیا سامعین عرق ندامت سے بھیگ گئے تھے؟ اور اگر ایسا ہوتا اور سامعین کو کہہ دیا جاتا کہ وہ اب خواہ کوئی چیز بیچیں لیکن وعدہ کو ضرور ادا کریں اور پھر ایک حد تک وعدے ادا ہو جاتے تو ہم سمجھتے کہ تقریر دھواں دھار تھی.لیکن ان تقریروں کے نتیجہ میں نہ تو کسی کی آنکھوں میں آنسو آئے اور نہ کسی کو ندامت کی وجہ سے پسینہ آیا.جیسے لوگ ہنستے ہوئے آئے تھے ویسے ہی ہنستے ہوئے چلے گئے.نہ کسی نے جیب سے پیسہ نکالا اور نہ اپنے اندر تبدیلی پیدا کرنے کا وعدہ کیا.پھر دھواں دھار کیا ہوا؟ مفت میں تعریف حاصل کرنا کوئی چیز نہیں.قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے الِمَ تَقُولُونَ مَا لَا تَفْعَلُونَ 1 تم وہ بات کیوں کہتے ہو جو کرتے نہیں.میں سمجھتا ہوں کہ بہت سی ذمہ داری کارکنوں پر ہے کہ انہوں نے جماعت کے افراد کو صحیح رستہ پر لانے کی کوشش نہیں کی.جلسہ کی غرض یہ تھی کہ وہ لوگوں کو اُن کی غلطی کا احساس کرا دیتے اور انہیں نادم کرتے اور اس کے بعد وعدے وصول کرتے.اور اگر دس پندرہ فیصدی وعدے بھی ادا ہو جاتے تو مجھے خوشی ہوتی.انہوں نے خدا تعالیٰ کو نو ماہ تک ناراض کیا ہے.اگر وہ اسے جلدی خوش نہیں کرتے تو عدے کا فائدہ ہی کیا تھا؟ اگر ان جلسوں سے ہمیں کوئی فائدہ ہوتا تو وہ تقریریں دھواں بھی رکھتی تھیں
$1951 135 خطبات محمود اور دھار بھی رکھتی تھیں لیکن ہوا یہ کہ جس طرح لوگ جیبیں بند لائے تھے اُسی طرح بند جیبیں لے کر وہ واپس چلے گئے.بعض جگہوں پر کارکن کھڑے ہوئے اور انہوں نے اچھل اچھل کر تقریر کر دی لیکن میں سمجھتا ہوں کہ جو کچھ ہوا اس کا اکثر حصہ عبث ہوا.تم تبلیغ کرنے نہیں گئے تھے تم فرض شناسی کی طرف توجہ دلانے گئے تھے.تبلیغ میں تو بعض دفعہ سالوں انتظار کرنا پڑتا ہے اور پھر کوئی نتیجہ نکلتا ہے لیکن فرض شناسی میں پندرہ سولہ منٹ کی دیر بھی نہیں لگتی.تم اگر کسی دہریہ کو کہو گے کہ نماز پڑھو تو وہ پہلے خدا تعالی پر ایمان لائے گا، پھر رسول پر ایمان لائے گا اور پھر نماز کا اسے پتا لگے گا.لیکن اگر تم کسی مسلمان بچہ کو کہو گے نماز پڑھو تو تم ایک دفعہ نصیحت کرو گے اور وہ عمل کرنے لگ جائے گا اور یا پھر تم اُس کو تھپڑ مارو گے کہ مسلمان بچے ہو کر نماز کیوں نہیں پڑھتے؟ تم نے احمدیوں سے وعدے پورے کروانے تھے یورپین، ہندوؤں، چینیوں، زرتشتیوں یا جاپانیوں سے وعدے پورے نہیں کروانے تھے.اگر تم نے یورپین ، ہندوؤں ، چینیوں، زرتشتیوں یا جاپانیوں سے وعدے پورے کروانے ہوتے تو پھر بیشک انتظار کی ضرورت تھی لیکن یہ جلسے تو تربیتی جلسے تھے.ان کا نتیجہ اسی وقت نکل آنا چاہیے تھے.آخر جو احمدی کہلاتا ہے وہ ایک مکان کی اینٹ بن چکا ہے، وہ زنجیر کا ایک حصہ بن چکا ہے، اُس نے بیعت کرتے ہوئے وعدہ کیا ہے کہ میں دین کو دنیا پر مقدم رکھوں گا، میں دین کے لیے جان و مال اور عزت سب کچھ قربان کر دوں گا.اُس کا چندہ ادا نہ کرنا محض سستی ہے اور کچھ نہیں.چاہیے تھا کہ کہا جا تا نو ماہ تک تم نے ستی کی ہے اب تم بیدار ہو جاؤ اور وعدہ ادا کر دو.اگر اب ادا ئیگی میں تمہیں کوئی مشکل نظر آتی ہے تو اس کو برداشت کرو.سستی اور غفلت کی سزا تمہیں بھگتنی چاہیے نہ کہ سلسلہ کو.یہ چیز تھی جو اُس جلسہ کی غرض تھی ورنہ محض دھواں دھار تقریروں سے جن کا کوئی اثر نہ ہو کیا بنتا ہے؟ مجھے معلوم ہوتا ہے کہ جتنی رپورٹیں میرے پاس آئی ہیں ان میں سے اکثر محض زیب داستان کے لیے تھیں اور شاید اگلے ماہ مجھے جلسہ کی پھر ضرورت ہو گی.یہ جلسہ دھواں دھار تقریریں کرنے کے لیے نہیں ہوگا بلکہ اس جلسہ میں جماعت کے دوستوں کو کہا جائے گا کہ یا تو اتنی رقم یہاں رکھ دو اور یا دس پندرہ دن تک ادا کرنے کا وعدہ کرو.یہ دین کا کام ہے جو باقی سب کاموں پر مقدم ہے.اور اگر آپ لوگوں کو ادائیگی میں کوئی تکلیف برداشت کرنی پڑتی ہے تو وہ تکلیف تمہیں برداشت کرنی پڑے گی.تحریک جدید کے وعدوں کو ادا کرنے کے ذرائع بھی بتائے گئے ہیں
$1951 136 خطبات محمود کہ اِس اِس طرح زندگی بسر کرو.تو اتنی گنجائش اخراجات سے نکل آئے گی کہ آپ وعدہ ادا کر سکیں گے.بیشک بعض لوگ ایسے بھی ہیں کہ انہوں نے اتنا وعدہ کیا ہے کہ وہ اب اُسے ادا نہیں کر سکتے.ایسے لوگ سات آٹھ ہزار وعدہ کرنے والوں میں سے سو ڈیڑھ سو ہوں گے.بیشک ان لوگوں نے اتنی رقم کا وعدہ کیا تھا کہ وہ اسے ادا نہیں کر سکتے لیکن میں نے دیکھا ہے کہ ان میں سے بھی دس بارہ فیصدی لوگوں نے سُستی کی ہوگی ورنہ اکثر لوگوں نے وعدے ادا کر دیئے ہیں.ہم جانتے ہیں کہ یہ لوگ ہمیشہ زیادہ وعدہ کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ انہیں وقت کے اندر ادا کرنے کی توفیق بھی دے دیتا ہے.زیادہ تر نادہندگان اُن میں سے ہیں جنہوں نے ہمیشہ اپنی حیثیت سے کم وعدے کیسے ہیں کیونکہ ایک بدی دوسری بدی پیدا کرتی ہے.جب انسان پوری قربانی نہیں کرتا تو خدا تعالیٰ کے فرشتے اُس میں زور اور طاقت پیدا نہیں کرتے.استثنا ہر جگہ ہوتا ہے.جن لوگوں نے اپنی حیثیت سے کم وعدے کیے ہیں ان لوگوں میں سے بھی بعض نے وعدے پورے کر دیئے ہیں اور کچھ ایسے ہیں جنہوں نے وعدے پورے نہیں کیے.اس طرح جن لوگوں نے اپنی حیثیت سے زیادہ وعدے کیے ہیں ان میں سے بھی بعض نے وعدے پورے کیے ہیں اور بعض نے ابھی وعدے پورے نہیں کیے.لیکن اگر اصولی طور پر دیکھا جائے تو جن لوگوں نے اپنی حیثیت سے بڑھ کر وعدے کیے ہیں اُن میں سے نوے فیصدی نے وعدے ادا کر دیئے ہیں.اور جن لوگوں نے اپنی حیثیت سے کم وعدے کیے ہیں اُن میں سے پچاس فیصدی ایسے ہوں گے جنہوں نے ابھی ادائیگی کی طرف توجہ نہیں کی.یہ اس لیے ہے کہ جو لوگ اپنی حیثیت سے زیادہ وعدہ کرتے ہیں خدا تعالیٰ کے فرشتے اُن کی مدد کرتے ہیں کیونکہ وہ ایک ناممکن کام کر رہے ہیں.لیکن حیثیت سے کم وعدہ کرنے والے اس مدد سے محروم رہتے ہیں کیونکہ وہ ممکن کام بھی نہیں کر رہے.میں سمجھتا ہوں کہ اگلے ماہ مجھے دوبارہ جلسہ کروانا پڑے گا، تا وہ جلسہ کام کا جلسہ ہو.اُس میں صرف دھواں دھار تقریریں نہ ہوں.ربوہ میں بھی ایسا ہی ہوا ہے.دھواں دھار تقریروں پر ہی بس کر دی گئی ہے.بیشک میری بھی تقریر ہوئی ہے اور اُس کی بناء پر کچھ وعدے کیے گئے ہیں لیکن ہر ایک شخص کا کام الگ الگ ہوتا ہے.خلیفہ کا یہ کام نہیں کہ وہ گھر گھر جائے اور وعدے لے.اور وہ سب دنیا کے پاس جا بھی کس طرح سکتا ہے.چاہیے یہ تھا کہ گروپ بنائے جاتے اور خدام کو اس کام پر لگا کر
$1951 137 خطبات محمود تمام لوگوں کی لسٹیں بنائی جاتیں اور کہا جاتا کہ تمہارا اس سال کا اتنا وعدہ تھا نو ماہ تم نے سستی سے کام لیا ہے، اب اسے ادا کر دو ورنہ وقت ہاتھ سے نکل جائے گا.اس طرح جن لوگوں نے وعدہ نہیں کیا اُن کی سے وعدے لیتے اور اُن سے جلد وصولی کا انتظام کرتے تارو پیر آتا اور مشکل دور ہوتی.اس ماہ دفتر کے کارکنوں کو گزارہ نہیں ملا.وہ کیا کریں گے؟ کیا یہ کہہ دیا جائے گا کہ گوجرانوالہ کی ایک دھواں دھار تقریر ایک محکمہ کو دے دی جائے اور اُن کو کہا جائے کہ وہ اُسے آپس میں تقسیم کر لیں ، لا ہور کی دھواں دھار تقریر دوسرے محکمہ کو دے دی جائے کہ وہ آپس میں تقسیم کر لیں ، راولپنڈی کی دھواں دھار تقریر تیسرے محکمہ کو دے دی جائے کہ وہ آپس میں تقسیم کر لیں.جھوٹ بولنے سے کیا فائدہ؟ پہلے یہ گناہ کیا کہ وعدہ ادا نہیں کیا اور اب مزید جھوٹ بولا جا رہا ہے کہ ہم نے دھواں دھار تقریریں کر دی ہیں.حقیقت یہ ہے کہ توجہ سے کام نہیں کیا گیا.جیسا کہ میں نے پہلے بتایا ہے بعض ای رپورٹیں خوش گن ہیں.انہوں نے ایسا ہی کیا ہے کہ یا تو وعدہ ادا کر کے جاؤ یا یہ بتاؤ کہ کس دن ادا کرو گے.حتی کہ بعض مہاجرین کی جماعتیں ہیں اُنہوں نے اس رنگ میں کام کیا ہے اور اُن کی کوشش کے نتیجہ میں لوگوں نے وعدے ادا کیے ہیں.اور جن لوگوں نے وعدے ادا نہیں کیے انہوں نے ایک معین وقت کے بعد ادا ئیگی کا وعدہ کیا ہے.پس جماعت کو چاہیے کہ وہ جس کام کے لیے کھڑی ہوئی ہے وہ اُس کے رنگ کو بھی اختیار کرے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے صِبْغَةَ اللهِ وَمَنْ اَحْسَنُ مِنَ اللهِ صِبْغَةَ - 2 اللہ تعالیٰ کے صبغہ کو اختیار کرو اور اللہ تعالیٰ کے صبغہ سے اچھا کونساصبغہ ہو سکتا ہے.خدا تعالیٰ کا رنگ جمانے سے بہتر اور کوئی چیز نہیں.اور خدا تعالیٰ کا رنگ یہ ہے کہ جو کچھ وہ کہتا ہے وہ کر دیتا ہے.اس لیے تم خدا تعالیٰ کا رنگ جمانے کی کوشش کرو.کیا تم نے خدا تعالیٰ میں بھی کبھی سستی دیکھی ہے.لطیفہ مشہور ہے کہ کوئی مسافر گھبرایا ہوا ریلوے اسٹیشن پر پہنچا اور وہ اسٹیشن ماسٹر کو کہنے لگا بابو جی! تین بجے والی گڈی کہیڑے ویلے جاندی اے؟ اسٹیشن ماسٹر بھی مذاقی تھا.اُس نے کہا تین بجے والی گڑی دووج کے سٹھ منٹ تے جاندی ہے.وہ مسافر کہنے لگا ایہہ بڑی خرابی اے کدے گڈی کسے ویلے جاندی ہے تے کدے گڈی کسے ویلے جاندی ائے“.اُسے حساب نہیں آتا تھا.وہ سمجھنے لگا کہ یہ اور وقت ہے اور وہ اور وقت ہے.مگر یہ مذاق اس لیے بنا ہے کہ ریلیں دیر سے
$1951 138 خطبات محمود تی جاتی ہیں.لیکن کبھی کسی نے یہ بھی دیکھا ہے کہ خدا تعالیٰ کا سورج کبھی ایک سیکنڈ پہلے یا بعد میں چڑھا ہو؟ کروڑ ہا سال پہلے سورج جس وقت نکلتا تھا اُسی وقت اب بھی نکالتا ہے لیکن ہماری الارم کی گھڑیاں کبھی پہلے الارم دے دیتی ہیں اور کبھی بعد میں.میں جنگ کے بعد سے اس وقت تک نچ گھڑیاں منگوا چکا ہوں وہ سب روزانہ پندرہ بیس منٹ سُست (Slow) ہو جاتی تھیں.جو گھڑیاں میرے پاس بطور تحفہ آتی ہیں اُن کا بھی یہی حال ہے.پتا نہیں لوگ کیسے گزارہ کر لیتے ہیں؟ یا پھر یہ ہے کہ میرا گھڑیوں پر رعب پڑ جاتا ہے اور وہ سب پندرہ بیس منٹ سست ہو جاتی ہیں.یہ گھڑیوں کا حال ہے.ریلوں کا حال میں نے پہلے بتایا ہے.غرض جو کام بھی انسان کرتا ہے اس میں کچھ نہ کچھ دیر لگ جاتی ہے لیکن کیا کبھی ایسا بھی ہوا ہے کہ خدا تعالیٰ کا چاند کبھی ایک سیکنڈ پیچھے چڑھا ہو؟ نہ چاند بھی اپنے وقت مقررہ سے پیچھے نکلا ہے، نہ سورج اپنے وقت مقررہ سے پیچھے نکلا ہے اور نہ ستارے کبھی پیچھے نکلے ہیں، نہ زمین اپنی چال میں سُست ہوئی ہے اور نہ باقی سیارے سُست ہوئے ہیں.خدا تعالیٰ نے رات کے لیے جو وقت مقرر کیا ہے کہ یہ فلاں وقت آئے حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر اب تک رات اُسی وقت آتی ہے، سورج کے لیے جو وقت مقرر کیا گیا ہے کہ گرمیوں میں فلاں وقت سورج نکلے اور سردیوں میں فلاں وقت نکلے سورج حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر اب تک اُسی وقت نکلتا چلا آ رہا ہے.پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے صِبْغَةَ اللهِ وَمَنْ اَحْسَنُ مِنَ اللهِ صِبْغَةً تم خدا تعالیٰ کا رنگ اختیار کرو اور دیکھو کہ وہ کس طرح اپنے مقررہ قانون پر چل رہا ہے.لوگ مثال دیتے ہیں کہ شسی کلاک وانگو چلو.یہاں تو کلاک بھی سست ہو جاتے ہیں لیکن خدا تعالیٰ کی بنائی ہوئی چیز سیکنڈ کا ہزارواں حصہ بھی کبھی لیٹ نہیں ہوئی.بیشک بعض چیزیں ایسی بھی ہیں جن کے لیے خدا تعالیٰ نے کوئی معین وقت مقرر نہیں کیا لیکن خدا تعالیٰ نے اُن کے لیے بعض موسم (Season) مقرر کر دیئے ہیں.مثلاً بارش کے لیے یہ نہیں کہا گیا کہ وہ سات ساون کو ہوگی یا سات بھادوں کو ہوگی بلکہ یہ کہ دیا گیا کہ ہاڑھ سے لے کر بھادوں تک بارش کا موسم ہو گا.اس دوران میں کبھی زیادہ بارش ہوگی اور کبھی کم.لیکن یہ نہیں کہ بارش کا موسم ان مہینوں سے دوسرے مہینوں میں تبدیل ہو جائے.نہ یہ وقت کبھی زیادہ ہوا ہے اور نہ کم ہوا ہے.گویا جن چیزوں کے لیے خدا تعالیٰ نے وقت کی تعیین کر دی.
$1951 139 خطبات محمود وہ اپنے وقت مقررہ پر چل رہی ہیں اور جن چیزوں کے لیے وقت کی تعیین نہیں کی وہ غیر معتین دائرہ میں چل رہی ہیں.سردیوں کے لیے خدا تعالیٰ نے یہ نہیں کہا کہ وہ تین نومبر کو شروع ہوں گی یا تین دسمبر کو شروع ہوں گی بلکہ ان کے لیے نومبر، دسمبر ، جنوری اور فروری کے مہینے مقرر کیے گئے ہیں.اب یہ نہیں ہوگا کہ سردی ان مہینوں کی بجائے مارچ، اپریل اور مئی میں چلی جائے.اسی طرح گرمیوں کے لیے مئی، جون جولائی کے مہینے مقرر کیے گئے ہیں.اس کے لیے یقین نہیں کی گئی کہ گرمی 10 مئی سے شروع ہوگی یا 10 جون سے شروع ہوگی لیکن یہ ضرور ہے کہ گرمی مئی اور جون جولائی میں ہی آئے گی.یہی قانون ہے جو پورا ہورہا ہے کہ یہ گرمی کے مہینے ہیں اور یہ سردی کے مہینے ہیں اور یہ موسم ان مہینوں سے آگے پیچھے نہیں ہوں گے.ہاں ! یہ ہو سکتا ہے کہ اس دوران میں کبھی سردی یا گرمی زیادہ پڑنے لگے اور کبھی کم.یہ نہیں کہ سردی گرمی کے مہینوں میں آجائے اور گرمی سردی کے مہینوں میں آ جائے.صِبْغَةَ اللهِ وَمَنْ أَحْسَنُ مِنَ اللهِ صِبْغَةً خدا کے رنگ کو اختیار کرو.اور خدا تعالیٰ کا رنگ یہ ہے کہ وہ جو کہتا ہے اسے پورا کرتا ہے اور اسے کر کے چھوڑتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام بھی فرماتے ہیں ؎ ٹلتی نہیں وہ بات خدائی یہی تو ہے 3 تم کہو گے کہ ہم خدا نہیں ہیں لیکن قرآن کریم کہتا ہے کہ اگر تم انعام پانا چاہتے ہو تو تمہیں خدا تعالیٰ جیسا بننا پڑے گا.صِبْغَةَ اللهِ وَمَنْ أَحْسَنُ مِنَ اللهِ صِبْغَةً - تم بیشک خدا نہیں لیکن تمہیں انعام پانے کے لیے خدا تعالیٰ کا رنگ اپنے اوپر جمانا پڑے گا.پس اگر تم چاہتے ہو کہ تم خدا تعالیٰ کی برکات حاصل کرو، اس کے انعام پاؤ اور اس کے فضلوں سے حصہ لو تو بعض امور میں جو خدا تعالیٰ کے رسول نے بتائے ہیں جن کا قرآن کریم میں ذکر ہے یا گزشتہ انبیاء نے اُن کو بیان کیا ہے یا علم اور عقل سے ہم انہیں معلوم کرتے ہیں ان میں ہمیں خدا تعالیٰ جیسا بننا پڑے گا.اگر تم خدا تعالیٰ جیسا نہیں بنو گے تو لازماً شیطان جیسے بنو گے.تمہیں خدا تعالیٰ کا رنگ چڑھانا پڑے گا تبھی تم اس کے برکات اور افضال کے وارث بن سکتے ہو.اور خدا تعالیٰ کا رنگ یہ ہے کہ جو کہوا سے پورا کرو.تحریک جدید کے جلسوں کی غرض یہ تھی کہ وعدوں کی ادائیگی میں جن لوگوں سے غفلت ہوئی ہے انہیں کہا جائے کہ وعدے پورے کرو.نہ یہ کہ دھواں دھار تقریریں کروہ عملی طور پر کچھ نہ کرو
$1951 140 خطبات محمود وعدوں اور چندوں کو دھویں میں اُڑا دو.بلکہ ان جلسوں کی غرض یہ تھی کہ وعدے وصول کرو.اور جو کہتے ہیں کہ اب وعدہ ادا کرنا مشکل ہے انہیں کہو کہ اس میں سلسلہ کا کیا قصور ہے؟ یہ مشکل تم نے خود پنے لیے پیدا کی ہے.تم نے وعدہ وقت پر ادا نہیں کیا.اب اس کی سزا خود بھگتو ، استغفار کرو اور قربانی کر کے وعدوں کو ادا کرو لیکن 2 ستمبر کے جلسوں کے نتیجہ میں کچھ بھی نہیں ہوا.صرف بعض خطوط آگئے ہیں جو میں نے تحریک جدید کو بھجوا دیئے ہیں کہ مبارک ہو تمہارا کام ہو گیا.تقریریں کرنے والوں اور رپورٹیں لکھنے والوں کو سوچنا چاہیے کہ آیا محض تقریروں اور کاغذ سیاہ کر دینے سے کچھ بنتا ہے؟ کیا یہ خدا تعالیٰ کا منشا ہے؟ خدا تعالیٰ کا منشا تو یہ ہے کہ ایک دفعہ منہ سے کہہ دو اُسے پورا کرو.خدا تعالیٰ جو کہتا ہے وہی کرتا ہے خواہ ہزاروں آدمی مر جائیں اس کی پروا نہیں.چنانچہ دیکھ لوخدا تعالیٰ کا نبی جب دنیا میں آتا ہے اور کہتا ہے کہ میرے خدا نے کہا ہے یوں ہوگا تو خواہ لاکھوں آدمی مریں ، ہو گا وہی جو خدا تعالیٰ نے کہا ہے یعنی اُس کا نبی ہی جیتے گا.یہی رنگ ہے جو خدا تعالیٰ کا ہے یعنی جو وہ کہتا ہے اس سے پھرتا نہیں لَا يُخْلِفُ اللهُ الْمِيْعَادَ - 4 جب خدا تعالی کسی چیز کے لیے جگہ یا وقت کی تعیین کرتا ہے تو وہ اُس کے خلاف نہیں کرتا.ملتی نہیں وہ بات خدائی یہی تو ہے یہی مومن کا کام ہونا چاہیے کہ وہ جو کہے اُسے پورا کرے.دین پر مصیبت نہیں آنی چاہیے.ایسا کرنے میں تم پر تکلیف ضرور آئے گی کیونکہ ہمارا ملک غریب ہے ، ہماری قوم غریب ہے اور ہمارے گزارے معمولی ہیں.دشمن ہنستا ہے لیکن ہمارا ایک منافق جو کام کر سکتا ہے دوسرے مسلمان وہ کام نہیں کر سکتے إِلَّا مَا شَاءَ اللہ.اُن میں بھی بعض اچھے لوگ ہیں لیکن اکثر حصہ اُن میں صرف نعرے مارنے والوں کا ہے.جو لوگ کام کرنے والے ہوتے ہیں وہ نعرے نہیں لگایا کرتے.مجموعی طور پر جس نسبت سے ہماری جماعت قربانی کر رہی ہے کسی دوسری قوم میں یہ قربانی نہیں پائی جاتی.لیکن اس کے یہ معنے نہیں کہ جس حد تک تمہاری قربانی پہنچ چکی ہے اُس سے آگے بڑھنا ضروری نہیں.خدا تعالیٰ اگر تمہیں دوسروں سے شیر جتنا بلند کرنا چاہتا ہے تو ایک بلی یا اُس سے کچھ اوپر نکلنے سے وہ خوش نہیں ہوگا.اگر وہ تمہیں شیر جتنا بلند کرنا چاہتا ہے تو ایک بلی جتنا بلند ہونے سے کیا بنے گا؟ دوسروں سے زیادہ قربانی کرنے کے یہ معنے ہیں کہ وہ قربانی کی جائے جس سے اسلام دوبارہ کھڑا ہو جائے.
خطبات محمود 141 $1951 اگر تم اس سے دھاگا بھر بھی نیچے رہو گے تو تم اپنے ہاتھوں سے اس مشن کو کمزور کر دو گے جس کے لیے خدا تعالیٰ نے تمہیں کھڑا کیا ہے".1 : الصف: 2 2 : البقرة: 139 الفضل 16 ستمبر 1951ء) : در مشین اردو.زیر عنوان متفرق اشعار - صفحه 150 مرتبہ شیخ محمد اسماعیل پانی پتی 1962ء 4 : الزمر: 21
$1951 142 (20) خطبات محمود مومن کو جہاں سے خوبی ملتی ہے وہ اُسے لے لیتا ہے (فرمودہ 14 ستمبر 1951ء) تشهد ، تعوّ ذاورسورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: کچھ دنوں سے پھر آہستہ آہستہ میرے گھٹنے میں درد بڑھ رہی ہے اور کل کی کوفت کی وجہ سے تو گھٹنے کی تکلیف اور بھی بڑھ گئی ہے.اس لیے گو میں خطبہ جمعہ بیٹھ کر پڑھوں گا لیکن پھر بھی میں اختصار کے ساتھ پڑھوں گا تا طبیعت پر بوجھ نہ ہو.بعض ایام اپنے اندر خصوصیت رکھتے ہیں اور بعض ایام اپنے اندر خصوصیت پیدا کر لیتے ہیں.مثلاً بعض دن ایسے ہیں کہ ہمیشہ کے لیے اُن کے ساتھ برکات مخصوص کر دی گئی ہیں.مثلاً عید ہے، جمعہ ہے یا رمضان کے ایام ہیں.ان دنوں کے ساتھ بعض واقعات کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے اپنی برکات دائمی طور پر مخصوص کر دی ہیں.لیکن بعض دن ایسے ہیں کہ وہ خاص طور پر بعض برکات اپنے ساتھ لگا لیتے ہیں اور یہ برکات کسی خاص واقعہ کی وجہ سے پیدا ہو جاتی ہیں.یہ نہیں کہ وہ ہمیشہ سے ان کے ساتھ لگی ہوئی ہوں.مثلاً فرض کرو کسی دن کسی گھر میں بادشاہ آ جائے.پھر خواہ وہ دن منگل وار ہو، وہ بدھ وار ہو، جمعرات ہو، جمعہ ہو، ہفتہ ہو، اتوار ہو یا سوموار ہو بہر حال وہ دن ان کے لیے برکت کا موجب ہو جاتا ہے.یہ نہیں کہ وہ دن ہمیشہ جب بھی آتا ہے اُن کے لیے متبرک ہوتا ہے لیکن وہ دن
خطبات محمود 143 مخصوص طور پر اپنے ساتھ برکت لگا لیتا ہے.جیسے کسی نے کہا ہے وہ آئیں گھر میں ہمارے خدا کی قدرت ہے کبھی ہم اُن کو کبھی اپنے گھر کو دیکھتے ہیں $1951 ایک شخص کا مُحب یا محبوب اگر اس کے گھر آ جائے تو وہ دن اس کے لیے عزت افزائی اور برکت کا موجب ہوتا ہے.اسی طرح بعض دنوں میں حج اور جمعہ اکٹھے ہو جاتے ہیں تو لوگ اس کا نام حج اکبر رکھ لیتے ہیں.بعض دنوں میں عید اور جمعہ اکٹھے ہو جاتے ہیں تو ہم کہتے ہیں دو عید میں اکٹھی ہوگئی ہیں.اس سال بھی اس رنگ میں ہوا ہے کہ مغرب میں ہونے کی وجہ سے عرب میں ایک دن پہلے عید ہو گئی ہے.یہاں عید جمعرات کو تھی لیکن وہاں بدھ کو عید ہو گئی تھی.اسی طرح حج منگل کو عرب میں ہوا اور بدھ وار کو حج کا دن یہاں آیا اور پھر منگل بدھ ، جمعرات کے بعد جمعہ کی عید آ گئی.گویا مشرق و مغرب میں فرق ہونے کی وجہ سے چار دن اکٹھے برکت والے آگئے ہیں.ہمارے دنوں کے لحاظ سے بدھ کا حج تھا لیکن خانہ کعبہ چونکہ مغرب کی طرف ہے اس لیے وہاں چاند بعض دفعہ ایک دن پہلے نکل آتا ہے.وہاں بدھ کے دن عید ہوئی اور منگل کو حج ہوا لیکن یہاں جمعرات کو عید ہوئی اور حج کا دن بدھ کے حساب سے ہوا اور پھر جمعہ آ گیا.گویا اس ہفتہ کے سات دنوں میں چار عید میں آگئیں.باقی تین دن رہ گئے جو عید میں نہیں تھیں لیکن اگر ان کے ساتھ ایام تسبیح کو ملا لیا جائے تو سمجھ لو پانچ دن عید کے آگئے کیونکہ جمعہ کا دن پہلے شمار کیا گیا ہے.گویا اس ہفتہ میں پانچ دن خاص برکت کے آ گئے.اور ان کی نسبت اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وہ ان دنوں میں دعائیں سنتا ہے، وہ بخشش کرتا ہے اور زیادہ مہربانی سے اپنے بندوں کے ساتھ پیش آتا ہے.اس لیے مومن کو بھی ان کی قدر کرنی چاہیے اور ان کی سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانا چاہیے.حقیقت یہ ہے کہ مومن ہمیشہ تجسس میں رہتا ہے کہ کونسا دن برکت والا ہے.قرآن کریم کی وہ آیت جس میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے اَلْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي 1 میں نے آج تمہارا دین کامل کر دیا ہے اور اپنی نعمت تم پر پوری کر دی ہے جب ایک یہودی نے سنی تو اُس نے کہا اگر یہ آیت ہم پر نازل ہوتی تو ہم اسے ہمیشہ کے لیے عید بنا دیتے.یہ بات ایک صحابی تک پہنچی تو انہوں نے فرمایا تم تو اس دن کو عید بنادیتے لیکن ہمارے تو حج کے موقع پر
$1951 144 خطبات محمود یہ آیت نازل ہوئی ہے اور وہ دن ہمارے لیے عید کا دن ہے.2 غرض مومن ہمیشہ اس گرید میں رہتا ہے کہ کوئی برکت والا دن ہو تو وہ اُس سے فائدہ اٹھائے.اسلام نے رسوم سے منع فرمایا ہے.اس چیز کا مسلمانوں پر الٹا اثر پڑا ہے کہ وہ حقیقت کو نمائش سمجھ کر چھوڑ دیتے ہیں.مثلاً رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب مسجد میں آتے تو فرماتے کھڑے مت ہو 3 اور عام قاعدہ یہی ہے لیکن بعض طبائع ایسی ہوتی ہیں کہ وہ جذباتی رنگ کی ہوتی ہیں.وہ محبت کی وجہ سے ان چیزوں کو برداشت نہیں کر سکتیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کے زمانہ میں بھی بعض لوگ ایسے تھے جو جذباتی تھے.آپ جب مسجد میں تشریف لاتے تو وہ کھڑے ہو جاتے.آپ فرماتے بیٹھ جاؤ تو وہ بیٹھ جاتے.قاضی سید امیر حسین صاحب مرحوم جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اکابر صحابہ میں سے تھے اور میرے استاد بھی تھے اُن کا طریق پڑھانے کا نہایت سادہ تھا لیکن بچوں پر وہ اپنا رعب رکھتے تھے.وہ میرے عربی کے پہلے استاد تھے.جب میں پڑھائی کا زمانہ یاد کرتا ہوں تو اُن کا پڑھایا ہوا سبق سب سے زیادہ نظر آتا ہے.قاضی امیر حسین صاحب اہلِ حدیث میں سے آئے تھے.جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام مسجد یا مجلس میں تشریف لاتے اور لوگ کھڑے ہو جاتے تو وہ عتراض کرتے کہ یہ شرک ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع فرمایا ہے.حضرت خلیفہ امسیح الاول مجلس میں یہ بحث ہوئی.اُس وقت آپ خلیفہ نہیں تھے.تو بعض دوستوں نے مشورہ دیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے پاس فتوی کے لیے عرض کیا جائے.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی خدمت میں تحریر کیا گیا کہ بعض لوگوں کو اس بات پر اعتراض ہے کہ آپ کے آنے پر لوگ کھڑے ہو جاتے ہیں.یہ چٹھی حضور کے پاس میں ہی لے گیا تھا.حضرت مسیح موعود الصلوة والسلام نے تو یہ فرمایا کہ ایک ہوتا ہے حکم عام اور ایک ہوتا ہے حکم خاص.بعض شرعی مسائل حکم عام کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں اور کیفیات خاصہ کے ساتھ وہ بدل جاتے ہیں.اگر کوئی شخص کسی کی تعظیم کے لیے کھڑا ہوتا ہے اور وہ اسے ضروری قرار دیتا ہے تو ایسا کرنا منع ہے.لیکن بعض لوگ جذبات محبت سے متاثر ہو کر بے خودی کے رنگ میں کھڑے ہو جاتے ہیں اور وہ طبعی طور پر ایسا کرتے ہیں اس لیے ہم انہیں منع نہیں کر سکتے.یہ چیز فرعی ہے لیکن چونکہ یہ چیز مشابہ بہ شرک.
$1951 145 خطبات محمود اس لیے اس سے روک دیا گیا ہے.پھر فرمایا جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہو گئے تو لکھا.کہ شروع میں حضرت عائشہ یا حضرت فاطمہ تھیں اس صدمہ کو برداشت نہیں کر سکیں اور انہوں نے اپنے منہ پر دو مت مارا لیکن پھر ہاتھ روک لیا.4 کیا اس قسم کا مفتی یہ فتوی دے گا کہ حضرت عائشہ نے شرک کیا ؟ یہ ایک جذباتی فعل تھا.یادر ہے کہ ایسے افعال بالذات شرک نہیں ہوتے.ہاں! مشابہہ بہ شرک اور منتج بالشرک ہوتے ہیں اور شرک کا رستہ روکنے کے لیے ان سے منع کیا جاتا ہے.اسی لیے کبھی مومن سے نادانستہ سرزد ہو جاتے ہیں کیونکہ خودان افعال کی ذات میں شرک نہیں پایا جاتا.اس نے لیے مومن کی فطرت اس سے بلا واسطہ متنفر نہیں ہوتی.ہم عام طور پر کہہ دیتے ہیں کہ ایسا نہیں کرنا چاہیے لیکن اگر جذبات کی وجہ سے کوئی ایسا کر دیتا ہے تو اُسے شرک نہیں کہا جا سکتا کیونکہ وہ افعال بالذات مشرکانہ نہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے جواب آنے پر یہ بات دب گئی لیکن قاضی امیر حسین صاحب کے دل میں یہ بات رہی.وہ میرے استاد بھی تھے.جب میں خلیفہ ہوا تو ایک دفعہ جب میں مسجد میں آیا تو وہ کھڑے ہو گئے.میں چُپ رہا.دوسری دفعہ پھر میں مسجد میں آیا تو وہ وہاں بیٹھے ہوئے تھے.میرے آنے پر وہ پھر کھڑے ہو گئے.میں نے کہا قاضی صاحب! آپ کو یاد ہے کہ آپ نے خود ہی میرے ہاتھ چٹھی بھجوائی تھی کہ کسی کے آنے پر تعظیماً کھڑا ہونا شرک ہے اور اب آپ خود کھڑے ہو جاتے ہیں؟ انہوں نے فرمایا ” کی کراں رہیا نہیں جاندا.کیا کروں رہا نہیں جاتا.میں نے کہا پھر اوہ لوگ بھی کی کر دے؟ اونہاں کولوں بھی رہیا نہیں سی جاندا.پس یہ ایک جذباتی چیز ہے.بعض لوگ اس سے فائدہ اٹھاتے ہیں لیکن دوسرے مُلاں بن کر لفظ شریعت کی طرف لوٹ جاتے ہیں.وہ اس نگاہ سے نہیں دیکھتے کہ ان سے فائدہ اٹھایا جائے.ایک ملاں بھی اس حد تک اپنے آپ کو شرک سے روکنے والا ہوتا ہے لیکن وہ اپنے آپ کو ثواب سے محروم کر لیتا ہے.وہ مرغا کی طرح دانے چگنے کا عادی ہوتا ہے لیکن ایک روحانی آدمی ہمیشہ اس تلاش میں رہتا ہے کہ اُسے کوئی موقع ملے اور وہ اس سے فائدہ حاصل کرے لیکن ایک مُلاں کہتا ہے کہ خدا تعالیٰ نے نماز، روزہ اور زکوۃ کا جو حکم دیا ہے انہیں بجالا نا ہی کافی ہے.ایک آدمی رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آیا اور عرض کیا یا رسول اللہ ! کیا پ نے نماز کا حکم دیا ہے؟ آپ نے فرمایا ہاں.اس نے کہا کیا آپ خدا کی قسم کھا کر کہہ سکتے ہیں
$1951 146 خطبات محمود کہ آپ کو اس نے نماز کا حکم دیا ہے؟ آپ نے فرمایا ہاں میں خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے بھی نماز کا حکم دیا ہے.پھر اس نے کہا یا رسول اللہ ! کیا آپ نے روزوں کا حکم دیا ہے؟ آر نے فرمایا ہاں.اس شخص نے کہا کیا آپ قسم کھا کر کہہ سکتے ہیں کہ روزے فرض ہیں؟ آپ نے فرمایا میں قسم کھا کر کہتا ہوں کہ روزے فرض ہیں.اُس شخص نے کہا یا رسول اللہ ! کیا آپ نے زکوۃ کا حکم دیا ہے؟ آپ نے فرمایا ہاں.اس نے کہا کیا آپ قسم کھا کر کہہ سکتے ہیں کہ زکوۃ فرض ہے؟ آپ نے فرمایا ہاں میں قسم کھا کر کہ سکتا ہوں کہ زکوۃ فرض ہے.وہ شخص کھڑا ہو گیا اور اس نے کہا خدا کی قسم! میں ان چیزوں سے نہ کچھ زیادہ کروں گا اور نہ کم کروں گا.یہ ملاں ٹائپ انسان تھا کیونکہ اُسے کم نہ کرنے سے جنت تو مل جائے گی لیکن زیادہ نہ کرنے سے اعلیٰ مقام نہیں مل سکتا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھی یہی فرمایا کہ اُس نے جو کچھ کہا ہے اگر اُس نے اس سے کم نہ کیا تو وہ جنتی ہو گیا.5 حضرت عبد اللہ بن عمرؓ کے متعلق آتا ہے کہ جب وہ حج کے لیے جاتے ایک جگہ پر قافلہ روک دیتے اور ایک درخت کے نیچے پیشاب کرنے کے لیے بیٹھ جاتے.آپ نے کئی حج کیے اور ہمیشہ آپ اُس درخت کے نیچے پیشاب کرتے.اتفاقا ایک شخص کئی دفعہ آپ کے ساتھ حج کے لیے گیا.اُس نے دیکھا کہ آپ ہر دفعہ اُس جگہ قافلہ روک لیتے ہیں اور اُس درخت کے نیچے پیشاب کرتے ہیں تو اُس نے کہا یہ کیا بات ہے کہ آپ ہمیشہ قافلہ روک لیتے ہیں اور پیشاب کرنے کے لیے اُس درخت کے نیچے جاتے ہیں؟ پھر بعض دفعہ آپ پیشاب بھی نہیں کرتے ؟ تو حضرت عبد اللہ بن عمر نے کہا میں اس بات کو ہمیشہ چھپاتا تھا اور ظاہر کرنا نہیں چاہتا تھا لیکن اب تم نے دریافت کیا ہے اس لیے ظاہر کر دیتا ہوں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جب آخری حج کیا تو آپ نے اس جگہ اُتر کر پیشاب کیا.اس لیے میں کہتا ہوں کہ خواہ پیشاب آئے یا نہ آئے اس سنت کو بھی پورا کرلوں.6 ایک ملاں کہے گا یہ کیا فضول حرکت ہے؟ اللہ تعالیٰ نے تو اس بات کا حکم نہیں دیا.لیکن ایک روحانی آدمی کہے گا تم اسے فضول کہہ لو لیکن چونکہ یہ کام میرے محبوب نے کیا تھا اس لیے میں بھی ضرور کروں گا.بہر حال مومن مرغے کی طرح دانے چنتا ہے اور جہاں کہیں اُسے کوئی خوبی ملتی.اسے لے لیتا ہے.یہ چاردن برکت کے جمع ہو گئے ہیں اور یہ کئی دفعہ اکٹھے آئے ہوں گے لیکن ہر سال
$1951 147 خطبات محمود کٹھے نہیں آتے.کبھی ساٹھ ستر سال کے بعد آتے ہوں گے.یہ اتفاقی بات ہے کہ عرب میں ایک دن قبل عید ہوگئی.اس طرح دو عید میں ہو گئیں.اسی طرح حج بھی ایک دن قبل ہو گیا.اس لیے دو دن حج کے ہو گئے.گویا مومن کے لیے چار دن برکت کے آگئے ہیں.اب ہمیں بھی چاہیے کہ کوشش کریں خدا تعالیٰ ہمیں بھی اکٹھی برکتیں دے.غرض مومن کو ہمیشہ ایسے دنوں کی تلاش میں رہنا چاہیے جن میں برکات جمع ہوں اور دعاؤں کے دن ہوں.یہ چیز بہر حال اعمال میں زیادتی کرتی ہے.ایک مُلاں کہے گا کہ اس کا ہمارے ساتھ کیا تعلق ہے؟ عید اور جمعہ اتفاقاً اکٹھے ہو گئے ہیں لیکن ایک روحانی آدمی کہے گا مان لیا کہ یہ دونوں اتفاقاً اکٹھے ہو گئے مگر یہ کہاں لکھا ہے کہ ان سے فائدہ نہیں اٹھانا چاہیے.خدا تعالیٰ فرماتا ہے فَاسْتَبِقُوا الْخَيْراتِ 7 تم اگر زائد کام نہیں کرتے تو نہ کرو مگر ہم تو زائد کام بھی کریں گے.اور مومن ایسے مواقع سے فائدہ اٹھاتے ہیں کیونکہ یہ ایمان کی زیادتی الفضل 19 اکتوبر 1951 ء) موجب ہوتے ہیں.1 : المائدة : 4 2 تفسیر طبری زیر آیت المائدة : 13 حرمت عليكم الميتة والدم) 3 : مسند احمد بن حنبل مسند الانصار حديث ابي قتادة الانصاري جلد 6 صفحه 422 بيروت لبنان 1994ء 4 : سیرت ابن ہشام جلد 4 صفحہ 305 - تمريض رسول الله فى عائشة - مطبوع مصر $1936 5 : صحیح بخاری کتاب الایمان باب الزكوة من الاسلام 6 اسد الغابة جلد3 صفحه 43 عبداللہ بن عمر الخطاب - بیروت لبنان 2001ء(مفہوما ) 7 : البقرة: 149
$1951 148 (21) خطبات محمود قوموں کی زندگی آئندہ نسلوں کی صحیح تربیت پر مبنی ہوتی ہے احمدی والدین کو چاہیے کہ وہ اپنے بچوں کو شروع سے ہی اسلامی رنگ میں ڈھالنے کی کوشش کریں.(فرمودہ 21 ستمبر 1951ء بمقام ربوہ ) تشهد ، تعو ذاور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: قومی زندگی ان کی آئندہ نسلوں پر مبنی ہوتی ہے.اگر ان کی آئندہ نسلیں ٹھیک ہوں تو وہ زندہ رہتی ہیں اور اگر ان کی آئندہ نسلیں کمزور ہو جائیں تو وہ مر جاتی ہیں.ابتدائی زمانہ میں جو لوگ سوچ سمجھ کر کسی مذہب کو قبول کرتے ہیں اُن کے اندر خاص جوش ہوتا ہے.اُن کی مخالفتیں ہوتی ہیں اور مخالفتیں اُن کے جوش کو اور بھی بڑھا دیتی ہیں.لیکن جو بچے بعد میں پیدا ہوتے ہیں انہوں نے سوچ سمجھ کر کسی مذہب کو قبول نہیں کیا ہوتا.انہیں ایمان ورثہ کے طور پر ملتا ہے بوجہ اِس کے کہ اُن کے ماں باپ، بہن بھائی اور دوسرے رشتہ دار صداقت کے قبول کرنے والے ہوتے ہیں وہ اپنے آپ کو مذہب میں نیا داخل ہونے والا نہیں سمجھتے.وہ اپنے آپ کو ورثہ کے طور پر اس مذہب کو قبول کرنے والا سمجھتے ہیں.ان کی مخالفتیں کم ہوتی ہیں، ان کو بچانے والے ان کے ماں باپ، بہن بھائی اور دوسرے رشتہ دار ہوتے ہیں جو صداقت کو پہلے قبول کر چکے ہوتے ہیں.مگر جو لوگ براہ راست صداقت کو
$1951 149 خطبات محمود قبول کرتے ہیں اُن کی مخالفتیں ہوتی ہیں، انہیں تکلیفیں دی جاتی ہیں.ان تکلیفوں کی وجہ سے دو میں سے ایک بات ضرور ہوتی ہے.یا تو وہ مخالفتوں سے گھبرا کر پھر جاتے ہیں.اور اگر وہ اس صداقت پر قائم رہتے ہیں تو وہ مخالفتوں کی وجہ سے ایسے ہو جاتے ہیں جیسے بھٹی میں سے سونا نکالا جاتا ہے.ایسے آدمیوں کا مثیل پیدا کرنا محنت چاہتا ہے.جو کام آباء نے خود کیا ہوتا ہے وہ دوسرے لوگوں کو کرنا پڑتا ہے.اور صاف بات ہے کہ جس چیز کی رغبت آپ ہوتی ہے اور جو استاد پڑھاتا ہے ان میں زمین و آسمان کا فرق ہوتا ہے.جس آسانی سے بچے زبان سیکھتے ہیں اس آسانی سے وہ کوئی دوسری چیز نہیں سیکھ سکتے.چنانچہ جونہی وہ ہوش سنبھالتے ہیں دوسروں کو دیکھ کر غوں غاں کرنا شروع کر دیتے ہیں کیونکہ ان کے چاروں طرف جو لوگ ہوتے ہیں وہ منہ سے بعض خاص الفاظ نکال کر ان کے خاص معنے لیتے ہیں.اس لیے بچہ بھی شوق سے وہ الفاظ بولنے لگ جاتا ہے.لیکن وہی بچہ جب سکول میں جاتا ہے اور کوئی دوسری زبان سیکھتا ہے تو کہتا ہے اُستاد کام بہت دیتے ہیں، وہ زچ ہو جاتا ہے اور پڑھائی سے بھاگنے کی کوشش کرتا ہے.لیکن اگر کوئی عرب ہے تو اُس سے پوچھو کہ کیا اسے عربی سیکھنے میں کوئی مشکل پیش آئی ہے؟ یا انگریز ہے تو کیا انگریزی زبان سیکھنے میں اُسے کوئی مشکل پیش آئی ؟ اگر وہ پنجابی ہے تو کیا پنجابی سیکھنے میں اسے کوئی مشکل پیش آئی ہے؟ وہ یہی بتائے گا کہ اپنی زبان سیکھنے میں مجھے کوئی مشکل پیش نہیں آئی بلکہ آپ ہی آپ آ گئی ہے.اس کی وجہ یہی ہے کہ اُسے اپنی زبان سیکھنے کا شوق تھا.اسی طرح جو شخص کسی مذہب میں داخل ہوتا ہے اُس کی مثال ایک بچہ کی سی ہوتی ہے.اور جو اس وجہ سے کسی مذہب میں داخل ہوتا ہے کہ اُس کے ماں باپ اُس مذہب کے پابند تھے اُس کی مثال ایسی ہوتی ہے جیسے کوئی سکول میں پڑھتا ہے.سکول میں کئی طالبعلم فیل ہو جاتے ہیں مگر کیا کبھی کسی نے کوئی ایسا بچہ بھی دیکھا ہے جو اپنی زبان سیکھنے میں فیل ہوا ہو؟ اُس کے دماغ میں نقص بھی ہوتب بھی وہ زبان سیکھ جاتا ہے.اپنی زبان سیکھنے والے بچے سو فیصدی پاس ہو جاتے ہیں لیکن سکول اور کالج والے خوش ہوتے ہیں کہ اُن کے تینتیس فیصدی طالبعلم پاس ہو گئے.سکول کا نتیجہ ذرا اچھارہتا ہے تو وہ خوش ہوتے ہیں کہ اُن کے اسی فیصدی طالبعلم پاس ہو گئے یا اُن کا نتیجہ پچاسی فیصدی یا نوے فیصدی رہا.اور پچرانوے پچانوے فیصدی نتیجہ ہو تو ایک شور مچ جاتا ہے.لیکن ایک جاہل ماں کے پانچوں کے پانچوں بچے پاس ہو جاتے ہیں اور ان میں سے ہر ایک زبان سیکھ جاتا ہے، ان میں سے ہر ایک
$1951 150 خطبات محمود اپنے ماں باپ کا تمدن سیکھ جاتا ہے حالانکہ وہ بھی ایک مدرسہ ہے.لیکن یہاں چونکہ اُن کا اپنا انٹرسٹ اور دلچسپی تھی اس لیے انہیں کوئی مشکل پیش نہ آئی.ایک عرب کو انگریزی یا اردو سیکھنے میں یات ایک انگریز کو اردو یا عربی سیکھنے میں اتنی ہی وقت پیش آتی ہے جتنی وقت ایک پنجابی کو انگریزی یا عربی سیکھنے میں آتی ہے.لیکن ہمارا ایک جاہل سے جاہل بچہ اس طرح اپنی زبان سیکھ جاتا ہے کہ اُسے پتا بھی نہیں لگتا.اسی طرح ایک عرب عربی سیکھ لیتا ہے اور انگریز انگریزی سیکھ لیتا ہے.لیکن جب کوئی انگریز یا عرب پنجابی سیکھنا چاہیں تو انہیں وہ مشکلات پیش آتی ہیں جو ہمیں عربی یا انگریزی سیکھنے میں آتی ہیں.اس کی وجہ ایک ہی ہے اور وہ دلچسپی اور عدم دلچسپی ہے.وہاں چونکہ دلچسپی اور شوق ہوتا ہے کہ اردگرد کے لوگ ایک خاص قسم کے الفاظ بول رہے ہیں میں بھی یہ الفاظ سیکھ جاؤں اس لیے وہ آسانی سے سیکھ جاتا ہے.لیکن سکول میں وہ سمجھتا ہے کہ کوئی دوسرا آدمی اپنی مرضی کے مطابق اُسے کچھ سکھانا چاہتا ہے اس لیے وہ اُس کا مقابلہ کرتا ہے.اگر کوئی ہوشیار طالبعلم ہوتا ہے اور وہ سمجھتا ہے کہ اُستاد کی مرضی کے مطابق چلنے میں اُس کا اپنا فائدہ ہے تو وہ ہوشیاری سے وہ چیز سیکھ لیتا ہے جو اُس کا استاد سے سکھانا چاہتا ہے.لیکن اگر کوئی طالبعلم ہوشیار نہیں ہوتا تو وہ استاد کا مقابلہ کرتا ہے.اس لیے کہ وہ اُسے آرام سے روکتا ہے اور اپنے عزیزوں کی صحبت میں بیٹھنے سے روکتا ہے، اپنے دوستوں میں بیٹھ کر گتہیں مارنے سے روکتا ہے.وہ بظاہر سکول میں ہوتا ہے لیکن اُس کا دماغ گلی ڈنڈا کھیل رہا ہوتا ہے، کبھی کبڈی کھیل رہا ہوتا ہے، کبھی وہ ماں کی گود سے چھلانگ لگارہا ہوتا ہے اور کبھی وہ ماں باپ سے کوئی چیز مانگ رہا ہوتا ہے.استاد گھنٹہ بھر پڑھا کر بیٹھ جاتا ہے لیکن اُس کا دماغ اپنی گلی میں ہوتا ہے.بیشک گونگے زبان نہیں سیکھ سکتے اور بعض پاگل بھی اسی قسم کے ہوتے ہیں کہ وہ سیکھ نہیں سکتے لیکن عام طور پر پاگل بھی زبان سیکھ جاتے ہیں.اپنی ماں کے پاس وہ بھی فیل نہیں ہوتے.یہ فرق محض دلچسپی اور عدم دلچسپی کی وجہ سے ہے.ہماری جماعت میں اس ملک کے عام باشندوں کی طرح یہ عادت پائی جاتی ہے کہ وہ بچوں سے ناجائز محبت کرتے ہیں اور کہتے ہیں ابھی بچہ بڑا ہوگا تو آپ ہی سیکھ جائے گا.یہ ان کی غلطی ہے.وہ خود مذہب کے اس لیے پابند تھے کہ اُن کے اندر اس کے لیے رغبت پیدا ہو گئی تھی لیکن بچہ میں یہ احساس نہیں ہوتا کہ کونسا مذہب سچا ہے.اُس کے ماں باپ احمدی ہوتے ہیں اس لیے وہ بھی
$1951 151 خطبات محمود احمدی ہوتا ہے.اس کے اندر یہ جذبہ اتنا مضبوط نہیں ہوتا جتنا ایک خود بیعت کرنے والے کے اندر ہوتا ہے.نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اولاد کی تربیت ناقص ہوتی جاتی ہے.احادیث میں آتا ہے کہ حضرت حسن رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کھانا کھا رہے تھے.انہیں ترکاری پسند آئی تو پلیٹ میں ہاتھ مارا تا اس کے ٹکڑے تلاش کر کے کھائیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اُن کا ہاتھ پکڑ لیا اور فرمایا كُلْ بِيَمِينِكَ وَمِمَّا يَلِیكَ 1 کہ دائیں ہاتھ سے کھاؤ اور وہاں سے کھاؤ جو تمہارے سامنے ہے.یہ تہذیب کا سبق ہے جو آپ نے بچہ کو سکھایا کہ کہاں سے کھانا ہے اور کس طرح کھانا ہے.لیکن آجکل کی ماؤں کو یہ احساس بھی نہیں ہوتا اور بجائے سمجھانے کے انہیں پیار کرنے لگ جاتی ہیں.ایک دفعہ صدقات کی کھجوریں آئیں تو حضرت حسنؓ نے ڈھیر میں سے ایک کھجور لی اور منہ میں ڈال لی.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دیکھ لیا اور فرمایا نہیں نہیں ! یہ کھجور میں صدقہ کی ہیں.پھر آپ نے حضرت حسنؓ کے منہ میں انگلی ڈال کر وہ کھجور نکال لی.لیکن آجکل کی مائیں ایسے موقع کی پر کہ دیتی ہیں کہ بچہ بچارہ کم سمجھ ہے بلکہ اگر وہ رو پڑے تو خودا سے کہیں گی کہ اچھا کھالے کھالے.پس بچوں کی تربیت نہایت اہم چیز ہے.میں دیکھتا ہوں کہ ربوہ پر جہاں بہت سی ذمہ داریاں ہیں وہاں بچوں کی تربیت کے متعلق بھی اس پر بڑی بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے.لیکن افسوس ہے کہ بچوں کی تربیت کی طرف بہت کم توجہ کی جاتی ہے.قادیان میں بھی یہ نقص تھا اور میں نے اس کو دور کرنے کی کوشش کی تھی.لیکن وہاں یہ نقص زیادہ نہیں تھا یہاں تو یہ حالت ہے کہ والدین اپنے بچوں کو خلافت کی اہمیت بھی نہیں بتاتے.چنانچہ بعض بچے جب میرے پاس آتے ہیں تو میں نے دیکھا ہے کہ وہ السَّلامُ عَلَيْكُمُ کہنے کی بجائے اس قسم کے الفاظ اپنی زبان سے نکال دیتے ہیں کہ با باجی سلام.اس کے معنی یہ ہیں کہ انہیں پتا ہی نہیں کہ اُن کا خلیفہ وقت کے ساتھ کیا رشتہ ہے اور اسے کن الفاظ میں مخاطب کرنا چاہیے.اگر والدین نے انہیں خلافت کے مقام کی اہمیت بتائی ہوتی تو وہ آداب اسلامی سے اس قدر بیگانہ نہ ہوتے.میں سمجھتا ہوں یہ ماں باپ کا ہی قصور ہے کہ انہیں یہ بتایا ہی نہیں گیا کہ خلیفہ کا رشتہ ماں باپ اور استاد کے رشتہ سے بھی زیادہ اہم ہے اور ان کا فرض ہے کہ اسے ان سب سے زیادہ عزت کا مقام دیں.اسی طرح ابھی ایک بچہ لاہور سے آیا ہے.اُس کی عمر سات آٹھ سال کی ہے.اُس سے باتیں کرنے پر معلوم ہوا کہ اُسے اتنا بھی والدین نے نہیں سمجھایا کہ اُس کا
$1951 152 خطبات محمود پیدا کرنے والا ایک خدا ہے.جب اُس سے پوچھا گیا کہ تمہیں کس نے پیدا کیا ہے؟ تو اس نے کہا مجھے پتا نہیں.گویا والدین کی غفلت کی وجہ سے جماعت کی آئندہ نسل تباہ ہو رہی ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جنت تمہاری ماؤں کے قدموں کے نیچے ہے.3 اس کا یہ ہرگز مطلب نہیں کہ بیوقوف اور جاہل ماؤں کے قدموں میں بھی جنت ہے بلکہ اس کے یہ معنے ہیں کہ اگر مائیں اپنے بچوں کی صحیح تربیت کریں اور انہیں اسلامی اخلاق سکھائیں تو وہ انہیں جنتی زندگی کا وارث بنا سکتی ہیں لیکن اگر وہ اپنے بچوں پر مناسب دباؤ نہیں ڈالتیں، وہ ان کی تربیت نہیں کرتیں تو ان کی اگلی نسل جنت سے دور ہو جائے گی.گویا بچوں کو جنت یا دوزخ میں ڈالنا ماں باپ کے اختیار میں ہے.پس ماؤں کا فرض ہے کہ وہ اپنے بچوں کو خدا تعالیٰ کے احکام اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام سے باخبر رکھیں، صحابہ کی فضیلت اُن پر واضح کریں، بزرگوں کا تذکرہ اُن کے سامنے کرتی رہیں.اور اگر ضرورت سمجھیں تو کہانیوں کے ذریعہ خدا اور رسول کی باتیں ان کے ذہن نشین کریں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کبھی کبھی ہمیں فرمایا کرتے تھے کہ بیٹھ جاؤ میں تمہیں کہانی سناتا ہوں.وہ کہانی کیا ہوتی تھی یہی بزرگوں کے واقعات ہوتے تھے جن کا نام کہانی رکھ لیا جا تا تھا اور ہم دلچسپی سے اُسے سنتے تھے بلکہ بعض دفعہ ہم پیچھے پڑ جاتے تھے کہ ابھی کہانی پوری نہیں ہوئی.غرض اس طرح بھی دینی باتیں سکھائی جاسکتی ہیں.اگر بچوں کو یہ کہا جائے کہ آؤ تمہیں نماز سکھائیں تو وہ اسے سبق سمجھ لیتے ہیں لیکن اگر یوں کہا جائے کہ ایک بزرگ تھے، وہ نبیوں کے سردار تھے ، وہ خدا کی بڑی عبادت کیا کرتے تھے اور پھر بتایا جائے کہ وہ یوں عبادت کرتے تھے تو اس طرح بچوں کو ساری نماز یاد ہو جائے گی اور پھر وہ اسے کہانی کی کہانی سمجھیں گے.اسی طرح تاریخ اسلامی ، آداب اور اخلاق وغیرہ بچوں کو سکھائے جائیں.اسی لیے میں نے کتابوں کا ایک کورس مقرر کیا تھا اور جماعت کے علماء کو توجہ دلائی تھی کہ وہ بچوں کے لیے تربیتی مسائل پر مختلف کتب لکھیں.اس وقت سات آٹھ پروفیسر جامعة المبشرین میں ہیں، چار پانچ جامعہ احمدیہ میں ہیں.یہ گیارہ آدمی اگر ہر چھ ماہ میں ایک کتاب بھی لکھتے تو اڑھائی سال میں پچپن کتابیں لکھ لیتے.ہائی سکول میں تھیں کے قریب استاد ہیں، کالج میں ہیں پروفیسر یا لیکچرار ہیں، ساٹھ کے قریب مبلغ ہیں.گویا ایک سو دس یہ ہیں.اگر یہ لوگ ایک ایک کتاب فی سال بھی لکھتے تو تین سال میں تین سو تھیں کتابیں لکھ لیتے.بچوں کے لیے کتابیں لکھنا
$1951 153 خطبات محمود ا کونسی مشکل بات ہے.لیکن یہ لوگ یہ تو کوشش کرتے ہیں کہ یو نیورسٹی انہیں پرچے دیکھنے کے لیے بھیج دے اور انہیں کچھ پیسے مل جائیں.لیکن اس طرف توجہ نہیں کرتے کہ وہ علمی اور اخلاقی اور تربیتی کتابیں لکھیں حالانکہ ہم نے بھی اُن کے معاوضہ میں ایک رقم مقرر کی ہوئی ہے.اس کے معنے یہ ہیں کہ ہمارے اساتذہ اور علماء کی ذہنیت گری ہوئی ہے.تحریک جدید میں بھی یہی ہوا ہے.ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ہماری اگلی نسل پہلوں سے بڑھ کر چندہ دیتی لیکن ان کا چندہ دفتر اول کے چندہ سے آدھا بھی نہیں.اس کے معنے یہ ہیں کہ ان میں خدمت دین کی رغبت ہی نہیں رہی.مجھے یاد ہے جن دنوں میں نے شروع میں تحریک کی تو اُس وقت جماعت کے لڑکے کالجوں میں بہت تھوڑے تھے لیکن پھر بھی احمد یہ ہوٹل کے طلباء کے وعدے ایک ہزار سے زیادہ کے تھے.اب کالج میں کئی سو طلباء ہیں لیکن اُن کے وعدے ایک ہزار روپے کے بھی نہیں.اسی طرح سکول کے وعدے بھی بہت زیادہ ہوا کرتے تھے.یا درکھو! تمام کام تربیت سے ہوتے ہیں.جب تک ہر مرد اور عورت یہ نہ سمجھ لے کہ جس دن بچہ پیدا ہواُسی دن سے ہم نے اس کی تربیت کرنی ہے اُس وقت تک ہماری آئندہ نسلیں ترقی نہیں کر سکتیں.اس حکمت کو مد نظر رکھتے ہوئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا ہے کہ جب بچہ پیدا ہوتو ہی تم اُس کے کان میں اذان کہو.4 گویا وہ وقت بھی ضائع نہیں کرنا چاہیے.اگر تم سمجھتے ہو کہ بچے کے کان میں دوسرے دن بھی اچھی بات پڑنی چاہیے، تیسرے دن بھی اچھی بات پڑنی چاہیے اور تم اس کے لیے مسلسل کوشش کرتے ہو تو تم کامیاب ہو گئے.لیکن اگر تم ایسا نہیں کرتے تو تم اپنی آئندہ نسل کو تباہ کرتے ہو.اور در حقیقت آئندہ نسل کی تربیت اس حکمت کو نہ سمجھنے کی وجہ سے کمزور ہو رہی ہے ، اُن کی میں قومی کام کرنے کی رغبت کم ہے، وہ اپنی آمد کے مطابق چندہ نہیں دیتے اور اشاعتِ اسلام کے لیے زندگیاں وقف کرنے کی طرف انہیں توجہ نہیں حالانکہ ایک ایک مومن دنیا میں بہت بڑا تغیر پیدا کر سکتا ہے.حضرت معین الدین صاحب چشتی ”ہندوستان میں آئے اور ان کی وجہ سے تمام ہندوستان میں اسلام پھیل گیا.اگر دوسرے مسلمان بھی خواجہ معین الدین صاحب چشتی والا جوش رکھتے تو شاید تاریخ میں یہ لکھا ہوا ہوتا کہ ہندوستان میں ایک قدیم مذہب ہوا کرتا تھا جسے تھے.لیکن میں بجھتا ہوں اگر اب بھی ایسا ہو جائے اور ہماری آئندہ نسلوں میں کی ہندو
$1951 154 خطبات محمود حضرت معین الدین صاحب چشتی والا جوش اور ایمان پیدا ہو جائے تو ہر طرف احمدی ہی احمدی دکھائی دیں گے.لیکن اگر تمہاری زندگی مُردار پن میں گزر رہی ہے تو یہ صورت کیسے پیدا ہو سکتی ہے؟ جب تک تم میں یہ جذبہ پیدا نہیں ہوتا کہ تم اپنے ماں باپ کی وجہ سے احمدی نہیں ہوئے ، تم اپنے بہن بھائیوں اور دوسرے رشتہ داروں کی وجہ سے احمدی نہیں ہوئے بلکہ تم اس لیے احمدی ہوئے ہو کہ تم نے خود احمدیت میں خدا تعالیٰ کا نور دیکھا ہے تو تم ویسے ہی ہو جیسے پانی کی ایک دھار نکلتی ہے تو وہ آخر تک دھار ہی رہتی ہے.حالانکہ جب وہ دھار نالا نہیں بنتی اور نالا سے دریا نہیں بنتا اور دریا سے سمندر نہیں بنتا اُس وقت تک کبھی دنیا میں صحیح رنگ میں کامیابی حاصل نہیں ہوسکتی.(الفضل 10 مئی 1961 ء ) 1 : بخارى كتاب الاطعمة باب التَّسْمِيَةِ عَلَى الطَّعَامِ وَ الْاَكْلِ بِالْيَمِينِ میں "كُل بِيَمِينِكَ وَ كُلُّ مِمَّا يَلِيْكَ“ کے الفاظ ہیں.2 : صحیح بخاری كتاب الزكوة باب ما يذكر في الصدقة للنبي و اله :3 كنز العمال - جلد 16 صفحه -461 كتب التراث العلمي حلب 1977ء :4 : كنز العمال - جلد 16 صفحه 599 - حدیث نمبر 46004- كتب التراث العلمي حلب 1977ء
$1951 155 (22) خطبات محمود روحانی جماعتیں اللہ تعالیٰ کی امداد پر انحصار رکھتی ہیں (فرمودہ 28 ستمبر 1951ء بمقام ربوہ) تشہد ، تعو ذاورسورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: "روحانی جماعتوں کا تعلق مادیات سے نہیں ہوتا.روحانی جماعتیں اپنے کاموں میں اللہ تعالیٰ کی امداد اور اس کی نصرت پر انحصار رکھتی ہیں.جب کبھی بھی روحانی کہلانے والی جماعتیں مادی اشیاء پر نظر کرتی ہیں اور ان سے امید رکھتی ہیں تو اُن کی طاقت کمزور ہوتی چلی جاتی ہے اور جب کبھی بھی وہ خدا تعالیٰ پر نظر رکھتی ہیں اور اُس پر تو کل رکھتی ہیں تو اُن کی روحانی طاقت کے علاوہ مادی طاقت بھی ترقی کرتی چلی جاتی ہے.مجھے یاد ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرمایا کرتے تھے کہ سلطان عبد الحمید جو ترکوں کے بادشاہ تھے اور عارضی طور پر اُن کے زمانہ میں مسلمانوں کو بھی ترقی ہوئی اُس کی ایک بات مجھے بہت پسند ہے.جب ملک کی نوجوان پارٹی نے انہیں معزول کر کے اپنا سکہ جمالیا تو اردگرد کی حکومتوں نے ترکی حکومت کو کمزور کر دیا.عرب لوگ بھی بدظن ہو گئے کیونکہ سلطان عبدالحمید کا سلوک اُن سے اچھا تھا.ان سے پہلے عرب شاکی تھے کہ ترک ان سے اچھا سلوک نہیں کرتے.سلطان عبدالحمید نے انہیں تعلیم دلانا شروع کی، انہیں کالجوں میں تعلیم دلوا کر فوجی اور دوسر.
