Language: UR
حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے خطبات علوم و معارف کا ایک انمول خزانہ ہیں اور پیش گوئی کے الہامی الفاظ ’’وہ علوم ظاہری و باطنی سے پُر کیاجائے گا‘‘ پر شاہدناطق ہیں۔ آپؓ کا دور خلافت نصف صدی سے زیادہ عرصہ پر محیط ہے جو ایک تاریخ ساز دور تھا۔ اس نہایت کامیاب اور طویل دور میں آپؓ نے اپنے خطبات جمعہ کے ذریعہ جماعت کی تعلیم و تربیت میں نہایت اہم کردار ادا کیا۔ سیاسی، سماجی اور مذہبی افقوں پر نمودار ہونےوالے ہر معاملے پر بروقت اور درست رہنمائی عطافرمائی۔ الغرض یہ خطبات جمعہ جماعت احمدیہ کا ایک بہت ہی قیمتی خزانہ اور سرمایہ ہیں۔ جسے فاؤنڈیشن نے یکجا کرکے کتابی شکل دی ہے۔
خطبات مود (خطبات نکاح) فرموده سیدنا حضرت مرزا بشیر الدین محمد احمد مصلح الموعود بشیر اصلحال خليفة اصبح الثاني جلد زیر اهتمام
- KHUTUBĀT-I-MAHMŪD by HADRAT MIRZA BASHIR-UD-DIN MAHMUD AHMAD KHALIFATUL MASIH II Published by: Islam International publications Ltd.Islamabad, Sheephatch Lane, Tilford, Surrey GU 102 AQ U.K.Printed by: Raqeem Prees.Islamabad, Tilford., Surrey.
حضرت المصلح الموعود کا مقام ”خد اتعالیٰ نے ایک قطعی اور یقینی پیشگوئی میں میرے پر ظاہر کر رکھا ہے کہ میری ہی ذریت سے ایک شخص پیدا ہو گا جس کو کئی باتوں میں مسیح سے مشابہت ہوگی وہ آسمان سے اترے گا اور زمین والوں کی راہ سیدھی کر دے گا وہ اسیروں کو رستگاری بخشے گا اور ان کو جو شبہات کی زنجیروں میں مقید ہیں رہائی دے گا.فرزند دلبند گرامی ارجمند مَظْهَرُ الْحَقِّ وَالْعَلَاءِ كَأَنَّ اللَّهَ نَزَلَ مِنَ السَّمَاء " (ازالہ اوہام حصہ اول صفحه ۸۰ روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۱۸۰)
بسْمِ اللهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيمِ پیش لفظ محض اللہ تعالٰی کے فضل سے فضل عمر فاؤنڈیشن کو سیدنا حضرت فضل عمر المصلح الموعود خلیفہ المسیح الثانی کے خطبات نکاح ( " خطبات محمود" کی تیسری جلد) کا نیا ایڈیشن Composed احباب جماعت کی خدمت میں پیش کرنے کی سعادت مل رہی ہے.الْحَمْدُ لِلّهِ عَلى ذلِكَ چند سال قبل یہ خطبات طبع ہوئے تھے جو بہت جلد ہا تھوں ہاتھ نکل گئے.اور احباب کی طرف سے انہیں دوبارہ شائع کرنے کا بار بار مطالبہ ہونے لگا اس لئے اب ان کو نئی ترتیب و نتزئین کے ساتھ طبع کیا جا رہا ہے.سید نا حضرت فضل عمر کو اللہ تعالی نے غیر معمولی فہم و فراست عطا کی تھی.آپ کو اللہ تعالٰی نے اعلیٰ قائدانہ صلاحیتوں سے نوازا تھا آپ کے طویل دور خلافت کے یہ خطبات نہ صرف فلسفه نکاح و شادی اور تعلیم و تربیت کی ایک شاندار دستاویز ہے بلکہ اسے تاریخ احمدیت میں بھی مستند حیثیت حاصل ہے.کیونکہ مختلف اوقات میں رفقاء حضرت بانی سلسلہ عالیہ احمدیہ علیہ السلام کی اولاد و احفاد کے رشتوں میں منسلک ہونے پر ان خاندانوں کے صدق و وفا اور شاندار دینی قربانیوں کا ذکر بطور خاص ان خطبات میں کیا گیا ہے.آپ نے سلسلہ کے علماء کو اس پس منظر میں یہ توجہ دلائی ہے کہ ہمارے علماء کو چاہئے کہ ان رفقاء حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کے سیرت و سوانح کو تالیف کیا جائے تاکہ آنے والی نسلوں کو اپنے آباؤ اجداد کے اخلاص و وفا کا علم ہو اور وہ ان کے پاک نمونہ کو مشعل راہ بنائیں.ہمارا معاشرہ رشتہ ناطہ اور شادی بیاہ کی جن بد رسوم سے دو چار ہے اس کا دین فطرت کے ساتھ دور کا بھی تعلق نہیں.برصغیر کے قدیمی رواج اور مخصوص Traditions نے
Y جو اثرات ہمارے کلچر پر مرتب کئے ہیں حضرت فضل عمر نے ان خطبات میں فلسفہ نکاح کو اس طور پر بیان کیا ہے کہ ان تمام فرسودہ قباحتوں کی نشان دہی ہوتی ہے.پھر آپ نے نہایت دلنشیں انداز میں احکام و مسائل اور ان کی حکمت بھی بیان فرمائی ہے جس سے دینِ حق کی عظمت ظاہر ہوتی ہے.علاوہ ازیں ان خطبات میں اسلامی طریقہ نکاح میاں بیوی کے باہمی حقوق و فرائض کو قرآن کریم ، احادیث نبویہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی روشنی میں بیان کیا گیا ہے.آپ کا انداز بیان آیات قرآنیہ اور احادیث کی نہایت خوبصورت اور دلکش تصویر ہے.خطبات محمود بلاشبہ ہمارا علمی روحانی اور تاریخی ورثہ ہیں جو سینکڑوں صفحات اور طویل عرصہ پر پھیلے ہوئے ہیں.یہ خطبات نہایت روح پرور اور ایمان افروز ہیں ان خطبات کی طباعت کا سلسلہ جاری ہے.قبل ازیں دس جلد میں شائع ہو چکی ہیں.جلد ۱۱-۱۲ بھی زیر ترتیب ہیں.جو چند ماہ تک شائع ہو جائیں گی.یہ کام بہت محنت طلب اور سرمایہ چاہتا ہے.حوالہ جات اور حواشی کا کام بھی بہت محنت اور وقت چاہتا ہے.چنانچہ زیر نظر خطبات نکاح (خطبات محمود جلد سوم) کو بھی چیک کر کے صحیح اور اضافہ جات کے ساتھ شامل اشاعت کیا جا رہا ہے.یہ نیا ایڈیشن ۱۵۰ خطبات نکاح پر مشتمل ہے.ہر خطبہ کے شروع میں فریقین کا تفصیلی ذکر کر دیا گیا ہے.فہرست مضامین خطبات نکاح ابتدا میں دے دی گئی ہے.اور فہرست فریقین نکاح " خطبات کے آخر میں شامل اشاعت کی گئی ہے.پروف ریڈنگ کا کام بھی بہت زیادہ محنت اور وقت چاہتا ہے.اتنی بڑی ضخیم کتابوں کے پروف کو کم از کم چار دفعہ پڑھنا بے حد مشکل اور وقت طلب کام ہے.اور ہر ممکن احتیاط کے باوجود غلطیاں رہ جانے کا احتمال موجود رہتا ہے.اس لئے اگر دوستوں کو دوران مطالعہ کوئی غلطی نظر آئے تو براہ کرم ہمیں ضرور مطلع فرمائیں.ادارہ آپ کا بے حد ممنون ہو گا.آیات قرآن کریم اور احادیث کے سلسلہ میں غیر معمولی احتیاط سے کام لیا گیا ہے.اس لئے تمام عربی عبارات پر اعراب لگا دئیے گئے ہیں تاکہ دوستوں کو پڑھنے میں آسانی ہو.اور قرآن مجید کی آیات اور احادیث مبارکہ کو صحیح تلفظ اور اعراب سے پڑھ سکیں.
اس جلد کے نئے ایڈیشن کی تیاری کے سلسلہ میں بہت سے دوستوں نے ادارہ کی عملی معاونت فرمائی ہے.خاکسار ان کا ولی شکریہ ادا کرتا ہے اور دعا گو ہے کہ خدا تعالیٰ ان کے علم و فضل میں برکت عطا فرمائے اور اپنے فضلوں اور رحمتوں سے نوازے.آمین.اس سلسلے میں خاکسار درج ذیل احباب کا خصوصیت سے شکریہ ادا کرنا چاہتا ہے.اور ان کا احسان مند ہے.ان سب دوستوں کے مخلصانہ تعاون سے ہم اس قابل ہو سکے ہیں کہ یہ خوبصورت تحفہ احباب جماعت کی خدمت میں پیش کر سکیں.فَجَزَاهُمُ اللَّهُ اَحْسَنَ الْجَزَاءِ یہ جواہر پارے اب آپ کے ہاتھوں میں ہیں.ان کی زیادہ سے زیادہ اشاعت سے جہاں ادارہ کے لئے اس کام کو جلد پایہ تکمیل تک پہنچانا آسان ہو گا وہاں نئی نسل کی تربیت کے لئے بھی یہ بہت ممد و معاون ثابت ہونگے.اللہ تعالٰی ہمیں اس اہم ذمہ داری سے احسن طور پر عہدہ بر آہونے اور جماعت کے دوستوں کو ان خطبات سے زیادہ سے زیادہ استفادہ کرنے کی توفیق عطا فرمائے.آمین.
جلد سوم مو ۲۱ ۲۲ ۲۵ ۲۹ ۳۱ ۳۲ خطبات محمود σ = فهرست مضامین خطبات نکاح نمبر تاریخ فرموده مضمون خطبہ ۲۹ جنوری ۱۹۱۵ء تقویٰ اور نیک اولاد کے حصول کے لئے نکاح کرو.۲۷ مارچ ۱۹۱۵ء شادی بیاہ کے معاملات میں صدق و سداد سے کام لینا چاہئے.۲۷ جون ۱۹۱۵ء تعدد ازدواج مستحسن امر ہے یکم مارچ ۱۹۱۶ء اہلی زندگی کو تلخ بنانے والے امور کا بہترین علاج.۱۳ مئی ۱۹۱۶ء سنت نبوی کے مطابق نکاح کئے جائیں.F1914 مرد عورت ایک دوسرے کے لئے نعمت خداوندی ہیں.۸ - اگست ۱۹۱۷ء نکاح میں کیا امور مد نظر رکھے جائیں.کون سا نکاح با برکت ہوتا ہے.۲۷ دسمبر ۱۹۱۷ء ۲۸ دسمبر ۱۹۱۷ء مر کے متعلق ایک سوال کا جواب ۲۲ جون ۱۹۱۸ء ذات پات کی الجھنوں سے بچنا چاہئے.۴ ستمبر ۱۹۱۹ء خاندان حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے متعلق ایک عظیم الشان نشان تمبر 1919ء وعظ و نصیحت کو توجہ سے سننا چاہئے.۲۹ دسمبر ۱۹۱۹ء اعلانات نکاح سے متعلق ایک ہدایت.۲۸ فروری ۱۹۲۰ء نکاح کے معاملہ میں فکر ، خشیت اور دعاؤں سے کام لو.تقویٰ اختیار کرنے سے اچھے انسان پیدا ہوں گے.نکاح سے قبل تحقیق کر لینی چاہئے.۲۵ جون ۱۹۲۰ء شادی کی اغراض ۲۷ ستمبر ۶۱۹۲۰ قومیت کی قیود توڑنے پر اظہار خوشنودی.۱۴ ۶۱۹۲۰ ۱۵ ۶۱۹۲۰ 17 ۱۷ ۱۸ 19 ۲۰ ۲۱ ۵ نومبر ۱۹۲۰ء نکاح میں تقویٰ سے کام لو.۱۱ نومبر ۱۹۲۰ نکاح سے متعلق شرعی احکام کی پابندی.۲۰ نومبر ۱۹۲۰ء بقائے نسل کی نگہداشت ۴۲ ۴۹ ۵۰ ۵۲ ۵۵ ۶۲ ۶۶ لا
مؤ ۸۰ > > ۹۲ ۹۵ ۹۷ ۹۹ ۱۰۲ ۱۰۴ ## ۱۲۰ ۱۲۶ ۱۲۹ ۱۳۱ ۱۳۲ ۱۳۵ ۱۴۰ ۱۴۳ ۱۴۵ ۱۴۷ ۱۵۰ ۱۵۳ خطبات محمود نمبر تاریخ فرموده مضمون خطبه ۳۱ دسمبر ۶۱۹۲۰ نکاح میں خدا تعالٰی سے استعانت چاہو.۳۱ دسمبر ۱۹۲۰ء استخارہ کس طرح ہوتا ہے؟ ۲۸ جنوری ۱۹۲۱ء دل اور زبان کی اصلاح کی اہمیت ۹ فروری ۱۹۲۱ء استخاره مهر جیز اور اعلان بالدف ۱۰ فروری ۱۹۲۱ء فتنوں سے محفوظ رہنے کا طریق ۱۴ مارچ ۱۹۲۱ء ہم میں اور غیروں میں عملی فرق ہونا چاہئے.احمدیوں اور غیروں کے نکاحوں میں فرق.۱۹۲۱ء ١٩٢١ء اسلام میں ہر ایک کام کی بنیاد تقویٰ پر ہے.۲۳ جون ۱۹۲۱ء نکاح کی ایک غرض بقائے حقیقی کے حصول کی طرف توجہ دلانا ہے.۲۵- اکتوبر ۱۹۲۱ء اسلام اور حقوق نسواں.۳ نومبر ۱۹۲۱ء حقیقی خوشی کے حصول کا طریق ۱۶ نومبر ۱۹۲۱ء کامل راحت تعلق باللہ میں ہے.۴ و سمبر ۱۹۲۱ء تو گل سے میٹھے پھل حاصل ہوتے ہیں.۱۰ دسمبر ۱۹۲۱ء نکاح نسل انسانی کی افزائش کے لئے ہے.۲۴ دسمبر ۶۱۹۲۱ نسل انسانی کی بقاء کا سامان.۳ جنوری ۱۹۲۲ء صدق و سداد کی اہمیت ۹ جنوری ۱۹۲۲ء نکاح کی اغراض جنوری ۱۹۲۲ء مومن وقت سے پہلے سوچتا ہے ۱۲ جنوری ۱۹۲۲ء تعلقات میں ترقی یا بگاڑ کا موجب رقابت ہوتی ہے.۲۵ جنوری ۱۹۲۲ء خدا تعالی کی قدرت کا عظیم الشان کرشمہ.۸ فروری ۱۹۲۲ء قادیان ہر احمدی کا وطن ہے.۹ فروری ۱۹۲۲ء ولی لڑکی کے مفاد کی حفاظت کرے.۱۸ فروری ۱۹۲۲ء صداقت پر قائم رہنے کا خوشگوار نتیجہ.۲۵- اپریل ۱۹۲۲ء زندگی کا فیشن.۲۶- اپریل ۱۹۲۲ء نکاح کے فوائد ۲۱ جولائی ۱۹۲۲ء نکاح کے اعلیٰ مقاصد ۲۲ ۲۳ ۲۴ ۲۵ ۲۶ ۲۷ ۲۸ ۲۹ ۳۰ ۳۱ ۳۲ ۳۳ ۳۴ ۳۵ ۳۶ ۳۷ ۳۸ ۳۹ ۴۰ ۴۱ ۴۲ ۴۳ ۴۴ ۴۵ 늘은 걸 ۴۷
خطبات محمود نمبر تاریخ فرموده ۴۸ ۴۹ ۵۰ ۵۱ ۵۲ ۵۳ ۵۴ ۵۵ ۵۶ ۵۷ مضمون خطبه ۲۹ جولائی ۱۹۲۲ء ماضی، حال اور مستقبل سے نکاح کا تعلق.۲۱- اکتوبر ۱۹۲۲ء نکاح کے معاملہ میں ہمیشہ دین مد نظر رکھیں.حمد کا مستحق خدا ہی ہے.۲۴- اکتوبر ۱۹۲۲ء ایک دوست کے اخلاص کا ذکر ۲۲ دسمبر ۱۹۲۲ء ۲۹ دسمبر ۱۹۲۲ء اعلان نکاح سے متعلق ایک اصولی ہدایت ۳ جولائی ۱۹۲۳ء نکاح سے متعلق اسلامی احکام اور ان کے فوائد ۹ جولائی ۱۹۲۳ء پاک اغراض اور نیک مقاصد کو مد نظر رکھ کر نکاح کرنا چاہئے.۱۵.مئی ۱۹۲۴ء نکاح کی سب سے بڑی غرض تقویٰ اللہ ہے.جنوری ۱۹۲۵ء مرد و عورت دونوں کی ذمہ داریاں برابر ہیں.حضرت سیده ساره بیگم صاحبہ سے نکاح کرنے کی غرض ۱۲- اپریل ۱۹۲۵ء اور حضرت سیدہ امتہ الحئی صاحبہ کا ذکر خیر جلد سوم صفحہ 107 ۱۶۹ ۱۷۲ ۱۷۳ ۱۷۵ IAY ۱۹۵ 199 ۲۱۰ ۲۲۰ ۲۲۲ ۲۲۷ ۲۲۹ ۲۳۳ ۲۳۹ ۲۴۳ ۲۴۶ ۲۵۱ ۲۵۴ ۲۵۷ ۲۵۹ ۲۶۳ ۲۷۳ ۵۸ ۵۹ ۶۰ ۶۲ ۶۴ ۶۵ ۶۶ ۶۷ ۶۸ ۶۹ اء ۷۳ ۱۹۲۵ء ۵ ستمبر ۱۹۲۵ء تعدد ازدواج کی اہم ذمہ داریاں خطبہ نکاح کا مقصد ۱۹۲۵ء ۲۹ دسمبر ۱۹۲۶ء احمدی خواتین اور مضمون نویسی ۲۵- اکتوبر ۱۹۲۶ء نکاح کا مذہب اخلاق ، تمدن اور طبیعی تقاضوں پر اثر محبت روحانی اور محبت مجازی کا شعلہ ۱۵ اپریل ۱۹۲۷ء عورتوں کو کامل حریت دو ۲۴ دسمبر۱۹۲۷ء اسلام میں عورت کا مقام ایک تمدنی غلطی کی اصلاح عورت کی حریت کا زمانہ آگیا ہے.۱۴ مارچ ۱۹۲۸ء ۲ جنوری ۱۹۲۸ء ۱۴ نمبر ۶۱۹۲۸ حقیقی جوڑے خدا ہی ملاتا ہے.۱۶ جنوری ۱۹۲۹ء شادی کرنے میں لڑکے لڑکی کو آزادی حاصل ہے.روحانی تحمیل کے تین ذرائع ۱۱ دسمبر ۱۹۲۹ء ۱۶ جنوری ۱۹۳۰ء شادی کے معاملہ میں استخارہ اور دعاؤں کی ضرورت ۲۹ جنوری ۱۹۳۰ء تمام جھگڑے قول سدید کے نہ ہونے سے پیدا ہوتے ہیں ۲ فروری ۱۹۳۰ء خدا تعالی کے منشاء کے ماتحت تجویز شدہ جوڑوں کی برکات مسلمانوں اور دوسروں کے نکاح میں فرق.۹ مارچ ۱۹۳۰ء
مو ۲۷۸ ۲۷۹ ۲۸۴ ۲۸۹ ۲۹۴ ۲۹۹ ۳۰۳ ۳۰۹ ۲۱۰ ۳۱۳ ۳۱۸ ۳۲۲ ۳۲۶ ۳۲۹ ۳۳۱ ۳۳۶ ۳۵۸ ۳۶۰ ۳۶۵ ۳۶۹ ۳۷۲ خطبات محمود نمبر تاریخ فرموده مضمون خطبه ۲۲ مارچ ۱۹۳۰ء اسلامی نکاح کو ایک علیحدہ شکل دینے کی وجہ ۲۳ مارچ ۱۹۳۰ء رشتہ داری تعلقات کو قائم رکھنے سے لڑائی جھگڑے نہیں ہوتے.۱۳ اپریل ۱۹۳۰ء انسانی احتیاج خدا تعالی کی طرف متوجہ کرتی ہے.محاسبہ نفس بہترین نگرانی ہے ۲ مئی ۱۹۳۰ء ۱۲ مئی ۱۹۳۰ء جماعت احمدیہ کی رشتہ داریاں خدا تعالی کا ایک نشان ہیں.فریقین کی عدم موجودگی میں نکاح.یکم مارچ ۱۹۳۱ء ۲۷ مارچ ۱۹۳۱ء لڑکی والوں کی طرف سے مطالبات درست نہیں.۲۹ مارچ ۱۹۳۱ء اللہ تعالی کی رضا یہ نظر رکھنے سے رحمت کے دروازے کھل جاتے ہیں.اپریل ۱۹۳۱ء قادیان میں نکاح پڑھانے کی غرض ١٩٣١ء طاقت سے بڑھ کر خرچ کرنا اسراف میں داخل ہے.۲۹ جنوری ۱۹۳۳ء نکاح ایک وسیع الاثر معاہدہ ہے.۲۸ مارچ ۱۹۳۳ء نکاح کے معاملہ میں خدائی مدد کی ضرورت ۱۸ اپریل ۱۹۳۳ء حقیقی ایمان کا نتیجہ ترقیات تم کل کے لئے کیا جمع کرتے ہو ۱۴ ستمبر ۱۹۳۳ء ۱۹ اکتوبر ۱۹۳۳ء سیالکوٹ کا ایک نیک خاندان ۱۱ جون ۱۹۳۴ء بعض مخلصين کا ذکر.۲۹ جون ۱۹۳۴ء حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بعض رفقاء کے حالات ۲ جولائی ۱۹۳۴ء حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خاندان کی اہم ذمہ داریاں یکم اگست ۱۹۳۴ء شادی بیاہ کے معاملات میں سچ سے کام لینا چاہئے.۲۲ اپریل ۱۹۳۵ء دنیا کی کوئی چیز بے فائدہ نہیں ۲۶ جولائی ۱۹۳۵ء انتخاب زوج کے معاملہ میں دین کو ترجیح دینے کی نصیحت ۹- اگست ۱۹۳۵ء میاں بیوی کے تعلق کی بنیاد تقویٰ پر ہونی چاہئے ۸ جنوری ۱۹۳۶ء نیک سے نیک کام میں بھی احتیاط سے کام لو ۱۱ جنوری ۱۹۳۶ء شادی عشق الہی سکھانے کا مدرسہ ہے ۷۵ LL LA > ^ ۸۰ 69 Al ۸۲ ۸۳ ᎪᏛ ۸۵ ΔΥ ۸۷ ۸۸ ۸۹ ۹۲ ۹۳ ۹۴ ۹۵ ۹۶ ۹۷
خطبات محمود ۹۸ ११ 1•• : : 1+1 ۱۰۳ ۱۰۴ ۱۰۵ RIZ ۱۰۸ ۱۰۹ % 11° = ۱۱۲ ۱۱۴ ۱۱۵ 116 ۱۱۸ 119 ۱۲۰ ۱۲۱ ۱۲۲ ۱۲۳ تاریخ فرموده.مضمون خطبہ صفحہ ۸ مئی ۱۹۳۶ء اپنائے فارس کی اہم ذمہ داریاں ۲۰ مئی ۱۹۳۶ء تو گل علی اللہ کے فوائد تعدد ازدواج ۲۸ ستمبر ۱۹۳۶ء مارچ ۱۹۳۷ء دینی مسائل پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہو سکتا ۱۹ اپریل ۱۹۳۷ء مستقبل سنوارنے کی کوشش کرو ۱۸ جون ۱۹۳۷ء نیکی اور اس کے طبیعی نتائج ۲۵ جون ۱۹۳۷ء خدا تعالٰی ہی اچھے نتائج پیدا کرتا ہے ۲۰ جولائی ۱۹۳۷ء میاں بیوی کے رشتہ کی بنیاد اعتماد پر ہے ۲۶ جولائی ۱۹۳۷ء استخارہ عام اور استخارہ خاص ۲۶ اگست ۱۹۳۷ء تقویٰ اللہ اور قول سدید اختیار کرنے کی نصیحت خالق کو اپنی امیدوں کا مرجع قرار دیں ۳ ستمبر ۶۱۹۳۷ ۱۵ دسمبر ۱۹۳۷ء ازدواجی تعلقات کے نتیجہ میں جذبہ محبت ترقی کرتا ہے ۷ او سمبر ۱۹۳۷ء میاں بیوی کے تعلقات کا اثر ہزاروں سال تک چلتا ہے ۷ جنوری ۱۹۳۸ء نکاح کے نتائج کا علم خدا تعالی ہی کو ہوتا ہے ۲۸ جنوری ۱۹۳۸ء اللہ تعالٰی کی صفت رقیب ہمیشہ مد نظر رکھو.۲۰ جون ۱۹۳۸ء نکاح کے بارہ میں ایک اصولی ہدایت ۲۶ دسمبر ۱۹۳۸ء ساری عزتیں سلسلہ کے ساتھ وابستہ ہیں.۱۰- اپریل ۱۹۳۹ء سیٹھ محمد غوث صاحب کے اخلاص کا ذکر -۱۵ اپریل ۱۹۳۹ء قرآنی شریعت نہایت پاک و مطهر ہے ۱۱ مئی ۱۹۳۹ء اس وقت کی قدر کرو اور فائدہ اٹھاؤ ۲۲ مارچ ۱۹۴۰ء اسلام نے تجرد کو نا پسندیدہ قرار دیا ہے ۱۹ اپریل ۱۹۴۰ء تبرکات کے متعلق اصولی ہدایت ۷ ستمبر ۱۹۴۰ء شادی کے ساتھ انسانی ذمہ داریاں بڑھ جاتی ہیں ۱۶ جولائی ۱۹۴۱ء سیٹھ عبد اللہ الہ دین صاحب کا ذکر خیر ۱۵ ستمبر ۱۹۴۱ء الی جماعتیں بطور بیج کے ہوتی ہیں ۲ ستمبر ۱۹۴۲ء اعمال نیتوں کے طالع ہوتے ہیں.ستمبر ۱۹۴۲ء خدا تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ قادیان بہت ترقی کرے گا جلد سوم ۳۸۰ ٣٨٩ ۳۹۳ ۴۰۱ ۴۱۰ ۴۲۳ ۴۲۷ ۴۳۱ ۴۳۶ ۴۴۲ ۴۴۶ ۴۵۱ ۴۵۶ ۴۷۵ ۴۸۴ ۴۹۲ ۴۹۳ 10.0 ۵۲۳ ۵۳۰ ۵۳۲ ۵۳۹ ۵۴۸ ۵۵۵
خطبات محمود نمبر تاریخ فرموده ۱۲۵ ١٢٦ ۱۲۷ ۱۲۸ ۱۲۹ ۱۳ اکتوبر ۱۹۴۲ء مضمون خطبه ہر انسان دیکھے کہ اس نے کل کے لئے کیا بھیجا ہے ۱۰ اپریل ۶۱۹۴۴ وقف کی حقیقت و عظمت ۲۴ جولائی ۱۹۴۴ء حضرت سیدہ مہر آپا کا خطبہ نکاح ۱۳۱ ۱۳۲ ۱۳۳ ۱۳۴ ۱۳۵ ۱۳۷ ۱۳۸ ۱۳۹ ۱۴۰ ۱۴۱ ۱۴۲ ۱۴۳ ۱۴۴ ۱۴۵ ۱۴۶ ۱۴۷ ۱۴۹ ۱۵۰ واقف زندگی میری اولاد کی طرح ہیں ۲۰ ستمبر ۱۹۴۴ء ۱۴ د سمبر ۱۹۴۴ء ماضی میں جو کام تم نے کئے ہیں وہی مستقبل میں پھل لائیں گے ۲۹ دسمبر ۶۱۹۴۴ ہم تَرى نَسْلاً بَعِيدًا کا نشان دیکھ رہے ہیں مموں کا ایک دن اور چار شادی ۳۰ مارچ ۱۹۴۵ء ۲۸ جون ۱۹۴۵ء لیے لیے نام پسندیدہ نہیں ہیں.شادی بیاہ کے موقع پر خشوع و خضوع سے دعاؤں کی تلقین ۲۷- تمبر ۶۱۹۴۶ دین کی خدمت میں ہی حقیقی عزت ہے واقفین زندگی کا مقام ۲۶ اپریل ۱۹۴۷ء جون ۱۹۴۷ء ۰۲ اپریل ۱۹۴۸ء اچھی تربیت سے اپنے قائمقام پیدا کرو خطبہ جمعہ سے قبل اعلان نکاح ۲۳ جولائی ۱۹۴۸ء چوہدری سعید احمد صاحب درویش کے نکاح کا اعلان ۱۰ اپریل ۱۹۵۰ء بعض درویشان قادیان کے نکاحوں کا اعلان ۲۲ مئی ۱۹۵۱ء ۲۶ جون ۱۹۵۱ء ایک نو مسلم لڑکی کے نکاح کا اعلان سوائے خاوند کے تین دن سے زیادہ ماتم کی اجازت نہیں ۲۷ جون ۱۹۵۱ء افتتاح جلسہ سالانہ سے قبل دو نکاحوں کا اعلان ۲۶ دسمبر ۱۹۵۱ء زندہ بنو اور خود اللہ تعالٰی کی نعمتیں حاصل کرو ۱۴ جولائی ۱۹۵۲ء جلسہ سالانہ پر اعلان نکاح کے بارہ میں ایک ہدایت ۲۶ دسمبر ۱۹۵۲ء یائی کی پرورش قوم میں بہادری پیدا کرتی ہے اخلاص دولت سے زیادہ قیمی ہے یکم نومبر ۱۹۵۳ ۱۴ دسمبر ۱۹۵۳ء حضرت خدیجہ الله عنہا کی عظمت ۲۵ جنوری ۱۹۵۴ء ۲۶ دسمبر ۱۹۵۵ء اعلانات نکاح بر موقع جلسه سالانه ۸ مارچ ۱۹۵۶ء ۲۸ دسمبر ۶۱۹۵۷ حضرت خان محمد خان صاحب کپور تھلوی کا ذکر خیر مکرم حفیظ الرحمن صاحب کے خاندان کا ذکر خیر جلد سوم صفحہ ۵۶۵ ۵۷۰ ۵۸۱ ۵۹۷ ۵۹۹ ۶۰۹ ۶۱۷ ۶۲۰ ۶۲۴ ۶۳۰ ۶۳۴ ۶۴۰ ۶۴۳ ۶۴۶ ۶۴۸ ۶۵۰ ۶۵۲ ۶۵۷ ۶۵۹ ۶۶۱ ۶۶۵ ۶۷۲ ۶۸۴
خطبات محمود خطبہ مسنونه جلد سوم الْحَمْدُ لِلَّهِ نَحْمَدُهُ وَنَسْتَعِينُهُ تمام تعریفیں اللہ کے لئے ہیں.ہم تعریف وَنَسْتَغْفِرُهُ وَنُؤْمِنُ بِهِ وَنَتَوَكَّلْ عَلَيْهِ کرتے ہیں اس کی اور مدد مانگتے اور بخشش وَنَعُوذُ بِاللَّهِ مِنْ شُرُورِ أَنْفُسِنَا وَمِنْ چاہتے ہیں اس سے.اور ایمان لاتے ہیں سَيّاتِ اَعْمَالِنَا مَنْ يَهْدِهِ اللهُ فَلَا اس پر اور ہم بھروسہ رکھتے ہیں اس پر.اور ہم حفاظت چاہتے ہیں اللہ کی مدد کے ساتھ مُضِلَّ لَهُ وَمَنْ يُضْلِلْهُ فَلَا هَادِيَ لَهُ اپنے نفس کی شرارتوں سے اور اپنے برے امَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَنِ کاموں سے.جس کو اللہ تعالٰی ہدایت دے الرَّحِيمِ اسے کوئی گمراہ کرنے والا نہیں.اور جس کو وہ گمراہ قرار دے پس کوئی نہیں اس کو ہدایت دینے والا.اس کے بعد میں حفاظت چاہتا ہوں اللہ تعالٰی کی راندے ہوئے شیطان بشع الله الرحمن الرحيم (میں) اللہ کا نام لے کر جو بے حد کرم کرنے والا بار بار رحم کرنے والا ہے (پڑھتا ہوں) يَايُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّكُمُ الَّذِي اے لوگو! اپنے رب کا تقوی اختیار کرو جس خَلَقَكُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَاحِدَةٍ وَخَلَقَ نے تمہیں ایک (ہی) جان سے پیدا کیا.اور اس کی جنس) سے (ہی) اس کا جوڑا پیدا کیا.مِنْهَا زَوْجَهَا وَبَثَّ مِنْهُمَا رِجَالاً كَثِيرًا وَنِسَاءً وَاتَّقُوا اللَّهَ الَّذِي تَسَاءَ اور ان دونوں میں سے بہت سے مرد اور لُونَ بِهِ وَالْأَرْحَامَ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلَيْكُمْ رَقِيبًا (النساء : ۲) عورتیں ( پیدا کر کے دنیا میں) پھیلائے اور اللہ کا تقویٰ (اس لئے بھی) اختیار کرو کہ اس کے ذریعہ سے تم آپس میں سوال کرتے ہو.
خطبات محمود ۱۲ جلد سوم اور خصوصاً رشتہ داریوں کے (معاملہ) میں ( تقویٰ سے کام لو اللہ تم پر یقینا نگران ہے.يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللهَ وَقُولُوا اے مومنو! اللہ کا تقویٰ اختیار کرو اور وہ بات کہو جو بیچ دار نہ ہو (بلکہ کچی ہو) قَوْلاً سَدِيدًا يُصْلِحْ لَكُمْ أَعْمَالَكُمْ وَيَغْفِرْلَكُمْ اگر تم ایسا کرو گے تو اللہ تمہارے اعمال کو درست کر دے گا.اور تمہارے گناہوں کو ذُنُوبَكُمْ وَمَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ فازَ فَوْزًا عَظِيمًا (الاحزاب : ۷۲۷۱) معاف کر دے گا اور جو شخص اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرے وہ بڑی کامیابی حاصل کرتا ہے.يُاَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَلْتَنْظُرُ اے مومنو! اللہ کا تقویٰ اختیار کرو اور نَفْسٌ مَّا قَدَّمَتْ لِغَدٍ وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ چاہئے کہ ہر جان اس بات پر نظر رکھے کہ اس نے کل کے لئے آگے کیا بھیجا ہے اور تم اللهَ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ (الحشر: (19) سب اللہ کا تقویٰ اختیار کرو.اللہ تمہارے اعمال سے خوب باخبر ہے.نوٹ : اس کے بعد اپنی زبان میں حسب موقع نصائح کر کے ایجاب و قبول کروایا جاتا ہے اور دعا کی جاتی ہے.
جلد سوم خطبات محمود تقومی اور نیک اولاد کے حصول کے لئے نکاح کرو (فرموده ۲۹ - جنوری ۱۹۱۵ء) =; ۲۹ جنوری ۱۹۱۵ء بعد از نماز عصر حضرت خلیفۃ المسیح الثانی نے پیر اکبر علی صاحب وکیل فیروز پور کا نکاح ممتاز بیگم دختر مرزا ناصر علی صاحب وکیل سے دس ہزار روپیہ مر پر پڑھا.خطبہ مسنونہ کی تلاوت کے بعد فرمایا : نکاح اس نیت سے کرو کہ تقویٰ حاصل کرو.اولاد مسلم اور اللہ کے جلال کو ظاہر کرنے والی ہو اور یہ موقوف ہے اس پر کہ بچوں کی تربیت عمدہ ہو.اس کا انحصار بیویوں کی دینی تعلیم پر ہے.پس ہر مرد نہ صرف خود قرآن مجید با ترجمہ پڑھے، دین سیکھے، بلکہ اپنی بیوی کو بھی سکھائے".الفضل ۳۱- جنوری ۱۹۱۵ء صفحہ ۱) حضور نے جو خطبہ نکاح پڑھا تھا اس میں یہ بھی فرمایا کہ : لوگ مهر یا تو ۳۲ روپے مقرر کرتے ہیں اور اسے مہر شرعی کہا جاتا ہے یا تین من سونا اور اتنے من چاندی اور اتنے گاؤں یہ دونوں فضول باتیں ہیں مہر طرفین کی حیثیت کے مطابق ہونا چاہیے.الفضل ۲ فروری ۱۹۱۵ء صفحه ۱)
خطبات محمود شادی بیاہ کے معاملات میں صدق و سداد سے کام لینا چاہئے (فرموده ۲۷ مارچ ۱۹۱۵ء) ۲۷ مارچ ۱۹۱۵ء کو بعد نماز مغرب حضرت خلیفۃ المسیح الثانی نے باوجود ضعف و علالت قاضی عبدالحق صاحب و محمد بی بی بنت مکرم جمال الدین صاحب گوجرانوالہ کے نکاح کا خطبہ پڑھا.خطبہ مسنونہ کی تلاوت کے بعد فرمایا : اسلامی سنت تو یہی ہے کہ خطبہ کھڑے ہو کر پڑھا جائے ( حضور اس وقت کرسی پر بیٹھے تھے) مگر میں کچھ دنوں سے بیمار ہوں کھڑا نہیں ہو سکتا.آج کئی دنوں کے بعد یہ نماز ہے جو میں نے کھڑے ہو کر پڑھی ہے.میرا دل چاہتا تھا کہ اس نکاح کا خطبہ میں خود ہی پڑھوں.میرے حلق میں کچھ تکلیف ہے.آواز بلند نہیں.ممکن ہے اللہ تعالٰی اپنے فضل سے ایسی توفیق دے نکاح میں آنحضرت ا جو آیات پڑھا کرتے تھے ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ قولوا قولا سديدا له کچی بات پکی بات، مضبوط بات، اصلاح والی بات، نیکی والی بات کرو.نکاح میں لوگ جھوٹ بہت بولتے ہیں.طرفین اپنے اغراض کو پورا اور اپنے مدعا کو حاصل کرنے کے لئے قطعاً اس بات کو نہیں دیکھتے کہ ہمارے اقوال ہمارے ولی خیالات کے موافق ہیں یا نہیں ایک غرض مد نظر ہوتی ہے.اس کے حصول کے لئے جس قسم کی باتیں بنانی پڑتی ہیں بنا لیتے ہیں.لڑکے والا لڑکی والوں کو یقین دلاتا ہے کہ میں اس دن کے بعد تمہارا غلام ہوں چنانچہ اسی
خطبات محمود جلد سوم لئے پیغام نکاح بھی دیا جاتا ہے تو ان الفاظ میں کہ مجھے اپنی غلامی میں قبول فرمائے مگر وہ جو نکاح سے پہلے لکھتا ہے کہ غلام بنالو جس دن شادی ہو جاتی ہے اور لڑکی پر قبضہ تو پھر غلام بننے کی بجائے آقا بنا چاہتا ہے.لڑکی پر جو حکومت چاہتا ہے وہ تو الگ لڑکی کے والدین کو بھی اپنا غلام اور اپنی خواہشات کا مطیع بنانا چاہتا ہے یہاں تک کہ سسرال ایک گالی ہو گئی ہے اور یہ لفظ حقارت کے اظہار کا ایک ذریعہ بن گیا ہے.چونکہ انسان اس بات کا محتاج ہے کہ اس کا کوئی یارومددگار ہو، دوست و غمگسار ہو، کوئی اس کا پیارا ہو، ان مشکلات کو سوچ کر ان وقتوں کو دیکھ کر پہلے تو اپنی غلامی کا یقین دلاتا ہے اور چاہتا ہے کہ جس قدر جلد ممکن ہو مدعا میں کامیاب ہو اور جو لوگ اس مدعا کے حصول میں حارج نظر آئیں انہیں ایڑی کے نیچے رگڑنا چاہتا ہے.لڑکی والوں کا بھی یہی حال ہے جب تک میاں بی بی آپس میں نہیں ملتے کہیں تو لڑکی کی قابلیت پر زور دیا جاتا ہے، کہیں حسن و جمال کی کیفیت پر، کہیں علم و لیاقت پر، کہیں اس کے اخلاق کی خوبیوں پر.غرض ہر طرح لڑکی کو بے عیب پیش کیا جاتا ہے.لیکن جب لڑکے والا یہ ن کر کے کہ اب اس سے بہتر لڑ کی کیا ہوگی رشتہ کر لیتا ہے تو پھر وہی لڑکی والا ہے جو کہتا ہے کہ بس یہی لڑکی ہے عیب ہے تو ہم کیا کریں حالانکہ پہلے اس قدر تعریف کی تھی کہ کوئی حد ہی نہیں.اس میں کچھ شک نہیں کہ کوئی شخص کسی کے اخلاق اور کسی کی صورت کو نہیں بدل سکتا مگر انسان اپنی زبان پر تو قابو رکھ سکتا ہے.پس چاہئے کہ اتنی ہی بات کرے جو فی الواقع ہے.بیہودہ لافوں کی کیا ضرورت ہے.اللہ تعالی فرماتا ہے قُولُوا قَوْلاً سَدِيدًا - تقویٰ اختیار کرو اور ولی مطالب کے حصول کے لئے دھوکا سے کام نہ لو اگر دھوکا کر کے مطلب پا بھی لو گے تو وہ کامیابی عارضی اور بہت سی ناکامی کا موجب ہو گی.مظفر و منصور ہونے کی کلید تقویٰ ہے.پس تقویٰ ہی سے کام لو.چالاکیاں چھوڑ دو.دھوکا دہی کے نزدیک نہ جاؤ.اگر بغیر کسی لاف زنی کے جو اصل معاملہ ہے وہ ظاہر کر دیا جائے تو نہ لڑکی والوں کو شکایت ہو سکتی ہے نہ لڑکے والوں کو کیونکہ جو وعدہ تھا پورا کر دیا.حدیث میں آیا ہے کہ ایک شخص نے عمارت بنوائی.ظہر تک کام کرنے والوں کو ایک دینار دیا.پھر دوسرے مزدور لگائے ان سے ظہر سے عصر تک کام کرایا اور وہی مزدوری دے دی.پھر اور مزدور لگائے اور ان سے شام تک کام لیا اور انہیں دگنی مزدوری دی.پہلے مزدوروں نے شکایت کی تو ان کو جواب ملا کیا جو وعدہ میں نے کیا تھا وہ تم سے پورا نہیں کیا؟
خطبات محمود انہوں نے کہا پورا کیا.تو اب شکایت نہیں ہو سکتی.اگر کسی کو میں اپنے مال سے زیادہ دیتا ہوں تو یہ میری مرضی سے فرمایا یہ مالک مکان اللہ ہے اور وہ مزدور یہودی، عیسائی اور مسلمان ہیں.پس مسلمانوں کو دوہرا اجر ملنے پر یہود و عیسائی کو شکایت نہیں ہو سکتی کہ ان سے جو وعدہ ہوا وہ پورا کیا گیا.اسی طرح اگر ایک شخص جس قدر وعدہ کرتا ہے اور حقوق اپنے ذمہ لیتا ہے وہ ادا کر دے تو اس سے کوئی شکایت نہیں.ہاں انسان پہلے لاف زنی کے طور پر بہت سے وعدے کردے جس کا کسی نے اس سے مطالبہ بھی نہیں کیا اور پھر ان کا ایفاء نہ کرے تو یہ غلطی ہے.یہ بھی یاد رہے کہ مسلمانوں کی مجلس میں بیٹھ کر اسلامی طریق پر جو نکاح کرتا ہے وہ خواہ زبان سے نہ بولے تو بھی جس مذہب کے احکام کے ماتحت وہ نکاح کرواتا ہے گویا وہی نکاح ثبوت ہے اس بات کا کہ دوسرے لفظوں میں اس نے تمام پابندیوں کو اپنے ذمہ لیا.اب اس کا فرض ہے کہ وہ ان حقوق کو پورے طور پر ادا کر دے جو حقوق اسلام نے رکھے.اگر وہ پورے طور پر ادا کر دے تو پھر اس سے شکایت کی کوئی وجہ نہیں کیونکہ زائد دیتا تو اس کی اپنی خوشی پر موقوف ہے چاہے تو دے چاہے نہ دے.یاد رکھو فساد جبھی ہو گا جبکہ خلاف وعدہ انسان کرے گا.مثلاً ایک شخص ہے وہ نہیں چاہتا کہ مجھے ضرور حسین بیوی ہی ملے مگر لڑکی والے اپنی لڑکی کی خوبصورتی کی خواہ مخواہ تعریف کرتے ہیں یا مثلا وہ نہیں چاہتا کہ میری بیوی کے رشتہ دار مالدار ہوں یا اعلیٰ پوزیشن رکھتے ہوں مگر لڑکی والے خواہ مخواہ اسے کہتے ہیں کہ ہمارے رشتہ دار اور ہم بڑے مالدار اور اعلیٰ پوزیشن رکھتے ہیں.اب بیاہ کے بعد نکاح کرنے والا دیکھتا ہے کہ جس بات کی میرے سامنے تعریف کی گئی تھی وہ اس میں نہیں تو ضرور اسے رنج ہو گا.اسی طرح ایک نص دکاندار ہے اس سے کوئی کپڑا خریدتا ہے تو وہ دکاندار اس شخص کے سامنے خواہ مخواہ ایسی تعریف اس کپڑے کی کرتا ہے جو نہ اس کپڑے میں موجود ہے اور نہ اس خریدنے والے کی خواہش تھی کہ ضرور ایسا ہی کپڑا ہو جیسے یہ بیان کرتا ہے اب اس کے خلاف نکلنے پر وہ گاہک ضرور بدظن ہو گا اور اسے رنج پہنچے گا.اسلام نصیحت کرتا ہے کہ قُولُوا قَوْلاً سَدِيدًا.تقویٰ اختیار کرو، نکاح کے معاملہ میں جھوٹ نہ بولو.ہمارے زمانہ میں جھوٹ بہت بڑھ گیا ہے اور جس چیز کی بنیاد گناہ پر ہوگی وہ اخیر تک نقصان رساں ہوگی.
خطبات محمود تا ریا ہے جلد سوم رود دیوار سچ اول چون نهد معمار سج سنو! میاں بی بی کا تعلق ایک گھنٹہ کا نہیں ساری عمر کا ہے.ساری عمر کا نہیں بلکہ میں تو کہتا ہوں قیامت تک کا ہے کیونکہ اس تعلق کا اثر نسل در نسل چلنے والا ہے.پس یہ تعلق ایک دو دن کا نہیں بلکہ قیامت تک کا ہے جیسا بیج ہو گا ویسا ہی پھل لگے گا.عمدہ بیج جو بویا جاتا ہے تو یہ اس سال کے لئے نہیں بلکہ پھر وہی پیج ہے جو اگلے سال کے لئے بویا جائے گا اور اسی طرح یہ سلسلہ چلتا جائے گا.بعض علاقوں کی بعض پیداوار مشہور ہوتی ہے.مثلاً عرب کی کھجور.یہ کیوں؟ اس لئے کہ بیج ایسا تھا اور اس کی غورو پرداخت اعلیٰ طریق پر ہوئی.اب اس کا اثر آج تک چلا جاتا ہے.یہی وجہ ہے کہ نکاح میں بھی دینی طور پر ان باتوں کا لحاظ رکھا جاتا ہے کہ لڑکی ذات الدین ہو.لڑکے کے اخلاق خراب نہ ہوں.عرب میں تو گھوڑوں تک میں ذات کا لحاظ رکھا جاتا ہے.یورپ میں زراعت کے بارے میں احتیاط کرتے ہیں.یہی حال انسانی نسل کا ہے.جس نکاح کی بنیاد صدق و سداد پر ہو اللہ تعالیٰ کی رضامندی کو مد نظر رکھا گیا ہو ضرور ہے کہ اس پر نیک ثمرات مرتب ہوں.دیکھو حضرت ابراہیم" کی شادی ہوئی.اس نکاح کی بنیاد کسی ایسے نیک اصل پر تھی کہ اس سے نبی ہی نبی پیدا ہوتے چلے گئے.ایک طرف موسیٰ، ہارون، مسیح (علیهم السلام) تک دوسری نسل میں اسماعیل (علیہ السلام) پھر آنحضرت ا جیسا عظیم الشان ایک ہی نبی جو سارے نبیوں پر بھاری ہے.غور کرو پہلے ایک پیج تھا جس کا اثر آج تک چلا آتا ہے.پس جس نکاح کی بنیاد صدق و سداد پر ہوگی وہی خیر کثیر پھیلانے والا ہو گا.لوگ ایسی باتوں کا بہت کم خیال رکھتے ہیں اور وقت پر جس طرح بن پڑے اپنی غرض کو حاصل کرنے کے درپے ہوتے ہیں.حضرت صاحب کے پاس ایک شخص نے عرض کیا کہ غیروں میں تو رشتے کرنے سے حضور نے منع فرما دیا اگر ایک رجسٹر ہو جس میں جماعت کے لڑکے لڑکیوں کی فہرست ہو اور ان کے نکاح حضور کی معرفت ہوا کریں تو علاوہ بابرکت ہونے کے سہولت بھی ہو جائے.آپ نے اس درخواست کو منظور فرمالیا - " اتفاق ایسا ہوا کہ ایک احمدی کی بیوی مرگئی تو حضور نے اسی رجسٹر بنانے والے کو رشتہ دینے کے متعلق فرمایا تو وہ کہنے لگا یہ تو نہیں ہو سکتا ہم مغل وہ پٹھان.آخر ایک غیر احمدی کو اس نے لڑکی دی.حضرت صاحب نے اس کے بعد رجسٹر چھوڑ دیا.ایسا ہی ایک اور شخص تھا اس نے کہا حضور ! یہ میری لڑکی آپ کے سپرد.آپ نے فرمایا بہت اچھا فلاں ر
خطبات محمود جلد سوم شخص سے نکاح کر دو.ابھی تو کہہ رہا تھا آپ کے سپرد.ابھی کہنے لگا کہ حضور وہ تو بوڑھا ہے.فرمایا اچھا فلاں سے نکاح کر دو.کہنے لگا اس میں تو فلاں عیب ہے.پھر تھوڑے دنوں بعد آکر کہا کہ فلاں شخص سے سمجھوتہ کیا ہے حضور نکاح کر دیں.فرمایا احمد نور پٹھان سے نکاح کر دو.اس نے قبول نہ کیا اور جہاں جی چاہتا تھا وہیں نکاح کر دیا.حضور نے اس نکاح کے چھوہارے بھی نہ لئے.پھر میں دیکھتا ہوں یہ سلسلہ خلفاء کے ساتھ بھی چلا جاتا ہے.حضرت خلیفہ اول کے زمانہ میں بھی ایسے کئی واقعات ہوئے اور حضرت مولوی صاحب نے علی الاعلان ایسے لوگوں کا ذکر کیا.معلوم نہیں ایسے لوگ خلفاء کو بھی شاید نائی (حجام) ہی سمجھتے ہیں.اگلے زمانہ میں تو نائیوں کی بھی کوئی بات رد نہیں کرتا تھا مگر آج کل آزادی کا زمانہ ہے اب کچھ کچھ اس کے خلاف بھی کر لیتے ہیں.معلوم ہوتا ہے یہ لوگ بھی خلیفہ کو وہی پوزیشن دینا چاہتے ہیں کہ مرضی ہوئی تو مان لیا ورنہ خیر.معلوم نہیں ایسے لوگوں سے کہتا کون ہے کہ تم ضرور خلیفہ کی معرفت نکاح کرو.اگر وہ اپنی مرضی پر چلنا چاہتے ہیں تو پھر خود بخود جو جی چاہے کریں.یہ عذر بھی بیہودہ ہے کہ ہو سکتا ہے خلیفہ جہاں نکاح کرتا ہے اس کا نتیجہ اچھا نہ نکلے.ہم کہتے ہیں کہ سینکڑوں ایسی مثالیں موجود ہیں کہ ماں باپ نے بڑی تحقیقات کے بعد نکاح کیا اور جھگڑا ہو گیا یا انجام اچھا نہ ہوا.میاں بی بی میں ناموافقت ہو گئی یا اور کوئی بپتا پڑگئی.پس یہ عذر تو غیر معقول ہے اگر وہ صدق و سداد سے کام لیں تو انشاء اللہ ایسے نکاح بہت ہی بابرکت ہوں گے مگر لوگ نہیں سوچتے اور نافرمانی کرتے ہیں.میں دیکھتا ہوں کہ اب تیسرا شروع ہے اور اس میں بھی ایسے آدمی پائے جاتے ہیں پہلے کہتے ہیں کہ یہ ہماری بیٹی آپ ہی کی بیٹی ہے اس کا نکاح جہاں حضور چاہیں کر دیں.مگر جب کہا گیا کہ فلاں جگہ کر دو تو کسی اور کا نام لے کر کہتے ہیں کہ فلاں جگہ ہم نے سوچی ہے وہاں حضور کی اجازت سے کرتے ہیں.یہ صدق و سداد کی بات نہیں.موجودہ نکاح اس سے مستثنیٰ ہے یہ جمال الدین ہیں انہوں نے لکھا تھا آپ جہاں چاہیں کر دیں.میں نے ایک شخص کا نام لیا تو انہوں نے کہا مجھ سے کیا پوچھتے ہیں میں تو آپ ہی کے سپرد کر چکا.اسی طرح جب میں نے مہر پوچھا تو کہنے لگے کہ میں تو آپ ہی کے سپرد کر چکا ہوں.یہ اخلاص کا اچھا نمونہ ہے.میرا یہ منشاء نہیں کہ سب نکاح میرے ذمے ہی ڈال دیں مگر جو از خود مجھے کہتا ہے اور معاملہ کو میرے سپرد کرتا ہے تو پھر اسے یہ مد نظر رہنا چاہئے کہ اب جو کچھ کہا جائے اسے مان لے.دیکھو تمہاری بیعت کی شرائط میں سے یہ نہیں کہ
خطبات محمود جلد سوم لڑکیوں کی شادی میری معرفت کرایا کرو.جماعت تو بڑھتی جاتی ہے اور انشاء اللہ ساری دنیا میں پھیلے گی.اب اگر خلفاء کا یہ بھی فرض ہو کہ تمام شادیاں ان ہی کی معرفت ہوں تو یہ تو بڑا بوجھ ہے.پس اگر بغیر میری اطلاع کے کوئی شادی کرے تو اس سے ایمان میں نقص نہیں آجاتا لیکن اگر ایک شخص کہے کہ یہ معاملہ آپ کے سپرد ہے اور پھر جب کہا جائے کہ یوں کر دو اور پھر اس سے پہلو تہی کرے تو یہ نا پسندیدہ امر ہے.ایسی شادی میں عضو کر کے اگر ہم شامل بھی ہو جائیں تو با برکت کبھی نہیں ہوگی ضرور فساد ہی ہو گا.یہ مت سمجھو کہ فورا فساد ہو گیا.ممکن ہے میاں بیوی صلح سے گزاریں مگر اولاد گندی پیدا ہو.غرض نتیجہ کبھی نہ کبھی ضرور گندہ نکلے گا.اگر ان کی زندگیوں میں نہیں تو نسلوں میں، پوتوں میں، پڑپوتوں میں کہیں نہ کہیں یہ گند نکلے گا.جس کی بنیاد پیج کے طور پر ابھی پڑ چکی ہے اور جس نکاح کی بنیاد سداد پر ہوگی اس کا نتیجہ کبھی نہ کبھی اچھا ضرور نکلے گا.دیکھو بعض لوگ شریر اور بدکار ہیں مگر ان کی پشتوں سے نیک لوگ نکلتے ہیں جیسے ابو جہل اور اس کا بیٹا عکرمہ.باپ تو وہ کہ کوئی مسلمان پسند نہیں کرے گا کہ اپنا نام ابو جہل رکھے اور بیٹا وہ کہ بڑے بڑے اولیاء کو ایسا ہونے کی ہوس ہے.غرض نیک بیج نیک ثمرہ لائے گا اور بد پیج بدیاں پیدا کرنے گا میں نے اب عمد کیا ہے اور میں چاہتا ہوں کہ اس جھوٹ کو مٹایا جائے کیونکہ اگر ایمان کے تمام پہلو سرسبز نہ ہوں تو ایمان کامل کے بارے میں خطرہ ہے جو درخت آدھا سوکھا ہو گا باقی آدھا بھی سوکھ جانے کا خطرہ ہے.میں دیکھتا ہوں کہ جماعت میں ابھی بعض نقص ہیں وقت کی پابندی نہیں اوقات سے بہترین کام لینے کا مادہ کم ہے جرات نہیں.دو آدمیوں کو کسی تحقیقات کے لئے لگاؤ یوں تو بہت نیک ہیں متقی ہیں مخلص ہیں مگر ان کے فیصلہ کے بارے میں بعض اوقات مجھے شرح صدر نہیں ہوتا.دیکھو اب تو سلسلہ بڑھے گا.آپس کے جھگڑوں کے علاوہ ممکن ہے خلفاء کے ساتھ بھی معاملات دنیا میں کسی کا جھگڑا ہو تو جو شخص حج کے طور پر مقرر کیا جائے اسے چاہئے کہ حق حق فیصلہ کرے اور ہرگز خیال نہ کرے کہ ایک طرف خلیفہ ہے.دیکھو حج تو اس وقت خدا کا قائم مقام ہے.ایک نبی بھی بعض اوقات دنیاوی معاملہ میں کسی کو کہہ دیتا ہے کہ میرا اور اس کا اس معاملہ میں فیصلہ کرد.تو اب حج کے لئے ہرگز جائز نہیں کہ وہ یہ خیال کرے کہ نبی کو فائدہ والی بات پہنچے.جج صرف یہ مد نظر رکھے کہ حق کیا ہے پس وہ فیصلہ سنا دے.بعض دفعہ بعض لوگ منہ دیکھ کر ڈر جاتے ہیں.یوں بڑا تقویٰ رکھتے ہیں مگر ایمان کی کئی شاخیں ہیں.ایک نہ ایک
جلد موم خطبات محمود شاخ میں نقص ہوتا ہے.بعض لوگ کسی بڑے شخص کے مقابل ٹھیک ٹھیک گواہی دینے میں تامل کرتے ہیں اور بعض صحیح فیصلہ نہیں دیتے حالانکہ حج کو چاہئے کہ وہ شہادتوں کے مطابق فیصلہ کر دے.اس سے کچھ غرض نہیں کہ اس فیصلہ کا اثر کس پر پڑتا ہے کس پر نہیں پڑتا.میں کہتا ہوں کہ جب تک جماعت میں یہ رنگ نہیں آئے گا یہ مت سمجھو کہ وہ مضبوط چٹان پر آگئی.یہ بدی اگر باقی رہی تو ترقی کرتی کرتی اگلی نسلوں کو تباہ کر دے گی.پس ابھی سے اس کا فکر رم ہے.مثلاً خلیفہ ہے وہ تجارت کرتا ہے.ممکن ہے کہ لین دین میں جھگڑا ہو.اب جو جج مقرر ہوگا اسے چاہئے کہ شہادتوں کی بناء پر فیصلہ کر دے.بعض لوگوں کی یہ اخلاقی کمزوری ہے وہ سمجھتے ہیں کیا ہم خلیفہ کے خلاف فیصلہ کر کے اسے جھوٹا ٹھہرا ئیں حالانکہ یہ غلطی ہے.کیونکہ حساب کی غلطی اور بات ہے اور کسی امر کا فی الواقع ہونا کچھ اور بات ہے.مثلاً زید نے ایک شخص سے سو ۱۰۰ روپے لئے زید کہتا ہے کہ میں اسے سب ادا کر چکا ہوں.وہ شخص کہے کہ میں نے نوے لئے تو یہ بہر صورت جھوٹ نہیں بلکہ حساب کی غلطی بھی ہو سکتی ہے.اس قسم کی بہت سی باتیں ہیں جو اصلاح کے قابل ہیں.جب تک ایسی طاقت پیدا نہ ہو جائے کہ مومنین اپنے اوقات کو بہترین طور پر خرچ کریں اور صدق و سداد پر قائم ہو کر دلیری سے کام لیں بات نہیں نتی یاد رہے کہ بے ادبی اور دلیری میں فرق ہے.حق کا بیان اور گستاخی یہ بھی الگ الگ ہے بعض اوقات دلیری بے ادبی ہو جاتی ہے اور کمزوری بھی.مثلاً ایک شخص سے پوچھا جاتا ہے کہ اس معاملہ میں تمہاری کیا رائے ہے.اب وہ بولتا نہیں کہ یہ بے ادبی ہے.تو یہ نہ بولنا در حقیقت بے ادبی ہے ایک اور شخص ہے وہ بلا پوچھے رائے زنی کرنا اور بولنا شروع کر دے تو یہ دلیری بے ادبی ہے.غرض صداقت کا اظہار اور ادب ضدین نہیں.اسی طرح کمزوری اور ادب ایک چیز نہیں.وقت کو عمدگی سے خرچ کرو.عمدگی کے یہ معنے نہیں.کہ ایک انسان چوبیس گھنٹے لگا رہے بلکہ وہ وقت سے عمدہ طور پر کام لے اور تھوڑے وقت میں کوئی نتیجہ خیز کام کرے.جن لوگوں کو خدا کی طرف سے کوئی سرداری عطا ہوئی ہے ان کا ادب رکھے اور ضرور رکھے مگر موقعہ کا لحاظ رکھے جیسا کہ میں نے سمجھایا ہے.ایسی کئی ایک باتیں ہیں میرا منشاء ہے کہ ان میں اصلاح ہو.اللہ اگر چاہے تو میرے ہاتھ سے کر دے یا کسی اور سے.غرض جس سے وہ چاہے کرائے.میری خواہش ہے کہ اصلاح ہو جائے.اپنی عمر کے متعلق میں تو کچھ یقین
جلد سوم خطبات محمد نہیں رکھتا جب تک وہ خدمت دین مجھ سے لینی چاہے اس کی مرضی میں اس کے دین کی خدمت کے لئے کمربستہ ہوں.ورنہ اس وقت کے لئے تو میں ہر وقت حاضر ہوں اس وقت پر مجھے کوئی اعتراض نہیں.جب تک آنحضرت ﷺ کی اغراض و آرزوؤں کے لئے، مسیح.موعود کے لئے ، میرے لئے مفید ہے مجھ سے کچھ کام لے.یا اپنے پاس بلا لے.وہ جو کچھ کرے گا حکمت پر مبنی ہو گا.ہاں میں آئندہ کبھی پسند نہیں کروں گا کہ ہماری جماعت کے لوگ صدق و سداد پر کار بند نہ ہوں جو لوگ ایسا کریں گے میں انہیں سزا دوں گا.میرا تعلق ان سے کچھ نہیں رہے گا.یہ شادی ان شکایتوں سے مبرا ہے اور یہی وجہ ہے کہ باوجود بیماری اور حلق میں تکلیف ہونے کے اور سردرد کے اور بوجہ ایک زخم کے بیٹھ نہ سکنے کے میں نے خود یہ نکاح پڑھایا ہے کیونکہ میرا دل خوش تھا اور یہ رشتہ مجھے پسند تھا.ایک طرف نے تو کھلا کھلا سداد سے کام لیا دوسری طرف سے بھی میں اُنس رکھتا ہوں اس لئے اپنے نفس پر بوجھ ڈال کر تکلیف اٹھا کے میں اس میں شامل ہوا ہوں.ایک دوسرے نکاح کی بابت بھی مجھے کہا گیا ہے مگر چونکہ اس کی بناء سداد پر نہیں اس لئے میں اس نکاح میں شامل ہونا اور اس نکاح میں بیٹھنا پسند نہیں کرتا.کسی کو کہہ دوں کہ یہ نکاح پڑھا دے یہ بھی پسند نہیں کرتا.ہاں اس نکاح سے جو میں پڑھنا چاہتا ہوں اس میں میں شامل ہوں کیونکہ میری طبیعت خوش ہے دوسری طرف سے بھی خوش ہوں.لیکن چاہتا ہوں وہ قادیان میں آکر کام کریں، محنت اور ایمانداری، نیکی اور تقویٰ کے ساتھ کام کریں گے تو مجھے اور بھی محبوب ہو جائیں گے.اس وقت کام کرنے والوں کی ضرورت ہے مگر ایسے کام کرنے والوں کے لئے جو اللہ کے لئے اخلاص سے کام کریں.بی اے، ایم اے ہونا کوئی فخر کی بات نہیں.بہت سے بی اے، ایم اے، ایل ایل بی ہیں ساٹھ ستر روپے کی ملازمت نہیں ملتی.خود مجھے کئی بی اے، ایم اے، ایل ایل بی کے خطوط آتے ہیں جن میں وہ نہایت لجاجت سے لکھتے ہیں کہ ہمارے گزارہ کا بندوبست ہو جائے دعا کیجئے.دیکھو ایک ایم اے تھا اس نے ایک وقت نیک نیتی سے کام کیا مسیح کے دامن سے وابستہ ہونے میں نجات دیکھی خدا نے اسے یہ اجر دیا کہ دنیا بھر میں اسے مشہور کر دیا.ایک عظیم الشان اور آزاد قوم پر اسے حکومت وی حتی کہ ایک وقت اس نے اس قوم کے قائم مقاموں سے کہا میں جوتیوں سے تم سے چندہ وصول کروں گا.؟ اور سب نے خاموشی سے ثنا
خطبات محمود جلد سوم یہ گویا اس کا اثر تھا.گو میں نے جب ثنا تو یہ کہا یہ کلمہ ضائع نہ جائے گا ضرور سزا ملے گی.چنانچہ اس کے دل میں خیال پیدا ہوا کہ جو کچھ ہوں میں ہوں.خدا نے ایک پل میں ذلیل کر دیا.وہی لوگ جو اس کی بات سننے کے لئے ہمہ تن گوش ہوتے تھے پکار اٹھے ہم نہیں سنتے.ایسے لوگوں کو غلط فہمی ہوئی.خدا جماعت بنا رہا تھا اور انہیں عزت دینے کے لئے ان کے ذریعے سے کام کرا رہا تھا وہ سمجھے جو کام ہے وہ ہم ہی کر رہے ہیں اس لئے خدا نے ان سے وہ کام چھین لیا.ان کے تکبر اور رعونت کا یہ حال ہے کہ ایک نے ان میں سے کہا ہم تو جاتے ہیں مگر دس ۱۰ سال کے اندر اندر اس مدرسہ میں عیسائی ہی عیسائی ہوں گے.ایک نے کہا ہم جاتے ہیں مگر ناک رگڑ کر ہمیں بلوائیں گے ایک نے کہا میں نکلوں گا تو میرے ساتھ ایک جماعت نکلے گی.مگر خدا بڑا غیور ہے اس نے تھوڑے دنوں میں انہیں ان کی اصلی قیمت دکھا دی.دیکھو اس وقت جو دنیا کی نظروں میں پہلے کام کرتے نظر آتے تھے وہ سب ہی چلے گئے.محاسب کے دفتر میں شاید پانچ روپے چار آنے باقی تھے.تین مہینے کے اخراجات کے بل بھی واجب الادا تھے.اٹھارہ ۱۸,۰۰۰ ہزار کا قرضہ.پھر بھی اللہ کام چلاتا ہی رہا اور جماعت کو اللہ تعالی نے یہ ترقی دی کہ پہلے ہفتہ وار ایک آدھ نام نو مبالعین کا چھپتا اب ایک سہ روزہ اخبار سے سب کے نام چھاپنے مشکل نظر آ رہے ہیں.سنو! اب بھی وہ جھوٹا ہے جو کسے میں نے یہ کیا کسی نے نہیں کیا نہ میں نے کیا نہ تم نے کیا اللہ نے کیا اور وہی آئندہ کرے گا.آگے ”ہم نے کیا کہنے والوں کو تو خدا نے الگ کر دیا اب خدا کرے ایسے لوگ پیدا نہ ہوں مگر جماعتوں پر ایسے اوقات بھی آتے ہیں.خدا کرے آئیں تو بہت دیر سے آئیں.لیکن جب ایسا وقت آئے گا تو نرم گھوڑے ان کے نیچے ہوں گے اور وہ ان پر قابو نہ پاسکیں گے اور اب ان کے نیچے منہ زور گھوڑے ہیں مگر وہ اناڑیوں کے ہاتھ سے چلاتا ہے.جب تک خدا چاہے گا اس باگ کو پاک ہاتھوں میں رکھے گا اور اس وقت کوئی بالکل اناڑی بھی ہو گا تو اس کے ہاتھوں سے کام چلتا رہے گا لیکن جب یہ سوال ہو گا کہ ہم کرتے ہیں اور ہم اس قابل ہیں ہم اہل الرائے ہیں تو اس وقت خدا چھوڑ دے گا یہ بد قسمتی کا وقت ہو گا.دیکھو انسان جب تک بچہ ہوتا ہے اللہ تعالی خود اس کے لئے غذا بہم پہنچاتا ہے.وہ بے حس و حرکت ہوتا ہے تو اس کے اٹھانے والا مہیا کرتا ہے لیکن جب بچہ کہتا ہے میں خود چلوں گا تو ٹھوکریں کھاتا ہے.پس یاد رکھو کہ جس قدر بھی ترقی ہوئی.جتنی بھی کامیابی ہوئی یہ سب کام خدا نے کیا خدا کرے گا خدا ہی کرتا ہے جو کچھ کرتا ہے.جھوٹا ہے وہ جو کہتا ہے میں
خطبات محمود ر سوم کرتا ہوں.ایک انسان کا ہدایت یاب ہونا مشکل ہے اور یہاں تو اپنے فضل محض اپنے فضل سے جماعتوں کی جماعتیں لا رہا ہے.پس اس صورت سے کام کرو کہ گویا تم خدا کے ہاتھ میں آلے ہو.اگر کام میں کوئی نقص آیا تو سمجھو کہ یہ خدا کے کام پر نقص عائد ہو گا.پس خوب محنت سے کام کرو.صدق و مداد پر عمل پیرا ر ہو.جو فلاح پانا چاہتے ہیں انہیں چاہیے کہ وہ اللہ کے لئے ہو جا ئیں اللہ تعالی خود انہیں سب کچھ دے گا.وہ پہلے دیکھنا چاہتا ہے که انسان میرا مقابلہ تو نہیں کرتا.جب تک کوئی دکھ برداشت نہ کرو گے سکھ کو نہ پاسکو گے پس جو آسودگی چاہتے ہیں وہ خدا کے لئے تنگی برداشت کرنے کے واسطے تیار ہو جائیں جو اپنے آپ کو پہلے اللہ تعالٰی کے سپرد کر دیتے ہیں وہ کبھی ضائع نہیں ہوتے.اللہ تعالٰی ہماری جماعت کو صدق و سداد عطا فرمائے ان کے نفسوں کی اصلاح کرے ان کی کمزوریوں کو دور کر دے، ان کے اندر اخلاص، تقوی، پرہیز گاری پیدا کرے.ان کو ایسا کر دے کہ اس کے ارادہ کے خلاف کچھ نہ کریں.وہ ایسے ہو جائیں جیسے بچہ ماں پر اپنا سب بھروسہ رکھتا ہے.ان کی غلطیاں جو ہیں معاف کردے، کاموں میں برکت دے، ہاتھوں میں برکت دے، خیالوں میں برکت دے، نیک خواہشوں میں برکت دے.اپنے حق میں بہتر بات ہم نہیں سمجھتے کونسی ہے وہ آپ ہی جو بہتر ہے وہ کرے.تکبر، خودی، اباء، خود پسندی، ان میں نہ رہے ہر طرح پر ان کی اصلاح ہو جائے.اللہ تعالی اس رشتہ میں برکت دے.آمین.له الاحزاب : اے (الفضل ۳۰ مارچ و یکم اپریل ۱۹۱۵ء صفحه ۱۱ تا ۱۴) ه ترندی ابواب الامثال: اجاء مثل ابن ادم و اجله و اجله که تاریخ احمدیت جلد ۳ صفحه ۲۰.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس جنس کا نام "کتاب البنين والبنات" رکھا تھا.سے مولوی محمد علی صاحب کی طرف اشارہ ہے.
۱۲ جلد سوم تعدد ازدواج مستحسن امر ہے ا فرموده ۲۷- جون ۱۹۱۵ء) فشی فرزند علی صاحب فیروز پور کا دوسرا نکاح بھائی شیخ عبد الرحیم صاحب کی لڑکی سے ایک ہزار روپیہ صر پر پڑھا.خطبہ مسنونہ کی تلاوت کے بعد فرمایا : ہماری جماعت کے لوگوں کو چاہئے کہ عام مسلمانوں نے جو اپنے طرز عمل سے کثرت ازدواج کو بد نام کر رکھا ہے وہ بر خلاف اس کے اپنے عدل و حسن سلوک سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کریں کہ دو بیویاں کرنا بالکل ممکن العمل اور مستحسن امر ہے.جن مسلمانوں کی بدسلوکی نے عورتوں کو اس مفید و واجبی اجازت سے بدظن کر رکھا ہے حتی کہ مردوں کی ایسی ہی کمزوریاں اور نا انصافیاں بعض جاہل و بے دین عورتوں کے ارتداد تک کا موجب بن جاتی ہیں انہیں خدا کے حضور جوابدہ ہونا پڑے گا کہ ان کی غلط کاری سے دین حق کو ضعف پہنچا اور اس کے پاک نام پر حرف آیا.الفضل ۲۹ - جون ما و یکم جولائی ص ۱۹۱۵ء)
خطبات محمود چہار سوم اہلی زندگی کو تلخ بنانے والے امور کا بہترین علاج (فرموده یکم مارچ ۱۹۱۷ء) یکم مارچ ۱۹۱۷ء کو قاضی عبد اللطیف فارغ التحصیل طالب علم مبلغین کالج کا نکاح قاضی حبیب اللہ لاہوری کی بیٹی ام کلثوم سے پانچ سو روپیہ مہر پر پڑھایا.خطبہ مسنونہ کی تلاوت کے بعد فرمایا انسان کی ترقی اور اس کا اپنے مقاصد میں کامیاب ہو جانا بہت کچھ ایک دوسرے کی مدد اور تائید پر منحصر ہے.اگر دنیا میں انسان ایک دوسرے کے مددگار اور معاون نہ ہوں تو ضروری ہے کہ بہت سی کامیابیاں حاصل کرنے سے محروم رہ جائیں اور جس طرح حیوانات کی زندگی ہوتی ہے اسی طرح انسانی زندگی بھی ہو جائے.جتنے بڑے کاموں کی طرف انسان متوجہ ہوتا ہے اتنے ہی بڑے مصائب اور مشکلات اسے پیش آتی ہیں.اس میں کیا شک ہے کہ جو شخص سہ منزلہ مکان پر چڑھے گاوہ زیادہ تھکے گا اور جو سطح زمین پر کی منزل پر رہے گاوہ نہیں تھکے گا قطب صاحب کی لاٹھ پر چڑھنے والوں کو دیکھا ہے کہ اچھے مضبوط اور طاقتور ہوتے ہیں مگر ہانپ جاتے ہیں.تو جتنا کوئی بلند مقام پر چڑھے گا اتنا ہی بلند حوصلہ اور بلند ہمت اور پوری کوشش سے محنت کرنے کی ضرورت ہوتی ہے.چونکہ انسان اور حیوان کی زندگی کا مقصد ایک نہیں ہو سکتا اس لئے ان کی کوششوں اور محنتوں میں بھی فرق ہے.انسان کو اللہ تعالٰی نے بہت سی مخلوق پر فضیلت دی ہے اور اس کے لئے ترقی کے راستوں
خطبات محمود جلد سوم کو بہت وسیع کر دیا ہے اور بڑے بڑے مدراج بنا دیتے ہیں حتی کہ اللہ کا محبوب بلکہ اس سے بھی بڑھ کر اور درجہ دے دیا ہے.آنحضرت ﷺ کی نسبت خدا تعالیٰ فرماتا ہے قُلْ إِن كُنتُم تُحِبُّونَ اللهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللهُ لے لوگوں سے کہہ دو کہ اگر تم اللہ سے محبت کرنی ر چاہتے ہو تو میری اتباع کرو.اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ اللہ تم سے محبت کرنے لگ جائے گا.تو ایک انسان کا درجہ اتنا بلند ہے کہ نہ صرف وہ خدا کا محبوب ہے بلکہ جو اس کا غلام ہو وہ بھی اس کا محبوب بن جاتا ہے.پس اس بلندی کے حاصل کرنے کے لئے بڑی محنت اور کوشش اور بہت سی قربانیوں، بڑے خطرات و تفکرات سے سامنا کرنا پڑتا ہے.جس طرح بڑی جنگ کے وقت ایک جرنیل کو بہت ہوشیار رہنا پڑتا ہے اسی طرح انسانی زندگی کے رستہ میں جو جنگ کرنی پڑتی ہے اس کے لئے بھی بہت ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے.اگر کوئی اس میں ہوشیار نہ رہے تو قدم قدم پر ایسی ٹھو کر لگتی ہے کہ چکنا چور کر دیتی ہے.پھر جہاں خطرہ، خوف، مصائب اور تکالیف زیادہ ہوں وہاں تعاون، مدد اور نصرت کی بھی کی بڑی ضرورت ہوتی ہے کیونکہ اگر ایسا نہ ہو تو اکثر موقع پر قدم لڑکھڑا جاتے ہیں اس لئے ضروری ہے کہ ہر ایک انسان کے لئے کوئی نہ کوئی مددگار بھی ہو اور مددگار بھی ایسا جس پر پورا بھروسہ اور اطمینان رکھا جاسکے.لیکن اس میں مشکل یہ ہے کہ ہر ایک انسان سمجھ نہیں سکتا کہ میرے وہ کون سے دوست اور عزیز ایسے ہیں جن پر میں اس بات کا بھروسہ رکھ سکوں کہ مشکلات کے وقت میری مدد کریں گے کیونکہ سوائے اخلاص کے مدد ہو ہی نہیں سکتی.بہت لوگ ہیں جو اپنے لئے دوستوں کو چاہتے ہیں مگر وہ ان کے دشمن نکل آتے ہیں.بہت لوگ ہیں جو بعض کو اپنا دوست سمجھتے ہیں اور وہ بظاہر دوست ہی معلوم ہوتے ہیں مگر دراصل وہ دشمن ہوتے ہیں یا اگر وہ اپنی طرف سے دشمنی نہ بھی کریں لیکن وہ ایسے رنگ میں مدد دیتے ہیں کہ ان کی دوستی دشمنی ثابت ہو جاتی ہے.کبھی تو ایسا ہوتا ہے کہ جس کو دوست سمجھا جاتا ہے وہ دوست ہوتا ہی نہیں دشمن ہوتا ہے یا پہلے تو دوست ہی ہوتا ہے مگر مصیبت کے وقت الگ ہو جاتا ہے اس کے لئے میں اپنے آپ کو کیوں مصیبت میں ڈالوں یا مصیبت کے وقت بھی دوست ہی ہوتا ہے اور مدد بھی کرتا ہے مگر اس کی مدد بجائے اس کے کہ کوئی فائدہ پہنچائے الٹا مصیبت کے بڑھانے کا کام کرتی ہے اس لئے کسی دوست اور مددگار کا انتخاب کرنا بہت مشکل
خطبات محمود ۱۵ جلد سوم بات ہے لیکن وہ مشکلات جو انسانی زندگی کے رستہ میں حائل ہیں ان پر غالب آنا اور انہیں ہٹا دینا اس وقت تک ناممکن ہے جب تک کہ کسی دوسرے کی نصرت اور مدد شامل نہ ہو اس لئے کسی کو مددگار بنانا بھی ضروری ہے ورنہ انسان ہلاکت سے نہیں بچ سکتا.چونکہ خدا تعالی ہی ایک ایسی ہستی ہے جو غیب کی باتوں کو جاننے والی ہے اور انسان کے متعلق ہر ایک بات کو جانتی ہے اس لئے اس کا حق اور اسی سے ممکن ہے کہ وہ انسان کو اس ہلاکت سے بچانے کی کوئی تدبیر بتائے.اسلام میں جو نکاح کا مسئلہ رکھا گیا ہے یہ بھی ان تدابیر میں سے ایک تدبیر ہے جو ہلاکت اور تباہی سے بچاتی ہے اور انسان کو سچا دوست اور مخلص مددگار مہیا کر دیتی ہے.چنانچہ قرآن شریف میں بیوی کے متعلق آتا ہے کہ لِتَسْكُنُوا را لَيْهَا.ہے یعنی انسان کو جو مصائب اور تکالیف آتی ہیں اور جن کی وجہ سے قریب ہوتا ہے کہ وہ ہمت ہار دے اس وقت بیوی اس کی مددگار اور آرام کا باعث ہوتی ہے اور اس کی ہمت بڑھانے والی ہوتی ہے.اسی حکمت کے ماتحت خدا تعالیٰ نے نکاح کو رکھا ہے اور اس کے لئے ایسی خواہشیں اور جذبات اور طاقتیں انسان کے اندر رکھ دی گئی ہیں کہ یہ مجبور ہے کہ کوئی ایسا ساتھی پیدا ہو.وہ تو الگ رہے جنہوں نے اپنی زندگیاں خدا تعالی کے لئے صرف کر دیں اور جن کا کھانا پینا، سونا جاگنا، چلنا پھرنا، نکاح کرنا سب کچھ خدا کے لئے تھا دوسرے لوگ بھی اس بات کے لئے مجبور ہیں کہ نکاح کریں یعنی انہیں بہیمی جذبات مجبور کرتے ہیں گویا اس رنگ میں خدا تعالیٰ نے انسان کو نکاح کرنے کے لئے مجبور کر دیا.ممکن تھا کہ اگر یہ جذبات اسی رنگ میں خدا نے پیدا نہ کئے ہوتے تو بہت سے لوگ کہتے کہ اس بات کی کیا ضرورت ہے کہ ہم دنیا کی دوڑ میں ایک اور کو ساتھ ملا کر اپنی رفتار کوشت کریں لیکن خدا نے مجبور کر دیا ہے اس لئے اب کوئی نادان ہی ہے جو ایسا کہے.اسلام میں خدا تعالیٰ نے شادی کے متعلق ایسے قواعد بتا دیئے ہیں کہ ان پر کار بند ہونے سے انسان کو سچا دوست اور مخلص مدد گار مل جاتا ہے.اس میں شک نہیں کہ ایسی عورتیں بھی ہوتی ہیں جو مرد کی سخت دشمن ہوتی ہیں اور انہیں تباہ کر دیتی ہیں مگر اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ بہت سی عورتیں خاوندوں کی اور مرد عورتوں کے بچے مددگار ہوتے ہیں.گو بعض غلطیوں اور بد عہدیوں کی وجہ سے ایسا ہوتا ہے کہ خاوند بیوی سے اور بیوی خاوند سے بدظن ہو جاتی ہے لیکن یہ بیرونی عوارض اور اسباب ہیں ورنہ میاں بیوی کا تعلق ایسا ہے کہ نوے فیصد مرد
خطبات محمود 14 جلد سوم د عورت کے تعلقات اچھے ہوتے ہیں.اور اس اچھا ہونے کی ایک وجہ ہے اور وہ یہ (میں چونکہ اسلامی نکاح کے متعلق گفتگو کر رہا ہوں اس لئے اسلام نے جو اس کی وجہ بتائی ہے وہی بیان کروں گا کہ اسلام نے مرد کے فوائد کو عورت کے فوائد سے اور عورت کے فوائد کو مرد کے فوائد سے ایسا متحد کر دیا ہے کہ ان میں سوائے دوستی اور محبت کے اور کچھ نہیں ہو سکتا ؟ کیونکہ دوستی اور محبت اور پیار کا اصل فوائد کا متحد ہونا ہے جس قدر بھی تعلقات اور دوستیاں ہیں ان سب کی اصلیت یہی ہے.رومی " لکھتے ہیں کہ میں نے ایک جگہ ایک کوا اور ایک کبوتر بیٹھے دیکھے.میں نے خیال کیا کہ یہ کیوں اکٹھے بیٹھے ہیں.ان میں اتحاد کی کیا وجہ ہے.اس بات کو معلوم کرنے کے لئے میں وہاں بیٹھ گیا.کچھ دیر کے بعد جو دونوں چلے تو معلوم ہوا کہ دونوں لنگڑے ہیں کہ گویا ان کے اشتراک کی وجہ لنگڑا ہونا تھی.تو جتنا جتنا اشتراک کسی میں ہوتا ہے اتنا ہی اُن کا آپس میں تعلق مضبوط ہوتا ہے کیونکہ فوائد کے اشتراک پر اتحاد کی بنیاد ہوتی ہے.خدا تعالیٰ نے مرد اور عورت کے تعلقات کو بہتر بنانے کے لئے یہ تجویز فرمائی ہے کہ ان کے فوائد کو متحد کر دیا ہے اس لئے یہ ایسا جوڑ اور ایسی شرائط کے ماتحت ہے کہ اس کو کوئی جدا نہیں کر سکتا خدا تعالیٰ نے مرد کو عورت کا ذمہ دار بنایا ہے اور عورت کو مرد کا ذمہ دار اور دونوں کو ایک دوسرے کی عزت، مرتبہ ، مال، دولت، آرام و آسائش میں شریک بنایا ہے اس لئے جس قدر مرد کا رتبہ اور عزت وغیرہ بڑھتی جائے گی اسی قدر عورت کی بڑھے گی اور جس قدر عورت کی بڑھے گی اس قدر مرد کی بڑھے گی.ایک کی ترقی دوسرے کی ترقی ہے اور ایک کا تنزل دوسرے کا تنزل.ایک کا نقصان دوسرے کا نقصان ہے اور دوسرے کا نقصان ایک کا.مثلاً مرد کے بیمار ہونے سے جو نقصان ہو گا وہ نہ صرف اسی کا ہو گا بلکہ اس کی عورت کا بھی ہو گا.اسی طرح اگر عورت کسی تکلیف میں مبتلاء ہوگی تو اس تکلیف کا اثر مرد تک بھی پہنچے گا.کیونکہ عورت مرد کا ایسا تعلق اور اتحاد ہے کہ دونوں کے فوائد اور نقصان ایک ہو گئے ہیں اور یہ ایک زبر دست اتحاد ہے جس کو کوئی توڑ نہیں سکتا سوائے بیرونی بواعث اور خارجی اثرات کے.اصل میں خدا تعالیٰ نے مرد و عورت کے فوائد کا ایسا اشتراک رکھا ہے کہ وہ ایک دوسرے سے بچی محبت کرنے کے لئے مجبور ہو جاتے ہیں ہاں کچھ بیرونی روکیں رہ جاتی ہیں لیکن ان کے دور کرنے کے لئے بھی خدا تعالیٰ نے تدابیر بتادی ہیں.یہ آیات جو نکاح کے موقع پر پڑھنی آنحضرت ا نے مقرر فرمائی ہیں ان میں ان تدابیر کا ذکر ہے.
خطبات محمود جلد سوم ہندوستان میں جو نکاح ہوتے ہیں ان میں ایک بہت بری بات یہ ہوتی ہے کہ جھوٹا مہر مقرر کرتے ہیں.پانچ دس روپیہ کی تو آمدنی نہیں ہوتی مگر مرپندرہ لاکھ اشرفی، دس ہاتھی، پانچ گاؤں وغیرہ وغیرہ باندھتے ہیں پھر لڑکے والوں کی طرف سے لڑکی والوں کی نکاح سے پہلے بڑی منت خوشامد کی جاتی ہے اور اپنے آپ کو ان کا غلام قرار دیتے ہیں.چنانچہ لڑکی والوں کو یہ کہا جاتا ہے کہ ہمارے لڑکے کو اپنی غلامی میں لے لو یا یہ کہ لڑکا کہتا ہے مجھے اپنی غلامی میں لے لو.لیکن جب شادی ہو جاتی ہے تو اسی کو گالی کے طور پر سرا کہتے ہیں.گویا جس وقت شادی نہیں ہوئی تھی اس وقت تو غلام تھا مگر جب شادی ہو گئی تو سرا گالی بن گئی.پہلے آتا تھا مگر جب لڑکی بیاہ دی تو بد ترین شخص ہو گیا.ایسا کیوں ہوتا ہے اس لئے کہ جھوٹ بولتے ہیں.پھر لڑکی والے کہتے ہیں کہ ہماری لڑکی چاند کی طرح ہے.چاند میں داغ ہو تو ہو مگر ہماری لڑکی میں نہیں ہے علم و عقل میں یکتائے روزگار ہے.غرضیکہ بہت کچھ جھوٹ بولتے ہیں لیکن جب شادی ہو جاتی ہے تو لڑکی میں یہ باتیں نہیں ہوتیں.خاوند دیکھتا ہے کہ نہ چاند ہے نہ سورج تو اس کا دل خراب ہو جاتا ہے.کیونکہ جو نقشہ اس نے اپنے دل میں جمایا ہوتا ہے وہ نہیں ہوتا.یہ ایک درست بات ہے کہ دل میں کسی چیز کا جو نقشہ قائم کر لیا جائے اگر وہ پورا نہ نکلے تو خواہ وہ چیز اچھی ہو تو بھی بری معلوم ہوتی ہے.بعض لوگ قادیان کے رہنے والوں کی نسبت عجیب عجیب خیالات اپنے دل میں رکھتے ہیں وہ سمجھتے ہیں کہ وہاں کے سب لوگ فرشتوں کی طرح ہوں گے دنیا کا کام نہیں کرتے ہوں گے ہر وقت عبادت میں لگے رہتے ہوں گے لیکن ایسے لوگ جب خود یہاں آتے ہیں اور اپنے خیال کے مطابق لوگوں کو نہیں پاتے تو بہت کبیدہ خاطر ہو کر جاتے ہیں.ایک دفعہ ایک شخص یہاں آیا حضرت مسیح موعود مغرب کی نماز پڑھ کر مسجد میں ہی بیٹھا کرتے تھے اس لئے لوگ آپ کے قریب بیٹھنے کے شوق میں پروانہ وار آگے بڑھتے اور ہجوم کر لیتے.اس طرح کرنے سے اس شخص کو کسی کی کہنی لگ گئی تو بڑا ناراض ہوا اور کہنے لگا کیا اسی قسم کے احمد کی ہوتے ہیں ناراض ہو کر چلا گیا.چونکہ اس نے اپنے ذہن میں کوئی عجیب قسم کا نقشہ جمایا ہوا ہو گا اس لئے اسے اس معمولی سی بات سے ابتلاء آگیا.آنحضرت ﷺ کی نسبت قرآن کریم میں خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ یہ تو کھاتا پیتا اور بازاروں میں ہماری طرح چلتا پھرتا ہے کیا یہ رسول ہو سکتا ہے.انہوں نے رسول کی نسبت یہ خیال کیا ہوا تھا کہ وہ انسانوں کی طرح کھاتا پیتا اور چلتا پھرتا نہیں ہو گا اس لئے انہیں آنحضرت ا کے
خطبات محمود جلد موم پہچاننے کی توفیق نہ ملی.تو جو نقشہ کھینچا جائے وہ اگر پورا نہ ہو تو اصل چیز کی جو قدر ہوتی ہے وہ بھی نہیں رہتی.وہ لوگ جنہوں نے آنحضرت اللہ کا غلط نقشہ اپنے دلوں میں نہیں جمایا ہوا تھا انہوں نے جب آپ کو دیکھا تو ان کی آنکھیں کھل گئیں اور بے اختیار سبحان اللہ پکار اٹھے مگر نقشہ بنانے والے محروم ہی رہے.تو کسی چیز کا غلط نقشہ سمجھ لینا بڑی خرابی پیدا کرتا ہے مرد و عورت کے تعلقات میں جو بیرونی اسباب اختلاف پیدا ہو جاتے ہیں ان میں سے ایک جھوٹ بھی ہے.اس کے متعلق خدا تعالٰی فرماتا ہے قُولُوا قَولاً سَدِيدًا.سہ پکی اور سچی بات کہنی چاہئے.کبھی کوئی بات ایسی نہ کہو جو فساد کا موجب ہو.اگر اس بات کو مد نظر رکھا جائے تو شادی بیاہ کے متعلق نصف لڑائیاں اس سے رک جائیں.اس کے علاوہ بہت سے فساد اس رنگ میں ہوتے ہیں کہ بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ دوسرے چھوٹے درجہ کے ہیں اور ہم بڑے درجہ کے.پہلے تو تعلق پیدا کر لیتے ہیں لیکن بعد میں انہیں اپنے خاندان یا امارت کا خیال آتا ہے اور اس طرح لڑائی جھگڑے شروع ہوتے ہیں.اس کے متعلق خدا تعالیٰ فرماتا ہے.يَايُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّكُمُ الَّذِى خَلَقَكُمْ مِنْ نَفْسٍ وَاحِدَةِ وَخَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا وَبَثَّ مِنْهُمَا رِجَالًا كَثِيراً وَنِسَاء - شے اے لوگو! اللہ کا تقویٰ اختیار کرو.تم سب کو ہم نے ایک جان سے پیدا کیا ہے پس اگر کسی کو کسی وجہ سے بڑائی حاصل ہو گئی ہے تو وہ عارضی ہے اصل میں تم سب ایک ہی ہو.اس بات کو سمجھنے کے بعد ہر ایک کو معلوم ہو سکتا ہے کہ اگر میاں کسی خاندانی یا دنیوی لحاظ سے بیوی سے بڑا ہے تو عارضی بڑائی رکھتا ہے.اسی طرح اگر بیوی کسی لحاظ سے افضل ہے تو وہ بھی عارضی ہے.اصل میں دونوں ایک ہی طرح کے ہیں.دوسرے میاں جس قدر بڑا اور اعلیٰ درجہ رکھتا ہے بیوی کا بھی اتنا ہی مرتبہ بڑھتا ہے.اور بیوی جو صفت رکھتی ہے خاوند کو اس سے فائدہ ہے اس لئے خاوند کی بڑائی بیوی کی بڑائی ہے اور بیوی کی بڑائی خاوند کی.یہ بات سمجھنے سے بہت سی خرابیوں کا انسداد ہو جاتا ہے.پھر ایک بات یہ ہوتی ہے کہ جلد بازی سے رشتہ کر لیا جاتا ہے جس میں کئی قسم کے نقص نکل آتے ہیں اس کے متعلق خدا تعالیٰ نے فرمایا ولتنظرُ نَفْسَ مَا قَدَّمَتْ لِغَدِ.له که سوچ - سمجھ کر کیا کرو.اس کے بعد فرمایا کہ اگر باوجود تمہارے ان سب باتوں کی احتیاط کرنے کے کوئی نقص اور عجیب رہ جائے تو اللہ کا تقوی اختیار کرو وہ تمہارے اعمال کو جانتا ہے اگر ان میں کوئی
خطبات محمود ۱۹ جلد سوم نقص ہوا تو وہ دور کر دے گا.یہ باتیں خدا تعالیٰ نے ایسی بتائی ہیں کہ ان پر عمل کرنے سے کسی گھر میں نا اتفاقی اور رنجش نہیں پیدا ہو سکتی.چونکہ نکاح کا اصل مدعا اور غرض اتحاد پیدا کرنا اور ایک دوسرے کی ترقی کے لئے مددگار پیدا کرنا ہے اس لئے خدا تعالیٰ نے مرد کو عورت کا اور عورت کو مرد کا مددگار بنا دیا.اور اس طرح انسان کی روحانی اور جسمانی ترقیات کے اسباب مہیا کر دیئے.ہو میں نے پہلے بتایا ہے کہ کوئی ترقی نہیں حاصل ہو سکتی مگر محنت سے اور کوئی محنت نہیں دسکتی مگر قربانیاں کرنے سے اور کوئی مددگار نہیں ہو سکتا مگر سچا دوست اور کوئی سچا دوست نہیں ہو سکتا مگر اشتراک فوائد سے.اس اشتراک کے لئے خدا تعالیٰ نے مردو عورت میں جذبات رکھ دیئے اور انہیں مجبور کر دیا کہ مرد کے لئے بیوی اور بیوی کے لئے مرد ہو.تو خدا تعالٰی نے انسانی ترقی کا یہ ایک نہایت اعلیٰ قانون بنایا ہے لیکن بہت کم لوگ ہیں جو اس کو مد نظر رکھتے ہیں.غیر احمدیوں میں اس طرح ہوتا ہے کہ مولوی یا ملا آیات کو پڑھ دیتا ہے اور عورت مرد کی زبان سے کچھ کلمات کہلا لیتا ہے لیکن خود بھی نہیں سمجھتا کہ میں کیا کہلا رہا ہوں.الحمد للہ کہ احمدی جماعت میں یہ بات نہیں.پس احمدی جماعت کو ان خطبات سے فائدہ اٹھانا اور نکاح کے اصل مقصد کو زیر نظر رکھتے ہوئے کام کرنا چاہئے کیونکہ جب غرض فوت ہو جائے تو وہ کام بجائے ثواب کے موجب عقاب بن جائے گا.اللہ تعالٰی ہماری جماعت کو ایسا بننے کی توفیق عطا فرمائے کہ اس کا ہر فعل کتاب وسنت کے مطابق ان فوائد کو حاصل کرنے والا ہو جن کے لئے وہ امر دیا گیا.الفضل ہے.مارچ ۱۹۱۶ء صفحہ ۳ تا ۵) ه آل عمران : له الروم : ۲۲ ۳۲: سے حکایات رومی صفحه ۸۰ ه الاحزاب : اے هه النساء : ٢ له الحشر : ۱۹
خطبات محمود جلد سوم سنت نبوی کے مطابق نکاح کئے جائیں (فرموده ۱۳- مئی ۱۹۱۶ء) ۱.مئی ۱۹۱۶ء بعد نماز مغرب حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے مولوی غلام محمد صاحب شاگرد خاص حضرت حکیم الامت خلیفہ اول کا نکاح میمونہ بنت منشی حبیب احمد صاحب ساکن دور ہری ضلع سہارنپور سے پچاس روپیہ مر پر پڑھا.خطبہ منسونہ کی تلاوت کے بعد فرمایا :- نکاح آرام راحت، سکینت اور تقوی اللہ کے حصول کے لئے کیا جاتا ہے مگر آج کل مسلمانوں نے رسومات اور بدعات سے اسے دکھ کا موجب بنالیا ہے.بڑے بڑے امراء ۳۲ روپے مہر مقرر کرتے ہیں اور اس کا نام مر شرعی رکھتے ہیں.حالانکہ یہ ان کے لئے غیر شرعی ہے اور غرباء کئی کئی ہزار مہر مقرر کرتے ہیں حالانکہ یہ ان کے لئے گناہ ہے.قادیان میں تو مسیح موعود کے انفاس قدسیہ کے طفیل بہت فضل ہے اور بیرون جات کے احمدی بھی ایک حد تک محفوظ ہیں مگر میں چاہتا ہوں کہ احباب جماعت احمدیہ اور ہمت کریں اور اپنے نکاحوں کو رسوم و بدعات سے الگ کر کے بالکل سنت نبوی کے مطابق کریں تاکہ نکاح کی حقیقی غرض قائم ہو".الفضل -۱۶ مئی ۱۹۱۶ء صفحہ ۱)
خطبات محمود ۲۱ جلد سوم مرد و عورت ایک دوسرے کے لئے نعمت خداوندی ہیں (فرموده ✓(41914 حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے خطبہ منسونہ کی تلاوت کے بعد سربلند خاں صاحب پٹواری شجاع آباد ضلع ملتان کا نکاح میاں گوہر علی صاحب کی لڑکی سردار بیگم سے ایک سو پچیس ۱۲۵ روپے سر پر پڑھتے ہوئے خطبہ میں مرد کے لئے عورت اور عورت کے لئے مرد ایک بڑی نعمت جتاتے ہوئے اس نعمت کے پیدا کرنے والے خدا تعالیٰ کا شکر گزار اور اطاعت شعار بننے کی تاکید فرمائی.نے تاریخ کا تعین نہیں ہو سکا.(الفضل ۹ - ستمبر ۱۹۱۷ء صفحہ ۱)
خطبات محمود ۲۲ L جلد سوفت نکاح میں کیا امور مد نظر رکھے جائیں (فرموده ۸ - اگست ۱۹۱۷ء) اگست ۱۹۱۷ء حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے ماسٹر شیر عالم صاحب ٹیچر مڈل سکول کنجاہ ساکن گولیکے کا نکاح حمیدہ بیگم ہمشیرہ بابو محمد حسین صاحب اسٹنٹ سٹیشن ماسٹر ساکن کالا خطائی سے پانچ سو رو پیر مہر پر پڑھا.خطبہ مسنونہ کی تلاوت کے بعد فرمایا :- نکاح ایک ایسی لازمی اور ضروری چیز ہے کہ وحشی سے وحشی اقوام بھی ایسی نہیں ہیں جن میں نکاح نہیں.یہ ان سب سے ضروری تقاضوں میں سے ہے جن کے لئے کسی علم کی ضرورت نہیں کیونکہ یہ انسان کی فطرت میں رکھے گئے ہیں ان تقاضوں کے لئے کسی حکم کی ضرورت نہیں.لیکن اگر کوئی حکم دیتا ہے سوائے ایسے اشخاص کے جو کسی وجہ سے ان کو پورا نہ کرتے ہوں یا نہ کرنا چاہتے ہوں تو وہ پاگل ہے مثلاً کوئی شخص کھانا کھاتا ہو اور دوسرا اسے حکم دے کہ تم کھانا کھاؤ تو وہ فورا کہے گا کہ تم پاگل ہو دیکھ نہیں رہے کہ میں کھانا کھا تو رہا ہوں.اسی طرح نکاح بھی ایک ایسا تقاضا ہے جو ہر انسان کے دل میں موجود ہے سوائے ایسے اشخاص کے جو مایوس ہو گئے ہوں یا ایسا ہو کہ وہ اس بات پر مجبور ہو گئے ہوں کہ نکاح نہ کریں ایسے شخصوں کو متوجہ کرنا ضروری ہو گا.لیکن اگر ایسے خیالات کا کوئی شخص نہیں ہے تو پھر اس کو نکاح کے لئے کہنا ایسا ہی ہے جیسا کھانا کھانے والے کو کہنا کہ تم کھانا کھاؤ کیونکہ یہ ایسا تقاضا ہے جو خود بخود وش کر کے اٹھتا ہے.
خطبات محمود ۲۳ پس نکاح کرنے کے لئے حکم دیتا سوائے ایسے شخصوں کے جو کرنا نہ چاہتے ہوں یا کرنا تو چاہتے ہوں مگر کچھ رکاوٹوں کے باعث نہ کر سکتے ہوں یا کسی بیماری کی وجہ سے یا کسی دکھ کی وجہ سے نہ کرتے ہوں ایسوں کو چھوڑ کر باقیوں کو کہنا ایک لغو فعل ہے.ہاں اگر ضرورت ہے تو اس امر کے بتانے کی کہ نکاح جو کریں تو کیوں کریں اور کس طرح کریں اور اس کے سوا محض نکاح کرنے کے لئے کسی کو کہنے کی ضرورت نہیں جیسا کہ ضرورت نہیں کہ کسی کو حکم دیں کہ روٹی کھاؤ بلکہ ضرورت اس بات کی ہے کہ بتایا جائے کہ کیوں کھائیں اور کس طرح کھائیں.بہت ہیں جو نہیں جانتے کہ کھانا کیوں کھائیں اور نہیں جانتے کہ کس طرح کھائیں وہ کھانے کے متعلق اس قدر سمجھ لیتے ہیں کہ کھانا چاہئے اور اس قدر پیٹ بھر بھر کر کھاتے ہیں کہ ان کے معدے تباہ ہو جاتے ہیں بد ہضمی سے مرتے ہیں یا ایسے مرغن کھانے کھاتے ہیں کہ عیش و عشرت کی زندگی اختیار کر لیتے ہیں جس کا روح پر اثر پڑتا ہے جو اس گند ہو جاتے ہیں فطرت اس بات کی متقاضی ہے کہ کھاؤ.وہ کھاتے ہیں مگر یہ نہیں جانتے کہ کیوں کھائیں.پس ان کو کھانے کا حکم دینے کی ضرورت نہیں.ہاں ضرورت ہے کہ ان کو بتایا جائے کس طرح کھاؤ.چنانچہ رسول کریم ﷺ نے حکم دیا کہ دائیں ہاتھ سے کھاؤ اور سامنے سے کھاؤ نے یہ طریق بتایا.اسی طرح نکاح کے لئے بھی ضروری نہیں کہ اس کے متعلق کہا جائے کیونکہ انسان کے تقاضے خود اسے مجبور کرتے ہیں.ہاں اس کی ضرورت ہے کہ بتایا جائے کہ اس کی ضرورت کیا ہے.کیوں کریں اور کس طرح کریں.کیونکہ نکاح کے متعلق بتانے کی یہی باتیں ہیں.نکاح کیوں کریں؟ فرماتا ہے تقویٰ کے لئے.لوگوں کی مختلف خواہشات ہوتی ہیں مگر تمہاری غرض تقوی ہونی چاہئے اور کس طرح کا جواب دیا کہ تمام معاملات صدق وسداد کے ساتھ طے کرنے چاہئیں.پس اسلام نے یہ نہیں کہا کہ نکاح کرو بلکہ یہ بتلایا ہے کہ کیوں کرو.سو اللہ تعالٰی مسلمانوں کو متوجہ کرتا اور فرماتا ہے کہ تمہارا ہر ایک کام تقویٰ کے ماتحت ہو لوگوں کی مختلف نیات ہوتی ہیں مثلاً ایک شخص سودا لینے کو گھر سے نکلے اور کہے کہ سودا لینے جاتا ہوں.رستہ میں دوست کا گھر پڑتا ہے اس سے بھی ملتا آؤں گا.اب دوست کو ملنے کا کام ایک ضمنی کام ہے.لیکن اگر وہ یہ نیت کرے کہ میں اپنے دوست کو ملنے جاتا ہوں واپسی پر بازار سے سودا بھی لیتا آؤں گا.یہ نیت کر لینے سے نہ تو اس کو پہلے سے زیادہ چکر کاٹنا پڑے گا نہ نئے راستے تلاش
خطبات محمود ۲۴ جلد سوم کرنے پڑیں گے نہ یہ کہ گورنمنٹ کے سپاہی اس سے نیت پر کوئی باز پرس کریں گے.ہاں اس نیت کے بدلنے سے اس کی اخلاقی حالت میں عمدہ تغیر ہوا اور ثواب میں بھی فرق ہوا.تقویٰ کی نیت معمولی بات نہیں.نیتوں کے اثر ہوتے ہیں.مثلا کسی شخص کی گردن پر بھڑ بیٹھی ہو یا بچھو بیٹھا ہو اگر آہستہ سے ہاتھ رکھو گے کاٹ کھائے گا لیکن اگر زور سے اس نیت سے مارو کہ دوست کو اس کے ذریعہ سے گزند نہ پہنچے تو وہ جانو ر ادھ موا ہو کر گرے گا.تو اس وقت اس کے تم نے زور سے تھپڑ مارا مگر تمہاری نیت خیر تھی اس لئے وہ دوست بجائے ناخوش ہونے کے خوش ہو گا.پس فرمایا کہ تمہاری نیست اس معاملہ میں تقویٰ کی ہو اور تم تقویٰ سے کام لو.دوسرے اس معاملہ میں بہت جھوٹ سے کام لیا جاتا ہے اور دونوں طرف سے جھوٹ بولتے ہیں.لڑکے والے وہ باتیں کہتے ہیں جو در حقیقت ان میں نہیں ہو تیں.اپنی حیثیت بہت بڑھ چڑھ کر بتاتے ہیں اور لڑکی والے اپنی لڑکی کے بہت سے ہنر بتاتے ہیں.فرمایا تم صدق و سداد سے کام لو، صفائی کی بات ہو بیچ میں ایچ بیچ کی باتیں نہ ڈالی جائیں.میرا خیال ہے کہ اگر مسلمان ان دونوں حکموں کو مانتے ہوئے نکاح کریں تو پھر کوئی بات نہیں پیدا ہو گی چونکہ خواہشات نفسانی کے ماتحت شادیاں اور نکاح کئے جاتے ہیں اس لئے فساد ہوتا ہے.ہمیشہ تقوی مد نظر ہو.خفیہ تدابیر نہ ہوں پھر کوئی فتنہ نہیں پڑتا.اللہ تعالٰی ہماری جماعت کو توفیق دے تا ان احکام پر چلیں اور حقیقی لذت حاصل کریں.آمین.اه بخاری کتاب الاطعمة باب التسمية على الطعام والاكل باليمين - (الفضل ۱۸- ستمبر ۱۹۱۷ صفحه ۵)
خطبات محمود ۲۵ جلد سود کونسا نکاح بابرکت ہوتا ہے (فرموده ۲۷- دسمبر ۱۹۱۷ء) ۲۷- دسمبر ۱۹۱۷ء حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے جلسہ سالانہ کے موقع پر (1) مسماۃ دانی کا نکاح احمد سے ایک سو روپیہ صریر.(۲) مسماۃ محمد بی بی کا نکاح جان سے ایک سو روپیہ مہر پر (۳) مسماۃ سکینہ کا نکاح مولا بخش سے اڑھائی سو روپیہ مہر پره (۴) مسماة بی بی فاطمہ جمیلہ بنت مولوی محمد احسان الحق صاحب بھاگلپوری کا نکاح محمد ظریف صاحب متعلم بی.اے کلاس سے سات ہزار مہر پر - (۵) مسماۃ فاطمہ بیگم کا نکاح غلام قادر سے پانچ سو روپیہ صریر.(۲) مسماۃ زینب بی بی کا نکاح جھنڈو سے دو سو روپیہ مہر پر اور (۷) مسماۃ سلطانیہ بیگم کا نکاح عبد الغنی سے پانچ سو روپیہ مر پر پڑھا.خطبه مفسونہ کی تلاوت کے بعد فرمایا :- ہماری جماعت کے بہت لوگ چاہتے ہیں کہ ان کے نکاح قادیان میں ہوں اور اس زمانہ میں حضرت خلیفہ اول کی وفات کے بعد وہ خواہش کرتے ہیں کہ ان کے نکاح میں پڑھوں لیکن سب دوستوں کو یاد رکھنا چاہئے کہ بے شک بعض مقامات خاص طور پر بابرکت ہوتے ہیں اور ان میں جو کام کیا جائے اس میں خدا تعالی برکت ڈالتا ہے اور یہ بھی ٹھیک ہے کہ خدا تعالٰی اپنے فضل اور رحم سے بعض بندوں کے متعلق چشم پوشی، غریب نوازی اور رحم اور شفقت کو کام میں لاکر ان کے پڑھے ہوئے نکاح میں بھی برکت رکھ دیتا ہے لیکن ساتھ ہی یہ بھی یاد رکھنا
خطبات محمود ۲۶ جلد سوم چاہئے کہ اصل برکت قرآن کریم کی اتباع میں ہوتی ہے.قرآن کریم کے احکام کے خلاف کیا ہوا کام خواہ کسی مقام پر ہو اور کسی انسان کے ذریعہ کرایا جائے کبھی بابرکت نہیں ہو سکتا حتی کہ اگر قرآن کریم کی ہدایات کے خلاف کرتے ہوئے دھوکا دے کر رسول کریم ال سے بھی نکاح پڑھوایا جاتا تو وہ بھی با برکت نہیں ہو سکتا تھا کیونکہ رسول کریم ﷺ کا وہی فعل با برکت ہو سکتا تھا جو اللہ تعالی کے بتائے ہوئے احکام اور قواعد کے ماتحت ہو.اگر کوئی آپ کو دھوکا دے کر اور قریب سے کام کراتا یا اپنے حق میں فیصلہ لے لیتا تو اس میں بھی برکت نہ ہوتی.اور یہ بات میں نہیں کہتا بلکہ وہی پاک اور مطہر انسان فرماتا ہے چنانچہ رسول کریم ﷺ فرماتے ہیں کہ تم میں سے دو شخص میرے پاس کوئی جھگڑا لا ئیں اور ان میں سے ایک لسان اور طرار ہو اور میرے سامنے اپنی بات ایسے رنگ میں پیش کرے کہ میں دھوکا میں آکر اس کے حق میں فیصلہ دے دوں حالانکہ اس کا حق لینے کا نہ ہو تو وہ سمجھنے کہ میں اپنے گھر جنم کا حصہ لے آیا ہوں.لے پس جب آنحضرت ا کسی ایسے فیصلہ کے متعلق جو آپ کو دھوکا دیکر کرایا جائے یہ فرماتے ہیں تو اور کون انسان ہے جس سے قرآن کریم کی ہدایات کے خلاف دھوکا دے کر کوئی کام کرایا جائے اور وہ بابرکت ہو اس لئے وہی نکاح با برکت ہو سکتا ہے جو خدا تعالٰی کے بتائے ہوئے احکام اور قواعد کے ماتحت ہو.میں تو ایک کمزور انسان ہوں اور آنحضرت ا کے غلاموں کی فہرست میں اپنا نام آنا نجات کا باعث سمجھتا ہوں.مگر وہ جو خدا تعالٰی کے پیارے اور محبوب تھے اور تمام نبیوں کے سردار تھے جن کی ایک نظر ہمارے لئے دونوں جہانوں کا بھلا کرنے کا باعث ہو سکتی ہے وہ فرماتے ہیں کہ اگر کوئی قرآن کریم کے احکام کے خلاف دھوکا دے کر مجھ سے کام کرالے تو اس میں بھی برکت نہیں ہوگی بلکہ وہ جنم کا ٹکڑا ہو گا جو اس کے لئے مصیبت اور دکھ کا باعث ہو گا.پس ہمارے دوست جہاں اس بات پر زور دیتے ہیں کہ ان کے نکاح قادیان میں پڑھے جائیں اور میں ان کے نکاح پڑھوں وہاں ان کو یہ بات بھی یاد رکھنی چاہئے کہ ان کے نکاح قرآن کریم کے بتائے ہوئے احکام کے ماتحت ہوں.جب وہ ایسا کریں گے تو ان کے نکاحوں میں خدا کے فضل اور رحم کے ماتحت زیادہ برکت ہوگی.قرآن کریم کے ان احکام کو جو نکاح کے متعلق ہیں تفصیلی طور پر بیان کرنے کا یہ موقع نہیں کیونکہ مجھے ابھی تقریر کرنی ہے وہ رہ جائے گی.اور پھر بہت دفعہ بیان بھی کئے جاچکے ہیں.ہاں ایک بہت ضروری بات ہے وہ بیان کئے دیتا ہوں.
