Khutbat-eMahmud V30

Khutbat-eMahmud V30

خطبات محمود (جلد 30)

خطبات جمعہ ۱۹۴۹ء
Author: Hazrat Mirza Bashir-ud-Din Mahmud Ahmad

Language: UR

UR
Miscellaneous

حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے خطبات علوم و معارف کا ایک انمول خزانہ ہیں اور پیش گوئی کے الہامی الفاظ ’’وہ علوم ظاہری و باطنی سے پُر کیاجائے گا‘‘ پر شاہدناطق ہیں۔ آپؓ کا دور خلافت نصف صدی سے زیادہ عرصہ پر محیط ہے جو ایک تاریخ ساز دور تھا۔ اس نہایت کامیاب اور طویل دور میں آپؓ نے اپنے خطبات جمعہ کے ذریعہ جماعت کی تعلیم و تربیت میں نہایت اہم کردار ادا کیا۔ سیاسی، سماجی اور مذہبی افقوں پر نمودار ہونےوالے ہر معاملے پر بروقت اور درست رہنمائی عطافرمائی۔ الغرض یہ خطبات جمعہ جماعت احمدیہ کا ایک بہت ہی قیمتی خزانہ اور سرمایہ ہیں۔ جسے فاؤنڈیشن نے یکجا کرکے کتابی شکل دی ہے۔


Book Content

Page 1

خطبات مود خطبات جمعہ 1949 فرموده سید نا حضرت مرزا بشیر الدین محمد احمد اصلح الموعود خلیفة ان الثانی 30

Page 2

KHUTBAT-I-MAHMUD by HADRAT MIRZA BASHIR-UD-DIN MAHMUD AHMAD KHALIFATUL MASIH II Published by: Printed by:

Page 3

بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ پیش لفظ اللہ تعالیٰ کے فضل و احسان سے فضل عمر فاؤنڈیشن کو حضرت مصلح موعود کے خطبات کی تیسویں جلد احباب کی خدمت میں پیش کرنے کی سعادت نصیب ہو رہی ہے.الحَمدُ لِلهِ عَلَى ذلِکَ.اس جلد میں 1949 ء کے 44 خطبات جمعہ شامل ہیں.حضرت فضل عمر سلطان البیان کے خطبات علوم و معارف کا انمول خزانہ ہیں اور پیشگوئی کے الہامی الفاظ " وہ علومِ ظاہری و باطنی سے پر کیا جائے گا “ پر شاہد ناطق ہیں.حضرت مصلح موعود کا دور خلافت جو کم و بیش 52 سال پر محیط ہے ایک تاریخ ساز دور تھا.اس نہایت کامیاب طویل دور میں حضور کے خطبات نے جماعت کی علمی و روحانی ترقی اور تعلیم وتربیت میں نہایت اہم کردارادا کیا.حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ فرماتے ہیں:.حضرت مصلح موعود کے خطبات آپ کے قریب بیٹھ کر سننے کا موقع ملتا تھا.تمام دنیا کے مسائل کا آپ کے خطبات میں مختلف رنگ میں ذکر آتا چلا جاتا تھا.دین کا بھی ذکر ہوتا اور دنیا کا بھی.پھر ان کے باہمی تعلقات کا ذکر ہوتا تھا.سیاست جہاں مذہب سے ملتی ہے یا جہاں مذہب سے الگ ہوتی ہے غرضیکہ ان سب مسائل کا ذکر ہوتا تھا.چنانچہ قادیان میں یہی جمعہ تھا جس کے نتیجہ میں ہر کس و ناکس ، ہر بڑے چھوٹے اور ہر تعلیم یافتہ و غیر تعلیم یافتہ کی ایک ایسی تربیت ہو رہی تھی جو بنیادی طور پر سب میں قدر مشترک تھی.یعنی پڑھا لکھا یا ان پڑھ، امیر یا غریب اس لحاظ سے کوئی فرق نہیں رکھتا تھا کہ بنیادی طور پر احمدیت کی تعلیم اور احمدیت کی تربیت کے علاوہ دنیا کا شعور بھی حاصل ہو جایا کرتا تھا.چنانچہ بہت

Page 4

سے احمدی طلباء جب مقابلہ کے مختلف امتحانات میں اپنی تعداد کی نسبت زیادہ کامیابی حاصل کرتے تھے تو بہت سے افسر ہمیشہ تعجب سے اس بات کا اظہار کیا کرتے تھے کہ احمدی طلباء میں کیا بات ہے کہ ان کا دماغ زیادہ روشن نظر آتا ہے ان کو عام دنیا کا زیادہ علم ہے.“ ( خطبات طاہر جلد نمبر 7 صفحہ 10 ) ہمارا یہ روحانی وعلمی ورثہ سلسلہ کے لٹریچر میں بکھرا پڑا تھا اور جماعت کے دوستوں کو اس سے استفادہ کرنا مشکل تھا.فضل عمر فاؤنڈیشن اس جماعتی ضرورت کو پورا کرنے کیلئے ان خطبات کو کتابی شکل میں شائع کر رہی ہے.یہ جواہر پارے اب آپ کے ہاتھوں میں ہیں.ان کی زیادہ سے زیادہ اشاعت سے جہاں ادارہ کے لئے اس کام کو جلد پایہ تکمیل تک پہنچانا آسان ہوگا وہاں نئی نسل کی تربیت کے لئے بھی یہ بہت مُمد و معاون ہوں گے.اس جلد کی تیاری کے سلسلہ میں جن دوستوں نے ادارہ کی عملی معاونت فرمائی ان میں مکرم عبدالرشید صاحب اٹھوال، مکرم حبیب اللہ صاحب باجوہ، مکرم فضل احمد صاحب شاہد، مکرم عبد الشکور صاحب با جوه مکرم، عدیل احمد صاحب گوندل ، مکرم ظہور احمد صاحب مقبول ، مربیان سلسله قابل ذکر ہیں.خاکسار ان سب کا دلی شکر یہ ادا کرتا ہے اور دعا گو ہے کہ خدا تعالیٰ ان کے علم و فضل میں برکت عطا فرمائے اور اپنے فضلوں اور رحمتوں سے نوازے.آمین

Page 5

فہرست مضامین خطبات محمود جلد 30 خطبه نمبر تاریخ بیان فرموده 2 (خطبات جمعہ 1949ء) موضوع خطبه 1 14 جنوری 1949ء دعائیں کروتا وہ روک جلد ڈور ہو جو تمہاری کامیابی کی راہ میں حائل ہے اور جو برکات اس کے پیچھے مجھے نظر آ رہی ہیں وہ جلد تر قریب آجائیں 21 جنوری 1949 ء دشمن کی مخالفت اس امر کی دلیل ہے کہ وہ ہماری طاقت اور قوت کو محسوس کرتا ہے 4 فروری 1949ء خدا تعالیٰ کی بادشاہت میں وہی لوگ داخل ہوتے ہیں جو اخلاقی لحاظ سے اپنے آپ کو سادہ بنا لیتے ہیں 184 فروری 1949 ء مومن کو روحانیت کے ظاہری اور باطنی دونوں پہلوؤں کو درست کرنے کی طرف توجہ کرنی چاہیے 5 25 فروری 1949 ء قبض وبسط.انسان کی دو طبعی حالتیں 18 مارچ 1949 ء جلسہ سالانہ کے موقع پر ربوہ کے افتتاح میں حکمت 7 25 مارچ 1949 ء اس دفعہ جلسہ سالانہ پر غالباً اسی ہزار روپیہ خرچ آئے گا مگر اس وقت تک چندہ صرف اٹھائیس ہزار آیا ہے یکم اپریل 1949ء نماز روحانیت کا ستون ہے تربیت اولاد اور والدین کی ذمہ داریاں صفحہ 1 7 17 25 33 41 51 63 63

Page 6

خطبه نمبر تاریخ بیان فرموده موضوع خطبه 9 8 اپریل 1949ء يَأَيُّهَا النَّاسُ أَنتُمُ الْفُقَرَاءِ إِلَى اللهِ 10 15 اپریل 1949 ء اس بات کو مد نظر رکھو کہ تم نے بے مرکز کبھی نہیں رہنا 11 22 اپریل 1949 ء الحمد للہ کہ ربوہ میں جلسہ سالانہ باوجود مخالف حالات کے نہایت کامیاب رہا 12 6 مئی 1949 ء جماعت احمد یہ لاہور کی اہمیت اور اس کی ذمہ داریاں 201 مئی 1949ء وہی قوم زندہ کہلانے کی مستحق ہے جو اپنی خوبیوں میں دوسروں سے بلند اور ممتاز ہو 14 27 مئی 1949ء وہ بلند مقام حاصل کرنے کی کوشش کرو جو نبیوں کی جماعتوں کو حاصل ہوتا ہے صفحہ 74 87 98 113 122 130 31 جون 1949 ء منافقت ایک خطرناک مرض ہے جو تمام برائیوں کی جڑ ہے 138 16 10 جون 1949 ء حضرت مسیح موعود علیہ السلام تربیت واصلاح اور اشاعت دین کے لیے مبعوث ہوئے تھے.ان اغراض کو ہمیشہ مدنظر رکھو اور جائزہ لیتے رہو کہ تم کسی حد تک انہیں پورا کر رہے ہو 17 | 17 جون 1949 ء دین سیکھنے اور اپنے اعمال کو زیادہ سے زیادہ کمل بنانے کی کوشش کرو تا کہ تم احمدیت سے صحیح رنگ میں فائدہ اُٹھا سکو 18 24 جون 1949 ء الہی جماعتوں کے لیے مصائب اور ابتلاؤں کا آنا نہایت ضروری ہوتا ہے 19 یکم جولائی 1949 ء روزے روحانی زہروں کو دُور کرتے اور خدا تعالیٰ کو دیکھنے کی قابلیت پیدا کرتے ہیں 150 161 172 187

Page 7

خطبه نمبر تاریخ بیان فرموده موضوع خطبہ صفحہ 20 8 جولائی 1949 ء خدا تعالی رمضان المبارک میں مومنوں کی دعائیں زیادہ سنتا ہے 191 21 15 جولائی 1949 ء اللہ تعالیٰ جن لوگوں کے سپر دخدمت دین کرتا ہے وہی اس کام کے لیے سب سے زیادہ موزوں ہوتے ہیں.ہمارے جدید مرکز ربوہ کے قیام کا سہرا یقینا نواب محمد الدین صاحب کے سر ہے 196 22 22 جولائی 1949 ء رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کی امت کی قربانیوں اور ذمہ داریوں کا زمانہ قیامت تک ممتد ہے 23 29 جولائی 1949 ء قربانی کی وہ روح اپنے اندر پیدا کرو جو الہی جماعتوں میں کارفرما ہوتی ہے 24 5 اگست 1949 ء مومن کی قربانیاں محض اللہ تعالیٰ کی خاطر ہونی چاہیں اور ساری مخلوقات کی ہمدردی اس کے پیش نظر ہونی چاہیے قُلْ إِنَّ صَلَاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي 213 224 لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِینَ کی نہایت لطیف اور پُر معارف تفسیر 229 2 12 اگست 1949 ء کامل انسان وہ ہے جس کی سب قربانیاں خدا تعالیٰ کے لیے ہوں 26 19 اگست 1949 ء رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا بلند مقام 27 26 راگست 1949 ء رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بنی نوع انسان کی ہمدردی میں عدیم المثال قربانیاں 28 2 ستمبر 1949 ء ایک زندہ قوم کے لیے ضروری ہے کہ وہ ہر وقت اپنے اعمال کی نگرانی کرتی رہے 239 251 256 271

Page 8

موضوع خطبہ خطبه نمبر تاریخ بیان فرموده 29 ستمبر 1949ء کوشش کرو کہ تم اس دنیا کی زندگی میں ہی خدا تعالیٰ کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لو 30 16 ستمبر 1949ء ہمیشہ اپنے اعمال کا محاسبہ کرتے رہو اور اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لیے کوشاں رہو 31 23 ستمبر 1949 ء لڑکوں اور لڑکیوں کی تعلیم کے لیے لاہور میں اپنے ہائی سکول قائم کرنے چاہیں تا اُن کی تربیت اچھے ماحول میں ہو 32 30 ستمبر 1949 ء بڑے کام بڑے ارادوں، بڑے عزم اور بڑی قربانیوں سے ہوا کرتے ہیں ربوہ میں صرف انہیں لوگوں کو رہنا چاہیے جو ہر وقت دین کی خدمت کے لیے تیار رہیں 33 7 اکتوبر 1949 ء نزاکت وقت کی اہمیت کو محسوس کرو اور اپنے فرائض کی طرف توجہ کرو 34 14 اکتوبر 1949ء احمدی مستورات خدمت دین کے لیے اپنی زندگیاں وقف کریں 35 21 اکتوبر 1949ء ربوہ میں مزید عارضی مکانات نہ بنائے جائیں.موجودہ مکانات سے حتی الوسع فائدہ اُٹھایا جائے 36 28 اکتوبر 1949ء اگر تم نے ترقی کرنی ہے تو عمل کی متواتر نگرانی اور اصلاح تمہارا فرض ہے 37 4 نومبر 1949ء اپنے آپ کو اور اپنی جماعت کو نیکیوں اور قربانیوں کے بلند مقام پر قائم کرنے کی کوشش کرو صفحہ 275 293 302 315 329 345 352 360 368

Page 9

خطبه نمبر تاریخ بیان فرموده موضوع خطبہ 38 11 نومبر 1949 ء جمعہ کا اجتماع ہمیں وہ فرض یاد دلاتا ہے جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے ذریعے ہر مسلمان کے ذمہ لگایا گیا ہے 39 18 نومبر 1949ء جماعت کو زندہ رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ منافق طبع لوگوں کی اصلاح کی جائے 40 25 نومبر 1949ء تحریک جدید کے دفتر اول کے سولھویں سال اور دفتر دوم کے چھٹے سال کے آغاز کا اعلان 41 | 2 دسمبر 1949ء اسلام نے صفائی کا احساس بڑے زور سے دلایا ہے لیکن ہمارے ملک میں صفائی کا احساس نہیں 42 9 دسمبر 1949 ء شریعت کی بنیاد محض عقل پر نہیں بلکہ اس کی بنیاد اخلاق، قربانی اور محبت پر ہے 43 23 دسمبر 1949 ء اگر تم دین و دنیا کی ترقیات چاہتے ہو تو اپنے کاموں کی بنیاد عشق، ایثار اور قربانی پر رکھو 44 30 دسمبر 1949 ء احمدیت کی ترقی بغیر قربانی اور بغیر وقف کے نہیں ہوسکتی حافظ جمال احمد صاحب کی وفات اپنے اندر ایک نشان رکھتی ہے صفحه 378 382 392 402 411 422 437

Page 10

* 1949 1 1 خطبات محمود دعائیں کرو تا وہ روک جلد دُور ہو جو تمہاری کامیابی کی راہ میں حائل ہے اور جو برکات اس کے پیچھے مجھے نظر آ رہی ہیں وہ جلد تر قریب آجائیں (فرموده 14 جنوری 1949ء بمقام لاہور ) تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: ”جیسا کہ احباب کو معلوم ہے مجھے آجکل در دنقرس کا دورہ ہے.پاؤں کی تکلیف میں اب آگے کی نسبت بہت افاقہ ہے.جب یہ درد اپنے زوروں پر ہوتا ہے اُس وقت تو پیر چار پانی پر سے بھی نیچے نہیں اتارا جاتا بلکہ چار پائی سے نیچے اُتارنا تو الگ رہا چار پائی سے نیچے لٹکا یا بھی نہیں جاتا.اس دفعہ درد کی وہ شدت تو نہیں تھی جو پہلے ہوا کرتی تھی صرف اتنا تھا کہ میں چل پھر نہیں سکتا ہے تھا.بہر حال اس ورم میں اب افاقہ ہے لیکن پاؤں میں کسی قدر یورک ایسڈ (URIC ACID) موجود ہے جس کی وجہ سے چلتے وقت ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے پاؤں کے نیچے کنکری آجاتی ہے.میرا یہ تجربہ ہے کہ میں در دنقرس کے دورہ کے درمیان میں جب خطبہ کے لیے آتا ہوں تو درد بڑھ جاتا ہے.آج بھی مجھے یہی ڈر تھا کہ جمعہ میں آنے کی وجہ سے درد کہیں بڑھ نہ جائے.مگر چونکہ میں

Page 11

$1949 2 خطبات محمود پچھلا جمعہ نہیں پڑھا سکا تھا اس لیے میں نے خیال کیا کہ خطبہ کے لیے چلا جاؤں.ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ چند منٹ کے لیے بول لینا، زیادہ نہ بولنا تا درد زیادہ نہ ہو جائے.اس لیے میں آ گیا تا جمعہ کا خطبہ کر سکوں اور اس طرح ثواب سے محروم نہ رہوں.میں جماعت کے احباب کو اس امر کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ جماعتوں پر بعض دن نازک آیا کرتے ہیں اور بعض دن راحت کے آیا کرتے ہیں.جس طرح کبھی دن لمبے ہوتے ہیں اور کبھی راتیں لمبی ہوتی ہیں، کبھی صحت کے ایام آ جاتے ہیں اور کبھی بیماری کے ایام آ جاتے ہیں اسی طرح ہمارے لیے بھی یہ دن کچھ نازک دن ہیں.قطع نظر اس ابتلاء کے جو مشرقی پنجاب میں تمام مسلمانوں پر آیا، اور بھی بعض باتیں ہیں جن کا اظہار کرنا میں پسند نہیں کرتا.بہر حال ہمارے لیے کچھ ابتلاء کے دن ہیں اور ان ابتلاؤں کی کنجی اور اصلاح محض اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے.وہی ان کی ابتلاؤں کو دور کر سکتا ہے اور وہی اس کے بداثر سے ہمیں محفوظ رکھ سکتا ہے.میں یہ بھی دیکھتا ہوں کہ ان گھبرا دینے والے دنوں کے پیچھے ہمارے لیے کچھ برکتیں بھی کھڑی ہیں اور ان کے ذریعہ سے ہماری حالت کا کامیابی کی حالت سے بدل جانا، ہماری حالت کا ترقی کی حالت سے بدل جانا تھی بہت ممکن ہے اور بہت حد تک اس کی امید کی جاتی ہے.جیسا کہ میں احباب کو بتا چکا ہوں ہر رات کے بعد دن آتا ہے اور ہر دن کے بعد رات آتی ہے.رات چلی جاتی ہے تو دن آ جاتا ہے، دن چلا جاتا ہے تو رات آ جاتی ہے.جب تک رات چلی نہیں جائے گی دن آئے گا کس طرح؟ پس جس طرح مجھے وہ برکات نظر آ رہی ہیں جو ہماری موجودہ حالت کو کامیابی اور ترقی کی حالت سے بدل سکتی ہیں مجھے وہ خطرہ بھی نظر آتا ہے جو ہماری آئندہ ترقی کی ایک منزل کے درمیان واقع ہے.ایک منزل میں نے اس لیے کہا ہے کہ ابھی ہماری جماعت کے اندر مطالعہ کی عادت بہت کم ہے.نہ قرآن کریم کے مطالعہ کی عادت ہے، نہ احادیث کے مطالعہ کی عادت ہے اور نہ ہی احباب روحانیات کا مطالعہ کرتے ہیں.اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ جب وہ کسی بُری چیز کو دیکھتے ہیں، سنتے ہیں یا اُس کا مطالعہ کرتے ہیں تو وہ یوں سمجھتے ہیں کہ گویا ہم مر ہی گئے.اور جب کسی اچھی چیز کو دیکھتے ہیں، سنتے ہیں یا اُس کا مطالعہ کرتے ہیں تو وہ سمجھتے ہیں کہ گویا اب ہمیں کسی قسم کا خطرہ ہی نہیں.حالانکہ قریباً انہی الفاظ میں قرآن کریم کہتا ہے جی

Page 12

$ 1949 3 خطبات محمود ایسے لوگ منافق ہوتے ہیں.کوئی رنج ایسا نہیں جس کے بعد خوشی نہ آئے اور نہ کوئی خوشی ایسی خوشی ہے جس کے بعد کوئی رنج نہ آئے.نہ کبھی تم یہ سمجھ سکتے ہو کہ تمہاری بلائیں ہمیشہ کے لیے بلائیں ہی رہیں گی اور نہ کبھی تم یہ سمجھ سکتے ہو کہ تمہاری خوشیاں ہمیشہ کے لیے چلی جائیں گی اور تمہیں کوئی دکھ اور تکلیف نہیں ہو گی.یہ دنیا جدوجہد کی دنیا ہے، یہ دنیا سعی کی عمل کی دنیا ہے.جب تک ہم اس دنیا میں زندہ ہیں خواہ ہم آسمان کے ستارے ہی کیوں نہ بن جائیں اور خواہ ہم عالم صغیر کی بجائے عالم کبیر ہی کیوں نہ بن جائیں مختلف اوقات میں رنج و راحت کے ادوار ہمارے ساتھ چلتے چلے جائیں گے.اگر ہمارے لیے راحت مقدر ہے تب بھی وہ راحت، رنج و مصیبت کے دوروں میں سے گزرتی ہوئی چلی جائے گی.رنج کے دور ضرور آئیں گے اور خوشی کے دور بھی ضرور آئیں گے.مگر فرق صرف اتنا ہو گا کہ اگر ہمارے لیے راحت مقدر ہوگی تو وہ رنج و مصیبت کے دور سے اوپر ہوگی اور اگر ہمارے لیے رنج اور مصیبت مقدر ہوگی تو رنج اور مصیبت کا دور ہماری راحت کے دور سے نیچے ہو گا.مثلاً اگر ہمارے لیے موت مقدر ہو اور ہمارے سینکڑوں آدمی مر جائیں تو اُس کے بعد ہم پر ایسا دور بھی ضرور آئے گا جب ہزاروں نئے آدمی جماعت میں داخل ہوں گے.اور پھر اگر ہم پر ایسا دور آجاتا ہے جس میں ہمارے ہزاروں آدمی مر جاتے ہیں تو اس کے بعد ہم پر ایسا دور بھی ضرور آئے گا جس میں لاکھوں آدمی ہماری جماعت میں داخل ہوں گے.غرض اگر ہمارے لیے راحت اور زندگی مقدر ہے تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ اس کے بعد ہم پر رنج اور موت کا دور نہیں آئے گا.رنج اور موت کا دور ضرور آئے گا مگر اس کے بعد جو راحت اور زندگی کا دور آئے گا وہ ہمارے لیے اُس رنج اور موت کے دور سے بہت زیادہ کامیابی کا دور ہوگا.اسی طرح ہمارے مقابلہ میں زید اور بکر پر بھی راحت اور زندگی کا دور آتا ہے مگر فرق یہ ہے کہ اس راحت اور زندگی کے دور کے بعد اُن پر جو رنج اور موت کا دور آئے گا وہ زیادہ سخت ہوگا.اگر اس کے بعد پھر اُن پر راحت اور زندگی کا دور آئے گا تو اُس کے بعد آنے والا رنج اور موت کا دور اُن کی کے لیے اور زیادہ سخت ہو گا.حتی کہ اُن کا انجام تباہی ہوگا.ورنہ دنیا میں نہ کوئی آدمی ایسا پیدا ہوا ہے اور نہ پیدا ہو گا جس نے صرف غم ہی غم دیکھا ہو یا جس نے صرف راحت ہی راحت دیکھی ہو.اور نہ ایسی قوم پیدا ہوئی ہے اور نہ ہوگی جس نے صرف غم ہی غم دیکھا ہو یا صرف خوشی ہی خوشی

Page 13

خطبات محمود دیکھی ہو.4 * 1949 محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر بھی کامیابی اور غم کے دور آئے.جنگ بدر میں آر با وجود تعداد میں کم ہونے کے اور جنگی سامان مہیا نہ ہونے کے کفار کے مقابلہ میں کامیاب رہے.لیکن جنگ اُحد میں آپ کے لیے اور آپ کے ساتھیوں کے لیے رنج اور مصیبت کا دور آیا.اسی طرح کفار کے لیے تباہی مقدر تھی.جنگِ بدر میں مسلمانوں کے مقابلہ میں انہیں ایسی شکست ہوئی ہے کہ وہ کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہ رہے.لیکن جنگِ اُحد میں اُن پر خوشی اور راحت کا دور آیا اور ی اُنہوں نے یہ اعلان کیا کہ ہمارے درمیان اور مسلمانوں کے درمیان لڑائی ڈولوں کی طرح ہے.کبھی ڈول مسلمانوں کے ہاتھ میں آجاتا ہے اور کبھی ہمارے ہاتھ میں آجاتا ہے.1 یعنی اگر کل مسلمان کامیاب ہوئے تھے اور ہم نے شکست کھائی تھی تو آج ہم کامیاب ہوئے ہیں اور مسلمانوں نے شکست کھائی ہے.گویا ایک موقع پر اگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر راحت اور خوشی کا دور آیا تو دوسرے موقع پر آپ پر رنج اور غم کا دور بھی آیا.اسی طرح ایک موقع پر اگر کفار پر رنج اور غم کا ای دور آیا تو دوسری جگہ پر اُن پر خوشی اور راحت کا دور بھی آیا.دونوں پر دونوں دور ہی آئے لیکن فرق اتنا تھا کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جو رنج اور غم کا دور آیا اُس کے بعد راحت اور خوشی کا آنے کی والا دور آپ کو پہلے دور سے بہت زیادہ اونچا لے گیا لیکن کفار پر اُن کے رنج اور غم کے دور کے بعد جو خوشی اور راحت کا دور آیا وہ خوشی اور راحت اتنی نہیں تھی جتنا کہ اُن کا رنج اور غم تھا.اور اس کے بعد رنج اور غم کا دوسرا دور انہیں اُس سے بھی نیچے لے گیا.کفار کے لیے جنگِ اُحد، صلح حدیبیہ اور جنگ احزاب کے شروع میں خوشی کا دور آیا اور ان کے درمیان اور بھی کئی خوشی کے مواقع آئے مگر اُس کے بعد اُن پر جو مصیبت کے دور آئے وہ اُن خوشیوں کے دوروں سے بہت زیادہ تھے اور اُنہوں نے کفار کو پہلے سے بھی زیادہ تباہی کے گڑھے میں گرا دیا.محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جنگِ اُحد، جنگِ احزاب کے شروع میں اور صلح حدیبیہ کے موقع پر رنج اور غم کے دور آئے مگر اُن کی کے بعد جو راحت اور خوشی کے دور آئے وہ آپ کو بہت زیادہ آگے لے جانے والے ثابت ہوئے.پس اگر ہمارے لیے خدا تعالیٰ نے کامیابی مقدر کی ہوئی ہے اور ہم جانتے ہیں کہ ہمارے

Page 14

$ 1949 5 خطبات محمود لیے کامیابی مقدر ہے تو یہ یقینی بات ہے کہ ہماری راحت اور خوشی کا دور ہمارے دکھ اور مصیبت کے دور سے بہت بڑا ہوگا اور وہ ہمیں پہلے کی نسبت آگے ہی لے جائے گا.اور اس کے بعد پھر اگر رنج اور غم کا کوئی دور آیا تو وہ ہمیں اور اوپر لے جائے گا.لیکن خوشی اور راحت کا ہر دور جو آتا ہے وہ پنے ساتھ رنج اور غم بھی لاتا ہے.محض اس لیے کہ ہمارے لیے خوشی مقدر ہے ہمیں خوش نہیں ہونا چاہیے.معلوم نہیں کہ اُس رنج اور غم کے دور میں کون کون شکار ہو جائیں.جنگوں میں کئی شہید ہوتے ہیں اور کئی زخمی ہوتے ہیں، شاید اس دور میں کئی لوگ منافق ہو جائیں یا مرتد ہو جائیں یا وہ ای اتنی قربانی نہ کر سکیں جتنی قربانی انہیں کرنی چاہیے تھی اور کئی لوگ برکتوں سے محروم ہو جائیں.اس کے لیے صرف یہ بات کہ ہمارے لیے خوشی مقدر ہے ہمارے لیے اطمینان کا موجب نہیں ہو سکتی.باوجود اس کے کہ ہمیں یہ یقین ہے کہ ہم ضرور کامیاب ہوں گے وہ رنج اور غم کا دور اپنی اہمیت کو نہیں کھو سکتا.اس لیے میں احباب کو تحریک کرتا ہوں کہ وہ آجکل دعاؤں پر خوب زور دیں تا خدا تعالیٰ وہ دن جلد لائے جو ابھی تک رُکا ہوا ہے.اور وہ برکتیں جلد ملیں جو ابھی تک ہم سے پوشیدہ ہیں.وہ دن جب آئے گا تو وہ تمام برکتیں جو ہمیں ملنے والی ہیں اور ابھی تک ہم سے پوشیدہ ہیں ظاہر ہوں گی.اور ہر ایک شخص محسوس کرنے لگے گا کہ ہمارا قدم آگے بڑھ رہا ہے.اور وہ روک جو ہمارے رستہ میں حائل ہے ہٹ جائے گی.جیسے ستون کے پیچھے آدمی چُھپ جاتا ہے یا پہاڑ کے پیچھے جو نظارہ ہوتا ہے نظر نہیں آتا اُسی طرح وہ ستون اور وہ پہاڑ جو ہماری کامیابی کے رستہ میں روک ہے ہٹ جائے گا.میں تفصیل کو بیان کرنے کے لیے تیار نہیں ہوں لیکن میں ان علوم کی وجہ سے جو اللہ تعالیٰ نے مجھ پر کھولے ہیں یہ جانتا ہوں کہ یہ ابتلاء کا دور جو آ رہا ہے خواہ کتنا بڑا ہی کیوں نہ ہو اس کے بعد آنے والی خوشی جو ہمارے لیے مقدر ہے اس سے بھی بڑی ہوگی.اور وہ اتنی بڑی ہو گی کہ اگر وہ کی تم میں سے کسی پر ظاہر ہو جائے تو ہنستے ہنستے اُس کی جان نکل جائے یا روتے روتے اُس کی جان نکل جائے.تمہیں یہ غیب معلوم نہیں.تم موجودہ حالات کو اور آئندہ کے آثار کو معمولی حادثات سمجھتے ہے ہولیکن میں جانتا ہوں کہ وہ کتنے اہم ہیں.تم زنجیر کو نہیں دیکھتے کڑی کو دیکھتے ہو اور کڑی دل پر اتنا اثر نہیں کرتی جتنا اثر زنجیر کرتی ہے.زنجیر موجود ہے مگر اُسے میں ہی جانتا ہوں جس پر اللہ تعالیٰ نے

Page 15

* 1949 6 خطبات محمود اس کا علم کھولا ہے.یا وہ لوگ جانتے ہیں جن کو خدا تعالیٰ نے اس کا علم دیا ہے.تم ہر کڑی میں.گزرتے ہوئے صرف اُس کڑی کی طرف دیکھتے ہو.اگر وہ کڑی دکھ کی ہوتی ہے تو تم دکھ محسوس کرتے ہو.اور اگر وہ خوشی کی ہوتی ہے تو تم خوشی محسوس کرتے ہو اور اگر وہ کڑی پر دہ غیب کی ہوتی ہے ہے تو تم کچھ بھی محسوس نہیں کرتے.جیسے لکڑی دریا میں بہتی جاتی ہے اور وہ اپنے دائیں بائیں کو نہیں دیکھتی.لیکن تم دعائیں کرو تا وہ روک جو تمہاری کامیابی کے رستہ میں حائل ہے دور ہو.اور اس کے پیچھے جو برکات مجھے نظر آ رہی ہیں انہیں اللہ تعالیٰ جلد تر قریب لائے تا ہمارا قدم آگے کی طرف بڑھ کر ایک ایسے مقام پر پہنچ جائے کہ دنیا ہمارے انجام کو اور زیادہ دُور سے دیکھ سکے جس طرح کہ وہ اب دیکھ رہی ہے.(الفضل 8 را پریل 1949 ء ) 1: بخاری کتاب بدء الوحي باب كَيْفَ كَانَ بَدء الوحى إِلى رَسُولِ اللهِ صلى الله عليه وسلم

Page 16

* 1949 7 2 خطبات محمود دشمن کی مخالفت اس امر کی دلیل ہے کہ وہ ہماری طاقت اور قوت کو محسوس کرتا ہے (فرموده 21 جنوری 1949ء بمقام لاہور ) تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: اللہ تعالیٰ کی طرف سے جب بھی دنیا میں کوئی آواز بلند کی جاتی ہے تو دنیا کے لوگ اس کی ضرور مخالفت کرتے ہیں.بغیر مخالفت کے خدائی تحریکیں دنیا میں کبھی جاری نہیں ہوئیں.خدائی تحریک جب بھی دنیا میں جاری کی جاتی ہے اس کے متعلق بلا وجہ اور بلا سبب لوگوں میں بغض اور کینہ پیدا ہو جاتا ہے.اتنا بغض اور کینہ کہ اسے دیکھ کر حیرت آ جاتی ہے.ایک مسلمان کو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے جو محبت ہے اس کو الگ کر کے، اُسے آپ سے جو عقیدت ہے اسے کھلا کر اگر صرف آپ کی ذات بابرکات کو ہی دیکھا جائے تو آپ کی ذات انتہائی ہے بے شتر ، انتہائی بے نفس اور دنیا کے لیے انتہائی ایثار اور قربانی کرنے والی معلوم ہوتی ہے.آپ اپنی ساری زندگی میں کسی ایک شخص کا بھی حق مارتے ہوئے نظر نہیں آتے.آپ کسی سے گالی گلوچ کی کرتے ہوئے نظر نہیں آتے.آپ کسی جگہ دنگا اور فساد میں مشغول نظر نہیں آتے.

Page 17

$1949 8 خطبات محمود لیکن قریباً پونے چودہ سو سال کا عرصہ ہو چکا دشمن آپ کی مخالفت کرنے اور آپ کے متعلق بغض اور کینہ رکھنے سے باز نہیں آتا.جو شخص بھی اٹھتا ہے اور وہ مذہب پر کچھ لکھنا چاہتا ہے وہ فوراً آپ کی ذات پر حملہ کرنے کے لیے تیار ہو جاتا ہے.آخر اس کا کیا سبب ہے؟ ہر چیز کا کوئی نہ کوئی سبب ہوتا ہے.اس کا بھی یا تو کوئی جسمانی سبب ہوگا یا روحانی سبب ہو گا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مخالفت کا کوئی جسمانی سبب تو نظر نہیں آتا.جن قوموں کے ساتھ آپ نے یا آپ کے خلفاء نے لڑائیاں کی تھیں وہ تو میں تو اب ختم ہو چکی ہیں اور ان کی اولادیں مسلمان ہو چکی ہیں.مثلاً عرب ہیں.عربوں کے ساتھ آپ نے لڑائیاں کیں.اگر یہ سمجھ لیا جائے کہ آپ کی مخالفت کا سبب لڑائیاں ہی تھیں تو پھر تو عرب مسلمان ہو چکے ہیں.ان کی یاد کو تازہ رکھنے والی دنیا میں کوئی چیز ہے موجود نہیں.پھر شامی ہیں، مصری ہیں، عراقی ہیں، ایرانی ہیں ان سب کے ساتھ صحابہ نے لڑائیاں کی تھیں لیکن یہ سب تو میں ختم ہو گئی ہیں اور ان کی اولادیں مسلمان ہو گئی ہیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں یہی تو میں تھیں جن سے مسلمانوں کا مقابلہ ہوا لیکن اب یہ سب مسلمان ہوگئی ہیں اور ایسی کوئی نسل دنیا میں نہیں جو یہ کہہ سکے کہ مجھے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم می کی ذات سے اس لیے دشمنی ہے کہ آپ نے ہمارے باپ دادوں سے لڑائیاں کی تھیں.اگر یہ کہانی جائے کہ مسلمان چونکہ حکومت کرتے رہے ہیں اس لیے لوگوں کو اسلام سے عداوت ہے تو دنیا کے بعض ایسے علاقے بھی ہیں جن پر مسلمان کبھی حاکم ہی نہیں ہوئے.اور جن علاقوں پر مسلمان حاکم ہے ہوئے ہیں اُن پر وہ ایسے ہی حاکم ہوئے تھے جیسے دوسری قو میں کسی اور قوم پر حاکم ہو جایا کرتی ہیں اور یہ کوئی عجیب بات نہیں.آخر امریکہ کے باشندے بھی تو عیسائی نہیں تھے.عیسائی وہاں باہر سے ہی گئے ہیں.آسٹریلیا کے باشندے بھی عیسائی نہیں تھے.عیسائی وہاں باہر سے ہی گئے ہیں.اسی ہے طرح ویسٹ افریقہ اور ایسٹ افریقہ کے باشندے بھی عیسائی نہیں تھے.عیسائی وہاں باہر سے ہی کی گئے ہیں.فلپائن کے باشندے بھی عیسائی نہیں تھے ، نیوزی لینڈ کے باشندے بھی عیسائی نہیں کی تھے.ان سب جگہوں پر عیسائی باہر سے ہی گئے ہیں.پھر ایسے علاقے بھی ہیں جہاں دوسری کی قو میں موجود ہیں لیکن عیسائیوں نے اُن پر حکومت کی ہے.مثلاً ہندوستان کو ہی لے لو.ہندوستان پر انگریزوں نے ڈیڑھ سو سال سے زیادہ عرصہ حکومت کی ہے.اب اگر کسی کو دشمنی ہوتی ہے یا کوئی

Page 18

* 1949 9 خطبات محمود بغض اور کینہ رکھتا ہے تو وہ صرف انگریزوں سے رکھتا ہے حضرت مسیح علیہ السلام سے کوئی دشمنی یا بغض و کینہ نہیں رکھتا.جس طرح انگریزوں نے ہندوستان پر حکومت کی ہے اس سے کہیں زیادہ نرم اور کہیں زیادہ انصاف اور محبت پر مبنی حکومت مسلمانوں نے کی ہے.لیکن ہندوؤں کو جو دشمنی حکومت کرنے کی والوں سے ہے اُس سے کہیں بڑھ کر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ہے.اگر ہندوؤں کو صرف مغلوں سے دشمنی ہوتی تو یہ بات سمجھ میں آسکتی تھی کہ انہوں نے ایک زمانہ میں انہیں مغلوب کر لیا تھا اس لیے انہیں دشمنی ہے.پھر ہندوستان پر جیسی حکومت مسلمانوں نے کی ہے ویسی ہی حکومت انگریزوں نے کی ہے.اس لیے ہندو انگریز کے تو دشمن ہوں گے، انہیں انگریزوں کے متعلق تو بغض اور کینہ ہو گا کیونکہ انہوں نے ایک لمبے عرصہ تک غلام بنائے رکھا لیکن حضرت مسیح علیہ السلام سے کینہ و بغض رکھنے والا کوئی ہندو نہیں ملے گا.لیکن مسلمان حکومت کرتا ہے تو اس کے متعلق اس علاقہ میں بھی بغض و کینہ پایا جاتا ہے جس پر وہ حکمران رہ چکا ہوتا ہے اور اس سے کہیں بڑھ کر بغض اور کینہ اُس کے دل میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق پایا جاتا ہے.یہی حال چین کا ہے.وہاں مسلمانوں نے بھی حکومت کی ہے اور دوسری قوموں نے بھی حکومت کی ہے.مثلاً بدھوں نے ایک وقت تک چین پر حکومت کی ہے لیکن چینیوں کو مسلمانوں سے اتنی دشمنی نہیں جتنی انہیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ہے.سپین میں مسلمانوں نے عیسائیوں پر حکومت کی ہے اور مرا کو میں ہسپانویوں نے مسلمانوں پر حکومت کی ہے.” عوض معاوضہ گلہ نہ دارد مرا کو کے لوگوں نے ہسپانیہ پر حکومت کی اور ہسپانیہ والوں نے مرا کو پر حکومت کی.بظاہر یہ معاملہ ختم ہو جاتا ہے لیکن ہوتا کیا ہے؟ مرا کو پر ہسپانیہ والے حکومت کرتے ہیں تو وہاں کے لوگ ہسپانیہ والوں کو تو گالیاں دیتے ہیں، انہیں بُرا بھلا کہتے ہیں لیکن حضرت عیسی علیہ السلام کوکوئی گالی نہیں دیتا نہ کوئی بُرا بھلا کہتا ہے.لیکن مرا کو ہسپانیہ پر حملہ کرتا ہے تو ہسپانیہ والوں میں مسلمانوں کے علاوہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی دشمنی اور بغض و کینہ پیدا ہو جاتا ہے حالانکہ دونوں متوازی قو میں تھیں.ایک وقت تک میں اگر مرا کو والوں نے ہسپانیہ پر حکومت کی تو دوسرے وقت میں ہسپانیہ والوں نے مرا کو پر حکومت کی.اس کے نتیجہ میں ایک زمانہ تک مرا کو والوں میں ہسپانیہ والوں کے متعلق بغض و کینہ 66 پیدا

Page 19

$ 1949 10 خطبات محمود.ہو جاتا ہے اور ان سے دشمنی ہو جاتی ہے لیکن یہ بغض و کینہ حکومت کرنے والوں تک ہی محدود رہتا ہے مذہب کے بانی کی طرف منتقل نہیں ہوتا.لیکن اس کے برخلاف ہسپانیہ والے مرا کو کی حکومت کے بدلہ میں صرف مرا کو والوں سے دشمنی نہیں رکھتے بلکہ ان کی دشمنی اور بغض و کینہ بانی اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف بھی منتقل ہو گیا ہے اور صرف منتقل ہی نہیں ہوا بلکہ بانی اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے متعلق جو دشمنی اور بغض و کینہ پیدا ہوا وہ اُس دشمنی اور بغض و کینہ سے کہیں زیادہ ہے جو ہسپانیہ والوں کو حکومت کرنے والوں سے تھا.مراکو میں چلے جاؤ وہاں ہے عیسائیوں کو تو گالیاں دینے والے مل جائیں گے، انہیں بُرا بھلا کہنے والے مل جائیں گے مگر حضرت کی عیسی علیہ السلام کو گالیاں دینے والا اور بُرا بھلا کہنے والا کوئی نہیں ملے گا.لیکن ہسپانیہ والے صرف کی مسلمانوں ہی کے خلاف نہیں تھے بلکہ وہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بھی شدید دشمن ہو گئے تھے.انہوں نے یہ طریقہ اختیار کیا ہوا تھا کہ وہ جامع مسجد میں چلے جاتے تھے، وہاں خطبہ ہو رہا ہوتا تو وہ کی کھڑے ہو کر رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو گالیاں دینے لگ جاتے.اس پر مسلمان جوش میں آ کر اُس عیسائی کو قتل کر دیتے اور سارے ملک میں شور برپا ہو جاتا کہ مسلمان ظالم ہیں.آخر دیکھنے والی بات ہے کہ اس کی وجہ کیا ہے؟ ظاہری طور پر تو اس کی کوئی وجہ نظر نہیں آتی.محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی سے کوئی ذاتی فائدہ نہیں اٹھایا.اگر آپ نے کوئی فائدہ اٹھایا ہے ہوتا، اگر آپ نے بادشاہت حاصل کرنے کی کوشش کی ہوتی یا اپنی نسل کے لیے بادشاہت حاصل کی کرنے کی خواہش کی ہوتی یا آپ کے خاندان نے مال و اسباب لو ٹا ہوتا تب تو دوسرے لوگوں کو ی آپ سے دشمنی ہو سکتی تھی لیکن آپ نے ایسا نہیں کیا.نہ آپ نے اپنے لیے ایسا کیا نہ آپ نے اپنی اولاد کے لیے ایسا کیا.ہاں حق اولاد در اولاد کے مطابق آپ کی اولاد میں جو نیک لوگ تھے لوگ اُن کا ادب و احترام کرتے تھے.وہ ان کا ادب و احترام اس لیے نہیں کرتے تھے کہ وہ آپ کی اولاد ہیں بلکہ وہ ان کا ادب و احترام اس لیے کرتے تھے کہ ان میں خود بعض اچھی خوبیاں پائی جاتی ہے تھیں.ورنہ اسلام نے ایسی کوئی شرط نہیں رکھی کہ سید کو فلاں جگہ دی جائے، فلاں جگہ نہ دی جائے.غرض کوئی چیز بھی ایسی نہیں جو آپ نے اپنے لیے یا اپنی نسل کے لیے مخصوص کی ہولیکن آپ کی مخالفت انتہاء تک پہنچی ہوئی ہے.

Page 20

خطبات محمود 11 $1949 اگر یہ کہا جائے کہ چونکہ آپ نے لڑائیاں کی تھیں اس لیے دوسرے لوگوں کو آپ سے دشمنی ہوگئی ہے.تو ہم کہتے ہیں بے شک آپ نے لڑائیاں کی ہیں لیکن ساتھ ہی آپ کی یہ ہدایات بھی تھیں کہ بوڑھوں کو مت مارو، عورتوں اور بچوں کو مت چھوڑ ، راہیوں اور پادریوں کو کچھ نہ کہو، جو ا قیدی ہو جائیں انہیں مت مارو، کسی پر اچانک حملہ نہ کرو بلکہ حملہ کرنے سے پہلے اسے بتا دو کہ ہم حملہ کرنے والے ہیں.اگر کسی قوم یا قبیلہ سے تمہارا معاہدہ ہو تو اُسے تو ڑو نہیں.لیکن اگر تم دیکھتے ہے ہو کہ وہ قوم یا قبیلہ معاہدہ توڑ رہا ہے تو اُسے کہہ دو کہ ہم اپنا معاہدہ ختم کرتے ہیں.بلکہ آپ نے کی یہاں تک فرمایا ہے کہ جب دشمن کے ساتھ تمہاری چپقلش ہو جائے اور وہ تم پر زیادتی کرے تو بعض قسم کی زیادتیوں کے بدلہ میں بے شک تمہیں اجازت ہے کہ تم دشمن کے ساتھ اتنی زیادتی کر لو جتنی زیادتی اُس نے تمہارے ساتھ کی ہے.لیکن بعض قسم کی زیادتیوں کے بدلہ میں تمہیں اتنی زیادتی کرنے کی بھی اجازت نہیں کیونکہ جو زیادتی انسانیت سے ہی گری ہوئی ہو اُس کے بدلہ میں اتنی زیادتی کرنا بھی مسلمان کے لیے جائز نہیں.یہ احکام تھے جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے لڑائیوں کے متعلق دیئے.آپ سے پہلے حضرت موسی علیہ السلام بھی ایک شرعی نبی گزرے ہیں اور حضرت موسی علیہ السلام نے بھی لڑائیاں کی ہیں.اور حضرت موسی علیہ السلام نے لڑائیوں کے متعلق فرمایا ہے کہ تم دشمن کے گھر میں گھس جاؤ ، اُس کے تمام مردوں کو قتل کر دو، اس کی عورتوں اور بچوں کو غلام بنا لو بلکہ اُس کے جانوروں تک کو بھی قتل کر دو کیونکہ وہ بھی نجس اور ناپاک ہیں، اس کے گھروں کو جلا دو، اس کی فصلوں کو تباہ کر دو.1 اب اگر لڑائیوں کی ہی وجہ سے لوگوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے دشمنی پیدا ہو گئی ہے تو آپ سے زیادہ انہیں حضرت موسی علیہ السلام سے دشمنی ہونی چاہیے تھی لیکن حضرت موسی علیہ السلام کا تو ہمیں کوئی دشمن نظر نہیں آتا.اگر یہ دشمنی لڑائیوں کی ہی وجہ سے تھی تو آپ سے زیادہ حضرت کرشن علیہ السلام سے دشمنی ہوئی ہے چاہیے تھی جنہوں نے نہ صرف لڑائیاں کی ہیں بلکہ لڑائی کے متعلق نہایت ہی سخت تعلیم دی ہے.لیکن کرشن علیہ السلام کے دشمن بھی کہیں نظر نہیں آتے اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے من عام پائے جاتے ہیں.پس یہ کہنا کہ لوگوں کی آپ سے دشمنی ان لڑائیوں کی وجہ سے ہے جو آپ نے کیں محض جھوٹ ہے آپ سے پہلے اور بھی کئی نبی ایسے گزرے ہیں جنہوں نے لڑائیاں کی

Page 21

$1949 12 خطبات محمود ہیں.مثلاً حضرت داؤد علیہ السلام نے لڑائیاں کی ہیں.حضرت کرشن علیہ السلام نے لڑائیاں کی ہیں.حضرت موسی علیہ السلام نے لڑائیاں کی ہیں مگر باوجود اس کے کہ انہوں نے لڑائیاں کیں اُن کے متعلق مخالفین میں اتنا بغض اور کینہ پیدا نہیں ہوا جتنا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق ہوا ہے.پس محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مخالفت کی جو مادی وجہ بیان کی جاتی ہے وہ باطل ہوگئی اور یہی ایک مادی وجہ ہے جو بیان کی جاتی ہے.پس جب مخالفت کی کوئی مادی وجہ موجود نہیں تو صاف ظاہر ہے کہ اس کی کوئی روحانی وجہ ہے اور وہ صرف یہی ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مخالفین کے دل محسوس کرتے ہیں کہ اسلام ایک صداقت ہے.اگر اسے روکا نہ گیا تو یہ صداقت پھیل جائے گی اور انہیں مغلوب کر لے گی.یہی ایک چیز ہے جس کی وجہ سے لوگوں کو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات سے سخت دشمنی ہے.اس مخالفت کے باقی جتنے بھی وجوہ بیان کیے جاتے ہیں وہ آپ سے زیادہ شان کے ساتھ دوسرے نبیوں میں موجود ہیں.اس لیے یہ بات یقینی ہے کہ اس دشمنی کی وجہ لڑائی اور جھگڑا نہیں بلکہ ایک روحانی چیز ہے جس کی وجہ سے یہ دشمنی پیدا ہوگئی ہے اور وہ یہی ہے کہ اسلام ایک حقیقت رکھنے والا مذہب ہے.اسلام غالب آ جانے والا مذہب ہے، اسلام دوسرے مذاہب کو کھا جانے والا مذہب ہے.اسے دیکھ کر مخالفین کے کان فوراً کھڑے ہو جاتے ہیں اور وہ مقابلہ کے لیے تیار ہو جاتے ہیں.جیسے ہم باغ میں چل رہے ہوتے ہیں یا کہیں سیر کر رہے ہوتے ہیں تو ہمیں معلوم بھی نہیں ہوتا کہ کوئی شکر ا یا باز آ رہا ہے مگر چڑیاں تو چوں چوں کر کے اُڑنے لگ جاتی ہیں.ہم حیران ہوتے ہیں کہ آخر ہوا کیا؟ ہم اِدھر اُدھر بڑے غور سے دیکھتے ہیں تو اُفق پر بہت دور ایک شکرا اُڑتا ہوا نظر آتا ہے.یا ہم دریا کی سیر کر رہے ہوتے ہیں مرغابیاں بیچ بیچ کر کے گھاس اور کیچڑ چاٹ رہی ہوتی ہیں اور اپنے پر پھیلا پھیلا کر اپنے جسم سے رطوبت اور پانی کے قطرے گرا رہی ہوتی ہیں.دیکھنے والا یہ سمجھتا ہے کہ آرام طلبی اور عیاشی کی صرف انسان کے لیے ہی مخصوص نہیں بلکہ جانور بھی اس کے مزے اُڑا رہے ہیں.یکدم وہ مرغابیاں اُڑ جاتی ہیں اور ہمیں اُس کی کوئی وجہ معلوم نہیں ہوتی.بڑی تلاش کرنے کے بعد دور افق پر ایک شکار کرنے والا جانور مثلاً باز نظر آتا ہے تب معلوم ہوتا ہے کہ وہ مرغابیاں کیوں اُڑیں؟ دیکھو ان جانوروں نے کہاں سے اُس شکار کرنے والے جانور کی بُو سونگھ لی؟ ہم نے وہ یو نہیں سونگھی.

Page 22

* 1949 13 خطبات محمود اس لیے کہ وہ جانور اُس کے شکار تھے ہم اُس کا شکار نہیں تھے.ہم نے اس حملہ کرنے والے جانور کی آمد کو محسوس نہیں کیا مگر ان جانوروں نے اس کی آمد کو محسوس کر لیا کیونکہ وہ اُس کا شکار تھے اور شکار ہمیشہ اپنے شکاری کو بھانپ جایا کرتا ہے.اسی طرح یہ لوگ چونکہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا شکار ہیں اس لیے وہ آپ کے مخالف ہو گئے ہیں اور یہی ایک وجہ ہے جس کی وجہ سے لوگ ہے آپ کے دشمن ہیں.اور اگر یہی ایک وجہ ہے تو یہ بات ہمارے لیے غم کا موجب نہیں ہونی چاہیے بلکہ خوشی کا موجب ہونی چاہیے.لوگ گھبراتے ہیں کہ اُن کی مخالفت کیوں کی جاتی ہے.لوگ جھنجھلا اٹھتے ہیں کہ اُن سے عداوت کیوں کی جاتی ہے.لوگ چڑتے ہیں کہ انہیں دکھ کیوں دیا جاتا ہے.لیکن اگر گالیاں دینے ل اور دکھ دینے کی وجہ یہی ہے کہ وہ ہمارا شکار ہیں تو پھر ہمیں گھبرانا نہیں چاہیے اور نہ کسی قسم کا فکر کرنا ہے چاہیے.بلکہ ہمیں خوش ہونا چاہیے کہ دشمن یہ محسوس کرتا ہے کہ اگر ہم میں کوئی نئی حرکت پیدا ہوئی تو ہم اُس کے مذہب کو کھا جائیں گے.اگر ہم نے اپنے اندر کوئی نئی تبدیلی پیدا کی تو ہم اُن کے عقائد کو باطل کر دیں گے.اگر ہمارے دشمن کے اندر یہ احساس پایا جاتا ہے تو پھر اُس کا لڑنا جھگڑنا اور ہمیں گالیاں دینا ہمارے حوصلوں کو بڑھانے والا ہے کیونکہ وہ محسوس کر رہا ہے کہ ہم میں ایسی طاقت ہے جس کی وجہ سے ہم اُس کو اپنے اندر شامل کر لیں گے.ہم میں اتنی طاقت ہے کہ ہم اُسے دینی طور پر مغلوب کر لیں گے.پس اس مخالفت سے گھبرانا نہیں چاہیے کیونکہ یہ دشمن کی شہادت اور اقرار ہے کہ تم غالب آجاؤ گے اور پیشتر اس کے کہ تم اس پر غالب آؤ وہ تمہارے غلبہ کو توڑنا چاہتا ہے.پس دشمن کا یہ سلوک ہمارے لیے خوشی کی خبر لاتا ہے اور ہمیں خوش ہو کر اس طاقت کو استعمال کرنا چاہیے جو خدا تعالیٰ نے ہمارے اندر ودیعت کی ہے جس کو سونگھ کر دشمن صرف یہ پتا ہی نہیں لگا لیتا کہ یہ خطر ناک ہے بلکہ وہ اُس زنجیر کو پالیتا ہے جو آج سے تیرہ سو سال قبل چلی جاتی ہے ہے.وہ سمجھتا ہے کہ یہ بیسویں صدی کا آدمی ہے مگر اُس کے اندر یہ طاقت اور قوت آج ہی پیدا نہیں ہے ہوئی بلکہ یہ چیز تیرہ سو سال قبل کے زمانہ سے تعلق رکھتی ہے.کیا کبھی آپ لوگوں نے گتوں کو نہیں دیکھا؟ وہ انسان کی بُو سونگھ لیتے ہیں.چوری کرتا ہے اور اس کا ہاتھ کسی جگہ لگتا ہے یا اُس کا کپڑا کسی چیز سے چُھو جاتا ہے تو وہ مقام یا

Page 23

$1949 14 خطبات محمود کپڑا کسی سونگھنے والے گتے کو سونگھا دیا جاتا ہے.اس پر وہ گتا یہ محسوس نہیں کرتا کہ اُس نے کپڑا یا کوئی جوتی سونگھی ہے بلکہ وہ کو اُس کے لیے ایک زنجیر بن جاتی ہے جس کے ساتھ ساتھ وہ بھاگنا شروع کر دیتا ہے اور وہ چور جہاں ہوتا ہے اُسے پکڑ لیتا ہے.اس طرح جو شخص روحانی طور پر اسلام کو سونگھتا ہے وہ ایک ایسی زنجیر کو پالیتا ہے یا ایک ایسے راستہ کو پالیتا ہے جو اسے محمد رسول اللہ صلی اللہ یہ وسلم تک لے جاتا ہے.وہ سمجھ لیتا ہے کہ دراصل یہ سب قوت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ہی آئی ہے.اس لیے وہ اپنی دشمنی کو موجودہ مسلمانوں سے آگے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک بڑھا لیتا ہے.وہ جانتا ہے کہ اسلام میں ایک ایسی تار ہے جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک چلی گئی ہے.باقی مذاہب میں وہ یہ تار نہیں دیکھتا.وہ مسیحیت کو بُرا کہہ لے گا، عیسائیوں کو بُرا کہہ لے گا مگر مسیح علیہ السلام کو بُرا نہیں کہے گا کیونکہ وہاں کوئی ایسا رشتہ موجود نہیں جس سے مسیحیت یا کسی عیسائی کے ساتھ حضرت مسیح علیہ السلام بھی سُونگھے جاسکیں.وہ ایک پنڈت کو بُرا کہہ لے گا، وہ بسا اوقات اس سے ناراض بھی ہو جائے گا لیکن وہ کرشن علیہ السلام سے ناراض نہیں ہوگا کیونکہ اُس کی پنڈت اور کرشن علیہ السلام کے درمیان کوئی ایسا رشتہ نہیں جس سے کرشن علیہ السلام سُونگھے جائیں.مگر اسلام میں ساری برکت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ہے.جو شخص اسلام کو سونگھتا ہے وہ اُس تار کو پالیتا ہے جو اُسے آج سے تیرہ سو سال قبل محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک لے جاتی ہے.اُس کا ناک اُس کی رہبری کرتے کرتے اُسے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دروازہ تک پہنچا دیتا ہے اور وہ آپ کا دشمن ہو جاتا ہے.پس ہمیں یہ دیکھ کر کہ دشمن ہماری قوت اور طاقت کو محسوس کر کے جھلا اُٹھا ہے خوش ہونا چاہیے اور اس سے فائدہ اٹھانا چاہیے.میں نے جماعت کو بار بار اس طرف توجہ دلائی ہے لیکن افسوس کہ جماعت نے اس طرف بہت کم توجہ کی ہے.اگر جماعت اس امر کی طرف توجہ کرتی تو یقیناً اس کی تعداد اتنی بڑھ جاتی کہ کوئی شخص دشمنی کی جرات بھی نہ کر سکتا.یہ کمی اسی لیے پیدا ہو گئی ہے کہ ہماری طرف سے سستی اور غفلت برتی جا رہی ہے.شیر سے ہر کوئی ڈرتا ہے لیکن چڑیا گھر والے شیر سے کوئی بھی نہیں ڈرتا کیونکہ اُس کے اردگرد دیوار بنی ہوئی ہوتی ہے یا سلاخیں لگی ہوئی ہوتی ہیں اور وہ ہمیں اُس سے محفوظ کر لیتی ہیں.اسی طرح مومن بے شک شیر ہے مگر جب وہ اپنے اردگرد غفلت کی سلاخیں لگا لیتا ہے، جب وہ

Page 24

$1949 15 خطبات محمود اپنے اردگرد بے عملی کا قلعہ بنالیتا ہے تو کوئی شخص اُس سے نہیں ڈرتا کیونکہ ہماری اپنی بنائی ہوئی ہے دیوار میں اُسے محفوظ کر لیتی ہیں.پس اگر ہم اس قلعہ کو گرا دیں جو ہم نے اپنے ارد گرد بنایا ہوا ہے تو یقینا شیر شیر ہے.پس ہماری جماعت کو چاہیے کہ وہ اپنے اندر ایک نئی تبدیلی پیدا کرے.ایک ایسی تبدیلی جو ایک قلیل ترین عرصہ میں اُسے دوسری قوموں پر غالب کر دے.ایک جرمن دوست یہاں آئے ہوئے ہیں تا کہ وہ دینی علوم سیکھیں اور واپس جا کر اشاعتِ اسلام کا کام کر سکیں.اگر آپ لوگ اچھا تھی نمونہ پیش کریں گے تو یہ بھی اچھا نمونہ لے کر واپس جائیں گے.ان لوگوں میں کام کرنے کی عادت ہے.جب یہ لوگ ایمان لے آئیں گے تو یقیناً اسلام کے لیے بڑی بڑی قربانیاں کریں گے کیونکہ دنیا کے لیے جو قربانیاں یہ لوگ کرتے ہیں، جس دلیری کے ساتھ یہ لوگ جنگ کرتے اور اپنی جانیں قربان کر دیتے ہیں ایشیائی لوگ اُس طرح نہیں کرتے.جب یہ لوگ ایمان لے آئیں گے تو جس طرح وہ دنیوی ضرورتوں کے لیے قربانیاں کرتے ہیں اُس سے بڑھ چڑھ کر وہ کی انشاء اللہ دین کے لیے قربانی کریں گے اور اس طرح یہ سلسلہ تمام دنیا میں پھیل جائے گا.لیکن ضرورت اس بات کی ہے کہ اچھا نمونہ پیش کیا جائے.اور ہم اپنے اندر بھی جدوجہد کا مادہ پیدا کریں کیونکہ اگر ہم ایسا نہیں کریں گے تو یہ لوگ سمجھیں گے کہ یہ مُردہ قوم ہے اس سے ہمیں سوائے کی مردنی کے اور کیا ملے گا.اگر ہم اپنے اندر محنت، ہمت اور استقلال پیدا کر لیں ، ہم اپنی عقلوں سے کام لیں تو یہ لوگ بھی ہم سے اسلام سیکھ کر اُس کو آگے پھیلانے کی کوشش کریں گے.جس طرح بچے اینٹوں کا گھر بناتے ہیں اور اس کی ایک اینٹ گرا دینے سے تمام اینٹیں گر جاتی ہیں اسی طرح انا اگر ہم قربانی کریں گے تو ہمارے رستہ میں جتنی بھی روکیں ہیں یکے بعد دیگرے دور ہوتی چلی جائیں گی.کہتے ہیں کوئی شخص کسی قلعہ یا بُرج میں قید تھا.اُس کے رفقاء نے تجویز کی کہ اُسے کس طرح قید سے نکالا جائے لیکن انہیں کوئی ایسا ذریعہ نہ ملا.آخر انہیں ایک عقلمند آدمی نے ایک تجویز بتائی اور وہ یہ کہ اُس نے ایک ریل کا دھاگا لیا اور دھاگے کا ایک سرا تیر کے ساتھ باندھ کر تیر اوپر کھڑکی میں مارا.تیر کھڑکی میں جالگا.قیدی نے وہ دھاگا او پر کھینچ لیا.جب دھا گا او پر پہنچ

Page 25

* 1949 16 خطبات محمود گیا تو اُس نے دھاگے کے سرے کے ساتھ ذرا موٹا دھاگا باندھ دیا.پھر اُس کے آگے ستلی 2 باندھ دی.پھر اُس سے ذرا زیادہ موٹی رسی اُس مستلی کے ساتھ باندھ دی.اور پھر اُس رہتی کے ساتھ موٹا رتہ باندھ دیا اور اس طرح رستہ کے ذریعہ وہ قیدی نیچے اتر آیا.اسی طرح اسلام کی ترقی کی ہوگی.مسلمانوں میں جو جان تھی وہ تو گویا نکل ہی گئی ہے.شاید لمبی غلامی ، غفلت اور سستی کی وجہ ی سے ایسا ہوا ہے لیکن بہر حال اس کی کوئی وجہ ہو ہم اگر اپنے سے زیادہ پست قوموں میں سے آدمی لے لیں اور پھر وہ آدمی اپنے سے زیادہ پست قوموں سے آدمی لیں تو جس طرح دھاگے کے ساتھ آہستہ آہستہ رستہ باندھ دیا گیا تھا اور رستہ اوپر چلا گیا اس طرح کمزور سے کمزور آدمی کے ذریعہ قوی سے قوی لوگ اسلام میں داخل ہونے شروع ہو جائیں گے اور اسلام تمام ممالک میں پھیل جائے گا.خدا تعالیٰ جو چاہتا ہے وہی کرتا ہے لیکن وہ تدبیروں سے بھی کام لیتا ہے اور ایسے رستے کھول دیتا ہے جن سے ترقی کے رستے وسیع سے وسیع تر ہو جاتے ہیں.میں دعا کرتا ہوں کہ خدا تعالیٰ ہمیں توفیق عطا فرمائے کہ ہم صحیح رنگ میں اپنی اصلاح کریں تاکہ اپنا نیک نمونہ پیش کر سکیں اور اسلام کو دنیا میں پھیلانے والے بنیں اور ہم اشاعت اسلام کے لیے ایسی مناسب فضاء پیدا کرنے میں کامیاب ہو جائیں جس کے بغیر ہم (الفضل 24 جولائی 1949ء) اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہو سکتے“.1 : استثناء باب 20 آیت 2 : متلی : سن یاسوت کی ڈوری ( اردو لغت تاریخی اصول پر جلد 11 صفحہ 501 کراچی 1990ء)

Page 26

* 1949 17 3 خطبات محمود خدا تعالیٰ کی بادشاہت میں وہی لوگ داخل ہوتے ہیں جو اخلاقی لحاظ سے اپنے آپ کو سادہ بنا لیتے ہیں فرموده 4 فروری 1949ء بمقام سیالکوٹ شہر ) تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: بارش کی وجہ سے میں جمعہ کی نماز کے ساتھ عصر کی نماز پڑھا دوں گا.میں خود تو مسافر ہوں اور مسافر کے لیے نمازیں جمع کرنا جائز ہوتا ہے لیکن سخت بارش کی وجہ سے چونکہ یہاں کے.دوستوں کو بھی نماز میں آنا مشکل ہوگا اس لیے میں عصر کی نماز کو بھی جمعہ کی نماز کے ساتھ پڑھا دوں اس کے بعد میں دوستوں کو نصیحت کرنا چاہتا ہوں کہ وہ نماز کے بعد مصافحہ کرنے کی کوشش نہ کریں.جن دوستوں نے بیعت کرنی ہے اُن کی بیعت ہو جائے گی لیکن چونکہ میں نے کی بعض دوستوں سے نماز جمعہ کے بعد ملاقات کا وقت مقرر کیا ہوا ہے اس لیے مجھے جلدی واپس جانا ہے ہے دوست مصافحہ نہ کریں کیونکہ دیر ہو جانے سے حرج ہو گا.اس کے بعد میں دوستوں کو ایک اہم معاملہ کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں جس کے متعلق

Page 27

خطبات محمود 18 * 1949 یالکوٹ میں ہی ایک رؤیا ہوا ہے.میں نے رویا میں دیکھا کہ گویا میں قادیان میں ہوں اور قادیان میں بھی میں اُس کمرہ میں ہوں جس میں ابتدائی ایام میں ہماری پیدائش سے بھی پہلے جیسا کہ حضرت اماں جان کی روایت سے معلوم ہوتا ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام رہا کرتے تھے.مسجد کی سیڑھیاں اترتے ہوئے ایک دروازہ گول کمرہ کی طرف کھلتا ہے.اُس کمرے سے گھر کی طرف جائیں تو اس کے ساتھ ایک کوٹھڑی ہے.کوٹھڑی کے ساتھ ایک دالان ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ابتدائی ایام میں جب آپ نے میری والدہ سے شادی کی اسی دالان میں رہا کرتے تھے.میں نے رویا میں دیکھا کہ میں اس دالان میں ہوں اور کسی شخص نے آکر مجھے تین ہزار پانچ سو پونڈ صدقہ کے لیے دیا ہے اور کہا ہے کہ آپ یہ رقم غرباء پر خرچ کر دیں.جس وقت اس شخص نے یہ رقم دی ہے اُس وقت میرے پاس میری بیوی بشری بیگم بھی ہیں.میں نے انہیں وہ روپیہ دیا اور کہا کہ یہ روپیہ نذیر کو دے دو.نذیر احمد میرا ایک موٹر ڈرائیور ہے.اس کا پورا نام نذیر احمد ہے لیکن رویا میں میں نے صرف نذیر کا لفظ ہی کہا ہے.جب میری بیوی بشری بیگم مجھ سے وہ روپیہ لے کر چلی گئیں تو میرے دل میں خیال پیدا ہوا کہ اتنی بڑی رقم میں نے کی ایک ہی شخص کو دے دی ہے.بعض لوگ اعتراض کریں گے کہ اتنی بڑی رقم ایک ہی شخص کو کیوں دے دی گئی ہے.میں اس اعتراض کا خود ہی جواب دیتا ہوں کہ آخر دینے والے نے وہ رقم مجھے ہی دی تھی اور اس نے خود ہی کہا تھا کہ یہ رقم جسے میں چاہوں دے دوں.اس میں اعتراض کی کونسی بات ہے؟ پھر میں خود ہی یہ شبہ پیدا کرتا ہوں کہ گو میں نے وہ رقم ایک ہی شخص کو دے دی ہے اور مجھے اختیار تھا کہ جسے چاہوں وہ رقم دے دوں لیکن کیا میں ہر جگہ اعتراضات اور سوالات کے جواب دیتا رہوں گا.اس پر میں نے سوچا کہ میں نذیر احمد سے کہوں گا کہ وہ روپیہ واپس کر دے لیکن میں پھر یہ خیال کرتا ہوں کہ روپیہ دے کر واپس لینا ٹھیک نہیں.اس کے بعد میں ایک اور تجویز کرتا ہوں کہ اچھا میں اسے تحریک کروں گا کہ وہ اس روپیہ میں سے کچھ روپیہ واپس کر دے اور اس میں میں کچھ اپنے پاس سے ملا کر جماعت کو دے دوں گا تا کہ وہ جہاں چاہے اسے خرچ کرلے.میرے دل میں اس قسم کے سوالات اور شبہات پیدا ہوتے ہیں اور میں رویا میں ہی ان کے جواب دیتا ہوں.اتنے میں میری بیوی واپس آگئیں.میں نے ان سے پوچھا کہ کیا انہوں نے وہ روپیہ نذیر کو کی.

Page 28

خطبات محمود 19 * 1949 دے دیا ہے؟ انہوں نے جواب دیا نذیر تو گھر نہیں تھا میں وہ روپیہ اُس کی بیوی کو دے آئی ہوں.میری جب آنکھ کھلی تو میں نے اس رؤیا کے مضمون پر غور کیا.رؤیا کے بعض حصے ایسے ہوتے ہیں جو اصلی ہوتے ہیں اور بعض حصے ایسے ہوتے ہیں جو اصلی نہیں ہوتے بلکہ وہ بطور پس پردہ کے ہوتے ہیں جن میں ایک حد تک انسانی دماغ کا حصہ ہوتا ہے.یہ مضمون میں نے کئی بار بیان کیا ہے.بعض دفعہ انسان خواب میں ایک نظارہ دیکھتا ہے اور وہ اس نظارہ کے بالکل الٹ ہوتا ہے جو وہ بیداری میں دیکھتا ہے.مثلاً ایک شخص خواب میں مرنا دیکھے تو اس سے مراد خوشی ہوتی ہے ہے اور اگر کسی غیر معروف مقام پر کسی کی شادی دیکھے تو اس سے مراد موت ہوتی ہے.گویا رویا میں اگر کوئی مرنا دیکھے تو اس سے مراد زندگی ہوتی ہے اور اگر کسی غیر معروف مقام پر کسی کی شادی دیکھے تو اس سے مراد مرنا ہوتا ہے.مرنے کی تعبیر زندگی ہے اور شادی کی تعبیر موت ہے.لیکن جب کوئی خواب میں کسی کی موت دیکھتا ہے تو وہ روتا ہے کیونکہ اس دنیا میں جب کوئی ایسا واقعہ ہوتا ہے تو وہ ہے روتا ہے.اسی عادت کے مطابق وہ خواب میں روتا ہے.میں نے غور کرنے کے بعد یہ سمجھا کہ اس کی خواب کی تعبیر یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کے انبیاء نذیر ہوتے ہیں مگر نذیر خدا تعالیٰ بھی ہوتا ہے.یہاں نذیر سے مراد خدا تعالیٰ ہے کیونکہ وہ خوشخبریاں بھی دیتا ہے اور تنبیہ بھی کرتا ہے، سرزنش بھی کرتا ہے اور اپنے بندوں کو ہوشیار بھی کرتا ہے.پس میں نے اس رڈیا کی یہ تعبیر کی کہ جماعت پر بعض ابتلاء آئیں گے جن کے دور کرنے کے لیے جماعت کو صدقہ دینا چاہیے.میری جب آنکھ کھلی اُس وقت میں نے تین ہزار پانچ سو پونڈ کا اندازہ باون ہزار روپیہ کا لگایا لیکن جب حسابی طور پر اس کا اندازہ لگایا تو یہ رقم اڑتالیس ہزار روپے کے قریب ہوتی ہے.اور رویا میں میں نے وہ رقم جو نذیر کو دی ہے اس کی میں نے یہ تعبیر کی کہ ہمیں یہ رقم خدا تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرنی چاہیے.اور پھر خواب میں وہ رقم نذیر کو نہیں دی گئی ہے اُس کی بیوی کو دی گئی ہے.اس کی میں نے یہ تعبیر کی کہ صدقہ خدا تعالیٰ کے ہاتھ میں نہیں جاتا اُس کی کے بندوں کے پاس جاتا ہے.جیسے بیوی اپنے خاوند کے تابع ہوتی ہے اسی طرح خدا تعالیٰ کے بندے بھی اُس کے تابع ہوتے ہیں.صوفیاء نے لکھا ہے کہ خدا تعالیٰ اور بندے کے تعلقات خاوند اور بیوی کے تعلقات کی طرح ہوتے ہیں.خدا تعالیٰ کی طرف سے فیض آتا ہے اور بندے اسے

Page 29

$ 1949 20 20 خطبات محمود قبول کرتے ہیں جیسے بیوی خاوند کا نطفہ قبول کر کے اسے بچہ بنا دیتی ہے.صوفیاء کے نزدیک خدا تعالیٰ اور پیر کو خاوند کی حیثیت حاصل ہوتی ہے اور بندے اور مرید کو بیوی کی حیثیت حاصل ہوتی ہے.پس چونکہ وہ روپے خواب میں نذیر کو نہیں دیئے گئے بلکہ اُس کی بیوی کو دیئے گئے ہیں اس لیے میں نے اس کی یہ تعبیر کی کہ اسی طرف اشارہ ہے کہ خدا تعالیٰ کے بندوں پر رقم خرچ کی جائے.اور چونکہ نذیر کا پورا نام نذیر احمد ہے اس لیے احمد سے یہ مراد لی جاسکتی ہے کہ یہ روپیہ احمدی غرباء میں تقسیم کیا جائے.باقی جو وساوس پیدا ہوئے ہیں وہ ظاہری حالات کے ماتحت ہیں.میں نے رویا میں وہ ساری رقم ایک ہی شخص کو دے دی.ظاہری حالات میں یہ بات قابلِ اعتراض ہے چاہے دینے والے نے وہ روپے مجھے ہی دیئے تھے اور انہیں جیسے میں چاہوں دے سکتا ہوں.مگر سننے والا تو یہ کہہ دے گا کہ اُس سے زیادہ ہم غریب تھے.اور چونکہ ظاہری طور پر دنیا میں ایسا ہی ہوتا ہے اس لیے رویا کا یہ حصہ اصلی نہیں بلکہ یہ حصہ ظاہری حالات کے تابع ہے.میں سمجھتا ہوں کہ یہ چیز ہے خدا تعالیٰ کی طرف سے ہے اور میں جماعت میں تحریک کرتا ہوں کہ وہ صدقہ دیں.یہ صدقہ انہیں روپے کی صورت میں واپس نہیں ملے گا.ہاں یوں دوسری شکل میں بڑھ چڑھ کر ملے گا جیسا کہ اللہ تعالی قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ جو لوگ خدا تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں انہیں وہ رقم بڑھا چڑھا کر واپس کی جاتی ہے.1 میں نے جب اس خواب پر مزید غور کیا تو میرے دل میں یہ خیال آیا کہ قادیان سے بہت سے لوگ ایسے آئے ہیں جن کے وہاں اپنے مکانات تھے اور ساری عمر میں تھوڑا تھوڑا کر کے جی جو روپیہ انہوں نے جمع کیا تھا وہ انہوں نے اپنے مکانوں پر لگا دیا تھا.انہوں نے اپنی ساری طاقت اسی بات پر صرف کر دی تھی کہ وہ قادیان میں مکان بنا ئیں اور اب ان میں اتنی طاقت نہیں ہے کہ وہ نئی بستی میں اپنے مکانات بنا سکیں.اس لیے میں سمجھتا ہوں کہ میں جماعت میں تحریک کروں کے تا کہ اتنی رقم بطور صدقہ اکٹھی کی جائے.خواب میں میں نے تین ہزار پانچ سو پونڈ کی رقم دیکھی جس کا اندازہ میں نے باون ہزار یا اڑتالیس ہزار لگایا ہے.اگر ایک پونڈ پندرہ روپے کا سمجھ لیا جائے تو پھر یہ رقم باون ہزار روپیہ کی ہو جاتی ہے اور یہ میرا نیم خوابی کی حالت کا اندازہ تھا.حسابی طور پر یہ رقم اڑتالیس ہزار روپیہ کے قریب بنتی ہے.چنانچہ اسی بناء پر ہی میں جماعت میں

Page 30

$ 1949 21 خطبات محمود تحریک کرتا ہوں کہ وہ لوگ جنہیں خدا تعالیٰ توفیق دے خصوصاً وہ لوگ جو گزشتہ فسادات کی زد میں نہیں آئے اور خدا تعالیٰ نے انہیں محفوظ رکھا ہے وہ چندہ دیں اور اس روپیہ سے قادیان کے ان کی غرباء کو جور بوہ میں مکان بنانے کی طاقت نہیں رکھتے مکانات بنا کر دیئے جائیں.ہمارا اندازہ ہے کہ غریبانہ طرز کا مکان جس میں دو تین کمرے ہوں اور وہ کچا بنایا جائے تو اس پر چار سو روپیہ کے قریب خرچ آئے گا.ہم نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ ابھی مرکزی مکانات بھی کچے بنائے جائیں.بہر حال اگر مکانات کچے بنائے جائیں تو ہمارا اندازہ ہے کہ چار سو روپیہ میں ایک احاطہ اور دو تین کمرے بن سکیں گے اور باون ہزار روپیہ میں سوا سو آدمیوں کے لیے مکانات تعمیر کیے جاسکتے ہیں اور چونکہ یہ رویا میں نے سیالکوٹ میں دیکھی ہے ( یہ رویا میں نے کل رات دیکھی ہے ) میں نے ی سمجھا کہ یہ رویا یہاں سیالکوٹ میں ہی خطبہ میں بیان کر دوں.در حقیقت جماعت کو یہ محسوس ہونا چاہیے کہ ہم نے ایک بہت لمبے عرصہ کے بعد ایک متحدہ جماعت بنائی ہے.ہمیں ایک دوسرے کی تکلیفوں کا احساس ہونا چاہیے ورنہ گروہ تو پہلے بھی تھے پھر ایک جماعت بنانے کا کیا فائدہ.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں کہ سب مومن ایک جسم کی طرح ہوتے ہیں جیسے جسم کے ایک حصہ کو تکلیف پہنچتی ہے تو تمام جسم متکلم ہوتا ہے.2 اس طرح مومن پیار اور محبت کی وجہ سے ایک دوسرے کی تکلیف کو محسوس کرتے ہیں ، اس کے نقصان کو اپنا نقصان خیال کرتے ہیں.اس وقت مادیت کا زور ہے اور اس کے اثر کی وجہ سے بدقسمتی سے ہم دوسرے کی تکلیف کو محسوس نہیں کرتے اور اس کے نقصان کو اپنا نقصان تصور نہیں کرتے.تیرہ سو سال کے لمبے عرصہ کے بعد اور انتہائی مایوسیوں اور ناامیدیوں کے بعد اللہ تعالیٰ نے یہ جماعت بنائی ہے.اگر یہ جماعت اُسی طرح کوشش کرتی جیسے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وقت میں صحابہ نے کی تو یقیناً ہماری جماعت اپنے نیک نمونہ کی وجہ سے بہت زیادہ ترقی کر سکتی تھی.اب تو صاف نظر آ رہا ہے کہ اگر مسلمانوں کے لیے کوئی سہارا ہے تو وہ صرف ہماری جماعت ہی ہے.مسلمانوں پر جو متواتر مصائب آئے ہیں ان مصائب کے دوران میں اگر ان کی عزت کسی حد تک بچی ہے تو وہ ہماری جماعت کی وجہ سے ہی بچی ہے.پچھلے سال جب میں سیالکوٹ کے بعد پشاور گیا تو وہاں مجھے تیرہ ملکوں کا ایک وفد ملا.

Page 31

$ 1949 22 خطبات محمود وہ لوگ بڑے بڑے ملک تھے.گورنمنٹ کی طرف سے بعض کو بارہ بارہ تیرہ تیرہ ہزار روپیہ ماہوار وظیفہ ملتا ہے اور وہ آفریدی اور شنواری قبائل سے تعلق رکھتے تھے.مجھے جب ان کے آنے کی خبر ملی تو میں نے ان کے لیے چائے تیار کروائی.چائے پینے کے بعد اُن ملکوں میں سے ایک نے مجھے پشتو میں یہ کہنا شروع کیا جس کا بعد میں اردو میں ترجمہ کیا گیا کہ آپ حیران ہوں گے کہ ہم آپ کی جماعت سے تعلق نہیں رکھتے.پھر ہم آپ سے ملنے کے لیے کیوں آئے ہیں؟ ہم اپنے یہاں آنے کی کی وجہ بتاتے ہیں اور وہ یہ ہے کہ جب پنجاب میں فسادات ہوئے اور ہمارے پاس خبر میں آنی ہے شروع ہوئیں کہ فلاں علاقہ سے مسلمان نکل آئے ہیں، فلاں علاقہ سے مسلمان بھاگ آئے ہیں تو ی شرم کے مارے ہماری گردنیں جھک جاتی تھیں اور ہم سمجھتے تھے کہ اب ہم کسی کو اپنا منہ نہیں دکھا سکتے.لیکن جب ہمیں خبریں آنی شروع ہوئیں کہ احمد یہ جماعت مقابلہ کر رہی ہے اور اپنے مرکز کا دفاع کر رہی ہے اور ہوتے ہوتے یہ خبریں آنی شروع ہوئیں کہ اگر چہ گورنمنٹ کا زور بڑھ گیا ہے مگر قادیان کو کلی طور پر احمدیوں نے نہیں چھوڑا اور اب بھی وہاں مسلمان موجود ہیں تو ہماری گردنیں اونچی ہو گئیں.آپ نے ہماری ناک کٹ جانے سے ہمیں بچا لیا اس لیے ہم شکریہ ادا کرنے کے لیے یہاں آئے ہیں.مذہبی طور پر تو ہمیں آپ سے شدید مخالفت ہے لیکن چونکہ آپ نے ہماری عزت قائم رکھی اس لیے ہم یہاں آئے ہیں تا آپ کا شکریہ ادا کریں.اور بھی کئی واقعات ہیں مثلاً خارجی امور میں چودھری محمد ظفر اللہ خان صاحب نے جو خدمات سرانجام دی ہیں.مثلاً باؤنڈری کمیشن میں جو آپ نے حصہ لیا اگر چہ اس کا فیصلہ ہمارے خلاف ہی ہوا لیکن سب لوگ یہ تسلیم کرنے لگ گئے ہیں کہ ہر کام صحیح قربانی کے ساتھ احمدی ہی کر سکتے ہیں.اب ہمارا غیر بھی سمجھنے لگ گیا ہے کہ ہماری جماعت کو کوئی خاص کام تفویض ہوا ہے لیکن ہماری جماعت ہی اس کام کو نہ سمجھے اور اپنے اندر صحیح تبدیلی پیدا نہ کرے تو اس سے زیادہ بد قسمتی اور کیا ہو گی.پس میں جماعت کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ اپنی اصلاح کرے، اپنے اندر صحیح تبدیلی پیدا کرے اور اپنے آپ کو سچا، مخلص اور سچا مسلم ثابت کرے.اگر آج تم اپنے اندر تبدیلی پیدا نہیں کرتے اور آج تم اپنی اصلاح نہیں کرتے تو وہ دن کو نسا آئے گا جب تم اپنی اصلاح کرو گے.ہر دن جو آتا ہے ہم دیکھتے ہیں کہ ہم میں سے بعض مرجاتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے

Page 32

$ 1949 23 23 خطبات محمود صحابی ہم سے جدا ہو رہے ہیں اور آہستہ آہستہ وہ دن آ جائے گا جب یہ کہا جائے گا کہ کیا تم میں سے کوئی ہے جس نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو دیکھا ہے.اور ہمیں کوئی ایسا شخص نہیں ملے گا.کیا وہ دن ہو گا جس دن تم اپنے اندر تبدیلی پیدا کرو گے؟ وہ دن وہی ہوسکتا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے صحابی ہم میں موجود ہوں اور آپ کے دیکھنے والے اور آپ کی باتیں سننے والے ہم میں موجود ہوں.میں نے دیکھا ہے کہ غیروں کے اندر بھی یہ جذبہ پایا جاتا ہے ہے.جب میں لنڈن گیا تو کچھ انگریز مجھے ملنے کے لیے آئے.ان میں سے ایک پرانا احمدی بھی کی تھا.وہ میرے پہلو میں بیٹھا ہوا تھا.ان لوگوں نے مجھ سے باتیں کرنی شروع کر دیں اور مختلف سوالات کیے جن کے میں نے جوابات بھی دیئے.انہوں نے مجھ پر نبوت کے متعلق بھی سوالات کیے اور میں نے انہیں بتایا کہ نبوت کے کیا معنے ہیں.نبی خدا تعالیٰ کا پیغام لوگوں تک پہنچاتا ہے اور خدا تعالیٰ اس سے باتیں کرتا ہے.اس احمدی کے اندر یہ باتیں سن کر ایک عجیب سا تغیر پیدا ہوا اور مجھ سے مخاطب ہوتے ہوئے اس نے کہا کہ کیا آپ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو دیکھا ہے؟ میں نے کہا: ہاں میں نے آپ کو دیکھا ہے.میں خود آپ کا بیٹا ہوں.اُس نے پھر پوچھا کی کیا آپ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی باتیں سنی ہیں؟ میں نے کہا ہاں میں نے آپ کی باتیں سنی ہیں.اس نے پھر سوال کیا کہ کیا آپ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے مصافحہ کیا ہے؟ میں نے جواب دیا ہاں میں نے آپ سے مصافحہ کیا ہے.میں حیران تھا کہ یہ شخص احمدی ہے اور پھر ایسے سوالات کرتا ہے.اس کے بعد اُس کی ایسی حالت ہو گئی جیسے غنودگی کی ہوتی ہے ہے.وہ جھک گیا اور اٹھ کر مجھ سے مصافحہ کیا اور کہا میں اُس شخص سے مصافحہ کر رہا ہوں جس نے کی اُس شخص سے مصافحہ کیا جس سے خدا تعالیٰ باتیں کرتا تھا.غرض دنیا کی نگاہ میں یہ ایک عجیب بات سمجھی جاتی ہے کہ انہیں کوئی ایسا شخص مل جائے جو اُس شخص سے ملا ہو جس سے خدا تعالیٰ باتیں کیا کرتا ت تھا لیکن یہ لوگ ختم ہو جاتے ہیں تو دنیا پر مُردنی چھا جاتی ہے.ہم دیکھتے ہیں کہ لوگ کسی طرف دوڑے جار ہے ہوتے ہیں تو اگر اُن سے پوچھا جائے کہ کیا ہے؟ تو وہ کہہ دیتے ہیں بندر کا تماشہ ہے.لوگ ایک طرف دوڑے جا رہے ہوتے ہیں اگر اُن سے پوچھا جائے کہ کیا ہے؟ تو وہ کہہ یتے ہیں مداری کا تماشہ ہے.لوگ ایک طرف دوڑے جا رہے ہوتے ہیں اور اگر ان سے پوچھا تی

Page 33

$1949 24 خطبات محمود جائے کہ کیا ہے؟ تو وہ کہہ دیتے ہیں کہ کوئی سرکس آیا ہوا ہے.لوگ ایک طرف دوڑتے جا رہے ہوتے ہیں اور ان سے پوچھا جائے کہ کیا ہے؟ تو وہ کہہ دیتے ہیں کوئی سینما ہے.غرض دنیا کے لوگ چھوٹی سے چھوٹی بات کی طرف دوڑتے چلے جاتے ہیں.لیکن اس سے زیادہ عجیب چیز کیا ہوگی کہ ایک ایسا شخص پیدا ہو جائے جسے خدا تعالیٰ نے لوگوں کی ہدایت کے لیے بھیجا ہو اور وہ اُس سے کلام کرتا ہو.یہ بات تو اَعْجَبُ الْعَجائب ہے لیکن وہ لوگ انتہائی بدقسمت ہیں جو اسے سمجھتے نہیں.وہ اسے دیکھتے ہیں، انہیں اس کے دیکھنے والے کو دیکھنے کا موقع ملتا ہے لیکن وہ اپنی اصلاح نہیں کرتے.وہ خوش نہیں ہوتے کہ خدا تعالیٰ نے ایک عجوبہ ظاہر کیا ہے.وہ ایک معجزہ دکھاتا ہے لیکن وہ اس کی قدر نہیں کرتے اور اس کے مطابق اپنے عمل، قول اور افکار کو درست نہیں کرتے.ہماری جماعت پر بہت سی ذمہ داریاں عائد ہیں اور ہم ان ذمہ داریوں کو ادا نہیں کر سکتے جب تک ہم اپنے اندر تبدیلی پیدا نہ کریں.ہم فتح حاصل نہیں کر سکتے.ہم اپنے اندر تبدیلی پیدا کرنے کے بعد ہی دنیا کو فتح کر سکتے ہیں.ہم اُس وقت ہی فتح حاصل کر سکتے ہیں جب ہم اپنے آپ کو اس رنگ میں رنگین کر لیں جس رنگ میں صحابہ رنگین تھے.جب تک ہم اپنے دلوں کی اصلاح نہ کریں، جب تک ہم اپنے اندر دیانت اور امانت پیدا نہ کریں، جب تک ہم سے جھوٹ اور فریب کی عادت جاتی نہ رہے.بلکہ جب تک ہم اپنے اعمال کو سادہ نہیں بنا لیتے ، جب تک ہم اپنے آپ کو سادہ مسلمان نہیں بنا لیتے ایسا مسلمان جس کو دوسرے لوگ تو ٹوٹ سکتے ہیں مگر وہ خود کسی کو نہیں کو تھا.جب تک ہم ایسے مسلمان نہیں بن جاتے ہم دنیا کو فتح نہیں کر سکتے.دنیا کو وہی ہے لوگ فتح کر سکتے ہیں اور فرشتے انہی لوگوں پر اُترتے ہیں.اور خدا تعالیٰ کی بادشاہت میں وہی لوگ داخل ہوتے ہیں جو اخلاقی لحاظ سے اپنے آپ کو سادہ بنا لیتے ہیں اور ان کے اندر بے ایمانی ، جھوٹ اور فریب کی روح نہیں پائی جاتی“.(الفضل 16 فروری 1949ء) 1: مَنْ ذَا الَّذِى يُقْرِضُ اللهَ قَرْضًا حَسَنًا فَيُضْعِفَهُ لَهُ أَضْعَافًا كَثِية (البقرة:146) 2 مسلم كتاب البر والصلة باب تراحم المومنين وتعاطفهم و تعاضدهم

Page 34

* 1949 25 25 4' خطبات محمود مومن کو روحانیت کے ظاہری اور باطنی دونوں پہلوؤں کو درست کرنے کی طرف توجہ کرنی چاہیے ہے وہ (فرموده 18 فروری 1949 ء راولپنڈی) تشهد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: اس میں کوئی محبہ نہیں کہ مغز ہی اصل چیز ہوا کرتی ہے لیکن اس میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ کسی چھلکے کے بغیر کوئی مغز تیار نہیں ہو سکتا.جو لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ مغز بغیر چھلکے کے تیار ہو سکتا غلطی پر ہیں.مغز کا قیام چھلکے کے ساتھ وابستہ ہے.میں ایک دفعہ سندھ گیا وہاں ایک عزیز کے ہاں میری دعوت تھی.ایک ہندو بھی وہاں تھا.اس سے میں نے پوچھا تم ہندوستان کیوں نہیں ہے گئے؟ اس نے کہا یہاں امن ہے.جو لوگ یہاں سے چلے گئے ہیں انہوں نے غلطی کی ہے.مسلمانوں سے میرے اچھے تعلقات ہیں اور مجھے یہاں کسی قسم کا خطرہ نہیں.مجلس میں سے کسی نے کہیے کہا کہ یہ دوست اسلام کی تحقیق کر رہے ہیں اور ایک حد تک اسلام کی طرف مائل ہیں.اس پر میں نے اُس ہندو سے کہا جب آپ اسلام کی تحقیقات کر رہے ہیں اور ایک حد تک آپ نے اس کی صداقت کو معلوم کرنے کی کوشش کی ہے تو آپ آگے قدم کیوں نہیں بڑھاتے ؟ اگر آپ

Page 35

$1949 26 26 خطبات محمود اسلام کی صداقت کے قائل ہیں تو پھر آپ اسے مانتے کیوں نہیں؟ اس ہندو نے کہا مجھے میرے گرو نے سکھایا ہے کہ دین دل کے ساتھ تعلق رکھنے والی چیز ہے.جب کسی چیز سے دل کا تعلق ہو جاتا ہے تو یہ امر انسان کے لیے کافی ہے.میراگر و بھی خدا کی ہی باتیں سناتا ہے.پس جب میں نے اسلام کے ساتھ دل سے تعلق پیدا کر لیا اور مجھے اس سے محبت بھی ہے تو یہ کافی ہے.ظاہری طور پر اسلام میں داخل ہونے کی کیا ضرورت ہے؟ میں نے اُس سے کہا کیا آپ کی شادی ہو چکی ہے؟ اس نے جواب دیا ہاں میری شادی ہو چکی ہے.میں نے کہا تمہارے بچے بھی ہیں؟ اس نے جواب دیا ہاں میرے بچے بھی ہیں.میں نے کہا کیا تم نے کبھی اپنے بیوی اور بچوں سے پیار بھی کیا ہے؟ اس پر وہ کہنے لگا اپنے بیوی بچوں سے تو لوگ پیار کیا ہی کرتے ہیں.میں نے کہا کیا تمہارے دل میں ان کے لیے محبت ہے؟ اس نے کہا ہاں میرے دل میں ان کے لیے محبت ہے.میں نے کہا اگر تمہارے دل میں تمہارے بیوی بچوں کی محبت ہے اور تم یہ کہتے ہو کہ دل میں کسی چیز کی محبت کا ہونا کافی ہے تو پھر تم اپنے بیوی بچوں سے پیار کیوں کرتے ہو؟ دل کی محبت کو ہی کافی کیوں نہیں ہے سمجھتے ؟ اور اگر تم اپنے بیوی بچوں کے لیے اپنے دل کی محبت کو کافی نہیں سمجھتے بلکہ ظاہر میں بھی اُن سے پیار کرنا چاہتے ہو تو پھر خدا تعالیٰ کے لیے یہ بات کیسے کہتے ہو کہ اُس سے دل میں تعلق ہے اس لیے ظاہری عبادت کی ضرورت نہیں.اس پر وہ بہت شرمندہ ہوا.بہر حال ظاہر بھی ایک حقیقت رکھتا ہے جیسا کہ باطن حقیقت رکھتا ہے.اگر ہم نے مغز پر زور دیا ہے تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ ظاہر کی کوئی حقیقت نہیں.مغز اپنی جگہ پر قیمت رکھتا ہے اور ظاہر اپنی جگہ پر قیمت رکھتا ہے.اسلام نے جو احکام دیئے ہیں یا جو باتیں عقلی طور پر ان کے نتیجہ میں سمجھی جاتی ہیں وہ ساری کی ساری ایسی ہیں جن پر عمل کرنا ضروری ہے ورنہ صحیح نتائج پیدا نہیں ہے ہو سکتے.مثلاً جب ہم نماز کے لیے کھڑے ہوتے ہیں تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے صفیں سیدھی کر لو ورنہ دل ٹیڑھے ہو جائیں گے.1 اب دیکھو صفوں کے سیدھا ہونے کا دلوں کے ٹیڑھا ہو جانے کے ساتھ کوئی ظاہری تعلق نہیں لیکن محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں صفیں سیدھی کرو ورنہ دلوں کے ٹیڑھا ہو جانے کا خطرہ ہے اور آپ اس پر عمل بھی کرواتے تھے.اسی طرح باقی احکام ہیں.اگر ہم انہیں رسم کہہ کر چھوڑتے چلے جائیں تو یہ بات ہمیں اسلام سے بہت دور کی

Page 36

* 1949 27 خطبات محمود لے جائے گی.مثلاً رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ سنت تھی کہ آپ قبلہ رخ ہو کر اذان دینا سکھاتے تھے اور اسی پر عمل کرواتے تھے.اب لاؤڈ سپیکر کے نکل آنے کی وجہ سے ایک غلط طریق می نظر آتا ہے کہ جدھر چاہا منہ کر کے اذان دے دی اور کہہ دیا اذان ہی دینی ہے جدھر چاہا منہ کر کے دے دی.یہ بات رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے خلاف ہے.اُمم طاہر جب بیمار تھیں اور ہسپتال میں ان کا آپریشن ہوا تھا تو چونکہ آپریشن کے بعد زخموں میں یا دوائیوں سے بُو آنے کا ڈر ہوتا ہے اس لیے ڈاکٹر عام طور پر ، اور ڈی کلون (Eau De Cologne) ایسے بیماروں کے گرد یا چہرہ یا سر پر چھڑکتے رہتے ہیں.ان کو بھی ڈاکٹر نے مشورہ دیا کہ آپ اور ڈی کلون منگوا کر پاس رکھیں اور وقتا فوقتا چھڑکتے رہیں.جنگ کی وجہ سے چیزیں بازار سے نہیں ملتی تھیں اس لیے جو آدمی بازار گئے وہ اور ڈی کلون نہ لا سکے.اس لیے میں ڈاکٹر حشمت اللہ صاحب کو ساتھ لے کر او.ڈی کلون کی تلاش میں نکلا.مجھے یاد ہے ہم ایک بڑی ڈاکٹری ادویہ کی دکان پر گئے.اس کے مالک سے جو سکھ تھا ہم نے دریافت کیا کہ کیا تمہارے پاس اور ڈی کلون ہے؟ اس نے کہا ہاں میرے پاس او ڈی کلون ہے اور ایک بوتل لا کر ہمیں دکھائی.میں نے وہ بوتل دیکھی اور کہا کیا یہ اصلی چیز ہے؟ اس بوتل پر لیبل تو تمہارا اپنا لگا ہوا ہے.اس نے کہا آپ کو تو او.ڈی کلون چاہیے خواہ اس پر لیبل کوئی لگا ہو.میں نے وہ بوتل کھولی تو اس میں وہ خوشبو نہیں تھی جو او.ڈی کلون میں ہوا کرتی ہے.او.ڈی کلون کا بڑا جز وسنگترے کا تیل ہوتا ہے.میں نے اس دکاندار سے کہا اس بوتل سے مصنوعی مشک کی خوشبو آتی ہے او.ڈی کلون کی خوشبو نہیں آتی.اس پر وہ کہنے لگاؤ ہی چاہیے کوئی ہو ( وہ لوگ خوشبو کو بھی بُو کہتے ہیں).یہی حال ان لوگوں کا ہے جو احکام شریعت کو یہ کہ کر پس پشت ڈال دیتے ہیں کہ حکم پر عمل کرنا ہے خواہ کسی طرح ہو.بہر حال اذان دینے کا وہ طریق درست نہیں جو اس وقت اختیار کیا گیا ہے.پھر خطبہ کا یہ طریق ہوتا ہے کہ مخاطب امام کی طرف رُخ کر کے بیٹھے ہوں اور اس کی طرف متوجہ ہوں 2ے لیکن آج پہلے قبلہ رخ کر کے صفیں بنوا دی گئیں اور پھر امام کو یہاں سٹیج پر لا کر کھڑا کر دیا گیا.امام یہاں سٹیج پر کھڑا ہے اور مخاطب دوسری طرف منہ کیے صفیں باندھے بیٹھے ہیں.ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے انہیں خطبہ کی طرف کوئی رغبت ہی نہیں اس لیے وہ دوسری طرف متوجہ ہیں.کر صفوں کے سیدھا نہ ہونے کی وجہ سے دل ٹیڑھے ہو جاتے ہیں تو آج جو طریقہ اختیار کیا گیا.

Page 37

$ 1949 828 28 خطبات محمود یعنی امام یہاں سٹیج پر کھڑا ہے اور مخاطب دوسری طرف متوجہ ہیں اس سے بھی دل ٹیڑھے ہونے کا خطرہ ہے.چاہیے تو یہ تھا کہ اگر لوگوں کی قبلہ رخ کر کے صفیں بنوا دی گئیں تھیں تو امام کو بھی وہاں کھڑا کیا جاتا.لیکن اگر امام کو خطبہ کے لیے اسٹیج پر کھڑا کیا تھا تو پھر مخاطبین کو بھی اس طرف منہ کر کے بیٹھنا چاہیے تھا اور اسی طرف متوجہ ہونا چاہیے تھا.جب امام خطبہ پڑھ کر مصلی پر جاتا تو پھر صفیں سیدھی کر لی جاتیں.اول تو لاؤڈ سپیکر کی کیا ضرورت تھی ؟ بھلا یہ کونسا بڑا مجمع ہے.ہم نے تو کئی کئی ہزار کے مجمع میں تقریریں کی ہیں.پس لاؤڈ سپیکر کے بغیر خطبہ ہوسکتا تھا.اگر لاؤڈ سپیکر ہی لگانا تھا تو پھر جب امام نماز پڑھانے کے لیے جاتا تو لوگ کھڑے ہو جاتے اور صفیں سیدھی کر بہر حال ظاہر اور باطن دونوں کا خیال رکھنا چاہیے.نہ صرف ظاہر کفایت کر سکتا ہے اور نہ صرف باطن سے کام چل سکتا ہے.بلکہ بیک وقت دونوں کی اصلاح ضروری ہوتی ہے.جس طرح صرف ظاہری نماز روزہ کا کوئی فائدہ نہیں اسی طرح صرف باطنی نماز اور روزہ کا بھی کوئی فائدہ نہیں.حضرت خلیفۃ امسیح الاول کے پاس ایک بڑھا دوائی لینے آیا کرتا تھا اور وہ متواتر چھ سات ماہ تک آتا رہا.میں اور میر محمد اسحاق صاحب اُن دنوں حضرت خلیفة أسبح الاول سے پڑھا کرتے تھے.ہمارے لیے یہ عجیب بات تھی کہ وہ ہمیشہ ہی دوائی لینے آجاتا ہے.ایک دن ہم نے اُس سے پوچھا ھے کہ تم روز یہاں آتے ہو.اگر تمہارا علاج ٹھیک نہیں ہو رہا تو پھر یہ علاج چھوڑ دو اور کسی اور طبیب سے علاج کراؤ.حضرت خلیفہ اسیح الاول اُن دنوں عموماً زکام کے مریضوں کے لیے نسخہ جات میں کی شربت بنفشہ لکھا کرتے تھے.اُس بڑھے نے کہا چونکہ مجھے یہاں شربت پینے کومل جاتا ہے اس لیے میں روز دوائی لینے آ جاتا ہوں.حضرت خلیفہ المسیح الاول نے اُسے کئی دفعہ نماز پڑھنے کی نصیحت کی.وہ کہا کرتا تھا کہ آپ کی نماز بھی کوئی نماز ہے؟ مسجد میں نماز پڑھنے گئے اور پھر سلام کے پھیر کر باہر آگئے.جس چیز سے عشق ہو بھلا وہاں سے کوئی باہر بھی آیا کرتا ہے.ہم نے تو جس دن کی سے اپنے پیر کی مریدی کی ہے ہم نماز پڑھ رہے ہیں اور اُس دن سے نماز توڑی ہی نہیں.اور جب ہم نے نماز توڑی ہی نہیں تو پھر نئی نماز شروع کرنے کا سوال ہی کس طرح پیدا ہوسکتا ہے.غرض یا درکھو کہ صرف باطن کوئی چیز نہیں جب تک ظاہر نہ ہو صحیح روحانی کیفیت پیدا نہیں

Page 38

$1949 29 29 خطبات محمود ہوتی بلکہ اس کے نتیجہ میں بھی مداہنت پیدا ہوتی ہے اور کبھی انسان ریاء کی طرف چلا جاتا ہے.جو لوگ قشر کی طرف چلے جاتے ہیں اُن میں صرف ریاء ہی ریاء پایا جاتا ہے.مثلاً نماز پڑھنا کتنی اچھی بات ہے لیکن ہزاروں ہزار نمازی ایسے ہیں جن کے متعلق خدا تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے فَوَيْلٌ لِلْمُصَدِّينَ لي الَّذِينَ هُمْ عَنْ صَلَاتِهِمْ سَاهُونَ الَّذِينَ هُمْ يُرَاءُونَ.3 ہلاکت ہے ایسے ނ نمازیوں پر جو اپنی نماز سے غافل ہیں اور صرف ریاء کے طور پر نمازیں پڑھتے ہیں.نماز.در حقیقت انہیں کوئی واسطہ نہیں ہوتا.وہ لوگ اگر چہ نمازیں پڑھ رہے ہوتے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ایسے نمازیوں کے لیے ہلاکت ہے.یہ کیوں؟ اس لیے کہ وہ صرف دکھاوے کی نمازیں پڑھتے ہیں.ظاہر میں وہ سجدہ کرتے ہیں، ظاہر میں وہ قیام کرتے ہیں، ظاہر میں وہ قعود کرتے ہیں کہ لیکن یہ ساری کی ساری باتیں دکھاوے کے لیے کرتے ہیں.پھر بہت سے لوگ ایسے ہوتے ہیں جو کہہ دیتے ہیں ہم باطن میں نمازیں پڑھتے ہیں.وہ سمجھ لیتے ہیں کہ باطن تو کسی نے دیکھا نہیں ہے اور اس طرح وہ دوسروں کو دھوکا دینے کی کوشش کرتے ہیں.مومن کو ظاہر اور باطن دونوں کے درست کرنے کی طرف توجہ کرنی چاہیے.کوئی نماز ، نماز نہیں جب تک اُس کے ساتھ دل شامل نہ ہو اور کوئی نماز، نماز نہیں جب تک اُس کے ساتھ جسم شامل نہ ہو.دل کے ساتھ اگر ذکر الہی کر لو اور ظاہری طور پر نماز نہ پڑھو تو وہ کچھ بھی نہیں.اسی طرح اگر ظاہری طور پر نماز پڑھی جائے لیکن دل اس میں شامل نہ ہو تو وہ بھی کچھ فائدہ نہیں دیتی.حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب کی ایک صاحبزادی تھیں.ان کے بھائی سید عبدالغنی شاہ صاحب انہیں ہر جمعہ ملنے جایا کرتے تھے.ایک دن انہوں نے اپنے بھائی سے کہا میں نے دیکھا ہے نماز میں جتنا لطف آتا ہے اُس سے کہیں زیادہ لطف ذکر الہی میں آتا ہے.اس لیے میں ذکر الہی لمبا کرتی ہوں.سید عبدالغنی شاہ صاحب نے جواب دیا یہ طریق اچھا معلوم نہیں ہوتا اس سے کوئی نقصان نہ پہنچ جائے.جو ظاہر شریعت نے بتایا ہے وہی ضروری ہے.ہوتے ہوتے انہوں ن نے ایک دن کہہ دیا کہ میں نے سنتیں پڑھنی بھی چھوڑ دی ہیں کیونکہ ذکرِ الہی میں زیادہ لطف آتا جی ہے اور میں وہ وقت بھی ذکر الہی میں خرچ کرتی ہوں.ان کے بھائی نے کہا تم کسی دن فرض پڑھنا بھی چھوڑ دو گی.آخر ایک دن جب وہ اپنی بہن کو ملنے گئے تو اُس نے کہا فرض نماز میں بھی وہ

Page 39

$1949 30 30 خطبات محمود نہیں آتا جو ذکر الہی میں آتا ہے.انہوں نے کہا دیکھو یہی ثبوت ہے اس بات کا کہ یہ شیطان ہے جو تمہیں خدا تعالیٰ کے رستہ سے ہٹانا چاہتا ہے.تمہیں چاہیے کہ تم لَا حَولَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللهِ کا ورد کیا کرو.انہوں نے لَا حَولَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللهِ کا ورد کرنا شروع کر دیا.ایک دن جب ان کے بھائی انہیں ملنے گئے تو انہوں نے کہا آپ نے مجھے بہت اچھا نسخہ بتایا تھا.میں نے کشف میں دیکھا ہے کہ ایک بندر بیٹھا ہے جس کے متعلق میرے دل میں ڈالا گیا کہ یہ شیطان ہے.اس نے کہا کہ میں نے تو تم سے ساری نمازیں چھڑا دینی تھیں لیکن تمہارا بھائی بہت چالاک ہے.اس نے تمہیں میرے قبضہ سے پچھڑالیا.اب بظاہر تو اس نے یہ بتایا تھا کہ ذکر الہی ہی اصل چیز ہے، کھڑا ہونا بھی تو عبادت ہے اور جب عبادت اصل چیز ہے اور وہ ویسے بیٹھ کر بھی کی جاسکتی ہے تو پھر قیام، رکوع، سجود اور قعود کی کیا ضرورت ہے.مگر اس طرح زنگ لگتے لگتے انسان کہیں کا کہیں چلا جاتا ہے.پس اپنے اندر عزم پیدا کرو اور ظواہر کو بھی قائم کرو.میں نے دیکھا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام.ام نے باطن پر زیادہ زور دیا ہے.اس لیے ہماری جماعت میں ظاہر پر عمل کرنے کی عادت کم ہوتی جا رہی ہے.میں دیکھتا ہوں صحابہ جتنے روزے رکھتے تھے اتنے ہماری جماعت نہیں رکھتی.صحابہ جتنی نمازیں پڑھتے تھے وہ ہماری جماعت میں نہیں پائی جاتیں.ہمارے نوجوانوں میں تہجد اور نوافل پڑھنے کی عادت بہت ہی کم پائی جاتی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ میں ایسے نوجوان عام پائے جاتے تھے جو تہجد اور نوافل با قاعدہ پڑھتے تھے.اس کی وجہ یہی ہے کہ آجکل لوگ عموماً یہ سمجھ لیتے ہیں کہ اصل چیز تو دل کی محبت ہے.باقی سب چیزیں ظاہری ہیں جن کی خاص ضرورت نہیں.روحانیت کی مثال دودھ کی سی ہے.کیا دودھ غیر پیالے کے رہ سکتا ہے؟ پیالہ ہوگا تو دودھ باقی رہے گا.اسی طرح بے شک باطن ہی اصل چیز ہے لیکن وہ ظاہر کے بغیر کوئی حقیقت نہیں رکھتا.ہمیں سوچنا چاہیے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جن کا باطن خدا تعالیٰ کی محبت سے معمور تھا کیا انہوں نے نمازوں میں کمی کر دی تھی؟ آپ کی نمازوں کے متعلق تو آتا حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے جب دیکھا کہ نماز پڑھتے پڑھتے اُن کے پاؤں سوج جاتے ہیں تو آپ نے عرض کی يَا رَسُولَ اللہ ! آپ اتنی لمبی نمازیں کیوں پڑھتے ہیں؟ کیا خدا تعالیٰ نے آپ ہے

Page 40

* 1949 31 خطبات محمود سے وعدہ نہیں کیا کہ اس نے آپ کے سب گناہ معاف کر دیئے ہیں؟ آپ نے فرمایا الا اكُونَ عَبْدًا شَكُورًا - 4 عائشہ! اگر خدا تعالیٰ نے مجھ پر یہ احسان کیا ہے تو کیا میرا فرض نہیں کہ میں اس کا اور زیادہ شکر یہ ادا کروں ؟ اگر رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم باوجود اپنے عظیم الشان مرتبہ کے پھر بھی نماز پڑھتے ہیں، فرض پڑھتے ہیں، سنتیں پڑھتے ہیں اور ساتھ ہی نوافل اور ذکر الہی سب جاری رکھتے ہیں تو ہمارا یہ خیال کر لینا کہ ہم ان کے بغیر خدا تعالیٰ سے تعلق پیدا کر لیں گے کس طرح صحیح کی ہوسکتا ہے.جو چیزیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات کے لیے ضروری ہیں وہ چیزیں اُن سے کہیں زیادہ ہمارے لیے ضروری ہیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دل روحانیت سے معمور تھا.خدا تعالیٰ کی طرف سے آپ کو بلند مرتبہ حاصل تھا.اگر آپ کو باوجود ان باتوں کے ظاہری عبادتوں کی ضرورت تھی تو ہمارے لیے تو ان کی بہت زیادہ ضرورت ہے.ہاں یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ ہم صرف چھلکے کو ہی کافی نہ سمجھ لیں کیونکہ کسی کام کو صرف ظاہری طور پر کر لینا اور باطن کا خیال نہ رکھنا بے فائدہ ہوتا ہے.مثلاً نماز ہے.نماز صرف ظاہری طور پر پڑھ لینا کافی نہیں بلکہ ضروری ہے کہ دل بھی اس میں شامل ہو.صرف سراٹھانا اور گرا لینا کوئی فائدہ نہیں دے سکتا.پس یہ ضروری ہے کہ جہاں تم ظاہر کی اصلاح کے لیے کوشش کرو وہاں باطن کے لیے بھی کی کوشش کرو.جب تم ظاہر اور باطن دونوں کو ملاؤ گے تو پھر وہ چیز پیدا ہو گی جس سے تم محسوس کرنے لگو گے کہ تمہارے اندر کوئی نئی چیز پیدا ہو گئی ہے.دنیا میں معمولی سے معمولی تغیر پیدا ہوتا ہے تو وہ ہمیں محسوس ہوتا ہے.مثلاً جگر بڑھ جاتا ہے یا تلی بڑھ جاتی ہے تو انسان کہنے لگتا ہے مجھے بوجھ سا معلوم ہوتا ہے.انسان بیٹھتا ہے تو وہ محسوس کرتا ہے کہ اسے بیٹھنے میں کوئی روک محسوس ہوئی ہے.مثانہ میں پتھری پیدا ہو جاتی ہے تو پیشاب کرتے ہوئے انسان اُس کو محسوس کرتا ہے.یہ چھوٹی چھوٹی چیزیں جب پیدا ہو کر انسان کے اندر ایک احساس پیدا کر دیتی ہیں تو یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ می انسان کا خدا تعالیٰ سے تعلق پیدا ہو اور پھر اُس کا احساس پیدا نہ ہو.جب بھی کوئی چیز انسان کے اندر پیدا ہوتی ہے اُس کا احساس بدل جاتا ہے.اسی طرح جب اُس کے اندر اللہ تعالیٰ کی محبت پیدا ہو جاتی ہے تو اُسے محسوس ہوتا ہے کہ اس کے اندر کوئی نئی چیز پیدا ہو گئی ہے.اس کا خدا تعالیٰ پر یقین بڑھتا چلا جاتا ہے.جب وہ اس کے آثار دیکھتا ہے تو وہ سمجھ لیتا ہے کہ یہ ایک نئی برکت والی

Page 41

$1949 32 32 خطبات محمود چیز ہے عذاب والی نہیں.اور یہ بھی ہوسکتا ہے جب ظاہر اور باطن دونوں ایک ہی ہوں.روحانیت بھی ایک بچہ ہے.جس طرح بچہ کے لیے روح اور جسم دونوں چیزوں کی ضرورت ہے اسی طرح روحانیت کے لیے بھی ظاہر اور باطن دونوں کی ضرورت ہے.جب یہ دونوں چیزیں آپس میں ملتی ہے ہیں تو ان سے رؤیتِ الہی پیدا ہوتی ہے، عرفان پیدا ہوتا ہے، محبت الہی پیدا ہوتی ہے اور اللہ تعالی کا دیدار حاصل ہوتا ہے.ان دونوں چیزوں سے ہی ایمان کامل ہوتا ہے اور ہماری جماعت کو ان کی دونوں کے پیدا کرنے اور ان کو زیادہ سے زیادہ مکمل کرنے کی کوشش کرنی چاہیئے.1 : نسائى كتاب الإمامة باب كَيْفَ يقوم الْإِمَامُ الصفوف الفضل 20 جولائی 1949 ء ) 2 ترمذی ابواب الجمعة باب ما جاء فى استقبال الامام اذا خطب 3 : الماعون : 5 تا 8 4 : بخارى كتاب التهجد باب قيام النبى صلى الله عليه وسلم اللَّيْلَ میں أَفَلا اَكُونُ عَبْدًا شَكُورًا “ کے الفاظ ہیں، مصنف ابن ابی شيبة كتاب الصلوات باب الركوع والسجود أَفْضَلُ ام القيام حديث نمبر 8347 میں الا اكُوْنُ عَبْدًا شَكُورًا“ کے الفاظ ہیں.

Page 42

* 1949 33 33 LO خطبات محمود قبض وبسط.انسان کی دو طبعی حالتیں (فرمودہ 25 فروری 1949ء بمقام لاہور ) تشهد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: انسانی اعمال ہمیشہ ہی گھٹتے بڑھتے رہتے ہیں اور قبض و بسط انسان کا ایک خاصہ ہے.یہی سلسلہ انسان کے لیے کبھی روحانی ترقیات کا موجب بن جاتا ہے اور کبھی روحانی تباہی کا موجب بن جاتا ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک دفعہ ایک صحابی حاضر ہوئے.وہ رو پڑے اور کہايَا رَسُولَ اللہ ! میں تو منافق ہوں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تم تو مومن ہو.تم اپنے آپ کو منافق کیوں سمجھتے ہو؟ اس صحابی نے کہایا رَسُوْلَ اللہ ! میں جب تک آپ کی مجلس میں بیٹھا رہتا ہوں یوں معلوم ہوتا ہے جیسے دوزخ اور جنت میرے سامنے آگئے ہیں اور خشیت کا زور ہوتا ہے لیکن جب میں اپنے گھر جاتا ہوں وہ حالت قائم نہیں رہتی.اس کی سے معلوم ہوتا ہے کہ میں مومن نہیں بلکہ منافق ہوں.کیونکہ جب میں آپ کی مجلس میں بیٹھتا ہوں تو میری ویسی حالت ہو جاتی ہے کہ خدا تعالیٰ اور جنت و دوزخ مجھے اپنے سامنے نظر آتے ہیں لیکن ان مجلس سے علیحدہ ہونے پر یہ حالت نہیں رہتی.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا یہی تو خالص ایمان ہے.پھر آپ نے فرمایا اگر انسان ایک حالت پر رہے تو وہ مر نہ جائے.1

Page 43

$ 1949 34 خطبات محمود غرض قبض و بسط دونوں حالتیں انسان پر آتی رہتی ہیں.اگر انسان کی ہر وقت ایک ہی قسم کی حالت ہے تو اس کی روح مر جائے.اگر وہ جسمانی طور پر نہیں تو دماغی طور پر یقیناً مر جائے گا اور وہ پاگل ہو جائے گا.مجنونوں اور عقلمندوں میں یہی فرق ہوتا ہے کہ مجنون پر ایک ہی حالت ہمیشہ طاری رہتی ہے ہے اور عقلمند پر اُتار چڑھاؤ آتا رہتا ہے.مجنون ایک ہی قسم کے خیالات میں مبتلا رہتا ہے لیکن عقلمند ان شخص کے خیالات ایک ہی قسم کے نہیں رہتے.غرض قبض و بسط کی حالتیں ہر انسان کے ساتھ لازم کر دی گئی ہیں.کبھی اس کے اندر خوشی کی حالت پیدا ہوتی ہے اور وہ دین کے لیے سب کچھ قربان کے کرنے کے لیے تیار ہو جاتا ہے اور کبھی ایسا ہوتا ہے کہ وہ حساب کرنے بیٹھ جاتا ہے کہ میں کتنی ہے قربانی کرسکتا ہوں.یہ حساب کرنے والی حالت قبض کی حالت ہوتی ہے.اور جب کوئی شخص سب ینے کے لیے تیار ہو جاتا ہے اور اس میں خوشی محسوس کرتا ہے وہ بسط کی حالت ہوتی ہے.مگر نہ وہ بسط کی حالت قطعی طور پر اعلیٰ درجہ کا ایمان کہلاتی ہے اور نہ قبض کی حالت قطعی طور پر کمی ایمان کہلا سکتی ہے.ہو سکتا ہے کہ بسط کی وہ حالت مصنوعی زیادتی ایمان کا نتیجہ ہو اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ قبض کے کی حالت کمزوری ایمان کا نتیجہ نہ ہو بلکہ طبعی آثار کا نتیجہ ہو جو خدا تعالیٰ نے روحانی ترقی کے راستہ میں پیدا کیے ہیں.دنیا میں کوئی چیز ایسی نظر نہیں آتی جو ہمیشہ سیدھی ہی چلی جاتی ہو.تمام قوانین قدرتی لہروں میں چلتے ہیں.جس طرح لہر کبھی اٹھتی ہے اور کبھی گرتی ہے اسی طرح دنیا کی ہر چیز جو اللہ تعالیٰ نے پیدا کی ہے وہ الہروں میں چلتی ہے.انسانی صحت کی بھی یہی حالت ہے.انسان کے جسم کی بناوٹ بھی یہی رنگ رکھتی ہے اور جذبات کی بھی یہی کیفیت ہوتی ہے.ایک وقت وہ بغیر کسی وجہ کے خوشی اور امنگ محسوس کرتا ہے اور دوسرے وقت وہ بغیر کسی حادثہ کے اپنے آپ کو گرا ہوا اور افسردہ محسوس کرتا ہے.کسی وقت وہ محسوس کرتا ہے کہ وہ میلوں میل چل سکتا ہے اور ہر قسم کا بوجھ اٹھا سکتا ہے مگر دوسرے وقت میں وہ یوں محسوس کرتا ہے کہ چار پائی سے بھی نہیں اٹھ سکتا.غرض کیا بلحاظ دماغ کے اور کیا بلحاظ جسم کے انسان کے اندر لہریں اٹھتی رہتی ہیں اور یہی چیز قانونِ قدرت میں پائی جاتی ہے.پہاڑوں کے اندر بھی یہی لہر چل رہی ہے ، ستاروں کو دیکھو تو ود بھی ایک لہر کی سی حرکت میں مبتلا ہیں، تمام روشنیاں جو زمین پر گرتی ہیں، اسی طرح تمام ہوائیں

Page 44

$ 1949 35 35 خطبات محمود اور آوازیں سب لہروں میں چلتی ہیں.غرض خدا تعالیٰ کا یہ قانون ہے کہ اُس کا ہر کام لہر میں چلتا ہے.هُوَ الْقَابِضُ وَالْبَاسِطُ ایک ہر چلتی ہے.کبھی وہ ہر اونچی چلی جاتی ہے اور کبھی نیچے چلی جاتی ہے ہے.اس کے تمام افعال اسی طرح ہیں اور یہی چیز انسان کے اندر بھی پائی جاتی ہے.انسان خود بھی ای کبھی افسردہ ہوتا ہے اور کبھی خوش ہوتا ہے، کبھی وہ حساب کرنے بیٹھ جاتا ہے کہ آیا میں چندہ دوں یا نہ دوں؟ کبھی وہ نماز کے لیے مسجد میں جاتا ہے تو اُس کا دل چاہتا ہے کہ وہ کبھی سلام ہی نہ پھیرے.کوئی آدمی اس کے پاس اگر کسی کام کے لیے آتا ہے تو وہ غصہ سے جل جاتا ہے.مگر دوسرے وقت میں وہ اٹھتا ہے اور خیال کرتا ہے کہ چونکہ یہ خدا تعالیٰ کا حکم ہے اس لیے اسے کر ہی لیں.وہ وقت جب وہ خیال کرتا ہے کہ میں نماز پڑھتا ہی چلا جاؤں اور سلام نہ پھیروں وہ بسط کی حالت ہوتی ہے.اور جب وہ خیال کرتا ہے کہ چونکہ یہ خدا تعالیٰ کا حکم ہے اس لیے اسے پورا ای کرلوں قبض کی حالت ہوتی ہے.ایک وقت ایسا ہوتا ہے جب وہ دیکھتا ہے کہ آیا اس نے رکوع ہے میں سُبْحَانَ رَبِّيَ الْعَظِیم اور سجدہ میں سُبْحَانَ رَبِّيَ الأعْلیٰ تین تین دفعہ دہرایا ہے یا نہیں کی کیونکہ یہ فقرے کم از کم تین دفعہ دہرانے چاہیں.یہ قبض کی حالت ہوتی ہے.لیکن کبھی وہ کہتا ہے کہ تین دفعہ گن کر کیا پڑھنا ہے تین کی بجائے میں دفعہ یا تین سو دفعہ دہرا لیا جائے تو کیا حرج ہے یہ بسط کی حالت ہوتی ہے.غرض انسان کا ہر کام اور اُس کا ہر عمل قبض اور بسط سے چلتا ہے.لیکن اس کے نتیجہ میں دو قسم کے سامان اس کی ٹھوکر کے پیدا ہو جاتے ہیں.جب انسان کو قبض و بسط دونوں حالتوں کا علم ہوجاتا ہے تو بے ایمانی کی حالت بھی چونکہ قبض کی حالت کے مشابہ ہوتی ہے اس لیے بعض دفعہ وہ اس حالت کو اپنے اعمال کا ایک طبعی نتیجہ سمجھ لیتا ہے اور خیال کر لیتا ہے کہ یہ طبعی اُتار چڑھاؤ کی وجہ سے ہے.مثلاً کبھی انسان کے اندر ہنسنے کی خواہش پیدا ہوتی ہے اور کبھی یہ خواہش پیدا نہیں کی ہوتی.کبھی اُس کے اندر باتیں کرنے کی خواہش پیدا ہوتی ہے اور کبھی یہ خواہش پیدا نہیں ہوتی.لوگ جانتے ہیں کہ فلاں شخص بہت باتیں کرنے والا ہے لیکن بعض دفعہ اس کے پاس اگر کوئی شخص بات کرے تو وہ بُرا مناتا ہے اور کہتا ہے جانے بھی دو میری طبیعت اس وقت خراب ہے.یہ حالت جہاں طبعی ہوتی ہے وہاں کبھی بیماری کی وجہ سے بھی ہو جاتی ہے.جس طرح نہ ہنسنا طبعی چیز ہے

Page 45

$1949 36 خطبات محمود ہو اس طرح نہ ہنسنا بیماری کی وجہ سے بھی ہوتا ہے یا کبھی کوئی شخص غمگین ہو جاتا ہے یا تھوڑے.صدمہ سے رو پڑتا ہے یہ ایک طبعی چیز ہے.لیکن بعض دفعہ کسی بیماری کے نتیجہ میں بھی یہ حالت پیا ہو جاتی ہے.غرض چونکہ بے ایمانی کی حالت قبض کے مشابہہ ہوتی ہے اس لیے بعض دفعہ انسان یہ خیال کر لیتا ہے کہ یہ بے ایمانی نہیں جو ایک بیماری ہے بلکہ یہ قبض کی حالت ہے جو ایک طبعی چیز ہے اور وہ اسے دُور کرنے کی کوشش نہیں کرتا.وہ اسے طبعی تقاضا سمجھ لیتا ہے اور اس کے علاج کی طرف توجہ نہیں کرتا.اور چونکہ وہ اسے طبعی تقاضا سمجھ کر کرنے کی کوشش نہیں کرتا اس سے وہ مرض مزمن ہو جاتا ہے اور آہستہ آہستہ جسم کا ایک حصہ بن جاتا ہے.مثلاً بخار ہے اس کا اگر علاج نہ کیا جائے تو سل اور دق کی صورت اختیار کر لیتا ہے.کھانسی ہے اس کا اگر جلد علاج نہ کیا جائے تو سل کی صورت اختیار کر لیتی ہے.اسی قسم کی کئی اور خرابیاں ہیں.اگر کچھ مدت کے اندر ٹھیک : جائیں تو ہو جائیں ورنہ وہ مستقل مرض کی صورت اختیار کر لیتی ہیں اور ان کا علاج مشکل ہو جاتا ہے.یہی حال روحانی امراض کا ہے اگر وہ جلد دور نہ ہو جائیں تو وہ ایک مستقل صورت اختیار کر لیتی ہیں.جیسے خدا تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ کفار کے دلوں پر زنگ لگ گیا ہے.2 زنگ کا مفہوم یہی ہے کہ اُن کی روحانی امراض آسانی کے ساتھ دور نہیں ہوسکتیں.ایک تو طبعی حالت ہوتی ہے جیسے ربڑ ہے اُسے کھینچتے جاؤ تو وہ کھنچتا چلا جاتا ہے اور جب اُسے ڈھیلا چھوڑ دو تو سکڑ کر اپنی اصلی حالت پر آجاتا ہے.لیکن کبھی کبھی لمبے استعمال کے بعد وہ لمبا ہی رہتا ہے اور سکڑ کر اپنی اصلی حالت پر نہیں آتا.یہ اُس کی خرابی کی علامت ہوتی ہے.جیسے ربڑ انگریزی گاؤنوں میں استعمال ہوتا ہے اور ازار بند کی بجائے اس سے کام لیا جاتا ہے مگر ہوتے ہوتے یہ ربڑ اتنا ڈھیلا ہو جاتا ہے کہ وہ کی سکڑتا نہیں اور اس طرح وہ ازار بند کا کام نہیں دیتا اور اُسے بدلنا پڑتا ہے.اسی طرح جب انسان کی غیر طبعی حالت دیر تک چلی جائے تو وہ طبعی بن جاتی ہے اور طبیعت پھر اپنی اصلی حالت پر واپس نہیں ہے آسکتی اور غیر طبعی حالت ایک مزمن مرض 3 کی صورت اختیار کر لیتی ہے.یوں تو ہر مرض کا علاج کی ہے لیکن اگر وہ مرض لمبی ہو جائے تو اُس کا علاج عام امراض کی طرح نہیں ہوتا.مثلاً بخار ہے.اگر ی وہ چند دن کا ہو تو بسا اوقات بغیر علاج کے ہی دور ہو جاتا ہے.ضروری نہیں کہ کو نین کھائی جائے.آخر ہزاروں ہزار بلکہ لاکھوں لاکھ اور کروڑوں کروڑ آدمی ایسے تھے جنہیں کونین کے دریافت ہونے

Page 46

* 1949 37 37 خطبات محمود سے پہلے بخار ہوتا تھا.وہ کو نین نہیں کھاتے تھے لیکن اُن کا بخار اتر جاتا تھا.حاد امراض 4 کی یہی خصوصیت ہے کہ اگر اُن کا علاج نہ بھی کیا جائے تو وہ ٹھیک ہو جاتی ہیں.لیکن اگر وہ امراض لمبی ہو جائیں اور اُن کا علاج نہ کیا جائے تو وہ مستقل ہو جاتی ہیں.بعض دفعہ تو وہ علاج سے دور ہو جاتی ہے ہیں لیکن اکثر دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ وہ علاج سے دور نہیں ہوتیں.یہی حال روحانی امراض کا ہے.روحانی امراض میں سے بعض امراض حاد ہوتی ہیں اور بعض مزمن ہوتی ہیں.ممکن ہے کہ انسان ای جس چیز کو قبض کی حالت سمجھ رہا ہو وہ بیماری ہو.اگر وہ بیماری حاد ہے تو جلد دور ہو جائے گی.لیکن اگر وہ لمبی چلی جائے اور اس کا علاج نہ ہو تو وہ شخص تو یہ سمجھتا رہے گا کہ یہ قبض کا نتیجہ ہے مگر نتیجہ یہ ہوگا کہ وہ مرض مزمن بن جائے گی اور آخر اُسے تباہی کے گڑھے میں ڈال دے گی.پس مومن کو ان دونوں حالتوں یعنی قبض اور بسط کا مطالعہ کرتے رہنا چاہیے جب بھی قبض کی حالت محسوس ہو تو ہے اسے چاہیئے کہ اس کا علاج کرے اور اُسے دور کرنے کی کوشش کرے.اگر وہ قبض کی حالت طبعی نہیں بلکہ بیماری ہے تو اُس کا علاج ہو جائے گا اور اگر وہ طبعی حالت ہے تو علاج سے اُس پر کوئی بڑا ہے اثر نہیں پڑے گا.بہر حال بیماری چونکہ بعض دفعہ لمبی ہو کر مزمن صورت اختیار کر لیتی ہے اور اُس کا علاج مشکل ہو جاتا ہے اس لیے حاد امراض کا بھی علاج کیا جاتا ہے ورنہ یہ مطلب نہیں ہوتا کہ وہ ج بغیر علاج کے دور ہی نہیں ہوسکتیں.مثلاً اگر ہم نزلہ کے موقع پر دوائی استعمال کرتے ہیں تو اس کا یہ مطلب نہیں ہوتا کہ نزلہ یوں اچھا نہیں ہوتا.نزلہ کے سو میں سے ننانوے کیس آپ ہی آپ ٹھیک ہو جاتے ہیں.ہم تو اس ڈر کے مارے علاج کرتے ہیں کہ نزلہ مزمن صورت اختیار نہ کر لے.یا یا کھانسی ہے ہم اس کا اس لیے علاج نہیں کرتے کہ وہ بغیر علاج کے اچھی نہیں ہوگی بلکہ اس لیے علاج کرتے ہیں کہ کھانسی کہیں سل اور دق کی شکل اختیار نہ کر لے.کیونکہ بعض دفعہ کھانسی جب اُس کا علاج نہ ہو اور وہ لمبی چلی جائے تو سل اور دق کی صورت اختیار کر لیتی ہے اور اُس کا علاج کی مشکل ہو جاتا ہے.یا بخار چڑھتا ہے اُس کا علاج ہم اس لیے نہیں کرتے کہ وہ یوں اچھا نہیں ہوتا.بسا اوقات بخار آپ ہی آپ ٹھیک ہو جاتا ہے.ہم اُس کا علاج اس لیے کرواتے ہیں کہ وہ کہیں مزمن صورت اختیار نہ کرلے.اسی طرح ہمیں قبض کا علاج کرنا چاہیے کیونکہ ممکن ہے کہ وہ طبعی نہ ہو بلکہ وہ بیماری ہو اور اگر اس کا علاج نہ کیا جائے تو ممکن ہے وہ مزمن رنگ اختیار کر لے.

Page 47

خطبات محمود 388 * 1949 غرض قبض اور بسط جہاں دونوں طبعی چیزیں ہیں وہاں ان سے نقصان کا اندیشہ بھی ہوتا ہے کیونکہ بعض دفعہ بیماری بھی قبض کی حالت کے مشابہہ ہوتی ہے اور انسان غلطی سے اُسے قبض سمجھ لیتا ہے اور اس کے علاج سے غافل ہو جاتا ہے.جیسے میں نے اُداسی کی مثال دی ہے.اُداسی کبھی طبعی ہوتی ہے.اگر تم زیادہ دیر تک ہنستے رہو تو لازمی طور پر اُس کا رد عمل یہ ہوتا ہے کہ اُداسی شروع ہو جاتی ہے.یہ طبعی چیز ہے.لیکن دوسری طرف ہسٹیریا (HYSTERIA) کا مرض ہے.ہسٹیریا اور ضعف اعصاب کا مریض بھی اُداس رہتا ہے.پس ممکن ہے کہ مریض اس اُداسی کو طبعی سمجھ لے اور اگر مریض اُسے طبعی سمجھ لے گا اور اُس کا علاج نہیں کرے گا تو وہ مرض مستقل ہو جائے گا.پس یہ مشابہت بھی نہایت خطرناک چیز ہے اور انسان کو علاج سے غافل کر دیتی ہے.اگر انسان ہوشیاری سے کام لے تو وہ نقصان سے بچ جاتا ہے.مثلاً قبض ہے.انسان کو چاہیے کہ وہ اسے دور کرنے کی کوشش کرے.اگر وہ صرف قبض ہے تو علاج سے اُسے نقصان نہیں پہنچے گا اور اگر بیماری ہے تو علاج کرانے کی وجہ سے وہ اس بیماری سے نجات حاصل کر لے گا اور نقصان سے بچ جائے گا.غرض قبض کو دور کرنے اور اُس کے علاج کرنے سے اس لیے غفلت نہیں کرنی چاہیے کہ یہ طبعی بھی ہوتی ہے.ممکن ہے وہ بیماری ہو اور وہ مزمن ہو کر لا علاج مرض کی صورت اختیار کر جائے.مثلاً وہ شخص سچا مومن تھا جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور اُس نے کہا کہ يَا رَسُوْلَ اللہ ! میں تو منافق ہوں.میں جب آپ کی مجلس میں بیٹھتا ہوں تو میری حالت اور ہوتی ہے اور جب آپ کی مجلس سے علیحدہ ہوتا ہوں تو میری حالت اور ہوتی ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہی تو مومن کی علامت ہے.تم یونہی اپنے آپ کو منافق سمجھ رہے ہو.گویا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فیصلہ فرما دیا کہ یہ بیماری نہیں بلکہ طبعی چیز ہے.لیکن اُس صحابی نے جب اس حالت کو دیکھا تو اُسے گھبراہٹ پیدا ہوئی کہ کہیں میری یہ حالت محض قبض نہ ہو بلکہ بیماری ہو.اس لیے وہ سب سے بڑے روحانی طبیب یعنی رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس گیا اور اُس نے آپ سے پوچھا کہ میری یہ حالت کہیں بیماری تو نہیں ہے؟ آپ نے فرمایا یہ ہے قبض کی حالت ہے.لیکن اگر وہ قبض کی حالت نہ ہوتی بلکہ روحانی بیماری ہوتی اور وہ اُس کے علاج سے غافل رہتا تو ممکن تھا کہ ایک وقت یہی بیماری لاعلاج ہو جاتی.پس جہاں قبض ایک طبعی چیز ہے

Page 48

$ 1949 39 خطبات محمود وہاں اس سے ہوشیار رہنے کی بھی ضرورت ہوتی ہے اور مومنوں کو ہر وقت چوکس اور ہوشیار رہنا چاہیے.مثلاً جسم پر ایک معمولی سی پھنسی نکل آتی ہے تو ایک ایسا شخص جو کسی حد تک طب جانتا.سے کہیں کا کہیں پہنچا دیتا ہے اور آخر کینسر (CANCER) تک اُس کا شبہ جا پڑتا ہے.اس پر وہ ڈاکٹر کے پاس چلا جاتا ہے اور وہ اُسے اصل حقیقت بتا دیتا ہے جس سے اُس کی تشفی ہو جاتی ہے.لیکن اگر وہ معمولی پھنسی نہ ہو اور وہ علاج سے غافل رہے تو یہ پھنسی بڑھتے بڑھتے ایک لا علاج رنگ اختیار کر لیتی ہے.پس جب بھی ایسا شبہ پیدا ہو تو فورا علاج کرنا چاہیے کیونکہ یہ مرض قبض کے مشابہہ ہوتا ہے جو ایک طبعی چیز ہوتی ہے اور انسان اُسے طبعی سمجھ کر اس کے علاج سے غافل ہو جاتا ہے.ایک احمدی ڈاکٹر نے جو آجکل فوج میں کرنل ہیں مجھے بتایا کہ جب میں کالج میں پڑھتا تھا اُس وقت مجھے ذراسی بھی بیماری کے مشابہہ علامات ملتیں تو مجھے وہم سا پڑ جاتا کہ مجھے فلاں مرض ہو گئی ہے.میں نے ایک دن اپنے پروفیسر ڈاکٹر سدر لینڈ سے جا کر کہا کہ جب کسی بیماری کے مشابہ کچھ علامات ملتی ہیں تو مجھے اُس بیماری کا وہم پڑتا ہے.اس پر وہ پروفیسر ہنس پڑا اور اُس نے کی کہا آدمی طب پڑھنے کی وجہ سے ایسا ہی وہم ہوا کرتا ہے.ہم بھی جب پڑھتے تھے تو ہمیں بھی اپنے متعلق اسی قسم کے وہم پیدا ہوا کرتے تھے.دراصل تجربہ اور چیز ہے اور کتابی علم اور چیز ہے.مثلاً سل ہے.نزلہ سل میں بھی ہوتا ہے اور عام بخار میں بھی ہو جاتا ہے.اب جسر طب پڑھی ہو وہ نزلہ کا مریض دیکھ کر فوراً کہہ دے گا کہ اُسے سل ہو گئی ہے حالانکہ سل کے لیے اور بھی بہت سی علامات ہیں مگر ناتجربہ کاری کی وجہ سے وہ ان میں فرق نہیں کرتا.ایک من مشابہت کی وجہ سے رسل کا قیاس کر لیتا ہے.لیکن بہر حال وہم کا ہو جانا زیادہ اچھا ہے یہ نسبت اس کے کہ وہ اس سے غافل ہو جائے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرمایا کرتے تھے کہ بعض بچوں کی صحت عموماً ماؤں ہے کے وہم کی وجہ سے ٹھیک رہتی ہے.اُسے ذرا بھی کوئی تکلیف ہو تو ماں اُسے انتہائی سمجھ لیتی ہے اور ی اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ اُس کا توجہ سے علاج کرواتی ہے اور بچہ بیماری کے مزمن ہو جانے.بچ جاتا ہے.لیکن بعض مائیں ایسی ہوتی ہیں جنہیں بچے کی بیماری کا اُس وقت علم ہوتا ہے جب و مزمن شکل اختیار کر لیتی ہے اور علاج مشکل ہو جاتا ہے.غرض ماں کا وہم بھی بچہ کی صحت کے لیے وہ

Page 49

$1949 40 خطبات محمود بہت مفید ہوتا ہے.اسی طرح اپنی ذات میں اس قسم کا وہم کہ شاید یہ کوئی بیماری نہ ہو بہت مفید ہے.اس طرح انسان خطرے کے مقابلہ کے لیے تیار ہو جاتا ہے اور اپنے آپ کو اُس کے حملہ سے ( الفضل 7 اگست 1949ء) محفوظ کر لیتا ہے.1 : مسلم كتاب التوبة باب فضل دوام الذكر و الفكر في امور الأخرة 2: بَلْ رَانَ عَلَى قُلُوبِهِمْ مَّا كَانُوا يَكْسِبُونَ (المطففين: 15) مزمن امراض : پرانی امراض.کہنہ امراض 4 : حاد امراض: وقتی اور عارضی بیماری

Page 50

* 1949 41 6 خطبات محمود جلسہ سالانہ کے موقع پر ربوہ کے افتتاح میں حکمت (فرموده 18 مارچ 1949ء بمقام لاہور ) تشهد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: پچھلے دو جمعوں میں میں نہیں آسکا کیونکہ مجھے نقرس کی تکلیف رہی ہے.پہلے میرے دائیں پاؤں پر نقرس کا حملہ رہا اس کے بعد بائیں پاؤں پر نقرس کا حملہ ہو گیا.درمیان میں ایک دفعہ مالش کے دوران میں چوٹ لگ گئی جس سے درد بڑھ گیا اور مجھے یوں محسوس ہوا جیسے ہڈی میں کوئی ضرب آ گئی ہے.چار دن ہوئے ایکسرے لیا گیا تو معلوم ہوا کہ ہڈی میں کوئی فریکچر نہیں.جو ی درد تھا وہ صرف چوٹ کی وجہ سے تھا.چنانچہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے اب درد میں افاقہ ہے لیکن تین چار دن سے باوجود آرام آجانے کے شاید اُن مضعف دواؤں کی وجہ سے جو نقرس کے لیے مجھے کھانی پڑی ہیں برابر کمزوری محسوس ہوتی اور نیند کا غلبہ رہتا ہے.جب تک کام کرتا رہوں کام کرتا ہے رہتا ہوں لیکن جب کام سے ذرا بھی توجہ ہے فوراً نیند کا غلبہ شروع ہو جاتا ہے.بہر حال اب پاؤل میں اتنی طاقت پیدا ہو گئی ہے کہ میں کھڑے ہو کر خطبہ پڑھا سکتا ہوں.چنانچہ میں نے یہی مناسب سمجھا کہ خطبہ کے لیے آجاؤں اور بعض ضروری امور کی طرف دوستوں کو توجہ دلا دوں.احباب کو معلوم ہے کہ اس سال کا جلسہ سالانہ ایسٹر ہالی ڈیز (EASTER HOLIDAYS)

Page 51

$1949 42 خطبات محمود میں ربوہ میں مقرر کیا گیا ہے.مجھے بہت سے دوستوں کے خطوط ملے ہیں کہ ربوہ میں ان دنوں جلسہ کرنا بہت مشکل بات ہے اور یہ کہ جلسہ سالانہ کی تاریخیں یا تو بدل دی جائیں اور یا پھر جلسہ ربوہ میں نہ کیا جائے بلکہ لاہور میں کیا جائے.یہ خطوط جماعت کے کارکنوں کی طرف سے بھی ملے ہیں اور بیرونی جماعتوں کی طرف سے بھی ملے ہیں.خصوصاً زمیندار جماعتوں کی طرف سے کہا گیا ہے کہ ان دنوں چونکہ کٹائی کا وقت ہو گا اس لیے زمینداروں کا جلسہ میں شامل ہونا مشکل ہو گا.میں ان لوگوں کی مشکلات کو بھی سمجھتا ہوں جنہوں نے جلسہ سالانہ کے دنوں میں وہاں آنا ہے لیکن جب کوئی شخص سمندر میں گودتا ہے یا کوئی جہاز غرق ہوتا ہے اور اُس کی سواریاں سمندر میں گر جاتی ہیں تو آخر انہیں ساحل کی تلاش کرنی ہی پڑتی ہے.اس ساحل کی جستجو میں خطرات بھی ہوتے ہیں اور اس کی جستجو میں خوف بھی لاحق ہوتے ہیں.جب کوئی جہاز ڈوبتا ہے تو چاروں طرف پانی ہی پانی ہوتا ہے اور انسان نہیں جانتا کہ میں دائیں گیا تو مجھے خشکی ملے گی یا بائیں گیا تو مجھے خشکی ملے گی.سامنے کی طرف گیا تو مجھے خشکی ملے گی یا پیچھے کی طرف گیا تو مجھے خشکی ملے گی.یہ بھی انسان نہیں ہے جانتا کہ اگر خشکی مجھ سے بہت دور ہے اور میں کسی طرح بھی ساحل تک نہیں پہنچ سکتا تو اگر دائیں طرف تیرا تو مجھے کوئی جہاز یا کشتی مل جائے گی یا بائیں طرف تیرا تو مجھے کوئی جہاز یا کشتی مل جائے گی گی.آگے کی طرف تیرا تو مجھے کوئی جہاز یا کشتی مل جائے گی یا پیچھے کی طرف تیرا تو مجھے کوئی جہاز یا کشتی مل جائے گی.ان آٹھوں باتوں میں سے اُسے کوئی بات بھی معلوم نہیں ہوتی مگر پھر بھی وہ ایک جگہ پر کھڑا نہیں رہتا.بظاہر اُس کا ایک جگہ پر کھڑا رہنا یا ان چاروں جہات میں سے کسی ایک کا خشکی پر پہنچنے یا جہاز اورکشتی حاصل کرنے کے لیے اختیار کرنا برا برمعلوم ہوتا ہے مگر باوجود اس کے کہ یہ سب باتیں برابر معلوم ہوتی ہیں انسان پھر بھی جد و جہد کرتا ہے اور ساحل یا کشتی کی تلاش میں دائیں بائیں یا آگے پیچھے ضرور جاتا ہے.اسی طرح ہمیں بھی ساحل یا جہاز کے لیے جو بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہمارے لیے مقدر ہے جستجو اور تلاش کی ضرورت ہے اور جلد سے جلد کسی ایسے طریق کار کو اختیار کرنے کی ضرورت ہے جو اپنے اندر ایک استقلال اور پائیداری رکھتا ہو.اس وقت تک جو کچھ خدا تعالیٰ کی مشیت ظاہر ہوئی ہے اُس سے معلوم ہوتا ہے کہ ربوہ ہی وہ مقام ہے جہاں اللہ تعالیٰ کا یہ منشاء ہے کہ ہماری جماعت دوبارہ اپنا مرکز بنائے.اور جب کوئی نئی جگہ

Page 52

* 1949 43 خطبات محمود اختیار کی جاتی ہے تو اُس کے لیے دعائیں بھی کی جاتی ہیں، اس کے لیے صدقہ و خیرات بھی کیا جاتا ہے ہے اور اُس کے لیے اللہ تعالیٰ کی مدد اور نصرت بھی طلب کی جاتی ہے.اور یہ بہترین وقت ہمیں جلسہ سالانہ کے دنوں میں ہی میسر آ سکتا ہے.کیونکہ اس موقع پر وہاں ہزاروں ہزار افراد جمع ہوں گے اور ہزاروں ہزار افراد کے جمع ہونے سے طبیعتوں پر جو اثر ہو سکتا ہے اور ہزاروں ہزار افراد کی متحدہ دعائیں جو تا ثیر اپنے اندر رکھتی ہیں وہ صرف چند افراد کے جمع ہونے سے نہ اثر ہوسکتا ہے اور نہ ان کی دعائیں خواہ وہ سچے دل سے ہی کیوں نہ ہوں اتنی تأثیر رکھ سکتی ہیں جتنی ہزاروں ہزار افراد کی دعائیں اثر رکھتی ہیں.آخر نماز با جماعت کو اکیلی نماز پر کیوں فوقیت حاصل ہے؟ اسی لیے ہے کہ نماز باجماعت میں بہت سے افراد مل کر دعا کرتے ہیں اور جب بہت سے افراد مل کر دعا کرتے ہیں تو اللہ تعالیٰ کے فضل اور اُس کی برکات کا نزول یقینی ہو جاتا ہے.فرد ممکن ہے پوری توجہ سے دعا نہ کر سکتا ہو خواہ اس کے روحانی حالات ایسے ہوں کہ وہ دعا نہ کر سکتا ہو اور خواہ اس کے جسمانی حالات ایسے ہوں کہ وہ دعا نہ کر سکتا ہو مگر جب دس ہیں افراد مل کر دعا کرتے ہیں تو اگر پانچ سات کی توجہ دعا کی طرف نہیں ہوتی تو باقی آٹھ دس افراد جو پوری توجہ اور انہماک اور گریہ وزاری کے ساتھ خدا تعالیٰ کے حضور دعائیں کر رہے ہوتے ہیں اُن کی دعاؤں کی وجہ سے وہ دو یا پانچ یا سات افراد جو دعا کی طرف توجہ نہیں کر رہے ہوتے وہ بھی اپنے مدعا کو حاصل کر لیتے ہیں.آثار میں آتا ہے کہ ایک دفعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ مطہرہ حضرت عائشہ کے متعلق حضرت عبداللہ بن زبیر کے چھوٹے بھائی نے جو آپ کے بھانجے تھے کسی موقع پر یہ دیکھ کر حضرت عائشہ اپنے تمام اموال غرباء میں تقسیم کر دیتی ہیں اور جو کچھ آتا ہے صدقہ کر دیتی ہیں اُن کے اس فعل پر ناپسندیدگی کا اظہار کیا.اور چونکہ بھانجے ہی آپ کے وارث ہونے والے تھے اس نے اس بات کو نا پسند کرتے ہوئے کہہ دیا کہ حضرت عائشہ کو اپنا ہاتھ روکنا چاہیے ، وہ اپنے مالوں کو اسراف کے طور پر بانٹتی رہتی ہیں.حضرت عائشہ نے یہ بات سنی تو سمجھ لیا کہ یہ بات کسی جذ بہ خیر خواہی کے ماتحت نہیں کہی گئی بلکہ محض ایک نفسانی خواہش کے ماتحت کہی گئی ہے.اس نوجوان کے دل میں یہ احساس پیدا ہوا ہے کہ اگر روپیہ اسی طرح خرچ ہوتا رہا تو ہمیں کچھ نہیں ملے گا اس لیے حضرت عائشہ کو روکنا چاہیے تا کہ وہ اپنا مال جمع رکھیں اور ہمیں ملے.پس چونکہ یہ بات

Page 53

* 1949 44 خطبات محمود ایک نفسانی خواہش کے ماتحت کہی گئی تھی اس لیے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے اس بات کو نا پسند فرماتے ہوئے قسم کھائی کہ آئندہ میں اس بھانجے کو اپنے گھر آنے کی اجازت نہیں دوں گی.چنانچہ انہوں نے بھانجے کو روک دیا اور اسے کہ دیا کہ میں آئندہ تمہاری شکل دیکھنا نہیں چاہتی.تم میرے گھر میں مت آیا کرو.میرے ہاں آنے کی تمہیں اجازت نہیں ہو گی.انگریزی میں مثل ہے کہ انگریز کا گھر قلعہ ہوتا ہے.1 مطلب یہ کہ اُس کے گھر کے اندر کوئی دخل اندازی نہیں کر سکتا.مگر حقیقت یہ ہے کہ سب سے بڑا قلعہ مسلمان کا گھر ہے.انگریز کے گھر کو صرف رسم و رواج کی وجہ سے ایک پاکیزگی اور طہارت حاصل ہے لیکن مسلمان کے گھر کو خدائی قانون نے ایک قلعہ کی صورت دے دی ہے اور قرآن کریم نے نہایت واضح الفاظ میں یہ حکم دیا ہے کہ کسی کے گھر بغیر گھر والے کی اجازت کے کوئی شخص داخل نہیں ہو سکتا.2 پس انگریز کے گھر کو اگر کوئی خوبی حاصل ہے تو صرف رسم و رواج کی وجہ سے.لیکن مسلمان کے گھر کو خدائی قانون اور ایک دینی حکم کی وجہ سے پاکیزگی اور طہارت حاصل ہے.بہر حال حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے جب فرما دیا کہ وہ میرے گھر میں نہ آیا کرے تو اب اس بھانجے کی یہ طاقت نہیں تھی کہ وہ اندر آ سکے کیونکہ قرآن کریم کا حکم اُس کے سامنے تھا کہ انسان کسی کے گھر میں اُس کی اجازت کے بغیر داخل نہیں ہوسکتا.وہ ایک ہی بات کہہ سکتا تھا کہ مجھے اندر آنے کی اجازت دی جائے اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے چونکہ فرما دیا تھا کہ میں تمہیں اندر آنے کی اجازت نہیں دیتی آپ بعد میں بھی یہی فرما سکتی تھیں کہ تمہیں ہے آنے کی اجازت نہیں.نتیجہ یہ ہوا کہ اس بھانجے کی آمد ورفت اپنی خالہ کے ہاں بند ہوگئی.اگر یہ بات صرف دنیوی حد تک محدود ہوتی تب بھی بھانجے پر اپنی خالہ کی ناراضگی سخت گراں گزرتی مگر یہاں صرف دنیوی بات نہیں تھی بلکہ خالہ وہ تھی جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی چہیتی بیوی تھیں اور جن سے ملاقات کرنے اور دعائیں لینے میں سراسر برکت اور رحمت تھی.نتیجہ یہ ہوا کہ بھانجے پر یہ بات بہت گراں گزری اور وہ دن رات بہت غمگین رہنے لگا.صحابہ کرام نے جب دیکھا کہ اس نوجوان کی حالت خراب ہو رہی ہے تو انہوں نے کوشش کی کہ کسی طرح حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اسے معاف فرما دیں.چنانچہ انہوں نے آپس میں مشورہ کیا اور سب سے پہلے یہ معلوم کیا کہ خالہ اور بھانجے کے ملنے میں وقت کیا ہے.انہیں معلوم ہوا کہ حضرت عائشہ اُسے اپنے ہاں آنے کی

Page 54

* 1949 45 خطبات محمود اجازت نہیں دیتیں اور چونکہ کوئی شخص بغیر اجازت کے کسی کے گھر نہیں جا سکتا اس لیے یہ ނ - براہ راست خالہ سے معافی نہیں مانگ سکتا.اس پر صحابہ نے فیصلہ کیا کہ چلو کسی دن ہم بہت - دوست مل کر جاتے ہیں اور آپ کی خدمت میں حاضر ہونے کی درخواست کرتے ہیں.اس نوجوان کی کو بھی اپنے ساتھ لے جاتے ہیں.جب سب کو اندر آنے کی اجازت ملی تو ہمارے ساتھ اس کو بھی اجازت مل جائے گی اور پھر یہ براہ راست اپنی خالہ سے معافی مانگ لے گا.چنانچہ بہت سے صحابہ جن میں حضرت عبدالرحمن بن عوف بھی تھے اکٹھے ہوئے.ابن زبیر کو انہوں نے اپنے ساتھ لیا اور حضرت عائشہ کے دروازہ پر جا کر کہا کہ ہم اُم المومنین کی خدمت میں آپ سے کچھ بات کرنے کے لیے حاضر ہوئے ہیں.حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کون ہیں؟ حضرت عبدالرحمن بن عوف نے کی عرض کیا عبدالرحمن بن عوف اور ساتھ کچھ اور صحابہ حضرت عبد الرحمن بن عوف رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے نہایت ہی محبوب صحابہ میں سے تھے.جب حضرت عائشہ نے سنا کہ عبدالرحمن بن عوف اور ان کے ساتھ کچھ اور صحابہ مل کر آئے ہیں تو انہوں نے پردہ لٹکایا اور آپ ایک طرف بیٹھ گئیں اور حکم دیا کہ اندر آ جاؤ.حضرت عائشہ کو پتا نہیں تھا کہ اس ” ہم میں ابن زبیر بھی شامل ہے.( یہ عبداللہ بن زبیر مشہور صحابی نہیں تھے ان کے بھائی تھے ) جب اور صحابہ کو اندر آنے کی اجازت مل گئی تو چونکہ ابن زبیر بھی اُن کے ساتھ ہی تھے اس لیے ان کے لیے کسی علیحدہ اجازت کی ضرورت نہ رہی اور وہ بھی اندر آگئے.صحابہ تو ایک طرف بیٹھ گئے اور ابن زبیر اندر جا کر اپنی خالہ سے چمٹ گئے اور رونے لگے اور اصرار کرنے لگے کہ مجھے معاف کر دیا جائے.خالہ آخر خالہ ہی تھیں.صحابہ نے بھی باہر سے عرض کیا کہ ہم اسی سفارش کے لیے حاضر ہوئے ہیں کہ اسے معاف کر دیا جائے.حضرت عائشہ نے فرمایا میں معاف تو کر دیتی ہوں مگر میں نے جب یہ عہد کیا تھا کہ میں اپنے بھانجے کو آئندہ اپنے گھر آنے کی اجازت نہیں دوں گی تو میرے دل میں یہ خیال بھی گزرا تھا کہ آخر یہ میرا بھانجا ہے اور لوگوں نے اس کے متعلق میرے پاس سفارشیں بھی کرنی ہیں شاید کسی وقت مجھے مجھے معاف ہی کرنا پڑے.اس لیے میں نے ساتھ ہی یہ عہد بھی کیا تھا کہ اگر میں نے اسے معاف کیا تو ہے اس کے بعد میں اپنی قسم کے کفارہ کے طور پر کچھ صدقہ دے دوں گی مگر میں نے ”کچھ“ کا لفظ کہا تھا صدقہ کی تعین نہیں کی تھی کہ وہ کتنا ہو گا.اور چونکہ دل میں شبہ رہ سکتا ہے کہ ممکن ہے ابھی پورا صدقہ ی

Page 55

$ 1949 46 خطبات محمود ادا نہ ہوا ہو اس لیے میں اسے معاف تو کر دیتی ہوں مگر آئندہ جو مال بھی میرے پاس آیا کرے گا میں وہ صدقہ کر دیا کروں گی 3 اس طرح حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے اپنی بات بھی پوری کر لی اور اسے بھی معاف کر دیا.اس بھانجے کو آخر یہی اعتراض تھا کہ خالہ روپیہ جمع نہیں کرتیں.حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا اچھا میں معاف تو کرتی ہوں مگر آئندہ کوئی روپیہ اپنے پاس جمع نہیں کروں گی.جو کچھ آئے گا صدقہ وخیرات کر دیا کروں گی.یہ واقعہ جس سبق کی طرف توجہ دلانے کے لیے میں نے بیان کیا ہے وہ یہ ہے کہ حضرت عبدالرحمن بن عوف نے ایک جدت اختیار کی کہ وہ حضرت عائشہ کے بھانجے کو اپنے ساتھ لے گئے اور ان سے عرض کیا کہ ہم کچھ لوگ اندر آنا چاہتے ہیں اور اس ”ہم میں ایک مجرم بھی شامل ہو گیا اور اسے اندر آنے کی اجازت مل گئی.اسی طرح نماز میں جب کوئی اکیلا شخص کھڑا ہوتا ہے اور وہ مجرم ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ اپنے فرشتوں سے کہتا ہے جاؤ اور اس کی نماز رڈ کر دو.اس مجرم کی نماز ہم ہے نے کیا کرنی ہے.اسی طرح ایک کمزور انسان بھی نماز کے لیے کھڑا ہوتا ہے، ایک غافل انسان بھی الی نماز کے لیے کھڑا ہوتا ہے.مگر اللہ تعالیٰ اپنے فرشتوں سے فرماتا ہے اس انسان کی مُردہ نماز کو ہم نے کیا کرنا ہے جاؤ اور اس کی نماز کورڈ کر دو.لیکن جب نماز با جماعت میں سب لوگ اکٹھے ہوتے ہیں تو ان میں ایک مجرم کی آواز بھی اٹھ رہی ہوتی ہے، ایک غافل کی آواز بھی اُٹھ رہی ہوتی ہے، ایک ناقص دعا کرنے والے کی آواز بھی اُٹھ رہی ہوتی ہے اور کامل توجہ اور گریہ وزاری کے ساتھ دعا کرنے والوں کی آواز بھی اللہ تعالیٰ کے حضور اٹھ رہی ہوتی ہے، جنہوں نے آسمان کو سر پر اٹھایا ہوا ہوتا ہے اور جو اپنی زاری اور اپنے گریہ سے اللہ تعالیٰ کی رحمت کے دروازہ کو کھٹکھٹا رہے ہوتے ہی ہیں.اُس وقت اُن کامل توجہ اور انہماک سے دعا کرنے والوں کے ساتھ ایک غافل، ایک کمزور اور ایک مجرم کی آواز بھی سنی جاتی ہے کیونکہ اُس وقت خدا تعالیٰ کے حضور ایک جماعت کی آواز پیش ہورہی ہوتی ہے.اُس وقت کوئی انفرادی آواز نہیں ہوتی بلکہ صرف جماعتی آواز ہوتی ہے.اسی وجہ سے شریعت نے حکم دیا ہے کہ جب نماز ہو رہی ہو تو کسی شخص کو ادھر اُدھر دیکھنے یا بولنے کی اجازت نہیں کیونکہ اُس وقت خدا تعالیٰ کے سامنے ایک جماعت کے متعدد افراد ہم" کہہ کہہ کر اپنی عرضداشت پیش کر رہے ہوتے ہیں.وہ کہتے ہیں ہم تیری عبادت کرتے ہیں، ہم تجھ سے مدد

Page 56

$1949 47 خطبات محمود چاہتے ہیں، ہم تجھ سے سیدھا راستہ طلب کرتے ہیں.ہم تجھ سے انبیاء والے انعامات مانگتے ہیں.جب وہ ہم خدا تعالیٰ کے سامنے پیش ہوتا ہے تو جس طرح حضرت عبد الرحمن بن عوف اور اُن کے ساتھیوں کا لفظ ”ہم حضرت عائشہ کے ہاں ابن زبیر کو بھی اپنے ساتھ لے گیا اُسی طرح خدا تعالیٰ کے مخلص اور مقرب اور محبوب بندوں کا ”ہم کمزوروں کی دعائیں بھی اپنے ساتھ لے جاتا ہے اور اللہ تعالیٰ ان کی دعاؤں کو رد نہیں کرتا بلکہ قبول کر لیتا ہے کیونکہ اُس نے ہم کو یا بالفاظ دیگر اجتماعی دعا کرنے والوں کی دعاؤں کو قبول کرنے کا وعدہ فرمایا ہوا ہے.پس نماز باجماعت نے ہم کو یہ سبق دیا ہے کہ متفقہ آواز اور متحدہ دعا اپنے ساتھ بعض زائد برکتیں رکھتی ہے.یہی سبق ہم کو حج میں بھی ملتا ہے.عمرہ ایک ویسی ہی عبادت ہے جیسے انفرادی نماز.لیکن مکہ کا حج ایسا ہے جیسے نماز باجماعت.اور حج میں جو برکات ہیں وہ عمرہ میں نہیں.انہیں باتوں کو دیکھتے ہوئے میں نے مناسب سمجھا کہ ہم ربوہ کا افتتاح جلسہ سالانہ سے کی کریں اور خدا تعالیٰ سے اس مقام کے بابرکت ہونے کے لیے متحدہ طور پر دعائیں کریں.بے شک ان شامل ہونے والوں میں غافل بھی ہوں گے ، مُست بھی ہوں گے، کمزور بھی ہوں گے لیکن ان کی لوگوں میں پچست بھی ہوں گے، مخلص بھی ہوں گے، سلسلہ کے فدا کار اور جاں نثار بھی ہوں گے اور اللہ تعالیٰ کے مقرب بھی ہوں گے.ان پستوں اور فدا کاروں کی آواز کے ساتھ جب کمزوروں اور ناقص دعا کرنے والوں کی آواز خدا تعالیٰ کے سامنے "ہم" کہتے ہوئے پہنچے گی تو یقینا اس ”ہم میں جو برکت ہوگی وہ صرف چند افراد کے وہاں جابسنے سے نہیں ہو سکتی.پس بجائے اس کے کہ ربوہ کا کوئی افتتاح نہ کیا جاتا اور بجائے اس کے کہ چند افراد جو وہاں بس رہے ہیں انہی کا بسنا ربوہ کے افتتاح کے لیے کافی سمجھ لیا جاتا میں نے چاہا کہ ہمارا اس سال کا سالانہ جلسہ ربوہ میں ہو تا کہ جب ہماری جماعت کے ہزاروں ہزار افراد اس جلسہ میں شامل ہونے کے لیے آئیں تو ہمارا جلسہ بھی ہو جائے اور اس کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے حضور ایک بہت بڑی تعداد میں اکٹھے ہو کر ہم متحدہ طور پر دعائیں کریں کہ وہ اس مقام کو احمدیت کے.بابرکت کرے اور اسے اسلام اور احمدیت کی اشاعت کا ایک زبردست مرکز بنا دے.میں جانتا ہوں کہ منتظمین کو تکلیف ہوگی اور میں یہ بھی جانتا ہوں کہ شاید ہمیں پورا سامان بھی وہاں

Page 57

* 1949 48 خطبات محمود میسر نہ آسکے.یہاں اگر کسی چیز کی ضرورت محسوس ہو تو فوری طور پر مہیا ہو سکتی ہے لیکن وہاں ایسا نہیں ہوسکتا.مثلاً لاہور میں سینکڑوں باورچیوں کی دکانیں ہیں.اگر کسی وقت کھانا کم ہو جائے اور دو تین سو افراد کو کھانا مہیا کرنے کی ڈیوٹی پر لگا دیا جائے تو میں سمجھتا ہوں دو تین گھنٹہ میں دس پندرہ ہزار آدمی کا کھانا آسانی سے مہیا ہو سکتا ہے.لیکن جو مقصد میرے سامنے ہے وہ اس رنگ میں پورا نہیں ہوسکتا.اس لیے میں نے مناسب سمجھا کہ لاہور کی بجائے ربوہ میں اس جلسہ کا انعقاد کیا جائے.باقی رہا تکلیف کا سوال سو یہ بھی کوئی اہمیت نہیں رکھتا.اس وادی غیر ذی زرع میں جس میں شور پانی نکلتا ہے، اس وادی غیر ذی زرع میں جس میں چالیس چالیس پچاس پچاس میل تک کھیتی کا کہیں نشان تک نظر نہیں آتا، حضرت ابرہیم علیہ السلام سے لے کر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ تک لوگ بڑے بڑے وسیع جنگلوں میں سے گزرتے ہوئے ایسے جنگلوں میں جو صرف درندوں کے مسکن تھے، ایسے جنگلوں میں سے جہاں بعض دفعہ سو سو میل تک پانی کا ایک قطرہ تک میسر نہیں آتا تھا پیدل یا اونٹنیوں پر سوار اپنے مشکیزوں میں پانی اٹھائے حج کے لیے دوڑتے چلے آتے تھے اور دنوں نہیں، مہینوں نہیں ، سالوں نہیں ، صدیوں نہیں ، ہزاروں سال تک وہ برابر ایسا کرتے چلے گئے.ہماری جماعت کو ایسا بے ہمت تو نہیں ہونا چاہیے کہ اگر صرف ایک دفعہ انہیں یہ کام کرنا پڑے تو وہ گھبراہٹ کا اظہار کرنے لگ جائیں.اس صورت میں بھی تم زیادہ سے زیادہ یہ کہہ سکو گے کہ عرب کے قبل از اسلام لوگوں نے جو کام دو ہزار چارسو دفعہ کیا وہ ہم نے بھی ایک دفعہ کر لیا.حضرت ابراہیم علیہ السلام اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان کا زمانہ ای بائیس سو سے چوبیس سو سال تک کا ہے اور ہر سال حج ہوتا ہے.اس لیے اگر صرف حج کو ہی لے لیا جائے عمرہ کو جانے دیا جائے تو ہمیں تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ چوبیس سو دفعہ یہ کام ان لوگوں نے کیا.حالانکہ ان لوگوں میں سے اکثر وہ تھے جو زمانہ نبوت سے بہت دور تھے.حضرت ابراہیم علیہ السلام کی ابتدائی چند نسلوں اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ کو مستی کرتے ہوئے درمیان میں صرف کفر اور تاریکی اور بے دینی کا زمانہ تھا.اُس کفر کے زمانہ میں، اُس تاریکی کے زمانہ میں، اس بے دینی اور الحاد کے زمانہ میں جو کام انہوں نے چوبیس سو دفعہ کیا بلکہ اگر عمرے بھی شامل

Page 58

$1949 49 خطبات محمود جائیں تو جو کام انہوں نے چوبیس ہزار دفعہ کیا ہمیں اگر ویسا ہی کام صرف ایک دفعہ کرنا پڑے تو ہمارے نفسوں پر کسی قسم کا بوجھ نہیں ہونا چاہیے بلکہ ہمیں خوش ہونا چاہیے کہ ہم بھی لہو لگا کر شہیدوں میں مل گئے.اللہ تعالیٰ کی اپنے ہر کام میں حکمتیں ہوتی ہیں اور اس کی حکمتیں نہایت وسیع ہیں.دنیا ان چیزوں کو نہیں دیکھتی جن کو خدا دیکھ رہا ہوتا ہے یا جن کو خدا کے دکھانے سے اس کے فرشتے دیکھ رہے ہوتے ہیں.بہت سے بیج دنیا میں بوئے جاتے ہیں مگر ان بیجوں کے اچھا ہونے کے باوجود، زمینوں کے اچھا ہونے کے باوجود، نگرانی اور دیکھ بھال کے اچھا ہونے کے باوجود الہی مصلحت اور الہی تدبیر ان بیجوں کو نہ اُگنے دیتی ہے نہ بڑھنے دیتی ہے نہ پھل پیدا کرنے دیتی ہے.مگر کئی بی دنیا میں ایسے ہوتے ہیں جو سنگلاخ زمینوں اور شور بیابانوں میں بوئے جاتے ہیں.ان کی خدمت کرنے والا کوئی نہیں ہوتا، ان کی نگرانی کرنے والا کوئی نہیں ہوتا، ان کو پانی دینے والا کوئی نہیں ہوتا ہے مگر خدا تعالیٰ کی مصلحتیں اور اُس کی تقدیر اُن بیجوں کو بڑھاتے بڑھاتے بہت بڑے درختوں کی ھے صورت میں بدل دیتی ہے.اتنے بڑے درخت کہ ہزاروں ہزار لوگ اُن کے پھل کھاتے اور اُن کی کے آرام دہ سایہ میں ہزاروں سال تک پناہ حاصل کرتے ہیں.خدا کے کام خدا ہی جانتا ہے انسانی عقلیں اور تدبیریں خدا تعالیٰ کی مصلحتوں اور تدبیروں پر حاوی نہیں ہوسکتیں.ہم بھی کوشش کر رہے ہیں کہ ایک شور زمین میں اپنا مرکز بنا ئیں.عرش پر بیٹھنے والا خدا اور آسمان پر رہنے والے فرشتے ہی جانتے ہیں کہ ہماری اس ناچیز ، حقیر اور کمزور جدو جہد کا نتیجہ کیا نکلنے والا ہے.ہمارے لیے مشکلات بھی ہیں، ہمارے راستہ میں روکیں بھی ہیں، ہمارے سامنے دشمنیاں اور عداوتیں بھی ہیں لیکن ہوتا وہی ہے جو خدا چاہتا ہے اور انسانی عقل اور انسانی تدبیر آخر بریکار ہو کر رہ جاتی ہے.ہم سمجھتے ہیں اور ہم یقین رکھتے ہیں بلکہ ہم سمجھتے اور یقین ہی نہیں رکھتے ہم اپنی روحانی آنکھوں سے وہ چیز دیکھ رہے ہیں جو دنیا کو نظر نہیں آتی.ہم اپنی کمزوریوں کو بھی جانتے ہی ہیں، ہم مشکلات کو بھی جانتے ہیں جو ہمارے راستے میں حائل ہیں، ہم مخالفت کے اُس اُتار چڑھاؤ کی کو بھی جانتے ہیں جو ہمارے سامنے آنے والا ہے، ہم اُن قتلوں اور غارتوں کو بھی دیکھ رہے ہیں جو ہمیں پیش آنے والے ہیں، ہم اُن ہجرتوں کو بھی دیکھ رہے ہیں جو ہماری جماعت کو ایک دن پیش ہے

Page 59

* 1949 50 50 خطبات محمود آنے والی ہیں، ہم اُن جسمانی اور مالی اور سیاسی مشکلات کو بھی دیکھتے ہیں جو ہمارے سامنے رونما ہونے والی ہیں.مگر ان سب دُھندلکوں میں سے پار ہوتی ہوئی اور ان سب تاریکیوں کے پیچھے ہماری نگاہ اس اونچے اور بلند تر جھنڈے کو بھی انتہائی شان و شوکت کے ساتھ لہراتا ہوا دیکھ رہی ہے جس کے نیچے ایک دن ساری دنیا پناہ لینے پر مجبور ہو گی.یہ جھنڈا خدا کا ہوگا ، یہ جھنڈا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہو گا، یہ جھنڈا احمدیت کا ہو گا اور یہ سب کچھ ایک دن ضرور ہو کر رہے گا.بے شک دنیوی مصائب کے وقت کئی اپنے بھی یہ کہہ اُٹھیں گے کہ ہم نے کیا سمجھا تھا اور کیا ہو گیا.مگر یہ سب چیزیں مٹتی چلی جائیں گی ہٹتی چلی جائیں گی.آسمان کا نور ظاہر ہوتا چلا جائے گا اور زمینی کی تاریکی دور ہوتی چلی جائے گی ، اور آخر وہی ہو گا جو خدا نے چاہا.وہ نہیں ہو گا جو دنیا نے چاہا.الفضل 12 مئی 1949 ء ) "MY HOME MY CASTLE": 1 2 : لا تَدْخُلُوا بُيُوتًا غَيْرَ بُيُوتِكُمُ حَتَّى تَسْتَأْنِسُوا ( النور : 28 ) 3 : بخارى كتاب المناقب باب مناقب قریش

Page 60

* 1949 51 555 7 خطبات محمود اس دفعہ جلسہ سالانہ پر غالباً اسی ہزار روپیہ خرچ آئے گا مگر اس وقت تک چندہ صرف اٹھائیس ہزار آیا ہے (فرمودہ 25 مارچ 1949ء بمقام لاہور ) تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: میں نے گزشتہ جمعہ میں ان اوہام کے متعلق جو لوگوں کے دلوں میں ربوہ میں جلسہ کرنے کے متعلق پیدا ہو رہے ہیں کچھ باتیں بیان کی تھیں.آج میں پھر اسی مضمون کے متعلق ایک اور نقطہ نگاہ سے توجہ دلانا چاہتا ہوں.جلسہ سالانہ کے متعلق جو وہاں انتظامات ہو رہے ہیں میں کل اُن کو دیکھنے کے لیے ربوہ گیا تھا.چونکہ اُس جگہ پر کوئی رہائشی مکانات نہیں ہیں اس لیے ظاہر ہے کہ ہمیں وہاں رہائش کے لیے عارضی انتظامات ہی کرنے ہوں گے.چنانچہ اس غرض کے لی لیے میں نے انجنیئروں سے مشورہ کرنے کے بعد ساڑھے تیرہ ہزار روپیہ کی منظوری عارضی شیڈ (SHED) بنانے کے لیے دے دی ہے اور اس میں پچاس شیڈ بنائے جا رہے ہیں.ہر شیڈ چھیانوے فٹ لمبا اور سولہ فٹ چوڑا ہے.درمیان میں ستون ہیں.اس طرح ہر شیڈ دو حصوں میں سیم ہو جاتا ہے.ہمارا اندازہ یہ ہے کہ ہر شیڈ میں ایک سو پچپیس یا ایک سو تھیں آدمی آ سکتے ہیں.

Page 61

$1949 52 52 خطبات محمود اس طرح پچاس شیڈ میں قریباً چھ ہزار آدمی کی گنجائش ہے.ان میں سے بیس شیڈ مستورات کے لیے مخصوص کر دیئے گئے ہیں جن میں اڑھائی ہزار کے قریب مستورات کے رہنے کی گنجائش ہوگی.لیکن چونکہ جلسہ سالانہ کے ایام آنے تک موسم گرم ہو جائے گا اور لوگ غالبا پسند کریں گے کہ وہ باہر نکل کر سوئیں اس لیے خیال ہے کہ یہ عمارت تھیں، چالیس بلکہ پچاس ہزار آدمی کے لیے کافی ہوگی کیونکہ صرف اسباب اندر رکھنا ہوگا سونے کے لیے لوگ باہر لیٹنا زیادہ پسند کریں گے.احباب کی حفاظت کو مد نظر رکھتے ہوئے اگر الگ الگ جماعتوں کو رکھا جائے تب بھی ہمارا خیال ہے کہ یہ شیڈ بارہ، پندرہ بلکہ بیس ہزار آدمی کے لیے کافی ہوں گے.چونکہ جماعت جب جلسہ پر آتی ہے تو بالعموم وہ اپنے چندے بھی ساتھ لاتی ہے اور بالعموم ان ایام میں اپنے گزشتہ حسابات بھی دیکھنا چاہتی ہے، اس کے علاوہ مختلف دفاتر سے لوگوں کو مختلف کام ہوتے ہیں.بعض کو اپنے جھگڑوں اور تنازعات کے سلسلہ میں امور عامہ کے دفتر سے کام ہوتا ہے یا رشتہ ناطہ کے لیے وہ شعبہ رشتہ ناطہ سے گفتگو کرنا چاہتے ہیں یا بیت المال والوں سے وہ اپنے بجٹ کے سلسلہ میں ملنا چاہتے ہیں یا دفتر محاسب میں وہ اپنی امانتیں رکھوانا یا اپنی امانتیں نکلوانا چاہتے ہیں اس لیے ان دفاتر کے لیے بھی وہاں مکانات کی بنانے ضروری تھے.چنانچہ میں نے انجنیئروں سے مشورہ کرنے کے بعد اس غرض کے لیے عارضی طور پر بارہ کمرے بنانے کا حکم دے دیا ہے اور وہیں خزانہ بنانے کی ہدایت بھی دے دی ہے.اس طرح جو مستقل افسر ہیں اور جن کو جلسہ سالانہ کے ایام میں رات دن کام کرنا پڑے گا اُن کے لیے بھی علیحدہ انتظام کی ضرورت تھی.چنانچہ اس کے لیے بھی میں نے چھ مکانات الگ بنوانے کا فیصلہ کیا ہے اور متعلقہ کارکنان کو اس کے متعلق ہدایت دے دی ہے.یہ تمام مکانات صرف عارضی طور پر بنائے جائیں گے.ان پر قریباً اٹھارہ ہمیں ہزار روپیہ صرف ہو گا.لیکن اس میں سے خرچ کا کچھ حصہ سلسلہ کو واپس مل جائے گا.مثلاً جب یہ مکانات توڑے جائیں گے تو ان کی کچی اینٹیں کچھ تو تھی ضائع ہو جائیں گی لیکن انجنیئروں کا خیال ہے کہ دو تہائی اینٹیں آئندہ کی ضروریات کے لیے بیچ جائیں گی.اس طرح ان مکانات میں جو لکڑی استعمال کی جائے گی وہ بھی بچ جائے گی.ہمارا ای اندازہ یہ ہے کہ نصف کے قریب خرچ واپس مل جائے گا اور صرف دس ہزار روپیہ ایسا ہو گا جو جلسہ کی خاطر خرچ ہوگا.میں نے یوں بھی اندازہ لگایا ہے کہ انجمن کے جو دفاتر ہیں وہ قادیان کی نسبت اب

Page 62

$1949 53 خطبات محمود بہت بڑھ گئے ہیں.قادیان میں ہمارا سو کے قریب کلرک تھا لیکن اس وقت غالباً زیادہ ہو چکا ہے.جس کی وجہ یہ ہے کہ کوئی دفتر لاہور میں ہے، کوئی چنیوٹ میں ہے اور کوئی احمد نگر میں ہے.اس کے علاوہ ہمارے دفاتر اب دو ملکوں میں تقسیم ہو چکے ہیں.گویا ہمارے دفتروں کا کام پہلے کی نسبت بہت بڑھ گیا ہے بلکہ اب تو ایک مستقل دفتر حفاظت مرکز کے لیے ہی قائم ہو چکا ہے.اور اس کا کام یہی ہے کہ قادیان کے متعلق جو مشکلات پیدا ہوں اُن کا ازالہ کرے، گورنمنٹ سے خط وکتابت کرے، جماعتوں کو قادیان کے حالات سے باخبر رکھے اور ہر قسم کا ضروری ریکارڈ جمع کی کرتا رہے.پھر چونکہ قادیان کی صدر انجمن احمد یہ بھی قائم ہے، اس کے دفاتر الگ ہیں مگر اُن دفاتر کا صرف خرچ کے ساتھ تعلق ہے.ربوہ میں مکانات کی تعمیر یا صدر انجمن احمد یہ پاکستان کے ساتھ اُن کا کوئی تعلق نہیں.اسی طرح تحریک جدید کے بہت سے کارکنان ہیں.ان سب کارکنوں کو اگر ملایا جائے تو ہزار بارہ سو تک ان کی تعداد پہنچ جاتی ہے اور ان کی رہائش کے لیے کم سے کم اڑھائی تین سو مکانات کی ضرورت ہے.اب تو ہمارے تین مکان لاہور میں ہیں.ہمارا کالج بھی نہیں ہے ہے.کچھ مکانات چنیوٹ میں ہیں، چالیس پچاس مکانات احمد نگر میں ہیں اور کچھ حصہ کارکنوں کا ہے خیموں میں رہتا ہے.جب دفاتر اکٹھے ہوں گے تو ہمیں ضرورت ہوگی کہ ان کے لیے اڑھائی سو خیمہ لگوایا جائے.اور اگر اڑھائی سو خیمہ لگوا دیا جائے تب بھی اول تو خیموں میں وہ آرام میسر نہیں آسکتا جو مکانات میں ہوتا ہے.دوسرے اگر اڑھائی سو خیمہ خریدا جائے تو سوا لاکھ روپیہ میں آتا ہے.ان خیموں کو اگر دوبارہ مکانات بننے پر بیچ بھی دیا جائے تب بھی ساٹھ ستر ہزار کا نقصان ہمیں برداشت کرنا پڑے گا.اور اگر اڑھائی سو خیمہ کرایہ پر لیا جائے تو اٹھارہ روپیہ ماہوار پر ایک خیمہ ملتا ہے ہے جس کے معنے یہ ہیں کہ 4500 روپیہ ماہوار صرف کرایہ پر صرف ہوگا.اگر یہ خیمے ایک سال تک رکھے جائیں جب تک ہماری عمارتیں مکمل نہ ہو جائیں تو چون ہزار روپیہ سالانہ صرف کرایہ پر خرچ کی آ جائے گا اور پھر ان خیموں کے پہنچانے اور واپس لانے میں جو خرچ ہوگا وہ بھی چار چار پانچ پانچ ہی روپیہ فی خیمہ سے کم نہیں ہو سکتا.ان امور کو مدنظر رکھتے ہوئے میں نے یہ سمجھا کہ اگر ہم ان عارضی ہے عمارتوں کو جو جلسہ سالانہ کے لیے بنائی جا رہی ہیں بعد میں توڑیں نہیں بلکہ اسی طرح رہنے دیں تو ہمارا نہیں ہزار روپیہ جو ان عمارتوں پر خرچ ہو گا اس میں سے دس ہزار روپیہ تو یقیناً جلسہ سالانہ کے

Page 63

$1949 54 خطبات محمود لیے خرچ ہونا تھا.باقی دس ہزار روپیہ جو لکڑی اور اینٹوں کی صورت میں ہمیں واپس مل سکتا تھا وہ ان کی عمارتوں کو سال بھر قائم رکھ کر ہمارے دفاتر اور کارکنوں کو اکٹھا رکھنے میں کام آسکتا ہے.میں اندازہ لگایا ہے کہ فی بیرک چھ چھ مکان بن سکتے ہیں اور چونکہ پچاس بیر کیں ہیں اس لیے بعد میں بڑی آسانی سے تین سو مکان بن سکتا ہے.اگر ہم ان مکانات کو سال بھر رہنے دیں تو دس ہزار روپیہ کا نقصان اٹھانے کی بجائے ہمیں کم سے کم چالیس ہزار روپیہ کی بچت ہو گی.اگر ہم خیمے لگائیں تو ہمیں پچاس ہزار روپیہ سالانہ کرایہ ادا کرنا پڑے گا.اور اگر ہم خیمے خرید کر سال بھر کے بعد پیچیں تو ہمیں ساٹھ ستر ہزار روپے کا گھاٹا برداشت کرنا پڑے گا.لیکن اگر یہ شیڈ اور مکانات اسی طرح پر کھڑے رہیں اور چھ چھ مکان فی بیرک بنا دیئے جائیں تو تین سو مکان بن جائے گا.ان پچاس شیڈوں کے علاوہ جو عارضی مکانات وہاں جلسہ سالانہ کے لیے بنائے جا رہے ہیں جن میں دفاتر بھی ہوں گے، ناظروں کے لیے مکانات بھی ہوں گے، پرائیویٹ سیکرٹری کا بھی دفتر ہو گا اور میرا مکان بھی ہوگا اس پر ہمارے اخراجات کا اندازہ چار ہزار روپیہ ہے کیونکہ بہر حال کسی چھوٹی سی جگہ میں یہ سارے دفاتر نہیں آسکتے.دس بارہ افسروں کے لیے جگہ کی ضرورت ہوگی.دفتر پرائیویٹ کی سیکرٹری کے لیے جگہ کی ضرورت ہوگی اور پھر میری رہائش کے لیے جگہ کی ضرورت ہوگی.اس کے کی لیے ہم نے جو نقشہ تجویز کیا ہے اس کے مطابق چار ہزار روپے خرچ کا اندازہ ہے.اور اگر اس خرچ کو پورے سال پر پھیلا دیا جائے تو ساڑھے تین سو روپیہ ماہوار کا خرچ ہے جو سلسلہ کو برداشت کرنا پڑے گا.میں سمجھتا ہوں کہ اگر جلسہ سالانہ کے فوراً بعد ہم دفاتر وہاں منتقل کرنا شروع کر دیں کی اور موجودہ عارضی عمارات کو قائم رکھیں تو بجائے نقصان کے ہمیں تمھیں چالیس ہزار روپیہ کا فائدہ رہے گا.اور پھر مزید فائدہ یہ ہو گا کہ سب کارکن اکٹھے رہیں گے اور کام میں پہلے کی نسبت زیادہ ترقی ہوگی.میں نے یہ ساری تمہید اس لیے باندھی ہے کہ اس وقت جلسہ سالانہ کے انتظامات کے سلسلہ میں صرف رہائش پر بیس ہزار روپیہ خرچ کا اندازہ ہے.کھانے پینے کا خرچ اس سے الگ ہے.ہماری جماعت کے نمائندگان نے مجلس شورای میں متفقہ طور پر یہ کہا تھا کہ اگر ساری جماعت اپنی ماہوار آمدن کا دس فیصدی حصہ چندہ جلسہ سالانہ کے لیے پیش کر دے تو اس کے بعد

Page 64

خطبات محمود 55 55 $ 1949 ضرورت نہیں رہتی کہ اس کی نسبت دس سے پندرہ فیصدی تک بڑھا دی جائے اور میں نے ނ جماعت کے اس مشورہ کو قبول کرتے ہوئے فیصلہ کیا تھا کہ جماعتیں دس فیصدی کے حساب.چندہ جلسہ سالانہ ادا کیا کریں.اگر دس فیصدی چندہ دینے کے بعد بھی ضروریات پوری نہ ہوں تو اس کے بعد اسے پندرہ فیصدی تک بڑھایا جاسکتا ہے.ہم نے جب حفاظت مرکز کے سلسلہ میں اپنی جماعت کی ماہوار آمدن کا اندازہ لگایا تو جو ادھورا اور ناقص اندازہ ہمیں معلوم ہوا وہ اندازہ جو کسی اور شخص نے نہیں بلکہ افراد جماعت نے خود اپنے متعلق پیش کیا تھا وہ سوا لاکھ روپیہ ماہوار کا تھا.یہ اندازہ یقیناً ناقص اور ادھورا تھا.بہت سے افراد ایسے تھے جنہوں نے اپنی آمد نہیں نہ بتائیں اور بعض ایسے بھی تھے جنہوں نے اپنی کمزوری کی وجہ سے کم آمدنی بتائی.در حقیقت کسی صورت میں ہے بھی ہماری جماعت کی ماہوار آمد پچیس لاکھ روپیہ سے کم نہیں اور پچیس لاکھ پر دس فیصدی چندہ جلسہ سالانہ کے معنے اڑھائی لاکھ روپیہ کے بنتے ہیں لیکن اگر اسی آمد کو صیح سمجھ لیا جائے جو جماعت کے افراد کی طرف سے پیش کی گئی تھی تب بھی دس فیصدی کے حساب سے ایک لاکھ پینتیس ہزار روپیہ چندہ جلسہ کے لیے جمع ہونا چاہیے.مجھے لاہور کی انجمن کا ہی چندہ معلوم ہے کیونکہ میں نے خود رجسٹر دیکھے ہیں.یہاں کی جماعت کی ماہوار آمد جو رجسٹروں میں درج ہے وہ پچاس ہزار روپیہ ہے.دس فیصدی کے لحاظ سے پانچ ہزار روپیہ صرف لاہور کی جماعت کی طرف سے آنا چاہیے.اور ابھی سارے پاکستان میں مشرقی پاکستان میں بھی اور مغربی پاکستان میں بھی بڑی بڑی جماعتیں کی ہیں.اُن سب کے چندے اگر اسی نسبت سے اکٹھے ہوں تو یقیناً ایک بہت بڑی رقم جمع ہو سکتی ہے ہے.مگر مجھے یہ معلوم کر کے بہت تعجب اور افسوس ہوا کہ جلسہ سالانہ کے لیے اس وقت صرف ساڑھے اٹھارہ ہزار روپیہ آیا ہے.جدید یعنی مہمانوں کے ٹھہرانے کے لیے جو عارضی شیڈ بنائے جارہے ہیں اُن کے بنانے میں بھی ہمیں ڈیڑھ ہزار روپیہ کا گھاٹا رہے گا حالانکہ کسی اور کے اندازہ کے رُو سے نہیں بلکہ ہماری جماعت کے خود اپنے اندازہ کے مطابق ایک لاکھ تمیں ہزار روپیہ صرف دس فیصدی کے حساب سے آنا چاہیے تھا.یہ سستی اور غفلت ہماری جماعت میں گزشتہ سالوں میں بعد میں معلوم ہوا کہ رپورٹ میں غلطی ہو گئی تھی.ساڑھے اٹھائیس ہزار کی جگہ ساڑھے اٹھارہ ہزار لکھا گیا تھا.