$1951 156 خطبات محمود اہم کاموں پر لگایا اور ترکی حکومت میں انہیں داخل کرنا شروع کیا.ترک سمجھتے تھے کہ سلطان عبدالحمید عربوں کو آگے لا کر ترکوں کو کمزور کرنا چاہتے ہیں اس لیے ان کی یہ پالیسی درست نہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرمایا کرتے تھے کہ سلطان عبد الحمید بہت اچھا آدمی تھا اور اُس کی ایک بات مجھے بہت اچھی لگتی ہے.ایک جنگ کے متعلق جو شاید یونان والی جنگ تھی یا کوئی اور ان حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرمایا کرتے تھے کہ جب اُس کے آثار پیدا ہوئے تو سلطان عبدالحمید نے تمام وزراء اور بڑے افسروں کی ایک کانفرنس بلائی کہ اس صورتِ حالات میں ر کی حکومت کو دب کر صلح کر لینی چاہیے یا جنگ کرنی چاہیے.ترکی کے بعض جرنیل یورپین حکومتوں کے خریدے ہوئے تھے، وہ جنگ نہیں کرنا چاہتے تھے لیکن وہ یہ کہنے کے لیے بھی تیار نہیں تھے کہ ہم جنگ کے لیے تیار نہیں.جب سلطان عبد الحمید نے اُن سے مشورہ طلب کیا تو انہوں نے کہا فلاں چیز بھی ٹھیک ہے، فلاں چیز بھی ٹھیک ہے لیکن فلاں خانہ خالی ہے.اس طرح انہوں نے چاہا کہ وہ ملک اور بادشاہ کے سامنے نیک نام ہو جائیں کہ انہوں نے جنگ کے خلاف مشورہ نہیں دیا بلکہ سب حالات بتا کر سلطان عبدالحمید پر یہ بات چھوڑ دی ہے.اصل مطلب یہ تھا کہ بعض کمزور پہلو دیکھ کر وہ خود ہی لڑائی نہ کرنے کا فیصلہ کرے.سلطان عبدالحمید نے اُن کا مشورہ سن کر جواب دیا کہ سارے کام انسان ہی نہیں کرتا خدا تعالیٰ بھی کچھ کام کرتا ہے.اگر آپ نے سب خانے پر کر دیئے ہیں اور صرف ایک خانہ خالی ہے تو وہ خدا تعالیٰ پر چھوڑ دو اور جنگ لیے تیار ہو جاؤ.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ نہایت گرے ہوئے زمانہ میں بھی مسلمان تو کل سے خالی نہیں تھے اور یہ واقعہ یونانی جنگ کا ہے اور غالباً یہ اسی سے متعلق ہے.تو اس میں ترکوں کو اتنی شاندار فتح حاصل ہوئی کہ تمام یورپ حیران رہ گیا اور وہ ترکی حکومت میں دخل دینے سے کترانے لگا.حقیقت یہی ہے کہ سارے کام بندے نہیں کرتے کچھ کام خدا تعالیٰ بھی کرتا ہے.ہمارے اور دوسرے مذاہب کے درمیان یہی لڑائی ہے.ہم کہتے ہیں کہ خدا تعالیٰ زندہ ہے اور وہ انسان کے کاموں میں اُسی طرح دخل دیتا ہے جیسے وہ پہلے دیا کرتا تھا.ہم دیکھتے ہیں کہ جب انسان کی سب تدابیر نا کام ہو جاتی ہیں اور وہ خدا تعالیٰ کی طرف رُخ کرتا ہے تو اسے باوجود ظاہری سامان نہ ہونے کے کامیابی حاصل ہو جاتی ہے.نپولین نے کتنی تیاریاں کی تھیں، قیصر نے کتنی تیاریاں کی تھیں،
$1951 157 خطبات محمود وہ مسولینی نے کتنی تیاریاں کی تھیں لیکن وہ ناکام ہوئے.انور پاشا اور اس کی پارٹی نے کتنی تیاریاں کی تھیں لیکن وہ ناکام ہوئے اور ایک دھتکارا ہوا شخص مصطفی کمال پاشا آگے آ گیا.بیشک وہ بھی دینداری نہیں تھا لیکن انور پاشا پر یہ الزام تھا کہ اُس نے ایسے بادشاہ کو جس کے زمانہ میں اسلام نے ترقی کی تھی تھی معزول کیا.مصطفی کمال پاشا کا یہ قصور نہیں تھا.اُس نے بیشک خلافت کو تو ڑا لیکن اس نے اس خلافت کو توڑا جس نے پہلے سے قائم شدہ خلافت کو برخواست کیا تھا اور اس کا مقابلہ کیا تھا.اس لیے وہ باغی سے مقابلہ کرنے والا کہلاتا ہے.دراصل اس آخری زمانہ میں جو خلافت تھی یہ اصل خلافت نہیں تھی.اصل خلافت خلفائے راشدین والی خلافت ہی تھی.سارے مسلمان متفق ہیں کہ خلافت راشدہ حضرت علی پر ختم ہو گئی ہے.بیشک بعد میں آنے والے بادشاہوں کو بھی خلفاء کہا گیا خلفائے راشدین نہیں تھے.وہ اس بات سے ڈرتے تھے کہ اگر بادشاہ کو خلیفہ نہ کہا تو پکڑے جائیں گے.اس لیے انہوں نے پہلی خلافت کو خلافت راشدہ کا نام دے دیا اور اس طرح بادشاہوں کا منہ بند کر دیا.غرض عام بادشاہوں کو خلیفہ ہی کہا جاتا تھا لیکن جس خلافت کا ذکر قرآن کریم میں ہے وہ مسلمانوں کی اصطلاح میں خلافتِ راشدہ کہلاتی ہے اور اس بات پر سارے مسلمان متفق ہیں کہ خلافت راشدہ حضرت علی پر ختم ہو چکی ہے.ہاں ! اب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بعد نئے سرے سے قائم ہوئی ہے.لیکن یہ خلافت روحانی ہے دنیوی سلطنت کا اس سے کوئی تعلق نہیں.چونکہ مصطفی کمال پاشا نے ایک باغی کا مقابلہ کیا اس لیے وہ جیت گیا اور انور پاشا اور اُس کی پارٹی ہارگئی.اس نے ترکی کی پہلی حکومت کو جس میں اسلام کو کچھ نہ کچھ ترقی ہوئی تھی تنزل نہیں ہوا تھا تو ڑنا چاہا.اس لیے خدا تعالیٰ نے اُسے توڑ دیا.مصطفی کمال پاشا نے اس حکومت کو دوبارہ کھنڈرات سے قائم کیا.پھر اس کا نام خلافت نہیں رکھا.اس نے ایک دنیوی حکومت قائم کر دی جو انور پاشا کی حکومت سے زیادہ بہتر ، مضبوط اور ترکوں اور عربوں کے لیے مضبوطی کا موجب تھی.اس لیے اللہ تعالیٰ نے اُس کی مدد کی.اور ان اللہ تعالیٰ ایسے مواقع پر ہر ایک کی مدد کیا کرتا ہے.جن لوگوں نے انگریزی تاریخیں پڑھی ہیں اور پھر سارے جھگڑوں کا مطالعہ کیا ہے جو پہلی جنگِ عظیم میں چرچل اور دوسرے وزراء میں پڑ گئے تھے وہ جانتے ہیں کہ دراصل چرچل ہی ترکی میں فوج اتارنے کا ذمہ دار تھا.انگریزی حکومت نے ترکی میں فوجیں اتار دیں.ترکی نے اُن کا مقابلہ کیا اور پھر یونانیوں کو جن کو اتحادیوں نے ترکی کے ملک پر
$1951 158 خطبات محمود قابض کر دیا تھا گا جر مولی کی طرح کاٹ دیا.غرض انور اور مصطفی کمال سے دو الگ الگ سلوک بتاتے ہیں کہ سلطان عبدالحمید کے ساتھ ایک حد تک خدائی مدد تھی.بیشک وہ روحانی بادشاہ نہیں تھا وہ ایک دنیوی بادشاہ تھا لیکن اُس نے اسلام کی خدمت کی.اس لیے اُس نے خدا تعالیٰ کے فضل کو کھینچ لیا.اس نے اسلام کی سچے دل سے مدد کی تو خدا تعالیٰ نے بھی اُس کی مدد کی اور ایک طاقت ور دشمن کے مقابلہ میں اسے فتح عطا فرمائی.پاکستان کے بننے میں بھی خدائی طاقت کا دخل تھا.جیسا کہ دوستوں کو معلوم ہے کہ اپریل 1947 ء سے پہلے ہماری یہ خواہش تھی کہ ہندوؤں اور مسلمانوں کا آپس میں سمجھوتہ ہو جائے لیکن غیب کا علم خدا تعالیٰ ہی کو تھا.ہم سمجھتے تھے کہ مسلمانوں اور ہندوؤں میں جب صلح ہو جائے گی تو ان میں محبت اور پیار پیدا ہو جائے گا اس لیے ہندو مسلمانوں پر ظلم نہیں کریں گے.لیکن خدا تعالیٰ جانتا تھا کہ خواہ کچھ کی کر لو یہ قوم اسلام کی دشمنی سے باز نہیں آئے گی ، اس لیے اس نے ایسی تدبیر کی اور ایسے جھگڑوں کے سامان پیدا کر دیئے کہ جن سے مسٹرمحمد علی جناح صاحب جو بعد میں قائد اعظم کہلائے اُن کے دل میں یہ بات راسخ ہو گئی کہ ہندو مسلمانوں سے صلح پر تیار نہیں.چنانچہ مئی میں جا کر یہ بات کھل گئی کہ ہندوؤں سے صلح بر کار ہے پاکستان ضرور بنے گا.بیشک عقلی طور پر ہم کہتے تھے کہ ہندوؤں اور مسلمانوں میں صلح ہو جانی چاہیے اور اس طرح ملک کو متحد رہنا چاہیے لیکن خدا تعالیٰ عالم الغیب تھا.وہ جانتا تھا کہ ہماری رائے درست نہیں.مسلمانوں کو بالجبر ہندو بنایا جائے گا اور سومناتھ مندر 1 کی دوبارہ تعمیر ہوگی.اس لیے خدا تعالیٰ نے پسند نہ کیا کہ اُس کے بندے کعبہ کی بجائے سومناتھ کے آگے جھکیں اُس نے پاکستان قائم کروا دیا.اور پھر ایسے حالات میں پاکستان قائم کروا دیا کہ لارڈ ماؤنٹ بیٹن جو اس تمام واقعہ کا ذمہ دار ہے اور ایک ایسا شخص ہے جس کی گردن پر لاکھوں مسلمانوں کے قتل کا گناہ ہے جب مشرقی پنجاب کے لوگ مارے گئے ہند و تمام روپیہ لے کر ہندوستان چلے گئے، ملکی صنعت پر ہندوؤں نے قبضہ کر لیا تو اس نے کہا خدایا! میں یہ تو جانتا تھا کہ پاکستان ٹوٹ جائے گا لیکن یہ نہیں جانتا تھا کہ اتنی جلدی ٹوٹ جائے گا لیکن خدا تعالیٰ نے اُس کو شر مندہ کیا.اب اُسے یورپین شطرنج کی چالوں میں موقع دیا جاتا ہے لیکن مسلمان جب اُس کا نام سنتے ہیں تو اس کے حق میں دعا ئیں نہیں کرتے.جس شخص کے افعال کی وجہ سے لاکھوں مسلمان مارے گئے خدا تعالیٰ نے اپنے فضل سے ہی اُسے
$1951 159 خطبات محمود نا کام کیا.بہر حال یہ خدائی فعل ہے اور اس کا نتیجہ نظر آتا ہے.میں جب دہلی گیا تو اچھے اچھے ہندو جن کے متعلق میں یہ امید نہیں کرتا تھا کہ وہ اس قدر متعصب ہوں گے انہوں نے بھی تعصب سے کام لیا.ایک ہندو لیڈر کے پاس جن کا میں نام لینا نہیں چاہتا میں نے بعض ہندو بھجوائے اور انہیں کہا اُسے سمجھاؤ.جب وہ واپس آئے تو میں نے پوچھا اُس نے کیا کہا ہے؟ تو انہوں نے بتایا کہ جب ہم نے اُس سے بات کی تو اُس نے کوئی جواب نہیں دیا.س سے میرے ذہن میں یہ بات آئی کہ اگر ہندو مسلمانوں سے مل بھی گئے اور انہوں نے صلح کر لی تب بھی کوئی فائدہ نہیں.اب دیکھ لو جو کچھ ہورہا ہے اسے دیکھ کر انسان حیران ہو جاتا ہے کہ اس سے زیادہ صلح کس طرح کی جائے؟ حقیقت یہی ہے کہ جیسا کہ رپورٹوں سے معلوم ہوتا ہے ہندوؤں نے سینکڑوں مسلمانوں کو بالجبر ہندو بنالیا ہے.اس سے اسلام کوکوئی نقصان نہیں پہنچتا لیکن اس سے یہ پتا لگتا ہے کہ اگر مسلمان اس دھوکا میں رہتے کہ ہندوؤں کو کچھ دے دلا کر راضی کر لیا جائے تو یہ نہایت خطر ناک خیال تھا.اللہ تعالیٰ نے فضل کیا اور مسلمانوں کو وقت پر یہ سمجھ آگئی کہ اگر وہ ہندوستان میں شامل رہے تو ان کا محفوظ رہنا مشکل ہے.پاکستان بننے سے مسلمان کچھ بچا ہے.میں ” کچھ بچا ہے اس لیے کہتا ہوں کہ بہت سے مسلمان ہندوستان میں ابھی بسے ہوئے ہیں.ہندو منہ سے تو کہتے ہیں کہ ہم پاکستان سے جنگ کرنا نہیں چاہتے لیکن ان کے اخبارات میں بعض نظمیں میں نے پڑھی ہیں کہ ہم نے کوئٹہ تک جانا ہے.دشمن بیشک کچھ کہے لیکن ان کے اخبارات سے جو کچھ پتا لگا ہے اور انگریزی اخباروں سے بھی اس بات کا پتا لگتا ہے کہ امرتسر کے ہزاروں ہزار ہندو بھاگ گئے ہیں.بیشک یہ افراد کی حرکتیں ہیں لیکن ہمیں نظر آتا ہے کہ اگر مسلمانوں نے بے غیرتی کو چھوڑ دیا اور تفرقہ بازی سے کام نہ لیا جیسا کہ احراری اور دوسرے بعض مسلمان کر رہے ہیں اور اگر مسلم لیگ نے ان کو سر پر نہ چڑھائے رکھا تو جس خدا نے ان کو پہلے مدد دی تھی وہ اب بھی انہیں نہیں چھوڑے گا.اگر انہوں نے ملک میں کوئی نی فتنہ کھڑا نہ کیا تو خدا تعالیٰ یقیناً اس ملک کی مدد کرے گا جس طرح اس نے پہلے مدد کی.پہلی مدد کیسی زبر دست تھی کہ کام کرنے والے لوگ ہندوستان چلے گئے ، سارا سامان اور مال و دولت ہندوستان کے حصہ میں آ گئی.پاکستان کی فوجیں جو اس کے حصہ میں آئیں وہ ہزاروں میل ملک سے دور بیٹھی تھیں، خزانے خالی تھے اور مہاجرین کا سیلاب امڈا ہوا پاکستان کی طرف آرہا تھا.اس قسم کی کوئی مثال نہیں ملتی
$1951 160 خطبات محمود کہ کوئی قوم اس قسم کے حالات سے نکل آئی ہو اور اُس نے حکومت کی ہو اور پھر ایسی حکومت کی ہو کہ دو چار سال میں وہ بیرونی دنیا میں مشہور ہو گئی ہو.میں نے تاریخ پر غور کیا ہے مجھے کوئی ایسی مثال نہیں ملتی کہ اس قسم کے حالات میں کوئی قوم زندہ رہی ہو اور پھر اُس نے نہ صرف حکومت کی ہو بلکہ تمام بیرونی دنیا میں مشہور ہوگئی ہو.اس کے یہ معنے نہیں کہ خدا تعالیٰ نے انبیاء کی جماعتوں کی بہت کم مدد کی ہے.وہ مدد جو خدا تعالیٰ نے انبیاء اور اُن کی جماعتوں کی کی ، وہ نہایت عالیشان تھی لیکن وہ دنیوی وجوہ پر نہیں تھی وہ دینی وجوہ پر تھی.غرض ایک دنیوی حکومت کا اِن حالات میں بچ جانا جن سے پاکستان گزرا ہے، پھر اس کا ترقی کرنا اور عزت حاصل کر لینا کوئی معمولی بات نہیں.پھر اس نے یہ ترقی تین چار سال میں کر لی ہے.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ کا اِس میں کتنا ہاتھ تھا.جماعت احمد یہ جن حالات سے گزر رہی ہے ان سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے خدا تعالیٰ سے کس قدر تعلقات تھے.آپ تنہا تھے پھر ہزاروں ہو گئے اور پھر ہزاروں سے لاکھوں ہو گئے.پھر جس حالت میں جماعت چل رہی ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جماعت لاکھوں سے کروڑوں ہو جائے گی.یہ معجزے جن لوگوں کے کام نہیں آئے وہ یہی بات دیکھ لیں کہ اگر پاکستان طاقت کے زور سے بنتا تو یہ ناممکن تھا.لاکھوں آدمی مارا جا رہا تھا، گولہ بارود ہندوستان میں رہ گیا تھا، خزانہ خالی تھا ، فو جیں باہر تھیں.ان حالات میں وہ کونسی طاقت تھی جس کے زور سے پاکستان بنا؟ روپیہ اُدھر تھا ، سامانِ جنگ اُدھر تھا، کام کرنے والے اُدھر چلے گئے ، دس ہیں لاکھ کے قریب آدمی مارے گئے یہ صرف خدائی طاقت تھی جس کی وجہ سے پاکستان کا رُعب پڑ گیا.جب بھی ہندوستان نے بُرا ارادہ کیا خدا تعالیٰ نے اُس پر رعب ڈال دیا اور اُس نے کہا کہ اب نہیں پھر سہی.پھر جب ارادہ کیا کہ پاکستان پر حملہ کیا جائے تو پھر رُعب پڑ گیا اور انہوں نے کہہ دیا اب نہیں پھر سہی.گواب بھی سامان تھوڑے ہیں لیکن چار سال تک پاکستان کا قائم رہنا اور بیرونی دنیا میں اس کا مشہور ہو جانا اس میں خدا تعالیٰ کا ہاتھ ہے.خدا تعالیٰ جس کی نصرت پر آتا ہے کوئی طاقت اُس کا کچھ بگاڑ نہیں سکتی.پس اگر دنیوی امور میں وہ اس طرح مدد کرتا ہے تو وہ دینی باتوں میں کس طرح مدد کرے گا.لیکن میں دیکھتا ہوں کہ جماعت میں دعاؤں کی طرف توجہ بہت کم ہوگئی ہے.دعاؤں کی ایک رسم پڑ گئی ہے لیکن دل میں اس کا کوئی اثر نہیں رہا.رسماً سب لوگ یہی کہیں گے ہمارے لیے دعا کرنا
$1951 161 خطبات محمود لیکن وہ یہ نہیں سمجھیں گے کہ وہ کس کو دعا کے لیے کہہ رہے ہیں اور وہ ان کے لیے دعا بھی کرے گا یا نہیں.پھر اس کا ان کے اپنے دل پر کیا اثر ہے.پس راتوں کو اٹھو، خدا تعالیٰ کے سامنے عاجزی اور انکساری کرو، پھر یہی نہیں کہ خود دعا کرو بلکہ یہ دعا بھی کرو کہ ساری جماعت کو دعا کا ہتھیار مل جائے.ایک سپاہی جیت نہیں سکتا جیتی فوج ہی ہے.اس طرح اگر ایک فرد دعا کرے گا تو اُس کا اتنا فائدہ نہیں ہوگا جتنا ایک جماعت کی دعا کا فائدہ ہو گا.تم خود بھی دعا کرو اور پھر ساری جماعت کے لیے بھی دعا کرو کہ خدا تعالیٰ انہیں دعا کرنے کی توفیق عطا فرمائے ، ہر احمدی کے دل میں یقین پیدا ہو جائے کہ دعا ایک کارگر وسیلہ ہے اور یہی ایک ذریعہ ہے جس سے کامیابی حاصل کی جاسکتی ہے.جماعت کے سب افراد میں ایک آگ سی لگ جائے ، ہر احمدی اپنے گھر پر دعا کر رہا ہو پھر دیکھو کہ خدا تعالیٰ کا فضل کس طرح نازل ہوتا ہے“.الفضل 17 نومبر 1951ء) 1 سومنات، سومناتھ : جنوب مغربی ہندوستان کے علاقہ گجرات میں ایک شہر کا نام جو کاٹھیا واڑ کے کنارے پر واقع ہے اس میں شیو جی یا مہادیو کا مند رسومناتھ بہت مشہور ہے.عہد قدیم میں ہندوستان میں بڑا اہم اور اپنی دولت کی فراوانی کی وجہ سے مشہور تھا.1024 ء میں محمود غزنوی نے اس شہر پر حملہ کر کے اسے فتح کیا.مندر کے بت کو تو ڑا جس میں سے بے شمار جواہرات نکلے.شہر کا نام اسی مندر کے نام پر پڑا.( اردو لغت تاریخی اصول پر جلد 12 اردو لغت بورڈ کراچی سن اشاعت جنوری 1991ء)
$1951 162 (23) خطبات محمود سچا علم انسا ان کو بتا دیتا ہے کہ اس سے بالا ایک اور علیم وحکیم ہستی ہے اور وہ خدا تعالیٰ ہے فرموده 5 اکتوبر 1951ء بمقام سرگودھا) تشهد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: انسانی کاوش اور انسانی تحقیق ہمیشہ ایک حد تک انسان کو لے جاتی ہے.اس سے آگے صرف خدا تعالیٰ کا ہاتھ ہی کام کرتا ہے اور تمام علوم، سائنس اور طبیعات جو ہیں وہاں جا کر بالکل فیل ہو جاتی ہیں.دنیا میں ہم دیکھتے ہیں کہ بڑے بڑے علماء پیدا ہوتے ہیں، بڑی بڑی ایجاد یں ہوتی ہیں، تحقیقا تیں ہوتی ہیں حتی کہ جاہلوں نے یہ سمجھ لیا ہے کہ اب راز کائنات کھلنے والا ہے لیکن جو عالم اور ماہر بھی ہوئے انہوں نے اس زمانہ میں بھی یہی کہا ہے کہ راز کائنات کھل نہیں رہا بلکہ مزید راز ہائے کائنات معلوم ہورہے ہیں.ایٹم بم جب نکلا تو لوگوں نے کہا اب ذرہ کے ٹوٹنے کا طریق چونکہ معلوم اور سے نیچے کوئی اور ہو چکا ہے اور یہ چھوٹے سے چھوٹا ذرہ جس سے نیچے کوئی چیز انسانی فہم اور انسانی ذہن میں نہیں آسکتی اس لیے کائنات کی گنہہ معلوم ہوگئی اور اس کی حقیقت کو پالیا گیا.لیکن جب انسان یہ نہیں جانتا کہ کائنات کس طرح بنی ہے یا وہ کیوں بنی ہے تو اس نے اس کی گنہہ کو کس طرح معلوم کر لیا
$1951 163 خطبات محمود اور اس کی حقیقت کو کس طرح پالیا.بعض لوگوں نے کہا ہے چونکہ ذرہ کو تو ڑ کر اس سے طاقت حاصل کرنے کا طریق نکل آیا ہے اور اس بات کا زبر دست امکان پیدا ہو گیا ہے کہ ذرہ کو توڑنے سے اتنی طاقت پیدا ہو جائے گی کہ وہ آگے دوسرے ذرہ کو توڑے گا ، پھر وہ تیسرے کو توڑے گا ، پھر چوتھے کو توڑے گا.اس طرح قیامت کا چی ایک ذریعہ نکل آیا ہے.لیکن 1945ء میں پہلا ایٹم بم چلایا گیا تھا ایجاد وہ اس سے بہت دیر پہلے کا ہو چکا تھا.اب 1951ء آ گیا ہے.گویا چھ سال گزرنے کے بعد بھی را از قدرت ویسے کا ویسا ہے اور اس عرصہ میں انسان قیامت برپا نہیں کر سکا ہے.راز قدرت کو معلوم تو سبھی کیا جا سکتا ہے جب یہ مہ ہو کہ ذرہ کی حقیقت کیا ہے.لیکن ہوا یہ ہے کہ بعض اور باتیں پیدا ہو گئی ہیں جن کا پہلے انسان کو وہم معلوم و گمان بھی نہیں تھا.اب جب وہ سامنے آ گئی ہیں تو انسان حیران ہو گیا ہے کہ یہ کس طرح ہے؟ ہمارے ایک نوجوان ابھی ابھی تعلیم حاصل کر کے انگلستان سے واپس آئے ہیں.انہوں نے وہاں ایسی عزت حاصل کی ہے کہ امریکہ نے بھی انہیں بلایا اور وہاں انہیں تین مہینوں تک بڑے بڑے پروفیسروں کے ساتھ رکھا گیا.وہ ایٹم سے متعلق ایک مسئلہ کی تحقیقات کر کے آئے ہیں.میں نے ان سے اس بارہ میں بات چیت کی تو انہوں نے بتایا کہ قانون قدرت میں بعض اعداد گنجی کے اعداد معلوم ہوئے ہیں اور بعض تابع اعداد ہیں.جب انسانی عقل اس عدد پر پہنچ جاتی ہے یا کوئی طاقت اس عدد کو پہنچ جاتی ہے تو وہ کنجی والی طاقتیں اپنے اندر پیدا کر لیتی ہے اور جب وہ اس کنجی والے عدد سے آگے یا پیچھے ہٹ جاتی ہے تو کنجی والی طاقتیں اس سے جاتی رہتی ہیں.چنانچہ انہوں نے بتایا کہ چار کا عدد نجی والا عدد ہے.میں نے سوچا کہ میرے زمانہ میں مُنجم اور اِس قسم کے دوسرے لوگ یہ کہا کرتے تھے کہ سات کے عدد میں یہ برکت ہے، دس کے عدد میں یہ برکت ہے، انیس کے عدد میں یہ برکت ہے.اب سائنس بھی انہی اعداد پر آ رہی ہے.ہمارے اس نوجوان نے بتایا کہ اب تحقیقات مکمل ہورہی ہیں اور زائد باتیں بھی معلوم ہورہی ہیں.میں نے کہا تم یہ تو بتاؤ کہ آخر ایسا کیوں ہے کہ چار کا عدد کنجی والا عدد ہے یا کوئی اور عد د نجی والا ہے؟ میں نے کہا یہ تو ایک اتفاقی امر ہے.جب آپ نے کسی عدد میں کوئی طاقت دیکھی تو لکھ لیا.را از قدرت تو تب معلوم ہو جب یہ معلوم ہو کہ چار کے عدد میں یہ طاقت کیوں پیدا ہوئی ہے؟ یہ تین اور پانچ کے اعداد میں کیوں پیدا نہیں ہوئی ؟ انہوں نے بتایا.
$1951 164 خطبات محمود کہ یہ بات اب تک معلوم نہیں ہوئی اور نہ قریب میں اس کے معلوم ہونے کا امکان ہے کہ بعض اعداد ی میں کیوں طاقت پائی جاتی ہے اور بعض میں کیوں طاقت نہیں پائی جاتی.میں نے کہا جب تک تم یہ معلوم نہ کر لو تمہیں راز ہائے کائنات کس طرح معلوم ہو سکتے ہیں.یہ ساری چیزیں بتاتی ہیں کہ انسان کو آخر کار خدا تعالیٰ کی طرف جانا پڑتا ہے اور وہ اس کی برتری کو تسلیم کرتا ہے.میں نے سوچا کہ انسان کی مثال اُس گھوڑے کی سی ہے جس کو سو، دوسوگز رستی کے ساتھ باندھ دیا جاتا ہے.وہ اٹھتا ہے اور چرنا شروع کر دیتا ہے اور آہستہ آہستہ یہ سمجھنے لگتا ہے کہ میں آزاد ہوں اور وہ بدک کر یاد بگ کر یا کسی اپنے خیال کے ماتحت دوڑ نے لگتا ہے اور سو، ڈیڑھ سوگز تک پہنچ کر جس قدر لمبی وہ رستی ہوتی ہے جس کے ساتھ وہ بندھا ہوا ہے اُس کے گلے میں پھندا پڑنا شروع ہو جاتا ہے اس لیے وہ واپس آجاتا ہے اور اتنا ڈر جاتا ہے کہ کیلے کے ساتھ ہی بیٹھ جاتا ہے.تھوڑی دیر کی کے بعد وہ پھر بھول جاتا ہے اور چلنے پھرنے لگتا ہے.اُسے یہ خیال آتا ہے کہ میں آزاد ہوں اس لیے وہ پھر دوڑنے لگتا ہے.لیکن کچھ فاصلہ پر جا کر اُس کے گلے میں پھندا پڑنا شروع ہوتا ہے اور وہ واپس آ کر رکیلے کے پاس بیٹھ جاتا ہے.یہی حال کا ئنات عالم کا ہے.انسان سمجھتا ہے کہ اُس نے بڑے بڑے علوم حاصل کر لیے ہیں لیکن وہ اظلال علوم ہوتے ہیں.میں سمجھتا ہوں کہ علم اس چیز کا نام ہے کہ کسی چیز کے متعلق یہ معلوم ہو کہ وہ کیا ہے، کیوں ہے اور کہاں ہے؟ اور یہ علم صرف خدا تعالیٰ کو ہی ہے.جب کسی انسان سے یہ پوچھا جاتا ہے کہ یہ چیز کیوں ہے، کہاں ہے، کس طرح ہے؟ تو بسا اوقات وہ لڑ پڑتا ہے اور اُسے غصہ آ جاتا ہے.بچے ماؤں پر سوال کرتے ہیں.بچہ اپنی ماں سے پوچھتا ہے کہ یہ کیا ہے؟ وہ کہتی ہے یہ گھوڑا ہے.وہ کہتا ہے گھوڑا کیا ت ہوتا ہے؟ ماں کہتی ہے ایک جانور ہے.وہ پھر پوچھتا ہے جانور کیا ہوتا ہے؟ ماں کہتی ہے جانو ر وہ ہوتا ہے ا ہے جو چلتا پھرتا ہو.بچہ پھر سوال کرتا ہے وہ کیوں چلتا پھرتا ہے؟ تو وہ اُس کے منہ پر تھپڑ مارتی ہے اور کہتی ہے چُپ کر ! تو نے تو میرے کان کھا لیے ہیں.ماں بچے کو اس کی بیوقوفی پر تھپڑ نہیں مارتی بلکہ وہ کی اپنی جہالت کی وجہ سے اُسے تھپڑ مارتی ہے.یہی حال محققین کا ہے، یہی حال پروفیسروں اور بڑے بڑے سائنس دانوں کا ہے.جب ان پر کوئی شخص سوال کرتا ہے کہ فلاں چیز کیوں ہے؟ کیا ہے؟ کدھر سے ہے؟ کدھر کو ہے؟ تو تھوڑے سے جواب کے بعد ان کا علم ختم ہو جاتا ہے اور یہ چیز واضح ہو جاتی.
خطبات محمود 165 $1951 کہ ان کا علم اصلی نہیں.اصلی علم ایک ہی ہستی کو حاصل ہے اور وہ خدا تعالیٰ ہے.بعض بیوقوف ایسے بھی ہوتے ہیں کہ وہ خدا تعالیٰ پر بھی اس قسم کے اعتراضات شروع کر دیتے ہیں کہ وہ کیوں ہے؟ کیا ہے؟ کدھر سے ہے؟ کدھر کو ہے؟ لیکن جو انسان اپنی ذات کے متعلق نہیں جانتا کہ وہ کیا ہے؟ کیوں ہے؟ وہ اُس ہستی کے متعلق کیا جانے جس کے ہاتھ میں سب علوم ہیں.انسان خود نہیں جانتا کہ وہ کیا ہے اور کیوں ہے؟ مرد عورت سے ملتا ہے اور اس سے بچہ پیدا ہوتا ہے لیکن بعض اوقات عورت اور مرد ہیں میں دفعہ آپس میں ملتے ہیں اور اس کے نتیجہ میں بچہ پیدا نہیں ہوتا.پھر ایک خاص وقت میں وہ کیوں پیدا ہو جاتا ہے؟ اسی طرح مرد و عورت کے اعضاء کے متعلق سوال کیا جائے تو یہ سلسلہ کبھی ختم نہیں ہوتا.انسان مجبور ہو جاتا ہے اور کہتا ہے مجھے اسی حد تک معلوم ہے.غرض جب تک یہ معلوم نہ ہو کہ فلاں چیز کیا ہے؟ کس طرح ہے؟ کیوں ہے؟ کدھر سے ہے؟ کدھر کو ہے؟ اُس وقت تک اس کی حقیقت معلوم نہیں ہو سکتی.جہاں تک میں سمجھتا ہوں سچے علم کے یہی معنے ہیں کہ وہ انسان پر اس کی حقیقت اور جہالت کو واضح کر دے.سچا علم انسان کو بتا دیتا ہے کہ اُس سے بالا ایک اور علیم و حکیم ہستی ہے اور وہ اُس کی مدد کے بغیر کوئی کام نہیں کر سکتا.جو علم یہ چیز بتا دیتا ہے وہ سچا ہے.لیکن جو شخص یہ نہیں جانتا کہ اُس سے بالا کوئی اور علیم اور حکیم ہستی ہے اور پھر وہ کہتا ہے میں فلاں چیز کی حقیقت کو پہنچ گیا ہوں وہ جھوٹا ہے.یہی پہچان ہے عالم اور غیر عالم کی.جب ایک شخص یہ سمجھتا ہے کہ اُس سے بالا ایک اور ہستی بھی ہے خواہ یہ سمجھ عارضی طور پر ہو یا مستقل طور پر ، اُسے منبع کا پتا چل جاتا ہے اور وہ اس سے فائدہ حاصل کر لیتا ہے.کنویں کا سارا پانی کوئی نہیں نکال سکتا لیکن اگر کسی کو ایک گلاس پانی بھی مل جائے تو اُس کی پیاس بجھ جاتی ہے.اسی طرح انسان سارے راز ہائے کائنات کو نہیں پہنچ سکتا لیکن اگر اُسے ایک قطرہ بھی اس سمندر سے مل جائے تو بڑے فائدہ کی چیز ہے بجائے اس کے کہ وہ ایسی حالت میں ہو جو ڈ بڑھا1 اور شک میں ڈال دیتی ہے.غیر مطبوعہ مواد از ریکارڈ خلافت لائبریری ربوہ ) 1 : ديدها: تذبذب.شک.پس و پیش.گھبراہٹ.وہم.وسوسہ ( فیروز اللغات اردو جامع فیروز سنز لاہور)
$1951 166 (24) خطبات محمود اپنی پیدائش کی اصل غرض کو سمجھو اور اللہ تعالیٰ سے سچا اور حقیقی تعلق پیدا کرنے کی کوشش کرو (فرمودہ 12 اکتوبر 1951ء بمقام ربوہ) تشهد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: دنیا میں بعض چیزیں اصلی اور حقیقی ہوتی ہیں اور بعض صرف تابع اور خادم کی حیثیت رکھتی ہیں.اصلی اور حقیقی چیزوں کو اپنے سامنے رکھنا اور تابع حیثیت رکھنے والی چیزوں کو اپنا اصل مقصود قرار نہ دینا ایک مومن کی علامت ہوتی ہے اور وہ ہمیشہ اس اصل کو اپنے سامنے رکھنے کی کوشش کرتا ہے.مگر اور لوگ اپنی عملی زندگی میں حقیقی اہمیت رکھنے والی چیزوں کو نظر انداز کر دیتے ہیں اور تابع حیثیت رکھنے والی چیزوں کو اختیار کر لیتے ہیں.مثلاً ہر شخص اس بات کو جانتا ہے کہ دنیا خدا تعالیٰ نے پیدا کی ہے.اب چاہیے تو یہ تھا کہ خدا تعالیٰ سے تعلق پیدا کرنا اپنا اصل مقصد قرار دیتے مگر وہ خدا تعالیٰ سے تو تعلق پیدا نہیں کرتے اور دنیا کے حصول کے لیے جو ایک مادی چیز ہے ہر وقت جہدو جہد کرتے رہتے ہیں.حالانکہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو اس لیے پیدا نہیں کیا کہ وہ زمین سے سونا نکالے بہ زمین سے چاندی نکالے یا زمین سے ہیرے جواہرات نکالے اور پھر اسی کام میں منہمک ہو جائے
$1951 167 خطبات محمود بلکہ اسے اس لیے پیدا کیا گیا ہے کہ وہ اپنے خالق و مالک سے تعلق پیدا کرے اور تمام چیزوں کو اپنا نیا خادم سمجھے.مگر باوجود اس کے کہ دنیا انسان کے لیے خادم کی حیثیت رکھتی ہے اور اصل چیز خدا تعالیٰ کا کی وجود ہے لوگوں کی یہ حالت ہے کہ اپنی تمام عمر اس کے حصول کے لیے صرف کرتے ہیں.وہ یہ نہیں جانتے کہ اُن کا اس دنیا میں بھیجا جانا کسی خاص مقصد کے ماتحت تھا اور یہ دنیا محض ان کی خدمت کے لیے پیدا کی گئی تھی.پھر جس دنیا کے حصول کے لیے وہ رات دن کوشاں رہتے ہیں وہ اپنی ذات میں اتنی بڑی ہے کہ ساری عمر کی تگ و دو کے باوجود بھی انسان یہ نہیں کہہ سکتا کہ یہ اُس پر حاوی ہو چکا ہے.یہ میرے ہوش کے زمانہ کی بات ہے کہ سائنسدانوں نے کہا کہ وسعت عالم کا اندازہ چھ ہزار سالوں کے برابر ہے.روشنی کی رفتار ایک سیکنڈ میں ایک لاکھ اسی ہزار میل ہوتی ہے.اس کے معنی یہ ہیں کہ ایک لاکھ اسی ہزار کو ساٹھ سے ضرب دی جائے تا کہ ایک منٹ کی رفتار کا اندازہ ہو سکے.پھر حاصل جواب کو دوبارہ ساٹھ سے ضرب دی جائے تا کہ ایک گھنٹہ کی رفتار کا اندازہ ہو سکے.پھر چو ہمیں سے ضرب دی جائے تا کہ ایک دن کی رفتار کا اندازہ ہو سکے اور پھر حاصل جواب کو چھ ہزار سے ضرب دی جائے تب اس عالم کی وسعت کا اندازہ ہو سکتا ہے.اس سے تم سمجھ سکتے ہو کہ ہماری یہ دنیا تمام عالم کے مقابلہ میں اتنی بھی حیثیت نہیں رکھتی جتنی ہماری دنیا کے مقابلہ میں ایک چھوٹی سی پہاڑی کی حیثیت ہوتی ہے.لیکن اب نئی تحقیقات سے معلوم ہوا ہے کہ وسعت عالم کا یہ اندازہ کہ وہ روشنی کے ہزار سالوں کے برابر ہے بالکل غلط ہے.وسعتِ عالم روشنی کے چھتیس ہزار سالوں کے برابر ہے.گویا پہلے اندازہ سے چھ گنا زیادہ ہو گیا.پھر بعض لوگوں کا خیال ہے کہ یہ دنیا پھیلتی چلی جارہی ہے اور آخر ایک دن پھیلتے پھیلتے تباہ ہو جائے گی.اور بعض لوگوں کا خیال ہے کہ دنیا پھیلنے کے بعد پھر سمٹے گی اور سمٹ کر تباہ ہو جائے گی.گویا کوئی تو قیامت کو اس کے پھیلاؤ کے ساتھ وابستہ قرار دیتا ہے اور کوئی اس کے سمٹنے کے ساتھ وابستہ کرتا ہے.غرض یہ دنیا جو اتنی وسیع ہے ہمیں سوچنا چاہیے کہ خدا تعالیٰ نے اس میں انسان کو کیوں پیدا کیا ہے؟ پھر انسان کو جو طاقت حاصل ہے، جس طرح کی معلومات اسے حاصل ہیں، مادہ کی جو کیفیتیں اسے معلوم ہیں، علیم، سائنس ، علم کیمیا، علم طبقات الارض اور باقی علوم کو جس رنگ میں وہ حاصل کر رہا ہے اُن کی بناء پر خود بھی اپنے آپ کو دنیا کا حاکم سمجھتا ہے بلکہ اب تو انسان اس کوشش میں.