خطبات محمود ۲۷ جلد سوم اس زمانہ میں نکاح کے معاملہ میں جھوٹ، فریب اور دھوکا سے بہت کام لیا جاتا ہے.لڑکی اور لڑکے والے کسی نہ کسی غرض اور مطلب کے لئے بہت جھوٹ بولتے ہیں اور بعد میں اس سے بڑا فساد اور فتنہ پیدا ہوتا ہے.میرے پاس ہمیشہ ایسے خطوط آتے رہتے ہیں اور کئی لوگ زبانی بھی کہتے ہیں کہ ہمارے لڑکے لڑکیاں بڑے دکھ اور تکلیف میں ہیں.ان کی اس قسم کی باتیں سن کر میرا دل درد محسوس کرتا ہے اور مجھے تکلیف ہوتی ہے مگر اس کا علاج میرے اختیار میں نہیں ہوتا میں ان کے لئے دعا کرتا ہوں کہ خداوند تعالیٰ ان پر رحم کرے اور ان کی تکلیف کو دور کرے مگر یہ ان کے اپنے ہی ہاتھوں کی کمائی ہوتی ہے.سو یاد رکھنا چاہئے کہ قرآن کریم کے احکام سے کوئی برکت باہر نہیں ہے.جھوٹا ہے جو یہ کہے کہ قرآن کریم کو چھوڑ کر اور اس سے علیحدہ ہو کر کوئی برکت حاصل ہو سکتی ہے.پس اگر تم اپنے نکاحوں میں برکت چاہتے ہو تو انہیں قرآن کریم کے مطابق بناؤ.خدا تعالیٰ میں بڑی طاقتیں ہیں اس کے فیصلے تو نہیں ہو سکتے.اس سے فیصلہ چاہو تاکہ تمہاری تمام وقتین اور تکلیفیں دور ہوں.مومن کے لئے اس دنیا کو جہنم نہیں بنایا گیا.مگر مومن بغیر قرآن کے احکام ماننے کے ہو نہیں سکتا جو اعلیٰ درجہ کے مومن ہوتے ہیں یعنی مامور و مرسل ان کی جنت کا تو ہم اندازہ نہیں لگا سکتے مگر ہر ایک مومن اپنے اوپر خدا تعالی کے خاص فضل محسوس کرتا ہے.میں نے یہ دیکھنے کے لئے کہ قرآن کہتا ہے کہ مومن کو اس دنیا میں جنت ملتی ہے بارہا غور کیا ہے اور دیکھا ہے کہ خواہ کوئی کیسی ہی تکلیف اندرونی ہو یا بیرونی دشمنوں کا حملہ ہو یا شرارت، کچھ ہو کبھی اضطراب نہیں پیدا ہوا اور اپنے جسم کے کسی گوشہ میں جنم نظر نہیں آیا جنت ہی جنت دکھائی دیا ہے.پس اگر تم مومن بنو گے تو خدا تمہارے گھروں کو جنت بنا دے گا.راحت اور آرام پیدا کر دے گا.عارضی اور معمولی جھگڑے تو انسانوں میں ہوتے ہی ہیں صحابہ کرام میں بھی ہو جایا کرتے تھے مگر مومن کے لئے ایسا جھگڑا جو جنم ہو کبھی نہیں ہو تا.اور کبھی کوئی تکلیف ایسی نہیں ہوتی خواہ ساری ہی دنیا خلاف اٹھ کھڑی ہو.پس اپنے نکاحوں میں یہ بات ضرور مد نظر رکھو.پھر عورتوں پر بہت رحم کرو.یہ جنس بہت غریب اور کمزور ہے.اس زمانہ میں اس پر اتنے ظلم ہو رہے ہیں کہ دیکھ کر دل کانپ جاتا ہے.بہت لوگ ہیں جو یہ خیال کرتے ہیں کہ عورتیں ہمارے لئے عیش و عشرت کے سامانوں میں سے ایک چیز ہیں ہم جس طرح چاہیں ان سے سلوک
خطبات محمود ۲۸ جلد موم کریں ان کے ہم پر کوئی حقوق نہیں ہیں.پھر موجودہ حالات میں عورتوں کو اپنے بہت سے حقوق حاصل کرنے میں مشکلات ہیں.کئی بیچاری عورتیں عمر بھر دکھ اور تکلیف میں پڑی رہتی ہیں.ان کے ظالم خاوند نہ تو ان کی خبر گیری کرتے ہیں اور نہ ہی ان کو طلاق دیتے ہیں.میرا نشاء ہے کہ گورنمنٹ سے خلع کا قانون پاس کرایا جائے.اس کے پاس کرنے میں گورنمنٹ کا کوئی حرج نہیں ہے اور ایک اسلامی حکم پورا ہو جائے گا.اس وقت جو لوگ ہمارا کہنا نہیں مانتے اس وقت سرکار کے حکم سے مانیں گے.اس وقت میں چند ایک نکاحوں کا اعلان کرتا ہوں.پہلا اعلان صغری بیگم بنت ماسٹر قادر بخش صاحب کا نکاح پانچ سو روپیہ مہر پر عبد القدیر ولد میاں عبد اللہ صاحب سنوری اور مریم بی سور بی بنت میاں عبد اللہ صاحب سنوری کا نکاح پانچ سو روپیہ مصر پر ماسٹر رحیم بخش صاحب ایم.اے ولد ماسٹر قادر بخش سے ہے.اسلام نے اس قسم کی شادی کو ناپسند کیا ہے کہ ایک شخص اپنی لڑکی دوسرے شخص کے لڑکے کو اس شرط پر دے کہ اس کے بدلہ میں وہ بھی اپنی لڑکی اس کے لڑکے کو دے لیکن جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے اگر طرفین کے فیصلے الگ الگ اوقات میں ہوئے ہوں اور ایک دوسرے کو لڑکی دینے کی شرط پر نہ ہوئے ہوں تو کوئی حرج نہیں اس طرح کا یہ نکاح ہے.الفضل ۱۵ جنوری ۱۹۱۸ء صفحه (۴۷۳ له الفضل ۱۵ جنوری ۱۹۱۸ء صفحه ۴ کے بخاری کتاب الاحکام باب موعظة الامام للخصوم
خطبات محمود ۲۹ مر کے متعلق ایک سوال کا جواب (فرموده ۲۸ دسمبر ۱۹۱۷ء) ۲۸- دسمبر ۱۹۱۷ء بعد نماز جمعہ حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے (1) مسماۃ حرمت بی بی کا نکاح فیروز دین سے دو سو روپیہ حق مہر پر.(۲) مسماۃ خاور رشید کا نکاح معراج الدین سے ایک ہزار مریر - (۳) مسماۃ فضل بی بی کا نکاح عبد القدوس صاحب نو مسلم سے تین سو روپیہ مہرپر - (۴) مسماۃ صغری بیگم کا نکاح محمد اسماعیل صاحب سے آٹھ سو روپیہ صر پر پڑھا.خطبہ مسنونہ کی تلاوت کے بعد فرمایا :- اس وقت میں کوئی خطبہ نہ پڑھ سکوں گا.البتہ کسی صاحب نے ایک سوال پوچھا ہے.اس کا مختصر جواب دیتا ہوں وہ پوچھتے ہیں کہ عورتوں کا مہر جو باندھا جاتا ہے وہ صرف دکھانے کے لئے ہی ہوتا ہے یا اس کا ادا کرنا ضروری ہوتا ہے.وہ یاد رکھیں کہ مہر دینے کے لئے ہوتا ہے اسلام اس قسم کی نمائش کو جو دھوکا کا موجب ہو ہرگز جائز نہیں رکھتا.پس جو لوگ صرف دوسروں کو دکھانے کے لئے بڑے بڑے مہرباندھتے ہیں اور ادا نہیں کرتے وہ گنہگار ہیں اور جو اپنی حیثیت سے کم باندھتے ہیں وہ بھی گناہ گار ہیں.صحابہ کے طرز عمل سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ پہلے ہی ادا کر دیتے تھے پس ایسا ہی کرنا چاہئے.ہاں اگر کوئی ایک دفعہ سارانہ ادا کر سکے تو کچھ مدت میں ادا کر دے لیکن ادا ضرور کرے.معجل اور غیر معجل کے الفاظ بعد کی ایجاد ہیں.شریعت اسلام سے ان کا کوئی تعلق نہیں.پس
خطبات محمود جلد سوم.جہاں تک ہو سکے پہلے ادا کرنا چاہئے ورنہ آہستہ آہستہ.یہ ایک قرضہ ہے جو عورت کی طرف سے مرد پر ہے.اس کا ادا کرنا بہت ضروری ہے.الفضل ۱۵ جنوری ۱۹۱۸ء صفحہ اله
خطبات محمود •1 ذات پات کی الجھنوں سے بچنا چاہئے (فرموده ۲۲ جون ۱۹۱۸ء) سید عزیز الرحمن بریلوی کی لڑکی نصرت بانو کا نکاح ڈاکٹر عطر الدین صاحب وٹرنری گریجویٹ سے پانچ سو روپیہ مصر پر حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے پڑھا.و خطبہ مفسونہ کی تلاوت کے بعد حضور نے جماعت کو اس طرف توجہ دلائی کہ وہ تقویٰ کو ہی معیار شرافت سمجھیں اور ذات پات کی الجھنوں سے حتی الامکان بچیں اور سید صاحب کے نمونہ پر اظہار خوشنودی فرمایا.الفضل ۳۰ جولائی ۱۹۱۸ء صفحہ ۲) جلد سوم
خطبات محمود ۳۲ جلد سوم خاندان حضرت مسیح موعود کے متعلق ایک عظیم الشان نشان (فرموده ۴ ستمبر ۱۹۱۹ء) ۴.ستمبر ۱۹۱۹ ء حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے مرزا گل محمد صاحب ابن مرزا نظام دین صاحب کا نکاح رضیہ بیگم بنت ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب سے پڑھا.خطبہ منسونہ کی تلاوت کے بعد فرمایا :- ایک بچہ جب پیدا ہوتا ہے تو کیسا کمزور اور ناتواں ہوتا ہے.وہ نہ اپنی ضروریات بیان کر سکتا ہے نہ اپنی تکالیف کہہ سکتا ہے نہ دوسروں کے خیالات سمجھ سکتا ہے.خیالات تو ابھی اس میں پیدا ہی نہیں ہوئے ہوتے.احساسات ہوتے ہیں.وہ اپنے احساسات کو دو سروں تک نہیں پہنچا سکتا.جاہل سے جاہل، ناران سے نادان، بیوقوف سے بیوقوف عورت جو اسے کھلاتی ہے خواہ وہ اس کی ماں ہو یا بہن یا نوکر.وہ اس کی حرکات پر ہنستی ہے.اس کی بے چارگی پر رحم کھاتی ہے اور اس کی مختلف حالتوں اور کیفیتوں پر استعجاب ظاہر کرتی ہے.اس کے بعد جب وہ کچھ بڑا ہوتا ہے اور لوگ اس سے باتیں کرتے ہیں تو وہ تو تلی زبان سے بولتا ہے.اس پر لوگ ہنتے اور تعجب کرتے ہیں.پھر ہوتے ہوتے وہ اس عمر کو پہنچ جاتا ہے کہ مدرسے جانے لگتا ہے.پھر مدرسہ میں تعلیم حاصل کرتے کرتے اس حد کو پہنچ جاتا ہے کہ اپنی کتا بیں روانی سے پڑھنے لگتا ہے.پھر چونکہ
ات محمود هم السلام اسے پڑھنے کا نیا نیا شوق ہوتا ہے اور نئی نئی باتیں سیکھتا ہے اس لئے گھر میں آکر وہی کھلائیاں یا رشتہ دار عورتیں جو اس کی حرکات پر ہنسا کرتی تھیں ان سے باتیں کرتا ہے اور پوچھتا ہے اچھا بتاؤ امریکہ کے بڑے بڑے شہر کون سے ہیں؟ وہ نہایت تعجب اور حیرت سے پوچھتی ہیں.امریکہ کیا ہے؟ پھر وہ پوچھتا ہے اچھا بتاؤ پنجاب کے دریاؤں کے منبع کہاں کہاں ہیں ؟ امریکہ تو خیر ایک اجنبی لفظ تھا لیکن پنجاب کو تو وہ جانتی ہیں اور دریاؤں کو بھی دیکھا یا سنا ہوتا ہے مگر منبع کا لفظ انہیں بہت عجیب و غریب معلوم ہوتا ہے کیونکہ ان کا تو خیال ہوتا ہے کہ منبع کیا چیز ہے؟ دریا یونہی چلے آرہے ہیں.پھر کبھی ان سے جب پوچھتا ہے دریا شروع میں کتنے چوڑے ہیں تو ان کی سمجھ میں ہی یہ نہیں آسکتا کہ دریا کا شروع بھی ہوتا ہے اور چھوٹا دریا بڑا بن جاتا ہے.وہ سمندر کا حال پوچھتا ہے کہ کتنا بڑا ہوتا ہے اور کس قدر گہرا ہوتا ہے ؟ اس پر تو ان کی وہی حالت ہوتی ہے جو کنویں کے مینڈک کی بیان کی جاتی ہے کہ ایک دریا کا مینڈک کنویں میں آگیا کنویس کے مینڈک نے اس سے پوچھا.آپ کا ملک کتنا بڑا ہے؟ اس نے کہا بہت وسیع.کنویں کے مینڈک نے ایک چھلانگ مار کر کہا کیا اتنا بڑا ہے.اس نے کہا اس کی تو اس کے مقابلہ میں کچھ حقیقت ہی نہیں ہے.پھر اس نے ایک اور چھلانگ ماری اور کہا کہ کیا اتنا بڑا ہے.اس پر اس نے کہا نہیں بہت بڑا.کنویں کے مینڈک نے دو تین اکٹھی چھلانگیں مار کر کہا کیا اتنا بڑا ہے.اس نے کہا میں نے کہہ جو دیا ہے بہت بڑا ہے تم کیوں بیہودہ طور سے اس کا اندازہ لگاتے ہو.(یہ مینڈک کا تو یونہی قصہ ہے دراصل بڑے اور چھوٹے علم والے انسانوں کا موازنہ کیا گیا ہے) اس پر وہ روٹھ کر بیٹھ گیا اور کہنے لگا تم بڑے جھوٹے ہو.میں تم سے بات نہیں کرنا چاہتا.یہ تو ایک قصہ ہے.ایک سچا واقعہ سناتا ہوں.گزشتہ سال جب ہم ہمبئی گئے تو ہمارے ساتھ بچہ کھلانے والی ایک لڑکی تھی.ایک دن سمندر کی سیر کرنے جارہے تھے اور وہ بھی ساتھ تھی.ابھی سمندر نہیں آیا تھا کہ اس نے پوچھا سمندر کہاں ہے؟ میں نے کہا ابھی آجاتا ہے جب ہم سمندر کے کنارے پہنچ گئے تو اسے بتایا کہ یہ سمند ر ہے.وہ دیکھ کر بے اختیار کہنے لگی میں سمجھیا بڑا اور چاہو دے گا ایسہ نے بکھر یا پیا ہے، یعنی میں نے سمجھا تھا بڑا اونچا ہو گا.یہ تو پھیلا ہوا ہے.اس کے یہ الفاظ مجھے خوب اچھی طرح یاد ہیں.اس نے اپنے علم کے مطابق جو نقشہ کھینچا ہوا تھا جب وہ نہ دیکھا تو حیران سی ہو گئی.غرض جب وہ بچہ مختلف باتیں دریافت کرتا ہے تو وہی عورتیں جو اس کی بات بات پر ہنسا
خطبات محمود جلد سوم کرتی اور چڑانے کے لئے پوچھا کرتی تھیں کہ روٹی کا نام بتا کیا ہے.اور جب وہ روٹی کو روتی کہتا تو کھیل کھلا کر ہنس پڑا کرتی تھیں.وہی اس کے سوالوں پر حیرت کا بت بنی ہوئی کہتی ہیں تم تو پڑھے ہوئے ہو.ہم ان باتوں کو کیا جانیں.پھر ان کے نزدیک بچوں کے علم کی حد اس قدر وسیع ہو جاتی ہے کہ وہ سمجھتی ہیں ہر بات کا ان کو علم حاصل ہو گیا ہے.بچپن کی بات ہے اس وقت میں مدرسہ میں پڑھا کرتا تھا میں نے ایک عورت کو جو ہمارے گھر میں رہتی تھی کہا دودھ پر سے ملائی اتار دو.جب وہ اتارنے لگی تو گرم دودھ کی اس پر چھینٹیں پڑ گئیں.اس کا غصہ مجھ پر اتارتے ہوئے کہنے لگی اتنے پڑھے ہوئے ہو خود ملائی کیوں نہیں نکال لیتے.گویا اس کے نزدیک ملائی نکالنے کا طریق بھی ہمیں سکول میں بتایا جاتا تھا.تو عورتوں پر بچوں کے علم کی اتنی ہیبت چھا جاتی ہے کہ اس کے مقابلے میں منطق بھی یونہی بد نام ہے.دراصل دلائل کو کسی واقعہ پر منطبق کرنے کا نام منطق ہے مگر عام لوگ اس سے اتنا ڈرا کرتے ہیں کہ حضرت خلیفہ المسیح الاول فرماتے.ایک مولوی مجھے کہنے لگا میں آپ سے گفتگو نہیں کرنا چاہتا کیونکہ آپ نے منطق پڑھی ہوئی ہے آپ اگر چاہیں تو لکڑی کے ستون کو سونے کا ستون بنا دیں.یہ صرف منطق کی مصیبت ہے.اسی طرح بلکہ اس سے بڑھ کر عورتوں پر بچہ کے علم کی بیت چھا جاتی ہے اور وہی بچہ جو کچھ عرصہ پہلے نہایت کمزور اور نحیف ہونے کی وجہ سے ان کی امداد کا محتاج ہوتا ہے ان کے لئے حیرت اور استعجاب کا موجب بن جاتا ہے.پھر ایک چھوٹا سا بیج بویا جاتا ہے جس سے اس قدر پتلی اور باریک کو نپل نکلتی ہے کہ ایک جانور بکری یا بیل یا گائے یا گھوڑا آتا ہے اسے سونگھ سونگھ کر دیکھتا ہے کہ کھانے کے قابل ہے یا نہیں.اکثر اوقات چھوٹی سی ہونے کی وجہ سے حقارت کے ساتھ اسے چھوڑ دیتا ہے اور بعض اوقات اس کا کوئی حصہ کاٹ کر کھا جاتا ہے.پھر کچھ مدت کے بعد جب وہ کو نپل بڑھ جاتی ہے تو پھر جانور اس کے تنے پر منہ مارنے سے عاجز ہو جاتا ہے البتہ اس کے پتوں اور شاخوں پر منہ مارتا ہے.پھر وہ پورا اور بڑھتا ہے اور اس حالت میں جانور اس سے کھیلتا ہے.کبھی اس کے ساتھ سر ٹکراتا ہے.کبھی پاؤں مارتا ہے.کبھی جسم کا ہے پھر دیکھتے دیکھتے وہی کو نیل جس پر ایک دن حقارت سے جانور منہ مارنے کے لئے تیار نہ تھا اور باریک سی سمجھ کر حقارت سے چھوڑ گیا تھا اسی کے ساتھ مالک اس جانور کو باندھ دیتا ہے اور پھر وہ جانور خواہ اپنا سارا زور بھی لگائے تو بھی چھوٹ نہیں سکتا یہ دیکھتے دیکھتے نقشہ بالکل بدل جاتا ہے اور وہ حیران ہو جاتا ہے.
۳۵ جلد سوم یہی حال اللہ تعالیٰ کے ماموروں اور مرسلوں کا ہوتا ہے جس وقت وہ دنیا میں آتے ہیں اس وقت ان کی حیثیت اس کو نیل کی طرح ہوتی ہے جو نکل رہی ہوتی ہے یا اس بچہ کی طرح ہوتی ہے جو جاہل اور نادان عورتوں میں پرورش پاتا ہے.لوگ اپنی ناواقفیت کی وجہ سے اس کی ابتدائی حالتوں کو دیکھ کر ہنتے اور اس کی حرکتوں پر قبضے لگاتے ہیں مگر ان کو یہ خیال نہیں ہوتا کہ الصَّبِيُّ صَبِيٌّ وَلَو كَانَ نَبيَّا لے جس طرح عورتیں نہیں جانتیں کہ آج جس قدر بچے کی حرکات پر ہم حیرت کا اظہار کر رہی ہیں.کل اس کی باتوں پر اس سے بھی زیادہ کریں گی.اسی طرح دنیا نہیں جانتی کہ جو معمولی سا انسان نظر آتا ہے یہ روحانی مکتب کا کتنا بڑا استاد ہو گا اور اس کی باتیں کیسی حیرت انگیز ہوں گی مگر کھلائی عورتیں تو بچے کے سامنے اقرار کر لیتی ہیں کہ تم پڑھ گئے ہو ہم جاہل ہیں ہم ان باتوں کو کیا جانیں جو تم بیان کرتے ہو.لیکن افسوس بوڑھی دنیا نبی کے متعلق یہ کہتی ہے کہ چونکہ تمہاری باتیں میری عقل اور سمجھ سے بالا تر ہیں اس لئے جھوٹ اور غلط ہیں نہ کہ اپنی جہالت کا اقرار کرتی ہے حالانکہ جس طرح جب بچہ پڑھ جاتا ہے تو اس کی باتیں سن کر عورتیں اپنی لاعلمی اور جہالت کا اقرار کر لیتی ہیں اسی طرح دنیا کو نبی کے مقابلہ میں اپنی جہالت کا اقرار کرنا چاہئے تھا لیکن افسوس ایسا نہیں ہوتا.نبی جب پیدا ہوتا ہے تو اس وقت چونکہ کونپل کی طرح ہوتا ہے اس لئے ایک عرصہ تک لوگ اسے حقیر سمجھتے ہیں کیونکہ ایک طرف وہ اپنی طاقت، قوت، سامان اور جتھے کو دیکھتے ہیں اور دوسری طرف اس کی کمزوری، بے سرو سامانی اور تنہائی کو دیکھتے ہیں اس لئے کہتے ہیں یہ حقیری چیز ہے اس کی طرف توجہ کرنے کی ضرورت ہی کیا ہے.ہاں جس طرح کیڑے مکوڑے چھوٹے سے درخت کے ساتھ بھی چمٹ جاتے ہیں لیکن بھینسا حقارت کے ساتھ اس کو دیکھ کر گزرتا ہے اسی طرح چھوٹے چھوٹے لوگ بھی نبی کے پیچھے پڑ جاتے اور اسے ذلیل کہتے ہیں لیکن جس طرح چھوٹی سی کو نیل جب تتا بن جاتی ہے تو وہی بھینسا اس پر سر مار کر بھی اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا اور اسی کے ساتھ باندھ دیا جاتا ہے.اسی طرح نبی جب ترقی کرتا ہے تو وہی لوگ جو اسے حقارت سے دیکھتے اور نا قابل توجہ سمجھتے تھے انہی کو رسی باندھ کر اس کے ساتھ باندھ دیا جاتا ہے.وہ تو اس وقت بھی بھینے کے بھینے ہی رہتے ہیں.مگر وہ نبی جسے حقیر سمجھتے تھے اب اس کے خلاف خواہ کتنا ہی زور ئیں کچھ نہیں کر سکتے.ہاں اس کے دیکھنے کے لئے آنکھیں، سننے کے لئے کان اور سمجھنے کے لئے دل کی ضرورت ہے اور نبی کی ساری زندگی کو آنکھوں کے سامنے لانے کی حاجت.
خطبات محمود جلد سوم حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جب دعوی کیا تو آپ کی کیا کیفیت اور کیا حال تھا.پھر کس طرح اس وقت کیڑے مکوڑوں کی حیثیت رکھنے والے آپ کے ساتھ چھٹے اور جو بڑی حیثیت رکھنے والے تھے یعنی جن کو بیلوں، بھینسوں اور گدھوں کی حیثیت حاصل تھی وہ کس طرح آپ کو حقارت کی نظر سے دیکھتے تھے.پہلے کیڑے مکوڑوں نے اس پودے کو برباد کر ڈالنے کی کوشش کی مگر وہ بڑھتا ہی گیا.پھر بیلوں اور بھینسوں نے اس کے خلاف زور لگایا لیکن وہی پودا جو حقارت سے دیکھا گیا تھا اس نے اس قدر شاخیں نکالیں کہ اب ہم دیکھتے ہیں کہ اگر ایک ٹہنی انگلینڈ میں ہے تو ایک ماریشس میں، ایک چین میں ہے تو ایک سیلون میں، ایک نائیجیریا میں ہے تو ایک مصر میں، ایک ایران میں ہے تو ایک افغانستان میں.ہم پوچھتے ہیں سوائے نبوت کے اور کونسا ایسا درخت ہے جس کی شاخیں اتنی اتنی دور تک پھیلی ہوئی ہیں.دیکھو سب درختوں کا سایہ محدود ہوتا ہے اور ان کی شاخیں تھوڑی دور تک پھیلی ہوتی ہیں مگر نبوت کے درخت کی شاخیں نکلتی ہیں تو دور دراز ملکوں تک پہنچ جاتی ہیں.ہاں ابتداء میں ان شاخوں کا بھی وہی حال ہوتا ہے جو نبی کا ہوتا ہے.پہلے پہل وہ شاخیں پتلی اور باریک کی ہوتی ہیں کہ ان میں سے ایک ایک کے نیچے دو تین چار دس پندرہ میں آدمی ہی بیٹھ سکتے ہیں اور زیادہ لمبی ہونے کی وجہ سے پتلی اور کمزور نظر آتی ہیں مثلاً انگلینڈ میں چھ ہزار میل کی لمبائی تک جو شاخ پہنچی ہے وہ اتنی لمبی ہونے کی وجہ سے باریک ہی ہونی چاہئے لیکن جس طرح دیکھتے دیکھتے نبوت کا بیج پھوٹا اور پھیلا اسی طرح یہ شاخ بھی موٹی ہوئی شروع ہو گئی ہے اور پتے نکل رہے ہیں گو ابھی لوگ اسے تماشہ کے طور پر ہی دیکھتے ہیں اور اس کی اسی لئے پرواہ نہیں کرتے کہ یہ خود بخود ہمارے ہوئے ہوئے کھیتوں اور درختوں کے سائے کے نیچے جل جائے گی.مگر خدا کے فضل سے وہ دن آئے گا جبکہ وہ پھیلتی پھیلتی اس قدر پھیل جائے گی کہ سب کی زراعتیں اس کے مقابلہ میں جل جائیں گی.غرض ایک عجیب نظارہ ہے اور ایسا عجیب نظارہ ہے کہ اس سے عجیب تر دنیا میں کوئی نظارہ نہیں.اسے ہم نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی میں دیکھا اور ایسا ہی دیکھا جیسا اور نبیوں کے وقت میں ہوا بلکہ اور کئی نبیوں سے بڑھ کر دیکھا اس لئے کہ حضرت مسیح موعود کی بعثت رسول کریم کی دوسری بعثت ہے.پھر بلحاظ اس کے کہ اس زمانہ میں علوم کی ترقی ہو گئی ہے.رسول کریم ﷺ کے زمانہ کے متعلق باوجود آپ کی قوت قدسیہ کے کمال پر پہنچے
خطبات محمود ۳۷ جلد سوم ہونے کے مخالفین کہتے ہیں کہ اس وقت لوگ چونکہ جاہل تھے اس لئے ان کی تعلیم مان گئے چونکہ رسول کریم کی قوت قدسیہ پر یہ بہت بڑا اعتراض ہے اور خدا تعالیٰ نے نہ چاہا کہ یہ آپ کی ذات والا صفات پر رہے اس لئے آپ کے بروز کو ایسے زمانہ میں بھیجا جس میں تمام دم اپنے کمال کو پہنچے ہوئے ہیں اور یہ ایک عجیب بات ہے کہ تمام انبیاء ایسے زمانے میں بھیجے گئے جبکہ ظاہری اور باطنی دونوں طرح کی تاریکی اور ظلمت پھیلی ہوئی تھی.مگر رسول کریم کی بعثت ثانیہ ایسے زمانہ میں ہوئی جبکہ دنیاوی علوم اور عقلیں کمال کو پہنچی ہوئی ہیں تو اس بعثت میں خدا تعالی نے اس اعتراض کو کہ رسول کریم یا ایسے زمانہ میں مبعوث ہوئے جبکہ جہالت اور تاریکی پھیلی ہوئی تھی اس لئے کامیاب ہو گئے حضرت مسیح موعود کے ذریعہ سے دور کر دیا ہے کیونکہ حضرت مسیح موعود کی بعثت کی یہ بھی غرض ہے کہ اسلام پر مخالفین کی طرف سے جو اعتراض کئے جاتے ہیں انہیں دور کر دیں.آج یورپ کا بہت بڑا اعتراض یہی ہے کہ اس زمانہ میں چونکہ جہالت پھیلی ہوئی تھی اس لئے محمد ال ) جو دانا اور عقلمند انسان تھا اس نے لوگوں کو اپنے پیچھے لگالیا ورنہ خدا کا اس کے ساتھ کوئی تعلق نہ تھا.اس اعتراض کو دور کرنے کے لئے خدا تعالیٰ نے اب جبکہ یورپ کا دعوی ہے کہ وہ علوم کی انتہائی ترقی کو پہنچ گیا ہے اپنے ایک نبی اور رسول کریم کے غلام کو بھیج دیا اور دنیا کو دکھا دیا کہ اس کی پتلی سی شاخ کے سامنے بڑے بڑے تناور درخت مرجھا مرجھا کر گرنے لگ گئے ہیں.پس خدا تعالیٰ نے یہ نشان خاص عظمت اور شان کے ساتھ دکھایا ہے اور اس زمانہ میں دکھایا ہے جب کہ دنیا اس بات کی قائل ہو رہی ہے کہ خدا مردہ کی حیثیت سے زیادہ کچھ وقعت نہیں رکھتا اور اس کے تمام اختیارات اپنے ہاتھ میں لینے کی کوشش کی جارہی ہے.بادشاہتیں اڑ رہی ہیں اور جمہوریت پھیل رہی ہے اور سب سے اعلیٰ درجہ کی سلطنت اس طریق کی سمجھی گئی ہے کہ ایک شخص ہو جس کو بادشاہ کا نام دے کر بٹھا دیا جائے اور اسے کہا جائے کہ تمہارا کام سوائے دستخط کر دینے کے اور کچھ نہیں کسی بات میں دخل دینے کا تمہیں اختیار نہ ہو گا.اس کے مطابق خدا کی حیثیت بھی قرار دی گئی اور لکھ دیا کہ دنیا کے کاروبار میں خدا کا کوئی دخل نہیں اس قسم کے خیالات کہ وہ نبی بھیجتا ہے یا معجزے دکھاتا ہے جاہلانہ باتیں ہیں.خدا نے دنیا کو پیدا کر کے چھوڑ دیا ہے کہ خود اپنے لئے سامان مہیا کرو.ان خیالات کے قلع قمع کے لئے خدا تعالٰی نے حضرت مسیح موعود کو بھیجا اور اس وقت
خطبات محمود ۳۸ جلد سوم جبکہ دنیا میں آپ کی کوئی حیثیت نہ تھی آپ نے اعلان کیا کہ.”دنیا میں ایک نذیر آیا پر دنیا نے اس کو قبول نہ کیا لیکن خدا اسے قبول کرے گا اور بڑے زور اور حملوں سے اس کی سچائی ظاہر کر دے گا".سے پھر آپ نے بتایا کہ خدا تعالیٰ نے مجھے خبر دی ہے کہ میں تیری تبلیغ کو زمین کے کناروں تک پہنچاؤں گا" سے دنیا میں سب سے خطرناک مخالفت شرکاء کی ہوتی ہے.پنچابی میں تو مشہور ہے " شراکت دا دانہ سر دکھدے دی کھانا " تو سب سے بڑی مخالفت اعزاء اور اقرباء کی ہوتی ہے کیونکہ وہ برداشت نہیں کر سکتے کہ انہی میں سے کھڑا ہو کر ایک شخص دنیا میں بڑائی اور عزت حاصل کرے.وہ جو اس کے مقابلہ میں چپہ چپہ زمین کے لئے لڑتے مرتے ہیں وہ کب گوارا کر سکتے ہیں کہ ساری دنیا اس کے پاس آجائے اس لئے وہ پورا زور لگاتے ہیں کہ اسے دبائیں.حتی کہ جو بے بس ہو جاتے ہیں اور کچھ نہیں کر سکتے.وہ بھی کسی نہ کسی طرح دل کا بخار نکالنے کی کوشش کرتے ہیں.حضرت خلیفہ اول فرماتے ہیں کہ شاہ پور کے رئیسوں میں سے کسی کو جب خان بہادر کا خطاب ملا تو اسی خاندان میں سے ایک عورت نے جو بہت غریب تھی اپنے لڑکے کا نام خان بہادر رکھ دیا.اس سے پوچھا گیا یہ تو نے کیا کیا.تو کہنے لگی کہ معلوم نہیں میرا بچہ بڑا ہو کر کیا بنے گا لیکن جب لوگ نام لیں گے تو جس طرح اس کے شریک کو خان بہادر کہیں گے اسی طرح اس کو بھی کہیں گے.تو جو کچھ اور نہیں کر سکتے وہ نام ہی رکھ لیتے ہیں.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جب دعوی کیا تو آپ کے رشتہ داروں میں بھی ایک شخص نے امام ہونے کا دعوی کیا مگر کہتے ہیں فکر ہر کس بقدر ہمت اوست - حضرت مسیح موعود نے تو یہ دعوی کیا کہ میں ساری دنیا کے لئے حکم بن کر بھیجا گیا ہوں اور چھوٹے درجہ کے لوگوں کے لئے ہی نہیں بلکہ بڑے بڑے بادشاہوں پر بھی فرض ہے کہ میری اتباع کریں.لیکن اس کی نام ہی رکھنے والی بات تھی اس نے دعوئی تو کیا مگر چوہڑوں کا امام ہونے کا.ادھر حضرت مسیح موعود نے دعوی کیا تو یہاں تک لکھ دیا کہ بادشاہ انگلستان پر بھی فرض ہے کہ مجھے مانے.چنانچہ خود لکھ کر ملکہ کو جو اس وقت بادشاہ تھی بھیج دیا.اس کے مقابلہ میں چوہڑوں کا امام ہونے کا دعوی کرنے والے کی دلیری اور اس کی جماعت کا یہ حال تھا کہ یہاں آکر جب تھانیدار نے اس سے پوچھا کہ کیا تم نے کوئی دعوی کیا ہے؟ تو اس نے کہا کہ میں نے کوئی دعوئی نہیں کیا.کسی نے یونہی جھوٹی رپورٹ کر دی ہوگی.تو شراکت
خطبات محمود ۳۹ جلد سوم والوں کی سب سے بڑی مخالفت ہوتی ہے اور جس طرح رسول کریم ﷺ کی بڑی مخالفت وہی ہے جو آپ کے قریبی رشتہ داروں نے کی.اسی طرح حضرت مسیح موعود کی بڑی مخالفت بھی آپ کے قریبی رشتہ داروں نے ہی کی.لوگوں نے رسول کریم ال کا سب سے بڑا مخالف جس کو قرار دیا ہے گو وہ ایذاء رسانی میں سب سے بڑا نہ ہو مگر اس میں شک نہیں کہ بغض میں سب سے بڑھا ہوا تھا وہ ابو لہب آپ کا چا تھا.اس کے علاوہ دوسرے رشتہ داروں نے بھی آپ کی مخالفت کی.وجہ یہ ہے کہ وہ برداشت نہیں کر سکتے تھے کہ ہم میں سے ہو کر نہ صرف ہم سے زیادہ شہرت اور عزت حاصل کرلے بلکہ ہم کو اپنے تابع کرلے.اس خیال سے مجبور ہو کر انہوں نے آپ کے خلاف کوششیں کیں.اور آپ کا نام و نشان مٹانے کی کوشش کرنے میں کوئی دقیقہ اٹھا نہ رکھا لیکن آپ کو خدا نے بتا دیا تھا کہ تیرے نام کے سوا کسی کا نام زندہ نہیں رہے گا.ان لوگوں کی نسلیں تجھ میں ہو کر چلیں تو چلیں.ورنہ یہ مٹ جائیں گے اور بالکل تباہ و برباد ہو جائیں گے.چنانچہ فرمایا اِنَّ شَانِئَكَ هُوَ الْاَبْتَر ہے کہ تیرے دشمنوں کی نسل منقطع ہو جائے گی.اب دیکھئے بظاہر ابو جہل کی اولاد ہوئی اور رسول کریم اے کی نہیں ہوئی.مگر خدا تعالٰی آپ کو فرماتا ہے کہ تیرے دشمن ابتر ہوں گے.اس کے یہی معنی ہیں کہ اب وہی اولاد قائم رہے گی جو رسول کریم ﷺ کی اولاد بن کر رہے گی.چنانچہ دیکھ لو عکرمہ کی جو کہ ابو جہل کا بیٹا ہے اولاد ہوئی مگر کون ہے جو یہ کہے کہ میں ابو جہل کی اولاد ہوں وہ یہی کہتے ہیں کہ ہم رسول کریم ﷺ کی اولاد ہیں اور اس سے زیادہ کسی کی نسل کیا منقطع ہو سکتی ہے کہ نسل موجود ہوتے ہوئے بھی اپنے آباء کی نسل ہونے سے انکار کردے.ای طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بتایا گیا کہ تیرے سوا اس خاندان کی نسلیں منقطع ہو جائیں گی چنانچہ ایسا ہی ہوا.اب اس خاندان میں سے وہی لوگ باقی ہیں جو سلسلہ احمدیہ میں داخل ہو گئے اور باقی سب کی نسلیں منقطع ہو گئی ہیں.جس وقت حضرت مسیح موعود نے دعویٰ کیا اس وقت اس خاندان میں ستر کے قریب مرد تھے.لیکن اب سوائے ان کے جو حضرت مسیح موعود کی جسمانی یا روحانی اولاد ہیں ان ستر میں سے ایک کی بھی اولاد نہیں ہے.حالانکہ انہوں نے حضرت صاحب کا نام مٹانے میں جس قدر ان سے ہو سکا کوششیں کیں.اور اپنی طرف سے پورا پورا زور لگایا.مگر نتیجہ کیا ہوا؟ یہی کہ وہ خود مٹ گئے اور ان کی نسلیں منقطع ہو گئیں.یہ بھی حضرت مسیح موعود کی صداقت کا ایک عظیم الشان نشان ہے.پھر حضرت مسیح موعود کو
خطبات محمود جلد سوم الہام ہوا اور دکھایا گیا کہ " یہ جو مسجد مبارک کے پاس مکان ہے.اس میں ہم کچھ حسنی طریق سے داخل ہوں گے اور کچھ حسینی طریق سے ".شہ بہت لوگ حیران تھے کہ اس الہام کا کیا مطلب ہے.اور میں نے خود حضرت صاحب سے سنا آپ فرماتے تھے معلوم نہیں کہ اس الہام کا کیا مطلب ہے لیکن وقت پر معنی کھلتے ہیں.اس کے ایک معنے تو یہ ہو سکتے ہیں کہ جس طرح اور جس طریق سے حضرت حسن اور حسین داخل ہوئے تھے اسی طرح ہم بھی داخل ہوں گے اور ایک یہ کہ ان کا رویہ اختیار کر کے ہم داخل ہوں گے.اب ہم حضرت حسن اور حسین کے طریق کو دیکھتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے پہلے معنے تو ہو نہیں سکتے کیونکہ حضرت حسن نے یہ طریق اختیار کیا تھا کہ انہوں نے خلافت چھوڑ دی اور صلح کر کے اختلاف اور انشقاق کو مٹانا چاہا تھا لیکن حضرت حسین نے تلوار کے ذریعہ سے فتنہ کو فرد کرنے کی کوشش کی مگر اس میں کامیابی نہ ہوئی اور وہ خود مارے گئے.یوں تو وہ مومن تھے اس لئے یہ نہیں کہا جاسکتا کہ جس غرض کے لئے انہوں نے کوشش کی وہ حاصل نہ ہوئی.لیکن بظاہر دشمن نے ان پر غلبہ پالیا.تو یہ معنے نہیں ہو سکتے کہ جس طرح وہ داخل ہوئے تھے اسی طرح ہم بھی داخل ہوں گے.بلکہ یہی ہوں گے کہ جو طریق ان کا تھا وہی ہمارا ہو گا کہ کچھ تو صلح کے ذریعہ اور کچھ لڑائی کے ذریعہ ہم اس مکان میں داخل ہوں گے.چنانچہ یہ دونوں صورتیں پوری ہو گئیں.لڑائی یعنی جلالی رنگ تو ایسا پورا ہوا کہ حضرت مسیح موعود کے اس الہام کے مطابق کہ اس مکان میں بیوائیں ہی رہا جائیں گی یہی حالت ہو گئی.پھر جمال کا اظہار ہوا تو ایسا کہ اس خاندان میں سے جو ایک بچہ رہ گیا تھا اس کو کھینچ کر سلسلہ میں داخل کر دیا.تو خدا تعالیٰ نے اس گھر پر جلال کا اظہار کیا تو ایسا کہ وہ گھر جس کی رونق ہمارے گھروں سے بہت زیادہ تھی اسے ایسا سنسان اور اجاڑ بنا دیا کہ وہاں اتو ہے اور واقعہ میں ہے.پھر خدا تعالٰی نے جمال کے اظہار کے لئے ایک بچہ کو ان میں سے لے لیا اور حضرت مسیح موعود کی پناہ میں دے دیا.پس وہ الہام دونوں پہلوؤں سے پورا ہو گیا.اس وقت میں نے اس نشان کو اس تقریب پر بیان کیا ہے کہ میں مرزا گل محمد کی شادی کا اعلان کرنے لگا ہوں یہ مرزا نظام الدین کی اولاد میں سے ہے اور اس خاندان میں بلکہ دوسرے خاندانوں میں سے بھی جنہوں نے حضرت مسیح موعود کی مخالفت کی صرف یہی بچا ہے اور کوئی نہیں بچا اور اس کے بچاؤ کی بھی یہی صورت ہوئی ہے کہ یہ کسی نہ کسی ذریعہ سے اس سلسلہ سے وابستہ ہو گیا ہے جس کے ساتھ وابستہ ہو کر اس وقت انسان خدا کے عذاب سے بچ سکتے
خطبات محمود ہیں.то ه تذکرہ صفحہ ۱۰۴- ایڈیشن چهارم که تذکرہ صفحہ ۳۱۲- ایڈیشن چهارم که الکوثر :٣ شه تذکرہ صفحہ ۷۹۲.ایڈیشن چهارم جلد سو الفضل ۷ - اکتوبر ۱۹۱۹ء صفحہ ۴ تا ۸)
خطبات محمود ۱۲ وعظ و نصیحت کو توجہ سے سننا چاہئے (فرموده ۵ - ستمبر ۱۹۱۹ء) ۵- ستمبر ۱۹۱۹ء کو جمعہ کے دن بعد نماز عصر حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے قاضی فضل کریم صاحب بھیروی کی لڑکی امتہ العزیز کا نکاح پڑھا.خطبہ نکاح سے پہلے حضور نے فرمایا :- اس وقت کھڑا تو میں ایک خطبہ نکاح پڑھنے کی غرض سے ہوا ہوں مگر اس سے پہلے میں ایک اور بات کہنی چاہتا ہوں جو آج ہی میرے دل میں ڈالی گئی ہے.میں نے بہت دفعہ بیان کیا ہے کہ کسی وعظ یا نصیحت کے سننے سے اس وقت تک کوئی خاص فائدہ نہیں ہو تا جب تک فائدہ اٹھانے کی غرض اور نیت سے اسے نہ سنا جائے.بہت لوگ سنتے ہیں مگر آخر ان کی وہی حالت ہوتی ہے کہ گویا کچھ سناہی نہیں.شاید وہ اس بات کو معمولی سمجھتے ہوں لیکن قرآن کریم اس کو نهایت خطرناک بیماری قرار دیتا ہے اور کفار اور منافقین کی صفت بیان کرتا ہے.چنانچہ فرماتا ہے جب وہ رسول کی مجلس سے باہر نکلتے ہیں تو ایک دوسرے سے پوچھتے ہیں ماذا قال لے کیا کہتے تھے حالانکہ خود وہاں بیٹھے ہوتے تھے.اس کی وجہ یہی ہے کہ باوجود بیٹھنے کے ان کے خیالات اور طرف لگے ہوتے تھے اور جو کچھ مجلس میں بیان ہو تا اس کی طرف توجہ نہ کرتے تو یہ ایک بہت بڑا نقص ہے جس کی وجہ سے ایسے آدمی کسی صداقت سے فائدہ نہیں اٹھا سکتے.جو لوگ توجہ اور غور سے اور فائدہ اٹھانے کی غرض سے سنتے ہیں وہ چھوٹی سے چھوٹی بات سے بھی فائدہ اٹھا لیتے ہیں.لیکن جو لوگ فائدہ نہیں اٹھانا چاہتے وہ سب انبیاء بلکہ ملائکہ سے بھی کچھ
خطبات محمود ۴۳ جلد سوم فائدہ نہیں اٹھا سکتے.نصیحت حاصل کرنے والا انسان تو ایک بچہ کی بات سے بھی نصیحت حاصل کر سکتا ہے لیکن نہ کرنے والا سید ولد آدم کی باتیں بھی سنتا رہا لیکن کوئی فائدہ نہ اٹھا سکا تو توجہ سے سننے سے فائدہ ہوتا ہے.ورنہ خواہ کوئی ساری عمر ایک ہی بات سنتا رہے کوئی فائدہ نہیں اٹھا سکتا.دیکھو حضرت مسیح موعود نے جو دعویٰ کیا اس وقت اپنی صداقت کے ثابت کرنے کے لئے جو دلائل دیئے بعد میں ان کے علاوہ کوئی نئے دلائل نہیں پیدا کر لئے تھے.آپ نے اپنے دعوی کے دلائل کی بنیاد ازالہ اوہام میں رکھی ہے مگر بہت لوگ ہیں جو اس کو پڑھ کر احمدی ہوئے.اس کے بعد زیادہ پھر زیادہ احمدی ہوتے گئے اس کی وجہ یہی ہے کہ پہلے لوگوں نے جو کچھ سنا اس پر غور نہ کیا لیکن بعد میں کسی نیکی کی وجہ سے توجہ کے ساتھ سنا اس لئے سمجھ آگئی.یہ بھی ممکن ہے کہ پہلے صداقت کو قبول کرنے سے خدا نے گناہوں کی وجہ سے محروم رکھا ہو لیکن بہر حال کوئی وجہ ہو اس میں شک نہیں کہ جو لوگ بعد میں احمدی ہوئے اور ہو رہے ہیں وہ اس لئے نہیں کہ انہیں حضرت مسیح موعود کی صداقت کی کوئی نئی دلیل معلوم ہوئی ہے.دلیلیں تو وہی ہیں جو پہلے دی جاتی تھیں لیکن پہلے چونکہ ان پر توجہ نہیں کی جاتی تھی اس لئے فائدہ نہیں ہو تا تھا حتی کہ ایک دن آگیا جبکہ غور و فکر سے کام لیا گیا تو انہیں دلائل سے تسلی ہو گئی.پس جب تک کسی بات کو توجہ سے نہ سنا جائے اس وقت تک اس پر عمل نہیں کیا جاسکتا اور جب تک عمل نہ کیا جائے اس وقت تک اس سے کچھ فائدہ حاصل نہیں ہو سکتا.میں نے آج آپ لوگوں کو یہ نصیحت کی تھی کہ آج کا دن دعاؤں کی قبولیت کے لئے خاص فضیلت رکھتا ہے اس سے فائدہ اٹھاؤ.یہ گو میرا اپنا ذوق ہو یا رسول کریم ﷺ کی سنت ہو یا صلحائے امت جو گزرے ہیں ان کا طریقہ ہو اس کو ہم نہیں چھیڑتے مگر بہر حال کہنے والا جو تھا اس کے نزدیک تو یہ ایک ضروری اور قابل عمل بات تھی جن کو سنائی گئی تھی وہ اس پر عمل کریں یا نہ کریں یہ ان کے اپنے اختیار یا اعتقاد کی بات تھی یا کچھ ایسے لوگ ہوں جو عادت نہ ہونے کی وجہ سے زیادہ دیر تک بیٹھ کر دعا نہیں کر سکتے یا بیماری یا کسی اور وجہ سے نہیں بیٹھ سکتے لیکن انہیں یہ تو سمجھنا چاہئے کہ کہنے والا تو ضرور اس پر عمل کرے گا اور اس سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کرے گا مگر افسوس ہے کہ عصر سے کچھ دیر پہلے مجھے ایک رقعہ ملا جس میں ایک بات کے متعلق جس سے نہ کوئی دینی فائدہ متصور ہو سکتا ہے نہ دنیوی.کہا گیا ہے کہ اگر آپ عصر کے وقت تقریر کریں تو بہت احسان ہو گا.گویا رقعہ لکھنے والے کے نزدیک میں دوسروں کو تو
محمود ممم اس وقت دعا ئیں کرنے کی نصیحت کرتا ہوں مگر خود ایسی باتوں پر تقریر کرنا شروع کر دوں جس سے نہ کوئی دین کا فائدہ نہ دنیا کا.دراصل رقعہ لکھنے والے نے میری اس نصیحت کو سنا نہیں جو میں نے آج ہی خطبہ جمعہ میں کی ہے یا اگر سنا ہے تو وہ مطلب نہیں سمجھا جو میں سمجھانا چاہتا تھا.ایسا شخص اگر خود اس نصیحت کو قابل قبول نہیں سمجھتا تو نہ قبول کرے لیکن اتنا خیال کرے کہ کہنے والا جب دو سروں کو اس پر عمل کرنے کی نصیحت کرتا اور اس کی فضیلت سے آگاہ کرتا ہے تو وہ خود کیوں نہ اس سے فائدہ اٹھائے گا.اگر اسے یہ خیال ہو تا تو اس قسم کا رقعہ نہ لکھتا.پس میں آپ لوگوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ اگر کسی بات سے فائدہ اٹھانا چاہتے ہو تو اسے غور اور توجہ سے سنو تاکہ اس پر عمل کر سکو.خطبہ جمعہ میں مجھے یہ کہنا یاد نہیں رہا کہ آج کی رات بھی بہت مفید اور بابرکت ہے.ایک محاورہ ہے کہ رسول کریم ﷺ اس رات کو زندہ کیا کرتے تھے یعنی جاگا کرتے تھے.حج کے موقع پر مزدلفہ میں تو لوگ ساری رات جاگتے ہی ہیں مگر یوں بھی رسول کریم ا جاگا کرتے تھے پس یہ رات بھی تسبیح و تحمید اور دعاؤں کی قبولیت کے لئے خاص درجہ رکھتی ہے اس سے بھی فائدہ اٹھانا چاہئے.خطبہ نکاح چونکہ اپنے اندر ایسی نصائح رکھتا ہے جو قلب کو صاف اور اعمال کو درست کرنے کے ساتھ خاص تعلق رکھتی ہیں بلکہ ان کا ساری زندگی کے ساتھ تعلق ہے اس لئے میں نے اس کام کو اس کے خلاف نہیں سمجھا جس کے کرنے کے لئے آپ لوگوں کو کہا ہے بلکہ محمد و معاون سمجھا ہے کیونکہ اس میں خدا تعالیٰ کی تحمید اور تسبیح علی الاعلان بیان کی جاتی ہے اور ایسے امور پر توجہ مبذول ہوتی ہے جو قلب اور روح کو صاف کرنے والے اور نیکی کی طرف توجہ دلانے والے ہیں.پس یہ بھی ایک ذکر ہے، ایک عبادت ہے کیونکہ اس میں بھی اپنے گناہوں کی معافی مانگی جاتی اور خدا تعالیٰ کی اطاعت اور فرمانبرداری کی تعلیم دی گئی ہے.(الفضل ۱۲.ستمبر ۱۹۱۹ء صفحہ ۹) اس کے بعد حضور نے مذکورہ نکاح سے متعلق فرمایا کہ :- نے کل حضرت قومیت کی حد بندیاں انبیاء کے ذریعہ دور کی جاتی ہیں مسیح موعود کی بعثت
خطبات محمود ۴۵ متعلق ایک خطبہ نکاح سے بیان کیا تھا میرے نزدیک احمدیوں کے تمام نکاح حضرت مسیح موعود کی صداقت کا ایک بہت بڑا ثبوت ہیں خواہ وہ اپنے اندر کوئی پیشگوئی رکھتے ہوں یا نہ رکھتے ہوں ان سے حضرت مسیح موعود کی صداقت ثابت ہوتی ہے.جس قدر انبیاء دنیا میں آئے ہیں ان کی بعثت کی غرض یہی تھی کہ خدا کے وجود کو دنیا کے سامنے پیش کریں اور ایک خدا کی پرستش لوگوں سے کرائیں.یا دوسرے الفاظ میں یہ کہ خدا تعالی کی توحید ثابت کریں اور لوگوں سے منوائیں.جس وقت کوئی نبی آتا ہے اس سے پہلے لوگ مختلف خداؤں کو مانتے اور ان کی پرستش کرتے ہیں اس کے لئے یہ ضروری نہیں کہ وہ منہ سے ہی کہیں کہ دو خدا ہیں یا تین بلکہ انہوں نے خدا تعالیٰ سے عملاً ایسی علیحدگی اختیار کی ہوتی ہے کہ ہر قوم ہر خاندان، ہر گھرانہ، بلکہ ہر شخص کا خدا علیحدہ ہوتا ہے.کیونکہ جب انبیاء آتے ہیں اس وقت لوگ دنیاوی وجاہتوں، رتبوں اور رسم و رواج میں ایسے پڑے ہوتے ہیں کہ ان کو چھوڑنے کا نام تک نہیں لیتے اور قوم پرستی حد سے زیادہ بڑھی ہوتی ہے.رسول کریم ﷺ کے وقت بھی یہی معلوم ہوتا ہے اور حضرت مسیح اور حضرت موسیٰ کے وقت میں بھی.حضرت موسیٰ کے وقت تو قومیت پرستی اس شدت کو پہنچی ہوئی تھی کہ فرعون بنی اسرائیل کے سامنے ہونے سے پر ہیز کرتا تھا اور سمجھتا تھا کہ ان کی نظر پڑنے سے میں ناپاک ہو جاؤں گا.پھر ان کو کوئی رتبہ، کوئی درجہ، کوئی عزت حاصل نہیں ہونے دیتا تھا اور سب قسم کا آرام و آسائش صرف اپنی ہی قوم کے لئے سمجھتا تھا.اسی طرح حضرت مسیح کے وقت کا حال انا جیل سے معلوم ہوتا ہے کہ یہود کھانے پینے، بیٹھنے اٹھنے اور دوسرے معاملات میں بڑے سخت تھے.اور رسول کریم ﷺ کے وقت کے متعلق تو قرآن کریم میں آگیا ہے کہ یہود کہتے ہیں کہ جو یہودی ہو گا وہ نجات پائے گا اور نصاریٰ کہتے ہیں جو عیسائی ہو گا وہ نجات پائے گا.سے اور مشرک کہتے ہیں جو مشرک ہے وہ نجات پائے گا.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ سمجھتے تھے کہ خدا تعالٰی کو ماننے اور اس کی اطاعت کرنے سے نجات نہیں مل سکتی بلکہ ہماری قوم میں سے ہونا نجات کا باعث ہے تو ہر قوم اس وقت اپنے آپ کو ایسی ممتاز اور معزز سمجھتی ہے کہ ہر ایک نیکی اور بڑائی اپنے ہی لئے مخصوص کر لیتی ہے اور اس طرح قوم گو یا اپنا الگ الگ خدا بنالیتی ہے.ایسے وقت میں نبی اکر ایک خدا کو منواتا ہے اور عملی طور پر لوگوں سے خدا کے ایک ہونے کا اس طرح اقرار کراتا ہے کہ وہ سب لوگ اپنے آپ کو ایک ہی خدا کی مخلوق سمجھنے لگ جاتے
خطبات محمود ۴۶ جلد سوم ہیں اور قومیت کے امتیازات کو بالکل چھوڑ دیتے ہیں دیکھو رسول کریم ﷺ کے وقت مکہ والے مدینہ والوں کو کیا سمجھتے تھے.ابو جہل نے مرنے کے وقت بھی اگر کسی بات پر افسوس کیا تو یہی کیا کہ مجھے مدینہ والوں نے مارا ہے.مگر رسول کریم نے ان کو آپس میں ایسا ملا دیا کہ ایک دوسرے کے لئے جائیں دینے اور لہو بہانے کے لئے نہ صرف تیار ہو گئے بلکہ بہا دیا اور ان میں ایسا اتفاق اور اتحاد ہو گیا کہ جو جدائی تھی اس کا کہیں نام و نشان بھی نہ رہا.یہی حال اس وقت حضرت مسیح موعود کے زمانہ میں ہوا کہ وہ جو لوگوں میں ایک دوسرے سے علیحدگی تھی اور ہر ایک قوم کے لوگ اپنا اپنا الگ خدا سمجھتے تھے ان سب کو ایک کر دیا کہ چونکہ تم سب ایک ہی خدا کی مخلوق ہو اس لئے سب مساوی حیثیت رکھتے ہو.پس جب ایک ماں باپ کی وجہ سے بھائی بہنوں میں نہایت گہرے تعلقات ہوتے ہیں.تو خدا تعالیٰ جو ماں باپ سے بہت بڑھ کر احسان کرنے والا ہے اس کی پیدا کردہ مخلوقات کے آپس میں کیوں ایک جیسے تعلقات نہیں ہونے چاہئیں.اس میں شک نہیں کہ انتظام دنیا کے قیام کے لئے اور ایک دوسرے کی امداد کرنے کے لئے خدا تعالیٰ نے لوگوں میں فرق رکھا ہے.لیکن اس میں بھی شک نہیں کہ جتنے لوگ نبی کے ذریعہ توحید پر قائم ہونے والے ہوتے ہیں ان کے آپس میں تعلقات رشتہ داروں کے ایک دوسرے کے تعلقات سے بہت بڑھ کر ہوتے ہیں وجہ یہ کہ وہ سمجھتے ہیں کہ ہم سب ایک خدا کی مخلوق ہیں اور یہ صاف بات ہے کہ وحدت تعلقات کو بہت وسیع اور مضبوط کر دیتی ہے.دیکھو ایک مدرسہ میں پڑھنے والے، ایک دفتر میں ملازمت کرنے والے، ایک گاؤں میں رہنے والے ایک دوسرے کے ساتھ جو تعلقات رکھتے ہیں اس کی یہی وجہ ہے کہ ان میں ایک وحدت ہوتی ہے اور وحدت جس قدر اہم اور بڑے امر میں ہوتی ہے اسی قدر زیادہ تعلقات ہوتے ہیں پس چونکہ ایک خدا کو ماننا سب سے بڑی وحدت ہے اس لئے جو لوگ ایک خدا کو مانتے ہیں ان کے آپس میں تعلقات بہت مضبوط اور گہرے ہوتے ہیں اور کسی کی وجہ سے نہیں.بہن بھائیوں میں جو محبت ہوتی ہے اس سے بڑھ کر ان میں ہوتی ہے.رسول کریم کے وقت میں مسلمانوں کی آپس میں جو محبت تھی وہ ایک ماں باپ سے پیدا ہونے والے لوگوں میں جو محبت پائی جاتی ہے اس کا عشر عشیر بھائیوں بھائیوں میں مل سکتا ہے؟ ہرگز نہیں.وجہ یہ ہے کہ جانتے ہیں کہ ہم سب ایک خدا کو ماننے والے ہیں جو ماں باپ سے بہت اعلیٰ ہے صحابہ کو رسول کریم ﷺ سے جو محبت تھی اس کو جانے دیں.صحابہ کی آپس میں
خطبات محمود جلد ہوا جس قدر محبت تھی وہ بھی بے نظیر تھی.جنگ یرموک کا واقعہ ہے.سات زخمی پڑے تھے ان میں سے ایک کے پاس جب پانی لایا گیا تو اس نے کہا دوسرے کو پلاؤ.دوسرے کے پاس لے گئے تو اس نے کہا تیسرے کو پلاؤ.تیسرے کے پاس لے گئے تو اس نے کہا چوتھے کو پلاؤ.حتی کہ ساتویں کے پاس لے گئے لیکن وہ فوت ہو چکا تھا.واپس لوٹے تو دوسرے بھی فوت ہو چکے تھے کہ اس سے معلوم ہو سکتا ہے کہ ان کی آپس میں کیسی محبت، کیسا پیار تھا اور وہ ایک دوسرے کے لئے کس طرح ایثار کرنے کے لئے تیار رہتے ہیں.پس ایک نبی کو مان کر اور ایک خدا کی مخلوق مان کر ہر شخص کا فرض ہو جاتا ہے کہ آپس میں مخلصانہ تعلقات رکھے اور ایک بھائی دوسرے کے لئے ایثار کرے.یہی وجہ ہے کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا ہے کہ ایثار سے ایمان قائم رہتا ہے.فرمایا.ایک ایسا زمانہ آئے گا جب کہ لوگ چھوٹی چھوٹی باتوں پر آپس میں جھگڑیں گے اس وقت ایثار کرنا.تو نبی جب آتے ہیں تو فضول حد بندیاں تو ڑ کر سب میں اتحاد و اتفاق پیدا کر دیتے ہیں اور وہ آپس میں رشتے ناطے کرنے میں کسی قسم کی عار نہیں سمجھتے.باقی رہی کفو جو شریعت نے مقرر کی ہے وہ دینداری، تقویٰ اور آپس کے دنیاوی حالات کی مطابقت ہے جن کو مد نظر رکھنا نہایت ضروری ہے اور یہ تو بھائیوں بھائیوں میں بھی ہوتا ہے.مثلاً ایک بھائی مالدار ہے اور دوسرا غریب.ایسی حالت میں مالدار خیال کرے گا کہ میری لڑکی جو آرام و آسائش میں پلی ہے وہاں جائے گی تو تکلیف اٹھائے گی اور آپس میں شکر رنجی رہے گی یا لڑکے لڑکی کی طبائع میں فرق ہوتا ہے.دینداری کے لحاظ سے یا علم کے لحاظ سے.اس کا بھی خیال نہ رکھا جائے تو نتیجہ خراب لکھتا ہے.اس قسم کی باتوں کا خیال رکھنا ضروری ہوتا ہے.باقی قومیت وغیرہ کا کوئی لحاظ نہیں ہوتا کیونکہ سب وحدت پر قائم ہوتے ہیں.اور ایک خدا کو مانتے ہیں اور اس وحدت کا ثبوت رسول کریم ﷺ کے وقت بھی ملتا ہے اور اب حضرت مسیح موعود کے ذریعہ ہی ہماری جماعت میں پایا جاتا ہے.کہاں کہاں سے لوگ آتے ہیں اور آپس میں رشتے ہو جاتے ہیں.میرے نزدیک ایک وجہ مختلف جگہوں اور مختلف قوموں میں سے تھوڑے تھوڑے لوگوں کو احمدیت میں داخل ہونے کی توفیق ملنے کی یہ بھی ہے کہ اس طرح قومیت وغیرہ کی بندشیں توڑی جائیں کیونکہ اگر ساری کی ساری قوم احمدی ہو جائے تو آپس میں رشتے کر سکتے ہیں اور جس طرح راجپوتوں میں چھتے ، دروازے اور چو کٹھے بنے ہوئے ہیں وہ اسی طرح احمدی ہونے پر بھی بنے رہیں.مگر اب خدا تعالٰی نے ایک چھت والے کو احمدیت میں
خطبات محمود MA جلد سوم داخل کردیا اور ایک چوکھٹ والے کو.اور ان کو آپس میں رشتے کرنے پڑتے ہیں اسی طرح ملکوں کے لحاظ سے ہوتا ہے.مختلف جگہوں کے لوگ احمدی ہونے کی وجہ سے آپس میں رشتے کر کے اتحاد اور اتفاق کا موجب بنتے ہیں.ہماری جماعت کے سوا اور کہاں ایسا ہوتا ہے اس تم کی تو کوئی مثال مل جائے گی کہ کوئی ملازم ہو کر کسی جگہ چلا گیا اور مالدار ہونے کی وجہ سے کسی نے رشتہ دے دیا.مگر احمدیوں کے آپس میں جس طرح تعلقات ہیں ایسی بہت کم مثالیں ملیں گی.یہ در حقیقت وحدت کی وجہ سے ہے جس میں مد نظر تقویٰ اور دینداری ہے.پس یہ توحید کا عملی ثبوت ہے.پھر اس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ ہماری جماعت کے لوگ دین کے لئے ایسا کرتے ہیں کیونکہ ایک قوم کا شخص جو دوسری قوم میں لڑکی دیتا ہے تو اسی لئے دیتا ہے کہ اس کی قوم میں کوئی دیندار نہیں ہوتا.اس طرح لوگوں کو دین کی طرف بھی توجہ ہو سکتی ہے.الفضل ۱۱- اکتوبر ۱۹۱۹ء صفحہ ۲۵) محمد :۱۷ کے مرزا گل محمد صاحب کا نکاح حضور نے نہ ستمبر کو پڑھا جس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئی کا ذکر ہے.وقالوا لن يدخل الجنة إلا من كان هود او نصرى" (البقرة : ۱۱۲) به البداية والنهاية جلد ۴ صفحه ۱۲ مطبوعہ بیروت ۱۹۲۲ء
خطبات اعلانات نکاح سے متعلق ایک ہدایت (فرموده ۲۹ - دسمبر ۱۹۱۹ء) ۲۹ دسمبر ۱۹۱۹ء کو حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے جلسہ سالانہ کے موقع پر مندرجہ ذیل نکاحوں کا اعلان فرمایا.اے عظیمہ بیگم کا نکاح عزیز احمد صاحب سے ۵۰۰ روپے مہر پر.ریشم بی بی کا نکاح مهرالدین صاحب سے ۱۰۰ روپے مہر پر.حلیمہ بیگم بنت بابو فقیر علی کا نکاح بابو غلام رسول صاحب سے ۵۰۰ روپے مهریز - - امینہ بی بی کا نکاح روشن دین سے ۲۰۰ روپے مہریر.نصیرہ بیگم کا نکاح عصمت اللہ خان پر چوہدری فضل احمد خان سے ایک ہزار روپے صریر.خطبہ مسنونہ کی تلاوت کے بعد فرمایا :- ہمیں خدا تعالیٰ نے ان رسوم سے نجات دی ہے جو لوگوں کو تباہ کرنے والی تھیں اور ہمارے نکاح بہت آسانی سے ہو جاتے ہیں.لیکن جلسہ کے موقع پر نکاحوں کا سلسلہ اتنا لمبا ہوتا ہے کہ باوجود اس کے کہ صرف اعلان ہی ہوتے ہیں پھر بھی بڑا وقت خرچ ہوتا ہے.جس سے یہ خیال پڑتا ہے کہ شاید آئندہ ایک تقریر نکاحوں کے لئے رکھنی پڑے گی.یہ ان لوگوں کا اخلاص ہے کہ جلسہ کے موقع پر نکاح کراتے ہیں مگر میں کہتا ہوں کہ دوسرے وقتوں میں آیا کریں تاکہ ان کو وہ نصائح بھی بتائے جایا کریں جو قرآن و حدیث میں درج ہیں اور جو ہم اس وقت بوجہ وقت کی تنگی کے بیان نہیں کر سکتے.له الفضل ۱۲ جنوری ۱۹۲۰ء صفحه ۲ الفضل ۱۲ جنوری ۱۹۲۰ء صفحه ۵)
خطبات محمود ۱۴ جلد سوم نکاح کے معاملہ میں فکر، خشیت اور دعاؤں سے کام لو ا فرموده ۲۸ فروری ۱۹۲۰ء) ۲۸.فروری ۱۹۲۰ء کو حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے شیخ غلام فرید صاحب بی.اے کا نکاح شیخ فضل حق صاحب بٹالوی کی ہمشیرہ نواب بیگم سے ایک ہزار روپیہ مہر پر پڑھا.حضور نے خطبہ مسنونہ کی تلاوت کے بعد فرمایا : نکاح کا معالمہ ایک نہایت ہی عام اور ہمیشہ واقع ہونے والے معاملات میں سے ہے اور ان واقعات میں سے ہے کہ جو خوشی و رینج کے لحاظ سے گو ایک مخصوص حلقہ میں چند منٹ یا چند گھنٹہ کے لئے اثر پیدا کرتے ہیں مگر پھر ان کا اثر بظاہر مٹ جاتا ہے.میرے نزدیک شادی و نکاح کی مثال ان واقعات کی طرح ہے جو تیر یا گولی کی طرح چھٹتے ہیں.جس وقت تیر چھٹتا ہے تو اس کی ایک حرکت ہوتی ہے مگر جب تیر نشانہ پر پہنچتا ہے تو ادھر سناٹا ہو جاتا ہے.اس کے چھٹنے کی حرکت اس وقت تک بے حقیقت ہوتی ہے جب تک یہ نہ معلوم ہو کہ وہ نشانہ پر بھی بیٹھا ہے یا یونہی ضائع ہو گیا ہے.مگر تیر کے چھٹنے اور نشانہ تک جانے کا عرصہ وفاصلہ اتنا قلیل ہوتا ہے کہ اس کا اندازہ نہیں ہو تا مگر ہوتا ضرور ہے لیکن جب وہ چھٹتا ہے تو ادھر حرکت ہوتی ہے اور جب وہ اپنے مقام پر پہنچتا ہے تو یہاں سناٹا ہوتا ہے.یہی حال نکاح کا ہوتا ہے کہ جب تک اس کا بظاہر کوئی اثر نہیں ہوتا اس کے لئے حرکت ہوتی ہے، تیاریاں کی جاتی ہیں، دعوتیں ہوتی ہیں لیکن جب نکاح کے ثمرات کا وقت آتا ہے تو ہر طرف خاموشی ہوتی ہے جب میاں بیوی میں لڑائیاں اور جھگڑے ہوں یا اور معاملات میں ان کی کشمکش ہو رہی ہو اس وقت کسی کو علم نہیں
خطبات محمود ۵۱ جلد سوم ہو تاکہ وہ کس حالت میں ہیں.نکاح کی مثال موت کے ساتھ بھی دی جاسکتی ہے کہ جب ایک شخص کے جسم سے روح علیحدہ ہوتی ہے تو اس کے گھر والوں میں ماتم پڑ جاتا ہے مگر جب اسے دفن کر آتے ہیں اس کا حساب و کتاب شروع ہوتا ہے جو اس کے لئے مشکل وقت ہوتا ہے اس وقت لوگ خاموش ہوتے ہیں.احادیث میں آتا ہے کہ بعض لوگوں کا حساب چند دن دیر میں لیا جاتا ہے لے.تو ایسے مردے کے لئے جب رنج کا وقت ہوتا ہے اس وقت رونے والے خاموش ہو جاتے ہیں.پر نکاح ان معاملات میں سے ہے کہ جن کی ابتداء تو خوشی سے ہوتی ہے مگر انتہاء کا کسی کو علم نہیں ہوتا اور نہیں جانتے کہ اس کے کیسے ثمرات پیدا ہوں گے.عام لوگ نکاح کی اہمیت سے واقف نہیں ہوتے.حالانکہ نکاح ایک عمارت ہے جس میں عظیم الشان دنیا آباد ہوتی ہے.اس وقت سوا ارب دنیا کی آبادی بتائی جاتی ہے.چند سو سال قبل دنیا کی جتنی آبادی تھی آج اتنی صرف ابراہیم کی نسل دنیا میں موجود ہے.اس سے معلوم ہوا کہ ایک آدمی کی نسل سے ایک دنیا بن جاتی ہے.اس لئے یہ معالمہ چھوٹا معالمہ نہیں بلکہ بڑا اہم معالمہ ہے اس لئے بڑے فکر، بڑی خشیت اور بڑی دعاؤں کی ضرورت ہے اس لئے رسول کریم ﷺ نے اس موقع کے لئے قرآن کریم کی ان آیتوں کو منتخب کیا ہے جن میں بار بار تقویٰ کا حکم دیا گیا ہے.خوشی ایک ایسی چیز ہے جو اپنی ذات میں خوبصورت ہے اور کم لوگ ہیں جو خوشی میں خدا کو یاد رکھتے ہیں.رینج میں تو خدا یاد آہی جاتا ہے پس چونکہ شادی بھی ایک ایسا معالمہ ہے جو دنیا میں خوشی کا معاملہ ہے اور سوائے دنیا کے ایک جزیرہ کے باقی تمام ممالک میں اس موقع پر خوشی کا اظہار کیا جاتا ہے اس لئے قرآن میں تقویٰ اللہ پر زور دیا گیا ہے اور بار بار توجہ دلائی گئی ہے کہ خدا پر بھروسہ کرنا چاہئے اور اس سے دعا ئیں کرنی چاہئیں کہ خدایا اس کے اچھے نتائج پیدا ہوں اور یہ کام تیری مرضی کے مطابق ہو.الفضل ۸ - مارچ ۱۹۲۰ء صفحه ۲)
خطبات محمود ۵۲ ۱۵ جلد سوم تقویٰ اختیار کرنے سے اچھے انسان پیدا ہونگے فرموده ۱۹۲۰ء) سے حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے سید مهدی حسین پسر سید ولایت علی شاہ صاحب کا نکاح رقیہ بیگم بنت جناب ڈاکٹر سید غلام حسین صاحب حصار سے ایک ہزار روپیہ مہر پر پڑھا.خطبہ مسنونہ کی تلاوت کے بعد فرمایا :- انسان کی پیدائش اور اس کے دنیا میں آنے کی غرض کیا ہے اس کو کس نے پیدا کیا اور کیوں کیا اور اس کو اس خاص شکل میں پیدا کرنے کی کیا غرض اور کیا حکمت ہے ؟ یہ ایک ایسا سوال ہے کہ اس کا تعلق صرف اہل مذاہب سے نہیں بلکہ تمام انسانوں سے ہے.یہ بے شک بجا ہے کہ بعض سوال اس قسم کے ہوتے ہیں کہ ان کا جواب دیتا صرف بانیان مذاہب ہی کا کام ہوتا ہے لیکن یہ ایک ایسا سوال ہے کہ ہر انسان سے اس کا تعلق ہے.اس سوال کے جواب دینے والے دو طرح کے لوگ ہو سکتے ہیں.ایک تو وہ جن کا عقیدہ ہے کہ ہمیں نہ کسی نے پیدا کیا ہے نہ ہمارے پیدا کرنے میں کوئی غرض ہے.ہم خود بخود پیدا ہوئے اور چند دن رہ کر یہاں سے چلے جائیں گے.ایسے لوگ اپنے تئیں کسی اصول کا پابند نہیں خیال کرتے اور نہ وہ کسی قانون کو اپنے لئے جانتے ہیں وہ کسی اصول کے پابند نہیں جو ان کے دل میں آتا ہے کرتے ہیں.ان کو کوئی قانون کسی امر سے روک نہیں سکتا.ان کی مثال اس شخص کی مانند ہے جو سوتے سوتے اٹھ کر جنگل میں چلا جائے اور وہاں اس کی آنکھ کھل جائے.ایسے بہت سے لوگ ہوتے ہیں جو سوتے سوتے اٹھ کر بہت سے کام کر لیتے ہیں لیکن ان کو کاموں کا علم نہیں ہو تا.
خطبات محمود ۵۳ لوگ ان کو بتاتے ہیں کہ رات اٹھ کر تم نے فلاں کام کیا بہت سے بچے اسی طرح اٹھ کر گھروں سے چلے جاتے ہیں.غرض جو شخص سوتے سوتے اٹھ کر جنگل میں چلا گیا اور جب وہاں پہنچ کر اس کی آنکھ کھل گئی تو ممکن ہے کہ اس کے دل میں آئے کہ چلو ابھی رات زیادہ ہے چل کر سوئیں یا یہ کہ کوئی دوست قریب ہے اس سے مل لیں یا یہ کہ کوئی غریب آدمی ہے اس کی مدد کریں.یا اگر بری طبیعت کا ہے تو خیال کرلے گا کہ کہیں ڈاکہ ڈالیں یا کسی سے دشمنی ہے تو اس کے کھلیان میں آگ لگا دیں یا اس کے کھیت سے کچھ چارہ کاٹ کر لے جائیں تو ایسے شخص کی کوئی غرض نہیں ہو سکتی.ایسی حالت میں جو اس کے دل میں آئے گا کرے گا.کوئی اس کو نہیں روک سکے گا.مگر بر خلاف اس کے ایک دوسرا شخص ہے وہ الارم دے کر سوتا ہے کہ صبح اٹھ کر تہجد پڑھے گا یا کوئی کام مثلاً تصنیف یا تالیف یا مطالعہ کرے گا تو جس وقت اس کی آنکھ کھلے گی وہ وہی کام کرے گا جو اس کی غرض اور مدعا ہے یا ایک ایسا شخص ہے کہ اس کو اس کے مالک نے درانتی دی ہے کہ وہ چارہ کاٹ کر لائے.اگر وہ شخص دیانتدار ہے تو وہی کام کرے گا جس کے لئے اس کے آقا نے اس کو حکم دیا ہے.پس یہی فرق اہل مذاہب اور بے مذہب لوگوں میں ہے.اہل مذاہب کہتے ہیں کہ وہ ایک غرض کے ماتحت یہاں آئے ہیں اور بے مذہب کہتے ہیں کہ ہمارے پیدا کئے جانے کی کوئی غرض اور مقصد نہیں.ایک عیسائی خیال کرے گا کہ وہ اس لئے پیدا کیا گیا ہے کہ ابن اللہ کے کفارہ پر ایمان لاکر نجات حاصل کرے اور دنیا کو اس طرف لائے.ایک ہندو اس مذہب کا پابند ہو گا کہ وہ خدا سے مکتی پائے.ایک مسلم کا یہ عقیدہ ہو گا کہ وہ خدا کی عبادت کرنے اور اس کی رضا اور وصال حاصل کرنے کے لئے پیدا کیا گیا ہے اور وہ یہ عقیدہ رکھتا ہے کہ جو شخص اسلام کو قبول کرنے گا اور اس کے احکام کی پابندی کرے گا اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرے گا اس لئے ایک مسلم جو سچا ہونے کا دعویدار ہے اسلام کو دنیا میں پھیلانے میں بے حد کو شش کرے گا لیکن کوئی مذہب یہ نہیں کہے گا کہ اس کی غرض وہ احکام منواتا ہے جو دنیا کے لئے ہی ہیں بلکہ وہ کہے گا کہ ان احکام کی پابندی سے خدا ملتا ہے.یہی اصل ہے جس پر اسلام نے نکاح کے بارے میں انسان کو قائم کیا ہے.ہر ایک کام کے اچھے نتائج پیدا ہونے کی تب ہی امید ہو سکتی ہے جب اس کی ابتداء میں ہی عمدہ بنیاد رکھی
خطبات محمود ۵۴ جلد سوم جائے.مثلاً اگر ایک شخص چاہتا ہے کہ اس کے کھیت میں موٹا دانہ نکلے تو وہ پہلے ہی دن اس کی بنیاد اچھی رکھے گا.ہل اچھی طرح چلائے گا اور خوب پانی دے گا اور حفاظت کرے گا یہ نہیں کہ موٹا دانہ بغیر بنیاد اچھی کے لگ سکے.اسی غرض کی طرف اسلام نے متوجہ کیا ہے کہ نکاح اس لئے کیا جاتا ہے کہ اس سے انسان پیدا ہوں تو اچھے انسان پیدا کرنے کے لئے نکاح کے متعلق پہلے ہی اللہ تعالٰی فرماتا ہے اتَّقُوا اللہ سے اللہ کا تقویٰ اختیار کرو.اگر تم تقویٰ اختیار کرو گے تو اچھے انسان پیدا ہوں گے.یہ ایک بڑا نکتہ ہے جو شخص اس کو سمجھ لے تو اس کے الفضل ۱۲ اپریل ۱۹۲۰ء صفحه ۶) لئے بہت مفید ہو گا.ے تاریخ نکاح کا علم نہیں ہو سکا.ه الاحزاب : اے
۵۵ ۱۶ خطبات محمود نکاح سے قبل تحقیق کرلینی چاہئے فرموده ۱۹۲۰ء) خطبہ مسنونہ کی تلاوت کے بعد حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے فرمایا :- جہاں اسلام دین فطرت ہے یعنی فطرت جس کی مخالف نہیں وہاں یہی دین اب ایسے تغیرات کے نیچے آگیا ہے کہ اگر لوگ اس کو فطرت کے مخالف کہیں تو غلط نہیں.آج دنیا کے سامنے جو اسلام لوگ پیش کرتے ہیں اس کو دیکھ کر اگر کوئی شخص کہہ دے کہ اس مذہب کو اپنے پاس ہی رکھو تو بے جا نہیں.انسانوں میں نقص ہوتے ہیں مگر ایسے تمہیں کہ ان کا کوئی بھی جسم سلامت نہ ہو.کسی کی ناک نہ ہوگی، کسی کا کان نہ ہو گا، کوئی کانا ہو گا، کسی کے دانت ٹوٹے ہوئے ہوں گے، کسی کے جسم پر زخم ہو گا لیکن کوئی ایسا نہ ہو گا کہ جس کی کوئی چیز بھی سلامت نہ ہو.ایسا شخص خیال میں نہیں آسکتا جس کی شنوائی نہ ہو ، بیتائی نہ ہو ، گویائی نہ ہو اور کان اور ناک کٹے ہوں، ہاتھ نہ ہوں، پاؤں نہ ہوں غرض کہ جسم کا کوئی حصہ سلامت نہ ہو مگر اسلام کی موجودہ شکل ایسی بنادی گئی ہے کہ سر سے لے کر پیر تک اس میں نقص ہی نقص دکھائی دیتے ہیں.کیسی عجیب بات ہے کہ وہ صداقت اور حقانیت سے پرند ہب جس کے مقابلہ میں تمام دنیا کے فلسفیوں کی نظریں جھک جاتی ہیں اور آنکھیں کھل جاتی ہیں آج سوائے اس کے کہ کوئی اس کو باپ دادا کا مذہب خیال کر کے مانے اس کو ایسا بھیانک کر دیا گیا ہے کہ ایسا شخص : حقیقت سے بے خبر ہو اس سے ڈرتا ہے.
خطبات محمود ۵۶ جلد سوم سب سے پہلے ہم خدا کے وجود کو لیتے ہیں.آج کل لوگ خدا کو جس رنگ میں پیش کرتے ہیں اس سے ڈر لگتا ہے اور بجائے اس کے کہ اس سے محبت پیدا ہو نفرت پیدا ہو جاتی ہے اس کی شان کے متعلق ایسی ایسی باتیں بیان کرتے ہیں کہ جن کو سن کر ہنسی آتی ہے.وہ خدا وحدہ لا شریک ہے لیکن مسلمان کہلانے والے اس کے مقابلے میں غیروں کو سجدہ کرتے ہیں، ارواح کو نذریں دیتے ہیں اور ہر ایک شرک کی جگہ چڑھاوے چڑھاتے ہیں.مسلمانوں میں ایسے بھی ہیں جو کالی پر زبان چڑھانے والوں کے آگے نذریں پیش کرتے ہیں جو زیادہ موحد بنتے ہیں وہ بھی شرک میں مبتلاء ہیں کیونکہ وہ مسیح کے متعلق کہتے ہیں کہ اس نے جانور پیدا کئے تھے.حضرت خلیفہ اول اپنے ایک استاد کی رؤیا سنایا کرتے تھے جو بھوپال میں رہتے تھے.انہوں نے دیکھا کہ ایک پل کے نزدیک ایک شخص پڑا ہے جس کی بہت ہی بری حالت ہے.اپاہچ ہے لنگڑا لولاء اندھا اور تمام جسم زخموں سے بھرا پڑا ہے.یہ اس کے پاس گئے اور کہا کہ اے شخص تو کون ہے ؟ اس نے کہا کہ میں اللہ میاں ہوں انہوں نے کہا ہم تو پڑھتے سنتے رہے کہ آپ ہر قسم کے نقصوں سے پاک ہیں.مگریہ کیا نقشہ ہے؟ اللہ تعالٰی نے کہا کہ میں تو بے نقص ہی ہوں.مگر اہل بھوپال جس کو اور جیسے کو خدا کہتے ہیں اس کی یہ حالت ہے اور بھوپال میں میری یہی حیثیت ہے.انہوں نے تو بھوپال میں ہی خدا کی یہ حیثیت دیکھی تھی لیکن اصل میں آج کل مسلمانوں کے خدا کی یہی حالت ہے.انہوں نے خدا کا ایسا نقشہ بنا رکھا ہے کہ بجائے اس کے کہ اس سے محبت اور عشق پیدا ہو اس سے نفرت پیدا ہوتی ہے.پھر خدا کے بعد انبیاء ہوتے ہیں (میں ملائکہ کو چھوڑتا ہوں.اگر چہ انہوں نے ملائکہ کو بھی نہیں چھوڑا اور محض انسان کی گناہگاری کو معمولی ثابت کرنے کے لئے فرشتوں کے متعلق بھی کہہ دیا کہ دو خاص فرشتے ایک کنچنی پر عاشق ہو گئے تھے جو آج تک سزا بھگت رہے ہیں کہتے ہیں فرشتوں نے اعتراض کیا تھا کہ انسان دنیا میں رہ کر گنہگار ہو جاتے ہیں.اللہ تعالیٰ نے فرمایا تم بھی وہاں جاؤ تو پتہ لگے.چنانچہ جب وہ دنیا میں آئے تو آتے ہی ایک کنچنی پر عاشق ہو گئے اور آج تک اس کی سزا بھگت رہے ہیں.) اور نبیوں کو چھوڑ کر اپنے نبی سے بھی انہوں نے اچھا سلوک نہیں کیا.اپنا استاد سب کو پیارا ہوتا ہے مگر انہوں نے اپنے استاد کے ساتھ یہ سلوک کیا کہ آپ کے دشمنوں نے منافقت کے رنگ میں آپ کے خلاف جس قدر گندی باتیں منسوب کی تھیں ان سب کو انہوں نے متبرک قرار دے کر اپنی کتب میں جگہ دی.اب اگر کوئی انکار
۵۷ کرے تو وہ مسلمانوں کے نزدیک احادیث کا منکر بنتا ہے.نبی کریم ﷺ کے وقت میں منافقین جو مسلمان کہلاتے تھے آپ پر خفیہ ہی خفیہ گندے سے گندے الزام لگاتے تھے.آپ کے اخلاق اور چال چلن پر اعتراض کرتے تھے جیسا کہ حضرت مسیح موعود کے وقت میں بھی بعض احمدی کہلانے والے آپ پر الزام لگاتے تھے مثلاً نبی کریم کے متعلق مشہور کر دیا تھا کہ آپ اپنی (پھوپھی زاد) بہن کو دیکھ کر اس پر عاشق ہو گئے.پہلے پہل تو ان لوگوں میں ایسی باتیں ظاہر کرنے کی جرات نہ تھی.مگر کچھ عرصہ کے بعد یہی باتیں حدیثیں بن گئیں اور کتابوں میں نقل ہونے لگیں.غرض رسول اور ایسا رسول اور استاد اور ایسا استاد کہ جو بے نظیر ہے.اس پر بھی اعتراض جڑ دیئے.اسی طرح بیسیوں باتیں ہیں جو کہ آپ کے متعلق کتابوں میں لکھ دی گئی ہیں اور اب ان کو اپنے عقائد میں داخل سمجھا جاتا ہے.اب رہے اعمال.ان کی بھی صورت بدل گئی.اعمال میں سے صرف نماز کو لیتا ہوں کہ سب سے بڑی عبادت ہے اس کو کچھ لوگ تو ایسی شکل دیتے ہیں کہ نماز ایک ورزش کی صورت بن جاتی ہے.پھر ایک ایسی نماز ہوتی ہے کہ اس کے متعلق حضرت مسیح موعود ہمیشہ یہ مثال بتایا کرتے تھے کہ جیسے مرغ دانے چتا ہے.یا تو عبادت ایسی سمجھی جاتی ہے کہ جب بیٹھے تو اٹھے نہیں.ماتھے میں چٹاخ لگا ہوا ہو ، ہاتھ میں تسبیح ہو منکا ضرور کر رہا ہو خواہ منہ سے گالیاں ہی نکل رہی ہوں.یہیں قادیان میں ایک شخص تھا وہ مرزا سلطان احمد صاحب کے باغ میں رہتا تھا.احمدیوں کا سخت مخالف تھا اور سخت گندی گالیاں دیا کرتا تھا.اس کے ہاتھ میں تسبیح ہوتی تھی جس کے دانے پر دانے گرتے رہتے تھے اور زبان سے اوسورا" وغیرہ گالیاں نکلتی جاتی تھیں.گویا اللہ کے ذکر کی بجائے گالیوں کا ذکر تسبیح پر پڑھتا تھا.پھر زکوۃ ہے اول تو خود دیتے ہی نہیں اور جو دیتے ہیں وہ عجیب عجیب حرکتیں کرتے ہیں.ہمارے ملک میں زیادہ زکوۃ دینے والی خوجوں کی قوم ہے اس کے متعلق اپنے ملک کا حال حضرت خلیفہ اول اس طرح سنایا کرتے تھے کہ وہ ہزاروں روپے زکوۃ نکالتے لیکن گھڑے میں ڈال کر اوپر دانے ڈال دیتے اور مسجد کے سی طالب علم کو بلا کر کھانا کھلاتے اور کہتے.میاں طالب علم اس گھڑے میں جو کچھ ہے وہ ہم نے تیری ملک کیا.جب وہ قبول کر لیتا تو اسے کہتے.اچھا تم اسے کہاں کہاں لئے پھرو گے.ہمارے پاس ہی بیچ دو اور پھر دو چار روپیہ میں خرید لیتے.گویا وہ اس طرح خدا کے فرض سے سبکدوش ہو جاتے اور رقم بھی ہاتھ سے نہ جاتی.
خطبات محمود ۵۸ جلد سوم یہ تو ظاہری اعمال کی کیفیت ہے.اب رہے اخلاق.ان کی یہ کیفیت ہے کہ جب تک فحاش نہ ہو اور گندمی سے گندی گالیاں اور کفر کے فتوے نہ شائع کرے مسلمان اور مولوی نہیں سمجھا جاتا.معاملات میں اس سے بھی بری حالت ہے ہمارے ملک کی یہ کیفیت ہے کہ بڑے بڑے مسلمانوں نے سرکار میں لکھوایا کہ لڑکیاں ہماری جائداد کی وارث نہ سمجھی جائیں.سرکاری حکام نے ان کو اچھی طرح ذلیل کرنے کے لئے ان سے اقرار لئے کہ کیا تمہیں اسلامی شریعت منظور نہیں.انہوں نے لکھوا دیا کہ ہمیں شریعت منظور نہیں رواج منظور ہے اور اس پر ان کے انگوٹھے لگوائے گئے ہے.نکاح کا معاملہ کیسا پاک معاملہ تھا اور اس میں کس قدر خوف اور ڈر کی ضرورت تھی لیکن مسلمانوں نے اس کی وہ بری گت بنائی ہے کہ جس کی حد نہیں اور جو لوگ مصلح بنتے ہیں جب ان کا خود معاملہ پیش آتا ہے تو ان کے ہاں بھی لغویات ہوتی ہیں جن کے متعلق وہ کہہ دیتے ہیں کہ اگر ایسا نہ کریں تو رشتہ داروں میں تفرقہ ہوتا ہے.جب تک باجے، آتش بازیاں اور کنچنیوں کے طائفے ساتھ نہ ہوں ان کی شادیاں ہی نہیں ہوتیں.ابھی چند دن ہوئے میں نے ایک مولوی صاحب جو ایک مسجد کے امام بھی تھے کے متعلق اخبار میں پڑھا تھا کہ انہوں نے اپنے بیٹے کی شادی پر دو طائفے منگائے.غرض کسی پہلو سے دیکھا جائے.اسلام میں خرابیاں ہی خرابیاں پیدا کر دی گئی ہیں.جب اس قدر نقص ہر طرف پھیلے ہوئے نظر آتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ کوئی مصلح ضرور آنا چاہئے تھا اور ان نقائص کو دیکھ کر احمدیوں کو معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے مصلح کو قبول کر کے کیا حاصل کیا ہے.ان کی شادیوں میں کوئی ایسی فضول رسم نہیں ہوتی، نہ باجا ہوتا ہے، نہ ڈوم مراثی ہوتے ہیں، نہ سٹھنیاں دی جاتی ہیں بلکہ یہ ہوتا ہے کہ مسجد میں لوگ ذکر اللہ کے لئے جمع ہوتے ہیں ان کو کہا جاتا ہے کہ ٹھہر جاؤ ایک نکاح کا اعلان ہو گا پھر ان کو وہ کلمات منائے جاتے ہیں جن میں ان کو بتایا جاتا ہے کہ یہ معاملہ نکاح جو تم کرنے لگے ہو ایک آدھ دن کے لئے نہیں بلکہ عمر بھر اور نہ صرف عمر بھر کے لئے بلکہ عاقبت تک کے لئے ہے اس لئے خوب سوچ لو اور اپنی نیتوں کو صاف کر لو.پھر اعلان کر دیا جاتا ہے کہ فلاں کا فلاں سے نکاح کیا گیا.کجا یہ نکاح اور کجاوہ نکاح.اگر اور باتوں کو نہ دیکھا جائے کہیں کتنی بڑی خدمت اسلام ہے جو مرزا صاحب نے کی.اور اگر غور سے دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ حضرت مرزا صاحب نے علم کلام ہی نیا پیش
ن محمود ۵۹ جلد سوم - نہیں کیا بلکہ انہوں نے اسلام کے ان تمام نقائص کو دور کر دیا ہے جو پیدا ہو گئے تھے.عقائد کو درست کیا، اعمال کو درست کیا، معاملات کو درست کیا، تمدن کو درست کیا.غرض سب باتوں کو درست کیا اور اسلام کو ایسا خوبصورت بنا دیا جیسا کہ وہ آج سے ۱۳ سو برس پیشتر تھا.اس لئے احمدیوں کو خدا کا شکر گزار ہونا چاہئے کیونکہ خدا کا وعدہ ہے کہ اگر ہم خدا کے شکر گزار ہوں گے تو ہمارے لئے اس کی نعمت اور بڑھے گی.اور اگر ناشکری کریں گے تو پھر اس کا عذاب بھی سخت ہے.پس یہ ہم پر احسان ہو رہے ہیں جس کے لئے ہمیں شکر گزار ہونا چاہئے.صداقت کا وہ دریا جو چلا آرہا تھا اس زمانہ میں ریت کے نیچے دب گیا تھا لیکن حضرت مرزا صاحب نے پھاوڑا لے کر ریت ہٹا دی اور دریا کو ہمارے لئے جاری کر دیا.اب اگر ہم اس کو چھوڑ دیں تو ناشکر گزار ہوں گے.غرض حضرت مرزا صاحب کے ذریعہ سے ہم پر جو فیضان ہوا وہ ہمارے ہر معاملہ پر حاوی ہے.مثلاً یہی نکاح کا معاملہ ہے جو اس کی سادہ صورت ہے وہ ہمارے سوا اور کہیں نظر نہیں آتی.دوسرے لوگوں میں جو طریق مروج ہے اس کی صورت یہ ہے کہ پرانے خطبے چلے آتے ہیں جو فارسی میں ہیں اور وہی پڑھے جاتے ہیں.اس سے اتنا معلوم ہوتا ہے کہ آج سے پانچ چھ سو سال قبل تک مسلمانوں کی حالت اچھی تھی.وہ ماثورہ نصائح کو اپنی زبان میں سنا دیتے تھے.لیکن اس کا بعد ایسا تغیر ہو گیا کہ نصایح کی اصل غرض فوت ہو گئی.ایسے ملاں جو کچھ نہیں پڑھے ہوئے فارسی میں خطبہ پڑھتے اور کہلواتے ہیں ”بگو کہ من قبول کردم" مشہور ہے کہ ایک پڑھا ہوا شخص تھا اس کا جب نکاح ہوا.ملا صاحب نے اسے کہا کہ "بگو کہ من قبول کردم " اس نے کہا "من قبول کردم " ملا صاحب نے کہا یوں کہو " بگو کہ من قبول کردم " اس نے کہا نکاح تو میرا ہو رہا ہے میں کس کو کہوں.پھر مر شرعی کا مسئلہ ہے ایک ایسا نکاح دیکھنے کا مجھے کو بھی اتفاق ہوا تھا.خطیب صاحب نے کہا کہ مہر شرعی رکھا گیا ہے میں نے پوچھا مر شرعی کیا ہوتا ہے انہوں نے کہا ہر جو مروج ہے.میں نے کہا کہ کس روایت سے ثابت ہے کہنے لگے یہ تو میں نہیں جانتا.حالانکہ رسول کریم سے لے کر صحابہ تک میں تھوڑے سے تھوڑا مہر بھی تھا اور بڑے سے بڑا بھی.اگر ایک انگشتری دینا سے اور قرآن کریم کی کسی سورۃ کا حفظ کرا دینا بھی مہر ہو تا تھا.کہ تو تھیں تیں ہزار بھی مہر مقرر ہوا ہے.شہ نبی کریم اللہ کے اول مخاطب چونکہ عرب تھے اس لئے
خطبات محمود جلد جو آیات حضور تلاوت فرماتے تھے وہ ان کو خوب سمجھ لیتے تھے مگر ہمارے لوگ چونکہ اس سے ناواقف ہیں اس لئے ان کو بتانا پڑتا ہے.یہ آیات جو پڑھی جاتی ہیں.ان میں سے ایک کو لیتا ہوں اور کسی قدر بیان کرتا ہوں.خدا تعالی فرماتا ہے.يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللهَ وَلتَنْظُرُ نَفْسٌ مَا قَدَّمَتْ لِغَدٍ ، وَاتَّقُوا الله اِنَّ اللهَ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ ، اے لوگو! اللہ کا تقویٰ اختیار کرو اور غور کرو کہ تم نے کل کے لئے کیا کیا ہے.نکاح کا معاملہ جیسا کہ میں نے بتایا ہے آج کا ہی معاملہ نہیں بلکہ عمر کے لئے ہے اور پھر قیامت تک کے لئے ہے اس لئے تمہیں اس میں تقویٰ مد نظر ہونا چاہئے اور تمہیں سوچنا چاہئے کہ نکاح کے بعد تم پر کیا ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں.اس عورت اور اس کے رشتہ داروں کی طرف کیا ذمہ داریاں ہوتی ہیں.بعض لوگ بعد میں کہتے ہیں کہ ہمیں کیا معلوم تھا عورت ایسی ہوگی.مگر ان کا فرض تھا کہ پہلے تحقیق کر لیتے.پھر بعض لوگ شادی کر لیتے ہیں.لیکن جب خرچ کی ضرورت ہوتی ہے تو کہتے ہیں کہاں سے لا ئیں.انہوں نے پہلے ہی کیوں نہ سوچا.پھر بعض لوگ جھوٹ موٹ کہتے ہیں لڑکا ایسا ہے یا لڑکی ایسی ہے.اتنی جائداد ہے.اتنا زیور دیں گے.لیکن بعد میں جب ان کا جھوٹ ظاہر ہو جاتا ہے تو فساد پیدا ہوتا ہے.ان کو حکم ہے تقویٰ سے کام لو.اسی طرح کہتے ہیں کہ ہم تو خوبصورت سمجھتے تھے حالانکہ ہر شخص کا خوبصورتی کا معیار الگ ہوتا ہے.پھر بعض عورتین اسکو قسم کی ہوتی ہیں کہ جہاں آئیں فور اکہتی ہیں ہمیں تو الگ کردو.یہ تو شریعت کہتی ہے کہ الگ مکان ہو.مگر بعض کہتی ہیں جہاں مرد کے ماں باپ ہیں ہم اس شہر میں بھی نہیں رہ سکتیں.پھر بعض عورتوں پر اس قسم کے ظلم ہوتے ہیں کہ الاماں.ہزاروں بے چاری غم سے سیل میں مبتلاء ہو کر مرجاتی ہیں.پس فرمایا کہ پہلے سوچو اور پھر کسی جگہ معالمہ کرو.یہ نہیں کہ پہلے کر لو اور پھر پیچھے سے فضیحت ہوتی پھرے.اصل چیز تقویٰ ہے.اگر خدا کا تقوی مد نظر ہو گا تو کام درست ہو جائیں گے اور پھر فرمایا یاد رکھو اللہ ہر کام جو تم کرتے ہو اس سے واقف ہے.اس ذریعہ سے بھی نیتوں کی صفائی اور معاملات میں صفائی پیدا کرنے کی تعلیم دی اور یہ کیسی اعلیٰ تھی لیکن افسوس اس کو بھی مسلمانوں نے خراب کر دیا.الفضل ۲۰ جولائی ۱۹۲۰ء صفحہ ۷ تا ۹)
خطبات محمود به تاریخ و فریقین کا تعین نہیں ہو سکا.ه ۱۹۳۵ء تک قانونی پوزیشن یوں تھی :- جلد سوم "Priority was given to custom and local usages in prefrence to the Personal Laws of the parties." یعنی رسم ورواج کو قانون شریعت پر افضلیت اور برتری حاصل تھی.قانون شریعت پر رسوم ورواج کو اولیت، افضلیت اور برتری دینے کی غرض سے مندرجہ ذیل ایکٹ متحدہ ہندوستان میں نافذ ہوئے.1.Bombay's Regulation IV of 1827.2.Punjab Laws Act Iv of 1872.3.Bengal, Agra and Assam Civil Courts Act XII of 1887.محولہ پنجاب ایکٹ کی دفعہ ۵ کی تشریح ملاحظہ ہو.Section 5, Punjab Laws Act, does not prescribe that custom usually applies, but it does lay down that where the existence of a custon is proved that shall be first rule of decision and in..would continue to apply (قانون شریعت) its absence personal law مندرجہ بالا فیصلہ مذکورہ ایکٹ کی دفعہ کی تشریح میں سپریم کورٹ پاکستان نے مقدمات مندرجہ ذیل میں دیا ہوا ہے.Shahzadan Bibi and others Vrs.Amir Hussain Shah P.LD.1956 Supreme Court (Pak 227 Mohammad Jan and others Vrs.Rafiuddin nd others P.L.D.1949 Pc.18.ه بخاری کتاب النکاح باب المهر بالعروض و خاتم من حديد که بخاری کكتاب النكاح باب التزويج على القرآن و بغير صداق 14:
خطبات محمود ۶۲ ۱۷ چاند سوم شادی کی اغراض (فرموده ۲۵- جون ۱۹۲۰ء) ۲۵.جون ۱۹۲۰ء کو حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے مندرجہ ذیل نکاحوں کا اعلان فرمایا.امیر غلام حیدر صاحب ساکن خیر پور میرس کا نکاح مسماۃ انعام الہی بنت مولوی احمد صاحب ساکن ضلع مظفر نگر سے پندرہ سو روپیہ مہر پر حسن میاں عنایت اللہ صاحب قادیانی کا نکاح مسماۃ غلام فاطمہ بنت حکیم عبداللہ صاحب ساکن کپور تھلہ سے مبلغ تین سو روپیہ مہر پر پڑھا.خطبہ مسنونہ کی تلاوت کے بعد حسب ذیل خطبہ فرمایا : نکاح کس غرض کے لئے کیا جاتا ہے اور کس مقصد کو مد نظر رکھتے ہوئے نکاح کرنا چاہئے اس کا سمجھنا لڑکی اور لڑکے اور لڑکی کے والدین اور لڑکے کے والدین کے لئے ضروری ہے کیونکہ اگر کوئی کسی چیز کی غایت کو نہ سمجھے تو اس کو صحیح استعمال نہیں کر سکتا.ہزاروں چیزیں ہیں جو مدتوں لوگوں کے پاس رہیں مگر استعمال میں نہ آتی تھیں کیونکہ انہیں ان کے استعمال کرنے کا علم نہ تھا.اس میں شبہ نہیں کہ صرف علم ہی کافی نہیں اور محض جاننے سے کوئی کام ہو ہی نہیں سکتا لیکن انسان کسی کام کو کر نہیں سکتا جب تک کہ جانتا نہ ہو اس لئے علم ایک نہایت مفید چیز ہے جس کے بغیر گزارہ نہیں.کتنی چیزیں ہیں جن کا علم نہ تھا مگر اب بعض غیر ممالک کے لوگوں کو ان کا بہت اور ہمارے ملک والوں کو تھوڑا علم ہو گیا ہے اس لئے ان سے فائدہ اٹھانے لگے ہیں.مثلاً چمڑہ ہڈیاں وغیرہ جن کو کچھ قدر کی نگاہ سے نہیں دیکھا جاتا تھا.چمڑے کی جب کوئی
خطبات محمود ۶۳ جلد سوم قدر نہ تھی اس وقت کسی کی گائے بھینس یا دوسرا جانور مرتا تو چوہڑوں کو یونسی زمیندار دے دیتے تھے.لیکن اب چڑے کی قیمت بڑھی تو زمیندار چوہڑوں کو چمڑہ دینے کے لئے تیار نہیں ہوتے بلکہ ان کو کچھ تھوڑا بہت دے دلا دیتے ہیں.ہڈیوں کی قدر ہمارے ملک والے اب تک کرنا نہیں جانتے مگر یورپ والوں نے ان کی قدر کی حتی کہ قبرستان تک کی ہڈیاں نکلوا کر لے گئے.میں نے دلی میں ایسے قبرستان دیکھتے ہیں جہاں کے محافظوں سے سمجھوتہ کر کے وہاں کی ہڈیاں نکلوا کر یورپ والے لے گئے.وہ دانے دار کھانڈ جس کو لوگ بڑے مزے سے کھاتے ہیں انہیں ہڈیوں سے تیار ہوتی ہے.ہڈیوں سے اسے اس طرح صاف کیا جاتا ہے کہ تمام میل کٹ کر کثافت دور ہو جاتی ہے پھر انہی ہڈیوں سے فاسفورس نکالتے ہیں جو بہت قیمتی چیز ہے اور ہڈیوں کے دستے کنگھیاں وغیرہ بنتی ہیں.مگر نہ جانے والے لوگ ان کے متعلق خیال کرتے ہیں کہ یہ ہاتھی دانت کی بنی ہوئی چیزیں ہیں.اسی طرح ہمارے ملک میں چینی کے برتنوں کے متعلق خیال کیا جاتا ہے کہ چین میں یہ خاص مٹی ہے جس سے یہ تیار ہوئے حالانکہ یہ اسی مٹی سے تیار ہوتے ہیں.اس کو خاص ترکیبوں کے ماتحت لاکر چینی نکالتے ہیں.غرض یہ سب علم ہیں جن کے جاننے والے چیزوں سے فائدہ اٹھاتے ہیں اور نہ جاننے والے ان کو معمولی خیال کرتے ہیں.اسی طرح نکاح کا معالمہ ہے اگر اس کے متعلق بھی علم نہ ہو تو انسان فوائد حاصل نہیں کر سکتا.ہر ایک چیز جس کا علم ہو اس سے فوائد پہنچتے ہیں.مثلا کھانے کی کیا غرض ہے جو نہیں جانتے وہ تو یہی کہیں گے کہ جب بھوک لگی کھالیا غرض کیا ہوئی.مگر جنہوں نے غور کیا انہوں نے جان لیا کہ اس کے کیا فوائد ہیں اور اس سے انہوں نے علاج نکالے.مثلاً ذیا بیٹس کے مرض کا علاج یورپ میں روزے رکھ کر کیا جاتا ہے.اس سے علم طب بنا اور اسی لئے ہماری شریعت نے حرام حلال کی قید لگائی کہ انسان مفید کھائے اور مضر سے بچے.اسی طرح نکاح کی بھی غرض ہے محض شہوت رانی نہیں.جو لوگ شہوت رانی غرض سمجھتے ہیں غلطی کرتے ہیں.یورپ کے لوگ جنہوں نے شادی کو محض اسی ایک جذبہ کے تحت رکھا ان کے بڑے بڑے ڈاکٹر کہتے ہیں کہ ہماری نسلیں اس لئے کمزور ہیں کہ ہم شادی کی غرض سے ناواقف ہیں.محض پیار محبت کی غرض نہیں کیونکہ محبت ایک فوری جذبہ ہے ، غصہ ایک فوری جذبہ ہے، شہوت ایک فوری جذبہ ہے، ان میں انسان مال اندیشی نہیں کرتا.مثلاً محبت کے
خطبات محمود ۶۴ جوش میں شادی ہوئی مگر چونکہ شادی کی اصل غرض یہ نہیں اس لئے جب تعلقات بڑھتے ہیں تو پھر دیگر معاملات میں خرابیاں پیدا ہو جاتی ہیں.یہ جس قدر جذبات ہیں.محبت، غصہ، غیرت وغیرہ یہ اپنے اندر شرابی مادہ رکھتے ہیں کہ باوجود انسان جاننے کے کہ یہ بات ناروا ہے پھر بھی ان کی وجہ سے اس میں مصروف ہو جاتا ہے اس لئے وہ لوگ جو محبت کو سامنے رکھ کر شادی کرتے ہیں جب ان کا یہ جذبہ دور ہو جاتا ہے تو ان کی زندگی برباد ہو جاتی ہے.ایک شخص خوبصورت عورت سے اس کی خوبصورتی کی وجہ سے شادی کرتا ہے مگر اس عورت کے اخلاق اچھے نہیں، گھر میں انتظام نہیں رکھ سکتی ان کی زندگی خراب ہو جاتی ہے.اس لئے شادی کی غرض تقویٰ اللہ حفاظت نفس و نسل اور اپنے دینی و دنیوی امور میں بھلائی اور معاونت ہونی چاہئے.لیکن اسلام نے اس کو سمجھا ہے اور سمجھایا ہے.اور چونکہ علم کے ساتھ تربیت کی بھی ضرورت ہوتی ہے جب تک تربیت نہ ہو علم کچھ مفید نہیں ہو سکتا اس لئے شریعت اسلام نے تربیت کے لئے یہ رکھا ہے کہ جب میاں بیوی میں کچھ نا چاتی ہو تو فَا بَعَثُوا حَكَمَا مِنْ أَهْلِهِ وَحَكَمًا مِنْ أَهْلِهَا.لے دونوں طرف کے بزرگ جمع ہوں اور دونوں کے بیانات سن کر جس کی غلطی ہو اس کو سرزنش کریں.ایک دفعہ.دو دفعہ یہ ہو.لیکن اگر ان کی اصلاح نہ ہو تو علیحدگی ہو جائے.رسول کریم ﷺ کے عمل سے ظاہر ہے کہ آپ اپنی بیٹی اور داماد کو نصیحت فرماتے.اگر بیٹی کا قصور ہو تا بیٹی کو ڈانٹتے اور اگر حضرت علی" کی غلطی ہوتی تو ان کو سمجھاتے کیونکہ بڑے چچا زاد بھائی اور ہادی ہونے کی حیثیت میں آپ کو باپ کا بھی درجہ حاصل تھا.اسلام نے تربیت کا یہ صیغہ رکھا ہے مگر آج کل ہندوستان میں یہ صیغہ نہیں رہا.جب عورت آتی ہے تو مطالبہ کرتی ہے کہ اس کا میاں اپنے والدین سے فورا علیحدہ ہو جائے.اگر چہ یہاں تک تو درست ہے کہ علیحدہ مکان ہو اور یہ شریعت کا بھی حکم ہے کیونکہ وہ نوجوان ہیں.ان کو بے تکلفی کی بھی ضرورت ہے.اگر وہ ہر وقت قید رہیں تو پھر وہ کیسے خوش رہ سکتے ہیں مگر بعض بہو ئیں یہاں تک کرتی ہیں کہ شہر تک چھڑا دیتی ہیں.حالانکہ میاں بیوی بے شک علیحدہ ہوں اور ان کا حق ہے مگر یہ نہیں کہ بزرگوں کی نگرانی سے نکل جائیں.اور پھر لڑکے والے لڑکے کو سکھلاتے ہیں.میاں گربہ کشتن روز اول.کہ عورت ر پہلے ہی دن رعب بٹھا لو.لیکن کیا اس طرح تربیت ہو سکتی ہے.یہ اسلامی طریق نہیں بلکہ اسلامی طریق وہ ہے جو رسول کریم ﷺ نے اپنے عمل سے دکھا دیا.