Page 65

* 1949 56 خطبات محمود نظر نہیں آیا کرتی تھی.قادیان میں جلسہ ہوتا تھا تو گو اُس وقت بھی چندے میں کمی رہتی تھی مگر بہر حال وہ اتنی نہیں ہوتی تھی جتنی اس وقت ہے.اُس وقت سینتالیس اڑتالیس ہزار کے قریب چندہ ہو جاتا تھا اور ساٹھ ہزار کے قریب خرچ ہوتا تھا.مگر اس دفعہ جب کہ رہائش کے لیے ہم نے ی مکانات بھی بنانے ہیں اور اخراجات پہلے سے بڑھ گئے ہیں بجائے اس کے کہ سینتالیس اڑتالیس ہزار روپیہ آتا اس وقت تک صرف ساڑھے اٹھارہ ہزار روپیہ چندہ آیا ہے.میں جماعتوں کو اس کی امر کی طرف توجہ دلاتا ہوں کہ انہیں یہ سستی اور غفلت جلد سے جلد دور کرنی چاہیے.اور چونکہ لا ہور کی جماعت میرے سامنے بیٹھی ہے قدرتی طور پر میں سب سے پہلے لاہور کی جماعت کو مخاطب کرتا ہے ہوں.قادیان میں بھی جب میں خطبہ پڑھا کرتا تھا تو چونکہ قادیان کی جماعت ہی میرے سامنے ہوتی اس لیے سب سے پہلے میں اُس کو مخاطب کیا کرتا تھا اور وہ اس پر چڑا نہیں کرتی تھی بلکہ خوش ہوتی تھی کہ اُسے دوسروں سے پہلے دین کی خدمت میں حصہ لینے کا موقع مل رہا ہے.مگر یہاں آکر مجھے یہ ایک نیا تجربہ ہوا ہے.سارے لوگوں کے متعلق نہیں بلکہ بعض لوگوں کے متعلق کہ اگر انہیں اُن کے فرائض کی طرف توجہ دلائی جائے تو وہ بُرا مناتے ہیں.مگر بہر حال میرے لیے مجبوری.جولوگ میرے سامنے بیٹھے ہوں گے وہی میرے پہلے مخاطب ہوں گے.یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ میرے سامنے تو تم بیٹھے ہو اور میری پہلی مخاطب کوئی اور جماعت ہو.پس سب سے پہلے میں لاہور کی جماعت کو اور پھر باقی جماعتوں کو اس فرض کی ادائیگی کی طرف توجہ دلاتا ہوں.اگر تمام جماعتیں اپنے اس فرض کو ادا کریں تو یقیناً اس چندے کی ادائیگی انہیں کوئی بوجھ محسوس نہیں ہوگی.حقیقتا اگر ساری جماعت کی ماہوار آمدن تیرہ لاکھ ہی فرض کی جائے ( گوجیسا کہ میں بتا چکا ہوں یہ اندازہ بالکل غلط تھا ) تب بھی ایک لاکھ پینتیس ہزار روپیہ آنا چاہیے تھا.اور اگر یہ سمجھ لیا جائے کہ جماعت میں کچھ کمزور بھی ہوتے ہیں جو پورا چندہ نہیں دے سکتے ہیں اور صرف پانچ فیصدی کے حساب سے چندے کا اندازہ لگایا جائے تو اس حساب سے بھی پینسٹھ ہزار روپیہ آنا چاہیے تھا مگر آیا صرف ساڑھے اٹھارہ ہزار روپیہ ہے جو ایک نہایت کی افسوس ناک امر ہے.ہمارا جلسہ ہر سال ہوتا ہے اور اس جلسہ کی غرض یہ ہے کہ جماعت کے اس کی بابت وضاحت ملاحظہ ہوصفحہ 55 حاشیہ

Page 66

* 1949 57 خطبات محمود اخلاص اور اُن کے ایمانی جوش کو بڑھایا جائے مگر ہر جلسہ پر دس بارہ ہزار روپیہ کا نقصان ہو جاتا ہے اور اس دفعہ تو خرچ غالباً اسی ہزار روپیہ کے قریب ہوگا اور آمد ساڑھے اٹھارہ ہزار حمید ہے.اس کی میں کوئی شبہ نہیں کہ ابھی وقت ہے اور جماعتیں جلسہ سالانہ سے پہلے اپنا چندہ بھجوا سکتی ہیں لیکن جس نسبت اور رفتار سے یہ چندہ آ رہا ہے وہ بہت افسوسناک ہے اور اس سے شبہ پیدا ہوتا ہے کہ شاید ی ہماری جماعت اس بوجھ کے اٹھانے میں غفلت کا ارتکاب کر رہی ہے.ممکن ہے کہ چونکہ نیا انتظام ہے اور وہاں نئے سرے سے ہی تمام انتظامات ہوں گے اور رہائش کے لیے مکانات بھی نہیں ہوں گے اس لیے کچھ لوگ رہائش کے لیے سہولتیں نہ پاتے ہوئے اور کچھ کھانے پینے کی دقتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے نہ آئیں.اس کے علاوہ ہم اس سال غیر احمد یوں کو بھی عام دعوت نہیں دے رہے کیونکہ ہم ڈرتے ہیں کہ ممکن ہے بعد میں انہیں یہ شکایت پیدا ہو کہ ہمیں اچھا کھانا نہیں ملا یا ہماری رہائش کا خاطر خواہ انتظام نہیں کیا گیا صرف احمدیوں کو شامل ہونے کی دعوت دے رہے ہیں.اور ی چونکہ اُن کو بھی علم ہے کہ وہاں رہائش اور کھانے پینے کے لحاظ سے دقتیں ہوں گی اس لیے ممکن ہے بعض لوگ نہ آئیں.چنانچہ جہاں قادیان میں تمہیں ہزار آدمی ریل کے ذریعہ اور آٹھ دس ہزار آدمی پیدل آجاتا تھا وہاں موجودہ سال ہم نے ربوہ میں دس ہزار آدمیوں کے آنے کا اندازہ لگایا ہے.پس ممکن ہے کہ اخراجات بوجہ اس کے کہ لوگ کم آئیں تھوڑے ہوں لیکن بہر حال اس نئی صورت میں خواہ لوگ کم آئیں یا زیادہ عمارتوں کے اخراجات کے لیے بیس ہزار روپیہ ضرور صرف ہونا ہے.اس طرح بعض اور اخراجات ایسے ہیں جو کسی صورت میں بھی نظر انداز نہیں کیے جا سکتے.مثلاً پانی کا انتظام ہے.ربوہ میں پانی نہیں ملتا.چھ میل پر سے پانی لانا پڑے گا.پانی کے لیے ٹینکیاں بنانی ہوں گی، ٹرک رکھنے پڑیں گے، نئے نلکے لگوانے پڑیں گے اور اس پر بارہ تیرہ ہزار روپیہ خرچ ہو گا.اور پانی چونکہ وقت پر مہیا نہیں ہو سکتا اس لیے قطع نظر اس کے کہ کتنے آدمی آئیں گے پانی کا انتظام کرنا ہو گا.پس اس خیال سے کہ لوگ کم آئیں گے ہمیں اِس چندہ میں کمی نہیں ہے آنے دینی چاہیے کیونکہ بعض قسم کے اخراجات ایسے ہیں جو لازمی ہیں اور وہ ضرور ہوں گے.پھر میں تو اس بات کا قائل ہی نہیں کہ کوئی انسان محض وہموں کی وجہ سے اپنے فرض کو ادا نہ کرے.حمد اس کی بابت وضاحت ملاحظہ ہو صفحہ 55 حاشیہ

Page 67

* 1949 58 خطبات محمود ہزاروں ہزار مثالیں ایسی ملتی ہیں کہ لوگ سخت خطرہ کی حالت میں بھی اپنے گھروں کی ذمہ داریوں کو نہیں بھولتے.تو ہیں چل رہی ہوتی ہیں، گولے برس رہے ہوتے ہیں ، عمارتوں کو آگ لگ رہی ہوتی ہے، شہر خالی ہو رہے ہوتے ہیں مگر عورتیں نکلتی ہیں تو پان کھانے کی شوقین عورتیں کہتی ہیں اپنے ساتھ پان کی دس گلوریاں تو رکھ لیں تا کہ رستہ میں کام آئیں.اسی طرح شہر خالی ہو رہے ہوتے ہی ہیں تو عورتیں اپنے بچوں کے لیے روٹیاں لگانے یا پنجیری بنانے میں مشغول ہوتی ہیں حالانکہ وہ یہ بھی جانتی ہیں کہ ممکن ہے پانچ دس منٹ کے بعد وہ سب قتل کر دیے جائیں.جب دنیوی معاملات میں اپنی ذمہ داریوں کو بُھولا نہیں جاتا تو کیا وجہ ہے کہ ہم دین کے معاملات میں محض ای وہموں کی وجہ سے اپنی تیاری کو چھوڑ دیں.جو ہونا ہے وہ بہر حال ہو کر رہنا ہے.ہمارا فرض یہ ہے کہ اگر بُرا بھی ہونا ہے تو ہم اپنی آنکھیں بند کر کے اُس کام میں لگے رہیں جو خدا نے ہم پر ڈالا ہے.اور آخر وقت تک اپنے فرائض کو ادا کرتے چلے جائیں.کام کرتے جانا ہمارا کام ہے نتائج نکالنا خدا تعالیٰ کا کام ہے.مگر اس کے ساتھ ہی ہمیں اُس کے وعدوں پر کامل یقین ہونا چاہیے اور اس کی یقین کو آخر وقت تک قائم رکھنا چاہیے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ کا واقعہ ہے.آپ کے پاس ایک شخص آیا اور اُس نے کہا يَا رَسُوْلَ اللہ ! میرے بھائی کے پیٹ میں تکلیف ہے.اُسے دست آ رہے ہیں میں کیا کروں؟ آپ نے فرمایا جاؤ اور اُسے شہد پلاؤ.وہ گیا اور اُس نے شہد پلایا مگر دست بجائے کم ہونے کے اور بھی زیادہ ہو گئے.وہ دوبارہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور اُس نے کہا يَا رَسُولَ اللہ ! میرے بھائی کے دست تو شہد پلانے سے اور بھی بڑھ گئے ہیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جاؤ اور اور شہد پلاؤ.وہ پھر گیا اور اُس نے شہد پلایا مگر دست ی اور بھی بڑھ گئے.اس پر وہ پھر واپس آیا اور اُس نے کہا يَا رَسُوْلَ اللہ ! میرے بھائی کے دست تو اور بھی بڑھ گئے ہیں.آپ نے فرمایا جاؤ اور اور شہد پلاؤ.وہ گیا اور پھر اُس نے شہد پلایا مگر اس کی دفعہ اُسے پہلے سے بھی زیادہ اسہال کی شکایت ہو گئی.وہ پھر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور عرض کیا يَا رَسُولَ الله ! شہد پلانے سے تو دست اور بھی بڑھ گئے ہیں.آپ نے فرمایا تیرے بھائی کا پیٹ جھوٹا ہے خدا کا کلام سچا ہے.1 آپ کا مطلب یہ تھا کہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ.

Page 68

خطبات محمود 59 59 * 1949 ہے.شہد کے متعلق یہ فرمایا ہے کہ فِيْهِ شِفَاء لِلنَّاسِ.2 اس میں لوگوں کے لیے شفاء رکھی گئی.جب خدا نے اسے شفاء قرار دیا ہے تو اس کے بعد بھی اگر تیرے بھائی کے دستوں کو آرام نہیں آیا تو میں تو یہی سمجھوں گا کہ تیرے بھائی کا پیٹ جھوٹ بولتا ہے خدا تعالیٰ نے جو کچھ کہا ہے وہ بالکل درست ہے.دیکھو بظاہر یہ بات کتنی عجیب معلوم ہوتی ہے لیکن ایمان کا کیسا عظیم الشان مظاہرہ ہے.اسے دست آ رہے ہیں، بیمار شکایت کرتا ہے کہ میرے دست بڑھ گئے ہیں، تیماردار کہہ رہے ہیں کہ دستوں کی تکلیف زیادہ ہو گئی ہے مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں اس کا پیٹ جھوٹ بولتا ہے.خدا نے جو کچھ کہا ہے وہ بالکل سچ ہے.ہمارے زمانہ کا بھی ایک واقعہ بالکل اسی قسم کا ہے.خواجہ غلام فرید صاحب چشتی چاچڑاں شریف والے جو بہاولپور کے نواب صاحب کے پیر تھے ایک دفعہ دربار میں بیٹھے تھے کہ آتھم کی پیشگوئی کا ذکر آ گیا.آتھم کی پیشگوئی کا وقت گزر چکا تھا.عیسائی ہنسی اُڑا رہے تھے اور بعض نادان مسلمان بھی اپنی بیوقوفی کی وجہ سے عیسائیوں کے ساتھ مل کر اس پیشگوئی پر ہنسی اُڑاتے تھے.دربار لگا ہوا تھا، نواب صاحب بیٹھے تھے کہ درباریوں میں سے بعض نے اس پیشگوئی کا ذکر کیا اور پھر مذاق کرنے شروع کر دیئے کہ مرزا صاحب نے یوں کہا تھا مگر ہوا اس طرح.کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد نواب صاحب نے بھی ہنسی میں حصہ لینا شروع کر دیا اور انہوں نے بھی اس پیشگوئی کے متعلق تمسخر آمیز رنگ میں گفتگو شروع کر دی.اس پر میاں غلام فرید صاحب رحمۃ اللہ علیہ سجادہ نشین چاچڑاں کو سخت غصہ آیا اور وہ نواب صاحب سے کہنے لگے آپ کو شرم نہیں آتی کہ آپ ایک عیسائی کی تائید میں بات کرتے ہیں اور جو شخص اسلام کی طرف سے مدافعت کے لیے کھڑا ہوا تھا اُس کی تحقیر کرتے ہیں!! پھر وہ اور زیادہ جوش میں آگئے اور کہنے لگے کون کہتا ہے کہ آتھم زندہ ہے؟ مجھے تو وہ مُردہ نظر آتا ہے اور میں تو اُس کی لاش اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا ہوں.حالانکہ وہ بظاہر اُس وقت زندہ تھا اور مرا ہوا نہیں تھا.مگر انہوں نے کہا جب خدا نے کہا ہے کہ وہ مر گیا ہے تو تمہیں اگر وہ زندہ نظر آتا ہے تو تمہاری آنکھیں جھوٹی ہیں.حقیقت یہی ہے کہ جس شخص کا دل ڈر گیا، جس نے اسلام اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر اعتراضات کرنے سے توبہ کر لی، جس نے متواتر چیلنج دینے کے باوجود ایک دفعہ بھی یہ کہنے کی

Page 69

خطبات محمود 60 60 $1949 جرات نہ کی کہ میں نہیں ڈرا اُسے کون زندہ کہہ سکتا تھا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اسے غیرت دلانے کے لیے بار بار انعامی اشتہارات شائع فرمائے.یہاں تک کہ ان انعامات کو ایک ہزار سے لے کر چار ہزار روپیہ تک پہنچا دیا اور لکھا کہ اگر تمہارے دل میں ندامت پیدا نہیں ہے ہوئی اور تم نے اپنے پہلے رویہ سے تو بہ نہیں کی تو آب مؤکد بعذاب حلف اٹھا کر اس کا اعلان کروالی اور مجھ سے انعام میں چار ہزار روپیہ لے لو.مگر اُس نے آپ کے اشتہارات میں سے کسی ایک اشتہار کا بھی جواب نہ دیا.پس وہ مر چکا تھا، اس کے اندر زندگی کا کوئی سانس نہیں تھا اور نادان تھے وہ لوگ جو اُسے زندہ سمجھتے تھے.اس لیے چاچڑاں والوں نے کہا تمہیں زندہ نظر آتا ہو گا مجھے تو اُس کی لاش اپنے سامنے نظر آتی ہے.اس طرح سلسلہ کی ترقی اور اس کی عظمت کے متعلق ہمارا ایمان ہونا چاہیے.اگر ہماری جماعت پر کوئی ابتلا ایسا آتا ہے جس سے بظاہر جماعت کو ایک دھکا لگتا ہے، اس کا شیرازہ پراگندہ ہو جاتا ہے، اس کے اموال و املاک کا ضیاع ہوتا ہے تب بھی ہمارا فرض ہے کہ اگر کوئی شخص ہمارے سامنے یہ کہے کہ جماعت گر رہی ہے تو ہم اُسے کہیں تم جھوٹ بولتے ہو.جب خدا نے کہا ہے کہ وہ ہمارے سلسلہ کو ترقی دے گا تو جو کچھ خدا نے کہا وہی ٹھیک ہے.اب بھی ہمارے سلسلہ کی ترقی ہی ہو رہی ہے.جب تک یہ رنگ ہمارے اندر پیدا نہیں ہو گا اُس وقت تک ہمارا ایمان کا دعوی بالکل بے حقیقت اور عبث چیز ہو گا.اگر ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھنا ہے تو ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھ بھال کر پہلے کیوں نہ پیشگوئیاں کیں یا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام نے جب دعوای فرمایا تھا اُس وقت ہم نے اپنی آنکھوں سے تمام حالات دیکھ کر احمدیت کی کے مستقبل کے متعلق کوئی پیشگوئی کیوں نہ کر لی.اگر اُس وقت ہم اپنی آنکھوں سے کام لیتے تو یہی کہتے کہ یہ شخص جو ایک ایسے گاؤں میں بیٹھا ہے جہاں نہ ریل آتی ہے نہ تار آتی ہے، نہ لوگوں کی آمد و رفت کا کوئی سامان ہے نہ متمدن دنیا سے اس کا کوئی تعلق ہے اور دعوی یہ کرتا ہے کہ میں مامور ہوں.یہ پانچ سات سال میں ہی نعوذ باللہ ذلیل اور نا کام ہو کر مر جائے گا.پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو اگر ہم نے دیکھا ہے تو اپنی آنکھوں سے نہیں بلکہ خدا تعالیٰ کی آنکھوں سے دیکھا ہے اور یہی ہمارے ایمان کی اصل بنیاد ہے.اسی طرح سلسلہ کی آئندہ ترقی ہم

Page 70

* 1949 61 خطبات محمود پنی آنکھوں سے نہیں بلکہ خدا تعالیٰ کی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں.بے شک ہماری جماعت پر ایک بہت بڑا ابتلاء آیا ہے، بے شک ہمیں نظر آتا ہے کہ جماعت اپنے مرکز سے نکال دی گئی، غیر مسلموں نے اس پر قبضہ کر لیا، قادیان میں رہنے والوں کو محصور کر لیا گیا، ان کی جائیدادیں چھین لی گئیں اور سلسلہ کے ادارے بند کر دیئے گئے.یہ سب کچھ نظر آتا ہے مگر ایمان کا تقاضا یہ ہے کہ ہم ان تمام حالات کو دیکھنے کے باوجود یہ کہتے چلے جائیں کہ وہ لوگ جھوٹ بولتے ہیں جو کہتے ہیں کہ قادیان پر انڈین یونین کا قبضہ ہے.وہ لوگ جھوٹ بولتے ہیں جو کہتے ہیں کہ قادیان پر سکھوں کا قبضہ ہے.وہاں ہمارا ہی قبضہ ہے.زمین مل جائے گی آسمان نمل جائے گا مگر ہمارا قبضہ اس مقام سے کبھی نہیں ملے گا کیونکہ ہم نے قادیان کی ترقی کو اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھا بلکہ خدا تعالیٰ کی آنکھوں سے دیکھا ہے اور خدا تعالیٰ نے یہی کہا ہے کہ وہاں ہمارا ہی قبضہ رہے گا.اس طرح کہنے والے کہیں گے کہ ربوہ میں کون آئے گا؟ ہم کہتے ہیں اور کوئی نہ آئے تو خدا تعالیٰ کے فرشتے آئیں گے اور ہم ان فرشتوں کے لیے یہ عمارتیں بنوار ہے ہیں.کہنے والے کہیں گے کہ کون آئے گا؟ ہم کہتے ہیں خدا آئے گا اور وہ اس زمین کو اپنی اے برکت سے بھر دے گا اور یقیناً ہر مومن اپنے اس فرض کو سمجھتے ہوئے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اُس پر عائد ہوتا ہے اپنے چندوں اور قربانیوں میں بڑھتا چلا جائے گا.بے شک وہ لوگ بھی ہوں گے جو کہیں گے کہ تم اپنے مال کو ضائع کر رہے ہو مگر در حقیقت تم اپنے مال کو ضائع کرنے والے نہیں ہو گے.تم ایک بیج بو رہے ہو گے، تم اپنی اور اپنی آئندہ نسلوں کی ترقی کے لیے ایک کھیتی تیار کر رہے ہو تے گے.آخر میں وہ لوگ جو تم پر ہنسی اڑانے والے ہیں فاقوں سے مر رہے ہوں گے اور تم جنہیں یہ کہا جاتا ہے کہ اپنا مال ضائع کر رہے ہو تم کھیتوں سے غلہ بھر بھر کر اپنے گھروں میں لا رہے ہو گے.وہ غلہ جو تمہاری خوشحالی کا بھی موجب ہوگا اور دنیا کے امن اور اس کی آسائش کا بھی موجب ہو گا.پس جماعت کو قربانی کے مواقع پر اپنے اردگرد کے حالات اور دنیا کے تغیرات سے خائف نہیں ہونا چاہیے.اگر واقع میں تم نے خدا کے لیے اس سلسلہ کو قبول کیا ہے تو کیا خدا نے اس سلسلہ کی ترقی کا وعدہ کرتے وقت جھوٹ بولا تھا ؟ اُس نے جو کچھ کہا تھا سچ کہا تھا.تمہارے دل میں اگر س کے متعلق کوئی شبہ پیدا ہوتا ہے تو کیوں تم وہی کچھ نہیں کہتے جو چاچڑاں شریف کے بزرگ.

Page 71

* 1949 22 62 خطبات محمود کہا تھا.یعنی تم کو آتھم زندہ نظر آتا ہو گا مجھے تو وہ مردہ نظر آتا ہے اور میں تو اپنی آنکھوں سے اُس کی لاش دیکھ رہا ہوں.تم بھی کہو کہ ہماری آنکھیں غلطی کر رہی ہیں، ہمارا دل غلطی کر رہا ہے، ہمارا دماغ غلطی کر رہا ہے مگر خدا غلطی نہیں کرتا.جو کچھ وہ کہتا ہے سچ کہتا ہے.جو کچھ ہمارا دل کہتا ہے وہ جھوٹ ہے ہے اگر وہ اس کے خلاف محسوس کرتا ہے.جو کچھ ہمارا دماغ کہتا ہے وہ جھوٹ ہے اگر وہ اس کے خلاف رائے رکھتا ہے.سچ وہی ہے جو خدا نے کہا.پس اپنی ذمہ داری کو سمجھتے ہوئے اور اپنے عقیدہ کی شہادت کے طور پر اپنی قربانیوں کے معیار اور اپنے کاموں کی رفتار کو اور بھی بڑھاؤ تا دنیا کو یہ محسوس ہو کہ جماعت اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھتی ، اپنے دل سے کوئی رائے قائم نہیں کرتی ، اپنے دماغ کے پیچھے نہیں چلتی بلکہ صرف خدا تعالیٰ کی طرف اپنی نگاہ رکھتی ہے.جب دنیا نہیں دیکھتی اُس وقت تک تم دیکھتے ہو.جب دنیا مایوس ہو رہی ہوتی ہے اُس وقت تم پر امید ہوتے ہو.جب دنیا اتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھی ہوئی ہوتی ہے اُس وقت تم اپنے قدم اٹھائے اور بھی تیز رفتاری کے ساتھ چلنا شروع کر دیتے ہو.یہ کیفیت تم اپنے اندر پیدا کر لو تو یقیناً خدا تعالیٰ کے فضل پہلے سے بھی زیادہ (الفضل 3 اپریل 1949ء) تیزی سے تم پر نازل ہونے لگیں گے“.1 : بخارى كتاب الطب باب الدواء بالعسل 2 : النحل : 70

Page 72

* 1949 8 63 63 نماز روحانیت کا ستون ہے تربیت اولا د اور والدین کی ذمہ داریاں (فرمودہ یکم اپریل 1949ء بمقام لاہور ) تشهد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: دینا تو میں نے آج کچھ اور خطبہ تھا لیکن یہاں آنے کے بعد بعض نوجوانوں کو نماز پڑھتے ہوئے دیکھ کر میں نے اپنا موضوع تقریر بدل لیا.نماز اسلامی فرائض میں سے ایک نہایت ہی اہم فرض ہے اور حقیقت یہ ہے کہ روحانیت کا ستون نماز ہی ہے.جس نے ٹھیک طور پر نماز پڑھی اُس کا دل قائم ہو گیا اور جس کا دل قائم ہو گیا کی اس کی روحانیت بھی قائم ہوگئی.اور جس نے ٹھیک طور پر نماز نہیں پڑھی اُس کا دل قائم نہیں ہوا اور جس کا دل قائم نہیں ہوا وہ سچے طور پر مسلمان بھی نہیں کہلا سکتا.وہ ایک ایسوسی ایشن کا ممبر تو ہے، وہ ایک مجلس کا ممبر تو کہلا سکتا ہے مگر وہ ایک مذہبی آدمی نہیں کہلا سکتا.اور نماز پڑھنے اور ٹھیک طور پڑھنے میں زمین و آسمان کا فرق ہے.نماز بسا اوقات ایک ایسا انسان بھی پڑھ لیتا ہے جسے مذہب خطبات محمود

Page 73

* 1949 64 خطبات محمود سے کوئی غرض نہیں ہوتی.لوگ دہر یہ ہوتے ہیں، اسلام کے عملی طور پر منکر ہوتے ہیں مگر بوجہ اس کے کہ وہ مسلمانوں کے گھروں میں پیدا ہوتے ہیں نماز پڑھ لیتے ہیں.بلکہ بعض پانچوں وقت کی نمازیں پڑھتے ہیں مگر پوچھو تو وہ خدا تعالیٰ کے قائل نہ ہوتے ہیں.وہ کہتے ہیں ہم جس سوسائٹی میں رہیں ہمارا فرض ہے کہ ہم اس کے طریقوں پر عمل کریں.ہم انگریزوں میں جاتے ہیں تو کوٹ کے پتلون پہنتے ہیں، چھری کانٹے سے کھانا کھاتے ہیں مگر ہم انگریز نہیں بن جاتے.اس لیے کہ جس سوسائٹی میں ہم رہیں ہمارا کام یہی ہے کہ ہم اُس کے دستور اور رسم و رواج کو مد نظر رکھیں.جس طرح ہم مغربی طریق اختیار کرنے کی وجہ سے یورپین نہیں بن جاتے اسی طرح نماز پڑھ کر ہم مسلمان نہیں بن جاتے.ہم مغربی طریق اس لیے اختیار کرتے ہیں تا مغربی لوگوں کی انگلیاں ہماری طرف نہ اٹھیں اور ہم مجلس میں انتشار پیدا کرنے کا موجب نہ بن جائیں.اسی طرح ہم مسلمانوں میں آکر نماز پڑھ لیتے ہیں تاکہ مسلمانوں کی انگلیاں ہماری طرف نہ اٹھیں اور ہم مسلمانوں میں انتشار پیدا کرنے کا موجب نہ بن جائیں.ایسے ہی لوگوں کے متعلق اللہ تعالی قرآن کریم میں فرماتا ہے فَوَيْلٌ لِلْمُصَدِّينَ - 1 یعنی کچھ لوگ نماز تو پڑھتے ہیں مگر اُن کی نماز ثواب کا موجب نہیں ہوتی ، اُن کی نماز رضائے الہی کے حاصل کرنے کا موجب نہیں ہوتی.اُن کی جی نماز ایک بیکار اور لغو فعل بھی نہیں ہوتی بلکہ اُن کی نماز بے کار اور لغو فعل سے آگے بڑھ کر گناہ کا موجب ہو جاتی اور خدا تعالیٰ کا غضب اُن کی طرف کھینچ لاتی ہے.پس ایک نماز ایسی بھی ہوتی ہے.اور ایک نماز ایسی بھی ہوتی ہے جو محض رسمی ہوتی ہے.انسان اس میں سے ایسے گزر جاتا ہے جیسے الی چکنے گھڑے پر سے پانی گزر جاتا ہے اور اُس پر کوئی اثر نظر نہیں آتا.اگر کہیں کہیں کوئی قطرہ نظر بھی ای آئے تو وہ گھڑے کی حرکت وغیرہ سے فوراً گر جاتا ہے.لیکن حقیقی نماز وہ ہوتی ہے جس کے ظاہر کو بھی محفوظ رکھا جائے اور اس کے باطن کو بھی محفوظ رکھا جائے.یعنی نہ تو جلد جلد پڑھی جائے ، نہ اس کی عبادت کو نظر انداز کیا جائے اور نہ اس میں غیر ضروری حرکات کی جائیں.طبعی حرکات بھی بعض دفعہ غیر ضروری ہو جاتی ہیں.مثلاً انسان کا اپنے جسم کو کھجلانا ایک طبعی چیز ہے.عام حالات میں ہم اس پر اعتراض نہیں کرتے.ہم شدید حالات میں نماز میں کھجلانے پر بھی اعتراض نہیں کرتے.بعض دفعہ کھجلی اتنی شدید ہوتی ہے کہ اس سے نماز خراب ہو نے لگتی ہے اور انسان اپنا جسم کھجلانے پر

Page 74

$ 1949 65 خطبات محمود مجبور ہو جاتا ہے.مگر جن حالات میں نماز کے باہر کھجلانا جائز ہوگا نماز میں انہی حالات میں جسم کھجلانا جائز نہیں ہوگا.نماز کے باہر معمولی کھجلی دور کرنے کے لیے بھی کھجا نا جائز ہے لیکن نماز میں سوائے ایسی کھجلی کے جو شمرید ہو اور جس کا ازالہ اگر نہ کیا جائے تو نماز کی طرف سے توجہ ہٹ جانے کا احتمال ہو عام حالات میں بھجلانا جائز نہیں.یہی حال جسم کی دوسری حرکات کا ہے.مثلاً میں اس وقت خطبہ کے لیے کھڑا ہوں خطبہ میں ایک لات پر زور دے کر کھڑا ہونا جائز ہے لیکن نماز میں یہ جائز نہیں.نماز میں دونوں لاتوں کو سیدھا رکھنا ضروری ہوگا.اگر میں دونوں لاتوں کو سیدھا نہیں رکھ سکتا تو شریعت کہے گی کہ بیٹھ کر نماز پڑھو مگر شریعت یہ نہیں کہے گی کہ کھڑے تو ہو جاؤ مگر جس کی طرح چاہولا تیں رکھ لو.نماز میں دونوں لاتوں کو سیدھا رکھنا اور ایک دوسرے کے مقابل پر کھڑا رہنا ضروری ہوتا ہے سوائے جسمانی بناوٹ کی خرابی کے.اسی طرح باتیں کرتے ہوئے یا تقریر کرتے وقت ایک ٹانگ آگے بڑھا لینے اور دوسری ٹانگ کو پیچھے کر لینے میں کوئی حرج نہیں ہوتا.اگر کوئی ہے شخص اپنی ٹانگوں کو اس طرح رکھے تو یہ جائز ہوگا.اس سے دین کو کوئی نقصان نہیں پہنچتا، امت محمدیہ کو کوئی نقصان نہیں پہنچتا، ہماری روحانیت کو کوئی نقصان نہیں پہنچتا لیکن نماز میں ایسا کرنے کی اجازت نہیں کیونکہ یہ چیز نماز کے قواعد کے خلاف ہے.اگر ہم ان قواعد کو نظر انداز کر دیتے ہیں جو نماز کے لیے مقرر کیے گئے ہیں تو ہمارا فعل ناقص اور نا تمام ہو جائے گا.غرض ہر ملکے و ہر رسے“ جس طرح ہر ملک کے ساتھ بعض مخصوص رسوم کا تعلق ہوتا ہے اور ہر فعل کے متعلق بعض قواعد مقرر وو ہوتے ہیں اسی طرح نماز کے بھی کچھ قواعد ہیں جن کوملحوظ رکھنا ہر شخص کے لیے ضروری ہوتا ہے.میں نے نماز کی طرف اپنی جماعت کو بارہا توجہ دلائی ہے اور چونکہ اپنے اس بات کے محتاج ہوتے ہیں کہ انہیں بار بار توجہ دلائی جائے اس لیے میں سمجھتا ہوں کہ یہ ماں باپ کا کام ہے.اگر وہ اپنی اولاد کو ان امور کی طرف توجہ دلاتے رہیں اور بار بار ان کے کانوں میں یہ باتیں ڈالیں، اگر وہ سات آٹھ سال کی عمر سے بچوں کو یہ باتیں بتاتے رہیں تو تین چار سال کے بعد جب وہ دس بارہ سال کے ہوں گے اور شریعت کے اس حکم کی پابندی ان کے لیے ضروری ہوگی وہ اس کی قابل ہوجائیں گے کہ صحیح طور پر اپنے فرائض کو ادا کریں اور ایسی حرکات نہ کریں جو اسلامی آداب کے خلاف ہوں.

Page 75

خطبات محمود 66 * 1949 بہر حال یہ ماں باپ کا کام ہے کہ وہ ان باتوں کو بار بار دہراتے اور بار بار اپنی اولاد کے ذہن نشین کرتے رہیں.اگر ماں باپ اپنی ذمہ داری کو سمجھیں تو گھر کی بہت سی لغو بیتیں خود بخود دُور ہوتی چلی جائیں.بہت سے فسادات ، بہت سے جھگڑے، بہت سی لغو میتیں اور بہت سی بے ہودہ باتیں محض اس لیے پیدا ہوتی ہیں کہ بچوں کو یہ پتا ہی نہیں ہوتا کہ وہ اپنا وقت کس طرح گزاریں.اگر ہر شخص اپنی اولاد کو نصیحت کرتا رہے اور وہ یہ خیال رکھے کہ اس بچے کو میں نے یہ نصیحت کرنی ہے ہے، اُس بچے کو میں نے یہ نصیحت کرنی ہے، ان کی پڑھائی کا خیال رکھنا ہے، ان کی دینی تربیت کا خیال رکھنا ہے، ان کی صحت اور جسمانی طاقت کا خیال رکھنا ہے، ان کے کیریکٹر کا خیال رکھنا ہے اور وہ اس کے مطابق ان کے لیے ایک پروگرام بنا دے اور پھر ان کی نگرانی کرے تو اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ بچے سارا دن کسی نہ کسی شغل میں مشغول رہیں گے.وہ لڑائی جھگڑا نہیں کرسکیں گے، وہ بیہودہ مذاق نہیں کریں گے اور لغو کاموں میں اپنا وقت ضائع نہیں کریں گے.مگر جب ماں باپ ان ذمہ داریوں کو ادا نہیں کرتے تو وہ ایسے طریق اختیار کر لیتے ہیں جن سے اُن کا وقت تو گزر جاتا ہے مگر کئی قسم کی بد عادات ان میں راسخ ہوتی چلی جاتی ہیں.پھر بعض لوگوں کی یہ حالت ہوتی ہے کہ وہ باہر کلبوں میں اپنا سارا وقت گزار دیتے ہیں اور انہیں گھر کا کچھ پتا ہی نہیں ہوتا، سارا کام اپنی بیویوں کے سپر د کر دیتے ہیں.اور جہاں بیویاں زور والی ہوں وہاں وہ بھی کہتی ہیں کہ یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ تم کلبوں میں جاؤ اور ہم نہ جائیں.اور جب ماں باپ دونوں باہر چلے جاتے ہیں تو بچوں کی تربیت نوکروں کے سپرد ہو جاتی ہے اور یہ ظاہر ہے کہ نوکر کو اس سے کوئی غرض نہیں ہوتی کہ بچہ ٹھیک رہتا ہے یا نہیں.اگر وہ سارا دن ناچتا کودتا رہتا ہے اور نوکر پر کوئی بوجھ نہیں پڑتا تو وہ خوش ہوتا ہے اور سمجھتا ہے کہ یہ بڑی اچھی ہے بات ہے اس کا مجھ پر کوئی بوجھ نہیں.مگر وہ جتنا ان باتوں میں بڑھتا چلا جاتا ہے اتنا ہی اخلاق سے کرتا چلا جاتا ہے.غرض اگر ماں باپ اپنی ذمہ داری کو سمجھیں اور وہ بچوں کو ان کی عمر کے مطابق نصیحتیں کرتے رہیں تو یہ نصیحتیں انہیں اپنے اوقات کو صحیح طور پر استعمال کرنے اور اعلیٰ تربیت حاصل کرنے میں بہت مدد دے سکتی ہیں.درحقیقت اس عمر کے ساتھ کچھ مسائل کا تعلق ہوتا ہے اور ماں باپ کا

Page 76

$ 1949 67 خطبات محمود فرض ہوتا ہے کہ جیسی عمر ہو ویسی ہی نصیحتیں کریں.ایک چھوٹا بچہ جس وقت ہوش سنبھالتا ہے اس کے ساتھ بھی کچھ امور کا تعلق ہوتا ہے.چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دفعہ اپنے نواسہ حضرت حسنؓ سے جبکہ وہ اڑھائی تین سال کے تھے فرمایا كُلِّ بِيَمِينِكَ وَمِمَّا يَلِيكَ 2 اپنے دائیں ہاتھ سے کھاؤ اور تھالی میں سے وہ حصہ کھاؤ جو تمہارے قریب ہے.بچے کی عادت ہوتی ہے کہ وہ بوٹی اٹھانے کے لیے پلیٹ میں کبھی ادھر ہاتھ مارتا ہے کبھی ادھر ہاتھ مارتا ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں فرمایا کہ جو تمہارے سامنے حصہ ہے اس میں ہاتھ ڈالو اور دائیں ہاتھ سے کھاؤ بائیں ہاتھ سے نہ کھاؤ.یہ چیز ہے جو چھٹین سے ہی بچے کے کان میں ڈالی جاسکتی ہے.اس طرح سال ڈیڑھ سال کی عمر سے ان کو صفائی کی نصیحت کی جاسکتی ہے.یا مثلاً لوگوں کا قاعدہ ہوتا ہے کہ وہ بچوں کو کبھی مٹھائی یا پھل وغیرہ لا کر دیتے ہیں ایسے موقع پر بچوں کو سکھانا چاہیے کہ وہ جَزَاكَ الله کہیں.بیشک بچہ اگر جزاک اللہ نہیں کہہ سکے گا تو وہ وَدَاكَ الله کہے گا.مگر اس کا وَدَاکَ اللہ کہنا بھی مبارک ہوگا بجائے اس کے کہ وہ کچھ نہ کہے.جس بچے کو بچپن سے ہی ہے جَزَاكَ الله کہنے کی عادت ڈالی جائے گی اس بچے کے دل میں قومی احساس بہت ترقی کر جائے گا.قومی احساس ہمیشہ شکر مندی کے جذبہ کے نتیجہ میں پیدا ہوتا ہے.آخر ایک انسان اپنی قوم کے لیے کیوں قربانی کرتا ہے؟ اسی لیے کہ وہ سمجھتا ہے کہ قوم سے مجھے بہت سے فوائد حاصل ہورہے ہیں.اور یہ شکر گزاری کا جذبہ جتنا زیادہ ہوگا اُتنا ہی وہ قوم کے لیے قربانی کرنے کا مادہ اپنے اندر رکھے گا.اس کے مقابلہ میں جن لوگوں کے اندر شکر گزاری کا مادہ نہیں ہوتا ان کے سامنے قربانی کا ذکر کیا جائے تو وہ کہتے ہیں مجھے کسی نے کیا دیا ہے کہ میں اس کے لیے قربانی کروں.حالانکہ شدید سے شدید دشمن بھی قوم سے فائدہ اٹھا رہا ہوتا ہے.ایک جنگل میں پڑے ہوئے انسان اور ایک گاؤں میں رہنے والے انسان میں کتنا بڑا فرق ہوتا ہے.جنگل میں رہنے والے ہر روز نئے نئے حادثات کا شکار رہتے ہیں.کہیں سانپ بچھوؤں کا خوف ہوتا ہے، کہیں شیر اور چیتے کا ڈر ہوتا ہے، کہیں ڈاکوؤں اور لٹیروں کا خوف ہوتا ہے، کہیں خیال آتا ہے کہ ہماری چیزوں کی حفاظت کی کیا صورت ہو گی.کبھی اپنی جان جانے کا ڈر ہوتا ہے.کبھی خیال ہوتا ہے کہ گیدڑ آجائیں گے اور چیزیں کھا جائیں گے.غرض کئی قسم کے خطرات ہر وقت سامنے رہتے ہیں لیکن گاؤں اور شہر میں ان

Page 77

$ 1949 68 80 خطبات محمود چیزوں میں سے کسی کا بھی احساس نہیں ہوتا کیونکہ ارد گرد ہمسائے ہوتے ہیں.گاؤں اور شہر آباد ہوتا ہے اور انسان سمجھتا ہے کہ یہاں کسی حملے کا ڈر نہیں.گویا وہ قوم کی وجہ سے سانپوں اور بچھوؤں سے نجات پاتا ہے، وہ قوم کی وجہ سے شیروں اور چیتوں سے نجات پاتا ہے، وہ قوم کی وجہ سے گیدڑوں کے اور لومڑوں سے نجات پاتا ہے، وہ قوم کی وجہ سے ڈاکوؤں اور رہزنوں سے نجات پاتا ہے، وہ قوم کی وجہ سے مزدوری کرنے کے قابل ہوتا ہے، تعلیم کا انتظام ہوتا ہے، تجارت کر سکتا ہے، اسی طرح وہ قوم کی وجہ سے اور کئی قسم کے ضرروں سے بچا ہوا ہوتا ہے جن میں وہ مبتلا ہوسکتا تھا اگر وہ اکیلا کسی جنگل میں ہوتا.مگر اس کے باوجود وہ اپنی حماقت سے کہ دیتا ہے کہ مجھے کسی نے کیا دیا.وہ اگر زمیندار ہے اور کھیت میں ہل چلاتا ہے تو اس کا ہل جب خراب ہوتا ہے وہ اسے لوہار کے پاس لے جاتا ہے اور کہتا ہے اسے ٹھیک کر دیا جائے.وہ کسی بڑھئی کو لاتا ہے اور کہتا ہے چار پائی کی چولیں درست کر دے اور وہ پولیس درست کر دیتا ہے.اگر قوم نہ ہوتی تو لوہار کیوں بیٹھتا، ترکھان کیوں بیٹھتا.آخر اس اکیلے انسان کی خاطر وہ نہیں بیٹھا.وہ اس لیے بیٹھا ہے کہ قوم بیٹھی ہے.اگر قوم نہ ہوتی تو نہ اسے لوہا رملتا، نہ بڑھئی ملتا، نہ کوئی اور پیشہ ور ملتا.بیشک پیسے اس نے دیئے ہیں مگر لوہار کو اس کی قوم نے بٹھایا ہے.بڑھئی کو پیسے اُس نے دیئے ہیں مگر بڑھئی کو لائی قوم ہے ورنہ اس اکیلے کے لیے نہ کوئی لوہار آتا، نہ نجار آتا، نہ کوئی اور پیشہ ور آتا.غرض بے جانے بوجھے ایک دشمن انسان بھی اپنی قوم سے فائدہ اٹھا رہا ہوتا ہے.پھر ملک میں ڈاکے پڑتے ہیں، فساد ہوتے ہیں، لڑائیاں ہوتی ہیں تو قوم کی وجہ سے اس کی بھی حفاظت ہوتی چلی جاتی ہے بغیر اس کے کہ اس می کے وجود کو مدنظر رکھا جائے.غرض قوم کی خدمت اور اس کے لیے قربانی کرنے کا احساس ہمیشہ احسان مندی کے جذبہ سے پیدا ہوتا ہے اور احسان مندی کا جذبہ اگر بچپن سے ہی اُبھارا نہ جائے تو وہ کمزور ہو جاتا ہے اور جب یہ جذبہ کمزور ہو جائے تو قومی خدمت کا احساس بھی پیدا نہیں ہوتا.غرض بہت سی چھوٹی چھوٹی باتیں ہیں جو بچوں کو بچپن میں ہی سکھانی چاہیں اور دنیا کی قو میں اپنے بچوں کو سکھاتی ہیں.یہ مرض پنجاب میں ہی پایا جاتا ہے کہ ان باتوں کو لغو اور فضول سمجھا جاتا ہے.ورنہ ہندوستان میں ہی چلے جاؤ، یوپی کے علاقہ میں چھوٹے چھوٹے بچوں کو بھی کوئی چیز دو تو وہ فوراً کہیں گے آداب عرض ، شکریہ.کیونکہ ماں باپ نے انہیں یہ عادت ڈالی ہوئی ہوتی

Page 78

$1949 69 69 خطبات محمود ہے.لیکن پنجاب میں میں نے دیکھا ہے ایسی باتیں بچوں کو سکھائی ہی نہیں جاتیں.وہ بیشک آداب عرض کہہ دیتے ہیں یا شکر یہ کہہ دیتے ہیں لیکن اسلام نے اس غرض کے لیے جَزَاكَ اللهُ کا لفظ رکھا ہے.ہم ان الفاظ کی بجائے جَزَاكَ الله کا لفظ سکھا دیں گے.بہر حال چھوٹے چھوٹے آداب بچپن سے ہی بچوں کو سکھانے چاہیں تا کہ بڑے ہو کر یہ آداب ان کی طبیعت ثانیہ بن جائیں.اسی طرح بچہ جب سکول جانے لگے تو اسے سکھانا چاہیے کہ استاد کا ادب اور احترام کرنا ضروری ہے، استاد کی خدمت کرنا ضروری ہے، استاد کی فرمانبرداری کرنا می ضروری ہے.ہمارے ہاں علم کی کمی کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ استاد کا ادب اور اس کا احترام کرنا بچوں کو سکھایا نہیں جاتا.جس طرح ریل میں لوگ بیٹھے ہوئے ہوتے ہیں سخت بھیڑ ہوتی ہے، اندر مزید آدمیوں کے آنے کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی تو لوگ پھر بھی اندر داخل ہونے کی کوشش کرتے ہے ہوئے دوسروں کو دھکے دیتے اور کہتے ہیں تساں پیسے ودھ دتے ہوئے ہین اسیں پیسے نہیں دیتے“.اسی طرح اساتذہ کا ادب کرنے کی اگر انہیں نصیحت کی جائے تو وہ کہتے ہیں اسیں فیس نہیں دیندے اوہ افسر کس گل دا ہے.حالانکہ فیس اور علم کی آپس میں اتنی بھی تو نسبت نہیں جتنی ہے زمین اور آسمان کی ہے.مگر جب ماں باپ ہی بچوں کے کان میں یہ بات ڈالتے رہیں کہ استاد ہمارا نوکر ہے تو استاد کا ادب اور احترام بچوں کے دلوں میں کہاں پیدا ہو سکتا ہے.پھر بچہ نماز کو جانے لگے تو ماں باپ کا فرض ہے کہ وہ اسے امام کا ادب کرنا سکھائیں مگر یہ بات بھی نہیں سکھائی جاتی.ہمارے ملک میں ایک واقعہ مشہور ہے نہ معلوم وہ سچ ہے یا جھوٹ مگر اس میں شبہ نہیں کہ پنجاب میں مولویوں کی ہتک کے واقعات ہوتے رہتے ہیں.کہتے ہیں کوئی لڑکا ایک دن ملاں جی کے پاس کھیر لے کر آیا اور کہنے لگا میری اماں نے یہ کھیر آپ کے لیے بھجوائی ہے.اس نے کہا تمہاری والدہ نے آج تک تو کبھی کھیر نہیں بھجوائی تھی آج اسے یہ کیا خیال آگیا کہ اس نے کھیر بھجوادی؟ لڑکا کہنے لگا اماں نے کھیر پکائی تو کتا منہ ڈال گیا.اس پر اماں نے مجھے کہا کہ جاؤ اور ملاں جی کو یہ کھیر دے آؤ.یہ سن کر اسے سخت غصہ آیا اور اس نے تھالی اٹھا کر زمین پر دے ماری.تھالی مٹی کی تھی زمین پر گرتے ہی ٹوٹ گئی.اس پر لڑ کا رونے لگ گیا.مُلاں نے کہا تو روتا کیوں ہے؟ آخر یہ گتے کا جوٹھا تھا اور بہر حال اسے پھینکنا ہی تھا.اس نے کہا روتا اس لیے ہوں کہ اس کی

Page 79

خطبات محمود 70 70 * 1949 برتن میں اماں چھوٹے بچے کو پیچھی کرایا کرتی تھی.اب میں گیا تو وہ ناراض ہوگی کہ تھالی کیوں نہیں لایا.یہ لوگوں کا اپنے امام سے سلوک ہوتا ہے.وہ نہیں جانتے کہ سب سے زیادہ معزز فرض یہ شخص ادا کر رہا ہے اور ہمارا کام یہ ہے کہ ہم اس کا احترام کریں لیکن بوجہ اس کے کہ اس کا معاملہ خدا تعالیٰ سے ہوتا ہے اور وہ دین کی خدمت کر رہا ہوتا ہے لوگ اُس کا ادب نہیں کرتے.اور جب وہ امام کا ادب نہیں کرتے تو انہیں اس کے پیچھے نماز پڑھنے میں لذت کہاں آسکتی ہے؟ پھر شادی بیاہ کا زمانہ آتا ہے اُس وقت بچوں کو یہ سکھانا چاہیے کہ بیوی سے ایسا سلوک کیا جائے.اس کی دلجوئی کا کس طرح سے خیال رکھا جائے ، اس کے رشتہ داروں کا کس طرح خیال رکھا جائے ، اُن کے ساتھ نرمی اور محبت کا کس کس رنگ میں سلوک کیا جائے مگر ہمارے ہاں اول تو ان باتوں کو سکھائیں گے ہی نہیں اور اگر ماں بڑا پیار کرے گی تو کہے گی ” میں نے اپنے بچے کو بڑے نازوں سے پالا ہوا ہے اب پتا نہیں وہ ڈائن آ کر کیا معاملہ کرتی ہے.پھر اور زیادہ پیار آتا ہے تو ی ماں باپ کہتے ہیں دیکھو بچہ ! گر بہ کشتن روز اول بیویاں جوتوں سے سیدھی رہتی ہیں.اگر پہلے دن ہی تم نے رُعب نہ ڈالا تو کام خراب ہو جائے گا.یہ تربیت ہے جو ماں باپ اپنے بچوں کی ہے کرتے ہیں.نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ” آوے کا آوا خراب ہو جاتا ہے.بیویاں بھی خراب ہو جاتی ہیں، بچے بھی خراب ہو جاتے ہیں، محلے بھی خراب ہو جاتے ہیں، شہر بھی خراب ہو جاتے ہیں، ملک بھی خراب ہو جاتے ہیں.66 پس تربیت کی طرف توجہ رکھنا ایک نہایت ہی ضروری چیز ہے.ہر گھر میں اولاد کی صحیح تربیت کرنا ماں باپ کے فرائض میں داخل ہے.جب وہ اپنے بچوں کی صحیح اور اعلیٰ تربیت کریں گے تو لازماً ایک ایسی نسل پیدا ہوگی جو اپنے بوجھوں کو آپ اٹھا سکے گی ، جو دوسری معزز قوموں کے سامنے اپنی گردن اٹھا کر بات کر سکے گی اور ان کی آنکھوں میں آنکھیں ملا کر بات کر سکے گی.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بچپن سے ہی اولاد کی تربیت کا سبق دے کر صحابہ کو ایک ایسے رستہ پر چلا دیا تھا کہ وہ قوم جو ظاہری علوم سے بالکل نابلد تھی ایک نسل میں ہی دنیا کی معلم بن گئی.اس لیے کہ ان کی اولادیں درست ہو گئیں اور اس وجہ سے ملکوں کے ملک ان کے آگے جھکنے پر مجبور ہو گئے.یا تو وہ زمانہ تھا کہ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دعوی کیا اُس وقت کی

Page 80

$ 1949 71 خطبات محمود سارے مکہ میں سات اور بعض روایتوں کے مطابق گیارہ پڑھے ہوئے آدمی تھے اور یا آپ کی زندگی میں ہی وہ زمانہ آگیا کہ صحابہ قریباً سب کے سب تعلیم یافتہ تھے اور اگلی نسل کا یہ حال تھا کہ کتابیں پڑھ کر حیرت آتی ہے.ایک شخص جوتیاں گانٹھ رہا ہے مگر ساتھ ہی ادب پر مقالہ لکھ رہا ہے، ایک ماہی گیر مچھلیاں پکڑ رہا ہے اور ساتھ ہی پرانے شعراء کے کلام پر جرح بھی کر رہا ہے.جن پیشوں کو آج ذلیل سمجھا جاتا ہے انہی پیشوں سے وہ اپنی روزی کا بھی سامان پیدا کرتے تھے اور بڑے بڑے علوم بھی حاصل کرتے جاتے تھے.اور جب ان پیشوں میں دن رات بسر کرنے والے اتنے بڑے بڑے عالم تھے تو جو لوگ علم کے لیے بالکل فارغ تھے اُن کے علم کا اندازہ لگانا کوئی مشکل نہیں رہتا.اب تو بڑے سے بڑے انسان کی خدمت بھی بعض دفعہ عار سمجھی جاتی ہے لیکن ان مالی لوگوں کے ادب اور حصول علم کی خواہش کا یہ حال تھا کہ ایک عباسی خلیفہ نے اپنے دو بچوں کو ایک عالم کے پاس پڑھنے کے لیے بٹھایا.ایک دن خلیفہ مسجد میں نماز کے لیے گئے تو ان بچوں کے استاد بھی اوپر سے آگئے اور انہوں نے مسجد میں داخل ہونے پر اپنی جوتیاں اتار دیں.اس پر دونوں کی شہزادے امین اور مامون جو خود بھی بڑے پایہ کے تھے آگے بڑھے اور آپس میں جھگڑنے لگے.ایک کہتا تھا میں جوتیاں اٹھاؤں گا اور دوسرا کہتا تھا میں جوتیاں اٹھاؤں گا.بادشاہ نے یہ نظارہ دیکھا تو اس نے اپنے بچوں کو پیار کیا اور کہا کہ جس اخلاص کے ساتھ تم نے اپنے استاد کی جوتیوں کا خیال رکھا ہے اس سے میں سمجھتا ہوں کہ تم ضرور علم حاصل کر لو گے.غرض علم کی قیمت کا احساس اور علم سکھانے والے کی عظمت کا احساس جب کسی انسان کے دل میں پیدا ہو جائے تو اس کے نتیجہ میں صرف تربیت کے لحاظ سے ہی اسے فائدہ نہیں ہوتا بلکہ اس کا علم بھی ترقی کرتا ہے.یہ ایک قدرتی بات ہے کہ جس جنس کی قیمت زیادہ ہوگی تو لوگ اس کے کے پیچھے دوڑیں گے.جب علم کی قیمت زیادہ پڑے گی تو لوگ اس کو حاصل کرنے کے لیے جد و جہد بھی زیادہ کریں گے اور اس طرح نہ صرف ان کے علم کا معیار ترقی کرے گا بلکہ ان کے عمل میں بھی نمایاں فرق پیدا ہو جائے گا.پس دین کے سکھانے کی طرف ہماری جماعت کے تمام افراد کو پوری توجہ کرنی چاہیے.ماں باپ کو بھی ، اساتذہ کو بھی، ائمہ کو بھی ، ہمسایوں کو بھی بلکہ ہر شخص جو اپنے اندر دین کا کچھ بھی

Page 81

$1949 72 خطبات محمود احساس رکھتا ہے اُسے چاہیے کہ وہ اپنے بچوں کو اسلامی رنگ میں رنگین کرے اور اپنے ہمسایوں کے بچوں کا بھی خیال رکھے.جب بھی موقع ملے بچوں کو بتانا چاہیے کہ نماز یوں پڑھنی چاہیے، روزہ اس کی طرح رکھنا چاہیے، زکوۃ کے متعلق اسلام کے یہ احکام ہیں، حج اس طرح کیا جاتا ہے.اسی طرح کی کھانا کھانے کے آداب بتانے چاہیں.انہیں نصیحت کرنی چاہیے کہ کھانا کھانے لگو تو بِسمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ کہو.کھانا ختم کرو تو الحَمدُ لِلهِ کہو.سونے لگو تو یہ دعائیں پڑھ کر سوؤ.اٹھو تو یہ دعا پڑھو.کسی سے ملاقات کرو تو اس طرح کرو.کوئی تحفہ دے یا تمہارا کام کر دے تو جَزَاكَ الله کہو.یہ ساری چیزیں بچوں کے ذہن نشین کرنی چاہیں اور بار بار انہیں اس طرف توجہ دلاتے رہنا چاہیے.اس کے نتیجہ میں آہستہ آہستہ ایک ایسا قومی کیریکٹر پیدا ہو جائے گا کہ احمدی بچوں اور دوسرے بچوں میں آپ ہی آپ فرق محسوس ہونے لگے گا اور لوگ ہمارے بچوں کو دیکھتے ہی پہچان لیں گے کہ یہ احمدی بچے ہیں.ایک چھوٹی سی بات میں دیکھ لو ابھی ایسے کئی احمدی ہیں جو داڑھی نہیں رکھتے لیکن بہر حال ی دوسروں کی نسبت ہماری جماعت کے لوگ زیادہ اہتمام سے داڑھیاں رکھتے ہیں.اس کا نتیجہ یہ ہے کہ صرف داڑھی کی وجہ سے ہی اکثر لوگ احمدیوں کو پہچان لیتے ہیں.اسی طرح جب ہمارے بچے اور نوجوان دوسروں کی چھوٹی چھوٹی خدمت پر جزاک اللہ کہیں گے، بڑوں کا ادب اور احترام کریں گے، خدا تعالیٰ کا ذکر ان کی زبانوں پر جاری رہے گا، نماز کی پابندی کریں گے صحیح طور پر خشوع و خضوع کی عادت اختیار کریں گے تو یہ ساری چیزیں مل کر ایک ایسا اشتہار بن جائیں گی جس سے وہ فوراً پہچانے جاسکیں گے.اب تو لوگ صرف داڑھی دیکھ کر پوچھتے ہیں کہ " کیا آپ احمدی ہیں؟ مگر پھر ان آداب اور اسلامی شعائر کو دیکھ کر کہیں گے کہ یہ شخص ضرور احمدی ہے.گویا یہ جو دغدغہ 3 اور شک لوگوں کے دلوں میں پایا جاتا ہے کہ شاید کسی اور نے بھی داڑھی رکھ لی ہو اور یہ احمدی نہ ہو دُور ہو جائے گا.مگر یہ کیریکٹر قوم کی درستی سے پیدا ہوتا ہے کسی فرد کی درستی سے پیدا ا نہیں ہوتا.مجھے یاد ہے کہ ایک چیف کورٹ کے چیف جسٹس صاحب نے مجھے ایک دفعہ سنایا کہ میں ایک دفعہ دورہ پر گیا تو ایک سب حج صاحب جنہوں نے داڑھی رکھی ہوئی تھی مجھے ملے.

Page 82

خطبات محمود 73 الله $1949 میں نے انہیں دیکھتے ہی کہا اچھا! آپ احمدی ہیں؟ وہ فورا سمجھ گیا اور کہنے لگا کیا آپ کا یہ خیال ہے کہ سوائے احمدیوں کے اور کوئی داڑھی نہیں رکھتا؟ میں نے کہا مجھے تو انہی لوگوں کی داڑھیاں نظر آتی ہیں جو احمدی ہیں.اُس وقت وہاں ایک ایسے شخص بھی بیٹھے تھے جن کی داڑھی نہیں تھی یا بہت چھوٹی تھی اور جو ہماری جماعت سے نہیں بلکہ غیر مبائعین سے تعلق رکھتے تھے.انہیں دیکھ کر کہنے لگے گی ہمیں بھی باقی احمدیوں کی طرح داڑھی بڑھانی چاہیے یا داڑھی رکھ لینی چاہیے.اب دیکھو! داڑھی رکھنا بظاہر کتنی چھوٹی سی بات ہے مگر صرف اسی وجہ سے اکثر احمدی پہچانے جاتے ہیں.اگر باقی باتیں بھی مل جائیں تو کس طرح یہ ایک سائن بورڈ ہوگا یہ بتانے کے لی لیے کہ یہ وہ لوگ ہیں جن کو روشناس کرانے کے لیے کسی اور چیز کی ضرورت نہیں.صرف ان کو دیکھنا ہی ان کو پہچان لینا ہے.اور اس سے بڑی شان کسی قوم کی اور کیا ہو سکتی ہے کہ لوگ اس کے افراد کو دیکھ کر ، اُن کے لباس کو دیکھ کر ، اُن کی ظاہری شکل وصورت کو دیکھ کر ، اُن کے اخلاق و آداب کو دیکھا ہے کر، اُن کے بلند کیریکٹر اور کردار کو دیکھ کر فوراً پہچان لیں کہ یہ لوگ فلاں جماعت سے تعلق رکھتے ہی ہیں.بابرکت ہوں گے وہ نوجوان جو اپنے عمل سے اس قسم کے سائن بورڈ کا کام دیں گے اور اسی خوش قسمت ہوگی وہ جماعت جس کے افراد کو روشناس کرانے کے لیے کسی اور چیز کی ضرورت نہ ہوتی بلکہ ان کو دیکھنا ہی اُن کو پہچان لینا ہو“.(الفضل 14 اگست 1949 ء ) 1 : الماعون : 5 2 : بخارى كتاب الاطمعة باب التسمية على الطعام والاكل باليمين میں یہ الفاظ 66 ہیں "كُلْ بِيَمِينِكَ وَكُلْ مِمَّا يَلِيُكَ“ : دغدغہ: ڈر، خوف ( اردو لغت تاریخی اصول پر جلد 9 صفحہ 267.1988ء)

Page 83

* 1949 74 9 خطبات محمود يَايُّهَا النَّاسُ أَنتُمُ الْفُقَرَاءِ إِلَى اللهِ (فرمودہ 8 اپریل 1949 ء لا ہور ) تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد ذیل کی آیت قرآنیہ تلاوت کی: يَايُّهَا النَّاسُ أَنتُمُ الْفُقَرَاءِ إِلَى اللهِ وَاللهُ هُوَ الْغَنِيُّ الْحَمِيدُ - 1 پھر فرمایا: ”دنیا کی بہت سی چیزیں ایسی ہیں کہ جن کی حقیقت پر اگر غور نہ کیا جائے تو انسان ظاہری حالات سے ان چیزوں سے غلط نتائج اخذ کر لیتا ہے.مثلاً انسان کو ہی دیکھ لو وہ بولتا ہے.اب ایک نا واقف انسان جس نے کسی کو بولتے نہیں دیکھا وہ جب کسی کو بولتے ہوئے دیکھتا ہے تو خیال کرتا ہے کہ یہ خود نہیں بول رہا بلکہ ایک مشین ہے جو بول رہی ہے یا اس کے اندر کوئی چیز ہے جو باتیں کر رہی ہے یا گراموفون ہے.ایک ناواقف آدمی جس نے پہلے کبھی گراموفون نہ دیکھا ہو وہ جب اسے دیکھتا ہے تو کہ دیتا ہے کہ اس کے اندر کوئی چیز بیٹھی ہے جو بول رہی ہے.ہمارے گھر کا ہی ایک لطیفہ ہے.میاں بشیر احمد صاحب کی لڑکی امتہ اللطیف کو جب وہ چھوٹی عمر کی تھی گھر والے پہلی دفعہ اوی جمعہ پر لے گئے.اس سے پہلے اس نے لاؤڈ سپیکر نہیں دیکھا تھا.میاں صاحب کے بچے عام طور پر چھوٹی عمر میں ہسٹیریکل (HYSTERICAL) ہوتے ہیں.وہ جلد ہی رونے اور گھبرانے لگی جاتے ہیں.امۃ اللطیف جب اس جگہ جا کر بیٹھی جہاں عورتیں جمعہ پڑھا کرتی تھیں اور میں نے خطبہ دینا شروع کیا تو اس کے پاس جو لاؤڈ سپیکر کا ایک ڈبہ لگا ہوا تھا جو نہی اس نے میری آواز سنی کی

Page 84

$1949 75 خطبات محمود اس نے چھینیں مار کر رونا شروع کر دیا اور کہنے لگی چا ابا اس ڈبے میں بند ہیں انہیں اس ڈبہ سے جلدی نکالو.اس نے سمجھا کہ میں اس ڈبہ کے اندر بیٹھا ہوا بول رہا ہوں.اس لیے اس نے ی بے تحاشا رونا شروع کر دیا.گھر والے اسے بہتیری تسلی دلائیں مگر وہ یہی کہتی چلی جائے اس ڈبہ سے چا ابا کی آواز آرہی ہے، چا ابا اس ڈبہ میں بند ہیں انہیں نکالو.غرض جب کوئی ناواقف آدمی لاؤڈ سپیکر کے کسی ڈبہ کو دیکھتا ہے اور اسے آواز آتی ہے تو وہ خیال کرتا ہے کہ کوئی شخص اس ڈبہ کے اندر بیٹھا ہے اور بول رہا ہے.اسی طرح گراموفون ہے.ایک شخص اسے دیکھ کر ناواقفیت کی وجہ سے سمجھ لیتا ہے کہ اس کے اندر کوئی آدمی بیٹھا ہے یا کوئی جن بیٹھا ہے جو بول رہا ہے.غرض بہت سی چیزیں ایسی ہیں جن کی حقیقت کو نہ سمجھنے کی وجہ سے ظاہری طور پر ان سے غلط نتیجہ نکل آتا ہے.جب ایک انسان مادی اشیاء میں دھوکا کھا سکتا ہے تو روحانی اشیاء میں جو زیادہ اعلیٰ ہیں اسے کیوں دھوکا نہیں لگ سکتا.جس طرح ایک چیونٹی جب کسی ہاتھ کو ہلتا ہوا دیکھتی ہے تو وہ بجھتی ہے کہ ہاتھ اپنی ذات میں ایک ہلنے والی چیز ہے.اسی طرح ایک ناواقفی انسان جب کسی مزدور کو کام کرتے ہوئے دیکھتا ہے تو وہ سمجھتا ہے کہ اپنے منشا سے کام کر رہا ہے.حالانکہ حقیقت کچھ اور ہوتی ہے.خدا تعالیٰ نے اپنی بہت سی صفات اسی طرح جاری کی ہیں کہ ان می کے ظاہر کرنے کے لیے اس نے انسان کو واسطہ بنایا ہے.جس طرح انسانی دماغ نے ہاتھ کو ذریعہ بنایا اُسی طرح خدا تعالیٰ بھی اپنی صفات کو ظاہر کرنے کے لیے انسان کو ذریعہ بنا لیتا ہے.یا مثلاً انسان آنکھوں سے دیکھتا ہے، کانوں سے سنتا ہے اور زبان سے چکھتا ہے ایک ناواقف یہ سمجھتا ہے کی کہ آنکھ دیکھتی ہے، کان سنتا ہے، زبان چکھتی ہے.حالانکہ آنکھ کان زبان سب چیزیں دماغ کے تابع ہیں.آنکھ نہیں دیکھتی بلکہ دماغ دیکھتا ہے.کان نہیں سنتے بلکہ دماغ سنتا ہے.انگلی چُھو کر کسی چیز کو محسوس کرتی ہے تو اس کے یہ معنے نہیں کہ انگلی خود یہ کام کرتی ہے بلکہ انگلی دماغ کو اطلاع دیتی ہے ہے.جب وہ کسی چیز کو چھوتی ہے تو وہ دماغ کو اطلاع دیتی ہے کہ ہم چھوتے ہیں.آگے دماغ کے اس کی کیفیت کا پتہ لگا کے یہ بتاتا ہے کہ آیا وہ سخت ہے یا نرم.اگر وہ چیز گلد گدی 2 یا لچکدار ہے تو ی دماغ فیصلہ کر لیتا ہے کہ وہ نرم ہے.یا مثلاً آنکھ دیکھتی ہے مگر اس کے یہ معنے نہیں کہ آنکھ خود دیکھتی ہے بلکہ وہ صرف دماغ کو اطلاع دیتی ہے آگے دماغ خود فیصلہ کرتا ہے کہ وہ چیز کیسی ہے چھوٹی ہے

Page 85

$1949 76 خطبات محمود یا موٹی ، سرخ ہے یا سفید، زرد ہے یا کسی اور رنگ کی ہے.ایک واقف انسان یا علم رکھنے والا انسان فوراً جان لیتا ہے کہ در حقیقت دماغ دیکھ رہا ہے آنکھ نہیں دیکھ رہی.آنکھ کی مثال تو دور بین کی سی مالی ہے.یہی حال کانوں کا ہے.کان آواز نہیں سنتے بلکہ دماغ سنتا ہے.ہماری زبان جب چکھتی ہے، ہمارے ہونٹ اوپر نیچے حرکت کرتے ہیں تو یہ حرکت وہ خود نہیں کر سکتے بلکہ اس حرکت کا دماغ سے کی تعلق ہے.کان بھی خود آواز نہیں سنتے.ہوا کان کے سوراخ کو چھوتی ہے اور آگے دماغ اس آواز ہے کو محسوس کرتا ہے مگر بظاہر نظر یہی آتا ہے کہ آنکھ دیکھتی ہے، کان سنتے ہیں، انگلیاں چُھوتی ہیں، زبان چکھتی ہے اور یہی نتیجہ ہم اس سے نکال لیتے ہیں لیکن در حقیقت نہ آنکھ دیکھتی ہے، نہ کان سنتے ہیں، نہ انگلیاں چھوتی ہیں اور نہ زبان چکھتی ہے بلکہ ان کے پیچھے دماغ ہے جو کام کر رہا ہے.یہ سب اشیاء بطور آلہ کے ہیں.یہی صورت انسان کی ہے.انسان جب کوئی کام کرتا ہے تو نا واقف آدمی خیال کر لیتا ہے کہ یہ اس کی ذاتی خوبی ہے حالانکہ خدا تعالیٰ نے اپنی صفات کے ظہور کے لیے انسان کو واسطہ بنایا ہے اور ہم سمجھ لیتے ہیں کہ وہ کام انسان کر رہا ہے اور ان صفات کو انسان کے کی ساتھ وابستہ کر دیتے ہیں.مثلاً دولت ہے دُنیا میں جس آدمی کے پاس دولت ہے وہ سمجھ لیتا ہے کہ وہ دولت مند ہو گیا ہے.لوگ اس کے محتاج ہوتے ہیں اور اس سے مدد مانگتے ہیں حالانکہ دولت حقیقی نہیں بلکہ ایک نسبتی چیز ہے.ہم اسے دولت تو قرار دے لیتے ہیں یا اسے دولت کا نام تو دے لیتے ہیں لیکن در حقیقت وہ دولت دولت نہیں.ہزاروں لوگ ایسے ہیں جن کے لیے یہی دولت مصیبت اور دکھ کا موجب ہو جاتی ہے.کہتے ہیں کوئی شخص بھوکا پیاسا جنگل میں جا رہا تھا.کئی دنوں کا اسے فاقہ تھا.اسے راستہ میں ایک تھیلی ملی.وہ بہت خوش ہوا اور اس نے خیال کیا کہ شاید اس میں گھنے ہوئے دانے ہوں گے یا گندم کے کچے ہی دانے ہوں گے اور ان کے ساتھ وہ اپنی زندگی کو سلامت رکھ سکے گا.اُس کی نے تھیلی اٹھالی اور اسے کھولا تو اس نے دیکھا کہ اس تھیلی میں قیمتی موتی ہیں.اس نے نہایت تی حقارت سے اس تھیلی کو میرے پھینک دیا اور خود آگے چل دیا.غرض وہی دولت جسے انسان اپنے لیے نہایت مفید چیز سمجھتا ہے وہی انسان کے لیے بعض دفعہ تکلیف اور دکھ کا موجب بن جاتی ہے اور وہ اسے صدمہ پہنچاتی ہے بجائے اس کے کہ وہ اس کی

Page 86

* 1949 77 خطبات محمود جان بچائے.مثلاً کھانا ہے انسان اسے استعمال کرتا ہے اس کے بغیر اس کا گزارہ نہیں مگر بسا اوقات بیماری میں وہی کھانا انسان کے لیے وبال جان بن جاتا ہے.کپڑا ہے انسان پہنتا ہے اور اس کا پہننا زندگی کے لیے ضروری ہے مگر بعض سخت قسم کی کھجلیوں میں اعلیٰ قسم کا لباس پہننا بھی مشکل ہو جاتا ہے.پانی ہے اس کے بغیر انسان زندہ نہیں رہ سکتا اور انسان اسے استعمال کرتا ہے مگر بعض امراض میں پانی سے جان تک ضائع ہو جاتی ہے.اسی طرح دولت ہے.دولت بھی اُسی کے لیے دولت ہے جو اس سے فائدہ اٹھا سکتا ہو.روٹی ہے یہ اُسی کے لیے مفید ہوسکتی ہے جو صحیح طور ہے اسے ہضم کر سکتا ہے.کپڑا بھی اسی شخص کے لیے مفید ہوسکتا ہے جس کو اس کے استعمال کرنے کی توفیق ملے.ہر چیز دونوں طرف سے مل کر فائدہ دیتی ہے.ایک جہت کو اگر خالی چھوڑ دو تو وہ چیز عذاب کا موجب بن جاتی ہے.مثلاً ایک آدمی بخار کی وجہ سے تپ رہا ہے اور وہ اس قسم کے بخار میں کپڑے کی برداشت نہیں کرتا.ڈاکٹر کہتا ہے اس پر کپڑا دو ورنہ نمونیا ہو جانے کا خطرہ ہے.تیماردار ڈاکٹر کی ہدایت کے مطابق اس پر کپڑا دیتے ہیں مریض لات مار کر کپڑا پرے ہٹا دیتا ہے.اعلیٰ قسم کا کھانا ہے اگر معدہ اسے قبول نہ کرے تو ئے ہو جاتی ہے.بلکہ بسا اوقات بجائے طاقت پیدا کرنے کے ضعف ہو جاتا ہے.پانی ہے اس کے بغیر انسان زندہ نہیں رہ سکتا.یہی گتے کے کاٹے ہوئے کے پاس رکھ دو تو اس کے جسم میں یکدم تشنج پیدا ہو جاتا ہے.اس کا جسم جھٹکے کھانے لگ جاتا ہے، اس کی گردن اکڑ جاتی ہے، وہ پانی کو دیکھ کر فوراً پیچھے ہٹ جاتا ہے.جیسے کسی پر پٹرول ڈالا جائے تو وہ آگ لگنے کے خیال سے ذرا پیچھے ہٹ جاتا ہے.دوسری طرف وہ شکایت کی کرتا ہے میں مر گیا.میں پیاسا ہوں مجھے پانی دو.غرض یہی پانی جو انسانی زندگی کا ذریعہ ہے بعض دوسرے حالات میں مضر ہو جاتا ہے.پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے یا يُّهَا النَّاسُ أَنتُمُ الْفُقَرَاء إِلَى اللهِ اے انسانو! تمہیں شبہ ہو جاتا ہے کہ تم دولت مند ہو.تم سے کبھی چندے طلب کیے جاتے ہیں یا تم سے کبھی قربانی کی تھی خواہش کی جاتی ہے تو تمہیں احساس ہوتا ہے کہ ہم مالدار ہیں اور ہم سے چندوں اور قربانی کا مطالبہ کیا جارہا ہے.گویا ہم سے مدد مانگی جا رہی ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے يَأَيُّهَا النَّاسُ أَنتُمُ الْفُقَرَاءِ إِلَى اللهِ اے لوگو! تمہارا یہ اندازہ غلط ہے.ہم نے تمہیں اپنی صفات کے ظاہر کر.کرنے

Page 87

$ 1949 78 خطبات محمود کا ذریعہ بنایا ہوا ہے ورنہ تم حقیقی مالدار نہیں ہو.تم کیوں حقیقی مالدار نہیں ہو؟ اس کی وہی دلیل ہے جو میں نے دی ہے کہ اگر تم ظاہری طور پر دولت مند ہوتے ہوتو اس کے معنے صرف اتنے ہوتے ہیں کہ تم دولت کے محتاج ہو اور وہ دولت تمہاری ضرورتوں کو پورا کرنے کا ایک ذریعہ ہے.واللہ هُوَ الْغَنِيُّ دراصل اللہ تعالیٰ ہی دولت مند ہے کیونکہ تمہیں تو دولت کی احتیاج ہے لیکن وہ کسی چیز کا محتاج نہیں اور جو شخص کسی چیز کا محتاج ہے وہ تو دولت مند نہیں کہلا سکتا.دولت مند وہی ہوسکتا.جس کو کوئی احتیاج نہ ہو، جس کو کسی چیز کی حاجت نہ ہو وہی اصل دولت مند ہے.اور جیسا کہ میں نے بتایا ہے باقی لوگ دولت مند نہیں ہو سکتے.ایک شخص جس کے پاس بہت سی دولت ہو بسا اوقات وہی دولت اسے کاٹ رہی ہوتی ہے.اسی دولت کی موجودگی میں مالداروں کو قتل کیا جاتا ہے ہے ہے، انہیں لوٹا جاتا ہے، دنیا میں فساد برپا ہوتا ہے، بغاوتیں ہوتی ہیں.پھر بسا اوقات یہی دولت امیروں کی اولادوں کو آوارہ بنا دیتی ہے، حرام خور بنا دیتی ہے، بدکار بنا دیتی ہے.یہ سب خرابیاں ہے مال کی وجہ سے ہی پیدا ہوتی ہیں.لیکن اگر کوئی شخص بغیر پانی پیئے اور بغیر کھانا کھائے اور بغیر کپڑا پہننے کے کام چلا سکتا ہو تو اصل دولت مند وہی کہلائے گا.احتیاج کا پورا ہونا دولت نہیں اس کا نہ ہونا دولت ہے.دولت کے تم یہی معنے لیتے ہو کہ تمہاری احتیاج پوری ہو گئی.مگر کوئی وقت ایسا بھی کی آجاتا ہے جب یہ تمہاری احتیاج کو پورا نہیں کرتی.وَاللهُ هُوَ الْغَنِيُّ اصل دولت مند الله تعالى ہے اس لیے کہ اُسے احتیاج ہی نہیں بلکہ الحمید وہ حمید ہے.صرف یہی نہیں کہ اسے کسی چیز کی چی احتیاج نہیں بلکہ وہ تمہاری احتیاج کو پورا کرتا ہے.تم اس کی تعریف کرتے ہو.وہ شخص جو کسی کی مدد کرتا ہے، جو کسی کی مصیبت کو دور کرتا ہے لوگ اُسے کہتے ہیں شکریہ ! یا جب کوئی شخص کھانے کو دے دے یا پہنے کو کپڑا دے دے تو دوسرا شخص کہتا ہے شکریہ، مہربانی، عنایت اللہ تعالیٰ بھی حمید ہے کیونکہ جو احسان کرے لوگ اس کی تعریف کرتے ہیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ہمیں کسی چیز کی احتیاج نہیں بلکہ ہم تمہاری احتیاج کو دور کرتے ہیں اس لیے حقیقی دولت ہمارے پاس ہے کیونکہ جسے کسی چیز کی احتیاج نہیں ہوتی وہی نقائص سے پاک سمجھا جاتا ہے اور دولت کی طرف توجہ کرنا ظاہر کرتا ہے کہ وہ کمزور اور ناقص ہے.آخر انسان یہ کیوں چاہتا ہے کہ میرے پاس دولت ہو.اسی لیے کہ وہ کہتا ہے کہ میں کھاؤں، میں پیوں ، میں مکان بناؤں لیکن ” میں کھاؤں گا“ کے معنے

Page 88

* 1949 79 خطبات محمود ہوتے ہیں کہ میرا جسم تحلیل ہوتا ہے، کمزور ہو جاتا ہے اس لیے اس میں کچھ اورلا کر ڈالوں.انسان چاہتا ہے کہ میں پانی پیوں، شربت پیوں، لیمونیڈ (LEMONADE) پیوں، شراب پیوں یا کوئی اور بلا پیوں اس کے معنی ہی یہ ہیں کہ اس کے جسم میں تحلیل واقع ہوتی ہے اور کمزوری الی پیدا ہوتی ہے اور وہ چاہتا ہے کہ وہ اس کمزوری اور نقص کو دور کرے.انسان چاہتا ہے کہ وہ کپڑے پہنے تا وہ ننگا نہ رہے، سردی گرمی سے بچا رہے یا سردی اور تپش سے بچنے کے لیے نہ ہی اسے زینت کے لیے بھی لباس کی ضرورت ہوتی ہے تا وہ اس سے اپنے جسم کو خوبصورت بنائے.وہ چاہتا ہے کہ گرتا پہنے، کوٹ پہنے، ہیٹ پہنے، ٹوپی یا پگڑی پہنے، جوتی یا بوٹ پہنے تا وہ اپنے نقص اور کمزوری کو دور کرے.بہر حال جو کوئی بھی ان اشیاء کا محتاج ہے وہ ناقص ہے اور یہ سب اشیاء جس کے بھی کام آنے والی ہیں وہ کمزور ہے.اس نکتہ کو اگر سمجھ لیا جائے تو معلوم ہو جائے گا کہ دولت دراصل انسان کی احتیاج اور اس کے ضعف پر دلالت کرتی ہے.پس میں جماعت کے احباب کو توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ وہ لوگ جو اپنے آپ کو دولت مند خیال کرتے ہیں انہیں یاد رکھنا چاہیے کہ یہی دولت جس پر وہ غرور کرتے ہیں وہی انہیں اس طرف توجہ دلاتی ہے کہ وہ سخت محتاج ہیں اور انہیں ایسی چیز کی ضرورت ہے جو ان کی ضروریات زندگی کو پورا کرے اور ان کی یہ احتیاج ان کے شعف اور کمزوری پر دلالت کرتی ہے.اگر انہیں احتیاج نہ ہوتی تو پھر اس کی ضرورت ہی کیا تھی؟ پھر کہتے ہیں ہم بھوکے ہیں، ہمارا جسم تحلیل ہو رہا ہے، ہمیں کھانے کی ضرورت ہے.ہم پیاسے ہیں ہمیں پانی کی ضرورت ہے.ہمیں جوتی کی ضرورت ہے تانی ہمارے پاؤں میں کانٹے نہ چھ جائیں یا ان پر میل نہ لگے اور وہ گرد آلودہ نہ ہوں.ہمیں کپڑے کی ضرورت ہے تاہم اپنے آپ کو سردی اور تپش سے بچا سکیں یا ہم اپنے آپ کو مزین کر سکیں.ہمیں مکانوں کی ضرورت ہے تاہم دھوپ اور سردی سے محفوظ رہیں بارشوں کی وجہ سے بھیگ نہ جائیں.یہ ساری کی ساری چیزیں ایسی ہیں جن کی ہمیں ضرورت ہوتی ہے.کسی دوسرے شہر یا علاقہ میں ہمیں کوئی ضرورت ہوتی ہے تو ہم فوراً گھوڑے پر یا موٹر اور ریل پر جیسی بھی صورت ہو سوار ہو کر اُس شہر یا علاقہ تک جاتے ہیں.اگر ہمیں ان چیزوں کی ضرورت نہ ہوتی ، اگر ہماری تمام ضرورتیں ہے گھر بیٹھے خود بخود پوری ہو جاتیں تو پھر ہمیں گھوڑے کی کیا ضرورت تھی ، موٹر کی کیا ضرورت تھی ،

Page 89

خطبات محمود 80 80 * 1949 یل کی کیا ضرورت تھی.اگر ہمیں علم غیب حاصل ہوتا اور ہم اپنے گھروں میں بیٹھے بیٹھے! عزیزوں، رشتہ داروں، دوستوں اور دوسرے شہروں اور علاقوں کی خبروں سے باخبر رہ سکتے تو پھر ہمیں ڈاک اور تار کی کیا ضرورت تھی.مثلاً اگر ہمیں پتا لگ جاتا کہ امریکہ میں کیا ہو رہا ہے تو ہمیں ڈاکخانہ میں جا کر ٹکٹ خریدنے کی کیا ضرورت تھی تاہم خط لکھ کر اپنے عزیز کا حال دریافت کریں.پس تم اگر غرور سے کہتے ہو ہم دولت مند ہیں ہم اپنی ضروریات زندگی بآسانی خرید سکتے ہیں تو اس کے یہ معنے ہیں کہ تم اقرار کرتے ہو کہ ہم ناقص ہیں، ہم کمزور ہیں.تم جب کہتے ہو کہ ہمارے پاس اعلیٰ قسم کے لباس ہیں، ہمارے پاس سردی اور دھوپ سے بچنے کے لیے سامان موجود ہیں تو اس کا وسرے لفظوں میں یہ مطلب ہوتا ہے کہ تم کمزور اور ضعیف ہو ورنہ تمہیں اگر سردی کا خطرہ نہ ہوتا، بں دھوپ لگتی ہی نہ تو پھر تمہیں کپڑوں کی کیا ضرورت تھی، جب تمہیں پیاس لگتی ہی نہ تو پھر تمہیں پانی کی ضرورت ہی کیا تھی.پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے یا يُّهَا النَّاسُ أَنتُمُ الْفُقَرَاء إِلَى اللهِ اے لوگو! جس دولت کو تم دولت کہتے ہو درحقیقت وہ دولت دولت نہیں.ا یہاں فقراء سے وہ لوگ مراد نہیں جن کے پاس پیسے کم ہوں.دنیا میں روپے اور پیسے کے لحاظ سے بہت بڑے بڑے امیر لوگ موجود ہیں.یہاں پر اللہ تعالیٰ نے النَّاسُ کہا ہے کہ اے لوگو! اے انسانو! جن میں راتھ شیلڈ (ROTHSCHILD) بھی شامل ہے.اور فورڈ اور راک فیلڈ اور دوسرے لوگ بھی شامل ہیں جو اپنے آپ کو امراء سمجھتے ہیں اس میں نظام بھی شامل ہے، بڑوڑہ 5 کا راجہ بھی شامل ہے، برلا اور دالمیا بھی شامل ہیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اے لوگو ! تم غریب ہو.اس لیے کہ وہ دولت جس کا نام تم نے دولت رکھا ہوا ہے وہ درحقیقت دولت نہیں ہے.تم غریب ہو کیونکہ تم ساتھ ہی یہ بھی کہتے ہو کہ ہم اس کے محتاج ہیں.ہمارا اس کے بغیر گزارہ نہیں ہوسکتا اور اس کا مفہوم ہی یہ ہے کہ تم ناقص ہو تم کمزور ہو، تم دولت مند نہیں بلکہ فقیر ہو.اصل دولت مند خدا تعالیٰ ہے جس کو کسی چیز کی ضرورت نہیں، کسی قسم کی احتیاج نہیں اور صرف یہی نہیں ہے کہ وہ محتاج نہیں بلکہ وہ تمہاری احتیاج کو دور کرتا اور تمہاری ضروریات کو پورا کرتا ہے.اس نکتہ کو نہ سمجھنے کی وجہ سے ہی انسان میں قربانی کی کمزوری پائی جاتی ہے.قرآن کریم میں دوسری جگہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہودی مومنوں کو طعنہ دیتے ہیں کہ ان

Page 90

$1949 81 خطبات محمود کے لیڈر چندے طلب کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں وہ ہم.مانگتا ہے.6 وہ نادان یہ نہیں جانتے کہ جس چیز کو وہ دولت قرار دے رہے ہیں اور جس چیز کی وجہ سے وہ غرور کر رہے ہیں وہ اصل دولت نہیں.اصل دولت مند خدا تعالیٰ ہے جو احتیاج سے پاک ہے.اس کی مثال ایسی ہی ہے جیسے کوئی کہے دماغ نہیں دیکھتا آنکھ دیکھتی ہے.نادان یہی کہے گا کہ آنکھ دیکھتی ہے.جس شخص کو علم صحیح حاصل ہو اور جو واقفیت رکھتا ہو وہ فوراً کہہ دے گا کہ آنکھ نہیں دیکھتی بلکہ دماغ دیکھتا ہے.آنکھ تو صرف ایک ذریعہ ہے دیکھنے کا.یا کوئی کہے کان سنتے ہیں تو یہ غلط ہوگا کیونکہ کان نہیں سنتے بلکہ دماغ سنتا ہے.کان تو ایک ذریعہ ہے.ہوا جب کان کے سوراخ کے ساتھ ٹکراتی ہے تو دماغ اسے محسوس کر لیتا ہے مگر بیوقوف آدمی جسے حقیقت کا علم نہیں وہ یہی سمجھتا ہے کہ کان سنتے ہیں.اسی طرح زبان نہیں چکھتی بلکہ یہ صرف ایک ذریعہ ہے جس سے دماغ معلوم کرتا ہے کہ فلاں چیز میٹھی ہے یا کڑوی، اچھی ہے یا خراب.اسی طرح دولت جسے ہم دولت سمجھتے ہیں دراصل دولت نہیں.ہم گھروں میں قریباً روز یہ نظارہ دیکھتے ہیں کہ بسا اوقات ہم اپنے کسی بچے کو ایک چیز دیتے ہیں اور پھر کہتے ہیں لا ہمیں دے.ہمارے ایسا کرنے سے کوئی غرض بھی ہو لیکن ای بالعموم ہم دیکھتے ہیں کہ بچہ وہ چیز پکڑ لیتا ہے اور واپس نہیں دیتا.وہ سمجھتا ہے کہ ان کی نیت خراب ہو گئی ہے اور وہ مجھ سے چیز واپس لینا چاہتے ہیں.خدا تعالیٰ بھی اپنے بندوں سے ایسا ہی سلوک کرتا ہے.وہ اپنے کسی بندے کو دولت دیتا ہے.پھر اس کو آزمانے کے لیے کہ آیا یہ دولت واپس دیتا ہے ہے یا نہیں اسے کہتا ہے کہ یہ دولت مجھے دو.جوشخص یہ سمجھتا ہے کہ یہ دولت میرے ہی کام آئے گی وہ فوراً واپس دے دیتا ہے لیکن نادان لوگ اپنا ہاتھ پیچھے پیچ لیتے ہیں.جیسے وہ بچہ جو سمجھتا ہے کہ میرا باپ میرے آزمانے کے لیے ایک چیز مجھے دے کر واپس لے رہا ہے اور وہ یہ بھی سمجھتا ہے کہ یہ چیز میرے ہی کام آئے گی اپنے باپ کے واپس مانگنے پر اپنا ہاتھ پیچھے نہیں کھینچتا بلکہ فو ر وہ چیز واپس کرے دیتا ہے.خدا تعالیٰ کو بھلا ہمارے چندوں کی کیا ضرورت ہے؟ کیا کبھی ایسے چندے بھی دیکھنے میں کی آئے ہیں جو اوپر آسمان پر چلے جاتے ہوں؟ کبھی قربانی کا گوشت خدا تعالیٰ بھی کھاتا ہے؟ خدا تعالی تو فرماتا ہے کہ قربانی کا گوشت ہم نہیں کھاتے تم ہی کھاتے ہو.پھر تم چڑتے بھی ہو کہ خدا تعالیٰ نے ہمیں ایک چیز دے کر واپس لے لی.کیا کبھی ایسا ہوا ہے کہ کوئی دنبہ خدا تعالیٰ کو پسند آ گیا ہو اور وہ

Page 91

$1949 82 88 خطبات محمود اسے اوپر اٹھا کر لے گیا ہو؟ کیا کبھی کسی نے ایسا ہوتے دیکھا ہے؟ وہ گوشت تم لوگ ہی کھاتے ہو، کی تمہارے بھائی کھاتے ہیں.اگر خدا تعالیٰ نے ایسے لوگوں کے لیے یہ سامان نہ کیا ہوتا تو وہ لوگ صرف بکرا ہی نہ کھاتے بلکہ تمہارے سامان کو بھی اٹھا کر لے جاتے اور تمہارے بیوی بچوں کو قتل کر دیتے.جب امرتسر میں فساد ہوا اور مسلمان غیر مسلموں سے لڑ رہے تھے اُن دنوں مسلم لیگ کے اکثر لیڈر میرے پاس مشورہ کے لیے آتے رہتے تھے.ایک دفعہ دفاع کے سیکرٹری مجھ سے ملنے کے لیے آئے.میں نے اُن سے کہا جو لوگ کام کر رہے ہیں انہیں پیسے بھی دیا کریں ورنہ وہ لٹیرے بن جائیں گے.صرف خدا تعالیٰ کی ذات ہی ان حوائج سے پاک ہے انسان پاک نہیں.اگر آپ لوگ انہیں پیسے نہیں دیتے تو وہ ڈاکے مارنے لگ جائیں گے اور پھر ان کے کیریکٹر کی حفاظت مشکل ہو گی.انہوں نے کہا یہ ٹھیک ہے.اب بھی عملاً ایسا ہو رہا ہے.ایک دن کا واقعہ ہے کہ چند آدمی میرے گھر پر آئے وہی اور کر جو میرے ماتحت کام کرتے تھے اور جو لیگ کے ماتحت خدمت بجا لا رہے تھے.انہوں نے میری ایک گائے کو کھول لیا.میں نے ان سے پوچھا یہ کیا کر رہے ہو؟ انہوں نے کہا کہ ہم اسے ذبح کر کے کھائیں گے.میں نے کہا ایسا نہ کرو گائے دودھ دیتی ہے اور میرے بچے اس کا دودھ پیتے ہیں.انہوں نے کہا آپ کو اپنے اور اپنے بچوں کے لیے دودھ کی ضرورت ہے.تو کیا ہمیں پیٹ بھرنے کے لیے روٹی کی بھی ضرورت نہیں ؟ میں نے کہا روٹی نہ تھوڑے پیسوں میں بھی میسر آجاتی ہے مگر گائے تو بہت زیادہ قیمتی ہے.انہوں نے کہا اچھا گائے رکھ لیں اور ہمیں روٹی کے لیے پیسے دے دیں.چلیں اس کی آدھی قیمت کے برابر ہی دیں.مسلم لیگ کے اس لیڈر نے مجھے بتایا کہ آخر میں نے چالیس پچاس روپیہ دے کر بڑی مشکل سے اپنا پیچھا چھڑایا.اب دیکھو! وہی چیز جس پر لوگ غرور کرتے ہیں ایک وقت میں ان کے لیے وبالِ جان ای بن جاتی ہے اور اس سے فتنے کھڑے ہو جاتے ہیں.تم ہی بتاؤ آخر ہم چندے کہاں خرچ کرتے ہی ہیں؟ ان میں سے کچھ تنظیم میں خرچ ہوتے ہیں اور کچھ حصہ ان کا احمدیت کے پھیلانے میں خرچ کی ہوتا ہے.اور احمدیت جب پھیلے گی تو اس کا فائدہ بھی جماعت ہی کو ہوگا خدا تعالیٰ کو اس سے کیا فائدہ پہنچ سکتا ہے.یا اگر ان چندوں سے بچوں کو پڑھوایا جائے تو اس سے جماعت کا ہی فائدہ ہے

Page 92

$ 1949 83 خطبات محمود خدا تعالیٰ کو کیا فائدہ پہنچے گا.کبھی ان کا بچہ پڑھے گا اور کبھی ان کے ہمسایہ کا بچہ پڑھے گا.اسی طرح دولت بڑھے گی تو انہی کا فائدہ ہوگا.بچوں کی تربیت ہوگی تو جماعت کو ہی اس کا فائدہ ہوگا.خدا تعالیٰ کو اس میں سے کچھ بھی نہیں جانا یہ سب جماعت کو ہی ملتا ہے.یا پھر لنگر پر خرچ ہوتا ہے مگر کیا لنگر میں خدا تعالی آکر کھانا کھاتا ہے؟ چندہ دینے والے ہی جلسہ پر آکر کھانا کھاتے ہیں.یہ جلسہ کے موقع پر روشنی کا انتظام کیا جاتا ہے تو اس کا فائدہ بھی چندہ دینے والوں کو ہی ہوتا ہے.خدا تعالیٰ کو اس سے کیا فائدہ؟ مفت کا ثواب مل جاتا ہے ورنہ تمہارے ہی پیسے ہوتے ہیں اور تمہارے ہی کام آتے ہیں.تم جو چندہ دیتے ہو اس سے ہم مثلاً گیہوں خریدتے ہیں اور پھر اس سے تمہارے لیے روٹی تیار کرتے ہیں یا مسالا وغیرہ خرید کر تمہارے لیے سالن تیار کرتے ہیں.پھر اگر ان چندوں میں سے تمہارے اجتماع کے موقع پر صفائی کرائی جاتی ہے تو اس کا خدا تعالیٰ کو کیا فائدہ پہنچتا ہے؟ تم ہی بیماریوں اور گندگی سے بچتے ہو خدا تعالیٰ کو تم کیا دیتے ہو.روشنی کی جائے گی تو اس سے خدا تعالیٰ کو کیا فائدہ پہنچے گا ؟ صفائی ہوگی تو وہ بھی تمہارے لیے ہی مفید ہو گی.جلسہ ہوگا تو تم ہی جا کر وہاں باتیں سنو گے خدا تعالیٰ کو کیا ملا ؟ یا مدرسہ ہے تو کیا اللہ تعالیٰ کے لڑکے وہاں پڑھا کرتے ہیں؟ تمہارے ہی لڑکے پڑھتے ہیں مگر نام یہ دے دیا جاتا ہے کہ تم نے خدا تعالیٰ کو دے دیا اور خدا تعالیٰ بھی کہتا ہے کہ تم نے مجھے دیا.اس سے عجیب سودا دنیا میں اور کیا ہوگا.دنیا میں سب لوگ ہی کچھ رقوم قومی کاموں پر خرچ کرتے ہیں.مگر فرق کیا ہوتا ہے؟ فرق صرف یہ ہوتا ہے کہ دوسرے لوگ دیتے ہیں تو کہا جاتا ہے کہ انہوں نے انسانوں کو دیا مگر تم دیتے ہو تو کہا جاتا ہے کہ تم نے خدا تعالیٰ کو دیا.اور خدا تعالیٰ بھی کہتا ہے کہ میں تمہیں اس کا بدلہ دوں گا اور تمہارا دیا ہوا تمہیں واپس ملے گا.پس خدا تعالیٰ فرماتا ہے یا يُّهَا النَّاسُ أَنتُمُ الْفُقَرَآءُ إِلَى اللهِ اے انسانو! تم دنیا کی ظاہری دولت پر گھمنڈ مت کرو یہ دولت دولت نہیں.یہ تو اسی بات پر دلالت کرتی ہے کہ تم محتاج ہے ہو اور محتاج ناقص اور کمزور ہوتا ہے.جتنی زیادہ دولت تمہارے پاس ہو گی اتنے ہی تم محتاج ہو گے.ایک غریب آدمی کے پاس اگر ایک روپیہ ہوتا ہے تو اس کے یہ معنے ہیں کہ وہ ایک روپیہ کا محتاج ہے اور ایک امیر کے پاس اگر ایک کروڑ روپیہ ہے تو وہ ایک کروڑ روپیہ کا محتاج ہے.ایک روپیہ والا

Page 93

* 1949 84 خطبات محمود ایک کروڑ والے جتنا محتاج نہیں.غرض جتنی دولت کسی کے پاس زیادہ ہوتی ہے اتنا ہی وہ زیادہ محتاج ہوتا ہے.خدا تعالیٰ ہی غنی ہے جو کسی چیز کا محتاج نہیں.اُسے کسی قسم کی ضرورت نہیں.وہ سب چیزوں کا مالک ہے لیکن اُسے ان میں سے کسی چیز کی ضرورت نہیں.وہ ہر جاندار کو رزق دیتا ہے یہاں تک کہ وہ زمین کے نیچے دبے ہوئے کیڑوں کو بھی رزق دیتا ہے مگر خود نہیں کھاتا.وہ تمام چیزیں جن کا نام تم دولت رکھتے ہوا سے کوئی فائدہ نہیں پہنچا تیں نہ ہی اُسے ان کی ضرورت ہے اور یہی ثبوت ہے کہ وہ غیر محتاج ہے.جب کسی شخص کو کسی چیز کی ضرورت نہیں ہوتی تو وہ کہتا ہے یہ چیز فلاں کو دے دو.ایک ان پڑھ آدمی کو اگر کہیں سے قلم مل جائے اور اسے کوئی شخص پوچھے کہ یہ کیا ہے؟ تو وہ کہہ دے گا کہ مجھے کہیں سے یہ چیز ملی ہے اگر تمہیں ضرورت ہو تو لے لو.وہ تو جہالت کی وجہ سے وہ قلم دے دیتا ہے لیکن خدا تعالیٰ اپنے کمال کی وجہ سے سب چیزیں اپنے بندوں کو دے دیتا ہے.چاندی سونا اس کے کام نہیں آتا اس لیے وہ اپنے محتاج بندوں کو دے دیتا ہے.مگر اس کی کے دیئے ہوئے مال سے انسان خیال کر لیتا ہے کہ وہ دولت مند ہو گیا ہے حالانکہ اس کے معنے ہے ہوتے ہیں کہ وہ محتاج ہے.اس نقطہ نگاہ کو اگر انسان مدنظر رکھے تو قربانی کرنا بالکل آسان ہو جاتا ہے.اسی چیز کو نامکمل طور پر حضرت عیسی علیہ السلام نے بھی بیان کیا ہے.آپ فرماتے ہیں جو تو اپنے گھر میں جمع کرتا ہے اُسے کیڑا کھا جائے گا لیکن جو تو خدا کے گھر میں جمع کرتا ہے وہ کیڑے سے محفوظ رہے گا.اس کا بھی وہی مفہوم ہے جو میں نے اوپر بیان کیا ہے.خدا تعالیٰ بھی وہی کچھ کرتا ہے جو تم اپنے بچوں کے ساتھ روزانہ اپنے گھروں میں کرتے ہو لیکن وہ اس کا نام یہ رکھ دیتا ہے ہے کہ یہ مال تم نے بطور قرض مجھے دیا اور کہتا ہے یہ تمہارے لیے ذخیرہ ہے جو تمہیں ملے گا بلکہ اس پر سود بھی ملے گا.وہ خود سود دیتا ہے لیکن اپنے بندوں کو سود لینے یا دینے سے منع کرتا ہے.اس لیے کہ انسان کمزور اور غریب ہے اور اس سے سود لینا اُس پر ظلم کرنا ہے لیکن خدا تعالیٰ کہتا ہے ہمارے پاس بہت زیادہ ہے اس لیے ہم سے اگر کوئی سود لے لے تو ہم پر کوئی ظلم نہیں ہوگا.میں دیکھتا ہوں بعض لوگ جو اچھے اچھے عہدوں پر ہوتے ہیں یا ان کے پاس دولت زیادہ ہوتی ہے وہ اس پر گھمنڈ کرنے لگ جاتے ہیں حالانکہ اس کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ ان کی احتیاج زیادہ ہوگئی ہے.اگر ایسا نہیں تو پھر زائد دولت کی ضرورت ہی کیا ہے.زائد دولت کے معنی ہی یہ ہیں

Page 94

$ 1949 85 خطبات محمود کہ تم اس کے محتاج ہو.اس نقطہ نگاہ کو سمجھ کر انسان حقیقی تو کل کا مقام حاصل کر سکتا ہے.دولت تو ایک نسبتی امر ہے اور اس کے معنی ہی یہ ہیں کہ جتنا زیادہ روپیہ کسی کے پاس ہو گا اُتنی ہی اس کی ضرورت بڑھ جائے گی.اور اگر ایسا نہیں تو پھر وہ دولت اس کے کس کام کی.یہ بات تو ایسی ہے جیسے کھانا ہے.اگر معدہ میں کوئی خرابی ہو تو فورائے ہو کر کھانا باہر آ جاتا ہے اور بجائے فائدہ اور طاقت دینے کے نقصان اور کمزوری کا موجب بن جاتا ہے.غرض ہر چیز جو ہمارے پاس ہے وہ سب خدا تعالیٰ کی دی ہوئی ہے.اور جب وہ خدا تعالیٰ کی دی ہوئی ہے تو پھر خدا تعالیٰ کے واپس مانگنے پر اسے دے دینے میں ہچکچاہٹ ہی کیوں ہو.جیسے تم بچے کو کوئی چیز دے کر واپس مانگتے ہو تو وہ گھبرا جاتا ہے اور واپس دینے کو اُس کا دل نہیں چاہتا.تھوڑے دن ہوئے میری ایک پوتی آکر میرے پاس بیٹھ گئی.اُس وقت ہم ناشتہ کر رہے تھے.میری ایک بیوی نے اس کے آگے دو چار بادام اور دو چار کشمش.دانے رکھ دیئے.میں نے اُسے ایک کیلا دیا.اُس نے وہ کیلا ہاتھ میں پکڑ لیا.وہ چھوٹی عمر کی ہے کوئی ڈیڑھ سال کی ہوگی.وہ ایک دانہ پکڑتی اور منہ میں ڈال لیتی.کھاتے کھاتے وہ ایک دوسرے بچے کو جو پاس ہی کھڑا تھا کہنے لگی کہ یہ کیلا چھیل دو.اس پر میں نے کہا کہ لاؤ میں کیلا چھیل دوں.اس نے یہ سمجھا کہ یہ کیلا چھیننا چاہتے ہیں.وہ جھکی اور ایک ہی دفعہ کشمش کے سب دانے ہاتھ میں لے کر منہ میں ڈال لیے حالانکہ اس سے پہلے وہ ایک ایک دانہ پکڑ کر کھا رہی تھی اور پھر پیٹھ پھیر کر بے تحاشا بھاگ گئی.“ اس پر ایک بچہ ہنس پڑا جس پر حضور نے فرمایا ایک چھوٹا بچہ اس لطیفہ پر ہنس پڑا ہے حالانکہ ہو سکتا ہے کہ اس کا باپ بھی جب اس سے خدا تعالی کوئی چیز مانگتا ہو تو وہ بچوں کی طرح ایس ایس کر دیتا ہو اور کہتا ہو میں نہیں دیتا.غرض اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو ہر چیز دیتا ہے اور پھر کہتا ہے کہ اس میں سے کچھ میری راہ میں ہے خرچ کرو.جب دینے والا ایک چیز واپس مانگتا ہے تو انسان نہیں نہیں کرتا ہے حالانکہ وہ نادان کی یہ نہیں جانتا کہ اگر میں یہ چیز واپس دے دوں گا تو ہو سکتا ہے کہ جس نے یہ چیز دی ہے وہ اس جتنی دوبارہ دے دے بلکہ اس سے بھی کئی گنا زیادہ دے دے.اور اس کے بعد پھر اگلے جہان

Page 95

* 1949 86 98 خطبات محمود میں جو ثواب ملتا ہے وہ تو بہت زیادہ ہے.وہ زندگی جو اگلے جہان میں ملے گی وہ ابدی زندگی ہے.جس کے مقابلہ میں یہ دنیاوی زندگی بالکل بیچ ہے“.1 : فاطر: 16 الفضل 21 اپریل 1949 ء 2 : گدی گدی نرم ملائم لچکدار ( اردو لغت تاریخی اصول پر جلد 15 صفحہ 906 کراچی 1993ء) 3 : لیمونیڈ : (LEMONADE) لیموں کے رس سے تیار کردہ شربت.(The Concise Oxford Dictionary of Current English) 4 : راتھ شیلڈ:(ROTHSCHILD)( روتھ شیلڈ ) ایک یورپی یہودی خاندان جو نہ صرف یورپ کے مختلف ممالک میں بینکاری کے نظام پر حاوی ہے بلکہ امریکہ کے فیڈرل ریزرو کے بنیادی حصہ داروں میں شامل ہے.ان کے مشہور لوگوں میں بیرن روتھ شیلڈ شامل ہے جو برطانیہ میں یہودیوں کا نمائندہ تھا اور فلسطین پر یہودی قبضہ کو مستحکم کرنے میں اس کا کردار ڈھکا چھپا نہیں ہے.وکی پیڈیا ، آزاد دائرہ معارف زیر لفظ روتھ شیلڈ "Rothschild") 5 : پروژه: (Baroda)1721ء تا 1949ء میں ہندوستانی گجرات کی ایک ریاست جس کو موجودہ دور میں Vadodara کہا جاتا ہے.(Wikipedia, The Free Encylopedia"Vadodara") : وَقَالَتِ الْيَهُودُ يَدُ اللهِ مَغْلُولَةٌ (المائده : 65) : متی باب 6 آیت 20:19

Page 96

* 1949 87 (10) خطبات محمود اس بات کو مد نظر رکھو کہ تم نے بے مرکز کبھی نہیں رہنا (فرمودہ 15 اپریل 1949 ء بمقام ربوہ) تشهد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: جیسا کہ میں نے احباب سے دعا کے وقت کہا تھا یہ جلسہ ہمارے لیے نہایت ہی اہمیت کھتا ہے کیونکہ ہم ربوہ کو تفاؤل کے طور پر اپنا نیا مرکز قرار دے رہے ہیں.یوں بھی جن جگہوں کو ذکر الہی کے لیے چنا جاتا ہے اُن میں لغو باتیں کرنا منع ہوتی ہیں.چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم مساجد کے متعلق جہاں لوگ جمع ہوتے اور ذکر الہی کرتے ہیں فرماتے ہیں کہ وہاں دنیاوی باتیں نہیں کرنی چاہیں.احادیث میں آتا ہے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص اپنی ای شدہ چیز کا مسجد میں اعلان کرتا ہے خدا تعالیٰ اُس کے مال میں برکت نہ دے.1 گویا مسجد میں اپنی گم شدہ اشیاء کا اعلان کرنا منع ہے.پس اگر مساجد جو صرف ایک محلہ سے تعلق رکھتی ہیں یا صرف ایک قصبہ سے تعلق رکھتی ہیں یا صرف ایک شہر سے تعلق رکھتی ہیں اُن کا احترام اتنا ضروری ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے رمایا مساجد میں گم شدہ اشیاء کا اعلان نہیں کرنا چاہیے تو وہ مقام جس کو ایک بڑے بھاری علاقہ کے لیے بلکہ ایک محدود وقت کے لیے ساری دُنیا کا مرکز بنایا جا رہا ہے اُس میں کس قدر زیادہ ذکر الہی کی ضرورت ہے.چاہیے کہ وہ احباب جو جلسہ پر یہاں تشریف لائے ہوئے ہیں ذکر الہی ہے

Page 97

$ 1949 88 88 خطبات محمود کی طرف توجہ کریں اور اپنی مجالس میں لغو باتیں نہ کریں.یہ معمولی بات نہیں.جب میں آپ کو یہ نصیحت کر رہا ہوں تو میں ننانوے فیصدی یہ سمجھ رہا ہوں کہ میری یہ نصیحت بے کار جائے گی.کیونکہ یہ اتنا بڑا کام ہے کہ آپ لوگوں میں سے ننانوے فیصدی لوگوں کے لیے یہ کام کرنا مشکل.اپنے گھر میں اسی قسم کی کئی ایک نصیحتیں کرتا رہتا ہوں.مگر بچے آہا ہو بہو اور دوسری باتوں میں لگے جاتے ہیں.ابھی ایک گھنٹہ پہلے انہیں ایک نصیحت کرتا ہوں اور پھر وہ اسے بھول جاتے ہیں حالانکہ انسانی دماغ کی طاقت اور قوت فکر سے پیدا ہوتی ہے.جو لوگ ذکر وفکر کے عادی ہوتے ہیں اُن کے دماغ میں روشنی پیدا ہو جاتی ہے اور وہ اہم باتوں کے سوچنے اور اُن سے نتائج اخذ کرنے کے قابل ہو جاتے ہیں.کم از کم کچھ دن تو یہ طریقہ اختیار کرنا چاہیے اور ان دنوں میں لغو باتیں چھوڑ دینی چاہیں.شریعت نے یہ دیکھتے ہوئے کہ انسان روزانہ بھوکا نہیں رہ سکتا سال میں ایک مہینہ روزے رکھنے کا حکم دیا ہے.یہ دیکھتے ہوئے کہ انسان ہر وقت خاموش نہیں رہ سکتا نماز کے وقت مسلمانوں کو خاموش رہنے کا حکم دیا ہے.یہ دیکھتے ہوئے کہ انسان ساری ساری رات نہیں جانگ استانی سکتا رات کو تہجد کے لیے جاگنے کا حکم دیا ہے.صوفیاء نے اس سے یہ نتیجہ نکالا ہے کہ دماغ کے چلا ہے اور روشنی کے لیے تین باتوں کا ہونا ضروری ہے کم خفتن و کم گفتن و کم خوردن.مومن کو چاہیے کہ وہ تھوڑا سوئے ، تھوڑی باتیں کرے اور تھوڑا کھائے.ان باتوں کے نتیجہ میں روحانیت جلا پاتی ہے اور جن لوگوں میں اس کی عادت پیدا ہو جاتی ہے اُن کا دماغ روشن ہو جاتا ہے، ان کی روحانیت جلا پا جاتی ہے اور وہ اہم باتوں کے سوچنے اور ان سے نتائج اخذ کرنے کے قابل ہو جاتے ہیں.میں یہ نہیں کہتا کہ انسان ان باتوں کو ہر وقت کرنے لگ پڑے.ان باتوں کی بہت کثرت بھی بُری ہوتی ہے ہے.مثلاً کوئی آدمی بالکل ہی سونا ترک کر دے، باتیں کرنا چھوڑ دے اور کھانا کھانا بند کر دے تو یہ باتیں بجائے مفید ہونے کے مضر ثابت ہوں گی اور بجائے اس کے کہ ان سے کوئی مفید نتیجہ نکلے وہ اس کے لیے عذاب کی صورت اختیار کر جائیں گی.لیکن جہاں تک ان کو ضبط میں رکھا جاسکتا ہے، جہاں تک ان کو ایک حد میں رکھا جاسکتا ہے، جہاں تک ان کو ایک دائرہ کے اندر رکھا جاسکتا ہے یہ روح کے اندر چلا اور روشنی پیدا کرتی ہیں.اور تھوڑا بہت بھی اگر ذکر الہی کر لیا جائے تو وہ خدا تعالیٰ کے وصال اور اس کے فرشتوں سے ملاقات کا موقع بہم پہنچاتا ہے.پس تم اپنے اندر ان کی عادت

Page 98

* 1949 89 خطبات محمود پیدا کرو اور جلسہ کے ایام اور خصوصاً ان ایام میں دعائیں کرتے رہو.ہمارے پہلے مرکز سے پیر اُکھڑ گئے ہیں اور ہم نے ربوہ کو اپنا نیا مرکز مقرر کیا ہے تا یہاں بیٹھ کر ہم اسلام کی خدمت کر سکیں.پس یہاں خدا تعالیٰ کی باتیں کرو.قرآن کریم کی باتیں کرو.حدیث کی باتیں کرو.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی باتیں کرو.آپ کے صحابہ کی باتیں کرو.اولیاء اللہ کی باتیں کرو.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی باتیں کرو.دینی مسائل پر گفتگو کرو اور باقی لغو باتوں کو چھوڑ دو.سوائے اس کے کہ کوئی مجبوری کی حالت ہو یا ضروریات زندگی کو جو خدا تعالیٰ نے انسان کے ساتھ لگائی ہیں پورا کیا جائے مگر زیادہ وقت دوسری باتوں میں صرف نہیں کرنا چاہیے.میں نے دوستوں کو یہ بھی ایک نکتہ بتایا ہوا ہے کہ سارے کے سارے لوگ لغو باتوں کو نہیں چھوڑ سکتے.لیکن کچھ لوگ جو خود لغو باتوں سے بکلی اجتناب کریں اگر دوسرے لوگوں کو جو لغو باتوں میں مشغول ہوں خاموش کرانے لگ جائیں تو اس سے بہت فائدہ ہو سکتا ہے.مثلاً اگر کسی جگہ کچھ لوگ دنیاوی باتوں میں مشغول ہوں اور ادھر اُدھر کی باتیں کر رہے ہوں تو کوئی ایک شخص کھڑا ہو جائے جو اُن کو اُکسائے نہیں ، انہیں جوش نہ دلوائے ، ان پر طنز نہ کرے بلکہ کہے آؤ! ہم ہے کوئی دین کی بات کریں اور اس طرح وہ کوئی اور بات کرنی شروع کر دے.مثلاً اگر وہ پرانا صحابی ہو تو وہ کہے مجھے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی باتیں یاد ہیں.آؤ! میں تمہیں سناؤں.یا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعض حدیثیں اسے یاد ہوں یا اسے قرآن کریم کی کسی حد تک مہارت حاصل ہو تو وہ کچھ باتیں کر کے انہیں چپ کرا دے.اس طرح یہ عادت مستقل ہو جائے گی.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اس کے لیے بہت بڑی ہمت درکار ہے لیکن اگر کوئی اس کی پروا نہیں کرے گا اور اصرار کرے گا کہ دوسرے لوگ اس سے دینی باتیں سنیں تو لوگوں کی عادتیں درست ہو جائیں گی.باقی ایام میں بے شک بعض مشکلات پیش آجاتی ہیں اور انسان کو دوسرے دنیاوی کام بھی سرانجام دینے کی پڑتے ہیں یا ایسا ہوتا ہے کہ بعض لوگ خاص اغراض کے لیے ملنے کے لیے آجاتے ہیں.مثلاً بعض لوگ اقتصادیات سے تعلق رکھتے ہیں اور وہ یہ باتیں کرنا شروع کر دیتے ہیں کہ پاکستان کی اقتصادی حالت کیسے درست ہو سکتی ہے؟ یا سائنس سے تعلق رکھنے والے لوگ آ جاتے ہیں اور وہ پاکستان کی علمی حالت پر بحث کرنے لگ جاتے ہیں.یا تاجر ہوتے ہیں اور وہ تجارت کے متعلق

Page 99

$ 1949 06 90 خطبات محمود مشورہ کرنا چاہتے ہیں کہ پاکستان میں تجارت کو ترقی کیسے حاصل ہو سکتی ہے؟ یا بعض لوگ زراعت سے تعلق رکھتے ہیں اور وہ کہتے ہیں آئے اور ہمیں مشورہ دیجیے کہ پاکستان میں زراعت کو کس طرح اعلیٰ پیمانہ پر لے جایا جاسکتا ہے.اور ہمیں یہ باتیں کرنی پڑتی ہیں لیکن ہمیں اپنے کچھ اوقات تو ذکر الہی کے لیے مخصوص کر لینے چاہیں اور اپنے سارے وقت دوسروں کو نہیں دے دینے چاہیں.اس کے بعد میں احباب کو اس مضمون کی طرف توجہ دلاتا ہوں جس کی طرف میں نے جماعت کو لاہور میں توجہ دلائی تھی.مگر اُس جلسہ میں لوگ بہت تھوڑے تھے.یہی آٹھ نوسو کے قریب لوگ جمع تھے.لیکن آج میں سمجھتا ہوں کہ چودہ پندرہ ہزار کے قریب مجمع ہو گیا ہو گا.ابھی تک کھانے کی رپورٹ میرے پاس نہیں آئی.لیکن قادیان میں جتنا بڑا جلسہ گاہ بنایا تھا اُس کا اگر اندازہ لگایا جائے تو اس جلسہ پر آنے والوں کی تعداد چودہ پندرہ ہزار کی ہے.کچھ تو یہ دن ہی ایسے تھے کہ لوگ فصلوں کو چھوڑ کر نہیں آسکتے تھے کیونکہ یہ کٹائی کا وقت ہے اور فصلوں کو چھوڑ کر چلا آنا زمینداروں کے لیے ایک مشکل امر ہے اور کٹائی میں دیر لگانا بھی مشکل ہے.کٹائی میں دیر لگ جائے تو غلہ گر جاتا ہے اور زمینداروں کے حصہ میں غلہ کی بہت کم مقدار آتی ہے.ان مشکلات کی وجہ سے اس جلسہ پر زمیندار لوگ نہیں آسکے.پھر اس جلسہ پر لوگوں کے کم آنے کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ ملا زمت پیشہ لوگوں کی چھٹی بہت کم تھی.پھر سارے لوگ مستعد بھی نہیں ہوتے.بعض لوگ خیال کرتے ہیں کہ اگر کچھ آرام ملے تو وہاں جائیں لیکن اس دفعہ چونکہ کھلے بندوں یہ کہہ دیا گیا تھا ت کہ نئے انتظامات اور نئی جگہ کے ہونے کی وجہ سے روٹی اور پانی کی تکلیف ہوگی اس لیے جلسہ پر جماعت کا ایسا حصہ بھی نہیں آسکا جنہیں اگر آرام ملے تو جلسہ پر آتے ہیں ورنہ وہ نہیں آتے.قادیان میں یہ صورت تھی کہ تیرہ چودہ ہزار احمدی وہاں کے مقامی باشندے تھے اور آٹھ دس ہزار قادیان کے دس میل اردگرد کے علاقہ کے احمدی تھے اور جماعت کا یہ سارے کا سارا حصہ جلسہ کے موقع پر اکٹھا ہو جاتا تھا.اس کے معنے یہ ہیں کہ قادیان میں جلسہ کے موقع پر بیس ہزار کے قریب وہاں کی لوکل آبادی ہو جاتی تھی اور باہر سے بھی تھیں ہزار کے قریب احمدی آجاتے تھے.اب صورت یہ ہے کہ یہاں کی لوکل آبادی ہے ہی نہیں.یہاں جو لوگ رہ رہے ہیں ان کی تعداد

Page 100

* 1949 91 خطبات محمود عورت اور بچے سب ملا کر ایک سو ہوگی“.اس موقع پر حضور نے فرمایا: " کھانے کی رپورٹ بھی آگئی ہے خوراک کی پرچی سے معلوم ہوتا ہے کہ جلسہ پر جو دوست آئے ہیں اُن کی تعداد چودہ ہزار کے قریب ہے اور یہی میرا اندازہ تھا.میں نے دونوں جلسہ گاہوں کا اندازہ لگا کر یہ بتایا تھا.بہر حال ان تکالیف کی وجہ سے اکثر احباب جلسہ پر نہیں آئے یعنی کچھ لوگ تو چھٹیوں کی وجہ سے نہیں آئے چھٹیاں بہت کم تھیں اور کچھ موسم ہی ایسا تھا.کچھ نئی جگہ تھی اور یہاں کوئی آرام ر نہیں تھا.بیس ہزار کی تو قادیان کی آبادی چلی گئی باقی تمیں ہزار رہ گیا جن میں سے پندرہ ہزار سے کچھ اوپر یعنی نصف کے قریب آ گیا ہے.پھر ابھی یہ پہلا دن ہے اور بالعموم ہمارے دوسرے دن کے جلسہ کے دوسرے حصہ میں ہی آدمی زیادہ ہوتے ہیں اور اس میں ابھی چوبیس گھنٹے باقی ہیں.اگر دوسرے دن کے آنے والوں کی تعداد بھی اس رنگ میں ہوئی جس طرح قادیان میں ہوتی ہے تھی تو اس جلسہ پر آنے والوں کی تعداد میں ہزار تک پہنچ جائے گی پھر ہندوستان سے بھی پرمٹ کی نہیں مل سکے.وہاں سے بھی سینکڑوں ہزاروں آدمی جلسہ پر آجاتے تھے لیکن اس دفعہ صرف ایک درجن کے قریب دوست آئے ہیں.ہندوستان یونین کی حکومت بھی اس دفعہ پرمٹ نہیں د رہی.دے غرض ان حالات میں اس دفعہ آدمی بہت کم آئے ہیں مگر بہر حال یہ تعداد لاہور کے جلسہ سے بہت زیادہ ہے جس میں مہمانوں کی تعداد کوئی بارہ تیرہ سو تھی.اس لیے میں جماعت کے دوستوں کو پھر اُن باتوں کی طرف توجہ دلاتا ہوں.انہیں چاہیے کہ وہ واپس جا کر جماعت کے دوسرے دوستوں کو یہ باتیں بتا ئیں.خدا تعالیٰ نے آپ لوگوں کو انسان بنایا ہے اور انسان کے کام اس کے عزم اور ارادے جانوروں سے زیادہ ہوتے ہیں.قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے ایک جانور کا ذکر کیا ہے بلکہ ایک کیڑے کا ذکر کیا ہے.گو کیڑا بھی جانوروں میں شامل ہے لیکن بالعموم جب جانور کا لفظ بولا جائے تو اس سے مراد قد آور چیز ہوتی ہے.قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ ایک پروانے کیڑے کا جس کو کبھی دوسرے تیسرے دن کوئی سترہ ہزار تک تعداد ہو گئی تھی.

Page 101

* 1949 92 خطبات محمود کہتے ہیں ذکر کرتا ہے.اللہ تعالیٰ انسان کو شہد کی مکھی کی طرف توجہ دلاتا ہے اور فرماتا ہے کہ تم شہد کی مکھیوں کو دیکھو یہ جانوروں میں سے بھی اعلیٰ قسم کا جانور نہیں بلکہ ایک ادنیٰ قسم کا کیڑا ہے.مومنوں کے مقام تو بہت اونچے ہوتے ہیں یہ چھوٹا سا جانور ہے لیکن اس کا جو چھوٹا سا مقام خدا تعالیٰ نے بتایا ہے اس سے تم سبق حاصل کرو.خدا تعالیٰ نے اس کیڑے کا ذکر بلا وجہ نہیں کیا.آخر مسلمانوں کی پر ایسے حالات آنے والے تھے کہ ان کے لیے مکھی والی کیفیت اپنے اندر پیدا کرنی ضروری تھی.ہے شہد کی مکھی میں یہ خصوصیت ہے کہ جب اس کے چھتے میں شہد پیدا ہو جاتا ہے اور کوئی شخص اس کے چھتا سے شہد نکالنا شروع کرتا ہے تو جو لوگ اس فن کے ماہر ہیں اور جنہوں نے شہد کی مکھی کی تاریخ ہے اور حالات کا مطالعہ کیا ہے وہ جانتے ہیں کہ جونہی وہ شخص شہد کے چھتوں پر ہاتھ ڈالتا ہے اُسی وقت نو جوان مکھیوں کی ایک پارٹی ایک شہزادی کو لے کر وہاں سے اُڑ جاتی ہے تا دوسرا مرکز تلاش کرے.اور ابھی شہد اُس چھتا سے نکالا نہیں جاتا، ابھی شہد اُس چھپتا سے علیحدہ نہیں کیا جاتا کہ دوسرے مرکز کی تلاش میں چلی جاتی ہیں.اور ابھی چوبیس گھنٹے بھی نہیں گزرتے یا بعض اوقات زیادہ سے زیادہ اڑتالیس گھنٹے بھی نہیں گزرتے کہ وہ دوسری جگہ پر چھٹا بنانا شروع کر دیتی ہیں.یہ ایک ثابت شدہ حقیقت ہے کہ مکھیاں ہمیشہ ایک ملکہ کے ماتحت رہتی ہیں اور جب کوئی شخص شہد نکالنا چاہتا ہے تو وہ ملکہ کی لڑکی یعنی کسی شہزادی کے ماتحت اُڑ کر دوسری جگہ چلی جاتی ہیں.گویا شہد کی مکھیوں میں بھی با قاعدہ حکومت کا طریق ہوتا ہے.مکھیوں میں سے ایک پارٹی کسی ایک شہزادی کے ماتحت اُڑ کر کسی دوسری جگہ پر چلی جاتی ہیں اور وہاں چھتا بنانا شروع کر دیتی ہیں.آخر کتنے چھتے ہیں جن کا شہد کی کھانے کا مکھیوں کو موقع ملا ہو.آبادی کے قریب کے چھتوں میں سے تو کوئی ہزاروں میں سے ایک چھتا ہو گا جن کو خود مکھیاں کھاتی ہوں گی.لیکن باوجود اس کے کہ مکھی جانتی ہے کہ ننانوے فیصدی امکان یہی ہے کہ یہ شہد میرے پاس نہیں رہے گا مکھی اپنے اس جذ بہ کو نہیں دبا سکتی کہ اسے اپنی ای زندگی کے لیے کسی ایک مرکز کی ضرورت ہے.کسی مرکز کے بغیر وہ زندہ نہیں رہ سکتی.باوجود اس کی کے کہ اس کا مرکز ٹوٹتا رہتا ہے، باوجود اس کے کہ وہ اپنا مرکز ٹوٹتا ہوا بار بار دیکھتی ہے، باوجود اس کے کہ اس کی نسل بھی جانتی ہے کہ اس کے ساتھ بھی یہی گزرے گی وہ ہمت نہیں ہارتی اور ایک نئے ارادہ کو لے کر کھڑی ہو جاتی ہے اور ایک نیا مرکز بنا لیتی ہے.خدا تعالیٰ نے سورۃ نحل میں اسی مکھی کا

Page 102

* 1949 93 خطبات محمود حوالہ دے کر مسلمانوں کو بتایا ہے کہ اے مسلمانو! یا درکھو تم کہیں یہ حماقت نہ کر لینا کہ ایک دفعہ مرکز سے نکل کر مرکز سے بے نیاز ہو جاؤ.تم بغیر مرکز کے مت رہنا.مکھی کتنی کم ترین اور ادنی چیز ہے.یہ محض ایک بے عقل جانور ہے مگر باوجود اس کے کہ وہ ایک معمولی کیڑا ہے وہ مرکز کی ضرورت محسوس کرتی ہے.اگر انسان جس کی حالت بہت اعلیٰ درجہ کی ہے ایک بہت بڑی مصیبت کے بعد بغیر مرکز کے رہنے پر راضی ہو جائے تو وہ کتنا کمینہ ہے، وہ کتنار ذیل ہے، وہ کتنا خدا تعالیٰ کو کھلانے والا ہے اور اس سے زیادہ ذلیل چیز دنیا میں اور کیا ہوگی.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی دیکھو کہ جب تک آپ کو ایک دوسرا مرکز نہیں ملا آپ نے مرکز کو نہیں چھوڑا اور اُس کے ظلم کو برداشت کرتے رہے.جب آپ نے دیکھا کہ مکہ میں رہنا نا قابل برداشت ہو گیا ہے تو آپ نے صحابہ کو جمع کیا اور فرمایا تم کسی اور جگہ چلے جاؤ جہاں دین کے بارہ میں ظلم نہ ہو اور تم امن سے خدا تعالیٰ کا نام لے سکو.صحابہ نے آپ سے پوچھا یا رسول اللہ ! وہ کونسی جگہ ہے؟ آپ نے حبشہ کی طرف اشارہ کیا اور فرمایا وہاں عیسائیوں کی حکومت ہے اگر تم وہاں چلے جاؤ تو تم پر دین کے بارہ میں سختی نہیں ہے ہوگی.2 صحابہ نے کہا یا رسول اللہ ! اگر ہم حبشہ کی طرف چلے جائیں تو آپ کا کیا حال ہوگا ؟ آپ کی نے فرمایا میرے لیے مکہ کو چھوڑنے کا حکم نہیں.آپ جانتے تھے کہ حبشہ میں مرکز نہیں بن سکتا اس لیے آپ نے ملکہ نہیں چھوڑا جب تک کہ آپ کو خدا تعالیٰ کا حکم نہ ملا اور جب تک تقدیر الہی نے ایک نیا مرکز آپ کے لیے تجویز نہ کر دیا.جس طرح مجھے قبل از وقت ایک نئے مرکز کی اطلاع اللہ تعالیٰ نے دے دی تھی.غرض رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ کے ظلم کو برداشت کیا، وہاں کی سختیوں کو جھیلا مگر خدا تعالیٰ نے جب تک نیا مرکز نہ تجویز کر دیا آپ نے مکہ نہ چھوڑا.چونکہ آپ صاحب شریعت نبی تھے اور آپ کی شریعت میں کوئی وقفہ نہیں پڑنا چاہیے تھا اگر آپ کی شریعت میں وقفہ پڑ جاتا تو ایک بہت بڑی خرابی پیدا ہو جاتی اس لیے ضروری تھا کہ آپ کے مکہ چھوڑنے اور نیا مرکز ملنے میں وقفہ نہ ہوتا.غیر شرعی نبیوں یا ان کے خلفاء کے لیے یہ ضروری نہیں.پس ہماری جماعت کو یاد رکھنا چاہیے کہ انہیں ابھی ایک تجربہ ہوا ہے.قادیان کے چھوٹے جانے کا صدمہ لازماً طبیعتوں پر ہوا ہے.میری طبیعت پر بھی اس صدمہ کا اثر ہے لیکن میں نے نب قادیان چھوڑا یہ عہد کر لیا تھا کہ میں اس کا غم نہیں کروں گا.میں نے پہلے بھی بتایا ہے کہ

Page 103

$ 1949 94 خطبات محمود میری ایک لڑکی کے ابھی بچہ پیدا ہوا تھا، اس کی تھوڑا ہی عرصہ ہوا شادی ہوئی تھی اور ایک سال کے اندر ہی اس کے بچہ پیدا ہوا تھا، ان کی ماں وفات پا چکی تھی وہ میرے پاس رخصت ہونے کے لیے آئی اور اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے.میں نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا اور کہا خاموش رہو یہ وقت رونے کا نہیں بلکہ یہ وقت کام کا ہے.چنانچہ میں نے اس عہد کو ختی سے نبھایا ہے.بعض دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ یوں معلوم ہوتا تھا میرا دل ٹکڑے ٹکڑے ہو جائے گا مگر میں سمجھتا ہوں کہ جب میں ایک عزم کر چکا ہوں تو میں اس عزم کو آنسوؤں کے ساتھ کیوں مشتبہ کر دوں؟ ہم اپنے آنسوؤں کو روکیں گے یہاں تک کہ ہم قادیان کو واپس لے لیں.چاہے صلح کے ساتھ ہمیں قادیان ملے چاہے جنگ کے ساتھ ہمیں قادیان ملے.بہر حال ہم نے اسے واپس لینا ہے.میں تھوڑے دن ہوئے کشمیر کے محاذ پر فرقان فورس دیکھنے گیا.فرقان فورس والوں نے میرے کھانے کا انتظام کیا ہوا تھا.میں جب وہاں گیا تو ایک جگہ پر ہاتھ دُھلانے کے لیے دو چھوٹے لڑکے کھڑے تھے.مجھے بڑا تعجب تھا کہ جس جگہ جاتے ہوئے بڑی عمر والے اور پختہ کار لوگ ہچکچاتے ہیں وہاں یہ چھوٹی عمر کے دونوں بچے آئے ہوئے ہیں اور خوشی سے اپنی ڈیوٹی کو نبھارہے ہیں.وہ دونوں ہاتھ دُھلانے کے لیے وہاں کھڑے تھے.چھوٹی عمر میں اتنی بڑی قربانی کرنے کی وجہ سے مجھے ان کا یہ فعل پیارا لگا اور نادانی اور غفلت میں میں نے سوال کیا کہ تم کہاں ہے سے آئے ہو؟ میں نے خیال کیا کہ وہ کہیں گے کہ ہم گجرات سے آئے ہیں ، جہلم سے آئے ہیں، راولپنڈی سے آئے ہیں یا سیالکوٹ سے آئے ہیں.میں ان سے کوئی دوسرا جواب سننے کے لیے تیار نہیں لیکن میں نے جب یہ سوال کیا کہ تم کہاں سے آئے ہو؟ تو ان دونوں لڑکوں نے بے اختیار کہا ہم قادیان سے آئے ہیں.مجھے یہ جواب سننے کی امید نہ تھی.اس لیے مجھے اپنی حالت کو سنبھالنے کے لیے بہت زیادہ جد وجہد کی ضرورت پڑی.میرے ساتھ اُس وقت رضا کاروں کے نمائندے بھی تھے اور بعض دوسرے افسر بھی.میں نے زور سے اپنی زبان دانتوں میں دبالی.میں نے ایسا محسوس کیا کہ اگر میں اپنے آپ کو نہیں روکوں گا تو میری چیخیں نکل جائیں گی.کئی غیر احمدی مالی بھی اُس وقت مجھ سے ملنے کے لیے آئے ہوئے تھے.میں نے اُن سے کوئی بات نہیں کی اور میں بات کر ہی نہیں سکا تھا.انہوں نے شاید یہ سمجھا ہوگا کہ میں بہت مغرور ہوں اور اُن کے ساتھ بات

Page 104

$1949 95 95 خطبات محمود کرنا نہیں چاہتا لیکن میں مختصر جواب دے کر اپنے جذبات پر قابو پانے کی کوشش کر رہا تھا.پندرہ ہیں منٹ بعد جا کر کہیں میری طبیعت سنبھلی اور میں بات کرنے کے قابل ہوا.غرض میں نے یہ عہد کیا ہوا ہے کہ میں قادیان کے چھوٹ جانے پر غم نہیں کروں گا اور میں سمجھتا ہوں کہ اس کے بغیر ہمارا گزارہ نہیں.آپ لوگ بھی اپنے تمام جوشوں کو دباتے چلے جائیں.خدا تعالیٰ وہ وقت لے آئے گا جب تمہارے دبائے ہوئے جذبات ایک طوفان کی شکل اختیار کریں گے اور وہ طوفان ہر قسم کے خس و خاشاک کو اُڑا کے پرے پھینک دے گا.لیکن جب تک وہ مرکز جماعت کو نہیں ملتا سب جماعت کو ایک دوسرے مرکز کی طرف منہ کرنا ہوگا کیونکہ مرکز کے بغیر کوئی جماعت نہیں رہ سکتی.پس میں جماعت کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ ہمیشہ اس بات کو مدنظر رکھیں کہ انہوں نے بے مرکز کے کبھی نہیں رہنا.تمہیں ضرور ایک دھکا لگا ہے لیکن دھگوں کو سہنے کی عادت بہادر قوموں کو ڈالنی ہی پڑتی ہے اور ایسے دھکوں کے نقصان دور کرنے کے لیے عمدہ تدابیر اختیار کرنی پڑتی ہیں.خدا تعالیٰ نے ایسے موقعوں کے مقابلہ کے لیے ایک تدبیر مرکز بنانے کی ہمارے سامنے رکھی ہے.ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ جہاں ہم اور اچھی چیزوں کی نقلیں بناتے ہیں وہاں ہم روحانی مرکز کی نقل بھی بنایا کریں.اگر ہم کسی ایک جگہ پر اپنا مرکز نہیں بنائیں گے تو لوگ دینی تعلیم کہاں حاصل کریں گے.تم دیکھ لو سید احمد صاحب بریلوی کے مرید چند ہزار کے قریب تھے اور ہندوستان میں کئی کروڑ حنفی رہتا تھا.ان کروڑوں آدمیوں کو طاقت نہیں ملی لیکن سید احمد صاحب بریلوی کے چند ہزار مریدوں نے ایک علیحدہ مرکز بنا دیا.جب آپ شہید ہونے لگے تو آپ نے اپنے ساتھیوں کو فرمایا کہ وہ اپنا ایک مرکز بنا ئیں.آخر انہوں نے دیوبند میں اپنا مرکز بنایا.یہ سیداحمد صاحب بریلوی کے شاگرد ہی تھے جنہوں نے دیو بند میں اپنا مرکز بنایا اور پھر اس کی وجہ سے دیو بندی علماء نے تمام حنفیوں کو اپنے قبضہ میں کر لیا.بعد میں وہ آہستہ آہستہ حنفیت کی طرف مائل ہو گئے لیکن اصل میں وہ اہلحدیث تھے اور صرف مرکزیت کی وجہ سے ہی باقی سب مسلمانوں پر غالب آئے.پس تم کبھی بھی شہد کی مکھی کے سبق کو نہ بھولو تم یہ کبھی بھی خیال نہ کرو کہ تم تعداد میں کم ہو یا تم کمزور ہو.ہر وقت کوئی نہ کوئی تمہارا مرکز بنا ہوا ہو.تمہارے پاس پہلے بھی مرکز موجود ہیں.مکہ،

Page 105

$ 1949 96 96 خطبات محمود رینہ اور قادیان کے مراکز تمہارے پاس پہلے سے موجود ہیں لیکن تم کو ان تینوں کی تمثیل کے طور ہے ہر ملک میں اور ہر جگہ اپنے مراکز بنانے چاہیں تا لوگ اپنی زندگیاں وقف کر کے وہاں رہیں اور لوگ ان سے دین سیکھیں اور پھر اسے لوگوں میں پھیلائیں.تم اگر یہ انتظام کر لو، اگر ہر ضلع والے پنے ضلع میں ایک مرکز بنا لیں اور ہر صوبے والے اپنا مرکز قائم کر لیں اور ہر ملک والے اپنا ایک مرکز بنالیں تو احمدیت کی ترقی یقیناً پہلے سے زیادہ ہو جائے گی.ہر ضلع اور ہر ملک میں الگ مرکز نہ ہونے کی وجہ سے احمدیت کو ابھی طاقت حاصل نہیں ہوئی.مثلاً لاسکپور ہے.لائلپور میں مرکز نہ ہونے کی وجہ سے جماعت کو اس ضلع میں طاقت حاصل نہیں ہوئی.لائکپور کے بہت ہی کم لڑکوں کی نے قادیان جا کر دینی تعلیم حاصل کی ہے.کوئی ہمت والا ایسا ہو گا جس نے اپنا لڑکا وہاں تعلیم حاصل کرنے کے لیے بھیجا ہو.یا سرحد والے ہیں.ہم تھک گئے مگر وہ اپنے بچے دینی تعلیم کے لیے نہیں بھیجتے اور پڑھنے کے معاملہ میں وہ بہت کتراتے ہیں اور بہت ہی کم ایسے لڑکے ہیں جنہوں نے قادیان جاکر دینی تعلیم حاصل کی ہے.بعض لڑکے وہاں سے آئے بھی تھے لیکن وہ بعد میں بھاگ گئے.لیکن اگر وہاں کا بھی ایک مرکز بنا دیا جاتا اور کچھ لوگ اپنی زندگیاں وقف کر کے وہاں بیٹھو جاتے تو اس کا نتیجہ یہ ہوتا کہ لوگ سینکڑوں کی تعداد میں وہاں آتے اور دینی تعلیم حاصل کرتے.اسی طرح سندھ میں اور بلوچستان میں دو تین مولوی بیٹھ جاتے اور وہ چند طالب علموں کو بلا کر انہیں دینی مسائل سکھاتے ، انہیں دوسرے لوگوں سے چندہ کر کے کتابیں حاصل کر دیتے تو اس کا بہت فائدہ ہوتا.مثلاً اگر وہ پانچ سات طالبعلم تیار کر لیتے تو وہ آگے پچھیں تمہیں طالبعلموں کو پڑھاتے.پھر وہ آگے دوسرے لوگوں کو پڑھاتے اور اس کا نتیجہ یہ ہوتا کہ وہاں آج سینکڑوں نہیں ہزاروں آدمی یسے ہوتے جو دین کے ماہر ہوتے.غرض مرکزیت کا پیدا کرنا نہایت اہم چیز ہے اور میں جماعت کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ جدید مرکز کے قیام کے لیے ہر قسم کی کوششیں کریں.جب وہ اپنا جدید مرکز قائم کر لیں گے تو پھر صوبہ وار مرکز بنائے جائیں گے اور پھر ضلع وار مرکز بنائے جائیں گے تا مقامی لوگ آسانی کے ساتھ دینی تعلیم حاصل کر سکیں.جب ایک غریب سے غریب آدمی کے دل میں یہ احساس ہوگا کہ اس کالڑکا گھر آکر سو جائے گا تو بڑی آسانی کے ساتھ وہ اپنے بچے کو تعلیم دلانے پر رضامند ہو جائے گا.

Page 106

* 1949 97 40 خطبات محمود اور اگر ہر ملک میں، ہر صوبہ میں، ہر ضلع میں اور ہر شہر میں الگ الگ مرکز بن گئے تو پھر احمدیت کی ترقی اور اسلام کے غلبہ کے آثار پیدا ہو جائیں گے.پس شہد کی مکھی کے سبق کو مت بھولو.بلکہ یہ ثابت کرنے کی کوشش کرو کہ خدا تعالیٰ نے تمہیں مکھی سے اس خوبی میں زیادہ اعلیٰ بنایا ہے جو کبھی کے لیے مخصوص ہے" الفضل 5 جون 1949 ء ) 1 : مسلم كتاب المساجد باب النَّهَى عَنْ نَشْدِ الضَّالَّةِ فِي الْمَسْجِدِ (الخ) 2 : السيرة الحلبية جلد 1 صفحہ 360 مطبوعہ مصر 1932ء

Page 107

* 1949 11 98 98 الحمد للہ کہ ربوہ میں جلسہ سالانہ با وجود مخالف حالات کے نہایت کامیاب رہا (فرمودہ 22 اپریل 1949ء بمقام لاہور ) تشهد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: اللہ تعالیٰ کے فضل اور اس کے رحم سے جماعت احمدیہ کا سالانہ جلسہ اس سال ہم اس جگہ پر کرنے میں کامیاب ہو گئے جس کو آئندہ جماعت احمدیہ کا مرکز بنانے کی تجویز ہے.بظاہر حالات ہمیں اس جگہ پر اس سال جلسہ سالانہ کرنے کی کوئی صورت نظر نہیں آتی تھی جیسا کہ میں نے اپنے ایک خطبہ میں بیان کیا تھا جماعت کے دوستوں نے مجھے کثرت سے لکھنا شروع کر دیا تھا کہ اس سال ربوہ میں جلسہ سالانہ کرنا نا مناسب ہے کیونکہ شدت کی گرمی کی وجہ سے لوگ وہاں ٹھہر نہیں سکیں گے اور پھر یہ فصلوں کے دن ہیں اور کٹائیوں کی وجہ سے لوگ کثرت سے اس جلسہ پر نہیں آسکیں گے.پھر نئی جگہ ہے ، وہاں رہائش کا کوئی بندوبست نہیں، پانی وغیرہ کی دقت ہے.یہ باتیں مجھے بھی نظر آتی تھیں مگر میں جب سے قادیان سے آیا ہوں میں یہ جانتا تھا کہ پانچ سالہ پیشگوئی کے مطابق 1949ء کا جلسہ سالانہ ہم کسی ایسی ہی جگہ کریں گے جس کو ہم اپنا کہہ سکیں.چنانچہ اس دفعہ کے جلسہ سالانہ کے متعلق یہ فیصلہ کیا گیا کہ کرسمس کی تعطیلات کی بجائے ایسٹر ہالیڈیز (EASTER HOLIDAYS) میں کیا جائے لیکن جب جلسہ سالانہ کے ایسٹر ہالیڈیز میں خطبات محمود

Page 108

* 1949 99 خطبات محمود کرنے کی تجویز ہوگئی اور یہ فیصلہ کیا گیا کہ اس سال جلسہ سالانہ دسمبر کی بجائے اپریل میں منعقد ہو تو لوگوں نے یہ وہم کرنا شروع کر دیا کہ وہاں گرمی ہو گی، کھانے ، پانی اور رہائش کی دقت ہوگی.پہلے خیال تھا کہ ایسٹر کی تعطیلات مارچ میں ہوں گی اور مارچ کا موسم اچھا ہوتا ہے زیادہ گرم نہیں ہے ہوتا لیکن جب ایسٹر کی تعطیلات اپریل میں نکلیں یا یوں کہو کہ جب علم ہوا کہ ایسٹر کی تعطیلات اپریل میں ہوں گی تو لوگوں کے دلوں میں یہ شبہ پیدا ہونا شروع ہوا کہ اس دفعہ وہاں جلسہ کرنا ناممکن ہے لیکن جو اُمید ہمارے ذہن میں تھی اس کے خلاف لوگ بہت زیادہ تعداد میں آئے.ہمارا خیال تھا کہ اس دفعہ جلسہ سالانہ پر صرف دس ہزار آدمی آسکیں گے کیونکہ ایک تو موسم اچھا نہیں تھا ، گرمی زیادہ تھی ، پھر یہ فصلوں کا وقت تھا اور کٹائیاں ہو رہی تھیں اور زمیندار کٹائی چھوڑ کر جلسہ پر نہیں آسکتے ہے تھے.پھر بعض لوگ اس لیے بھی نہ آسکے کہ نئی جگہ ہونے کی وجہ سے وہاں رہائش کا مناسب انتظام نہ تھا.لیکن تقسیم پرچی سے جو اندازہ لگایا گیا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ تین ہزار پانچ سو کے قریب وہ عورتیں تھیں جن کے کھانے کا انتظام لجنہ اماءاللہ کے ماتحت کیا جاتا تھا اور دس ہزار چھ سو کے قریب وہ پر چی تھی جس کا انتظام مردوں کے ذریعہ کیا جاتا تھا.اس طرح یہ تعداد پندرہ ہزار کے قریب ہو جاتی ہے.لیکن ڈیڑھ ہزار کے قریب وہ لوگ تھے جو کھانے کی پرچی میں شمار نہیں ہو سکتے تھے کیونکہ وہ جلسہ سننے کے لیے تو آجاتے تھے مگر کھانے کے وقت واپس چلے جاتے تھے.مثلاً احمد نگر میں چھ سات سو آدمی ٹھہرے ہوئے تھے وہ جلسہ سننے کے لیے آتے تھے اور پھر چلے جاتے تھے.کھانا ربوہ میں نہیں کھاتے تھے.اسی طرح بعض لوگ چنیوٹ میں بھی ٹھہرے ہوئے تھے.اس کے علاوہ چنیوٹ میں بھی کافی احمدی بستے ہیں.کچھ تو فسادات کے بعد وہاں آکر بس گئے ہیں اور کچھ وہاں کے باشندے ہیں.بہر حال سات آٹھ سو کے قریب ایسے لوگ تھے جو چنیوٹ میں ٹھہرے ہوئے تھے اور جلسہ سننے کے لیے روزانہ ربوہ آجاتے تھے اور چلے جاتے تھے.وہاں کھانا تی نہیں کھاتے تھے.احمد نگر اور چنیوٹ کے علاوہ بعض دوسری جگہوں سے بھی لوگ صرف جلسہ کے وقت آتے تھے حتی کہ ایک دوسو آدمی لائکپور سے بھی ایسا آتا تھا.پھر کچھ لوگ ایسے بھی تھے جنہوں نے کھانے کا اپنا انتظام کیا ہوا تھا.مثلاً سو کے قریب ہمارے ہی خاندان کے افراد تھے جن کا کھانے کا اپنا انتظام تھا.اس طرح پندرہ سو سے دو ہزار تک ان لوگوں کی تعداد ہو جاتی ہے جو لنگر

Page 109

$ 1949 100 خطبات محمود کے انتظام کے ماتحت کھانا نہیں کھاتے تھے بلکہ ان کا اپنا انتظام تھا.اس تعداد کو ملا کر سترہ ہزار کے قریب ایسے لوگ تھے جو اس سال جلسہ میں شامل ہوئے اور ان مخالف حالات کے باوجود شامل ہوئے جن کے ہوتے ہوئے بعض لوگ کہتے تھے کہ اس سال وہاں جلسہ سالانہ نہیں ہو سکے گا.بلکہ بعض مخالف ایسے تھے جنہوں نے ان مخالف حالات کی وجہ سے یہ پیشگوئیاں کرنی شروع کر دی تھیں کہ یہ جلسہ سالانہ اس سال نہیں ہو سکے گا مگر خدا تعالیٰ نے اپنا خاص فضل نازل کیا اور جلسہ ہوا اور صرف ہوا ہی نہیں بلکہ اس کامیابی کے ساتھ ہوا کہ لوگ حیران رہ گئے.چنانچہ اتنے لوگوں کا وہاں آجانا تو حُسنِ ظنی کے ماتحت بھی ہو سکتا ہے لیکن جو تکلیفیں اور مشکلات وہاں تھیں ان کے باوجود وہاں لوگوں کا رہنا اور ان کو خوشی سے برداشت کرنا یہ ایسی چیز تھی جو تائید الہی کے بغیر نہیں ہو سکتی تھی.مثلاً پہلے دن ہی سوا دو بجے رات تک بہت سے لوگ ایسے تھے جنہیں کھانا نہیں ملا تھا.مجھے ساڑھے بارہ بجے کے قریب یہ آوازیں آنی شروع ہوئیں کہ ٹھہرو! ابھی کھانا دیتے ہیں.ٹھہرو! ابھی کھانا دیتے ہیں.میں نے ایک آدمی لنگر خانہ بھجوایا اور اس طرح مجھے معلوم ہوا کہ روٹیاں ابھی پہنچی ہی نہیں.کچھ روٹیاں پہنچی ہیں لیکن وہ بہت تھوڑے لوگوں کو مل سکی ہیں.میں خود وہاں گیا اور ہے لنگر خانہ کے کارکنوں سے پوچھا کہ روٹی کا ابھی تک کیوں انتظام نہیں ہو سکا؟ اس پر مجھے بتایا گیا کہ ہماری تمام کوششیں بالکل ناکام ہو چکی ہیں.اس میں کچھ منتظمین کا بھی قصور تھا کیونکہ مجھے بتایا گیا تھا کہ اس دفعہ ساٹھ تندور لگائے جائیں گے لیکن بعد میں مجھے معلوم ہوا کہ صرف چالیس تندور لگائے گئے ہیں.بہر حال چونکہ عام طور پر خیال یہ تھا کہ جلسہ پر بہت کم لوگ آئیں گے اس لیے ی تندور کم لگائے گئے.باورچی بھی کم تھے.نتیجہ یہ ہوا کہ اُن پر کام کا بوجھ زیادہ پڑا.گرمی کا موسم تھا جوشیڈ (SHED) بنائے گئے تھے وہ کم تھے.پھر ایک طرف دیوار کھینچی ہوئی تھی جس کی وجہ سے ہوا نہیں آتی تھی.نتیجہ یہ ہوا کہ نو باور چی بے ہوش ہو گئے ان کو دیکھ کر باقی باورچیوں نے کام چھوڑ کے دیا اور کہہ دیا کہ ہم اپنی جان کو مصیبت میں کیوں ڈالیں؟ اس وجہ سے کو دس بجے تک روٹی کا کوئی ہے انتظام نہ ہو سکا بلکہ اُس وقت تک انہیں کام کرنے کی طرف کوئی رغبت ہی نہ تھی.تھوڑے سے کی چاول ابالے گئے اور وہ بچوں کو دیئے گئے.پھر بچوں توں کر کے روٹی کا انتظام کیا گیا اور صبح کے پانچ بجے تک روٹی تقسیم ہوتی رہی اور وہ بھی بہت تھوڑی تھوڑی.حالانکہ بعض لوگ ایسے بھی تھے b

Page 110

$1949 101 خطبات محمود جنہیں دو پہر کو بھی کھانا نہیں ملا تھا اور وہ رات بھی انہوں نے بغیر کھانے کے گزار دی.مگر بجائے اس کے کہ ان کی طبائع میں شکوہ پیدا ہوتا انہوں نے اس تکلیف کو بخوشی برداشت کیا.پھر دوسرا دن بھی اسی طرح گزرا.دوسرے دن بھی کھانا تیار کروانے کی بظاہر کوئی صورت نہیں تھی.آخر میں نے افسروں کو سرزنش کی اور انہیں مختلف تدابیر بتائیں، اپنے بیٹوں کو اس کام پر لگایا اور بالآخر بعض ایسی تدابیر نکال لی گئیں جن کے ذریعہ اگر پیٹ بھر کر نہیں تو کچھ نہ کچھ کھانا ضرور مل گیا.مثلاً ہمارے ملک میں ایک آدمی کی عام غذا تین روٹی ہے.لیکن میں نے یہ فیصلہ کیا کہ بجائے تین تین روٹی کے دو دو روٹیاں دی جائیں.پھر یہ تدبیر بھی اختیار کی گئی کہ نانبائیوں ٹھیکہ کر لیا گیا کہ اگر وہ اتنا کھانا تیار کر دیں تو انہیں مزدوری کے علاوہ انعام بھی دیا جائے گا.اس ނ طرح اُن غریب آدمیوں نے لالچ کی وجہ سے کام کیا اور ہمارے جلسہ کے دن گزر گئے.غرض ان تمام تکلیفوں کے باوجود ہمارے لوگوں کا بشاشت کے ساتھ وہاں بیٹھے رہنا بتاتا ہے کہ یہ محض خدا تعالیٰ کے فضل سے تھا.پانی کے لیے جو ہم نے نلکے لگوائے تھے وہ تمام نا کام گئے.البتہ پانی کے لیے جو سرکاری انتظام کیا گیا تھا اُس سے بہت کچھ فائدہ ہوا.لیکن پانی استعمال کرنے کی ہمارے لوگوں کو جتنی عادت ہوتی ہے اتنا پانی پھر بھی مہیا نہ ہو سکا.رہائش کی یہ حالت ہے تھی کہ جن بارکوں میں ساڑھے چار ہزار عورتوں کو رکھا گیا تھا اُن کے متعلق دیکھنے والا یہ تسلیم ہی ہے نہیں کرتا تھا کہ ان بارکوں میں اتنی عورتیں رہ سکتی ہیں.جن بارکوں میں عورتوں کو ٹھہرایا گیا تھا وہ گل سولہ تھیں.اُن میں اگر لوگوں کو پاس پاس بھی سُلا دیا جائے تو صرف دو ہزار آدمی آ سکتا ہے لیکن جلسہ پر جو عورتیں وہاں ٹھہری تھیں وہ ساڑھے چار ہزار کے قریب تھیں.یہ اس طرح ہوا کہ انہوں نے سامان اندر رکھ دیا اور آپ باہر سو کر گزارہ کر لیا.مردوں کا حال اس سے بھی بُرا تھا.تمام مرد بارکوں کے اندر سو نہیں سکتے تھے اس لیے مردوں کو عورتوں سے زیادہ تکلیف ہوئی.کچھ گنجائش اس طرح بھی تھی نکل آئی کہ میری تحریک کے ماتحت بعض دوست اپنے ساتھ بانس، کیلے اور رستلی 1 لے آئے اور خود کی خیمے لگا کر انہوں نے جلسہ کے دن گزارے.مجلس خدام الاحمدیہ کی طرف سے بھی یہ تحریک کر دی گئی ہے.چنانچہ میں نے جب جلسہ کے انتظامات دیکھنے کے لیے چکر لگایا تو بہت سے خیمے لگے ہوئے تھے.میرا خیال ہے کہ وہ سو ڈیڑھ سو کے قریب ہوں گے.پھر کچھ لوگ چنیوٹ ٹھہر گئے اور

Page 111

* 1949 102 خطبات محمود کچھ لوگ احمد نگر ٹھہر گئے اور اس طرح گزارہ ہو گیا.غرض اللہ تعالیٰ کے فضل سے باوجود مخالف حالات اور مختلف تکالیف اور مشکلات کے خدا تعالیٰ کی وہ خبر جس کو میں پہلے تعبیری طور پر سمجھتا تھا عملی طور پر بھی ثابت ہوگئی.اور وہی لوگ جو خیال کرتے تھے کہ اس سال جلسہ سالانہ نہیں ہو سکے گا انہیں بھی اقرار کرنا پڑا کہ اس جگہ رہائش کرنے کی وجہ سے لوگوں کی صحت پر بُرا اثر نہیں پڑا بلکہ اچھا اثر ہی پڑا ہے.اندھیریاں سارا دن چلتی رہتی تھیں اور گرد سارا دن آنکھوں میں پڑتی تھی لیکن لاہور میں میری آنکھوں کا یہ حال تھا کہ مجھے آنکھوں میں اتنی تکلیف تھی کہ مجھے کئی بار دوائی لگوانی پڑتی تھی.درد کی وجہ سے مجھے قحبہ ہو گیا تھا ہے کہ کہیں کوئی بیماری ہی نہ ہو.دن میں چار پانچ دفعہ مجھے لوشن ڈلوانا پڑتا تھا تب جا کر کہیں میری حالت قابل برداشت ہوتی تھی لیکن ربوہ میں تو دن کے قیام میں مجھے صرف دو دفعہ لوشن ڈلوانا پڑا تھی اور پہلے سے میری آنکھیں اچھی معلوم ہوتی تھیں.حالانکہ سارا دن مٹی آنکھوں میں پڑتی رہتی تھی.اسی طرح وہاں کے پانی کے متعلق ڈاکٹری رپورٹ یہ تھی کہ وہ زہریلا ہے اور انسان کے پینے کے نا قابل ہے.لیکن ہم نے دیکھا کہ بجائے اس کے کہ وہ پانی ہم پر کوئی بُرا اثر ڈالے اچھا اثر ڈالتا رہا.وہ بدمزہ ضرور تھا.ایک دن ایسا ہوا کہ میں نے مقابلہ میں پانی پی لیا یعنی دوسرا اور پانی میں نے پہلے پی لیا اور پھر وہاں سے نلکوں کا پانی پی لیا.نتیجہ یہ ہوا کہ قریباً سوا گھنٹے تک منہ کا ذائقہ خراب رہا.لیکن باوجود اس کے کہ ڈاکٹری رپورٹ اس پانی کے متعلق یہ تھی کہ وہ انسان کے پینے کے قابل نہیں اُس پانی نے بجائے تکلیف پہنچانے کے ہمیں فائدہ پہنچایا.جب میں لاہور سے گیا میرے معدہ میں سخت تکلیف تھی اور ایسا معلوم ہوتا تھا کہ جیسے میری انتڑیوں پر فالج گر رہا ہے لیکن وہاں میری طبیعت اچھی ہوگئی.اجابت بھی اچھی ہوتی رہی صرف آخری دن اسہال آنے شروع ہو گئے اور بیس کے قریب اسہال آئے لیکن باقی دنوں میں میری طبیعت اچھی رہی.میری بیوی ام ناصر نے بتایا کہ یہاں لا ہور میں میں ایک وقت کھانا کھایا کرتی تھی لیکن ربوہ میں دونوں وقت کھانا کھاتی رہی.آج لاہور واپس آکر پھر ایک دفعہ کھانا کھا رہی ہوں.اسی طرح کئی اور دوستوں نے بتایا کہ ربوہ کے پانی نے اُن کی صحتوں پر اچھا اثر ڈالا ہے اور باوجود گردوغبار اڑنے کے اُن کی آنکھوں کو آرام آگیا.میں نے دیکھا ہے کہ یہاں واپس آکر میری آنکھوں میں پھر تکلیف شروع ہو گئی.

Page 112

* 1949 103 خطبات محمود یہاں آکر میں دو تین دفعہ دوائی ڈلوا چکا ہوں.غرض خدا تعالیٰ نے محض اپنے فضل سے ایسے سامان کر دیے کہ بجائے اس کے کہ اچھا ی کھانا نہ ملنے کی وجہ سے ہماری صحت پر کوئی بُرا اثر پڑتا ہماری صحت پر اچھا اثر پڑا.بجائے اس کے کہ وہاں پانی اچھا نہ ملنے کی وجہ سے ہماری صحتوں پر بُرا اثر پڑتا ربوہ کے پانی نے ہماری صحتوں پر اچھا اثر ڈالا.بجائے اس کے کہ گردوغبار اڑنے کی وجہ سے ہماری آنکھیں خراب ہوتیں ہماری آنکھیں پہلے سے بھی اچھی ہو گئیں.وہاں کے قیام میں آنکھوں میں اتنی گرد پڑی کہ اگر سال بھر کی گرد کو جمع کیا جائے تو اتنی نہ ہو گی لیکن اُس گرد و غبار نے ہماری آنکھوں کو اور بھی منور کر دیا.اسی طرح روٹیوں اور سالن کے مہیا کرنے میں بہت سی مشکلات تھیں لیکن وہی روٹیاں جو کچھی ہوتی ہے تھیں بجائے اس کے کہ ہمارے معدوں کو خراب کرتیں اُن کے کھانے سے ہمارے معدوں میں اور زیادہ طاقت محسوس ہونے لگ گئی.پھر علاقہ نیا تھا اور اس وجہ سے بھی بعض وقتوں کا احتمال تھا مگر اس میں بھی خدا تعالیٰ کا خاص فضل ہوا اور وہاں تبلیغ کثرت سے ہوئی.قادیان کے جلسوں پر ضلع جھنگ کے صرف چالیس پینتالیس آدمی آیا کرتے تھے لیکن اس جلسہ پر سب سے زیادہ آنے والے جھنگ کے لوگ تھے.لجنہ اماءاللہ نے عورتوں کی تعداد کے متعلق ضلع وار رپورٹ دی.اس کے مطابق جلسے پر آنے والی ایک سو پندرہ عورتیں ایسی تھیں جو ضلع جھنگ سے آئی تھیں.چونکہ ہم نئے نئے وہاں گئے تھے اردگرد کے لوگوں نے ہمارے متعلق باتیں سنیں تو وہ جلسہ پر آگئے.اس طرح تبلیغ کے لیے ایک اور رستہ نکل آیا.میرے ایک عزیز لالیاں میں ٹھہرے ہوئے تھے.ربوہ میں چونکہ رہائش کا خاص انتظام نہیں تھا اس لیے وہ لالیاں ٹھہر گئے اور ڈاک بنگلہ ریز رو کروالیا.انہوں نے مجھے بتایا کہ جب اسٹیشن پر رخصت ہونے لگے تو ایک پٹھان شور مچا رہا تھا.وہ پٹھان قادیان نہیں آیا تھا لیکن ربوہ کا جلسہ اُس نے دیکھا تھا.چونکہ یہ لوگ اسلامی ممالک کے قریب رہتے ہیں اس لیے اسلامی باتوں کا ان کے دلوں پر اچھا اثر ہوتا ہے.اُس عزیز نے بتایا کہ وہ پٹھان شور مچا رہا تھا کہ ایسا جلسہ ہم نے پہلے کبھی نہیں دیکھا اور نہ ایسی تقریر ہم نے پہلے سنی ہے.اُس کے پاس کوئی مولوی طرز کا ایک آدمی کھڑا تھا اُس نے کہا یہ لوگ تو کافر ہیں، ان کا جلسہ کیا اور ان کی تقریریں کیسی؟ اُس نے کہا وہ کافر وہ

Page 113

* 1949 104 خطبات محمود نہیں ہوسکتا وہ تو سو بکرا روز کھلاتا ہے وہ کافر کیسے ہو سکتا ہے.یہ اسلامی تہذیب کا اثر تھا جو اس پٹھان کی طبیعت پر ہوا.پٹھان ایک مہمان نواز قوم ہے.اُس نے جب جلسہ پر مہمان نوازی کا انتظام دیکھا تو اس کی طبیعت پر بہت اچھا اثر ہوا.اسی طرح پونچھ کے علاقہ کی ایک عورت میری ایک بیوی کے پاس آئی.پہاڑی علاقہ کے لوگ عام طور پر مہمان نواز ہوتے ہیں لیکن وہ ایسے علاقہ کی تھی جو مہمان نواز نہیں تھا.وہ عورت میری ایک بیوی کے پاس آئی اُن سے کہا کہ ہمارے ہاں تو مہمان آئے تو چار پائی اُلٹ دیتے ہیں اور مہمان کو کھانا نہیں کھلاتے.آپ تو ساروں کو کھانا دیتے ہیں.بہر حال نئی جگہ اور نیا علاقہ ہونے کی وجہ سے کئی نئے لوگوں کو ہماری باتیں سننے کا موقع ملا.میں لا ہور والوں سے یہ کہنا چاہتا ہوں اگر چہ یہ بات میری عقل میں نہیں آتی کہ لاہور اس دفعہ سیکنڈ رہا ہے.لجنہ اماءاللہ کی طرف سے جو عورتوں کی تعداد مجھے دی گئی ہے اُس کے مطابق 975 عورتیں لاہور کی تھیں.یہ بات میں نہیں سمجھ سکا کہ اتنی عورتیں کہاں سے آئیں؟ دو اڑھائی سو تک تو بات سمجھ میں آجاتی ہے.اتنی عورتیں تو قادیان کی مہاجر عورتیں ہو سکتی ہیں لیکن پھر بھی ساڑے چھ سو کی تعداد باقی رہ جاتی ہے.اور اگر 975 عورتیں لاہور کی تھیں تو جلسہ میں مرد بھی شامل ہوتے تھے.اگر اُن کی حاضری کی بھی یہی نسبت تھی تو لاہور کا ضلع حاضری کے لحاظ سے دوسرے نمبر پر آجاتا ہے.سرگودھا ، لائکپور اور سیالکوٹ کے ضلعے اپنی احمدی آبادی کے لحاظ سے بہت کم شامل ہوئے.کسان اضلاع سے آنے والے لوگوں کی تعداد بہت زیادہ ہونی چاہیے تھی.آبادی کے لحاظ سے ان ضلعوں سے آنے والے بہت کم لوگ تھے.ضلع سرگودھا سے آنے والوں کی تعداد باقی دو اضلاع سے نسبتاً زیادہ تھی.لائکپور اور سیالکوٹ کی تعداد بہت پیچھے تھی.بہر حال اللہ تعالیٰ نے ہمارا جلسہ نہایت کامیابی سے گزارا.اس میں شبہ نہیں کہ وقت کی کمی کی وجہ سے اور خرابی صحت کی وجہ سے میری تقریر مکمل نہ ہو سکی.تقریر کے بعض حصے رہ گئے.اگر خدا تعالیٰ نے چاہا تو میں اُن حصوں کو مضمون کی صورت میں شائع کرا دوں گا.آئندہ اگر خدا نے کی چاہا اور ہمیں اپنے ارادوں کی تعمیل کی توفیق مل گئی تو اگلا جلسہ سالانہ دسمبر کے ایام میں ہوگا.اگلے جلسہ سالانہ میں اب صرف آٹھ مہینے باقی رہ گئے ہیں.پس اس کے لیے بھی ابھی سے ہماری وی

Page 114

* 1949 105 خطبات محمود جماعت کو تیار رہنا چاہیے.میں نے جلسہ پر جماعت کو توجہ دلائی تھی کہ دوستوں کو چاہیے جس طرح وہ قادیان بار بار آیا جایا کرتے تھے وہ ربوہ میں بھی بار بار آیا جایا کریں.اس کے کئی فائدے ہوں گے.ایک تو اجتماعی طور پر مل جانے سے روحانیت میں چلا پیدا ہوتا ہے.صحابہ کرام جب مل کر بیٹھتے تھے تو ہمیشہ یہ کہا کرتے تھے کہ آؤ! رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی باتیں کریں تا جلا پیدا ہو.دوسرے کام کرنے والوں کے اندر بیداری پیدا ہوگی.یہاں ہماری یہ ضرورت تھی کہ ہمارے پاس دفاتر کے لیے کافی جگہ نہیں تھی اس لیے ایسی کوئی صورت نہیں تھی کہ یہاں آنے والے لوگ بیٹھ سکیں.اب وہاں ناظروں کے الگ الگ کمرے ہوں گے اور آنے جانے والوں کے لیے سہولت پیدا کر دیا جائے گی.پھر جب لوگ وہاں جائیں گے تو کارکنوں کے اندر احساس پیدا ہو گا کہ جماعت ہمارے کاموں کو دیکھ رہی ہے، ہمیں اچھی طرح سے کام کرنا چاہیے.تیسرے اردگرد کے لوگوں پر بھی اس کا اثر ہوگا.جیسے میں نے اس پٹھان کی بات سنائی ہے.لوگوں کے اندر یہ احساس پیدا ہو گا کہ ان لوگوں کو اپنے مرکز کی طرف میلان اور توجہ ہے اور یہ لوگ عموماً یہاں آتے جاتے رہتے ہی ہیں.ایک دوسرے کی مدد کرنے اور آپس میں تعاون کرنے سے ان کے اندر یہ احساس پیدا ہو جائے گا کہ یہ کام کرنے والی جماعت ہے اور ان سے ملنا اور ان سے تعلق رکھنا دنیوی اور دینی دونوں رنگ میں بہتر ہے.اس دفعہ جلسہ کے لیے سب سے بڑی دقت پانی کی تھی.جب یہ فیصلہ ہوا کہ جلسہ اپریل میں ہوگا اور ر بوہ میں ہوگا تو ہم نے اُس وقت اس کام پر دس ہزار روپیہ لگایا جس میں سے چار ہزار روپیہ کی رقم ایسی ہے جو ہمارے پھر بھی کام آسکتی ہے.باقی چھ ہزار رو پیدا ایسا ہے جو ہم نے پانی مہیا تی کرنے پر خرچ کیا.ایک ہزار روپیہ تو بورنگ کے لیے ہم گورنمنٹ کو دے چکے ہیں لیکن بورنگ ابھی تک کامیاب نہیں ہو سکا.بعض اور ذرائع کا بھی پتا چلا ہے.ہم کوشش کریں گے کہ کسی نہ کسی طرح پانی مہیا کیا جائے ورنہ نہر سے یا دریا سے پانی لینے کی کوشش کی جائے گی.بہر حال میں سمجھتا ہوں کہ خدا تعالیٰ کوئی نہ کوئی ایسا سامان کر دے گا کہ ہمیں پانی میسر آجائے گا اور اس کی وجہ سے کوئی ای تکلیف نہیں ہوگی.

Page 115

خطبات محمود 106 * 1949 جلسہ کے اختتام کے بعد جس دن ہم ربوہ سے واپس چلے (یعنی 21 اپریل 1949ء بروز جمعرات) مجھے ایک الہام ہوا.میں جانتا ہوں کہ مخالف اس سے اور بھی چڑیں گے، شور مچائیں گے.میں نے جب افتتاحی تقریر کی تھی تو چنیوٹ والوں نے شور مچایا تھا کہ یہ اپنے آپ کو ابراہیم قرار دیتے اور اسماعیل بنتے ہیں.حالانکہ ہم تو حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کو اچھا سمجھتے ہیں.وہ خواہ چڑ میں یا بُرا منائیں ہم نے تو ابراہیم اور اسماعیل ہی بنا ہے.وہ اگر چاہیں تو اپنے آپ کو بُرے لوگوں سے تشبیہہ دے لیا کریں.اب بھی شاید وہ چڑ میں گے مگر ہم خدا تعالی کی باتوں کو چھپا نہیں سکتے.غرض میں نے جس دن ربوہ سے واپس آنا تھا خاندان کی اکثر سواریاں ٹرین کے ذریعہ آئیں اور میں موٹر کے ذریعہ آیا.اس سے ایک تو پیسے کی بچت ہوگئی کیونکہ اگر میں موٹر پر نہ آتا تو موٹر نے خالی آنا تھا.دوسرے وقت کی بچت ہوگئی.میں ، تین چار مستورات اور دفتر پرائیویٹ کی سیکرٹری کے چند آدمی ہم موٹر پر آئے اور باقی افراد ٹرین کے ذریعہ.پہلے ٹرین لیٹ تھی اور اس کے آنے میں دیر ہوگئی اور یقین ہو گیا کہ یہ گاڑی لاہور کو جانے والی گاڑی کو نہیں پکڑ سکے گی اس لیے کی ہم نے سب سواریوں کو واپس بلا لیا کہ سب کو لاریوں میں لے جائیں گے.لیکن جب ٹرین آئی تو تی وی ایک انسپکٹر جو ساتھ تھا اُس نے کہا کہ کچھ ڈبے لاہور سے اگلے جنکشن پر آئے ہوئے ہیں اور آپ لوگوں کے لیے ریزرو ہیں اس لیے اگلی گاڑی ان سواریوں کو لیے بغیر نہیں چلے گی.اس اطلاع پر پھر سواریوں کو ٹرین کے ذریعہ بھیج دیا گیا.جب ٹرین چلی تو معلوم ہوا کہ ان کا کھانا رہ گیا ہے.چنانچہ کھانا موٹر کے ذریعہ چنیوٹ بھجوایا گیا.اب صورت یہ تھی کہ جب تک موٹر واپس نہ آئے میں لا ہور نہیں آسکتا تھا.اس لیے میں لیٹ گیا اور مجھ پر ایک غنودگی سی طاری ہوگئی.اس نیم غنودگی کی حالت میں میں نے دیکھا کہ میں خدا تعالیٰ کو مخاطب کر کے یہ شعر پڑھ رہا ہوں.جاتے ہوئے حضور کی تقدیر نے جناب پاؤں کے نیچے سے میرے پانی بہا دیا میں نے اسی حالت میں سوچنا شروع کیا کہ اس الہام میں جاتے ہوئے سے کیا مراد ہے؟ اس پر میں نے سمجھا کہ مراد یہ ہے کہ اس وقت تو پانی دستیاب نہیں ہو سکا لیکن جس طرح حضرت اسماعیل علیہ السلام کے پاؤں رگڑنے سے زمزم پھوٹ پڑا تھا اسی طرح اللہ تعالیٰ کوئی ایسی

Page 116

$ 1949 107 خطبات محمود صورت پیدا کر دے گا کہ جس سے ہمیں پانی بہ افراط میسر آنے لگے گا.اگر پانی پہلے ہی مل جاتا تو لوگ کہہ دیتے کہ یہ وادی بے آب و گیاہ نہیں یہاں تو پانی موجود ہے.پھر اس وادی کو بے آب و گیاہ کہنے کے کیا معنے ؟ اب ایک وقت تو پانی کے بغیر گزر گیا اور باوجود کوشش کے ہمیں پانی نہ مل سکا.آئندہ خدا تعالیٰ کوئی نہ کوئی صورت ایسی ضرور پیدا کر دے گا کہ جس سے ہمیں پانی مل جائے گا.اس لیے فرمایا کہ جاتے ہوئے حضور کی تقدیر نے جناب پاؤں کے نیچے سے میرے پانی بہا دیا پاؤں کے نیچے سے مراد یہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے مجھے اسماعیل قرار دیا ہے.جس طرح وہاں اسماعیل علیہ السلام کے پاؤں رگڑنے سے پانی بہہ نکلا تھا اسی طرح یہاں خدا تعالیٰ میری دعاؤں کی وجہ سے پانی بہا دے گا.یہ ایک محاورہ ہے جو محنت کرنے اور دعا کرنے کے لیے استعمال ہوتا ہے.ہم نے اپنا پورا زور لگا دیا تا ہمیں پانی مل سکے لیکن ہم اپنی کوششوں میں کامیاب نہ ہوئے.اب خدا تعالیٰ نے میرے منہ سے یہ کہلوا دیا کہ پانی صرف تیری دعاؤں کی وجہ سے نکلے گا.ہم نہیں جانتے کہ یہ پانی کب نکلے گا اور کس طرح نکلے گا لیکن بہر حال یہ الہامی شعر تھا جس سے معلوم ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ کوئی نہ کوئی صورت ایسی ضرور پیدا کر دے گا جس کی وجہ سے وہاں پانی کی کثرت ہو جائے گی انشاء اللهُ تَعَالٰی.وو اس شعر میں حضور اور جناب دو لفظ اکٹھے کہے گئے ہیں جو عام طور پر اکٹھے استعمال نہیں ہوتے لیکن چونکہ یہاں ادب کا پہلو مراد ہے اس لیے آپ کے لفظ کی بجائے یہاں حضور اور جناب کے لفظ استعمال ہوئے ہیں.بہانے سے مطلب یہ ہے کہ پانی وافر ہو جائے گا.اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے کہ یہ الہام کس رنگ میں پورا ہو گا.ممکن ہے ہمیں نہر سے پانی مل جائے یا دریا سے پانی لے لیا جائے یا ہمیں کوئی اور جگہ مل جائے جہاں پانی ہو اور اس وقت تک ہمیں اُس کا علم نہ ہو.بہر حال یہ نہایت ہی خوش کن الہام ہے اور یہ الہام حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ایک الہام کی تائید کرتا ہے جو یہ ہے يُخْرِجُ هَمُّهُ وَغَمُّهُ دَوْحَةَ إِسْمَاعِيلَ 2 یعنی خدا تعالیٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے غم اور فکر اور دعاؤں کی وجہ سے ایک سماعیلی درخت پیدا کرے گا.وہ دَوحَةَ إِسْمَاعِیلَ میں ہی ہوں اور اس سے بھی ہجرت کی خبر نکلتی.