$1951 168 خطبات محمود کہ چاند تک چلا جائے.گویا انسان منہ سے تو نہیں لیکن اپنے عمل سے یہ ضرور کہتا ہے کہ وہ ساری کائنات پر حکمران ہے.پس ہمیں سوچنا چاہیے کہ خدا تعالیٰ جیسی ہستی نے اتنا بڑا انسان کیوں پیدا کیا؟ ایک طرف تو انسان عالم کی وسعت کا اندازہ لگا کر حیران ہوتا ہے اور دوسری طرف اُس کے اپنے اندر جو اُمنگیں اور ارادے اور حو صلے ہیں وہ اتنے بڑے ہیں کہ یوں معلوم ہوتا ہے کہ اصل وجود وہی ہے اور باقی سب چیزیں اس کے تابع ہیں.وہ صرف اس کے علم کو زیادہ کرنے اور اسے آرام پہنچانے کے لیے ہیں.اور قرآن کریم میں بھی یہی لکھا ہے کہ زمین و آسمان میں جو کچھ ہے وہ اللہ تعالیٰ نے انسان کی خدمت کے لیے پیدا کیا ہے.1 پس جب یہ تمام دنیا انسان کی خدمت کے لیے پیدا کی گئی ہے تو ہمیں غور کرنا چاہیے کہ کیا خدا تعالیٰ نے ہمیں صرف اس لیے پیدا کیا ہے کہ ہم زمین سے چاندی نکالیں یا سونا نکالیں یا لوہا نکالیں یا دوسری دھاتیں جو اب ستانوے قرار دی جاتی ہیں زمین سے نکالیں؟ یہ چیزیں تو پہلے سے ہی موجود تھیں.پھر خدا تعالیٰ نے اس دنیا میں انسان کو کیوں پیدا کیا؟ ایک ہی چیز ہے جو سمجھ میں آسکتی ہے کہ خدا تعالیٰ نے انسان کو اس لیے پیدا کیا ہے تا وہ اُس کے جلال اور جمال کو محسوس کرے.لیکن یہ چیز ہماری سمجھ میں نہیں آ سکتی کہ خدا تعالیٰ نے ہمیں اس لیے پیدا کیا ہو کہ ہم زمین سے لوہا نکالیں.لوہا تو خدا تعالیٰ نے انسان کے لیے پیدا کیا ہے اور یہ اُس کے لیے آسائش یا غفلت کا سامان تو ہو سکتا ہے لیکن اس کی وجہ پیدائش نہیں ہوسکتی.انسان کی وجہ پیدائش یہی ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ سے سچا تعلق پیدا کرے.چنانچہ جب بھی کوئی رسول دنیا میں آتا ہے اس کے آنے کا اصل مقصد یہی ہوتا ہے کہ لوگوں کا خدا تعالیٰ سے تعلق پیدا کیا جائے.جو مذاہب دنیا سے قریباً مٹ چکے ہیں اُن کے متعلق بھی جہاں تک تاریخ سے مددملتی ہے یہی معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے خدا تعالیٰ سے تعلق پیدا کرنے پر زور دیا.اور جو مذاہب موجود ہیں اور اُن کا بھی یہ دعوی ہے اور اسلام بھی اسی مقصد کے لیے دنیا میں آیا ہے.لیکن افسوس ہے کہ اس کے ماننے والوں میں آہستہ آہستہ کئی قسم کی خرابیاں پیدا ہونی شروع ہو گئیں اور وہ خدا تعالیٰ سے منقطع ہو گئے.لیکن ایک ایسی جماعت جو اس بات کی مدعی ہے کہ وہ لوگوں کی غفلتوں کو دور کرنے اور روحانیت کو دنیا میں نئے سرے سے قائم کرنے کے لیے کھڑی ہوئی ہے.اگر اس کے افراد بھی اپنی پیدائش کی غرض کو نہ سمجھیں تو یہ کیسی افسوس کی بات ہوگی.اگر انسان کے اندر کوئی ایسی چیز
$1951 169 خطبات محمود نہ ہوتی جو اُ سے یہ نکتہ سمجھا سکے اور غفلت کرنے والوں کو اس طرف متوجہ کر سکے تو انسان کہ سکتا تھا کہ مجھ پر حجت پوری نہیں ہوئی.اگر ان مذاہب میں جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب زمانہ میں آئے یہ بات نہ ہوتی تو اُن کے تابعین اس غفلت کی سزا سے بچ سکتے تھے.اگر قرآن کریم میں یہ بات بیان نہ ہوتی تو مسلمانوں پر حجت پوری نہ ہوتی.لیکن جب خدا تعالیٰ نے اس چیز کو اتنا عام کیا ہے کہ ادنیٰ سے ادنی انسان کے اندر بھی یہ مادہ موجود ہے کہ وہ اس نکتہ کو سمجھ سکے تو پھر ان لوگوں کی کیا حالت ہو گی جن کے پاس تازہ وحی اور الہامات موجود ہیں.جن میں قریب ترین عرصہ میں خدا تعالیٰ کا ایک مامور مبعوث ہوا.وہ اس نکتہ کو کیوں نہیں سمجھ سکتے کہ اُن کی پیدائش کا اصل مقصد کیا ہے.مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ہماری جماعت کے نوجوانوں میں سوچنے کی عادت نہیں.اور اگر سوچیں گے تو یہ کہ اُن کے پاس کیا کیا ڈگریاں ہونی چاہیں جن سے وہ دنیا میں ترقی حاصل کر سکیں.حالانکہ اصل چیز یہ ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کی طرف توجہ کریں اور اُس سے دعائیں کریں باقی سب چیزیں تابع ہیں.باپ کے پاس جو کچھ ہوتا ہے وہ بیٹے کا ہوتا ہے.اسی طرح جو خدا تعالیٰ کا ہو جاتا ہے ساری کائنات اُس کی ہو جاتی ہے.ہماری جماعت کے نوجوانوں کی توجہ چونکہ اس طرف کم ہے اس لیے میں نے آج اس موضوع پر خطبہ پڑھا ہے.میں دیکھتا ہوں کہ نو جوانوں کی توجہ نمازوں اور دعاؤں اور ذکر الہی کی طرف کم ہے.وہ سمجھتے ہیں کہ ان کی دنیوی کوششیں دعاؤں اور نمازوں اور ذکر الہی سے زیادہ قیمتی ہیں.ان ان کے نزدیک دس ہزار روپے کمانا اس سے زیادہ بہتر ہے کہ غریب آدمی رات کے اندھیرے میں خدا تعالیٰ کے سامنے گر کر دعائیں مانگے حالانکہ دعا اتنی قیمتی چیز ہے جس کا مقابلہ دنیا کی کوئی بڑی سے بڑی طاقت بھی نہیں کر سکتی.قریب زمانہ میں ہٹلر اور مسولینی گزرے ہیں.ان کے پاس کتنی طاقت تھی؟ پچھلی جنگ کے زمانے میں جو لوگ یہ کہتے تھے کہ انگریز بہٹلر اور مسولینی کو شکست دے دیں گے لوگ اُن پر ہنستے تھے لیکن اب وہ کہاں ہیں ؟ نپولین کتنا طاقتور تھا لیکن اب وہ کہاں ہے؟ زار کے متعلق جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ ے زار بھی ہوگا تو ہوگا اس گھڑی باحال زار 2 اُس وقت اس کی طاقت کا اندازہ لگانا بھی مشکل تھا.تم یورپ کی تاریخیں پڑھ کر دیکھ لو تمام
$1951 170 خطبات محمود تاریخیں یہی کہتی ہیں کہ زار کی طاقت 1901ء سے بڑھنی شروع ہو گئی تھی اور اس قسم کے حالات پیدا ہو گئے تھے کہ یورپین طاقتیں اس کی وجہ سے خطرہ میں پڑ گئی تھیں.اس وقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا زار بھی ہوگا تو ہوگا اس گھڑی باحال زار اور پھر زار کا جو حالِ زار ہوا وہ دنیا سے پوشیدہ نہیں.پس واقعات بتاتے ہیں کہ دنیا کی طاقتیں کچھ چیز نہیں اصل چیز خدا تعالیٰ کی مدد اور نصر ہے اور اُس کی مدد اور نصرت دعاؤں اور ذکر الہی سے ہی حاصل کی جاسکتی ہے.لیکن افسوس ہے کہ ہماری جماعت کے نوجوانوں کی اس طرف کم توجہ ہے.لیکن میں یہ نہیں کہتا کہ تم دنیوی کام چھوڑ دو اور صرف ذکر الہی اور دعاؤں میں لگ جاؤ.میں یہ کہتا ہوں کہ تم دنیوی کام بیشک کرو لیکن تمہارا اصل مقصد خدا تعالیٰ کی ذات ہونی چاہیے اور دعا ئیں اور ذکر الہی تمہارا اصل کام ہونا چاہیے.جو شخص دعائیں کرتا اور ذکر الہی سے کام لیتا ہے اس کی قوت عملیہ میں اضافہ ہو جاتا ہے اور وہ دوسروں سے زیادہ کام کرتا ہے.دنیا میں بعض ایسے کمانڈر بھی گزرے ہیں جنہوں نے لیٹ کر کمانیں کی ہیں اور پنے دشمن پر غالب ہوئے ہیں کیونکہ گوان کے ہاتھ پاؤں نہیں ملتے تھے مگر قوت عملیہ اُن کے اندر موجود تھی اور کامیابی کے لیے اسی قوت کی موجودگی ضروری ہوتی ہے.یہ مت خیال کرو کہ جو شخص ذکر الہی اور دعاؤں کا عادی ہوتا ہے وہ دنیوی کاموں میں سُست ہو جاتا ہے.وہ سُست نہیں ہوتا بلکہ دوسروں سے زیادہ پست ہوتا ہے اور اس کی طاقت بڑھ جاتی ہے کیونکہ آسمانی انوار سے اُس کی تائید ہورہی ہوتی ہے.مجھے اپنے بچپن کی ایک بیوقوفی پر ہنسی آتی ہے.جب میری عمر گیارہ بارہ سال کی تھی اُس وقت میری یہ کیفیت تھی کہ جب کوئی شخص حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے کوئی سوال پوچھتا تو میرا دل دھڑ کنے لگتا کہ نہ معلوم آپ اُس کے سوال کا جواب بھی دے سکتے ہیں یا نہیں.لیکن جب آپ اُس کے سوال کا جواب دیتے تو یوں معلوم ہوتا کہ آسمان سے نور نازل ہو رہا ہے اور علوم کا ایک دریا بہہ رہا ہے.بہت دفعہ ایسا ہوتا کہ حضرت خلیفہ اول بھی بے اختیار کہ اٹھتے کہ سُبْحَانَ اللَّهِ سُبْحَانَ اللَّهِ مجھے یاد ہے حضرت خلیفتہ امسیح الاول فرمایا کرتے تھے جب آتھم سے مباحثہ ہوا اور وہ لمبا
$1951 171 خطبات محمود ہو گیا تو کسی شخص نے مجھ سے کہا کہ بات تو چھوٹی سی تھی مگر مباحثہ بہت لمبا ہو گیا ہے.میں نے کہا حضرت مرزا صاحب چاہتے تو آدھ گھنٹہ میں مباحثہ ختم کر دیتے لیکن اس طرح اسلام کے وہ ممالات اور قرآن کریم کے وہ حقائق اور معارف ظاہر نہ ہوتے جو اب ظاہر ہوئے ہیں.آپ سنایا کرتے تھے کہ جب آٹھم کے ساتھ مباحثہ ہوا تو دورانِ مباحثہ میں پادریوں نے کچھ کو لے لنگڑے اور اندھے خفیہ طور پر ا کٹھے کر لیے اور پھر آتھم نے اپنی تقریر میں کہا کہ مسیح ناصری کے متعلق آتا ہے کہ وہ اندھوں کو آنکھیں دیتے، کوڑھیوں کو اچھا کرتے اور کو لے لنگڑوں کو تندرست کر دیتے تھے.آپ کا بھی مسیح ناصری کے مثیل ہونے کا دعوی ہے اس لیے آئے اور معجزہ دکھائیے.اندھے اور ٹولے لنگڑے یہاں موجود ہیں.آپ ان کو اچھا کر کے دکھا دیں.آپ فرمایا کرتے تھے کہ ہم اُس وقت حیران تھے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس کا کیا جواب دیں گے.مگر جب آپ کی باری آئی تو آپ نے ہی نہایت اطمینان سے فرمایا کہ میرا یہ عقیدہ نہیں کہ حضرت مسیح ناصرتی ظاہری اندھوں اور ظاہری کو لے لنگڑوں یا ظاہری کوڑھیوں کو اچھا کیا کرتے تھے بلکہ میرا یہ عقیدہ ہے کہ یہ سب منجزات روحانی رنگ میں ظاہر ہوتے تھے.یعنی آپ روحانی کوڑھیوں اور روحانی اندھوں اور روحانی بہروں کو اچھا کیا کرتے تھے لیکن آپ لوگوں کا یہ عقیدہ ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام جسمانی اندھوں اور جسمانی لولوں لنگڑوں کو آنکھیں اور ہاتھ پاؤں دیتے تھے اور ظاہری کوڑھیوں کو اچھا کیا کرتے تھے.دوسری طرف انجیل میں وہیں حضرت مسیح ناصری کا یہ قول نظر آتا ہے کہ اگر تم میں ایک رائی کے دانہ کے برابر بھی ایمان ہوگا تو جیسے معجزات مجھ سے ظاہر ہوئے ہیں ویسے ہی معجزات تم بھی دکھا سکتے ہو.3 انجیل کے اس معیار کے مطابق ہم نے یہ آزمائش کرنی تھی کہ آیا آپ لوگوں میں اتنا ایمان بھی موجود ہے یا نہیں؟ سو ہم آپ کے بہت ممنون ہیں کہ آپ اندھے، ٹولے لنگڑے اکٹھے کر کے لے آئے ہیں.اگر آپ لوگوں میں ایک رائی کے برابر بھی ایمان ہے تو آئیے اور حضرت مسیح ناصرٹی کی سنت پر ان اندھوں اور لنگڑوں وغیرہ کو اچھا کر دیجیے.آپ نے جب یہ جواب دیا تو عیسائی ان اندھوں اور کولوں لنگڑوں کو کھینچ کھینچ کر باہر لے گئے اور جب آپ کی تقریر ختم ہوئی تو وہ سب غائب تھے.پس حقیقت یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے انوار اسی شخص کو ملتے ہیں جو خدا تعالیٰ سے تعلق رکھتا پس میں نوجوانوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ وہ روحانیت کی طرف توجہ کریں اور سمجھ لیں
$1951 172 خطبات محمود کہ اُس وقت تک کوئی حقیقی ترقی نہیں ہو سکتی جب تک انسان خدا تعالیٰ کا نہ ہو جائے.تم خدا تعالیٰ کا مقرب بننے کی کوشش کرو تا وہ تمہارا ہو جائے اور یہ بات یاد رکھو کہ جب وہ تمہارا ہو جائے گا تو پھر کوئی چیز تمہاری ترقی کے راستہ میں روک نہیں بن سکے گی.الفضل 20 جون 1962 ء ) 1: أَلَمْ تَرَوْا اَنَّ اللهَ سَخَّرَ لَكُم مَّا فِي السَّمَواتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ (لقمان: 21) 2 : در مشین اُردو.زیر عنوان ” مناجات اور تبلیغ حق“.صفحہ 144 مرتبہ شیخ محمد اسماعیل پانی پتی $1962 :3 متی باب 17 آیات 14 تا 21 ( مفہوما )
$1951 173 (25) خطبات محمود اسلام کی صحیح تعلیم دنیا میں قائم کی جائے حکومت کے سوا کسی کو شرعی تعزیر دینے کا اختیار نہیں (فرموده 26 اکتوبر 1951ء بمقام ربوہ ) تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: پچھلے جمعہ کو عین اُس وقت جبکہ میں جمعہ میں آنے کی تیاری کر رہا تھا مجھے بخار چڑھنا شروع ہو گیا اور سر درد بھی ہونے لگی جس کی وجہ سے میں مسجد میں نہ آسکا.اس کے دو تین دن بعد نزلہ شروع ہو گیا جس کی وجہ سے بخار بھی ہو جاتا تھا.اب مرض میں کمی تو ہے لیکن گلے میں ابھی خراش باقی ہے اس لیے میں زیادہ لمبا خطبہ نہیں پڑھ سکتا.گو مرض میں اتنا افاقہ ضرور ہے کہ میں خطبہ جمعہ پڑھ سکتا ہوں.اِس وقت میرا ارادہ اُس واقعہ کے متعلق کہنے کا ہے جو گزشتہ ہفتہ راولپنڈی میں وزیر اعظم پاکستان نواب زادہ خان لیاقت علی خاں کے ساتھ گزرا.جہاں تک انسانی زندگی کا سوال ہے ہر انسان نے بہر حال مرنا ہے.چاہے وہ قاتل کی چھری سے مر جائے ، چاہے وہ ہیضہ سے مر جائے ، چاہے وہ بخار کی شدت سے مرجائے اور چاہے وہ رسل اور دق سے مر جائے.موت تو بہر حال آنی ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے لِكُلّ دَاءٍ دَوَاءٌ إِلَّا المَوت - 1- هر بیماری
$1951 174 خطبات محمود جب تک کہ وہ بیماری کی صورت میں ہے اُس کا علاج ہے لیکن وہ چیز جو بظاہر بیماری ہے لیکن دراصل وہ موت کا پیغام ہے اس کا کوئی علاج نہیں.پس انسان نے مرنا تو ہے لیکن بعض چیزیں تکلیف دہ پہلو اپنے ساتھ رکھتی ہیں.اگر کسی کو اچانک موت آ جاتی ہے تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی فرمایا ہے کہ وہ حسرت ناک ہوتی ہے.2 گو در اصل اچانک حادثہ کی وجہ سے جو موت آتی ہے وہ مرنے والے کے لیے آرام دہ موت ہوتی ہے.مثلاً اگر وہ آٹھ دس دن ٹائیفائیڈ میں مبتلا رہتا ، راتوں کو جاگتا، تکلیف کی وجہ سے کراہتا اور پھر اُسے موت آجاتی تو اس میں کوئی شبہ نہیں کہ موت اُسے بہر حال آنی تھی لیکن یہ موت اُس کے لیے تکلیف دہ ہوتی.لیکن اگر اُس کا اچانک ہارٹ فیل ہو جاتا ہے یا اُسے گولی لگتی ہے اور وہ فورا مر جاتا ہے تو یہ موت بظاہر آرام دہ موت ہے لیکن اس لحاظ سے یہ تکلیف دہ ہوتی ہے کہ مرنے والے کو وصیت کا موقع نہیں ملتا.اور قرآن کریم میں آتا ہے کہ اگر کسی کے سر ذمہ داری ہو جسے اُس نے ادا کرنا ہو تو اُس کے لیے وصیت کرنا ضروری ہے.3 جب کسی کے پاس قومی اسرار ہوتے ہیں تو باپ بیٹے کو وصیت کرتا ہے، آگے بیٹا اپنے بیٹے کو وصیت کرتا ہے.اسی طرح ایک سلسلہ چلتا چلا جاتا ہے اور کوئی قوم کامیاب اُسی وقت ہوتی ہے جب اُس کا تسلسل قائم ہو اور تسلسل کو قائم رکھنے کے لیے نصیحت اور وصیت کرنا ضروری ہوتا ہے.لیکن اگر کسی کی اچانک موت ہو جائے تو یہ موقع اُس سے چھین لیا جاتا ہے اور جن باتوں کا مرنے والے کو تجربہ ہوتا ہے ، جن خطرات کا اُسے علم ہوتا ہے اور بعض فوائد جو اُس کے علم میں اس کی قوم حاصل کر رہی ہوتی ہے اگر اسے چند دن بیمار رہنے کے بعد موت آئے تو وہ اپنے جانشینوں کو بعض نصائح کر دیتا ہے.وہ انہیں بتا دیتا ہے کہ فلاں فلاں فائدہ تم اس طرح حاصل کر سکتے ہو.اور ساتھ ہی وہ یہ بھی بتا دیتا ہے کہ تمہارے سامنے فلاں فلاں قسم کے خطرات ہیں.ان خطرات سے بچنے کا یہ طریق ہے.اس رنگ میں اُس کی موت زیادہ تکلیف رہ نہیں ہوتی.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اچانک موت کو تکلیف دہ اسی لیے فرمایا ہے کہ مرنے والے کو وصیت کا موقع نہیں ملتا اور اس طرح اُس کی اولاد، اُس کا خاندان اور اُس کی قوم اُس کے تجربات سے فائدہ نہیں اُٹھا سکتی.لیکن سب سے اہم چیز یہ ہوتی ہے کہ ایسی موت جواچانک آ جاتی ہے مثلاً اگر کسی کی حرکت قلب بند ہو جاتی ہے اور وہ فور مر جاتا ہے تو کسی شخص پر افسوس نہیں ہوتا.لیکن جب یہ موت کسی انسان کے ہاتھوں سے ہو تو جہاں تک مرنے والے کا سوال.ہے
$1951 175 خطبات محمود یہ کوئی بُری بات نہیں اُس نے بہر حال مرنا تھا بلکہ جیسا کہ میں نے بتایا ہے یہ موت مرنے والے کے لیے آرام دہ ہے.گولی لگی اور مر گیا.اس طرح اُسے زیادہ تکلیف نہ ہوئی.لیکن خاندانی اور قومی لحاظ سے اس میں کئی قباحتیں ہوتی ہیں.ایک قباحت تو میں نے بتادی ہے کہ مرنے والے کو وصیت کا موقع نہیں ملتا اور اس طرح اُس کی اولاد، اُس کا خاندان اور اُس کی قوم اُس کے تجربات سے فائدہ نہیں اُٹھا سکتی.دوسری قباحت یہ ہوتی ہے کہ جب کوئی قومی خادم کسی انسان کے ہاتھوں مارا جاتا ہے تو اس کے معنے یہ ہوتے ہیں کہ قومی اخلاق میں بہت کچھ خرابی پیدا ہو چکی ہے کیونکہ کام کے تسلسل سے قوم ترقی کرتی ہے اور جب افراد میں یہ احساس پیدا ہو جائے کہ ہم آپ ہی آپ اپنا حق لے سکتے ہیں تو اس کے معنے یہ ہیں کہ تسلسل قائم نہیں رہ سکتا اور قوم حکومت پر اعتبار کرنے کی بجائے خود بدلہ لے لیتی ہے حالانکہ تسلسل حکومت سے قائم رہتا ہے.اگر افراد میں یہ احساس پیدا ہو جائے کہ وہ اپنا بدلہ آپ لے سکتے ہیں تو اس کے یہ معنے ہیں کہ وہ حکومت کو بریکار سمجھتے ہیں.اگر یہ احساس کہ ہم اپنا بدلہ خود لے سکتے ہیں ساری قوم یا اُس کے اکثر افراد یا اس کے بعض افراد میں پیدا ہو جائے تو حکومت قائم نہیں رہ سکتی.وہ حکومت آج نہیں تو کل اور کل نہیں تو پرسوں ٹوٹ جائے گی اور اس کا نظام باقی نہیں رہے گا.پس وہ واقعہ جو خان لیاقت علی خان کے ساتھ گزرا جہاں تک اُن کا اپنا سوال ہے یہ کوئی غیر معمولی چیز نہیں.ہم سمجھتے ہیں کہ وہ نسبتا آرام میں رہے کیونکہ اگر وہ کسی اور ذریعہ سے وفات پاتے تو دس پندرہ دن بیماری کی تکلیف اٹھاتے.اب چونکہ وہ گولی لگنے سے یکدم مر گئے ہیں اس لیے یہ موت اُن کی ذات کے لیے آرام دہ ثابت ہوئی ہے.لیکن قومی لحاظ سے یہ بہت خطرناک چیز ہے.اس کے معنے یہ ہیں کہ پاکستان کی طرف اپنے آپ کو منسوب کرنے والوں میں نظام کی پابندی کا احساس باقی نہیں رہا.مان لیا کہ قاتل کابل کا رہنے والا تھا لیکن وہ پاکستان میں آبسا تھا اور پاکستان کی قومیت کو اس نے قبول کر لیا تھا.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ قاتل کو کسی غیر قوم نے اس ذلیل فعل کے لیے اکسایا تھا لیکن ہم اسے غیر قوم کا فرد نہیں کہہ سکتے.ہم سب باہر سے آئے ہیں.اگر وہ پاکستانی نہیں تو مغل بھی پاکستانی نہیں مغل بھی باہر سے آئے ہیں، سید بھی پاکستانی نہیں کیونکہ وہ بھی مکہ اور مدینہ سے آئے ہیں.اسی طرح پاکستان کی اکثر دوسری قو میں بھی باہر سے آئی ہیں.کوئی ایران سے یہاں آبسان ہے، کوئی شام سے آیا ہے اور کوئی دوسرے ممالک سے آ کر اس ملک کی قومیت کو اختیار کر چکا ہے.
$1951 176 خطبات محمود اس طرح تو کوئی بھی پاکستانی نہیں.انگلستان کے ملک میں بھی جرمن اور فرانسیسی موجود ہیں اور وہ اسی ملک کے باشندے کہلاتے ہیں.انگلستان کے بادشاہ کا خاندان بھی جرمن ہے لیکن ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ وہ انگلستان کا رہنے والا نہیں کیونکہ جو کسی ملک میں آبستا ہے وہ اُسی ملک کا باشندہ کہلا تا ہے.پس گو خان لیاقت علی خان کے قاتل کے تعلقات پر شبہ کیا جارہا ہے کہ افغانستان نے اُن کے قتل پر اکسایا تھا لیکن چونکہ قاتل پاکستان میں آبسا تھا اور پارٹیشن سے پہلے کا یہاں رہتا تھا اس لیے وہ پاکستانی تھا اور اس کے یہ معنی ہیں کہ بعض پاکستانیوں کو نظام حکومت پر اعتبار نہیں.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ یہ ایک فرد ک فعل تھا اور ایک فرد کا فعل ساری قوم کا فعل نہیں کہلا سکتا لیکن اس میں بھی کوئی محبہ نہیں کہ ایک فرد کے فعل سے ساری قوم ذلیل ہو جاتی ہے.ہمارے ہاں ایک ضرب المثل ہے کہ ایک مچھلی سارے تالاب کو گندہ کر دیتی ہے.اس لیے بیشک وہ ایک فرد کا کام تھا اور اس کی ساری قوم ذمہ دار نہیں ہو سکتی لیکن اُس کی وجہ سے ساری قوم ذلیل ہو گئی ہے.پس جہاں تک خدا تعالیٰ کے سامنے ذمہ داری کا سوال ہے یہ ایک فرد کا کام ہے لیکن جہاں تک شہرت کا سوال ہے اس سے قوم ذلیل ہوگئی ہے اور معلوم ہوتا ہے کہ قوم میں ذلت ،عزت اور زندگی کا کوئی احساس نہیں اور یہ کتنی ذلت کی بات ہے.یوں سمجھ لو کہ اگر کسی خاندان میں سے کوئی لڑکا یا لڑ کی بدکار ہو جاتا ہے تو اس کی ذمہ داری خدا تعالیٰ کے سامنے اُس لڑکی یا لڑکے کے ماں باپ اور بہن بھائیوں پر عائد نہیں ہوگی.خدا تعالیٰ کے سامنے وہی لڑکی یا لڑ کا مجرم ہو گا.لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ کوئی شخص اُس خاندان کی لڑکی لینے پر تیار نہیں ہوتا اور نہ کوئی اُس خاندان کے کسی لڑکے کو اپنی لڑکی دینے پر رضامند ہوتا ہے حالانکہ اس میں خاندان کا کوئی قصور نہیں ہوتا.وہ اس سے اتنا ہی متنفر ہوتا ہے جتنے دوسرے لوگ اس کی سے متنفر ہوتے ہیں لیکن بوجہ ایک لڑکی یا لڑکے کی بدکاری کے وہ خاندان دنیا کی نظروں میں ذلیل ہو جاتا ہے.پس جہاں تک خدا تعالیٰ کے سامنے ذمہ داری اور سزا پانے کا سوال ہے خان لیاقت علی خان کا قاتل خود ذمہ دار ہے قوم ذمہ دار نہیں.لیکن جہاں تک عزت اور شہرت کا سوال ہے اس سے لوگوں میں بدلنی پیدا ہوگئی ہے کہ اس قوم کو نظامِ حکومت سے پیار نہیں.اور جب دشمن کو اس چیز کا پتا لگ جائے گا کہ رعایا نظام حکومت سے پیار نہیں رکھتی تو وہ کتنا دلیر ہو جائے گا.غرض قومی لحاظ سے یہ واقعہ جو خاں لیاقت علی خان کے ساتھ گزرا نہایت خطرناک
$1951 177 خطبات محمود لیکن مجھے یہ مضمون خطبہ جمعہ میں بیان کرنے کی ضرورت نہیں تھی.میں اس کے متعلق الگ مضمون بھی لکھ سکتا تھا.میں نے اس مضمون کو خطبہ جمعہ میں بیان کرنے کے لیے اس لیے انتخاب کیا کہ اس کا ایک مذہبی پہلو بھی ہے.یعنی یہ فعل نتیجہ تھا اسلام کی تعلیم کو بگاڑنے کا، یہ فعل تھا احراریوں کے وعظوں کا کہ احمدیوں کو قتل کر دو.جس قوم میں یہ روح پیدا کر دی جائے کہ جس کسی سے تمہیں اختلاف ہو تم اُسے خود قتل کر دو تو ملک کا کوئی آدمی بھی محفوظ نہیں رہ سکتا.مثلاً ایک احراری کھڑا ہوتا ہے اور کہتا ہے کہ احمدیوں کو مار دو لیکن ایک دوسرا شخص جس کو احمدیوں سے بغض نہیں ہوتا وہ جب یہ سمجھتا ہے کہ جس کسی سے اختلاف ہوا سے خود مار دینا چاہیے.تو وہ کسی دوسرے شخص کو جس سے اُسے اختلاف ہو گا مار دے گا.پس میں کہتا ہوں کہ بیشک قومی لحاظ سے خان لیاقت علی خان کا قتل نہایت افسوس کی بات ی ہے اور سیاسی لحاظ سے یہ امر ملک کے لیے نہایت نقصان دہ ہے لیکن اس کا مذہبی پہلو اور بھی خطر ناک می ہے اور وہ یہ ہے کہ ہماری سیاست تو گئی تھی اب مذہب پر بھی حملہ ہو گیا ہے اور دنیا کہتی ہے کہ ہم وحشی ہیں اور جسے چاہتے ہیں قتل کر دیتے ہیں.کسی نے کہا ہے زباں بگڑی تو بگڑی تھی خبر لیجیے دہن بگڑا سیاست پر تو ہمارے حملہ ہوا ہی تھا اب مذہب پر بھی حملہ ہو گیا ہے.دنیا اس بات سے غافل نہیں کہ احراری کیا کہتے ہیں.احراری مولوی عَلَی الْإغلان اسٹیجوں پر چڑھ کر کہتے ہیں کہ تم احمد یوں کو قتل کیوں نہیں کرتے لیکن کوئی انہیں منع نہیں کرتا.حکومت کا نظام موجود ہے، گورنر جنرل اور سنٹرل کے وزراء اور صوبائی گورنر اور صوبائی وزراء اور دوسرے سیکرٹری موجود ہیں لیکن احراری اس کے باوجود اسٹیجوں پر کھڑے ہو کر کہتے ہیں کہ حکومت اپنے فرض کو ادا نہیں کر رہی.اے جانباز مسلمانو ! تم خود رسول کریم کی ہتک کا بدلہ لو (حالانکہ یہ احراری خود رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بہتک کرنے والے اور جنگ اسلام ہیں ) اور احمدیوں کو قتل کر دو.اور جب یہ فتوی رعایا کے سامنے لایا جائے گا کہ اسلام، قرآن کریم اور قانون سب اس بات پر متفق ہیں کہ جس کسی سے تمہیں اختلاف ہو تم اُسے مار دو تو صرف احمدیوں کو ہی نہیں مارا جائے گا بلکہ دوسرے لوگوں کو بھی جن سے کسی کو اختلاف ہوگا مار دیا جائے گا.خان لیاقت علی خان سیاسی اختلاف کی وجہ سے نہیں مارے گئے کیونکہ سیاست دوسرے شخص کے
$1951 178 خطبات محمود مارنے کو جائز قرار نہیں دیتی.مارنے کا جواز جھوٹا مذہب دیتا ہے.کیونکہ مولوی کھلے بندوں اسٹیج چڑھ کر یہ کہتا ہے کہ جس شخص کی بات تمہیں بُری لگے تو تم اُسے مار دو.سننے والے اسی نکتہ کو وسیع کرتے ہیں اور اپنے دشمنوں پر بھی یہ فتوی لگا دیتے ہیں.جب تک حکومت اس منبع کو ختم نہیں کرتی ملک میں امن قائم نہیں رہ سکتا.حکومت نے ایک کمیشن مقرر کیا ہے جو اس بات کی تحقیقات کرے گا کہ حفاظتی تدابیر میں کیوں کوتاہی ہوئی ہے؟ میں نے بھی جب یہ خبر سنی تھی تو مجھ پر یہی اثر تھا کہ منتظمین نے پوری طرح نگرانی نہیں کی.اب معلوم ہوا ہے کہ حکومت پر بھی یہی اثر ہے.لیکن تم کتنی بھی ہوشیاری کر لو جب افراد میں یہ احساس پیدا ہو جائے گا کہ جس کسی سے اختلاف ہو تم اُسے مار دو تو کونسی طاقت ہے جس کے ذریعہ تم کسی کو آٹھ کروڑ افراد سے بچالو.لاہور میں جو صوبہ کی حکومت کا مرکز ہے وہاں آ کر احراری علماء نے یہ حدیثیں سنائیں کہ تم جو چیز نا پسندیدہ دیکھو سے ہاتھ سے دور کر دو.اگر تم ہاتھ سے دور نہیں کر سکتے تو زبان سے اُس کی مذمت کرو اور اگر تم زبان سے بھی اُس کی برائی نہیں کر سکتے تو دل میں ہی بر امناؤ.اور ان کو احمدیوں پر چسپاں کر کے کہا گیا اے باغیرت مسلمانو! کیوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جنگ ؟ یہ اور کی ہتک کا بدلہ نہیں لیتے ؟ ان مجالس میں جن میں یہ حدیثیں سنائی جاتی تھیں حکومت کے وزراء اور اُس کے سیکرٹری موجود ہوتے ہیں.جب گھلے بندوں اور حکومت کے ذمہ دار کارکنوں کے سامنے یہ سنایا جاتا تھا کہ اختلاف کا ازالہ جبر اور تعدی سے کرنا جائز ہی نہیں بلکہ فرض ہے اور اگر تم اختلاف کا ازالہ نہیں کرتے تو تم کا فر ہو جاؤ گے.جب ملک کے آٹھ کروڑ باشندوں میں یہ احساس پیدا کر دیا جائے تو پولیس تو ایک فرد سے بچا سکتی ہے، دو افراد سے بچا سکتی ہے یا نہیں افراد سے بچا سکتی ہے لیکن جب یہ شک ہو کہ ایڈی کا نگ 4 اور پولیس والوں نے بھی علماء سے یہ سبق لیا ہے کہ جس کسی سے اختلاف ہو اُسے قتل کر دو تو کسی کی جان کیسے محفوظ رہ سکتی ہے.سو جب تک مولویوں کو بند نہیں کیا جائے گا کسی کی حفاظت نہیں ہو سکے گی، نہ میری ، نہ کسی وزیر، گورنر یا کمانڈر انچیف کی.انگلستان کی حکومت سینکڑوں سال سے قائم ہے لیکن ابھی تک اُس میں کوئی ایسا واقعہ نہیں ہوا کہ کوئی وز یرقتل کر دیا گیا ہو.لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ یہاں بعض افسروں پر حکومت کو ٹھبہ پڑ جاتا ہے کہ وہ زور سے حکومت کا تختہ اُلٹ دینا چاہتے ہیں.اگر چہ ابھی مقدمہ چل رہا ہے لیکن بہر حال اس قسم کا واقعہ ہو چکا ہے اور اُدھر ہندوستان
$1951 179 خطبات محمود میں گاندھی جی کو جنہیں وہاں نبی کوقت کہا جاتا تھا مار دیا گیا ہے.اس کی وجہ صرف ایک ہے کہ مولویوں اور پنڈتوں نے یہ شور ڈالنا شروع کیا ہے کہ جب تمہیں کسی شخص سے اختلاف پیدا ہو جائے تو فوراً قانون ہاتھ میں لے لو.یہ ذہنیت جتنی جتنی پھیلتی جائے گی اتنی اتنی پولیس اور فوج بریکار ہوتی جائے گی.پولیس اور فوج محدود ہوتی ہے اور وہ ایک حد تک ملک میں کنٹرول کر سکتی ہے.صوبہ پنجاب کی پولیس کوئی آٹھ دس ہزار ہے لیکن آبادی دو کروڑ ہے.اب آٹھ دس ہزار پولیس سے یہ اُمید کرنا کہ وہ دو کروڑ کی نگرانی کر سکے گی درست نہیں.صوبہ میں زیادہ سے زیادہ پانچ فیصدی مجرم ہو سکتے ہیں.گویا کوئی دس لاکھ آدمی ایسے ہو سکتے ہیں جو لوٹ مار، ڈاکے ، نقب زنی اور قتل و غارت کو جائز سمجھتے ہیں.ان دس لاکھ آدمیوں کو پولیس کہاں سنبھال سکتی ہے.اسی واسطے ملک میں کوئی چھ سات ہزار چوری ہوتی ہے لیکن کوئی نہیں کہتا کہ ایسا کیوں ہے.کیونکہ اس قدر نگرانی کی پولیس سے امید ہی نہیں کی کی جاسکتی.یہ فردی خرابی ہے اور فرد کی نگرانی نہیں کی جاسکتی.اگر کوئی قومی خیال ہوتا ہے تو اُس تنظیم کا کوئی پریذیڈنٹ ہوتا ہے، کوئی سیکرٹری ہوتا ہے اور اس طرح اُس کا پتا چل جاتا ہے.لیکن جہاں فرد کے دماغ کو بگاڑ دیا جائے وہاں کوئی پولیس کام نہیں دے سکتی.مثلاً اگر کوئی کمیونسٹ جماعت ہو تو اُس کا کوئی پریذیڈنٹ ہوگا ، کوئی سیکرٹری ہوگا اور کوئی کنوینر ہوگا اور اس سے معلوم ہو جائے گا کہ یہ لوگ فلاں فلاں ہیں اور فلاں فلاں جگہ ان کا مرکز ہے اور پھر ان کی نگرانی کی جاسکتی ہے.لیکن اگر کوئی فرد کوئی ارادہ کرے تو اُس کی نگرانی نہیں کی جاسکتی کیونکہ اس کی سکیم اس کے اپنے دماغ میں ہوتی ہے اور کوئی ذریعہ ایسا نہیں کہ اُسے معلوم کیا جا سکے.مثلاً کوئی پریذیڈنٹ نہیں، کوئی سیکرٹری نہیں ، کوئی دفتر نہیں جس میں جمع ہونے والوں سے معلوم ہو سکے کہ کچھ لوگ مل کر کوئی کام کر رہے ہیں اور اس سے اُن کی نگرانی کی صورت پیدا ہو جائے.یہاں بھی چونکہ ایک فرد تھا جس نے خباثت کی اس لیے اُس کی خباثت کا قبل از وقت پتا نہیں لگ سکا تھا.سب باتیں اس کے دماغ میں تھیں.پس فرد کے دماغ کو بگاڑ دینے سے امن بر باد ہوتا ہے.جب کوئی سازش تنظیم سے ہوتی ہے تو اُس کا پتا لگا نا آسان ہوتا ہے لیکن جب افراد کے دماغ بگڑ جائیں تو کوئی چیز اُن کی نگرانی نہیں کر سکتی.چونکہ مولویوں نے افراد کے دماغوں کو گندہ کر دیا ہے اس لیے مزید خباثت کو روکنے کے لیے ضروری ہے کہ ان مولویوں کو روکا جائے.یہی لوگ دماغ کو صحیح بنانے والے بھی ہیں بشرطیکہ ان میں ایمان ہو.اور یہی لوگ دماغ کو گندہ
$1951 180 خطبات محمود کر دیتے ہیں جب ان میں ایمان نہیں ہوتا.پس میرے نزدیک ان خطرات کو دور کرنے کا ذریعہ یہ ہے کہ مولویوں کو افراد کی ذہنیت خراب کرنے سے روکا جائے.حکومت کی طرح میرا خیال بھی یہ ہے کہ جلسہ کا انتظام ٹھیک نہ تھا.قادیان میں مساجد میں میری یہ ہدایت تھی کہ پہلی صف میں معروف لوگ بیٹھیں.اب پہرے لگا دیئے گئے ہیں مگر یہ ہرگز ویسے مفید نہیں.انسانی فطرت میں یہ بات ہے کہ جب کوئی دوسرا آدمی سامنے ہو تو انسان کسی پر وار کرنے سے گھبراتا ہے کیونکہ وہ سمجھتا ہے کہ کسی دوسرے شخص کو گولی نہ لگ جائے.پھر وہ اس وجہ سے بھی گھبراتا ہے کہ اُس کا پہلا وار بھی خالی گیا تو وہ پکڑا جائے گا.اس لیے منتظمین کو چاہیے تھا کہ وہ جلسہ کا انتظام کرتے وقت اسٹیج کے سامنے معروف لوگوں کو بٹھاتے.پھر یہ بتایا گیا ہے کہ قاتل نے خان لیاقت علی خان کو مائز ر پستول سے مارا ہے.وہ بڑا پستول ہوتا ہے اور بڑے پستول کو چھپایا نہیں جاسکتا.اتنی بڑی چیز لے کر وہ شخص اسٹیج کے سامنے بیٹھا ہوا تھا یا وہ جیب میں ڈالے ہوئے تھا لیکن کسی شخص کو قبل از وقت اس کا علم نہیں ہو سکا.پھر کہتے ہیں کہ وہ شخص چادر اوڑھے ہوئے تھا.یہ بات اور بھی زیادہ خطر ناک ہے.ہمارے ہاں بھی اتنی احتیاط کر لی جاتی ہے کہ جب کوئی شخص ملاقات کے لیے آئے اور وہ چادر اوڑھے ہوئے ہو تو منتظم اُس کی چادر اتروا دیتے ہیں حالانکہ یہاں ملاقات والے اکثر مرید ہوتے ہیں.بعض لوگ جو شیلے ہوتے ہیں اور وہ میرے پاس شکایت کرتے ہیں کہ ہماری اس طرح ہتک کی گئی ہے تو میں انہیں سمجھا تا ہوں کہ آپ تو مخلص ہیں لیکن کوئی بد معاش بھی تو اس طرح یہاں آ سکتا ہے.پچھلے دنوں مسلم لیگ کے ایک ممبر مجھے ملنے آئے.وہ مجھے اندر آتے ہی کہنے لگے کہ وہ اپنا پستول باہر چھوڑ آئے ہیں.کیونکہ انہوں نے پسند نہیں کیا کہ پستول لے کر اندر آئیں.اور در حقیقت یہ عام اور ضروری احتیاط ہے.لیکن اُس شخص کے پاس مائز ر پستول تھا جو بڑے سائز کا ہوتا ہے لیکن کسی کو معلوم نہیں ہوتا کہ وہ پستول پکڑے ہوئے ہے یا اُس کی جیب میں کوئی بڑی چیز ہے.پھر جب وہ شخص فائر کرتا ہے تب بھی اُسے کوئی نہیں دیکھتا.پھر وہ دوسرا فائر کرنے کی بھی جرات کرتا ہے.اس سے طبہ پڑتا ہے کہ اُس کے دائیں اور بائیں اُس کے ساتھی بیٹھے ہوئے تھے.یہ امر اور بھی خطرناک ہے کہ وہ آدمی مارا گیا.تمام متمدن دنیا میں ایسے آدمی کو مارا نہیں جاتا.تا سازش پکڑی جائے.اس سے یہ خیال ہوتا ہے کہ شاید اُس کے ساتھی کا کوئی دوسرا ساتھی بھی تھا.انارکسٹ اسی طرح
$1951 181 خطبات محمود کرتے ہیں.وہ جب کسی شخص کو کسی لیڈر کے مارنے پر مقرر کرتے ہیں تو ایک اور شخص کو اُس کے پرمن مارنے پر بھی مقرر کر دیتے ہیں تا وہ پکڑا نہ جائے.لیکن یہ بھی کہا جاتا ہے کہ لوگوں نے قاتل کو پیٹ پیٹ کر مار دیا تھا.اگر ایسا ہوا تو یہ اور بھی افسوسناک امر ہے کیونکہ اس سے سازش کے کھلنے کا امکان بہت کم ہو گیا.پولیس کو فوراً اُس شخص کے گردگھیرا ڈال لینا چاہیے تھا اور اُسے زندہ گرفتار کرنا چاہیے تھا تا اُس کے ذریعہ سے اصل سازش کا سراغ مل سکتا.اُس کا بچا نا اُس کی خاطر ضروری نہیں تھا بلکہ اُس کا بچانا ملک کی خاطر ضروری تھا تا اس سے سازش کا پتا لگایا جاتا.ممکن ہے تحقیقات سے یہ معلوم ہو کہ حفاظت کا ہر ممکن انتظام کر دیا گیا تھا اور یہ محض وہم ہے کہ اس میں کوئی کوتاہی ہوئی ہے.بلکہ یہ اتفاقی حادثہ تھا جو ہو گیا.پھر یہ بھی ممکن ہے کہ کوئی مجرم بھی مل جائے.لیکن اس سے یہ امر حل نہیں ہو سکتا کہ مولویوں نے افراد کی ذہنیت خراب کر دی ہے.جب تک یہ ہوتا رہے گا اور قانون ہاتھ میں لینے کا وعظ ہوتا رہے گا نہ پولیس کام دے سکے گی نہ فوج.کیونکہ جب افراد کے ذہنوں کو گندہ کر دیا جائے اور قانون کے ادب کو ختم کر دیا جائے اور اختلاف کی صورت میں قانون کو اپنے ہاتھ میں لینے کی تعلیم دی جائے تو پھر کس کس پر شبہ کیا جائے گا یا کس کس کو شبہ سے بالا سمجھا جائے گا.اس صورت میں خود وزراء کے ایڈی کانگوں پر بھی شبہ ہو سکتا ہے کہ شاید ان کے دل میں بھی قتل کا خیال ہو کیونکہ اگر افراد کی ذہنیت کو بگاڑ دیا جائے تو پھر خواہ کوئی سیکرٹری ہو یا ایڈی کا نگ وہ اپنے افسر سے ناراض ہوسکتا ہے اور اختلافِ رائے کی وجہ سے قانون کو اپنے ہاتھ میں لینے کا ارادہ کر سکتا.ہے.جن ملکوں میں یہ سکھایا جاتا ہے کہ حکومت کا کام ہے کہ کسی شخص کو مجرم قرار دے افراد کو یہ اختیار حاصل نہیں وہ ملک پر امن ہیں.اس قسم کی پابندی سب سے زیادہ انگلستان میں ہے اور وہ پر امن ہے.امریکہ کتنی بڑی جمہوریت ہے لیکن وہاں افراد پر کنٹرول نہیں کیا جاتا اس لیے وہاں فساد ہوتے ہیں.جرمنی والے بھی قانون کے پابند ہیں اس لیے وہاں فساد نہیں ہوتے.بیشک ہٹلر کے وقت میں حکومت کی طرف سے رعایا پر سختیاں ہوئیں لیکن یہ کہ افراد ایک دوسرے پر سختی کریں یہ کبھی نہیں ہوا.اور ملکوں میں بھی یہ طریق پایا جاتا ہے لیکن سب سے زیادہ محفوظ انگلستان ہے اور اس کے بعد جرمنی ہے.پھر دوسرے ممالک میں انسانوں کے ہاتھوں سے مارے جانے والے بالعموم وہ ہوتے ہیں جو ملک میں بدنام ہوتے ہیں.لیکن یہاں اندھیر یہ ہے کہ ہندوستان میں گاندھی جی کو مارا جاتا.سے
$1951 182 خطبات محمود جنہیں وہاں نبی کہا جاتا تھا اور پاکستان میں خان لیاقت علی خان کو مارا جاتا ہے جن کو ملک کی آزادی کو برقرار رکھنے والا اور اس کو ترقی دینے والا کہا جاتا ہے.یہ حض مولویوں کی ذمہ داری ہے.یہ کھیل ہے جو وہ ہمارے ساتھ کھیل رہے تھے.لیکن حکومت نے ان کو منع نہ کیا.جس کی وجہ سے یہ گند زیادہ پھیل گیا.تم اگر کسی کو کہتے ہو کہ فلاں کو مار دو.مثلاً بچے ہیں ، ماں باپ یا بہن بھائی کھیل کے طور پر بعض دفعہ انہیں سکھاتے ہیں کہ فلاں کو مارو تو وہ مارتے ہیں اور ماں باپ، بہن بھائی اس پر ہنستے ہیں.دوسرے دن وہ بچے ماں باپ کے منہ پر تھپڑ مارتے ہیں اور اُس وقت روکنا کوئی معنے نہیں رکھتا.ایک دفعہ اگر تم انہیں کہو گے کہ فلاں کو مارو تو وہ پھر دوسروں کو ماریں گے اور تم روک نہیں سکو گے.پس میں حکومت کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ افراد کی ذہنیت کو بدلے ورنہ امن قائم کرنا مشکل ہو جائے گا.لیڈر مرتے جائیں گے اور نئے لوگوں کو آگے آنے کا موقع ملے گا.پھر مولویوں اور دوسرے لوگوں کی جانیں بھی محفوظ نہیں ہوں گی.روس میں دیکھ لو.زار نے جو طریق رعایا سے اختیار کیا تھا وہی ریق رعایا نے اُس کے خلاف چلایا.پس یہ کھیل محدود نہیں چلے گا.ہمارے خلاف یہ کھیل کھیلا گیا تھا لیکن آخر پاکستان کے نہایت اہم اور ابتدائی لیڈر کے خلاف ایک بد باطن نے وہی حربہ چلا دیا کیونکہ دلوں سے قانون کے ادب اور سوچنے اور نفس پر قابو پانے کا جذ بہ مٹادیا گیا تھا.اگر یہ بات جاری رہی تو ایک دن یہ مولوی خود بھی محفوظ نہیں رہیں گے.خود انہی کے متعلق کسی بات پر خفا ہو کر ان پر بھی حملے کریں گے.میری عمر کوئی دس گیارہ برس کی ہوگی کہ میں امرتسر گیا اور دیکھا کہ ایک مولوی صاحب بڑی داڑھی والے، بجبہ پہنے ہوئے اور ہاتھ میں عصا لیے جا رہے تھے.اُن کے پیچھے پیچھے ایک اور آدمی تھا جو ہاتھ جوڑتا اور اُن کی منتیں کرتا جارہا تھا اور کہتا جاتا تھا کہ میں مفلس و غریب ہوں ، میری حالت پر رحم کھائیں.اور مولوی صاحب پیچھے مُڑ کر اُسے گھورتے اور کبھی کبھی گالی بھی دے دیتے تھے.جس مولوی صاحب دور نکل گئے تو میں نے اُس شخص سے پوچھا کیا بات ہے؟ اُس نے بتایا کہ میں نے اس خبیث کے پاس ایک سور و پیر رکھوایا تھا.اب واپس مانگتا ہوں لیکن یہ واپس نہیں دیتا.سو مولویوں میں حرام خور بھی ہیں، ظالم بھی ہیں اور ان میں دوسرے عیوب بھی پائے جاتے ہیں.اس لیے اگر انہوں نے ایسی تعلیم دی تو ایک نہ ایک دن ان پر بھی وار ہوگا کیونکہ ہونہیں سکتا کہ ان سے کسی اور کو
خطبات محمود اختلاف نہ ہو.183 $1951 اصل امن والی تعلیم قرآن کریم ہے.یہ کتی پاکیزہ تعلیم ہے کہ حکومت کے سوا کسی کو شرعی تعزیہ دینے کا اختیار نہیں اور حکومت بھی اُسی تعزیر کا اختیار رکھتی ہے جس کا اختیار اسے قرآن کریم نے دیا ہے.گویا پہلے عوام کے ہاتھ بند کیے، پھر حکومت کے ہاتھ یہ کہ کر بند کر دیئے کہ تم بھی قضاء کے ذریعہ کی ہی تعزیر کا اختیار رکھتے ہو.ایک دفعہ ایک شخص رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور عرض کیا يارسول اللہ ! اگر میں اپنی عورت کے پاس غیر مرد کو دیکھوں تو آیا مجھے اس کو قتل کرنے کی اجازت ہے؟ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر تم اسے قتل کرو گے تو اس کے بدلہ میں تمہیں قتل کیا جائے گا.تم گواہ پیش کرو.اُس شخص نے کہا یا رسول اللہ ! اتناد یوث کون ہوگا کہ وہ اپنی عورت کے پاس غیر مرد کو دیکھے تو وہ گواہ ڈھونڈتا پھرے.اسلام نے ایسے شخص کی سزا قتل رکھی ہے تو کیوں نہ میں اُسے مار دوں؟ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر تم نے ایسا کیا تو پکڑے جاؤ گے.5 اُس وقت تک زانی کو رجم کیا جاتا تھا اور وہ صحابی بھی اسے قتل کرنے کے لیے ہی اجازت چاہتے تھے لیکن رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ باوجود اس کے کہ تم نے اپنی عورت کے پاس غیر مرد کو دیکھا لیکن تم قاضی کے پاس جاؤ.وہ فیصلہ کرے گا کہ تم ٹھیک کہتے ہو یا غلط.اب یہ کتنی واضح دلیل ہے کہ اسلام نے کسی صورت میں بھی شرعی تعزیر کی جس میں قتل کرنا ، ہاتھ پاؤں کاٹنا اور قید کرنا شامل ہیں کسی فرد کو اجازت نہیں دی.ہاں ! بعض سزاؤں کی اجازت دی ہے مثلاً ایک باپ یا استاد بچے کو اُس کے کسی قصور پر مار سکتا ہے.پھر قومی سزاؤں کا قوم کو اختیار ہے.مثلاً کسی قصور پر ہم ایک شخص کو جماعت سے خارج کر دیتے ہیں تو اس کا ہمیں اختیار ہے کیونکہ یہ شرعی تعزیر نہیں.جو شرعی تعزیریں ہیں مثلاً قتل کرنا ، ہاتھ پاؤں کاٹنا، قید کرنا، کوڑے لگانا وغیرہ ان کا اختیار حکومت کو ہے اور وہ بھی قضاء کے ذریعہ حکومت عارضی طور پر کسی کو قید کر سکتی ہے لیکن بعد میں اس کا فیصلہ قضاء ہی کرے گا.اگر تم اسلام کی اس تعلیم کو ملک میں جاری کر دو تو کوئی قتل ممکن ہی نہیں.نہ آگ لگائی جاسکتی ہے اور نہ کسی کو مارا پیٹا جاسکتا ہے.اس تعلیم کو جاری کرنے کے بعد ہی ملک میں امن قائم ہو سکتا ہے.تم پہلے اسلامی ذہنیت پیدا کرو.یہ نہیں کہ ایک طرف مولوی یہ کہے کہ ملک میں اسلامی تعلیم پھیلاؤ اور دوسری طرف یہ کہے کہ فلاں شخص اسلامی تعلیم کے خلاف چلتا ہے اُس لیے اسے قتل کر دو.ہم حکومت کو کئی دفعہ اس طرف توجہ دلا چکے
$1951 184 خطبات محمود ہیں لیکن اُس کی طرف سے کوئی کارروائی نہیں کی گئی.نتیجہ یہ ہوا کہ جو ذہنیت احمدیوں کے خلاف پھیلائی گئی تھی وہ پاکستان کے خلاف چل گئی.اور اگر اس ذہنیت کو جلدی تبدیل نہ کیا گیا تو صرف احمدیوں کے خلاف ہی نہیں بلکہ لوگ ان مولویوں کے خلاف بھی جو یہ فتوی دیتے ہیں کارروائی کریں گے.غرض یہ ذہنیت نہایت خطرناک ہے.اگر اسے جلد روکا نہ گیا تو یہ ملک کے لیے بہت بڑے خطرے کا موجب ہو گی.اگر مولوی حقیقت میں ملک میں اسلامی حکومت قائم کرنا چاہتے تو وہ رعایا کو سکھاتے کہ شرعی تعزیر ان کے اختیار میں نہیں.شرعی تعزیر حکومت کے اختیار میں ہے بلکہ حکومت بھی شرعی تعزیر قضاء کے ذریعہ دے سکتی ہے.اگر واقع میں یہ تعلیم دی جائے تو خان لیاقت علی خان تو پاکستان کے پریمئیر (PREMIER) تھے پاکستان کا ایک غریب سے غریب لڑکا بھی نہیں مارا جاسکتا.جب ہر شخص کے ذہن میں یہ بات بٹھا دی جائے کہ ایسا فعل خدا تعالیٰ کے منشاء اُس کے رسول کی تعلیم ، قرآن کریم ، اخلاق ، حب الوطنی، روح نظام اور ملک و ملت کے خلاف ہے تو کوئی شخص ایسا فعل کرنے کی جرات نہیں کرے گا.اگر خان لیاقت علی خان جنگل میں بھی ہوتے اور سوائے ان کے اور قاتل کے وہاں کوئی نہ ہوتا لیکن قاتل کے ذہن میں اسلام کی صحیح تعلیم ہوتی تو وہ کبھی نہ مارے جاتے.ایسی صورت میں پولیس وغیرہ کی کوئی ضرورت نہ تھی.پس اصل چیز یہ ہے کہ اسلام کی صحیح تعلیم کو قائم کرو.یہ ملاں جو ہلاکو کی تعلیم کو پھیلا رہے ہیں خان لیاقت علی خان کے قتل کے اصل ذمہ دار ہیں.جب تک حکومت ان کے منہ بند نہیں کرے گی ملک میں امن قائم نہیں ہوسکتا“.الفضل 6 نومبر 1951ء) 1:مسند احمد بن حنبل - مسند الكوفيين.حدیث اسامه بن شریک جلد 5 صفحه 350.بيروت لبنان 1994ء میں لَمْ يُنَزِّلْ دَاءً إِلَّا أَنْزَلَ مَعَهُ شِفَاءً إِلَّا الْمَوْتَ وَالْهَرَم کے الفاظ ہیں اور صحیح مسلم کتاب السلام باب لِكُلِّ داءٍ دواء و استحباب التداوی میں ” لِكُلِّ دَاء دواء“ 2 : ابوداؤد کتاب الجنائز باب في الموت الفجأة 3: كُتِبَ عَلَيْكُمْ إِذَا حَضَرَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ إِن تَرَكَ خَيْرَ الْوَصِيَّةُ لِلْوَالِدَيْنِ وَالْأَقْرَبِينَ بِالْمَعْرُوفِ حَقًّا عَلَى الْمُتَّقِينَ (البقرة: 181) ج
$1951 185 خطبات محمود 4 ایڈی کانگ : (An officer acting as a (Aide-De-Camp confidentional assistant to a senior officer (The Concise Oxford Dictionary) مصاحب یعنی حاکم اعلیٰ کے ماتحت حکم بردار افسر 5 : صحیح مسلم کتاب اللعان
$1951 186 26 خطبات محمود اسلام نے شہریت کے جو اصول مقرر کیے ہیں ان کی پابندی کو اپنا شعار بناؤ فرموده 9 نومبر 1951ء بمقام ربوہ ) تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ نے انسان کو مدنی الطبع پیدا کیا ہے اور انسانیت کی بنیاد مدنیت پر رکھی گئی ہے.انسان خواہ گاؤں میں رہے، قصبات میں رہے یا بڑے بڑے شہروں میں رہے وہ اکٹھا ر ہے گا اور ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کر کے رہے گا.اس کی ترقی کا انحصار ہمیشہ مدنیت پر ہے.قرآن کریم میں انسانِ اوّل کے متعلق فرمایا گیا ہے کہ وہ جس جگہ رہے گا وہاں کی یہ خصوصیت ہو گی کہ نہ وہ بھوکا رہے گا اور نہ نگا ر ہے گا.1 اس کے عام معنی یہی ہو سکتے ہیں کہ وہاں اسے کپڑا روٹی ملتی رہے گی.لیکن سوال یہ ہے کہ انسان بھو کا بھی رہتا ہے اور نگا بھی رہتا ہے.دنیا میں ہم ہزاروں ہزار واقعات فاقہ کشی کے دیکھتے ہیں، ہزاروں انسان ہمیں سنگے نظر آتے ہیں.پھر خدا تعالیٰ نے یہ کیوں فرمایا کہ انسان جہاں رہے گا وہاں کی یہ خصوصیت ہو گی کہ نہ وہ بھوکا رہے گا اور نہ نگا رہے گا؟ دراصل اس کے یہ معنی نہیں کہ جہاں کہیں انسان رہے گا وہاں اس کے لیے
$1951 187 خطبات محمود خدا تعالیٰ کی طرف سے روٹی اور کپڑا نازل ہوا کرے گا بلکہ اس کے یہ معنے ہیں کہ وہاں اُس کے لیے ی کپڑا اور روٹی کے سامان مہیا ہوں گے.اور کپڑا اور روٹی کے سامان مدنیت کی صورت میں ہی مل سکتے ہیں.کوئی شخص گندم بور ہا ہوتا ہے، کوئی با جرابور ہا ہوتا ہے، کوئی جو بورہا ہوتا ہے، کوئی مکئی بو رہا ہوتا ہے.اسی طرح کوئی گوشت بیچ رہا ہوتا ہے اور کوئی سبزی بیچ رہا ہوتا ہے.اور یہ چیز جنگل میں نہیں ہو سکتی.جنگل میں اصل سامان بھوکا رہنے کا ہے کیونکہ انسان کے لیے پکے ہوئے کھانے کی ضرورت ہوتی ہے ور یہ جنگل میں نہیں ہو سکتا.جنگل میں جانور رہتا ہے اور وہ پتے کھاتا ہے لیکن انسان کی غذا پتے نہیں.جانور جنگل میں درختوں کی جڑیں اور چھلکے کھا کر گزارہ کرتا ہے لیکن انسان کی غذا جڑیں اور چھلکے نہیں انسان کی غذا گندم، جو ، باجرا اور مکی وغیرہ ہے.اور یہ چیزیں تبھی مہیا ہو سکتی ہیں جب وہ شہر میں رہتا ہو.شہر میں کوئی شخص گندم لا رہا ہوتا ہے، کوئی باجر الا رہا ہوتا ہے، کوئی جو اور مکئی لا رہا ہوتا ہے.چنانچہ جو کھانے والے کو جو مل جاتے ہیں، گندم کھانے والے کو گندم مل جاتی ہے اور باجرا کھانے والے کو باجر امل جاتا ہے.غرض شہر میں ہر شخص کی ضرورت کے مطابق سامان مہیا ہوتے ہیں.پھر گوشت ہے انسانی فطرت جس طرح گوشت کو چاہتی ہے اور گوشت کی جن اقسام کو چاہتی ہے اُس کے لیے بھی ساتھیوں کی ضرورت ہوتی ہے.جہاں جہاں بھی انسان رہا ہے اور وہاں تمدن رہا ہے وہ پکا کر کھانے کا عادی رہا ہے.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ دنیا میں کچا گوشت کھانے والے بھی ملتے ہیں لیکن جہاں پکا کر کھانے والے چلے گئے ہیں وہاں کچا گوشت کھانے والے بھی پکا کر کھانے لگ گئے ہیں.یہ کبھی نہیں ہوا کہ کچا کھانے والے کہیں گئے ہوں تو وہاں پکا کر کھانے والے بھی کچا گوشت کھانے لگ گئے ہوں.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ پکا کر کھانا فطرتی چیز ہے اور جو چیز طبیعت کے اندر داخل ہوتی ہے وہی غالب ہوتی ہے.اگر کچا کھانا اصل فطرتی چیز ہوتا تو چاہیے تھا کہ جہاں حبشی یا کسی اور غیر متمدن قوم کا کوئی فرد آ جاتا وہاں سارے لوگ ہنڈ یار کا نا چھوڑ دیتے اور کچا گوشت کھانے لگ جاتے لیکن ایسا کبھی نہیں ہوتا.ہاں! یہ ضرور ہوتا ہے کہ جہاں پکا کر کھانے والے چلے جاتے ہیں وہاں کچا کھانے والے بھی پکا کر کھانے لگ جاتے ہیں.امریکہ، آسٹریلیا کے پرانے لوگ کچے کھانے کھاتے تھے لیکن جب پکا کر کھانے والے وہاں گئے تو اب وہی لوگ زردہ، پلا ؤ، ٹوسٹ اور ڈبل روٹی کھانے لگ گئے ہیں.یہ نظارہ کہیں نہیں دیکھا گیا کہ ٹوسٹ اور ڈبل روٹی کھانے والوں نے کیڑے مکوڑے اور کچا گوشت کھانا
خطبات محمود 188 $1951 شروع کر دیا ہو..گویا فطرت نے یہی محسوس کیا ہے کہ پکا کر کھانا ترقی یافتہ چیز ہے.اسی طرح نگا رہنا ہے لا تعری کے یہ معنی نہیں کہ انسان کے لیے سلے سلائے لباس آسمان سے اترا کریں گے اور اس کے یہ معنے نہیں کہ وہاں ننگ ڈھانکنے کے سامان مہیا ہوں گے.جب انسان اکیلا رہتا ہو تو وہ نگا رہتا ہے لیکن جب وہ مل کر رہتا ہے تو وہ نگا نہیں رہتا.ایک متمدن سے متمدن آدمی جب اکیلا نہاتا ہے تو وہ نگا نہا لیتا ہے لیکن ایک ادنیٰ سے ادنی آدمی بھی جب باہر آئے گا تو کپڑے پہنے گا سوائے حبشیوں اور اُن لوگوں کے جن کی تہذیب نے ابھی ترقی نہیں کی.پس لا تعری کے معنے یہ ہیں کہ تم مل کر رہو گے اور لباس پہن کر رہو گے کیونکہ انسانی فطرت میں یہ رکھ دیا گیا ہے کہ جب وہ کسی کے سامنے آئے تن ڈھانک کر آئے.اسی لیے نگار ہنابُری چیز ہے.غرض جہاں جہاں انسانی فطرت اپنے آپ کو نمایاں کرتی چلی جاتی ہے وہاں مدنیت ترقی کرتی چلی جاتی ہے.در حقیقت انسان پیدا ہی مدنی الطبع ہوا ہے.اس لیے وہ منڈیوں میں جاتا ہے، غذا ئیں مہیا کرتا ہے، اپنی ضرورتوں کو پورا کرتا ہے اور لباس کو ضروری قرار دیتا ہے.جنگل میں رہنے والا انسان نگا بھی رہتا ہے اور بھو کا بھی لیکن جب وہ شہر میں آتا ہے تو وہ کھانا کھاتا ہے، کپڑے پہنتا ہے.افریقہ میں ابھی بیشک بعض ایسی قو میں رہتی ہیں، ابھی نئی تہذیب سے اُن کا واسطہ نہیں پڑا تھا.وہاں جولوگ جاتے تھے وہ بتاتے تھے کہ یہ لوگ ننگے جنگلوں میں رہتے ہیں اور شہروں میں بہت کم آتے ہیں اور اگر آئیں تو شہروں میں انہیں داخل ہونے کی اجازت نہیں.اس لیے جب کبھی وہ شہر کی طرف آتے ہیں ایک تہہ بند کندھے پر ڈال لیتے ہیں اور جب وہ شہر کے قریب پہنچتے ہیں تو تہہ بند پہن کی لیتے ہیں لیکن جب واپس جاتے ہیں تو شہر سے باہر نکلتے ہی تہہ بند اُتار دیتے ہیں اور بھاگ جاتے ہیں.ان لوگوں میں یہ غیر فطرتی چیز پائی جاتی ہے کیونکہ انہوں نے ابھی صحیح طور پر ترقی نہیں کی.ورنہ حقیقت یہی ہے کہ جب انسان دوسروں کے سامنے آتا ہے تو اپنا ننگ ڈھانکتا ہے.یہی چیز لَا تَعْری میں بیان کی گئی ہے کہ تم اکٹھے رہو گے اور جب ایک دوسرے کے سامنے آؤ گے تو تمہیں احساس ہوگا کہ ہم ننگے نہ رہیں.انسان کی زندگی کا بنیادی اصول یہی ہے اور اسلام کی تاریخ اس کے گرد چکر لگاتی ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جب تم کسی مجلس میں آؤ تو بد بودار چیز کھا کر نہ آؤ.2 مدنیت کے لیے یہ چیز ضروری ہے.ایک شخص کہہ سکتا ہے کہ تمہیں کیا حق ہے
$1951 189 خطبات محمود کہ تم مجھے پیاز اور لہسن کھانے سے منع کرو.مجھے پیاز اور لہسن پسند ہیں میں ضرور کھاؤں گا اور تم مجھے منع نہیں کر سکتے.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اسلام اُس کے اِس حق کو تسلیم کرتا ہے کہ جو چیز اُس کے لیے جائز قرار دی گئی ہے وہ اُسے کھالے لیکن اسلام کہتا ہے کہ جب تم مجلس میں آتے ہو تو تمہارے حقوق محدود ہو جاتے ہیں.وہاں یہ نہیں دیکھا جاتا کہ تمہارا کیا حق ہے اور تمہیں کیا چیز پسند ہے بلکہ وہاں یہ بھی دیکھا جاتا ہے کہ دوسرے لوگوں کو کیا چیز پسند ہے.اگر تم کوئی ایسی چیز کھا کر آ جاتے ہو جس سے بیٹھنے والوں کو تکلیف محسوس ہوتی ہو تو تم اسلام کی تعلیم کے خلاف جاتے ہو.اسلام یہ کہتا ہے کہ جب تم مجلس میں آؤ تو بد بودار چیز کھا کر نہ آؤ اور نہ سر پر کوئی ایسی چیز لگاؤ جو بد بودار ہو.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس چیز کو نہایت لطیف پیرایہ میں سمجھایا ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں مومن کیا ہوتا ہے؟ وہ فرشتہ ہوتا ہے.فرمایا جب تم کوئی بد بودار چیز کھا کر آتے ہو تو فرشتے تکلیف اٹھاتے ہیں.یعنی پاس بیٹھنے والے مومنوں کو اس سے تکلیف ہوتی ہے.گویا مومنوں کو آپ نے فرشتے قرار دیا ہے.پھر فرشتہ کہ کر اس طرف بھی توجہ دلائی ہے کہ جس طرح فرشتہ خیر پہنچاتا ہے شتر نہیں پہنچا تا اسی طرح مومن بھی صرف خیر پہنچانے والا ہوتا ہے شتر پہنچانے والا نہیں ہوتا.گویا اس طرح بتایا کہ جب تم پیاز اور لہسن کھا کر آتے ہو تو تمہاری مثال شیطان کی سی ہوتی ہے جو دوسرے کی ایذاء دہی میں خوش ہوتا ہے.اور جو شخص لہسن اور پیاز یا کوئی اور بد بودار چیز کھا کر مجلس میں نہیں آتا وہ فرشتہ ہوتا ہے.اس لیے کہ اگر چہ اُس کا یہ حق تھا کہ وہ لہسن اور پیاز کھالے اور خدا تعالیٰ نے یہ دونوں چیز میں اس کے لیے جائز قرار دی تھیں لیکن وہ انہیں نہیں کھاتا.اس لیے کہ اُس کے پاس بیٹھنے والوں کو تکلیف نہ ہو.گویا جو لوگ پیاز اور لہسن کھا کر مجلس میں آ جاتے ہیں وہ شیطان ہیں.اور جو لوگ پیاز اور کی لہسن کھا کر مجالس میں نہیں آتے وہ فرشتے ہیں.جب تک ہم ان اصولوں پر عمل نہیں کرتے جو تمدن کے لیے ضروری ہیں اُس وقت تک ہم یہ امید نہیں کر سکتے کہ ہم اسلام کی روشنی اور اس کی ترقی سے کوئی فائدہ اٹھا ئیں گے.میں دیکھتا ہوں کہ ہماری جماعت چند مسائل پر چکر کھا رہی ہے.وہ وفات مسیح وغیرہ پر زور دیتی ہے لیکن اسلام کے بنیادی اصولوں کی طرف اس کی توجہ نہیں.مثلاً یہی چیز لے لو کہ کسی دوسرے شخص کو تمہارے ہاتھوں تکلیف نہ ہو.اگر چہ میرے ذہن میں ایسی مثالیں موجود ہیں کہ بعض افراد نے
$1951 خطبات محمود 190 اس تعلیم پر عمل کیا ہے لیکن یہ چیز قومی کریکٹر کے طور پر جماعت میں نہیں ملتی.گاڑی میں لوگ بیٹھتے ہیں تو وہ نئے آنے والوں کو جگہ نہیں دیتے.اگر کسی نے ڈبہ ریز رو کرایا ہوا ہو.مثلاً اُس کے ساتھ عورتیں ہیں اور وہ نہیں چاہتا کہ کوئی غیر مرد اس ڈبہ میں داخل ہو اور وہ ڈبہ ریز رو کر الیتا ہے تو دوسروں کا حق نہیں کہ وہ اُس ڈبہ میں داخل ہوں لیکن دوسرے ڈبوں میں بھی یہ حالت ہوتی ہے کہ اگر کسی ڈبہ میں دو افراد بیٹھے ہیں تو اُن کی انتہائی کوشش یہی ہوگی کہ وہ دوہی رہیں اور اس کے لیے وہ عجیب عجیب حرکات کی کریں گے.دروازوں کے آگے سامان رکھ دیں گے، کوئی اسٹیشن آئے گا تو کھڑکیاں بند کر لیں گے اور چادر تان کر لیٹ جائیں گے.حالانکہ تمدن کے معنے ہی یہ تھے کہ ہر شخص دوسرے کا خیال رکھے اور مومنانہ شان بھی یہی ہے کہ جہاں خدا تعالیٰ نے اُسے حق دیا ہے مثلاً کوئی سرکاری افسر ہے اُس کے لیے علیحدہ ڈبہ ہے یا کسی نے کسی خاص مقصد کے لیے کوئی ڈبہ ریز رو کرایا ہو تو کسی دوسرے کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ اُس میں داخل ہو.لیکن جب وہ ایک عام ڈبہ میں بیٹھتا ہے تو اس پر فرض ہے کہ وہ بعد میں آنے والوں کو جگہ دے.وہ خود تکلیف برداشت کرے لیکن دوسروں کو تکلیف نہ دے.مجھے صرف ایک مثال یاد ہے کہ پہلے بیٹھے ہوئے نے نئے آنے والے کو جگہ دے دی اور وہ بھی نہایت تلخ مثال ہے اور دوبارہ خواہش نہیں ہوئی کہ ایسا ہو.خص حضرت خلیفہ اول کے زمانہ میں ایک دفعہ میں امرتسر سے گاڑی پر سوار ہوا.دیوالی کا موسم تھا.گاڑی میں رش زیادہ تھا.مجھے جگہ نہ ملی اور میں کھڑا ہو گیا.ایک شخص نے مجھے زور سے کہا آئے تشریف لائیے اور دوسرے لوگوں کو کہا کہ یہ شریف آدمی ہیں ان کے لیے جگہ چھوڑ دو.پھر ایک شخ سے کہنے لگا اٹھو! یہاں سے تم ان کے لیے جگہ کیوں نہیں چھوڑتے ؟ اُس کے رویہ سے مجھے یوں محسوس ہوا کہ وہ شخص مجھے پہچانتا ہے.چنانچہ لوگ سمٹ گئے اور تھوڑی سی جگہ نکل آئی جہاں میں بیٹھ گیا.وہ پھر کہنے لگا میں آپ کی کیا خدمت کروں.بوتل منگواؤں ، چائے منگواؤں ؟ میں نے کہا نہیں نہیں مجھے اس وقت کوئی ضرورت نہیں.لیکن وہ تھا کہ برابر دہرائے جارہا تھا کہ میں آپ کی کیا خدمت کروں؟ بوتل منگوا ؤں، چائے منگواؤں؟ وہ ابھی اس قسم کی باتیں کر رہا تھا کہ ایک اور شخص ڈبہ میں داخل ہوا.اُس کے آتے ہی وہ کہنے لگا آئے تشریف لائے.اس کے لیے جگہ چھوڑ دو.اور میری طرف سے اس نے منہ پھیر لیا.بھیٹر بہت زیادہ تھی اور لوگ سمٹ کر بیٹھے ہوئے تھے.آخر وہ جگہ کہاں سے نکالتے.