خطبات محمود ۶۵ جلد نوم اسلام نے جو غرض نکاح کی بتائی ہے وہ تقویٰ ہے کہ دونوں میاں بیوی مل کر خدا کے غضب سے بچنے اور رحمت کو حاصل کرنے کی کوشش کریں.۲.یہ کہ نسل بڑھے.اپنی نسل جو آئندہ کار آمد ثابت ہو.پھر یہ بھی غرض ہے کہ میاں بیوی مل کر نیک اعمال میں ایک دوسرے کے ممد و معاون ہوں اور صدق و سداد کے قائم کرنے والے ہوں اور اس غرض کو پورا کریں جو انسان کی روز ازل سے قرار دی گئی ہے.الفضل ۲ اگست ۱۹۲۰ء صفحه ۶) اه النساء : ٣٦
خطبات محمود Ι جلو موم قومیت کی قیود توڑنے پر اظہار خوشنودی (فرموده ۲۷- تمبر ۱۹۲۰ء) بعد نماز مغرب حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے خطبہ مسنونہ کی تلاوت کے بعد ماسٹر نذیر احمد صاحب کا نکاح مرزا حسین بیگ صاحب کی لڑکی مزمل بیگم سے پانسو روپیہ مہر پر پڑھا.اور خطبہ میں اس بات پر خوشی کا اظہار فرمایا کہ سوائے راجپوتوں کے ہماری جماعت کے دوسرے لوگ قومیت کی ناپسندیدہ قیود کو توڑ کر آپس میں رشتے کر رہے ہیں.الفضل) ۳۰ ستمبر ۱۹۲۰ء صفحہ ۱)
جلد موم 46 19 نکاح میں تقویٰ سے کام لو (فرموده ۵- نومبر ۱۹۲۰ء) حضرت خلیفۃ المسیح الثانی نے ۵ - نومبر ۱۹۲۰ ء بعد نماز عصر ایک نکاح کا اعلان فرمایا.لے خطبہ مسنونہ کی تلاوت کے بعد فرمایا : یہ چند آیات جو میں نے پڑھی ہیں ان میں خدا تعالٰی نے مسلمانوں کو کہا ہے کہ سب سے بڑی چیز جو ان کے لئے کار آمد اور مفید ہو سکتی ہے تقویٰ ہے.دنیا میں ہر وقت انسان یا تو بعض چیزوں کے حاصل کرنے یا بعض سے بچنے کی کوشش کرتا رہتا ہے.ایک طرف اگر وہ اپنے آپ کو کسی زد سے بچانے میں لگا ہوتا ہے تو دوسری طرف بعض چیزوں کے لینے میں مصروف ہو تا ہے.یہی معنے تقوی کے ہیں.ہماری زبان میں تقویٰ کے معنے ڈر اور خوف کے لوگ کرتے ہیں.مگر عربی زبان کے لحاظ سے یہ معنے درست نہیں بلکہ اس کے معنے ہیں اپنے آپ کو محفوظ کرنے کے ایسی چیزوں سے جو انسان کی ہلاکت اور نقصان کا موجب ہوں اور ایسی چیزوں کا حاصل کرنا جو ہلاکت سے بچاتی ہوں.تقویٰ کے معنے خدا تعالیٰ سے ہوا کی طرح ڈرنا اور خوف کھانا نہیں اس ڈر کے لفظ سے بہت لوگوں کو دھوکا لگا ہے اور عیسائی اس کو مد نظر رکھ کر کہتے ہیں کہ قرآن نے خدا کو نہایت ڈراؤنی اور خوفناک شکل میں پیش کیا ہے حالانکہ یہ درست نہیں اور خوف ڈراؤنی چیز سے ہی نہیں ہوتا.دیکھو بچے ماں باپ سے ڈرتے ہیں لیکن اس کے معنے ماں یا باپ کی ناراضی سے ڈرتا ہے.یہ نہیں کہ ماں باپ ظالم ہوتے ہیں اس لئے بچے ان سے ڈرتے ہیں.ماں باپ کا ڈر
مخطبات محمود YA جلد سوم تو ایسا ہوتا ہے کہ اس سے بچنے کے لئے ماں باپ کی گود میں ہی بچے گھتے ہیں.لیکن چونکہ لفظ مشترک ہے اور خوفناک چیز سے جو اثر پیدا ہوتا ہے اس کو بھی ڈر ہی کہتے ہیں.اس لئے ڈر کے معنی ڈر کرنے سے لوگوں کو اس سے دھوکا لگا ہے اور انہوں نے سمجھا ہے کہ خدا سے ڈرنے کا یہ مطلب ہے کہ خدا خوفناک چیز ہے.اصل سنے تقوی کے حفاظت کے وہ سامان جمع کرنا ہیں جو ترقی کا موجب ہوں اور ہلاکت سے بچانے والے ہوں.اس بات کو مد نظر رکھ کر تقویٰ اللہ کی حقیقت بخوبی معلوم ہو سکتی ہے مگر جب انسان ہمیشہ اور ہر وقت کسی نہ کسی چیز کے حاصل کرنے اور کسی نہ کسی چیز کو مصر سمجھ کر اس سے بچنے کی کوشش میں لگا رہتا ہے تو خدا تعالی فرماتا ہے.کیاأَيُّهَا النَّاسُ اتَّلُوا رَبَّكُمُ الَّذِى خَلَقَكُم کے اے لوگو! اللہ کا تقوی لو.اس گر کو حاصل کرو جس سے تمام مصیبتوں کے دروازے بند ہو جائیں اور تمام کامیابیوں کے دروازے کھل جائیں.جب تم اس کے لئے اور کوششیں کرتے رہتے ہو تو کیوں خدا کو نہ کہو کہ ہماری سب مشکلات کو حل کر دے اور ہمیں ہر کام میں کامیاب کر دے.یہ کامیابی حاصل کرنے اور ہلاکتوں سے بچنے کا سب سے اعلیٰ گر ہے کہ جس کے قبضہ قدرت میں سب کچھ ہے اس کے آگے انسان اپنے آپ کو ڈال دے.دیکھو اگر ایک مکان میں کئی سوراخوں سے پانی آ رہا ہے تو ایک ایک کو بند کرنے کی بجائے پانی کے آنے کا راستہ بند کر دینا زیادہ مفید اور اچھا ہوتا ہے.اسی طرح ایک ایک مصیبت اور مشکل کے دور کرنے کی بجائے اگر انسان خدا تعالی کے حضور جھک جائے جو تمام مصائب کو بند کر سکتا ہے تو انسان بالکل محفوظ ہو جاتا ہے.تقویٰ کی تعلیم یوں تو ہر حالت کے متعلق ہے لیکن خصوصا نکاح کے موقع پر اس کی طرف بہت زیادہ توجہ دلائی گئی ہے اور رسول کریم ﷺ نے یہ آیات اس موقع پر پڑھنے کے لئے منتخب فرمائی ہیں.وجہ یہ کہ نکاح کی وجہ سے کئی رستے مشکلات کے کھل جاتے ہیں اور کئی کامیابی کے رونما ہو جاتے ہیں.اب بجائے اس کے کہ ان پر نظر ہو یہ ہونا چاہئے کہ خدا تعالی کو ہی پکڑو اور اسی کو کہو کہ ہمارے لئے جو کامیابی کا رستہ ہے اس پر چلا اور جو مصائب کا رستہ ہے اس سے بچا.یہی وہ گر ہے جس سے انسان حقیقی خوشی حاصل کر سکتا ہے اور ہر قسم کی مشکلات اور مصائب سے بچ سکتا ہے.اور ہر ایک نکاح کرنے والے کو یہی یہ نظریہ رکھنا چاہئے نکاح ایک
خطبات محمود ۶۹ جلد سوم بڑی ذمہ داری کا کام ہے اور اگر خدا تعالٰی کا فضل نہ ہو تو بہت سی مشکلات پیدا کر دیتا ہے.الفضل ۱۱ نومبر ۱۹۲۰ء صفحہ ۸۴۷) ام م فریقین کا الفضل سے تعین نہیں ہو سکا.ته النساء : ۲
خطبات محمود ۲۰ نکاح سے متعلق شرعی احکام کی پابندی فرموده ۱۱ نومبر ۱۹۲۰ء) له خطبہ مسنونہ کی تلاوت کے بعد حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے فرمایا :- نکاح کے معاملہ میں لوگ کئی وجوہات سے احکام شریعت کو توڑتے ہیں اور ہر زمانہ اور ہر ملک میں یہ معاملہ اس بارے میں نمایاں رہا ہے.اس زمانہ میں ہم دیکھتے ہیں نکاح کے معاملہ میں جتنی کمزوری احمدی دکھلاتے ہیں اور اتنی کسی معاملہ میں نہیں دکھلاتے.یعنی جتنی کمزوری احمدی غیر احمدیوں میں لڑکیاں دینے میں دکھاتے ہیں اور کسی امر میں نہیں دکھلاتے لیکن اگر احمدی اور غیر احمدی کے سوال کو جانے دیا جائے پھر بھی اس معاملہ میں ان کی بہت سی کمزوریاں ظاہر ہوتی ہیں کہیں جنگ و ناموس کا عذر ہوتا ہے، کہیں قومیت اور ذات کا خیال ہوتا ہے، کہیں دولت مندی اور خوشحالی کو مد نظر رکھا جاتا ہے.غرض کئی ایک باتیں ہیں جو اس معاملہ میں پیش آتی ہیں اور پھر اس میں کمزوری کا موجب بنتی ہیں.دوسرے معاملات کی نسبت اس معاملہ میں کیوں زیادہ لوگ اپنی کمزوری کا اظہار کرتے ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ ایسا معاملہ ہے جو قریباً ہر ایک کے ساتھ تعلق رکھتا ہے اور ہر ایک کو پیش آتا ہے دوسرے معاملات ایسے ہیں کہ کسی کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں اور کسی کے ساتھ نہیں.پس ایک وجہ اور بہت بڑی وجہ نکاح کے معاملہ میں احکام شریعت کی خلاف ورزی کرنے کی یہ ہے کہ یہ معاملہ ہر ایک کو پیش آتا ہے سوائے ایک قلیل حصہ کے لوگ اس میں کو تاہی کرتے ہیں.جلد سوم
خطبات محمود جلد سوم ہندوستان میں یہ مرض بہت زیادہ ہے جس کی وجہ یہ ہے کہ مسلمانوں کا تعلق اہل ہنود سے ہے اور اہل ہنود میں بیاہ شادی کے متعلق ایسی رسمیں پائی جاتی ہیں کہ ان کی وجہ سے شادی تماشہ بن جاتی ہے اور وہ اس قدر پختگی سے ان میں جڑ پکڑ چکی ہیں کہ بغیر اس احساس کے کہ ان کا کوئی فائدہ ہے یا نہیں، ان کی ضرورت ہے یا نہیں ان پر عمل کیا جاتا ہے.مثلاً روانگی کے وقت لڑکی خواہ کتنی ہی خوش ہو رونا ضروری سمجھا جاتا ہے.پھر شادی کے موقع کے لئے عجیب و غریب قسم کے کپڑے بنائے جاتے ہیں.پھر یہ کہ جب لڑکے والے آئیں تو ایک خاص حد پر ان کو ملنا چاہئے گویا اس قسم کی باتیں خدا کے قانون ہیں اور خدا کے قانون پر بھی کبھی تغیر واقع ہو جاتا ہے.مثلاً کبھی بارش ہوتی ہے اور کبھی نہیں ہوتی.مگر ان رسموں میں کبھی فرق نہیں آتا.اور ان پر اتنا زور دیا جاتا ہے کہ نماز چھوڑنی پڑے تو حرج نہیں لیکن ان میں سرمو فرق نہیں آنا چاہئے اور اگر کوئی ایک رسم بھی چھوٹ جائے تو غضب ہو جائے.یہاں تک پابندی کی جاتی ہے کہ شریف گھرانے کی عورتیں بھی شادی کی رسومات کی ادائیگی کے وقت فحش کلمات کہنے سے باز نہیں رہتیں گویا ان دنوں وہ فعل ان کے لئے جائز ہو جاتا ہے جو دوسرے دنوں میں نا جائز ہوتا ہے.دوسرے ایام میں اگر اس قسم کے الفاظ کسی کے منہ سے نکلیں تو اسے نہ معلوم کیا کچھ کہیں لیکن شادی کے وقت ان کو ضروری سمجھا جاتا ہے.اسی طرح دوسرے دنوں میں اگر کسی کی نظر چلمن کی طرف بھی پڑ جائے تو اسے اپنی بہت بڑی ہتک اور بے عزتی سمجھتے ہیں لیکن جب دولہا آئے اور خواہ وہ غیر ہی کیوں نہ ہو محلہ کی عورتیں اس سے پردہ کرنا ضروری نہیں سمجھتیں اور کہتی ہیں اس سے کیا پردہ ہے.اور پھر صرف یہی نہیں کہ پردہ نہیں کرتیں بلکہ اسے محول اور ہنسی بھی کرتی ہیں.غرض بہت سی اس قسم کی باتیں ہیں کہ شادی کے معاملہ میں شریعت کی خلاف ورزی کی جاتی ہے حالانکہ یہی ایسا معاملہ ہے کہ اس کے متعلق بہت زیادہ احتیاط کے ساتھ شریعت کی پابندی کرنی چاہئے تھی.کیونکہ اس میں اپنا کچھ اختیار نہیں ہو تا ایک غیر مرد کو غیر عورت کے ساتھ ملا کر کہہ دیا جاتا ہے کہ اولاد پیدا کرو اور اپنا نام قائم رکھو.یہ ایسا مشکل اور اہم معاملہ ہے.کہ اس کا اثر نہ صرف دنیا میں ہی بہت دور تک جاتا ہے بلکہ آخرت تک پہنچتا ہے.یہی وجہ ہے کہ رسول کریم ﷺ نے اس کے متعلق استخارہ کا حکم دیا ہے اور اگر ضرورت ہو تو لڑکی کو دکھا دینے کا بھی ارشاد فرمایا ہے سے مگر مسلمانوں کی حالت ایسی ہو گئی ہے کہ اگر کسی کو بتایا
خطبات محمود جلد سوم جائے کہ شریعت کا حکم ہے کہ لڑکی دیکھنا جائز ہے تو اس سے برا مناتے ہیں مگر خود بلا کر تمام محلہ کی عورتیں دکھا دیتے ہیں.ایک شخص کو میں نے کہا لڑکے کے لئے لڑکی کو دیکھنا جائز ہے.اس نے کہا یہ نکاح تو نہ ہوا چکلہ ہو گیا اس بات کو تو کوئی شریف انسان سننا بھی پسند نہیں کرے گا.اس سے معلوم ہوا کہ جس بات کو کوئی شریف سنتا بھی پسند نہیں کرتا اس کے کرنے کی اجازت دینے والے کو کیا سمجھا جائے گا.تو شریعت کے احکام کی اس طرح بے قدری کی جاتی ہے.چونکہ نکاح کا معاملہ نہایت اہم ہے اس لئے اس کے متعلق شریعت کے احکام کو خاص طور پر مد نظر رکھنا چاہئے تاکہ خدا تعالٰی اچھے اور نیک نتائج پیدا کرے اور مشکلات، مصائب اور برے نتائج سے بچائے.اس لئے رسول کریم ﷺ نے اس کے لئے دعائیں کیں اور جو آیات اس موقع کے لئے تجویز کیں ان میں بھی خدا تعالٰی کے احکام کی فرمانبرداری کی طرف متوجہ کیا گیا ہے.جیسا کہ آتا ہے وَمَن يُطِعِ اللهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ فَازَ فَوْزًا عَظِيمًا - که اگر تم کامیاب ہونا چاہتے ہو تو اللہ اور اس کے رسول کے احکام کی اطاعت کرو.اب جو لوگ خدا اور رسول کے احکام کی اطاعت سے نکل کر طرح طرح کی رسوم میں پھنس گئے ہیں وہ کس قدر برا نتیجہ دیکھ رہے ہیں.بیاہ شادیوں میں اس قدر فضول خرچی کرتے ہیں کہ نہ صرف خود بلکہ جن کی شادی کی جاتی ہے وہ تمام عمر کے لئے قرض کے نیچے دب جاتے ہیں اور اکثر لڑکے لڑکی میں نا اتفاقی ہوتی ہے.ہماری جماعت کو چاہئے کہ اس معاملہ میں خاص طور پر احکام شرعی کی پابندی کرے کہ ان کی شادیاں اعلیٰ اور اچھے نتائج پیدا کرنے کا موجب ہوں اور وہ قباحتیں جن سے دوسرے لوگوں کو تکالیف اٹھانی پڑتی ہیں ان سے بچیں.(الفضل ۱۸ نومبر ۱۹۲۰ء صفحه ۵) ے فریقین کا تعین نہیں ہو سکا.که بخاری کتاب الدعوات باب الدعاء عند الاستخارة ه ابن ماجه كتاب النكاح باب النظر الى المراة اذا اراد ان يتزوجها ه الاحزاب : ۷۳
۲۱ جلد سوم بقائے نسل کی نگہداشت (فرموده ۲۰- نومبر ۱۹۲۰ء) ۲۰- نومبر ۱۹۲۰ء بعد از نماز مغرب حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے جناب سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب کا نکاح مہر النساء بیگم بنت امیر محمد خان صاحب سے ایک ہزار روپیہ ہر پر پڑھا.خطبہ مسنونہ کی تلاوت کے بعد فرمایا.کائنات عالم پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ بقاء نوع کی خواہش موجودات کا فطرتی تقاضا ہے ان میں سے خاص کر وہ موجودات جو معرض زوال میں ہیں ان کے اندر ایسی قوتیں اور خواہشیں موجود ہیں اور انہیں اس جستجو میں لگائے رکھتی ہیں کہ وہ ایسے ذرائع مہیا کریں جن سے ان کی ذات کسی نہ کسی صورت میں قائم رہے.جمادات کے باریک دربار یک خواص کا ابھی تک ہم نے کماحقہ احاطہ نہیں کیا اور نہ ہمارا موجودہ علم ہمیں اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ ہم ان جمادات کے اندر کسی قسم کے احساسات کے پائے جانے سے انکار کریں.نہ معلوم آئندہ تحقیق ان کے متعلق کیا ظاہر کرے گی.مگر باوجود اس علمی نقص کے ہم اس سے انکار نہیں کر سکتے کہ ان میں بھی بقاء نوع کا سلسلہ موجود ہے اور ان میں ایسی قوتیں ہیں جو ان کی نوعیت کو محفوظ رکھتی ہیں.کوئی قوت بھی ان کی نیست و نابود نہیں ہوتی بلکہ ایک دوسرے وجود میں منتقل ہو جاتی ہے.پھر نباتات کولو.ان میں بھی ہمیں یہ نظارہ ملے گا.کہ ہر ایک درخت اپنی ذات کو ایک پیج
خطبات محمود ۷۴ جلد سوم کے مادے اور شکل میں منتقل کر کے اسے محفوظ رکھنے کی پوشیدہ قوت رکھتا ہے اور خالق قدرت نے اس پیج کو پھر اس درخت جیسی شکل و صورت میں ظاہر ہونے کے لئے قسم قسم کے سامان پیدا کر دیئے ہیں.موجودہ علم نے نباتات کے متعلق بحث و تحقیق کرتے ہوئے آخر یہ ثابت کر دیا ہے کہ ان میں بھی حیوانات کے سے احساسات و انفعالات موجود ہیں.پس یہ کہنا بالکل بجا ہو گا کہ خود درختوں کی طبیعت میں بھی یہ مخفی تقاضا پایا جاتا ہے کہ وہ کسی نہ کسی طرح اپنے آپ کو باقی رکھیں.حیوانات میں بھی ہم یہی مشاہدہ کرتے ہیں کہ ان میں سے ادنیٰ سے ادنی حیوان حتی کہ ایک کیڑا بھی یہ خواہش رکھتا ہے کہ اس کی نوع باقی رہے اور اللہ تعالٰی نے اس کے باقی رکھنے کے لئے اسباب موجود کر دیے ہیں.اس عام قانون فطرت کے ماتحت انسان میں بھی یہ خواہش لگی ہوتی ہے کہ وہ اپنی ذات کو ایک دوسرے وجود میں منتقل کر کے اسے دنیا میں باقی رکھے خواہ کوئی انسان اسے محسوس کرے یا نہ کرے.کوئی بھی ایسا فرد بشر نہیں ہے.جس میں بقاء نسل کی خواہش نہ ہو.ضرور ہر ایک انسان چاہتا ہے کہ وہ اپنی زندگی میں اپنی آنکھوں سے اپنی ذات کو کسی دوسری ہستی میں منتقل شدہ دیکھ لے اور یہ خواہش اس میں ایسی قومی اور مستحکم ہے کہ بعض وقت اس کے پورا کرنے کی خاطر ا سے اعلیٰ کو ادنی کے لئے قربان کرنا پڑتا ہے.دیکھا گیا ہے کہ جب کوئی بچہ موت کے خطرے میں آجاتا ہے تو اس کے والدین اس کو بچانے کے لئے اپنے آپ کو اس خطرہ میں ڈال دیتے ہیں.خود ہلاک ہو جائیں گے لیکن یہ دیکھنا کبھی گوارہ نہ کریں گے کہ وہ بچہ جو کل کو ان کی بقاء نوع کا ذریعہ ہے موت کا شکار ہو جائے.بارہا واقعات سننے میں آئے ہیں کہ ماؤں نے اپنے بچوں کو بچانے کے لئے اپنے آپ کو دریا میں یا آگ میں پھینک دیا.اس سے پتہ لگتا ہے کہ یہ خواہش انسان میں کس قدر زبردست ہے.یہاں تک کہ اس کے پورا کرنے کے لئے اپنی ہستی بھی بیچ ہے.جن بچوں کو بچانے کے لئے والدین نے اپنے آپ کو ہلاک کیا.ہم نہیں کہہ سکتے کہ وہ بچے بیچ کر زندہ بھی رہیں گے یا زندہ رہ کر اپنے والدین سے اعلیٰ اور قابل ہوں گے.ماہم صرف ایک خیال اور امید کی بناء پر والدین جو کہ موجودہ حالت میں اپنی اولاد سے اعلیٰ تھے قربان ہو گئے.یہ ہمیشہ ضروری نہیں کہ اونی اعلیٰ کے لئے قربان ہوتا ہے بلکہ بعض اوقات اس کے برعکس بھی ہوتا ہے.ایک اعلیٰ شئے
خطبات محمود ۷۵ جلد سوم اونی چیز کی خاطر قربان کرنی پڑتی ہے کہ بعض وقت یہ بھی یقینی طور پر معلوم نہیں ہوتا کہ ان میں سے اعلیٰ کون ہے اور ادنی کون.اور باوجود اس کے ایسی راہ اختیار کرنی پڑتی ہے جس سے بقاء نوع کی امید بر آسکے.نہ صرف انسان میں ہم دیکھتے ہیں کہ وہ بقاء نسل کے لئے جان جوکھوں میں ڈالتا ہے اور مصیبتیں جھیلتا ہے اور اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈال دیتا ہے بلکہ ادنیٰ سے ادنی حیوان بھی انسان سے کچھ کم جانفشانی نہیں دکھاتے.ایک مرغی کو دیکھئے کہ جونہی اس سے کئی درجہ زبر دست پرندہ یا درندہ اس کے بچوں کو اٹھالے جانے کے لئے جھپٹا مارتا ہے تو فورا پروں کو پھیلاتی اور غصے سے جھنجھلا کر شور و غل مچاتی ہوئی اس پر حملہ کر دیتی ہے حالانکہ وہ اس دشمن کے مقابلہ میں نہایت ہی کمزور ہوتی ہے.اور غالبا اپنے اس مقابلہ میں خود ہی شکار ہو جاتی ہے یا بچوں کو اس کے منہ سے چھڑا نہیں سکتی مگر وہ جتنا کہ اس سے ہو سکتا ہے ان کی سلامتی کے لئے جدوجہد کرتی ہے اور اسے اپنی جان کی مطلق پروا نہیں ہوتی.غرض اس قسم کے مشاہدات ہمیں جتلاتے ہیں کہ بقاء نسل کی اہمیت کا احساس حیوانات میں کس قدر قوی ہے.انسان بھی اس تقاضا فطرتی میں ان کے شریک حال ہے لیکن ان میں اور اس میں ایک فرق ہے کہ حیوانات اپنے طبعی خواص اور قومی اور افعال وغیرہ میں ہو بہو اپنی نسلوں میں منتقل کر کے ان کی کماحقہ حفاظت کرتے ہیں اور وہ بار امانت جس کے متعلق قرآن میں آیا ہے کہ زمین و آسمان نے فَابَيْنَ اَنْ يَحْمِلْنَهَا وَاشْفَقْنَ مِنْهَا وَحَمَلَهَا الانسان سے اس میں خیانت کرنے سے انکار کیا.انسان نے اس میں خیانت کی اور اس کو ادا نہیں کیا.سب کائنات اپنے مقررہ افعال اور واجبات کو اپنی طبیعت کے موافق ادا کر رہے ہیں اور ان کے ساتھ انسان بھی جہاں تک اس کی طبعی شہوات کا تعلق ہوتا ہے وہ اپنے واجبات کو سمجھتا ہے اور انہیں ادا کرتا ہے مگر شہوات کے تقاضوں کو اس طرح پر ادا کرنا کوئی خوبی نہیں.یہ ایک طبعی فعل ہے جو ایک پتھر بھی کر رہا ہے لیکن جہاں کہ عقل و فکر اور اخلاق و تقویٰ کا تعلق ہے وہاں انسان اس الہی امانت کو ادا نہیں کرتا بلکہ اس میں خیانت کرتا ہے یعنی اسے اس بات کی مطلق پرواہ نہیں ہوتی کہ اللہ تعالٰی نے جو اعلیٰ قومی اس کو دیئے ہیں جو علم و معرفت اسے عطا کی ہے اور جو اخلاق فاضلہ کے متعلق اسے ادراک دیا ہے اور جو تقویٰ کے اصول و قواعد سکھلائے ہیں ان کو بھی کما حقہ اپنی اولاد تک پہنچانے کی فکر و کوشش کرے.وہ صرف
خطبات محمود 64 جلد سوم اپنی شہوات نفسانی پر اکتفا کر کے اصل مقصد زندگانی کو نظر انداز کر دیتا ہے.یہ وہ خیانت ہے جس کا انسان مرتکب ہوتا ہے اور یہ خیانت اس سے کئی طریق سے سرزد ہوتی ہے.اول یہ کہ وہ اپنی خداداد استعدادات اور طاقتوں کو اعمال صالحہ کی آبپاشی سے مثمر نہیں بنا تایا بد اعمالی سے انہیں بگاڑ کر ان کا ستیاناس کر دیتا ہے اور اس طرح اس کی وہ استعدادیں اور قوتیں اس کی اولاد میں اول تو پورے طور پر منتقل نہیں ہو تیں اور اگر ہوتی ہیں تو مسخ شدہ فاسد صورت میں ہوتی ہیں.اگر فرض کر لیا جائے کہ اس میں انہی قوتوں اور اعلیٰ اخلاق کا بیج صحیح سالم موجود ہے اور اس بیچ میں عملی تقوی کی روح بھی محفوظ ہے مگر وہ جس زمین کو اختیار کرتا ہے بالکل ناقص ہوتی ہے اور یہاں تک کہ بیج بھی اس میں پڑ کر خاک ہو جاتا ہے.صرف باپ کی اپنی ہی صلاحیت الہی امانت کے محفوظ رکھنے اور اس کے منتقل کرنے کے لئے کافی نہیں بلکہ اس کی حفاظت و بقاء میں ماں کا بھی بہت ساد خل ہوتا ہے.بسا اوقات ہم نے دیکھا ہے کہ اگر باپ بچے پر نماز کے چھوڑنے یا کسی بد اخلاقی کی وجہ سے سرزنش کرتا ہے تو جاہل ماں اس کی طرف غصہ سے آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھتی ہے اور جو نہی کہ وہ باہر جاتا ہے بچے کو گلے لگا کر اس کے ساتھ آہیں بھرتی اور اس کی دلجوئی کرنا شروع کر دیتی ہے اور اس کے منہ سے ایسے الفاظ نکلتے ہیں جس سے انجان بچے کے ذہن نشین ہو جاتا ہے کہ اس کا باپ واقع میں بڑا ظالم ہے.نماز جیسی معمولی بات پر اس نے ایسی سختی کی.ہوتے ہوتے نوبت یہاں تک پہنچتی ہے کہ ایک طرف نماز کی قدر اس کے دل سے جاتی رہتی ہے اور دوسری طرف باپ کی اطاعت کی رغبت کم ہوتے ہوتے آخر کار حقوق والدین ترک کر کے کفر الہی نتیجہ ہوتا ہے.ابتداء میں تو یہ معمولی بات نظر آتی ہوگی مگر اس کا نتیجہ اخلاق و تقوی کی تباہی ہو جاتی ہے بچے کی سادہ فطرت راست گوئی کی طرف مائل ہوتی ہے اور اگر اس نے کوئی نقصان کر دیا ہو تو پوچھنے پر وہ صاف کہہ دے گا کہ اس نے کیا ہے مگر یہ مائیں ہی ہوتی ہیں جو اسے سکھاتی ہیں کہ کہو میں نے نقصان نہیں کیا اور اس طرح وہ انہیں آگاہ کرتی ہیں کہ دنیا میں واقعات کے خلاف کہنا بھی کوئی شے ہے.جیسا کہ بیوی کے انتخاب کرنے میں خطرناک غلطیاں ہوتی ہیں ایسا ہی شوہر کے انتخاب کرنے میں بھی غلطیاں ہو جاتی ہیں اور ایک نیک اور صالحہ بیوی کسی خبیث انسان کے حوالے ہو کر تباہ ہو جاتی ہے.ایک احمدی خاتون کی شادی اس کے والد نے غیر احمدی کے ہاں کر دی.
خطبات محمود جلد سو اب اس کے خط آتے ہیں کہ اس کا خاوند دین سے اس قدر نفرت رکھتا ہے کہ اگر وہ اسے قرآن مجید پڑھتے پالے تو غصہ سے قرآن مجید چھین کر ایک طرف پھینک دیتا ہے اور اسے کہتا ہے کہ تم یہ جادو کیا پڑھ رہی ہو اور کئی دفعہ وہ اسے نماز پڑھتے ہوئے دیکھ کر اس کے پاس جاتا اور اس کا منہ ادھر ادھر پھیر کر نماز تروا دیتا ہے.یہ اور اس سے بدتر حال ان صالح خواتین کا ہوتا ہے جن کی شادی برے مردوں سے ہو جاتی ہے.اگر یہی صالح عورتیں صالح مردوں کی بیویاں ہوتیں تو وہ الہی منشاء جو اس قانون بقاء نسل سے تھا اچھی طرح پورا ہوتا اور انسان اس بار امانت سے حتی الوسع سبکدوش ہو جا تا مگر لوگ اس امر میں جلد بازی کرتے ہیں اور ان کا مقصد ظاہری حسن اور طبیعت کی ادنی خواہش کو پورا کرنا ہوتا ہے اس لئے وہ ٹھوکریں کھاتے ہیں اور بد قسمتی کی موت مرتے ہیں.یہ یاد رکھو کہ تمہاری زندگی کی اغراض صرف تمہاری اپنی ذات تک محدود نہیں اور اگر تم میں سے کوئی علم و فضل اور اخلاق و تقومی اپنے اندر رکھتا ہے تو اس کا فرض ہے کہ جب تک وہ ان کی حفاظت اور بقاء کا سامان مہیانہ کرے ہرگز ہرگز آرام اور راحت کی زندگی بسر نہ کرے.اس پر واجب ہے کہ وہ اس وقت تک منظر اور بے قرار رہے جب تک وہ اس مقدس امانت کو جو مشیت الہی نے اس کی فطرت کو سونپی ہے بقاء کا ایک لباس نہ پہنا دے.فٹ بال کی کھیل میں تم دیکھتے ہو جب ایک مد مقابل کھلاڑی دوسرے کھلاڑی سے فٹ بال چھنا چاہتا ہے تو وہ اس کو اس سے بچانے کی حتی الوسع کوشش کرتا ہے اور اس کو ایک طرف سے دوسری طرف لئے بھاگتا پھرتا ہے یہاں تک کہ وہ دیکھتا ہے کہ اس کے محفوظ رکھنے کی اب سوائے اس کے اور کوئی صورت نہیں کہ وہ اس کو اپنی ہی ٹیم کے کسی ہو شیار لڑکے تک پہنچا دے جہاں وہ اس مد مقابل غنیم کی دست برد سے محفوظ رہے گا.ٹھیک اسی لڑکے کی طرح تمہارا حال ہونا چاہیے موت کا نیم تم سے الہی امانت کو چھین کر ضائع کرنا چاہتا ہے اور پیشتر اس کے کہ وہ تم پر حملہ آور ہو اس بار امانت کو اپنی اولاد تک پہنچا دو اور جہاں تک کہ تم سے ہو سکتا ہے اس کے پہنچانے اور محفوظ رکھنے کے لئے صحیح سامان اور صحیح اسباب پیدا کرد - خود اپنے آپ کو صالح اور متقی بناؤ اور جس سامان کو تم اختیار کرنا چاہتے ہو وہ صالح سامان ہو اور اس میں کچھ نقص ہے تو اس کی اصلاح کرو اور جو ثمرات پیدا ہوں ان کو اجتماعی مفاسد کے سبب بگڑ جانے سے بچاؤ اور ان کی تربیت جیسی کہ چاہئے کرو.اگر تم نے ان میں سے ایک بات میں بھی کو تاہی کی تو
خطبات محمود ۷۸ جلد سوم یقین جانو کہ اللہ تعالی کے نزدیک تم امانت دار نہیں کہلا سکتے.لوگ عموماً زوجین کے انتخاب میں جمال اور مال اور حسب وجاہ کو نصب العین رکھتے ہیں.مگر ہمارے آقا محمد ﷺ فرماتے ہیں.فَاظُفَرُ بِذَاتِ الدِّينِ تَرِبَتْ يَدَاكَ - له یعنی تمہارے ہاتھ خاک آلود ہوں دیندار عورت انتخاب کرو تاکہ تم اس کے ذریعے سے اس عظیم الشان امانت کو بغیر کم و کاست کے ادا کر سکو.دین ہی ایک ذریعہ ہے جس سے انسان پورا پورا تقویٰ حاصل کر سکتا ہے.اور صرف دین ہی ایک وسیلہ ہے جس سے انسان کی عقل و فکر، اس کا علم و عرفان، اس کی استعدادیں اور قابلیتیں اور اس کے اخلاق و اعمال صالحہ محفوظ رہ سکتے ہیں اور اسی کے ذریعہ وہ اپنی ذات کو ایک اعلیٰ بقاء نوع کی صورت میں منتقل کر سکتا ہے.اگر انسان میں دینی روح نہیں تو کچھ بھی نہیں.نہ جمال ہے نہ مال، نہ حسب و جاہ ہے، نہ علم و فضل کسی کام کا ہے اور نہ اخلاق ہیں اور نہ ہی سعادت کی زندگی.مسئله ازدواج ایک اہم مسئلہ ہے اور اس کے متعلق صحیح انتخاب کرنا بہت مشکل امر ہے.انسان کا علم بہت ہی محدود ہے بلکہ ناقص ہے.بسا اوقات ایک شخص دوسرے شخص کے ساتھ برسوں رہتا ہے اور پھر بھی اس کا تجربہ اس کے اخلاق و اطوار کا صحیح اندازہ نہیں کر سکتا.ہمارے آقا محمد ال نے اس مشکل کو آسان کرنے کے لئے ایک راہ بتلائی ہے.اور وہ دعا ہے چونکہ اللہ تعالی کی ذات ہی ہر ایک نفس کے متعلق کامل علم رکھتی ہے اور کوئی شے بھی آسمان و زمین میں اس کے علم سے پوشیدہ نہیں ہے اور وہ ذات پاک بہتر سمجھتی ہے کہ کون کون سی زوجین آپس میں مناسب اور بہتر ہیں اور صرف یہی نہیں بلکہ وہ ذات اس پر بھی قادر ہے کہ غلط انتخاب کے بعد بھی اپنی رحمت سے ایسے حالات پیدا کر دے جو مقصود حقیقی تک پہنچنے کے لئے محمد ولد دگار ہوں اس لئے رسول کریم ﷺ نے ہمیں حکم دیا ہے کہ ہم شادی سے پہلے استخارہ کر لیا کریں.سہ یعنی اللہ تعالی کے حضور درد دل سے دعا کریں کہ وہ اپنے علم و رحمت و قدرت سے ایسی راہ کی طرف رہبری کرے جو سعادت دارین کا موجب ہو اور اپنے ہر پہلو سے برکات رکھتی ہو.خطبہ نکاح میں جو آیات پڑھی جاتی ہیں ان کا بھی ماحصل یہی ہے جو میں نے بیان کیا ہے چنانچہ ان میں سے اللہ تعالی ایک آیت میں فرماتا ہے وَلْتَنْظُرْ نَفْسٌ مَا قَدَّمَتْ لِغَدٍ - سه یعنی
خطبات محمود 49 جلد سوم نفس کو دیکھ لینا چاہئے کہ کل کے لئے اس نے کیا سامان کیا ہے ہماری جماعت کو صرف آج ہی ایسے لوگوں کی ضرورت نہیں جو کہ حضرت محمد رسول اللہ لی اور آپ کے مسیح علیہ السلام کی دی ہوئی مقدس امانت کو اٹھا ئیں اور دوسروں تک پہنچا ئیں بلکہ آج سے زیادہ ضرورت کل کے لئے ہے.کل کے لئے ایسی رو میں ہونی چاہئیں جو اس امانت کو اپنے اندر محفوظ رکھ کر ایک پاکیزہ زندگی کے ثمرات پیدا کریں.یہ ایک ایسی عظیم الشان ضرورت ہے کہ اس کو پورا کرنے کے لئے سارے آج کو کل کے لئے قربان کر دینا چاہئے.چاہیے کہ ہر ایک احمدی ماں باپ کو اس کی فکر ایسی دامن گیر ہو جو سب فکروں اور دھندوں کو بھلا دے.اسی غرض کو مد نظر رکھتے ہوئے آج میں سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب کے نکاح کا مہر النساء بیگم سے جو کہ مولوی امیر محمد خان صاحب کی لڑکی اور پروفیسر عطاء الرحمن صاحب کی ہمشیرہ ہیں ایک ہزار روپیہ مہر مقرر کر کے اعلان کرتا ہوں.میں بھی دعا کرتا ہوں اور سب احباب بھی دعا کریں کہ اس زواج کو خود زوجین اور ان کے اقرباء اور ساری جماعت کے لئے خدا مبارک کرے.آمین.الفضل ۲۳ دسمبر ۱۹۲۰ء صفحه ۱۱ تا ۱۴) نیز الحکم قادیان ۲۱ نومبر ۱۹۲۰ء صفحه ۹ تا ۱۱) ه الاحزاب : ۷۳ ه ترمذی ابواب النكاح باب ما جاء في من ينكح على ثلث خصال کے بخارى كتاب الدعوات باب الدعاء عند الا استخارة شه الحشر : 19
خطبات محمود ۲۲ جلد سوم نکاح میں خدا تعالیٰ سے استعانت چاہو (فرموده ۳۱- دسمبر ۱۹۲۰ء) ۳۱ دسمبر ۱۹۲۰ء کو حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے ڈاکٹر سید محمد حسین شاہ صاحب اسٹنٹ سرجن کو ہاٹ کا نکاح ایک ہزار روپیہ مہر پر صفیہ بیگم (جو سکینۃ النساء المیہ قاضی اکمل صاحب کی چھوٹی بہن ہے) سے پڑھانے خطبہ مسنونہ کی تلاوت کے بعد فرمایا :- خدا تعالی کی نعمتیں اور اس کی رحمتیں اتنا وسیع اثر رکھتی ہیں بلکہ ان کو حلقہ نہیں کہتا چاہئے کہ حلقہ حد پر دلالت کرتا ہے) کہ کوئی انسان ان کی حد بندی نہیں کر سکتا.جب کبھی خدا تعالی کا فضل کسی بندے پر ہوتا ہے جب تک خدا کی نعمتوں سے انسان انکار نہیں کر تا خدا اس سلسلہ کو بند نہیں کرتا.اس کے انعامات پر اگر نظر کی جائے تو حیرت آتی ہے کہ کن کن ذرائع سے مدد کرتا ہے.انسانی مددیں، انسانی نفرتیں محدود ہیں.بڑے بڑے بادشاہ دنیا میں لوگوں پر خوش ہوتے ہیں لیکن ان کی خوشی کی عملی خیر لوگوں کو نہیں پہنچتی.انعامات ایسے محدود ہوتے ہیں اور نتائج ایسے خراب کہ کچھ کہا نہیں جاسکتا.فوجوں میں لوگ شامل ہوئے، خوشیاں منائیں، قربانیاں کیں مگر کیا نتیجہ نکلا.ہزاروں لاکھوں انسان جو مرگئے گورنمنٹ برطانیہ ان کو کیا انعام دے سکتی ہے بہت بڑی قدردانی کی تمغہ منظور کیا.مرنے والا مر گیا اب یہ تمغہ اس کے کسی کام؟ مگر جو خدا کے ہو جاتے ہیں ان کے اوپر جو خدا کی برکتیں ہوتی ہیں وہ ہمیشہ ہمیش
خطبات محمود Al کے لئے چلتی ہیں اور کوئی حد بندی ان کی نہیں ہوتی.نادان کہتا ہے کہ محدود اعمال کے نتائج غیر محدود کیوں ہوں حالانکہ وہ نہیں جانتا کہ محدود کے نتائج غیر محدود نہیں بلکہ غیر محدود ہستی کی طرف سے غیر محدود انعام ملتے ہیں.معترض انسان کو دیکھتا ہے دینے والے کو نہیں دیکھتا.دو آدمیوں کا معاملہ ہو تو بڑے کی جانب نظر کی جاتی ہے پس جب خدا اور بندے کا معاملہ پیش ہو تو نادان یہ کیوں نہیں دیکھتا کہ بندے کے ساتھ معاملہ کرنے والا خدا ہے.وہ خود بھی غیر محدود اس کے انعامات بھی غیر محدود - کوئی نعمت ایسی نہیں جس کی نسبت خدا نے فرمایا ہو کہ میں یہ نہیں دوں گا.دنیا کے بادشاہوں کی طرف سے ایسی تقسیم اور حد ہوتی ہے مگر خدا کی طرف سے کوئی حد نہیں صرف یہ ہے کہ انسان قابلیت اور اہلیت رکھتے ہوں.بادشاہت کی ضرورت ہے بادشاہت دے گا، اگر علم کی ضرورت ہے علم دے گا، اگر غیب کی ضرورت ہے تو اسے بھی اس موقع پر حوالہ کر دیتا ہے جتنے غیب کی ضرورت پیش آئے اتنا اس وقت دے دیتا ہے.ہم دیکھتے ہیں سب نمونے موجود ہیں.حضرت مسیح موعود کے زمانے میں کتنے لوگوں نے مخالفت کی مگر مخالفت کا نتیجہ کیا ہوا.حضور کی کامیابی اور مخالفین کی ناکامی.عالم مقابل پر کھڑے ہوئے اور حضرت صاحب کو جاہل کہا.خدا نے فرمایا اگر یہ جاہل ہے تو ہم اسے اپنے خزانے سے علم دیتے ہیں اب آؤ اس کا مقابلہ کرو.چنانچہ حضور نے انعام پر انعام مقرر کر کے کتابیں لکھیں اور تحدی کی کہ ان کی مثل لاؤ مگر ان مدعیان علم میں سے کوئی مقابلہ پر نہ آسکا.کچھ عرصہ ہوا یہاں مارگولیتھ سے آیا.میں نے اس سے پوچھا کہ مشاہدہ بڑی چیز ہے یا قیاسی بات کہنے لگا مشاہدہ.اس پر میں نے کہا معجزات پر آپ کو شک ہے اگر ان کا مشاہدہ آپ کو ہو جائے تو پھر آپ کو ماننا پڑے گا.اس پر وہ کہنے لگا کیا قرآن میں جو کچھ ہے اس کا مشاہدہ ہو سکتا ہے میں نے کہا ہو سکتا ہے.قرآن مجید کا معجزہ یہ ہے کہ اس کے مقابلہ میں کوئی کلام نہیں ہو سکتا.یہ معجزہ اس زمانے میں بھی دکھایا گیا ہے.چنانچہ حضرت مسیح موعود نے دعوی کیا اور انعام پر انعام مقرر کر کے اپنی کتاب کی مثل لانے کا چیلنج دیا چنانچہ وہ کتابیں ابھی لاجواب پڑی ہیں.آپ کو بھی عربی دانی کا دعوی ہے آپ ہی ہمت کریں.تو یہ ایک خزانہ تھا کون ان خزانوں کی حد بندی کر سکتا ہے.کیا کسی بندے کو کوئی بادشاہ یہ علم دے سکتا ہے.وہ تو اپنے لئے بھی نہیں لا سکتا.بادشاہ جرنیلوں کو بھیجتے ہیں اور میدان جنگ میں مارے جاتے ہیں لیکن خدا تعالیٰ
خطبات محمود ۸۲ جلد سوم اپنے بندے کو بھیجتا ہے اور ساتھ ہی اعلان فرماتا ہے کہ بچایا جائے گا.پھر وہ بندہ باوجود معاندین کی سخت مخالفتوں اور کوششوں کے ان کے حملوں سے محفوظ رہتا ہے.مولوی عمر دین صاحب ہماری جماعت کے ممبر اور نہایت جوشیلے مبلغ ہیں انہوں نے بیان کیا کہ سلسلہ میں داخل ہونے سے پہلے میں مولویوں کا مداح تھا اور مولوی محمد حسین بٹالوی سے تعلق تھا.ایک دن مولوی محمد حسین بٹالوی اور عبدالرحمن سیاح آپس میں باتیں کر رہے تھے کہ مرزا صاحب کو چپ کرانے کی کیا تجویز ہو.عبد الرحمن نے کہا.میں بتاتا ہوں مرزا صاحب اعلان کر چکے ہیں کہ میں مباحثہ نہیں کروں گا اب انہیں مباحثہ کا چیلنج دے دو.اگر وہ تیار ہو گئے تو انہیں ان کا قول یاد دلا کر نادم کیا جائے کہ ہم پبلک کو صرف یہ دکھانا چاہتے تھے کہ آپ کو اپنے قول کا پاس نہیں اور اگر مباحثہ سے انکار کیا تو ہم اعلان کر دیں گے کہ دیکھو ہمارے مقابل پر آنے کا حوصلہ نہیں.میں (عمر الدین) نے کہا مجھے کہو تو میں انہیں جا کر مار آتا ہوں جھگڑا ہی ختم ہو جائے.اس پر وہ کہنے لگے تمہیں کیا معلوم ہم یہ سب تدبیریں کر چکے ہیں کوئی سبب ہی نہیں بنتا.یہ سنتے ہی مولوی عمر الدین کہتے ہیں کہ میرے دل پر حضور (مسیح موعود کی صداقت کا اثر ہو گیا.کون دنیا کا بادشاہ ہے جو کسی کی نسبت تو کجا اپنی نسبت بھی تحدی کے ساتھ اعلان کر سکے کہ میں بچایا جاؤں گا.مگر خدا اپنے بندوں کی زبان سے لوگوں کو چیلنج دیتا ہے کہ تم فرادی فرادی اور پھر اکٹھے میرے خلاف منصوبہ بازی کرلو.خواہ میرے گھر کے لوگ بھی میرے خلاف ہو جائیں سب سے بچایا جاؤں گا.وَاللهُ يَعْصِمُكَ مِن عِنْدِم ولو لم يَعْصِمُكَ النَّاسُ - کے الناس میں سب ہی شامل ہیں.اپنے بیگانے گھر کے لوگ گھر سے باہر کے لوگ.غرض خدا کی نعمتوں کا اندازہ نہیں لگایا جاسکتا.دیکھو انسان کی ایک یہ بھی خواہش ہوتی ہے کہ اس کی باتیں مانی جائیں اور مقبولیت حاصل کریں.مگر یہ کوئی انسان دنیا میں اپنے زور قوت سے نہیں کر سکتا کیونکہ ظاہری جسم پر قبضہ ہو گا مگر دلوں پر قبضہ نہیں ہو سکتا.پس خدا اپنے رسول کو اس انعام سے بھی ممتاز کرتا ہے.چنانچہ فرماتا ہے.دنیا میں ایک نذیر آیا پر دنیا نے اس کو قبول نہ کیا لیکن خدا اسے قبول کرے گا اور بڑے زور آور حملوں سے اس کی سچائی ظاہر کر دے گا".سے کئی باتیں ہوتی ہیں جو دنیا کے لئے مفید ہوتی ہیں مگر رسم ورواج کے خلاف ہوتی ہیں اس
خطبات محمود ۸۳ لئے پہلے انکار ہوتا ہے لیکن آخر لوگ مان جاتے ہیں مثلاً سرسید احمد خان نے کہا کہ انگریزی پڑھنی چاہئے.ابتداء میں بے شک بعض لوگوں نے مخالفت کی لیکن یہ وہ بات تھی جس کی تائید میں زمانہ کے حالات تھے.جب مسلمانوں نے دیکھا کہ ہمارے ہم عصر انگریزی پڑھ کر فائدہ اٹھا رہے ہیں اور ملازمت بھی بغیر انگریزی پڑھے کے نہیں مل سکتی تو آخر سرسید کی بات مان لی.اب یہ کامیابی جو ہے معجزہ نہیں نشان نہیں.یہ کامیابی پانے والا زیادہ سے زیادہ ایسا داتا کہلا سکتا ہے جس نے دنیا کے خیالات کو پہلے پڑھ لیا.خدا کی طرف سے یہ بات معجزہ کہلائے گی جو لوگوں کے خیالات اور رسم و عادات کے خلاف ہو اور جسے پانے کے لئے لوگ تیار نہ ہوں اور نہ زمانے کے حالات اس کے مساعد ہوں مثلاً حضرت صاحب ( مسیح موعود علیہ السلام) نے فرمایا کہ رسول کریم ﷺ کے بعد وحی کا سلسلہ جاری ہے.یہ وہ بات ہے جس کے مسلمان بھی قائل نہ تھے اور دوسرے مذاہب والے تو اس سے پہلے وحی کا سلسلہ بند کر چکے تھے.پھر یورپ کا یہ زور کہ انہوں نے ہائی کرلیسٹر کے ماتحت تورات و انجیل کے الہام کی بھی دھجیاں اڑا دی تھیں اور خواب و رویا کو ایسا بے اعتبار ثابت کیا کہ بعض لوگوں کو خواب کرا کے دکھا دیا.باوجود ان خیالات کے حضرت صاحب نے ثابت کر دیا کہ الہام و وحی کا سلسلہ جاری ہے اور وہ دماغی بناوٹ سے بالا تر ہے.غرض مامورین الہی دنیا جدھر چلے اس کے مقابل چلتے ہیں.وفات مسیح منوانا حضرت صاحب کا بڑا کام نہیں بلکہ مسیحیت منوانا مشکل تھا جو آپ نے کئی لاکھ کی جماعت سے منوالی.بعض دفعہ لوگ کہتے کہ مرزا صاحب نے کونسا بڑا کام کیا.وفات مسیح تو سرسید بھی مانتا تھا اور اس کے ہم خیالوں کی بہت سی تعداد مانتی ہے.ہم کہتے ہیں وفات مسیح تو آپ کی راہ میں درمیانی روک تھی مسیحیت منوانا بڑا کام تھا.اور آنحضرت کے بعد نبوت کا اجراء جو آپ نے کیا.الغرض خدا تعالی کی رحمتیں بہت وسیع ہوتی ہیں اس کے انعامات کی کوئی حد نہیں اس لئے تمام کاموں میں انسانوں کی نظر خدا پر ہی پڑنی چاہئے کیونکہ سب چیزیں زوال پذیر ہیں مگر خدا کے خزانے کبھی ختم نہیں ہوتے.بعض لوگوں کو اپنے علم پر غرور ہوتا ہے بعض کو دولت پر مگر کیا معلوم کہ شام کو ایک شخص دولت مند سوئے اور صبح غریب ہو.ابھی ایک عالم فاضل محققانہ تقریر کر رہا ہو اور دوسرے روز پاگل ہو جائے.۱۹۱۴ء میں میں نے ایک رویا میں دیکھا کہ ایک بڑا شخص ہے اس کی شکل مولوی سید محمد
خطبات محمود جلد سوم احسن صاحب امروہوی سے ملتی جلتی ہے اور وہ پاگل ہو گیا ہے.اتنے میں میں نے دیکھا کہ ابلیس حملہ کرتا ہے میں بار بار لاحول پڑھتا ہوں وہ رکتا نہیں آخر اَعُوذُ پڑھا تو وہ دور ہوا.سو اس وقت کس کو معلوم تھا کہ سید محمد احسن کی یہ حالت ہو جائے گی.غرض علم وغیرہ ایک دم جاتے رہتے ہیں.البتہ اللہ پر جن کی نظر ہو ان کے ساتھ ایسا نہیں ہوتا.دیکھو ہزاروں نبی گزرے ہیں کوئی ان میں سے مخبوط الحواس نہیں ہوا.کیونکہ ان کو جو کچھ ملا خدا کے خزانے سے ملا اور وہ ہر وقت خدا کے خزانے سے حصہ پاتے تھے.پس خوب یاد رکھو کہ ہر کام جب ہی بابرکت ہو سکتا ہے کہ خدا پر نظر ہو.یہی ایک چیز محفوظ رکھنے والی ہے.تمہارے لئے رسول اللہ ﷺ کامل نمونہ ہیں.آپ نے ہر کام سے پہلے بسم ) الرَّحْمنِ الرَّحِیم سکھائی اور آخر میں الحمد لله تا اول و آخر خدا پر نظر رہے.دنیا میں ب سے غافل کرنے والی دو چیزیں ہیں.ایک قومی کا زور شہوت - دوم نیند.دونوں موقع پر رسول اللہ نے تعلیم دی کہ خدا کا نام لو اور اسی سے طاقت و حفاظت چاہو.- یمی شادی و بیاہ کا معاملہ ہے.اب کسی کو انجام کیا معلوم.ممکن ہے انسان جسے رحمت سمجھتا ہو وہ زحمت ہو جائے جسے نعمت خیال کیا وہ نعمت بن جائے اس موقع پر یہی تعلیم دی کہ خدا پر نظر رکھو اور اس کی حمد کرتے ہوئے اس سے استقامت و استعاذہ چاہو.اور اے لوگو تقوی کرو.کس کا؟ رب کا.کیوں ؟ وہ ربوبیت کرنے والا ہے.رب بھی تمہارا جس نے تم کو پیدا کیا اور تمہارے بڑوں کو بھی اور پھر آئندہ بھی وہی خالق ہے.نکاح میں تین باتیں ہے.تمہاری قوتیں اس قابل ہوں کہ نکاح کرو اور اس خاص عورت سے نباہ کرو.بیوی کی قوتیں نکاح کے قابل ہیں اور وہ تمہارے ساتھ نباہ کر سکتی ہے..دونوں کے ملاپ سے جو نتیجہ نکلے گا وہ بابرکت ہو گا.اب یہ تین چیزیں ہیں کس کو معلوم ہے کہ اس وقت کیا نتیجہ نکلے گا.انسان سمجھتا ہے کہ میں نے سب کچھ دیکھ بھال لیا ہے مگر نتیجہ کچھ اور نکل آتا ہے.بعض اوقات دوسرے کی نسبت غلط فہمی ہوتی ہے اور بعض اوقات خود اپنی نسبت.یعنی انسان اپنے آپ کو نباہ کے قابل سمجھتا ہے اور دراصل نہیں ہوتا.وہ سمجھتا ہے کہ میں یہ کام کر سکتا ہوں اور کر کچھ بھی نہیں سکتا.اسی طرح بعض عورتیں ہیں.شکل بھی ہے سلیقہ بھی ہے مگر نکاح کے بعد مسلولہ ہو جاتی
خطبات محمود ۸۵ جلد سوم ہیں یا کوئی اور نقص نمایاں ہو جاتا ہے یا آپس میں طبائع نہیں ملتیں.اور بعض اوقات یوں ہوتا ہے کہ میاں بیوی کا عاشق اور بیوی میاں پر قربان مگر اولاد خراب ہو جاتی ہے جس کا علاج سوائے اس کے کیا ہے کہ خدا ہی سے مدد چاہی جائے اور اسی پر بھروسہ رکھیں اور اسی کے دروازے پر نظر ہو کہ وہ سب نقصوں کو دور کرے اور نیک نتیجہ نکالے.اس لئے ان آیات میں یہ تعلیم دی کہ جن باتوں کی نسبت تمہیں خدشہ ہو سکتا ہے وہ تینوں خدا کے قبضہ میں ہیں.اس نے تمہیں بھی پیدا کیا.خَلَقَكُمْ مِنْ نَفْسٍ وَاحِدَةٍ وَخَلَقَ مِنْهَا زَوجھا اور پھر اولاد کو وَبَثَّ مِنْهُمَا رِجَالًا كَثِيرًا وَنِسَاء - شه پس ای خالق کے سامنے جھکو وہی سب کام ٹھیک بنادے گا.یہ نہایت اعلیٰ درجہ کی تعلیم ہے جو رسول کریم اے کے ذریعہ ہمیں ملی.یہ آیات بظاہر کس قدر مختصر ہیں مگر ان میں وہ خزانے مخفی ہیں کہ میں نے دیکھا ہے جب میں خطبہ نکاح کے لئے کھڑا ہوں نئے سے نیا نکتہ سوجھا ہے.اگر کوئی غور کرنے والا ہو تو یہی معجزہ اسلام کی سچائی کے لئے زبردست ثبوت ہے.تین آیتیں رسول کریم ا نے تجویز فرمائیں اور ان تینوں آیتوں کی تفسیر ختم نہیں ہو سکتی.اس کے بعد حضور نے ایجاب و قبول کرایا.الفضل ۱۷ جنوری ۱۹۲۱ء صفحہ ۶۵) له الفضل ۱۰ جنوری ۱۹۲۰ء صفحه ۲ کے تذکرہ صفحہ ۲۲۰.ایڈیشن چهارم شه تذکره صفحه ۱۰۴- ایڈیشن چهارم م النساء : ٢
خطبات محمود AY ۲۳ جلد سوم استخارہ کس طرح ہوتا ہے (فرموده ۳۱- دسمبر ۱۹۲۰ء) ۳۱- دسمبر ۱۹۲۰ء حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے درج ذیل دو نکاحوں کا اعلان فرمایا.فضل بی بی بنت مولوی عمرالدین صاحب شملوی کا نکاح عبد الحمید احمدی سے ۲۰۰۰ ہزار روپے جریر.خورشید بیگم بنت محمد الدین صاحب کا نکاح ظہور الدین دھرم کوئی سے ۵۰۰ روپے مہر پر.خطبہ مسنونہ کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا.نکاح کے متعلق جو ہدایات ہوتی ہیں ان کا مختصر ذکر مختلف دنوں میں کرتا رہا ہوں.چونکہ اب جمعہ کا وقت ہے دوستوں نے واپس جانا ہے اس لئے میں ان ہی نصیحتوں کی طرف ان کو جن کے لڑکے اور لڑکیاں ہیں توجہ دلاتا ہوں اور پھر ایک دفعہ اپنی جماعت کو ادھر متوجہ کرتا ہوں کہ تم نکاح کے معاملات درست کرو اور آئندہ درستی کے لئے احتیاط اور استخارہ سے کام لو تاکہ آپس میں محبت بڑھے اور ہماری نسلیں ترقی کریں اور نسلیں نیک ہوں.دعا سے پہلے کوئی فیصلہ مت کرو بلکہ دعا اور استخارہ کرتے وقت اپنی تمام آراء اور فیصلوں سے علیحدہ ہو جاؤ.کیونکہ اگر تم فیصلہ کرنے کے بعد دعا اور استخارہ کرو گے تو وہ بابرکت نہیں ہو گا.استخارہ اور دعا وہی بابرکت ہوگی جس میں تمہاری رائے اور فیصلہ کا دخل نہ ہو.تم خدا پر معاملہ کو چھوڑ دو اور دل اور دماغ کو خالی کر لو اور اس کے حضور میں عرض کرو کہ خدایا جو تیری طرف سے آئے گا
بات محمود AL وہی ہمارے لئے بابرکت ہو گا اور ہماری بہتری کا موجب ہو گا.یہ نصیحت میں پھر خاص طور پر کر دیتا ہوں.اس وقت دو نکاح ہیں.فضل بی بی بنت مولوی عمرالدین صاحب شملوی کا نکاح ۲۰۰۰ روپیه مهر پر عبد الحمید احمدی پسر کرم بخش جالندھری سے خورشید بیگم بنت محمد الدین صاحب کا نکاح ۵۰۰ روپیہ مہر پر ظہور الدین دھرم کوئی ہے.مولوی عمرالدین صاحب بہت مخلص ہیں اور تبلیغ میں لگے رہتے ہیں ان کی لڑکی کے لئے بالخصوص دعا کریں.الفضل ۲۰ جنوری ۱۹۲۱ء صفحه (۶)
خطبات محمود AA ۲۴ جلد سوم دل اور زبان کی اصلاح کی اہمیت (فرموده ۲۸ جنوری ۱۹۲۱ء) ۲۸- جنوری ۱۹۲۱ء بعد نماز عصر حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے ڈاکٹر محمد عالم صاحب وٹرنری اسٹنٹ کا نکاح فیروزہ بیگم بنت بابو محمد عمر حیات صاحب سے ایک ہزار روپیہ مہر پر پڑھا اور خطبہ مسنونہ کی تلاوت کے بعد فرمایا.اللہ تعالی نے قرآن شریف میں مومن کو اس بات کا ارشاد فرمایا ہے کہ وہ ہر ایک معاملہ میں اپنی ذمہ داری کو ادا کرے گا اور بقیہ اللہ تعالیٰ خود کر دے گا.در حقیقت انسانی اعمال کا دائرہ اتنا وسیع ہے اور اس کا علم اتنا کمزور ہے کہ ہر پہلو کو مد نظر رکھنا نا ممکن ہے اور انسان کو اپنے اعمال کے نہایت قلیل حصہ میں دخل ہوتا ہے.مثلاً انسان کو ہم دیکھتے ہیں اس کی زندگی کا ایک حصہ تو ایسا ہے کہ اس کے وجود کے قیام کے لئے اس کو خود کوئی اختیار ہی نہیں ہو تا.مثلاً نطفہ کی حالت میں اس کو دخل ہوتا ہے نہ اس سے پہلے.اس کو کچھ معلوم نہیں ہوتا کہ میں بن رہا ہوں.نہ کوئی بات اس کے قبضہ میں ہوتی ہے اور اس وقت اس کی حالت مردہ بدست زندہ کی سی ہوتی ہے.پیدا ہو کر چند سال تک وہی حالت ناتوانی و کمزوری کی رہتی ہے دو تین سال تک یہ بالکل ماں باپ کے رحم پر ہوتا ہے اور اس کے بعد یہ اپنے مطالبات بہت مختصر طور پر پیش کر سکتا ہے.مثلاً بھوک ہے، پیاس ہے اس سے زیادہ نہیں اس سے پھر اور ترقی کرتا ہے تو انتظام میں کچھ دخل دینا شروع کرتا ہے گو اس کے دخل کو تسلیم نہیں کیا جاتا.اور پھر اس سے ترقی کرتا ہے تو بعض باتیں منواتا ہے اور اکثر اس کو دوسروں کی ماننی پڑتی ہیں اور اس کو
محمود ۸۹ جلد سوم دوسروں کے رنگ میں ڈھلنا پڑتا ہے.تو اگر انسانی عمر کی اوسط ساٹھ سال مانی جائے تو اس میں سے پندرہ سال تو اس کی کمزوری اور ناتوانی میں گئے اور باقی ۴۵ رہے.ان میں سے بھی پندرہ سونے میں گئے کیونکہ عموماً لوگ ۸ گھنٹے سوتے ہیں.باقی تمیں سال رہے.یہ تیس سال کی زندگی جو بقیہ کا ہے جب ہم اس پر غور کرتے ہیں کہ اس میں اس کا کتنا دخل ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ بہت سے اثرات ارضی و سماوی ہیں جو اس پر اپنا اثر ڈال رہے ہیں.بہت سے تغیرات دنیا کے خواہ کسی حصہ میں ہوں ان کا اثر ہم تک پہنچتا ہے اور ہمیں معلوم بھی نہیں ہوتا.مثلاً یہی انفلوئنزا اس کو سپینش انفلوئنزا کہتے تھے کہ یہ چین میں پیدا ہوا مگر ہمارے ملک میں آیا اور اس سے ساٹھ لاکھ اموات ہو ئیں.ابتداء میں ہندوستان کا اس میں کوئی دخل نہ تھا لیکن جو دنیا میں تغیر ہوا اس کا اثر یہاں اتنا ظاہر ہوا.پس بہت سی مجبوریاں اور بہت سے اثرات ہوتے ہیں جن کے ماتحت اس کو اپنی زندگی کو چلانا پڑتا ہے.کہیں قوم و ملک کے حالات ہوتے ہیں، کہیں ماں باپ کے اثرات ہوتے ہیں، کہیں دوستوں کا اثر ہوتا ہے، کوئی نوکری پیشہ ہوتا ہے تو ان کا اثر ہوتا ہے، بعض دفعہ یہ خیال کرتا ہے کہ میں اپنے منشاء سے کوئی کام کرتا ہوں مگر دراصل اس میں بھی اس کے منشاء کا دخل نہیں ہوتا دوسروں کے اثرات کے ماتحت اس نے اس کو اپنا منشاء بنالیا ہوتا ہے اور یہ اس پر خوش ہو جاتا ہے.پس بہت دفعہ اس پر ان لوگوں کا بھی اثر پڑتا ہے جن سے اس نے مشورہ نہیں لیا ہوتا.جب ہم اس حصہ پر غور کرتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ زندگی کا ایک قلیل جو چھ ماہ سے زیادہ نہیں بنتا اس کے اختیار میں ہوتا ہے.اسی وجہ سے بعض نے کہا ہے کہ انسان کا ایک فعل بھی اپنے اختیار سے نہیں.وہ کہتے ہیں کہ بظاہر اس کو معلوم ہوتا ہے کہ اپنے اختیارات سے کرتا ہے مگر دوسروں کے دباؤ کے نیچے جس کا اس کو علم بھی نہیں ہو تا کام کرتا ہے.ان لوگوں نے بالکل اختیار کا انکار کر دیا مگر یہ حد سے بڑھ گئے اور یہ ان کی غلطی ہے.ہاں اس میں شک نہیں کہ بہت سے حصہ عمر میں انسان کے اپنے ارادہ کا دخل نہیں اور جس میں اس کا ارادہ ہے وہ چھ ماہ سے زیادہ نہیں.لیکن اس کی ترقی کی خواہشات اور اس کے ارادے بہت زیادہ ہیں اور ادھر اس کی اس قدر بے چارگی ہے.پھر یہ امنگ انسان کی کس طرح پوری ہو سکتی ہے.اس کے لئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.
خطبات محمود ۹۰ جلد سوم يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَقُولُوا قَوْلاً سَدِيدًا تُصْلِحُ لَكُمْ أَعْمَالَكُمْ وَيَغْفِرُ لَكُم وَ مَنْ يُطِعِ اللهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ فَازَ فَوْزًا عظیما - اے فرمایا کہ انسان کے اعمال کا بہت حصہ انسان کے دخل و قبضہ میں نہیں.بہت سی مجبوریوں میں گھرا ہوا ہے لیکن اس کے قبضہ میں ایک چیز ہے وہ اس کا دل ہے.یہ اپنے دل کو صاف کرنے اور اللہ کا تقویٰ اختیار کرے.دل وہ ہے جس پر کوئی جبریہ قابو نہیں پاسکتا، کوئی زبر دستی کسی کے دل میں داخل نہیں ہو سکتا اور نہ زبر دستی کسی کے دل میں کوئی بات ڈال سکتا ہے، نہ مجبور کر سکتا ہے کہ جس طرح وہ جو سوچ سکتا ہے وہ نہ سوچے، دل کو کوئی جھکا نہیں سکتا.اس لئے فرمایا کہ دل تمہارے قبضہ میں ہے تم اس کی اصلاح کرو کیونکہ نہ کوئی زبردستی دل پر قبضہ کر سکتا ہے نہ بت پرستی کو دل میں داخل کرا سکتا ہے نہ باطل کے آگے جھکا سکتا ہے.حکومت کو اس پر قبضہ نہیں، طاقت کو اس پر ا قبضہ نہیں، حکومت یہ کر سکتی ہے کہ پھانسی دے دے.چند لوگ مل کر ایک شخص کو بت کے آگے جھکا سکتے ہیں لیکن جب اس کی گردن جھکی ہوئی ہوگی اس کا دل اس کا مخالف ہو گا.پس پہلا فرض دل کی اصلاح ہے.دوسری اصلاح زبان کی ہے.دل کے بعد زبان پر بہت حد تک قبضہ ہوتا ہے.منہ پر پٹی باندھی جاسکتی ہے لیکن زبر دستی کوئی بات کہلائی نہیں جاسکتی.اس کے لئے فرمایا سچی بات کہو.پہلے دل کی اصلاح کرو.دوسرے زبان کو قابو میں رکھو اور ہمیشہ حق بات کہو جب تم یہ باتیں کرلو گے تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ يُصْلِحُ لَكُمْ أَعْمَالَكُمُ الله تعالی تمہارے اعمال کو درست کر دے گا.یہ وہ گر ہے جس سے انسان اپنی قسمت آپ بنا سکتا ہے.یہ گر انسان کے دینی اور دنیاوی کاموں پر چلتا ہے کہ پہلے خود دل کی اصلاح کرے اور پھر زبان کو قبضہ میں لائے اور اس کوشش کے بعد خدا اس کے کام درست کر دے گا.مثلاً نماز ہے جتنی انسان درست کر سکتا ہے کرے باقی اللہ تعالی کر دے گا.اور اللہ تعالٰی اس رنگ میں کامیاب کر دے گا.یہ اس قدر وسیع مضمون ہے کہ ہر ایک معاملہ پر حاوی ہے.جب تک انسان اس اصول پر کار بند نہ ہو کامیابی ناممکن ہے.اللہ تعالٰی فرماتا ہے کہ جو تم کر سکتے ہو کرو اس کے کرنے میں کمی نہ کر وباقی ہم کر دیں گے.یہی گر ہے جو نکاح کے معاملہ میں مد نظر رکھنے کے لئے رسول کریم ﷺ نے اس آیت کو
خطبات محمود ۹۱ جلد سوم خطبہ میں رکھا ہے.نکاح کا معاملہ بھی اسی قسم کا ہے کہ اس کی بہت سی باتیں انسان کے دخل اور قبضہ سے باہر ہیں اس لئے فرمایا کہ جو تم کر سکتے ہو اپنی طرف سے ٹھیک کرد باقی ہم کر دیں گے.جن جن پیشوں اور کاموں میں انسان اس گر کو مد نظر رکھے گا.یعنی جو کام اس کے اختیار میں ہے وہ کرے اور باقی خدا پر چھوڑ دے خدا اس کو ضرور کامیاب کر دے گا.الفضل ۳ فروری ۱۹۲۱ء صفحہ ۷۶) له الاحزاب : ۷۲۷۱
خطبات محمود ۹۲ ۲۵ جلد سوم استخاره، مهر، جیز اور اعلان بالدف (فرموده ۹ - فروری ۱۹۲۱ء) حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے ۹.فروری ۱۹۲۱ء کو صبح کی نماز کے بعد خان محمد اوصاف علی خان صاحب سی آئی ای کمانڈر انچیف نامہ کا نکاح امتہ اللہ سلیمہ بیگم بنت جناب مولوی ذو الفقار علی خان صاحب رامپوری مہاجر قادیان سے مبلغ ۸ ہزار روپے مہر پر پڑھائے.-: خطبہ مسنونہ کی تلاوت کے بعد فرمایا : نکاح کا معاملہ بہت خشیت اور ڈر کا معاملہ ہوتا ہے کیونکہ اس کا خاتمہ چند سال میں نہیں ہو جاتا.لوگ کہتے ہیں عمر بھر کے لئے ہے مگر یہ صحیح نہیں ہے.یہ لاکھوں سال کے لئے ہے بلکہ اس سے بھی بہت زیادہ عرصہ کے لئے کیونکہ مرنے کے بعد بھی یہ تعلق اپنے اثرات چھوڑتا ہے اس لئے اس میں بہت خشیت اور خوف کی ضرورت ہوتی ہے کہ انسان بہت احتیاط سے کام لے اور تقویٰ کے ماتحت دعاؤں اور استخاروں پر زور دے.مگر لوگ اس معاملہ میں عموماً دعاؤں اور احتیاطوں سے کام نہیں لیتے.حکم ہے کہ صاف سیدھی بات کہو مگر لوگ پر پیچ بات کہتے ہیں.حکم ہے کہ تقویٰ سے کام لو.مگر سنا ہے کہ لوگ خصوصاً عورتیں اس موقع پر گالیاں اور نخش گیت گاتی ہیں.جس سے دلوں پر زنگ لگتا ہے.خدا کا شکر ہے کہ ہماری جماعت میں یہ بات نہیں.فرمایا : اس میں استخارہ کی ضرورت ہوتی ہے.رسول کریم نے اس پر بہت زور دیا ہے.مسلمان
محمود ۹۳ چاند سوم کا کوئی کام استخارہ کے بدوں نہیں ہونا چاہئے.کم از کم بسم اللہ سے ضرور شروع ہو اور طریق استخارہ یہ ہے کہ دعائے استخارہ پڑھی جائے.ایک دفعہ کم از کم در نہ سات دن تک عموماً صوفیاء نے چالیس دن رکھے ہیں.اس کی بہت برکات ہوتی ہیں جن کو ہر ایک شخص جس کو تجربہ نہ ہو نہیں سمجھ سکتا.ایک شخص روئی کا بہت بڑا سودا کرنے لگا.حضرت خلیفہ اول سے مشورہ لیا آپ نے فرمایا استخارہ کرو.انہوں نے کہا اس میں یقینی فائدہ ہے.آپ نے فرمایا کہ کیا حرج ہے استخارہ کے معنے بھی خیر طلب کرنے کے ہیں.آخر انہوں نے اسکراہ سے استخارہ کیا.جب وہ سودا کرنے لگے اللہ تعالیٰ نے ایسا سبب ان کے لئے بنایا کہ وقت پر ان کو علم ہو گیا اور وہ سودا کرنے سے رک گئے اور کئی ہزار کے نقصان سے بچ گئے.تو اس کے بہت سے فوائد ہیں اس لئے اس معاملہ میں ضرور استخارہ کرنا چاہئے.ہندوؤں کے پاس رہنے سے مسلمانوں پر یہ اثر پڑا ہے کہ انہوں نے اپنی اسلامی سادگی جو نکاح میں تھی قربان کردی.نکاح کے لئے کسی روپیہ کی ضرورت نہیں.مرعورت کا حق ہے جو مرد کی حیثیت پر ہے وہ بہر حال دیتا ہے باقی جو یہ سوال لڑکی والوں کی طرف سے لڑکے والوں سے ہوتا ہے کہ کیا زیور کپڑا دو گے اور اسی طرح لڑکے والوں کی طرف سے یہ کہ کیا لڑکی کو دو گے بہت تباہی بخش اور ذلیل طریق ہے.اس طریق نے مسلمانوں کی جائدادوں کو تباہ کر دیا اور کہتے ہیں کہ ناک نہیں رہتی.لوگ پوچھتے ہیں لڑکی کیا لائی اور اسی طرح لڑکے والوں کی طرف سے کچھ نہ ہو تو لڑکی والے کہتے ہیں ہماری ناک کٹتی ہے.چونکہ اس طریق سے تباہی آتی ہے اس لئے جماعت کو بچنا چاہئے اور بجائے بڑے چیزوں والی لڑکی اور بڑے زیور لانے والے لڑکوں کے یہ دیکھنا چاہئے کہ لڑکی جو گھر میں آئی ہے وہ مسلمان ہے اور لڑکا مسلمان ہے ورنہ بڑے بڑے زیور تباہی اور بربادی کا باعث ہو جاتے ہیں اور اس سے خاندان تباہ ہو جاتے ہیں اور دین بھی ضائع ہو جاتا ہے اور لوگ سود میں مبتلاء ہو کر جائدادوں کو برباد کر دیتے ہیں اور اس کی ایک جڑ ہے وہ یہ کہ لوگوں میں رواج ہے کہ جینز وغیرہ دکھاتے ہیں اس رسم کو چھوڑنا چاہئے.جب لوگ دکھاتے ہیں تو دوسرے پوچھتے ہیں جب دکھانے کی رسم بند ہوگی تو لوگ پوچھنے سے بھی ہٹ جائیں گے.ہمیشہ اس بات پر جانبین کی نظر ہونی چاہئے کہ ہمارے دین پر ہمارے اخلاق پر اس معاملہ کا
خطبات ۹۴ جلد سوم کیا اثر پڑے گا.بیاہ کا معاملہ انسان کے اختیار میں ہے.قرآن میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اولاد کو نیک باپ سے ملایا جائے گا.سے اسی طرح جو نیک بیوی ہوگی وہ اپنے نیک خاوند سے ملائی جائے گی اور جو نیک خاوند ہو گا اور اس سے اعلیٰ درجہ کی نیک عورت ہوگی اس سے ملایا جائے گا.کسی کی اولاد ہونا کسی کے اختیار میں نہیں مگر نیک بیوی خود انتخاب کر سکتا ہے.اور اسی طرح لڑکی والے نیک اور دیندار لڑکا انتخاب کر سکتے ہیں.نکاح کا طریقہ سادہ ہے نہ باجے نہ کچھ ایک نکاح خواں اور دو گواہ.اگر نکاح خواں نہ ہو تو انسان گواہوں کی موجودگی میں اپنا نکاح خود پڑھ سکتا ہے یا لڑکی کا ولی پڑھ سکتا ہے.نکاح کے بعد خرما یا کوئی اور چیز بانٹنا فرض نہیں.محض ایک پسندیدہ امر ہے اور سنت ثابتہ ہے.اعلان نکاح کے لئے دف جائز ہے مگر آج دنیا ترقی کر گئی ہے اور اس کو لوگ پسند نہیں کرتے اور جن باجوں کو لوگ پسند کرتے ہیں وہ جائز نہیں.اس لئے قدرت نے ہم سے یہ بھی چھڑوا دیا.اس کی بھی اب ضرورت نہیں رہی.کیونکہ دف سے غرض اعلان تھا اور اعلان کا ذریعہ دف سے بھی بہت اعلیٰ درجہ کا نکل آیا جو اخبار ہے کہ اس میں اعلان ہو جاتا ہے.دف سے جو غرض تھی وہ دوسری صورت میں بطور احسن پوری ہو گئی.الفضل ۱۷ - فروری ۱۹۲۱ء صفحه ۶۴۵) له الفضل ۱۴ فروری ۱۹۲۱ء صفحه ۱ ه وَالَّذِينَ آمَنُوا وَاتَّبَعْتُهُمْ ذُرِّيَّتُهُمْ بِإِيمَانِ الْحَقْنَابِهِمْ دَيَّنَهُمْ وَمَا المُنْهُمْ مِنْ عَمَلِهِمْ مِنْ شَيءٍ كُل امرِى بِمَا كَسَبَ رَهِينُ (الطور : (۳۳)
۹۵ ۲۶ امحمود فتنوں سے محفوظ رہنے کا طریق (فرموده ۱۰ فروری ۱۹۲۱ء) ۱- فروری ۱۹۲۱ء بعد نماز ظهر حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے میاں چراغ پر اللہ دتہ صاحب کے نکاح کا سید بی بی بنت محمد دین صاحب سے پانچ سو روپیہ مہر پر اعلان فرمایا.خطبہ مسنونہ پڑھ کر فرمایا : نکاحوں کے معاملہ میں ہمارے ملک میں میں نے دیکھا ہے کہ بہت فتنے پیدا ہوتے ہیں وجہ یہ کہ شریعت کے احکام کی پابندی نہیں کی جاتی.اگر لوگ شریعت کے احکام کی پابندی کریں تو فتنے نہ ہوں.ہماری جماعت جو بہت قلیل ہے اس کو بہت ہی اتفاق و اتحاد کی ضرورت ہے کیونکہ یہ ایک قوم نہیں بلکہ متفرق لوگ ہیں.دوسرے لوگوں میں آپس میں رشتہ داری ہوتی ہے.ایک دوسرے پر سابقہ رشتہ داری اور ایک قوم و خاندان ہونے کی وجہ سے جو زور اور دباؤ ہوتا ہے وہ یہاں نہیں ہوتا کیونکہ یہ لوگ ایک قوم سے نہیں بلکہ مختلف قوموں سے آئے ہیں اس لئے ہمارے لئے اتحاد رکھنا مشکل ہے.ہر ایک شخص دوسرے سے اجنبی ہے ان سب لوگوں کو جمع کرنے والی ایک احمدیت ہے.یہ عموماً ایسی مضبوط نہیں کیونکہ یہ اخلاص کو چاہتی ہے اور قربانی مانگتی ہے.سابقہ رشتہ داریوں میں لوگ عموماً قربانی کرتے ہیں جو مجبوری سے ہوتی ہے مگر یہاں ایمان و اخلاص سے قربانی ہوتی ہے اور بعض اوقات لوگوں میں اس کی کمی ہو جاتی ہے اس لئے اتحاد کا قیام مشکل ہو جاتا ہے.اور اگر غلطی ہو جائے تو پھر سنبھالنا مشکل ہو جاتا ہے.بعض لوگ نیک نظر آتے ہیں مگر جب شادیوں وغیرہ کے معاملہ میں اختلاف پیدا
خطبات محمود ۹۶ جلد سوم ہوتے ہیں تو کہہ اٹھتے ہیں کہ ہم احمدیت چھوڑتے ہیں.جب تک شادی کا سوال نہ تھا ان پر پردہ پڑا ہوا تھا مگر اس میں آکر پردہ اٹھتا ہے اور ان کے اخلاص کا پتہ لگ جاتا ہے اور لوگوں کو ہنسی کا موقع ملتا ہے.پس ہماری جماعت کے لئے رشتہ داری کے معاملہ میں غور و فکر کی بہت ضرورت ہے تاکہ اس میں فتنے نہ پڑیں.ہمارے ملک میں رشتہ داروں کو ایک دوسرے کے خلاف بطور گالی کے استعمال کیا جاتا ہے لڑکے والوں کی طرف سے لڑکے کو سمجھایا جاتا ہے کہ آتے ہی اس پر رعب ڈالنا اور لڑکی والے سمجھاتے ہیں کہ پہلے ہی تمہارا اثر قائم ہو.اس طرح دونوں کی طرف سے فتنہ کی بنیاد رکھی جاتی ہے.اس لئے اسلام تعلیم دیتا ہے کہ رشتہ داری میں تقوی مد نظر رکھنا چاہئے تاکہ آپس میں فساد نہ ہو.نئے نئے رشتے اگر ٹوٹ جائیں تو جو ڑنا مشکل ہوتا ہے.یہ معاملہ تو ایسا ہے کہ اس میں پرانی رشتہ داریاں تک ٹوٹ جاتی ہیں.ایسے موقع پر اگر جانبین شریعت کی پابندی کریں تو فتنے سے محفوظ رہ سکتے ہیں.الفضل ۲۱ - فروری ۱۹۲۱ء صفحه ۵)
92 ۲۷ خطبات محمود ہم میں اور غیروں میں عملی فرق ہونا چاہئے (فرموده ۱۴ مارچ ۱۹۲۱ء) ۱۴ مارچ ۱۹۲۱ء کو حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے محمد اسماعیل صاحب ولد نظام الدین صاحب کا نکاح مریم بنت محمد عبد اللہ صاحب سے ۳۰۰ روپے صر پر پڑھا.خطبہ مسنونہ کی تلاوت کے بعد فرمایا : چونکہ اس وقت درس کا وقت ہے اس لئے میں فریقین کو صرف اسی قدر نصیحت کرنا چاہتا ہوں کہ یہ وہ زمانہ ہے جس میں تمام دنیا کی نظر ہماری جماعت پر پڑ رہی ہے.لوگ ہمارے ایک ایک عمل کو دیکھتے ہیں کہ ہم میں اور ہمارے غیروں میں کیا فرق ہے.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اگر ہمارا دعویٰ تو یہ ہو کہ ہم خدا کے ایک نبی کے پیرو ہیں لیکن اس کے قدم پر ہمارا قدم نہ ہو تو ہم پر یہ الزام آسکتا ہے کیونکہ اگر کوئی اور مدعی ہو اور وہ سچا بھی ہو مگر جو لوگ اس کے ماننے والے ہوں ان کی عملی حالت اچھی نہ ہو تو ان کو کیا فائدہ.اگر خدا ہمارے کسی باریک استحقاق ہمیں اس کی طرف ہدایت دے تو دے ورنہ ظاہر حالت ہم اس کی طرف متوجہ نہیں ہو سکتے.پس یہی حال اوروں کے متعلق ہے کہ جب تک لوگ ہم میں اور ہمارے غیروں میں عملی فرق نہ دیکھ لیں اس وقت تک وہ ادھر توجہ نہیں کرسکتے.یہی وجہ ہے کہ آج تک ہماری ترقی نہیں ہوئی.لوگوں کو عموماً ہم میں اور اپنے سے غیروں میں کوئی نمایاں فرق نظر نہیں آتا.ہ ہمیں غیروں سے ممتاز نہیں دیکھتے اس لئے جب تک ہمارے ہر ایک کام میں خاص رنگ نہ ہو ہم ترقی نہیں پاسکتے.یہی حال نکاح کے معاملہ کا ہے.اگر لوگ دیکھیں کہ احمدی لڑکے اپنے رہ
خطبات محمود ۹۸ جلد مو رشتہ داروں سے، بیوی کے رشتہ داروں سے اور احمدی بیوی کے رشتہ دار لڑکے کے رشتہ داروں سے کیسا سلوک کرتے ہیں اور ان کے آپس میں کیسے اچھے تعلقات ہوتے ہیں تو لوگوں کو ادھر توجہ ہو سکتی ہے ورنہ اگر اس معاملہ میں ہم میں اور غیر میں کوئی فرق نہ ہو تو لوگ ہم میں اور غیروں میں کوئی تمیز نہ کریں گے.اگر ہمارے آپس میں تعلقات اچھے ہوں گے تو ہم بھی امن میں زندگی بسر کریں گے اور لوگ بھی اس سے فائدہ اٹھا ئیں گے.اور اس طرح دہی مثال راست آئے گی کہ " ایک پنتھ دو کاج" الفضل ۲۸ - مارچ ۱۹۲۱ء صفحہ ۵)
۹۹ < ۲۸ خطبات محمود احمدیوں اور غیروں کے نکاحوں میں فرق (فرموده ۱۹۲۱ء) له خطبہ مسنونہ کی تلاوت کے بعد حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے فرمایا : دنیا میں اجتماع ہوتے ہیں ان کے نتیجہ میں ایک تیسری چیز پیدا ہوتی ہے.خواہ کیسی ہی اشیاء ملیں ان کے ملنے کا نتیجہ تیسری چیز ہوگی.خواہ وہ تیسری چیز نیا اور مستقل وجود رکھتی ہو.خواہ ظاہر میں نہ ہو.مثلاً ہم دو آموں کو ملا کر رکھ دیں تو تیسری نئی چیز تو پیدا نہ ہوگی البتہ شکل ضرور تیسری پیدا ہوگی جو دونوں کے الگ الگ رکھے ہونے سے نہیں ہو سکتی تھی.غرض اجتماع اپنے اندر ایک اہمیت رکھتا ہے کیونکہ کوئی اجتماع نہیں جس کا نتیجہ تیسری بات یا تیسری چیز نہ ہو اس لئے شریعت نے اس طرف توجہ کو پھیرا ہے کہ خطبہ عید ہو یا خطبہ جمعہ یا کوئی اور خطبہ یا جہاں اجتماع ہو وہاں ایسی باتوں کی طرف توجہ دلائی جاتی ہے کہ جن میں خدا کی حمد بیان ہو.نماز میں حمد رکھی اور خطبہ بھی اَلحَمدُ لِله نَحْمَدُ، وَنَسْتَعِينُه سے شروع ہوتا ہے.خواہ کوئی خطبہ ہو اس میں حمد کی طرف توجہ دلائی جاتی ہے کیونکہ جب مخزن کی طرف نگاہ کی جائے تو انسان اپنی احتیاج کے مطابق اس میں سے لے سکے گا.اگر مخزن سامنے نہ ہو تو احتیاج کے باوجود لینے کے لئے ہاتھ نہیں بڑھا سکتا بلکہ یونسی ٹکراتا پھرے گا.کسی کو جنگل میں پیاس لگے اول وہ پیاس کو دبائے گا جب نا قابل برداشت ہوگی تو ادھر ادھر دوڑتا پھرے گا.لیکن اگر پانی کا خزانہ معلوم ہو تو تھوڑی سی پیاس پر بھی سیر ہو کر پانی پئے گا.جب انسان کو خیال ہو کہ اس کی ضرورت پوری ہو جائے گی تو اس وقت وہ اس کے لینے کی کوشش بھی کرتا ہے.اس لئے شریعت نے حمد الہی کو بیان کیا اور بتایا کہ تمام تعریفوں کا خزانہ تو اللہ تعالٰی ہے اور چونکہ اجتماع کا نتیجہ ضرور ہوتا ہے اس لئے جس مفید چیز کی ضرورت ہو وہ اس
خطبات محمود جلد سوم خزانے سے ہی مل سکتی ہے.جب موقع میسر ہے مفید چیز ہاتھ آتی ہے کسی کی عقل ماری گئی ہے کہ اس کو چھوڑ دے.نکاح کے موقع پر بھی حمد کی طرف توجہ دلائی ہے جس میں بتایا ہے کہ اللہ تعالٰی محمد والا ہے اور دو سرے کچی حمد اس سے آسکتی ہے جو کچی تعریف ہوگی وہ خدا کی طرف سے آئے گی.جو حمد خدا سے نہیں وہ جھوٹی ہے.بندے کو آگاہ کیا کہ نکاح کے معاملہ میں توجہ سے کام لے اور اللہ تعالی سے حمد مانگے اور یہ تمہارے اختیار میں ہے کیونکہ حمدوں کا خزانہ تمہارے ساتھ ہے لیکن یہ بات اور یہ غرض بہت کم لوگوں کو معلوم ہے.خطبہ کو رسم سمجھتے ہیں حالانکہ نکاح میں جتنی آیتیں پڑھی جاتی ہیں ان میں سے کوئی بھی ایسی نہیں جن کا براہ راست نکاح سے تعلق ہو.نکاح صرف اعلان سے ہو جاتا ہے اگر جانبین قبول کر کے اعلان کر دیتے ہیں تو نکاح ہو جاتا ہے.ایجاب و قبول ہی نکاح ہے.اگر یہ آیات نہ پڑھی جائیں صرف ایجاب و قبول کرالیا جائے تو نکاح ہو سکتا ہے.ان آیتوں کے پڑھنے سے کوئی ٹوٹا نہیں ہو جاتا بلکہ ان آیتوں کے پڑھنے کی غرض نصیحت ہے ورنہ ان آیتوں اور خطبوں اور وعظوں سے نکاح نہیں پڑھا جاتا.اس خطبہ میں محض نکاح کی فریقین کو غرض بتائی جاتی ہے کہ نکاح کے بعد مرد کے عورت پر اور عورت کے مرد پر اور دونوں کے رشتہ داروں پر کیا حقوق عائد ہوتے ہیں اگر کوئی کمی ہو تو اس کو کیسے پورا کیا جا سکتا ہے.ہمارے نکاحوں اور غیر احمدیوں کے نکاحوں میں فرق ہے.عموماً ان کے نکاح بطور رسم کے ہوتے ہیں اور ہمارے نکاحوں میں ایک حقیقت ہوتی ہے.مسلمانوں نے نکاح کے خطبے کو ٹونا سمجھا ہوا ہے.لیکن ہم اس کو ٹونا نہیں سمجھتے بلکہ جو اس کی غرض ہے وہ پوری کرتے ہیں.چونکہ وہ ٹونا سمجھتے ہیں اس لئے حمد کے خزانے سے غافل رہتے ہیں اور ہم بتا دیتے ہیں کہ اس میں تمہیں حمدوں کے خزانے کی طرف توجہ دلائی جاتی ہے اور تمہیں جس نعمت کی ضرورت ہو وہ اس سے مل سکتی ہے.افسوس ہے کہ لوگوں نے ادھر سے توجہ ہٹالی.ہماری جماعت کا فرض ہے کہ ان اغراض کو پورا کرے اس کا مجمل خلاصہ یہ ہے کہ خدا احمد کا خزانہ ہے تم اس سے مانگو جس نعمت کی ضرورت ہے.پھر نتیجہ کبھی برا نہیں ہو سکتا.له تاریخ نکاح و فریقین کا علم نہیں ہو سکا الفضل ۲۷ جون ۱۹۲۱ء صفحہ (۶)
H ۲۹ خطبات محمود اسلام میں ہر ایک کام کی بنیاد تقویٰ پر ہے (فرموده ۱۹۲۱ء) له خطبہ مسنونہ کی تلاوت کے بعد حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے فرمایا : یہ آیتیں اور یہ عبارت جو رسول کریم ﷺ سے نکاح کے موقع پر ثابت ہے ان میں نکاح کے احکام اور اس کی غرض بیان کی گئی ہے.لیکن اس وقت تفصیل سے نہیں بیان کر سکتا مختصر ابتا تا ہوں کہ اسلام نے سب کاموں کی بنیاد تقویٰ پر رکھی ہے اور تقویٰ کی مثال ایک بیج کی ہے جس سے آئندہ زندگی کا درخت تیار ہوتا ہے.خلاصہ یہ کہ ہر کام میں تقویٰ مد نظر رہنا چاہئے کیونکہ ہر ایک بات کے متعلق حکم بتانا مشکل اور نا ممکن ہے کیونکہ انسان کو بے شمار کام زندگی میں پیش آتے ہیں.اگر ہر ایک کام کے متعلق کہا جائے کہ یوں کر نا تو یہ نا ممکن ہے.اس کے لئے ایک گر بتایا کہ خدا کا تقویٰ اختیار کرو.جب انسان اس گر کو اختیار کرے گا تو اس کے سب کام درست ہو جائیں گے.خدا سے خلوص یہی تقویٰ ہے.سینکڑوں باتیں ہیں کہ ان کے متعلق شریعت نے حکم نہیں دیا اور ہر چیز کی تفصیل شریعت نے نہیں بیان کی بلکہ ایک گر بتا دیا کہ تقویٰ اللہ کو مد نظر رکھو اور تقویٰ کے ذریعہ وہ روح پیدا کر دی اور اس کے ماتحت جو کام ہو گا وہ درست ہو گا.نماز، روزہ، حج، زکوۃ وغیرہ سب دینی اور دنیاوی کام جو اس کے ماتحت ہوں گے وہ درست ہوں گے باقی نہیں.تقویٰ اس روح کا نام ہے جس کے ماتحت انسان محض خدا کی رضا کیلئے اس کے خوف کو مد نظر رکھ کر کام کرتا ہے.اور یہی خدا کے قرب کی راہ ہے اور اسی گر کو نکاح کے خطبہ میں بیان کیا.نه تاریخ نکاح و فریقین کا تعین نہیں ہو سکا.الفضل ۷ ۲- جون ۱۹۲۱ء صفحہ ۷۶)
خطبات محمود ١٠٢ ۳۰ چند موسم نکاح کی ایک غرض بقائے حقیقی کے حصول کی طرف توجہ دلانا ہے (فرموده ۲۳ - جون ۱۹۲۱ء) ۲۳- جون ۱۹۲۱ء بعد نماز عصر حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے ایک لے نکاح کے موقع پر خطبہ مسنونہ کی تلاوت کے بعد مندرجہ ذیل ارشاد فرمایا :- میں گلے کی تکلیف کی وجہ سے زیادہ نہیں بول سکتا.مگر پھر بھی انہی مضامین کی طرف توجہ دلاتا ہوں جن کی طرف خطبہ نکاح میں توجہ دلائی گئی ہے.نکاح کیا ہے ؟ یہ ایک سوال ہے جو ہر شخص کے دل میں پیدا ہونا چاہئے.یہ بات نہ صرف انسانوں میں ہے بلکہ حیوانات میں بھی ذکور کا اناث کی طرف اور اناث کا ذکور کی طرف میلان ہے.بلکہ جوں جوں علوم ترقی کرتے ہیں اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حیوانات ہی میں نہیں نباتات میں بھی یہ خواہش پائی جاتی ہے.قرآن کریم نے یہ بات بتائی تھی مگر لوگ اس کو نہ سمجھے.اب سائنس سے یہ بات ظاہر ہوتی جاتی ہے جن میں ابھی تک معلوم نہیں ان میں یہ نہیں کہ ہے نہیں بلکہ یہ کہ ابھی ان کی اصلیت سے ناواقفیت ہے.یہ میلان اور یہ خواہش کیوں ہے؟ ہر انسان کے دل میں یہ سوال پیدا ہونا چاہئے کہ انسان، حیوان، نباتات غرض سب میں یہ خواہش پائی جاتی ہے.یہ خواہش کیوں.اس کے معلوم کرنے کا ذریعہ یہ ہے کہ اس کے نتیجہ پر غور کیا جائے.جب نتیجہ پر غور کیا جاتا ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ
خطبات محمود ١٠٣ جلد سوم وہ نتیجہ بقاء ہے.اگر اس کا نتیجہ بقاء نہ ہو تو ساری دنیا فنا ہو جائے.ہر ایک جنس کی خواہش ہے کہ اگر وہ خود نہ رہے تو اس کا جانشین ضرور ہونا چاہئے.ہر چیز چاہتی ہے کہ وہ باقی رہے.اور یہ بات اسی وقت حاصل ہوتی ہے جب دو چیزیں آپس میں ملیں.ہر چیز بقاء چاہتی ہے اور بقاء دو چیزوں کے ملنے کے ذریعہ سے پیدا ہوتی ہے.یہ بقاء انسان کو متوجہ کرتی ہے کہ اس کو حقیقی بقاء حاصل ہو.تب اس کی توجہ خدا کی طرف جاتی ہے کوئی کہے کہ یہ خواہش تو کافر میں بھی ہے مگر اس کی زندگی کا مقصد یہیں تک ہے لیکن مومن کہتا ہے کہ اصل زندگی موت سے گزرنے کے بعد حاصل ہوتی ہے اور اس کے لئے رنج اور مصیبت یہ ہے کہ خدا سے دوری ہو.پس حقیقی بقاء کے لئے اس طرف متوجہ کیا گیا ہے دنیا کے میل میں فنا ہے اور کچھ کھویا جاتا ہے.لیکن وہ میل جو خدا سے ہو وہ باقی رہتا ہے.اور ہمیشہ کے لئے باقی رہتا ہے ان دونوں باتوں کی طرف نکاح میں متوجہ کیا گیا ہے.الفضل ۱۸ جولائی ۱۹۲۱ء صفحہ (۶) نے فریقین کا علم نہیں ہو سکا.
خطبات محمود ۱۰۴ ۳۱ جلد سوم اسلام اور حقوق نسواں (فرموده ۱۵- اکتوبر ۱۹۲۱ء) له خطبہ مسنونہ کی تلاوت کے بعد حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے فرمایا : اسلام کے رستہ میں جو عظیم روکیں ہیں اور جن کو اب تک نہ مسلمانوں نے سمجھا ہے نہ مسلمان مبلغوں نے پوری طرح ان کی چھان بین کی ہے.ان میں سے ایک مسئلہ عورت اور مرد کے حقوق اور ان کے فرائض کا ہے.میرے نزدیک اسلام کے رستہ میں کوئی بھی مذہب حائل نہیں.(1) خواہ وہ کتنا ہی بڑا ہو.آریہ مذہب بوجہ اپنی شورش، تیزی اور تندی کے یورپ کے چند فلسفیوں کی تائیدات کے سوا کچھ اثر نہیں رکھتا کیونکہ اس کی کسی حقیقت پر بنیاد نہیں دنیا ہمیشہ دو باتوں پر جمع ہوا کرتی ہے.مادی فوا مکہ پر.طبیعی یا روحانی فوائد پر.لیکن روح و مادہ کی پیدائش کا سوال ایسا نہیں جس سے دنیا کو کوئی مادی یا طبعی فائدہ ہو.مذہبی میدان مباحثہ میں یہ کچھ گرمی پیدا کر دے تو کر دے وہ بھی محض اس لئے کہ ایک پنڈت اچھا بولتا ہے یا ایک مولوی.مگر اس کے بعد دنیاوی تعلقات پر اس کا کچھ بھی اثر نہیں پڑتا اور علاوہ باطل ہونے کے اجتماعی اصول کے لحاظ سے اس میں کچھ بھی اہمیت نہیں.نہ یہ بہت سے لوگوں کو اپنے گرد جمع کر سکتا ہے نہ بہت دیر تک جمع کر سکتا ہے.وہی مذاہب دنیا کو اپنے گرد جمع کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں جنہوں نے دنیا میں جذبات کو اپیل کرنے والی کوئی چیز پیش کی.