Page 117

* 1949 108 خطبات محمود پیدا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو بتایا گیا تھا کہ خدا تعالیٰ تیری اولاد میں سے ایک ایسا کرے گا جو ایک بے آب و گیاہ وادی میں آبادی کے سامان پیدا کرے گا.پہلے تو ہم اس کی قیاسی کی تشریح کرتے تھے لیکن اب خدا تعالیٰ نے میرے ذریعہ عملی طور پر اس کی تشریح کر دی اور مجھے سماعیل قرار دیتے ہوئے فرمایا جاتے ہوئے حضور کی تقدیر نے جناب پاؤں کے نیچے سے میرے پانی بہا دیا یعنی جہاں میرا پاؤں پڑا خدا تعالیٰ نے وہاں پانی بہا دیا.پس یہ اللہ تعالیٰ کا ایک زبردست نشان ہے جو پورا ہوا اور بڑی شان کے ساتھ پورا ہوا.اور جیسا کہ خدائی کلام سے معلوم ہوتا ہے بہت سے اور نشانات اس نشان کے ساتھ وابستہ ہیں.لوگ سمجھتے تھے کہ وہ احمدیت کو توڑ دیں گے.وہ سمجھتے تھے کہ وہ احمدیت کو کچل دیں گے.انہوں نے یہ خیال کر لیا تھا کہ یہ جماعت اپنے مرکز سے علیحدہ ہو کر ٹوٹ جائے گی لیکن یہ جماعت وہ جماعت نہیں جس کو کوئی انسان کچل سکے.خدا تعالیٰ نے بعض اس قسم کے حیوانی کیڑے ی پیدا کیے ہیں کہ اگر انہیں کاٹ دیا جائے تو بجائے اس کے کہ وہ مر جائیں (جیسے انسان مر جاتا ہے یہ بکرے کو کاٹ دیا جائے تو وہ مر جاتا ہے، گائے، بھینس، بھیڑ ، گھوڑا وغیرہ جانوروں کو درمیان سے کاٹ دیا جائے تو وہ مر جاتے ہیں) ان کا اگر دھڑ کاٹ دیا جائے تو وہ مرتے نہیں بلکہ ان کے دھڑ کے دونوں حصے دو پورے وجود بن جاتے ہیں.ایک آدھا حصہ ایک طرف پورا جانور بن جاتا ہے اور دوسرا آدھا حصہ دوسرا جانور بن جاتا ہے.یہی صورت خدا تعالیٰ کے قائم کردہ ابتدائی سلسلوں کی ہوتی ہے.قومیں جب بوڑھی ہو جاتی ہیں، جب ضعیف اور کمزور ہو جاتی ہیں اور ان پر کوئی مصیبت آتی ہے تو وہ مر جاتی ہیں لیکن انبیاء کے ذریعہ ان کی ابتدا ہوتی ہے تو وہی تو میں ابتدائی کیڑوں کی طرح ہو جاتی ہیں.ان کا دھڑ اگر درمیان سے کاٹ دیا جائے تو بجائے اس کے کہ وہ مر جائیں ان کی کے دونوں حصے الگ الگ پورا وجود بن جاتے ہیں.اس طرح اللہ تعالیٰ بتاتا ہے کہ یہ قوم کاٹنے کی سے ہرگز نہیں مرے گی بلکہ کاٹنے سے اس کے ایک وجود کی بجائے دو وجود بن جائیں گے اور پھر سے چار وجود بن جائیں گے اور اسی طرح یہ قوم ترقی کرتی چلی جائے گی.بہر حال خدا تعالیٰ کے اور بہت بڑے بڑے نشانات ہیں جو ہمارے اس ابتلاء سے وابستہ ہیں.اگر تم اپنے اندر ایمان کی ہے دو

Page 118

* 1949 109 خطبات محمود زیادتی پیدا کر لو، اگر تم تقوی میں زیادتی پیدا کرلو تو تم خدا تعالیٰ کے ان نشانات کو دیکھو گے تم اپنے ای ایمان کو تازہ کرو گے، اپنی اولاد کے ایمان کو تازہ کرو گے اور دوسروں کو اپنی طرف کھینچ کر لانے میں کامیاب ہو جاؤ گے.مومن کا کام اللہ تعالیٰ پر توکل کرنا ہوتا ہے.کام تو خدا تعالیٰ کرتا ہے لیکن ہمارا فرض بہ ہے کہ ہم وہی کچھ کریں، ہم وہی کچھ سوچیں اور ہم وہی کچھ کہیں جو خدا تعالیٰ نے کہا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے آتھم کے متعلق پیشگوئی فرمائی اور پیشگوئی کی میعاد گزر گئی.میں اُس وقت چھ سات سال کی عمر کا تھا.مجھے وہ نظارہ خوب یاد ہے.جس جگہ قادیان میں بکڈپو ہوا کرتا تھا اس کے ساتھ والے کمرہ میں موٹر ہوا کرتے تھے اور اس کے مغرب والے کمرہ میں ہے حضرت خلیفۃ اسبح الاول پہلے درس دیا کرتے تھے یا مطب کیا کرتے تھے.آخری ایام میں مولوی قطب الدین صاحب مرحوم وہاں مطب کرتے رہے ہیں.اس کے ساتھ پھر ایک کوٹھڑی تھی جس میں کتابیں رکھی ہوتی تھیں.اور جس کمرے میں اب موٹر ہوتے تھے اس میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا پریس تھا اور اس کمرے میں جہاں حضرت خلیفہ المسیح الاول مطب فرمایا کرتے تھے فرمہ بندی 3 ہو جاتی تھی اور پھر کوٹھری میں کتا بیں رکھ دی جاتیں تھیں.حضرت خلیفتہ امسیح الاول کے بعض شاگرد بھی وہاں رہا کرتے تھے.اور چونکہ اُن دنوں بہت کم لوگ ہوا کرتے تھے اس لیے عام طور پر جو لوگ وہاں آتے تھے حضرت خلیفہ المسیح الاول کے شاگرد بن جاتے تھے یہی مدرسہ تھا اور حضرت خلیفہ اسیح الاول ہی پڑھایا کرتے تھے.اس کے علاوہ اور کوئی مدرسہ نہیں تھا.وہ لوگ آپ کے شاگر د بھی ہوتے تھے اور سلسلہ کے خادم بھی ہوتے تھے.مجھے خوب یاد ہے کہ میں چھوٹا سا تھا کہ جب آٹھم کی پیشگوئی کا وقت پورا ہوا.غالباً یہ 1894ء کے آخر یا 1895ء کے شروع کی بات ہے.میں اُس وقت ساڑھے پانچ یا چھ سال کا تھا.ابھی تک وہ نظارہ مجھے یاد ہے.اُس وقت تو میں اسے نہیں سمجھتا تھا کیونکہ میری عمر بہت چھوٹی تھی لیکن اب واقعات سے میں سمجھتا ہوں کہ جس دن آتھم کی پیشگوئی کے پورا ہونے کا آخری دن تھا یعنی پندرہ مہینے ختم ہونے تھے اُس دن اتنا گہرام مچا ہوا تھا کہ لوگ رورو کر چیخیں مار رہے تھے اور دعا کرتے تھے کہ خدایا! آتھم مر جائے.یہ عصر کے بعد اور مغرب سے پہلے کی بات ہے.پھر نماز کا کی

Page 119

$ 1949 110 خطبات محمود وقت ہوا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے نماز پڑھائی اور نماز کے بعد آپ مجلس میں بیٹھ گئے.گو اُس عمر میں میں باقاعدہ مجلس میں حاضر نہیں ہوتا تھا لیکن کبھی کبھی مجلس میں بیٹھ جاتا تھا.اُس دن میں بھی مجلس میں بیٹھ گیا.اُس دن جو لوگ رو رو کر دعائیں کرتے رہے تھے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اُن کے فعل پر ناراضگی کا اظہار کیا اور فرمایا کیا خدا تعالیٰ سے بھی بڑھ کر کسی انسان کو اس کے کلام کے لیے غیرت ہو سکتی ہے؟ خدا تعالیٰ نے جب یہ بات کہی ہے کہ ایسا ہوگا تو ہمیں ایمان رکھنا چاہیے کہ ایسا ضرور ہو گا.اور اگر ہم نے خدا تعالیٰ کی بات کو غلط سمجھا ہے تو خدا تعالیٰ اس بات کا پابند نہیں ہو سکتا کہ وہ ہماری غلطی کے مطابق فیصلہ کرے.ہمارا کام صرف اتنا ہے کہ جب ہم نے ایک شخص کو راستباز مان لیا ہے تو اس کی باتوں پر یقین رکھیں.غرض مومن کا کام یہ ہے کہ وہ خدا تعالیٰ پر توکل کرے.خدا تعالیٰ کی بات بہر حال پوری ہو کر رہتی ہے.صلح حدیبیہ کے موقع پر جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ساتھیوں کو لے کر عمرہ کے لیے مکہ تشریف لے گئے اور عمرہ نہ ہو سکا تو اس سے حضرت عمرؓ کو سخت صدمہ ہوا.آپ حضرت ابو بکر کی کے پاس تشریف لے گئے اور فرمایا یہ کیا ہوا ہے؟ اس پر حضرت ابوبکر نے فرمایا عمر! یہ بتاؤ یہ آدمی سچا ہے یا نہیں؟ اگر تمہیں یقین ہے کہ یہ آدمی سچا ہے تو پھر اس گھبراہٹ کے کیا معنے ہیں؟ بہر حال جو کچھ وہ کہتا ہے وہی ٹھیک ہے.ایسا ہی ایک واقعہ حضرت خلیفہ مسیح الاول کا ہے.حضرت خلیفہ المسح الاول فرمایا کرتے تھے کہ جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے نبوت کا دعوی کیا اور آپ کی کتب فتح اسلام اور توضیح مرام شائع ہوئیں تو اُس وقت میں جموں میں تھا اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کی بیعت کر چکا تھا.میرے غیر احمدی دوست مجھے ہمیشہ یہ کہا کرتے تھے کہ آپ نے مرزا صاحب کو ماننے میں غلطی کی ہے.ان میں سے ایک لاہور آیا اور امرتسر سے جہاں وہ کتا بیں چھپ رہی تھیں ان کے بعض فرمے لے گیا اور جموں واپس جا کر اپنے دوستوں سے کہنے لگا کہ اب میں نورالدین کو زیر کرلوں گا.اب میں ایسا سامان لایا ہوں کہ وہ بچ نہیں سکتا.ان کا خیال تھا کہ مرزا صاحب نے چونکہ مامور من اللہ اور نبی ہونے کا دعوی کیا ہے اور مولوی نورالدین صاحب کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بہت عشق ہے اس لیے وہ یہ کبھی برداشت نہیں کر سکیں گے کہ آپ کے بعد کوئی شخص نبوت کا

Page 120

* 1949 111 خطبات محمود دعوی کرے اور وہ فورا اپنے خیالات کو چھوڑ دیں گے.وہ شخص مجلس میں اپنے دوستوں سمیت آیا ، کتاب کے ورق اس کی جیب میں تھے.وہ سب آپس میں مسکرا مسکرا کر باتیں کرنے لگے اور مجھے کہا کہ ہم نے آپ سے ایک بات پوچھنی ہے.اگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی اور شخص نبوت کا دعوی کرے تو آپ کا اُس کے متعلق کیا خیال ہے؟ آپ فرمایا کرتے تھے مجھے یہ و ہم بھی نہ تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے نبوت کا دعوی کیا ہے یا کہیں لکھا ہے کہ آپ مامور من اللہ اور نبی ہیں.میں نے اصولی طور پر انہیں جواب دیا اور کہا کہ یہ تو اُس شخص پر منحصر ہے جس نے دعوی کیا ہے.ہمیں پہلے یہ معلوم کرنا ہوگا کہ وہ ہے کیسا ؟ اگر وہ راستباز ہے تو پھر جو کچھ وہ کہتا ہے ٹھیک کہتا ہے.اور اگر وہ جھوٹا ہے تو وہ خواہ چھوٹی سی بات بھی کہے تو وہ جھوٹی ہے.انہوں نے کہا قرآن کریم میں تو لکھا ہے اور حدیثوں میں بھی آتا ہے اور آپ کا بھی عقیدہ ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اور کوئی نبی نہیں آئے گا.میں نے کہا اگر وہ شخص واقع میں راستباز ہے تو جو کچھ وہ کہتا ہے ٹھیک کہتا ہے اور میرا عقیدہ غلط ہے.اس پر انہوں نے کہا یہ تو ہے بالکل ہی گیا گزرا ہے یہ اب واپس نہیں آسکتا.لیکن یہ ایک سیدھا سادا مسئلہ ہے.اگر کوئی شخص تعصب سے بالکل خالی ہو کر دیکھے تو وہ ہے سمجھ سکتا ہے کہ اگر کوئی شخص واقع میں سچا اور راستباز ہے تو اس کی ہر بات کچی ہے.یہ نہیں ہوسکتا کہ وہ راستباز بھی ہو اور غلط باتیں بھی کہے.پس اگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بچے ہیں اور راستباز ہیں تو آپ نے جو کچھ کہا پورا ہو کر رہے گا.حوادثات زمانہ جھوٹے ہیں، ہمارے کان جھوٹے ہیں، ہماری آنکھیں جھوٹی ہیں مگر خدا تعالیٰ کی بات سچی ہے.پھر یہاں تو خدا تعالیٰ نے صرف اتنی بات ہی نہیں رکھی بلکہ کثرت سے مجھے بھی اس نے خبریں دیں جن سے صاف پتا لگتا ہے کہ ان باتوں کا کہنے والا کوئی پاگل اور جھوٹا نہیں ہو سکتا.اور اگر ہم نے کوئی بات غلط سمجھی ہو تو ہمیں سمجھ لینا چاہیے کہ ہمارا خیال غلط ہے.بچے کی بات بہر حال سچی ہوگی ورنہ وہ راست باز کیسے کہلا سکتا ہے.ان پیشگوئیوں کے مطابق جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرما ئیں یقیناً وہ کی زمانہ آنے والا ہے کہ وہی چیز جو دنیا کی نظروں میں ناممکن نظر آتی ہے ممکن نظر آنے لگ جائے گی.بلکہ لوگ یہ کہنے لگ جائیں گے کہ ایسا تو ہو ہی جانا تھا کیونکہ حالات ہی اس قسم کے تھے.بھلا آج

Page 121

* 1949 112 خطبات محمود سے سات آٹھ سال پہلے کیا کوئی کہہ سکتا تھا کہ ہندوستان تقسیم ہو جائے گا؟ کیا کوئی یہ کہہ سکتا تھا کہ لوگ ہتھیاروں کے ساتھ ایک دوسرے پر حملے کریں گے اور قادیان سے احمدیوں کو نکلنا پڑے گا آج سے چند سال پہلے کوئی مان ہی نہیں سکتا تھا کہ کسی دن ملک تقسیم ہو گا.لیکن وہ بات جو ناممکن تھی وہ وقوع میں آئی اور پیشگوئیوں کے مطابق پوری ہوئی اور اپنی تفصیلات کے ساتھ ہوئی.پس وہ خدا جس نے جب دنیا نہیں سمجھ سکتی تھی کہا تھا کہ ہندوستان تقسیم ہو گا ، احمد یوں کو قادیان چھوڑ کر آنا پڑے گا، خون خرابہ ہوگا اور جو اُس نے کہا تھا وہ ہو گیا.اُسی خدا نے جب یہ کہا ہے کہ احمدی پھر اپنے پاؤں پر کھڑے ہو جائیں گے.وہ پھر ایک مرکز میں جمع ہو کر دنیا پر غالب آجائیں گے اور دنیا کو فتح کرلیں گے تو یہ بات بھی اُسی طرح ہی پوری ہوگی جس طرح اُس کی پہلی باتیں پوری ہوئیں“.الفضل 18 اگست 1949 ء ) 1 : متلی سن کی باریک ڈوری (فیروز اللغات اردو ترجمہ فیروز سنز لمیٹڈ ) 2 : تذکرہ صفحہ 595 ایڈیشن چہارم فرمہ چھاپنے کے لیے سیسے کے حروف کی ترتیب دی ہوئی پلیٹ ، ٹائپ کے حروف کا چوکھٹا یا پتھر وغیرہ پر جمائی ہوئی تحریر.چھاپنے کے لیے تیار کیا ہوا کاغذ کا ایک تاؤ( اردو لغت تاریخی اصول پر جلد 13.اردو لغت بورڈ کراچی جون 1991ء)

Page 122

* 1949 113 (12) خطبات محمود جماعت احمد یہ لاہور کی اہمیت اور اس کی ذمہ داریاں (فرمودہ 6 مئی 1949ء بمقام لاہور ) تشهد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: آنکھ کی تکلیف کی وجہ سے میرا یہاں جمعہ پڑھانے کے لیے آنا اور روشنی میں نکلنا کی مناسب نہیں تھا لیکن پچھلے جمعہ چونکہ ناغہ ہو گیا تھا اس لیے میں نے مناسب سمجھا کہ آج جمعہ کی نماز پڑھا آؤں.اس مہینہ میں میرا ارادہ ہے کہ اگر خدا تعالیٰ چاہے تو میں باہر پہاڑ پر چلا جاؤں اور اسی طرح سندھ کے کام کو بھی دیکھنے کے لیے جاؤں.اس لیے غالبا ایک جمعہ یا دو جمعے ہی زیادہ سے زیادہ مجھے یہاں پڑھانے کا موقع ملے گا.اس کے بعد غالباً پہاڑ سے واپسی پر ربوہ میں رہائش کا نتظام ہو چکا ہو گا اور عمارتیں بنائی جا چکی ہوں گی.اس لیے ہم غالبا براہِ راست ربوہ چلے ئیں گے.اور ہمارا مرکز مستقل طور پر وہاں قائم ہو جائے گا.اور اگر ایسا ہوا تو میرا یہاں آنا کبھی کبھار ہو گا جس طرح پہلے ہوا کرتا تھا.گویا یہ مستقل قیام کا زمانہ ختم جائے گا.یہ بھی ہو سکتا ہے کہ واپسی پر آٹھ دس روز ٹھہر کر ربوہ جائیں مگر یہ قیام بھی بہر حال مختصر ہوگا.میں سمجھتا ہوں کہ مجھ پر یہ فرض عائد ہوتا ہے خواہ اسے کتنی بار ہی دُہرانا پڑے کہ میں لاہور کی جماعت کو اس طرف توجہ دلاؤں کہ اس پر بہت سی ذمہ داریاں ہیں اور ان کے پورا کرنے کی طرف اسے پوری توجہ نہیں.اس میں کوئی شک نہیں کہ جماعت کے کچھ حصہ میں بیداری کے

Page 123

* 1949 114 خطبات محمود آثار پیدا ہو چکے ہیں.مثلاً 1947 ء میں جب ہم لاہور آئے اُس وقت یہاں عورتوں میں انتہائی ہے بے حسی پائی جاتی تھی.لجنہ اماء اللہ مرکزیہ کی طرف سے مستورات کو بار بار توجہ دلائی گئی لیکن ایسی عورتیں بہت کم تھیں جو لجنہ کے کاموں میں حصہ لیتی تھیں.آہستہ آہستہ عورتوں کے اندر بیداری پیدا ہونی شروع ہوئی اور اس جلسہ پر گولا ہور سے جانے والی عورتوں میں ایک حصہ قادیان سے آئی ہوئی عورتوں کا بھی تھا لیکن ان میں سے اکثر عورتیں لاہور کی تھیں جو نہ صرف کثیر تعداد میں جلسہ پر گئیں بلکہ چندہ کر کے بہت سا سامان بھی خرید کر اپنے ساتھ ربوہ لے گئیں جس کی وجہ سے عورتوں کی مہمان نوازی میں ایک حد تک سہولت پیدا ہوگئی.درجنوں عورتیں لاہور سے مہمانوں کی خدمت کے لیے ربوہ گئیں.قادیان میں وہ مہمان بن کر جایا کرتی تھیں لیکن اس جلسہ پر وہ میزبان بن کر گئیں.اور ان میں سے بعض نے نہایت اخلاص کے ساتھ مہمانوں کی خدمت میں حصہ لیا اور نیک نمونہ دکھایا.یہ بات بتاتی ہے کہ لاہور کی جماعت کی عورتوں میں ایک حد تک بیداری پیدا ہو چکی ہے اور اگر یہ حالت قائم رہے تو اس کا اثر یقیناً آئندہ نسلوں پر بھی پڑے گا.مردوں میں بھی کچھ کی حصہ میں یقیناً بیداری پیدا ہوئی ہو گی لیکن اس کی کوئی معین صورت میرے سامنے نہیں آئی لیکن اتنی بات ضرور ہے کہ ان کی کافی تعداد اس سال جلسہ میں شامل ہوئی.مردوں کی کوئی الگ، میرے پاس نہیں آئی لیکن عورتوں کی جو تعداد جلسہ پر حاضر تھی اُس کا اگر قیاس کر لیا جائے تو جلسہ پر جانے والے مرد بھی بہت زیادہ ہوں گے.اور اگر یہ قیاس درست ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ مردوں کے ایک حصہ میں بھی بیداری کے آثار پیدا ہو چکے ہیں.لاہور کی جماعت کو ایک اہمیت حاصل ہے اور وہ اہمیت یہ ہے کہ لاہور ایک تو بارڈر (Border) پر واقع ہے.دوسرے پاکستان کے ایک جنگی صوبہ کا صدر مقام ہے جو پاکستان کی حفاظت کے لیے آئندہ زمانہ میں ریڑھ کی ہڈی ثابت ہو سکتا ہے.بے شک یہ صوبہ اپنی نالائقیوں کی وجہ سے سیاست کے میدان میں بہت پیچھے رہ گیا ہے لیکن اس میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ اس کے اندر جو اندرونی طاقتیں موجود ہیں اور جو صلاحیتیں اسے حاصل ہیں ان کو مدنظر رکھتے ہوئے ظاہر ہے کہ اس کی یہ حالت زیادہ دیر تک قائم نہیں رہ سکتی.جلد یا بدیر پنجاب اپنے مقام کو پالے گا اور جلد یا بدیر پاکستان کے لوگوں کو پنجاب کی دوسرے علاقوں پر برتری تسلیم کرنی پڑے گی.اور اگر

Page 124

$1949 115 خطبات محمود پنجاب کے لوگوں نے یہ ثابت کر دیا کہ وہ صوبائی تعصب سے خالی ہیں اور اگر انہوں نے یہ ثابت کر دیا کہ وہ صوبہ داری ذہنیت سے آزاد ہیں تو یقیناً ان کے نمونہ کا اثر دوسروں پر بھی پڑے گا اور صوبائی تعصب کی بیماری سے جو اس وقت سرطان کے پھوڑے کی سی صورت اختیار کر رہی ہے پاکستان شفا پا جائے گا اور باہمی اختلاف دور ہو جائے گا.غرض لاہور کی جماعت کو ایک اہمیت حاصل ہے جس کو ہم نظر انداز نہیں کر سکتے.لاہور خواہ اچھے رنگ میں ہو یا بُرے رنگ میں ہمیشہ اپنے آپ کو آگے کرتا رہے گا.اس لیے لاہور کی جماعت کی ذمہ داریاں کسی حالت میں بھی نظر انداز نہیں کی جاسکتیں.اس کی ہر حالت کا باقی جماعت پر اثر پڑے گا.اگر لاہور کی جماعت کمزور ہوگی، اگر لاہور کی جماعت اپنے مقام کو جو اس کا جائز حق ہے حاصل نہ کرے گی تو اس کا اثر صوبہ کی دوسری جماعتوں پر بھی ضرور پڑے گا.اور وہ تبلیغ جس کے رستے اب خدا تعالیٰ نے کھول دیئے ہیں اور اسلام اور احمدیت کی اشاعت کے جو مواقع ہمیں میسر آچکے ہیں انہیں زبردست دھکا لگے گا جس کا ازالہ آسانی سے نہیں ہو سکے گا.لیکن لاہور کی جماعت اگر اخلاص سے کام لے گی اور اپنے فرض منصبی کو سمجھے گی تو ہماری تبلیغ بھی وسیع ہو جائے گی اور جماعت يَوْمًا فَيَوْمًا بڑھتی چلی جائے گی.اگر لاہور کی جماعت لاہور میں اپنے اثر کواتنا نمایاں اور ظاہر کر دے کہ دشمن کو بھی یہ تسلیم کرنا پڑے کہ جماعت احمدیہ نے اپنا ایک نقش قائم کر دیا ہے تو اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ صوبہ کے باقی اضلاع، شہروں اور دیہات میں احمدیت اس سے زیادہ سرعت کے ساتھ پھیلنے لگ جائے گی جس سُرعت سے وہ اب پھیل رہی ہے.اگر اللہ تعالی کی لی مشیت کے مطابق تین چار ماہ تک ہم ربوہ میں جابسے اور ایسی سہولتیں ہمیں حاصل ہو گئیں کہ اُسے ہم مرکز بنالیں تو پھر جماعت کا تنظیمی مرکز تو بے شک ربوہ ہی ہوگا لیکن یہ بات نظر انداز نہیں کی جاسکتی کہ اس کا سیاسی مرکز ایک رنگ میں لاہور ہی ہوگا کیونکہ جماعت کا تنظیمی مرکز جس جگہ ہو ضروری نہیں کہ دوسرے لوگ جو جماعت سے دلچسپی رکھتے ہیں وہ بھی اپنی توجہ کا مرکز اسے بنا لیں.لوگ قدرتی طور پر سہل ترین طریق کو اختیار کرنے کی کوشش کرتے ہیں.انہیں اپنے ذاتی کاموں کے لیے لاہور آنا پڑتا ہے.جب وہ لاہور آتے ہیں تو قدرتی طور پر ان کی توجہ ان اداروں اور تحریکوں کی طرف بھی ہوتی ہے جن کے مرکز یا مرکزوں کے ظل لاہور میں موجود ہیں.گویا وہ

Page 125

$ 1949 116 خطبات محمود ایک تیر سے دو شکار کر لیتے ہیں.وہ یہاں آکر اپنے ضروری کام بھی کرتے ہیں اور ایسے ادار.اور تحریک سے واقفیت بھی حاصل کر لیتے ہیں جو ان کی توجہ کا مرکز بن رہا ہو.پس جہاں تک لاہور کو سیاسی حیثیت حاصل ہے ہم اس جماعت کو بعد میں بھی نظر انداز کی نہیں کر سکتے.اگر لاہور میں جو مشکلات ہمیں پیش آرہی ہیں وہ دور ہو جائیں اور ہمیں ایسی جگہیں مل جائیں جہاں ہم مرکز کا ایک حصہ رکھ سکیں تو مرکز بھی مقامی جماعت کے ان کاموں میں ممد ثابت ہوگا جس کے کرنے کی ذمہ داری اس پر ڈال دی گئی ہے.لاہور کی جماعت کی مستورات کی طرف سے مجھے عرصہ سے یہ شکایت آرہی ہے اور رے خیال میں وہ نہایت معقول ہے کہ یہاں لاہور میں جماعت کی لڑکیوں کی تعلیم کا کوئی انتظام نہیں.جس کی وجہ سے یا تو وہ صحیح تعلیم کے نہ ہونے کی وجہ سے جاہل اور ان پڑھ رہتی ہیں یا دوسرے سکولوں میں جا کر دوسرے لوگوں کے خیالات سے متاثر ہو جاتی ہیں.اور بجائے اس کے کہ وہ اپنے بھائیوں کے دین کی حفاظت کریں اور اس کے اندر رخنہ پیدا کرنے والے سامان کو دور کریں وہ اس میں اور بھی مد ہو جاتی ہیں اور انہیں صحیح رستہ سے ہٹا دیتی ہیں.میں جماعت کو ایک سال سے اس طرف توجہ دلا رہا ہوں.میرے نزدیک لاہور کی جماعت کی حیثیت کے لحاظ.ضروری ہے کہ اس کے زنانہ اور مردانہ دونوں ہائی سکول اپنے ہوں.یہ خیال کہ جماعت اس خرچ کو برداشت نہیں کر سکتی ایک مضحکہ خیز بات ہے.مبائعین کی جو جماعت لاہور میں ہے وہ پیغامی جماعت سے کئی گنے زیادہ ہے.پیغامیوں کے ایک ایک آدمی کے مقابلہ میں ہمارے آٹھ آٹھ دس دس آدمی یہاں ہیں.ان کے جلسے پر بھی اتنے آدمی حاضر نہیں ہوتے جتنے آدمی ہمارے جمعہ پر حاضر ہو جاتے ہیں لیکن فسادات سے پہلے لاہور میں ان کا ایک ہائی سکول تھا اب دو ہائی سکول ہیں.اگر ایک چھوٹی سی جماعت دو ہائی سکول چلا سکتی ہے تو کوئی وجہ نہیں کہ ہماری جماعت جو اُن کی نسبت سے کئی گنے زیادہ ہے زنانہ اور مردانہ دو ہائی سکول نہ چلا سکے.اور ابھی تو ہائی سکول کا سوال ہی پیدا نہیں ہوا صرف ایک زنانہ مڈل سکول کا ہی سوال ہے تا جماعت کی لڑکیاں قرآن کریم ختم کر سکیں اور ان کی ایک حد تک دینی تربیت ہو سکے.سات آٹھ سو کی جماعت عورتوں اور بچوں کے علاوہ ہے حالانکہ عورتوں اور بچوں میں سے بھی بعض کمانے والے ہیں.پس یہاں کی جماعت کی

Page 126

* 1949 117 خطبات محمود آمد استی نوے ہزار ماہوار سے کم نہیں ( جو آمد ان کی اپنی بتائی ہوئی ہے وہ بھی پچاس ہزار سے زیادہ ہے بلکہ آمد کا اگر صحیح اندازہ لگایا جائے تو وہ ایک لاکھ تک جا پہنچتی ہے.ایک لاکھ کی آمدن والی جماعت کے لیے ایک ہائی سکول کا چلانا کچھ مشکل نہیں.آخر لڑ کے فیسیں بھی دیں گے.مڈل سکول کی تو تین چار ہزار روپیہ میں چل سکتا ہے اور اتنی بڑی جماعت کے لیے یہ مشکل امر نہیں.اگر جماعت کی کے افراد چار چار، پانچ پانچ روپیہ بطور چندہ دیں تو زنانہ اور مردانہ دونوں مڈل سکول چل سکتے ہیں.پھر مڈل سے انہیں ہائی تک پہنچایا جائے.پھر جماعت کے عہدیداران اگر اپنی ذمہ داریوں کو سمجھیں اور بالا افسروں تک پہنچ کر اُن پر اپنی ضرورتیں ظاہر کریں تو ان سے بھی مددمل سکتی ہے.اگر اُن پر زید اثر ڈال سکتا ہے تو بکر اثر کیوں نہیں ڈال سکتا ؟ ہر آفت جو آئے کیا وہ ہمارے لیے ہی مقدر ہے؟ اور کیا یہ بات کسی کی عقل میں آسکتی ہے کہ ہر آدمی افسروں کو اپنی طرف مائل کر سکے مگر انہیں نہ مائل کر سکے تو ہماری جماعت محکمہ تعلیم ہمارا مخالف ہو؟ پولیس ہمارے خلاف ہو؟ ڈپٹی کم ہمارے خلاف ہو ؟ یہ بات بالکل عقل کے خلاف ہے.چاہیے کہ ہماری جماعت کے لوگ بھی ای افسروں سے میل جول پیدا کریں.کوئی وجہ نہیں کہ حکومت دوسرے سکولوں کو مدد دے اور ان کو نہ دے.ان کو وہ کیوں مدد نہ دے گی ؟ اس کی کیا وجہ ہے؟ اگر جماعت کوشش کرے تو دونوں ہائی اسکول بیس ہزار روپیہ میں چل سکتے ہیں.پھر ضروری نہیں کہ ان سکولوں میں احمدیوں کے بچے اور بچیاں ہی پڑھیں غیر احمدیوں کے بچے اور بچیاں بھی پڑھیں گی.ان میں سے بعض مالدار بھی ہوں گے اُن سے عطیے لیے جاسکتے ہیں اور سکول نہایت عمدگی کے ساتھ بغیر کسی بوجھ کے جو جماعت پر پڑے فیسوں اور عطیوں سے چل سکتے ہیں.ضرورت صرف کوشش اور محنت کی ہے.جماعت اگر کوشش کرے تو اس کے لیے یہ کام کرنا کچھ مشکل نہیں.وہ وقت قریب آرہا ہے کہ جماعت کا مرکز دوسری جگہ بنالیا جائے اس لیے میں ضروری سمجھتا ہوں کہ میں لاہور کی جماعت کو توجہ دلاؤں کہ جن رستوں سے کسی جماعت کی ترقی ہوتی ہے اُن رستوں سے گزرے بغیر ہم بھی ترقی نہیں کر سکتے.صرف نام رکھ لینے سے کوئی جماعت نہیں ہے بڑھتی.جماعت کی عورتوں کا یہ مطالبہ ایک جائز مطالبہ ہے.اگر جماعت کا اپنا ز نانہ سکول نہ ہو تو وہ ہے اپنی لڑکیوں کی صحیح پرورش نہیں کر سکتیں.ان کا یہ کہنا بجا ہے کہ یہ زمانہ ایسا ہے کہ بچیاں ہم سے زیادہ ہے

Page 127

$ 1949 118 خطبات محمود پڑھی ہوئی ہوتی ہیں اور ہم طاقت نہیں رکھتیں کہ انہیں دین کی طرف مائل کر سکیں.اگر ہمارا اپنا اے سکول ہو تو پھر نہ صرف وہ خود دین پر قائم رہیں گی بلکہ ہمیں بھی دین سکھائیں گی.جس گھر میں عورتوں میں دین چلا جاتا ہے اس کے مردوں کی مجال نہیں ہوتی کہ وہ دین سے غفلت برتیں.عورت وہ جنس ہے جسے بظاہر محکوم اور غلام کہا جاتا ہے لیکن دراصل وہ حاکم اور مالک ہوتی ہے.عورت کی عجیب حکومت ہوتی ہے.روز شور پڑتا ہے کہ عورت غلام ہے، عورت محکوم ہے لیکن آپ اپنے ہمسایوں کو دیکھیں ان میں سے کتنی عورتیں ہیں جو غلام ہیں.اس میں کوئی محبہ نہیں کہ بعض مرد ایسے بھی نکل آئیں گے جو عورتوں کو جوتیاں مارتے ہیں مگر ان جوتیاں مارنے والوں میں سے بھی اکثر وہ ہوں گے جو دوسرے وقت میں عورتوں کے آگے ناک رگڑ رہے ہوں گے.علاوہ ازیں بالعموم ایسے لوگ ملیں گے جو یہ سمجھتے ہیں کہ اگر کوئی انسان قابل قدر ہے، اگر کوئی شخص ایسا ہے جس کا مشورہ قبول کیا جا سکے یا کوئی ایسا انسان ہے جس کی بات مانی جائے تو وہ میری بیوی ہے.اگر عورتوں میں دینی تعلیم آجائے تو اس کا لازمی نتیجہ یہ ہوگا کہ وہ مردوں کو بھی دین کی طرف کھینچ کہ لے آئیں گی.ربوہ میں مجھے معلوم ہوا تھا کہ لاہور کی جماعت نے ایک کمیٹی بنائی ہے اور اس نے کی یہ کہا ہے کہ یہ کام جماعت کی طاقت سے باہر ہے.مگر یہ عذر بالکل لغو ہے.اگر وہ نہ کرنا چاہیں تو ہر کام ان کی طاقت سے باہر ہوسکتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام سنایا کرتے تھے ایک لڑکا تھا جو ایک غریب گھر میں پیدا ہوا.اس کا باپ مر گیا تھا اور ان کے کنبے کے گزارہ کی کوئی صورت نہیں تھی.اس کی ماں نے اسے ایک دن بلا کر کہا بیٹا ! تم کوئی نوکری کر لو.اس طرح تم کمائی کرو گے تو تم خود بھی کھاؤ گے اور ہمیں بھی ہے رکھلاؤ گے.انہوں نے کوشش کی اور اس بچے کو نوکری مل گئی اور پانچ روپے ماہوار تنخواہ مقرر ہوئی.ماں نے کہا بیٹا ! تم اپنی ساری تنخواہ ہمیں بھیج دیا کرو.لڑکے نے کہا اگر میں ساری تنخواہ تمہیں بھیج دوں تو کوئی ضرورت پڑنے پر میں کیا کروں گا؟ ماں نے کہا تم انعام پر گزارہ کر لینا.بیٹے نے کہا مجھے انعام کیسے ملے گا؟ ماں نے کہا سب آقا جب اپنے نوکروں پر خوش ہوتے ہیں تو انہیں انعام دیا کرتے ہیں.لڑکے نے کہا اگر نہ دے؟ پھر ماں نے کہا اگر خود آقا انعام نہ دے تو جب وہ تمہارے کام پر خوش ہو خود انعام مانگ لیا کرنا.بچہ نے کہا کہ مجھے کس طرح معلوم ہوگا کہ وہ خوش ہے؟ ماں

Page 128

خطبات محمود 119 * 1949 نے کہا جب آدمی خوش ہوتا ہے تو وہ ہنسا کرتا ہے.یہ نصیحت سُن کر لڑکا اپنے آقا کے ہاں گیا.کچھ دنوں بعد ہی آقا کو ایک سفر پیش آ گیا.وہ اس لڑکے کو بھی ساتھ لے گیا.رستہ میں وہ ایک سرائے کی و میں ٹھہرے.آسمان پر بادل چھائے ہوئے تھے ، تیز ہوائیں چل رہی تھیں، وہ سرائے کے اندرسو گئے.ہوا ذرا تیز ہوئی اور بارش شروع ہوگئی.آقا نے اپنے نوکر سے کہا ذرا اُٹھ کر دیا بجھا دو مجھے اندھیرے میں سونے کی عادت ہے.نوکر نے کہا اگر آپ کو اندھیرے میں سونے کی عادت ہے تو مجھے روشنی میں سونے کی عادت ہے.منہ پر لحاف ڈال لیں اور سو جائیں.مالک نے اُسے بچہ سمجھ کر کوئی غصہ نہ کیا اور منہ پر لحاف ڈال لیا اور سو رہا.تھوڑی دیر بعد شاید اسے گرمی محسوس ہوئی اور اس نے خیال کیا کہ باہر کھلی جگہ پر جا کر سوئے.اس نے نوکر سے کہا ذرا اُٹھ کر معلوم کرو کہ آیا بارش ہو رہی ہے یا نہیں؟ نوکر نے کہا ہاں بارش ہو رہی ہے.مالک نے کہا تم تو ہلے بھی نہیں تمہیں کیسے معلوم ہوا کہ بارش ہو رہی ہے؟ نوکر نے کہا میرے پاس سے ایک بلی گزری تھی میں نے کی اُسے ہاتھ لگا کر دیکھا تو وہ گیلی تھی.آقا اس حماقت پر پھر بھی چپ رہا.تھوڑی دیر کے بعد ہوا تیز چلنے لگی.اُس نے نوکر سے کہا ذرا دروازہ بند کر دو.اب یہاں کوئی بہانہ نہیں بن سکتا تھا.اُٹھے بغیر دروازہ کا بند کرنا ناممکن تھا اس لڑکے نے سوچ کر کہا حضور! پہلے دو کام میں نے کیسے ہیں یہ تیسرا کام آپ خود کر لیں.آقا نوکر کی اس بیوقوفی پر ہنس پڑا.وہ جھٹ کھڑا ہو گیا اور سلام کر کے کہا حضور! مجھے انعام دیجیے.تم بھی اس قسم کے بہانے بنانے لگ جاؤ تو تم جتنا معذور بھی بننا چاہو بن سکتے ہولیکن کوئی عظمند یہ نہیں کہہ سکتا کہ اتنی بڑی جماعت جو یہاں بیٹھی ہے اور جس جماعت کے بعض حصے ایسے بھی ہیں جو اپنی اپنی جگہ پر نماز پڑھتے ہیں مثلاً مغلپورہ ، میاں میر وغیرہ میں الگ الگ نماز جمعہ ہوتی ہے اتنی بڑی جماعت عورتوں کا ایک مڈل سکول نہیں چلا سکتی.یہ صرف نفس کا بہانہ ہے.میرے خیال میں اگر عقل سے کام لیا جائے تو مفت میں مردانہ بھی اور زنانہ بھی دونوں ہائی اسکول چلائے جاسکتے ہیں.صرف ایک سال تک تکلیف ہو گی.اس کے بعد بغیر کسی بوجھ کے یہ کام کیا جاسکتا ہے.یہ کہنا کہ ہمیں اب جگہ کہاں ملے گی؟ یہ جماعت کی غفلت کا نتیجہ ہے.پیغامیوں.ہوں نے

Page 129

$ 1949 120 خطبات محمود فسادات کے بعد ایک سکول لے لیا تم نے کیوں کوشش نہ کی؟ باوجود اس کے کہ ان کے پاس پہلے سے ایک سکول موجود تھا انہوں نے دوسرا لے لیا.اگر تم گورنمنٹ کے پاس جاتے اور کہتے ہمیں ہے ایک سکول دو تو ہمارے حق کو مقدم کیا جاتا کیونکہ گورنمنٹ پیغامیوں سے کہہ سکتی تھی کہ تمہارے پاس پہلے سے ایک سکول موجود ہے لیکن وہ تمہیں یہ بات نہیں کہہ سکتی تھی.تم یہ کہہ سکتے تھے کہ ہمارے پاس پہلے کوئی سکول موجود نہیں ہمیں بھی ایک سکول دیا جائے تو یقینا تمہیں ایک سکول مل جاتا.یہ تمہاری اپنی سستی ہے جس کی وجہ سے تمہیں جگہ نہیں مل رہی.تمہیں اس چیز کا پہلے احساس نہیں تھا اس لیے تم نے اس کے لیے کوئی کوشش نہ کی.کیا تمہیں سکھ آکر سکول بنا کر دے جائیں گے؟؟ تمہیں آریہ سماج والے سکول بنا کر دے جائیں گے؟ یہ کام تم نے خود کرنا ہے.بہر حال لڑکیوں کا ایک مڈل سکول شروع کر دینا چاہیے تا ان کے اندر دین کی محبت کا احساس ہو.اس کے بعد لڑکوں کا سکول بنایا جائے اور وہ بھی کم از کم مڈل تک ہو.اگر ہماری جماعت کے لوگوں کو بھی منت سماجت کرنی آجائے ، اگر تمہیں بھی اپنے افسروں کو خوش کرنا آجائے تو تم وہ کام کیوں نہ کر سکو جو دوسرے کر لیتے ہیں.جو لوگ کام کرنے والے ہوتے ہیں وہ افسروں کی خوشامد میں بھی کر لیتے ہیں.اور جو ی اُن کی خوشامد کرتا ہے اُسے وہ چیز دے دیتے ہیں جس کی وہ خواہش کرتا ہے.لوگ ہندوؤں کی بھی خوشامد میں کر لیتے تھے، سکھوں کی بھی خوشامد میں کر لیتے تھے کبھی کسی کی پارٹی کر دی کسی سے میل جول ا رکھا اور اس طرح اپنا کام نکال لیا.پیغامیوں کو بھی اسی طرح سکول ملا تھا.انہوں نے محکمہ متعلقہ کے افسر کو پارٹی دی اور اس موقع پر اپنی درخواست پیش کر دی اور انہیں سکول مل گیا.نیت ہو تو سب.کچھ ہوسکتا ہے.لا ہور کی جماعت کی اہمیت ایسی نہیں کہ وہ کام کے نہ کرنے کی نیت کرے بلکہ اس کی اہمیت ایسی ہے کہ اسے کام کرنے کی نیت کر لینی چاہیے.اگر عورت کے اندر بیداری پیدا ہو گئی ہے، اگر اس کے اندر یہ احساس پیدا ہو گیا ہے کہ جماعت کی بچیاں دین کی خادم ہوں اور اُن کی تی دینی تربیت اچھی طرح ہو تو مردوں کے اندر اس سے زیادہ احساس ہونا چاہیے.ورنہ وہ خدا تعالیٰ کے مجرم ہوں گے.میں دیکھتا ہوں ایسے ایک درجن کے قریب احمدی ہی لاہور میں ہیں کہ جو اپنے کاموں کی وجہ سے لوگوں پر اثر ڈال سکتے ہیں مگر یا تو وہ اپنے ہم عمروں میں بیٹھ کر گئیں مارتے

Page 130

* 1949 121 خطبات محمود ہتے ہیں یا پھر سلسلہ کے کاموں سے دلچسپی نہیں لیتے.اور اس کام پر کچھ خرچ کرنے سے ان کی جان نکلتی ہے جس کی وجہ سے وہ بہت سے کام رہ جاتے ہیں جو کرنے والے ہیں اور (الفضل 21 اگست 1949 ء ) جماعت لاہور یقینا انہیں کر سکتی ہے“.

Page 131

* 1949 122 13 خطبات محمود وہی قوم زندہ کہلانے کی مستحق ہے جو اپنی خوبیوں میں دوسروں سے بلند اور ممتاز ہو (فرمودہ 20 مئی 1949ء بمقام لاہور ) تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: قرآن کریم میں بار بار یہ مضمون دہرایا گیا ہے کہ کیا مُردے زندوں کے برابر ہو سکتے ہیں؟ 1 بظاہر یہ ایک چھوٹا سا فقرہ ہے اور بظاہر یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس سے ہر شخص واقف ہے لیکن اگر سوچا جائے تو یہی چھوٹا سا مضمون اکثر اوقات دنیا کی نگاہوں سے اوجھل ہو جاتا ہے اور اکثر اوقات تو میں اس چھوٹی سی چیز کو نظر انداز کر دینے کی وجہ سے اپنے مقام کو کھو بیٹھتی ہیں.دنیا میں اپنے مقام کو قائم رکھنے بلکہ سابق معیار سے اونچا ہونے کے لیے سہل ترین اور سب سے آسان ذریعہ یہی ہوا کرتا ہے کہ انسان اپنے اس مقام کی کیفیت کو یادر کھے جس پر وہ کھڑا ہو.یہی بات یاد رکھنے سے انسان کی اس جدوجہد میں تیزی پیدا ہوتی ہے جو اپنے مقام کو قائم رکھنے کے لیے وہ کیا کرتا ہے.مجھے خوب یاد ہے حضرت خلیفہ المسیح الاول جب کوئی ایسی بات دیکھتے جو ان کے خیال میں ہمیں نہیں کرنی چاہیے تھی تو وہ یہ فقرہ کہا کرتے تھے کہ میاں ! تمہیں معلوم ہے کہ تم کس کے

Page 132

* 1949 123 خطبات محمود بیٹے ہو.بس اس فقرہ میں سارا مضمون آجاتا تھا.یعنی کسی کا بیٹا ہونے کی وجہ سے بھی انسان پر ی بعض ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں اور اس کے فعل کو لوگ اس کے باپ کی طرف منسوب کر دیتے چنانچہ کبھی تو والدین کے افعال بیٹوں کی طرف منسوب ہوتے ہیں اور کبھی بیٹوں کے افعال والدین کی طرف منسوب ہوتے ہیں اور اس طرح وہ ایک دوسرے کی نیک نامی یا بدنامی کا موجب ہوتے ہیں.اس فقرہ میں اس مضمون کی طرف اشارہ ہوتا تھا اور اس کے معنے ہم سمجھتے تھے کہ کیا ہیں.کہتے ہیں کوئی شخص کفن چور تھا.جب کوئی آسودہ حال شخص مرتا تو وہ اس کی قبر کھود کر کفن پھر الیا کرتا اور مُردہ کو دوبارہ قبر میں گاڑ کر اس پر مٹی ڈال دیتا.اس کفن چور کا لڑکا اس کی نسبت زیادہ شریف تھا اور اپنے باپ کے پیشے سے احتراز کیا کرتا تھا.جب باپ مرا اور کفن چوری بند ہوگئی اور مُردوں کی ہتک جاتی رہی تو لوگوں نے سمجھ لیا کہ کفن چور فوت ہو گیا ہے.اس کفن چور کے متعلق کسی شخص کو معلوم تو تھا نہیں کہ وہ کون ہے کیونکہ وہ یہ کام چوری چھپے کرتا تھا اور اس کے بیٹے کے متعلق بھی کوئی یہ نہیں جانتا تھا کہ وہ کون ہے.اور آیا وہ بھی کفن چور ہے یا نہیں.بیٹا یہ جانتا تھا کہ اُس کا باپ کفن چور تھا.جب وہ فوت ہو گیا تو لوگ آپس میں باتیں کرنے لگے کہ اچھا ہوا وہ مر گیا.اس کا بیٹا جو کفن چور نہیں تھا جب یہ باتیں سنتا تو یہ الفاظ اُس پر گراں گزرتے.ایک دفعہ وہ اپنے ایک دوست کے پاس گیا اور اس سے کہا کہ اس اس طرح واقعہ ہوتا ہے اور میں یہ برداشت نہیں کر سکتا کہ کوئی شخص میرے باپ کو خواہ وہ کیسا ہی تھا گالیاں دے.مجھے کوئی ایسا علاج بتاؤ جس کے ذریعہ میں ان باتوں سے نجات حاصل کر سکوں.اس نے کہا کچھ دن تم بھی یہ کام کر لو.تمہارے باپ کے عیوب چھپ جائیں گے لیکن ایسا کام کرو جو پہلے سے زیادہ سخت ہو.اُس نے اس نصیحت پر عمل کیا اور کفن چوری کا کام شروع کر دیا.اس نے یہ کام کسی بُری نیت سے نہیں کیا بلکہ اپنے باپ کے عیوب چھپانے کے لیے یہ کام شروع کیا.وہ کفن چرا لیتا اور مُردے کو ننگا چھوڑ کر آ جاتا.اس کا باپ تو کفن اُتار کر مُردے کو دوبارہ قبر میں دفن کر دیتا تھا لیکن وہ یونہی آجاتا.جب مُردوں کی کی دوبارہ ہتک ہونے لگی ، جب چیلیں انہیں نوچتیں، گتے اُن پر حملہ آور ہوتے تو لوگ دعا کرتے کہ خدا لاں شخص پر رحم کرے وہ کفن چور تو تھا مگر ہمیشہ مردوں پر مٹی ڈال دیا کرتا تھا.اب پتا لگا ہے کہ وہ کتنا ہے شریف انسان تھا.اس طرح آہستہ آہستہ اس کے عیوب چُھپ گئے اور لوگوں نے اسے گالیاں دینا

Page 133

* 1949 124 خطبات محمود اور بُرا بھلا کہنا چھوڑ دیا.جب اس کے بیٹے نے دیکھا کہ اب لوگوں نے اسے گالیاں دینا چھوڑ دیا ہے تو اس نے بھی کفن چوری ترک کر دی.غرض اس طرح بدنامیوں اور نیک نامیوں کا سلسلہ چلتا ہے.اگر کسی میں کوئی عیب ظاہر طور پر پایا جاتا ہے تو وہ اس کی طرف منسوب ہوتا ہے اور اگر وہ عیب باطنی ہوتا ہے تو لوگ ایسی باتیں سنتے ہی بے نام گالیاں دینا شروع کر دیتے ہیں.اسی طرح خوبیاں ہیں.اگر کسی میں کوئی خوبی ظاہری طور پر پائی جاتی ہے تو لوگ اس کی تعریفیں کرتے ہیں لیکن اگر وہ خوبی باطنی ہوتی ہے تو لوگ بے نام تعریفیں کرتے ہیں لیکن اس قاعدہ سے لوگ فائدہ نہیں اٹھاتے.قرآن کریم میں جب یہ کہا گیا کہ مُردہ زندہ کے برابر نہیں ہو سکتا تو اس کا سیاق و سباق بتاتا ہے کہ مُردہ وہ ہے جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان نہیں لاتا.یہ ایک دلیل ہے جو خدا تعالیٰ نے کفار کے مقابلہ میں ان کے جھوٹا ہونے کے لیے دی.بلکہ یہ ایک طنز ہے جو مسلمان کے لیے عبرت کا ایک کوڑا ہے جو مُردہ زندہ کے برابر نہیں ہو سکتا.یعنی ایک غیر مسلم کسی خوبی میں اور کسی میدان میں بھی ایک مسلمان کے برابر نہیں ہو سکتا.لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ قرآن کریم میں یہ جو کہا گیا ہے کہ مُردہ زندہ کے برابر نہیں ہوسکتا اگر اس کے یہی معنی ہیں کہ ایک غیر مسلم ایک مسلمان کے برابر خوبیاں نہیں رکھ سکتا اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا منکر آپ کے جاننے والے کے برابر نہیں ہوسکتا تو بظاہر یہ درست نظر نہیں آتا کیونکہ آج ہر خوبی میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا منکر مسلمان سے زیادہ اچھا نظر آتا ہے.صداقت اس میں زیادہ پائی جاتی ہے، محنت اس میں زیادہ پائی جاتی ہے، احساس قومی اس میں زیادہ پایا جاتا ہے، ایثار اور قربانی میں وہ ایک مسلم سے زیادہ اچھا ہے، رحم اس میں زیادہ پایا جاتا ہے، انصاف اس میں زیادہ پایا جاتا ہے، پاکیزگی اس میں زیادہ ہے د پائی جاتی ہے، غیرت اس میں زیادہ پائی جاتی ہے.غرض وہ تمام اخلاق فاضلہ جن کو قرآن کریم بیان کرتا ہے اور اس رنگ میں بیان کرتا ہے کہ گویا وہ ایک مسلمان کی جائداد ہیں اور جن کی نسبت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں كَلِمَةُ الْحِكْمَةِ ضَالَّةُ الْمُؤْمِن اَخَذَهَا حَيْثُ وَجَدَهَا.2 اے مخاطب ! اچھی باتوں کے متعلق تم کیا پوچھتے ہو یہ تو مومن کا کھویا ہوا مال ہیں.سے جہاں کہیں یہ چیزیں ملیں وہ انہیں جھپٹ کر لے جائے.یعنی کوئی محسن ایسا نہیں، کوئی خوبی اسے

Page 134

$ 1949 125 خطبات محمود ایسی نہیں جسے یہ اپنے غیر کے پاس جانے دے.گویا اس کا مطلب یہ تھا کہ ہر خوبی اور ہر حسن کے مالک مسلمان ہی ہوں گے لیکن اب تو یہ ہے کہ كَلِمَةُ الحِكْمَةِ ، مسلمان کے لیے نفرت کی جگہ ہے اور اس کی حد سے زیادہ ناپسندیدہ چیز ہے.اگر یہ اس کی جیب میں بھی ہو تو وہ اسے پھینک دیتا ہے ہے.اگر یہ اس کے گھر میں بھی ہو تو وہ اسے نکال دیتا ہے اور جب تک وہ اسے اپنے سے جدا نہ کرے اُسے چین نہیں آتا.مگر خدا تعالیٰ فرماتا ہے کیا مردے زندوں کے برابر ہو سکتے ہیں؟ اب یا تو یہ کہنا پڑے گا کہ کبھی بھی ایک مسلمان اس درجہ تک نہیں پہنچ سکا جس کی طرف اس فقرہ میں اشارہ کیا گیا ہے اور یا یہ ماننا پڑے گا کہ آج کا مسلمان وہ مسلمان نہیں رہا جس کے متعلق یہ فقرہ استعمال کیا گیا ہے لیکن پرانے مسلمان کے متعلق یہ فقرہ صحیح اور درست تھا.گویا آج کا مسلمان عملاً مسلمان ہی نہیں کہ اس کے متعلق یہ فقرہ کہا گیا ہو.یا دوسرے لفظوں میں یوں کہنا پڑے گا کہ قرآن کریم نے یہ کہا ہے کہ مُردے زندہ کے برابر نہیں ہو سکتے.مگر یہ نہیں کہا کہ مُردوں مُردوں میں بھی فرق نہیں ہوتا.پہلے مسلمان زندہ تھے اور غیر مسلم زندہ نہیں تھے.لیکن اب یہ بھی مُردہ ہیں اور وہ بھی مُردہ ہے ہیں.یہ بھی حقیقت سے دُور ہیں اور وہ بھی حقیقت سے دُور ہیں لیکن مُردوں مُردوں میں بھی فرق ہوتا ہے.دو تین دن کا مُردہ تازہ مُردہ کے برابر نہیں ہو سکتا.تین چار دن کا مُردہ تو سڑ رہا ہوگا اور اس میں سے بدبو آرہی ہوگی اور تازہ مُردہ اُس سے بہر حال اچھا ہوگا.خواہ وہ مُردہ ایک مسلمان کا ہو یا ایک عیسائی کا ہو.ایک مسلمان کے مُردے میں بھی سڑ جانے کے بعد کیڑے پڑ جائیں گے اور ایک عیسائی کے مُردہ جسم میں بھی سڑ جانے کے بعد کیڑے پڑ جائیں گے.گویا اب یہ کہنا پڑے گا کہ قرآن کریم نے یہ تو کہا ہے کہ مُردے زندوں کے برابر نہیں ہو سکتے مگر یہ نہیں کہا کہ مسلمان کی ہمیشہ زندہ رہیں گے.اور اگر یہ نہیں کہا کہ مسلمان ہمیشہ زندہ رہیں گے تو اس کے یہ معنے ہوں گے کہ وہ بھی کسی وقت مُردہ ہو جائیں گے اور قرآن کریم نے یہ کب کہا ہے کہ مُردوں مُردوں میں فرق کی نہیں ہوسکتا.ایک مسلمان کا مُردہ بھی خراب ہو سکتا ہے.خدا تعالیٰ خود فرماتا ہے کہ مسلمان صداقت کی سے بے بہرہ ہو کر کبھی زیادہ خراب ہو جائیں گے اور کبھی کم.لیکن بہر حال جو قوم اپنے آپ کو زندہ کی سمجھتی ہے اُس کو مُردوں کے مقابلہ میں اپنے کیریکٹر کا معیار زیادہ اچھا رکھنا پڑے گا.یہ تو نہیں ہو سکتا کہ وہ زندہ بھی ہو اور اس میں اتنی سچائی نہ پائی جائے جتنی مُردوں میں پائی جاتی ہے.یہ نہیں

Page 135

* 1949 126 خطبات محمود ہوسکتا کہ وہ زندہ بھی ہو اور اس میں اتنی محنت نہ پائی جاتی ہو جتنی مردوں میں پائی جاتی ہے.یہ نہیں ہوسکتا کہ وہ زندہ بھی ہو اور اس میں اتنا رحم نہ پایا جائے جتنا مر دوں میں پایا جاتا ہے.اگر تم اپنے آپ کو زندہ سمجھتے ہو تو تمہارا معیار انصاف، تمہارا معیار رحم ، تمہارا معیارِ عدل، تمہارا معیار سلوک اور تمہارا میعار احسان اور رحم بہر حال مُردوں سے زیادہ بالا ہوگا.ورنہ کوئی وجہ نہیں کہ تمہیں زندہ کہا ہے جائے.آخر مُردہ کے یہاں یہ معنی تو نہیں کہ اس کی روح نکل گئی ہو، اس کی آنکھ دیکھ نہ سکتی ہو، اس کی کے کان سُن نہ سکتے ہوں اور اس کا جسم حرکت نہ کر سکے.اور نہ زندہ کے یہ معنی ہیں کہ اس کا جسم حرکت کرتا ہو، اس کی آنکھیں دیکھتی ہوں، اس کے کان سُنتے ہوں اور اس کے ساتھ ارتقاء اور تنزل کا سلسلہ لگا ہوا ہو.یہاں وہ معنی مراد نہیں.یہاں اس سے روحانیت کا نکل جانا مراد ہے، اخلاق فاضلہ کا مٹ جانا مراد ہے.اور یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ تمہارے اندر روحانیت بھی نہ ہو ، تمہارے اندر اخلاق فاضلہ بھی نہ پائے جائیں اور پھر تمہیں زندہ کہا جائے اور تمہارے دشمن کو جس میں یہ خوبیاں پائی جاتی ہیں مُردہ کہا جائے.اور اگر وہ باتیں تم میں بھی پائی جاتی ہوں لیکن تم اپنے دشمن سے پیچھے ہے رہ گئے ہو تب بھی اس کے مقابلہ میں تمہیں زندہ نہیں کہا جاسکتا.یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ مُردہ تو چلتا ہوا ہے اور زندہ سارا دن ایک جگہ پڑا رہے.مُردہ تو آنکھیں کھولتا ہو اور دیکھتا ہومگر یہ نہ دیکھتا ہو، مردہ سنتا ہے ہو خواہ وہ کچھ اونچا ہی سنا ہولیکن سنتنا ضرور ہومگر یہ نہ سُنتا ہو.ره یہ تو ویسے ہی حماقت ہوگی جیسے ہمارے سکول کے بعض لڑکوں نے کی.جب ہم سکول میں پڑھا کرتے تھے اُس زمانہ میں ہمارا سکول چھوٹا سا تھا اور ہیڈ ماسٹر اور بورڈنگ کا سپرنٹنڈنٹ ایک ہی تھا.سکول میں تھوڑے سے لڑکے تھے.ایک دن اس کے اسٹنٹ سے کسی نے شکایت کی کہ عشاء کی نماز میں بورڈنگ کے لڑکے بہت تھوڑے آتے ہیں.یہ شکایت زیادہ پھیلی اور ہیڈ ماسٹر کے کانوں تک بھی پہنچی.اس نے اصل انچارج سے پوچھا کہ لڑکے عشاء کی نماز میں کیوں نہیں جاتے ؟ انچارج نے کہا لڑ کے نماز میں جاتے تو ہیں لیکن بڑے جاتے ہیں اور چھوٹے لڑکے سو جاتے ہیں اور میں انہیں چھوڑ جاتا ہوں.ہیڈ ماسٹر نے پوچھا ایسے لڑکے کتنے ہیں جو نماز میں نہیں جاتے؟ اس نے کہا اُنہیں.ہیڈ ماسٹر نے کہا اچھا میں کسی دن آؤں گا اور دیکھوں گا کہ کون کون لڑکے نماز میں نہیں جاتے.وہ ایک دن بورڈنگ میں گئے.لڑکے سو رہے تھے.وہ پائنتی کی طرف

Page 136

$ 1949 127 خطبات محمود.کھڑے ہو گئے.ہیڈ ماسٹر نے انچارج سے دریافت کیا تم کس طرح خیال کرتے ہو کہ یہ لڑ کے سو ہے ہیں؟ اس نے کہا میں انہیں جگاتا ہوں اور یہ نہیں پلتے.ہیڈ ماسٹر نے کہا واہ! یہ بھی کوئی پہچان ہے.سچ سچ سونے والوں اور بناوٹی سونے والوں میں یہ فرق ہوتا ہے کہ بناوٹی سونے والوں کے بدن میں کوئی حرکت نہیں ہوتی لیکن جو سچ سچ سو جاتے ہیں ان کے دائیں پاؤں کا انگوٹھا ہلتا رہتا ہے ہے.سترہ لڑ کے جاگ رہے تھے اور بناوٹ کر رہے تھے.انہوں نے یہ سنتے ہی اپنا دائیں پاؤں کا انگوٹھا ہلا نا شروع کر دیا تا وہ یہ ثابت کریں کہ وہ سچ سچ سوئے ہوئے ہیں.جس طرح اُن لڑکوں نے اپنے سونے کی علامت پاؤں کا انگوٹھا ہلنا سمجھا حالانکہ سونے والا حرکت نہیں کرتا.اسی طرح تم بھی یہ خیال کرتے ہو کہ روحانیت تم میں نہ پائی جائے.اخلاق فاضلہ تم میں نہ پائے جائیں، انصاف تم میں کم ہو، عدل تم میں کم ہو، پاکیزگی تم میں کم ہو، دیانت اور امانت تم میں کم ہو اور پھر روحانی طور پر تم زندہ بھی ہو.لیکن جس میں یہ سب چیزیں پائی جاتی ہوں وہ مُردہ ہو.یہ تعریف ایسی ہی ہے جیسی اُس ہیڈ ماسٹر نے کی کہ جو سچ سچ سو جاتے ہیں اُن کے دائیں پاؤں کا انگوٹھا ہلالی رہتا ہے اور جو بناوٹی طور پر سور ہے ہوتے ہیں، اُن کا سارا جسم ساکت ہوتا ہے.یہ کیسی ہنسی والی بات ی ہے.لیکن کیا تم نے کبھی اپنے نفس پر بھی غور کیا ہے؟ ہم کہتے تو یہ ہیں کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لا کر ہم زندہ ہو گئے اور ایک غیر مسلم ہمارے برابر نہیں ہوسکتا لیکن کیا ہم اخلاق میں بھی اس مالی سے بڑھ کر ہیں؟ اگر ہم اخلاق میں اس سے بڑھ کر نہیں تو پھر ہم بھی مُردہ ہیں.آخر کیا وجہ ہے کی ہمارے دشمن میں قربانی کا احساس زیادہ پایا جاتا ہو.اُسے وقت کو صحیح طور پر استعمال کرنے کی عادت ہو، وہ آپس کے معاملات کو ہم سے زیادہ اچھی طرح طے کر سکتا ہو، اُس میں دیانت وامانت ہم سے زیادہ پائی جاتی ہولیکن زندہ ہم ہوں اور وہ مُردہ.اگر تمہاری صحبت دنیا تلاش نہیں کرتی ، اگر تمہارے پاس بیٹھنے کو وہ نعمت قرار نہیں دیتی اور تمہاری دوستی کو وہ خدا تعالیٰ کا ایک فضل قرار نہیں دیتی تو تم زندہ کیونکر ہو اور تمہارا دشمن مُردہ کیونکر ہے؟ ہاں! اگر تمہارے اخلاق فاضلہ تمہیں ایک نمایاں حیثیت دے دیتے ہیں، اگر تم کو دیکھنے والا یہ محسوس کرتا ہے کہ تم میں اور تمہارے غیر میں بڑا بھاری فرق ہے، اگر تمہیں اس کے ہمسائے کے پاس کھڑا کر دیا جائے اور پھر اس سے پوچھا جائے کہ کیا تم ان دونوں کو برابر سمجھتے ہو؟ تو وہ بے ساختہ کہہ دے کہ یہ ہو کیسے ہوسکتا ہے.

Page 137

$1949 128 خطبات محمود دوسروں کی اس کے سامنے حیثیت ہی کیا ہے ان کے اخلاق گجا اور اُن کے اخلاق گجا.تو پھر ای بے شک تمہارا دعوی صحیح ہو سکتا ہے کہ ہم زندہ ہیں اور مُردہ زندہ کے برابر نہیں ہوسکتا.لیکن اگر ایسا نہیں تو پھر دو باتوں میں سے ایک ضرور ہو گی.یا تو وہ سلسلہ جس میں تم داخل ہوئے ہوتا ہے نَعُوذُ بِاللهِ جھوٹا ہے اور تمہارا یہ دعوی غلط ہے کہ وہ سلسلہ تمہیں زندگی دیتا ہے.اور یا وہ سلسلہ تو سچا ہے لیکن تم جھوٹے ہو کیونکہ تم میں وہ آثار نہیں پائے جاتے جو ایک زندہ میں پائے جانے چاہییں.پس اس معیار کو سامنے رکھ کر تم اپنے اردگرد کے لوگوں کو دیکھو اور پھر معلوم کرو کہ کیا تم میں اور ان میں کوئی فرق پایا جاتا ہے؟ کیا تم میں ان سے زیادہ صداقت پائی جاتی ہے؟ کیا تم میں ان سے زیادہ محنت پائی جاتی ہے؟ کیا تم اُن سے زیادہ وقت کی قدر کرتے ہو؟ کیا تم ان سے زیادہ دیانتدار ہو؟ کیا تم میں ان سے زیادہ رحم پایا جاتا ہے؟ کیا تم ان سے زیادہ امین ہو؟ کیا تم ان سے زیادہ کریم ہو؟ کیا تم ان سے زیادہ عقلمند اور فہیم ہو ؟ کیا تم ان سے زیادہ دور اندیش ہو ؟ اگر تمہیں جواب ملے کہ ہاں.ہاں.ہاں.تو سمجھ لو کہ تم جس اول جگہ بھی ہو گے زندہ ہو اور بچے طور پر زندہ ہو.تم دریا سے باہر رہ کر گیلے ہونے کا دعوی نہیں کر رہے.تم ابھی پانی میں غوطہ لگا کر باہر آئے ہو.لیکن اگر ایسا نہیں تو تمہارا یہ دعوی افیونیوں کی طرح ہو گا جو ریت پر بیٹھ کر خیال کر لیتے ہیں کہ ان کا جسم گیلا ہے.اگر تم سچ سچ ہے پانی میں گھس جاتے ہو تو وہ لازماً تمہیں گیلا کر دے گا لیکن اگر ایسا نہیں اور تمہیں اس کا 3 جواب نفی میں ملتا ہے تو تمہیں سوچنا چاہیے کہ جسے تم نے صداقت سمجھا ہے کیا وہ فریب اور جھوٹ تو نہیں.اگر تمہاری عقل کہتی ہے کہ وہ سچ ہے تو تمہیں اپنے نفس کو کہنا چاہیے اے نفس ! تُو ہی جھوٹا ہے.تو نے جو یہ سمجھا تھا کہ میں پانی میں کود پڑا ہوں درست نہیں تو ابھی ہے باہر ہی کھڑا ہے.تُو نے ابھی عرفان کے دریا میں چھلانگ نہیں لگائی.اگر تم یہ سوچو تو تم میں کتنی راستی پیدا ہو جائے.اگر تم اس نتیجہ پر بھی پہنچ جاؤ کہ زندہ مُردہ سے بہر حال بہتر ہوتا ہے ہے.تب بھی تمہارا کیریکٹر پہلے سے بہت زیادہ اونچا ہو جائے گا.تم پہلے زیادہ جد و جہد کے لیے تیار ہو جاؤ گے.تم پہلے سے زیادہ محنت کے لیے تیار ہو جاؤ گے

Page 138

$ 1949 129 خطبات محمود اور اپنی حالت کو پہلے سے بہتر بنانے کے لیے کوشش کرو گے اور اگر تم ایسا نہیں کرو گے تو تم ایسی تاریکی میں پڑ جاؤ گے جس سے نکلنے کا تمہیں کوئی موقع نہیں ملے گا.1: وَمَا يَسْتَوِي الْأَحْيَاءُ وَلَا الْأَمْوَاتُ (فاطر: 23) الفضل 10 اگست 1958ء ) 2:ترمذی ابواب العلم باب ما جاء في فضل الفقه علی العبادۃ میں یہ الفاظ ہیں الْكَلِمَةُ الْحِكْمَةُ ضَالَّةُ الْمُؤْمِن فَحَيْتُ وَجَدَهَا فَهُوَ اَحَقُّ بِهَا “.

Page 139

* 1949 130 (14) خطبات محمود وہ بلند مقام حاصل کرنے کی کوشش کرو جو نبیوں کی جماعتوں کو حاصل ہوتا ہے (فرمودہ 27 مئی 1949ء بمقام ناصر آباد اسٹیٹ سندھ ) تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: جیسا کہ دوستوں کو اخبار سے معلوم ہوتا رہا ہوگا اس دفعہ چار پانچ ماہ سے مجھ پر بار بار جوڑوں کی درد کا حملہ ہوتا رہا اور جلسہ سالانہ کے بعد آنکھوں پر بھی جیسا کہ بعد میں معلوم ہوا اسی بیماری کا حملہ ہوا.ایک وقت میں تو قریباً نظر بند ہوگئی تھی.آنکھوں کے آگے عموماً اندھیرا رہتا تھا.یہاں تک کہ پاس بیٹھا ہوا آدمی بھی پہچانا نہیں جاتا تھا.پچھلے سالوں کے تجربہ کی بناء پر میرا خیال تھا کہ ناصر آباد اور سندھ کے دوسرے علاقوں میں گرمی بہت کم ہوگی اس لیے کوئٹہ کی بجائے میں یہاں آگیا.یہاں آکر معلوم ہوا کہ اس سال کی یا تو استثنائی طور پر یہاں گرمی زیادہ ہے یا ان دنوں ہمارا آنا غلطی ہے.گرمی کا مجھ پر اس قدر اثر ہے کہ میں نمازوں کے لیے مسجد میں نہیں آسکتا.اس وجہ سے میں بعض دفعہ دوستوں سے جو باہر سے تشریف لاتے ہیں ملاقات بھی نہیں کر سکتا.بیشک میں کسی نہ کسی شخص سے مل بھی لیتا ہوں لیکن زیادہ ملاقات نہیں کر سکتا.اب چونکہ ہم یہاں آگئے ہیں اس لیے جتنے عرصہ کے لیے ہم یہاں آئے ہیں

Page 140

* 1949 131 خطبات محمود رہیں گے اور اگر طبیعت اچھی رہی تو کچھ کام کر لیں گے.اس کے بعد میں دوستوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ دنیا بھر میں ہر جگہ پر ایک انقلاب آ رہا ہے.بعض جگہوں پر کم ہے اور بعض جگہوں پر زیادہ مگر آضرور رہا ہے جس سے پتا لگتا ہے کہ کوئی نہ کوئی تغیر آسمان پر مقدر ہو چکا ہے.مذہبی لوگ اور اللہ تعالیٰ پر یقین رکھنے والے لوگ یہ سمجھتے اور یقین کی رکھتے ہیں کہ یہ تغیر آخر مذہب کے حق میں ہوگا اور پھر مذہب تمام دنیا پر غالب آجائے گا.لیکن جو لوگ مذہبی نہیں اور جو مذہب پر یقین نہیں رکھتے وہ سمجھتے ہیں کہ یہ انقلاب ایک دن مذہب کو اُکھاڑ کر پھینک دے گا اور تمام دنیا پر ایک قسم کی اشتراکیت غالب آجائے گی جو باقی تمام نظاموں کو بدل دے گی.ہماری جماعت ان جماعتوں میں سے ہے جو خدا تعالیٰ کے نظام کے دوبارہ دنیا میں قائم ہونے کی قائل ہے.ہم دنیا کے سامنے یہ پیش کرتے ہیں کہ بعض ایسی پیشگویاں ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور آپ کے اتباع کے ذریعہ پھر تمام دنیا پر غالب آجائے گا.یہ چیز کسی وقت تو دنیا کی نظروں میں شاندار نظر آتی تھی اور کسی کسی وقت دنیا کی نگاہوں ناکام نظر آتی تھی.خود اپنی جدو جہد کو دیکھ کر متضاد خیالات پیدا ہو جاتے ہیں.جب تک کوئی شخص اندھا دھند یقین نہ رکھتا ہو متضاد خیالات کا پیدا ہو جانا ممکن ہے.لیکن جو شخص عقل سے کام کی لینے کا عادی ہے، جو شخص سوچنے کا عادی ہے وہ دو حالتوں میں سے ایک حالت میں سے ضرور گزرتا ہے.بعض دفعہ وہ کسی چیز کو دیکھ کر جوش میں آجاتا ہے اور سمجھتا ہے کہ اس کے بارہ میں جو پیشگوئی ہے کی گئی تھی وہ پوری ہوگئی.مثلاً وہ دیکھتا ہے کہ تنظیم کے بدلہ میں 1947ء میں قادیان فسادات سے محفوظ رہا.جماعت نے دشمن سے مقابلہ کرتے ہوئے عزت سے قادیان چھوڑا اور جماعت کا ایک حصہ اب بھی وہاں بیٹھا ہے.وہ دیکھتا ہے کہ جب پنجاب کی کوئی جگہ ہندوؤں اور سکھوں سے محفوظ نہ رہ سکی تھی قادیان محفوظ رہا یا.جب وہ ان رپورٹوں کو پڑھتا ہے جو بیرونی ممالک سے ہمارے مبلغین بھیجتے ہیں تو وہ اپنے آپ کو بڑا بھاری سمجھتا ہے.مثلاً وہ دیکھتا ہے کہ جرمنی، فرانس، انگلینڈ اور دیگر یورپین ممالک کے لوگ ہماری تعلیم سُن کر اس کے قائل ہو رہے ہیں اور عیسائیت سے تو بہ کر کے اسلام میں داخل ہو رہے ہیں.جب وہ دیکھتا ہے کہ کیا عرب، کیا ایران، کیا افغانستان

Page 141

$1949 132 خطبات محمود ساری بیرونی دنیا میں یہ احساس پایا جاتا ہے کہ اس وقت اگر کوئی جماعت غالب آ سکتی ہے تو وہ جماعت احمدیہ ہے اور ادھر وہ اپنے آپ کو دیکھتا ہے تو اُن کی مثال آٹے میں نمک کی طرح ہے.گاؤں کے گاؤں نہ صرف احمدیت سے خالی ہیں بلکہ وہ احمدیت کے نام سے بھی آشنا نہیں.دنیا کے کئی علاقے ایسے ہیں جہاں احمدی نہیں پائے جاتے.وہ دیکھتا ہے کہ باوجود تعداد میں کم ہونے کی اور کمزور ہونے کے جماعت کو عظمت حاصل ہے.اس قسم کے متواتر خیالات آنے کے بعد وہ خیال کر لیتا ہے کہ وہ جیت گئے یا اُنہوں نے پانسہ مار لیا.لیکن جب وہی معقولیت سے دیکھنے والا شخص یہ دیکھتا ہے کہ ہم میں کمزوریاں پائی جاتی ہیں، ہم میں غفلت پائی جاتی ہے، وہ تنظیم اور وہ قربانی اور ایثار جماعت میں نہیں پایا جاتا جو جیتنے والی قوموں میں ہوا کرتا ہے.جیتنے والی قوموں کے افراد کو اگر تنظیم کے لیے اپنے بچوں کی قربانی کی بھی ضرورت پڑتی ہے تو وہ کرتے چلے جائیں گے.اپنی قوم کو بڑھانے اور اس کو اونچالے جانے کے لیے ہر قسم کے ایثار سے کام لیتے ہیں.جب یہ شخص یہ ای دیکھتا ہے کہ ابھی اس قسم کی چیزیں جماعت میں پیدا نہیں ہوئیں تو وہ اس طبہ میں پڑ جاتا ہے کہ کیا ہے یہ ایک پھول تھا جو خوبصورت تو تھا لیکن وہ تھا پھول جس نے درخت کی عمر نہیں پائی.گلاب کی شکل آم سے زیادہ خوبصورت ہوتی ہے، وہ برگد 1 سے زیادہ خوشبودار ہوتا ہے لیکن پھول پھول ہی ہوتا ہے ہے وہ درخت نہیں کہلا سکتا.جہاں تک خوشبو، نزاکت اور لطافت کا تعلق ہے گلاب کا پودا، برگ ، آم اور انگور سے بہت اچھا ہے.لیکن جہاں تک مضبوطی اور زیادہ عمر پانے کا تعلق ہے آم کا درخت ہے تین چارسوسال اور انگور اور برگد کے درخت پندرہ سولہ سوسال تک عمر پا جاتے ہیں لیکن گلاب کا پودا ہے چند موسم پھول دے کر ختم ہو جاتا ہے.جب وہ ان باتوں پر غور کرتا ہے تو اس کی رائے بدل جاتی ہے ہے.مگر ایک مومن جو عقل کی نگاہ سے نہیں خدا تعالیٰ کی نگاہ سے دیکھتا ہے یہ سمجھتا ہے کہ نہ اس نے یہ پہلے کوئی کام کیا ہے، نہ اس نے اب کرنا ہے.یہ خدا تعالیٰ کا کام ہے وہ خود کرے گا.پہاڑ ، ستارے اور دوسری چیزیں جو دنیا میں نظر آتی ہیں وہ کب ہم نے بنائی ہیں؟ کتنے تغیرات ہیں جن کی میں ہمارا ہاتھ نہیں تھا لیکن وہ واقع ہوئے.ان کے سامنے اس کی کچھ بھی نسبت نہیں.یہ آپ ہی آپ ہو جائے گا اور خدا تعالیٰ اسے مکمل کرے گا.غرض خواہ تقدیر الہی پر ایمان لانے والا دیوانہ ہو یا معقول فلسفی وہ یقین رکھتا ہے کہ یہ کام خدا تعالیٰ ہی کرے گا.

Page 142

خطبات محمود 133 $1949 بعض فرقے ایسے ہیں جو بنیادی طور پر یہ تعلیم دیتے ہیں کہ سب کام خدا تعالیٰ ہی کرتا ہے انسان کا ان کاموں میں ہاتھ نہیں ہوتا.لیکن بعض فرقے ایسے ہیں جو بنیادی طور پر یہ تعلیم دیتے ہیں کہ بے شک ہر کام خدا تعالیٰ ہی کرتا ہے لیکن خدا تعالیٰ کام اُس وقت کرتا ہے جب اس کے ساتھ تم بھی وہ کام کرو.جب بندے وہ کام نہیں کرتے تو اس کی مدد رک جاتی ہے اور خدا تعالیٰ ان کی کو مٹا کر ایک دوسری قوم کھڑی کر دیتا ہے جو اُس کام کو بجا لاتی ہے.قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ الہی تقدیر دنیا میں دو طریقوں سے جاری ہے.کبھی ایسا ہوتا ہے کہ بندے جب خدا تعالیٰ کے ساتھ نہیں چلتے تو خدا تعالیٰ اپنی مدد روک لیتا ہے جیسا کہ فرمایا إِنَّ اللهَ لَا يُخَيَّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتَّى يُخَيَّرُ وا مَا بِأَنْفُسِهِمْ 2 خدا تعالیٰ کسی قوم کو تباہ نہیں کرتا جب تک وہ خود اپنے آپ کو تباہ نہیں کرتی، جب تک وہ اپنا ہاتھ خدا تعالیٰ کی تائید میں ہلاتی رہتی ہے وہ بچی رہتی ہے لیکن جب وہ خدا تعالی کی تائید میں اپنا ہاتھ ہلانے سے رُک جاتی ہے خدا تعالیٰ بھی اپنے ہاتھ کو روک لیتا ہے اور اس قوم کو تباہ کر دیتا ہے.اُس کا دوسرا قانون یہ ہے کہ بعض حالتوں میں اگر انسان خدا تعالیٰ کا کام کرنے سے رُک جاتا ہے تو وہ یہ نہیں کرتا کہ اپنی مدد کو روک لے اور مذہب کو تباہ کر دے بلکہ وہ یوں کرتا ہے کہ خدا تعالیٰ کے کام سے رُک جانے والی قوم سے اپنی مدد کو روک لیتا ہے اور اُس کی جگہ دوسری قوم کھڑی کر دیتا ہے جو خدا تعالیٰ کے حکم کے ماتحت اُس کام کو بجالاتی ہے.گویا خدا تعالیٰ کا دوسرا قانون یہ ہے کہ جب کوئی قوم ایک کام سے اپنے ہاتھ کو روک لیتی ہے تو وہ اُس کے افراد کو تباہ کر دیتا ہے اور دوسری قوم کھڑی کر دیتا ہے.یہ سنت زندہ مذہبوں کے متعلق ہے.پس احمدیت کے بارہ میں ہم یہ نتیجہ تو نہیں نکال سکتے کہ کوئی کام ہمارے کرنے کے بغیر آپ ہی آپ ہو جائے گا.ہمیں وہی نتیجہ نکالنا پڑے گا جو قرآن کریم نے نکالا ہے یعنی اگر تم سستی کرو گے تو وہ تم کو تباہ کر کے کوئی دوسری قوم تمہاری جگہ کھڑی کر دے گا.انسانوں کے ذمہ بعض دفعہ ایسا کام لگا دیا جاتا ہے جس کے متعلق فیصلہ ہوتا ہے کہ وہ ضرور ہوگا.غرض اس کام کے پورا کرنے میں انسان کا دخل نہیں ہوتا.لیکن اس کے پورا کرنے میں جو اُس کا حصہ ہوتا ہے اُس کا چھوٹا یا بڑا ہونے میں اُس کا دخل ہوتا ہے.پس جہاں تک کہ افراد کے رتبہ، عزت اور برکات

Page 143

$ 1949 134 خطبات محمود حاصل کرنے کا سوال ہے اُس حد تک تو واقعات کی رو میں فرق پایا جاسکتا ہے.اگر وہ قربانی کریں تو وہ رتبہ اور عزت حاصل کر سکتے ہیں.اگر نہ کریں تو تباہ و برباد بھی ہو سکتے ہیں.لیکن جہاں تک اصل مقصد کا تعلق ہے وہ بدل نہیں سکتا.وہ کام پورا ہو کر رہتا ہے خواہ ان کے ہاتھ سے ہو خواہ وہ ای کسی دوسرے کے ہاتھ سے.ہمارا جو دعوای ہے اگر ہم اُس میں بچے ہیں تو ہم دوسری قسم کے کی لوگوں میں شامل ہیں.ہمارے سپر د ایک ایسا کام کیا گیا ہے جو ہو تو جانا ہے.ہم اپنی ذمہ داریوں کو ادا کریں تو عزت ہمیں مل جائے گی.نہ کریں تو کوئی دوسری قوم اس عزت کو حاصل کر لے گی.اور خدا تعالیٰ غافلوں کو تباہ و برباد کر کے دوسری قوم کھڑی کر دے گا جو اپنی ذمہ داریوں کو ادا کرتے ہوئے اُس کام کو پورا کرے گی.جب ایک نوکر اگر کام نہیں کرتا اور اپنی ذمہ داریوں کو ادا کرنے میں سستی اور غفلت سے کام لیتا ہے تو آقا اُس کو گھر سے نکال دیتا ہے.اس سے اُس کا کام تو بند نہیں ہو جاتا.یا مثلاً سکول جاری کیے جاتے ہیں اگر کوئی مدرس کام نہیں کرتا تو اُسے نکال دیا جاتا ہے ہے.اس سے پڑھائی تو بند نہیں ہوتی بلکہ دوسرا مدرس رکھ لیا جاتا ہے جو پہلے مدرس کی جگہ پر کام کرتا ہے.غرض یا تو ہماری جماعت وہ کام کرے گی جو خدا تعالیٰ کی طرف سے اُس کے سپرد کیا گیا ہے اور یا ایک اور قوم کھڑی کر دی جائے گی جو خدا تعالیٰ کے حکموں کو بجالائے گی.پس ہماری جماعت اگر یہ مضمون سمجھ لے کہ کام تو خدا تعالیٰ نے کرنا ہے لیکن عزت اُن کو ملے گی جو اس کام میں خدا تعالیٰ کا ہاتھ بن جائیں گے.اگر وہ خدا تعالیٰ کا ہاتھ نہیں بنیں گے تو وہ انہیں باہر نکال کر پھینک دے گا.تو یقیناً اس میں ایک سچی تبدیلی پیدا ہو جائے گی اور وہ کامیابی کے راستہ پر چل پڑے گی.اگر کوئی شخص یہ کہتا ہے کہ جب وہ کام ضرور ہونا ہے تو وہ آپ ہی آپ ہو جائے گا ہمیں اس میں ہاتھ بٹانے کی کیا ضرورت ہے تو وہ احمق ہے.وہ کام تو بیشک ہو جائے گا لیکن وہ اور اُس کی اولا د برباد ہو جائے گی.یا اگر وہ سمجھتا ہے کہ بربادی اس قدر بڑھ گئی ہے کہ اب وہ کام نہیں کر سکتا تو وہ بھی احمق ہے.کام تو وہ ضرور ہو گا لیکن اُس کا منہ کالا ہو گا.کیا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں یہ تغیرات نہیں ہوئے؟ جن لوگوں نے آپ کی مخالفت کی وہ کس طرح شرمنا ہوئے.

Page 144

* 1949 135 خطبات محمود پس آج بھی جو چیز دنیا کی نظروں میں ناممکن ہے وہ خدا تعالیٰ کے لیے آسان ہے.بعض چیزیں جو دنیا کی نظروں میں عجیب ہوتی ہیں وہ خدا تعالیٰ کی نظر میں آسان ہوتی ہیں.چنانچہ اب بھی جو تغیر دنیا میں پیدا ہونے والا ہے وہ خدا تعالیٰ کے لیے نہایت آسان ہے.جواحمدی احباب اس کام کو پورا کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور انہیں اخلاق فاضلہ حاصل ہیں اُن میں سے بھی ایک طبقہ ایسا ہے جو اپنی ذمہ داری کو نہیں سمجھتا.بعض لوگ خیال کرتے ہیں کہ ہماری ترقی اُس وقت شروع ہو گی جب ہماری کثرت ہو گی.کثرت کے بغیر بھی قو میں کام کرتی ہیں.ہندوستان پر انگریزوں نے سینکڑوں سال حکومت کی.انہوں نے کیا اپنی کثرت کی وجہ سے ی ایسا کیا؟ اُن کی تعداد چالیس پچاس لاکھ تھی اور چالیس کروڑ کے قریب ہندوستانی تھے.گویا آٹھ سو ہندوستانیوں پر ایک انگریز تھا.آٹھ سو بکریوں کو بھی ایک چرواہا قابو میں نہیں رکھ سکتا ، آٹھ سو گائیوں کے کو بھی ایک پرانے والا اپنے قابو میں نہیں رکھ سکتا، آٹھ سو اونٹوں کو بھی ایک پرانے والا اپنے قبضہ میں نہیں رکھ سکتا، آٹھ سو مُرغیوں کو بھی ایک آدمی نہیں پال سکتا، آٹھ سو چڑیوں کی بھی ایک انسان نگرانی نہیں کر سکتا.پھر کتنی کمزوری تھی ہندوستانیوں میں اور کتنی خوبی تھی انگریز کیریکٹر کی کہ ایک انگریز آٹھ سو ہندوستانیوں کو جو اُس جیسے ہی سمجھ بوجھ والے تھے ، ایسی ہی عقل رکھتے تھے ایک گڈریا نی کی طرح نہ صرف چلایا بلکہ ایسی تنظیم اور قانون کے ماتحت چلایا کہ خود ہندوستانی بھی اور دنیا بھی حیران تھی.اگر انگریز باوجود قلیل التعداد ہونے کے اپنے سے کثیر التعداد ہندوستانیوں پر حکومت کر سکتے ہیں تو احمدی اپنی خوبی اور حسنِ سلوک کی وجہ سے لوگوں کے قلوب پر کیوں حکومت نہیں کر سکتے ؟ میں نے پاکستان میں سینکڑوں آدمیوں سے یہ سُنا ہے کہ موجودہ حکومت سے انگریز کی حکومت بدرجہا بہتر تھی.یہ لوگ معمولی درجہ کے نہیں تھے بلکہ ممبرانِ اسمبلی ، بڑے بڑے قومی لیڈر اور اخباروں کے ایڈیٹر تھے.میں تو اُن سے متفق نہیں ہوں.خدا تعالیٰ نے یہ حکومت ہمیں دی ہے اور یہ بہر حال ہمارے لیے بہتر ہے.ہاں! نا تجربہ کاری کی وجہ سے بعض تکلیفیں پہنچ جاتی ہیں لیکن وہ عارضی ہیں.سب سے بڑی چیز یہ ہے کہ اب خدا تعالیٰ نے ہمارے ہاتھ کھول دیئے ہیں.اب ہمیں کسی سے تکلیف پہنچے تو ہم اُس کا مقابلہ کر سکتے ہیں.پنجرے میں پڑا ہوا جانور چاہے تو آپ

Page 145

$1949 136 خطبات محمود اُس کے آگے موتی ڈالیں یا گندم بہر حال قیدی ہے.غرض موجودہ حکومت پہلی حکومت.بہر حال بہتر ہے.اب ہمیں اصلاح کرنے کا موقع حاصل ہے.اُس حکومت میں اصلاح کرنے کا موقع حاصل نہیں تھا.مگر بہر حال کہنے والوں نے کہا کہ موجودہ حکومت سے انگریزوں کی حکومت بہتر تھی.اب کانگرس والے بھی شور مچا رہے ہیں کہ انگریزوں کی حکومت موجودہ حکومت سے بہتر تھی.غرض انگریزوں نے سینکڑوں سال تک ہندوستان پر حکومت کی اور ایسی حکومت کی کہ خود قیدی بھی اُن کی تعریف کرتے ہیں اور پھر عجیب بات یہ ہے کہ قیدیوں کو جیل خانہ سے نکال دیا گیا ہے.تم چاہے انہیں بیوقوف کہو یا احمق اُن میں ایسے لوگ بھی موجود ہیں جو خواہش رکھتے ہیں کہ کاش! انہیں پھر قید خانہ کی زندگی مل جائے.اس کی وجہ کیا تھی؟ یہ انگریزوں کی عقلمندی تھی ، اُن میں ایثار اور قربانی کا مادہ پایا جاتا تھا.اگر تم بھی اپنی اصلاح کر لو ، لوگوں کے لیے اپنے آپ کو مفید بنالو، اُن کی کے لیے سکھ کا موجب بن جاؤ، اُن سے ہمدردی کرو، عقل سے کام لو اور انہیں عقل سکھاؤ تو تم ای آسانی سے اُن کے قلوب پر حکومت کر سکتے ہو.یہ سب سے بڑی مصیبت ہے کہ ہم عقل سے کام نہیں لیتے.بعض دفعہ حکومت بڑی سوچ بچار کے بعد ایک سکیم مرتب کرتی ہے لیکن ادنیٰ سے ادنیٰ آدمی بھی اس پر اعتراض کرنے لگ جاتا ہے.ہم خود مہینوں کے بعد ایک سکیم بناتے ہیں لیکن بیوقوف لوگ اس پر اعتراض کرنے لگ جاتے ہیں حالانکہ وہ اُن مشکلات کو مد نظر نہیں رکھتے جن کو مدنظر رکھ کر وہ سکیم تیار کی گئی تھی.اگر وہ لوگ اُس سکیم کو نہیں سمجھ سکتے تب بھی انہیں یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ اُس پر اعتراض کریں.انہیں یہ حق حاصل ہے کہ وہ اُسے سمجھنے کی کوشش کریں.خدا تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کو پیدا کیا.فرشتوں کی سمجھ میں یہ بات نہ آئی لیکن انہوں نے خدا تعالیٰ کے اس فعل پر اعتراض نہیں کیا بلکہ انہوں نے اسے سمجھنے کی کوشش کی.حضرت ابراہیم علیہ السلام کو جب اپنی قوم کی گری ہوئی حالت کا احساس ہوا اور آپ نے خیال کیا کہ میری قوم کیونکر ترقی کرے گی اور خدا تعالیٰ کے وہ وعدے جو میری قوم کے حق میں ہیں کیونکر پورے ہوں گے تو آپ نے اس پر اعتراض نہیں کیا بلکہ اُسے سمجھنے کی کوشش کی.جو شخص کسی بات کو سمجھنے کی کوشش کرتا ہے اُس کا علم بڑھے گا.اور جو اعتراض کرتا ہے اُس کا علم گھٹے گا کیونکہ وہ حقیقت کو معلوم کرنے کی بجائے وسوسہ میں پڑ جاتا ہے اور وسوسہ میں پڑ جانے سے اعلیٰ مقام پر نہیں پہنچا جا سکتا.تم وہ بلند مقام پیدا کرنے

Page 146

$ 1949 137 خطبات محمود کی کوشش کرو جو نبیوں کی جماعتوں کو حاصل ہوتا ہے.تمہیں یہ بھول جانا چاہیے کہ تم تھوڑے ہو.تم اگر معاملات میں سچائی اور دیانتداری سے کام لو گے، تم اگر راستبازی اختیار کرو گے تو لوگ تمہاری ہے ہمدردی، تمہاری مدد اور خوشنودی کو حاصل کرنے کے لیے تمہارے ارد گرد خود بخود جمع ہونے شروع کی ہو جائیں گے اور تمہیں آپ ہی آپ طاقت حاصل ہو جائے گی.تم لوگوں کے قلوب پر حکومت کی کرنے لگو گے.گویا تم بے تخت کے بادشاہ ہو جاؤ گے.یہی سندھ کا علاقہ ہے اس میں ہم بیشک کی تھوڑے ہیں لیکن اگر ہم اپنی حسن کارکردگی سے اور خوش معاملگی سے لوگوں میں اثر پیدا کر لیں تو لوگ آپ ہی آپ ہمارے پاس آئیں گے.میں نے بعض آدمی دیکھے ہیں وہ تھوڑے تھے لیکن انہوں نے دوسرے لوگوں کے اندر اثر پیدا کر لیا اور یہ حقیقت ہے کہ جو کام ایک آدمی کر سکتا ہے ایک قوم اُس سے زیادہ کر سکتی ہے.آپ ایک قوم ہیں.انگلستان، جرمنی اور فرانس وغیرہ ممالک کی اگر غیر ممالک پر حکومت کر سکتے ہیں تو کیوں تم حکومت نہیں کر سکتے ؟ وہ لوگ تو دوسروں کو غلام بنانے آئے ہیں.آپ اگر انہیں اُبھاریں، اُن کے لیے مفید وجود بنیں اور اُن کے دلوں کو اچھا تھی بنانے کی کوشش کریں تو کیا وجہ ہے کہ اس نمایاں فرق کی وجہ سے لوگ تمہارے دل سے فرمانبردار نہ ہو جائیں ، وہ تمہیں اپنا افسر نہ بنا لیں.بسا اوقات خدمت کرنے والا مخدوم ہو جاتا ہے اور محبت وہ کام کر جاتی ہے جو زور اور طاقت اور ہتھیار سے نہیں ہوسکتا.پس میں جماعت کو نصیحت کرتا ہوں کہ وہ اپنی کمزوریوں پر نظر رکھے بلکہ انہیں دور کرنے کی کی کوشش کرے.تم یہ مت سوچا کرو کہ تم کمزور ہو.تم یہ سوچا کرو کہ تم اس طاقت سے جو تمہیں حاصل ہے کس طرح فائدہ اُٹھا سکتے ہو.اگر تم ایسا کرو گے تو اس علاقہ میں جہاں ہم غیر کے طور پر ہیں لیڈروں کے طور پر رہیں گے اور ناراضگی سے نہیں بلکہ ہماری خوشنودی حاصل کرنے کے لیے لوگ ہمیں لیڈر قرار دیں گے.مگر ضرورت ہے قربانی کی ضرورت ہے ایثار کی ضرورت ہے محنت کی.جب تک یہ چیزیں پیدا نہیں ہو جاتیں ہم اپنا مقصد حاصل نہیں کر سکتے.1 : برگد: بڑ کا درخت جس میں لمبے لمبے گچھے سے لٹکے رہتے ہیں.: 2 الرعد: 12 الفضل 28 /اگست 1949 ء )

Page 147

* 1949 138 15 خطبات محمود منافقت ایک خطر ناک مرض ہے جو تمام برائیوں کی جڑ ہے (فرمودہ 3 جون 1949ء بمقام ناصر آباد اسٹیٹ سندھ ) تشهد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: دُنیا میں سب سے بڑی مرض منافقت ہے.قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ان الْمُنْفِقِينَ فِي الدَّرْكِ الْأَسْفَلِ مِنَ النَّارِ 1- منافق دوزخ کے سب سے نچلے درجہ میں ہوں گے.منافق ہمیشہ دوست بن کر دشمنی کرتا ہے اور ظاہری جامہ وہ ایسا پہنا کرتا ہے کہ گویا تمہیں اپنی خیر خواہی کا یقین دلاتا ہے.منافقت جتنی جتنی پھیلتی ہے اتنی ہی جماعت کمزور ہوتی جاتی ہے ہے.کسی بُری چیز کو اچھی شکل دے دینا کوئی مشکل امر نہیں ہوتا.بعض سادہ لوح ہوتے ہیں.لوگ انہیں تمسخر کرتے ہیں تو ان کی پیٹھ پر تھپڑ مار دیتے ہیں اور کہتے ہیں اوہو! تمہاری پیٹھ پر تو مٹی لگی ہوئی ہے.وہ ظاہر یہ کرتے ہیں کہ گویا اس کی خدمت کر رہے ہیں لیکن دراصل وہ اس کا تمسخر اڑا رہے ہوتے ہیں.اس طرح وہ کئی قسم کی باتیں بنا بنا کر اپنی نیک نیتی کا اظہار کرتے ہیں لیکن کی واقعات پردہ ہٹا کر یہ ظاہر کر دیتے ہیں کہ آیا ان کا فعل نیک نیتی پر منی تھا یا بد نیتی پر.احادیث میں آتا ہے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک بیوی ایک سفر میں گئیں.یہ حضرت عائشہ تھیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ دستور تھا کہ آپ ہمیشہ ہر سفر میں

Page 148

* 1949 139 خطبات محمود ایک آدمی پیچھے چھوڑ جایا کرتے تھے تا کہ وہ ادھر ادھر دیکھ لے کہ قافلہ کی کوئی چیز پیچھے تو نہیں رہ گئی.اسی طرح اس سفر میں آپ ایک صحابی کو اسی غرض کے لیے اپنے پیچھے چھوڑ گئے تا وہ ادھر اُدھر دیکھتا ہے ہوا آئے اور اگر قافلہ کی کوئی چیز گر گئی ہو تو وہ اُسے اُٹھا لے.وہ صحابی گرے پڑے سامان کی تلاش کی میں ادھر ادھر پھر رہے تھے کہ انہوں نے دیکھا کہ میدان میں ایک عورت لیٹی ہوئی ہے.پاس آئے تو معلوم ہوا کہ حضرت عائشہ ہیں جو غلطی سے پیچھے رہ گئی ہیں.بات یہ ہوئی کہ جب رات کو قافلہ چلا تو حضرت عائشہ اس وقت قضائے حاجت کے لیے باہر گئی ہوئی تھیں اور چونکہ آپ اُن دنوں دبلی پتلی تھیں اور آپ کا بوجھ کم تھا قافلہ کے منتظم نے اُن کا ہودج اٹھا کر اونٹ پر رکھ دیا اور خیال کی کیا کہ آپ اندر ہی ہوں گی.جب آپ واپس آئیں اور دیکھا کہ قافلہ روانہ ہو چکا ہے تو آپ کو سخت پریشانی ہوئی اور وہیں بیٹھے بیٹھے سو گئیں.صبح جب اس صحابی نے آپ کو دیکھا تو اُس نے زور ے إِنَّا لِلهِ وَ إِنَّا إِلَيْهِ رُجِعُونَ پڑھا.اس آواز سے حضرت عائشہ بیدار ہوگئیں.انہوں نے قریب آکر چپکے سے اپنا اونٹ بٹھا دیا.حضرت عائشہ سوار ہو گئیں اور وہ خود باگ پکڑ کر مدینہ چل پڑے.جب مدینہ میں پہنچے تو بعض لوگوں نے جو منافق تھے یہ باتیں کرنا شروع کر دیں کہ حضرت عائشہ کا پیچھے رہنا بلا وجہ نہیں تھا بلکہ اس میں ضرور کوئی بات ہے.2.چنانچہ قرآن کریم میں بھی اس واقعہ کا ذکر آتا ہے.اُن لوگوں کی منافقت کی بڑی علامت یہی تھی کہ وہ اصل آدمی کے پاس جا کر بات نہیں کرتے تھے.کسی شخص کا اصل آدمی کے پاس جا کر اُسے اُس کی برائی کی طرف توجہ نہ دلانا بلکہ ادھر اُدھر لوگوں میں اُس کی طرف منسوب کر کے بُرائی پھیلانا اس بات کا ثبوت کی ہوتا ہے کہ وہ منافقت کرتا ہے اور اس کی ظاہری خیر خواہی محض بناوٹ ہے.اُس کی اصل غرض یہ ہے کہ بدظنی اور بُرائی پھیلے.ورنہ وجہ کیا ہے کہ وہ اصل آدمی کے پاس جا کر اپنی بات بیان نہیں ہے کرتا.یہ منافقت نہیں تو اور کیا ہے؟ کیا اس طرح اُس شخص کی اصلاح ہو جائے گی؟ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ منافق ہمیشہ شرافت سے تجارت کرتا ہے.ہم دیکھتے ہیں کہ کتا اپنے مالک کو دیکھ کر گو دتا ہے، نوکر اپنے مالک کی وجہ سے ناز کرتا ہے.کوئی شخص کسی سے بد کلامی کرتا ہے تو اس لیے کہ وہ سمجھتا ہے میں اگر اسے گالیاں دوں گا تو یہ خاموش رہے گا.اسی طرح ایک منافق دوسرے نص کی شرافت کی وجہ سے ایسا کرتا ہے کیونکہ وہ سمجھتا ہے یہ شریف آدمی ہے اس لیے یہ میری.

Page 149

* 1949 140 خطبات محمود بد کلامی کا جواب نہیں دے گا.میں بے حیائی کرلوں تو کوئی حرج نہیں.غرض کسی شخص کی منافقت کی سب سے بڑی علامت یہ ہے کہ وہ اصل شخص کے سامنے س کی بُرائیاں بیان نہیں کرتا بلکہ دوسرے لوگوں میں بدظنی پھیلاتا ہے.اس علامت کے ہوتے ہی ہوئے اگر کوئی شخص کسی منافق کو پہچان نہیں سکتا تو اس سے احمق دنیا میں اور کوئی نہیں.منافق کی تی پہچان سے زیادہ آسان پہچان اور کسی چیز کی نہیں.اگر کوئی شخص زید کی بُرائیاں بکر کے سامنے بیان کرتا ہے تو یہ یقینی طور پر اس کی منافقت کی علامت ہے.ہم فرض کر لیتے ہیں کہ اس کی غرض اصلاح ہے لیکن کیا زید کی بُرائیاں بکر کے سامنے بیان کرنے سے اُس کی اصلاح ہو جائے گی.زید کی اصلاح تو اسی وقت ہوگی جب وہ زید کے پاس جا کر اسے اس کے نقص کی طرف توجہ دلائے گا اور کہے گا تم میں فلاں فلاں نقص ہے.یا مثلاً فضل دین نماز نہیں پڑھتا وہ بدر دین کے پاس جا کر کہتا ہے فضل دین نماز نہیں پڑھتا یا مثلاً بدردین روزے نہیں رکھتا وہ فضل دین کے پاس جا کر کہتا ہے بدر دین روزے نہیں رکھتا تو اب کیا بدر دین کے پاس باتیں کرنے سے فضل دین نماز پڑھنے لگ جائے گا؟ یا فضل دین کے پاس باتیں کرنے سے بدر دین روزے رکھنے لگ جائے گا؟ فضل دین کی اصلاح اُسی وقت ہوگی جب وہ اس کے پاس جا کر کہے گا کہ تم نماز نہیں پڑھتے اور یہ بُری بات ہے تم اپنی اصلاح کرو.اور بدر دین کی اصلاح اُسی وقت ہو گی جب وہ اُس کے پاس جا کر کہے گا کہ تم روزے نہیں رکھتے یہ بُری بات ہے تم اپنی اصلاح کی طرف توجہ کرو.مگر جو شخص ایک آدمی کی بُرائیاں دوسرے کے سامنے بیان کرتا ہے وہ اس بات کا ثبوت بہم پہنچاتا ہے کہ وہ منافق ہے.حضرت خلیفہ امسیح الاول سنایا کرتے تھے کہ ایک عورت ایک شخص کو جو اس کے پاس سے گزر رہا تھا گالیاں دے رہی تھی.اس شخص سے پوچھا گیا کہ تم نے اسے کیا کہا ہے؟ اس نے کہا میں نے اسے سلام کیا تھا اور یہ گالیاں دینے لگ گئی ہے اور تو کوئی بات نہیں ہوئی.لوگوں نے اس می عورت سے بھی دریافت کیا کہ تم اسے گالیاں کیوں دیتی ہو؟ اس نے تو تمہیں صرف سلام کیا ہے.وہ کہنے لگی یہ شخص مجھے کہتا ہے ”بھابی کانٹے ! سلام“.گویا وہ شخص سلام کی خاطر سلام نہیں کرتا تھا بلکہ بھابی کانی کہنے کی خاطر سلام کرتا تھا.جس شخص کی اصلاح مدنظر ہو اُس کی بُرائیاں اُسی کے سامنے یا اس کے گارڈین کے سامنے بیان کرنی چاہیں تبھی اس کی اصلاح ہو سکتی ہے.ہو سکتا ہے کہ وہ کی

Page 150

$1949 141 خطبات محمود بات سچ ہو اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ وہ جھوٹ ہو لیکن کہنے کا فائدہ اسی صورت میں ہو سکتا ہے کہ بات اسی شخص کے سامنے بیان کی جائے جس کے ساتھ اُس کا تعلق ہو.لیکن اگر کوئی شخص اصل آدمی کے علاوہ کسی اور کے سامنے باتیں کرتا ہے تو یہ علامت ہے اس کی منافقت کی.کیا تم میں سے کوئی شخص ایسا ہے جو یہ دعوی کرے کہ میں اتنی چھوٹی عقل کا ہوں کہ میں ایک منافق کو بھی پہچان نہیں سکتا ؟ قرآن کریم کہتا ہے کہ منافق کو پہچاننا نہایت آسان ہے.اس کی پیشانی پر منافق لکھا ہوا دیکھتے ہیں.یہ نہیں کہ واقع میں یہ لفظ ان کی پیشانی پر سیاہی سے لکھا ہوا ہوتا ہے.بلکہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے داحمد تَعْرِفُهُمْ بِیمُهُم 3 منافق کی کچھ علامتیں ہوتی ہیں جن سے وہ پہچانا جاتا ہے.ان علامتوں کی میں سے ایک علامت یہ بھی ہے کہ وہ دوسرے کے پاس جا کر تمہاری بات کرتا ہے.وہ تمہارے سامنے آ کر وہ بات بیان نہیں کرتا.اگر تم چندہ نہیں دیتے اور واقع میں وہ تمہاری اصلاح کرنی چاہتا ہے تو وہ تم سے کہے کہ تم چندہ کیوں نہیں دیتے ؟ اگر تمہارا کوئی دوست نماز نہیں پڑھتا اور اسے سچ سچ اس کی اصلاح مدنظر ہے تو جو نماز نہیں پڑھتا اسے جا کر کہنا چاہیے کہ تم نماز پڑھا کرو.مثلاً فضل دین چندہ نہیں دیتا اور نورالدین نماز نہیں پڑھتا.اب فضل دین کے پاس جا کر یہ کہنے سے کہ نورالدین نماز نہیں پڑھتا نورالدین کس طرح نماز پڑھنے لگ جائے گا.یا نورالدین کے پاس جا کر یہ کہنے سے کہ فضل دین چندہ نہیں دیتا کیا وہ چندہ دینے لگ جائے گا؟ ایسا شخص منافق ہے جو تمہیں اپنے چندے اور نماز کا دھوکا دیتا ہے.وہ اپنے آپ کو ایک مصلح کے طور پر ظاہر کرتا ہے.اگر وہ مومن ہے اور اس کی غرض اصلاح ہے تو وہ کیوں فضل دین کے پاس جا کر نہیں کہتا کہ تم چندہ نہیں دیتے.نورالدین کے پاس جا کر کیوں کہتا ہے کہ فضل دین چندہ نہیں دیتا.اگر اس کی غرض اصلاح کی ہے تو وہ نورالدین کے پاس جا کر کیوں نہیں کہتا کہ تم نماز نہیں پڑھتے.وہ فضل دین کے پاس جا کر نورالدین کے نقص کیوں بیان کرتا ہے؟ اسی طرح یہی منافقت اُس کی باقی باتوں میں بھی دیکھی جاسکتی ہے.مثلاً قرآن کریم کہتا ہے کسی کو مارنا نہیں چاہیے وہ کسی کو مار بیٹھے اور کوئی دوسرا شخص اُس کو جا کر کہے میاں! تم نے اس کو کیوں مارا ہے؟ قرآن کریم تو کہتا ہے کسی کو مارنا نہیں چاہیے.تو وہ جواب دیتا ہے بھلا اس طرح گزارہ ہوتا ہے.گویا دوسرے معنوں میں وہ یہ کہتا ہے کہ خدا تعالیٰ اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم

Page 151

$1949 142 خطبات محمود ن نَعُوذُ بِاللہ غلط تعلیم دی ہے.وہ سمجھتا ہے کہ میرے سوا سب لوگ احمق ہیں.عقلمند صرف میں ہی ہوں.میں جو بات کہتا ہوں وہ درست ہے.قرآن کریم کہتا ہے تم عدل سے کام لو 4 لیکن وہ کہتا ہے کیا عدل اور انصاف سے بھی کام چلتا ہے.دوسرے لفظوں میں وہ یہ کہتا ہے کہ صرف وہی عقلمند ہے.محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور خدا تعالیٰ نے غلط تعلیم دی ہے.اور اگر یہی بات ہے تو ی اسے کس نے کہا تھا کہ وہ قرآن کریم کو مانے اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائے.لاکھوں عیسائی ایسے ہیں جو آپ پر ایمان نہیں لاتے ، لاکھوں یہودی ایسے ہیں جو آپ پر ایمان نہیں لاتے ، لاکھوں ہندو اور سکھ ایسے ہیں جو آپ پر ایمان نہیں لاتے.اسے کس گدھے نے کہا تھا کہ تو قرآن کریم کو مان اور پھر اس کی تردید کر.یا مثلاً قرآن کریم کہتا ہے تم سچ بولو مگر وہ کہتا ہے کہ جھوٹ کے بغیر تو گزارہ ہی نہیں.اس کے معنے یہ ہیں کہ یا تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور خدا تعالیٰ نے نَعُوذُ بِاللهِ علط تعلیم دی ہے اور یا کہنے والا گدھا ہے.اس گدھے کو کس نے کہا تھا کہ وہ قرآن کریم اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائے.آخر سارے ہندو، سکھ ، عیسائی اور یہودی بھی تو قرآن کریم اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نہیں مانتے اسے کس نے مجبور کیا ہے کہ وہ ادھر قرآن کریم پر ایمان لائے اور اُدھر کہے کہ یہ کتاب جھوٹی ہے.وہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائے اور پھر آپ کی تعلیم کے خلاف عمل کرے.غرض منافقت ایسی چیز نہیں جس کا پتانہ لگ سکے.کسی شخص کی منافقت کی علامت ہی یہی ہے کہ اگر اس کے پاس قرآن کریم کا حکم آجائے تو وہ کہہ دیتا ہے اس پر عمل کرنے سے ہمارا کام نہیں چلتا.اگر وہ یہودی ہوتا تو اس کی یہ بات درست تھی ، اگر وہ ہندو ہوتا تو اس کی یہ بات درست تھی ، اگر وہ عیسائی ہوتا تو اس کی یہ بات درست تھی ، اگر وہ سکھ ہوتا تو اس کی یہ بات درست تھی لیکن اپنے آپ کو مسلمان کہہ کر اور یہ کہہ کر کہ میں قرآن کریم کو مانتا ہوں وہ کہتا ہے جھوٹ کے بغیر ہمارا گزارہ نہیں اسی چیز کا نام منافقت ہے.وہ پہلے یہ کہے کہ میں قرآن کریم کو نہیں مانتا پھر ایک ایک آیت پڑھ کر اُسے جھوٹا کہے تو کوئی حرج نہیں.مگر ایک طرف وہ کہے کہ میں مسلمان ہوں اور قرآن کریم پر ایمان رکھتا ہوں اور دوسری طرف قرآن کہے سچ بولو 5 اور وہ کہے میں جھوٹ بولوں گا.قرآن کریم کہے تم کسی پر بہتان نہ لگاؤ لیکن وہ کہے میں بہتان لگاؤں گا.قرآن کریم کہے تم کسی پر

Page 152

$1949 143 خطبات محمود نہ کرو اور وہ کہے بھلا اس کے بغیر بھی کام چلتا ہے اور اس طرح وہ قرآن کریم کے ایک ایک حکم کو رڈ کرے اور پھر کہے میں لَا اِلهَ إِلَّا اللہ پر ایمان رکھتا ہوں تو وہ جھوٹا ہے.لَا إِلهَ إِلَّا اللهُ کا ہر حرف اُس پر لعنت کرتا ہے.اِس کا ہمزہ اُس پر لعنت کرتا ہے.اِس کا لام اُس پر لعنت کرتا ہے، اس کا دوسر الام اُس پر لعنت کرتا ہے.ایک طرف وہ کہتا ہے میں مسلمان ہوں اور قرآن کریم کو مانتا ہے ہوں دوسری طرف وہ کہتا ہے کہ نَعُوذُ بِاللہ اس کی ہر آیت جھوٹی ہے.قرآن کریم کہتا ہے سچ بولو مگر وہ کہتا ہے میں سچ نہیں بولوں گا.پھر وہ کہتا ہے میں مسلمان ہوں.یہ منافقت نہیں تو اور کیا ہے.اگر یہ علامات تم میں پائی جاتی ہیں تو تم منافق ہو.اگر تمہارا ہمسایہ قرآن کریم کے متعلق کہتا ہے کہ بھلا اس کی تعلیم پر چل کر گزارہ ہوسکتا ہے تو وہ بھی منافق ہے.اگر واقعی اس کے ساتھ کام نہیں چلتا تو خدا تعالیٰ اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نَعُوذُ بِاللهِ جھوٹے ہیں.لیکن اگر خدا تعالی اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سچے ہیں تو کام قرآن کریم سے ہی چلے گا.اور جو شخص یہ کہتا ہے کہ قرآن کریم پر چلنے سے کام نہیں چلتا وہ جھوٹا ہے.قرآن کریم نے جو کچھ کہا ہے وہ بہر حال سچا ہے.اگر تم اپنے آپ کو ٹولو تو دس آدمیوں میں سے پانچ چھ ایسے ہوں گے جو جہالت کی وجہ سے یہ نہیں سمجھتے کہ وہ منافقانہ رویہ اختیار کر رہے ہیں.اگر وہ اس بات کو جان لیں تو ضرور اپنی اصلاح کر لیں جیسے بعض بیمار ایسے ہوتے ہیں جو بیماری کا علم نہ ہونے کی وجہ سے بیماری کا علاج نہیں کراتے.اصل حقیقت یہ ہے کہ جب تک منافقت کو دور نہ کیا جائے مُجرم اور عدم مجرم کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا.محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ بعض لوگ تیرے پاس آتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم گواہی دیتے ہیں کہ آپ اللہ تعالیٰ کے سچے رسول ہیں.یہ کتنی سچی بات ہے آپ اللہ تعالیٰ کے سچے رسول تھے.اس میں طلبہ کی کوئی گنجائش نہ تھی لیکن خدا تعالی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کرتے ہوئے فرماتا ہے منافق تیرے پاس آتے ہیں اور کہتے ہیں ہم گواہی دیتے ہیں کہ آپ اللہ تعالیٰ کے سچے رسول ہیں لیکن میں گواہی کے وہ دیتا ہوں کہ وہ اپنے اس قول میں جھوٹے ہیں.دراصل بات تو وہ سچی کہتے تھے لیکن جب منہ سے یہ بات کہتے تھے تو اُن کے دل اس بات کو نہیں مانتے تھے.وہ منہ سے یہ کہتے تھے کہ آپ اللہ تعالیٰ کے سچے رسول ہیں مگر خدا تعالیٰ کہتا ہے وہ جھوٹے ہیں.اگر یہ بچے ہوتے تو یہ کہتے کہ ہم

Page 153

$1949 خطبات محمود 144 پ پر ایمان لاتے ہیں.غرض منافق کو پہچان لینا کوئی بڑی بات نہیں.ہر وہ آدمی جو تمہارے ملنے والے کی تمہارے پاس بُرائی بیان کرتا ہے تمہیں سمجھ لینا چاہیے کہ وہ منافق ہے.اگر وہ سچا ہوتا، اگر وہ نیک ہوتا تو وہ اصل آدمی کے پاس جاتا اور اُسے اصلاح کی طرف توجہ دلاتا.اس علامت کی کے ہوتے ہوئے جو شخص ایک منافق کو پہچان نہیں سکتا وہ سب سے بڑا احمق ہے.تمہیں یہ سمجھ لینا چاہیے کہ اگر وہ دوسرے کی بُرائیاں تمہارے سامنے بیان کرتا ہے تو وہ تمہاری بُرائیاں دوسروں کے سامنے بیان کرتا ہو گا.آخر اس کی وجہ کیا ہے کہ وہ دوسروں کی بُرائیاں تو تمہارے سامنے بیان کرے اور تمہاری بُرائیاں دوسروں کے سامنے بیان نہ کرے.در حقیقت تم اسے دوست سمجھ رہے ہوتے ہو اور وہ تمہیں احمق سمجھ رہا ہوتا ہے.وہ تمہیں بیوقوف بنا رہا ہوتا ہے اور تم واقع میں ہے بے وقوف ہوتے ہو کیونکہ تم اس کی بات سُن لیتے ہو.جب وہ تمہارے پاس آتا ہے اور دوسرے کی بُرائیاں بیان کرتا ہے تو تم اسے کہہ دو میں تمہاری باتیں سننے کے لیے تیار نہیں ہوں.تم منافق ہو.اگر تمہاری نیت نیک ہے تو تم اصل آدمی کے پاس جا کر اسے اصلاح کی طرف توجہ دلاؤ.مومن کا یہ طریق ہونا چاہیے کہ جب اس کے پاس ایسا آدمی آئے وہ اسے کہہ دے اگر تم میرے سامنے کی میری بُرائیاں بیان کرنا چاہتے ہو تو میں سننے کے لیے تیار ہوں اور دوسرے کی اگر نیکیاں بیان کرنا چاہتے ہو تب بھی میں سننے کے لیے تیار ہوں لیکن دوسرے کے عیوب سننے کے لیے تیار نہیں ہوں.اس کے عیوب سنانے ہیں تو اُسی کے پاس جاؤ اور اسے اصلاح کی طرف توجہ دلاؤ میں اس کی اصلاح کا ذمہ دار نہیں ہوں.بہر حال منافق کی پہچان کوئی بڑی بات نہیں.ہر جاہل سے جاہل آدمی بھی اسے پہچان لیتا ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے منافق کی بعض اور علامات بھی بیان کی ہیں.مثلاً آپ فرماتے ہیں کہ منافق جب بات کرتا ہے جھوٹ بولتا ہے.7 وَإِذَا خَاصَمَ فَجَرَ 8 اور جب وہ کسی سے جھگڑا کرتا ہے ، گالی گلوچ پر اُتر آتا ہے.اسی طرح وہ دوسرے پر اتہام لگا تا ہے، دوسرے کی ہے عیب چینی کرتا ہے.قرآن کریم کہتا ہے وہ یہ کام کسی نیک نیتی کی بناء پر نہیں کرتا بلکہ اس کا مقصد بے چینی اور بدظنی پھیلانا ہوتا ہے.جیسے فرمایا آن تَشِيعَ الْفَاحِشَةُ و تابے چینی اور پھیلے.اگر وہ نیک نیت ہے تو کیوں اصل آدمی کے پاس جا کر اس کی بُرائی بیان نہیں کرتا.مظنی

Page 154

خطبات محمود 145 $1949 غرض منافقت سب سے بڑی مرض ہے.دنیا کی تمام خرابیاں اسی سے پیدا ہوئی ہیں.اور سنجیدگی اور بہادری سے تقوی پیدا ہوتا ہے.تم ان باتوں پر غور کرنے کی عادت ڈالو اور دیکھو کہ آیا تم میں منافقت تو نہیں پائی جاتی ؟ اگر تم اپنے آپ میں منافقت کی علامات پاتے ہو تو اس کی اصلاح کی طرف توجہ کرو.دوسرے منافق ہمسایہ کو منہ لگانے کی عادت چھوڑ دو اور اس سے بچنے کی کوشش کرو.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ میں چک سکندر ضلع گجرات کے چند آدمی قادیان جایا کرتے تھے.ان کے قلندر خان اور سمندر خان وغیرہ نام تھے.وہ نہایت مخلص احمدی تھے اور ایک ساتھ قادیان جایا کرتے تھے.ایک دفعہ ان میں سے دو تین آدمی قادیان گئے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ایک ماموں زاد بھائی تھے وہ عمو بادرود وغیرہ کرتے رہتے تھے اور باغبانی کا انہیں شوق تھا.ان کی باغیچی بڑے باغ کے راستے میں تھی.اُس زمانہ میں لوگ تبر گا باغ کی زیارت کرتے تھے اس لیے کہ وہ آپ کے والد صاحب کا لگایا ہوا تھا.یہ لوگ بھی کی وہاں زیارت کے لیے گئے.ان میں سے ایک جلدی جلدی قدم اُٹھائے چلا جارہا تھا اور باقی دو اُس کے پیچھے پیچھے جا رہے تھے کہ ان میں سے جو شخص آگے پہنچا وہ ہمارے چچا کے پاس گیا.ہمارے چچا کو دوسرے لوگوں کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بیعت سے ورغلانے کی عادت تھی.انہوں نے اُس شخص سے کہا میاں ! تم یہاں کیوں آتے ہو؟ کیا مرزا صاحب سے ملنے آئے ہو؟ یہ تو محض دکانداری ہے.مرزا صاحب میرے رشتہ دار ہیں اُن کا خیر خواہ مجھ سے زیادہ اور کون ہوگا ؟ اگر وہ بچے ہوتے تو ہم کیوں ایمان نہ لے آتے تم کیوں اپنی عاقبت خراب کرتے ہو؟؟ یہ تو روپیہ کمانے کا ایک ذریعہ ہے، دکانداری ہے اس کے علاوہ اور کچھ نہیں.اُس دوست نے اپنے دوسرے بھائیوں کو جو اُس کے پیچھے پیچھے جا رہے تھے بلانا شروع کیا اور کہا جلد آؤ جلد آؤ.ہمارے جار چچانے یہ سمجھا کہ یہ شخص مجھ سے متاثر ہو گیا ہے اور اب اپنے دوسرے ساتھیوں پر اپنا اثر ڈالنا چاہتا.جب وہ دونوں قریب آئے تو انہوں نے پوچھا کیا بات ہے؟ اس نے اپنا ہاتھ ہمارے چچا کے ہاتھ میں دیا ہوا تھا اس نے اپنے ساتھیوں کو مخاطب ہو کر کہا قرآن کریم میں جب شیطان کا ذکر آتا تھا تو ہم حیران ہوتے تھے اور ہمیں شوق پیدا ہوتا تھا کہ شیطان کی شکل دیکھیں.خدا تعالیٰ لکھتا

Page 155

* 1949 146 خطبات محمود تھا کہ شیطان بھی ایک وجود ہے مگر یہ بات ہماری سمجھ میں نہیں آتی تھی.آج میں نے شیطان کو دیکھ لیا ہے.یہ شیطان ہے تم بھی اسے اچھی طرح دیکھ لو.چا اپنا ہاتھ چھڑانا چاہتے تھے مگر وہ ان کا ہاتھ نہیں چھوڑتا تھا اور کہتا تھا دیکھ لو، پھر نہ کہنا ہمیں پتا نہیں لگا کہ شیطان کیا ہوتا ہے.اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اس نے احمدیوں سے چھیڑ خانی چھوڑ دی.پس اگر تم مومن ہو تو جب بھی تمہارے پاس کوئی شخص دوسرے کی بُرائیاں بیان کرے تو اسے بتا دو کہ تم منافق ہو.ورنہ کیا وجہ ہے کہ تم اصل آدمی کے پاس جا کر یہ بُرائیاں بیان نہیں کرتے.اگر تم ایسا کرو گے تو وہ آئندہ جرأت نہیں کرے گا اور تمہارے ساتھی کے پاس جا کر بھی وہ تم ایسی باتیں نہیں کرے گا.اور اگر وہ تمہارے جیسا جری نہیں تب بھی وہ خیال کرے گا کہ کہیں یہ بھی ایسی جرات نہ کرے.اگر تم ایسا کرو گے تو تھوڑے دنوں میں اس کی منافقت دور ہو جائے گی.اگر تم ایسا نہیں کرتے تو گویا تم اُسے منافقت میں اور زیادہ دلیر ہو جانے کا موقع دیتے ہو.اور اُسے وہ بات کہنے کا موقع دیتے ہو جو عبداللہ بن اُبی بن سلول نے کہی.قرآن کریم میں آتا ہے کہ عبداللہ بن اُبی بن سلول نے کہا لَيُخْرِ جَنَّ الْاَعَةُ مِنْهَا الْاَذَل 10 جو شخص مدینہ میں اولا سب سے زیادہ معزز ہے نَعُوذُ بِاللہ سب سے ذلیل شخص یعنی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو وہاں سے نکال دے گا.اسے یہ جرات ایسے ہی لوگوں نے دلائی تھی جو اسے دیکھ کر واہ واہ کرتے تھے.وہ سمجھتا تھا میں ایک بڑا لیڈر ہوں، میں مدینہ میں سب سے زیادہ معزز ہوں اور میں مدینہ واپس جا کر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جو نَعُوذُ بِاللہ سب سے زیادہ ذلیل ہیں باہر نکال دوں گا.عبداللہ بن اُبی بن سلول کا دماغ منافقوں کی اس قسم کی باتوں کی وجہ سے خراب ہو گیا تھا.لیکن محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ کمال حاصل تھا کہ خدا تعالیٰ نے آپ کے اکثر ساتھی مومن پیدا کیے ہوئے تھے.عبداللہ بن ابی بن سلول کا ایک بیٹا تھا وہ بھی اس لشکر میں شامل تھا تی جس کے سامنے عبداللہ بن اُبی بن سلول نے یہ بات کہی تھی.وہ مدینہ کا بہت بڑا سردار تھا اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد سے پہلے مدینہ والوں نے اسے تاج پہنانے کا فیصلہ کیا ہوا تھا.اُس نے اپنی شان کے دھوکا میں آکر کہ مدینہ والے اس کے سر پر تاج رکھنے والے تھے اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ سے بھاگ کر وہاں پناہ گزیں ہوئے تھے یہ الفاظ کہے کہ مجھے

Page 156

$ 1949 147 خطبات محمود مدینہ پہنچ لینے دو میں جو سب سے زیادہ معزز ہوں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جو نَعُوذُ بِاللهِ سب سے زیادہ ذلیل ہیں وہاں سے باہر نکال دوں گا.اس کے بیٹے نے یہ بات سُن لی.لشکر جب واپس ہوا اور مدینہ کی دیوار میں نظر آنے لگیں، بہنیں اپنے بھائیوں کو، ماں باپ اپنے بیٹوں کو اور ہے بیویاں اپنے خاوندوں کو لینے کے لیے مدینہ سے باہر آئیں.جب ہر شخص اپنے عزیز کو ملنے کے لیے بیتابانہ آگے بڑھنا چاہتا تھا عبداللہ بن اُبی بن سلول کے لڑکے نے اپنی تلوار سونت لی اور مدینہ کی ایک گلی کے سرے پر کھڑا ہو گیا اور اپنے باپ سے مخاطب ہو کر کہا تم نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق یہ فقرہ کہا تھا کہ میں جو سب سے زیادہ معزز ہوں مدینہ جا کر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جو سب سے زیادہ ذلیل ہیں باہر نکال دوں گا.خدا کی قسم! میں تمہیں ٹکڑے ٹکڑے کر دوں گا.جب تک تم یہ نہ کہو کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سب سے زیادہ معزز ہیں اور تم سب سے زیادہ ذلیل ہو میں تمہیں شہر میں داخل نہیں ہونے دوں گا.عبداللہ بن ابی بن سلول نے اپنے بیٹے کو بہتیرا ٹالنا چاہا اور کوشش کی کہ کسی طرح یہ بات ٹل جائے لیکن بیٹا نہ مانا.اس نے کہا کہ اگر تم یہ نہ کہو گے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سب سے زیادہ معزز ہیں اور میں سب سے زیادہ ذلیل ہوں تو میں ہے تمہیں ٹکڑے ٹکڑے کر دوں گا.آخر اسے یہ فقرہ کہنا پڑا اور سارے مدینہ کے سامنے اس نے یہ کہانی کہ میں سب سے زیادہ ذلیل ہوں اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سب سے زیادہ معزز ہیں.11 تب اس کے بیٹے نے کہا تم اب گزر جاؤ، تم سب سے زیادہ ذلیل ہو اور تم نے اس بات کا اقرار کرلیا ہے.یہ الفاظ کہنے والا بیٹا تھا اور جس کو یہ الفاظ کہے تھے وہ باپ تھا.غرض جس شخص کے اندر ایمان پایا جاتا ہے وہ علامات سے اندازہ لگا کر منافق کو فوراً پہچان لیتا ہے.احادیث میں آتا ہے کہ ایک شخص رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور اس نے دریافت کیا کہ یا رسول اللہ ! اگر کوئی شخص اپنی بیوی کے ساتھ کسی غیر شخص کو زنا کرتے ہوئے دیکھ لے تو کیا وہ اُسے قتل کر ڈالے؟ آپ نے فرمایا نہیں.تمہارا کام یہ ہے کہ قاضی کے پاس جاؤ تم خود فیصلہ کرنے کے مجاز نہیں ہو.12 غرض اسلام نے کچھ اصول مقرر کیے ہیں.اگر کوئی شخص ان اصولوں کو نہیں مانتا تو خدا تعالیٰ نے اس کے لیے کوئی قید نہیں لگائی.وہ بیشک انہیں نہ مانے.مگر جب تک وہ قرآن کریم

Page 157

* 1949 148 خطبات محمود کو سچا مانتا ہے یہ انتہائی بے حیائی ہے کہ وہ ایک طرف یہ کہے کہ میں قرآن کریم کو سچا مانتا ہوں اور دوسری طرف وہ عملی طور پر اس کا انکار کر دے.اس کے معنی یہ ہیں کہ وہ اپنے آپ کو عقلمند سمجھتا ہے اور خدا تعالیٰ اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نَعُوذُ باللهِ بیوقوف سمجھتا ہے.کہتے ہیں کوئی پٹھان تھا اُس نے فقہ کی کتابوں میں یہ مسئلہ پڑھا تھا کہ نماز میں اگر کوئی شخص نماز کی حرکات کے علاوہ کوئی اور حرکت کرے تو اُس کی نماز ٹوٹ جاتی ہے.احادیث میں آتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھتے وقت حضرت حسن اور حسین کو جو اس وقت بچے تھے ہے گود میں اُٹھا لیتے تھے اور نماز نہیں توڑتے تھے.13- آپ جانتے تھے کہ نماز کا بچانا اصل فرض ہے.اگر بچہ پاس کھڑا چھینیں مارتا رہے گا تو نماز خراب ہوگی.اسی طرح آپ نماز میں ضرورت پر دروازہ ہے بھی کھول دیتے تھے کیونکہ اگر دروازہ کھولا نہ جائے تو کھٹکھٹانے والا دروازہ کھٹکھٹاتا چلا جائے گا اور اس طرح نماز خراب ہوگی.پٹھان فقہ کو احادیث پر مقدم سمجھتے ہیں اور یہ فقہ کا مسئلہ ہے کہ نماز ہے میں اگر کوئی شخص نماز کے علاوہ کوئی اور حرکت کرے تو اس کی نماز ٹوٹ جاتی ہے.اس پٹھان نے ی جب یہ حدیث پڑھی تو کہنے لگا خو! محمد صاحب کا نماز ٹوٹ گیا.سننے والے نے کہا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کس طرح ٹوٹی.محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تو نماز بتائی ہے.اس پٹھان نے جواب دیا کہ کنز میں یوں لکھا ہے.پس وہ شخص جو ایسا جواب دیتا ہے اس کے پاگل اور منافق ہونے میں کیا شبہ ہے.کیا اُس شخص سے بھی زیادہ کوئی شخص احمق ہو سکتا ہے جو یہ کہے کہ مجھ میں عقل زیادہ ہے اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور خدا تعالیٰ میں نَعُوذُ بِاللہ کم ہے؟ اس کے معنے یہ ہیں کہ ہر بات قرآن کریم سے نہیں بلکہ اس سے سمجھنی چاہیے“.الفضل 20 جولائی 1960 ء ) 1 : النساء : 146 2 : بخاری کتاب المغازی باب حديث الافك 3 : البقرة: 274 4 : اِعْدِلُوا ( المائدة : 9) 5 : وَ اجْتَنِبُوا قَوْلَ الزَّورِ (الحج: (31) وَقُولُوا قَوْلًا سَدِيدًا ( الاحزاب : 71) :

Page 158

خطبات محمود 149 * 1949 6 : إِذَا جَاءَكَ الْمُنْفِقُونَ قَالُوا نَشْهَدُ إنَّكَ لَرَسُوْلُ اللهِ وَاللهُ يَعْلَمُ إِنَّكَ لَرَسُولُهُ * وَاللهُ يَشْهَدُ إِنَّ الْمُنْفِقِينَ تَكْذِبُونَ (المنافقون: 2) 7 : بخاری کتاب الایمان باب علامات المنافق بخاری کتاب الایمان باب علامات المنافق 9 النور: 20 10 : المنافقون : 9 11 : سیرت ابن ہشام جلد 3 صفحہ 304 ، 305 مطبوعہ مصر 1936 ء، السيرة الحلبية جلد 2 صفحہ 306 مطبوعہ مصر 1935ء 12 : بخارى كتاب الطلاق باب اللَّعَانِ وَمَن طَلَّقَ بَعد اللَّعَان 13 : الاصابة في تمييز الصحابة جلد 1 صفحہ 330 زیر عنوان حسن بن علی.بیروت لبنان 1328ھ

Page 159

* 1949 150 16 خطبات محمود حضرت مسیح موعود علیہ السلام تربیت و اصلاح اور اشاعت دین کے لیے مبعوث ہوئے تھے ان اغراض کو ہمیشہ مدنظر رکھو اور جائزہ لیتے رہو کہ تم کس حد تک انہیں پورا کر رہے ہو (فرمودہ 10 جون 1949ء بمقام محمد آباد اسٹیٹ سندھ ) تشہد ، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: " آج میں اختصار کے ساتھ یہاں کی جماعت کو اُن فرائض کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں جو اس پر خدا تعالیٰ کی طرف سے عائد ہیں.دنیا میں خدا تعالیٰ نے جب بھی اپنا کوئی مامور مبعوث کیا ہے اس کی بعثت کی بڑی غرض یہ ہوا کرتی ہے کہ وہ ایمان لانے والوں کے اعتقادات اور اعمال کی اصلاح کرے اور آئندہ اپنی جماعت کو وسیع کرتے ہوئے اسے تمام دنیا میں پھیلائے.یعنی اس کی کے کام کا ایک حصہ اگر تربیت ہوتا ہے تو دوسرا حصہ تبلیغ ہوتا ہے.جب کوئی شخص کسی نئے مامور کی بیعت کرتا ہے تو درحقیقت وہ اس بات کا اقرار کرتا ہے کہ میں ایک نیا آدمی بن جاؤں گا.یوں تو پہلے بھی وہ کسی نہ کسی مذہب سے تعلق رکھتا ہے، پہلے بھی وہ کسی نہ کسی جماعت کے ساتھ اپنے آپ کو وابستہ سمجھتا ہے لیکن اگر وہ پہلی جماعت کو چھوڑتا ہے یا پہلے طریق کو ترک کر کے ایک نئے مدعی کی کی بیعت کر لیتا ہے تو اس کے معنے یہ ہوتے ہیں کہ وہ اپنے اندر ایک نیا تغیر پیدا کرنے کا اقرار کرتا ہے.یہ نیا تغیر بعض اوقات اعتقادات کے ساتھ تعلق رکھتا ہے اور بعض اوقات اعمال کے ساتھ

Page 160

$ 1949 151 خطبات محمود تعلق رکھتا ہے.مثلاً اس زمانہ کے مامور من اللہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے مسلمان کہلانے والوں کے ساتھ ان کے کئی قسم کے عقیدوں میں اختلاف کیا.مثلاً توحید جو مذہب کی جان ہے.آپ نے اس کی تشریح میں موجودہ مسلمانوں سے اختلاف کیا.آپ کی بعثت سے پہلے مسلمان یہ خیال کرتے تھے کہ صرف منہ سے لَا اِلهَ إِلَّا اللہ کہہ دینے کے یہ معنے ہوتے ہیں کہ ہم موحد ہو گئے.خواہ اپنے اعمال کے لحاظ سے یا جزوی عقیدوں میں وہ مشرک ہی کیوں نہ ہوں.مثلاً وہ منہ سے لا إِلهَ إِلَّا الله کہتے تھے لیکن حضرت مسیح علیہ السلام کو خدا تعالیٰ کا شریک قرار دیتے تھے.وہ یقین رکھتے تھے کہ حضرت مسیح علیہ السلام جو نہ کھاتے ہیں نہ پیتے ہیں.دو ہزار سال سے آسمان پر بیٹھے ہیں اور آخری زمانہ میں وہ دنیا کی اصلاح کے لیے نازل ہوں گے.وہ یقین رکھتے تھے کہ حضرت مسیح علیہ السلام پرندے پیدا کیا کرتے تھے جو صرف خدا تعالیٰ کی خصوصیت ہے.وہ یقین رکھتے تھے کہ حضرت مسیح علیہ السلام کو علم غیب حاصل تھا اور یہ بھی خدا تعالیٰ کی ہی خصوصیت ہے.وہ یقین رکھتے تھے کہ حضرت مسیح علیہ السلام مُردے زندہ کیا کرتے تھے جو صرف خدا تعالیٰ کی خصوصیت ہے.پھر ان کا یہ بھی عقیدہ تھا کہ حضرت مسیح علیہ السلام مُردوں کو اس دنیا میں واپس لاتے تھے جو خدا تعالی کی بھی سنت نہیں.خدا تعالیٰ ایسا کر تو سکتا ہے لیکن اس کا قانون ہے کہ وہ ایسا کرتا نہیں.احادیث میں بھی آتا ہے کہ خدا تعالیٰ نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو الہاما یہ بات بتائی کہ ہم مردوں کو اس دنیا میں دوبارہ واپس نہیں کیا کرتے.1 غرض مسلمانوں نے حضرت مسیح علیہ السلام کی طرف بعض ایسی باتیں منسوب کر دی تھیں جو خدا تعالیٰ ہی کرتا ہے انسان نہیں کر سکتا.اور بعض باتیں ایسی منسوب کر دی تھیں جو خدا تعالیٰ بھی اس دنیا میں نہیں کرتا.جیسے میں نے بتایا ہے کہ مسلمانوں کا یہ عقیدہ تھا کہ مسیح علیہ السلام مُردوں کو اس دنیا میں واپس لے آتے تھے حالانکہ یہ کام خدا تعالیٰ بھی نہیں کرتا.گویا یہ خصوصیت حضرت مسیح علیہ السلام میں خدا تعالیٰ سے بھی زیادہ پائی جاتی تھی.یا مثلاً وہ یہ عقیدہ رکھتے تھے کہ جب منہ سے لا إلهَ إِلَّا الله کہہ دیا جائے تو اس کے بعد خواہ کچھ کر لیا جائے اس سے توحید میں کوئی فرق نہیں کی پڑتا.گویا لا إِله إِلَّا الله کو دعائے گنج العرش بنالیا گیا تھا.دعائے گنج العرش کے متعلق بیان کیا جاتا ہے ہے کہ جو شخص اُسے ایک دفعہ پڑھ لے اُسے تمام پچھلے نبیوں کی نیکیاں مل جاتی ہیں اور سارے گناہ ہے

Page 161

* 1949 152 خطبات محمود اس کے معاف ہو جاتے ہیں.کہتے ہیں کوئی چور تھا.وہ چوری کرتے ہوئے پکڑا گیا.بادشاہ نے اس کے لیے یہ سزا تجویز کی کہ اسے قتل کر دیا جائے.لوگ اُسے مقتل میں لے گئے ، جلا د نے تلوار ماری لیکن اسے پتا بھی نہ لگا.انہوں نے خیال کیا کہ شاید تلوار ناقص ہے تلوار تبدیل کی گئی لیکن پھر بھی اس پر کچھ اثر نہ ہوا.انہوں نے خیال کیا کہ شاید جلا د ناقص ہے چنانچہ دوسرا آدمی لایا گیا لیکن اس کی گردن پر پھر بھی کچھ اثر نہ ہوا.لوگ بادشاہ کے پاس آئے اور کہا بادشاہ سلامت! یہ عجیب آدمی ہے اس پر تلوار کا ی بھی اثر نہیں ہوتا.بادشاہ نے کہا اچھا اسے پہاڑ پر سے گرا دو.وہ اسے پہاڑ پر لے گئے اور اسے اوپر سے نیچے گرا دیا.لیکن اُس وقت یوں معلوم ہوا جیسے سہارا دے کر اسے کسی شخص نے اٹھا لیا ہو.لوگ پھر بادشاہ کے پاس آئے اور انہوں نے کہا یہ بڑا عجیب آدمی ہے اس پر پہاڑ سے گرانے کا بھی کوئی اثر نہیں ہوا.بادشاہ نے کہا اچھا! اسے آگ میں جلا دو.اس پر اسے آگ میں ڈالا گیا لیکن آگ نے بھی اُس پر کوئی اثر نہ کیا.وہ آگ میں بالکل ایسے ہی پھرتا رہا جیسے کوئی پھولوں سے کھیلتا ہے ہو.بادشاہ نے کہا اچھا اس کے جسم کے ساتھ ایک بڑا پتھر باندھ کر اسے غرق کر دو.اس پر ایک بھاری پتھر کے ساتھ اسے باندھ کر سمندر میں گرا دیا گیا لیکن وہ کارک کی مانند پانی پر تیرتا رہا.لوگوں نے خیال کیا کہ یہ کوئی بڑا بزرگ ہے.چنانچہ بادشاہ نے اسے دربار میں بلایا اور کہا آپ مجھے معاف کردیں میں نے آپ کی ہتک کی ہے آپ تو کوئی بڑے بزرگ معلوم ہوتے ہیں.اس شخص نے جواب دیا بادشاہ سلامت! میں تو ایک چور ہوں بزرگ نہیں ہوں.بادشاہ نے کہا نہیں تم بڑے بزرگ ہو.تم سے جو معجزات ظاہر ہوئے ہیں یہ تو کسی بڑے سے بڑے ولی اللہ سے بھی ظاہر نہیں ہوئے.اس شخص نے کہا نہیں میں چور ہوں.لیکن میں روز دعائے گنج العرش پڑھا کرتا ہوں لی اس لیے آپ کی سزاؤں کا مجھ پر کوئی اثر نہیں ہوا.غرض جس طرح لوگوں نے دعائے گنج العرش کو ایک عجوبہ بنالیا تھا اور کئی قسم کے جھوٹ اس کی طرف منسوب کر دیئے تھے اُسی طرح مسلمانوں نے کی کلمہ طیبہ کو بھی ایک عجوبہ بنالیا تھا.وہ خیال کرتے تھے کہ ایک دفعہ کلمہ منہ سے پڑھ لیا تو پھر خواہ کوئی مشرک بن جائے کوئی حرج نہیں.اسی طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق مسلمانوں کا یہ اعتقاد تھا کہ ایک دفعہ

Page 162

$1949 153 خطبات محمود سے آپ کی رسالت کا اقرار کر لیا جائے تو یہ مسلمان بننے کے لیے کافی ہے.خواہ زندگی بھر نہ نمازیں پڑھی جائیں، نہ روزے رکھے جائیں، نہ حج کیا جائے ، نہ زکوۃ دی جائے اور نہ اسلام کے دوسرے مسائل پر عمل کیا جائے.گویا مسلمان کلمہ رسالت کے بھی اُلٹے معنے کرتے تھے اور کلمہ توحید کے بھی اُلٹے معنے کرتے تھے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ان سب باتوں کو غلط قرار دیا اور بتایا کہ تو حید کے معنے صرف کلمہ توحید پڑھ لینے کے نہیں بلکہ اس کے معنے ایمان اور یقین کے اظہار کے ہیں.اگر ایمان اور یقین ہے تو کلمہ بھی ہے لیکن اگر ایمان اور یقین نہیں تو صرف کلمہ پڑھ لینے سے کیا بن جاتا ہے.اگر کوئی کہے کہ آگ لگ گئی ہے، تو اگر واقعی آگ موجود ہے تو یہ فقرہ درست ہے لیکن اگر آگ لگی ہی نہیں تو یہ محض جھوٹ ہوگا.یا مثلا تم کہتے ہو ہم نے پانی پی لیا ہے اب اگر تم نے واقع میں پانی پی لیا ہے اور تمہاری پیاس بجھ گئی ہے تو یہ ایک حقیقت کا اظہار ہے لیکن اگر تم ابھی پیاسے ہی ہو تو صرف ”پانی پی لیا ہے“ کہنے سے کیا بنتا ہے.غرض حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ہمیں حقیقی تو حید سکھائی اور بتایا کہ حضرت مسیح علیہ السلام کے متعلق اس قسم کی جتنی باتیں مشہور ہیں سب جھوٹ ہیں، اور اگر یہ باتیں سچی ہیں تو پھر خدا تعالیٰ کی وحدانیت پر حملہ ہوتا ہے.غرض آپ کی بعثت سے قبل جہاں بعض ایسی باتیں حضرت مسیح علیہ السلام کی طرف منسوب کر دی گئی تھیں جو صرف خدا تعالیٰ میں ہی پائی جاتی ہیں وہاں بعض ایسی باتیں بھی آپ کی طرف منسوب کر دی گئی تھیں جو خدا تعالیٰ میں بھی نہیں پائی جاتیں.اسی طرح اور بھی کئی نقائص مسلمانوں میں پیدا ہو گئے تھے جنہیں آپ نے دور کیا.مثلاً دعا کے متعلق بعض غلط فہمیاں پیدا ہو گئی تھیں، تقدیر کے متعلق بعض غلط فہمیاں پیدا ہوگئی تھیں، بعث بعد الموت کی کے متعلق بعض غلط فہمیاں پیدا ہوگئی تھیں، فرشتوں کے متعلق بعض غلط خیالات پھیلے ہوئے تھے، اعمال میں کئی قسم کی کمزوریاں پیدا ہوگئی تھیں.آپ نے ان سب کو دُور کیا.مثلاً نماز کو ہی لے لو.نماز ادا کرنے کا جو طریق اختیار کیا گیا تھا وہ یہ تھا کہ سجدہ میں گئے کھٹ سے سرزمین پر لگا اور جیسے گیند زمین سے ٹکرا کر اوپر آجاتا ہے اُسی طرح انہوں نے زمین سے سر اٹھا لیا.پھر قعدہ بین السجدتین میں بڑی کوتاہی ہوتی تھی، رکوع کے بعد قیام میں بڑی کوتاہی سے کام لیا جاتا تھا.اس قسم کی غلط فہمیوں اور کوتاہیوں کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے دُور کر کے اعمال

Page 163

* 1949 154 خطبات محمود اور عقائد میں عظیم الشان تبدیلیاں پیدا کر دیں.اور جب کوئی شخص آپ پر ایمان لاتا ہے تو وہ اس بات کا اقرار کرتا ہے کہ اس کے عقائد بھی درست ہیں اور اس کے اعمال بھی درست ہیں.پس اگر تم نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر ایمان لا کر واقع میں اپنے عقائد اور اعمال کو درست کر لیا ہے تو تم سچ سچ احمدی ہو گئے ہو لیکن اگر تم نے ایسا نہیں کیا تو تمہارے گناہ پہلے گناہوں سے یقیناً بڑھ گئے ہیں.تمہارے گناہ اگر پہلے دس تھے تو اب وہ گیارہ ہو گئے ہیں یا پہلے گیارہ تھے تو اب بارہ ہو گئے ہیں.فرض کرو ایک شخص حج نہیں کرتا ، وہ نمازیں نہیں پڑھتا، زکوۃ ا نہیں دیتا، انصاف اور دیانت سے کام نہیں لیتا تو یہ پانچ گناہ وہ پہلے کر رہا تھا.اب اگر اس نے ی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بیعت کر لی ہے لیکن اس نے وہ کام نہیں کیے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اسے کرنے کے لیے بتائے تھے اور اس نے اُن باتوں کو نہیں مانا جو اسلام نے بتائی تھیں تو یہ بات اس کے گناہوں کو کم کرنے والی نہیں ہوگی بلکہ زیادہ کرنے والی ہوگی.کیونکہ پہلے وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی صداقت کا قائل نہیں تھا لیکن اب آپ پر ایمان انے کے باوجود اس نے اسلام کے احکام پر عمل نہیں کیا.غرض حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے کام کا ایک حصہ جماعت کی تربیت تھی.اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا تم نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام پر ایمان لا کر اپنے اندر کوئی تغیر پیدا کیا ہے؟ اگر تم نے ایمان لانے کے بعد اپنے اندر ایک نمایاں فرق پیدا کر لیا ہے مثلاً نماز ، روزہ ، حج ، زکوۃ اور دوسرے اسلامی احکام کی پابندی تم نے کر لی ہے تب تو یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ حصہ تم نے پورا کر لیا.لیکن اگر تم نے اپنے اندر کوئی نمایاں تبدیلی ہے پیدا نہیں کی تو تمہارے پہلے پانچ گناہ بھی بخشے نہیں گئے بلکہ ان میں زیادتی ہو گئی ہے اور اب وہ پانچ کی بجائے چھ ہو گئے ہیں.اس طرح تمہاری حالت بجائے بہتر ہونے کے اور بھی بدتر ہو جائے گی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے کام کا دوسرا حصہ تبلیغ تھا.جوشخص آپ پر ایمان کی لاتا ہے اور پھر دنیا میں اسلام کی اشاعت کی کوشش نہیں کرتا وہ آپ کا صحیح پیرو قرار نہیں دیا.جا سکتا.فرض کر و جماعت کا ہر شخص ولی اللہ بن جاتا ہے، جماعت کا ہر شخص صاحب کمال بن جاتا ہے لیکن وہ تبلیغ نہیں کرتا تو ہم دوسرے لوگوں کو احمدیت میں کس طرح داخل کر سکتے ہیں؟ دنیا تھی

Page 164

* 1949 155 خطبات محمود کی دو ارب آبادی ہے، دو ارب کا سینکڑواں حصہ دو کروڑ ہوتا ہے.دو کروڑ کا سینکڑواں حصہ دو لاکھ ہوتا ہے.فرض کرو دنیا میں دو لاکھ احمدی ہوں تو اس کے معنے یہ ہوں گے کہ دس ہزار آدمیوں میں سے صرف ایک شخص احمدی ہے.اس کی مثال یوں سمجھ لو کہ جیسے دس ہزار سیر پانی میں ایک سیر کھانڈ ڈال دی جائے.اب کیا دس ہزار سیر پانی میں ایک سیر کھانڈ ڈالنے سے شربت بن جائے گا؟ یا کیا دس ہزار سیر پانی میں ایک سیر گوشت ڈالنے سے شور بہ بن جائے گا ؟ یا کیا دس ہزار سیر پانی میں ایک سیر آٹا ڈالنے سے روٹی بن سکتی ہے؟ دس ہزار سیر پانی میں ایک سیر آٹا ڈالنے سے کچھ بھی نہیں بنے گا.دس ہزار سیر پانی میں ایک سیر آٹے کا تو پتا بھی نہیں لگے گا کہ وہ کہاں گیا ہے.دوسرے رنگ میں یوں سمجھ لو کہ چار سیر کا ایک گیلن ہوتا ہے اور دس ہزار سیر کے اڑھائی ہزار گیلن بنتے ہیں اور اڑھائی ہزار گیلن کے چھ سو عام گھی یا تیل والے پیسے بنتے ہیں.اب اگر گھی یا تیل کے عام پیپوں کے برابر چھ سو پیپے پانی ہو اور اس میں ایک سیر آٹا ڈال دیا جائے تو اس کا کیا پتا لگے گا.ہماری ھے جماعت اور دوسرے لوگوں میں یہی نسبت ہے.چھ سو کنستر پانی میں اگر ایک سیر شکر ڈال دی جائے کی تو جو نسبت پانی اور شکر میں ہوگی وہی نسبت ہماری جماعت اور دوسرے لوگوں میں ہے.فرض کرو چھ سو پیپوں کے برابر پانی میں ایک سیر آٹا ڈال دیا جائے تو کیا اس سے روٹی بن سکتی ہے؟ روٹی یکنی تو کجا اس پانی کا تو رنگ بھی تبدیل نہیں ہو گا.اسی طرح اگر ہمارے سارے لوگ اولیاء اللہ بن جائیں، سارے لوگ بے عیب بن جائیں تو اس سے باقی دنیا کو کیا فائدہ پہنچے گا.دنیا میں ایک عظیم الشان تغییر تبھی پیدا ہو سکتا ہے جب تم اپنے اندر کثرت پیدا کرو.کثرت کے بغیر کبھی اتنی طاقت پیدا نہیں ہوسکتی جس کے ساتھ ہم شیطان کا مقابلہ کر سکیں.پس سب سے پہلے اپنے عقائد اور اعمال کو درست کرنا ضروری ہے اور اس کے بعد اصلاح و ارشاد کے کام پر زور دینا چاہیے تا جماعت کثرت سے دنیا میں پھیل جائے اور دوسروں پر اثر پیدا کر سکے.ایک گلاس پانی میں اگر چار پانچ چمچے کھانڈ ڈال دی جائے تب اثر ہوتا ہے لیکن دنیا میں غلبہ شربت والی کھانڈ جیسی زیادتی سے نہیں ہوتا بلکہ اُسی وقت ہوگا جب پانی میں آئے جیسی کثرت حاصل ہو جائے.اگر ہم نے ترقی کرنی ہے تو ہمیں پانی میں آئے جیسی کثرت حاصل کرنی ہوگی.ویسے تو ایک مچھلی بھی تالاب کو گندا کر سکتی ہے.اگر ہم گندے ہوں گے تو یہ یقینی بات ہے کہ

Page 165

* 1949 156 خطبات محمود دنیا میں خرابی پیدا ہو جائے گی لیکن نیکی کے لحاظ سے ہم ترقی اُسی وقت کر سکتے ہیں جب کثرت پیدا ہو جائے.غرض ہمیں اصلاح و ارشاد اور تعلیم و تربیت کے کام کی طرف زیادہ توجہ کرنی چاہیے.میں دیکھتا ہوں کہ جماعت کی توجہ اس طرف بہت کم ہے.اس کا بھاری ثبوت یہ ہے کہ سندھ میں دس دس بارہ بارہ سال سے رہنے والوں نے ابھی تک سندھی زبان بھی نہیں سیکھی.کسی مالی ملک میں جا کر بس جانے والے پر اُس ملک کا سب سے پہلا حق یہ ہوتا ہے کہ وہ اس ملک کی زبان سیکھے.اگر ہم اس ملک کی زبان نہیں سیکھتے تو ہم اس کے رہنے والوں کو اپنی باتیں پہنچا کس طرح سکتے ہیں.یہاں پر پر انے پرانے رہنے والوں سے جب میں نے پوچھا کہ کیا تمہیں سندھی زبان ہے آتی ہے؟ تو انہوں نے جواب دیا نہیں.یہ بڑی بھاری غفلت ہے.جس ملک میں کوئی شخص جاکر رہے اُسے چاہیے کہ وہ جلد سے جلد اُس ملک کی زبان سیکھے تا کہ وہ اُس ملک کے رہنے والوں سے تبادلہ خیالات کر سکے.اگر وہ اس ملک کے رہنے والوں سے تبادلہ خیالات نہیں کر سکتا تو اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ وہ اُن پر اپنا اثر نہیں ڈال سکے گا اور دوسرے لوگ یہ سمجھیں گے کہ وہ ان سے نفرت کرتا ہے.میں جب انگلینڈ گیا تو اُس زمانہ میں مولوی عبدالرحیم صاحب نیر مبلغ تھے.نیر صاحب مرحوم ایک دن میرے پاس آگئے اور کہنے لگے حضور ! لوگوں پر بہت بُرا اثر پڑ رہا ہے کیونکہ آپ نے شلوار پہنی ہوئی ہے اور یہ لوگ آپ کو ننگا خیال کرتے ہیں.میں نے کہا پھر کیا ہوا.یہ میرا لباس ہے.اس میں حرج کیا ہے.اگر لوگ مجھے نگا خیال کرتے ہیں تو کرنے دو.نیر صاحب کہنے لگے حضور! اس بات کا ان پر بہت بُرا اثر پڑ رہا ہے.میں نے کہا سردی کے خیال سے میں چند علیگڑھی فیشن کے گرم پاجامے ساتھ لے آیا تھا اور میری نیت تھی کہ میں یہاں آکر پہنوں گا لیکن اب وہ بھی ہے نہیں پہنوں گا.ایک دن سرڈینی سن راس جو کچھ عرصہ ہندوستان میں بھی رہے ہیں مجھے ملنے کے لیے آئے.اُن کے ساتھ ایک اور پروفیسر بھی تھے.میں نے انہیں کہا آپ کے ساتھ میرے دوستانہ تعلقات ہیں.آپ بتائیں کہ کیا آپ کو میرا یہ لباس بُرا لگتا ہے؟ وہ تکلف کے طور پر کہنے لگے نہیں یہ لباس تو بڑا اچھا ہے؟ میں نے کہا آپ تکلف نہ کریں، میں یہ پوچھنا چاہتا ہوں کہ آیا آپ کے ملک کے لوگ واقع میں اس لباس کو اچھا سمجھتے ہیں؟ انہوں نے کہا کہ میرے ملک کے لوگ تو اس لباس کو بُرا سمجھتے ہیں.میں نے کہا کیوں؟ انہوں نے کہا کہ اس لیے کہ یہ ہمارے ملک

Page 166

* 1949 157 خطبات محمود کا لباس نہیں.میں نے کہا آپ جب ہمارے ملک میں رہتے تھے تو کیا آپ ہمارے ملک کا لباس ہے پہنتے تھے؟ ہمارے ملک کا لباس ہیٹ اور پتلون تو نہیں.وہ کہنے لگے میں تو وہاں اپنے ملک کا لباس ہی پہنتا تھا.میں نے کہا آپ جب ہمارے ملک میں ہمارا ملکی لباس استعمال نہیں کرتے تھے تو اس کی کیا وجہ تھی؟ یہی وجہ تھی کہ آپ یہ سمجھتے تھے کہ چونکہ ہم ہندوستان پر حاکم ہیں اس لیے ہے ہندوستانیوں کو ہماری نقل کرنی چاہیے ہمیں اُن کی نقل کرنے کی ضرورت نہیں.سر ڈینی سن راس نے مجبور ہو کر کہا ہاں ! بات تو یہی ہے.میں نے کہا سر ڈینی سن راس! میں تو غلامی کے لیے تیار نہیں.اگر آپ ہمارے ملک میں رہتے ہوئے ہمارا لباس نہیں پہنتے تو میں بھی آپ کا لباس پہننے کے لیے تیار نہیں ہوں.لیکن زبان لباس سے ایک علیحدہ چیز ہے اور اس کا سیکھنا ہر شخص کے لیے ضروری ہے.اگر آپ لوگ دوسروں سے سندھی زبان میں لین دین نہیں کریں گے اور اسے سیکھنے کی کوشش نہیں کریں گے تو سندھی لوگ یہ سمجھیں گے کہ تم اُن سے نفرت کرتے ہو.فرض کرو ایک سندھی دس بارہ سال تک پنجاب میں رہے اور اتنے عرصہ تک وہ ہماری زبان نہ سیکھ سکے تو سب لوگ اس پر ہنسیں گے اور کہیں گے کہ یہ کم عقل آدمی ہے.یہ اتنا لمبا عرصہ ہمارے ہاں رہا اور پھر بھی پنجابی زبان نہ سیکھ سکا.لیکن خود ایک پنجابی یہاں آتا ہے اور اتنے عرصہ تک وہ سندھی زبان نہیں سیکھ سکتا.ہم تو دس پندرہ دن کے لیے یہاں آتے ہیں اور واپس چلے جاتے ہیں اس لیے ہمارے متعلق زبان سیکھنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا.لیکن جو شخص مستقل طور پر یہاں رہتا ہے اس کا فرض ا ہے کہ وہ اس علاقہ کی زبان سیکھے اور اسی زبان میں اپنے خیالات کا اظہار کرے.ہمارے مینیجر ہیں، اکا ؤنٹنٹ ہیں، منشی ہیں ، مزارع ہیں ان سب کا فرض ہے کہ وہ اس علاقہ کی زبان سیکھیں.اگر وہ اس علاقہ کی زبان نہیں سیکھتے تو وہ اس علاقہ میں رہنے والوں پر کس طرح اپنا اثر ڈال سکتے ہیں؟ سندھی تمہیں کس طرح اپنا بھائی سمجھنے پر مجبور ہوں گے؟ وہ خیال کریں گے کہ تم اپنے آپ کو ان سے بالا اور حاکم خیال کرتے ہو اور اُن کی زبان سیکھنا بہتک خیال کرتے ہو.جب انگریز ہمارے ملک پر حکومت کرتے تھے ہم اُن سے محبت تو نہیں کرتے تھے.ہم احمدی تو احمدیت کی وجہ سے یہ سمجھتے تھے کہ ان کی اطاعت کرنی چاہیے.لیکن باقی ہندوستانی یہ کہتے تھے کہ ہم انہیں مار مار کر باہر نکال دیں

Page 167

* 1949 158 خطبات محمود گے.یہی حال پنجابی اور سندھی کا ہے.جو شخص یہاں رہتا ہے آخر کیا وجہ ہے کہ وہ یہاں رہتے ہوئے اس علاقہ کی زبان نہیں بول سکتا.وہ یہاں کی عادات اور رسوم سے واقف نہیں ہے.لا زمانی ایک سندھی کو یہ حق پہنچتا ہے کہ وہ سمجھے کہ ایسا انسان متکبر ہے اور وہ سندھیوں سے نفرت کرتا ہے.اس علاقہ کی زبان نہ سیکھنے کی وجہ سے ہمیں یہ وقت بھی پیش آسکتی ہے کہ جب ہم ٹوٹی پھوٹی زبان میں سندھیوں کو تبلیغ کریں گے تو وہ ہماری بات کا الٹ مفہوم سمجھیں گے اور اس کا کچھ کا کچھ مطلب لے لیں گے.ذوق کے متعلق لکھا ہے کہ وہ ایک دفعہ دہلی کے قلعہ میں گئے.وہاں ایک انگریز کرنیل تھا.ذوق سے کسی نے کہا کہ یہ کرنیل اردو خوب جانتا ہے.ذوق نے کہا کہ یہ اردو نہیں جانتا.اس کرنیل سے جب پوچھا گیا کہ آیا آپ اردو جانتے ہیں؟ تو اُس نے جواب دیا میں خوب جانتا ہوں.ذوق نے کہا میں ایک شعر پڑھتا ہوں آپ اس کا مطلب بیان کر دیں.وہ شعر یہ تھا ہم ہوئے تم ہوئے کہ میر ہوئے اس کی زلفوں کے سب اسیر ہوئے اس انگریز کرنیل نے کہا اس کے معنے یہ ہیں کہ ہم لوگ تم لوگ میر لوگ سب کو والا عالی (بالوں کی لٹوں کی طرف اشارہ کر کے) میں باندھ کر جیل میں بھیج دیا.اسی طرح تم بھی اگر تھوڑی والی بہت سندھی بول لیتے ہو تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ تم نے سندھی زبان سیکھ لی.تمہیں یہ حق حاصل ہے کہ تم اس علاقہ کے رہنے والوں کو اردو کی طرف لے آؤ اور اسی میں پاکستان کا بھی فائدہ ہے.تم ان پر وعظ ونصیحت کے ذریعہ اردو زبان کی اہمیت واضح کرو.مگر تمہارا یہ حق نہیں کہ تم یہاں ہو اور پھر اس علاقہ کی زبان نہ سیکھو.پس آپ لوگوں کو چاہیے کہ سندھی زبان اچھی طرح سیکھیں ورنہ ای معمولی طور پر سندھی زبان سیکھنے اور بولنے سے کچھ نہیں بنے گا اور تم اسی انگریز کی طرح ہو گے جس نے شعر کا اس طرح ترجمہ کیا تھا کہ ہم لوگ تم لوگ، میر لوگ سب کو یہ والا میں باندھ کر جیل میں بھیج دیا.اس قسم کی زبان سیکھنے سے کیا فائدہ.مجھے احمد آباد اسٹیٹ کا ایک لطیفہ یاد آ گیا.شروع شروع میں جب ہم نے سندھ میں زمین خریدی تو اس میں صدرانجمن کا بھی حصہ تھا اور کچھ چھوٹے چھوٹے حصے ہمارے تھے.بعد میں زمین کو تقسیم کر لیا گیا.محمود آباد اسٹیٹ میرے حصہ میں آگئی اور احمد آباد اسٹیٹ صدرانجمن کے پاس

Page 168

* 1949 159 خطبات محمود چلی گئی.اس زمین میں میرا، میاں بشیر احمد صاحب اور چودھری فتح محمد صاحب کا حصہ تھا.ہم جب ی سندھ آتے تو آنے سے پہلے ہم یہ فیصلہ کر لیتے تھے کہ ہر حصہ دار کا نمائندہ ساتھ آئے.میں چونکہ خود حصہ دار تھا اس لیے میں نے فیصلہ کیا کہ صدر انجمن احمدیہ کا نمائندہ میں نہیں ہوسکتا.صدر انجمن احمدیہ کا کوئی اور نمائندہ بھیجنا چاہیے تا کہ وہ اپنے حق کے لیے لڑے.چنانچہ اس سال مولوی عبد المغنی خان صاحب مرحوم صدر انجمن کی طرف سے بطور نمائندہ آئے.بالعموم ہمارا یہ طریق ہوتا تھا کہ صبح کا ناشتہ کر کے دورہ کے لیے چلے جاتے لیکن چونکہ ناشتہ کے بعد دھوپ تیز ہو جاتی تھی اور دورہ اچھی طرح نہیں ہوتا تھا اس لیے ایک دن میں نے فیصلہ کیا کہ ہم نماز فجر کے فوراً بعد دورہ کے لیے چلے جائیں گے اور ناشتہ واپس آکر کر لیں گے.چنانچہ میں نماز کے بعد باہر آ گیا.باہر ایک چارپائی بچھی ہوئی تھی.میں اُس پر بیٹھ گیا.مولوی عبد المغنی خاں صاحب بھی میرے سامنے ٹہلنے لگ گئے.چودھری فتح محمد صاحب اور میاں بشیر احمد صاحب دونوں غائب تھے.تھوڑی دیر کے بعد میں نے دیکھا کہ ان میں سے ایک ہاتھ میں لوٹا لیے قضائے حاجت کے لیے جا رہا ہے.میں نے مولوی عبد المغنی خاں صاحب سے کہا کہ وہ تو ابھی قضائے حاجت کے لیے نی جارہے ہیں اور پتا نہیں کب آئیں.آپ صدر انجمن احمدیہ کے نمائندہ ہیں خود حصہ دار نہیں ہیں لیکن آپ ان سے پہلے آگئے ہیں.یہ تو ”چور نالوں پنڈ کا ہلی والا معاملہ ہو گیا.جس کی پنڈ ہے وہ نہیں آیا اور جس کی پنڈ نہیں وہ پہلے آ گیا ہے.مولوی عبد المغنی خاں صاحب مرحوم کو اُس وقت پنجاب آئے ہوئے ہیں سال کے قریب عرصہ ہو گیا تھا لیکن اتنے لمبے عرصہ میں بھی انہوں نے پنجابی زبان پوری طرح نہیں سیکھی تھی.میری بات سن کر مولوی صاحب کا رنگ زرد ہو گیا اور انہوں نے سمجھا کہ میں نے انہیں بُرا بھلا کہا ہے.میں نے مولوی صاحب کے رنگ سے اندازہ لگا لیا کہ انہوں نے میری بات نہیں سمجھی.چنانچہ میں نے ان سے کہا مولوی صاحب! کیا آپ نے اس فقرہ کا مطلب سمجھا ہے؟ انہوں نے کہا ہاں! کچھ کچھ سمجھ گیا ہوں.ایک بات تو میں نے یہ بھی ہے کہ میں چور ہوں اور دوسری بات یہ کہ میں کالا ہوں.اسی طرح ایک اور لفظ بھی حضور نے میرے متعلق بولا ہے اور وہ پنڈ ہے مگر اس کے معنے میں نہیں جانتا.میں نے کہا مولوی صاحب! اس کا مفہوم یہ نہیں.اس کا مفہوم یہ ہے کہ چور نے پنڈ یعنی گھڑی لے کر جانا تھا لیکن چور نے جب پنڈ بنالی اور

Page 169

* 1949 160 خطبات محمود باہر جانے لگا تو اُس نے ٹھوکر کھائی اور وہ تو وہیں گر گیا اور گٹھڑی آگے جا پڑی.میرے اس محاورہ کے استعمال کرنے سے یہ مطلب تھا کہ جنہیں جلدی آنا چاہیے تھا وہ تو آئے نہیں اور آپ آگئے ہیں.آپ انجمن کے نمائندہ ہیں خود حصہ دار نہیں ہیں لیکن آپ اُن دونوں سے پہلے آگئے.مولوی صاحب نے کہا اچھا! اس کا یہ مفہوم تھا.میں نے تو اس کا یہ مطلب سمجھا تھا کہ آپ نے مجھے چور بھی قرار دیا ہے اور میرے رنگ کے کالے ہونے کی طرف بھی اشارہ کیا ہے.پنڈ“ کے معنے میں نہیں سمجھ سکا تھا.اسی طرح اگر تم لوگ بھی بغیر سندھی زبان سیکھنے کے اس علاقہ کے رہنے والوں کو تبلیغ کرو گے تو ممکن ہے کہ وہ کچھ اور مفہوم لے لیں اور تمہاری تبلیغ اکارت چلی جائے.پس ان لوگوں کے کی ساتھ ملوجلو، ان کے ساتھ بیٹھو اور ان کی زبان سیکھو.دوسرے ممالک کے لوگ ہمارے ملک میں آتے ہیں اور وہ اردو سیکھ لیتے ہیں.پھر کیا وجہ ہے کہ تم یہ زبان نہ سیکھ لو.عرب آتا ہے ، پٹھان کی آتا ہے وہ فوراً اُردو سیکھ جاتا ہے.بے شک کوئی کوئی نقص رہ بھی جاتا ہے.مثلاً کشمیری لوگ مذگر می کو مؤنث اور مؤنث کو مذگر بنا دیتے ہیں.وہ کہتے ہیں تیری رن آیا ، چور گئی ، میں آئی.اور اوی پٹھان مفرد کو جمع اور جمع کو مفرد بنا دیتے ہیں.مثلاً اگر وہ پانی ہے" کہنا چاہیں تو پانی ہیں کہتے ہیں.اس قسم کی تھوڑی بہت غلطیاں رہ جاتی ہیں لیکن ہم ان کا مفہوم سمجھ لیتے ہیں.پس جہاں تمہارا یہ فرض ہے کہ تم نماز ، روزہ اور دوسرے اسلامی احکام کی پابندی کرو وہاں ہر ایک کو اس علاقہ کی زبان سیکھنی چاہیے.تم قاعدے اور کتابیں خرید لو اور سندھی زبان سیکھنے کی کوشش کرو تا کہ تم اس علاقہ کے رہنے والوں کو آسانی سے تبلیغ کر سکو اور تا وہ دوری اور بعد دور ہو جائے جو پنجابی اور سندھی میں پایا جاتا ہے.پھر تم جہاں سندھی زبان سیکھنے کی کوشش کرو وہاں یہ بھی کوشش کرو کہ سندھی لوگ اُردو زبان سیکھ جائیں تا کہ وہ سمجھیں کہ تم اُن کے بھائی ہو اور ہم وطن بن کہ یہاں رہنا چاہتے ہو اور اُن کا یہ احساس کہ تم اُن سے نفرت کرتے ہو دُور ہو.اس کے بغیر تبلیغ کبھی کامیاب نہیں ہو سکتی.الفضل 2 دسمبر 1959 ء ) 1 : ابن ماجه ابواب الجهاد باب فضل الشهادة في سبيل الله 2 : والا: کنگن، کڑا.( اردو لغت تاریخی اصول پر جلد 2 صفحہ 87 اردو لغت بورڈ کراچی 2007ء)

Page 170

* 1949 161 (17) خطبات محمود دین سیکھنے اور اپنے اعمال کو زیادہ سے زیادہ مکمل بنانے کی کوشش کرو تا کہ تم احمدیت سے صحیح رنگ میں فائدہ اُٹھا سکو (فرموده 17 جون 1949ء بمقام ناصر آبادسندھ ) تشهد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: دنیا میں مختلف کام مختلف حیثیتیں رکھتے ہیں جس طرح ظاہری اجسام کی مختلف شکلیں ہوتی ہیں اسی طرح اعمال کی بھی مختلف شکلیں ہوتی ہیں.دنیا میں جتنی چیزیں پائی جاتی ہیں اُن میں سے کوئی دائرہ کی شکل کی ہوتی ہے، کوئی چوکور ہوتی ہے، کوئی مستطیل ہوتی ہے، کوئی مثلث ہوتی ہے، کوئی مخمس ہوتی ہے، کوئی مسدس ہوتی ہے، کوئی مُشمَّن ہوتی ہے اور پھر آگے ان کی کئی قسمیں چلتی چلی جاتی ہیں.اسی طرح انسانی خیالات و افکار اور اعمال بھی مختلف شکلوں کے ہوتے ہیں.جب تک ہم کسی مخصوص شکل کے مطابق اپنے بعض مخصوص کاموں کو نہ ڈھالیں اُس وقت تک ہم اس قسم کے کاموں کو سرانجام نہیں دے سکتے.مثلاً کوئی کام ایسا ہوتا ہے جو ہزاروں شاخیں رکھتا ہے ہے، کوئی کام ایسا ہوتا ہے جو بیسیوں شاخیں رکھتا ہے اور کوئی کام ایسا ہوتا ہے جو دو دو، تین تین شاخیں رکھتا ہے.اب اگر ہم ہزاروں شاخوں والے کام کا ایک ایک، دو دو شاخوں والے کام پر قیاس کر لیں تو ہم یقیناً اس کام کو سرانجام دینے سے قاصر رہیں گے.یا اگر ہم کسی شخص کی تصویر بنانا چاہیں مگر ہم نے اس کے خدو خال کو پوری طرح نہ دیکھا ہو تو کیا تم سمجھتے ہو کہ ہم اُس کی صحیح تصویر خدوخال

Page 171

$1949 162 خطبات محمود.بنالیں گے؟ ہم کسی چیز کی تصویر اُس وقت تک نہیں کھینچ سکتے جب تک کہ ہم نے وہ چیز دیکھی ہوئی نہ ہو یا اس کے متعلق پوری طرح تحقیقات نہ کی ہوئی ہو.صرف بعض اجزاء کا علم ہونے کی وجہ سے اس کی مکمل تصویر نہیں کھینچی جا سکتی.مثلاً انسان کے کان کے متعلق ہم نے سنا ہو اور ہم اس کی تصویری کھینچ لیں تو اسے کوئی انسان نہیں کہے گا یا خالی پاؤں کی ہم تصویر کھینچ لیں یا صرف آنکھ کی تصویر کھینچ لیں تو وہ انسان کا قائمقام نہیں بن سکتی.اسی طرح اگر کوئی خیال یا عمل ایسا ہے جو ہزاروں شاخیں رکھتا ہے تو اس کے ایک حصہ کو اگر ہم لے لیتے ہیں اور یہ سمجھ لیتے ہیں کہ ہم نے وہ خیال ذہن نشین کر لیا ہے یا وہ کام ہم نے مکمل کر لیا ہے تو ہم غلطی پر ہوں گے.میں نے دیکھا ہے بعض دفعہ ایک سنجیدہ مزاج اور مخلص آدمی بھی محض اس لیے ٹھوکر کھا جاتا ہے کہ وہ اپنے ذہن میں اس کام کا صحیح اور مکمل نقشہ نہیں اٹھاتا.وہ اس لیے ٹھو کر نہیں کھاتا کہ وہ قربانی اور جدوجہد کے لیے تیار نہیں تھا یا وہ اس کام کے لیے قربانی اور جدوجہد نہیں کرتا تھا.وہ قربانی بھی کرتا تھا، جدوجہد بھی کرتا تھا لیکن اس نے اس کام کا نقشہ غلط کھینچا اور اسے ناممکن چیز سمجھ کر بیٹھ گیا.اس وجہ سے وہ اُن فوائد کو حاصل نہ کرسکا جو وہ حاصل کر سکتا تھا.مثلاً اگر کوئی شخص مکان کا یہ نقشہ کھینچ لے کہ اُس کی دو دیوار میں ہوتی اولا ہیں اور چھت ہوتی ہے تو جو شخص دود یواروں والا مکان بنالے وہ چوروں سے محفوظ نہیں رہ سکتا.چور آئیں گے اور اُس کا مال اُٹھا کر لے جائیں گے.وہ بارش سے محفوظ نہیں رہ سکتا.بارش آئے گی اور وہ بھیگ جائے گا اور اس کے گھر کا سامان بھی خراب ہو جائے گا.اسی طرح وہ ہوا کے جھونکوں سے محفوظ نہیں رہ سکتا.ہوا سے جو نقصان ہوتا ہے مثلاً لوہے کی اشیاء وغیرہ کو زنگ لگ جانا اس سے کی وہ بچ نہیں سکتا.اب اسے یہ تکلیف اس لیے نہیں ہوگی کہ اس نے مکان بنانے کے لیے کوشش نہیں ہے کی اور جدوجہد سے کام نہیں لیا.اس نے عمل بھی کیا اور قربانی بھی کی لیکن وہ اس سے فائدہ نہ اٹھا سکا کیونکہ اسے پتا نہیں تھا کہ مکان ہوتا کیا ہے.اگر اسے پتا ہوتا تو جہاں اس نے دو بڑی دیوار میں ہے بنالی تھیں کیا وہ دو اور دیوار میں نہیں بنا سکتا تھا؟ یا کیا وہ دروازہ میں سوراخ نکال کر زنجیر نہیں لگوا سکتا تھا.اُس نے دس میں سے آٹھ روپے خرچ کیے تو باقی دو روپوں کے خرچ کرنے میں اسے کیا تکلیف تھی.اس نے یہ نقصان اسی لیے اٹھایا کہ اسے پتا نہیں تھا کہ مکان ہوتا کیا ہے اور یہ کہ اس کے لیے چار دیواروں کا ہونا ضروری ہے.غرض کسی کام کو سر انجام دینے سے قبل ضروری ہوتا ہے کہ

Page 172

$1949 163 خطبات محمود اس کا مکمل نقشہ ذہن میں بٹھا لیا جائے ، اُسے اس کی مخصوص شکل میں ڈھال لیا جائے.ورنہ ہم اس کام کو مکمل نہیں کر سکیں گے اور اس طرح اس کے فوائد سے محروم رہ جائیں گے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ نے جو حیرت انگیز ترقی کی اس کی وجہ یہی تھی کہ وہ ای ہر کام کو شروع کرنے سے پہلے اُس کا مکمل نقشہ ذہن میں بٹھا لیا کرتے تھے اور ہر کام کو مکمل کرنے کے لیے اُن کے اندر ایک جوش پایا جاتا تھا.یوں تو دنیا کی ساری قومیں ہی قربانیاں کرتی ہیں.یہودیوں نے بھی قربانیاں کیں ، عیسائیوں نے بھی قربانیاں کیں لیکن ان میں اور صحابہ کی قربانیوں میں ایک فرق نظر آتا ہے.صحابہ میں یہ جذبہ پایا جاتا تھا کہ وہ ہر چیز کی مکمل تصویر کھینچ لیں.صحابہ کے اس جذبہ کا اس بات سے پتا لگتا ہے کہ ایک دفعہ صحابہ نے دیکھا کہ حضرت ابو ہریرہ چھت پر بیٹھے ہوئے وضو کر رہے ہیں اور بجائے اس کے کہ کہنیوں تک ہاتھ دھوئیں کندھوں تک ہاتھ دھورہے ہیں صحابہ نے دریافت کیا کہ آپ کیا کر رہے ہیں؟ حضرت ابو ہریر گا نے فرمایا میں چھت پر بیٹھ کر اس لیے وضو کر رہا تھا تا تم نہ دیکھو اور مجھے ایسا کرتے دیکھ کر ہنس نہ پڑو.صحابہ نے دریافت کیا کہ آخر آپ ایسا کیوں کر رہے تھے؟ حضرت ابو ہریرہ نے کہا میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا تھا کہ جتنے اعضاء پر وضو کا پانی پھرتا ہے وہ قیامت کے دن نورانی ہو جائیں گے.اور میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بھی سُنا تھا کہ کہنیوں کے اوپر کا حصہ اچھی طرح دھویا کرو.میرا خیال تھا کہ میں آپ سے اس کے متعلق سوال کروں کہ کہنیوں کے اوپر کے حصہ کو صاف کرنے سے کیا مراد ہے؟ لیکن میں آپ کی زندگی میں آپ سے اس کے متعلق پوچھ نہ سکا.اب مجھے خیال گزرا کہ شاید اس سے یہ مراد ہو کہ وضو میں ہاتھ دھوتے وقت کندھوں تک ہاتھ دھو ہے کرو.بہر حال میں نے قیاس کیا کہ اگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اس سے یہی مراد تھی تو ہاتھوں کا یہ حصہ نور سے محروم رہ جائے گا اس لیے میں نے اس دفعہ وضو میں کہنیوں کے اوپر کے حصہ کو بھی کی شامل کر لیا.1 اب دیکھو صحابہ میں کس طرح تکمیل کا جذبہ پایا جاتا تھا.انہیں کس طرح ہر کام کو مکمل کرنے کے باوجود بعض دفعہ محبہ ہو جاتا تھا کہ ہم نے کام کو مکمل طور پر نہیں کیا.ہمارے ہاں تو ہر کام میں لا پرواہی سی پائی جاتی ہے.یوں سہی یا ووں سہی.دونوں برابر ہیں ٹخنہ پر ایک نشان رہ گیا ہے تو کوئی حرج نہیں سجدہ یا رکوع میں فرق آگیا تو کیا ہوا.لیکن صحابہ

Page 173

* 1949 164 خطبات محمود ایسا نہیں کرتے تھے.وہ سمجھتے تھے کہ کسی کام میں اگر برکت ہے تو پھر اس کی مخصوص شکل کو اختیار کرنا چاہیے.اور انہیں اس بات کا اس حد تک تعہد تھا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ایک دفعہ حضرت عمرؓ کہیں سے گزر رہے تھے کہ آپ نے حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ کو قرآن کریم پڑھتے سنا.انہوں نے ایک لفظ اُس طرح نہ پڑھا جس طرح حضرت عمرؓ جانتے تھے.حضرت عمر نے اُن کو ڈانٹا اور کہا کہ آپ غلط پڑھ رہے ہیں.دراصل یوں پڑھنا چاہیے.حضرت عبد اللہ بن مسعود نے کہا میں ٹھیک پڑھ رہا ہوں.میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اِسی طرح ہی سنا ہے.حضرت عمرؓ کہنے لگے مجھے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یوں سکھایا ہے اور آپ کہتے ہیں مجھے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی طرح سکھایا ہے.یہ کس طرح ہو سکتا ہے.آخر جھگڑا اوی بڑھا.حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کمزور تھے اور حضرت عمرؓ مضبوط تھے.حضرت عمرؓ نے حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کے گلے میں پڑکا ڈال لیا اور انہیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے گئے اور کہایا رسول اللہ !یہ قرآن کریم کو بگاڑ کر پڑھتے ہیں.آپ نے حضرت عبداللہ بن مسعودؓ سے فرمایا تم کس طرح پڑھتے ہو؟ انہوں نے وہ آیت دوبارہ پڑھ کر سنائی.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ٹھیک ہے.حضرت عمرؓ کہنے لگے یا رسول اللہ ! یہ کس طرح ٹھیک ہوسکتا ہے؟ مجھے نے اس طرح سکھایا تھا کیا اس آیت کو اس طرح پڑھنا بھی ٹھیک ہے؟ آپ نے فرمایا ہاں ! ٹھیک ہے.پھر آپ نے فرمایا قرآن کریم کئی قراء توں پر نازل ہوا ہے.2 یعنی قرآن کریم کے الفاظ کو مختلف قبیلوں کے لہجہ کے مطابق مختلف طریق پر ادا کرنا جائز ہے.حضرت عبد اللہ بن مسعود چونکہ اور قبیلہ سے تعلق رکھتے تھے اس لیے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اپنے لہجہ کے مطابق قرآن کریم سکھایا لیکن دونوں کا مطلب ایک ہی تھا.ہمارے ملک میں بھی یہ چیز پائی جاتی ہے ہے.گجرات کے علاقہ کی طرف چلے جاؤ وہاں کہیں گے کڈے دینا اے لیکن اس کے ساتھ ہی دوسرے علاقہ میں اسی مفہوم کو کتھے جانا ہے سے ادا کرتے ہیں.الفاظ مختلف ہیں لیکن دونوں کا جی مطلب ایک ہے.یہی فرق عربوں میں بھی پایا جاتا تھا.اسی وجہ سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب صحابہؓ کو قرآن کریم سکھایا کرتے تو آپ اُن کی زبان کا بھی لحاظ رکھ لیا کرتے تھے.یہ زبان کا اختلاف دنیا کے ہر ملک میں پایا جاتا ہے.دلّی میں چلے جاؤ تو وہ "خالص" کو ہمیشہ "خالص"

Page 174

* 1949 165 خطبات محمود کہیں گے.مثلاً اگر یہ کہنا ہو کہ مجھے خالص گھی چاہیے تو وہ کہیں گے مجھے مخالص گھی چاہیے چنانی اچھے اچھے خاندانوں کے لوگ بھی جن میں تعلیم کم ہے نخالص کا لفظ خالص کے معنوں میں استعمال کرتے ہیں اور کہتے ہیں یہ کھانا تو بڑا اچھا ہے اس میں مخالص گھی پڑا ہوا ہے.ایک اور شخص جو زبان کے اس فرق کو نہیں جانتا وہ گھبرا جاتا ہے اور کہتا ہے کہ اگر اس میں نخالص گھی پڑا ہوا ہے تب تو میں بالکل نہیں کھاؤں گا.اس قسم کے زبانوں کے اختلاف بعض دفعہ تو صرف معمولی حد تک رہتے ہیں مگر بعض دفعہ بڑے بڑے اختلاف پیدا ہو جاتے ہیں.میں جب حج کے لیے گیا تو ایک میمنی نو کر بھی جدہ سے ہمارے قافلہ کے ساتھ چل پڑا.رستہ میں میں اُس سے عربی زبان میں گفتگو کرتا رہا.میں نے دیکھا کہ میری باتوں کو وہ خوب سمجھتا تی تھا مگر بعض دفعہ وہ حیرت سے مجھے دیکھنے لگتا اور میری بات کو نہ سمجھ سکتا.اس پر میں نے کسی سے دریافت کیا کہ یہ کیا بات ہے اور باوجود عربی جاننے کے یہ بعض دفعہ میری بات کو کیوں نہیں سمجھ سکتا؟ اس نے بتایا کہ یمنی لوگوں کی زبان کا مکہ والوں کی زبان سے بڑا اختلاف ہے اور اس اختلاف کی وجہ سے بعض دفعہ عجیب واقعات بھی رونما ہو جاتے ہیں.چنانچہ اس نے سنایا کہ تغییر کے معنے عربی زبان میں بدل دینے کے ہیں.لیکن یمنی زبان میں اس کے معنے تو ڑ دینے کے ہیں.ہمارے ہاں جب یہ کہیں کہ غیر تو اس کے معنے ہوں گئے بدل دے لیکن یمنی زبان میں اس کے معنے یہ ہوں گے کہ توڑ دے.پھر اس نے لطیفہ سنایا کہ ایک دفعہ ایک یمنی نوکر مکہ کی ایک امیر عورت کے ہاں ملازم ہو گیا.وہاں بھی حقہ پینے کا رواج ہے.مگر ہمارے ہاں تو نہایت معمولی اور ادنیٰ قسم کے حقے ہوتے ہیں کیونکہ ہمارے ملک میں حقہ استعمال کرنے والے عام طور پر غرباء ہوتے ہیں لیکن وہ چونکہ امیر ہیں اس لیے وہ نہایت اعلیٰ درجہ کے حقے استعمال کرتے ہیں اور وہ کی برتن جس میں پانی ڈالا جاتا ہے وہ بھی یورپ سے منگواتے ہیں جو شیشے کا بنا ہوا ہوتا ہے اور نوکر سارا دن حقہ کی صفائی کرتے رہتے ہیں.لکھنو کے نواب بھی بڑے اعلیٰ درجہ کے حقے استعمال کیا کرتے یا تھے اور بعض دفعہ پانی کی بجائے گلاب کا عرق اس میں ڈالا کرتے تھے مگر چونکہ دھواں گزرنے کی کی وجہ سے پانی کچھ عرصہ کے بعد خراب ہو جاتا ہے اس لیے ضرورت ہوتی ہے کہ اسے بدل دیا جائے.اس عورت کو بھی ایک دن پانی بدلنے کی ضرورت محسوس ہوئی تو اس نے اپنے نوکر کو آواز دی ہے

Page 175

* 1949 166 خطبات محمود اور اسے کہا غیر الشَّيْشَةَ یعنی حقہ کے نیچے جو پانی کا برتن ہے اس کا پانی بدل دو.مگر اس یمنی نوکر کی زبان میں اس فقرہ کے یہ معنے تھے کہ اس شیشہ کے برتن کو توڑ دو.جب اس عورت نے یہ بات کہی تو وہ حیران ہو کر اس سے کہنے لگا کہ ستی 3 هذَا طَيِّبٌ یعنی اے میری آقا ! یہ تو بڑا اچھا تھی ہے.اس کو کیوں توڑا جائے؟ اس پر پھر اُس نے کہا کہ قُلتُ لَكَ غَيْرِ الشَّيْشَةَ یعنی میں جو تجھے کہتی ہوں کہ اس کا پانی بدل دو تو تو کیوں انکار کرتا ہے.اس نے پھر کہا کہ ستى هذَا طَيِّبٌ بیگم صاحبہ ایہ تو بڑا اچھا ہے.اسے غصہ آیا کہ یہ عجیب قسم کا نوکر ہے.میں اسے کہتی ہوں پانی بدل دے اور یہ کہتا ہے پانی بڑا اچھا ہے.چنانچہ وہ ناراض ہوئی اور اس نے سختی سے کہا کہ میں جو تجھے کہتی ہوں کہ اس کو بدل دے تو تو کیوں نہیں بدلتا ؟ اس پر اُس نے برتن اٹھایا اور زور سے زمین پر دے مارا اور وہ ٹکڑے ٹکڑے ہو گیا.عورت نے جب دیکھا کہ اس نے برتن توڑ دیا ہے تو وہ اسے گالیاں دینے لگ گئی کہ کمبخت ! تو نے میرا پانچ سو روپیہ کا برتن توڑ دیا ہے.تجھے کس نے کہا تھا کہ تو اس برتن کو توڑ دے؟ وہ نوکر کہنے لگا کہ میں بھی تو یہی کہتا تھا کہ یہ برتن بڑا اچھا ہے مگر تم کہتی تھیں کہ سے توڑ ڈالو.اب میں نے برتن توڑا ہے تو تم نے شور مچانا شروع کر دیا ہے کہ میں نے برتن کیوں تو ڑا ہے.وہ حیران ہوئی کہ یہ کیا بات ہے اور میں نے کب اسے برتن توڑنے کا حکم دیا تھا.آخر کسی شخص نے جو یمنی زبان جانتا تھا اسے بتایا کہ غَيرِ الشَّيْشَة کے معنے یمنی زبان میں یہی ہیں کہ شیشہ کا برتن توڑ دو.پس اس نے جو کچھ کیا ہے اپنی سمجھ کے مطابق کیا ہے.اس میں غصہ اور ناراضگی کی کوئی بات نہیں.غرض زبانوں کے اختلاف کی وجہ سے بڑے بڑے فرق پیدا ہو جاتے ہیں.اوائل میں جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کو قرآن کریم سکھایا تو چونکہ مختلف قبائل کے لہجوں میں اختلاف تھا اس لیے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اجازت دے دی کہ ایسے الفاظ جن کا ادا کرنا ان کے لیے مشکل ہو انہیں وہ اپنے لہجہ کے مطابق پڑھ لیا کریں اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اول کے زمانہ تک یہی سلسلہ جاری رہا.لیکن جب اسلامی حکومت قائم ہوگئی اور مکہ کی زبان ہر جگہ رائج ہے ہوگئی اور ہر قبیلہ کے لوگ ان سے متعارف ہو گئے تو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے حکم دے د کہ اب صرف مکی لہجہ میں قرآن کریم لکھا اور پڑھا جائے.4 باقی زبانیں ترک کر دی جائیں تا کہ

Page 176

* 1949 167 خطبات محمود آئندہ کوئی اختلاف پیدا نہ ہو.اب دیکھو یہ بظاہر ایک چھوٹی سی بات تھی مگر اس کے لیے حضر نے حضرت عبداللہ بن مسعودؓ جیسے عظیم الشان صحابی کے گلے میں پڑکا ڈال دیا اور وہ انہیں کھینچ کر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے آئے.ہمارے ہاں کوئی ایسی بات ہو تو کہہ دیا جاتا ہے.چلو ! یوں کہہ لیا یا دوں کہہ دیا.اس میں کیا حرج ہے؟ غرض حقیقت کو سمجھ کر اگر عمل کیا جائے تو انسان بہت سی غلطیوں سے بچ جاتا ہے.اور اگر ایسا نہ کیا جائے تو اس کے نتیجہ میں ایسی ہی حالت ہو جاتی ہے جیسے کوئی مکان بنائے تو اس کی دو دیوار میں ہوں.اس سے اس کا سامان محفوظ نہیں رہ سکتا.ہوائیں اس کے مکان کو اُڑا کر لے جائیں گی، کیڑے اس کے مال کو ضائع کر دیں گے، بارش کی نمی اس کا ستیا ناس کر دے گی ، چور اُس کی کا مال اُٹھا کر لے جائیں گے.اسی طرح جو فکر اور عمل ٹھیک طور پر استعمال نہ ہو اس کا نتیجہ بھی اچھا کی نہیں نکل سکتا.پس مومن جب کسی چیز کو اہم قرار دے تو اس کا فرض ہوتا ہے کہ وہ اس کی اہمیت کو پوری طرح سمجھے.تم شریعت کو سمجھنے اور اس پر پوری طرح عمل کرنے کی کوشش کرو.اگر اس میں کوئی کی نقص رہ جائے گا تو تمہارے ثواب میں یقیناً کمی آجائے گی.صحابہ اس بارہ میں نہایت احتیاط سے کام لیتے تھے.ایک دفعہ ایک جنازہ آیا جب نماز جنازہ ختم ہوگئی اور لوگ واپس لوٹنے لگے تو ایک مالی صحابی نے کہا میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ جو شخص نماز جنازہ میں شامل ہوتا ہے اسے ایک قیراط کے برابر ثواب ملتا ہے اور اگر وہ جنازہ کے ساتھ قبر تک جاتا ہے اور میت کے دفن ہونے تک وہاں انتظار کرتا ہے اور دعا کر کے واپس آتا ہے تو اسے دو قیراط کے برابر ثواب ملتا ہے.پھر آپ نے یہ بھی فرمایا کہ قیراط سے رتی مراد نہیں بلکہ یہ قیراط اُحد پہاڑ کے برابر ہے.دوسرے صحابی جو پاس کھڑے تھے وہ خفا ہو کر بولے کہ تم نے ہم پر بہت ظلم کیا اگر تم نے یہ بات کی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہوئی تھی تو تمہارا فرض تھا کہ ہمیں بھی بتاتے.معلوم نہیں ہم نے کی اب تک کتنے اُحد ثواب کے ضائع کر دیئے ہیں.5 تو دیکھو! صحابہ کس طرح چھوٹی سے چھوٹی کی بات کو یا در کھتے اور اس کی تعمیل کرتے تھے.ان کی سب بڑائی اسی میں تھی.حدیثوں میں آتا ہے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک دفعہ مسجد میں لیکچر فرما رہے تھے کہ مسجد میں آدمی زیادہ ہو گئے اور جو لوگ کناروں پر تھے انہیں چونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی

Page 177

* 1949 168 خطبات محمود آواز اچھی طرح نہیں پہنچتی تھی اس لیے وہ کھڑے ہو گئے تا کہ آپ کی آواز سُن سکیں.اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ بعد میں آنے والے بالکل محروم ہو گئے.نہ وہ آواز سن سکتے تھے اور نہ آپ کی شکل دیکھ سکتے تھے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب یہ دیکھا کہ کھڑے ہونے والوں نے بعد میں آنے والوں کو بالکل محروم کر دیا ہے تو آپ نے فرمایا بیٹھ جاؤ.آپ نے جب کہا بیٹھ جاؤ تو حضرت عبد اللہ بن مسعود جو اُس وقت مسجد کی طرف آرہے تھے وہیں گلی میں ہی بیٹھ گئے اور چونکہ انہوں نے مسجد میں لیکچر سننے کے لیے ضرور پہنچنا تھا اس لیے انہوں نے بچوں کی طرح گھسٹ گھسٹ کر مسجد کی طرف بڑھنا شروع کر دیا.جب دوسرے لوگوں نے انہیں گھسٹتے ہوئے دیکھا تو انہیں تعجب ہوا.چنانچہ کسی شخص نے ان سے کہا آپ یہ کیا حرکت کر رہے ہیں؟ انہوں نے کہا میں گلی میں آرہا تھا کہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز آئی بیٹھ جاؤ اس لیے میں بیٹھ گیا اور چونکہ میں مسجد میں پہنچ کر آپ کا لیکچر سننا چاہتا ہوں اس لیے میں نے گھسٹ کر چلنا شروع کر دیا ہے.اس شخص نے کہا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مُراد تو ان لوگوں سے تھی جو مسجد میں موجود تھے آپ سے تو نہیں تھی.حضرت عبداللہ بن مسعودؓ نے کہا ٹھیک ہے.میں سمجھتا ہوں ایسا ہی ہوگا.لیکن اگر میں مسجد میں نہ پہنچ سکوں اور راستہ میں ہی مر جاؤں تو یہ حسرت باقی رہ جائے گی کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک حکم نہیں مانا.6 یہی جذبہ تھا جس کی وجہ سے صحابہ نے اپنے افکار اور اعمال کو مکمل کر لیا اور بہت زیادہ ثواب حاصل کیا.ہماری جماعت کو بھی چاہیے کہ وہ دین سیکھنے کی کوشش کرے اور چھوٹی چھوٹی باتوں کے پیچھے نہ پڑی رہے.بعض دفعہ ایک آدمی لغو بحث شروع کر دیتا ہے اور بسا اوقات بڑی بڑی باتوں کو چھوڑ دیتا ہے.مثلاً حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ آمین اونچی کہنا یا نیچی کہنا، رفع یدین کرنا یا نہ کرنا، ہاتھ سینہ پر باندھنا یا سینہ سے نیچے باندھنا یہ سب چھوٹی چھوٹی باتیں ہیں، ان پر زیادہ زور دینے کی ضرورت نہیں.ان سب طریقوں پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عمل کیا ہے.صحابہ میں سے کسی کی طبیعت ایک طرف مائل ہوگئی اور کسی کی طبیعت دوسری طرف مائل ہو گئی.مگر مسلمان ان چھوٹی چھوٹی باتوں کے پیچھے پڑے رہے جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اہم باتوں کی طرف ان کی توجہ نہ رہی.