$1951 191 خطبات محمود جب کوئی جگہ نہ نکلی تو اُس نے ایک شخص سے کہا بڑے بے شرم ہو! ایک شریف آدمی کھڑا ہے اور تم سے جگہ نہیں دیتے.اس پر وہ گھبرا کر کھڑا ہو گیا.میں نے کہا یہ عجیب آدمی ہے کہ خود آرام سے بیٹھا ہے اور دوسروں سے کہہ رہا ہے انہیں جگہ دو.بعد میں پتا لگا کہ وہ اُس وقت شراب پیئے ہوئے تھا.غرض یہ ایک ہی واقعہ مجھے یاد ہے کہ جب ریل میں بیٹھے ہوئے کسی نے بعد میں آنے والے سے کہا ہو کہ آؤ اور یہاں بیٹھ جاؤ.اور یہ واقعہ بھی ایک شرابی کا ہے وہ عقلمند نہیں تھا حالانکہ چاہیے تھا کہ عظمند لوگ اس طرح کرتے.یورپ میں ہم ایک دفعہ انڈر گراؤنڈ ریلوے میں سفر کر رہے تھے کہ ایک عورت آئی.گاڑی میں رش زیادہ تھا.میں نے اپنے ایک ساتھی سے کہا کہ اسے گاڑی میں بٹھا لو.چنانچہ انہوں نے اُس عورت کو گاڑی میں بٹھا لیا اور وہ منون بھی ہوئی مگر ایک شخص نے پاس سے کہا آپ نے اسے جگہ کیوں دی ہے؟ پہلے جب عورتیں آتی تھیں تو ہم جگہ چھوڑ دیتے تھے لیکن اب یہ کہتی ہیں کہ عورت اور مرد برابر ہیں اس لیے اب ہم انہیں جگہ نہیں دیتے.ہم کہتے ہیں جس طرح ہم کھڑے رہتے ہیں اُسی طرح تم کھڑی رہو.میں نے کہا یہ آپ کے آپس کے جھگڑے ہیں ہمیں اس سے کوئی غرض نہیں.ہم تو مسافر ہیں.لیکن اب بھی شرفاء میں یہ خوبی پائی جاتی ہے کہ جب کوئی بعد میں سوار ہو تو وہ خود تکلیف برداشت کر لیتے ہیں اور دوسرے کو جگہ دے دیتے ہیں.لیکن ہمارے ملک میں کوشش کی جاتی ہے کہ جتنا دھوکا کوئی شخص دے سکے دے.ہمارے ایک احمدی بزرگ تھے.وہ نیک آدمی تھے لیکن پرانی عادات آہستہ آہستہ جاتی ہیں.وہ بڑے فخر سے اپنا ایک واقعہ سنایا کرتے تھے کہ ایک دفعہ میں ریل میں سوار ہوا.غریب آدمی تھا، پرانے کپڑے پہنے ہوئے تھے اور کندھے پر ایک پھٹی پرانی چادر تھی.میں کمرے میں گھسا لیکن کسی شخص نے مجھے جگہ نہ دی.میرے پاس بعض ہندو بیٹھے ہوئے تھے.میں نے انہیں کہا ذرا کپڑے بچا کر رکھنا بھرشٹ 3 نہ ہو جائیں.وہ جھٹ پرے ہو گئے اور اس طرح تھوڑی سی جگہ نکل آئی جہاں میں بیٹھ گیا.جب میں وہاں بیٹھا تو ساتھ والا ہند و اُٹھ بیٹھا.میں نے ذرا اور پاؤں پھیلائے تو تیسرا ہندو بھی اٹھ بیٹھا.اسی طرح جب میں نے اور ٹانگیں پھیلا ئیں تو دوسرے ہندو بھی اٹھ بیٹھے اور سیٹ خالی ہوگئی اور میں آرام سے لیٹ گیا.انہوں نے بتایا کہ مجھے ایک شخص نے کہا اسی کون ہندے او؟
$1951 192 خطبات محمود میں نے کہا اسی 4 تمیں ہندے آں.اُس نے سمجھا میں چوڑھا ہوں اور بھرشٹ ہونے کے ڈر سے اُس نے میرے لیے جگہ چھوڑ دی حالانکہ میں نے سَیدُ الْقَوْمِ خَادِمُهُمُ 5 کے مطابق کیا تھا کہ ہمارا کام خدمت کرنا ہے آگے کوئی جو چاہے اس کے معنے کرے ہم بہر حال خادم ہی ہیں.غرض ہمارے ملک میں یہ فخر سمجھتا جاتا ہے کہ ایک دوسرے کو زک پہنچائی جائے حالانکہ مدنیت اس کی اجازت نہیں دیتی.جب لوگ ٹکٹ لے رہے ہوتے ہیں تو ہر ایک دوسرے کو کندھا مار رہا ہوتا ہے اور اس کی کوشش ہوتی ہے کہ دوسرے کی جگہ لے لے.میں نے یورپ میں دیکھا ہے کہ ایسی جگہ پر بھی جہاں اطمینان کا سوال پیدا نہیں ہوتا یعنی شرابیوں میں بھی یہ نظارہ دیکھنے میں آتا ہے کہ لوگ قطار میں کھڑے ہوتے ہیں اور باری باری آتے ہیں اور شراب لیتے ہیں.ان میں عورتیں بھی ہوتی ہیں اور مرد بھی ہوتے ہیں لیکن ہر ایک اپنی باری کے انتظار میں کھڑا رہتا ہے.بعض دفعہ سوسو کی کی قطاریں ہوتی ہیں.بعض دفعہ جب قطار اتنی لمبی ہو جاتی ہے کہ وہ سمجھتے ہیں اس سے رستہ کو نقصان پہنچے گا تو وہ دوسری قطار بنا لیتے ہیں، پھر تیسری قطار بنا لیتے ہیں لیکن یہ نہیں ہوگا کہ دوسری یا تیسری قطار میں سے کوئی آدمی شراب لے لے.پہلی قطار شراب لے لے گی تو دوسری قطار کا پہلا آدمی آگے بڑھے گا.اسی طرح جب تک دوسری قطار ساری کی ساری شراب نہ لے لے گی تیسری قطار کا پہلا آدمی آگے نہیں بڑھے گا.یہ اُن کا تمدن ہے.بیشک وہ عیسائی ہیں لیکن یہ چیزیں انہوں نے اسلام سے لی ہیں.در اصل انسان مدنی الطبع ہے کے معنے ہی یہی ہیں کہ ہمیں ایک دوسرے کا لحاظ کرنا ہوگا.اگر ہم ایک دوسرے کا لحاظ نہیں کرتے تو ہم مدنیت کو قائم نہیں رکھ سکتے.جس چیز کو مدنیت کے خلاف سمجھا جاتا ہے ہمارے ملک میں لوگ اُس کا نام چالا کی رکھ لیتے ہیں.گویا انہیں دوسرے کا حق مارنے میں مزا آتا ہے.اسی طرح شہر کے رہائشی حصوں میں گند پھینکنا بھی مدنیت کے خلاف ہے.گو اس میں بہت سا دخل اس بات کا بھی ہے کہ ہمارے ملک میں گندگی کا معیار بہت گرا ہوا ہے، ہماری عورتوں میں صفائی کا احساس بہت کم پایا جاتا ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں یہ بات نہیں تھی.جہاں اس بات کے متعلق بھی سوال کیا جاتا تھا کہ حائضہ حیض کی جگہ کس طرح دھوئے؟ وہاں صفائی کا معیار
$1951 193 خطبات محمود کتنا بلند ہوگا.لیکن یہاں میں نے دیکھا ہے کہ عورتیں آتی ہیں تو میرے سامنے ہی بچوں کو پاخانہ ای کرانے کے لیے بٹھا دیتی ہیں.پھر اُس کو ہاتھ سے صاف کرتی ہیں.میری سمجھ میں نہیں آتا کہ صفائی کا معیار اس حد تک کیوں گر گیا ہے.پھر ناک پونچھنا ہے بالعموم ہمارے ہاں کپڑے کے ساتھ ناک پونچھ لیا جاتا ہے.غرض گندگی کا احساس بہت کم ہے اور جب گندگی کا احساس اتنا کم ہو کہ پاخانہ ہاتھ سے صاف کر دیا اور پھر گلی میں پھینک دیا اور اگر ہاتھ گیلا ہوا تو پاجامے سے پونچھ لیا تو یہ بات کیسے دو بھر معلوم ہوگی کہ گندگی کو گلی میں پھینک دیا جائے.ان کے نزدیک یہ بہر حال زیادہ صفائی کی چیز ہے اور عام طور پر یہی کہا جاتا ہے کہ گھر سے گند اٹھایا اور گلی میں پھینک دیا.گویا جو چیز سب سے زیادہ صاف ہونی چاہیے تھی اُس کو زیادہ گندا رکھا جاتا ہے.اور ظاہر ہے کہ جو ز ہر تین افراد کو نقصان پہنچاتی ہے ہے وہ اُس زہر سے بہت زیادہ خطرناک ہے جو ایک شخص کو نقصان پہنچاتی ہے.اور جو زہر پچاس خاندانوں کو نقصان پہنچاتی ہے وہ اُس زہر سے زیادہ خطرناک ہے جو ایک خاندان کو نقصان پہنچاتی ہے.اب اسلامی تعلیم تو موجود ہے کہ گلیوں میں گند نہیں پھینکنا چاہیے لیکن ہمارے ملک میں اس کا خیال نہیں رکھا جاتا.اس طرح اسلام کے اور احکام بھی ہیں جو آجکل پسِ پشت ڈال دیئے گئے ہیں.مثلاً دکاندار ہے وہ سڑی ہوئی چیزیں بیچتا ہے اور یہ خیال نہیں کرتا کہ یہ چیز جس گھر جائے گی وہاں نی بیماری پھیل جائے گی.یہ بد دیانتی الگ ہے اور شہر سے دشمنی الگ.جو شخص اس قسم کی حرکت کرتا ہے ہے اُسے یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ شہر میں رہے.پھر انہی چیزوں کو پھیلاتے جاؤ تمہیں بیسیوں ایسی مثالیں ملیں گی.مجھے اس مضمون پر خطبہ جمعہ پڑھنے کی تحریک اس وجہ سے ہوئی ہے کہ مجھے بد بو سے سخت تکلیف ہوتی ہے.پرسوں شام بدبو کی وجہ سے مجھے سخت تکلیف ہوئی اور معلوم ہوا کہ کہیں پتھر کے کوئلے جل رہے ہیں.پاکستان کے کوئلے میں گندھک زیادہ ہوتی ہے اس لیے تجربات کیے جارہے ہیں کہ کوئلے سے گندھک کیسے دور کی جائے.وہ کو کلے شاید لائن سے پارجل رہے تھے لیکن اُن کی بُو سارے ربوہ میں پھیلی ہوئی تھی.شاید جلانے والے کو یہ خیال ہو کہ کوئلہ جلانے سے اسے روپیہ میں سے چار آنہ کی بچت ہے لیکن اُس میں شہریت کا احساس نہیں.اُس نے یہ خیال کیا کہ مجھے روپیہ میں.ނ
$1951 194 خطبات محمود چار آنے بچ جائیں لیکن یہ خیال نہ کیا کہ اُس کے اس فعل کے نتیجہ میں لوگ بیمار ہوں گے اور ان پر سینکڑوں روپے خرچ ہوں گے.مومن کو ہمیشہ اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ اُس سے دوسر- لوگوں کو ضرر نہ پہنچے.یورپ میں اگر چہ ناچ اور گانے کا رواج ہے لیکن ایسے قانون بھی موجود ہیں کہ کسی خاص وقت کے بعد شور و غل قطع نہ ہو.میں نے ابھی جرمنی کی ایک کتاب پڑھی ہے جس میں لکھا ہے کہ جرمن میں بارہ بجے کے بعد قطعی طور پر شور بند ہو جاتا ہے یہ مدنیت ہے.انسان کو بہر حال آرام کرنے کا موقع ملنا چاہیے اور یہ اُس وقت ہو سکتا ہے جب ارد گر د شور نہ ہو.بہر حال جب ہمیں اکٹھا رہنا ہے تو ہمیں ایک دوسرے کا لحاظ کرنا ہو گا.جو شخص دوسرے کا لحاظ نہیں کرتا وہ جنگل میں چلا جائے.شہر میں رہنے کا اُسے حق نہیں.جس شخص نے گلیوں میں گند پھینکنا ہے یا گندی غذا ئیں کھانا ہے یا کپڑوں سے ناک پونچھنا ہے وہ شہر سے باہر رہے اُسے شہر میں رہنے کا حق نہیں کیونکہ یہ چیزیں مدنیت کے خلاف ہیں اور پھر انسان کو اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ دوسروں کے لیے اُس کا وجود فائدہ کا موجب ہو.مجھے ایک دفعہ ایک انگریز ملا.وہ مشہور آدمی تھا اور مجھے دیر سے اُسے ملنے کا شوق تھا.چنانچہ میں نے اُسے کھانے پر بلا لیا.اُس نے مجھ سے دریافت کیا کہ میرا فرانسیسیوں کے متعلق کیا خیال ہے؟ میں نے کہا جہاں تک میں نے اندازہ کیا ہے فرانسیسی زیادہ شائستہ اور مہذب ہوتا ہے لیکن انگریز خشک ہوتا ہے اور انٹروڈکشن کے بغیر کسی سے بولنا پسند نہیں کرتا.لیکن ایک فرق ضرور ہے کہ اگر کسی کو اچانک تکلیف پہنچے اور کوئی انگریز اُس کے پاس سے گزرے تو خواہ وہ اُس کا واقف ہو یا نہ وہ اُس کی مدد کرے گا لیکن فرانسیسی اُسے جانتا بھی ہوگا تو آگے گزر جائے گا.وہ ہنس پڑا.اُس کی سوال کرنے سے کچھ اور غرض تھی لیکن تاہم وہ ہنس پڑا اور کہنے لگا.میری ماں فرانسیسی تھی.یہ مدنیت کی کمی اور زیادتی کی وجہ سے فرق ہے.میرا اندازہ یہی ہے کہ انگریز ہر واقف اور نا واقف کی جب وہ مصیبت زدہ ہو مدد کرے گا لیکن فرانسیسی واقف بھی ہوگا تو پاس سے گزر جائے گا.میں جب شام گیا تو دیکھا کہ لوگ انگریزوں کی تعریف کرتے ہیں اور فرانسیسیوں کی تعریف نہیں کرتے.جب میں نے ان سے انگریزوں کی تعریف سنی تو میں نے کہا تم پسند کرتے ہو کہ انگریز یہاں آجائیں ؟ انہوں نے کہا نہیں.میں نے کہا کیوں؟ ابھی تو تم انگریزوں کی تعریف کر رہے تھے.اس پر انہوں نے کہا فرانسیسی ہمیں ٹھڈے بھی مارتا ہے تو اس طرح جیسے بھائی بھائی کو مارتا ہے لیکن انگر یز ہم سے نیک سلوک بھی
$1951 195 خطبات محمود کرتا ہے تو اس طرح جیسے کتے سے سلوک کیا جاتا ہے.اس لیے ہم فرانسیسیوں کو ہی پسند کرتے ہیں انگریزوں کو نہیں.انگریز مہربان تو ہوتے ہیں لیکن اُن کے اندر یہ جذ بہ ضرور ہوتا ہے کہ وہ اوروں سے بالا ہیں لیکن فرانسیسی ظلم بھی کریں گے تو اس طرح جس طرح ایک بھائی بھائی پر کرتا ہے.بہر حال ہر ایک قوم کے الگ الگ اخلاق ہوتے ہیں اور ضروری نہیں کہ اسلام اُن کا پابند ہو.فرانسیسیوں کے الگ اخلاق ہیں، امریکہ والوں کے الگ اخلاق ہیں، انگریزوں کے الگ اخلاق ہیں ہم ان کے پابند نہیں.اسلام نے خود تمدن کے بعض اصول مقرر فرمائے ہیں اور ہماری کوشش ہونی چاہیے کہ ہم ان اصولوں کی پابندی اختیار کریں.احمدی جب اسٹیشن پر جائیں قطار میں کھڑے ہو کر ٹکٹ لیں، جب ریل میں بیٹھیں سمٹ کر بیٹھیں اور نئے آنے والوں کو جگہ دیں، جب ضرورت پڑے ہر احمدی میں یہ خصوصیت ہونی چاہیے کہ وہ دوسرے کی مدد کے لیے تیار ہو جائے.اسی طرح شہروں میں صفائی کا خیال رکھا جائے اور کوئی کام ایسا نہ کیا جائے جس سے دوسروں کو تکلیف محسوس ہو.ربوہ کو ہی لے لو.ربوہ میں جہاں کہیں گند ہوا سے دور کرو.یا اگر طاقت ہے تو دوسروں سے صفائی کرواؤ.لیکن یہ نہیں ہونا چاہیے کہ گند گھر سے نکال کر باہر گلی میں پھینک دیا جائے.میں نے ربوہ میں چلتے پھرتے دیکھا ہے کہ ادھر ادھر پاخانہ پھرا ہوا ہو گا جو جوتی سے لگ جاتا ہے.یا اگر کسی نے ا مرغی کھائی ہے تو اُس کی انتڑیاں باہر پھینک دی جاتی ہیں اور وہ جوتی کے ساتھ چپک جاتی ہیں اور دور تک ساتھ گھسٹتی جاتی ہیں.شہر میں رہتے ہوئے ہر اُس فعل سے اجتناب کرنا چاہیے جو دوسرے کے لیے ضرر رساں ہو.انسان جو چیز بھی استعمال کرے اُس کے متعلق سوچ لے کہ اس سے دوسرے کو تکلیف تو نہیں ہوتی.مثلا کوئلہ ہے شہری آبادی میں پتھر کا کوئلہ جلانا نہایت مضر ہے.اس سے نمونیا اور کھانسی پیدا ہوتی ہے.اسی طرح گلے میں خرابی پیدا ہوتی ہے.یہی وجہ ہے کہ انڈسٹریل ایریا شہر کے ایک طرف رکھا جاتا ہے.یہ ایسی خصوصیات ہیں کہ اگر کسی میں پائی جائیں تو خوامخواہ لوگ سوال کریں گے کہ یہ کون لوگ ہیں.اگر تم ریل میں بیٹھے ہو اور نئے آنے والوں کو جگہ مہیا کرتے ہو، خود تکلیف برداشت کرتے ہو اور دوسرے کو تکلیف میں نہیں رہنے دیتے تو لوگ پوچھیں گے تم کون ہو؟ اور جب تم کہو گے کہ میں احمدی ہوں تو خواہ کسی کو احمدیوں سے واسطہ پڑا ہو یا نہیں ہر کوئی یہ کہے گا کہ میں نے پہلے بھی سنا ہے کہ احمدی لوگ با اخلاق ہوتے ہیں.اور ڈبہ کے لوگ بجائے مخالفت
$1951 196 خطبات محمود کرنے کے تمہاری تعریفیں کرنے لگ جائیں گے اور رستہ میں یہی تعریف ہوتی چلی جائے گی.لیکن ی اگر تم میں سے کوئی یہ اخلاق نہیں دکھاتا تو ایک مخالف کو موقع مل جائے گا اور وہ تمہیں دیکھ کر ڈبہ میں تمہارے متعلق جوش پھیلائے گا اور لوگ تمہارے مخالف ہو جائیں گے لیکن اگر تم اچھے اخلاق دکھاتے ہو تو کسی کو تمہارے خلاف بات کرنے کی جرات نہیں ہوگی، کسی کو یہ طاقت نہیں ہوگی کہ وہ تمہارے خلاف بولے.ہر کوئی سُبحَانَ اللہ کہے گا.جب رو چلتی ہے تو اسی طرح چلتی ہے.اگر بیماریوں کی باتیں شروع ہو جائیں تو دو دو گھنٹے بیماریوں کی باتیں ہی چلی جاتی ہیں، گانے بجانے کے متعلق باتیں شروع ہو جائیں تو وہی باتیں دو دو گھنٹہ تک چلتی جاتی ہیں.تم نے ایک روچلانی ہے اور اُس کا یہی طریق ہے جو میں نے بتایا ہے.اور تم ان باتوں کو مد نظر رکھ کر سفر کرو تو کئی میل تک احمدیت کا ہی تذکرہ چلا جائے گا اور کسی کو جرات نہیں ہوگی کہ وہ احمدیوں کے خلاف کوئی بات اپنے منہ سے نکالے.گر وہ احمدیوں کے خلاف کچھ کہے گا تو سب لوگ کہیں گے کہ تو جھوٹا ہے.کیا تو نے بھی کسی نئے آنے والوں کو جگہ دی ہے؟ کیا تو بھی کسی کے لیے کھڑا ہوا ہے؟ پس آسان ترین ذریعہ رو چلانے کا یہی ہوتا ہے کہ اخلاق کا اچھا نمونہ دکھایا جائے.اور پھر ہر احمدی کو کوشش کرنی چاہیے کہ وہ اپنے آپ کو اسلامی مدنیت کا پابند بنائے اور کوئی ایسا کام نہ کرے جس سے دوسروں کو نقصان پہنچے.جہاں حقوق مشترک ہوں وہاں کوئی ایسی حرکت نہیں کرنی چاہیے جس سے دوسروں کو ضرر پہنچے بلکہ ایسا ہی کام کرنا می چاہیے جس سے اردگرد کے لوگوں کو فائدہ پہنچتا ہو اور اس سے انہیں راحت حاصل ہو“.الفضل 16 اگست 1961 ء) 1 : اِنَّ لَكَ أَلَّا تَجُوْعَ فِيهَا وَلَا تَعْرُى (طه: 119) 2 : بخارى كتاب الاطعمة باب ما يكره من الثوم والبقول 3 بھرشٹ: ناپاک، پلید (فیروز اللغات اردو جامع فیروز سنز لاہور ) 4 : أسنى: أسى، أسان، أسين بمعنی ہم (وڈی پنجابی لغت مرتبہ تنویر بخاری) 5 : كنز العمال في سنن الاقوال والافعال.كتاب الصُّحبة من قسم الاقوال.الباب الثاني في آداب الصُّحِبَةِ وَالْمَصَاحب ومحظُورَاتِها - الجزء 9 صفحه 18 حدیث نمبر 24829 بیروت لبنان 1998ء
$1951 197 27 خطبات محمود اذان کے کلمات اپنے اندر بہت بڑی حکمت رکھتے ہیں ان کلمات کو سمجھنے اور ان کے مطابق کام کرنے کی کوشش کرنی چاہیے (فرموده 16 نومبر 1951ء بمقام ربوہ) تشهد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: وو جب انسان کی طبیعت کمزور ہوتی ہے تو بیماری اس پر غالب آ جاتی ہے.میں اپنے کمرہ سے صحیح و سالم نکلا تھا اور آج ایک خاص مضمون پر خطبہ جمعہ پڑھنے کا خیال تھا لیکن کمرہ سے ڈیوڑھی تک آتے ہوئے ایک منٹ یا نصف منٹ کے لیے میری بائیں طرف سورج کے سامنے آگئی اور اتنی دیر کی شعاعوں کی وجہ سے ایسی سر درد شروع ہو گئی کہ اب ایک ایک لفظ بولنے میں دقت محسوس ہو رہی ہے.جیسا کہ میں نے بتایا ہے میں مضمون تو کوئی اور سوچ کر آیا تھا لیکن جب مؤذن اذان دے رہا تھا اور میں اُس کے مقابلہ میں حسب سنت اور حسب ارشاد نبوی آہستہ آہستہ اذان کے کلمات دہرا رہا تھا 1 تو جب مؤذن حَيَّ عَلَى الصَّلوةِ حَيَّ عَلَى الْفَلاح پر پہنچا اور بجائے اُن کلمات کے جو وہ کہہ رہا تھا میں نے لا حَولَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللهِ پڑھنا شروع کیا.تو میرا ذہن ادھر منتقل ہوا کہ آج مختصراً اسی کے متعلق خطبہ جمعہ پڑھ دوں.مؤذن کہتا ہے اللهُ أَكْبَرُ اللهُ أَكْبَرُ تو سننے والے کو ارشاد
$1951 198 خطبات محمود ہوتا ہے کہ وہ بھی کہے الله اكبر الله اكبر - اور ایک مومن اور دین سے واقفیت رکھنے والا آدمی مؤذن کے ساتھ ساتھ اللهُ اكْبَرُ اللهُ اَكْبَر کہتا ہے ( ان کلمات کو بلند آواز سے دہرانے کا حکم نہیں ).اس لیے جب مسجد میں بیٹھے ہوئے ایک مومن اور واقف دین ان الفاظ کو دہراتا ہے تو دوسرے شخص کو پتا نہیں لگتا.پھر جب مؤذن کہتا ہے اللهُ اَكْبَرُ اللهُ اكْبَرُ.اس پر سننے والے کو ارشاد ہوتا ہے کہ تم بھی کہو اللهُ أَكْبَرُ اللهُ اكْبَرُ.اور ایک مومن اور واقف دین ان کلمات کو دل میں دہراتا ہے.مؤذن أَشْهَدُ اَنْ لَّا إِلهَ إِلَّا الله کہتا ہے تو پھر ارشاد ہوتا ہے کہ سنے والا یہ کلمہ دل میں دہرائے.اور ایک مومن اور واقف دین یہ کلمہ اپنے دل میں دہراتا ہے.پھر مؤذن کہتا ہے اَشْهَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللهِ تو ارشاد ہوتا ہے تم بھی یہ کلمہ دل میں دہراؤ.اور ایک مومن اور واقف دین یہ کلمہ دل میں دہراتا ہے.پھر مؤذن کہتا ہے حَيَّ عَلَى الصَّلَوةِ حَيَّ عَلَى الصَّلَوةِ حَيَّ عَلَى الْفَلَاحِ حَيَّ عَلَى الْفَلَاحِ تو ارشاد ہوتا ہے تم یہ کلمات نہ دہراؤ بلکہ جب مؤذن حَيَّ عَلَى الصَّلوۃ اور حَيَّ عَلَى الْفَلَاحِ کہتا ہے تو تم لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللهِ کہو.چنانچہ جب مؤذن یہ کلمات کہتا ہے تو ایک مومن اور واقفِ دین لَا حَولَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللهِ کہتا ہے.گو بعض لوگوں نے تفقہ سے کام لے کر یہ فتوای دیا ہے کہ لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللہ پڑھنے کے بعد وقفہ میں تم یہ کلمات بھی دہرالیا کرو.اور عادہ اکثر دفعہ میں بھی ان کلمات کو دُہرا لیا کرتا ہوں لیکن یہ تفقہ زیادہ صحیح معلوم نہیں ہوتا.جیسا کہ میں نے بتایا ہے کہ میں عادہ تو ان کلمات کو دُہرا لیتا ہوں لیکن جب سوچتا ہوں تو بات وہی صحیح معلوم ہوتی ہے جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائی ہے اور اُس پر زیادتی اچھی معلوم نہیں ہوتی.پھر مو ذن کہتا ہے اللهُ أَكْبَرُ الله اكبر تو ارشاد ہوتا ہے تم بھی یہ کلمات کہو.اور ایک مومن اور واقفِ دین دل میں ان کلمات کو دہراتا ہے.پھر مؤذن کہتا ہے لَا اِلهَ إِلَّا الله تو ارشاد ہوتا ہے کہ تم بھی یہ کلمہ دہراؤ.اور ایک مومن اور واقف دین اس کلمہ کو دل میں دہراتا ہے.غرض جب مؤذن اذان دیتا ہے تو سنے والا اذان کے کلمات کو دہراتا ہے لیکن جو مو ذن حَی عَلَى الصَّلوة اور حَيَّ عَلَی الْفَلَاحِ کہتا ہے تو وہ ان کلمات کو دہراتا نہیں بلکہ جب مؤذن حَيَّ عَلَى الصَّلوۃ اور حَيَّ عَلَی الْفَلَاحِ کہتا ہے تو سنے والا لا حَولَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللهِ کہتا ہے.جن لوگوں نے تفقہ سے یہ فتوی دیا ہے کہ وقفہ میں ان الفاظ کو بھی دہرا لیا جائے اُن کی بنیاد اس بات پر ہے
$1951 199 خطبات محمود کہ جب اذان کے باقی کلمات دہرائے جاتے ہیں تو ان الفاظ کو بھی دہرا لینا چاہیے.لیکن اگر ہم ان کلمات کے معنوں پر غور کریں تو بات وہی صحیح معلوم ہوتی ہے جو احادیث میں مروی ہے کہ ان کلمات کی بجائے لَا حَولَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللهِ پڑھنا چاہیے.موذن زور سے کہہ رہا ہوتا ہے حَيَّ عَلَی الصَّلوةِ حَيَّ عَلَى الْفَلَاحِ اے لوگو! جلدی توجہ اور تعہد کے ساتھ نماز کی طرف آؤ.اے لوگو! جلدی آؤ.توجہ کے اور تعہد کے ساتھ فلاح کی طرف آؤ.اور ہم ان کلمات کو دل میں کہتے ہیں.اب مؤذن کی آواز چونکہ بلند ہوتی ہے اس لیے لوگ اُس کی آواز کو سنتے ہیں اور اُس پر عمل کرتے ہوئے مسجد میں آجاتے ہیں.لیکن اگر ہم دل میں ان کلمات کو دہرائیں تو انہیں کون سنتا ہے اور کون ان پر عمل کرتا ہے؟ پس اس میں کوئی معقولیت معلوم نہیں ہوتی.مؤذن جب اللهُ أَكْبَرُ الله اكبر کہتا ہے تو سنے والا ان الفاظ کو دل میں دہراتا ہے اور کہتا ہے مؤذن نے جو کچھ کہا ہے ٹھیک کہا ہے.میری ذات بھی خدا تعالیٰ کی تکبیر پر ایمان لاتی ہے.مؤذن جب کہتا ہے اَشْهَدُ اَنْ لَّا إِلَهَ إِلَّا الله تو سنے والا بھی اس کلمہ کو دل میں دہراتا ہے اور کہتا ہے مؤذن ٹھیک کہتا ہے میں بھی خدا تعالیٰ کی توحید پر ایمان لاتا ہوں.مؤذن جب اَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّد رَسُولُ اللهِ کہتا ہے تو سننے والا اپنے دل میں اس کلمہ کو دہراتا ہے اور کہتا ہے ہے مؤذن ٹھیک کہتا ہے میں بھی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت پر ایمان لاتا ہوں.لیکن جب وَزْن حَيَّ عَلَی الصَّلوة کہتا ہے تو اس کی بات معقول نظر آتی ہے کہ وہ مینار پر کھڑ ابلند آواز سے کہہ رہا ہے کہ اے لوگو اسرعت ، توجہ اور تعہد کے ساتھ نماز کے لیے مسجد میں آؤ اور بسا اوقات سنے والا اس آواز کوسن کر مسجد میں آجاتا ہے.لیکن اگر میں اس کلمہ کو دل میں دہراتا ہوں تو اس میں کوئی معقولیت نظر نہیں آتی.میری آواز کون سنتا ہے اور کون اس آواز پر عمل کرتا ہے.جہاں تک فرد کا سوال ہے مؤذن اللهُ أَكْبَرُ اللهُ اَكْبَرُ کہتا ہے تو میں بھی کہتا ہوں اللہ تعالیٰ سب سے بڑا ہے.وہ جب اَشْهَدُ اَنْ لَّا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ کہتا ہے تو میں بھی کہتا ہوں اللہ تعالیٰ کے سوا اور کوئی معبود نہیں.جب وہ اَشْهَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللهِ کہتا ہے تو میں بھی کہتا ہوں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں.گویا جہاں تک انسانی نفس کا سوال ہے جب مؤذن اذان کے کلمات کہتا ہے تو ہر سننے والا وہ کلمات دل میں دہراسکتا ہے.آہستہ آہستہ بھی اور وراء الور یعنی شعور کے طور پر بھی.لیکن جس بات کا تعلق دوسرے لوگوں سے ہے اس کو اپنے دل میں کہنا اپنے اندر کوئی معقولیت نہیں رکھتا.مثلاً ایک شخص
$1951 200 خطبات محمود کہتا ہے اے لوگو! کان کھول کر سن لو کہ فلاں شخص بیوقوف ہے اور وہ یہ بات اپنے دل میں کہہ رہا ہے تو دوسرے لوگوں کو اس کا پتا کیسے لگے گا.پس الله اكبر الله اکبر کا دل میں دہرانا سمجھ میں آسکتا ہے، اَشْهَدُ اَنْ لَّا إِلَهَ إِلَّا الله کا دہرانا سمجھ میں آ سکتا ہے کیونکہ ان کلمات کا تعلق انسانی ذات سے ہے عَلَى الصَّلوٰۃ اور حَيَّ عَلَى الْفَلَاحِ کا دہرانا سمجھ میں نہیں آ سکتا.کیونکہ کہنے والا کہتا ہے کہ اے لوگو! تم سُرعت، توجہ اور تعہد کے ساتھ نماز کی طرف آؤ.اس کلمہ کا تعلق اپنی ذات سے نہیں بلکہ دوسرے افراد سے ہے اور جب وہ دوسرے افراد کو کہتا ہے تم سرعت ، توجہ اور تعہد کے ساتھ نماز کی طرف آؤ اور یہ بات آہستہ کہتا ہے تو دوسرے افراد کو پتا کیسے لگے گا کہ وہ کیا کہ رہا ہے.لیکن مؤذن جب یہ کلمات کہتا ہے تو بلند آواز سے کہتا ہے ، لوگ اُس کی آواز کو سنتے ہیں اور ان میں سے اکثر مسجد میں آجاتے ہیں.یہاں دوڑنے سے مُراد جسمانی دوڑنا نہیں بلکہ اس سے مُراد روحانی دوڑ میں شامل ہونا ہے.اسی طرح مؤذن کہتا ہے حَيَّ عَلَى الْفَلاحِ اے لوگو! تم سرعت ، توجہ اور تعہد کے ساتھ کامیابی کی طرف آؤ.اور جس شخص کے کان میں یہ آواز پڑتی ہے وہ کہتا ہے ٹھیک بات ہے اور اکثر دفعہ وہ مسجد کی طرف چلا جاتا ہے.لیکن اگر تم ان کلمات کو آہستہ آہستہ کہتے ہوتو تمہاری آواز کو کون سنتا ہے؟ کون اس پر عمل کرتا ہے؟ کس کی توجہ پھیرنے کا یہ کلمات موجب ہوتے ہیں؟ پس اس میں کوئی معقولیت نظر نہیں آتی کہ ان کلمات کو دہرایا جائے.لیکن لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللهِ کہنے میں معقولیت پائی جاتی ہے کیونکہ مؤذن نے کہا تھا حَيَّ عَلَى الصَّلوةِ تم سرعت، توجہ اور تعہد سے نماز کی طرف آؤ اور حقیقی نماز یعنی کامل توجہ سے ذکر الہی کرنا اور دنیا کی اشیاء سے منہ موڑ لینا بہت بڑا کام ہے اسے ہر انسان نہیں کر سکتا.اس لیے جب مؤذن کہتا ہے حَيَّ عَلَى الصَّلوة و مومن کہتا ہے لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ الا باللهِ کہ میں چلوں گا تو سہی ، میں مسجد میں آنے کی کوشش تو کروں گا اور توجہ اور تعہد سے نماز کی طرف آؤں گا لیکن نماز کی جو شرائط ہیں اُن کو پورا کرنا میری طاقت سے باہر ہے.نماز میں توجہ کو قائم کرنا ، خدا تعالیٰ کی صفات کو سمجھنا، خدا تعالیٰ کی محبت کو کامل طور پر پیدا کر لینا اور یہ خیال کر لینا کہ خدا تعالیٰ مجھے نظر آتا ہے یہ بہت بڑا کام ہے.اس میں خدا تعالیٰ ہی مدد کرے تو میں کرسکتا ہوں.چنانچہ وہ کہتا ہے لَا حَولَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللهِ یعنی یہ کام بہت بڑا ہے اور اس کا کرنا میری طاقت میں نہیں.ہاں ! اللہ تعالیٰ کی مدد شامل حال ہو تو یہ کام ہو سکتا ہے.اسی طرح جب مؤذن کہتا ہے ح
$1951 201 خطبات محمود عَلَى الْفَلَاحِ اے لوگو! کامیابی کا رستہ کھل گیا ہے دوڑو اور اس پر پروانہ وار گر جاؤ.تو آب چلنا اور کوشش کرنا تو انسان کے اختیار میں ہے لیکن کامیابی کو پالینا اس کے اختیار میں نہیں.فلاح اینٹ اور چونے کی بنی ہوئی چیز نہیں کہ کوئی مسجد میں جائے اور اسے اُٹھا لائے.فلاح غیر مرئی چیز ہے اور وہ خدا تعالیٰ کی دی ہوئی بینائی سے نظر آتی ہے.اور جب وہ غیر مرئی چیز ہے اور خدا تعالیٰ کی دی ہوئی بینائی سے نظر آتی ہے تو پھر خدا تعالیٰ ہی مدد کرے تو وہ حاصل ہو سکتی ہے ورنہ نہیں.اس لیے جب مون حَيَّ عَلَى الْفَلَاحِ کہتا ہے تو سننے والا لا حَولَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللهِ کہتا ہے یعنی خدا تعالیٰ کی مدد سے ہی میں فلاح کو حاصل کر سکتا ہوں اور نہ نہیں.ہم دیکھتے ہیں لوگ مسجدوں میں جاتے ہیں اور خالی ہاتھ آ جاتے ہیں.اُن کے ہاتھوں میں فلاح نہیں ہوتی ، اُن کے کپڑوں میں فلاح نہیں ہوتی لیکن خدا تعالیٰ کہتا ہے فلاح وہاں ہے آؤ اور اسے لے لو.تو معلوم ہوا کہ یہ غیر مرئی چیز ہے اور یہ خدا تعالیٰ ہی دیتا ہے اور اس کی دی ہوئی بینائی سے ہی نظر آتی ہے.اور جب یہ غیر مرئی چیز ہے اور یہ خدا تعالیٰ ہی دیتا ہے تو جب مؤذن حَيَّ عَلَـى الفلاحِ کہتا ہے تو سننے والا لا حَولَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللهِ کہتا ہے کہ میں ضرور آؤں گا، کوشش کروں گا اور اپنا سارا زور لگاؤں گا.لیکن فلاح عطا کرنا خدا تعالیٰ کے اختیار میں ہے.اگر وہ مدد کرے تو میں اس کے حصول میں کامیاب ہو سکتا ہوں ورنہ نہیں.پس ان دونوں كلمات حَيَّ عَلَى الصَّلوةِ حَيَّ عَلَى الْفَلَاحِ کی بجاۓ لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللہ پڑھنا زیادہ مناسب ہے.یہ کلمات اپنے اندر بہت بڑی حقیقت رکھتے ہیں اور ہمیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے احسانات کی طرف توجہ دلاتے ہیں.دیکھو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کس طرح ہمیں چھوٹی چھوٹی باتوں کی طرف توجہ دلائی ہے.ہو سکتا تھا کہ کوئی شخص اذان کے کلمات کود ہرا تا اور وہ سوچتا بھی نہ کہ ان کے اندر کتنی بڑی حقیقت پوشیدہ ہے.لیکن رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی امت کو توجہ دلا دی کہ یہ حصہ پہلے حصہ سے الگ ہے.یہاں انسانی کام ختم ہوتا ہے اور خدائی کام شروع ہوتا ہے.اس لیے تم اس کام کے لیے خدا تعالیٰ کی مدد حاصل کرو.افسوس کہ بوجہ بیماری میں اس مضمون کو ختم نہیں کر سکا.اگر خدا تعالیٰ نے توفیق دی تو إِنْشَاءَ اللہ اگلے جمعہ میں میں اسے بیان کروں گا.آج میں صرف یہی بتانا چاہتا ہوں کہ اذان کے
$1951 202 خطبات محمود کلمات اپنے اندر بہت بڑی حکمت رکھتے ہیں.انہیں سمجھنے اور ان کے مطابق کام کرنے کی کوشش کرنی الفضل 25 نومبر 1951 ء ) چاہیئے.1 : صحيح مسلم كتاب الصلاة باب استحباب القول مثل قول المؤذن لِمَنْ سَمِعَهُ ثم يُصَلِّي عَلَى النبي الله ثُمَّ يَسَأَلُ اللهَ لَهُ الْوَسِيلَةَ.