خطبات محمود ۱۰۵ چلاید موهم خواہ وہ جھوٹی تھی یا کچی.اور اب بھی جو ہیں ان کی موجودگی کی بھی یہی وجہ ہے.یہ اور بات ہے کہ تنقید اور امتحان میں آکر گر جائیں.مثلاً عیسائیت میں ایک بات ہے جو لوگوں کو کھینچتی ہے اور وہ تعلیم ہے جو مسیح کی نسبت بیان کی جاتی ہے کہ وہ دنیا کے لئے قربان ہوا.خواہ ایک شخص کتنا ہی پڑھا لکھا ہو.فلسفی ہو.ایم.اے ہو یا سائنس کے اعلیٰ ماہر اس کے سامنے مسیح کے متعلق اس ترتیب کے ساتھ واقعات لائے جاتے ہیں کہ اس کی تمام دانائی پر پردہ پڑ جاتا ہے.اور وہ ان سوالات پر قطعا کوئی غور نہیں کرتا کہ کیا ایسا ہو بھی سکتا ہے یا ایسا کیا بھی جاسکتا ہے.اس وقت اس کے جائز یا نا جائز ہونے پر غور نہیں کرتا اور مسیح کے دامن کو پکڑ لیتا ہے پھر جب ایک دفعہ محبت ہو جائے تو اس سے پھیر دینا آسان نہیں.اس شخص کو ایک تسلی حاصل ہو جاتی ہے جو اگر چہ جھوٹی ہوتی ہے.مگر وہ اس تلی کو دلائل کے زور سے چھوڑنا نہیں چاہتا.بس وہ یہی خیال کرتا ہے کہ خدایا خدا کا بیٹا آیا اور انسان کے لئے قربان ہو گیا اور اس نے میرے بھی گناہ اٹھائے مگر اس قسم کی کوئی بات آریہ مذہب میں نہیں پائی جاتی اس لئے یہ مذہب کا ئم رہنے والا نہیں.لیکن ایسے بھی مذاہب ہیں جو یہ باتیں رکھتے ہیں جن میں سے ایک عیسائیت ہی ہے.جس کا میں نے ذکر کیا ہے.مگر اس سے بھی خطرہ نہیں کیونکہ صحیح طور پر جذبات کو ابھارنے والی تعلیمات اور باتیں اسلام میں بھی ہیں اور بکثرت ہیں گو مسلمانوں نے ان کی طرف سے غفلت کی ہے اور اب خدا نے اپنے مسیح کو بھیج کر اس راز کو کھول دیا ہے اور اب مسلمانوں کے ہاتھوں میں دلائل بھی ہیں اور جذبات کو اپیل کرنے والی باتیں بھی.یہ دو دھاری تلوار ہے جس کا مقابلہ کوئی نہیں کر سکتا.اسلام تسلی اور مشاہدہ پیش کر سکتا ہے اور وہ سامان بھی دیتا ہے اور اس کے ساتھ دلائل بھی دیتا ہے.پس عیسائیت اسلام کا مقابلہ کس طرح کر سکتی ہے.یہی دو جارحانہ مذہب خیال کئے جاتے ہیں.ہندو اور عیسائی مگر عوام ہندو بالعموم اس میدان میں نہیں آتے صرف آریہ ہیں جن کو مذہب کا خلاصہ کہنا چاہئے ان کا ہندوستان میں شور ہے اور باقی دنیا میں عیسائیت اپنا جوش دکھلا رہی ہے لیکن یہ دونوں مذاہب مذہبی طور پر اسلام کے مقابلہ میں نہیں ٹھر سکتے.لیکن ایک اور طاقت ہے جو اسلام کے مقابلہ میں آہستہ آہستہ چھوٹے بیج کی طرح نشو و نما پارہی ہے اور وہ دنیا کی تمدنی حالت ہے.دنیا کی تمدنی حالت ایسی بدل گئی ہے جو اسلام کے وقت میں نہ تھی بلکہ اب یہ حالت ہوئی ہے اور لوگ ادھر آرہے ہیں کہ آرام دہ چیزوں کو لے لو
خطبات محمود 104 جلد موم اور تکلیف دہ کو چھوڑ دو.مبلغین اسلام خوش ہوتے ہیں کہ دنیا نے اب طلاق کے مسئلہ کی صداقت کو تسلیم کر لیا.یہ خوشی کی بات ہے کہ عیسائیت طلاق کی منکر تھی مگر اب اسی مسئلہ طلاق کو جو اسلام پیش کرتا تھا مان گئی اور اس کے صرف یہ معنے ہوں گے کہ عیسائیت کو شکست ہو گئی لیکن جو دیگر احکام اسلام ہیں اگر دنیا ان کی بھی مخالفت کرے اور ان کی مخالفت میں دنیا کو بظاہر آرام نظر آئے تو پھر ہمارے لئے کوئی خوشی کی بات نہیں رہتی.ہم اس بات کا یقین رکھتے ہیں کہ اسلام مفید ہے مگر غور کرو.دنیا نے اسلامی مسئلہ طلاق کو کب مانا اور اپنی غلطی کو کب محسوس کیا 19 سو سال سے دنیا اس کے خلاف عقیدہ رکھتی تھی اور چھ سو سال پہلے نکال دیئے جائیں تو تیرہ سو سال سے اس کی مخالفت میں سرگرم تھی.اتنے لمبے عرصہ کے بعد اس کو اپنی غلطی محسوس ہوئی ہے.اسی طرح اسلام کے دوسرے احکام جو در حقیقت مفید ہیں مگر دنیا کو ان غیر مفید بلکہ نقصان دہ خیال کر رہی ہے کیا ہم انتظار کرتے رہیں گے کہ دنیا اپنے تجربہ کے بعد پھر ان مسائل کی حقانیت کی بھی قائل ہو جائے گی اور اس طرح اسلام کامیاب ہوگا.ان مسائل میں سے ایک عورتوں کے حقوق کا سوال بھی ہے اس لئے ہمارے عالموں اور لیکچراروں کا فرض ہے کہ وہ دنیا کی رو کا مطالعہ کریں کہ دنیا کد ھر جارہی ہے.جدھر وہ غلطی ہے چل رہی ہو ہمارا فرض ہے کہ ہم اس کو ادھر سے لوٹائیں.قبل اس کے کہ دنیا کو اس غلطی میں پڑے ہوئے صدیاں گزر جائیں اور ہم متوقع رہیں کہ تجربہ کے بعد خود اسلام کی صداقت کو مان لیں گے.کیونکہ اگر اسی طرح انتظار کیا جائے تو اور واقعات ہو سکتے ہیں جو ان غلطیوں سے نکلنے کے بعد دوسری غلطیوں میں دنیا کو ڈال سکتے ہیں.علاوہ اس کے جو عادات گھر کر جائیں ان کا چھوڑنا مشکل ہوتا ہے.اور اگر خدا کی طاقت کو مد نظر نہ ہو یا خدا تعالٰی اپنے خاص تصرف کے ماتحت تغیر نہ پیدا کر دے تو بالکل ہی نا ممکن ہوتا ہے.پس اسلام نے عورتوں کو حقوق دیئے ہیں اور مناسبت سے دیئے ہیں اور بعض تعلیمات میں اسلام نے عورتوں کے بارے میں پہلے مذاہب سے اختلاف کیا ہے مثلاً پردہ ہے اسلام سے قبل جس قدر مذاہب ہیں ان کی تاریخ بتاتی ہے کہ ان میں پردہ نہ تھا یا جیسے اسلام میں ہے ایسا نہ تھا.مثلاً یہود، عیسائی، ہندو، بدہ، زرتشتی وغیرہ اقوام کی پرانی تاریخیں بتاتی ہیں کہ اول ان میں پردہ نہ تھا اگر تھا تو اس رنگ میں نہ تھا مثلاً ان اقوام میں اسی قسم کے پردے کا پتہ لگتا ہے کہ عوام سے تو پردہ ہے مگر دربار کے امراء سے پردہ نہیں.مگر اسلام میں کسی حد تک تنگی ہے
خطبات محمود 1+6 جلد سوم اسلام میں ہم دیکھتے ہیں کہ عورت کے حقوق انسانیت میں کوئی کمی نہیں کی گئی بلکہ مساوات رکھی ہے.مرد سے کوئی فرق نہیں رکھا.تمام معاملات میں برابری دی مگر بعض اور تعلقات ہیں جو انسانیت کے علاوہ اجتماعی حیثیت سے پیدا ہوتے ہیں.فردا فردا عورت کے حقوق مساوی ہیں مگر اجتماعی حیثیت میں نظام کے قیام کے لئے بعض حقوق عورتوں سے لے لئے گئے کیونکہ جب ایک صف میں کچھ لوگوں کو کھڑا کیا جائے گا تو نظام چاہتا ہے کوئی اول ہو کوئی آخر ورنہ صف نہیں بن سکتی.فردا فردا ہر شخص میں مساوات ہے.مگر قطار میں وہ باقی نہیں رہتی اسی طرح اسلام نے حقوق کے بارے میں کہا ہے کہ انفرادی حیثیت میں مرد و عورت کے حقوق مساوی ہیں مگر اجتماعی حیثیت میں کمی بیشی کی ہے.دنیا نے اس کو اب سمجھا ہے مگر اسلام نے اس کو پہلے سے سمجھ لیا تھا.مگر افسوس ہے کہ مسلمان اب تک غافل رہے ہیں.جہاں تک انفرادی حیثیت کا تعلق تھا وہ بیان کرتے تھے.مگر اجتماعی حیثیت میں جو کمی بیشی ہے اس کی حکمت کو نہیں سمجھ سکتے کیونکہ حقیقت یہ ہے کہ انفرادی طور پر ہر شخص مرد ہو کہ عورت مساوات رکھتا ہے لیکن جب وہ اجتماعی حیثیت میں آئے گا تو ایک کو اول اور دوسرے کو دوم ہونا پڑے گا.اب یہ کرو ہے.اور اب جب کہ عورتیں بھی لاکھوں تعلیم یافتہ ہو گئی ہیں وہ سوال کرتی ہیں کہ مردوں میں کیا خصوصیت ہے کہ وہ ہم سے بڑھ کر ہیں.میں نے آج ہی اخبار میں ایک مضمون پڑھا ہے کہ ایک جگہ امتحان ہوا تمام بڑے بڑے انعام عورتوں کو ملے.ایک پادری نے اس بورڈ کی طرف اشارہ کر کے جس پر نام لکھے تھے کہا کہ وہ لوگ جو عورتوں کو مردوں کے مقابلہ میں کم درجہ کا خیال کرتے ہیں آئیں اور آنکھیں کھول کر دیکھیں.اگر میں وہاں ہو تا تو کھڑا ہو جاتا اور کہتا اے کاش مسیح زندہ ہوتا اور میں یہ بورڈ اس کے سامنے رکھ دیتا.قاعدہ ہے کہ جس چیز کو زور سے دبایا جائے وہ زور ہی سے ابھرتی ہے.عورتوں کی اب آنکھیں کھلنے لگی ہیں اور ان کے سامنے ہزاروں سال کی تاریخ ہے جس میں ان کو نظر آ رہا ہے کہ مردوں نے عورتوں کے حقوق کو پامال کیا ہے اس لئے ان کے دل میں مردوں کی طرف سے ایک نفرت اور حقارت پیدا ہو رہی ہے اور جب نفرت کا جوش ہو تو عقل ماری جاتی ہے اور جائز دنا جائز کی تمیز اٹھ جاتی ہے.اس وقت یہاں تک بھی کہا جایا کرتا ہے کہ فلاں چیز کیوں ہمارا حق نہیں جو در حقیقت ان کا حق نہ ہو.
خطبات محمود ١٠٨ جلد سوم مثلاً اسلام نے پردہ رکھا ہے اور یہ بھی کہا ہے کہ غیر مردوں سے مصافحہ نہ کیا جائے.اب اگر عورتیں آگے نکل گئیں اور جیسا کہ وہ اس ذلت سے نکل رہی ہیں ان حدود سے بھی جو صحیح ہیں باہر ہو گئیں تو دنیا کی نصف آبادی کو حد اعتدال پر لانا مشکل ہو گا.میرے نزدیک اگر ہم یہ باتیں منوالیں تو اسلام کی صداقت اسی طرح ثابت ہو سکتی ہے جس طرح ایک اور ایک دو.پس یہ تمدنی روک ہے جو اسلام کے راستے میں حائل ہو رہی ہے.جہاں بعض باتوں میں دنیا اسلام کے قریب آرہی ہے وہاں بعض میں دور سے دور ہوتی جارہی ہے کیونکہ جب دنیا کے ایک حصہ نے دیکھا کہ اس کے حقوق سختی سے پامال کئے گئے ہیں تو وہ ضد میں آگیا اور ان حدود سے نکل گیا جو جائز طور پر اس کے لئے مقرر ہیں اور اگر یہ خیال کیا گیا کہ دنیا تجربہ کے بعد درستی کی طرف آجائے گی تو میں نے بتایا ہے کہ اول تو ہزا ر ہا سال چاہئیں اور پھر یہ بھی ہو گا کہ اتنے عرصہ میں اور غلطیاں پیدا ہو جائیں گی.تو یہ طاقتیں ہیں جن کا ہم نے مقابلہ کرنا ہے مگر ابھی لوگ اس کو نہیں سمجھتے.خود ہماری جماعت میں جو عورتیں پڑھی لکھی ہیں اور بیرونی کتابوں اور اخباروں کو پڑھتی ہیں وہ سوال کرتی ہیں کہ ہمارے حقوق کیا ہونے چاہئیں اور بعض اوقات ان کی باتیں اسلام کی تعلیم کی مخالف ہو جاتی ہیں.میری عادت ہے کہ میں اپنی بیوی کو چھیڑ کے طور پر جوش پیدا کرنے کے لئے اور اسلامی تعلیم پر پختہ کرنے کے لئے کہا کرتا ہوں کہ عورتوں میں یہ نقص ہے یہ نقص ہے تاکہ وہ اس کے مقابلہ میں دلائل پیش کریں.چنانچہ وہ بیان کرتی ہیں اور میں ایک ایک کر کے ان کی دلیلوں کو توڑتا ہوں تاکہ وہ تعلیم اسلام پر پختہ ہو جائیں.پس ہماری جماعت کے لوگوں میں بھی پرانے زمانے کا یہ اثر چلا آتا ہے کہ وہ عورتوں کے جائز حقوق میں تنگی کرتے ہیں جس کا نتیجہ اچھا نہیں ہو سکتا.حضرت صاحب نے اس بات کو ابتداء میں ہی سمجھ لیا تھا.ایک سٹیشن کے پلیٹ فارم پر اپنی بیوی (میری والدہ) کو ساتھ لئے ہوئے ٹہل رہے تھے مولوی عبد الکریم صاحب خواہ مولوی تھے مگر پچھلے زمانہ کے اثر کے ماتحت تھے.حضرت مولوی صاحب (خلیفہ المسیح الاول) سے کہنے لگے کہ دیکھو حضرت صاحب یوں پھرتے ہیں مخالف اعتراض کریں گے ہماری ناک کٹ جائے گی ہم کیا جواب دیں گے آپ جا کر رو کیں.حضرت مولوی صاحب نے فرمایا کہ میں نہیں جاتا آپ خود چلے جائیں.چنانچہ مولوی عبد الکریم صاحب گئے اور حضرت صاحب کو آواز دے کہ کہا کہ حضرت لوگ ہم پر اعتراض کریں گے اور ہم اس کا کیا
خطبات محمود ١٠٩ جلد سوم جواب دیں گے ہماری ناک کٹ جائے گی.حضرت صاحب نے فرمایا کہ مولوی صاحب کیا آپ نے نبی کریم ﷺ کے متعلق نہیں پڑھا کہ آنحضرت ا حضرت عائشہ کے ساتھ صحابہ کے سامنے دوڑے تھے.آے اور فرمایا کہ یہ شریعت کا مسئلہ ہے اگر آپ کی ناک کٹتی ہے تو چلے جائیں.مولوی صاحب خاموش ہو کر واپس چلے گئے.حضرت مولوی صاحب نے پوچھا کہ بتاؤ کیا جواب ملا.مولوی صاحب خاموش تھے.پس پورے حقوق دیئے جائیں اور جو نا جائز ہیں ان کو روک دیا جائے اگر اس قسم کی ایک دو یا سینکڑوں مثالیں پیدا ہو جائیں تو پھر فوراً دنیا کی توجہ ادھر ہو جائے گی.ورنہ اب یورپ کی عورتیں آتی ہیں اور مشرقی عورتوں کو اندر بند دیکھتی ہیں تو وہ اس کو عیسائی مذہب کی فتح کے طور پر پیش کرتی ہیں حالانکہ یہ عیسائیت کی تعلیم نہیں ہوتی بلکہ سول لائنریشن (CIVILIZATION) کا نتیجہ ہوتا ہے مگر چونکہ مغرب سے وہ آتی ہیں اس لئے عیسائیت ہی کی تعلیم خیال کی جاتی ہے.پس عورتوں کو اسلام نے حقوق میں مساوات دی ہے مگر انفرادی طور پر اور اجتماعی حیثیت کے قیام کے لئے بعض حقوق لئے ہیں.جیسا کہ ہر شخص کا قدرتی حق ہے کہ جس جگہ چاہے جائے مگر حکومتیں نظام کے قیام کے لئے بعض روکیں قائم کر دیتی ہیں.اسی طرح عورتوں سے ان کے بعض حقوق قیام نظام کے لئے لئے گئے ہیں یعنی ان کے حقوق کو تسلیم کر کے ان سے لیا گیا ہے.میں نے کشمیر میں عورتوں کی وہ بری حالت دیکھی ہے جس کی حد نہیں.پردے کے بارے میں تو یہاں تک آزادی کہ ناف تک چھاتی سنگی جو یورپ کی عورتیں بھی نہیں رکھتیں اس کی وجہ یہ ہے کہ پاجامہ وہ پہنتی نہیں اور کرتا لمبا پہنتی ہیں جس کو اٹھا نہیں سکتیں.گریبان لمبا رکھتی ہیں.اس سے بچے کو دودھ پلاتی ہیں گویا ایک آفت سے دوسری آفت آتی ہے.اس کے مقابلہ میں غلامی کا یہ حال ہے کہ عورت کو کھانے پینے کی چیزوں تک یہ اختیار نہیں.اس ملک میں تو یہ بات نہیں دیکھی مگر وہاں یہ عجیب بات دیکھی ہے.ایک احمدی دور کے علاقہ سے آیا اور جلد واپس جانے لگا.جب پوچھا کہ کیوں جاتے ہو تو کہنے لگا کہ میں چاول تول کر گھر دے آیا تھا اگر میں نہ جاؤں تو گھر والے فاقہ رہیں گے.اور یہ عام رواج ہے.اگر وہاں عورتوں کو ان کی اسی حالت کی طرف توجہ دلانے والا کوئی ہو تو وہ بہت جلد اسلام کو چھوڑ سکتی ہیں لیکن اگر
خطبات محمود جلد سوم اسلام کے دیئے ہوئے حقوق ان کو دیئے جائیں اور با خبر لوگ ان میں اس تعلیم کو پھیلائیں تو وہ اس غلامی کی حالت سے نکل سکتی ہیں.تو یہ اہم سوال ہے جو قابل غور و توجہ ہے کہ عورتوں کو شریعت کے مطابق حقوق دیئے جائیں اور ناجائز آزادی سے روکا جائے.اور بھی مسائل ہیں جو اسلام کے راستہ میں روک ہیں مثلاً سپر چولزم (SPIRITUALISM) اور سوشلسٹ موومنٹ وغیرہ.مگر یہاں اسی کا تعلق ہے.چونکہ نکاح کا موقع ہے اس لئے میں اس پر اپنی جماعت کو توجہ دلاتا ہوں.لے فریقین کا تعین نہیں ہو سکا.سے ابو داؤد کتاب الجهاد باب السبق على الرجل الفضل ۷.نومبر ۱۹۲۱ء صفحہ ۶ تا ۸)
خطبات محمود ۳۲ جلد سوم حقیقی خوشی کے حصول کا طریق (فرموده ۳- نومبر ۱۹۲۱ء) ۳.نومبر ۱۹۲۱ء بعد نماز عصر چند نکاہوں لے کا اعلان کرنے سے قبل حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے خطبہ مسنونہ کی تلاوت کے بعد حسب ذیل ارشاد فرمایا.یہ آیات جو نکاح کے موقع پر پڑھی جاتی ہیں ان میں خدا تعالٰی نے تقویٰ اختیار کرنے کی تاکید فرمائی ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ نکاح کا معاملہ دل سے تعلق رکھتا ہے.جو لوگ اس پر نگاہ نہیں رکھتے بلکہ ظاہری باتوں کو مد نظر رکھتے ہیں وہ نقصان اٹھاتے ہیں کیونکہ ظاہری باتیں حقیقی آرام اور اطمینان کا باعث نہیں ہو سکتیں.چنانچہ ہم دیکھتے ہیں ہزاروں بیویاں حسین ہوتی ہیں مگر ان کے خاوند ان سے متنفر ہوتے ہیں اور ہزاروں بیویاں بدصورت ہوتی ہیں مگر ان کے خاوند ان کے والہ و شیدا ہوتے ہیں.پھر اسی طرح ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ ہزاروں بیویاں اپنے بد شکل خاوندوں کی عاشق ہوتی ہیں اور ہزاروں بیویاں اپنے خوبصورت خاوندوں سے متنفر ہوتی ہیں.مال دنیا میں بڑی اچھی چیز سمجھا جاتا ہے اور لوگ اس کی خواہش اور رغبت رکھتے ہیں لیکن کیا سینکڑوں بلکہ ہزاروں اور لاکھوں مثالیں ایسی نہیں ملتیں کہ بڑے بڑے مالدار اور باعزت خاندانوں کی عورتیں اپنے غریب خاوندوں کے دل پر قابو نہیں پاسکتیں.پھر ہم دیکھتے ہیں سینکڑوں نہیں ہزاروں خاوند ایسے ہوتے ہیں جو بڑے مالدار، بڑے دولت مند بڑے رتبہ و عزت والے ہوتے ہیں ان کے گھر غریب خاندان کی عورتیں آتی ہیں جنہیں اچھا گھر ملتا ہے، پہلے سے اچھا کھانے کو میسر آتا ہے، پہلے سے اچھا کپڑا پہننے کو ملتا ہے، پہلے سے زیادہ آرام و
خطبات محمود جلد سوم آسائش کے سامان مہیا ہوتے ہیں لیکن باوجود اس کے ان کے دل میں خاوند کی محبت نہیں ہوتی.غرض جس قدر باتیں ظاہر میں خوبیاں نظر آتی ہیں عملی زندگی میں آکر لغو ہو جاتی ہیں اور نکاح کی جو غرض ہوتی ہے وہ حاصل نہیں ہو سکتی.ایک غریب اور بد صورت عورت اپنے خاوند کی پسندیدہ ہوتی ہے اور ایک بدصورت اور کنگال خاوند اپنی عورت کا محبوب ہوتا ہے.بر خلاف اس کے دیکھا جاتا ہے کہ خوبصورت اور مالدار عورت سے خاوند کو سخت نفرت ہوتی ہے اور مالدار خوبصورت خاوند عورت کے لئے قابل نفرت ہوتا ہے.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ دلوں کی آپس میں کوئی نسبت ہے اور جب تک وہ نسبت قائم نہ ہو جائے اس وقت تک میاں بیوی کو آرام اور اطمینان حاصل نہیں ہو سکتا اس لئے تقویٰ سے کام لینے کی تاکید کی گئی ہے کیونکہ مال و دولت میاں بیوی میں صلح اور اتحاد پیدا نہیں کر سکتا.عزت، وجاہت میاں بیوی کو آرام دہ زندگی نہیں دے سکتی.خوبصورتی اور جمال کی وجہ سے ان میں تعلق نہیں قائم رہ سکتا کیونکہ ہم دیکھتے ہیں کہ یہ چیزیں حاصل ہوتی ہیں مگر پھر بھی میاں بیوی لڑتے ہیں ان میں ناچاقی ہوتی ہے حتی کہ وہ ایک دوسرے کی شکل سے بیزار ہوتے ہیں.بات اصل میں یہ ہے کہ دلوں کے اسرار ایسے گہرے اور پوشیدہ ہیں کہ ان کے متعلق اندازہ لگانا انسانی قابلیت کی حدود سے باہر ہے.اس زمانہ میں علوم نے بڑی ترقی کی ہے مگر اس امر کے متعلق کوئی فیصلہ نہیں کیا جا سکا کہ ایک عورت ایک مرد کے ساتھ رہ کر کیوں خوش رہتی ہے.یا ایک مرد ایک عورت کے ساتھ رہ کر کیوں آرام اور اطمینان کی زندگی بسر کر سکتا ہے اور دوسری بیوی کے ساتھ یا دوسری عورت دوسرے مرد کے ساتھ آرام سے نہیں رہ سکتی.یہاں تو نہیں لیکن یورپ میں ایک دوسرے کو دیکھ کر اور میل جول کے بعد شادی کی جاتی ہے مگر ایسا ہوتا ہے کہ ایک خوبصورت عورت کی طرف کسی کی رغبت نہیں ہوتی.اور اس سے کم درجہ کی خوبصورت بیسیوں عورتوں کی شادی اس سے قبل ہو جاتی ہے.وہ کیا چیز ہوتی ہے جس کی وجہ سے بدصورت عورتوں کی طرف لوگوں کی رغبت ہو جاتی ہے اور ان سے زیادہ خوبصورت عورت کی طرف کسی کی رغبت نہیں ہوتی.یہ نہایت باریک بھید ہے جسے دنیا آئندہ دریافت کر سکے گی یا نہیں اس کا تو ہمیں علم نہیں مگر اب تک اسے دریافت نہیں کر سکی اور ہرگز اس بات کا پتہ نہیں لگایا جا سکا کہ وہ کیا چیز ہے جس کی وجہ سے ایک دوسرے سے نہایت
خطبات محمود ١١٣ جلد سوم رغبت اور محبت ہو جاتی ہے مگر اسی کو کسی اور سے سخت نفرت ہوتی ہے.ایک عورت ایک مرد سے اس لئے طلاق لیتی ہے کہ وہ اسے سخت مکروہ نظر آتا ہے اور ایک عورت کو ایک خاوند اس لئے علیحدہ کرتا ہے کہ وہ اسے نظر اٹھا کر بھی نہیں دیکھنا چاہتا.مگر جب اسی مرد کی کسی اور عورت سے شادی ہو جاتی ہے یا اسی عورت کی کسی اور مرد سے شادی ہو جاتی ہے تو وہ ایک دوسرے کو پسندیدگی کی نظر سے دیکھتے ہیں.اس قسم کی باتوں سے پتہ لگتا ہے کہ کوئی مخفی اسرار ہیں جو قلوب کو قلوب سے وابستہ کرتے ہیں اور انسان کو ان کا علم نہیں ہے.ان کے عدم علم کی وجہ سے اگر انسان چاہیے کہ اپنی کو شش اور سعی سے پیار اور محبت پیدا کرے اور آرام اور اطمینان کی زندگی حاصل کر سکے تو یہ اس کی نادانی ہوگی.اس کے لئے ایک ہی طریق ہے اور وہ یہ کہ انسان تقوی اختیار کرے اور اللہ تعالیٰ پر بھروسہ رکھے پھر باوجود ہزاروں کمزوریوں اور نقصوں کے یہ حالت ہوگی کہ بیوی میاں سے اور میاں بیوی سے محبت کرے گا.اور ان کی زندگی نہایت آرام اور اطمینان سے بسر ہوگی اس لئے اس کو خاص طور پر مد نظر رکھنا چاہئے.الفضل ۱۰- نومبر ۱۹۲۱ء صفحه ۶) فریقین کا تعین الفضل سے نہیں ہو سکا.
خطبات محمود ٣٣ جلد - کامل راحت تعلق بااللہ میں ہے فرموده ۱۶ - نومبر ۱۹۲۱ء) لے خطبہ مسنونہ کے بعد حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے فرمایا : انسانی پیدائش میں اللہ تعالٰی نے ایسے اسرار مخفی رکھے ہیں جن سے اس کی ذات کی طرف توجہ ہوتی ہے.ان اسرار میں سے ایک سردہ انس اور محبت ہے جو انسان کے دل میں اللہ تعالٰی نے ودیعت کیا.خواہ کوئی کتنا ہی سنگدل انسان ہو پھر بھی اس کے دل میں محبت مخفی ہوتی ہے.ڈاکوؤں اور قاتلوں کی اور ظالم بادشاہوں کو بھی دیکھا گیا ہے ان کو بھی بعض وجودوں سے محبت ہوتی ہے.یہ محبت انسانی قلب میں پیدا کر کے خدا تعالٰی نے انسان کی توجہ اپنی طرف پھیر دی ہے اور انسان کے دل میں آگ لگا دی ہے تاکہ اس کو معلوم ہو کہ اسکی عین راحت خدا تعالی میں ہے.عورت کے دل میں مرد کی اور مرد کے دل میں عورت کی اور اولاد کی تڑپ اور محبت رکھی گئی ہے وہ ان محبتوں کو چکھتا اور مسرور ہوتا ہے.لیکن ان محبتوں سے لذت یاب ہو کر اس کے دل میں ایک اور آگ لگتی ہے.جیسے کہ پھوڑے پر کھجلی ہوتی ہے انسان کھجلاتا ہے اور اسے کھجلانے میں اس کو ایک مزا آتا ہے لیکن وہ محسوس کرتا ہے کہ میرا پھوڑا اچھا ہو رہا ہے اور اس وقت اندازہ کرتا ہے کہ جب میرا پھوڑا بالکل ہی اچھا ہو جائے گا تو مجھ کو کتنی راحت ہوگی.مگریہ کھیلی ہی اس کی اس انتہائی خوشی کا موجب نہیں ہوتی.اسی طرح انسان کے دل میں جو محبت ہے وہ جن چیزوں سے محبت کرتا ہے اس میں اس کو محسوس ہوتا ہے کہ میری راحت مکمل نہیں.وہ بیوی سے محبت کرتا ہے، اولاد سے محبت کرتا
خطبات محمود ۱۱۵ جلد سوم ہے لیکن اس محبت سے اس کو کامل خوشی نہیں ملتی بلکہ ان راحتوں کے باوجود اس کا دل محسوس کر رہا ہوتا ہے کہ ابھی میری راحت میں کمی ہے اور میری راحت ان چیزوں کے علاوہ کسی اور چیز میں ہے کیونکہ محبتوں کے نتیجہ میں حاصل ہونے والی راحت اس خارش کے مشابہ ہوتی ہے جو پھوڑے پر ہوتی ہے اور اس سے ایک راحت ہوتی ہے.ان راحتوں کے باوجود اگر وہ راحت نہ ملے تو یہ تمام راحتیں اکارت ہوتی ہیں.غرض یہ تمام تعلقات اس لئے ہیں کہ انسان کی توجہ خدا تعالی کی طرف پھرے اور اسی لئے نکاح کے معاملہ میں تقویٰ اللہ کی طرف توجہ دلائی جس میں بتایا کہ تم اس پاگل کی طرح نہ ہونا جون پھوڑے کا علاج اس لئے نہ کرے کہ اس کو کھجلانے میں ایک راحت ملتی ہے کیونکہ اصل راحت اس کھیلی میں نہیں جو پھوڑے پر ہوتی ہے بلکہ کامل صحت میں ہے جو اس کے بعد ہے.اس لئے انسان کو خواہ کس قدر بھی سامان راحت حاصل ہوں اس کی راحت مکمل نہیں ہو سکتی جب تک اس کا خدا تعالیٰ سے تعلق نہ ہو.میاں بیوی کے تعلقات پھوڑے کو سہلانے کے مشابہ ہیں ان میں راحت ہوتی ہے مگر باوجود اس راحت کے انسان محسوس کرتا ہے کہ مجھ کو کامل راحت نہیں کیونکہ جہاں اس کو ان تعلقات میں راحت ہوتی ہے وہاں اس کے ذمہ بہت سے فرائض بھی لگ جاتے ہیں.بچے راحت کا موجب ہوتے ہیں لیکن اگر بیمار ہوں تو ان کی دوا اور تیمارداری کی فکر، ان کے کھانے پینے کی فکر اور ان کی تعلیم کی دقتیں، ان کی تربیت کا خیال غرض گوناگوں دقتیں اور تکلیفیں ایک راحت کے مقابلہ میں ہوتی ہیں.بیوی سے راحت ہوتی ہے مگر اس کے حقوق کا بار بھی انسان پر پڑ جاتا ہے اس حالت میں اس کی توجہ خدا تعالی کی طرف پھرتی ہے.اور وہ کہتا ہے کہ میری کامل راحت تو خدا تعالی میں ہے اور یہ تعلقات خدا کی طرف توجہ دلانے کے لئے ہوتے ہیں.ان ہی تعلقات میں پھنس جانا اور ان ہی میں اپنی راحت کو محدود اور منحصر سمجھتے رہنا غلطی ہے.اس لئے اللہ تعالیٰ نے بار بار فرمایا.اِتَّقُوا اللهَ اِتَّقُوا اللهَ اتَّقُوا الله - لہ اللہ کا تقویٰ اختیار کرو.اللہ کا تقویٰ اختیار کرو.اللہ کا تقویٰ اختیار کرو.جس کا مطلب یہ ہے کہ ان ہی تعلقات میں نہ پڑے رہو بلکہ اپنی کامل راحت یعنی خدا تعالیٰ کا تقویٰ اختیار کرو.لے فریقین کا الفضل سے تعین نہیں ہو سکا.الفضل (۱۶.جنوری ۱۹۲۲ء صفحہ ۷۶)
خطبات محمود 114 ۳۴ جلد سوم تو کل سے میٹھے پھل حاصل ہوتے ہیں فرموده ۴ - دسمبر ۱۹۲۱ ء بعد نماز عصر لے خطبہ مسنونہ کی تلاوت کے بعد حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے فرمایا : انسان کے اندر ایک خواہش پائی جاتی ہے (اور یہ خواہش دوسری مخلوق میں بھی ہے کہ وہ اپنے وجود کو دنیا میں قائم رکھنا چاہتا ہے انسان، حیوانات، نباتات، ان میں کوئی بھی مخلوق ایسی نہیں جو اپنے وجود کو قائم نہ رکھنا چاہتی ہو.انسانی دماغ نے جو ترقی کی ہے اس کے باعث اگر اس کو علیحدہ بھی کردیں تو دوسری مخلوق میں یہ بات پائی جاتی ہے.حیوانات کو ہم دیکھتے ہیں کہ ایک زمانہ بچپن کا گزارنے کے بعد ان میں یہ خواہش ہوتی ہے کہ ان کے بچہ ہو.نباتات میں بھی یہ خواہش ہوتی ہے وہ بھی اپنی نسل کو بڑھانا چاہتے ہیں.نباتات کے عالم جانتے ہیں کہ وہ ان طریقوں سے لپٹتے ہیں جن سے ان کی نسل بڑھتی ہے چونکہ جمادات کے متعلق پوری تحقیقات نہیں ہو ئیں اس لئے اس کے متعلق کچھ نہیں کہا جاسکتا مگر اس حقیقت کے انکار کی کوئی وجہ نہیں کہ وہ بھی اپنے آپ کو بڑھانا چاہتے ہیں.پس نباتات میں یہ خواہش ہے کہ وہ اپنی نسل چلائیں اور حیوانات میں اس سے زیادہ اس کا ظہور ہوتا ہے.کیونکہ ان میں قوت فعلی نباتات سے زیادہ ہوتی ہے اور یہ خواہش انسان میں یہاں تک ترقی کرتی ہے کہ بعض لوگ دوسرے کا بچہ چُرا لیتے ہیں اور بعض لے پالک بنا کر اپنی اس خواہش کو پورا کرتے ہیں.جانوروں میں چوری کر کے خواہش پوری کرنے کی خواہش نہیں مگر ایسا دیکھا جاتا ہے کہ بعض جانور اپنا بچہ نہ ہونے کی صورت میں دوسرے جانور کے بچہ کو پیار
112 کرتے ہیں.یہ خواہش بتاتی ہے کہ انسان اور نباتات اور حیوانات کی ترقی کا مدار یہی خواہش ہے اور یہ خواہش خدا نے سب مخلوق میں ودیعت کی ہے اور یہ اہم طبعی باتوں میں سے ہے کیونکہ جتنی کوئی خواہش عام ہوتی ہے اتنی ہی وہ اہم ہوتی ہے.اس خواہش کا تعلق انسان اور حیوان سے ہی نہیں نباتات سے بھی ہے اور جمادات کے متعلق ہمیں معلوم نہیں.پس باوجود اس کے کہ یہ خواہش طبعی ہے اور اس قدر عام ہے اس کے پورا کرنے کا انسان کے پاس کوئی ذریعہ نہیں.سینکڑوں مالدار ہوتے ہیں وہ بے شمار روپیہ علاج پر صرف کرتے ہیں مگر ان کی یہ خواہش پوری نہیں ہوتی.اور بعض ایسے ہیں کہ کروڑوں روپیہ دے دیں کہ ان کی خواہش پوری ہو مگر نہیں ہوتی.امریکہ کے ایک شخص کا اکلوتا بیٹا مرض سل میں مرگیا.اس نے ڈھائی کروڑ روپیہ وقف کیا کہ مرض سل کا علاج نکالا جائے.دیکھو اس شخص کو بیٹے کے مرنے کا اتنا صدمہ تھا کہ اس نے اس کے لئے ڈھائی کروڑ روپیہ دوسروں کو اسی صدمہ سے بچانے کے لئے صرف کیا.اگر اس شخص کو یقین ہو تاکہ ڈھائی کروڑ یا اس سے زیادہ صرف کرنے پر اس کو اولاد حاصل ہو جائے گی تو وہ خرچ کرتا.مگر دیکھو یورپ و امریکہ کے موجد باوجود اپنی علمی ترقیوں کے اس شخص کو اولاد دینے کے ناقابل تھے.اس خواہش سے اُتر کر ایک اور خواہش حیوانوں میں تو معلوم نہیں انسانوں میں ہوتی ہے کہ نرینہ اولاد پیدا ہو.میں سمجھتا ہوں کہ یہ خواہش انسانوں میں ہی ہونی چاہئے کیونکہ انسان مدنی الطبع ہے اس خواہش کے پورا کرنے کے لئے بھی لوگ بڑے بڑے جتن کرتے ہیں.تعویذ، ٹونے ٹوٹکے کرتے ہیں اور اس طرح ہزاروں روپیہ خرچ کرتے ہیں اور اس کے متعلق قدیم زمانہ سے کتابیں لکھی جارہی ہیں.ہندوؤں کے ہاں کوک شاستر وغیرہ جن میں بعض تو گندی کتابیں ہیں اور بعض اصل اسی موضوع پر ہیں کہ لڑکا لڑکی کس طرح پیدا کئے جاتے ہیں اور ان کتب کو ایک حد تک مذہب میں داخل کیا گیا ہے.لیکن اس بات پر آج تک اقتدار حاصل نہیں ہوا.یہ سب قیاسی باتیں ہیں اور قیاسی باتیں قابل اعتماد نہیں ہوتیں.اولاد حسب نشاء پیدا کرنا تو بڑی بات ہے جب بچہ ماں کے پیٹ میں ہو اس وقت تک صحیح طور پر شناخت نہیں کیا جاسکتا ہے کہ لڑکا ہے یا لڑکی.غرض یہ انسانی خواہش ہے کہ یہ پوری ہو.اس کے پورا کرنے کی طرف بشر طیکہ حکمت اور
خطبات محمود HA منشاء الہی اس کے مخالف نہ ہو ان آیات میں سے ایک میں جو میں نے پڑھی ہیں توجہ دلائی گئی فرمایا - يَايُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّكُمُ الَّذِي خَلَقَكُمْ مِنْ نَفْسٍ وَاحِدَةٍ وَخَلَقَ مِنْهَا زَوجَهَا وَبَثَّ مِنْهُمَا رِجَالًا كَثِيرًا وَنِسَاءً وَاتَّقُوا اللَّهَ الَّذِي تَسَاءَلُونَ بِهِ وَالأَرْحَامَ.ہے تم شادی کرتے ہو اس لئے کہ تمہارا نام قائم رہے تمہارے بچہ پیدا ہو اور اس سے تمہاری نسل چلے مگر تم میں سے کسی کو بھی یہ اختیار نہیں کہ اپنی خواہش میں کامیاب ہو اور پھر یہ خواہش ہوتی ہے کہ نرینہ اولاد ہو اس میں بھی تمہیں کامیاب ہونے کا اختیار نہیں لیکن تمہارے سامنے ایک جگہ ایک اور سرکار ہے جس کے اختیار میں ان خواہشوں کا پورا کرنا.وہ کون ہے.رَبِّكُمُ الَّذِي خَلَقَكُم وہ تمہارا رب ہے جس نے تم کو پیدا کیا تم اس کی طرف دیکھو کہ اس نے ایک انسان سے کس قدر اس کی نسل کو چلایا ہے.اس کی اولاد ایک دو نہیں ۲۵ ہزار میل کی دنیا کو اس ایک شخص کی اولاد سے بھر دیا.اس کی نسل کی یہاں تک ترقی ہوئی کہ جس سے اب یہ حالت ہو گئی ہے کہ لوگ کہتے ہیں کہ دنیا اس قدر بڑھ گئی ہے کہ ہم کھائیں گے کیا.پس یہ اولاد کی خواہش طبعی خواہش ہے مگر انسان اس میں کامیاب ہونے کا کوئی رستہ نہیں رکھتا سوائے اس کے کہ اس خدا کا تقویٰ اختیار کرے جس نے اکیلے آدم سے اس قدر نسل کو بڑھایا اور پھیلایا کیونکہ تم تجربہ کر چکے ہو کہ اس خدا میں یہ قوت ہے کہ وہ جس کی نسل کو بڑھانا چاہے بڑھا سکتا ہے.اگر اس کو چھوڑ دیا جائے تو کوئی دنیاوی سامان ایسا نہیں جس سے یہ خواہش پوری ہو.اس کے ساتھ دوسری خواہش ہوتی ہے جو اولاد کے پیدا ہونے کے بعد ہوتی ہے کہ جو اولاد ہو نیک اور متقی ہو.دین کی دشمن اور ماں باپ کی ذلت اور رسوائی اور مصیبت کا موجب نہ ہو کیونکہ اگر بیٹا دین کا دشمن ہوا تب خرابی ہے.اگر چور، ڈاکو ، قاتل یا کسی اور شرارت میں بتلاء ہوا جب پولیس اس کو پکڑے گی تو ماں باپ کا نام بھی ساتھ بدنام ہو گا اس لیئے فرمایا.وَاتَّقُوا اللهَ الَّذِي تَسَاءَلُونَ بِهِ وَالأَرْحَامَ - خدا کا تقویٰ اختیار کرو.کیونکہ تم جو تعلق پیدا کرنے لگے ہو اور اس کا جو نتیجہ ہو گا وہ اولاد ہوگی اگر وہ خراب ہوا تو تمہارا بڑھاپا خراب کرے گا اور خود خراب ہو گا.اس لئے فرمایا کہ جب تم تقویٰ اختیار کرو گے تو تقویٰ اللہ تقویٰ اللہ ہی پیدا ہو گا کیونکہ مشہور ہے..
خطبات محمود 119 گندم از گندم بروید جو ز جو جلد سوم تو یہ گر ہیں جو اولاد اور پھر ٹھیک اولاد پیدا کرنے کے اللہ تعالیٰ نے بنائے ہیں.اس کی ایک ہی مثال نہیں اور بھی بہت سی مثالیں موجود ہیں کہ خدا تعالٰی نے ایک شخص کی اولاد کو بے شمار بڑھایا ہے.مثلاً حضرت ابراہیم کو ہی دیکھو ان کے متعلق فرمایا کہ تجھے اس قدر اولاد دوں گا جو کہ آسمان کے ستاروں کی طرح بے شمار ہو گی.اب دیکھ لو دنیا میں ابراہیم کی نسل مختلف ملکوں میں مختلف قوموں میں کس قدر پھیلی ہوئی ہے.اسی طرح سادات کو دیکھئے جو آنحضرت ﷺ کی بیٹی فاطمہ اور حضرت علی کی اولاد ہیں کون سا ملک ہے جہاں سادات نہیں.پھر ایک آدھ شخص نہیں بڑی بڑی آبادیاں سادات کی ہیں جس سے بعض لوگ خیال کیا کرتے ہیں کہ بہت سے مصنوعی سید بن گئے.حالانکہ یہاں بھی یہی بات ہے کہ خدا نے اس نسل کو بڑھانا تھا اور بڑھایا.بہت سے لوگ ہوتے ہیں جو بڑے مضبوط ہوتے ہیں مگر ان کی کوئی نسل نہیں ہوتی مگر خدا جن کے متعلق چاہتا ہے وہ پھیل جاتے ہیں.حضرت خلیفہ اول فرمایا کرتے تھے کہ سادات کے ایک سارے خاندان کو سکھوں نے مردا ڈالا.جس سے محض ایک عورت جو مالدار تھی بچی.اس نے ارادہ کیا کہ خدا چاہے تو اس سے یہ خاندان دوبارہ چلے.اس نے پتہ لگانا شروع کیا کہ اس کے خاندان کی نسل کا کوئی مرد ہو.آخر پتہ لگا کہ ہندوستان میں اس نسل کا ایک شخص ہے جو بالکل اپاہچ ہے اس کے ہاتھ پیر تک ضائع شدہ ہیں.وہ عورت وہاں گئی اس سے نکاح کیا.حضرت خلیفہ اول فرماتے تھے کہ اب اس نسل سے ایک بڑا خاندان موجود ہے تو دیکھو خدا نے اس کے لئے کیا سامان کیا.ایک اپاہج شخص سے شادی کرنے کے لئے خود ایک عورت اور مالدار عورت گئی.خدا نے اس خاندان کو رکھنا تھا اس لئے یہ تعلق ہوا اور ان کی یہ خواہش پوری ہوئی.پس جو شخص اس تعلق میں تو کل کرے گا اور خدا کے فضل پر امید رکھے گا اس کو پھل ملیں گے جو میٹھے بھی ہوں گے.نے فریقین کا تعین نہیں ہو سکا.ته النساء : ٢ الفضل ۶ - فروری ۱۹۲۲ء صفحہ ۸۴۷)
خطبات محمود ۱۲۰ ۳۵ جلد سوم نکاح نسل انسانی کی افزائش کے لئے ہے (فرموده ۱۰ - دسمبر ۱۹۲۱ء) ۱۰- دسمبر ۱۹۲۱ء بعد نماز عصر حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے ڈاکٹر محمدعبداللہ صاحب کی لڑکی فاطمہ کا نکاح پانچ سو روپیہ مہر پر احمد اللہ خان ولد قدرت اللہ خان صاحب سے پڑھا.لے خطبہ مسنونہ پڑھنے کے بعد فرمایا.نکاح کا معاملہ جیسا نازک اور اہم معاملہ ہے دنیاوی معاملات ایسے کم نازک ہوتے ہیں.نکاح میں مرد عورت پر ایک بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے مگر میں دیکھتا ہوں کہ لوگ اس کو اتنا محسوس نہیں کرتے جس قدر وہ ہوتی ہے کیونکہ جتنا محسوس کرتے ہیں وہ بہت ادنی ہے.اور در حقیقت وہ اس سے بھی بہت بڑی ہے.وہ کیا ہے؟ ہم دیکھتے ہیں کہ تمام دنیا میں ایک مخفی ارادہ کام کرتا نظر آتا ہے جس کو دہریوں کے لفظ میں ایک قوت کہہ سکتے ہیں.ہم اس بحث میں اس وقت نہیں پڑیں گے کہ وہ قوت ہے یا ارادہ ہے یا اور کیا ہے.بہر حال ایک منشاء ہے جس کا دہریہ بھی منکر نہیں ہو سکتا کہ جس سے انسان کی زندگی کو قائم کیا جاتا ہے.خواہ اس کو عیسائیوں کی طرح یوں کہا جائے کہ چھ ہزار سال سے یہ سلسلہ ہوا ہے خواہ یورپ کے لوگوں کی طرح یہ کہا جائے کہ لاکھوں سال کی ترقی کے بعد آہستہ آہستہ یہ حالت ہوئی ہے خواہ جس طرح ہمارے صوفیاء نے کہا ہے کہ ترقی اور نشو و نما تدریجی ہے.قرآن کریم میں جن ایام کا ذکر ہے وہ یہ نہیں جو ہم سمجھتے ہیں بلکہ اور ہیں جو لاکھوں سال تک ہیں.چنانچہ ایک تغیر کے متعلق حضرت سید عبدالکریم جیلی " صاحب اپنا کشف لکھتے ہیں کہ وہ تغیر تین لاکھ سال میں ہوا.سے
خطبات محمود IPI جلد سوم کیڑے سے نہیں بلکہ یہ اعلیٰ تغیر ہے جس کا نتیجہ انسان ہے.تین لاکھ سال میں ہوا ہے جب انسان اس درجہ پر پہنچ گیا تو اس لمبے عرصہ میں اور کوئی تغیر انسان میں نظر نہیں آتا جس.معلوم ہو کہ دنیا کی ترقیاں انسان پر ختم ہو گئی ہیں.قاعدہ ہے کہ جب مدعا حاصل ہو جائے تو کام بند کر دیا جاتا ہے اس لئے اگر انسان کے آگے کر کوئی اعلیٰ درجہ کے انسان بننا ہوتے تو یہ تغیر ضرور ظاہر ہوتا لیکن چونکہ تغیر اس لمبے عرصہ میں نہیں ہوا اس لئے معلوم ہوا کہ یہ غرض پوری ہو گئی ہے مگر خیال ہو سکتا ہے کہ انتظار کرنا چاہئے تغیر تو ہو گا مگر لمبے عرصہ کے بعد.ہم کہتے ہیں کہ چونکہ خدا تعالی کا کلام اپنی پوری شان کے ساتھ نازل ہو چکا ہے اس لئے ہمیں معلوم ہو گیا کہ اور کوئی تغیر نہیں ہو گا.اب یہی منشائے ایزدی ہے کہ جس طرح پر اب نسل انسانی چلائی جارہی ہے اسی طرح چلائی جائے.سورج اور چاند اور ستاروں کی حرکتیں ، ہوا کا چلنا، موسموں کے تغیرات، زمین کے اثرات کا ظہور ، لاکھوں پرندوں کی پیدائش، نباتات و جمادات کا وجود ان سب کی غرض یہ ہے کہ انسان پیدا ہوں اور قائم رہیں.دو صورتیں تھیں.۱.تکمیل شریعت ۲.انسان کا قیام - تکمیل شریعت ہو چکی اور اب جب تک یہ فیصلہ نہ ہو کہ انسان کو مٹا دیا جائے یہی قدرت کا منشاء ہے کہ انسان کو قائم رکھا جائے.یہی انسان کا دل خدا تعالیٰ کا عرش ہے جس پر اس کا کلام نازل ہوتا ہے.اب دیکھو نکاح کیا ہے.یہ تغیر جو لاکھوں سال کے درمیان ہوا اور بے شمار زندگیوں کو کروڑ در کروڑ سکھ در سنکھ بلکہ جن کے گننے کے لئے بے شمار زمانہ کی ضرورت ہے اتنی زندگیوں کے فنا کے بعد انسان پیدا ہوا.نکاح کی غرض یہ ہے کہ انسان جو اتنے بڑے اور اہم تغیر کے بعد پیدا ہوا اس کی نسل کو آگے چلایا جائے.پہلے انسان کس طرح پیدا ہوا.اس بحث کی ضرورت نہیں.اب انسانی پیدائش کا ذریعہ نکاح ہے یعنی ایک مرد اور ایک عورت کا ملنا جس سے بچے پیدا ہوتے ہیں.بظاہر نکاح معمولی سی بات معلوم ہوتی ہے مگر در حقیقت اس لاکھوں سال کے تغیر کے قیام اور نسل انسانی کی افزائش کے لئے ہے.اس کے لئے عورت و مرد ملتے ہیں اسی غرض کو تحمیل تک پہنچانے کے لئے نکاح ہوتا ہے اور یہ اتنا اہم معاملہ ہے کہ خدا کے تعلق کے بعد دوسرے نمبر پر اس کا پورا کرنا اور اس کی حفاظت کرتا ہے.شریعت نے دو حقوق رکھتے ہیں حقوق اللہ اور دوسرے حقوق العباد - گویا نکاح دوسرے پاؤں کی حیثیت رکھتا ہے.شریعت نے اس کو اتنا اہم
خطبات محمود ۱۲۲ جلد سوم رکھا ہے مگر بہت لوگ ہیں جو اس کی اہمیت کو نہیں سمجھتے اور ان فوائد کو حاصل نہیں کرتے جو اس میں رکھے گئے ہیں.ان کی مثال اس نادان بچے کی ہے جس کو ایک خوبصورت ہیرا ملتا ہے مگر وہ اس کی قدر وقیمت کو نہیں جانتا اس لئے ایک روپیہ بھی اس کی اگر قیمت ملے تو دینے کو تیار ہو جاتا ہے.لیکن اگر اس کو معلوم ہو جائے تو دس ہزار روپیہ قیمت پر بھی نہیں دے گا.پس چونکہ عموماً لوگوں کو نکاح کے معاملہ کی اہمیت معلوم نہیں اس لئے وہ فوائد بھی حاصل نہیں کر سکتے.اس لئے ضروری ہے کہ ہماری جماعت کے لوگ نکاح کے مطلب کو سمجھیں اور اس کو پورا کرنے کی کوشش کریں.الفضل -۱۶ فروری ۱۹۲۲ء صفحه ۸۰۷) له الفضل ۱۹ دسمبر ۱۹۲۱ء صفحہ 1 له اليواقيت والجواهر جلد ا صفحه ۹ حاشیه مطبوعہ مصر ۵۱۳۲۱
خطبات محمود ۳۶ { ۱۲۳ نسل انسانی کی بقاء کا سامان فرموده ۲۴ - دسمبر ۱۹۲۱ء بعد نماز عصر ) لے خطبہ مسنونہ پڑھنے کے بعد حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے فرمایا : دنیا میں ہم دیکھتے ہیں کہ انسان کی فطرت اجتماع کے اوپر ایک خاص قسم کی لذت حاصل کرتی ہے وہ لذت خواہ کسی شکل میں ہو مگر ہوتی ہے.ایک دوست دوست سے ملتا ہے اس کو لذت ملتی ہے بھائی بھائی سے مل کر لذت حاصل کر سکتا ہے.ماں باپ بچہ سے اور بچہ ماں باپ سے مل کر لذت حاصل کرتے ہیں.غرض تمام انسانوں کو آپس میں مل کر ایک لذت آتی ہے.گو وہ اس کو محسوس نہ کریں.ثبوت یہ ہے کہ جنگل میں اکیلا انسان جا رہا ہو.وہاں کوئی شخص کیسا ہی اجنبی اور زبان سے ناواقف ملے اس سے مسرت حاصل ہوگی.ایک ہندوستانی جو پشتونہ جانتا ہو اور ایک پٹھان جو اردو سے ناواقف ہو دونوں جب جنگل میں ملیں گے تو مسرت پائیں گے تو معلوم ہوا کہ انسان کو انسان سے مل کر مسرت ہوتی ہے گو مخفی ہو مگر وہ تھوڑی نہیں ہوتی.جیسے ناک آنکھ کان سے جو لذت ہے وہ مخفی ہے اس کو انسان یوں محسوس تو کرتا ہے مگر جب آنکھیں تم ہو جائیں شنوائی اور قوت شامہ ضائع ہو کر پھر ملے تو کتنی خوشی اور راحت اور لذت حاصل ہوتی ہے.آنکھ بیمار ہو ڈاکٹر پٹی باندھ کر حکم دے دے کہ کھولنا مت.مگر انسان چوری چوری پٹی اٹھا کر دیکھتا ہے.اس حالت میں آنکھ ضائع بھی ہو جاتی ہے.اگر اس وقت روشنی نظر آتی ہے تو کتنی خوشی اور لذت ملتی ہے.کان نہ سنے مگر پچکاری سے یا مرض کا دورہ پورا ہونے سے آرام ہو تو انسان کتنا خوش ہوتا ہے.ناک کی قوت نہ رہے اور پھر مل جائے جلد سوم
خطبات محمود سلام ۱۳ جلد سوم خواہ بدبو ہی سونگھے اس سے خوشی ہوتی ہے تو بعض راحتیں معلوم نہیں ہوتیں مگر اندازہ اس وقت ہوتا ہے جب فرض کر لیا جائے کہ وہ قوتیں ضائع ہو گئیں اور پھر ملی ہیں.اور یہ بات کہ اجتماع سے لذت حاصل ہوتی ہے ہمیں اس طرف راہبری کرتی ہے کہ جب بندوں سے ملاپ میں راحت ہے اور سرور ہے تو خدا سے ملاپ اور وصال میں کس قدر لذت اور سرور اور راحت ہوگی.اور اسی اصل کے ماتحت نکاح بھی آجاتا ہے.میں نے یہ بات یونسی نہیں کہی کہ چھوٹی باتیں بڑی باتوں کے لئے راہبر ہوتی ہیں بلکہ میں اس کی مثال دیتا ہوں.دین میں حیا نہیں.ہمارے وعظ میں بچے بھی ہوتے ہیں ہم ان کو روک بھی نہیں سکتے اور نہ ہم ان کو ان باتوں سے ناواقف رکھنا چاہتے ہیں اس لئے میں بتاتا ہوں کہ کس طرح چھوٹی باتوں سے بڑی باتوں کی طرف توجہ ہوتی ہے اور کس طرح مرد و عورت کا ملاپ خدا سے تعلق کی طرف راہبری کرتا ہے.انسان کی غرض پیدائش ایک یہ بھی ہے کہ یہ نسل چلائے.خدا کو بقاء نسل انسانی مد نظر ہے اس کے لئے اس نے کیا سامان کہئے.یہ ایک بڑا مقصد ہے.اب دیکھو کس طرح اس بڑی غرض کو چھوٹے چھوٹے ذریعوں سے حاصل کرالیا ہے.بچہ پیدا ہوتا ہے اس کے سارے جسم میں جماع کی طاقت ہوتی ہے بقاء نوع انسانی کا مدار بقاء شخصی پر ہے یعنی اس کا پہلا زینہ یہ ہے کہ بچہ خود زندہ رہے.سوال ہوتا ہے کہ بچہ کو دودھ پینا کون سکھاتا ہے وہ بول نہیں سکتا.اپنے خیالات اور خواہشات کا اظہار نہیں کر سکتا مگر قدرت نے قوت شہوت کو اس کے تالو اور زبان میں خصوصاً زیادہ رکھ دیا.بچہ جب ماں کی چھاتی منہ میں لیتا اور دباتا ہے تو اس کو مزا آتا ہے.اور اس کے ساتھ اس کے پیٹ میں دودھ بھی چلا جاتا ہے جس سے اس کی بقاء شخصی ہوتی ہے گویا اس لذت میں خدا نے اس کی زندگی و بقاء کو رکھا تھا.اب بچپن سے گزر کر جوانی کے دن آتے ہیں تو اس وقت کون ان کو وہ خاص باتیں سکھاتا ہے سوائے شریروں کے.باقی سب کو قدرت اور خدا کا قانون سکھلاتا ہے.مگر اس کی کیا صورت ہے.اس کے لئے جانا چاہئے کہ اس قوت اور لذت کو قدرت نے ان آلات کے قریب رکھ دیا جو پیشاب وغیرہ کے ہوتے ہیں.گندگی کو انسان دھوتا ہے اور اس طرح اس کو لذت کا علم ہو جاتا ہے اور مزا محسوس کرتا ہے اور وہ معلوم کرتا ہے کہ یہاں ہی وہ چیز ہے جو نسل انسانی کی بقاء کے لئے اس کو دی گئی ہے.یہ بہت لطیف اور لمبی بحث ہے مگر میں نے مختصرا بیان کر دی ہے کہ چھوٹی بات سے بڑی بات کی طرف کس طرح توجہ دلائی جاتی ہے دیکھو کس طرح چھوٹی لذت سے بقاء نسل کا
خطبات محمود ۱۲۵ جلد سوم کام لیا.اور اسی طرح اجتماع کی جو لذت ہے اس سے بھی ایک غرض ہوتی ہے کہ میرا جوڑ کس سے ہے وہ محسوس کرتا ہے کہ میرا تعلق خدا سے ہونا چاہئے اگر میں اس میں مل جاؤں تو جس طرح مرد عورت کے جوڑے سے نسل انسانی کو بقاء ملتی ہے اسی طرح جب بندہ اور خدا ملتے ہیں تو بندے کو ابدی زندگی اور لافانی اور غیر منقطع سلسلہ حیات دیا جاتا ہے.اس سلسلہ کی طرف توجہ دلانے کے لئے نکاح کو رکھا ہے.اس میں اس غرض کو مد نظر رکھنا چاہئے عام طور پر جس طرح ملنے میں مزہ مد نظر رہ جاتا ہے.اسی طرح اجتماع کی اصل غرض جو خدا سے جوڑ تھا انسان اس کو بھول جاتا ہے اور محض اجتماع ہی باقی رہ جاتا ہے.الفضل ۲۳.فروری ۱۹۲۲ء صفحہ ۷۶) لے فریقین کا علم نہیں ہو سکا.
خطبات محمود ۱۲۶ ۳۷ جلد سوم صدق و سداد کی اہمیت فرموده ۳۰ جنوری ۱۹۲۲ء) ۳.جنوری ۱۹۲۲ء ملک احمد حسین ولد ملک غلام حسین صاحب ساکن قادیان کا نکاح مسمات نیاز بیگم بنت بابو عبد الرحیم صاحب احمدی ساکن خورم گجر تحصیل راولپنڈی سے مہر مبلغ سات سو روپیہ پر حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے پڑھا.لے خطبہ مسنونہ کی تلاوت کے بعد فرمایا.دنیا میں کئی قسم کی نیکیاں ہوتی ہیں جن میں سے بعض کا نتیجہ بالواسطہ ملتا ہے جیسے نماز ہے.قانون نیچر میں داخل نہیں کہ جو نماز پڑھے گا اس کو ظاہر میں ضرور انعام ملے گا.مگر بالواسطہ اس کا انعام مقرر ہے اگر نماز پوری شرائط کے ساتھ ادا کی جائے تو خدا تعالیٰ کسی رنگ میں اس کا بدلہ دیتا ہے.کبھی رزاقی کی صفت کے ماتحت کبھی مالکی کی صفت کے ماتحت، کبھی کسی اور صفت کے ماتحت مگریہ لازمی نتیجہ نہیں جو قانون قدرت کے طور پر بر آمد ہو بلکہ خدا اپنی قدرت کے ماتحت کوئی انعام عطا فرماتا ہے یا روزہ ہے اس کا نتیجہ کسی معین صورت میں نہیں نکلتا.ہاں اگر خدا تعالی کے ہاں روزہ مقبول ہو تو اس کا کسی اور رنگ میں بدلہ دے گا مگر بعض امور ایسے ہیں کہ ان کا لازمی نتیجہ طبعی صورت میں ایک ہی ہوتا ہے.مثلاً جو گندم بوئے گا اس کا نتیجہ گندم ہی ہو گا.خدا کی حکمت یہ نہیں کرے گی کہ گندم ہوئے تو چنے پیدا ہو جا ئیں.اسی رنگ میں بعض اخلاقی نیکیاں ہیں کہ ان کا معین صورت میں ایک بدلہ مل جائے گا.مثلاً سچ بولنا.چوری نہ کرنا ان کے نتائج معین بھی ہیں.جو سچ بولتا ہے لوگ اس پر اعتماد کرتے ہیں.جو چوری
خطبات محمود ۱۲۷ جلد سوم نہیں کرتا اس پر بھروسہ کیا جا سکتا ہے اس لئے کوئی شریف آدمی کبھی جھوٹ نہیں بولے گا اور نہ کبھی چوری کرے گا.وہ خیال کرے گا کہ جھوٹ بولوں گا تو میرا اعتماد اٹھ جائے گا اور چوری کروں گا تو پکڑا جاؤں گا.یہ نیکیاں ہیں مگر ان کے چونکہ طبعی معین نتائج مقرر ہیں اس لئے ضروری نہیں کہ ایک شخص خدا تعالیٰ کو بھی نہ مانتا ہو مگر وہ جھوٹ نہ بولتا ہو اور چوری سے پر ہیز کرتا ہو یا اسی طرح قتل کا فعل ہے علاوہ شرعی گناہ کے اس کا ایک طبعی ظاہر نتیجہ بھی ہے اس لئے ضروری نہیں کہ ایک قاتل نہ ہو اور خدا کو بھی نہ مانتا ہو کیونکہ جو قاتل ہو اس کو سوسائٹی رد کر دیتی ہے.اخلاق سے پیش آنا، اور امانت و دیانت کی پاس داری علاوہ خدا تعالی کی رضاء کے ظاہر میں بھی اس کا ایک نتیجہ ہے ممکن ہے کہ کوئی شخص خدا کو نہ مانتا ہو مگر دوسروں سے اخلاق و محبت سے پیش آئے اور دیانت اور امانت سے کام لے.پس بعض امور کا نتیجہ طبعی طور پر معین ہے اور بعض کا معین نہیں مخفی ہے اور پھر ان درجات میں بھی اختلاف ہے.بعض مخفی اور مخفی تر ہوتے ہیں اور بعض ظاہر اور ظاہر تر ہوتے ہیں اور جو جس درجہ کی نیکی ہو اس کے نتائج بھی اسی قسم کے ہوتے ہیں مثلاً چوری ایک بدی ہے اس کا فوری نتیجہ ہے.سچائی نیکی ہے اس کا فوری نتیجہ ہے مگر نماز ایک نیکی ہے لیکن اس کا نتیجہ جو گو اعلیٰ ہے مگر مخفی ہے اس کے تارک کو جو عذاب ملے گا وہ بھی ظاہر ہونے والا نہیں.ثواب کی بھی دو قسمیں ایک نیکی کا کام کیا جاتا ہے مگر دنیا کے لئے اور ایک اللہ اور رسول کے لئے جو دنیا کے لئے کام ہیں ان کا ثواب فور امل جاتا ہے.مثلاً سچائی کا اگر اس میں نیت خدا کی رضاء کا حصول بھی کر لیا جائے تو اس کا ثواب اور بھی بڑھ جاتا ہے.اس کے متعلق اللہ تعالٰی نے فرمایا ہے.يَاتِهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللهَ وَقُولُوا قَوْلاً سَدِيدًا - له جو شخص قول سدید پر دونوں رنگ میں عمل کرتا ہے یعنی اس لئے بھی کہ صداقت اچھی ہے اور اس لئے بھی کہ اس سے رضائے الہی حاصل ہوتی ہے اس کو بہت ثواب ملتا ہے.یورپ والے قریبا د ہر یہ ہیں مگر ان کا تجارت کے معاملہ میں صداقت اور سداد پر عمل ہے.ان سے لاکھوں کی چیز منگواؤ تو کوئی فریب کا اندیشہ نہیں.اس لئے ان کی تجارت کو فروغ ہے.اگر ناقص چیز ہو تو وہ لکھ دیں گے کہ یہ چیز ناقص ہے اس لئے ہم نے قیمت کم کر دی ہے.اگر پسند نہ ہو تو واپس بھیج دیں خرچ ہمارا.اس بارے میں وہ نقصان کا بھی خیال نہیں کرتے مگر اور لوگ تجارت میں اس اصول کے پابند نہیں اس لئے ان کی تجارت تباہ ہو رہی ہے.یورپ کے اس اصول میں گو خدا کی رضا مد نظر نہیں اس
خطبات محمود ۱۲۸ جلد سوم لئے خدا تعالیٰ فرماتا ہے.يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللهَ وَقُولُوا قَوْلاً سَدِيدًا تُصْلِحُ لَكُم اعْمَالَكُمْ وَيَغْفِرُ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ وَمَنْ تُطِعِ اللّهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ فَازَ فَوْزًا عَظِيمًا - سه مسلمانو! یہ تو تمہیں کہنے کی ضرورت نہیں کہ سچ بولو اس لئے کہ تم اس پر عمل کرتے ہو اور ہر شریف سچ بولنے کو پسند کرتا ہے کیونکہ اس کے طبعی نتائج ظاہر ہیں لیکن ہم ایک زائد بات بتاتے ہیں کہ تقویٰ اللہ کو مد نظر رکھو.کیونکہ سدید کہتے ہیں ہر بیچ سے مبرا صاف سیدھی راستی کی بات.ممکن ہے کہ ایک بات بچی ہو مگر اس میں پیچ رکھا گیا ہو کہ موقع پر اس سے نکل جائیں مگر سدید بات میں اس کی بھی گنجائش نہیں ہوتی.اس میں ہر مخفی دھوکے سے اجتناب ہوتا ہے اسلئے فرمایا کہ تم قول سدید پر عمل کرو اور زائد بات یہ ہے.کہ خدا کے تقویٰ سے بھی کام لو کہ خدا کی رضاء حاصل ہو.يُصْلِحُ لَكُمُ اَعْمَالَكُم - اعمال کو درست کر دے گا.یہ سداد پر عمل کرنے کا نتیجہ ہے.لیکن اگر مراد کے ساتھ تقویٰ ہو گا تو اس کا نتیجہ اس سے زائد ہو گا وہ یہ کہ يَغْفِرُ لَكُمْ ذُنُوبَكُم تمہارے کئی قسم کے گناہ اور کمزوریاں دور ہو جائیں گی.اور خدا تعالی کی صفات تم پر جلوہ گر ہوں گی.اگر قول سدید پر عمل کرتے ہوئے تقویٰ اللہ بھی مد نظر ہو تو نقصان کچھ بھی نہیں.طبعی نتائج ضرور ملتے ہیں اسلئے فرمایا فَقَدْ فَازَ فَوْزًا عَظِيمًا - اگر قول سدید پر عمل کرتے ہوئے تقویٰ اللہ بھی مد نظر ہو گا تو جو کامیابی ہوگی وہ محض قول سدید پر عمل کرنے والے لوگوں سے بہت زیادہ ہوگی جن کو سچائی کے طبعی نتائج پر یقین ہے.گویا سداد پر عمل کا ایک تو طبعی نتیجہ ہو گا اور ایک تقویٰ پر عمل کرنے سے شرعی ثواب بھی مل جائے گا.نکاح کے خطبہ میں رسول کریم ﷺ نے اس آیت کو پڑھ کر ادھر توجہ دلائی کہ اس موقع پر زیادہ پابندی سداد اور تقویٰ کی ضرورت ہوتی ہے افسوس ہے کہ وہ جن کو کہا گیا تھا کہ تم سداد پر تو عمل کرتے ہی ہو گئے وہ اس پر عمل نہیں کرتے.اور خصوصاً نکاحوں میں سداد کی پابندی نہیں کی جاتی.کہا جاتا ہے کہ اب بات ڈھکی رہے.پھر ظاہر ہو جائے گی.اس سے علاوہ دنیاوی نقصان کے خدا تعالیٰ کے حضور جواب دہی کرنی پڑے گی.اگر اس گر کو مد نظر رکھا جائے تو انسان بہت سے ثواب حاصل کر سکتا ہے.ه ۲۳ جنوری ۱۹۲۲ء صفحه ۲ له الاحزاب : اے ه الاحزاب : ۷۲۷۱ الفضل ۹ - مارچ ۱۹۲۲ء صفحه (۶۵)
خطبات محمود ۱۲۹ ۳۸ جلد مو نکاح کی اغراض فرموده ۶ - جنوری ۱۹۲۲ء) له خطبہ مسنونہ کی تلاوت کے بعد حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے فرمایا : نکاحوں کے معاملہ میں جن جن ہدایتوں کی ضرورت ہے اور جو صحیح رستہ ہے جس سے امن قائم رہتا ہے ہم وہ بیان کرتے رہتے ہیں مگر باوجود اس کے لوگ سمجھتے نہیں.اصل میں لوگ بغیر مقصد کے کام کرنے کے عادی ہیں جس سے انجام کار خرابی لازم آتی ہے اگر مقصد پیش نظر رکھ کر کام کیا جائے تو نقص نہیں ہوتا دیکھو جب کوئی شخص گھر سے کسی کام کے لئے نکلتا ہے تو وہ راستہ میں نہیں ٹھہرتا بلکہ اس کام کو سرانجام دیتا ہے لیکن جس کا کوئی مقصود نہ ہو وہ جب راستے میں چلے گا تو جدھر کوئی لے جائے گا ادھر ہی چل پڑے گا.یہی حال نکاح کا ہے اس کی غرض اور اس کے مقصد کو لوگ نہیں سمجھتے.اسلام نے جو غرض نکاح کی رکھی ہے وہ تو بہت بڑی اور اعلیٰ ہے لیکن عموماً لوگوں کی جو اغراض ہوتی ہیں ان کو بھی اگر کوئی مد نظر رکھے تو فائدہ اٹھا سکتا ہے.دنیاوی اغراض شہوت کا پورا کرنا یا اولاد حاصل کرتا ہے.اگر یہ غرض پوری ہو تو امن ایک حد تک قائم رہتا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ جو کام کسی مقصد سے ہو وہ امن والا ہوتا ہے لیکن جو لوگ ان اغراض کو بھی مدنظر نہیں رکھتے ان کا امن خراب ہوتا ہے.بعد میں جھگڑے ہوتے ہیں مثلاً یہ کہ لڑکی کی صورت میں یہ نقص ہے ساتھ مال نہیں لائی.کون ہے جو اچھی سے اچھی چیز نہیں چاہتا.مگر پہلے سوچتا اور کوئی مقصد قرار دینا ضروری ہے.مثلاً جن طالب علموں نے پاس ہوتا ہے وہ کسی ایک سوال کے حل نہ ہو سکنے سے دل برداشتہ نہیں
خطبات محمود جلد سوم ہو سکتے مگر جن کا مقصد پاس ہونا نہیں.وہ ایک سوال کے حل نہ ہو سکنے پر ہی کمرہ امتحان سے باہر ہو جائیں گے.نکاح کی غرض اسلام نے تقویٰ رکھی ہے اگر دنیاوی اغراض بھی پیش نظر ہوں تو کچھ نہ کچھ امن ہو سکتا ہے.ے فریقین نکاح کا تعین نہیں ہو سکا.الفضل -۹ مارچ ۱۹۲۲ء صفحه ۵۴
خطبات محمود ۱۳۱ ۳۹ جلد سوم مومن وقت سے پہلے سوچتا ہے (فرموده ۷.جنوری ۱۹۲۲ء) : ۷.جنوری ۱۹۲۲ء بعد نماز عصر حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے شیخ یعقوب علی صاحب ایڈیٹر الحکم کے فرزند ثالث شیخ یوسف علی صاحب کا نکاح نواب بی بی بنت میاں غلام حید ر صاحب سے پڑھا.خطبہ مسنونہ کی تلاوت کے بعد فرمایا خطبات نکاح کی جو غرض ہے اور جس طرف جانبین کو توجہ دلانا منظور ہوتی ہے اس کے متعلق ہمیشہ بیان کیا جاتا ہے خلاصہ اس کا یہی ہے کہ تقویٰ اللہ سے کام لینا چاہئے اور زندگی کی حقیقت کو سمجھنا چاہئے.زندگی چار روزہ ہے آخر مرنا ہے اس بات کو نہ بھولنا چاہئے کہ دنیا مزرعہ آخرت ہے.اگر اس بات کو سمجھ لیا جائے تو سب جھگڑے مٹ جاتے ہیں لوگ آپس میں جھگڑتے ہیں لیکن کوئی مرجائے تو کہتے ہیں افوہ چار دن کی زندگی کے لئے کیا لڑائی کرنی تھی.اگر کسی کا حق کسی کے ذمہ ہو تو موت کے وقت وہ کہتا ہے کہ کیا اسی دن کے لئے میں نے کسی کا حق رکھا تھا.پس تمومن اور غیر مومن میں اتنا ہی فرق ہے کہ مومن کل سے پہلے سوچے اور غیر مومن بعد میں سوچتا ہے.گویا مومن اور غیر مومن کے سوچنے میں چند ساعت، چند گھنٹے اور چند دن کا فرق ہوتا ہے.مومن آنے والے وقت سے پہلے سوچتا ہے اور غیر مومن بعد میں کہتا ہے کہ اگر یوں ہوتا تو یوں ہو تا.میرے گلے میں چونکہ تکلیف ہے اس لئے میں نے خلاصتہ بتا دیا ہے کہ مومن اور غیر متومن میں کیا فرق ہے اس لئے چاہئے کہ ہر ایک معاملہ میں پہلے سے غور کر لیا جائے.الفضل ۹ - مارچ ۱۹۲۲ء صفحہ ۷ )
خطبات محمود ۱۳۲ جلد موم تعلقات میں ترقی یا بگاڑ کا موجب رقابت ہوتی ہے (فرموده ۱۲ جنوری ۱۹۲۲ء) خطبہ مسنونہ کی تلاوت کے بعد حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے فرمایا : اے انسانی تعلقات میں بگاڑ دو باتوں سے ہوتا ہے اور یہ دونوں باتیں ایک لفظ سے تعلق رکھتی ہیں جو رقیب کا لفظ ہے.تمام تعلقات میں ترقی یا بگاڑ کا موجب رقابت ہوتی ہے.انسان کا یہ خیال کہ دوسرا میرے اندرونے پر نظر ڈال رہا ہے یا خود اس کا اس بات کی طرف توجہ کرنا کہ دوسرے کے عیب معلوم کرے اس سے بگاڑ ہوتا ہے.رقابت کا خیال ہی خرابیاں پیدا کرتا ہے یا اصلاح کرتا ہے.خدا تعالٰی بھی رقیب ہے.انسان کی حالت کو جانتا ہے.اگر چہ اس کا علم کسی نہیں بلکہ ذاتی ہے.اس کی مثال ایسی ہے کہ جیسا آئینہ کہ جو کچھ اس کے سامنے ہوتا ہے اس کا عکس اس پر پڑتا ہے.خدا تعالی کو کسی چیز کے جاننے کے لئے کسی علم کی ضرورت نہیں کیونکہ خدا کا علم ازل سے ہے اور بغیر ارادہ کے ہے اس کے لئے خدا کو تجسس کی ضرورت نہیں ہوتی.بندے کو سجس کی ضرورت ہے.میاں بیوی میں بھی اسی رقابت کے باعث جھگڑا ہوتا ہے وہ ایک دوسرے کے افعال کی کرید میں لگ جاتے ہیں.انسانوں سے غلطیاں بھی ہوتی ہیں.جب تجس ہو گا تو دوسرے کو مجرم ٹھرایا جائے گا اور فساد بھی ہو گا اور ایک دوسرے کو آپس میں اعتبار نہ ہو گا اور جب اعتبار نہ رہا تو محبت نہ رہے گی.رقابت مفید بھی ہو سکتی ہے.یہ خیال کہ غیر دیکھ رہا ہے اصلاح کا موجب بھی ہوتا ہے اور جب عیب دور ہو جائے تو محبت بھی بڑھ جاتی ہے.اگر یہ معلوم اور یقین ہو کہ لوگ میرے
خطبات محمود ١٣٣ جلد موم خلاف تجسس کرتے ہیں مگر میرا نگران اور محافظ اور رقیب زبردست بھی ہے تو انسان اس قسم کے لوگوں کی پرواہ نہیں کرتا کیونکہ جب وہ دیکھتا ہے کہ غیر دیکھنے والا تو میرا کچھ بگاڑ نہیں سکتا مگر خدا جو میرا نگران ہے وہ مجھ کو سزا بھی دے سکتا ہے اس لئے وہ اپنی حالت کی اصلاح بھی کر لیتا ہے.نکاح کے موقع پر جو آیات رکھی گئی ہیں ان میں سے ایک آیت میں یہ بھی آتا ہے.اِن اللهَ كَانَ عَلَيْكُمْ رَقِيبا - سے اگر خدا تعالیٰ کا خوف ہر نظر ہو اس کو خوش کرنے کے لئے اس کے احکام کی اطاعت ہو اور اپنے نفس کا خود محاسبہ کیا جائے تو کسی رقابت کا کوئی خوف باقی نہیں رہتا.کیونکہ خدا تعالیٰ جب نگرانی کر رہا ہے تو کسی کو نجس کرنے کی ضرورت ہی نہیں رہتی.مثلاً دو آدمی آپس میں لڑ رہے ہوں اور کوئی ایسی ہستی آجائے جس سے دونوں ڈرتے ہوں تو دونوں اپنے جھگڑے کو چھوڑ دیں گے.اسی طرح میاں بیوی کا ایک دوسرے کا تجتس بیکار ہے کیونکہ خدا تعالیٰ کی نظر دونوں پر ہے اور وہ دونوں کو سزا دے سکتا ہے.دو آدمیوں کی لڑائی اس وقت ہوتی ہے جب تک ان کو تیرے زبر دست کا خوف نہ ہو مگر جب معلوم ہو کہ ایک تیسرا از بر دست سر پر آگیا تو دونوں کی لڑائی ختم ہو جاتی ہے.گو یہ علمی نکتہ ہے مگر یہ بات تجربہ شدہ ہے کہ میاں بیوی میں جھگڑا رقابت سے ہی ہوتا ہے حتی کہ رقابت رسول کریم ﷺ کی بیویوں میں بھی تھی.یہان کو ٹوہ لگ جاتی تھی کہ رسول اللہ دوسری بیوی کے ہاں دیر تک کیوں ٹھہرے.رسول کریم ﷺ کا قاعدہ تھا کہ روزانہ علاوہ باری کے سب بیویوں کے ہاں جاتے تھے کہ شاید کسی کو کسی چیز کی ضرورت ہو ایک بیوی اس قبیلہ کی تھیں کہ وہاں عمدہ شہد ہو تا تھا.آپ کو شہد مرغوب تھا.وہ بیوی آپ کو شہد کا شربت بنا کر پلایا کرتی تھیں.اس اہتمام میں دیر بھی ہو جاتی تھی.دوسری بیویوں کو یہ دیر ناگوار ہوئی.شہد میں ایک قسم کی ایک سی ہوتی ہے خواہ وہ کتنا ہی خالص ہو.بیویوں نے مشورہ کیا کہ آپ جب آئیں تو آپ کو کہا جائے کہ آپ کے منہ سے بو آتی ہے.چنانچہ آنحضرت ﷺ جب شہد کا شربت پی کر آئے تو سب بیویوں نے اپنی اپنی جگہ یہی کہا کہ آپ کے منہ سے بو آتی ہے سے ان کی غرض شہد سے باز رکھنا نہ تھا بلکہ وہاں بیٹھنے سے بوجہ رقابت روکنا تھا اس لئے خدا تعالیٰ نے زجر کی اور کہا کہ اگر تم باز نہ آؤ گی تو تم کو بدل کر اور بیویاں آنحضرت ﷺ کو دی جائیں گی.پس تجس میں نہ پڑا جائے بلکہ
خطبات محمود ۱۳۴ جلد سوم خدا تعالی کے خوف کو دل میں رکھ کر اپنی اصلاح کی جائے تو پھر کسی قسم کے جھگڑے پیدا نہیں ہو سکتے.الفضل ۲۲ - مئی ۱۹۲۲ء صفحہ ۷) ے فریقین کا تعین نہیں ہو سکا.له النساء :۲ بخاری کتاب الطلاق باب لم تحرم ما احل الله لك
خطبات محمود ۱۳۵ २ ام جلد سوم خدا تعالیٰ کی قدرت کا عظیم الشان کرشمہ فرموده ۲۵ جنوری ۱۹۲۲ء) ۲۵.جنوری ۱۹۲۲ء سید صادق علی ولد سید امداد علی صاحب ساکن امبیٹھا ضلع سہارنپور کا نکاح سلمیٰ بنت سید محبوب عالم ساکن موضع لر سا ضلع گیا ملازم کینال آفس آرہ سے ایک روپیہ مہر پر اور سید احمد نور صاحب کا نکاح سعیدن سے دو سو روپیہ مہر پر حضرت خلیفہ اسح الثانی نے پڑھا.لے خطبہ مسنونہ کی تلاوت کے بعد فرمایا.انسان روزانہ اللہ تعالی کی قدرتوں کا مشاہدہ کرتا ہے لیکن پھر بھی گھبرا جاتا ہے.ایک زندہ خدا کا کام کرنے والا طاقت والا ہاتھ دیکھتا ہے مگر دل میں یہ بات نہیں جمتی کہ اس کی مشکلات بھی دور ہو سکتی ہیں اور وہ گھبرا کر کہتا ہے کہ کیا ہو گا اور اس طرح وہ اس نصرت الہی کو کاٹ دیتا ہے جو خدا سے اس کو ملتی ہے.خدا تعالیٰ کی قدرت کا کیا کرشمہ ہے اس کے لئے ہم انبیاء کی ہی مثال لیتے ہیں.وہ کس حال میں آئے اور ان کو کیا طاقت اور قدرت تھی مگر انجام کار کیا ہوا.آنحضرت ﷺ جب پیدا ہوئے تو والد فوت ہو چکے تھے اور ورثہ میں جو کچھ آپ کے لئے چھوڑا اس میں اختلاف ہے.کوئی ایک اونٹ لکھتا ہے، کوئی ایک بکری.اگر بکری ہے تو زیادہ سے زیادہ آٹھ دن کی خوراک ہے اور اگر اونٹ ہے تو ایسے علاقہ میں جو متمدن نہ ہو کوئی زیادہ فائدہ کی چیز نہیں.آج کل کے زمانہ میں اونٹ کا مالک گورنمنٹ کی ملازمت کرنا چاہے تو اس کو مل سکتی ہے مگر جہاں نہ تجارت ہو نہ زراعت، نه صنعت و حرفت اگر کوئی کام
خطبات محمود جلد سوم.شاذ و نادر مل جائے تو مل جائے ورنہ نہیں.اور اونٹ کی اتنی قیمت تھی کہ جب کوئی مہمان آتا تو ذبح کر لیا جاتا یا لاٹری ڈالی جاتی اور آپس میں بیٹھ کر کھا پی لیتے.تجارت معمولی تھی سال میں ایک دو دفعہ قافلے چلتے تھے اور اونٹ کی قیمت معمولی تھی اور گزارے بھی لوگوں کے معمولی تھے.آنحضرت اللہ کو اعلیٰ خاندان کے فرد تھے مگر دیکھنا یہ ہے کہ خود اس خاندان میں آپ کی کیا حیثیت تھی.مراتب محض خاندان سے ہی نہیں ہوتے بلکہ خاندان میں کوئی خاص بڑائی رکھنے سے ہو سکتے ہیں.مثلاً سادات کی مسلمانوں میں عزت ہے اس لئے کہ وہ رسول کریم کی نسل سے ہیں مگر محض سادات سے ہونا کوئی عزت نہیں.جیسے برہمن ہندوؤں میں ہیں ان کا کام صرف باورچی گری رہ گیا ہے ہاں اگر کھشتری عالم ہو اور ایک پنڈت عالم، تو پنڈت عالم کی عزت زیادہ ہوگی.اسی طرح اگر ایک سید عالم ہو تو اس کی عزت زیادہ ہوگی تو کو رسول کریم اے بڑے خاندان سے تھے مگر اس خاندان میں آپ بڑے نہ تھے بلکہ نوجوانوں میں آ پ کا شمار تھا.اگر اس خاندان میں عزت تھی تو ابو طالب کی تھی کہ وہ اس خاندان میں بڑے تھے.پھر اس خاندان کو کوئی سیاسی عظمت حاصل نہ تھی آپ اپنے خاندان میں عمر میں ئے تھے.ایک زمانہ میں آپ کے چچا سے پوچھا گیا تھا کہ آپ بڑے ہیں یا محمد رسول اللہ ؟ تو انہوں نے کہا کہ بڑے تو محمد رسول اللہ ﷺ ہی ہیں مگر پیدا پہلے میں ہوا تھا.تو عمر میں آپ چھوٹے تھے.مگر خدا نے عزت میں آپ کو سب سے بڑا کر دیا.آپ کے خاندان کو دینی حیثیت سے رتبہ حاصل تھا.مگر وہ بھی یہ کہ کعبہ کے بتوں پر جو چڑھاوا چڑھتا تھا وہ آپ کے خاندان کو مل جاتا تھا.مگر لڑائی اور جنگ کے زمانہ میں آپ کے خاندان کا کوئی عہدہ نہ تھا.بلکہ یہ ابو سفیان اور ابو جہل کے خاندانوں کو حاصل تھا.جب لوگ آتے تھے تو عرب کے معزز طبقہ کے خطاب کے قاعدے کے مطابق آپ کو اے چچا! اے باپ کہہ کے نہ پکارتے تھے بلکہ آپ کو انے بچہ کہہ کر پکارتے تھے کیونکہ آپ حدیث السن تھے.پھر پڑھنے لکھنے کی وجہ سے عزت ہوتی ہے.اس ملک میں پڑھنے لکھنے کا رواج نہ تھا.اگر تھوڑا بہت بھی آپ " جانتے تو آپ کو بڑا سمجھا جاتا مگر آپ ﷺ کو پڑھنا لکھنا بھی نہ آتا تھا.پس آپ کو نہ سیاسی عزت حاصل تھی نہ خاندان میں بڑا مرتبہ حاصل تھا نہ مال آپ کے پاس تھا ایسی حالت میں آپ نے دعوی کیا اور کتنا بڑا دعویٰ کیا.قاعدہ ہے کہ جب کوئی شخص ایک دو دن کے سفر پر جاتا ہے تو اس کے مطابق تیاری کرتا
خطبات محمود ۱۳۷ جلد سوم ہے اگر زیادہ لمبا سفر ہوتا ہے تو اس کے مطابق کھانے اور سواری وغیرہ کی تیاری کرتا ہے پس آپ نے جو دعوی کیا وہ چونکہ عظیم الشان تھا اس لئے اس کے متعلق اتنی ہی زیادہ احتیاج کی ضرورت تھی مگر عزت حاصل کرنے کے جو یہ چار ذرائع ہیں.۱.مال ۲.-۴ خاندانی اعزاز یعنی معزز خاندان کا ہو اور اس خاندان میں بڑا بھی ہو یہ آپ کو حاصل نہ تھے.علم حضرت مسیح موعود بھی معزز خاندان کے تھے مگر خاندان میں چھوٹے تھے.) ایسی حالت میں آنحضرت ﷺ نے دعوی کیا کہ میں ساری دنیا کو فتح کرنے آیا ہوں.حالت یہ ہے کہ بڑائی کی کوئی بھی ظاہری چیز حاصل نہیں اور دعوئی اتنا بڑا کہ جس میں دنیا کی سب احتیاجیں آجائیں.گویا میں کچھ نہیں اور دعوئی یہ کہ سب کچھ حاصل کرنا ہے.اس وقت کیا خیال ہو سکتا تھا کہ کامیابی ہوگی ہرگز نہیں.اس لئے بعض نے مجنوں کہا، بعض نے مکار، بعض لوگوں نے کہا کہ اس کے کسی عمل کی وجہ سے اس پر کوئی وبال نازل ہوا ہے یہ تین فیصلے تھے جو ظاہر داری کے مطابق لوگ کر سکتے تھے اور انہوں نے کئے مگر ایک اور نقطہ نظر بھی تھا اور وہ روحانی تھا.اول یہ کہ اس کے چال چلن کو دیکھا جائے.کیا اس کا پہلا چال چلن ایسا تھا کہ اس کی وجہ سے اس پر کوئی وبال نازل ہو تا.پھر اب تم پاگل کہتے ہو مگر کیا اس کے کام بے نتیجہ اور بے قرینہ ہیں.تیسرے مدعی کی پہلی زندگی کو دیکھنا چاہئے کیا اس سے پتہ لگتا ہے کہ یہ جھوٹ بول سکتا ہے پھر موجودہ زندگی کے افعال کو دیکھنا چاہئے.کیا پاگلوں کی سی بات اس میں ہے.جب یہ تینوں نتیجے غلط ہیں تو اس کے متعلق نقطہ نگاہ بدلنا پڑے گا.جب ہم اس کے پہلے اعمال کو دیکھتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ اس کے اعمال بہترین اعمال تھے اس لئے ان سے برا نتیجہ کیسے پیدا ہو سکتا ہے گندم از گندم بردید جو ز جو.پس معلوم ہوا کہ جو کچھ یہ کہتا ہے اپنی طرف سے نہیں کہتا بلکہ اور طاقتور ہستی ہے جو اس سے کہلوا رہی ہے چنانچہ آپ نے اس بے سرو سامانی کی حالت میں جو کچھ فرمایا وہ صحیح ثابت ہوا اور دنیا کو آپ کی بات مانی پڑی.کتنی نا ممکن بات نظر آتی تھی جو ممکن ہو گئی.ایک صحابی کہتے ہیں کہ ایک زمانہ میں مجھے آنحضرت ا سے اتنی نفرت تھی کہ میں آپ کی طرف دیکھنا بھی نہیں چاہتا تھا مگر پھر وہ زمانہ آیا کہ مجھے آنحضرت سے خوبصورت کوئی نہ معلوم ہوتا تھا.اور پھر رُعب محبت سے میں آپ کی طرف نہ دیکھ سکتا تھا.سے چنانچہ اب یہ حالت ہے کہ اگر کوئی مجھ سے آپ کا حلیہ پوچھے تو میں نہیں بتا
خطبات محمود سکتا.۱۳۸ جلد سوم پھر آپ کو اتنا علم دیا گیا کہ اس زمانہ میں شاعر کو سب سے بڑا سمجھا جاتا تھا.ایک لطیفہ ہے کہ زیادہ طاقتور جادو گر ہوتا ہے.اس سے بڑھ کر پریاں اور اس سے بڑھ کر شاعر ہوتا ہے.کیونکہ یہ جادو گروں اور پریوں کو بھی متاثر کر لیتا ہے.پس اس زمانہ میں شاعر کا درجہ بڑا سمجھا جاتا تھا اور اس زمانہ میں سب سے بڑا شاعر لبید تھا اور جو متقدمین اور متأخرین میں بڑا مانا گیا.سبعہ معلقات میں ساتواں معلقہ ان کا تھا.وہ مسلمان ہو گئے تھے اور حضرت عمر کے زمانہ تک زندہ رہے.حضرت عمر کو شعر سے محبت تھی.آپ نے ایک گورنر کو کہلا بھیجا کہ قصائد بھجواؤ ان کے ہاں دو شاعر تھے ایک لبید اور ایک اور گورنر نے دونوں کو بلوا کر کہا.دوسرا شاعر تو قصیدہ لے آیا مگر جب لبید سے کہا گیا کہ ایک قصیدہ پیش کرو تو انہوں نے الم ذَلِكَ الْكِتَابُ لا ريب فيه - الخ پڑھ دیا اسی طرح ایک دو دفعہ ہوا.گورنر نے ناراضگی سے ان کے وظیفہ میں کمی کر دی اور حضرت عمر کو کہلا بھیجا کہ لبید نے ایسا کیا اور میں نے سزا کے طور پر ان کا وظیفہ کم کر دیا ہے.حضرت عمر ناراض ہوئے اور کہا کہ وہ سچ کہتا ہے کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ قرآن کے آجانے کے بعد کیا قصیدہ کہوں.پس آپ پر جو کلام نازل ہوا وہ اس شان کا تھا کہ بڑے بڑے زبان دان اپنی زبان بھول گئے اور اپنے علم کو اس کے سامنے جہالت قرار دینے لگے.پھر یا تو آپ کی جائداد زیادہ سے زیادہ ایک اونٹ تھی یا وہ زمانہ آیا کہ ہزاروں نے سامنے گردنیں رکھ دیں کہ ان پر بے شک آپ کے لئے چھری چل جائے.آپ خاندان میں چھوٹے تھے مگر پھر وہ زمانہ آیا کہ خاندان نے آپ کو اپنا بڑا کیا اور بڑوں میں سے ایک نے کہا کہ بڑے تو آپ ہی ہیں ہاں پیدا پہلے میں ہوا تھا گویا نقشہ ہی الٹ گیا.اس نظارے کو دیکھ کر ہر محسوس کرے گا کہ یہ خدا کا فضل تھا اور یہ فضل وہیں تک محدود نہیں.حضرت صاحب کے زمانہ میں بھی ایسا ہی ہوا اور ہر شخص اس کا نظارہ دیکھ سکتا ہے.نکاح کے معاملہ میں بھی لوگ گھبرا جاتے ہیں چونکہ نکاح کا موقع ہے اس لئے میں اسی مثال کو لیتا ہوں.نکاح ہونے میں دیر ہو تو لوگ گھبراتے ہیں کہ نکاح کیسے ہو گا.اور ہو جائے تو فکر لگ جاتی ہے اولاد کب ہوگی.پھر اولاد ہو جائے تو اس کی پرورش کے لئے گھبراتے ہیں.خدا تعالٰی قرآن کریم میں فرماتا ہے.آيَايُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّكُمُ الَّذِي خَلَقَكُم مِّنْ نَفْسِ وَاحِدَةٍ وَخَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا وَبَثَّ مِنْهُمَا رِجَالاً كَثِيرًا وَنِسَاءً وَاتَّقُوا اللهَ الَّذِى
خطبات محمود ۱۳۹ جلد سوم تَسَاءَلُونَ بِهِ وَالأَرْحَامَ ، إِنَّ اللهَ كَانَ عَلَيْكُمْ رَقِيبا.کہ اے مسلمانو! گھبراتے کیوں ہو کیا اس لئے کہ رشتہ نہیں ملتا.اگر تقوی مد نظر ہو تو دیکھو آدم کے لئے خدا نے بیوی پیدا کردی تھی.تمہار ا دا دا اکیلا تھا اس کے لئے عورت کی ضرورت تھی.خدا نے پیدا کر دی.تو جو خدا آدم کو نئی عورت بنا کر دے سکتا ہے.اگر تم متقی ہو تو تمہیں پیدا شدہ عورتوں میں سے انتخاب کر کے کیوں نہیں دے سکتا.پس تم اپنے اندر تقویٰ پیدا کرو اور گھبراؤ مت خدا پر نظر رکھو.اگر تم متقی بنو تو خدا تمہارے لئے عورتیں مہیا کر سکتا ہے.یہ بالکل درست بات ہے کیونکہ ایسی حالت میں خدا ایسے طریق پر مدد اور نصرت فرماتا ہے کہ انسان حیران رہ جاتا ہے.اس وقت میں جن دو دوستوں کے نکاح کے اعلان کے متعلق کھڑا ہوا ہوں.ان میں سے ایک سید احمد نور صاحب ہیں وہ چونکہ مخلص اور سید عبد اللطیف مرحوم کے ہموطن اور ہم قوم ہیں اس لئے بھی پیارے ہیں اور حضرت صاحب کے وقت میں فدائیت کے لئے حاضر رہتے تھے اس لئے بھی بعض بیماریوں کے باعث ان کے رشتہ میں مشکل تھی.دوسرا رشتہ بھی ایک سید کا ہے وہ بھی مخلص ہیں وہ بھی گھبرا گئے تھے کہ جہاں وہ کوشش کرتے تھے رہ جاتے تھے اور رخصت بڑھاتے بڑھاتے تنگ آگئے مگر خدا نے دونوں کا سامان کر دیا.الفضل ۲۹ - مئی و یکم جون ۱۹۲۲ء صفحه ۹۰۸) له الفضل -۲ فروری ۱۹۳۲ء صفحه ۲ له الاستيعاب في معرفه الاصحاب باب حرف العين جلد ۳ صفحه ۲۶۶ تا ۲۷۰ مطبوعہ بیروت ۱۹۹۵ء ه الاستيعاب في معرفه الاصحاب باب حرف اسلام جلد ۳ صفحه ۳۹۴ مطبوعہ بیروت ۱۹۹۵ء ه النساء : ۲
خطبات محمود ۴۲ جلد سوم قادیان ہر احمدی کا وطن ہے (فرموده ۸ فروری ۱۹۲۳ء) سید محمد یوسف صاحب عرائض نولیس حصار تا بین مولوی سید احمد حسین صاحب ساکن مظفر نگر کے نکاح ہمراہ مسماۃ امتہ الحفیظ بنت مولوی اللہ دتہ مرحوم ساکن جموں سات سو روپیه مهر پر حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے ۸.فروری ۱۹۲۲ء کو اعلان فرمایا.لے خطبہ مسنونہ کی تلاوت کے بعد فرمایا : خطبہ نکاح کی غرض اولین تو یہی ہوا کرتی ہے کہ اس میں جو نصائح ہیں وہ لڑکی اور لڑکے والوں کو سنائی جائیں مگر ہمارے بعض نکاح ایسے ہوتے ہیں کہ نہ لڑکی والے موجود ہوتے ہیں نہ لڑکے والے.ان دونوں کی عدم موجودگی میں ان کے نکاح قادیان میں پڑھے جاتے ہیں.اس سے ان کا یہ خیال ہوتا ہے کہ اس بابرکت مقام پر نکاح ہو جس کے متعلق خدا تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ وہاں جو کام کیا جائے گا بابرکت ہوگا.اور نیز وہاں ایسے لوگ ہوں گے جنہوں نے اپنی زندگیاں خدمت دین کے لئے وقف کر رکھی ہیں وہ دعا کریں گے.یہ خواہش اپنے رنگ میں اچھی ہے مگر میرے نزدیک ایسی حالت میں نکاح کے متعلق نصائح کرنا غیر ضروری ہے اس لئے جس غرض سے یہ کیا جاتا ہے اس کے متعلق کچھ کہتا ہوں.نکاح کے متعلق ہم دیکھتے ہیں کہ یہ خوشی کا موقع ہے اور خوشی کے موقع میں کوئی نہیں چاہتا کہ وہ شامل نہ ہو.اگر کسی کے رشتہ دار دور ہوں تو وہ ایسے موقع پر لکھ دیا کرتے ہیں کہ ہمارے آنے تک ملتوی کر دو.حالانکہ کوئی بوجھ نہیں اٹھانا ہوتا جس میں ان کی امداد کی
خطبات محمود جلد سوم ضرورت ہوتی ہے.پھر ایسا کیوں کیا جاتا ہے اس کی یہی وجہ ہے کہ طبعاً انسان کی خواہش ہوتی ہے کہ خوشی کے موقع کو وہ بھی دیکھ سکے.خوشی کا اوجھل ہونا انسان کو پسند نہیں.لیکن بعض اوقات ایسے ہوتے ہیں کہ انسان او جھل ہونے کو گوارا بھی کر لیتا ہے.ہمارے ہاں بیسیوں نکاح ہر سال اس قسم کے ہوتے ہیں کہ لڑکے اور لڑکی والے دونوں میں سے ایک یا دونوں موجود نہیں ہوتے.اس سے یہ نہیں سمجھا جاسکتا کہ ان میں احساسات نہیں ہوتے ان میں خوشی اور رنج کے احساسات ہوتے ہیں.پھر ایک بات ہے کہ جس خوشی کے موقع کو دنیا آنکھوں سے اوجھل نہیں ہونے دیتی یہ لوگ اس میں موجود نہیں ہوتے.میں نے کہا تھا کہ بعض مواقع ہوتے ہیں جن میں اوجھل ہونے کو گوارا کر لیا جاتا ہے جب انسان غیر ملک میں ہو تو انسان اپنے بال بچوں کو وطن میں بھیج دیتا ہے.وہ خوشی کو او جھل کرتا ہے اس لئے کہ شادی اس کے وطن میں ہو جائے.لوگ کہتے ہیں کہ پردیس میں موت نہ ہو.کیا پردیس والے دفن نہیں کرتے یا وطن میں دفن ہو کر جنت مل جاتی ہے ؟ وطن میں بھی موت آئے تو دو تین نسلوں کے بعد کوئی جانتا بھی نہیں.مگر وطن کی خاطر خوشی کا آنکھوں سے اوجھل ہونا پسند کر لیا جاتا ہے.اسی مضمون کو قرآن کریم کی ان آیات میں بیان کیا گیا ہے.يَاأَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّكُمُ الَّذِى خَلَقَكُمْ مِن نَّفْسٍ وَاحِدَةٍ وَخَلَقَ مِنْهَا زَرْجَهَا وَبَثَّ مِنْهُمَا رِجَالًا كَثِيرًا وَنِسَاءَ ، وَاتَّقُوا اللَّهَ الَّذِي تَسَاءَلُونَ بِهِ وَالأَرْحَامَ ، سے ایک آدمی کی نسل کو خدا تعالی ایسا بڑھاتا ہے کہ اس سے ایک دنیا آباد ہو جاتی ہے وہ دنیا کے باپ ہوتے ہیں اور ان کا وطن تمام دنیا کا وطن ہوتا ہے.وہ اتم یا جڑیا اصل کے طور پر ہوتے ہیں.حتی کہ اللہ تعالیٰ جب اپنے بندوں کو نصیحت کرتا ہے تو ان کا حوالہ دے کر کرتا ہے.اس لئے جو نکاح یہاں ہوتے ہیں ان میں خاص بات ہوتی ہے اور وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی برکات کا ثبوت ہے.آپ بھی آدم ہیں اور آپ کے ساتھ خدا تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ وہ آپ کی نسل کو بڑھائے گا اور زمین کے کناروں تک پھیلا دے گا.اس لئے ایک احمدی خواہ کہیں ہو اس کا وطن قادیان ہے.یہ قلوب پر تصرف ہے اور حضرت مرزا صاحب کی صداقت کا ثبوت کہ خدا نے آپ کو آدم بنایا اور دنیا کے قلوب پر تصرف بخشا اور دنیا نے آپ کے وطن کو اپنا وطن سمجھ لیا.لوگ جس خوشی کو او جھل نہیں ہونے دیتے اس کو خوشی سے اپنے وطن کے لئے قربان کرتے ہیں.یہ عظیم الشان کشش بتلاتی ہے کہ حضرت صاحب کا دعوی سچا ہے اور آپ واقعی آدم ثانی ہیں.کیونکہ.
خطبات محمود ۱۴۴۲ جلد سوم لوگ اپنے وطنوں کو بھول کر اسی کو اپنا وطن سمجھ لیتے ہیں ایسے نکاح ہمیں اسی نکتہ کی طرف متوجہ کرتے ہیں ورنہ نکاح کے خطبہ کی غرض تو لڑکے اور لڑکی والوں کو نصیحت ہوتی ہے.الفضل ۲۲ جون ۱۹۲۲ء صفحہ ۷۶) الفضل ۱۳ فروری ۱۹۲۲ء صفحه ۲ له النساء : ۲
خطبات محمود ۱۴۳ ۴۳ جلد موسم ولی لڑکی کے مفاد کی حفاظت کرے فرموده ۹ - فروری ۱۹۲۲ء) له خطبہ مسنونہ کی تلاوت کے بعد حضرت فضل عمر خلیفہ المسیح الثانی نے فرمایا : بوجہ اس کے کہ میرے گلے اور سر میں درد ہے اس لئے زیادہ مضمون بیان نہیں کر سکتا لیکن جو ایک عیب پایا جاتا ہے اور جس کو شریعت نا پسند کرتی ہے جماعت کو اس کی طرف توجہ دلاتا ہوں.ہماری جماعت خدا کی قائم کردہ ہے اور اس کا جو مقام احترام ہے دیکھو اس کے لئے خدا تعالی دنیا میں کیا کیا سامان کرتا ہے اور اس کو عزت دیتا ہے.یہ کیوں کرتا ہے کیا اس پر ہمارا اقتدار ہے.نہیں بلکہ وہ پیشگی کے طور پر ہمیں اپنے انعامات دیتا ہے.جس کے معنے ہیں کہ وہ ہم سے کچھ چاہتا بھی ہے کیونکہ جو پیشگیاں لیا کرتے ہیں شرافت کا تقاضا ہے کہ وہ دوسروں کی نسبت زیادہ فرض شناس ہوں مگر ہماری جماعت جو خدا کی قائم کردہ ہے اس میں بھی ملک کی رسم کے مطابق ایک قابل افسوس بات پائی جاتی ہے اور وہ مرض یہ ہے کہ اس ملک کے لوگ نکاحوں کے بارے میں ذاتی فوائد کو مقدم رکھتے ہیں.شریعت نے لڑکی کی ولایت اس کے باپ یا بھائی یا کسی اور قریب کے رشتہ دار کو دی ہے اس لئے کہ وہ لڑکی کے فوائد کو مد نظر رکھیں گے.کیونکہ یہ سمجھا گیا ہے کہ لڑکی نادان ہے اپنے فوائد کو نہیں سمجھ سکتی.باپ یا بھائی اس کے گارڈین ہیں وکیل ہیں اور اس کے حقوق کی حفاظت کریں گے.لیکن ہمارے ملک میں اس وکالت کا ناجائز استعمال کیا جاتا ہے.یہ نہیں دیکھا جاتا کہ لڑکی کہاں سکھ پائے گی بلکہ عموماً لوگ یہ دیکھتے ہیں کہ ان کو روپیہ کہاں سے ملتا ہے وہ اپنے حق کو ظالمانہ طور پر استعمال کرتے ہیں.