Page 178

خطبات محمود 169 * 1949 غرض لغو بحث کے نتیجہ میں انسان چھوٹی چھوٹی باتوں کے پیچھے پڑا رہتا ہے اور بڑی باتوں کو چھوڑ دیتا ہے اور کبھی بڑی بڑی باتوں پر بیٹھے رہتا ہے اور چھوٹی چھوٹی باتوں کو چھوڑ دیتا ہے ہماری جماعت کے دوستوں کو چاہیے کہ وہ نہ بڑی باتوں کو چھوڑیں اور نہ چھوٹی باتوں کو چھوڑیں اور زیادہ سے زیادہ دین سیکھنے کی کوشش کریں.اس وقت حالت یہ ہے کہ ہمارے مُربی اور معلم جماعتوں میں جاتے ہیں لیکن جماعت کے لوگ ان سے دینی مسائل سیکھنے کی کوشش نہیں کرتے.پرانے زمانہ میں یہ حالت تھی کہ امام بخاری نے سترہ سفر آدھی دنیا کے صرف ان حدیثوں کے لیے کیے جن کو وہ پہلے سن چکے تھے.صرف اس لیے کہ اگر کسی واسطہ کو اڑایا جا سکے تو اسے اڑا دیا جائے.مثلاً چھ واسطوں سے امام بخاری کو پتا لگا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فلاں بات یوں فرمائی ہے.اس پر وہ چھٹے آدمی کے پاس جاتے اور پوچھتے ہیں کہ تم نے یہ بات کس سے سنی ہے؟ پھر آپ پوچھتے ہیں کہ وہ شخص زندہ ہے یا مر گیا ہے؟ اگر وہ کہتا کہ جس سے میں نے یہ بات سنی ہے وہ مر گیا ہے تو بات ختم ہو جاتی.اگر کہتا کہ وہ زندہ ہے اور فلاں مقام پر رہتا ہے تو آپ وہاں سے چل پڑتے اور اُس شخص سے جا کر پوچھتے کہ کیا تم نے یہ بات بیان کی ہے؟ اگر وہ کہتا کہ ہاں میں نے یہ بات بیان کی ہے تو وہ باقی تمام واسطوں کو چھوڑ دیتے.اس طرح آپ نے سترہ سفر کیے.اس لیے کی نہیں کہ آپ کو اس بات کا علم نہیں تھا بلکہ اس لیے کہ آپ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ کے اور قریب ہو جائیں.اس جدو جہد کا نتیجہ یہ تھا کہ گو وہ دوسو سال کے بعد پیدا ہوئے لیکن جو روایات انہوں نے لکھی ہیں وہ ان لوگوں کی روایات سے زیادہ صحیح ہیں جنہوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے سو سال بعد روایات لکھیں کیونکہ انہوں نے اُن روایات کو تلاش کیا جن میں واسطے کم تھے.اگر پہلے محدث نے ایک روایت کو چھ واسطوں.بیان کیا تھا تو آپ نے اُسے پانچ واسطوں کے ساتھ بیان کر دیا.غرض صحابہ اس طرح اپنے علم کی تکمیل کیا کرتے تھے.اب گجا تو یہ حالت ہے کہ وہ لوگ دُور دُور جا کر تحصیل علم کیا کرتے تھے اور گجا یہ حالت ہے کہ ہم معلم بھیجتے ہیں لیکن لوگ ان سے علم دین نہیں سکتے.

Page 179

خطبات محمود 170 * 1949 ہر کر بی اور معلم کا یہ کام ہوتا ہے کہ وہ کلاسیں لگا کر لوگوں کو دین کی موٹی موٹی باتیں سکھائے ، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی باتیں سنائے ، جماعت کے پچھلے واقعات اور گزشتہ انبیاء کے واقعات سنا سنا کر انہیں بتائے کہ اب ان کو کس رنگ میں قربانی کرنی چاہیے، انہیں اچھے اخلاق سکھائے.یوں تو ہر شخص یہ سمجھتا ہے کہ وہ اعلیٰ درجہ کے اخلاق دکھا سکتا ہے.لیکن موقع ومحل کے لحاظ سے ضروری نہیں کہ وہ اعلیٰ درجہ کے ہی ہوں.مثلاً کسی نے کھانا کھا لیا ہو اور پھر وہ دوسرے کا کھانا دیکھے اور اس کے دل میں لالچ پیدا نہ ہو تو یہ کوئی اعلیٰ درجہ کے اخلاق نہیں ہوں گے.ہاں ! اُسے فاقہ ہو اور پھر وہ کھانا پڑا ہوا دیکھے اور اس کے دل میں لالچ پیدا نہ ہو تو یہ اچھے اخلاق کا مظاہرہ ہو گا.پس معلموں کا یہ فرض ہے کہ وہ لوگوں کو دین سکھائیں اور جماعتوں کا یہ فرض ہے کہ وہ اُن سے پوری طرح فائدہ اٹھانے کی کوشش کریں.انسان کو خدا تعالیٰ نے ایسی طاقت دی ہے کہ اگر وہ تمام دنیوی کام کرتا رہے تب بھی کچھ نہ کچھ وقت اس کے پاس بچ جاتا ہے جس میں وہ دین سیکھ سکتا ہی ہے.بشرطیکہ وہ محنت سے کام لے.لیکن اگر وہ اس طاقت سے فائدہ نہ اٹھائے تو یہ اس کا اپنا قصور ہوتا ہے.پس چاہیے کہ تمہارا ہر فکر ، تمہارا ہر خیال اور تمہارا ہر عمل درست ہو اور وہ دوسروں سے زیادہ مکمل ہو.لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ جماعتوں کے پاس جو مربی اور معلّم آئیں سے وہ زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانے کی کوشش کریں.اور اگر اُن سے فائدہ اٹھانے کا کی موقع نہ ملے تو تم اپنی جماعت میں سے ہی ایک آدمی مقرر کر لو جو تمہیں دین سکھائے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی اردو میں لکھی ہوئی کتابیں ہر ایک اردو پڑھا لکھا آدمی پڑھ سکتا ہے اُن سے مسائل سیکھنے کی کوشش کرو.اگر کوئی ایسا نہ کرے اور پھر کہے کہ مجھے احمدیت سے کیا ملا ہے تو یہ درست نہیں ہو گا.اس کی مثال ایسی ہی ہوگی جیسے کوئی شخص کو نین کھانے کی بجائے جیب میں ڈال لے اور پھر کہے کہ مجھ پر کونین نے اثر نہیں کیا حالانکہ اثر تب ہوتا جب وہ کھاتا.جس طرح مُردہ اور زندہ برابر نہیں ہو سکتے ، بہرے اور سننے والے برابر نہیں ہو سکتے ؟ اندھے اور سو جا کھے برابر نہیں ہو سکتے اسی طرح دین سیکھنے کی کوشش کرنے والا اور نہ کرنے

Page 180

* 1949 171 خطبات محمود والا دونوں برابر نہیں ہو سکتے.پس دین سیکھنے کی کوشش کرو اور اپنے تمام اعمال کو زیادہ زیادہ مکمل بناؤ تا کہ تم احمدیت سے صحیح رنگ میں فائدہ اٹھا سکو.(الفضل 4 نومبر 1959 ء ) 1 : مسند احمد بن حنبل مسند ابى هريرة صفحه 517 حدیث نمبر 7166 مطبوعہ لبنان 2004ء ( مفهوماً) 2 : بخاری کتاب فضائل الْقُرْآن باب اُنْزِلَ الْقُرْآنُ عَلَى سَبْعَةِ أَحْرُفٍ 3 : سِيّى : لِلْمَرْأَةِ) أَيْ سَيِّدَتِي ( یعنی اے میری آقا) قال ابن الاعرابي : وَيَحْتَمِلُ أَنَّ الْأَصْلَ سَيِّدَتِي فَحُذِفَ بَعْضُ حُرُوْفِ الْكَلِمَةِ ( الصَّوَابُ : سَيِّدَتِيْ) (تاج العروس جلد 2 صفحہ 311 مطبوعہ بیروت لبنان 2007ء) 4 : كنز العمال جلد 2 صفحہ 583 ،584 مطبوعہ حلب 1969ء 5 :مسلم کتاب الجنائز باب فَضْلِ الصَّلوةَ عَلَى الْجَنازَة (الخ) 6 : اسد الغابة جلد 3 صفحہ 157 مطبوعہ ریاض 1286ھ ، ابوداؤد ابواب الجمعة باب الْإِمَامُ يُكَلِّمُ الرجل في خُطبته

Page 181

* 1949 172 (18) خطبات محمود الہی جماعتوں کے لیے مصائب اور ابتلاؤں کا آنا نہایت ضروری ہوتا ہے (فرموده 24 جون 1949ء بمقام پارک ہاؤس کوئٹہ ) تشهد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: ”جہاں تک میں سمجھتا ہوں اور جہاں تک اللہ تعالیٰ کے دیئے ہوئے علوم اور اس کی دی ہوئی خبروں سے مجھے معلوم ہوتا ہے جماعت کے لیے اب ایک ہی وقت میں دو قسم کے زمانے کی آرہے ہیں.اور الہی جماعتوں کے لیے ہمیشہ ہی یہ دونوں زمانے متوازی آیا کرتے ہیں.یعنی ایک ہی وقت میں ترقی اور ایک ہی وقت میں ابتلاؤں کا زمانہ شروع ہو جاتا ہے.اور یہ سلسلہ اُس وقت تک جاری رہتا ہے جب تک کہ وہ آخری زمانہ نہیں آجاتا جس میں تمام تکالیف ختم ہو جاتی ہیں اور صرف ترقیات ہی ترقیات باقی رہ جاتی ہیں.لیکن الہی سنت سے ہمیں یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ جب بیرونی مصائب کا زمانہ ختم ہو جاتا ہے تو اُس وقت اندرونی مصائب شروع ہو جاتے ہیں.صحابہ اس نکتہ کو خوب سمجھتے تھے.چنانچہ جب اللہ تعالیٰ نے عرب پر مسلمانوں کو فتح دے دی تو اس کی کے بعد وہ خاموش ہو کر نہیں بیٹھ گئے بلکہ صحابہ نے اپنے لیے ایک اور مصیبت سہیڑ لی.یعنی ایک ہی واری وقت میں انہوں نے قیصر اور کسرای دو زبر دست بادشاہوں سے جو اُس زمانہ میں سب سے زیادہ طاقت رکھتے تھے لڑائی شروع کر دی.لوگ خیال کرتے ہیں کہ شاید دنیا کی لالچ یا دنیا کی بڑائی کی خواہش

Page 182

* 1949 173 خطبات محمود میں صحابہ نے ایسا کیا لیکن واقعات اس کی تردید کرتے ہیں.دنیا کی بڑائی اور دنیا میں ترقی کی خواہش کوئی نہ کوئی علامتیں اپنے ساتھ رکھتی ہے.مثلاً جب دنیوی بڑائی کسی کو مل جاتی ہے تو اُس سے وہ ذاتی طور پر فائدہ اُٹھانے کی کوشش کرتا ہے، ناجائز دباؤ لوگوں پر ڈالتا ہے، ناجائز رعب ڈالتا ہے، ناجائہ حکومتیں کرتا ہے، ناجائز طور پر اموال پر قبضہ کر لیتا ہے، ناجائز طور پر جائدادیں بناتا ہے یا ان جائدادوں کو اپنے دوستوں میں تقسیم کرتا ہے.یہ علامتیں ہوتی ہیں جن سے پہچانا جا سکتا ہے کہ اس کے دل میں دنیا کی لالچ یا دنیا کی بڑائی کی خواہش موجود ہے.لیکن اگر کوئی شخص دنیوی فتوحات کے بعد ان چیزوں کو حاصل کرنے کی کوشش نہیں کرتا ، نہ قوم کے اموال اپنی ذات پر خرچ کرتا ہے نہ لوگوں پر ناجائز حکومت کرتا ہے، نہ اُن پر دبدبہ اور رُعب جتاتا ہے، نہ اپنی شان دکھانے کی کوئی ہے کوشش کرتا ہے تو ہم کس طرح کہہ سکتے ہیں کہ وہ دنیوی اغراض کے ماتحت اپنی بڑائی چاہتا تھا.صحابہ کو جو فتوحات حاصل ہوئیں اُن سے انہوں نے ذاتی طور پر کوئی فائدہ نہیں اُٹھایا.حضرت کی ابوبکر، حضرت عمرؓ، حضرت عثمان اور حضرت علی وغیرہ نے مفتوحہ علاقوں میں سے کچھ نہیں لیا، مفتوحہ جائدادوں میں سے کچھ نہیں لیا، مفتوحہ اموال میں سے کچھ نہیں لیا سوائے اِس کے کہ انہوں نے ی اپنی قلیل ترین ضروریات کو پورا کرنے کے لیے تھوڑا سا مال لے لیا مگر وہ بھی اتنا قلیل کہ اُس زمانہ ای کے عام لوگوں سے بھی کم تھا.اس بات کو دیکھتے ہوئے ہم یہ تسلیم کرنے پر مجبور ہیں اور ہمیں ماننا ہی پڑتا ہے کہ حضرت ابو بکر، حضرت عمرؓ اور حضرت عثمان کے زمانہ میں صحابہ کا کسی ملک پر حملہ کرنا ان کی لوگوں کی ذاتی خواہش کے ماتحت نہیں تھا.دوسری بات جو عام طور پر پیش کی جاتی ہے اور ایک حد تک صحیح بھی ہے وہ یہ ہے کہ دشمن نے حملے میں پہل کی اور وہ اپنے ملک کے دفاع کے لیے لڑنے پر مجبور ہو گئے.یہ بات ایک حد تک درست ہے بلکہ بڑی حد تک درست ہے.قیصر نے بھی حملہ میں ابتدا کی اور کسری نے بھی حملہ میں ابتدا کی اور مسلمان اُن کے مقابلہ کے لیے مجبور ہو گئے.مگر یہ دلیل اس بات کے ثابت کرنے کی کے لیے تو کافی ہے کہ حضرت ابو بکر، حضرت عمر اور حضرت عثمان ظالم نہیں تھے، یہ لوگ دشمن کو تباہ کی کرنے کی خواہش نہیں رکھتے تھے.دشمن نے حملہ کیا اور وہ اس کے دفاع کے لیے مجبور ہو گئے.مگر ہے یہ دلیل اس سوال کے جواب کے لیے کافی نہیں کہ انہوں نے بعد میں بھی لڑائی کیوں جاری رکھی؟

Page 183

$1949 174 خطبات محمود لڑائی کرنے کا الزام تو اس سے دور ہو جاتا ہے مگر لڑائی جاری رکھنے کی ضرورت اس سے ثابت نہیں ہے ہوتی.قرآن کریم نے یہ تو کہا ہے کہ تم ظالم کا ہاتھ روکومگر قرآن کریم نے اس کے ساتھ ہی یہ بھی کہا تاتا ہے کہ اگر تم صبر کرو اور دشمن کو معاف کر دینا بہتر سمجھو تو اسے معاف کر دو.اس نے یہ تو نہیں کہا کہ تھپڑ مارنے والے کے منہ پر تم ضرور تھپڑ مارو بلکہ اس نے یہ کہا ہے کہ اگر تم تھپڑ مارو تو تم مجرم نہیں ہے ہو گے.اس نے یہ تو کہا ہے کہ تمہیں ظالم کے ظلم کا مقابلہ کرنے کی اجازت ہے مگر اس نے یہ نہیں کہا کہ ضرور مقابلہ کرو.یہ صرف ایک اجازت ہے جس کے معنے یہ ہیں کہ اگر تم مقابلہ کرو گے تو ہم یہ نہیں سمجھیں گے کہ تم مجرم ہو بلکہ ہم یہ سمجھیں گے کہ تم نے ہماری اجازت سے ایک فائدہ اُٹھا لیا.اسلام یہ کہیں بھی حکم نہیں دیتا کہ ہر حالت میں دشمن کا مقابلہ کیا جائے اور اس سے لڑائی جاری رکھی ہے جائے.چنانچہ یزید جب بادشاہ ہوا تو حضرت امام حسین اُس سے لڑنے کے لیے تیار ہو گئے لیکن کی اور کئی صحابہ جن میں حضرت عبداللہ بن عمرؓ بھی شامل تھے انہوں نے یزید کا مقابلہ نہیں کیا بلکہ پچپ کر کے اپنے گھروں میں بیٹھ گئے.اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ یزید کو ظالم نہیں سمجھتے تھے.وہ یقیناً اُسے ظالم سمجھتے تھے.خود حضرت عبداللہ بن عمرؓ بیان کرتے ہیں کہ جب معاویہ کی عمر بڑی ہوئی تو وہ ایک دفعہ مسجد نبوی میں آئے.یزید ان کے ساتھ تھا.انہوں نے لوگوں کے سامنے تقریر کرتے ہوئے کہا کہ ہمارا خاندان ایسا ہے جس کی سرداری کو عرب لوگوں نے ہمیشہ قبول کیا ہے اور اسلام میں بھی ہمارے خاندان کو اللہ تعالیٰ نے بڑارتبہ دیا ہے.ہم نے اسلام کی خاطر بڑی بڑی قربانیاں کی ہیں اور ہمیشہ اسلام کے دشمنوں کا مقابلہ کیا ہے لیکن اب میں ایسی عمر کو پہنچ چکا ہوں کہ میں سمجھتا ہوں شاید اب میں زیادہ دیر تک دنیا میں زندہ نہیں رہ سکتا.میں آپ لوگوں کے سامنے یہ تجویز پیش کرتا ہوں کہ اگر آپ لوگ نا پسند نہ کریں تو میرے بعد یزید خلیفہ ہو.حضرت عبداللہ بن عمرؓ کہتے ہیں کہ میں اُس وقت اپنی ٹانگوں کے گرد پڑ کا باندھے بیٹھا تھا.جب اُس نے یہ کہا تو میں نے اپنا چی پڑکا کھولا اور ارادہ کیا کہ کھڑے ہو کر معاویہ سے کہوں کہ اس بادشاہت کا یزید سے زیادہ وہ مستحق ہے جس کا باپ اُس وقت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دوش بدوش جنگ کر رہا تھا جب تیرا باپ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے لڑائی کر رہا تھا اور اس کا زیادہ مستحق وہ شخص ہے جو خود اُس وقت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مل کر دشمن سے لڑائی کر رہا تھا جب تو دشمن کی

Page 184

* 1949 175 خطبات محمود صفوں میں شامل ہو کر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا مقابلہ کر رہا تھا.مگر پھر میں نے کہا اس دنیوی بادشاہت میں کیا رکھا ہے.1 ( حضرت معاویہ کے زمانہ سے اسلامی خلافت کا سلسلہ نہیں رہا تھا تاہی بلکہ دنیوی بادشاہت مسلمانوں میں آگئی تھی.یہ ایک دنیا سے تعلق رکھنے والی چیز ہے اس کے لی لیے میں مسلمانوں میں تفرقہ اور انشقاق کیوں پیدا کروں؟ حضرت عبداللہ بن عمرؓ کا یہ ارادہ بتاتا ہے کہ وہ یزید کی بادشاہت کو نادرست سمجھتے اور اسے لوگوں پر ایک ظلم قرار دیتے تھے.لیکن ان کا جی مقابلہ ترک کر دینا بتاتا ہے کہ وہ سمجھتے تھے کہ اسلام نے صرف مقابلہ کا ہی حکم نہیں دیا بلکہ بعض مصلحتوں کے ماتحت ظلم کو برداشت کرنے کی بھی ہدایت دی ہے.چنانچہ جہاں اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ اجازت ہے کہ اگر تمہیں کوئی شخص تھپڑ مارے تو تم بھی اسے تھپڑ مارو وہاں اُس نے یہ بھی کہا تھ ہے کہ اگر تم مقابلہ کرنا مصلحت کے خلاف سمجھو تو تم چپ رہو اور تھپڑ کا تھپڑ سے جواب مت دو.پس وہ دلیل جو عام طور پر ان جنگوں کے متعلق پیش کی جاتی ہے اس سے حضرت ابوبکر ، حضرت عمرؓ اور حضرت عثمان پر دشمن کے الزام کا دفاع تو ہو جاتا ہے، یہ تو پتا لگ جاتا ہے کہ حضرت ابو بکر نے ظلم نہیں کیا بلکہ قیصر نے ظلم کیا، حضرت عمرؓ نے ظلم نہیں کیا بلکہ کسری نے ظلم کیا ، حضرت عثمان نے ظلم نہیں کیا بلکہ افغانستان اور بخارا کی سرحد پر رہنے والے قبائل اور گر دوں وغیرہ نے ظلم کیا لیکن اس امر کی دلیل نہیں ملتی کہ حضرت ابو بکر نے ان کو معاف کیوں نہ کر دیا؟ حضرت عمر نے ان کو معافی کیوں نہ کر دیا ؟ حضرت عثمان نے ان کو معاف کیوں نہ کر دیا ؟ جب وہ مقابلہ کے لیے نکلے تھے تو وہ قیصر سے کہہ سکتے تھے کہ تمہاری سپاہ سے فلاں غلطی ہو گئی ہے اگر اس کے متعلق تمہاری حکومت کی ہم سے معافی طلب کرے تو ہم معاف کر دیں گے اور اگر معافی طلب نہ کرے تو ہم لڑائی کریں گے.انہوں نے قیصر کے سامنے یہ پیش نہیں کیا کہ تم سے یا تمہاری فوج کے ایک حصہ سے فلاں موقع پر ظلم ہوا ہے اور چونکہ ہماری تعلیم یہ بھی ہے کہ دشمن کو معاف کر دو اس لیے اگر تم معافی مانگو تو ہم معاف کرنے کے لیے تیار ہیں بلکہ جب اس نے ظلم کیا وہ فوراً اس کے مقابلہ کے لیے کھڑے ہو گئے اور پھر اس مقابلہ کو جاری رکھا.جب کسری کے سپاہیوں نے عراقی سرحد پر حملہ کیا تو سیاسی طور پر اس کے بعد صحابہ اور کسری کے درمیان جنگ بالکل جائز ہوگئی لیکن اخلاقی طور پر حضرت عمرؓ کسری کو یہ بھی کہہ سکتے تھے کہ شاید تم نے اس حملے کا حکم نہ دیا ہو بلکہ سپاہیوں نے خود بخو دحملہ کر دیا ہو اس

Page 185

* 1949 176 خطبات محمود لیے ہم اس حملہ کو نظر انداز کرنے کے لیے تیار ہیں بشرطیکہ تم ہم سے معافی مانگو اور اس فعل پر ندامت کا اظہار کرومگر انہوں نے ایسا نہیں کیا.اسی طرح حضرت عثمان نے اپنے زمانہ میں دشمنوں کو یہ نہیں کہا کہ تم نے ظلم تو کیا ہے لیکن چونکہ ہمارا مذہب ظلم کی معافی کی بھی تعلیم دیتا ہے اس لیے ہم تمہیں معاف کرتے ہیں بلکہ وہ فوراً اس ظلم کا مقابلہ کرنے کے لیے کھڑے ہو گئے اور لشکر بھیجے ، لڑائی کی اور پھر اس لڑائی کو جاری رکھا.آخر اس کی کیا وجہ تھی ؟ اگر ہم غور کریں تو ہمیں معلوم ہو سکتا ہے کہ اس کی وجہ سوائے اس کے اور کوئی نہیں تھی کہ حضرت ابوبکر جانتے تھے کہ جب بھی بیرونی خطرہ کم ہوا اندرونی فسادات شروع ہو جائیں گے.وہ سمجھتے تھے کہ قیصر نے حملہ نہیں کیا بلکہ خدا نے حملہ کیا ہے تا مسلمان اس مصیبت کے ذریعہ اپنی اصلاح کی طرف توجہ کریں اور اپنے اندر نئی زندگی اور نیا تغیر پیدا کریں.حضرت عمر جانتے تھے کہ کسری نے حملہ نہیں کیا بلکہ خدا نے حملہ کیا ہے تا کہ مسلمان غافل، سُست ہو کر دنیا میں منہمک نہ ہو جائیں.بلکہ ہر وقت بیدار اور ہوشیار رہیں.حضرت عثمان جانتے تھے کہ بعض قبائل نے مسلمانوں پر حملہ نہیں کیا بلکہ خدا نے حملہ کیا ہے تا کہ مسلمان بیدار ہوں اور ان کے اندر ایک نئی روح اور نئی زندگی پیدا ہو.غرض مصائب خدا تعالیٰ کی طرف سے آتے ہیں اور اس لیے آتے ہیں تا کہ قومیں اپنی روحانیت کو قائم رکھ سکیں اور آرام کے سامانوں کے پیدا ہونے کی وجہ سے وہ کلّی طور پر دنیا کی طرف مائل نہ ہو جائیں.یہ مقام کہ انسان دنیا میں پڑنے کے باوجود دین کی روح کو قائم رکھے بہ ممکن ہے بلکہ اسے روحانی ترقی کی منزل مقصود قرار دیا گیا ہے.کہتے ہیں ”دست در کار دل بایار.ہاتھ کام کے اندر ہونا چاہیے اور دل میں اللہ تعالیٰ کی یاد اور اس کی محبت موجزن ہونی چاہیے.یہ مقصود ہے جو صوفیاء نے انسان کا قرار دیا ہے اور اصل مقام روحانی ترقی کا یہی ہوتا ہے مگر انفرادی طور پر تو اس مقام کو حاصل کرنے والے کئی لوگ پائے جاتے ہیں لیکن قومی طور پر اس پر پہنچنا بڑا مشکل ہوتا ہے.بلکہ حقیقت یہ ہے کہ ہمیں آج تک کوئی ایک قوم بھی ایسی نہیں ملتی جو اس مقام پر پہنچی ہو.افراد ملیں گے اور لاکھوں کروڑوں ملیں گے بلکہ اس زمانہ میں بھی جب مسلمان بادشاہتیں ظلم کر رہی تھیں ، لوٹ مار کر رہی تھیں اور اپنے غلبہ اور کامیابی کے نشہ میں چور ہو کر اسی طرح لوگوں بر ظالمانہ حملے کر رہی تھیں جس طرح وحشی قبائل حملے کرتے ہیں مسلمانوں میں ایسے افراد موجود تھے.

Page 186

* 1949 177 خطبات محمود جو دنیا میں رہتے ہوئے اور تمام دنیوی کاموں میں حصہ لیتے ہوئے اللہ تعالیٰ کو یاد کرتے اور اپنی روحانیت کو زندہ رکھتے تھے.انہوں نے عیسائیوں کی طرح دنیا چھوڑ نہیں دی بلکہ دنیا میں ہی رہے.وہ شادیاں بھی کرتے تھے، وہ بچے بھی پیدا کرتے تھے، وہ جائدادیں بھی بناتے تھے مگر اس کے ساتھ ہی وہ اللہ تعالیٰ سے بھی کامل تعلق رکھتے تھے.لیکن یہ مثالیں صرف افراد میں پائی جاتی ہیں لی قوموں میں نہیں.فرد ہمیشہ ایسے نظر آتے رہیں گے جو بڑی سے بڑی دولتوں کے مالک ہو کر بھی اللہ تعالیٰ کو نہیں بھولتے.حضرت عبد الرحمان بن عوف جب فوت ہوئے تو اڑھائی کروڑ روپیہ ان کے گھر سے نکلا.اس زمانہ کے لحاظ سے اڑھائی کروڑ کے معنے کم سے کم اڑھائی ارب روپیہ کے ہیں.اس زمانہ میں روپیہ کی قیمت بہت گر گئی ہے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ اگر ہم اس زمانہ کے روپیہ کی قیمت کا صحیح اندازہ لگا ئیں تو اڑھائی کروڑ کے معنے دس ارب روپیہ کے ہیں.لیکن اگر کم سے کم سو گنا فرق رکھا جائے تو اڑھائی ارب روپیہ بنتا ہے.اس زمانہ میں ہی جنگ سے پہلے روپیہ کی جو قیمت تھی آج اُس سے چار گنا کم ہے یعنی ایک روپیہ آج صرف چونی کا ہے اور تیرہ سو سال کے زمانہ کو مدنظر رکھتے ہوئے تو یہ فرق کم از کم سو گنا ہو جاتا ہے.پس اڑھائی کروڑ کے معنے آجکل کے لحاظ سے اڑھائی ارب کے ہیں اور اس زمانہ میں بھی اڑھائی ارب روپیہ رکھنے والے ساری دنیا میں صرف دس پندرہ آدمی ہوں گے اور وہ بھی امریکہ، فرانس اور جرمنی میں.پس یہ استثنائی دولت ہے جو شاذ و نادر کے طور پر بعض لوگوں کو حاصل ہوتی ہے مگر اتنی دولت رکھنے کے باوجود تاریخ سے ثابت ہے کہ حضرت عبدالرحمان بن عوف نہایت سادہ زندگی بسر کرتے تھے اور وہ اپنا اکثر مال ہے مسلمانوں کی ترقی کے لیے خرچ کر دیا کرتے تھے.اسی طرح حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا گو خود نہیں کماتی تھیں مگر صحابہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کی وجہ سے آپ کی خدمت میں اکثر ہدایات پیش کرتے رہتے تھے.لیکن ان کی زندگی کے بھی دنیاداروں والی زندگی نہیں تھی بلکہ وہ اپنا اکثر روپیہ غرباء اور مساکین میں تقسیم کر دیا کرتی تھیں.یہاں تک کہ ان کے بھانجے نے جس نے اُن کے مال کا وارث ہونا تھا ایک دفعہ یہ دیکھتے ہوئے کہہ دیا کہ حضرت عائشہ تو اپنا سارا مال لگا دیتی ہیں.یہ خبر جب حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو پہنچی تو آپ

Page 187

$ 1949 178 خطبات محمود نے اپنے گھر میں اُس کا آنا جانا بند کر دیا اور قسم کھائی کہ اگر میں نے اسے اپنے گھر میں آنے کی اجازت دی تو میں اس کا کفارہ ادا کروں گی.کچھ عرصہ کے بعد صحابہؓ نے آپس میں صلح کرا دی اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے اپنے بھانجے کو معاف کر دیا.مگر کہا کہ چونکہ میں نے عہد کیا تھا کہ اگر میں اس سے کلام کروں گی تو کفارہ ادا کروں گی اس لیے میں اس کا کفارہ یہ قرار دیتی ہوں کہ آئندہ میرے پاس جو دولت بھی آئے گی میں غرباء میں تقسیم کر دیا کروں گی.3 اگر روپیہ کمانا یا رو پی کا کسی شخص کے پاس موجود ہونا منع ہوتا تو کیا حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا یہ کہ سکتی تھیں کہ میرے پاس جتنا روپیہ بھی آیا یا جتنی بھی دولت آئی وہ میں سب کی سب غرباء میں تقسیم کر دیا کروں گی؟ کیا تم نے کبھی ایسا کیا ہے کہ تمہیں کوئی دوست شراب تحفہ دے تو تم اسے قبول کر لو اور پھر اپنے کسی اور دوست یا غریب کو دے دو؟ یا کیا تم ایسا کر سکتے ہو کہ تم سور کا گوشت قبول کر لو؟ روپیہ قبول کرنے کے معنے یہ ہیں کہ ہمارے لیے روپیہ لینا جائز ہے.اور کسی دوسرے کو واپس کرنے کے یہ معنے ہیں کہ ہم نے ایک جائز چیز لینے کے بعد اُس کے خرچ کا ایک اور محل سوچ لیا ہے.پس حضرت ی عائشہ کے ہدایا قبول کرنے کے معنے ہی یہ تھے کہ وہ اس کو جائز بجھتی تھیں.مگر پھر دوسروں کو دے کی دینے کے یہ معنے تھے کہ میں اپنے سے زیادہ فلاں فلاں افراد کو مستحق سمجھتی ہوں.اگر حضرت الی عائشہ رضی اللہ عنہا ان ہدایا کورڈ فرما دیتیں تو چونکہ عام لوگ اُس معیار پر نہیں پہنچے ہوئے تھے جس پر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا پہنچی ہوئی تھیں اس لیے وہ اس وہم میں مبتلا ہو جاتے کہ حضرت عائشہ نے ہماری قدر نہیں کی.ہم بڑی محبت سے ان کے لیے کپڑا لائے تھے یا پھل لائے تھے یا روپیہ لائے تھے اور انہوں نے قبول نہیں کیا.شاید ہم سے کوئی قصور ہو گیا ہو.اور پھر وہ بار بار کہتے کہ ہمیں بھی بتایا جائے کہ ہم سے کیا خطا ہوئی ہے اور ہماری غلطی کو معاف کیا جائے.اور اگر وہ ایسا نہ کرتے تب بھی بہر حال اُن لوگوں کو روپیہ نہ دیتے جن کو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا دینا چاہتی تھیں.اس وجہ سے حضرت عائشہ نے خیال فرمایا کہ مجھے ان سے جھگڑنے کی کیا ضرورت ہے.میں ان سے روپیہ لے لیتی ہوں یا جو کچھ یہ نذرانہ پیش کرنے آئے ہیں وہ لے لیتی ہوں بعد میں میں غرباء کو دے دوں گی.اِس طرح دونوں باتیں ہو جاتیں.صحابہ کا دل بھی خوش ہو جاتا اور غرباء کی بھی امداد ہو جاتی.

Page 188

خطبات محمود 179 $ 1949 اسی قسم کا طریق بعض اور اولیاء بھی اپنی زندگی میں اختیار کرتے رہے ہیں.میں نے تو کسی کتاب میں یہ واقعہ نہیں پڑھا لیکن حضرت خلیفہ اول سنایا کرتے تھے کہ ایک بزرگ بڑے کی آسودہ حال تھے اور وہ اپنے مال سے غرباء کا حق ہمیشہ نکالتے رہتے تھے لیکن اس کے ساتھ ہی ان کی کی یہ بھی عادت تھی کہ وہ روزانہ بازار میں چلے جاتے اور لوگوں سے بھیک مانگنی شروع کر دیتے اور ی شام کو بھیک مانگ کر جو کچھ جمع کیا ہوتا وہ غریبوں میں تقسیم کر دیتے.ایک دفعہ اُن سے کسی دوست نے کہا کہ آپ نے یہ کیا ذلت کا طریق اختیار کیا ہوا ہے؟ آپ اپنے روپیہ میں سے بیشک غریبوں کی کو دیجیے لیکن بھیک مانگنا، دکانوں پر لوگوں کے آگے ہاتھ پھیلانا اور سارا دن سائل بن کر لوگوں کے پیچھے پیچھے پھرتے رہنا یہ بہت ہی معیوب بات ہے.انہوں نے کہا تم میرے فعل کی حکمت نہیں ہے جو روپیہ خدا تعالیٰ مجھے دیتا ہے اور پھر میں آگے تقسیم کر دیتا ہوں اس کا ثواب بیشک مجھے ملے گا.اور اگر خدا تعالیٰ کا کوئی عذاب نازل ہونے والا ہوا تو میرا یہ فعل اس کے عذاب سے مجھے بچا لے گا.لیکن چونکہ یہ لوگ جو میرے ارد گرد رہتے ہیں اپنے مالوں میں سے خدا کا حق نہیں نکالتے اس لیے اگر ان پر عذاب نازل ہوا تو ہمسایہ ہونے کی وجہ سے ممکن ہے میں بھی اس میں شریک ہو جاؤں.اس لیے میں خود ان کے پاس چلا جاتا ہوں.یہ میرا لحاظ کر کے کچھ دے دیتے ہیں اور میں آگے دے دیتا ہوں.غرض افراد میں تو ایسی مثالیں ملتی ہیں کہ بڑے بڑے مالدار ہونے کے باوجود وہ کی خدا تعالیٰ کو نہیں بھولے بلکہ اس کی محبت میں ترقی کرتے چلے گئے اور اخلاص اور روحانیت میں کی بڑھتے گئے لیکن قوموں میں ایسی مثالیں نہیں ملتیں.قوم بحیثیت قوم جب تک مصیبت میں گھری رہتی ہے وہ روحانی منازل بڑی سرعت سے طے کرتی رہتی ہے.لیکن جب مصائب میں سے نکل جاتی ہے تو اُس کا قدم رُک جاتا ہے اور وہ تنزل میں گرنی شروع ہو جاتی ہے.اس کے مقابلہ میں افراد میں چونکہ کامل اور غیر کامل دونوں وجود ہوتے ہیں کامل وجود ان حالات میں بھی اپنے مقام پر قائم رہتے ہیں لیکن غیر کامل گر جاتے ہیں اور وہ خدا تعالیٰ کی بجائے دنیا کی طرف متوجہ ہوئی جاتے ہیں.حضرت ابوبکر جانتے تھے کہ اگر میں نے جنگیں نہ کیں تو مسلمانوں کے اخلاق گر جائیں گے.حضرت عمرؓ جانتے تھے کہ اگر میں نے جنگیں نہ کیں تو مسلمانوں کے اخلاق گر جائیں گے.

Page 189

* 1949 180 خطبات محمود حضرت عثمان جانتے تھے کہ اگر میں نے جنگیں نہ کیں تو مسلمانوں کے اخلاق گر جائیں گے اس لیے انہوں نے لڑائیوں کو جاری رکھا اور مصائب کا سلسلہ قومی طور پر مسلمانوں پر جاری رہا.حضرت کی علی اور معاویہ کے زمانہ میں مسلمانوں کے باہمی اختلاف کو دیکھ کر قیصر نے پھر دوبارہ حملہ کرنا چاہا تھی مگر چونکہ اُس وقت سستی اور تنزل کا زمانہ شروع ہو چکا تھا مسلمانوں نے اس کا مقابلہ نہیں کیا.اگر اُس وقت حضرت معاویہ قیصر کے مقابلہ کے لیے نکل کھڑے ہوتے جیسا کہ انہوں نے دھمکی بھی دی تھی کہ اگر تم نے حملہ کیا تو سب سے پہلا جرنیل جو علی کی طرف سے تمہارے مقابلہ میں نکلے گا وہ میں ہوں گا4 یا اگر قیصر اس دھمکی کے باوجود حملہ کر دیتا اور حضرت معاویہ جنگ کے لیے نکل کھڑے ہوتے تو حضرت علی اور معایہ کی باہمی جنگیں بالکل ختم ہو جاتیں لیکن معاویہ کا دماغ وہ نہیں تھا جو حضرت ابو بکر، حضرت عمرؓ اور حضرت عثمان کا دماغ تھا.انہوں نے صرف پیغام دینا کافی سمجھا حالانکہ جب دشمن نے حملے کا ارادہ کر لیا تھا تو یہ لڑائی کے لیے ایک کافی وجہ تھی.اگر معاویہ بھی قیصر کے مقابلہ کے لیے نکل کھڑے ہوتے اور حضرت علی بھی اُس کے مقابلہ کے لیے اپنا لشکر بھجوا دیتے تو پھر دوبارہ تمام مسلمانوں میں جوش پیدا ہو جاتا ، ان کے اندر ایک نئی بیداری پیدا ہو جاتی اور وہ منافقت جو آرام کے زمانہ کی وجہ سے اُن میں پیدا ہو چکی تھی بالکل جاتی رہتی.تو مصائب کا زمانہ روحانی ترقی کے لیے ایک نہایت ضروری چیز ہے.اگر کسی وقت باہر سے مصائب نہ آئیں تو مومن کو چاہیے کہ وہ اپنے لیے اندرونی طور پر مصائب تلاش کرنے کی کوشش کرے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام فرمایا کرتے تھے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کا امتحان ضرور لیتا ہے مگر جب بندہ خود اپنے آپ کو امتحانات میں ڈالے رکھے تو اللہ تعالیٰ کسی اور امتحان میں اسے نہیں ڈالتا.آپ فرمایا کرتے تھے سردی میں ٹھنڈے پانی سے وضو کرنا یا گرمیوں میں روزے رکھنا یہ بھی ایک ابتلا ہے اور انسان ان کاموں میں حصہ لینے سے تکلیف محسوس کرتا ہے لیکن جب کوئی انسان خوشی سے اپنے او پر مختلف ابتلاء وارد کر لے، گرمیوں میں روزے رکھنے پڑیں تو وہ روزے رکھنے کے لیے تیار ہو جائے ،سردیوں میں ٹھنڈے پانی سے وضو کرنا پڑے تو وضو کرنے کی کے لیے تیار ہو جائے، حج کرنے کا موقع نکل آئے تو گھر بار اور وطن چھوڑ کر حج کے لیے چلا جائے، زکوۃ دینے کا وقت آئے تو اپنے مال کا مقررہ حصہ فوراً غرباء کے لیے نکال دے تو اللہ تعالیٰ کہتا.

Page 190

$1949 181 خطبات محمود کہ میں نے اس کا امتحان تو لینا تھا مگر اب میں امتحان لے کر کیا کروں یہ تو اپنے آپ کو خود ہی امتحان میں ڈالے ہوئے ہے.لیکن جب وہ ان باتوں میں سستی کرتا ہے اور اپنے آپ کو ابتلاؤں میں ڈالنے کے لیے تیار نہیں ہوتا تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اسے مختلف امتحانات میں ڈالا جاتا ہے.اس وقت اگر تو اُس کے اندر صرف عملی شستی پائی جاتی ہو تو خدائی امتحان کے بعد اُس میں بیداری این پیدا ہو جاتی ہے.اور اگر اس کا ابتلاؤں سے بچنا اندرونی بگاڑ کی وجہ سے ہو اور ایمان کی خرابی اس کا باعث ہو تو ابتلاء آنے پر وہ تباہ ہو جاتا ہے.غرض قوموں کے لیے خصوصاً انبیاء کی جماعتوں کے لیے ابتلاؤں کا آنا نہایت ضروری ہوتا ہے.یہ غلط خیال ہے کہ ابتلا صرف ابتدائی زمانہ میں آتے ہیں ترقی کے زمانہ میں ابتلاؤں کا سلسلہ بند ہو جاتا ہے.انبیاء کی جماعتوں کی ترقی اور ابتلا یہ دو تو ام بھائی ہیں جو ایک دوسرے سے جدا نہیں ہو سکتے.ابتدائی سے ابتدائی زمانہ میں بھی ابتلا آتے ہیں اور ترقی کے انتہائی زمانہ میں بھی ابتلا آتے ہیں.ابتدا سے انتہا تک ابتلاؤں کا سلسلہ جاری رہتا ہے.جب نبی ایک منفرد وجود ہوتا ہی ہے اور اُس پر صرف ایک یا دو آدمی ایمان لانے والے ہوتے ہیں اُس وقت بھی ابتلا آتے ہیں اور انتہائی عروج کے وقت بھی جب سلسلہ کو ترقی پر ترقی حاصل ہو رہی ہوتی ہے اُس وقت بھی ابتلا ہی آتے ہیں.محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو پہلے دن بھی مصائب اور مشکلات میں سے گزرنا پڑا اور آپ کو اور آپ پر ایمان لانے والوں کو مختلف قسم کے ابتلا پیش آئے.اور اس کے بعد جب ترقیات کا زمانہ آیا اُس وقت بھی ان ابتلاؤں کا سلسلہ جاری رہا.یہ نہیں ہوا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی زندگی میں کسی دن اس خیال کے ساتھ سوئے ہوں کہ اب تمام مشکلات پر قابو پالیا گیا ہے اور وہ تمام مسائل جو مسلمانوں کی ترقی کے ساتھ تعلق رکھتے تھے حل ہو چکے ہیں.نہ حضرت ابو بکر نے کبھی ایسا خیال کیا ، نہ حضرت عمر نے کبھی ایسا خیال کیا، نہ حضرت عثمان نے کبھی ایسا خیال کیا اور نہ ہماری جماعت کو کبھی ایسا خیال کرنا چاہیے.یہ چیزیں الہی سلسلوں کے ساتھ وابستہ ہوتی ہیں اور ان کا فرض ہوتا ہے کہ وہ ہر قسم کے ابتلاؤں کو برداشت کریں.اور اگر ابتلا نہ آئیں تو خود ان کو تلاش کرنے اور اپنے اوپر وارد کرنے کی کوشش کریں.جیسے حضرت ابو بکر نے قیصر پر حملہ کر دیا حالانکہ صلح کا راستہ بھی ان کے لیے کھلا تھا.اسی طرح حضرت عمرؓ نے کیا کہ باوجود اس کے کہ کسری کے

Page 191

$ 1949 182 خطبات محمود ساتھ وہ صلح کر سکتے تھے انہوں نے صلح نہیں کی بلکہ کسری کے ساتھ لڑائی کی اور پھر یہ لڑائی جاری رکھی.اسی طرح اگر خدا تعالیٰ کی طرف سے ہم پر ابتلا وارد نہ ہوں تو ہمیں خود اپنے لیے ابتلا تلاش کرنے چاہیں تا کہ جماعت کے اندر بیداری پیدا ہو اور وہ اپنے آپ کو بڑھانے اور ترقی دینے کی کوشش کرے.ابھی تو ہماری وہی مثال ہے کہ ”گے آمدی و گے پیر شدی“.ہمارا دنیا میں آنا اور کسی قدر تغیر پیدا کرنا بے شک ہماری نگاہ میں ایک بڑی چیز ہے لیکن دنیا کے لیے یہ کوئی بڑی چیز نہیں.عربی میں ایک مثل مشہور ہے کسی بیل کے سر پر ایک مچھر جا کر بیٹھ گیا.تھوڑی دیر بیٹھنے کے بعد کہنے لگا بھائی بیل! تم بھی حیوان ہو اور میں بھی حیوان ہوں، مجھے بھی لوگ مارتے ہیں اور تم کو بھی مارتے ہیں اس لحاظ سے تمہیں میری ہمدردی کرنی چاہیے اور مجھے تمہاری ہمدردی کرنی چاہیے.میں اس وقت اُڑتے اڑتے تھک کر تمہارے سر پر تھوڑی دیر کے لیے آکر بیٹھ گیا ہوں.اگر تمہیں میرے بیٹھنے سے بوجھ معلوم ہوتا ہو تو مجھے بتا دو تا کہ میں اُڑ جاؤں اور تمہیں تکلیف نہ ہو.بیل نے جواب دیا کہ بھائی مچھر! مجھے تو یہ بھی پتا نہیں لگا کہ تم کب میرے سر پر آکر بیٹھے ہو.مجھے تمہارا بوجھ کیا محسوس ہونا ہے.یہی حال ہمارا ہے.ہم بھی اپنی تنظیم اور اپنی قربانیوں اور اپنے منصبوں کے کام کی وجہ سے یہ سمجھ رہے ہیں کہ ہم نے دنیا میں بہت بڑا کام کر لیا ہے لیکن دنیا اس کو کوئی کام نہیں سمجھتی.بلکہ حقیقت یہ ہے کہ اس خیال کے پیدا ہونے میں ہمارے کام کا اتنا دخل نہیں ہوتا جتنا اللہ تعالیٰ کے الہامات اور اس کی پیشگوئیوں کا دخل ہوتا ہے.ہم جب ایک طرف اللہ تعالیٰ کے الہامات کو دیکھتے ہیں اور دوسری طرف جماعت کی تنظیم اور اس کی قربانیوں اور اپنے مبلغین کے کام پر نگاہ دوڑاتے ہیں تو ہم سمجھنے لگتے ہیں کہ ہم نے دنیا میں عظیم الشان کام کر لیا ہے حالانکہ وہ عظیم الشان مقام جس کے حصول کے بعد دنیا کسی جماعت کی اہمیت کا انکار نہیں کر سکتی ابھی ہمیں حاصل نہیں ہوا.اور ابھی وہ زمانہ ہم پر نہیں آیا جس میں ہماری جماعت کی عظمت اور اس کے وجود کو بر ملا لتسلیم کیا جائے.اور اُس زمانہ کے لانے کے لیے ضروری ہے کہ ہم اپنے اندر ایسی طاقت اور قوت پیدا کریں کہ نہ صرف ہم ہر قسم کے ابتلاؤں کو برداشت کریں بلکہ اگر اللہ تعالیٰ کی طرف سے ابتلا وارد نہ ہو تو ہم خود اُس سے اپنے لیے ابتلا ما نگیں.ابتلا کی برداشت ہر شخص کر سکتا ہے.اس کے لیے کسی بڑی قربانی کی ضرورت نہیں ہوتی.ابتلاؤں کا مانگنا اصل چیز ہوتی ہے مگر مانگنے سے مراد

Page 192

* 1949 183 خطبات محمود جاہلانہ مانگتا نہیں.ایک مانگنا مصلحت کے مطابق ہوتا ہے اور ایک مانگنا مصلحت کے خلاف ہوتا ہے.ایک بزرگ کے متعلق لکھا ہے کہ انہوں نے کسی سے پوچھا کہ تو کل کے کیا معنی ہیں؟ اس نے جواب دیا کہ تو کل کے معنے یہ ہیں کہ جب خدا تعالیٰ دے تو انسان کھالے اور جب نہ دے تو صبر کرے.وہ نادان صوفی تھا اور توکل کے صحیح معنے نہیں جانتا تھا.انہوں نے کہا کہ یہ تو کل تو لگتے ہوے میں بھی پایا جاتا ہے.گتے کو بھی مل جاتا ہے تو کھا لیتا ہے اور اگر نہیں ملتا تو صبر کرتا ہے.انسان کا مقام تو پہلے ہی جانور سے بڑا ہے.پھر ان معنوں کے لحاظ سے اس میں اور گتے میں کیا فرق ہوا؟ کی انسان تو اس لیے پیدا کیا گیا ہے کہ وہ روحانیت حاصل کرے اور اللہ تعالیٰ کے قرب میں ترقی کرے.پھر اس کے لیے تو کل کے وہ معنے کس طرح ہو سکتے ہیں جن میں ایک کتا بھی شریک ہے.وہ حیران رہ گیا اور اس کا کوئی جواب نہ دے سکا.اسی طرح میں کہتا ہوں کہ ابتلاؤں کے آنے پر ان کو برداشت کرنا کوئی اعلیٰ مقام نہیں بلکہ اس میں کافر اور بے دین لوگ بھی شریک ہیں.ایک کافر کا بچہ بھی مر جاتا ہے تو بسا اوقات بڑے حوصلہ سے وہ اس صدمہ کو برداشت کرتا ہے.پہلی جنگِ عظیم میں ہی ایک جرمن عورت جو 80 سالہ بڑھیا تھی اور جس کے سات بچے تھے اُس نے اپنے ساتوں بچے میدانِ جنگ میں بھیج دیئے.اللہ تعالیٰ کی حکمت اور اس کی مشیت کے ماتحت یکے بعد دیگرے اس کے بچے مرتے چلے گئے.یہاں تک کہ اس کا صرف ایک بچہ رہ گیا.آخر فرانس کے ایک شدید حملہ میں اُس کا ساتواں بچہ بھی مارا گیا.قیصر یوں تو بہت ظالم تھا مگر نفسیات کا بہت بڑا ماہر تھا اور وہ اپنی قوم سے حقیقی محبت رکھتا تھا جس طرح ہٹلر اپنی قوم سے حقیقی کی محبت رکھتا تھا.یہ دونوں لیڈر ظالم بھی تھے مگر اپنی قوم کے بچے عاشق بھی تھے.چونکہ یہ رپورٹ نہایت اہم تھی کہ ایک عورت نے سات بچے دیئے اور وہ ساتوں کے ساتوں جنگ میں مارے گئے اس لیے جب یہ خبر پہنچی کہ اس عورت کا ساتواں بیٹا بھی مارا گیا ہے تو جرنیل نے اس خبر کو وزیر جنگ کے پاس بھیجا اور وزیر جنگ نے اس خبر کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے اسے بادشاہ کے پاس بھجوا دیا.بادشاہ نے حکم لکھا کہ جس طرح عام طور پر رشتہ داروں کو مرنے والوں کی اطلاع دی جاتی ہے ہے اس طرح اس عورت کو اطلاع نہ بھجوائی جائے بلکہ خود وزیر جنگ اس عورت کو اپنے سامنے بُلائے اور میری طرف سے اُس کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہے کہ قیصر اور جرمن قوم دونوں اس ماں کا کی

Page 193

$ 1949 184 خطبات محمود شکریہ ادا کرتے ہیں جس نے اپنے ساتوں بیٹے ملک کے لیے تباہ کر دیئے ہیں.چنانچہ اس بڑھیا کو شاہی پیغام پہنچا.وہ وزیر جنگ کے پاس آئی.وزیر جنگ نے اس کا استقبال کیا اور کہا مجھے قیصر کی طرف سے حکم ملا ہے کہ میں قیصر کی طرف سے اور جرمن قوم کی طرف سے آپ کا شکریہ ادا کروں کیونکہ آپ نے اپنے ساتوں بچے ملک کے لیے پیش کر دیئے تھے جن میں سے چھ تو پہلے مر چکے ہیں اور اب کل ہی تار کے ذریعے ہمیں خبر ملی ہے کہ آپ کا ساتوں بیٹا بھی جنگ میں مارا گیا ہے.ایک انگریزی جاسوس جو اس موقع پر موجود تھا میں نے خود اُس کے ایک مضمون میں یہ واقعہ پڑھا ہے وہ کہتا ہے کہ یہ عجیب خبر سن کر اخبارات کے نمائندے وہاں جمع ہو گئے تھے جن میں میں بھی شامل تھا.لڑائی کے ایام میں جاسوسی کرنے والے کسی دوسری قوم میں شامل ہو جاتے ہیں اور س طرح خفیہ طور پر حالات معلوم کرتے رہتے ہیں.وہ اُس وقت ڈچ یا کسی اور قوم کے نمائندہ کے طور پر اندر آیا حالانکہ انگریزی جاسوس تھا.وہ لکھتا ہے کہ بڑھیا اس خبر کو سُن کر باہر نکلی تو یوں معلوم ہوتا تھا کہ اس خبر نے اُس کی کمر کو بالکل توڑ دیا ہے لیکن وہ جذبہ حب الوطنی ظاہر کرنے کے لیے اپنی کمر پر ہاتھ رکھ کر اور زور سے دبا کر اُسے سیدھا کرنے کی کوشش کرتی تا کہ یہ ظاہر نہ ہو کہ ی اس غم نے اُس کی کمر کو خمیدہ کر دیا ہے اور پھر زور سے قہقہ لگا کر کہتی کیا ہوا اگر میرے ساتوں بیٹے مارے گئے ہیں.آخر وہ اپنے ملک کی خاطر قربان ہوئے ہیں.یہ ایک عیسائی عورت تھی.ایک ظالم قوم کا فرد تھی اُس کے ساتوں بچے مارے گئے تھے اور پھر وہ 80 سال کی عمر کو پہنچ چکی تھی مگر پھر بھی اس نے صبر کیا.پس مصائب اور آفات پر صبر کرنا ہرگز کوئی ایسی چیز نہیں جو مسلمان کا خاصہ ہو.بلکہ صبر سے اوپر ایک اور مقام ہے جو مومن کو حاصل ہوتا ہے.اور وہ یہ کہ وہ صرف صبر ہی نہیں کرتا بلکہ مصائب طلب کرتا ہے.دنیا کوشش کرتی ہے کہ ابتلاؤں سے بھاگے مگر وہ کوشش کرتا ہے کہ اپنے ای آپ کو ابتلاؤں میں ڈالے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اس حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں.در کوئے تو اگر سر عشاق را زنند اول کسے کہ لاف تعشق زند منم 5 اگر تیرے کوچہ میں جانے والوں کے متعلق یہ حکم ہو جائے کہ ہر شخص جو عاشقی کا دعوای

Page 194

* 1949 185 خطبات محمود کرے گا اُسے قتل کر دیا جائے گا تو گو عشق کا دل کے ساتھ تعلق ہوتا ہے اور کوئی شخص دعوی کرے یا نہ کرے عاشق عاشق ہی ہوتا ہے.لیکن اگر یہ اعلان ہو جائے کہ جو بھی عشق کا دعوی کرے گا اُس کا سر قلم کر دیا جائے گا تو سب سے پہلا شخص جو عشق کا دعوی کرے گا اور کہے گا کہ میں عاشق ہوں وہ میں ہوں گا.حقیقت یہ ہے کہ عاشق اور مسلمان دو متضاد چیزیں نہیں بلکہ ایک ہی ای چیز کے یہ دو نام ہیں.مگر عاشق سے میری مراد ہوس پرست عاشق نہیں بلکہ ایک سچا اور کامل مسلمان مراد ہے.پس ایک سچا عاشق اور مسلمان مصائب کو صرف برداشت ہی نہیں کرتا بلکہ مصائب طلب کرتا ہے.مصائب سے بھا گنا منافق کا کام ہے.مصائب کو برداشت کرنا صرف مسلمان کا خاصہ نہیں بلکہ ایک کافر بھی اس میں شریک ہو سکتا ہے.لیکن مسلمان وہ ہے جو نہ صرف مصائب کو برداشت کرتا ہے بلکہ مصائب طلب کرتا رہتا ہے.اگر کچھ دن اُس پر مصیبتیں نہیں آتیں تو وہ سمجھتا ہے کہ شاید میرا رب مجھ سے خفا ہو گیا ہے کہ اب وہ میرے ایمان کو دنیا پر ظاہر کرنے کی کوئی تدبیر نہیں کر رہا.پس جماعت کو اپنے اندر یہ بات پیدا کرنے کی کوشش کرنی چاہیے اور سمجھ لینا چاہیے کہ قربانیاں اور ابتلا ہی ایک ایسی چیز ہیں جن سے اسلام کی ترقی وابستہ ہے.ہمارا دعوی ہے کہ ہم اسلام کی ترقی کے لیے کھڑے ہوئے ہیں.پس ہمارا فرض ہے کہ ہم اپنی جماعت کے ہر فرد کے اندر جذبۂ قربانی و ایثار پیدا کریں.ہم اپنی جماعت کے ہر فرد کے اندر مصائب کو برداشت کرنے کا مادہ پیدا کریں.ہم اپنی جماعت کے ہر فرد کے اندر طلب قربانی اور طلب ابتلا کا جذبہ پیدا کریں کیونکہ اسی کے ذریعہ اسلام اور احمدیت نے ترقی کرنی ہے.اگر ضرورت کے مطابق ہمارے اندر قربانی کی روح نہیں ہوگی تو گو ہو گا وہی جو خدا نے کہا ہے مگر جو شخص ان قربانیوں میں حصہ نہیں لے گا وہ اور اُس کا خاندان ان نعمتوں سے محروم رہ جائے گا جو اس دور کے ساتھ مخصوص ہیں.الفضل 13 جولائی 1960 ء.1 : طبقات ابن سعد جلد 4 صفحہ 182 مطبوعہ بیروت 1985ء 2 : ہدایا: ہدیہ کی جمع تحائف ( اردو لغت تاریخی اصول پر جلد 21 صفحہ 705 کراچی 2007ء) 3 : بخاری کتاب المناقب مناقب قريش

Page 195

* 1949 186 خطبات محمود 4 : البداية والنهاية جلد 8 صفحه 126 مطبوعہ بیروت 2001ء 5 : در مشین فارسی صفحه 143.مطبوعہ نظارت اشاعت.ربوہ

Page 196

* 1949 187 (19 خطبات محمود روزے روحانی زہروں کو دور کرتے اور خدا تعالیٰ کو دیکھنے کی قابلیت پیدا کرتے ہیں (فرمودہ یکم جولائی 1949ء) تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: دوستوں کو معلوم ہے کہ یہ رمضان کا مہینہ ہے اور قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ مہینہ اپنے ساتھ بہت سی برکتیں لے کر آتا ہے.دنیا میں انسان مختلف دنیوی کاموں میں ملوث رہتا ت ہے اور یہ اشغال اسے خدا تعالیٰ کی طرف سے ہٹا کر اپنی طرف مشغول رکھتے ہیں.ان دن بھر کے کاموں کا ازالہ پانچ وقت کی نمازیں کرتی ہیں.ایک انسان دو تین گھنٹہ تک مختلف دینی کاموں میں مشغول رہتا ہے.پھر نماز کا وقت آجاتا ہے تو وہ خدا تعالیٰ کو یاد کر لیتا ہے اور اس سے پچھلا زنگ دُور ہو جاتا ہے.پھر وہ دوبارہ اور کاموں میں مشغول ہو جاتا ہے اور پھر اس کے دل پر زنگ لگ جاتا ہے.اس کے بعد اسے دوسری نماز کا موقع ملتا ہے اور اس سے اس کا وہ زنگ بھی دُور ہو جاتا ہے ہے.غرض پانچوں نماز میں اُس کے دن بھر کے زنگ کو دُور کر دیتی ہیں.اسی طرح سال بھر کے

Page 197

* 1949 188 خطبات محمود جمع شدہ زنگ کو رمضان کا مہینہ دور کرتا ہے..دنیا میں مختلف قسم کے زہر ہوتے ہیں.بعض زہروں سے کچھ حصہ جسم سے خارج ہوتا ہے اور کچھ حصہ جسم کے اندر باقی رہتا ہے.وہ انسان کی صحت میں حارج نہیں ہوتا.لیکن آہستہ آہستہ اتنی مقدار میں جمع ہو جاتا ہے کہ طبیب سمجھتا ہے کہ اس کا نکالنا ضروری ہے.روزانہ نمازوں سے جو زہر دور ہوتے ہیں وہ ایسے ہی ہیں جیسے انسان روزانہ کھانا کھاتا ہے یا پانی پیتا ہے تو ان کے مفید اجزاء خون کی شکل میں بدل جاتے ہیں اور زہریلے مادے پسینہ اور پاخانہ کی شکل میں خارج ہوتے رہتے ہیں.اس طرح اس کی صحت برقرار رہتی ہے.یہ زہریلے مادے اگر خارج نہ ہوں تو ڈاکٹر ملین 1 پسینہ آور اور پیشاب آور دوائیں دیتے ہیں اور اس طرح وہ زہریلے مادے خارج ہو جاتے ہیں.اسی طرح ان روحانی زہروں کو جو روزانہ پیدا ہوتے ہیں اور روح کو گندہ کرتے رہتے ہیں نماز میں باہر نکالتی رہتی ہیں.لیکن ان زہروں کا ایک حصہ ایسا بھی ہوتا ہے جو مخفی رہتا ہے اور جسم کے اندر آہستہ آہستہ جمع ہوتا رہتا ہے.اس کی مقدار بہت تھوڑی ہوتی ہے لیکن ہوتے ہوتے وہ اتنی مقدار میں جمع ہو جاتا ہے کہ ہمارا روحانی طبیب یعنی خدا تعالیٰ ضروری سمجھتا ہے کہ اسے نکال دیا تی جائے.غرض جیسے چند گھنٹوں کے زہر کو دور کرنے کے لیے دن بھر میں پانچ نمازیں رکھی گئی ہیں اسی طرح سال بھر کے جمع شدہ زہروں کو دور کرنے کے لیے سال میں رمضان کا ایک مہینہ رکھا گیا ہے جیسے پرانے زمانہ میں اطباء کا یہ طریق تھا کہ وہ امراء کو سال میں ایک مہینہ صرف مَاءُ الْجُبن دیتے تھے اس کے علاوہ کوئی غذا نہیں دیتے تھے.اس کے بعد وہ یہ سمجھتے تھے کہ سال بھر کے زہر نکل گئے جی اور اب مریض ایک نئی زندگی لے کر کام کرے گا.اسی طرح خدا تعالیٰ نے ایک علاج روزانہ پیدا کی ہونے والے زہروں کے لیے رکھا ہے اور ایک علاج سال بھر کے جمع شدہ زہروں کو دور کرنے کے لیے رکھا ہے.یعنی ان روحانی زہروں کو جو روزانہ پیدا ہوتے ہیں دور کرنے کے لیے دن بھر میں پانچ نمازیں رکھ دی ہیں اور سال بھر کے جمع شدہ زہروں کو دور کرنے کے لیے رمضان کا مہینہ رکھا ہے کیا ہے.دنیا میں انسان پر جو ابتلا آتے ہیں وہ دو قسم کے ہوتے ہیں.ایک ابتلاوہ ہوتا ہے جو خدا تعالیٰ کی طرف سے آتا ہے اور ایک ابتلا وہ ہوتا ہے جو بندہ اپنے لیے خود پیدا کر لیتا ہے.ال

Page 198

$1949 189 خطبات محمود ابتلاؤں سے خدا تعالیٰ کی غرض انسان کو روحانی گندوں سے صاف کرنا ہوتی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرمایا کرتے تھے کہ یہ دونوں قسم کے ابتلا انسان پر آتے ہیں.ایک ابتلا می مومن اپنے لیے خود تلاش کرتا ہے.مثلاً سردیوں میں جب دوسرے لوگ سو رہے ہوتے ہیں تو وہ نماز کے لیے اُٹھتا ہے، ٹھنڈے پانی سے وضو کرتا ہے بلکہ بعض دفعہ ٹھنڈے پانی سے اسے غسل بھی کرنا پڑتا ہے یہ بھی ایک قسم کا ابتلا ہے جو مومن اپنے ہاتھ سے لاتا ہے.اور جب مومن اپنے ہاتھ سے ابتلالا تا رہتا ہے تو خدا تعالیٰ اپنا ابتلا چھوڑ دیتا ہے.روزوں کے متعلق بھی خدا تعالیٰ نے یہی اصول مقرر فرمایا ہے.بندہ جب خود ابتلا لے آتا ہے یعنی وہ اپنی کسی غلطی سے بیمار ہو جاتا ہے تو اُس وقت خدا تعالیٰ اُسے روزے معاف کر دیتا ہے اور کہتا ہے کہ بعد میں روزے رکھ لینا.لیکن ان می حالات کے سوا سال بھر کے زہروں کو دُور کرنے کے لیے رمضان میں روزے رکھنا ایک مومن کے لیے نہایت ضروری ہے.کیونکہ اگر زہر زیادہ ہو جائیں تو وہ اس کے لیے ہلاکت کا موجب ہوں گے.جو شخص سال بھر میں رمضان کے روزے نہ رکھے اور دوسرے سال کے روزے آجائیں اُس کی کے اندر دو سال کا زہر پیدا ہو جائے گا اور اگر وہ تین سال کے روزے نہ رکھے تو اُس کے اندر تین کی سال کا زہر جمع ہو جائے گا جو اُس کے لیے یقیناً مُہلک ثابت ہوگا اور اس کے اندر ایسی سختی اور ای نابینائی پیدا ہو جائے گی کہ اگر خدا تعالیٰ بھی اس کے سامنے آئے تو وہ اسے نہیں پہچان سکے گا.جیسے کسی شخص کی آنکھیں ماری جائیں تو وہ اپنے عزیزوں کو بھی خواہ وہ سامنے کھڑے ہوں نہیں پہچان سکتا.بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ہم روزے رکھ کر خدا تعالیٰ پر احسان کرتے ہیں حالانکہ اس سے زیادہ بے وقوفی اور کوئی نہیں.جو شخص ڈاکٹر کے فصد کھولنے پر یہ خیال کرے کہ اُس نے خون دے کر ڈاکٹر پر احسان کیا ہے یا ڈاکٹر اُسے جلاب دے اور وہ خیال کرے کہ اس نے جلاب لے کر ڈاکٹر پر احسان کیا ہے یا وہ اسے کونین کھلائے اور وہ خیال کرے کہ اس نے کونین کھا کر ڈاکٹر پر احسان کیا ہے.اُس سے زیادہ احمق اور کون ہو گا.علاج خواہ تلخ ہی کیوں نہ ہو وہ بہر حال معالج کا مریض پر احسان ہے.اسی طرح نماز کے لیے خواہ ہمیں سردیوں میں ٹھنڈے پانی سے وضو کرنا تھی پڑے.بہر حال اللہ تعالیٰ کا ہم پر احسان ہے.کیونکہ اس سے روحانی زہروں کو دور کر کے خدا تعالیٰ کو دیکھنے کی قابلیت پیدا ہوتی ہے.اسی طرح رمضان میں جب کوئی بھوکا رہتا ہے تو وہ خدا تعالیٰ پر

Page 199

$ 1949 190 خطبات محمود احسان نہیں کرتا بلکہ یہ خدا تعالیٰ کا احسان ہوتا ہے کہ اُس نے اسے روحانی گندوں کے دور کرنے کا موقع بہم پہنچایا.کیا ڈاکٹر مریض کو بھوکا نہیں رکھتے ؟ جب کسی شخص کا جگر خراب ہو جاتا ہے یا معدہ ای اور انتڑیاں خراب ہو جاتی ہیں تو ڈاکٹر ا سے آٹھ آٹھ ، دس دس دن کا فاقہ دیتے ہیں لیکن کوئی شخص نہیں کہتا کہ فاقہ دے کر ڈاکٹر نے مریض پر ظلم کیا ہے.بلکہ وہ ڈاکٹر کا احسان تسلیم کرتا ہے کیونکہ فاقہ کے ذریعہ اُس کی باقی زندگی بچ جاتی ہے.اگر اُسے فاقہ نہ دیا جاتا تو اُس کی ہیں بائیس سال کی باقی زندگی ختم ہو جاتی.اسی طرح رمضان کے روزے ایک انسان کی باقی روحانی زندگی کو قائم رکھنے کا ایک ذریعہ ہیں.اگر کوئی شخص ان فاقوں کو برداشت نہیں کرے گا تو اُس کی روحانیت مر جائے گی اور اس کے نتائج ظاہر ہی ہیں.اس دنیا کی زندگی تو عارضی ہے اصل اور دائمی زندگی اگلے جہان کی ہے.اگر وہ برباد ہو گئی تو کیا فائدہ؟ پس اِس مہینہ کی قدر کرنی چاہیے اور ان دنوں کو صحیح طور پر استعمال کرنا چاہیے.جتنا ہم ان دنوں کو صحیح طور پر استعمال کریں گے اتنے ہی ہمارے وہ زہر دور ہوں گے جو اندر ہی اندر جمع ہو کر ہماری روحانی زندگی کو ختم کر دیتے (الفضل 11 اپریل 1957ء) ہیں.1 : مُلتين قبض کشا دوا ( اقرب الموارد الجزء الثانی صفحہ 1177 - زیر لفظ ”لین، مطبوعه ایران 1403ھ)

Page 200

* 1949 191 (20 خطبات محمود خدا تعالیٰ رمضان المبارک میں مومنوں کی دعائیں زیادہ سنتا ہے (فرمودہ 8 جولائی 1949ء) تشهد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: پچھلے جمعہ میں میں نے دوستوں کو توجہ دلائی تھی کہ انہیں رمضان کے مہینہ سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اُٹھانا چاہیے اور جن کو خدا تعالیٰ توفیق دے انہیں روزے رکھنے چاہیں روزے چھوڑنے نہیں چاہیں.رمضان کے مہینہ کی خصوصیتوں میں سے ایک اہم خصوصیت خدا تعالیٰ نے قبولیت دعا بیان فرمائی ہے.جو لوگ دعاؤں کے قائل ہیں وہ تو دعا کرتے ہی رہتے ہیں لیکن ایسے لوگ بھی دو قسم کے ہوتے ہیں.ایک وہ ہوتے ہیں جو رسمی اور نسلی ایمان کی وجہ سے ایسا کرتے ہیں.چونکہ وہ اپنے بزرگوں سے سنتے چلے آتے ہیں کہ دعائیں کرنی چاہیں یا ان کے ماں باپ دعائیں کیا کرتے تھے اس لیے وہ بھی دیکھا دیکھی دعائیں کرنے لگ جاتے ہیں.ایسی دعا کی ت کھجلی سے زیادہ نہیں ہوتی.جس طرح خارش ہوتی ہے اور انسان کھجلانے لگ جاتا ہے اس کے سامنے کوئی مقصد نہیں ہوتا یونہی ایک اندرونی مجبوری پیدا ہو جاتی ہے اور اسے خواہش محسوس

Page 201

* 1949 192 خطبات محمود ہوتی ہے جس کی وجہ سے اسے کھجلانے کی خواہش پیدا ہوتی ہے اسی طرح رسمی اور نسلی ایمان والوں کا حال ہوتا ہے.چونکہ انہوں نے اپنے ماں باپ اور دوسرے بزرگوں کو دعائیں کرتے دیکھا ہوتا ہے ہے اس لیے وہ بھی دیکھا دیکھی دعا کرنے لگ جاتے ہیں.نہ وہ یہ جانتے ہیں کہ دعا کیا ہے اور نہ ہی انہیں قبولیت دعا پر یقین ہوتا ہے.اور اگر کوئی ایسا شخص قبولیت دعا پر یقین بھی رکھتا ہے تو اس کا ایمان محض جہلاء کا سا ہوتا ہے.اُس پر ذرا سی جرح یا اعتراض بھی کیا جائے تو وہ فوراً کہہ دیتا ہے کہ یہ میری غلطی تھی.دوسری قسم کے لوگ وہ ہوتے ہیں جو سمجھ بوجھ کر دعا کرتے ہیں اور یہ جانتے ہیں کہ خدا تعالیٰ دعاؤں کو قبول کیا کرتا ہے لیکن انہیں یہ علم نہیں ہوتا کہ دعا چند شرائط کے ساتھ قبول ہوتی ہے.نہ ہر دعا قبول ہوتی ہے اور نہ ہر امر کے لیے دعا قبول ہوتی ہے.دعا صرف انہی امور کے متعلق قبول ہوتی ہے جن کے متعلق اللہ تعالیٰ نے پہلے سے بیان فرما دیا ہے کہ وہ دعا کی حد میں آتے ہیں اور جو امور دعا کی حد سے باہر ہوتے ہیں ان کے متعلق دعا کرنے سے کچھ اثر نہیں ہوتا.دعا کے متعلق ایک پنجابی بزرگ نے کہا ہے کہ ”جو منگے سومر رہے مرے سو منگن جائے، یعنی دعا کرنا موت کے برابر ہے.جب تک کوئی انسان دعا میں موت قبول نہیں کرتا اُس کی دعا قبول نہیں ہوتی.بہت سے لوگوں کی دعا ایسی ہی ہوتی ہے جیسے ہم بچپن میں آنکھ مچولی کھیلا کرتے تھے.ایک لڑکے کی آنکھیں کپڑے سے باندھ دی جاتی تھیں اور جب وہ دوسروں کی تلاش میں جاتا تھا تو جو اسے ہاتھ لگا دیتا تھا یہ سمجھا جاتا تھا کہ وہ بچ گیا ہے یا اور زیادہ چھوٹی عمر کے بچے بجائے ہاتھ لگانے کے اُس پر تھو کا کرتے تھے.اسی طرح بہت سے دعا کرنے والے خدا تعالی کی درگاہ میں تھوک کر آجاتے ہیں اور سمجھ لیتے ہیں کہ ان کی دعا قبول ہوگئی.حالانکہ قبولیت دعا کے لیے ضروری ہے کہ دعا کرنے والے کو قبولیت دعا پر یقین ہو اور وہ ہے یہ ایمان رکھتا ہو کہ خدا تعالیٰ اس کی دعا سنے گا اور پھر وہ انہی امور کے متعلق دعا کرے جو خدا تعالیٰ کی نے پہلے سے بیان فرما دیئے ہیں کہ ان کے متعلق دعاسنی جائے گی.دوسرے دعا اس طریق پر کی جائے جو خدا تعالیٰ نے مقرر فرمایا ہے.تیسرے دعا کرنے والے کو صرف قبولیت دعا پر ہی یقین نہ ہو بلکہ فیضانِ الہی پر اتنا یقین ہو کہ وہ سمجھتا ہو کہ خدا تعالیٰ اسے کبھی بھی خالی ہاتھ واپس نہیں کرے

Page 202

$1949 193 خطبات محمود بیشک ایک شخص کو یہ یقین تو ہو سکتا ہے کہ خدا تعالیٰ حضرت موسی علیہ السلام کی دعا ئیں سُنا کرتا تھا، حضرت عیسی علیہ السلام کی دعائیں سنا کرتا تھا یا رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دعائیں سنا کرتا ہی تھایا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی دعائیں سنا کرتا تھا مگر اتنا یقین اسے قبولیت دعا کا حقدار نہیں بنا دیتا.قبولیت دعا کا حقدار وہ اُسی وقت ہو گا جب اسے اپنے متعلق بھی یقین ہو کہ خدا تعالیٰ اس کی دعاؤں کو سنے گا.اور یہ یقین تبھی پیدا ہو سکتا ہے جب اس کا خدا تعالیٰ سے صرف دماغی تعلق نہ ہو بلکہ محبت کا تعلق ہو اور وہ محسوس کرتا ہو کہ وہ خدا تعالیٰ سے پیار رکھتا ہے.جب وہ یہ محسوس کرے گا کہ وہ خدا تعالیٰ سے محبت کرتا ہے تو یہ ہو نہیں سکتا کہ خدا تعالیٰ اس سے محبت نہ کرے.دماغی طور پر محبت کا تعلق تو اپنے افسر سے بھی ہو سکتا ہے، اپنے محکمہ سے بھی ہو سکتا ہے، اپنی گورنمنٹ سے بھی ہو سکتا ہے، اپنے محلہ والوں سے بھی ہوسکتا ہے لیکن ان کے ذکر پر انسان کے اندر فدائیت پیدا نہیں ہوتی ، اس کے اندر ان سے ملنے کی رغبت پیدا نہیں ہوتی ، اس کے قلب میں رقت پیدا نہیں ہوتی لیکن وہی شخص جب اپنی بیوی کا خیال کرتا ہے یا اپنی بہن کا خیال کرتا ہے تو اس کے جذبات ویسے نہیں ہوتے جیسا کہ بازار والوں یا محلہ والوں کا خیال کرنے پر ہوتے ہیں.مثلاً جب وہ سوچتا ہے کہ فلاں دکان پر مٹھائی اچھی ہوتی ہے یا فلاں دکان پر میوے اچھے ہوتے ہیں تو اس کے اندر وہ جذبات پیدا نہیں ہوتے جو اُس وقت پیدا ہوتے ہیں جب اُسے کوئی شخص یہ پیغام دیتا ہے کہ رستہ میں اسے اس کی ماں ملی تھی اور وہ اسے اَلسَّلَامُ عَلَيْكُمُ کہتی تھی یا اس کی بیٹی آئی تھی اور کہتی تھی میرے ابا جان کو میرا سلام کہہ دینا.وہ جذبات اور ہوتے ہیں اور یہ جذبات اور ہوتے ہیں.دونوں میں زمین و آسمان کا فرق ہوتا ہے.حلوائی کا خیال کر کے نہ اُسے رونا آتا ہے اور نہ اُسے ہنسی آتی ہے لیکن ماں یا بیٹی یا بیوی کا خیال آنے پر اُس کے اندر صرف محبت کے جذبات کی ہی پیدا نہیں ہوتے بلکہ بعض دفعہ رقت کی وجہ سے وہ بول بھی نہیں سکتا.مثلاً اگر وہ یہ خبر سنے کہ اُس کی کی ماں یا بیٹی یا بیوی موت کے قریب ہے اور وہ اسے سلام کہتی ہے تو وہ رقت کی وجہ سے رو پڑے گا.پس دعا کرنے والے کے اندر خدا تعالیٰ کے متعلق جب محبت کے جذبات پیدا ہوں تبھی وہ اس کی دعاؤں کو قبول فرماتا ہے.اور اگر اس کے اندر محبت کے جذبات پیدا نہیں ہوتے تو وہ یہ یقین بھی نہیں کر سکتا کہ خدا تعالیٰ اس کی دعاؤں کو سنے گا اور اس کی مد کو پہنچے گا.بچوں کو دیکھ لو انہیں

Page 203

$ 1949 194 خطبات محمود بہتیرا کہو کہ میں تمہاری ماں سے تمہیں پٹواؤں گا تو وہ یہی کہتے چلے جائیں گے کہ وہ ہمیں نہیں ہے مارے گی.آخر اس کی کیا وجہ ہے؟ اس کی یہی وجہ ہے کہ بچہ اپنی ماں کے متعلق محبت کے جذبات کی رکھتا ہے خواہ وہ مار کے قابل ہی ہو تب بھی وہ یقین رکھتا ہے کہ وہ اسے نہیں مارے گی.اسی طرح اگر تمہیں اللہ تعالیٰ سے اتنی محبت ہو جاتی ہے کہ تم یقین رکھتے ہو کہ اگر تم سزا کے بھی قابل ہو تو وہ تمہیں سزا نہیں دے گا بلکہ تم سے پیار کرے گا تو یہی وہ مقام ہے جہاں سے قبولیتِ دعا شروع ہوتی ہے.خدا تعالیٰ نے رمضان کے متعلق وعدہ فرمایا ہے کہ وہ اس مہینہ میں مومنوں کی دعائیں زیادہ سُنتا ہے مگر وہ سُنتا انہی شرطوں کے ساتھ ہے جو اس نے پہلے سے بیان فرما دی ہیں.یعنی انسان کو قبولیتِ دعا اور خدا تعالیٰ کی قدرتوں پر یقین ہو اور دعا انہی امور کے متعلق کی جائے جو دعا کی حد میں آتے ہیں اور دعا اتنی کی جائے جتنی شرائط کے مطابق ہو.پھر ساتھ ہی دعا کرنے والے کو خدا تعالیٰ سے محبت ہو اور وہ یہ یقین رکھتا ہو کہ خدا تعالیٰ صرف حضرت موسی علیہ السلام یا حضرت عیسی علیہ السلام یا حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور حضرت مسیح موعود الله علیہ الصلوۃ والسلام کا ہی خدا نہیں تھا بلکہ میرا بھی خدا ہے.یہی وہ جذبہ تھا جس کے ماتحت حضرت احمد صاحب سرہندی نے یہ کہہ دیا تھا پنجه در پنجه خدا دارم من چہ پر وائے مصطفی دارم اس سے آپ کی یہی مراد تھی کہ خدا تعالیٰ سے میرا ذاتی تعلق ہے اور وہ براہِ راست مجھے سے پیار کرتا ہے.جیسے ایک عورت خاوند سے بھی محبت کرتی ہے اور اپنے بیٹے سے بھی محبت کرتی ہے.مگر ماں کی محبت میں بیٹا باپ کا محتاج نہیں ہوتا اُسے اپنی ماں سے براہِ راست تعلق ہوتا ہے.اور ماں بھی اپنے خاوند کا خیال کیے بغیر اس سے محبت کرتی ہے.گویا جب وہ خاوند کا خیال کرے گی اس سے بھی محبت کرے گی اور جب بیٹے کا خیال کرے گی اس سے بھی محبت کرے گی.اولیاء اللہ نے لکھا ہے کہ ایک وقت ایسا آتا ہے جب مُرید اپنے پیر سے آزاد ہو جاتا ہے.اس سے یہ مراد نہیں کہ تابع اپنے متبوع سے آزاد ہو جاتا ہے بلکہ اس کے یہ معنی ہیں کہ انسان محبت کرتے کرتے ایک ایسے مقام پر پہنچ جاتا ہے کہ اُس کا خدا تعالیٰ سے براہ راست تعلق ہو جاتا ہے.وہ.

Page 204

* 1949 195 خطبات محمود ہوتا اپنے پیر اور متبوع کے ماتحت ہی ہے اور وہ ان کا فرمانبردار ہوتا ہے کیونکہ اگر وہ ان کی نافرمانی کرے گا تو خدا تعالیٰ اسے اپنی درگاہ سے باہر نکال دے گا لیکن خدا تعالیٰ اس سے بھی براہ راست محبت کے تعلقات رکھتا ہے.یہی وہ مقام ہوتا ہے جو قبولیت دعا کو یقینی بنادیتا ہے.ہماری جماعت نے خدا تعالیٰ کے جو نشانات دیکھے ہیں اور جو سامان قبولیت دعا کے سے میسر ہیں وہ دوسروں کو نصیب نہیں.ایک احمدی جس نے سلسلہ کے لٹریچر کا معمولی مطالعہ بھی کیا ہو وہ قبولیت دعا کے متعلق وہ کچھ جانتا ہے جو دوسرے مسلمانوں میں سے ایک بڑا صوفی بھی نہیں جانتا.پس خدا تعالیٰ نے ہمیں سامان بہم پہنچا دیئے ہیں مگر ان سے فائدہ اُٹھانا ہر شخص کا اپنا کام ہے.دوستوں کو چاہیے کہ وہ رمضان کی برکات سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اُٹھائیں ، احمدیت کی ترقی کے لیے دعائیں کریں، اپنے روحانی درجات کی بلندی کے لیے دعائیں کریں، سلسلہ کا کام کرنے والوں کے لیے دعائیں کریں کہ خدا تعالیٰ ان کے اندر نیکی اور تقوی پیدا کرے اور جو غفلت اور سستی ان کے اندر پائی جاتی ہے وہ دُور کرے.پھر ہمیں یہ بھی دعائیں کرنی چاہیں کہ خدا تعالی ہے لوگوں کے دلوں کو کھولے اور وہ احمدیت کو قبول کریں.غرض ہمیں ان تمام امور کے لیے دعائیں کرنی چاہیں جن کے ساتھ ہماری جماعت کی ترقی وابستہ ہے تا کہ جب یہ دن گزر جائیں تو ہمارا مقام پہلے سے زیادہ بلند ہو.(الفضل 11 اپریل 1957 ء )

Page 205

* 1949 196 (21) خطبات محمود اللہ تعالیٰ جن لوگوں کے سپر د خدمت دین کرتا ہے وہی اس کام کے لیے سب سے زیادہ موزوں ہوتے ہیں ہمارے جدید مرکز ربوہ کے قیام کا سہرا یقیناً نواب محمد الدین صاحب کے سر ہے (فرمودہ 15 جولائی 1949ء بمقام پارک ہاؤس کوئٹہ ) تشهد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: وو یہ ایک عام اور مشہور بات ہے کہ ہر موقع کے لیے اُس کے مناسب حال ایک خاص بات ہوتی ہے اور ہر زمانہ کے لیے ایک خاص آدمی ہوتا ہے.جہاں یہ بات بڑے بڑے امور کے متعلق صحیح ہے وہاں ان سے اتر کر دوسرے اور تیسرے درجہ کے امور کے متعلق بھی صحیح ہے.حضرت نوح علیہ السلام جب دنیا میں آئے تو جو کام اُس وقت اُن کے سپرد کیا گیا تھا وہ حضرت نوح کی علیہ السلام کا ہی حصہ تھا کوئی دوسرا آدمی وہ کام نہیں کر سکتا تھا.حضرت ابراہیم علیہ السلام کے وقت میں جو کام حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کیا وہ آپ کا ہی حق تھا اور کوئی دوسرا آدمی وہ کام نہیں کر سکتا تھا.اسی طرح حضرت موسی علیہ السلام، حضرت عیسی علیہ السلام یا ہندوستان میں حضرت کرشن حضرت رام چندر اور حضرت بُدھ علیہم السلام یا ایران میں حضرت زرتشت علیہ السلام وہ لوگ تھے جی

Page 206

* 1949 197 خطبات محمود جنہوں نے اپنے اپنے زمانہ میں عظیم الشان تغیر پیدا کیا اور یہی نہیں کہ انہوں نے ایک عظیم الشان تغیر پیدا کر دیا بلکہ حقیقت یہ ہے کہ اُس زمانہ کے لحاظ سے وہی لوگ اس کام کے مناسب تھے.ان کے علاوہ کوئی دوسرا آدمی وہ کام نہیں کر سکتا تھا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ آیا تو اپنے زمانہ میں آپ ہی مفوضہ فرائض کو سرانجام دینے کے لیے سب سے زیادہ مناسب تھے کوئی دوسرا آدمی وہ کام نہیں کر سکتا تھا جو آپ نے کیا.چنانچہ جہاں ہم رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ا حدیث کے کہ لو كَانَ مُوسَى وَعِيسَى حَيَّيْنِ لَمَا وَسِعَهُمَا إِلَّا اتَّبَاعِی - 1 اگر موسی اور عیسی زندہ ہوتے تو انہیں میری اطاعت کے سوا کوئی چارہ نہ ہوتا یہ معنے کرتے ہیں کہ در حقیقت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ختم نبوت اُس زمانہ سے شروع نہیں ہوئی جب آپ پیدا ہوئے بلکہ آپ کی ختم نبوت حضرت آدم علیہ السلام کے زمانہ سے شروع ہے اور آپ کے ہی مختلف کاموں کے ٹکڑے تھے جو گزشتہ انبیاء پر بطور ارہاص تقسیم کر دیئے گئے تھے.گویا پہلے انبیاء ایک ایسی بنیاد قائم کرنے کے لیے آئے تھے جس پر محمدی عمارت قائم ہو سکے.جب گزشتہ انبیاء آپ کی ختم نبوت کو نہیں توڑتے باوجود اس کے کہ آپ ان سے بھی پہلے زمانہ سے خاتم النبیین ہیں اور آپ کے ہی کام کے ٹکڑے اُن پر تقسیم کیے گئے تھے.تو ایسے نبی کے متعلق جو ظاہر طور پر بھی آپ کے اتباع میں سے ہو یہ کہنا کہ وہ آپ کی ختم نبوت کو توڑتا ہے غلط ہے وہاں اس حدیث کے ایک یہ معنے بھی ہیں کہ آپ نے فرمایا اُس زمانہ کا کام میرے ہی ہاتھ سے ہو سکتا تھا کوئی دوسرا آدمی یہ کام نہیں کر سکتا تھا.اگر موسیٰ اور عیسی بھی زندہ ہوتے تو وہ بھی اس کام کو نہ کر سکتے اور انہیں میرا مددگار بن کر کام کرنے کے سوا اور کوئی چارہ نظر نہ آتا.بیشک اُس وقت موسوی کام بھی جاری تھا.چنانچہ حضرت موسی علیہ السلام بنی اسرائیل کی اصلاح کے لیے آئے تھے اور بنی اسرائیل آپ کے زمانے میں موجود تھے.بیشک اس وقت عیسوی کام بھی جاری تھا.چنانچہ حضرت عیسی علیہ السلام یہود کی اصلاح کے لیے آئے تھے اور وہ اس وقت موجود تھے.مگر باوجود اس بات کے اُس زمانہ میں اگر حضرت عیسی علیہ السلام ہوتے یا حضرت موسی علیہ السلام ہوتے تب بھی جو فضل اُس وقت آپ پر ہو رہا تھا اُن پر نہ ہوتا.اور اس زمانہ میں موسیٰ اور عیسی علیہا السلام کی قوموں کی اصلاح کا کام بھی آپ کے ہاتھوں سے ہی سرانجام پاتا.بیشک وہ دونوں اپنے اپنے وقت کے عظیم الشان نبی تھے اور اپنی قوموں کی اصلاح کی

Page 207

$ 1949 198 خطبات محمود کے لیے مبعوث ہوئے تھے اور ان کی قومیں آپ کے زمانہ میں موجود تھیں.لیکن جو کام رسول کریمی صلی اللہ علیہ وسلم کے سپرد ہوا وہ اس زمانہ میں نہ حضرت موسی علیہ السلام کر سکتے تھے اور نہ حضرت عیسی علیہ السلام کر سکتے تھے.یہ ایک بڑا وسیع اور اہم مضمون ہے جس کو اگر بیان کیا جائے تو ایک کتاب بن سکتی ہے.پھر یہ بات انبیاء سے ہی مخصوص نہیں بلکہ ان سے اتر کر بھی اپنے اپنے زمانہ میں ایسے لوگ ملتے ہیں کہ جو کام انہوں نے اُس وقت کیا وہ ان کا غیر نہیں کر سکتا تھا.مثلاً حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ہی لے لو.حضرت ابو بکڑ کے متعلق کوئی شخص بھی یہ نہیں کہہ سکتا تھا کہ آپ بھی کسی وقت اپنی قوم کی قیادت کریں گے.عام طور پر یہی سمجھا جاتا تھا کہ آپ کمزور طبیعت صلح کل اور نرم دل واقع ہوئے ہیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ کی جنگوں کو دیکھ لو آپ نے کی کسی بڑی جنگ میں بھی حضرت ابو بکر کو فوج کا کمانڈر نہیں بنایا.بیشک بعض چھوٹے چھوٹے کی غزوات ایسے ہیں جن میں آپ کو افسر بنا کر بھیجا گیا مگر بڑی جنگوں میں ہمیشہ دوسرے لوگوں کو ہی کمانڈر بنا کر بھیجا جاتا تھا.اسی طرح دوسرے کاموں میں بھی آپ کو انچارج نہیں بنایا جاتا تھا.باقی قرآن کریم کی تعلیم ہے یا قضاء وغیرہ کا کام ہے یہ بھی آپ کے سپرد نہیں کیا گیا.لیکن رسول کریم ان صلی اللہ علیہ وسلم جانتے تھے کہ جب ابوبکر کا وقت آئے گا تو جو کام ابوبکر کر لے گا وہ اس کا غیر نہیں کر سکے گا.چنانچہ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہوئے اور مسلمانوں میں یہ اختلاف پیدا ہو گیا کہ کون خلیفہ ہو اُس وقت حضرت ابو بکر کے ذہن میں بھی یہ بات نہ تھی کہ آپ خلیفہ ہوں گے.آپ سمجھتے تھے کہ حضرت عمر وغیرہ ہی اس کے اہل ہو سکتے ہیں.انصار میں جوش پیدا ہوا اور انہوں نے چاہا کہ خلافت انہی میں ہو کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ ہم نے اسلام کی خاطر قربانیاں کی ہیں اور اب خلافت کا حق ہمارا ہے اور ادھر مہاجرین کہتے تھے کہ خلیفہ ہم میں سے ہو.غرض رسول کریمی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات پر ایک جھگڑا برپا ہو گیا.انصار کہتے تھے کہ خلیفہ ہم میں سے ہو اور مہاجرین کہتے تھے کہ خلیفہ ہم میں سے ہو.آخر انصار کی طرف سے جھگڑا اس بات پر ختم ہوا کہ ایک خلیفہ مہاجرین میں سے ہو اور ایک خلیفہ انصار میں سے ہو.اس جھگڑے کو دور کرنے کے لیے ایک میٹنگ بلائی گئی.حضرت عمرؓ فرماتے ہیں اُس وقت میں نے سمجھا کہ حضرت ابوبکر" بیشک نیک اور

Page 208

* 1949 199 خطبات محمود بزرگ ہیں لیکن اس گتھی کو سلجھانا ان کا کام نہیں.اس گتھی کو اگر کوئی سلجھا سکتا ہے تو وہ میں ہی ہوں.یہاں طاقت کا کام ہے نرمی اور محبت کا کام نہیں.چنانچہ آپ فرماتے ہیں میں نے سوچ سوچ کر ایسے دلائل نکالنے شروع کیے جن سے یہ ثابت ہو کہ خلیفہ قریش میں سے ہونا چاہیے اور یہ کہ ایک خلیفہ انصار میں سے ہو اور ایک مہاجرین میں سے یہ بالکل غلط ہے.آپ فرماتے ہیں میں نے بہت سے دلائل سوچے اور پھر اُس مجلس میں گیا جو اس جھگڑے کو نپٹانے کے لیے منعقد کی گئی تھی.حضرت ابوبکر بھی میرے ساتھ تھے.میں نے چاہا کہ تقریر کروں اور ان دلائل سے جو میں سوچ کر گیا تھا لوگوں کو قائل کروں.میں سمجھتا تھا کہ حضرت ابوبکر اس شوکت اور دبدبہ کے مالک نہیں کہ اس مجلس میں بول سکیں.لیکن میں کھڑا ہونے ہی لگا تھا کہ حضرت ابوبکر نے غصہ سے ہاتھ مار کر مجھ سے کہا بیٹھ جاؤ اور خود کھڑے ہو کر تقریر شروع کر دی.حضرت عمرؓ فرماتے ہیں خدا کی قسم! جتنی دلیلیں میں نے سوچی تھیں وہ سب کی سب حضرت ابو بکڑ نے بیان کر دیں اور پھر اور بھی کئی دلائل بیان کرتے چلے گئے اور بیان کرتے چلے گئے.یہاں تک کہ انصار کے دل مطمئن ہو گئے اور انہوں نے خلافت مہاجرین کے اصول کو تسلیم کر لیا.2 یہ وہی ابو بکر تھا جس کے متعلق حضرت عمرؓ خود بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے ایک دفعہ کسی جھگڑے پر بازار میں آپ کے کپڑے پھاڑ دیئے اور مارنے پر تیار ہو گئے تھے، یہ وہی ابوبکر تھا جس کے متعلق رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اکثر فرمایا کرتے تھے کہ حضرت ابوبکر کا دل رقیق ہے مگر جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات کا وقت قریب آیا تو وفات سے قبل آپ نے ی حضرت عائشہ سے فرمایا عائشہ! میرے دل میں بار بار یہ خواہش اُٹھتی ہے کہ میں لوگوں سے کہ دوں کہ وہ میرے بعد حضرت ابو بکر کو خلیفہ بنالیں لیکن پھر رک جاتا ہوں کیونکہ میرا دل جانتا ہے کہ میری وفات کے بعد خدا تعالیٰ اور اس کے مومن بندے ابو بکر کے سوا کسی اور کو خلیفہ نہیں بنائیں گے.چنانچہ ایسا ہی ہوا آپ کو خلیفہ منتخب کیا گیا.آپ رقیق القلب انسان تھے اور اتنی نرم طبیعت کے تھے کہ ایک دفعہ آپ کو مارنے کے لیے بازار میں حضرت عمرؓ آگے بڑھے اور انہوں نے آپ کے کپڑے پھاڑ دیئے.لیکن وہی ابو بکر جس کی نرمی کی یہ حالت تھی ایک وقت ایسا آیا کہ حضرت عمرؓ آپ کے پاس آئے اور انہوں نے درخواست کی کہ تمام عرب مخالف ہو گیا ہے صرف مدینہ، مکہ اور

Page 209

$1949 200 خطبات محمود ایک اور چھوٹی سی بستی میں نماز با جماعت ہوتی ہے باقی لوگ نماز میں پڑھتے تو ہیں لیکن ان میں اتنا ہی تفرقہ پیدا ہو چکا ہے کہ ایک دوسرے کے پیچھے نماز پڑھنے کے لیے تیار نہیں اور اختلاف اتنا بڑھ چکا ہے کہ وہ کسی کی بات سنے کو تیار نہیں.عرب کے جاہل لوگ جو پانچ پانچ ، چھ چھ ماہ سے مسلمان کی ہوئے ہیں مطالبہ کر رہے ہیں کہ زکوۃ معاف کر دی جائے.یہ لوگ زکوۃ کے مسئلہ کو سمجھتے تو ہیں نہیں.اگر ایک دو سال کے لیے انہیں زکوۃ معاف کر دی جائے تو کیا حرج ہے؟ گویا وہ عمر جو ہر وقت تلوار ہاتھ میں لیے کھڑا رہتا تھا اور ذراسی بات بھی ہوتی تو کہتا يَا رَسُوْلَ اللہ ! حکم ہو تو اس کی گردن اڑا دوں وہ ان لوگوں سے اتنا مرعوب ہو جاتا ہے، اتنا ڈر جاتا ہے، اتنا گھبرا جاتا ہے کہ ابو بکر کے پاس آکر اُن سے درخواست کرتا ہے کہ ان جاہل لوگوں کو کچھ عرصہ کے لیے زکوة کی معاف کر دی جائے ہم آہستہ آہستہ انہیں سمجھا لیں گے.مگر وہ ابوبکر جو اتنا رقیق القلب تھا کہ حضرت عمرؓ کہتے ہیں میں ایک دفعہ انہیں مارنے کے لیے تیار ہو گیا تھا اور بازار میں ان کے کپڑے پھاڑ دیئے تھے اُس نے اُس وقت نہایت غصے سے عمر کی طرف دیکھا اور کہا عمر! تم اُس چیز کا لی مطالبہ کر رہے ہو جو خدا اور اس کے رسول نے نہیں کی.حضرت عمرؓ نے کہا یہ ٹھیک ہے لیکن یہ لوگ حديث العہد ہیں، دشمن کا لشکر مدینہ کی دیواروں کے پاس پہنچ چکا ہے کیا یہ اچھا ہو ہو گا کہ یہ لوگ بڑھتے چلے آئیں اور ملک میں پھر طوائف الملو کی کی حالت پیدا ہو جائے یا یہ مناسب ہوگا کہ انہیں ایک دو سال کے لیے زکوۃ معاف کر دی جائے ؟ حضرت ابو بکر نے فرمایا خدا کی قسم ! اگر دشمن مدینہ کی کے اندر گھس آئے اور اس کی گلیوں میں مسلمانوں کو تہ تیغ کر دے اور عورتوں کی لاشوں کو کتے گھسیٹتے پھریں تب بھی میں انہیں زکوۃ معاف نہیں کروں گا.خدا کی قسم ! اگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ میں یہ لوگ رتی کا ایک ٹکڑا بھی بطور زکوۃ دیتے تھے تو میں وہ بھی ان سے ضرور وصول کروں گا.4 پھر آپ نے فرمایا عمر! اگر تم لوگ ڈرتے ہو تو بیشک چلے جاؤ میں اکیلا ہی ان لوگوں کی سے لڑوں گا اور اُس وقت تک نہیں رکوں گا جب تک یہ اپنی شرارت سے باز نہیں آجاتے.5 چنانچہ لڑائی ہوئی اور آپ ہی فاتح ہوئے اور اپنی وفات سے پہلے پہلے آپ نے دوبارہ سارے عرب کو اپنے ماتحت کر لیا.غرض حضرت ابو بکر نے اپنی زندگی میں جو کام کیا وہ انہی کا حصہ تھا کوئی اور نص وہ کام نہیں کر سکتا تھا.

Page 210

خطبات محمود 201 * 1949 مگر یہی عمر جو ابو بکر رضی اللہ عنہ کی خلافت میں ایک خطرہ کی حالت میں ڈر گئے تھے اور جنہوں نے حضرت ابوبکر سے یہ درخواست کی تھی کہ لڑائی کرنے کی بجائے صلح کر لی جائے جب ان کا اپنا زمانہ آتا ہے تو جو کام انہوں نے کیا وہ انہی کا حصہ تھا.ان کا غیر وہ کام نہیں کر سکتا تھا.وہی ہے ارتداد کے فتنہ سے ڈر جانے والا عمرؓ جب خلافت کے مسند پر آتا ہے اُس وقت دنیا میں دو بڑی کی سلطنتیں تھیں.آدھی دنیا پر ایران قابض تھا اور آدھی دنیا پر روم کی سلطنت تھی.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وقت میں لڑائیاں ہوئیں اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں پھیل گئیں لیکن پھر بھی وہ اس شدت کو نہیں پہنچی تھیں جس شدت کو وہ حضرت عمرؓ کے زمانہ میں پہنچیں.حضرت عمرؓ کو یہ خبر پہنچی کہ ایرانیوں نے مسلمانوں پر چھاپا مارا ہے.لوگوں نے کہا یہ وقت نازک ہے روم سے لڑائی ہو رہی ہے اور ایران کی حکومت بھی حملہ آور ہونے کی تیاریاں کر رہی ہے اس وقت ہمیں اس جھگڑے کو نظر انداز کر دینا چاہیے.ایران سے لڑائی کرنے کا یہ موقع نہیں کیونکہ یک وقت میں دنیا کی دو بڑی سلطنتوں سے لڑائی کرنا ہمارے لیے آسان نہیں لیکن حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا میں اسلام کو ذلیل نہیں ہونے دوں گا.میں ایک ہی وقت میں دونوں کا مقابلہ کروں گا.ایران میں جسر کی خطر ناک شکست کے بعد جب مسلمانوں کا سارا لشکر تہہ تیغ ہو گیا تھا اور باقی لشکر شام کی طرف گیا ہوا تھا مدینہ سے صرف تین سو آدمی مل سکتے تھے مگر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا میں ان تین سو آدمیوں کو ساتھ لے کر ہی ایران کا مقابلہ کرنے کے لیے جاؤں گا.مگر اُس وقت حضرت علی اور دوسرے صحابہ کے اصرار کے بعد آپ خود جانے سے رُک گئے مگر تھوڑے سے لشکر کو ایران کا مقابلہ کرنے کے لیے بھجوا دیا.پھر حضرت عثمان کا زمانہ آیا تو وہ بھی اپنے وقت کے بہترین انسان ثابت ہوئے.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ وہ شہید ہوئے لیکن ان کی شہادت کے واقعات پڑھ کر معلوم ہوتا ہے کہ ان کے سینے میں ایک مضبوط دل تھا اور ان کے اندر وہ دلیری اور حوصلہ پایا جاتا تھا جو عام انسانی برداشت سے بالکل باہر ہے.پھر حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اپنے زمانہ میں جو کام کیا وہ درحقیقت حضرت علی کا ہی حصہ تھا اور کوئی دوسرا شخص اس کام کو سرانجام نہیں دے سکتا تھا.خوارج کے فتنہ کا عملی اور علمی مقابلہ

Page 211

$1949 202 خطبات محمود جو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے کیا وہ ایک بینظیر کام ہے.یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے سرداری کی اور اپنے اپنے وقت میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی کمی طور پر نیابت کی.لیکن اس قسم کے اور واقعات بھی کثرت سے چھوٹے صحابہؓ میں پائے جاتے ہیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جہاں علم دین کے ماہر تھے وہاں آپ کو علم النفس میں بھی کمال کی دسترس حاصل تھی.آپ جانتے تھے کہ کس طرح قوموں کو بیدار کیا جاتا ہے اور کس طرح انہیں کار ہائے نمایاں دکھانے کے لیے تیار کیا جاتا ہے.آپ بعض دفعہ مثلاً تلوار ہاتھ میں لے لیتے اور صحابہ کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کرتے یہ تلوار ہے.کون ہے جو اس تحفہ کا حق ادا کرے؟ صحابہ باری باری کھڑے ہوتے اور اپنے آپ کو اس کام کے لیے پیش کرتے.آخر آپ ان میں سے اس شخص کو پہچان لیتے جو اس تلوار کا حق ادا کرنے والا ہوتا اور اسے وہ تلوار عنایت کر دیتے.6 پھر وہ لوگ عجیب عجیب قسم کی قربانیاں کرتے ہوئے نظر آتے ہیں.ایسی قربانیاں کہ ان کی واقعات کو پڑھ کر دل میں ایک خاص جوش پیدا ہوتا ہے اور مُردہ رگوں میں بھی زندگی کا خون دوڑ نے لگتا ہے.پھر یہی واقعات دنیا کی عام تاریخ میں بھی ملتے ہیں.غرض ہر کارے و ہر مردے اور ہر وقتے و ہر سخنے بڑا ہی صحیح مقولہ ہے.خدا تعالیٰ اپنی ساری برکتیں کسی ایک شخص کے لیے مخصوص نہیں کر دیتا.اس کی نظر عنایت ہزاروں ہزار پر ہے.کسی موقع پر وہ کسی کو آگے آنے کا موقع ے دیتا ہے اور کسی وقت کسی کو آگے آنے کا موقع دے دیتا ہے.حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کتنی زیادہ مالی قربانی کرنے والے تھے لیکن ایک دفعہ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ایک مالی جنگ کی تیاری کے لیے روپیہ کی ضرورت پیش آئی اور آپ نے فرمایا کہ کوئی ہے جو اپنے مال سے جنت خریدنا چاہے تو خدا تعالیٰ نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو موقع دے دیا اور آپ نے اپنا اکثر مال رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے لا کر رکھ دیا.وہ مال کوئی بارہ ہزار دینار کے قریب تھا جو آجکل کے لاکھوں روپے کے برابر ہے.7 غرض ہر وقت اور ہر زمانہ کے لیے کوئی نہ کوئی اور مخصوص شخص ہوتا ہے جسے خدا تعالیٰ کی طرف سے ایسی برکات حاصل ہو جاتی ہیں کہ وہ اپنے زمانہ کے لیے بطور یادگار بن جاتا ہے.اس زمانہ میں دنیا کی اصلاح کے لیے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام مبعور.حوث

Page 212

$ 1949 203 خطبات محمود ہوئے.آپ کے ماننے والوں میں بھی ایسے لوگ پیدا ہوئے جنہوں نے دین کی خاص خدمت کی اور اس کی خاطر وہ وہ قربانیاں کیں جنہیں دیکھ کر ہماری قوم تا قیامت زندہ رہ سکتی ہے.کوئی شخص جب سید عبداللطیف صاحب شہید کی قربانیوں کو دیکھے گا تو وہ کہے گا میں بھی عبداللطیف شہید بنوں گا.کوئی حضرت خلیفتہ امسیح الاول کے واقعات زندگی کو دیکھے گا تو اس کے اندر آپ جیسا انسان بنے تھے کی خواہش موجزن ہوگی.کوئی حضرت مولوی عبد الکریم صاحب کے حالات کو پڑھے گا تو وہ ان جیسا بننے کی کوشش کرے گا.کوئی مولوی برہان الدین صاحب اور مولوی محمد عبد اللہ صاحب سنوری کے واقعات پڑے گا تو کہے گا کہ کاش ! وہ بھی ان جیسا بن جائے.اس میں کوئی محبہ نہیں کہ بعض لوگوں نے بعد میں ٹھوکریں بھی کھائیں لیکن ہم ان کی قربانیوں اور اُن کے بے مثال کارناموں کو بھول نہیں سکتے.خدا تعالیٰ جیسا چاہے ان سے معاملہ کرے.ہمارا کام یہی ہے کہ ان کی قربانیوں کو نہ بھولیں.شیخ رحمت اللہ صاحب نے بیشک بعد میں ٹھوکر کھائی اور حضرت خلیفۃ المسیح الاول کی وفات کے بعد پیغامی ہو گئے لیکن اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ ان کی دینی خدمات اور قربانیوں کی وجہ سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو ان سے خاص محبت تھی.میں نے کئی دفعہ رویا میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو دیکھا کہ وہ دوسرے لوگوں کی طرف سے منہ پھیرے ہوئے ہیں لیکن شیخ رحمت اللہ صاحب کی طرف سنکھیوں سے محبت سے دیکھ رہے ہیں.ان کے متعلق : نے بھی ایک رؤیا دیکھا تھا جو اس بات پر دلالت کرتا تھا کہ وہ ٹھوکر کھائیں گے.پس گو انہیں بعد میں ٹھوکر لگی لیکن اس میں کوئی شبہ نہیں کہ انہوں نے اپنے وقت میں دین کی خاطر قربانیاں کی ہیں.سے پہلے سیٹھ عبدالرحمان صاحب مدراسی نے قربانی کا بے نظیر نمونہ دکھایا.اسی طرح ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ میں آپ کے ماننے والوں میں سے کئی ایسے لوگ کی پیدا ہوئے جنہوں نے اپنے اپنے وقت میں دین کے لیے عظیم الشان قربانیاں کیں.بعد میں آنے والے جب بھی ان کے واقعات پڑھیں گے اور دیکھیں گے کہ انہوں نے دین کی خاطر بے مثال خدمتیں کی ہیں اور خدا تعالیٰ کا خاص فضل ان پر نازل ہوا ہے تو ان میں بھی ان کی نقل کرنے کی خواہش پیدا ہوگی.ان پھر حضرت خلیفہ المسیح الاول کا زمانہ آیا.وہ زمانہ زیادہ تر ارہاص یعنی خلافت کے قیام کا

Page 213

* 1949 204 خطبات محمود زمانہ تھا.اس زمانہ میں کوئی ایسا ٹھوس کام جو جماعت کی تبلیغی ترقی کے ساتھ وابستہ ہوتا نہیں ہوا بلکہ سارا وقت اندرونی لڑائیوں اور آپس کے جھگڑوں میں ہی گزر گیا.مگر بہر حال اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ اُس زمانہ میں بھی جماعت نے ترقی کی اور پہلے سے زیادہ مضبوط ہوئی اور خصوصاً ای ہائی اسکول کی تعمیر ایک نمایاں کام تھا.اُس زمانہ میں زیادہ تر اندرونی فتنوں کا مقابلہ کرنے کے لیے مجھے ہی جنگ کرنی پڑی اور اسی وجہ سے مخالفین اور فتنہ پرداز لوگوں کے ان حملوں کا جو حضرت خلیفہ مسیح الاول اور ان کی تائید کرنے والے لوگوں پر کیے گئے زیادہ تر میں ہی ہدف رہتا تھا.پھر میرا زمانہ آیا جس میں عام طور پر غیروں نے سمجھ لیا کہ اب یہ سلسلہ ختم ہو جائے گا.کیونکہ سب کام ایک بچے کے ہاتھ میں چلا گیا ہے.سلسلہ کے سپر دفتح دنیا کا کام ہے اور کام ایک غیر تعلیم یافتہ اور ناتجربہ کار بچہ کے سپرد ہو گیا ہے جس نے بڑے بڑے کام نہیں کیے.میں بتا چکا ہوں کہ حضرت خلیفتہ اسی الاول کا زمانہ زیادہ تر خلافت کے قیام کا زمانہ تھا لیکن اب خلافت کے کام کا زمانہ شروع ہو رہا تھا.اس زمانہ میں خلافت کی بنیادوں پر عمارت کی تعمیر شروع ہوئی اور مختلف لوگوں کو مختلف رنگوں میں خدمت دین کا موقع ملا.ابتدائی زمانہ میں میں سمجھتا ہوں کہ جو کام حضرت حافظ روشن علی صاحب کو کرنے کا موقع ملا ہے وہ کسی اور کو نہیں ملا.وہ صف اول کے جرنیل تھے.انہوں نے مخالفین خلافت سے متواتر مباحثات کیے اور ان پر خلافت کی ضرورت اور کی اہمیت واضح کی.دنیوی لحاظ سے چودھری ظفر اللہ خان صاحب کو بہت سے کاموں کے کرنے کا موقع ملا.وہ زیادہ تر قادیان میں نہیں رہے لیکن پھر بھی انہیں تو فیق ملی اور دین کی اشاعت میں لگے رہے.انہوں نے میرے مختلف مضامین اور کتب کا انگریزی زبان میں ترجمہ کیا.سلسلہ کے مقدمات مفت کیے.سلسلہ کے کاموں کے لیے افسروں اور دیگر عظماء سے ملتے رہے اور اس طرح ہے اشاعتِ سلسلہ میں نمایاں حصہ لیا.درمیان میں کئی اور بھی فتنے اٹھے.کسی میں میر محمد اسحاق صاحب کو کام کرنے کا موقع ملا اور کسی میں مفتی محمد صادق صاحب کو.امریکہ میں جماعت احمدیہ کا مشن مفتی محمد صادق صاحب نے قائم کیا.انگلستان میں یہ کام چودھری فتح محمد صاحب نے کیا اور کی مغربی افریقہ میں مشن قائم کرنے کا سہرا مولوی عبد الرحیم صاحب نیر کے سر رہا.یہ لوگ صرف مبلغ نہیں تھے بلکہ یہ وہ لوگ تھے جنہیں غیر معمولی حالات میں کام کرنا پڑا.خصوصاً انگلستان اور امریکہ

Page 214

$1949 205 خطبات محمود میں نہایت نامساعد حالات تھے.جب چودھری فتح محمد صاحب انگلستان تشریف لے گئے اُس وقت خواجہ کمال الدین صاحب وہاں چھائے ہوئے تھے اور ان کے سامنے چودھری صاحب کی مثال درخت کے نیچے پر بھیڑے 8 کی سی تھی لیکن ان حالات کے باوجود چودھری صاحب.انتھک محنت کے بعد وہاں مشن قائم کیا اور ایسے طور پر کیا کہ ہمیں احساس ہو گیا کہ اسے آئندہ بھی جاری رکھنا چاہیے ورنہ حقیقت یہ ہے کہ اگر چودھری صاحب وہاں نہ جاتے تو ہم انگلستان میں تبلیغی کام جاری نہ رکھ سکتے.امریکہ میں مفتی محمد صادق صاحب گئے اور انہوں نے عظیم الشان کام کیا.امریکہ میں ہم مسجد بنانا چاہتے تو شاید آج تک بھی نہ بنا سکتے.مفتی صاحب نے وہاں خود ہی ایک مکان بے پوچھے لے لیا اور اس کا نام مسجد رکھ دیا اور پھر ہمیں لکھ دیا کہ میں نے اس اس طرح کیا ہے.اس کے بعد ہم اس کو قائم رکھنے کے لیے مجبور ہو گئے.اسی طرح شام میں مولوی جلال الدین صاحب شمس نے کام کیا ہے اور پھر انہوں نے فلسطین میں بھی جماعت کو قائم کیا.یا پھر دوبارہ چودھری فتح محمد صاحب کو فتنہ ارتداد کے وقت ملکانہ میں کام کرنا پڑا.پیغامی فتنہ کے وقت صدر انجمن احمدیہ کی مضبوطی کا کام کرنے کا موقع چودھری نصر اللہ خاں صاحب مرحوم کو ملا.غرض متفرق اوقات میں متفرق کام نکلتے ہیں جو چند مخصوص آدمی کرتے ہیں.ان کے علاوہ کوئی اور آدمی وہ کام نہیں کرسکتا.جماعتی طور پر ہم پر ایک بہت بڑا ابتلاء 1947ء میں آیا اور الہی تقدیر کے ماتحت ہمیں قادیان چھوڑنا پڑا.شروع میں میں سمجھتا تھا کہ جماعت کا جرنیل ہونے کی حیثیت سے میرا فرض ہے کہ قادیان میں لڑتا ہوا مارا جاؤں ورنہ جماعت میں بزدلی پھیل جائے گی.اور اس کے متعلق میں نے باہر کی جماعتوں کو چٹھیاں بھی لکھ دی تھیں لیکن بعد میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے الہامات کے مطالعہ سے مجھ پر یہ امر منکشف ہوا کہ ہمارے لیے ایک ہجرت مقدر ہے اور ہجرت کی ہوتی ہی لیڈر کے ساتھ ہے.ویسے تو لوگ اپنی جگہیں بدلتے ہی رہتے ہیں مگر اُسے کوئی ہجرت نہیں ہے کہتا.ہجرت ہوتی ہی لیڈر کے ساتھ ہے.پس میں نے سمجھا کہ خدا تعالیٰ کی مصلحت یہی ہے کہ میں قادیان سے باہر چلا جاؤں.جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے الہامات کے مطالعہ سے میں نے سمجھا کہ ہماری ہجرت یقینی ہے اور یہ فیصلہ کیا گیا کہ مجھے قادیان چھوڑ دینا چاہیے تو اُس کی

Page 215

* 1949 206 خطبات محمود وقت لا ہور فون کیا گیا کہ کسی نہ کسی طرح ٹرانسپورٹ کا انتظام کیا جائے.لیکن آٹھ دس دن تک کوئی جواب نہ آیا اور جواب آیا بھی تو یہ کہ حکومت کسی قسم کی ٹرانسپورٹ مہیا کرنے سے انکار کرتی ہے اس لیے کوئی گاڑی نہیں مل سکتی.میں اُس وقت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے الہامات کا مطالعہ کر رہا تھا.الہامات کا مطالعہ کرتے ہوئے مجھے ایک الہام نظر آیا بعد گیارہ " - 9 میں.خیال کیا کہ گیارہ سے مراد گیارہ تاریخ ہے اور میں نے سمجھا کہ شاید ٹرانسپورٹ کا انتظام قمری گیارہ تاریخ کے بعد ہو گا مگر انتظام کرتے کرتے عیسوی ماہ کی 28 تاریخ آگئی لیکن گاڑی کا کوئی انتظام نہ ہو سکا.28 تاریخ کو اعلان ہو گیا کہ 31 اگست کے بعد ہر ایک حکومت اپنے اپنے علاقہ کی حفاظت کی خود ذمہ دار ہوگی.اس کا مطلب یہ تھا کہ انڈین یونین اب مکمل طور پر قادیان پر قابض ہو گئی ہے.میں نے اُس وقت خیال کیا کہ اگر مجھے جانا ہے تو اس کے لیے فوراً کوشش کرنی چاہیے ور نہ قادیان سے نکلنا محال ہو جائے گا اور اس کام میں کامیابی نہیں ہو سکے گی.ان لوگوں کے مخالفانہ ارادوں کا اس سے پتا چل سکتا ہے کہ ایک انگریز کرنل جو بٹالہ لگا ہوا تھا میرے پاس آیا اور اس نے کی کہا مجھے ان لوگوں کے منصوبوں کا علم ہے.جو کچھ یہ 31 اگست کے بعد مسلمانوں کے ساتھ کریں گے اس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا.یہ باتیں کرتے وقت اُس پر رقت طاری ہوگئی لیکن اُس نے جذبات کو دبا لیا اور منہ ایک طرف پھیر لیا.جب میں نے دیکھا کہ اب گاڑی وغیرہ کا کوئی انتظام نہیں ہو سکتا اور میں سوچ رہا تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے الہام بعد گیارہ سے کیا مراد ہے تو مجھے میاں بشیر احمد صاحب کا پیغام ملا کہ میجر جنرل نذیر احمد صاحب کے بھائی میجر بشیر احمد صاحب ملنے کے لیے آئے ہیں.دراصل یہ اُن کی غلطی تھی.وہ میجر بشیر احمد صاحب نہیں ہے تھے بلکہ ان کے دوسرے بھائی کیپٹن عطاء اللہ صاحب تھے.جب وہ ملاقات کے لیے آئے تو میں حیران تھا کہ یہ تو میجر بشیر احمد نہیں.ان کے چہرے پر تو چیچک کے داغ ہیں.مگر چونکہ مجھے ان کا نام میجر بشیر احمد ہی بتایا گیا تھا اس لیے میں نے دورانِ گفتگو میں جب انہیں میجر کہا تو انہوں نے کہا تی میں میجر نہیں ہوں کیپٹن ہوں اور میرا نام بشیر احمد نہیں بلکہ عطاء اللہ ہے.کیپٹن عطاء اللہ صاح کے متعلق پہلے سے میرا یہ خیال تھا کہ وہ اپنے دوسرے بھائیوں سے زیادہ مخلص ہیں اور میں سمجھتا تھا کہ اگر خدمت کا موقع مل سکتا ہے تو اپنے بھائیوں میں سے یہی اس کے سب سے زیادہ مستحق

Page 216

$ 1949 207 خطبات محمود ہیں.میں نے انہیں حالات بتائے اور کہا کہ کیا وہ سواری اور حفاظت کا کوئی انتظام کر سکتے ہیں؟ انہوں نے کہا کہ میں آج ہی واپس جا کر کوشش کرتا ہوں.ایک جیپ میجر جنرل نذیر احمد کو ملی ہوئی ہے اگر وہ مل سکی تو دو اور کا انتظام کر کے میں آؤں گا.کیونکہ تین گاڑیوں کے بغیر پوری طرح حفاظت کا ذمہ نہیں لیا جاسکتا.کیونکہ ایک جیپ خراب بھی ہو سکتی ہے اور اُس پر حملہ بھی ہو سکتا ہے.لیکن ضرورت ہے کہ تین گاڑیاں ہوں تا سب خطرات کا مقابلہ کیا جاسکے.یہ باتیں کر کے وہ واپس لاہور گئے اور گاڑی کے لیے کوشش کی مگر میجر جنرل نذیر احمد صاحب کی جیپ انہیں نہ مل سکی.وہ خود کہیں باہر گئے ہوئے تھے.آخر انہوں نے نواب محمد الدین صاحب مرحوم کی کار لی اور عزیز منصور احمد کی جیپ.اسی طرح بعض اور دوستوں کی کاریں حاصل کیں اور قادیان چل پڑے.دوسرے دن ہم نے اپنی طرف سے ایک اور انتظام کرنے کی بھی کوشش کی اور چاہا کہ ایک احمدی کی معرفت کچھ گاڑیاں مل جائیں.اُس دوست کا وعدہ تھا کہ وہ ملٹری کو ساتھ لے کر آٹھ نو بجے قادیان پہنچ جائیں گے لیکن وہ نہ پہنچ سکے یہاں تک کہ دس بج گئے.اُس وقت مجھے یہ خیال آیا کہ شاید گیارہ سے مراد گیارہ بجے ہو اور یہ انتظام گیارہ بجے کے بعد ہو.میاں بشیر احمد صاحب جن کے سپرد اُن کی دنوں ایسے انتظام تھے اُن کے بار بار پیغام آتے تھے کہ سب انتظام رہ گئے ہیں اور کسی میں بھی کامیابی نہیں ہوئی.میں نے انہیں فون کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے الہام بعد گیارہ سے میں سمجھتا ہوں کہ گیارہ بجے کے بعد کوئی انتظام ہو سکے گا.پہلے میں سمجھتا تھا کہ اس سے گیارہ تاریخ مراد ہے لیکن اب میرا خیال ہے کہ شاید اس سے مراد گیارہ بجے کا وقت ہے.میرے لڑکے ناصر احمد نے بھی جس کے سپرد باہر کا انتظام تھا مجھے فون کیا کہ تمام انتظامات فیل ہوگئے ہیں.ایک بدھ فوجی افسر نے کہا تھا کہ خواہ مجھے سزا ہو جائے میں ضرور کوئی نہ کوئی انتظام کروں گا اور اپنی گارڈ ساتھ روانہ کروں گا لیکن عین وقت پر اُسے بھی کہیں اور جگہ جانے کا آرڈر آگیا اور اُس نے کہا میں اب مجبور ہوں اور کسی قسم کی مدد نہیں کر سکتا.آخر گیارہ بج کر پانچ منٹ پر میں نے فون اُٹھایا اور چاہا کہ ناصر احمد کو فون کروں کہ ناصر احمد نے کہا میں فون کرنے ہی والا تھا کہ کیپٹن عطاء اللہ یہاں پہنچ چکے ہیں اور گاڑیاں بھی آگئی ہیں.چنانچہ ہم کیپٹن عطاء اللہ صاحب کی گاڑیوں میں قادیان سے لاہور پہنچے.

Page 217

خطبات محمود 208 * 1949 یہاں پہنچ کر میں نے پورے طور پر محسوس کیا کہ میرے سامنے ایک درخت کو اُکھیڑ کر دوسری جگہ لگانا نہیں بلکہ ایک باغ کو اُکھیڑ کر دوسری جگہ لگانا ہے.ہمیں اس بات کی شدید ضرورت ہے کہ فوراً ایک نیا مرکز بنایا جائے جہاں قادیان کے لوگوں کو آباد کیا جائے اور مرکزی دفاتر بھی بنائے جائیں.اس کے لیے اور میرے آئندہ پروگرام کے طے کرنے کے لیے سات ستمبر 1947ء کو ایک میٹنگ بلائی گئی لیکن شہر کے شہر کو دوسری جگہ پر بسانا کوئی معمولی کام نہیں تھا بلکہ اس کے لیے انتہائی محنت کی ضرورت تھی.یہ جماعت پرندوں کی تو تھی نہیں کہ ایک جگہ سے اڑ کر دوسری جگہ پر جا بیٹھتی بلکہ ایک مرکز رکھنے والی جماعت تھی.اسے ایک ایسے مرکز کی ضرورت تھی جہاں جماعت پھر اپنی بنیادوں پر کھڑی ہو سکے.جس طرح میرے قادیان سے نکلنے کا کام کیپٹن عطاء اللہ صاحب کے ہاتھ سے سرانجام پانا تھا اسی طرح ایک نئے مرکز کا قیام ایک دوسرے آدمی کے سپر د تھا جو پیچھے آیا اور کئی لوگوں سے آگے بڑھ گیا.میری مراد نواب محمد الدین صاحب مرحوم سے ہے جن کی اسی ہفتہ میں وفات واقع ہوئی ہے.میں نے فیصلہ کیا ہے کہ اُن کی خدمات کی وجہ سے ربوہ میں کوئی ایسا نشان مقرر کیا جائے کی جس کی وجہ سے جماعت ہمیشہ اُن کی قربانیوں کو یا د ر کھے اور اس بات کو مت کھو لے کہ کس طرح ایک 80 سالہ بوڑھے نے جو محنت اور جفاکشی کا عادی نہیں تھا، جو ڈپٹی کمشنر اور ریاست کا وزیر رہ چکا تھا، جو صاحب جائداد اور متمول آدمی تھا 1947ء سے 1949 ء کے شروع تک باوجود اس کے کہ اُس کی طبیعت اتنی مضمحل ہو چکی تھی کہ وہ طاقت کا کوئی کام نہیں کر سکتا تھا، اپنی صحت اور اپنے آرام کو نظر انداز کرتے ہوئے رات اور دن ایک کر دیا.اس لیے کہ کسی طرح جماعت کا نیا مرکز قائم ہو جائے.سینکڑوں دفعہ وہ افسروں سے ملے، اُن سے جھگڑے کیے ،لڑائیاں کیں منتیں اور خوشامدیں کیں اور پھر مرکز کی تلاش کے لیے بھی پھرتے رہے.انہیں اس کام میں اتنا انہماک تھا ہے کہ ایک دفعہ میں اکیلا ربوہ گیا اور انہیں اطلاع نہ دی.میں نے سمجھا وہ ضعیف العمر آدمی ہیں انہیں کی تکلیف نہ دی جائے.ان کو ریٹائر ہوئے بھی بائیس سال ہو چکے تھے.1926ء میں میں جب مالیر کوٹلہ گیا تو وہ وہاں منسٹر تھے.جب میں واپس آیا تو انہوں نے کہا مجھے سخت افسوس ہے کہ اس دفعہ میں آپ کے ساتھ نہیں جا سکا.مجھے بھی اطلاع دیتے تو میں ساتھ چلا جاتا.میں نے کہا صرف

Page 218

$ 1949 209 خطبات محمود آپ کی تکلیف کے خیال سے میں نے آپ کو اطلاع نہیں بھجوائی تھی.انہوں نے کہا میری تو خواہش تھی کہ میں آپ کے ساتھ جاتا اور اب نہ جانے کی وجہ سے مجھے انتہائی رنج ہوا.غرض اس کام کے لیے انہوں نے دن رات ایک کر دیا تھا اور یقیناً اس کام کے لیے اللہ تعالیٰ کے نزدیک وہی موزوں آدمی تھے.ہمارے مرکز کا قائم ہونا کوئی معمولی بات نہیں بلکہ بڑی اہم چیز ہے.اگر ہمارا نیا مرکز کامیاب ہوگا اور ہمیں یقین ہے کہ وہ کامیاب ہوگا تو یہ ایک ویسی ہی اہمیت رکھنے والی چیز ہوگی جیسے کہ دنیا کے بڑے بڑے مذہبی مرکزوں کی تعمیر اہمیت رکھتی تھی.مقامات مرکزی کا قیام ایک بہت بڑا کام ہوتا ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ ہمارے جدید مرکز کے قیام کا سہرا یقیناً نواب محمد الدین صاحب مرحوم کے سر پر ہے اور یہ عزت اور رتبہ انہی کا حق ہے.جب تک یہ جماعت قائم رہے گی لوگ ان کے لیے دعا بھی کریں گے اور ان کی قربانی کو دیکھ کر نوجوانوں کے دلوں میں یہ جذبہ بھی پیدا ہو گا کہ وہ ان جیسا کام کریں.گجا ایک بوڑھا بیمار اور کمزور آدمی اور گجا اس کی یہ حالت کہ وہ دن ہے کو بھی وہاں موجود ہے اور رات کو بھی وہیں موجود ہے اور رپورٹیں پیش کر رہا ہے کہ آج میں فلاں سے ملا تھا، آج فلاں سے ملا تھا.اب بھی جب وہ مری میں تھے وفات سے دس دن پہلے انہوں نے مجھے لکھا کہ اب ربوہ میں تعمیر کا کام شروع ہونے والا ہے اور چونکہ یہ کام نگرانی چاہتا ہے اور میری صحت ٹھیک ہوگئی ہے اس لیے میرا ارادہ ہے کہ ربوہ چلا جاؤں اور کام میں مدد دوں.غرض ہرکارے و ہر مردے سینکڑوں کام ہوتے ہیں لیکن بہت برکت والا ہوتا ہے وہ آدمی جس سے کوئی ایسا کام ہو جائے جو اپنے اندر تاریخی عظمت رکھتا ہو.میں سمجھتا ہوں کہ اس کام کا ان کے ہاتھ سے ہونا ان کی کسی بہت بڑی نیکی کی وجہ سے تھا اور میں کہہ سکتا ہوں کہ وہ پیچھے آئے مگر آگے گزر گئے.بیعت سے پہلے وہ احمدیت کے قائل تو تھے.چنانچہ جب وہ دہلی میں افسر مال لگے ہوئے تھے اور میر قاسم علی صاحب وہاں تھے تو انہوں نے اپنے لڑکے چودھری محمد شریف صاحب وکیل کی بیعت کروا دی تھی لیکن خود بیعت نہیں کرتے تھے.غالباً 1927ء میں انہوں نے بیعت کی ہے.مجھے یاد ہے جب انہوں نے بیعت کی تو ساتھ یہ درخواست کی کہ میری بیعت ابھی مخفی رہے.

Page 219

$ 1949 210 خطبات محمود انہوں نے کہا میں ریٹائر ہو چکا ہوں اور اب ملازمتیں ریاستوں میں ہی مل سکتی ہیں اس لیے اگر میری بیعت ظاہر نہ ہو تو ملازمت حاصل کرنے میں سہولت رہے گی.جب وہ ہمارے سلسلہ میں داخل ہوئے ہیں اُس وقت وہ ریاست مالیر کوٹلہ یا جے پور میں ملازم تھے.بیعت کر کے وہاں کی جانے کی بجائے شملہ چلے گئے.میں بھی چند دنوں کے لیے شملہ گیا اور انہوں نے مجھے دعوت پر بلایا ت اور کہا اور تو میں کوئی خدمت نہیں کر سکتا لیکن یہ تو کر سکتا ہوں کہ دعوت پر بڑے بڑے آدمیوں کو بلا لوں اور آپ کا واقف کرا دوں اور مجھے ثواب مل جائے گا.میں دعوت پر چلا گیا انہوں نے بڑے بڑے آدمی بُلائے ہوئے تھے.میں اس انتظار میں تھا کہ کوئی اعتراض کرے اور میں اس کا جواب دوں کہ وہ کھڑے ہو گئے اور حاضرین کا شکریہ ادا کرتے ہوئے تقریر میں انہوں نے کہا یہ بڑی خوشی کی بات ہے کہ امام جماعت احمد یہ یہاں تشریف لائے ہیں.جو شخص کسی قوم کا لیڈر ہوتا ہے ہمیں اُس کا احترام کرنا چاہیے.وہ ہمیں دین کی باتیں سنائیں گے خواہ ہم مانیں یا نہ مانیں ان سے ہمیں فائدہ پہنچے گا.اس طرح تھوڑی دیر وہ تقریر کرتے رہے.دو تین جملوں کے بعد وہ تقریر کرتے ہی ہوئے یکدم جوش میں آگئے اور کہنے لگے اس زمانہ میں ایک شخص آیا اور وہ کہتا ہے کہ میں خدا تعالیٰ ہے کی طرف سے مامور ہوں.اگر آپ لوگ اسے نہیں مانیں گے تو آپ پر خدا تعالیٰ کی طرف عذاب آ جائے گا.جب وہ تقریر کر کے بیٹھ گئے تو میں نے کہا دیکھیے ! نواب صاحب! میں نے تو ظاہر نہیں کیا کہ آپ احمدی ہیں.آپ نے تو خود ہی ظاہر کر دیا ہے.وہ کہنے لگے مجھ سے رہا نہیں گیا.میں نے کہا میں تو پہلے ہی سمجھتا تھا کہ کچی احمدیت چھپی نہیں رہتی.آپ خواہ کتنا بھی چھپائیں یہ ظاہر ہو کر رہے گی.اس میں کوئی حبہ نہیں کہ وہ چندے با قاعدگی کے ساتھ دیتے تھے مگر جماعتی کاموں میں انہوں نے چند سال پہلے تک کوئی نمایاں حصہ نہیں لیا تھا لیکن یہ موقع انہیں ایسا ملا کہ جب تک یہ مرکز قائم رہے گا ان کا نام بطور یادگار دنیا میں لیا جائے گا.یہ ضروری نہیں کہ قادیان کے کے واپس مل جانے پر اس مرکز کی اہمیت کم ہو جائے.اوّل تو ہمیں ایک ہی وقت میں کئی مرکزوں کے کی ضرورت ہے.دوسرے یہ مرکز ایک پیشگوئی کے ماتحت قائم کیا جا رہا ہے اور جو مرکز پیشگوئی ہے کے ماتحت قائم کیا جائے اُس میں اور دوسرے مرکزوں میں بہر حال امتیاز ہوتا ہے.یہ مقام چونکہ اللہ تعالیٰ کی پیشگوئی کے ماتحت قائم کیا جا رہا ہے.اسی لیے ہم سمجھتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کے فرشتے اس

Page 220

* 1949 211 خطبات محمود کی حفاظت کریں گے اور اس کی برکتیں اس سے وابستہ رہیں گی اور یقیناً اس مقام سے تعلق رکھنے کی وجہ سے نواب صاحب مرحوم کا نام بھی قیامت تک قائم رہے گا.مجھے چودھری مشتاق احمد صاحب کا انگلستان سے جو خط آیا ہے اُس میں انہوں نے میری 1944 ء کی ایک خواب لکھی ہے جو یہ ہے کہ میں نے رویا میں اُن کی بیوی کلثوم کو دیکھا کہ وہ کہہ رہی ہے کہ بابا جی اتنے بیمار ہوئے لیکن ہمیں کسی نے اطلاع تک نہیں دی.چودھری صاحب لکھتے ہیں کہ بالکل ایسا ہی واقعہ اس وقت ہوا ہے.ہمیں اُن کی بیماری کی اطلاع تک نہیں ملی اور اب وفات کی خبر بھی صرف آپ کی طرف سے ملی ہے.خاندان کے کسی اور فرد کی طرف سے نہیں ملی.حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کے رشتہ داروں میں سے بھی کسی کو اُن کی بیماری کی خبر نہیں ملی.چودھری محمد شریف صاحب وکیل نے مجھے لکھا کہ وفات کی دن شام کے وقت ڈاکٹر آیا اور اُس نے کہا کہ خطرہ کی کوئی بات نہیں.چودھری عزیز احمد صاحب جو سب حج ہیں مجھے اطلاع کا خط لکھنے لگے تو والد صاحب نے منع کر دیا اور کہا کیا ضرورت ہے؟ پس خواب میں ہم سے مراد صرف کلثوم ہی نہیں تھی بلکہ ای سارے رشتہ دار مراد تھے.میں نے یہ ذکر تفصیل کے ساتھ اس لیے کیا ہے کہ تا اس قسم کے لوگوں کے نیک افعال آئندہ کے لیے بطور یادگار رہیں.ނ 669 رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں اُذْكُرُوا مَوْتَاكُمُ بِالْخَيْرِ - 10 عام طور پر اس کے یہ معنے کئے جاتے ہیں کہ مُردوں کی بُرائی بیان نہیں کرنی چاہیے.وہ فوت ہو گئے ہیں اور اُن کا معاملہ اب خدا تعالیٰ سے ہے.یہ معنی اپنی جگہ درست ہیں لیکن درحقیقت اس میں ایک قومی نکتہ بھی بیان کیا گیا ہے.آپ نے اُذْكُرُوا الْمَوْتَى بِالْخَيْرِ ، بالخیر نہیں فرمایا بلکہ آپ نے ”مَوْتَاكُمُ“ کا لفظ استعمال کیا ہے.یعنی اپنے مُردوں کا ذکر نیکی کے ساتھ کرو جس کے معنی یہ ہیں کہ آپ نے یہ صحابہ کے متعلق ارشاد فرمایا ہے.دوسری جگہ آپ فرماتے ہیں اَصْحَابِی النُّجُومِ بِاَتِهِمُ اقْتَدَيْتُمُ اهْتَدَيْتُمُ - 11- میرے سب صحابی ستاروں کی مانند ہیں.تم اُن میں سے جس کے پیچھے بھی چلو گے ہدایت جاؤ گے.کیونکہ صحابہ میں سے ہر ایک کو کوئی نہ کوئی خدمت کا موقع ایسا ملا ہے جس میں و

Page 221

$1949 212 خطبات محمود " منفر دنظر آتا ہے.اسی لیے آپ نے ”موتَاكُم “ کا لفظ استعمال فرمایا ہے کہ تم ان کو ہمیشہ یاد رکھا کرو تا تمہیں یہ احساس ہو کہ ہمیں بھی اس قسم کی قربانیاں کرنی چاہیں اور تا نو جوانوں میں ہمیشہ قربانی، ایثار اور جرات کا مادہ پیدا ہوتا رہے اور وہ اپنے بزرگ اسلاف کے نقش قدم پر چلنے کی کوشش کرتے رہیں“.(الفضل 31 جولائی 1949ء) 66 1 : اليواقيت و الجواهر جلد 2 صفحه 22 مطبوعہ مصر 1351ھ میں لَمَا" کی جگہ "ما" ہے.2 : تاریخ ابن اثیر جلد 2 صفحہ 327 تا 329 مطبوعہ بیروت 1965ء 3 : بخاری کتاب الاحكام باب الإستخلافِ 4 : تاريخ الخلفاء للسيوطى صفحہ 51 مطبوعہ لاہور 1892ء 5 : تاریخ کامل ابن اثیر جلد 2 صفحہ 335 مطبوعہ بیروت 1965ء 6 : بخارى كتاب الجهاد باب دُعَاءِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم إِلَى الاسلام (الخ) نیز مسلم کتاب فضائل الصَّحَابة رضى الله عنهم باب من فضائل ابى دجانة (الخ) 7 سیرت ابن هشام جلد 4 صفحہ 161 مطبوعہ مصر 1936ء 8 : پدر بھیڑے: ایک قسم کی جڑی بوٹی جو برسات کے دنوں میں زمین سے نکلتی ہے.پنجابی اردو لغت مرتبه و مؤلفه تنویر بخاری صفحه 343 ناشر اردوسائنس بورڈ لاہور 1989ء) و: تذکرہ صفحہ 401.ایڈیشن چہارم 10 : مرقاة المفاتيح شرح مشكوة المصابيح جلد 6 صفحہ 271 مکتبہ امدادیہ ملتان 1968ء 11 :مشكوة باب مناقب الصحابة صفحہ 554 مطبوعہ دہلی 1932ء

Page 222

* 1949 213 22 خطبات محمود رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کی امت کی قربانیوں اور ذمہ داریوں کا زمانہ قیامت تک ممتد ہے (فرمودہ 22 جولائی 1949ء بمقام پارک ہاؤس کوئٹہ ) تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے مندرجہ ذیل آیت قرآنیہ کی تلاوت کی: قُلْ إِنَّ صَلَاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ 1 اس کے بعد فرمایا: ”دنیا میں ہر نبی کے آنے پر اُس کو اور اُس کی جماعت کو مختلف قسم کی قربانیاں کرنی پڑتی ہیں.لیکن دوسرے نبیوں کی قربانیوں اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قربانیوں میں یہ فرق ہے کہ دوسرے نبیوں کی قربانیاں کسی نہ کسی جگہ پر جا کر ختم ہو گئیں.لیکن رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور ان آپ کی جماعت کی قربانیاں قیامت تک ختم نہیں ہوں گی.دنیا میں اگر کسی کو ملیر یا بخار آتا ہے تو اس کو یہ تسلی ہوتی ہے کہ دو چار دن میں یہ بخار اتر جائے گا.اسے یقین ہوتا ہے کہ اس تکلیف کے لیے ایک وقت مقرر ہے اُس وقت پر جا کر یہ خود بخود ختم ہو جائے گی.یا ٹائیفائڈ ہے یہ بیشک ایک سخت مرض ہے اور لمبے عرصہ تک چلا جاتا ہے لیکن بہر حال کسی نہ کسی وقت پر جا کر یہ بیماری ختم

Page 223

* 1949 214 خطبات محمود ہو جاتی ہے اور مریض سمجھتا ہے کہ اسے یہ بوجھ چودہ یا اکیس دن تک اٹھانا پڑے گا.لیکن ایک بیماری ایسی ہوتی ہے جو ہمیشہ ہمیش تک چلی جاتی ہے.گویا کہ وہ تمام عمر کا روگ ہوتا ہے.مثلاً سل، دق اور دمہ کی بیماریاں ہیں ان کے متعلق انسان کو یہ امید نہیں ہوتی کہ یہ جلدی ختم ہو جائیں گی.بلکہ وہ سمجھتا ہے کہ ایک لمبے عرصہ تک مجھے یہ بیماریاں برداشت کرنا پڑیں گی.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کی امت کا بوجھ بھی ایسا ہی ہے جو قیامت تک کے لیے ہے.ہم دیکھتے ہیں کہ سوائے حضرت موسی علیہ السلام کے کوئی نبی بھی ایسا نہیں گزرا جس کی تعلیم ایک ہزار سال سے زیادہ عرصہ تک قائم رہی ہو.زیادہ سے زیادہ عرصہ حضرت موسی علیہ السلام کی تعلیم کا ہے جو دو ہزار سال کے قریب رہی.لیکن محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کی امت کا بوجھ صرف دو ہزار سال کے لیے نہیں بلکہ قیامت تک کے لیے ہے.بعض لوگوں نے اپنے آپ کو تسلی دینے کے لیے قیامت کو بہت نزدیک کرنے کی کوشش کی ہے اور وہ بعض احادیث کے غلط معنے کر کے یہ کوشش کرتے رہے ہیں کہ کسی طرح یہ بوجھٹل جائے.مثلاً وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث أَنَا وَالسَّاعَةُ كَهَاتَینِ 2 کے یہ معنے کرتے ہیں کہ میں اور قیامت دو انگلیوں کی طرح آپس میں ملے ہوئے ہیں.یعنی جس طرح انگشتِ شہادت اور وسطی دونوں انگلیاں آپس میں ملی ہوئی ہیں اسی طرح میں اور قیامت آپس میں ملے ہوئے ہیں.لیکن اگر قیامت آپ کے ساتھ اسی کی طرح ملی ہوئی تھی تو آپ کی وفات کے فوراً بعد نہ سہی دس میں سال کے بعد تو آ جانی چاہیے تھی ، پچاس سال کے بعد آجانی چاہیے تھی ، سو سال کے بعد آجانی چاہیے تھی ، دوسو یا تین سو سال کے بعد آ جانی چاہیے تھی.مگر تیرہ سو سال سے اوپر عرصہ گزر گیا اور ابھی تک قیامت نہیں آئی.دراصل اس حدیث کا یہ مطلب تھا کہ میرے اور قیامت کے درمیان کوئی نئی شریعت والا نبی نہیں آئے گا.میرا زمانہ اور قیامت آپس میں ملتے ہیں اور خواہ قیامت دو کروڑ سال کے بعد ہی کیوں نہ آئے میرے اور اس کے درمیان کوئی اور شریعت نہیں آئے گی.چنانچہ وہ بات تو غلط نکلی.تمام مسلمان ہے سمجھتے تھے اور یہ بات سچی نکلی.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے تیرہ سو سال کے بعد اگر کوئی نبی آیا بھی تو اس نے آکر یہی بات کہی کہ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے جُدا نہیں ہوں.میں آپ کے ہی خادموں میں سے ایک خادم ہوں اور آپ کے دین کی اشاعت کے لیے

Page 224

$1949 215 خطبات محمود آیا ہوں.مجھے نبوت کا انعام رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع اور آپ کی غلامی میں ہی ملا ہے.گویا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جو یہ فرمایا تھا کہ میں اور قیامت ان دو انگلیوں یعنی انگشت شہادت اور وسطی کی طرح آپس میں ملے ہوئے ہیں اس کے محض اتنے ہی معنے تھے کہ میرے اور قیامت کے درمیان کوئی اور نبی نہیں آئے گا.اور اگر آئے گا تو ایک رنگ میں وہ میں ہی ہوں گا.اس کا یہ مطلب نہیں تھا کہ میں اور قیامت آپس میں دو انگلیوں کی طرح اس طرح ملے ہوئے ہیں کہ میں فوت ہوا تو قیامت واقع ہو جائے گی.اگر اس کے یہی معنی تھے تو آپ کی وفات کے بعد قیامت آجانی چاہیے تھی.مگر تیرہ سو سال کا عرصہ گز گیا اور ابھی تک قیامت نہیں آئی بلکہ آپ کے دعوی کو لیا جائے تو اس پر قریباً چودہ سو سال کا عرصہ ہو چکا ہے.پھر ابھی مسلمانوں کے اعتقاد کے مطابق مسیح اور مہدی نے بھی آنا ہے.لیکن قیامت کے جو آثار اور علامات بیان کی جاتی ہیں وہ ابھی موجود نہیں.قیامت دو ہی طرح آسکتی ہے.اوّل اس طرح کہ دنیا کی مادی حیثیت ایسی ہو جائے کہ اس میں انسان رہ نہ سکے مگر یہ تغیر ابھی تک نظر نہیں آتا.دوم اس طرح کہ اس کی اقتصادی حالت ایسی ہو جائے کہ اس میں کوئی آدمی نہ رہ سکے اور یہ تغیر بھی ابھی تک پیدا نہیں ہوا.ایٹم بم کے متعلق جو عام طور پر تصور پایا جاتا ہے وہ بھی درست نہیں.ایٹم بم سے چند بڑے بڑے شہروں کو ہی تباہ کیا جا سکتا ہے کیونکہ ایک ایک ایٹم بم پر دو تین کروڑ روپیہ خرچ آتا ہے اور اتنا روپیہ خرچ کرنے کے بعد وہ کونسی حکومت ہوگی جو اسے چھوٹے چھوٹے قصبات اور گاؤں پر پھینکنا شروع کر دے.یہ تو چند بڑے بڑے شہروں کو تباہ کرنے کے لیے ہی استعمال کیا جا سکتا ہے جن کے متعلق یہ سمجھا جائے کہ اگر وہ شہر برباد ہو گئے تو قوم کی ریڑھ کی ہڈی ٹوٹ جائے گی یا اس کی قدر اقتصادی نقصان پہنچ جائے گا کہ وہ پھر اُٹھ نہ سکے گی.ورنہ چھوٹے چھوٹے قصبات اور گاؤں ایٹم بم سے اسی طرح محفوظ ہیں جیسے ہوائی جہازوں سے پھینکے جانے والے دوسرے بموں سے.اگر کوئی حکومت چھوٹے چھوٹے قصبات پر ایٹم بم پھینکنا شروع کر دے تو اس کا دیوالہ نکل جائے.غرض ابھی تک کوئی ایسی چیز نظر نہیں آئی جو دنیا کے خاتمہ پر دلالت کرتی ہو.پھر اقتصادی لحاظ سے بھی یہ دنیا ابھی ہزاروں سال تک باقی رہ سکتی ہے.آجکل سب سے زیادہ اہم سوال خوراک کا ہے ހނ

Page 225

* 1949 216 خطبات محمود اور یہ کہا جاتا ہے کہ خوراک کی وجہ سے اس دنیا کا زیادہ دیر تک چلنا مشکل ہے لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ ہر جنگ کے بعد غلہ کی قیمت گرنی شروع ہو جاتی ہے.پچھلی جنگ کے بعد لوگوں نے یہ کہنا ہے شروع کر دیا تھا کہ دنیا اب باقی نہیں رہ سکتی اب قیامت آ جائے گی اور یہ دنیا تباہ و برباد ہو جائے گی لیکن 1928ء اور 1929ء میں غلہ کی قیمت گر کر سواروپیہ فی من پر آ گئی تھی اور قیمت کم اس لاین وقت ہوتی ہے جب اُس کے خریدار کم ہوں.1928 ء ، 1929ء میں غلہ کی قیمت اتنی کم ہو گئی تھی اوری کہ زمینداروں کے لیے حکومت کو مالیہ ادا کرنا بھی مشکل ہو گیا تھا.مجھے یاد ہے ان دنوں ایک مینی سیکھ رئیس میرے پاس آیا.وہ کانگرس سے ہمدردی رکھتا تھا.اس کے پاس ہیں بچھپیں مربع زمین تھی.اس نے کہا گانگرس سے ہمدردی رکھنے کی وجہ سے حکومت مجھ سے دشمنی کرتی ہے آپ میری سفارش کر دیں.میں گندم کا ایک دانہ بھی نہیں اُٹھا تا سب گندم حکومت اُٹھائے لیکن مجھ سے مالیہ کا مطالبہ نہ کیا جائے.اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اُس وقت گندم کی قیمت کس حد تک گر گئی تھی ہی اور یہ اُسی وقت ہوتا ہے جب کھانے والے کم ہوں.گزشتہ سالوں میں جو قحط پڑے ہیں وہ عارضی حالات کا نتیجہ تھے.آبادی کا بہت سا حصہ ایسا تھا جولڑائی کی وجہ سے اپنی جگہ چھوڑ کر دوسرے علاقہ میں بھاگ کر چلا گیا تھا اور اس طرح اس علاقہ میں پوری طرح کاشت نہ ہو سکی.یا لوگوں کے مکانات گر گئے تھے اور وہ جلد اپنے علاقوں میں دوبارہ نہ بس سکے جس کی وجہ سے پوری طرح کاشت نہ ہوسکی.اور بھی کئی قسم کی تباہیاں آئیں مثلاً بیج نہیں مل سکتے تھے جس کی وجہ سے قحط کے آثار پیدا ہو گئے لیکن اب لوگ اپنی اپنی جگہ واپس لے چلے گئے ہیں اور کاشت میں جو روکیں تھیں وہ دُور ہو چکی ہیں.اس سے اب غلہ بڑھ رہا ہے لیکن قطع نظر اس سے کہ موجودہ زمین کی آمد دنیا کو پالنے کے لیے کافی ہے.قرآن کریم سے ہمیں معلوم ہوتا ہے اگر صحیح طور پر زمین کی طاقتوں کو استعمال کیا جائے تو چار پانچ سو من فی ایکڑ پیداوار ہو سکتی ہے.یہ بات بظاہر عجیب معلوم ہوتی ہے لیکن مجھے ایک ماہر سائنسدان نے بتایا ہے کہ زمین کے نمک جن سے غلہ پیدا ہوتا ہے پوری طرح استعمال کیے جائیں تو گندم کی آمد دو سو من فی ایکڑ تک ہو سکتی ہے اور جب دوسو من فی ایکڑ آمد ہو سکتی ہے تو چار پانچ سو من فی ایکڑ بھی ناممکن نہیں.اس وقت اوسط آمد آٹھ دس من فی ایکڑ سے بھی کم ہے لیکن اس مقدار

Page 226

$ 1949 217 خطبات محمود تک گندم کی آمد کو پہنچایا جائے جو قرآن کریم سے معلوم ہوتی ہے تو موجودہ دنیا اگر 48 گنا اور بڑھ جائے تب بھی اس کا گزارہ ہو سکتا ہے اور اس کے لیے کئی ہزار سال کا عرصہ درکار ہے.غرض خوراک کے لحاظ سے بھی دنیا موجودہ دور میں ہزاروں سال تک چل سکتی ہے.پس اَنَا وَالسَّاعَةُ كَهَاتَيْنِ والی حدیث کے معنے قرب قیامت کے کرنے درست نہیں.باقی رہا خدا تعالیٰ کا فعل سو وہ اگر مارنا چاہتا تو حضرت موسی علیہ السلام کے زمانہ میں بھی ایسا کر سکتا تھا بلکہ اگر وہ اس دنیا کو پیدا ہی نہ کرتا ہے تو کیا تھا؟ پس خدا تعالیٰ ہی جانتا ہے کہ قیامت کب آئے گی.ہم اس کے متعلق کچھ نہیں کہہ سکتے.غرض رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کی امت کی قربانیوں اور ذمہ داریوں کا زمانہ کی قیامت تک ممتد ہے اور ان کا کوئی دوسرا نبی اور اس کی قوم مقابلہ نہیں کر سکتی.پھر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کی امت کی قربانیاں اور ذمہ داریاں نہ صرف سب سے زیادہ ہیں بلکہ خدا تعالیٰ نے آپ کی اور آپ کی امت کی قربانیوں اور ذمہ داریوں کی نوعیت کو بھی بدل دیا ہے.گویا نہ صرف زمانہ کو نا معلوم حد تک لمبا کر دیا گیا ہے بلکہ قربانیوں کی نوعیت کو بھی بدل دیا ہے.اسی مالی کی طرف یہ آیت اشارہ کرتی ہے جس کی میں نے ابھی تلاوت کی ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اے میرے رسول! تُو لوگوں سے کہہ دے کہ اِنَّ صَلَاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلهِ رَبِّ الْعَلَمِینَ میری نماز اور میری قربانی اور میری زندگی اور میری موت سب خدا تعالیٰ کے لیے ہیں جو سب جہانوں کا رب ہے.اس آیت میں گو مخاطب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہیں لیکن دوسرے لوگ بھی مخاطب ہیں.یہ تو ظاہر ہے کہ اس کے مخاطب صرف رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نہیں ہو سکتے.قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ بار بار فرماتا ہے اے میرے رسول! تو ان لوگوں سے کہہ دے کہ تمہاری نجات اسی بات میں ہے کہ تم میرے کامل تقبع بنو.ایک مشہور آیت یہ ہے کہ قل إن كُنتُمْ تُحِبُّونَ اللهَ فَاتَّبِعُونِي يُكُمُ الله 3 یعنی اے میرے رسول ! تو ان کی سے کہہ دے کہ اگر تمہیں اللہ تعالیٰ سے محبت ہے تو تم میرے پیچھے چلو اور میرے اعمال کی نقل کرو خدا تعالیٰ تم سے محبت کرنے لگ جائے گا.پس قُلْ اِنَّ صَلَاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِيْنَ کی آیت جیسے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ہے ویسے ہی دوسرے لوگوں کے لیے بھی ہے کیونکہ انہیں آپ کی مکمل اتباع کا حکم ہے.

Page 227

خطبات محمود 218 * 1949 صلوۃ کے معنے نماز کے ہیں اور نماز ایسی چیز ہے جس کا تعلق جسم، دماغ اور دل کے ساتھ ہوتا ہے.پس’صلوۃ اس قربانی کو کہتے ہیں جو جسم اور دل و دماغ سے تعلق رکھتی ہو.اور نَسِيكَة جسم سے باہر کی قربانی کو کہتے ہیں جو انسان اپنے اموال کی صورت میں پیش کرتا ہو.”صلوۃ میں دل و دماغ اور جسم کے ساتھ تعلق رکھنے والی قربانی کو مد نظر رکھا گیا ہے اور نَسِيكة “ میں اموال کی قربانیوں کو مد نظر رکھا گیا ہے خواہ وہ کسی مقصد کے ماتحت ہوں یا پلا مقصد کی گئی ہوں.نَسِيكَة میں یہ عجیب بات ہے کہ بعض قربانیاں ایک خاص مقصد کے ماتحت کی جاتی ہیں اور بعض بلا مقصد کی جاتی ہیں.مثلاً حج پر لوگ جاتے ہیں اور وہاں قربانیاں کرتے ہیں.حج پر جانے والوں کی تعداد تین تین، چار چار لاکھ تک جا پہنچتی ہے اور ہر ایک شخص یہ کوشش کرتا ہے کہ وہ قربانی کرے.اگر اس موقع پر ایک لاکھ بکرے کی قربانی بھی کی جائے تو وہ لوگ انہیں کھا نہیں سکتے.ایک ایک بکرے کو کھانے کے لیے پچاس پچاس آدمی چاہیں.اس طرح ایک لاکھ بکروں سے حاجیوں کے لیے پانچ ہزار بکرا کافی ہو سکتا ہے یا زیادہ سے زیادہ دس پندرہ ہزار بکرے ان کے اپنے استعمال میں آجائیں گے باقی سب گوشت ضائع چلا جاتا ہے.اسی لیے وہاں ایک کھیل سی کھیلی جاتی ہے اور وہ ہے یہ کہ بکرا ذبح کرنے کے فورا بعد لوگ اُسے اُٹھا کر لے جاتے ہیں.اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ یہاں بکرے کی کوئی قیمت نہیں.میں جب حج پر گیا تو میں نے خیال کیا کہ حج کا موقع بار بار کہاں ملتا ہے اس لیے میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اور حضرت خلیفہ امسیح الاول اور دیگر عزیزوں اور جماعت کی طرف سے سات آٹھ قربانیاں دیں.جب ہم بکرے ذبح کرواتے تھے تو ذبح کرنے والوں کی چُھری ابھی ذبیحہ کے جسم سے باہر نہیں نکلتی تھی کہ عرب آتے ، بکرے کو ٹانگوں سے پکڑتے اور گھسیٹ کر لے جاتے ، اور یہ چیز صرف ہمارے ہی ساتھ نہیں تھی دوسرے سب لوگوں کے ساتھ بھی ایسا ہی ہو رہا تھا.ہر طرف قہقہے لگ رہے تھے جن کا مطلب یہ تھا کہ یہاں بکروں اور دُنبوں کو پوچھتا ہی کون ہے.قصاب نے کہا آپ ایک بکرے کی چھاتی پر بیٹھ جائیے تا کہ آپ کے کھانے کے لیے ایک آدھ بکر ابچ جائے.لیکن سوال یہ تھا کہ ہمیں بھی تو گوشت کی ضرورت نہیں تھی.ہمارے وہاں کونسے واقف اور عزیز تھے جنہیں ہم نے گوشت دینا تھا.