$1951 203 (28) خطبات محمود لَا حَولَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللهِ میں یہ سبق دیا گیا ہے کہ ہر کام میں اللہ تعالیٰ کی مدد کی ضرورت ہے تم اس نکتے کو شعل راہ بناؤ پھر دیکھو کہ خدا تعالیٰ کی مدد کیسے آتی ہے فرموده 23 نومبر 1951ء بمقام ربوہ ) تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: گزشتہ جمعہ میں میں نے اذان کے متعلق کچھ بیان کیا تھا لیکن اس مضمون کے متعلق زیادہ بیان نہیں کر سکا تھا کیونکہ میری طبیعت ٹھیک نہیں تھی.اس کا بقیہ حصہ میں آج بیان کرنا چاہتا ہوں.میں نے کہا تھا کہ جب اذان کے الفاظ دہرائے جاتے ہیں تو حَيَّ عَلَى الصَّلوةِ اور حَيَّ عَلَى الْفَلَاحِ کے مقام میں لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللہ کہا جاتا ہے.جس میں اِس طرف اشارہ ہوتا ہے کہ یہ دونوں کام ایسے ہیں جو میں نہیں کر سکتا، یہ کام میری طاقت سے بالا ہے اس لیے میں اللہ تعالیٰ سے ہی مدد مانگتا ہوں کیونکہ اللہ تعالیٰ کی مدد کے بغیر میں کوئی کام بھی نہیں کر سکتا.میں نے اُس دن بیان کیا تھا کہ ان دو کلمات کے متعلق خصوصیت کے ساتھ یہ اس لیے کہا گیا ہے کہ نہ تو صلوۃ کا ملہ خدا تعالیٰ کی مدد کے بغیر حاصل ہو سکتی ہے اور نہ فلاح خدا تعالیٰ کی مدد کے بغیر حاصل ہو سکتی ہے.مگر یہ
$1951 204 خطبات محمود مضمون خاص طور پر اذان کے ساتھ ہی تعلق نہیں رکھتا بلکہ جب کوئی اصل بیان کیا جاتا ہے تو وہ اصل صرف اُس جگہ ہی کام نہیں آتا بلکہ وہ باقی امور کے متعلق بھی ہوتا ہے.اس سے جہاں ہمیں اذان کی حکمت معلوم ہو جاتی ہے وہاں اس سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ وہ تمام کام جو انسان کی طاقت سے بالا ہوں ان میں الہی مد مانگنی چاہیے کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ کی مد کے بغیر مکمل نہیں ہو سکتے.پس اذان نے ہمیں اس طرف بھی توجہ دلائی ہے کہ حقیقی مشکلات کا حل محض اللہ تعالیٰ ہے کیونکہ محض صلوۃ اور فلاح ہی ایسے کام نہیں جو خدا تعالیٰ کی مدد کے بغیر مکمل نہیں ہو سکتے بلکہ باقی عظیم الشان اور اہم امور بھی جن کے کرنے میں دنیا کے قوانین اور نیچر کے قوانین کا تعلق ہوتا ہے یا ان کا جماعتوں سے تعلق ہوتا ہے وہ بھی اللہ تعالیٰ کی مدد کے ساتھ ہی مکمل ہوتے ہیں.اول تو انسان کا ارادہ ہی اتنا کمزور ہے کہ وہ ایک کام کو اچھا بھلا دیکھ کر بھی اسے کرنے کی جرات نہیں کرتا.اس میں اس کام کے کرنے کی طاقت ہوتی ہے.لیکن وہ اس کے کرنے کی جرات نہیں کرتا.مثلاً سینکڑوں ہزاروں مسلمان تمہیں نظر آئیں گے جو کہیں گے کہ ہمیں پتا ہے کہ نماز خدا تعالیٰ کا حکم ہے لیکن سستی ہے اس لیے نماز پڑھی نہیں جاتی.اب نماز تو ذاتی کام ہے لیکن باوجود اس کے کہ وہ اپنا کام ہے انسان اسے جرات اور دلیری کے ساتھ نہیں کرتا.پھر جن کاموں میں دوسروں کی شراکت ہو وہ تو اس کی طاقت سے ہی بالا ہوتے ہیں.اپنی ذات میں تو انسان کسی کام کا ارادہ کرلے تو وہ کر لیتا ہے لیکن دوسروں سے کام کرانا اُس کی طاقت سے بالا ہوتا ہے.پس جماعتی کام خصوصیت کے ساتھ خدا تعالیٰ کی مدد کے بغیر مکمل نہیں ہو سکتے.مثلاً ایک زمیندار کھیت ہوتا ہے اب ہل چلانا اس کے اختیار میں ہے.وہ اگر چاہے تو ہل چلا سکتا ہے مگر باوجود اس کے کہ یہ کام انسان کے اختیار میں ہوتا ہے وہ سستی کر جاتا ہے.قادیان میں جب میں سیر کو جاتا تھا تو جب میں کسی اچھی فصل کے پاس سے گزرتا تھا تو اکثر لطیفہ کے طور پر میں کہتا تھا کہ یہ کھیت کسی سکھ کا معلوم ہوتا ہے اور اکثر میری رائے درست ہوتی تھی.میرے ساتھی کہتے تھے کہ آپ کو یہ خیال کس طرح پیدا ہو گیا کہ یہ کھیت کسی سکھ کا ہے؟ تو میں کہتا تھا کہ اس کھیت میں فصل اچھی ہے اس لیے یہ کھیت کسی سکھ کا ہی ہو سکتا ہے.کیونکہ سکھ محنت کرتا ہے مسلمان محنت نہیں کرتا اور بالعموم میرا اندازہ درست ہوتا تھا کہ جو بھی سرسبز اور اچھا کھیت ہوتا وہ کسی سکھ کا ہی ہوتا.ہوسکتا ہے کہ ایک دو دفعہ مجھ کو
$1951 205 خطبات محمود اندازہ کرنے میں غلطی بھی لگ گئی ہولیکن اکثر دفعہ میرا اندازہ ٹھیک ہوتا تھا.پس انسان اپنے کام میں بھی سستی کر جاتا ہے.لیکن بہر حال اگر اُس نے محنت کی ہے اور کھیت میں ہل چلائے ہیں لیکن جب بیج ڈالنے کا وقت آیا تو اسے اچھا بیچ نہیں ملا اس لیے اُس کی فصل خراب ہوگئی کیونکہ اچھا بیج مہیا کرنا زمیندار کے اختیار میں نہیں.ہر ایک زمیندار خود بیج مہیا نہیں کرتا بلکہ بازار سے خریدتا ہے.فرض کرو ملک میں بیماری پڑی اور فصل خراب ہو گئی.اب زمیندار اچھا بیج کہاں سے لائے گا.یہ چیز انسان کی طاقت سے باہر نکل جاتی ہے.پھر پانی کا سوال آتا ہے.پانی مہیا کرنا انسان کے اختیار میں نہیں.پہاڑوں پر برف نہ پڑے تو پچھلے گی کہاں سے.اب برف پڑنا اور اُس کا پکھلنا انسان کے اختیار میں نہیں.پھر برف نہیں پڑی تو دریا نہیں بھرے اور یہ انسان کے اختیار میں نہیں.پھر اگر دریا نہیں بھرے تو نہریں نہیں چلیں اور یہ انسان کے اختیار میں نہیں.اگر نہریں نہیں چلیں گی تو باوجود نہری زمین ہونے کے زمیندار کو پانی مہیا نہیں ہو گا اور فصل نہیں ہوگی.اور اگر زمین نہری نہیں بارانی ہے تو بارش انسان کے اختیار میں نہیں.یہاں قانونِ قدرت چلتا ہے.اگر خدا تعالیٰ بارش کر دے گا تو کر دے گا ورنہ بارش نہیں ہوگی اور اس کی فصل خراب ہو جائے گی.گویا اس میں ایک حصہ ذاتی ہے اور دوسرا حصہ قانونِ قدرت کے ساتھ تعلق رکھتا ہے اور وہ انسان کے اختیار میں نہیں.وہ اُسی وقت مکمل ہو گا جب انسان لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللهِ کے ساتھ خدا تعالیٰ سے دعائیں کرے گا اور تضرع کرے گا کہ اتنا حصہ تو میں پورا کروں گا لیکن ایک حصہ آپ کے ساتھ تعلق رکھتا ہے اس لیے آپ اس حصہ کو پورا کر غرض ہزاروں کام ایسے ہیں جو دوسروں کے ساتھ وابستہ ہیں اور ان کی مدد کے بغیر انسان کام نہیں کر سکتا.جیسا کہ میں نے بتایا ہے کہ اگر پانی نہ ملے تو فصل خراب ہو جاتی ہے یا مثلاً نہروں اور دریاؤں میں پانی آگیا ہے اور کھیت کے لیے پانی میسر ہے پھر فصل بھی اچھی ہے لیکن ٹڈی دل ا گیا اور اس نے کھیت کا صفایا کر دیا تو یہ انسان کے اختیار میں نہیں.ٹڈی دس پندرہ منٹ تک کھیت میں بیٹھتی ہے اور جب اُڑتی ہے تو اس میں کچھ بھی نہیں ہوتا.یا زمین دریا کے پاس ہے اور ہزاروں چوہے آ جاتے ہیں اور اس فصل کو برباد کر دیتے ہیں.اب یہ انسان کے اختیار میں نہیں.یا پھر زمیندار محنت بھی کرتا ہے، وہ ہل بھی چلاتا ہے، بارش بھی وقت پر ہو جاتی ہے، فصل بھی اچھی ہے ، ٹڈی دل بھی
$1951 206 خطبات محمود نہیں آتی ، زمین بھی دریا کے پاس نہیں کہ چوہے آجائیں اور فصل کھا جائیں لیکن اچانک ایک چنگاری اُڑتی ہے اور کھلیان میں آگ لگ جاتی ہے.اب یہ انسان کے اختیار میں نہیں.پھر بعض دفعہ دشمن بھی آگ لگا دیتا ہے اور دشمن بھی انسان کے اختیار میں نہیں.غرض کوئی کام ایسا نہیں جو مکمل طور پر انسان کے اختیار میں ہو.ہر ایک کام میں کچھ حصہ قانونِ قدرت یا دوسرے لوگوں کا ہوتا ہے.اب انسان کو دوسرے لوگوں کی مدد نہ ملے یا قانونِ قدرت مدد نہ کرے تو وہ کوئی کام نہیں کر سکتا.یہ نکتہ ہے جو ہمیں اذان سکھاتی ہے.غور تو کرو آخر کتنے کام ہیں جو انسان کے اپنے اختیار میں ہیں.تمہیں غور کرنے سے معلوم ہو گا کہ دنیا کے ہر کام میں تعاون اور قانونِ قدرت شامل ہیں.گھروں میں دیکھ لو.ہمارے لوگ تو تعلیم میں بہت پیچھے ہیں لیکن خدا تعالیٰ نے جو معیشت کا سامان بنایا تھا یورپ کے لوگ بھی اسے بدل نہیں سکے.میاں بیوی دونوں گھر کا کام چلا سکتے ہیں.تم ہیں نو کر رکھ لولیکن ہیں نو کر وہ کام نہیں کر سکتے جو ایک بیوی کرتی ہے.انسان جتنے نوکر رکھے گا اُس کا کام بڑھ جائے گا.مثلاً گھر میں کپڑا رکھا ہے، روپیہ رکھا ہے یا غلہ رکھا ہے اور کسی کے دس نوکر ہیں تو اُسے دس آدمیوں کی نگرانی کرنی پڑے گی کہ کہیں وہ رو پیغلہ یا سامان چرا کر نہ لے جائیں.اور اگر سونو کر ہوں گے تو اُسے سو آدمیوں پر نظر رکھنی پڑے گی.لیکن بیوی کے پاس انسان بغیر حساب کے روپیہ رکھ دیتا ہے، کپڑا رکھتا ہے اور اُس کی نگرانی کی ضرورت نہیں ہوتی.ہزاروں میں سے کوئی ایک عورت ہو گی جو اپنے خاوند کے سامان اور روپیہ کی حفاظت میں کوتاہی کرتی ہو گی ورنہ گھر کا سارا کام میاں اور بیوی کے ساتھ چل رہا ہے.خاوند سارا روپیہ بیوی کو دے دیتا ہے.اُسے جب ضرورت ہوتی ہے بیوی روپیہ نکال دیتی ہے.غرباء میں تو عام رواج ہے کہ جب بچے کی شادی ہو تو باپ سمجھتا ہے یہ اخراجات کہاں سے لاؤں گا لیکن بیوی سارا انتظام کر دیتی ہے.کمانے والے کو پتا بھی نہیں ہوتا کہ ہمارے پاس کتنا روپیہ ہے لیکن جس کے پاس روپیہ جمع ہوتا ہے وہ فوراً نکال کر دے دیتی ہے اور وہ ضرورت پوری ہو جاتی ہے.پس خدا تعالیٰ نے میاں بیوی کو معیشت کا ذریعہ بنایا ہے.ہاں! اگر ساتھی اچھا نہیں ملتا تو ساری عمر تلخ ہو جاتی ہے.دنیا میں وہ آدمی بھی ہیں جن کی آمد اچھی خاصی ہوتی ہے لیکن بیوی بیوقوف ہوتی ہے اور وہ سارا روپیہ ضائع کر دیتی ہے.ایک شخص کا پانچ روپیہ کی بجائے دس روپیہ خرچ ہوتا ہے تو دوسرے کی بیوی عقلمندی.ނ
$1951 207 خطبات محمود دس کی بجائے پانچ روپیہ خرچ کرتی ہے.بہر حال دنیا کے سب کاموں کی بنیاد تعاون پر ہے.یورپ، امریکہ، ہندوستان اور دیگر ممالک کا تمام نظام تعاون کے ساتھ چل رہا ہے.آگے اولا د آ جاتی ہے، خاندان کا وقار، عزت اور شہرت کا تعلق اولاد کے ساتھ ہوتا ہے.اگر اولا دبگڑ جائے تو اُس خاندان کا وقار، عزت اور شہرت قائم نہیں رہ سکتی.اب اولاد کا درست رکھنا خدا تعالیٰ کے اختیار میں ہے انسان کے اختیار میں نہیں.کسی خاندان کی خواہ کتنی عزت ہو ، شہرت ہو لیکن اولا د بگڑ جائے تو کچھ کا کچھ ہو جاتا ہے.حضرت خلیفہ المسیح الاول فرمایا کرتے تھے کہ ہمارے پنجاب میں خصوصاً سرگودھا میں وہ خاندان بستے ہیں جو ابو جہل کی نسل میں سے ہیں لیکن ان خاندانوں کے افراد کبھی نہیں بتائیں گے کہ وہ ابو جہل کی نسل میں سے ہیں.پھر کئی ماں باپ ایسے ہیں جن کی اولا دخراب ہوتی ہے.جن لوگوں کو ان کی اولا د کا علم ہوتا ہے اُن کو تو علم ہوتا ہے لیکن وہ دوسروں کو دلیری اور جرات کے ساتھ کبھی نہیں بتائیں نی گے کہ فلاں میرا بیٹا ہے کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ اس سے ان کی بے عزتی ہو گی.اب یہ کسی انسان کے لی اختیار میں نہیں کہ اس کی اولا دٹھیک ہو، اس کے اخلاق اچھے ہوں اور وہ خاندان کی عزت، شہرت اور وقار کو قائم رکھنے والی ہو.غرض ابلی نظام ہو یا قومی نظام خدا تعالیٰ کی مدد کے بغیر چل نہیں سکتا.جب قوم بگڑتی ہے تو ایک آدمی خواہ کتنی شہرت والا ہوا سے درست نہیں کر سکتا کیونکہ اس میں فرشتوں کا دخل ہوتا ہے، اس میں اللہ تعالیٰ کا کام آتا ہے.جب خدا تعالیٰ حکم دیتا ہے تو تو میں درست ہو جاتی ہیں.ہم نے تو دنیوی امور میں بھی دیکھا ہے کہ جب خدا تعالیٰ کسی قوم میں بیداری پیدا کرتا ہے تو حیرت انگیز طور پر کرتا ہے.مثلاً دیکھ لو جرمن قوم کی حالت کس قدر گری ہوئی تھی لیکن ان میں ہٹلر پیدا ہوا اور چند سالوں میں اُس نے اپنی قوم کا نقشہ بدل کر رکھ دیا.یہ انقلاب جو جرمن قوم میں ہوا ہٹلر کے اثر کی وجہ سے نہیں تھا بلکہ یہ ایک روتھی جو خدا تعالیٰ نے چلائی تھی.ٹڈی کو دیکھ لو ہزاروں میل سے آتی ہے.ڈی سائبیریا سے آتی ہے، چین سے آتی ہے یا افریقہ کے جنگلات سے آتی ہے.اسے خدا تعالیٰ کی طرف سے الہام ہوتا ہے اور وہ یکدم ایک ملک میں نمودار ہو جاتی ہے.میں نے ٹڈی کے متعلق لٹریچر پڑھا ہے.یوں معلوم ہوتا ہے کہ ٹڈیوں کے درمیان روحانی تاریں چلتی ہیں اور وہ یکدم اربوں ارب کی تعداد میں آجاتی ہیں
$1951 208 خطبات محمود اور ملک کے ملک کو تباہ کر دیتی ہیں.پھر جو زندہ بچتی ہیں وہ واپس چلی آتی ہیں اور وہاں پلنی شروع ہو جاتی ہیں.یو.این.اونے ٹڈی کے متعلق ایک کمیشن مقرر کیا ہے کہ کسی طرح یہ پہلے پتا لگ جائے کہ ٹڈی نے کدھر جانا ہے اور کس وقت جانا ہے کیونکہ وہ ایک نظام کے ماتحت چلتی ہے.ہم دیکھتے ہیں کہ اگر کہیں آگ لگتی ہے تو کوئی آدمی کہیں بھاگتا ہے اور کوئی آدمی کہیں بھاگتا ہے لیکن ٹڈی ایک نظام کے ماتحت ایک لائن پر چلتی ہے.ہزاروں ہزار میل سے آتی ہے اور پھر واپس ہو کر دو چار سال بعد کسی اور ملک کی طرف نکل جاتی ہے.اس کے راستے مقرر ہوتے ہیں اور وہ ہمیشہ ایک قانون کے ماتحت چلتی ہے.پھر شکار ہے لوگ شکار کے لیے باہر جاتے ہیں.شکار بھی ایک خاص قانون کے ماتحت آتا ہے.پہاڑوں سے جانوروں کے جھنڈ اُڑتے ہیں، تلیر اُڑتے ہیں، قاز 1 اُڑتے ہیں اور ان کی ڈار میں ایک لائن میں چلتی جاتی ہیں اور اس طرح خاص علاقوں میں شکار پیدا ہو جاتا ہے.گویا جانوروں میں الہام کے طور پر کوئی بات آتی ہے اور وہ اُڑتے ہیں اور کسی خاص علاقہ کی طرف نکل جاتے ہیں.غرض قانونِ قدرت کا ہاتھ ہر کام میں اتنا نظر آتا ہے کہ اگر ہم اسے نظر انداز کر دیں تو صحیح راستہ سے بھٹک جائیں.خصوصاً جماعتی کاموں میں اگر خدا تعالیٰ کی مدد نہ ہو، اگر قانونِ قدرت اور نیچر کا لحاظ نہ رکھا جائے تو ہم کامیاب نہیں ہو سکتے.اور جو جماعتیں انبیاء بناتے ہیں اُن میں تو جماعتی اثر اتنا ہوتا ہے کہ وہ انبیاء خود اپنی ذات میں ایک جماعت ہوتے ہیں.جیسے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اِنَّ ابْرهِيمَ كَانَ اُمَّةً - 2 یعنی حضرت ابراہیم علیہ السلام اپنی ذات میں ایک جماعت تھے.پس انبیاء کے کاموں میں اور جماعتی کاموں میں خدا تعالیٰ کی مدد کی بہت زیادہ ضرورت ہوتی ہے.اگر کسی فرد کا کام خراب ہو جاتا ہے تو اُس کا اثر اُسی کی ذات پر ہو گا.لیکن اگر جماعت میں کوئی غلطی پیدا ہوگی تو سارا کام خراب ہو جائے گا.بچپن میں ہم ایک کھیل کھیلا کرتے تھے.شاید اب بھی بچے کھیلتے ہوں اور وہ اس طرح کہ ہم ایک لائن میں تھوڑے تھوڑے فاصلہ پر اینٹیں کھڑی کر دیتے تھے.پھر اس لائن کے ایک طرف کھڑے ہو کر ایک اینٹ کو ٹھوکر لگاتے تھے تو وہ اینٹ دوسری اینٹ پر گرتی تھی.وہ اینٹ آگے تیسری اینٹ پر گرتی تھی اور پھر وہ چوتھی اینٹ پر گرتی تھی.اس طرح ایک خاصا نظارہ
$1951 خطبات محمود 209 پیدا ہو جاتا تھا اور وہ پچاس ساٹھ اینٹوں کی لائن ساری کی ساری گر جاتی تھی.یہی حال جماعت کا ہے.ایک آواز آتی ہے اور ساری کی ساری جماعت کھڑی ہو جاتی ہے اور ایک ٹھوکر لگتی ہے تو ساری کی ساری جماعت گر جاتی ہے.ایسے حال میں خدا تعالیٰ پر نظر رکھنا اور اُس پر تو کل کرنا بڑا ضروری ہے اور اس میں ذرہ بھر کوتاہی کرنا جماعت کی جماعت کو گرا دیتا ہے.اب اگر خالص انسانی کاموں میں خدا تعالیٰ سے استمد اد کرنا اثر پیدا کرتا ہے تو خدائی کاموں میں اس سے استمد ادکرنا کیوں اثر پیدا نہ کرے گا.دنیا میں قو میں گرتی اس لیے ہیں کہ ان کے افراد کام کی عظمت اور اپنی کمزوریوں کو دیکھ کر ہمت ہار بیٹھتے ہیں.وہ خدا تعالیٰ کو نہیں دیکھتے اور اس سے استمداد نہیں کرتے.اگر تم خدا تعالیٰ کی طرف متوجہ ہو جاؤ گے تو تم ضرور کامیاب ہو گے.خدا تعالیٰ نے جب خود ایک کام کرنے کا حکم دیا ہے تو وہ اسے کیوں پورا نہیں کرے گا.کیا یہ ہوسکتا ہے کہ تم خدا تعالیٰ کا کام کرو اور وہ خود اپنا کام نہ کرے؟ جب آقا اپنے کسی نوکر کو کوئی کام کرنے کا حکم دیتا ہے تو اُسے اپنے کام کا اپنے نوکر سے زیادہ احساس ہوتا ہے.خص جب امریکہ میں انگریزوں کے خلاف بغاوت ہوئی اور لڑائی شروع ہو گئی تو امریکن بے سروسامان تھے.ملک کے تاجر اور زمیندار اُٹھ کھڑے ہوئے تھے کہ وہ اپنا ملک آزاد کرائیں گے.اُن کے پاس نہ فوج تھی ، نہ سامانِ جنگ تھا لیکن انگریزوں کے پاس سامانِ جنگ بھی تھا اور فوج بھی.اس لیے انگریز انہیں بُری طرح مارتے تھے.امریکہ کے باشندوں نے اپنے میں سے ایک بہترین واشنگٹن کو اپنا افسر بنایا اور اُسے کمانڈر انچیف مقرر کیا.تاریخ سے پتا لگتا ہے کہ اُس کے اندر ایک آگ لگی ہوئی تھی اور اسے احساس تھا کہ یہ کام میں نے ہی کرنا ہے.وہ دیوانہ وار ادھر ادھر پھرتا تھا اور جہاں سستی پاتا تھا لوگوں میں تقریریں کر کے اور جوش دلا کر انہیں دوبارہ کھڑا کرتا.نتیجہ یہ ہوا کہ امریکنوں نے انگریزوں کو ملک سے باہر نکال دیا.اور اب امریکہ اتنی بڑی طاقت ہے کہ انگریز غلاموں کی طرح اُس کے پیچھے پیچھے چلتا ہے.اسی واشنگٹن کا ایک لطیفہ مشہور ہے جس سے پتا لگتا ہے کہ جس کا کام ہوتا ہے اُسے اُس کا کتنا احساس ہوتا ہے.کسی جگہ پر انگریزوں کے حملہ کا ڈر تھا.سپاہیوں کا فرض تھا کہ وہ ایک چھوٹا سا قلعہ تعمیر کریں.ایک کارپورل (یعنی ہمارے ملک کا صوبہ دار ) اُن کا نگران تھا.اب کارپورل
$1951 210 خطبات محمود اور کمانڈر انچیف میں بہت بڑا فرق ہے.بظاہر تو یہ ہونا چاہیے تھا کہ ہر فرد کو قومی کام کا احساس ہوتا واشنگٹن سمجھتا تھا کہ چونکہ کام کا ذمہ دار میں ہوں اس لیے مجھے اس کام کا زیادہ احساس ہونا ہی چاہیے.اس لیے دوسروں کی نسبت اُسے کام کا زیادہ خیال رہتا تھا.سپاہی قلعہ بنا رہے تھے اور وہ کی کارپورل اُن سے کام کروا رہا تھا اور کہہ رہا تھا شاباش! بہادرو! اینٹیں اٹھاؤ، لکڑی اٹھاؤ لیکن وہ خود کام نہیں کرتا تھا.اُسے اپنے عہدے کی وجہ سے گھمنڈ اور غرور تھا کہ میں کارپورل ہوں.اتنے میں ایک بڑا گولہ لکڑی کا آیا جسے انہوں نے چھت پر چڑھانا تھا لیکن آدمی کافی نہیں تھے.وہ زور لگاتے تھے لیکن گولہ نیچے گر جاتا تھا.کار پورل پاس اکڑا ہوا کھڑا تھا اور کہ رہا تھا شاباش بہادرو! زور لگاؤ، ہمت کرو اور اس گولے کو چھت پر چڑھا دو.اتنے میں ایک سفید گھوڑے پر سوار ایک آدمی پاس سے گزرا.اُس نے جب یہ نظارہ دیکھا تو پوچھا کیا بات ہے؟ کارپورل نے کہا یہ بہت ضروری کام ہے جو ہم نے شام تک ختم کرنا ہے لیکن یہ گولہ ہم سے چھت پر نہیں چڑھتا.یہ سن کر وہ شخص گھوڑے سے اترا اور سپاہیوں کے ساتھ مل کر اُس نے لکڑی کو اٹھایا اور چھت پر رکھ دیا لیکن وہ کار پورل پاس کھڑا رہا.جب وہ واپس کو ٹنے لگا تو کار پورل نے خیال کیا میرا فرض ہے کہ اس کا شکریہ ادا کروں.چنانچہ اُس نے اُسے بلایا اور کہا میاں ! ادھر آؤ.جب وہ آیا تو کار پورل نے کہا میاں! میں تمہارا شکر یہ ادا کرتا ہوں کہ تم نے قومی کام میں حصہ لیا ہے.وہ مسکرایا اور کہا جب بھی تمہیں کوئی مشکل پیش آ جائے یا کوئی ایسا کام آ جائے جسے کرنا تم پسند نہ کرو تو تم اپنے کمانڈر واشنگٹن کو اطلاع کر دیا کرو وہ فوراً حاضر ہو جائے گا.وہ کار پورل یہ دیکھ کر کہ وہ شخص خود اُن کا کمانڈر واشنگٹن ہے سخت شرمندہ ہوا.واشنگٹن نے کہا محض نعروں سے کام نہیں ہوتا.اگر تمہیں یہ احساس ہوتا کہ یہ میرا اپنا کام ہے تو کیا تم اس طرح پاس کھڑے رہتے.یہ کام میرا کام ہے اس لیے مجھے اس کا احساس ہے.اب کیا تم یہ سمجھتے ہو کہ واشنگٹن کو تو اپنے کام کا احساس تھا لیکن خدا تعالیٰ کو اپنے کام کا احساس نہیں.یاد رکھو! جب بھی تم اُس کی طرف متوجہ ہو گے، جب بھی تم اُس کی طرف رُخ کرو گے اور کہو گے کہ خدایا! ہمارے سامنے یہ یہ مشکلات ہیں، کام تیرا ہے ہم کرتے تو ہیں لیکن اس کو مکمل کرنے کی ہم میں طاقت نہیں، اب تو ہی ہماری مدد فرما.تو تم دیکھو گے اُس وقت خدا تعالیٰ اور اُس کے فرشتے آئیں گے اور وہ کام کر دیں گے.
خطبات محمود 211 $1951 گو بالا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللهِ ہمیں یہ سبق دیتا ہے کہ ہر کام میں عموماً اور اہم مذہبی اور قومی کاموں میں خصوصاً خدا تعالیٰ کی مدد کی ضرورت ہوتی ہے اور جب اُسے مدد کے لیے انسان بلاتا ہے تو وہ اُس کی مدد کو آتا ہے.جب تم دیکھتے ہو کہ یہ کام ہماری طاقت سے باہر ہے، جب تم دیکھتے ہو کہ کامیابی کے تمام راستے ہم پر بند ہو گئے ہیں، جب باوجود محنت اور زور لگانے کے تم کسی کام کو سرانجام نہیں دے سکتے تو خدا تعالیٰ کو بلاؤ وہ تمہاری مدد کے لیے آئے گا.اس نکتہ کو اگر تم مضبوطی سے پکڑ لو گے تو تمہاری تمام مشکلات حل ہو جائیں گی.جماعت کی مخالفت بڑھ رہی ہے اس سے ڈرنا نہیں چاہیے.یہ کوئی چیز نہیں.خدا تعالیٰ کی طرف جاؤ اور اُس سے مدد چاہو.جب تم یہ کہو گے کہ خدایا! یہ کام تیرا ہے، جب تم دیانتداری سے اپنے فرض کو ادا کرو گے اور پھر کہو گے خدایا! ہم سے جو ہوسکتا تھا وہ ہم نے کر لیا ہے مگر کام ہمارے ہاتھ سے نکلا جا رہا ہے اے اللہ! آب آ، تو آ اور اس کام میں ہماری مدد کر تو پھر یا درکھو! خواہ رات ہو یا دن صبح کی ہو یا شام، سویرا ہو یا اندھیرا خدا تعالیٰ اور اُس کی فوجیں آئیں گی اور وہ دشمن جسے اپنی فوجوں اور اپنی طاقت پر ناز ہوگا وہ تہیں نہیں ہو جائے گا اور زمین پر اُس کا نشان اور رنگ بھی باقی نہیں رہے گا.لیکن ضرورت اس بات کی ہے کہ اس کام کو خدا تعالیٰ کا کام سمجھا جائے ، ضرورت اس بات کی ہے کہ تم اپنی ای ذمہ داری کو ادا کر کے خدا تعالیٰ کی طرف جاؤ اور کہو خدایا! ہم میں جتنی طاقت تھی اُس کے مطابق ہم نے کام کیا ہے لیکن یہ کام ہماری طاقت سے بالا ہے اور ہمارے ہاتھ سے نکل چکا ہے.اب تو مدد کرے تو ہم اس کام کو کر سکتے ہیں.پھر دیکھو گے کہ خدا تعالیٰ کس طرح تمہاری مدد کو آتا ہے.یہ ایک نکتہ ہے جو ہمیں اذان سکھاتی ہے.تم اس نکتے کو مشعلِ راہ بناؤ اور اس کے مطابق اپنی اصلاح کرو.پھر دیکھو کہ خدا تعالیٰ کی مدد کیسے آتی ہے.(الفضل 5 دسمبر 1951ء) 1 : قاز: ایک آبی پرندہ.راج ہنس (فیروز اللغات اردو جامع فیروز سنز لا ہور ) 2 : النحل : 121
$1951 212 (29 خطبات محمود ہم نے تحریک جدید کے ذریعے دنیا کے چپہ چپہ پر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حکومت قائم کرنی ہے (فرمودہ 30 نومبر 1951ء بمقام ربوہ ) تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے قرآن کریم کی اس آیت کی تلاوت فرمائی: كُلَّمَا أَضَاءَ لَهُمْ مَّتَوَافِيْهِ وَإِذَا أَظْلَمَ عَلَيْهِمْ قَامُوا - 1 اس کے بعد فرمایا: آج تحریک جدید کے سلسلہ میں اٹھارہواں سال شروع ہونے والا ہے.پس میں جماعت کے سامنے اس بات کا اعلان کرتا ہوں کہ آئندہ سال کے لیے تمام احباب خواہ وہ ربوہ کے رہنے والے ہوں یا باہر کی جماعتوں کے ، حسب قاعدہ ایک مدت مقررہ کے اندر جس کا بعد میں اعلان کر دیا جائے گا اپنے وعدے مرکز میں بھجوانے شروع کر دیں.تحریک جدید کی تحریک کو جاری کیے ہوئے سترہ سال ہو چکے ہیں اور اب اٹھارہواں سال شروع ہونے والا ہے.سترھویں سال میں احباب نے سولھویں سال کی نسبت اس رنگ میں زیادہ قربانی کا ثبوت دیا ہے کہ سترھویں سال کے وعدوں کی وصولی کی رفتار سولہویں سال کے وعدوں کی
$1951 213 خطبات محمود وصولی کی رفتار سے زیادہ ہے.اور دفتر دوم کے ساتویں سال کے وعدوں کی وصولی کی رفتار چھٹے سال کے وعدوں کی وصولی کی رفتار سے زیادہ ہے اور فیصدی کے لحاظ سے تو یہ فرق اور بھی بڑھ جاتا ہے.گزشتہ سال کی وصولی اِس وقت تک پچپن فیصدی تھی لیکن اس سال کی وصولی 83 فیصدی ہے.دوسرے دور کے متعلق مجھے پوری معلومات حاصل نہیں ہوسکیں مگر غالبا اس سال کی وصولی چوہتر ، پچھتر فیصدی کے قریب ہے جبکہ گزشتہ سال کی وصولی پچاس فیصدی کے قریب تھی.بہر حال فیصدی وصولی کے لحاظ سے اس سال جماعت کی قربانی پچھلے سال سے زیادہ رہی ہے.پہلے دور کی بھی اور دوسرے دور کی بھی.فَجَزَاكُمُ اللهُ اَحْسَنَ الْجَزَاءِ لیکن پہلے دور کے متعلق ایک بات افسوسناک بھی نظر آتی ہے اور وہ یہ کہ اس کے وعدے پچھلے تین سالوں سے متواتر نیچے گرتے چلے گئے ہیں.چودھویں سال میں دو لاکھ تر اسی ہزار کے وعدے تھے حالانکہ چودھواں سال سخت تباہی کا سال تھا.اس میں ملک کے دو ٹکڑے ہو چکے تھے، بہت لوگ اپنی جائدادوں سے محروم ہو گئے تھے اور آئندہ کے متعلق انہیں کوئی امید نہیں رہی تھی.گواب اکثروں نے یہاں آ کر اپنی جائیدادیں بنالی ہیں بلکہ بینوں کے لیے ملک کی یہ تقسیم بابرکت ہوگئی ہے.وہ لوگ جن کی وہاں صرف دو دو، چار چار کنال زمین تھی یہاں آ کر اُن کو سات سات، آٹھ آٹھ گھماؤں 2ے زمین مل گئی ہے.لیکن وہ لوگ جن کی وہاں زیادہ زمینیں تھیں اُن کو یہاں کم زمینیں ملی ہیں.بہر حال چودھواں سال وہ سال ہے جو ہماری جماعت کے لیے ایک نازک ترین سال تھا.اُس وقت کم جائدادوں کے باوجود، کم سامانوں کے باوجود، کم آمد نیوں کے باوجود جماعت نے دولاکھ تر اسی ہزار کے وعدے کیے تھے لیکن اگلے سال جماعت کے وعدے اس سے کم ہو گئے یعنی پندرھویں سال میں جماعت کے وعدے دولاکھ پچھتر ہزار ہو گئے.سولھویں سال میں آکر کوئی دو لاکھ ستر ہزار کے قریب ہو گئے اور سترھویں سال میں آکر وہ دولاکھ تریسٹھ ہزار ہو گئے.گویا جو اصل مصیبت کا وقت تھا اُس وقت جماعت نے وعدوں کے لحاظ سے اپنی قربانی کو تیز کر دیا لیکن جب وقفہ بڑھتا چلا گیا تو بعض لوگ اپنے ایمان کے معیار کو اس حد تک قائم نہ رکھ سکے جس حد تک خوف اور مصیبت کے زمانہ میں انہوں نے اپنے ایمان کو قائم رکھا تھا.یہ بھی ممکن ہے کہ اس کی وجہ یہ ہو کہ یہ زیادتی در حقیقت اُن لوگوں کی طرف سے تھی جو تقسیم کی ضرب سے محفوظ رہے.چونکہ تازہ بتازہ انہوں نے یہ بات دیکھی تھی کہ اُن کے بھائی اپنی جائدادوں سے بے دخل کر دیئے گئے،
$1951 214 خطبات محمود اپنے گھروں سے بے دخل کر دیئے گئے ، اپنے سامانوں سے بے دخل کر دیئے گئے اور اپنے وطنوں سے نکال دیئے گئے اس لیے اُن کے دل ہل گئے اور انہوں نے سمجھا کہ یہ دنیا بے ثبات ہے.اس کی دولت کا کوئی اعتبار نہیں.چلو خدا تعالیٰ کے راستہ میں ہی ہم اپنے اموال کو قربان کر کے اس کی رضا حاصل کریں.جب سال گزر گیا تو وہ خوف کم ہو گیا اور ایمان اُس معیار پر نہ رہا جس پر پہلے تھا اور وعدے پہلے سے کم ہو گئے.جب دو سال گزر گئے تو ایمان اور بھی نیچے آ گیا.اور جب تین سال گزرے تو ایمان اُس سے بھی زیادہ نیچے آ گیا.اور 1947 ء کی وہ مصیبت ، آفت اور تباہی جو مسلمانوں پر آئی تھی انہیں بھول گئی.پس ہوسکتا ہے کہ اس کمی کی ایک یہ وجہ بھی ہو لیکن یہ توجیہہ کر نی طبیعت پر گراں گزرتی ہے اور دل کو تکلیف پہنچاتی ہے کیونکہ اس سے ایک اور نتیجہ بھی نکلتا ہے جو خطرناک ہے.جہاں ہم اس کمی کی یہ توجیہہ کر لیتے ہیں کہ در حقیقت یہ زیادتی اُن لوگوں کی طرف سے ہوئی تھی جن پر مصیبت نہیں آئی تھی اور اس وجہ سے ہوئی تھی کہ انہوں نے اپنے ساتھ کے مسلمانوں کی تباہی کو دیکھا اور وہ اتنا ڈر گئے کہ انہوں نے سمجھ لیا کہ یہ دنیا بے ثبات ہے، اس کی ہر چیز فانی اور بے حقیقت ہے اور عقلمندی اسی میں ہے کہ وہ ان چیزوں کو خدا تعالیٰ کی راہ میں قربان کر دیں تا کہ انہیں اس کی طرف سے ثواب تو حاصل ہو.مگر پھر جوں جوں صدمہ کم ہوتا گیا توں توں ان کی قربانی بھی کم ہوتی چلی گئی.اگر ہم یہ توجیہ کریں اور ساتھ اس امر کو بھی مد نظر رکھیں کہ خدا تعالیٰ نے اسلام کی ترقی کے سامان ضرور کرنے ہیں.یہ ہو نہیں سکتا کہ جس مذہب کو خدا تعالیٰ نے اس لیے بھیجا ہے کہ اُسے سارے دینوں پر غالب کرے، جس مذہب کو خدا تعالیٰ نے اس لیے بھیجا ہے کہ وہ تمام پرانے دینوں کو کھا جائے عین اُس وقت جب خدا تعالیٰ کا منشا اُس کو غالب کرنے کا ہو وہ گر جائے اور ہار جائے.یہ تو قطعی طور پر ناممکن ہے.دوسرے اس بات کو مد نظر رکھیں کہ یہ بھی یقینی بات ہے کہ خدا تعالیٰ نے یہ کام انہی لوگوں سے لینا ہے جنہوں نے دین کی خدمت کے لیے اپنے آپ کو پیش کیا ہوا ہے.یہ کبھی نہیں ہوا کہ ا.خدا تعالیٰ نے اپنے کام اُن سے لیے ہوں جنہوں نے خدمت کے لیے اپنے آپ کو پیش نہیں کیا.حضرت موسی علیہ السّلام آئے تو خدا تعالیٰ نے موسی علیہ السلام کے دین کی اشاعت فرعون اور اس کے ساتھیوں سے نہیں لی بلکہ موسٹی کے ماننے والوں سے لی.حضرت عیسی علیہ السلام آ.
$1951 215 خطبات محمود تو خدا تعالیٰ نے عیسی کی تعلیم اور اُن کی باتوں کی اشاعت یہودیوں اور اُن کے علماء سے نہیں کرائی بلکہ عیسی کی باتوں اور اُن کی تعلیم کی ترویج اور اشاعت عیسی کے ماننے والوں کے ذریعہ ہوئی.اسی طرح جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو بعثت اولیٰ میں جو قرآن کریم پھیلا اور دنیا میں توحید پھیلی اور دوسرے علوم پھیلے ان باتوں کو ابو جہل اور عتبہ اور شیبہ نے رائج نہیں کیا بلکہ ان باتوں کو ابو بکر، عمر ، عثمان علی اور دوسرے صحابہ نے رائج کیا.اللہ تعالیٰ کی یہ سنت ہمیشہ سے چلی آتی ہے اور اس زمانہ میں بھی یہ بدل نہیں سکتی.اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ اُس کی سنت بدلا نہیں کرتی 3 اور اس کی یہ سنت.کہ ہمیشہ ہی اُس کی طرف سے جو پیغام آتا ہے اُس کی اشاعت اور تبلیغ اور ترویج اُس پیغام پر پہلے ایمان لانے والوں کے ذمہ ہوتی ہے اور وہی اس خدمت کو سرانجام دیتے ہیں.جب یہ دو حقیقتیں ثابت شدہ ہیں تو ہم نے جو پہلی توجیہہ کی تھی اُسے دیکھ کر دل ڈر جاتا ہے کیونکہ جب یہ ثابت شدہ حقیقت ہے کہ اسلام نے ضرور غالب آنا ہے اور جب یہ ثابت شدہ حقیقت ہے کہ اسلام نے انہی لوگوں کے ہاتھوں غالب آنا ہے جنہوں نے خدا تعالیٰ کے مامور کو مانا.تو اس کے ساتھ ہی جب یہ بھی ثابت ہو جائے کہ خدا تعالیٰ کے مامور کو ماننے والی اُس وقت کی جماعت تب قربانی کرتی ہے جب خدا تعالیٰ کا تھپڑ اُن کو پڑتا ہے.اگر خدا تعالیٰ کا تھپڑ نہیں پڑتا تو وہ قربانی بھی نہیں کرتے تو لازمی بات ہے کہ خدا تعالیٰ کا تھپڑ پھر پڑے گا تا کہ اُن کی سستی اور غفلت دور ہو.یا تو یہ صورت ہوتی کہ دینِ اسلام کے متعلق یہ فیصلہ ہوتا کہ اُس نے دنیا پر غالب نہیں آنا.ایسی صورت میں ہم کہہ سکتے تھے کہ چلو جب اسلام نے غالب ہی نہیں آنا تو ہم اس کے لیے قربانی کیوں کریں.اور یا پھر یہ صورت ہوتی کہ دین کی جی ترویج غیر لوگوں کے ہاتھوں سے بھی ہو جاتی.ایسی صورت میں بھی ہم کہہ سکتے تھے کہ ہمارا کیا ہے خدا تعالیٰ یہ کام ہندوؤں سے کروا لے گا یا عیسائیوں سے کر والے گا.لیکن جب اسلام نے غالب آنا ہے اور ضرور آنا ہے اور جب اسلام نے ہمارے ہاتھوں سے ہی غالب ہونا ہے اور ہم عادی ہوں اس بات کے کہ ہم تھپڑ کھاتے ہیں تو کام کرتے ہیں، تھپڑ نہ پڑے تو کام نہیں کرتے تو سیدھی بات ہے کہ ہمیں تھپڑ پڑے گا اور پہلے سے زیادہ سخت پڑے گا.پس وہ جو پہلی تو جہیہ تھی کہ مغربی پاکستان میں رہنے والے احمدی یا سندھ اور صوبہ سرحد میں
$1951 216 خطبات محمود رہنے والے احمدی جن کو مشرقی پنجاب والی چوٹ نہیں پڑی تھی اُن کے دلوں میں زیادہ خوف پیدا ہوا اور اُن کی وجہ سے ہمارے چندوں میں اضافہ ہو گیا لیکن بعد میں وہ اس صدمہ کو بھول گئے اور اُن کا کی جوش ٹھنڈا پڑ گیا.یہ توجیہ نہایت بھیانک خطرہ آئندہ کے لیے پیدا کرتی ہے جس کو دیکھنا یا سننا بھی کوئی شخص برداشت نہیں کر سکتا.اس کے مقابلہ میں ہمارا دل اس بات کو زیادہ برداشت کر لیتا ہے کہ کچھ احمدیوں میں کمزوری پیدا ہوئی اور انہوں نے اس تحریک میں اتنا حصہ نہیں لیا جتنا حصہ انہیں لینا چاہیے تھے اور اس وجہ سے وعدوں میں کمی آگئی لیکن باقی احمدی اپنے اخلاص پر قائم رہے.یہ توجیہہ زیادہ تسلی کا موجب ہوتی.اگر ایسا ہوتا بہ نسبت اس کے کہ یہ سمجھا جائے کہ اُس ضرب کی وجہ سے جو تقسیم ملک کی وجہ سے پڑی تھی لوگوں نے اپنی قربانی زیادہ کر دی تھی.بہر حال کوئی وجہ بھی ہو تحریک جدید کے اس سال اور گزشتہ دوسال کے وعدے پسندیدہ نہیں سمجھے جا سکتے کیونکہ ان سالوں میں لوگوں کے وعدے اوپر سے نیچے کی طرف گرنے شروع ہو گئے ہیں.اس سے پہلے ان کے وعد.نیچے سے اوپر کی طرف چڑھتے تھے اور یہی ایک مومن کی شان ہونی چاہیے کہ وہ نیچے نہ گرے.اور واقعات بھی یہی بتاتے ہیں کہ پاکستان بننے کے بعد عام طور پر ہمارے ملک کی مالی حالت پہلے سے بہتر ہوگئی ہے.تنخواہیں بڑھ گئی ہیں، تجارتیں وسیع ہو رہی ہیں، کارخانے کھل گئے ہیں اور وہ روپیہ جو پہلے ہندو کی جیب میں جاتا تھا اب مسلمان کے ہاتھ میں جاتا ہے اور بحصہ رسدی احمدیوں کے ہاتھ میں بھی آتا ہے.پس بظاہر حالات چاہیے یہ تھا کہ یہ رفتار اوپر کی طرف چلتی اور پہلے سے زیادہ سرعت کے ساتھ ترقی کرتی نہ یہ کہ پہلے معیار سے بھی گر جاتی.پس ایک تو میں جماعت کے دوستوں کو اس امر کی طرف توجہ دلاتا ہوں کہ یہ غفلت جہاں سے بھی پیدا ہوئی ہے اُسے دور کرنا چاہیے.یا تو یہ بات ہے جو نہایت خطرناک ہے کہ 1947ء کی چوٹ کے خوف کی وجہ سے تمام احمدیوں نے یکدم اپنے وعدے زیادہ کر دیئے تھے ، خدا نہ کرے ایسا ہو.اور یا پھر اس کی یہ وجہ ہے کہ بعض احمد یوں نے کمزوری دکھائی اور ان کی وجہ سے کمی آ گئی.بہر حال کوئی صورت ہو اور کسی وجہ سے بھی کمی آگئی ہوا گر دین کے لیے روپیہ کم آئے گا تو اس کے نتیجہ میں لازمی طور پر تبلیغ بھی کم ہوگی.چاہے کوئی وجہ ہو.خواہ چوری ہوگئی ہو اور اس وجہ سے روپیہ کم ہو گیا ہو.یا آمد کم ہوگئی ہو یا سستی اور غفلت واقع ہوگئی ہو نتیجہ یہی نکلے گا کہ پیسہ کم آئے گا.اور جب پیسہ کم
$1951 217 خطبات محمود آئے گا تو اسلام کی اشاعت اور اسلام کی ترویج کو بھی نقصان پہنچے گا.اور ظاہر ہے کہ یہ بات نا پسندیدہ ہوگی.قوم کے معنی ہی یہی ہوتے ہیں کہ اگر ایک میں کوتاہی پیدا ہو تو دوسرا اُس کو دور کر دے.ایک گھوڑے کی گاڑی کا گھوڑا جب تھک جاتا ہے تو گاڑی ٹھہر جاتی ہے.لیکن دو گھوڑے کی گاڑی کا اگر ایک گھوڑا تھک بھی جاتا ہے تو دوسرا چلتا چلا جاتا ہے.جماعت اور فرد میں یہی فرق ہے.جو کام ایک فرد کر رہا ہو وہ جہاں کمزور ہو جائے گا کام ختم ہو جائے گا لیکن جو کام ایک قوم کر رہی ہو اُس کام کے کرتے ہوئے اگر ایک شخص میں کمزوری بھی پیدا ہوگی تو باقی آدمی اُس بوجھ کو بانٹ لیں گے اور اس طرح وہ قومی کام کے تسلسل میں کوئی روک پیدا نہیں ہونے دیں گے.پس جماعت کے قائم کرنے کی جو غرض ہے ہماری جماعت کو وہ بھی نہیں بھولنی چاہیے.اگر وہ سمجھتے ہیں کہ جماعت کا کچھ حصہ کمزور ہے خواہ ایمانی لحاظ سے یا مالی لحاظ سے یا قربانیوں میں شمولیت کے عزم کے لحاظ سے تو باقیوں کا فرض ہے کہ وہ اپنے قدم کو تیز تر کریں اور جماعتی کاموں میں کوئی رخنہ واقع نہ ہونے دیں.جماعت تبھی جماعت کہلاسکتی ہے جب وہ دوسروں کا بوجھ بٹانے کے لیے ہر وقت تیار رہے اور سمجھے کہ اگر کسی حصہ میں بھی کمزوری پیدا ہوئی تو میں خود زیادہ بوجھ برداشت کر کے اس کمزوری کو ظاہر نہیں ہونے دوں گا.پس اس حصہ کی کمی کو بھی دور کرنا چاہیے.باقی اس میں کوئی شبہ نہیں کہ پچھلے سال کی نسبت اس سال وصولی زیادہ ہوئی ہے لیکن اس سال اخراجات بھی بہت بڑھ گئے ہیں جس کی وجہ سے تحریک جدید کی مالی حالت خطرہ میں گھری ہوئی ہے.اگر اسے جلدی ضبط میں نہ لایا گیا تو ممکن ہے خدا نخواستہ ہمیں اپنے بعض مشن بند کرنے پڑیں.ہم یقین تو یہی رکھتے ہیں کہ چونکہ یہ خدا تعالیٰ کا کام ہے اس لیے وہ اس کی ترقی کے لیے کوئی نہ کوئی سامان پیدا کر دے گا.وہ خود لوگوں کے دلوں میں قربانی کی روح پیدا فرما دے گا یا نئے آدمی لائے گا جو اس بوجھ کو خوشی سے اٹھانے کے لیے تیار ہو جائیں گے.لیکن جہاں تک ہم ظاہری حالات کو دیکھتے ہیں ہمارے دل میں دھڑکن پیدا ہونے لگتی ہے کہ اس زمانہ میں اسلام کی فتح کا جو کام ہمارے سپرد کیا گیا ہے اُس میں کوئی روک پیدا نہ ہو جائے.جہاں تک میں دیکھتا ہوں ہماری جماعت خدا تعالیٰ کے فضل سے بڑھ رہی ہے اور جہاں تک میں دیکھتا ہوں ہماری جماعت کے نوجوان اچھے تعلیم یافتہ نکل رہے ہیں اور ان کی مالی حالت
$1951 218 خطبات محمود ترقی کر رہی ہے.ان امور کو دیکھتے ہوئے ہمیں یقین رکھنا چاہیے کہ اگر جماعت کی تربیت کی جائے اور صحیح طور پر کی جائے تو یہ کام ہمیشہ ترقی ہی کرتا جائے گا.چونکہ اب نیا سال شروع ہونے والا ہے اس لیے میں گزشتہ سال کی طرح پھر جماعت کو اس امر کی طرف بھی توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ وہ پچھلے سال کے وعدوں سے غافل نہ ہوں.بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ چونکہ اب نیا سال شروع ہو گیا ہے اس لیے ہمارا پچھلا وعدہ معاف ہے مگر یہ بالکل غلط ہے.خدا تعالیٰ سے کیے گئے وعدے اگر پورے نہ کیے جائیں تو انسان کو اگلی نیکیوں کی بھی توفیق نہیں ملتی.یہ کسی بندے سے معاملہ نہیں بلکہ خدا تعالیٰ کے ساتھ معاملہ ہے جو عالم الغیب ہے.بندوں سے اگر تم کوئی وعدہ خلافی کرو تو ہوسکتا ہے کہ وہ تمہاری وعدہ خلافی کو بھول جائیں مگر خدا تعالیٰ جانتا ہے کہ تم نے اُس سے کیا وعدہ کیا تھا اور تم اُسے کیوں پورا نہیں کر رہے.پس دوستوں کو یاد رکھنا چاہیے کہ یہ وہ وعدہ ہے جو انہوں نے خدا تعالیٰ سے کیا ہے.تم گورنمنٹ سے وعدہ کر کے اُسے نہیں توڑ سکتے ہتم محلہ والوں سے وعدہ کر کے اسے نہیں توڑ سکتے تم اپنے افسروں سے وعدہ کر کے اسے نہیں توڑ سکتے ، بلکہ بڑے تو الگ رہے اگر تم اپنے بچوں سے کوئی وعدہ کرتے ہو پھر اُسے توڑنے لگتے ہو تو وہ شور مچادیتے ہیں کہ آپ یہ کیا کرنے لگے ہیں اور تمہیں اپنے بچوں کا وعدہ بھی پورا کرنا پڑتا ہے.تھوڑے ہی دن ہوئے میں نے ایک امریکن کا ایک قول پڑھا جو مجھے بڑا دلچسپ معلوم ہوا.وہ لکھتا ہے معلوم نہیں کیا بات ہے کہ ہمارے بچوں کو کبھی کبھی یہ بھول جاتا ہے کہ وہ سکول میں داخل ہیں اور انہوں نے مدرسہ میں پڑھنے کے لیے جانا ہے، کبھی کبھی ہمارے بچوں کو یہ بھی بھول جاتا ہے کہ بڑوں اور بزرگوں کے سامنے جاتے وقت کیا آداب بجالانے چاہیں اور کونسے طریق ہیں جو انہیں اختیار کرنے چاہیں کبھی کبھی ہمارے بچوں کو یہ بھی بھول جاتا ہے کہ انہیں اپنا لباس درست رکھنا چاہیے، کبھی انہوں نے کوٹ نہیں پہنا ہوتا، کبھی ان کے پاؤں میں جراب نہیں ہوتی کبھی جوتی نہیں ہوتی، ہمارے بچوں کو کبھی یہ بھی بھول جاتا ہے کہ وہ آداب جو کھانے پینے کے ہیں کہ ہاتھ دھوکر کھانا کھاؤ اور خدا تعالیٰ سے دعا کرو یہ انہیں ہمیشہ ملحوظ رکھنے چاہیں ، وہ بعض دفعہ بغیر ہاتھ دھوئے کھانا شروع کر دیتے ہیں یا اللہ تعالیٰ سے دعا نہیں کرتے.لیکن ایک بات ہے جو بچے کبھی نہیں بھولتے اور وہ یہ کہ خواہ جھوٹے طور پر ہی کسی زمانہ میں منہ سے بات نکل جائے کہ ہم تمہیں یہ چیز لے کر دیں گے تو وہ اس بات کو کبھی نہیں بھولتے اور اُس وقت تک پیچھے ہی پڑے رہتے ہیں
$1951 219 خطبات محمود جب تک وہ چیز انہیں لا کر نہ دی جائے.در حقیقت اس میں بہت بڑی سچائی بیان کی گئی ہے اور ہر گھر میں ماں باپ کو اس کا تجربہ ہو گا کہ بچہ کو خواہ اُس کے والدین مذاق ہی سے یہ کہہ دیں کہ تمہیں فلاں چیزی لے کر دیں گے اور پھر لے کر نہ دیں تو وہ ہمیشہ کہتا رہتا ہے کہ فلاں چیز کا میرے ساتھ وعدہ کیا گیا تھا مگر مجھے وہ چیز لے کر نہیں دی گئی.اگر بچہ بھی اپنا وعدہ پورا کرواتا ہے تو ہمارا خدا کیا بچوں سے بھی گیا گزرا ہے کہ وہ اپنا وعدہ پورانہیں کروائے گا؟ اور اگر بچوں کے ڈر کے مارے تم اُن کے وعدوں کو بھی پورا کر دیتے ہو تو کیا ہمارا خدا ہی ایسا ہے کہ تم اُس سے ڈر کر اپنے وعدوں کو پورا نہ کرو.پس تم نے جو خدا تعالیٰ سے وعدے کیے ہیں ان وعدوں کی عظمت کو پہچانو اور یا درکھو کہ تمہارا مستقبل، تمہاری اولاد کا مستقبل، تمہاری قوم کا مستقبل، تمہارے ملک کا مستقبل، تمہاری حکومت کا مستقبل بلکہ ساری دنیا کا مستقبل خدا تعالیٰ سے ہی وابستہ ہے.اگر اس سے صلح رکھی جائے گی تو تمہارے ہر کام میں برکت پیدا ہو جائے گی.لیکن اگر تم اس سے صلح نہیں رکھو گے تو تمہارا ہر کام خراب ہوگا اور تم اپنی کامیابی سے کوسوں دور چلے جاؤ گے.پس گزشتہ سال کے جو وعدے ہیں اُن کو پورا کرنا بھی تمہارا فرض ہے اور پورا بھی اسی سال کے اندر کرنا ہے.دوستوں کو چاہیے کہ وہ ان وعدوں کو جلد تر پورا کرنے کی کوشش کریں.بعض جماعتوں کی طرف سے اطلاعیں آ رہی ہیں کہ انہوں نے چندے بھجوا دیئے ہیں اور بعض رقوم چیکوں کے ذریعہ آ رہی ہیں جو ابھی تک نہیں پہنچے.ان چندوں کو ملا کر اس سال کی فيصدى إِنْشَاءَ اللہ اور بھی بڑھ جائے گی لیکن اگر پھر بھی بعض لوگوں کے وعدے رہ جائیں تو انہیں کوشش کرنی چاہیے کہ اپنے وعدوں کو جلد سے جلد ادا کر دیں تا کہ انہیں اگلے سال کے وعدوں کو پورا کرنے کی جلدی توفیق مل سکے.جس شخص پر پچھلے سال کا بھی بوجھ ہوتا ہے وہ اگلے سال کا بوجھ اٹھانے میں اتنی بشاشت محسوس نہیں کرتا جتنی بشاشت اور آسانی وہ شخص محسوس کرتا ہے جس پر گزشتہ سال کا کوئی بوجھ نہیں ہوتا.اس کے علاوہ دوستوں کو ایک اور امر بھی مد نظر رکھنا چاہیے اور وہ یہ کہ ابھی چھٹے سال کے بلکہ اس سے بھی پہلے سالوں کے کئی وعدے ایسے ہیں جو پورے نہیں ہوئے.اُن وعدوں کو بھی اگر مد نظر رکھا جائے تو ابھی ایک لاکھ کے قریب وصولیاں باقی ہیں.جیسا کہ میں نے بتایا ہے اس سال
$1951 220 خطبات محمود اخراجات کی ایسے رنگ میں زیادتی ہوئی ہے کہ چندے کی وصولی اور اچھی وصولی کے باوجود ابھی تک اخراجات پورے نہیں ہوئے.مثلاً اس وقت تک سترھویں سال کی ساری آمد خرچ ہو چکی ہے.اسی طرح ساتویں سال کی آمد بھی بجائے اس کے کہ ریز روفنڈ میں جاتی ساری کی ساری اس سال کے اخراجات میں صرف ہو چکی ہے اور اس کے علاوہ ابھی چوالیس ہزار روپیہ قرض لیا گیا ہے.گویا چوہتر فیصدی آمد کے باوجود ابھی چھ مہینے کے اخراجات باقی ہیں.یہ چھ ماہ کے اخراجات اسی صورت میں چل سکتے ہیں جب سترھویں سال کے بھی سارے بقائے وصول ہو جائیں اور سولھویں سال کے بھی سارے بقائے وصول ہو جائیں.اور جب ساتویں سال کے بھی سارے بقائے وصول ہو جائیں اور چھٹے سال کے بھی سارے بقائے وصول ہو جائیں.تب جا کر یہ سال صحیح طور پر گز رسکتا ہے اور آئندہ سالوں کو مضبوط بنیادوں پر کھڑا کیا جاسکتا ہے.اس کے ساتھ ہی احباب یہ بھی مد نظر رکھیں کہ اگلے سال کے وعدے وہ نمایاں اضافوں کے ساتھ پیش کریں اور اپنا قدم آگے بڑھانے کی کوشش کریں.یہ غلط طریق جو اختیار کر لیا گیا تھا کہ وعدے اوپر سے نیچے آنے شروع ہو گئے تھے اس کو دور کیا جائے اور دوست اپنے وعدوں میں نیچے سے اوپر کی طرف جائیں اور اپنے وعدوں میں زیادتی کریں.ایک اور سخت روک جو ہمارے راستہ میں پیدا ہو گئی ہے دوست اس کو بھی مد نظر رکھیں اور وہ یہ کہ اب ہندوستان کا روپیہ ہمارے پاس نہیں آ رہا.ہندوستان کے بھتیس ہزار روپیہ کے وعدے تھے جن میں سے ایک پیسہ بھی ہمیں نہیں مل سکتا.ساری دنیا سے روپیہ یہاں آ جاتا ہے اور ان کے وعدے یہاں پہنچ جاتے ہیں لیکن ہندوستان سے روپیہ نہیں آسکتا.اس کے علاوہ قادیان میں بھی روپیہ کی ضرورت ہے.پس چھتیس ہزار کی تو اس طرح کمی آگئی.در حقیقت ہندوستان کے وعدوں کو نکال کر دو لاکھ ستائیس ہزار آمد پہلے دور کی رہ جاتی ہے اور ہمارا بجٹ ساڑھے چار لاکھ کا ہے.پس کچھ تو وعدوں کے لحاظ سے کمی ہوئی ہے اور کچھ ہندوستان سے روپیہ نہ پہنچ سکنے کی وجہ سے کمی ہوئی ہے.ہمیں اس سال کوشش کرنی چاہیے کہ ہندوستان کے وعدوں کے لحاظ سے ہمارے چندوں میں جو کمی ہوئی ہے اُس کو بھی پورا کریں اور افراد کی سستی اور غفلت نے جو کمی پیدا کی ہے اُس کو بھی دور کریں.اور پھر پاکستان اور بیرونی دنیا کے وعدوں کو زیادہ سے زیادہ بلند کریں یہاں تک کہ یہ وعدے اُس حد تک
$1951 221 خطبات محمود پہنچ جائیں جس حد تک چودھویں سال میں تھے.بلکہ ہمیں تو یہ کوشش کرنی چاہیے کہ چودھویں سال میں اگر دو لاکھ تر اسی ہزار کے وعدے آئے تھے تو اب ہمارے وعدے تین لاکھ سے بھی اوپر نکل جائیں اور ساتویں سال کی جماعت اپنے وعدوں کو بڑھا کر دواڑھائی لاکھ تک پہنچا دے.در حقیقت سیدھی بات تو یہ ہے کہ یہ خدا تعالیٰ کا کام ہے اور خدا تعالیٰ نے ہی کرنا ہے.ہمیں اگر خدمت کی توفیق ملتی ہے تو اس کے معنے یہ ہوتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کا ہم پر فضل نازل ہو رہا ہے اور ہمیں اس کی رضا حاصل ہے.اور اگر ہمیں خدمت کی توفیق نہیں ملتی تو اس کے معنے یہ ہوتے ہیں کہ خدا تعالیٰ ہم سے خفا ہے اور وہ ہمیں قربانیوں سے محروم کر کے ہمیں سزادے رہا ہے.پس یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہی ہوتا ہے جو وہ اپنے بندوں سے خدمت لے لیتا ہے بندوں کا خدا تعالیٰ پر کوئی احسان نہیں ہوتا.قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ صاف طور پر فرماتا ہے کہ لَّا تَمُنُّوا عَلَى اِسْلَامَكُمْ ۚ بَلِ اللهُ يَمُنُّ عَلَيْكُمْ أَنْ هَدكُمْ لِلإِيمَانِ.4 تم مجھ پر یہ احسان نہ جتلاؤ کہ ہم نے اسلام قبول کر لیا ہے.اسلام قبول کر کے تم نے خدا تعالیٰ پر کوئی احسان نہیں کیا بلکہ خدا تعالیٰ نے تم پر احسان کیا ہے.پس جتنا جتنا کسی کو ثواب کا موقع ملتا ہے وہ خدا تعالیٰ کا فضل اور اُس کا احسان ہوتا ہے اور خدمت کے مواقع سے محروم ہو جانا یا اس میں کمی واقع ہو جانا یہ خدا تعالیٰ کی ناراضگی کا نشان ہوتا ہے.خواہ دنیا میں کسی کو نظر آئے یا نہ آئے بہر حال جب بھی کوئی شخص قربانی میں کمزور ہوتا ہے وہ مالی قربانی سے دریغ کرتا ہے یا جانی قربانی سے دریغ کرتا ہے یا وقت کی قربانی سے دریغ کرتا ہے یا عزت اور وجاہت کی قربانی سے دریغ کرتا ہے تو اس کے معنے یہ ہوتے ہیں کہ خدا تعالیٰ اُس سے ناراض ہے.چنانچہ اس کے نتیجہ میں رفتہ رفتہ بعض لوگ بے دین اور مرتد ہو جاتے ہیں.بیشک مرتد ہونے پر وہ یہ کہتا ہے کہ اَلحَمدُ لِلَّهِ میں ہدایت پا گیا لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ارتداد سے پہلے اُسے خدمت دین کی توفیق مل رہی تھی ؟ اگر اُس کے حالات کو غور سے دیکھا جائے گا تو یہی معلوم ہوگا کہ وہ نمازوں میں بھی سُست تھا ، چندوں میں بھی سست تھا، قومی کاموں میں بھی سُست تھا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ دین کی محبت اُس کے دل سے جاتی رہی، ایمان اُڑ گیا اور ارتداد نے اُس کی جگہ لے لی.پس جب کسی شخص پر اللہ تعالیٰ کا فضل نازل ہوتا ہے تو اُسے دین کی خدمت کی توفیق ملتی ہے.اور جب اس کی قربانیوں میں کمی آجائے تو یہ ثبوت ہوتا ہے اس بات کا کہ اللہ تعالیٰ کا اُس سے تعلق کمزور رہا ہے
$1951 222 خطبات محمود اور خدا تعالیٰ اُس سے خفا ہے.ایک اور بات میں یہ بھی کہہ دینا چاہتا ہوں کہ اس تحریک کے متعلق دوستوں کے دلوں میں جو غلط نہی پائی جاتی ہے خواہ اس غلط نہی کے پیدا کرنے کا موجب میرے اپنے ہی اقوال کیوں نہ ہوں اُسے دور کر دینا چاہیے.غلطی بہر حال غلطی ہے اور اُس کا ازالہ ضروری ہے.میں دیکھتا ہوں کہ بعض لوگوں کے دلوں میں یہ احساس پایا جاتا ہے کہ یہ تحریک صرف چند سالوں کے لیے جاری کی گئی تھی مگر اب اس کو ممتد کیا جا رہا ہے.گزشتہ سال بھی میں نے اس طرف اشارہ کیا تھا جس پر بعض سمجھ گئے ، بعض ادھورا سمجھے اور بعض آب تک بھی نہیں سمجھے.میں نے جب یہ تحریک جاری کی تھی تو تین سال کے لیے جاری کی تھی.پھر میں نے اس تحریک کو دس سال تک بڑھا دیا اور پھر اسے انیس سال تک ممتد کر دیا.بعض ایسے تھے جنہوں نے تین سال کے اختتام پر اس تحریک میں حصہ لینا چھوڑ دیا اور انہوں نے کہا کہ بس ! ہم سے اتنے عرصہ کے لیے ہی قربانی کا مطالبہ کیا گیا تھا.اب ہم زیادہ قربانی نہیں کر بعض ایسے تھے جنہوں نے دس سال تک چندہ دیا اور کہا کہ اب ہم اس سے آگے جانے کے لیے تیار نہیں کیونکہ آپ نے دس سال تک اس تحریک کو بڑھایا تھا.اس کے بعد جب یہ تحریک انیس سال تک ممتد کر دی گئی تو گوا ایسے لوگ بھی ہیں جو میرے خطبات اور اعلانات کو سن کر حقیقت کو سمجھ چکے ہیں.مگر اب بھی بعض لوگ ایسے ہیں جنہوں نے میرے مفہوم کو ادھورا سمجھا ہے اور انہوں نے مجھے لکھا ہے کہ آپ کے اعلانات سے پتا لگتا ہے کہ انیس سال کے بعد یہ قربانی ختم ہو جائے گی مگر ہم تو ہر وقت قربانی کرنے کے لیے تیار ہیں.آپ جب تک قربانی کے لیے بلاتے رہیں گے ہم اس پر لبیک کہتے چلے جائیں گے.اب یہ فقرہ بظاہر تو بڑے اخلاص والا معلوم ہوتا ہے لیکن حقیقت اس میں بھی کمزوری پائی جاتی ہے.سوال یہ ہے کہ دین کی خدمت میں میرے بلانے کا کیا سوال ہے؟ فرض کرو دنیا میں ایک ہی مسلمان رہ جائے تو کیا وہ ایک مسلمان دین کی خدمت کو چھوڑ دے گا اس لیے کہ اسے بلانے والا کوئی نہیں ؟ جہاں عشق ہوتا ہے وہاں تو بلانے اور نہ بلانے کا سوال ہی نہیں ہوتا.لوگوں نے لطیفہ بنایا ہوا ہے کہ ایک چھوٹا سا جانور ہے جو رات کو الٹا سوتا ہے.کسی نے اُس سے پوچھا کہ تورات کو ٹانگیں اوپر کی طرف اُٹھا کر کیوں سوتا ہے؟ اُس نے کہا دیکھو ساری دنیا رات کو سو جاتی ہے اور غافل ہو جاتی ہے اگر آسمان رات کو گر پڑے تو سارے کے سارے تباہ ہو جائیں.