خطبات محمود جلد سوم اس کی ایسی مثال ہے کہ کوئی شخص اپنے مقدمہ میں کسی کو وکیل بنائے اور وکیل بجائے اس کے مقدمہ کی پیروی کرنے کے فریق ثانی سے روپیہ لے کر اس کی طرف داری کرے جیسا کہ وہ وکیل جو اس قسم کی حرکت کا مرتکب ہوتا ہے شریر ہے.ویسا ہی وہ ولی بھی شریر ہے جو اپنے نفع کے لئے ولایت کا ناجائز استعمال کرتا ہے.ملک کا رواج ہے کہ لڑکی تب دیتے ہیں کہ جب کوئی ان کے لڑکے یا رشتہ دار کا بھی بندو بست کرے.ایسا باپ جو لڑکی کے فوائد کو نظر انداز کر دیتا ہے اور اپنے فوائد کو مقدم کرتا ہے وہ سخت برا کام کرتا ہے اس قسم کے رشتوں کو بجا کہتے ہیں.اور یہ شریعت میں ناجائز ہے.یہ جائز ہے کہ ایک جگہ کسی کی لڑکی بیاہی ہو اور پھر لڑکی والوں کے ہاں لڑکے والوں کی لڑکی کا رشتہ ہو جائے.مگر مقرر کر کے رشتہ داری کرنا نا جائز ہے اور اپنے وکالت نامہ کا غلط استعمال ہے اور ابھی تک ہماری جماعت میں سے یہ بھی نہیں گیا.جب تک لوگ اس فرض کو نہ پہچانیں گے کہ ہم اپنے وکالت نامہ کو خراب نہیں کریں گے تب تک یہ رسم نہیں مٹ سکتی.الفضل ۲۲ جون ۱۹۲۲ء صفحہ ۷) ے فریقین کا الفضل سے تعین نہیں ہو سکا
خطبات محمود ۱۴۵ ۴۴ جلد موم صداقت پر قائم رہنے کا خوشگوار نتیجہ (فرموده ۱۸ فروری ۱۹۲۲ء) بابو عنایت الہی صاحب ملازم ڈاک خانہ ولد میاں چراغ دین مرحوم سکنہ نبی پور متصل گورداسپور کا نکاح حمیدہ بیگم بنت امیر خان صاحب مرحوم قادیان سے پانچ سو روپیہ مہر پر حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے ۱۸.فروری ۱۹۲۲ء بوقت عصر پڑھا.اے تعلق خطبہ مسنونہ کی تلاوت کے بعد فرمایا.مجھے آج صبح سے بلکہ کل شام سے ریزش کے آثار نظر آتے ہیں اس لئے میں زیادہ نہیں بول سکتا لیکن مختصرا احباب کو یہ بات بتاتا ہوں کہ یہ نکاح آیات خطبہ نکاح سے خاص رکھتا ہے.میاں نظام الدین صاحب سابق ملازم پوسٹ آفس پرانے احمدی ہیں.انہوں نے دو ایک روز گزرتے ہیں مجھے ایک رقعہ لکھا تھا کہ ان کا ایک قریبی رشتہ دار ہے عنایت الہی اس کی شادی قریب کے رشتہ داروں میں قرار پائی جب وہاں نکاح کے لئے گئے تو ان لوگوں نے کہا کہ تم احمدی ہو ؟ انہوں نے جواب دیا.ہاں.کہا کہ احمدی غیر احمدی کو لڑکی نہیں دیتے.اس قاعدہ کے مطابق غیر احمدی لڑکی احمدی کو بھی نہیں دی جاسکتی.احمدیت چھوڑ دو تو رشتہ ہو جائے گا.انہوں نے کہا یہ نہیں ہو سکتا.یہاں آگئے.بعض اوقات یہاں دو سال گزر جاتے ہیں اور رشتہ نہیں ہو تا مگر قرآن کریم کی اسی خطبہ کی آیتوں میں سے جیسا کہ ایک میں فرمایا.کیا تُهَا الذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللهَ وَقُولُوا قَوْلاً سَدِيدًا يُصْلِحُ لَكُمُ اعْمَالَكُمْ ہے کہ اگر تم صداقت پر قائم رہو رہو تو ہم تمہارے معاملات کو خود درست کر دیں گے سو اللہ تعالیٰ نے یہ سامان کیا کہ د رو
خطبات محمود چند موم ایک روز میں ہی ان کے نکاح کا سامان ہو گیا.یہ خدا کا فضل ہے کہ وہ وعدہ کرتا ہے اور پورا کرتا ہے انسان سے خود غلطی ہوتی ہے اور اس کو خدا کی طرف منسوب کرتا ہے.لیکن اگر حق پر قائم رہے تو خدا تعالیٰ اس کی اصلاح فرماتا ہے اور اس کا کام خود بناتا ہے.یہی بات کافی ہے.اگر مومن اصلاح عمل کے لئے اس پر عمل کرے.الفضل ۲۴ جولائی ۱۹۲۲ء صفحہ ۷ ) الفضل ۲۷ فروری ۲ مارچ ۱۹۲۲ء صفحه ۱۵ له الاحزاب : ۷۲۷۱
۱۴۷ ۴۵ زندگی کا فیشن (فرموده ۲۵ - اپریل ۱۹۲۲ء) له خطبہ مسنونہ کی تلاوت کے بعد حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے فرمایا : انسانی نفس اپنے گردو پیش کی چیزوں سے متاثر ہو کر ایسے طریق اختیار کرتا رہتا ہے جن پر چلنے سے اصل راستہ سے بھٹک جاتا ہے جیسے کوئی شخص کسی ضروری کام کے لئے گھر سے نکلتا ہے مگر کوئی دوسرا اس کو راستہ میں برکاتا ہے اور وہ اس کے پیچھے چل پڑتا ہے اور اپنے اصل مقصد سے محروم ہو جاتا ہے اسی طرح بعض لوگ زندگی کے راستہ سے دور ہو جاتے ہیں.حضرت صاحب کا الہام ہے " زندگی کے فیشن سے دور جا پڑے" سے فیشن کے معنے ہیں.طریق اور زندگی بسر کرنے کا راستہ.ظاہر ہے کہ راستہ مقرر کرنے والے خاص لوگ ہوتے ہیں.یورپ کے مرد اور ان کی عورتیں فیشن کی دلدادہ ہوتی ہیں.خصوصا پیرس فیشن پرستی کا مرکز ہے.ایک اخبار میں میں نے پڑھا تھا کہ ایک عورت کسی دکان پر گئی اور دکاندار سے کہا کہ مجھے تازہ ترین فیشن کی ٹوپی درکار ہے.وہاں ٹوپیوں پر ہی زیادہ فیشن کا اثر پڑتا ہے.عورت نے ٹوپی خریدی اور پہن کر باہر نکلی.جونہی کہ باہر نکلی کچھ عورتیں اس نے دیکھیں جن میں سے ایک عورت وہ بھی تھی جو فیشن اختیار کراتی ہیں اور نمونہ اور سند کے طور پر مانی جاتی ہیں.اس عورت نے فورا ٹوپی اپنے سر سے اتار لی اور دوڑ کر دکان میں گھس گئی اور دکاندار سے کہا تو نے مجھے سخت ذلیل کیا اگر وہ عورت مجھے دیکھ لیتی تو کیا کہتی.- کو فیشن کے معنے عام طریق کے کئے جاتے ہیں مگر اصل بات یہ ہے کہ چند آدمیوں کے
خطبات محمود ۱۴۸ جلد سوم متعلق یہ تسلیم کیا جاتا ہے کہ ان کے طریق پر عمل کیا جانا چاہئے اور ایسے لوگ پانچ چھ سے زیادہ نہیں ہوتے.ان کے متعلق پڑھا ہے کہ سارا سال پرانی پرانی تاریخیں پڑھتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ ان زمانوں میں کسی قسم کا لباس پہنا جاتا تھا.اور مختلف لباسوں کے ٹکڑے لے کر ایک چیز تیار کرتے ہیں اور تجویز کرتے ہیں کہ ایسی ٹوپی ہو سکتی ہے یا ایسی عجیب گاؤن (GOWN) ہو سکتی ہے ایسے لوگ جو کچھ مقرر کرتے ہیں.لوگ ان کی اتباع کرتے ہیں.مگر عجیب بات ہے کہ جن لوگوں کی زندگیوں کو خراب کر دیا کہ وہ تمام عمر اسی فیشن کی ایجاد و تلاش میں رہیں ان کی تو مانی جاتی ہے ان لوگوں کی طرف توجہ نہیں کی جاتی جو مستحق ہیں کہ ان کی بات پر عمل کیا جائے.میں نے بتایا ہے کہ جس طرح اس ظاہری لباس کے فیشن کی ایجاد کے لئے چند لوگ ہوتے ہیں روحانی زندگی کے فیشن کے لئے بھی چند لوگ ہوتے ہیں.یہ غلط خیال ہے کہ فیشن عام لوگوں کے رواج کا نام ہے.بلکہ فیشن کے موجد عام لوگ نہیں ہوتے.اسی طرح روحانی زندگی میں بہت سے لوگوں کی پیروی نہیں کی جاتی بلکہ چند کی اور وہ انبیاء ورسل اور اولیاء ہوتے ہیں.حیرت ہے کہ لباس میں تو فیشن کی پیروی کی جاتی ہے.مثلاً ایک زمانہ میں غرارہ عورتیں پہنتی تھیں لیکن اگر اب کوئی پہن لے تو دوسری عورتیں اس کا ناک میں دم کر دیں.یا ہندوستان میں کئی ٹوپیاں مروج ہیں.پنجاب میں ان کا رواج نہیں ہے.اگر کوئی پہنے تو لوگ اس پر پھبتیاں اڑائیں.غرض لباس میں تو فیشن مقرر کرنے والوں کی طرف دیکھا جاتا ہے مگر روحانیت میں ایسا نہیں کیا جاتا بلکہ الٹی جہلاء کی پیروی کی جاتی ہے.مثلاً شادی کا معاملہ ہے اگر یہ دیکھا جائے کہ خدا اور اس کے رسول اور اولیاء نے کیا طریق مقرر کیا ہے.تو ان کو زندگی کی مصیبتوں سے نجات ہو جائے.مگر لوگ اس کی پابندی نہیں کرتے.قرآن کریم میں اس کے متعلق آتا ہے.يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللهَ وَلْتَنْظُرْ نَفْسٌ مَا قَدَّمَتْ لِغَدٍ ، سه مومن کو چاہئے کہ وہ آج جو کچھ لوگ اس کو کہتے ہیں اس بارے میں اس کی فکر نہ کرے.اگر لوگ آج اعتراض کرتے ہیں کہ اس نے شادی میں یہ نہیں کیا اور وہ نہیں کیا تو اس کی پرواہ نہ کرے بلکہ اپنی کل کو محفوظ کرے.اگر کوئی آج ہنستا ہے اور کل اس کو رونا پڑے گا تو ایسے ہننے کو اس پر کوئی اثر نہیں پڑ سکتا نہ اس کا کچھ نقصان ہے.پس مومن کو چاہئے کہ زندگی کا فیشن مقرر کرنے کے لئے ان لوگوں پر نظر کرے جو اس
خطبات محمود ۱۳۹ جلد سوم فن کے ماہر اور واقف ہیں اور وہ انبیاء، رسل اور اولیاء و صلحاء ہوتے ہیں جو شخص اہل فنون کو چھوڑ کر نا واقفوں کے پیچھے چلتا ہے دکھ اٹھاتا ہے.زندگی مبارک اور بآرام کرنے کے لئے ان کی ضرورت ہے ورنہ ان سے علیحدگی میں جھگڑے ہیں.ے فریقین کا الفضل سے تعین نہیں ہو سکا.کے تذکرہ صفحہ ۵۰۹- ایڈیشن چهارم ه الحشر آیت : 19 الفضل ۲۴ جولائی ۱۹۲۲ء صفحہ ۷)
خطبات محمود 10.۴۶ جلد سوم نکاح کے فوائد (فرموده ۲۶ - اپریل ۱۹۲۲ء) تاریخ ۲۶.اپریل ۱۹۲۲ء کو حضرت خلیفۃ المسیح الثانی نے عطاء اللہ ولد مولوی محمد عبد اللہ صاحب احمدی ملازم نهر مردان کا نکاح فاطمہ بنت فضل دین صاحب احمدی سب او در میئر ملٹری ور کس ضلع پشاور سے ایک سو روپیہ مہر پر پڑھا.لے : خطبہ مسنونہ کے بعد فرمایا انسانی تعلقات کی بنیاد نکاح پر ہی ہوتی ہے.جس قدر رشتے ہیں ان کا سبب نکاح ہے.ماں باپ، میاں بیوی نکاح کا نتیجہ ہیں.چا، پھوپھی، خالویہ نکاح کا نتیجہ ہیں.ساس خسر بھی نکاح کے بعد ہوتے ہیں.غرض کوئی رشتہ نہیں جو بغیر نکاح کے ہو.بظاہر تو یہ بات ہے کہ نکاح والے رشتے چند ہوتے ہیں ورنہ اصل میں نکاح مرکزی نقطہ ہے جس کے گرد تمام چیزیں گھومتی ہیں بڑا تعلق محبت کا ہے اور وہ رشتہ سے تعلق رکھتی ہے اس لئے کہہ سکتے ہیں کہ اگر دنیا ر ہنے کے قابل ہے تو نکاح ہی کی بدولت اور اگر دنیا کا کار خانہ چلتا ہے تو نکاح پر چلتا ہے.اس سے ثابت ہوا کہ نکاح کوئی معمولی بات نہیں بلکہ دنیا نکاح کے ارد گرد گھوم رہی ہے.تمام خواہشات میں بڑی خواہش یہ ہوتی ہے کہ رشتہ داروں کو سکھ پہنچایا جائے.اگر عزت کی خواہش ہے.مال اور دولت اور رتبہ کی خواہش ہے وہ سب رشتہ داروں کے لئے.اگر کسی کے اولاد نہ ہو تو وہ غمگین ہے.تمام عزتیں اور دولتیں بیچ ہیں.گویا جس طرح روحانی زندگی کا محور خدا تعالی کی ذات ہے اسی طرح دنیاوی زندگی کا محور نکاح ہے.راحت اس میں ہے، عزت اس کے لئے
خطبات محمود 101 جلد سوم ہے.اگر رشتہ داریوں کو جدا کر دیا جائے تو کوئی شخص دنیا میں رہنا پسند نہیں کرے گا اگر کسی شخص کو کہا جائے کہ ہم تمہیں سب کچھ دیں گے اور تمہیں ہر قسم کی راحت پہنچائیں گے اور تمہاری ہر ایک خواہش پوری کریں گے اگر تو اس بات کو منظور کرے کہ تیری تمام رشتہ داریاں منقطع کر دی جائیں تو وہ شخص ان راحتوں اور آراموں کو اس قربانی کے مقابلہ میں لعنت سمجھے گا.تو نکاح بہت اہم بات ہے مگر لوگ بالعموم اس کی اہمیت پر غور نہیں کرتے اور محدود اغراض اس کی سمجھتے ہیں.حضرت خلیفہ اول فرمایا کرتے تھے کہ لوگ کہا کرتے ہیں کہ نکاح اس لئے کرتے ہیں کہ گھر میں کوئی روٹی پکانے والا نہیں.اس کا یہ مطلب نہیں کہ یہ اغراض نکاح میں سے کوئی غرض نہیں غرض تو ہے مگر بہت ادنی ہے.اس لئے جو شخص اس کو بڑی غرض بنا تا ہے وہ ان بڑی اغراض کے حصول سے محروم رہ جاتا ہے جو نکاح کی ہیں.کیونکہ روٹی تو انسان ملازم سے پکوا سکتا ہے کلب میں کھا سکتا ہے.مگر نکاح کی اور اغراض ہیں جو اسی سے پوری ہو سکتی ہیں.لوگوں کے اس خیال سے ظاہر ہے کہ وہ اتنے بڑے اہم معاملہ کو ادنی درجہ کا خیال کرتے ہیں اور اس لئے وہ ان فوائد کو بھی حاصل نہیں کر سکتے جو نکاح کے اندر مخفی ہیں کیونکہ قاعدہ ہے کہ جو شخص کسی چیز کی اہمیت سے ناواقف ہے وہ اس کے فوائد کو حاصل بھی نہیں کر سکتا.مثلاً یہی چائے جو ہندوستان میں پیدا ہوتی ہے لوگ اس سے ناواقف تھے.انہوں نے اس کی طرف توجہ نہ کی اس کا پودا پیدا ہوتا تھا اور جنگل میں ہی سوکھ جاتا تھا.انگریزوں نے چینیوں کے ساتھ تجارت میں اس کے فوائد اور اس کی اہمیت کو سمجھا اور فورا ان علاقہ جات کو ستے داموں خرید لیا جہاں چائے پیدا ہوتی ہے.اب تمام ہندوستان میں چائے کے باغات انگریزوں کے ہیں.انہوں نے زبردستی نہیں لئے قیمت سے لئے ہیں.ہاں اپنے علم سے فائدہ اٹھایا ہے.اب اسی چائے سے میں کروڑ روپیہ سالانہ انگریز ہندوستان میں کماتے ہیں.انگریز ہندوستان سے روپیہ لیتے ہیں مگر حکومت کے ذریعہ نہیں.ایسے ہی ذرائع سے.پھر ہندوستان میں بانس ہو تا تھا ہندوستانی صرف بانس کی غرض یہ سمجھتے تھے کہ کاٹا اور ڈنڈا بنالیا اس لئے بانس کے جنگلات ان کے لئے بے سود تھے.مگر انگریزوں نے اس کے فوائد کو سمجھا اور اس کے لاکھوں کروڑوں روپیہ کے کاغذ بنا ڈالے.اسی طرح لوگ نکاح کی اہمیت سے بھی بے خبر ہیں اور اس لئے اس کے فوائد سے بھی بے خبر ہیں.میں جن دنوں بمبئی گیا تھا وہاں ایک واقعہ پیش
خطبات محمود ۱۵۲ جلد سوم آیا.ایک سوداگر کی جیب سے جو اثرات کی پڑیا گر گئی ایک بچہ کو ملی اس نے معمولی شیشہ خیال کر کے پیسہ کے چار چار بیچ ڈالے.لڑکے آپس میں گولیاں کھیلتے ہیں.ایک شخص نے اپنے بچے کے پاس دیکھا تو پہچانا.کسی دکاندار کے پاس لے گیا اس نے بڑی قیمت بتائی جس کے جواھرات تھے اس نے پولیس میں اطلاع کر دی.اس شخص سے جس کے بچہ کے قبضہ میں ہیرا تھا پوچھا گیا.اس نے سب حال بتایا.آخر سراغ لگا کہ لڑکوں کو پڑ یا ملی تھی.اب دیکھو کہ ان بچوں کو صرف یہ معلوم تھا کہ یہ شیشے ہیں ان سے کھیلنا چاہئے.اگر ان کو اس کی اہمیت معلوم ہوتی تو وہ پیسہ کے چار چار نہ بیچتے.یہی حال نکاح کا ہے انسان کی زندگی اگر با امن ہو سکتی ہے تو نکاح سے.اگر اس کو اس کی اہمیت کا علم ہو تو اس سے بڑے بڑے فوائد حاصل کر سکتا ہے.اللہ تعالی قرآن کریم میں اس کے متعلق فرماتا ہے : يَاتِهَا النَّاسُ اتَّقُوا رَ َّبكُمُ الَّذِي خَلَقَكُمْ مِنْ نَفْسٍ وَاحِدَةٍ وَخَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا وَبَثَّ مِنْهُمَا رِجَالًا كَثِيرًا وَنِسَاءَ ، وَاتَّقُوا اللَّهَ الَّذِي تَسَاءَلُونَ بِهِ وَالأَرْحَامَ إِنَّ اللهَ كَانَ عَلَيْكُمْ رَقِيبًا له اے لوگو! اپنے رب کا تقویٰ اختیار کرو جس نے تم کو ایک جوڑے سے پیدا کیا.اور پھر کس قدر جوڑوں کو پھیلا دیا.مرد بنائے، عورتیں بنائیں کیا یہ اتنا بڑا کارخانہ لغو ہے.ان الله كَانَ عَلَيْكُمْ رَقِيبًا.وہ تم پر نگہبانی کر رہا ہے.شریعت بھیجی.انبیاء بھیجے تاکہ تمہاری زندگیاں پر امن ہوں.پس یہ کارخانہ لغو نہیں.اس کی اہمیت کا خیال کرو.اور وہ فوائد اٹھاؤ جو اس کے اندر ہیں.مگر بہت ہیں جو اس کی اہمیت سے بے خبر ہیں.اور بہت ہیں جو جانتے تو ہیں مگر وہ.فوائد حاصل نہیں کر سکتے.الفضل ۱۰ اگست ۱۹۲۲ء صفحه ۶) الفضل ۱۵ مئی ۱۹۲۲ء صفحه ۲ ه القيام : ۲
خطبات محمود ۱۵۳ ۴۷ چند موم نکاح کے اعلیٰ مقاصد (فرموده ۲۱.جولائی ۱۹۲۲ء) ۲۱- جولائی حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے شیخ غلام احمد صاحب کی لڑکی کے نکاح کا اعلان ڈاکٹر شمس الدین صاحب کے ساتھ فرمایا.خطبہ مسنونہ کی تلاوت کے بعد فرمایا : میں نے پچھلے ماہ سے نکاح کے خطبے پڑھنے ترک کر دیئے ہیں جس کی وجہ ایک فتنہ تھا جو ایک نکاح کے متعلق تھا.ایک ایسا سوال پیدا ہو گیا تھا جس سے مجھ کو عدالت میں جانا پڑتا تھا اس سے مجھے خیال پیدا ہوا کہ ایسے فتنے آئندہ بھی پیدا ہو سکتے ہیں جب کہ فریقین میں سے ایک منکر ہو جائے اگر اس قسم کے مواقع پیدا ہوں تو میرے اصل کام میں رکاوٹ حائل ہو جائے گی.وہ فتنہ تو ٹل گیا مگر اس نے مجھے اس طرف توجہ دلائی کہ جب تک اس قسم کے فتنوں کے پیدا ہونے کی حفاظت نہ ہو جائے میں عام طور پر نکاح نہ پڑھوں سوائے اس صورت کے کہ فتنہ کا احتمال نہ ہو.مثلاً ایسے لوگ ہوں کہ ان سے فتنہ کا خطرہ نہ ہو اور اگر ان میں اختلاف ہو تو وہ آپس میں فیصلہ کرنے کو پسند کریں یہ نسبت عدالت میں جانے کے.یہ تمہید میں نے اس لئے بیان کی ہے کہ یہاں کے لوگوں کو اس کی وجہ معلوم ہو جائے کہ میں نے کیوں خطبات پڑھنے ترک کر دیے تھے.آج میں جس نکاح کے اعلان کے لئے کھڑا ہوا ہوں وہ شیخ غلام احمد صاحب کی لڑکی کا نکاح ہے.ڈاکٹر شمس الدین صاحب جن سے اس لڑکی کا نکاح قرار پایا ہے.نئے آدمی ہیں وہ آئندہ
خطبات محمود ۱۵۴ جلد سوم سلسلہ میں کس قدر ترقی کریں گے اس کو اللہ تعالی ہی جانتا ہے مگر شیخ صاحب پر انے اور نو مسلم ہیں.پہلے انہوں نے نام کا اسلام قبول کیا.پھر سلسلہ میں داخل ہوئے اور اس وقت سلسلہ میں داخل ہوئے جب مخالفت کا زور تھا.پس ان کی قدامت وغیرہ کی وجہ سے میں نے پسند کیا کہ یہ کا وغیرہ پسند کیا نکاح میں خود پڑھا دوں.نکاح کے متعلق سب سے پہلا سوال یہ ہے کہ اس کے خطبہ کی غرض کیا ہے.اگر عورت و مرد کی صحبت اس غرض سے ہے تو یہ کوئی بڑی بات نہیں کیونکہ جانوروں کیڑوں مکوزوں میں بھی جب شہوت کا جوش ہوتا ہے تو نر مادہ سے اور مادہ نر سے ملتی ہے.پس اگر شہوت ہی مد نظر ہو تو نکاح کی کیا ضرورت ہے وہ تو بغیر نکاح کے جانور بھی پوری کر لیتے ہیں.پھر اگر اس سے اعلان مد نظر ہو تو خطبہ کی کیا ضرورت ہے لیکن ایک عورت ایک مرد یا چند عورتیں اور ایک مرد جو ملائے جاتے ہیں اس کی ایک اور غرض ہے چنانچہ قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے.اللہ تعالی فرماتا ہے.يَا يُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللهَ وَلَتَنْظُرُ نَفْسَ مَا قَدَّمَتْ لِغَدٍ وَاتَّقُوا اللهَ إِنَّ الله خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ.لے اس میں شبہ نہیں کہ اس آیت میں نکاح کا ذکر نہیں مگر رسول کریم خطبہ نکاح میں اس آیت کو پڑھا کرتے تھے جس سے ثابت ہوا کہ اس میں نکاح کی حکمتیں بیان کی گئی ہیں.یہ آیت بتاتی ہے کہ تقویٰ اللہ اختیار کرو اور یہ سوچو کہ کل کے لئے کیا چھوڑتے ہو.اب ہم دیکھتے ہیں کہ کل کے لئے کیا چیز ضروری ہے.انسان کے اندر ایک خاص بات رکھی گئی ہے کہ وہ مدنی الطبع ہے.دوسرے جاندار ایسے نہیں.جانوروں کے تعلقات دائمی نہیں ہوتے مگر انسان دائمی تعلقات کی خواہش رکھتا ہے.جانوروں کی حالت طبعی ہے کہ ان کو کسی خاص جانور سے تعلق نہیں ہوتا.سوائے درمیانی حالت کے کہ وہ ایک جوڑا بناتے ہیں اور یہ ایک فیصدی سے زیادہ نہیں ہوں گے.مگر ان کی بھی یہ حالت ہے کہ ان کی اولاد میں یہ بات نہیں ہوتی.ایک اور بات یہ ہوتی ہے کہ اگر ایک مادہ مرجائے تو نر اپنے مادہ بچے سے تعلق پیدا کر لیتا ہے.یا مادہ مرجائے تو نہ بچہ اپنی ماں سے مل جاتا ہے مگر انسان کی یہ حالت نہیں.یہ حالت کا فرق بتاتا ہے کہ انسان کو تمدن کی ضرورت ہے دوسرے جانوروں کو نہیں.اور تمدن کی ضرورت ہی جانوروں کی سی حالت سے انسان کو باز رکھتی ہے اگر یہ نہ ہو تو نسلوں کی حفاظت نہ ہو سکے.انسان چاہتا ہے کہ اس کی نسل اور اس کے خیالات کی حفاظت ہو.اپنی نسل کے جاری
خطبات محمود ۱۵۵ جلد سوم رکھنے کے لئے دیکھ لو جن لوگوں کو حکومت مل جاتی ہے وہ اپنے راستہ سے ہر ایک رکاوٹ کو دور کرنا چاہتے ہیں اور یہ خواہش کہ خیالات محفوظ رہیں اکھڑ سے اکھڑ لوگوں میں بھی پائی جاتی ہے.حتی کہ وہ لوگ جن سے اگر مذہبی بات چیت ہو تو وہ کہہ دیتے ہیں کہ ہم نہیں سمجھ سکتے کیونکہ یہ باتیں مشکل ہیں ہمیں کیا معلوم آپ کیا کہتے ہیں.ان کی بھی یہ حالت ہوتی ہے کہ وہ بھی اپنی زندگی میں دو تین یا چار پانچ یا زیادہ لوگوں کو اپنا ہم خیال بنا لیتے ہیں.ایک زمیندار جس کو دین سے کچھ بھی واقفیت نہیں ہوتی وہ بھی اپنے بچوں کو اپنا ہم مذہب بنا دیتا ہے.ایک چوہڑا جس کو کچھ بھی عقل نہیں ہوتی اس کے بچے بھی وہی مذہب اور وہی خیالات سیکھ لیتے ہیں جو اس کے ماں باپ کے ہوتے ہیں.اور پھر وہ ایسے پختہ ہوتے ہیں کہ انبیاء تک آتے اور ان کو سمجھاتے ہیں مگر وہ ان کی بات نہیں مانتے.غرض یہ ایسی پختہ خواہش اور مستقل آرزو ہے کہ جہلاء تک میں بھی پائی جاتی ہے مگر کوئی انسان ایسا نہیں جو ہمیشہ رہے یا اس کے خیالات ہمیشہ رہیں اس کے لئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.وَلْتَنْظُرُ نَفسُ مَا قَدَّمَتْ لِغَدٍ - نکاح کی غرض یہ ہے کہ انسان دوام چاہتا ہے اور اسی کے لئے ہر قوم میں نکاح کی رسم ہے مگر اس سے صرف اسی قدر ثابت ہوا کہ نکاح کی ضرورت ثابت ہے مگر ہم نے یہ دیکھنا ہے کہ اسلام اس بارہ میں کیا کہتا ہے.اسلام یہ کہتا ہے کہ ولتَنْظُرُ نَفْسٌ مَا قَدَّمَتْ لِغَدِ صرف دوام ہی کوئی اچھی چیز نہیں بلکہ اس کے ساتھ کوئی چیز اور بھی ہوتی ہے جس کے ساتھ انسان دوام کا خواہش مند ہوتا ہے اور وہ یہ کہ انسان چاہتا ہے کہ اس کو دوام ملے اور دوام بھی ثاء اور تعریف کے ساتھ.یہ کوئی انسان نہیں چاہتا کہ اس کو یا اس کی اولاد کو لوگ ،مکار، فریبی کے نام سے یاد کریں بلکہ اس کی خواہش یہ ہوتی ہے کہ ان کو لوگ اچھا سمجھیں اور اچھا ظاہر کریں.تو مومن کا اس کے لئے یہ کام بتایا کہ وہ دیکھے کل کے لئے کیا چھوڑ رہا ہے.آیا یہ کہ لوگوں کو جب اس کی یاد آئے یا اس کی اولاد کو دیکھیں تو اس کو بدی سے یاد کریں اور کہیں کہ جیسے یہ بچے ملعون ہیں ویسا ہی ان کا باپ بھی ملعون ہو گا یا یہ کہ ان کو دیکھ کر ان کے اعمال کو دیکھ کر لوگ کہیں کہ یہ اچھے ماں باپ کے ہیں.اگر وہ بد ہوں گے تو تم نے کل کے لئے اچھی چیز نہیں چھوڑی.کل کے لئے چھوڑنے کے قابل اچھی ہی چیز ہو سکتی ہے.اور اچھی اولاد پیدا کرنے کا طریق یہ ہے کہ میاں بیوی کے تعلقات اچھے ہوں.اگر ان کے تعلقات اچھے نہیں تو اولاد پر اچھا اثر نہیں پڑ سکتا.اگر میاں بیوی میں تقوی اللہ ہو تو ان کی جو اولاد پیدا
خطبات محمود ۱۵۶ جلد سوم ہوگی وہ بھی متقی ہوگی اور یہی نکاح میں مقصود ہے کہ اس کا ذکر جاری رہے اور اس کو دوام ملے اور اس کی اولاد جو اس کے ذکر اور اس کے دوام کو قائم رکھنے والی ہے متقی ہو اور اس کے خیالات کی وارث ہو.له الحشر : 19 الفضل ۱۱.ستمبر ۱۹۲۲ء صفحه ۶۵)
خطبات محمود ۱۵۷ ۴۸ جلد سوم ،ماضی، حال اور مستبقل سے نکاح کا تعلق فرموده ۲۹ - جولائی ۱۹۲۲ء) له خطبہ مسنونہ پڑھنے کے بعد حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے فرمایا :- ہر ایک امر جو دنیا میں ہوتا ہے اس کا تین زمانوں سے تعلق ہوتا ہے.اول ماضی ہے دوم حال ہے سوم استقبال ہے.جو کام بھی ہو گا وہ کسی پچھلے کام کا نتیجہ ہو گا اور اب بھی اس کا کچھ اثر ہوگا.اور آئندہ بھی اس کا نتیجہ ملے گا.تمام کاموں میں سے زیادہ اہم نکاح کا معاملہ ہے جس کا تینوں زمانوں سے تعلق ہے اس لئے کہ اس میں تینوں زمانوں کی طرف توجہ دلائی گئی ہے.ماضی کی طرف تو اس آیت میں توجہ دلائی ہے کہ آيَاتِهَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّكُمُ الَّذِى خَلَقَكُمْ مِنْ نَفْسٍ وَاحِدَةٍ وَخَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا وَبَثَّ مِنْهُمَا رِجَالًا كَثِيرًا وَنِسَاء.وَاتَّقُوا اللهَ الَّذِي تَسَاءَلُونَ بِهِ وَالأَرْحَامَ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلَيْكُمْ رَقِيبًا ہ سے یہ ماضی بھی اتنا لمبا کہ فرمایا آدم کے وقت سے نظر ڈالو اور اس وقت سے غور کرتے کرتے اپنے زمانہ تک پہنچو.اس کے بعد حال کی طرف اس آیت میں توجہ دلائی - آيَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا الله وَقُولُوا قَوْلًا سَدِيدًا تُصْلِحُ لَكُمْ أَعْمَالَكُمْ وَيَغْفِرُ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ ، وَمَنْ يُطِعِ الله وَرَسُولَهُ فَقَدْ فَازَ فَوْزًا عَظِیماہ سے تمہارا حال یہ ہو کہ تم قول سدید کہو.پھر استقبال کی طرف اس آیت میں توجہ دلائی ليَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللهَ وَلْتَنْظُرُ نَفْسُ مَا قَدَّمَتْ الغَدِ، وَاتَّقُوا اللهَ إِنَّ اللهَ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُودَہ کے خطبہ نکاح میں یہ تینوں آیتیں پڑھی جاتی ہیں.اور تینوں آیتوں کا تینوں زمانوں سے تعلق ہے ایک میں بتایا کہ تمہاری ابتداء کس
لخطبات محمود ۱۵۸ جلد سوم طرح ہوئی اور دنیا کس طرح چلی اور اس کے آگے کیا نتائج پیدا ہوئے اور ان سے کیسے دکھ مکھ پیدا ہوئے.پہلوں پر نظر کرد کس طرح ایک جوڑے سے ہزاروں آدمی پیدا ہوئے اور اس سے یہ بھی ظاہر ہے کہ مصائب اور مشکلات ہوتی ہیں مگر ان سے فوائد بھی حاصل ہوتے ہیں.اس آیت سے نکاح کی ضرورت معلوم ہوئی اور یہ بھی معلوم ہوا کہ بعض نکاح اس قسم کے بھی ہوتے ہیں کہ ان کی نسل سے دنیا پر ہو جاتی ہے جیسا کہ نفس واحدہ سے اس قدر دنیا میں آدمی پھیل گئے.پچھلے زمانہ پر غور کرنے سے تیسری بات یہ معلوم ہوتی ہے کہ آپس کے تعلقات ترقیات میں محمد ہوتے ہیں.ہم نہ ہوتے اگر رشتہ داریاں نہ ہو تیں، انسان بیمار ہوتا ہے بیوی سردی گرمی کا خیال رکھتی ہے اور اس کے موافق لباس وغیرہ کا انتظام کرتی ہے اور مناسب وقت پر غذا اور دوائی دیتی ہے اگر بیویاں نہ ہوں تو کئی انسان بیماری کی حالت میں گرمی یا سردی سے مر جائیں اور ان کو کوئی پانی دینے والا نہ ہو.پھر بچے پیدا ہوتے ہیں اگر ماں باپ نہ ہوں تو وہ چلاتے چلاتے مر جائیں.پھر کہیں بہن بھائی اور دوست ہوتے ہیں جو بیماری میں انسان کے کام آتے ہیں اور دوست بھی قرابت داری میں شمار ہوتے ہیں.اگر یہ تعلقات نہ ہوتے تو انسان کا کیا انجام ہو تا.کئی لوگ اس قسم کے ہوتے ہیں کہ ان کے پاس کھانے کے لئے ایک دانہ نہیں ہو تا مگر ان کے رشتہ دار ان کی مدد کرتے ہیں پس ہزاروں خاندان ہیں جو قرابت کی مدد سے بچے ہوئے ہیں.اس سے ثابت ہوا کہ موجودہ دنیا رشتہ داری کا نتیجہ ہے.پہلوں نے درخت لگائے ہم اس کا پھل کھا رہے ہیں اور ہم درخت لگا ئیں گے تو اس سے آئندہ نسلیں پھل کھائیں گی.مشہور ہے کہ ایک بوڑھا زمیندار ایک درخت لگا رہا تھا.بادشاہ پاس سے گزرا اور اس سے پوچھا کہ تم یہ درخت کیوں لگاتے ہو تمہیں اس سے کیا فائدہ یہ تو دیر میں پھل دے گا اور اس وقت تم نہ ہو گے.زمیندار نے کہا بادشاہ سلامت پہلوں نے درخت لگائے ان کے پھل ہم کھا رہے ہیں ہم لگائیں گے ان کے پھل ہماری آئندہ نسلیں کھا ئیں گی.اس پر بادشاہ نے ”زہ" کہا.جس کا یہ مطلب تھا کہ اسے یہ بات پسند آئی ہے اور اس پر انعام دیا جائے.خزانچی نے چار ہزار درہم کی تحصیلی انعام دی.زمیندار نے کہا بادشاہ سلامت دیکھئے میں ابھی درخت لگا ہی رہا ہوں کہ اس نے مجھے پھل دے دیا.بادشاہ نے پھر زہ کیا اور خزانچی نے چار ہزار درہم اور دے دیئے.پھر اس نے کہا بادشاہ سلامت لوگوں کے درخت تو سال میں ایک بار پھل دیتے ہیں مگر میرے درخت نے تھوڑی دیر میں دو دفعہ
خطبات محمود ۱۵۹ چند موم پھل دیئے.بادشاہ نے اس پر بھی انعام دیا اور کہا یہاں سے چلو یہ بڑھا تو ہم کو لوٹ لے گا.بات یہ ہے کہ ہمیں جن چیزوں سے آرام پہنچ رہا ہے ان کے متعلق پہلوں نے تکلیفیں اٹھائی ہیں.لاکھوں موجد ہیں جو بڑی محنت سے ایک ایجاد کرتے ہیں مگر دوسرے ان سے فائدہ اٹھاتے ہیں.موجد یورپ اور امریکہ کے ہی لوگ نہیں.ہزاروں لوگ ہیں جو ہر وقت ایجادوں میں مصروف ہیں مگر لوگ ان کا نام بھی نہیں جانتے.یہ ایک نکتہ ہے کہ پچھلوں کی قربانی سے ہم فائدہ اٹھا رہے ہیں.اور ہر ایک شخص کا فرض ہے کہ وہ آئندہ نسلوں کے آرام کا خیال رکھے ورنہ گزشتہ زمانے کے لوگوں سے نمک حرامی ہوگی اگر ہم اپنے ہی نفس کے سکھ کا خیال رکھیں اور آئندہ نسلوں کے فائدے کو نظر انداز کردیں.اس سے نتیجہ یہ نکلا کہ انسان کو حال کی بھی فکر چاہیئے.اور وہ یہ کہ قُولُوا قَوْلًا سَدِيدًا - عمل کیا جائے.خدا تعالیٰ فرماتا ہے قول سدید اختیار کرو.یعنی تمہارے اقوال و اعمال میں راقت ہو.ان میں ٹیڑھا پن نہ ہو.تمہاری حالت قول و عمل میں کجی نہ ہو بلکہ صداقت سے پر ہو.ایسا قول نہ ہو جس میں خرابیاں ہوں بلکہ ایسا ہو جو خرابیوں سے پاک ہو.قول کے معنی عمل کے بھی ہیں.مثلاً احادیث میں نبی کریم ﷺ کے غسل کے ذکر میں آتا ہے کہ رسول کریم ﷺ نے قال بیدہ نے اپنے ہاتھ سے کہا اور ہاتھ سے کہنے کے یہ معنے ہیں کہ آپ نے ہاتھ سے پانی ڈالا.تو عربی زبان کے مطابق قُولُوا قَولاً سَدِيدًا کے یہ معنے بھی ہوئے کہ اِعْمَلُوا عَمَلاً سَدِيدًا اور قول بعنی بات چونکہ ارثی چیز ہے اور لوگ عموماً اس کی پرواہ کم کرتے ہیں اور یونسی بعض باتیں منہ سے نکال دیتے ہیں جو ان کے دل میں نہیں ہوتیں.اس لئے فرمایا کہ جب اپنے قول میں مداد پیدا کرو گے تو عمل میں سداد خود بخود پیدا ہو جائے گا.ا در حقیقت قول کا لفظ دل کے لئے بھی آتا ہے کہ جو بات دل میں پیدا ہو اس کو قول کہتے ہیں اس لئے اس کے معنے ہوئے کہ پہلے دل کی اصلاح کرو.صيد - پھر اصلاح بھی کئی قسم کی ہوتی ہے ایک اصلاح تو ایک محدود وقت کے لئے ہوتی ہے مگر فرماتا ہے کہ تم اس قسم کی اصلاح کرو کہ تمہارا اثر آگے تک پہنچے.تم پر ہی یہ معاملہ ختم نہ ہو جائے تم دوسروں کے لئے روک نہ ہو بلکہ ایسے بنو کہ وہ آگے گزر جائیں.چنانچہ فرمایا وَلتَنْظُرُ نَفْسُ مَا قَدَّمَتْ لِغَدٍ - اگلوں کے لئے راستہ صاف کیا جس طرح انہوں نے
خطبات محمود 14.جلد سوم تمہارے لئے راستہ صاف کیا اسی طرح تم اپنے حال سے فائدہ اٹھا کر ایسے کام کرو کہ آئندہ آنے والوں کے لئے راستہ صاف کیا جائے.ان تین باتوں اور تین زمانوں سے سبق لو.نکاح کے متعلق یہ تینوں باتیں اہم ہیں.اگر لڑکی یا لڑکے والے فتنہ کریں تو اس کا نتیجہ اچھا نہیں ہو سکتا.لڑکے والوں کی کوشش ہوتی ہے کہ لڑکی اپنے رشتہ داروں سے نہ ملے.اور لڑکی والے لڑکے کو اس کے ماں باپ سے چھڑانے کی کی فکر میں ہوتے ہیں.حالانکہ سوچنے کی بات یہ ہوتی ہے کہ اگر ان کے پہلے بھی اسی طرح کرتے اور لڑکی اور لڑکے کے متعلق ہر روز فتنے کھڑے رہتے تو یہ کس طرح پیدا ہو جاتے پس جب پچھلوں کے تعلقات کا نتیجہ ہم ہیں تو ہم کیوں وہ کام کریں جو آئندہ آنے والوں کے لئے مشکلات کا باعث ہو.اگر تم اپنے تعلقات کو پاک اور فتنوں سے دور رکھو تو آئندہ نسلوں کے لئے عمدہ نتائج پیدا ہو سکتے ہیں.شادی کی غرض اچھی اولاد پیدا کرتا ہے اور یہ اچھے تعلقات ہی کے باعث اچھی ہو سکتی ہے.یورپ کے لوگ شادی کرتے ہیں کہ ان کے اولاد پیدا نہ ہو مگر وہ نہیں سوچتے کہ اگر ان کے والدین بھی اسی خیال کے ہوتے تو وہ کس طرح پیدا ہو جاتے پس اس سلسلہ کو آگے چلاؤ اور اپنے وجود سے اس میں رکاوٹ کا باعث نہ بنو.الفضل ۲۱ ستمبر ۱۹۲۲ء صفحه ۶۵) الفضل سے فریقین کا تعین نہیں ہو سکا ته النساء : ۲ الاحزاب : ۷۲۷۱ له الحشر : 19 ه بخاری کتاب الغسل باب المضمضة والاستنشاق في الجنابة
خطبات محمود 141 ۴۹ چند موم نکاح کے معاملہ میں ہمیشہ دین مد نظر ر کھیں (فرموده ۲۱ اکتوبر ۱۹۲۲ء) ۲۱- اکتوبر ۱۹۲۲ء بعد نماز عصر مسجد اقصیٰ میں حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے میاں عبد السلام صاحب خلف حضرت خلیفہ المسیح الاول کا نکاح جناب چوہدری ابوالہاشم صاحب ایم.اے انسپکٹر سکولز بنگال کی لڑکی محمودہ سے ایک ہزار روپیہ مہر پر پڑھا.لے خطبہ مسنونہ کی تلاوت کے بعد فرمایا : نکاح اور شادی کے معاملات ہمیشہ ہوتے ہی رہتے ہیں اور اگر نکاح شادیاں نہ ہو تیں تو دنیا کی یہ حالت بھی نہ ہوتی مگر پھر بھی ہر انسان کی خوشی اور راحت کا اثر جدا ہوتا ہے.ایک شادی ایک انسان کے دل میں اور احساس پیدا کرتی ہے دوسرے کے دل میں اور ایک ڈاکو جس نے ملک میں فتنہ و فساد مچایا ہوتا ہے اور ہر طرف لوٹ کھسوٹ کا بازار گرم کر رکھا ہوتا ہے وہ مرتا ہے تو لوگ خوش ہوتے ہیں اور کہتے ہیں اچھا ہوا مر گیا.لیکن اس کے گھر کے لوگوں کی نظر میں وہ ایک ڈاکو کی حیثیت میں نہیں ہو تا بلکہ ان کے لئے چونکہ وہ ذریعہ معاش ہوتا ہے اور اس سے ان کے بہت سے تعلقات اور آرام وابستہ ہوتے ہیں اس لئے وہ اس کے مرنے پر غم میں بتلاء ہو جاتے ہیں.اسی طرح ایک شخص جو کسی جماعت کے لئے بطور محمود کے ہوتا ہے اور اس کی ذات پر جماعت کی ترقی اور تنزل کا انحصار ہوتا ہے اس کی موت پر اس جماعت میں ماتم ہوتا ہے.مگر وہ لوگ جو اس جماعت سے تعلق نہیں رکھتے ان کے لئے اس کی موت کچھ بھی اہمیت اور اثر نہیں رکھتی.یہی شادی کا حال ہوتا ہے جن کے ہاں شادی ہوتی ہے وہ تیا ریاں
خطبات محمود جلد سوم کرتے خوشیاں مناتے ہیں اور دیکھا گیا ہے کہ شادی کی تیاری میں بہت لوگ اپنا گھر لٹا دیتے ہیں.اگر پاس کچھ نہ ہو تو روپیہ قرض لے کر خرچ کرتے ہیں.مگر اوروں کو اس کا کچھ بھی علم نہیں ہوتا اور اس خوشی سے ان کے دل پر کچھ بھی اثر نہیں ہو تا ہاں اگر با جابج رہا ہو تو ان کو اتنا معلوم ہوتا ہے کہ کسی کے یہاں شادی ہے اس سے زیادہ کچھ نہیں.غرض یہ احساسات کا عجیب سلسلہ ہے.اس پر غور کرنے سے عجیب کیفیت طاری ہوتی ہے.ایک بات ایک کے لئے خوشی کی گھڑی اور راحت کی واحد ساعت ہوتی ہے مگر دوسرے کے لئے ماتم کا اثر رکھتی ہے.اور بہت ایسے ہوتے ہیں کہ ان کو نہ کسی کی خوشی میں حصہ ہوتا ہے نہ غم میں.یہ مضمون مجھے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک فقرے میں سکھایا تھا.حضرت مسیح موعود با قاعدہ اخبار پڑھا کرتے تھے.ایک دن ۱۹۰۷ء میں اخبار پڑھتے ہوئے مجھے آواز دی "محمود" یہ آواز اس طرح دی کہ جیسے کوئی جلدی کا کام ہوتا ہے.جب میں حاضر ہوا تو آپ نے مجھے خبر سنائی.ایک شخص (جس کا مجھ کو اس وقت نام یاد نہیں) مرگیا ہے.اس پر میری ہنسی نکل گئی اور میں نے کہا مجھے اس سے کیا.حضرت صاحب نے فرمایا اس کے گھر میں تو ما تم پڑا ہو گا اور تم کہتے ہو مجھے کیا؟ اس کی کیا وجہ ہے؟ وجہ یہ ہے کہ جس کے ساتھ تعلق نہ ہو اس کے رنج کا اثر نہیں ہوتا.وہ کوئی بڑا ہی آدمی ہو گا کہ اس کا ذکر اخبار میں کیا گیا یا کم از کم اس کا اخبار والے کے ساتھ کوئی تعلق ہو گا تب ہی اس کا ذکر اخبار میں کیا گیا.کچھ بھی ہو مگر اس کی موت کا اس کے بیوی بچے اور متعلقین پر اثر ضرور ہو گا اور وہ اس کی موت سے غمگین ہوں گے لیکن دوسروں کے لئے اس کا کچھ بھی اثر نہیں تھا.اسی طرح انسان غیر کی خوشی کا بھی احساس نہیں کر سکتا.پس خوشی اور غم کے احساس کا ایک ہی ذریعہ ہے کہ تعلق ہو.اس لئے شریعت نے روزے میں یہ سبق رکھا ہے کہ انسان خود بھوک برداشت کرے تا اس کو دوسرے کی بھوک کا بھی احساس ہو سکے.آج جس نکاح کے اعلان کے لئے کھڑا ہوا ہوں.یہ تمہید اس کے متعلق ہے کہ احساسات ہوں اسی کے مطابق اثر ہوتا ہے.آج میں میاں عبد السلام جو حضرت خلیفہ الاول کے بیٹے ہیں کے نکاح کے اعلان کے لئے کھڑا ہوا ہوں.وہ اپنی آئندہ عمر میں کیا کام کریں گے اور ان کو دین کی خدمت کے کیا کیا مواقع ملیں گے ہم نہیں جانتے.ہاں ہم دعا کرتے ہیں
محمود ۱۹۳ جلد سوم اللہ تعالی ان سے اپنے دین کی خدمت لے.مگر چونکہ ان کا تعلق ایک ایسے وجود سے ہے جس کی شادی و غم ہم سے تعلق رکھتا ہے اس لئے باوجود اس کے کہ ابھی ان سے کوئی کام ظاہر نہیں ہوئے ان کی حضرت خلیفہ المسیح الاول سے وابستگی کی وجہ سے جن کی خوشی ہمارے لئے اپنی خوشی کے برابر اور بعض صورتوں میں اپنی خوشی سے بھی بڑھ کر ہوتی ہے ان کی خوشی ہماری خوشی ہے.یہ محسوس کر کے کہ طبعی احساسات اس خوشی کے طلب گار ہیں ہم سمجھ سکتے ہیں کہ حضرت خلیفہ اول اگر زندہ ہوتے تو وہ کس طرح خوشی مناتے.وہ خود کس قدر دعائیں کرتے اور دوسروں کو بھی کس قدر دعائیں کرنے کی تحریک ہوتی.اس بات کا خیال کر کے یہ موقع ہمارے قلوب کے باریک احساسات میں خاص حرکت پیدا کرتا ہے اور خوشی کی لہر ہمارے جسم میں پیر سے لے کر سر تک پھیل جاتی ہے.میں نے بتایا ہے کہ نکاح ہوتے ہیں اور یہ معمولی واقعات میں سے بات سمجھی جاتی ہے.مگر بعض واقعات اپنے ساتھ خصوصیات رکھتے ہیں اور انسان کی تمام توجہ ان کی طرف منعطف ہو جاتی ہے ہم ایک پہاڑی گاؤں میں سیر کے لئے گئے.ایک جگہ رات ہو گئی.ہمیں ٹھہرنا پڑا.ہم نے اپنا سپرٹ کا چولہا جلایا اور سبزی ترکاریاں اس پر پکانی شروع کیں.گاؤں چھوٹا سا تھا.دس پندرہ گھر ہوں گے.وہاں کے سب لوگ چولہے کو دیکھنے کے لئے قطار باندھ کر ہمارے ارد گرد بیٹھ گئے.اور انہوں نے رائے زنی شروع کی.ان میں سے ایک کی بات زیادہ عجیب تھی وہ مجھے یاد رہی.اس نے کہا کہ میں سمجھ گیا ہوں اس میں جن بند کیا ہوا ہے جس کی وجہ سے آگ نکل رہی ہے.گاؤں والوں کے لئے چونکہ اس قسم کا چولہا بالکل عجیب چیز تھا اس لئے وہ اس سے حیران ہوئے لیکن خدا کا سورج روز چڑھتا ہے مگر اس کی طرف لوگوں کو قطعاً توجہ نہیں ہوتی.بجلی کا لیمپ جس میں سورج کی ایک شعاع کے برابر بھی روشنی نہیں ہوتی اس کی طرف لوگ توجہ کرتے ہیں مگر اس لیمپ کی طرف جو خدا نے چڑھایا ہے ان لوگوں کی توجہ نہیں.اگر کوئی ایسا علاقہ ہو تا جہاں نسلاً بعد نسل سورج نہ نکلا ہوتا وہاں سورج نکل آئے تو ہزاروں آدمی مر جائیں چنانچہ ہم دیکھتے ہیں جب دمدار ستارے نکلتے ہیں یورپ میں کئی لوگ اس خیال سے خود کشیاں کر لیتے ہیں کہ ان کا نتیجہ ہمارے حق میں مضر ہو گا.تو جب ایک دیدار ستارہ کے طلوع ہونے پر
خطبات محمود ۱۶۴ جلد سوم لوگ خود کشیاں کرلیتے ہیں.اگر سورج کا طلوع ہونا بھی ان کے لئے ایسا ہی غیر معمولی ہو تو لوگوں کی کیا حالت ہو ؟ میں خیال کرتا ہوں کتنے ہی مر جائیں اور کتنے ہی لوگ سجدے میں جاپڑیں کہ یہی خدا ہے.باوجودیکہ نکاح ہر گھر میں ہوتا ہے اور اس کا اتناہی اثر سمجھا جاتا ہے کہ ایک دلہن آتی ہے اور کچھ چھوہارے بٹ جاتے ہیں لیکن واقعہ یہ ہے نکاح کے اثرات بہت عظیم ہیں.نکاح کے اثرات کے نتیجہ میں دنیا تباہ ہو سکتی ہے اور آباد بھی.اس کی موٹی مثال یہ ہے کہ جب نبی کریم کے والد کی شادی ہوئی تو کوئی خصوصیت اس میں ظاہر نہیں ہوئی.رسول کریم ا کے والد اپنے بھائیوں میں سب سے چھوٹے تھے.آپ کی شادی کے لئے کوئی اظہار شان نہیں ہو تا مگر اس وقت کس کو معلوم تھا کہ ان کے ہاں ایسا بیٹا پیدا ہو گا جو دنیا کی کایا پلٹ دے گا.یہ بات اس وقت کس کے ذہن میں آسکتی تھی کہ وہ بچہ مومن و کافر کی توجہ کو پھیر دے گا.آج دنیا میں شور ہے اور ترکوں کی جنگ ہو رہی ہے یہ بھی اس عبد اللہ کے بیٹے ہی کی وجہ سے ہے.یورپ ترکوں کا اتنا مخالف نہ ہوتا اگر ترک آنحضرت لا کو ماننے والے نہ ہوتے.آج ہندوستانیوں کو ترکوں سے اتنی ہمدردی نہ ہوتی اگر ہندوستانیوں کو ترکوں سے آنحضرت نے نہ جوڑ دیا ہوتا.پس کیا یہ شور عبد اللہ اور آمنہ کے نکاح کا نتیجہ نہیں ؟ مگر اس وقت کیا کوئی کہہ سکتا تھا کہ اس کا ایسا نتیجہ ہو گا.اسی طرح اس زمانہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے والد کا نکاح ہوا.آپ کے والد کو آپ کے متعلق زیادہ سے زیادہ یہ خیال ہو گا کہ یہ ڈپٹی ہو جائیں گے.سکھوں کی حکومت چلی گئی تھی ان کو خیال ہو گا کہ میں تحصیلدار کرا دوں گا اور پھر یہ ترقی کرے گا ان کا کہاں یہ خیال ہو گا کہ دنیا کی ترقی اور تنزلی کی کنجیاں اس کے ہاتھ میں ہوں گی.اگر آپ تحصیلدار ہوتے یا اس سے بڑھ کر ڈپٹی ہو جاتے اور ڈپٹی کمشنر کی غیر حاضری میں قائم مقام ڈپٹی کمشنر بھی ہو جاتے تو آپ کی عزت کیا ہوتی یہی کہ ماتحت ملازمین عزت کرتے یا اہل مقدمہ.زیادہ سے زیادہ صوبہ کے افسرہی ہوتے تو صوبے کے لوگ آپ کی عزت کرتے اور جب پنشن لے لیتے تو یہ افسری ختم.لیکن ان کو یہ معلوم نہ تھا کہ ہماری شادی کے نتیجہ میں جو بچہ پیدا ہو گا سارے زمانہ کی روحانی ترقیات اس سے وابستہ ہوں گی.اس دنیا کی نہیں اگلے جہاں کی نجات کا انحصار اس کے ماننے پر اور عذاب نہ ماننے پر مقدر ہو گا.وہ زیادہ سے زیادہ ڈپٹی ہونے کا خیال
۲۶۵ ا جلد سوم کرتے ہوں گے.ان کے نزدیک یہ بڑی بات ہوگی کہ ڈپٹی ان کے گھر پر آئے لیکن یہ ان کو کہاں معلوم تھا کہ اس لڑکے کو خدا یہ برکت دے گا کہ بادشاہ اس سے ہی نہیں بلکہ اس کے کپڑوں سے بھی برکت ڈھونڈیں گے.اور رنجیت سنگھ کا کیا درجہ ہے اس سے ہزاروں درجے بڑے بادشاہ اس کے کپڑوں سے بھی برکت لینے کو خوش قسمتی سمجھیں گے.پھر یہ ان کے گمان میں کہاں تھا کہ دنیا اس کے پاس آئے گی.ابھی دیکھو اس مجلس میں کوئی کابل کا بیٹھا ہے، کوئی مدراس کا، کوئی بنگال کا کوئی حیدر آباد کا اور کوئی کہیں کا.حضرت صاحب کے والد کو اس وقت یہ کہاں معلوم ہو گا کہ کوئی یو نائیٹڈ سٹیٹس بھی ہے.آسٹریلیا کا ان کو علم نہ ہو گا اور ماریشس کا تو ان کو یقینا علم نہ ہو گا.پھر وہ کیسے خیال کر سکتے تھے کہ ان علاقوں میں اس لڑکے پر جان قربان کرنے والے ہوں گے.ان کو کس طرح یہ گمان ہو سکتا تھا کہ وہ بچہ جو پیدا ہو گا اس کی حکومت زمین پر نہیں بلکہ وہ قلوب پر حکومت کرے گا اور لوگ خواہش کریں گے که مال و جان و عزت اس کے قرب کے حاصل کرنے کے لئے قربان کر دیں.ان کے یہ بات ذہن میں نہیں آسکتی تھی.اسی طرح حضرت مسیح موعود کے قریباً ہم عمر مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی بھی تھے ان کے والد کا جس وقت نکاح ہوا اگر ان کو حضرت اقدس مسیح موعود کی حیثیت معلوم ہوتی اور وہ جانتے کہ میرا ہونے والا بیٹا محمد رسول اللہ ﷺ کے حل اور بروز کے مقابلہ میں وہی کام کرے گا جو آنحضرت ا کے مقابلہ میں ابو جہل نے کیا تھا تو وہ اپنے آلہ تناسل کو کاٹ دیتا اور اپنی بیوی کے پاس نہ جاتا.نہیں اس کے اثرات اور نتائج اچھے سے اچھے بھی ہو سکتے ہیں اور بد سے بد بھی.ان حالات و اثرات کا جو بعد میں پیدا ہونے والے ہیں انسان احاطہ کرہی نہیں سکتا کیونکہ اس کے عظیم الشان اور گہرے اثرات ہوتے ہیں کہ دل کو ہلا دیتے ہیں.اس کے مشابہ ایک واقعہ ہے کہ بادشاہ نے ایک شخص کو قاضی القضاۃ یا ہائیکورٹ کا جج بنا دیا.لوگ اس کو مبارکباد دینے کے لئے گئے دیکھا تو وہ رو رہا تھا.اور اس کی گھگی بندھی ہوئی تھی.ایک شخص نے کہا جناب یہ تو خوشی کا موقع ہے آپ کو ایسا کونسا حادثہ پیش آیا جو آپ رو رہے ہیں اس نے کہا یہی تو رونے کا مقام ہے.اس شخص نے کہا.کہ آپ کو بادشاہ نے دانا اور لائق سمجھ کر یہ عہدہ دیا ہے آپ اس پر کیوں روتے ہیں.اس نے کہا اے بے وقوف! اندھے
خطبات محمود 144 جلد کو رستہ بتایا جا سکتا ہے.لیکن سو جا کھے کو کون بتائے.میرے پاس دو شخص آئیں گے.ایک مدعی جو کہتا ہے میں نے فلاں شخص سے دس روپے لینے ہیں وہ مجھے دلوا دیجئے.اب وہ خوب جانتا ہے کہ آیا در حقیقت اس نے روپیہ لیتا ہے یا نہیں اور مدعا علیہ آتا ہے جو کہتا ہے کہ میں نے اس کا کوئی روپیہ نہیں دیتا یہ جھوٹ کہتا ہے.یہ دونوں شخص جانتے ہیں کہ واقعہ کیا ہے لیکن فیصلہ میرے ذمہ ڈالا گیا ہے جس کو کچھ بھی معلوم نہیں کہ واقع کیا ہے.میں اس لئے روتا ہوں کہ میں اس میں کیسے فیصلہ کر سکتا ہوں کیونکہ اس حال میں میرے فیصلہ کے صحیح ہونے میں بہت مشکل ہے اور ہو سکتا ہے کہ میرے فیصلے سے بہت لوگ نقصان اٹھا ئیں ان کا گناہ میری گردن پر ہو گا.یہ بات معمولی اور محض ان کا ذوق تھا مگر اس میں کوئی شک نہیں کہ شادی کا موقع ایسا ہے کہ اندھیرے میں ہاتھ مارنا ہے چاہے ہاتھ میں موتی آجائے اور چاہے سانپ اسی لئے اسلام نے نکاح کی بنیاد تقویٰ پر رکھی ہے اور دنیاوی اغراض کو درمیان سے اڑا دیا ہے.ایک خوبصورت بیوی لازمی نہیں کہ آرام دہ ہو مگر ایک بد صورت آرام دہ ہو سکتی ہے.ہمیں وہ عورت سکھ دے سکتی ہے جو ہماری ہمدرد ہو.عورت چاہے تو مرد کو بالکل آزاد کر سکتی ہے اور خانگی تفکرات سے نجات دے سکتی ہے اور اگر عورت چاہے تو مرد کو قید بھی کر سکتی ہے اور اس کی عزت و حرمت کو خاک میں ملا سکتی ہے.اور چاہے تو امن و آرام اور خیر و خوبی سے متمتع کر سکتی ہے.اس نکاح کے معاملہ میں چودھری ابوالہاشم خاں صاحب ایم.اے نے جن کی لڑکی ہے اس بات کو محسوس کیا ہے.انہوں نے مجھ سے تھوڑا سا پڑھا ہے اور جو پڑھا ہے اس کو خوب یاد رکھا ہے.میں نے جب ان کو اس نکاح کے متعلق خط لکھا تو اس کے جواب میں جو خط ان کی طرف سے آیا ہے اس میں جن شرائط کے ساتھ وہ اس نکاح کو منظور کرتے ہیں وہ ایسی روح رکھتی ہیں جو ہماری جماعت میں پیدا ہونی چاہئے وہ لکھتے ہیں بے شک میاں عبد السلام بڑے باپ کے بیٹے ہیں اور اس لئے ہمارے لئے واجب الاحترام ہیں لیکن میں اپنی بیٹی کسی کے بیٹے کو نہیں دینا چاہتا بلکہ کسی آدمی کو دینا چاہتا ہوں میں چاہتا ہوں کہ میرا داماد اسلام کے لئے لڑنے والا ہو، وہ اسلام کی جنگ میں جان دے دے، وہ اسلام کا خادم اور سپاہی ہو اور اسلام کے مقصد میں اپنی زندگی کو لگا دے اور نہ صرف میرے داماد میں یہ بات ہو بلکہ میں چاہتا ہوں میری
خطبات محمود 142 جلد سوم ساری اولاد اسلام کے کام آئے.گو میں عبد السلام میں یہ جوش دیکھتا ہوں مگر میں کہتا ہوں اگر آپ کے نزدیک میاں عبد السلام میں یہ باتیں پائی جاتی ہیں تو آپ ان سے میری لڑکی کا نکاح پڑھ دیں ورنہ میں ایک ادنیٰ سے ادنیٰ انسان کو زیادہ پسند کروں گا جس میں یہ باتیں پائی جاتی ہوں.یہ وہ روح ہے جو جماعت میں پیدا ہونی چاہئے اسلام کے لئے اس وقت ایسے لوگوں کی ضرورت ہے جو اپنی جان، مال اور جائداد سب کچھ خرچ کریں اور بغیر کسی شرط کے اسلام کے رستہ میں اپنی ہر ایک چیز خرچ کریں.اگر جماعت میں یہ بات پیدا ہو جائے اور ہمارے تعلقات میں اس بات کو مد نظر رکھا جائے تو ایسی نسلیں پیدا ہوں جو اسلام کی بڑی خدمت کر سکتی ہیں.ضرورت ہے کہ ہم میں سے ہر ایک کے دل میں یہ خواہش ہو کہ وہ اپنے آپ کو اور اپنی اولاد کو اسلام کی خدمت میں لگائے اور اس وقت جب کہ دین کی حفاظت کا کوئی سامان موجود نہیں اور دین بے کسی کی حالت میں ہے جیسا کہ حضرت مسیح موعود نے فرمایا ہے.شد دین احمد بیچ خویش دیار نیست ہر کے در کار خود بادین احمد کار نیست له اس وقت اسلام دنیا کی نظروں سے پوشیدہ ہے.جماعت کا فرض ہے کہ اسلام کی خدمت کرے اور اپنی اولاد میں خدمت دین کا جوش اور ولولہ پیدا کرے اور پھر وہ نسلیں آئندہ نسلوں میں یہی بات پیدا کریں اور تہیہ کرلیں کہ ہم نے شیطان کا قلع قمع کرنا ہے.میں نکاح کا اعلان کرتے ہوئے یہ بات بھی کہنا چاہتا ہوں کہ یہاں بالعموم جس قدر لوگ بیٹھے ہوئے ہیں ان پر حضرت خلیفہ اول کا احسان ہے.اگر کوئی شخص ایک دو روپیہ دے تو اس کے سامنے نگاہ نیچی رہتی ہے.ہم میں سے ہر ایک کو انہوں نے علم سکھایا ہے اس لئے ان کا ہم سب پر احسان ہے.اگر وہ اس موقع پر ہوتے تو ہمیں خیال کرنا چاہئے کہ وہ کیا دعائیں کرتے اس لئے ہمارا فرض ہے کہ ہم خلیفہ اول کے احسان کے تعلق کو محسوس کر کے دعا کریں کہ اللہ تعالٰی عبد السلام کو اور اس کے بھائیوں کو ایسی پاک زندگی عطا کرے جو وہ چاہتا ہے کہ اس کے بندوں کی ہونی چاہئے اور جس کو اس کے بندے دین میں لگا ئیں اور جیسی زندگی سے اس کا منشاء ہے کہ اپنا کام لے.ان کو لمبی زندگی دے اور اس تعلق کو میاں بیوی کے لئے مبارک کرے اور مبارک اولاد پیدا کرے.آمین.اس کے بعد میں چودھری ابوالہاشم خاں صاحب ایم.اے کی لڑکی محمودہ کا نکاح میاں عبد السلام سے ایک ہزار روپیہ مہر پر اعلان کرتا ہوں.چودھری صاحب نے اپنے خط کے ذریعہ
خطبات محمود ۱۶۸ جلد سوم جو انگریزی میں تھا اور حضور نے ایک حصہ پڑھ کر سنایا) مجھے اس کے قبول کرنے کا اختیار دیا ہے.ایجاب و قبول کے بعد دیر تک دعا ہوتی رہی.الفضل ۲ نومبر ۱۹۲۳ء صفحه ۵ تا ۷ ه الفضل ۲۳ اکتوبر ۱۹۲۲ء صفحه ۱ ه در کمین فارسی صفحہ ۱۴۷ مطبوعہ چاپ آفسٹ بار اول
خطبات محمود 149 جلد سوم حمد کا مستحق خدا ہی ہے (فرموده ۲۴ - اکتوبر ۱۹۲۲ء) میاں محمد ظہور صاحب ساکن پٹیالہ برادر خورد ڈاکٹر حشمت اللہ خان صاحب کا نکاح ۲۴.اکتوبر ۱۹۲۲ء کو حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے سکینہ بنت میاں عبد الحق صاحب ساکن بدو ملی سے مبلغ پانچ سو روپیہ مہر بشمولیت زیور پڑھا.لے خطبہ مسنونہ کے بعد فرمایا : رسول کریم نے خطبہ نکاح کا خلاصہ یعنی وہ مضمون جو ان آیات سے استدلال ہوتا ہے جن کا رسول کریم ﷺ کے فعل سے نکاح کے خطبہ میں پڑھنا مسنون ہے وہ اس عبارت میں بیان فرمایا ہے - اَلْحَمْدُ لِلَّهِ نَحْمَدُ، وَ نَستَعِينُهُ وَنَسْتَغْفِرُ، سے یہ بھی کو مختصر ہے لیکن - قرآن کریم کی آیات کی طرح مختلف مضامین اس میں سے نکلتے ہیں.ان آیات سے علاوہ اجتماع اور نکاح سے متعلق مسائل کے اور مسائل بھی نکلتے ہیں اور قرآن کی آیتوں میں اور بھی دقیق معارف ہیں لیکن رسول کریم ﷺ نے ان آیات میں اس موقع پر جو خلاصہ نکالا ہے وہ اتنا ہے جو نکاح سے تعلق رکھتا ہے.اس خلاصہ میں بتایا گیا ہے کہ سب تعریف اللہ کے لئے ہے اور کسی کی صحیح تعریف اور بچی تعریف خدا ہی کر سکتا ہے.دیکھ لو یہ کس قدر مختصر فقرہ ہے مگر اس کا نکاح کے معاملہ میں کس قدر اثر ہے.بہت سے نکاح با برکت نہیں ہوتے اس لئے کہ لوگ ایسی خوبیوں کے امیدوار ہوتے ہیں جو بعد میں ملتی نہیں.لوگ دولت مند، بڑے حسب والی اور خوبصورت عورت سے شادی کرنا چاہتے ہیں ان کا خیال ہوتا ہے کہ دولتمند، مالدار اور بڑے
لخطبات محمود 12 جلد سوم حسب کی عورت اگر نکاح میں آئے گی تو ہمیں بھی اس کے ذریعہ مال و دولت اور عزت مل جائے گی.اسی طرح لڑکوں کے متعلق ہے لیکن بعض دفعہ موقع آتا ہے تو یہ امید پوری نہیں ہوتی اور پھر گلے شکوے ہوتے ہیں اس لئے رسول کریم ال کہتے ہیں الْحَمدُ لِله سب تعریفیں اللہ ہی کے لئے ہیں.انسانوں میں ایسا وجود جس میں کوئی عیب نہ ہو تلاش کرنا غلطی ہے.پھر الحمد للہ کے یہ بھی سنے ہیں کہ اللہ تعالی ہی مستحق ہے کہ کسی کی صحیح تعریف کرے چونکہ دوسری شق یہی ہے کہ انسان اپنے ذہن میں کچھ نقشے تجویز کیا کرتے ہیں وہ نقشے پورے نہیں اترا کرتے.لڑکی کے ماں باپ کہتے ہیں کہ لڑکی خوبصورت ہے اور لڑکے کے خویش و اقارب بھائی اور دوست کہا کرتے ہیں کہ لڑکا بہت خوش خلق ہے مگر بات یہ ہے کہ اپنے کے عیب نظر نہیں آیا کرتے.مشہور ہے کہ کسی بادشاہ نے اس بات کے تجربہ کے لئے ایک زریں ٹوپی دربار کے ایک حبشی غلام کو دی.سامنے بہت سے لڑکے کھیل رہے تھے ان کی طرف اشارہ کر کے کہا کہ ان لڑکوں میں سب سے زیادہ جو لڑ کا خوبصورت ہے یہ ٹوپی اسی کے سر پر رکھ دے.ان لڑکوں میں اس حبشی غلام کا بیٹا بھی کھیل رہا تھا جس کی آنکھیں رید آلود تھیں اور ناک بہہ رہی تھی ناک بیٹھی ہوئی اور ہونٹ موٹے تھے.وہ حبشی بغیر جھجک کے بڑھا اور وہ ٹوپی اپنے لڑکے کے سر پر رکھ دی درباری ہنس پڑے.بادشاہ نے کہا میں نے تجھے یہ کہا تھا کہ اس بچے کے سر پر رکھنا جو سب سے زیادہ خوبصورت ہو.حبشی غلام نے جواب دیا کہ حضور میں نے اس کے سر پر رکھی ہے جو میرے نزدیک سب سے زیادہ خوبصورت ہے.پس اصل بات یہ ہے کہ اپنوں کے عیب نظر میں نہیں آتے اور یہ فطرتی بات ہے کہ انسان اپنوں کے عیب دیکھتا نہیں سوائے ان روحانی لوگوں کے جو روحانیات میں بہت کمال حاصل کر لیتے ہیں ورنہ محبت اور تعلق انسان کی آنکھ پر پردہ ڈال دیتے ہیں.یہ صحیح نہیں کہ وہ جھوٹ ہی کہتے ہیں.نہیں بلکہ وہ سنجیدگی سے ایسا کیا کرتے ہیں اور ان کے قلوب میں یہی جذبات ہوتے ہیں.• اور پھر پسندیدگی کا معیار بھی الگ الگ ہوتا ہے.کوئی زیادہ نمک پسند کرتا ہے کوئی کم.کوئی سفید رنگ کو پسند کرتا ہے کوئی چلبلی طبیعت کو ترجیح دیتا ہے.پس اگر لڑکی والے کہتے ہیں کہ
خطبات محمود جلد موم لڑکی بہت اچھی ہے تو وہ اپنے معیار اور طبیعت کے مطابق کہتے ہیں اور لڑکے والے بھی اگر اپنے لڑکے کو اچھا کہتے ہیں تو اپنی پسند اور اپنے جذبات کے مطابق کہتے ہیں.یہ نہیں کہ وہ دوسروں کے معیار کو بھی کہتے وقت مد نظر رکھتے ہیں.اور دوسرے کے خیال میں ہوتا ہے کہ اس نے دیانتداری سے کام نہیں لیا.پس فرمایا الحمدُ اللهِ نَحْمَدُ، سب تعریفوں کی مستحق اللہ تعالی ہی کی ذات ہے.وہ بتا سکتا ہے کہ کون مستحق تعریف ہے اور کون خوبیوں والا ہے.بعض مخفی عیب ہوتے ہیں جن کو کوئی نہیں جان سکتا مگر خدا تعالیٰ ان کو بھی جانتا ہے.ان کے متعلق اس کے سوا کون بتا سکتا ہے.اس عبارت کے اگلے حصوں میں علاج بتائے گئے ہیں جو میں نے کئی دفعہ بیان کئے ہیں.مختصرا یہ کہ انسان کو چاہئے کہ استغفار کرے اور اللہ تعالٰی سے پناہ مانگے اور پھر اللہ تعالی اس معاملہ میں برکت ڈال دیتا ہے.له الفضل ۲ نومبر ۱۹۲۳ء صفحہ ۲ الفضل ۹ - نومبر ۱۹۲۲ء صفحہ ۶) ه سنن ابي حنيفة واسمها التاريخى مسند الامام الاعظم كتاب النكاح
خطبات محمود ۱۷۲ ۵۱ جلد سوم ایک دوست کے اخلاص کا ذکر (فرموده ۲۲ - دسمبر ۱۹۲۲ء) ۲۲ دسمبر ۱۹۲۲ء حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے میاں عبدالرحیم صاحب پسر میاں غلام محمد صاحب امرتسری کے نکاح کا اعلان فرمایا.خطبہ مسنونہ کی تلاوت کے بعد فرمایا : : خطبہ جمعہ سے پہلے میں ایک نکاح کا اعلان کرنا چاہتا ہوں.یہ نکاح شیخ محمد حسین صاحب منصف زیرہ ضلع فیروز پور جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ سے جماعت میں شامل ہیں کی لڑکی کا ہے جو میاں عبدالرحیم صاحب پر میاں غلام محمد صاحب امرتسری سے جو گورداسپور میں ملازم ہیں قرار پایا ہے.میں نے جیسا کہ اعلان کیا ہوا ہے کہ اب نکاحوں کا اعلان نہیں کرتا.مگر اس موقع پر میں نے مناسب سمجھا کہ خود نکاح پڑھا دوں.شیخ صاحب مخلص ہیں اور غلام محمد صاحب بھی پرانے احمدی ہیں لیکن میرے اس نکاح پڑھنے کا باعث بابو عبدالرحیم صاحب ہیں.رسول کریم ﷺ نے فرمایا ہے کسی کی منہ پر تعریف کرنا اس کی ہلاکت کا باعث ہے.لے لیکن میری یہ غرض نہیں اور اس لئے میں نے یہ حدیث سنا دی ہے کہ ان میں عجب نہ ہے ہو جائے.لیکن اس نو عمری میں اور ان حالات میں جو غیر ممالک میں رہ کر لوگوں کو پیش آتے ہیں اس عزیز نے اچھا نمونہ دکھایا اور جماعت بغداد کو سنبھالنے میں بہت کوشش کی.احباب کو چاہیے کہ وہ اس کے اخلاص اور حوصلہ کے لئے دعا کریں.الفضل ۸ - جنوری ۱۹۲۳ء صفحه ۸) له بخاری کتاب الادر من التصادح
خطبات محمود ۵۲ جلد سوم اعلان نکاح سے متعلق ایک اصولی ہدایت (فرموده ۲۹ - دسمبر ۱۹۲۲ء) ۲۹ دسمبر ۱۹۲۲ء کو حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے درج ذیل تین نکاحوں کا اعلان فرمایا.مکرم شریف احمد پر میاں عبد العزیز صاحب ہمراہ رشیدہ جنت میاں عبدالرشید صاحب ایک ہزار روپے مہر پر نصیر احمد پسر میاں نورالدین صاحب ہمراہ زبیدہ بنت حکیم غلام غوث صاحب امرتسری.میاں عبد الرحیم صاحب ڈرانسمین شمله همراه سردار بیگم بنت محمد اسماعیل صاحب خطبہ مسنونہ کی تلاوت کے بعد فرمایا : میں خطبہ جمعہ سے پہلے چند نکاحوں کا اعلان کرنا چاہتا ہوں.مگر احباب کی عام اطلاع کے لئے یہ بات کہنا چاہتا ہوں کہ باوجودیکہ اخبار الفضل میں اعلان ہو چکا ہے اکثر احباب واقف نہیں کہ میں نے نکاحوں کا پڑھنا چھوڑ دیا ہے.مجھے دو تین واقعات نکاحوں کے متعلق ایسے پیش آئے کہ مجھے گواہوں میں بلائے جانے کا اندیشہ تھا اور ایک میں تو اب تک ہے.میں یہ نہیں کر سکتا کہ جلسہ میں ہیں میں نکاحوں کا اعلان کروں اور پھر اور اوقات میں بھی جو احباب آتے ہیں ان کے نکاح پڑھوں اور پھر روز گواہ ہو کر عدالتوں میں پیش ہوں اس طرح دینی کاموں میں سخت حرج واقع ہو گا.پس میں پھر اعلان کرتا ہوں کہ سوائے ایسے لوگوں کے کسی کا نکاح نہیں پڑھوں گا جن کو میں ذاتی طور پر جانتا ہوں کہ چاہے ان کا کچھ بھی نقصان ہو جائے وہ عدالت میں نہیں جائیں گے اس لئے کہ مجھے عدالت میں نہ جانا پڑے اور لڑکی والے نقصان اٹھانا پسند کریں
خطبات محمود ۱۷ جلد سوم گے مگر عدالت میں نہ جائیں گے اس لئے کہ مجھے عدالت میں نہ جانا پڑے.ایسے لوگوں کے سوا میں کسی کا نکاح نہیں پڑھوں گا.اس وقت رقعے بہت سے آئے ہیں مگر میں نے تین رقعے انتخاب کئے ہیں جن کا میں اعلان کرتا ہوں.پہلا نکاح ایسے شخص کی اولاد کے درمیان ہے جو ان چند خاندانوں میں سے ہیں جن کی کئی نسلوں کو حضرت مسیح موعود کی بیعت کا موقع ملا ہے مجھے ذاتی طور پر اس خاندان کے بڑوں سے تعلق تھا اور وہ ایسا تعلق تھا جو فی اللہ محبت کے بغیر نہیں ہو سکتا.وہ میاں چراغ دین مرحوم لاہور کا خاندان ہے.میاں چراغ دین وہ شخص ہیں جن کا دعوئی سے پہلے ہی حضرت مسیح موعود سے تعلق تھا جب کہ آپ نے اسلام کی تائید میں مضامین لکھنے شروع کئے.یہ الہی بخش اکاؤنٹنٹ کی جماعت کے لوگوں میں سے تھے وہ سب مرتد ہو گئے اور یہ ساتھ رہے.انہوں نے جب مسیح موعود کا دامن پکڑا پھر نہیں چھوڑا.بیعت سے پہلے بھی تائید میں رہے اور دعوئی کے وقت بھی تائید میں رہے.ان کے ایک بیٹے کے لڑکے اور دوسرے بیٹے کی لڑکی کا نکاح ہے.نکاح کے بعد میں اس خاندان کے لئے دعا کروں گا.میاں چراغ دین کی وفات کے بعد کچھ مالی مشکلات اس خاندان کو درپیش ہیں ان کے لئے بھی دعا کی جائے کہ اللہ تعالی ان کو دور کر دے.اس کے بعد حضور نے شریف احمد پسر میاں عبد العزیز صاحب ولد میاں چراغ دین مرحوم کا نکاح رشیدہ بنت میاں عبدالرشید صاحب ولد میاں چراغ دین مرحوم سے ایک ہزار روپیہ مہر پر اعلان فرمایا.نصیر احمد پسر میاں نورالدین صاحب نقشہ نویس راولپنڈی کا نکاح زبیدہ بنت حکیم غلام غوث صاحب امرتسری سے پڑھا.- میاں عبدالرحیم صاحب ڈرا مسمین شملہ کا نکاح محمد اسماعیل صاحب کی بیٹی سردار بیگم سے پڑھا.الفضل -۸- جنوری ۱۹۲۳ء صفحه (۸)
خطبات محمود ۱۷۵ ۵۳ جلد سوم نکاح سے متعلق اسلامی احکام اور ان کے فوائد (فرموده ۳ جولائی ۱۹۲۳ء) ۳۰.جولائی ۱۹۲۳ء کو بعد نماز عصر دولے نکاحوں کا اعلان فرمانے سے قبل حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے حسب ذیل خطبہ نکاح ارشاد فرمایا : خطبہ مسنونہ کی تلاوت کے بعد فرمایا.نکاح کا معاملہ ایسا اہم معاملہ ہے کہ دنیا کے بہت سے کاروبار کی بناء اسی پر ہے اور در حقیقت کسی قوم کی ترقی اور تنزلی کا انحصار اس پر ہے کوئی قوم زندہ نہیں رہ سکتی، کوئی قوم کامیاب نہیں ہو سکتی اور کوئی قوم اپنا مدعا اور مقصد حاصل نہیں کر سکتی جب تک لامتناہی ترقی کرنے والا سلسلہ اولاد پیچھے نہیں چھوڑتی.کیونکہ کوئی انسان خواہ کتنا ہی بڑا ہو جائے اور کتنی ہی ترقی کرے اگر اس کے بعد اس کے کام کو جاری رکھنے والے نہ ہوں تو اس کی تمام کوششیں اور تمام محنت ضائع ہو جاتی ہے اور اس کا ہونا نہ ہوتا برابر ہوتا ہے.اپنی ذات میں کوئی شخص خواہ کتنی ہی ترقی کر جائے اگر اس کے بعد اس کی ترقی کو بڑھانے والا کوئی نہ ہو تو دنیا اور قوم کو اس سے کیا فائدہ پہنچ سکتا ہے.چونکہ آئندہ کام کو جاری رکھنے والی اولاد ہی ہوتی ہے اس لئے تمام ترقیات کی جڑ نکاح ہے کیونکہ اس کے ذریعہ آئندہ نسل چلتی ہے جو پہلوں کی قائم مقام بنتی ہے اور خدا تعالٰی نے اس کے لئے ایسا سلسلہ رکھا ہے کہ مرد و عورت کے ملنے سے پیدا ہو.کبھی ایسا نہیں ہوا کہ صرف مرد سے اولاد پیدا ہوئی ہو اور اگر بغیر مرد کے کسی عورت کے ہاں بچہ پیدا ہوا ہے تو بطور معجزہ اور زجر کے ہوا ہے جیسے حضرت مسیح پیدا ہو گئے اور بھی چند مثالیں ملتی ہیں.
خطبات محمود ہیں.124 جند مگر ان کو قانون نہیں قرار دیا جا سکتا.بعض باتیں استثنائی ہوتی ہیں مگر پھر بھی کثرت سے پائی جاتی مثلاً لکنت ہے یہ استثنائی امر ہے کیونکہ عام لوگوں کی زبان ایسی نہیں ہوتی لیکن پھر بھی لاکھوں انسان ہوں گے جن کی زبان میں لکنت ہوگی.اسی طرح صرف عورت سے بچہ پیدا ہونا استثناء ہے مگر استثناء میں سے بھی استثناء ہے کہ بہت کم مثالیں ملتی ہیں اور مرد کو بچہ پیدا ہونے کی تو کوئی مثال ہی نہیں ملتی پس جبکہ اولاد پیدا نہیں ہو سکتی مرد اور عورت کے ملے بغیر تو معلوم ہوا کہ نکاح پر ہر قوم کی ترقی کا دارو مدار ہے.میں نے کئی دفعہ اس امر کے متعلق سوچا ہے کہ اگر لوگوں کا کوئی معاملہ ایسا ہے جس پر قوم تصرف رکھے تو وہ نکاح ہے.شریعت نے طلاق کے متعلق تو رکھا ہے کہ برادری کے لوگ سمجھا ئیں اور صلح کرانے کی کوشش کریں کیونکہ طلاق کا اثر قوم پر پڑتا ہے.میں نے کئی دفعہ سوچا اور میرے خیال میں آیا ہے کہ نکاح کے معاملہ میں قوم کو بولنے کا حق حاصل ہونا چاہئے کیونکہ ہو سکتا ہے کہ ایک شخص ایسی عورت سے شادی کرلے جس کی وجہ سے قوم تباہ ہو جائے.وہ عورت اولاد کو ایسے رنگ میں اٹھائے کہ جو قوم کی تباہی کا باعث ہو اس لئے قوم کو بولنے اور رائے دینے کا حق ہونا چاہئے اس کے نہ ہونے سے بڑے بڑے نقصان ہوتے ہیں.جیسے مسلمان بادشاہوں نے ایسے لوگوں کے ہاں شادیاں کرلیں جن میں اسلام نہ تھا مگر ان کی عورتیں خوبصورت تھیں اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ان کی اولاد اسلام سے بے نصیب ہو گئی کیونکہ مائیں اسلام سے ناواقف تھیں.عباسی خاندان اسی لئے تباہ ہوا کہ ان بادشاہوں کی اولاد کو اسلام سے اتنا بھی تعلق نہ تھا جتنا یورپ کے دہریوں کو عیسائیت سے ہے.ان کے درباروں میں اسلام پر ہنسی اور تمسخر کیا جاتا تھا اور اگر اس کے خلاف کوئی بولتا تو اسے بد تہذیب اور گستاخ قرار دے کر دربار سے نکال دیا.جاتا.یہ اس بات کا نتیجہ تھا کہ بادشاہوں نے ایسی عورتوں سے شادیاں کیں جو اسلام سے نا واقف تھیں.لیکن اگر یہ رکھا جاتا کہ ان کی شادیوں کے متعلق قوم کو بولنے کا حق ہوتا تو ایسا نہ ہوتا.یورپ میں بادشاہوں کے لئے یہ قانون رکھا گیا ہے اور یہ بہت اچھا قانون ہے.مثلاً انگلستان میں قانون ہے کہ شاہی خاندان یا اس سے تعلق رکھنے والے لڑکوں کو اجازت نہیں کہ وہ خود بخود شادی کرلیں یوں تو یورپ والے کہتے ہیں کہ ایشیائیوں کی تباہی کا بڑا سبب یہی ہے کہ
خطبات محمود 166 جلد موم وہ عورت مرد کو آزادانہ طور پر شادی کرنے کی اجازت نہیں دیتے لیکن شاہی خاندان کے لئے انہوں نے خود یہ پابندی رکھی ہے کہ وہ خود شادی نہیں کر سکتے.اسی طرح شاہی خاندان اور اس سے قرابت رکھنے والے خاندانوں کی لڑکیاں بھی خود شادی نہیں کر سکتیں.پہلے بادشاہ اور کونسل میں سوال پیش ہو گا اگر اجازت ہوگی تب کریں گے.ورنہ خواہ لڑکی کسی پر عاشق ہی ہو یا لڑکا کسی پر عاشق ہو اجازت کے بغیر شادی نہیں کر سکیں گے.اسی طرح بعض دفعہ میاں بیوی کی زندگی تلخ ہو جاتی ہے مگر ایسے فسادات بند ہو جاتے ہیں جو قوم کو تباہ کرنے والے ہوتے ہیں.بعض اوقات ایک شخص کسی عورت سے شادی کرنا چاہتا ہے مگر اس کا اثر قوم پر برا پڑنے کا خطرہ ہوتا ہے تو اسے شادی کرنے سے روک دیا جاتا ہے اور دوسری جگہ اس کی شادی کردی جاتی ہے لیکن جہاں وہ کرنا چاہتا ہو اگر اسی جگہ کرلے تو قومی طور پر جو حقوق اور اعزاز اسے ملے ہوتے ہیں وہ چھین لئے جاتے ہیں اور آئندہ ان حقوق سے محروم کر دیا جاتا ہے.تو یورپ والوں نے شاہی خاندانوں کے لئے یہ قید رکھی ہے.میرے نزدیک ہر شادی میں دیکھنا چاہئے کہ اس شادی کا قوم پر کیا اثر پڑتا ہے.ہماری شریعت نے گو شادی کا معاملہ مرد و عورت کی مرضی پر رکھا ہے مگر اس کے لئے ایسی شرطیں لگا دی ہیں کہ اگر ان کو مد نظر رکھا جائے تو کوئی مضرت نہیں پیدا ہو سکتی مثلا اول یہ کہ مرد و عورت اور ان کے رشتہ دار خدا تعالی کی رضاء اور اس کو خوش کرنے کے لئے شادی کریں اور اپنی کسی نفسانیت کے لئے نہ کریں اور جو ایسا کرے گاوہ قومی فوائد کو بھی مد نظر رکھے گا کیونکہ یہ بھی خدا کی رضاء کے حصول کے لئے ضروری ہے.خطبہ نکاح میں جو آیات پڑھی جاتی ہیں ان میں ہدایت کی گئی ہے کہ شادی کرتے وقت تم کو چاہئے کہ خدا کا خوف اور قرابت والوں کا لحاظ مد نظر رکھو.جب بیوی آئے گی میاں کے رشتہ داروں سے بھی اس کے تعلقات ہوں گے.اور میاں کے بیوی کے رشتہ داروں سے تعلقات ہوں گے لیکن اگر شادی ایسی ہوگی کہ اس کی وجہ سے رشتہ داروں کے تعلقات خراب ہو جائیں تو اس کے ذریعہ قوم میں ترقی کہاں ہوگی پس شادی کرتے وقت یہ دیکھنا ضروری ہے کہ عورت کے لانے سے اس کے رشتہ داروں اور اپنے رشتہ داروں سے کیسے تعلقات ہوتے ہیں.یہی بات لڑکی بھی دیکھے اور لڑکی بیاہنے والے بھی دیکھیں بعض اوقات لڑکا لڑکی کے خاندان سے دشمنی رکھتا ہے لیکن لڑکی خوبصورت ہوتی ہے اس لئے شادی پر آمادہ ہو جاتا ہے.اگر اس کے ساتھ لڑکی کی شادی کی جائے گی تو لڑکی کو اپنے
IZA جلد سوم خاندان سے جدا ہونا پڑے گا اور کئی قسم کی قباحتیں پیدا ہوں گی.اسی طرح یہ ہدایت کی گئی ہے کہ استوار قول سے شادی کا معاملہ طے ہو.دھوکا، فریب یا کوئی اور ناجائز خیال نہ ہو.جب اس طرح شادی ہوگی تو کوئی فساد نہ ہو گا.فساد کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ بعض لوگ اس لئے لڑکی لے لیتے ہیں کہ اس کے خاندان کو دکھ دیں اور لڑکی کو بیاہ کر خراب کریں مگر قرآن کریم کہتا ہے.قُولُوا قَوْلاً سَدِيدًا - لے اس پر عمل کرنے والا کبھی ایسی بات نہیں کرے گا.یا بعض دفعہ جھوٹے وعدے کئے جاتے ہیں مثلاً لڑکے والے کہہ دیتے ہیں اتنا زیور اور اتنے کپڑے دیں گے حالانکہ جب لاتے ہیں تو دوسروں کے مانگ کر لاتے ہیں اسی طرح لڑکی والے کہتے ہیں اتنا جہیز دیں گے اور یہ اس لئے کہتے ہیں کہ لڑکی اچھی جگہ لگ جائے مگر جب وقت آتا ہے تو اپنے وعدہ کو پورا نہیں کرتے اس سے فساد شروع ہو جاتے ہیں.نگر اسلام کہتا ہے جو بات کہو پکی اور بچی کہو.اس طرح اس قسم کے دھوکوں سے روک دیا.یا لڑکے والے کہتے ہیں لڑکا لائق ہے مگر وہ لائق نہیں ہوتا.یا لڑکی والے کہتے ہیں لڑکی خوبصورت اور سلیقہ شعار ہے حالانکہ نہیں ہوتی اس قسم کی باتوں سے بھی روک دیا.غرض اس حکم کے ماتحت فساد کی ساری وجوہات دور ہو جاتی ہے.پھر فساد اس وجہ سے ہوتا ہے کہ آئندہ کے متعلق غور نہیں کیا جاتا.مرد یہ دیکھتا ہے کہ عورت خوبصورت ہو آگے خواہ کچھ ہو اس کی پرواہ نہیں کرتا.مگر خدا تعالیٰ فرماتا ہے.وَلْتَنْظُرْ نَفْسٌ مَا قَدَّمَتْ لِغَدٍ - سے شادی کرتے وقت آئندہ کے نتیجہ کو سوچ لو اس حکم کو مد نظر رکھنے والے کبھی عورت کے صرف حسن و جمال کی وجہ سے شادی نہیں کرے گا کیونکہ وہ مجھے گا کہ یہ عارضی ہے اور ہمیشہ رہنے اور کام آنے والی چیز تقویٰ اور پر ہیز گاری ہے اس لئے اس کو مد نظر رکھنا ضروری ہے.غرض ان آیات میں جتنے احکام شریعت نے دیئے ہیں وہ ایسے ہیں کہ ان پر عمل کرنے سے فساد پیدا نہیں ہو سکتا.اسی طرح ان آیات میں ان رسوم سے بھی روک دیا گیا ہے جو شادی کے موقع پر کی جاتی ہے.مثلا لوگ قرض لے کر اسراف کرتے ہیں اور اس طرح تباہ ہو جاتے ہیں.خدا تعالی فرماتا ہے.وَلْتَنْظُرْ نَفْسٌ مَا قَدَّمَتْ لِغَدٍ - آج تم روپیہ خرچ کر رہے ہو تم یہ دیکھو کہ کل اس کا کیا اثر ہو گا.اس بات کو مد نظر رکھنے والا کبھی سودی روپیہ لے کر شادی پر نہیں لگائے گا کیونکہ قرآن کریم کہتا ہے یہ نہ دیکھو آج تمہارے ہاں شادی ہے بلکہ یہ دیکھو کہ کل پرسوں کیا ہو گا.