Page 228

$ 1949 219 خطبات محمود یہ سمجھتے تھے کہ یہ لوگ بکروں کو گھسیٹ کر لے جاتے ہیں تو لے جانے دو ہماری طرف سے تو قربانی ہوگئی.اسی وجہ سے بعض مخالفین اعتراض کرتے ہیں کہ حج کے موقع پر جب وہاں لاکھوں کی تعداد میں اکٹھے ہوتے ہیں تو جو قربانیاں کی جاتی ہیں اُن کا کیا فائدہ؟ ویسے تو حج پر غرباء بھی جاتے ہی ہیں لیکن حج کے لیے حکم تو یہی ہے کہ صاحب استطاعت لوگ جائیں اور ہر ایک شخص یہ کوشش کرتا ہے ہے کہ وہ قربانی کرے لیکن اتنا گوشت کھائے گا کون؟ پھر وہاں صرف بکروں اور دُنبوں کی ہی قربانی ہے نہیں دی جاتی بلکہ بعض لوگ اونٹ بھی ذبح کرتے ہیں.حج کے موقع پر گائے کی قربانی بہت کم ہوتی ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اگر چہ ایک دفعہ اپنی بیویوں کی طرف سے گائے کی قربانی کی تھی لیکن اس کا رواج بہت کم ہے.اونٹ کی قربانی لوگ عام کرتے ہیں اور اونٹ کا گوشت سینکڑوں آدمیوں کے لیے کافی ہو جاتا ہے.آریوں کی طرف سے بھی یہ اعتراض کیا جاتا ہے ہے کہ حج کے موقع پر گوشت ضائع کیا جاتا ہے اور ایسے موقع پر کیا جاتا ہے جب لاکھوں کی تعداد میں وہاں مسلمان اکٹھے ہوتے ہیں اور ان کی آنکھوں کے سامنے یہ کام ہوتا ہے.اب بظاہر یہ بات کی بے فائدہ اور بے مقصد معلوم ہوتی ہے لیکن اسلام نے اس کے کرنے کا حکم دیا ہے.در حقیقت دنیا میں ہزاروں کام ایسے ہوتے ہیں جو قوم کو اس لیے کرنے پڑتے ہیں کہ ان کا لیڈر کہتا ہے کہ تم ایسا کرو.وہ موقع ایسا نہیں ہوتا کہ کوئی پوچھے تم نے مجھے یہ حکم کیوں دیا اور میں ایسا کیوں کروں؟ کیونکہ زندہ قومیں جانتی ہیں کہ ایک دوسرے سے بڑھ کر قربانیاں کرنا ہی اصل چیز ی ہے اور یہ ان کے زندہ ہونے کی علامت ہوتی ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا جسم اطہر ہمیشہ کے لیے مبارک تھا اُس کے لیے کوئی خاص وقت برکت کا نہ تھا.جس وقت سے خدا تعالیٰ نے آب کو نبی قرار دیا تھا اُسی وقت سے آپ کا جسم مبارک تھا.پھر صحابہ کے سامنے آپ ایک دفعہ نہیں آئے کم از کم پانچوں وقت نماز کے لیے آپ باہر تشریف لاتے تھے اور آپ کو نماز کے لیے وضو کرنا ہی پڑتا تھا لیکن صحابہ یہ نہیں کرتے تھے کہ آپ کے وضو کا پانی اُٹھا اٹھا کر لے جائیں.لیکن صلح حدیبیہ کے موقع پر آپ وضو کرنے لگے تو صحابہ آئے اور پانی کا ایک ایک قطرہ جو گرا انہوں نے اٹھا کر اپنے منہ اور دوسرے اعضاء پر لیا.ایک صحابی کہتے ہیں کہ شاید ہی کوئی قطرہ نیچے گرا ہو.صحابہ پانی لینے کے لیے ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرتے تھے اور اس طرح لڑتے تھے کہ

Page 229

$ 1949 220 خطبات محمود گویا وہ ایک دوسرے کو مار ڈالیں گے.4 ہم یہ مانتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے کپڑوں اور ان کے مستعمل پانی میں بھی برکت تھی.لیکن ہم یہ نہیں مانتے کہ برکت اُس دن ہی تھی پہلے نہیں تھی.اُس دن اگر صحابہ نے ایسا کیا تو دنیا کو دکھانے کے لیے کیا تھا.آپ کے شدید ترین دشمن آئے ہوئے تھے اور اُن میں سے ایک نے یہاں تک کہہ دیا تھا کہ تم آوارہ گرد لوگوں پر اعتبار کرتے ہو.لوگ وقت پر تمہارے کام نہیں آئیں گے.وقت پر کام آنے والے وہی لوگ ہوں گے جن کا آپ سے خونی رشتہ ہے.اس لیے صحابہ اُس وقت یہ دکھانا چاہتے تھے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے قربانی کرنا تو الگ رہا ہمیں آپ سے اتنی محبت ہے کہ تم اس کا خیال بھی نہیں کر سکتے.ہم تو آپ کے مستعمل پانی کو بھی نیچے گرنے دینا پسند نہیں کرتے.تو دیکھو وہی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم تھے، وہی صحابہ تھے اور وہی پانی تھا جو روزانہ پانچ وقت کم سے کم وضو کرتے ہوئے صحابہ کے سامنے نیچے گرتا تھا لیکن حدیبیہ کے موقع پر صحابہ نے اپنی محبت کا یہ نمونہ دکھایا کہ پانی نیچے نہیں گرنے دیا اور ثابت کر دیا کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جو انہیں محبت ہے وہ دشمن کے واہمہ میں بھی نہیں آسکتی.مگر یہاں تو ایک مقصد تھا جس کو سامنے رکھ کر صحابہ نے ی کام کیا لیکن بعض دفعہ ایسی قربانی بھی کی جاتی ہے جس کا بظاہر کوئی فائدہ نہیں ہوتا اور قربانی کرنے والا بھی یہ نہیں جانتا کہ وہ کیوں ایسا کر رہا ہے.وہ صرف اتنا جانتا ہے کہ خدا تعالیٰ نے ایسا کرنے کا کی حکم دیا ہے اور وہ اس کے حکم کی فرمانبرداری میں ایسا کر رہا ہے.صلح حدیبیہ کے موقع پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مشرکین مکہ سے صلح کر لی جس کی وجہ سے صحابہ کے اندر اس قدر بے چینی پیدا ہوگئی کہ حضرت عمر جیسا آدمی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گیا اور انہوں نے کہا یا رَسُولَ الله ! کیا اللہ تعالیٰ نے آپ سے وعدہ نہیں کیا تھا کہ ہم طواف کعبہ کریں گے یا کیا اسلام کے لیے غلبہ مقدر نہیں تھا؟ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیوں نہیں ! حضرت عمر نے کہا پھر ہم نے دب کر صلح کیوں کر لی؟ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بیشک خدا تعالیٰ نے وعدہ کیا تھا کہ ہم طواف کریں گے مگر یہ نہیں تھا کہ اسی سال کریں گے.5 صحابہ پر اس صدمہ کا اتنا اثر تھا کہ اس کی برداشت ان کے لیے ناممکن ہو گئی تھی.اس لیے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب فرمایا کہ قربانیاں یہیں ذبح کر دو تو یہ بات انہیں عجیب سی

Page 230

* 1949 221 خطبات محمود معلوم ہوئی.وہ سمجھتے تھے کہ قربانی تو مکے میں ہوئی تھی اور پھر عمرہ یا حج کے بعد ہوئی تھی اور جب ہم مکہ گئے نہیں، خانہ کعبہ کا طواف کیا نہیں یا ہم نے عمرہ یا حج کیا نہیں تو پھر یہ قربانی کیسی ؟ اسی لیے جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ قربانیاں یہیں ذبح کر دو تو انہوں نے اس کی طرف کوئی توجہ نہ دی.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم گھر تشریف لے گئے.آپ کی عادت تھی کہ جب کسی بات پر آپ ناراض ہو جاتے.طبیعت میں جوش آجاتا تو اپنی بیویوں کو مخاطب کرتے ہوئے فرماتے تمہارے بھائیوں یا تمہاری قوم نے ایسا کیا ہے.اُس وقت اپنی طرف قوم کی نسبت نہ فرماتے.غرض آپ اپنے گھر تشریف لے گئے اور اپنی بیوی سے فرمایا آج تیری قوم کو میں نے یہ حکم دیا تھا کہ قربانیاں یہیں ذبح کر دو مگر وہ اپنی جگہوں سے اُٹھے نہیں اور ان پر میری آواز کا کچھ اثر نہیں ہوا.انہوں نے کہا يَا رَسُولَ اللہ ! اتنی قربانیاں کرنے کے بعد یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ آپ حکم دیں اور صحابہ جان بوجھ کر اس کی نافرمانی کریں.انہوں نے محبت کی کمی کی وجہ سے ایسا نہیں کیا بلکہ صدمہ کا ان پر اس قدراثر ہے کہ وہ اپنے حواس میں نہیں ہیں.وہ یہ امیدیں لے کر آئے تھے کہ ہم دس بارہ سال کے بعد مکہ جائیں گے عمرہ یا حج کریں گے اور اپنے دلوں کو خوش کریں گے.انہیں یہ گمان بھی نہیں تھا کہ اُن کے راستہ میں کوئی روک پیدا ہو جائے گی.آپ نے مشرکین مکہ سے صلح کر لی جس کی وجہ سے انہیں صدمہ پہنچا.پس آپ کے حکم پر اُن کا قربانی کرنے کے لیے تیار نہ ہونا ایمان کی کمزوری کی وجہ سے نہیں بلکہ اس صدمہ کے اثر کی وجہ سے ہے.آپ سیدھے جا کر اپنی قربانی ذبح کی کرنا شروع کر دیجیے.6 صحابہ کو کچھ نہ کہیں.پھر دیکھیے کیا ہوتا ہے.آپ نے فرمایا بہت اچھا! آپ نے نیزہ ہاتھ میں لے لیا اور صحابہ کی طرف کوئی توجہ کیے بغیر سید ھے اپنی قربانی کی طرف گئے.آپ کا اونٹ کو نیزہ مارنا تھا کہ صحابہ پاگلوں کی طرح اپنی جگہوں سے اٹھے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف دوڑے.کچھ صحابہ آپ کی مدد کرنے لگ گئے اور کچھ اپنی قربانیاں ذبح کرنے لگ گئے.اس وقت صحابہ میں اس قدر جوش پایا جاتا تھا کہ وہ ایک دوسرے سے تلوار میں چھینتے تھے اور ی ان میں سے ہر ایک کی یہ کوشش تھی کہ میں دوسرے سے پہلے قربانی ذبح کر لوں اور تھوڑی دیر میں انہوں نے سب قربانیاں ذبح کر دیں.7 یہ قربانی بظاہر بے معنی تھی ، صحابہ مکہ میں داخل نہیں ہوئے ، انہوں نے خانہ کعبہ کا طواف نہیں کیا تھا ، انہوں نے عمرہ یا حج نہیں کیا تھا مگر پھر بھی ان.ނ

Page 231

$ 1949 222 خطبات محمود قربانیاں کروائی گئیں کیونکہ خدا تعالیٰ یہ بتانا چاہتا تھا کہ کسی جگہ کو بالذات تقدیس حاصل نہیں ہوتی.خدا تعالیٰ جس جگہ کو مقدم قرار دے دیتا ہے وہی مقدس بن جاتی ہے.ایک اردو شاعر نے کہا ہے.جدھر ملے وہ قبلہ اُدھر طواف کریں یعنی ہم تو اپنے معشوق کے دیوانے ہیں اور ہمارا قبلہ ہمارا معشوق ہے.جہاں وہ ملے ہم طواف کر لیں گے.گویا اللہ تعالیٰ نے صلح حدیبیہ کے واقعہ میں مسلمانوں کو یہ سبق دیا کہ بیشک خانہ کعبہ ایک مقدس ترین مقام ہے جس کا طواف کیا جاتا ہے مگر اس کو تمہارے خدا نے ہی مقدس بنایا ہے.اگر لوگ تمہیں وہاں نہیں جانے دیتے، تمہیں رستہ میں ہی روک لیتے ہیں تو جہاں وہ روک دیتے ہیں وہیں قربانی کر دو.کیونکہ وہی جگہ خدا تعالیٰ کا گھر ہے.غرض بظاہر یہ ایک بے مصرف قربانی تھی، ایک نسنگہ تھی جو صحابہ نے بیسیوں دفعہ بعد میں کی لیکن اپنے اندر ایسی شان رکھتی تھی کہ دوسری قربانیاں اس کے سامنے بیچ ہیں.مکہ فتح ہوا اور بعض صحابہ نے ہمیں ہیں، تمھیں تمہیں حج کیسے اور قربانیاں بھی کیں لیکن روحانیت سے دیکھنے والی آنکھ جانتی ہے کہ وہ قربانیاں صلح حدیبیہ والی قربانی کے سامنے کچھ قیمت کی نہیں رکھتیں.کیونکہ وہاں خدا تعالیٰ خود اُتر آیا تھا اور خدا تعالیٰ کے سامنے جو قربانی کی جائے اُس کے سامنے دوسری قربانیاں حیثیت ہی کیا رکھتی ہیں.وہاں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے خدا تعالیٰ خود جلوہ افروز ہوا اور اس نے خود جلوہ فرما کر مشرکین مکہ کو بتا دیا کہ تم کہتے ہو خانہ کعبہ ہمارا ہے ہم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے ساتھیوں کو وہاں داخل نہیں ہونے دیں گے.سو ہم عارضی طور پر اسے تمہارا ہی سمجھ لیتے ہیں اور اپنا گھر اس جگہ کو قرار دے دیتے ہیں جہاں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے ساتھی اُترے ہوئے ہیں.غرض بظاہر یہ ایک بے حقیقت قربانی تھی لیکن کتنا فلسفہ ہے جو اس میں پایا جاتا ہے.پس قُلْ إِنَّ صَلَاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ میں یہ بتایا گیا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کی امت اگر ایک طرف جسم اور دل اور دماغ سے تعلق رکھنے والی قربانیاں پیش کرتی ہے تو دوسری طرف وہ نَسِيكَة یعنی

Page 232

$ 1949 223 خطبات محمود اموال سے تعلق رکھنے والی قربانی جو خواہ کسی مقصد کے ماتحت ہو یا ہلا مقصد ہو پیش کرتی ہے ہے اور اس میں کوئی دوسرا نبی اور اس کی قوم آپ کا مقابلہ نہیں کر سکتی.18 : الانعام: 163 (الفضل 16 دسمبر 1959 ء ) 2 : بخاری کتاب الرقاق باب قول النبي صلى الله عليه وسلم بعثت انا والساعة كهاتين 38 : آل عمران : 32 4 تا 7 : بخارى كتاب الشروط باب الشروط في الجهاد

Page 233

* 1949 224 23.خطبات محمود قربانی کی وہ روح اپنے اندر پیدا کرو جو الہی جماعتوں میں کارفرما ہوتی ہے (فرمودہ 29 جولائی 1949ء بمقام پارک ہاؤس کوئٹہ ) تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: آج میں اختصاراً جماعت کو ایک اہم امر کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں.وہ بات ایسی ہے کہ قادیان میں بھی میں دوستوں کو اس کی طرف توجہ دلاتا رہا ہوں اور ہجرت کے بعد بھی میں نے بار ہا توجہ دلائی ہے.مگر افسوس ہے کہ جماعت اس مضمون کو پوری طرح سمجھ نہیں سکی اور میں ڈرتا ہے ہوں کہ اگر اس طرف جلد توجہ نہ کی گئی تو ممکن ہے کہ قربانیوں کا وقت آنے پر بعض لوگ گر جائیں اور اپنے پہلے ایمان کو بھی کھو بیٹھیں.وہ بات یہ ہے کہ الہی جماعتیں ہمیشہ ایک خاص رنگ میں ترقی کیا کرتی ہیں اور آج تک اس میں ہمیں کوئی استثناء نظر نہیں آتا.حضرت نوح علیہ السلام کا زمانہ ہمارے سامنے.حضرت ابراہیم علیہ السلام کا زمانہ ہمارے سامنے ہے، حضرت موسی علیہ السلام کا زمانہ ہمارے سامنے ہے، حضرت عیسی علیہ السلام کا زمانہ ہمارے سامنے ہے، پھر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ جن حالات میں سے گزرے اُن سے بھی ہم ناواقف نہیں.ان کے علاوہ باقی انبیاء جن کا ذکر

Page 234

$1949 225 خطبات محمود قرآن کریم نے مختصراً کیا ہے یا نہیں کیا اُن کے زمانے بھی ہمارے سامنے ہیں.یہ تمام کے تمام انبیاء ایسے تھے جن کی جماعتیں ایک خاص رنگ کے مصائب سے گزر کر ترقی کے مقام کو پہنچیں.لیکن ہماری جماعت ابھی تک اس رنگ کے مصائب میں سے نہیں گزری.دراصل اس میں ابتدائی کی زمانہ سے ہی کچھ ایسا عنصر آ گیا تھا جس نے اسے بجائے ایک الہی جماعت سمجھنے کے سوسائٹی اور انجمن سمجھ لیا اور یہ خیال کر لیا کہ جس طرح کسی خاص مقصد میں کامیابی حاصل کرنے اور ترقی حاصل کرنے کے لیے کسی انجمن یا سوسائٹی میں داخل ہونا ضروری ہے اسی طرح ہم بھی اس میں داخل ہو کر اپنے مقصد کو پالیں گے.اس سے زیادہ انہوں نے کوئی بات اپنے مدنظر نہ رکھی.مجھے خوب یاد ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ایک دفعہ فرمایا مجھے یاد نہیں کہ اُس موقع پر گھر میں کوئی اور آدمی بھی موجود تھا یا نہیں.ہوسکتا ہے وہاں میرے سوا اور بھی کوئی ہو کیونکہ میری عمر چھوٹی تھی اور اتنی اہم بات آپ نے صرف مجھے مخاطب کر کے نہیں کہی ہوگی.غالباً حضرت اماں جان یا حضرت نانا جان میر ناصر نواب صاحب گھر میں موجود ہوں گے اور ان کی جی موجودگی میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے یہ بات بیان فرمائی.آپ نے فرمایا ہماری جماعت میں تین قسم کے لوگ شامل ہیں.ایک وہ ہیں جنہوں نے میرے دعوی کو اچھی طرح سمجھا اور پھر مجھ پر دل سے ایمان لا کر جماعت میں داخل ہوئے.دوسری قسم کے وہ لوگ ہیں جنہیں مولوی صاحب یعنی حضرت خلیفتہ امسیح الاول کے ساتھ حسن ظنی تھی انہوں نے جب آپ کے علم کا شہرہ سنا اور دیکھا کہ وہ اس جماعت میں داخل ہو گئے ہیں تو آپ کی نقل میں انہوں نے کی بھی میری بیعت کرلی اور تیسری قسم کے لوگ وہ ہیں جنہوں نے ہماری جماعت کو منظم اور کام کرنے والی دیکھا، دوسرے مسلمانوں کا انہوں نے تجربہ کیا تو اُن میں کسی قسم کی زندگی اور بیداری نہ پائی لیکن ہماری جماعت میں ایک خاص قسم کا جوش عمل انہیں نظر آیا اس لیے وہ اس میں داخل ہو گئے.وہ بھی ایمان کی وجہ سے اس جماعت میں داخل نہیں ہوئے بلکہ انہوں نے اسے حصولِ مقصد کے لیے ایک ذریعہ بنانا چاہا.حقیقت یہ ہے کہ خواہ دانستہ طور پر انہوں نے ایسا کیا یا نادانستہ طور پر بہر حال ہماری کی جماعت میں شروع سے ہی کچھ ایسے لوگ شامل ہو گئے تھے جنہوں نے اسے ایک سوسائٹی یا انجمن

Page 235

* 1949 226 خطبات محمود سمجھا.ان میں یہ جس ہی نہیں تھی کہ الہبی جماعتیں کس طرح تمام دنیا پر چھا جایا کرتی ہیں.اسی بات کا نتیجہ تھا کہ انہوں نے جماعت کو ایک معمولی سوسائٹی یا انجمن سے زیادہ درجہ نہ دیا اور سمجھ لیا کہ ہم نے جو کچھ حاصل کرنا تھا وہ کر لیا ہے.مثلاً ریڈ کر اس سوسائٹی ہے وہ تمام دنیا پر غالب تو نہیں ہے لیکن تاہم اس کا کام تمام دنیا میں پھیلا ہوا ہے، لوگ ان کی تعریفیں کرتے ہیں اور یہی ان کا مطمح نظر تھا اس کو حاصل کرنے میں وہ لوگ کامیاب ہو گئے اور سمجھ لیا کہ ہم نے اپنے مقصد کو پا لیا.یا مثلاً سالویشن آرمی (Salvation Army) ہے.عیسائیوں کا یہ مقصد نہیں تھا کہ دنیا کا اکثر حصہ اس میں داخل ہو جائے یا اس کے ذریعہ وہ دنیا کے اصول بدل ڈالیں.کچھ لوگ اس میں داخل ہو گئے اور انہوں نے یہ خیال کر لیا کہ ہم نے اپنے مقصد کو حاصل کر لیا ہے.یہی خیال تھا جو ہماری جماعت کے بعض لوگوں میں پایا جاتا تھا.وہ عنصر تو نکل گیا لیکن واقعہ یہ ہے کہ ابھی تک جماعت کے بعض لوگوں نے جو رویہ اختیار کیا ہوا ہے وہ درست نہیں.اور جس طریق پر جماعت اب چل رہی ہے اس سے ہم باقی دنیا کو اپنے ساتھ مل جانے پر مجبور نہیں کر سکتے اور اُن پر ایسا اثر نہیں ڈالی سکتے کہ وہ بھی ہمارے پیچھے چلیں.یہ سلسلہ سچا ہے اور ہمیں یقین ہے کہ ایک نہ ایک وقت خدا تعالیٰ اس پر ایسا لے آئے گا کہ تمام دنیا کی توجہ اس طرف پھر جائے گی اور وہ اس میں گروہ در گروہ داخل ہوں گے اور اس کے آثار نظر بھی آرہے ہیں.لیکن سوال یہ ہے کہ ہم نے اس سلسلہ میں کیا کچھ.کیا ؟ ہم نے اس اہم مقصد کی طرف وہ توجہ نہیں دی جو ہمیں دینی چاہیے تھی.افغانستان میں ہمارے کچھ آدمی شہید کر دیئے گئے اُس کے بعد ہم نے اُسے اسی طرح کی چھوڑ دیا گویا وہ علاقہ دنیا سے مٹ گیا ہے.حالانکہ الہی جماعتوں کا یہ طریق ہوتا ہے کہ اگر دشمن ان کے افراد کو مارنا چاہتا ہے تو وہ گھبراتے نہیں.وہ اپنے آپ کو موت کے لیے پیش کرتے چلے جاتے ہی اور مرتے چلے جاتے ہیں.افغانستان میں اگر کچھ لوگ احمدی ہوئے تو وہ اتفاقی طور پر ہوئے ہیں ورنہ ہم نے اُس طرف سے اپنی توجہ بالکل پھیر لی ہے.اسی طرح بعض اور ملکوں میں بھی ہو رہا تھا ہے.اگر ہم ایک مامور کی جماعت ہیں جیسا کہ ہمارا دعوی ہے تو یقیناً ایک وقت ایسا آئے گا جب دنیا ہمیں مٹا دینے کے درپے ہو گی.مگر جب ایسا وقت آئے گا تو کیا وہ لوگ جو اپنی آمد کا 1/10 1/9 یا 1/8 بھی چندہ کے طور پر نہیں دیتے وہ اُس وقت احمدیت کی خاطر اپنی سینکڑوں روپے کی

Page 236

$ 1949 227 خطبات محمود آمد کو چھوڑ دیں گے؟ اگر اس وقت وہ سلسلہ کے لیے اپنی آمد کا 1/10 حصہ بھی دینے کے لیے کی تیار نہیں تو ہم ان پر یہ امید کس طرح کر سکتے ہیں کہ وہ اُس وقت احمدیت کے لیے سب کچھ قربان کی کر دیں گے.میں دیکھتا ہوں کہ ابھی جماعت کے اکثر حصہ میں کمزوریاں پائی جاتی ہیں اور اس سلسلہ میں وہ جوش عمل نہیں پایا جاتا جس کی الہی جماعتوں سے امید کی جاتی ہے حالانکہ الہی سلسلوں کی میں شامل ہونے والے سب کے سب واقفین زندگی ہوا کرتے ہیں.وہ رات کو جب سونے لگتے ہیں تو اپنے دن بھر کے اعمال پر غور کرتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ کیا رات ان پر ایمان کی حالت میں آئی ہے.اور پھر جب نیند سے بیدار ہوتے ہیں تو دن بھر کے لیے ایک مذہبی پروگرام بناتے ہیں.گویا اُن کا دن اور رات دین کی خدمت میں گزرتا ہے.جب تک جماعت کے تمام دوستوں میں یہ روح پیدا نہ ہو جائے وقت آنے پر وہ قربانی کے لیے تیار نہیں ہو سکتے.اور جب یہ روح پیدا ہو جائے گی اور ہم میں سے ہر فرد کا دن اور رات دین کے کاموں میں گزرے گا تو یقیناً ہماری کامیابی میں کچھ بھی شبہ باقی نہیں رہے گا.میں نے پہلے بھی کئی دفعہ سنایا ہے کہ میں نے بچپن میں ایک کشتی خریدی، اگر چہ اسے تالا لگا دیا جاتا تھا لیکن چونکہ اُن دنوں تالے دیسی قسم کے پیچوں والے ہوتے تھے جو لکڑی سے کھول لیے جاتے تھے.اس لیے دوسرے لڑکے آسانی کے ساتھ کشتی کھول کر لے جاتے ، اسے چلاتے اور اس کی میں چھلانگیں مارتے اور گو دتے جس کی وجہ سے کشتی میں سوراخ ہو گئے اور پانی اندر آنا شروع ہو گیا.سوراخوں میں روئی ڈال ڈال کر بند کرنے کی کوشش کی جاتی لیکن سوراخ اتنے بڑے اور کثیر داد میں تھے کہ ان کا بند کرنا مشکل تھا.میں نے تنگ آ کر کچھ لڑکوں سے کہا کہ کسی طرح کشتی کھول کرلے جانے والوں کو پکڑ کر میرے پاس لے آؤ.ایک دن میں گھر میں بیٹھا ہوا تھا کہ مدرسہ احمدیہ کا ایک لڑکا آیا اور اس نے کہا لڑ کے کشتی کھول کر اسے چلا رہے ہیں آپ آ کر دیکھ لیں.وہ کشتی چھ سات آدمیوں کے لیے بنوائی گئی تھی لیکن جب میں وہاں گیا تو کیا دیکھتا ہوں کہ دس بارہ لڑکے بے تحاشا کشتی میں اس طرح گو د ر ہے ہیں جس طرح شکر بنانے والے شکر کو ملتے ہیں اور وہ اس کو بھی ایک ذوق سمجھتے تھے.انہیں ایسا کرتے دیکھ کر مجھے غصہ آیا.میں نے کچھ لڑ کے دوڑائے اور انہیں کہا کہ تمام راستے روک لو.یہ بھاگنے نہ پائیں.ایک طرف میں خود کھڑا ہو گیا.میں مدرسہ احمدیہ کی طرف تھا اور کشتی دوسری طرف تھی.وہ لڑ کے گاؤں کے رہنے والے تھے اور رئیس سے لوگ عموماً

Page 237

* 1949 228 خطبات محمود خوف کھاتے ہیں.وہ ڈر کے مارے بھاگے اور جس طرف منہ آیا نکل گئے.اتفاق سے ان کا ایک رنگ لیڈر جو قصاب کا لڑکا تھا میری طرف ہی بھاگ آیا.وہ مجھ سے عمر میں بڑا تھا اور طاقت میں ہے بھی مضبوط تھا.وہ چاہتا تو مجھے مارسکتا تھا لیکن اُس پر خوف طاری ہو گیا جس کی وجہ سے وہ اچانک مجھے دیکھ کر سہم گیا.میں دیوار کے پیچھے چھپ کر کھڑا تھا وہ میرے پاس سے گزرا تو میں نے اسے کی مارنے کے لیے ہاتھ اٹھایا لیکن مارا نہیں.مجھے اپنے نفس پر قابو تھا.میرا ہاتھ اوپر اٹھا ہوا دیکھ کر اُس کی کا ہاتھ یکدم او پر اُٹھا جس کی وجہ سے میرا غصہ اور تیز ہو گیا لیکن بعد میں اسے عقل آگئی اور اس نے ہاتھ نیچے گرا کر کہا اچھا جی! اگر آپ مارنا چاہتے ہیں تو مار لیں.یہ میرے بچپن کا واقعہ ہے اور اب میری عمر ساٹھ برس کی ہے.لیکن اب بھی جب وہ واقعہ مجھے یاد آتا ہے تو میرے بال کھڑے ہو جاتے ہیں.مارنا تو دور کی بات ہے میں نے مارنے کے لیے صرف ہاتھ اٹھایا تھا اور پھر اسے نیچے گرا لیا تھا.لیکن اب بھی وہ واقعہ مجھے یاد آجائے تو شرم آتی ہے.اُس لڑکے نے اپنا ہاتھ نیچے گرا لیا تو میں نے شرمندگی کے ساتھ اپنی پیٹھ پھیری اور دوسری طرف نکل گیا.غرض مار کھانا بڑے حوصلہ کی بات ہے.جو مارتے ہیں وہ دنیا کی توجہ اپنی طرف نہیں پھیر سکتے.مگر جو مار کھاتے ہیں اُن کی طرف دنیا کی توجہ پھر جاتی ہے.پس جماعت کو یہ روح اپنے اندر پیدا کرنی چاہیے.اگر جماعت کے دوست اپنے اندر یہ روح پیدا نہیں کریں گے تو میں ڈرتا ہوں کہ ایسے لوگ وقت آنے پر کچے دھاگے ثابت ہوں گے اور اپنے دلوں کو یہ تسلی دے لیں گے کہ ہم دل سے تو احمدی ہی ہیں.لیکن جیسا کہ قرآن کریم - معلوم ہوتا ہے یہ ایمان قابل قبول نہیں ہو سکتا اور ایسے لوگ خدا تعالیٰ کے رحم کے نہیں بلکہ اُس کے غضب کے مستحق ہوتے ہیں“.( الفضل 16 مارچ 1960ء ) 1 : سالویشن آرمی (Salvation Army) بکتی فوج یعنی عیسائیوں کی وہ مذہبی تنظیم جس کے ممبروں کو فوج کا نام دیا گیا جو 1865ء میں جنرل ولیم بوتھ (Gen.William Booth) کے ذریعہ غرباء کی مدد کے نام پر قائم ہوئی.اس کا مرکز لندن میں ہے اور دنیا کے 126 ممالک میں پھیلی ہوئی ہے.(The Concise Oxford Dictionary of Current English)

Page 238

* 1949 229 24 خطبات محمود مومن کی قربانیاں محض اللہ تعالیٰ کی خاطر ہونی چاہیں اور ساری مخلوقات کی ہمدردی اس کے پیش نظر ہونی چاہیے قُلْ إِنَّ صَلَاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ کی نہایت لطیف اور پُر معارف تفسیر (فرموده 5 راگست 1949ء بمقام پارک ہاؤس کوئٹہ ) تشهد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: پچھلے خطبے میں میں نے قرآن کریم کی ایک آیت قُلْ اِنَّ صَلَاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِيْنَ 1 کے متعلق بتایا تھا کہ قربانیاں تو ہمیشہ انبیاء کی جماعتوں کو کرنی پڑتی ہیں لیکن رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کی امت سے جن قربانیوں کا مطالبہ خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے وہ دوسرے انبیاء اور ان کی امتوں کی قربانیوں سے زیادہ سخت ہیں.اول تو عرصہ قربانی قیامت تک کے لیے ہے یعنی قیامت تک نہ ختم ہونے والا زمانہ آپ کا زمانہ ہے اور اس سارے عرصہ میں آپ کو اور آپ کی امت کو قربانیاں کرنا ہوں گی.دوسرے ان قربانیوں کی نوعیت بھی بدل دی گئی ہے.

Page 239

* 1949 230 خطبات محمود میں.آج اس سلسلہ میں میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ اس آیت میں چار چیزوں کا ذکر کیا گیا ہے اور ان چاروں کے متعلق یہ قید لگادی گئی ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے لیے ہیں اور پھر اس اللہ کے لیے ہیں جو رب العلمین ہے.گویا اپنی ذات میں ان چاروں چیزوں میں سے ہر چیز کے ساتھ دو قیود لگ گے پہلی قید تو قربانیوں کے ساتھ یہ لگائی گئی ہے کہ وہ کسی دکھاوے یا جلب منفعت 2 کے لیے نہیں بلکہ محض اللہ تعالیٰ کی خاطر ہیں.اور دوسری قید یہ لگائی گئی ہے کہ میری قربانیاں اُس اللہ تعالیٰ کی خاطر ہیں جس کی صفت ربوبیت کو سامنے رکھ کر میں یہ قربانیاں کر رہا ہوں.اگر یہاں صرف ” لِلہ" کہا جاتا تب بھی درست تھا لیکن رب العلمین ساتھ لگا کر یہ بتانا مقصود ہے کہ جس طرح وہ ذات جس کے لیے میں عبادت کر رہا ہوں رب العلمین ہے.اسی طرح اُس کے واسطہ سے میری یہ قربانیاں بھی ساری مخلوق پر پھیلی ہوئی ہیں.صفت کو اسم کے ساتھ بھی لگاتے ہیں جب خصوصیت سے اُس طرف توجہ دلانا مقصود ہو.مثلاً اگر ہم کہیں کہ زید جو بڑا عالم ہے وہ ایسا کہتا ہے تو اس کے معنے یہ ہوں گے کہ زید معتبر تو ہے لیکن میری اس بات کا اُس کے علم کے ساتھ تعلق ہے اور وہ علاوہ با اعتبار ہونے کے عالم بھی ہے.گویا زید کے عالم ہونے کی صفت کو بیان کر کے خصوصیت سے اس کے علم کی طرف توجہ دلانا مقصود ہوتا ہے ہے.ہو سکتا ہے کہ زید با اعتبار اور ثقہ ہو لیکن اس کی علمی واقفیت زیادہ نہ ہو.مگر جب یہ دونوں صفات کسی شخص میں اکٹھی ہو جائیں تو پھر سونے پر سہاگا ہو جاتا ہے.اسی طرح اِنَّ صَلَاتِي وَنُسُكِى وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِینَ کے ساتھ رب العلمین کی صفت لگا دینے سے ایک تیسرے معنے نکل آئے.یہ فقرہ کہ میری قربانیاں اللہ تعالیٰ کی خاطر ہیں خود اپنی ذات میں معنے رکھتا ہے لیکن رب العلمین کی صفت بیان کر کے یہ بتایا کہ اس وقت خدا تعالیٰ کی صفت ربوبیت میرے مدنظر ہے اور جس طرح وہ سب جہانوں کا رب ہے اسی طرح میری قربانیاں بھی سارے جہانوں پر اور سب مخلوقات پر پھیلی ہوئی ہیں.گویا اس آیت کے معنے یہ ہوں گے کہ میری قربانیاں خدا تعالیٰ کے لیے ہی ہیں اور اس کا سچا اور خالص پرستار ہونے کی وجہ سے جس طرح وہ سب جہانوں کا رب ہے اُسی کی طرح میں بھی سب مخلوقات اور سب جہانوں کا ہو گیا ہوں اور میری قربانیاں ساری دنیا کے ساتھ تعلق آج میں ان چاروں چیزوں میں سے صرف صلوة کے متعلق کچھ کہنا چاہتا ہوں.اس کی

Page 240

$ 1949 231 خطبات محمود آیت قرآنیہ میں صلوۃ کو رب العلمین کے ساتھ متعلق کر دیا گیا ہے.کیونکہ بعض عبارتیں ایسی ہوتی ہے ہیں جو ماسوی اللہ کے لیے ہوتی ہیں جیسے بعض لوگ سورج کی یا ستاروں کی یا پہاڑوں کی یا دریاؤں کی عبادت کرتے ہیں یا بعض دیوی دیوتاؤں کی عبادت کرتے ہیں.قُلْ اِنَّ صَلَاتِي وَنُسُكِى وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِيْنَ کہ کر ان تمام عبادتوں کی نفی کر دی گئی ہے جو ماسوی اللہ کے لیے کی جاتی ہیں.اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بتایا ہے کہ میری عبادت معبودانِ باطلہ کے لیے نہیں.میری عبادت صرف اللہ تعالیٰ کے لیے ہے اور اُسی سے تعلق رکھتی ہے.پھر بعض عبادتیں ایسی ہوتی ہیں جن میں ظاہری طور پر عبادت کرنے والا خدا تعالیٰ کو ہی سجدہ کر رہا ہوتا ہے اور وہ کہتا بھی یہی ہے کہ میں اُس کو سجدہ کر رہا ہوں لیکن مقصد اُس کا یہ ہوتا ہے کہ میں بڑا سمجھا جاؤں.اُس کی نماز صرف دکھاوے کے لیے ہوتی ہے.قُلْ اِنَّ صَلَاتِي لِلهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ کہہ کر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات کی بھی نفی کر دی اور فرمایا کہ میری عبادت اس لیے نہیں کہ میں بڑا سمجھا جاؤں یا قوم میں میرا رعب بیٹھ جائے یا میں بزرگ یا عالم کہلانے لگ جاؤں بلکہ جب میں نماز پڑھتا ہوں تو میں ماسوی اللہ کو بھول جاتا ہوں.میری نماز صرف خدا تعالیٰ کے لیے ہوتی ہے ہے.اور جو آدمی ماسوی اللہ یا دکھاوے کے لیے نماز نہیں پڑھتا لازمی بات ہے کہ اس کی نماز رسمی نہیں ہے ہوگی.جو شخص روزانہ پانچ وقت نماز ادا کرنے میں غفلت سے کام لیتا ہے یا بالکل نہیں پڑھتا صرف عیدین کی نمازیں پڑھنے کے لیے یا جمعتہ الوداع کے لیے چلا جاتا ہے اُس کی نماز اللہ تعالیٰ کے لیے نہیں ہوتی.اگر اللہ تعالیٰ کے لیے ہوتی تو وہ فجر ، ظہر، عصر، مغرب اور عشاء کی نمازیں بھی روزانہ ادا کرتا ہے کیونکہ یہ بھی خدا تعالیٰ کی طرف سے مقرر کی ہوئی ہیں.پس جو شخص صرف عیدین میں یا جمعۃ الوداع میں چلا جاتا ہے اُس کا اس سے زیادہ اور کوئی مقصد نہیں ہوتا کہ عیدین یا جمعتہ الوداع میں لوگ کثرت سے آتے ہیں وہ دیکھ لیں کہ میں بھی نماز پڑھتا ہوں اور وہ اُس دن کی نماز پر یہ قیاس کر لیں کہ وہ اور دنوں میں بھی باقاعدہ نمازیں ادا کرتا ہے.اگر وہ نماز اللہ تعالیٰ کے لیے ہوتی تو جس طرح اللہ تعالیٰ کی نے عیدین یا جمعہ کی نمازیں مقرر کی ہیں اُسی طرح اُس نے روزانہ پانچ نمازیں بھی مقرر کی ہوئی ہیں وہ روزانہ یہ نمازیں بھی ادا کرتا.وہ صرف اس لیے سال میں عیدین یا جمعہ کی نمازیں ادا کرتا ہے تاکہ قوم کو س کے نمازی ہونے کا پتا لگ جائے.اس لیے اس کی نماز لوگوں کی خاطر ہوتی ہے اللہ تعالیٰ کی خاطر

Page 241

$1949 232 خطبات محمود نہیں ہوتی قُل اِنَّ صَلَاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ میں بتایا ہے کہ بعض لوگ قوم کی خاطر نماز پڑھتے ہیں تا کہ وہ بڑے سمجھے جائیں لیکن میری نماز لوگوں کے دکھاوے کے لیے نہیں.اور نہ صرف دکھاوے کے لیے نہیں بلکہ میرا دل تو یہ بھی پسند نہیں کرتا کہ دوسرے لوگ کی بھی ایسا کریں یا عبادت میں غفلت سے کام لیں.چنانچہ احادیث میں آتا ہے ایک دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میرا دل چاہتا ہے کہ میں اپنی جگہ کسی اور کو امام مقرر کر دوں اور خود کچھ لوگوں کو ساتھ لے کر ان کے سروں پر لکڑیوں کے گٹھے رکھوں اور ان لوگوں کے گھروں کو مکینوں سمیت جلان دوں جو عشاء اور فجر کی نمازیں ادا کرنے کے لیے مسجد میں نہیں آتے.3 گویا یہ سوال تو الگ رہا کہ آپ کی نماز خدا تعالیٰ کے لیے تھی یا نہیں.آپ نے فرمایا کہ میں تو یہ بھی برداشت نہیں کر سکتا دوسرے لوگ نمازیں پڑھنا ترک کر دیں.پس ان صَلَاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِینَ کہہ کر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی عبادت کے ساتھ ایک طرف تو یہ شرط لگادی ہے کہ وہ غیر اللہ کے لیے نہیں.اور دوسری طرف یہ کہا کہ غیر اللہ کوسجدہ کرنا تو بڑی بات ہے میں خدا تعالیٰ کو بھی اس لیے سجدہ نہیں کرتا کہ لوگ دیکھیں کہ میں عبادت کر رہا ہوں.کسی کے عیدین اور جمعہ کی نمازوں میں چلے جانے کے صرف یہی معنے نہیں ہوتے کہ دوسرے لوگ سمجھ لیں کہ وہ خدا تعالیٰ سے بالکل باغی نہیں بلکہ یہ بھی ہوتے ہیں کہ وہ قوم کو احمق بنانے اور اس کی آنکھوں میں خاک تھی جھونکنے کے لیے تیار ہے.پھر ایک شخص ایسا ہوتا ہے جس کی عبادت ماسوی اللہ کے لیے نہیں ہوتی اور نہ دکھاوے کی خاطر ہوتی ہے وہ خدا تعالیٰ کی خاطر ہی عبادت کرتا ہے لیکن وہ اس کے پاس اپنی ذاتی اغراض کے لیے جاتا ہے.وہ خیال کرتا ہے کہ اگر میں نماز پڑھنا چھوڑ دوں تو خدا تعالیٰ مجھ سے ناراض ہو جائے گا یا ممکن ہے میری صحت خراب ہو جائے یا میں بیمار ہو جاؤں یا خدا تعالیٰ کی طرف سے کوئی اور عذاب کی آجائے.پس وہ خوف کی وجہ سے نماز پڑھتا ہے خدا تعالیٰ کے لیے نہیں پڑھتا ہے.اس کی نماز اللہ کے لیے کہلاتی تو ہے مگر وہ خالص اللہ تعالیٰ کے لیے نہیں کہلائے گی.ایسا آدمی صرف ادنی درجہ کا مومن کی ہوگا.کیونکہ وہ خدا تعالیٰ کے غضب سے ڈر کر نماز پڑھتا ہے.اُس کے سامنے یہ سوال رہتا ہے کہ اگر میں نماز نہ پڑھوں تو میری دنیا اور عاقبت خراب ہو جائے گی.حالانکہ خوف کا تعلق بالواسطہ ہوتا.

Page 242

* 1949 233 خطبات محمود بلا واسطہ نہیں ہوتا.پہلا واسطہ تعلق محبت کا ہوتا ہے.اگر کوئی شخص کسی کے پاس اس لیے جاتا ہے کہ وہ کہیں ناراض نہ ہو جائے تو اُس کی نظر صرف غضب کی طرف ہوتی ہے لیکن جب وہ خدا کی خاطر جاتا ہے قطع نظر اس سے کہ وہ ناراض ہوگا یا نہیں تو اُس کا درجہ بلند ہوگا.پھر اس کے آگے ایک اور مقام ہوتا ہے اور وہ یہ کہ نماز پڑھنے والے کا تعلق خدا تعالیٰ سے خوف کا نہ ہو بلکہ اس کے انعامات حاصل کرنے کی غرض سے ہو.لیکن یہ عبادت بھی ناقص ہے.اس کے معنے یہ ہوں گے کہ اگر اخروی زندگی نہ ہوتی اور خدا تعالیٰ انسان کو پیدا کر کے کہہ دیتا کہ تم میری عبادت کرو تو انسان کہتا مجھے اس کی ضرورت نہیں.مگر اب چونکہ خدا تعالیٰ کہتا ہے اخروی زندگی ہے اس لیے وہ اس کی عبادت کرتا ہے تا اس کے انعامات کو حاصل کرے.یہ درجہ خوف کے درجہ سے بالا ہے اور اس میں انسان خدا تعالیٰ کے حسن کے زیادہ قریب پہنچ جاتا ہے مگر پھر بھی اس کی عبادت محض خدا تعالیٰ کی صفات سے کچھ حصہ لینے کے لیے ہوتی ہے.گویا اس کا خدا تعالیٰ سے تعلق تو ہوتا ہے لیکن صرف اس کے افعال کے ساتھ تعلق ہوتا ہے.اور جس شخص کا صرف افعال کے ساتھ تعلق ہوتا ہے وہ پورا عاشق نہیں کہلاتا.قُلْ اِنَّ صَلَاتِي لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ که رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بتایا ہے کہ میں خدا تعالیٰ کی اس لیے عبادت نہیں کرتا کہ وہ محافظ ہے میری حفاظت کرے، وہ رازق ہے مجھے رزق دے، وہ واسع ہے مجھے وسعت عطا کرے یا غالب ہے مجھے غلبہ بخشے.میں تو صرف اللہ کے حصول کی خاطر نماز پڑھتا ہوں.وہ مجھے کچھ دے یا نہ دے مجھے اس سے کوئی واسطہ نہیں.یہ انتہائی مقام ہے.وہ شخص جو صرف خوف یا انعام کی وجہ سے نماز پڑھتا ہے جب اسے پتا لگے که اخروی زندگی محض ایک استعارہ ہے تو وہ نماز چھوڑ دے گا.لیکن جو شخص محض اللہ نماز پڑھتا ہے جس کی عبادت محمدی عبادت کے ہمرنگ ہوگی وہ کہے گا میں نے تو جہنم کے ڈر سے یا جنت کے لالچ سے نماز پڑھی ہی نہیں.خدا تعالیٰ مجھے جنت میں ڈالے یا جہنم میں میں اُس کی عبادت کرتا چلا جاؤں گا.میرے سامنے یہ سوال ہی نہیں کہ وہ مجھے کہاں لے جاتا ہے.مجھے تو وہ حسین نظر آتا ہے اور جب میں اُس کے سامنے جاتا ہوں تو اُس کا حسن باقی سب چیزوں کو نظر انداز کر دیتا ہے.دیکھو! پھول اچھی چیز ہے ہے.ایک شخص اس کے پاس جاتا ہے اور وہ اُسے حسین نظر آتا ہے.اس کے ارد گرد کانٹے بھی ہوتے ہیں لیکن اُس کے حسن کو دیکھ کر وہ اُس پر ہاتھ ڈال دیتا ہے.اُس کا ہاتھ زخمی ہو جاتا ہے مگر وہ پھول کی

Page 243

* 1949 234 خطبات محمود خاطر کانٹوں کو بھول جاتا ہے.اسی طرح اللہ نماز پڑھنے والا باقی سب چیزوں کو بھول جاتا ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم خانہ کعبہ میں نماز پڑھتے تو لوگ آپ کو مارتے.آخر ان کا قصور کیا تھا؟ صرف یہ کہ آپ کی نماز بتوں کی خاطر نہیں تھی ، رسم ورواج کی خاطر نہیں تھی ، قوم کی خاطر نہیں تھی کسی موہوم نفع کی خاطر نہیں تھی.اگر آپ کے سامنے کوئی موہوم نفع تھا تو آپ کو آپ کی قوم نے کی یہ پیشکش بھی کی تھی کہ آپ تبلیغ کرنا چھوڑ دیں.اگر آپ کو شادی کی ضرورت ہو تو قوم کی لڑکیاں حاضر ہیں.ان میں سے جو سب سے زیادہ خوبصورت ہو اُس سے آپ شادی کر لیں.اگر آپ کو مال کی ضرورت ہوتو ہمارے مال حاضر ہیں..اگر حکومت کی خواہش ہو تو ہم آپ کو اپنا بادشاہ تسلیم کرنے کو تیار ہیں.4 لیکن آپ نے فرمایا اگر تم سورج کو میرے دائیں اور چاند کو میرے بائیں بھی لا کر کھڑا کر دوتب بھی میں تبلیغ کے کام سے باز نہیں آ سکتا.5 احادیث میں آتا ہے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک دفعہ خانہ کعبہ کے باہر ایک پتھر پر بیٹھے ہوئے تھے.آپ نے ران پر کہنی اور ہاتھ پر ٹھوڑی رکھی ہوئی تھی اور اشاعت اسلام یا مشرکین مکہ کی ہے مخالفت کے متعلق سوچ رہے تھے کہ اچانک ابو جہل جو کفار کا سردار تھا آیا.اُس کے دل میں ایک بہیجان پیدا ہوا اور اس نے بے تحاشا آپ کو گالیاں دینا شروع کر دیں.وہ گالیاں دیتا رہا لیکن آپ خاموش بیٹھے رہے.اس پر اسے اور غصہ آیا کہ میں اسے گالیاں بھی دے رہا ہوں لیکن یہ جواب نہیں دیتا.اسی غصہ میں اس نے آپ کو مارنا شروع کر دیا.مگر آپ نے اسے کچھ نہیں کہا.آپ خاموشی سے اٹھے اور اپنے گھر میں تشریف لے گئے.جس جگہ آپ بیٹھے ہوئے تھے اُس کے قریب ہی حضرت حمزہ کا گھر تھا.حضرت حمزگا ابھی مسلمان نہیں ہوئے تھے.آپ کی لونڈی اس نظارہ کو دیکھ رہی تھی.پرانی لونڈیاں در حقیقت گھر کا ایک حصہ ہی سمجھی جاتی ہیں.وہ گھر کے بڑے افراد کو اپنے بزرگ ، ہم عمر افراد کو بھائی اور چھوٹوں کو بیٹوں کی طرح سمجھتی ہیں.اس نظارہ کو دیکھ کر اس لونڈی پر گہرا اثر ہوا اور اُسے حیرت ہوئی کہ ابو جہل رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو کیوں مار رہا ہے.اس کا مارنا اور گالیاں دینا اس کے لیے عجیب کی بات تھی.اس کے اندر ایک ہیجان سا پیدا ہو گیا لیکن وہ کر ہی کیا سکتی تھی.وہ دل ہی دل میں کڑھتی ہالیا رہی.حضرت حمزہ باہر شکار کے لیے گئے ہوئے تھے.انہیں شکار کا بہت شوق تھا اور وہ روزانہ صبح شکار کے لیے جاتے اور شام کو واپس آجاتے.شام کو وہ تیر کمان لٹکائے شکار ہاتھ میں لیے اور شکاری لباس

Page 244

$1949 235 خطبات محمود میں ملبوس اکڑتے ہوئے گھر میں داخل ہوئے.وہ لونڈی بھری بیٹھی تھی.اس نے حضرت حمزہ کو جو دیکھا تو غصہ میں کھڑی ہوگئی اور کہنے لگی تمہیں شرم نہیں آتی بڑے سپاہی بنے پھرتے ہو.کمان ہاتھ میں پکڑی ہوئی ہے اور شکار کر کے فخر سے گھر میں داخل ہوئے ہو.تم کو پتا نہیں کہ آج تمہارے بھتیجے کے ساتھ کیا ہوا ؟ حضرت حمزہ نے پوچھا کیا ہوا؟ لونڈی نے سارا واقعہ سنا دیا اور واقعہ سنانے کے بعد جوش میں آکر کہنے لگی خدا کی قسم ! محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) نے اسے کچھ بھی تو نہیں کہا.مگر ابو جہل اسے گالیاں دیتا چلا گیا.یہ ایک مختصری گفتگو تھی لیکن وہی حمزہ جو سالہا سال سے آپ کی تبلیغ سے متاثر نہیں ہوئے تھے اس چھوٹی سی بات سے اتنے متاثر ہو گئے کہ ان کے آگے سارا نقشہ پھر گیا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم خدا تعالیٰ کی صفات کے متعلق یا مکہ والوں کی مخالفت کے متعلق پتھر پر بیٹھے ہوئے تنہائی میں غور کر رہے ہیں.ابو جہل آیا ہے اور اس نے بغیر پوچھے آپ کو گالیاں دینی شروع کر دی ہیں اور جب آپ نے جواب نہیں دیا تو اس نے مارنا شروع کر دیا.اور پھر وہ سادہ سا فقرہ جو لونڈی نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے جواب کے متعلق کہا ان کے سامنے آ گیا کہ خدا کی قسم! محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) نے اسے کچھ بھی تو نہیں کہا.حضرت حمزہ کی آنکھوں پر سے تکبر اور غرور کا پردہ اُٹھ گیا.کفر کا پردہ چاک ہو گیا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی باتیں سن کر جن پر اثر نہیں ہوا تھا.اس دن کے واقعہ سے جس کی خبر اُن کی ایک ان پڑھ لونڈی نے انہیں دی تھی اتنا اثر ہوا کہ انہوں نے شکار وہیں پھینکا اور وہی تیر کمان ہاتھ میں پکڑے ہوئے خانہ کعبہ میں آئے.وہاں دربار لگا ہوا تھا اور ابو جہل دوسرے سردارانِ مکہ میں بیٹھا شاید صبح کا واقعہ ہی سنا رہا تھا.حضرت حمزہ ابھی مسلمان نہیں ہوئے تھے اور رؤساء مکہ میں سے تھے اس لیے دوسرے رؤساء نے جو ابو جہل کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے آپ کے لیے رستہ بنایا ہے اور کہا آؤ حمزہ ! تم بھی آؤ اور یہاں بیٹھو.حضرت حمزہ نے اُن کی اس بات کا کوئی جواب نہ دیا بلکہ سید ھے ابو جہل کی طرف گئے اور کمان جو ہاتھ میں پکڑی ہوئی تھی اُس کے سر پر مار کر کہا میں نے سنا ہے ی تم نے آج ایسی شرارت کی ہے.تم بڑے بہادر بنے پھرتے ہو مگر تمہاری بہادری یہی ہے کہ تم می محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کو مارتے ہو.اس لیے کہ وہ خاموش رہتا ہے.میں نے سارے مکہ کے سامنے تجھے مارا ہے اگر تم میں طاقت ہو تو آؤ! مجھ سے مقابلہ کر لو اور اس کا بدلہ لو.حضرت حمزہ بیشک رؤساء مکہ میں سے تھے مگر ابو جہل تو اُس وقت کفار کا سردار تھا اس لیے سارے رؤساء کھڑے ہو گئے اور

Page 245

$ 1949 236 خطبات محمود حضرت حمزہ پر گو د پڑے.مگر صبح والا واقعہ صرف حمزہ کو ہی متاثر نہیں کر سکا تھاوہ ابوجہل کے دل پر بھی کاری زخم لگا چکا تھا.وہ بھی خیال کرتا تھا کہ اُس صبح والے فعل میں معقولیت نہیں پائی جاتی تھی.ج رؤساء حضرت حمزہ کو مارنے کے لیے اُٹھے تو ابو جہل نے کہا حمزہ کو کچھ نہ کہو.دراصل مجھ سے ہی صبح کی غلطی ہو گئی تھی.6 تو دیکھو صلوتِی لِلہ میں کتنی تاثیر پائی جاتی تھی.وہ نماز جس کو ہم دیکھتے ہیں کہ وہ بچوں کے لیے نہیں تھی، وہ نماز جسے کہ ہم دیکھتے ہیں کہ وہ قوم کے لیے نہیں تھی ، وہ نماز جسے کہ ہم دیکھتے ہیں کہ وہ جہنم سے ڈر کر بھی نہیں تھی اور نہ ہی جنت کے لالچ کی وجہ سے تھی ، وہ نماز جس کا دیکھنے والا دیکھتا ہے کہ عبادت کرنے والا خدا تعالیٰ کے عشق میں کھڑا ہے اور وہ مطالبہ کر رہا ہے کہ تو مجھے مل جائے.وہ پہاڑوں کو ہلا دیتی ہے، وہ دریاؤں کو خشک کر دیتی ہے، وہ دلوں پر ایک زلزلہ طاری کر دیتی ہے ایسا زلزلہ جو کوئٹہ اور بہار کے زلزلوں سے بھی زیادہ سخت ہوتا ہے.یہ نماز اپنی ذات میں تبلیغ ہے.اس نماز میں اور اس نماز میں جو بتوں کے لیے ہو یا دکھاوے کی غرض سے ہو یا وہ جہنم کے خوف یا انعام کے لالچ کی کی وجہ سے پڑھی جائے زمین و آسمان کا فرق ہے.بیشک وہ نماز جو بتوں کی خاطر نہیں پڑھی جاتی، وہ کی نماز جو دکھاوے کی خاطر نہیں پڑھی جاتی، وہ نماز جو جہنم کے خوف یا جنت کے لالچ کی وجہ سے پڑھی جاتی ہے وہ بھی نماز ہے لیکن وہ اللہ نہیں.لِلہ اور خالی نماز میں زمین و آسمان کا فرق ہے.غرض قُلْ اِنَّ صَلَاتِ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ میری نماز میں اور دوسرے لوگوں کی نماز میں فرق ہے.بہت سے لوگ ایسے ہیں جو اپنی قوم کے لیے نماز پڑھتے ہیں، بہت سے لوگ ایسے ہیں جو نماز پڑھتے تو خدا تعالیٰ کے لیے ہیں لیکن دوزخ سے ڈر کے مارے پڑھتے ہیں اور بہت سے لوگ ایسے ہیں جو انعامات کے لالچ کی وجہ سے نماز پڑھتے ہیں.بیشک یہ مقامات بھی مومن کے ہیں لیکن یہ مومن اعلیٰ درجہ کا نہیں کہلا سکتا.میں صرف اللہ تعالیٰ کی خاطر نماز پڑھتا ہوں.بیشک وہ مجھے دوزخ میں ڈال دے میں نماز پڑھتا چلا جاؤں گا، بیشک وہ کہہ دے کہ جنت کوئی چیز نہیں میں نماز پڑھتا چلا جاؤں گا.میری نماز تو خالص اللہ تعالیٰ کے لیے ہے جوں کے لیے نہیں ، قوم کی خاطر نہیں اور نہ شیطان کے لیے ہے.یہ وہ قیدیں ہیں جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی نماز کے ساتھ لگائی ہیں اور فرمایا میری نماز ایسی ہے.اور دوسری طرف قرآن کریم میں یہ آتا

Page 246

$ 1949 237 خطبات محمود بے قُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللهُ 7 یعنی اگر تم خدا تعالیٰ سے محبت کرنا چاہتے ہو تو میرے نقشِ قدم پر چلو.اس سے معلوم ہوا کہ ہر مومن کی نماز بھی ایسی ہی ہوتی ہے اور وہی سچا مومن کہلا سکتا ہے جس کی نماز محمدی نماز ہو.ہم نوح علیہ السلام کی شریعت کے تتبع می نہیں ہیں، ہم موسی علیہ السلام یا عیسی علیہ السلام کے تتبع نہیں ہیں اور بیشک ہم انہیں بھی نبی سمجھتے ہیں لیکن ہمیں ان کی نماز سے غرض نہیں ہماری نماز وہی ہونی چاہیے جومحمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تھی.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کیا تھی؟ اس کے متعلق آپ خود نہیں فرماتے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے قُلْ اِنَّ صَلَاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ تُو لوگوں سے کہہ دے کہ میری نماز صرف اللہ تعالیٰ کی خاطر ہے جو رب العلمین ہے.گویا خدا تعالیٰ نے اس بات کی توثیق کر دی ہے کہ آپ کی نماز واقع میں اُسی کے لیے ہے.پڑھنے والے کا یہاں ذکر نہیں کہ اُس کی کیا نیت ہے.جس کی خاطر پڑھی جاتی ہے وہ اس بات کی تصدیق کرتا ہے اور کہتا ہے مجھے پتا ہے کہ یہ نماز میرے لیے ہی ہے.گویا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی عبادت کے ساتھ اتنی قیدیں لیے لگا دی ہیں کہ اسے انتہائی درجہ تک پہنچا دیا ہے.کتنا کنٹرول کرنا پڑتا ہے اپنے نفس پر کہ کوئی ایسی بات کی دل میں نہ آئے جس سے ظاہر ہو کہ اُسے قوم یا کسی اور شخص سے خوف ہے یا دوزخ کا ڈر اور جنت کو حاصل کرنے کی خواہش رکھتا ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز جہاں ماسوی اللہ کے لیے نہیں تھی وہاں وہ جہنم کے خوف یا جنت کے انعامات حاصل کرنے کی غرض سے بھی نہیں تھی.وہ صرف وصالِ الہی کی خاطر تھی.اور وصالِ الہی کے یہ معنے ہیں کہ انسان ایسے مقام پر پہنچ جائے کہ اس کے لی سامنے صرف اس کی ذات ہی ذات رہ جائے.یہ وہ نماز ہے جس کا اسلام نے تقاضا کیا ہے.دوسری کسی امت نے اس کا نتقاضا نہیں کیا.صرف رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دعوی کیا ہے کہ میری نماز ا اللہ کے حصول کی خاطر ہے دیکھ لو! یہ آیت لفظ قل سے شروع ہوتی ہے.خدا تعالیٰ خود کہتا ہے ہم تجھے حکم دیتے ہیں کہ تو ایسا کہہ دے.گویا اُس نے آپ کے دعوی کی تصدیق کر دی ہے.یہ وہ صلوۃ ہے جس کا حقیقتاً اسلام ہر مسلمان سے تقاضا کرتا ہے.نچلے درجے بھی مومن کے ہی ہیں لیکن وہ محمدی مقام کے ہمرنگ نہیں کہلا سکتے.اگر جہنم کے خوف یا انعام کے لالچ سے نماز پڑھی جائے تو وہ مقبول ضرور ہو جائے گی، اس کا پڑھنے والا مومن بھی کہلائے گا لیکن

Page 247

* 1949 238 خطبات محمود رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس مقام پر پہنچ چکے تھے جہاں صرف خدا ہی خدا سامنے ہوتا ہے اور صرف اُسی کی خاطر عبادت کی جاتی ہے.1 : الانعام: 163 ( الفضل 23 دسمبر 1959ء) 2 : جلب حاصل کرنا.اخذ کرنا ( اردو لغت تاریخی اصول پر جلد 6 صفحہ 709.اردو ترقی بورڈ کراچی (1984 بخاری کتاب الاذان باب فضل صلوة العشاء في الجماعة 4 سیرت ابن ہشام جلد 1 صفحہ 316،315 مطبوعہ مصر 1936ء 5 : سیرت ابن ہشام جلد 1 صفحہ 284 285 مطبوعہ مصر 1936ء 6 : سیرت ابن ہشام جلد 1 صفحہ 312،311 مطبوعہ مصر 1936ء 7 : آل عمران : 32

Page 248

* 1949 239 25 خطبات محمود کامل انسان وہ ہے جس کی سب قربانیاں خدا تعالیٰ کے لیے ہوں (فرموده 12 راگست 1949ء بمقام پارک ہاؤس کوئٹہ ) تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے مندرجہ ذیل آیت قرآنیہ کی تلاوت کی : قُلْ اِنَّ صَلَاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ 1 اس کے بعد فرمایا: میں نے پچھلے خطبہ میں بتایا تھا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی نماز کو مختلف قیود کے ساتھ مقید کر دیا ہے اور اسے ایسی صورت میں پیش کیا ہے کہ وہ عام نمازوں سے بہت بڑھ جاتی ہے اور یہی وہ صلوۃ ہے جس کے متعلق رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ مجھے حاصل ہے.دوسری چیز جس کا اس آیت میں ذکر کیا گیا ہے نسکی ہے.نُسُک.یہ نَسِيْكَة کی جمع ہے جو نَسک سے نکلا ہے.اور نُسک کے معنے ہوتے ہیں کسی نیک کام کو بغیر اس کے کہ اس کے کرنے کا حکم دیا گیا ہو، بغیر اس کے کہ اس کی ذمہ داری کسی پر ڈالی گئی ہوا اپنی خوشی اور مرضی سے کسی شخص نے سرانجام دیا اور اس نیت سے کام کیا کہ خدا تعالیٰ کی رضا اسے حاصل ہو جائے.اس مفہوم کو مدنظر رکھتے ہوئے نَسِيكَة کا لفظ ایسی قربانی پر دلالت کرتا ہے جو خالصۃ للہ ہو اور پھر اپنی خواہش، رادے اور طبیعی رغبت کے ماتحت کی جائے.اس میں جبر اور حکم کا دخل نہ ہو.جبر اور حکم کے ماتحت

Page 249

* 1949 240 خطبات محمود جانے والی بھی اللہ ہو سکتی ہے لیکن وہ مشتبہ ہوتی ہے.ہو سکتا ہے کہ دیکھنے والا اس کے متعلق ایسا طبہ کر لے کہ شاید اگر حکم نہ دیا جاتا تو قربانی کرنے والا قربانی نہ کرتا.پھر نَسینگ ایسے چاندی اور سونے کو بھی کہتے ہیں جس میں سے ہر قسم کی میل نکال دی ایرانی جائے.اس لحاظ سے نسینگۃ کے معنے اس فعل کے بھی ہو سکتے ہیں جو ہر قسم کے نقص اور خرابی سے پاک ہو.ہر زبان کا یہ قاعدہ ہے کہ کسی لفظ کے جتنے معنے ہو سکتے ہیں وہ سب کے سب اپنی ذات میں مستقل سمجھے جاتے ہیں لیکن اس میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ ان تمام معنوں میں روح ایک ہی پائی جاتی ہے اور ہر مفہوم دوسرے مفہوم سے مشابہت کے رشتہ سے وابستہ ہوتا ہے.چنانچہ ایسا سونا اور چاندی جس ہو وہ میں سے ہر قسم کی میل نکال دی جائے نَسِيكَة کے مستقل معنے ہیں اور ایسی قربانی جو خالصة لله : بھی اس کے مستقل معنے ہیں اور ان دونوں معنوں کو اگر ملا کر دیکھا جائے تو دونوں مشابہت کے رشتہ سے آپس میں وابستہ ہیں کیونکہ ہر وہ قربانی جو مصفی ہو، غیر چیز کی اس میں ملونی نہ ہو محض للہ ہو، وہ قربانی بھی ہر قسم کے عیب اور نقص سے صاف ہو جاتی ہے اور ہر قسم کی میل سے صاف کی ہوئی چاندی لی اور سونے میں بھی یہی معنے پائے جاتے ہیں یعنی اس میں سے بھی غیر جنس کو نکال دیا جاتا ہے.ان دونوں معنوں کو مد نظر رکھ کر یہاں نسیگہ کے معنے اس قربانی کے ہوں گے جو ہر قسم کی خرابی اور نقص سے پاک ہو، خالصہ اللہ ہو اور کوئی غیر چیز جس کے لیے قربانی نہیں ہونی چاہیے اس میں شامل نہ ہو.پھر وہ قربانی طبعی رغبت سے ہو جبر اور حکم کا اس میں دخل نہ ہو.خالصة لله قربانی اور عام قربانی میں زمین و آسمان کا فرق پایا جاتا ہے.جب صرف قربانی کا لفظ بولا جائے تو اس سے مراد ہر قسم کی قربانی ہوتی ہے.مثلاً اگر ہم کہیں کہ فلاں شخص نے اپنے بیوی نے بچوں کو بھوکا رکھا اور ماں باپ کی خدمت کی تو اسے بھی ہم قربانی ہی کہیں گے.یہ نہیں کہ وہ کام جو ای ماسوی اللہ کے لیے کیا جائے.قربانی کی تعریف اس پر صادق نہیں آتی.ماسوی اللہ کے لیے جو کام کیا جائے اس کے لیے بھی قربانی کا لفظ استعمال کیا جائے گا.احادیث میں آتا ہے کہ تین آدمی تھے جو کسی پہاڑی علاقہ میں سے گزر رہے تھے کہ طوفانِ بادوباراں آیا اور وہ ڈر کے مارے ایک غار میں چُھپ گئے.جب وہ غار میں چھپے تو ایک بڑی سل ہوا اور بارش کے زور سے لڑھک کر اس کے دروازہ پر آگری اور اُن کا رستہ رُک گیا.انہوں نے طوفان سے محفوظ رہنے کے لیے غار میں پناہ لی تھی

Page 250

* 1949 خطبات محمود 241 لیکن ہوا اور بارش نے اُن کے باہر نکلنے کا رستہ بھی بند کر دیا.ان تینوں کے اندر اتنی طاقت نہیں تھی کہ اس سل کو دروازہ سے ہٹا سکتے.پس تینوں نے آپس میں مشورہ کیا کہ کوئی ایسی تدبیر اختیار کی جائے جس سے یہ سل دروازہ سے ہٹ جائے اور آخر انہوں نے یہ تجویز کی کہ آؤ! ہم اپنے کسی خاص فعل کو پیش کر کے خدا تعالیٰ سے یہ دعا مانگیں کہ اے اللہ ! ہمارے فلاں فعل کی وجہ سے جو خالص تیرے لیے تھا تو ہمیں اس مصیبت سے نجات دے.چنانچہ ان میں سے ایک شخص نے خدا تعالیٰ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اے میرے اللہ ! تو جانتا ہے کہ میرا اور میرے اہل وعیال کا گزارہ بکریوں کے دودھ پر ہے مگر ایک دن ایسا اتفاق ہوا کہ میں جلدی واپس گھر نہ پہنچ سکا.بہت رات گئے میں گھر پہنچا.میرے بڑھے والدین میرا انتظار کرتے کرتے تھکان کی وجہ سے مزید بیدار رہنے کی برداشت نہ کر سکے اور سو گئے.جب میں گھر پہنچا تو میرے بچے بھوک کی وجہ سے تڑپ رہے تھے اور بیوی بھی بیتاب تھی.میری بیوی نے کہا تمہارے والدین تو تھکان کی وجہ سے سو گئے ہیں لیکن ہم لوگ جاگ رہے ہیں اور کھانے کی انتظار میں ہیں تو ہمیں دودھ پلا دو بچے بھوک کی زیادہ برداشت نہیں کر سکتے.میں نے اسے جواب دیا ماں باپ کا حق بیوی بچوں پر مقدم ہے.میں پہلے انہیں دودھ پلاؤں گا اور پھر بیوی بچوں کی طرف توجہ کروں گا.چنانچہ میں نے دودھ کا پیالہ اُٹھایا اور اُن کی پائنتی کھڑا ہو گیا.کیونکہ میں انہیں جگانا اور ان کی نیند میں دخل انداز ہونا نہیں چاہتا تھا میں نے خیال کیا جب یہ نیند سے خود بخود بیدار ہوں گے تو ان کی خدمت میں دودھ پیش کروں گا.لیکن وہ تھکان کی وجہ سے ایسے سوئے کہ ساری رات گزرگئی اور وہ نہ جاگے.میرے بچے بھی آخر بھوک کی برداشت نہ کر سکے اور نیند کے غلبہ کی وجہ سے سو گئے.میں ساری رات والدین کی پائنتی دودھ کا پیالہ ہاتھ میں لیے کھڑا رہا.صبح جب وہ نیند سے بیدار ہوئے تو میں نے انہیں دودھ پلایا اور ان کے بعد بیوی بچوں کو دودھ دیا.اے میرے رب ! میری اس میں کوئی ذاتی غرض نہیں تھی.میں نے ان سے یہ حسنِ سلوک صرف اُس فرض کے ادا کرنے کے لیے کیا جو تو نے مجھ پر عائد کیا تھا.اے میرے خدا! اگر تیرے نزدیک میرا یہ فعل مقبول ہے تو تو ہم پر رحم کر کے غار کے دروازہ سے پتھر ہٹا دے.احادیث میں آتا ہے کہ ان تینوں میں سے ہر ایک جب اپنی کسی خاص قربانی کو پیش کر کے خدا تعالیٰ سے دعا کرتا تو پتھر کا 1/3 حصہ دروازہ سے ہٹ جاتا.جب تیسرے شخص نے دعا کی تو آندھی زور سے چلی اور پتھر کے باقی حصہ کو بھی غار کے دروازہ ان خص

Page 251

$ 1949 242 خطبات محمود سے پرے ہٹا کر لے گئی 2ے.اب یہ چیز بھی قربانی ہی کہلائے گی لیکن اس میں احسان کا بدلہ اتارنے کا پہلو زیادہ پایا جاتا ہے.اس شخص نے والدین کی خاطر جو فعل کیا وہ اس احسان کی قدر کی وجہ سے تھا جو والدین نے اس پر کیا تھا.اس قدر کی وجہ سے ہی اس نے ساری رات جاگتے ہوئے کائی اپنے بیوی کی بچوں کو بھوکا رکھا اور جب تک والدین کو دودھ نہ پلا لیا اپنے بیوی بچوں کو نہ پلایا.ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ یہ قربانی نہیں تھی مگر اس کے خالصہ اللہ ہونے میں دوسروں کو شبہ ہوسکتا ہے.اسی طرح اور بہت سے واقعات پائے جاتے ہیں جن میں وہ لوگ جن پر کسی کا احسان ہوتا ہے اُس شخص کی خاطر اپنی جانیں تک قربان کر دیتے ہیں.مغلوں کی تاریخ کا واقعہ ہے کہ ہمایوں کا وزیر جب شکست کھا کر بھاگا جارہا تھا تو سندھ میں اُسے پٹھانوں نے گھیر لیا اور سمجھ لیا کہ وہی ہمایوں کا وزیر ہے.ان کے ساتھ ایک خادم بھی تھا.اس نے حملہ آوروں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا وزیر میں ہوں وہ نہیں اور وزیر کہہ رہا تھا کہ وزیر میں ہوں وہ نہیں.آخر اس خادم نے اتنے زور اور اصرار کے ساتھ اپنے آپ کو بطور وزیر پیش کیا کہ حملہ آوروں کو یقین ہو گیا کہ یہ غلام ہی اصل وزیر ہے.چنانچہ انہوں نے اسے قید کر لیا اور پھانسی دے دی.اب یہ بھی ایک قربانی تھی.لیکن یہ قربانی خالصہ اللہ نہیں تھی.ایک محسن کے لیے تھی.بالکل ممکن تھا وہ غلام دہر یہ ہوتا تب بھی وہ اپنے محسن کے لیے جان قربان کر دیتا.دنیا میں ہم دیکھتے ہیں کہ لوگ قوم کی خاطر اس کے رُعب اور وقار کو قائم رکھنے کے لیے اپنی جانوں اور مالوں کی پروا نہیں کرتے اور ہر ملک میں اس کی مثالیں پائی جاتی ہیں.جاپانی لوگ کوئی خدا پرست نہیں تھے.وہ مشرک اور دہر یہ تھے.مگر گزشتہ جنگ میں جو قربانیاں انہوں نے کی ہیں ان کے واقعات پڑھ کر حیرت آتی ہے.جہاز سے گرائے ہوئے بم کے خطا جانے کا امکان ہوسکتا ہے مگر جنگ میں بعض مواقع ایسے بھی آجاتے ہیں کہ دو منٹ کا بھی وقفہ پڑ جائے تو دشمن غالب آجاتا ہے.یسے وقت پر اگر ہاتھ سے بم پھینکا جائے یا جہاز سے گرایا جائے تو ممکن ہے وہ نشانہ پر نہ بیٹھے.لیکن لائف بم کا خطا ہو جانا ممکن نہیں.جاپانی لوگ ایسے مواقع پر ہم اپنے سینوں پر باندھ لیتے اور مقابل پارٹی کے مورچوں اور حفاظت کی جگہوں پر گو دکر گر جاتے تو خود تباہ ہو جاتے لیکن دشمن کی پوزیشن کو نقصان پہنچا دیتے.غرض ملک اور قوم کی خاطر انہوں نے قربانی کی اور ایسی کی جس کے واقعات پڑھ کر

Page 252

* 1949 243 خطبات محمود حیرت آتی ہے.لیکن وہ قوم کی خاطر تھی ، ملک کی خاطر تھی خالصہ اللہ نہیں تھی.وہ قربانی جو خالصہ لِلہ نہ ہو وہ بھی آگے کئی قسم کی ہوتی ہے.لوگ قوم کے لیے بھی قربانیاں کرتے ہیں، ملک کے لیے بھی قربانیاں کرتے ہیں، ماں باپ اور اولاد کے لیے بھی قربانیاں کرتے ہی ہیں، مائیں اولاد کے لیے جو قربانی کرتی ہیں اُس کی مثال بہت کم ملتی ہے.دوسری قربانیاں خواہ کتنی شاندار ہوں ماؤں کی قربانیوں کی طرح عام نہیں پائی جاتیں مگر ان قربانیوں سے تو کوئی بستی بھی خالی نہیں.بچہ بیمار ہو جاتا ہے تو ماں ساری ساری رات جاگتی رہتی ہے باپ اس کی برداشت نہیں کر سکتا.وہ بسا اوقات تنگ آکر دوسرے کمرے میں چلا جاتا ہے.اس کے سامنے صرف سونے کا سوال ہوتا ہے اور بیوی کے سامنے ساری رات پھرنے کا لیکن وہ ساری ساری رات جاگتی ہے اور بچے کو گود میں لے کر ادھر اُدھر پھرتی ہے.اب یہ بھی قربانی تو ہے لیکن اللہ کے لیے نہیں کہلا سکتی.ماں اپنی مامتا کی ماری یہ قربانی کرتی ہے، ہم اس کی قدر کرتے ہیں اور اس کا ذکر سن کر متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتے.اس کا ذکر کرتے ہوئے بعض دفعہ ہماری آواز میں ارتعاش پیدا ہو جاتا ہے.ہماری آنکھوں میں نمی آ جاتی ہے ہے.لیکن وہ قربانی خالصۂ لِلہ نہیں کہلا سکتی.قوم ، ملک ، والدین یا بیوی بچوں کے لیے جو قربانی کی جاتی ہے اور وہ قربانی جو خدا تعالیٰ کے لیے کی جاتی ہے دونوں میں ایک فرق ہے اور وہ فرق عقل کا ہے.قوم، ملک، والدین یا بیوی بچوں کے لیے جو قربانی کی جاتی ہے اس کے ساتھ ایک جنون سا پایا جاتا ہے لیکن خدا تعالیٰ کی خاطر کی ہوئی قربانی کے ساتھ جنون نہیں پایا جاتا.اول الذکر قسم کی قربانی کرنے والے کا اصل مقصد یہ ہوتا ہے کہ کسی طرح احسان کا بدلہ اتارے.ماں اپنے بچے کی خاطر اس لیے چی قربانی کرتی ہے کہ وہ آئندہ قوم کا سپوت ثابت ہو اور بڑے ہو کر وہ اس کی خدمت کرے.حالانکہ خدا تعالیٰ اس سے بھی زیادہ احسان کرنے والا ہے.اگر اس کے اندر قربانی کا حقیقی جذ بہ ہوتا تو وہ دونوں کے درمیان موازنہ کرتی کہ کس کا احسان زیادہ ہے.وہ ماں جو ساری ساری رات اپنے بچے کی خاطر جاگتی ہے اور اسے گود میں لیے پھرتی ہے بسا اوقات وہ تہجد کے لیے نہیں اٹھتی حالانکہ خدا تعالیٰ کا احسان اس پر زیادہ ہوتا ہے.وہ قوم کے لیے قربانی کرتی ہے تو اس لیے کرتی ہے کہ آئندہ نسلوں کو فائدہ پہنچے لیکن اللہ تعالیٰ کا گزشتہ نسلوں پر بھی فضل ہوتا ہے اور آئندہ نسلوں کے لیے بھی وہ رحمت کا موجب ہوتا ہے.پس قوم، ملک یا بیوی بچوں کی خاطر کی گئی قربانی کی خالصہ لِلہ قربانی کے ساتھ کوئی

Page 253

$ 1949 244 خطبات محمود نسبت ہی نہیں.ملک اور قوم اور بیوی بچوں اور دوسرے عزیزوں سے نیک سلوک کرنے والے کی قربانی بھی بیشک قربانی کہلائے گی لیکن ہو گی ادنی.اس لیے کہ اس نے بڑی چیز کو چھوڑ کر چھوٹی چیز کو ختیار کیا.اگر وہ اس جذبہ کا صحیح استعمال کرتا تو وہ ہر مقام کی نسبت سے اپنی قربانی کو تقسیم کرتا.قوم، ملک، والدین اور بیوی بچوں وغیرہ کے لیے قربانی کرنے والے کی خدا تعالیٰ پر نظر نہیں ہوتی.کتاب میں ہم پڑھ رہے ہوتے ہیں کہ فلاں شخص نے قوم کی خاطر قربانی کی ، فلاں نے اپنے آقا کے ساتھ نیکی کی مگر ہم موازنہ نہیں کر رہے ہوتے.ہم ایک پہلو کو ترک کر دیتے ہیں اور ایک پہلو پر ساراز در خرچ کر دیتے ہیں.ہم ایک پہلو کو دیکھ کر اسے کامل تصور کر لیتے ہیں لیکن جب عقل کے ساتھ موازنہ کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ہمارا خیال غلط تھا.مثلاً ایک شخص ایک تنومند انسان کو جو سخت پیاسا ہوا ایک چلو بھر پانی دے دیتا ہے اور بچے کے سامنے پانی کی گڑوی رکھ دیتا ہے تو تنومند شخص کا ایک چلو بھر پانی سے کیا بنے گا.وہ اسے پیاس سے بچا نہیں سکتا اور نہ ہی پانی کی گڑوی بچے کے کام آ سکے گی.تنومند شخص چلو بھر پانی پی کر مر جائے گا اور بچہ پانی کی گڑوی پی کر مر جائے گا.غرض اس کی قربانی قربانی تو کہلائے گی لیکن عقل کے ساتھ موازنہ نہ کرنے کی وجہ سے ناقص رہ جائے گی.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اِنَّ صَلَاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلهِ رَبِّ الْعَلَمِینَ میں یہ بتایا ہے کہ میں اپنی وہ قربانی پیش کرتا ہوں جو خالصہ اللہ ہے.اس کا یہ ہرگز مطلب نہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم دوسری قربانیاں نہیں کرتے تھے.آپ نے دوسری قربانیاں بھی کیں اور ان کا ذکر قرآن کریم میں بار بار آتا ہے.خدا تعالیٰ فرماتا ہے لَعَلَّكَ بَاع نَّفْسَكَ أَلَّا يَكُونُوا مُؤْمِنِينَ 3 اے محمد رسول اللہ! کیا تو اس وجہ سے کہ وہ ایمان نہیں لاتے اپنے آپ کو ہلاک کر ڈالے گا.آپ نے جس رنگ میں اپنی قوم سے وفاداری کی اور صرف اپنے دوستوں کے لیے ہی نہیں اپنے دشمنوں کے لیے بھی قربانیاں کیں وہ اپنی نظیر آپ ہیں.حضرت عباس رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا بھی تھے اور محسن بھی.آپ دوسروں کی تی نسبت ان سے زیادہ محبت کرتے تھے.جنگ بدر میں وہ قید ہوئے.جب اسلامی لشکر مدینہ واپس آرہے تھا تو راستے میں ایک جگہ پر کچھ دیر آرام کرنے کے لیے قیام کیا گیا.اُن دنوں بیٹریاں اور ہتھکڑیاں نہیں ہوتی تھیں.قیدیوں کو رسیوں سے باندھ دیا جاتا اور رسیاں زیادہ سخت کر کے باندھی جاتی تھیں

Page 254

$1949 245 خطبات محمود تا ڈھیلی نہ رہیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم لشکر سمیت آرام کرنے کے لیے ایک جگہ پر قیام پذیر ہوئے.قیدیوں کی جگہ آپ کی آرام گاہ کے بالکل قریب تھی.رسیوں کے سخت بندھے ہونے کی وجہ سے حضرت عباس کے کراہنے کی آواز آنے لگ گئی.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کبھی ادھر کروٹ لیتے ہے تھے کبھی اُدھر.آپ کو نیند نہیں آتی تھی.صحابہ کے اندر یہ بات پائی جاتی تھی کہ وہ آپ کی ہر حرکت کو ی دیکھتے رہتے تھے.پہریداروں نے جب دیکھا کہ آپ کو نیند نہیں آرہی تو انہوں نے آپس میں مشورہ کیا کہ اس کی کیا وجہ ہے.انہوں نے خیال کیا کہ آپ کو چونکہ حضرت عباس کے کراہنے کی آواز آرہی ہے ہے اور ان سے آپ کو محبت ہے اس لیے دُکھ اور تکلیف کی وجہ سے آپ کو نیند نہیں آتی.چنانچہ انہوں نے حضرت عباس کی رسیاں ڈھیلی کر دیں جس کی وجہ سے ان کے کراہنے کی آواز بند ہوگئی اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو کچھ دیر کے لیے نیند آ گئی.مگر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ کچھ دیر کے بعد رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دل میں وہم پیدا ہوا کہ تکلیف برداشت نہ کر کے حضرت عباس کہیں فوت ہی نہ ہو گئے ہوں یا بیہوش نہ ہو گئے ہوں.چنانچہ آپ نے پہریداروں کو بلایا اور دریافت کی فرمایا کہ حضرت عباس کی آواز کیوں نہیں آتی؟ انہوں نے بتایا يَا رَسُوْلَ اللہ ! ہم نے دیکھا کہ آپ کی کو نیند نہیں آرہی.ہم نے خیال کیا کہ یہ صرف حضرت عباس کے کراہنے کی وجہ سے ہے اس لیے ہم نے ان کی رسیاں ڈھیلی کر دی ہیں جس کی وجہ سے ان کے کرانے کی آواز بند ہوگئی ہے.آپ نے فرمایا ہے عباس سے بیشک مجھے محبت ہے لیکن دوسرے قیدی بھی تو کسی نہ کسی کو پیارے ہیں.یا تو تم عباس کی رسیاں بھی باندھ دو اور یا پھر دوسروں کی رسیاں بھی ڈھیلی کر دو.اس پر صحابہ نے دوسرے قیدیوں کی رسیوں کو بھی ڈھیلا کر دیا.4 یہ قربانی تھی جو آپ نے کی.حضرت عباس کے ساتھ آپ کو محبت تھی ، وہ آپ کے چاتھے اور محسن بھی تھے اس لیے دوسروں کی نسبت آپ ان کی زیادہ حمایت کرتے تھے لیکن جہاں محبت کے تعلقات تھے وہاں آپ نے برداشت نہ کیا کہ حضرت عباس کی رسیاں کھول دی جائیں اور دوسرے قیدی تکلیف کی وجہ سے کراہتے رہیں.حضرت خدیجہ نے بھی آپ کے ساتھ حسن سلوک کیا تھا.اس کا آپ پر اتنا گہرا اثر تھا کہ آپ حضرت خدیجہ کا بڑی کثرت سے ذکر فرمایا کرتے تھے.حضرت عائشہ پر طبعا یہ بات گراں گزرتی.آپ فرماتی ہیں میں نے تنگ آکر ایک دن کہا یا رسول اللہ ! آپ بھی کیا کرتے ہیں.

Page 255

$1949 246 خطبات محمود خدا تعالیٰ نے آپ کو اُس سے اچھی بیویاں دے دی ہیں آپ اس کا خیال چھوڑ دیں.آپ نے فرمایا عائشہ تمہیں معلوم نہیں کہ اُس میں کیا کیا خوبیاں تھیں.اگر تمہیں معلوم ہوتا تو یہ بات کبھی نہ کہتیں.5 اسی طرح اور بھی جس جس شخص نے آپ سے حسن سلوک کیا آپ نے اسے بھلایا نہیں بلکہ آپ نے ہمیشہ اس کی قدر کی.اوروں کو جانے دو جس قوم نے آپ کو پالا تھا آپ نے اُس سے جو ای سلوک کیا وہ کیا کم قربانی تھی.وہ قوم آخر وقت تک آپ سے لڑتی رہی اور بالآخر ایک لمبی اور خطر ناک جنگ کے بعد مغلوب ہوئی اور ساری کی ساری قید ہو کر آئی.اس جنگ میں ایک ایسا وقت بھی آیا جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی جان بھی خطرے میں پڑ گئی تھی لیکن اس قوم کے حُسنِ سلوک کا آپ پر اتنا اثر تھا کہ آپ نے دوماہ تک ان کے قیدیوں اور اموال کو تقسیم نہ کیا.وہ بھی ضدی تھے.آپ کے پاس جلدی نہ آئے.آپ کا خیال تھا کہ وہ میرے پاس آئیں گے تو میں صحابہ سے ان کی سفارش کر دوں گا کہ چاہو تو ان کو چھوڑ دو ان کا مجھ پر احسان ہے، انہوں نے مجھے پالا تھا مگر جب آپ نے دیکھا کہ وہ دو ماہ تک نہیں آئے تو آپ نے قیدی اور مال صحابہ میں تقسیم کر دیئے.اس کے بعد آپ کی دودھ کی شریک بہن آئی اور اس نے درخواست کی کہ آپ ان سے حسن سلوک کریں.آپ نے فرمایا میں دیر تک انتظار کرتا رہا کہ تم آؤ تو میں تمہاری سفارش کر دوں مگر تم نہیں آئیں اور میں نے سب کچھ صحابہ میں تقسیم کر دیا ہے.اب میں ایک بات کر سکتا ہوں.میں سفارش کروں گا کہ یا تو صحابہ تمہارے قیدی چھوڑ دیں اور یا تمہارے مال واپس کر دیں.ان دونوں چیزوں میں سے جو چاہو پسند کر لو.انہوں نے مال کے مقابلہ میں جانوں کو ترجیح دی تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کو جمع کیا اور فرمایا میری دودھ شریک بہن آئی ہے اور درخواست کرتی ہے کہ اُس سے حسنِ سلوک کیا جائے.میں نے ان دو چیزوں میں سے ایک چیز کا وعدہ کیا ہے چاہے مال واپس لے لیں اور چاہے قیدی آزاد کرالیں.غنیمت کا مال تقسیم کر دیا گیا ہے اور میں مسلمانوں کو اس سے بالکل محروم نہیں رکھنا چاہتا.انہوں نے جانوں کو مال پر ترجیح دی ہے.اب میں تمہارے سامنے یہ بات رکھتا ہوں.صحابہ نے سب غلام چھوڑ دیئے اور کہا یارسول اللہ! ہم مال واپس کرنے کو تیار ہیں لیکن رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں نے ایک ہی چیز کا وعدہ کیا ہے.6 پھر یہ تو آپ کے محسن تھے.آپ نے دوسروں کے محسنوں کو دیکھ کر ان کی بھی قدر کی.ہے.

Page 256

* 1949 247 خطبات محمود چنانچہ ایک دفعہ اسلامی لشکر جب لڑائی سے واپس آیا تو آپ قیدیوں کا معائنہ فرما رہے تھے.قیدیوں میں عورتیں مرد سب شامل تھے.آپ قیدیوں کو دیکھ رہے تھے کہ ایک عورت بولی یا رسول الله ! کیا آپ کو معلوم ہے میں کون ہوں؟ آپ نے فرمایا مجھے معلوم نہیں تم خود ہی بتا دو.اس نے کہا میں حاتم طائی کی بیٹی ہوں.پھر اس نے کہا میں نے سنا ہے کہ آپ بڑے محسن ہیں اور محسن محسنوں کی قدر کیا کرتے ہیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کو جمع کیا اور فرمایا دیکھو ! اس لڑکی ہے کا باپ غریبوں کی مدد کیا کرتا تھا، مسافروں کے کام آتا تھا اور جہاں تک اُس کے بس میں ہوتا وہ دوسروں سے حُسنِ سلوک کرتا.مجھے یہ دیکھ کر شرم آتی ہے کہ اس کی لڑکی ہمارے پاس قید ہو.میرا یہ مشورہ ہے کہ انہیں آزاد کر دو.چنانچہ صحابہ نے صرف اس لڑکی کو ہی نہیں بلکہ اُس کے اصرار پر اُس کی ساری قوم کو آزاد کر دیا.7 غرض آپ نے اپنے محسنوں سے ہی نیک سلوک نہیں کیا بلکہ دوسرے لوگوں کے محسنوں کی بھی قدر کی ہے.حاتم طائی کا قبیلہ آپ سے بہت دور رہتا تھا.اس کا آپ پر کوئی احسان نہ تھا.آپ نے محض اس لیے کہ ان کا ایک فرد دوسروں سے حسنِ سلوک کیا کرتا تھا ان کی قدر کی اور آزاد کر دیا.پس قُلْ اِنَّ صَلَاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ کے معنے نہیں کہ آپ دوسری قربانیاں نہیں کرتے تھے بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ میری ساری قربانیاں جو انسانوں کی خاطر ہوتی ہیں وہ بھی خدا تعالیٰ کے واسطہ سے ہوتی ہیں.بعض لوگ نماز اس لیے ی پڑھتے ہیں کہ ان کے ماں باپ نماز پڑھتے تھے.وہ صحیح معنوں میں خدا تعالیٰ کی عبادت نہیں ہے کرتے.بعض دفعہ انسان ایک محسن کی خاطر دینی کاموں میں حصہ لینے لگ جاتا ہے.مثلاً وہ دیکھتا ہے ہے کہ اس کا استاد دیندار ہے تو وہ بھی دیندار بن جاتا ہے.اب اس کا یہ فعل خالص خدا تعالیٰ کی رضا کے لیے نہیں ہو گا بلکہ استاد کے لیے ہو گا.لیکن رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز اور دینداری محض خدا تعالیٰ کی خاطر تھی.گویا ایک وہ ہے جو پیر کی خاطر خدا تعالیٰ کو مانتا ہے اور ایک وہ ہے جو خدا تعالیٰ کی خاطر پیر کو مانتا ہے.ادنیٰ درجہ کا مسلمان رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خاطر اللہ تعالیٰ کو مانتا ہے لیکن اعلیٰ درجہ کا مسلمان وہ ہے جو خدا تعالیٰ کی خاطر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مانتا ہے.

Page 257

خطبات محمود 248 $ 1949 غرض قُلْ اِنَّ صَلَاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ ميں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بتایا ہے کہ میری تمام قربانیاں خدا تعالیٰ کے لیے ہیں.میں اگر بیوی بچوں کی قدر کرتا ہوں، میں اگر والدین کی قدر کرتا ہوں، میں اگر قوم کی قدر کرتا ہوں، میں اگر اپنے محسنوں یا دوسرے لوگوں کے محسنوں اور بزرگوں کی قدر کرتا ہوں تو اس لیے کہ میں جانتا ہے ہوں کہ وہ رحمت اور شفقت جو ان کے دلوں میں پائی جاتی ہے وہ میرے خدا نے ہی ان کے اندر رکھی ہے.اور وہی بندوں سے حسن سلوک کرواتا ہے.چیز تو وہی رہی.ایک عام آدمی نے بھی قربانی کی اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی قربانی کی مگر ایک عامی 8 شخص نے اپنی اغراض کے لیے قربانی کی اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو خدا تعالیٰ کے مظاہر سمجھ کر ان کے لیے قربانی کی.لوگ ماں باپ سے حسن سلوک کرتے ہیں تو ذاتی اغراض کے لیے کرتے ہیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حقیقی والدین تو فوت ہو چکے تھے لیکن دودھ پلانے والی ماں تو موجود تھی اور وہ ماں کی قائمقام تھی.لوگ بچوں سے حسن سلوک کرتے ہیں تو ذاتی اغراض کے لیے کرتے ہیں.لوگ دوستوں سے حسن سلوک کرتے ہیں تو ذاتی اغراض کے لیے کرتے ہیں مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں میں ان سب سے اس لیے حُسنِ سلوک کرتا ہوں کہ یہ خدا تعالیٰ کے مظاہر ہیں.لوگ ماں کی محبت کو دیکھ کر اس کی خاطر قربانی کرتے ہیں مگر میں ماں کے لیے اس لیے قربانی کرتا ہوں کہ اس کے دل میں وہ محبت خدا تعالیٰ نے ہی رکھی ہے.لوگ ماں کو ہی اصل محبت کا مستحق قرار دے لیتے ہیں.دوستوں کو دیکھتے ہیں تو انہیں براہ راست محسن قرار دے لیتے ہیں اور اُن کے احسان کے بدلے اتارنا چاہتے ہیں لیکن میری سب قربانیاں خدا تعالیٰ کے لیے ہیں.میں اپنے بھائیوں سے، اپنی قوم سے اور اپنے دوسرے رشتہ داروں سے اگر حسن سلوک کرتا ہوں تو اس لیے کہ میں سمجھتا ہوں کہ ان کے اندر محبت اور شفقت کا جذبہ خدا تعالیٰ نے ہی رکھا ہے.غرض نَسِيكة کے معنوں میں یہ چیز شامل ہے کہ وہ قربانی ہو اور خالصہ اللہ ہو.لیکن رب العلمین کے الفاظ ساتھ لگا کر اسے اور بھی مقید کر دیا گیا ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قُلْ اِنَّ صَلَاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ کے ساتھ رب لعالمین

Page 258

* 1949 249 خطبات محمود لگا کر اس کی وجہ بیان کر دی ہے کہ میری قربانی کیوں اللہ ہے اور اس کی وجہ یہ بتائی ہے کہ وہ رب العلمین ہے.یعنی وہ تمام جہانوں کا پالنے والا ہے.وہ ماؤں کو بھی پیدا کرنے والا ہے، وہ بچوں کو بھی پیدا کرنے والا ہے، وہ دوستوں کو بھی پیدا کرنے والا ہے.سب چیزیں جو مجھے نظر آتی ہیں اُسی کی طرف کی سے ہیں.ایک شخص اپنی ماں کی قربانیوں اور حسنِ سلوک کو دیکھتا ہے تو وہ وہاں ٹھہر جاتا ہے.باپ کے حُسن سلوک کو دیکھتا ہے تو وہاں ٹھہر جاتا ہے.دوستوں کے حُسنِ سلوک کو دیکھتا ہے تو وہاں ٹھہر جاتا ہے لیکن میں ہر چیز کے پیچھے خدا تعالیٰ کا ہاتھ دیکھتا ہوں.میں جانتا ہوں کہ وہی ان خدمات کا محرک ہے.رحمت اور شفقت جو ان کے دلوں میں پائی جاتی ہے اُسی کی طرف سے ہے.اسی نے دنیا کے ہر ذرہ سے مجھے فائدہ پہنچایا ہے.مثلاً ٹھنڈا پانی ہے میں اسے پیتا ہوں اور اپنی پیاس بجھا تا ہوں.پیاس کو بجھانا پانی کی ذاتی خصوصیت نہیں ہے.اس کے اندر میرے خدا نے ہی یہ خوبی پیدا کی ہے.اسی طرح دوسری چیزیں ہیں.ان کے اندر بعض خصوصیتیں جو موجود ہیں وہ خدا تعالی کی ہی رکھی ہوئی ہیں.میں ہر چیز کے پیچھے خدا تعالیٰ کا ہاتھ دیکھتا ہوں.اصل محسن خدا تعالیٰ ہے اور یہ چیزیں ذرائع ہیں اور جب اصل محسن خدا تعالیٰ ہے تو پھر میں قربانی بھی اُسی کی خاطر کیوں نہ کروں.غرض رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قُلْ إِنَّ صَلَاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِینَ کے ساتھ رب العلمین لگا کر یہ بتایا ہے کہ ہر چیز جو فائدہ مند ہے اس کے پیچھے خدا تعالیٰ کا ہاتھ ہے.لوگ بے وقوفی اور نادانی سے اس چیز کو فی ذاتہ فائدہ مند سمجھ لیتے ہیں اور اس کی ھے قدر کرتے ہیں.لیکن میں جانتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ رب العلمین ہے اور سب چیزوں کو پیدا کرنے والا ہے.پھر میں اس کے لیے قربانی کیوں نہ کروں.گویا یہ الفاظ بڑھا کر آپ نے اپنے دعوی کے لیے وجہ جواز بیان کر دی ہے.یہ بھی بتا دیا کہ میری سب قربانیاں خدا تعالیٰ کے لیے ہیں اور یہ بھی بتا دیا کہ ان قربانیوں کی وجہ کیا ہے.کامل انسان وہ ہے جس کی سب قربانیاں خدا تعالیٰ کے لیے ہوں.اس کی طرح وہ اپنے ظاہری محسنوں کا بھی شکریہ ادا کر دیتا ہے اور خدا تعالیٰ کا بھی جو اصل محسن ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف اپنے محسنوں کے لیے نہیں اپنے دشمنوں کے لیے بھی قربانیاں کی ہیں.اور آپ نے قُلْ اِنَّ صَلَاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ كبر

Page 259

$ 1949 250 خطبات محمود کر یہ بتایا ہے کہ میں بندوں کے احسانوں کی بھی قدر کرتا ہوں لیکن یہ سمجھ کر کرتا ہوں کہ اس کے پیچھے خدا تعالی کا ہاتھ ہے.میں یہ محسوس کرتا ہوں کہ ہر ذرہ کے پیچھے خدا تعالی کا ہاتھ کام کر رہا ہے.جوشخص ایسی قربانی کرتا ہے وہ بظاہر قوم اور وطن اور رشتہ داروں کے لیے قربانی کر رہا ہوتا ہے لیکن وہ انہیں ایک ذریعہ سے زیادہ درجہ نہیں دیتا.وہ سمجھتا ہے کہ ہر فعل دراصل خدا تعالیٰ ہی کر رہا ہے اس طرح وہ دونوں کا حق ادا کر دیتا ہے.قریبی محسن کا بھی اور دُور کے محسن کا بھی جس نے قریبی محسن کے دل میں وہ خواہش پیدا کی.اور یہی قربانی اصل اور اعلیٰ درجہ کی ہے“.(الفضل 30 دسمبر 1959ء) 1 : الانعام: 163 2 : بخاری کتاب الاجارة باب من استاجر اجیرا فترک اجره (الخ) 3 : الشعراء : 4 4 : اسد الغابة جلد 3 صفحہ 109 مطبوعہ ریاض 1286ھ 5 : بخاری کتاب مناقب الانصار باب تزويج النَّبيِّ صلى الله عليه وسلم خَدِيجَةَ (الخ) 6 مغازي للواقدى مسير النبي صلى الله عليه وسلم الى الجعرانة بَعْدَ عَوْدِهِ مِنَ الطَّائف جلد 1 صفحہ 950 ذکر وفد هوازن میں رضاعی بہن کی بجائے رضاعی چا کا ذکر ہے.(مفہوما ) 7 : تفسير روح البيان سورۃ ابراھیم آیت 18 جلد 4 صفحہ 409 مطبع المكتبة الاسلامية عثمانية1330ھ عامی: عام، کم علم ، عام آدمی ، جو کسی فن میں عالم یا صاحب فن کے مقابلہ میں نابلد ہو ( اردو لغت تاریخی اصول پر جلد 13 صفحہ 294 مطبوعہ کراچی 1991ء)

Page 260

* 1949 251 (26) خطبات محمود رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا بلند مقام (فرموده 19 راگست 1949ء بمقام پارک ہاؤس کوئٹہ ) تشهد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے مندرجہ ذیل آیت قرآنیہ کی تلاوت کی: قُلْ إِنَّ صَلَاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ 1 اس کے بعد فرمایا: تیسری بات اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے مَحْیائی بیان فرمائی ہے.مَحْيَا کے ایک معنے تو زندگی کے ہوتے ہیں.یعنی جس بات کے لیے لفظ ”حیات استعمال ہوتا ہے انہی معنوں میں لفظ مَحْيَا بھی استعمال ہوتا ہے لیکن مَحْيَا کے معنے علاوہ زندگی کے مقام زندگی کے بھی ہوتے ہیں.یعنی جس جگہ کوئی شخص رہتا ہے اور اپنی زندگی بسر کرتا ہے وہ بھی محیا کہلاتی ہے.اس کے ساتھ بھی اللہ رَبِّ الْعَلَمِينَ کہ کر یہ قید لگادی گئی ہے کہ میری ساری زندگی اس خدا کی خاطر ہے جو تمام جہانوں کی ربوبیت کرنے والا ہے.خدا تعالیٰ کی خاطر زندگی کئی درجے رکھتی ہے.سب سے ادنی درجہ یہ ہے کہ انسان اپنے نفس کو اس بات پر آمادہ کر لے کہ اگر خدا تعالیٰ کے لیے اسے دنیا چھوڑنی پڑی تو وہ چھوڑ دے گا.بیشک وہ عملاً دنیا چھوڑ نہیں دیتا لیکن ضرورت پڑنے پر وہ اپنے نفس کو اس بات کے لیے تیار پاتا ہے.مگر یہ خدا کے لیے زندگی بسر کرنے کا سب سے ادنی درجہ ہے کامل درجہ نہیں.کیونکہ ایک آدمی

Page 261

* 1949 252 خطبات محمود وہ ہوتا ہے جو دنیا کو چھوڑ دینے کا ارادہ رکھتا ہے اور ایک آدمی وہ ہوتا ہے جو صرف ارادہ ہی نہیں رکھتا بلکہ عملاً ایسا کر دیتا ہے اور یہ دونوں برابر نہیں ہو سکتے.ایثار والی زندگی کا درجہ عام زندگی سے بہر حال بالا ہے.خدا تعالیٰ کی خاطر دنیا چھوڑنے والے لوگ صرف یہ نہیں کہتے کہ اگر ضرورت پڑی تو وہ اپنی زندگی ہے خدا تعالیٰ کی خاطر وقف کر دیں گے بلکہ وہ عملی طور پر بھی وقف کر دیتے ہیں اور ان کے تمام کام خدا تعالیٰ کی کے لیے ہو جاتے ہیں.وہ خدا تعالیٰ پر توکل کر کے اپنی زندگی بسر کرتے ہیں.وہ دنیا کی کمائی کے ایسے ذرائع تجویز کرتے ہیں جو اُن کی وقف شدہ زندگی میں رخنہ نہ ڈالیں اور ان کے مذہبی کاموں میں رکاوٹ پیدا نہ کریں.مثلاً جب فتح خیبر ہوئی تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ زمین اپنے خاندان کے کے لیے وقف کر دی جس سے ان کے گزارہ کا سامان ہوتا تھا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم زمینوں پر ای خود کام نہیں کرتے تھے بلکہ جس طرح اجارہ پر زمین دی جاتی ہے وہ زمین دوسروں کو دے دی گئی تھی اور اس سے جو حصہ آتا تھا وہ آپ خاندان میں تقسیم کر دیتے تھے.اسی طرح حضرت موسی علیہ السلام اور حضرت عیسی علیہ السلام کی زندگیاں بھی نظر آتی ہیں.وہ اپنے اوقات دنیوی کاموں میں استعمال نہیں ہے کرتے تھے.گونمنی طور پر ایسے کام ہو بھی جاتے تھے جیسے حضرت داؤد علیہ السلام اور حضرت سلیمان کی علیہ السلام نے کیا.وہ ایسا کام کر لیتے تھے مگر اس طرح نہیں کہ وہ ان کے اصل کام میں روک پیا کر دیں.یہ مقام نہایت اعلیٰ درجہ کا ہوتا ہے.قُلْ اِنَّ صَلَاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِینَ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بتایا ہے کہ میری ساری زندگی خدا تعالیٰ کی خاطر ہے مگر اس سے اوپر ایک اور مقام بھی ہے.یعنی ایک مقام تو یہ ہوتا ہے کہ انسان خدا تعالیٰ کے لیے زندگی بسر کرے مگر یہ مقام ادنی ہوتا ہے کیونکہ اس میں صرف اتنی بات پائی جاتی ہے کہ انسان اپنے ارادے اور نیت سے اس کام میں لگا رہتا ہے لیکن ایک مقام ایسا ہوتا ہے کہ زندگی قربان کرنے والا ایسے مقام پر پہنچ جاتا ہے کہ خدا تعالیٰ اُس کی اس قربانی کو قبول کر لیتا ہے.یہ دونوں مقام الگ الگ ہیں.جو انسان اپنے ارادے اور نیت سے اپنی زندگی کو خدا تعالیٰ کی خاطر وقف کر دے ضروری نہیں کہ خدا تعالیٰ اسے قبول بھی کر لے.ایک شخص اپنے آپ کو خدمت کے لیے آقا کے سامنے پیش کر دیتا ہے لیکن ضروری نہیں کہ آقا اس کی خدمت کو قبول بھی کر لے.اس شخص کی زندگی خدا تعالیٰ کی خاطر تو شمار ہوگی لیکن یہ اعلیٰ مقام قربانی نہیں.ہاں ! خدا تعالیٰ اس کی قربانی کو قبول کرلے تو یہ علیحدہ امر ہے.

Page 262

خطبات محمود 253 $ 1949 مَحْيَاءَ میں اس طرف بھی اشارہ ہے کہ میری زندگی اب ایسے مقام پر پہنچ گئی ہے کہ میری زندگی در حقیقت اللہ کی زندگی ہو گئی ہے.میں چلتا ہوں تو میں نہیں چلتا خدا تعالیٰ چل رہا ہوتا ہے، ہمیں یکھتا ہوں تو اُس وقت میں نہیں دیکھ رہا ہوتا خدا تعالیٰ دیکھ رہا ہوتا ہے، میں کوئی بات سنتا ہوں تو اُس کی وقت میں نہیں سن رہا ہوتا خدا تعالیٰ سن رہا ہوتا ہے.گویا میری زندگی باختیار خود زندگی نہیں بلکہ میری زندگی باختیار اللہ ہو گئی ہے.میری مرضی خدا تعالیٰ کی مرضی ہو گئی ہے.یہی وہ مقام ہے جس کے متعلق رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ بندہ خدا تعالیٰ کے قریب ہوتا چلا جاتا ہے اور ہوتے ہوتے وہ ایسے مقام پر پہنچ جاتا ہے کہ خدا تعالیٰ اس کے کان بن جاتا ہے جن سے وہ سنتا ہے، خدا تعالیٰ اُس کی آنکھیں بن جاتا ہے جن سے وہ دیکھتا ہے، خدا تعالیٰ اُس کی زبان بن جاتا ہے جس سے وہ چکھتا ہے، خدا تعالیٰ اُس کے ہاتھ بن جاتا ہے جن سے وہ پکڑتا ہے، خدا تعالیٰ اُس کے پاؤں بن جاتا ہے جن سے وہ چلتا ہے.2 گویا وہ صرف اپنی طرف سے ہی کوشش نہیں کرتا بلکہ خدا تعالیٰ بھی اس کی کوششوں کو قبول کر لیتا ہے اور اسے اپنی صفات کے ظہور کا مقام بنالیتا ہے.پھر اس سے اوپر ایک اور مقام آتا ہے اور وہ محیا کے دوسرے معنے ہیں اور وہ مقام یہ ہے کہ اُس کا مقام زندگی بھی خدا تعالیٰ کے لیے ہو جاتا ہے اور وہ اشاعتِ اسلام اور اعلائے کلمۃ اللہ اور خدا تعالیٰ کی ذات کی طرف توجہ دینے میں اتنا مشغول ہو جاتا ہے کہ جس جگہ بھی وہ جاتا ہے لوگ کھیچے ہوئے اُسی کی طرف آ جاتے ہیں.یہ مقام انبیاء کو نصیب ہوا ہے مگر جس شان کے ساتھ یہ مقام محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ملا ہے کسی دوسرے نبی کو نہیں ملا.حضرت موسی علیہ السلام کو بھی یہ مقام نصیب ہوا ہے مگر آپ کی زندگی میں ایسا نہیں ہوا بلکہ وفات کے بعد ہوا.حضرت ابراہیم علیہ السلام بھی جس جگہ تھے وہ ماحول پاکیزہ ہو گیا تھا.اس جگہ کے رہنے والے قربانی کرنے والے تھے مگر وہ ماحول بھی محدود تھا.اگر کوئی ہستی ایسی ہوئی ہے جس نے اپنے آپ کو خدا تعالیٰ کی خاطر اس کے دین کی خدمت میں اس قدر محو کر دیا ہو کہ تمام ماحول کھلی طور پر خدا تعالیٰ کے لیے ہو گیا ہو تو وہ صرف رسول کریمی صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات مبارک ہے.آپ کے شہر اور علاقہ کے جو رہنے والے تھے آپ نے ان سب کو اپنی قوت قدسیہ کے ساتھ خدا تعالیٰ کے لیے کر دیا.پھر رَبُّ الْعَالَمِینَ کی شرط تمام معنوں کے ساتھ اپنے اپنے رنگ میں لگتی ہے.خصوصاً آخری ہے

Page 263

* 1949 254 خطبات محمود معنوں کے ساتھ اس کا خاص تعلق ہے.آپ نے نہ صرف تبلیغ کی بلکہ آپ کے ملنے کی وجہ سے لوگوں میں خدا تعالیٰ کی اتنی محبت پیدا ہو گئی تھی کہ اس کی وجہ سے نہ صرف مدینہ اور اس کے ارد گرد کا علاقہ مسلمان ہو گیا بلکہ قریباً سارا عرب مسلمان ہو گیا.صرف کہیں کہیں عیسائی اور یہودی قبائل رہ گئے تھے.س کے علاوہ آپ کو ایک زائد بات بھی حاصل تھی.آپ کے شہر اور علاقہ کا مسلمان ہو جانا تو چھوٹی سی ن ہے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں اِنَّ صَلاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ میری زندگی صرف اللہ تعالیٰ کے لیے ہے جو تمام جہانوں کی ربوبیت کرنے والا ہے.یعنی میرے تمام کام ایسے ہیں جو صرف میری ذات کے لیے نہیں بلکہ تمام بنی نوع انسان کی بہتری کی کے لیے ہیں.دوسرے انبیاء بھی اس کام میں ایک حد تک آپ کے مشابہ ہیں.حضرت موسی کے اتباع میں بھی یہ جذبہ پایا جاتا تھا مگر وہ محد و درنگ رکھتا تھا.تو رات میں یہی حکم آتا ہے کہ تم بنی اسرائیل کے ساتھ یوں سلوک کرو، یوں سلوک کرو.ساری دنیا سے سلوک کرنے کا اس میں کہیں حکم نہیں دیا گیا.مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دل میں ساری دنیا کے لیے ہمدردی پائی جاتی تھی.اسی لیے آپ کو چی ساری دنیا کی طرف مبعوث کیا گیا.مگر اس سے بڑھ کر آپ کو یہ بات حاصل تھی کہ آپ کا مقام حیات ہے جو تھا وہ بھی رب العلمین کے لیے ہو گیا تھا.یعنی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہی نہیں بلکہ آپ کے جی ننے والوں نے بھی بنی نوع انسان کی ہمدردی کے لیے اپنی زندگیاں وقف کر دی تھیں.اس کی موٹی اوی مثال یہ ہے کہ اگر کسی قوم کے اندر دوسروں کے فوائد کو اپنے فوائد پر مقدم رکھنے کا جذبہ پایا جائے تو ہر شخص سمجھ سکتا ہے کہ اس کا مقام حیات کس قدر بلند ہوگا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد جب شام میں لڑائیاں ہوئیں اور بیت المقدس بھی فتح ہوا تو عیسائیوں نے دوبارہ حملہ کیا اور مسلمانوں کو کچھ وقت کے لیے بیت المقدس چھوڑنا پڑا.جب مسلمان پیچھے ہٹے اور انہوں نے فیصلہ کر لیا کہ وہ بیت المقدس کو کچھ وقت کے لیے چھوڑ دیں گے تو انہوں نے شہر کے باشندوں کو بلایا اور آئندہ سال کے لیے جو ٹیکس وصول کیے ہوئے تھے وہ سب واپس کر دئیے.اس کا اُن پر اتنا اثر ہوا کہ تاریخ میں آتا ہے کہ جب لشکر شہر سے باہر نکل آیا تو عوام الناس تو الگ رہے بڑے بڑے پادری بھی روتے اور دعائیں کرتے تھے کہ اے خدا! ان لوگوں کو جلد واپس لا-3 اُن کی اپنی قوم ان پر قابض ہو رہی تھی.لیکن وہ غیر قوم کے لیے دعائیں مانگ رہے تھے کہ خدا ان کو جلد واپس لے آئے.مسلمانوں نے سال بھر

Page 264

$ 1949 255 خطبات محمود حفاظت کرنے کے بدلہ میں اُن سے ٹیکس وصول کیا تھا لیکن جب دیکھا کہ اب انہیں حفاظت کرنے کا موقع نہیں ملے گا تو سب ٹیکس واپس کر دئیے.اتنے ترین اور ورع 4 کی مثال اور کہیں نہیں ملتی.وہ سمجھتے تھے کہ ہم ان لوگوں کی خدمت کے لیے آئے تھے اگر ہم ان سے کوئی ٹیکس لیتے ہیں تو اُس کی خدمت کے لیے لیتے ہیں اور اگر ہمیں ان کی خدمت کرنے کا موقع نہیں ملا تو ہمیں کوئی حق حاصل نہیں ہے کہ ان کے ٹیکس اپنے پاس رکھیں.یہ رب العلمین والی صفت تھی جو ان میں پائی جاتی تھی کہ وہ ہر نقطہ اور ہر لحاظ سے اپنے آپ کو بنی نوع انسان کا خادم سمجھتے تھے یہ مَحْيَايَ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِيْنَ کی ایسی ملی مثال ہے جس کی نظیر ڈھونڈنے سے بھی کہیں اور نہیں مل سکتی.باقی حکومتیں اور ادارے بھی دوسروں کے حقوق کی نگرانی کرتے ہیں اور جہاں جاتے ہیں وہ ایسا کرتے ہیں لیکن یہ اُن کا ایسا کرنا خالص بنی نوع ا انسان کی ہمدردی کے لیے ہو اور رب العلمین خدا کے لیے ہو اس کی مثال نہیں مل سکتی.یہ کتنا بڑا اتغیر ہے جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پیدا کیا لیکن اتنا بڑا کام سوائے اسلامی تعلیم کا گہرا مطالعہ کرنے والے اور موت کے لیے ہر وقت تیار رہنے والے کے کوئی دوسرا شخص نہیں کر سکتا.چھوٹے چھوٹے کاموں میں لچ آجاتی ہے.معمولی معمولی باتوں میں انسان کوشش کرتا ہے کہ اس کے آرام کی کوئی صورت نکلی ئے مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں مَحْيَايَ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ نہ صرف میں بنی نور انسان کی ہمدردی کے لیے مقرر کیا گیا ہوں بلکہ دوسرے انبیاء پر مجھے یہ فوقیت حاصل ہے کہ میرے شہر اور علاقہ کے لوگ بھی بنی نوع انسان کی ہمدردی کے لیے آمادہ ہیں اور وہ اپنے فوائد کو بھول کر دوسروں کی ہمدردی میں مشغول رہنے کی خواہش رکھتے ہیں.(الفضل 6 جنوری 1960ء) 1 : الانعام: 163 2 : بخاری کتاب الرقاق باب التواضع : فتوح البلدان بلاذری صفحہ 144،143.مطبوعہ قاہرہ 1319ھ 4 : ورع: پرہیز گاری (فیروز اللغات اردو)

Page 265

* 1949 256 27 خطبات محمود رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بنی نوع انسان کی ہمدردی میں عدیم المثال قربانیاں (فرموده 26 اگست 1949ء بمقام پارک ہاؤس کوئٹہ ) تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے مندرجہ ذیل آیت قرآنیہ کی تلاوت کی: قُلْ اِنَّ صَلَاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ 1 اس کے بعد فرمایا: اس آیت کے تین حصوں کو میں بیان کر چکا ہوں.اب چوتھا حصہ رہ گیا ہے اور وہ مَمَاتِی“ ہے یعنی میری موت اللہ کے لیے ہے اور اُس اللہ کے لیے ہے جو رب العلمین یعنی سب جہانوں کی ربوبیت کرنے والا ہے.موت کے معنے جسمانی موت کے بھی ہوتے ہیں اور موت کے معنے مصیبت اور دکھ کے بھی ہوتے ہیں اور موت کے معنے اُن حالات کے بھی ہوتے ہیں جو خدا تعالیٰ کی کی رضا حاصل کرنے کے لیے انسان اپنے اوپر خود وارد کر لیتا ہے.اگر ہم موت کے یہ معنے کریں کہ وہ حالات جو میں اپنے اوپر وارد کرتا رہتا ہوں وہ اللہ تعالیٰ کے لیے ہیں اور اُس خدا کے لیے ہیں جو العلمین ہے تو اس کے معنے یہ ہوں گے کہ دنیا میں تمام انبیاء ایسے گزرے ہیں جنہوں نے اپنی قوم

Page 266

خطبات محمود 257 * 1949 اور اپنی ذات کے لیے دکھ اور مصائب اُٹھائے.مگر میں پہلا شخص ہوں جس نے رب العلمین خدا کے لیے دکھ اور مصائب اُٹھائے ہیں.میرا تکلیف اُٹھا نا کسی خاص قوم کے لیے نہیں تھا، میرا تکلیف اُٹھانا ہے کسی خاص ملک کے لیے نہیں تھا.میری تکالیف اور دکھ سب دنیا کے لیے ہیں.اور جیسا کہ میں اپنے کی خطبات میں بتا چکا ہوں اس آیت میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قربانیوں کے ساتھ ایسی قیود لگادی گئی ہیں جو دوسرے نبیوں کی قربانیوں میں بھی نہیں پائی جاتیں گجا یہ کہ دوسرے انسانوں کی قربانیوں میں وہ قیود پائی جائیں.حضرت نوح علیہ السلام دنیا میں آئے اور انہوں نے تکالیف برداشت کیں اور دکھ اُٹھائے مگر وہ تکالیف اور دکھ انہوں نے اپنی قوم کے لیے اٹھائے.حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بڑی بڑی قربانیاں کیں مگر انہوں نے بھی وہ قربانیاں اپنی قوم کے لیے کیں.حضرت کی موسی علیہ السلام نے بھی قربانیاں کیں مگر انہوں نے بھی وہ قربانیاں اپنی قوم کے لیے ہی کیں.گزشتہ انبیاء کو بنی نوع انسان کے مجموعی وجود کا احساس ہی نہیں تھا.بائبل کو دیکھ لو وہاں بار بار یہی آتا ہے اے اسرائیل کے خدا! وہاں رب العلمین کا خیال نہیں پایا جاتا.میں یہ نہیں کہتا کہ وہ خدا تعالیٰ کو رب العلمین نہیں مانتے تھے.بنی اسرائیل بھی خدا تعالیٰ کو رب العلمین مانتے تھے لیکن رب العلمین کا جذبہ رت بنی اسرائیل کے جذبہ کے ماتحت تھا.تو رات یہ نہیں کہتی کہ بنی اسرائیل کے علاوہ باقی لوگ کی خدا تعالیٰ کی مخلوق نہیں.وہ دوسرے لوگوں کو بھی خدا تعالیٰ کی مخلوق ہی سمجھتی ہے لیکن وہ یہ بھی بجھتی ہے کہ بنی اسرائیل دوسری مخلوق سے زیادہ شان والے ہیں.چنانچہ گو بائیل خدا تعالیٰ کو بنی اسرائیل کے علاوہ دوسری مخلوق کا بھی خدا خیال کرتی ہے مگر سوتیلے اور سگے کا فرق ضرور پایا جاتا ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم وہ پہلے شخص تھے جو ایسے ملک میں پیدا ہوئے جس کے تعلقات باقی دنیا سے نہیں تھے.عرب باقی ساری دنیا سے کٹا ہوا تھا.عرب کے رہنے والے باقی دنیا کے متعلق کوئی قطعی اور یقینی خیال نہیں رکھتے تھے.ان کے پاس کوئی تاریخ نہیں تھی.عرب کی دنیا عرب تک ہی ہے محدود تھی.اگر وہ دوسری قوموں کے متعلق کوئی خیال رکھتے بھی تھے تو وہ صرف منافرت کا خیال تھا.عربوں میں تکبر اتنا پایا جاتا تھا کہ وہ سمجھتے تھے ان کے مقابلہ میں کوئی ہے ہی نہیں وہ صرف سیاسی برتری ہے کو اپنے سے بالا سمجھتے تھے اور یہ خیال کرتے تھے کہ رومن اور ایرانی حکومتوں کے برابر اور کوئی حکومت نہیں.گویا سیاسی نقطہ نگاہ سے تو وہ عرب کو حقیر خیال کرتے تھے اور قومی نقطہ نگاہ سے وہ باقی دنیا کو عربی

Page 267

* 1949 258 خطبات محمود کے مقابلہ میں ذلیل خیال کرتے تھے.اسی طرح خواہ کوئی نقطہ نگاہ ہو جغرافیائی ہو یا تاریخی وہ دنیا میں مساوات کا رنگ تسلیم نہیں کرتے تھے.بلکہ قومی برتری کا خیال آتے ہی وہ عرب کو دوسری قوموں سے بالا سمجھتے تھے.اور جب سیاست کا سوال آتا تھا وہ رومن اور ایرانیوں کے درباروں میں جا کر رومی اور ایرانی بادشاہوں کو حضور کہنے سے بھی دریغ نہیں کرتے تھے.انہیں سیاسی تفاخر کے متعلق کوئی جس نہیں تھی.وہ رومی اور ایرانی بادشاہوں کو بڑے فخر سے اپنا بادشاہ کہہ دیتے تھے کیونکہ جب درباروں میں جاتے تھے تو کچھ لینے کے لیے جاتے تھے.غرض نہ وہ جغرافیائی حیثیت سے ایک دنیا کے قائل تھے اور نہ قومی لحاظ سے وہ ایک دنیا کے قائل تھے.پھر جو لوگ رومن اور ایرانی درباروں میں جاتے تھے ان کی تعداد بہت تھوڑی تھی.بالعموم یہ لوگ وہ تھے جنہوں نے اپنے گھر کے اردگر دسو سو میل سے باہر قدم نہیں رکھا تھا.ان کے مقابلہ میں بنی اسرائیل قوم ترقی یافتہ قوم تھی.وہ مصر میں رہتے تھے اور ایسی قوم کے اقتدار میں رہتے تھے جن کی اپنی حکومت اور اقتدار تھا.پھر مصر اُن دنوں سب سے زیادہ متمدن ملک تھا.مصر کے جہاز یورپ، افریقہ اور ہندوستان وغیرہ دوسرے ممالک میں جاتے ہی تھے.اس کی بیرونی ممالک سے تجارتیں تھیں اور مصری لوگ تجارتوں کے لیے باہر جاتے تھے اور دوسرے ممالک سے سیاسی اور تمدنی تعلقات رکھتے تھے.غرض مصر میں رہنے والی قوم باقی دنیا کے حالات سے غافل نہیں رہ سکتی تھی.مصری قوم اُس زمانہ میں بڑی متمدن قوم تھی اور اس کے باقی ممالک سے وسیع تعلقات تھے.جیسے آجکل انگلستان ہے.انگلستان سیاسی اور تمدنی طور پر اتنی ترقی کر چکا ہے کہ اس میں رہنے والا دنیا کے حالات سے غافل نہیں رہ سکتا.افغانستان میں رہنے والا غافل رہ سکتا ہے کیونکہ تمدنی اور سیاسی ترقی میں وہ ابھی بہت پیچھے ہے.یہی حالت عرب کی مصر کے مقابل میں تھی لیکن مصر میں رہتے ہوئے ، مصری اقتدار کے ماتحت رہتے ہوئے اور مصری تہذیب کے ساتھ تعلق رکھتے ہوئے حضرت موسی علیہ السلام نے اسرائیل کا خدا پیش کیا.چنانچہ بار بار تو رات میں یہی آتا ہے کہ بنی اسرائیل کا خدا یوں کہتا ہے.حضرت مسیح علیہ السلام جن کے زمانہ میں تمدن بہت پھیل چکا تھا، یورپ اور ایشیا آپس میں مخلوط ہو چکے تھے وہ بھی یہی کہتے رہے کہ میں بنی اسرائیل کی گمشدہ بھیڑوں کو اکٹھا کرنے کے لیے آیا ہوں.باوجود دنیا میں اتحاد ہو جانے کے حضرت مسیح علیہ السلام قومی نظر سے اوپر نہیں جا سکے.حضرت مسیح علیہ السلام بھی یہ خیال نہیں کرتے تھے کہ بنی اسرائیل کے علاوہ باقی

Page 268

* 1949 259 خطبات محمود لوگ خدا تعالیٰ کی مخلوق نہیں.وہ یہ بھی خیال نہیں کرتے تھے کہ بنی اسرائیل کے علاوہ باقی مخلوق کا خدا، خدا نہیں.حضرت مسیح علیہ السلام یہی سمجھتے تھے کہ بنی اسرائیل کے علاوہ باقی مخلوق بھی خدا تعالی کی مخلوق ہے اور خدا بنی اسرائیل کے علاوہ دوسرے لوگوں کا بھی خدا ہے.مگر باوجود اس کے موسوی نظریہ کے مطابق حضرت مسیح علیہ السلام نے بھی یہی نظریہ پیش کیا کہ بنی اسرائیل خاص طور پر خدا تعالیٰ کے بیٹے ہیں اور خدا تعالیٰ خاص طور پر بنی اسرائیل کا باپ ہے باقی لوگ خدا تعالیٰ کے سوتیلے بیٹے ہیں اور خدا تعالیٰ ان کا سوتیلا باپ ہے.اس کے مقابل پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اگر چہ آپ ایک ایسے ملک میں پیدا ہوئے جو تہذیب اور تمدن کے لحاظ سے بہت پیچھے تھاوہ باقی دنیا سے بہت کٹا ہوا تھا پہلی دفعہ یہ نظریہ پیش کیا کہ تمام قومیں خدا تعالیٰ کی مخلوق ہیں اور خدا تعالیٰ تمام قوموں کا خدا ہے اور یکساں خدا ہے.آپ نے فرمایا بیشک عرب قوم میری پہلی مخاطب ہے اور میں اسی میں پیدا ہوا ہوں مگر میں صرف اسی قوم کی بہبودی کے لیے مبعوث نہیں ہوا بلکہ بُعِثْتُ إِلَى الْاَسْوَدِ وَالْأَبْيَضِ وَالْأَحْمَرِ وَالاَصْفَرِ 2 میں تمام سیاہ ، سفید ، سُرخ اور زرد قوموں کی بہبودی کے لیے مبعوث کیا گیا ہوں.کوئی چینی ہو یا افریقن ، انگریز ہو یا امریکن، ہندوستانی ہو یا جاپانی ان ساروں کے لیے مجھے مبعوث کیا گیا ہے.پھر خدا تعالیٰ کے حکم سے آپ فرماتے ہیں وانَ مِنْ أُمَّةِ إِلَّا خَلَا فِيهَا نَذِيرٌ 3 يعنى یہ نہیں کہ میں نے اپنے زمانہ میں ہی یہ دعوی کیا ہے کہ میں ساری دنیا سے تعلق رکھتا ہوں اور میری زندگی اسی کی بہتری کے لیے صرف ہو رہی ہے بلکہ پہلے نبیوں پر جو الزامات عائد کیے گئے ہیں مجھے انہیں بھی دُور کرنا ہے.گویا یہ چیز خدا تعالیٰ کو آج ہی نہیں سوجھی کہ سب مخلوق اسی کی ہے بلکہ پہلے بھی مختلف انبیاء مختلف قوموں کی طرف مبعوث ہوتے رہے ہیں اور اللہ تعالیٰ ان کی ہدایت کا سامان پیدا کرتا رہا ہے.دراصل بنی اسرائیل کا یہ ایک محاورہ تھا کہ ہم خدا کے بیٹے ہیں.ورنہ وہ یہی سمجھتے تھے کہ خدا سب کا خدا ہے.نہ خدا تعالیٰ نے کسی وقت اپنے بندوں کو بھلایا اور نہ بندوں نے خدا تعالیٰ کی خدائی سے انکار کیا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں یہ حض الزامات ہیں جو پہلے نبیوں پر عائد کیے گئے ہے ہیں.ورنہ انہوں نے خدا تعالیٰ کو رب العلمین کی صورت میں پیش کیا ہے.مگر اس حقیقت کے باوجود اس امر سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ حضرت موسی علیہ السلام زندہ رہے مگر بنی اسرائیل کے لیے،

Page 269

$ 1949 260 خطبات محمود حضرت عیسی علیہ السلام زندہ رہے مگر اپنی قوم کے لیے ، حضرت ابراہیم علیہ السلام زندہ رہے مگر فلسطینیوں کے لیے، حضرت نوح علیہ السلام زندہ رہے مگر عراقیوں کے لیے، حضرت کرشن اور حضرت رامچند رعلیهما السلام زندہ رہے مگر ہندوستانیوں کے لیے.انہوں نے تکالیف اٹھائیں، مصائب برداشت کیں مگر صرف بنی اسرائیل کے لیے یا صرف فلسطینیوں کے لیے یا صرف عراقیوں کے لیے یا صرف ہندوستانیوں کے لیے.لیکن رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم خدا تعالیٰ کے حکم سے فرماتے ہیں قُلْ اِنَّ صَلَاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِینَ میں اگر تکالیف اور دکھ اُٹھاتا ہوں تو صرف ایک قوم کے لیے نہیں.بیشک میں عرب قوم میں پیدا ہوا ہوں اور وہ میری پہلی مخاطب ہے لیکن میرے دُکھ اور مصائب ساری دنیا کے لیے ہیں.اور یہ ایک قوم کے لیے ہو بھی کس طرح سکتے ہیں میں نے تو اپنی زندگی خدا تعالیٰ کے لیے وقف کی ہوئی ہے اور ایسے خدا کے لیے وقف کی ہوئی ہے جو رب العلمین یعنی سب جہانوں کی ربوبیت کرنے والا ہے.میں صرف عرب قوم کا لیڈر نہیں ہوں.میں تو خدا تعالیٰ کا جو رب العالمین ہے بندہ ہوں.اُس کی خاطر میں نے اپنی زندگی وقف کی ہوئی ہے ہے.وہ اگر رب العلمین ہے، وہ اگر سب جہانوں کی ربوبیت کرتا ہے تو اُس کا خادم ہونے کی حیثیت کی سے میری تکالیف اور دکھ کسی خاص قوم کے ساتھ کیوں مختص ہوں.جس شخص کے دو بیٹے ہوں اُس کا خادم دونوں بیٹوں کی خدمت کرے گا لیکن اگر تم نوکر نہیں ہو تو تمہیں اختیار ہے کہ ان دونوں میں سے کسی ایک کے دوست بن جاؤ.دوسرے سے کسی قسم کے تعلقات نہ رکھو.بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ ایک شخص کے دو بیٹے ہوتے ہیں.ایک شخص کے ان میں سے ایک کے ساتھ گہرے تعلقات ہو جاتے ہیں حالانکہ اس کے دوسرے بھائی کے ساتھ اس کے عام رواداری اور ہمدردی کے بھی تعلقات نہیں ہوتے.لیکن نوکر ایسا نہیں کر سکتا.اسے دونوں کی خدمت کرنی ہوگی ، دونوں سے وفاداری کا سلوک کرنا ہے پڑے گا.ہمسایہ ایسا کر سکتا ہے، غیر نوکر ایسا کر سکتا ہے لیکن نوکر ایسا نہیں کر سکتا.پس قُلْ اِنَّ صَلَاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِ لِلهِ رَبِّ الْعَلَمِيْنَ کہہ کر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں.میں نے خدا تعالیٰ کو رب العلمین سمجھ کر مانا ہے.ربّ عرب یا رب بنی اسرائیل سمجھ کر نہیں مانا.اور جب میں نے اسے رب العلمین سمجھ کر مانا ہے تو اس کی جتنی بھی مخلوق ہے ساری کی خاطر مجھے اپنے اوپر تکالیف وارد کرنی پڑیں گی.اسی وجہ سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم میں کثرت

Page 270

$ 1949 261 خطبات محمود سے یہ چیز پائی جاتی ہے کہ عربی کو جمی پر کوئی فضیلت نہیںاور نہ مجھی کوعربی پر کوئی فضیلت ہے، مگر حضرت موسی علیہ السلام کہتے ہیں فضیلت ہے.حضرت مسیح علیہ السلام کہتے ہیں فضیلت ہے.حضرت مسیح علیہ السلام کے پاس کسی غیر قوم کی ایک عورت آکر کہتی ہے اے استاد! تو مجھے بھی اس سچائی سے حصہ دے جو تُو بنی اسرائیل کے سامنے پیش کرتا ہے.وہ یہ نہیں کہتی کہ تو میرے لیے بھی تکلیف اُٹھا، میری بہتری کے لیے بھی قربانی کر بلکہ وہ صرف اتنا کہتی ہے کہ مجھے بھی وہ باتیں سنا جو تو بنی اسرائیل کو سناتا ہے لیکن اس کی عورت کی خاطر دکھ اور تکالیف اٹھانا تو الگ رہا حضرت مسیح علیہ السلام کہتے ہیں ”بیٹوں کی روٹی میں کتوں کے آگے کیسے پھینک سکتا ہوں.4 گویا بنی اسرائیل خدا تعالی کے بیٹے ہیں اور یہ ان کی روٹی ہے ہے.دوسری قو میں جو بمنزلہ کتوں کے ہیں یہ روٹی ان کے آگے کیسے پھینک سکتا ہوں.اس کے مقابلہ میں اسلام کے ابتدائی زمانہ میں ایسے ابتدائی زمانہ میں جبکہ ابھی تعلیم بھی مکمل نہیں ہوئی تھی قرآن کریم کا کی ایک پارہ بھی پورا نازل نہیں ہوا تھا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس غلام آتے ہیں.ان میں سے کوئی یونانی ہوتا ہے جیسے سہیل ، کوئی حبشہ کا ہوتا ہے جیسے بلال کوئی آرمینیا کا ہوتا ہے اور کوئی ایران کا.یہ لوگ آتے ہیں اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اپنی یہ خواہش پیش کرتے ہیں کہ ہمیں بھی ہے اپنی تعلیم سنائیے.اُن کے جواب میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم یہ نہیں فرماتے کہ کیا کوئی شخص اپنے بیٹوں کی روٹی گتوں کے آگے بھی پھینک سکتا ہے.بلکہ آپ سمجھتے ہیں کہ جس طرح عرب قوم ہے ویسے ہی یہ لوگ بھی ہیں.آپ فوراً انہیں دینی تعلیم دینا شروع کر دیتے ہیں.بلکہ دینی تعلیم دینا تو الگ رہا یہاں تک ثابت ہے کہ دو بھائی تھے ، وہ عربی زبان کا ایک لفظ بھی نہیں جانتے تھے یا بہت کم علم رکھتے تھے تھے وہ صرف بائبل جانتے تھے.وہ کسی شخص کے غلام تھے اور لوہا گوٹا کرتے تھے.آپ اُن دونوں بھائیوں کو اشاروں کے ساتھ تبلیغ کیا کرتے تھے.جب آپ وہاں سے گزرتے تو اُن کے پاس کھڑے ہو جاتے.وہ دونوں یونانی تھے اور آپ کی باتیں نہیں سمجھ سکتے تھے.آپ محبت کی وجہ سے ہے وہاں کھڑے ہو جاتے اور ان کی باتیں سنتے.پھر آپ انہیں تبلیغ کرنے لگ جاتے.زبان تو وہ سمجھ نہیں ہے سکتے تھے اشاروں سے انہیں تبلیغ کرتے.مثلاً اللہ کا لفظ کہہ کے آسمان کی طرف اشارہ کر دیا.آہستہ آہستہ اُن دونوں کو آپ سے اُنس ہوتا گیا اور بالآخر وہ دونوں ایمان لے آئے.ایسے لوگ دس گیارہ کی تعداد میں تھے جو غیر قوموں کے تھے اور آپ پر ایمان لائے.

Page 271

خطبات محمود 262 * 1949 جب طائف میں آپ تشریف لے گئے تو وہاں لوگوں نے آپ سے بدسلوکی کی.آپ کے ساتھ حضرت زیڈ بھی تھے.آپ جب واپس کو لے تو طائف والوں نے پتھر برسائے اور آپ کے پیچھے لگتے چھوڑ دیئے.آپ ان لوگوں کے آگے آگے بھاگے آرہے تھے اور زخموں سے لہولہان تھے.5 رستہ میں مکہ کے ایک شخص کا باغ تھا.وہاں ذرا ستانے کے لیے آپ ٹھہر گئے.باغ کا مالک آپ کا شدید دشمن تھا لیکن عربوں میں ایک عجیب بات پائی جاتی ہے کہ ان پر عزیزوں کی محبت ضرور غالب رہتی ہے.یہ بات دوسری قوموں میں نہیں پائی جاتی.مذہب کے جوش میں آکر وہ سختی بھی کرتے تھے ، ایذا ئیں بھی دیتے تھے لیکن بھائی کی خاطر قربانی کا احساس انہیں ضرور ہوتا تھا.باغ کا مالک آپ کا شدید دشمن تھا اور ہمیشہ آپ کو دُکھ دیا کرتا تھا.اس لیے آپ اس کے باغ میں داخل نہیں ہوئے بلکہ کنارے پر ایک درخت کے نیچے بیٹھ گئے.وہ باغ میں آیا ہوا تھا اور چشمہ پر بیٹھا باغ کی نگرانی کر رہا تھا، اُس کے غلام کام کر رہے تھے.اُس کی نظر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت زیدڈ پر پڑ گئی.مکہ میں یہ مشہور ہو چکا تھا کہ آپ طائف تشریف لے گئے ہیں.اس نے آپ کے کپڑوں پر خون بھی دیکھا.اُس شخص میں بغض اور کینہ کی وجہ سے یہ جرات نہ ہوئی کہ خود پاس آئے لیکن اس نے آپ کی تکلیف کا احساس ضرور کیا اور یہ سمجھا کہ اُس کے برادری کے بھائی پر لوگوں نے ظلم کیا ہے.اُس نے کی اپنے ایک غلام کو بلایا اور کہا کہ ایک تھال لاؤ.وہ ایک تھال لایا اور اس نے انگور کے کچھ خوشے اُس میں رکھے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت زید کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا وہ دونوں آدمی جو درخت کے نیچے بیٹھے ہوئے ہیں اُن کے پاس جاؤ اور انہیں یہ انگور کھلا ؤ.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دل میں کھانے پینے سے زیادہ تبلیغ کے لیے جلن رہتی تھی جو افسوس ہے کہ ہماری جماعت میں نہیں ہے پائی جاتی.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم زخموں سے چور چور تھے.لیکن اُدھر یہ غلام انگور لیے آپ کے پاس پہنچا اور ادھر آپ کے اندر جوش تبلیغ موجزن ہوا.آپ نے اُس غلام کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا ہے تم کہاں کے رہنے والے ہو؟ اُس نے جواب دیا میں نینوا کا رہنے والا ہوں.آپ نے فرمایا اچھا ! تم میرے بھائی یونس کے وطن کے ہو.آپ کا یہ فقرہ سُن کر اُس غلام کے کان کھڑے ہو گئے کہ یہ عرب کا باشندہ ہونے کے باوجود نینوا کے رہنے والے یونس (علیہ السلام ) کو اپنا بھائی تصور کرتا ہے.اس کی وجہ سے اُس کے اندر آپ کے لیے ہمدردی پیدا ہو گئی.اُس نے پوچھا آپ کا یہ کیا حال ہے اور لوگوں کے

Page 272

$1949 263 خطبات محمود نے آپ سے ایسا سلوک کیوں کیا ہے؟ آپ نے فرمایا تم تو یونس کے ملک کے ہو تم جانتے ہو کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے جو مصلح دنیا میں آتے ہیں ان کیساتھ ایسا ہی سلوک کیا جاتا ہے.میں نے ان لوگوں کا کچھ نہیں بگاڑا.اے نینوا کے رہنے والے ! میں نے انہیں اتنا ہی کہا تھا کہ تم ایک خدا کی طرف آؤ اور بچوں کی پرستش نہ کرو اور میں تمہیں بھی کہتا ہوں کہ تم خدا تعالیٰ کی باتوں پر عمل کرو.وہ غلام عیسائی لی تھا، دین اُس کے پاس تھا ہی.اُسے یقین ہو گیا کہ یہ شخص خدا تعالیٰ کی طرف سے ہے.اور جیسے انجیل میں حضرت مسیح علیہ السلام کے متعلق آتا ہے کہ بعض عورتیں آپ کے پاس آئیں اور انہوں.آنسوؤں کے ساتھ آپ کے پاؤں دھونے شروع کر دیئے اور بالوں سے ، پاؤں پر سے مٹی صاف کی اسی طرح وہ غلام بھی آپ کے پاؤں پر گر گیا اور اس نے آپ کے پاؤں سے مٹی اور خون صاف کرنا شروع کر دیا.جب واپس گیا تو باغ والے نے پوچھا تم نے یہ کیا حرکتیں کی ہیں ؟ اس شخص سے میرے خاندانی تعلقات ہیں اور میں جانتا ہوں کہ یہ پاگل ہے.اُس غلام نے کہا نہیں یہ تو اُس برادری میں سے ہے جس میں سے ہمارے نبی یونس علیہ السلام تھے.باغ کے مالک نے اُسے ڈانٹا ڈ پٹا مگر اُس کا ول کھل چکا تھا اور وہ ایمان لا چکا تھا.6 اب دیکھو! حضرت مسیح علیہ السلام کے پاس ایک عورت آتی ہے اور کہتی ہے اے استاد! مجھے بھی وہ تعلیم سن جو تو اپنی قوم کو دیتا ہے مگر وہ جواب دیتے ہیں میرے پاس تیرے لیے کچھ نہیں.یہ تعلیم صرف بنی اسرائیل کے لیے ہے اور بیٹوں کی روٹی گتوں کے آگے میں کیسے پھینک سکتا ہوں.مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک شخص آیا جو آپ کی قوم کا نہ تھا.ایسے وقت میں آیا جب آپ زخموں سے چور تھے اور خون سے لت پت.بہت حد تک دشمن کے آگے آگے بھاگے چلے آئے تھے اور ایک ایسی جگہ پر آیا جو آپ کے دشمن کی تھی اور ذراسی تبلیغ کرنے سے بھی ایک بڑی آفت آسکتی تھی وہ آتا ہے اور خود بھی نہیں کہتا کہ تم مجھے تبلیغ کرومگر آپ خود سے تبلیغ کرتے ہیں.غرض قُلْ اِنَّ صَلَاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ ميں : دیا گیا ہے کہ آپ کے لیے عرب اور غیر عرب دونوں برابر تھے.آپ کے دکھ اور تکالیف صرف عرب قوم کے لیے ہی نہیں تھیں بلکہ کالے گورے، عربی ، مصری، ہندوستانی سب کے لیے تھیں.آپ اپنی ایک ایک حرکت میں اس بات کا احساس رکھتے تھے کہ دوسروں کو تکلیف نہ پہنچے.حضرت بلال حبشی تھے ، عربی

Page 273

* 1949 264 خطبات محمود زبان نہیں جانتے تھے اور عربی بولتے ہوئے وہ بہت سی غلطیاں کر جاتے تھے.مثلاً حبشہ کے لوگ ”ش“ کو ”س“ کہتے تھے.چنانچہ بلال جب اذان دیتے ہوئے اَشْهَدُ کو اَسهَدُ کہتے تو عرب لوگ ہنستے تھے کیونکہ ان کے اندر قومی برتری کا خیال پایا جاتا تھا.حالانکہ دوسری زبانوں کے بعض الفاظ وہ خود بھی نہیں ادا کر سکتے تھے.مثلاً وہ روٹی کو روٹی نہیں کہہ سکتے روتی کہیں گے اور چوری کو جوری کہیں گے.جس طرح غیر عرب عربی کے بعض الفاظ ادا نہیں کر سکتے اسی طرح عرب بھی غیر زبانوں کے بعض الفاظ ادا نہیں کر سکتے.لیکن قومی برتری کے نشہ میں وہ یہ بات سوچتے نہیں تھے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بلال کے اسھد پر دوسرے لوگوں کو ہنستے دیکھا تو آپ نے فرمایا تم بلال کی اذان پر ہنستے ہو حالانکہ جب وہ اذان دیتا ہے تو اللہ تعالی عرش پر خوش ہوتا ہے اور تمہارے اَشْهَدُ سے اس کا اَسْهَدُ کہنا خدا تعالیٰ کو زیادہ پیارا لگتا ہے.بلال حبشی تھے اور حبشی غلام بنائے جاتے تھے لیکن رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان لوگوں میں سے نہیں تھے جن کے نزدیک کوئی غیر قوم مقہور و ذلیل ہو.آپ کے نزدیک سب قومیں یکساں طور پر خدا تعالیٰ کی مخلوق تھیں.آپ کو یونانیوں اور حبشیوں سے بھی ویسا ہی پیار تھا جیسے عرب سے.یہی محبت تھی جس نے اُن غیر قوموں کے دلوں میں آپ کا وہ عشق پیدا کر دیا تھا جس کو عرب.بھی بہت سے لوگ نہیں سمجھ سکتے تھے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں پیدا ہوئے پھر عرب قوم میں پیدا ہوئے ، اور عربوں سے بھی قریش قبیلہ میں پیدا ہوئے جو دوسری عرب قوموں کو بھی حقیر اور ذلیل سمجھتا تھا.آپ کو حبشیوں سے کیا جوڑ تھا.اگر آپ سے کسی قوم یا قبیلہ کومحبت ہونی چاہیے تھی تو بنو ہاشم کو ہونی چاہیے تھی ، آپ سے کسی کو محبت ہونی چاہیے تھی تو قریش کو ہونی چاہیے تھی یا پھر عرب کے لوگوں کو ہونی چاہیے تھی.غیر قوموں کے دلوں میں جن کی حکومتوں کو آپ کے لشکروں نے پامال کر دیا تھا، جن کی قومی سرداری کو اسلامی سلطنت نے تباہ کر کے رکھ دیا تھا محبت ہوہی کیسے سکتی تھی.انہیں تو آپ سے دشمنی ہونی چاہیے.لیکن واقعات کیا ہے ہیں؟ اس کے لیے ہم پہلے حضرت مسیح علیہ السلام کی قوم کی اُس محبت کا جائزہ لیتے ہیں جو اسے اپنے آقا کے ساتھ تھی.جب آپ پکڑے گئے اور آپ کے خاص حواری پطرس کو جسے آپ نے اپنے بعد خلیفہ بھی مقرر کیا تھا پولیس نے کہا کہ تم اس کے پیچھے پیچھے کیوں آرہے ہو ؟ معلوم ہوتا ہے تم بھی اس کے ساتھ ہو.تو اُس نے کہا میں اس کا مُرید نہیں ہوں.میں تو اس پر لعنت بھیجتا ہوں Z.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ

Page 274

$ 1949 265 خطبات محمود آپ کے حواری آپ سے محبت ضرور کرتے تھے.بعد میں پطرس بھی روما میں صلیب پر لٹکایا گیا اور اس کی نے بڑی دلیری کے ساتھ موت کو قبول کیا اور حضرت مسیح علیہ السلام کی محبت اور اطاعت سے انکار نہیں کیا لیکن جب حضرت مسیح علیہ السلام کو صلیب پر لٹکایا گیا اُس وقت اس کا ایمان پختہ نہیں تھا اُس وقت وہ ای دو چار تھپڑوں سے ڈر گیا تھا.مگر بعد میں اس نے صلیب کو بھی نہایت خوشی سے قبول کیا.بہر حال یہ ایک نظارہ تھا اُس محبت کا جو مسیح علیہ السلام سے آپ کی قوم کو تھی.اب آپ کی قوم کے مقابلہ میں ہم ان غلاموں کو دیکھتے ہیں جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائے اور پھر وہیں کے ہور ہے.بلال جو حبشی غلام تھا اس سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو جو محبت تھی ہم دیکھتے ہیں اُس کا بلال پر کیا اثر تھا.بعض لوگوں کو ظاہری طور پر اپنے محبوب سے گہری محبت ہوتی ہے لیکن حقیقتاً ان کی محبت ایک دائرہ کے اندر محدود ہوتی ہے.ہم نے یہ دیکھنا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بلال سے جس کے حبشی غلام ہونے کی وجہ سے قریش ہی نہیں بلکہ سارے عرب نفرت کا اظہار کرتے تھے جس محبت کا اظہار کیا آیا وہ ایک عام رواداری کی روح کی وجہ سے تھا یا حقیقی محبت کا مظاہرہ تھا؟ اس کا جائزہ بلال ہی لے سکتے ہیں ہم نہیں لے سکتے.اس واقعہ پر تیرہ سو سال سے زائد عرصہ گزرچکا ہے ہم اس کا کیا جائزہ لے سکتے ہیں.دیکھنا یہ ہے کہ بلال نے آپ کی محبت کے اظہار کو کیا سمجھا.یہاں یہ سوال نہیں کہ میں نے کیا سمجھا، یہاں یہ سوال نہیں کہ ہم سے پہلی صدی کے لوگوں نے کیا سمجھا، یہاں یہ سوال نہیں کہ اس سے پہلی صدی کے لوگوں نے کیا سمجھا یہاں یہ سوال بھی نہیں کہ خود صحابہ نے کیا سمجھا بلکہ سوال یہ ہے کہ یہی چھوٹا سا فقرہ کہ تم بلال کے انہد“ کہنے پر بنتے ہو حالانکہ اس کی اذان سن کر خدا تعالیٰ بھی عرش پر خوش ہوتا ہے.وہ تمہارے اَشْهَدُ سے اس کے اسھد کی زیادہ قدر کرتا ہے.یہ صرف دلجوئی اور دافع الوقتی کے لیے تھا یا ای گہری محبت کی بناء پر تھا ؟ دیکھنا یہ ہے کہ اس فقرہ سے بلال نے کیا سمجھا.بلال نے اس فقرہ سے یہ نتیجہ نکالا کہ آپ کے دل میں خواہ میں غیر قوم کا ہوں اور ایسی قوم کا ہوں جو انسانیت کے دائرہ سے باہر بھی جاتی ہے اور غلام بنائی جاتی ہے محبت اور عشق ہے.ہم اس واقعہ سے کچھ عرصہ پیچھے چلے جاتے ہیں.یہی شخص جو کہتا ہے مَمَاتِي الله لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ میری موت بھی اللہ تعالیٰ کے لیے ہے جو رب العلمین ہے فوت ہو جاتا ہے، نئی حکومتیں بن جاتی ہیں ، نئے افراد آگے آجاتے ہیں اور نئے تغیرات پیدا ہو جاتے ہیں.بعض صحار

Page 275

* 1949 266 خطبات محمود - عرب سے سینکڑوں میل باہر نکل جاتے ہیں.انہی صحابہ میں بلال بھی تھے.وہ شام چلے جاتے ہیں ہے اور دمشق جا پہنچتے ہیں.ایک دن کچھ لوگ اکٹھے ہوئے اور انہوں نے کہا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت میں بلال اذان دیا کرتا تھا ہم چاہتے ہیں کہ بلال پھر اذان دے.انہوں نے بلال سے کہا لیکن انہوں نے انکار کر دیا.بلال نے کہا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد میں اذان نہیں دوں گا.کیونکہ جب بھی میں اذان دینے کا ارادہ کرتا ہوں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ مبارک میرے سامنے آ جاتا ہے اور میری برداشت سے یہ بات باہر ہو جاتی ہے.حضرت عمرؓ بھی اُن دنوں دمشق آئے ہوئے تھے.لوگوں نے آپ سے عرض کیا کہ آپ بلال سے کہیے کہ وہ اذان دے.ہم میں وہ کی لوگ بھی ہیں جنہوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا ہے اور ہمارے کان ترس رہے ہیں کہ ہم بلال کی اذان سنیں.اور ہم میں وہ بھی ہیں جنہوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ نہیں دیکھا صرف باتیں سنی ہیں ان کے دل بھی خواہش رکھتے ہیں کہ اُس شخص کی اذان سن لیں جس کی اذان الاول رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سنا کرتے تھے.حضرت عمرؓ نے حضرت بلال کو بلایا اور فرمایا لوگوں کی خواہش ہے کہ آپ اذان دیں.آپ نے فرمایا آپ خلیفہ وقت ہیں، آپ کی خواہش ہے تو میں اذان دے دیتا ہوں لیکن میرا دل برداشت نہیں کر سکتا.حضرت بلال کھڑے ہو جاتے ہیں اور بلند آواز سے اُسی رنگ میں اذان دیتے ہیں جس رنگ میں وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں اذان دیا کرتے تھے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ کو یاد کر کے آپ کے صحابہ جو عرب کے باشندے تھے اُن کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے اور بعض کی چیچنیں بھی نکل گئیں.حضرت بلال اذان دیتے چلے جاتے ہیں اور سننے والوں کے دلوں پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ کو یاد کر کے رقت طاری ہو جاتی ہے 8 لیکن حضرت بلال جو حبشی تھے جن سے عربوں نے خدمتیں لیں، جنہیں عربوں سے کوئی خونی رشتہ نہیں تھا اور نہ بھائی چارے کا تعلق تھا ہم نے دیکھنا ہے کہ خود اُن کے دل پر کیا اثر ہوا.وہ ی اذان ختم کرتے ہیں تو بیہوش ہو جاتے ہیں اور چند منٹ بعد فوت ہو جاتے ہیں.یہ گواہی تھی غیر قوموں کی کی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس دعوی پر کہ میرے نزدیک عرب اور غیر عرب میں کوئی فرق نہیں.یہ گواہی تھی غیر قوموں کی جنہوں نے آپ کی محبت بھری آواز کوسنا اور اس کا اثر جو انہوں نے دیکھا اس نے انہیں یقین کروا دیا کہ اُن کی اپنی قوم ان سے وہ محبت نہیں کر سکتی جو محبت

Page 276

* 1949 267 خطبات محمود رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اُن سے کرتے ہیں.پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے قُلْ إِنَّ صَلَاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلهِ رَبِّ الْعَلَمِيْنَ اے محمد ! (صلی اللہ علیہ وسلم ) تو لوگوں سے کہہ دے ہماری اتھارٹی پر ، تو اعلان کر دے ہماری تصدیق پر، کہ میری نماز، میری قربانی ، میری زندگی اور میری موت سب اللہ تعالیٰ کے لیے ہیں جو رب العلمین یعنی سب جہانوں کا خدا ہے.مَمَاتِی کے دوسرے معنے ظاہری موت کے ہوتے ہیں.پہلے معنی کے لحاظ سے تو وہ موت تھی جو انسان دکھ اور تکلیف کی شکل میں اپنے اوپر وارد کر لیتا ہے.اور اس سے کوئی شخص انکار نہیں کر سکتا کہ بنی نوع انسان کی خاطر جو موت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اوپر وارد کی اُس کی مثال کہیں نظر نہیں آتی.کسی عام انسان کی تو کیا کسی نبی میں بھی ایسی مثال نہیں پائی جاتی.اب ہم موت کے دوسرے معنے لیتے ہیں جو جسم سے روح کی جُدائی کا نام ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں إِنَّ صَلَاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ میری ظاہری موت خدا تعالیٰ کے لیے ہے.لوگ مرتے ہیں اور مرتے ہوئے اپنی تکلیف اور دکھ کی وجہ سے دوسروں کا خیال نہیں کرتے کیونکہ وفات کے وقت غیر معمولی تکلیف ہوتی ہے.حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سے پہلے جس شخص کو وفات کے وقت زیادہ تکلیف ہوتی تھی میں خیال کرتی تھی کہ وہ گنہ گار ہے مگر جب میں نے آپ کی وفات دیکھی تو سمجھی یہ جھوٹی بات ہے 9 کیونکہ آپ کی نزع کی حالت نہایت تکلیف دہ تھی.وفات کے وقت مرنے والوں کو عموماً یہ خیال ہوتا ہے ہے کہ وہ اپنا کام اپنے عزیزوں اور رشتہ داروں کو سنبھال جائیں مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بیمار ہوئے اور بیماری کی وجہ سے جب ایسی حالت کو پہنچے کہ آپ کے لیے چلنا بھی مشکل ہو گیا تو ایک دن انجی آپ سہارا لے کر مسجد میں آئے اور صحابہ کو اکٹھا کیا.فرمایا ہر ایک انسان آخری وقت میں کوئی نہ کوئی نصیحت کرتا ہے.میں بھی تمہیں یہ نصیحت کرتا ہوں کہ یہ غلام بھی تمہاری طرح خدا تعالیٰ کے بندے ہیں اور تمہارے بھائی ہیں اُن کے ساتھ ہمیشہ نیک سلوک کرنا.اور جو شخص یہ برداشت نہیں کر سکتا کہ ان کی کے ساتھ نیک سلوک کرے یا انہیں اپنے برابر رکھ سکے اُسے چاہیے کہ انہیں آزاد کر دے.لیکن جو شخص اُن سے کام لینا چاہتا ہے وہ انہیں اپنے برابر رکھے ، جو کچھ خود کھائے وہی انہیں کھلائے ، جو خود پہنے 6◉*

Page 277

$ 1949 268 خطبات محمود وہی انہیں پہنے کو دے، جس حالت میں وہ خو د ر ہے اُسی حالت میں انہیں بھی رکھے.اگر تم میں سے کوئی شخص ایسا نہیں کرتا تو یہ تمہاری طرح خدا تعالیٰ کے بندے ہیں.ان سے خدمت لینے کا تمہیں کوئی حق نہیں.پھر فرمایا اے میرے صحابہ ! عورت پر بہت بڑا ظلم ہوتارہا ہے.میں تمہیں نصیحت کرتا ہوں کہ تم عورتوں کے ساتھ نیک سلوک کرو اور ان کے حقوق ادا کرو.10 ہمیں گزشتہ انبیاء کے متعلق یہ معلوم نہیں کہ وہ کیسے فوت ہوئے.صرف حضرت عیسی علیہ السلام کی وفات کے وقت کا پتا لگتا ہے.جب آپ کو صلیب پر لٹکایا گیا تو اگر چہ وہ وفات کا وقت نہیں تھا.آپ نے آنکھیں کھو لیں تو حضرت مریم کو رنجیدہ کھڑا دیکھا اور سمجھ لیا کہ وہ اپنے بیٹے کے مصلوب ہو جانے کے بعد اپنے ولی اور نگر ان کی عدم موجودگی پر افسوس کر رہی ہے.آپ نے اپنے ہی حواری تھومس سے کہا گوجذبات کی وجہ سے آپ اپنا فقرہ مکمل نہ کر سکے کہ اے تھومس ! یہ ہے تمہاری ہے ماں اور اے عورت یہ ہے تمہارا بیٹا.11 جس کے یہ معنے تھے کہ میں تھومس پر اعتبار کرتا ہوں اور اسے تمہارا بیٹا بناتا ہوں.اور اسے تھومس ! میں تم پر اعتبار کرتا ہوں اور اسے تمہاری ماں بناتا ہوں.یہ بڑا نیک جذبہ ہے.مگر اُس شخص کی محبت اور بھی بالا ہے جو وفات کے وقت اپنے اعزہ و اقرباء کو بھول جائے اور غریب اور مظلوم کی ہمدردی میں اپنے آخری لمحے گزارے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں مَمَاتِي لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِینَ میری موت بھی اللہ تعالیٰ کے لیے ہے.موت کے وقت اگر کسی کا آپ نے خیال کیا تو وہ مظلوموں، مقہوروں، متروکوں اور اُن بے بس اور بے بس لوگوں کا تھا جن کی پرورش کرنے والا کوئی نہیں تھا.پھر عین وفات کا وقت آتا ہے تو آپ کی زبان پر بار بار یہ کلمہ جاری ہوتا ہے.خدا لعنت کرے یہود اور نصاری پر جنہوں نے اپنے بزرگوں کی قبروں کو عبادت گاہیں بنالیا 12 یہود اور نصلا می بھی موحد تھے.مگر ان میں سے جو قبروں کو سجدہ کرتے ہیں انہیں آپ نے حقارت سے دیکھا اور اُن سے اظہار نفرت فرمایا.اس فقرے کے معنے یہ تھے کہ اے مسلمانو! تم کسی کو رب العلمین نہ بنانا.پھر جب موت کا وقت اور قریب آتا ہے اور آپ کی زبانِ مبارک بولنے سے عاجز آجاتی ہے تو اُس وقت آپ کی زبان پر جوالفاظ جاری ہوتے ہیں وہ یہ ہیں اِلی رَبِّيَ الْأَعْلَى إِلى رَبِّيَ الْأَعْلَى 13 میں اپنے رب کی طرف جارہا ہوں جو بڑی عظمت وشان رکھنے والا ہے.بیشک آپ نے یہاں ربی کا لفظ استعمال کیا ہے مگر

Page 278

$ 1949 269 خطبات محمود الأغلى کالفظ رب العلمین کی طرف اشارہ کرتا ہے.ربّی کہ کر اپنے محبت کے تعلق کی طرف اشارہ کیا ہے کہ میری محبت کا تقاضا ہے کہ میں اپنے رب کے پاس جانا چاہتا ہوں جو اصل محبوب ہے.اسی طرح احادیث میں آتا ہے جب آپ کی وفات کا وقت قریب آیا تو آپ کے پاس ایک فرشتہ آیا اور اس نے اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ پیغام آپ کو دیا کہ آپ کو موت و زندگی دونوں میں اختیار دیا گیا ہے.آپ چاہیں تو آپ کی زندگی بڑھا دی جائے اور اگر چاہیں تو میرے پاس آجائیں.آپ ﷺ نے فرمایا میں موت کو اختیار کرتا ہوں.میں نے زندہ رہ کر کیا کرنا ہے.میں نے یہاں اس لیے رہنا قبول کر لیا تھا کہ میرے سپر د ایک کام کیا گیا تھا.وہ کام جب میں نے ختم کر لیا تو اب میں یہاں کیوں رہوں.آپ جب خطبہ کے لیے صحابہ میں تشریف لائے تو فرمایا خدا تعالیٰ کا ایک بندہ تھا.خدا تعالیٰ کی نے اُسے اختیار دیا کہ چاہو تو تمہاری زندگی بڑھا دی جائے اور چاہو تو تم میرے پاس آ جاؤ.اس نے خدا تعالیٰ کے پاس جانے کو پسند کیا.صحابہ نے اسے ایک گزشتہ حکایت سمجھا لیکن حضرت ابوبکر رومی پڑے.سارے صحابہ خوش تھے کہ انہیں ایک نئی روایت مل گئی اور ایک نیا نکتہ مل گیا.حضرت عمرؓ فرماتے ہیں جب میں نے حضرت ابوبکر کو روتے دیکھا تو کہا کہ ابوبکر کو کیا ہو گیا ہے؟ خدا تعالیٰ نے ایک بندہ کو دی اختیار دیا ہے کہ چاہو تو تم زندہ رہو اور چاہو تو موت قبول کر لو اس میں رونے والی کیا بات ہے؟ مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب حضرت ابوبکر کو روتے ہوئے دیکھا تو سمجھ لیا کہ انہوں نے بات سمجھ لی ہے.آپ نے فرمایا میں حکم دیتا ہوں کہ مسجد کی سب کھڑکیاں بند کر دی جائیں.صرف ابوبکر کی کھڑ کی کھلی رہے.پھر فرمایا خدا تعالیٰ نے ابوبکر کو بہت رقیق القلب بنایا ہے.14 دوسرے لوگوں کی موت اتفاقی ہوتی ہے.آپ کی وفات اتفاقی نہیں تھی.لوگوں کی موت اللہ نہیں ہوتی.وہ بیمار ہوتے ہیں اور مر جاتے ہیں.آپ کو اختیار دیا گیا تھا کہ چاہو تو موت قبول کر لو اور چاہو تو زندہ رہو.آپ نے موت کو ترجیح دی اور کہا میں نے تو ان دنیاوی تکالیف کو اس لیے برداشت کیا ہے کہ میرے سپر د ایک کام کیا گیا تھا.جب میں نے وہ کام ختم کر لیا ہے تو اب زندہ رہ کر میں نے کیا کرنا ہے.غرض ان چاروں امور میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کے سامنے جو نمونہ پیش فرمایا اس کی مثال دنیا میں اور کہیں دکھائی نہیں دیتی.آپ جس طرح اپنے ہر کمال میں یکتا اور بینظیر بھی ہیں اسی طرح ان قربانیوں میں بھی آپ کا کوئی ثانی اور مثیل نہیں ہے.لیکن اس کے

Page 279

$ 1949 270 خطبات محمود ساتھ ہی یہ حقیقت بھی کبھی فراموش نہیں کرنی چاہیے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے تمام مسلمانوں کا مطاع قرار دیا ہے.پس آپ پر سچا ایمان رکھنے والوں کا فرض ہے کہ جس طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بنی نوع انسان کے لیے انتہائی قربانیوں کا مظاہرہ کیا اسی طرح وہ بھی اپنی اپنی روحانی استعداد کے مطابق ان قربانیوں میں حصہ لیں تا کہ اللہ انہیں بھی ہے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قرب میں جگہ دے.اور جس طرح آپ تمام انبیاء سے افضل ہیں اسی طرح آپ کی امت بھی اپنی قربانیوں میں تمام امتوں سے افضل ثابت ہو“.(الفضل 31 جنوری 1962ء) 1 : الانعام: 163 2 : تفسیر ابن کثیر (سورہ سبا آیت 28) الجزء الثالث صفحہ 856 مطبوعہ بیروت لبنان 1992ء میں ” بُعِثْتُ إِلَى الْأَسْوَدِ وَالْأَحْمَرِ“ کے الفاظ ہیں.3 : فاطر: 25 4 : متى باب 15 آیت 21 تا 26(مفہوماً) 5 : السيرة الحلبية جلد 1 صفحہ 392 مطبوعہ مصر 1932ء 6 : سیرت ابن ہشام جلد 2 صفحہ 62، 63 مطبوعہ مصر 1936ء 7 : متى باب 26 آیت 74 8 : اسد الغابة جلد 1 صفحہ 238 ( بلال بن رباح ) مطبوعہ بیروت لبنان 2001ء 9 : السيرة الحلبية جلد 3 صفحہ 389 مطبوعہ مصر 1935ء 10 : بخاری کتاب الانبياء باب خلق آدم و ذريته 11 یوحنا باب 19 آیت 27،26 12 : بخاری کتاب الجنائز باب مَاجَاء فى قَبْرِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم 13 : تفسیر الالوسی.سورۃ المائدۃ:3 میں اِلَى الرَّفِيقِ الْأَعْلَی“ کے الفاظ ہیں..14 : بخاری کتاب فضائل اصحاب النبی الا الله باب قول النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم سُدُّوا الْأَبْوَابَ إِلَّا بَابَ أَبِي بَكْرٍ

Page 280

* 1949 271 28.خطبات محمود ایک زندہ قوم کے لیے ضروری ہے کہ وہ ہر وقت اپنے اعمال کی نگرانی کرتی رہے (فرمودہ 2 ستمبر 1949 ء بمقام کوئٹہ ) تشهد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: ” آج میں جماعت کو نہایت اختصار کے ساتھ اس امر کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ انہیں افراد کی اخلاقی نگرانی کی طرف توجہ رکھنی چاہیے.تعلیم و تربیت کا محکمہ اول تو ہر جماعت میں ہوتا نہیں اور اگر ہوتا ہے تو اس کے معنے صرف یہ سمجھ لیے جاتے ہیں کہ سال گزارنے پر رپورٹ کر دی جائے کہ حضور ہماری جماعت میں بہت سی کمزوریاں ہیں.دعا فرمائیں کہ خدا تعالیٰ ان کی اصلاح کر دے.حالانکہ تعلیم و تربیت کے تو یہ معنے ہوتے ہیں کہ دیکھا جائے جماعت میں کون کون سے عیوب پائے جاتے ہیں اور پھر ان کی اصلاح کی کوشش کی جائے.مختلف جماعتوں میں مختلف کمزوریاں ہوں گی.کسی جماعت کے افراد میں ہمدردی کم ہو گی، کسی میں مالی قربانیوں کے لحاظ سے کمزوری ہوگی ، کسی جگہ نمازوں میں سستی ہوگی.پھر کئی گناہ ایسے ہوتے ہیں جو بعض حالات میں زیادہ ہو جاتے ہیں.مثلاً

Page 281

* 1949 272 خطبات محمود پارٹیشن کے بعد وقتی کوٹ مچائی گئی کہ اس کی اہمیت دلوں میں کم ہوگئی.سیکرٹریان تعلیم و تربیت کو چاہیے کہ وہ ایک دوسرے سے مشورہ کر کے اس قسم کے تمام عیوب کو دُور کرنے کی کوشش کریں جو جماعت میں پائے جاتے ہیں.خصوصاً نو جوانوں اور بچوں کی اصلاح کی طرف انہیں توجہ کرنی چاہیے.اور ماں باپ کو اس بات کا ذمہ دار ٹھہرانا چاہیے کہ وہ اپنے بچوں کو نمازیں پڑھائیں ، چھوٹے چھوٹے مسائل سکھائیں.مثلاً ہاتھ دھوکر کھانا کھانا چاہیے، اَلْحَمدُ لِله اور سُبْحَانَ اللہ کے فقرات کہتے رہنا چاہیے تسبیح اور استغفار کی عادت ڈالنی چاہیے.اگر ایسا ہو جائے تو بڑی عمر میں ایمان اتنا مضبوط ہو جائے گا کہ اگر انہیں کوئی ٹھو کر بھی لگے گی تو وہ ٹھوکر ان کو بے ایمان نہیں کرے گی.یہ چیز ایسی ہے جس کا استدراج کے ساتھ تعلق ہے انقلاب کے ساتھ نہیں.انقلابی حالات شاذ و نادر آتے ہیں باقی اوقات میں ہمیشہ بتدریج ترقی ہوتی ہے.انقلابی تغیر کے تو یہ معنے ہوتے ہیں کہ سب کمزوریاں یکدم دور ہو جائیں لیکن استدراج یہ ہے کہ کبھی ایک کمزوری دور ہو گئی تو کبھی دوسری اور یہ چیز جد و جہد اور محنت اور قربانی کے ساتھ تعلق رکھتی ہے.پس میں جماعت کے تمام دوستوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ وہ اس طریق کو اختیار کریں اور روحانیت میں ترقی کرنے کی کوشش کریں.جب تمہاری حالت انقلاب کے ساتھ وابستہ نہیں تو پھر انقلاب کے انتظار کے کیا معنے ؟ اگر تمہارے لیے انقلاب مقدر ہوتا تو ایمان لانے کے فوراً بعد تمہاری حالت درست ہو جاتی لیکن ہوا یہ کہ ایمان لانے کے ساتھ تم نے بعض کمزوریوں پر غلبہ حاصل کر لیا تھا اور اب دوسری کمزوریوں کو تمہیں محنت اور قربانی کے ساتھ دور کرنا پڑے گا.ہر سیکرٹری کو چاہیے کہ وہ جماعت کو بیدار کرے اور جماعت کا فرض ہے کہ وہ سیکرٹری کو بیدار کرے.اور ایک معین پروگرام بنایا جائے کہ فلاں فلاں کمزوریوں کی اصلاح کرنی ہے.اور رجسٹر بنائے جائیں جن میں اس بات کا ی ریکارڈ رکھا جائے کہ فلاں فلاں کمزوریوں کی اصلاح کر لی گئی ہے اور فلاں فلاں کمزوریوں کی اصلاح باقی ہے.اسی طرح جماعت کے افراد کو نوافل اور تہجد پڑھنے کی عادت ڈالی جائے.جماعت کے افراد سے ہمیشہ پوچھتے رہنا چاہیے کہ کتنے افراد ہیں جو تہجد پڑھتے ہیں.ور نہ ہو سکتا ہے کہ سستی بڑھتے بڑھتے ایک وقت ایسا آجائے کہ فرائض اور سنن بھی ترک ہو جا ئیں.حضرت خلیفہ اول فرمایا کرتے تھے کہ حضرت شاہ ولی اللہ صاحب محدث دہلوی کی ایک

Page 282

$1949 273 خطبات محمود تھیں.وہ ان سے ملنے گئے تو اس نے کہا بھائی! مجھے تو ذکر الہی میں بڑا لطف آتا ہے اس لیے میں نے نوافل کم کر دیئے ہیں.انہوں نے کہا یہ بات ٹھیک نہیں.نوافل بھی ذکر الہی ہیں لیکن ان کی ایک معین صورت ہے اور ان کا ترک کرنا میں پسند نہیں کرتا.ایسا نہ ہو کہ کوئی خرابی پیدا ہو جائے.دوسرے جمعہ وہ پھر بہن کو ملنے گئے تو اس نے کہا بھائی ! میں نے نوافل چھوڑ دیئے ہیں اور وہ وقت بھی ذکر الہی میں ہی صرف کرنا شروع کر دیا ہے کیونکہ جو لطف ذکر الہی میں ہے وہ نوافل میں نہیں.بھائی نے کہا اب کے نوافل ترک کر دیئے ہیں تو دوسرے وقت سنتوں پر بھی ہاتھ صاف ہوگا.اس نے کہا نہیں نہیں ایسا نہیں ہوگا.تیسرے جمعہ پھر گئے تو بہن نے کہا جو بات آپ نے کہی تھی وہ ٹھیک نکلی.مجھے اب سنتوں میں بھی وہ لطف نہیں آتا جو ذکر الہی میں آتا ہے.بھائی نے کہا دیکھنا اب فرضوں پر بھی ہاتھ صاف ہوگا.چنانچہ اگلے جمعہ جب ملنے گئے تو اس نے کہا میرا دل اب فرضوں میں بھی نہیں لگتا.معلوم ہوتا ہے کہ یہ کوئی شیطانی حملہ ہے.انہوں نے قرآن کریم کی ایک آیت اسے بتائی اور کہا کہ اس آیت کو مدنظر رکھ کر خدا تعالیٰ سے دعا مانگو.اس نے دعا مانگی تو خدا تعالیٰ کا ایسا فضل ہوا کہ وہ حالت دور ہو گئی.دوسرے جمعہ جب بھائی ملنے گئے تو بہن نے کہا میں نے کشف میں دیکھا ہے کہ میں نماز پڑھ رہی ہوں.جب میں نے سلام پھیرا تو پاس ہی ایک بندر نظر آیا.اس بندر نے کہا میں نے تو تجھے نماز چھڑوا کے رہنا تھا مگر تمہارا بھائی بہت چالاک نکلا اور اس نے میرا داؤ چلنے نہ دیا.بھائی نے کہا وہ بندر شیطان تھا جو تمہیں ورغلار ہا تھا.غرض جو شخص اپنے اعمال کی نگرانی نہیں کرتا اُس کی یہی حالت ہوتی ہے.وہ گرتے ہوئے کہیں کا کہیں جا پہنچتا ہے لیکن زندہ قوم کے لیے ضروری ہوتا ہے کہ اس کے اعمال کی نگرانی کی جائے.مثلاً اگر حرام خوری کی مرض کسی جماعت میں پائی جاتی ہے اور اس کی اصلاح کی طرف کوئی توجہ نہیں کی جاتی تو اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ کچھ مدت کے بعد دیانت اُٹھ جائے گی.یا اگر کسی جماعت میں ظلم زیادہ ہوتا تھی ہو تو دیکھنے والے کہیں گے کہ ظلم میں کیا رکھا ہے.اگر یہ چیز بُری ہوتی تو فلاں عہد یدار ایسا کیوں کرتا.غرض آہستہ آہستہ ایسے وساوس پیدا ہو جائیں گے جو جماعت کی دینی حالت کو گرادیں گے اور پھر اس کی اصلاح کے لیے لمبی اور متواتر جد و جہد کی ضرورت ہوگی.وقت زیادہ گزر رہا ہے.ہمیں اس بات کی طرف توجہ کرنی چاہیے.لوگ زمانہ نبوی سے جتنا دور ہوتے جارہے ہیں انوار الہی کی بارشوں میں اتنا

Page 283

$ 1949 274 خطبات محمود ہی وقفہ پڑ جاتا ہے.ایسی حالت میں ایک چوکس اور بیدار انسان کی طرح اپنے فرائض کو سمجھو اور اپنی وی اصلاح کو باقی تمام کاموں پر مقدم قرار دو کہ اس میں تمہاری نجات ہے“.(الفضل 11 مئی 1960ء)

Page 284

* 1949 275 29 خطبات محمود کوشش کرو کہ تم اس دنیا کی زندگی میں ہی خدا تعالی کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لو (فرمودہ 9 ستمبر 1949ء بمقام لاہور ) تشهد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: پہلے تو میں دوستوں سے یہ معذرت کرنا چاہتا ہوں کہ آج یہاں آنے میں مجھے کچھ دیر ہو گئی ہے جس کی وجہ یہ ہوئی کہ جب میں نماز کے لیے آنے لگا تو یکدم میری انتڑیوں میں تکلیف شروع ہوگئی اور آہستہ آہستہ یہ تکلیف اتنی بڑھ گئی اور در داتنی شدت اختیار کر گیا کہ پہلے تو میں نے خیال کیا کہ کہلا بھیجوں کہ نماز پڑھا دی جائے لیکن پھر خیال آیا کہ ممکن ہے یہ درد پیچش کی شکایت کی وجہ سے ہو اور اگر ا جابت ہو جائے تو درد دور ہو جائے.چنانچہ ایسا ہی ہوا کچھ دیر انتظار کرنے کے بعد مجھے قضائے حاجت کا احساس ہوا اور گومروڑ کے ساتھ ہی اجابت ہوئی مگر بہر حال درد کی جو شدت تھی وہ اجابت کے بعد جاتی رہی اور میں اس قابل ہو گیا کہ جمعہ کے لیے آسکوں.دوسری بات میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ جیسا کہ احباب کو علم ہو چکا ہے اب ہمارا ارادہ یہ ہے کہ ہم ربوہ چلے جائیں.ہمارے بہت سے دفاتر تو پہلے ہی ربوہ جاچکے ہیں.جو حصہ باقی رہ گیا تھا اس جی

Page 285

$ 1949 276 خطبات محمود کے متعلق اب ہمارا ارادہ ہے کہ وہ بھی ربوہ چلا جائے اور اس طرح ہم سب وہاں پہنچ کر ربوہ کی ترقی اور سلسلہ کی عمارتوں کی تعمیر کی طرف توجہ کریں.ہمیں یہاں آئے ہوئے دو سال ہو چکے ہیں.31 اگست 1947 ء کو میں یہاں آیا تھا اور آج 9 ستمبر 1949 ء ہے گویا دو سال آٹھ دن میرے اس قیام پر گزر گئے ہیں.کچھ دوستوں پر اس سے کم زمانہ گزرا ہے کیونکہ وہ بعد میں آئے تھے اور کچھ دوست جو پہلے آگئے تھے ان پر اس سے زیادہ دن گزرے ہیں.بہر حال اللہ تعالیٰ کی حکمت اور اس کی مشیت کے ماتحت ہم جتنے عرصہ تک یہاں رہے اس میں ہمیں کئی قسم کے تجارب حاصل ہوئے.قادیان کی رہائش کی وجہ سے جس طرح ہم دنیا سے الگ تھلگ رہتے تھے وہ بات یہاں نہیں تھی.یہاں لوگوں سے میل جول پیدا کرنے کے زیادہ مواقع تھے اور یہ ایک نیا تجربہ تھا جس نے ہمیں بہت سے نئے سبق دیئے.ان کو مدنظر رکھتے ہوئے اگر اللہ تعالیٰ چاہے تو آئندہ بہت کچھ فائدہ اُٹھایا جاسکتا ہے منفی بھی اور مثبت بھی.میں اس وقت دوستوں کی آگاہی کے لیے صرف یہ اعلان کرنا چاہتا ہوں کہ پہلے تو ہمارا ارادہ کی تھا کہ ہم پیر کے دن یہاں سے چلے جائیں مگر جیسا کہ احباب کو معلوم ہے میری بیوی ام متین کوئٹہ میں سخت بیمار ہوگئی تھیں.وہاں علاج کے بعد کسی قدر آرام آ گیا تھا مگر یہاں آنے کے بعد لیڈی ڈاکٹر کو دکھایا گیا تو اس نے ایک ایسی بیماری کا شبہ پیدا کر دیا جو بہت خطرناک سمجھی جاتی ہے.اس بیماری کے متعلق بعض ٹیسٹ ایسے کیے جانے ہیں جن کا نتیجہ پیر کے دن نکلے گا اس لیے اب اس نتیجہ کے بعد ہی یہ فیصلہ کیا جا سکے گا کہ ہماری یہاں سے کب روانگی ہوگی.آج ہی ایک دوسرے ڈاکٹر سے بھی مشورہ لیا لی گیا تھا.انہوں نے لیڈی ڈاکٹر کی رائے سے اتفاق ظاہر نہیں کیا مگر ساتھ ہی کہا ہے کہ چونکہ ڈاکٹر نیا نے خود ملاحظہ کیا ہے اس لیے ٹیسٹ بہر حال ہو جانا چاہیے.اس کے بعد ہم یہ فیصلہ کر سکیں گے کہ ہم یہاں سے کب روانہ ہوں.اگر خدانخواستہ لیڈی ڈاکٹر کی رائے درست ہوئی تو پھر آپریشن کی ضرورت کی ہوگی اور اگر آپریشن نہ بھی ہو تب بھی شعاعوں کے ذریعہ ایک لمبے عرصہ تک علاج کرانا پڑے گا.بہر حال اس پیر کو ہمارے جانے کا ارادہ ملتوی ہے.اس کے بعد دوسری تاریخ ڈاکٹری مشورہ سے مقرر کی جائے گی.میں جب جمعہ کے لیے آیا تو راستہ میں میں نے اتنی کثرت سے جماعت کے دوستوں کو نماز

Page 286

* 1949 277 خطبات محمود کے انتظار میں بیٹھے دیکھا کہ مجھے حیرت ہوئی کہ اتنے دوست کہاں سے آگئے ہیں.بعض نے کہا کہ چونکہ آپ کئی ماہ کے بعد آئے ہیں اس لیے لوگ زیادہ جمع ہو گئے ہیں.میں نے کہا پہلے بھی تو میں یہیں جمعہ پڑھا تا رہا ہوں مگر اتنا اجتماع میں نے پہلے کبھی نہیں دیکھا.اس کی کوئی خاص وجہ معلوم ہوتی ہے.اس مسجد میں بھی لوگ پہلے سے زیادہ سمٹ کر بیٹھے ہیں اور ان کی تعداد پہلے سے زیادہ معلوم ہوتی ہے اور باہر گلی بھی مسجد کی طرح بھری ہوئی ہے.اس غیر معمولی اجتماع کو دیکھ کر میرے دل میں خیال پیدا ہوا کہ جس طرح مسلمانوں میں یہ رواج ہے کہ وہ جمعتہ الوداع کے دن خاص طور پر نماز پڑھنے کے لیے آ جاتے ہیں اسی طرح چونکہ پیر کے دن ہماری روانگی کا پروگرام تھا لا ہور والوں نے سمجھا کہ یہ آخری جمعہ تو اوی ہم مسجد میں جا کر پڑھ آئیں.گویا یہ بھی لاہور والوں کا ایک جمعتہ الوداع ہے مگر اس سے اتنا پتا ضرور لگ گیا ہے کہ یہاں ہماری جماعت بہت زیادہ ہے اور جمعہ میں لوگ عام طور پر اتنے نہیں آتے جتنے کہ آنے چاہییں.بہر حال جیسا کہ میں نے بتایا ہے فی الحال پیر کے دن ہمارے جانے کی تجویز ملتوی ہے ممکن ہے ڈاکٹری مشورہ کے بعد اگلا جمعہ بھی مجھے یہیں پڑھانا پڑے اور اگر ایسا ہی ہوا تو لاہور والوں کے دو جمعۃ الوداع بن جائیں گے.میں نے سنا ہے کہ بعض دوسری مساجد میں بھی نمازیں ہوتی ہیں لیکن میں سمجھتا ہوں آج کے اجتماع میں کچھ نہ کچھ دخل اس بات کا بھی ہے کہ بعض دوستوں کے دلوں میں یہ خیال پیدا ہوا کہ دو سال کے بعد یہ واپس جارہے ہیں.آؤ! آج تو ہم مسجد میں جا کر جمعہ پڑھ لیں.میں ایسے دوستوں کو نصیحت کرنا چاہتا ہوں کہ جب انہیں ایک دفعہ جمعہ پڑھنے کا موقع مل گیا ہے تو اب وہ ہمیشہ کے لیے جمعہ پڑھنے کی عادت ڈال لیں.اور اگر وہ کسی اور جگہ جمعہ پڑھتے تھے تب بھی ان کا فرض ہے کہ وہ اپنی اپنی ای جگہ نہایت مستعدی سے جمعہ کی نماز ادا کیا کریں اور جو سُست ہوں اُن کو بھی اپنے ساتھ لایا کریں.مومن کی ایسی قربانی خدا تعالیٰ کے حضور کافی نہیں سمجھی جاتی.اسی شخص کی قربانی قبول ہوتی ہے جو دوسروں کو بھی اپنے ساتھ شامل کرنے کی کوشش کرتا ہے.چنانچہ دیکھ لو نماز میں بار بار جمع کے صیغے استعمال کیے جاتے ہیں.نماز پڑھنے والا ایک فرد ہوتا ہے مگر وہ اندنسی کہنے کی بجائے دعا یہ مانگ رہا ہوتا ہے کہ اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ 1 اے خدا ! تو ہم سب کو صراط مستقیم پر چلا.پس دوستوں کو صرف اس بات پر مطمئن نہیں ہونا چاہیے کہ وہ خود نماز پڑھتے ہیں بلکہ ہمیں اُس وقت

Page 287

$1949 278 خطبات محمود مطمئن ہونا چاہیے جب دوسرے لوگ بھی نماز پڑھنے لگ جائیں.قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ صریح طور پر فرماتا ہے کہ مومن کا یہ فرض ہے کہ وہ اپنے اہل کو بھی نماز پڑھنے کی تاکید کرتا رہے.2 سو ا حباب کو نماز کی پابندی کرنے اور نماز کی پابندی کروانے کی طرف خاص طور پر توجہ کرنی چاہیے.یہ ایک علامت ہے جس سے پتا لگ سکتا ہے کہ تمہارے اندر کس قدر ایمان پایا جاتا ہے اور تم اللہ تعالیٰ کے احکام پر عمل کرنے کی اپنے دل میں کس قدر تڑپ رکھتے ہو.میں تمہیں یہی نہیں کہتا کہ تمہیں فرض نمازوں کی پابندی اختیار کرنی چاہیے بلکہ میں تمہیں یہ بھی نصیحت کرتا ہوں کہ تمہیں فرض نمازوں کے علاوہ نوافل کی بھی پابندی کرنی چاہیے تا کہ تمہارے قلب میں نور پیدا ہو اور تمہیں اللہ تعالیٰ کی رضا اور اس کی خوشنودی حاصل ہو.آخر جو شخص احمدیت کو قبول کرتا ہے وہ اسی لیے قبول کرتا ہے کہ اس کا خدا تعالیٰ سے تعلق پیدا ہو جائے.اللہ تعالیٰ سے تعلق بغیر نماز ، روزہ اور ذکر الہی کی کثرت کے کس طرح پیدا ہو سکتا ہے.اور اگر کوئی شخص احمدیت کو تو قبول کرتا ہے مگر اپنے اندر ایسا تغیر پیدا نہیں کرتا جس کے نتیجہ میں اسے ی خدا تعالیٰ نظر آنے لگ جائے ، اس سے وہ کلام کرنے کے لیے تیار ہو جائے اور اس سے محبت اور پیار کرے تو ایسی احمدیت کا کیا فائدہ.اور یہ چیزیں بغیر نمازوں اور نوافل اور ذکر الہی کی پابندی کے حاصل نہیں ہو سکتیں.آج ہی مولوی محمد ابراہیم صاحب بقا پوری کا اخبار میں ایک مضمون چھپا ہے جس میں انہوں نے ذکر کیا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ان کے ایک سوال کے جواب میں فرمایا کہ اطمینانِ قلب حاصل کرنے کا یہی طریق ہے کہ صبر اور استقلال کے ساتھ ذکر الہی اور نمازوں پر زور دیا جائے.اس کے نتیجہ میں تمہارے دلوں میں وہ چلا پیدا ہو گی جس سے تم بدیوں پر غالب آسکو گے اور خدا تعالیٰ کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لو گے.یہی چیز ہے جس کی تمہیں ضرورت ہے.اگر یہ چلا تمہارے دلوں میں پیدا نہ ہوئی تو تمہاری زندگی کیسی اور ایمان کا دعوای کیسا؟ پس کوشش کرو کہ تم اس دنیا کی زندگی میں ہی ای خدا تعالیٰ کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لو.مرنے کے بعد خدا تعالیٰ کو دیکھنے کی امید کوئی اطمینان بخش بات نہیں ہے کہلا سکتی.اگر انسان مرنے لگے اور اس کے دل میں یہ خیال پیدا ہو کہ نہ معلوم میں دوزخ میں ڈالا جاؤں گا یا جنت میں تو اس کی موت کتنے دکھ کی موت ہوگی.کتناغم اس پر چھایا ہوا ہوگا اور کس طرح وہ ایک بے چینی اور خلش اپنے دل میں محسوس کرے گا.سکھ والی موت وہی ہے جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ی

Page 288

$1949 279 خطبات محمود حاصل ہوئی.احادیث میں آتا ہے.جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات کا وقت قریب آیا تو بار بار آپ کی زبان سے یہ الفاظ نکلتے تھے کہ اِلَى الرَّفِيقِ الأَعْلَى إِلَى الرَّفِيقِ الأعلى - 3 چلوسب سے بڑے دوست کے پاس چلیں.چلوسب سے بڑے دوست کے پاس چلیں.یہی حال صحابہ کا تھا.وہ خدا تعالیٰ کی راہ میں مرنے پر اتنے خوش ہوتے تھے اور اس قدر لذت اور سرور محسوس کرتے تھے کہ ان کے واقعات پڑھ کر حیرت آتی ہے.تاریخوں میں آتا ہے ایک جنگ کے موقع پر ایک عیسائی سردار نے کئی بڑے بڑے مسلمان سرداروں کو مار ڈالا.اُس زمانہ میں قاعدہ تھا کہ عام حملہ سے پہلے دونوں لشکروں میں سے ایک ایک آدمی نکلتا اور وہ آپس میں مقابلہ کرتے.وہ عیسائی چونکہ ایک بڑا ماہر جرنیل تھا اس لیے انفرادی مقابلہ میں اس نے یکے بعد دیگرے کئی مسلمان مارڈالے.آخر حضرت ابو عبیدہ نے جو اسلامی فوج کے کمانڈر انچیف تھے حضرت ضرار کو حکم دیا کہ وہ اس عیسائی کے مقابلہ کے لیے جائیں.جب وہ مقابلہ کے لیے نکلے اور اس عیسائی سردار کے سامنے کھڑے ہوئے تو بجائے اس کے کہ اس کا مقابلہ کرتے بے تحاشا میدان چھوڑ کر بھاگ کھڑے ہوئے اور دوڑتے ہوئے اپنے خیمہ کی طرف چلے گئے.اس پر عیسائیوں میں خوشی کی ایک اہر دوڑ گئی اور انہوں نے بڑے زور سے نعرے بلند کیے اور مسلمان جو پہلے ہی افسردہ خاطر ہورہے تھے ان کی سخت دل شکنی ہوئی.حضرت ابو عبیدہ نے جب یہ نظارہ دیکھا تو انہوں نے ایک شخص کو جو حضرت ضرار کے دوست تھے بلایا اور کہا تم ضرار کے پاس جاؤ اور اس سے پوچھو کہ تم نے یہ کیا حرکت کی ہے؟ وہ خیمہ کے قریب پہنچے تو اتنے میں حضرت ضرار خیمہ میں سے باہر نکل رہے تھے.انہوں نے جاتے ہی کہا ضرار! آج تم نے کیا کیا ؟ سارے مسلمانوں کے سر آج شرمندگی اور ندامت کے مارے جھکے ہوئے ہیں اور وہ کفار کے سامنے اپنی گردنیں اونچی کرنے کے قابل نہیں رہے.یہ کتنی بڑی ذلت کی لی بات ہے کہ تم عیسائی سردار کے سامنے ہوتے ہی میدان چھوڑ کر خیمہ کی طرف بھاگ آئے اور کفار کو ای خوش ہونے کا موقع بہم پہنچا دیا.انہوں نے کہا میں نے جو کچھ کیا ہے ٹھیک کیا ہے.تم جانتے ہو کہ میں ہے ہمیشہ زرہ کے بغیر لڑا کرتا ہوں مگر آج اتفاقا صبح سے میں نے زرہ پہنی ہوئی تھی.جب ابو عبیدہ نے مجھے حکم دیا کہ میں اس عیسائی جرنیل کے مقابلہ کے لیے نکلوں تو میں بغیر خیال کیسے زرہ پہنے اس کے سامنے چلا گیا مگر جونہی میں سامنے کھڑا ہوا مجھے یاد آیا کہ میں نے زرہ پہنی ہوئی ہے.اس پر میرے نفس نے

Page 289

* 1949 280 خطبات محمود مجھے ملامت کی اور کہا ضرار ! معلوم ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ کی راہ میں مرنے سے ڈرتا ہے اور شاید زرہ تو نے اس لیے پہن رکھی ہے کہ یہ بڑا مشہور جرنیل ہے اور کئی مسلمانوں کو شہید کر چکا ہے.اگر تو نے زره ای تار دی تو ایسا نہ ہو کہ تجھے بھی یہ شخص مار ڈالے.یہ خیال میرے دل میں آیا ہی تھا کہ میں دوڑ کر اپنے تھے خیمہ کی طرف چلا گیا اور میں نے سمجھا کہ اگر اس وقت میں مارا گیا اور اللہ تعالیٰ نے مجھ سے پوچھا کہ ضرار! تم نے زرہ کیوں پہن رکھی تھی؟ معلوم ہوتا ہے تمہیں ہم سے ملنے کا کوئی شوق نہیں تھا.اگر شوق ہوتا تو اس طرح موت سے بھاگنے اور بیچنے کی کوشش کیوں کرتے.تو میں اس سوال کا کوئی جواب نہیں دےسکوں گا.میرے لیے سوائے ندامت اور شرمندگی کے اور کوئی چارہ نہیں ہوگا اور میری موت مومنوں والی موت نہیں ہوگی.پس میں دوڑتے ہوئے اپنے خیمہ میں گیا اور میں نے زیرہ اتار دی تا کہ اگر میں مروں تو میں اللہ تعالیٰ کے سامنے شرمندہ نہ ہوں.چنانچہ اب میں بغیر زرہ کے لڑنے کے لیے جارہا ہوں اور میں مطمئن ہوں کہ اگر میں مرا تو میں اللہ تعالیٰ کے سامنے شرمندہ نہیں ہوں گا.یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے اسی دنیا میں ہی خدا تعالیٰ کو دیکھ لیا تھا اور وہ اسکی ملاقات کے لیے ہر وقت بیتاب رہتے تھے.وہ سمجھتے تھے کہ موت ایک پل ہے جس پر سے گزر کر ہم اپنے محبوب سے ملتے ہیں.اس لیے موت سے ڈرنے اور گھبرانے کے کوئی معنی ہی نہیں اور یہی ایمان کا اصل مقام ہوتا ہے.اس مقام کے حصول کا سب سے بڑا ذریعہ یہی ہے کہ انسان نمازوں کی پابندی اختیار کرے نوافل پڑھے، تہجد کی عادت ڈالے، ذکر الہی کرے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ بھی یہ سمجھنے لگے کہ شیخص ہمارا عاشق ہے.اور جب کوئی شخص عاشق بن جائے تو اسے اللہ تعالیٰ کا قرب ضرور حاصل ہو کر رہتا ہے.سو آپ لوگ جو یہاں آئے ہوئے ہیں میں آپ لوگوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ آپ نمازوں کی عادت ڈالیں.آج کا ہجوم بتاتا ہے کہ لاہور میں ہماری جماعت کے احباب بہت کافی تعداد میں پائے جاتے ہی ہیں.پس آپ لوگوں میں سے جو سُست ہیں میں ان سے کہتا ہوں کہ تم نمازوں کی پابندی کی عادت ہے ڈالو.اور جو سُست نہیں ان سے میں کہتا ہوں کہ تم دوسروں کو بیدار کرنے کی کوشش کرو.تا کہ کوئی فردا بھی ایسا نہ رہے جو نمازوں اور نوافل اور ذکر الہی میں سُست ہو.بلکہ جمعہ پڑھنا تو الگ چیز ہے، فرض نمازوں کی پابندی بھی الگ چیز ہے میں تو یہ کہتا ہوں ہر احمدی کو ان عبادات اور ذکر الہی کی طرف اس قدر توجہ رکھنی چاہیے کہ غیر شخص ہمیں دیکھتے ہی اس یقین پر پہنچ جائے کہ چونکہ یہ احمدی ہے اس لیے ہے