$1951 223 خطبات محمود پس میں سوتے وقت ٹانگیں اُٹھا لیتا ہوں تا کہ اگر آسمان گرے تو میری ٹانگوں پر گرے دنیا تباہ نہ ہو.اب ہے تو یہ ایک لطیفہ، جانوروں سے کون باتیں کیا کرتا ہے مگر پرانے زمانہ میں دستور تھا کہ حکمت کی بات جانوروں کے منہ سے بیان کی جاتی تھی.ساری مثنوی رومی ایسی ہی حکایات سے بھری پڑی ہے.اسی طرح کلیله دمنہ وغیرہ میں بھیڑیا یا شیر یا بلخ یا مرغوں کی زبان سے کئی داستانیں بیان کی گئی ہیں کیونکہ لوگ سمجھتے تھے کہ دوسروں کو حکمت کی بات سمجھانے کا یہ ایک مؤثر ذریعہ ہے اور اس طرح زیادہ آسانی کے ساتھ وہ دوسرے کی بات کو سمجھ لیتے ہیں.اسی طرح اس لطیفہ میں یہ بتایا گیا ہے کہ جب انسان کے اندر لوگوں کی خیر خواہی کا احساس ہو اور ان کی محبت موجزن ہو وہ ان کی محبت میں یہ نہیں دیکھا کرتا کہ میں کام کر سکتا ہوں یا نہیں بلکہ وہ اپنی قربانی پیش کر دیتا ہے.یہ نکتہ ہے جو اس لطیفہ میں بیان کیا گیا ہے.ایک چھوٹے سے جانور نے بھلا آسمان کو اپنی ٹانگوں پر کیا اُٹھانا ہے؟ اس میں یہی بتایا گیا ہے کہ اُس کے دل میں بنی نوع انسان کی محبت ہے.وہ نہیں کہتا کہ کیا پڑی اور کیا پڑی کا شور با.وہ اپنی ٹانگیں اُٹھا دیتا ہے تا کہ اگر آسمان گرے تو ان پر گرے لوگ اُس سے تباہ نہ ہوں.اس لطیفہ کا مقصد کسی جانور کا قصہ بیان کرنا نہیں بلکہ یہ مقصد ہے کہ انسانوں میں سے ہر وہ انسان جس کے دل میں بنی نوع انسان کی محبت ہوتی ہے وہ اپنی قربانی پیش کر دیتا ہے چاہے اس کا کچھ بھی نتیجہ ہو.ہمیں بھی اسلام کی محبت کا دعوی ہے.ہماری جماعت کو خدا تعالیٰ نے قائم ہی اس لیے کیا ہے کہ وہ اسلام کو پھر اس کی بنیادوں پر مضبوطی سے قائم کر دے اور کفر کو شکست دے.پس ہمارے لیے یہ سوال ہی نہیں ہونا چاہیے کہ ہمیں دین کی خدمت کے لیے کوئی بلاتا ہے یا نہیں.بیشک اس وقت ایک نظام خدا تعالیٰ نے تم کو دے دیا ہے لیکن سوال یہ ہے کہ اگر میں کسی معاملہ میں نہ بھی بلاؤں اور تمہیں نظر آتا ہو کہ وہ دین کی خدمت کا کام ہے تو تمہارا فرض ہے کہ وہ کام کرو.لیکن حقیقت یہ ہے کہ بعض بلانے پر بھی نہیں بولتے بلکہ اُن کے سامنے ہر وقت یہی سوال رہتا ہے کہ دیکھیے سرکار اس میں شرط یہ کھی نہیں وہ کہتے ہیں پہلے تین سال کہا تھا، پھر دس سال کر دئیے ، اب انیس کر دیئے ہیں.مگر میں تمہیں کہتا ہوں کہ انیس سالوں کا بھی کیا ہے.اگر ہزار سال تمہاری عمر ہو تو اگر تم عاشق صادق ہو تو یہ کام تم کو ہزار سال کر کے بھی تھوڑا نظر آنا چاہیے.تم سے پہلوں کے ساتھ بھی بعض معین
خطبات محمود آپر 224 $1951 وعدے کیے گئے تھے مگر انہوں نے تین یا دس کی پروا نہیں کی.انہوں نے سمجھا کہ یہ تین اور دس اور انہیں تو ہمارے فائدہ کے لیے ہیں.یہ فائدہ جتنا بھی بڑھتا چلا جائے ہمارے دل میں اُتنی ہی خوشی پیدا ہوگی.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ پر ایمان لانے والوں کو جب مکہ والے متواتر دکھ دیتے چلے گئے اور انہوں نے اسلام کے مٹانے کے لیے کوئی دقیقہ فروگزاشت نہ کیا تو اللہ تعالیٰ نے مدینہ کے چند لوگوں کو اسلام میں داخل ہونے کی توفیق عطا فرما دی.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں نصیحت فرمائی کہ مدینہ میں تبلیغ کے ذریعہ اپنی تعداد کو بڑھانے کی کوشش کرو.چنانچہ اگلے سال حج کے موقع پر وہ بہت بڑی تعداد میں مکہ پہنچے اور وہ آپس میں یہ مشورہ کر کے آئے کہ ہم رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ عرض کریں گے کہ اب مکہ کو چھوڑیے اور ہمارے شہر میں تشریف لے آئے.چنانچہ وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ملے، انہوں نے آپ سے باتیں کیں، آپ کے ہاتھ پر بیعت کی اور پھر عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! آپ ہمارے ساتھ چلیں اور اب مکہ کو چھوڑ دیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس ملاقات کے وقت حضرت عباس کو بھی اپنے ساتھ لے گئے تھے جو اگر چہ عمر میں آپ سے صرف دو سال بڑے تھے لیکن بڑے زیرک اور ہوشیار تھے، مکہ کے پیچ تھے اور اس وجہ سے سیاسیات کو خوب سمجھتے تھے.اور گو وہ ابھی مسلمان نہیں ہوئے تھے مگر چونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اچھے تعلقات رکھتے تھے اس لیے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان کو بھی اپنے ساتھ لے گئے.جب مدینہ والوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنی اس خواہش کا اظہار کیا تو حضرت عباس نے کہا باتیں کر لینی آسان ہوتی ہیں لیکن ان کو نبھانا مشکل ہوتا ہے.اگر تم لوگ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے ساتھ لے گئے تو تمہیں یادرکھنا چاہیے کہ مکہ والوں نے اپنی مخالفت سے باز نہیں آنا اور پھر وہاں بھی مخالفت کا ہونا ایک لازمی امر ہے.مکہ میں تو ان کے رشتہ دار موجود ہیں اور اس وجہ سے لوگ ان پر حملہ کرتے ہوئے ڈرتے ہیں لیکن مدینہ میں رشتہ دار نہیں ہوں گے.اس لیے تم خوب سوچ سمجھ کر بات کرو.اگر تم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے ساتھ لے جاؤ گے تو تمہیں آپ کی حفاظت کے لیے مرنا بھی پڑے گا.انہوں نے کہا ہم اس بات کو خوب سمجھتے ہیں اور ہم نے تمام باتوں کو سوچ سمجھ کر یہ درخواست کی ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے ہاں تشریف لے چلیں.
$1951 225 خطبات محمود حضرت عباس نے کہا تو پھر آؤ اور معاہدہ کرو.چنانچہ ایک معاہدہ کیا گیا جس میں یہ شرط بھی رکھی گئی کہ اگر مدینہ پر کفار حملہ کریں تو چونکہ آپ مدینہ ہماری درخواست پر تشریف لے جارہے ہیں اس لیے مدینہ کے مسلمان اس بات کا اقرار کرتے ہیں کہ وہ دشمن کا مقابلہ کرنے کے لیے پوری طرح تیار ہیں گے اور سارے کے سارے مر جائیں گے لیکن محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کوئی گزند نہیں پہنچنے دیں گے.لیکن اگر مدینہ سے باہر نکل کر کسی اور مقام پر لڑائی ہوئی تو چونکہ مدینہ ایک گاؤں ہے اور گاؤں کے رہنے والے سارے ملک کا مقابلہ نہیں کر سکتے.اس لیے ہم مدینہ سے باہرلڑائی کرنے کے پابند نہیں ہوں گے.5 غرض معاہدہ ہو گیا اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم مکہ سے مدینہ تشریف لے گئے.جب آپ مدینہ چلے گئے تو وہی ہوا جس کا حضرت عباس کو خطرہ تھا.ادھر آپ مدینہ پہنچے اور اُدھر مکہ والوں نے انہیں کہنا شروع کر دیا کہ کمبختو ! تم بڑے بے ایمان ہو گئے ہو یہ شخص تمہارے بچوں کی ہتک کرتا ہے تمہارے باپ دادا کو جھوٹا کہتا ہے اور پھر تمہارے شہر میں بیٹھ کر اپنے عقائد کو پھیلا رہا ہے.یا تو تم خود اس کے ساتھ لڑائی کر دیا اسے اپنے شہر سے نکال دو ورنہ ہم سب مل کر مدینہ پر حملہ کر دیں گے اور تمہیں اس کی سزا دیں گے.ادھر اگاؤ گا مسلمانوں پر انہوں نے حملے شروع کر دیئے.ان کے قافلے جو شام میں تجارت کے لیے جاتے تھے انہوں نے اپنے اصل راستہ کو چھوڑ کر مدینہ کے اردگرد کے قبائل میں سے گزرنا شروع کیا اور اُن کو مدینہ والوں کے خلاف اکسانا شروع کر دیا.غرض ملک میں چاروں طرف ایک شورش بر پا ہوگئی.اسی دوران میں بعض چھوٹی چھوٹی لڑائیاں بھی ہوئیں اور اس کے بعد بدر کی مشہور اور معرکۃ الآراء جنگ ہوئی.اس جنگ کی ابتدا اس طرح ہوئی کہ شام سے کفار کا ایک بہت بڑا تجارتی قافلہ ابوسفیان کی سرکردگی میں آ رہا تھا.مکہ کے لوگوں نے اس خیال سے کہ کہیں مسلمان اس قافلہ پر حملہ نہ کر دیں ایک بہت بڑا لشکر ابو جہل کی قیادت میں تیار کر کے بھجوا دیا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے الہام کے ذریعہ بتایا کہ دشمن آ رہا ہے، قافلہ بھی آرہا ہے اور فوج بھی آ رہی ہے.اس پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو اکٹھا کیا اور انہیں بتایا کہ یہ صورتِ حالات ہے.اگر اس وقت ہم باہر نہ نکلے تو کفار تمام عرب میں شور مچائیں گے اور اردگرد کے قبائل مسلمانوں کے خلاف بھڑک اٹھیں گے.اس لیے مناسب یہی ہے کہ باہر نکل کر دشمن کا
$1951 226 خطبات محمود مقابلہ کیا جائے.چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم قریباً تین سو صحابہ کو لے کر دشمن کے مقابل کے لیے نکل کھڑے ہوئے مگر اس وقت تک صحابہ کو یہ معلوم نہیں تھا کہ آیا مقابلہ قافلہ والوں سے ہو گا یا اصل لشکر سے ہوگا.مگر اللہ تعالیٰ یہی چاہتا تھا کہ قافلہ سے نہیں بلکہ اصل لشکر سے مقابلہ ہو.جب بدر کے قریب پہنچے تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کو بتایا کہ الہی منشا یہی ہے کہ مکہ کے اصل لشکر سے جو ابو جہل کی قیادت میں آ رہا ہے ہمارا مقابلہ ہو.جہاں تک میرا مطالعہ ہے مجھے قرآن کریم سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ آپ کو مدینہ میں ہی یہ علم دے دیا گیا تھا کہ مسلمانوں کا کفار کے اصل لشکر سے مقابلہ ہو گا مگر ساتھ ہی آپ کو منع کر دیا گیا تھا کہ ابھی یہ بات صحابہ کو بتائی نہ جائے لیکن بعض لوگوں کا خیال ہے کہ جب آپ باہر نکل آئے تب اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ پر اصل حقیقت کو ظاہر کیا گیا.بہر حال جب کئی منزل طے کرنے کے بعد آپ بدر کے قریب پہنچے تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ کو حکم ہوا کہ اب یہ بات صحابہ کو بتادی جائے یا اُس وقت اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ پر یہ امر ظاہر کیا گیا کہ قافلہ تو نکل گیا ہے اب صرف لشکر کے ساتھ مقابلہ ہو گا.آپ کے باہر نکلنے کی غرض یہی تھی کہ ان کی لوگوں کا دفاع کیا جائے کیونکہ یہ لوگ مدینہ کے پاس پہنچ کر شور مچائیں گے کہ ہم مکہ سے چل کر آگئے ہیں مگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے ساتھی مدینہ میں ہی بیٹھے ہیں.اس سے لوگوں کے دلوں میں مسلمانوں کے متعلق تحقیر اور تذلیل کے خیالات پیدا ہوں گے اور ہمارا ان لوگوں میں رہنا مشکل ہو جائے گا.بہر حال رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کو اکٹھا کیا اور فرمایا کہ شام سے جو تجارتی قافلہ آ رہا تھا وہ تو نکل گیا ہے.آب دشمن کا لشکر اس طرف بڑھتا چلا آ رہا ہے.بتاؤ! آب تمہاری کیا تجویز ہے؟ کیا ہم پیچھے ہٹ جائیں یا ان لوگوں کا مقابلہ کریں؟ اس پر ایک کے بعد دوسرا مہاجر کھڑا ہوتا اور کہتا یا رسول اللہ ! پیچھے ہٹنے کا کوئی سوال نہیں.ہمارا فرض ہے کہ ہم دشمن سے لڑیں ورنہ وہ دلیر ہو جائے گا اور لوگوں میں فخر کرے گا کہ وہ باہر بھی آیا مگر مسلمان اُس کے مقابلہ کے لیے نہ نکل سکے.مگر تقریر کرنے کے بعد جب بھی کوئی مہاجر بیٹھتا آپ فرماتے اے لوگو! مجھے مشورہ دو.اس پر پھر کوئی مہاجر صحابی کھڑا ہوتا اور کہتا یا رسول اللہ ! مقابلہ کیجیے ہم آپ کے ساتھ ہیں.مگر جب وہ بیٹھ جاتا تو آپ پھر فرماتے اے لوگو! مجھے مشورہ دو.جب یکے بعد دیگرے کئی مہاجر اپنا مشورہ دے چکے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہر مہاجر کی تقریر کے بعد یہی فرماتے کہ اے لوگو! مجھے مشورہ دو.
$1951 227 خطبات محمود تو ایک انصاری کھڑے ہوئے.اس وقت تک انصار کا گروہ خاموش بیٹھا ہوا تھا مگر جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بار بار فرمایا کہ اے لوگو! مجھے مشورہ دو.تو انصار نے سمجھا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مُراد ہم سے ہے ورنہ مہاجرین تو مشورہ دے ہی رہے ہیں.چنانچہ ایک انصاری کھڑے ہوئے اور انہوں نے کہا یا رسول اللہ ! مشورہ تو آپ کو دیا جا رہا ہے مگر آپ جو بار بار فرما رہے ہیں کہ اے لوگو! مجھے مشورہ دو تو معلوم ہوتا ہے کہ آپ کا اشارہ ہماری طرف ہے کہ مہاجر تو بول رہے ہیں انصار کیوں نہیں بولتے.یارسول اللہ ! ہم تو اس لیے چپ تھے کہ وہ لشکر جو مکہ کی طرف سے آیا ہے اُس میں ان مہاجرین کا کوئی باپ ہے، کوئی بیٹا ہے، کوئی بھائی ہے اور کوئی اور عزیز ہے.ہم اس شرم کے مارے نہیں بولتے تھے کہ اگر ہم نے کہا مقابلہ کریں تو مہاجرین یہ سمجھیں گے کہ یہ ہمارے ماں باپ اور بھائیوں اور بیٹوں کو مارنا چاہتے ہیں.پس ہماری خاموشی کی اصل وجہ یہ تھی.پھر اُس نے کہا یا رسول اللہ ! آپ جو ہم سے بار بار کہہ رہے ہیں کہ بولو! تو شاید آپ کا اشارہ اُس معاہدہ کی طرف ہے جو آپ کی مدینہ میں تشریف آوری سے پہلے ہم نے کیا تھا اور جس میں ہم نے یہ شرط رکھی تھی کہ اگر مدینہ پر کسی دشمن نے حملہ کیا تو ہم اپنی جانیں دے دیں گے لیکن اگر مدینہ سے باہر نکل کر مقابلہ کرنا پڑا تو ہم اس میں شریک ہونے کے پابند نہیں ہوں گے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ٹھیک ہے.(اب دیکھو وہاں ایک معاہدہ ہو چکا تھا مگر میں نے تو تمہارے ساتھ کوئی معاہدہ نہیں کیا تھا.میر اصرف ایک اعلان تھا یہ نہیں کہ میرے اور تمہارے درمیان کوئی باقاعدہ معاہدہ ہوا ہو کہ میں تم سے صرف تین سال چندہ لوں گا یا دس سال چندہ لوں گا مگر یہاں تو انصار کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ معاہدہ تھا کہ اگر مدینہ پر حملہ ہوا تو ہم آپ کا ساتھ دیں گے لیکن اگر مدینہ سے باہر دشمن کا مقابلہ کرنا پڑا تو ہم اس میں شامل ہونے کے پابند نہیں ہوں گے ).اس صحابی نے کہا بارسول الله ! جب یہ معاہدہ کیا گیا تھا اُس وقت ہمیں یہ پتا نہیں تھا کہ نبی کیا ہوتا ہے اور رسول کیا ہوتا ہے.ہمیں آپ کی باتیں پسند آئیں اور ہم نے سمجھا کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے جو آواز اٹھی ہے ہمارا فرض ہے کہ ہم اس کو قبول کر لیں.لیکن اس کے بعد ہم نے خدا تعالیٰ کے متواتر نشانات دیکھے، آپ کی صداقت کے سینکڑوں معجزات دیکھے اور ہمیں معلوم ہوا کہ آپ کی شان کیا ہے.پس یارسول الله اب معاہدات کا کوئی سوال نہیں معاہدات کا زمانہ گزر گیا.اب اور زمانہ آ گیا ہے.یارسول الله!
$1951 228 خطبات محمود سامنے سمندر ہے آپ حکم دیجیے ہم اس میں اپنے گھوڑے ڈالنے کے لیے تیار ہیں اور يا رسول اللہ اگر دشمن کا مقابلہ کرنے کا ہی فیصلہ ہوا تو ہم آپ کے دائیں بھی لڑیں گے اور بائیں بھی لڑیں گے، آگے بھی لڑیں گے اور پیچھے بھی لڑیں گے اور دشمن آپ تک نہیں پہنچ سکتا جب تک وہ ہماری لاشوں کو روندتا ہوا نہ گزرے.پس جب میں نے تم کو تین سال کہا یا دس سال کہا یا انہیں سال کہا تو مجھے پتا نہیں تھا کہ ہمارے سامنے خدا تعالیٰ کی کیا سکیم ہے.جب میں نے تم سے کہا کہ آؤ اور تین سال کے لیے قربانی کرو تو اس وقت صرف احراری فتنہ سامنے تھا.جب میں نے کہا آؤ اور دس سال تک قربانی کرو تو ہم نے سمجھا کہ باہر کی جماعتوں میں جو ہم نے چند مشن قائم کر دیئے ہیں یہ اس وقت تک اپنا کام کرنا شروع کر دیں گے.اُس وقت میرا ذہن اس وسعت کی طرف نہیں گیا کہ ہم نے ساری دنیا میں اسلام کی تبلیغ کرنی ہے.پھر میں نے دس سالہ تحریک کو انیس سال تک ممتند کر دیا اور ایک دوسرے دور کا بھی ساتھ ہی آغاز کر دیا کیونکہ اُس وقت مجھے ایک حد تک روشنی نظر آنے لگ گئی تھی اور کی کام نے اپنی عظمت کو ظاہر کرنا شروع کر دیا تھا.مگر ابھی اس کام کی پوری اہمیت ہم پر روشن نہیں ہوئی تھی مگر سولھویں اور سترھویں سال میں آکر اللہ تعالیٰ نے اس سکیم کی عظمت کو مجھ پر روشن کر دیا اور میرا ذہن اس طرف مائل ہوا کہ اس سکیم کے لیے سالوں کی تعیین بے معنی ہے.ہم نے ساری دنیا میں اسلام کی تبلیغ کرنی ہے، ہم نے چپہ چپہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حکومت قائم کرنی ہے اور یہ کام چند سالوں کا نہیں یہ کام ہمیشہ ہمیش ہے.پس میں نے جب کہا تھا کہ آؤ تین سال کے لیے قربانی کرو یا دس سال کے لیے قربانی کرو تو میں نہیں جانتا تھا کہ میرے سامنے کتنا بڑا کام ہے.جب تم نے کہا کہ ہم تین سال کے لیے قربانی کرنے کے لیے تیار ہیں یا دس سال کے لیے قربانی کرنے کے لیے تیار ہیں تو تم بھی نہیں جانتے تھے کہ تمہارے سامنے کتنا بڑا کام ہے.لیکن اب جبکہ تمہیں پتا لگ گیا ہے کہ تمہارا کیا کام ہے جبکہ تمہیں پتا ہی لگ گیا ہے کہ دنیا بھر میں اسلام پھیلانا تمہارا کام ہے اور مجھے پر خدا تعالیٰ کی سکیم کا ایک بڑا حصہ ظاہر ہو گیا ہے تو میرا مطالبہ بھی اس کے مطابق ہونا چاہیے اور تمہارا بھی اس وقت وہی جواب ہونا چاہیے جو مدینہ والوں نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیا تھا.اب تمہیں بھی یہی کہنا چاہیے کہ اب تین یا دس یا انہیں کا کیا سوال ہے ہم اسلام کی حفاظت کے لیے اس کے دائیں بھی لڑیں گے اور بائیں بھی
$1951 229 خطبات محمود لڑیں گے ، آگے بھی لڑیں گے اور پیچھے بھی لڑیں گے اور دشمن ہماری لاشوں پر سے گزرے بغیر اسلام کے جسم تک نہیں پہنچ سکتا.غرض وعدے زمانہ کے لحاظ سے ہوتے ہیں لیکن وعدہ معاہدے سے بہر حال کم ہے.وعدہ ایک طرف سے ہوتا ہے اور معاہدہ دونوں طرف سے ہوتا ہے.اور میں نے تو تم سے کوئی وعدہ بھی نہیں کیا صرف ایک اعلان تھا جو میں نے کیا اور وہ بھی اُن حالات میں اعلان تھا جب مستقبل میرے سامنے نہیں تھا جب مستقبل تمہارے سامنے نہیں تھا.اگر مستقبل تمہارے سامنے ہوتا کہ اب ساری دنیا میں اسلام کی اشاعت کا وقت آن پہنچا ہے تو میں نے جب تم سے کہا تھا کہ آؤ اور تین سال کے لیے قربانی کرو تو تم فوراً کھڑے ہو جاتے اور کہتے کہ تین سال میں کیا ہو سکتا ہے؟ تین سال میں تو ساری دنیا میں تبلیغ اسلام کی بنیادیں بھی نہیں رکھی جاسکتیں.پھر اگر مستقبل تمہارے سامنے ہوتا تو جب میں نے تم سے کہا تھا کہ آؤ اور دس سال کے لیے قربانی کرو تو تمہارا فرض تھا کہ تم کھڑے ہو جاتے اور کہتے دس سال میں ہم ساری دنیا میں کس طرح تبلیغ اسلام کر سکتے ہیں؟ پھر اگر مستقبل تمہارے سامنے ہوتا تو جب میں نے تم سے کہا تھا کہ آؤ اور انہیں سال کے لیے قربانی کرو تو چاہیے تھا کہ تم کھڑے ہو جاتے اور کہتے کیا انہیں سال میں اسلام ہمیشہ کے لیے قائم ہوسکتا ہے؟ یہ کام تو قیامت تک کے لیے ہے.جس طرح نماز دس سال کے لیے نہیں نماز انیس سال کے لیے نہیں، روزہ دس سال کے لیے نہیں، روزہ انیس سال کے لیے نہیں.اسی طرح اسلام کی تبلیغ اور جہاد بھی دس یا انیس سال کے لیے نہیں ہو سکتے.اگر نماز انیس سال کے لیے ہو سکتی ہے، اگر روزہ انیس سال کے لیے ہو سکتا ہے، اگر ز کوۃ انیس سال کے لیے ہو سکتی ہے تو پھر جہاد بھی انیس سال کے لیے ہو سکتا ہے.لیکن اگر نماز ہمیشہ کے لیے ہے، اگر روزہ ہمیشہ کے لیے ہے، اگر ز کوۃ ہمیشہ کے لیے ہے تو پھر جہاد بھی ہمیشہ کے لیے ہے.جس دن مسلمان جہاد سے غافل ہوئے اُسی دن تباہی کے گڑھے میں گرنے شروع ہو گئے اور یا تو وہ ساری دنیا پر غالب اور حکمران تھے اور یا ہر جگہ محکوم اور ذلیل ہو گئے.کوئی زمانہ تھا کہ یہی مقام جہاں کھڑے ہو کر میں اس وقت خطبہ پڑھ رہا ہوں یہاں مسلمانوں کی چھاؤنی ہوا کرتی تھی اور ادھر سے اُدھر فوجیں جایا کرتی تھیں اور یا اب اُدھر سے ادھر فو جیں آنے لگی گئی ہیں.اس لیے کہ مسلمان جہاد بھول گئے.پہلے تم مسجدیں بناتے چلے جاتے تھے مگر اب تم واپس آ ہو
$1951 230 خطبات محمود اور مساجد گرائی جارہی ہیں.ہزاروں ہزار بزرگوں کے مقابر اس وقت مشرقی پنجاب میں گرے ہوئے ہیں.کتے اُن پر پیشاب کرتے ہیں تو کوئی اُن کو روکنے والا نہیں ہوتا ، ہزاروں ہزار مسجد میں مشرقی پنجاب اور یو.پی وغیرہ میں گری ہوئی ہیں اور اُن کی بے حرمتی کی جارہی ہے محض اس لیے کہ مسلمانوں نے جہاد کو ترک کر دیا.اگر مسلمان جہاد حقیقی کو سمجھ لیتا ، اگر مسلمان جان لیتا کہ صرف تلوار چلانا ہی جہاد نہیں تو آج وہ دنیا میں ذلیل نہ ہوتا.اس نے سمجھا کہ تلوار کا جہاد ہی اصل جہاد ہے.نتیجہ یہ ہوا کہ جب انہوں نے کوئی علاقہ فتح کر لیا تو سمجھ لیا کہ اب اُن کا کام ختم ہو گیا ہے.اگر وہ اس جہاد کو سمجھتے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے پیش کیا ہے کہ کبھی تلوار چلانا جہاد ہوتا ہے، کبھی تبلیغ کرنا جہاد ہوتا ہے، کبھی اشاعت لٹریچر کرنا جہاد ہوتا ہے، کبھی تربیت کرنا جہاد ہوتا ہے، کبھی تعلیم دینا جہاد ہوتا ہے.تو جب ہندوستان کو انہوں نے فتح کر لیا تھا وہ یہ نہ سمجھتے کہ اُن کا کام ختم ہو گیا ہے بلکہ سمجھتے کہ آب ہمارا اور کام شروع ہو گیا ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک لڑائی سے واپس آئے تو آپ نے فرمایا کہ ہم چھوٹے جہاد سے آب بڑے جہاد کی طرف آئے ہیں g یعنی وہ جہاد تو ختم ہو گیا اب تعلیم و تربیت کا جہاد شروع ہو گا جو اُس جہاد سے زیادہ اہم ہے.پس جہاد ہمیشہ کے لیے ہے.یہ محض مولویوں کی نادانی اور بیوقوفی تھی کہ انہوں نے تلوار کے جہاد کو ہی جہاد سمجھا اور اس طرح اسلام کو نقصان پہنچا دیا.چنانچہ جب تلوار کا جہاد ختم ہوگیا تو مسلمانوں نے سمجھا کہ اب اُن کا کام بھی ختم ہو گیا ہے.نتیجہ یہ ہوا کہ آج بھی ہندوستان میں بیس کروڑ ہندو اور آٹھ کروڑ مسلمان ہے.اگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام والا جہاد اختیار کیا جاتا تو آج بیس کروڑ مسلمان اور آٹھ کروڑ ہندو ہوتے بلکہ آٹھ کروڑ ہندو بھی نہ ہوتے سب کے س مسلمان ہوتے.یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ سات سو سال تک حکومت کی جائے اور پھر کافر باقی رہ جائیں.اگر تبلیغ کا سلسلہ جاری رکھا جاتا تو یہ ناممکن تھا کہ غیر مذاہب کے لوگ اتنی کثرت کے ساتھ موجود رہتے.پس جب میں نے کہا کہ یہ تحریک تین سال کے لیے ہے یا جب میں نے کہا کہ یہ تحریک دس سال کے لیے ہے تو یقیناً میں نے غلط کہا مگر اس لیے کہا کہ جو کچھ خدا کا منشا تھا وہ میں پورے طور نہیں سمجھا تھا.جیسے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی مدینہ والوں کے معاہدہ کی حقیقت کو اُس وقت
$1951 231 خطبات محمود پورے طور پر نہیں سمجھے.تم مجھے کہہ سکتے ہو کہ اُس وقت تم نے حقیقت کو پورے طور پر کیوں نہیں سمجھا ؟ میرا جواب یہ ہے کہ کیا میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بڑا ہوں؟ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اُس وقت یہی سمجھا تھا کہ مکہ کے لوگ مدینہ پر حملہ کر کے آئیں گے اُن کے دفاع کے لیے مدینہ والوں کے ساتھ کوئی معاہدہ ہو جانا چاہیے.لیکن خدا تعالیٰ یہ چاہتا تھا کہ آپ کو ساری دنیا پر غالب کرے.خدا تعالیٰ یہ چاہتا تھا کہ آپ باہر نکل کر کفار کا مقابلہ کریں.اگر اُس وقت یہ بات محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو معلوم ہوتی تو جب مدینہ والوں نے یہ کہا تھا کہ اگر کسی قوم نے مدینہ پر حملہ کیا تو ہم اُس کا مقابلہ کریں گے تو آپ فرماتے تم یہ کیا کہہ رہے ہو.ہمیں تو باہر بھی دشمن کا مقابلہ کرنا پڑے گا مگر آپ نے یہ نہیں کہا کیونکہ اس وقت اصل حقیقت آپ پر روشن نہیں ہوئی تھی.پھر تم نے بھی میری بات کو اُسی طرح نہیں سمجھا جس طرح صحابہ نے نہیں سمجھا.انصار نے یہی سمجھا تھا کہ یہ لڑائی اگر ہوئی بھی تو صرف مدینہ میں ہوگی.انہیں کب معلوم تھا کہ مدینہ کا سوال نہیں ی لڑائی ساری دنیا میں لڑی جانے والی ہے.کیا کسی انصاری کے وہم و گمان میں بھی یہ بات آ سکتی تھی کہ پنجاب اور ہندوستان میں بیٹھ کر بھی ایک مسلمان کولڑنا پڑے گا ؟ اسی طرح چین اور جاپان اور سماٹرا اور جاوا اور وہ دوسرے ملک جن کے نام بھی وہ نہیں جانتے تھے اُن میں مسلمانوں کو لڑنا پڑے گا.لیکن خدا اس بات کو جانتا تھا.چنانچہ جب اس کی حکمت واضح ہوئی تو معاہدات ختم ہو گئے.اسی طرح جب میں نے تم سے تین سال کے لیے قربانی کرنے کو کہا تو میں نے اس قربانی کو ایک وقتی چیز سمجھ کر یہ اعلان کیا اور خدا نے ہمیں اُس وقت فتح بھی دے دی.چنانچہ احرار کو ہمارے مقابلہ میں خطر ناک شکر ہوئی.اس کے بعد جب میں نے اس تحریک کو دس سال تک بڑھایا تو اُس وقت مجھے کچھ کچھ روشنی نظر آنے لگ گئی تھی اور تبلیغ کا ایک رستہ کھل گیا تھا.پھر جب میں نے انیس سال کہا تو اُس وقت تک اور کی زیادہ روشنی نمودار ہو چکی تھی.مگر اب سترھویں سال میں آ کر پتا لگا کہ خدا تعالیٰ کی سکیم بڑی بھاری ہے اور وہ قیامت تک کے لیے ہے.اور جب یہ بات کھل گئی تو اب میں بھی تم سے اٹھارہ یا انیس سال کے لیے قربانی کرنے کے لیے نہیں کہتا.جب تک تمہارے جسموں میں خون چلتا ہے اگر تم میں ایمان کا ایک ذرہ بھی موجود ہے تو تمہیں دین کی خدمت کرنی ہوگی.بلکہ اگر تمہارے دلوں میں ایمان موجود ہے تو تمہاری تو یہ کیفیت ہونی چاہیے اگر انیس سال کے بعد تم سے یہ کہا بھی جائے کہ اب
$1951 232 خطبات محمود تمہاری قربانی کی ضرورت نہیں تو تم رونے لگ جاؤ اور کہو کہ کیا ہم بے ایمان ہو گئے ہیں یا ہم دین سے مرتد ہو گئے ہیں کہ ہمیں یہ کہا جاتا ہے کہ اب تم سے دین کی خدمت کا کام نہیں لیا جائے گا.پس آج میں یہ واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ اٹھارہ یا انیس سال کا کوئی سوال نہیں.ہم نے تمام دنیا میں اسلام کی تبلیغ کرنی ہے اور یہ کام ہم سے ہماری دائمی قربانی کا مطالبہ کرتا ہے.اس وقت مغرب میں بھی ہمارے مبلغ موجود ہیں اور مشرق میں بھی ، شمال میں بھی ہمارے مبلغ موجود ہیں اور جنوب میں بھی.آج ہر ملک اور ہر قوم میں اسلام اور احمدیت کا جھنڈا گاڑا جارہا ہے.ابھی ہمارے مبلغ تھوڑے ہیں اور ہمیں بار بار اُن کو مد بھجوانی پڑے گی.اُس طرح جس طرح شام اور ایران کے اسلامی لشکروں کو کمک کی ضرورت پڑتی تھی.ایران میں جب مسلمانوں کو ایک جنگ میں شکست ہوئی تو اُس وقت مدینہ میں مزید فوج بھجوانے کے لیے اعلان کیا گیا مگر مدینہ اور اُس کے نواحی میں کوئی فوج نہیں تھی جو مسلمانوں کی مدد کے لیے بھجوائی جاتی.یہی کیفیت اس وقت ہماری ہو گی.ہمیں بھی اُسی طرح جس طرح ایک بھٹیارہ پتے اور سوکھی شاخیں اپنی بھٹی میں جھونکتا چلا جاتا ہے اسلام کی اشاعت کے لیے متواتر اور مسلسل اپنا روپیہ بھی جھونکنا پڑے گا، اپنے آدمی بھی جھونکنے پڑیں گے، اپنی کتا بیں بھی جھونکنی پڑیں گی ، اپنا لٹریچر بھی جھونکنا پڑے گا اور اس راستہ میں ہمیں کسی بڑی سے بڑی قربانی سے بھی دریغ نہیں کرنا پڑے گا.شیطان اپنی کرسی کو آسانی سے نہیں چھوڑ سکتا.اس وقت خدا کے تخت پر شیطان متمکن ہے، اس وقت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے تخت پر شیطان کے ساتھیوں نے قبضہ کیا ہوا ہے اور وہ اسے آسانی سے نہیں چھوڑ سکتے.وہ لڑیں گے اور پورے زور کے ساتھ ہمارا مقابلہ کریں گے اور ہم کو بھی اپنا سب کچھ اِس راہ میں قربان کر دینا پڑے گا.بہر حال جب یہ چیز واضح ہو جائے اور اس لڑائی کی اہمیت کو انسان سمجھ لے تو اس کے بعد تین یا دس یا انیس کا سوال کوئی احمق ہی کر سکتا ہے.جب ہم نے یہ تحریک شروع کی تھی اُس وقت ہم کو اس کے نتائج سے ایسے ہی نا واقف تھے جیسے مکہ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے معاہدہ کرنے والے انصار اپنے معاہدہ کی حقیقت سے ناواقف تھے ، جیسے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر اسلام کا شاندار مستقبل پورے طور پر روشن نہیں ہوا تھا اُسی طرح ہم پر بھی اس تحریک کا مستقبل اس وقت روشن نہیں ہوا.پس میں نے تم سے اسی طرح وعدہ لیا جس طرح انصار سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کی
$1951 233 خطبات محمود وعدہ لیا تھا.اور تم نے اُسی طرح اقرار کیا جس طرح انصار نے معاہدہ کے وقت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اقرار کیا تھا.لیکن جب زمانہ نے پردے اُٹھا دیئے، قدرت نے انکشاف کر دیا تو نہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا وعدہ وعدہ رہا اور نہ انصار کا معاہدہ معاہدہ رہا.اب دنیا ہی بدل چکی تھی ، آب ساری دنیا کو فتح کرنے کا سوال تھا، آب ساری دنیا میں اسلام کا جھنڈا گاڑنے کا سوال تھا.اب مدینہ کے اندر یا مدینہ کے باہر کا کوئی سوال نہ تھا، اب ہر جگہ یہ لڑائی لڑی جانے والی تھی.اسی طرح آب ہمارے لیے یہ امر واضح ہو گیا ہے کہ خدا تعالیٰ ہمارے لیے وہ دن قریب سے قریب تر لانا چاہتا ہے جب ہم نے اسلام کی لڑائی کو اُس کے اختتام اور کامیاب اختتام تک پہنچانا ہے، آب کسی ایک ملک یا دو ملکوں کا سوال نہیں، اب کسی ایک مبلغ یاد و مبلغوں کا سوال نہیں ، آب سر دھڑ کی بازی لگانے کا سوال ہے.یا کفر جیتے گا اور ہم مریں گے یا کفر مرے گا اور ہم جیتیں گے.درمیان میں اب بات رہ نہیں ہے سکتی.ایک ادنیٰ سے ادنی سپاہی دس پندرہ روپے لے کر میدانِ جنگ میں جاتا اور اپنے سینہ کو گولی کے لیے پیش کر دیتا ہے.ہمارے لیے تو پندرہ کا سوال نہیں.قرآن کہتا ہے کہ ہم نے مومنوں سے سودا کر لیا ہے.ہم نے ان سے ان کی جانیں اور مال لے لیے ہیں اور انہیں اپنی جنت دے دی ہے.9 اگر پندرہ روپوں کے لیے ایک سپاہی اپنی جان دے سکتا ہے تو جنت کے لیے ایک مومن کو کتنی خوشی اور کتنی بشاشت سے قربانی پیش کرنی چاہیے.پس اپنے دلوں سے دس یا نہیں کا سوال اُٹھا دو.یہ قربانی تمہیں مرتے دم تک کرنی پڑے گی.جو کچھ ہوسکتا ہے وہ یہ ہے کہ چونکہ بعض نے اس تحریک کو صرف انیس سالہ تحریک سمجھ کر اتنا بوجھ اپنے اوپر برداشت کر لیا تھا جو اُن کی طاقت کے لحاظ سے بہت زیادہ تھا اس لیے دفتر سے بات کر کے ان کو اتنی کمی کرنے کی اجازت دے دی جائے گی کہ وہ مستقل طور پر آسانی کے ساتھ اس بوجھ کو اٹھاتے چلے جائیں.ان کے علاوہ باقی تمام لوگوں کا فرض ہے کہ وہ اپنی حیثیت کے مطابق تحریک جدید میں حصہ لیں.اسی حکمت کے ماتحت دفتر دوم قائم کیا گیا ہے جس میں ہر وقت انسان شامل ہو سکتا ہے لیکن اس ارادہ کے ساتھ کہ وہ اپنا قدم اب پیچھے نہیں ہٹائے گا.گویا یہ بھی ایک قسم کا وقف ہے جس میں ہر شخص یہ اقرار کرتا ہے کہ میری جان اور میرا مال اسلام کے لیے حاضر ہے.پس اپنی توفیق کے مطابق ہر شخص کو اس میں حصہ لینا چاہیے.مرد بھی اور عورتیں بھی، بچے بھی اور بوڑھے بھی ، امیر بھی
$1951 234 خطبات محمود اور غریب بھی سب لوگوں کا فرض ہے کہ وہ اپنی استطاعت کے مطابق تحریک جدید کے دوسرے دور میں شریک ہوں.دوسری مثال اسی قسم کے معاہدہ کی قرآن کریم میں موجود ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وَوَعَدْنَا مُوسى ثَلْثِينَ لَيْلَةً وَأَتْمَمْنُهَا بِعَشْرِ - 10 ہم نے موسیٰ سے تمہیں راتوں کا وعدہ کیا تھا مگر پھر ہم نے اس وعدہ کو چالیس راتوں میں بدل دیا.آریوں اور عیسائیوں نے اعتراض کیا ہے کہ اسلام کا خدا نَعُوذُ بِاللهِ جھوٹا ہے کیونکہ اس نے تھیں کو چالیس کر دیا.اگر خدا تمہیں کو چالیس کر سکتا ہے تو میں تین کو دس اور دس کو انہیں کیوں نہیں کر سکتا.اگر خدا عالم الغیب ہونے کے باوجود تھیں کو چالیس کر سکتا ہے تو میں جو عالم الغیب نہیں ہوں تو میں اس میعاد کو کیوں نہیں بڑھا سکتا تھا.آخر سوچنا چاہیے کہ خدا تعالیٰ پر کیوں اعتراض نہیں ہو سکتا کہ اُس نے موسی سے تمہیں راتوں کا جو وعدہ کیا تھا اُسے اُس نے چالیس راتوں میں بدل دیا.اس لیے کہ میں دن کی عبادت سے چالیس دن کی عبادت زیادہ مبارک ہے.اگر موسی کو میں کی بجائے چالیس دن عبادت کرنے کا موقع مل گیا تو یہ اللہ تعالیٰ کا فضل اور اُس کا احسان ہوا ظلم تو نہ ہوا.اسی طرح اگر تمہیں ساری عمر دین کے لیے قربانی کرنے کا موقع مل جاتا ہے تو تمہارے لیے دائی طور پر خدا تعالیٰ کی برکتوں کا دروازہ کھل جاتا ہے.لیکن پھر بھی جو شخص سمجھتا ہے کہ دین کے لیے چندہ دینا اُس کے لیے بوجھ ہے اور وہ انیس سال سے زیادہ یہ قربانی کرنے کی اپنے اندر طاقت نہیں پاتا میں اُسے کہوں گا کہ دین کو بیشک قربانی کی ضرورت ہے ، اسلام کو بیشک قربانی کی ضرورت ہے لیکن اگر یہ قربانی تم پر بوجھ ہے تو تم پر حرام اور قطعی حرام ہے کہ تم ایک پیسہ بھی اسلام کی خدمت کے لیے دو.تمہارا پیسہ ہمارے لیے گندا اور ناپاک ہے.ہم نہیں چاہتے کہ تمہارے پیسوں کے ساتھ ہم اسلام کے پاک اموال کو بھی ملوث کر دیں.یہ تحریک صرف اُسی شخص کے لیے ہے جو خدا تعالیٰ کے دین کے لیے قربانی کرنا اپنے لیے برکت اور فضل اور احسان سمجھتا ہے.جو سب کچھ دینے کے باوجود یہ یقین رکھتا ہے کہ اُس نے خدا اور اُس کے دین پر احسان نہیں کیا بلکہ خدا نے اُس پر احسان کیا ہے کہ اُس نے اُسے خدمت کی توفیق دی.پس ہر وہ شخص جو کہتا ہے کہ اس تحریک میں شمولیت اُس کے لیے بوجھ ہے میں اسے کہتا ہوں کہ تم چپ رہو.جب تک تمہارا خدا تمہارے ایمان کو درست نہ کر دے اُس وقت تک تم ایک پائی بھی چندہ مت دو اور پھر دیکھو کہ خدا اس سلسلہ کے ساتھ
$1951 235 خطبات محمود کیسا سلوک کرتا ہے.پس اس اعلان کے ساتھ میں تحریک جدید کے نئے سال کو شروع کرتا ہوں لیکن ابھی اس مالی خطبہ کے کئی حصے باقی ہیں جو میں انشاء اللہ اگلے خطبہ یا خطبات میں بیان کروں گا.انشاء الله.(الفضل 4 دسمبر 1951ء) 1 : البقرة: 21 2 گھماؤں: آٹھ کنال یا دو بیگہ زمین (فیروز اللغات اردو جامع فیروز سنز لاہور ) 3 : سُنَّةَ اللهِ الَّتِي قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلُ وَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّةِ اللَّهِ تَبْدِيلًا (الفتح : 24) 4 : الحجرات : 18 5 : سیرت ابن ہشام جلد 2 صفحہ 85،84 مطبوعہ مصر 1936ء 6 ، 7 سیرت ابن ہشام جلد 2 صفحہ 267.مطبوعہ مصر 1936ء 8 : تفسیر روح البیان.سورة البقرة - آيت 54 - وَاِذْ قَالَ مُوْسٰى لِقَوْمِهِ يُقَوْمِ إِنَّكُمْ ظَلَمْتُمُ الخ و : إِنَّ اللهَ اشْتَرى مِنَ الْمُؤْمِنِينَ أَنْفُسَهُمْ وَاَمْوَالَهُمْ بِأَنَّ لَهُمُ الْجَنَّةَ " (التوبة: 111) 10 : الاعراف : 143
236 $1951 (30) خطبات محمود فرمائی: مومن کی علامت یہ ہوتی ہے کہ وہ ہر وقت قربانی کے مواقع کی تلاش میں رہتا ہے فرموده 7 دسمبر 1951ء بمقام ربوہ ) تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور نے سورۃ الاحزاب کی درج ذیل آیات کی تلاوت لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللهِ أَسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِمَنْ كَانَ يَرْجُوا الله وَالْيَوْمَ الْآخِرَ وَذَكَرَ اللهَ كَثِيرًا وَلَمَّا رَاَ الْمُؤْمِنُونَ الْاَحْزَابَ قَالُوا هذَا مَا وَعَدَنَا اللهُ وَرَسُولُهُ وَصَدَقَ اللهُ وَرَسُولُهُ وَمَا زَادَهُمْ إِلَّا اِيْمَانًا وَتَسْلِيمًا مِنَ الْمُؤْمِنِينَ رِجَالٌ صَدَقُوا مَا عَاهَدُوا اللهَ عَلَيْهِ * فَمِنْهُمْ مَّنْ قَضَى نَحْبَهُ وَمِنْهُمْ مَنْ يَنْتَظِرُ وَمَا بَدَّلُوا تَبْدِيلان ليَجْزِى الله الصّدِقِيْنَ بِصِدْقِهِمْ وَيُعَذِّبَ الْمُنْفِقِينَ إِنْ شَاءَ أَوْ يَتُوبَ عَلَيْهِمْ إنَّ اللَّهَ كَانَ غَفُورًا رَّ حِيْمَانَ 1 پھر فرمایا: ”میں نے پچھلے خطبہ جمعہ میں ایک آیت سورۃ بقرہ کی پڑھی تھی لیکن اُس کے
$1951 237 خطبات محمود مضمون کو بیان کرنے کا مجھے موقع نہیں مل سکا تھا.پچھلے جمعہ تحریک جدید کے اٹھارہویں سال کی تحریک کا اعلان کرتے ہوئے میں نے بتایا تھا کہ جماعت کے کئی افراد کے دلوں میں اس تحریک کے متعلق شبہات پیدا ہوئے ہیں اور بعض نے مجھے لکھا بھی ہے کہ یہ تحریک پہلے تین سال کے لیے جاری کی گئی تھی ، پھر اسے دس سال تک بڑھایا گیا ، پھر دس سے انیس سال تک بڑھا دیا گیا اور اب آپ کے بعض اشارات سے پتا لگتا ہے کہ اس تحریک کی میعاد اور بڑھنے والی ہے.میں نے بتایا تھا کہ اس کے دو پہلو ہیں.اس کا ایک پہلو واقعاتی لحاظ سے ہے اور ایک پہلو سنت اللہ کے لحاظ سے ہے.یعنی ہم دو طرح سے کسی چیز کو بُرا کہ سکتے ہیں.یا تو وہ چیز واقعات کے خلاف ہوتی ہے اور یا سنت اللہ کے خلاف ہوتی ہے.میں نے بتایا تھا کہ سنت اللہ میں یہ بات بھی پائی جاتی ہے کہ خدا تعالیٰ بعض دفعہ کسی چیز کی تھوڑی سی حقیقت ظاہر کر کے لوگوں کو اس طرف لاتا ہے اور جب اُن کا ذوق ترقی کر جاتا ہے، اُن کا شوق بڑھ جاتا ہے اور وہ اپنے اندر قربانی میں بشاشت محسوس کرنے لگتے ہیں تو وہ حقیقت پر سے پردہ اٹھا دیتا ہے.میں نے اس کی دو مثالیں دی تھیں.ایک مثال میں نے جنگِ بدر کی دی تھی کہ صحابہ کو مدینہ سے یہ کہ کر نکالا گیا تھا کہ تمہارا مقابلہ یا تو شام سے آنے والے تجارتی قافلہ سے ہو گا اور یا مکہ سے آنے والے کفار کے لشکر سے ہو گا.لیکن جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بدر کے مقام کے قریب پہنچے تو آپ نے فرمایا ہماری مکہ سے آنے والے لشکر سے لڑائی ہوگی.آب بولو! تمہاری کیا رائے ہے؟ میں نے بتایا تھا کہ اُس وقت صحابہ کرام خصوصاً انصار نے کہا کہ ہمارے ساتھ معاہدے اُس وقت تک تھے جب تک ہم پر حقیقت نہیں کھلی تھی.اب ہم پر حقیقت کھل گئی ہے اب جہاں بھی ہمیں جھونکے ہم تیار ہیں.2 لیکن یہاں تو کوئی معاہدہ نہیں صرف ایک اعلان تھا جو میں نے کیا.دوسری مثال میں نے یہ دی تھی کہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے حضرت موسی علیہ السلام سے تمہیں راتوں کا وعدہ کیا تھا.پھر اُسے چالیس کر دیا گیا.3 اس پر آریوں اور عیسائیوں نے اعتراضات کیے ہیں کہ اسلام کا خدا نَعُوذُ بِاللهِ جھوٹا ہو گیا.اُس نے موسی علیہ السلام سے تمہیں راتوں کا وعدہ کیا تھا پھر اُسے چالیس کر دیا.ہم اس کا یہی جواب دیتے آئے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کا اپنے انعامات کو زیادہ کرنا وعدہ خلافی نہیں.حضرت موسی علیہ السلام کو میں راتوں کی بجائے چالیس راتیں ہیے
$1951 238 خطبات محمود عبادت کرنے کا موقع ملنا اور خدا تعالیٰ کے کلام کا لمبا ہو جانا اُن کے لئے زیادہ عزت کی بات تھی اور یہ ایک انعام تھا جو خدا تعالیٰ نے اُن پر کیا اور انعام میں زیادتی وعدہ خلافی نہیں ہوتی.میں نے اُس دن بتایا تھا کہ خدا تعالیٰ کے رستہ میں قربانیاں کرنا مومن کے لیے ایک اعزاز ہوتا ہے.خدا تعالیٰ اسے اپنے انعامات کا وارث بناتا ہے اور اس میں زیادتی کرنا وعدہ خلافی نہیں ہوتا.لیکن سنت اللہ یہ ہے کہ وہ کمزوریوں کا خیال رکھتا ہے اور وہ یکدم حقیقت نہیں کھولتا.جوں جوں لوگوں کے ذوق و شوق میں ترقی ہوتی جاتی ہے توں توں وہ حقیقت کھولتا جاتا ہے.جب میں نے تحریک جدید کا اجرا کیا تھا اس وقت مجھ پر بھی حقیقت نہیں کھلی تھی.میں نے تین سال کا اعلان کیا پھر تم پر بھی حقیقت نہیں کھلی.اس لیے جن لوگوں کے اندر بشاشت پائی جاتی تھی وہ تو تین سال کی قربانی کے لیے تیار ہو گئے اور باقی پیچھے رہ گئے.پھر اس تحریک کو تین سال سے دس سال تک بڑھا دیا گیا تو جن میں بشاشت پائی جاتی تھی وہ قربانی کے لیے تیار ہو گئے اور باقی پیچھے رہ گئے.پھر اس تحریک کو انیس سال کے لیے بڑھا دیا گیا تو ایک حصہ جماعت کا قربانی کے لیے تیار ہو گیا اور باقی حصہ پیچھے رہ گیا.حقیقت یہ ہے کہ مجھ پر بھی یہ راز اُس وقت نہیں کھلا تھا اس لیے میں نے ایک محدود عرصہ کے لیے جماعت سے قربانی کا مطالبہ کیا.یہ تحریک تبلیغ اسلام کے لیے جاری کی گئی تھی.اب کیا کوئی ہے جو کہے کہ تبلیغ اسلام صرف تین سال کے لیے ہونی چاہیے یا تبلیغ اسلام صرف دس سال کے لیے ہونی چاہیے یا تبلیغ اسلام صرف انیس سال کے لیے ہونی چاہیے؟ قرآن کریم میں خدا تعالیٰ کے متعلق آ.ہے کہ وَمَكَرُوا وَمَكَرَ اللهُ وَاللهُ خَيْرُ الْمُكرِيْنَ.4 اگر میں اُس وقت یہ اعلان کرتا کہ تم دائگی قربانی کے لیے تیار ہو جاؤ تو آپ لوگوں کو پتا ہے وہ وقت ایسا تھا جب صدرانجمن احمد یہ دیوالیہ ہو رہی تھی اور سلسلہ نہایت تنگی کی حالت میں سے گزر رہا تھا.بعض محکمے توڑے جا رہے تھے اور کارکنوں کی تنخواہیں کم کی جا رہی تھیں.اُس وقت میں نے تجویز کیا کہ جماعت تین سال کے لیے خاص رنگ میں مالی قربانی کرے.یہ عجیب لطیفہ ہے کہ اکثر لوگوں نے اُس وقت اس تحریک کو صرف ایک سال کے لیے ہی سمجھا تھا اور جب میں نے خطبہ جمعہ دیکھا تو واقع میں اس میں بہت سے الفاظ ایسے تھے جن سے ایک سال ہی نکلتا تھا.گو ایسے الفاظ بھی تھے جن سے زیادہ عرصہ نکلتا تھا.اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ لوگوں نے خیال کر لیا
$1951 239 خطبات محمود کہ اگر ایک سال یا دو سال یا تین سال کی قربانی سے احمدیت کی حفاظت ہوتی ہے اور ہماری مخالفت کا زور کم ہوتا ہے تو آؤ ہم پورا زور لگا کر قربانی کریں.دوسرا نتیجہ اس کا یہ ہوا کہ صدر انجمن احمدیہ کے چندے بھی باقاعدہ ہو گئے.مجھے یاد ہے کہ اُس وقت ناظروں نے مجھ سے پروٹیسٹ کیا تھا کہ صدر انجمن احمد یہ مالی لحاظ سے تباہی کے گڑھے پر کھڑی ہے.اس وقت مالی قربانی کی ایک نئی تحریک کر کے آپ نے اسے تباہی کے اور قریب کر دیا ہے.مگر میں نے انہیں یہی جواب دیا تھا کہ میری اس تحریک کے نتیجہ میں صدر انجمن احمدیہ کے باقی چندے بھی باقاعدہ ہو جائیں گے.چنانچہ پھر ان کے چندوں نے بھی بڑھنا شروع کیا اور یہ تحریک بھی اوپر چڑھتی گئی اور صدرانجمن احمدیہ کا اُس وقت پانچ ، چھ لاکھ روپیہ بجٹ تھا اور اب بارہ لاکھ روپیہ سالانہ کا بجٹ ہے.حقیقت یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کے تمام کام اپنے اندر ویوز (Waves) اور لہروں کا سارنگ رکھتے ہیں اور ان سب میں ایک تدریجی ارتقاء پایا جاتا ہے.ایٹم بم کو ہی لے لو وہ بھی اسی تھیوری کے ماتحت ہے.اسی طرح دریاؤں اور سمندروں کو دیکھ لو شروع شروع میں جب دریا نکلتا ہے تو وہ ایک چھوٹی سی نالی ہوتی ہے.اُسے دیکھ کر انسان و ہم بھی نہیں کر سکتا کہ یہ چھوٹی سی نالی دریا بننے والی ہے.میں نے دریائے جہلم کا ابتدائی حصہ بھی دیکھا ہے، دریائے راوی کا ابتدائی حصہ بھی دیکھا ہے اور دریائے بیاس کا ابتدائی حصہ بھی دیکھا ہے.دریائے جہلم کا تو بالکل ابتدائی حصہ دیکھا ہے.وہ اتنا چھوٹا ہے کہ ہم اُسے تیز قدم سے گود جایا کرتے تھے.یہ مقام کشمیر میں واقع ہے اور اسے ویری ناگ کہتے ہیں.وہ جگہ صرف اتنی چوڑی ہے کہ انسان لمبا قدم مار کر یا ذرا اُچھل کر اسے گود جاتا ہے.اور اگر کوئی لمبا آدمی ہو تو شاید بغیر اچھلے ہی اسے گو دجائے.راوی کے دہانے پر ہم نہیں پہنچے لیکن جو جگہ ہم نے دیکھی ہے وہ ایسی ہے کہ انسان بانس کے ساتھ اُسے پار کر لیتا ہے.بیاس کا پاٹ بھی میں نے دیکھا ہے.بیاس کا بالکل ابتدائی حصہ تو نہیں دیکھا لیکن جو جگہ دیکھی ہے وہ کوئی چار پانچ گز چوڑی ہو گی.اگر ہم اوپر جاتے تو شاید وہ مقام بھی ایسا ہی ہوتا کہ ہم پھلانگنے سے پار ہو جاتے.سندھ کا ابتدائی حصہ بھی میں نے دیکھا ہے وہ اتنا چوڑا تھا جتنی ایک چھوٹی نہر ہوتی ہے.گویا چار دریاؤں کے پاٹ میں نے دیکھے ہیں لیکن میں نے ان میں سے کوئی دریا بھی ایسا نہیں دیکھا جو شروع سے ہی دریا کی شکل میں نکلتا ہو.سارے دریا شروع میں نالیوں کی شکل میں ہوتے ہیں اور پھر آہستہ آہستہ