خطبات محمود 169 جلد موم کیا آج تم خوشی کر رہے ہو کل ماتم تو نہ کرو گے آج اگر سودی روپیہ لے کر کوئی خوشی مناتا ہے تو کل یقینا اسے ماتم کرنا پڑے گا جب کہ سب کچھ قرض خواہ کی نظر ہو جائے گا.اور پھر بھی اس کا قرضہ ادا نہ ہوگا.ہماری جماعت میں نکاح ہوتے ہیں جن میں بظاہر خوشی معلوم نہیں ہوتی.مثلاً آج ہی دیکھ لو یہاں نہ لڑکے والے ہیں نہ لڑکی والے دونوں کی طرف سے اجازت آگئی ہے اور یہاں نکاح پڑھا جا رہا ہے.ہمارے ملک کے لحاظ سے تو گویا یہ شادی نہیں مگروہ جو خدا کے لئے دنیا داری کی باتوں کو چھوڑتے ہیں ان کے لئے ایسے نکاح ہمیشہ کے لئے شادی ہو جاتے ہیں اور وہ جو قرض لیتا اور باجے بجوا تا آتش بازی چھڑاتا اور دعوتیں کرتا ہے اسے شادی کے دن خوشی ہو تو ہو مگر شادی کے ایک ماہ بعد جب بنیا آکر مانگتا ہے تو اس کی کیا حالت ہوتی ہے.قرض بڑھتا جاتا ہے زمین اور مکان قرق ہو جاتے ہیں تو قرض لے کر شادی پر خرچ کرنے والا خوشی کے شادیانے نہیں بھجواتا بلکہ ماتم اور بربادی کا اعلان کر رہا ہوتا ہے.لیکن اسلامی احکام پر عمل کرنے سے انسان ان سب خرابیوں سے بچ سکتا ہے.حضرت خلیفہ اول فرماتے تھے کہ ایک دفعہ ایک شخص میرے پاس آیا اور کہنے لگا.لڑکی کی شادی ہے کچھ مدد دیجئے.فرماتے تھے مجھے تعجب ہوا کہ اسلامی نکاح کے لئے خرچ کی کون سی ضرورت ہے جتنا خرچ کر کے یہ شخص یہاں آیا ہے اس میں نکاح ہو سکتا تھا.میں نے کہا جتنی رقم رسول کریم ﷺ نے فاطمہ کے نکاح پر خرچ کی تھی اتنی میں آپ کو دے دیتا ہوں.اس پر کچھ دیر چپ رہنے کے بعد کہنے لگا کیا آپ میری ناک کاٹنا چاہتے ہیں؟ مولوی صاحب نے فرمایا رسول کریم کی ناک نہ کئی تو تمہاری کیونکرکٹ جائے گی.در حقیقت اس طرح ناک نہیں کٹتی ہاں جو سوال کر کے خرچ کرتا یا قرض لے کر شادی کرتا ہے اس کی ناک خود کٹ جاتی ہے.کیونکہ رسول کریم ﷺ نے سوال کرنے سے منع فرمایا ہے کہ اور قرض سے انسان پر تباہی اور بربادی آتی ہے.شادی کے دن تو لوگ جمع ہو کر دعوت کھالیں گے لیکن جب بنیا مانگے گا تو نہ صرف کوئی مدد نہ کریں گے بلکہ الٹا کہیں گے اس نے کیوں ایسی بیوقوفی کی تھی.اگر وہ شادی کی پر کچھ نہ کرتا تو اس وقت خواہ کچھ کہہ لیتے لیکن اگر جائداد تباہ نہ ہوتی تو سب لوگ بعد میں اس کی تعریف کرنے لگ جاتے کیونکہ اس کے پاس روپیہ ہوتا.تو اسلامی احکام کی خلاف ورزی سے لوگ تباہ ہوتے ہیں.حالانکہ رسول کریم ﷺ نے
خطبات محمود ۱۸۰ جلد نوم اس موقع کے لئے وہ کلمات منتخب فرما دیئے ہیں کہ ان کو مد نظر رکھنے سے کوئی دکھ نہیں ہو سکتا.دیکھو ہماری جماعت کے لوگ ان احکام کی پابندی کرتے ہیں تو کیسے آرام میں رہتے ہیں.پہلے کئی روپے ملا کو دیتے تھے اب تو میں یا کوئی اور مولوی صاحب کھڑے ہو کر نکاح پڑھ دیتے ہیں.حاضرین میں کچھ چھوہارے تقسیم کئے جاتے ہیں لیکن اگر کوئی یہ بھی نہیں لا سکتا تو نہ لائے.اگر اپنے پاس کچھ نہ ہونے کی صورت میں چوٹی یا روٹی کے بھی چھوہارے لاتا ہے تو وہ مشرف ہے چونکہ اس طرح یہاں نکاح ہوتے ہیں اس لئے ان کے منہ سے قرض سے دب کر یہ کبھی نہیں نکلتا کہ کس بے وقت میں شادی کی تھی.یہ اسلام کے احکام پر عمل کرنے سے آرام حاصل ہوا ہے.خدا کے رسول محمد پر ہزار ہزار درود ہوں کہ لوگ ہمیں ان کی وجہ سے قید میں سمجھتے ہیں.مگر ہم ان کی غلامی میں بھی آزادی ہیں کیونکہ قید میں وہ ہوتا ہے جو رسم و رواج میں جکڑا ہوا ہو.اور جسے آئندہ کی فکر نہ ہو.الفضل ۱۷ - جولائی ۱۹۲۳ء صفحه ۵ تا ۷ ) فریقین کا الفضل سے تعین نہیں ہو سکا.ه الاحزاب : اے ه الحشر : 19 که مسلم كتاب الزكوة باب بيان ان اليد العليا خير من اليد السفلى
خطبات محمود JAI ۵۴ جلد سوم پاک اغراض اور نیک مقاصد کو مد نظر رکھ کر نکاح کرنا چاہئے (فرموده ۹ جولائی ۱۹۲۳ء) ۹.جولائی ۱۹۲۳ء ایک نکاح لہ کے خطبہ میں حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے حسب ذیل تقریر فرمائی خطبہ مسنونہ کی تلاوت کے بعد فرمایا.انسانی کوشش تمام تر اس بات پر ہوتی ہے کہ وہ کامیاب ہو جائے.دنیا میں ادنیٰ سے ادنی اور جاہل سے جاہل انسان کو بھی ہم جب دیکھتے ہیں تو وہ دن رات اس کوشش میں نظر آتا ہے.کہ میں اپنے مقصد اور مدعا میں کامیاب ہو جاؤں.بعض دفعہ اس کا مقصد نہایت ادنی اور رزیل ہوتا ہے لیکن چونکہ اس کا مقصد ہوتا ہے اس لئے اس کی کوشش یہی ہوتی ہے کہ اس میں کامیاب ہو جاؤں.بہت لوگ ایسے کاموں میں مشغول ہوتے ہیں جو ان کی بھلائی کا موجب نہیں ہوتے بلکہ دکھ کا باعث ہوتے ہیں، ان کی عزت کا باعث نہیں ہوتے بلکہ ان کی رسوائی کا موجب ہوتے ہیں، ان کی ترقی کا ذریعہ نہیں ہوتے بلکہ ان کو تحت الشرعلی میں گراتے ہیں اور کوئی عقلمند اور دانا ان کو ان کے نقصان سمجھاتا اور باز رکھنے کی کوشش کرتا ہے مگر بارہا دیکھا گیا ہے کہ وہ شخص جو کسی ادنیٰ مقصد کو اختیار کئے ہوتا ہے سمجھانے والے کی باتوں سے متاثر بھی ہوتا ہے اور کہتا ہے جو آپ نے کہا میرے سر آنکھوں پر مگر میں اس کو چھوڑ نہیں سکتا یہ میرا مقصد اور مدعا ہے اس کو پورا کر لینے دیں پھر احتیاط کروں گا.ایسا شخص اپنے نفس کو خوش کرنے یا دھوکا دینے کے لئے کئی قسم کے بہانے تلاش کرتا ہے.کبھی کہتا ہے اس کام کو اگر میں نے چھوڑ دیا تو لوگ کیا کہیں گے.میں نے اس کے لئے اپنا وقت صرف کیا، روپیہ خرچ کیا میں اسے
خطبات محمود IAF.جلد سوم یونہی چھوڑ دوں.غرض کئی قسم کے بہانے بناتا ہے اور یہ ظاہر کرتا ہے کہ میں اسے چھوڑنے کے لئے تو تیار ہوں مگر میرے لئے مجبوریاں ہیں.حالانکہ وہ مجبوریاں نہیں ہوتیں.کیا اگر کوئی غلطی سے زہر خرید لائے تو اس کو اس کے لئے کھالے گا کہ اس پر اس کے روپے خرچ ہوئے ہیں؟ ہرگز نہیں بلکہ اسے جو بتائے گا کہ یہ زہر ہے مت کھانا اس کا شکریہ ادا کرے گا اور اسے روپیہ بطور انعام دے گا.اصل بات یہ ہے کہ انسان جس امر کو اپنا مقصد قرار دے لیتا ہے پھر اس کو چھوڑتا نہیں یہی وجہ ہے کہ اسلام نے مقاصد پر زور دیا ہے یہ نہیں کہا کہ یہ نہ کرو اور یہ کرو بلکہ یہ کہا ہے کہ یہ مقصد رکھو اور یہ نہ رکھو.کیونکہ جو کچھ کوئی انسان کرتا ہے مقصد کے ماتحت ہی کرتا ہے دیکھو چوری، فریب، دھوکا، ظلم وغیرہ بذات خود کچھ نہیں بلکہ یہ نتیجہ ہوتے ہیں اس مقصد کا جو انسان کے قلب میں پیدا ہوتا ہے.جس طرح روشنی کوئی چیز نہیں بلکہ یہ نام ہے گیس کے خاص طور پر جلنے کا، جس طرح بخار کچھ نہیں بلکہ یہ نام ہے حرارت کے تیز ہو جانے کا اسی طرح عمل بھی کوئی چیز نہیں بلکہ یہ نتیجہ ہوتا ہے قلب میں پیدا ہونے والے ارادہ کا.یہی وجہ ہے کہ ایک شخص اگر کسی کو مارتا ہے تو اسے ظالم کہا جاتا ہے.لیکن اگر ایک ایسا شخص جس کی نیت مارنے کی نہیں ہوتی اس سے اگر کسی کو صدمہ پہنچ جاتا ہے تو اسے ظالم نہیں کہا جاتا.بعض دفعہ غلطی سے ہڈی بھی ٹوٹ جاتی ہے مگر اسے کوئی ملامت نہیں کرتا اور دوسرا اگر معمولی ٹھوکر سے بھی مارے تو اسے ملامت کی جاتی ہے.بات یہ ہے کہ فعل کے نتیجہ کو نہیں دیکھا جاتا بلکہ نیت دیکھی جاتی ہے.اس لئے رسول کریم ﷺ نے فرمایا ہے.الأَعْمَالُ بِالنِّيَّاتِ لے کہ جیسی انسان کی نیت ہوتی ہے ویسی ہی کام کی حقیقت ہوتی ہے.لوگوں نے اس بات پر بحث کی ہے کہ اگر وضو کی نیت سے وضو نہ کیا تو وضو ہو جائے گا یا نہیں.مگر رسول کریم ﷺ کے ارشاد کا یہ مطلب نہیں کہ اگر کوئی نیت کر کے وضو نہ کرے گا تو اس کے ہاتھ منہ صاف ہی نہ ہوں گے اور جس فعل کی نیت نہ کی جائے اس کا کوئی نتیجہ ہی نہیں نکلے گا.نتیجہ تو نکلے گا لیکن آگے نیت کے مطابق اس کا بدلہ ملے گا.پس نیتوں اور ارادوں کے ساتھ اعمال کا ثواب و عذاب ملتا ہے اور ان ہی کے ماتحت قدر ہوتی ہے یا بے قدری کی جاتی ہے.دنیا میں بہت سے لوگ شادیاں کرتے ہیں مگر ان کی نیت یہ نہیں ہوتی کہ خدمت دین کے لئے شادی کریں مگر اتفاقاً ایسا ہو جاتا ہے کہ بیوی نیک اور دیندار مل جاتی ہے یا میاں نیک اور
١٨٣ جلد سوم متقی ہو.ہوتا ہے اس سے ان کو فائدہ ہو گا مگر اس لئے ثواب نہ ہو گا کہ دین کی خدمت کے لئے انہوں نے شادی کی.برخلاف اس کے ایک شخص اس نیت سے شادی کی کوشش کرتا ہے مگر بیوی خراب مل جاتی ہے تو اس کو ثواب ہو گا.پہلی صورت میں گو خاوند اچھا ہو یا بیوی اچھی ہو اور ان کو دین کی خدمت کا موقع مل جائے لیکن ان کا نکاح کرنا اچھا فعل نہ قرار دیا جائے گا.کیونکہ ان کی نیت نکاح سے خدمت دین کرنا نہ تھی اور دوسری صورت میں چونکہ نیت اچھی تھی گوائے کسی وجہ سے دھو کا لگ گیا تو ثواب کا مستحق ہوگا.الْاَعْمَالُ بِالنِّيَّاتِ.اس کی نیت نیک تھی تو اعمال کے نتائج نیت کے ماتحت ہوتے ہیں اور بہت سی نیتیں ایسی ہوتی ہیں کہ ان کے نیک نتائج نکل آتے ہیں.کیونکہ نیت کا بہت بڑا اثر ہوتا ہے.میں نے مسمریزم کے متعلق کتابیں پڑھی ہیں اور خود عمل کر کے بھی دیکھا ہے تعجب ہوتا ہے کہ اچھا بھلا آدمی یہ کہنے سے کہ سو گیا کس طرح سو جاتا ہے.مگر سوتا اسی وقت ہے جبکہ عامل پختہ نیت کرے کہ معمول سو گیا اور یہ نیت کر کے جب اس پر توجہ ڈالتے ہیں تو وہ بھی وہی کچھ سوچنے لگ جاتا ہے جو عامل سوچتا ہے.پس بعض باتیں ایسی مضبوط ہیں کہ جس طرح چلنا چاہتی ہیں اسی طرح کرالیتی ہیں اگر شادی کرنے والا یہ نیت کرلے کہ نیک بیوی کرنی ہے تو اگر بد بیوی بھی ہو گی تو نیک ہو جائے گی یا بد خاوند ہو گا تو نیک ہو جائے گا.اور اگر ان میں تغیر بھی نہ ہوگا تو شادی کرنے کے فعل سے ان کو ثواب ضرور ہو گا.پھر جس طرح باطن کا اثر ظاہر پر ہوتا ہے اسی طرح اگر باطن کی اصلاح کرلی جائے یعنی نیت نیک اور درست کر لی جائے تو ظاہر بھی درست ہو جاتا ہے.کئی لوگ ایسے ہوتے ہیں جو باطل خیال پر ہوتے ہیں لیکن جب وہ اپنے خیال کی اصلاح کر لیتے ہیں تو ظاہر میں بھی نیک ہو جاتے ہیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام سناتے تھے کہ ایک شخص نے خیال کیا کہ ایسا طریق اختیار کروں گا کہ لوگ مجھے بڑا متقی اور پرہیز گار سمجھیں اس نیت سے اس نے عبادت کرنی شروع کی لیکن جب باہر نکلے تو لوگ یہی کہیں کہ بڑا مکار ہے.اسی طرح جب کچھ عرصہ رہا اور اسے کامیابی نہ ہوئی تو اس نے کہا آؤ اپنا خیال ہی درست کرلوں اور خدا کے لئے عبادت کروں.ادھر اس نے یہ نیت کی ادھر ایسے سامان ہو گئے کہ جن سے اس کی یہ نیت مستقل ہو جائے اب اس میں سادگی اور نورانیت آگئی ہوگی جب وہ باہر نکلا تو بچے بھی کہنے لگے کہ یہ بڑا بزرگ اور پر ہیز گار ہے.اسی طرح حضرت خلیفہ اول سناتے.ایک شخص کی اس طرح اصلاح ہوئی کہ اس کا ایک
خطبات محمود.جلد سوم دوست تھا اس کو ساتھ لے کر وہ پیر بن گیا.جہاں جائے اس کا ساتھی اس کی کرامتیں سنانے لگے اور لوگ نذریں لائیں.ایک دن شام کو دن کی آمدنی دیکھ کر اپنے اس پاکھنڈ پر ہنس رہے تھے اس وقت اسے خیال آیا خدا سے جھوٹا تعلق بنانے پر اس قدر فائدہ ہو رہا ہے اگر سچا تعلق ہو تو کس قدر ہو گا.یہ خیال آتے ہی اس کی حالت بدل گئی اور اس کی اصلاح ہو گئی تو بعض دفعہ انسان بناوٹی طور پر نیک نیت بناتا ہے مگر اس کی اصلاح ہو جاتی ہے.شریعت اسلامیہ نے نکاح جو رکھا ہے اس میں بھی یہی حکم دیا ہے کہ نیت نیک کرو.اس کے لئے اگر کوئی بناوٹی طور پر بھی نیک نیت کرلے تو وہ حقیقت کا رنگ اختیار کرلے گی.ہماری شریعت نے یہ حکم دیا ہے کہ نکاح کرتے وقت تقویٰ مد نظر رکھو.رسول کریم ال نے فرمایا.کوئی حسن کے لئے شادی کرتا ہے.کوئی مال کے لئے کوئی ذات کے لئے مگر اے مومن تو دیندار عورت تلاش کر کے اب دیکھو یہ ضروری نہیں کہ جو د پندار ہو وہ حسین نہ ہو یا مالدار نہ ہو یا اعلیٰ خاندان کی نہ ہو.ہو سکتا ہے ایک عورت دینداز بھی ہو اور مالدار بھی یا دیندار بھی ہو اور حسین بھی ہو یا دیندار ہو اور اعلی ذات والی بھی ہو.اور یہ سب باتیں بھی ایک جگہ جمع ہو سکتی ہیں.اگر شادی کرنے والا تقومی کی نیت کرلے تو اس کی وہ غرض بھی پوری ہو جائے گی جو چاہتا ہے اور نیت کا ثواب بھی مل جائے گا.مثلاً کوئی کے شہوانی قوت کے لئے شادی کرنا چاہتا ہوں لیکن اگر وہ یہ نیت کرلے کہ دیندار بیوی کروں گا تو بھی اس کی شہوانی قوت پوری ہو سکے گی.شریعت نے ایسے شخص کو جو نکاح نہ کرے بقال قرار دیا ہے.اگر شریعت میں نکاح کا حکم نہ ہوتا تو کہا جاتا کہ شہوانی ضرورت کے پورے ہونے کا کوئی سامان نہیں کیا گیا لیکن جب شریعت نے نکاح ضروری قرار دیا ہے.تو پھر نیت کی اصلاح میں کیا حرج ہو سکتا ہے.اسی طرح بعض لوگ کہتے ہیں گھر کی حفاظت یا کھانا پکانے اور بچوں کی پرورش کے لئے شادی کرنا چاہتا ہوں.لیکن اگر وہ دین کی نیت کرلے تو کیا اس کی بیوی مال کی حفاظت نہ کرے گی کھانا نہ پکائے گی بچوں کی پرورش نہ کرے گی.نیت نیک کر لینا تو دراصل مفت کرم داشتن والی بات ہے اور مفت میں خدا کے فضل کا جاذب بننا اور ثواب کا مستحق ہوتا ہے کیونکہ اس نیت سے کی ہوئی شادی شہوانی قوئی بھی پورے کرے گی مال کی حفاظت بھی ہوگی بچوں کی پرورش بھی ہوگی.غرض جو کچھ بیوی کرتی ہے وہ بھی کرے گی مگر زائد یہ ہوگا کہ ثواب حاصل ہو جائے گا اور جو نیت کرلے گا خدا اس کی نیت کو بھی پورا کر دے گا اور اس مقصد کے پورا ہونے میں برکت
خطبات محمود دے گا.۱۸۵ جلد سوم پس ہماری جماعت کے لوگوں کو نکاح کرتے وقت یہ بات یاد رکھنی چاہئے اور اپنی نیت کو نیک بنانا چاہئے تاکہ اس کے نیک نتائج مرتب ہوں.الفضل ۲۴ جولائی ۱۹۲۳ء صفحہ ۶۷۵) ے فریقین کا تعین نہیں ہو سکا.بخاری کتاب الايمان باب كيف كان بدء الوحي الى رسول الله بخاری کتاب النکاح باب الاكفاء في الدين
جلد سوم TAY ۵۵ نکاح کی سب سے بڑی غرض تقوی اللہ ہے (فرموده ۱۵ مئی ۱۹۲۴ء) حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب کی صاحبزادی امتہ السلام صاحبہ کا نکاح مرزا ر شید احمد صاحب خلف الرشید جناب خان بهادر مرزا سلطان احمد صاحب سے پانچ ہزار روپیہ صریر ہوا.۱۵.مئی ۱۹۲۴ء کو حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے ایک مجمع کثیر میں مسجد اقصیٰ میں اس نکاح کا اعلان فرمایا : خطبہ مسنونہ کی تلاوت کے بعد فرمایا.خطبہ نکاح جیسا کہ میں نے بارہا بیان کیا ہے اسلامی اصول کے ماتحت ان فرائض کے بیان کرنے اور ان ذمہ داریوں کے اظہار کا نام ہے جو نکاح کے بعد میاں بیوی اور رشتہ داروں پر عائد ہوتی ہیں اور ان اصولوں کی طرف توجہ دلانے کے لئے جن کو مد نظر رکھنا میاں بیوی اور دیگر رشتہ داروں کے لئے ضروری ہے خطبہ نکاح رکھا گیا ہے.مگر بد قسمتی سے جہاں اور کئی باتیں مسلمانوں نے اسلام کی بگاڑ دی ہیں وہاں اس کو بھی بگاڑ دیا ہے.آج کل خطبہ نکاح کی ایک مقررہ عبارت ہے جو پڑھ دی جاتی ہے اور مقرر الفاظ ہیں جن میں ایجاب و قبول کرایا جاتا ہے مگر یہ خطبہ نکاح نہیں کیونکہ اگر اسی کا نام خطبہ نکاح ہو تا کہ مقررہ الفاظ دہرائے جائیں تو حضرت عمر یہ نہ کہتے کہ جب میں خطبہ نکاح کے لئے کھڑا ہوتا ہوں تو گھبرا جاتا ہوں کہ کیا بیان کروں.کیا حضرت عمر مقررہ الفاظ کو بھی یاد سے نہ سنا سکتے تھے.بات یہ ہے کہ نکاح کے موقع کے لئے جو آیات رکھی گئی ہیں ان میں وہ گر ہیں جو نکاح سے تعلق رکھتے ہیں.ان کا بیان کرنا
خطبات محمود JAZ جلد سوم ضروری ہوتا ہے کیونکہ ہر ایک شخص ان ذمہ داریوں اور فرائض کو نہیں سمجھ سکتا جو نکاح کے بعد اسلام کی طرف سے اس پر عائد ہوتے ہیں چونکہ عام طور پر لوگ ان سے بالکل ناواقف ہوتے ہیں اس لئے آگاہ کیا جاتا ہے.نکاح کی سب سے بڑی غرض تقوی اللہ ہونی چاہئے.اسلام کا فخر اور حقیقت یہی ہے کہ تمام امور کو خدا تعالی کی طرف پھیر کر لاتا ہے.چھوٹی سے چھوٹی بات ہو یا بڑی سے بڑی ہم دیکھتے ہیں کہ اسلام اسے بھی آخر کار خدا کی طرف لے آتا ہے جیسے کھانے کے وقت حکم دیتا ہے کہ بسم اللہ پڑھو، ختم کرنے کے وقت بتاتا ہے کہ الحمد لله کہو، یعنی خدا تعالٰی کو یاد کرتے ہوئے شروع کرو اور یاد ہی کرتے ہوئے ختم کرو.اسی طرح کپڑے پہنے چلنے پھرنے کے لئے علیحدہ دعائیں ہیں حتی کہ سونے کے وقت کی بھی دعا ہے اس وقت بھی یہی کہا جاتا ہے کہ خدا کو یاد کر کے سود شاید رات کو جان نکل جائے.غرض ہر وقت ہر گھڑی اور ہر موقع پر اسلام نے خدا تعالی کی طرف توجہ دلائی اور ہر بات میں خدا کا ذکر رکھا ہے.اگر کسی حالت میں تغیر ہوتا ہے تو بھی خدا کو یاد کرنے کا حکم ہے.اگر دن کو زوال ہوتا ہے تو بھی خدا کو یاد کرنے کا حکم ہے.اگر روشنی نمودار ہو تو بھی خدا کو یاد کرنے کا حکم ہے.غرض ہر فعل میں ہم کو اس طرف توجہ دلائی گئی ہے کہ خدا تعالی کو مد نظر رکھو.اسی طرح نکاح میں بھی نبی کریم ﷺ نے ہماری توجہ کو خدا تعالی کی طرف پھیرا ہے کہ نکاح میں تقویٰ اللہ مد نظر رکھو.نکاح میں کئی غرضیں ہوتی ہیں.مگر مسلم کی صرف ایک ہی غرض ہوتی ہے کہ خدا تعالی کا تقویٰ حاصل ہو.شادیاں کا فر بھی کرتے ہیں.مومن بھی کرتے ہیں.دونوں کی اولادیں ہوتی ہیں لیکن پھر بھی ان دونوں میں بڑا فرق ہوتا ہے.مومن کی زندگی صرف خدا کے لئے ہوتی ہے لیکن کافر کی اپنے نفس کے لئے.پھر نہ صرف نکاح کے وقت ہی تقویٰ اللہ کو مد نظر رکھنے کا حکم ہے بلکہ خاص وقت میں بھی نبی کریم ﷺ نے فرمایا ہے کہ مسلم کو دعا مانگنی چاہئے.دیکھو اس وقت بھی کہا گیا ہے کہ تم اپنے جوشوں میں بھی خدا کو مت بھولو اور دعا کر لو کہ اے خدا ہم کو اور ہماری اولاد کو شیطان سے بچا.غرض اسلام کی غرض وحید تقویٰ اللہ ہے اور مومن کو نکاح میں بھی یہی غرض مد نظر ہونی چاہئے.دنیا میں کئی قسم کی شادیاں ہوتی ہیں.کوئی جمال کے لئے کرتا ہے، کوئی مال کے لئے، کوئی حسب نسب کے لئے لیکن رسول کریم ﷺ فرماتے ہیں.عليْكَ بِذَاتِ الدِّينِ تَرِبَتْ يداك - له اے شاگرد
خطبات محمود IMA جلد سوم یا اے مرید تجھے میں ہدایت دیتا ہوں کہ تو دین والی عورت تلاش کر.اسے چھوڑ کر اور خوبیوں کی طرف دھیان مت کر.اس کا یہی مطلب ہے کہ تقویٰ کو ملحوظ رکھنا چاہئے.دنیا کی جو چیزیں لوگ طلب کرتے ہیں وہ تمام مٹ جاتی ہیں صرف ایک ہی ہے جو باقی رہتی ہے اور وہ تقویٰ اللہ ہے.حضرت یوسف علیہ السلام کی خوبصورتی کے قصے لوگوں میں مشہور ہیں.بڑی بڑی کتابیں لکھی گئی ہیں مگر وہ اپنے بھائیوں کی نظر میں خوبصورت نہ تھے.دنیا میں لوگ بڑے بڑے مالدار گزرے ہیں مگر اب کوئی ان کا احترام نہیں کرتا دیکھئے سکند رو نپولین کو باوجودیکہ لوگ اتنا بڑا بناتے ہیں.ان کے کارنامے سنتے سناتے ہیں مگر بازار میں کھڑا ہو کر کوئی شخص اعلانیہ ان کو گالیاں دے تو کوئی غصہ نہیں ہو گا.لیکن اگر کوئی حضرت ابو ہریرہ کو جنہیں پیٹ بھر کر کھانا بھی نہیں ملتا تھا برا بھلا کے تو مسلمان مرنے مارنے کے لئے تیار ہو جائیں گے.وہ ایک معمولی صحابی تھے جنہیں رسول کریم ﷺ کی احادیث و روایات بیان کرنے سے عزت ملی.اگر وہ رسول کریم ﷺ کے صحابی نہ ہوتے تو تاریخ کے لحاظ سے کوئی ان کا نام بھی یاد نہ رکھتا.انہیں نبی کریم ﷺ کی باتیں بیان کرنے سے یہ عظمت وشان حاصل ہوئی.پھر حضرت ابو بکر کو کس وجہ سے یہ شان حاصل ہوئی ہے کہ جب کوئی برے الفاظ سے یاد کرے تو ایک مسلم کا خون جوش میں آجاتا ہے.شیعہ سینوں کی لڑائیاں ہوتی رہتی ہیں حتی کہ لکھنو میں کثرت سے فسادات و لڑائیاں ہونے کی وجہ سے قانون بنایا گیا ہے." پھر حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اتنی مدت گزر گئی مگر آج بھی لاکھوں انسان ہیں جو اللهُم صَلَّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَ عَلَى الِ مُحَمَّدٍ كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى إِلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ.سے کہتے ہیں.حضرت نوح علیہ السلام کو اس سے بھی زیادہ مدت گزر گئی مگر جب کبھی کوئی مسلم یاد کرتا ہے تو پہلے حضرت لگاتا ہے پھر دعا کرتا ہے پھر حضرت آدم کے متعلق کہتے ہیں کہ چھ ہزار سال گزر گئے ہمارے آدم کو تو ضرور گزرے مگر نسل انسانی کے آدم کو شاید لاکھوں یا کروڑوں گزرے ہوں ان کو جب یاد کیا جاتا ہے تو تعظیم سے یاد کیا جاتا ہے.ان کے مقابلہ میں بڑے بڑے بادشاہوں کو کوئی اس طرح یاد نہیں کرتا.مصر و شام و ہندوستان وغیرہ ممالک میں ہزاروں بڑے بڑے بادشاہ گزرے ہیں مگر آج انہیں کوئی یاد کرنے والا نہیں.قادیان کو ہی دیکھ لو دنیا منتظر تھی کہ مہدی موعود عرب میں ہو گا اور سادات کے گھرانے سے ہو گا مگر ہندوستان کے کونے میں ایک بستی کو یہ شرف حاصل ہوا دیکھ لو اس مجلس میں آج
خطبات محمود ۱۸۹ جلد موم بڑے بڑے اعلیٰ خاندان کے سید بیٹھے ہیں جن کی غلامی کا دوسرے لوگ فخر کرتے تھے مگر وہ اپنے لئے مسیح موعود کی غلامی کا فخر کر رہے ہیں وہ لوگ جو بڑے بڑے رئیس تھے کسی کی طاقت نہ تھی کہ ان کے برابر بیٹھ سکے.اس سلسلہ میں داخل ہو کر ایک گوشہ میں بیٹھنے والے شخص کی غلامی کا اقرار کر رہے ہیں.یہ صرف خدا تعالیٰ سے تعلق کی وجہ سے ہے.اگر تقویٰ اللہ سے تعلق نہ ہوتا تو میں کہتا ہوں کہ وہ کون سی خصوصیت تھی دنیا کی کہ جس سے ہم دنیا کے بڑے بڑے لوگوں کو جھکا سکتے تھے.ایک ہندو نے سنایا جو قادیان کا تھا کہ مرزا صاحب بہت بزرگ تھے.ان کی بزرگی میں کیا شک ہے.ہم لوگ جب باہر جائیں اور لوگوں کو پتہ لگے کہ قادیان کے ہیں تو وہ اپنے گھر لے جاتے ہیں اور بڑی خاطر اور بڑا ادب کرتے ہیں.اس لئے کہ ہم قادیان کے رہنے والے ہیں تو نہ صرف حضرت صاحب کو بلکہ گاؤں کو یہ عزت حاصل ہوئی کہ بیرونی لوگ اس میں رہنے والے غیر مذاہب کے لوگوں کا ادب کرتے ہیں.یہ محض تقویٰ ہے اور تعلق باللہ کا نتیجہ ہے کہ جس کے بعد کوئی رسوائی نہیں رہ جاتی اسی تقویٰ اللہ کو اسلام نے نکاح میں مد نظر ر کھوایا ہے.میرا دل کانپ جاتا ہے جب خیال آتا ہے کہ قریب قریب کے زمانے میں دو شادیاں ہوئیں.ایک عبداللہ کی شادی ہوئی اور ایک ابو جہل کے باپ کی.زیادہ خوشیاں ابو جہل کے باپ کی شادی پر کی گئی ہوں گی.مگر اس وقت کون کہہ سکتا تھا کہ ایک شادی کے نتیجہ میں وہ لڑکا یدا ہو گا جو نہایت اعلیٰ درجہ کا انسان ہو گا اور تمدن کیا دنیاوی علوم کو بھی بدل دے گا دنیا کی کایا پلٹ دے گا.اور دوسری شادی کے نتیجہ میں وہ لڑکا پیدا ہو گا جو ہمیشہ لعنت کا مورد ہو گا اور ظلمت کے فرزندوں میں سب سے بڑھ کر ظلمت کا حصہ لے گا.اگر ابو جہل کے باپ کو یہ معلوم ہوتا کہ اس کی شادی کے نتیجہ میں ایسا لڑکا پیدا ہو گا تو میں خیال کرتا ہوں وہ ساری عمر کنوارا رہنا ر کرتا اور کبھی شادی نہ کرتا.اس کے مقابلہ میں اگر دنیا کے لوگوں کو یہ معلوم ہو جاتا کہ عبد اللہ کی شادی سے ایسا عظیم الشان انسان پیدا ہو گا تو دنیا کے بڑے بڑے بادشاہ اپنی لڑکیاں پیش کرتے مگر شادی کے وقت کس کو علم ہوتا ہے کہ کیا نتیجہ ہو گا.اس سے معلوم ہوا کہ شادی پسند؟ کا اثر چنددن تک ہی نہیں ہو تا بلکہ سینکڑوں ہزاروں سال تک چلتا ہے.سے ثابت ہوا ہے کہ انسان کے خیالات ہزاروں سال تک محفوظ رہ سکتے ہیں.امریکہ میں حال ہی میں ثابت ہوا ہے کہ امریکہ کے جتنے بڑے بڑے بادشاہ تھے وہ سب ایک
خطبات محمود 19.چند سوم خاندان سے تعلق رکھتے تھے اور تمام ظالم و سفاک لوگ ایک خاندان سے تھے.اس قدر تحقیقات ہوئی ہیں کہ دو شخص انگلستان سے ہجرت کر کے امریکہ گئے.وہاں ایک کی اولاد سے اس وقت تیرہ سو کے قریب افراد موجود ہیں اور دوسرے کی اولاد سے بارہ سو موجود ہیں.پہلے شخص کی اولاد سے اس وقت ۱۱۹۵ آدمی ایسے ہیں جو گریجویٹ ہیں اور مختلف عہدوں پر ممتاز ہیں.ان میں سے کئی تو کالجوں کے پرنسپل ہیں.کئی بڑے بڑے بنکوں کے افسر ہیں.کئی وزراء ہیں اور صرف 100 ایسے آدمی ہیں جو معمولی درجہ کے ہیں.مگر دوسرا خاندان جس میں دماغی نقص تھا سوائے دس آدمیوں کے باقی سب ایسے ہیں جو یا تو جیل خانوں میں قید ہیں یا پھر پوئر ہو سر (Poor Houses) میں داخل ہیں.کئی چور ہیں، کئی ٹھگ ہیں.اسی طرح ایک شخص کا پتہ لگا ہے کہ اس کے خاندان میں ۴۰۰ یا ۵۰۰ کے قریب افراد ہوئے وہ تمام مجرم پیشہ ہیں.اب ان کی وجہ سے سوال پیدا ہوا ہے کہ آئندہ انہیں شادی نہ کرنے دی جائے.اس سے معلوم ہو سکتا ہے کہ ایک شادی کا اثر کہاں تک پہنچتا ہے.پس ہر مومن کا فرض ہے کہ وہ ایسے امور میں تقویٰ اللہ کا بہت زیادہ خیال رکھے.یہ پہلا سبق ہے جو اسلام نے نکاح کے متعلق سکھایا ہے.انسان کے چونکہ نکاح کے بعد بنی نوع انسان سے تعلقات وسیع ہوتے ہیں اس لئے دوسرا سبق نکاح سے یہ ملتا ہے کہ انسان رشتوں کے اعزاز کو مد نظر رکھے اور کوشش کرے کہ تعلقات بڑھیں گئیں نہ.باہمی تعلقات کی وجہ سے بھی انسان کی عزت و عظمت میں فرق پڑ جاتا ایک شاعر کہتا ہے کہ ہم عزیز ہیں اس لئے کہ ہمارے ارد گرد کے لوگ بھی عزت والے ہیں.مگر (اے مخاطب) تم ذلیل ہو کیونکہ تمہارے ارد گرد کے لوگ ذلیل ہیں.پس جس کی رشتہ داریوں کی وجہ سے ذلت ہو وہ بہت ہی ذلیل ہے.اسلام بتاتا ہے کہ مومن کو رحموں کے تعلقات کے اعزاز کو مد نظر رکھنا ضروری ہے اور ان سے کوشش کرنی چاہئے کہ باہمی تعلقات زیادہ خوشگوار ہوں لیکن ہندوستان میں عام طور پر یہ ہوتا ہے کہ لڑکی والے کوشش کرتے ہیں کہ لڑکے کو ماں باپ سے علیحدہ کرا دیں اس کے لئے بہت جھگڑے ہوتے ہیں.میرے پاس بھی کئی جھگڑے آتے ہیں حالانکہ ماں باپ نے جو سلوک کیا ہوتا ہے وہ معمولی نہیں ہوتا.بچہ کے لئے ماں باپ جو قربانیاں کرتے ہیں ان کا بدلہ کچھ ہو ہی نہیں سکتا.پس دوسرا سبق مومن کو نکاح میں اسلام یہ دیتا ہے کہ وہ تعلقات کے اعزاز کو مد نظر رکھے.لڑکی والے لڑکے والوں کو
خطبات محمود 191 تکلیف نہ دیں اور لڑکے والے لڑکی والوں کو تکلیف نہ دیں.بلکہ وہ دونوں ایسے رہیں کہ باہمی محبت میں ترقی ہو.جس عزیز کا آج نکاح ہے وہ اس گھر میں سے ہے جو ہمیشہ نصائح سنتے رہتے ہیں اس لئے امید ہے کہ وہ ان نصائح پر عمل کرنے کی کوشش کرے گا.عزیزم رشید احمد کا نکاح عزیز میاں بشیر احمد صاحب کی لڑکی سے قرار پایا ہے جس کے لحاظ سے دونوں ایک ہی سلسلے میں منسلک ہو جاتے ہیں.چونکہ عزیزم رشید احمد ہمیشہ ہم میں ہی رہے ہیں اور دینی تکمیل کی اور احمدی ہیں.اس لئے میں امید کرتا ہوں کہ وہ نکاح کے فرائض کو پورا کریں گے.عزیزم میاں بشیر احمد صاحب نے میرے ہی سپرد یہ معاملہ کیا ہے.انہوں نے پہلے سے میری رائے پر یہ کام چھوڑا ہوا تھا اور میں نے ہی یہ رشتہ پسند کیا ہے اس کے مطابق ان کی طرف سے اب بھی میں ہی بولوں گا اور قبول کروں گا.ہمارے مد نظر صرف ایک ہی چیز ہے اور وہ یہ کہ ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے بچے اور ہمارے داماد اپنی زندگیوں کو محض خدا کے لئے وقف کریں.لوگ دنیا میں مختلف چیزیں مد نظر رکھتے ہیں مگر ایک مسلم کے لئے صرف بذات الدین ہی ہے اس لئے ہم امید کرتے ہیں کہ عزیز رشید احمد ہماری حسن ظنی کو پورا کریں گے.میں جانتا ہوں کہ اس وقت ایسی رو چلی ہوئی ہے کہ ہر شخص دنیوی ترقی چاہتا ہے میں اس کا مخالف نہیں ہوں مگر ہم کہتے ہیں دنیوی ترقی بھی دین کے ماتحت ہو اور اس میں بھی ہماری غرض دین ہی ہو.عزیزہ امتہ السلام میرے بھائی کی لڑکی ہے مگر میں اپنی لڑکی کے متعلق بھی یہی پسند کروں گا کہ اگر دنیا میں کوئی دیندار نہ رہے اور ایک چوہڑا مسلمان ہو کر خدا کا محبوب ہو تو میں اس کو سو میں سے سو درجے پسند کروں گا اور مطلقاً پرواہ نہ کروں گا کہ میں بڑے خاندان سے ہوں اور علم والے خاندان سے تعلق رکھتا ہوں اور وہ ادنیٰ قوم سے ہے.میں صرف خدا کی یاد کی خوبی کو سب سے بڑی خوبی جانوں گا.بعض لوگ قوموں کی تفریق مٹانے کے لئے کھڑے ہوتے ہیں.مثلاً یہ کہ راجپوتوں میں سے چھت وغیرہ کا لحاظ اٹھا دینا چاہئے.لیکن جب ان کی حالت پر نظر کی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ خود ادنیٰ قوم سے ہوتے ہیں اور قومیت کو مٹانے کی کوشش سے ان کی غرض یہ ہوتی ہے کہ ان کی لڑکیاں بڑے بڑے گھرانوں میں جائیں.میرے پاس کئی ایسے لوگوں نے آکر کہا کہ اس تفریق کو مٹا دیا جائے.میں نے کہا جب تک تم خود صحیح کوشش نہ کرو گے اور اپنی لڑکیاں محض دینداری کو مد نظر رکھتے ہوئے اپنے سے کم درجہ کے لوگوں کو نہ دو گے تب تک تم
خطبات محمود ۱۹۲ جلد سوم کامیاب نہ ہو گے.ہمارا خاندان ایسا ہے جو عزت والا ہے.مگر میں کہتا ہوں کہ جب ہم ایک آدم کی اولاد ہیں تو سوائے دینی حالت میں گرا ہونے کے اور کوئی ایسی چیز نہیں ہے جو کسی کو اونی قرار دے.پس ہم امید کرتے ہیں کہ عزیز رشید احمد اپنی زندگی محض دین کے لئے وقف کریں گے.وہ یاد رکھیں کہ وہ ایک ایسے انسان کے پوتے ہیں جو دنیا میں ایک عظیم الشان تغیر کرنے آیا تھا وہ تغیر شروع ہو چکا ہے اور ایک دن ہو کر رہے گا.بڑے بڑے بادشاہ بڑی بڑی قومیں اور بڑی بڑی حکومتیں اس کے آگے روک نہیں ہو سکتیں.علماء امراء اس تغیر کو روک نہیں سکتے وہ تغییر ہو گا اور ضرور ہو کر رہے گا.مگر کیا ہی بد قسمتی ہوگی اگر غیر آکر اس میں محمد ہوں اور اس کام میں حصہ لیں مگر ہم محروم رہیں.اس کی ایسی ہی مثال ہے کہ ایک شخص چشمے کے کنارے بیٹھا ہوا ہو دوسرے لوگ تو اس سے ملکے اور مشکیں بھر کر لے جائیں اور سیراب ہوں.وہاں سے نالیاں نکال کر لے جائیں اور اپنے کھیتوں کو سیراب کرلیں مگر وہ شخص اپنے حلق کو بھی تر نہ کرے.عزیز رشید احمد کو سمجھنا چاہئے کہ ان کے فرائض بہت ہیں ان کو زید و بکر کا نمونہ دیکھنے کی ضرورت نہیں کیونکہ ان کے گھر میں نمونہ موجود ہے وہ یاد رکھیں کہ وہ مسیح موعود کی اولاد سے ہیں اور مسیح موعود کا عظیم الشان اسوہ حسنہ ان کے لئے موجود ہے اس لئے نہیں کہ حضرت مسیح موعود ان کے دادا ہیں بلکہ اس لئے کہ خدا تعالٰی نے آپ کو دنیا کے لئے اسوہ حسنہ قرار دیا ہے.میں علمی طور پر بتلاتا ہوں کہ میں نے حضرت صاحب کو والد ہونے کی وجہ سے نہیں مانا تھا.بلکہ جب میں گیارہ سال کے قریب تھا تو میں نے مصمم ارادہ کیا تھا کہ اگر میری تحقیقات میں نعوذ باللہ جھوٹے نکلے تو میں گھر سے نکل جاؤں گا مگر میں نے ان کی صداقت کو سمجھا اور میرا ایمان بڑھتا گیا حتی کہ جب آپ فوت ہوئے تو میرا یقین اور بھی بڑھ گیا اور میں نے سمجھا کہ اب کام بڑھ گیا ہے میری عمر اس وقت انیس برس کی تھی.میں نے اس وقت آپ کی لاش کے پاس کھڑے ہو کر عہد کیا تھا کہ اے خدا میں تجھے گواہ بنا کر کہتا ہوں کہ اگر ساری دنیا بھی مرند ہو جائے تو بھی میں آپ کی تحریک کو جاری رکھوں گا.یہ میرے اس وقت کے جذبات تھے جب میں نے آپ کے سرہانے کھڑے ہو کر یہ عہد کیا تھا.میں نے یہ عہد آج تک بھلایا نہیں اور میں امید کرتا ہوں کہ خدا تعالیٰ مجھے بھولنے نہیں دے گا اور عملاً اس کے لئے جو توفیق دے گا وہ
۱۹۳ اس کا احسان ہو گا.حضرت صاحب کوئی نیا دین نہ لائے تھے اور نہ کوئی جدید مذ ہب لے کر آئے تھے.مگر اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ آج کل کے لوگ اسلام جیسے مذہب کو ایسی بھری شکل میں پیش کرتے ہیں کہ کوئی عقلمند انسان اس کو قبول نہیں کر سکتا.اگر ان کی تفسیر و تشریح کیوں لکھا جائے تو کہا جاسکتا ہے کہ آپ نیا دین، نئی شریعت اور نیا قرآن لائے تھے.اگر حقیقت کو مد نظر رکھا جائے تو حضرت صاحب کوئی نئی چیز لے کر نہیں آئے تھے.آپ نے وہی کچھ پیش کیا جو رسول کریم ﷺ نے دنیا کو دکھایا.پس جس کام کے لئے وہ تشریف لائے تھے اس کی اشاعت کرنا ہمارا فرض ہے اور میں امید کرتا ہوں کہ عزیز رشید احمد بھی اپنی زندگی اسی کام کے لئے صرف کریں گے.جب تک ہم اپنی عمروں کو خرچ نہ کریں گے ہم غالب نہ آئیں گے.اس وقت دنیا میں کسی قوم کے مخالف اتنے نہیں جتنے ہمارے مخالف ہیں.ہم زبان کی طرح دانتوں کے درمیان ہیں.پھر زبان تو بتیس دانتوں کے درمیان ہوتی ہے مگر ہم سینکڑوں دانتوں کے درمیان تمام کا ہیں اس لئے حضرت صاحب نے فرمایا : کربلا نیست سیر ہر آئم صد حسین است در گریبانم جب تک ہر فرد ہم میں اس کربلا میں ساری عمر کی بھوک پیاس برداشت نہ کرے گا تب تک ہم کامیاب نہیں ہو سکتے.اور یہی ہمارا مقصد وحید ہونا چاہئے.بے شک دنیا کے کام کرو مگر کاموں میں ایک ہی کام مد نظر ہو اور وہ یہ کہ ہم نے دین اسلام کو دنیا پر غالب کرتا ہے.جیسے خدا تعالی قرآن شریف میں نبی کریم ﷺ کو مخاطب کر کے فرماتا ہے.وَمِنْ حَيْثُ خَرَجْتَ فَوَل وَجْهَكَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ سے اے رسول جس مقابلہ کے لئے نکلو خواہ وہ بدر کا ہو یا احد کا یا خیبر کا کوئی مقابلہ ہو تو ہر مقابلہ میں مسجد حرام کی فتح کا خیال رکھو کہ وہ فتح ہو جائے.اسی طرح ہم کوئی کام کریں ہمارا مقصد وحید یہی ہونا چاہئے کہ ہم نے اسلام کو تمام دنیا میں پھیلانا ہے، ہماری اولاد ہماری بیویاں، ہمارے بچے ، ہمارا امال، ہماری آبرو میں تمام قربان ہو جا ئیں تو کوئی حرج نہیں.خدا تعالٰی ہمیں اس کی توفیق دے.آمین.اس وقت عزیز رشید احمد کے نکاح کا اعلان کرتا ہوں جو کہ پانچ ہزار روپیہ صریر عزیزہ امتہ السلام سے جو کہ عزیزم میاں بشیر احمد صاحب کی بڑی لڑکی ہے قرار پایا ہے لڑکی کی طرف سے میں منظور کرتا ہوں.
خطبات محمود ۱۹۴ جلد سوم ایجاب و قبول کے بعد فرمایا.اب میں دعا کرتا ہوں کہ خدا تعالیٰ ان کو ان باتوں پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے جن کی طرف میں نے اشارہ کیا ہے پھر ان کے خاندان میں اب ایک ہی وجود ایسا ہے جس نے ابھی تک اس ہدایت کو قبول نہیں کیا جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام لائے.ان کے لئے بھی دعا کریں کہ خدا تعالیٰ ان کو ہدایت دے.لوگ سوتیلے بھائیوں میں فرق کرتے ہیں مگر میں تو کوئی فرق نہیں سمجھتا.ایک انگریز نے مجھ سے سوال کیا کہ کیا مرزا سلطان احمد شه صاحب ہمارے تمہارے حقیقی بھائی ہیں؟ چونکہ میں ان کو حقیقی ہی سمجھتا ہوں میں نے کہہ دیا کہ ہاں وہ حقیقی بھائی ہیں.بعد میں مجھے خیال آیا وہ میری اصطلاح نہیں جانتا ہوگا کہیں مجھے جھوٹا ہی خیال نہ کرے.غرض جب سے میں نے ہوش سنبھالی ہے میں برابر ان کے لئے دعا کرتا رہا ہوں کہ خدا تعالی ان کو ہدایت دے.میں سنتا رہتا ہوں وہ احمدیت کو ہدایت کی راہ ہی خیال کرتے ہیں مگر کوئی روک ہے جس کے لئے دعا کرنی چاہئے کہ خدا تعالی اس روک کو ہٹا دے.آمین.الفضل ۶ - جون ۱۹۲۴ء صفحه ۶ تا ۹) لے الحکم جلد ۲۶ نمبر ۲۱.مورخہ ۷ - جون ۱۹۲۴ء صفحه ۱ ه ترندی ابواب النکاح باب ما جاء فی من مسلح و علی مثلث خصال کے مسلم کتاب الصلوة باب الصلوة على النبي بعد التشهد ة البقرة : ۱۵۰ نے حضرت مرزا سلطان احمد صاحب نے اکتوبر ۱۹۲۸ء میں اعلان احمدیت کیا.(الفضل اکتوبر ۱۹۲۸ء) اور دسمبر میں باقاعدہ بیعت کی.(الفضل - دسمبر ۱۹۳۰ء)
خطبات محمود ۱۹۵ ۵۶ جلد موسم مرد و عورت دونوں کی ذمہ داریاں برابر ہیں (فرموده جنوری ۱۹۲۵ء) جنوری ۱۹۲۵ء کو حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے حضرت مولانا سید محمد سرور شاہ صاحب کی صاحبزادی محترمہ سلیمہ بیگم صاحبہ کا نکاح محترم میاں عبد الرحیم خان صاحب ہزاروی سے تین ہزار روپے مہر پر پڑھا.لے خطبہ مسنونہ کی تلاوت کے بعد فرمایا.اس میں کوئی شک نہیں کہ مردوں کو ایک فضیلت اور افسری حاصل ہے اور قرآن کریم اور رسول کریم ﷺ کی تعلیم سے بھی ثابت ہوتا ہے کہ مردوں کو عورتوں پر فوقیت ہے اور ان کو ایک درجہ دیا گیا ہے لیکن صرف ما تحتی اس امر پر دلالت نہیں کرتی کہ عورتیں محض ما تحتی کے لئے ہی پیدا کی گئی ہیں اور ان کا کوئی حق ہی نہیں ہے کیونکہ ماتحتی بھی دو قسم کی ہوتی ہے ایک ماتحتی تو ماتحتی کے لئے ہی ہوتی ہے اور اس کا مقصد ہی یہی ہوتا ہے کہ وہ ہمیشہ ماتحت ہی رہے.جیسے جانوروں کی ماتحتی ہے، گھوڑے ہیں، گدھے ہیں، گائے بکریاں ہیں ان کی ماتحتی کی اصل غرض ہی یہی ہے کہ وہ انسان کے ماتحت ہی رہیں تاکہ ان کی ماتحتی سے انسان سکھ اور آرام حاصل کریں.خدا نے ان کو انسان کا مسخر بنایا ہے اور فرمایا ہے کہ ہم نے ان جانوروں کو تمہاری خدمت کے لئے پیدا کیا ہے اور تم کو ایسی طاقت دی ہے کہ تم ان پر حکومت اور افسری کر سکو.اور ایک گھوڑا اور ایک گدھا یا مرغی وغیرہ جانور اس لئے انسان کے ماتحت نہیں کئے گئے کہ ان کی عقل کم ہے بلکہ محض انسان کے فائدے اور اس کے آرام اور سکھ کے لئے پیدا
خطبات محمود 194 جلد سوم کئے گئے ہیں.اگر وہ جانور زکی بھی ہیں اور ان میں اگر عقل بھی پائی جاتی ہے تو ہی اس لئے کہ ان کی عقل اور ان کا زکی ہونا انسان کے کام آوے.مگر ایک ماتحتی مجبوری کی ماتحتی ہے اصل مقصد اس سے ماتحتی نہیں ہوتا کیونکہ اصل مقصد کے حصول میں بغیر اس کے کامیابی نہیں ہو سکتی اس لئے وہ ماتحتی بطور علاج ہوتی ہے نہ بطور اصل مقصد کے جیسے تربیت اولاد بغیر اولاد کی ماتحتی کے بالکل نہیں ہو سکتی.جب تک ماں باپ اولاد پر پورا تصرف نہ رکھیں اولاد کی تربیت کا مقصد حاصل نہیں ہو سکتا.اب اولاد کی ماتحتی جانوروں کی ماتحتی کی طرح نہیں کیونکہ جانوروں کی ماتحتی تو انسان کے فائدہ اور اس کے سکھ اور آرام کے لئے ہے لیکن اولاد کی ماتحتی ماں باپ کے فائدہ کے لئے نہیں بلکہ اولاد کے فائدہ کے لئے ہے.اسی طرح انتظام کی درستی، تمدن اور باہمی نیک معاشرت اور اشتراک کے قیام کے لئے جب تک پریذیڈنٹ یا کوئی امیر نہ ہو سول اور سوشل تعلقات صحیح اور درست نہیں ہو سکتے.اب پریذیڈنٹ کی افسری کے یہ معنی نہیں کہ اس کے حقوق دو سروں سے زیادہ ہو جاتے ہیں.نہیں.زیادہ سے زیادہ اس کو یہ درجہ دیا جاتا ہے کہ اس کی رائے کو انتظامی معاملات میں فوقیت دی جاتی ہے.مگر اس کے شخصی حقوق دوسروں سے زیادہ نہیں ہو جاتے مثلاً ایک تجارتی کمپنی کا ایک پریذیڈنٹ ہو.اس کی رائے کو انتظامی معاملات میں فوقیت دی جاتی ہے مگر اس کے شخصی حقوق دوسروں سے زیادہ نہیں ہو جاتے.اس کی رائے کو تو بے شک وقعت دی جائے گی مگر وہ اپنی اس افسری کی وجہ سے یہ حق نہیں رکھتا کہ دوسروں کے حصہ پر بھی قبضہ کرلے کیونکہ اس کی افسری اور دوسروں کی ماتحتی باہم تعاون اور اشتراک کے قیام کے لئے ہے نہ اس لئے کہ دوسروں سے کام لے کر فائدہ اٹھائے.یہی ماتحتی ہے جو بیوی کی خاوند کے لئے مقرر کی گئی ہے.جہاں آدمی زیادہ ہوں وہاں تو کثرت رائے پر بھی فیصلہ جاتا ہے مگر میاں بیوی دو آدمیوں میں کثرت رائے کا سوال بھی اٹھ جاتا ہے کیونکہ نوے فیصدی ایسے مرد ہیں کہ جو ایک بیوی سے زیادہ بیویاں نہیں رکھ سکتے کیونکہ اگر غور کیا جائے تو مرد و عورت کی تعداد قریباً برابر ہے.ایک تو اس وجہ سے کہ معقول تعداد آدمیوں کی ایسی ہے کہ جو نکاح کی طاقت ہی نہیں رکھتے مگر عورتیں باوجود کمزوری کے نکاح کر سکتی ہیں اور پھر پانچ فی صدی مردوں میں سے بھی جو ایک سے زیادہ رکھ سکتے ہیں چند ایسے ہوں گے جو دو ہی رکھ سکیں گے اور چند ہی ایسے ہوں گے جو چار بھی رکھ سکیں گے.قانون
194 جلد موم خطبات محمود قدرت میں خدا تعالٰی نے تعدد نکاح میں خود ہی حد بندی کر دی ہے.ایک لیڈی نے انگلینڈ میں مجھ سے سوال کیا تھا کہ اس اجازت سے تو ضرورت کے بغیر ہی ہر کس و ناکس کثرت ازدواج کرنے لگ جائے گا.میں نے ان کو یہی جواب دیا کہ لوگ اس قدر عورتیں کہاں سے لائیں گے کہ ہر شخص ایک سے زیادہ نکاح کرنے لگے اگر ملک میں عورتیں اس قدر زیادہ ہیں کہ ہر شخص ایک سے زیادہ نکاح کر سکتا ہے تو پھر میرے نزدیک ہر شخص کا فرض ہے کہ ایسا کرے تا ملک کی طاقت ضائع نہ جائے.لیکن اصل بات یہی ہے کہ خدا تعالٰی نے خود ہی قانون قدرت کے ذریعے اس کی حد بندی کر دی ہے جس سے کوئی تجاوز نہیں کر سکتا.یہ طریق افسری اور ماتحتی کا جو میاں بیوی کے درمیان رکھا گیا ہے محض اس لئے کہ تا دونوں بغیر کسی قسم کی شکر رنجی کے ایک دو سرے سے تعاون کر سکیں.مرد کی اس افسری کا یہ مطلب نہیں کہ اس کی وجہ سے عورت سے مرد کے حقوق کچھ زیادہ ہو جاتے ہیں اس لئے خدا تعالٰی نے فرمایا ہے.وَاتَّقُوا اللہ سے پہلے تو اصل منبع کی طرف توجہ دلائی کہ انسان کی تم اولاد ہو.کیا مرد اور کیا عورت.یہ نہیں فرمایا کہ مرد کو ہم نے افسری کے لئے پیدا کیا ہے اور عورت کو ماتحتی کے لئے.ایسا قرآن کریم میں کہیں نہیں آیا.اگر کچھ آیا ہے تو دونوں کے لئے آیا ہے.خدا تعالٰی فرماتا ہے.لِتَسْكُنُوا إِلَيْهَا وَجَعَلَ بَيْنَكُمْ مَوَدَّةً وَرَحْمَةٌ سے کہ تم تسکین اور آرام حاصل کرو اس طرح کہ تم بیوی سے محبت کرو اور بیوی تم سے محبت کرے.تم بیوی پر مہربانی کرو اور بیوی تم پر مہربانی کرے بعض لوگ کہہ دیتے ہیں کہ خدا تعالٰی نے عورتوں کو مردوں کے تقومی کے لئے بطور لباس بنایا ہے.حالانکہ صرف عورتیں مردوں کے لئے بطور لباس نہیں بنائی گئیں بلکہ مرد بھی عورتوں کے لئے بطور لباس بنائے گئے ہیں.من لِبَاسٌ لَكُمْ وَأَنتُم لباس له سه محض عورت مرد کے لئے لباس نہیں بلکہ مرد بھی عورت کے لئے لیاس ہے اور ذمہ داریاں دونوں کی برابر ہیں.ہاں درجوں میں تفاوت ہے جیسے اشتراک اور تعاون قائم رکھنے کے لئے پریذیڈنٹ اور امیر کو درجہ دیا جاتا ہے.بڑے سے بڑا اگر اس کو کچھ فائدہ ہے تو یہی کہ اس کی رائے زیادہ سنی جائے گی.حقوق میں وہ کوئی زیادہ نفع حاصل نہیں کر سکتا.اِنَّ اللهَ كَانَ عَلَيْكُمْ رَقِيبًا - شه خدا تعالٰی فرماتا ہے کہ تم اس مسئلہ کو نہ سمجھو گے اور تقویٰ سے کام لے کر عورتوں کے حقوق کی حفاظت نہ کرو گے تو یاد رکھو تم پر بھی ایک اور ہستی نگران ہے.آج اہل یورپ کہتے تو ہیں کہ ہم عورتوں کے حقوق ان کو دیتے ہیں حالانکہ انہوں نے کہ
خطبات محمود 197 جلد سوم دیئے نہیں بلکہ عورتوں نے اپنے حقوق ان سے چھینے ہیں.لیکن اسلام نے نہایت خوشی کے ساتھ عورتوں کو حقوق دیئے ہیں اور اس وقت دیتے ہیں جب عورتوں نے اپنے حقوق مانگے بھی نہیں تھے بلکہ اسلام نے تو ان کو حقوق اس وقت دیئے ہیں جب عورتیں حق مانگنا تو درکنار اپنا حق ہی کچھ نہ سمجھتی تھیں اور ان کی زندگی نوکروں اور غلاموں بلکہ جانوروں کی طرح بسر ہوتی تھی.پس قبل اس کے کہ عورتیں اپنے حقوق مردوں سے طلب کریں.مردوں کو چاہئے کہ ان کے حقوق ان کو دے دیں تا اللہ تعالی کا منشاء جھگڑوں اور فسادوں کے ذریعہ پورا نہ ہو بلکہ اس کے حکم کے ماتحت ہم اس کے منشاء کو پورا کرنے والے بنیں کہ اس میں اسلام کی بھی عزت الفضل ۳۱- جنوری ۱۹۲۵ء صفحه ۵) له الفضل ۲۲ جون ۱۹۲۵ و صفحه ۱ له الحشر: 19 الروم : ۲۲ البقرة : ۱۸۸ النساء : ٢ •
خطبات محمود ۱۹۹ ۵۷ جلد سوم حضرت سیدہ سارہ بیگم صاحبہ سے نکاح کرنے کی غرض اور حضرت سیدہ امتہ الحی صاحبہ کا ذکر خیر فرموده ۱۲ اپریل ۱۹۲۵ء) ۱۲- اپریل ۱۹۲۵ء بعد نماز مغرب حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے حضرت سارہ بیگم صاحبہ بنت محترم مولوی عبد الماجد صاحب بھاگلپوری سے اپنے نکاح کا اعلان فرمایا : اے خطبہ مسنونہ کی تلاوت کے بعد فرمایا ایک بزرگ کا واقعہ لکھا ہے کہ ان کو کسی بادشاہ نے کسی جگہ کا حج بنا دیا.جب ان کے دوستوں اور ملنے والوں نے یہ خبر سنی تو نہایت خوشی سے اچھلتے کودتے ان کے گھر پہنچے اور جاکر انہیں مبارکباد دی اور ان سے مطالبہ کیا کہ کچھ کھلاؤ کیونکہ آپ حج ہو گئے ہیں مگر یہ دیکھ کر ان کی حیرت کی کوئی حد نہ رہی کہ ان بزرگ کی آنکھوں میں آنسو آگئے اور وہ بے اختیار چینیں مار کر رونے لگ گئے.دوستوں نے کہا یہ کون سا رونے کا موقع ہے یہ تو خوشی کا مقام ہے کہ آپ کی عزت بڑھی ہے اور رتبہ بڑھا ہے.انہوں نے کہا میرے لئے یہ کون سی خوشی کا موقع ہے اس سے زیادہ غم کی اور کیا بات ہو سکتی ہے کہ میں حج بن کر بیٹھوں گا اور دو شخص جھگڑا لے کر آئیں گے.ان میں سے مدعی بھی جانتا ہو گا کہ حقیقت کیا ہے اور مدعا علیہ کو بھی معلوم ہو گا کہ اصلیت کیا ہے مگر میں جسے اس معاملہ کا کچھ بھی پتہ نہ ہو گا فیصلہ لکھوں گا.گویا دو سو جا کھوں میں میں ایک اندھا بیٹھوں گا.کیا یہ میرے لئے خوشی کی بات ہے.
خطبات محمود جلد سوم مومن کے لئے شادی اور نکاح بھی ایسی کیفیات پیدا کئے بغیر نہیں رہ سکتا جن کا ذکر ان بزرگ نے کیا ہے.دنیاوی لذتیں اور دنیاوی خوشیاں بے شک بہت سے انسانوں کی عقلوں پر پردہ ڈال دیتی ہیں اور انہیں آئندہ کی ذمہ داریاں بھلا دیتی ہیں.محض نفسانی جوش اور حیوانی خواہشات قسم قسم کے نظارے ان کی آنکھوں کے سامنے پیش کرتی ہیں اور وہ عقل اور سمجھ سے بے بہرہ ہو کر خوشی سے ناچتے اور مسرور ہوتے ہیں مگر اس میں کیا شک ہے کہ ایک انسان کی شادی اس کے لئے بہت بڑا ابتلاء اور آزمائش ہوتی ہے.میں ہمیشہ اس بات کو سوچ کر حیران رہ جاتا ہوں کہ ابو الحکم جس کو بعد میں اس کے اعمال نے ابو جہل کر کے دکھایا اور اب ساری دنیا اسے یہی کہتی ہے اس کا خاندان بڑا آسودہ حال تھا.جب اس کے باپ کی شادی ہوئی ہوگی کتنی خوشیاں منائی گئی ہوں گی، کتنے ناچ گانے ہوئے ہوں گے، اس وقت کے رسم و رواج کے مطابق کس طرح بے پرواہی سے شراب لنڈھائی گئی ہوگی، کتنی کنچنیاں ناچی ہوں گی، کسی قدر د میں بجائی گئی ہوں گی اور کیا ہی دولہا اور دلہن کے خاندانوں کو خوشی ہوئی ہوگی.اس وقت انہیں کیا پتہ تھا کہ اس خوشی کے نتیجہ میں ایسا ماتم برپا ہو گا جو ابد الآباد تک ان کے خاندانوں کو بد نام رکھے گا اور وہ جسے عید کا چاند سمجھتے ہیں ان کے لئے پیام اجل ہو گا.اور نہ صرف ان میاں بیوی کے لئے بلکہ ان کے تمام خاندان کے لئے اور ان پر ہمیشہ کے لئے کلنک کا ٹیکہ لگا دے گا.اس کے مقابلہ میں محمد ﷺ کے والدین کی شادی کا خیال کرو.ان کے گھرانے کی یہ حالت تھی کہ پیٹ بھر کے کھانا بھی میسر نہ ہوتا تھا اور آپ کے والد اس غریب گھرانے کے ساتویں لڑکے تھے ایسی حالت میں کیا ہی سادگی سے وہ شادی ہوئی ہوگی اور کیا ہی سادگی کے ساتھ میاں بیوی طے ہوں گے.شاید اس وقت ان کے دل میں اس قسم کی حسرتیں بھی پیدا ہوئی ہوں کہ کاش ہم بھی امیر ہوتے دولت و ثروت رکھتے تو اس موقع پر خوشی مناتے دعوتیں کرتے مگر وہ خاموشی اور سمجید گی کے ساتھ اپنی امیدوں اور امنگوں کو دل ہی دل میں دفن کرتے ہوئے نوجوان مرد و عورت ملے ہوں گے.اس وقت انہیں کیا معلوم تھا کہ آج وہ دنیا کی ترقی اور بیوردی کے لئے ایسا بیج بو رہے ہیں جو ہمیشہ کے لئے سارے عالم کو سرسبز و شاداب رکھے گا اور ایسا درخت پیدا ہو گا جو کبھی نہیں سوکھے گا اور اس سے اس قدر پودے پیدا ہوں گے کہ ساری دنیا کو باغوں سے بھر دیں گے.یہ سادہ شادی جو کئی قسم کی افسردگیاں لئے ہوئے
خطبات محمود ۲۰۱ جلد سوم تھی شادی کیا تھی دنیا کے لئے ایک عظیم الشان تغیر کا بیج اور دنیا کی بھلائی اور بہتری کا سامان تھی لیکن اس کے مقابلہ میں وہ شادی جو خوشیوں سے لہراتے ہوئے دل اور امنگوں سے بھرے ہوئے قلب کے ساتھ ہوئی اس سے دنیا کو ہلاک کرنے والے نتائج بر آمد ہوئے.یہ تو آئندہ نسلوں کے متعلق نتائج ہیں جو شادیوں سے پیدا ہوئے اور پیدا ہوتے ہیں لیکن خود شادیاں بھی بڑے بڑے ابتلاء کا باعث ہوتی ہیں جو بہت خوشی سے دن گزراتے ہیں، کوئی غم انہیں نہیں ہوتا، کسی قسم کا فکر ان کے پاس نہیں پھٹکتا لیکن جب شادی کرتے ہیں تو اس کے بعد ان کے دن تاریک ہو جاتے ہیں اور ان کی راتیں ایسی ظلمت سے بھر جاتی ہیں کہ ہاتھ کو ہاتھ بجھائی نہیں دیتا ان کے لئے شادی کا پیغام ہلاکت اور تباہی کا پیغام ہوتا ہے کبھی انہیں دنیاوی مصیبتیں گھیر لیتی ہیں، کبھی وہ الہی عذابوں میں مبتلاء ہو جاتے ہیں، کبھی ان کے گرد قومی اور تمدنی مصائب حلقہ باندھ لیتے ہیں اور کوئی صورت ان کے بچاؤ کی باقی نہیں رہتی اور انہیں کوئی مفر نظر نہیں آتا.پھر کتنی شادیاں ہوتی ہیں کہ شادی سے پہلے مرد و عورت غم وہم سے بھرے ہوئے ہوتے ہیں، کبھی انہوں نے خوشی کی گھڑیاں نہیں دیکھی ہوتیں، تکالیف اور مشکلات سے گزر رہے ہوتے ہیں مگر ان کی شادی کیا ہی مبارک شادی ہوتی ہے کہ ان کے وہ چرے جو رنج و غم سے سیاہ ہو رہے ہوتے ہیں فرحت وراحت سے پھول کی طرح کھل جاتے ہیں اور سیب کی طرح چمکنے لگ جاتے ہیں ان کا گھر امن اور سلامتی سے بھر جاتا ہے.ان کے محلہ بلکہ شہر کے لوگ ان سے فائدہ حاصل کرتے ہیں، ان کی قوم، ان کی نسل، بلکہ ان کے ملک کے لوگ فائدہ اٹھاتے ہیں.گویا ان کی شادی ایک گھر کی شادی نہیں ہوتی بلکہ ایک ملک اور ایک قوم کی شادی ہوتی ہے.ان حالات سے اندازہ لگالو کہ شادی کرنا کیسا مبارک مرحلہ اور کیا ہی دل دہلا دینے والا قدم ہے.یہی وجہ ہے کہ مومن کے لئے ہر حالت میں یہ تکلیف اور گھبراہٹ کا قدم ہے.بے شک ایک حالت میں وہ خوش بھی ہوتا ہے کیونکہ خدا تعالٰی نے اس فعل کو خوشی کا فعل قرار دیا ہے.اس کے ساتھ دعوتیں اور تقریبیں مقرر کر کے بتا دیا ہے کہ یہ خوشی کا موقع ہے مگر اس کی وجہ سے ایک طرف گھبراہٹ بھی ہوتی ہے کہ نہ معلوم کل کے لئے اس میں کیا کچھ مخفی ہے اور خاص کر میرے جیسے انسان کی حالت کا اندازہ بھی نہیں لگایا جاسکتا جس کے لئے اس کام میں اس قسم کی خوشی نہیں جیسی کہ عام طور پر لوگوں کو ہوتی ہے.ایک جوان بے شادی شدہ جو شہوانی حالت سے بھرا ہوا ہے وہ اگر شادی کے انجام پر نظر ڈالتا تو وہ
خطبات محمود ۲۰۲ جلد سوم معذور سمجھا جاسکتا ہے اور ایک شخص جو شہوانی طاقت کو دبا نہیں سکتا اس کے لئے شادی ایک فلسفیانہ نکتہ سے زیادہ وقعت نہیں رکھتی لیکن جس کی یہ حالت نہ ہو وہ جانتا ہے کہ میں ایک خاص ذمہ داری بعض حالات کے ماتحت اٹھا رہا ہوں.یہی حالت اس وقت میری ہے.پس میں جس تقریب کے لئے آج کھڑا ہوا ہوں وہ میرے لئے نہایت ہی اہم تقریب ہے.آج سے چند ماہ پہلے میں یہ وہم بھی نہیں کرتا تھا کہ ایک اور شادی کروں گا.بلکہ ایک بات یدا بھی ہوئی تو میں نے ایک دوست کو بتایا کہ میں حالات کے لحاظ سے بالکل معذور ہوں لیکن میں نہیں سمجھ سکتا کہ آئندہ زمانہ میں خدا تعالٰی نے کیا مقدر کیا ہوا ہے.اگر میری ذمہ داریاں جو جماعت کا امام ہونے کے لحاظ سے مجھ پر عائد ہوتی ہیں ان کے پورا کرنے کا مجھے خیال نہ ہوتا اور جماعت کی اغراض اور مقاصد اس بات کے لئے محرک نہ ہوتے تو آج اس تقریب کے لئے میں منبر پر کھڑا ہونے کی کبھی جرات نہ کرتا کیونکہ میں بیاہ شادیوں سے دل برداشتہ ہو چکا ہوں.اب میرے لئے اس فعل میں کوئی خوشی نہیں اور مجھے اس میں کوئی جسمانی راحت نظر نہیں آتی سوائے اس کے کہ جو خدا تعالٰی پیدا کر دے.کوئی لمبا عرصہ نہیں گزرا.کچھ دن ہوئے میں نے اسی مسجد میں ایک لیکچر دیتے ہوئے اعلان کیا تھا کہ میں نہیں سمجھ سکتا میں کوئی اور شادی کرنے کے قابل ہوں.مجھ میں اب اتنی ہمت نہیں ہے کہ ایک نوجوان لڑکی کولوں اور اسے تعلیم دے کر اس قابل بنا سکوں کہ سلسلہ کا کام اس طریق سے جو میرے مد نظر ہے کر سکے لیکن بعد کے میرے غور اور بعض دوستوں نے جو مشورے دیئے اور بعض ایسے دوست جن سے میں نے مشورہ لیا ان سے استخارے کرائے اور خود بھی کئے اس سے میری توجہ اس طرف مائل ہوئی کہ عورتوں میں اعلیٰ تعلیم کو رواج دینے اور ان میں سلسلہ کی روح پیدا کرنے کے لئے کسی ایسی لڑکی سے شادی کروں جو تعلیم یافتہ ہو اور جسے میں تربیت دے کر تعلیمی کام کرنے کے قابل بنا سکوں.اس فیصلہ کے بعد بعض کی تحریک پر مختلف جگہیں پیش ہو ئیں جن میں سے کئی ایسی تھیں جن کی سفارش ان کی شکل وصورت کرتی تھی لیکن چونکہ یہ بات مجھے مد نظر نہ تھی اس لئے میں نے انکار کر دیا.پھر بعض ایسی تھیں جو تعلیم دنیاوی زیادہ رکھتی تھیں اور یہی کشش تھی جو مجھے کھینچے کا باعث ہو سکتی تھی مگر ان جگہوں کے متعلق بھی میں نے انکار کر دیا کیونکہ میں نے سمجھا یہ تعلیم ایسی نہیں جس کے پیچھے میں پڑوں.آخر قطع نظر ان امور کے محض اس وجہ سے کہ اس جگہ دینی تعلیم کا سوال تھا اور وہ بات جس کی سلسلہ کو ضرورت تھی وہ اس جگہ
خطبات محمود ۲۰۳ جلد سوم پوری ہوتی نظر آتی تھی اس لئے میں نے اس جگہ کے متعلق اپنی رضا ظاہر کر دی جس جگہ اب نکاح کا فیصلہ کیا گیا ہے.خدا تعالی کی مشیت ہوتی ہے اور کوئی انسان اس کی مرضی کی تہہ کو نہیں پہنچ سکتا اگر اس کی حکمت اور اس کی مرضی اس امر کا فیصلہ نہ کرتی کہ وہ امتہ الھی کو مجھ سے جدا کر لیتی تو میں سمجھتا ہوں کو چوتھی شادی کی بھی ایک مسلمان کو اجازت ہے مگر میں اپنے حالات کے لحاظ سے اس کے لئے تیار نہ ہوتا.میں نہیں سمجھتا آئندہ میرے قلب کا کیا حال ہو گا لیکن میں اتنا جانتا ہوں کہ اس وقت تک کوئی ایسی حالت مجھ پر نہیں گزری کہ میں نے اس نقصان کو بھلایا ہو اور آج تک میں نے کوئی نماز ایسی نہیں پڑھی جس میں امتہ الحی مرحومہ کے لئے دعا نہیں کی.میں جب رسول کریم ﷺ کا خیال کرتا ہوں تو مجھے آپ کے اخلاق نہایت ہی پیارے لگتے ہیں کہ آپ کو اتنے بڑے بڑے کام سرانجام دیتے ہوئے کبھی خدیجہ نہ بھولیں.حدیث میں آتا ہے حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی وفات پر نو دس سال گزر جاتے ہیں.یہ معمولی زمانہ نہیں.لوگ تھوڑے تھوڑے عرصہ بعد اپنے بڑے بڑے عزیزوں کو بھول جاتے ہیں مگر اتنے سال گزر جاتے ہیں صحابہ" لکھتے ہیں.لوگ رسول کریم ﷺ کے پاس تحفہ لاتے ہیں جسے دیکھ کر آپ کو آنسو آجاتے ہیں اور پر نم آنکھوں سے فرماتے ہیں یہ تحفہ فلاں عورت کے پاس لے جاؤ کیونکہ وہ میری خدیجہ کی سہیلی تھی.فلاں عورت کے پاس لے جاؤ کہ میری خدیجہ سے بہت محبت کرتی تھی.ایک دفعہ ایک عورت آپ سے ملنے کے لئے آئی آپ اسے دیکھ کر اٹھ کھڑے ہوئے اور اپنی چادر بچھا کر اسے بٹھایا.صحابہ نے پوچھا یہ کون ہے.فرمایا خدیجہ کو اس سے محبت تھی..ایک نادان سمجھتا ہے یہ شرک ہے اور دل کی کمزوری کا نتیجہ ہے حالانکہ سالہا سال تک ایک مرنے والے کو جس کی یاد کوئی چیز نہ دلاتی ہو یا د رکھنا وفاداری ہے شرک نہیں.عام طور پر لوگوں کو منہ دیکھنے کی محبت ہوتی ہے.جب کوئی نظروں سے غائب ہو جائے اسے بھول جاتے ہیں مگر میں نے بارہا غور کیا ہے.اور ہر بار اس خواہش کو اپنے دل میں پایا ہے کہ اگر میں اپنے مرنے پر کوئی ایسے آدمی چھوڑ جاؤں جن کے دل میں اسی طرح میری محبت اور میرے لئے دعا سے پر ہوں جس طرح میرا دل امتہ ائی کے لئے پر ہے تو میں سمجھوں گا کہ میں ایک کام کر کے مرا ہوں.کون ہیں جو مرنے والے کو یاد رکھتے ہیں.جب وہ اپنی خواہشات کو پورا ہوتے دیکھتے
خطبات محمود ۲۰ جلد سوم ہیں جب اپنی لذتوں کے حصول کا ذریعہ پالیتے ہیں تو مردوں کو بھول جاتے ہیں اور شاذ ہی کوئی ہوتا ہے جو مرنے والے کی یاد اپنے دل میں تازہ رکھتا ہے.لیکن مجھ میں وفاداری اور وفا شعاری کا ایک ایسا جذبہ رکھا گیا ہے کہ میں نے اپنے بچپن کے زمانہ سے اسے محسوس کیا ہے.اس زمانہ میں جب دوست مجھ سے پوچھا کرتے کہ تم پر کون سی بات سب سے زیادہ اثر کرتی ہے تو میں جواب دیا کرتا تھا.میں اگر کسی کتاب میں وفاداری کا کوئی واقعہ پڑھوں تو میری آنکھیں آنسوؤں سے بھر جانے سے باز نہیں رہ سکتیں.میرے نزدیک کسی کی جدائی اور اس دنیا کے لحاظ سے ہمیشہ کی جدائی کو یاد رکھنا ایک خوشگوار رنج، ایک فرحت پہنچانے والا غم اور ایک مسرت بخش تکلیف ہے.یہ رنج ہزاروں خوشیوں سے بہتر اور یہ غم ہزاروں فرحتوں سے اچھا ہے.محبت کا درد، درد نہیں بلکہ ایک دوا ہے.وفاداری کا صدمہ، صدمہ نہیں بلکہ دل کو صاف کرنے والی ایسی بھٹی ہے جس سے وہ جلا پا کر نکلتا ہے اور انسان کی روح آلائشوں سے پاک ہو کر اس اعلیٰ مقام پر سانس لیتی ہے جہاں کی ہوا نہایت ہی لطیف اور پاک ہوتی ہے.اگر میرے سپرد ایک جماعت کی امامت نہ ہوتی.اگر بیوقوفی سے کہو یا ہو شیاری سے ایک کثیر جماعت کی ترقی کا خیال مجھے مد نظر نہ ہو تا تو در حقیقت اب شادی کرنا تو الگ رہا اس کا خیال اور اس کی تحریک بھی میرے دکھے ہوئے دل کے لئے ٹھیس لگانے کا موجب اور تکلیف دہ ہوتی.مگر میں اللہ تعالٰی کے فضلوں کا امیدوار ہوں اور میں اس کی رحمت سے کبھی نا امید نہیں ہوا.ود و بارد رسول کریم ﷺ نے فرمایا ہے.الارواح جنود مجندة - لے کہ رو میں ایک دوسرے سے وابستہ اور پیوستہ ہوتی ہیں.یعنی بعض کا بعض سے تعلق ہوتا ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ میری روح کو امتہ الحی کی روح سے ایک پیوستگی حاصل تھی.مجھے ہمیشہ حیرت ہوتی ہے اور اس کا ذکر کبھی کبھی میں مرحومہ سے بھی کیا کرتا تھا کہ جب شادی کی تو ان پر احسان سمجھ کر کی تھی کہ حضرت خلیفہ المسیح الاول کی اس خواہش کو پورا کروں کہ مسیح موعود کے خاندان سے آپ کے خاندان کا خونی رشتہ قائم ہو جائے.لیکن میں نہیں جانتا تھا یہ میری نیک نیتی اور اپنے استاذ اور آقا کی خواہش کو پورا کرنے کی آرزو ایسے اعلیٰ درجہ کے پھل لائے گی اور میرے لئے اس سے ایسے راحت کے سامان پیدا ہوں گے.مجھے بہت سی شادیوں کے تجربے ہیں.میں نے خود بھی کئی شادیاں کی ہیں اور بحیثیت ایک جماعت کا امام ہونے کے ہزاروں شادیوں سے تعلق ہے اور ہزاروں واقعات مجھ تک پہنچتے رہتے ہیں مگر میں نے عمر بھر کوئی ایسی کامیاب اور خوش
خطبات محمود ۲۰۵ جلد سوم کرنے والی شادی نہیں دیکھی جیسی میری یہ شادی تھی.میں شکلوں کا پرستار نہیں ہوں.مرحومہ کی شکل جسمانی لحاظ سے کوئی اچھی شکل نہ تھی.دوسری بیویوں کی شکل ان سے بہت اچھی تھی لیکن ان کے اندر ایک ایسا ایمان تھا حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر ایک ایسا یقین تھا اسلام کی صداقت پر جو ایمان اور یقین بہت کم عورتوں میں پایا جاتا ہے ان کے اندر ایک یقین اور وثوق تھا تمام سلسلہ کے کاموں کے متعلق.پھر میاں کے عیوب اور کمزوریاں سب سے زیادہ بیوی پر ظاہر ہوتی ہیں مگر باوجود ان کمزوریوں کے جو مجھ میں پائی جاتی ہیں اور باوجود ان غفلتوں کے جو مجھ سے ظاہر ہوتی ہیں میں نے ہمیشہ ان کے ایمان کو خلافت کے متعلق ایسا مضبوط پایا کہ بہت کم مردوں میں ایسا ہوتا ہے.ان کی دین سے محبت، ان کی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے محبت، ان کی وہ حالت ایمان جو دین کے دوسرے شعبوں کے ساتھ تھی میرے حساس قلب کو متاثر کئے بغیر نہ رہ سکتی تھی.اور مجھے فخر ہے کہ ان کی شادی مجھ سے ایسے زمانہ میں ہوئی جبکہ وہ چھوٹی عمر کی تھیں اور مجھے تعلیم دینے اور تربیت کرنے کا موقع مل گیا اور بجا نخر ہے.مگر میں یہ بھی جانتا ہوں کہ اگر قبولیت کا مادہ نہ ہو تو کوئی انسان ترقی نہیں کر سکتا.خواہ ان کی کوئی حالت ہوتی کتنے غصہ اور جوش میں ہو تیں دینی ذکر کے بعد میں نے دیکھا ان کی طبیعت معادب جاتی.عورتوں کو تو عام طور پر دیکھا ہے اور بعض مردوں کو بھی کہ جب وہ غصہ کی حالت میں ہوں تو فوراً غصہ کو روک نہیں سکتے.آہستہ آہستہ ان کی طبیعت بحال ہوگی لیکن ان کو میں نے دیکھا.اگر ان کی غلطی ہوتی اور بتایا جاتا کہ دین میں یوں ہے تو فورا ان کی تسلی ہو جاتی اور اس طرح ان کی طبیعت ساکن ہو جاتی جس طرح پہاڑ سے ٹکرا کر کوئی چیز ٹھہر جاتی ہے.میں عموماً بیمار رہتا ہوں اور حضرت خلیفہ اول فرمایا کرتے تھے کہ بیمار میں غصہ زیادہ ہوتا ہے.میں بلا وجہ تو کسی پر غصہ نہیں ہو تا لیکن اگر معقول وجہ ہو تو غصہ کا اظہار کر دیا کرتا ہوں.اس وجہ سے بارہا ایسے مواقع پیش آئے کہ میں ان سے ناراض ہوا مگر سوائے ایک دفعہ کے ان کے چہرہ پر کبھی بل نہ دیکھا خواہ وہ کتنے ہی رنج اور صدمہ کی حالت میں ہوں جب میری شکل دیکھتیں تو اپنے چہرہ کو خوش بنالیتیں تاکہ مجھ پر جسے اور بہت سے فکر دامنگیر رہتے ہیں ان کا غمگیں چہرہ دیکھ کر اور اثر نہ ہو.مذکورہ بالا موقع پر ایک ایسی ہی وجہ پر جو معقول وجہ تھی ان کو غلط فہمی تھی ناراض ہو ئیں.اور اس کا پتہ بھی مجھے اس طرح لگا کہ میں نے ان کے چہرہ پر ملال کے آثار دیکھے.میں نے پوچھا آج تک میں نے تمہارے چہرے
خطبات محمود جلد سوم پر ایسے آثار نہیں دیکھے تھے جو آج ہیں اس کی کیا وجہ ہے.تب انہوں نے وہ بات بتائی جس کے متعلق انہیں غلط فہمی تھی.میں نے ان کی غلط فہمی کو دور کر دیا اور اس وقت انہیں ایک بات کہی جسے خدا تعالیٰ نے پورا کر دیا مگر اس کی خوشی دیکھنا ان کے لئے مقدر نہ تھی.کوئی نادان اسے شرک کے یا اپنی بڑائی.مگر میں نے جو کچھ کہا تھا وہ یہ تھا.میں نے کہا گلہ جانے دو یہ بلاوجہ ہے اور یہ خوشخبری سن لو کہ تمہارے ہاں لڑکا ہو گا جو بہت بااقبال ہو گا.پہلے ان سے لڑکیاں ہوئی تھیں مگر اسی ماہ میں جس میں یہ گفتگو ہوئی حمل ہوا اور لڑکا پیدا ہو گیا اور جس کا نام خلیل احمد رکھا گیا.میں نے ان سے جو وعدہ کیا تھا اور جو خدا تعالٰی نے میری زبان پر جاری کیا تھا وہ بہت زیادہ تھا اس کا اظہار میں نہیں کرنا چاہتا.البتہ اتنا کہہ دیتا ہوں کہ مجھے بتایا گیا وہ مسیحی نفس ہو گا اور حضرت مسیح سے نہایت گہری مماثلت ہوگی.میں نہیں جانتا اس کی زندگی کا کیا حال ہو گا.بشیر اول کے متعلق حضرت مسیح موعود کو بتایا گیا تھا مگر وہ فوت ہو گیا.اس بچے کی فطرت کے متعلق مجھے علم دیا گیا ہے.اگر ہماری کسی قسم کی غفلت اور کوتاہی روک نہ بن گئی تو جیسا کہ خدا تعالیٰ نے مجھے بتایا ہے وہ مسیحی نفس ہو گا.غرض میں کسی دنیوی خواہش اور لذت کے لئے اس کام پر آمادہ نہیں ہوا.میرا دل ڈرتا ہے کہ وہ جو پہلے ہی غموں اور فکروں کی آماجگاہ بنا ہوا ہے ایک اور فکر نہ سیڑ لے.مگر خدا تعالٰی سے دعائیں کی ہیں اور میں محض اس نیت سے آمادہ ہوا ہوں کہ خدا تعالیٰ کے سلسلہ کا ایک جزو جو بہت پیچھے ہٹا ہوا ہے اس ذریعہ سے اس کی ترقی کا سامان ہو.ورنہ میں جس قدر اپنے نفس کو ٹولتا ہوں اس کے سوا کوئی خواہش نہیں پاتا.اور کوئی ظاہری وجہ نہیں کہ دنیوی فائدہ ظاہر کرتی ہو.اللہ تعالٰی بہتر جانتا ہے کہ محض ایک اور صرف ایک غرض اس کام بلکہ اس بوجھ کو اٹھانے کی محرک ہے اور وہ صرف جماعت کی ہمدردی اور سلسلہ کا مفاد ہے.میں نے بار بار اپنے دل کو ٹولا ہے اور اس کے چاروں گوشوں کو دیکھا ہے اور بہت غور سے دیکھا ہے اور اس کے سوا میں نے اس میں کوئی اور خواہش نہیں دیکھی.لیکن پھر بھی چونکہ انسان کمزور ہے اس لئے میں دعا کرتا ہوں کہ اگر میرے دل کے کسی گوشہ میں اس کے سوا کوئی اور خواہش ہو تو خدا تعالیٰ اسے بدل دے.میں نے کم از کم تین سو دفعہ استخارہ اور دعا اس شادی کے متعلق کی ہے لیکن اب میں پھر
خطبات محمود ۲۰۷ جلد سوم دعا کرتا ہوں کہ اگر میری دعائیں میری نفسانی کمزوری کی وجہ سے قبول نہ ہوئی ہوں تو خدا تعالی اب قبول فرمالے.اور اس سے کوئی ایسا شاخسانہ نہ نکلے جو غم وہم کا موجب ہو.میں شادی کے فرائض اور ذمہ داریوں کو جانتا ہوں.میں نے بارہ لوگوں کو بتایا ہے کہ شادیوں کی کیا اغراض ہیں اور آج میں اپنے نفس کو مخاطب کر کے وہی کہتا ہوں جو آج تک دوسروں سے کہتا رہا کہ ان باتوں کو سوچ لے مگر پھر بھی دعا کرتا ہوں کہ وہ اغراض جو خدا تعالی اور رسول کریم نے شادی کی بتائی ہیں ان کے مطابق زندگی بسر کرنے کی توفیق عطا فرمائے.میرا دل بہت سے اسباب کی وجہ سے حقیقی دنیوی خوشی سے نا آشنا ہو گیا ہے.اب مجھے دنیا میں کوئی خوشی نظر نہیں آتی.لیکن یہ نہیں کہہ سکتا کہ خوش نہیں ہوں.جب میرا رب مجھے خوش کرنا چاہتا ہے تو میں اس کے فضل اور اس کی بندہ نوازی سے خوش ہوتا ہوں.لیکن اس وقت میری حالت حضرت مسیح کی اس رات کی حالت کے مطابق ہے جس کی صبح کو انہیں صلیب پر لٹکایا جانا تھا.انہوں نے فرمایا تھا میرا دل تو تیار ہے مگر جسم تیار نہیں.اسی طرح میں کہتا ہوں روحانی طور پر خوشی کے مواقع آتے ہیں مگر جسمانی دل منقبض ہے.اگر میرے دل میں یہ تڑپ نہ ہوتی کہ کی ترقی کو دیکھوں.اگر مجھے یہ امید نہ ہوتی کہ میں اپنی زندگی میں اپنے گناہوں کے معاف کرانے کے لئے سامان کر سکوں تو اس دنیا میں میرے لئے کوئی دلچسپی کا سامان نہیں مگر باوجود اس کے میں خدا تعالٰی کی نعمتوں کو رد نہیں کرتا بلکہ طلب کرتا ہوں.اگر میں دنیا میں رہ کر دین کی کچھ خدمت کر سکوں، ترقی اسلام میں محمد معاون ہو سکوں، خدا تعالی کی رضا میں کوئی گھڑی گزار سکوں تو میرے لئے کوئی دکھ دکھ نہیں بلکہ یہ زندگی ہی جنت ہے اور اعلیٰ درجہ کی جنت ہے.میں کبھی اپنی نادانی کی گھڑیوں میں کہا کرتا تھا.میرے مولا!! کس غرض کے لئے تو نے مجھے دنیا میں رکھا ہوا ہے مگر میں سمجھتا ہوں وہ نادانی کی گھڑیاں ہوتی ہیں.دنیا دار العمل ہے اگر کوئی گھڑی ایسی میسر آجائے جس میں خدا تعالی کی رضا حاصل ہو سکے تو یہی جنت ہے.جنت کیا ہے کیا دودھ اور شہد کی نہریں جنت ہے.کیا باغوں کی سرسبزی جنت ہے.جنت خدا تعالیٰ کی رضا ہے.اگر اس کی رضا اس دنیا میں حاصل ہو جائے تو یہی جنت ہے اور اگر اگلے جہان میں حاصل ہو تو وہی جنت ہے.پس چونکہ یہ دنیا دار العمل ہے اور خدا تعالی کی رضا کے حصول کی بنیاد یہیں پڑتی ہے اس لئے میں خدا تعالی کی دنیوی نعمتوں کی بھی قدر کرتا ہوں اور میں اپنی کمزوریوں کا اقرار کرتے ہوئے اپنی کمزوریوں پر ندامت کا اظہار کرتا ہوں.
خطبات محمود ۲۰۸ جلد سوم غرض اس نئے بوجھ کو جو میں اٹھانے لگا ہوں تو محض اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے اور میں سمجھتا ہوں دوسرے فریق کے لئے بھی یہ کوئی خوشی نہیں.ایک ایسا مرد جو صحت کے لحاظ سے کمزور ہو، جس کی مالی حالت کمزور ہو، جس کا دل دنیوی خوشی سے بے بہرہ ہو، جس کی پہلے دو بیویاں موجود ہوں اسے لڑکی دے کر کوئی بڑی امید نہیں کر سکتا.لڑکیاں چاہتی ہیں کہ خوش و خرم زندگی بسر کریں.ماں باپ چاہتے ہیں کہ ان کی لڑکیاں ایسے انسان کے پاس جائیں جو ہنس لکھ ہو جس کے قومی مضبوط ہوں، جس کی مالی حالت اچھی ہو، جس کی پہلی شادی نہ ہو ، لیکن ان میں سے کوئی بات بھی مجھ میں پائی نہیں جاتی اس لئے میں سمجھتا ہوں کہ ان کی بھی قربانی ہے اور میں دعا کرتا ہوں کہ خدا تعالی انہیں اس کے نیک نتائج دے.اور اگر ان کی نیت اور اخلاص میں کسی قسم کی کمی ہو تو اس کے بداثرات سے بچائے.اور جب یہ شادی محض جماعت کے بعض کاموں کو ترقی دینے کے لئے کی جارہی ہے تو خدا تعالٰی سے یہ بھی دعا ہے کہ وہ اس شادی کو میرے لئے بھی مبارک کرے اور اس لڑکی کے خاندان کے لئے بھی.پھر وہ اس کمزور اور متروک صنف کے لئے بھی جو عورتوں کی صنف ہے مبارک کرے جس کے حقوق سینکڑوں سال سے تلف کئے جارہے ہیں.جو خدا تعالٰی کے رحم کے لئے ہاتھ اٹھا اٹھا کر پکار رہی ہے کہ اے خدا! کیا تیرا رحم مردوں کے لئے مخصوص ہے یا عورتوں کے لئے بھی خدا تعالیٰ ان پر اپنا فضل اور رحم نازل کرے اور مردوں پر بھی.دونوں کامل ہوں اور خدا تعالی موت سے پہلے مجھے یہ بات دکھا دے کہ اسلام دنیا میں ہر طرف غالب ہو رہا ہے.بچے ایمان اور اخلاص سے جماعت بھری ہوئی ہے، عالم و جاہل، مرد و عورت سب خدا کے عشق کے نشہ میں چور ہیں.خدا تعالی ان سے راضی ہے اور وہ خدا سے راضی ہیں.میں اگر اس مقصد اور مدعا میں حصہ لیتے ہوئے دنیا سے گزر جاؤں تو میں سمجھوں گا میرے جیسا خوش قسمت انسان اور کوئی نہیں.میں اس نکاح کا اعلان خود کرتا ہوں.عام طور پر یہ بات رسم و رواج کے خلاف ہے کہ جس کا نکاح ہو وہی اعلان کرے.مگر میرے دل کے غم نے مجھے مجبور کیا کہ میں خود کھڑا ہو کر اعلان کروں اور ان جذبات اور خیالات کا اظہار کروں جو میرے سوا کوئی اور نہیں کر سکتا تھا.مگریہ کوئی عجیب بات نہیں ہے.میں جن بزرگوں کی جوتیاں جھاڑنے کی بھی قابلیت نہیں رکھتا انہوں نے اپنے نکاح کا اعلان خود کیا ہے.میں خدا تعالی کے ان جرنیلوں کی تقلید میں اور ان بزرگوں سے تیمنا اور تبرکاً نسبت کرتے ہوئے اس امید سے کہ خدا تعالیٰ اس نکاح کو بابرکت
خطبات محمود ۲۰۹ جلد سود کرے خود اعلان کرتا ہوں.لڑکی والے یہاں موجود نہیں ہیں لیکن انہوں نے تحریری اجازت بذریعہ رجسٹری مفتی محمد صادق صاحب کو بھیج دی ہے اور انہیں اپنا قائم مقام مقرر کیا ہے.مفتی صاحب آپ کو ایک ہزار روپیہ سر پر ساره بیگم بنت مولوی عبد الماجد صاحب بھاگلپوری کا نکاح مجھ سے منظور ہے.جناب مفتی صاحب نے منظوری کا اقرار کیا.اس کے بعد حضور نے لمبی دعا فرمائی.له الفضل ۱۴ اپریل ۱۹۲۵ء صفحه ۱ له بخارى كتاب بدء الخلق باب الارواح جنود مجندة الفضل ۱۸- اپریل ۱۹۲۵ء صفحه ۲ تا ۶)
خطبات محمود ۵۸ جلد سوم تعدد ازدواج کی اہم ذمہ داریاں (فرموده ۵ - ستمبر ۱۹۲۵ء) ۵- ستمبر ۱۹۲۵ء بعد نماز مغرب حضرت خلیفۃ المسیح الثانی نے جناب حافظ روشن علی صاحب کا نکاح ثانی امتہ المجید بنت ابو عبید اللہ حافظ غلام رسول صاحب وزیر آبادی کے ساتھ سو روپیہ صر پر پڑھا.اے : خطبه مسنونہ کی تلاوت کے بعد فرمایا جماعت کا امام ہونا بھی انسان کے لئے جہاں بہت سی برکتوں کا موجب ہوتا ہے وہاں اس کو بعض دفعه لا نخل عقدوں میں ڈال دیتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ میں قادیان کے دو آدمیوں کا آپس میں اختلاف ہو گیا.دوستوں نے انہیں سمجھانا چاہا بہت صیحتیں کیں مگر انہوں نے خیال کیا ہمارا فیصلہ سوائے انگریزی عدالت کے نہیں ہو سکتا.ہر ایک کو دوسرے پر بد ظنی تھی اور خیال تھا کہ میں نے اگر بات مان لی تو دوسرے کو فائدہ ہو جائے گا اس لئے انہوں نے ایک دوسرے پر سرکاری عدالت میں نالش کر دئی.پھر جس دن ان کے مقدمہ کی پیشی ہو وہ خود یا ان کے قائم مقام حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے کہیں کہ آپ دعا کریں خدا کامیابی دے اس پر حضرت مسیح موعود" بہت ہنسا کرتے اور فرماتے دونوں میرے مرید ہیں اور دونوں سے مجھے تعلق ہے میں کس کے لئے دعا کروں کہ وہ ہارے اور کس کے لئے دعا کروں کہ وہ جیتے.ہم تو یہی دعا کرتے ہیں دونوں میں سے جو سچا ہے وہ جیت جائے اور اسے اپنا حق مل جائے.
خطبات محمود جلد سوم پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ایک مالن کی مثال بیان فرمایا کرتے.فرماتے اس کی دو لڑکیاں تھیں ایک کمہاروں کے گھر بیاہی ہوئی تھی.دوسری مالیوں کے ہاں جب کبھی بادل آتا تو وہ عورت دیوانہ وار گھبرائی ہوئی پھرتی.لوگ کہتے اسے کیا ہوا ہے.وہ کے ایک بیٹی ہے نہیں.اگر بارش ہو گئی تو جو کمہاروں کے ہاں ہے وہ نہیں.اور اگر نہ ہوئی تو جو مالیوں کے گھر ہے وہ نہیں.کیونکہ بارش نہ ہونے کی وجہ سے ترکاریاں نہ ہوں گی اور اگر ہو گئی تو کمہارن کے برتن خراب ہو جائیں گے.میں نے سوچا ہے ہماری مثال کئی دفعہ ایسی ہی ہوتی ہے.خصوصا دوسری شادی کے وقت.وہ شادی ہوتی ہے ایک فریق کے لئے لیکن عورتوں میں قدر تا اس کے خلاف احساس ہوتا ہے اور رسول کریم ﷺ نے اس کے متعلق فرمایا ہے اور ہم روزانہ دیکھتے ہیں کہ عورتوں میں پایا جاتا ہے.یہ احساس جو عورتوں کو دوسری شادی کے خلاف ہوتا ہے اسے وہ شریعت کے احترام کی وجہ سے اور اپنی شرافت کے باعث دباتی ہیں مگر در حقیقت ان کے دل کے کونہ میں ایک چنگاری جل رہی ہوتی ہے اور خواہ اس میں سے دھواں نہ نکل رہا ہو مگر راکھ کے نیچے آگ ضرور دبی ہوتی ہے اور عورت کا دل اسے محسوس کر رہا ہوتا ہے اس لئے اگر وہ دوسری شادی کرنے کو برا نہ کے تو یہ ضرور کہتی ہے کہ اگر دوسری شادی نہ ہوتی تو اچھا ہوتا وہ عورتیں نادان اور بیوقوف ہیں جو دوسری شادی کو برا کہہ کر کافر بنتی ہیں کیونکہ ان کے لئے ایک راستہ تا ہے اور وہ ان کے نفس کی یہ خواہش ہے کہ اگر دوسری شادی نہ ہو تو اچھا ہوتا اور یہ خواہش کوئی گناہ نہیں.جائز بات کے لئے بھی انسان کہہ سکتا ہے مثلا ایک شخص ایسی جگہ نوکر ہو جو اسے کسی وجہ سے ناپسند ہو تو یہ کہنے میں کوئی گناہ نہیں کہ اگر میں یہاں نو کر نہ ہوتا تو اچھا ہوتا.میں یہ اچھی طرح جانتا ہوں کہ مرد کی دوسری شادی پہلی عورت میں ضرور جذبہ افسردگی پیدا کرتی ہے.یہاں ایک شخص کی دوسری شادی ہوئی.چونکہ عام طور پر لوگ جانتے ہیں اس لئے میں نام لیتا ہی نہیں اس شادی میں مجھے دخل دینا چاہئے تھا لیکن باوجود اس کے میں نے دخل نہ دیا تھا.ان سے میرے ایسے تعلقات تھے کہ ایک دوسرے سے رابطہ کلام زیادہ ہوتا ہے مگر میں نے شادی کے معاملہ میں کوئی دخل نہ دیا تھا.لیکن شادی کے بعد میں نے دیکھا ان کی پہلی بیوی مجھ سے پانچ سال تک ناراض رہی.وہ نہیں کہتی تھی کہ دوسری شادی انہوں نے
خطبات محمود ۲۱۲ جلد سوم ہی کرائی ہے حالانکہ تعلقات کے لحاظ سے مجھے چاہئے تھا کہ میں کرا تا مگر میں نے دخل نہیں دیا تھا.شادی کے بعد پانچ سال تک ان کی پہلی بیوی نے مجھے سلام تک نہ کیا.یہ اس قسم کے واقعات ہیں کہ ہماری مثال مالن کی سی ہو جاتی ہے.مگر چونکہ یہ بزدلی ہے کہ انسان اپنے فرائض کو لوگوں کے خیالات اور آراء کے ڈر سے چھوڑ دے اس لئے میں اس کی کوئی پرواہ نہیں کرتا.آج مجھ سے دو شخصوں نے سوال کیا کہ کیا آپ خود نکاح پڑھائیں گے.ان میں سے ایک کا تو مجھ پر ادب واجب تھا اس لئے ان کو اتنا ہی جواب دیا ہاں میں ہی پڑھاؤں گا مگر دوسرے سے میں نے کہا میں نہیں پڑھاؤں گا تو کیا تم پڑھاؤ گے.دراصل ان کا یہ سوال کرنا تحریک تھی اس بات کی کہ تم دو فائروں میں اپنے آپ کو کیوں کھڑا کرتے ہو لیکن یہ سخت غلطی ہے کہ انسان اس قسم کی باتوں سے ڈر جائے.اس کا فرض ہے کہ اپنی ذمہ داری کو صحیح طور پر اور نیک نیتی سے ادا کرے.پھر اگر اس پر کسی کو نا جائز ناراضگی پیدا ہوتی ہے تو اس کی پرواہ نہ کرے.باقی ہماری مثال اسی مالن والی ہے جو چاہتی ہے کہ اس کی دونوں لڑکیاں آباد رہیں.ہماری بھی یہی خواہش ہوتی ہے کہ طرفین راضی رہیں لیکن اگر کوئی مجبوری پیش آئے جو خدا تعالی کی طرف سے ہو تو انسان کو قبول کرنا چاہئے.دوسری شادی کے متعلق دوست جانتے ہیں.میری یہی رائے ہے کہ جو دوسری شادی کا بوجھ برداشت کرنے کی طاقت رکھتا ہو اس کے لئے اسلام پسند کرتا ہے.لیکن تجربہ بتاتا ہے اور اس کی وجہ سے میری پہلی رائے کسی قدر بدلی ہے کہ لاکھوں کروڑوں میں سے کوئی انسان ہوتا ہے جو دوسری شادی کی برداشت کی طاقت رکھتا ہے.مسئلہ کے لحاظ سے تو میری وہی رائے ہے جو پہلے تھی مگر مردوں کے حالات دیکھ کر میں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ جو عورتوں میں انصاف کرنا چاہیں ان میں سے بہت سے نہیں کر سکتے.ادھر عورتوں میں جو بردباری اور متحمل ہونا چاہیئے وہ نہیں ہے ایسی حالت میں اگر کوئی انسان ان مشکلات کو حل نہیں کر سکتا اور جماعت کے متعلق میرا جو تجریہ ہے وہ یہی ہے کہ اکثر لوگ نہیں کر سکتے تو میں یہی کہوں گا کہ لوگ اپنے ایمان، اپنی بیویوں کے ایمان اور دوسرے لوگوں کے ایمان کی حفاظت کی خاطر ایک ہی بیوی کریں.شاید یہ وجہ ہو کہ تعلیم زیادہ ہونے کی وجہ سے احساسات کمزور ہو گئے ہیں اور جو قوت برداشت پہلے لوگوں میں پائی جاتی تھی وہ اب نہیں رہی.مگر کچھ ہو نظر یہی آتا ہے کہ مرد پوری طرح احساسات اور جذبات کو قابو میں نہیں رکھ سکتے اور عورتیں اس بردباری کو جو ہر مومنہ کا
خطبات ۲۱۳ جلد سوم ہے استعمال نہیں کرتیں.چھوٹی چھوٹی باتوں اور حقیر معاملات کو اتنا بڑھا دیتی ہیں کہ انسان حیران رہ جاتا ہے.ادھر مرد میلان طبع کو قابو میں نہیں رکھ سکتے نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ لوگوں کو انگشت نمائی اور دشمنوں کو نسی کا موقع ملتا ہے.گھروں میں فتنہ و فساد پیدا ہو جاتا ہے اور وہ گھر جس کی غرض یہ ہوتی ہے کہ اس سے انسان جنت کا لطف اٹھائے.دوزخ کا نمونہ بن جاتا ہے.گھر اس لئے ہوتا ہے کہ جب انسان کام کرتا کرتا تھک جائے اور آرام کا محتاج ہو تو اس وقت گھر میں آئے اور کوئی گھڑی خوشی کی گزار سکے.لیکن اگر انسان اپنی بے احتیاطی سے ایسی حالت پیدا کر لے یعنی دوسری شادی کے متعلق یا تو اپنے نفس کا اندازہ غلط لگائے یا جن عورتوں سے اس نے گزارہ کرنا ہے ان کا اندازہ غلط کر لے تو اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ گھر اس کے لئے دوزخ بن جاتا ہے.وہ انسان حیوانوں میں زیادہ آرام سے گھڑی گزار سکتا ہے یہ نسبت دو بد خو اور اپنی عادتوں پر قابو نہ رکھنے والی عورتوں میں رہنے کے.اور ایسے انسان کا بے شادی رہنا اچھا ہے بہ نسبت اس کے کہ لوگوں کو انگشت نمائی کا موقع دے اور زبان طعن اسلام کے خلاف کھلوائے.لیکن باوجود ان مشکلات کے اس سے زیادہ بیوقوفی نہیں ہو سکتی کہ کہیں خدا نے ایک سے زیادہ بیویاں کرنے کا حکم نہیں دیا.انسانوں کو ایسے حالات پیش آتے ہیں کہ دوسری شادی نہ صرف جائز ہوتی ہے کیونکہ جائز کا تو ہر مسلمان قائل ہے بلکہ ضروری ہوتی ہے.قوم کے لحاظ سے یا دینی لحاظ سے ایسی ضرورت ہوتی ہے کہ ایک انسان دوسری شادی کرے.اس لئے جس طرح اس شخص کے لئے جو دو عورتوں میں انصاف نہیں کر سکتا یا ایسی بیویاں نہیں پاسکتا جو بردباری سے گزارہ کر سکیں میں کہوں گا اسے دوسری شادی نہیں کرنی چاہئے اور اگر وہ کرتا ہے تو مجرم ہے اسی طرح جو شخص قومی، تمدنی، مذہبی ضرورت کے وقت دوسری شادی کرنے سے جی چراتا ہے وہ بھی میرے نزدیک ویسا ہی مجرم ہے.آگے رہا یہ امر کہ یہ حالات کیا ہوتے ہیں ہر انسان کے متعلق غور کرنے سے معلوم ہو سکتے ہیں اور اس کے لئے سب سے بڑا قاضی انسان کا اپنا نفس ہے.دوسرے لوگ کسی کے متعلق شادی کے بعد فیصلہ کر سکتے ہیں مگر بہت سے انسان اپنے نفس کے ذریعے شادی سے پہلے فیصلہ کر سکتے ہیں.پس اگر اللہ تعالی کے بعد انسان کے ذاتی معاملات کا کوئی حج ہے تو وہ اس کا اپنا نفس ہے.اس کے لئے کوئی قواعد نہیں بیان کئے جاسکتے.خود اس انسان پر اس معمہ کا حل چھوڑا جاتا ہے جس کے سامنے یہ پیش ہو کہ وہ اسے
خطبات محمود ه۲۱۴ جلد سوم حل کرے.پھر اگر وہ درست کرے گا تو کہا مَا كَسَبَتْ اور اگر وہ غلطی کرے گا تو عَلَيْهَا مَا اكتسبت له در حقیقت اسلامی احکام کو تسلیم کر کے انسان اگر عدل کی کوشش کرے تو دوسری شادی اس کے لئے اس طرح ٹھو کر اور تکلیف کا باعث نہ ہو جس طرح عام طور پر ہوتی ہے کیونکہ انسان اپنے لئے مشکل خود پیدا کرتا ہے اور اپنے لئے جہنم خود تیار کرتا ہے.دوسروں کی ملامت کی اسے ضرورت نہیں ہوتی کیونکہ ملامت اپنے نفس سے اور جہنم گھر سے پیدا ہوتی ہے.آسمان سے آگ یا باہر سے شعلہ آنے کی ضرورت نہیں ہوتی لیکن اگر ایک نفس پرست انسان ایک بیوی کو مکھی کی طرح نکال دے اور دوسری کے ساتھ عیش و عشرت کرنا شروع کر دے تو اگر وہ کوشش کرے کہ جہنم سے بھاگ جاؤں تو کہاں بھاگ سکتا ہے.اگر ایک جہنم سے بھاگے تو دوسری اس کے لئے تیار ہے.ہاں جو خود اپنی غلطی محسوس کر کے اس جنم میں کود پڑتا ہے وہ بڑے جہنم سے بچ جاتا ہے مگر جو ایسا نہیں کرتا اس کے لئے اور جہنم جو بہت سخت ہے تیار ہوتی ہے اور رسول کریم ﷺ کے قول سے معلوم ہوتا ہے کہ ایسا انسان قیامت کے دن آدھا اٹھایا جائے گا.سے اور قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ جنتی سالم اٹھایا جائے گا اس لئے آدھے دھڑ والا دوزخی ہو گا.پس دوسری شادی کا سوال نہایت اہم اور نازک سوال ہے جسے دوستوں کی توجہ کے لئے میں پھر پیش کرتا ہوں یہ نہیں کہ اس خطبہ کو جو میں پڑھ رہا ہوں اس نکاح سے خاص تعلق ہے بلکہ ہر بات کے لئے کوئی تقریب چاہئے.کسی نے کہا ہے..تقریب کچھ تو بر ملاقات چاہیے سیاسی لوگوں کا قاعدہ ہوتا ہے کہ جب کوئی بات کہنا چاہتے ہیں تو ان لوگوں کی طرف سے دعوت کرا دیتے ہیں جن کے متعلق وہ ہوتی ہے اور پھر اس موقع پر بیان کر دیتے ہیں.چونکہ نکاح کے متعلق کچھ کہنے کا بہترین موقع نکاح ہی ہے اور دوسری شادی کے لئے کچھ کہنے کے لئے دوسرے نکاح کا موقع.اس لئے میں اس وقت یہ سوال پیش کرنا چاہتا ہوں کہ کئی لوگ ہیں جو دوسری شادی کرتے ہیں تو پہلی بیوی کو معلقہ بنا دیتے ہیں اور اس سے حسن سلوک نہیں کرتے.یا ایسا ہوتا ہے کہ پہلی یا پچھلی بیوی خاوند کے لئے اس طرح جنم تیار کر دیتی ہے کہ اس کا محبت کا دروازہ بند ہو جاتا ہے.دوسرا ان باتوں کو بہت معمولی سمجھتا ہے اور وہ بہت چھوٹی
خطبات محمود - ۲۱۵ جلد مو چھوٹی ہوتی ہیں.لیکن دلوں کو اس طرح ٹکڑے ٹکڑے کر دیتی ہیں کہ پھر وہ جڑ نہیں سکتے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے میں نے یہ بات سنی ہے جو نصیحت کے لئے قصہ بنایا گیا ہے.کہتے ہیں کسی شخص کا ریچھ سے دوستانہ تھا.وہ ریچھ کو روزانہ اپنے گھر لے آتا اور خاطر تواضع کرتا.ایک دن ریچھ کے سامنے اس کی بیوی نے اسے ملامت کرتے ہوئے کہا یہ بھی کوئی دوستی کے قابل ہے جسے تم نے دوست بنایا ہوا ہے.یہ سن کر ریچھ نے اس شخص سے کہا مثالوں میں حیوان بھی باتیں کر سکتے ہیں) میرے ماتھے پر تلوار مار.اس نے انکار کیا تو ریچھ نے کہا مار ورنہ میری تجھ سے دوستی نہ رہے گی.آخر اس نے تلوار ماری جس سے ریچھ زخمی ہو گیا اور چلا گیا.ایک لمبے عرصے کے بعد ایک دن پھر وہ آیا اور آکر کہنے لگا دیکھو وہ تلوار کا نشان کہیں ہے.اس نے کہا کہیں نہیں.وہ کہنے لگا دیکھو تلوار کا نشان کہیں نہیں ملتا لیکن اے عورت! جو بات تو نے کہی تھی آج تک اس کا نشان میرے سینہ پر قائم ہے.تو بعض دفعہ چھوٹی چھوٹی باتیں ہوتی ہیں لیکن ان کے زخم ہمیشہ قائم رہتے ہیں دوسرے ان کا اندازہ نہیں لگا سکتے.ایسی باتیں کبھی مرد کی طرف سے ہوتی ہیں اور کبھی عورت کی طرف سے جن کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ گھر جہنم بن جاتا ہے.اس لئے ہماری جماعت کے دوستوں کو خصوصیت سے چاہئے کہ اگر دوسری شادی کی ضرورت پیش آئے تو نفس کو سمجھائیں کہ گزارہ کر سکے اور وہ سختی اٹھا کر بھی گھر کا ایسا انتظام کریں کہ نہ ان کے لئے گھر جہنم بنے اور نہ دوسروں کو اعتراض کا موقع ملے اور اگر کبھی کوئی بات پیدا بھی ہو تو عمدگی کے ساتھ دب جائے یوں لڑائی تو رسول کریم ﷺ کی بیویوں میں بھی ہو جاتی تھی مگر آپ ایسی حکمت اور عمدگی سے ٹلا دیتے تھے کہ کسی کے لئے اعتراض کی گنجائش نہ رہتی تھی.اس وقت میں حافظ روشن علی صاحب کے دوسرے نکاح کا اعلان کرنے کے لئے کھڑا ہوا ہوں.دوست دعا کریں کہ خدا تعالی ان کی شادی کو بابرکت بنائے.ان کے ہاں اولاد تو ہے مگر نرینہ اولاد نہیں اس لئے دعا کریں کہ خدا تعالٰی نرینہ اولاد دے اور دونوں بیویوں سے دے.الفضل ۶ - اکتوبر ۱۹۲۵ء صفحه ۷۹۶) له الفضل ۱۰ ستمبر ۱۹۲۵ء صفحہ ۱ ه البقرة : ۲۸۷ ترمذی ابواب النكاح باب ما جاء فى التسوية بين الضرائر
خطبات محمود ۵۹ جلد سوم 2 خطبہ نکاح کا مقصد (فرموده ۱۹۲۵ء) له املہ الرحیم صاحبہ بنت حضرت بھائی عبدالرحیم صاحب قادیانی کا نکاح حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے محترم مرزا برکت علی صاحب سپروائزر ابادان سے پڑھا.خطبہ مسنونہ کی تلاوت کے بعد فرمایا.چونکہ آج درس کا دن ہے اور مجھے کھانسی کی بھی شکایت ہے اس لئے اس موقع پر میں زیادہ نہیں بول سکتا لیکن اس قدر کہنا ضروری سمجھتا ہوں کہ خطبہ نکاح کو آنحضرت ﷺ نے اس لئے مقرر فرمایا ہے تا مسلمانوں کو ان اغراض و مقاصد کی طرف توجہ ہو جو نکاح کی ہیں اور ان فرائض و ذمہ داریوں اور ثمرات اور نتائج سے آگاہ ہوں جو نکاح سے وابستہ ہیں.ہر کام جو انسان کرتا ہے اس کے تین پہلو ہوتے ہیں.اس کام کے کرنے کا مقصد ہوتا ہے.پھر اس کام کے کرنے کا باعث ہوتا ہے.پھر اس کام کا نتیجہ یا ثمر ہوتا ہے.پھر اس کے ساتھ ساتھ اس کام کی ذمہ داری ہوتی ہے جو اس کام کے کرنے سے پیدا ہوتی ہے.اور جب تک ان سب باتوں کو مد نظر نہ رکھا جائے کوئی کام کام نہیں کہلا سکتا اور نہ ہی اس کام کے ذریعہ کوئی کامیابی حاصل ہو سکتی ہے.پس جب ایک انسان کسی کام کے کرنے سے پہلے اس کے تینوں پہلوؤں کو سوچ لیتا ہے یعنی اس کے مقصد اور اس کے باعث اور اس کے نتیجے پر کافی غور کرلیتا ہے تو پھر اس میں اس کام کے کرنے کے لئے خاص شوق اور جذبہ پیدا ہو جاتا ہے اور پھر ایسے کاموں کے نتائج بھی اچھے نکلتے ہیں لیکن اگر ان کو مد نظر نہ رکھا جائے اور کام کے کرنے سے
خطبات محمود ۲۱۷ جلد موم پہلے غور نہ کیا جائے تو نہ نتائج اچھے نکلتے ہیں اور نہ ہی اس کام سے سکھ یا آرام حاصل ہوتا ہے.یہ ناممکن ہے کہ ایک شخص ایک کام کے مقصد سے واقف ہو.اس کے باعث سے خبردار ہو اور پھر کرنے پر اس کا نتیجہ اچھا نہ نکلے.اس لئے انسان کو چاہئے کہ وہ کام کرنے سے پہلے ان مینوں پہلوؤں پر خوب غور کرلے اور اگر وہ خوب غور کرلے گا اور پھر اس کام کو کرے گا تو نہ صرف جسمانی ثمرات ہی پائے گا بلکہ روحانی نتائج بھی حاصل کرلے گا.یہی حالت نکاح کی ہے.اس کے بھی تین پہلو ہیں.اگر ان تینوں پہلوؤں کو مد نظر رکھا جائے تو یہ با برکت اور مفید ہو سکتا ہے اور اس سے عمدہ نتائج اور ثمرات پیدا ہو سکتے ہیں.نکاح کے موقع پر جو خطبہ نکاح پڑھا جاتا ہے اس کی غرض بھی یہی ہوتی ہے کہ فریقین کو ان تین امور کی طرف توجہ دلائی جائے.یہ کوئی رسم نہیں کہ ایک لڑکے اور ایک لڑکی کے تعلقات قائم کر دیئے جاتے ہیں ہماری جماعت کو اسے رسم نہیں سمجھنا چاہئے یہ اسلام کا حکم ہے اور اس میں خدا کی رضا ہے.رسم میں یہ بات نہیں ہوتی کیونکہ اسے لوگوں نے خود قائم کر لیا ہوتا ہے لیکن نکاح لوگوں نے خود نہیں کیا بلکہ خدا تعالٰی کا حکم ہے اور اس کے ذریعہ چند ذمہ داریاں لڑکے اور لڑکی پر عائد ہو جاتی ہیں جنہیں ان کو آئندہ زندگی میں نبھانا پڑتا ہے.دراصل یہ ایک مدرسہ ہوتا ہے جس میں نکاح کے ذریعہ ان کو داخل کیا جاتا ہے اور اگر وہ جانتے ہوں کہ ہمیں اس مدرسہ میں کیوں داخل کیا گیا ہے اور ہمارے اس داخل کئے جانے کا مقصد کیا ہے اور اگر اس کی ضرورت اور ذمہ داریوں سے آگاہ ہوں تو پھر وہ مقصد وہ ضرورت اور ذمہ داریاں صحیح اور درست بھی ہوں تو اس کے نہایت عمدہ نتائج پیدا ہو سکتے ہیں اور نکاح ایک بابرکت سے ہو جاتا ہے.اگر ایک شخص پہلے ہی نتائج پر اچھی طرح غور کرلے تو اس کے دو فائدے ہوتے ہیں.پہلا یہ کہ اگر نتائج سامنے آجائیں تو ایک شخص اپنی ذمہ داریوں کو دیکھ لیتا ہے اور پھر اس سے وہ اندازہ لگا سکتا ہے کہ کیا میں اس کام کو کر سکتا ہوں یا نہیں.اگر وہ سمجھتا ہے کہ کر سکتا ہے تو پھر اس کو برداشت کر لیتا ہے اور اگر مشکل بھی پیدا ہو تو اس سے گھبراتا نہیں.غرض ذمہ داریوں کا جاننا ہر کام میں اس قدر ضروری ہے کہ ایک شخص جب تک ذمہ داریوں کو نہ سمجھے تب تک وہ کسی کام کو کرہی نہیں سکتا.قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے.نکاح کی غرض خشیت اللہ ہے اور یہ غرض دراصل ایک ذمہ داری ہوتی ہے جس کو اگر پہلے جان لیا جائے تو انسان اس مدرسہ میں
خطبات محمود ۲۱۸ جلد سوم پڑتے ہی سیدھی راہ اختیار کرلیتا ہے.خدا تعالیٰ فرماتا ہے.يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللهَ وَقُولُوا قَوْلاً سَدِيدًا ، تُصْلِحُ ه لكُمُ اعْمَالَكُمْ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ وَمَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ فَازَ فَوْزًا عَظِيمًا - - ہے کہ نکاح کے ساتھ تم مرد اور عورت دونوں کی طرف سے ایک دوسرے پر ذمہ داریاں آئیں گی اگر ان کو ادا نہ کرو گے تو علاوہ نقصان برداشت کرنے کے بد عہد کہلاؤ گے.پس چونکہ نکاح کے ساتھ ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں اور میاں بیوی سمجھتے ہیں یہ ادا کرنی پڑیں گی.ادھر وہ نکاح کے ذریعہ ان ذمہ داریوں کے لئے مشترک ہو جاتے ہیں تو وہ دونوں ایک مقصد کے لئے اکٹھے ہو جاتے ہیں اور اس عہد کی پابندی ان دونوں کو کرنی ہوتی ہے جو قُولُوا قَولاً سَدِيدًا سے پیدا ہوتی ہے.یہ تو وہ ذمہ داریاں ہیں جو مرد کی طرف سے عورت پر اور عورت کی طرف سے مرد پر عائد ہوتی ہیں جس کے لئے وہ متحد اور مشترک کئے گئے ہیں.مگر اس کے ساتھ ہی مذہب کی طرف سے بھی ذمہ داریاں آتی ہیں.ایک اولاد کی تربیت ہے اور شریعت کی طرف سے ذمہ داری ہے اس کے متعلق بتایا کہ اس میں سستی نہ کرنا اور ساتھ ہی اس کا نتیجہ بھی بتا دیا کہ اگر سستی نہ کرو گے اور اولاد کی تربیت عمدہ طریق پر کرو گے تو فَقَدْ فَازَ فَوْزًا عَظِيمًا.تم یا مراد ہو جاؤ گے.یہ عظیم الشان نتائج اس سے پیدا ہوتے ہیں پس و لتَنْظُرُ نَفْسُ مَا قَدَّمَتْ لِغَد - سہ کے مطابق ہر شخص کو چاہئے کہ وہ سوچ لے کہ میں نے اپنے ہر فعل اور ہر قول سے آنے والے اوقات کے لئے ایک سامان تیار کرنا ہے اور یہ غور کرے کہ ان سامانوں کا اثر اس کی ذات تک ہی نہیں اور نہ ہی یہ یہاں تک ختم ہو جائے گا بلکہ اس کا اثر اس کی ذات سے ہٹ کر دوسروں تک بھی پہنچے گا.اور اس زمانہ میں ختم نہیں ہو جائے گا بلکہ آئندہ آنے والے زمانہ تک بھی گا اور اگر آج کے کئے ہوئے سامانوں سے وہ خود اور اس کی آنے والی نسل کامیاب ہو جائے تو فَقَدْ فَازَ فَوْزًا عَظِيمًا - میں کیا شک رہ گیا.آئندہ جن لوگوں پر اثر پہنچتا ہے.ان میں سے سب سے زیادہ حصہ اولاد کو ملتا ہے اور ایک شخص اگر خود نہیں تو اولاد کے ذریعہ نیک اثرات لوگوں کے قلوب پر ڈال سکتا ہے.پس اہم ذمہ داریوں میں سے ایک ذمہ داری عمدہ اور نیک اولاد حاصل کرتا ہے اور اگر فی الواقع کسی کو عمدہ اور نیک اولاد مل جائے اور اس کی ذمہ داری کی ادائیگی سے جو تربیت کے متعلق اس پر و
خطبات محمود ۲۱۹ جلد سو عائد ہے وہ عمدہ اور نیک بن جائے تو فی الواقع نکاح کے نتائج عمدہ اور ثمرات نیک پیدا ہو گئے اور اگر نہیں تو پھر اس کے یہ معنے ہوں گے کہ اس نے نکاح جیسے ضروری کام کو بغیر اس کا مقصد سوچے بغیر اس کے باعث پر غور کئے اور بغیر اس کے نتائج اور ثمرات کو ذہن نشین کئے یونسی کر لیا تھا.اگر ایک شخص نیک اور عمدہ اولاد نہ چھوڑے اور اس کی اولاد بری ہو تو اس سے دشمن بھی پناہ مانگتا ہے.پس انسان کو چاہئے کہ ان سب امور کو پہلے سوچے اور ان پر اچھی طرح غور کرے اور پھر ان کو ہر وقت مد نظر رکھے تا کہ اس کے تمام کام موجب خوشی ہوں.الفضل ۱۳- اپریل ۱۹۲۶ء صفحه ۵) نه تاریخ کا تعین الفضل سے نہیں ہو سکا.له الاحزاب : ۷۲۷۱ ه الحشر:
خطبات محمود ۲۲۰ ۶۰ جلد احمدی خواتین اور مضمون نویسی (فرموده ۱۹۲۵ء) له بشارت خاتون بنت شیخ مولا بخش صاحب کا نکاح بابو عبد العزیز صاحب او رسینیر گوجر انوالہ حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے پڑھا اور حسب ذیل خطبہ ارشاد فرمایا : اے خطبہ مسنونہ کی تلاوت کے بعد فرمایا : اس وقت جس نکاح کے خطبہ پڑھنے کے لئے کھڑا ہوا ہوں اس سے مجھے ذاتی طور پر بھی ہے.سال کے قریب عرصہ ہوا میں نے عورتوں کے اخبار ”تہذیب نسواں " لاہور میں ایک مضمون پڑھا جو کسی احمدی عورت کا لکھا ہوا معلوم ہوا.اس کے نیچے عورت کا نام نہ تھا لیکن اس مضمون میں میرا حوالہ دیا گیا تھا اس سے میں نے سمجھا کہ کسی احمدی عورت کا ہو گا.اس کے بعد میں نے ایک مضمون اسی اخبار میں پڑھا جس میں میرے ایک مضمون کو اپنے الفاظ میں لکھا گیا تھا.اس سے مجھے اور خیال پیدا ہوا کہ مضمون لکھنے والی خاتون احمدی ہے.مردوں کے چونکہ اپنے اخبار ہیں اس لئے وہ ان میں مضامین لکھتے رہتے ہیں لیکن عورتوں کے اخبار نہ ہونے کی وجہ سے یا ایک آدھ ہونے کی وجہ سے بہت کم عورتیں ہیں جو مضمون لکھتی ہیں اس وجہ سے مجھے خوشی ہوئی کہ ایک احمدی عورت نے مضمون لکھنے شروع کئے ہیں.میں نے لاہور سے آنے والے کئی دوستوں سے پوچھا کہ ” تہذیب نسواں" میں مضمون لکھنے والی کون احمدی عورت ہے؟ مگر انہوں نے لاعلمی ظاہر کی اب مجھے اس تقریب پر معلوم ہوا کہ وہ یہی احمدی عورت تھیں جن کا میں اب نکاح پڑھنے لگا ہوں.