Page 290

$ 1949 281 خطبات محمود جمعہ یا فرض نمازوں کا تو کیا کہنا ہے یہ تہجد کے لیے بھی باقاعدہ اُٹھتا ہوگا اور راتوں کو اُٹھ اُٹھ کر اللہ تعالیٰ کے حضور گڑ گڑا تا اور دعائیں کرتا ہوگا.اگر یہ چیز صحیح طور پر پیدا ہو جائے تو بددیانتی ، جھوٹ ظلم ، دھوکا، فریب اور ایذارسانی وغیرہ کئی قسم کے گناہوں پر انسان بڑی آسانی سے غالب آ سکتا ہے.یہ جو اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں فرمایا ہے کہ مومن اپنے نشانات سے پہچانے جاتے ہیں یہ نشانات عبادت سے ہی پیدا ہوتے ہیں.4 دیانتداری سے انسانی جسم پر کوئی نشان نہیں پڑتا ، انصاف سے انسانی جسم پر کوئی نشان نہیں پڑتا لیکن نماز پڑھی جائے تو اس سے نشان پڑ جاتا ہے.جس کے معنے یہ ہیں کہ نماز کے اندر ساری نیکیاں آجاتی ہیں.جو شخص نماز کا پابند ہوگا وہ آہستہ آہستہ ہرقسم کے گناہوں پر غالب آجائے گا اور اس کے اندر ایسا تقوی پیدا ہو جائے گا جو اسے نیکی کے راستہ پر چلاتا چلا جائے گا.پس نمازوں کی پابندی اختیار کرو اور سمجھ لو کہ یہی ایک چیز ہے جو مومنوں کی امتیازی علامت ہے اور جس کے بعد ان پر ایسا نشان پڑ جاتا ہے جو ان کے ایمان کی ایک نمایاں علامت ہوتی ہے.نماز پڑھی جائے تو اس کا انسانی جسم پر ایک تو ظاہری نشان پڑتا ہے اور ایک باطنی نشان پڑتا ہے.ظاہری نشان یہ ہے کہ ماتھے اور ناک پر مٹی وغیرہ لگ جاتی ہے اور باطنی نشان یہ ہے کہ چہرہ سے اللہ تعالیٰ کے عشق اور اس کی محبت کے آثار ظاہر ہونے لگتے ہیں.پس دوسری بات جس کی طرف میں جماعت کے دوستوں کو خاص طور پر توجہ دلانا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ نمازوں کی عادت ڈالو، ذکر الہی کی عادت ہے ڈالو، نوافل کی عادت ڈالو، تہجد پڑھنے کی عادت ڈالو اور پھر ان عادتوں کو اتنا راسخ کرو کہ ہر شخص کو یہ یقین حاصل ہو جائے کہ جو شخص احمدیت میں داخل ہو جائے وہ نمازوں اور نوافل اور ذکر الہی کا پابند ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا.تیسری بات جس کی طرف میں یہاں کے دوستوں کو بھی مگر زیادہ تر باہر کی جماعتوں کو توجہ دلانا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ ہمارا تعلیم الاسلام کالج لاہور میں دو سال سے قائم ہے اور ابھی ایک دو سال تک جب تک کہ ہم کالج کی عمارت تیار نہ کر لیں لاہور میں ہی رہے گا.اس کالج کے قائم کرنے سے ہماری غرض یہ تھی کہ احمدی طلباء ایک جگہ اکٹھے رہیں اور احمدی اسا تذہ سے ہی کی تعلیم حاصل کریں تا کہ دنیوی تعلیم کے ساتھ ساتھ ان کے اندر دینی روح بھی ترقی کرتی چلی جائے اور وہ سلسلہ کے لیے مفید وجود ثابت ہوں.مگر یہ فائدہ تبھی حاصل ہوسکتا ہے جب باہر سے

Page 291

* 1949 282 خطبات محمود طالب علم آئیں اور ہمارے کالج میں داخل ہو کر تعلیم حاصل کریں.خالی کالج بنا دینے سے ہماری غرض پوری نہیں ہو سکتی.اس غرض کو پورا کرنے کے لیے ضروری ہے کہ باہر سے بکثرت طلباء آئیں اور تعلیم الاسلام کا لج میں داخل ہو کر اپنی تعلیم کو مکمل کریں.ابھی چند دن ہوئے مجھے ایک جاہل نے خط لکھا ہے جو کالج کا ذکر کرتے ہوئے مجھے اتفاقایادی آ گیا.اس خط میں اس نے بہت سے اعتراضات کیے ہیں جن میں سے ایک اعتراض اس نے یہ بھی کیا ہے کہ ناصر احمد کو کالج کا پرنسپل کیوں بنایا گیا ہے؟ اسے باہر کسی ملک میں تبلیغ کے لیے کیوں نہیں بھیج دیا جاتا؟ اس کی جگہ تو ایک عیسائی بھی پرنسپل رکھا جا سکتا ہے اور وہ ناصر احمد سے زیادہ بہتر کام کر سکتا ہے ہے.یہ لکھنے والے کی کمال درجہ کی جہالت ہے کہ طالب علم جس کی زندگی ایک نہایت ہی قیمتی چیز ہوتی ہے اور جس کی حفاظت کی سب سے زیادہ ضرورت ہوتی ہے اس کو وہ کوئی اہمیت دینے کے لیے تیار نہیں بلکہ سمجھتا ہے کہ ایک عیسائی پر نسپل بھی لڑکوں کی اس طرح تربیت کر سکتا ہے جس طرح ناصر احمد کر رہا ہے.اول تو مالی نقطہ نگاہ سے ہی کوئی اور پرنسپل رکھا جائے تو وہ ہزار بارہ سو روپیہ ماہوار سے کم نہیں ہے لے گا.لیکن اگر اس فائدہ کو نظر انداز بھی کر دیا جائے تو سوال یہ ہے کہ اگر ہم نے ہندو اور عیسائی ہی پرنسپل اور پروفیسر رکھتے ہیں تو پھر ہمیں اپنا الگ کالج بنانے کی ضرورت ہی کیا ہے.دوسرے کالجوں میں بھی عیسائی پروفیسر اور پرنسپل ہیں ان میں داخل ہو کر لڑ کے تعلیم حاصل کر سکتے ہیں.ہماری غرض تو اس کالج کو الگ قائم کرنے سے یہ ہے کہ احمدی طلباء احمدی اساتذہ سے تعلیم حاصل کر کے احمدیت کی روح اپنے اندر پیدا کریں اور یہ روح نہ کسی دوسرے کالج میں پڑھ کر پیدا ہو سکتی ہے نہ عیسائی پرنسپل رکھ کر پیدا ہوسکتی ہے.اس روح کے پیدا کرنے کے لیے ضروری ہے کہ اپنا کالج ہو، اپنا ماحول ہو اور اپنے اساتذہ کی زیر نگرانی تعلیم و تربیت کا کام ہو تا کہ ہماری آئندہ نسل اسلام اور احمدیت کے لیے کارآمد وجود ثابت ہو.گزشتہ فسادات کی وجہ سے ہمارے کالج کے نتائج اچھے نہیں نکلے تھے مگر اس سال اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہمارے کالج کا نتیجہ غیر معمولی طور پر نہایت شاندار رہا ہے جس سے پتا لگتا ہے کہ گزشتہ سال کے نتائج کی خرابی ان حالات کی وجہ سے تھی جو 1947 ء میں پیدا ہوئے.اس سال ہمارے تعلیم الاسلام کالج کی ایک جماعت کا نتیجہ 90 فیصدی کے قریب رہا ہے جو ایک حیرت انگیز امر ہے

Page 292

$ 1949 283 خطبات محمود حالانکہ یونیورسٹی کی اوسط 39 فیصدی ہے.یہی حال اور جماعتوں کے نتائج کا ہے.کوئی ایک جماعت بھی ایسی نہیں جس کا نتیجہ یونیورسٹی کی اوسط سے کم ہو بلکہ ہر جماعت کا نتیجہ یونیورسٹی کی اوسط سے بڑھ کر ہے.اگر کسی کلاس کے متعلق یو نیورسٹی کی اوسط 35 فیصدی ہے تو ہمارے کالج کی اوسط ساڑھے سینتیس فیصدی ہے.یا اگر یو نیورسٹی کی اوسط 35 فیصدی ہے تو ہمارے کالج کی 39 فیصدی ہے اور ایک کلاس کے متعلق تو میں نے بتایا ہے کہ ہمارے کالج کا نتیجہ اس میں 90 فیصدی کے قریب ہے حالانکہ یو نیورسٹی کی اوسط اس سے بہت کم ہے.وہ لوگ جن کے دلوں میں یہ شبہات ہوا کرتے تھے کہ ہمارے کالج میں لڑکوں کی تعلیم کا زیادہ بہتر انتظام نہیں اب ان نتائج کے بعد ان کے شبہات دور ہو جانے کی چاہیں کیونکہ خدا تعالیٰ کے فضل سے ہمارے کالج کے نتائج سوائے ایک کے باقی تمام کالجوں سے زیادہ شاندار نکلے ہیں اور ان کا فرض ہے کہ وہ اپنے بچوں کو حصول تعلیم کے لیے فورا تعلیم الاسلام کا لج میں داخل کرنے کی کوشش کریں.اس بارہ میں کسی قسم کی غفلت اور کوتاہی سے کام نہ لیں.اس کالج میں اپنے بچوں کو تعلیم کے لیے بھجوانا اس قدر ضروری اور اہم چیز ہے کہ میں تو سمجھتا ہوں جو شخص اپنے بچوں کو باوجود موقع میسر آنے کے اس کالج میں داخل نہیں کرتا وہ اپنے بچوں کی دشمنی کرتا اور سلسلہ پر اپنے کامل ایمان کا ثبوت مہیا نہیں کرتا.اگر وہ کسی اور جگہ اپنے بچوں کو داخل کرے گا تو صرف اس لیے کہ فلاں بورڈنگ اچھا ہے یا فلاں جگہ کھانا زیادہ اچھا ملتا ہے یا فلاں جگہ غیر قوموں کے لوگوں سے ملنے کا زیادہ موقع ملتا ہے.حالانکہ اصل چیز تعلیم ہے، اصل چیز دینی تربیت اور اعلیٰ اخلاق کا حصول ہے اور یہ چیزیں تعلیم الاسلام کالج کے سوا کسی اور کالج میں زیادہ بہتر طریق پر حاصل نہیں ہو سکتیں.تعلیم الاسلام کالج کی غرض یہ ہے کہ لڑکوں کو دنیوی تعلیم کے ساتھ ساتھ دینیات کی تعلیم بھی دی جائے اور یہ تعلیم کسی اور جگہ نہیں دی جاتی.پس باہر کی جماعتوں کو اس بارہ میں اپنی ذمہ داری کو سمجھنا چاہیے اور زیادہ سے زیادہ تعداد میں اپنے بچوں کو تعلیم الاسلام کالج میں داخل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے.میں نے دیکھا ہے بعض دفعہ لڑکے بھی غلط قدم اُٹھا لیتے ہیں اور وہ اپنے ماں باپ کو صحیح حالات سے بے خبر رکھتے ہوئے دھوکا دینے کی کوشش کرتے ہیں.دراصل بچپن کی عمر ہی ایسی ہے کہ اس میں انسانی عقل پختہ ہے نہیں ہوتی اور ناتجربہ کاری کی وجہ سے بچہ کئی دفعہ ایسی باتیں کہہ دیتا ہے جو واقعات کے خلاف ہوتی ہیں اور اس طرح ماں باپ دھوکا میں مبتلا ہو جاتے ہیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی فرماتے ہیں

Page 293

* 1949 284 خطبات محمود الصَّبِيُّ صَبِيٌّ وَلَوْ كَانَ نَبِيًّا بچہ بچہ ہی ہے خواہ اس نے بعد میں نبی ہی کیوں نہ بن جانا ہو.بہر حال لڑ کے بعض دفعہ اس قسم کی باتیں کرتے ہیں جن سے ماں باپ دھوکا میں مبتلا ہو جاتے ہیں.ایک نوجوان جو آجکل بڑا مخلص اور فدائی احمدی ہے اُسے طالب علمی کے زمانہ میں والدین نے قادیان میں داخل کروایا.یہ حضرت خلیفہ اول کے زمانہ کی بات ہے.ایک دن میں حضرت خلیفہ اول کے پاس گیا تو ابھی میں وہاں بیٹھا ہی تھا کہ اوپر سے ڈاک آ گئی اور آپ نے اسے پڑھنا شروع کر دیا.ڈاک پڑھتے پڑھتے آپ نے ایک خط نکالا اور اسے پڑھ کر آپ ہنسے.اُس وقت ایک طرف میں بیٹھا تھا اور دوسری طرف وہ لڑکا بیٹھا تھا.آپ نے میری طرف مسکرا کر دیکھا اور فرمایا ای میاں ! تم اس لڑکے کو جانتے ہو؟ مجھے یاد نہیں میں نے اُس وقت کیا جواب دیا.( اُس لڑکے کے والد بہت پرانے صحابی تھے اور انہوں نے پہلے دن لدھیانہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بیعت کی تھی.بہر حال اس گفتگو کے بعد حضرت خلیفہ اول اُس لڑکے کی طرف مخاطب ہوئے اور ہنس کر فرمانے لگے میاں! آج تم میرے پاس کس طرح پہنچ گئے ہو؟ اس نے کہا حضور ! جس طرح میں پہلے حاضر ہوا کرتا تھا اُسی طرح آج بھی حاضر ہو گیا ہوں.آپ فرمانے لگے تم یہ بتاؤ کہ تم پنجرے میں سے کس طرح نکلے ہو؟ اِس پر اُس کا رنگ زرد ہو گیا اور شرمندگی اور ندامت کی وجہ سے وہ کوئی جواب نہ دے سکا.پھر آپ نے وہ خط مجھے پڑھنے کے لیے دے دیا.میں نے پڑھا تو اُس میں لڑکے کی نانی الی نے حضرت خلیفہ اول کو لکھا تھا کہ میرے نواسے نے قادیان سے مجھے لکھا ہے کہ جب سے میں یہاں آیا ہوں مجھے انہوں نے ایک پنجرے میں ڈال کر لٹکا رکھا ہے.صبح شام سوکھی روٹی اور ذرا سا پانی اس کی پنجرے میں رکھ دیتے ہیں جس پر میں گزارا کرتا ہوں.لڑکے ادھر ادھر سے آتے اور مجھے دیکھ کر ہر وقت مذاق کرتے رہتے ہیں.میں آپ کو یہ خط اس لیے لکھ رہا ہوں کہ اگر آپ مجھے دیکھنا چاہتی ہیں تو خدا کے لیے آپ مجھے جلدی بلوا لیں اور اس قید سے نجات دلوائیں.اس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے حضرت خلیفہ اول نے اس سے فرمایا کہ میاں ! تم آج پنجرے میں سے کس طرح باہر آگئے ہو؟ اسی طرح میرے ساتھ ایک واقعہ ہوا.ایک دفعہ ایک شخص نے میرے پاس شکایت کی کہ میرے لڑکے کو استاد نے عربی میں فیل کر دیا ہے حالانکہ وہ اس مضمون میں بہت ہوشیار تھا اور اس کی جہ یہ ہے کہ استاد نے میرے لڑکے سے کوئی چیز لانے کے لیے کہا تھا چونکہ اس نے ایسا نہ کیا اس لیے

Page 294

* 1949 285 خطبات محمود اس نے لڑکے کو فیل کر دیا.میں نے کہا میں یہ مان نہیں سکتا کہ ایک احمدی استاد اس قسم کی کمبینہ حرکت کرے.یہ تو میں مانتا ہوں کہ سارے احمدی نیک نہیں مگر جو مثال میرے سامنے پیش کی گئی ہے وہ ایسی سایت ہے کہ میرا دل نہیں مانتا کہ کوئی احمدی ایسی حرکت کر سکے.انہوں نے کہا آپ بیشک تحقیق کر لیں.لڑکے کو بلا وجہ فیل کیا گیا ہے حالانکہ وہ بہت لائق اور ہوشیار تھا.میں نے کہا اچھا میں آپ کی خاطر سکول سے پرچہ پہ منگواتا ہوں اور دیکھتا ہوں کہ کیا بات ہے.مگر آپ پہلے وعدہ کریں کہ اگر یہ بات غلط ہوئی تو آپ لڑکے کو سخت سزا دیں گے.انہوں نے وعدہ کیا اور میں نے ہیڈ ماسٹر کو رقعہ لکھا کہ اگر چہ قاعدہ کی رو سے ایسا نہیں چاہیے مگر جماعتی نظام کی خاطر میں چاہتا ہوں کہ آپ فلاں لڑکے کا عربی کا پرچہ میرے پاس بھجوا دیں کیونکہ میرے پاس شکایت کی گئی ہے کہ اسے بلا وجہ فیل کر دیا گیا ہے.انہوں نے پرچہ بھجوا دیا.پرچہ آیا تو میں نے دیکھا کہ متحن نے اسے اڑھائی نمبر دیے ہوئے تھے مگر جب میں نے پرچے کو کھول کر دیکھا تو میں اس استاد کی عقل پر حیران ہوا جس نے اسے اڑھائی نمبر دیئے تھے کیونکہ میرے نزدیک وہ اڑھائی نمبروں کا مستحق نہیں تھا صرف صفر کا مستحق تھا.چنانچہ میں نے اس لڑکے کے باپ کو لکھا کہ میں اس استاد کی عقل پر حیران ہوں جس نے اس لڑکے کو سو میں سے اڑھائی نمبر دے دیئے ہیں.میرے نزدیک تو یہ صفر کا مستحق تھا.معلوم ایسا ہوتا ہے کہ استاد کو شرم آئی کہ صفر نمبر کیا دینا ہے چلو اڑھائی نمبر ہی دے دیں.انہوں نے جواب دیا کہ مجھے کیا پتا تھا کہ میرے لڑکے نے مجھے اس طرح دھوکا دیا ہے.میں تو یہی سمجھتا رہا کہ وہ جو کچھ کہتا ہے سچ کہتا ہے.بہر حال جب ایک طرف بالغ، عاقل اور سمجھدار اساتذہ ہوں اور دوسری طرف نا تجربہ کار بچہ ہوتو عقلمند انسان کا یہی کام ہوتا ہے کہ وہ مقابلہ کے وقت اپنے بچے کو غلطی پر سمجھے اساتذہ کو بد دیانت اور نالائق قرار نہ دے.بعض دفعہ لڑکے اسی بات کو دیکھ کر کہ سینما دیکھنے پر پابندیاں عائد کی جاتی ہیں یا نمازوں وغیرہ کی سختی سے پابندی کرائی جاتی ہے کالج کے خلاف جھوٹا پروپیگنڈا شروع کر دیتے ہیں اور یہ کہنے لگ جاتے ہیں کہ پروفیسر لڑکوں کو پڑھاتے نہیں وہ سارا دن ادھر ادھر پھرتے رہتے ہیں.اور جب یہ بات باپ سنتا ہے تو کہتا ہے اچھا! میرے بچہ پر یہ یہ مصیبتیں آرہی ہیں اور پھر وہ کوشش کرتا ہے کہ اسے کسی اور کالج میں داخل کرا دے.میرے نزدیک ماں باپ کا فرض ہے کہ وہ اپنے بچوں کی اس قسم کی باتوں میں نہ آئیں اور اپنی عقل اور سمجھ سے کام لیں.آخر یہ موٹی بات ہے کہ تم اپنے بچوں کی ھے

Page 295

$ 1949 286 خطبات محمود بات پر زیادہ اعتبار کرو گے یا یونیورسٹی کے نتائج پر زیادہ اعتبار کرو گے.یونیورسٹی کا نتیجہ بتا رہا ہے کہ ا ہمارے کالج کی ہر کلاس کا نتیجہ یونیورسٹی کی اوسط سے اوپر رہا ہے.ایک کا نتیجہ 90 فیصدی کے قریب رہا ہے اور دوسری کلاسوں کا نتیجہ یونیورسٹی کی اوسط سے اوپر رہا ہے اور یہ ایک نہایت ہی خوشکن بات ہے؟ مگر پھر بھی بعض لوگ ان حقائق پر غور کرنے کی بجائے لڑکوں کی بات پر کان رکھنے کے زیادہ عادی ہوتے ہیں.ان کی مثال بالکل ایسی ہی ہوتی ہے جیسے کہتے ہیں کہ کوئی سادہ لوح آدمی تھا جس کی طبیعت میں شرم اور حیا کا مادہ بہت غالب تھا.اس نے ایک گدھا خریدا.عربوں میں گدھے رکھنے کا عام رواج یا تھا اور وہ اس سے سواری اور بار برداری کا کام لیا کرتے تھے.جب اس کے دوستوں کو پتا لگا کہ اس نے گدھا خریدا ہے تو وہ روزانہ اس کے پاس آتے اور گدھا مانگ کر لے جاتے.اس طرح مہینہ ای دو مہینے گزر گئے اور وہ ایک دن بھی گدھا اپنی ذاتی ضروریات کے لیے استعمال نہ کر سکا.ہر وقت وہ دوسروں کے پاس ہی رہتا.آخر تنگ آکر اس نے فیصلہ کیا کہ اب میں کسی کو گدھا نہیں دوں گا.مگر ادھر طبیعت میں نرمی بھی تھی اور انکار بھی نہیں کر سکتا تھا.ایک دن اس کے پاس کوئی دوست آیا اور اس کے گھر کے باہر سے آواز دے کر کہا بھائی صاحب! مجھے گدھا چاہیے اگر آپ دے دیں تو بڑی مہربانی ہوگی.اس نے چونکہ فیصلہ کر لیا تھا کہ اب میں کسی کو گدھا نہیں دوں گا اس لیے اس نے مکان کی چھت پر سے ہی اسے جواب دیا کہ آپ کی بات کو میں رڈ تو نہیں کر سکتا تھا مگر فلاں دوست آئے تھے اور وہ مجھے سے گدھا مانگ کر لے گئے اس لیے میں آپ کے مطالبہ کو پورا کرنے سے قاصر ہوں.ادھر اس نے یہ بات کہی اور اُدھر گھر کے صحن سے گدھے نے چیخنا شروع کر دیا.اس کی آواز سن کر دوست کہنے لگا عجیب بات ہے گھر سے گدھے کے چیخنے کی آواز آرہی ہے اور آپ کہہ رہے ہیں گدھا کوئی دوست لے گیا ہے.وہ کہنے لگا آپ بھی عجیب آدمی ہیں کہ میری بات پر اعتبار نہیں کرتے اور گدھے کی بات پر اعتبار کر رہے ہیں.یہ ہے تو لطیفہ مگر ان لوگوں کی حالت بالکل ایسی ہی ہے.وہ یونیورسٹی کی بات پر اعتبار نہیں کرتے اور اپنے بچے کی بات پر اعتبار کر لیتے ہیں.پس میں دوستوں کو خواہ وہ مقامی ہوں یا بیرونی جماعتوں سے تعلق رکھتے ہوں توجہ دلاتا ہوں کہ وہ تعلیم الاسلام کالج میں اپنے لڑکوں کو داخل کرنے کی کوشش کریں.مگر اس کے ساتھ ہی میں

Page 296

$1949 287 خطبات محمود تعلیم الاسلام کالج کے عملہ کو بھی کچھ کہنا چاہتا ہوں.میرے نزدیک انہیں اپنے نتائج اس سے بھی بہتر پیدا کرنے کی کوشش کرنی چاہیے.آخر قربانی ایک طرف سے نہیں ہوتی بلکہ دونوں طرف سے ہوتی ہے ہے.ہم جو اپنے عزیزوں اور جماعت کے دوستوں سے یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ اپنے بچوں کو تعلیم الاسلام کالج میں داخل کراؤ تو لازمی طور پر اس کے نتیجہ میں ان کے دل کے گوشوں سے بھی یہ آواز بلند ہوتی ہے کہ اگر ہم سے قربانی کا مطالبہ کیا جاتا ہے تو آپ لوگوں کا بھی فرض ہے کہ ہمارے لیے قربانی ہے کریں.اگر پرنسپل اور کالج کے پروفیسر لڑکوں کے ساتھ محبت اور پیار کا تعلق رکھتے ہیں اور ان کی تعلیم کو اعلیٰ معیار تک پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں، ان کے اخلاق کی نگرانی رکھتے ہیں، ان کی صحت کو درست رکھنے کی تدابیر اختیار کرتے ہیں، ان کے اندر ذہانت پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو ماں باپ اور لڑکوں دونوں کے دلوں میں یہ احساس پیدا ہوگا کہ صرف ہم نے ہی قربانی نہیں کی بلکہ یہ لوگ بھی ہمارے لیے قربانی کر رہے ہیں.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اس وقت میں ذاتی طور پر جماعت کو مخاطب کر کے تحریک کر رہا ہوں کہ وہ کالج کی طرف توجہ کریں اور اپنے لڑکوں کو اس میں تعلیم کے لیے بھجوائیں مگر بہر حال میں یہ آواز انہی کی طرف سے اٹھا رہا ہوں.میں تو کالج کا پرنسپل نہیں نہ پروفیسر یا مینیجر ہوں.میں جو آواز اٹھا رہا ہوں وہ انہی کی طرف سے اٹھا رہا ہوں.اور جب میں دوستوں کو تحریک کرتا ہے ہوں کہ وہ اس کا لج میں اپنے لڑکے بھجوائیں تو در حقیقت میں ایک رنگ میں ان کی زبان بن جاتا ہوں اور ان کی طرف سے جماعت کے دوستوں کو یہ کہتا ہوں کہ تم کالج کے لیے قربانی کرو اور اپنے لڑکوں کو اس میں داخل کرو.اور جب میں دوسروں کو قربانی کے لیے کہتا ہوں تو ان لوگوں کا بھی حق ہے کہ وہ آپ سے یہ پوچھیں کہ آپ ہمارے لیے کیا قربانی کر رہے ہیں.اور چونکہ یہ ایک جائز مطالبہ ہے جو ان کی طرف سے ہوسکتا ہے اس لیے کالج کے پرنسپل اور پروفیسروں کو چاہیے کہ وہ دوسروں سے زیادہ وقت کالج کی ترقی اور لڑکوں کے تعلیمی معیار کو بلند کرنے کے لیے صرف کرنے کی عادت ڈالیں اور ان لالی کو زیادہ سے زیادہ دینی احکام کا پابند اور اخلاق فاضلہ سے متصف بنائیں.خصوصاً لڑکوں کی خوراک کی کی طرف زیادہ توجہ رکھنی چاہیے اور کوشش کرنی چاہیے کہ انہیں اچھی اور عمدہ غذا میسر آئے.میں کچھ عرصہ سے مختلف کتب کے مطالعہ کے نتیجہ میں اور کچھ اپنی صحت کو دیکھتے ہوئے اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ بچوں کی خوراک کا خیال نہ رکھنا اور ان کے لیے صحیح اور اعلیٰ درجہ کی غذا مہیا نہ کرنا ایک بہت بڑا ظلم ہے.کئی

Page 297

$1949 288 خطبات محمود بیماریاں اس وجہ سے پیدا ہو جاتی ہیں کہ لڑکوں کی خوراک کا خیال نہیں رکھا جاتا.اس میں کبھی تو غفلت کا دخل ہوتا ہے اور کبھی عدم علم کی وجہ سے خوراک کا خیال نہیں رکھا جاتا.مثلاً جب ہم بچے تھے اور اس کے زمانہ میں چونکہ خوراک کی قدرو قیمت کا لوگوں کو صحیح علم نہیں تھا اس لیے عدم علم کی وجہ سے ہماری غذا میں بعض نقائص رہ جاتے تھے.مثلاً مجھے یاد نہیں کہ ہمیں با قاعدہ ناشتہ ملا ہو.دودھ گھر میں ہوتا تھا جس کے کا دل چاہا اس نے پی لیا.سکول سے پہلے کھانے کا انتظام نہیں ہوتا تھا.سکول سے وقت بچا کر کھانے تھے کے لیے آجاتے تھے جس کے معنے ہیں کہ بے قاعدہ کھانا کھانا پڑتا تھا.اب یہ تو نہیں کہا جا سکتا کہ ہماری مائیں نَعُوذُ بِاللهِ ہماری دشمن تھیں.انہیں ہم سب سے محبت بھی تھی، پیار بھی تھا.وہ ہمارے لیے ہر قسم کی قربانی کرنے کے لیے بھی تیار رہتی تھیں لیکن چونکہ انہیں علم نہیں تھا کہ ناشتہ ایک ضروری چیز ہے اور کھانا وقت پر کھانا ضروری ہے انہوں نے نہ ناشتہ کا خاص خیال رکھا اور نہ صبح سکول جانے سے پہلے کھانے کا انتظام کیا.بہر حال خوراک کا اعصاب پر نہایت گہرا اثر پڑتا ہے.یورپین لوگ بڑی بڑی ہے مشکلات کے باوجود اپنے حوصلے بلند رکھتے ہیں کیونکہ بچپن سے ہی انہیں اچھی اور وقت پر خوراک ملتی ہے ہے لیکن ہمارے ملک کے لوگ بہت جلد اپنا حوصلہ ہار دیتے ہیں.ان کا حوصلہ ہارنا اخلاق کی کمی کی وجہ سے نہیں ہوتا بلکہ اس لیے ہوتا ہے کہ ان کے جسم میں اتنی طاقت ہی نہیں ہوتی کہ وہ حوادث اور آفات کا مقابلہ کر سکیں.پس بچوں کی خوراک کا خاص طور پر خیال رکھنا چاہیے کہ انہیں اچھی سے اچھی غذا میتر آسکے.میں نے دیکھا ہے گھر میں کھانے کا انتظام ہوتا ہے تو آدھی رقم میں نہایت اعلیٰ درجے کا کھانا تیار ہو جاتا ہے.میرے بعض بچے اس وقت بورڈنگ میں رہتے ہیں اور ان کے ماہوار اخراجات کا مجھے علم ہے.وہی منافق جس نے یہ لکھا تھا کہ پرنسپل تو ایک عیسائی بھی رکھا جاسکتا ہے اُسی نے یہ بھی لکھا تھا کہ تمہارے اپنے دولڑ کے دوسرے کالجوں میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں اور تم دوسروں سے یہ کہتے ہو کہ اپنے بچوں کو تعلیم الاسلام کالج میں داخل کرو.میں اس کا بھی جواب دے دیتا ہوں.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ میرے دولڑ کے اور کالجوں میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں مگر اس کی وجہ یہ ہے کہ ایک لڑکا وہ تعلیم حاصل کر رہا تھا جو تعلیم الاسلام کالج میں ہے ہی نہیں.وہ ڈاکٹری کے لیے تیاری کر رہا تھا اور یہ تعلیم ایسی ہے جس کا ہمارے کالج میں کوئی انتظام نہیں.دوسر الڑ کا بہت پہلے سے اُس کالج میں داخل

Page 298

* 1949 289 خطبات محمود تھا اور وہ بھی چونکہ ڈاکٹری کلاس میں داخل ہوا تھا اس لیے تعلیم الاسلام کالج میں داخل نہ ہو سکا.بہر حال دولڑ کے بعض دوسرے کالجوں میں پڑھ رہے ہیں اور ان کا خرچ خوراک ستر روپیہ ماہوار ہے.ہمارے گھر میں زیادہ سے زیادہ 35 روپیہ کے قریب ایک آدمی کا خرچ بنتا ہے اور اس میں ہم بہتر سے بہتر خوراک استعمال کر رہے ہیں.مگر میں نہیں سمجھتا کہ ان کا کھانا ہمارے کھانے سے زیادہ اچھا ہوتا ہی ہو.یہ خرچ بھی لاہور مسافرانہ زندگی کی وجہ سے ہوا ہے.ورنہ قادیان میں تو پندرہ سولہ روپیہ ماہوار خرچ ہوتا تھا.اس سے پہلے دس روپیہ ماہوار ہوا کرتا تھا.آخر میں جب ہم وہاں سے چلے ہیں تو اس کی وقت ہیں روپیہ کے قریب خرچ ہوتا تھا.لیکن یہاں کالج میں ستر روپیہ فی لڑکا خوراک پر خرچ کیا جاتا ہے.کسی زمانہ میں یہ حالت تھی کہ کہا جائے کہ فلاں شخص ستر رو پید اپنی خوراک پر خرچ کر رہا ہے تو لوگ کہتے بڑالاٹ صاحب ہے مگر آج ہر کالج کا طالبعلم یہ خرچ ادا کر رہا ہے.لیکن اس خرچ کے باوجود میں سمجھتا ہوں انہیں وہ خوراک نہیں مل رہی جو اتنے روپیہ میں انہیں ملنی چاہیے.تعلیم الاسلام کا لج والے دیانتداری سے کام لیں تو اس سے کم روپیہ میں ان کے ماہوار اخراجات خوراک کو پورا کیا جاسکتا ہے.میرے نزدیک پروفیسروں کا فرض ہے کہ وہ تمام اخراجات پر کڑی نگرانی رکھیں اور کسی قسم کا ناجائز خرج الاول نہ ہونے دیں.میں نے دیکھا ہے اگر پھلکے پکانے والے کی ہی نگرانی کرو تو ستر فیصدی آٹے میں گزارہ ہو جاتا ہے اور اگر نگرانی چھوڑ دو تو سو فیصدی آٹا خرچ ہو جاتا ہے.اسی طرح گوشت وغیرہ کے متعلق احتیاط کی جاسکتی ہے.اگر وہ توجہ کریں تو اس خرچ کو یقیناً کم کیا جا سکتا ہے مگر خرچ کم کرنے کے یہ معنے نہیں کہ لڑکوں کی صحت کو تباہ کیا جائے.ان کی صحت کو خراب کرنے کی تمہیں اجازت نہیں.میں جو کچھ کہتا ہوں وہ یہ ہے کہ تھوڑے روپیہ سے بہتر سے بہتر کھانا ان کو مہیا کرو اور انہیں اچھی غذا دو تا کہ ان می کے دماغ اور اعصاب کو طاقت حاصل ہو اور وہ اپنی قوم کے لیے مفید وجود ثابت ہوں.اسی طرح دینیات کی تعلیم کی طرف انہیں خاص طور پر توجہ کرنی چاہیے.اگر دینی باتیں سننے کا لڑکوں کو زیادہ موقع ملے تو یہ لازمی بات ہے کہ ان کے اندر دینی روح بھی ترقی کرے گی اور اگر کم موقع ملے تو دینی روح کی ترقی میں بھی کمی واقع ہو جائے گی.مجھے افسوس ہے کہ اس طرف کا لج کے عملہ کو پوری توجہ نہیں.مثلاً لڑکوں کے اندر صحیح دینی جذبہ پیدا کرنے کے لیے ضروری ہے کہ وہ مرکز سے وابستہ ہوں.اور مرکز سے وابستگی پیدا کرنے کے جہاں اور کئی طریق ہیں وہاں ایک یہ بھی طریق ہے کہ کی.

Page 299

* 1949 290 خطبات محمود خلیفہ وقت سے کالج میں کم سے کم دو چار لیکچر سالانہ کروائے جائیں تا کہ ان کو اپنی ذمہ داریوں کا احساس پیدا ہو اور قربانی کی روح ان کے اندر ترقی کرے.اس کے علاوہ جماعت کے دوسرے علماء اور مبلغین سے بھی وقتا فوقتا لیکچر کروانے چاہیں تا کہ بار بار ان کے سامنے مختلف دینی مسائل آتے ہ رہیں اور ان کی اہمیت ان کے ذہن میں راسخ ہوتی چلی جائے.خالی کتابیں پڑھا دینے سے دماغی تربیت نہیں ہوسکتی.اس کے لیے ضروری ہے کہ ان کے اندر جرات، ہمت اور بہادری کا مادہ پیدا کیا جائے.اور جرات کا مادہ ہمیشہ ایسے لوگوں کے ذریعہ ہی پیدا ہوتا ہے جنہوں نے اپنی زندگی میں کوئی ہے نمایاں کام کیا ہوا ہوتا ہے.جب انسان ان کی باتیں سنتا ہے تو سمجھتا ہے کہ یہ صرف منہ کی باتیں نہیں ہے بلکہ ان کے ساتھ عمر بھر کا تجربہ بھی شامل ہے.اس کے بعد وہ ضد کر کے بیٹھ جائے تو اور بات ہے ورنہ اگر اس کے دل میں ذرہ بھر بھی صداقت کا احساس ہو تو وہ خدا تعالیٰ کی محبت کا شکار ہوئے بغیر نہیں رہا سکتا.مثلاً جب ایک شخص کہتا ہے کہ اگر میں دین کی خدمت کروں تو روٹی کہاں سے کھاؤں تو اس کا صحیح جواب وہی شخص دے سکتا ہے جس نے ساری عمر دین کی خدمت کی ہو، جس نے ساری عمر دنیا کا کوئی کام نہ کیا ہو اور پھر خدا تعالیٰ نے ہمیشہ اسے باعزت رزق دیا ہو.جب ایسا شخص اس سے گفتگو کرے گا اور کہے گا کہ میں نے دین کی خدمت کی ہے اور ایسے حالات میں کی ہے کہ میرے لیے روٹی کا کوئی امکان نہیں تھا مگر پھر بھی اللہ تعالیٰ نے مجھے روٹی دی تو اس کا حوصلہ بلند ہو جائے گا اور وہ سمجھے گا کہ اگر میں بھی دین کی خدمت کے لیے اپنے آپ کو پیش کر دوں تو میں بھوکا نہیں مرسکتا.اسی طرح جب ایسا شخص ان سے گفتگو کرے گا جس نے خدا تعالیٰ سے باتیں کی ہوں گی، جس کی تائید کے لیے اس نے معجزات و نشانات دکھائے ہوں گے ، جس پر اس کے فضل بارش کی طرح بر سے ہوں گے تو اس کی گفتگو کا جو نتیجہ ہوگا وہ ان لوگوں کی گفتگو سے بالکل مختلف ہوگا جن کے ساتھ خدا تعالیٰ کا کوئی معجزانہ سلوک نہیں ہوتا اور جو محض لوگوں کے قصے اور کہانیاں سنانے پر اکتفا کرتے ہیں.یہ ایسی ہی بات ہے جیسے کوئی شخص اگر یہ بیان کرے کہ احمدی غیر ممالک میں اس اس طرح قربانیاں کر رہے ہیں تو لوگوں پر اس کا کوئی خاص اثر نہیں ہوتا لیکن اگر امریکہ یا افریقہ سے کوئی شخص آکر اپنے مشاہدات کا ذکر کرے تو اس کا بالکل اور اثر ہوتا ہے اور لوگوں کے اندر ایک نئی زندگی پیدا ہو جاتی ہے اور ان کے حوصلے بلند ہو جاتے ہیں.

Page 300

خطبات محمود 291 $1949 ނ ، بہرحال ہمارے کالج کے افسروں کے اندر یہ احساس ہونا چاہیے کہ انہوں نے اپنے طالبعلموں کی زندگیوں کو سنوارنا اور انہیں قوم کے لیے اعلیٰ درجہ کا وجود بنانا ہے.یہاں تک کہ وہ جس محکمہ میں بھی جائیں اس میں چوٹی کے آدمی ثابت ہوں اور کوئی دوسرا شخص ان کا مقابلہ نہ کر سکے.یہ بات ظاہر ہے کہ ہم اپنی تعداد کے لحاظ سے دنیا کے مقابلہ میں کوئی حیثیت نہیں رکھتے اور پھر لوگوں کی کی مخالفت اور ان کا عناد اس کے علاوہ ہے.اگر ہم کسی وقت ترقی کرتے کرتے 1/1000 - 1/100 تک بھی پہنچ جائیں تب بھی وہ جماعت جو ایک فیصدی ہو وہ ننانوے فیصدی لوگوں کا مقابلہ نہیں کر سکتی.اور جبکہ تعداد کے لحاظ سے ہم کسی صورت میں بھی ان کا مقابلہ نہیں کر سکتے تو کیوں نہ ترقی کر کے ہم میں سے ہر شخص چوٹی کا آدمی بنے کی کوشش کرے.اور کیوں ہم اپنے اندر اتنی قابلیت اور لیاقت پیدا نہ کر لیں کہ جس وقت کوئی دوسرا شخص یہ سنے کہ یہ احمدی انجنیئر ہے یا احمدی ڈاکٹر ہے احمدی وکیل ہے یا احمدی بیرسٹر ہے یا احمدی تاجر ہے تو وہ کسی انٹرویو کی ضرورت ہی نہ سمجھے بلکہ محض ایک احمدی کا نام سنتے ہی یقین کر لے کہ اس شخص کا اپنے فن میں کوئی اور مقابلہ نہیں کر سکتا.مگر یہ چیز ایسی ہے ہے جو کالج کی مدد کے بغیر ہمیں حاصل نہیں ہو سکتی.پس کالج کے عملہ کو میں خاص طور پر اس امر کی طرف توجہ دلاتا ہوں کہ وہ لڑکوں کی علمی ، اخلاقی اور مذہبی تربیت کی طرف توجہ کریں.جس طرح میں نے کہا ہے کہ انہیں لڑکوں کی خوراک کے معاملہ میں خاص طور پر نگرانی رکھنی چاہیے اسی طرح کالج کے عملہ کو لیے لڑکوں کی تربیت میں اس قدر دلچسپی لینی چاہیے اور اس قدر توجہ اور انہماک کے ساتھ انہیں یہ کام کرنا چاہیے کہ ہر شخص کے دل میں یہ احساس پیدا ہو جائے کہ یہ لڑکوں کو کسی غیر کا بیٹا نہیں بلکہ اپنا بیٹا سمجھ کر دے رہے ہیں اور ان کی تربیت کا خاص خیال رکھ رہے ہیں.اسی طرح مار پیٹ اور جھڑ کیاں دینے کی بجائے انہیں بچوں سے محبت اور پیار کا سلوک کرنا چاہیے.جب وہ بچوں کے لیے اس قسم کی محبت اور پیار کا نمونہ دکھا ئیں گے تو اس کے نتیجہ میں لازمی طور پر ان کے دلوں میں بھی یہ جذبہ پیدا ہوگا کہ جب یہ لوگ ہماری خاطر مر رہے ہیں تو ہم اپنی خاطر کیوں نہ مریں اور ہم اپنی زندگیوں میں وہ تغیر کی کیوں پیدا نہ کریں جو ہمارے رب کے منشا کے مطابق ہو.اس طرح وہ زیادہ سے زیادہ وقت دینی کاموں میں صرف کریں گے اور رفتہ رفتہ اپنے آپ کو اچھا شہری بنانے کی کوشش کریں گے.اسی سلسلہ میں ایک اور نصیحت کالج کے عملہ کو یہ کرنا چاہتا ہوں کہ انہیں لڑکوں کی دماغی تربیت

Page 301

$ 1949 292 خطبات محمود کا بھی خاص خیال رکھنا چاہیے.ان کا صرف اچھے نمبروں پر پاس ہوجانا کافی نہیں بلکہ ان کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ ان کی دماغی تربیت اس رنگ کی ہو کہ جب وہ نماز پڑھیں تو عقلمند انسان کی طرح نماز پڑھیں اور جب کتاب پڑھیں تو عظمند انسان کی طرح کتاب پڑھیں.یہ ایک الگ مضمون ہے کہ عقل اور ذہانت کی ترقی کس طرح ہو سکتی ہے.میں اس وقت صرف اصولی طور پر اس امر کی طرف کا لج و کے عملہ کو توجہ دلاتا ہوں.اگر وہ ان امور کا خیال رکھیں گے تو لوگوں کے اندر خود بخود یہ احساس پیدا ہوگا کہ یہ کالج اپنے اندر بعض نمایاں خصوصیات رکھتا ہے جن سے ہمیں اپنے بچوں کو محروم نہیں رکھنا چاہیے.اب میں اپنے خطبہ کو ختم کرتا ہوں اور امید کرتا ہوں کہ لاہور کی جماعت بھی اور بیر ونجات کی جماعتیں بھی اپنی ذمہ داری کو سمجھتے ہوئے اپنے لڑکوں کو تعلیم الاسلام کالج میں داخل کرنے کی کوشش کریں گی اور کالج کے پرنسپل اور پروفیسر بھی جنہوں نے مجھ سے درخواست کر کے یہ چاہا ہے کہ میں لوگوں کو یہ تحریک کروں کہ وہ ان کے لیے اپنی اولاد کی قربانی کریں اپنے اندر زیادہ سے زیادہ قربانی کا مادہ پیدا کر کے لڑکوں کی تعلیم کو اعلیٰ معیار تک پہنچانے کی کوشش کریں.کیونکہ جب ایک طرف وہ لوگوں سے قربانی کا مطالبہ کر رہے ہیں تو دوسری طرف میرا بھی حق ہے اور دوسرے لوگوں کا بھی حق ہے کہ وہ ان سے یہ کہیں کہ آپ بھی کچھ قربانی کریں تا ہماری اور آپ کی قربانیاں دونوں مل کر نیک نتائج پیدا کریں اور ہماری آئندہ نسلیں اسلام کی فدائی اور اس کا جاں نثار گروہ ثابت ہوں.وَ آخِرُ دَعُونَا أَنِ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ “.الفضل 14 ستمبر 1949 ء 1 : الفاتحة : 6 2 : يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا قُوا أَنْفُسَكُمْ وَأَهْلِيكُمْ نَارًا (التحريم: 7) 3 تفسیر روح المعانی از علامه الوسی - سورة المائدة آیت 3 جلد 3 صفحہ 233.بیروت لبنان $2005 :4 : سِيمَاهُمْ فِي وُجُوهِهِمْ مِنْ أَثَرِ السُّجُودِ (الفتح: 30)

Page 302

* 1949 293 30.خطبات محمود ہمیشہ اپنے اعمال کا محاسبہ کرتے رہو اور اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لیے کوشاں رہو (فرمودہ 16 ستمبر 1949ء بمقام لاہور ) تشهد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: ”ہماری جماعت جس بنیاد پر قائم ہے وہ دوسری جماعتوں سے بالکل الگ ہے.دوسری جماعتوں کی بنیاد ورثہ پر ہے لیکن ہمارا عقیدہ یہ ہے کہ نہ ورثہ کا گناہ انسان کی ہدایت کے رستہ میں روک بن سکتا ہے اور نہ ورثہ کی نیکیاں اسے کچھ فائدہ پہنچا سکتی ہیں.حضرت مسیح علیہ السلام نے فرمایا ہے تم اپنی صلیب آپ اٹھا کر چلو.1 جس کے معنے یہی ہیں کہ ہر ایک انسان کو اس کے اپنے اعمال کا بدلہ ملے گا.نہ ماں باپ کی نیکیاں اس کے کام آئیں گی اور نہ ان کی بدیاں اس کے ثواب کو کم کر سکیں گی.احادیث میں آتا ہے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دفعہ اپنے بعض عزیزوں کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا قیامت کے دن میں تمہارے لیے کچھ نہیں کر سکوں گا.تمہیں اپنا بوجھ خود اٹھانا پڑے گا اور اپنی جنت کے لیے خود رستہ تیار کرنا پڑے گا.اگر چہ یہ ایک حقیقت ہے کہ ہر انسان کو اپنا بوجھ خود ہی 2

Page 303

$ 1949 294 خطبات محمود اُٹھانا پڑتا ہے لیکن عملی طور پر تمام مذاہب عموماً ورثہ پر ہی اپنی بنیا در رکھتے ہیں مثلاً آجکل کا ایک مسلمان اس بات کو کافی سمجھتا ہے کہ وہ ایک مسلمان گھرانے میں پیدا ہوا اور اپنے عقیدہ کے مطابق ایک.مذہب کا پیروکار کہلایا.ایک ہندو اس بات کو کافی سمجھتا ہے کہ وہ ایک ہندو گھرانے میں پیدا ہوا اورا.عقیدہ کے مطابق ایک سچے مذہب کا پیروکار کہلایا.ایک عیسائی ، ایک یہودی یا ایک زرتشتی اس بات پر بالکل مطمئن ہے کہ وہ ایک عیسائی، یہودی یا زرتشتی گھرانے میں پیدا ہوا اور اپنے عقیدہ کے مطابق ایک بچے مذہب کا پیرو کہلایا.لیکن پیدائش خدا تعالیٰ کے فضل کا وارث نہیں بنایا کرتی.خدا تعالیٰ کے فضل کا وارث بننے کے لیے ضروری ہے کہ عملی طور پر اس کے حصول کے لیے کوشش کی جائے.ایک ای چھوٹی سے چھوٹی اور ادنیٰ سے ادنی ہستی کو بھی اُس وقت تک تسلیم نہیں کیا جا سکتا جب تک کہ اس میں کسی قسم کی حرکت نہیں پائی جاتی.انسانی زندگی ایک ادنی کیڑے سے شروع ہوئی ہے لیکن ڈاکٹر اس کے متعلق بھی یہ اصول پیش کرتے ہیں کہ جب تک اس میں کوئی حرکت نہ ہو وہ انسانی پیدائش کے قابل نہیں ہوسکتا.یہ کیڑا کتنا حقیر ہے، یہ کیڑا کتنا چھوٹا ہے، وہ عام نظروں سے چھپا رہتا ہے بلکہ تیز سے تیز نظر والا انسان بھی اسے نہیں دیکھ سکتا.کئی سو طاقت والی خوردبین سے وہ دیکھا جاتا ہے وہ بھی اگر حرکت نہ کرے تو سمجھا جاتا ہے کہ وہ بیکار ہے.پس جب ایک ادنیٰ سے ادنی چیز بھی حرکت نہیں کرتی ہے تو اسے بریکار سمجھا جاتا ہے تو پھر انسان کے اندر اگر زندگی کے لیے کشمکش نہیں پائی جاتی ، اس میں اگر منزل مقصود تک پہنچنے کی جدوجہد نہیں پائی جاتی اور اگر اس جدوجہد کا صحیح نتیجہ نہیں نکلتا تو پھر کیونکر کہا جا سکتا ہے کہ وہ کامیاب ہے گو وہ کامیاب ہونے والا ہے.وو اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ ہم نے دنیا کی ہر چیز کو جوڑا بنایا ہے.3 خدا تعالیٰ نے ہر چیز فرمایا ہے.یہ نہیں فرمایا کہ میں نے انسانوں کو جوڑا بنایا ہے، میں نے حیوانوں کو جوڑا بنایا ای ہے بلکہ فرمایا ہے کہ میں نے ہر چیز کو جوڑا بنایا ہے.اور ہر چیز کو جوڑا بنانے کے یہ معنے ہیں کہ خدا تعالیٰ کی کے سوا ہر چیز کا جوڑا ہے.کیونکہ کہتا ہے میں نے ہر چیز کو جوڑا بنایا ہے.اس لیے وہ تو ہر چیز میں کی شامل نہیں ہوسکتا وہ تو بنانے والا ہے اور جوڑا اُس چیز کا ہے جو بنائی گئی ہے.اگر خدا تعالیٰ نے ہر چیز کو جوڑا بنایا ہے تو اس کا یہ مطلب ہے کہ انسانوں، فرشتوں، حیوانوں ، جمادات اور نباتات وغیرہ میں سے کوئی چیز بھی ایسی نہیں جو بغیر اپنے جوڑے کے کوئی نتیجہ پیدا کرتی ہو.اس طرح روح اور اعمال بھی

Page 304

* 1949 295 خطبات محمود ہے.ایک جوڑا ہیں.جب تک یہ دونوں آپس میں نہیں ملیں گے کوئی صحیح نتیجہ نکلنا محال اسی لیے صوفیاء نے کہا ہے کہ روح خدا تعالیٰ کے فضل اور اس کی رحمت کا جوڑا ہے اور جب تک خدا تعالیٰ کا فضل اور اس کی رحمت روح سے نہیں ملتے اُس وقت تک روحانی نسل قائم نہیں ہو سکتی.جب ایک طرف روح ہوگی اور دوسری طرف خدا تعالیٰ کا فضل اور رحمت ہوں گے تب ان میں صحیح نتیجہ پیدا ہوگا اور یہی دونوں چیزیں ہیں جومل کر روحانی نسل کو قائم کرتی ہیں.مجھے یاد ہے میں ابھی بچہ ہی تھا.میری عمر چودہ پندرہ سال کی تھی کہ میں نے رویا میں دیکھا کہ میں امرتسر میں ہوں.امرتسر میں ملکہ کا ایک بُت تھا جو سنگِ مرمر کا بنا ہوا تھا.اس کے اردگرد ایک چبوتر اتھا وہ بھی سنگ مرمر کا بنا ہوا تھا.ہال بازار سے گزر کر جب شہر کو جائیں تو یہ بہت رستہ میں آتا تھا.میں نے رویا میں دیکھا کہ میں اُس جگہ پر ہوں.چبوترے پر چڑھنے کے لیے سنگ مرمر کی سیڑھیاں بنی ہوئی تھیں.میں نے دیکھا اُن سیڑھیوں پر تین یا چار سال کا ایک بچہ تھا جو نہایت حسین اور صاف ستھرے کپڑے پہنے ہوئے تھا.وہ آسمان کی طرف دیکھ رہا تھا.رویا میں میں سمجھتا ہوں کہ یہ مسیح ہے.تھوڑی دیر میں آسمان پھٹا اور اوپر کی طرف سے کوئی اُڑتا ہوا شخص زمین کی طرف آیا.میں نے دیکھاتی کہ وہ خوبصورت رنگوں والے لباس میں لپٹا ہوا ہے اور اُس کے پر ہیں جن سے وہ اُڑتا ہوا آ رہا ہے.میں سمجھتا ہوں کہ یہ حضرت مریم ہیں.وہ شخص اُڑتے اڑتے نیچے پہنچا اور جیسے مرغی اپنے پر پھیلا کر اپنے بچوں کو پروں کے نیچے لے لیتی ہے اس طرح اس شخص نے اس بچہ پر اپنے پر رکھ دیئے.اور جب اس نے ایسا کیا تو یہ الفاظ میری زبان پر جاری ہوئے کہ love creates Love یعنی محبت محبت پیدا کرتی ہے.میری آنکھ کھلی تو اس رویا کی میں نے یہی تعبیر سمجھی کہ مریم جو رویا میں بطور ماں دکھائی گئی تھی وہ خدائی محبت ہے اور بچہ جو مسیح کی شکل میں دکھایا گیا تھا وہ روح کی خدا تعالیٰ کی طرف ا نابت اور جھکنے کا تمثل ہے.جب انسانی روح خدا تعالیٰ کی طرف جھکتی ہے تو اس کے نتیجہ میں ایک روحانی وجود پیدا ہوتا ہے جو خدا تعالیٰ کو ایسا ہی پیارا ہوتا ہے جیسے ماں کو اس کا بچہ.خدا تعالیٰ جسم کے ساتھ پیار نہیں کیا کرتا.ظاہری ناک، کان اور ہاتھ تو مادی ہیں اور فانی ہیں.وہ وجود جس کے ساتھ خدا تعالی پیار کیا کرتا ہے وہ خدا تعالیٰ کی رحمت کے ساتھ مل کر پیدا ہوتا ہے.وہ گویا بچہ ہے اور خدا تعالیٰ اس کے لیے بمنزلہ ماں ہے اور یہی وہ چیز ہے جس سے زندہ انسان پہچانا جاتا ہے.زندہ انسان تو کی

Page 305

* 1949 296 خطبات محمود سارے ہی ہوتے ہیں مگر اولاد کے ناقابل مرد اور بانجھ عورت سے نسل نہیں چلا کرتی.وہ وجود اپنی ذات پر ختم ہو جاتا ہے.جاری اور زندہ رہنے والی وہ چیز ہوتی ہے جس سے نسل کے چلنے کا امکان ہو.مگر کیا اس سے ظاہری نسل مراد ہے؟ ظاہری نسل سے تو وہ لوگ بھی پیدا ہوتے ہیں جو خدا تعالیٰ کو گالیاں دیتے ہیں، ظاہری نسل سے وہ لوگ بھی پیدا ہوتے ہیں جو اس کے رسول سے منہ پھیر لیتے ہیں، جو کتابوں اور الہاموں سے متنفر ہوتے ہیں اور بنی نوع انسان کے لیے عذاب ثابت ہوتے ہیں.ہلاکو خاں وغیرہ بھی اسی نسل میں سے تھے، ابو جہل ، فرعون، نمرود اور شداد بھی اسی نسل میں سے تھے.اسی میں سے وہ شیاطین بھی تھے جنہوں نے اپنے اپنے وقت میں انبیاء کی مخالفت کی.اب ظاہر ہے کہ یہ وہ نسل نہیں جس پر خدا تعالیٰ فخر کرتا ہے.خدا تعالیٰ جس نسل پر فخر کرتا ہے وہ وہ نسل ہے جو روحانی طور پر پیدا ہوتی ہے.جب کوئی شخص ایسی نسل کے پیدا کرنے کی طاقت نہیں رکھتا وہ صحیح معنوں میں انسان نے نہیں کہلا سکتا.صحیح معنوں میں انسان وہی ہے جو روحانی نسل پیدا کرے اور اپنے پیچھے ایسے وجود چھوڑ جائے جن کے ذریعہ دنیا ہدایت پاتی رہے.اگر کوئی ایسا شخص ہے جس کے ذریعہ روحانی نسل پیدا ہوتی ہے ہے تو وہ اپنے فرض کو پورا کر رہا ہے اور وہ کامیاب کہلا سکتا ہے اور نسلِ انسانی کی پیدائش سے اسی کی انسان کا پیدا کرنا مقصود ہے.اگر لوگ ایسی نسل جاری کرتے رہیں تو دنیا پر کیوں بربادی آئے.دنیا پر تباہی و بربادی اُسی وقت آتی ہے جب ظاہری طور پر ایسے وجود پائے جاتے ہوں لیکن باطنی طور پر ان میں وہ خوبیاں نہ پائی جائیں جن کی وجہ سے روحانی نسل قائم رہتی ہے.قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مخاطب کرتے ہوئے فرماتا جی ہے اِنَّ شَانِئَكَ هُوَ الْاَبْتَرُ 14 اے محمد رسول اللہ ! تیرے دشمن کی نرینہ اولاد نہیں حالانکہ واقع اول یہ تھا کہ آپ کی ظاہری طور پر نرینہ اولاد نہیں تھی اور آپ کے شدید ترین دشمنوں میں قریباً تمام کی نرینہ اولاد تھی.ابو جہل کی نرینہ اولاد تھی، عتبہ کی نرینہ اولاد تھی، شیبہ کی نرینہ اولاد تھی ، عاص کی نرینہ اولا تھی.یہ آپ کے شدید ترین دشمن تھے اور ان سب کی نرینہ اولا د موجود تھی اور نرینہ اولاد نہیں تھی تو رسول کریم ہے صلی اللہ علیہ وسلم کی.لیکن جس شخص کی اولاد نہیں تھی اُسے مخاطب کرتے ہوئے خدا تعالیٰ کہتا ہے کہ تیری نرینہ اولا دموجود ہے اور جن لوگوں کی نرینہ اولا د موجود تھی انہیں خدا تعالیٰ کہتا ہے کہ ان کی نرینہ اولاد نہیں ہے.ان دونوں متقابل بیانات سے صاف پتا چلتا ہے کہ ان میں اسی نکتہ کی طرف اشارہ ہے جس کی جی

Page 306

* 1949 297 خطبات محمود طرف میں نے ابھی اشارہ کیا ہے.اور وہ یہ کہ خدا تعالیٰ نے جب یہ فرمایا کہ تیری نرینہ اولاد ہے تو اس سے یہ مراد تھی کہ آپ کی روحانی اولاد ہوگی.اور دشمن کے متعلق جب کہا کہ ان کی نرینہ اولاد نہیں ہوگی تو اس سے مراد یہ تھی کہ ان کی روحانی اولاد نہیں ہوگی.چنانچہ حضرت عکرمہ کو دیکھ لو.حضرت عکرمہ ابو جہل کے بیٹے تھے.ابوجہل رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو سب سے زیادہ نرینہ اولاد نہ ہونے کا طعنہ دینے والا تھا.جیسے پنجابی میں کہا کرتے ہیں اونتر انکھتر ا.اسی طرح وہ کہا کرتا تھا کہ آپ نَعُوذُ بِاللهِ اونترے نکھرے ہیں.ان کا کیا ہے مر جائیں گے تو یہ سلسلہ ٹوٹ جائے گا.اسی ابو جہل کا بیٹا موجود تھا.وہ آخری وقت تک مخالفت کرتا رہا اور جب فتح مکہ ہوئی تو وہ ملکہ سے بھاگ گیا اور اس نے کہا کہ میں اب یہاں نہیں رہوں گا بلکہ کسی اور ملک میں چلا جاؤں گا.حضرت عکرمہ کی بیوی دل سے مسلمان تھی وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی اور کہنے لگی یا رسول اللہ ! آپ کا عفو بہت بڑا ہے.اگر آپ کا ایک دشمن آپ کے زیر سایہ پرورش پا جائے تو کیا حرج ہے؟ شاید خدا تعالیٰ اسے ہدایت دے دے.آپ نے فرمایا کوئی حرج نہیں.اس نے کہا کیا آپ اجازت دیں گے کہ عکرمہ اسی ملک کی میں رہے اور آپ کے زیر سایہ زندگی بسر کرے؟ آپ نے فرمایا ہاں.اس نے کہا لیکن وہ تو دشمن ہے اور میں جانتی ہوں کہ وہ یہ پسند نہیں کرے گا کہ اسلام لے آئے.کیا آپ اسے کفر کی حالت میں ہی یہاں رہنے دیں گے؟ آپ نے فرمایا ہاں.اس نے پھر کہا کیا میں عکرمہ سے کہوں کہ وہ اپنے مذہب پر قائم رہتے ہوئے مکہ میں رہ سکتا ہے؟ آپ نے فرمایا ہاں.عکرمہ مکہ سے بھاگ کر سمندر کے کنارے پہنچ چکا تھا.بیوی اپنے خاوند کی محبت کی وجہ سے تیسرے دن وہاں پہنچی.عکرمہ کشتی میں سوار ہونے والا تھا کہ وہ وہاں پہنچی.اس نے کہا تم مکہ میں رہنا پسند نہیں کرتے.تم کہتے ہو کہ جہاں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حکومت ہے وہاں میں نہیں رہوں گا.لیکن جن کی وجہ سے تم مکہ میں رہنا پسند نہیں کرتے اُن کا یہ حال ہے کہ جب میں نے ان سے کہا کہ کیا آپ عکرمہ کو مکہ میں رہنے کی اجازت دیتے ہیں؟ تو آپ نے فرمایا ہاں.میں نے کہا وہ آپ کا شدید ترین دشمن ہے اور یہ میں جانتی ہوں کہ وہ اسلام نہیں لائے گا ، وہ کافر ہونے کی حالت میں ہی مرے گا.کیا آپ اسے اس صورت میں بھی یہاں رہنے کی اجازت ہے دیں گے؟ آپ نے فرمایا ہاں.وہ تو اتنی مہربانی کرتے ہیں اور تم ان کے زیر سایہ ملکہ میں رہنا بھی پسند نہیں کرتے.عکرمہ نے کہا کیا یہ سچ ہے؟ اس کی بیوی نے کہا ہاں.عکرمہ نے کہا چلو.میں خود یہ بات کی

Page 307

* 1949 298 خطبات محمود ان سے پوچھ لینا چاہتا ہوں.عکرمہ واپس آئے اور اپنی بیوی سے کہا کہ مجھے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ملا دو.میں یہ بات خود ان کے منہ سے سننا چاہتا ہوں.بیوی ساتھ لے کر انہیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی.عکرمہ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ایک بات ہے جو میں دریافت کرنا چاہتا ہوں اور وہ یہ ہے کہ میری بیوی کہتی ہے آپ نے فرمایا ہے کہ میں آپ کے زیر سایہ مکہ میں رہ سکتا ہوں.کیا یہ درست ہے؟ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاہاں.عکرمہ نے کہا ایک اور بات بھی ہے.وہ کہتی ہے کہ میں باوجود دشمن ہونے کے اور اسلام نہ لانے کے بھی یہاں رہ سکتا ہوں.آپ نے فرمایا ہاں.بظاہر تو یہ ایک معمولی بات ہے، یہ ایک دنیوی معاملہ ہے.غالب شخص مغلوب سے یہ کہتا ہے کہ میں تمہارا قصور معاف کرتا ہوں اور اپنے مذہب پر قائم رہتے ہوئے ملک میں رہنے کی تمہیں اجازت دیتا ہوں.لیکن اگر سیاق کو دیکھا جائے ، جب ان کی پچھلی تاریخ کو دیکھا جائے اور اُس سلوک کو سامنے رکھا جائے جو وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا کرتے تھے تو معلوم ہوتا تھا کہ یہ انسانی فعل نہیں.عکرمہ یہ خیال بھی نہیں کر سکتے تھے کہ اُن سے ایسا سلوک ہوسکتا ہے.انہوں نے جب یہ بات سنی تو یقین کر لیا کہ یہ سلوک سوائے رسول کے کوئی اور شخص نہیں کر سکتا.جو نہی یہ فقرہ آپ کے منہ سے نکلا کہ مکرمہ اتم با وجود دشمن ہونے کے مکہ میں رہ سکتے ہو تو ہے عکرمہ نے کہا میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں.آپ نے فرمایا عکرمہ! ہم تمہیں معاف ہی نہیں کرتے بلکہ تم اپنے لیے جو کچھ مانگو آج تمہیں دیں گے.اس پر وہی دنیا دار عکرمہ جو مکہ میں آپ کے زیر سایہ رہائش کو بھی پسند نہیں کرتا تھا وہ یہ خیال نہیں کرتا کہ آپ نے دوسروں کو لاکھوں کے اموال بخش دیئے ہیں.میں بھی کچھ مانگ لوں تا آرام کے ساتھ زندگی بسر کر سکوں بلکہ ایک منٹ کے اندراندر ایمان نے اُس کے اندر ایسا تغیر پیدا کر دیا کہ جب آپ نے کہا عکرمہ ! تم اپنے لیے جو کچھ مانگو ہم آج دیں گے تو اس نے کہا یا رسول اللہ ! اس سے بڑھ کر اور کونسی چیز آپ مجھے دے سکتے ہیں ہے کہ مجھے ہدایت مل گئی.آپ میرے لیے دعا کریں کہ خدا تعالیٰ میرے تمام گناہ معاف کر دے.5 اُس گھڑی عکرمہ ابو جہل کا بیٹا نہیں رہا تھا جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اونتر انکھترا کہا کرتا تھا بلکہ وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا روحانی بیٹا بن گیا تھا.اُس وقت ابو جہل اونتر انکھتر ا تھا اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی روحانی اولا د موجود تھی.ماؤں نے بچے جنے ، باپوں کے ہاں نرینہ اولاد پیدا ہوئی

Page 308

* 1949 299 خطبات محمود اس لیے کہ اسے اُٹھا کر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی گود میں دے دیا جائے.عاص آپ کا کتنا دشمن تھا.وہ مکہ کا باپ کہلایا کرتا تھا اور مخالفت میں انتہا کو پہنچا ہوا تھا.اس کے شخص کا بھی ایک بیٹا تھا جو مسلمان ہو گیا.اس کا پوتا اپنے باپ کی زندگی میں ہی مسلمان ہو گیا تھا اور اس کی کے خلاف ایک عرصہ تک لڑتا رہا.اس کا نام عبد اللہ بن عمر و تھا.عبداللہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے لڑا کرتا تھا مگر عمر واتنا شدید دشمن تھا کہ ایک لمبے عرصہ تک آپ کے خلاف لڑتا رہا.ایک دن ایسا ہوا کہ اس کی آنکھیں کھلیں.وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور اسلام لے آیا.یہ عمر و جب مرنے لگے تو وہ روتے تھے.بیٹے نے دریافت کیا آپ روتے کیوں ہیں؟ خدا تعالیٰ نے اس بات کی آپ کو توفیق دی ہے کہ آپ مسلمان ہو کر مر رہے ہیں لیکن ان کے اندرا سلام اس قدر جاگزیں ہو چکا تھا کہ صرف لفظ اسلام سے انہیں کوئی لطف حاصل نہیں ہوتا تھا.وہ محض اسلام لے آنے کو کافی نہیں سمجھتے تھے.انہوں نے روتے ہوئے کہا میرے بیٹے ! مجھے پتا نہیں کہ اگلے جہان میں میرا کیا حال ہوگا.ایمان لانے سے پہلے میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا اتنا دشمن تھا کہ باوجود اس کے کے کہ آپ میرے قریبی رشتہ دار تھے جس دن سے آپ نے دعوی کیا بغض کی وجہ سے میں نے آپ کی شکل نہیں دیکھی اور اُس وقت اگر کوئی مجھ سے آپ کا حلیہ دریافت کرتا تو میں اسے بتانہیں سکتا تھا.پھر اے میرے بیٹے ! مجھے خدا تعالیٰ نے ایمان نصیب کیا اور وہ معمولی تغیر نہیں تھا.جب میں ایمان لایا تو آپ کی عظمت کا مجھ پر اتنا اثر تھا کہ رُعب کی وجہ سے میں نے آپ کی شکل نہیں دیکھی اور اگر اب بھی کوئی مجھ سے آپ کا حلیہ پوچھے تو میں نہیں بتا سکتا.پھر آپ فوت ہوئے.آپ کے فوت ہونے کے بعد دنیا کے جھگڑے شروع ہوئے.ہم آپس میں لڑتے رہے.ہمیں دین کی طرف وہ توجہ نہ رہی جو آپ کی زندگی میں تھی.میں کفر کی حالت میں مرجاتا تو اور بات تھی.آپ کی زندگی میں مرجاتا تو اور بات تھی لیکن آج ایک لمبے عرصہ کے بعد میں فوت ہو رہا ہوں اور پتا نہیں آپ کی وفات کے بعد میں نے کیا کیا کوتاہیاں کی ہیں.6 میں ڈرتا ہوں کہ ایسا نہ ہو میں اگلے جہان میں بھی آپ کی شکل نہ دیکھ سکوں.اب دیکھو! یہ عمرو عاص کا بیٹا تھا یا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا؟ ہر شخص جس میں عقل ہے یہی کہے گا کہ عاص کے گھر میں وہ پیدا ہوالیکن اس نے اسے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی گود میں رکھ دیا.خالد بن ولید رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عداوت میں بہت شہرت رکھتے تھے.

Page 309

* 1949 300 خطبات محمود ص ہیں جنہوں نے عکرمہ سے مل کر اُحد کے موقع پر اپنے خیال میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو شہید کر دیا تھا.یہ وہ شخص ہے جس نے پہاڑ کے پیچھے سے ہو کر مسلمانوں پر حملہ کیا اور ان کی فتح کو شکست سے بدل دیا.پھر یہی وہ شخص ہے جس کے متعلق رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک موقع پر فرمایا کہ جب تین جرنیل شہید ہو گئے تو اللہ تعالیٰ نے مجھے خبر دی ہے کہ سَيْفٌ مِنْ سُيُونِ اللهِ.لشکر کی کمان سنبھال لی اور اس طرح مسلمان محفوظ ہو گئے.7 یہی خالد جب مرتے ہیں تو مرنے سے قبل روتے ہیں.ان کے ایک دوست نے پوچھا خالد ! روتے کیوں ہو؟ خدا تعالیٰ کے راستہ میں جہاد کرنے کی آپ کو کتنی توفیق ملی ہے.خالد نے کہا ہاں ہاں مجھے بے شک قربانی کے مواقع ملے ہیں لیکن مجھے حسرت ہے کہ میں چار پائی پر جان دے رہا ہوں.پھر خالد نے اپنے اس دوست سے کہا میری ٹانگ سے ذرا کپڑا تو اُٹھاؤ.کیا کوئی انچ بھر بھی ایسی جگہ تم دیکھتے ہو جس پر تلوار کا نشان نہ ہو؟ اُس نے کی کہا نہیں.خالد نے کہا اچھا میری دوسری ٹانگ ننگی کرو.اُس نے دوسری ٹانگ سنگی کی اور دیکھا کہ اس پر بھی ہر جگہ تلوار کے نشان لگے ہوئے ہیں.خالد نے کہا اچھا میرے ہاتھ ننگے کرو.میرے سینے پر سے کپڑا اُٹھاؤ، میری پیٹھ پر سے کپڑا اُٹھا کر دیکھو.میرے پر نظر دوڑاؤ اور میری گردن کو ننگا کر کے دیکھو.میرے تمام جسم پر ایک انچ بھر بھی ایسی جگہ نہیں جس پر تلوار کا نشان نہ ہو.پھر خالد رو پڑے اور کہا خدا کی قسم ! میں اپنے آپ کو ہر خطرہ میں ڈالتا رہا اور میری خواہش تھی کہ میں شہید ہو کر دائی زندگی پاؤں لیکن وہ زندگی میرے نصیب میں نہیں تھی.میں آج چار پائی پر تڑپ تڑپ کر مر رہا ہوں.8 آب دیکھ لو کیا یہ خالد ولید کا بیٹا تھا؟ وہ ظاہری طور پر ولید کا بیٹا تھا لیکن باطنی طور پر وہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اولاد میں شامل ہو گیا تھا.وہ یقیناً ولید کے گھر میں پیدا ہوالیکن فرشتوں نے اسے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی گود میں لا ڈالا اور ثابت کر دیا کہ اِنَّ شَانِئَكَ هُوَ الْاَبْتَرُ محمد رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کی نرینہ اولا دموجود ہے، آپ کے دشمن کی نرینہ اولاد نہیں.پس یہ ایک روحانی نشان اور علامت ہے کہ زندہ انسان اپنے پیچھے ایسے وجود چھوڑتا ہے جن سے لوگ ہدایت پاتے ہیں.جو شخص ایسا وجود اپنے پیچھے چھوڑتا ہے وہ کامیاب کہلا سکتا ہے اور اپنی زندگی پر فخر کر سکتا ہے.لیکن جس کے پیچھے ایسے وجود نہیں پائے جاتے اسے خالی نمازیں اور روزے کچھ فائدہ نہیں دے سکتے.

Page 310

خطبات محمود 301 $ 1949 پس میں تمہیں نصیحت کرتا ہوں کہ تم اپنے اعمال کا محاسبہ کرتے رہا کرو.رسول کریمی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی فرمایا ہے حَاسِبُوا قَبْلَ أَنْ تُحَاسَبُو او یعنی پیشتر اس کے کہ تمہارا محاسبہ کیا جائے تم اپنا محاسبہ خود کرو.ہوشیار کلرک معائنہ سے پہلے دو چار راتیں لگا کر اپنا حساب ٹھیک کر لیتا ہے ہے.اسی طرح تمہیں بھی اپنے نفس کا محاسبہ کر کے یہ دیکھنا چاہیے کہ آیا تمہاری روحانیت کے نتیجہ میں کوئی چیز پیدا ہوئی ہے؟ اگر تمہاری روحانیت کے نتیجہ میں کوئی چیز پیدا ہو رہی ہے تو سمجھ لو تمہارا ایمان درست ہے اور اگر نہیں تو تمہارا ایمان ورثہ کا ایمان ہے اور ورثہ کا ایمان فائدہ نہیں دیتا.نجات وہی شخص پاتا ہے جو بقول حضرت مسیح علیہ السلام اپنی صلیب خود اُٹھاتا ہے.نجات وہی شخص پاتا ہے جو اپنی نہریں خود کھودتا ہے.نجات وہی شخص پاتا ہے جو اپنے درخت خود لگاتا ہے.جو شخص دوسرے کے باغ میں داخل ہوتا ہے اُسے چوروں کی طرح باہر نکال دیا جاتا ہے.اسی طرح وہ شخص جو ورثہ کے طور پر جنت میں داخل ہونے کی کوشش کرے گا اُسے فرشتے پرے دھکیل دیں گے کیونکہ وہ چور ہے اور چور کو وہاں داخل نہیں ہونے دیا جائے گا“.1 : مرقس باب 8 آیت 34 (الفضل 14 دسمبر 1960 ء) 2 : بخاری کتاب التفسير تفسير سورة الشعراء باب وَانْذِرُ عَشِيرَتَكَ الْأَقْرَبِينَ 3: وَمِنْ كُلِّ شَيْ خَلَقْنَازَ وَجَيْنِ (الذاريات : 50) 4 : الكوثر: 4 5 : السيرة الحلبية جلد 3 صفحہ 107،106 مطبوعہ مصر 1935ء 6 : مسلم كتاب الإيمان باب كونُ الْإِسْلَامِ يهدم مَا قَبْلَهُ (الخ) 7 : بخاری کتاب المغازى باب غَزْوَة مرُّونَةً 8 : اسدالغابة جلد 2 صفحہ 95 مطبوعہ ریاض 1285ھ 9 : تفسیر روح البیان زیر آیت اِقْرَاْ كِتَابَكَ كَفَی بِنَفْسِكَ الْيَوْمَ - جلد 5 کے مطابق یہ حضرت عمرؓ کا قول ہے

Page 311

* 1949 302 31 خطبات محمود لڑکوں اور لڑکیوں کی تعلیم کے لیے لاہور میں اپنے ہائی اسکول قائم کرنے چاہیں تا اُن کی تربیت اچھے ماحول میں ہو (فرمودہ 23 ستمبر 1949ء بمقام لاہور ) تشہد ،تعوذ اورسورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: میں اپنے اکثر حصہ خاندان کو ربوہ چھوڑ کر اُمم متین کی بیماری کی وجہ سے پھر لاہور آیا ہوں.ام متین کے متعلق ڈاکٹروں نے مشورہ دیا ہے کہ انہیں فوراً ہسپتال میں داخل کروا دیا جائے.چنانچہ ابھی جس وقت میں ادھر آ رہا تھا میں یہ ہدایت دے کر آیا ہوں کہ انہیں ہسپتال پہنچا دیا جائے.میری طبیعت آج خود بھی ناساز ہے.تین چار دن سے ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے بخار کی حرارت ہوتی ہے.بخار ایسا نمایاں تو نہیں مگر بعض دفعہ پیاس اتنی تیز ہو جاتی ہے کہ ایک ایک گھنٹہ میں کئی کئی بار پانی پینا پڑتا ہے اس لیے میں زیادہ لمبا خطبہ نہیں پڑھ سکتا.اگلے خطبہ کے متعلق میری کوشش یہی ہوگی کہ اگر کوئی خاص روک پیدا نہ ہو جائے تو میں ربوہ میں پڑھاؤں.اگر اُس وقت تک اُمِ متین کی طبیعت اچھی ہوگئی ہے تو پھر مستقل طور پر میں وہیں رہوں گاور نہ اگلے سے اگلا خطبہ پھر مجھے یہیں پڑھانا پڑے گا.لاہور کے قیام میں میں نے لاہور کی جماعت کی حالت کے متعلق بہت کچھ غور کیا ہے اور

Page 312

* 1949 303 خطبات محمود میں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ بعض طبعی مشکلات جماعت لاہور کے راستہ میں ایسی ہیں جن پر قابو پانا یہاں کے کارکنوں کے بس کی بات نہیں.دنیا میں روحانی مضبوطی کے دو ہی سبب ہوتے ہیں اور جب میں نے کہا ہے کہ دنیا میں اس مضبوطی کے دو سبب ہوتے ہیں تو میری مراد یہ ہے کہ اس کے دنیوی کی اسباب دو ہیں.روحانی اسباب مُراد نہیں.اور وہ دنیوی سبب روحانی مضبوطی کے یہ ہیں کہ ایک تو صادقوں کی معیت کبھی انسان کو نصیب ہو جائے.جیسے قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.كُونُوا مَعَ الصُّدِقِينَ 1 تم صادقوں کی معیت اختیار کرو.جس کے معنی یہ ہیں کہ تمہارا ماحول اچھا ہو تو باوجود اس کے کہ کسی انسان کا ایمان زیادہ مضبوط نہ ہو پھر بھی وہ ماحول سے متاثر ہو کر ایمان میں ترقی کرنے کی کوشش کرتا رہتا ہے.اور ظاہر ہے کہ لاہور میں اچھا ماحول یہاں کی جماعت اور اس کی اولاد کومیٹر نہیں.کیونکہ یہاں سترہ لاکھ کی آبادی ہے.اگر لاہور کی جماعت کے تمام مرد، عورتیں اور بچے ملا ہے لیے جائیں تو اُن کی تعداد چار ہزار کے قریب بنتی ہے.گویا سو کے مقابلہ میں ایک نہیں بلکہ قریباً تی ساڑھے چار سو افراد کے مقابلہ میں ایک کی نسبت اُن کو حاصل ہے.اور ساڑھے چارسو میں ہمارے ایک آدمی کا ہونا اسے ماحول سے اتنا دور کر دیتا ہے کہ اچھے ماحول سے جس فائدہ کی اُمید کی جاسکتی ہے وہ اُسے حاصل نہیں ہو سکتا.اس لیے جونئی پو نکلتی ہے وہ لازمی طور پر اُن تأثرات کو زیادہ قبول کرتی ہے جو غیر اُس پر ڈالتے ہیں.اور جب کسی گھر میں اختلاف واقع ہو جائے ، پرانی پو دمسجدوں کی طرف جائے اور نئی پر دسینما کی طرف جائے پرانی پو د ذکر الہی کی طرف جائے اور نئی پو د لغو باتوں اور بنسی کھیل اور مذاق کی طرف جائے تو ظاہر ہے کہ گھر میں پجہتی باقی نہیں رہے گی اور اُس کی جدو جہد ایک جہت کی طرف رُخ نہیں کرے گی.ماحول کے بعد دوسری چیز مخالفت ہوتی ہے.جب ماحول اچھا نہیں ہوتا تو مخالفت ماحول کا کام دے جاتی ہے.لوگ گالیاں دیتے ہیں، مارتے پیٹتے ہیں، ہنسی مذاق کرتے ہیں تو ان کی مار پیٹ کی وجہ سے بجائے اس کے کہ کمزوری پیدا ہولوگوں کا ایمان اور بھی بڑھتا اور ترقی کرتا ہے.یہ بات یا انسان کی فطرت میں داخل ہے کہ وہ اپنے اندر بہادری کی روح رکھتا ہے.بیشک کچھ لوگ بزدل بھی ہوتے ہیں لیکن اکثر لوگ اپنے اندر بہادری رکھتے ہیں.جب انہیں مار پیٹ شروع ہوتی ہے تو وہ کہتے ہیں اچھا جو تمہاری مرضی ہے کر لو ہم اپنے مذہب کو چھوڑنے کے لیے ہر گز تیار نہیں اور اس طرح وہ اپنے

Page 313

* 1949 304 خطبات محمود ایمانوں میں پہلے سے زیادہ مضبوط ہو جاتے ہیں.پس مخالفت کی شدت کی وجہ سے بھی ایمان مضبوط ہوتے ہیں.لیکن اب احمدیت کو قائم ہوئے اتنا لمبا عرصہ گزر چکا ہے کہ گو ہم یہ جانتے ہیں کہ اندرونی طور پر لوگوں کے دلوں میں احمدیت کی نسبت بغض پایا جاتا ہے مگر وہ نظارہ جو پہلے نظر آتا تھا کہ احمد یوں ہے پر تالیاں پیٹ رہی ہیں ، گالیاں دی جا رہی ہیں، پتھر پھینکے جا رہے ہیں وہ نظارہ اب نظر نہیں آتا.یہی ہے لا ہور جس میں ظاہری طور پر احمدیت کی کسی قسم کی مخالفت نظر نہیں آتی کو باطنی طور پر مخالفت موجود ہے بلکہ پہلے سے بھی بڑھی ہوئی ہے اسی لاہور میں میں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر پتھر پڑتے دیکھے ہیں.اسی لاہور میں میں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر لوگوں کو ہنسی مذاق کرتے اور گالیاں دیتے دیکھا ہے.مجھے خوب یاد ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام جب ملتان تشریف لے گئے تو میں بھی آپ کے ساتھ گیا.مجھے ملتان کی تو کوئی بات یاد نہیں.لیکن واپسی پر جب آپ لا ہور ٹھہرے تو اُس وقت کا نظارہ اب تک میری آنکھوں کے سامنے ہے.میری عمر اس وقت آٹھ نو سال یا اس سے بھی کچھ کم تھی.ملتان سے واپسی پر آپ ایک دن کے لیے یہاں ٹھہرے.اُن دنوں میاں فیملی کا گھر فصیل سے باہر نہیں ہوا کرتا تھا بلکہ وہ غالبا واٹر ورکس کے مقابل پر شہر کے اندرون کے حصہ میں رہا کرتے تھے.اُس روز میاں فیملی میں سے کسی دوست نے میاں چراغ دین صاحب یا میاں معراج دین صاحب نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی دعوت کی.سنہری مسجد کے پاس اُن کے مکان کو رستہ جاتا تھا.اُس وقت لاہور کی حالت موجودہ حالت سے بالکل مختلف تھی.اب تو لنڈا بازار اور بیرون دتی دروازہ سب آباد نظر آتا ہے لیکن اُن دنوں یہ سب غیر آباد علاقہ تھا.صرف لنڈے بازار میں چند دکا نہیں تھیں مگر وہ بھی بہت معمولی سی.باقی سارا علاقہ خالی اور غیر آباد پڑا تھا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اُس جگہ سے واپس تشریف لا رہے تھے تو سنہری مسجد یا وزیر خان کی مسجد ( یہ مجھے ) یاد نہیں رہا ) ان دونوں میں سے کسی ایک مسجد کے قریب بہت سے لوگ جمع تھے.انہیں یہ پتا لگ چکا تھا تھی کہ مرزا صاحب اس طرف گئے ہیں اور تھوڑی دیر میں ہی وہ واپس آنے والے ہیں.اُن دنوں سواری کے لیے شکر میں ہوا کرتی تھیں.یہ ایک چار پیسے کی گاڑی ہوا کرتی تھی جس پر لکڑی کا ایک کمرہ سا بنا ہوا ہے ہوتا تھا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بھی شکرم میں بیٹھے ہوئے تھے اور کچھ شکر میں آپ کے

Page 314

* 1949 305 خطبات محمود آگے پیچھے تھیں.میں بھی اُس شکرم میں تھا جس میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام تشریف رکھتے تھے.جس وقت گاڑی وہاں پہنچی لوگوں نے شور مچانا شروع کر دیا.میں سمجھتا ہوں غالباً مولویوں نے کی چیلنج دیا ہوگا کہ مرزا صاحب یہاں آئے ہیں تو ہم سے مباحثہ کر لیں.وہ جانتے تھے کہ اس بے موقع کی آواز کا جواب چونکہ یہی ہوگا کہ ہم مباحثہ نہیں کر سکتے اس لیے ہم لوگوں میں شور مچادیں گے کہ مرزا صاحب ہار گئے.چنانچہ یہی ہوا.جب آپ کی شکرم وہاں پہنچی تو لوگوں نے آوازے کسے اور یہ کہنا شروع کیا کہ مرزا صاحب ہار گئے.غالباً انہوں نے یہی کہا ہوگا کہ ہم سے مباحثہ کر لیں اور چونکہ مباحثہ کا یہ کوئی طریق نہیں ہوتا کہ جہاں کوئی شخص مباحثہ کے لیے کہے وہیں اُس سے مباحثہ شروع کر دیا جائے اسی ہے لیے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے انکار کیا ہوگا اور انہوں نے یہ سوچا ہوگا کہ جب گاڑیاں یہاں سے گزریں گی ہم شور مچا دیں گے کہ مرزا صاحب بھاگ گئے ہیں.اس مسجد کے آگے اونچی چی سیٹرھیاں ہیں.سات آٹھ سیڑھیاں چڑھ کر مسجد کا دروازہ آتا ہے.ان سیڑھیوں پر بہت سا ہجوم تھا.جوی لوگ لاہور کے واقف ہیں وہ شاید سیٹرھیوں کے ذکر سے سمجھ جائیں کہ یہ کونسی مسجد ہے سنہری مسجد یا وزیر خاں کی کی مسجد.اسی موقع پر بعض دوستوں نے عرض کیا کہ ایسی سیٹرھیاں سنہری مسجد کے آگے ہیں.سینکڑوں لوگوں کا ہجوم وہاں جمع تھا اور یہ شور مچا رہا تھا کہ مرزا ہار گیا مرزا دوڑ گیا.اس طرح کوئی ہو ہو کر رہا تھا کوئی تالیاں پیٹ رہا تھا ، کوئی گالیاں دے رہا تھا بلکہ بعض نے کنکر مارنے بھی شروع کر دیئے.اس ہجوم سے آگے ذرا فاصلے پر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ دتی دروازہ کے باہر کیونکہ میرے ذہن پر یہی اثر ہے کہ جس جگہ کا یہ واقعہ ہے وہاں جگہ خالی تھی اور عمارتیں تھوڑی سی تھیں میں نے دیکھا کہ ایک شخص ممبر پر یا درخت کی ایک ٹہنی پر بیٹھا ہے.اُس کا ہاتھ کٹا ہوا ہے اور زرد زرد پٹیاں اُس نے باندھی ہوئی ہیں.ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے اسے کوئی زخم ہے اور اس نے ہلدی اور تیل وغیرہ ملا کر پٹیاں باندھی ہوئی ہیں.مجھے خوب یاد ہے جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام وہاں سے گزرے تو وہ اپنائنڈ دوسرے ہاتھ پر مار مار کر کہتا تھا کہ مرزا دوڑ گیا مرزا دوڑ گیا.بچپن کے لحاظ سے مجھے یہ ایک عجیب بات معلوم ہوئی کہ اس کا ایک ہاتھ ہے نہیں صرف ٹنڈ ہی ٹھنڈ ہے مگر یہ اپنا ٹھنڈ مار مار کر بھی یہی کہہ رہا ہے کہ مرزا دوڑ گیا مرزا دوڑ گیا.ایک اور مولوی ہوا کرتا تھا جو ٹاہلی 2ے والا مولوی“ کہلاتا تھا.اُس کی عادت

Page 315

* 1949 306 خطبات محمود تھی کہ وہ ہمیشہ درخت پر بیٹھ کر گالیاں دیا کرتا تھا.غرض لاہور میں یا تو مخالفت کی یہ حالت ہوا کرتی تھی اور یا آب اندرونی طور پر چاہے کیسی ہی مخالفت ہو ہم ان کے پاس سے گزرتے ہیں تو وہ ادب سے سلام بھی کرتے ہیں اور ہماری باتوں کی طرف متوجہ بھی ہوتے ہیں.ایک دفعہ میں یہیں لاہور میں آیا.یہ آج سے پندرہ سولہ سال پہلے کی بات ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت کے متعلق یہاں جلسہ تھا اور چونکہ میں بھی آیا ہوا تھا اس لیے جماعت نے خواہش کی کہ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق ایک تقریر کروں اور اس غرض کے لیے انہوں نے بریڈ لا ہال تجویز کیا.جب میری اس تقریر کا لوگوں میں اعلان ہوا تو ”زمیندار“ نے شور مچانا شروع کر دیا کہ ان لوگوں کا حق ہی کیا ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نام لیں.یہ تو آپ کو کے دشمن ہیں.بعض نے مجھے کہا کہ ”زمیندار“ اِس اِس طرح مخالفت کر رہا ہے ایسا نہ ہو کہ لوگ اس جلسہ میں کم آئیں.میں نے کہا لا ہور والوں پر میری تقریروں کا اتنا اثر ہو چکا ہے کہ وہ ”زمیندار“ کی مخالفت کے باوجود میری تقریر سننے کے لیے ضرور آجائیں گے.انہیں میری تقریروں کا چسکا پڑ چکا لی ہے.چنانچہ ایسا ہی ہوا.جب میں پہنچا تو ہال بالکل بھرا ہوا تھا.اس جلسہ میں شرارت کی غرض سے کی بعض شخص ان کے بھی آگئے اور جلسہ کے باہر چودھری اسد اللہ خاں صاحب سے بعض لوگوں کی لڑائی کی بھی ہوئی لیکن بہر حال جلسہ میں جو لوگ آئے ان میں سے اکثر ایسے تھے جو صرف تقریر سننے کے لیے آئے تھے.ایک شخص جو مولوی ٹائپ کا تھا بریڈ لا ہال میں کرسیوں کی آخری لائن میں آکر بیٹھ گیا.جب میں نے تقریر شروع کی تو اُس نے فوراً کھڑے ہو کر ”زمیندار“ کے اثر کے ماتحت یہ الفاظ کہے کہ اپنی وڈی پگڑی بھی ہوئی ہے پر عقل ذرا بھی نہیں ( یعنی پگڑی تو اتنی بڑی باندھی ہوئی ہے مگر عقل بالکل نہیں).میں نے کہا صاحب بیٹھ جائیے.جب میں بات کروں گا تب آپ کو پتا لگے گا کہ میرے اندر عقل ہے یا نہیں.ابھی میں نے کوئی بات ہی نہیں کی تو آپ کو پتا کیسے لگ گیا کہ میں بے عقلی کی بات کروں گا.میرے اس جواب سے وہ ایسا مرعوب ہوا کہ بیٹھ گیا.اس کے بعد ساری تقریر میں میں انتظار کرتا رہا کہ وہ کچھ بولے مگر وہ ایسا محو ہوا ایسا محو ہوا کہ ایک احمدی دوست نے جو اس کے پاس ہی بیٹھے ہوئے تھے بتایا کہ جب تقریر ختم ہو گئی تو وہ کہنے لگا بس اتنی ہی تقریر تھی ؟ ہمیں تو امید تھی کہ یہ تقریر کچھ دیر اور بھی جاری رہے گی.اب گجا تو مخالفت کی وہ حالت تھی اور گجا یہ حالت ہے کہ تقریر ختم ہو

Page 316

* 1949 307 خطبات محمود جاتی ہے مگر وہ چاہتا ہے کہ یہ تقریر کچھ دیر اور جاری رہتی.بہر حال ظاہری مخالفت کا اب وہ دور نہیں رہا جو پہلے ہوا کرتا تھا.اس لیے گالیوں اور کی مار پیٹ اور ہنسی مذاق کی وجہ سے نوجوانوں کے دلوں میں اپنے دین کے متعلق جو جوش پیدا ہوا کرتا ہے وہ بھی پیدا نہیں ہوسکتا.یہ دو ہی دنیوی سبب ہوا کرتے ہیں جن کی وجہ سے نئی پود میں ایمان کی مضبوطی پیدا ہوتی ہے.مگر اب لاہور میں ظاہری مخالفت بھی نہیں اور نئی پو دکو وہ ماحول بھی میسر نہیں جو اسے ایمان میں مضبوط بنا سکے.جب بچہ گھر سے نکلتا ہے تو احمدیت کا ماحول اس کے لیے ختم ہو جاتا ہے کیونکہ وہ اکیلا ہوتا ہے اور اس کے اردگرد چار سو غیر لڑ کے موجود ہوتے ہیں جو اُس پر اپنا اثر ڈال رہے ہوتے ہیں.ہم اپنے بچہ سے کہتے ہیں سینما نہیں دیکھنا مگر ہمارے غیر کا بچہ جو اُس کا دوست اور ساتھی ہے ہوتا ہے سینما دیکھ کر آیا ہوا ہوتا ہے بلکہ سینما کے گانے اسے یاد ہوتے ہیں.جب وہ سُر تال کے ماتحت فلمی اشعار گا تا ہے تو اس کے کان میں بھی پہلے تو شعروں کی آواز آتی ہے پھر متوازن الفاظ کی وجہ سے ی ان کی طرف اس کی طبیعت اور زیادہ مائل ہوتی ہے اور یہ کان لگا کر اُن شعروں کو سننا شروع کر دیتا تھی ہے.پھر بچپن میں نقل کی بھی عادت ہوتی ہے.جب وہ دوسرے کوئے کے ساتھ بعض اشعار پڑھتے سنتا ہے تو اس کی نقل میں خود بھی وہی شعر گنگنانے لگ جاتا ہے اور ماں باپ کا سارا اثر باطل ہو جاتا ہے.اس کے بعد فرض کرو اُس کی آواز دوسرے لڑکے کی آواز سے زیادہ اچھی ہے تو دوسرا لڑکا جھٹ اُس سے دوستی لگالے گا اور کہے گا آؤ ہم دونوں مل کر گائیں.پھر کچھ دنوں کے بعد وہ کہے گا چلو ! سینما نی دیکھ آئیں.یہ کہے گا میرے ماں باپ تو سینما دیکھنے سے منع کرتے ہیں.وہ کہے گا اُن کو کس نے بتانا کی ہے کہ تم سینما دیکھ کر آئے ہو.کسی فرشتے نے بتانا ہے.چلو ! ہم چوری چھپے سینماد یکھ آتے ہیں.چنانچہ وہ بھی سینما دیکھنے لگ جاتا ہے اور ماں باپ کی ساری کوششیں اکارت چلی جاتی ہیں.غرض احمدیت جس ماحول کا تقاضا کرتی ہے اُس کو قائم رکھنا کسی کے بس کی بات نہیں.یہ تو ہم نہیں کر سکتے کہ دروازہ بند کر لیں اور اپنے بچوں کو گھروں سے باہر نہ نکلنے دیں.اگر اس طرح کیا جائے تو بچہ بالکل کمزور ہو جاتا ہے اور وہ شیطانی حملوں کا مقابلہ نہیں کرسکتا.چنانچہ تجربہ کیا گیا ہے کہ جن بچوں کو بیرونی ماحول سے بالکل بچانے کی کوشش کی جاتی ہے وہ بیرونی اثرات کا بہت جلد شکار ہو جاتے ہیں.قادیان سے آنے کے بعد ہی ہم نے دیکھا ہے کہ بعض ایسے ایسے گھرانے جنہوں نے

Page 317

* 1949 308 خطبات محمود وہاں کبھی سینما نہیں دیکھا تھا، جن کی لڑکیاں کبھی بے پرد نہیں پھری تھیں وہ اب سینما د یکھتے ہیں اور ان کی عورتیں بے پرد سائیکلوں پر دوڑتی پھرتی ہیں.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ایسی عورتیں ہزار میں سے ایک کی نسبت رکھتی ہیں لیکن بہر حال شیطان کو ہزار میں سے ایک عورت تو مل گئی.اس کی وجہ یہی تھی کہ وہاں وہ ایسے ماحول میں تھیں کہ انہیں اس رنگ میں شیطان کا مقابلہ کرنے کا موقع نہیں ملا اور چونکہ ان کو شیطان کا مقابلہ کرنے کی عادت نہیں تھی اس لیے انہوں نے یہاں آتے ہی ہتھیار پھینک دیئے اور اس رو میں بہہ گئیں جس رو میں دوسرے لوگ بہے جارہے ہیں.بہر حال یہ دو چیزیں یہاں نہیں جن کی وجہ سے کسی جماعت کو مضبوطی حاصل ہوتی ہے.اب یا تولا ہور شہر میں احمدیت اتنی مضبوط ہو جائے کہ نصف لوگ ایک طرف ہو جائیں اور نصف دوسری طرف.اگر ایک طرف کسی مسئلہ کے خلاف بولنے والے لوگ موجود ہوں تو دوسری طرف اس کی تائید کرنے والے لوگ موجود ہوں، اگر ایک طرف سینما دیکھنے کی تائید کرنے والے ہوں تو دوسری طرف سینما سے روکنے والے ہوں، ایک طرف ناچنے گانے کی تائید کرنے والے ہوں تو دوسری طرف ناچنے گانے سے روکنے والے ہوں، ایک طرف نماز پڑھنے سے روکنے والے ہوں تو دوسری طرف نماز پڑھنے کی تائید کرنے والے ہوں ، ایک طرف روزہ کی مخالفت کرنے والے ہوں تو دوسری طرف روزہ کے فوائد بتانے والے ہوں تب بیشک متوازی آواز میں اُٹھیں گی اور ماحول کے بُرے اثرات سے انسان محفوظ رہ سکے گا.اور یا پھر دوسری صورت یہ کی ہو سکتی ہے کہ مخالفت شروع ہو جائے ، لوگ گالیاں دینے لگیں اور مار پیٹ پر اُتر آئیں.اگر لوگ گالیاں دینے لگیں تب بھی ان کے ایمان مضبوط ہو جائیں گے.کیونکہ جب کوئی نو جوان یہ دیکھے گا کہ میرے ماں باپ کو محض اس لیے گالیاں دی جاتی ہیں کہ وہ احمدی ہیں اُس کی غیرت جوش میں آئے گی اور وہ کہے گا کہ اب میں بھی لوگوں کو احمدی بن کر دکھاؤں گا اور ان کا مقابلہ کروں گا.مگر یہ صورت ہمارے اختیار میں نہیں.اب صرف یہی صورت ہو سکتی ہے کہ دینی ترقی کے لیے ایک نیا ما حول تیار کیا تھی جائے.جب کسی محلہ میں ہم اپنا ماحول پیدا نہیں کر سکتے تو ہمارا فرض ہوتا ہے کہ ہم محلہ سے باہر نکل کر اپنا ماحول بنانے کی کوشش کریں.اور محلہ سے باہر دوسرا ماحول صرف اسکول کے ذریعہ ہی پیدا کیا می جاسکتا ہے.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اسکول ایک محدود چیز ہے مگر اسکول میں تمام قسم کے ہم عمر بچے اکٹھے ہوتے ہیں.امیر اور غریب ، ادنی اور اعلیٰ سب ایک جگہ موجود ہوتے ہیں اور یہ ایک قدرتی بات ہے

Page 318

$ 1949 309 خطبات محمود کہ بچہ اپنے ہم عمروں سے ہی دوستی رکھ سکتا ہے.یہ نہیں ہو سکتا کہ ایک بچہ ستر اسی سال کے بڑھے سے دوستی لگالے.آٹھ دس سال کا بچہ کوشش کرے گا کہ چھ سات سال یا گیارہ بارہ سال کے لڑکے سے دوستی لگائے اور اس کے ساتھ مل جل کر باتیں کرے کیونکہ انسان طبعا اپنے منشا کے مطابق باتیں کرنے میں زیادہ لذت محسوس کرتا ہے اور اس قسم کی باتیں ہم عمروں سے ہی ہو سکتی ہیں جو زیادہ تر اسکول میں میسر آتے ہیں.پس گو بظاہر وہ ایک چھوٹی سی جگہ ہوتی ہے مگر سارا شہر اس میں جمع ہوتا ہے کی اور اس وجہ سے وہ ایک نیا ماحول پیدا کرنے کی بہترین جگہ ہوتی ہے.اگر کوئی ایسا اسکول کسی جماعت کے قبضہ میں آجائے جس میں شہر کے تمام لڑکے تعلیم حاصل کرتے ہوں تو اس کے معنے یہ ہوں گے کہ تمام شہر اس کے قبضہ میں ہے اور اگر محلہ کے سکول میں اثر پیدا کر لیا جائے تو اس کے معنے یہ ہوں گے کہ سارا محلہ زیر اثر آگیا ہے.لا ہور کے حالات پر غور کر کے میں نے یہ نتیجہ نکالا ہے اور اس کی طرف میں نے ایک دفعہ پہلے بھی توجہ دلائی تھی کہ یہاں لڑکوں اور لڑکیوں کا ایک ہائی اسکول قائم ہونا نہایت ضروری ہے.اگر تم احمدیت سے محبت رکھتے ہو، اگر تمہارا دل چاہتا ہے کہ تمہاری آئندہ اولا د بھی احمدی ہو تو میں آج تمہیں پھر توجہ دلاتا ہوں کہ تم لاہور میں لڑکوں اور لڑکیوں کے ہائی اسکول قائم کرو.تمہارا خود احمدی ہونا تمہارے لیے ہرگز کافی نہیں.اگر احمدیت ایک اچھی چیز ہے تو ضروری ہے کہ اپنی اولادوں کو بھی احمدی بناؤ.اور اولاد کا احمدی ہونا اور اُس کا احمدیت کی تعلیم پر عمل کرنا ایک اچھے ماحول کا تقاضا کرتا ہے اور یہ ماحول صرف اپنے اسکول میں اسے حاصل ہو سکتا ہے.اس لیے اگر تم ترقی کرنا چاہتے ہو تو تم لا ہور میں لڑکوں اور لڑکیوں کے ہائی اسکول قائم کرو.ان اسکولوں سے ہماری تبلیغ میں بھی ترقی ہوگی اور لڑکوں کی تربیت بھی اچھے ماحول میں ہو سکے گی.یہ ظاہر ہے کہ ان اسکولوں میں ہماری جماعت کے لڑکے ہی داخل نہیں ہوں گے بلکہ دوسرے لڑکے بھی آئیں گے.اور جب وہ آئیں گے تو لازمی طور پر بعض اچھے اچھے خاندانوں میں جن میں یوں تبلیغ کا کوئی موقع نہیں مل سکتا ہماری تبلیغ کا رستہ کھل جائے گا اور ان میں سے کئی احمدیت کو قبول کر لیں گے.کالج ہی کو دیکھ لو ہمارا کالج یہاں اتفاقی طور پر کھلا ہے.مگر کل ہی پرنسپل کی رپورٹ آئی کہ اس دفعہ میں فیصدی غیر احمدی لڑکے داخل ہوئے ہیں.اسی طرح ایک بڑے غیر احمدی رئیس کے چا کا بیٹا پچھلے سال ہمارے کالج میں داخل ہوا.اب وہ مجھ سے کی

Page 319

$ 1949 310 خطبات محمود ملنے کے لیے آیا تو اس نے کہا میں احمدی ہونا چاہتا ہوں.پس اسکول قائم کرنے کا ایک فائدہ تو یہ ہوگا کہ ہماری تبلیغ وسیع ہوگی.دوسری یہ لازمی بات ہے کہ جب تک لوگوں کے دلوں میں تعصب موجود ہے ان کی اکثریت می ہمارے اسکول میں نہیں آئے گی بلکہ ہمارے اسکول میں زیادہ تر تعداد اپنے لڑکوں کی ہی ہوگی.اور ی چونکہ غیر احمدی تھوڑے ہوں گے اور زیادہ تر اپنے لڑکے ہوں گے اس لیے بہر حال احمدی ماحول قائم رہے گا اور زیادہ تر دوسرے لڑکے ہمارے لڑکوں کا اثر قبول کر کے نیک بنیں گے.ہمارے لڑکے بوجہ زیادہ ہونے کے ان کے کھیل تماشے کے اثر کو کم قبول کریں گے اور احمدیت کے ماحول کی وجہ سے دین سے محبت اور تعلق کو زیادہ مضبوط کرتے چلے جائیں گے.گویا فضا کو اپنے موافق بنانا ہمارے ہاتھ میں ہوگا اور ہم بچوں کی تربیت دینی رنگ میں نہایت آسانی سے کر سکیں گے.اور اگر کوئی وقت ایسا آگیا کہ زیادہ تر غیر احمدی لڑکوں نے ہمارے سکول میں داخل ہونا شروع کر دیا تو اس کے معنے یہ ہوں گے کہ ہماری مخالفت کی فضا موافقت میں بدل رہی ہے اور لوگوں کے قلوب ہماری طرف مائل ہو رہے ہیں اور جب وہ اور زیادہ مائل ہو گئے تو لازماً وہ احمدیت قبول کر لیں گے.اس صورت میں بھی فضا کو اپنے کی موافق بنانا ہمارے ہاتھ میں ہوگا.بہر حال لاہور جیسے شہر میں جو کئی میلوں میں پھیلا ہوا ہے بغیر ک مناسب سکیم اور طریق کے کام نہیں ہوسکتا.میں نے شروع میں یہاں کی جماعت کو بعض دفعہ ملامتیں بھی کی ہیں.بعض دفعہ انہیں نقائص کی طرف توجہ بھی دلائی ہے مگر جیسا کہ ایک خطبہ میں میں نے کہا تھا میں غور کر رہا تھا کہ آخر ان نقائص اور کمزوریوں کی وجہ کیا ہے؟ انفرادی طور پر جماعت میں مخلص لوگ موجود ہیں مگر جماعتی طور پر ان میں بعض کمزوریاں پائی جاتی ہیں.یہ نقص اگر دور ہو سکتا ہے تو کس طرح؟ میں اس پر ایک لمبے عرصہ تک غور کرتا رہا اور آخر میں اس نتیجہ پر پہنچا کہ جہاں تک افراد کے ایمان کا سوال ہے ان میں ایمان اور اخلاص موجود ہے مگر حالات ایسے ہیں کہ وہ اپنے ایمانوں کو زیادہ مضبوط نہیں بنا سکے.جیسے ماں بھنور میں پھنسی ہوئی ہو اور اُس کا بیٹا غرق ہورہا ہو تو وہ اُس کی مدد نہ کر سکے گی مگر اس وجہ سے یہ نہیں کہا جائے کی گا کہ ماں کی محبت کم ہوگئی ہے وہ اپنے بچہ کو غرق ہونے سے نہیں بچاتی بلکہ یہ کہا جائے گا کہ ماں کی محبت تو ویسی ہی ہے مگر حالات ایسے ہیں کہ ماں اپنے بچہ کی مددکو نہیں پہنچ سکتی.اسی طرح انفرادی طور پر ھے

Page 320

* 1949 311 خطبات محمود جماعت کی اکثریت اب بھی مخلصوں کی ہے اور جماعت میں ایسے لوگ موجود ہیں جو چاہتے ہیں کہ وہ احمدیت پر زندہ رہیں اور احمدیت پر ہی مریں لیکن وہ اردگرد کے حالات کی وجہ سے ایسے مجبور ہیں کہ باوجود اس خواہش کے وہ اپنے ارادوں کو تکمیل تک نہیں پہنچا سکتے لاکھوں لاکھ آدمی لاہور میں موجود ہیں جن میں ہماری جماعت کا چند ہزار آدمی پھنس کر رہ گیا ہے اور وہ ایک دوسرے تک پہنچ نہیں سکتا.ان کے کے دلوں میں خواہش ہے کہ وہ اپنے دین میں ترقی کریں مگر مادی سامان وہ اپنے خلاف پاتے ہیں اور اس وجہ سے وہ اپنے ایمانوں سے فائدہ نہیں اُٹھا سکتے.پس اب جبکہ میں لاہور سے جا رہا ہوں میں جماعت کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ اس سکیم کے ماتحت کام کرے جو میں نے اس کے سامنے رکھی ہے.میرے نزدیک اگر توجہ کی جائے اور صحیح کوشش اور جد و جہد سے کام لیا جائے تو یہ چیز ناممکن نہیں.پیغامی آپ سے کتنے تھوڑے ہیں.شاید آپ کے پندرہ آدمیوں کے مقابلہ میں بھی اُن کا ایک آدمی نہیں بلکہ آپ کے ہیں آدمیوں کے مقابلہ میں بھی اُن کا ایک آدمی نہیں.مگر اُن کا پہلے یہاں ایک اسکول تھا اب انہوں نے دوسرا اسکول جاری کر دیا ہے.جب پیغامی دوسرا اسکول جاری کر سکتے ہیں حالانکہ وہ تعداد میں آپ لوگوں سے بہت تھوڑے ہیں تو کوئی وجہ نہیں کہ اگر ہمارے آدمی صحیح طور پر قربانی سے کام لیں تو اس مقصد میں کامیاب : ہوسکیں.زیادہ سے زیادہ سوال جگہ کا ہے.سو اس کے متعلق اگر بالا افسروں سے ملاقات کی جائے تو جگہ کا سوال آسانی سے حل ہو سکتا ہے.فرق صرف یہ ہے کہ پیغامی افسروں سے مل لیتے ہیں اور ہمارے آدمی اُن سے ملنے میں شرم محسوس کرتے ہیں.وہ دو چار دفعہ جا کر سلام کرتے ہیں تو افسروں کو شرم آجاتی ہے اور وہ کہ دیتے ہیں کہ آپ فلاں عمارت لے لیں.لیکن ہماری جماعت کے دوستوں میں یہ مرض ہے کہ یا تو وہ اپنے ٹائپ کے دوستوں سے ملیں گے یا خالص احمدی افراد سے تعلقات کی رکھیں گے غیروں سے مل کر ان کی ملاطفت حاصل کرنے کا مادہ ان میں نہیں رہا.اور اگر اس عادت سے سلسلہ کو نقصان پہنچتا ہو تو کوئی وجہ نہیں کہ اس میں تبدیلی نہ کی جائے.میں نام نہیں لیتا مگر لاہور کی جماعت میں سات آٹھ آدمی ایسے ہیں جو اپنے پیشہ اور کام اور رسوخ کے لحاظ سے مختلف صیغوں کے ل افسروں سے یقیناً کام لے سکتے ہیں مگر انہوں نے کبھی تکلیف گوارا نہیں کی کہ سلسلہ کی خاطر اُن لوگوں سے ملیں اور جماعتی مفاد کے لیے کوئی ٹھوس کام کریں.ہاں ! گتہیں ہانکنے والے دوست مل جائیں اور وہ

Page 321

* 1949 312 خطبات محمود ان کی مجلس میں آ بیٹھیں یا ان کے لنگوٹے یارانہیں مل جائیں تو وہ کئی کئی گھنٹے اُن سے لغو باتیں کرنے کی میں ضائع کر دیں گے اور انہیں کبھی یہ خیال نہیں آئے گا کہ وہ اپنے وقت کو ضائع کر رہے ہیں.اگر وہ پنے وقت کو بجائے گپیوں میں ضائع کرنے کے کسی ایسے افسر سے ملنے چلے جائیں جو یہ کام کر سکتا ہوتو ای سلسلہ کو بھی نفع ہو اور ان کی عاقبت بھی سنور جائے اور آئندہ نسل بھی درست ہو جائے.جیسا کہ میں نے بتایا ہے میرے نزدیک جماعت لاہور میں کم سے کم سات آٹھ آدمی ایسے ضرور ہیں جن کے لوگ محتاج ہے ہیں اور جن کی طرف کسی نہ کسی وجہ سے لوگ توجہ کرتے ہیں.کسی کی طرف پیشہ کے لحاظ سے، کسی کی طرف خاندانی تعلق کے لحاظ سے، کسی کی طرف اس کے رسوخ یا رشتہ داری کے لحاظ سے اور اس طرح وہ ان کی نگاہ التفات کے بھوکے ہوتے ہیں.وہ چاہیں تو ایسا کر سکتے ہیں.اب بھی میں سمجھتا ہوں کہ ہندوؤں کی چھوڑی ہوئی جائدادوں میں بہت سی بلڈنکس باقی ہیں جنہیں وہ اپنے لیے حاصل کر سکتے ہیں.یہ ضروری نہیں کہ اسکول کے لیے کوئی اعلیٰ درجہ کی بلڈنگ ہو.معمولی بلڈنگ میں بھی اسکول قائم کیا جاسکتا ہے اور پھر رفتہ رفتہ تھوڑا بہت روپیہ خرچ کر کے اسے بڑھایا جاسکتا ہے.اور یا پھر دوسری صورت یہ ہے کہ محکمہ تعلیم سے کچا اسکول بنانے کی اجازت لے لی جائے.میں نے انہیں مسجد کے لیے زمین کی تحریک کی تھی تو اُس وقت ایک ایجنٹ نے مجھے یقین دلایا تھا کہ زمین مل سکتی ہے.مگر بعد میں معلوم ہوا کہ گورنمنٹ ہندوؤں کی زمینوں کا سودا نہیں کرنے دیتی اس لیے اسکول کے لیے یہ زمین نہیں خریدی جاسکی.لیکن انجمن کی کچھ زمین یہاں ہے.میں سمجھتا ہوں اگر محکمہ تعلیم سے تعلق پیدا کر کے اسکول کے لیے کچے مکان بنانے کی اجازت لے لی جائے تو دس بارہ ہزار روپیہ میں آسانی سے اسکول بن سه ن سکتا ہے صرف اُن سے تعلق پیدا کرنے کی ضرورت ہے.اگر وہ اجازت دے دیں تو فوراً بلڈنگ بنائی جاسکتی ہے اور جہاں ان کی مرضی ہو وہاں وہ اس قسم کی اجازت دے بھی دیتے ہیں.گزشتہ دنوں کی جب ہمارے چنیوٹ کے تعلیم الاسلام ہائی اسکول کا انسپکٹر نے معائنہ کیا تو وہ یہ دیکھ کر کہ کس طرح مہاجر ہوکر انہوں نے اسکول کو ترقی دی ہے اس قدر متاثر ہوا کہ اُس نے کہا تم اپنے اسکول کا نقشہ بنا کر لے آؤ میں تمہیں کچے مکان بنانے کی اجازت دے دوں گا اور کچا اسکول دس بارہ ہزار روپیہ میں بلکہ پانچ سات ہزار روپیہ میں بھی بن جاتا ہے.بعد میں رفتہ رفتہ اسے پختہ بنایا جا سکتا ہے.ہمارا

Page 322

* 1949 313 خطبات محمود مہمان خانہ جو قادیان میں ہوا کرتا تھا پہلے کچا ہی ہوا کرتا تھا.میر محمد اسحاق صاحب چونکہ کام کرنا جانتے تھے اس لیے آہستہ آہستہ انہوں نے اسے پختہ بنانا شروع کر دیا.ہر دفعہ جب کوئی مالدار مہمان آکر ٹھہرتا تو وہ اس کی خوب خاطر تواضع کرتے اور پھر کہتے کہ ہمارا مہمان خانہ کچا ہے آپ کو اللہ تعالیٰ نے کی مال عطا فرمایا ہے آپ اس کی ایک دیوار پختہ بنا دیں تو اللہ تعالیٰ آپ کو ثواب عطا فرمائے گا.اس طرح کبھی کوئی حصہ پکا بنوا لیتے اور کبھی کوئی.یہاں تک کہ سارا مہمان خانہ پختہ عمارت کا تعمیر ہو گیا.اگر ان کام کرنے کی روح پیدا ہو جائے تو انسان خود بخود کئی راستے نکال لیتا ہے.میں نے سوچا ہے کہ بغیر اس کے کہ لڑکیوں اور لڑکوں کا یہاں ہائی اسکول قائم ہو ہم اپنی آئندہ نسلوں کو صحیح طور پر احمدیت کے رنگ میں رنگین نہیں کر سکتے.اس غرض کے لیے بعض عارضی انتظامات بھی ہو سکتے ہیں جیسے میں نے کہا تھا کہ سیکرٹری تنخواہ دار رکھو، دفتری انتظامات کو بہتر بناؤ، تین چار دیہاتی مبلغ اور منگوا لو جو تحصیل چندہ کے کام میں بھی مدد دیں اور جماعت کی تربیت بھی کریں.مگر یہ سب عارضی چیزیں ہیں.مستقل چیز یہی ہے کہ آئندہ پو دکی احمدیت کے ماحول میں پرورش کی جائے جس کا بہترین طریق یہی ہے کہ اپنے ہائی اسکول قائم کیے جائیں لڑکوں کے لیے الگ اور لڑکیوں کے کی لیے الگ.اس سے نہ صرف ہماری آئندہ نسل کو ایک اچھا ماحول میسر آ جائے گا بلکہ ہیں پچیس فیصدی غیر احمدی بھی ہمارے اسکولوں میں تعلیم حاصل کرنے کے لیے آجایا کریں گے جن میں سے تھیں چالیس فیصدی ضرور احمدی ہو جائیں گے.بلکہ میرے نزدیک تو لاہور جیسے شہر میں ایک دوسرے کالج می کی بھی ضرورت ہے.ہمارا کالج اگر ربوہ چلا جائے تو ضرورت ہوگی کہ اس جگہ ہمارا ایک اور کالج ہوتی کیونکہ وہ نوجوان جو ان کالجوں میں تعلیم حاصل کریں گے وہی ہوں گے جنہوں نے کل چوٹی کے عہدوں پر کام کرنا ہے.اگر وہ ہمارے کالج میں پڑھ کر اعلی عہدوں پر فائز ہوں پھر تو ہمارے لیے مختلف مواقع پر اُن کے ذریعہ بہت سی سہولتیں میسر آسکیں گی.قادیان میں جب ہمارا تعلیم الاسلام اسکول تھا تو ہے اُس میں بھی کئی غیر احمدی تعلیم پاتے تھے جنہوں نے بعد میں بعض مواقع پر ہماری امداد بھی کی ہے.سندھ میں سلسلہ کی ایک زمین تھی جو کسی سے اجارہ پر لی گئی تھی.بعض نے اس کے متعلق شرارتیں شروع کر دیں اور ضمانت کا سوال پیدا ہو گیا.اُس وقت ایک افسر جو یوں تو دینی لحاظ سے سلسلہ کا مخالف تھا مگر اُس نے قادیان میں رہ کر تعلیم حاصل کی تھی.اس کو ہمارے احمدی دوست جا کر ملے اور حقیقت بیان کی

Page 323

$ 1949 314 خطبات محمود تو اُس نے فوراً ایک زمیندار کو تیار کرا دیا جس نے ضمانت دے دی اور اس طرح ہماری ضرورت پوری کی ہوگئی.یہ کام اُس نے محض اس لیے کیا کہ اس نے ہمارے اسکول میں تعلیم حاصل کی تھی.پس اگر یہاں ایک دوسرا کالج قائم ہو جائے اور لڑکوں کا ہائی اسکول بھی بن جائے تو یہ لازمی بات ہے کہ بیس فیصدی غیر احمدی بھی پڑھنے کے لیے آئیں گے اور وہ جماعت کے اثر اور اس کے نفوذ کو بڑھا دیں گے اور بعض اچھے اچھے خاندان جن سے اب تعلق پیدا کرنے کا کوئی ذریعہ نہیں ان میں احمدیت پہنچ جائے گی.جیسے میں نے بتایا ہے کہ ایک غیر احمدی رئیس کے چا کا بیٹا لا ہور میں تعلیم حاصل کرنے کے لیے آیا.کسی نے اُسے کہا کہ تعلیم الاسلام کالج میں داخل ہو جاؤ.چنانچہ وہ داخل ہوا اور اُس پر آہستہ آہستہ احمدیت کا اثر ہوتارہا.یہاں تک کہ ایک دن وہ احمدیت میں داخل ہونے کے لیے میرے پاس آ گیا.پس میں ایک دفعہ پھر جماعت کو اس اہم امر کی طرف توجہ دلاتا ہوں.اگلا جمعہ تو غالبا میں یہاں نہیں پڑھاؤں گا بلکہ یقین کی حد تک یہ بات سمجھنی چاہیے کہ اگلا جمعہ انشَاءَ اللهُ ربوہ میں ہی پڑھایا ای جائے گا سوائے اس کے کہ ام متین کی بیماری کی وجہ سے کوئی خاص روک پیدا ہو جائے لیکن اگلے سے ای اگلے جمعہ کے متعلق امکان ہے کہ میں یہاں پڑھاؤں.اور گو میرا لاہور میں آنا منع نہیں لیکن پھر بھی ای یہاں کی مستقل رہائش آب ختم ہو چکی ہے.اس لیے جاتے ہوئے میں جماعت کو پھر اس بات کی طرف توجہ دلاتا ہوں کہ اس موقع کو جانے نہ دو اور اس میں ہر گز کسی قسم کی کوتاہی سے کام نہ لو.اس میں ہم جتنی کوتاہی کریں گے اتنا ہی ہم اپنی اولادوں پر ظلم کریں گے اور ان کو احمدیت سے دُور کر دیں گئے“.الفضل 27 ستمبر 1949 ء ) 1 : التوبة: 119 2 : ٹاہلی بشیشم کا درخت ( اردو لغت جلد 6 صفحہ 34 مطبوعہ کراچی 1984ء)

Page 324

* 1949 315 32.خطبات محمود بڑے کام بڑے ارادوں ، بڑے عزم اور بڑی قربانیوں سے ہوا کرتے ہیں ربوہ میں صرف انہیں لوگوں کو رہنا چاہیے جو ہر وقت دین کی خدمت کے لیے تیار رہیں (فرمودہ 30 ستمبر 1949ء بمقام ربوہ) تشہد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: ابھی ہماری نماز اس جگہ پر عارضی طور پر ہے.ابھی اس مقام پر مسجد کی بنیاد نہیں رکھی گئی.نہ مسجد کی منظوری حکومت کی طرف سے ابھی ہوئی ہے.جیسا کہ دوستوں کو معلوم ہے ربوہ مقام کے لیے حکومت نے کچھ قوانین مقرر کیے ہیں.گو یہ ایک وادی غیر ذی زرع ہے اور ایک غیر آباد علاقہ ہے لیکن اس بات کو مد نظر رکھتے ہوئے کہ جلد ہی ربوہ کو ایک شہر کی حیثیت دینے کی کوشش کی جائے گی حکومت نے یہ قانون بنا دیا تھا کہ یہ زمین اس شرط پر دی جاتی ہے کہ حکومت کے منظور کردہ نقشہ کے مطابق سڑکیں وغیرہ بنائی جائیں اور اُس کے مطابق عمارتیں تعمیر کی جائیں.یعنی جو جگہ گورنمنٹ نے کی رہائش کے لیے تجویز کی ہے اُس میں رہائشی مکانات بنائے جائیں اور اتنی ہی جگہ میں بنائے جائیں جتنی جگہ اُس نے رہائشی مکانات کے لیے تجویز کی ہے.اور جو جگہ اُس نے دکانوں کے لیے تجویز کی ہے

Page 325

* 1949 316 خطبات محمود اُس میں دکانیں بنائی جائیں.جتنی جگہ گورنمنٹ نے مدرسہ، دفاتر یا مسجد کے لیے تجویز کی ہے اُسی جگہ پر مدرسہ، دفاتر اور مسجد وغیرہ کی تعمیر ہو.بعض حلقے اس میں ایسے بھی چھوڑے گئے ہیں جیسے یہ حلقہ ہے جس میں میں خطبہ پڑھا رہا ہوں.جس میں مرکزی ادارہ قائم کرنے کی تجویز ہے.جس جگہ ہم اس وقت اکٹھے ہیں گورنمنٹ کے تجویز کردہ نقشہ کے مطابق قصر خلافت کی جگہ ہے یعنی اس میں خلیفہ وقت کا مکان ہوگا.اسی طرح اس میں لنگر خانہ خلافت اور مہمان خانہ وغیرہ بنے گا.اس کے پہلو میں مشرق کی طرف یا نیم مشرق سمجھ لو کیونکہ یہ جگہ کچھ ٹیڑھی ہے دفاتر وغیرہ بنیں گے.مغرب اور شمال اور رقبہ ریل کے پار جتنا علاقہ ہے اس میں مختلف لوگوں کے رہائشی مکانات اور سکول وغیرہ بنیں گے.اور جس جگہ پر ہم کھڑے ہیں اس کے مغرب جنوب میں لجنہ اماءاللہ اورلڑکیوں کے سکول وغیرہ کی جگہ ہے.ہسپتال بھی اسی کے قریب علاقہ میں تجویز ہوا ہے اور چونکہ ہم پابند ہیں کہ گورنمنٹ نے جو جگہیں تجویز کی ہیں انہی جگہوں پر اُس کی تجویز کردہ عمارات بنائیں اس لیے فوری طور پر عمارتیں شروع نہیں ہے کی جاسکتیں.اب اُن نقشوں کے مطابق جو گورنمنٹ نے تجویز کیے ہیں داغ بیل لگ رہی ہے.جب داغ بیل لگ گئی تو گورنمنٹ کو اطلاع دی جائے گی اور پھر اصل عمارات شروع کی جائیں گی.اس مالی وقت منظوری کے بعد اس جگہ کی تعمیر شروع ہوگی جسے اور عمارات پر مقدم رکھا جائے گا کیونکہ پہلے خدا کا گھر بنانا ضروری ہے.وہ عارضی مکانات جو بنائے جاچکے ہیں اس لیے بنائے گئے ہیں کہ مستقل مکانات سے پہلے ان عارضی مکانات کا بنانا ہمارے لیے ضروری تھا.لیکن مستقل عمارات میں سب سے پہلے مسجد کی تعمیر کی جائے گی اور اس کے بعد اردگرد کے مکانات وغیرہ بنائے جائیں گے.یہ مسجد وہ مسجد ہے جو خلیفہ وقت کے مکان کے ساتھ ہوگی.میں اپنا مکان اس لیے نہیں کہتا کہ میں الگ چیز ہوں اور خلیفہ الگ چیز ہے.میں ایک فرد ہوں جو اس وقت خلیفہ ہوں لیکن میرے بعد کوئی اور شخص خلیفہ ہوگا اور وہ لازماً اُس مکان میں رہے گا جو مسجد کے قریب ہوگا تا کہ وہ اس میں امامت کر سکے اور جو لوگ مسجد میں آئیں انہیں دین کی تعلیم اور درس و تدریس وغیرہ دے.گویا یہ مسجد، مسجد مبارک کی قائم مقام اور اُس کا ظل اور مثیل ہو گی.جامع مسجد جس میں سارے شہر کے لوگ نماز پڑھیں گے وہ ریل کے پار تجویز کی گئی ہے وہ بہت بڑی جگہ میں ہوگی جس میں ہماری عید گاہ بھی ہو گی.اُس میں سارے شہر کے لوگ جمعہ کے لیے بھی اکٹھے ہوں گے اور عید بھی وہیں پڑھیں گے.وہ مسجد جہاں تک میرا

Page 326

* 1949 317 خطبات محمود اندازہ ہے اس مسجد سے ہیں چھپیں گنے زیادہ ہوگی.ہوسکتا ہے کہ اُس کے اندر آئندہ ہمارا جلسہ بھی ہو کیونکہ وہ زمین کافی وسیع اور کھلی ہے.اب یہاں ہماری عمارتیں بنی شروع ہو گئی ہیں ، لوگ رہنے لگ گئے ہیں، دکانیں کھل گئی ہیں، کچھ کارخانوں کی صورت بھی پیدا ہو رہی ہے کیونکہ چکیاں وغیرہ لگ رہی ہیں ، مزدور بھی آگئے ہیں، پیشہ ور بھی آگئے ہیں اور دفتر بھی آگئے ہیں.مگر یہ سب عارضی انتظام ہے.مستقل انتظام کے لیے یہ شرط ہو گی کہ صرف ایسے ہی لوگوں کو ربوہ میں رہنے کی اجازت دی جائے گی جو اپنی زندگی عملی طور دین کی خدمت کے لیے وقف کرنے والے ہوں.میرا یہ مطلب نہیں کہ یہاں رہنے والا کوئی شخص دکان نہیں کر سکتا یا کوئی اور پیشہ نہیں کر سکتا.وہ ایسا کر سکتا ہے مگر عملاً اُسے دین کی خدمت کے لیے وقف رہنا پڑے گا.جب بھی سلسلہ کو ضرورت ہوگی وہ بلا چون و چرا اپنا کام بند کر کے سلسلہ کی خدمت کرنے کی کا پابند ہو گا.مثلاً اگر تبلیغ کے لیے وفد جارہے ہوں یا علاقہ میں کسی اور کام کے لیے اُس کی خدمات کی ضرورت ہو تو اُس کا فرض ہو گا کہ وہ فوراً اپنا کام بند کر کے باہر چلا جائے.انہی شرائط پر لوگوں کو زمین دی جائے گی اور جولوگ اس کے پابند نہیں ہوں گے انہیں یہاں زمین نہیں دی جائے گی.ہم چاہتے ہے ہیں کہ یہ جگہ ایک مثالی جگہ ہو.جس طرح ظاہر میں ہم اسے دین کا مرکز بنا رہے ہیں اس طرح حقیقی طور پر یہاں کے رہنے والے سب کے سب افراد دین کی خدمت کے لیے وقف ہوں.وہ بقدرِ ضرورت دنیا کا کام بھی کرتے ہوں لیکن ان کا اصل مقصد دین کی خدمت اور اس کی اشاعت ہو.یوں تو صحابہ بھی دنیا کے کام کرتے تھے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لشکر میں کوئی ایک سپاہی بھی ایسا نہیں تھا جو نخواہ دار ہو.کوئی دکاندار تھا، کوئی زمیندار تھا، کوئی مزدور تھا، کوئی لوہار تھا، کوئی ترکھان تھا.غرض سارے کے سارے پیشہ ور تھے.جس طرح آپ لوگوں کی دکانیں ہیں اسی طرح اُن کی بھی دکا نہیں تھیں.جس طرح آپ لوگوں کی زمینداریاں ہیں اسی طرح اُن لوگوں کی بھی زمینداریاں تھیں.اگر آپ لوگ مختلف پیشوں سے کام لیتے ہیں، مزدوری کرتے ہیں یا بڑھئی اور لوہار کا کام کرتے ہیں تو وہ بھی یہ سب کام کرتے تھے.مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب جنگ کے لیے نکلتے تو وہ سب کے سب آپ کے ساتھ چل پڑتے تھے.اُس زمانہ میں جنگ تھی اس زمانہ میں تبلیغ کا کام ہمارے سپرد ہے.آپ صحابہ سے فرماتے چلو تو وہ سب چل پڑتے تھے.وہ یہ نہیں کہتے تھے کہ ہماری دکانیں بند ہو

Page 327

$ 1949 318 خطبات محمود جائیں گی.پھر یہ بھی نہیں کہ اُن کے بیوی بچے نہیں تھے.آجکل لوگ یہ کہہ دیا کرتے ہیں کہ اگر ہم دین کی خدمت کے لیے جائیں تو ہمارے بیوی بچوں کو کون کھلائے گا.سوال یہ ہے کہ آیا صحابہ کے بیوی کی بچے تھے یا نہیں؟ اگر تھے تو جنگ پر جانے کے بعد انہیں کون کھیلا تا تھا.حقیقت یہ ہے کہ مذہب کی ترقی قربانی سے وابستہ ہے.روپیہ ایک عارضی چیز ہے جیسے تحریک جدید کے ابتدا میں ہی میں نے کہہ دیا تھا کہ روپیہ ایک ضمنی چیز ہوگی.تحریک جدید کی اصل بنیاد وقف زندگی پر ہوگی مگر میں دیکھتا ہوں کہ اب واقفین میں سے ای ایک حصہ کا رجحان روپیہ کی طرف ہو رہا ہے اور وہ یہ سوال کر دیا کرتے ہیں کہ ہم کھائیں گے کہاں سے؟ حالانکہ وقف کی ابتدائی شرطوں میں ہی صاف طور پر لکھا ہوا ہے کہ زندگی وقف کرنے والا ہر قسم کی قربانی سے کام لے گا اور وہ کسی قسم کے مطالبہ کا حقدار نہیں ہو گا.حقیقت یہ ہے کہ جو شخص خدا کے لیے قربانی کرتا ہے خدا خود اُس کا مددگار ہو جاتا ہے.آخر ہمارے وقف کے دوہی نتیجے ہو سکتے ہیں.یا تو ہمیں ملے یا نہ ملے.میں ”ہمارے“ کا لفظ اس لیے کہتا ہوں کہ میں بھی جوانی سے دین کی خدمت کے لیے وقف ہوں اور میں جب دین کی خدمت کے لیے آیا تھا اُس وقت میں نے خدا تعالیٰ سے بیا خدا تعالیٰ کے نمائندوں سے یہ سوال نہیں کیا تھا کہ میں اور میرے بیوی بچے کہاں سے کھائیں گے.مگر ب تم میں سے کئی لوگوں کو یہ نظر آتا ہے کہ میرے پاس روپیہ بھی ہے اور میں کھاتا پیتا بھی بافراغت ہوں.مگر سوال یہ ہے کہ میں نے تو کوئی شرط نہیں کی تھی.جو کچھ خدا نے مجھے دیا یہ اُس کا احسان ہے.میر احق نہیں کہ میں اُس کی کسی نعمت کو ر ڈ کروں.لیکن جب میں آیا تھا اُس وقت میں نے یہ نہیں کہا تھا تھا کہ پہلے میرے اور میرے بیوی بچوں کے گزارہ کی کوئی صورت پیدا کی جائے اس کے بعد میں اپنے لیے آپ کو دین کی خدمت کے لیے وقف کروں گا.یہ خدا کا سلوک ہے جس میں کسی بندے کا کوئی اختیار نہیں.اللہ تعالیٰ کے نبیوں میں حضرت عیسی علیہ السلام بھی تھے جنہوں نے روٹی کھانی ہوتی تو وہ کہتے فلاں مرید کو کہہ دو کہ وہ مجھے روٹی بھجوا دے.اور اُس کے نبیوں میں حضرت سلیمان بھی تھے جن کے دائیں بائیں دولت گر رہی تھی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو بھی خدا تعالیٰ نے اپنے الہامات میں داؤد کہا ہے.ہم نہیں جانتے کہ خدا تعالیٰ کے اس مختلف سلوک کی وجہ کیا ہے.یہ ایک راز ہے جو اس نے اپنے قبضہ میں رکھا ہوا ہے.ہم نہیں کہہ سکتے کہ اس کی اصل حقیقت کیا ہے.شاید کوئی مو

Page 328

$1949 319 خطبات محمود اور لحاظ سے تو کام کا اہل ہوتا ہے مگر اُس کی صحت اور حالات تقاضا کرتے ہیں کہ اُسے روپیہ دیا جائے یا اُس زمانہ کے حالات کے لحاظ سے وہ دنیا کا امتحان لینا چاہتا ہے.بہر حال اس کا سلوک ہے یہی کہ کسی کو وہ بے انتہا دیتا چلا جاتا ہے اور کسی کو اپنی مصلحتوں کے ماتحت مشکلات میں مبتلا رکھتا ہے.حضرت خلیفہ اول ہمیشہ دعوای فرمایا کرتے تھے کہ مجھے خدا تعالیٰ اپنے پاس سے رزق دیتا ہے.ہمارے نانا جان حضرت میر ناصر نواب صاحب کو سلسلہ کی خدمت کا شوق تھا اور وہ چندہ کے لیے باہر چلے جاتے تھے.اسی چندہ سے انہوں نے دار الضعفاء بنوایا، مسجد نور بنوائی ، اسی طرح اور تین چار کام کیے.وہ باہر سے چندہ لا لا کر یہ عمارتیں تعمیر کراتے تھے.اُن کے بڑھاپے کی عمر میں ایک دفعہ حضرت خلیفہ اول نے اُن کو مخاطب کر کے فرمایا میر صاحب! ہمیں خدا نے ایک نسخہ بتایا ہوا ہے کہ جس کے نتیجہ میں ہمیں خود بخود درو پیل جاتا ہے.اگر آپ چاہیں تو میں آپ کو بھی وہ نسخہ بتادوں.اس کے بعد آپ کو باہر چندہ کے لیے جانے کی ضرورت نہیں رہے گی.میر صاحب مرحوم نے جواب دیا کہ آپ جو بتائیں گے اُس کے نتیجہ میں مجھے جو کچھ ملا اُسے دیکھ کر میرے دل میں یہی خیال پیدا ہو گا کہ آپ کے نسخہ کی وجہ سے یہ روپیہ ملا ہے مگر اب تو یہ مزا آتا ہے کہ خدا خود اپنے پاس سے روپیہ دے رہا ہے یہ مزا آپ کے نسخہ سے جاتا رہے گا.حضرت خلیفہ اول ہمیشہ فرمایا کرتے تھے کہ ہم نے ساری عمر میں صرف ایک شخص کے آگے اس نسخہ کو پیش کیا اور اس نے بھی لینے سے انکار کر دیا.حضرت خلیفہ اول نے بارہا میرے سامنے بھی یہ بات بیان کی اور ایسے رنگ میں بیان کی کہ گویا آپ چاہتے تھے کہ میں اس کے متعلق آپ سے سوال کروں.میں نے آپ سے کبھی نہیں پوچھا اور نہ میں نے کبھی ایسے علم کے پوچھنے کی ضرورت سمجھی.اور واقعہ یہ ہے کہ حضرت خلیفہ اول کے پاس جتنا روپیہ آتا تھا اُس سے بہت زیادہ روپیہ خدا تعالیٰ نے مجھے دیا ہے.اس کی وجہ اصل تو فضل الہی ہے اور ظاہری یہ کہ میں نے خدا تعالیٰ سے کبھی ٹھیکہ نہیں کیا.ہم جب قادیان سے آئے اُس وقت ہمارے خاندان کی تمام جائدادیں پیچھے رہ گئیں تھیں اور ہمارے پاس کوئی روپیہ نہیں تھا.بعض دوستوں کی امانتوں کا صرف نوسو روپیہ میرے پاس تھا.ادھر ہمارے سارے خاندان کے دوسو کے قریب افراد تھے اور ان میں سے کسی کے پاس روپیہ نہیں تھا.اس حالت میں بھی میں نے یہ نہیں کیا کہ لنگر سے کھانا منگوانا شروع کر دوں بلکہ میں نے سمجھا کہ وہ خدا جو پہلے دیتا

Page 329

$ 1949 320 خطبات محمود رہا ہے اب بھی دے گا.چنانچہ میں نے اپنے خاندان کے سب افراد سے کہا کہ تم فکر مت کرو، سب کا کھانا اکٹھا تیار ہوا کرے گا اور ایسا ہی ہوا.اپنے خاندان کے تمام افراد کے کھانے کا انتظام میں نے کیا اور برابر کئی ماہ تک اس بوجھ کو اٹھایا.آخر کسی نے چھ ماہ کے بعد اور کسی نے نو ماہ کے بعد اپنے اپنے کی کھانے کا الگ انتظام کیا.اس عرصہ میں وہ لوگ جن کا روپیہ میرے پاس امانا پڑا ہوا تھا وہ بھی اپنا تھی روپیہ لے گئے اور ہمیں بھی خدا نے اس طرح دیا کہ ہمیں کبھی محسوس نہیں ہوا کہ ہم کوئی اور تدبیر ایسی ہے اختیار کریں جس سے ہماری روٹی کا انتظام ہو.میں جب تک لا ہور نہیں پہنچا ہمارے خاندان کے لیے لنگر سے کھانا آتا رہا تھا مگر جہاں تک مجھے علم ہے اس کی بھی لنگر کو قیمت ادا کر دی گئی تھی.اور اس کے بعد اپنے خاندان کے دوسو افراد کا بوجھ اُٹھایا حالانکہ اُس وقت ماہوار خرچ کھانے کا کئی ہزار روپیہ تھا.غرض خدا دیتا چلا گیا اور میں خرچ کرتا چلا گیا.اگر میں خدا تعالیٰ سے ٹھیکہ کرنے بیٹھ جاتا اور اُس سے کہتا کہ پہلے میری تنخواہ مقرر کی جائے پھر میں کام کروں گا اور خدا تعالیٰ خواب یا الہام کے ذریعہ پوچھتا کہ بتا تجھے کتنا روپیہ چاہیے؟ تو اُس زمانہ کے لحاظ سے جب میری ایک بیوی اور دو بچے تھے میں زیادہ کی سے زیادہ یہی کہہ سکتا تھا کہ سو روپیہ بہت ہو گا.مجھے ایک سو روپیہ ماہوار دے دیا جائے.لیکن اگر میں ایسا کرتا تو آج کیا کرتا جب کہ میری چار بیویاں اور بائیں بچے ہیں اور بہت سے رشتہ دار ایسے ہیں جو اس بات کے محتاج ہیں کہ میں اُن کی مدد کروں.میرے وہ رشتہ دار جن کا اب بھی میرے سر پر بوجھ ہے ساٹھ ستر کے قریب ہیں.اگر سو روپیہ میں اپنے لیے مانگتا تو ان کو ڈیڑھ روپیہ بھی نہیں آ سکتا تھا.پھر میں روٹی کہاں سے کھاتا، کپڑے کہاں سے بنواتا، اپنے بچوں کو تعلیم کس طرح دلاتا اور اپنے خاندان کے افراد کی پرورش کس طرح کرتا.بہر حال میں نے خدا تعالیٰ سے یہ کبھی سوال نہیں کیا کہ تو مجھے کیا دے گا اور خدا تعالیٰ نے بھی میرے ساتھ کبھی سودا نہیں کیا.میں نے خدا تعالیٰ سے یہی کہا کہ مجھے ملے نہ ملے میں تیرا بندہ ہوں اور میرا کام یہی ہے کہ میں تیرے دین کی خدمت کروں.اور اس کے بعد خدا تعالیٰ نے بھی یہی کیا کہ یہ سوال نہیں کہ تیری لیاقت کیا ہے؟ یہ سوال نہیں کہ تیری قابلیت کیا ہے؟ ہم بادشاہ ہیں اور ہم اپنے بادشاہ ہونے کے لحاظ سے تجھے اپنی نعمتوں سے ہمیشہ متمتع کرتے رہیں گے.غرض خدا سے سچا تعلق رکھنے والا انسان ہمیشہ آرام میں رہتا ہے.لیکن فرض کرو وہ یہی فیصلہ کر دیتا ہے کہ ہم بھوکے مر جائیں تو کم از کم مجھے تو وہ موت نہایت شاندار معلوم ہوتی ہے جو خدا تعالیٰ کی

Page 330

$1949 321 خطبات محمود راہ میں بھوکے رہ کر حاصل ہو بجائے اس کے ہم پیٹ بھر کر خدا تعالیٰ کے راستہ سے الگ ہو جائیں.اگر ہم اس کی راہ میں بھوکے مر جائیں تو خدا تعالیٰ کے سامنے ہم کتنی شان سے پیش ہوں گے کتنے دعوای کے ساتھ پیش ہوں گے کہ ہم نے تیرے لیے بھوکے رہ کر اپنی جان دے دی.مگر میں دیکھتا ہوں کہ زندگی وقف کرنے والے نوجوانوں کے جدید حصہ میں اب وہ تو کل نہیں جو ایک سچے مومن کے لیے اندر ہونا چاہیے.حالانکہ اگر سلسلہ ان کو ایک پیسہ بھی نہ دے اور وہ تو کل سے کام لیں تو یقینا ز مین ان کے لیے اگلے گی اور آسمان ان کے لیے اپنی نعمتیں برسائے گا.میں نے کئی دفعہ سنایا ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام جب زلزلہ کے الہامات کی وجہ سے باغ میں تشریف لے گئے تو ایک دن آپ نے گھر میں حضرت اماں جان سے باتیں کرتے ہوئے فرمایا کہ روپیہ بالکل نہیں رہا.ہمارا خیال ہے کہ بعض دوستوں سے قرض لے لیا جائے.مگر پھر آپ نے فرمایا کہ یہ بھی تو کل کے خلاف ہے.اس کے بعد آپ مسجد میں گئے اور نماز ہوئی.جب واپس آئے تو آپ نے ایک پوٹلی نکالی اور اس کو کھولا اور پھر اسے دیکھ کرفرمانے لگے ( میں بھی اُس وقت پاس ہی کھڑا تھا کہ جب میں نماز کے لیے باہر گیا تو ایک غریب آدمی جس کے کپڑے پھٹے پرانے تھے اُس نے یہ پوٹلی ہماری جیب میں ڈال دی.اور چونکہ یہ بوجھل تھی میں نے سمجھا کہ اس میں پیسے وغیرہ ہوں گے مگر جب گھر آکر میں نے اُس پوٹلی کو کھولا تو اُس میں سے روپے اور نوٹ نکلے.پھر آپ نے ان روپوں کے اور نوٹوں کو گنا تو وہ چار پانچ سو کے قریب نکلے.آپ نے فرمایا اگر ہم قرض لیتے تو یہ تو گل کے خلاف ہوتا.ادھر ہمیں ضرورت پیش آئی اور ادھر اللہ تعالیٰ نے ایک ایسے ذریعہ سے روپیہ بہم پہنچا دیا جس کا ہمیں وہم اور خیال بھی نہیں تھا.میں نے خود اپنی ذات میں خصوصاً قادیان سے نکلنے کے بعد خدا تعالیٰ کے ایسے ہی نشانات دیکھے ہیں ایسے انسان جن کے متعلق میں سمجھتا تھا کہ وہ اس بات کے محتاج ہیں کہ میں اُن کی مدد کروں وہ اصرار کر کے مجھے ایسی رقوم دے گئے کہ میرے وہم میں بھی یہ بات نہیں آسکتی تھی کہ وہ اتنا روپیہ دینے کی طاقت رکھتے ہیں.غرض اللہ تعالیٰ پر توکل ہی انسان کو حقیقی زندگی دیتا ہے اور تو تکل ہی ہر قسم کی برکات کا انسان کو مستحق بناتا ہے.جب حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل علیہما السلام کے ذریعہ خدا تعالیٰ نے مکہ بنوایا

Page 331

* 1949 322 خطبات محمود تو اُس وقت اُس نے یہی کہا کہ یہاں تو کل سے رہنا اور خدا تعالیٰ سے روٹی مانگنا بندوں سے نہ مانگنا.اسی نیت اور ارادہ کے ساتھ ہمیں قادیان میں بھی رہنا چاہیے تھا مگر وہ احمدیت سے پہلے کی بنی ہوئی بستی تھی اور ابھی بہت سے لوگ اس سبق سے نا آشنا تھے لیکن یہ نئی بستی جہاں ایک طرف مدینہ سے مشابہت رکھتی ہے اس لحاظ سے کہ ہم قادیان سے ہجرت کرنے کے بعد یہاں آئے وہاں دوسری طرف یہ مکہ سے بھی مشابہت رکھتی ہے کیونکہ یہ نئے سرے سے بنائی جا رہی ہے اور محض احمدیت کے ہاتھوں سے بنائی جا رہی ہے جس طرح حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل علیہما السلام کے ہاتھ سے اللہ تعالیٰ نے مکہ معظمہ بنوایا.وہاں بھی خدا تعالیٰ نے حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل علیہما السلام کی نسل سے یہی کہا تھا کہ تم اپنی روٹی کا ذمہ دار مجھے سمجھنا کسی بندے کو نہ سمجھنا.پھر میں تم کو دوں گا اور اس طرح دوں گا کہ دنیا کے لیے حیرت کا موجب ہو گا.چنانچہ دیکھ لو ایسا ہی ہوا.مکہ والے بیشک محنت مزدوری بھی کرنے لگ گئے ہیں لیکن میں سمجھتا ہوں اگر وہ محنت و مزدوری چھوڑ دیتے تب بھی جس طرح بنی اسرائیل کے لیے خدا تعالیٰ نے ایک جنگل میں من و سلوی نازل کیا تھا اسی طرح مکہ والوں کے لیے من و سلوی اُترنے لگے کیونکہ وہاں رہنے والوں کا رزق خدا تعالیٰ نے اپنے ذمہ لیا ہوا کی ہے.اسی طرح ہم کو بھی اس جنگل میں جس جگہ کوئی آبادی نہیں تھی ، جس جگہ رزق کا کوئی سامان نہیں مانی تھا، جو مکہ کی طرح ایک وادی غیر ذی زرع تھی اور جہاں مکہ کی طرح کھاری پانی ملتا ہے اور جو اس لحاظ ایم سے بھی مکہ سے ایک مشابہت رکھتا ہے کہ مکہ کی طرح یہاں کوئی سبزہ وغیرہ نہیں اور پھر مکہ کے گرد جس طرح پہاڑیاں ہیں اسی طرح اس مقام کے اردگرد پہاڑیاں ہیں.اللہ تعالیٰ نے موقع دیا ہے کہ ہم ایک نئی بستی اللہ تعالیٰ کے نام کو بلند کرنے کے لیے بسائیں.پس اس موقع پر ہمیں بھی اور یہاں کے رہنے والے سب افراد کو بھی یہ عزم کرنا چاہیے کہ انہوں نے خدا سے مانگنا ہے کسی بندے سے نہیں مانگنا.تم اپنے دل میں ہنسو تمسخر کرو، کچھ سمجھو حقیقت یہ ہے کہ دنیا میں سب سے معزز روزی وہی ہے جو خدا تعالیٰ سے مانگی جائے.وہ کوئی روزی نہیں جو انسان کو انسان سے مانگ کر ملتی ہے بلکہ حقیقت تو یہ ہے مگر یہ اعلیٰ مقام کی بات ہے اور اعلیٰ درجہ کی روحانیت کے ساتھ تعلق رکھتی ہے اور شاید تم میں سے بہتوں کی سمجھ میں بھی نہ آئے ) کہ وہ روزی بھی اتنی اچھی نہیں جو خدا تعالیٰ سے مانگ کر ملتی ہے.بلکہ اعلیٰ روزی وہ ہے جو خدا تعالیٰ خود دیتا ہے اور بے مانگے کے دیتا ہے.

Page 332

خطبات محمود 323 * 1949 مجھے اپنی زندگی میں ہمیشہ ہنسی آتی ہے اپنی ایک بات پر ( مگر یہ ابتدائی مقام کی بات تھی اور ی اعلیٰ مقام ہمیشہ ابتدائی منازل کو طے کرنے کے بعد ملتا ہے.اور ابتدائی مقام یہی ہوتا ہے کہ انسان کی سمجھتا ہے میں نے خدا سے مانگنا ہے ) کہ میں نے بھی خدا سے کچھ مانگا اور اپنے خیال میں انتہائی درجہ کا مانگا مگر مجھے ہمیشہ ہنسی آتی ہے اپنی بیوقوفی پر اور ہمیشہ لطف آتا ہے خدا تعالیٰ کے انتقام پر کہ جو کچھ ساری عمر کے لیے میں نے مانگا تھا وہ بعض دفعہ اس نے مجھے ایک ایک ہفتہ میں دے دیا.میں تو اس پر شرمندہ ہوں کہ میں نے کیا حماقت کی اور اُس سے کیا مانگا اور وہ آسمان پر ہنستا ہے کہ اس کو ہم نے کیسا بدلہ دیا اور کیسا نادم اور شرمندہ کیا.پھر میں نے سمجھا کہ مانگنا بھی فضول ہے.کیوں نہ ہم اللہ تعالیٰ سے ایسا تعلق پیدا کریں کہ وہ ہمیں بے مانگے ہی دیتا چلا جائے.ایک شخص جو کسی بڑے آدمی کے گھر مہمان جاتا ہے وہ اگر اس سے جا کر کہے کہ صاحب ! میں آپ کے گھر سے کھانا کھاؤں گا تو اس میں میز بان اپنی کتنی ہتک محسوس کرتا ہے.جب وہ اس کے ہاں مہمان آیا ہے تو صاف بات یہ ہے کہ وہ اس کے ہاں سے کی کھانا کھائے گا.اُس کا یہ کہنا کہ میں آپ کے ہاں سے کھانا کھاؤں گا یہ مفہوم رکھتا ہے کہ وہ میزبان کے متعلق اپنے دل میں یہ بدظنی محسوس کرتا ہے کہ شاید وہ کھانا نہ کھلائے.اسی طرح اللہ تعالی کا جو مہمان ہو جاتا ہے اسے اللہ تعالیٰ خود کھیلا تا اور پلاتا ہے.اگر وہ اس سے مانگے تو اس میں اس کی اعلیٰ و ارفع شان کی ہتک ہوتی ہے.مگر خدا کا سلوک ہر بندے سے مختلف ہوتا ہے.وہ جو خدا کے لیے اپنی زندگی وقف نہیں کرتے اُن کو بھی وہ روزی بہم پہنچاتا ہے اور جو اُس کے لیے اپنی ساری زندگی کو وقف کیسے ہوئے ہوتے ہیں اُن کو بھی وہ روزی بہم پہنچاتا ہے.فرماتا ہے.كُلًا تُمِدُّ هَؤُلَاءِ وَهُوَ لَا ء 1: ہم اس کے لیے بھی روزی کا انتظام کرتے ہیں جو ایمان سے خارج اور دہر یہ ہوتا ہے اور اس کے لیے بھی روزی کا انتظام کرتے ہیں جو ہم پر کامل ایمان رکھنے والا ہوتا ہے.یہ دو گروہ ہیں جو الگ الگ ہیں.ایک وہ ہے جو ہمیں گالیاں دیتا ہے اور کہتا ہے کہ میں خود کمائی کروں گا اور اپنی کوشش سے رزق حاصل کروں گا اور ایک گروہ وہ ہے جو کہتا ہے کہ کمائی لغو چیز ہے بلکہ میں نے تو خدا تعالیٰ سے بھی نہیں مانگنا.اس کی مرضی ہے چاہے دے یا نہ دے.فرماتا ہے ہم اس گروہ کو بھی دیتے ہیں اور اُس گروہ کو بھی دیتے ہیں.ایک ھؤلاء ان لوگوں کی طرف جاتا ہے جو بدترین خلائق ہوتے ہیں اور جو مادیات کے اتنے دلدادہ اور عاشق ہوتے ہیں کہ سمجھتے ہیں سب نتائج کی بنیاد مادیات پر ہی ہے.اور

Page 333

* 1949 324 خطبات محمود ایک هؤلاء اُن لوگوں کی طرف جاتا ہے جو مادیات سے بالکل بالا ہو کر اس مقام پر پہنچ جاتے ہیں کہ سمجھتے ہیں ہم نے خدا سے بھی نہیں مانگنا.اور ایک درمیانی گروہ ہوتا ہے.وہ اپنے اپنے درجہ کے مطابق ظاہر میں کچھ مادی کوششیں بھی کر لیتے ہیں اور پھر ساتھ اس کے اللہ تعالیٰ پر تو کل بھی رکھتے تھے ہیں.کبھی مانگتے ہیں اور کبھی نہیں مانگتے یا اپنی زندگی میں سے کچھ عرصہ کوشش اور جد و جہد کرتے ہیں اور کچھ عرصہ کوشش اور جدوجہد کو ترک کر دیتے ہیں.ظاہری تدبیر حضرت خلیفہ اول نے بھی کی.آپ طب کرتے تھے اور روپیہ کماتے تھے.اور ظاہری تدبیر ہم نے بھی کی.ہم بھی زمیندارہ کرتے ہیں اور بعض دفعہ تجارت بھی کر لیتے ہیں مگر اس نیت سے کرتے ہیں کہ اس کا نتیجہ خدا تعالیٰ کی مرضی پر منحصر ہے.اگر وہ کہے کہ میں نے تمہیں کچھ نہیں دینا تو ہمیں اُس سے کوئی شکوہ نہیں ہوگا.ہمیں اس کے فیصلہ پر کوئی اعتراض نہیں ہوگا.ہم پھر بھی یہی سمجھیں گے کہ وہ ہماری اُتنی ہی حمد کا مستحق ہے جتنی حمد کا اب مستحق ہے بلکہ وہ ہماری اتنی حمد کا مستحق ہے جتنی حمدہم کر بھی نہیں سکتے.پس اس مقام کے رہنے والوں نے کے لیے ضروری ہوگا کہ وہ تو کل سے کام لیں اور ہمیشہ اپنی نگاہیں اللہ تعالی کی طرف بلند رکھیں.جود یانتدار احمدی ہیں میں اُن سے کہوں گا کہ اگر وہ کسی وقت یہ دیکھیں کہ وہ تو کل کے مقام پر قائم نہیں رہے تو وہ خود بخود یہاں سے چلے جائیں.اور اگر خود نہ جائیں تو جب اُن سے کہا جائے کہ چلے جاؤ تو کم سے کم اُس وقت ان کا فرض ہوگا کہ وہ یہاں سے فوراً چلے جائیں.یہ جگہ خدا تعالیٰ کے ذکر کے بلند کرنے کے لیے مخصوص ہونی چاہیے ، یہ جگہ خدا تعالیٰ کے نام کے پھیلانے کے لیے مخصوص ہونی چاہیے، یہ جگہ خدا تعالیٰ کے دین کی تعلیم اور اس کا مرکز بننے کے لیے مخصوص ہونی چاہیے.ہم میں سے ہر شخص کو کوشش کرنی چاہیے کہ وہ اپنی اولا داور اپنے اعزہ اورا قارب کو اس رستہ پر چلانے کی کوشش کرے.یہ ضروری نہیں کہ وہ اس کوشش میں کامیاب ہو سکے.نوح کی کوشش کے باوجود اُس کا بیٹا اس کی کے خلاف رہا.لوط کی کوشش کے باوجود اُس کی بیوی اس کے خلاف رہی.اسی طرح اور کئی انبیاء اور اولیاء ایسے ہیں جن کی اولادیں اور بھائی اور رشتہ داران کے خلاف رہے.ہم میں سے کوئی شخص یہ نہیں ہے کہہ سکتا کہ وہ اپنے خاندان میں سے کتنوں کو دین کی طرف لا سکے گا مگر اس کی کوشش یہی ہونی چاہیے ہے کہ اس کی ساری اولاد اور اس کی ساری نسل دین کے پیچھے چلے.اور اگر اس کی کوشش کے باوجود اس کا کوئی عزیز اس رستہ سے دور چلا جاتا ہے تو سمجھ لے کہ وہ میری اولاد میں سے نہیں.میری اولا دوہی ہے

Page 334

$ 1949 325 خطبات محمود جو اس منشا کو پورا کرنے والی ہے جو الہی منشا ہے.جو شخص دین کی خدمت کے لیے تیار نہیں وہ ہماری اولاد میں سے نہیں.ہم اپنی اولاد کو مجبور نہیں کر سکتے کہ وہ ضرور دین کے پیچھے چلیں.ہم ان کے دل میں ایمان پیدا نہیں کر سکتے.خدا ہی ہے جو ان کے دلوں میں ایمان پیدا کر سکتا ہے.لیکن ہم یہ ضرور کریانی سکتے ہیں کہ جو اولا داس منشا کو پورا کرنے والی نہ ہو اسے ہم اپنے دل سے نکال دیں.بہر حال اگر خدا تعالیٰ اپنے فضل سے ہمیں اعلیٰ مقام دے تو ہمیں کوشش کرنی چاہیے کہ صرف ہم ہی نہیں بلکہ ہماری آئندہ نسلیں بھی اس مقام کو دین کا مرکز بنائے رکھیں اور ہمیشہ دین کی خدمت اور اس کے کلمہ کے اعلاء کے لیے وہ اپنی زندگیاں وقف کرتے چلے جائیں.لیکن اگر ہماری کسی غلطی اور گناہ کی وجہ سے اللہ تعالیٰ یہ مقام ہمیں نصیب نہ کرے اور ہماری ساری اولا دیں یا ہماری اولا دوں کا کچھ حصہ دین کی خدمت کرنے کے لیے تیار نہ ہو اللہ تعالیٰ پر تو کل اس کے اندر نہ پایا جاتا ہے ہو، خدا تعالیٰ کی طرف انابت کا مادہ اس کے اندر موجود نہ ہو تو پھر ہمیں اپنے آپ کو اس امر کے لیے تیار رکھنا چاہیے کہ جس طرح ایک مُردہ جسم کو کاٹ کر الگ پھینک دیا جاتا ہے اُسی طرح ہم اس کو بھی کاٹ لی کر الگ کر دیں اور اس جگہ کو دین کی خدمت کرنے والوں کے لیے ان سے خالی کروا لیں.بہر حال کی میں جماعت کو نصیحت کرتا ہوں کہ وہ اپنے اندر یہ عزم پیدا کرے.یہ عزم پیدا کرنا کوئی معمولی چیز نہیں.بڑے کام بڑے ارادوں کے ساتھ ہوا کرتے ہیں.بڑے کام بڑے عزم سے ہوا کرتے ہیں کی اور بڑے کام بڑی قربانیوں سے ہوا کرتے ہیں.انسان ہزاروں دفعہ موت سے ڈر کر پیچھے ہلتا ہے حالانکہ وہی وقت اُس کی دائمی زندگی کا ہوتا ہے.جہنم میں جانے والوں میں سے کروڑوں کروڑ انسان ہے ایسے ہوں گے کہ جب ان کے اعمال ان کے سامنے کھولے جائیں گے تو انہیں پتا لگے گا کہ صرف ایک کی غلطی کی وجہ سے وہ جہنم میں گر گئے.اگر ایک سیکنڈ وہ اور صبر کرتے تو خدا تعالیٰ کا فیصلہ ان کے حق میں صادر ہو جاتا مگر وہ ایک سیکنڈ پہلے خدا تعالیٰ کی رحمت سے مایوس ہو گئے.وہ ایک سیکنڈ پہلے بے ہو جا گروہ کی.صبری کا شکار ہو گئے اور صرف ایک سیکنڈ کی غلطی کی وجہ سے دوزخ میں جا گرے.کروڑوں کروڑ انسان یسے مقام پر پہنچ کر دوزخ میں چلا جاتا ہے جب خدا کی طرف سے ان کے ولی بنے کا فیصلہ ہورہا ہوتا تھی ہے.کروڑوں کروڑ انسان اُس وقت بددیانت ہو جاتا ہے جب خدا تعالیٰ کی طرف سے ان کی دیانت کے قائم رکھنے کے لیے ہر قسم کے مادی سامان بہم پہنچائے جانے کا فیصلہ ہورہا ہوتا ہے.خدا تعالیٰ ہمارا

Page 335

* 1949 326 خطبات محمود امتحان لیتا ہے اور اس میں بعض دفعہ ہم اُس وقت فیل ہو جاتے ہیں جب امتحان کے پرچوں کا ہمارے حق میں فیصلہ ہونے والا ہوتا ہے.پیشتر اس کے کہ ہم اپنا پر چہ ختم کرتے اور وہ ہمیں پاس کرتا ہم مایوس ہو کر امتحان کے کمرہ سے باہر نکل جاتے ہیں اور اپنی کامیابی کو نا کامی میں بدل لیتے ہیں.پس مت سمجھو کہ عزم کوئی معمولی چیز ہے تم میں سے جو اس ارادہ کو اپنے اندر پیدا کرتا ہے میں اسے کہتا ہوں.یہ نسخہ بھی آزما ہو اور وہ شخص جو طاقت تو رکھتا ہے مگر پھر بھاگنے کا خیال اس کے دل میں پیدا ہو جاتا ہے میں اسے کہتا ہوں ٹھہر اور صبر کر.تیرے لیے خدا تعالیٰ کی رحمت کا دروازہ کھلنے والا ہے.بسا اوقات خدا خود چل کر آرہا ہوتا ہے اور دروازہ کی کنڈی کھول رہا ہوتا ہے کہ تو منہ پھیر کر چلا جاتا ہے اور اس طرح خدا تعالی کی رحمت سے ہمیشہ کے لیے دور چلا جاتا ہے اور ساری....ہزاروں نہیں لاکھوں دلائل سے ہم ثابت کر سکتے ہیں.آدم سے لے کر اب تک ایک ایک بات ہو چکی ہے لیکن اس مادی دنیا کے اثر کے نیچے ہزاروں ہزار بلکہ اربوں ارب ایسے لوگ ہیں جو اس رستہ پر چلنے سے گھبراتے ہیں.کاش ! وہ اپنے گردو پیش کو نہ دیکھیں بلکہ پیچھے کی طرف دیکھیں.وہ اُس دنیا کی طرف دیکھیں جو پیچھے گزر چکی ہے اس دنیا کی طرف نہ دیکھیں جس کی اصلاح اور درستی کے لیے وہ کھڑے کیے گئے ہیں.کیا ہی بدقسمت وہ انسان ہے کہ جس کی اصلاح کے لیے اسے بھیجا جائے اُسی کے مرض میں وہ خود بھی گرفتار ہو جائے.کتنا بد قسمت وہ سپاہی ہے جو چور کو پکڑنے کے لیے بھیجا جائے اور خود اس کے ساتھ مل کر چوری کرنے لگ جائے.جو شخص اس وقت مادیات میں مبتلا ہوتا ہے وہ اس مادی اثر کے نتیجہ میں ہوتا ہے جو اس وقت دنیا میں پایا جاتا ہے.لیکن اس مادی اثر کو مٹانے کے لیے ہی تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو بھیجا گیا تھا.پھر ہم سے زیادہ بدنصیب اور کون ہوگا کہ خدا نے تو ہمیں اس لیے با کہ ہم دین کے چوروں اور باغیوں کو پکڑ کر اُس کے سامنے لائیں اور ہم ان...اور ترقی کو دیکھ کر خود بھی انہیں چوروں اور باغیوں میں شامل ہو جائیں.پس اپنے اندر عزم پیدا کرو اور سوچو کہ تمہیں بھیجا کیوں گیا ہے؟ ہمیں انہی چیزوں کو دیکھنے اصل مسودہ میں یہاں الفاظ پڑھے نہیں جاتے.اصل مسودہ میں یہ لفظ واضح نہیں ہے.اصل مسودہ میں یہ الفاظ واضح نہیں ہیں.

Page 336

$ 1949 327 خطبات محمود کے لیے بھیجا گیا ہے جن کو دیکھ کر تمہارے دلوں میں لالچ پیدا ہوتی ہے.ہمیں انہی چیزوں کو مٹانے کے بھیجا گیا ہے جن کو دیکھ کر تمہارے دلوں میں ان کے پیچھے چلنے کا شوق پیدا ہوتا ہے.تم سمجھو یا نہ سمجھو یہ خدا کا کام ہے اور بہر حال ہو کر رہے گا.اگر تم یہ کام نہیں کرو گے تو خدا اور لوگ کھڑے کر دے گا جو اس کام کو سر انجام دیں گے.یہ نظام بدلا جائے گا اور ضرور بدلا جائے گا.امریکہ اور روس اور انگلستان کے مادی لیڈر اور اسی طرح کے اور صنادید جو اس وقت ساری دنیا پر چھائے ہوئے ہیں جو دنیا کے ستقبل پر مادی اسباب سے قبضہ جمانے کی فکر میں ہیں یہ مٹائے جائیں گے، یہ تباہ کیے جائیں گے، یہ برباد کیے جائیں گے.اور پھر دنیا اُس پرانے طریق پر لائی جائے گی جو آج سے تیرہ سو سال پہلے جاری تھا.بلکہ خودان لوگوں کی اولا د اسی طریق کو اختیار کرے گی اور اپنے آباء کے راستہ کو چھوڑ دے گی.کوئی تدبیر اس تقدیر کو بدل نہیں سکتی.یہ ناممکن نظر آنے والی چیزوں میں سب سے زیادہ ممکن چیز ہے.ایک رستم زماں کے لیے ایک چھوٹے سے کنکر کا اُٹھالینا ناممکن ہوسکتا ہے لیکن دنیا کے موجودہ نقشہ کا تبدیل نہ ہونا ناممکن ہے.یہ نظام بدلے گا اور ضرور بدلے گا.سوال صرف یہ ہے کہ کس کے ہاتھ سے بدلے گا؟ ہمارے ہاتھ سے یا اور لوگوں کے ہاتھ سے؟ اگر ہمارے ہاتھ سے اس نظام نے بدلنا ہے تو ہمیں پہلے اپنے آپ کو بدلنا پڑے گا.جس چیز کو بدلنے کے لیے ہم کھڑے کیے گئے ہیں اُسے ہم اپنے لیے کس طرح اختیار کر سکتے ہیں.ایک درخت کے متعلق اگر ہم جانتے ہیں کہ اس پر بجلی گرنے والی ہے تو کیا یہ بد قسمتی نہیں ہوگی کہ ہم اس کے نیچے کھڑے ہو جا ئیں؟ ایک مکان کو اگر آگ لگنے والی ہے تو کیا یہ بدقسمتی نہیں ہوگی کہ ہم اس مکان میں رہنے لگ جائیں؟ ایک پہاڑ پر اگر زلزلہ آنے والا ہے تو کیا یہ بدقسمتی نہیں ہوگی کہ ہم اس پہاڑ پر چلے جائیں؟ اسی طرح وہ چیز جس کے لیے خدا تعالیٰ کی طرف سے تباہی مقدر ہے، جس کے لیے خدا تعالیٰ کی طرف سے بربادی مقدر ہے اُس کی نقل کرنا اور اس کی پیروی اختیار کرنا یہ ضرور ہماری بدقسمتی ہوگی، یہ ہماری انتہا درجہ کی حماقت ہوگی اور ہماری یہ کوشش اپنی خود کشی کے برابر ہوگی.پس ایمان کے ارادہ کے ساتھ یہاں رہو اور تو کل کی گرہ باندھ کر ر ہو اور ایک زندہ خدا پر یقین رکھتے ہوئے یہاں رہو.اگر خدا پر تمہارا یقین ہوگا ، اگر خدا پر تمہارا ایمان ہوگا تو تم دیکھو گے کہ زمین تمہارے لیے بدل جائے گی ، آسمان تمہارے لیے بدل جائے گا.ہمارا خدا وہی.