$1951 240 خطبات محمود بڑھتے جاتے ہیں.گویا ان کے مختلف مدارج ہوتے ہیں.پہاڑوں میں بھی مدارج ہوتے ہیں.بچپن میں ہم سمجھتے تھے کہ یکدم کوئی جگہ اتنی اونچی آجاتی ہے کہ وہ آسمان سے باتیں کر رہی ہوتی ہے.لیکن جب پہلی دفعہ میں شملہ گیا تو پتا بھی نہیں لگتا تھا کہ یہ کوئی پہاڑ ہے.ایک چھوٹا سا ٹیلہ نظر آتا تھا.جب گاڑی اُس پر چڑھ گئی تو ایک اور ٹیلہ نظر آ گیا اور جب گاڑی اُس پر بھی چلی گئی تو ایک اور ٹیلہ نظر آنے لگا.غرض پہاڑوں کا وہ نقشہ جو ہم نے بچپن میں اپنے ذہن میں جمایا ہوا تھا وہ آٹھ ہزارفٹ پر بھی نظر نہیں آتا تھا کیونکہ پہاڑ کے بھی مدارج ہوتے ہیں.جوں جوں ہم اوپر چڑھتے ہیں توں توں جسے ہم پہلے پہاڑی خیال کرتے تھے وہ زمین بن جاتی ہے اور اگلی جگہ پہاڑی معلوم ہوتی ہے.غرض تمام چیزیں تدریج کے ساتھ تعلق رکھتی ہیں.سردی اور گرمی کو دیکھ لو یہ بھی تدریج کے ساتھ آتی ہیں.آہستہ آہستہ سردی یا گرمی زیادہ ہوتی جاتی ہے اور ایک وقت میں آپ یہ محسوس کرتے ہیں کہ اب انتہائی سردی ہے یا انتہائی گرمی ہے.یہی حال دین کا بھی ہے.کوئی شخص یہ خیال بھی نہیں کر سکتا کہ خدا تعالیٰ کی قائم کردہ جماعت غالب آ جائے گی بلکہ غیر تو کیا کمزور ایمان والے خود بھی نہیں سمجھتے کہ وہ کبھی غالب آجائیں گے.اگر وہ سمجھتے کہ وہ ایک دن غالب آجائیں گے تو وہ کمزوری نہ دکھاتے بلکہ مومنوں سے بڑھ کر مضبوط رہتے کیونکہ مومن تو صرف آخرت پر ایمان رکھتے ہیں لیکن یہ لوگ دنیاوی لالچ کی بناء پر کام کرتے ہیں.اگر انہیں انتہائی ترقی نظر آتی تو وہ کمزوری کیوں دکھاتے.پچھلے دنوں جو کچھ پنجاب میں گزرا ہے اگر تین دن قبل بھی یہ بات روشن ہو جاتی کہ سب کچھ سکھ اور ہندو لے لیں گے تو ایک ڈاکو اور چور مسلمان بھی ایسا نہ ہوتا جو اپنا سارے کا سارا مال خدا تعالیٰ کی راہ میں نہ دے دیتا.اسی طرح جس شخص کو پتا ہو کہ اسے عزت، مال اور حکومت ملنے والی ہے اُسے قربانی کے وقت اتنی تکلیف بھی نہ ہو جتنی تکلیف ایک زمیندار کو بیچ ڈالتے وقت ہوتی ہے.بہر حال خدا تعالیٰ نے اپنی ترقی کو تدریجی رکھا ہے تا کہ مومن اور منافق کا فرق ظاہر ہو جائے.سورۃ بقرہ کی یہ آیت که كُلَّمَا أَضَاءَ لَهُمْ مَّشَوْا فِيْهِ وَإِذَا أَظْلَمَ عَلَيْهِمْ قَامُوا 5 اس مضمون کی طرف اشارہ کرتی ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے خدا تعالیٰ کی جماعت کی ایک ہی حالت نہیں رہتی.ایک وقت یوں معلوم ہوتا ہے کہ روشنی ہی تھی روشنی ہے لیکن دوسرے وقت یوں معلوم ہوتا ہے کہ تاریکی ہی تاریکی ہے.فرمایا اسلام اسی طرح
$1951 241 خطبات محمود بڑھتا ہے.کمزور آدمی جب روشنی دیکھتا ہے تو وہ اکڑ کر چلنے لگتا ہے اور جب اندھیرا ہوتا ہے تو کھڑا ہو جاتا ہے لیکن مومن ہر وقت ترقی کرتا چلا جاتا ہے.پس یہ چیز الہی سلسلوں کے ساتھ ہمیشہ سے لگی ہوئی ہے اور اس سے پتا لگتا ہے کہ ہمیشہ مصائب بھی آئیں گے اور ترقیات بھی ہوتی رہیں گی.اور جب یہ معلوم ہو گیا کہ مصائب اور ترقیات اپنے اندر ایک تسلسل کا رنگ رکھتی ہیں تو دو سال یا دس سال کے کوئی معنے ہی نہیں.قرآن کریم بتاتا ہے کہ دین کی گاڑیاں ہمیشہ پھنستی رہیں گی اور نکلتی رہیں گی.اور جب گاڑیاں پھنستی رہیں گی تو لازماً ہمیں قربانیاں بھی ہمیشہ دینی پڑیں گی.ایک پہاڑی پر چڑھنے کے یہ معنی نہیں ہوتے کہ ہم نے دوسری پہاڑی پر نہیں چڑھنا.ہمیں ایک پہاڑی سے دوسری پہاڑی پر چڑھنا ہوگا اور پھر دوسری سے تیسری پہاڑی پر چڑھنا ہوگا.روحانی اور جسمانی پہاڑیوں میں صرف یہ فرق ہے کہ جسمانی پہاڑیاں ختم ہو جاتی ہیں لیکن روحانی پہاڑیاں ختم نہیں ہوتیں.كُلَّمَا أَضَاءَ لَهُمْ مَّشَوْا فِيْه میں خدا تعالیٰ نے یہی بتایا ہے کہ کس طرح الہی سلسلوں کے ساتھ یہ دور چلتے چلے جاتے ہیں.اور جب یہ دور چلتے چلے جائیں گے اور کمزوروں نے بھی ہونا ہے اور مخلصوں اور السابقون الاولون نے بھی ہونا ہے تو قربانیاں بھی ہمیشہ ہی دینی پڑیں گی.پس الہی سنت کے مطابق وعدے تبدیل بھی ہو سکتے ہیں.اور یہ تو ایک اعلان تھا جو ہر وقت تبدیل کیا جاسکتا تھا.پس حیرت کی یہ بات نہیں کہ تین سال سے دس سال کیسے بن گئے یا دس سال سے انیس سال کیسے بن گئے یا انہیں سال سے ہمیشہ کیسے بن گیا.بلکہ حیرت کی بات یہ ہے کہ میرے جیسا آدمی جس کی ساری عمر قرآن کریم کے گہرے مطالعہ میں گزری ہے اُس کے منہ سے تین سال یا دس سال یا انیس سال کیسے نکلے.گویا تین سال، دس سال یا انیس سال کہنا حیرت کی بات ہے ہمیشہ کہنا حیرت کی بات نہیں.میں جب اس چیز کو بیان کرتا ہوں تو اپنے دل میں شرمندگی محسوس کرتا ہوں.اس لیے نہیں کہ میں نے تین سال سے انیس سال کیوں کہہ دیا بلکہ اس لیے کہ میری عقل پر کونسا پردہ پڑ گیا تھا کہ میں نے اسے انیس سال سمجھ لیا.میں نے یہ کیوں سمجھ لیا کہ کوئی وقت ایسا بھی آ سکتا ہے جب مسلمان تربیت اور تبلیغ سے فارغ ہو جائے گا.عام مسلمانوں کا خیال ہے اور پرانی تفسیروں میں بھی یہی آتا ہے کہ جنت میں انسان کام سے فارغ ہو جائے گا اور اُس کی جو خواہش ہوگی وہ پوری ہو جائے گی.اُسے بیویاں ملیں گی ، لونڈیاں ملیں گی ، بادشاہت ملے گی ، جنتی شراب طہور
$1951 242 خطبات محمود پی رہے ہوں گے جس میں شراب کی تمام لذتیں ہوں گی صرف نشہ نہیں ہو گا.حضرت مسیح موعود الصلوۃ والسلام نے اس نقشہ کو بھی اڑا دیا ہے.آپ نے فرمایا ہے کہ جنت میں بھی انسان کو کام کرنا ہی پڑے گا.فرق صرف یہ ہے کہ دنیا میں انسان گر سکتا ہے لیکن جنت میں انسان گرے گا نہیں.جنتی محنت ہے بھی کریں گے ، اعمال بھی بجالائیں گے.فرق صرف اتنا ہے کہ وہ ترقی کرتے جائیں گے، گریں گے نہیں.ان کا خوف جاتا رہے گا اور کچھ نہیں.6 اور جب جنت میں بھی کام کرنا پڑتا ہے تو یہ دنیا تو دار العمل ہے پھر یہاں دس پندرہ سال کام کرنے کے بعد آرام کا خیال بھی کیسے آ سکتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے تو فرمایا ہے انسان کو جنت میں بھی آرام نہیں ملے گا.جولوگ بیکاری کو اچھا خیال کرتے ہیں اُن میں سے کوئی دس دن کے لیے اس کا تجربہ تو کرے.وہ چارپائی پر لیٹا ر ہے، لوگ اُس کے پاؤں دبائیں اور کھانے کو حلوہ ، پلاؤ اور تنجن 7 دیں.ہم دیکھیں گے کہ وہ دس دن کے بعد ہی بھاگ جاتا ہے یا نہیں.بریکاری سے زیادہ تکلیف دہ چیز دنیا میں اور کوئی نہیں.ہمیشہ کا آرام بھی بُرا ہوتا ہے.حضرت خلیفتہ اسیح الاول فرمایا کرتے تھے کہ کوئی امیر لڑکا تھا.اُس کے پاس لاکھوں روپیہ تھا.وہ بیمار تھا.میں اُسے دیکھنے کے لیے گیا.اُس کے مصاحب اُس کے ارد گرد بیٹھے ہوئے تھے.قیمتی کپڑے کے تھان ان کے آگے پڑے ہوئے تھے اور وہ انہیں پھاڑ پھاڑ کر پھینک رہے تھے.میں نے کہا یہ کیا پاگل پن ہے؟ اتنا قیمتی کپڑا ہے اور تم پھاڑ پھاڑ کر پھینک رہے ہو.اُس نے کہا بیکار بیٹھے بیٹھے میری طبیعت گھبرا گئی تھی.ایک دن میں بازار سے گزرا.ایک دکاندار کپڑا پھاڑ رہا تھا.مجھے آواز اچھی لگی اس لیے میں نے یہ شغل اختیار کر لیا ہے.میں کپڑا منگوالیتا ہوں اور اُس کو پھاڑنے سے جو آواز پیدا ہوتی ہے اُس سے لذت اٹھاتا ہوں.آب بظاہر یہ امیری ہے لیکن یہ کتنا بڑا عذاب ہے.ایک بچہ بھی اسے دیکھے گا تو پاگل پن کہے گا.اگر اپنے گھر کو آگ لگانا عذاب نہیں تو پھر قیمتی تھانوں کو پھاڑ نا بھی عذاب نہیں.بات صرف یہ تھی کہ اُس سے بیکار بیٹھا نہیں جاتا تھا اور ہم دیکھتے ہیں کہ امراء میں سے جو لوگ بیکار ہوتے ہیں وہ اپنا سارا وقت شطرنج، گنجفہ 8 اور چوسر 9 کھیلنے میں ضائع کر دیتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ یہ اُن کے زندگی گزارنے کا ذریعہ ہے.بہر حال ہمیں کوئی نہ کوئی کام کرنا پڑے گا خواہ دین کا ہو یا دنیا کا.کیا تم نے
$1951 243 خطبات محمود کوئی گورنمنٹ دیکھی ہے کہ وہ دس بیس سال تک معاملہ یا ٹیکس وصول کرے اور پھر بند کر دے؟ انیس سال تک کسٹم ڈیوٹی لگائے اور پھر بند کر دے تم کہو گے ہم نے ہرگز کوئی ایسی حکومت نہیں دیکھی اور نہ ایسی کوئی حکومت دنیا میں ہو سکتی ہے.پھر یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ خدا تعالیٰ کی راہ میں قربانی کرنا بند ہو جائے.خدا تعالیٰ نے پردہ اِس لیے رکھا تھا تا کمزور بھی ساتھ چل پڑیں.اگر وہ پردہ نہ ڈالتا تو سینکڑوں لوگ محروم ہو جاتے لیکن اب وہ گھٹتے گھسٹتے ساتھ جا رہے ہیں.وہ منہ سے کہیں گے کہ دس سال سے انیس سال کیوں ہو گیا؟ لیکن وہ ساتھ چلتے بھی چلے جائیں گے کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ پتا نہیں اور دس سال زندگی بھی ہے یا نہیں.بہر حال اسی طریق کے اختیار کرنے سے اللہ تعالیٰ نے کمزوروں سے بھی خدمت لے لی ہے.جو آیات میں نے پڑھی ہیں اُن میں خدا تعالیٰ نے مومنوں کی زندگی کا نقشہ کھینچا ہے اور كُلَّمَا أَضَاءَ لَهُمُ مَّشَوْا فِيْهِ میں خدا تعالیٰ نے بتایا تھا کہ کمزور اور منافق لوگ روشنی میں چل پڑتے ہیں لیکن تاریکی میں ٹھہر جاتے ہیں.یعنی کامیابی کے وقت وہ ساتھ چلتے ہیں اور مصائب اور قربانی کے وقت وہ کھڑے ہو جاتے ہیں.لیکن مومن دونوں صورتوں میں چلتا ہے.سورۃ احزاب کی آیات جو میں نے آب پڑھی ہیں ان میں مومنوں کا رنگ بتایا گیا ہے.لیکن سورۃ بقرہ کی آیت كلما أَضَاءَ لَهُمْ میں منافقوں کا رنگ بتایا گیا تھا.مومنوں کے متعلق خدا تعالیٰ فرماتا ہے وَلَمَّا رَاَ الْمُؤْمِنُونَ الْأَحْزَابَ قَالُوا هَذَا مَا وَعَدَنَا اللهُ وَرَسُولُهُ وَصَدَقَ الله وَرَسُولُهُ وَمَا زَادَهُمْ إِلَّا إِيْمَانًا وَتَسْلِيمًا.جب مومنوں نے دشمن کے لشکر دیکھے اور سارے عرب کی فوجوں کو دیکھا کہ وہ مدینہ کے ایک چھوٹے گاؤں پر اُمڈ آئی ہیں تو کہا هذا مَا وَعَدَنَا اللهُ وَرَسُولُهُ وَصَدَقَ اللهُ وَرَسُولَہ.دوسرے لوگ تو دشمن کی فوجیں دیکھ کر گھبرائے کہ پتا نہیں کیا ہو جائے گا.مسلمان فوج گل بارہ سو تھی اور کفار کا لشکر پندرہ ہزار تھا بلکہ مدینہ میں بھی بغاوت ہوگئی تھی.لوگ سمجھتے تھے اب مسلمان ختم ہو جائیں گے لیکن مومنوں نے جب احزاب کو دیکھا تو کہا اللہ اکبر ! اسلام کتنا سچا مذ ہب ہے.اس میں پہلے سے پیشگوئیاں موجود تھیں کہ لوگ مدینہ پر چڑھ آئیں گے اور مسلمانوں پر حملہ آور ہوں گے.بھلا کسی کو خیال بھی آسکتا تھا کہ سارے عرب کے قبائل مدینہ پر حملہ آور ہوں گے.اس صورت میں یہ کتنی شاندار بات تھی کہ پہلے سے
$1951 244 خطبات محمود بتا دیا گیا کہ سارا عرب مل کر مسلمانوں پر حملہ کرے گا وَ ما زَادَهُمْ إِلَّا إِيمَانًا وَتَسْلِيمًا بجائے اِس کے کہ مومن ڈرتے ، گھبراتے اور کہتے کہ اس قدر قربانیاں کیسے ہوں گی اس حملہ اور تباہی نے اُن کے ایمانوں کو بڑھا دیا.پھر صرف اُن کا ایمان ہی نہیں بڑھا بلکہ اُن کے عمل میں بھی ترقی ہوئی.کیونکہ انہوں نے سمجھا کہ چونکہ خدا تعالیٰ کی ایک عظیم الشان پیشگوئی پوری ہوئی ہے اس لیے اس کے نتیجہ میں جو ثواب ملے گا وہ بھی عظیم الشان ہو گا.نادان سمجھتا ہے کہ ترقی کا نشان بڑا نشان ہوتا ہے لیکن مومن کہتا ہے کہ ترقی کا نشان ہی بڑا نشان نہیں بلکہ آفات کا نشان بھی بڑا نشان ہے.مثلاً اگر تم دیکھو کہ کسی غریب آدمی کی جیب سے ایک کروڑ روپیہ نکلا ہے تو تم حیران ہو گے لیکن ایک بچہ جو لکڑی کے سہارے سے چل رہا ہوتا ہے وہ اگر کہے کہ ایک دن روس اور امریکہ کی فوجیں اُس پر حملہ کریں گی تو کیا یہ کوئی کم نشان ہے.اس بچہ کے متعلق تو کوئی خیال بھی نہیں کر سکتا کہ اس پر کوئی دس برس کا بچہ بھی حملہ کرے گا.کسی کو یہ وہم بھی نہیں ہو سکتا کہ اُس پر ایک آدمی حملہ کر سکتا ہے.کسی کو یہ خیال بھی نہیں آسکتا کہ اُس پر دس آدمی یا ایک گاؤں کے آدمی حملہ آور ہو سکتے ہیں.گجا یہ کہ وہ کہے کہ مجھ پر دنیا کی بڑی بڑی طاقتیں حملہ کریں گی.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جن کی مکہ میں یہ حالت تھی کہ آپ نماز پڑھتے تھے تو کفار اوجھڑی آپ کے سر پر رکھ دیتے تھے وہ آپ کو مارتے تھے ، پیٹتے تھے، آپ پر کوڑا کرکٹ پھینکتے تھے اور آپ کے خلاف گند اُچھالتے تھے.آپ کے متعلق یہ خیال کر لینا کہ ایک دن آپ کی شان اتنی بڑھ جائے گی کہ سارا عرب مل کر آپ پر حملہ آور ہو جائے گا اور آپ کے خلاف یہودی اور مشرکین متحد ہو جائیں گے.یہ کسی کے بس کی بات نہیں تھی.سارے عرب قبائل کا اکٹھا ہو جانا اور یہود کا اُن کے ساتھ مل جانا اور آپ پر حملہ آور ہونا کوئی کم نشان نہیں.بیشک فتح مکہ ایک عظیم نشان تھا لیکن جنگ احزاب بھی اس سے کوئی کم بڑا نشان نہیں.قرآن کریم میں فتح مکہ کا اتنا زور دار ذکر نہیں آیا جتناز ور دار ذکر جنگ احزاب کا ہے اور یہ ات عظیم الشان نشان ہے کہ انسان حیران رہ جاتا ہے.ایک بیکس و بے بس انسان جس کا ہمسایہ بھی سمجھتا ہے کہ وہ اُسے مارسکتا ہے.وہ اُسے وطن سے باہر نکال سکتا ہے ، لوگ اُسے حقیر سمجھتے ہیں، مارتے ہیں، پیٹتے ہیں، نماز پڑھتے ہوئے اُس پر جانوروں کی اوجھڑیاں پھینک دیتے ہیں.وہ کہتا ہے کہ ایک دن سب عرب قبائل مل کر مجھ پر حملہ کریں گے لیکن وہ شکست کھا ئیں گے.اور پھر واقع میں سب قبائل مل کر
$1951 245 خطبات محمود اس پر حملہ آور ہوتے ہیں.اور جیسا کہ اُس نے پہلے بتایا ہوتا ہے انہیں اس کے مقابلہ میں شکست نصیب ہوتی ہے.گویا اس کی پیشگوئی کے دونوں حصے پورے ہوتے ہیں.قبائل حملہ آور بھی ہوتے ہیں اور پھر انہیں شکست بھی ہوتی ہے.مومن کہتا ہے کہ یہ عذاب کی بات نہیں بلکہ دشمن کا ایک ایک آدمی جو اس جنگ میں شریک ہوا ہے وہ خدا تعالیٰ کا عظیم الشان نشان ہے کیونکہ کوئی شخص یہ نہیں کہہ سکتا تھا کہ اس طرح مشرق، مغرب، شمال اور جنوب کے قبائل اکٹھے ہو کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر حملہ آور ہوں گے اور آپ کے خلاف یہود اور مشرکین آپس میں معاہدہ کر لیں گے.اسی لیے خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ جب مومنوں نے دیکھا کہ سب قبائل اکٹھے ہو کر مدینہ پر حملہ آور ہوئے ہیں تو انہوں نے کہا هَذَا مَا وَعَدَنَا اللهُ وَرَسُولُهُ وَصَدَقَ اللهُ وَرَسُولُهُ وَمَا زَادَهُمْ إِلَّا اِيْمَانًا وَتَسْلِيمًا.اللہ اللہ! یہ کتنا بڑا معجزہ ہے.دوسرے لوگ کہتے ہیں اتنا بڑا دشمن حملہ آور ہوا ہے پتا نہیں کیا ہوگا لیکن مومن کہتا ہے اللہ اکبر ! یہ کتنا بڑا معجزہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے ہمیں پہلے سے بتا دیا تھا کہ اسی کمزور انسان پر جسے ہم نے نبی مقرر فرمایا ہے ایک وقت میں عرب لوگ گھبرا کر اور سب اکٹھے ہو کر حملہ کریں گے اور عرب اس کے مقابلہ کے لیے اپنی ساری شوکت کو جمع کرنے پر مجبور ہوگا.اصل مضمون کے ساتھ تو ان آیات کا اتنا ہی تعلق تھا لیکن جب اگلی آیت سامنے آ جاتی ہے تو گد گدیاں سی ہونے لگتی ہیں اور اُسے بغیر کچھ بیان کیے چھوڑا نہیں جا سکتا.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے مِنَ الْمُؤْمِنِينَ رِجَالٌ صَدَقُوْا مَا عَاهَدُوا اللهَ عَلَيْهِ فَمِنْهُمْ مَّنْ قَضَى نَحْبَهُ وَمِنْهُمْ مَّنْ يَنْتَظِرُ وَمَا بَدَّلُوا تَبْدِيلًا.اس آیت میں مومن کے ایمان کا معراج بتایا گیا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے مومنوں میں سے بعض لوگ ایسے بھی ہیں کہ صَدَقُوا مَا عَاهَدُوا الله عَلَيْهِ - خدا تعالیٰ سے جو وعدہ انہوں نے کیا تھا اُسے انہوں نے پورا کر دیا ہے.خدا تعالیٰ اگر اپنا وعدہ پورا کرتا ہے تو یہ اُس کے لیے آسان امر ہوتا ہے.وہ آقا ہے، مالک ہے.لیکن بندہ تو کمزور اور ضعیف ہے.وہ اگر خدا تعالیٰ سے وعدہ کرے اور پھر اُسے پورا کرے تو یہ بڑی شان کی بات ہے.ނ فرمایا بعض لوگ تو ایسے ہیں فَمِنْهُمْ مَّنْ قَضَى نَحْبَہ کہ جو وعدہ انہوں نے خدا تعالیٰ.کیا تھا وہ انہوں نے لفظاً لفظاً پورا کر دیا یعنی کچھ تو ایسے ہیں جنہوں نے اپنی جان کی بھینٹ چڑھا کر اپنے وعدہ کو پورا کر دیا.وَمِنْهُمْ مَّنْ يَنْتَظِرُ اور کچھ ایسے ہیں کہ وہ اس لیے کہ انہیں
$1951 246 خطبات محمود قربانی کا موقع نہیں ملا.اس انتظار میں ہیں کہ کوئی موقع آئے تو وہ قربانی کریں وَمَا بَدَّلُوا تَبْدِيلًا.وقت آنے سے پہلے کسی کا یہ کہنا کہ اگر وقت آیا تو میں یہ کروں گا وہ کروں گا.کہنے والے کی کمزوری کی علامت ہوتی ہے اسے فخر و تعلی کہتے ہیں.یعنی پہلے تو یہ کہنا کہ وقت آئے گا تو میں یہ کروں گالیکن وقت آنے پر بھاگ جانا.پس گو بظاہر یہ کمزوری ہوتی ہے کہ یہ کہا جائے کہ ہمیں بھی موقع ملے تو تمہیں قربانی کر کے دکھا ئیں.یہ الفاظ بالعموم وہی کہتا ہے جو کمزور ہوتا ہے اور وقت آنے پر اپنے عہد کو نبھا نہیں سکتا لیکن وَمَا بَدَّلُوا تَبْدِيلًا.یہ لوگ تھے جنہوں نے فخر کیا اور پھر اسے پورا کر دیا.اس میں کوئی تبدیلی نہیں کی.یہی وہ آیت ہے جو جنگ بدر اور جنگ اُحد کو ملاتی ہے.جس طرح دو گاڑیوں کے درمیان ایک زنجیر ہوتی ہے جو انہیں آپس میں ملاتی ہے.اسی طرح یہ آیت ایک زنجیر ہے جو جنگ اُحد می اور جنگ بدر کو آپس میں ملا دیتی ہے.جنگ بدر کے لیے جب آپ نکلے تو چونکہ اللہ تعالیٰ کے منشاء کے ماتحت آپ نے یہ اعلان نہیں کیا تھا کہ کفار مکہ کے ساتھ ضرور لڑائی ہونے والی ہے بلکہ صرف اتنا کہا کہ شاید شام سے آنے والے تجارتی قافلہ کے ساتھ مقابلہ ہو جائے.اس لیے کچھ لوگ تو آپ کے ساتھ چل پڑے لیکن باقی لوگ مدینہ میں ہی رہے.وہ سمجھتے تھے کہ شام سے آنے والے قافلہ کے ساتھ لڑائی ہونی ہے اور اس کے لیے تھوڑے سے آدمیوں کی ہی ضرورت ہو گی لیکن جنگ مکہ سے ابو جہل کی قیادت میں آنے والے لشکر سے ہو گئی اور اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو فتح دی.کوئی شخص یہ خیال بھی نہیں کر سکتا تھا کہ عرب کے بااثر اور رعب رکھنے والے لوگ اور پھر ایک تجربہ کارلشکر مسلمانوں سے شکست کھا جائے گالیکن لڑائی ہوئی اور اس میں بڑے بڑے دشمن مارے گئے.دشمن شکست کھا کر واپس لوٹا اور مسلمان مال غنیمت لے کر مدینہ واپس آئے.جو لوگ اس جنگ میں شریک ہوئے تھے اُن کے اندر بڑائی کا احساس پایا جاتا تھا کہ خدا تعالیٰ نے انہیں ثواب کا موقع دیا.وہ جہاں بیٹھتے تھے کہتے تھے ہم نے یوں کیا ، ہم نے ؤوں کیا، کوئی کہتا تھا میں نے عتبہ پر یوں حملہ کیا تھا اور کوئی کہتا تھا میں نے شیبہ پر یوں ہلہ بولا تھا.دوسرے مسلمان کہتے تھے تمہیں بیشک ثواب کا موقع ملا ہے لیکن افسوس کہ ہمیں پہلے پتا نہ تھا ور نہ ہم بھی اس موقع پر پیچھے نہ رہتے.
خطبات محمود 247 $1951 جب مدینہ میں اس قسم کی باتیں ہوتیں تو اُس وقت ایک انصاری جوش سے کھڑے ہو جاتے اور کہتے بس بس تم نے کیا کیا ؟ اگر ہمیں موقع ملا تو ہم دکھائیں گے کہ کس طرح ہم خدا تعالیٰ کی راہ میں جان کی قربانی پیش کرتے ہیں.10 یہ ایک کھیل سا بن گیا تھا کہ جوں ہی کوئی بدری صحابی فخر کرتے تو وہ کہہ دیتے بس بس تم نے کیا کیا ہے؟ ہمیں موقع ملا تو تمہیں قربانی کر کے دکھا ئیں گے.جب اُحد کی جنگ ہوئی اور مسلمانوں کو فتح نصیب ہوئی تو یہ صحابی پیچھے آگئے.انہوں نے کھایا کچھ نہیں تھا.غریب آدمی تھے دس بارہ کھجوریں پاس تھیں وہ ٹہلتے جاتے تھے کہ اتنے میں وہ واقعہ پیش آ گیا کہ جس نے فاتح لشکر کو شکست خوردہ بنا دیا.اُحد کے پہاڑ کے ایک درہ میں جو صحابی بٹھائے گئے تھے اور جنہیں حکم تھا کہ خواہ کچھ ہو وہ وہاں سے نہ ہٹیں انہوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کے خلاف وہ جگہ چھوڑ دی.وہ یہ سمجھ کر کہ کفار کو شکست ہو گئی ہے ہم یہیں بیٹھے رہے ہیں اور جہاد میں حصہ نہیں لیا درہ چھوڑ کر نیچے آگئے.جب کفار کا لشکر بھاگا جارہا تھا تو خالد بن ولید جو اُس وقت ابھی کافر تھے اُن کی نظر اس درہ پر پڑی اور انہوں نے دیکھا کہ مسلمانوں پر دوبارہ حملہ کرنے کا یہ بہترین موقع ہے درہ خالی ہے.چنانچہ انہوں نے عمرو بن العاص کو ساتھ ملایا اور کہا یہ موقع ہے اسے ضائع نہیں کرنا چاہیے.چنانچہ انہوں نے اس درہ میں سے مسلمانوں پر پیچھے سے حملہ کر دیا.نتیجہ یہ ہوا کہ مسلمان جو مال غنیمت اکٹھا کر رہے تھے یکدم انہوں نے دیکھا کہ اُن کے درمیان دشمن کی فوج آگئی ہے مسلمانوں کی تعداد ایک ہزار تھی اور دشمن تین ہزار کی تعداد میں تھا.پھر مسلمان بکھرے ہوئے تھے اور وہ اکٹھے اور تازہ دم ہو کر آئے تھے.اس لیے یکدم حملہ کی وجہ سے مسلمانوں کے قدم اُکھڑ گئے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس صرف بارہ تیرہ آدمی رہ گئے اور پھر وہ بھی زخمی ہوئے اور گر نے شروع ہوئے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی اس جنگ میں شدید زخم آئے اور آپ بیہوش ہو کر گر گئے.اور جو لوگ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت کر رہے تھے اُن کے جسم رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر گر گئے اور آپ نیچے دب گئے.11 جب آپ پر دوسرے لوگوں کے جسم گرے اور آپ نے کوئی حرکت نہ کی تو مسلمانوں نے سمجھا کہ آپ شہید ہو گئے ہیں.آپ کے گرد جو لوگ تھے اُن میں سے جو بچے ان میں حضرت عمرؓ بھی تھے.انہیں یہ یقین ہو گیا تھا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم شہید ہو گئے ہیں.وہ میدان سے پیچھے ہٹے اور ایک پتھر پر بیٹھ کر رونے لگے.پاس ہی مذکورہ بالا انصاری صحابی ٹہل رہے تھے.انہوں نے حضرت عمرؓ کو روتے دیکھا تو آپ کے
$1951 248 خطبات محمود پاس آئے اور کہا عمر ! خدا تعالیٰ نے اسلام کو فتح عطا کی ہے اور تم رور ہے ہو؟ حضرت عمر نے کہا تم شاید فتح کے وقت پیچھے آگئے تھے.انہوں نے کہا ہاں! حضرت عمرؓ نے کہا تمہیں معلوم نہیں کہ اس کے بعد کیا ہے ہوا.دشمن نے دوبارہ اچانک حملہ کیا جس سے مسلمانوں کے قدم اکھڑ گئے.صرف چند آدمی رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس رہ گئے تھے.ان میں سے بھی بعض مارے گئے اور آپ کی خود بھی شہید ہو گئے.اُس صحابی کے ہاتھ میں صرف کھجور رہ گئی تھی.انہوں نے اُس کھجور کو پھینکتے ہوئے کہا کہ میرے اور جنت کے درمیان اس کھجور کے سوا اور ہے کیا ؟ پھر انہوں نے حضرت عمرؓ کی طرف دوبارہ دیکھا اور کہا عمر ! اگر ایسا ہی ہوا تھا تو تمہارا مقام محبوب کے پاس جانے کا تھا یا دنیا میں رہنے کا ؟ اُس صحابی نے یہ کہا اور کفار کے لشکر میں گھس گئے.مسلمانوں کا لشکر اُس وقت پراگندہ ہو چکا تھا اور وہ اکیلے تھے.یہ تو صحیح ہے کہ انہوں نے مارا جانا تھا اور وہ مارے بھی گئے لیکن دیکھنے والی بات یہ ہے کہ وہ مارے کس طرح گئے؟ جب مسلمان لشکر دوبارہ اکٹھا ہو گیا اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر سے لاشوں کو ہٹایا گیا تو معلوم ہوا کہ آپ زندہ ہیں.آپ کو جب ہوش آیا اور خدا تعالیٰ نے اسلام کو دوبارہ فتح دی تو آپ نے حکم دیا کہ شہداء کی لاشیں جمع کی جائیں.اور نعشیں تو مل گئیں لیکن اس صحابی کی نعش نہ ملی.صحابہ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ يَا رَسُوْلَ اللہ ! باقی سب لاشیں مل گئی ہیں لیکن فلاں صحابی کی لاش نہیں ملی.آپ نے فرمایا دوبارہ تلاش کرو.چنانچہ صحابہ پھر گئے اور اس دفعہ اُن کی بہن کو بھی اپنے ساتھ لے گئے کہ شاید وہ بہت زیادہ کٹ گئے ہوں تو کسی نشان کے ذریعہ انہیں پہچان لیا جائے.ایک جگہ پر اُن کی انگلی پائی گئی جسے اُن کی بہن نے پہچان لیا اور کہا یہ میرے بھائی کی انگلی ہے.مزید تلاش کرنے پر مختلف جگہوں سے اُن کی لاش کے ستر ٹکڑے ملے.12- گویا انہوں نے اتنی بے جگری سے لڑائی کی کہ مارنے والے مارتے چلے گئے ، اُن کا پُرزہ پرزہ کہتا گیا لیکن اُن کی تلوار چلتی رہی.مرنے والا مر گیا لیکن کس شان سے مرا.لوگ کہتے ہیں وہ دنیا ستر آخرت.لیکن اس مخلص کے تو اس دنیا میں ہی ٹکڑے ہو گئے اور وہ ثابت کر گیا کہ اپنی زندگی میں وہ جو کہا کرتا تھا وہ محض فخر نہیں تھا، تعلّی نہیں تھی بلکہ وہ ایک سچائی تھی.یہاں تک کہ عرش سے خدا تعالیٰ نے کہا فَمِنْهُم مَّنْ قَضَى نَحْبَهُ وَمِنْهُم مَّنْ يَنتَظِرُ - یعنی بیشک بدر کے موقع پر بعض صحابہ نے نہایت اعلیٰ نمونہ دکھایا لیکن کچھ صحابہ ایسے بھی تھے جو اس انتظار میں تھے کہ انہیں موقع ملے تو وہ جان تک قربان کر دیں.بظاہر معلوم ہوتا تھا کہ یہ کمزوری کی علامت ہے لیکن وَمَا بَدَّلُوا تَبْدِيلًا.
$1951 249 خطبات محمود انہوں نے جو کچھ کہا تھا اُسے پورا بھی کر دکھایا.پس مومن کی علامت تو یہ ہوا کرتی ہے کہ وہ ہر وقت قربانی کے مواقع کی تلاش میں رہتا ہے.جیسے چڑیاں دانے کی تلاش میں رہتی ہیں اسی طرح مومن قربانی کے راستوں کی تلاش میں رہتا ہے.وہ رستے تلاش کرنے سے گھبرا تا نہیں بلکہ رستہ مٹ جاتا ہے تو گھبراتا ہے.خالد بن ولید سے مسلمانوں کا بچہ بچہ واقف ہے.وہ جب فوت ہونے لگے تو اُن کے ایک دوست اُن کے پاس گئے.وہ رور ہے تھے.آپ کے اس دوست نے کہا خالد ! مرنا تو سب نے ہے پھر تم رو کیوں رہے ہو ؟ خالد نے کہا تم بھی میری طبیعت کو نہیں سمجھے.میں اس وجہ سے نہیں روتا کہ میں موت سے ڈرتا ہوں بلکہ میں اس وجہ سے روتا ہوں کہ میں نے شہادت کا کوئی موقع ہاتھ سے کی جانے نہیں دیا لیکن مجھے شہادت نصیب نہ ہوئی اور میں بستر پر مر رہا ہوں.میری ٹانگوں سے کپڑا اٹھاؤ اور دیکھو کہ کیا کوئی ایسی جگہ ہے جہاں تلوار کا زخم نہیں ؟ انہوں نے ٹانگوں پر سے کپڑا اٹھایا اور رانوں تک لے گئے اور کہا خالد ! یہاں کوئی ایسی جگہ نظر نہیں آتی جہاں تلوار کا زخم نہ ہو.پھر انہوں نے اپنا سینہ دکھایا، باز و دکھائے، پیٹھ دکھائی لیکن وہاں بھی کوئی ایسی جگہ نہ تھی جہاں تلوار کا زخم نہ ہو.خالد کہنے لگے کیا اب تم سمجھ سکتے ہو کہ میں نے کوئی ایسا موقع جانے دیا ہے کہ جب دشمن کا وار اپنے اوپر نہ لیا ہو؟ میں خطر ناک سے خطرناک جگہ پر گیا تا کسی طرح شہادت نصیب ہو، میرے جسم کی ہر جگہ اس بات کی گواہی دے رہی ہے کہ مجھے شہادت کا انتہائی شوق تھا لیکن پھر بھی میں بستر پر کر رہا ہوں.پتا نہیں میری وہ کونسی شامت اعمال تھی جس نے مجھے اس سے محروم رکھا.13 دیکھو! یہ اُس شخص کی حالت ہے جو مسلمانوں میں نمونہ کے طور پر سمجھا جاتا ہے.جس کے حالات زندگی پڑھ کر مسلمان نوجوانوں کا خون جوش مارنے لگ جاتا ہے.وہ اتنی قربانی کے بعد رورہا ہے کہ اسے شہادت کا موقع نہیں ملا.پھر تم دس اور انیس سال کا سوال کر کیسے سکتے ہو؟ یہ تو زندگی اور ان موت کا سوال ہے.یہ کام انسان کی زندگی سے شروع ہوتا ہے اور اس کی موت پر ختم ہوتا ہے.تم اچھی طرح سمجھ لو کہ یہ تعجب کی بات نہیں کہ ”دس“ سے ”19 “ کیسے ہو گئے اور پھر 19 “ سے ” ہمیشہ“ کیسے ہو گیا.بلکہ تعجب کی یہ بات ہے کہ میرے جیسا آدمی جس نے قرآن کریم کا گہرا مطالعہ کیا ہے اُس کی زبان دس یا انہیں کہتے ہوئے کانپ کیوں نہ گئی.اس نے یہ کیوں سمجھ لیا کہ تبلیغ اسلام دس یا انیس سال کا کام ہے؟ تم اچھی طرح سمجھ لو کہ یہ تعجب کی بات نہیں کہ دس یا انیس سال کے لیے قربانی کرنے کو کیوں
$1951 250 خطبات محمود 66 کہا گیا بلکہ تعجب کی یہ بات ہے کہ جب میں نے دس یا انہیں کہا تو تم بولے کیوں نہیں کہ آپ کیا کہہ رہے ہیں؟ اُدھر آپ یہ کہتے ہیں کہ نماز ہمیشہ کے لیے ہے، خدا تعالیٰ کی راہ میں قربانی کرنا ہمیشہ کے لیے ہے لیکن ادھر آپ کہتے ہیں کہ تم دس یا انیس سال کے لیے قربانی کرو.حیرت کی یہ بات نہیں ہے کہ تحریک جدید کو انیس سال کی بجائے موت تک کیوں وسیع کر دیا گیا ہے بلکہ حیرت کی یہ بات ہے کہ میرے جیسے جرنیل اور تمہارے جیسے سپاہیوں کی موجودگی میں یہ بات کہی گئی ہے لیکن نہ میں بولا اور نہ تم بولے.پس یہ کوئی عجوبہ نہیں کہ تین کی بجائے دس کیوں کہا گیا یا دس کی بجائے انہیں اور انیس کی بجائے نی اب موت تک اسے کیوں بڑھا دیا گیا.مومن قربانی کرتے چلے جاتے ہیں.وہ جب مریں گے یہ کہتے ہوئے مریں گے کہ کاش! ہمیں فلاں قربانی کرنے کا بھی موقع مل جاتا“.1 : الاحزاب : 22 تا 25 2 : سیرت ابن ہشام جلد 2 صفحہ 267 - مطبع مصر 1936ء (الفضل 14 دسمبر 1951ء) 3: وَاعَدْنَا مُوسى ثَلْثِينَ لَيْلَةً وَاَتْمَمْنُهَا بِعَشْرِ (الاعراف: 143) 4 : آل عمران : 55 5 : البقرة: 21 6 : اسلامی اصول کی فلاسفی، روحانی خزائن جلد نمبر 10 صفحہ 413 کمپیوٹرائز ڈایڈیشن 2008ء 7 متنجن ایک قسم کا میٹھا پلاؤ جس میں لیموں کی ترشی بھی ڈالی جاتی ہے.( فیروز اللغات اردو جامع فیروز سنز لاہور ) 8 : گنجفہ: ایک کھیل جس میں 96 گول پتے ہوتے ہیں اور تین کھلاڑی.9 : چوسر کھیل چار گوشہ.بساط جس پر گوٹیں رکھی جاتی ہیں.(فیروز اللغات اردو جامع فیروز سنز لا ہور) :10 : صحیح بخاری کتاب المغازى باب غزوة أحدٍ :11: سیرت ابن ہشام جلد 3 صفحہ 85 تا 88 - مطبع مصر 1936 ( مفہوماً) 12 : سیرت ابن ہشام جلد 3 صفحہ 88 مطبع مصر 1936ء 13 : اسد الغابة جلد 2 صفحہ 100 " خالد بن ولید بن المغيرة“.بیروت لبنان 2001ء
$1951 251 31 خطبات محمود تحریک جدید کے چندے اور اس کی وصولی کو زیادہ منظم اور با قاعدہ کرو جلسه سالانه پر خدمت کے لیے مقامی اور بیرونی احباب زیادہ سے زیادہ تعداد میں اپنے آپ کو پیش کریں (فرموده 14 دسمبر 1951ء بمقام ربوہ ) تشہد ، تعوّ ذاورسورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: چونکہ ہمارا جلسہ سالانہ قریب آ رہا ہے اور اس کے متعلق بھی میں نے بعض باتیں کہنی ہیں ، اسی طرح تحریک جدید کے اعلان کے بارے میں بھی بعض باتیں کہنے والی ہیں اس لیے میں آج اختصار کے ساتھ دونوں امور کے متعلق کچھ بیان کر دیتا ہوں.تحریک جدید کا اعلان میں کر چکا ہوں اور اس وقت تک جماعت کی طرف سے جو جواب آئے ہیں اُن سے معلوم ہوتا ہے کہ جماعت نے اپنی ذمہ داری کو اچھی طرح سمجھا ہے اور وہ پوری توجہ کے ساتھ اپنے وعدے بھجوا رہی ہے.چنانچہ تحریک جدید دور دوم کے وعدے اس وقت تک جو آ چکے ہیں گو وہ ضرورت کے مطابق تو نہیں لیکن بہر حال گزشتہ سال کی نسبت یعنی پچھلے سال اس وقت تک
$1951 252 خطبات محمود جتنے وعدے وصول ہوئے تھے اُن سے اِس سال کے وعدے دو گنے ہیں.اس کے لازما یہ معنے نہیں کہ جب وعدوں کی میعاد ختم ہو جائے گی تو اس سال کے وعدے گزشتہ سال کے وعدوں سے دو گنے ہو جائیں گے لیکن اس سے یہ ضرور ثابت ہوتا ہے کہ جماعت اپنے وعدے بھجوانے میں پچھلے سال سے زیادہ مستعدی اور بیداری سے کام لے رہی ہے.دور اول کے وعدوں کا مجھے صحیح اندازہ نہیں لیکن میں سمجھتا ہوں کہ وہ بھی ڈیوڑھے کے قریب ہیں.گو جتنے وعدے پورے وقت کے بعد ہو جاتے ہیں اُن سے وہ ابھی بہت کم ہیں.یعنی صرف پانچویں حصہ کے برابر ہیں.لیکن گزشتہ سال اس وقت تک جتنے وعدے آئے تھے اُن سے تحریک جدید دور اول کے وعدے ڈیوڑھے اور دور دوم کے وعدے دُگنے کے قریب آچکے ہیں.اِس سے اُمید پیدا ہوتی ہے کہ اِنشَاءَ الله وعدوں کی تاریخ کے اختتام پر پچھلے سالوں سے زیادہ ہی وعدے ہوں گے اور جس سُرعت کے ساتھ جماعت نے اپنے وعدے بھجوانے میں کام لیا ہے اس کو مد نظر رکھتے ہوئے ہمیں اُمید کرنی چاہیے کہ وہ ان وعدوں کو پورا کرنے میں بھی جلدی کرے گی اور کسی قسم کی غفلت اور تساہل سے کام نہیں لے گی.میں نے بتایا ہے کہ اس سال تحریک جدید کا بجٹ قریباً پچاس ہزار روپیہ تک پیچھے ہے بلکہ پچاس ہزار بھی نہیں اسی نوے ہزار روپیہ کے قریب اس پر بار ہے یعنی اس وقت تک جو رقوم ادا کی گئی ہیں وہ ساری کی ساری اس سال کے چندے میں سے ادا نہیں کی گئیں بلکہ پچاس ہزار روپیہ قرض لیا گیا.ہے اور ابھی پانچ مہینے اخراجات کے باقی ہیں.جنوری، فروری مارچ اپریل اور مئی.ہمارا مالی سال اپریل میں ختم ہوتا ہے مگر مئی کے شروع میں جو اخراجات دیئے جاتے ہیں وہ چونکہ اپریل کے ہوتے ہیں اس لیے گزشتہ سال کی آمد میں سے دیئے جاتے ہیں.فروری کے بل مارچ میں ادا ہوتے ہیں، مارچ کے پل اپریل میں ادا ہوتے ہیں اور اپریل کے بل مئی میں ادا ہوتے ہیں اور پھر مئی کے پل جو جون میں ادا ہوتے ہیں وہ در حقیقت نئے مالی سال کے پہلے مہینہ کی آمد میں سے ادا کیے جاتے ہیں.اس لحاظ سے اب جنوری میں جو بل ادا ہوں گے وہ اصل میں دسمبر کے ہوں گے اور اس وقت تک صرف نومبر کے بل ادا ہوئے ہیں اور وہ بھی پچاس ہزار روپیہ قرض لے کر.گویامئی، جون ، جولائی، اگست ستمبر، اکتو بر اور نومبر صرف سات ماہ کا خرچ ہم اپنی آمد سے ادا کر سکے ہیں اور وہ بھی اس صورت میں ادا کر سکے ہیں جبکہ پچاس ہزار روپیہ دوسری جگہوں سے قرض لیا گیا ہے.اب قریباً چار مہینے کی آمد
$1951 253 خطبات محمود باقی ہے اور پانچ مہینے کا خرچ باقی ہے.لیکن جو آمد باقی ہے اگر احباب اُس کے ادا کرنے سے اس لیے غفلت نہ برتیں کہ اب نیا سال شروع ہو گیا ہے اور جو گزشتہ بقائے پندرھویں اور سولھویں سال کے ہیں یا دور دوم کے پانچویں اور چھٹے سال کے ہیں وہ بھی احباب ادا کر دیں تو اُمید کی جاتی ہے کہ اس سال کا خرچ نکل جائے گا لیکن پچاس ہزار روپیہ کا بار پھر بھی رہے گا.ہاں! اگر گزشتہ سالوں کے سارے بقائے ادا کرنے کی جماعت کو توفیق مل جائے تو یہ پچاس ہزار کا بار اور پچھلے سال کا اٹھارہ ہزار کا بار گویاستر ہزار کے قریب تحریک جدید پر جو بار ہے وہ سب کا سب دور ہو جائے گا.یہ لازمی بات ہے کہ اگر ہم اپنی زندگی کو قائم رکھنا چاہتے ہیں تو ہمیں ہر سال اپنے کام کو بڑھانا پڑے گا اور اگر ہر سال ہم اپنے کام کو بڑھانا چاہتے ہیں تو ہمیں خرچ بھی ہر سال زیادہ کرنا پڑے گا.اس میں کوئی مبہ نہیں کہ چندے کے علاوہ بھی بعض اور ذرائع ہوتے ہیں جن سے آمد پیدا کی جاتی ہے لیکن ہمارے کارکنوں کو ابھی ویسی مشق نہیں اس لیے ابھی وہ ان ذرائع کو اختیار نہیں کر سکے یہ نستی کر جاتے ہیں یا اختیار کرتے ہیں تو ناکام رہ جاتے ہیں.حالانکہ انہی ذرائع سے دوسری قومیں اور افراد اپنی مالی حالت کو درست کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں.یہ کوتاہی جو ہم میں ہے اور جو در حقیقت سارے ہی مسلمانوں میں ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ چار پانچ سوسال سے حکومت، تجارت اور صنعت و حرفت وغیرہ مسلمانوں کے ہاتھوں سے نکلتی چلی گئی ہیں اور اب غیر قو میں اس میدان میں بہت آگے نکل گئی ہیں لیکن بہر حال اپنی سستی اور عدم تو تجمی کے نتیجہ میں مسلمانوں نے جو حالات پیدا کیسے ہیں اب وہ بہت بڑی جدو جہد سے ہی دور ہو سکتے ہیں.صرف ارادہ اور معمولی کوشش سے دور نہیں ہو سکتے.لیکن یہ چیز وقت چاہتی ہے اور پھر عزم چاہتی ہے.جب تک تحریک جدید کے کارکنوں میں یہ عزم پیدا نہ ہو جائے اور جب تک ان میں سے ایک طبقہ کو صحیح جدو جہد کے کرنے کی توفیق نہ مل جائے اُس وقت تک کامل انحصار بہر حال چندہ پر ہی رکھنا پڑے گا.کچھ کچھ جماعت میں تجارتی ذہنیت آرہی ہے لیکن ابھی وہ اس حد تک نہیں آئی کہ ہم اسے اپنی آمد کا ایک بڑا منبع سمجھ لیں.وہ ایک چھوٹا سا منبع تو ہو گیا ہے لیکن اگر صحیح جدوجہد کی جائے اور پوری توجہ سے کام کیا جائے تو یقیناً تجارت اور زراعت وغیرہ سلسلہ کی آمد اور افراد سلسلہ کی آمد کا بہت بڑا ذریعہ بن سکتے ہیں.لیکن جب تک وہ نہیں بنتے جماعت سے یہی کہنا پڑے گا کہ اپنی ذمہ داریوں کو ادا کرو.جو وعدے گزشتہ سالوں کے.ہمیں
$1951 254 خطبات محمود ابھی تک تم نے پورے نہیں کیسے اُن کو جس طرح بھی ہو سکے پورا کرو اور آئندہ کے لیے اپنے وعدوں کو سال بہ سال ادا کرنے کی کوشش کرو.میں پہلے بتا چکا ہوں کہ اس سال تحریک جدید پر اس قدر مالی بوجھ آ پڑا ہے کہ دور دوم کی آمد جور یز رو فنڈ کے طور پر ہمیں محفوظ رکھنی چاہیے تھی وہ اس سال ریز رو فنڈ میں نہیں جاسکی بلکہ ساری کی ساری خرچ ہو گئی ہے.مگر باوجود دونوں سالوں کی آمد کے خرچ ہو جانے کے پچاس ہزار روپیہ قرض لیا گیا ہے بلکہ دونوں دوروں کے قرض کو ملا کر یہ رقم اسی ہزار کے قریب بن جاتی ہے.اس میں کوئی محبہ نہیں کہ ابھی بہت سے بقائے وصول ہونے باقی ہیں لیکن پانچ ماہ کے اخراجات بھی باقی ہیں.اس کے معنیٰ یہ ہیں کہ اگر بقائے ادا ہوں جائیں اور ہم اس سے پانچ ماہ کے اخراجات تنگی سے گزارہ کر کے پورے بھی کر لیں تب بھی پچاس ہزار روپیہ قرض باقی رہے گا.پس دوستوں کو اپنے بقائے جلد سے جلد ادا کرنے کی طرف توجہ کرنی چاہیے.میں دیکھتا ہوں کہ جب بھی نئے سال کی تحریک ہوتی ہے بعض دوست یہ سمجھنے لگ جاتے ہیں کہ اب نئی تحریک شروع ہوگئی ہے اور پرانی ختم ہو گئی ہے.وہ یہ نہیں سمجھتے کہ وعدہ پورا کرنے میں دیر کرنا انسان کو اُس وعدہ سے آزاد نہیں کر دیتا بلکہ اسے زیادہ مجرم بنادیتا ہے مگر بعض لوگوں کی یہ ذہنیت ہوگئی ہے کہ وہ نئے سال کی تحریک پر پچھلے سال کی تحریک کے وعدوں کو بھی بھول جاتے ہیں.مثلاً پچھلے سال اگر انہوں نے پچاس کا وعدہ کیا تھا اور وہ وعدہ ابھی انہوں نے پورا نہیں کیا تھا تو نئے سال کی تحریک ہونے پر وہ فوراً پچھتر کا وعدہ کر دیں گے اور یہ وعدہ کرتے وقت اُن کا دل اتنا خوش ہوتا ہے کہ وہ اسی خوشی میں گزشتہ سال کے وعدہ کو بالکل بھول جاتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ پچھلا سال تو گیا اس سال ہم پچھتر روپے ادا کر دیں گے.پھر پچھتر بھی ادا نہیں کرتے اور اُس سے اگلا سال شروع ہو جاتا ہے.اس پر وہ پھر سور و پیہ کا وعدہ کر دیتے ہیں اور کہتے ہیں اَلحَمدُ لِلهِ خدا تعالیٰ نے ہمیں پچھلے سال سے بڑھ کر چندہ لکھوانے کی توفیق عطا فرمائی اور یہ کبھی خیال نہیں آتا کہ وہ پچھلے پچاس اور چھپتر بھی ادا کریں.اس قسم کی ذہنیت والے آدمی ہی ہیں جو در حقیقت کام کو نقصان پہنچانے والے ہوتے ہیں.لیکن جو لوگ وعدے کرتے ہیں اور پھر ان وعدوں کو پورا کرنے کی کوشش کرتے ہیں وہ خدا تعالیٰ کے حضور بھی سرخرو ہوتے ہیں اور دین کے کام میں بھی مددگار بنتے ہیں.پس ایسے افراد کو بھی
$1951 255 خطبات محمود میں توجہ دلاتا ہوں کہ وہ اپنی ذمہ داری کو سمجھیں.اور چونکہ جماعتوں پر اس قسم کے افراد کی ذمہ داری ہوتی ہے اور جب تک کسی جماعت میں نقص واقع نہ ہو اُس وقت تک اُس کے افراد میں یہ ذہنیت پیدا نہیں ہو سکتی.اس لیے میں جماعتوں کو بھی توجہ دلاتا ہوں کہ وہ اپنے بقایا داروں کو اُن کے فرائض کی طرف توجہ دلائیں ، انہیں نصیحت کریں اور سمجھا ئیں.اور یاد رکھیں کہ احمدی ہونا آسان نہیں.جو شخص احمدی ہوتا ہے وہ یہ سمجھ کر ہوتا ہے کہ مجھے مخالفتیں بھی برداشت کرنی پڑیں گی، تکلیفیں بھی سہنی پڑیں گی اور قربانیاں بھی کرنی پڑیں گی.پس وہ ایمان کی وجہ سے احمدیت میں داخل ہوتا ہے اور ایمان دار کو اُس کی غفلت پر متنبہ کر دینا بالکل آسان ہوتا ہے.اگر اس میں سستی پائی جاتی ہے یا غفلت پائی جاتی ہے اور ایمان اس کے دل میں موجود ہے تو توجہ دلانے پر وہ فوراً اپنی اصلاح کرلے گا اور کام میں جو حرج واقع ہورہا ہوگا وہ دور ہو جائے گا.اس کے بعد میں جماعت کو اس امر کی طرف توجہ دلاتا ہوں کہ وعدے تو آ رہے ہیں اور إِنْشَاءَ اللہ آئیں گے مگر جیسا کہ میں نے بتایا ہے اب کام بڑھ رہا ہے اور وہ جو تحریک جدید کی آمد سے جائداد پیدا کرنے کی کوشش کی گئی تھی اُس میں سے بھی سات آٹھ لاکھ روپیہا ابھی قرض باقی ہے.دوست چونکہ بھول جاتے ہیں اس لیے انہیں بار بار بتانا پڑتا ہے.واقعہ یہ ہے کہ تحریک جدید کے لیے ریز رو فنڈ قائم کرنے کی خاطر سندھ میں دس ہزا را یکر یعنی چار سو مربع زمین خریدی گئی ہے.اس زمین کی قیمت جو ادا کی گئی ہے وہ مختلف زمانوں میں مختلف ہوتی رہی ہے.چونکہ ہم یکدم قیمت نہیں دے سکتے تھے اس لیے ہمیں تاخیری قیمت دینی پڑی تھی جو اصل قیمت سے زیادہ تھی.جیسے مشینوں کی فروخت کے متعلق دستور ہوتا ہے کہ اگر نقد قیمت ادا کی جائے تو مثلاً سور و پیہ دینا پڑتا ہے اور اگر قسطوں میں ادا کی جائے تو سوا سو دینا پڑتا ہے.ہم نے بھی اس زمین کی قسط وار قیمت ادا کی ہے.بعض جگہ سوا دو سو روپیہ فی ایکڑ ، بعض جگہ اڑھائی سو روپیہ فی ایکڑ ، بعض جگہ تین سو روپیہ فی ایکڑ اور بعض جگہ تین سو ساٹھ روپیہ فی ایکڑ.اس طرح ہماری اوسط قیمت فی ایکڑ اڑھائی سو روپیہ کے قریب پڑی ہے اور یہ سارا سودا چھپیس لاکھ روپیہ کا ہے.بلکہ ہمارا اندازہ یہ ہے کہ میں لاکھ کے قریب کا یہ سودا ہے لیکن چندوں کے ذریعہ اس کی جو رقم ادا ہوئی ہے وہ کوئی دس بارہ لاکھ کے قریب ہے اور آٹھ لاکھ کے قریب قرضہ لے کر ادا کی گئی ہے جس میں خلافت جو بلی فنڈ کا بھی روپیہ ہے.اُس وقت یہ سمجھ کر کہ یہ کام
$1951 256 خطبات محمود ضروری ہے میں نے خلافت جو بلی فنڈ سے روپیہ نکالنے کی اجازت دے دی تھی.جب تحریک یہ روپیہ واپس کرے گی تو پھر خلافت جو بلی فنڈ قائم ہو جائے گا.بہر حال اکیس لاکھ کے قریب تو یہ ہوا اور سات آٹھ لاکھ روپیہ وہ ہے جو ان زمینوں کی آمد سے ادا ہوا.اس وقت اس زمین کی اوسط قیمت تین سو روپیہ فی ایکڑ مجھنی چاہیے.یہاں تو فی ایکڑ ایک ہزار روپیہ سے دو ہزار روپیہ تک بھی قیمت ہے بلکہ اس سے بھی زیادہ قیمت مل جاتی ہے.اگر وہاں بھی کسی وقت یہی قیمت ہو جائے تو ایک ہزار روپیہ فی ایکڑ کے لحاظ سے ایک کروڑ اور دو ہزار روپیہ فی ایکڑ کے لحاظ سے دو کروڑ روپیہ کی وہ جائداد بن جاتی ہے اور اس طرح تحریک جدیدکا دو کروڑ روپیہ کاریز رو فنڈ قائم ہو جاتا ہے.لیکن سر دست ہم اس کا صیح انتظام نہیں چلا سکے.بعض سالوں میں ہمیں قرض لے کر کام کرنا پڑا ہے.اس سال بھی پچیس ہزار روپیہ ای قرض لیا گیا ہے لیکن بعض سالوں میں آمد بھی ہوئی ہے جیسا کہ میں نے بتایا ہے کہ چھ سات لاکھ روپیہ کی اس کی آمد میں سے خرچ کیا گیا ہے.بہر حال اگر یہ زمین صحیح طور پر آمد دینے لگ جائے اور قرض ادا ہونے کے بعد اس سے ایک ریز رو فنڈ قائم ہو جائے تو خطرہ کے موقع پر ہمیں اس طرح اعلان نہ کرنا پڑے جس طرح مجھے گزشتہ سال اخباروں میں بار بار اعلان کرنا پڑا کہ دوستوں کو جلدی اپنے وعدے ادا کرنے چاہیں ورنہ سلسلہ کے کاموں میں تعطل واقع ہو جائے گا.ایسی صورت میں آسانی سے لاکھ دو لاکھ روپیہ وہاں سے لیا جا سکتا ہے اور سلسلہ کے کاموں میں کوئی حرج واقع نہیں ہو سکتا لیکن ابھی وہ وقت نہیں آیا.کامیابی کے آثار نظر آ رہے ہیں اور کام پہلے سے بہتر ہوتا جا رہا ہے لیکن ابھی بہت کچھ اصلاح کی ضرورت ہے.مگر یہی کام کافی نہیں.بڑی چیز یہ ہے کہ جہاں جہاں ہم اپنے مشن قائم کریں وہاں ہمارا اپنا مکان اور اپنی مسجد بھی ہو اس کے بغیر کبھی بھی صحیح طور پر کام نہیں ہوسکتا.اب ایسا ہوتا ہے کہ ہمارے ایک مشنری نے کوئی مکان کرایہ پر لیا ہوا ہوتا ہے مگر کچھ عرصہ کے بعد اسے نوٹس مل جاتا ہے کہ مکان خالی کرو.نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اُس مکان کو روشناس کرنے میں جو وقت اور روپیہ صرف ہو چکا ہوتا ہے وہ سارے کا سارا ضائع چلا جاتا ہے اور پھر وہ مبلغ کسی اور مکان میں چلا جاتا ہے جس کی طرف لوگوں کو کوئی توجہ نہیں ہوتی.تبلیغ کا کام صحیح طور پر بھی چل سکتا ہے جب اپنی جگہ ہو.انگلستان میں اگر چہ دین کی طرف رغبت لوگوں کو کم ہے لیکن چونکہ ہمارا وہاں اپنا مکان ہے اور اپنی مسجد ہے اور دیر سے مشن قائم ہے اس لیے ہمارا وہاں کافی رسوخ ہے ، وزراء تک وہاں آتے ہیں.اور اگر کسی معاملہ میں اُن