خطبات محمود ۲۲۱ جلد سوم عورتوں کے لئے مضامین لکھنا رسم و رواج کی وجہ سے اور ان میں جرأت نہ ہونے کے باعث بہت مشکل ہے.ایسی حالت میں اگر کوئی عورت اس طرف توجہ کرتی ہے تو معلوم ہوا اس میں زیادہ دلیری اور جرات ہے اور اپنے طبقہ سے زیادہ اخلاص اور محبت ہے.میرے نزدیک یہ بھی بزدلی ہے کہ رسم و رواج پر انسان غالب نہ آسکے اور جو کوئی رسم و رواج کو دبا کر کوئی کام کرتا ہے اس کو میں دوسروں کی نسبت زیادہ دلیر اور باہمت سمجھتا ہوں.میرے نزدیک ان خاوندوں کا یہ فرض ہونا چاہئے جن کی بیویاں مضمون نویسی کا شوق رکھتی ہوں اور اس کے متعلق جرأت کر سکتی ہوں کہ ان کے اس علمی مذاق کو دبائیں نہیں بلکہ ابھارنے کی کوشش کریں.اس وقت ہماری عورتوں کے مضامین نہ لکھنے میں جس چیز کی کمی ہے وہ علم نہیں بلکہ جرأت ہے.مردوں میں سے کئی ایسے ہیں جو بعض عورتوں سے بہت کم علمی قابلیت رکھتے ہیں مگر وہ مضامین لکھتے ہیں اور کئی عورتیں ہیں جو ہزاروں مردوں سے زیادہ علم رکھتی ہیں.قرآن اور حدیث پڑھی ہوئی ہیں اور سمجھ کر پڑھی ہوئی ہیں ان کی دینی قابلیت بھی مکمل ہے مگر باوجود اس کے وہ کوئی مضمون نہیں لکھتیں حالانکہ کئی ایسے مرد ہیں جو قرآن کریم کا صحیح ترجمہ بھی نہیں جانتے وہ اچھے اچھے مضامین لکھتے ہیں.اس کی وجہ یہ ہے کہ مردوں میں ایک دوسرے کو دیکھ کر جرات پیدا ہو جاتی ہے اور کوشش کرتے کرتے اچھا لکھنے لگ جاتے ہیں کیونکہ عورتیں اپنے سامنے کوئی نظیر نہ ہونے کی وجہ سے اور جرأت کی کمی کے باعث اس کام کے کرنے کی جرات نہیں رکھتیں.اگر کچھ عورتیں ایسی نکلیں جو مثال قائم کر دیں تو اور بھی کئی عورتیں مضامین لکھنے لگ جائیں.اس لئے وہ عورتیں جن میں مضمون نویسی کا ملکہ ہو ان کی ہمت بڑھانی چاہئے اور ان کو مدد دینی چاہئے.اس وقت میں بشارت خاتون بنت شیخ مولا بخش صاحب کے نکاح کا بابو عبد العزیز صاحب اور رسیتر گوجرانوالہ کے ساتھ اعلان کرتا ہوں.شیخ مولا بخش صاحب پرانے اور مخلص احمدی ہیں ان کی طرف سے ان کے بڑے لڑکے میاں مبارک اسماعیل صاحب موجود ہیں.شیخ صاحب نے مہر وغیرہ کے متعلق مجھے لکھ دیا ہے چونکہ بعد میں باتیں پیدا ہو جاتی ہیں اس لئے میں اعلان کرتا ہوں کہ پونے دو ہزار کے قریب زیور کے علاوہ ایک ہزار روپیہ مہر ہو گا.لے تاریخ کا تعین نہیں ہو سکا.الفضل ۲۳ اپریل ۱۹۲۶ء صفحه (۸)
خطبات محمود ۲۲۲ نکاح کا مذہب، اخلاق، تمدن اور طبعی تقاضوں پر اثر (فرموده ۲۵ - اکتوبر ۱۹۲۶ء بعد نماز عصر بمقام مسجد مبارک قادیان) مؤرخہ ۲۵ - اکتوبر ۱۹۲۶ء کو حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے دو نکاحوں کا اعلان فرمایا.انے سید وزارت حسین صاحب ہمراہ صابرہ صاحبہ بنت مولوی منیر الدین صاحب بعوض تین ہزار روپے صریر.عبد العزيز ابن مکرم عمردین صاحب صریح همراه مسعوده بیگم بنت مولوی محمد علی صاحب بد و ملی بعوض بارہ سو روپے مہر پر.خطبہ مسنونہ کی تلاوت کے بعد فرمایا : نکاح ان ضروریات زندگی میں سے ہے جو انسانی دائرہ عمل کے تین شعبوں سے تعلق رکھتی ہیں.بعض کام دنیا میں صرف ایک ہی شعبہ عمل سے تعلق رکھتے ہیں.بعض دو سے اور بعض تین سے اور نکاح اپنی اہمیت کے لحاظ سے ان سب سے جو تعداد میں تین ہیں تعلق رکھتا ہے.یعنی مذہبی، اخلاقی اور تمدنی.ان تینوں شعبوں کے ساتھ اس کا تعلق ہے.بلکہ اگر تمدنی شعبہ کو ذرا خصوصیت دے دی جائے اور ایک خاص مفہوم اس سے لے لیا جائے تو یہ شعبے چار ہو جاتے ہیں اور چوتھا شعبہ طبعی شعبہ ہے.پس نکاح کا ان چاروں شعبوں کے ساتھ تعلق ہے.مذہب کے ساتھ بھی اس کا تعلق ہے کہ نکاح کے ذریعہ انسان اپنی دینی حالت کو سنوارتا ہے.اخلاق کے ساتھ بھی اس کا تعلق ہے کہ نکاح کے ذریعہ انسان اپنے اخلاق کی حفاظت کرتا ہے.تمدن کے ساتھ بھی اس کا تعلق ہے کہ اس کے ذریعہ آپس میں تعلقات بڑھتے ہیں.طبعی
خطبات محمود ٢٣٣ جلد سوم تقاضوں کے ساتھ بھی اس کا تعلق ہے کہ اس کے ذریعہ ایک شخص طبعی تقاضوں کو پورا کرنے کے سامان حاصل کرتا ہے.پس نکاح کا تعلق جب انسانی دائرہ عمل کے ان چار شعبوں کے ساتھ ہے تو ماننا پڑتا ہے کہ یہ کوئی معمولی چیز نہیں بلکہ اہم ہے.جب یہ ظاہر ہے کہ اس کا تعلق ان سب سے ہے تو یہ بھی ظاہر ہے کہ اس کا اثر بھی انسانی اعمال پر پڑتا ہے تو یہ بھی ظاہر ہے کہ اس کی خرابیوں کا اثر بھی ان چاروں شعبوں پر پڑ سکتا ہے.پس جس طرح نکاح کا اچھا اثر انسان کے مذہب پر پڑتا ہے، انسان کے اخلاق پر پڑتا ہے، انسان کے تمدن پر پڑتا ہے، انسان کے طبعی تقاضوں پر پڑتا ہے اسی طرح اس کا مضر اثر بھی ان چاروں پر پڑتا ہے.پس اگر نکاح سے ایک شخص کا مذہب ٹھیک ہو جاتا ہے، اگر نکاح سے ایک شخص کے اخلاق درست ہو جاتے ہیں، اگر نکاح سے ایک شخص کے تمدن میں خوبیاں پیدا ہو جاتی ہیں تو نکاح سے ہی یہ بگڑ بھی تو سکتے ہیں.بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ ایک انسان شادی کرتا ہے مگر اس کے مذہب پر حملہ ہو جاتا ہے.بسا اوقات ایک شخص نکاح کرتا ہے کہ اخلاق میں ترقی ہو مگر وہ اور بھی بگڑ جاتے ہیں.بسا اوقات نکاح سے یہ غرض ہوتی ہے کہ تمدن بڑھے مگر الٹا اسے صدمہ پہنچ جاتا ہے اور یہی حال طبعی تقاضوں کا ہے.انسان نکاح کرتا ہے مگر یا اوقات اس کے طبعی تقاضوں کو ٹھوکر لگ جاتی ہے.دنیا میں ان سب باتوں کی مثالیں موجود ہیں.اور ہم روزان کو دیکھتے ہیں کہ بعض دفعہ تو انسان شادی کرنے سے مذہب، اخلاق، تمدن اور طبعی تقاضوں میں فائدہ اٹھاتا ہے اور بعض دفعہ ان چاروں کو ضائع کر لیتا ہے اور بعض دفعہ ان میں سے ایک ایک چیز ضائع ہو جاتی ہے.بعض دفعہ مذہب کو فائدہ پہنچتا ہے تو اخلاق بگڑ جاتے ہیں.بعض دفعہ اخلاق اور مذہب کو اگر فائدہ پہنچتا ہے تو تمدنی حالت ضائع ہو جاتی ہے.اسی طرح بعض دفعہ طبعی تقاضوں کو نقصان پہنچ جاتا ہے.یہی حالت نکاح کے فوائد کی ہے.بعض دفعہ کسی شعبہ کو فائدہ پہنچتا ہے اور بعض دفعہ کسی کو.اور بعض دفعہ چاروں شعبوں کو ہی فائدہ پہنچ جاتا ہے.اس کی بہترین مثال آنحضرت کے نکاح ہیں.آپ نے کئی نکاح کئے اور آپ کو نکاح کے سارے فوائد دیئے گئے.تمدنی فوائد بھی آپ کو ملے ، مذہب بھی آپ کو بہتر دیا گیا، اخلاق بھی آپ کے دنیا کے لئے نمونہ تھے ، رشتہ کر کے آپ فائدہ ہی اٹھاتے تھے.جسمانی قوت بھی آپ کی ایسی تھی کہ عورتیں آپ سے شادی کر کے کسی قسم کی بیماری کو پیدا نہیں کرتی تھیں.غرض آپ نکاح سے ہر قسم کا فائدہ
خطبات محمود جلد سوم حاصل کرتے تھے اور آپ کے نکاح بہترین نمونہ ہیں جن سے انسان پتہ لگا سکتا ہے کہ نکاح کے فوائد کیا ہیں اور انسانی اعمال کے ان چاروں شعبوں پر اس کا کیا اثر ہے.بعض دفعہ تو واقفیت ہوتی ہے مگر تعلقات محبت نہیں ہوتے لیکن بعض دفعہ تو واقفیت ہی نہیں ہوتی.ان کو آپس میں رنج سے رنج اور خوشی سے خوشی نہیں ہوتی لیکن اس قسم کے لوگوں میں اگر شادی ہو جائے تو شادی کے بعد وہ ایک جان ہو جاتے ہیں.ان میں تعلقات قائم کی ہو جاتے ہیں اور تمدن بڑھتا ہے.تعلق لڑکے اور لڑکی میں ہوتا ہے لیکن محبت سینکڑوں میں پیدا ہو جاتی ہے.پھر بعض دفعہ آپس کی ناراضگیاں اور رنجشیں بھی دور ہو جاتی ہیں اور دلوں سے میل دھوئی جاتی ہے اور وہ جو یا تو پہلے ایک دوسرے سے واقف نہ تھے یا اگر واقف تھے تو ایک دوسرے کے ساتھ تعلق نہ رکھتے تھے یا اگر تعلق رکھتے تھے تو آپس میں رنجشیں پیدا ہو چکی تھیں وہ لڑکے اور لڑکی کے نکاح کے بعد آپس میں مل بیٹھتے ہیں اور ایک دوسرے سے محبت کرنے لگ جاتے ہیں.یہی حال طبعی فوائد کا ہے.شادی نہ کرنے سے بعض بیماریاں لاحق ہو جاتی ہیں لیکن اگر شادی کرلی جائے تو وہ اس قسم کے گناہوں سے محفوظ رہ سکتے ہیں اور اس طرح اسے مذہب کے لحاظ سے بھی فائدہ پہنچ جاتا ہے اور طبعی تقاضوں کے لحاظ سے بھی.جہاں نکاح کے مذہبی فوائد ہیں وہاں اس کے مذہبی نقصان بھی ہیں.بعض دفعہ مرد کو عورت کے مذہب سے ٹھوکر لگ جاتی ہے اور بعض دفعہ عورت کو مرد کے مذہب سے نقصان پہنچ جاتا ہے.اور عورت کو مرد کے مذہب سے جو نقصان پہنچتا ہے اس کی مثال نبیوں کے دشمنوں کی بیویاں ہیں جو خود اپنی ذات سے تو تحقیق کرتی نہیں اور اپنے خاوندوں کے مذہبوں پر چلتی ہیں.اب وہ عورت جس کی شادی کسی نبی کے دشمن کے ساتھ ہو گئی ہو رہی مذہب اپنا بھی بنائے گی جو اس کے خاوند کا ہے تو اس صورت میں اس پر غور کرو کہ کس طرح مذہب کے لحاظ سے اس عورت کو نقصان پہنچا.اخلاقی طور پر بھی یہی حال ہے بعض عورتیں ایسے خاوندوں سے بیاہی جاتی ہیں جو اچھے بھلے نیک ہوتے ہیں مگر شادی کے بعد ٹھو کر کھا جاتے ہیں اور کئی قسم کی بد اخلاقیوں میں پھنس جاتے ہیں اور اخلاق ضائع ہو جاتے ہیں.اسی طرح عورت کو بھی یہی نقصان مرد سے پہنچ جاتا ہے.طبعی طور پر بھی دیکھا ہے کہ بسا اوقات اپنی تمام قابلیتوں کو نکاح کر کے ایک شخص کھو بیٹھتا
خطبات محمود ۲۲۵ جلد سوم ہے.پہلے وہ اچھا بھلا ہوتا ہے مگر نکاح کے بعد نفرت پیدا ہو جانے کے سبب سب قابلیتیں ضائع ہو جاتی ہیں جن کا اثر بہت ہی برا اس پر پڑتا ہے.اسی طرح فائدوں کے ساتھ ساتھ ان نقصانات کا سلسلہ بھی چلا جاتا ہے.تو نکاح ایک ایسا اہم معاملہ ہے کہ اس کا اثر دین پر بھی پڑتا ہے، مذہب پر بھی پڑتا ہے، تمدن پر بھی پڑتا ہے اور طبعی تقاضوں پر بھی پڑتا ہے اس لئے اس میں بڑی احتیاط کرنے کی ضرورت ہے.اس لئے حکم دیا گیا ہے کہ نکاح سے پہلے نکاح کے لئے استخارہ کرو دعا کرو اور بہت گڑ گڑا کے کرو کیونکہ انسان کو کچھ معلوم نہیں ہو تا کہ اس کا کیا اثر پڑے گا اور اگر اس میں غلطی ہو جائے تو ایک شخص کہیں سے کہیں جا نکلتا ہے پس اس کے لئے بڑی دعائیں کرنے کا حکم ہے.بیسیوں آدمی ایسی غلطیوں سے مرتد ہو گئے ، بیسیوں ایسے ہیں کہ بعض جگہ ان کی شادیاں ہو گئیں مگر وہ ان شادیوں کی وجہ سے مارے گئے.پھر تمدن کو نقصان پہنچا تو لڑائیاں شروع ہو ئیں اور لڑائیوں کے نقصان بعض دفعہ بڑے خطرناک اور مسلک ہو جاتے ہیں.ادھر تمدن بگڑا.ادھر اخلاق بگڑتے ہیں.مثلاً کسی کی بیوی جھگڑالو اور لڑاکی ہے یا اس میں کوئی اور خرابی اور نقص ہے تو خاندان کے لوگ یا محلے والے اس کی شکایت کرتے ہیں کوئی کہتا ہے تمہاری بیوی نے یہ کیا، کوئی کہتا ہے تمہاری بیوی نے یہ نقصان کر دیا اور وہ اپنی کمزوری کو چھپانے کے لئے لوگوں سے ڈرتا ہے.ایسے بھی ہیں جن کے طبعی تقاضے ضائع ہو جاتے ہیں.ایسے بھی ہیں جن کے دین کو صدمہ پہنچ جاتا ہے ایسے بھی ہیں کہ جن کے مذہب کو نقصان پہنچتا ہے تو نکاح میں احتیاط کرنی چاہئے یہی وجہ ہے تقویٰ کا حکم دیا گیا ہے اور دعاؤں اور استخاروں کی ضرورت ہوتی ہے.شادی سے پہلے کئی قسم کے فوائد مد نظر ہوتے ہیں مگر وہ بعد میں حاصل نہیں ہو سکتے.پھر جب شادی ہو جاتی ہے تو محبت کے تقاضے دیانت، امانت، مذہب، تمدن اور اخلاق پر حملہ کرتے ہیں اور یہ بھی ایک نقصان دہ چیز ہے.پس اس نقصان سے بھی بچنے کی کوشش کرنے کا حکم ہے.اس وقت میں دو نکاحوں کے اعلان کے لئے کھڑا ہوا ہوں.پہلا اعلان تو میری سالی کی لڑکی صابرہ کے نکاح کا ہے جو مولوی عبد الماجد صاحب بھاگلپوری کی نواسی اور مولوی منیر الدین صاحب مرحوم کی لڑکی ہے اس کا نکاح بعوض تین ہزار روپیہ مرسید وزارت حسین صاحب سے قرار پایا ہے.
خطبات محمود ۲۲۶ جلد سوم - دوسرا اعلان مسعوده بیگم مولوی محمد علی صاحب بدو ملی کی لڑکی کے نکاح کا ہے جو مولوی عمرالدین صاحب ساکن صریح (والد خان صاحب منشی فرزند علی صاحب) کے لڑکے میاں عبد العزیز صاحب سے بعوض مبلغ بار صد روپے مہر قرار پایا ہے.الفضل) ۵- نومبر ۱۹۲۶ء صفحه (۶۵)
خطبات محمود ۲۲۷ ۶۲ جلد سوم محبت روحانی اور محبت مجازی کا شعلہ (فرموده ۲۹ دسمبر ۱۹۲۶ء) ۲۹- دسمبر ۱۹۲۶ء کو حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے مسماۃ ظہورن صاحبہ بنت مکرم منشی محمد مستقیم صاحب ساکن سنور کا نکاح مکرم فضل الرحمٰن صاحب سامانوی سے بعوض مبلغ اڑھائی صد روپیہ مصر اور مکرم جمیل الرحمن صاحب سامانوی کا نکاح مسماۃ رشیدن صاحبہ بنت مکرم منشی ند مستقیم صاحب ساکن سنور کے ساتھ بعوض مبلغ دو صد پچاس روپیہ صر پر پڑھانے خطبہ مسنونہ کی تلاوت کے بعد فرمایا.ان آیات میں اللہ تعالی نے ایک لفظ رقیب استعمال کیا ہے.رقیب کے معنے نگران کے بتائے جاتے ہیں مگر نگر ان کے لئے عربی میں ایک اور لفظ شاعر بھی ہے.یوں تو تمام زبانوں کے لئے اس کو بطور کلید مانا جاتا ہے کہ ہر ایک لفظ خاص ہی مفہوم کے لئے موضوع ہوتا ہے اور اس زبان میں بالکل اسی مفہوم کے لئے اور کوئی لفظ نہیں ہو تا مگر عربی میں تو یہ بات صریح طور پر ثابت ہے.پس رقیب کے معنے صرف نگران یعنی شاہد کے نہیں ہو سکتے.شاہد تو اسے کہتے ہیں جو کسی عمل کے ہو چکنے کے بعد اس کے نتائج کا گواہ ہو اور رقیب اسے کہتے ہیں جو اعمال مبادی کا اس خیال سے نگران ہو کہ عمل کرنے والا ایک خاص طریقے پر چلے اور اس طریقے سے علیحدہ نہ ہو.لفظ رقیب کا اردو میں استعمال ان معنوں میں خوب روشنی ڈالتا ہے.اردو میں رقیب ایک معشوق کے دو عاشقوں کو کہتے ہیں کیونکہ ہر عاشق معشوق کی دوسروں کے ساتھ روش کو اس خیال سے تاڑ تا رہتا ہے کہ اس کی محبت میرے سوا کسی اور سے نہ ہو.
خطبات محمود ۲۲۸ جلد سوم اسی طرح اللہ تعالٰی فرماتا ہے کہ میں رقیب ہوں.اللہ تعالی نے انسانی فطرت میں دو شعلے محبت کے پیدا کر رکھے ہیں.ایک محبت روحانی کا شعلہ جس کا مقصد یہ ہے کہ انسان کے دل میں ایک تڑپ لگی رہے جب تک وہ ایک ہمہ وجوہ مکمل ہستی کے ساتھ تعلق پیدا نہ کرے.یہ گویا محبت کا شعلہ ہے دوسرا شعلہ محبت مجازی کا ہے جس سے غرض یہ ہے کہ انسان اپنی بیوی سے محبت کر سکے تاکہ نسل قائم رہے.اور خدا تعالیٰ کی عاشق ہستیاں دنیا میں ہمیشہ پیدا ہوتی رہیں.بیاہ کے موقع پر چونکہ محبت مجازی کا تقاضا پورا ہو کر یہ شعلہ ٹھنڈا ہو جانے کو تیار ہوتا ہے اس لئے ڈر ہوتا ہے کہ کہیں دوسرا شعلہ یعنی شعلہ عشق الہی بھی سرد نہ ہو جائے.پس اللہ تعالی میاں اور بیوی دونوں کو اور دونوں کے رشتہ داروں کو بتا اور جتنا دیتا ہے کہ میں رقیب ہوں.خاوند کو گویا کہ فرماتا ہے کہ میں رقیب ہوں تمہاری بیوی صرف تمہاری ہی محبت کے لئے پیدا نہیں کی گئی بلکہ اس کا اصل مدعا میری محبت ہے.اسی طرح عورت کو (جس میں رشک کا مادہ زیادہ ودیعت کیا گیا ہے اللہ تعالٰی جتا دیتا ہے کہ میں تم دونوں کا رقیب ہوں نہ تمہیں شایاں ہے کہ میرے سوا اور کی محبت میں محو ہو جاؤ اور نہ خاوند ہی کے متعلق تمہاری یہ خواہش ہونی چاہئے کہ اس کی محبت صرف تمہارے ہی لئے ہو بلکہ وہ بھی ہمارا ہی بندہ ہے اور اس کو بھی صرف ہمارا ہی عاشق ہونا چاہئے.له الفضل ۳۱ دسمبر ۱۹۲۶ء.۴ جنوری سے ۱۹۲ء صفحہ ۱۵ الفضل ۴ فروری ۱۹۲۷ء صفحہ ۷ )
د محمود ۲۲۹ ۶۳ جلد سوم عورتوں کو کامل حریت دو.فرموده ۱۵ اپریل ۱۹۲۷ء بعد نماز ظهر) مورخہ ۱۵ اپریل ۱۹۲۷ء کو حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے بعد نماز ظہر چوہدری سردار خان ولد اصالت خان صاحب کے نکاح ہمراہ عائشہ بیگم بنت چوہدری چراغ دین صاحب کا اعلان فرمایا.خطبہ مسنونہ کی تلاوت کے بعد فرمایا.گو اس وقت گلے کی تکلیف سے میرے لئے بولنا مشکل ہے.لیکن چونکہ پچھلے دنوں چند نکاح جو ہوئے ہیں ان میں اختلاف پیدا ہوا ہے اس لئے اس خطبہ میں میں اختصار کے ساتھ مرد د عورت کے بعض فرائض کی طرف توجہ دلاتا ہوں.جس طرح مردوں کے حقوق ہیں اسی طرح عورتوں کے بھی حقوق ہیں خدا کے نزدیک دونوں کے درمیان کوئی فرق نہیں.جس طرح مرد خدا کا بندہ ہے اسی طرح عورت خدا کی بندی ہے جیسے مرد خدا کا غلام ہے ویسے ہی عورت خدا کی لونڈی ہے.جیسے مرد آزاد اور کر ہے ویسے ہی عورت آزاد ہے.دونوں کو حقوق حاصل ہیں.عورت گائے یا بھینس کی طرح نہیں کہ لیا اور باندھ لیا.انسانیت کے لحاظ سے عورت ویسی ہی ہے جیسے کوئی مرد - آزادی ایک قیمتی چیز ہے جس سے اللہ تعالی نے عورت کو ایسا ہی حصہ دیا ہے جیسا کہ مرد کو اور دونوں پر بعض فرائض اور ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں.بعض مرد اس مسئلہ کو نہیں سمجھتے وہ سمجھتے ہیں کہ الرِّجَالُ قَوَّامُونَ عَلَى النِّسَاء - لله کے ماتحت عورتوں پر حاکم ہیں حالانکہ ان کو درجہ نگرانی کا ملا ہے مگر نگرانی سے حریت میں فرق
۲۳۰ جلد سوم نہیں پڑتا.بادشاہ نگران ہے، خلیفہ نگران ہوتا ہے اسی طرح حاکم وقت نگران ہوتا ہے مگر کیا کوئی حکم یا قانون یہ اجازت دیتا ہے کہ وہ جو چاہیں معاملہ کرلیں.نگران تو اس بات کا ہوتا ہے کہ جو حق اس کو ملا ہے اسے وہ شریعت کے احکام کے مطابق استعمال کرے نہ یہ کہ جو چاہے کرے.نگران کا مفہوم یہ ہے کہ اس کو شریعت کے ماتحت چلائے مگر ہمارے ہاں اس کا مفہوم یہ لیا جاتا ہے کہ جو چاہا کر لیا.اس وجہ سے بعض لوگ عورتوں کو حقوق دینے کو تیار نہیں.وہ ان کو گائے بکرمی سمجھتے ہیں اور عورتوں پر جبریہ حکومت کرنا چاہتے ہیں حالانکہ ایسی حکومت تو خدا بھی نہیں کرتا.وہ تو کہتا ہے تم وہی کہو جو تمہاری ضمیر کہتی ہے.پھر خدا بھی بغیر اتمام حجت کے سزا نہیں دیتا.باوجود اس بات کے کہ وہ مالک ہے تو پھر مرد کے مقابلہ میں عورتوں کو آزادی ضمیر کیوں حاصل نہیں.- اس کے برخلاف دوسری حد بھی خطرناک ہے جو عورتوں کی طرف سے ہے.قَوَّامُونَ کا لفظ بھی آخر کسی حکمت کے ماتحت ہے.یہ قانون خدا کا بنایا ہوا ہے جو خود نہ مرد ہے نہ عورت اس پر طرف داری کا الزام نہیں آسکتا.پس ایسی ہستی کے قوانین شانی ہو سکتے ہیں.عورت عموماً عورت کی طرف دار ہوتی ہے اور مرد کے طرف دار مرد مگر خدا کو دونوں کا پاس نہیں.وہ خالق ہے.جو طاقتیں اس نے مرد کو دی ہیں ان کا اس کو علم ہے اور انہی کے ماتحت اس نے اختیارات دیئے ہیں.قوامُونَ کے بہر حال کوئی معنے ہیں جو عورت کی آزادی اور حریت ضمیر کو باطل نہیں کرتے.اس کے لئے عورت کے افعال، اس کے ارادے، اس کا دین و مذہب قربان نہیں ہو سکتے مگر قوامون بھی قربان نہیں ہو سکتا.نہ اس کا وجود وہمی ہو سکتا ہے قوام نظر آنا چاہئے.اس کے متعلق مثال بیان کرتا ہوں.شریعت کا حکم ہے کہ عورت خاوند کی اجازت کے بغیر باہر نہ جائے.مگر اس کے باوجود مرد عورت کو اس کے والدین سے ملنے سے نہیں روک سکتا.اگر کوئی مرد ایسا کرے تو یہ کافی وجہ خلع کی ہو سکتی ہے.والدین سے ملنا عورت کا حق ہے مگر وقت کی تعیین اور اجازت مرد کا حق ہے.مثلاً خاوند یہ کہ سکتا ہے کہ شام کو نہیں صبح کو مل لیتا یا اس کے والدین کو اپنے گھر بلالے یا اس کو والدین کے گھر بھیج دے.مگر جس طرح مرد اپنے والدین کو ملتا ہے.اسی طرح عورت کا بھی حق ہے سوائے ان صورتوں کے کہ دونوں کا سمجھوتہ ہو جائے.مثلاً جب فساد کا اندیشہ ہویا فتنے کا ڈر ہو.مرد تو پہلے ہی الگ رہتا ہے.مگر عورت خاوند کی مرضی کے خلاف باہر نہیں
خطبات محمود ۲۳۱ جلد سوم جاسکتی.ہاں خاوند اگر ظلم کرے تو قاضی کے پاس وہ شکایت پیش کر سکتی ہے لیکن اگر خاوند اس میں روک ڈالے اور گھر سے باہر نہ نکلنے دے تو پھر وہ گھر سے بلا اجازت باہر نکل سکتی ہے مگر اس کا فرض ہے کہ جلد ہی مقدمہ قاضی کے سامنے پیش کر دے تا قاضی دیکھ لے کہ آیا اس کے باہر نکلنے کے کافی وجوہ ہیں یا نہیں.پھر وہ اس کو خواہ باہر رہنے کی اجازت دے دے یا گھر میں واپس لوٹنے کا حکم دے.پس اگر خاوند ظلم کرتا ہو اور حقوق میں روک ڈالتا ہو اور قضاء میں جانے نہ دے تو پھر عورت بلا اجازت شوہر باہر نکل سکتی ہے مگر شرط یہ ہے کہ قلیل ترین عرصہ میں وہ اس کے خلاف آواز اٹھائے (مثلاً ۲۴ گھنٹے کے اندر یا اگر مقدمہ عدالت میں ہو تو جتنا عرصہ درخواست کے دینے میں عموماً لگتا ہے.) ہمارے ملک میں یہ بالکل غلط طریق رہا ہے کہ عورت خاوند سے لڑ کر اپنے ماں باپ کے گھر چلی جاتی ہے اور وہاں بیٹھی رہتی ہے.والدین اس کی ناحق طرفداری کرتے ہیں اور فساد بڑھتا ہے دونوں کا معاملہ شریعت کے مطابق ہونا چاہئے.عورت بحیثیت انسان ایسی ہی انسان ہے جیسے مرد.وہ اپنے دین ایمان اور حریت میں ایسی ہی قائم ہے جیسے تم.مثال کے طور پر میں بعض عقائد کا ذکر کرتا ہوں جن میں عورت کے مذہب کا احترام لازمی ہے.بعض فقہاء کا خیال ہے کہ وضو کی حالت میں اگر مرد کسی محرم کو چھوئے تو وضو نہیں ٹوٹا مگر بعض کا عقیدہ ہے کہ وضو ٹوٹ جاتا ہے.اب اگر عورت کا یہ مذہب ہو کہ وضو ٹوٹ جاتا ہے تو خاوند کا فرض ہے کہ اس کو وضو کی حالت میں نہ چھوٹے اس کا کوئی حق نہیں کہ وہ اس کے عقیدہ یا مذہب میں دخل دے.پس عورت کو اپنے عقائد میں کامل حریت دینی ہوگی.ہاں عقل یا دل کے معاملات کی ہم پرواہ نہیں کریں گے.مثلاً اگر کوئی عورت یہ کہے کہ میری عقل کہتی ہے یا میرا دل چاہتا ہے کہ فلاں بات یوں نہ ہو تو اس کا احترام لازمی نہیں.جب خدا نے ان باتوں کی پرواہ نہیں کی تو ہم کیوں کریں.پس یہ اصول صرف شریعت کے عقائد کے متعلق ہیں.اسی طرح حیض کے متعلق بھی مسلمانوں کا اختلاف ہے کیونکہ بعض کا خیال ہے کہ عورت کے ساتھ حیض سے پاک ہونے کے بعد غسل کرنے سے قبل صحبت جائز ہے.مگر بعض کے نزدیک غسل کے بعد جائز ہے اگر عورت کا یہ عقیدہ ہو کہ غسل سے قبل صحبت نا جائز ہے تو مرد کا فرض ہے کہ اس کے پاس نہ جائے جس طرح عورت کا فرض ہے مرد کے مذہب کا پاس کرے
خطبات محمود جلد سوم اسی طرح مرد کا بھی فرض ہے کہ عورت کے عقائد کا لحاظ کرے.پس عورت کو حریت حاصل ہے اگر اس کو مٹاؤ گے تو وہ تم سے ایسی حریت کا مطالبہ کریں گی جو شریعت نے ان کو نہیں دی.تم اگر خدا کے انعام حاصل کرنا چاہتے ہو تو اپنے معاملات کو درست کرد اور عورتوں کو کامل حریت دو اور ان کے حقوق ادا کرو.الفضل ۲۲.اپریل ۱۹۲۷ء صفحہ ۵) له النساء : ۳۵
خطبات محمود ۶۴ جلد سوم اسلام میں عورت کا مقام (فرموده ۲۴ دسمبر ۱۹۲۷ء) حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے خان نعمت خان صاحب سب حج امرتسر کی لڑکی اقبال بیگم کا نکاح ایک ہزار روپیہ مر پر اوصاف علی خاں صاحب سے پڑھا.خطبہ مسنونہ کی تلاوت کے بعد فرمایا : ان آیات میں نکاح کرنے والے مردوں اور عورتوں کی ذمہ داریاں بیان کی گئی ہیں لیکن نہایت ہی تعجب کی بات ہے کہ مسلمان جن کے نکاحوں کے موقع پر بہترین تدابیر اور زریں ارشاد اور روشن را ہنمائیاں کی گئی ہیں وہ اس وقت نکاح کے بارے میں سب قوموں سے زیادہ خرابیاں پیدا کرنے والے ہیں.مرد عورت کے تعلقات جن مصلحتوں پر مبنی ہیں اور ان تعلقات میں جو اغراض اور مقاصد پوشیدہ ہیں انہیں وہ قومیں جن کو یہ زریں ہدایات نہیں دی گئیں جو مسلمانوں کو دی گئی ہیں اپنے تجربہ اور مشاہدہ کی بناء پر حاصل کر رہی ہیں مگر مسلمان جن کے لئے صاف اور کھلے الفاظ میں مرد و عورت کے تعلقات کی اغراض، ان کی ذمہ داریاں اور ان کی زندگی کے مقاصد بیان کئے گئے تھے ان کی حالت نہایت گری ہوئی ہے.عورتوں کی جو بری حالت مسلمانوں میں ہے میں سمجھتا ہوں دنیا کی اور کسی قوم میں نہیں ہوگی.مسلمان اپنے ملک کے دوسرے لوگوں کو ہی دیکھ لیں ہندو عورتوں کی حالت مسلمان عورتوں سے بہتر ہے.عیسائی عورتوں کی حالت مسلمان عورتوں سے بدرجہا بہتر ہے، وہ اس مقام پر پہنچی ہوئی ہیں کہ ان کو انسان کہا جاسکتا ہے.مگر مسلمان عورتوں کی حالت الا ماشاء اللہ اس سے تر نہیں کہ ان کا کثیر
خطبات محمود کھانے پینے اور بچے پیدا کر کے پالنے سے زیادہ کچھ وقعت نہیں رکھتا.وہ قطعاً اس بات کو نہیں سمجھتیں کہ وہ خدا تعالی کی رضا اور اس کا قرب حاصل کرنے کے لئے پیدا کی گئی ہیں.وہ صرف یہ سمجھتی ہیں کہ خاوندوں کے لئے پیدا کی گئی ہیں.حالانکہ یہ تھیوری ہائیل کی تھی جس میں لکھا ہے کہ خدا نے آدم کو اداس دیکھ کر حوا کو اس کی دلداری کے لئے پیدا کیا یا پھر ہندوؤں کی یہ تھیوری ہے کہ عورتوں کو محض مردوں کے آرام اور و ان کی خدمت کے لئے پیدا کیا گیا ہے مگر یہ قومیں جن کی بنیاد ان باتوں پر تھی وہ تو ان کو ترک کر چکی ہیں اور ان میں احساس پیدا ہو گیا ہے کہ اگر عورتیں خدا کے قرب کے لئے نہیں تو اپنی قوم کی ترقی کے لئے پیدا کی گئی ہیں.چونکہ ان اقوام کے سب لوگ خدا تعالیٰ کی ہستی کے قائل نہیں.اس لئے یہ نہیں کہتے کہ عورتیں خدا کا قرب حاصل کرنے کے لئے پیدا کی گئی ہیں مگر یہ ضرور کہتے ہیں کہ دنیا کی ترقی میں ان کا ویسا ہی حصہ ہے جیسا مردوں کا ہے مگر مسلمانوں میں ابھی تک یہ احساس بھی پیدا نہیں ہوا.اور جب تک تمام کے تمام مسلمان عورتوں کی حالت کو بہتر بنانے کی طرف توجہ نہ کریں گے اس وقت تک کچھ کامیابی حاصل نہ ہو سکے گی.کتابیں لکھنے سے یہ بات حاصل نہ ہوگی کتابوں سے لفظ تو سیکھے جاسکتے ہیں لیکن مغز نہیں سیکھا جا سکتا.مغز صحبت اور عمل سے حاصل ہوتا ہے جو عورتیں تعلیم پا جاتی ہیں وہ دوسری عورتوں کو اپنے میں جذب نہیں کر سکتیں.اس وجہ سے ان کے تعلیم پانے کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا.جب تک ایسا نہ ہو کہ ہر تعلیم یافتہ عورت دوسری عورتوں کو اپنی مائیں اور بہنیں سمجھے اور ان کی حالت درست کرنے کی کوشش کرے اس وقت تک کامیابی نہیں ہو سکتی.ہماری جماعت کے لئے ضروری ہے کہ وہ عورتوں میں بیداری اور احساس پیدا کرنے کی کوشش کرے اور انہیں بتائے کہ ان کی زندگی صرف خاوندوں کے لئے نہیں بلکہ ان کی غرض ہے کہ وہ اپنے خاوندوں سے مل کر خدا تعالیٰ کے جلال کے اظہار کی کوشش کریں.مجھے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ باوجو د بار بار اس طرف توجہ دلانے کے اس وقت تک بہت کم توجہ کی گئی ہے اور ابھی تک عورتوں کی حالت بہت گری ہوئی ہے.اگر چہ ہماری جماعت کی عورتوں اور دوسری عورتوں کی حالت میں فرق ہے اور میں تسلیم کرتا ہوں کہ جس رفتار سے وہ ترقی کر رہی ہیں وہ بہت امید افزا ہے.ایک عورت کے متعلق کئی عورتوں اور مردوں کی طرف سے بار بار مجھے یہ بات پہنچی کہ وہ خود مضمون نہیں لکھتی مگر کوئی مرد لکھ کر دیتا ہے مگر اس خاتون
۲۳۵ جلد سوم خطبات محمود کا آج ہی میرے نام خط آیا ہے جس کی وہی طرز تحریر ہے جو اس کے مضامین کی ہے.وہی جوش، وہی اظہار مطلب کا طریق ہے.خدا کے فضل سے ہماری جماعت میں ایسے سامان ہیں کہ عورتیں ترقی کی طرف مائل ہو رہی ہیں اور یہ اسی ترقی کا نتیجہ ہے کہ اپنے آپ کو مذہب کا عمود سمجھنے لگ گئی ہیں اگر یہ کو جاری رہی تو ہماری جماعت کی عورتیں بہت جلد ترقی کرلیں گی.مگر ضرورت یہ ہے کہ مرد ان کی مدد کریں.ہر باپ کا فرض ہے کہ وہ اپنی بیٹی کو ترقی کرنے میں مدد دے.ہر خاوند کا فرض ہے کہ اپنی بیوی کی ترقی کا انتظام کرے.ہر بھائی کا فرض ہے کہ اپنی بہن کو امداد دے.حتی کہ ہر بیٹے کا فرض ہے کہ اپنی ماں کو اوپر اٹھائے اگر اس طرز پر ساری جماعت کے لوگ عورتوں کو امداد دینے لگ جائیں تو بہت جلد ترقی ہو سکتی ہے.اللہ تعالٰی نے ان آیات میں جو نکاح کے موقع پر پڑھی جاتی ہیں ترقی کا گر بتایا ہے بہت انسان جب کام کرنے لگتے ہیں تو باوجود اپنی طرف سے پوری کوشش کرنے کے پھر بھی وہ بعض اوقات اسے درست طور پر نہ کر سکتے میں مجبور ہوتے ہیں.اگر ہم بچے طور پر اس کے متعلق غور کریں اور محلی بالطبع ہو کر اس کے متعلق سوچیں تو صحیح نتیجہ پر پہنچ جاتے ہیں.جیسے ایک مجسٹریٹ جو فریقین میں سے کسی سے تعلق نہیں رکھتا اس کا فیصلہ بسا اوقات صحیح ہوتا ہے.مسلمان قاضیوں میں سے ایک کے متعلق لکھا ہے کہ جب بادشاہ نے انہیں قاضی مقرر کیا تو ان کے دوست مبارک دینے آئے مگر انہوں نے دیکھا کہ وہ رو رہے ہیں.پوچھا یہ کون سا رونے کا مقام ہے.تو انہوں نے کہا کہ اس سے بڑھ کر رونے کا اور کیا مقام ہے کہ میرے پاس ایک مدعی آئے گا جو کے گا مجھے فلاں سے یہ لیتا ہے مگر مجھے معلوم نہیں ہو گا کہ اس نے لیتا ہے یا نہیں.اسی طرح مدعا علیہ آئے گا اور کہے گا مجھے کچھ نہیں دیتا.مجھے پتہ نہ ہو گا کہ اس نے کچھ دیتا ہے یا نہیں باوجود اس کے میں ان کا فیصلہ کروں گا.نہ معلوم کس کا حق ماروں گا.یہ ان کا رنگ تھا مگر جیسا کہ تجربہ بتاتا ہے اکثر اوقات مجسٹریٹ صحیح نتیجہ پر پہنچ جاتا ہے.وجہ یہ کہ نہ اسے لینا ہوتا ہے نہ دینا.پس اگر ہم مختلی بالطبع ہو کر دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ بعض اوقات کوئی شخص جو اپنی مجبوری کا اظہار کرتا ہے وہ درست ہوتا اور کئی موقعوں پر فی الواقع مجبور ہوتا ہے.کئی دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ کسی کو کوئی نا مناسب بات چھوڑنے کے لئے کہا جائے تو وہ کہتا ہے کہ کہاں کروں چھٹتی نہیں اسی طرح ایک شخص کسی بات کو خود چھوڑنا چاہتا ہے لیکن جب موقع آتا ہے تو وہ کر گزرتا ہے.کئی جرائم ایسے ہوتے ہیں کہ ان کے ارتکاب سے بچنا انسان کے اختیار میں.
خطبات محمود نہیں رہتا.FFY جلد سوم پس اعمال دو قسم کے ہوتے ہیں ایک وہ جن میں انسان کا اختیار ہوتا ہے اور ایک وہ جن میں کوئی اختیار نہیں ہوتا.قرآن کریم کے سوا دنیا کی کسی اور مذہبی کتاب نے یہ فرق بیان نہیں کیا.میں انعام دے سکتا ہوں کہ اگر کوئی الہامی کتاب سے یہ فرق دکھائے کہ اعمال دو قسم کے ہوتے ہیں ایک اختیاری اور دوسرے غیر اختیاری.اور وہ اعمال جو اختیاری نظر آتے ہیں ان میں بھی ایک حصہ بے اختیاری ہوتا ہے.نکاح کے موقع پر جو ایک آیت پڑھی جاتی ہے اس میں اس کا ذکر موجود ہے.چنانچہ خدا تعالی فرماتا ہے.آيَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَ قُولُوا قَوْلاً سَدِيدًا ، يُصْلِحُ لَكُمْ أَعْمَالَكُمْ وَيَغْفِرُ لَكُمْ ذُنُوبُكُمْ - له اے مومنو! کچی اور پکی بات کہہ دیا کرو جو دل میں ہو وہ کہہ دیا کرو اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ اللہ تعالیٰ تمہارے اعمال درست کر دے گا.سچ بات کہنا خود ایک عمل ہے.مگر خدا تعالیٰ فرماتا ہے اس سے تمہارے اعمال درست کر دیئے جائیں گے.مطلب یہ ہے کہ بعض اعمال ایسے ہیں جن کو تم درست نہیں کر سکتے وہ اعمال ایسے ہیں جو تمہارے اختیار میں نہیں ہیں اور تم معذور ہو.پھر تمہیں کیا کرنا چاہئے یہ کہ جو اعمال تمہارے اختیار میں ہیں وہ کر لو اور جو بے اختیاری والے ہیں ان کو ہم کر دیں گے.کئی لوگ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے پاس آکر کہتے ہیں ہمیں نماز میں لذت نہیں آتی ہم کیا کریں.آپ فرماتے تم نماز پڑھ لیا کرو.نماز پڑھنا تو تمہارے اختیار کی بات ہے تمہارے حصہ میں جو کام ہے اسے تم کر لو خدا اپنے حصہ کا کام آپ کرلے گا.تو فرمایا گیا تھا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللهَ وَقُولُوا قَوْلاً سَدِيدًا ، تُصْلِحُ لَكُمْ أَعْمَالَكُمْ.تمہارے کام دو قسم کے ہیں ایک وہ جو تم کر سکتے ہو اور دوسرے وہ جو تم نہیں کر سکتے.مثلاً خیالات کا انتشار یا ایسے اعمال جن کی انسان کو عادت پڑ جائے.تو فرمایا تم ایک حصہ کی جو تمہارے اختیار میں ہے درستی کر لو دوسرے حصہ کی جو تمہارے اختیار میں نہیں ہے ہم خود اصلاح کر دیں گے.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن نے دو قسم کے اعمال تسلیم کئے ہیں اور پھر یہ گر بتایا ہے.کہ جو اعمال کر سکتے ہو کر لو اور جو نہیں کر سکتے ان کے متعلق آسمان سے ایسی طاقتیں نازل ہوں گی کہ وہ درست ہو جائیں گے.نکاح میں بیسیور ، باتیں ایسی ہوتی ہیں جنہیں انسان دیکھ کر درست کر سکتا ہے مگر بعض ایسی
خطبات محمود ۲۳۷ جلد سوم ہوتی ہیں جو انسان کے اختیار میں نہیں ہوتیں اور ان کی وجہ سے برا نتیجہ نکل سکتا ہے.عام طور پر ظاہری شکل و شباہت دیکھی جاسکتی ہے اور اس کی رسول کریم ﷺ نے اجازت بھی دی ہے.اسی طرح انسانی عادات بھی عورتوں کے ذریعہ معلوم کر سکتا ہے مگر باوجود اس کے کئی باتیں ایسی ہوتی ہیں جن کے متعلق کچھ نہیں کہا جاسکتا.بسا اوقات میرے پاس مقدمے آتے ہیں اور جب میں پوچھتا ہوں کہ نا اتفاقی کی کیا وجہ ہے تو کہتے ہیں پتہ نہیں کیا وجہ ہے مگر دل نہیں چاہتا.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جذبات اور خیالات کے باریک احساسات کا بھی تعلق ہوتا ہے جنہیں انسان محسوس تو کر سکتا ہے مگر ان کو بیان نہیں کر سکتا.یہ احساسات تعلقات پر اثر ڈالتے ہیں.خدا تعالیٰ فرماتا ہے تم نکاح کرتے وقت کھلے طور پر باتیں کرلو.تمہاری باتوں میں کوئی پیچیدگی نہ ہو.کوئی لپٹ نہ رکھو.کوئی بدلہ لینے کے لئے یا نا جائز فوائد کے لئے نکاح کا ارادہ نہ ہو.بلکہ تقویٰ مد نظر ہو.خدا کی رضا کے لئے نکاح کا ارادہ ہو.پھر جو باتیں تمہارے اختیار میں نہ ہوں گی ان کو خدا درست کر دے گا.چنانچہ ہم دیکھتے ہیں اس قسم کے واقعات ہوتے رہتے ہیں کہ جو لوگ تقویٰ کو مد نظر رکھ کر نکاح کرتے ہیں خدا تعالی ان کے لئے ایسے سامان کر دیتا ہے کہ ان میں باوجود بعض نقائص کے ایسی محبت ہوتی ہے کہ لوگ حیران رہ جاتے ہیں.رسول کریم ﷺ کے نکاحوں کے متعلق جب ہم دیکھتے ہیں تو حیرت ہوتی ہے.ایک وقت میں آپ کی 9 نو بیویاں تھیں ادھر ساری دنیا کا بوجھ آپ کے کندھوں پر تھا اور آپ کو ایک لمحہ کے لئے بھی فرصت نہ ملتی تھی مگر آپ کی شادیاں چونکہ تقویٰ کے لئے تھیں اس لئے ایمان اور اخلاص کے لحاظ سے نہیں جو بحیثیت نبی رسول کریم آپ کے ساتھ آپ کی بیویوں کو تھا بلکہ بشری محبت کے لحاظ سے بھی رسول کریم ال سے ان کو بے حد محبت تھی.ذرا غور تو کرو وہ کیا چیز تھی جس نے رسول کریم ﷺ کی اس قدر محبت آپ کی بیویوں کے دلوں میں پیدا کر دی تھی.یہ خدا تعالیٰ کا تقویٰ ہی تھا.حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی شادی بارہ تیرہ سال کی عمر میں ہوئی تھی اور اکیس بائیں سال کی عمر میں بیوہ ہو گئیں.اس صورت میں دنیوی لحاظ سے کہا جاسکتا ہے کہ آپ کی زندگی بے مقصد و بے مدعا رہی.مگر آپ کے مذہبی اخلاص کو جانے دیں تو میاں بیوی کے لحاظ سے جو اخلاص نظر آتا ہے وہ بھی بے نظیر ہے.ایک عورت بیان کرتی ہے کہ ایک دفعہ میں حضرت
خطبات ۲۳۸ جلد سوم عائشہ کے پاس گئی تو وہ کھانا کھا رہی تھیں اور ساتھ ہی روتی جاتی تھیں.میں نے پوچھا کیا بات ہے تو انہوں نے کہا مجھے ایسے اچھے آٹے کی روٹی دیکھ کر یہ خیال آرہا ہے کہ رسول کریم کے زمانہ میں چکی اچھی طرح کی نہ ہوتی تھی اور آٹا موٹا بنتا تھا.سے اس وقت اگر رسول کریم اے ہوتے تو میں اس آٹے کی روٹی پکا کر ان کو کھلاتی.عام طور پر عورتیں خاوندوں کی وفات پر اس قسم کے خیالات پر روتی ہیں کہ فلاں نے یہ دکھ دیا ہے اگر خاوند زندہ ہوتا تو یہ دکھ نہ پہنچتا.یا کھانے پینے کی تکلیف ہوتی ہے خاوند ہو تا تو نہ ہوتی.مگر حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا خوشی کے وقت روتی ہیں اس لئے نہیں کہ رسول کریم اگر ہوتے تو کھانے پینے کی چیزیں لا کر دیتے یا کپڑے بنوا کر لاتے.بلکہ اس لئے کہ یہ آرام جو مجھے پہنچ رہا ہے یہ مجھ اکیلی کو حاصل نہ ہوتا بلکہ آپ کو بھی پہنچتا.اس طرح وہ کھانا جو لطف و سرور کا باعث ہو سکتا تھا حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا کے لئے دکھ اور تکلیف کا موجب ہوتا.کیونکہ اس میں ان کا محبوب شامل نہ تھا.اللہ تعالٰی جب قلوب پر تصرف کرتا ہے تو یہی حالت ہوتی ہے.پس تقوی کو مد نظر رکھ کر شادی کرنی چاہئے.جب ایسا کیا جائے تو خدا تعالٰی اپنے فضل سے ان مخفی نقائص کو جن تک انسان کی نگاہ نہیں پہنچ سکتی یا جن کی اصلاح اس کے اختیار سے باہر ہوتی ہے خیر میں بدل دیتا ہے.اس وقت میں خان نعمت خاں صاحب سب حج امر تسر کی لڑکی اقبال بیگم کا نکاح ایک ہزار روپیہ مہر پر اوصاف علی خان صاحب سے پڑھے جانے کا اعلان کرتا ہوں.اخبار الفضل ۱۷ جنوری ۱۹۲۸ء صفحہ ۷۶ لے اور خداوند نے کہا کہ آدم کا اکیلا رہتا اچھا نہیں میں اس کے لئے ایک مددگار اس کی مانند بناؤں گا“.پیدائش باب ۲ آیت ۱۸ بائیل سو سائٹی انار کلی لاہور مطبوعہ ۱۹۹۴ء) له الاحزاب : ۷۲۷۱ له ترمذی ابواب الزهد باب ما جاء فى معيشة النبي واهله
خطبات محمود ۲۳۹ جلد سوم ایک تمدنی غلطی کی اصلاح (فرموده ۲- جنوری ۱۹۲۸ء) ۲- جنوری ۱۹۲۸ء کو مرزا محمود بیگ صاحب کی لڑکی صادقہ بیگم صاحبہ کا نکاح چوہدری فتح محمد صاحب سیال سے ایک ہزار روپیہ صریر حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے پڑھا.خطبہ مسنونہ کی تلاوت کے بعد فرمایا : دنیا میں خدا تعالیٰ نے ایسے سامان پیدا فرمائے ہیں کہ انسان کی ایک حالت ہمیشہ قائم نہیں رہتی.کبھی وہ رنج میں سے گزر رہا ہوتا ہے اور کبھی خوشی سے مسرت اندوز ہو رہا ہوتا ہے ایک وقت میں خوشی کے سامان پیدا ہو رہے ہوتے ہیں اور دوسرے وقت میں رنج کے.بسا اوقات انسان مجبور ہوتا ہے کہ خوشی پر غالب آئے اور بسا اوقات مجبور ہوتا ہے کہ اپنے رنج پر غالب آئے یہ تمام سامان خدا تعالٰی نے اپنی حکمت کے ماتحت رکھے ہیں کیونکہ وہ انسان کو ترقی کے رستہ کی طرف لے جاتا ہے اور خوشی و رنج ہمیشہ انسان کو کھڑا کر لیتے ہیں.خوشی کہتی ہے ٹھر جا ذرا میرا مزہ چکھ لے اور رنج کہتا ہے ذرا ٹھہر کر میری لذت چکھ لے.دونوں اپنی طرف کھینچنے والی چیزیں ہیں.لیکن خدا تعالی بندہ کو اپنی طرف کھینچتا ہے.اس کے لئے اس نے یہ سامان مقرر کر رکھے ہیں کہ خوشی درنج ساتھ ساتھ دیئے ہیں جو ایک دوسرے کے ساتھ ایسے ملا دیئے گئے ہیں کہ جب خوشی اپنی طرف پورے زور اور ساری طاقت سے کھینچ رہی ہوتی ہے تو رنج پیدا کر کے اس کی طاقت کو کمزور کر دیا جاتا ہے.اور جب رنج اپنی طرف کھینچ رہا ہوتا ہے تو خوشی کے ایسے سامان پیدا کر دیئے جاتے ہیں جو رنج کی طاقت کو توڑ دیتے ہیں.تب وہ درمیانی رستہ
خطبات محمود جلد سوم جس کے ذریعہ انسان خدا تعالی تک پہنچتا ہے آپ ہی آپ اس کے سامنے آجاتا ہے.میں اس وقت جس نکاح کے اعلان کے لئے کھڑا ہوا ہوں.یہ بھی اس قسم کی حالت کا ایک نمونہ ہے.ابھی تھوڑے دن ہوئے.ایک مہینہ بھی نہیں ہوا کہ اچانک چوہدری فتح محمد صاحب کی اہلیہ فوت ہو گئیں.ان کی اپنی ذاتی لیاقت اور نیکی کی وجہ سے اور خاندانی شرافت کے باعث کیونکہ وہ حضرت خلیفہ اول کی نواسی تھیں چوہدری فتح محمد صاحب کو ان کی وفات پر جائز طور پر صدمہ ہونا چاہئے تھا اور ہوا.ایسی حالت میں لوگ محسوس کرتے ہیں کہ اس رنج کی حالت کو لمبا ہونا چاہئے اور بسا اوقات لوگ اعتراض کرنے لگ جاتے ہیں کہ فلاں آدمی کیسا سنگدل ہے بیوی کی وفات کے صدمہ کو اتنا جلدی بھول گیا اور اس نے دوسرا نکاح کر لیا.خصوصاً عورتیں اس قسم کے اعتراض کیا کرتی ہیں کہ فلاں مرد نے اپنی بیوی کے مرنے کے بعد اتنی جلدی شادی کرلی مگر عورتیں اتنا اتنا عرصہ بیٹھی رہتی ہیں.اگر اس حقیقت پر غور کیا جائے جو میں نے بیان کی ہے اور ان ضرورتوں کو دیکھا جائے جو عورتوں کے ہی فائدہ کے لئے ہوتی ہیں تو بسا اوقات مرد اپنے نفس کو مجبور کر کے اور جذبات کو دبا کر دوسری شادی کے لئے آمادہ ہوتا ہے.اس کے احساسات اور جذبات چاہتے ہیں کہ ابھی غم کی حالت کا مزا چکھے لیکن مرنے والی کے فائدہ اور نفع کے لئے اس کے لئے ضروری ہوتا ہے کہ وہ اپنے اس غم کے دائرہ کو تنگ کرے بسا اوقات پہلی بیوی کی چھوٹی چھوٹی اولاد ہوتی ہے جس کی پرورش اور تربیت مرد بوجہ دوسرے کاموں کے جو گھر سے باہر اس نے کرنے ہوتے ہیں نہیں کر سکتا.لیکن اگر مرد فوت ہو جائے تو عورت بچوں کی نگرانی اور تربیت کر سکتی ہے چونکہ عورت کے فوت ہو جانے کی وجہ سے بچوں کی زندگی ضائع ہو جانے کا خطرہ ہوتا ہے اس لئے مرد مجبور ہوتا ہے کہ مرحومہ بیوی کی اولاد کی خاطر شادی کرے.ایسی شادی بظاہر بے وقوفوں کے لئے قابل اعتراض ہوتی ہے مگر عقلمندوں کے نزدیک ضروری ہوتی ہے اگر اس مرد کو اس کی اپنی حالت پر چھوڑ دیا جاتا تو وہ اتنی جلدی شادی کے لئے تیار نہ ہوتا.مگر ان بچوں کی تربیت کے لئے جن کی تربیت مرحومہ کا پہلا اور سب سے ضروری فرض تھا وہ اپنے نفس کو مجبور کر کے اس بات کے لئے تیار ہوتا ہے کہ اپنے گھر میں ایسے انسان کو لائے جو گھر کو آباد رکھنے کی کوشش کرے.ہمارے ملک میں چونکہ حقیقت پر غور کرنے کی عادت نہیں رہی اور یہ سارا نتیجہ اس بات
خطبات محمود ام ہے کہ ان لوگوں میں حکومت نہیں رہی.اس لئے ایسی باتوں پر اعتراض کرنے لگ جاتے ہیں اور ممکن ہے بعض لوگ اس موقع پر بھی اعتراض کریں.مگر یہ شادی جس کا میں اعلان کرنے لگا ہوں چوہدری صاحب کے ارادہ اور خواہش سے نہیں ہو رہی بلکہ اس کا اصل محرک میں خود ہوں.ممکن ہے ان ایام میں ان کے ذہن میں دوسری شادی کی تجویز آئی ہو یا نہ آئی ہو مگر مجھے ان کی بیوی کی وفات کے دوسرے تیسرے دن ہی خیال آیا کہ چوہدری صاحب کا سب سے بڑا فرض اپنی مرحومہ بیوی کے متعلق بچوں کی پرورش ہے جن میں سے ایک کی عمر تو اتنے ہی دن کی ہے جتنے دن مرحومہ کو فوت ہوئے گزرے ہیں کیونکہ اس کی پیدائش کے بعد وہ فوت ہو گئیں.ایک اور بچہ دو سال کا ہے باقی اس سے زیادہ عمر کے ہیں اس لئے میرا خیال تھا کہ چوہدری صاحب کو اپنے نفس کو مار کر جلد سے جلد شادی کر لینی چاہئے اور میں اسی دن سے اس فکر میں تھا کہ کوئی موزوں صورت ہو تو اس کے متعلق تحریک کی جائے تاکہ بچوں کی تربیت اور پرورش بھی ہو سکے اور گھر بھی آباد ہو.اب میری تحریک پر چوہدری صاحب نے نکاح پر آمادگی ظاہر کی ہے.مجھے یہ خطبہ اس لئے بیان کرنے کی ضرورت محسوس ہوئی کہ عام طور پر لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ اتنی جلدی کیوں شادی کی گئی اس طرح وہ خاوند کی اپنی مرحومہ بیوی سے محبت اور تعلقات کے متعلق حرف گیری کرتے ہیں.اس میں شک نہیں ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں جو نفس پرست ہوتے اور انہیں مرنے والی بیوی کی کوئی پرواہ نہیں ہوتی مگر بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ مرد کو کچی قربانی اور حقیقی ایثار کر کے شادی کرنے پر آمادہ ہونا پڑتا ہے.وہ دل میں چاہتا ہے کہ اپنے غم کی گھڑیوں کو لمبا کرے مگر وہ اپنے نفس کو دبا کر مرنے والی کی خاطر اور اس کی خدمت کے لئے کیونکہ بچوں کی پرورش اور تربیت اس کی خدمت ہوتی ہے مجبور ہوتا ہے کہ اس بارے میں انتظام کرے.دنیا اس پر اعتراض کرتی ہے مگر خدا تعالیٰ کے نزدیک وہ کچی قربانی کر رہا ہوتا ہے.یہ نکاح مرزا محمود بیگ صاحب کی لڑکی صادقہ بیگم سے قرار پایا ہے.مرزا صاحب پٹی کے ایک مشہور خاندان کے اور پرانے احمدی ہیں.وہ خاموش طبیعت کے آدمی ہیں مگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے بڑا اخلاص رکھنے والے ہیں.مدتوں یہاں رشتہ داروں سے قطع تعلق کر کے رہے ہیں.اور میں سمجھتا ہوں یہ بھی ان کی قربانی ہے کہ باوجود اس کے کہ ان کا خاندان بهت مشهور اور بڑا مغلوں کا خاندان ہے مگر انہوں نے سارے رشتے غیر مغلوں میں کئے
خطبات محمود ۲۴۲ جلد سوم ہیں.انہوں نے اپنی بھانجیوں کے جہاں رشتے کئے وہ بھی دوسری قوم میں گئے ہیں.اور اپنی دو لڑکیوں کے جہاں کئے وہ بھی مغل نہیں اور تیسری لڑکی کے لئے جہاں وہ ارادہ کر رہے ہیں وہ بھی مغل نہیں.میں اعلان کرتا ہوں کہ مرزا صاحب کی لڑکی صادقہ بیگم کا نکاح چوہدری فتح محمد صاحب سیال سے ایک ہزار روپیہ مہربر قرار پایا ہے.الفضل ۱۰ جنوری (۱۹۲۸ء صفحه ۹ )
خطبات محمود ۲۴۳ ۶۶ جلد سوم عورت کی حریت کا زمانہ آگیا ہے (فرموده ۱۴ مارچ ۱۹۲۸ء) ۱۴ مارچ ۱۹۲۸ء کو حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے محترم صوفی غلام محمد صاحب بی.اے سابق مبلغ ماریشس کا نکاح استانی فاطمہ بیگم صاحبہ سے پانچ صد روپے سر پر پڑھا:- خطبہ مسنونہ کی تلاوت کے بعد فرمایا : اس وقت دنیا کے اہم ترین سوالات میں سے ایک سوال عورت اور مرد کے تعلقات کا ہے ایک طرف اس روشنی کو لیں جو آج سے ساڑھے تیرہ سو سال قبل عرب میں نمودار ہوئی اور جس نے انسان کے ذہن میں یہ فکر اور خیال پیدا کرنے کی کوشش کی کہ عورت بھی انسان ہی ہے.اور دوسری طرف لاکھوں بلکہ اربوں سال کے رسم و رواج کو دیکھو جس پر متواتر عمل کرنے کے باعث یہ یقین کیا جاتا تھا کہ عورت کو مرد کے مساوی حقوق ہرگز حاصل نہیں.عورت صرف مرد کی خدمت کے واسطے پیدا کی گئی ہے اور مرد کے ساتھ طبیعی یا غیر طبیعی اختلاف پیدا ہو جانے کے بعد بھی عورت کا فرض ہے کہ اس کے نام کو ہی پکڑ کر بیٹھی رہے.ایک زمانہ تک تو وہ عرب میں چپکنے والی روشنی انسانی افکار میں وہ تغیر پیدا نہ کر سکی جو کرنا چاہتی تھی مگر آہستہ آہستہ اپنا کام کرتی چلی گئی یہاں تک کہ وہ خیال جو قلوب کی سطح کے نیچے نہیں جاتا تھا انسانی قلوب میں جگہ حاصل کرنے لگا.عورت اور مرد کے حقوق کا سوال رسول کریم ﷺ کے وقت پیدا ہوا مگر اس وقت انسانی ذہن اور افکار اس کی حکمت کو سمجھنے کے قابل نہیں تھے اس لئے اس کو محض ایک حکم سمجھا گیا اور اس کی حقیقت کو نہ سمجھا جاسکا.جس طرح ایک بچہ اپنی ماں کو جو کہ مرچکی ہو اماں اماں کہہ
خطبات محمود جلد سوم کر پکارتا ہے اور اس حقیقت سے نا آشنا ہوتا ہے کہ وہ مرچکی ہے.اسی طرح چونکہ اس حکم کی حقیقت کو نہ سمجھا گیا تھا اس لئے اس کے اثرات بھی پیدا نہ ہوئے تھے.قرآن کریم میں مرد کو مخاطب کر کے عورتوں کے متعلق وَلَهُنَّ مِثْلُ الَّذِي عَلَيْهِنَّ - له ایک چھوٹا سا فقرہ فرمایا گیا جو عظیم الشان نتائج پیدا کرنے والا تھا.اس کے مقابل پر لاکھوں سال کا طرز رہائش اور رسم و رواج تھے.اس کے راستہ میں ایک ایک قدم پر روکیں تھیں مگر اس صداقت کا انکار نہیں کیا جاسکتا کہ جب خدا تعالٰی نے اس آواز کو اٹھایا لوگوں کی عادات رسم و رواج اس کے مقابل میں آئے مگر اسے کوئی نہ روک سکا.وہ خیالات جن کی اہمیت دیر سے ظاہر ہو نہایت اہم ہوتے ہیں یہ آواز ان آوازوں میں سے ایک تھی جن کی حقیقت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ سے وابستہ تھی.جیسے تو حید کامل جسے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس زمانہ میں حقیقی شکل میں دنیا پر ظاہر کیا یا جیسے ختم نبوت کا مسئلہ جسے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اصلی صورت میں دنیا کے سامنے پیش کیا.خاتم النبیین کے لفظ کو مسلمانوں نے لے لیا تھا مگر اس کی حقیقت کو نہ سمجھا تھا کہ اس کے ذریعہ رسول کریم ﷺ کو کتنی برتری حاصل ہو گئی.انہوں نے اس کو محض ایک عزت کا خطاب سمجھ لیا تھا اور حقیقت کی جستجو نہ کی.ان انکشافات کا ایک لمبے عرصہ تک پوشیدہ رہنا ان کی اہمیت پر دلالت کرتا ہے.وہ زمانہ ان مسائل کے لئے حمل کا زمانہ تھا اور اب ان کی ولادت کا وقت ہے اور بلوغ کو پہنچنے تک نہ معلوم ان کے اور کس قدر حقائق کا انکشاف ہو.عورت مرد کے تعلق کا مسئلہ ایک نہایت ہی اہم مسئلہ ہے جس کے حمل کے لئے تیرہ صدیاں درکار تھیں اور اب اس نے ایسی شکل اختیار کرلی ہے کہ دنیا حیران ہو رہی ہے کہ آئندہ کیا ہو گا.اب عورت نے اس امر کا احساس کیا ہے کہ میری حریت کا زمانہ آگیا.وہ مرد جو عورتوں کو خدمت گار بلکہ غلام سمجھتے تھے اور جو اپنے اکرام کی خاطر بیوی سے ہر قسم کی خدمت لیتے تھے حیران ہیں کہ ہماری زندگی اب کس طرح گزرے گی.محمد رسول اللہ ا کی زندگی ان کی نظر سے پوشیدہ ہے اور ان کے سامنے وہی احساس ہے جو ان کو ورثہ میں ملا ہے اور وہ حیران ہو رہے ہیں کہ اب کیا ہو گا.ایک تغیر یورپ میں رونما ہوا ہے اور وہاں مرد اپنی جگہ اور عورت اپنی جگہ چلا رہے ہیں جس کی وجہ یہ ہے کہ دونوں اپنی جگہ سے ہل گئے ہیں اور اکھڑنا
خطبات محمود ۲۴۵ جلد سوم ہمیشہ درد پیدا کرتا ہے.ان کو آرام اسی وقت حاصل ہو گا جب اسلام نے مرد و عورت کے جو حقوق بتائے ہیں ان کا لحاظ رکھا جائے گا.مجھے افسوس ہے کہ وہی اسلام جو اس آواز کو لے کر آیا اس کے ماننے والے اس پر عمل کرنے میں سب سے پیچھے ہیں.عورت کی حریت کا سوال غیروں میں پیدا ہو چکا ہے مگر انہوں نے اس کا غلط علاج سو چالیکن مسلمانوں میں ابھی تک یہ احساس بھی پیدا نہیں ہوا.وہ کہتے ہیں یہ حد درجہ کی بے غیرتی ہے کہ بیوہ یا مطلقہ دوبارہ شادی کرے.گویا وہ سمجھتے ہیں عورت جانور سے بھی بدتر ہے.جانور تو دوسرے کے پاس بیچا جا سکتا ہے یعنی وہ ایک ہاتھ سے دوسرے ہاتھ میں جاسکتا ہے مگر عورت ایک خاوند سے جدا ہو کر دوسرے کے پاس نہیں جاسکتی مگر جب کوئی خیال پیدا ہو جائے تو پھر وہ بڑھتا اور ترقی کرتا ہے اس لئے اب عورتوں کی غلامی کے خیال کی زندگی بھی تھوڑے دن باقی رہ گئی ہیں.مسلمان عورتوں میں بھی وہی باتیں پیدا ہو رہی ہیں جو دوسری قوموں میں ہیں.مگر افسوس ہے کہ مسلمان بجائے اس کے کہ ان کا علاج قرآن کریم سے پوچھیں یورپ کا طریق اختیار کر رہے ہیں اس لئے وہی بے چینیاں جو یورپ میں ہیں ان میں بھی پیدا ہو رہی ہیں.قرآن کریم پر عمل کرنے سے گو رسم ورواج کا مقابلہ کرنے میں تکلیف تو ہوگی مگر اس کا انجام نیک ہو گا.عورت اور مرد کے حقوق کے متعلق دنیا میں انقلاب پیدا ہونے والا ہے مگر ضروری ہے کہ وہ تغیر قرآن کے مطابق ہو.اگر عورتوں کو قرآن کریم کے بتلائے ہوئے حقوق نہ دیئے گئے تو وہ یورپ والے حقوق کا مطالبہ کریں گی اور لیں گی.اور وہاں یہ حالت ہو رہی ہے کہ وہ مرد کا صرف نام لیتی ہیں تاکہ اپنے آپ کو اس سے منسوب کر سکیں تا کوئی انہیں آوارہ نہ کہے.پس انجام بخیر کے لئے ضروری ہے کہ عورتوں کے حقوق ان کو دیئے جائیں مطلقہ اور بیوہ عورتوں کو شادی کی اجازت دی جائے.اور یہ صرف ابتدائی حقوق ہیں جن سے ابھی تک عورت کو محروم رکھا گیا ہے.میں نے دیکھا ہے جب کہیں بیوہ کی شادی ہو تو تمام گھر ماتم کدہ بن جاتا ہے اور اس کے خاندان کے ساتھ اظہار ہمدردی کیا جاتا ہے ان کو مظلوم سمجھا جاتا ہے گویا عورت کا کوئی حق ہی ان کے نزدیک نہیں.اس وقت میں صوفی غلام محمد صاحب کے نکاح کا اعلان استانی فاطمہ بیگم سے مبلغ پانسو روپیہ مہر پر پڑھا جانے کا کرتا ہوں.البقرة : ٢٢٩- الفضل ۳- اپریل ۱۹۲۸ء صفحه ۸۰۷)
۶۷ جلد سوم حقیقی جوڑے خدا ہی ملاتا ہے (فرموده ۱۴ ستمبر ۱۹۲۸ء) صاحبزادہ میاں عبد السلام صاحب ابن حضرت خلیفہ المسیح الاول کا نکاح ۱۴.ستمبر ۱۹۲۸ء بعد نماز عصر جناب مفتی محمد صادق صاحب کی صاحبزادی سعیدہ بیگم صاحبہ کے ساتھ ایک ہزار روپیہ مر پر حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے پڑھا.اے خطبہ مسنونہ کی تلاوت کے بعد فرمایا : اللہ تعالٰی نے انسانی فطرت کو ایسا بنایا ہے کہ وہ اپنے کاموں کی تکمیل کے لئے دوسری اشیاء کی محتاج ہے بلکہ انسانی فطرت ہی نہیں ہر چیز کو ایسا بنایا ہے کہ اپنی تکمیل کے لئے دوسری کی محتاج ہے، سورج سیاروں کا محتاج ہے روشنی اس جو کی محتاج ہے جو اسے دنیا میں پھیلاتا ہے، آنکھ اس روشنی کی محتاج ہے جو اسے دکھاتی ہے، کان ہوا کے محتاج ہیں جو آواز کو لاتی ہے، زبان مزے کی محتاج ہے اور مزا اپنی طاقتوں کے اظہار کے لئے زبان کا محتاج ہے.غرضیکہ سے رو یہ ایک عام زوجیت ہے جو دنیا میں نظر آتی ہے اور جس کا انکار کوئی عظمند نہیں کر سکتا.اس کے علاوہ ایک اور بھی زوجیت ہے جو اس سے اخص ہے جس طرح ایک چھلکے.بادام نکلتے ہیں اور ان دونوں کو اگر جوڑا جائے تو وہ ایک ہو سکتے ہیں لیکن اگر دوسرے دو جوڑے جائیں تو وہ کبھی آپس میں نہیں مل سکتے.بعینہ اسی طرح ارواح میں بھی ایسا میلان رکھا گیا ہے کہ ان میں بھی جوڑے ہوتے ہیں اگر وہ مل جائیں تو ہر چیز مل جاتی ہے.ان جوڑوں کی تلاش انسانی طاقت سے بالا ہوتی ہے.جو خدا کے ازلی اور کامل علم میں جو خطا سے پاک ہے
خطبات محمود جلد سوم موجود ہوتے ہیں مگر فرشتے اور خدا کے انبیاء بھی ان سے آگاہ نہیں ہوتے.وہ جوڑے عورت اور مرد میں بھی ہوتے ہیں، مرد اور مرد میں بھی اور عورتوں میں بھی، پیر اور مرید میں بھی اور خادم و آقا میں بھی ہوتے ہیں.بسا اوقات ایسے لوگ دنیا سے گزر جاتے ہیں جو اپنے جوڑے کو نہیں پاسکتے وہ یہی شکایت کرتے رہتے ہیں کہ دنیا میں وفا نہیں.ان کا یہ قول غلط ہوتا ہے.در اصل بات یہ ہوتی ہے کہ وہ اپنا جو ڑا نہیں پاسکے.وہ یہ کہہ سکتے ہیں کہ ہم نے دنیا میں وفا نہیں پائی مگر یہ نہیں کہ سکتے کہ دنیا میں وفا ہے ہی نہیں.بات یہی ہوتی ہے کہ انہیں جو ڑا لمتا نہیں جو ان کے لئے پیدا کیا گیا تھا.دنیا میں ہم دیکھتے ہیں چوروں اور ڈاکوؤں میں بھی وفا پائی جاتی ہے ٹھگ بھی بعض اوقات اپنے ساتھی کو بچانے کے لئے اپنی جان تک دے دیتے ہیں.ایک باغی دوسرے کے لئے پھانسی پر لٹک جاتا ہے.پس اگر دنیا میں وفا نہیں تو یہ نظارہ ہمیں کیوں نظر آتا ہے.پس ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ دنیا میں وفا نہیں ہاں یہ کہہ سکتے ہیں کہ ہم اپنے جوڑے کی تلاش میں ناکام رہے ہیں اگر جو ڑا مل جاتا تو ہمیں یہ شکایت نہ رہتی.اسی طرح بہت سے آقا ایسے ہوتے ہیں جو شکایت کرتے ہیں کہ کوئی اچھا نو کر نہیں ملتا حالا نکہ یہ غلط ہوتا ہے.ان کو اپنا جوڑا نہیں ملا ہوتا اور وہ خادم مل جاتا ہے جسے خدا تعالٰی نے اور مزاج والے آقا کے لئے بنایا تھا اور جس طرح دو الگ الگ بادام آپس میں فٹ نہیں و سکتے اسی طرح یہ بھی آپس میں فٹ نہیں ہو سکتے اور اس واسطے تکلیف اٹھاتے ہیں.اسی طرح بہت سے خاوند اچھی بیوی نہ ملنے کا گلہ کرتے ہیں حالانکہ دنیا میں اچھی بیوی مل سکتی ہے.مگر وہ اپنا جوڑا تلاش کرنے میں ناکام رہتے ہیں اور جس کو بیوی بناتے ہیں وہ دراصل کسی اور کا جوڑا ہوتا ہے.پس جس طرح ایک انسان کی جوتی دوسرے کے پیر میں نہیں آسکتی اسی طرح جس کو خدا نے جوڑے کے لئے پیدا کیا ہے اس کے سوا دوسرا اس جگہ ٹھیک نہیں آسکتا.پس دنیا میں با امن زندگی کے لئے صحیح جوڑے کا ملنا ضروری ہے اور جنت اسی کا نام ہے اور اس کی طرف حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے الہام بادَمُ اسْكُنُ انْتَ و زَوُجُكَ الْجَنَّةَ - لہ میں اشارہ ہے.اس میں خدا تعالٰی نے بتایا ہے کہ گو انسان کے لئے اپنا جوڑا تلاش کرنا ناممکن ہے لیکن میں تیرے جوڑے تلاش کر کر کے تیرے پاس لاؤں گا اور تو اور تیرے جوڑے جنت میں رہیں گے اور با امن زندگی بسر کریں گے.تو یہ اللہ تعالی کا کام ہے کہ انسان کا جوڑا ا سے ملا دے.حضرت خلیفہ المسیح الاول فرمایا کرتے تھے کہ تونسہ شریف کے ہو.
خطبات محمود ۲۴۸ جلد سوم ایک پیر صاحب سے کسی نے پوچھا آپ کس لئے پھرتے رہتے ہیں.انہوں نے فرمایا اپنا شکار تلاش کرتا ہوں.آخر ایک دن انہوں نے ایک نوجوان کو دیکھا اور اسے پکڑ لیا اور فرمایا بس مجھے اس کی تلاش تھی.ان کو اللہ تعالٰی نے رویا میں بتا دیا ہو گا کہ اس کی شکل کا آدمی تیرا جوڑا ہے چنانچہ انہوں نے جب اسے دیکھا تو پکڑ لیا اور وہی پھر ان کے بعد ان کا قائم مقام ہوا.یہی وجہ ہے کہ جو مرید خدا تعالی لاتا ہے وہ ہزار تکالیف اور دکھ اٹھانے کے باوجود اپنے پیر سے سر انحراف نہیں کرتے لیکن خود ساختہ پیروں کے مرید خدا نہیں لاتا.ذراسی مشکل پر بھاگ جاتے ہیں.پس جو پیر خدا کی طرف سے بنائے جاتے ہیں ان کے جوڑے خود خد الا تا ہے اور جو بندے آپ منامور بنتے ہیں ان کے مریدوں کو جب ابتلاء آتا ہے تو وہ جدا ہو جاتے ہیں.جوڑا دنیا میں جنت قائم کرنے والی چیز ہے.قرآن میں خدا تعالیٰ فرماتا ہے.لِتَسْكُنُوا اِلَيْهَا.سے کہ ہم نے تمہیں جوڑے اس لئے بنایا ہے کہ تا تمہیں تسکین حاصل ہو.مگر دنیا میں لوگ کہتے ہیں کہ تسلی اور اطمینان نہیں اس سے معلوم ہوا کہ انہیں صحیح جو ڑا نہیں ملا.لیکن جہاں یہ بات ہے کہ صحیح جوڑا خدا تعالی ہی ملاتا ہے وہیں یہ بھی ہے کہ بعض لوگوں کو خدا تعالی ایک قسم کی خالقیت دے دیتا ہے.اور جس طرح ایک بڑھتی بے جوڑ لکڑیوں کو درست کر کے ٹھیک کرلیتا ہے اسی طرح بعض لوگوں کو خدا تعالیٰ یہ طاقت اور روحانیت دیتا ہے کہ وہ اپنا جوڑا خود بنا لیتے ہیں.اور ان کے کے ہاتھوں میں ایسے آدمی جو دراصل ان کا جوڑا نہیں ہوتے ٹھیک ہو جاتے ہیں.رسول کریم کے پاس پہلے تو خدا تعالیٰ انتخاب کر کے ہی جوڑے بھیجتا رہا لیکن جب جوق در جوق اسلام میں داخل ہونے لگے تو خدا نے آپ کو وہ روحانی قوت عطا فرما دی کہ آپ خود ان کو درست کر کے اپنے لئے موزوں کر لیتے.یہی وہ خلق خیر ہے کہ انبیاء اپنے جوڑے تلاش کر لیتے ہیں.انبیاء چونکہ ہمیشہ بلندی کی طرف پرواز کرتے ہیں اس لئے وہ لوگوں میں بھی طائرانہ صفات پیدا کر کے انہیں جو ڑا بنا لیتے ہیں.ابتداء میں تو بے شک خدا تعالی ان کے لئے جوڑے تلاش کرتا ہے لیکن اس وقت جبکہ ہجوم کا وقت ہوتا ہے وہ خود اپنے لئے جوڑے تیار کر لیتے ہیں.بے شک بعض ایسے شقی بھی ہوتے ہیں جن پر خدا تعالی کی طرف سے مہر لگ جاتی ہے کہ وہ جو ڑا نہیں بن سکیں گے لیکن ایسے لوگ بہت کم ہوتے ہیں.پس حقیقی امن اور راحت کا قیام خواہ وہ شادی سے ہو یا پیری مریدی اور دوستی سے اس بات پر منحصر ہے کہ انسان کو اپنا جو ڑا مل جائے اور اگر یہ نہ ملے تو فساد ہی رہتا ہے.ایسے بادشاہ
خطبات محمود ۲۴۹ جلد موم دنیا میں گزرے ہیں جن کو لوگوں نے ظالم کہہ کر مار دیا لیکن بعد میں آنے والے لوگوں نے ان کے حالات پڑھ کر یہی کہا کہ ان کے کام اچھے تھے لوگوں نے ناحق مار دیا.اس سے معلوم ہوا کہ انہیں جو ڑا رعیت نہ ملی تھی.وہ دراصل اپنے وقت سے بہت پہلے پیدا ہو گئے تھے یہ اللہ تعالٰی ہی بہتر جانتا ہے کہ کس کا جوڑا کہاں ہے.بعض وقت خاوند کسی ملک کا ہوتا ہے اور بیوی کسی علاقہ کی لیکن ان میں ایسی محبت ہوتی ہے کہ لوگ رشک کرتے ہیں دنیا ان سے ناراض بھی ہوتی ہے وہ دوسروں سے لڑائیاں بھی کرتے ہیں مگر آپس میں وہ جوڑا ہوتا ہے اور انہیں دنیا کی کوئی چیز جدا نہیں کر سکتی اور یہ وہ جوڑا ہوتا ہے جسے خدا نے ملا دیا.رسول کریم کے لئے خدا تعالی نے جوڑے تلاش کئے تھے.حضرت عائشہ کے متعلق تو خدا تعالٰی نے آپ کو دکھا دیا کہ یہ تیرا جوڑا ہے.حضرت خدیجہ کے متعلق بھی واقعات سے معلوم ہوتا ہے کہ خدا کا تلاش کردہ جو ڑا تھا.گو اس کے متعلق کوئی خواہیں وغیرہ تو نہیں ملتیں لیکن حالات ایسے ہیں.کہاں خدیجہ کی طرف سے تجارت پر جانا اور کہاں ان کی طرف سے شادی کا پیغام دیا جانا اور پھر آپ کا باوجود اس کے کہ آپ سے وہ پندرہ برس بڑی تھیں اس کو منظور کر لینا.پھر شادی کے بعد ایسے اچھے تعلقات کا ہونا کہ حضرت خدیجہ نے اپنی تمام جائداد آپ کے سپرد کردی حالانکہ وہ جانتی تھیں کہ اگر آپ انہیں علیحدہ کر دیں گے تو وہ کچھ نہیں کر سکیں گی.پس ان حالات سے معلوم ہوتا ہے کہ جو ڑا مل گیا تھا.پھر حضرت صفیہ نے بیان کیا کہ میں نے بچپن میں خواب دیکھا تھا کہ چاند میری گود میں آپڑا ہے اور جب میں نے اپنے باپ کو یہ سنایا تو اس نے میرے منہ پر تھپڑ مارا کہ کیا تو عرب کے بادشاہ سے شادی کرنا چاہتی ہے.پھر حضرت عائشہ جوانی میں بیوہ ہو گئیں اور ایسی حالت میں عورتوں کو عام طور پر خاوند پر غصہ ہوتا ہے کہ اس عمر میں شادی کیوں کی مگر حضرت عائشہ کو دنیا کی نہر خوبصورتی میں رسول کریم ﷺ کا ہی چہرہ نظر آتا ہے جس سے معلوم ہوا کہ جوڑا خوب ملا تھا.پس حقیقتاً خدا تعالی ہی جوڑے ملاتا ہے.اس لئے خدا تعالٰی سے استخارہ کرنا چاہئے کہ صحیح جوڑے ملائے اور نیک سامان کر دے قرآن کریم میں اللہ تعالی فرماتا ہے.وَعَسَى أَن تَكْرَهُوا شَيْئًا وَهُوَ خَيْرٌ لَكُمْ وَعَسَى أَنْ تُحِبُّوا شَيْئًا وَهُوَ شَر لَكُم - سے پس کئی چیزیں ایسی ہوتی ہیں جو بظاہر اچھی ہوتی ہیں مگر خدا کے ہاں وہ اچھی نہیں ہوتیں.اسی طرح بظاہر چیزیں اچھی نہیں نظر آتیں لیکن حقیقت میں وہ بہت مفید ہوتی ہیں.پس چاہئے کہ انسان اپنے آپ کو خدا
خطبات محمود ۲۵۰ جلد سوم کے سامنے ڈال دے کیونکہ خدا جو کچھ دے گا وہی اچھا ہو گا.ہمیشہ اپنے معاملات اللہ تعالٰی کے ہاتھ میں دے دینے چاہئیں کہ وہ حقیقی جوڑا ملا دے.اور جب جو ڑا مل جائے تو ہر قسم کا آرام حاصل ہو جاتا ہے اور جنت مل جاتی ہے.جنت بھی دراصل دو قسم کی ہوتی ہے.ایک دنیوی جنت اور ایک اخروی.اخروی جنت تو صرف مسلم کو ہی حاصل ہو سکتی ہے لیکن دنیوی جنت غیر مسلم بھی متمتع ہو سکتے ہیں.پس مومن کو اپنے کام اللہ تعالیٰ پر چھوڑ دینے چاہئیں اور الفضل ۲۶ - اکتوبر ۱۹۲۸ء صفحه ۱۰۰۹) سے اپنی خواہشات کو بہت کم دخل دینا چاہئے.له الفضل ۱۸- تمبر ۶۱۹۲۸ کے تذکرہ صفحہ ۷۰.ایڈیشن چهارم سے الروم : ۲۲ البقرة : ۲۱۷
۲۵۱ ۶۸ خطبات محمود شادی کرنے میں لڑکے لڑکی کو آزادی حاصل ہے (فرموده ۱۶ جنوری ۱۹۲۹ء) له خطبہ مسنونہ کی تلاوت کے بعد حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے فرمایا: اے نکاح کا معاملہ انسان کی اپنی ذات سے تعلق رکھتا ہے اور شاید جس قدر دنیوی معاملات ہیں ان سب سے زیادہ اس کا تعلق انسان سے ہے لیکن یہ نہایت ہی عجیب بات ہے کہ وہ معاملات جن کو انسانی زندگی سے کم تعلق ہوتا ہے ان کو تو انسان لوگوں کے سپرد کرنے کے لئے تیار ہو جاتے ہیں اور جس کا زیادہ تعلق ہے اسے اپنے ہاتھ میں رکھنا پسند کرتے ہیں.ایک کپڑا چھ مہینے نہیں سال، سال نہیں دو سال، دو سال نہیں تین سال، تین سال نہیں چار سال، چار سال نہیں پانچ سال چلتا ہے اور پھر پھٹ جاتا ہے.مگر ماں باپ کپڑے کے متعلق تو لڑکے لڑکی کو اجازت دے دیں گے بلکہ پسند کریں گے کہ لڑکا لڑکی کپڑا خود پسند کرے.حالانکہ اس کے انتخاب پر ان کی زندگی کا مدار نہیں ہوتا.کپڑے کی غرض خواہ کچھ ہو لڑکے لڑکی کی پسند کے نہ ہونے کے باوجود بھی پوری ہو جائے گی.کپڑے کی غرض اگر ننگ ڈھانکنا ہوگی تو وہ بھی پوری ہو جائے گی.اگر سردی سے بچانا ہوگی تو وہ بھی پوری ہو جائے گی گو آنکھیں اسے دیکھ کر خوش نہ ہوں اور دل میں مسرت پیدا نہ ہو لیکن اس میں تو کہتے ہیں کہ لڑکی لڑکا خود انتخاب کرے مگر وہ بات جس میں ان کی پسندیدگی اور رضامندی کے بغیر غرض پوری نہیں ہو سکتی اس میں اجازت نہیں دیتے اور وہ بیاہ شادی کا معاملہ ہے.
خطبات محمود ۲۵۲ جلد سوم شادی ساری عمر کا تعلق ہوتا ہے اگر لڑکے لڑکی کا مزاج نہ ملے ایک دوسرے کو پسند نہ کریں ان کے تعلقات عمدہ نہ ہوں تو ان کی ساری عمر تباہ ہو جاتی ہے بسا اوقات بعض خاندانوں میں محض اس لئے شادیاں ہو جاتی ہیں کہ ماں باپ نے کبھی بچپن میں اقرار کیا تھا کہ ہمارے ہاں لڑکا ہوگا اور تمہارے ہاں لڑکی تو ان کا رشتہ کریں گے.جب اقرار کیا جاتا ہے تو نہ لڑکے کو ہوش ہوتی ہے اور نہ لڑکی کو.اور بعض اوقات تو لڑکا لڑکی پیدا بھی نہیں ہوتے کہ اقرار کیا جاتا ہے اور اسے پورا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے حالانکہ یہ کوئی اقرار نہیں.کیا معلوم کہ ماں باپ لڑکے لڑکی کی شادی تک زندہ رہیں یا شادی کے بعد اتنا عرصہ زندہ رہیں کہ ان کے تعلقات اچھے یا برے ہونے کا اثر ان پر پڑے.پس جن پر اس اقرار کا اثر پڑنا ہوتا ہے یعنی لڑکا لڑکی ان کو پوچھا تک نہیں جاتا.سویہ نہایت ہی عجیب بات ہے کہ وہ چیزیں جن کا زندگی پر اتنا اثر نہیں پڑتا ان میں تو اختیار دیا جاتا ہے لیکن ان میں اختیار نہیں دیا جاتا جن کی زندگی سے بہت بڑا تعلق ہے یہ بڑی حماقت کی بات ہے.اسلام نے لڑکے لڑکی کو آزادی دی ہے شادی کے بارے میں مگر اس کے ساتھ ایک عجیب بات بھی رکھی ہے اور وہ یہ کہ لڑکا ہو یا لڑکی ماں باپ کے مشورے سے شادی کریں.اگر بغیر مشورہ کے شادی کرے تو ماں باپ کو اختیار ہے کہ اسے کہیں کہ طلاق دے دیں اور لڑکے کو اس کی تعمیل کرنی چاہئے.تو لڑکے کو مشورہ کرنے کا پابند قرار دیا ہے لیکن اگر ماں باپ بعد ہوں اور بغیر کوئی نقص اور خطرہ بتائے زور سے روکیں تو لڑ کا شادی کر سکتا ہے.ہاں اسے یہ حکم ہے کہ والدین کی خواہش کو جہاں تک ممکن ہو پورا کرے.مگر جب یہ سمجھے کہ ایسا کرنا اس کے لئے مضر ہے تو شادی کرلے.اگر لڑکا ماں باپ سے پوچھے بغیر شادی کرے تو وہ اسے طلاق دینے کا حکم دے سکتے ہیں.اس میں حکمت یہ ہے کہ ماں باپ اس تعلق کو اور نظر سے دیکھتے ہیں اور لڑکا اور نظر سے دیکھتا ہے.لڑکے کے سامنے حسن، جذبات اور شہوت یا اور معاملات ہوتے ہیں.لیکن ماں باپ کے مد نظر لڑکے کا آرام اور اس کا فائدہ ہوتا ہے اس لئے شریعت نے رکھا ہے کہ والدین سے اس بارے میں مشورہ کیا جائے تاکہ ان کے مشورہ سے مفید باتیں اس کے سامنے آجائیں جن پر وہ اپنے جذبات کی وجہ سے اطلاع نہیں پا سکتا تھا لیکن اگر وہ اپنے لئے مفید سمجھے تو ماں باپ کی
خطبات محمود ۲۵۳ جلد سوم رضامندی کے بغیر بھی شادی کر سکتا ہے.لڑکی کے معاملہ میں شریعت نے والدین کو ویٹو کا حق دیا ہے یعنی لڑکی اگر کہے کہ فلاں جگہ شادی کرنا چاہتی ہوں والدین مناسب نہ سمجھیں تو وہ انکار کر سکتے ہیں لیکن یہ محدود حق ہے یعنی دو دفعہ کے لئے.اگر تیسری جگہ بھی انکار کریں تو لڑکی کا حق ہے کہ قضاء میں درخواست کرے کہ والدین اپنے فوائد یا اغراض کے لئے اس کی شادی میں روک بن رہے ہیں.اس پر اگر قاضی دیکھے کہ یہ صحیح ہے تو لڑکی کو اختیار دے سکتا ہے کہ وہ شادی کر لے پھر چاہے وہ اس پہلی جگہ ہی شادی کرے جہاں سے والدین نے اسے روکا تھا یہ جائز شادی ہوگی.اسی طرح شریعت نے اس بارے میں لڑکے لڑکی کو درمیان میں لاکھڑا کیا ہے مگر حالت یہ ہے کہ لوگ دونوں کی باتوں کو برا سمجھتے ہیں.اگر کوئی کنواری لڑکی اس قسم کی درخواست قاضی کو دے تو بہت ممکن ہے جس سے وہ شادی کرنا چاہتی ہو وہی شادی کرنے سے انکار کر دے.غرض شریعت نے اس پر بڑا زور دیا ہے کہ سوچ سمجھ کر شادی کرنی چاہیئے خواہ مرد ہو خواہ عورت.چنانچہ اللہ تعالی فرماتا ہے وَلْتَنْظُرُ نَفْسُ مَا قَدَّمَتْ لِغَدٍ - سے وہ دیکھ لے کہ کل اس کے لئے کیا نتیجہ نکلے گا.یہ نہیں فرمایا کہ یہ دیکھنا چاہئے کہ رشتہ داروں کے متعلق کیا نتیجہ نکلے گا اور کہ ان کے ہاتھ میں کلی اختیار رہنا چاہئے.تو لڑکے اور لڑکی کو خود شادی کے متعلق غور و فکر سے کام لینا چاہئے جس کا اسلام نے انہیں حق دیا ہے لیکن شاید ابھی یہ باتیں خواب ہیں اور ایسی خواب جس کی تعبیر آئندہ زمانہ میں نکلے گی.تاہم ہمارا فرض ہے کہ ان کی طرف توجہ دلا میں خواہ وہ زمانہ جلد آئے یا بدیر.الفضل ۲۹ - جنوری ۱۹۲۹ء صفحہ ۹) لے یہ خطبہ نکاح حضور نے دوران سفر لاہور محترم چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب کی کوٹھی پر ارشاد فرمایا.(الفضل ۲۲.جنور کی ۱۹۳۹ء) کے فریقین کا تعین نہیں ہو سکا الحشر : 19
خطبات محمود ۲۵۴ ۶۹ جلد سوم روحانی تکمیل کے تین ذرائع (فرموده ااد سمبر ۱۹۲۹ء) ا.دسمبر ۱۹۲۹ء حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے شیخ داؤ د احمد صاحب ابن جناب شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی کا نکاح بلقیس بیگم بنت بابو فیروز علی صاحب کے ساتھ پڑھا.خطبہ مسنونہ کی تلاوت کے بعد فرمایا :- گو میری طبیعت ایسی ہے کہ وہ اجازت نہیں دیتی میں لمبا خطبہ اس موقع پر پڑھوں لیکن ایک بات ایسی ہے جو اس موقع پر کے بغیر نہیں رہ سکتا.اللہ تعالی قرآن کریم میں فرماتا ہے محلاً تمد مولاء وَهُوَ لَا ءِ مِنْ عَطَاءِ رَبِّكَ.لے کہ ہم مومن اور کافر ہر ایک کو اس کے کام میں مدد دیتے ہیں.مجھے اس رشتہ کے موقع پر اس آیت کی طرف توجہ اس لئے پیدا ہوئی کہ بابو فیروز علی صاحب کی اس لڑکی کے متعلق کئی رشتے میری معرفت بھی آئے اور بعض ان میں سے میں نے ان کو بتائے.کئی ان میں سے بہت اچھے تھے مگر بابو صاحب نے یہی کہا کہ میں قادیان میں آیا ہوں اور یہی چاہتا ہوں کہ میری لڑکی قادیان میں ہی بیاہی جائے.ممکن ہے ان کے عذر کرنے کی اور وجوہات بھی ہوں مگر مجھ پر انہوں نے یہی ظاہر کیا.اس مہینہ کی بات ہے ایک دن یونسی مجھے خیال آیا کہ بابو صاحب کی خواہش ہے کہ ان کی لڑکی کا رشتہ قادیان میں ہی ہو.ایک لڑکی ان کی شیخ محمود احمد صاحب سے بیاہی ہوئی ہے.دوسری کا رشتہ ان کے چھوٹے بھائی سے کیوں نہ ہو جائے مگر پھر مجھے یہ خیال بھول گیا.جب خیال آیا تھا اس وقت میرا ارادہ تھا کہ اس رشتہ کے متعلق فریقین کا عندیہ معلوم کروں مگر پھر یاد نہ رہا.یہ ۱۰- ۱۵ دن کے اندر اندر کی
خطبات محمود ۲۵۵ جلد سوم بات ہے.بعض خیالات اس طرح اللی تحریک کے ماتحت آجاتے ہیں کہ ان کا وجود میں آنا اللہ تعالٰی کے منشاء کے ماتحت ہوتا ہے.اس میں شبہ نہیں کہ الہی سلسلوں میں بہت سی باتوں کی بنیاد روحانی طور پر ہوتی ہے مادی طور پر نہیں ہوتی مگر بہت لوگ یہ بات نہ سمجھنے کی وجہ سے ٹھو کر کھا جاتے ہیں.بسا اوقات ایک انسان تکلیفیں اٹھاتا اور طرح طرح کی مشکلات میں پڑتا ہے لیکن روحانیت سے واسطہ رکھنے والا ان مشکلات سے نکلنے کی کوئی نہ کوئی راہ پاہی لیتا ہے.اللہ تعالی نے اپنے کاموں کے لئے مختلف ذریعے مقرر کئے ہیں ان میں سے کچھ تو دنیوی ہیں اور کچھ موہت سے تعلق رکھتے ہیں لیکن اگر انسان خدا تعالٰی کے دروازہ پر پڑ جائے اور اس وقت تک نہ اٹھے جب تک اس کی مشکلات دور نہ ہو جائیں.اور یہی کہے کہ میں تو تیری موہت سے ہی اپنی کامیابی کی راہ پاؤں گا تو گو بظاہر اس کے لئے بہت سی مشکلات اور تکالیف ہوں مگر ایک نہ ایک دن اس کے لئے ضرور رستہ کھل جائے گا.اسے کئی قسم کی تکالیف بھی برداشت کرنا پڑیں گی دیکھنے والے اس پر نہیں گے اور اعتراض بھی کریں گے لیکن جب کوئی انسان اپنی غفلت اور ستی کی وجہ سے نہیں بلکہ اپنے دل میں یہ بات گڑ جانے کی وجہ سے کہ میں اسی طرح خدا تعالیٰ کا فضل حاصل کروں گا تو ضرور اللہ تعالی اس کے لئے راہ نکال دیتا ہے.یہ رشتہ جہاں تجویز ہوا ہے اس میں خدا تعالی آئندہ زیادہ آرام و آسائش کی صورت پیدا کر دے تو اور بات ہے لیکن موجودہ حالت کے لحاظ سے اس سے وہ رشتے زیادہ مناسب معلوم ہوتے تھے جو بر سر روزگار تھے اور معقول تنخواہ پاتے تھے.مگر میں سمجھتا ہوں بابو صاحب کی قادیان سے محبت کا یہ ثمر تھا کہ انہیں رد کر دیتے رہے لیکن چونکہ وہ ارادہ کر چکے تھے کہ قادیان میں ہی رشتہ کریں گے اس لئے یہ رشتہ منظور کر لیا.بابو صاحب کی ایک لڑکی کا اسی خاندان میں پہلے رشتہ ہو چکا تھا اس وجہ سے دونوں گھرانوں کے آپس میں تعلقات تھے لڑکی بھی ان کے سامنے تھی اور لڑکا بھی.مگر رشتہ کی تجویز کے متعلق خدا تعالی نے کچھ عرصہ انتظار کرایا اور پھر ہو گیا.گو یہ ایک معمولی بات ہے مگر اس سے بہت بڑا سبق حاصل ہوتا ہے اور وہ یہ کہ جب کوئی ارادہ کرتا ہے اخلاص اور محبت سے نہ کہ سستی اور کو تاہی ہے.وہ کوشش کر سکتا ہے مگر خدا تعالیٰ پر توکل کرکے نہیں کرتا اور کہتا ہے کہ خدا ہی سے لوں گا تو خدا تعالٰی آج نہیں تو کل، کل نہیں تو پرسوں، پرسوں نہیں تو اترسوں اس کی خواہش پوری کر دیتا ہے.