Page 337

$ 1949 328 خطبات محمود جو آدم علیہ السلام کے وقت میں تھا.مگر خدا بوڑھا نہیں ہوتا.محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے اس نے زمین و آسمان کو بدل دیا تھا ، حضرت عیسی علیہ السلام، حضرت موسی علیہ السلام حضرت ابراہیم علیہ السلام، حضرت یوسف علیہ السلام اور حضرت نوح علیہ السلام کے لیے اس نے زمین و آسمان کو بدل دیا تھا.اسی طرح اور لاکھوں لوگ ہیں جن کے لیے خدا تعالیٰ نے کی زمین و آسمان کو بدلا.یہی زمین و آسمان بدلنے تمہارے لیے بھی مقدر ہیں بشرطیکہ تم ان لوگوں کے نقش قدم پر چلو جن کے لیے خدا تعالیٰ نے پہلے زمین و آسمان کو بدلا تھا.1 : بنی اسرائیل: 21 (الفضل 6 اکتوبر 1949ء )

Page 338

* 1949 329 33 خطبات محمود نزاکت وقت کی اہمیت کو محسوس کرو اور اپنے فرائض کی طرف توجہ کرو فرموده 7 /اکتوبر 1949ء بمقام لاہور ) تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: مجھے چار پانچ دن سے دورانِ سر کی شکایت ہے جس کی وجہ سے ڈاکٹری مشورہ تو یہ تھا کہ مجھے تین چار دن لیٹے رہنا چاہیے کیونکہ جب سر میں چکر آتا ہے اُس وقت کھڑا ہونا تو الگ رہا بیٹھنا بھی بعض دفعہ ناممکن ہو جاتا ہے اور جسم فورا گر جاتا ہے.لیکن جمعہ کی وجہ سے میں نے یہی مناسب سمجھا کہ خواہ مجھے مختصر خطبہ ہی کیوں نہ پڑھنا پڑے جمعہ کے لیے چلا جاؤں.باقی نمازوں میں میں ڈاکٹری ہدایت کے مطابق نہیں آتا اور شاید اس تسلسل میں یہ آخری جمعہ ہوگا جو میں یہاں پڑھاؤں گا کیونکہ عید کی وجہ سے اور بعض دوسرے حالات کی وجہ سے ربوہ کا آنا جانا ایسے رنگ میں ہوا کہ بعض مجھے مجھے یہیں پڑھانے پڑے.لیکن اب پروگرام ایسی شکل میں آچکا ہے کہ غالباًا میں آسانی کے ساتھ جمعہ کے لیے ربوہ جاسکوں گا بشرطیکہ میری صحت اچھی ہوئی.میں آج جماعت کو اور در حقیقت لاہور کی جماعت کو نہیں بلکہ تمام جماعتوں کو اس امر کی طرف

Page 339

* 1949 330 خطبات محمود توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ بعض حادثات کی وجہ سے اور بعض واقعات کی وجہ سے سلسلہ کی مالی حالت اس وقت اتنی گر گئی ہے کہ اگر جلد اس کا تدارک نہ ہوا تو شاید چند ماہ ہی میں ہمیں بہت سے محکمے بند کرنے کی پڑیں گے.ہمارا بیت المال کا دفتر تو یہی دہراتا چلا جاتا ہے کہ ہندوستان کے چندوں کی کمی کی وجہ سے یہ واقعہ ہوا ہے مگر یہ محض اپنی غفلت اور سستی کے چھپانے کا ایک عذر ہے کیونکہ وہاں کے چندے جو اب بند ہیں پانچ چھ ہزار سے زائد کے نہیں.مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ وہ نو جوان جن کو میں کام کے لیے آگے لایا تھا اور جن کے متعلق میں سمجھتا تھا کہ وہ کام سنبھال لیں گے اور میں پرانے کارکنوں پر خفا تھا کہ کیوں وہ نوجوانوں کو آگے نہیں لاتے تاکہ وہ کام سیکھ سکیں.اس غرض سے وہ نوجوان جو ہمارے مرکز میں آئے ہیں وہ کچھ اچھے ثابت نہیں ہوئے.بجائے اس کے کہ وہ کام کرتے پہلے بزرگوں پر اعتراض کرنے اور ان سے لڑنے جھگڑنے میں ہی اپنا وقت صرف کر دیتے ہیں.لیکن بیرونی مشنوں میں خدا تعالیٰ کے فضل سے بعض اچھے اچھے کارکن نکل رہے ہیں اور بعض نے تو نہایت اعلیٰ درجہ کی قربانی کا نمونہ دکھایا ہے جو بتاتا ہے کہ جماعت میں ایسے لوگ موجود ہیں جو وقت پڑنے پر بغیر کسی مدد اور اعانت کے ہر قسم کی قربانی کرنے کے لیے تیار ہیں.اس بارہ میں سنہ سے اچھا نمونہ اس نوجوان نے دکھایا ہے جو سب سے کم تعلیم یافتہ ہے یعنی کرم الہی ظفر.جب موجودہ مشکلات کی وجہ سے ہم نے بعض بیرونی مشنوں کو بند کرنے کا فیصلہ کیا اور کہ دیا کہ وہی لوگ کام جاری رکھیں جو اپنا بو جھ آپ اُٹھانے کے لیے تیار ہوں تو اُس وقت وہ مشن جن کو بند کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا تے ان میں فرانس اور ہسپانیہ کے مشن بھی تھے.ہمارے اس فیصلہ پر ان دونوں ممالک کے مشنریوں نے ہے درخواست کی کہ ہمارے مشن بند نہ کیے جائیں اخراجات بیشک بند کر دیئے جائیں، ہم اپنا بوجھ خود اُٹھا ئیں گے اور ان مشنوں کو جاری رکھیں گے.چنانچہ ان دونوں مشنریوں کی دو سال کے عرصہ میں ہم نے کوئی مدد نہیں کی بلکہ پارٹیشن سے کچھ عرصہ پہلے کی بعض رقمیں بھی انہیں بھجوائی نہیں گئیں.اگر اس عرصہ کو بھی شامل کر لیا جائے تو یہ اڑھائی یا پونے تین سال کا عرصہ بن جاتا ہے.جہاں تک ہمت سے کی بیٹھے رہنے کا سوال ہے اس میں یہ دونوں برابر ہیں.دونوں ہمت سے بیٹھے رہے اور تنگی ترشی سے گزارہ کی کرتے رہے.لیکن جہاں تک تبلیغ کو فور سنبھال لینے کا سوال ہے اس میں کرم الہی صاحب ظفر مقدم ہیں.کیونکہ ملک عطاء الرحمان صاحب جو لاہور کے ہی باشندے ہیں ایک لمبے عرصہ کے بعد تبلیغ کے

Page 340

$1949 331 خطبات محمود کام کو سنبھال سکے.اب تو انہوں نے بھی جلسے کرنے شروع کر دیئے ہیں اور تبلیغ کو کچھ ڈاک کے ذریعہ وسعت دینے کی کوشش کر رہے ہیں اور کچھ لٹریچر بھی فرانسیسی زبان میں شائع کرنے لگے ہیں.مگر یہ موجودہ چھ مہینے کی بات ہے اس سے پہلے وہ اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کی ہی کوشش کرتے رہے ہیں.لیکن کرم الہی صاحب ظفر نے ابتدائی چھ مہینے کے اندر اندر ایسی صورت پیدا کر لی کہ جس کی وجہ سے وہ اپنی تبلیغ کو وسیع کرنے میں کامیاب ہو گئے.انہوں نے میری ایک کتاب کا ہسپانوی زبان میں ترجمہ کیا اور اسے ملک میں شائع کیا.اور اب اسلامی اصول کی فلاسفی کا ترجمہ کر کے انہوں نے شائع کیا ہے اور یہ ساری کمائی انہوں نے خود محنت کر کے کی ہے.اور بعض دفعہ تو ایسے رنگ میں کمائی کی ہے کہ آجکل کے تعلیم یافتہ نوجوان اگر اس رنگ میں کام کریں تو ان کی طبائع پر سخت گراں گزرے.یعنی الی بازار میں کھڑے ہو کر وہ عطر کی شیشیاں فروخت کرتے اور پھر جو کچھ آمد ہوتی اُس سے اپنے اخراجات چلاتے.ایک طرف بازار میں کھڑے ہو کر شیشیاں بیچنا اور دوسری طرف مبلغ کا لباس ہو اور اُس کے اعزاز اور احترام کا سوال ہو یہ بڑا مشکل مرحلہ ہے اور ہر شخص ایسا نہیں کر سکتا.ہزاروں میں سے کوئی ایک ہوتا ہے جو ایسا کر سکتا ہے بلکہ ہزاروں میں سے بھی نہیں لاکھوں میں سے کوئی ایک ہوتا ہے جو ایسا کی کر سکتا ہے.چنانچہ بعض دفعہ ایسا ہوا بھی کہ لوگوں نے ان سے کہا کہ تمہاری یہ کیا حالت ہے تم تو مبلغ ہو اور پھیری کا کام جو گداگری کے برابر ہے کر رہے ہو؟ انہوں نے کہا جو سچائی ہے وہ لوگوں تک پہنچانا ہے ہمارا فرض ہے مگر ہماری جماعت ایک غریب جماعت ہے وہ خرچ نہیں دے سکتی.اس لیے میں خود کمائی کر رہا ہوں.اس پر بعض دفعہ ہسپانیہ کے بعض بڑے بڑے آدمیوں نے انہیں چا چار پانچ پانچ پونڈ تحفہ کے طور پر دیئے اور کہا کہ ہمیں بھی ان نیک مقاصد میں شامل کیجیے.اسی طرح بعض اور مشنریوں نے اپنی اپنی جگہ اچھا نمونہ دکھایا ہے بلکہ بعض مولویوں نے بھی بیرونی ممالک میں نہایت اچھا کام کیا ہے.عام طور پر مولوی چونکہ باہر نہیں نکلتے اس لیے ان کے متعلق کی یہ شبہ ہی رہتا ہے کہ وہ دلیری سے ہر موقع پر اپنے آپ کو کام کا اہل ثابت کر سکتے ہیں یا نہیں.لیکن ان ہمارے ہالینڈ کے مبلغ حافظ قدرت اللہ صاحب مولویوں میں سے اچھا کام کرنے والوں کی بہترین مثال ہیں.اسی طرح پرانے مبلغوں میں سے مولوی رحمت علی صاحب نہایت اچھا کام کرنے والے ہیں.ان کے ذریعہ ہزاروں افراد کو احمدیت میں داخل ہونے کی توفیق ملی.اور نہ صرف عام طبقہ کے

Page 341

* 1949 332 خطبات محمود لوگوں تک انہوں نے احمدیت کا پیغام پہنچایا بلکہ ملک کے جو چوٹی کے آدمی ہیں ان کو بھی وہ تبلیغ کرے رہتے ہیں.ابھی ڈاکٹر حصّہ 1 جو انڈونیشیا کے وزیر اعظم ہیں ڈچ حکومت سے معاہدہ کرنے کے لیے ہالینڈ گئے ہمارا مشنری ان سے ملنے کے لیا گیا تو ڈاکٹر حطہ نے فوراً کہا کہ میں آپ کی جماعت کو خوب جانتا ہوں ، آپ کے مبلغ مجھ سے ملتے رہتے ہیں اور وہ ہمیں تبلیغ کرتے رہتے ہیں.اس سے معلوم ہوتا ت ہے کہ ہمارے مبلغ ملک کے چوٹی کے آدمیوں تک بھی پہنچتے اور انہیں احمدیت کا پیغام پہنچاتے ہیں.پس میں یہ نہیں کہ رہا کہ ہمارے نو جوان قطعی طور پر نا کام رہے ہیں.ہمارے نوجوانوں میں سے ایک طبقہ ایسا ہے جو نہایت اچھا کام کر رہا ہے.امریکن مشن کو خلیل احمد صاحب ناصر نے ، انگریزی مشن کو ای مشتاق احمد صاحب باجوہ نے اور سوئٹزر لینڈ کے مشن کو شیخ ناصر احمد صاحب نے عمدگی سے سنبھالا ہوا ہے.جرمنی کے مشن کی مشکلات اب شروع ہو رہی ہیں.پہلے اس مشن میں ایسے آدمی آملے تھے جو سمجھتے تھے کہ پاکستان اور ہندوستان مالدار ملک ہیں.ہم اس مشن میں شامل ہو کر ان ممالک سے کمائی کرسکیں گے مگر جب ان پر حقیقت کھلی کہ یہ تو قربانی کا مطالبہ کرنے والی جماعت ہے تو ان کا گروہ کا کی گر وہ الگ ہو گیا.اب عبداللطیف صاحب جو وہاں کے مبلغ ہیں اپنے طور پر جماعت بنانے کی کوشش کر رہے ہیں.وہ خاموش طبیعت نوجوان ہے مگر اچھا کام کرنے والا ہے.پس میرا یہ منشا نہیں کہ ہمارے نوجوانوں نے ہر موقع پر نا کامی اور نامرادی کا طریق اختیار کیا.ان میں سے بعض نے نہایت اچھا نمونہ دکھایا ہے خصوصاً اُن نوجوانوں نے جو غیر ممالک میں گئے.مگر جونو جوان ہمارے مرکز میں کام پر لگے ہوئے ہیں اُن میں سے اکثر ایسے نکلے ہیں کہ بجائے اس کے کہ وہ اپنی ذمہ داری کو سمجھیں لڑائی جھگڑے میں ہی اپنا وقت گزارتے رہتے ہیں اور ان کی بڑی خواہش یہی ہوتی ہے کہ کوئی عہدہ مل جائے کوئی اختیار حاصل ہو جائے حالانکہ عہدہ اور اختیار سے کام نہیں چلتا.کام کرنے سے کام ہوا کرتا ہے.ان میں سے بھی بعض نوجوان نہایت اچھا کام کر رہے ہیں.مثلاً میاں عزیز احمد جو پہلے نائب محاسب کے طور پر کام کیا کرتے تھے نہایت اچھے کارکن ہیں اور بڑی محنت سے کام کر رہے ہیں.جہاں تک قابلیت کا سوال ہے چودھری اعجاز نصر اللہ خاں بھی سمجھدار نوجوان ہیں مگر ابھی تک ان میں محنت کی عادت پیدا نہیں ہوئی.چونکہ انہوں نے امیر گھرانے میں پرورش پائی ہے اس لیے محنت کے عادی نہیں لیکن بہر حال ان میں قابلیت موجود ہے اور ہم سمجھتے ہیں کہ

Page 342

$ 1949 333 خطبات محمود اگر وقت لگا کر کام کرنے کی عادت انہیں پڑ جائے تو وہ کامیاب ثابت ہوں گے.بعض اور نو جوان بھی یسے ہیں جو نہایت اچھا کام کر رہے ہیں بلکہ بعض کی تعلیم بالکل کم ہے لیکن کام کے لحاظ سے نہایت اعلیٰ درجہ کے کارکن ہیں.مثلاً قریشی عبدالرشید صاحب ایک معمولی کلرک تھے.ان کی تعلیم صرف انٹرنس کی تک ہے.میں نے ان کو کام پر لگایا اور اب وہ اچھے وکیل المال ثابت ہورہے ہیں.جب کبھی حساب کا کوئی پیچیدہ عقدہ پیش آتا ہے تو اس گتھی کو سلجھانے کے لیے انہی کو مقرر کیا جاتا ہے اور وہ نہایت خوش اسلوبی سے اس کو سرانجام دیتے ہیں.مگر بعض جیسا کہ میں نے بتایا ہے کہ وہ نا کام بھی رہے ہیں اور جہاں تک میں سمجھتا ہوں ہماری مالی حالت کے گر جانے میں بہت سا دخل ایسے نو جوانوں کا بھی ہے.اور کچھ اس بات کا بھی دخل ہے کہ ہمارا مرکز لا ہور سے ربوہ چلا گیا جبکہ وہاں ڈاکخانے کا کوئی انتظام نہ تھا اور منی آرڈروں کی تقسیم کا انتظام تو اب تک بھی نہیں.نتیجہ یہ ہوا کہ جماعتوں نے چندے بھجوائے اور انہیں رسیدات نہ ملیں تو وہ سُست ہو گئیں اور انہوں نے سمجھا کہ جب ہمارا پہلا چندہ ہی ابھی تک نہیں پہنچا تو ہم اور چندہ کس طرح بھجوائیں.کچھ دفتروں نے بھی کوتاہیاں کیں اور صحیح طور پر جماعتوں کو یاد دہانیاں نہ کرائیں.کچھ عملہ کافی نہ تھا جس کی وجہ سے جماعتوں کے جو خطوط آئے اُن کے جوابات کی نہ دیئے گئے اور کچھ منی آرڈر جو بھجوائے گئے تھے وہ رُکے رہے.ان تمام باتوں کا نتیجہ یہ نکلا کہ باہر کی جماعتوں اور مرکز کا تعلق بہت حد تک کٹ گیا اور جماعتوں میں سستی پیدا ہوگی.انہیں یہ وہم شروع ہے ہو گیا کہ نہ معلوم ہمارے روپے پہنچ بھی رہے ہیں یا نہیں.اور جب اس قسم کا وہم پیدا ہو جائے تو لوگ روپیہ بھیجنے میں سستی کر دیتے ہیں.وہ سمجھتے ہیں کہ جب پہلے روپیہ کے متعلق تسلی ہوگی تب ہم اور بھیجیں گے.چاہیے تھا کہ ہمارے مرکزی کارکن اس بات کو اچھی طرح واضح کر دیتے کہ ربوہ جانے کی وجہ سے یہ یہ مشکلات پیش آئیں گی ، جماعتوں کو گھبرانا نہیں چاہیے اور چندہ بھجوانے کی رفتار کو قائم رکھنا چاہیے.انہیں اعلان کرنا چاہیے تھا کہ ربوہ میں ڈاکخانہ نہیں اور اس وجہ سے لازماً منی آرڈر دیر میں پہنچیں گے اور دیر سے ہی جماعتوں کو جواب بھجوائے جاسکیں گے لیکن اس میں ان کے لیے ی گھبراہٹ کی کوئی وجہ نہیں.ان کے منی آرڈر بہر حال گورنمنٹ کے پاس ہیں وہ ضائع نہیں ہو سکتے اور اگر ضائع ہو جائیں تو گورنمنٹ اس روپیہ کو پورا کرنے کی ذمہ دار ہے.اس لیے اس وہم میں مبتلا ہو کر کہ چندے کی رسید کیوں نہیں آئی جماعتوں کو چندے بھجوانے میں سستی سے کام نہیں لینا چاہیے.یہ

Page 343

* 1949 334 خطبات محمود اعلان انہیں بار بار کرنا چاہیے تھا اور جماعتوں کو بتانا چاہیے تھا کہ ہمیں یہ یہ مشکلات درپیش ہیں جن کی وجہ سے انہیں رسیدات نہیں بھجوائی گئیں.ان کا روپیہ بہر حال محفوظ ہے لیکن اگر چندے آنے کم ہو گئے تو اس کا سلسلہ کے محکموں پر بہت برا اثر پڑے گا.میں نے خود تو تحقیق نہیں کی لیکن محاسب کے عملہ نے کی مجھے بتایا ہے کہ معمولی بجٹ کو پورا کرنے کے لیے کم سے کم نوے ہزار روپیہ ماہوار آنا چاہیے.اور اگر خاص بجٹ اس میں شامل کر لیا جائے تو ایک لاکھ پچیس ہزار روپیہ کی ماہوار آمد ہونی چاہیے.اگر خاص بجٹ کو نظر انداز کر دیا جائے تب بھی روز مرہ کا کاروبار چلانے کے لیے ہمیں نوے ہزار روپیہ ماہوار کی ضرورت ہے.لیکن وہ کہتے ہیں کہ پچھلے ایک دو ماہ سے پچاس ہزار روپیہ ماہوار کی آمدن ہو رہی ہے.گویا ہماری آمد نصف تک پہنچ گئی ہے.ظاہر ہے کہ اگر اس کمی کو پورا کرنے کے لیے چالیس ہزار روپیہ ماہوار قرض لیا جائے تو ایک سال میں پانچ لاکھ روپیہ قرض ہو جائے گا.اس کے معنے یہ ہیں کہ سال بھر کے بعد ہمیں بہت سے محکمے اُڑادینے ہوں گے بلکہ سال کے درمیان میں ہی ہمیں ضرورت ہوگی کہ ہم بہت سے دفاتر اُڑادیں، مشن بند کر دیں اور اپنے کام کو ترقی سے روک دیں.گویا بجائے اس کے کہ ہماری یہ کوشش ہوتی کہ ہم اپنے کام کو پھیلائیں اور وسعت دیں ہم اسے سمیٹنے لگ جائیں گے اور اپنی ترقی کو تنزل سے بدل لیں گے.پس میں اس خطبہ کے ذریعہ تمام جماعت ہائے احمدیہ کو اُن کے فرائض کی طرف توجہ دلاتا ہی ہوں.جیسا کہ میں نے بتایا ہے کہ میرے نزدیک چندوں میں یہ کوتاہی اور غفلت مرکز بدلنے کی وجہ سے واقع ہوئی ہے.جب ہم قادیان سے لاہور آئے تھے اُس وقت بھی ہماری آمد اتنی گر گئی تھی کہ چار پانچ ہزار روپیہ ماہوار تک رہ گئی تھی.مگر یہ حالت ایک دو ماہ ہی رہی اس کے بعد پھر آمد بڑھنی شروع ہوگئی.مگر اُس وقت بھی پانچ سات ماہ تک ایسا دھکا لگا تھا کہ جس کی وجہ سے انجمن کا قرضہ بہت بڑھ گیا تھا.اگر دوسال کے بعد انجمن کو پھر ایک دھکا لگے تو اس کے معنے یہ ہوں گے کہ کئی سال تک ہمیں قرضہ اُتارنے کی ہی فکر رہے گی.ہم اپنے کام کو ترقی نہیں دے سکیں گے.اصل بات یہ ہے کہ یہ تمام نقص تبدیلی مرکز سے پیدا ہوا ہے.اکثر جماعتوں کو شکوہ ہے کہ دفاتر والے اُن کے خطوں کا جواب نہیں دیتے.چندہ بھجواتے ہیں تو اُن کی رسیدیں انہیں نہیں ملتیں.اس کی کچھ وجہ تو یہ ہے کہ عملہ کم ہونے کی وجہ سے دس دس پندرہ پندرہ دن انہیں اپنی فائلوں کو ترتیب دینے میں ہی لگ گئے.پھر

Page 344

$ 1949 335 خطبات محمود قادیان سے جب ہم لاہور آئے تو یہاں عملہ ملنا مشکل ہو گیا.کیونکہ لاہور کے اخراجات کی زیادتی کی وجہ سے لوگ ہم سے زیادہ تنخواہیں مانگتے تھے اور ہم انہیں اتنی تنخواہیں دے نہیں سکتے تھے.اب ربوہ میں عملہ کی کمی کی شکایت خدا تعالیٰ کے فضل سے دور ہو رہی ہے.لیکن ڈاکخانہ کی بعض مشکلات ابھی جاری ہیں.میں بائیس دن ہوئے کہ ڈاکخانہ کھل چکا ہے مگر منی آرڈر ابھی تک ڈیلیور (DELIVER) نہیں ہوئے.وہ سارے کے سارے ڈاکخانہ میں ہی رُکے پڑے ہیں.ڈاکخانہ والے کہتے ہیں کہ ابھی ہمارے پاس مُہریں نہیں پہنچیں.اگر منی آرڈروں پر مُبر اور تاریخ نہ ہو اور روپیہ تقسیم کر دیا جائے تو ڈاکخانہ والے پھنس جاتے ہیں.اس لیے کچھ رقمیں ایسی بھی ہیں جو جماعتوں نے تو بھجوا دی ہیں مگر ڈاکخانہ میں رکی پڑی ہیں.میں جب ربوہ گیا تھا تو مجھے بتایا گیا تھا کہ تیرہ چودہ ہزار کے منی آرڈر آئے پڑے ہیں اور گو یہ اُس کمی کو پورا نہیں کرتے جو ہماری آمد میں واقع ہوئی ہے مگر اس سے پتا لگتا ہے کہ باہر کی جماعتوں نے اگر چندہ بھیجوانے میں سستی سے کام لیا ہے تو اس میں ایک حد تک ڈاکخانہ کا بھی دخل ہے.اگر یہ روپیہ وصول ہو جائے تو ہو سکتا ہے کہ اس ماہ کی آمد ساٹھ ہزار تک پہنچ جائے یا ممکن ہے ستر ہزار تک پہنچ جائے.لیکن پھر بھی ضرورت اس امر کی ہے کہ جماعتیں اپنے اندر بیداری پیدا کریں اور اس غفلت کو دور کریں جو ان میں دکھائی دیتی ہے.میں بتا چکا ہوں کہ اس کمی چندہ میں کچھ اس بات ہے کا بھی دخل تھا کہ انہوں نے منی آرڈر بھیجے تو ان کی رسیدات نہ ملیں.چٹھیاں لکھیں تو ان کے جواب نہ گئے.چنانچہ کئی لوگوں نے مجھے خط بھی لکھے کہ اتنے دن ہو گئے ہیں ہم چندہ بھجوا چکے ہیں مگر نہ منی آرڈر کا پتا لگتا ہے اور نہ دفتر والوں نے کوئی رسید بھجوائی ہے.اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ جماعتیں سُست ہو گئیں اور انہوں نے چندے بھجوانے بند کر دیئے.حالانکہ جماعتوں کو چاہیے تھا کہ ان حادثات سے بجائے ست ہونے کے وہ اور بھی پچست ہو جاتیں اور بجائے اس کے کہ وہ ڈر کر اپنا چندہ بھجوانا بند کر دیتیں کسی آدمی کے ذریعہ ہی اپنا چندہ بھجوا دیتیں تا کہ سلسلہ کا کام بند نہ ہو.یہ ہمارے لیے ایک نہایت ہی نازک دور ہے اور اس میں ہم جتنا اپنی ذمہ داری کو سمجھیں کم ہے.ہمیں یہ شبہ نہیں کہ ہم نے جیتنا ہے یا ہمارے مخالف نے.یقیناً ہم نے ہی جیتنا ہے اور فتح اور کامیابی ہمارے لیے ہی مقدر ہے.ہمارے اندرونی منافق اور بیرونی مخالف یہ سب کے سب ناکام رہیں گے.اور وہ دن دور نہیں جب تم دیکھو گے کہ یہی معترض ہماری جوتیاں چائیں گے اور

Page 345

* 1949 336 خطبات محمود ہمارے سامنے ذلیل اور شرمندہ ہوں گے.جب خدا تعالیٰ کے نشانات ظاہر ہوں گے، جب سلسلہ کی عظمت دنیا پر روشن ہو گی اُس وقت وہی منافق جو آج ہماری مخالفت میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہے ہیں ذلیل ہوکر ہمارے سامنے آئیں گے اور ہماری جوتیاں چاٹنے پر مجبور ہوں گے.مگر اُس وقت ان کو وہ مقام میسر نہیں آئے گا جو آج قربانی کرنے والوں کو میسر آ سکتا ہے.یہ لوگ ہمیشہ نیچے رہیں گے اور وہ لوگ جو دین پر ثابت قدم رہیں گے اونچے رکھے جائیں گے.قرآن کریم نے اسی حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ سابقون کا مقابلہ بعد میں آنے والے لوگ نہیں کر سکتے.اس میں جماعتوں کے قیام اور ان کی ترقی کا ایک زبر دست راز بیان کیا گیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ وہ جماعتیں جو ی مجرموں کو بھول جاتی ہیں، وہ جماعتیں جو غداروں کو بھول جاتی ہیں، وہ جماعتیں جو شرارت کرنے کی والے عصر کو بھول جاتی ہیں وہ دنیا میں کبھی ترقی نہیں کر سکتیں.وہ لوگ جنہوں نے جرم کیے ، جنہوں نے کی مخالفتیں کیں، جنہوں نے بکواسیں کیں ، شرارتیں کیں اور پھر اپنے گناہوں سے تائب ہو گئے اُن کو کبھی اُس رتبہ پر نہیں پہنچایا جا سکتا جس رتبہ پر وہ شرارت کرنے سے پہلے قائم تھے.اگر بکواس کرنے اور ای سلسلہ میں تفرقہ پیدا کرنے کے بعد بھی کوئی شخص اُس مقام پر پہنچ جائے جس مقام پر وہ پہلے کھڑا تھا تو ہے اخلاص اور ایمان پر قائم رہنے کی جدو جہد کمزور ہو جاتی ہے اور لوگ سمجھتے ہیں کیا ہوا اگر چند دن بکواس بھی کر لی بعد میں تو ہمیں پھر یہی مقام میسر آئے گا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ لو.آپ کے ہاں مرتدین اور معترضین کو کبھی کسی اعلیٰ مقام پر نہیں لایا جاتا تھا بلکہ ان میں سے بعض کو وطن کو ٹنے کی بھی اجازت نہ دی جاتی تھی.ایک مرتد کے متعلق رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم تھا کہ جہاں ہوا سے قتل کر دیا جائے.حضرت عمرؓ کے زمانہ میں اسے تو بہ نصیب ہوئی اور وہ بھی اِس طرح کہ ایک دفعہ جب حضرت ابو بکر کے لڑکے حضرت عبدالرحمان پر حملہ ہو رہا تھا اس نے دشمن کے لشکر میں سے نکل کر ان کو بچایا.وہ اُس وقت عیسائی لشکر میں شامل تھا تی اور انہی کی طرف سے لڑ رہا تھا.جب حضرت ابو بکر کے بیٹے پر حملہ ہوا تو اُس کی اسلامی رگ جوش میں آگئی اور اُس نے آگے بڑھ کر حملہ کرنے والے کو قتل کر دیا.اس پر اُسے معاف تو کر دیا گیا مگر پھر وہ ایک عام مسلمان کی حیثیت میں ہی رہا.اسے کوئی اعلیٰ مقام یا عہدہ نہیں دیا گیا.ہماری جماعت میں یہ نقص ہے کہ جب کوئی مرتد تائب ہوتا ہے تو بیسیوں مخلص آ آ کر

Page 346

* 1949 337 خطبات محمود سفارش کرنے لگ جاتے ہیں کہ اُسے پھر اُسی مقام پر پہنچا دیا جائے جس مقام پر وہ ارتداد سے پہلے تھا.اور جب کسی مرتد کو اُسی مقام پر پہنچا دیا جائے گا جس مقام پر وہ پہلے تھا تو اس کا لازمی نتیجہ یہ نکلے گا کہ مرتد ہونا گراں نہیں گزرے گا اور اخلاص پر قائم رہنے کی جدوجہد کمزور ہو جائے گی.لیکن اگر جماعت کے اندر یہ احساس ہو کہ جو شخص مرتد ہونے کے بعد تو بہ کرتا ہے اُسے ہم کبھی امام نہیں بننے دیں گے، اسے ہم پہلی صف میں بھی جگہ نہیں دیں گے، اسے ہم دوسری صف میں بھی جگہ نہیں دیں گے، ی اسے ہم تیسری صف میں بھی جگہ نہیں دیں گے، اسے ہم چوتھی صف میں بھی جگہ نہیں دیں گے بلکہ اسے ہم جو تیوں کے پاس کی صف میں جگہ دیں گے تو مرتد ہونے والا سوچ سمجھ کر مرتد ہو.کیونکہ ہر وہ شخص جو مرتد ہوتا ہے اگر ظاہر میں نہیں تو کم از کم دل میں یہ ضرور سمجھتا ہے کہ یہ سلسلہ سچا ہے.ایسا کوئی مرتد ہم نے نہیں دیکھا جو بالکل ہی مرتد ہو گیا ہو.اس میں کچھ نہ کچھ احمدیت کی رگ ضرور رہ جاتی ہے.کبھی مرتد ہو کر یہ کہے گا کہ میں اس خلیفہ کو نہیں مانتا.اور بڑھے گا تو کہے گا میں خلافت کو نہیں مانتا.اور بڑھے گا تو کہے گا کہ میں مرزا صاحب کی نبوت کو نہیں مانتا.کبھی کہے گا مجھے فلاں عقیدہ میں اختلاف ہے.کبھی کہے گا یہ جماعت ہے تو بڑی قربانی کرنے والی مگر فلاں نقص اس میں پایا جاتا ہے.بہر حال کوئی نہ کوئی ہے رگ احمدیت کی اس میں ضرور رہ جاتی ہے.کامل مرتد میں نے آج تک کوئی نہیں دیکھا.اور جب احمدیت کی کوئی نہ کوئی رگ مرتد ہونے والے میں بھی رہ جاتی ہے تو اس کے معنے یہ ہیں کہ اس کے گلے میں رتی بندھی ہوتی ہے.وہ کسی نہ کسی وقت ضرور واپس آئے گا.اور جب کسی نے ضرور واپس آنا ہے تو ی اگر ایسے آدمی کو ہم ڈرائیں اور اسے واضح طور پر بتا دیں کہ تو بہ کرنے کے بعد تم ہماری جو نتیوں میں بیٹھو گے تم کسی اعلیٰ مقام یا عہدہ کے حقدار نہیں ہو گے تو اس کے دل میں فورا یہ احساس پیدا ہو جائے گا کہ مجھے مرتد نہیں ہونا چاہیے کیونکہ اس کا نتیجہ خطرناک ہے.جب اس کا دل کہتا ہے کہ آج نہیں تو کل میں نے ادھر ہی آنا ہے تو اگر اس کے دل میں یہ ڈر پیدا کر دیا جائے کہ واپس آکر تم اس مقام کو حاصل نہیں کرسکو گے جس پر اب قائم ہو تو وہ سوچ سمجھ کر قدم اُٹھائے گا اور کوئی بہت ہی گری ہوئی حالت والا لیلی انسان ہی ہوگا جو اس کے بعد بھی ارتداد اختیار کرے گا.میرے نزدیک یہ جماعت کی کمزوری ہے کہ وہ مرتدین کے متعلق غیرت مندانہ رویہ اختیار نہیں کرتی.آخر جماعت کو یہ احساس ہونا چاہیے کہ جو شخص ارتداد اختیار کرتا ہے اسے مومنوں پر افسر

Page 347

* 1949 338 خطبات محمود کس طرح مقرر کیا جاسکتا ہے.ایک وہ ہے جو برابر مومن رہا اور ایمان کی حالت پر قائم رہا اور ایک وہ ہے جو مرتد ہو جاتا ہے اور صداقت کو دیکھ کر اور اسے قبول کر کے پھر اس سے روگردان ہو جاتا ہے.مگر جب واپس آتا ہے تو سفارشیں کرنے والے آگے بڑھتے ہیں اور کہتے ہیں اسے مومنوں کا سردار مقرر کر دیا جائے.میری عقل میں تو یہ بات نہیں آسکتی کہ اسے مومنوں کا افسر کس طرح مقرر کیا جا سکتا ہے.چاہے وہ کتنے ہی چھوٹے درجہ کے مومن ہوں.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ حضرت عمر بعد میں آئے اور وہ مومنوں کے سردار بن گئے مگر عمر نے کفر کی حالت سے نکل کر اسلام قبول کیا تھا.ان پر اس سے پہلے حجت تمام نہیں ہوئی تھی ، انہوں نے نور کو دیکھا نہیں تھا، انہوں نے اسلام کی صداقت کو پرکھا نہیں تھا.جب انہوں نے اس نور کا مشاہدہ کیا ، جب انہوں نے اسلام کی صداقت کو پر کھا ، جب انہوں نے کفر کو ترک کر کے اسلام قبول کیا تو چونکہ ان میں قابلیت موجود تھی اس لیے وہ مومنوں کے سردار بن گئے.لیکن مرتد تو وہ ہے جو اسلام کے نور کو دیکھ چکا، اس کی صداقت کو پر کچھ چکا، اس کی غلامی کو اختیار کر چکا.اگر وہ گرتا ہے تو اس کے معنے یہ ہیں کہ اس کا کیریکٹر کمزور ہے.اور جس کا کیریکٹر کمزور ہے اس کو مومنوں کا سردار بنا دینا بالکل عقل کے خلاف ہے.اگر جماعت یہ فیصلہ کرلے کہ جو شخص مرتد ہونے کے بعد ہماری طرف واپس لوٹے گا اُس کا مقام جوتیوں میں ہوگا وہ مومنوں کا افسر نہیں ہو سکتا تو یقیناً اگر دس مرتد ہونے والے ہوں گے تو آئندہ صرف ایک مرتد ہوگا نو نہیں ہوں گے.کیونکہ وہ سمجھیں گے کہ جب ہم نے ٹھوکریں کھا کر ادھر ہی آنا ہے تو کیوں نہ خاموش رہیں اور فتنہ پیدا نہ کریں.اس کے بعد خدا چاہے گا تو اُن کو ایمان نصیب ہو جائے گا اور ان کی پردہ پوشی ہو جائے گی اور اگر خدا چاہے گا تو ان کو نکال دے گا.بہر حال اس رویہ سے مرتدین میں کمی ضرور آجائے گی.زیادتی اسی وجہ سے ہوتی ہے کہ فور سفارشیں شروع ہو جاتی ہیں کہ اب چونکہ فلاں شخص نے تو بہ کر لی ہے اس لیے اسے فلاں عہدہ دے دیا جائے.قادیان میں ایک دفعہ ایک شخص مرتد ہوا اور اس نے دعوی کیا کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا ہوتے ہیں میں تو ان سے بھی بڑا ہوں.میں نے اُسے جماعت سے نکال دیا.چار پانچ سال دھکے کھا کر آخر اس نے توبہ کی اور پھر وہ بیعت میں شامل ہوا.مگر ادھر اس نے توبہ کی اور اُدھر سفارشیں شروع ہو گئیں کہ اسے فلاں جگہ کا امام جماعت بنا دیا جائے، فلاں علاقہ میں اسے مبلغ مقرر کیا جائے.

Page 348

$ 1949 339 خطبات محمود ایک شخص کا دماغ اتنا خراب ہو جاتا ہے کہ وہ کہتا ہے کہ میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی بڑا ہوں مگر پھر اس لیے کہ وہ تو بہ کر چکا ہے اُسے جماعت کا امام اور مبلغ بنا دیا جائے.یہ ایک ایسی بات ہے جو کم از کم میری عقل اور سمجھ میں نہیں آسکتی.بیشک وہ تو بہ کرے لیکن جب تک وہ زندہ رہے گا ایک چھوٹے سے چھوٹے احمدی کے پیچھے اُسے رکھا جائے گا کیونکہ اس چھوٹے احمدی کا کیریکٹر مضبوط ہے.یہ مرتد نہیں ہوا اور وہ مرتد ہو چکا ہے.بلکہ میں کہتا ہوں ایک ان پڑھ اور جاہل شخص جو اَشْهَدُ کی بجائے اَشْهَدُ کہتا ہے بلکہ اَسْهَدُ کہنے کی بجائے اَشْهَد کہتا ہے وہ بھی خدا تعالیٰ کے نزدیک اس مرتد ہونے والے سے ہزار درجہ بہتر ہے.خدا تعالیٰ کے نزدیک چاہے وہ بخشا ہوا ہو ہمارے نزدیک تو وہ اپنی موت تک تمام مومنوں سے پیچھے رہے گا اور اسے کبھی ان کا سردار نہیں بنایا جائے گا.غرض ہمارے لیے یہ ایک نہایت ہی نازک موقع ہے.کمزور ایمان والوں کو ٹھوکر میں لگ رہی ہیں اور منافق اپنے نفاق کا اظہار کر رہے ہیں.ایسے موقع پر مخلصین کو زیادہ جوش اور عزم کے ساتھ دین کی خدمت کے لیے کھڑا ہو جانا چاہیے.میں نے ایک گزشتہ خطبہ میں کسی منافق کے خط کا ا ذکر کیا تھا.بعض نے کہا تھا کہ یہ لاہور کا نہیں ہو سکتا.میں نے انہیں جواب دیا تھا کہ مجھے بھی شبہ ہے کہ یہ کسی باہر سے شخص کا ہے.اب مجھے کچھ اندازے ایسے ملے ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ قادیان سے آنے والے ایک شخص کا ہے.بہر حال جماعت میں ایسے لوگ بھی پائے جاتے ہیں جو قسم قسم کے اعتراضات کرتے ہیں اور در حقیقت یہی وہ وقت ہوتا ہے جب مخلص اپنے جوش ایمان میں آگے بڑھتے اور دین کے لیے نہایت اعلیٰ درجہ کی قربانیوں کا مظاہرہ کرتے ہیں.قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ کی فرماتا ہے کہ احزاب کے موقع پر منافقوں نے شور مچایا اور کہا کہ مسلمان اب گئے.ان کا کوئی ٹھکا ن نہیں ہے رہا.2 اللہ تعالیٰ فرماتا ہے جو کمزور دل انسان ہیں وہ تو ان سے متاثر ہوتے ہیں مگر جب یہ لوگ مومنوں کے پاس پہنچتے ہیں اور ان سے کہتے ہیں کہ لواب تمہارا خاتمہ ہوا تو وہ کہتے ہیں کہ ہمارا ایمان تو تمہاری ہے ان باتوں سے بہت ہی بڑھ گیا ہے 3 کیونکہ جو باتیں تم بیان کر رہے ہو وہی باتیں قرآن کریم نے پہلے ی سے بیان کر دی تھیں اور بتلا دیا تھا کہ ایسا ابتلاء آنے والا ہے.پس جتنے بڑے ابتلاء کی تم نے خبر دی ہے اُتنا ہی ہمارا ایمان زیادہ ہو گیا ہے.پس ابتلاؤں سے مومنوں کا ایمان کم نہیں ہوتا بلکہ اور بھی ترقی کرتا ہے ہے.مثلاً ہمارا قادیان سے آنا ہی لے لو میں دیکھتا ہوں کہ بعض لوگ اسی وجہ سے ٹھوکریں کھا رہے

Page 349

* 1949 340 خطبات محمود ہیں.حالانکہ اس حادثہ کی وجہ سے ہمارے ایمان تو پہلے سے بھی زیادہ مضبوط ہوتے ہیں.اول تو جس رنگ میں ہماری قادیان کی جماعت کے افراد دشمن کے حملوں سے محفوظ رہ کر پاکستان پہنچے ہیں.اس کی کی نظیر مشرقی پنجاب کی کسی اور جماعت میں نہیں ملتی.جس طرح ہماری عورتیں محفوظ پہنچی ہیں ، جس کی طرح ہمارے مرد محفوظ پہنچے ہیں اور جس طرح بیسیوں لوگوں کے سامان بھی اُن کے ساتھ آئے ہیں جی اس کی کوئی ایک مثال بھی مشرقی پنجاب میں نظر نہیں آسکتی ، نہ لدھیانہ کے قافلوں میں اس کی کوئی مثال ملتی ہے ، نہ جالندھر کے قافلوں میں اس کی کوئی مثال ملتی ہے اور نہ فیروز پور کے قافلوں میں اس کی کوئی مثال ملتی ہے.لدھیانہ اور جالندھر کے قافلوں کے ساتھ فوجیں تھیں ، حفاظت کا سامان تھا مگر پھر بھی اُن میں سے ہزاروں لوگ مارے گئے.لیکن قادیان کے لوگوں کے ساتھ کوئی فوج نہیں تھی پھر بھی وہ تھی سب کے سب سلامتی کے ساتھ پاکستان پہنچ گئے.پس اول تو یہی کتنا بڑا نشان ہے کہ ہزاروں افراد کی جماعت قادیان سے نکلی اور سلامتی کے ساتھ یہاں پہنچ گئی.کوئی ایک مثال بھی تو ایسی پیش نہیں کی جاسکتی جس میں اللہ تعالیٰ کا یہی سلوک اور مسلمانوں کے ساتھ ہوا ہو.پھر چاہے بعض کو ٹھو کر میں لگیں مگر یہ کتنا بڑا نشان ہے کہ ہماری انجمن کا اتنا بڑا محکمہ قادیان سے اُٹھ کر لاہور آ گیا اور یہاں آتے ہی چالو ہو گیا.گورنمنٹ کے محکموں کے سوا کوئی ایک مثال ہی بتائی جائے کہ کسی جماعت کے وہاں اس قدر محکمے ہوں اور پھر وہ اُسی طرح آتے ہی چل پڑے ہوں جس طرح پہلے چل رہے تھے.یہ تو بالکل الہ دین کے چراغ والی بات ہوگئی جس طرح اُس چراغ سے آنا فانا ایک محل تیار ہو جاتا تھا اسی طرح یہ ایک حیرت انگیز واقعہ ہوا کہ قادیان سے احمدیت اُٹھی اور لاہور میں آکر قائم ہوگئی اور قائم بھی ایسی شان سے ہوئی کہ آج دنیا میں احمدیت کا نام جس قدر بلند ہے، جس قدر عظمت اسے حاصل ہے یہ بلندی اور عظمت کی اُس سے بہت زیادہ ہے جو اسے قادیان میں حاصل تھی.پھر اللہ تعالیٰ کا یہ کتنا بڑا نشان ہے کہ اس کی عرصہ میں وہ بیسیوں پیشگوئیاں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمائی تھیں یا میرے ذریعہ سے ہوئی تھیں اللہ تعالیٰ نے اُن کو پورا کیا.اور جب میں بیسیوں کا لفظ استعمال کرتا ہوں تو میں ہے غلط نہیں کہتا میں مبالغہ سے کام نہیں لیتا.واقعہ یہی ہے کہ بیسیوں پیشگوئیاں ہیں جو لفظا لفظاً پوری ہوئیں اور ایسے زور سے پوری ہوئیں کہ اُن کو دیکھ کر حیرت آتی ہے.اتنے بڑے نشانات دیکھنے کے بعد قادیان میں جتنا میرا ایمان تھا اُس سے یقیناً میرا ایمان اب بہت زیادہ ہے.اور جس شکل میں میں

Page 350

* 1949 341 خطبات محمود نے وہاں خدا تعالیٰ کو دیکھا تھا اُس سے بہت زیادہ شان اور جلال کے ساتھ میں نے خدا تعالیٰ کو اب دیکھا ہے.اور میں سمجھتا ہوں ہر مومن جو سوچنے کا عادی ہے، جو دماغی تعیش کی وجہ سے بعض صداقتوں کی کو قبول کرنے اور بعض کو رڈ کرنے کا عادی نہیں اُس کا ایمان بھی یقیناً بڑھا ہو گا.لیکن فرض کرو اس حادثہ کی وجہ سے کسی کو ٹھو کرلگتی ہے تو پھر مومنوں کا یہ کام نہیں کہ وہ خاموشی کے ساتھ بیٹھ رہیں بلکہ انہیں اُس کا مقابلہ کرنا چاہیے.آخر دنیا میں ہر چیز کی ایک ضد پائی جاتی ہے اور یہ سلسلہ ابتدائے آفرینش سے اب تک قائم ہے.تاریکی ہو جائے تو اُس کو دور کرنے کے لیے روشنی کی ضرورت ہوتی ہے اور جب تاریکی بہت زیادہ زور پکڑے تو روشنی کو بھی زیادہ زور پکڑنے کی ضرورت ہوتی ہے.جب گرمیاں آتی ہیں تو لوگ ہتھیار نہیں ڈال دیتے بلکہ ٹھنڈک کے سامان مہیا کرتے ہیں.معمولی گرمی ہو تو ای پانی کا چھڑکاؤ کرتے ہیں اور زیادہ گرمی ہو تو کھڑکیوں اور دروازوں کے آگے کپڑے لگا لیتے ہیں.اور زیادہ گرمی ہو تو خس کی ٹٹیاں لگا لیتے ہیں.زیادہ اچھی حالت ہو تو بعض لوگ بجلی کے پیچھے لگوا لیتے ہیں.اور زیادہ اچھی حالت ہو تو لوگ پہاڑوں پر چلے جاتے ہیں.غرض وہ آخر وقت تک اس کا مقابلہ کرتے چلے جاتے ہیں.یہ نہیں ہوتا کہ گرمی آئے تو وہ شور مچانے لگ جائیں کہ مر گئے مر گئے اور اُس کے تدارک کی کوئی صورت نہ کریں.اس طرح سردیاں آئیں تو یہ نہیں ہوتا کہ لوگ اُس کے سامنے ہتھیار ڈال دیں بلکہ جن کو اللہ تعالیٰ نے عقل اور سمجھ سے حصہ دیا ہوا ہوتا ہے وہ اس کا مقابلہ کرتے ہیں.یہی کیفیت کفر اور ایمان کی بھی ہے.جب دنیا میں کفر پھیلتا ہے، بے ایمانی ترقی کرتی ہے، بد اعتقادی کا دور دورہ ہو جاتا ہے تو اُس وقت مومن اُس کفر اور بے دینی کا مقابلہ کرنے کے لیے کھڑا ہو جاتا ہے اور سمجھتا ہے کہ اگر میں چُپ رہا تو یہ ایمان کے خلاف ہو گا.ایمان کا اعلیٰ مقام یہ ہوتا ہے کہ انسان اپنے ہاتھ سے بدی کو دور کر دے اور ادنیٰ مقام یہ ہوتا ہے کہ دل میں بُرا منائے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ ادنی ترین ایمان کی علامت یہ ہے کہ تم کوئی بُری بات دیکھو تو دل میں اُس پر بُرا مناؤ4 مگر دنیا میں وہ کون انسان ہے جو یہ پسند کرے گا کہ اُسے تھرڈ کلاس مومن شمار کیا لی جائے.ہر شخص یہی خواہش رکھتا ہے اور یہی رکھنی چاہیے کہ اُسے ایمان کا اعلیٰ مقام نصیب ہو.اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں کہ ایمان کا اعلیٰ مقام یہ ہے کہ تم کوئی بُری بات دیکھو تو اُسے اپنے ہاتھ سے روکو.اگر ہاتھ سے روکنے کی طاقت نہیں رکھتے تو زبان سے روکو.اگر زبان سے بھی روکنے

Page 351

* 1949 342 خطبات محمود کی طاقت نہیں رکھتے تو دل میں ہی برا مناؤ مر فرمایا یہ ادنی درجے کا ایمان ہے اور ادنی درجہ کا ایمان کوئی ہے خوشی کی چیز نہیں ہو سکتا.مومن کو تو ایسا مقام حاصل کرنا چاہیے کہ نہ صرف اُس کا اپنا ایمان مضبوط ہو بلکہ دوسروں کے ایمان کو بھی وہ مضبوط کرنے والا ہو.پس اگر جماعتوں میں کمزوری پیدا ہوتی ہے تو مخلصین سے کہتا ہوں کہ تم ہمت کرو ، آگے بڑھو اور انکی کمزوری کو تبلیغ اور ارشاد کے ساتھ دور کرنے کی کوشش کرو.اور پھر جو کمی اُن کے ارتداد سے سلسلے کے اموال میں ہو اُس کو خود اپنے چندے بڑھا کر پورا کرو.یہ کوئی سوال نہیں کہ سیکرٹری کون ہے اور پریذیڈنٹ کون.دیکھو! وہ ہمارے مرکزی سیکرٹری ہی تھے جنہوں نے یہ کہا تھا کہ ہم اتنا مال جمع نہیں کر سکتے کہ مبلغوں کو اخراجات کے لیے روپیہ دے سکیں مگر ہمارے نوجوانوں نے کہا کہ آپ لوگ اگر ہمیں روپیہ نہیں بھجواتے تو بیشک نہ بھجوائیں ہم ٹوکریاں اٹھا ئیں گے اور اپنے لیے آپ گزارہ پیدا کریں گے اور انہوں نے ایسا کر کے دکھا دیا.اسی طرح مقامی جماعتوں کے سیکرٹری اور پریذیڈنٹ اگر کام نہیں کرتے تو تم خود افراد جماعت کو بیدار کرو اور اُن کے اندر ایک نئی زندگی اور نئی روح پیدا کرنے کی لالی کوشش کرو.یہ بیداری کا وقت ہے.یہ کام کرنے کا وقت ہے، یہ سونے اور غافل ہو جانے کا وقت نہیں.تم میں سے ہر شخص کا فرض ہے کہ وہ اپنے آپ کو سیکرٹری اور پریذیڈنٹ سمجھے اور تم میں سے ہر شخص کا فرض ہے کہ وہ اپنے آپ کو سلسلے کا ذمہ دار سمجھے.جب تم میں سے ہر شخص کا ایمان اتنا مضبوط ہو جائے گا کہ وہ سمجھے گا کہ سلسلہ کی عمارت کا بوجھ مجھ پر ہی ہے، میں ہی وہ ستون ہوں جس پر احمدیت کی کی چھت قائم ہے.اگر میں ہلا تو احمدیت بھی ہل جائے گی.تب تمہیں وہ مقام میسر آ جائے گا کہ کوئی آفت تمہارے سر کو نیچا نہیں کر سکے گی ، کوئی مصیبت تمہارے قدموں کو ڈگمگا نہیں سکے گی اور کوئی ابتلائے تمہیں ہراساں نہیں کر سکے گا.کیونکہ تم میں سے ہر شخص ایک چھوٹا نمونہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہوگا اور تم سمجھو گے کہ کام ہم نے کرنا ہے کسی اور نے نہیں کرنا.اور جب کسی جماعت میں ایسے لوگ پیدا ہو جائیں تو وہ جماعت کبھی مِٹ نہیں سکتی.اگر اس عزم کے ساتھ گیارہ آدمی بھی کھڑے ہو جائیں اور ی ان میں سے دس مر جائیں تو باقی رہنے والا ایک آدمی پھر اُن دس مرنے والوں کو زندہ کر دے گا.اگر اس عزم کے ساتھ نو سو ننانوے آدمی کھڑے ہو جائیں اور نو سو جگہ قیامت آ جائے تو ننانوے آدمی پھر باقی نوسو جگہوں کو زندہ کر لیں لگے.

Page 352

خطبات محمود 343 $1949 پس اصل چیز یہی ہے کہ اپنے اندر عزم پیدا کر و.جب ہماری جماعت کے نوجوان یہ فیصلہ کی کر لیں گے کہ ہم میں سے ہر شخص سلسلہ کا ذمہ دار ہے تو کیا وہ لوگ جنہوں نے ساری دنیا کو فتح کرنے کا ارادہ کیا ہوا ہے وہ اپنے محلہ کو فتح نہیں کر سکیں گے؟ اپنے گاؤں یا اپنے شہر کو فتح نہیں کر سکیں گے؟ جب ہماری جماعت کے نوجوان یہ عزم کر لیں گے کہ ہم دنیا کو فتح کریں گے تو ساری دنیا کو فتح کرنے میں تو کچھ دیر لگے گی وہ اپنے محلہ اور اپنے شہر کو نہیں چھوڑیں گے اور اُسے جھنجھوڑ کر رکھ دیں گے.اور جب وہ اپنے محلہ اور شہر والوں کو جھنجھوڑ دیں گے تو جن لوگوں کے دلوں میں ایمان ہوگا وہ بیدار ہو جائیں گے اور وہ بھی ہر قسم کی قربانیوں کے لیے تیار ہو جائیں گے.پس اپنی ذمہ داری کو سمجھو اور وقت کی نزاکت کا احساس کرو.میں بتا چکا ہوں کہ یہ خطبہ صرف لاہور کی جماعت کے لیے نہیں باہر کی جماعتوں کے لیے بھی ہے.اس لیے میں ہر جگہ کے نو جوانوں اور احمدیوں سے کہتا ہوں کہ جو تمہارے کارکن ہیں تم اُن کو ہوشیار کرو کیونکہ وہ ہوشیار نہ ہوں تو پھر ہر احمدی کا فرض ہے کہ اس نازک وقت میں اپنی ذمہ داری کو محسوس کرتے ہوئے آگے آئے اور سیکرٹری کا کام کی خودسرانجام دے.اگر اس وقت ہماری مالی حالت درست نہ ہوئی تو اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ چار پانچ سال تک ہم پچھلے قرضہ کو اُتارنے میں ہی لگے رہیں گے اور نیا کام نہیں کر سکیں گے.پس یہ ایک نہایت ہی نازک وقت ہے.اس نازک وقت کی اہمیت کو محسوس کرو اور اپنے فرض کی طرف توجہ کرو.اور وقت کی نزاکت کا تم اس سے اندازہ لگا سکتے ہو کہ وہ پیشگوئی جو چار ہزار سال سے چلی آرہی ہے کہ ایک زمانہ میں یا جوج اور ماجوج کی لڑائی ہونے والی ہے وہ وقت اب آنے ہی والا ہے.اس وقت کو اگر ہم نے ضائع کر دیا اور اپنی ترقی کی کوئی کوشش نہ کی تو اس سے زیادہ ظلم اور کوئی نہیں ہوگا.پس وقت کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے ہر شخص کھڑا ہو جائے اور قطع نظر اس سے کہ سیکرٹری کون ہے اور پریذیڈنٹ کون وہ خود ای کام کرنے لگ جائے.یقینا اللہ تعالیٰ نے ہماری جماعت کو ایمان بخشا ہے اور یقینا یہ غفلت محض اس وجہ سے واقع ہوتی ہے کہ جماعتوں کو خطوں کے جوابات نہیں گئے.چندے بھیجے تو اُن کی رسیدیں نہیں گئیں.روپے بھیجے تو وہ ڈاکخانہ میں ہی پڑے رہے.اور چونکہ منی آرڈروں کی انہیں رسید نہ ملی اس لیے انہوں نے کہا کہ اگلا چندہ ہم تب بھیجیں گے جب پہلے چندہ کی رسید آ جائے گی اور چونکہ رسیدیں بھیجنے میں زیادہ دیر ہوگئی اس لیے انہوں نے چندہ وصول ہی نہ کیا اور جب لوگوں سے چندہ وصول نہ کیا ہے

Page 353

* 1949 344 خطبات محمود گیا تو ان سے وہ روپیہ دوسرے کاموں میں خرچ ہو گیا اور اس ماہ کا چندہ دینا اُن کے لیے مشکل ہو گیا.یہ وجوہات ہیں جن کی وجہ سے میرے نزدیک ہمارے چندوں میں کمی واقع ہوئی ہے.پس یہ نقص محض غفلت کی وجہ سے ہے، حالات کی ناواقفیت کی وجہ ہے بے ایمانی یا ایمان کی کمزوری کی وجہ سے نہیں.ایمان ہماری جماعت کے دلوں میں ہے اور ضرور ہے.ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم انہیں بار بار توجہ دلاتے رہیں کہ اپنے ایمانوں کو ضائع نہ ہونے دو“.(الفضل 13 اکتوبر 1949ء) 1 : ڈاکٹر طہ: (1902-1980ء)Mohammad Hatta انڈونیشیا کے قومی ہیرو کے طور پر جانے جاتے ہیں.1945ء سے 1956 ء تک وائس پریذیڈنٹ رہے.1948ء سے 1950ء تک انڈونیشیا کے وزیراعظم کے منصب پر فائز رہے.(Wikipedia, the free Encyclopedia," Mohammad hatta".).2 : وَإِذْ قَالَتْ طَابِفَةٌ مِنْهُمْ يَاهَلَ يَثْرِبَ لَا مُقَامَ لَكُمْ (الاحزاب : 14) وَاذْقَالَتْ :3 وَلَمَّارَاَ الْمُؤْمِنُونَ الْأَحْزَابَ قَالُوا هَذَا مَا وَعَدَنَا اللهُ وَرَسُوله و وَصَدَقَ اللهُ وَرَسُولُهُ وَمَا زَادَهُمْ إِلَّا إِيْمَانًا وَتَسْلِيمًا (الاحزاب: 23) 4 : ترمذی ابواب الفتن باب ما جاء في تغيير المنكر باليَدِ (الخ)

Page 354

* 1949 345 34 خطبات محمود احمدی مستورات خدمت دین کے لیے اپنی زندگیاں وقف کریں (فرموده 14 /اکتوبر 1949ء بمقام ربوہ) تشهد ، تعوذ اورسورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: مجھے عید کے قبل سے دوران سر کی تکلیف ہے.بعض دفعہ تو نہ بیٹھا ہوا اُٹھ کر کھڑا ہو سکتا ہوں اور نہ کھڑا ہوا بیٹھ سکتا ہوں.فوراً سر چکرا جاتا ہے اور مجھے کسی چیز کا سہارا لے کر اُس حالت کو جس میں میں ہوتا ہوں بدلنا پڑتا ہے.ڈاکٹر کہتے ہیں کہ اس بیماری میں زیادہ بولنا اور حرکت کرنا منع ہے.جہاں تک ہو سکے لیٹے رہنا چاہیے لیکن مجھے لیٹے رہنے یا خاموش رہنے کا بھی موقع نصیب نہیں ہوسکتا اور یوں بھی اس بیماری کا مجھ پر ایک اثر رہتا ہے.کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بھی دوران سر کی تکلیف تھی اور خاندانی مرض ہونے کی وجہ سے اس کے مزمن 1 اور کرانک 2 ( Chronic) ہونے کی کا ڈر رہتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام اپنی آخری عمر میں چار پانچ سال با ہر نماز کے لیے نی بھی نہیں آسکتے تھے.1905ء کے بعد آپ گھر سے باہر بہت کم نکلتے تھے اور بہت کم بول سکتے تھے.گو بعض دفعہ اگر موقع ہوتا تو باتیں کرنی بھی پڑتی تھیں مثلاً اگر کوئی اجتماع ہو جاتا یا باہر سے کچھ لوگ

Page 355

$ 1949 346 خطبات محمود 1 جاتے تو آپ باتیں کر بھی لیتے لیکن عام طور پر آپ بہت کم بولتے تھے.شام کے وقت آپ کو یہ دورہ عام ہوتا تھا.اس مرض کے لیے ہلکا چلنا پھرنا مفید ہے لیکن یہ چیز بھی بعض لوگوں کے لیے ابتلاء کا ای موجب بن جاتی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بھی عصر سے شام تک باہر سیر کے لیے کی تشریف لے جاتے تھے.میں نے بھی دیکھا ہے کہ اگر آہستہ آہستہ چہل قدمی کی جائے تو صحت پر اس مرض کا زیادہ اثر معلوم نہیں ہوتا.لیکن اگر بیٹھے ہو تو کھڑے ہو جاؤ یا کھڑے ہو تو بیٹھ جاؤ یا لیٹے ہوئے کروٹ بدل لو تو اس مرض کا اثر زور سے ہوتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ میں تو جماعت بہت تھوڑی تھی اور اکثر لوگ ٹھوکریں کھا کھا کر احمدیت میں داخل ہوئے تھے.اس لیے وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے عصر سے شام تک سیر کے لیے چلے جانے اور پھر شام کی نماز ہے میں حاضر نہ ہو سکنے پر معترض نہیں ہوتے تھے.لیکن یہ بات آجکل کے لوگوں کے لیے زیادہ ٹھوکر کا موجب ہے کہ عصر سے شام تک میں باہر سیر کر کے آؤں اور پھر کہوں کہ میں نماز کے لیے مسجد میں نہیں ہے آسکتا کمزور لوگ اس بات کی برداشت نہیں کر سکیں گے.بہر حال جو مشیت الہی ہے وہ تو ضرور ہو کر رہے گی.اس مرض کا حملہ مجھ پر کوئٹہ میں بھی ہوا ہے تھا لیکن تین چار دن کے بعد وہ حملہ ہٹ گیا تھا.اب کے یہ حملہ لمبا ہوا ہے.بارہ تیرہ دن کے قریب ہو گئے ہیں لیکن ابھی تک یہ حملہ برابر جاری ہے.اس صورت میں بولنا یوں بھی مشکل تھا لیکن ؟ مین تجویز کی گئی کہ آج جمعہ کی نماز اس جگہ پر ادا کی جائے جہاں مستقل طور پر مسجد بنائی جائے گی تو نت کی طرف سے یہ عذر کیا گیا کہ ہمارے پاس سائبان کم ہیں لوگ دھوپ میں کھڑے رہیں گے، پھر سائبان وغیرہ کو وہاں اُٹھا کر لے جانا پڑے گا لیکن میں نے پسند کیا کہ جب تک خدا تعالی توفیق دے جمعہ کے لیے ہم اس جگہ کو استعمال کریں جہاں مستقل طور پر مسجد کا بنایا جانا تجویز کیا گیا ہے خواہ خطبہ چھوٹا ہو جائے کیونکہ لمبا خطبہ پڑھنا ضروری نہیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عام طور پر بہت ہی مختصر خطبہ فرمایا کرتے تھے اور احادیث میں آتا ہے کہ آپ کے خطبہ میں نماز سے نصف وقت لگتا تھا.3 آج میں جس مضمون کو بیان کرنا چاہتا ہوں وہ خاص اہمیت رکھتا ہے.یوں بھی میں نے ربوده ای آنا تھا لیکن میں نے مناسب سمجھا کہ اس مضمون کو آج جمعہ میں ہی بیان کر دوں تا جہاں ربوہ کی نئی بنیاد رکھی جارہی ہے وہاں اس کی بھی نئی بنیاد ہو جائے.چند مہینوں سے میں غور کر رہا تھا کہ ہماری تبلیغ

Page 356

* 1949 347 خطبات محمود.راستہ میں بہت سی مشکلات نظر آ رہی ہیں.ہماری اندرونی اور بیرونی تبلیغ بہت سست ہے اس کی کیا وجہ ہے؟ میں نے غور کر کے سمجھا کہ اس کی زیادہ تر وجہ عورتوں میں اس آزادی اور بے دینی کا پیدا ہونا ہے جو ان میں مغرب کے اثر کی وجہ سے آگئی ہے.ویسے تو اسلام نے بھی عورتوں کو آزادی دی ہے لیکن ان کی مغربی رنگ کی آزادی ان کے احمدیت قبول کرنے میں مانع ہے.اور جب یہ آزادی عورت کے احمدیت قبول کرنے میں مانع ہوتی ہے تو ماں کے جو اولاد پیدا ہوتی ہے اسے بھی وہ احمدیت ، وہ کے قبول کرنے سے روکتی ہے.اسی طرح وہ اپنے خاوند کو بھی احمدیت کے قبول کرنے سے روکے گی کیونکہ اگر وہ احمدیت قبول کرلے تو اس کی آزادی میں فرق آ جائے گا.غرض عورتیں ہماری تبلیغ میں ہے روک بن رہی ہیں اور یہ حلقہ آہستہ آہستہ وسیع ہوتا جائے گا کیونکہ یہ تعلیم جب بڑے بڑے شہروں میں ہے پھیل جائے گی تو بڑے شہروں سے قصبات میں آجائے گی اور قصبات سے گاؤں میں آجائے گی اور بڑے گاؤں سے چھوٹے گاؤں میں پھیل جائے گی.مردوں کی نسبت عورتیں احمدیت کی تبلیغ میں زیادہ روک بن رہی ہیں.کوئٹہ میں ملٹری آفیسرز میں میں نے ایک لیکچر دیا.جب وہ آفیسر ز اپنے گھروں میں واپسی گئے تو عورتوں نے بہت لے دے کی.انہوں نے اپنے خاوندوں سے کہا تم احمدیوں کے جلسے میں کیوں گئے تھے؟ بعض لوگ احمدیت کے بالکل قریب تھے لیکن محض عورتوں کی مخالفت کی وجہ سے پیچھے ہٹ گئے.ایک عورت نے اپنے خاوند کو جو ایک فوجی افسر تھے کہا کہ احمدی تو پردہ کی تعلیم دیتے ہیں، ایک سے زیادہ بیویوں سے شادی کرنے کی تعلیم دیتے ہیں.اگر تم ان کی مجالس میں گئے تو میرا اور تمہارا گزارہ مشکل ہو جائے گا.تعدد ازدواج، پردہ اور دوسری مختلف باتیں جو عورتوں کے ساتھ مخصوص ہیں اور جن کو آجکل کی عورتیں پارہ پارہ کرنا چاہتی ہیں وہ احمدیت میں پائی جاتی ہیں اس لیے وہ احمدیت کی تبلیغ میں روک بن رہی ہیں اور روک بنتی چلی جاتی ہیں اور یہ روک دن بدن بڑھتی چلی جارہی والی ہے.عورتیں سمجھتی ہیں کہ پردہ کی وجہ سے انہیں بلا وجہ گھروں میں بند رکھا جاتا ہے.غیر مردوں سے ملنے سے روکا جاتا ہے.کثرت ازدواج کی وجہ سے اُن کی بہتک کی جاتی ہے.وہ سمجھتی ہیں کہ مشرقی پنجاب نے میں جو عظیم الشان نتباہی عورتوں پر آئی ہے وہ محض پردہ کی وجہ سے ہے.مغربی لوگوں کو بھی مسلمانوں سے نفرت ہے کیونکہ مسلمان عورتیں پردہ کرتی ہیں لیکن جب وہ ہندوؤں کے پاس جاتے ہیں ان کی

Page 357

$ 1949 348 خطبات محمود بیویاں اُن سے آزادی سے ملتی ہیں، وہ ان سے باتیں کرتی ہیں اس لیے وہ ہندوؤں کا اچھا اثر لے کر واپس جاتے ہیں کیونکہ انہیں عورتوں سے بات چیت کرنا زیادہ مرغوب ہوتا ہے.کہیں مغربیت کے دلدادہ لوگ محض اپنی نفسانی خواہشات کو پورا کرنے کا آلہ کار بنانے کے لیے انہیں علمی اور سیاسی ނ میدان میں لانے کا بہانہ بنا کر پردہ کے خلاف بھڑکاتے ہیں.کہیں وہ اپنے آپ کو علماء میں گردانے جانے کا ارادہ اور سعی لے کر عورتوں کے مطالبات کو پورا کرنے کا سوال لوگوں کے سامنے پیش کرتے ہیں.یہ چیزیں جہاں عورت کو احمدیت کے قبول کرنے سے روک رہی ہیں وہاں مردوں میں بھی تبلیغ کے رستہ میں روک بن رہی ہیں.مرد بھی عورت کا نام لے کر احمدیت سے ہٹ رہے ہیں.کچھ تو اس لیے کہ وہ عورتوں کی مجلس سے زیادہ فائدہ حاصل کرنا چاہتے ہیں اور کچھ اس لیے کہ اگر چہ ان میں عورتوں کی مجلس سے زیادہ فائدہ اٹھانے کی خواہش نہیں لیکن ان کی عورتیں ، بہنیں اور بیٹیاں کالجوں میں جاتی ہیں.وہ مغربیت کی دلدادہ ہوتی ہیں اس لیے وہ مردوں کو بھی احمدیت سے پیچھے ہٹنے پر مجبور کی کرتی ہیں.غرض مرد کبھی ذاتی طور پر اور کبھی بیوی بچوں کی خواہشات کا خیال کر کے مغربیت کی طرف مائل ہو جاتا ہے اور جو اس کی مخالفت کرتا ہے اسے وہ بُراسمجھتا ہے.اب اگر عورتوں کے مسائل پر روشنی کی ڈالی جائے تو یہ چیزیں عورتوں کے حق کی طرف مائل ہونے میں روک بن جاتی ہیں.وہ سارے دلائل کے سن کر یہ کہہ دیتی ہیں ہاں جی! تم مرد جو ہوئے آپ کی تو غرض ہی یہ ہے کہ ہم تہذیب سے بے بہرہ رہیں.پر وہ ہمارے منہ پر ہوتا ہے، نقاب سے ہمیں تکلیف ہوتی ہے ، دوسری شادی سے ہمیں تکلیف ہوتی ہے.تمہارے تو مزے ہی مزے ہیں.آپ ایسا نہ کریں تو پھر مزے کیسے اُٹھا ئیں.پھر بعض عورتیں یہ کہ دیتی ہیں کہ مرد کے ہاتھ میں قلم جو ہوا اس لیے جو چاہے وہ لکھ دے.وہ یہ کہنے سے ڈرتی ہیں کہ مذہب ایسا کہتا ہے.وہ کہتی ہیں مرد جو چاہتا ہے مذہب کے نام پر کہہ دیتا ہے.اس کے ہاتھ میں قلم ہے جو چاہے لکھ دے.گویا یہ باتیں مذہب سے تعلق نہیں رکھتیں.مردوں نے محض اپنی ای خواہشات کو پورا کرنے کے لیے مذہب کے نام پر لکھ دی ہیں.اس کا ایک ہی علاج ہو سکتا ہے.وہ یہ ای کہ عورتیں مبلغ بنیں.اگر وہ عورتوں میں تبلیغ کریں گی تو ہمارے رستہ سے یہ روک.یقیناً ہٹ جائے گی.مردعورتوں میں تبلیغ کرے گا تو انہیں یہ کہنے کا موقع مل جائے گا کہ مرد کے ہاتھ میں قلم جو ہوئی جو چاہا لکھ دیا.لیکن اگر عورت تبلیغ کرے گی تو دلائل پر بات آ جائے گی اور ہمیں یقین ہے کہ اسلام دلائل میں

Page 358

$1949 349 خطبات محمود ہمیشہ غالب رہتا ہے.مرد تبلیغ کرے گا تو جذباتی باتیں تبلیغ میں روک بن جائیں گی دلائل پر بات نہیں آئے گی.عورت سمجھے گی کہ بوجہ مرد ہونے کے یہ اس بات پر زور دیتے ہیں.عورت مرد کے مقابلہ میں دلیل کو سوچتی نہیں اس لیے ہماری ہر دلیل بریکار جائے گی.لیکن یہی باتیں جب ایک عورت کے منہ سے نکلیں گی تو بات جذباتی رنگ میں نہیں رہے گی بلکہ خالص عقلی رنگ اختیار کر جائے گی اور خالص عقلی ای رنگ میں یقیناً ہمارا پہلو غالب رہے گا.دوسرے عورتیں عورتوں میں تبلیغ کر کے انہیں اسلام کی طرف لے آئیں گی تو اس کا لازمی نتیجہ یہ ہوگا کہ مردگھروں میں بجائے مخالفت کے احمدیت کی تعریف سنیں گے اور اس طرح وہ احمدیت کے زیادہ قریب آجائیں گے.ان سب باتوں کو سوچنے کے بعد میں نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ میں عورتوں میں بھی وقف زندگی کی تحریک کو جاری کروں.اس میں کوئی شک نہیں کہ اس میں مشکلات بھی ہوں گی مگر ان کا حل بھی سوچا جاسکتا ہے.پھر اگر عورتیں اس تحریک میں شامل ہوں گی تو ان کے لیے علیحدہ نظام قائم کرنا ہوگا اور اسے عورتوں کے سپرد ہی کرنا ہو گا ورنہ مشکلات زیادہ پیدا ہو جائیں گی اور مخالفین کی طرف سے اعتراضات بھی ہوں گے.لیکن لجنہ کے ذریعہ یہ کام کیا جا سکتا ہے.جس طرح تحریک جدید مردوں کی کے لیے کام کر رہی ہے اسی طرح لجنہ اماء اللہ عورتوں کے لیے کام کرے گی.اس کی طرف سے بجٹ آتی جایا کرے گا اور ہم اسے منظور کر دیا کریں گے لیکن خرچ سارا عورتوں کی کمیٹی ہی کرے گی.یہ کام کس طرح ہو گا اور واقف زندگی عورتوں کی زندگی کیسے گزرے گی؟ یہ بھی ایک نازک سوال ہے.واقف زندگی عورتیں اگر واقف زندگی مردوں سے نہیں بیا ہی جائیں گی تو بہت سی مشکلات پیش آئیں گی.خاوند کہیں نوکری کر رہا ہو گا اور عورت کہیں تبلیغی کام کر رہی ہوگی.اس کاحل یہی ہے کہ جو عورتیں اس تحریک میں شامل ہوں وہ واقف زندگی مردوں سے شادی کریں.جب وہ واقف زندگی مردوں سے شادی کریں گی تو عورت کو مقدم رکھتے ہوئے ہم اُس کے خاوند کو بھی اُسی علاقہ میں لگا دیں گے جہاں عورت کے کام کو زیادہ اہمیت ہوگی.پھر تبلیغ کی کیا صورت ہوگی ؟ میں نے اس پر بھی غور کر کے تسلی کر لی ہے.اس کا انتظام ایک بڑی حد تک ہوسکتا ہے.اصل سوال شادی کا ہے اور اس کا علاج یہ ہے کہ ایسی عورت کی شادی کی واقف زندگی مرد سے ہو.یا شروع شروع میں ایسی عورتیں لے لی جائیں جو بیوہ ہوں یا

Page 359

$ 1949 خطبات محمود 350 بڑی عمر کی ہوں.ان کے بچے جوان ہو چکے ہوں.انہیں گھروں میں کوئی خاص کام نہ ہو اور اُن کے مرد بھی انہیں اجازت دے دیں کہ وہ اشاعت اسلام کا کام کریں.ایسی عورتوں کو ہم کہیں گے کہ جاؤ تم دین کی خدمت کرو.شریعت نے تمہیں اُن قیود سے آزاد کر دیا ہے جو اسلام کی وجہ سے ایک نوجوان کی عورت پر عائد ہوتی ہیں.شروع شروع میں ایسی عورتوں کو تربیت دے کر کام کو فوراً شروع کر دینا ہیے.اس کے بعد وہ لڑکیاں جن کو اُن کے والدین اجازت دیں انہیں صنعت و حرفت اور دوسری چیزیں جو عورتوں میں تبلیغ کے لیے ضروری ہیں سکھا کر اور دینی تعلیم دے کر باہر بھجوایا جائے.یہ ایک نئی چیز ہے لیکن مسیح اول کے زمانہ میں اس پر عمل ہوا ہے.ہمارے سامنے بھی وہ مشکلات درپیش ہیں جو مسیح اول کو در پیش آئیں.اس لیے انہیں دور کرنے کے لیے وہی طریقہ استعمال کیا جائے گا جو مسیح اول کے حواریوں نے کیا.وہ بھی عورتوں سے تبلیغ کا کام لینے پر مجبور ہو گئے تھے اور ہم بھی عورتوں سے تبلیغ کا کام لینے کے لیے مجبور نظر آتے ہیں.قرونِ اولیٰ کے مسلمانوں کو وہ مشکلات پیش نہیں آئی تھیں جو ہمیں پیش آ رہی ہیں کیونکہ وہ حضرت موسی علیہ السلام کی قوم کے مثیل تھے لیکن کی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام جہاں مہدی اور احمد تھے وہاں آپ کو عیسی اور مسیح کا نام بھی دیا گیا ہے.مسیح اور عیسی ہونے کی وجہ سے آپ کو بھی وہی مشکلات پیش آئیں گی جو مسیح اول کو پیش آئیں.اور ی ان کے دور کرنے کے لیے وہی طریقہ استعمال کیا جائے گا جو مسیح اول کے حواریوں نے استعمال کیا.کوئی بیوقوف یہ کہہ سکتا ہے کہ مسیح اول کی قوم میں شرک بھی پیدا ہو گیا تھا لیکن اُسے یہ یادرکھنا چاہیے کہ مشابہت کے یہ معنے نہیں کہ ہر وہ بات کی جائے جو مسیح اول کی قوم میں پائی جاتی تھی.پھر ہم یہ مان نہیں ہے سکتے کہ میں اول کے بچے حواریوں میں شرک پیدا ہوا تھا.شرک مرتدین میں پیدا ہوا تھا.اور ہم یہ نہیں کہتے کہ ہم مرتدین کی نقل کریں گے.ہم یہ کہتے ہیں کہ ہم مومنوں کی نقل کریں گے.اور جو کام خلا اور مومنین کرتے تھے اُن میں یہ بھی شامل تھا کہ انہوں نے عورتوں سے تبلیغ کا کام لیا بلکہ فلسطین میں حضرت مسیح علیہ السلام کی موجودگی میں عورتوں سے یہ کام لیا گیا.مخلصین پس اس اعلان کے ذریعہ میں اس نئے پہلو کو بھی جماعت کے سامنے رکھتا ہوں.ایسی عورتیں جوگھر یلوذمہ داریوں سے آزاد ہو گئی ہوں اور وہ سمجھتی ہوں کہ وہ سلسلہ کے لیے مفید ہوسکتی ہیں انہیں میں تحریک کرتا ہوں کہ اگر خدا تعالیٰ انہیں توفیق دے تو وہ اپنی بقیہ عمر احمدیت کی تبلیغ میں لگائیں.

Page 360

* 1949 351 خطبات محمود اور پھر وہ لڑکیاں جن کے والدین اجازت دے دیں اور وہ مجھتی ہوں کہ وہ تبلیغ کر سکتی ہیں وہ آگے آئیں.لیکن وہ یاد رکھیں کہ وہ سلسلہ کے لیے اُسی وقت ہی مفید ہوسکتی ہیں جب اُن کے خاوند واقف زندگی ہوں.اُن کی اگر کسی واقف زندگی سے منگنی ہو گئی ہے تو پھر اُن کے لیے اس تحریک میں شامل ہونا آسان ہے.یا اگر وہ سمجھتی ہیں کہ وہ اپنے جذبات پر قابو پالیں گی اور شادی کے لیے اپنے انتخاب کو واقفین تک ہی محدود کر سکیں گی تو وہ آگے آئیں اور اس تحریک میں شامل ہوں.کل جب میں نے اس تحریک کا ذکر کیا تو ایک لڑکی نے کہا میں بھی اپنی زندگی وقف کرنا چاہتی ہوں.میں نے اُس سے کہا پہلے تم اپنے خاوند کی زندگی وقف کراؤ.میں سمجھتا ہوں کہ اس ذریعہ سے تبلیغ بہت زیادہ کارآمد ہو جائے گی اور اس سے بہت زیادہ مفید نتائج پیدا ہوں گے.اور یہ پردہ جو صرف جسم پر ہی نہیں عقلوں پر بھی پڑا ہوا تھا دور ہو جائے گا اور چند سال تک ہماری تبلیغ بیسیوں گنے زیادہ ہو جائے گی.لیکن اس کے لیے نیا انتظام کرنا ہوگا.میں سمجھتا ہوں کہ مردوں کے لیے جو وقف زندگی کا نظام قائم کیا گیا ہے وہ بھی ناقص ہے.دو سال تک میں اس پر غور کرتا رہا ہوں.خدا نے چاہا تو جب میں ربوہ میں مستقل رہائش اختیار کرلوں تو اُس وقت انتظام میں بھی ایسی تبدیلیاں کی جائیں گی جو سلسلہ کے لیے زیادہ مفید اور زیادہ کارآمد ہو سکیں گی.(الفضل 26 اپریل 1950 ء ) 1 مرتین : پرانا کہنہ.دیرینہ (فیروز اللغات اُردو) کرانک (Chronic): دائم المرض.سدا روگی :3 مسلم كتاب الجمعة باب تخفيف الصلوة و الخطبة

Page 361

* 1949 352 35 خطبات محمود ربوہ میں مزید عارضی مکانات نہ بنائے جائیں موجودہ مکانات سے حتی الوسع فائدہ اُٹھایا جائے (فرموده 21 /اکتوبر 1949ء بمقام ربوہ) تشهد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: آج کا خطبہ میں یہاں کی لوکل جماعت کے متعلق دینا چاہتا ہوں.آج مجھے ناظر صاحب اعلیٰ کا ایک خط ملا ہے جس میں انہوں نے لکھا ہے کہ یہاں مقامی ضرورتوں کے لیے ابھی 100 کے قریب اور مکانات کی ضرورت ہے.جس کے معنے یہ ہیں کہ عارضی مکانات کے لیے ہے قریباً پچاس ہزار روپیہ اور چاہیے تب کہیں مقامی ضروریات پوری ہوں گی.اس وقت تک عارضی عمارات پر ایک لاکھ بلکہ اس سے بھی زیادہ روپیہ خرچ ہو چکا ہے مگر اس کے یہ معنے نہیں کہ صرف یہی ہے رقم عارضی مکانات پر لگی ہے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ ان مکانات پر پونے دولاکھ روپیہ لگ چکا ہے.چونکہ جب ہم حساب کرتے ہیں تو صرف ان اخراجات کو شمار میں لاتے ہیں جن سے بعد میں کوئی فائدہ نہ ای اُٹھایا جا سکے.اس طرح جب ہم ایک لاکھ کہتے ہیں تو اس میں لکڑی کو شامل نہیں کرتے.کیونکہ ہم سمجھتے ہیں کہ وہ لکڑی آئندہ تیار کی جانے والی مستقل عمارتوں پر لگ جائے گی.اس طرح ہم ایک لاکھ میں

Page 362

$ 1949 353 خطبات محمود لو ہے کو بھی شامل نہیں کرتے کیونکہ اس کے متعلق بھی ہم یہ سمجھتے ہیں کہ وہ دوبارہ استعمال میں آجائے گا.غرض اخراجات کا اندازہ کرتے وقت ہم اُن چیزوں کو شمار میں لاتے ہیں جو دوبارہ کام نہیں آسکتیں اور وہ مزدوری اور کچی اینٹیں ہیں.کچی اینٹوں سے کچھ رقم واپس آئے گی جو عمارت کے خرچ کا 1/4 حصہ کے قریب ہوگی، نکے وغیرہ جو لگے ہیں یا جو اخراجات ایسے ہوئے ہیں انہیں اگر ملا لیا جائے تو دولاکھ روپیہ لگ چکا ہے.لیکن جیسا کہ میں نے بتایا ہے اس میں سے اکثر حصہ ضائع چلا جائے گا.در حقیقت جس طرح یہ بات غیر معمولی ہے کہ فسادات کے بعد ایک قوم ایک جگہ پر بس گئی ہو اسی طرح یہ بھی غیر معمولی چیز ہے کہ چند ماہ کی رہائش کے لیے کسی قوم نے اس قدر روپیہ خرچ کیا ہو.ہمارا خیال ہے تھا کہ شروع شروع میں چند مکانات عارضی طور پر بنالیں گے اور پھر پورا زور لگا کر مستقل کام کو شروع کر دیں گے لیکن یہ اندازہ غلط نکلا اور کام لمبا ہو گیا.اب اس جگہ پر میونسپل کمیٹی بن چکی ہے اور 26 را کتوبر کو اس کے لیے قواعد بنائے جائیں گے.قواعد مرتب ہو جانے کے بعد ہی مستقل مکانات بنائے جاسکتے ہیں.اور اس کے لیے یہ قاعدہ ہے کہ جو قواعد پاس کیے جائیں گے اُن کے لیے ایک ماہ کا کی اعلان ضروری ہوگا تا مقامی پبلک کو اگر کوئی اعتراض ہو تو انہیں موقع مل جائے.اس کے بعد کا غذات ہے ڈپٹی کمشنر کے پاس جائیں گے.پھر ڈپٹی کمشنر، کمشنر کے پاس بھیجے گا.پھر کاغذات اس محکمہ کے سیکرٹری کے پاس جائیں گے.وہ منظوری دے کر انہیں پھر کمشنر کے پاس بھیجے گا.وہاں سے ڈپٹی کمشنر کے پاس آئیں گے.اسی طرح وہ گزٹ میں شائع کیے جائیں گے.اس کے بعد میونسپل کمیٹی ان قواعد کے مطابق جو نقشے ہوں گے انہیں منظور کرے گی.اب اگر 26 اکتوبر کو وہ قانون پاس ہو جائیں تو اعتراضات کے لیے 26 نومبر تک کا عرصہ ضروری ہوگا.یہاں تو پبلک ساری اپنی ہے اس لیے اعتراض کرنے کی کوئی صورت ہی نہیں لیکن پھر بھی قانون کا پورا ہونا ضروری ہے اور اس کے بغیر کمیٹی کی کوئی قدم نہیں اُٹھا سکتی.پھر کاغذات ڈپٹی کمشنر اور کمشنر کے پاس جائیں گے.اس طرح اس پر بھی ایک لمبا وقت لگ جائے گا.پس خدا تعالیٰ چاہے تو دسمبر یا جنوری میں مستقل عمارتوں کا کام شروع ہو سکے گا.بہر حال جس چیز کا ہمیں پہلے کوئی علم نہیں تھا کہ کب ہوگی وہ ایک معین صورت میں آگئی ہے.قواعد کے مرتب ہو جانے کے بعد دواڑھائی ماہ کے اندر مستقل تعمیر کے شروع ہو جانے کا امکان ہے.اور اگر اس عرصہ میں مستقل تعمیر شروع ہو گئی تو مستقل عمارتوں میں سے ایک حصہ کا تین چار ماہ میں تیار

Page 363

$1949 354 خطبات محمود ہو جا ناممکن ہے اور اس عرصہ کے لیے عارضی مکانات پر مزید پچاس ہزار روپیہ خرچ کرنے کے معنے یہ ہیں کہ چار ماہ کے لیے بارہ ہزار روپیہ ماہوار کا خرچ برداشت کیا جائے اور ظاہر ہے کہ جماعت کی اس مالی کمزوری کے وقت جبکہ ماہوار تنخواہیں بھی قرض لے کر ادا کی جاتی ہیں چار ماہ کے عرصہ کے لیے اس کی قدر زیادہ اخراجات کا برداشت کرنا خلاف عقل ہے.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اس سے بعض لوگوں کو تکلیف ہوگی لیکن اسے دور کرنے کے لیے اس قدر خرچ بھی برداشت نہیں کر سکتے.آئندہ وقت کے لیے انسان ہمیشہ قیاس ہی کرتا ہے.ہم نے بھی یہ قیاس کر لیا تھا کہ عارضی مکانات تھوڑے بہنیں گے اور مستقل عمارات دیر سے بنیں گی لیکن ہمارا یہ اندازہ غلط نکلا.پھر منظوریاں دیتے وقت ہم نے یہ نہیں سمجھا کہ یہ منظور یاں ہمیں کہاں پہنچا دیں گی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرمایا کرتے تھے کہ جن اور راج دونوں ایک ہی قسم کے ہوتے ہیں.جس طرح بقول جبال دن گھر سے نہیں نکلتا اسی طرح راج بھی گھر سے نہیں نکلتا.پھر یہاں تو ہم نے صرف ایک گھر نہیں بنانا ایک شہر آباد کرنا ہے.یہاں تو راج جنوں کا بھی بادشاہ بن جائے گا.دراصل جب بھی کسی چیز کا اندازہ کیا جاتا ہے اور اس اندازہ کے بعد کام کو شروع کیا جاتا ہے تو مزید مطالبات کی ایک فہرست آجاتی ہے اور جس چیز کے متعلق ایک ہزار کا اندازہ کیا جاتا ہے مزید مطالبات کی وجہ سے جی وہ اندازہ ڈیڑھ دو ہزار تک جا پہنچتا ہے.مثلاً ہم سمجھتے ہیں کہ فلاں کام کے لیے اتنے مکانوں کی ضرورت ہوگی اور ان پر دو ہزار خرچ آئے گا.ہم ان کو مکان سمجھ کر منظوری دے دیتے ہیں لیکن دو ماہ کے بعد ایک اور مطالبہ آجاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ وہ تو صرف کمروں کا اندازہ تھا.آخر رہنے والوں نے پردہ میں رہنا ہے اس لیے پردہ کی ضرورت ہے اور ان پر بھی اتنے سو روپیہ خرچ ہوگا.ہمیں وہ مطالبہ منظور کرنا ہی پڑتا ہے.پھر رپورٹ آ جاتی ہے کہ کمروں اور پردوں کے علاوہ باورچی خانوں اور پاخانوں کی بھی ضرورت ہوگی.پہلے خرچ کی منظوری دینے کے بعد ہم مجبور ہوتے ہیں کہ اس مطالبہ کو بھی منظور کریں ورنہ سب خرچ ضائع ہو جاتا ہے.انجنیئر حکومتوں سے بھی اسی طرح کیا کرتے ہیں.جوگندرگر کی بجلی کی سکیم پانچ کروڑ کے اندازہ سے شروع ہوئی تھی اور اٹھارہ کروڑ پر جا کر ختم ہوئی.چنانچہ جب میں پچھلی دفعہ ربوہ آیا ہوں اور اخراجات کی ساری فہرست پیش ہوئی تو معلوم ہوا کہ پچاس ہزار روپیہ خرچ ہو چکا ہے بلکہ بیت المال کا یہ دعوی ہے کہ انہوں نے ساٹھ ہزار روپیہ انجمن کی عمارتوں کے

Page 364

* 1949 355 خطبات محمود پر خرچ کیا ہے.رہائشی مکانات انجمن کی عمارتوں کے علاوہ ہیں.گویا ڈیڑھ لاکھ روپیہ ان عارضی مکانات پر لگ گیا.پھر یہ مکانات ریلوے کے احاطہ میں بنائے گئے ہیں.اگر یہ مکانات ریلوے کے کی احاطہ میں نہ بنائے جاتے تو ہم کہہ سکتے تھے کہ آٹھ دس سال تک غرباء ان میں گزارہ کر لیں گے.اس کے بعد وہ اور مکان بنالیں گے لیکن یہاں یہ بات بھی نہیں.جس دن اسٹیشن بنایہ مکانات گرانے پڑیں گے.غرض ان مکانات کے لیے جگہ بھی غلط پچنی گئی ہے.اس جگہ عارضی مکانات بنانے میں منتظمین نے یہ فائدہ سوچا تھا کہ جو گڑھے پڑیں گے یہاں پڑیں گے لیکن جب یہ جگہ اسٹیشن کے لیے دی جائے گی تو گڑھے بھرنے پڑیں گے ورنہ گورنمنٹ قانون کے زور سے ہمیں اس پر مجبور کرے گی.پس وہ ای بات جس کو فائدہ مند سمجھا گیا نقصان دہ ثابت ہوئی.اگر یہ مکانات کسی دوسری جگہ بنتے تو دس بارہ سال ان سے فائدہ اُٹھایا جا سکتا تھا لیکن اب سال ڈیڑھ سال میں یہ سب گرانے پڑیں گے.ان حالات میں مزید یکصد عارضی مکانات کے اخراجات کا بوجھ اُٹھانا یقیناً خلاف عقل ہے.اگر پہلے مکان گرائے جاتے اور ان پر جو روپیہ خرچ ہوا ہے وہ واپس مل جاتا تو میں کہتا ایسے مکانات بھی گرا دوا لیکن چونکہ روپیہ واپس نہیں ملے گا اس لیے وہ مکانات اب نہیں گرائے جا سکتے.اس لیے فیصلہ یہ کیا گیا تاجی ہے کہ آئندہ عارضی مکانات بنانے بند کیے جائیں.جب مستقل دفاتر بنے شروع ہو جائیں گے تو دفاتر اُدھر چلے جائیں گے اور یہ عمارتیں رہائش کے لیے استعمال کر لی جائیں گی اور اگر مناسب سمجھا گیا تو لوگ دفاتر کی مستقل عمارتوں میں بس جائیں گے.اسی طرح اور بھی کئی مکانات ہوں گے جو استعمال میں آسکیں گے.مثلاً میری تجویز یہ ہے کہ میں اپنا ذاتی مکان جلد بنوالوں اور جب میرا اپنا مکان بن جائے گا تو موجودہ مکان خالی ہو جائے گا.جب مستقل تعمیر شروع کرنے کی اجازت مل گئی اور اینٹیں کافی تعداد میں مل گئیں تو بہت جلد کچھ مستقل عمارتیں بن جائیں گی جن سے فائدہ اٹھایا جاسکے گا.کہا جاتا ہے کہ اب قریباً پچاس ہزار اینٹ روزانہ تیار ہوتی ہے.مجھے تو اس کے آثار نظر نہیں آتے لیکن اگر پچاس ہزار اینٹیں روزانہ بنتی ہوں تو مکانات بہت جلد تیار کیے جاسکتے ہیں.پس ایک تو میں دوستوں کو اس حقیقت سے واقف کرانا چاہتا ہوں کہ مزید عارضی مکانات کے بنانے کی منظوری دینے کے لیے میں تیار نہیں.موجودہ مکانات سے جتنا فائدہ اُٹھایا جائے اُٹھایا جائے.یا احمد نگر اور چنیوٹ میں کارکنوں کو ٹھہرایا جائے.موجودہ حالات کو مدنظر رکھتے ہو.

Page 365

* 1949 356 خطبات محمود مزید مکانات بنانا عقل کے خلاف ہے بلکہ اب تک جو کچھ ہوا ہے وہ بھی اب دل پر گراں گزر رہا ہے.گو اس کے بغیر چارہ بھی کوئی نہ تھا.پس ان حالات میں نظارتوں اور تحریک جدید کو چاہیے کہ وہ انہی کی مکانات سے فائدہ اُٹھا ئیں.ہاں ایک خرچ ہم کو کرنا ہی پڑے گا اور وہ یہ کہ جلسہ کے لیے ہمیں بیر کیں تیار کرنی پڑیں گی.جلسہ کے لیے یہ خرچ ہمیں بہر حال کرنا ہوگا.ان بیرکوں پر پندرہ ہیں ہزار روپیہ خرچ آجائے گا.ان بیرکوں میں دروازے نہیں لگائے جائیں گے.گھاس کی چھت اور دروازوں پر چٹائیوں کے پردے ہوں گے.ایک اینٹ کی دیوار چھ اور سات فٹ اونچی ہوگی.جب یہ بیر کیس تیار ہوں جلسہ تک عملہ ان میں رہ سکتا ہے اور جلسہ کے بعد پھر ان میں جاسکتا ہے.یہ ایسا خرچ ہے کہ اس کے بغیر چارہ نہیں اور اس خرچ سے عملہ بھی فائدہ اُٹھا سکتا ہے.کہا جاسکتا ہے کہ پہلے مکان کیوں بنے ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ حالات کے لحاظ سے فیصلے بدلتے جاتے ہیں.شروع میں ہم کو یہ خیال تھا کہ نہ معلوم کب تک جماعت بکھری رہے.اس لیے عارضی مکانات شروع کر دیئے تا کہ جلد جلا وطنی کا زمانہ ختم ہو.پھر اُس وقت اس مالی ابتلاء کا علم نہ تھا جو اب سامنے آ رہا ہے.لیکن اب چونکہ مستقل عمارتیں بنے کا زمانہ قریب آرہا ہے اور مالی تنگی بڑھ گئی ہے اس لیے اب فیصلہ کے خلاف یہ فیصلہ کرنا پڑا ہے کہ آئندہ عمارات بند کی جائیں.ذاتی امور میں بھی اسی طرح فیصلے بدلتے رہتے ہیں.ایک وقت میں انسان کے پاس روپیہ ہوتا ہے، ایک دو بچے ہوتے ہیں وہ انہیں تعلیم دلوا لیتا ہے لیکن دوسرے وقت میں روپیہ پاس نہیں ہوتا اور وہ باقی بچوں کو تعلیم نہیں دلوا سکتا.ابھی حال کا ذکر ہے میرے اپنے ایک لڑکے نے کہا میں انگریزی پڑھوں گا.انگریزی پڑھنے کے بعد بھی تو دینی خدمت ہو سکتی ہے.میں نے کہا میرے خیال میں عربی پڑھ کر ہی دینی خدمت ہوسکتی ہے.اس نے کہا پھر فلاں فلاں بھائی کو انگریزی تعلیم آپ نے کیوں دلوائی ہے؟ میں نے کہا اُس وقت ہمارے پاس قادیان کی جائداد تھی اور میں خیال کرتا تھا کہ اگر یہ انگریزی تعلیم حاصل کر لیں گے تو کوئی حرج نہیں بعد میں انہیں دینی تعلیم دلوائی جاسکتی ہے.لمبے وقت تک تعلیم دلوانے میں جو بوجھ پڑتا ہے وہ محسوس نہیں ہوتا تھا لیکن اب حالات اور ہیں.اب میں یہ بوجھ نہیں برداشت کر سکتا.اس لیے مجھے اپنا پہلا طریقہ بدلنا پڑا ہے.خرچ کے گھٹانے کے بارہ میں ایک مضمون ہے.اب میں دوسری بات شروع کرتا ہوں جو کسی قدر خرچ بڑھانے کے متعلق

Page 366

* 1949 357 خطبات محمود لیکن اس کے بغیر ہمارے لیے کوئی چارہ نہیں.اور وہ یہ ہے کہ یہاں بہت سے لڑکے ایسے ہیں جن کی کی عمر تیرہ تیرہ چودہ چودہ سال کی ہے.ان کی تعلیم تھوڑی ہے.قادیان سے آنے کے بعد پڑھائی کا انتظام نہ ہو سکا اس لیے گزشتہ دو سال ان کے آوارگی میں گزر گئے.اگر وہ قادیان ہوتے تو شاید وہ تعلیم میں آگے نکل جاتے لیکن قادیان سے آنے کے بعد وہ تعلیم کو جاری نہ رکھ سکے.جولڑ کا قادیان میں دوسری جماعت میں پڑھتا تھا اس کی تعلیم اب بھی دوسری تک ہے لیکن اس کی عمر چوتھی جماعت والی ہے.جولڑ کا تیسری جماعت میں پڑھتا تھا اس کی تعلیم اب بھی تیسری جماعت تک ہے لیکن اس کی عمر پانچویں جماعت والی ہے.اسی طرح جولڑ کا چوتھی جماعت میں تعلیم حاصل کرتا تھا اس کی تعلیم چوتھی ہے جماعت تک ہی ہے.لیکن اس کی عمر چھٹی جماعت والی ہے.چھوٹے بچوں کی تعلیم کے لیے تو یہ انتظام کر دیا گیا تھا کہ وہ زنانہ سکول میں داخل ہو جائیں لیکن جو بڑے تھے وہ اس موقع سے بھی فائدہ نہ اٹھا سکے اور مزید تعلیم حاصل کرنے سے محروم رہے.انہیں استانیوں نے لڑکیوں میں بیٹھنے کی اجازت نہ دی.آگے کچھ فطرت کی ستم ظریفی دیکھو! فطرتی قانون کے ماتحت بعض لڑکوں کا قد بڑا ہو جاتا ہے اور بعض کا چھوٹا.اس لیے بعض لڑکے جو زنانہ سکول میں داخل کر لیے گئے ہیں قد چھوٹا ہونے کی وجہ سے اُن کی عمر 8 ، 9 سال کی سمجھ لی گئی حالانکہ ان کی عمر 12 ،13 سال کی تھی.اور جو داخل نہیں کیے گئے ہی قد لمبا ہونے کی وجہ سے ان کی عمر 12 ،13 سال کی سمجھ لی گئی حالانکہ وہ آٹھ نو سال کے تھے.گویا ایک لڑکا جس کا قد بڑا ہے عمر چھوٹی ہے اسے تو سکول میں داخل نہیں کیا گیا اور جس کا قد چھوٹا ہے لیکن عمر بڑی ہے اسے چھوٹی عمر کا سمجھ کر داخل کر لیا گیا ہے.میر محمد اسحاق صاحب کے گھر میں ایک کشمیری لڑکا نوکر ہوا کرتا تھا.اُس کا قد چھوٹا تھا، اس کی شکل سے بھی ایسا معلوم ہوتا تھا کہ وہ ابھی بارہ تیرہ سال کی عمر کا ہے لیکن وہ ہونا تھا اور ساتھ ہی بغیر داڑھی مونچھ کے.یہ ایک طبعی نقص بھی تھا.وہ چونکہ میر صاحب کے گھر میں دیر سے رہتا تھا گھر کا پالتو جی بچہ سمجھ کر اس سے دیر تک پردہ نہ کیا گیا.میں نے جب اسے دیکھا تو سمجھا کہ اس کی عمر زیادہ ہے لیکن میں بھی یہی سمجھتا تھا کہ وہ پندرہ سولہ سال کا ہو گا اس لیے میں نے اپنی دونوں بیویوں سے (اُس وقت دو ہی بیویاں تھیں ) کہا کہ وہ اس سے پردہ کیا کریں.انہوں نے کہا کہ یہ لڑکا میر صاحب کے گھر میں رہنے کی وجہ سے گھر میں آتا ہے اور میر صاحب کے گھر کے لوگوں اور حضرت اماں جان کے پاس

Page 367

* 1949 358 خطبات محمود ہے.ہم ہر وقت کہاں اُٹھ کر جائیں.میں نے کہا مجھے یہ بونا معلوم دیتا ہے، اس کی عمر ضرور پندرہ سولہ سال کی ہوگی اس لیے اس سے پردہ کرنا چاہیے.اس کے بعد ہم کشمیر گئے تو وہاں اس لڑکے کے ہم وطن لوگ جو اُس کی عمر سے واقف تھے کہنے لگے کہ یہ ڑ کا تو پھپیں چھبیس سال کا ہے یہ گھر میں کیوں جاتا ہے؟ میں بھی اس کی بڑی عمر کے متعلق تو شک میں تھا مگر اتنی عمر میرے بھی وہم و گمان میں نہ تھی.مگر ای بہر حال میں نے گھر کے لوگوں سے ذکر کیا جس پر اکثر نے شک کیا.مگر ایک دن کشمیری دوست اس کے چھوٹے بھائی کو لے آئے جو قد و قامت میں بھی اچھا تھا اور شادی شدہ تھا اور اس کے دو بچے تھے.جب وہ بھائی آیا تو سب کو ماننا پڑا کہ یہ صاحبزادے جو بارہ تیرہ سال کے بن کر گھر میں آیا جایا کرتے تھے وہ دراصل بونے تھے اور بے ریش و بُروت 1 تھے.ورنہ عمر بڑی تھی.غالبا وہ اگر اب زندہ ہے تو اُس کی عمر گو پچاس سے زائد ہو گی مگر اب بھی وہ لڑکا ہی معلوم ہوتا ہوگا کیونکہ نہ اس کے داڑھی نکلی ہوگی اور نہ وہ بڑھا ہو گا.غرض بعض لڑکے زنانہ سکول میں داخل کر لیے گئے اور بعض کو داخل نہیں کیا گیا.جنہیں داخل نہیں کیا گیا ان کی طرف سے یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ ان سے بڑی عمر والوں کو داخل کر لیا گیا ہے انہیں داخل نہیں کیا گیا لیکن ہم کیا کر سکتے ہیں.جن کو استانیوں نے چھوٹی عمر کا سمجھا انہیں داخل کر لیا اور جنہیں بڑی عمر کا سمجھا انہیں داخل نہ کیا.اس کا کوئی علاج ہمارے پاس نہیں.مگر اس فعل کا نتیجہ یہ ضرور نکلتا ہے کہ بہت سے لڑ کے آوارہ پھر رہے ہیں.لیکن جب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ ربوہ میں یہ قانون بنایا ای گیا ہے کہ یہاں کسی آوارہ گردکو نہیں رہنے دیا جائے گا.تو اس بات کا یہ نتیجہ نکلے گا کہ ربوہ کی تمام موجودہ آبادی کو نکالنا پڑے گا.اس لیے نظارت تعلیم و تربیت کو چاہیے کہ وہ یہاں فور لوئر پرائمری تک کا ایک سکول کھول دے.اگر وہ کہیں کہ یہ سکول کس عمارت میں کھولا جائے ؟ تو یہی مسجد سکول ہے.ہم نے تیرہ سو سال تک مسجدوں میں ہی پڑھا ہے.اسی جگہ مدرسہ بنا لو.لڑکے امتحان چنیوٹ کی میں دے آیا کریں گے.اس سکول کے لیے دو مدرس خواہ وہ بڑھے ہی کیوں نہ ہوں رکھ لیے جائیں.پرانے وقتوں میں سکول میں استانی یا استاد ایک ہی ہوا کرتا تھا اور باقی اس کے خلیفے ہوا کرتے تھے.کلاس میں جولڑ کی یا لڑکا زیادہ ہوشیار ہوتا وہ استانی یا استاد اسے پڑھاتے.پھر وہ آگے دوسرے ساتھیوں کو پڑھاتا.میں جب حضرت اماں جان کے ساتھ بچپن میں دہلی گیا تو مجھے ایک سکول میں

Page 368

$ 1949 359 خطبات محمود داخل کیا گیا تھا.وہ ایک استانی کا اسکول تھا.استانی ایک تھی لڑکیاں لڑکے زیادہ تھے اور کلاسیں بھی ایک سے زیادہ تھیں.وہ بھی ایسا ہی کیا کرتی تھی.ایک دو ہوشیار طالبعلموں کو پڑھا دیتیں اور پھر انہیں ہے کلاس میں اپنا خلیفہ مقرر کر دیتیں.دوسروں کو سبق دینے سے بھی علم بڑھتا ہے.اگر یہاں لڑکوں کا اسکول کھل جائے گا تو وہ آوارگی سے بچ جائیں گے.انہیں کچھ وقت یہاں بیٹھنا پڑے گا.پھر سبق بھی یاد کرنا پڑے گا.اس طرح وہ بریکار نہیں رہیں گے.پس چار جماعتوں تک ایک اسکول فوراً بنالیا جائے اور اگر استادمل جائیں تو پانچویں جماعت کے لڑکے بھی یہیں پڑھیں ورنہ بڑی عمر کے بچے چنیوٹ بھی جاسکتے ہیں.اگر مستقل تعمیر کی جلد ا جازت مل جائے تو ہماری کوشش یہی ہوگی کہ ہائی سکول کو جلد یہاں نی منتقل کر دیا جائے مگر لڑکوں کی جان زیادہ قیمتی ہے.سکول منتقل ہونے میں بہر حال کچھ دیر لگے گی.اس کے لیے پانچ چھ ماہ بھی ضائع نہیں کیے جاسکتے.پس خواہ استاد بڑھے ہی میں فوراً ایک دو استاد مقرر کر کے سکول شروع کر دیا جائے.وہ کم از کم لڑکوں کو یہاں بٹھائے تو رکھیں گے.دفتر کے کلرک یا دوسرے کارکن بھی کچھ وقت نکال کر لڑکوں کو سبق دے جایا کریں.استادوں سے غرض یہ ہوگی کہ لڑکے یہاں بیٹھے رہیں.بیشک ان میں قابلیت نہ ہو کوئی حرج نہیں.یہ دونوں تجویزیں مقامی جماعت کے لیے ہیں جو میں نے اس وقت آپ لوگوں کے سامنے رکھی ہیں.ان میں سے ایک پر فوری عمل ہونا چاہیے اور دوسری کے متعلق اپنے بھائیوں کو سمجھانا چاہیے کہ ابھی کچھ دن اور نصیحت اور تعاون کی ضرورت ہے.(الفضل 27 اكتوبر 1949ء) 1 : بے ریش و بُروت: بغیر داڑھی مونچھ ( اردو لغت تاریخی اصول پر.جلد 10 صفحہ 986 مطبوعہ کراچی 1990ء)

Page 369

* 1949 360 (36) خطبات محمود اگر تم نے ترقی کرنی ہے تو عمل کی متواتر نگرانی اور اصلاح تمہارا فرض ہے (فرمودہ 28 اکتوبر 1949ء بمقام ربوہ) تشهد ، تعو ذاور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: آج رات مجھے بے چینی سی رہی جس کی وجہ سے رات کا اکثر حصہ بیداری میں گزرا.پھر صبح کے سفر کی وجہ سے اور بھی کوفت ہوئی اور سر درد شروع ہوگئی.اس لیے آج میں مختصر طور پر یہاں کے دوستوں کو اور پھر ان کے ذریعہ دوسرے لوگوں کو جو اس جمعہ میں شریک نہیں ہو سکے اور پھر اخبار کے ذریعہ تمام جماعتوں کو ایک بات کی طرف خاص طور پر توجہ دلانا چاہتا ہوں.رات کو جو ڈاک مجھے ملی اُس میں سے کچھ خطوط کا انتخاب کر کے میں ساتھ لے آیا تھا.راستہ میں میں نے وہ خطوط پڑھے.ان میں سے ایک خط کراچی کے ایک دوست کی طرف سے تھا.خط میں کی اس دوست نے شکایت کی ہے کہ اس کے والد فوت ہوئے تو کراچی کے احباب میں سے جو کہ سات آٹھ سو کے قریب ہیں صرف چھ آدمی جنازہ میں شامل ہوئے.جماعت میں یہ مرض عام ہوتی چلی جاتی ہے کہ لوگ یہ تو چاہتے ہیں کہ دوسرے لوگ اُن کے ساتھ ہمدردی کا سلوک کریں لیکن وہ خود یہ قربانی کی

Page 370

$1949 361 خطبات محمود کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتے کہ دوسروں سے ہمدردی کا سلوک کریں.قادیان میں بھی یہ مرض پیدا ہو گئی تھی.لیکن کئی تدبیروں سے اس کا ایک حد تک ازالہ کیا گیا تھا خصوصا وہ جنازے جو باہر سے آتے تھے ان میں بہت کم لوگ شامل ہوتے تھے.آخر جب تک میری صحت نے برداشت کیا میں نے خود جنازہ کے ساتھ جانا شروع کیا اور ہر محلہ کے ذمہ یہ بات ڈال دی گئی کہ ہفتہ میں فلاں فلاں دن فلاں فلاں محلہ جنازہ کی خدمات ادا کرے گا.اس کی وجہ سے وہ نقص بہت کم ہو گیا تھا.لیکن اب بیرونی جماعتوں میں اس مرض کی شکایت آنی شروع ہوئی ہے اور اس کی طبعی وجہ بھی موجود ہے.عام طور پر لوگوں میں قومی ازدواج کا رواج ہے اور قومیں اور خاندان بالعموم اکٹھے رہتے ہیں اس لیے وہ بڑی سہولت کے ساتھ ایک دوسرے کی خوشی اور غمی میں شریک ہو سکتے ہیں.لیکن ہماری جماعت نہ تو قومی جماعت ہے اور نہ شہری اور نہ ہی کسی محدود علاقہ کی جماعت ہے.بلکہ اللہ تعالیٰ اپنی کسی خاص مشیت کے ماتحت جس کا راز وہی جانتا ہے اس کا بیج متفرق جگہوں پر پھیلا رہا ہے.بڑے بڑے شہروں میں ہے سوائے چند شہروں کے جماعت اکٹھی نہیں رہتی.یہی حال دوسرے علاقوں میں ہے.اس وجہ سے سوائے اتوار یا جمعہ کے جماعت کے افراد کا کسی خاص موقع پر اکٹھے ہو جانا بہت مشکل ہوتا ہے اور آہستہ آہستہ عادت پڑ جانے کی وجہ سے ان کی توجہ ان امور کی طرف نہیں رہتی.یہی حال نمازوں کا ہے.خدا تعالیٰ کا حکم ہے کہ ہر مسلمان اگر وہ تندرست ہے تو پانچ وقت نماز ادا کرنے کے لیے مسجد میں آئے لیکن اول تو کئی جگہوں پر ہماری مسجد ہی نہیں صرف دودو، چار چار احمدی افراد ہیں جنہیں علیحدہ مسجد بنانے کی توفیق نہیں ملی.یا اگر علیحدہ مسجد بنانے کی توفیق ہے تو انہیں زمین نہیں ملتی.میں سمجھتا ہوں کہ دیہاتی جماعتوں کو چھوڑ کر شہری جماعتوں میں اب بھی پچاس فیصدی ہے کے قریب ایسی جگہیں ہیں جہاں مسجدیں نہیں.پھر شہروں میں بھی جماعت ایک جگہ پر اکٹھی نہیں ہوتی.مثلاً کراچی ہی جہاں سے یہ رپورٹ آئی ہے دس میل لمبا شہر ہے اور دس میل لمبے شہر میں کوئی ای احمدیہ مسجد نہیں تھی.اب جماعت نے ایک مسجد کی تعمیر شروع کی تھی لیکن بعض کارکنوں کی غفلت کی وجہ سے وہ بننے سے پہلے نرخ گئی اور اس کی تعمیر رک گئی اور ابھی تک مجھے کوئی اطلاع نہیں ملی کہ ان نقائص کو دور کیا جا چکا ہے یا نہیں.اگر وہ مسجد بن جائے تو اس میں جمعہ کے دن تو لوگ دور دور سے آسکتے ہیں سیکن پانچ وقت کی روزانہ نمازیں پانچ پانچ میں سے آکر مسجد میں نہیں پڑھی جاسکتیں.بلکہ ایک دو میل

Page 371

$ 1949 362 خطبات محمود سے بھی روزانہ پانچ وقت نماز کے لیے لوگ مسجد میں نہیں آسکتے.اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ بوجہ اس مجبوری کے لوگ گھروں پر نماز پڑھ لیتے ہیں اور جب لمبی عادت پڑ جاتی ہے تو خواہ مسجد گھر کے قریب بھی بن جائے وہ مسجد میں نہیں جاتے.انسان غفلت کا اتنا عادی ہو جاتا ہے کہ وہ اسے دبا نہیں سکتا.اس کے علاوہ اور بھی کئی ایسی باتیں ہیں جو جماعت کے متفرق جگہوں پر پھیلے ہوئے ہونے کی وجہ سے جماعتی طور پر اس میں غفلت پیدا کر رہی ہیں.اس طرح میں سمجھتا ہوں کہ بوجہ دُوری جب جنازہ میں جانے کی عادت نہیں رہتی تو انسان بعض دفعہ یہ خیال کر لیتا ہے کہ فلاں شخص چلا گیا ہو گا، فلاں چلا گیا ہو گا اس لیے میں نہیں گیا تو کیا حرج ہے.مجھے یاد ہے حضرت خلیفہ المسیح الاول جب بیمار تھے اور لوگ آپ کے پاس بیٹھے ہوئے ہوتے تو بعض دفعہ جب آپ کی طبیعت زیادہ خراب ہو جاتی آپ فرماتے احباب چلے جائیں.چونکہ آپ نام لے کر نہیں کہتے تھے اس لیے زیادہ شرم والے لوگ تو چلے جاتے تھے باقی لوگ وہیں بیٹھے رہتے اور وہ سمجھتے تھے کہ وہ ان لوگوں میں شامل نہیں ہیں جن کو جانے کے لیے کہا گیا ہے بلکہ وہ خاص احباب میں سے ہیں.پھر جب آپ کی طبیعت زیادہ خراب ہو جاتی تو آپ فرماتے چلے جائیں.پھر کچھ لوگ چلے جاتے لیکن بعض لوگ پھر بھی وہیں بیٹھے رہتے.ایسے لوگوں کے لیے حضرت خلیفتہ امسیح الاول نے ایک محاورہ بنایا ہوا تھا.آپ فرماتے اب نمبر دار بھی چلے جائیں.یعنی وہ لوگ جو اپنے آپ کو ان لوگوں میں نہیں سمجھتے جن کو جانے کے لیے کہا گیا ہے بلکہ وہ اپنے آپ کو خاص لوگوں میں سے قرار دیتے ہیں وہ بھی چلے جائیں.غرض جو حکم عام ہوتا ہے بسا اوقات لوگوں میں اس کی اطاعت کا احساس نہیں ہوتا اور وہ سمجھ لیتے ہیں کہ دوسرے کسی شخص نے وہ کام کر دیا ہو گا.اس لیے قادیان میں جنازہ کے لیے مجھے یہ انتظام کرنا پڑا کہ فلاں دن جو جنازہ آئے اُس کی خدمات ادا کرنے کا انتظام فلاں محلہ کرے، فلاں دن جو آئے اس کا انتظام فلاں محلہ کرے.اس طرح لوگوں پر زیادہ بوجھ نہیں پڑتا تھا اور پھر ہم گرفت بھی کر سکتے تھے.ہم کہہ سکتے تھے کہ آج تمہاری ڈیوٹی تھی تم نے اسے کیوں ادا نہیں کیا ؟ پس جن جن شہروں میں جماعت کے دوست دور دور رہتے ہیں ان میں اگر ایسا انتظام کر لیا جائے تو ایک حد تک وہاں کی جماعت میں بیداری پیدا ہو سکتی ہے.مثلاً لا ہور ہے لاہور کے دوستوں سے یہ امید کرنا کہ وہ کسی جنازہ پر

Page 372

* 1949 363 خطبات محمود سب کے سب پہنچ جائیں درست نہیں.ہاں! اگر یہ انتظام کر دیا جائے کہ ہفتہ میں فلاں دن اگر کوئی جنازہ باہر کا ہو تو فلاں حلقہ کے دوست اس کا انتظام کریں، فلاں دن کوئی جنازہ ہو تو فلاں حلقہ کے دوست اس کا انتظام کریں تو ایک حد تک سہولت پیدا ہوسکتی ہے.لاہور میں بھائی دروازہ کے علاقہ میں جماعت کافی مقدار میں پائی جاتی ہے باقی حصوں میں تین تین، چار چار حلقے آپس میں مل کر جنازہ کی خدمات ادا کرنے کا انتظام کر سکتے ہیں.اگر ایسا انتظام کر دیا جائے تو وہ لوگ جو یہ خیال کرتے ہیں کہ ان کے کسی رشتہ دار کے فوت ہو جانے پر جنازہ میں سارے شہر کی جماعت کو شامل ہونا چاہیے ان کے خیالات بھی درست ہو جائیں گے اور اس ذریعہ سے جنازہ کا انتظام بھی ہو جائے گا اور کسی کو شکایت کی کرنے کا موقع بھی نہیں ملے گا.بہر حال میں دوستوں کو نصیحت کروں گا کہ صرف انہی کے حقوق دوسروں پر نہیں بلکہ دوسروں کے حقوق بھی ان پر ہیں.جب تک وہ اس قاعدہ کو یاد نہ رکھیں گے وہ اپنے ساتھیوں کی ہمدردی کو حاصل نہیں کر سکیں گے.جیسے قرآن کریم میں خدا تعالیٰ مرد اور عورت کے حقوق کو بیان کرتا ہے.جب خدا تعالیٰ نے مرد کے عورت پر حقوق کو اس قدر بیان کیا کہ اس سے انسان سمجھنے لگا کہ گویا مرد پر عورت کو کوئی حق ہی مانی نہیں تو اس نے ساتھ ہی کہہ دیا کہ عورت کے بھی مرد پر ویسے ہی حقوق ہیں جیسے کہ مرد کے عورت پر -1 اور تو اور ہم تو خدا تعالی کو بھی دیکھتے ہیں کہ وہ اگر کہتا ہے تم نمازیں پڑھ تو خود بھی بندے کے لیے روزی کے سامان مہیا کرتا ہے.وہ اگر کہتا ہے کہ مجھے یاد کرو تو ساتھ ہی کہتا ہے میں تمہیں یاد کروں گا-2 حالانکہ وہ خالق ہے مالک ہے.اگر وہ کہہ دیتا کہ تم مجھے سارا دن یاد کیا کرو لیکن میں تمہیں کسی وقت بھی یاد نہیں کروں گا تو اس کا حق تھا.لیکن اُس نے کہا تم اگر مجھے یاد کرو گے تو میں تمہیں یاد کروں گا.اسی ہے طرح ہر وہ فعل جسے انسان فرض سمجھ کر کرتا ہے خدا تعالیٰ اس کے مقابلہ میں انسان کے لیے کچھ نہ کچھ کرتا ہے ہے.دراصل یہ نقص اس لیے پیدا ہو جاتا ہے کہ لوگ اپنے آپ کو چودھری سمجھنے لگ جاتے ہیں اور وہ یہ خیال کر لیتے ہیں کہ دوسروں پر تو اُن کے حقوق ہیں لیکن ان پر کسی کا حق نہیں.باقی اس خط میں لکھنے والے نے بعض غلطیاں بھی کی ہیں.مثلاً اس نے لکھا ہے کہ غیر احمد یوں نے مجھے طعنہ دیا کہ دیکھو! احمدی جنازہ کی خدمات ادا کرنے کے لیے نہیں آئے.اس خط میں اس نے یہ بھی لکھا ہے کہ احمدی دوست ایک ایک میل پر رہتے ہیں.اسے یہ دیکھنا چاہیے تھا کہ کیا وہ

Page 373

* 1949 364 خطبات محمود غیر احمدی بھی میل میل کے فاصلہ سے آئے تھے.ساتھ والے گھر سے نکل کر یا پاس کی گلی سے آ کر دوسروں کو طعنہ دے دینا کوئی مشکل امر نہیں ہوتا.اگر وہ غیر احمدی میل میل کے فاصلہ سے وہاں آتے تو ان کا حق تھا کہ وہ کہتے ہم آگئے ہیں لیکن احمدی نہیں آئے.لیکن اگر وہ اسی گلی کے رہنے والے تھے تو لکھنے والے کو سمجھ لینا چاہیے تھا کہ انہوں نے منافقت کی ہے.انہوں نے تمہاری جماعت پر حملہ کیا ہے.تم نے اگر اس پر دل میں گرہ باندھ لی ہے تو یہ تمہاری غلطی ہے.بھلا قریب کے مکان میں رہنے ہے والوں کا حق ہی کیا ہے کہ وہ احمدی افراد کو جنازہ کی خدمات ادا نہ کرنے کا طعنہ دیں.اگر وہ سارے غیر احمدی دو دو، چار چار میل کے فاصلہ سے آتے اور طعنے دیتے تو میں سمجھ لیتا کہ عقلی طور پر اس میں کچھ صداقت ہے.دراصل یہ بھی ایک شیطانی طریق ہوتا ہے.جب کسی شخص کو کوئی صدمہ پہنچتا ہے یا کسی کو ترقی ملتی ہے تو شیطان اس موقع کو خاص طور پر فتنہ کے لیے چن لیتا ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ میں ایک جنگ کے موقع پر کچھ ایسے صحابی پیچھے رہ گئے جنہیں پیچھے نہیں رہنا چاہیے تھا.وہ استطاعت رکھتے تھے لیکن باوجود استطاعت کے وہ پیچھے رہ گئے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب واپس تشریف لائے تو منافقوں کے لیے خدا تعالیٰ کا یہ حکم تھا کہ انہیں نگا کرو.چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جنگ سے واپس آتے ہی یہ اعلان کیا کہ جولوگ جنگ میں شامل نہیں ہوئے وہ آئیں اور وجہ بتا ئیں کہ وہ کیوں جہاد پر نہیں گئے.چنانچہ ی منافق آئے اور انہوں نے عذر پیش کرنے شروع کیے.ان لوگوں کے لیے مشکل ہی کیا تھی.انہوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آکر جھوٹ بول دیا اور کہ دیا یہ بات تھی وہ بات تھی جس کی کی وجہ سے ہم جنگ میں شریک نہیں ہو سکے.آپ دعا کریں کہ خدا تعالیٰ ہمارا یہ قصور معاف کر دے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سمجھتے تھے کہ یہ لوگ منافق ہیں لیکن پھر بھی آپ ہاتھ اُٹھا کر دعا مانگتے ہی کہ اے اللہ! تو ان کی اصلاح کر.اور وہ چلے جاتے.جب ایک مومن جنہوں نے غفلت سے کام لیا تھا ڈیوڑھی پر پہنچے تو انہوں نے دریافت کیا کہ کیا لوگ آنے شروع ہو گئے ہیں؟ انہیں بتایا گیا کہ لوگ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس جاتے ہیں اور کہتے ہیں فلاں فلاں عذر تھا جس کی وجہ سے ہم جنگ میں شامل نہیں ہوئے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دعا کر دیتے ہیں اور بات ختم ہو جاتی ہے.وہ صحابی فرماتے ہیں میرے نفس نے کہا یہ تو آسان نسخہ ہے.میں بھی عذر پیش کر دیتا ہوں اور دعا

Page 374

* 1949 365 خطبات محمود کے لیے عرض کر دیتا ہوں.لیکن پھر خیال آیا کہ پہلے یہ پوچھ لوں کہ یہ کون کون لوگ تھے.اس پر میں نے دریافت کیا تو مجھے ان کے نام بتائے گئے.یہ سب لوگ منافق تھے.صرف ایک مومن کا ذکر کیا گیا مگران کے بارہ میں بتایا گیا کہ وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس گئے اور عرض کیا.یا رسول الله ! میں گنہگار ہوں اور سزا کا مستحق ہوں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اچھا تم چلے جاؤ تمہارے متعلق بعد میں فیصلہ کیا جائے گا.وہ صحابی فرماتے ہیں جب میں نے یہ سنا تو اپنے ملامت کی کہ تو تو منافقوں والا کام کرنے لگا تھا.وہ فرماتے ہیں اس کے بعد میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس گیا اور عرض کیا یا رسول اللہ ! میں فی الواقع گنہگار ہوں اس لیے سزا کا مستحق ہوں.آپ نے فرمایا اچھا چلے جاؤ.تمہارے متعلق بعد میں فیصلہ ہوگا.یہ تین آدمی تھے جنہوں نے اپنے جرم کا اقرار کیا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بالآخر خدا تعالیٰ کے حکم کے ما تحت ان تینوں کو مقاطعہ کی سزادی اور غیر معین مقاطعہ کی سزادی.یہ سزا ایسے شہر میں دی گئی جس میں قریباً سارے کے سارے مسلمان تھے.وہ مقاطعہ آجکل کے مقاطعہ کی طرح نہیں تھا.آجکل اگر دس کی احمدیوں کے ساتھ مقاطعہ ہوتا ہے تو دس ہزار غیر احمدیوں کے ساتھ اس کا مقاطعہ نہیں ہوتا اور وہ ان کی سے باتیں کرتا رہتا ہے.لیکن وہاں سارا مدینہ مسلمان تھا.کچھ دنوں کے بعد آپ نے فرمایا ان لوگوں کی کے بیوی بچے بھی ان سے کلام نہ کریں.چنانچہ ان کے بیوی بچوں نے بھی ان سے بول چال بند کر لی.پھر فرمایا ان کے بیوی بچے ان سے کوئی تعلق نہ رکھیں.وہ صحابی کہتے ہیں اُس وقت مجھے معلوم ہوا کہ ہم میں سے ایک بوڑھے صحابی کی بیوی نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عرض کیا یا رسول الله ! میرا خاوند بوڑھا ہے اور جب سے آپ نے اسے سزا دی ہے وہ تو روتا رہتا ہے.اس کا یہاں کوئی رشتہ دار بھی نہیں.آپ کے حکم کی اطاعت میں میں دوسری جگہ چلی تو جاؤں گی مگر اسے کھانا وغیرہ دینے والا کوئی نہیں ، وہ بھوکا مر جائے گا.آپ نے فرمایا اچھا تم اسے کھانا دے دیا کرو.مگر اس کے علاوہ کوئی ہے تعلق نہ رکھو.وہ صحابی کہتے ہیں جب میں نے یہ بات سنی تو خیال کیا میں بھی ایسا کروں مگر پھر خیال آیا کہ وہ تو بوڑھا ہے.میں تو بوڑھا نہیں ہوں.یہ بھی نفس کا دھوکا ہے.چنانچہ میں نے اپنی بیوی کو اُس کے میکے بھجوا دیا.اس کے بعد دن کے بعد دن گزرتے گئے اور سزا کی تلخی بڑھتی گئی.وہ صحابی کہتے ہیں میرے ایک گہرے دوست تھے جو میرے ہم نوالہ و ہم پیالہ ہونے کے علاوہ میرے رشتہ دار بھی تھے.اُن سے میری بھائیوں سے بھی زیادہ محبت تھی.وہ میرے راز دار تھے اور جانتے تھے کہ مجھ میں

Page 375

* 1949 366 خطبات محمود اسلام کی بے انتہا محبت ہے.جب میری تکلیف بڑھ گئی تو گھبراہٹ اور بے چینی کی حالت میں میں اُس دوست کے باغ میں گیا.وہ باغ میں کام کر رہے تھے.میں نے انہیں مخاطب کرتے ہوئے کہا بھائی ! دوسرے لوگوں کو تو شاید پتا نہیں ہو گا تم تو میرے حالات سے اچھی طرح واقف ہو.تم جانتے ہو کہ میں مومن ہوں.اُس دوست نے میری بات کا کوئی جواب نہ دیا اور کام میں لگا رہا.میں نے پھر کہا دیکھو! ہم میں آپس میں کتنی محبت تھی.دوسروں کو تو شاید کوئی شبہ ہو تو تو میرا راز دار ہے.میں تجھ سے پوچھتا ہوں کہ کیا میں منافق ہوں؟ اُس نے پھر بھی کوئی جواب نہ دیا اور اپنے کام میں مشغول رہا.پھر ی میں نے تیسری دفعہ کہا یہ کتنے ظلم کی بات ہے کہ تم میرے اچھی طرح واقف ہوتے ہوئے بھی گواہی ہے نہیں دیتے.تم میرے راز دار ہو اور جانتے ہو کہ میں منافق نہیں ہوں.وہ صحابی بیان کرتے ہیں جب میں نے تیسری دفعہ اُسے مخاطب کیا تو اُس نے میری طرف نہیں آسمان کی طرف منہ کر کے کہا خدا اور اُس کا رسول بہتر جانتے ہیں.جس کا مطلب یہ تھا کہ میرے کان اور آنکھ جھوٹے ہیں.میں تمہیں اگر مومن سمجھتا ہوں تو یہ میری غلطی ہوگی.وہ صحابی کہتے ہیں اس بات کا مجھ پر گہرا اثر ہوا اور میری حالت کی پاگلوں کی سی ہو گئی.میں وہاں سے پیچھے ہٹا اور جنون کی حالت میں دروازہ کی طرف بھی نہ گیا بلکہ دیوار پر سے گودا اور مدینہ کی طرف جانا شروع کیا.جب میں مدینہ میں داخل ہوا تو ایک اجنبی شخص نے آواز ا دی اور دریافت کیا کہ فلاں شخص کہاں رہتا ہے؟ میں نے کہا وہ میں ہی ہوں.اُس نے کہا میں غستان کے بادشاہ کی طرف سے تمہارے نام ایک پیغام لایا ہوں.اُس نے میرے ہاتھ میں ایک خط دے دیا.میں نے وہ خط پڑھا تو اُس میں لکھا تھا مجھے معلوم ہوا ہے کہ تمہاری قوم کے سردار نے تمہارے ساتھ بہت بُرا سلوک کیا ہے.ہم ایک عرب بادشاہ کی حیثیت سے اُسے بُرا مناتے ہیں اور تمہیں دعوت دیتے ہیں کہ ہمارے پاس چلے آؤ تمہاری شان کے مطابق تمہارا اعزاز و اکرام کیا جائے گا.وہ صحابی بیان کرتے ہیں جب میں نے وہ خط پڑھا تو مجھے یوں معلوم ہوا کہ گویا کسی نے میری آنکھیں کھول دی ہیں.میرا غصہ جاتا رہا.میں نے اپنا نام لے کر کہا اے شخص! یہ شیطان کا آخری حربہ ہے.میں.پیغامبر کو اشارہ کیا کہ میرے ساتھ چلے آؤ.رستہ میں کسی نے بھٹی جلائی ہوئی تھی.میں نے وہ خط بھٹی میں ڈال کر کہا جاؤ! اور اپنے بادشاہ سے کہہ دو کہ اس نے تمہارے خط کے ساتھ یہ سلوک کیا ہے.یہ ابتلا کا آخری مرحلہ تھا.آخر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو الہام ہوا کہ ان تینوں کو معاف کر دو.چنانچہ آپ نے مسجد میں معافی کا اعلان کر دیا 3 تو دیکھو ابغستان کے بادشاہ نے تین چار سو میل سے اس صحابی کے

Page 376

* 1949 367 خطبات محمود نام یہ خط بھیجا تھا یہ بتانے کے لیے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمہارے ساتھ یہ بدسلوکی کی ہے.تم ہمارے پاس آؤ ہم تمہاری عزت کریں گے.لیکن اُس مومن نے نہایت ہی خطرناک ابتلا کی صورت میں کہ ویسا ابتلا یقینی طور پر ہم پر نہیں آیا اور نہ ہی آنے کا آئندہ امکان ہے اُس خط کو بھٹی میں ڈال دیا اور پیغامبر سے کہا جاؤ! بادشاہ سے کہہ دو کہ میں نے اُس کے خط کے ساتھ یہ سلوک کیا ہے اور یہی جواب ہر مومن کا ہونا چاہیے.بہر حال چونکہ اس قسم کی باتوں سے لوگوں کوٹھوکر لگتی ہے اس لیے میں کہتا ہوں کہ اے جنازہ میں شامل نہ ہونے والو! تم ہوشیار ہو جاؤ اور اپنے ایمانوں کی فکر کرو کہ تم نے غلط رستہ اختیار کیا.اور ے وہ شخص جو کہتا ہے کہ اس موقع پر غیروں تک نے طعنہ دیا تو بھی اپنے ایمان کی فکر کر کیونکہ تیرا ایمان ہے بھی کمزور ہے اور شیطان اُسے مٹانا چاہتا ہے.بہر حال یہ ایک نقص ہے جس کی اصلاح کی طرف توجہ کرنا ہماری جماعت کا فرض ہے.جماعت ایمان میں کامل اُسی وقت ہوسکتی ہے جب اُس کے افراد پورے اخلاص کے ساتھ کام کریں.اگر تم نے ترقی کرنی ہے تو عمل کی متواتر نگرانی اور اصلاح تمہارا فرض ہے.پس میں جہاں اُس خط لکھنے والے کو اس بات کی نصیحت کرتا ہوں کہ جو وقعت تم نے غیر احمدیوں کے طعنہ دینے کو دی ہے وہ خطرناک ہے.قریب کے مکان سے اٹھ کر طعنے دے دینا کوئی مشکل امر ہیں.ایسی ہمدردی تو شیطان بھی کر سکتا ہے.لیکن میرا یہ مطلب بھی نہیں کہ دوست ان باتوں کی کا خیال نہ رکھیں.بڑے شہروں کی جماعتوں کو حلقے مقرر کر لینے چاہیں اور یہ انتظام کرنا چاہیے کہ فلاں دن فلاں حلقہ اس قسم کی ڈیوٹی ادا کرے گا اور فلاں دن فلاں محلہ یہ کام کرے گا.اس طرح کام کرنے والوں پر بوجھ بھی نہیں پڑے گا اور جو لوگ جماعت سے دور رہتے ہیں اُن کے جناز.بھی خراب نہ ہوں گے.علاوہ ازیں دوسرے لوگوں کو بھی ہمارے متعلق یہ احساس ہوگا کہ ان میں یا ہمی ہمدردی پائی جاتی ہے.(الفضل 5 نومبر 1949ء) 1: وَلَهُنَّ مِثْلُ الَّذِى عَلَيْهِنَّ (البقرة: 229) 2 : فَاذْكُرُونِي أَذْكُرْكُمْ (البقرة : 153) 3 : بخاری کتاب المغازی باب حدیث کعب بن مالک

Page 377

* 1949 368 37 خطبات محمود اپنے آپ کو اور اپنی جماعت کو نیکیوں اور قربانیوں کے بلند مقام پر قائم کرنے کی کوشش کرو (فرمودہ 4 نومبر 1949 ء بمقام لاہور ) تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: وو کچھ عرصہ ہوا میں نے لاہور کی جماعت کو ایک زنانہ اور ایک مردانہ سکول قائم کرنے اور موجودہ مسجد سے ایک زیادہ وسیع مسجد بنانے کی ہدایت کی تھی کیونکہ میں سمجھتا ہوں اب بغیر اس کے یہاں کی جماعت ترقی نہیں کر سکتی.اسی طرح میرے نزدیک اب لاہور کا تمدن اس قسم کا ہو گیا ہے کہ ضروری ہے یہاں ہماری جماعت کا ایک ہال بھی ہو جس میں ہر اتوار کولیکچر ہوا کریں اور بعد میں لوگوں کو سوال و جواب کا موقع دیا جائے.اگر ایسا ہو جائے تو مجھے امید ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایک ایسا لیا طبقہ پیدا ہونا شروع ہو جائے گا جو احمدیت کے متعلق لوگوں کی پھیلائی ہوئی غلط فہمیوں کے زہر سے ی بڑی حد تک محفوظ ہوگا.اور اگر اس کے ساتھ ہی ایک لائبریری بھی ہو جس میں سلسلہ کی کتب کے علاوہ ای دوسرے علوم کی کتابیں بھی موجود ہوں، اسی طرح اخبارات وغیرہ ہوں تو یہ ایک ایسا ذریعہ ہوگا جس سے لوگوں کو بہت کچھ فائدہ پہنچ سکے گا.بلکہ میں تو کہوں گا اس سے بڑھ کر ایک اور ذریعہ بھی ہے

Page 378

$1949 369 خطبات محمود جس سے فائدہ اُٹھایا جا سکتا ہے اور وہ یہ کہ اگر مسجد کے لیے کافی جگہ مل جائے تو اس کے ساتھ ایسے کمرے بھی بنادئیے جائیں جو عارضی رہائش کے لیے استعمال کیے جاسکیں.ان کا رُخ مسجد کی طرف نہ ہو اور کمرے نسبتاً فراخ ہوں اور وہ ان لوگوں کو کرایہ پر دیئے جایا کریں جو چند دنوں کے لیے لاہور آتے رہتے ہیں.گویا وہ کمرے سرائے کے طور پر استعمال ہوں.بڑے شہروں میں لوگوں کو عارضی رہائش کے لیے مکانات کا میسر آنا مشکل ہوتا ہے اور اگر ملیں تو بہت گراں ملتے ہیں.پس ایک تو ہمیں زیادہ کھلی جگہ میں مسجد بنانے کی کوشش کرنی چاہیے.دوسرے ایک ہال کی تعمیر کا پروگرام اپنے مد نظر رکھنا چاہیے.یہ ضروری نہیں کہ ہال بہت بڑا ہو.پچاس ساٹھ یا سوگر سیاں اگر اس میں آجائیں تو وہ کافی ہو او گا.دراصل ہر ہفتہ اتنے ہی آسکتے ہیں لیکن فرض کرو اتنے آدمی نہیں آتے اور صرف نہیں آدمی ہرا توار کو آ جاتے ہیں تو بھی اس کے یہ معنے ہوں گے کہ مہینہ بھر میں اتنی اور سال بھر میں ایک ہزار تعلیم یافتہ آدمی ہمارے لیکچروں میں شریک ہو جائیں گے.اور یہ تعداد بھی کچھ کم نہیں.اور لائبریری سے تو ہزار دو ہزار آدمی سال بھر میں فائدہ اُٹھا سکتا ہے اور ہمارے مربیوں کے لیے کام بھی نکل سکتا ہے.اس وقت صورت یہ ہے کہ سوائے پاکستان سے باہر کی جماعتوں کے اور سوائے پاکستان کی خاص خاص جگہوں کے باقی مقامات پر مربی بالعموم بیکار بیٹھے رہتے ہیں.اس طرح انکی دینی طاقت بھی ضائع الاول ہوتی ہے اور جماعت بھی ترقی نہیں کرتی.اگر لائبریری ہو تو لا ز ما مربی کے لیے کام نکل آئے گا.جو لوگ وہاں آئیں گے اُن سے اسے گفتگو کرنی پڑے گی اور پھر ان کے پتے لے کر ان سے تعلق قائم رکھنا پڑے گا.اور یہ چیز ایسی ہے جس کے نتیجہ میں وہ سست نہیں رہ سکتا یا کم سے کم اگر وہ سست ہو تو وہ اپنی سستی کو چھپا نہیں سکے گا.اسے مانا پڑے گا کہ وہ سُست ہے.اور ہم اس پر ثابت کر سکیں گے کہ کام کا موقع تھا مگر اس نے نہیں کیا.لیکن اب ہم ثابت نہیں کر سکتے کہ کام کا موقع تھا مگر تم نے نہیں کیا.اس کے علاوہ جو تمہیں جماعتی طور پر پیش آ رہی ہیں اُن کی طرف بھی ہمیں توجہ رکھنی چاہیے.مثلاً میرے پاس ایک لسٹ آئی ہے جس سے پتا لگتا ہے کہ لاہور کی جماعت میں اس وقت ستر فیصدی نادہند ہیں اور صرف تمہیں فیصدی چندہ دینے والے ہیں.میرے نزدیک اس کی ذمہ داری کارکنوں پر عائد ہوتی ہے.میرا یہ مطلب نہیں کہ کوئی شخص ایسا نہیں ہوسکتا جسے کارکن صحیح اور سیدھے راستہ پر نہیں چلا سکتے.اگر انبیاء بھی بعض لوگوں کو سیدھے راستہ پر نہیں چلا سکے تو کارکن کہاں چلا سکتے ہیں.میں اس میں

Page 379

$ 1949 370 خطبات محمود ان کو ملزم قرار نہیں دیتا.ہوسکتا ہے کہ کچھ لوگ ملزم ہوں اور واقع میں وہ صحیح راستہ پر آنے کے لیے تیار نہ ہوں.مگر جس حد تک وہ ملزم ہیں اُس کا خدا تعالیٰ کو ہی علم ہو سکتا ہے مجھے نہیں.لیکن ایک اور چیز ایسی ہے جس کا مجھے بھی علم ہو سکتا ہے اور جسے خدا تعالیٰ نے میرے اور دوسرے لوگوں کے علم کا ایک ذریعہ بناتی دیا ہے.اور وہ یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے لکھا ہے کہ جو شخص تین مہینے تک چندہ نہیں دیتا وہ احمدی نہیں.مجھے یہ تو کوئی کارکن کہہ سکتا ہے کہ میں نے تحریک کی اور انتہاء درجہ کی تحریک کی مگر لوگوں نے نہیں سنی.ممکن ہے وہ اپنی اس بات میں سچا ہو اور ممکن ہے وہ سچا نہ ہو محض دھوکا دیتا ہو.بہر حال یہ میرا حق نہیں کہ میں اسے کہوں کہ تو جھوٹ بولتا ہے.اگر وہ کہتا ہے کہ میں نے تحریک کی اور انتہاء درجہ کی تحریک کی مگر لوگوں نے نہیں مانا تو میں مجبور ہوں کہ اُس کی بات مان لوں.لیکن میرے اس اگلے سوال کا کیا جواب ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے تحریر فرمایا ہے کہ جو شخص تین مہینے تک چندہ نہیں دیتا وہ جماعت سے خارج ہے.1 آیا اُس نے نادہندوں کے اخراج کے لیے کوئی درخواست بھجوائی؟ اگر ایسے نادہندوں کو جماعت سے خارج کر دیا جائے تو گو جماعت کی تعداد کم ہوتی جائے گی مگر کم سے کم اس چیز کا اخلاقی طور پر ایک غیر معمولی اثر پڑے گا.اب تو وہ کہتے ہیں کہ اس کی جماعت کا چندہ جس میں سات آٹھ سو مرد ہیں مثلاً پچاس ہزار روپیہ ہے اور سننے والا کہتا ہے کہ اتنی بڑی تعداد کا یہ چندہ بہت تھوڑا ہے.لیکن فرض کر و جماعت کے آدھے آدمیوں کو خارج کر دیا جاتا ہے اور صرف تین چار سو آدمی رہ جاتے ہیں تو پھر لوگ کیا کہیں گے؟ پھر لوگ یہ کہیں گے کہ تین چار سو کا چندہ پچاس ہزار ہے.ستر فیصدی لوگوں کو نکال دو تو کہیں گے دوسو یا اڑھائی سو لوگوں کا چندہ پچاس ہزار ہے.اس طرح جماعت کا رُعب بجائے گرنے کے بڑھ جائے گا اور اس کی عزت اور نیک نامی میں کئی گنا اضافہ ہو جائے گا.اب تو سست اور غافل لوگوں کی وجہ سے جو مخلص کارکن ہیں وہ بھی بدنام ہورہے ہیں.میں کھڑا ہوتا ہوں تو ان کو ملامت کر دیتا ہوں.کوئی اور کھڑا ہوتا ہے تو ان کو ملامت کرتا ہے ہے.حالانکہ واقعہ یہ ہے کہ لاہور میں بھی ایسے ہی قربانی کرنے والے لوگ ہیں جیسے باہر کی جماعتوں کی میں ہیں.لاہور میں بھی ویسے ہی مخلص ہیں جیسے باہر کی جماعتوں میں ہیں.لاہور میں بھی ویسے ہی فدائی ہیں جیسے باہر کی جماعتوں میں ہیں.یہ جماعت مخلصوں اور فدائیوں سے ہرگز خالی نہیں.اگر خالی ہے تو پچاس ہزار روپیہ کون دیتا ہے.وہ روپیہ فرشتے نہیں دیتے.اس جماعت کے مخلصین ہی د.دیتے

Page 380

$ 1949 371 خطبات محمود و ہیں.مگر وہ لوگ جو سُست اور غافل ہیں وہ ان مخلصین کی بدنامی کا موجب ہو جاتے ہیں.اگر ان کو الگ کر دیا جائے گا تو یہ لازمی بات ہے کہ یہ بد نامی ہٹ جائے گی اور ہمارے دلوں میں بھی یہ احساس پیدا ہوگا کہ یہ مخلصوں اور ایمانداروں کی جماعت ہے.اب تو ان کمزوروں کی وجہ سے مخلصوں کا اخلاص اور مومنوں کا ایمان بھی پوشیدہ ہو جاتا ہے اور بجائے تعریف کے جماعت کو بدنامی حاصل ہوتی ہے.پس کارکن بتائیں کہ وہ میرے اس سوال کا کیا جواب دیتے ہیں اور اس میں کونسی روک ہے جس کی وجہ سے ان کے خلاف رپورٹ نہیں کر سکتے ؟ کیا جب وہ یہ لکھنے لگتے ہیں کہ فلاں فلاں شخص نے چھ ماہ کا چندہ ادا نہیں کیا تو محلہ کے لوگ ان کا قلم تو و دیتے اور ان کے کاغذ کو پھاڑ دیتے ہیں ؟ آخر کونسی چیز ہے جو انہیں روکتی ہے؟ لازمی بات ہے کہ اس میں سستی کا دخل ہے یا لحاظ کا دخل ہے.اور یہ دونوں چیزیں قابل افسوس ہیں.اگر سستی ہے تب بھی قابل افسوس ہے اور اگر لحاظ اس کا باعث ہے تب بھی قابل افسوس ہے، اور اگر کوئی شخص اتنا سست ہے کہ چھ ماہ کے بعد ایک رپورٹ بھی نہیں لکھ سکتا، ایسی رپورٹ جس کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے لازمی قرار دیا ہے تو ہم اس بات کو کیونکر مان لیں کہ اس نے چندہ کی وصولی کی پوری کوشش کی ہوگی.جو شخص چھ مہینہ میں ایک خط بھی نہیں لکھ سکتا اُس کا یہ کہنا کہ میں چھ ماہ لگا تار نادہندوں کی اصلاح اور چندہ کی وصولی کی کوشش کرتا رہا ہوں یہ تو جھوٹ بن جاتا ہے.بہر حال اس کا رپورٹ نہ کرنا بتا تا ہے کہ قصور اسی کا ہے.اگر وہ واقع میں چست ہوتا تو جب وہ ایک بڑا کام کر رہا ہے تو چھوٹا کام کیوں نہ کرتا.اس کا چھوٹا سا کام بھی نہ کرنا بتاتا ہے کہ جب وہ یہ کہتا ہے کہ میں بڑا کام کر رہا ہوں تو وہ جھوٹ بولتا ہے.ہمارے ملک میں قصہ مشہور ہے کہ دو سکتے آدمی کسی جنگل میں ایک درخت کے نیچے لیے ہوئے تھے کہ ان میں سے ایک شخص نے دور سے ایک سپاہی کو دیکھا جو اپنے کسی کام کے لیے جارہا تھا.اس نے زور زور سے سپاہی کو آواز میں دینی شروع کیں کہ ارے میاں سپاہی ! ذرا ادھر آنا.خدا کے لیے جلدی آنا سخت ضروری کام ہے.سپاہی نے یہ آوازیں سنیں تو اس نے سمجھا کہ کوئی مصیبت زدہ ہے انسان مجھے بلا رہا ہے.معلوم نہیں وہ کس مصیبت میں گرفتار ہے مجھے جلدی پہنچنا چاہیے تا کہ میں اس کی مدد کروں.چنانچہ وہ اپنا راستہ چھوڑ کر جلدی جلدی وہاں پہنچا.جب وہ قریب آیا تو اس نے دیکھا کہ دو آدمی پیٹھ کے بل لیٹے ہوئے ہیں اور ان میں سے ایک شخص کے سینہ پر ایک بیرگرا ہوا ہے.اوپر بیری کا

Page 381

* 1949 372 خطبات محمود درخت تھا جس کے سایہ میں وہ لیٹے ہوئے تھے.جب وہ اور زیادہ قریب آیا تو اس شخص نے کہا میاں سپاہی! ذرا مہربانی کر کے یہ بیر جو میرے سینہ پر پڑا ہوا ہے اُٹھا کر میرے منہ میں ڈال دو.ایک کام کرنے والا انسان جو اپنے کسی ضروری کام کے لیے جارہا ہوا سے ایسی بات سن کر لا ز ما غصہ آنا تھا.اس نے گالیاں دینی شروع کر دیں کہ تو بڑا نا معقول آدمی ہے.میں ایک ضروری کام کے لیے جارہا تھا کہ تو نے مجھے اپنی طرف بلا لیا اور بلایا بھی اس لیے کہ میں بیرا ٹھا کر تیرے منہ میں ڈال دوں.کیا تو خود اپنے ہاتھ سے بیر اُٹھا کر منہ میں نہیں ڈال سکتا تھا ؟ تو نے میرا وقت ضائع کیا ہے.میں سو یا پچاس گز کا رستہ کاٹ کر تیرے پاس آیا اور میں نے سمجھا کہ کوئی بڑی مصیبت ہے جس میں تو گرفتار ہے.مگر نے کام یہ بتلایا کہ وہ بیر جو تیرے اپنے سینہ پر پڑا ہوا ہے اُسے اُٹھا کر میں تیرے منہ میں ڈال دوں.جب وہ گالیاں دے رہا تھا تو دوسرا شخص جو پاس ہی لیٹا ہوا تھا وہ کہنے لگا میاں ! اسے کیوں گالیاں دیتے ہو.یہ تو بالکل لا علاج ہے.ان گالیوں سے اس کا بنتا ہی کیا ہے.یہ تو اتنا سست اور نکتا ہے کہ ساری رات گنتا میرا منہ چاھتا رہا مگر اس کمبخت نے اُسے ہشت تک نہیں کی.خیر سپاہی چُپ ہو گیا.دلیل سے نہیں بلکہ اس بات کو دیکھ کر کہ یہ تو اُس سے بھی گیا گزرا ہے.ساری رات یہ آپ جاگتا رہا مگر امید یہ کرتا رہا کہ دوسرا شخص ہشت کرے گا.اسی طرح جو کارکن یہ کہتا ہے کہ میں چھ مہینے تک لگا تار کام کرتا رہا مگر اس کی حالت یہ ہے کہ وہ کسی نادہند کے خلاف رپورٹ نہیں کرتا.اس کے متعلق ہم یہی سمجھیں گے کہ وہ کام نہیں کرتا.وہ سست اور نکتا آدمی ہے.اگر اس نے چھ مہینے تک کام کیا ہے تو چھ مہینے میں وہ دفتر کو یہ خط کیوں نہیں ہے لکھ سکا کہ فلاں فلاں لوگوں کو جماعت میں سے نکال دیا جائے.اس کا خط نہ لکھنا بتاتا ہے کہ اس کا یہ کہنا ہے کہ میں نے پوری کوشش کی بالکل غلط ہے.اور اگر نادانی کی وجہ سے اس نے ایسا نہیں کیا یا اسے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اس حکم کا علم نہیں تھا تو اس حکم کو میں نے اب یاد کرا دیا ہے.ہر وہ چی محاسب اور ہر وہ محصل جو چندہ کی نامکمل لسٹ دیتا ہے وہ مجرم ہو گا.جب تک وہ یہ ثابت نہ کرے کہ اس نے چندہ نہ دینے والوں کے متعلق یہ رپورٹ کر دی ہے کہ انہیں جماعت سے خارج کر دیا جائے.یہ کوئی ایسا کام نہیں جو تم کر نہ سکو.تم کہہ سکتے ہو کہ ہم ہر شخص کو مجبور نہیں کر سکتے کہ وہ چندہ دے، تم کہہ سکتے ہو کہ ایک منافق کی اصلاح ہمارے بس کی بات نہیں، تم کہہ سکتے ہو کہ ایک کمزور

Page 382

$1949 373 خطبات محمود ایمان والے کے دل میں ہم زیادہ ایمان پیدا نہیں کر سکتے تم سب کچھ کہہ سکتے ہو اور ٹھیک طور پر اور جائز طور پر کہہ سکتے ہو.تم ان جوابوں سے اپنے آپ کو بری بھی قرار دے سکتے ہو جبکہ ایک اور چیز بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بتادی ہے اور ایک اور علاج بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة ال والسلام نے تجویز فرما دیا ہے جس میں تمہارے لیے نہ مجبوری ہے نہ معذوری.بلکہ وہ ایسا کام ہے جسے تم ہر وقت کر سکتے ہو.تو اگر تم اُس پر عمل نہیں کرتے تو تمہارا وہ جواب جو تمہاری معذوری اور مجبوری پر مشتمل تھا بالکل غلط ہو جاتا ہے اور ہم یہ سمجھنے پر مجبور ہوتے ہیں بلکہ نوے فیصدی حق بجانب ہوں گے یہ سمجھنے میں کہ تم نے کوشش نہیں کی.اگر تم میں کوشش کرنے کی ہمت ہوتی ، اگر تم میں اس قربانی کی طاقت ہوتی تو کم سے کم تم یہ کر سکتے تھے کہ چھ مہینے کے بعد خط ہی لکھ دیتے کہ فلاں فلاں نے اتنے مہینوں سے چندہ نہیں دیا، انہیں جماعت سے خارج کر دیا جائے.اگر تم نے چھ مہینے کے بعد بھی خط نہیں لکھا تو ہم یہ تسلیم کرنے پر مجبور ہیں کہ تم نے محنت نہیں کی.تم نے کوشش اور صحیح جد و جہد نہیں کی.جو شخص ایک سیر اُٹھانے کی طاقت نہ رکھتا ہو وہ اگر یہ دعوی کرے کہ میں نے ایک من بوجھ اُٹھایا ہے تو وہ جھوٹ بولنے والا سمجھا جائے گا.یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ وہ سیر تو نہ اُٹھا سکے اور من بھر بوجھ اُٹھا لے.جو شخص چھ مہینے میں ایک خط بھی نہیں لکھ سکتا وہ چھ مہینہ میں ہر ہفتے دوسرے لوگوں کے گھروں پر کس طرح جاسکتا ہے؟ اسے کوئی عظمند ماننے کے لیے تیار نہیں ہوسکتا.بہرحال یہ ایک ذمہ داری ہے جس کی طرف جماعت کے کارکنوں کو میں توجہ دلا تا ہوں اور ساتھ ہی دوستوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ انہیں اپنے اعمال کا جائزہ لینا چاہیے.اب ہماری جدو جہد بہت زیادہ وسیع ہو چکی ہے اور ہمیں باہر کی جماعتوں کی قربانیاں شرمندہ کر رہی ہیں.ابھی دوستوں نے اخبار میں پڑھا ہوگا کہ گولڈ کوسٹ کے احمدیوں نے پچھلے سال ایک لاکھ روپیہ چندہ دیا.یہ کتنی بڑی قربانی ہے جو اس جماعت نے پیش کی.اس کے علاوہ کل ہی خبر آئی ہے کہ جماعت کے دوست یہ کہتے ہیں کہ چونکہ آپ نے یہاں ایک ہائی اسکول قائم کرنے کا ارادہ ظاہر کیا ہے اس لیے ہماری جماعت نے اپنے اوپر یہ فرض قرار دے لیا ہے کہ وہ لازمی چندوں کے علاوہ اسکول کے لیے بھی چندہ اکٹھا کرے گی اور اپنے خرچ پر اسکول جاری کرے گی.یہ اُس جماعت کی قربانی کا نمونہ ہے جس کے گل چندہ دہندہ ہے ایک ہزار آدمی ہیں.وہ حبشی ہیں اور درختوں کی جڑیں کھا کھا کر گزارہ کرتے ہیں مگر وہ کہتے ہیں ہم نے کی

Page 383

$ 1949 374 خطبات محمود اس وجہ سے کہ آپ نے یہاں اسکول کھولنے کا ارادہ کیا ہے اپنے او پر یہ فرض قرار دے لیا ہے کہ ہم اس تی کے لیے چندہ اکٹھا کریں گے.اور وہ بھی اس رنگ میں کہ ہم میں سے ہر چندہ دینے والا دس پونڈ زائد کی چندہ دے گا اور اس طرح ڈیڑھ لاکھ روپیہ ہم اسکول کے لیے اکٹھا کر دیں گے.اب دیکھو! گجا اُن کی آمدن اور گجا تمہاری آمدن تم میں سے ایک ایک کی آمدن وہاں کے ایک ایک قصبہ کی آمدن سے بھی زیادہ ہے مگر پھر بھی وہ قربانیوں میں بڑھتے جا رہے ہیں.اسی طرح اور بہت سی جماعتیں ہیں جو اخلاص میں ترقی کر رہی ہیں.مثلاً مشرقی افریقہ کی جماعت ہے اس کے سارے افراد مرد عورتیں اور بچے ملا کر جو مجھے بتائے گئے ہیں وہ تین چار سو ہیں.لیکن یہ تین چار سو افراد کی جماعت جن میں سے غالبا سو ڈیڑھ سو چندہ دینے والے ہیں کیونکہ وہاں مرد زیادہ ہیں اور عورتیں کم ہیں جس قربانی کا مظاہرہ کر رہے ہیں وہ نہایت شاندار ہے.چونکہ وہ کمائی زیادہ کرتے ہیں اس لیے ہمارے ملک کے لحاظ سے اُن کو چھ سات سو سمجھ لو.مگر پھر بھی یہ تھوڑے سے افراد جو نمونہ دکھا رہے ہیں وہ یہ ہے کہ ہمارے اس وقت وہاں 9 مبلغ ہیں ان 9 مبلغوں کا خرچ یہ لوگ برداشت کر رہے ہیں بلکہ اس کے علاوہ بھی وہ کی یہاں کافی چندہ بھیجتے رہتے ہیں.اسی طرح نائیجیریا ہے، سیرالیون ہے.وہاں بہت چھوٹی چھوٹی جماعتیں ہیں مگر اپنے مبلغوں کا خرچ بھی برداشت کر رہی ہیں اور مرکزی جماعت کے چندے بھی ادا کرتی ہیں.یہی حال امریکہ کی جماعت کا ہے.وہاں ہمارے گل تین سو افراد ہیں.اصل میں تو ہزاروں تھے مگر وہ صرف نام کے طور پر تھے.مفتی محمد صادق صاحب میں نرمی زیادہ تھی جیسے یہاں کے محاسب اور تحصیل اپنے اندر نرمی رکھتے ہیں.غالباً یہ نرمی کا سبق انہوں نے مفتی صاحب سے ہی سیکھا ہے.جس نے کہہ دیا میں احمدی ہوں اُس کو انہوں نے جماعت میں شامل کر لیا اور یہ نہ دیکھا کہ وہ احمدیت پر عمل کہاں تک کرتا ہے.اس لحاظ سے تو امریکہ میں پانچ ہزار کے قریب احمدی ہیں.مگر حقیقتا جو امریکہ کی جماعت ہے وہ تین چار سو کے درمیان ہے جس میں مرد بھی شامل ہیں، عورتیں بھی شامل کی ہیں اور بچے بھی شامل ہیں.لیکن امریکہ کا چندہ پچاس ہزار کے قریب ہے.اور اب انہوں نے اور زیادہ ذمہ داریاں اپنے اوپر عائد کی ہیں اور عہد کیا ہے کہ اگلے سال وہ اپنے چندوں کو اور اپنے کام کو اور اپنے افراد کوڈ گنے سے بھی زیادہ بڑھانے کی کوشش کریں گے.غرض میں دیکھ رہا ہوں کہ بیرونجات کی جماعتیں اخلاص میں بڑھ رہی ہیں، چندوں میں

Page 384

$ 1949 375 خطبات محمود بڑھ رہی ہیں اور جس نسبت سے بڑھ رہی ہیں اُس نسبت سے ہمارے ملک کی جماعتیں ترقی نہیں کر ر ہیں اور جس نسبت سے انہیں اپنے اخلاص کو قائم رکھنا چاہیے تھا اس نسبت سے وہ اپنے اخلاص کو قائم نہیں رکھ رہیں.یہ بھی ایک بڑے فکر کی بات ہے بلکہ اس میں غیرت کا بھی سوال ہے جو دین تو الگ رہا دنیوی معاملات میں بھی پیدا ہونی چاہیے.دین ہمارے گھر سے نکلا.خدا نے ہم کو اس بوجھ کے اُٹھانے کے لیے چنا.لیکن بجائے اس کے کہ ہمارے کندھے اس بوجھ کے اٹھانے کے لیے زیادہ سے زیادہ پھیلتے چلے جاتے اب اس بوجھ کو بیر ونجات کی جماعتیں بہت زیادہ شوق اور اخلاص سے اُٹھا رہی ہیں.در حقیقت اگر دیکھا جائے تو پاکستان میں جس قدر ہماری جماعتیں پائی جاتی ہیں ان سے دسویں حصہ کے برابر باہر کی جماعتیں ہیں لیکن چندے کو دیکھیں تو وہ یہاں کی جماعتوں کے قریباً برابر ہے.گویاوہ اس وقت ہم سے دس گنا بوجھ اٹھا رہی ہیں.پھر جس رفتار سے وہ بڑھ رہی ہیں وہ بتاتی ہے کہ گلے چار پانچ سال میں وہ تعداد میں بھی بڑھ جائیں گی اور یہ کوئی خوشکن خیال ہمارے لیے نہیں ہوگا.اس کے معنے یہ ہوں گے کہ خدا تعالیٰ نے ہم کو دس قدم آگے رکھ کر دوڑ کا حکم دیا مگر بجائے اس کے کہ ہم دوسروں سے دس قدم آگے رہتے دوسرے آگے نکل گئے اور ہم پیچھے رہ گئے.پس کوئی نہ کوئی طریق ہم کو اس کے لیے اختیار کرنا چاہیے.پہلا طریق تو یہی ہے اور اس کی ہی ہم تم سے امید کرتے ہیں کہ تم محبت اور پیار سے لوگوں کو سمجھاؤ لیکن اگر تم کہتے ہو کہ ہم نے سارا زور لگالیا مگر وہ اپنی اصلاح نہیں کرتے ، اگر سال کے بعد سال گزرتا چلا جاتا ہے اور وہ بیدار نہیں ہوتے تو تم کیوں ان کے متعلق لمبی امید میں کرتے چلے جاتے ہے ہو.تم کیوں نہیں سمجھ لیتے کہ وہ مرچکے ہیں اور مرے ہوئے کو بیدار کرنے کی کوشش کرنا ہر گز دانائی نہیں کہلاسکتی.تم کیوں ان کی وجہ سے اپنے لیے ذلت سہیڑتے ہو کہ لوگ کہتے ہیں کہ اس جماعت میں ستر فیصدی نادہند ہیں.تم مخلص بھی ہو، تم قربانی بھی کرتے ہو مگر دوسرے لوگ تمہاری قربانیوں پر پردہ ڈال دیتے ہیں اور وہ تمہیں بھی بدنام کر دیتے ہیں مگر تمہیں کوئی غیرت نہیں آتی کہ تم ان کی وجہ سے بدنام ہو رہے ہو ، تم ان کی وجہ سے ذلیل اور رسوا ہو رہے ہو.آخر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جب ایک بات کہی ہے تو کیا تم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے بھی زیادہ رحم دل ہو کہ اس پر عمل نہیں کرتے؟ کہتے ہیں ”ماں سے زیادہ چاہے کٹنی کہلائے“.

Page 385

$ 1949 376 خطبات محمود حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے زیادہ تم کو جماعت سے محبت نہیں ہو سکتی.اگر ہم تمہارے اس فعل کو نیکی کہیں اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے حکم کو نَعُوذُ بِاللهِ غلط قرار دیں تو اس کے معنے یہ ہوں گے کہ وہ بڑے جابر تھے مگر تم بڑے رحیم و کریم ہو کہ دس دس سال کے نادہندوں کو بھی اپنے ساتھ لٹکائے چلے جاتے ہو.تم خود سمجھ لو کہ میں تم دونوں میں سے کس کو حق بجانب قرار دوں؟ تم کو رحیم وکریم کہوں یا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو رحیم و کریم کہوں؟ تم کو سچا کہوں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو؟ میں سمجھتا ہوں کہ جب تک تم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بیعت میں شامل ہو تم یہی کہو گے کہ ہمیں جھوٹا سمجھ لو ہمیں جابر اور ظالم کہہ لومگر ہم یہ برداشت نہیں کر سکتے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو ایسا کہا جائے اور یہی صحیح جواب ہو گا.پس ان حالات میں میں مجبور ہوں کہ تم کو جھوٹا کہوں اور ان کو سچا کہوں، تم کو ظالم کہوں اور ان کو رحیم و کریم کہوں.آخر یہ ایک چھوٹی سی چیز ہے اس کے کر لینے میں تمہارا کیا حرج ہے کہ جو لوگ چندہ نہیں دیتے اُن کے متعلق رپورٹ کر دو کہ ہم نے انہیں سمجھانے کی بہت کوشش کی ہے مگر یہ نہیں مانتے.اس لیے انہیں جماعت سے خارج کر دیا جائے.تم کہو گے کہ اگر ہم ایسی رپورٹ کریں گے تو یہاں کی جماعت کی آدھی رہ جائے گی یا تیسرا حصہ رہ جائے گی.مگر یاد رکھو! جو آدھی جماعت رہ جائے گی یا تیسرا حصہ رہ جائے گی وہ تمہاری نیک نامی اور عزت کا موجب ہوگی اور وہ تمہارے رعب کو سینکڑوں گنے زیادہ بڑھاتی دے گی.اور جو کام ایک ہزار کی طرف منسوب ہوتا ہے وہ کل اڑھائی سو یا تین سو کی طرف منسوب ہو گا.اور اس طرح لازماً اس کا کام زیادہ عمدہ نظر آئے گا، زیادہ شاندار نظر آئے گا اور جماعت کا رُعب پہلے سے کئی گنا بڑھ جائے گا.فرض کرو کسی وقت سارا لا ہور احمدی ہو جائے اور تمہارا چندہ پچاس ہزار سے بڑھ کر دولاکھ تک پہنچ جائے تو کہنے والے کیا کہیں گے؟ یہی کہیں گے کہ سترہ لاکھ نے دولاکھ چندہ دیا.اس سے تمہارا رعب مٹے گا بڑھے گا نہیں.ہر شخص کہے گا کہ یہ ایک مُردہ قوم ہے جس کے سترہ لاکھ افراد دولاکھ چندہ دے رہے ہیں.لیکن اگر موجودہ جماعت میں سے دو تہائی افراد کو ہم نکال دیتے ہیں اور پھر چندہ اتنا ہی رہے جتنا اس وقت آ رہا ہے تو تمہارا رعب بڑھ جائے گا اور لوگ کہیں گے لاہور کی جماعت کے دوسو یا تین سو آدمی اتنا چندہ دیتے ہیں.پس یہ چیز تمہاری شان کو گھٹانے والی نہیں بلکہ تمہاری شان کو بڑھانے والی ہے، تمہاری نیک نامی کو بڑھانے والی ہے.تم وہ طریقہ کیوں کی

Page 386

$1949 377 خطبات محمود اختیار کرتے ہو جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے منشاء کے خلاف ہے اور تمہاری عزت کے بھی خلاف ہے.یہ ایک تیسری بات ہے جس کی طرف میں جماعت کو توجہ دلاتا ہوں.یہ جماعت کی اصلاح کا ایک آسان طریق ہے.جب اس طریق کو تم اختیار کرو گے تو تمہیں نظر آئے گا کہ جو لوگ غافل ہیں وہ سارے کے سارے بے ایمان نہیں وہ بھی ایمان دار ہیں.صرف اُن کے دلوں پر زنگ لگا ہوا ہے.جب وہ جماعت سے خارج کیے جائیں گے تو اُن میں سے کم سے کم آدھے ضرور واپس آئیں گے اور تو بہ کریں گے.پھر تمہارا چندہ بھی بڑھ جائے گا، تمہاری شان بھی بڑھ جائے گی ،تمہارے اندر کام کرنے والے آدمی بھی بڑھ جائیں گے، تمہارے اندر بیداری بھی بڑھ جائے گی اور تمہاری ترقی کے کئی نئے راستے نکل آئیں گے.بہر حال خدا تعالیٰ کے بتائے ہوئے رستوں کو رڈ نہ کرو اور خدا تعالیٰ کے مامور کے کھولے ہوئے رستوں کو اپنے آپ بند نہ کرو.جب خدا ایک علاج پیدا کر دیتا ہے اور انسان اس سے فائدہ نہیں اُٹھاتا تو وہ بہت سے فضلوں سے محروم ہو جاتا ہے.پس کوشش کرو اور اپنے لیے جماعت میں ایک نیک مقام پیدا کرو اور کوشش کرو کہ تمہیں دنیا میں بھی نیک مقام حاصل ہو“.1 : تبلیغ رسالت جلد 10.مطبوعہ اکتوبر 1927ء الفضل 26 اپریل 1960 ء )

Page 387

* 1949 378 38 خطبات محمود جمعہ کا اجتماع ہمیں وہ فرض یاد دلاتا ہے جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے ذریعے ہر مسلمان کے ذمہ لگایا گیا ہے (فرموده 11 نومبر 1949ء بمقام کمپنی باغ سرگودھا) تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: جمعہ کا دن اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کے لیے ایک بہت بڑی برکت کا دن مقرر کیا ہے.ہماری ساری ہی عید میں اجتماع کے ساتھ تعلق رکھتی ہیں.جمعہ کا دن بھی اجتماع کا دن ہے، عید الفطر بھی اجتماع کا دن ہے اور عید الاضحیہ بھی اجتماع کا دن ہے.گویا 54 عید میں ہیں جو سال بھر میں ہمارے لیے آتی ہیں.سال کے 52 ہفتوں میں 52 جمعے آتے ہیں اور ایک عید الفطر اور ایک عیدالاضحیہ ہے.اس میں اللہ تعالیٰ نے یہ اشارہ کیا ہے کہ ہمارا رسول سب لوگوں کو ایک نقطہ مرکزی پر جمع کرنے کے لیے آیا ہے.سوائے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اور کوئی نبی ایسا نہیں گزرا جو دنیا کے تمام لوگوں کو ایک نقطہ مرکزی پر جمع کرنے کے لیے آیا ہو.صرف آپ کی نسبت اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تو تمام بنی نوع انسان کی طرف رسول بنا کر بھیجا گیا ہے 1 خواہ وہ مشرق کے رہنے والے ہوں یا مغرب کے ہنے والے ہوں ، وہ جنوب کے رہنے والے ہوں یا شمال کے رہنے والے ہوں.پس اجتماعی رسول

Page 388

$ 1949 379 خطبات محمود صرف محمد رسول اللہ تھے.اسی لیے عید کے ساتھ اجتماع کو آپ نے لازمی شرط قرار دیا ہے.مسلمانوں کی کے علاوہ اول تو اور کوئی قوم ایسی نہیں جس میں اس طرح کی عید مقرر کی گئی ہو.دوسرے کوئی ایسی قوم نہیں جس میں عید کو اس طرح لازمی قرار دیا گیا ہے جس طرح مسلمانوں کے لیے عید کو لازمی قرار دیا تی گیا ہے.در حقیقت عید کا مفہوم صرف اسلام میں پایا جاتا ہے کیونکہ یہ وہ عید میں ہیں جن کو خدا تعالیٰ نے کی خود مقرر کیا ہے اور اسلام کے سوا کوئی مذہب ایسا نہیں جس کی عیدوں کو خدا تعالیٰ کی طرف سے مقرر کیا گیا ہو.اسلام سے قریب ترین جماعت عیسائیوں کی جماعت ہے.عیسائیوں میں بعض عید میں پائی جاتی ہیں.مثلاً بڑے دن کی عید، ایسٹر (EASTER)2 کی عید مگر دیکھنا یہ ہے کہ بڑے دن کی عید کو کس نے مقرر کیا ہے؟ ایسٹر کی عید کوکس نے مقرر کیا ہے؟ ان کی تفصیلات حضرت مسیح علیہ السلام نے بیان نہیں کیں اور نہ ان عیدوں کا ذکر انجیل میں آتا ہے.پھر یہودیوں کے ہاں بھی بعض عید میں ہیں اور ان کا ذکر یہودیوں کی مذہبی کتب میں موجود ہے لیکن ان عیدوں کے متعلق بھی ایسے احکام نہیں پائے جاتے جو تمام یہودیوں پر یہ واجب کرتے ہوں کہ وہ انہیں اجتماعی طور پر منائیں.ہندوؤں میں بھی ہے بعض تہوار ہیں مثلاً وسبر 31 ہے، ہولی ہے، بسنت ہے لیکن ان تہواروں کا بھی مذہبی کتابوں میں ذکر نہیں.ہندوؤں نے انہیں خود مقرر کیا ہے اور جن کو خود مقرر کر لیا جائے وہ خدا تعالیٰ کی عیدیں نہیں کہلات سکتیں.صرف اور صرف اسلام ہی ایک ایسا مذ ہب ہے جس نے عید میں خدا تعالیٰ کی طرف سے مقرر کی ہیں.مثلاً جمعہ ہے اس کا قرآن کریم میں ذکر ہے.اور جب اس کا قرآن کریم میں ذکر ہے تو معلوم ہوا کہ یہ خدا تعالیٰ کی طرف سے مقرر ہے.اسی طرح عیدین کا ذکر بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی معرفت ملتا ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے متعلق احکام شرعیہ بیان فرمائے ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ یہ بھی خدا تعالیٰ کی طرف سے مقرر ہیں.جمعہ کے متعلق قرآن کریم میں خدا تعالیٰ کا یہ حکم ہے کہ تمام مسلمان اپنا کام کاج چھوڑ کر اس کے لیے مسجد میں پہنچیں.پس یہ اجتماعی عید ہے اور کسی مسلمان کے لیے یہ اجازت نہیں کہ وہ جمعہ کی اذان سن کر اپنے کام کاج میں لگا ر ہے اور نماز کے لیے کی مسجد میں نہ جائے.قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے یااَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا نُودِيَ لِلصَّلوةِ مِن يَوْمِ الْجُمُعَةِ فَاسْعَوْا إِلى ذِكْرِ اللهِ وَذَرُوا البَيْعَ 4 یعنی اے مسلمانو! تمہارے کان میں جمعہ کی اذان پہنچے تو تم اپنا کام کاج چھوڑ دو اور نماز کے لیے آ جاؤ.

Page 389

* 1949 380 خطبات محمود پیشوں ، ملازمتوں اور تجارتوں وغیرہ کی طرف سے اپنی توجہ ہٹا کر اللہ تعالیٰ کے ذکر کے لیے چل پڑو.گویا قیامت کے روز اسرافیل سے بگل بجانے کا جو کام لیا جائے گا وہی کام یہاں مؤذن سے لیا جاتا ہے.جس طرح قیامت کے روز اسرافیل بنگل بجائے گا تو تمام روحیں اپنی اپنی جگہوں سے اُٹھیں گی اور بنگل کی آواز کی طرف بھاگ پڑیں گی.اسی طرح اس کے نقش قدم پر مؤذن جمعہ کی اذان دیتا ہے تو اُس جگہ کے تمام لوگوں کو یہ حکم ہوتا ہے کہ وہ اُس کی آواز کی طرف بھاگ پڑیں.عیدالفطر اور عیدالاضحیہ کا بھی یہ حال ہے.ان کے متعلق تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہاں تک فرمایا ہے کہ تمام مرد، عورتیں اور بچے جمع ہو جائیں، حائضہ بھی اگر چہ اسے نماز معاف ہے عید کے میدان میں جائے.5 گویا سوائے معذور کے جو اتناسخت بیمار ہو کہ وہاں نہ جا سکے یا کسی ایسے شخص کے جو کہیں جنگلوں میں پھر رہا ہو باقی ہر ایک کے لیے عید کی نماز کے لیے جانے کا حکم ہے.یہ فرق کیوں کیا گیا ہے؟ حضرت نوح علیہ السلام کے زمانہ میں تمام لوگوں کو کیوں نہیں کہا گیا کہ سب جمع ہو کر عید مناؤ ؟ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے زمانہ میں تمام لوگوں کو کیوں نہیں کہا گیا کہ سب جمع ہو کر عید مناؤ؟ حضرت موسی علیہ السلام کے زمانہ میں تمام لوگوں کو اجتماعی عید منانے کا کیوں حکم نہیں دیا گیا ؟ حضرت عیسی علیہ السلام کے زمانہ میں تمام لوگوں کو اجتماعی عید منانے کا کیوں حکم نہیں دیا گیا ؟ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں یہ کیوں کہا گیا؟ اسی لیے کہ حضرت نوح علیہ السلام ساری دنیا کو جمع کرنے کے لیے نہیں آئے تھے.حضرت ابراہیم علیہ السلام ساری دنیا کو جمع کرنے کے لیے نہیں آئے تھے.حضرت موسی علیہ السلام ساری دنیا کو جمع کرنے کے لیے نہیں آئے تھے.حضرت عیسی علیہ السلام ساری دنیا کو جمع کرنے کے لیے نہیں آئے تھے.اگر کوئی نبی ساری دنیا کو ایک نقطہ مرکزی پر جمع کرنے کے لیے آیا ہے تو وہ صرف محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں.پس مسلمانوں کی عید کو اجتماعی عید قرار دیا گیا ہے اور انہیں کہا گیا ہے کہ تمہاری سچی عید تب ہو گی جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کی غرض کو پورا کیا جائے.پس ہر جمعہ ہمیں اس کام کی طرف توجہ دلاتا ہے جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کی وجہ سے مسلمانوں کے ذمہ لگایا گیا ہے.ہر جمعہ جو ختم ہوتا ہے وہ اس شخص کے لیے برکت لکھ جاتا ہے جس نے اسلام کی اشاعت اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت میں اسے گزارا.اور ہر جمعہ جو آتا ہے اور کوئی مسلمان

Page 390

* 1949 381 خطبات محمود اپنے اس فرض کو پورا نہیں کرتا جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کی وجہ سے اس کے ذمہ لگایا گیا ہے وہ اپنے ذاتی کاموں اور ا کاموں اور اغراض میں لگا رہتا ہے وہ جمعہ اس کے لیے ایک لعنت لکھ جاتا ہے.کیونکہ اس نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کا منہ سے تو دعوی کیا لیکن عملی طور پر اسے پورا نہیں کیا.پس یہ دن ہمیں بہت بڑا سبق دیتا ہے.جو شخص اس سبق کو بھول جاتا ہے اس کے لیے جمعہ کا دن لعنتوں کے جمع کرنے کا موجب بن جاتا ہے.اور جو اسے یادرکھتا ہے اس کے لیے برکات کے جمع کرنے کا موجب ہو جاتا ہے.پس آج میں دوستوں کو اس فرض کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں جس کی یاد جمعہ کا دن دلاتا ہے اور جس کی یاد جمعہ کا دن ہمیشہ دلاتا رہے گا.مبارک ہیں وہ لوگ جو اس تعمیر میں حصہ لیں جو تمام دنیا کو ایک نقطہ مرکزی پر جمع کرنے کے لیے بنائی جانے والی ہے.اور افسوس ہے اُن لوگوں پر جو اس تعمیر میں حصہ نہ لیں.قیامت کے دن وہ شرمندہ ہوں گے اور خدا تعالیٰ ان سے کہے گا کہ بتاؤ! ہم نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ساری دنیا کے لیے رسول بنا کر بھیجا تھا تم نے اُس کے پیغام کو دنیا تک پہنچانے کے لیے کیا کوشش کی؟ (الفضل یکم مارچ 1961 ء ) :1 وَمَا أَرْسَلْنَكَ إِلَّا كَافَةً لِلنَّاسِ (سبا: 29) 2 : ایسٹر (EASTER): حضرت عیسی علیہ السلام کے قبر سے اٹھنے کا دن.3 دسہرا توھارا تہوار.ہندوؤں کا تہوار جو اسوج کی دسویں تاریخ کو راجہ رام چندر جی کے راون کی پر فتح پانے کی یاد میں منایا جاتا ہے(فیروز اللغات اُردو) 4 : الجمعة : 10 5 : بخاری کتاب الحيض باب شُهُودِ الحائض الْعِيُدَينِ (الخ)

Page 391

* 1949 382 39 خطبات محمود جماعت کو زندہ رکھنے کے لیے ضروری ہے که منافق طبع لوگوں کی اصلاح کی جائے (فرمودہ 18 نومبر 1949ء بمقام ربوہ) تشهد ، تعو ذاور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: دو دن سے میری آنکھیں شدید طور پر ڈکھنے آئی ہوئی ہیں یا یوں کہنا چاہیے کہ شدید طور پر کھنے آئی ہوئی تھیں کیونکہ مجھے آج بہت افاقہ معلوم ہوتا ہے.رات کو جو حالت تھی اُس سے میں سمجھتا ہے تھا کہ بہت دنوں تک میں باہر نہیں نکل سکوں گا.اس لیے جمعہ پڑھانے کا سوال تو کیا روشنی میں آنا بھی مشکل تھا.اور پھر زیادہ بولنے سے بھی آنکھ کو تکلیف ہوتی ہے کیونکہ اس کا اعصاب پر اثر پڑتا ہے.لیکن بعض دفعہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایسے سامان ہو جاتے ہیں کہ تکلیف کی حالت جلد بدل جاتی ہے.رات کو میری آنکھوں میں اتنی تکلیف تھی کہ میں ٹہلتا تھا تو آرام رہتا تھا لیکن لیٹتا تھا تو ٹیس سی اُٹھنےلگتی ہے تھی اور آنکھوں سے پانی بہنا شروع ہو جاتا تھا.میں پھر ٹہلنا شروع کر دیتا تو ایک حد تک آرام رہتا ہے لیکن پھر دوبارہ لیٹتا تو وہی تکلیف شروع ہو جاتی.دو تین دفعہ ایسا ہوا تو مجھے خیال آیا کہ پہلے دن بھی ایسا ہوا تھا کہ ٹہلتا تھا تو درد سے آرام رہتا تھا لیکن جب لیٹ جاتا تھا تو ٹیس سی اُٹھنے لگتی تھی اور پانی بہنا ہے

Page 392

* 1949 383 خطبات محمود شروع ہو جاتا تھا.اس سے میرا خیال اس طرف گیا کہ یہ بیماری ایسی ہے کہ لیٹنے سے تکلیف دیتی ہے ہے.اس خیال کے آنے پر میں نے اپنی ایک بیوی سے کہا کہ ہومیو پیتھک کی فلاں کتاب نکالو.ایسی باتیں ہومیو پیتھک کی کتابوں میں زیادہ لکھی ہوئی ہوتی ہیں ایلو پیتھک یا یونانی طب میں یہ باتیں نہیں ہے پائی جاتیں.میں نے اپنی بیوی سے کہا جو مرض لیٹنے سے اور رات کے وقت زیادہ ہوتی ہے اس علامت کی کی دوائیں نکالو.کتاب میں ایک ایک علامت کے آگے آٹھ آٹھ ، دس دس دوائیں لکھی ہوئی ہوتی ہے ہیں.انہوں نے وہ دوائیں پڑھنی شروع کیں.جو دوائیں ایک جگہ لکھی ہوئی تھیں وہ دوسری جگہ لکھی ہوئی نہیں تھیں.یعنی اگر لیٹنے سے تکلیف دینے والی امراض کی علامات میں اُن کا ذکر تھا تو رات کو تکلیف دینے والی امراض کی علامات میں اُن کا ذکر نہیں تھا اور اگر رات کو تکلیف دینے والی امراض کی علامات میں ان کا ذکر تھا تو لیٹنے سے تکلیف دینے والی امراض کی علامات میں ان کا ذکر نہیں تھا.پڑھتے پڑھتے ایک دوائی کا نام آیا جس کا ذکر دونوں جگہوں پر آتا تھا اور وہ آرسینک تھا.علامات میں یہ لکھا تھا کہ جب نزلہ ہو، آنکھوں سے پانی بہتا ہو خصوصاً جب وہ پانی تیزابی مادہ والا ہو اور لیٹنے سے تکلیف ہوتی ہو ، رات کو تکلیف بڑھ جاتی ہو تو یہ دوا مفید ہے.اتفاقاً جب پچھلے سال میں کوئٹہ گیا تو ایک دوست ہومیو پیتھک کی چند دوائیں مجھے دے گئے.انہیں وہ دوا ئیں اپنے مکان سے ملی تھیں جو ایک ہندو کا تھا جو اُسے چھوڑ گیا تھا.ان دواؤں میں ایک شیشی میں آرسینک کی بھی چھپیں تمھیں گولیاں تھیں جو اب تک پڑی ہوئی تھیں.میں نے وہ دوائی کھائی تو تھوڑی دیر کے بعد ہی درد جاتا رہا اور ساری رات آرام رہا.صبح آنکھیں بھی کھلنے لگ گئیں اور کچھ روشنی کی بھی برداشت ہونے لگی.غرض بعض دفعہ اللہ تعالیٰ اپنے پاس سے ایسے سامان کر دیتا ہے کہ مایوسی کی حالت آرام سے بدل جاتی ہے.میں جب جمعہ پڑھانے کے لیے آتا ہوں تو اکثر ایسا ہوتا ہے کہ چلتے چلتے یا مسجد میں آکر جو مضمون ذہن میں آجائے اُس پر خطبہ دے دیتا ہوں.عام طور پر گھر سے مضمون سوچ کر نہیں آتا.لیکن آج کا خطبہ دیر سے میرے مدنظر تھا بلکہ لاہور سے آنے سے پہلے میرے مدنظر تھا لیکن گزشتہ خطبہ جمعہ چونکہ میں نے سرگودھا میں پڑھا تھا اس لیے یہ مضمون بیان نہ کر سکا.اگر چہ اس مضمون کو مفصل بیان کرنے کی ضرورت ہے اور آج میں بیمار ہونے کی وجہ سے مختصر خطبہ ہی پڑھ سکتا ہوں تا مرض عود نہ کر آئے لیکن یہ مضمون بھی نہایت ضروری ہے اور کسی اور دن ملتوی نہیں کیا جا سکتا ہے.اس لیے ہے

Page 393

خطبات محمود 384 * 1949 بجائے اس کے کہ میں اسے ملتوی کروں نسبتاً اختصار کے ساتھ بیان کرنا زیادہ پسند کرتا ہوں.قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں بھی اور حضرت کی موسی علیہ السلام کے زمانہ میں بھی مومنوں کے ساتھ ساتھ ایک گروہ منافقوں کا بھی پایا جاتا تھا.حضرت موسی علیہ السلام کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے الَّذِینَ اذَوْا مُوسى 1 وہ لوگ جنہوں نے حضرت موسی علیہ السلام کو دکھ دیا.یہ لوگ کون تھے؟ وہی منافق تھے جو ان کی جماعت میں پائے جاتے تھے.پھر فرماتا ہے جب حضرت موسی علیہ السلام پہاڑ پر اللہ تعالیٰ کی تجلی دیکھنے کے لیے تشریف لے گئے تو آپ کے روحانی دشمنوں نے آپ کے بعد ایک بچھڑے کو معبود بنالیا اور اسے پوجنا شروع کر دیا.2 اسی طرح حضرت موسی علیہ السلام اور آپ کی قوم کے بعض لوگوں میں اور بھی کئی اختلافات کا ذکر آتا ہے.مثلاً یہ کہ وہ چھوٹی چھوٹی باتوں پر حضرت موسی علیہ السلام سے لڑنے لگ جاتے تھے.یہاں تک کہ جب موعودہ علاقہ فتح ہونے لگا اور حضرت موسی علیہ السلام نے اپنی قوم سے کہا کہ جاؤ اور لڑائی کر کے اس علاقہ کو فتح کر لو تو منافقوں نے یہ اعتراض اُٹھایا کہ ہم کیوں لڑیں؟ بعض مومن بھی کی اس گروہ کے ساتھ مل گئے کیونکہ قاعدہ یہ ہوتا ہے کہ جب کوئی شخص بات کرتا ہے تو بعض کمزور طبائع بھی ساتھ مل جاتی ہیں.چنانچہ حضرت موسی علیہ السلام کے وقت میں جب منافقوں نے یہ اعتراض اٹھایا ہے کہ ہم کیوں لڑیں؟ تو بعض مومن بھی اُن کے ساتھ مل گئے اور حضرت موسی علیہ السلام سے کہنے لگے فَاذْهَبْ اَنْتَ وَرَبُّكَ فَقَاتِلَا إِنَّا هُهُنَا فَعِدُونَ 3 موسی یہ تو بتاؤ کہ جب تم ہمیں ہمارے ملک سے نکال کر لائے تھے تو یہ کہہ کر لائے تھے کہ ہم فلاں ملک تمہیں دیں گے.تم نے ہی یہ کہا تھا تھا کہ خدا تعالیٰ نے تمہیں فلاں ملک دینے کا وعدہ کیا ہے.کہنے والے تم تھے وعدہ کرنے والا خدا تھا اور ی لڑتے پھریں ہم.یہ نہیں ہو سکتا.خدا تعالیٰ نے یہ ملک ہمیں دینے کا وعدہ کیا تھا اور تم کہتے تھے کہ اس نے ایسا وعدہ کیا ہے اس لیے فَاذْهَبْ اَنْتَ وَرَبُّكَ فَقَاتِلَا إِنَّا هُهُنَا فَعِدُونَ تم دونوں وعدہ کرنے والے لڑتے پھرو.ہم یہاں بیٹھے ہیں.ملک فتح ہو جائے گا تو ہم وہاں چلے جائیں گے.اسی طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں بھی ہوا.منافق لوگ اُٹھتے تھے اور اسلام کے خلاف ، رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف، صحابہ کے خلاف اور خواتین اسلام کے خلاف باتیں بناتے تھے.شروع شروع میں وہ کچھ دوسرے لوگوں کو سامنے رکھ لیتے تھے اور پھر ترقی کرتے کرتے

Page 394

* 1949 385 خطبات محمود اسلام اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر بھی حملے کرنے لگ جاتے تھے.حضرت مسیح علیہ السلام کے وقت میں بھی ایسا ہوا.انجیل میں آتا ہے کہ آپ کے حواری کہلانے والے لوگوں میں سے بعض نے یہ اعتراض کیا کہ آپ پر بعض اخراجات ایسے ہوتے ہیں جو ناجائز ہیں.اسی طرح آپ کے حواری کہلانے والے ایک شخص نے جس کو آپ اپنی زندگی میں اپنا ہے خلیفہ کہا کرتے تھے دشمن سے تہیں روپے لے کر آپ کی جائے رہائش کا پتا دے دیا اور پولیس نے وہاں جا کر آپ کو گرفتار کر لیا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ میں بھی بعض ایسے لوگ پائے جاتے تھے جیسے آپ نے فرمایا کہ بعض لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ لنگر خانہ کے اخراجات بہت زیادہ ہیں اور غلط طور ہوتے ہیں.انہیں کم کرنا چاہیے.غرض یہ سلسلہ ہمیشہ سے چلا آیا ہے اور ہمیشہ رہے گا کیونکہ کمزور طبائع کا پوری طرح ازالہ نہیں کیا جاسکتا.یہ مضبوط آدمیوں کا کام ہوتا ہے کہ وہ ان کی کمزوری کا اثر پیدا نہ ہونے دیں.ہماری جماعت میں بھی یہ گروہ پیدا تھا اور پیدا ر ہے گا.کبھی کبھی ہم ان لوگوں سے نرمی کا معاملہ کرتے ہیں اور کبھی کبھی سختی بھی کرنی پڑتی ہے.مگر میں سمجھتا ہوں کہ زندگی کا نیادور جو ہم پر آیا ہے اور مرکز جو ہم بنانے لگے ہیں اس نازک ترین دور میں جو ابتدائی دور کے مشابہہ ہے ہمیں ایک دفعہ پھر اس گروہ کا قلع قمع ہے کرنا چاہیے.ہم انہیں ملا کبھی نہیں سکتے.کیونکہ یہ خدا تعالیٰ کی سنت ہے اور خدا تعالیٰ کی سنت کے خلاف کوئی قدم نہیں اٹھایا جا سکتا.یہ لوگ ہمیشہ سے جب سے حضرت آدم علیہ السلام پیدا ہوئے ہیں چلے آرہے ہیں اور چلتے چلے جائیں گے.دیکھو ! حضرت آدم علیہ السلام کے ساتھ بھی تو منافق شیطان کی شکل میں آیا اور اس نے کہا اے آدم! میں تمہارا خیر خواہ ہوں اور تمہارا خیر خواہ ہوتے ہوئے یہ بات کہتا ہوں کہ یہ درخت تمہارے لیے نہایت مفید اور بابرکت ہے.4 اگر آدم علیہ السلام جو پہلے نبی تھے ی وہ آدم علیہ السلام جو ابتدائے افرینش میں آئے جبکہ شریر عنا صر ا بھی قوت نہیں پکڑ چکے تھے منافق شیطان کی شکل میں اُن کے پاس بھی پہنچا تو دوسرے لوگوں کے پاس اس کا پہنچنا کونسی بعید از قیاس بات ہے.بعض لوگ کہتے ہیں کہ منافق آئے کہاں سے؟ اگر چہ یہ ایک لغو بات ہے مگر ایسے لوگوں کی واقفیت کے لیے میں یہ بتاتا ہوں کہ یہ ایک مرض ہے.کیا تم بتا سکتے ہو کہ تھو ہر اور گھاس کہاں سے

Page 395

خطبات محمود 386 * 1949 جاتا ہے؟ کیا تم نے بھی ایسا باغ لگایا ہے جس میں تھو ہر نہ نکل آئی ہو؟ کیا تم نے کبھی کوئی فصل ہوئی ہے جس میں آک اور گھاس نہ نکل آیا ہو؟ جو زمین بھی زیر کاشت آتی ہے اُس میں تھوہر ، آک اور گھاس نکل آتا ہے.اور جس طرح تم ایک باغ لگاتے ہو تو اس کے ساتھ آگ تھوہر اور گھاس نکل آتا ہے اسی طرح روحانی سلسلہ کے ساتھ ساتھ منافقت بھی خود بخود آ جاتی ہے.بالکل اسی طرح جس طرح یہ غیر روحانی سلسلہ کے ساتھ ساتھ پیدا ہو جاتی ہے.گھاس درخت کے سایہ کے نیچے اور سڑکوں کے کناروں پر خود بخود نکل آتا ہے.اسی طرح باغوں میں بھی یہ خود بخود آتا ہے.غرض گھاس ہر جگہ پیدا ہو جاتا ہے.وہاں پر بھی جہاں کوئی نگران نہ ہو اور وہاں پر بھی جہاں زیر کاشت زمین ہونے کی وجہ سے اس پر نگران یا مالی موجود ہو.اسی طرح منافق بھی آپ ہی آپ پیدا ہو جاتے ہیں.یہ وہ پودا ہے جو نہ کو ہستانی، نہ بستانی اور نہ ہی یہ پودا بیا بانی ہے.یہ باغوں میں بھی آگ آتا ہے، یہ کو ہستانوں میں بھی اگ آتا ہے یہ بیابانوں میں بھی اُگ آتا ہے.اور جس طرح ایک اچھا با غبان اپنے باغ کی حالت کو اُس وقت تک اچھا نہیں رکھ سکتا جب تک کہ وہ وقتا فوقتا گھاس کو کھود کر باغ سے مٹا نہ ڈالے اسی طرح کی کوئی جماعت اُس وقت تک ترقی نہیں کرتی جب تک کہ اُسے وقتا فوقتا منافقین سے صاف نہ کیا لی جائے.جو باغبان یہ خیال کر لیتا ہے کہ میں نے تو آم بوئے ہیں اس لیے آم کے علاوہ یہاں کوئی اور چیز پیدا نہیں ہو سکتی وہ احمق ہے.جو زمیندار یہ خیال کر لیتا ہے کہ میں نے صرف گندم ہوئی ہے یا صرف کپاس ہوئی ہے اس لیے گندم اور کپاس کے علاوہ یہاں کوئی اور چیز پیدا نہیں ہو سکتی وہ زمیندار احمق ہے.صرف گندم یا کپاس بونے کا یہ مطلب نہیں کہ وہاں گھاس نہیں اُگ سکتا.گھاس خود بخود اگ آتا ہے.اس کا بیج بونے کی ضرورت نہیں.جو باغبان یہ خیال کر لیتا ہے کہ میں نے صرف آم یا سنگترے کا درخت بویا ہے یا جوز میندار یہ خیال کر لیتا ہے کہ میں نے صرف گندم یا کپاس ہوئی ہے گھاس کہاں سے آ جائے گا اور اس سے غافل رہتا ہے وہ اپنی کم علمی کا ثبوت دیتا ہے.یہ یقینی بات ہے کہ اگر وہ اپنی فصل کی حفاظت کرنا چاہتا ہے تو اسے گوڈائی کر کے زائد پودوں کو تلف کرنا پڑے گا.اور اگر کسی نے باغ لگایا ای ہے تو اسے وقتا فوقتا گھاس کو اکھاڑ کر پھینکنا پڑے گا.اچھے باغبان سال میں چھ دفعہ باغ کی گوڈائی کرتے ہیں تا گھاس نکل جائے.کم از کم تین دفعہ تو گوڈائی کرنا نہایت ضروری ہوتا ہے.اسی طرح زندہ جماعتوں کے لیے ضروری ہوتا ہے کہ وہ وقتاً فوقتاً منافقوں کو نکالتی رہیں کیونکہ یہ گھاس ہیں، یہ

Page 396

$ 1949 387 خطبات محمود خودر و پودے ہیں جو باغ کو ترقی کرنے نہیں دیتے.پھر بعض دفعہ ایک درخت اچھا ہوتا ہے اس میں کیٹر ا لگ جاتا ہے یا کوئی زہریلا مادہ پیدا ہو جاتا ہے اور وہ سوکھ جاتا ہے.باغبان کو وہ درخت بھی باغ سے کاٹ دینا پڑتا ہے کیونکہ اگر وہ اسے نہیں کاٹے گا تو وہ مادہ دوسرے درختوں کو بھی خراب کرے گا.یہی وجہ ہے کہ باغبان کو باغ کی حفاظت کرنے کے لیے جہاں گھاس اور دیگر خودرو پودوں کو تلف کرنا پڑتا ہے وہاں ایسے درخت بھی کاٹنے پڑتے ہیں جو کسی وقت میں اچھے امرود یا اچھے انجیر تھے لیکن اب ان کو کیڑا لگ گیا ہے.میں نے انجیر اور امرود کے درختوں کا نام اس لیے لیا ہے کہ ان میں کیڑا بہت جلد لگ جاتا ہے اور اگر کیڑا لگے ہوئے درختوں کو کاٹا نہ جائے تو ان درختوں کو بھی کیڑا لگ جانے کا خطرہ ہوتا ہے جن کو بالعموم کیر انہیں لگتا.ایک دفعہ میرے باغ میں آم کے ایک درخت کو کیڑا لگ گیا.میں نے ایگریکلچرل آفیسر کو کہلا بھیجا کہ میرے باغ میں آم کے ایک درخت کو فلاں کیڑا لگ گیا ہے.اس نے جواب دیا کہ آم کے درخت کو یہ کیڑا لگ ہی نہیں سکتا.میں نے اسے گورداسپور سے بلو ا کر وہ کیڑا لگا ہوا درخت دکھایا تو وہ بہت حیران ہوا اور اس نے کہا چونکہ اس کے پاس امرود کے درخت تھے اس لیے ان سے وہ کیڑا اس درخت میں چلا گیا ہے ورنہ عام طور پر یہ کیٹر ا آم کے درخت کو نہیں لگا کرتا.گویا قرب کی وجہ سے بعض دفعہ غیر حل پر بھی کسی چیز کا اثر ہو جاتا ہے.اسی طرح بعض دفعہ ان لوگوں میں بھی جو منافقت سے بہت دُور ہوتے ہیں اور بظاہر ان میں منافقت کا کیڑا لگنا ناممکن ہوتا ہے منافقت کا اثر ہو جاتا ہے.بالکل اسی طرح جس طرح زراعت کے افسروں کے نزدیک آم کے درخت کو ایک خاص کیٹر ا نہیں لگ سکتا لیکن میرے باغ کے ایک آم کو لگ گیا.پس یہ خیال نہیں کرنا چاہیے کہ یہ چیز فلاں جگہ آہی نہیں سکتی.بیماری ہر جگہ ہوتی ہے بلکہ بیماری بیداری کے لیے ضروری ہوتی ہے.منافقت کے معنے صرف دین کے خلاف باتوں کے نہیں بلکہ اس کے معنے یہ بھی ہیں کہ کسی شخص کا ایمان کمزور ہو جائے.مثلاً جو شخص سچ پر پوری طرح قائم نہیں رہا ، نمازوں میں سُست ہو گیا ہے، چندہ دینے میں کمزور ہو گیا ہے وہ بھی منافق ہے.یہ گھن ہے جو لگتا چلا جاتا ہے.لیکن ایک وہ لوگ ہیں جو اپنے بدنمونہ کی وجہ سے دوسروں کو منافق بنا دیتے ہیں اور ایک وہ لوگ ہیں جو بدنمونہ بھی ہوتے ہیں اور بد زبان بھی.اس لیے ان کی اصلاح نہایت ضروری ہوتی ہے.کیونکہ وہ دو قینچیاں کی

Page 397

* 1949 388 خطبات محمود چلاتے ہیں ایک بد عملی کی قینچی اور دوسری بد زبان کی قینچی.میں نے غور کیا ہے کہ اب پھر ایسا وقت آیا ہے کہ اس طبقہ کو جماعت سے نکال دیا جائے.یہ طبقہ کہاں سے آتا ہے؟ اس کے متعلق یا درکھنا چاہیے کہ اس کی موٹی موٹی جگہیں یہ ہیں.قرآن کریم میں آتا ہے کہ بعض لوگ دلائل سن کر ایمان لے آتے ہیں.لیکن جب ان سے قربانیوں کا مطالبہ کیا جاتا ہے تو وہ ان کی برداشت نہیں کر سکتے.مثلاً جب وہ نماز نہیں پڑھتے تو لوگ ان سے پوچھتے ہیں ہیں کہ تم نماز کیوں نہیں پڑھتے ؟ آخر اس سوال کا وہ کیا جواب دیں گے.کیا وہ یہ جواب دیں گے کہ بھئی ہم کمزور ہیں، گنہ گار ہیں؟ اس جواب کے لیے بڑی ہمت کی ضرورت ہوتی ہے.ان کا جواب یہ ہوتا ہے کہ میں نے تمہارے بڑے بڑے آدمیوں کو دیکھا ہوا ہے وہ بھی نمازیں نہیں پڑھتے.گویا وہ اپنا الزام دوسروں پر لگا دیں گے تا ان کا وہ عیب چُھپ جائے.یہ بات اُن سے اگر کوئی کمزور ایمان شخص سن لے گا تو وہ دوسری جگہ پر جائے گا اور کہے گا کہ میں نے ایک معتبر شخص سے سنا ہے کہ فلاں فلاں شخص نماز نہیں پڑھتا.وہ معتبر شخص کون ہوگا ؟ وہ معتبر شخص وہی منافق ہو گا جس نے اپنا عیب چھپانے لیے اپنا الزام دوسروں پر لگا دیا.یا مثلاً چندہ ہے.ایک شخص چندہ نہیں دیتا.لوگ اس سے پوچھتے ہیں کہ بھئی! تم چندہ کیوں نہیں دیتے ؟ وہ اپنے عیب کو چھپانے کے لیے کہہ دیتا ہے کہ بھئی! چندہ کیا دیں؟ مرکز میں بیٹھے لوگ چندے کھا رہے ہیں.یہ تو کوئی شخص نہیں کہ سکتا کہ میں بے ایمان ہوں، کمزور ہوں اس لیے چندہ نہیں دیتا.بجائے اس کے کہ وہ کہے بھئی ! میں بے ایمان ہوں ، کمزور ہوں وہ کہ دیتا ہے مرکز میں بڑے بڑے لوگ چندے کھا رہے ہیں اس لیے میں چندہ نہیں دیتا.اس طرح وہ اپنی عزت کو بچانا چاہتا ہے.غرض بد عمل لوگ اپنے عیب اور کمزوری کو چھپانے کے لیے اور اس پر پردہ ڈالنے کے لیے ہمیشہ دوسروں پر الزام لگاتے ہیں.ان لوگوں کی بڑی پہچان یہ ہے کہ پہلے معترض کا اپنا ہی عمل دیکھا جائے کہ وہ چندہ دیتا ہے؟ یا دیانتداری میں خود مشہور ہے؟ یا وہ خود تو کسی سے دھوکا نہیں کی کرتا؟ اگر وہ خود چندہ دیتا ہے، وہ خود دیانتداری میں مشہور ہے تب تو ہم یہ شبہ کر سکتے ہیں کہ شاید اُس کی کی بات بچی ہو یا شاید اس نے کسی غلط فہمی کی بناء پر کوئی بات کہہ دی ہو لیکن جس کی دیانت خود مشتبہ ہے وہ خود چندہ نہیں دیتا اور پھر وہ دوسروں پر اعتراض کرتا ہے وہ منافق ہے.پس ہر وہ شخص جو دوسروں پر خیانت اور بددیانتی کا الزام لگائے پہلے اُسے دیکھو کہ آیا وہ خود دیانتدار ہے؟ خود چندوں میں پچست

Page 398

$1949 389 خطبات محمود ہے؟ اگر وہ خود ایماندار ہو تب تو بیشک اس کی بات پر غور کرنے کی ضرورت ہے لیکن پھر بھی یہ ضروری نہیں کہ اُس کی بات فی الواقع کچی ہو.ہو سکتا ہے کہ وہ جو کچھ کہہ رہا ہے محض غلط فہمی کی بناء پر ہو.دوسری وجہ منافقت کی یہ ہوتی ہے کہ نئی نسل کی تربیت اچھی نہیں ہوتی.پہلے لوگ تو سوچ سمجھ کر ایمان لاتے ہیں لیکن نئی نسل تو سوچ سمجھ کر ایمان نہیں لائی ہوتی.وہ تو پیدائشی احمدی ہوتے ہیں اس لیے بُری تربیت کی وجہ سے وہ جلد منافقت کی طرف مائل ہو جاتے ہیں.جو سوچ سمجھ کر ایمان لاتا ہے اس کا ایمان اتنا کمزور نہیں ہوتا کہ ٹھوکر کھا جائے.لیکن جو شخص سوچ سمجھ کر ایمان نہیں لا یا بلکہ محض پیدائش کی وجہ سے وہ احمدی ہے اُس کا ایمان اتنا مضبوط نہیں ہوتا جتنا اس شخص کا جو خود سوچ سمجھ کر ایمان لایا ہو.غرض نئی پود میں بھی منافقت زیادہ گھر کر جاتی ہے.اب اگر یہ صحیح ہے کہ ہر احمدی کی تربیت اچھی نہیں تو یہ ماننا پڑے گا کہ منافقت احمدیوں میں بھی ہوسکتی ہے.منافقت کی تیسری وجہ یہ ہوتی ہے کہ بعض دفعہ ایماندار اور مخلص شخص بھی کمزوری دکھا جاتا ہے.اور چونکہ ہر کمزوری معاف نہیں ہو سکتی اس لیے بعض دفعہ اسے سلسلہ کی طرف سے سزا دی جاتی ہے اور بعض اوقات اس سزا کی وجہ سے وہ ٹھو کر کھا جاتا ہے یا اس کے اندر بغض اور کینہ پیدا ہو جا تا ہے ہے.پس اگر کوئی شخص منافقت والی بات کر رہا ہو تو دیکھو کہ آیا وہ ایسا شخص تو نہیں جسے کسی مجرم کی بناء پر سلسلہ کی طرف سے سزا دی گئی ہو؟ یا اس کے کسی قریبی رشتہ دار یا دوست کو سزا دی گئی ہو؟ اگر ایسا ہے تو یہ زیادہ قرین قیاس ہے کہ وہ اپنا بدلہ لے رہا ہے.جو لوگ مخلص نہیں وہ میرے مخاطب نہیں.لیکن جو لوگ بچے مبائع اور مخلص ہیں میں انہیں ہدایت دیتا ہوں کہ ایسے لوگ جہاں کہیں بھی ہوں اُن کی اطلاع مجھے دیں.بعض اطلاعیں مجھے مل چکی ہیں اور ان کے متعلق میں قدم اُٹھانے والا ہوں.لیکن اگر تم لوگ بھی مجھے اطلاع دیتے رہو گے تو مجھے اپنے کام میں مدد ملے گی.مثلاً میرے پاس ایک روایت می پہنچتی ہے کہ فلاں شخص منافق ہے لیکن ایک روایت کے ساتھ کسی کے خلاف کوئی قدم نہیں اُٹھایا جاسکتا.اور اگر ہم اس شخص کا نام پہلے ہی لے دیں تو اُس کے خلاف غلط روایات جمع ہونی شروع ہو جائیں گی اس لیے ایسا کرنا اس پر ظلم ہوگا.پس جماعت کے ہر فرد کو چاہیے کہ جہاں کہیں بھی ایسے لوگ پائے جاتے ہوں جو ایسے لوگوں کے سامنے باتیں کرتے ہوں جو اصلاح پر مقرر نہیں کیے گئے ان کی اطلاع مجھے دے

Page 399

$1949 390 خطبات محمود اصلاح پر مقرر خلیفہ ہے، صدر انجمن احمد یہ ہے، مجلس شوری ہے، ناظر ہیں اور بعض کاموں میں تحریک جدید اور تحریک جدید کی انجمن ہے اور ان کے بعد اوکل امیر اور لوکل امیر کی انجمن ہے.میں کسی فرد کا نام نہیں لے رہا.اگر ان سات کے سامنے کوئی شخص کوئی بات کرتا ہے تو وہ منافق نہیں.اس لیے ی کہ یہ اصلاح پر مقرر ہیں.لیکن ان سات کے سوا اگر وہ کسی اور کے سامنے کوئی بات کرتا ہے تو ہم اسے کی منافق کہیں گے.یہ ضروری نہیں کہ وہ منافق ہو لیکن وہ اس بات کا اہل ہے کہ اُس کا جائزہ لیا جائے کہ آیا وہ احمق ہے یا منافق ؟ پس اگر کوئی شخص خلیفہ وقت، نظام جماعت یا افراد جماعت کے خلاف ان سات قسم کے لوگوں کے سوا کسی اور کے سامنے کوئی بات کرتا ہے تو ایسے شخص کی رپورٹ میرے پاس آنی چاہیے تا کہ اگر وہ اصلاح کے قابل ہے تو اُس کی اصلاح کی جائے.ہمارے ہاتھ میں صرف یہی ہے کہ ہم اس کا مقاطعہ کر دیں یہ نہیں کہ اُسے مار پیٹ کریں.مار پیٹ کرنا گورنمنٹ کے ہاتھ میں ہے.بہر حال جماعت کو زندہ رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ اس قسم کے لوگوں کی اصلاح کی جائے.میں پھر یہ واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ رحم کے معنے یہ نہیں کہ باغ میں گھاس اُگا ہو اور اسے کاٹا نہ جائے.اگر کوئی باغبان اس گھاس پر رحم کرتا ہے تو اس کے معنے یہ ہیں کہ درخت مرجائے گا.اگر کوئی ای نص سانپ پر رحم کرتا ہے تو اس کے یہ معنے ہیں کہ سانپ اس کے بچہ کو کاٹ لے گا.باؤلے کتے پر اگر کوئی رحم کرتا ہے تو اچھے شہری مارے جائیں گے.یہ رحم نہیں ظلم ہے.رحم کی مستحق سب سے کی اول جماعت ہے.رحم کا مستحق سب سے اول سلسلہ ہے.رحم کا مستحق سب سے اول نظام سلسلہ ہے.اور جو شخص ان کے خلاف باتیں کرتا ہے وہ اس قابل نہیں کہ اسے جماعت میں رہنے دیا جائے.بعض لوگ قادیان کے ہمارے ہاتھ سے چلے جانے کی وجہ سے بھی ٹھو کر کھا گئے ہیں حالانکہ یہ ایک معجزہ ہے.قادیان میں ہمارے آدمی اب تک موجود ہیں اور ہمارے کام وہاں با قاعدہ طور پر چل رہے ہیں.قادیان کے علاوہ سارے مشرقی پنجاب میں کوئی جگہ ایسی نہیں جہاں کوئی مسلمان جماعت کی اب تک موجود ہو اور وہ با قاعدہ طور پر کام کر رہی ہو.یہ ایک معجزہ تھا لیکن بعض لوگ ٹھو کر کھا گئے ہیں.یا بعض منافق جو قادیان میں ایک نظام کے ماتحت دبے ہوئے تھے سارے ملک میں پھیل گئے ہیں اور منافقت پھیلا رہے ہیں.پس یہ ضروری ہے کہ ہم منافقت کا خاتمہ کریں.منافق لوگ جماعت کو یا مجھے اس وقت تو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتے.کیونکہ یہ ہماری ترقی کا زمانہ ہے.اس وقت ان کی حیثیت

Page 400

* 1949 391 خطبات محمود ایک مچھر کی بھی نہیں.مچھر کوئی نقصان پہنچا سکتا ہے مگر وہ کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتے.لیکن پھر بھی انہیں نظر انداز نہیں کیا جا سکتا.کیونکہ اگر یہ پیج قائم رہا تو جب جماعت کمزور ہو جائے گی اُس وقت اُسے نقصان پہنچائے گا.اس لیے ہمارا یہ فرض ہے کہ نہ صرف ہم اپنی اصلاح کریں بلکہ ایسے لوگوں کی بھی ای اصلاح کریں جو جماعت کے لیے آئندہ کسی وقت بھی مُضر ہو سکتے ہیں.پس ان لوگوں کو کچلنا ہمارا ہے فرض ہے خواہ ان کے ساتھ ان سے ہمدردی رکھنے والے بعض بڑے لوگ بھی کچلے جائیں.اور ہر مخلص کی اور بچے مبالع کا یہ فرض ہے کہ وہ اس بارہ میں میری مدد کرے اور ایسے لوگوں کے متعلق مجھے اطلاع دے.اور اگر کوئی احمدی میرے اس اعلان کے بعد اس کام میں کوتا ہی کرے گا تو خدا تعالیٰ کے نزدیک وہ مومن نہیں ہو گا.بلکہ اس کی بیعت ایک تمسخر بن جائے گی.کیونکہ اس نے جان و مال اور عزت کی کے قربان کرنے کا وعدہ کیا لیکن جب خلیفہ وقت نے اُسے آواز دی تو اُس نے کسی کی دوستی کی وجہ سے اس آواز کا جواب نہیں دیا.پس ہر احمدی کا یہ فرض ہے کہ وہ منافقین کی اطلاع مجھے دے.تم اس بات سے مت ڈرو کہ سو میں سے پچاس احمدی نکل جائیں گے.تم پچاس سے ہی سو بنے ہو بلکہ تم ایک سے سو بنے ہو.پھر اگر سو میں سے پچاس نکل جائیں گے تو کیا ہوا ؟ پس یہ مت خیال کرو کہ اُن لوگوں کے نکل جانے سے جماعت کو کوئی نقصان پہنچے گا.گھاس کاٹ دینے سے باغ سے سبزہ تو کم ہو جاتا ہے لیکن درخت نشو ونما پاتا ہے اور باغ زیادہ قیمتی ہو جاتا ہے“.(الفضل یکم دسمبر 1949ء) 1 : الاحزاب: 70 2: وَاتَّخَذَ قَوْمُ مُوسَى مِنْ بَعْدِهِ مِنْ حُلَتِهِمْ عِجَلًا جَسَدًا (الاعراف:149) 3 : المائدة: 25 :4 وَقَاسَمَهُما إِنِّي لَكُمَا لَمِنَ النَّصِحِينَ (الاعراف:22)

Page 401

* 1949 392 40 40 خطبات محمود تحریک جدید کے دفتر اول کے سولھویں سال اور دفتر دوم کے چھٹے سال کے آغاز کا اعلان (فرموده 25 نومبر 1949ء بمقام ربوہ ) تشہد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: چونکہ مجھے تین دن سے در دنفرس کا دورہ ہے اس لیے میں کھڑے ہو کر خطبہ نہیں پڑھ سکتا بلکہ ممکن ہے نماز بھی بیٹھ کر پڑھاؤں.ہاں کوشش کروں گا کہ نماز کھڑے ہو کر ہی پڑھاؤں لیکن درد کی شدت کی وجہ سے مجھے سجدے اور قعدے میں پاؤں نکال کر ہی سجدہ یا قعدہ کرنا پڑے گا.جیسا کہ احباب کو معلوم ہے یا کم از کم ان احباب کو معلوم ہے جو معاملات کو سو چنے اور اُن پر غور کرنے کے عادی ہیں اور اس پر ان کے خطوط جو دو تین ہفتے سے آ رہے ہیں شاہد ہیں کہ یہ جمعہ سابقہ روایات کے مطابق تحریک جدید کے نئے سال کی تحریک کے اعلان کا جمعہ ہے.تحریک جدید کوی شروع ہوئے پندرہ سال ہو چکے ہیں اب یہ سولھواں سال شروع ہو رہا ہے.جس جوش اور جس جذبہ اور ایثار کے ساتھ جماعت کے دوستوں نے پہلے سال کے اعلان کو قبول کیا تھا اور جس کم مایگی 1 اور کمزوری کے ساتھ ہم نے یہ کام شروع کیا تھا وہ دونوں باتیں ایمان کی تاریخ میں ایک اہم حیثیت رکھتی ہیں.