$1951 257 خطبات محمود سے پروٹسٹ کیا جائے یا ملاقات کی جائے تو وہ ہمارا ادب بھی کرتے ہیں ، لحاظ بھی کرتے ہیں، جواب بھی دیتے ہیں اور خوش کرنے کی بھی کوشش کرتے ہیں.اس کی وجہ یہی ہے کہ وہاں ہماری دیر سے مسجد موجود ہے اور وہ جانتے ہیں کہ ان لوگوں کا یہاں ڈیرہ قائم ہو چکا ہے لیکن جہاں یہ ڈیرے قائم نہیں وہاں بڑی دقتیں پیش آتی ہیں.پس جہاں جہاں ہم مشن کھولنا چاہتے ہیں ضروری ہے کہ وہاں کم از کم کسی ایک شہر میں جو مرکزی حیثیت رکھتا ہو ہمارا اپنا مکان ہو.لیکن یورپین ملکوں میں ایک ایک مکان کے لیے لاکھوں روپیہ کی ضرورت ہوتی ہے.مثلاً ابھی ہم نے واشنگٹن میں مرکز کے لیے ایک مکان خریدا ہے جس پر بیالیس ہزار ڈالر خرچ آیا ہے.بیالیس ہزار ڈالر کے معنے ہیں ایک لاکھ پینتالیس ہزار روپیہ.اور یہ روپیہ صرف مکان خرید نے پر خرچ ہوا ہے.اگر ہم مسجد بنا ئیں تو قریب ستر ، اسی ہزار روپیہ اور خرچ ہوگا مگر جماعت کے چندہ کی یہ حالت ہے کہ دوستوں میں ڈیڑھ لاکھ روپیہ کی تحریک کی گئی تو آیا صرف چالیس ہزار ، باقی روپیہ ادھر ادھر سے قرض لے کر پورا کیا گیا ہے.بعض قرض دینے والوں سے تو ہم شرمندہ بھی ہیں اور ایک دوست سے صرف چھ ماہ کے وعدے پر قرض لیا گیا تھا مگر وقت گزر گیا اور رو پیدا دا نہ ہو سکا.انہیں بھی ضرورت تھی.آخر انجمن نے مجھے لکھا کہ اگر آپ اجازت دیں تو ہم وہی مکان گرو رکھ کر اُن کا روپیہ ادا کر دیں؟ میں نے کہا کہ بیشک مکان گرو رکھ دو اور اُن کا روپیہ ادا کر دو.اب یہ ہے تو بڑے شرم کی بات کہ جو مکان مسجد کے لیے خریدا گیا تھا اس کو گرو رکھنے کی اجازت دے دی جائے مگر یہ صورتِ حالات اس لیے پیدا ہوئی کہ اتنے اہم کام کی طرف جماعت نے اتنی کم توجہ کی کہ ڈیڑھ لاکھ روپیہ کی تحریک کی گئی اور چندہ چالیس ہزار روپیہ آیا.ہالینڈ کی مسجد کے متعلق عورتوں میں تحریک کی گئی تھی انہوں نے مردوں سے زیادہ قربانی کا ثبوت دیا ہے.گوان کی تحریک بھی چھوٹی تھی.عورت کی آمدن ہمارے ملک میں تو کوئی ہوتی ہی نہیں.اگر اسلامی قانون کو دیکھا جائے تو عورت کی آمد مرد سے آدھی ہی چاہیے کیونکہ شریعت نے عورت کے لیے آدھا حصہ مقرر کیا ہے اور مرد کے لیے پورا حصہ.پس اگر مردوں نے چالیس ہزار روپیہ دیا تھا تو چاہیے تھا کہ عورتیں ہیں ہزار روپیہ دیتیں مگر واقعہ یہ ہے کہ مردوں نے اگر ایک روپیہ چندہ دیا ہے تو عورتوں نے سوا روپے کے قریب دیا ہے.انہوں نے زمین کی قیمت ادا کر دی ہے اور ابھی
$1951 258 خطبات محمود چھ سات ہزار روپیدان کا جمع ہے جس میں اور روپیہ ڈال کر ہالینڈ کی مسجد بنے گی.پھر یہ چندہ انہوں نے ایسے وقت میں دیا ہے جبکہ بجنہ کا دفتر بنانے کے لیے بھی انہوں نے چودہ پندرہ ہزار روپیہ جمع کیا تھا.اس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ جتنا جتنا کسی کے پاس روپیہ کم ہوتا ہے اتنا ہی اُس کا حوصلہ زیادہ ہوتا ہے.مردوں کے پاس چونکہ روپیہ زیادہ ہوتا ہے اس لیے اُن کا حوصلہ کم ہوتا ہے لیکن عورتوں کے پاس چونکہ روپیہ کم ہوتا ہے اس لیے وہ کہتی ہیں کہ روپیہ تو یوں بھی ہمارے پاس ہے نہیں چلو جو کچھ ملتا ہے وہ خدا تعالیٰ کے رستہ میں ہی قربان کر کے اُس کی رضا حاصل کریں.مگر جس کے پاس روپیہ ہوتا ہے وہ کہتا ہے میر افلاں کام بھی پڑا ہے اس کے لیے مجھے دس روپے چاہیں ، فلاں کام پڑا ہے اس کے لیے ہیں روپے چاہیں.غرض ہمارا تجربہ ہمیشہ بتاتا ہے کہ عورت اپنی توفیق اور ہمت سے بہت زیادہ قربانی کرتی ہے اور مرد اپنی توفیق اور ہمت سے کم قربانی کرتا ہے.بیشک ایسے مرد بھی موجود ہیں جو اپنی توفیق اور ہمت سے بہت زیادہ قربانی کرنے والے ہیں لیکن اگر اکثریت کو دیکھا جائے تو عورت کا پلہ بھاری نظر آتا ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بھی جب خاص قربانی کی ضرورت ہوا کرتی تھی تو آپ عورتوں سے ہی اپیل کیا کرتے تھے کیونکہ آپ سمجھتے تھے کہ عورت جذباتی ہوتی ہے.جب قربانی کرنے پر آجائے تو وہ غیر معمولی طور پر قربانی کر جاتی ہے.ایک دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کچھ ضرورت پیش آئی تو آپ نے عید کی نماز کے بعد عورتوں میں تحریک کی اور انہوں نے اپنے زیور اتار کر چندہ میں دینے شروع کر دیئے.یوں تو عورت کوسب سے زیادہ زیور ہی پسند ہوتے ہیں کیونکہ وہی اس کی جائداد ہوتے ہیں لیکن جب اسے جوش آجائے تو پھر وہ اسی زیور کو جو اسے محبوب ہوتا ہے اُتار کر پھینک دیتی ہے.عورتوں نے اسی طرح کیا اور زیور اتار اُتار کر دینے شروع کر دیئے مگر چونکہ اکثر غریب عورتیں تھیں اس لیے ان کے پاس کم قیمت زیور تھے.کسی نے چھکہ دے دیا، کسی نے مر کی دے دی اور کسی نے اسی قسم کی کوئی اور چیز دے دی.ایک صحابی کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے زیور اکٹھا کرنے کا حکم دیا تھا اور وہ جھولی پھیلائے ادھر ادھر پھر رہے تھے اور عورتیں گھونگٹ نکالے بیٹھی تھیں.اتنے میں ایک امیر گھرانے کی لڑکی نے سونے کا کڑا اپنے ہاتھ سے اُتارا اور اُس کی جھولی میں ڈال دیا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جب دیکھا کہ اس نے بڑی بھاری رقم
$1951 259 خطبات محمود خدا تعالیٰ کی راہ میں دی ہے تو آپ نے فرمایا تیرا دوسرا ہاتھ بھی درخواست کرتا ہے کہ تو اسے دوزخ سے بچا.اس پر اُس نے اپنا دوسرا کٹر ابھی اُتار کر دے دیا.1 تو عورتوں میں میں نے دیکھا ہے کہ ان میں قربانی کا مادہ مردوں سے زیادہ ہوتا ہے.کچھ جذباتی ہونے کی وجہ سے اور کچھ یہ خدائی قانون ہے کہ روپیہ جتنا کم ہو اتنی ہی ہمت بڑھی ہوئی ہوتی ہے.اور جتنا زیادہ روپیہ ہو اتنے ہی تفکرات زیادہ ہو جاتے ہیں کہ فلاں کام بھی ہو جائے ، فلاں کام بھی ہو جائے.چونکہ عورت کے پاس روپیہ کم ہوتا ہے اس لیے وہ قربانی میں مردوں سے آگے نکل جاتی ہے.لیکن اس واقعہ کو بدلنا بھی ہمارے اختیار میں ہے.بیشک واقع یہی ہے کہ عورتیں زیادہ قربانی کرتی ہیں لیکن یہ خدا تعالیٰ کا کوئی اٹل فیصلہ نہیں کہ وہی زیادہ قربانی کریں گی مرد زیادہ قربانی نہیں کر سکتے.یہ صرف ایک کمزوری اور ضعف کی علامت ہے جسے کوشش کے ساتھ دُور کیا جا سکتا ہے.اگر عورت اپنی طبعی کمزوری اور فطری ضعف کے باوجود قربانی کے میدان میں آگے نکل جاتی ہے تو مرد کیوں اپنی کمزوری کو دور نہیں کر سکتے ؟ جب مردوں کو جائداد میں سے دُہرا حصہ ملتا ہے تو انہیں ہمت بھی دگی دکھانی چاہیے.خدا تعالیٰ نے انہیں دو روپے دیئے ہیں مگر چندہ دیتے وقت وہ عورت کے مقابلہ میں اٹھنی دیتے ہیں.اس میں کوئی محبہ نہیں کہ مردوں اور عورتوں کے مجموعی چندوں کو اگر دیکھا جائے تو ان مردوں کا چندہ زیادہ ہوتا ہے لیکن نسبتی لحاظ سے چندہ دیتے وقت اگر عورت ایک روپیہ دینے کا حوصلہ رکھتی ہے تو مرد اٹھتی دینا چاہتے ہیں حالانکہ چاہیے یہ تھا کہ مرد اس کے ایک روپیہ کے مقابلہ میں دو بلکہ چار روپے دینے کا حوصلہ رکھتے.بہر حال اس چیز کو بدلنا ہمارے اختیار میں ہے.اگر ہم جدوجہد کریں، خدا تعالیٰ کی طرف توجہ کریں، اُس کے حضور استغفار سے کام لیں اور اُس سے دعا کریں کہ الہی ! تو نے ہمیں طاقت زیادہ دی ہے لیکن ہم میں حوصلہ کم ہے.تو ہماری اس کمزوری اور ضعف اور غفلت کو دور فرما اور جس طرح تو نے ہمیں عورت پر درجہ کے لحاظ سے فضیلت دی ہے اُسی طرح تو ہمیں عورت پر قربانی کے لحاظ سے بھی فضیلت دے.تو یقیناً خدا تعالیٰ ہماری سنے گا اور وہ ہم میں بھی قربانی کی زیادہ روح پیدا کر دے گا.پس یہ کام ایسے ہیں جو بہت سے اخراجات چاہتے ہیں.پھر لٹریچر ہے.دنیا میں پانچ سات ہزار زبان ہے لیکن صرف آٹھ دس زبانوں میں احمدیت کا لٹریچر ہے.عیسائیوں نے قریباً ہر زبان میں
$1951 260 خطبات محمود اپنے لٹریچر کا ترجمہ کر دیا ہے.یہ کام بھی ہم سے بہت بڑے اخراجات کا مطالبہ کرتا ہے.غرض ایک بہت وسیع کام ہے جو ہمارے سامنے ہے.مگر ہمارا سالانہ بجٹ جب ہمارے روزمرہ کے اخراجات کے لیے بھی کافی نہیں ہوسکتا تو ہمارے لیے ضروری ہو جاتا ہے کہ ہم ایک کروڑ روپیہ کا ریز رو فنڈ قائم کریں تا کہ کسی حادثہ اور مصیبت کے وقت اگر خدانخواستہ ہمارے چندے مرکز کی عارضی ضرورت کو پورا نہ کرسکیں تو وہ ریز رو فنڈ کی آمد سے پوری ہو سکے اور سلسلہ کے کاموں کو کوئی نقصان نہ پہنچے.آج سے چالیس یا پچاس سال کے بعد جب ہماری جماعت ترقی کر جائے گی اور بڑے بڑے امراء ہمارے سلسلہ میں داخل ہوں گے تو اُس وقت لوگ جب میرے اس خطبہ کو پڑھیں گے تو وہ حیران ہوں گے کہ ہمارا خلیفہ جو موعود خلیفہ تھا، جو مصلح موعود تھا اتنا چھوٹا حوصلہ رکھتا تھا کہ پہلے س نے تمہیں لاکھ کا ریز رو فنڈ قائم کیا اور پھر اُس نے کہا کہ اب ہمیں ایک کروڑ روپیہ کا ریز رو فنڈ قائم کرنا چاہیے.وہ حیران ہوں گے کہ کیا یہ بھی کوئی روپیہ ہے جس کا اتنے بڑے خلیفہ نے مطالبہ کیا تھا.آکسفورڈ یونیورسٹی نے ایک دفعہ روپیہ کے لیے اعلان کیا تو مسٹر ماریسن 2ے نے فورا پندرہ لاکھ روپیہ کا چندہ پیش کر دیا، راک فیلر 3 را شیلڈ 4 وغیرہ نے چھ چھ ، سات سات کروڑ روپیہ چندہ دیا ہے.پس جب وہ میرے اس خطبہ کو پڑھیں گے تو حیران ہوں گے اور وہ اس تھوڑے سے روپیہ کو ہمارے حوصلہ اور عزم کی کمی پرمحمول کریں گے.حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ ہم جو کچھ کہہ رہے ہیں اپنی جماعت کی موجودہ حالت کے لحاظ سے کہ رہے ہیں ورنہ ہم بھی جانتے ہیں کہ جو عظیم الشان کام ہم نے سرانجام دینا ہے اُس کے لیے کروڑوں ہی نہیں اربوں روپیہ کی ضرورت ہے.لیکن اس وقت ہماری نگاہ میں وہی روپیہ بڑی قیمت رکھتا ہے جو ہماری جماعت اپنی غربت کی حالت میں پیش کر رہی ہے.جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں اُس عورت نے اپنے کپڑے اُتار کر دے دیئے تھے تو اُس وقت یہی سمجھا گیا تھا کہ اس نے بہت بڑی قربانی کی ہے اور حقیقتاً اس کی قربانی بڑی تھی.لیکن وہ کڑے آخر کتنے روپوں کے ہوں گے؟ زیادہ سے زیادہ وہ سات سو یا ہزار روپیہ کے ہوں گے لیکن بعد میں مسلمانوں کے پاس اتنی دولت آئی کہ سات سو یا ہزار اُن کی نگاہ میں کوئی حقیقت ہی نہیں رکھتا تھا.خود ہمارا ملک اگر چہ ایک غریب ملک ہے مگر اس غریب ملک کا ہندو بھی اتنا مالدار تھا کہ ایک دفعہ میں بمبئی گیا تو میں نے چاہا کہ کچھ کپڑا بھی خرید لوں.میں نے دیکھا کہ دکاندار کے سامنے
$1951 261 خطبات محمود ایک گاہک بیٹھا تھا.وہ دکاندار اُس سے لمبی بحث میں لگا ہوا تھا.مجھے طبعا یہ بُرا محسوس ہوا.اُس کی دکاندار نے مجھے ایک سوال کے جواب میں کہا تھا کہ ہمارے ہاں صرف ایک قیمت ہوتی ہے.آپ اپنی مستورات کو سمجھا دیں کہ وہ قیمت کے بارہ میں کوئی تردد نہ کریں.اُس دوسرے شخص نے کی ایک سو دس روپے کا سودا خریدا اور بڑی بحث کے بعد سو روپیہ دے کر چلا گیا.میں نے اُس دکاندار سے ہنس کر کہا کہ آپ تو کہتے تھے ہمارے ہاں ایک ہی قیمت ہوتی ہے.وہ کہنے لگا قیمت تو ایک ہی ہوتی ہے لیکن اگر کوئی شخص میرا مال اُٹھا کر لے جائے اور میں اسے معزز آدمی سمجھ کر چھوڑ دوں تو یہ بالکل اور چیز ہوگی.پھر اُس نے کہا آپ نہیں جانتے یہ فلاں شخص ہے اور یہ اتنا بڑا تاجر ہے کہ بمبئی میں اس کی کئی کپڑے کی ملز ہیں مگر یہ آدھ گھنٹہ مجھ سے یہی بحث کرتا رہا کہ میں کپڑے کی قیمت کم کر دوں.حالانکہ یہ اس آدھ گھنٹہ میں ایک لاکھ روپیہ کما سکتا تھا اور پھر اتنی بحث کے بعد بھی جب میں نے نہ مانا تو ایک سو دس روپیہ کی بجائے سوروپیہ دے کر چلا گیا.پھر اُس نے کہا میں اس شخص کی ماں کو جانتا ہوں وہ ہر روز جب کھانا کھانے کے لیے آتی ہے تو اُس کے سامنے پانچ سو روپیہ کا ڈھیر لگا دیا جاتا ہے اور وہ اپنے پاؤں سے اُس ڈھیر کو چھو دیتی ہے.اس کے بعد وہ تمام روپیہ غریبوں میں تقسیم کر دیا جاتا ہے.گویا اُدھر تو اس کی یہ حالت ہے کہ پانچ سوروپیہ روزانہ یعنی ایک لاکھ اسی ہزار روپیہ سالا نہ صرف اپنی ماں کے پاؤں چھونے کی وجہ سے غریبوں میں تقسیم کر دیتا ہے اور ادھر دس روپیہ کے فائدہ کے لیے اُس نے آپ کا وقت الگ ضائع کیا اور مجھے الگ پریشان کیا اور آخر سور و پیہ دے کر چلا گیا اور وہ بڑا خوش ہے کہ میں نے بڑی کامیابی حاصل کی ہے.اب بتائیے ایسے شخص کا ہم کیا علاج کر سکتے ہیں.غرض ہندوستان جیسے غریب ملک میں جو ایک زمانہ میں انگریزوں کے ماتحت تھا ایسے ایسے لوگ موجود تھے جو صرف اپنی ماں کے پاؤں چھونے کی وجہ سے ایک لاکھ اسی ہزار روپیہ سالانہ غریبوں میں تقسیم کر دیا کرتے تھے اور اس کے علاوہ جو دوسرے مواقع پر وہ صدقہ وخیرات دیتا ہوگا وہ تو کئی لاکھ تک جا پہنچتا ہوگا.یہ تو ہندوستان جیسے غریب ملک کا حال ہے دوسرے ممالک کے امراء تو کروڑوں کروڑ روپیہ خرچ کرتے ہیں.خود مسلمانوں میں ایسے لوگ موجود ہیں جو اگر چاہیں تو دودو، چار چار، پانچ پانچ لاکھ روپیہ آسانی سے دے سکتے ہیں.پس بیشک بعد میں بڑے بڑے امراء آ ئیں گے لیکن یہ زمانہ ہماری کمزوری کا زمانہ -
$1951 262 خطبات محمود اس وقت ہماری جماعت کو کوشش کرنی چاہیے کہ وہ ایک کروڑ روپیہ کا ریز رو فنڈ قائم کر دے.بیشک ایک زمانہ ایسا آئے گا کہ بعض امراء حیران ہوں گے کہ کیا ہماری جماعت اتنی کمزور تھی کہ اتنا بڑا خلیفہ صرف ایک کروڑ روپیہ کو اپنا بڑا مقصد قرار دیتا تھا؟ لیکن ہمارا روپیہ ہمارے دل اور جگر کا خون ہو گا کی اور اُن کا روپیہ اُن کے دل اور جگر کا خون نہیں ہوگا بلکہ وہ نہایت آسانی کے ساتھ اپنی جیب میں.نکال کر دے دیں گے اور انہیں کچھ بھی تکلیف محسوس نہیں ہوگی.پس ہمارے کروڑ اور اُن کے کروڑ میں فرق ہے.مجھے اس موقع پر ایک لطیفہ یاد آ گیا.ایک شخص جو غریب مستری تھا ترقی کرتے کرتے نجنیئر بن گیا اور آخر میں ”خاں صاحب کا خطاب بھی اسے مل گیا.اُس میں خوبی یہ تھی کہ وہ اپنی قوم چھپاتا نہیں تھا اور صاف طور پر کہہ دیتا تھا کہ ہم لوہار ہوا کرتے تھے.اب میں نے سنا ہے کہ وہ اپنی قومیت چھپانے لگ گیا ہے.بہر حال اُس نے سنایا کہ ایک بڑا زمیندار جو اپنے علاقہ کا رئیس تھا اس کی نے ایک دفعہ میری دعوت کی.اُسے بھی گورنمنٹ کی طرف سے خاں صاحب کا خطاب ملا ہوا تھا.مرد تو جانتے ہیں کہ عزت خدا تعالیٰ کی طرف سے ملتی ہے اس پر فخر نہیں کرنا چاہیے مگر عورتوں میں یہ بات نہیں ہوتی.وہ خیال کرتی ہیں کہ جو عزت ہمیں ملی ہے اس میں کوئی دوسرا شریک نہیں ہوسکتا.بہر حال اُس نے بتایا کہ خاں صاحب نے میری دعوت کی.اور کئی لوگوں کو اُس نے بلایا ہوا تھا.جب ہم کھانا کھانے بیٹھے تو وہ کہنے لگا خاں صاحب! آج ہمارے گھر میں لطیفہ ہو گیا.میں نے اپنی بیوی سے کہا ہوا تھا کہ آج فلاں خاں صاحب کی دعوت ہے.جب میں اندر گیا تو میری بیوی مجھے کہنے لگی آپ تو کہتے تھے کہ خاں صاحب کی دعوت ہے اور میں نے سنا ہے کہ یہ جس کی آپ دعوت کر رہے ہیں ہمارے مستریوں کا لڑکا ہے.میں نے کہا ٹھیک ہے وہ مستریوں کا ہی لڑکا ہے.کہنے لگی پھر مستریاں دے منڈے نوں خاں صاحب کس نے بنا دیتا ہے؟ یعنی پھر مستریوں کے لڑکے کو خان صاحب کس نے بنا دیا ہے؟ میں نے کہا گورنمنٹ نے بنا دیا ہے اور کس نے؟ وہ کہنے لگی "گورنمنٹ عجیب پاگل ہے، الے گئیں خاں صاحب نالے اوہ خاں صاحب اس پر میں نے اُسے سمجھانے کے لیے ہنس کر کہا کہ یہ کونسی تعجب کی بات ہے.دیکھو! زمینداروں کا بھی چودھری ہوتا ہے اور چو ہڑوں کا بھی چودھری ہوتا ہے ایہہ مستریاں دا خاں صاحب ہے، میں زمینداراں دا خاں صاحب ہاں یعنی وہ مستریوں کا
خطبات محمود 263 $1951 خاں صاحب ہے اور میں زمینداروں کا خاں صاحب ہوں.اس پر وہ خاموش ہوگئی.تو یہ حالات بہر حال بدلیں گے.ایک جیسی حالت کسی قوم پر ہمیشہ نہیں رہ سکتی.مگر آنے والے امراء کا روپیہ دریا میں سے ایک قطرہ ہوگا اور ہمارا روپیہ وہ ہے جو ہم خونِ دل اور خونِ جگر کے ساتھ جمع کر رہے ہیں.اور قطرہ میں سے دریا کا رنگ رکھتا ہے.پس اُن کا حیران ہونا کہ کسی وقت ہماری جماعت کی مالی حالت اتنی کمزور تھی کہ ایک کروڑ روپیہ جمع کرنا بھی بڑی بات سمجھی جاتی تھی کوئی تعجب کی بات نہیں.مگر اس وقت کے آنے سے پہلے ضروری ہے کہ ہم حسن تدبیر سے اور عقل سے اور قربانی سے کام لیں اور اپنے نفس پر بوجھ ڈال کر چندوں میں ایسی باقاعدگی اختیار کریں کہ ا سالانہ اخراجات کو پورا کرنے کے علاوہ ہم مستقل طور پر ایک کروڑ کاریز رو فنڈ قائم کرسکیں تا کہ مشکل کے وقت اس کی آمد ہمارے کام آئے.جیسے میں نے بتایا ہے ہم نے مسجد کے لیے زمین خریدی تو ایک نی دوست سے قرض لے کر اور اب ہم شرمندہ ہیں کہ قرض واپس نہیں کر سکے.اگر ریز رو فنڈ قائم ہوتا تو ہمیں کوئی مشکل پیش نہ آتی.ہم یہ قرض وہاں سے ادا کر دیتے اور جماعت سے آہستہ آہستہ چندہ وصول کرتے رہتے.پس یہ بھی ایک جائداد ہے جو تحریک جدید کے چندہ سے قائم ہوئی ہے.ابھی وہ ابتدائی حالت میں ہے لیکن اس کو بڑھانے اور مضبوط بنانے کے لیے ضروری ہے کہ تحریک جدید کے چندہ کو زیادہ منظم اور باقاعدہ کیا جائے اور اس کی وصولی کے لیے زور دیا جائے.اس سال کے تحریک جدید کے وعدوں کے لیے میں نے وقت کا اعلان نہیں کیا تھا.اب میں یہ اعلان کرتا ہوں کہ تحریک جدید کے وعدوں کی آخری میعاد مغربی پاکستان والوں کے لیے 15 فروری ہوگی، ایسٹ پاکستان اور ہندوستان سے آنے والے وعدوں کے لیے آخری تاریخ 10 مارچ ہوگی اور پاکستان اور ہندوستان سے جو باہر کے ممالک ہیں مثلاً امریکہ ہے، انگلستان ہے، ایسٹ افریقہ ہے، ویسٹ افریقہ ہے یا اور دوسرے ممالک ہیں اُن سب کے وعدوں کے لیے 10 مئی آخری تاریخ ہو گی.دوسری چیز جلسہ سالانہ ہے.ہمارا جلسہ سالانہ خدا تعالیٰ کے فضل سے اب بالکل قریب آرہ ہے.اس کے لیے ہمیں مکانوں کی بھی ضرورت ہے اور کام کرنے والے افراد کی بھی ضرورت ہے.مکانوں کی مشکلات چونکہ زیادہ ہیں اس لیے ہماری جماعت کے افراد کو یہاں اُس سے زیادہ قربانی کی
$1951 264 خطبات محمود ضرورت ہے جتنی قربانی وہ قادیان میں کیا کرتے تھے.قادیان میں مکان زیادہ تھے اور تھوڑی سی قربانی سے آنے والے مہمانوں کو جگہ مل جاتی تھی مگر اب مکانات ہمارے پاس کم ہیں اور آنے والے مہمانوں کی رہائش کے لیے ابھی زیادہ وقتیں ہیں.پہلے سال تو یہاں صرف خیمے تھے، دوسرے سال کچھ خیموں میں گزارہ کیا گیا اور کچھ بیر کیں بن گئیں، تیسرے سال اور تھوڑے خیمے ہو گئے.اکثر لوگوں کو بیرکوں میں ٹھہرایا گیا.اب بیرکوں کے علاوہ دوسرے مکانات بھی بن گئے ہیں لیکن پھر بھی میں سمجھتا ہوں کہ ابھی بہت بڑی قربانی کر کے ہم مہمانوں کی رہائش کا انتظام کر سکیں گے.اس کے ساتھ ہی ہمیں جلسہ سالانہ کے موقع پر مہمان نوازی کے فرائض سرانجام دینے والے کارکنان کی بھی ضرورت ہے.ان کا کام یہ ہوگا کہ وہ آنے والے مہمانوں کو کھانا کھلائیں اور ان کی مہمان نوازی کریں.ربوہ ابھی پوری طرح آباد نہیں ہوا.قادیان میں پندرہ ہزار کی آبادی تھی اور یہاں صرف اڑھائی، تین ہزار کی آبادی ہے.پس یہ قدرتی بات ہے کہ جس طرح پندرہ ہزار آدمی خدمت کر سکتے تھے اس طرح اڑھائی تین ہزار آدمی خدمت نہیں کر سکتے.پھر قادیان میں ہمیں یہ سہولت تھی کہ اُس وقت کالج ہمارے پاس تھا مگر اب وہ لاہور میں ہے.اسی طرح ہمارا اسکول بھی چنیوٹ میں ہے.بیشک جلسہ کے موقع پر بعض طالب علم آ جاتے ہیں مگر انہیں اتنی سہولت نہیں ہوتی جتنی سہولت ہمیں قادیان میں ہوا کرتی تھی.پس دوستوں کو میں تحریک کرتا ہوں کہ وہ زیادہ سے زیادہ تعداد میں اپنے آپ کو خدمت کے لیے پیش کریں اور باہر کی جماعتوں سے بھی میں خواہش کرتا ہوں کہ وہ بھی اس خدمت کے لیے اپنے آپ کو پیش کریں.وہ میزبان بھی ہوں گے اور مہمان بھی ہوں گے.انہیں گلی طور پر اپنے آپ کو مہمان نہیں سمجھنا چاہیے.وہ یہ سمجھیں کہ وہ آدھے مہمان ہیں اور آدھے میزبان کیونکہ جلسہ سالانہ پر ہمیں بہت زیادہ کام کرنے والے افراد کی ضرورت ہے.پس بیرونی جماعتوں میں سے جو لوگ اپنے اندر طاقت اور ہمت رکھتے ہوں انہیں چاہیے کہ وہ اپنے نام پیش کریں تا کہ جلسہ سالانہ کے موقع پر اُن سے مختلف خدمات لی جاسکیں اور انہیں اللہ تعالیٰ کی رضا اور اُس کی خوشنودی حاصل ہو.اس کے علاوہ جلسہ سالانہ کے موقع پر حفاظت اور نگرانی کا کام بھی بڑا اہم ہوتا ہے اور آجکل کے حالات کے لحاظ سے تو وہ اور بھی اہم ہو گیا ہے.پس میں یہ اعلان کرتا ہوں
$1951 265 خطبات محمود کہ جماعتیں موزوں خدام کا انتخاب کر کے اُن کے نام خدام الاحمدیہ کے دفتر مرکزیہ میں پیش کریں تاکہ یہاں آنے پر اُن کو حفاظت اور نگرانی کے کام پر لگایا جا سکے.مگر یہ شرط ہو گی کہ کوئی احمدی خادم ایسا کی نہ ہو جو پانچ سال کا احمدی نہ ہو یا کسی احمدی کی نسل میں سے نہ ہو اور پھر اس کی سفارش جماعت کا لالی پریذیڈنٹ کرے اور لکھے کہ یہ شخص اعتماد کے قابل ہے اسے حفاظت کے کام پر لگایا جائے.اس غرض کے لیے کم سے کم پانچ سو والنٹیر ز ربوہ کا اور بیرونی جماعتوں کا ہونا چاہیے.میں سمجھتا ہوں کہ اڑھائی سو خدام یہاں سے لیے جاسکتے ہیں اور اڑھائی سو خدام کراچی، راولپنڈی، لاہور، ملتان ، پشاور، سیالکوٹ، شیخو پورہ ، ہنگری، گوجرانوالہ، گجرات اور دوسری جماعتیں پیش کریں.ان خدام کا کام جلسہ گاہ کی حفاظت ، رستوں کی حفاظت اور مہمانوں کی خدمت میں حصہ لینا ہوگا.میں اس موقع پر خدام الاحمدیہ کو بھی تحریک کرتا ہوں کہ وہ اپنے خدام والنٹیئر ز دفتر خدام میں بھجوادیں اور یہاں کے خدام کو چاہیے کہ وہ خود اپنے آپ کو حفاظت اور پہرہ کے لیے پیش کریں.یہ یاد رکھنا چاہیے کہ ان خدام کو ڈبل کام کرنا پڑے گا کیونکہ ان کے سپر د مہمان نوازی کا بھی کام ہوگا اور حفاظت کا بھی کام ہوگا.پس ایسے ہی نوجوان اپنے آپ کو پیش کریں جو ہمت والے ہوں، محنتی اور مستعد ہوں اور جو ان دنوں جلسہ گاہ اور سڑکوں پر پہرہ بھی دیں اور مہمان نوازی کے فرائض بھی سرانجام دیں.تین چار دن انہیں کام کرنا پڑے گا اور یہ کوئی زیادہ عرصہ نہیں.اتنے دن اگر انسان کو چوبیس گھنٹہ بھی جاگنا پڑے تو وہ جاگ سکتا ہے.بہر حال میں سمجھتا ہوں کہ کام کو بہتر طور پر چلانے کے لیے پانچ سو والنٹیرز ضروری ہوں گے.ان میں سے اڑھائی سو خدام یہاں سے لیے جائیں، چنیوٹ کے طالبعلم، تعلیم الاسلام کالج کے طالبعلم، جامعہ احمدیہ احمد نگر کے طالبعلم اور ربوہ کے خدام سب مرکز کے خدام میں شامل ہوں گے.ان میں سے اچھے، قابل اعتبار محنتی اور مستعد نوجوان اڑھائی سو کی تعداد میں مل سکتے ہیں.باقی خدام بیرونی جماعتیں پیش کریں.اگر کوئی چھوٹی جماعت پانچ خدام پیش کر سکتی ہے تو وہ پانچ آدمی پیش کر دے، اگر کوئی دس خدام پیش کر سکتی ہے تو وہ دس پیش کر دے.ان کا کام حفاظت اور نگرانی اور پہرہ کی ڈیوٹی ادا کرنا اور مہمانوں کی خدمت کرنا ہوگا.چونکہ دن بہت تھوڑے رہ گئے ہیں اس لیے خدام الاحمدیہ کے دفتر مرکزیہ کو اس بارہ میں جلد سے جلد اپنا کام شروع کر دینا چاہیے اور باہر کی جماعتوں کو چاہیے کہ وہ فوری طور پر اپنے خدام کی تعداد سے دفتر مرکزیہ کو اطلاع دیں کیونکہ وقت بہت تھوڑا رہ گیا ہے
$1951 266 خطبات محمود مگر آدمی وہی ہوں جو کم سے کم پانچ سالہ احمدی ہوں یا نسلی احمدی ہوں اور جن کے متعلق پریذیڈنٹ، سیکرٹری اور زعیم متینوں اس بات کی تصدیق کریں کہ وہ ہر قسم کی قربانی اور محنت سے کام لیں گے اور کسی قسم کی غفلت ، سستی اور غداری کا ارتکاب نہیں کریں گے.1 : صحيح بخارى كتاب الْعِيدَيْنِ بَابُ الْخُطْبَةِ بَعْدَ الْعِيد ( الفضل 20 دسمبر 1951 ء ) 2 : مسٹر مارین: یہاں غالبا ماریسن سٹینلے کا ذکر ہے.جو مشہور برطانوی سیاستدان تھے.آپ لیبر پارٹی لندن کے سیکرٹری رہے اور 1923ء میں پارلیمنٹ کے ممبر بنے.1929ء سے 1931ء کے دوران وزیر مواصلات رہے.( اردو جامع انسائیکلو پیڈیا) 3 راک فیلر (Rocketeller) ان کا پورا نام John Davidson Rockefeller تھا.یہ 1839 ء کو امریکہ میں پیدا ہوئے اور 1937 ء میں فوت ہوئے.مشہور امریکی صنعت کار اور سرمایہ دار کے طور پر جانے جاتے ہیں.وکی پیڈیا - آزاد دائرہ معارف زیر عنوان John D.Rocketeller) 4 را شیلڈ (Rothshild) روتھ شیلڈ ایک یورپی یہودی خاندان ہے جو نہ صرف یورپ کے مختلف ممالک میں بینکاری کے نظام پر حاوی ہے بلکہ امریکہ کے فیڈرل ریزرو کے بنیادی حصہ داروں میں بھی شامل ہے.اس خاندان کے مشہور لوگوں میں بیرن روتھ شیلڈ شامل ہے جو برطانیہ میں یہودیوں کا نمائندہ تھا اور فلسطین پر یہودی قبضہ کو مستحکم کرنے میں اس کا کردار شامل تھا.وکی پیڈیا آزاد دائرہ معارف زیر عنوان روتھ شیلڈ Rothschild)
$1951 267 (32) خطبات محمود تم اپنے مقام کو پہچانو اور جلسہ سالانہ کے ایام ذکر الہی میں خرچ کرو (فرموده 21 دسمبر 1951ء بمقام ربوہ) تشهد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: مجھے نزلہ وزکام اور گلے میں درد کی شکایت ہے جس کی وجہ سے میں زیادہ لمبا خطبہ نہیں پڑھ سکتا.اس مجبوری کی وجہ سے آج میں صرف چند کلمات بیان کر دینا چاہتا ہوں تا اس طرح گلے کی حفاظت ہو جائے اور میں جلسہ سالانہ کے موقع پر اس قابل ہو جاؤں کہ تقاریر کر سکوں.میں نے جماعت کو بارہا اس طرف توجہ دلائی ہے کہ ہمارے جلسہ سالانہ کے ایام ایک دینی عبادت کا رنگ رکھتے ہیں.اس لیے ان ایام کو زیادہ سے زیادہ ذکر الہی اور عبادت میں صرف کرنا چاہیے.لیکن مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ باوجود اس کے کہ میں جماعت کو سالہا سال سے اس طرف توجہ دلا رہا ہوں اِس پر پوری طرح عمل نہیں ہو رہا.بعض لوگ جلسہ کے دوران میں بازار میں پھرتے رہتے ہیں یاد کانوں پر بیٹھ کر باتیں کرتے رہتے ہیں جس کی وجہ سے وہ جلسہ سالانہ سے پوری طرح فائدہ نہیں اُٹھا سکتے.پہلے پہلے یہ بات اُن لوگوں کی وجہ سے تھی جو غیر احمد یوں میں سے
$1951 268 خطبات محمود جلسہ سالانہ میں شامل ہوتے تھے.وہ جلسہ کے مقام کے قریب جمع ہو کر باتیں کرتے رہتے تھے یا دکانوں پر بیٹھے باتیں کرتے رہتے تھے.خربوزے کو دیکھ کر خربوزہ رنگ پکڑتا ہے.آہستہ آہستہ جماعت کے کمزور طبقہ نے بھی اس عادت کو اختیار کر لیا اور ہر ایک نے اپنی اپنی جگہ یہ سمجھا کہ جو لوگ یہ حرکت کر رہے ہیں وہ اچھے اور مخلص لوگ ہیں حالانکہ وہ غیر احمدی تھے اور جب تک انہیں ہدایت نہیں ملتی ہمارا جلسہ سالانہ اُن کے لیے میلہ کی حیثیت رکھتا ہے.انہوں نے میلہ سمجھ کر یہ بات کی اور جماعت کے کمزور طبقہ نے انہیں مخلص سمجھ کر یہ بات کی.پھر ان سے زیادہ مخلص لوگوں نے انہیں مخلص سمجھ کر یہ بات کی.اب یہ مرض زیادہ ہو گیا ہے اور جلسہ سالانہ پر آنے والوں کا دس یا پندرہ فیصدی حصہ ایسا ہوتا ہے جو جلسہ سالانہ سے فائدہ نہیں اٹھاتا.اس کے ذمہ دار ہمارے دکاندار بھی ہیں جو چند پیسوں کی خاطر اس عظیم الشان موقع کو اپنے ہاتھ سے ضائع کر دیتے ہیں.میں نے دیکھا ہے کہ اگر چہ مکہ میں دین کی حالت بہت خراب ہو چکی ہے لیکن وہاں یہ بات تیرہ سوسال سے محفوظ چلی آئی ہے کہ نمازوں کے وقت سارے کے سارے لوگ نماز کی طرف بھاگ اوی پڑتے ہیں.خانہ کعبہ میں تو سب لوگ نہیں آتے وہ زاویوں 1 میں آ جاتے ہیں.یہ خوبی ان میں ایسی پائی جاتی ہے کہ اُن پر رشک آتا ہے کہ تیرہ سو سال تک انہوں نے عبادت کے مقام کی اہمیت کو نہیں بھلا یا.جو لالچ ہمارے دُکانداروں کو ہے وہی لالچ انہیں بھی ہے، جو فائدے ہمارے دکانداروں کو حاصل ہو سکتے ہیں وہی فائدے انہیں بھی حاصل ہو سکتے ہیں لیکن جو نہی اذانیں ہوتی ہیں لوگ مسجد کی طرف بھاگے آتے ہیں.میں یہ نہیں کہتا کہ اذان سنتے ہی سارے کے سارے لوگ مسجد میں آ جاتے ہیں إِلَّا مَا شَاءَ اللہ.بعض لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جو مسجد میں نہیں آتے لیکن اکثر لوگ جو بظاہر کمزور نظر آتے ہیں اُن کی کمزوری کی بھی کوئی نہ کوئی وجہ ہوتی ہے.میں نے وہاں دیکھا کہ نماز کے وقت ایک دکاندار اپنی دکان کے دروازے بند کر کے اندر بیٹھا رہتا تھا.ہم بھی چونکہ دوسرے امام کے پیچھے نماز نہیں پڑھتے تھے اس لیے ہمیں بھی اُس وقت گریزاں ہونا پڑتا تا کہ خواہ نخواہ جھگڑے کی کوئی صورت پیدا نہ ہو جائے.ہم ادھر اُدھر بیٹھ جاتے اور جب دوسرے لوگ نماز پڑھ لیتے ہم اپنی نماز ادا کر لیتے.ہم نے وہ دکان دیکھی تو خیال کیا یہ اچھا موقع ہے وہاں بیٹھ کر ہم بھی یہ وقت گزار لیں.چنانچہ ہم اُس کے پاس چلے گئے.بظاہر وہ دیندار معلوم ہوتا تھا.ہم نے اُس سے سوال کیا کہ
$1951 269 خطبات محمود ہم تو مجبور ہیں ہم یہاں اس لیے بیٹھے ہیں کہ یہ لوگ نماز ختم کر لیں اور ہم ان کے بعد نماز پڑھ لیں گے لیکن تم یہاں کیوں بیٹھے ہو؟ نماز میں شریک کیوں نہیں ہوتے؟ اُس نے کہا میری بھی وہی وجہ ہے جو آپ کی ہے.میں نام کا مبلی ہوں لیکن اصل میں وہابی.مجھے ان کے پیچھے نماز پڑھنے سے کراہت آتی ہے کیونکہ ان میں شرعی نقائص ہوتے ہیں.چنانچہ میں دروازے بند کر کے بیٹھا رہتا ہوں.جب یہ لوگ نماز ختم کر لیتے ہیں تو میں نماز پڑھ لیتا ہوں.گویا جنہیں ہم کمزور خیال کرتے تھے مزید تحقیقات کی تو معلوم ہوا کہ اُن کی کمزوری بھی کوئی دینی وجہ تھی.گویا اتنے تنزل کے بعد بھی اُس شہر کے لوگوں نے یہ خوبیاں اپنے اندر قائم رکھیں جو ہمارے دکانداروں کے لیے بڑی قابل شرم بات ہے.انہیں بھی یسہ کی ضرورت ہے.پیسہ کمانے کے مواقع اُن کے لیے بھی ہیں مگر وہ دین کے لیے قربانی کرتے ہیں.سیدھی بات ہے کہ جسے ضرورت ہے وہ ضرور چائے پیئے گا اور جب اُس نے چائے ضرور پینی ہے تو وہ اُس وقت تک انتظار کرے گا جب تک تم نماز پڑھ کے واپس نہیں آتے.پس یہ بات عقل کے بھی خلاف ہے کہ دکانداری کی وجہ سے نماز باجماعت ادانہ کی جائے.اس بات کے ذمہ دار جہاں دکاندار ہیں وہاں ایک حد تک اس کی ذمہ داری باہر سے آنے والوں پر بھی ہے.اس لیے میں دونوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ تم اپنے مقام کو پہچانو ، ان دنوں کی اہمیت کو پہچانو ، اپنی ذمہ داریوں کو پہچا نو اور یہ دن ذکر الہی میں خرچ کرو اور لغویت سے بچو.اور نہ صرف تم خود یہ ایام ذکر الہی میں خرچ کرو بلکہ اپنے غیر احمدی دوستوں کو بھی سمجھاؤ کہ بیشک تم ہمارے پیچھے نماز نہ پڑھو، ہمارے ساتھ مل کر ذکر الہی نہ کرو لیکن نماز پڑھنا اور ذکر الہی کرنا تو تمہارے عقیدہ کے لحاظ سے بھی ضروری ہے اس لیے تم بھی ان ایام کو عبادت اور ذکر الہی میں صرف کرو.کے خطبہ ثانیہ میں فرمایا: میں نماز کے بعد کچھ جنازے پڑھاؤں گا.اس ہفتہ میں تین چار دوست جو اپنی اپنی جگہ بہت ہی اہم احمدی تھے فوت ہوئے ہیں.چنانچہ آج ہی خبر آئی ہے کہ گجرات میں ملک برکت علی صاحب جو پرانے احمدی تھے اور کسی زمانے میں وہاں کے امیر جماعت تھے فوت و گئے ہیں.ملک عبدالرحمان صاحب خادم ان کے لڑکے ہیں.ہو دوسری اطلاع یہ آئی ہے کہ مردان کے ایک احمدی خان یعقوب خاں صاحب وکیل
$1951 270 خطبات محمود جو وہاں کی جماعت کے ستون تھے اور اخلاص میں خاصی ترقی کر رہے تھے تین چار دن ہوئے پشاور آئے.وہاں مچھلی کا عام رواج ہے.انہوں نے مچھلی کھائی اور بے احتیاطی سے اُس کے بعد پانی پی لیا جس کی وجہ سے اسہال شروع ہو گئے اور وہ فوت ہو گئے.چودھری ابوالہاشم صاحب مرحوم کے داماد شمس الدین صاحب کے والد مولوی محمد یاسین صاحب ضلع پنبہ بنگال میں فوت ہو گئے ہیں.مرحوم بہت اخلاص والے تھے اور اپنی جماعت کے اہم رکن تھے.ایک جنازہ چودھری شبیر احمد صاحب نائب وکیل المال کے والد حافظ عبدالعزیز صاحب کا ہے جو سیالکوٹ میں فوت ہوئے.ان کی بیعت 1896ء کی تھی.مجھے یاد پڑتا ہے کہ میں ان کا جنازہ پڑھا چکا ہوں لیکن چونکہ پوری طرح یاد نہیں اس لیے میں ان کا جنازہ بھی پڑھاؤں گا.مولوی امیرالدین صاحب جو پروفیسر علی احمد صاحب کے حقیقی بھائی تھے جم گاؤں ضلع بھاگل پور میں فوت ہو گئے ہیں.اسی طرح مولوی خیر الدین صاحب مہاجر قادیان حال را ہوالی ضلع گوجرانوالہ کی اہلیہ چراغ بی بی صاحبہ فوت ہوگئی ہیں.مرحومہ موصیہ تھیں اور اُن کی بیعت 1906 ء کی تھی.یہ چھ جنازے ہیں جو میں نماز جمعہ کے بعد پڑھاؤں گا.ان میں سے چار دوست ایسے ہیں جو صحابی تھے اور اپنی اپنی جگہ پر جماعت کے اہم رکن تھے“.( الفضل 25 دسمبر 1951 ء ) 1 : زاویوں: زاویہ کی جمع بمعنی گوشہ کو نا ( فیروز اللغات اردو جامع فیروز سنز لاہور )
$1951 271 (33) خطبات محمود جمعہ کے دن ایک ساعت ایسی آتی ہے کہ اس میں خدا تعالیٰ مومن کی دعا ضرور قبول فرماتا ہے.آپ میں سے ہر ایک کو اس ساعت کے پانے کی کوشش کرنی چاہیے (فرموده 28 دسمبر 1951ء بمقام ربوہ ) تشہد ، تعوّ ذاورسورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: چونکہ آج جلسہ کے اجلاس کی کارروائی باقی ہے اور میری طبیعت کی خرابی اور انتظام کے قائم رکھنے کی وجہ سے تقریر کا جلد ختم ہونا ضروری ہے اس لیے میں خطبہ جمعہ نہایت اختصار کے ساتھ پڑھوں گا.ابتدائے اسلام میں خطبات اختصار کے ساتھ ہی پڑھے جاتے تھے.إِنْشَاءَ الله جلسہ کے اختتام پر دعا بھی ہوگی لیکن رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جمعہ کے دن ایک ساعت ایسی آتی ہے کہ اس میں خدا تعالیٰ مومن کی دعا ضرور قبول کرتا ہے.1 اس لیے وہ ساعت بھی ہوگی اور آپ سب کو دعا کا موقع ملے گا.میں یہ حدیث سنا کر آپ لوگوں کو موقع دیتا ہوں کہ جس کو اللہ تعالیٰ توفیق دے وہ اس ساعت کو پانے کی کوشش کرے.
$1951 272 خطبات محمود جب قرآن کریم میں اشارہ اور حدیث میں وضاحتا بتایا گیا ہے کہ نماز کا وقت اُس وقت.ہی شروع ہو جاتا ہے جب اذان ہوتی ہے یا خطبہ شروع ہوتا ہے اور اُس وقت تک ممتد چلا جاتا ہے جب امام سلام پھیرتا ہے 2 اور اس عرصہ میں اُس ساعت کو پانا کار دارد ہے.بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ یہ آسان کام بتایا گیا ہے.ایک گھنٹہ یا دو گھنٹہ کا وقت مقرر کر دیا گیا ہے جس میں خدا تعالیٰ مومن کی دعاؤں کو سنتا ہے لیکن در حقیقت یہ آسان کام نہیں.جب ہمیں پتا ہی نہیں کہ تمیں، چالیس، پچاس یا ساٹھ منٹ میں سے کونسا منٹ قبولیت کا ہے تو ہم اس ساعت کو اسی طرح پاسکتے ہیں کہ ہم اس تمام وقت میں اپنی توجہ خدا تعالیٰ کی طرف رکھیں اور خدا تعالیٰ کی طرف توجہ کو قائم رکھنا مشق اور محنت چاہتا ہے.بلکہ اگر کسی کو کہا جائے کہ تم اپنی توجہ خدا تعالیٰ کی طرف قائم رکھو تو بسا اوقات اُس کے لیے توجہ قائم رکھنا مشکل ہو جاتا ہے.پس یہ کام آسان نہیں اس لحاظ سے کہ توجہ قائم رکھنا مشکل ہے.اور آسان اس لیے ہے کہ ہر ہفتہ میں مومن کو چند منٹ ایسے مل جاتے ہیں کہ اُسے موقع ملتا ہے کہ وہ اگر خدا تعالیٰ سے اپنی بات منوانا چاہے تو منوا سکتا ہے.پس آپ میں سے ہر ایک کو اس ساعت کے پانے کی کوشش کرنی چاہیے.ہر ایک شخص کی کوئی نہ کوئی غرض ہوتی ہے، ضرورت ہوتی ہے.اگر ذاتی غرض اور ضرورت نہ ہو تو قومی اور مذہبی اغراض اور ضروریات ہوتی ہیں.ان کے پورا ہونے کے لیے انسان دعائیں کرتا ہے.بہر حال یہ موقع ہے کہ اگر ہزار آدمی کوشش کریں تو کیا بعید ہے کہ ان میں سے بعض کو وہ ساعت مل جائے جس میں دعا ضرور قبول ہوتی ہے.غیر مطبوعہ مواد از ریکارڈ خلافت لائبریری ربوہ) 1 : صحیح بخارى كتاب الجمعة باب الساعة التي في يوم الجمعة :2 : صحیح بخاری كتاب الاذان باب مَا لَمْ يَرَ الوُضُوءُ إِلَّا من المخْرَجَيُن مِنَ.الْقُبُلِ والدُّبُرِ و باب مَنْ جَلَسَ من المَسْجِد يَنْتَظِرُ الصَّلَاةَ وَفَضْلِ الْمَسَاجِدِ
3 4 5 8 11 1 انڈیکس مرتبہ: مکرم فضل احمد شاہد صاحب -1 آیات قرآنیہ 2.احادیث 3- اسماء 4.مقامات 5.کتابیات
140 221 2 134 الزمر 143 لا يُخْلِفُ الله الميعاد.(21) 3 آیات قرآنیہ الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ (4) الاعراف وَوعَدُنَا مُوسَى (143) 234 الحجرات 109 الفاتحة غَيْرِ الْمَعْضُوبِ عَلَيْهِمْ.النحل لَا تَمُنُّوا عَلَيَّ إِسْلَامَكُمُ إِنَّ إِبْرَاهِيمَ كَانَ أُمَّةً (18) 240-212 (121) 208 الرحمن الفرقان 137 كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِي شَأْنٍ (30) مَا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ مِنْ أَجْرٍ (58) 147 87 | الصف الاحزاب لِمَ تَقُولُونَ مَا لَا تَفْعَلُونَ.لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُول اللَّهِ (2) 126 أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ النصر (22تا25) 236 فَسَبِّحُ بِحَمْدِ رَبِّكَ.يسين (4) 238 يحَسْرَةً عَلَى الْعِبَادِ 95.94 (31) 123 (7) البقرة كُلَّمَا أَضَاءَ لَهُمُ.(21) صِبْغَةَ اللهِ وَمَنْ أَحْسَنُ.(139) فَاسْتَبِقُوا الْخَيْرَاتِ (149) وَأْتُوا الْبُيُوتَ.(190) آل عمران وَمَكَرُوا وَمَكَرَ اللَّهُ (55) المائدة وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ (3)
4 الف الا فِي الْجَسَدِ مُضْغَةً 120 | احادیث حدیث بالمعنى خدا بلال کی اذان سے خوش ہے 91 کھڑے مت ہو أَوَ مُخْرِجيَّ هُم 117 نماز با جماعت کا دس گنے زیادہ یہ کھجوریں صدقہ کی ہیں 66.61 | 144 151 25 بچہ پیدا ہو تو کان میں اذان دو 153 ثواب بٹا کی شادی نہ کرو 37 اگر تم اُسے قتل کرو گے 183 188 226 جب امام کھڑے ہو کر نماز نہ پڑھا مجلس میں بدبودار چیز کھا کر سکے 49 نہ آؤ اگر امام بیٹھ کر نماز پڑھائے 49 اے لوگو! مجھے مشورہ دو جب کھانا کھاؤ پہلے بسم اللہ پڑھا کرو چھوٹے جہاد سے بڑے کی 69،59 | طرف 230 | جو شخص جنازہ میں شامل ہو 63 دوسرا ہاتھ دوزخ سے بچا 259 صفیں سیدھی رکھو 90 جمعہ کے دن ایسی ساعت 271 192 151 173 جُبِلَتِ الْقُلُوبُ سَيِّدُ الْقَوْمِ خَادِمُهُمُ كُلُ بِيَمِينِكَ ل لِكُلِّ دَاءٍ دَوَاءٌ
50 آتھم 170 171 برکت علی ملک آدم علیہ السلام - حضرت 138 بر کلے آغاخان سر 18 بشیر احمد ملک ابراہیم علیہ السلام.حضرت بلال - حضرت 25،12، 98 تا 102 ، بوعلی سینا 208 ابوالہاشم چودھری 270 | جالینوس 215.26 اسماء 269 دوست محمد حجانه 101 83 را شیلڈ 91 راک فیلر 101.99.98 128 رشیدالدین.حضرت.128 ڈاکٹر خلیفہ زار ز 82 260 260 80 182.170.169 ابوبکر حضرت ابو جہل 11 ، 207، چراغ بی بی 270 زینب بیگم ابوسفیان 246.225.215 225 چرچل 157 ( ہمشیرہ حضرت ام طاہر ) افلاطون اللہ بخش خان لغاری 102.100.98 101 82 اسحاق علیہ السلام - حضرت 98 ، حسن حضرت امام 66، 151 سبحان علی شیخ 100 تا 102 حسین بخش اسماعیل علیہ السلام.حضرت سکندر علی منشی 82 | سقراط حسین بی بی حوا - حضرت خ 83 101 سلیمان علیہ السلام - حضرت 83 101 82 99.87 ش خالد بن ولید.حضرت 247 ،249 شبیر احمد.چودھری 270 ام طاہر.حضرت سیدہ 5 خیر الدین.مولوی 270 شداد 11 امیرالدین.مولوی امیرحسین قاضی انور پاشا 270 145.144 158.157 و شمس الدین.داؤد علیہ السلام - حضرت 87 ه شیبه 270 246.215 5
6 شیر علی.مولوی 134 عیسی علیہ السلام - حضرت 12 87، 98 تا 101 ، 103، 121 ، مارین طلعت (ایک لڑکی ) 83 125، 171، 214، 215 ماؤنٹ بیٹن لارڈ 5 غ مبارکه بیگم غلام احمد قادیانی علیہ السلام.محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ سلم 145 | حضرت مرزا 34، 41، حضرت خاتم الانبیاء طیب اللہ بنگالی حافظ ع عائشہ حضرت عباس.حضرت عبدالحمید سلطان عبدالرحمان خادم ملک عبد العزیز حافظ عبدالعزیز ملک عبد القادر اعوان عبد اللہ بن عمرؓ حضرت عقبه عثمان - حضرت عزیز احمد.حضرت مرزا عطاء اللہ (ایک احمدی) عطاء اللہ بخاری 260 158 83 10.7 63.6159.53.50.49 40.38.37.25.19.13102.83 79.5754 139 127 122.114 225.224 156.155 155 152 145 144 92 91 90.87.86.66 122 120 117.102 145 144.132.125 151 153 151.146 269 171169.160.157 270 242.230 83 145 177.174 173.169 214.11 189.188.183.178 201 199.198.192 230 228 224.215 156 245.244.237.233 260 258 248.247 82 ف فاطمہ حضرت فرعون ق قیصر 10 گاربو (اداکارہ) 83 146 246.215 215 79 83 علی حضرت 215،157،66 گاندھی 181.179 270 گوہر علی منشی علی احمد.پروفیسر علی شیر.مرزا 80.79 ل 83 محمد ابراہیم بقاپوری.حضرت مولوی عمر حضرت 26، 121 ، لیاقت علی خان (وزیر اعظم ) محمد اکبر 248 247 215 176،175،173 ، محمد رمضان - مستری 271 35 82 83 عمر و بن العاص - حضرت 1247 177، 180 ،182، 184 | محمد سرور شاہ.حضرت سید 106
117 207-181.169 184 101 13 7 محمد ظفر اللہ خان.حضرت منظور محمد.حضرت پیر 111 ورقہ بن نوفل چودھری 110 موسٰی علیہ السلام.حضرت محمد علی جناح.قائد اعظم 158 98،87،12 تا117،103، ہٹلر محمد نذیر فاروقی محمد یاسین 83 270 237،234،214،125 ہلاکو خان بیکل محمد یوسف ( درویش) 82 نپولین محمود احمد.حضرت مرزا مصلح موعود نمرود 169.156 11 يسعياه مسولینی 144،80 ، 159، نوح علیہ السلام - حضرت 98 یعقوب علیہ السلام حضرت 194،190،182،170 ، نورالدین.حضرت مولوی 261-260-204 169.157 مصطفی کمال پاشا 157 158 34، 170،144 ،190، یعقوب خان , معین الدین چشتی ” حضرت اشنگٹن (امریکہ کا ایک 153 154 کمانڈر انچیف) 10210098 242،207 یوسف علیہ السلام - حضرت 210.209 یوناه 269 102.101.100 16
8 مقامات بور نیو 125 | جرمنی 194.181.125 آسٹریلیا 187 | بونگا بلوچاں 82 جکارتہ احمد نگر 265 بھاگلپور 270 جمگاؤں 123 270 افریقہ 123،30 ،125 ، بہاولپور 83 چ 188، 263،207 | بہاولنگر 83 چٹا کانگ افغانستان.30.22.21 176 34 چنیوٹ چین 53 265.264 231.207.21.1 امرتسر 182،159، 190 | پاکستان 52.30.23.21 خ امریکہ 125،117 ،158،128 تا خان پور 10 159.54 82 3800 53 176.175.173.160 184،182 ،215،193، وہلی 263.220.216 123.20.1 207-195 187.181.163.125 263.244.209 123.30 انڈونیشیا انگلستان 125،30 ، پشاور 28 ، 265،52، 270 ڈھاکہ 270 ڈیرہ غازی خان.137.50.5 راولپنڈی 265.173 270 43.36.7.6.1 را ہوالی ربوه 85.73.65.56.53.48 181 178 176.163 256، 263 پنجاب $54.51.37.27 $216.207.179.158 240.231.230 1576155 112.104.98.93.89 231 123 122 119.116'231 232.175 20 ایران ایشیا برما 30 | ترکی بلوچستان بمبئی 60 261.260 ج جاپان بنگال 270،54،52 جاوا
9 131 129.126.124 155.151.148.136 166، 173، 186، 193، شملہ 195، 197، 203، 212، شیخوپورہ 232،226،225 ، 237، کوئٹہ 246 کینیا 159 125 240 گ 265 گجرات 269.265 ع گلگت 18 عراق 125 گوجرانوالہ 270،265،137 265 264 251.236 روس 271.267 244.182 سائبیریا سالٹ پانڈ سرحد 13 ،30، گورداسپور ل 243 تا 246 لائل پور غ لاہور 147.143.125.104 207 123 215.54 34 82 52.50.22 غانا ( گولڈ کوسٹ) 123 ، 125 تا 151،137،127،82،54، سرگودھا 162،116، 207 ف 116 | فلسطين 125 لندن سلیبس سماٹرا سندھ ق لیگوس 265.264.178 53 123 قادیان |.34.10 54 52.49.48.44.43 مل بینہ $26.25.10 228 224.175.53.52151.125122.83.80 243 237 233 230 264.220.204.180 247 245 269.53.52.10 $270 125 231.125 $29.27.17.9 60-54-36-34.32.30 255.215 125 270.265 125 125.30 194،175،125، | گنجے جی سوئٹزرلینڈ سیالکوٹ سیرالیون سیلون ش شام ک مردان کامل 175 مکہ کراچی 18 ،22، 265،52 224.175.123.117.237.232.231.227 239 268-246-244
230 239 10 125 ویری ناگ 265 DO یوپی 257،125 258 | پور 265 الینڈ ہندوستان <21 123.29.23.22.156.22.1.194.192.191.169 207.206 125 156 158،153،128،125، یوگنڈا 159 160 ،181،178، یونان $230.220.207 263.231 125.123 32.17.9 53 و 257.123.53 ملایا ملتان نٹگمری نائیجیریا ناصر آباد نیویارک ن
223 11 کتابیات انجیل 171،21 | تورات 101،21 مثنوی رومی بائیل 109 کلیله ومنه 223