Page 402

* 1949 393 خطبات محمود وہ جذبہ، جوش اور ایثار بھی جس کے ساتھ اس کام کو شروع کیا گیا تھا غیر معمولی اور مومنوں کی شاندار روایات کے مطابق تھا اور وہ بے بسی اور کم مایگی جس کے ساتھ ہم نے یہ کام شروع کیا تھا وہ بھی مومنوں کی کی تاریخ کی ایک زندہ مثال تھی یعنی تھی تو وہ بے بسی تھی تو وہ بے کسی تھی تو وہ کم مایگی لیکن وہ اس بات کی شہادت دے رہی تھی کہ مومن ایسے ہی حالات سے گزرا کرتے ہیں.وہ اس بات کی شہادت دے رہی تھی کہ گزشتہ انبیاء کی جماعتوں کو ایسی مشکلات سے ہی دو چار ہونا پڑا ہے.پس وہ بے بسی، بے کسی اور کم مایگی بھی مومنوں کی جماعت سے ہماری جماعت کو ملاتی تھی.اور وہ جوش اور وہ جذ بہ اور ایثار جو جماعت نے دکھایا وہ بھی ہمیں مومنوں کی جماعت سے ملاتا تھا.گویا 1934ء کا نومبر ایک نشان تھا سلسلہ احمدیہ کے مخالفوں کے لیے ، وہ ایک دلیل اور برہان تھا سوچنے اور غور کرنے والوں کے لیے کہ یہ جماعت خدا تعالیٰ کی طرف سے ہے اور یہ انہی قدموں پر چل رہی ہے جن پر گزشتہ انبیاء کی جماعتیں چلتی چلی آئی ہیں.تحریک جدید کے پہلے سال میں نے جماعت سے ستائیس ہزار روپیہ کی اپیل کی تھی.میں اب خود بھی نہیں مان سکتا کہ آیا ایسا ہو سکتا ہے.لیکن جیسا کہ خطبہ کے الفاظ سے ظاہر ہے وہ ستائیس ہزار روپیہ کی اپیل تین سال کے لیے تھی یعنی وہ ستائیس ہزار روپے نو نو ہزار روپیہ سالانہ کر کے تین سال کے لیے مانگے گئے تھے.اپنی ہوش کے وقت یعنی اب جبکہ میں سوچتا ہوں میں یہ خیال بھی نہیں کرسکتا اور نہ جماعت کے غور کرنے والے لوگ خیال کر سکتے ہیں کہ اس کے معنے کیا تھے.کہا یہ گیا تھا کہ ہم ساری دنیا کو فتح کرنے کے لیے نکلنے لگے ہیں، کہا یہ گیا تھا کہ اب طاغوتی طاقتیں انتہائی زور کے ساتھ اسلام اور احمدیت پر حملہ آور ہوئی ہیں اس لیے ہمیں اب احمدیت کی حفاظت کے سامانوں کو کمال تک پہنچا دینا چاہیے.دعوای تو یہ کیا گیا تھا کہ ہم تمام دنیا کے حملوں کا دفاع کرنے کے لیے کھڑے ہورہے ہیں اور یہ کہ ہم نے دنیا بھر میں احمدیت کی تبلیغ کو وسیع کرنا ہے.لیکن اس کام کے لیے مانگا گیا تھا صرف نو ہزار روپیہ سالانہ جو امریکہ جانے والے مبلغ کے ایک طرف کے کرایہ میں ہی کی خرچ ہو جاتا ہے.ابھی کچھ دن ہوئے خلیل احمد ناصر امریکہ گئے ہیں.غالبا ان کے پاکستان امریکہ تک کے کرایہ پر نو ہزار روپے لگے ہیں.اسی طرح صوفی مطیع الرحمان صاحب جب امریکہ سے واپس آئے تھے تو اُن کے کرایہ پر دس بارہ ہزار روپیہ خرچ آ گیا تھا.پس صرف ایک جگہ پر جانے والے کی ت

Page 403

$1949 394 خطبات محمود.مبلغ کے ایک طرف کے کرایہ کے لیے جتنے اخراجات کی ضرورت تھی اتنی رقم کے لیے جماعت میں تحریک کرنا عقل سے باہر نہیں تو اور کیا ہے.اس سے صاف پتا لگتا ہے کہ اُس وقت ہماری بے بسی اور بے کسی کی کیا حالت تھی.اُس وقت میں یہ محسوس کرتا تھا کہ ہماری جماعت اتنی کمزور اور اتنی غریب ہے کہ ان سے نو ہزار روپیہ سے زائد رقم مانگنی ناممکن بات ہے اور میں نے اُس وقت یہ سمجھا تھا کہ اس وقت جوش کی حالت میں ہم جماعت سے اتنا روپیہ لے لیں تو لے لیں ور نہ ہوسکتا ہے کہ اگلے سال جماعت میں اتنا جوش نہ ہو کہ وہ نو ہزار روپیہ کی رقم دے سکے اس لیے میں نے تین سال کے لیے ٹوٹو ہزار روپیہ کے حساب سے ستائیس ہزار روپیہ غالبا اکٹھا مانگ لیا.پس میری وہ تحریک بتاتی ہے کہ کم از کم میں اُس وقت یہ سمجھتا تھا کہ جماعت کی حالت کو ہزار روپیہ دینے کی نہیں.میری یہ تحریک بتاتی ہے کہ میں اُس وقت یہ سمجھتا تھا کہ ہم نے اگر انتہائی زور لگا کر روپیہ جمع کر لیا تو صرف تو ہزار روپیہ سالا نہ جمع کر سکتے ہیں.میری یہ تحریک بتاتی ہے کہ میں اُس وقت یہ سمجھتا تھا کہ یہ و ہزار روپے بھی جمع ہے کرنا وقتی جوش کے مطابق ممکن ہیں ورنہ بالکل ممکن ہے کہ جوش ٹھنڈا ہو جائے تو یہ بھی جمع نہ ہو سکیں.اس لیے میں نے کہا کہ تین سال کی رقم اکٹھی لے لو اور ستائیس ہزار لے لو.لیکن ہوا کیا ؟ ہوا یہ کہ جماعت نے جو وعدہ کیا وہ ایک لاکھ روپیہ کا تھا یعنی بجائے تو ہزار روپیہ کے جماعت کے وعدے ایک لاکھ روپے کے ہوئے لیکن وصولی ایک لاکھ دس ہزار روپیہ کی ہوئی.لوگوں کے دلوں میں تو یہ خوف ہوتا ہے کہ جو وعدہ کیا گیا ہے وہ پورا بھی ہوگا یا نہیں.لیکن ہم نے یہ نمونہ دیکھا کہ جماعت نے ایک لاکھ روپے کا وعدہ کیا اور وصولی ایک لاکھ دس ہزار روپیہ کی ہوئی.گویا جس چیز کو جماعت سے تین سال کے لیے مانگا گیا تھا اس سے چار گنا زیادہ رقم پہلے ہی سال ہمارے پاس آگئی.اور جب کام کرنے لگے تو یہ محسوس ہوا کہ تو ہزار روپیہ سالانہ کی رقم شاید سوتے ہوئے یا نیم بیہوشی کی حالت میں تجویز کی گئی تھی.یہ رقم تو اُن اخراجات کا جو ہم نے کرنے ہیں ایک قلیل ترین حصہ کہلانے کی بھی مستحق نہیں.تب میں نے دوسرے سال پھر تحریک کی اور جماعت سے کہا کہ میں ایک لاکھ دس ہزار روپیہ جو جمع کیا گیا تھا خرچ کر چکا ہوں.اب اور روپیہ لاؤ.اُس وقت شاید پانچ چھ آدمی تھے جنہوں نے کہا حضور ! ہمیں جہاں تک باد ہے آپ نے یہ روپیہ تین سال کے لیے مانگا تھا اور جو چندہ ہم نے دیا تھا وہ تین سال کے لیے دیا تھا.لیکن باقی ساری کی ساری جماعت نے یہ لفظ بھی نہیں کہے کہ آپ نے تو یہ روپیہ تین سال کے لیے

Page 404

$1949 395 خطبات محمود مانگا تھا.ابھی پہلا ہی سال گزرا ہے آپ مزید روپیہ کیسے مانگ رہے ہیں؟ گو یا پانچ ہزار افراد میں.جنہوں نے اس تحریک میں حصہ لیا تھا صرف پانچ آدمیوں کا ذہن اس طرف گیا کہ آپ نے ستائیں ہزار روپیہ تین سال کے لیے مانگا تھا اور ہم نے ایک لاکھ دس ہزار روپیہ دیا ہے.اب آپ دوبارہ کیسے مانگ رہے ہیں؟ یہ کتنی حیرت انگیز بات ہے کہ یہ بات صرف پانچ آدمیوں کے ذہن میں آئی باقی چار ہزار نو سو پچانوے آدمیوں نے بھی میرا خطبہ پڑھا تھایا نہیں ؟ ان کے کان میں بھی میرے ستائیس ہزار روپیہ والے مطالبہ کے الفاظ پڑے تھے یا نہیں؟ یعنی یہ نتیجہ نکلا تھا کہ یہ رقم تین سال کے لیے مانگی گئی تھی.ان چار ہزار کوسو پچانوے آدمیوں کی ضروریات بھی ویسی ہی تھیں جیسے ان پانچ آدمیوں کی.جنہوں نے یہ کہا کہ آپ نے یہ رقم تین سال کے لیے مانگی تھی.ان کے بھی بیوی بچے تھے، ان کے لیے بھی سامانِ معیشت جمع کرنے میں مشکلات تھیں.لیکن میرے ستائیس ہزار روپیہ والے مطالبہ کے الفاظ یاد دلاتے ہیں صرف پانچ آدمی ، باقی چار ہزار نو سو پچانوے آدمی یہ الفاظ اپنی زبانوں سے نہیں نکالتے کہ آپ نے تین سال کے لیے یہ رقم مانگی تھی.وہ بغیر کسی اعتراض کے بغیر کسی احتجاج کے اور بغیر کسی یاد دہانی کے چندہ لکھواتے ہیں اور پہلے سے بھی زیادہ جوش کے ساتھ لکھواتے ہیں اور دوسرے سال ایک لاکھ بیس ہزار کے وعدے وصول ہوتے ہیں.پھر یہ تحریک جاری رہی اور بڑھتی رہی.یہاں تک کہ دسویں سال جماعت کا تین لاکھ روپیہ کا وعدہ تھا.پھر میں نے کہا دس سال نہیں میں اس تحریک کو انیس سال تک چلانا چاہتا ہوں اور نوجوان اور اُن احمدیوں کے لیے جو اس تحریک کے بعد سلسلہ احمد یہ میں داخل ہوئے ہیں نئی تحریک کرنا چاہتا ہوں.میں نے اُس وقت کہا کہ پچھلی تحریک میں حصہ لینے والوں میں سے جو چاہیں اپنے نویں سال کے وعدہ کے برابر دے سکتے ہیں.پھر اگلے سال وہ پنے آٹھویں سال کے وعدہ کے برابر دیں.اسی طرح وہ آئندہ اپنے وعدوں میں کمی کرتے چلے جائیں.یہاں تک کہ انیسویں سال ان کا وعدہ پہلے سال کے وعدہ کے برابر ہو جائے.لیکن ہوا یہ کہ بہت کم لوگوں نے اس رخصت سے فائدہ اُٹھایا اور گیارھویں سال بھی باوجود میری اس رعایت کے اڑھائی لاکھ روپیہ وصول ہوا اور اب قریباً تین لاکھ کے وعدے آتے ہیں.گویا بجائے پیچھے ہٹنے کے جماعت آگے کی طرف بڑھی ہے.یہ تحریک اسی طرح چلتی گئی یہاں تک کہ ہمیں قادیان سے نکلنا پڑا اور مشرقی پنجاب اور ہندوستان کے بعض اور علاقوں کے لوگ اپنے مرکزوں سے ہل گئے اور ان کے

Page 405

$ 1949 396 خطبات محمود پاؤں اُکھڑ گئے.لیکن باوجود اس کے جو تحریک 1947ء میں ہوئی وہ 1946 ء کی تحریک سے کم نہیں تھی اور وصولی کا حال بھی قریباً ویسے ہی رہا.پھر 1948ء میں جو تحریک ہوئی وہ 1947ء کی تحریک سے کم نہیں تھی.لیکن 1948ء کی تحریک کے متعلق میں افسوس کے ساتھ کہتا ہوں کہ اس کی وصولی کی نسبت وہ قائم نہیں رہی جو پہلے سالوں کی رہی ہے.جیسا کہ میں بتا چکا ہوں پچھلے سالوں میں سو فیصدی سے بھی زیادہ وصولی ہوئی لیکن اس دفعہ جو وصولی ہوئی ہے وہ کوئی ستر فیصدی کے قریب ہے.گویا میں فیصدی وعدے ابھی واجب الادا ہیں.اور جیسا کہ میں پہلے اعلان کر چکا ہوا ہوں یہ وصولیاں جاری رکھی جاتی ہیں سوائے اُن لوگوں کے جو بلا غذر چندہ کے ادا کرنے میں کوتا ہی کرتے ہیں.انہوں نے بقایا ہے کیا ادا کرنا ہے وہ تو ایک دن خدا کی جماعت سے نکالے جائیں گے.باقی لوگ جو مجبوری کی وجہ سے پیچھے رہ جاتے ہیں ہم امید کرتے ہیں کہ باوجود اُن کی کمزوری کے اللہ تعالیٰ انہیں پورا ثواب دے دیتا تی ہوگا.اور وہ بھی ناخنوں تک کا زور لگا دیں گے کہ اپنے بقائے بھی صاف کریں اور آگے کی طرف بھی قدم بڑھا ئیں.لیکن جو لوگ غفلت اور سستی کی وجہ سے پیچھے رہ جاتے ہیں اور قربانی کی پوری کوشش نہیں کرتے وہ خدا تعالیٰ کے دربار میں اس مقام پر نہیں پہنچ سکتے جس مقام پر وہ لوگ پہنچتے ہیں جو دین کے لیے اپنی جان تک لڑا دینے میں دریغ نہیں کرتے.نومبر 1944ء میں جو نئی تحریک کی گئی تھی اور نو جوانوں اور احمدیت میں نئے داخل ہونے کی والوں سے اپیل کی گئی تھی کہ وہ اس میں حصہ لیں.میں افسوس کے ساتھ کہتا ہوں کہ یہ تحریک اُس شان تک نہیں پہنچی جس تک پہلی تحریک پہنچی تھی.یقیناً اس وقت کی جماعت اس جماعت سے بہت زیادہ ہے جو 1934ء میں تھی.اور یقیناً بہت سے نئے آدمی احمدیت میں داخل ہوئے ہیں جو تجارتوں، نوکریوں، کمائی اور علم کے لحاظ سے اُس جماعت کے افراد سے بہت زیادہ ہیں جو 1934ء میں تھی اور بہت سے نوجوان ایسے ہیں جن کو اب نوکریاں ملی ہیں.پہلے انہوں نے اس تحریک میں حصہ نہیں لیا تھایا ہے پہلے ماں باپ نے رسمی طور پر ان کی طرف سے حصہ لیا ہوا تھا.اور اس بات کو مد نظر رکھتے ہوئے کہ ان کی پر اتنی ذمہ داریاں نہیں جو پہلوں پر ہیں کیونکہ ان میں سے اکثر اہل وعیال والے تھے اور یہ نو جوان یا تی غیر شادی شدہ ہیں یا ان کے اولاد نہیں اس نئی تحریک کے وقت ان سے یہ امید کی جاتی تھی کہ وہ پہلوں سے پیچھے نہیں رہیں گے.لیکن پانچ سالہ دور کے بعد ان کے وعدے صرف ایک لاکھ پندرہ ہزار تک

Page 406

$ 1949 397 خطبات محمود ہیں اور اس سے بھی زیادہ افسوسناک بات یہ ہے کہ ان کی طرف سے وصولی بھی بہت کم ہوئی ہے.مثلاً پانچویں سال کے وعدوں میں سے صرف چھیالیس یا سینتالیس فیصدی وعدے وصول ہوئے الی ہیں.اس کے معنے یہ ہیں کہ ہمیں نوجوانوں کے ایمان کی فکر کرنی چاہیے، اس کے معنے یہ ہیں کہ ہم نئی وی پو د پر وہ اعتماد نہیں کر سکتے جو پہلوں پر کیا جاسکتا تھا.لیکن ہمارا سفر ابھی بہت لمبا ہے ، ہمارا کام بہت بڑا ہے، ہماری منزل ابھی بہت دُور ہے.ان حالات میں ایک یا دو نسل کا سوال نہیں اسلام کی فتح تک شاید پانچ یا چھ نسلیں لگ جائیں گی کیونکہ اسلام کی کامل فتح کے یہ معنے ہیں کہ دنیا کا اکثر حصہ مسلمان ہو جائے.اسلام کی فتح کے یہ معنے ہیں کہ دنیا کی اکثر حکومتیں مسلمان ہو جائیں.یہ دن کتنی دور ہیں.جس رفتار سے ہم چل رہے ہیں اس رفتار سے شاید ہمیں اپنی منزلِ مقصود تک پہنچنے کے لیے کئی ہزار سال چاہیں لیکن الہی سنت یہ ہے کہ الہی جماعتوں کی رفتار پہلے سست ہوتی ہے.پھر البہی نشانوں کے ساتھ یکدم ترقی ہو جاتی ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مکہ میں پیدا ہوئے.آپ کے دعوی نبوت کے دس سال بعد تک آپ پر صرف اُستی یا تو ے آدمی ایمان لائے اور تیرہ سال کے بعد آپ پر ایمان لانے والے صرف اڑھائی تین سو تھے.لیکن پھر یکدم آپ کی امت بڑھنی شروع ہوئی اور جہاں تیرہ سال میں صرف اڑھائی تین سو آدمی آپ کی امت میں شامل ہوئے تھے وہاں اگلے آٹھ سال میں سارا عرب مسلمان ہو چکا تھا.پس گو پہلے رفتار سست تھی لیکن بعد میں رفتار ترقی تیز ہوگئی.اسلام کے تنزل کے زمانہ کے متعلق رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے کہ لوگ رات کو مسلمان سوئیں گے اور صبح کو کافر اُٹھیں گے ، لوگ صبح کو مسلمان اُٹھیں گے اور رات کو کافر سوئیں گے.لیکن ایک وقت ایسا آتا ہے کہ یہ قول اُلٹ جاتا ہے.دین کی فتح اور کامیابی کا جب وقت آتا ہے تو یہ حالت ہو جاتی ہے کہ لوگ رات کو کا فرسوتے ہیں، صبح کو اُٹھتے ہیں تو مسلمان ہوتے ہیں، صبح کو کافر اُٹھتے ہیں مگر جب رات کو کی سوتے ہیں تو مسلمان ہوتے ہیں اور دنیا تیز قدمی کے ساتھ بھاگتی دوڑتی اسلام کے جھنڈے تلے جمع کی ہو جاتی ہے.ہم موجودہ زمانہ کی ترقی پر قیاس نہیں کر سکتے.ہم اس الہی سنت کو دیکھتے ہیں جو پہلے انبیاء کی جماعتوں کے ساتھ چلتی چلی آئی ہے.اگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پہلے تیرہ سال والی ترقی کو مد نظر رکھا جائے تو پہلے تیرہ سال میں صرف اڑھائی تین سو آدمی ایمان لائے تھے.اگر بعد میں

Page 407

* 1949 398 خطبات محمود بھی یہی رفتار ترقی رہتی تو تیرہ سو سال میں صرف تیں ہزار مسلمان ہوتے.مگر اب تو میں لا کھ بھی نہیں ہے تمیں کروڑ بھی نہیں دنیا میں ساٹھ کروڑ مسلمان ہیں.کتنے گندے ہی سہی مگر اسلام کا نام تو لیتے ہے ہیں.لیکن اگر وہی رفتار ترقی رہتی جو پہلے تیرہ سال میں حاصل ہوئی تو آج تیرہ سو سال کے بعد صرف تیس ہزار مسلمان ہوتا لیکن ہیں ساٹھ کروڑ یعنی ہیں ہزار گنا زیادہ ہیں.گویا جس قدم کے ساتھ محمدی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پہلے تیرہ سالوں میں چلے تھے بعد میں آنے والے سالوں میں اُس سے بیس ہزار گنا زیادہ چلے لیکن میں اس میں بھی غلطی کر رہا ہوں.پچھلے پانچ سو سال سے تو مسلمان گر رہے ہیں.اس لیے مسلمانوں کی جو تعداد بڑھی وہ اُس ترقی کا نتیجہ ہے جو انہوں نے پہلی تین چار صدیوں میں کی.اگر مسلمانوں کی موجودہ ترقی کو پہلی چند صدیوں پر پھیلایا جائے تو گویا جس قدم کے ساتھ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پہلے تیرہ سالوں میں چلے تھے بعد میں آنے والے سالوں میں اُس سے ہمیں لاکھ گنا زیادہ چلے.اسی رنگ میں اگر ہماری ترقی ہو اور ہمیں لاکھ کو ہماری موجودہ تعداد سے ضرب دو تو دنیا پر کوئی آدمی باقی نہیں رہ جاتا.دنیا کی ساری آبادی دوارب ہے.گویا اگر موجودہ ای حالت سے ہم ہیں لاکھ گنا زیادہ ترقی کریں تو دس کھرب ہو جاتے ہیں.اس لیے ہمیں موجودہ حالت سے قریباً ساڑھے چار ہزار گنا زیادہ رفتار کی ضرورت ہے.ہمیں لاکھ گنا زیادہ رفتار کی نہیں.غرض ہم اپنی آئندہ ترقی کو موجودہ رفتار پر قیاس نہیں کر سکتے لیکن بہر حال فتح کے لیے کچھ وقت تو چاہیے.حضرت مسیح ناصری علیہ السلام کی ترقی میں تین سو سال لگے تھے.ہمارے مسیح محمدی ہیں موسوی نہیں.اس لیے اگر اُس سے آدھا زمانہ بھی لے لو تو ایک سو پچاس سال بنتے ہیں.دوسو پچھتر ہے سال میں حضرت مسیح ناصری علیہ السلام کی جماعت کو ایک ملک یعنی روم کی حکومت ملی تھی.اگر اس مدت کا نصف لے لیں تو ایک سو سینتیس سال میں ہمیں ایک حکومت مل سکتی ہے.ہماری جماعت پر ساٹھ سال گزر چکے ہیں تو گویا آئندہ 77 سال کے عرصہ میں ہمیں ایک حکومت مل جانی چاہیے.ہمارے ہاں اوسط عمر تمیں سال ہے.لیکن اگر اوسط عمر پچیس سال لے لی جائے تو 77 سال میں تین نسلیں ہوئیں اور موجودہ نسل کو ملا کر چار ہوئیں.گویا چار نسل میں ہم چھوٹی سے چھوٹی ترقی کر سکتے ہی ہیں.مگر ایک حکومت کا مل جانا کوئی ترقی نہیں.ویسے اگر خدا تعالیٰ جلد ترقی دے دے تو دے دے ور نہ یہ چیز ایسی ہے جو ہمیں گھبرا دیتی ہے کہ ایک چھوٹی سے چھوٹی ترقی کے لیے ہمیں چار نسلوں کی

Page 408

خطبات محمود 399 ضرورت ہے اور اگر ہماری نسل کمزور ہورہی ہو تو آئندہ تین نسلوں کا کیا حال ہوگا.* 1949 پس میں نو جوانوں اور خصوصاً اُن نوجوانوں کو جو مجلس خدام الاحمدیہ میں داخل ہو چکے ہیں ہوشیار کرتا ہوں کہ وہ اپنے مقام اور فرض کو پہچانیں اور اپنے اندر ایسا تغیر پیدا کریں کہ ان کو پہلے لوگوں سے کم ایماندار قرار نہ دیا جائے.ان کی آگ پہلوں سے زیادہ جوش والی ہونی چاہیے، ان کے شعلے پہلوں سے زیادہ اونچے ہونے چاہیں ، ان کی رفتار پہلوں سے زیادہ تیز ہونی چاہیے.ان نصائح کے بعد میں تحریک جدید کے دفتر اول کے سولہویں سال اور دفتر دوم کے چھٹے سال کا اعلان کرتا ہوں اور امید کرتا ہوں کہ دوست اس میں پہلے سے زیادہ حصہ لینے کی کوشش کریں گے اور دفتر دوم میں پہلے سے زیادہ لوگ حصہ لینے کی کوشش کریں گے.اور گزشتہ سال جو غلطی ان سے سرزد ہوئی ہے اُس کا بھی ازالہ کریں گے اور اس سال میں بہت بڑھ چڑھ کر حصہ لیں گے.دیکھو! ہمارے سامنے بہت بڑا کام ہے جو ہمیں کرنا ہے.جب ہندوستان سے باہر ہم نے اپنا کوئی مبلغ نہیں بھیجا تھا تو دوسرے ممالک کے لوگ ہمیں شرمندہ نہیں کر سکتے تھے کیونکہ وہ ہم سے واقف نہیں تھے.لیکن اب جبکہ دوسرے ممالک میں ہم اپنے مشن قائم کر چکے ہیں مالی تنگی کی وجہ سے انہیں بند کر دیں تو دنیا ہمیں کتنا ذلیل سمجھے گی.مثلاً جب تک امریکہ میں ہم نے اپنا مبلغ نہیں بھیجا تھا وہاں کے رہنے والے ہمیں کی شرمندہ نہیں کر سکتے تھے لیکن جب ہم نے اپنا مبلغ بھیج دیا تو آج ہم اگر اس مشن کو بند کر دیں گے تو ہماری آنکھیں اُن کے سامنے ہمیشہ نیچی رہیں گی.وہ لوگ کہیں گے کہ ایک قوم اُٹھی ، اس نے جھوٹے دعوے کیے کہ ہم حضرت موسی علیہ السلام، حضرت عیسی علیہ السلام اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نقش قدم پر ہیں لیکن جب کام کا وقت آیا تو وہ میدان سے بھگوڑوں کی طرح بھاگ گئی.پس اگر ہم نے شرمندگی سے بچنا ہے تو ہمیں اپنی قربانیوں کو زیادہ سے زیادہ وسیع کرنا پڑے گا.میں گزشتہ سالوں میں سال کے اختتام سے تین چار ماہ پہلے چند بار دوستوں کو یاد دہانی کرایا ای کرتا تھا لیکن اس سال میں نے یاد دہانی نہیں کرائی.اس لیے کہ میں دیکھوں تم خود کیا کرتے ہو؟ آئندہ خطبات میں بھی میں دوستوں کو اس طرف توجہ دلاؤں گا.لیکن اب صرف ان الفاظ کے ساتھ تحریک جدید کے نئے سال کا آغاز کرتا ہوں.جو لوگ اس میں پہلے شامل تھے وہ کوشش کریں کہ اس میں زیادہ حصہ لیں.سوائے اُن کے جو ملازمتوں سے ریٹائر ہو گئے ہیں ان کے لیے رعایت کے وہی کی

Page 409

* 1949 400 خطبات محمود قواعد ہیں جن کا پہلے اعلان کیا جا چکا ہے.اور جو فوت ہو گئے ہیں اُن کے چندے جاری سمجھے جائیں گے کیونکہ موت اُن کے اختیار میں نہ تھی سوائے اُن کے جن کے عزیزوں نے اُن کو ثواب پہنچانے کے لیے ان کے چندے کو جاری رکھا ہے اور ہم امید کرتے ہیں کہ خدا تعالیٰ ان کے لیے اس کا ثواب لکھتا رہے گا.دفتر دوم کے لیے نوجوانوں کو خصوصاً خدام الاحمدیہ کو چاہیے کہ وہ جہاں جہاں بھی ہوں پورے زور کے ساتھ اس میں حصہ لیں اور دوسروں کو اس میں حصہ لینے کی ترغیب دلائیں.انہیں ہے چاہیے کہ وہ سارے شہر اور علاقہ میں پھریں، خود وعدے لکھوائیں اور جو لوگ اس میں شامل نہیں ہیں یا ای جو لوگ مصنوعی طور پر اس میں شامل تھے یعنی اُن کے برسر روزگار نہ ہونے کی وجہ سے ان کے والدین کی نے رسمی طور پر ان کی طرف سے حصہ لیا ہوا تھا یا جن لوگوں نے پورے طور پر اس میں حصہ نہیں لیا تھا اُن کے سے وعدے لکھوائیں اور زیادہ سے زیادہ لکھوائیں اور پھر ان کی وصولی کی طرف بھی توجہ دیں.میں نے صدر مجلس خدام الاحمدیہ کا بار اسی لیے اُٹھایا ہے تا جماعت کے نوجوانوں کو دین کی طرف توجہ دلاؤں.سو میں سب سے پہلے اُن کے سپرد یہ کام کرتا ہوں اور امید رکھتا ہوں کہ وہ اپنے ایمان کا ثبوت دیں گے اور آگے سے بڑھ چڑھ کر حصہ لیں گے اور کوئی نوجوان ایسا نہیں رہے گا جو دفتر دوم میں شامل نہ ہو.اور کوشش کریں کہ ساری کی ساری رقم وصول ہو جائے.پہلی غلطیاں جو سر زد ہوئی ہیں اُن کا بھی ازالہ کریں.اگر گزشتہ سالوں کے بقائے وصول ہو جائیں تو دواڑھائی لاکھ روپیہ آ جاتا ہے.ابھی بہت سے کام ہیں جو ہم نے کرنے ہیں.تحریک جدید کا بہت سا قرض باقی ہے جو ادا کرنا ہے اور ابھی بعض جگہوں پر جہاں مشن قائم ہو چکے ہیں مسجد میں تیار کرنی ہیں اور یہ کام روپیہ چاہتے ہیں.لیکن پہلے ہمارا فرض ہے کہ اپنا قرض اتاریں.میں دیکھتا ہوں کہ بیرونی ممالک کی جماعتوں کے چندے جس نسبت سے بڑھ رہے ہیں اس نسبت سے ہمارے چندے نہیں بڑھ رہے.مثلاً گولڈ کوسٹ کی جماعت نے اس سال ایک لاکھ رو پہیہ چندہ دیا ہے.اب انہوں نے ایک لاکھ روپیہ اس کالج کے بھی دینے کا وعدہ کیا ہے جو وہاں بنایا ہے جائے گا.دیکھو! وہ کتنی نئی اور چھوٹی جماعت ہے لیکن وہ اپنی قربانی کو بڑھا رہی ہے.اسی طرح مجھے اس بات سے بھی خوشی ہوئی ہے کہ ہندوستان کی جماعتوں نے جو قادیان کے مرکز کے ساتھ وابستہ ہیں قربانی میں معتد بہ حصہ لیا ہے.گجا یہ حالت تھی کہ اُن کی طرف سے کوئی رقم وصولی نہیں ہو رہی تھی اور گجا

Page 410

$1949 401 خطبات محمود یہ کہ اس سال اُن کا بجٹ ڈیڑھ لاکھ تک پہنچ گیا ہے حالانکہ وہ پاکستان کی جماعت کا صرف آٹھ فیصدی ہیں.گوضرورت اس سے بھی زیادہ قربانی کی ہے لیکن بہر حال جماعت نے قربانی کی اعلیٰ درجہ کی مثال پیش کی ہے.اس لحاظ سے ہمارا یہاں کا بجٹ اٹھارہ لاکھ کا ہونا چاہیے بلکہ اس سے بھی زیادہ لیکن ہمارا بجٹ بہت کم ہے.صدرانجمن احمدیہ کی موجودہ آمدن صرف آٹھ نو لاکھ ہے.حالانکہ ہندوستان کے احمدیوں کی مالی حالت پہلے کی نسبت بہت زیادہ کمزور ہے.ان کی آمد میں محدود ہو چکی ہیں.اور ابھی بہت سی جماعتیں باقی ہیں جن کی طرف سے چندہ کی تفصیلات وصول نہیں ہوئیں.ہو سکتا ہے کہ قادیان سے وابستہ جماعتوں کا بجٹ دو لاکھ تک پہنچ جائے.جب میں خلیفہ ہوا تھا ہمارا بجٹ ساٹھ ہزار روپیہ کا تھا.گویا قادیان سے وابستہ جماعتوں کا سالانہ بجٹ اس بجٹ کے تین گنے سے بھی زیادہ ہے.پس یہاں کی جماعتوں کو قربانی میں بہت زیادہ آگے بڑھنے کی کوشش کرنی چاہیے.مومن کی یہ کوشش ہونی چاہیے کہ وہ پیچھے نہ رہے.پس میں اس دُعا کے ساتھ کہ خدا تعالیٰ آپ سب کو ایمان میں ہر روز بڑھنے کی توفیق ع فرمائے اس سولہویں سال کی تحریک کو شائع کرتا ہوں اور امید کرتا ہوں کہ دوست اپنے بقائے بھی ادا کریں گے اور پہلے سے زیادہ وعدے بھی لکھوائیں گے.اور خدام الاحمدیہ کوشش کریں کہ کوئی نوجوان ایسا نہ رہے جس نے تحریک جدید دفتر دوم میں حصہ نہ لیا ہو اور پھر کوئی رقم ایسی نہ رہے جو ( الفضل 2 دسمبر 1949 ء ) وصول نہ ہو.1 : مسلم كتاب الايمان باب الحث على الْمُبَادَرَةِ بِالْأَعْمَالِ (الخ) 2 : کم مایگی: بے حیثیت ہونا، بے بضاعتی (فیروز اللغات اردو)

Page 411

* 1949 402 41 خطبات محمود اسلام نے صفائی کا احساس بڑے زور سے دلایا ہے لیکن ہمارے ملک میں صفائی کا احساس نہیں فرموده 2 دسمبر 1949ء بمقام ربوہ ) تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: خطبہ کا مضمون شروع کرنے سے پہلے میں پھر ایک دفعہ نظارت تعلیم و تربیت کو اُس کی اُس ذمہ داری کی طرف جو مسجد کے ساتھ تعلق رکھتی ہے توجہ دلانا چاہتا ہوں.ہماری جماعت میں ایک لمبے عرصہ سے عورتیں جمعہ کی نماز میں شامل ہونے کی عادت رکھتی ہیں.قادیان میں ہر جمعہ میں ڈیڑھ دو ہزار مستورات شامل ہوا کرتی تھیں.یہاں ابھی آبادی کم ہے لیکن عورتیں وہی ہیں جو قادیان میں ہوتی تھیں اور جن کو جمعہ کی نماز میں شامل ہونے کی عادت ہے.چنانچہ وہ جمعہ کی نماز کے لیے مسجد میں آتی ہیں.بڑی مہربانی کر کے اور بڑی عنایت فرما کے ناظر تعلیم نے ان کے لیے مسجد میں ایک قنات توی کھینچوادی ہے لیکن انہیں اس امر کا خیال نہیں آیا کہ عورتوں کی پیٹھیں مردوں کے آگے ہیں.حالانکہ چاہیے یہ تھا کہ مرد آگے ہوں اور عورتیں پیچھے ہوں تا عورتوں کی پیٹھیں مردوں کے سامنے نہ ہوں لیکن یہاں عورتیں آگے ہیں اور مرد پیچھے ہیں.یہ کوئی ایسی چیز نہیں جس کی طرف توجہ دلانے کے لیے کسی

Page 412

* 1949 403 خطبات محمود دوسرے شخص کی ضرورت ہو.میں جب سے یہاں آیا ہوں اور خطبہ کے لیے مسجد میں آتا ہوں میرانی مسجد میں آنے کا رستہ اور تھا لیکن اب شاید کسی نیک بخت نے اس طرف توجہ دلانے کے لیے میرا رستہ وہاں بنادیا جہاں سے عورتوں کی پیٹھیں نظر آتی ہیں.شاید اُس کی غرض یہ تھی کہ مجھے یہ چیز نظر آ جائے.سودہ مجھے نظر آ گئی.مجھے تعجب آتا ہے کہ بعض باتیں معمولی ہوتی ہیں لیکن بغیر توجہ دلائے خود کیوں ان پر عمل نہیں ہوتا.بھلا اس پر خرچ کتنا آتا ہے.فرض کرو کہ قئنات ایک گز پانچ روپے کو آتی ہے.یہ جگہ زیادہ سے زیادہ دس گز لمبی ہے.اس دس گزقتات پر پچاس روپے لگیں گے.جہاں دوسرے کاموں پر لاکھوں روپیہ خرچ ہوتا ہے وہاں اس نہایت اہم کام کے لیے پچاس روپے خرچ آ گیا تو کیا اندھیر ہے.میں نہیں جانتا کہ تمہارا اگلا خلیفہ کیا کرے گا.مگر میں نے تو تمہارا روپیہ بے دردی کے ساتھ بہایا ہے اور میں اس پر نادم نہیں ہوں.اس بارہ میں میں ان لوگوں کے اعتراضوں سے نہیں ڈرتا جو جماعت میں شامل نہیں اور جن کا وہ روپیہ نہیں.بلکہ میں ان سے بھی نہیں ڈرتا جن کا وہ روپیہ ہے.اگر وہ اعتراض کریں گے تو میں کہوں گا تم کوئی ایسا خلیفہ ڈھونڈ لو جو تمہارا روپیہ سنبھال کر رکھے.میں تو خرچ کی کرنا جانتا ہوں.میں اپنے پاس سے بھی حسب توفیق خرچ کرتا ہوں اور دوسروں سے بڑھ کر کرتا ہوں.اس لیے معترض کی زبان بند ہو جاتی ہے.پھر وہ مجھ پر بیوقوفی کا الزام بھی نہیں لگا سکتا.جبکہ نتیجے اچھے نکلتے ہیں.ربوہ کی تعمیر کو ہی دیکھ لوقریباً سوا تین لاکھ روپیہ خرچ ہو چکا ہے اور ابھی ہم بڑے ہٹر (Huts) میں رہتے ہیں.میری جگہ کوئی اور ہوتا تو شاید اسے ایسا کرنے کی جرات نہ ہوتی لیکن میں نے روپیہ بے دردی سے خرچ کیا کیونکہ میں جانتا ہوں کہ اس کے بغیر لوگ کسی جگہ نہیں آباد ہو سکتے.اس کے بغیر کوئی قصبہ نہیں بن سکتا، اس کے بغیر کوئی شہر نہیں بن سکتا، اس کے بغیر کوئی صوبہ نہیں کی بن سکتا ، اس کے بغیر پاکستان بھی مضبوط نہیں ہوسکتا بلکہ میں جانتا ہوں کہ کسی اسلامی سلطنت کے بغیر اسلام بھی مادی طور پر غالب نہیں آسکتا.اس لیے پھل کو دیکھنے کے لیے میں جڑ کی پروا نہیں کرتا.غرض ہم تو بڑے بڑے اخراجات کے عادی ہیں اور یہ تو ایک ایسی چیز ہے جو شریعت کے مطابق ہے اور مستورات کے احترام کے ساتھ تعلق رکھتی ہے.میں جب جمعہ کے لیے آ رہا تھا تو حضرت خلیفہ مسیح الاول کا ایک لطیفہ مجھے یاد آ گیا.آپ فرمایا کرتے تھے کہ میرا ایک لاکھ پتی دوست تھا جو مسلمان تھا.میں نے اسے اس طرف توجہ دلانی چاہی

Page 413

* 1949 404 خطبات محمود کہ جہاں آپ بہت سا وقت فضول باتوں میں ضائع کر دیتے ہیں وہاں آپ کچھ وقت قرآن کریم کی تلاوت بھی کرلیا کریں.آخر پندرہ بیس منٹ تک قرآن کریم کی تلاوت کرنے میں حرج بھی کیا ہے.ادھر ادھر کی باتوں میں بھی تو آپ کا وقت ضائع ہوتا ہے.اگر پندرہ بیس منٹ قرآن کریم کی تلاوت پر لگ جائیں تو اس میں کیا حرج ہے؟ اس نصیحت کو سن کر اس امیر نے کہا مولوی صاحب! آپ کو قرآن کریم پڑھتے دیکھ کر دل تو بہت چاہتا ہے کہ قرآن پڑھوں لیکن میرے پاس قرآن کریم نہیں.اگر آپ قرآن کریم کا ایک نسخہ مجھے تحفہ دے دیں تو میں بھی قرآن کریم پڑھ لیا کروں.وہ لکھ پتی تھا، اس کا ہزاروں روپیہ گھوڑوں اور کتوں پر خرچ ہو جاتا تھا لیکن دوسرے کو قرآن کریم پڑھتے دیکھ کر اس کا دل ترستا تھا.قرآن کریم خرید نہیں سکتا تھا.اسی طرح اگر ناظر تعلیم و تربیت دس گز قنات کا انتظام نہیں کر سکتے تھے تو ہم سے ہی بطور تحفہ مانگ لیتے.دوسری بات جو میں کہنی چاہتا ہوں یہ ہے کہ غریب ہونا الگ چیز ہے اور صفائی الگ چیز ہے.ہم غریب ہیں ، کمزور ہیں اس میں شبہ ہی کیا ہے.بڑی چیز کی ہم میں طاقت نہیں اور چھوٹی چیز پر دوسرے لوگ ہنستے ہیں لیکن بہر حال ہم نے اپنی قدر کو پہچاننا ہے اور اپنی ہستی کے مطابق کام کرنا ہے لیکن جو چیز ہماری ہستی کے مطابق ہے اُس کو بگاڑ کر کرنے میں کوئی لطف نہیں.میں ایک دن نماز کے لیے (میں نے ایک دن اس لیے کہا ہے کہ میں اُن دنوں لاہور رہا کرتا تھا اور کبھی کبھی ربوہ آجاتا تھا تو جب میں رکوع کرتا تھا تو یوں معلوم ہوتا تھا کہ میں کسی روڑی پر جھک رہا ہوں اور جب سجدہ میں جاتا تھا تو یوں معلوم ہوتا تھا کہ گویا کسی گندی جگہ پر سجدہ کر رہا ہوں.میں نے ناظر صاحب امور عامہ سے کہا کہ ناک میرا بھی ہے اور آپ کا بھی ہے.مجھے تو یوں معلوم ہوتا ہے کہ لوگ مسجد کے اردگر دا تنا پاخانہ پھرتے ہیں کہ اس کی بُو سے اب مسجد بھی پاخانہ ہی بن کر رہ گئی ہے.انہوں نے کہا میں بھی محسوس کرتا ہے ہوں اور لوگوں سے کہتا رہتا ہوں کہ یہاں پاخانہ نہ پھرو.میں نے کہا ناظر کا کام کرنا ہوتا ہے کہنا نہیں ہوتا.اس پر ناظر صاحب امور عامہ نے ایک دفعہ صفائی کرا دی اور میں نے دیکھا کہ کچھ دنوں تک آرام رہا.مگر اب میں دیکھتا ہوں کہ پھر وہی گندگی ہے.میں خود تو نہیں دیکھتا کیونکہ میں صرف مسجد میں آتا ہوں لیکن میرا ناک کہتا ہے کہ یہاں گندگی ہے.گندگی کا احساس اسلام نے خود کرایا ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مساجد کے متعلق فرمایا ہے کہ ان میں تھو کو نہیں ، ان میں بلغم نہ پھینکو، کوئی

Page 414

$1949 405 خطبات محمود بد بودار چیز کھا کر ان میں نہ آؤ.1 آپ نے فرمایا جب کوئی شخص پیاز یا لہسن کھا کر مسجد میں آتا ہے فرشتے مسجد سے بھاگ جاتے ہیں 2ے لیکن واقعہ تو یہ ہے کہ جہاں لہسن اور پیاز کے کھیت ہوتے ہیں فرشتے وہاں بھی جاتے ہیں.پھر آپ کے اس قول کا کیا مطلب؟ اس کا مطلب یہ تھا کہ فرشتے ایسے آدمیوں کی دعاؤں کو آسمان تک نہیں لے جاتے جو بد بودار چیزیں کھا کر مسجد میں آتے ہیں اور دوسروں کی تکلیف کا موجب بنتے ہیں.غرض اسلام نے صفائی کا احساس بڑے زور سے دلایا ہے.لیکن ہمارے ملک میں صفائی کا احساس نہیں.کپڑا ہے تو ہمارے ملک کے لوگ اسے غلیظ رکھتے ہیں.بالعموم یہ ہوتا ہے کہ کپڑا پہنا نیا تھا مگر جب اُتارا تو پھٹ چکا تھا درمیان میں انہیں اتارنے کا خیال نہیں آتا.میں جب حج کے لیے گیا تھا تو علیحدہ مکان میں ٹھہرا تھا اس لیے مجھے تو وہاں کے گھر یلو حالات کا تجربہ نہیں.لیکن حضرت خلیفتہ امسیح الاول ایک سال تک مکے میں رہے تھے اس لیے آپ کو وہاں کے گھریلو معاملات کا تجربہ تھا.آپ فرمایا کرتے تھے کہ جس گھر میں میں رہتا تھا وہ متوسط درجہ کا گھر تھا.گھر کا مالک جب شام کو گھر آتا تو اس کی بیوی اسے اور گرتا دے دیتی اور اس کا دن کا پہنا ہوا گرتا اُتروا لیتی.ایک یہ تو دور کی بات ہے ایسا کرنا تو بڑے جہاد کو چاہتا ہے لیکن جو ابتدائی چیزیں ہیں ان کی طرف تو ضرور توجہ کرنی چاہیے.یہ تو تم کہہ سکتے ہو کہ کوئی تمہاری گائے بھینس چرا کر لے گیا مگر یہ نہیں کی کہہ سکتے کہ اردگرد کے لوگ چوری سے پاخانہ پھر گئے.پاخانہ پھرنے والے تم خود ہو.پھر صفائی میں کی تمہارے لیے مشکل ہی کیا ہے.اگر تم خود پاخانہ نہیں پھرو گے تو گندگی نہیں ہو گی.تمہاری بیویاں پاخانہ نہیں پھریں گی تو گندگی نہیں ہوگی تمہارے بچے پاخانے نہیں پھریں گے تو گندگی نہیں ہوگی.پاخانہ غیر تو کرتے نہیں.اور اب تو یہ اور بھی تمہارے لیے تازیانہ کا سبب بن گیا ہے کہ غیر ملکوں کے لوگ احمدیت میں داخل ہو رہے ہیں اور وہ یہاں آتے ہیں.اور وہ جب تمہاری اس حالت کو دیکھیں گے تو چونکہ ان میں صفائی کا احساس زیادہ ہوتا ہے ( دل کی صفائی کا تو انہیں خیال بھی نہیں آتا ہاں جسم کی صفائی کا وہ بہت خیال رکھتے ہیں ) تو ان کے لیے تمہاری یہ حالت ابتلا کا موجب بن جائے گی.مثلاً ربوہ ہے مقامی آدمیوں کو بھی یہاں سر چھپانے کے لیے جگہ نہیں ملتی لیکن بیرونی ممالک میں جماعت ترقی کر رہی ہے اور غیر ممالک کے احمدی یہاں آنے شروع ہو گئے ہیں.مثلاً مسٹر کنزے جرمنی سے کی.

Page 415

$1949 406 خطبات محمود آئے ہیں اور ان کو ابھی ہم نئے ہی سمجھتے تھے کہ ہماری بہن رقیہ تھائی سن مارگرٹ ہالینڈ سے آگئی ہیں.وہ بھی شاید جرمن ہیں مگر اب ہالینڈ کی باشندہ ہیں.ابھی امریکہ سے ایک دوست کا خط آیا ہے.انہوں نے زندگی وقف کی ہے.وہ تعلیم کے لیے ربوہ آنا چاہتے ہیں.پھر ایک اور جرمن دوست یہاں آنے کی کے لیے اصرار کر رہے ہیں.انہوں نے لکھا ہے کہ اگر مجھے ویزا مل جائے تو میں فوراً آ جاؤں.جب یہ لوگ آئیں گے اور تمہارے حالات دیکھیں گے تو ان کے لیے تمہاری یہ حالت ٹھوکر کا موجب ہوگی.تین چار دن ہوئے مجھے مسٹر کنزے نے ایک خط لکھا کہ درخت اپنے پھلوں سے پہچانا جاتا ہے اور ہمارا پھل یہ ہے کہ ہر طرف پاخانہ ہی پاخانہ پڑا ہے.گویا ان کو بھی تمہاری یہ حالت دیکھ کر شرم آئی.وہ بھی احمدی ہیں اور بھائی ہونے کی وجہ سے تمہاری یہ حالت دیکھ کر انہیں شرم آئی ہوگی کہ انہوں نے مجھے لکھا.لیکن ان سے زیادہ شرم ہمیں آنی چاہیے کیونکہ ہمیں ایک لمبا موقع سمجھانے کا ملا ہے اور انہیں وہ موقع نہیں ملا.وہ کہتے ہیں کہ جب میں دوستوں سے کہتا ہوں کہ صفائی کرو تو بعض لوگ کہتے ہیں کہ اچھا اگر تمہیں صفائی کا اتنا خیال ہے تو تم خود صفائی کر دو.یہ یقینا تمسخر ہے اور جب کوئی نیک بات بتائے تو اس سے تمسخر منع ہے.وہ غیر ملک کے رہنے والے ہیں اور اس بات کو سمجھتے نہیں.وہ سمجھتے ہے ہیں کہ کہنے والے نے یہ لفظ سنجیدگی سے کہے ہیں اس لیے انہوں نے مجھے لکھا ہے کہ میں صفائی نہیں ہے کروں گا کیونکہ اگر میں صفائی کر دوں تو انہیں صفائی کا احساس نہیں ہوگا.لیکن دراصل جس نے یہ بات کہی تمسخر سے کہی ورنہ کیا کوئی صحیح الدماغ آدمی کسی غیر ملک والے کو کہہ سکتا ہے کہ تم سارا دن جھاڑوی دیتے پھر و؟ مگر یاد رکھو! اس قسم کا تمسخر اسلام میں منع ہے.بجائے توجہ دلانے والے سے تمسخر کرنے کی کے تم کو چاہیے کہ اس غلاظت کے نقص کو دور کرنے کی کوشش کرو.تمہاری یہ حالت باہر سے آنے والے لیے یقیناً ٹھوکر کا موجب ہوگی.باہر سے آنے والا شخص تمہاری بات کو یا تو بُرا مناتا ہے یا اس کی نقل کرتا ہے.اب یہ دنیا کے لیے کتنی مصیبت کا دن ہو گا کہ ایک نو مسلم قربانی کر کے تمہارے پاس آئے ہی اور تمہاری حالت کو دیکھے اور کہے سُبحَانَ اللہ یہ مومنوں والا کام ہے.انگریز جن کے پاخانے کی سونے کے کمرے معلوم ہوتے ہیں یہاں آئیں گے اور دیکھیں گے کہ یہاں ہر جگہ پاخانہ پھرا جارہا ہے تو وہ واپس جا کر اپنے ساتھیوں سے کہیں گے کہ ہم ربوہ گئے تھے.ہم نے دیکھا ہے کہ مومنوں کا یہی کام ہوا کرتا ہے کہ بجائے گھر کے باہر پاخانہ کیا کریں تو اس کا کیا نتیجہ نکلے گا ؟ آخر تمہاری بیویاں

Page 416

$ 1949 407 خطبات محمود ہیں، تمہارے بچے ہیں جو باہر پاخانہ پھرتے ہیں تم ان کو کیوں نہیں سمجھا سکتے ؟ اگر تمہیں منع کرنے کی کی طاقت نہیں تو تم کیوں سب سر جوڑ کر نہیں بیٹھ جاتے اور اس معمہ کوحل کرنے کی کوشش کرتے ؟ آخر ساری دنیا صفائی کر رہی ہے، انگلینڈ کر رہا ہے، امریکہ کر رہا ہے، ہالینڈ کر رہا ہے، سوئٹزر لینڈ کر رہا ہے، جرمنی کر رہا ہے، فرانس کر رہا ہے تم کیوں نہیں کر سکتے ؟ صفائی کی عادت ڈالو ورنہ باہر سے آنے کی والے یہی سمجھیں گے کہ احمدیت کا اصل نمونہ گھروں سے باہر پاخانہ پھر نا ہے.جو مخلص ہوں گے وہ تم کو دیکھ کر تمہارے کاموں کی نقل کریں گے اور اس طرح تم ساری دنیا میں گند پھیلانے کے مرتکب ہو گے اور جو مخلص نہیں انکے لیے تمہارا یہ نمونہ ٹھوکر کا موجب ہوگا.صفائی نہایت اہم امر ہے.چنانچہ دیکھو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کتنی معمولی معمولی باتوں کی طرف توجہ دلائی ہے.مثلاً فرمایا کہ جمعہ کو مسجد میں نہا کر آؤ اور خوشبو لگا کر آؤ3 مگر اب کتنے لوگ ہیں جو خوشبو لگا کر مسجد میں آتے ہیں.پھر فرمایا پیاز یا لہسن کھا کر مسجد میں نہ آؤ.اس سے قیاس ہوا کہ کوئی بد بودار چیز کھا کر مسجد میں نہیں آنا چاہیے کیونکہ فرشتوں کو تو پیاز اور لہسن کے ساتھ دشمنی نہیں ، دشمنی غلاظت سے ہے، بدھ سے ہے خواہ وہ کہیں سے آ جائے.منہ کی ہی بو لے لو.کتنے آدمی ہیں جو اس کا خیال رکھتے ہیں.ابھی اگر میں امتحان مقرر کر دوں اور کسی سے کہوں کہ تمام لوگوں کے مونہوں کی کو سونگھو تو شاید سو میں سے ایک بھی شخص ایسا نہیں ہو گا جس کے منہ سے بد بو نہ آتی ہو.میں نے دیکھا ہے کہ بعض کا رکن جب میرے سامنے کا غذات پیش کرنے کے لیے آتے ہیں تو میں ان کے منہ کی و سے بیہوش ہونے لگتا ہوں.پھر انہیں شوق ہوتا ہے کہ میرے قریب آ کر بات کریں حالانکہ بات فاصلہ سے بھی ہو سکتی ہے.یورپین لوگوں میں قریب آ کر بات کرنے کی عادت نہیں ہوتی لیکن ہندوستانیوں میں یہ عادت کثرت سے پائی جاتی ہے مگر منہ کی بو تو ہندوستان سے خاص نہیں.یورپ والے بھی اس کا خیال نہیں رکھتے.وہ منہ کی صفائی میں بہت پیچھے ہیں.مسلمان کھانا کھانے کے بعد کلی کرتا ہے لیکن اب گلی کرنا محض اس طرح کا رسمی رہ گیا ہے جس طرح ہند و صبح کو دریا پر نہانے کے لیے لیے جاتے ہیں.ان کا نہانا محض رسمی ہوتا ہے.یعنی پانی پیچھے اور گڑوی آگے.اسی طرح کلی کرنا بھی ہے مسلمانوں میں ایک رسم کے طور پر رہ گیا ہے.ان کا گلی کرنا صفائی کے لیے نہیں ہوتا.اور جب گلی کرنا صفائی کے لیے نہیں ہوتا تو اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ مسوڑھوں میں زخم پڑ جاتے ہیں اور پھر منہ میں سڑاند

Page 417

$1949 408 خطبات محمود پیدا ہو جاتی ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسواک کا کتنی شدت سے حکم دیا ہے.مگر کتنے ہیں جو اس پر عمل کرتے ہیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وفات سے کچھ دیر پہلے دیکھا کہ حضرت ابوبکر کے لڑکے عبدالرحمان جو آپ کے سالے تھے اور آپ کی طبیعت دریافت کرنے کے لیے آئے تھے دروازے میں کھڑے مسواک کر رہے ہیں.حضرت عائشہ فرماتی ہیں آپ سے بولا نہیں جاتا تھا لیکن آپ نے میری طرف اس طرح دیکھا کہ میں نے سمجھ لیا کہ آپ کو مسواک چاہیے.میں نے کی عبدالرحمان سے مسواک لی اور اس کا اگلا حصہ جو وہ چہار ہے تھے کاٹ کر باقی حصہ تھوڑی دیر کے لیے آپ کے منہ میں رکھا.4 اب دیکھو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی وفات کے وقت بھی جبکہ آپ میں بولنے کی قوت نہیں رہی تھی منہ کی صفائی کا کتنا خیال تھا لیکن اب سو میں سے نانوے آدمی منہ میں سڑاند اٹھائے پھرتے ہیں اور انہیں خیال تک نہیں آتا کہ اس کا ازالہ کریں.غرض جیسا کہ میں نے بتایا ہے باہر سے آنے والے لوگ اگر وہ مخلص ہوں گے تو ہمارے افعال کی نقل کریں گے.ابھی ہماری بہن رقیہ آئی ہیں.جب وہ میری بیویوں کے ساتھ اسکول دیکھنے کے کے لیے گئیں تو انہیں برقع میں دیکھ کر گھبراگئیں اور کہنے لگیں میں کیسے بغیر برقع کے جاؤں.پھر وہ کہنے لایا لگیں اچھا میرے پاس کپڑا ہے میں اسی کا نقاب ڈال لیتی ہوں.اب بھی وہ جمعہ کے لیے آئی ہیں تو منہ پر نقاب ڈال کر آئی ہیں.یہ قدرتی بات ہے.لوگ کہتے ہیں یورپ والے پردہ کے حکم پر عمل نہیں کر سکتے لیکن جہاں محبت ہوتی ہے انسان آپ ہی آپ نقل کرنی شروع کر دیتا ہے.تم اپنا نمونہ دکھاؤ.کہنے کی ضرورت ہی نہیں وہ خود بخود تمہاری نقل کرنی شروع کر دیں گے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب آخری حج کے لیے جس کے بعد آپ وفات پاگئے تشریف لے گئے تو مکہ سے کچھ فاصلہ پر آپ کو پیشاب کی حاجت ہوئی.آپ نے سواری کھڑی کی اور راستہ سے ہٹ کر ایک درخت کے پاس پیشاب کیا.حضرت عبد اللہ بن عمر جب حج کو جاتے اپنی سواری کو اُسی جگہ کھڑا کرتے جہاں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی سواری کو کھڑا کیا تھا اور اُسی درخت کے نیچے کی پیشاب کرتے جہاں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پیشاب کیا تھا.لوگوں نے آپ کو ایسا کرتے ایک دفعہ دیکھا، دو دفعہ دیکھا آخر کسی نے آپ سے پوچھا اس درخت میں کیا خوبی ہے کہ آپ ہمیشہ حج کو جا.ہوئے یہاں سواری کھڑی کر کے پیشاب کرتے ہیں؟ آپ نے فرمایا جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم

Page 418

* 1949 409 خطبات محمود آخری دفعہ حج کے لیے آئے تھے تو آپ نے اس درخت کے نیچے پیشاب کیا تھا.پس میرا دل بھی چاہتا ہے کہ اس کام میں بھی آپ کی اتباع نہ چھوڑوں.5 یورپ کی باتیں یورپ کی باتیں ہی سہی لیکن کچھ یہ صرف اُسی وقت تک ہیں جب تک انہیں ہم سے محبت پیدا نہیں ہو جاتی.جب محبت پیدا ہو جائے گی وہ خود بخود وہی کام کرنا شروع کر دیں گے جو ہم کرتے ہیں.مسٹر کنزے کو ہی دیکھ لو انہوں نے کتنی لمبی ہے داڑھی رکھی ہوئی ہے.کیا جرمن لوگ داڑھی رکھتے ہیں؟ خدام الاحمدیہ کے سالانہ اجتماع کے موقع پر میں نے انہیں اسٹیج پر بلا کر نو جوانوں کو شرم دلائی تھی کہ اگر ایک جرمن مسلمان ہو کر داڑھی رکھنا شروع کر دیتا ہے تو کیا وجہ ہے کہ تم داڑھی نہیں رکھتے ؟ میں نے ان سے پوچھا کہ مسٹر کنزے بتاؤ! کیا تمہاری سات پشت میں سے کبھی کسی نے داڑھی رکھی تھی؟ انہوں نے جواب دیا نہیں.اس پر میں نے خدام سے کہا کہ انہوں نے تو اپنی سات پشتوں کی رسم بھی توڑ دی اور تم اپنے آقا کی رسم کو بھی قائم نہیں رکھ سکتے.پس وہ سب کام جو اسلام کہتا ہے یورپین لوگ کریں گے اور خدانخواستہ ہم میں کوئی خرابی آئی تو ہماری نقل میں وہ بھی کرنے لگ جائیں گے.اس لیے ضرورت ہے کہ ہم وہ کام کریں جو ان کے لیے ٹھوکر کا موجب نہ ہوں.امام ابوحنیفہ سے کسی نے پوچھا کہ کیا آپ کو کوئی ایسا آدمی بھی ملا ہے جس نے آپ کو نصیحت کی ہو؟ یعنی آپ بڑے بزرگ ہیں.آپ ہی سب کو نصیحت کرتے ہوں گے آپ کو کسی نے کیا نصیحت کرنی ہے.آپ نے فرمایا مجھے بھی ایک ایسا شخص ملا ہے جس نے مجھے نصیحت کی اور وہ ایک نو دس سال کالڑکا تھا.اس کی زبان کی چوٹ مجھے اب بھی محسوس ہوتی ہے.ایک دن بارش ہو رہی تھی کہ میں باہر نکلا.بچے عموماً برسات میں باہر نکل کر کھیلنا پسند کرتے ہیں.ایک نو دس سال کا لڑ کا کھیلتا گو دتا چلا جارہا تھا کہ میں نے کہا میاں! سنبھل کر چلو کہیں گر نہ جانا.اس نے بے ساختہ مجھے جواب دیا کہ میں گرا تو کوئی حرج نہیں لیکن آپ اپنا خیال رکھیں آپ گرے تو ساری امت گر جائے گی.یعنی میراگر نا تو صرف میری ذات پر ہی اثر انداز ہو گا لیکن آپ فقیہ ہیں، مفتی ہیں اگر آپ نے کوئی خراب بات کی تو آپ کی نقل میں ساری امت وہی بات کرنی شروع کر دے گی اور برباد ہوگی.امام ابوحنیفہ فرماتے ہیں کہ اس لڑکے کی بات کا زخم ابھی تک ہرا ہے مندل نہیں ہوا.پس یاد رکھو! ہمیں اگر کوئی کام کرتے دوسرے لوگ دیکھیں گے تو محبت کی وجہ سے

Page 419

* 1949 410 خطبات محمود ہماری نقل میں وہ بھی وہی کام کرنے لگ جائیں گے.اگر ہم صحیح راستہ پر چلیں گے تو ہماری نقل کی وجہ سے اسی طرح نیکی پھیلے گی جس طرح ہماری زبان کے ذریعہ نیکی پھیل رہی ہے.لیکن ی اگر ہم غلط راستہ پر چلیں گے تو ہمارے بُرے نمونہ کی وجہ سے دنیا میں بُرائی پھیلے گی اور وہ اس کی نیکی کو بھی ضائع کر دے گی جو ہماری زبان کے ذریعہ پھیلی ہے.سو تم احتیاط کرو اور اپنے فرض کی ادائیگی کی طرف توجہ کرو.خصوصاً اس بات کی ذمہ داری ناظر امور عامہ پر ہے، مقامی امیر پر ہے ، علمائے سلسلہ پر ہے اور پھر لجنہ اماءاللہ پر ہے.ان سب کو اپنے اندر قومی کیریکٹر پیدا کرنے کی کوشش کرنی چاہیے اور ایک ایسا طریق اختیار کرنا چاہیے جس کی وجہ سے لوگ ہمیں دیکھتے ہی پہچان لیں کہ یہ احمدی ہیں.کسی خاص کیریکٹر کا پیدا ہو جانا بھی اس کے خیالات کی تبلیغ میں محمد ہوا کرتا ہے“.( الفضل 22 دسمبر 1949ء) 1 : مسلم كتاب المساجد باب النَّهى عَنِ الْبَصَاقِ فِي الْمَسْجِدِ (الخ) 2 : مسلم کتاب المساجد باب نهى من أكل ثوما (الخ) 3 : بخارى كتاب الجمعة باب الطّيبُ لِلْجُمعَةِ 4 : بخاری کتاب المغازى باب مَرَض النَّبِيِّ صلى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَوَفَاتِهِ 5 : اسد الغابة جلد 3 صفحہ 43 عبداللہ بن عمر بن الخطاب مطبوعہ بیروت لبنان 2001ء(مفہوماً)

Page 420

* 1949 411 42 خطبات محمود شریعت کی بنیاد محض عقل پر نہیں بلکہ اس کی بنیا دا خلاق، قربانی اور محبت پر ہے (فرمودہ 9 دسمبر 1949ء بمقام ربوہ) تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: ” میں نے گزشتہ ہفتہ یعنی پچھلے جمعہ کے خطبہ میں عورتوں کے نماز کے حصہ کے متعلق ناظر تعلیم کو توجہ دلائی تھی.سوشکر ہے کہ انہوں نے توجہ کر کے پہلے سے کچھ زیادہ انتظام کر دیا ہے.آج عورتوں کی پیٹھوں کی طرف قنات بھی لگی ہوئی ہے اور مسجد میں توسیع بھی کر دی گئی ہے تا زیادہ عورتیں نماز پڑھ سکیں.اور اللہ تعالیٰ کی مشیت ہوئی اور اس کا فضل شامل حال ہوا تو اِنْشَاءَ اللہ چھوٹی مسجد یعنی وہ مسجد جو مسجد مبارک کی قائمقام ہوگی جلد تیار ہو جائے گی اور پھر جمعہ کی نماز وہاں ہونے لگ جائے گی.اور خدا کے فضل اور اس کی امداد کے ساتھ کچھ بعید نہیں کہ اگلے سال جامع مسجد بھی تیار ہو جائے.میں نے پچھلے ہفتہ سے کچھ دن پہلے زمیندارہ جماعتوں کو ایک تحریک بھجوائی تھی کہ وہ اپنی گندم کی فصل کاشتہ پر ایک نہایت قلیل مقدار میں گندم جلسہ سالانہ کے اخراجات میں بطور امداد دیں.اس تحریک کو کیے ہوئے دس بارہ دن ہو گئے ہیں اور چونکہ یہ تحریک دفتر کی طرف سے بھجوائی گئی تھی اس لیے

Page 421

$ 1949 412 خطبات محمود ممکن ہے کہ بعض جماعتوں کی طرف سے جواب بھی آیا ہو لیکن مجھے ابھی تک کوئی جواب موصول نہیں ہے ہوا.ہمارے ملک میں گندم کی پیداوار کی اوسط پندرہ من فی ایکڑ تک ہو جاتی ہے.بعض علاقوں میں کم بھی ہوتی ہے اور بعض علاقوں میں زیادہ.مشرقی پنجاب میں گندم کی پیداوار کی اوسط کم تھی.اس کے مقابلہ میں مغربی پنجاب میں گندم کی پیداوار کی اوسط زیادہ ہے.مشرقی پنجاب کے مغربی پنجاب سے الگ ہو جانے کی وجہ سے مغربی پنجاب کی گندم کی پیداوار کی اوسط بڑھ گئی ہے.اور چونکہ اس علاقہ میں نہریں کثرت سے ہیں اس لیے مشرقی پنجاب کی نسبت مغربی پنجاب میں گندم کی پیداوار زیادہ ہے.نہری علاقوں میں پچیس من فی ایکٹر تک اوسط نکل جاتی ہے اس لیے پندرہ من گندم فی ایکٹر کی اوسط لگا نا کوئی بعید بات نہیں.اگر اس حساب سے گندم کی پیداوار ہو اور ایک ایکڑ کی پیداوار سے دوسیر گندم جلسہ سالانہ کے اخراجات میں بطور امداد دی جائے تو یہ گندم قریباً اٹھارہ سیر فی مربع بن جاتی ނ ہے.اچھے مربع والوں کی گندم ڈیڑھ سو سے اڑھائی سو من فی مربع پیدا ہو جاتی ہے.اس میں.اٹھارہ سیر گندم کا ادا کرنا کسی قسم کی قربانی نہیں کہلا سکتا.اگر ہماری جماعت کی مقبوضہ زمین مغربی پنجاب کی مثلاً دو ہزار مربع مجھی جائے.اگر چہ وہ یقیناً اس سے زیادہ ہے تو یہ چھتیس ہزار سیر گندم ہو جاتی ہے یا ایک عام اندازہ کے مطابق کوئی نوسو من.ہمارے جلسہ سالانہ کا گندم کا خرچ قادیان میں دو ہزار من تک ہوا کرتا تھا.ابھی چونکہ اتنے آدمی آنے کی امید نہیں کی جاسکتی جتنے آدمی قادیان میں آخری جلسوں پر آجایا کرتے تھے اس لیے اس سال کوئی پندرہ سوئن گندم کا اندازہ ہے.اگر جماعتیں چندہ کے طور پر دوسیر فی ایکڑ کے حساب سے گندم بطور امداد جلسہ سالانہ کے اخراجات کے لیے دے دیں تو ہمارے پاس نو سو من گندم جمع ہو جاتی ہے.اور اتنی مقدار میں گندم بطور چندہ دینا کوئی بوجھ نہیں کہلا سکتا اس سے زیادہ گندم تو فقیروں کو دے دی جاتی ہے.خدا تعالیٰ یا کسی رشتہ دار کو دینے کا تو کوئی سوال ہی کی نہیں.اس مقدار سے زیادہ گندم ایک شریف انسان فقیروں کو دے دیتا ہے اور ہر شریف انسان کو ایسا ہے کرنا چاہیے.لیکن پہلے سال کے تجربہ کے لیے میں نے زمیندارہ جماعتوں میں چار پانچ سو من گندم کے لیے تحریک کی ہے اور ساتھ ہی میں نے یہ بھی تحریک کی ہے کہ یہ گندم چندہ جلسہ سالانہ میں شامل نہیں ہوگی.موجودہ جنس سے کچھ حصہ بطور امداد دے دینا چندہ کا حصہ نہیں ہوسکتا.میں ربوہ کے ساکنوں کو بھی توجہ دلاتا ہوں کہ ہم لوگ میزبان ہیں اور باہر سے آنے والے

Page 422

* 1949 413 خطبات محمود لوگ مہمان ہیں.ہمیں اپنی ذمہ داریاں اور فرائض دوسروں کی نسبت زیادہ اچھی طرح سمجھنے چاہیں.ہم میں اتنی توفیق تو نہیں کہ ہم آنے والوں کا سب بوجھ اُٹھا سکیں لیکن کم از کم ہمیں یہ تو کوشش کرنی چاہیے کہ ہم باہر سے آنے والوں کا بوجھ دوسروں سے زیادہ اُٹھا ئیں.مگر حقیقت یہ ہے کہ ہمارا بوجھ لی دوسروں سے بہت کم ہوتا ہے.اس لیے کہ جلسہ سالانہ کے دنوں میں مقامی جماعت کا نوے فیصدی کی حصہ کھانا لنگر سے کھاتا ہے کیونکہ وہ سارا دن لنگر یا مہمان خانہ میں رہتا ہے اسے گھر جانے کا موقع ہی ہے نہیں ملتا.گو یا مرکزی لوگ اگر گندم کی کچھ مقدار بطور چندہ دے دیتے ہیں تو وہ اسے دوسری شکل میں ہے یعنی کھانے کی صورت میں واپس لے لیتے ہیں.اس موقع پر شاید تم میں سے بعض لوگ یہ کہیں اور شاید زمینداروں میں سے بھی بعض کہیں کہ اور لوگوں نے بھی چندہ دیا اور ہم نے بھی چندہ دیا.پھر کیا وجہ ہے کہ ہم سے دوسروں سے زیادہ کسی قسم کا مطالبہ کیا جائے؟ اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ مرکزی لوگ کہیں کہ اگر ہم جلسہ کے دنوں میں کھانا لنگر سے کھاتے ہیں تو ہم کام بھی کرتے ہیں.جہاں تک منطق کا سوال ہے میں ان کی دلیل تسلیم کرنے کو تیار ہوں مگر تم جانتے ہو کہ قانونِ شریعت اور قانونِ قدرت میں منطق کا کوئی دخل نہیں.ایک مُلاں جو اسی قسم کی منطق کا قائل تھا اپنے خاندان کو لے کر کسی رشتہ دار کو ملنے کے لیے لیے جا رہا تھا.رستہ میں ایک دریا پڑتا تھا.وہ دریا چھوٹا سا تھا.انداز ا کوئی چالیس پچاس گز چوڑا ہو گا لیکن دریا دریا ہی ہوتے ہیں.نالوں کے پاس کسی وقت بالکل نیچے کو چلے جاتے ہیں اور کسی وقت او پر کو آجاتے ہیں.کشمیر سے آتا ہوا ایک دفعہ میں خود ایک دریا میں سے گزرا ہوں جس کی چوڑائی کوئی تھی چالیس پچاس گز ہو گی.ہمارے آنے سے کچھ دیر پہلے ایک انگریز اپنے بیوی بچوں سمیت جو گاڑی میں سوار تھے دریا میں گیا تھا.اُس دریا کو پار کرنے کے لیے ٹانگا کے ساتھ تین چار مقامی آدمی پیدل جاتے تھے.ان کے پاؤں گڑ جاتے تھے اور اس طرح وہ گاڑی یا ٹانگا کے ساتھ دوسرے کنارے پر لے جاتے تھے ورنہ ایسے دریاؤں کو پار کرنا بہت مشکل ہوتا ہے.اس نے یہ نہ دیکھا کہ قانونِ قدرت کیا ہے اُس نے دنیاوی حساب لگایا.اس نے سوٹی نکالی اور کنارے سے ایک گز آگے پانی میں رکھی.پھر اندازہ کیا کہ ایک گز کے بعد پانی مثلاً ایک انچ گہرا ہے تو چالیس گز کے بعد پانی کتنا گہرا ہوگا.اس نے مثلاً یہ اندازہ لگایا کہ اگر ایک گز پر پانی ایک انچ گہرا ہے تو چالیس گز پر چالیس انچ گہرا ہوگا.

Page 423

$ 1949 414 خطبات محمود اس لیے دریا کو پار کرنا کوئی مشکل امر نہیں.حالانکہ دریا میں بعض دفعہ پاؤں یکدم پانی سے باہر نکل آتا ہے لیکن کچھ آگے جا کر انسان سر تک ڈوب جاتا ہے.بلکہ سر تک ڈوبنا تو کیا بعض دفعہ پانی سر سے بھی دو دو، تین تین فٹ اوپر نکل جاتا ہے.اُس ملاں نے اربع 1 لگایا اور مع کنبہ دریا میں داخل ہو گیا.ابھی تھوڑا ہی فاصلہ اس نے طے کیا تھا کہ اُس کے کنبہ کے سب افراد ڈوب گئے.وہ خود بوجہ تیر نا جاننے کے بچ گیا.پانی سے باہر نکل کر وہ پھر اربع لگانے بیٹھ گیا اور جب نتیجہ اربع کا وہی پہلا سا نکلاتو بولا کہ اربع لگا جوں کا توں کنبہ دتا سارا کیوں؟ غرض قانونِ قدرت کی بنیا دا ربع پر نہیں یہ حساب وغیرہ تو قانونِ قدرت کے نتیجہ میں ہوتے ہیں.جہاں قانونِ قدرت نے انہیں چلایا ہے وہ چلیں گے اور جہاں قانونِ قدرت نے انہیں نہیں چلا یا وہ نہیں چلیں گے.اسی طرح شریعت میں بھی یہ چیز نہیں.شریعت کی بنیاد بھی منطق پر نہیں.شریعت کی بنیاد اخلاقی قوانین پر ہے.شریعت کی بنیاد محبت پر ہے، شریعت کی بنیاد قربانی پر ہے ، شریعت کی بنیاد محض عقل پر نہیں، شریعت کی بنیاد قوانین قدرت کے عام اصولوں پر بھی نہیں بلکہ اس کی بنیاد اخلاق، قربانی اور محبت پر ہے.یہ تین چیزیں ہیں جن کو شریعت دوسری چیزوں پر مقدم رکھتی ہے.شریعت بیشک عقل کی بھی مدد لیتی ہے لیکن وہ صرف اتنی ہی مدد لیتی ہے جتنی شریعت کے تابع ہو کر چلے.قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے مِمَّا رَزَقْنَهُمْ يُنْفِقُونَ 2 مومن کی یہ علامت ہوتی ہے کہ جو چیز اس نے خدا تعالیٰ کی طرف سے پائی ہے اس میں سے کچھ حصہ وہ خدا تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرتا ہے.اس میں سے کچھ حصہ وہ دین کے لیے خرچ کرتا ہے.مِمَّا رَزَقْنَهُمْ يُنْفِقُونَ میں صرف روپیہ ہی شامل نہیں کہ انسان کچھ روپے بطور چندہ دے کر اپنے فرض کو ادا کر دے.مِمَّا رَزَقْنُهُمْ يُنْفِقُونَ میں آنکھیں بھی شامل ہیں، دماغ بھی شامل ہے، کان بھی شامل ہیں، ناک بھی شامل ہے، ہاتھ اور پاؤں بھی شامل ہیں، دھڑ بھی شامل ہے، مِمَّا رَزَقْنَهُمْ يُنْفِقُونَ میں مکان بھی شامل ہے، وہ گندم بھی شامل ہے جو تم نے پیدا کی ہے اور وہ روپیہ بھی شامل ہے جو تم کماتے ہو، وہ چی گاجریں اور مولیاں بھی شامل ہیں جو تم پیدا کرتے ہو اور وہ گڑ بھی شامل ہے جو تم پیدا کرتے ہو.روپیہ دے کر تم مِمَّا رَزَقْنُهُمُ يُنْفِقُونَ کے حکم کو پورا نہیں کر سکتے.ہاں! روپیہ خرچ کر کے تم قربانی ہے

Page 424

$1949 415 خطبات محمود کر سکتے ہو لیکن شریعت میں صرف قربانی کا حکم نہیں.قرآن کریم کی آیت مِمَّا رَزَقْنَهُمْ يُنْفِقُونَ بھی ہے.اس لیے اگر کوئی شخص اپنی ساری جائداد بھی بطور چندہ دے دیتا ہے لیکن اس کی آنکھیں خدا تعالیٰ کے بندوں کی خدمت میں حصہ نہیں لیتیں، اُس کے ہاتھ خدا تعالیٰ کے بندوں کی کی خدمت میں حصہ نہیں لیتے تو وہ یہ نہیں کہہ سکتا کہ فلاں شخص نے ایک روپیہ بطور چندہ دیا ہے اور میں.اپنی آمد کا سو فیصدی چندہ دے دیا ہے اس لیے میں نے اپنے فرض کو پورا کر دیا.یہ چیز منطق تو کہلائے گی لیکن دین نہیں کہلائے گی.دین کا تقاضا پورا کرنا تو یہ ہو گا کہ وہ خدا تعالیٰ کے بندوں کی خدمت میں اپنی آنکھوں کو بھی استعمال کرے، اپنے کانوں کو بھی استعمال کرے.احادیث میں آتا ہے کہ جب انسان خدا تعالیٰ کے سامنے پیش ہوں گے تو وہ بعض سے کہے گا جی کہ اے میرے بندو! میں بھوکا تھا تم نے مجھے کھانا کھلایا، میں پیاسا تھا تم نے مجھے پانی پلایا، میں نگا تھا.تم نے مجھے کپڑے پہنائے ، میں بیمار ہوا تم نے میری تیمار داری کی اس لیے جاؤ میری جنت میں داخل ہو جاؤ.وہ بندے کہیں گے تو بہ تو بہ ہماری کیا طاقت تھی کہ ہم اپنے خدا کو کھانا کھلاتے ، ہماری کیا طاقت تھی کہ ہم خدا کو پانی پلاتے ، ہماری کیا طاقت تھی کہ ہم خدا کو کپڑے پہناتے ، ہماری کیا طاقت تھی کہ ہمارا خدا بیمار ہوتا تو ہم اس کی تیمارداری کرتے.وہ فرمائے گا میرا ادنیٰ سے ادنی بندہ تمہارے پاس آیا اور وہ بھوکا تھا تم نے اسے کھانا کھلایا تو گویا مجھے ہی کھانا کھلایا.میرا ادنیٰ سے ادنی بندہ تمہارے پاس آیا اور وہ پیاسا تھا تم نے اسے پانی پلایا تو گویا مجھے ہی پانی پلایا ، میرا ادنیٰ سے ادنی بندہ تمہارے پاس آیا اور وہ ننگا تھا تم نے اسے کپڑا پہنایا تو گویا مجھے ہی کپڑا پہنایا ، میرا ادنیٰ سے ادنی بندہ تمہارے پاس آیا اور وہ بیمار تھا تم نے اس کی تیمارداری کی تو گویا میری ہی تیمارداری کی.اس لیے جو کچھ میں نے کہا ہے ٹھیک کہا ہے.جاؤ تم میری جنت کے مستحق ہو اس میں داخل ہو جاؤ.3 پس ایک طرف تم اس حدیث کو دیکھو اور دوسری طرف اس امر کو مدنظر رکھو کہ تم اپنے بیوی ای بچوں کے لیے کیا کچھ خرچ نہیں کرتے.اس جگہ مثال تو میں نے ماں باپ کی دینی تھی لیکن بدقسمتی سے اس زمانہ میں والدین کی محبت بہت کم ہو گئی ہے.بدقسمتی سے لوگ اپنی اس ذمہ داری کو ادا کرنے میں انتہائی سستی سے کام لیتے ہیں جو ماں باپ کی خدمت کی ان پر عائد کی گئی ہے.وہ سمجھتے ہیں کہ والدین ہمارے خادم ہیں ان کا فرض تھا کہ ہمیں کھیلا ئیں پلائیں ہمارا فرض نہیں کہ ان کی خدمت کریں.

Page 425

$ 1949 416 خطبات محمود ہمارے ذمہ صرف اپنے بیوی بچوں کی پرورش ہے.یہ حالت بڑی ہی بدقسمتی اور بداخلاقی کی علامہ ہے.لیکن اس منطقی زمانہ میں یہی صورت قائم ہو چکی ہے اس لیے میں اصل مثال نہیں دے سکتا.لیکن میں کہتا ہوں تم اپنے بچہ کو ہی لے لو تم اپنے بچہ کے لیے خرچ مقرر کرتے ہو اور اپنی بیوی کو دیتے ہولیکن کیا تم یہ کہتے ہو کہ میں نے اور کیا دینا ہے سارے مہینہ کا خرچ ایک ہی دفعہ جو بیوی کو دے دیا.کیا ایسا ہی نہیں ہوتا کہ تم بازار میں جاتے ہو اور کھانے کے لیے کچھ مٹھائی خرید لیتے ہو تو تم وہ مٹھائی زیادہ مقدار میں خرید لیتے ہو ،تا اپنے بیوی بچوں کے لیے بھی لے جاؤ، تم یہ تو نہیں کہتے کہ میں نے روپے دے دیئے ہیں اب مٹھائی لے جانے کی کیا ضرورت ہے.یا مثلاً تم کوئی کپڑا خریدتے ہو تو وہ کچھ زیادہ خرید لیتے ہو، تا بیوی بچوں کے لباس کا کچھ حصہ بنا لیا جائے.تم کبھی بھی یہ منطقی نتیجہ نہیں نکالتے کہ میں نے کی ایک دفعہ روپیہ دے دیا ہے اب میں نے اور خرچ نہیں کرنا.حقیقت یہ ہے کہ جہاں محبت ہوتی ہے انسان ایسے اخراجات برداشت کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے.میں نے دیکھا ہے کہ ہم جب باہر جاتے ہیں تو کئی لوگ اپنی محبت کی وجہ سے بعض اخراجات کی ہم پر کرتے ہیں.مثلاً میں دو سال سے کوئٹہ جاتا رہا ہوں.وہاں ہمارے ہی ضلع کے ایک دوست ڈاکٹر غفور الحق خان صاحب ہیں.میں نے دونوں سال تجربہ کیا ہے کہ وہ جب کوئی چیز گھر لے جاتے ہی تھے تو اس کی ایک ٹوکری ہمیں بھی بھیج دیتے تھے.مثلاً انگور نکلنے شروع ہوئے اور انہوں نے بازار سے گھر کے لیے کچھ انگور خریدے تو ایک ٹوکری زائد خرید کر وہ ہمارے لیے بھی بھیج دیں گے.یا خربوزے نکلے اور انہوں نے اپنے استعمال کے لیے کچھ خربوزے خریدے ہیں تو کچھ خربوزے وہ ہمیں بھی بھیج دیں گے.وہ چیز میں اس طرح متواتر آتی تھیں کہ ہم سمجھتے تھے کہ وہ اپنے گھر لے جا رہے تھے کہ ہماری محبت کی وجہ سے انہوں نے ہمیں بھی اس میں سے ایک حصہ بھیج دیا.جی اللہ تعالیٰ کی عجیب قدرت ہے.یہ خطبہ میں نے دسمبر کے شروع میں دیا لیکن چھپنے سے رہ گیا.آج ہی اس پر نظر ثانی کرنے لگا ہوں جبکہ ابھی ابھی ہی عزیزم ڈاکٹر غفور الحق خاں کو دفنا کر کوٹا ہوں.میں اسے اتفاق نہیں کہہ سکتا.یہ خدا تعالیٰ کی قدرت ہے جس نے آج مجھے اسی خطبہ پر نظر ثانی کا موقع دیا.عزیز زندہ ہوتا تو اسے پڑھ کر کتنا خوش ہوتا مگر اب اس کے عزیز ا سے پڑھ کر خوش ہوں گے کہ ان کے عزیز کو خدا تعالیٰ نے جوڑ تبہ بخشا کہ اس کا ذکر اس محبت کے ساتھ ایک قائم رہنے والے نشان میں شامل

Page 426

خطبات محمود 417 $ 1949 غرض عاشق مومن یہ خیال نہیں کرتے کہ انہوں نے چندہ ادا کر دیا ہے اور سلسلہ کی خدمت سے آزاد ہو گئے ہیں یا کچھ رقم بطور نذرانہ خلیفہ وقت کو دے دی ہے اور انہوں نے اپنے تعلق کا اظہار کر دیا ہے بلکہ وہ تو ان کو ہر وقت یادرکھتے ہیں اور اپنی ہر خوشی میں ان کو شریک کرتے ہیں.غرض جہاں محبت ہوتی ہے وہاں منطقی نظریہ کام نہیں دیتا.مِمَّا رَزَقْنُهُمْ يُنْفِقُونَ میں خدا تعالیٰ نے اس من طرف توجہ دلائی ہے کہ تم کسی کو کتنی بھی چیز دے دو وہ محبت پر دلالت نہیں کرتی بلکہ وہ اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ تمہیں اس کی اہمیت معلوم ہے اور اہمیت اور محبت میں زمین اور آسمان کا فرق ہے.مثلاً افسر کی اہمیت تمہیں معلوم ہے.بسا اوقات تم اپنے بیوی بچے سے بھی زیادہ اُس کی خدمت کرتے ہولیکن اُس کی خدمت اہمیت والی ہوگی محبت والی نہیں ہو گی.مثلاً اس کی آمد پر تم سو روپیہ خرچ کر دیتے ہو لیکن تم غریب ہو اس لیے اپنے بچے پر تم مثلاً صرف پانچ روپے ماہوار خرچ کرتے ہومگر جب چنے نکلیں گے اور خول میں دانہ پڑے گا تو تم کبھی بھی یہ خیال نہیں کرو گے کہ یہ دانہ افسر کو بھی کھلاؤ.ہاں! تمہاری یہ خواہش ضرور ہوگی کہ یہ دانہ تم اپنے بچوں کو کھلا ؤ حالانکہ تم نے افسر کی آمد پر اس کی خدمت کی کے لیے سو روپیہ خرچ کر دیا تھا اور بچے پر تم صرف پانچ روپیہ خرچ کرتے ہو.یا نرم نرم مولیاں نکلتی ہیں تو تم چند مولیاں لے لیتے ہو اور کہتے ہو کہ یہ منے کے لیے ہیں اور یہ مٹنے کی اماں کے لیے ہیں.تم یہ کبھی بھی خیال نہیں کرتے کہ میں انہیں روپیہ دے چکا ہوں اب اور چیزیں لے جانے کی کیا ضرورت کی ہے.کیونکہ محبت کا یہ اصول ہے کہ مِمَّا رَزَقْنَهُمْ يُنْفِقُونَ تمہیں جو چیز بھی ملتی ہے تم کہتے ہو؟ میں اپنے بیوی بچوں کے لیے بھی لے جاؤں.حضرت عائشہ کے متعلق آتا ہے کہ حضرت عمرؓ کے زمانہ میں جب ہوائی چکیاں درآمد کی گئیں بقیہ حاشیہ: کر دیا گیا ہے.اللہ تعالیٰ عزیز پر اپنے بہت فضل نازل فرمائے.میں جب عزیز کا جنازہ پڑھنے لگا تو اس میں بھی میں نے یہ دعا کی کہ اے اللہ! یہ کوئی اچھی چیز خود نہ کھاتا تھا جب تک کہ ہمیں نہ کھلا لیتا تھا.اب تو بھی اپنی جنت کی اچھی اچھی چیزیں ہماری طرف سے اسے کھیلا تا کہ ہماری خدمت کا بدلہ اسے ملے.عجیب تر بات یہ ہے کہ عزیز کوئٹہ سے آتے ہوئے دو بکس پھلوں کے میرے لیے اب بھی لایا تھا.وہ اس کی لاش کے ساتھ لاہور سے لائے گئے اور آج صبح اس کے بھائی نے اندر بھیجوائے.رَحِمَ اللهُ الْمُحِبَّ الْمُخْلِصَ وَجَعَلَ مَثْوَاهُ فِى الْمُخْلَصِيْنَ مِنْ عِبَادِه.-

Page 427

$1949 418 خطبات محمود تو کچھ چکیاں مدینہ میں بھی لگائی گئیں.جب آٹا پیسا گیا تو وہ بہت نرم تھا.اس قسم کے آٹے کا مدینہ میں رواج نہ تھا.ان کے ہاں چھوٹی چھوٹی چکیاں ہوتی تھیں جن کے ذریعہ وہ آٹا بناتے تھے.ان کے لیے ہوائی چکیاں ایسی ہی تھیں جیسے آجکل کے لوگوں کے لیے ہوائی جہاز ہیں.حضرت عمرؓ نے جواب دیا کہ جو آٹا پہلے تیار ہو وہ حضرت عائشہ کے گھر بھجوایا جائے.دیکھو! یہ بھی محبت کی علامت تھی.اس آئے کی کا حضرت عائشہ کے ساتھ کیا تعلق تھا.منطق یہ کہتی ہے کہ ہوائی چکیاں حکومت نے لگوائی تھیں اور آئے کا تعلق حکومت سے تھا اس لیے آٹا پہلے حکومت کو ملنا چاہیے.مگر محبت یہ نہیں کہتی.حضرت عمرؓ فرماتے ہیں کہ جو چکی لایا ہے یا جو اس کا نگران ہے یا جو وقت کا حاکم ہے اس کے گھر پہلے آٹا نہیں بھیجا جائے گا.یہ آٹا حضرت عائشہ کے گھر بھیجا جائے گا کیونکہ وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی چہیتی بیوی تھیں.کوئی منطق اس حکم کی تائید نہیں کرتی.صرف محبت کا قانون اس کی تائید کرتا ہے.حضرت عائشہ کے گھر میں جب آٹا پہنچا تو محلہ کی سب عورتیں آنا دیکھنے کے لیے جمع ہوگئیں.کیونکہ ان کے لیے وہ عجیب چیز تھا.ہے وہ تو چھوٹی چھوٹی چکیوں میں غلہ پیس کر آٹا بناتی تھیں.اس نرم اور ملائم آئے کا ان میں رواج نہیں تھا تو اس لیے اردگرد کی مستورات آٹا دیکھنے کے لیے جمع ہو گئیں.روٹی پکنی شروع ہوئی اور ایک پتلا سا پھلکا تیار کر کے حضرت عائشہ کے آگے رکھا گیا.حضرت عائشہ نے اس میں سے ایک لقمہ بنایا اور منہ میں ڈالا لیکن منہ میں ڈال کر تھوڑی دیر چبانے کے بعد آپ رُک گئیں اور آپ کی آنکھوں میں سے آنسو بہنے لگے اور تھوڑی دیر کے بعد آپ نے وہ لقمہ باہر پھینک دیا.عورتیں جو آٹا دیکھنے کے لیے وہاں جمع کی ہوگئی تھیں انہوں نے آٹے پر ہاتھ مارنا شروع کیا اور وہ حیران ہوئیں کہ وہ کیا چیز ہے جس کی وجہ سے حضرت عائشہ نے لقمہ پھینک دیا.انہوں نے کہا اے ہماری سردار ! یہ تو نہایت نرم اور ملائم آتا ہے.آپ کو اس نے کیوں تکلیف دی.حضرت عائشہ نے فرمایا اس آٹے نے مجھے اس لیے تکلیف نہیں دیتی کہ یہ نرم اور ملائم نہیں ہے بلکہ اس وجہ سے تکلیف دی ہے کہ یہ نرم اور ملائم ہے.پھر فرمایا رسول کریمی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں اتنی اچھی چکیاں بھی نہیں تھیں جتنی اب ہیں.ہم پتھروں سے کچل کر آٹا بناتے تھے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب بڑی عمر کو پہنچے اور آپ کے دانت کمزور ہو گئے تو بعض دفعہ لقمہ چبانے میں آپ وقت محسوس کیا کرتے تھے.اب جو لقمہ منہ میں گیا تو یکدم مجھے یہ خیال آیا کہ اگر یہ آٹا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ہوتا تو میں اس کی روٹی بنا کر آپ کو

Page 428

$ 1949 419 خطبات محمود کھلاتی.اس خیال کے آنے پر مجھ پر ایسی حالت طاری ہوگئی کہ مجھ سے یہ لقمہ نگلا نہیں گیا.اس لیے کہ یہ نرم اور ملائم آٹا سے بنی ہوئی چپاتی میں اکیلی ہی کھا رہی ہوں.منطق کے لحاظ سے یہ فضول بات تھی کیونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم خدا تعالیٰ کے پاس تھے اور آپ وہ کچھ کھا رہے تھے جو دنیا کا امیر سے امیر آدمی بھی نہیں کھا سکتا.یہ بالکل غیر عقلی اور مالی غیر شرعی بات بھی تھی کیونکہ خدا تعالیٰ یہ کہتا ہے کہ جنت میں مومنوں کو وہ کچھ ملے گا جس کا دنیا کے لوگ تصور بھی نہیں کر سکتے.لیکن قانون محبت کے لحاظ سے وہ ایک ہی درست بات تھی جو حضرت عائشہ نے کی کی منطق کے لحاظ سے وہ فضول بات تھی ،عقل کے لحاظ سے وہ لغو بات تھی اور شریعت کے لحاظ سے قابل حیرت.مگر محبت کے لحاظ سے یہی اور یہی ایک صحیح اور سچا فیصلہ تھا جس کے مقابلہ میں کوئی اور فیصلہ نہیں ہو سکتا.پس میں آپ لوگوں کو بھی اس طرف توجہ دلاتا ہوں کہ مِمَّا رَزَقْنَهُمْ يُنْفِقُونَ میں وہ روٹی بھی شامل ہے جو ہم کھاتے ہیں.ہمیں بھی چاہیے کہ جلسہ کے دنوں میں اپنے لیے جو چیزیں ہی ضروری ہوں ان میں سے کچھ جلسہ کی امداد کے لیے دیں.ربوہ کی آبادی اور کمزوری کو مدنظر رکھتے ہوئے میری تجویز ہے کہ یہاں کے رہنے والے پچھتر من گندم بطور چندہ کے دیں.پچھتر من کے معنے ہیں تین ہزار سیر.اور ربوہ کی ایک ہزار سے زیادہ کی آبادی ہے.گویا تین سیر فی کس بن جاتے ہیں.یہ قریباً اتنی ہی گندم ہے جتنی لنگر میں کام کر کے کھانے والے خود استعمال کر لیتے ہیں.پس ایک لحاظ سے تو یہ وہی گندم ہے جو جلسہ کے دنوں میں کام کرنے والوں میں سے اکثر کھائیں گے ( میں نے اکثر کا لفظ اس لیے استعمال کیا ہے کہ بعض لوگ باوجود جلسہ کے دنوں میں کام کرنے کے کھانا گھر میں تیار کرتے ہیں) لیکن دوسری طرف یہ محبت کی علامت اور ثبوت ہوگا کہ جلسہ پر آنے والے مہمان جب اس آٹے میں سے جو ہم خود استعمال کرتے ہیں کچھ پہلے نہ کھالیں ہمیں تسلی نہیں ہو سکتی.بلکہ یہ تو کیا خواہ تم ایک دمڑی کی قیمت کے برابر ہی کوئی چیز دو لیکن محبت کہتی ہے کہ ان سب چیزوں سے حصہ دوجو تم گھر میں استعمال کرتے ہو.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دفعہ چندہ کی تحریک کی.ایک صحابی جو کی دو مٹھیاں ائے اور انہوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کر دیں.منافق ہنسے اور کہا دنیا بو کی

Page 429

* 1949 420 خطبات محمود ان دو مٹھیوں سے فتح ہو رہی ہے.بعض لوگوں نے اپنے گھر کا سارا سامان ہی باہر لا کر رکھ دیا.اس پر ا منافق لوگوں نے کہا یہ سب دکھاوا ہے.4 گویا کسی کے متعلق انہوں نے یہ کہا کہ بھلا اس سے دنیا فتح ہوسکتی ہے اور کسی پر انہوں نے کہا کہ یہ سب کچھ دکھاوے کے لیے ہے.منافقین کا تو قاعدہ ہی یہ ہوتا ہے کہ وہ مومنوں کی ہر حرکت پر اعتراض کرتے ہیں اور یہی منافق کی سب سے بڑی علامت ہے.لیکن اس میں کیا شبہ ہے کہ دنیا بو کی انہی مٹھیوں سے فتح ہوئی جو اُس وقت چندہ میں دی گئیں.اگر وہ نہ ہوتیں تو دنیا یقینا فتح نہیں ہو سکتی تھی.اگر وہ نہ ہوتیں تو یقیناً اسلام نہ پھیلتا.وہ جو کی دو سٹھیاں نہیں تھیں وہ اسلام کی محبت میں گرنے والے دل کے خون کے قطرے تھے اور دل کے خون کے قطروں سے ہی دنیا فتح ہوا کرتی ہے دنیاوی سامانوں سے نہیں.پس محبت کی علامت تو یہ ہے کہ تم جو کچھ گھروں میں کھاتے ہو اُس میں سے کچھ حصہ بطور چنده دوخواہ وہ کتناہی قلیل ہو.میں یہ نہیں کہتا کہ تم اپنے اوپر بوجھ ڈال لو بلکہ میں کہتا ہوں تم مٹی کے تیل کا جو تم گھر میں جلاتے ہو ایک تولہ دے آؤ اور کہو یہ تیل ہم گھر میں جلاتے ہیں اور ہم نہیں چاہتے کہ اس میں سے بھی ہم ایک حصہ بطور چندہ نہ دیں.تم ایک تولہ کا نصف حصہ گھی دے آؤ اور کہو کہ ہم گھر میں گھی سے روٹی کھاتے ہیں اس لیے اس سے بھی کچھ حصہ بطور چندہ لے لیا جائے.تم گوبھی کا ایک ڈنٹھل ہی کاٹ کر لے آؤ اور کہو یہ گو بھی ہم نے پکانی تھی اس لیے ہے ہم نہیں چاہتے کہ جب تک اس میں سے مہمانوں کے لیے حصہ نہ نکال لیا جائے اسے کھا ئیں.کیونکہ محبت کی یہ علامت ہے کہ جب تک محبوب کوئی چیز استعمال نہ کر لے چین نہیں آیا کرتا.خدا تعالیٰ جس سے زیادہ سچا اور کوئی نہیں اپنے رسول کی زبانی کہتا ہے کہ جس نے میرے ادنیٰ سے ادنی بندے کو جو بھوکا تھا کھانا کھلایا اس نے مجھے ہی کھلایا.پس تم خواہ مٹی کے تیل کا ایک چمچہ ہی دو، تم خواہ گھی کی ایک رتی ہی دو تم وہ تیل خدا تعالیٰ کو دیتے ہو، تم وہ گھی خدا تعالیٰ کو کھلاتے ہو.کیونکہ اُس نے خود فیصلہ کیا ہے کہ گو میں محتاج نہیں ہوں لیکن جب تم میرے محتاج بندے کو کھلاتے ہو تو تم مجھے ہی کھلاتے ہو“.(الفضل 26 فروری 1950ء) 1 : اربع : ( حساب) تین عددوں یا رقموں کی مدد سے چوتھا غیر معلوم عدد یا رقم دریافت کرنے کا قاعده ( اردو لغت تاریخی اصول پر جلد 1 صفحہ 394.کراچی 2006ء) 2 : البقرة: 4

Page 430

* 1949 421 خطبات محمود :3 مسلم كتاب البر والصلة باب فضل عيادة المريض 4 : بخارى كتاب التفسير تفسير سورة براءة باب قوله الَّذِينَ يَلْمِزُونَ الْمُطَّوِعِينَ (الخ)

Page 431

* 1949 422 43.خطبات محمود اگر تم دین و دنیا کی ترقیات چاہتے ہو تو اپنے کاموں کی بنیاد عشق ، ایثار اور قربانی پر رکھو (فرمودہ 23 دسمبر 1949ء بمقام ربوہ ) تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: یہ جلسہ سالانہ سے پہلے کا آخری جمعہ ہے.سوموار کو اِنْشَاءَ اللهُ تعالى جلسہ سالانہ شروع ہو جائے گا.بوجہ اس کے کہ ہم غربت کی حالت میں ہیں، بوجہ اس کے کہ ہم گھروں سے نکلے ہوئے ہیں اور پراگندہ حالت میں ہیں جلسہ سالانہ کا انتظام اب تک مکمل نہیں ہو سکا اور ڈر ہے کہ ممکن ہے کہ جلسہ سالانہ کے وقت تک بھی مکمل نہ ہو سکے.اس لیے میں یہاں کے دوستوں کو اور اُن دوستوں کو جو باہر سے آجائیں نصیحت کرتا ہوں کہ وہ اپنی ذمہ داری کو سمجھیں اور کارکنوں کے ساتھ تعاون کریں تا جلسہ سالانہ کے انتظام کو مکمل کیا جاسکے.مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ اس معاملہ میں بعض کارکنوں کا رویہ نہایت ناشائستہ اور نا پسندیدہ ہے.انہوں نے بجائے کام میں تعاون کرنے کے کام میں دانستہ طور پر یا نادانستہ طور پر روکیں ڈالی ہیں.جب ربوہ کے قیام کا سوال اُٹھایا گیا تھا تو یہ شرط رکھی گئی تھی کہ یہاں ایسے لوگوں کو ہی رہنے دیا جائے گا جو اپنے اندر صحیح قو می روح رکھتے ہوں اور قومی خدمت کا جذبہ

Page 432

$1949 423 خطبات محمود ان کے اندر پوری طرح پایا جائے.ان لوگوں کا یہ نمونہ اس بات کے لیے خدا تعالیٰ کی طرف سے ایک علامت مقرر کیا گیا ہے تا آئندہ اس بارہ میں کوئی فیصلہ کیا جائے.میں نے بار ہا بتایا ہے کہ ہم صرف اخلاق اور قربانی سے ہی دنیا کو فتح کر سکتے ہیں اعداد سے ہم ترقی نہیں کر سکتے.اور اگر ہماری فتح صرف اخلاق اور قربانی سے ہی ہوسکتی تو کسی دنیوی سہارے کی طرف توجہ کرنا درست نہیں.کسی دنیوی سہارے کی طرف نگاہ رکھنا گویا اس بات کا اپنے منہ سے اقرار کرنا ہے کہ ہمیں اپنی تعداد پر بھروسہ ہے.اور یہ ایسی چیز ہے کہ پاگل سے پاگل آدمی کے لیے بھی اتنا نایا سمجھنا مشکل نہیں کہ ہم اعداد سے فتح حاصل نہیں کر سکتے.اگر ہم اعداد پر بھروسہ رکھیں تو لازمی طور پر ہمیں یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ ہم فتح کی امید نہیں رکھتے.اور اگر ہم ایسا کہتے ہیں تو دنیا کو اور اپنے نفس کو ہی دھوکا دیتے ہیں.لیکن اگر ہماری فتح تعداد پر منحصر نہیں ، اگر ہم اخلاق سے باہر رہ کر فتح حاصل نہیں کر سکتے اور ہماری فتح قربانی اور روحانیت سے ہی ہو سکتی ہے تو ہمیں انہی اور اتنے آدمیوں کی ہی ای ضرورت ہوگی جو اخلاق کا اعلیٰ نمونہ پیش کریں، جو اپنے اندر اعلیٰ درجہ کی قربانی اور ایثار کا جذبہ رکھتے تھے ہوں.لیکن بعض معاملوں میں ہمیں نہایت گندہ نمونہ ملا ہے.مثلاً تعمیر کا محکمہ ہے جلسہ سالانہ کا انتظام کبھی کا ختم ہو جاتا اگر کارکنوں میں تعاون پایا جاتا مگر صرف ذاتی بڑائیوں کی خاطر ایک دوسرے سے جھگڑنے میں وقت ضائع کیا جاتا رہا.اگر کارکنوں میں آپس میں تعاون پایا جاتا تو آج سے دس دن کی پہلے یہ کام ختم ہو جانا تھا.لیکن آج بھی یہ کام ختم نہیں ہوا اور بعض حالات میں ناممکن نظر آ رہا ہے کہ مکمل ہو.اگر اینٹوں کا سوال آتا ہے تو اینٹوں والے اڑ جاتے ہیں اور اگر روپے کا سوال آتا ہے تو روپے والے اڑ جاتے ہیں.وہ سمجھتے ہیں کہ یہی وقت اپنی حکومت جتانے کا ہے.بہر حال اب موقع نہیں کہ میں تحقیقات کر کے کسی پر گرفت کروں.جن حالات سے ہم گزر رہے ہیں ہمیں ان کو برداشت کرنا ہے پڑے گا لیکن جلسہ کے بعد ہر ایک کا حساب چکایا جائے گا.مثلاً آج ہی مجھے اطلاع ملی ہے کہ کچھ مزدور جو غیر احمدی تھے آپس میں لڑ پڑے.ایک مزدور زخمی ہو گیا اور کام بند ہو گیا.جلسہ سالانہ کے لیے جتنی بیرکوں کی ہمیں ضرورت تھی ان میں سے باون فیصدی مکمل ہو چکی ہیں اڑتالیس فیصدی ابھی باقی ہیں.باون فیصدی بار کیس بننے میں ڈیڑھ ماہ کا عرصہ لگا ہے اور اڑتالیس فیصدی بارکوں کی تیاری کے لیے صرف دو دن باقی ہیں.اس کے معنے یہ ہیں کہ ہمارے لیے ایک ایک منٹ قیمتی ہے.مگر مجھے اطلاع ملی ہے

Page 433

$1949 424 خطبات محمود کہ لڑائی کے بعد جب لوگ ڈاکٹر کے پاس گئے تو ہسپتال کا ایک ڈاکٹر ربوہ سے غائب تھا.دوسرے ڈاکٹر نے کہا کہ فیس لاؤ تب مریض کو دیکھوں گا.جلسہ کے دنوں میں جبکہ کام کا اتنا زور پڑ رہا تھا کسی ڈاکٹر کا ربوہ سے غائب ہونا یا دوسرے کا فیس کا مطالبہ کرنا ایک ایسے امر میں جس پر جلسہ سالانہ کی بنیاد ہے بعض حالات میں اتنا خطرناک ہوسکتا ہے کہ ان کو جماعت سے نکال دیا جائے.اور بعض حالات کی میں اگر وہ اپنی معذوریاں ثابت کر دیں تو قابل ملامت ضرور ہے.یا اگر ثابت ہو جائے کہ وہ ڈاکٹر جو ربوہ سے غائب تھا کسی سرکاری کام کی وجہ سے غائب تھا تو شاید وہ بری بھی ہو جائے.مگر بہر حال ہم اپنی طرف سے طیب اور خبیث میں فرق نہیں کر سکتے.طیب اور خبیث میں فرق کرنا اللہ تعالیٰ کا کام ہے.مگر جہاں تک ہمیں علم ہے اس کی بناء پر چاہیے کہ ہم ربوہ کی بنیاد ایثار اور قربانی پر رکھیں.اور جب ہم ایسا کر دیں گے تو خدا تعالیٰ بھی اس کی بنیاد ایثار اور قربانی پر ہی رکھے گا کیونکہ خدا تعالیٰ کی طرف سے تو مومنوں سے سو دا ہوتا ہے.قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ خدا تعالیٰ نے مومنوں سے اُن کی جان و مال کا سودا کر لیا ہے.وہ اس کے بدلہ میں جنت بطور قیمت دے گا.1 دنیا میں ہم دیکھتے ہیں کہ مزدور ہمیشہ مزدوری پہلے کرتا ہے اور قیمت اسے بعد میں ملتی ہے.اس آیت کے الفاظ بھی بتاتے ہیں کہ پہلے تم جان و مال دو گے پھر بعد میں جنت ملے گی.دنیا میں ہم دیکھتے ہیں کہ لوگ بازار سے سودا خرید نے جاتے ہیں تو پہلے سودا لیتے ہیں پھر قیمت ادا کرتے ہیں.مثلاً ایک شخص سیر بھر مولیاں خریدتا ہے تو وہ مولیاں لے لے گا بعد میں قیمت دے گا.یا کپڑا خریدتا ہے تو وہ پہلے کپڑ ا خرید لے گا بعد میں دکاندار پل بنائے گا اور وہ قیمت ادا کرے گا.غرض مال کی ادائیگی پہلے ہوا کرتی ہے اور قیمت کی ادائیگی بعد میں ہوا کرتی ہے.اللہ تعالیٰ نے بھی مومنوں سے اُن کے مال اور جان خریدے ہیں یعنی وہ ای جان و مال پہلے لے گا پھر قیمت ادا کرے گا.گویا تم پہلے جان و مال دو گے تو بعد میں تمہیں جنت کا لالی مطالبہ کرنا ہو گا.پہلے تم اپنے گھر کو صاف کرو گے پھر اللہ تعالیٰ کی رحمت کے امیدوار بنو گے.یہی طریق اللہ تعالیٰ کا ہمیشہ سے چلا آرہا ہے کہ جب کوئی انسان اپنی ذمہ داری کو ادا کر دیتا ہے تو اللہ تعالیٰ اُس کے حصہ کو نہایت شاندار طور پر ادا کرتا ہے اور مومن کی علامت ہی یہ ہے کہ وہ یقین رکھتا ہے کہ خانہ پری کرنا میرا کام ہے اور کام کو انجام تک پہنچانا خدا تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے.میں نے جو ادا کرنا تھا سوکر دیا باقی جو کمی رہ گئی خدا تعالیٰ اسے خود پورا کرے گا.

Page 434

خطبات محمود 425 $1949 ہمارے ملک میں قصہ مشہور ہے کہ جب مصر میں شہرت ہوئی کہ ایک خوبصورت لڑکا یوسف نامی مصر میں آیا ہے اور شاید وہ مصر کے بازار میں پکے گا تو ایک بڑھیا دوائیاں سوت کی جو اُس نے کا تاج تھا یا روئی کے دوگالے جو شاید وہ کہیں سے اُدھار مانگ کر لائی تھی لے کر بازار پہنچی تا اگر موقع ملے تو وہ ہے ان دوائیوں یا روئی کے دوگالوں کے بدلہ میں یوسف جیسے خوبصورت لڑکے کو خرید لے.مگر گجا یوسف جیسا ہونہارلڑکا اور گجا دوائیوں یا دو گالوں کی حقیر قیمت لیکن وہ گئی کیوں؟ اسی لیے کہ وہ مجھتی تھی کہ یوسف ایسی چیز نہیں جسے ہاتھ سے جانے دیا جائے.لیکن اگر یوسف ایسی چیز تھی جس کو چھوڑا نہیں ہے جاسکتا تھا تو یہ لازمی امر ہے کہ اُس کی خریداری بھی زیادہ ہوگی.مگر باوجود اس بات کے اُس کا وہاں کی جانا اور سوت کی دوائیوں یا روئی کے دوگالوں سے خریدنے کی امید رکھنا بتاتا ہے کہ اُسے یوسف علیہ السلام سے عشق تھا.اور عشق اندھا ہوتا ہے.جہاں کہیں بھی عشق کی تصویر بنائی گئی ہے اُسے اندھا دکھایا گیا ہے.عشق یہ نہیں دیکھا کرتا کہ یہ چیز کیا ہے.وہ یہ دیکھتا ہے کہ آیا وہ چیز اُس کے تقاضا کو پورا کرتی ہے یا نہیں.اسی طرح مومن قربانی کرتا ہے.وہ یہ نہیں دیکھا کرتا کہ جو قربانی وہ کر رہا ہے اُس کے نتائج بھی پیدا ہوں گے یا نہیں.گجا اس کی قربانی اور گجا اس کا عظیم الشان بدلہ.اس کی قربانی کو اس کے بدلہ لی سے کوئی نسبت ہی نہیں ہوتی.لیکن وہ قربانی کرتا ہے اور یقین رکھتا ہے کہ وہ کام ہو جائے گا اور وہ کام ہو بھی جاتا ہے.لوگ کہتے ہیں یہ کتنا عظیم الشان معجزہ تھا کہ حضرت موسی علیہ السلام نے سونٹا مارا اور دریا پھٹ گیا.لوگ کہتے ہیں یہ کتنا بڑا معجزہ ہے کہ موسیٰ علیہ السلام نے عصا پھینکا اور وہ سانپ بن گیا.لوگ کہتے ہیں یہ کتنا بڑا معجزہ ہے کہ موسی علیہ السلام نے چٹان پر سونٹا مارا اور اس سے پانی بہہ نکلا.لوگ کہتے مہیں یہ کتنا بڑا معجزہ ہے کہ موسی علیہ السلام کی بددعا سے اُس ملک میں جوئیں کثرت سے پیدا ہوگئیں.بیشک یہ بہت بڑے معجزے ہیں اور کیوں یہ بہت بڑے معجزے نہ ہوں.یہ سب خدا تعالیٰ کی طرف می سے تھے.لیکن میں کہتا ہوں سب سے بڑا معجزہ یہ ہے کہ ایک مسکین اعلیٰ مقصد کے حصول کے لیے ای قربانی کرتا ہے ایسی قربانی جس کی اُس کے مقصد کے ساتھ کوئی نسبت نہیں ہوتی.اس کی قربانی کو اس کی کے مقصد سے وہ نسبت بھی نہیں ہوتی جو سو کو ایک کروڑ سے یا ایک کو لاکھ سے ہوتی ہے اور جنون میں و سمجھتا ہے کہ خواہ کچھ قیمت ہو مجھے خدا تعالیٰ سے محبت ہے اور یہ کام ضرور ہو جائے گا.اور پھر دیکھو وہ

Page 435

$ 1949 426 خطبات محمود کام ہو جاتا ہے.اور بالکل اُسی طرح ہو جاتا ہے جیسے وہ اس کی امید رکھتا ہے بلکہ اس سے بھی زیادہ شاندار نیل یا قلزم کا پھٹنا یا موسی علیہ السلام کے عصا کا سانپ بن جانا اس کا مقابلہ نہیں کرسکتا.مکہ میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پیدا ہوتے ہیں.آپ بے کس ہیں، بے بس ہیں لیکن لوگوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہتے ہیں میں تمہاری اصلاح کے لیے آیا ہوں.دنیا ہنستی ہے اور ی آپ پر قہقہے لگاتی ہے، آپ کا تمسخر اڑاتی ہے اور ایک وقت میں آکر وہ آپ کو ایذاء دینے پر بھی تیار ہو جاتی ہے اور ایذاء دیتی چلی جاتی ہے.لیکن محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے دعوی پر قائم رہتے ہیں.آپ نے بڑی عظیم الشان قربانیاں کیں مگر وہ خدا تعالیٰ کے حصول کے مقابلہ میں کیا حیثیت رکھتی ہیں.محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے جسم کو قربان کیا جو محدود تھا ، آپ نے اپنے مال کو قربان کیا مگر وہ بھی محدود تھا، آپ نے اپنے رشتہ داروں کو قربان کیا مگر وہ بھی تو محدود چیز تھے.اس کے نتیجہ میں جو بدلہ خدا تعالیٰ کی طرف سے آپ کو ملا وہ ہزاروں ہزار افراد کی قربانیوں کے بدلہ سے بہت زیادہ عظیم الشان تھا.دنیا کے دوسرے لوگ بھی اپنی جائداد میں قربان کرتے ہیں ، وہ اپنے مال بھی قربان کرتے ہیں، وہ اپنی جانیں بھی قربان کرتے ہیں مگر اُن کا نتیجہ کیا نکلتا ہے.فرض کرو کسی کو ای دس ہیں ایکٹر زمین مل گئی یا کوئی کسی ملک کا بادشاہ بھی بنا دیا گیا.پھر بھی اس کے بدلہ کو اُس بدلہ سے کچھ بھی نسبت نہیں جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قربانیوں کا خدا تعالیٰ نے آپ کو دیا.لوگ قربانیاں کرتے ہیں اور بسا اوقات ان کے بالکل حقیر نتیجے نکلتے ہیں یا بالکل ہی نہیں نکلتے.یا بظاہر وہ عظیم الشان ہے معلوم ہوتے ہیں لیکن بہر حال وہ اُن نتائج کے مقابلہ میں جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہے قربانیوں کے نکلے بالکل حقیر وذلیل ہوتے ہیں.محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تو امریکہ کو جانتے ہی ہی نہیں تھے.اُس وقت ابھی امریکہ دریافت بھی نہیں ہوا تھا مگر خدا تعالیٰ نے کہا اے میرے رسول ! تو کہہ دے کہ جہاں کہیں بھی کوئی انسان بستا ہے میں اُس کی ہدایت کے لیے آیا ہوں.اور اگر ہم اس کی فقرہ کی ترجمانی کریں تو اس کے معنے یہ ہوں گے کہ خدا تعالیٰ نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کہا اے میرے رسول ! تو کہہ دے کہ میں کینیڈا کی جس کو تم جانتے بھی نہیں ہدایت کے لیے آیا ہوں، میں یونائیٹڈ اسٹیٹس امریکہ کی جو ابھی آباد بھی نہیں ہوئیں ہدایت کے لیے بھیجا گیا ہوں.مجھے خدا تعالیٰ نے برازیل، کیوبا، بولیویا، چیتی ، کولمبیا اور میکسیکو ممالک کی جنہیں ابھی کوئی نہیں جانتا اور کی

Page 436

$1949 427 خطبات محمود بالکل ویران پڑے ہیں بھی آئندہ زمانہ میں آباد ہوں گے ہدایت کے لیے مبعوث فرمایا ہے.میں جاپان اور فلپائن کی جن کو کوئی نہیں جانتا اصلاح کے لیے بھیجا گیا ہوں، میں اُن ملکوں کی ہدایت کے لیے بھی مامور کیا گیا ہوں جو ابھی دریافت بھی نہیں ہوئے.ہاں آئندہ کسی زمانہ میں دریافت ہوں گے.اس آیت کو پھیلا کر دیکھیں تو کیا انسان ہنس نہیں پڑتا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس کی اس دعوی کو پورا کرنے کے کونسے سامان تھے.آپ کے پاس کونسے ہوائی جہاز تھے کہ جن کے ذریعہ آپ امریکہ جاتے ، کینیڈا جاتے ، برازیل، کولمبیا اور بولیویا جاتے.پھر آپ کے پاس وہ کونسے ذرائع تھے کہ جن سے آپ اپنی تعلیم کو اپنے مرنے کے بعد بھی ممتد کیے جاتے.جب تک وہ ملک دریافت نہ ہوتے آپ وہاں جاہی کیسے سکتے تھے.لوگ بات کرتے ہیں تو وہ بات ان کے بیٹے بھول جاتے ہیں.اور اگر ان کے بیٹے یا در کھتے ہیں تو پوتے بھول جاتے ہیں.اور اگر پوتے یادر رکھتے ہیں تو پڑ پوتے کی بھول جاتے ہیں مگر یہ ملک تو اُس وقت دریافت بھی نہیں ہوئے تھے.آپ کی وفات کے نوسوسال بعد امریکہ دریافت ہوا.لیکن فرض کرو اگر اُس وقت امریکہ دریافت بھی ہوا ہوتا تو آپ کے پاس کونسی گارنٹی تھی کہ آپ کا دعوای پورا ہو جائے گا.آپ نے وہ کونسی قربانی کی تھی جس کی وجہ سے اس دعوای نی نے پایہ تکمیل کو پہنچنا تھا.ہمیں تو یہی نظر آتا ہے کہ لوگ اپنے بچے قربان کرتے ہیں، اپنے بھائی قربان کرتے ہیں ، اپنا امن اور عیش قربان کرتے ہیں، بعض دنیا کے لیے قربانیاں کرتے ہیں، بعض ناجائز باتوں کے لیے قربانیاں کرتے ہیں، بعض اچھی اور جائز باتوں کی خاطر بھی قربانیاں کرتے ہیں لیکن ان کے نتائج محدود ہوتے ہیں اور ان محدود نتائج کا بھی کوئی ذمہ دار نہیں ہوتا.مگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا دعوی نرالا تھا.ان کا بدلہ اور بھی نرالا تھا.بھلا وہ کیا چیز تھی جس نے یہ گارنٹی دی تھی کہ آپ کا دعوای نوسو سال تک قائم رہے گا اور پورا ہوگا ؟ وہ کونسی چیز تھی جس نے یہ ذمہ لیا تھا کہ ایسے آدمی پیدا ہو جائیں گے جولوگوں کو اس طرف لائیں گے؟ آخر وہ چیز کیا تھی ؟ وہ چیز یہی تھی کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو خدا تعالیٰ سے عشق تھا.محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دل میں کہا کہ میں خدا تعالیٰ کے عشق میں ہر قربانی جو میری طاقت میں ہے کرتا ہوں، میرا معشوق کیوں نتائج کی ذمہ داری نہ لے گا.اور خدا تعالیٰ نے کہا ہاں ہاں! میں ایسا ہی کروں گا اور اس نے ایسا ہی کر دیا.عشق کے تمام کام ایسے ہی ہوتے ہیں.

Page 437

خطبات محمود 428 * 1949 ایک عورت تھی وہ غریب تھی.اُس کی بھا وجہ امیر تھی.لوگ بیاہ شادیوں پر نیو تا دیتے ہیں اور عورتیں ایک دوسری سے پوچھا کرتی ہیں بہن! تم نے کیا نیو تا دیا ہے؟ کوئی شادی کا موقع تھا.عورتوں نے اُس سے پوچھا بہن! تم نے کیا نیو تا دیا ہے؟ وہ غریب تھی اُس نے ایک روپیہ نیو تا دیا تھا.سے کہتے ہوئے شرم آئی کہ اس نے ایک روپیہ نیو تا دیا ہے.اس نے جواب دیا میں اور میری بھابی نے 21 روپے دیئے ہیں.اس سے یہ مثل مشہور ہے میں اور بھابی اگی (اکیس).یہی حال ہمارا ہے.انسان قربانی کرتا ہے.اگر چہ وہ قربانی نہایت حقیر ہوتی ہے مگر خدا تعالیٰ اُس قربانی کو اپنے خزانہ سے زیادہ کر دیتا ہے.اس کو ملا کر دیکھا جائے تو وہ نہایت عظیم الشان چیز بن جاتی ہے.محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھی قربانی کی.اسے ان عظیم الشان نتائج سے کوئی نسبت نہیں تھی جو خدا تعالیٰ نے پیدا کیے.باقی خدا تعالیٰ نے حصہ ڈالا.دونوں مل کر وہی مثال بن گئی میں اور بھا بھی اتی (اکیس).دنیا کے عاشق و معشوق اور خدا تعالیٰ اور اُس کے عاشق میں بہت فرق ہوتا ہے.دنیوی معشوق کم قربانی کرتے ہیں عاشق زیادہ قربانی کرتا ہے.لیکن روحانی عشق کا دستور الگ ہے.یہاں عاشق کم اور معشوق زیادہ قربانی کرتا ہے.عاشق قربانی کرتا ہے اور اپنا زور ختم کر دیتا ہے لیکن معشوق اُس کے برتن میں نگاہ ڈالتا ہے اور اُسے بھر دیتا ہے.وہ کہتا ہے کہ میرے عاشق نے جو کچھ وہ دے سکتا تھا دیا باقی ہم دیتے ہیں.یاد رکھو! اگر تم برکات چاہتے ہو، اگر تم دین و دنیا کی ترقیاں چاہتے ہو تو خدا تعالیٰ کے لیے اسلام اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے اپنے نظریہ کو بدل ڈالو.اپنی تعداد کو بھول جاؤ ، اپنی قوت و طاقت کو بھول جاؤ ، اپنی نظریں ایثار و قربانی اور اس کے مقابل میں فضل الہی پر رکھو.تم اپنا تھی نقطہ نگاہ تبدیل کر دو.اگر تمہارے حالات بدل جائیں گے تو زمین تمہارے لیے اُگائے گی ، آسمان تمہارے لیے بارش برسائے گا.اور اگر تم سودا کرتے ہو تو اگر تم دس روپے دو گے تو اس کے مقابل ہے میں دس روپے کی قیمت کی چیز ہی ملے گی.اگر تم دنیا کے طور پر خیال کرنے لگ جاؤ کہ فلاں نکل گیا تو کیا ہوا اور فلاں آ گیا تو کیا ہوا؟ روپیہ خرچ کیا تو کیا نفع ہوا اور نہ کیا تو کیا نقصان ہوا؟ تو تمہیں اُتنا ہی ملے گا جتنی تم قیمت ادا کرو گے.تمہارا بارہ لاکھ کا بجٹ ہے اس کے بدلہ میں تمہیں

Page 438

* 1949 429 خطبات محمود بارہ لاکھ ہی ملے گا.تم امیدیں رکھتے ہو کہ تمہیں بارہ پدم میں گر کا م تم بارہ لاکھ کا کرتے ہو.اگر تم دنیوی طور پر جاؤ تو تمہیں بارہ لاکھ کے بدلہ میں بارہ لاکھ ہی مل سکتے ہیں بارہ پدم نہیں مل سکتے.ہاں! اگر تم اپنے کاموں کی بنیاد عشق اور ایثار و قربانی پر رکھو تو بارہ لاکھ کا ثواب بھی ملے گا اور اس کے علاوہ خدا تعالیٰ اپنے پاس سے زیادہ بھی دے گا.تم ایک نئی بنیادرکھ رہے ہو.اس کے لیے نئے عزم کی ضرورت ہے، اس کے لیے ہمت اور استقلال کی ضرورت ہے.یہ نہیں کہ تم نہ کرو گے تو یہ کام نہیں ہوگا.یہ کام ضرور ہو گا لیکن تم اس سلسلہ سے نکل جاؤ گے اور اس فخر میں حصہ نہیں لے سکو گے.کیونکہ خدا تعالیٰ جب کوئی نئی بنیا درکھتا ہے تو وہ نئے دلوں کے ذریعہ رکھتا ہے.نئی بنیاد پرانے دلوں سے نہیں رکھی جاسکتی.اس کے لیے نئے دل اور نئے خون کی ضرورت ہے.اگر تم نئے دل اور نئے عزم کے ساتھ کام کرو گے تو اس عمارت کے بنانے میں حصہ دار ہو جاؤ گے جسے اس زمانہ میں خدا تعالی تعمیر کرنا چاہتا ہے.نہیں تو خدا تعالیٰ کہے گا جاؤ پرانی زمین اور پرانے آسمان سے کچھ ملتا ہے تو لے لو.لیکن یاد رکھو! ٹوٹے ہوئے آسمان بارش نہیں برسایا کرتے اور پرانی زمین نئی روئید گیاں نہیں اُگایا کرتی.(الفضل 7 فروری 1950ء) 1 إنَّ اللهَ اشْتَرى مِنَ الْمُؤْمِنِينَ أَنْفُسَهُمْ وَأَمْوَالَهُمْ بِأَنَّ لَهُمُ الْجَنَّةَ - (التوبة: 111)

Page 439

* 1949 430 44 خطبات محمود احمدیت کی ترقی بغیر قربانی اور بغیر وقف کے نہیں ہوسکتی حافظ جمال احمد صاحب کی وفات اپنے اندر ایک نشان رکھتی ہے (فرمودہ 30 دسمبر 1949ء بمقام ربوہ ) تشهد ، تعوّذ اورسورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: آج میں ایک اور مضمون کے متعلق خطبہ پڑھنے کا ارادہ رکھتا تھا لیکن جب میں خطبہ پڑھنے کے لیے مسجد میں آنے لگا تو مجھے ایک تار ملی.وہ تار مجھے مل تو ایک دو گھنٹہ پہلے گئی تھی لیکن پڑھی نہیں جاتی تھی.بعد میں دفتر والوں نے مل کر اسے پڑھا.اس تار سے ایک افسوس ناک خبر ملی ہے جس کی وجہ سے میں نے خطبہ کے موضوع کو بدل دیا.اب میں اسی بارہ میں خطبہ پڑھنا چاہتا ہوں.یہ تار جس کا میں نے ذکر کیا ہے ماریشس سے آئی ہے اور اس سے معلوم ہوا ہے کہ ہمارے وہاں کے مبلغ حافظ جمال احمد صاحب فوت ہو گئے ہیں.معلوم ہوتا ہے کہ کوئی اچانک بیماری آئی ہے کیونکہ اس سے پہلے ان کی بیماری کی کوئی خبر نہیں آئی.حافظ جمال احمد صاحب کی وفات اپنے اندر ایک نشان رکھتی ہے اور وہ اس طرح کہ جب وہ ماریشس بھیجے گئے تو اُس وقت جماعت کی مالی حالت کی بہت کمزور تھی.اتنی کمزور کہ ہم کسی مبلغ کی آمد و رفت کا خرچ برداشت نہیں کر سکتے تھے.میں نے تحریک کی کہ کوئی دوست اس ملک میں جائیں.اس پر حافظ صاحب مرحوم نے خود اپنے آپ کو پیش کیا تھی

Page 440

$ 1949 431 خطبات محمود یا کسی اور دوست نے تحریر کیا کہ حافظ جمال احمد صاحب کو وہاں بھیج دیا جائے.چونکہ پہلے وہاں صوفی غلام محمد صاحب مبلغ تھے اور وہ حافظ تھے اس لیے احباب جماعت نے وہاں ایک حافظ کے جانے کو ہی پسند کیا.گو صوفی غلام محمد صاحب بی.اے تھے اور اُن کی عربی کی لیاقت بھی بہت زیادہ تھی اور حافظ جمال احمد صاحب غالباً مولوی فاضل نہیں تھے ہاں! عربی تعلیم حاصل کی ہوئی تھی اور قرآن کریم حفظ کیا ہوا تھا لیکن بہر حال انہیں صوفی صاحب کی جگہ مبلغ بنا کر ماریشس بھیج دیا گیا.حافظ صاحب مرحوم کی شادی مولوی فتح الدین صاحب کی لڑکی کے ساتھ ہوئی تھی جنہوں نے شروع شروع میں پنجابی میں کا من 1 لکھے اور جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے دعوی سے پہلے کے تعلق رکھنے والے دوستوں میں سے تھے.ان کے سسرال کے حالات کچھ ایسے تھے کہ ان کے بعد ان کے بیوی بچوں کا انتظام مشکل تھا اس لیے انہوں نے مجھے تحریک کی کہ انہیں بیوی بچے ساتھ لے جانے کی اجازت دی جائے.چونکہ اُس وقت سلسلہ کی مالی حالت اتنی کمزور تھی کہ پیسے پیسے کا خرچ بو جھل معلوم ہوتا تھا اور اُدھر حافظ صاحب مرحوم کی حالت ایسی تھی کہ انہیں اپنے بیوی بچے اپنے پیچھے رکھنے مشکل تھے میں نے کہا کہ میں آپ کو بیوی بچے ساتھ لے جانے کی اجازت دیتا ہوں مگر اس شرط پر کہ آپ کو ساری عمر کے لیے وہاں رہنا ہو گا.اُس وقت کے حالات کے ماتحت انہوں نے یہ بات مان لی اور سلسلہ اور اُن کے درمیان یہ معاہدہ ہوا کہ وہ ہمیشہ وہیں رہیں گے.ایک لمبے عرصہ کے بعد جب ان کے لڑکے جوان ہوئے اور لڑکی بھی جوان ہوئی تو انہوں نے مجھے تحریک کی کہ میرے بچے جوان ہو گئے جی ہیں اس لیے ان کی شادی کا سوال در پیش ہے آپ مجھے واپس آنے کی اجازت دیں تا بچوں کی شادی کا ای انتظام کر سکوں.لیکن میری طبیعت پر چونکہ یہ اثر تھا کہ وہ یہ عہد کر کے وہاں گئے تھے کہ ہمیشہ وہیں رہیں گے اس لیے میں نے انہیں لکھا کہ آپ کو اپنے عہد کے مطابق عمل کرنا چاہیے.انہوں نے کی جواب دیا کہ مجھے اپنا عہد یاد ہے لیکن میری لڑکی جوان ہو گئی تھی جس کی وجہ سے مجھے واپس آنے کی کی ضرورت پیش آئی.اگر آپ چاہتے ہیں کہ میں یہیں رہوں تو میں اپنی درخواست واپس لے لیتا ہی ہوں.بعد میں محکمہ کی طرف سے بھی کئی دفعہ تحریک کی گئی کہ انہیں واپس بلا لیا جائے لیکن میں نے ہمیشہ یہی کہا کہ انہوں نے عہد کیا ہوا ہے اور اُس عہد کے مطابق انہیں وہیں کا ہو رہنا چاہیے.ابھی کوئی دو ماہ کی ہوئے میں نے سمجھا کہ چونکہ اب حالات بدل چکے ہیں اور اب نیا مرکز بنا ہے اس لیے ان کو بھی کی

Page 441

* 1949 432 خطبات محمود نئے مرکز سے فائدہ اٹھانے کا موقع دینا چاہیے میں نے انہیں یہاں آنے کی اجازت دے دی اور محکمہ نے انہیں واپس بلوا بھیجا لیکن خدا تعالیٰ کا یہ فیصلہ معلوم ہوتا تھا کہ وہ اپنے عہد کو پورا کریں.جب تک کے ان کی اپنی خواہش واپس آنے کی تھی وہ زندہ رہے.چونکہ وہ آخری اختیار رکھنے والے نہیں تھے اس کی لیے اپنی خواہش کے مطابق وہ واپس نہیں آسکتے تھے.لیکن جب میں نے اجازت دے دی تو خدا تعالیٰ نے کہا اب ہم اپنا اختیار استعمال کرتے ہیں اور انہیں وہیں وفات دے دی.میں سمجھتا ہوں کہ یہ سارے واقعات اپنے اندر ایک نشان رکھتے ہیں.ایک شخص عہد کرتا ہے اور سالہا سال تک اُس پر پابند رہتا ہے.اس کے بعد وہ اُسے تو ڑتا نہیں مگر بعض مجبوریوں کی وجہ سے ای واپس آنے کی اجازت مانگتا ہے لیکن میں اصرار کے ساتھ اُن کی درخواستیں رڈ کرتا چلا جاتا ہوں اور وہ چُپ کر جاتا ہے.پھر محکمہ بھی اُس کے بُلانے پر اصرار کرتا ہے لیکن میں اُسے واپس بلانے کی اجازت نہیں دیتا.یہ بھی نہیں کہ حافظ صاحب کوئی بڑی عمر کے تھے.شاید وہ مجھ سے چھوٹے تھے.انہوں نے جب خود واپس آنا چاہا تو میں نے ان کی درخواستیں رڈ کر دیں.جب محکمہ نے اُن کے واپس بلانے پر اصرار کیا تب بھی میں نے اصرار کیا کہ وہ اپنے عہد کو پورا کریں.لڑکوں کے متعلق انہوں نے اصرار کیا کہ ان کی تعلیم کا حرج ہو رہا ہے تو میں نے کہا اچھا! انہیں یہاں بھیج دو.چنانچہ اُن کا ایک لڑکا لا ہور پڑھتا ہے اور سلسلہ کی طرف سے اُسے امداد دی جاتی ہے.لیکن قادیان سے نکلنے کے بعد مجھے خیال آیا کہ انہوں نے نیا ماحول تو دیکھا نہیں اس لیے انہیں واپس بلا لیا جائے اور اس نئے ماحول سے فائدہ اٹھانے کا موقع دیا جائے.میں نے انہیں واپس آنے کی اجازت دی.لیکن جب اس حکم پر عمل کرنے دود کا وقت آیا تو خدا تعالیٰ نے انہیں واپس بلا لیا تا وہ اپنے عہد کو پورا کرنے والے بنیں اور فَمِنْهُم مَّنْ قَضَى نَحْبَهُ 2 کی جماعت میں شامل ہو جائیں.اس آیت قرآنیہ میں خدا تعالیٰ نے بتایا ہے کہ فَمِنْهُمْ مَّنْ قَضَى نَحْبَهُ کچھ تو ایسے صحابہ ہیں جنہوں نے موت تک اپنے عہد کو نباہا ہے وَمِنْهُم مَّن يَنتَظِرُ 3 اور کچھ ایسے ہیں کہ وہ اس انتظار میں ہیں کہ انہیں موقع ملے تو وہ اپنے عہد کو پورا کریں.یہ آیت کسی صحابی پر خصوصیت کے ساتھ چسپاں نہیں ہوتی.لیکن اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ یہ آیت بعض صحابہ پر خاص طور پر چسپاں ہوئی ہے.چنانچہ حضرت مالک ایک صحابی تھے

Page 442

$1949 433 خطبات محمود جو کسی اتفاق کی وجہ سے جنگِ بدر میں شامل نہیں ہوئے تھے.چونکہ اُس وقت حالت ایسی تھی کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگ پر جانے کا اعلان نہیں فرمایا تھا اس لیے بہت کم انصار آپ کے ساتھ گئے تھے.آپ کی شمولیت میں پہلی جنگ جنگ بدر ہوئی تھی اور اللہ تعالیٰ نے اس جنگ میں مسلمانوں کو معجزانہ طور پر فتح دی اور اس میں مشرکین عرب کے بڑے بڑے لیڈر مارے گئے تھے.اسر لیے جولوگ اس جنگ میں شامل ہوئے انہیں خاص فخر محسوس ہوتا تھا اور وہ بعد میں اپنے کارناموں کو بڑے مزے لے کر بیان کرتے تھے.اور جو شامل نہیں ہوئے تھے وہ پوچھتے تھے کیا ہوا؟ کیسے ہوا ؟؟ لڑائی میں شامل ہونے والے صحابہ جب واقعات سناتے تو جوش میں کہتے یوں مشرکین کا لشکر آیا، یوں ہم شیروں کی طرح اُن پر لپکے اور اُن کو مار بھگایا.جو صحابہ جنگ میں شریک نہیں ہوئے تھے انہیں اپنے آپ پر غصہ آتا.اس لیے کہ وہ کیوں اس جنگ میں شریک نہ ہوئے اور کیوں ثواب سے محرومی ہوئے.دوسرے صحابہ تو شرما کر چپ ہو جاتے لیکن حضرت مالک کی طبیعت جو ھیلی تھی آپ عشق میں ہے ہر اس صحابی سے جو اس جنگ میں شریک ہوا تھا جنگ کے حالات پوچھتے.جب وہ کہتے کہ فلاں فلاں ہے جنگ میں شریک ہوا، دشمن کے لشکر میں بہت بڑے بڑے جرنیل تھے اور سامانِ جنگ سے وہ آراستہ تھا تی اور اُس کے مقابلہ میں ہم بے سروسامان تھے مگر ہم نے شیروں کی طرح اُن پر حملہ کیا اور انہیں مار بھگایا.فلاں فلاں لیڈر جنگ میں مارا گیا.حضرت مالک واقعات جنگ سنتے رہتے.جب وہ واقعات کی بیان کر چکتے تو فرماتے ہوں! یہ بھی کوئی بہادری ہے.اب اگر کوئی جنگ ہوئی تو میں دکھاؤں گا کہ بہادری کیا ہوتی ہے.غرض آپ باتیں سنتے اور بعد میں بڑی حقارت کے ساتھ کہ دیتے یہ بھی کوئی بہادری ہے.بظاہر یہ کمزوری ایمان کی علامت تھی کہ جو کام کر آئے اُس کی کوئی قیمت نہیں اور جو بیٹھا رہے وہ باتیں بنائے.لیکن حضرت مالک کے نزدیک یہ برا نہیں تھی بلکہ انہیں جنگ میں شریک ہونے والوں پر رشک آتا تھا کہ کیا یہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مجھ سے زیادہ عاشق ہیں؟ بوجہ اس کی کے کہ اُن کا یہ رویہ عاشقانہ تھا اللہ تعالیٰ نے آپ پر زجر نہیں کی بلکہ اُن کی اِس روح کی تعریف کی.چنانچہ بعد کے حالات نے ثابت کر دیا کہ مالک لاف زنی نہیں کرتے تھے ، سچے عاشق تھے.بدر کے بعد جب اُحد کی جنگ ہوئی تو مالک بھی شریک ہوئے.جیسا کہ تاریخ سے ثابت ہے جنگ ہوئی اور مسلمانوں کو فتح ہوگئی.فتح کے بعد بعض صحابہؓ کھانے وغیرہ میں لگ گئے کیونکہ وہ ای

Page 443

$ 1949 434 خطبات محمود بھوکے تھے اور بعض غنیمت اکٹھی کرنے میں مصروف ہو گئے.ایک درہ پر کچھ صحابی کھڑے کیے گئے تھے جنہیں یہ حکم تھا کہ خواہ کچھ ہو وہ اُس جگہ سے نہ ہلیں.ان سے بھی غلطی ہوئی.دشمن کو بھا گتا دیکھ کر انہوں نے کہا چلو! تھوڑ اسا جہاد ہم بھی کر لیں اور وہ جہاد کے شوق سے اپنی جگہ چھوڑ کر میدانِ جنگ کی طرف بھاگے.اُس وقت درہ کو خالی پا کر دشمن کے لشکر نے مسلمانوں پر پیچھے سے آکر حملہ کر دیا.مشرکین تین ہزار کی تعداد میں تھے اور مسلمانوں کا لشکر پہلے ہی چھوٹا تھا اور پھر فتح کے بعد منتشر ہو گیا تھا.بہت تھوڑی تعداد میں صحابی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ارد گرد جمع تھے.اچانک حملہ کی وجہ سے مسلمان اس کی تاب نہ لا سکے اور منتشر ہو گئے.یہاں تک کہ ایک وقت میں صرف بارہ آدمی کی رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اردگر درہ گئے.انہوں نے آپ کو بچانے کی کوشش کی لیکن تین ہزار کے مقابلہ میں چند آدمیوں کی مجال ہی کیا ہے.ایک ایک آدمی پر جب سو سو حملہ آور ہو گئے تو وہ کہیں کے کہیں جا پڑے.کچھ تو پیچھے دھکیل دیئے گئے اور کچھ زخمی ہو کر گر گئے.آخر میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی زخمی ہو کر گرے اور جو آدمی آپ کی حفاظت کر رہے تھے وہ بھی ایک ایک کر کے زخمی ہو کر آپ پر گرتے چلے گئے اور آپ لاشوں کے ڈھیر میں دب گئے.4 یہ حالت دیکھ کر کسی صحابی نے کی دوڑ کر خبر دی کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم شہید ہوگئے ہیں.5 مدینہ تک جو اُحد سے آٹھ میل کے فاصلہ پر تھا یہ بر پہنچی.عورتیں اور بچے دیوانوں کی طرح اُحد کی طرف دوڑ پڑے.مگر سپاہیوں کو جو فتح ہے کے بعد میدان سے ہٹ کر ستا رہے تھے اور جو تھوڑی بہت خوراک ساتھ تھی اُسے کھا رہے تھے جب یہ خبرپہنچی تو وہ بہت حیران ہوئے کہ ہم تو فاتح تھے ہماری فتح شکست سے کس طرح بدل گئی ؟ وہ لوگ جو ھکیلے گئے تھے اُن میں حضرت عمرؓ بھی شامل تھے.آپ ایک پتھر پر بیٹھ گئے اور اپنی ہتھیلیوں پر سر رکھ کر رونے لگ گئے.حضرت مالک فتح کے بعد میدان سے ہٹ کر پیچھے چلے گئے تھے.آپ نے کھانا ہے کھایا ہوانہیں تھا.غریب آدمی تھے چند کھجوریں جیب میں تھیں وہی کھا رہے تھے اور ٹہل رہے تھے.ٹہلتے ٹہلتے آپ حضرت عمر کے پاس پہنچے اور آپ کو روتے دیکھ کر کہا عمر ! یہ رونا کیسا؟ کیا آپ اسلام کی فتح پر رو ر ہے ہو؟ حضرت عمرؓ نے فرمایا مالک ! تمہیں معلوم نہیں بعد میں کیا ہوا؟ حضرت مالک نے کہا ہے مجھے تو کچھ پتا نہیں صرف اتنا پتا ہے کہ اسلام کو فتح ہوئی.حضرت عمر نے فرمایا مالک! دشمن پھر کو ٹا اور بھی بھر مسلمانوں پر جو وہاں تھے حملہ آور ہوا.وہ حملہ کی تاب نہ لا سکے.کچھ مسلمانوں نے مقابلہ کی

Page 444

* 1949 435 خطبات محمود کوشش کی مگر کچھ پیچھے دھکیل دیئے گئے اور کچھ وہیں ڈھیر ہو گئے.اب خبر آئی ہے کہ رسول کریم می صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی شہید ہو گئے ہیں.حضرت مالک ساری کھجور میں کھا چکے تھے صرف ایک کھجور باقی تھی جو ہاتھ میں تھی.وہ حیرت سے کہنے لگے عمرا! اگر یہ ٹھیک ہے تب بھی یہ وقت رونے کا کی نہیں.ہمیں یہ سوچنا چاہیے کہ اب ہمارا اس دنیا میں رہنا بیکار ہے.جہاں ہمارا محبوب آقا گیا وہیں ہم کو جانا چاہیے.پھر وہ کھجور جو باقی تھی انگلیوں میں پکڑ کر کہنے لگے میرے اور جنت کے درمیان تیرے سوا اور ہے ہی کیا ؟ یہ کہہ کر آپ نے کھجور پھینک دی اور تلوار لے کر ا کیلے ہی تین ہزار کے لشکر پر حملہ آور ہوئے.یہ ظاہر ہے کہ تین ہزار کے مقابلہ میں ایک کر ہی کیا سکتا ہے؟ آخر آپ شہید ہو گئے.کچھ دیر بعد مسلمان لشکر اکٹھا ہو گیا اور دشمن کو دوبارہ شکست ہوئی اور وہ واپس لوٹ گیا تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا زخمیوں اور مقتولوں کا پتا لگاؤ.جب زخمی اور مقتول جمع کیے گئے تو مالک کا کہیں پتا نہ لگا.حضرت عمرؓ نے سارا واقعہ بتایا کہ وہ اِس اِس طرح دشمن کے لشکر میں گھس گئے تھے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا پھر تلاش کرو.تلاش پر ایک لاش کے ٹکڑے مختلف جگہ سے ملے.آپ نے حضرت مالک کی بہن کو بھجوایا کہ وہ اپنے بھائی کو پہچاننے کی کوشش کریں.انہوں نے ایک انگلی سے انہیں پہچانا.آپ کے جسم کے 70 ٹکڑے ہو گئے تھے.6 انگلی انگلی اُڑگئی تھی ، بوٹی بوٹی کا قیمہ ہو گیا تھا، ہڈی ہڈی کٹ گئی تھی.ایسے لوگوں کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے فَمِنْهُم مَّنْ قَضَى نَحْبَهُ یعنی ہمارے رسولوں کے ماننے والوں میں سے کچھ تو وہ لوگ ہیں جنہوں نے نذریں مانیں اور انہوں نے نذروں کو پورا کر دیا.جیسے حضرت مالک نے فرمایا تھا کہ اگر مجھے اللہ تعالیٰ نے موقع دیا تو میں دکھاؤں گا کہ عاشق کیسے قربانی کرتا ہے.ننانوے فیصدی نذریں ماننے والے جھوٹے ہوتے ہیں مگر مالک ان لوگوں میں سے تھے جنہوں نے نذر مانی اور اسے پورا کر دیا.پھر فرماتا ہے کہ وَمِنْهُمْ مَّنْ يَنْتَظِرُ یہ نہ سمجھ لینا کہ یہ لوگ اتنے ہی تھے جو مر گئے.نہیں! ایک جماعت ابھی باقی ہے جو اس انتظار میں ہے کہ موقع ملے تو وہ بھی اپنے عہد کو پورا کرے.ہماری جماعت میں بھی خدا تعالیٰ نے ایسے لوگ پیدا کیے ہیں اور میں سمجھتا ہوں کہ حافظ جمال احمد صاحب بھی انہی میں سے تھے جن کے متعلق خدا تعالیٰ نے قرآن کریم میں فرمایا ہے کہ فَمِنْهُمْ مَّنْ قَضَى نَحْبَہ.وہ یہاں سے عہد کر کے گئے تھے کہ وہ وہیں کے ہور ہیں گے.

Page 445

$ 1949 436 خطبات محمود جب ہم نے چاہا کہ وہ آجائیں تو خدا تعالیٰ نے کہا نہیں میں ان کا عہد پورا کروں گا.ماریشس ایک ایسا ملک ہے جہاں بہت ابتدا سے ہمارے مشنری جا رہے ہیں.میری خلافت کے دوسرے یا تیسرے سال سے وہاں مشنری جا رہے ہیں.ایسے پرانے ملک کا بھی یہ حق تھا کہ وہ کسی صحابی یا تابعی کی قبر پنے اندر رکھتا ہو.ہم شرک نہیں کرتے ، ہم قبروں سے میاں لینے والے نہیں، ہم قبروں پر پھول ہے چڑھانے والے نہیں.ہمیں تو یہ بھی سن کر تعجب آتا ہے کہ ابن سعود کے نمائندے بھی قبروں پر پھول چڑھانے لگ گئے ہیں.مجھے حیرت آتی ہے کہ اگر کوئی پھول چڑھانے کی مستحق قبر تھی تو وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبر تھی.کیا حضرت ابوبکر کو پھول نہ ملے کہ وہ آپ کی قبر مبارک پر پھول چڑھاتے ؟ کیا حضرت عمر کو پھول نہ ملے کہ وہ آپ کے مزار پر پھول چڑھاتے ؟ اگر آپ کے مزار پر ان بزرگوں نے پھول چڑھائے ہوتے تو ہم اپنے خون سے پھولوں کے پودوں کو سینچتے ہی تا آپ کے مزار پر پھول چڑھائیں.مگر افسوس زمانے بدل گئے اور ان کی قدر میں بدل گئیں لیکن ان ہم موحد ہیں مشرک نہیں.بلکہ ہمیں تو ان موحد وں پر افسوس آتا ہے جو تو حید پر عمل کرتے تھے لیکن اب ان کے نمائندے قبروں پر جاتے ہیں اور پھول چڑھاتے ہیں.دنیا میں جو لوگ اچھے کام کر جاتے ہیں اُن کی قبروں پر جانا اور اُن کے لیے دعائیں کرنا ہی اُن کے لیے پھول ہیں.گلاب کے پھول ان کے کام نہیں آتے عقیدت کے پھول ان کے کام آتے ہیں.اور یہ صحیح ہے کہ جو لوگ خدا تعالیٰ کی راہ میں جان دیتے ہیں اُن کے مزاروں پر دعا کرنا بسا اوقات بہت بڑی برکتوں کا موجب ہو جاتا ہے.ان سے مانگنا جائز نہیں.ہاں ! اُن کی قربانی یاد دلا کر خدا تعالیٰ سے مانگنا چاہیے.جیسے حضرت عمرؓ کے زمانہ میں قحط پڑا تو آپ نے دعا کی کہ اے اللہ! محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ میں ہم آپ کا واسطہ دے کر تجھ سے دعا مانگا کرتے تھے.اب وہ تو ہمارے پاس نہیں ہیں اُن کے چا عباس کا واسطہ دے کر تجھ سے دعا کرتے ہیں کہ اس قحط کو چی دور فرما.جیسے لوگ کہتے ہیں بچوں کا صدقہ.اسی طرح خدا تعالیٰ سے بھی اُس کے پیاروں کا واسطہ دے کر مانگنا جائز ہے.میں سمجھتا ہوں کہ ماریشس اس بات کا مستحق تھا کہ اس میں کسی صحابی عالی یا کسی ایسے تابعی کی جس کا زمانہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے قریب پہنچتا ہو قبر ہوتا وہ اس کے مزار پر خدا تعالیٰ سے دعا مانگیں.میں نے صحابی یا تابعی اس لیے کہا ہے کہ مجھے معلوم نہیں

Page 446

* 1949 437 خطبات محمود کہ حافظ صاحب مرحوم صحابی تھے یا نہیں.جب سے میں انہیں دیکھتا رہا ہوں وہ حضرت خلیفہ لمسیح الاول کا زمانہ تھا اور اگر میرے دیکھنے پر اس کی بنیاد ہو تو وہ تابعی تھے.میں دوسرے نو جوانوں کو بھی اِس طرف توجہ دلاتا ہوں کہ احمدیت کی ترقی بغیر قربانی اور بغیر وقف کے نہیں ہو سکتی.انہیں بھی اس چیز کا احساس ہونا چاہیے.سینکڑوں ہیں جنہوں نے اپنے آپ کو خدمت دین کے لیے وقف کیا مگر سینکڑوں انتظار کرنے والے بھی آگے آئیں تا اُن کے نام خدا تعالیٰ کے رجسٹر میں لکھے جائیں“.(الفضل 12 فروری1950ء) 1 : کامن: (i) پنجابی لوگ گیتوں کی ایک صنف (ii) نوحہ، بین ( پنجابی اردو لغت مرتبه تنویر بخاری صفحه 110 مطبوعہ لاہور 1989ء) 2 ، 3: الاحزاب : 24 4 : سیرت ابن ہشام جلد 3 صفحہ 85،84 مطبوعہ مصر 1936ء 5 : سیرت ابن ہشام جلد 3 صفحہ 88 مطبوعہ مصر 1936ء 6 : سیرت ابن ہشام جلد 3 صفحہ 88 مطبوعہ مصر 1936ء

Page 447

3 4 1 انڈیکس مرتبہ : مکرم فضل احمد شاہد صاحب 56 10 14 آیات قرآنیہ احادیث نبویہ الہامات حضرت مسیح موعود اسماء مقامات کتابیات -1 -2 -3 -4 _5 -6

Page 448

74 259 3 الفاتحة آیات قرآنیہ التوبة فاطر اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ كُونُوا مَعَ الصَّادِقِينَ يَا أَيُّهَا النَّاسُ (6) البقرة (119) 277 الرعد (16) 303 إِنْ مِّنْ أُمَّةٍ إِلَّا خَلَا فِيهَا مِمَّا رَزَقْنَاهُمْ يُنفِقُونَ....إِنَّ اللَّهَ لَا يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ نَذِيرٌ (25) (4) (12) 414 133 | الجمعة تَعْرِفُهُمُ بسِيمْهُم النحل يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا (274) 141 فِيهِ شِفَاءٌ لِلنَّاسِ (10) 379 آل عمران (70) 59 المنافقون قُلْ اِنْ كُنتُمْ تُحِبُّونَ ا نَ اللَّهَ النور لَيُخْرِجَنَّ الْأَعَزُّ مِنْهَا الْأَذَلَّ 146 64 29 29 296 (9) 144 الْمَاعُون فَوَيْلٌ لِلْمُصَلِّينَ (5) 244 فَوَيْلٌ لِلْمُصَلِّينَ (845) 237،217 أَنْ تَشِيعَ الْفَاحِشَةُ (20) الشعراء (32) النساء إِنَّ الْمُنَافِقِينَ فِي الدَّرْكِ الأسْفَلِ (146)138 لَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَّفْسَكَ (4) الاحزاب 384 فَمِنْهُم مَّنْ قَضَى نَحْبَهُ (24) كَالَّذِينَ اذَوُا مُوسَى الكوثر 432 إِنَّ شَانِئَكَ هُوَ الْأَبْتَرُ (4) 384 المائدة فَاذْهَبُ أَنْتَ (25) الانعام قُلْ إِنَّ صَلَاتِي وَنُسُكِي $229.213 (70) 256.251.239 (163)

Page 449

4 الف مر نہ جائے احادیث إِذَا خَاصَمَ فَجَرَ 144 | جاؤ اور شہد پلاؤ اذْكُرُوا مَوْتَاكُمُ بِالْخَيْرِ 211 جو شخص گمشدہ چیز کا اعلان مسجد میں | أَصْحَابِي كَالنُّجُومِ 211 | کرتا ہے وَلَا أَكُونَ عَبْدًا شَكُورًا 31 اگر تم وہاں چلے جاؤ 33 58 خدا یہود و نصاری پر لعنت کرے 87 عورتوں کے ساتھ نیک سلوک 93 کرو 267 268 268 إِلَى الرَّفِيقِ الْأَعْلَى 279 منافق جب بات کرتا ہے جھوٹ سب کھڑکیاں بند کی جائیں 269 | إِلَى رَبِّيَ الْأَعْلَى 268 | بولتا ہے 144 خدا تعالیٰ کا ایک بندہ تھا أَنَا وَالسَّاعَةُ كَهَاتَيْنِ 214 جو شخص جنازہ میں شامل ہوتا ہے میں موت کو اختیار کرتا ہوں | ک بُعِثْتُ إِلَى الْأَسْوَدِ 259 بیٹھ جاؤ ابوبکر کا دل رقیق ہے كُلِّ بِيَمِينِكَ كَلِمَةُ الحِكْمَة 67 167 168 | تمہیں اپنا بوجھ خود اٹھانا پڑے گا 199، 269 ادنی ترین ایمان کی حالت خدا اور مومن ابوبکر کے سواکسی یہ ہے ضَالَةُ الْمُؤْمِن 124 اور کو خلیفہ نہیں بنائیں گے 199 لوگ رات کو مسلمان سوئیں ل قربانیاں یہیں ذبح کر دو 220 گے اور صبح کو کافر لَوْ كَانَ مُوسَى وَعِیسی 197 میرا دل چاہتا ہے کہ میں لوگوں جب کوئی شخص پیاز یا لہسن کھا | کے گھروں کو جلا دوں 232 کر مسجد میں آئے حدیث بالمعنى اگر تم سورج کو میرے دائیں اور مسجد میں نہا کر آؤ سب مومن ایک جسم کی طرح چاند کو میرے بائیں 234 پیاز لہسن کھا کر مسجد میں ہوتے ہیں صفیں سیدھی کر لو 21 26 عائشہ تمہیں معلوم نہیں اس میں نہ آؤ کیا کیا خوبیاں تھیں 246 میں بھوکا تھا تم نے مجھے کھانا کھلایا اگر انسان ایک حالت پر رہے تو وہ یہ غلام بھی خدا کے بندے ہیں 269 269 293 341 397 405 407 407 415

Page 450

5 الہامات حضرت مسیح موعود عربی الہامات اردو الہامات يُخْرِجُ هَمُّهُ وَغَمُّهُ 107 | بعد گیاره 206

Page 451

6 آتھم اسماء اعجاز نصر اللہ خاں چودھری 332 62،59 ، 109 | امام بخاری حضرت 169 | تھومس آدم علیہ السلام - حضرت 136 ، امتة اللطیف 74 ج 385،328،326،197 | ام طاہر.حضرت سیدہ 27 جلال الدین شمس.حضرت ابراہیم علیہ السلام - حضرت 48، أم متین حضرت سیدہ 224.196.136.106 253، 257، 260، 321، ام ناصر حضرت ابن سعود 276 | مولانا 268 205 302 ،314 جمال احمد ( حضرت حافظ ) 430 102 380،328،322 | امین (ایک عباسی خلیفہ کا بیٹا ) 71 436 ابوبکر حضرت 110 ، 173 ، بدھ علیہ السلام حضرت 175، 176، 180، 181، پلا.مسٹر چ چراغ دین میاں 80 حاتم طائی 196 198، 199، 200 تا 202، برہان الدین جہلمی حضرت مولوی طہ ڈاکٹر.436-408.336.269 ابو جہل 234 تا 236، بشری بیگم.296 تا 298 ( حرم حضرت مصلح موعود ) 203 18 وزیر اعظم انڈونیشیا 435.431 304 247 332 حسن.حضرت امام 67، 148 حسین.حضرت امام 174،148 ابو حنیفہ.حضرت امام 409 بشیر احمد.حضرت مرزا 74 ، حشمت اللہ ڈاکٹر ابو عبیدہ.حضرت 279 ابو ہریرہ حضرت 163 بشیر احمد میجر احمد سر ہندی شیخ 194 بلال حضرت اسد اللہ خان چودھری 306 207.206.159 206 $261 2660263 27 2360234 حمزہ.حضرت خالد بن ولید.حضرت 299 ،300 خدیجہ - حضرت 245 اسماعیل علیہ السلام.حضرت 322،321،107،106 | پطرس 265.264 خلیل احمد ناصر صاحب 393.332

Page 452

7 والميا سمندرخان 145 عبدالکریم سیالکوٹی.حضرت 80 سہیل.حضرت 261 | مولانا داؤد علیہ السلام - حضرت 12 سید احمد بریلوی.318.252 ش شداد 95 عبداللطیف شہید.حضرت صاحبزاده 203 203 296 عبد اللہ بن اُبی بن سلول 146 296 280.279 عبد اللہ بن زبیر حضرت 147.43 47.45 ڈینی سن راس 157.156 ز ذوق 158 ضرار حضرت ع راتھ شیلڈ 80 عاص راک فیلڈ رام چندر.حضرت 299.296 عبد اللہ بن عمرؓ حضرت 174 80 عائشہ حضرت 43،30 تا 47، عبداللہ بن عمرو 408.175 299 138، 139، 177 ، 178 ، عبداللہ بن مسعودؓ.حضرت 408.267 245.199 260-196 رحمت اللہ شیخ 203 رحمت علی مولوی رقیہ تھائی سن 408.406 4190417 168.167.164 159 296 عبد المغنی خان مولوی عثمان.حضرت 331 عباس.حضرت 244، عتبہ 436.245 روشن علی.حضرت حافظ 204 | عبدالرحمان بن ابوبکر 336، 408 ز زرتشت علیہ السلام حضرت 196 زید.حضرت س سدر لینڈ پروفیسر عبدالرحمان بن عوف.حضرت 177.47045 203.166 180 176 175.173 202.201.181 عزیز احمد چودھری 262 عبد الرحمان مدراسی سیٹھ عزیز احمد.حضرت مرزا 39 عبدالرحیم نیر.حضرت مولوی سلیمان علیہ السلام - حضرت 252، عبدالرشید قریشی 318 عبدالغنی شاہ سید 204.156 333 129 عطاء الرحمان ملک عطاء اللہ کیپٹن عکرمہ حضرت 211 332 330 2080206 $297 300.298

Page 453

8 207205-203.202 173 علی.حضرت 284،278،225،218، کرشن علیہ السلام.حضرت 12 ، 202.201.180 260-196.14 331.330 321.318.305.304.164.110 عمر حضرت 346،345،340،326، کرم الہی ظفر 176 175 173.167 354، 370 تا 373، کسرای 172، 173، 175، 201198.181-179 182.181.176 211 كلثوم 385.377 375 436.431 336-269-266-220 $418.417.338 434 تا436 غفورالحق خان ڈاکٹر 416 کمال الدین خواجہ 205 عیسی علیہ السلام.حضرت 14،9، غلام فرید - حضرت خواجہ چشتی 59 کنزے 409،406،405 324 لوط علیہ السلام.حضرت 431 431 153،151،84، 193، 194، غلام محمد.صوفی 237.224.198-196 ف 258،252تا261، 263 تا فتح الدین.مولوی 265، 268 ، 293، 295، فتح محمد چودھری حضرت 159، مالک حضرت 350 328.318.301 379 380، 385، 398، فرعون غ 399 فورڈ 4350432 204 205 مامون (ایک عباسی خلیفہ) 71 296 محمد حضرت خاتم الانبیاء صلی اللہ 80 علیہ وسلم غلام احمد قادیانی علیہ السلام.قاسم علی میر حضرت مرزا 22،18، قدرت اللہ.حافظ.107.4 30.27.26.21.14.13 50.48.45.44.33.31 209 89.87.70.67.59.58 331 39،30،23 59 ، 60 ، 89 ، قطب الدین صاحب مولوی 109 | 124،111،110،105،93، 141.138.134.127 151.148146.144 166 164 163.152 177 175 174.169 145 172 |118.111109.107 قلندر خان 153،151،145،131، قیصر 180 176 175.173180.170.168.154 184.183.181.194.193.189.184

Page 454

9 181، 193 194 ، 197 تا محمد عبد اللہ سنوری حضرت 203 202، 211 ، 213 تا215، محمود احمد.حضرت مرزا بشیر الدین - ناصر احمد شیخ 217تا222 ،224، 229 ، مصلح موعود *210*18 106.95093.26.25 23 248244.239231 323 156 110 109.107257.255 252 $228 227 218.203279-278-270259 320 319.306.295 301296-293.283 336-328-317.306 ناصر احمد مرزا.حضرت خلیفہ ثالث 332 282.207 ناصر نواب.حضرت میر 225 نذیر احمد ڈرائیور 319 2018 207.206 205 نذیر احمد میجر 338 339 ، 342،341، مریم علیہا السلام - حضرت 268 نصر اللہ خاں چودھری حضرت 378.367364.346 295 397،385،384،381 تا مشتاق احمد (چودھری) 211 نصرت جہاں بیگم.حضرت سیدہ 358.357.321.225.18 296 نمرود 332 393 408،407،404،399، مشتاق احمد (باجوہ) 425،419،418 426 تا | مطیع الرحمان صوفی 433،428 تا 436 | معاویہ.حضرت 174 نوح علیہ السلام - حضرت.محمد ابراہیم بقاپوری 278 180.175 304 محمد اسحاق.حضرت میر 28 معراج دین میاں 204 ، 357،313 | منصور احمد.مرزا حضرت 207 محمد الدین نواب 207 تا 210 موسی علیہ السلام - حضرت 12 257.237.224.196 380-328-324.260 نورالدین.حضرت خلیفہ اول 110.109.28 203 179.140.122 198196.194.193 محمد شریف.چودھری 211.209 $237.224.217.214 272.225.218.204.258.257.254*252 403 362 319.284 380-350-328.261 محمد صادق - حضرت مفتی 204 437.405 374.205 426.425.399.384 204.22 محمد ظفر اللہ خان.حضرت چودھری

Page 455

و ولی اللہ شاہ سید حضرت ولید 10 ہٹلر 272،29 | ہلاکو خان 300 | ہمایوں ی 183 یزید 175.174 296 یوسف علیہ السلام - حضرت 242 425.328 یونس علیہ السلام.حضرت 263.262

Page 456

11 مقامات احمد نگر 99،53، 355،102 بڑوڑہ افریقہ 258،204،8، بلوچستان 374،290 بہار افغانستان 131 ، بہاولپور جالندھر آرمینیا 261 بٹالہ 206| جده آسٹریلیا 8 بخارا احمد آبا داسٹیٹ 158 برازیل 175 427.426 80 96 236 59 جرمنی 340 165.137.131 407.405.332.177 جموں جوگندر نگر جھنگ 426 427 جے پور 258،226،175 بولیویا 110 354 94 103 210 امرتسر امریکہ 295.110.82 177.80.8 |327290.205.204 158.135 115‹114 چ پاکستان 53، 55، 89، 90، چاچڑاں شریف سکندر چتی 61059 145 426 369.340332.211 406.399393 <374 106.101.99.53 403.401.393.375 359.358.355.312 9 21 2، 22، 68، چین 427.426.407 332 | پشاور 131 ، پنجاب انڈونیشیا انگلستان 264.93 , 266 $209.164.158 358.305.304 جبشه مشق وہلی 157.131.115.114.69 205-204.156.137 390 347 340.159 407.327.258.211 412.395.196.131 104 427 پونچھ ج جاپان 261.201 258 ایران ایشیا

Page 457

دیوبند راولپنڈی ربوه 12 15695، 158، 159، 161، فیروز پور 313.242 ق 407،332 | قادیان 25 ،94 سوئٹزر لینڈ 47،42،21، سیالکوٹ 87.61.57.53.51.48 98،89، 99، 102، 103، سیرالیون 115 113.106.105 18 1، 208 209، شام 313 302-276-275 333.329 317 315 354.52.351.345.335 شمله 340 *220*20.18 91.90 61.57.53.52.18.17 105103.98.9693 104.94.21 ‹131 114.112.109 374 210 208204.145 ش 284 276 224 201 319 313 307.289 266.254.205 335 334.322.321 357 356 340 338 210 395 390 362.361 b 412 402 401 400 262 432 358، 360، 382، 392، طائف 412 411 406402 424 422 422.419 ع 430 172.131 258.257 روس 327 غ کراچی کشمیر 361.360 413.358.94 روم 201 ، 265 ، 398 | غانا ( گولڈ کوسٹ) 373، 400 س غسان سپین 331.330.10.9 ف سرحد 96 فرانس سرگودها.378.104 سندھ 387،383 فلپائن 113،96،25 ، فلسطین $130 224 213.196.172 366 271 256 251.236 383 347 346.276 177.137.131 417.416 427.426 427.426 426 کولمبیا کینیڈا کیوبا 407.330.183 440.8 350.205 150 138 137.130

Page 458

426 408 405.397 23 304 426 ملتان 13 436.431.430 210.208 الندن 164.145.94 ماریشس 96 ، مالیر کوٹلہ گجرات لائل پور لالیاں لاہور 104،99 | محمد آباد 103 محمود آباد.اسٹیٹ 33.7.1 150 نائیجیریا 374 158 ناصر آباد 161،138،130 146،139،96، نینوا 201 200 199.147.55.53.51.48.42.41 365 322.254.244.98.91.90.74.63.56 113.110.106.102 1 2 2 1 2 0 118 207،206، 275، 277، مراکو 280 281، 289، مری 314302.293.292 6 320 329 330، مغلپورہ 418،366 | ہالینڈ 447 ہندوستان 263.262 8 DO 407.406.331.9.8 112.95.91.68.25 10.9 157 156.136.135 209 332.330.258.196 425.258 407 401 399.395 119 68 $258.165 4090407 ی $71.47 ☑340.339 335*333 165-146-110.95.93368 363 362 343 222220.199.166.383.376.370.369 264 262 235 234 432.417.404 322 321.299297 340-284 165 لدھیانہ eist

Page 459

110 148 افتح اسلام ف 14 کتابیات انجیل 263، 385،379 | تورات اسلامی اصول کی فلاسفی 331 توضیح مرام 258.257.254 110 ز 1306 بائیل 261،257 | زمیندار

Page 459