خطبات محمود ۲۵۶ جلد سوم میرے نزدیک مومن کو اپنے کاموں میں ایک رنگ یہ بھی اختیار کرنا چاہئے جیسے انسان کو جسمانی ترقی کے لئے مختلف غذا ئیں کھانی پڑتی ہیں.وہ گوشت، سبزی، پھل، ترکاری کھاتا ہے اور اس طرح جسم کی ترقی ہوتی ہے.اسی طرح خدا تعالی نے روحانی ترقی کے لئے کچھ دنیوی تدبیریں رکھی ہیں اور کچھ دینی اور کچھ تو کل ہے.یوں تو دین و دنیا کے سب کاموں میں جو مو من کرتا ہے یہ تینوں باتیں شامل ہیں.مثلاً جب انسان دنیا کا کوئی کام کرنا چاہتا ہے تو اس کے لئے ظاہری تدابیر سے کام لیتا ہے.یہ دنیوی تدابیر ہو ئیں پھر نیت کرتا ہے.اگر اس میں مجھے فائدہ ہوا تو میں دین کی خدمت کروں گا یہ دینی پہلو ہو گیا اور پھر اس میں کامیابی کے لئے دعا بھی کرتا ہے یہ تو کل ہو گیا.اسی طرح اگر کوئی دین کا کام کرتا ہے تو سمجھتا ہے اس طرح مجھ پر اللہ تعالی کا فضل دنیوی رنگ میں بھی ہو گا اور میں دنیا میں آرام کی زندگی بسر کروں گا پھر دعا کرتا ہے اس طرح ایسے کام میں بھی یہ تینوں باتیں شامل ہوتی ہیں اسی طرح جب کوئی انسان تو کل کرتا ہے تو اس دائرہ کے اندر اندر تدبیر بھی کرتا ہے.پس ہر کام میں یہ تینوں باتیں شامل ہوتی ہیں مگر کسی کام میں دنیوی تدابیر کا پہلو بڑھا ہوتا ہے کسی میں دینی کا اور کسی میں تو کل کا.مومن کے لئے یہ بڑی برکت کا موجب ہوتا ہے کہ وہ یہ تینوں رنگ نمایاں طور پر دکھائے یعنی وہ ایسے کام کرے جن میں دنیوی تدابیر کا پہلو غالب ہو.ایسے کام بھی کرے جن میں دینی تدابیر کا پہلو بڑھا ہوا ہو اور ایسے کام بھی کرے جن میں تو کل کا پلہ بھاری ہو.اس طرح اس کا روحانی جسم مکمل ہو جاتا ہے جو صرف دنیاوی یا صرف دینی یا صرف تو کل کا پہلو اختیار کرنے سے نہیں ہو سکتا.جب تینوں رنگ اختیار کئے جاتے ہیں تب روحانی جسم مکمل ہو جاتا ہے.الفضل ۲۴ - دسمبر ۱۹۲۹ء صفحہ ۷ ) له بنی اسرائیل : ۲۱
خطبات محمود ۲۵۷ ۷۰ جلد سو شادی کے معاملہ میں استخارہ اور دعاؤں کی ضرورت فرموده ۱۶ جنوری ۱۹۳۰ء) له ۱۲- جنوری ۱۹۳۰ء بعد نماز عصر حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے ایک نکاح کا اعلان فرمایا.خطبہ مسنونہ کی تلاوت کے بعد فرمایا : اگر چه سخت کھانسی کی وجہ سے میں اچھی طرح بول نہیں سکتا لیکن نکاح چونکہ نہایت اہم اور دنیوی معالموں میں سب سے ضروری ہے اس لئے ایسے موقع پر کچھ کہنا بھی ضروری ہوتا ہے.مجھے نہایت تعجب آتا ہے کہ باوجود اس کے کہ نکاح اہم ترین مسائل میں سے ہے اس کی اہمیت کی طرف توجہ نہیں کی جاتی اور بجائے اس کے کہ وہ خدا تعالیٰ کے مقرر کردہ قواعد کے مطابق کیا جائے تا وہ اس کی طرف متوجہ کرنے کا موجب ہو عام لوگ ذاتی میلانوں اور نفسانی خواہشوں کے ماتحت اسے سرانجام دیتے ہیں.ہماری شریعت نے نکاح بلکہ ہر معاملہ کو ہی سرانجام دینے کیلئے ایسے طریقے مقرر کر دیئے ہیں کہ اگر انسان ان پر عمل کرے تو ہر قسم کے فتوں سے بچ سکتا ہے.قرآن کریم میں اللہ تعالٰی نے صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ کے ساتھ غَيرِ المَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الصَّالِينَ.لے کا بھی ذکر کیا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے که صراط مستقیم حاصل کر لینے کے بعد بھی انسان گمراہ ہو سکتا ہے.اسی طرح یہ عین ممکن ہے کہ ایک انسان کی شادی اس کیلئے اولاً بابرکت ہو لیکن بعد میں وہ اس کیلئے رنج کا موجب ہو جائے یا مصیبت کا باعث بن جائے لیکن پھر بھی یہ دیکھنا چاہئے کہ پہلی بنیاد صحیح ہو.دنیا میں ہم دیکھتے ہیں بعض بچے نہایت تندرست پیدا ہوتے ہیں اور ایک عرصہ تک ان کی صحت بہت اچھی رہتی ہے لیکن بعد میں خراب ہو جاتی ہے اسی طرح بعض بچپن میں بیمار اور مریض ہوتے ہیں در
خطبات محمود ۲۵۸ جلد سوم لیکن بعد میں ان کی صحت بہت اچھی ہو جاتی ہے اور وہ خوب مضبوط اور تنومند ہوتے ہیں.لیکن ہمیشہ قاعدہ کلیہ کو لینا چاہئے مستثنیات کا خیال نہیں کیا جاتا.یوں تو بعض اوقات دیکھا جاتا ہے کہ بڑے بڑے مضبوط نوجوان فورا مر جاتے ہیں اور دائم المریض بہت لمبی عمر پالیتے ہیں.زیادہ پر ہیز کرنے والے ہمیشہ بیمار رہتے ہیں اور کوئی بھی پرہیز نہ کرنے والے تندرست رہتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام سنایا کرتے تھے ایک جنازہ آیا ان دنوں ہیضہ کی بیماری عام تھی.جنازہ کو دیکھ کر ایک نوجوان جس کی صحت نہایت اچھی تھی کہنے لگا.لوگ خود بد پر ہیزی کرتے اور ہیضہ کا شکار ہوتے ہیں.میں ان دنوں صرف ایک روٹی کھاتا ہوں اسلئے ہیضہ کا کوئی ڈر نہیں لیکن خدا کی قدرت اگلے ہی دن اس کا جنازہ آگیا.کسی نے پوچھا یہ کس کا جنازہ ہے تو کسی دل جلے نے جواب دیا ایک روٹی کھانے والا کا.لیکن یہ مستثنیات ہیں.قاعدہ کلیہ یہی ہے کہ پر ہیز کرنے والے بہت کم بیماریوں کا شکار ہوتے ہیں اور اچھی صحت والے طبعی عمر پاتے ہیں اور انسان جس راستہ پر چلتا ہے اس کا دوسرا قدم اسی راستہ پر اٹھتا ہے.اسی طرح یہ بھی قاعدہ کلیہ ہے کہ اگر انسان اسلام کے مطابق شادی کرے تو عام طور پر نتیجہ اچھا ہی نکلتا ہے.اگرچہ یہ بھی ممکن ہے کہ اسلام کے مطابق شادی کرنے کے بعد بھی کوئی خرابی پیدا ہو جائے یا وہ شادی جس کی بنیاد خراب ہو بعد میں اس کی اصلاح ہو جائے لیکن یہ ایسی مستثنیات ہیں جیسے بعض اوقات بیمار اچھے ہو جاتے ہیں اور تندرست مرجاتے ہیں.پس مسلمان کا فرض ہے کہ وہ صحیح راستہ پر چلنے کی کوشش کرے.شادی کے معاملہ میں اسلام نے جو چیز مقدم رکھی ہے وہ استخارہ ہے اور استخارہ اتنا کرنا چاہئے کہ کسی نہ کسی طرف دل فیصلہ کرلے اور پھر اس کے بعد بھی دعائیں کرتے رہنا چاہئے کیونکہ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ میں شامل ہو جانے کے بعد بھی الْمَغْضُوبِ اور الضالین میں مل جانے کا امکان ساتھ لگا رہتا ہے اس لئے اس وقت تک دعائیں کرتے رہنا چاہئے جب تک یوم معلوم نہ آجائے.احادیث سے ثابت ہے کہ مومن کے لئے ایک یوم معلوم ہوتا ہے جس دن اس کی بعثت روحانی ہو جاتی ہے اور اس پر شیطان کا تصرف بالکل نہیں رہتا لیکن جب تک وہ دن نہ آجائے متواتر دعاؤں میں لگے رہنا چاہئے.الفضل ۲۴ جنوری ۱۹۳۰ء صفحہ ۷) نے فریقین کا تعین نہیں ہو سکا ه الفاتحه : 2
خطبات محمود ۲۵۹ جلد سوم تمام جھگڑے قولِ سدید کے نہ ہونے سے پیدا ہوتے ہیں فرموده ۲۹ جنوری ۱۹۳۰ء) مولوی علی محمد - مولوی فاضل (اجمیری) کا نکاح بھائی عبد الرحیم صاحب کی لڑکی عائشہ بیگم سے سات سو روپیہ مہر پر حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے ۲۹.جنوری ۱۹۳۰ء کو پڑھانے خطبہ مسنونہ کی تلاوت کے بعد فرمایا : دنیا میں جس قدر فتنے اور جھگڑے پیدا ہوتے ہیں اگر ان پر غور کیا جائے تو ان کا اصل موجب قول سدید کا نہ ہونا ہوتا ہے.دنیا میں اکثر لوگ تو اس مرض میں مبتلاء دیکھے گئے ہیں کہ وہ عادتاً جھوٹ بولتے ہیں.پھر کئی ایسے ہوتے ہیں جو عاد تا تو جھوٹ نہیں بولتے لیکن ضرورت کے موقع پر اراد تا جھوٹ بول لیتے ہیں.پھر بعض ایسے لوگ پائے جاتے ہیں جو اراد تا تو جھوٹ نہیں بولتے لیکن ان کی طبیعت اپنی کمزور ہوتی ہے کہ ڈر کے موقع پر غلط بات ان کے منہ سے نکل جاتی ہے.یہ ڈر بھی آگے کئی قسم کا ہوتا ہے.کئی تو ایسے ہوتے ہیں جنہیں اپنے کسی مقصد میں ناکام رہنے کی وجہ سے نقصان کا ڈر ہوتا ہے اور کئی ایسے ہوتے ہیں جن کو نقصان کا تو کوئی ڈر نہیں ہوتا لیکن فائدہ کے ہاتھ سے چلے جانا کا ڈر ہوتا ہے.اس فائدہ کے حصول کی امید میں جھوٹ بول دیتے ہیں اور پھر کئی لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جنہیں کسی فائدہ کی امید تو نہیں ہوتی لیکن محض ہر دلعزیزی حاصل کرنے کے لئے جھوٹ بول دیتے ہیں یعنی جس نے جو بات کمی است کے سامنے جی ہاں ٹھیک ہے کہہ دیتے ہیں.ایسے لوگ دنیا کی آواز اور اس کی رائے کو ہی اپنا خدا یقین کرتے ہیں.اور ان میں یہ جرأت نہیں ہوتی کہ سچائی سے اپنی ذاتی رائے ظاہر
خطبات محمود ۲۶۰ جلد سوم کردیں.جیسی مجلس ہو وہ ایسا ہی خیال وہاں ظاہر کر دیتے ہیں اگر چہ خود دل میں برا بھی محسوس کرتے ہوں.پھر اس سے بڑھ کر کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جو اپنے خیال میں سچ بولنے والے ہوتے ہیں جو وہ کہتے ہیں وہ کذب تو بے شک نہیں ہوتا لیکن قول غیر سدید ضرور ہوتا ہے.عربی زبان میں قول سدید اور قول صادق میں فرق ہے.دیگر مذاہب صرف یہ تعلیم دیتے ہیں کہ سچ بولو لیکن اسلام کی یہ تعلیم ہے کہ تمہارا قول سچا اور ساتھ ہی سدید بھی ہونا چاہئے یہ عین ممکن ہے کہ ایک قول قول صدق ہو.لیکن قول سدید نہ ہو لیکن قول سدید قول صدق ضرور ہوتا ہے.قول سدید کے معنے یہ ہیں کہ اس میں کوئی کجی نہ ہو اور وہ نہ صرف معنا سچ ہو بلکہ ان مخفی خیالات کے لحاظ سے بھی سچ ہو جو انسان بات کرتے وقت اپنے دل میں پوشیدہ رکھتا ہے.یہ نہ ہو کہ اس کی بات تو سچی ہو لیکن جو مفہوم وہ اس بات سے دوسرے کے ذہن نشین کرانا چاہتا ہے وہ صحیح نہ ہو اور پھر یہ بھی نہ ہو کہ اس کے دل میں تو اور مفہوم ہے لیکن دوسرا اس کی بات سے کچھ اور سمجھ رہا ہو مگر جب موقع آئے اور دوسرا گرفت کرے تو کہہ دے میرا تو یہ مطلب نہ تھا جیسے کچھ سال ہوئے ساؤتھ افریقہ میں یہ سوال پیدا ہوا کہ وہاں ہندوستانیوں کو کیا حقوق دیئے جائیں بعض انگریزوں نے کہا کہ ہندوستانی ایسٹ افریقہ لے لیں.لیکن بعد میں وہاں بھی انگریزوں نے قبضہ کر لیا.جب اس پر اعتراض کیا گیا تو کہہ دیا.ہم نے تو کہا تھا لے لو مگر تم نے لیا نہیں.اگر تصفیہ کر لیتے تو ہم اس پر قابض نہ ہوتے.تو بعض باتیں قول صدق ہوتی ہیں قول سدید نہیں ہوتیں.مگر اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ ہمیشہ قول سدید ہونا چاہئے کیونکہ بہت سے جھگڑے اور تفرقے قول سدید نہ ہونے سے ہی پیدا ہوتے ہیں خصوصاً بیاہ شادی کے تنازعات.بعض لوگ کلام ایسے مخفی طور پر کرتے ہیں کہ خود ان کے نزدیک تو اس کا مفہوم اور ہوتا ہے لیکن سمجھنے والا اور مفہوم لیتا ہے اور ایسے ڈپلومیٹک الفاظ استعمال کئے جاتے ہیں کہ جن سے دو مفہوم نکل سکیں.ایک لڑکا اپنے والدین کو روپیہ دیتا رہتا ہے جس سے وہ اس سے بہت خوش رہتے ہیں لیکن کچھ عرصہ بعد جب وہ جائداد پر قبضہ کرنا چاہتا ہے تو جھگڑا پیدا ہو جاتا ہے.دونوں میں روپیہ کے متعلق کوئی تشریح موجود نہیں ہوتی لیکن والدین یہی سمجھتے نہیں کہ بلحاظ اولاد ہمیں یہ رقم بطور نذرانہ دیتا ہے اور جب وہ اس کے عوض میں جائداد پر قبضہ کرنا چاہتا ہے تو برا مناتے ہیں اور باہمی تنازعہ شروع ہو جاتا ہے.جس کی وجہ محض قول سدید کا نہ ہونا ہے اگر
خطبات محمود ۲۶۱ روپیہ دیتے وقت یا والدین لیتے وقت اپنے اپنے خیال کو ظاہر کر دیتے تو یہ نوبت نہ آتی.میں اپنے تجربہ کی بناء پر کہہ سکتا ہوں کہ بہت سی لڑائیاں اور جھگڑے اسی وجہ سے پیدا ہوتے ہیں کہ ابتداء میں صفائی سے کھول کر بات چیت نہیں کرلی جاتی.ایک ہی بات کا کوئی کچھ مفہوم سمجھتا ہے اور کوئی کچھ.اور جب یوم الدین یعنی فیصلہ کا وقت آتا ہے تو اصل بات ظاہر ہو جاتی ہے اور جھگڑا پیدا ہو جاتا ہے.لیکن اگر فریقین قول سدید کریں تو ممکن ہے اس وقت کچھ جھگڑا یا قدرے بد مزگی پیدا ہو جائے لیکن بعد میں ہمیشہ کے لئے سکھ رہے.اور شادی کا معاملہ کرتے وقت اگر تمام شرائط صاف الفاظ میں اور پوری وضاحت سے طے کرلی جائیں اور کوئی غلط فہمی درمیان میں نہ رہنے دی جائے تو بعد میں بہت کم جھگڑوں کا احتمال ہو سکتا ہے مگر صاف الفاظ کے یہ معنے بھی نہیں کہ دوسرے کو گالی دی جائے.صاف بات بھی نرمی سے کی جا سکتی ہے اور دراصل اخلاق نام ہی اس پالش کا ہے جو انسان بات کرتے وقت اختیار کرتا ہے.مسئلہ اخلاق انسانیت کے ساتھ تعلق رکھتا ہے.بعض باتیں انسانیت کے ساتھ تعلق رکھتی ہیں.پھر انسانیت کے بعد یہ درجہ آجاتا ہے کہ عادات و اخلاق کی پالش کی جائے مثلاً اگر کوئی دوسرے شخص کو مارتا ہے تو اگر میں اخلاق کا باریک فلسفہ بیان کروں تو یہی کہوں گا کہ وہ انسان نہیں کیونکہ یہ بات انسانیت سے تعلق رکھتی ہے کہ کسی کو مارا نہ جائے لیکن بات کرتے وقت اگر آداب کو اختیار نہ کیا جائے اور لب ولہجہ ترش ہو تو یہ اخلاق کا سوال ہے.پس قول سدید کے یہ معنے نہیں کہ جو منہ میں آیا بکتے چلے گئے بلکہ اسے بھی خاص حدود کے اندر رکھنا چاہئے اور انسان کو چاہئے دوسرے کے جذبات کا بھی خیال رکھے اور یہ بھی دیکھے کہ دوسرے پر اس کی بات کا کیا اثر ہو گا اور اگر ان دونوں باتوں کو ملحوظ رکھا جائے اور قول سدید کو اخلاق سے برتا جائے تو کسی جھگڑے کا موجب نہیں ہوگا.اور کوئی ناراضگی پیدا نہیں ہوگی اس کی مثال یوں دی جاسکتی ہے کہ ہم اپنے کسی دوست کو بلانا چاہتے ہیں لیکن کہتے ہیں اگر آنا ہو تو آؤ، نہیں تو نہ سہی.اب یہ قول سدید تو ہے لیکن اس سے دوسرے کا دل ضرور دکھے گا.اگر انسان ہمیشہ بات ایسی کے جو ظاہراً و بالنا ایک ہی مفہوم رکھتی ہو اور ساتھ ہی اسے ایسے رنگ میں پیش کرے کہ دوسرے پر اس کا برا اثر بھی نہ پڑے تو ایسی صلح کی بنیاد قائم ہو سکتی ہے جس سے ہمیشہ آپس میں پیار اور محبت رہے لیکن دل میں کچھ رکھنا اور ظاہر کچھ کرنا ہمیشہ فتنہ کا موجب ہوتا ہے.ایک شخص اپنی بیوی کو زیور بنا کر دیتا ہے بیوی اسے پہنتی ہے.
خطبات محمود ۲۶۲ جلد سوم لیکن کچھ عرصہ بعد جب وہ چاہتا ہے کہ اسے فروخت کر کے مکان بنوالے تو جھگڑا پیدا ہو جاتا ہے.بیوی کہتی ہے اس نے مجھے دے دیا تھا اور میں اس کی مالک ہوں.اسے واپس لینے کا کوئی حق نہیں.لیکن خاوند کہتا ہے میں تو اس لئے دیتا ہوں کہ یہ پہنے اور میں اس کی سجاوٹ دیکھ کر مسرت حاصل کروں.میرا یہ مقصد ہرگز نہ تھا کہ تمام زیور اس کی ملکیت میں دے دوں.اب دونوں ہی بچے ہیں لیکن جھگڑے کی وجہ صرف قول غیر سدید ہے.اگر قبل از وقت معاملہ کی وضاحت ہو جاتی تو کبھی یہ نتیجہ نہ ہوتا.پس خیال رکھنا چاہئے کہ اکثر جھگڑے ایسی باتوں سے ہی پیدا ہوتے ہیں جو اگر چہ جھوٹ تو نہیں ہوتیں لیکن یہ باطن ان میں قریب ضرور ہوتا ہے.اس لئے اسلام یہی تعلیم دیتا ہے کہ ہمیشہ ایسی بات کہو جس میں پیچ نہ ہو اور جس کے متعلق تم نہ کہو کہ میری بات سچ ہے بلکہ یہ کہ سکو کہ میرا قول قول سدید ہے اور اس میں کوئی پیچ نہیں.الفضل ۱۴ فروری ۱۹۳۰ء صفحه ۶) الفضل ۴ فروری ۱۹۳۰ء صفحه ۱
3 ۲۶۳ ۷۲ خطبات محمود خدا تعالیٰ کے منشاء کے تحت تجویز شدہ جوڑوں کی برکات (فرموده ۲- فروری ۱۹۳۰ء) - فروری ۱۹۳۰ء حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے مسجد اقصیٰ قادیان میں مرزا عزیز احمد صاحب کا نکاح نصیرہ بیگم صاحبہ بنت حضرت میر محمد اسحق صاحب کے ساتھ بعوض پانچ ہزار مہر پر پڑھا.لے خطبہ مسنونہ کی تلاوت کے بعد فرمایا : دنیا میں بے اطمینانی اور بے چینی جستجو سے پیدا ہوتی ہے جب ایک چیز کی انسان کو تلاش ہوتی ہے اور وہ میسر نہیں آتی تو اس کے دل میں بے چینی اور بے اطمینانی پیدا ہو جاتی ہے لیکن جب کسی انسان کو کوئی چیز میسر آجاتی ہے اور وہ اس کے لئے سہل الحصول ہوتی ہے تو اس میں غفلت اور سستی پیدا ہو جاتی ہے گو اسے بے اطمینانی اور بے چینی نہیں ہوتی.ایک مسلم اور غیر مسلم میں یہی فرق ہے کہ یوں تو سارے مذاہب کے لوگ ہی اپنے اپنے مقصد کے لئے کوشش کرتے ہیں ایک ہندو بھی کوشش کرتا ہے اپنی روحانی اصلاح کے لئے، ایک عیسائی بھی شش کرتا ہے روحانیت حاصل کرنے کے لئے، ایک یہودی بھی کوشش کرتا ہے خدا کا مقرب بننے کے لئے لیکن ایک مسلمان کے مقابلہ میں ان کی کوششوں میں یہی فرق ہوتا ہے کہ ان کو دو جستجو میں کرنی پڑتی ہیں.ایک یہ کہ وہ چیز کیونکر ملے گی اور دوسری یہ کہ وہ چیز مل جائے مگر مسلمان کے لئے یہ فیصلہ آج سے تیرہ سو سال قبل سے ہو چکا ہے کہ فلاں چیز اسے کیونکر ملے گی اس لئے اب اس کے لئے یہی کوشش باقی ہے کہ وہ چیز مل جائے اس لئے کوئی
خطبات محمود هم مسلمان جو اسلام کو سمجھ کر مسلمان ہوتا ہے کسی حالت میں غیر مطمئن نہیں ہو سکتا.اس کے دل میں بے چینی اور بے اطمینانی نہیں ہوتی کیونکہ اس کی طرف سے جستجو کامل ہو چکی ہے اس کے لئے راہ کھل کر آسانی پیدا ہو چکی ہے اب اس کا صرف اتنا کام ہے کہ اس راہ پر چلے اور اس طریق پر عمل کرے.دوسرے لوگ جبکہ ابتدائی جستجو میں مشغول ہونے کی وجہ سے بے چینی اور بے اطمینانی محسوس کر رہے ہوتے ہیں ایک مسلمان مطمئن ہوتا ہے.یہی وجہ ہے کہ مومن کا نام نفس مطمئنہ رکھا گیا ہے.چنانچہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے.یا يَّتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّةُ ارْجِعِى إلى رَبِّكِ رَاضِيَةً مَرُ ضِيَّةٌ - سے اس جگہ نفس مطمہ مسلمان کا نام ہے.پس جو شخص صحیح طور پر اسلام لاتا ہے اور سمجھ کر اسلام کی پابندی اختیار کرتا ہے اسے جستجو کرنے کی ضرورت باقی نہیں رہتی.تلاش اس کی طرف سے محمد ﷺ کر چکے اب اس کا کام صرف عمل کرنا ہے چنانچہ دیکھ لو ہمارے سارے کام ہماری ساری تحریکات، ہمارے سارے اعمال ان سب کے لئے اسلام نے رستے بتا دیئے ہیں.روحانی امور کا سمجھنا چونکہ غیر مسلموں کے لئے مشکل ہے اس لئے موٹی باتوں کا ذکر کرتا ہوں.اسلام میں ہر تحریک اور ہر کام کے لئے رستہ، ہر مشکل کا حل اور ہر کامیابی کا طریق بتا دیا گیا ہے بچہ جب پیدا ہوتا ہے اس وقت کے متعلق بتا دیا کہ کیا کرنا چاہئے جب جوان ہوتا ہے اس وقت کے کام کی تفصیل بتادی جب بیاہ شادی کے قابل ہوتا ہے اس وقت کے متعلق ہدایات دے دیں.پھر جب میاں بیوی کی حیثیت میں ہوتے ہیں اس وقت کے لئے تفصیلی احکام بیان کر دیئے.پھر یہ احکام اس طرح کے نہیں کہ یہ کرو اور یہ نہ کرو بلکہ یوں ہیں کہ یہ کام کرو گے تو یہ فائدہ ہوگا اور نہ کرو گے تو یہ نقصان.اسی طرح فلاں کام کرنے سے یہ نقصان ہو گا اور اس کے نہ کرنے سے یہ فائدہ.غرض اسلام نے جستجو کا رستہ کھول کر بتا دیا ہے.اس وقت ایک بات کے متعلق میں کچھ بیان کرنا چاہتا ہوں اور وہ نکاح کا معاملہ ہے.نکاح کے بارے میں رسول کریم ﷺ نے بعض آیات اس لئے منتخب فرمائیں کہ ان کے ذریعہ نکاح کے متعلق راہنمائی کریں اور ضروری احکام بتا ئیں.ان آیات میں ایسا طریق بتایا گیا ہے کہ جس پر چلنے سے نکاح با برکت اور فائدہ بخش ہو سکتا ہے.اب ہمیں نکاح کو بابرکت بنانے کے لئے کسی طریق کے تلاش کرنے کی ضرورت نہیں بلکہ صرف یہ ضرورت ہے کہ اس طریق پر عمل کریں.اب یہ تو ممکن ہے کہ
خطبات محمود ۲۶۵ کسی کو رستہ تو معلوم ہو مگر وہ اس پر چلے نہ.یہ بھی ممکن ہے کہ وہ چلے لیکن اسے روکیں پیش آجائیں پھر یہ بھی ممکن ہے کہ روکیں بھی نہ ہوں لیکن کسی میں چلنے کی طاقت ہی نہ ہو.یہ سب کچھ ممکن ہے مگر پہلی کوفت اور پہلی مشقت کہ صحیح راستہ معلوم ہو یہ ہمارے رستہ میں نہیں ہے.پہلی بات نکاح کے متعلق جو رسول کریم ال نے قرآن سے مستنبط کر کے بیان کی اس کا ذکر اس آیت میں ہے.يَايُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّكُمُ الَّذِي خَلَقَكُمْ مِنْ نَّفْسٍ وَاحِدَةٍ وَخَلَقَ مِنْهَا زَوجَهَا وَبَثَّ مِنْهُمَا رِجَالًا كَثِيرًا وَنِسَاءَ ، وَاتَّقُوا اللَّهَ الَّذِي تَسَاءَلُونَ به وَالأَرْحَامَ إِنَّ اللهَ كَانَ عَلَيْكُمْ رَقِيبًا ہ سے کہ اے مومنو! اگر تم اپنے لئے نجات کا رستہ تلاش کرنا چاہتے ہو.اپنی ان تڑپوں اور آرزوؤں کو پورا کرنا چاہتے ہو جو نکاح سے وابستہ ہیں یاد رکھنا چاہئے جو آیت جہاں پڑھنے کا حکم ہے وہاں اسی موقع کے لحاظ سے اس کے معنے ہوتے ہیں.بِسمِ اللهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيمِ ، جب کھانا کھانے کے وقت پڑھی جائے تو اس کا یہ مطلب ہوتا ہے کہ میں خدا کے نام سے کھانا کھانا شروع کرتا ہوں.جب قرآن کریم پڑھنے کے وقت پڑھی جائے اس وقت قرآن کریم کا پڑھنا مد نظر ہوتا ہے.اسی طرح جب یا تھا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّكُمُ الَّذِي خَلَقَكُمْ مِنْ نَفْسٍ وَاحِدَةٍ وَخَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا وَبَثَّ مِنْهُمَا رِجَالًا كَثِيرًا وَنِسَاء - نکاح کے موقع پر پڑھیں گے تو اس کا یہ مطلب ہو گا کہ ہم نکاح میں کامیابی اور برکات چاہتے ہیں تو اس کا بہترین ذریعہ یہ ہے کہ اِتَّقُوا رَبَّكُمُ الَّذِی خَلَقَكُم اس رب اور اس پرورش کنندہ کو نجات کا ذریعہ بناؤ جس نے تم کو پیدا کیا.یہ سیدھی بات ہے کہ جب کوئی کسی چیز کو بناتا ہے تو وہ اس چیز کے لوازمات بھی پورے کرتا ہے جو شخص مکان بناتا ہے وہ اس کی دیواریں، چھت اور دیگر ضروریات پوری کرتا ہے.اسی طرح جو گھوڑا خریدتا ہے وہ دیکھتا ہے کہ وہ سواری کرنے یا گاڑی میں لگانے کے قابل ہے یا نہیں.پھر اللہ تعالیٰ جو خالق کل شئی اور رب العالمین ہے اس کے متعلق کب امید کی جاسکتی ہے کہ وہ کوئی ایسا انسان پیدا کرے گا جس کی ضرورتیں پوری نہ کرے اس لئے کہا اِتَّقُوا رَبَّكُمُ الَّذِي خَلَقَكُمْ.اسے تم کیوں ذریعہ نجات اور کامیابی نہیں بناتے جس نے تمہیں پیدا کیا ہے.بہت دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ ضروریات کی چیزیں موجود تو ہوتی ہیں لیکن ضرورت مند کو ان کا علم نہیں ہوتا.جیسے ایک شخص کسی کے ہاں مہمان جاتا ہے تو اسے معلوم نہیں ہوتا کہ اپنی
خطبات محمود جلد سوم ضروریات کس طرح پوری کرے.اس کے لئے آرام پانے کا ذریعہ یہی ہوتا ہے کہ وہ صاحب مکان سے ضروریات کے متعلق دریافت کرے یا اگر کوئی ہوٹل میں جاتا ہے تو ہوٹل کے ملازمین سے اگر کوئی ریل میں ہوتا ہے تو سٹیشن والوں سے دریافت کرتا ہے کیونکہ جو کسی کام کو جاری کرنے والا ہوتا ہے اس سے پوچھنے کی ضرورت ہوتی ہے کہ اس سے تعلق رکھنے والی چیزیں کہاں سے میسر آسکتی ہیں.رَبِّكُمُ الَّذِي خَلَقَكُمْ میں یہ بتایا کہ ایسی چیزیں ہو سکتی ہیں کہ جن کا تمہیں علم نہ ہو مگر یہ نہیں ہو سکتا کہ تمہاری کسی ضرورت کی چیزیں نہ ہوں اور کوئی ضرورت پوری کرنے کا سامان نہ ہو.پس اتَّقُوا رَبَّكُمُ الَّذِی خَلَقَكُمْ تم خدا کو کیوں ذریعہ نجات نہیں بناتے اس کی طرف جھک جاؤ اور اپنی ضرورتوں کے پورا ہونے کی اس سے التجاء کرو.اسے معلوم ہے کہ تمہاری کوئی ضرورت کہاں سے پوری ہوگی پس تمہیں جو بھی ضرورت حقہ ہو اس کے متعلق یہ نہ سمجھو کہ اسے پورا کرنے کے سامان ہی نہیں پیدا کئے گئے.سامان پیدا کئے گئے ہیں.ہاں یہ ہو سکتا ہے کہ تمہیں اس کا علم نہ ہو.اس لئے جس نے تمہیں اور تمہاری ضرورتوں کے سامان پیدا کئے ہیں اس کی طرف توجہ کرو.پھر فرمایا جانتے ہو! تمہارے رب نے تمہیں کس طرح پیدا کیا خَلَقَكُم مِّنْ نَفْسٍ واحدة - اس نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا.یہاں اس بات پر زور دینے کی ضرورت نہ تھی کہ انسان کی ابتداء ایک انسان سے ہوئی یا دو سے کسی نے کہا ہے.ما را چه ازیں قصہ کہ گاؤ آمد و شررفت اسی طرح ہمیں اس سے کیا کہ انسان ابتداء میں ایک سے یا دو سے یا ہزار سے پیدا ہوا.اس سے نہ سائنس کو تعلق ہے اور نہ مذہب کو.سائنس بتاتی ہے کہ انسان کو کس طرح پیدا کیا گیا اور مذہب بتاتا ہے کہ کس مقصد کے لئے پیدا کیا گیا.پس یہاں جو یہ کہا گیا ہے کہ خَلَقَكُم مِنْ نَفْسٍ وَاحِدَة - اس کا یہ مطلب نہیں کہ خدا تعالٰی انسان کو ایک انسان سے پیدا ہونے کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہے بلکہ اس طرف متوجہ کرنا چاہتا ہے کہ تمام انسانوں میں قدر مشترک پائی جاتی ہے کیونکہ جو چیزیں ایک سے نکلیں گی ان سب میں ایک چیز مشترک طور پر پائی جائے گی.ایک بالی سے ہزار گیہوں کا دانہ نکلے تو ان سب کا مزہ ایک ہی ہو گا.اسی طرح مختلف قسم کے گیہوں کے دانوں میں بڑے چھوٹے ہونے اور تاثیرات میں فرق ہوگا.مگر پھر بھی ان میں اشتراک پایا جائے گا.اور جب ہم کہیں گے فلاں جنس کا بیج تو اس کے یہی معنے ہوں گے کہ اس
خطبات محمود ۲۶۷ جلد سوم بیچ سے اس قسم کے فوائد حاصل ہوتے ہیں جس قسم کے اس جنس سے تعلق رکھتے ہیں تو م مِنْ نَفْسٍ وَاحِدَةٍ- میں یہ بتایا کہ انسان میں باوجود اخلاق، عادات اور قابلیتوں میں اختلاف ہونے کے پھر اشتراک ہے اور ایک قسم کا اتحاد ہے جس میں سارے کے سارے انسان شریک ہیں پس خَلَقَكُم مِّن نَّفْسٍ وَاحِدَةٍ- میں اس اشتراک کی طرف توجہ دلائی گئی.آگے وَخَلَقَ مِنْهَا زَوْجَہا میں ایک نئی بات کی طرف متوجہ کیا گیا ہے.اور وہ یہ کہ جہاں زندگی کو کامیاب اور بآرام بنانے کے لئے دوسروں سے اشتراک کی ضرورت ہے وہاں تکمیل کے لئے دوسروں کو اپنے ساتھ ملانے کی ضرورت ہے.کیونکہ تکمیل جوڑے کے بغیر نا ممکن ہے جیسا کہ خدا تعالیٰ نے بھی فرمایا ہے ہر چیز کا جوڑا ہے.پس تحمیل کے لئے جو ڑا ضروری ہے.مگر اس کے لئے ضروری ہے کہ جوڑے میں اپنے جوڑے سے کسی قدر اختلاف اور فرق پایا جائے تاکہ ایک دوسرے کی کمی کو پورا کر دے ایک میں جو کمی ہو دوسرے میں اس کی زیادتی ہو اور جو دوسرے میں زیادتی ہو اس کی ایک میں کمی ہو.ایسی دو چیزوں کے ملنے سے جو ڑا مکمل ہوتا ہے یہی وجہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے جیسی اقسام کے مرد پیدا کئے ایسی ہی اقسام کی عورتیں بھی پیدا کیں.لیکن انسانی قوتیں اتنی محدود ہیں کہ کوئی انسان اپنی عقل سے اپنے لئے صحیح جو ڑا تلاش نہیں کر سکتا.پھر انسان کے ساتھ ایسی شہوات لگی ہوئی ہیں کہ وہ ظاہر کی طرف زیادہ متوجہ ہو جاتا ہے چنانچہ جہاں مرد آپ عورتوں کا انتخاب کرتے ہیں وہاں زیادہ تر وہ شکل و شباہت حسب و نسب مال و دولت کا زیادہ خیال رکھتے ہیں اخلاق اور عمدہ عادات کی طرف بہت کم توجہ کرتے ہیں اس وجہ سے اکثر دھوکا کھا جاتے ہیں.یورپ میں ایسے واقعات بکثرت ہوتے رہتے ہیں کہ اجنبی آکر کسی ہوٹل میں شاندار طریق سے رہتا ہے.اس کی ظاہری حالت سے دھوکا کھا کر کوئی عورت اس کے جال میں پھنس جاتی ہے اور پھر سخت نقصان اٹھاتی ہے وہاں چونکہ عورت خود متولی ہوتی ہے اس لئے ظاہر سے دھوکا کھا کر پھنس جاتی ہے.لیکن یہاں عام طور پر ماں باپ رشتہ تلاش کرتے ہیں اس لئے وہ ایسی باتوں کے متعلق احتیاط کر لیتے ہیں جو لڑکی کے لئے بعد میں مصیبت کا باعث بن سکتی ہیں.خدا تعالٰی فرماتا ہے.ہم نے ہر نفس کے لئے جوڑا بنایا ہے اور کوئی ایسا نفس نہیں جس کے لئے ویسا ہی جوڑا نہ ہو.صوفیاء نے تو لکھا ہے ارواح اپنے جوڑے کی تلاش میں پھرتی رہتی ہیں اور جب انہیں جو ڑا مل جاتا ہے تب تسلی پاتی ہیں.صوفیاء علم روحانی کے ماہر تھے اس لئے انہوں نے روح کے متعلق یہ حقیقت بیان کی.آج کل
محمود YYA جلد سوم جو علم النفس کے ماہر ہیں ان کا خیال ہے کہ جب کوئی شادی کامیاب ہوتی ہے تو اس لئے کامیاب ہوتی ہے کہ وہ صحیح جوڑا ہوتا ہے اور جب کوئی شادی ناکام ہوتی ہے تو اس لئے کہ وہ اصلی جو ڑا نہیں ہوتا.وہ عارضی جوش اور شہوت کی وجہ سے ایک دوسرے سے تعلق پیدا کر لیتے ہیں.یہ یورپ والوں کا تجربہ ہے وہ کہتے ہیں جب کسی اجنبی سے محبت ہو جاتی ہے تو اس لئے کہ روح کو روح سے ایک قسم کا اتصال ہو جاتا ہے.لیکن پھر طرفین کو احساس ہونے لگتا ہے کہ انہوں نے غلطی کی اس وجہ سے وہ متحد نہیں رہ سکتے.اصل اتحاد اس وقت پیدا ہوتا ہے جب حقیقی جو ڑا مل جائے.غرض خدا تعالیٰ نے ہر ایک کے لئے جو ڑا یا جوڑے مہیا کئے ہیں مگر ان کی طرف انسانی عقل راہ نمائی نہیں کر سکتی.اس کے لئے ایک ہی ذریعہ ہے اور وہ یہ کہ اِتَّقُوا رَبَّكُمُ کو اپنی نجات کا ذریعہ بناؤ.اس سے دعا کرو کہ صحیح جو ڑا مل جائے.یہی وجہ ہے کہ الہامی جوڑے نہایت بابرکت ہوتے ہیں رسول کریم ﷺ کو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا رویا میں دکھائی گئیں کہ ان سے آپ کی شادی ہوگی.بظاہر کس قدر اختلاف کا مقام تھا کہ بڑی عمر کے مرد کی چھوٹی عمر کی عورت سے شادی تجویز ہوئی تھی اور سمجھا جا سکتا تھا کہ اس میں کوئی برکت نہ ہو گی.آج کل شار دا ایکٹ کا سارا دارو مدار ہی اس پر ہے کہ اس کے حامی کہتے ہیں چھوٹی عمر کی لڑکی کی شادی بڑی عمر کے مرد سے نہیں کرنی چاہئے.شاردا ایکٹ میں لڑکی کے جوان ہونے کی شرط رکھی گئی ہے تاکہ جب وہ جوان ہو جائے گی تو خود بڑی عمر والے سے شادی کرنے سے انکار کر سکے گی.لیکن دنیا کی تمام شادیاں جن میں عمر کا ناگوار تفاوت نہ ہو، عین جوانی میں ہوئی ہوں، مال و دولت، آرام و آسائش کے سارے سامان انہیں میسر ہوں کیا ان میں سے کوئی ایک بھی ایسی ہے جو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اور حضرت محمد کی شادی کے مقابلہ میں رکھی جاسکے.کیا کسی ایک شادی میں بھی وہ محبت اور فدائیت پائی جاتی ہے جو محمد ﷺ کی حضرت عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنھا سے تھی اور حضرت عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنھا کو محمد ﷺ سے تھی؟ باوجود اپنے انتخاب کے، عمر میں تفاوت نہ ہونے کے اور ایک دوسرے کے ساتھ پہلے سے محبت رکھنے کے جو شادیاں ہوئیں ان میں برکت نہ ہوئی.لیکن رسول کریم ﷺ اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی شادی میں ایسی برکت ہوئی جو اور کسی کو حاصل نہ ہو سکی اس لئے خدا تعالٰی نے اپنے رسول کے تفکرات دور کرنے اور اس کے مقصد میں اسے مدد دینے کے لئے صحیح جوڑا رویا میں دکھا دیا اور پھر دنیا نے دیکھا کہ یہ جوڑا کیسا
خطبات محمود ۲۶۹ جلد سوم بابرکت ہوا.رسول کریم اے کو حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا سے محبت ان خوبیوں اور نیکیوں اور تقویٰ کی وجہ سے تھی جن کے باعث خدا تعالٰی نے انہیں اپنے رسول کے لئے چنا تھا نہ کہ ظاہری شکل وصورت کی وجہ ہے.ایک دفعہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا کے سر میں درد تھا رسول کریم ﷺ نے ان سے از راہ محبت فرمایا اگر اسی سردرد اور میری زندگی میں تمہاری وفات ہو جاتی تو میں تمہارے لئے استغفار کرتا.اس کے جواب میں حضرت عائشہ نے بھی از راه ناز نه که عدم محبت کی وجہ سے کہا آپ چاہتے ہیں کہ میں مرجاؤں؟ مرد کیا ہے ایک عورت مر جائے تو اس کے لئے دوسری موجود ہوتی ہیں.ہے آپ نے فرمایا یہ نہیں.میں تو خود درد سر میں مبتلاء ہوں اور میں چاہتا ہوں کہ ابو بکر کو بلاگر وصیت کر دوں.حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا کا رسول کریم اللہ سے عشق اور محبت کا پتہ لگانا ہو تو اس پر غور کرو کہ رسول کریم ﷺ کی وفات کے وقت ان کی عمر 19 سال یا ۲۱ سال کی ہوگی.یہ عمر عورت کے لئے عین جوانی کی عمر ہوتی ہے یورپین عورت کے لئے تو شادی کرنے کی یہ عمر سمجھی جاتی ہے.اس وقت حضرت عائشہ رضی اللہ عنما بیوہ ہو گئیں.ایک عورت جسے یہ معلوم ہو کہ اس سے ایک ایسے شخص نے شادی کی جس کی عمر وفات کے قریب پہنچی ہوئی تھی اور پھر وہ محسوس کرے کہ اسے اب ساری عمر بیوگی میں گزارنی ہوگی کیونکہ رسول کریم ﷺ کی بیویوں کے لئے دوسری شادی کا موقع نہ تھا) اگر اس میں چٹان کی طرح مضبوط اور پہاڑ کی طرح عظیم الشان ایمان نہ ہوتا تو اسے یہ شکوہ ہو تا کہ اس سے نہ صرف بڑی عمر میں شادی کی گئی بلکہ ایسی شادی کی گئی جس کے بعد وہ دوسری شادی نہیں کر سکتی.اس وجہ سے اس کے دل میں بے حد کینہ اور بغض پیدا ہو سکتا تھا.ہندو عورتوں کو دیکھ لو جنہیں دوسری شادی کرنے سے روکا جاتا ہے ان میں اپنے خاندان اور رشتہ داروں سے اس قدر بغض پیدا ہو جاتا ہے کہ ہزاروں اپنے گھروں سے نکل کر اور سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر مسلمانوں سے شادی کرلیتی ہیں.حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا کو دیکھتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ساری عمر انہوں نے رسول کریم کی یاد اور آپ کی محبت میں گزار دی.حدیث میں آتا ہے آپ کوئی اچھی چیز نہ کھاتی تھیں کہ رسول کریم ﷺ کو یاد کر کے آپ کی آنکھوں سے آنسو نہ نکل آتے ہوں.ایک دفعہ میدہ کی روٹی کھانے لگیں تو آنکھوں سے آنسو بہنے شروع ہو گئے.کسی نے پوچھا یہ کیا.آپ نے فرمایا اس لئے آنسو نکل آئے ہیں کہ خیال آیا ہے کہ رسول کریم ﷺ کے زمانہ میں اس قسم
خطبات محمود کے سامان نہ تھے.ہم جو کوٹ کاٹ کر اس کی روٹی بناتے اور وہی رسول کریم اے کو کھلا دیتے.آج اگر آپ زندہ ہوتے تو ایسی روٹی آپ کو کھلاتے.شہ گویا حضرت عائشہ رضی اللہ عنما کی بقیہ زندگی میں اگر کوئی چیز لطف دینے والی تھی تو وہ رسول کریم ای کا ذکر ہی تھا.اور آپ کو ساری زندگی میں یہی خواہش رہی کہ کاش رسول کریم ﷺ کے آرام و آسائش کے لئے آپ مزید قربانی کا موقع پاسکتیں.یہ خدا کا چنا ہوا جو ڑا تھا جسے ایسی برکت حاصل ہوئی.اسی طرح اس زمانہ میں ایک جوڑا بابرکت ہوا جو خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے لئے چنا.آپ کو خداتعالی نے شادی سے پیشتر اس شادی کے بابرکت ہونے کی اطلاع الہام کے ذریعہ دی.اس خاندان کے بابرکت ہونے کی خبر دی اور پھر فرمایا آیا دَمُ اسْكُنُ اَنتَ وَزُوجُكَ الْجَنَّةَ 1 یہ شادی کی طرف ہی اشارہ تھا.اس میں بتایا گیا کہ جیسے آدم کے لئے جنت تھی اسی طرح تیرے لئے بھی جنت ہے مگر اس حوا نے تو آدم کو جنت سے نکلوایا تھا لیکن یہ حواجنت کا موجب ہوگی.مجھے خوب یاد ہے اس وقت تو برا محسوس ہو تا تھا لیکن اب اپنے زائد علم کے ماتحت اس سے مزا آتا ہے.اس وقت میری عمر بہت چھوٹی تھی مگر یہ خدا کا فضل تھا کہ باوجودیکہ لکھنے پڑھنے کی طرف توجہ نہ تھی.جب سے ہوش سنبھالی حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر کامل یقین اور ایمان تھا.اگر اس وقت والدہ صاحبہ کوئی ایسی حرکت کرتیں جو میرے نزدیک حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی شان کے شایاں نہ ہوتی تو میں یہ نہ دیکھتا کہ ان کا میاں بیوی کا تعلق ہے اور میرا ان کا ماں بچہ کا تعلق ہے بلکہ میرے سامنے پیر اور مرید کا تعلق ہو تا حالا نکہ میں بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے کچھ نہ مانگتا تھا.والدہ صاحبہ ہی میری تمام ضروریات کا خیال رکھتی تھیں.باوجود اس کے والدہ صاحبہ کی طرف سے اگر کوئی بات ہوتی تو مجھے گراں گزرتی.مثلاً خدا کے کسی فضل کا ذکر ہوتا تو والدہ صاحبہ کہتیں میرے آنے پر ہی خدا کی یہ برکت نازل ہوئی ہے.اس قسم کا فقرہ میں نے والدہ صاحبہ کے منہ سے کم از کم سات آٹھ دفعہ سنا اور جب بھی سنتاگراں گزرتا.میں اسے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بے ادبی سمجھتا لیکن اب درست معلوم ہوتا ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بھی اس فقرہ سے لذت پاتے تھے کیونکہ وہ برکت اسی الہام کے ماتحت ہوتی کہ یا دَمُ اسْكُنُ انْتَ و زوجُكَ الْجَنَّةَ - ایک آدم تو نکاح کے بعد جنت سے نکالا گیا تھا لیکن اس زمانہ کے آدم کے
خطبات محمود جلد سوم لئے نکاح جنت کا موجب بنایا گیا ہے چنانچہ نکاح کے بعد ہی آپ کی ماموریت کا سلسلہ جاری ہوا.خدا تعالٰی نے بڑی بڑی عظیم الشان پیشگوئیاں کرائیں اور آپ کے ذریعہ دنیا میں نور نازل کیا اور اس طرح آپ کی جنت وسیع ہوتی چلی گئی.اس فرق کی وجہ یہ ہے کہ پہلے آدم کے لئے جو جو ڑا منتخب کیا گیا وہ صرف جسمانی لحاظ سے تھا مگر اس آدم کے لئے جو چنا گیا یہ روحانی لحاظ ވ بھی تھا اور رسول کریم ﷺ نے فرمایا ہے.الارواح جنود مجندة کے ارواح میں ایک.جُنُودُ مُجَنَّدَةٌ دوسرے سے نسبت ہوتی ہے جب ایسی ارواح مل جائیں تو ان کے جوڑے بابرکت ہوتے ہیں.پس مومن کو چاہئے کہ خدا تعالیٰ پر توکل اور بھروسہ کرے اور اپنی رائے پر انحصار نہ رکھے.اسے کیا پتہ ہے کہ جس چیز کو وہ اچھا سمجھتا ہے وہ دراصل بری ہے اور جو اسے بری نظر آتی ہے وہ اس کے لئے اچھی ہے.میرے لئے آج اس خطبہ کی طرف توجہ دلانے کی وجہ یہ ہے کہ میں بتانا چاہتا ہوں.ایک جوڑا خدا تعالیٰ نے پہلے چنا تھا اور ایک اب چنا گیا ہے.اس وقت میں جس نکاح کے اعلان کے لئے کھڑا ہوا ہوں اس میں لڑکا اور لڑکی ان دونوں خاندانوں سے تعلق رکھتے ہیں جس کے جوڑے کے متعلق خدا تعالیٰ نے فرمایا تھا.کیا دَمُ اسْكُنُ اَنْتَ وَزُوجُكَ الْجَنَّةَ کسی شاعر نے کہا ہے.گو واں نہیں یہ واں سے نکالے ہوئے تو ہیں کعبہ سے ان بتوں کو بھی نسبت ہے دور کی اگر کعبہ سے نکالا ہوا بت کعبہ کی نسبت پر فخر کر سکتا ہے تو جو نہ نکالا ہوا ہوا سے تو یقیناً نخر کرنے کا حق حاصل ہے اور جب کہ اتفاق سے نسبت بھی وہی قائم ہے کہ لڑکا اس خاندان سے تعلق رکھتا ہے جس خاندان کے فرد کو خدا تعالیٰ نے آدم کہا تھا اور لڑکی اس خاندان سے تعلق رکھتی ہے جس کی خاتون کو خدا تعالیٰ نے حوا قرار دیا اس لئے ہمیں اسے نیک شگون سمجھتے ہوئے اللہ تعالٰی سے امید رکھنی چاہئے کہ وہ اس نکاح کو بابرکت کرے گا.اور اس جوڑا کو بھی جنت کی زندگی عطا کرے گا.اس وقت میں مرزا عزیز احمد صاحب کے نکاح کے اعلان کے لئے کھڑا ہوا ہوں جو کہ نصیرہ بیگم بنت میر محمد اسحق صاحب سے قرار پایا ہے مرزا عزیز احمد صاحب گو پچھلے عرصہ میں قادیان کم آتے رہے ہیں اور جب آتے بھی ہیں تو بہت کم لوگوں سے ملتے ہیں.یہ نہیں کہ مجھ سے نہیں ملتے بلکہ باقی جماعت کے لوگوں سے سوائے اپنے چند احباب کے کم ملتے ہیں مگر ساری جماعت کے لوگ ان سے واقف ہیں کہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام
خطبات محمود ۲۷۲ کے پوتے ہیں اور انہیں ایک فوقیت حاصل ہے اور وہ یہ کہ جب ہمارے بڑے بھائی مرزا سلطان احمد صاحب کو سلسلہ کے متعلق اظہار خیال کا موقع نہ ملا تھا اس وقت انہوں نے بیعت کی تھی.اگرچہ ان کی اس وقت کی بیعت میں اساتذہ کا بہت کچھ دخل تھا اور خود میرا بھی دخل تھا.میرے ذریعہ ہی ان کی بیعت کا پیغام حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو بھیجا گیا تھا اور مجھے خوب یاد ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ان کی بیعت کے متعلق سن کر بہت خوش ہوئے تھے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو ان کی والدہ سے بہت محبت تھی.جب خاندان میں بہت مخالفت تھی اور آنا جانا بھی بند تھا تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرمایا کرتے عزیز احمد کی والدہ کئی بار آتی جاتی ہیں اور روتی رہتی ہیں کہ لوگوں نے خاندان میں یہاں تک تفرقہ ڈال دیا ہے کہ ہم ایک دوسرے سے مل بھی نہیں سکتے.دو سرا خاندان میر صاحب کا ہے جن سے ساری قادیان واقف ہے.واقف تو مرزا عزیز احمد صاحب سے بھی ہے مگر میں نے اس لئے ذکر کیا ہے کہ وہ اس نقص کی اصلاح کرلیں.میں امید کرتا ہوں کہ دوست اس نکاح کے بابرکت ہونے کے لئے دعا کریں گے.میں پانچ ہزار روپیہ خبر پر اس نکاح کا اعلان کرتا ہوں.الفضل ۷.مارچ ۱۹۳۰ء صفحہ ۸ تا ۱۱) شة الفضل ہے.فروری ۱۹۳۰ء صفحہ ) ته الفجر : ۳۵۲۸ د النساء : ۲ شه مسند احمد بن فضیل جلد ۶ صفحه ۲۲۸ شه رندی ابواب الزهد باب ما جاء فى معيشة النبي واهله تذکرہ صفحہ ۷۰.ایڈیشن چهارم که بخاری کتاب بدء الخلق باب الارواح جنود مجندة
خطبات محمود ۲۷۳ ۷۳ جلد سوم مسلمانوں اور دوسروں کے نکاح میں فرق فرموده ۹ - مارچ ۱۹۳۰ء) - مارچ ۱۹۳۰ء کو بعد نماز عصر حضرت خلیفۃ المسیح الثانی نے مولوی غلام محمد خان صاحب بی اے سینئر ٹیچر گورنمنٹ ہائی سکول کہروڑ پکا ضلع ملتان کا نکاح امتہ العزیز بیگم بنت قاضی عبدالرحیم بھٹی قادیان کے ساتھ دو ہزار روپیہ حق مہر پر پڑھا.لے خطبہ مسنونہ کی تلاوت کے بعد فرمایا :- رسول کریم ﷺ نے دنیا میں ایک ایسا تغیر پیدا کیا ہے جسے خدا تعالٰی نے ہی ان الفاظ میں ط بیان فرمایا يَا يُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ إِذَا دَعَاكُمْ لِمَا يُحْيِيكُمْ..ے یعنی آپ دنیا میں زندگی پیدا کرنے کے لئے آئے تھے.ایک حیات وہ ہوتی ہے جو اللہ تعالی کی طرف سے آتی ہے.بندے کا اس میں کوئی اختیار نہیں ہوتا.وہ حیات بندہ نہ بغیر اذن اللہ کے اور نہ باذن اللہ دے سکتا ہے.بعض نادان اپنے شرک پر پردہ ڈالنے اور اپنی وثنیت کو چھپانے کے لئے اذن اللہ کی آڑ لے لیتے ہیں مگر یہ بات بھی اللہ تعالیٰ کی شان سے بعید ہے کہ وہ کسی اور کو یہ حیات بخشنے کی اجازت دے دے.اس طرح تو پھر یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ اللہ تعالٰی اپنے اذن سے اپنے لئے بیٹا، بیٹی یا بیوی بنا سکتا ہے.لیکن جس طرح ہم ان باتوں کو جائز نہیں سمجھتے اسی طرح یہ بات بھی نا جائز ہے کہ وہ اپنی صفات کسی اور کو دے جن کے دینے سے اس کی توحید پر بٹہ لگتا ہے.اس لئے وہ حیات تو کوئی دوسرے کو نہیں دے سکتا ہاں ایک اور حیات ہوتی ہے جو انسان غیر انسان سب کو ملتی ہے ایک شاعر اپنے شاگرد کے شعر میں اچھی اصلاح
خطبات محمود جلد سوم کر دیتا ہے تو شعر سمجھنے والے کہتے ہیں شعر میں جان ڈال دی.وہ ذرا ترتیب کو بدل کر اور محاورے میں چستی پیدا کر دیتا ہے.تو کہنے والے کہتے ہیں شعر میں جان ڈال دی.کوئی مصور اپنے قلم سے ایسی گل کاری کرتا ہے کہ کوئی خوبصورت باغ یا اچھلتا ہوا سمند ریا بولنے پر آمادہ انسان کی تصویر دکھا دیتا ہے تو ایک ماہر فن دیکھ کر فورا کہہ اٹھتا ہے.ہے تو یہ کاغذ کی تصویر مگر اس میں جان نظر آتی ہے اور معلوم ہوتا ہے ابھی بول اٹھے گی.اگر جانور کی تصویر ہے تو کہتا ہے یوں معلوم ہوتا ہے ابھی گانے لگ جائے گی یا اگر باغ کا نظارہ ہے تو کہتا ہے اسے دیکھ کر ایسے معلوم ہوتا ہے گویا ہم باغ میں آگئے.اور واقعی پھولوں میں پھرنے لگے ہیں.اس طرح مصور بھی تصویر میں جان ڈال دیتا ہے.پس ان محاوروں سے معلوم ہوا کہ جان ڈالنے کے معنے ہیں کسی چیز کے بے معنی ہونے کا ازالہ کر کے بامعنی بنا دینا.جب ہم کہتے ہیں استاد نے فلاں شعر میں جان ڈال دی تو اس کے یہی معنے ہوتے ہیں کہ پہلے وہ شعر ایسا نہیں تھا کہ ہمارے دل کی گہرائیوں تک پہنچ جائے اور دل کی تاروں کو اس طرح نہیں چھیڑتا تھا کہ ان سے راگ پیدا ہو جائے مگر اب اس کے سننے سے ہمارے اندر ایک حرکت پیدا ہوتی ہے اسی طرح تصویر میں جان ڈالنے کے یہ معنے ہیں کہ اسے جاذب بنا دیا جائے اور اسے دیکھتے ہی دماغ افکار کے سمندر میں نئے نئے مطالب کی تلاش کے لئے غوطہ زن ہونے لگے گویا اسے بامعنی کر دیا گیا.اسی طرح محمد رسول اللہ للی نے بھی ہر چیز کو جو بے معنی تھی یا معنی کر دیا اور اس طرح اس میں جان ڈال دی.دنیا کی کوئی بات لے لو جس میں محمد رسول اللہ ا نے دخل دیا ہو یا اس پر ہاتھ رکھا ہو آپ کو نظر آئے گا کہ آپ کے ہاتھ رکھتے ہی گویا اس میں جان پڑ گئی.صدقہ زکواۃ کو ہی لے لو پہلے بھی لوگ صدقہ اور زکوۃ دیتے تھے مگر اس میں کوئی جان نظر نہ آتی تھی.یہی معلوم ہو تاکہ غریب لوگوں کی دوسرے بطور احسان مدد کر دیتے ہیں.لیکن محمد رسول اللہ ا نے آکر اس میں بھی جان ڈال دی.آپ نے بتایا ہر انسان کی کمائی میں دوسرے کا حصہ ہے دنیا میں کوئی شخص اکیلا کچھ نہیں کما سکتا.ہر چیز دنیا میں تمام انسانوں کے لئے ہے.وہ زمین جو میرے قبضہ میں ہے وہ صرف میرے لئے نہیں بلکہ بنی نوع انسان کے لئے پیدا کی گئی تھی اس لئے یہ نہیں کہ میں مسکین کو دیکھ کر اور اس کی غربت پر رحم کھا کر بطور احسان اس کو کچھ دیتا ہوں بلکہ میری مملوکہ زمین میں ازل سے اس کا حصہ مقرر تھا.کیا ہوا اگر بعض حالات
خطبات محمود ۲۷۵ چند موم و کے تحت وہ زمین میرے قبضہ میں آگئی.اگر میں نے وہ کسی سے خریدی بھی ہے تو بیچنے والے کا اس پر حق کہاں سے آگیا تھا اگر اس نے بھی آگے کسی سے خریدی تھی تو اس کے پاس بیچنے والے کا حق کہاں سے آیا تھا اور اس طرح تلاش کرنے سے کوئی نہ کوئی مالک ایسا مل جائے گا جس نے اسے خالی پایا اور قبضہ جمالیا.مگر اس طرح دوسروں کی عدم ملکیت ثابت نہیں ہو سکتی.یہ انتظامی پہلو ہے کہ ہم موجودہ تقسیم کو تسلیم کرتے ہوئے اس میں دخل نہیں دے سکتے ورنہ خدا تعالیٰ نے جو کچھ پیدا کیا سب کے لئے پیدا کیا ہے.یہ نقطہ سمجھا کر آنحضرت ا نے صدقہ و خیرات میں جان ڈال دی.چنانچہ جن الفاظ میں آپ کو صدقہ، زکوۃ وصول کرنے کا حکم ملا وہ یہ ہے خُذْ مِنْ اَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَ ُتزَكِّيهِمُ بِهَا - سے ان سے صدقہ لے اور اس طرح انہیں پاک کر.یہ پاکیزگی اس طرح ہے کہ ان کے اموال میں دوسروں کا حصہ ہے اور ان پر یہ الزام آتا تھا کہ وہ دوسروں کا حصہ کھا رہے ہیں اس لئے ان سے کچھ حصہ بطور شرعی ٹیکس وصول کر کے دوسروں کو دے جن کے پاس نہیں اور اس طرح ان کے اموال کو پاک کر.یہ خطبہ نکاح کا ہے اس لئے میں تفصیلا تو اس مضمون کو بیان نہیں کر سکتا صرف نکاح کی مثال لے لیتا ہوں.ہندوؤں میں نکاح کے وقت چند پھیرے دے دیئے جاتے ہیں.کیا ہی بے معنی اور مردہ رسم ہے.اسی طرح عیسائیوں میں انگوٹھی دے دی جاتی ہے یا عورت سے کہلوایا جاتا ہے کہ میں ہمیشہ کے لئے اس مرد کی خادم رہوں گی.اس میں کس بے دردی سے عورت کے حقوق کو کچلا گیا ہے لیکن محمد رسول اللہ ا لے آئے اور آپ نے نکاح میں جان ڈال دی.ظاہراً اگر مرد عورت آپس میں ایک دوسرے کو پسند کرلیں تو ان کے اتحاد اور اتفاق سے زندگی بسر کرنے کے متعلق کیا خدشہ باقی رہ جاتا ہے.لیکن رسول کریم اللہ نے نکاح کے موقع پر ایک اعلان ضروری رکھا جس میں خاص آیات کی تلاوت کا حکم دیا اور میاں بیوی کی ذمہ داریوں پر وعظ سنانا ضروری رکھا.مرد عورت کو بتایا گیا کہ ان شرائط کو قبول کرتے ہوئے تم آپس میں معاہدہ کرتے ہو اور ان شرائط سے تم آزاد نہیں ہو سکتے کیونکہ یہ طبعی ہیں.کوئی شخص خواہ عہد کرلے کہ میں کھانا نہیں کھاؤں گا لیکن اس سے آزاد نہیں ہو سکتا کیونکہ معدہ بہر حال کھانا مانگے گا اور منہ سے کھانا نہ کھانے کا اقرار کر کے کوئی شخص بھوک سے نہیں بچے گا.تو طبعی زمہ داریوں سے کوئی شخص آزاد نہیں ہو سکتا اس لئے ان تعلقات کی حد بندی کردی
خطبات محمود ۲۷۶ جلد سوم کہ یہ طبعی شرائط ہیں ان کی پابندی بہر حال تمہیں کرنی ہوگی.ان کے علاوہ جو شرائط اور معاہدے اپنے لئے مناسب سمجھو کرو.مہر گھٹاؤ یا بڑھاؤ، رہائش کے متعلق باہمی جو معاہدہ مناسب سمجھو کرو مگر یہ باتیں جو ان آیات میں بیان ہیں جنہیں نکاح کے موقع پر پڑھنے کا حکم ہے ضروری ہیں اور ان سے تم کسی صورت میں بھی آزاد نہیں ہو سکتے.میں ان کی تفصیل میں اس وقت نہیں جاسکتا کیونکہ وہ بارہا بیان کی جاچکی ہیں اس وقت صرف اس طرف توجہ دلاتا ہوں کہ ہماری جماعت کے لوگ اس سے بخوبی واقف ہیں.ان آیات میں کچھ ذمہ داریاں مرد و عورت پر ڈالی گئی ہیں اور ان سے اسلامی نکاح زندہ ہے اگر انہیں نظر انداز کر دیا جائے تو پھر اسلامی نکاح بھی دوسرے نکاحوں کی طرح مردہ ہو جائے گا عام مسلمانوں نے تو اسے مردہ ہی بنا رکھا ہے.وہ پہلے ان آیتوں کی تلاوت کر دیتے ہیں اور پھر فارسی کا ایک پرانا خطبہ جسے نہ نکاح پڑھنے والا خود سمجھتا ہے اور نہ لڑکا یا لڑکی یا ان کے متعلقین میں سے کوئی سمجھ سکتا ہے پڑھ دیتے ہیں.ہمارے ایک عزیز کا نکاح ہوا تو مولوی صاحب نے انہیں کہا بگو من قبول کردم اتفاق سے وہ کچھ فارسی جانتے تھے.انہوں نے کہا من قبول کردم - مولوی صاحب نے کہا نہیں.کہو! بگو من قبول کردم.انہوں نے کہا مولوی صاحب نکاح میرا ہے آپ کا تو نہیں.مگر مولوی صاحب نے کہا اگر یہ نہیں کہو گے تو نکاح جائز نہیں ہو گا.تو دیکھو کیا بے جان چیز بنا دی گئی ہے.اسی طرح نماز، روزہ، حج، زکوۃ وغیرہ ہر چیز کا ان لوگوں نے گلا گھونٹ دیا.مگر محمد رسول اللہ ﷺ کے خلیفہ اور اس زمانے کے مامور کا احسان ہے کہ اس نے پھر اپنی مسیحیت دکھائی اور قسم بِإِذْنِ اللہ کی شان ظاہر کر کے ہمیں پھر جام ا زندگی پلا دیا.نادان کہتے ہیں کہ قم باذن اللہ کے معنے مردہ کے زندہ کرنے کے ہیں حالانکہ قرآن کریم میں جو زندگی بخشنے کا ذکر ہے وہ وہی ہے جو محمد رسول اللہ ﷺ نے آکر دنیا کو دی اور جو باقی تمام انبیاء اپنے اپنے زمانہ میں دیتے رہے ہیں اور ایسی ہی زندگی مسیح علیہ السلام بخشتے تھے مگر ایک فرق ہے کہ باقی تمام انبیاء کی زندگی بخشنا صرف طیر اور پرندے ہونے کی حیثیت تک تھا.بے شک وہ زندگی اور بیداری پیدا کرتے تھے مگر وہ ایسی ہوتی تھی جیسے پرندہ اڑتا تو ہے مگر وہ اس کی حقیقت سے آگاہ نہیں ہوتا.ایک کتا اپنے مالک کے پیچھے پیچھے چلتا ہے مگر وہ اپنے اس
خطبات محمود ۲۷۷ جلد سوم - فعل سے واقف نہیں ہوتا.طیور حقائق و معارف نہیں سمجھ سکتے.مگر انسان سمجھتا ہے کہ وہ جو کچھ کر رہا ہے اس کی غرض کیا ہے تو پہلے انبیاء زندگی تو بے شک پیدا کرتے تھے مگر حقیقت سے آگاہ نہیں کرتے تھے اور نبی کریم ﷺ نے آکر انسانیت کی زندگی بخشی اور اس لئے مسیح محمدی مسیح موسوی سے اس لحاظ سے بھی افضل ہے کہ اس نے آکر انسانیت کی زندگی بخشی، طیر والی نہیں.لیکن اگر اس زندگی کے بعد بھی ہماری جماعت کے لوگ مردہ ہی رہیں تو کس قدر افسوس کا مقام ہو گا.اس لئے ہر حقیقت پر غور کرو اور اسے اپنے اندر جذب کرنے کی کوشش کرو.اگر ایسا نہیں کرتے تو مسیح کا زمانہ آنا نہ آنا تمہارے لئے برابر ہے.پس اگر ہم سمجھتے ہیں کہ مسیح کی بعثت سے اسلام کو فائدہ پہنچ سکتا ہے تو ضروری ہے کہ اس جام کو پئیں جو مسیح کے ذریعہ نازل ہوا ہے.الفضل ۲۵ مارچ ۱۹۳۰ء صفحہ ۷۶ ) له الفضل ۲۵ مارچ ۱۹۳۰ء صفحه ۲ له ان انتقال : ۲۵ : سے التوبه : ۱۰۳
خطبات محمود ۲۷۸ ۷۴ جلد موم اسلامی نکاح کو ایک علیحدہ شکل دینے کی وجہ فرموده ۲۲ - ماریچ ۱۹۳۰ء بعد نماز عصرا لے خطبہ مسنونہ کی تلاوت کے بعد حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے فرمایا.لہ جس لڑکے کے نکاح کے اعلان کے لئے اس وقت کھڑا ہوا ہوں وہ خود اگر چہ یہاں موجود نہیں لیکن اس کے والد موجود ہیں اس لئے وہ یہ نصیحت اپنے بیٹے کو سنا دیں کہ اسلامی نکاح کے ساتھ ساتھ انسان پر کچھ ذمہ داریاں بھی عائد ہوتی ہیں اور جب تک وہ ان کو قبول کر کے ان پر عمل نہ کرے تب تک اسلامی نقطہ نگاہ سے وہ نکاح ایک طرح باطل ہوتا ہے.جن شرائط سے اسلام نکاح کو اپنی شاخ اور اپنے سلسلہ کی ایک فرع قرار دیتا ہے ان پر عمل کرنے سے ہی نکاح اسلام کا جزو ہو سکتا ہے ورنہ یوں تو دنیا میں دیگر مذاہب والوں کے ہاں بھی نکاح ہوتے ہیں اور اسلام سے قبل بھی ہوتے تھے.اگر اسلام نے کوئی زائد بات نہ بتائی ہوتی تو مسلمانوں کو نکاح کے معاملہ میں دوسروں سے الگ کرنے کی کیا ضرورت تھی.ہندوؤں یا عیسائیوں کی طرح ہی ان کا نکاح بھی ہو سکتا تھا.لیکن اسلامی نکاح کو ایک علیحدہ شکل دے کر بتایا ہے کہ اس میں اور دوسرے مذاہب کے نکاحوں میں فرق ہے اور وہ فرق انہی ذمہ داریوں کا ہے جو اسلام نے لڑکے اور لڑکی پر ڈالی ہیں.ے فریقین کا الفضل سے تعین نہیں ہو سکا.(الفضل یکم اپریل ۱۹۳۰ء صفحہ ۶)
خطبات محمود ۲۷۹ ۷۵ جلد سوم رشتہ داری تعلقات کو قائم رکھنے سے لڑائی جھگڑے نہیں ہوتے فرموده ۲۳ مارچ ۱۹۳۰ء) ۲۳- مارچ ۱۹۳۰ء بعد نماز عصر ایک نکاح لے کا اعلان کرتے ہوئے حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے خطبہ مسنونہ کی تلاوت کے بعد حسب ذیل ارشاد فرمایا :- انسان کے ساتھ بعض ایسی ذمہ داریاں لگی ہوئی ہیں کہ اگر وہ ان سے بچنا بھی چاہے تو نہیں بچ سکتا.در اصل خدا تعالیٰ نے انسان کو ایسا بنایا ہے کہ وہ مجبور ہوتا ہے دوسروں کی طرف رجوع کرنے پر.دوسرے جاندار علیحدہ زندگیاں بسر کر سکتے ہیں لیکن انسان اگر انسان بننا چاہے تو اکیلا نہیں رہ سکتا.اس میں شک نہیں کہ لوگ عبادتوں کی خاطر یا عبادتوں کے بہانہ سے اکیلے رہ کر ان فرائض سے بچنے کی کوشش کرتے ہیں جو خدا نے ان پر عائد کئے ہیں.لیکن ان کی مثال ایسی ہی ہے جیسے کوئی اپنے برے فعل کو اچھی شکل دینے کی کوشش کرے.یورپ کے لوگ باوجود روزانه شراب کی خرابیوں کو دیکھنے کے اس کی تعریف کرتے ہیں.ان کے ڈاکٹر خنزیر کے گوشت کے خلاف روزانہ بیسیوں دلائل پیش کرتے ہیں لیکن پھر بھی وہ یہ کہے جاتے ہیں کہ یورپ کی آب و ہوا کے لحاظ سے ہم اس سے بچ نہیں سکتے.تو ہر شخص اپنے قبیح سے قبیح فعل کو بھی خوبصورت دکھانے کی کوشش کرتا ہے اور جو لوگ اپنی ذمہ داریوں سے بچنا چاہتے ہیں وہ بھی یہی کہتے ہیں کہ ہم عبادت الہی کے لئے دنیا سے علیحدہ ہوتے ہیں.اور اس رنگ میں
خطبات محمود ۲۸۰ ذمہ داری سے اجتناب کو خوبصورت شکل دے کر دنیا کے سامنے پیش کرتے ہیں حالانکہ ان کی مثال اس شخص کی سی ہوتی ہے جو میدان جنگ سے پیٹھ دکھا کر بھاگ نکلے.ممکن ہے کسی کو یہ خیال آئے یا خطبہ کے شائع ہونے پر کسی کے دل میں یہ خیال پیدا ہو کہ حدیث میں يَتَحَنَّتُ الليالي لے آیا ہے.اس لئے عبادت کے لئے دنیا سے علیحدہ - ہونے والوں پر بزدلی یا میدان جنگ سے پیٹھ دکھانے کا الزام عائد نہیں کیا جاسکتا وگرنہ اعتراض رسول کریم اے پر بھی عائد ہو گا لیکن یہ کہنا محض جہالت اور نادانی ہو گی.کسی کا دنیا سے کلیتہ علیحدہ ہو جانا اور اپنی ذمہ داریوں کو چھوڑ چھاڑ کر گوشہ تنہائی میں جابیٹھنا اور بات ہے اور کسی کا کچھ اوقات عبادت میں اور کچھ انسانی ذمہ داریوں کی ادائیگی کے لئے صرف کرنا اور بات ہے.اور رسول کریم ﷺ یہ نہیں کہ بالکل ہی دنیا سے علیحدہ ہو گئے تھے بلکہ آپ کچھ رائیں غار حرا میں گزارتے تھے اور کچھ مکہ میں.چنانچہ جب آپ پر وحی الہی کا نزول ہوا اور آپ گھبرائے ہوئے گھر پہنچے تو حضرت خدیجہ رضی اللہ عنھا نے آپ کو جن الفاظ میں تسلی دی ان میں یہ نہیں کہا کہ آپ گوشہ تنہائی میں خدا تعالٰی کی عبادت کرتے ہیں اس لئے وہ آپ کو ضائع نہیں کرے گا بلکہ یہ کہا.كَلَّا و اللهِ مَا يُخْزِيكَ اللهُ اَبَدًا فَاِنَّكَ تَكْسِبُ المَعْدُوم وَتَحْمِلُ الكَلَّ وَتَقْرِى الضَّيْفَ تَقْرِی ہے کہ آپ ان اخلاق کو جاری کرتے ہیں.جو دنیا سے معدوم ہو چکے ہیں.آپ غریبوں کی خبر گیری کرتے ہیں.آپ مہمان نواز ہیں اس لئے اللہ تعالٰی آپ کو ضائع نہیں کرے گا.یعنی ان دنوں کے متعلق ذکر کیا ہے جو آپ ان کے پاس گزارتے تھے.یہ نہیں کہا کہ آپ کسی وقت مہمان نوازی کرتے اور غریبوں کی خبر گیری کرتے تھے وغیرہ بلکہ یہ کہا کہ اب کرتے ہیں جس سے معلوم ہوا کہ آپ ایام عبادت میں بھی اپنی ذمہ داریوں کو پوری طرح ادا کرتے تھے ہاں کچھ روز کے لئے علیحدہ ہو کر چلے جاتے تھے تا خدا تعالٰی کی عبادت کر کے معرفت حاصل کریں اور اس سے اپنے اندر نئی طاقت اور قوت پیدا کر کے پھر خدمت خلق میں مصروف ہو جائیں.گویا آپ کی یہ علیحدگی ذمہ داریوں کو اٹھانے کے لئے اپنے اندر زیادہ مستعدی پیدا کرنے کے لئے تھی نہ کہ ان سے بچنے کے لئے اور اس کی مثال ایسی ہے جیسے کوئی سپاہی فرصت کے اوقات میں کسرت اور ورزش کرے تا وہ زیادہ قوت کے ساتھ دشمن کا مقابلہ کر سکے یہ ذمہ داری سے بچنے کے لئے نہیں بلکہ ذمہ داری کو اپنے سر لینے کے لئے ہوتی ہے.پس رسول کریم ﷺ پر یہ اعتراض ہرگز نہیں ہو سکتا کہ آپ نے دنیا کو
خطبات محمود ۲۸۱ سب چھوڑ دیا تھا.تو انسان ان ذمہ داریوں سے نہیں بچ سکتا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اسے ایسا بنایا ہے کہ اس کی تکمیل ان ذمہ داریوں کے اٹھانے سے ہی ہوتی ہے.اگر وہ ان سے بچتا ہے تو یہ اسلام کے نزدیک ناپسندیدہ بات ہے.دوسرے مذاہب نے اسے جائز رکھا ہے لیکن رسول کریم نے فرمایا ہے لَا رَهْبَانِيَّة فى الإسلام سے اور قرآن میں ہے وَرَهُبانِيَّة ابْتَدَعُوهَا مَا كَتَبْنَها عَلَيْهِمْ - شالح - کہ یہ بدعت ان لوگوں نے اپنے طور پر اختیار کرلی ہے خدا کی طرف سے نہیں تھی.اسلام نے اس بدعت کا ازالہ کیا اور بتایا ہے کہ انسان کے لئے مل کر رہنا ضروری ہے اور اس کے لئے پہلا قدم میاں بیوی.دوسرا اولاد.تیسرا اولاد کی اولاد ہے آگے یہ سلسلہ اور بھی وسیع ہوتا جائے گا.یہ آیت جو نکاح کے موقع پر پڑھی جاتی ہے اس میں کیا ہی لطیف پیرایہ میں بتایا گیا ہے کہ انسانیت کو قائم رکھنے کے لئے یہ رشتے ضروری ہیں اور اگر دنیا اس بات کا لحاظ رکھے کہ ایک ہی آدم کی اولاد ہیں تو سب اقوام رشتہ داروں سے کس قدر قریب ہو سکتی ہیں فرمایا.يايُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّكُمُ الَّذِى خَلَقَكُمْ مِنْ نَفْسٍ وَاحِدَةٍ وَخَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا وَبَثَّ مِنْهُمَا رِجَالًا كَثِيرًا وَنِسَاء وَاتَّقُوا اللَّهَ الَّذِي تَسَاءَلُونَ بِهِ وَالأَرْحَامَ إِنَّ اللهَ كَانَ عَلَيْكُمْ رَقِيباً.ل یعنی اس خدا کا تقویٰ اختیار کرو جس کا نام لے کر تم سوال کرتے ہو اور ارحام کا بھی تقوی اختیار کرو.بعض لوگوں نے اس کے یہ معنے کئے ہیں کہ انسان صلہ رحمی سے اتفاء حاصل کرتا ہے.اتقاء بھی کئی قسم کا ہوتا ہے.ادنیٰ درجہ کا اتقاء جو لوگوں سے تعلق رکھتا ہے اس کی ایک مثال ا حضرت عمر کے زمانہ میں ملتی ہے.ایک دفعہ بارش نہ ہوئی اور سخت قحط پڑا لوگوں نے حضرت عمریضہ سے کہا کہ آپ دعا کریں.آپ دعا کے لئے گئے اور اس طرح کا الہی ! پہلے تیرا نبی ہم میں تھا وہ دعا کیا کرتا تھا اور تو قبول کر لیتا تھا.اب اگر چہ وہ تو ہم میں نہیں لیکن اس کا چا ہم میں ہے اس کے ذریعہ تو ہم پر فضل کر دے کہ تو یہ بھی القاء کا ایک ذریعہ ہوتا ہے کہ بندے بھی نجات کا باعث بن جاتے ہیں تو رحموں کے ذریعہ بھی انسان اتقاء حاصل کر لیتا ہے.یعنی رشتہ داریوں کو بجائے عذاب اور فتنہ کا موجب بنانے کے اپنی راحت و آرام کا موجب بنائے.اگر لوگ یہ خیال رکھتے کہ ہم سب ایک ہی انسان سے چلے ہیں اور رشتوں کو قائم رکھتے تو اس قدر لڑائی جھگڑے نہ پیدا ہوتے اور ایک دوسری سے علیحدہ قومیں نہ بنتیں.اگر سارے رشتہ i
خطبات محمود ۲۸۲ جلد سوم داروں کو یاد رکھا جاتا تو ساری دنیا ایک خاندان ہوتی.افغانستان سے ایک قبیلہ ہندوستان میں آکر آباد ہوا تو افغانستان والوں نے اسے بھلا دیا.اگر اسے یاد رکھتے تو دونوں ملکوں کی آپس میں رشتہ داری ہوتی اور وہ ایک دوسرے کا لحاظ رکھتے اور اب بھی اگر دنیا رشتوں کو بجائے تفرقہ و فتنہ و فساد کے صلح کا موجب بنائے تو ساری دنیا جلد ہی ایک سلک رشتہ داری میں پروئی جائے.ایک لطیفہ مشہور ہے کہتے ہیں میرٹھ کا ایک باشندہ وہاں کے ڈپٹی کمشنر کے پاس گیا اور جاکر کہا کہ میں فلاں بڑے آدمی کا قریبی رشتہ دار ہوں اس لئے میری ملازمت کا انتظام کر دیں.اس نے کہا تمہاری اس سے کیا رشتہ داری ہے.اس نے کہا نہایت ہی قریبی ہے.اور جب اس نے پھر پوچھا تو کہا وہ میری بیوی کی پھوپی کے داماد کے بھائی کے اسی طرح ایک لمبی.قطار رشتہ داری کی سنادی اور بعد میں کہا میں ان کا بہت ہی قریبی رشتہ دار ہوں.تو ضرورت اور غرض کے لئے اب بھی دور دور سے رشتہ ملایا جاتا ہے اور دنیا میں لوگ اپنے مطالب کے لئے ایسا کرتے ہیں.جنگ عظیم سے قبل جرمنی نے زبر دست پروپیگنڈہ کیا کہ ترکی، بلغاریہ اور ہنگری کے باشندے در حقیقت ایک ہی نسل سے ہیں اور اس بات پر اتنا زور دیا کہ ترکوں نے بھی اس اثر کو قبول کر لیا.یہی وجہ تھی کہ وہ جنگ میں جرمنی کے ساتھ شامل ہو گئے.شریعت نے یہ گر بتایا تھا کہ صلح کرنے کا یہ طریق ہے کہ رشتہ داری کو پھیلاؤ اور جس طرح دنیا ایک سے چلی تھی اسی طرح اسے ایک سلک میں لے آؤ مگر افسوس ہے کہ آج مسلمان دوسروں کو ساتھ ملانے کی بجائے اپنوں کو بھی علیحدہ کرتے جارہے ہیں.اس اصول سے انگریز اب بھی فائدہ اٹھا لیتے ہیں.چنانچہ پچھلے دنوں جب ہندوؤں کی طرف سے انگریزوں کی مخالفت کا طوفان اٹھا تو مسٹر بالڈون شے نے پارلیمنٹ میں تقریر کی جس میں بتایا کہ ہم اور ہندو ایک نسل سے ہیں بھلا ہو سکتا ہے کہ ہم ان کے بدخواہ ہوں.تو جن لوگوں نے فائدہ اٹھانا ہوتا ہے وہ اب بھی اٹھا لیتے ہیں.لیکن جنہوں نے نہیں اٹھانا ہوتا وہ میرٹھ والے واقعہ کی طرح ان باتوں کو مذاق سمجھ لیتے ہیں.ے فریقین کا الفضل سے تعین نہیں ہو سکا.به بخاري - كيف كان بدء الوحي الى رسول الله سے بخارى كيف كان بدء الوحي الى رسول الله (الفضل یکم اپریل ۱۹۳۰ء صفحہ ۷۰۶)
جلد سوم ۲۸۳ خطبات محمود له المبسوط الشمس الدين الشر خسى جلد ۱۰ صفحه ۱۱۱ مطبوعہ مصر ۵۱۳۲۴ شه الجديد : ۲۸ له النساء : ۲ كه بخاری کتاب الاستسقاء باب سوال الناس الامام الاستسقاء اذا قحطوا.STANLEY BALDWIN (1867.1947) 3 time Prime Minister of Conservatres between the two world wars.(Longman English Larousse) (ENCYCLOPEDIA)
۲۸۴ ZY خطبات محمود انسانی احتیاج خدا تعالیٰ کی طرف متوجہ کرتی ہے (فرموده ۱۳- اپریل ۱۹۳۰ء) -۱ اپریل ۱۹۳۰ء کو حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے محترم محمد فقیر اللہ خان صاحب انسپکٹر مدارس بدایوں کا نکاح ہمراہ مسماۃ مبارکہ بیگم بنت ڈاکٹر ظفر حسن صاحب ایک ہزار روپیہ مہر پر پڑھا.اے خطبہ مسنونہ کی تلاوت کے بعد فرمایا : انسان اپنی ضرورتوں اور حاجتوں سے چاروں طرف سے گھرا ہوا ہے کہ گویا اس کا ایک ایک لمحہ اور اس کی زندگی کی ایک ایک ساعت اسے اپنے حقیقی مالک اور خالق کی طرف توجہ دلا رہی ہے مگر باوجود اس کے کہ سب سے زیادہ انسان کے لئے خدا تعالی کی طرف متوجہ ہونے کی ضرورتیں پیش آتی ہیں اگر کوئی ہستی اللہ تعالی سے بغاوت کرتی ہے تو وہ انسان ہی ہے.سوائے انسان کے کوئی ہستی ایسی نہیں جو انا اللہ کا دعویٰ کرنے والی ہو یا لا الہ غیرٹی کی مدعی ہو.انسان ہی ایک ایسی ہستی ہے جو بسا اوقات اپنی خدائی کا دعوی کر بیٹھتی ہے اور بعض اوقات اپنی خدائی کا تو اعلان نہیں کرتی لیکن ساری دنیا کو خدائی طاقتوں میں شریک کر کے صرف اس ہستی کو نکال دیتی ہے جو خدائی کی اصل مستحق ہے اور خدا کے سوا باقی چیزوں میں خدا کی طاقتیں تسلیم کرلیتی ہے.گویا اسے کسی نہ کسی کو خدا تسلیم کرنا پڑتا ہے.چنانچہ جو خدا کا انکار کرتا ہے وہ اس کی طاقتیں ساری دنیا میں بانٹ دیتا ہے.ایسا انسان یہ تو تسلیم کرتا ہے کہ بغیر مرد کے عورت کا اور بغیر عورت کے مرد کا گزارہ نہیں ہو سکتا.اسی طرح وہ یہ بھی مانتا ہے
خطبات محمود ۲۸۵ کہ بغیر کھانے پینے کے بغیر ہوا کے بغیر پانی کے بغیر ستاروں کے، بغیر زمین کے، بغیر سمندر کے، بغیر پہاڑوں کے بغیر دریاؤں کے دنیا قائم نہیں رہ سکتی.لیکن صرف وہی ہستی جس کے بغیر دنیا قائم نہیں رہ سکتی اس کے متعلق کہہ دیتا ہے کہ وہ نہیں ہے.وہ خدا کو تو تسلیم کرتا ہے اور خدائی قائم کرتا ہے لیکن در حقیقت اس کا محل غیر قرار دیتا ہے.خدا کے کیا معنی ہیں.یہی کہ وہ ہستی جس کے بغیر دنیا قائم نہ رہ سکے.ایسی طاقتوں کو تو ہر ایک انسان تسلیم کرتا ہے.مگر ایک خدا کے ماننے اور نہ ماننے والے میں فرق یہ ہے کہ خدا کا منکر اصل شے کا انکار کر دیتا ہے اور دوسری چیزوں کی طرف یہ بات منسوب کر دیتا ہے وہ کہتا ہے ان چیزوں کے بغیر گزارہ نہیں.مگر یہ نہیں مانتا کہ ان کا آگے کسی اور چیز کے بغیر گزارہ نہیں.لیکن اگر غور کر کے دیکھا جائے تو ہر چیز دلالت کرتی ہے کہ وہ کسی اور کی محتاج ہے.اور وہ اور کی.یہاں تک کہ احتیاج کا سلسلہ اتنا کیا چلا جاتا ہے کہ وہ چیز نظروں سے پوشیدہ ہو جاتی ہے مگر احتیاج قائم رہتی ہے.پس جب ہر چیز میں احتیاج نظر آتی ہے تو یہ کہنا کہ اس کے پیچھے کوئی ہستی نہیں جو اسے قائم کئے ہوئے ہے غلطی ہے.نکاح بھی ان احتیاجوں میں سے ایک احتیاج ہے جس کے بغیر انسان کا گزارہ نہیں.بیسیوں مردوں کو ہم یہ کہتے سنتے ہیں کہ ہمیں عورت کی ضرورت نہیں اور بیسیوں عورتیں کہہ دیا کرتی ہیں کہ ہمیں مردوں کی پرواہ نہیں لیکن یہ غلط بات ہے.مرد جب سے دنیا پیدا ہوئی ہے عورت کا محتاج چلا آتا ہے اب بھی محتاج ہے اور آئندہ بھی محتاج رہے گا.اسی طرح عورت جب سے چلی آتی ہے مرد کی محتاج رہی ہے اب بھی ہے اور آئندہ بھی رہے گی.جو مرد یہ کہتا ہے کہ اسے عورت کی پرواہ نہیں یا جو عورت یہ کہتی ہے کہ اسے مرد کی پرواہ نہیں وہ غلط کہتے ہیں جو دھوکا، خود پسندی اور تکبر کا نتیجہ ہوتا ہے.جب خالق نے مرد کے لئے عورت کی پرواہ اور عورت کے لئے مرد کی پرواہ رکھی ہے جب ہر ایک چیز کو پیدا کرنے والے نے ایک ہی چیز کو دو الگ الگ ٹکڑوں میں چیر کر رکھ دیا اور وہ دونوں اپنی اپنی جگہ اس لئے چینی اور چلاتی ہیں کہ آپس میں مل جائیں تو پھر کون کہہ سکتا ہے کہ مرد کو عورت کی یا عورت کو مرد کی پرواہ نہیں.مرد و عورت کی مثال لو ہے اور مقناطیس کی ہے وہ جب ایک دوسرے کے سامنے آجائیں تو نہیں کہہ سکتے کہ انہیں ایک دوسرے کی پرواہ نہیں.وہ خود بخود ایک دوسرے کی طرف کھنچے چلے آتے ہیں.یہی حال مرد و عورت کا ہے اور مرد و عورت کا ہی نہیں بلکہ ان سب چیزوں کا
خطبات محمود YAY جلد سوم ہے جن کا ایک دوسرے سے زوجیت کا تعلق رکھا گیا ہے.انسان اور خوراک میں زوجیت کا تعلق ہے.انسان اور ہوا زوج ہیں انسان اور پانی زوج ہیں انسان اور روشنی زوج ہیں.زوج کے معنے دو چیزیں ہیں جن کا آپس میں ملنے سے مکمل وجود بنے.کھانا انسان کے لئے اور انسان کھانے کے لئے زوج ہے، ہوا انسان کے لئے اور انسان ہوا کے لئے زوج ہے ، پانی انسان کے لئے اور انسان پانی کے لئے زوج ہے.پھر ہر چیز کی علیحدہ زوج ہے بخار کے لئے کونین زوج ہے.کونین اپنی جگہ بخار نہیں اتار سکتی اور بخار اپنی جگہ اس سے اثر پذیر نہیں ہو سکتا لیکن سب بخار کے ساتھ کو نین ملا دی جائے تو نتیجہ پیدا ہوتا ہے.غرض انسان کے ہر طرف دائیں بائیں آگے پیچھے اور نیچے احتیاج ہی احتیاج ہے مگر باوجود اس کے سب سے زیادہ خدا تعالٰی کا انکار انسان ہی کرتا ہے.بھینس بھی زوج کی محتاج ہے اور گھوڑا بھی لیکن انسان سے کم.ان کی احتیاج شہوانی اغراض تک ہی محدود ہوتی ہے.مگر انسان تمدنی، سیاسی اور مذہبی لحاظ سے بھی محتاج ہے انسان کے سوا اور کسی چیز کو ان باتوں کی احتیاج نہیں.اسی طرح گدھے اور گھوڑے کو کتابوں کی ضرورت نہیں، حساب اور تاریخ کی ضرورت نہیں، فلسفہ اور فقہ کی ضرورت نہیں، نہ ایجاد کی ضرورت ہے نہ شریعت کا محتاج ہے لیکن انسان کو ان سب کی ضرورت ہے.غرض انسان ان سب چیزوں سے زیادہ محتاج ہے اس لئے ان سب سے زیادہ خدا تعالیٰ کا اقرار کرنے کے دلائل رکھتا ہے اور اس کی ضرورت بھی تھی کیونکہ انسان ہی ہے جو خدا کا انکار کر سکتا ہے اس وجہ سے خدا تعالیٰ نے اسے زیادہ احتیا جیں لگا دیں.اب کہنے کو تو انسان کہتا ہے میں اعلیٰ ہوں اور گھوڑا ادنی ہے لیکن احتیاجوں کے لحاظ سے انسان گھوڑے سے ادنیٰ ہے.دیکھو گھوڑا اپنے تھان پر بندھا رہے تو کیا خوش رہتا اور کیسی خوشی سے ہنہناتا ہے لیکن انسان کو اگر بے کار کر کے بٹھا رکھا جائے تو بیمار ہو جائے.اسی طرح ایک بیمار گھوڑایا گدھا یا کتا ایک جگہ خاموشی سے پڑا رہتا ہے.لیکن اگر کوئی انسان بیمار ہو اور دو گھنٹے اسے اکیلا رہنا پڑے تو غصے ہونے لگ جاتا ہے.اس کی وجہ یہ ہے کہ انسان محتاج ہے کہ کوئی دوسرا اس کے پاس بیٹھ کر اس سے باتیں کرے لیکن گھوڑے یا گدھے کو یہ احتیاج نہیں ہے.غرض انسان کو خدا تعالیٰ نے زیادہ احتیاجوں میں جکڑ دیا ہے کیونکہ اس میں انکار کرنے کا مادہ رکھا گیا تھا مگر تعجب ہے انسان جتنا زیادہ محتاج ہے اتنا ہی زیادہ خدا تعالیٰ کا منکر ہوتا ہے.
خطبات محمود ۲۸۷ جلد سوم ایک بڑا مالدار خدا کا منکر ہو جاتا ہے، ایک بڑا عالم خدا تعالیٰ کی ہستی کا انکار کر دیتا ہے حالانکہ بڑے مالدار کے معنے ہیں دوسروں کا بہت زیادہ محتاج اور بڑے عالم کے معنے ہیں دوسروں کی زیادہ احتیاج رکھنے والا.انسانی احتیاجوں میں سے ہی ایک احتیاج نکاح کی ذمہ داریاں ہیں.نر و مادہ حیوانوں میں بھی ملتے ہیں مگر انہیں انسانوں کی طرح ایک دوسرے کی احتیاجیں نہیں ہوتیں جو انسانوں کو بہت زیادہ ہیں.ایک کبوتر اور کبوتری اکٹھے ہوتے ہیں مگر کبوتر کبوتری کی خوراک کا ذمہ دار نہیں ہوتا.اسی طرح کبوتری مکان کی آرائش اور خوراک کی تیاری کی ذمہ دار نہیں ہوتی.یہاں تک بھی دیکھا گیا ہے کہ ساتھ کی کبوتری مرگئی تو کبوتر نے دوسری کبوتری قبول نہ کی.جس سے معلوم ہوتا ہے جانوروں میں بھی محبت اور پیار کا تعلق ہوتا ہے مگر یہ نہیں کہ انسان جیسی ذمہ داریاں ان پر عائد ہوتی ہوں.وجہ یہ ہے کہ وہ اس قدر محتاج نہیں جس قدر انسان محتاج ہے.ان کی زوجیت صرف بقائے نسل کے لئے ہوتی ہے مگر انسان کے کام ایسے وسیع اور و اتنے پھیلے پڑے ہیں کہ وہ اکیلا دنیا میں انہیں سرانجام نہیں دے سکتا.غرض بیاہ بھی خدا کی طرف توجہ دلانے والی چیز ہے مگر یہی اس سے توجہ پھیرنے والی بن جاتی ہے اس لئے نکاح کے متعلق ذکر کرتے ہوئے نمازوں کو قائم رکھنے کا حکم دیا گیا ہے تو وہی چیز جسے خدا تعالیٰ نے اپنی طرف انسان کو متوجہ کرنے کا ذریعہ بنایا جب انسان غفلت سے کام لیتا ہے تو اس کی وجہ سے خدا تعالیٰ سے دور ہو جاتا ہے اسی لئے انسان کے واسطے شریعت، وعظ، نصیحت اور زجر کی ضرورت ہوتی ہے.انسان اگر اپنے متعلق غور کرے تو اسے معلوم ہو سکتا ہے کہ وہ کس قدر دوسروں کا محتاج ہے.دوسروں کی محبت، دوسروں کی ہمدردی اور اولاد کی ہر وقت اسے ضرورت ہے.اگر کوئی کسی کو نہ پوچھے تو وہ افسوس کرتا ہے کہ مجھے فلاں نے پوچھا بھی نہیں حالانکہ پوچھنے سے اس کی بیماری کم نہیں ہو جاتی مگر انسانیت چاہتی ہے کہ اس کے ہمدرد ہوں.یہ سب انسانی احتیاجیں ہیں.اسی طرح مرد و عورت کی ایک دوسرے کے متعلق احتیاجیں ہیں اور انسان محسوس کر سکتا ہے کہ صرف ایک ہی ذات غنی اور صمد ہے اور اسی سے مل کر وہ احتیاجوں سے آزاد ہو سکتا ہے.دیکھو مالدار عورت سے شادی کر کے مرد مالدار بن جاتا ہے اور بادشاہ سے شادی کر کے عورت ملکہ بن جاتی ہے.اس زوجیت کے تعلق نے سکھا دیا کہ غنی سے زوجیت کا تعلق پیدا
خطبات محمود ۲۸۸ جلد سوم کر کے انسان بھی غنی بن سکتا ہے اور صد سے زوجیت کا تعلق پیدا کر کے صدر بھی بن سکتا ہے.کسی کو اس بات سے متعجب نہیں ہونا چاہئے.روحانیت کے لحاظ سے انسان کو خدا تعالیٰ سے زوجیت کا تعلق ہوتا ہے اور عرفان کے لحاظ سے انسان خدا کا زوج ہوتا ہے ایسا ہی تعلق وحی الہی سے اسی طرح وہ روحانیت قائم کرتا ہے جس طرح مرد کا نطفہ بقائے نسل کا موجب ہوتا ہے.انہی معنوں میں صوفیاء نے لکھا ہے کہ کامل انسان کے لئے مریمی صفت کا پیدا ہونا ضروری ہے سے یعنی وہ انسان کہہ سکے کہ اس نے براہ راست خدا تعالٰی سے فیض حاصل کیا.یہاں براہ راست سے میری مراد وہ نہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بیان فرمائی ہے بلکہ یہ ہے کہ انسان کے فیض سے نہیں بلکہ خدا تعالیٰ کے فیض سے روحانیت میں ترقی کرے.الفضل ۲۲ اپریل ۱۹۳۰ء صفحه ۷۰۶) له الفضل ۱۶ مئی ۱۹۳۰ء صفحه ۲ لے علامہ زمخشری نے تفسیر کشاف جلد اصفحہ ۴۲۶ (مطبوعہ لبنان) پر لکھا ہے.معناه ان كل مولود" يطمع الشيطن فى اغوائه الا مريم وابنها.....و كذلك كل من كان في صفتهما" کہ شیطان ہر بچہ کو گمراہ کرنا چاہتا ہے سوائے مریم اور ابن مریم کے.اسی طرح ہر وہ بچہ بھی (شیطان سے بچ جاتا ہے) جو مریم اور ابن مریم کی صفت پر ہو.
خطبات محمود ۲۸۹ ۷۷ جلد سوم محاسبہ نفس بہترین نگرانی ہے (فرموده ۲ مئی ۱۹۳۰ء) ۲ مئی ۱۹۳۰ء کو حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے خواجہ علی صاحب کا نکاح قاضی امیر صاحب محدث کی لڑکی مسماۃ بشری بیگم صاحبہ کے ساتھ ایک ہزار روپیہ صر پر پڑھا.لے خطبہ مسنونہ کی تلاوت کے بعد فرمایا.حسین انسانی فطرت ہمیشہ ہی ایک نگر ان کی محتاج رہتی ہے اور جب تک کہ انسان اعلیٰ درجہ کا کمال حاصل نہیں کر لیتا وہ ہمیشہ کسی دوسرے محافظ کا محتاج ہوتا ہے.اسی وجہ سے دنیا میں جس قدر کام ہوتے ہیں ان میں ہر طبقہ کے کارکنوں کے لئے ان کے مناسب حال کچھ نگران مقرر کئے جاتے ہیں.مثلاً چپراسیوں کے اوپر ایک داروغہ ہوتا ہے جو ان کی نگرانی کرتا ہے لیکن داروغہ کو دیکھ کر کبھی کوئی شخص یہ نہیں کہہ سکتا کہ جس شخص پر اعتبار کیا گیا ہے کہ وہ ا بیسیوں مزدوروں کی نگرانی کرے گا اس کی نگرانی کے لئے کسی اور کی کیا ضرورت ہے بلکہ داروغوں کے بھی نگران مقرر کئے جاتے ہیں.ایک عمارت کی مثال لے لو.مزدوروں پر داروغے ہوتے ہیں ان کی نگرانی کے لئے سب اوور سیٹر مقرر کر دیئے.اب ان کی نگرانی کی کیا ضرورت ہے بلکہ ان کے اوپر بھی اوور سیٹر مقرر کئے جاتے ہیں اور پھر یہ خیال نہیں کیا جاتا کہ اور سیر کی نگرانی کافی ہے اس سے زیادہ کی ضرورت نہیں بلکہ ان کے اوپر سب ڈویژنل افسر ہوتے ہیں اور ان کے اوپر ایگزیکٹو انجینئر اور پھر نگرانی کے لئے چیف انجینئر ہوتا ہے.یہی حال دوسرے محکموں کا ہے محکمہ مال میں پٹواری ہوتے ہیں اور ان کے اوپر گرد اور اور پھر نائب
خطبات محمود ۲۹۰ جلد سوم بھی.تحصیلدار، تحصیلدار، افسر مال، ڈپٹی کمشنر، کمشنر گورنر اور پھر گورنر جنرل ہوتا ہے اور کسی مقام ا یہ خیال نہیں کیا جاتا کہ یہ خود نگران ہے.ان کی نگرانی کی کوئی ضرورت نہیں کیونکہ بات انسانی فطرت میں داخل ہے کہ وہ دوسرے کی نگرانی بخوبی کر سکتا ہے لیکن اپنی نگرانی میں ستی کر جاتا ہے.اور یہ امر زیر دست ثبوت ہے اس بات کا کہ انسان کو ایک ایسے نگران کی ضرورت ہے جو اپنی ذات میں کامل ہو اور کسی کے سامنے جوابدہ نہ ہو.اگر کسی ایسی ہستی کے بغیر بھی نگرانی کا کام پوری طرح ہو سکتا تو اتنے نگران مقرر کرنے کی کوئی ضرورت نہ تھی.ایک پر ہی اکتفاء کیا جاسکتا تھا لیکن یہ شبہ ہی رہتا کہ شاید فلاں کو مقرر کر دینے سے نگرانی ٹھیک طرح نہ ہو سکے اس لئے اس پر اور نگران مقرر کرنا چاہئے اور یہ شبہ ایسا ہی ہے جیسے کہتے ہیں ایک و ہمی نماز کے لئے نیت باندھتا تو اسے خیال ہو تا.شاید نیت ٹھیک نہ باندھی گئی ہو.ایک احمدی کے لئے تو یہ بات ایک مشغلہ سے زیادہ وقعت نہیں رکھتی کیونکہ اس کی نیت تو بیعت کے بعد ایسی درست ہو جاتی ہے کہ پھر اسے باندھنے کی ضرورت نہیں ہوتی.لیکن دوسرے لوگوں کو شبہ ہی رہتا ہے کہ خبر نہیں نیت ہوئی ہے یا نہیں.ان کی نیت دماغ کے فکر سے نہیں ہوتی جیسے ہر مومن کی ہوتی ہے بلکہ ایک خاص عادت کے ماتحت ہوتی ہے اور خاص الفاظ میں وہ اسے ادا کرتے ہیں.یعنی چار رکعت نماز فرض " پیچھے ایس امام دے" وہ شخص جب یہ کہتا تو اسے یہ خیال آتا میرے آگے اور لوگ بھی کھڑے ہیں.شاید نیت ٹھیک نہ ہوئی ہو اس لئے وہ لوگوں کو چیرتا ہوا اگلی صف میں آجاتا.پھر وہاں اس طرح کہتا لیکن پھر خیال آتا اور لوگ بھی کھڑے ہیں شاید اب بھی نیت ٹھیک نہ ہو.وہ سب سے اگلی صف میں آکر کھڑا ہو جاتا وہاں انگلی سے اشارہ کر کے کہتا ” پیچھے ایس امام دے" لیکن پھر یہ خیال آتا شاید اشارہ ٹھیک نہ ہو اور انگلی ٹیڑھی ہو گئی ہو اس لئے امام کی پیٹھ کو ہاتھ لگا کر کہتا پھر خیال کرتا شاید میرا ہاتھ ٹھیک طرح سے نہ لگا ہو.پھر زور سے مار تا حتی کہ وہاں مار کٹائی شروع ہو جاتی.ہم لوگ اس شخص پر ہنتے اور کہتے ہیں وہ پاگل تھا.حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ یہی جنون ہمارے ہر کام میں کار فرما نظر آتا ہے.ہم ایک کام کے لئے ایک نگران پر نگران مقرر کرتے چلے جاتے ہیں یہاں تک کہ ہمارا واہمہ تھک کر چُور ہو جاتا ہے اور ہم اور نگرانوں کا تقرر اس لئے بند نہیں کر دیتے کہ اس کی ضرورت نہیں سمجھتے بلکہ اس لئے کہ مقرر کر نہیں سکتے اور یہ جذبہ ثبوت ہے اس بات کا کہ ایک کامل نگران کی ضرورت ہے جو اپنی ذات میں کسی اور کی
خطبات محمود ۲۹۱ جلد سوم نگرانی کا محتاج نہ ہو جس پر ستی طاری نہ ہوتی ہو اور جس کی صفات دوسروں کے فائدہ کے لئے جاری ہوتی ہوں.انسان کی یہ فطرت خدا تعالی کی ہستی پر شاہد اور دلیل ہے ہاں اسکے عکس اور کل کے طور پر جب انسان اپنے آپ کو اس کے رنگ میں رنگین کر لیتا ہے تو ایک حد تک وہ بھی کمال حاصل کرلیتا ہے اور ایسے ہی لوگوں کے لئے شَاهِدًا کا لفظ قرآن شریف میں استعمال کیا گیا ہے.یعنی وہ بھی نگران ہو جاتا ہے اور حقیقی شاہد ہوتا ہے.وہ داروغہ کی طرح نہیں کہ اس پر سب اور سینئر مقرر کئے جائیں بلکہ وہ شاہد کامل ہوتا ہے اس پر اور نگران نہیں ہوتے.اسی لئے خدا تعالٰی نے قرآن کریم میں فرمایا ہے.وَمَا اَرْسَلْنَا مِنْ رَسُولِ إِلَّا لِيُطَاع بِإِذْنِ اللہ.ہے کہ ہم انبیاء اس لئے نہیں بھیجتے کہ وہ کسی کی اطاعت کریں بلکہ وہ مطاع بنائے جاتے ہیں وہ چونکہ مظہر صفات اللہ ہوتے ہیں اس لئے ان پر اور نگران کی ضرورت نہیں ہوتی.وہ خدا تعالیٰ کی طرف سے مشین کے طور پر کام کرتے ہیں.وہ اس لئے کوئی کام نہیں کرتے کہ خدا تعالٰی دیکھ رہا ہے بلکہ اس خیال کے ماتحت کرتے ہیں کہ خدا تعالٰی نے ہمیں اسی لئے بنایا ہے.وہ مبعوث کہلاتے ہیں اور وہ سمجھتے ہیں کہ خدا تعالیٰ نے ہمیں ہدایت خلق کے لئے ہی کھڑا کیا ہے.ان کے اعمال کی علت غائی شکریہ ہوتی ہے.رسول کریم اے سے حضرت عائشہ نے کہا.یا رسول اللہ ! اے کیا خدا تعالیٰ نے آپ کے اگلے اور پچھلے گناہ معاف نہیں کر دیئے پھر آپ عبادت میں اس قدر مشقت کیوں اٹھاتے ہیں؟ اس پر آپ نے فرمایا - هل لا اكُونَ عَبْدًا شَكُورًا.سہ یعنی میں جو کام کرتا ہوں وہ اس ڈر سے نہیں کرتا کہ اسے نہ کرنے کی صورت میں خدا تعالٰی گرفت کرے گا بلکہ عبد شکور بننے کے لئے کرتا ہوں.تو نبی اور رسول شاہد کامل یا محافظ ہوتے ہیں.اور پھر انبیاء اور رسل سے نیچے اتر کر بہترین نگرانی محاسبہ نفس ہے انسان دوسرے کے مال کی حفاظت اور نگرانی میں سستی کر سکتا ہے لیکن اپنے روپیہ پیسہ کی حفاظت سے وہ کبھی غافل نہیں ہو سکتا.اس کے ذاتی مفاد اسے مجبور کرتے ہیں کہ وہ اپنے حقوق کی پوری حفاظت کرے اور اس طرف پوری توجہ دے.خدا تعال فرماتا ہے.وَلْتَنْظُرْ نَفْسٌ مَا قَدَّمَتْ لِغَدِ له یعنی اپنے نفس کا محاسبہ کرتے رہا کرو اور اپنی ذمہ داریوں کو محسوس کرتے رہا کرو انسان کو محاسبہ سے کبھی غافل نہیں ہونا چاہئے.افسوس ہے کہ ہماری جماعت کے بعض دوست تور اشنان سومور اشنان" کے مطابق
خطبات محمود ۲۹۲ جلد سوم خیال کر لیتے ہیں کہ جماعت کے دوسرے افراد کام کر رہے ہیں تو ہمارا فرض بھی ساتھ ہی ادا ہوتا جا رہا ہے یا یہ کہ خلیفہ موجود ہے وہ خود کام کرے گا حالانکہ یہ خیال غلط ہے.ہر شخص کا فرض ہے کہ اپنی ذمہ داریوں کو خود محسوس کرے اور اپنے نفس کے محاسبہ سے کبھی غفلت نہ کرے بہترین طریق پر وہی کام ہو سکتا ہے جو انسان خود اپنے نفس کا محاسبہ کر کے کرتا رہے اور بہترین نگرانی محاسبہ نفس ہی ہے.یا پھر انبیاء کی ذات ہوتی ہے جو اپنے تازہ نشانات سے لوگوں کے اندر اس قدر استعداد پیدا کر دیتی ہے کہ ان کے اندر نفس کے محاسبہ کی طاقت خود بخود پیدا ہو جاتی ہے اور ان کے ذریعہ خدا تعالیٰ کی تازہ وحی کو دیکھ کر انسان کے ایمان میں اس قدر قوت پیدا ہو جاتی ہے جو دوسرے کے وعظ و نصیحت یا خطبات سے ہرگز نہیں ہو سکتی اور انبیاء کے زمانہ میں اس قوت کا پیدا کر لینا نسبتاً آسان ہوتا ہے لیکن انبیاء کی وفات کے بعد انسان کو بہت زیادہ جدوجہد کی ضرورت ہوتی ہے.حضرت عمرو بن عاص جب فوت ہونے لگے تو بہت روئے.آپ کے لڑکے نے کہا آپ نے اسلام کی بہت خدمت کی ہے اور اللہ تعالٰی یقینا اس کا اجر آپ کو دے گا پھر رونے کی کیا وجہ ہے.آپ نے جواب دیا.عبد اللہ ایک وقت وہ تھا جب رسول کریم ﷺ کی مخالفت میں میں انتہائی درجہ پر تھا اور مجھے آپ سے اس قدر عناد اور بغض تھا کہ میرے نزدیک آپ سے زیادہ مغضوب انسان دنیا کے تختہ پر اور کوئی نہ تھا اور میں نے کبھی پسند نہیں کیا تھا کہ آپ کے چہرہ کی طرف دیکھوں.لیکن جب اللہ تعالٰی نے میری آنکھیں کھول دیں اور میں ایمان لایا تو آپ کا عشق میرے اندر اس قدر بڑھا کہ میں رُعب اور جلال کی وجہ سے آپ کی شکل نہ دیکھ سکتا گویا ساری عمر میں نے جی بھر کر آپ کے چہرہ کو دیکھا ہی نہیں.پہلے تو عداوت اور بغض کی وجہ سے اور پھر محبت و عشق کی وجہ سے نہ دیکھ سکا.حتی کہ آپ وفات پاگئے اور اگر کوئی شخص مجھ سے آپ کا حلیہ مبارک دریافت کرتا تو میں اسے نہیں بتا سکتا.اس وقت ہی اگر میں فوت ہو جاتا تو اچھا ہوتا کیونکہ اب دوری اور بعد کی وجہ سے معلوم نہیں کس قدر غلطیاں ہم سے سرزد ہو چکی ہیں.شہ یہ تو ان لوگوں کا حال ہے جنہوں نے رسول کریم ایک کی صحبت سے فیض حاصل کیا پھر جو بعد میں پیدا ہوئے، بعد میں زندہ رہے اور بعد میں عمریں گزاریں ان کا کیا حال ہو گا.سوائے
خطبات محمود ۲۹۳ جلد سوم اس کے کہ وہ نبی کے جانشین اپنے نفس کے اندر پیدا کریں اور وَ لتَنْظُرُ نَفْس کے ارشاد ربانی پر عمل کریں.دنیا پتھر کے بت بناتی ہے حالانکہ خدا تعالی کی طرف سے اس کے لئے کوئی ہدایت نہیں.پھر کتنا افسوس ہو گا کہ ہم باوجود اس کے کہ خدا تعالٰی نے ایک زندہ محاسب بنانے کا مصالحہ ہمارے لئے فراہم کیا ہو مگر ہم اس سے فائدہ نہ اٹھا ئیں حالانکہ یہی وہ چیز ہے جو انسان کو راستی پر قائم رکھ سکتی ہے اور جس سے انسان کی نجات وابستہ ہے.ازدواجی زندگی میں محاسبہ کی بہت زیادہ ضرورت ہوتی ہے.اسی طرف توجہ دلانے کے لئے اس موقع پر یہ آیت پڑھی جاتی ہے جس کا میں نے ذکر کیا ہے.الفضل ۹ - مئی ۱۹۳۰ء صفحه ۶۴۵) الفضل ۶.مئی ۱۹۳۰ء صفحہ ۱ له الشياء : ۶۵ که بخاری كتاب التفسير باب قوله يغفر الله لك ما تقدم من ذنبك وما تاخیر کے تحت اس حدیث کے الفاظ یہ ہیں.افلا احب ان اكون عبدا شكورا ه الحشر : 19 ه مسلم کتاب الايمان باب كون الاسلام يهدم ما قبله وكذا الحج والهجرة
خطبات محمود ۲۹۴ LA جلد سوم جماعت احمدیہ کی رشتہ داریاں خدا تعالیٰ کا ایک نشان ہیں (فرموده ۱۲ مئی ۱۹۳۰ء) حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ایک پرانے خادم سیٹھ محمد غوث صاحب سکنہ حیدر آباد رکن کے صاحبزادہ محمد اعظم کا نکاح ۱۲ مئی ۱۹۳۰ء کو حکیم محمد حسین صاحب قریشی لاہور کی لڑکی عزیز النساء بیگم سے ہوا.خطبہ حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے پڑھا.مہرپانچ ہزار روپیہ بشمولیت زیورات و پارچات قرار پایا.اے خطبہ مسنونہ کی تلاوت کے بعد فرمایا : اللہ تعالیٰ کی طرف جو بات بھی منسوب ہوتی ہے اور جس بات کو بھی وہ جاری فرماتا ہے اس کا ہر ایک حصہ اور ہر ایک جزء خدا تعالی کا ایک نشان ہوتا ہے جن لوگوں کو اللہ تعالیٰ نے روحانی آنکھیں عطا کی ہیں وہ تو ہر جگہ نشان ہی نشان دیکھتے ہیں لیکن بعض نشان مخفی ہوتے ہیں اور اس قدر ظاہر نہیں ہوتے کہ ہر شخص ان سے فائدہ اٹھا سکے اور دنیا کی کوئی چیز بھی ایسی نہیں جس سے ہر شخص فائدہ اٹھا سکے مگر اس وجہ سے کہ وہ عام لوگوں سے مخفی ہوتے ہیں ان کے نشان ہونے میں کوئی فرق نہیں آسکتا.اور جو لوگ حقیقت تک پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں دہ بے شک ان سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں جن لوگوں کی نگاہ ظاہر پر ہوتی ہے انہیں تو قانون قدرت کے ماتحت وہ ایک عام بات نظر آتی ہے لیکن اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں مختلف دنیاوی امور بیان کرنے کے بعد فرمایا - إِنَّ فِي ذَلِكَ لَعِبُرَةً لِأُولِي الاَبْصَارِ.سه یعنی ظاہری قواعد کو دیکھ کر نہیں بیٹھ جانا چاہئے کیونکہ پہاڑوں میں، سمندروں میں، دریاؤں میں، ان میں چلنے والی
خطبات محمود ۲۹۵ جلد سوم کشتیوں میں، غرضیکہ ہر چیز میں خدا تعالیٰ کے نشان نظر آسکتے ہیں.حقیقت تک پہنچنے کی کوشش کرنے والا غور کرتا ہے کہ خدا تعالٰی نے ان دریاؤں میں کیا فوائد رکھے ہیں، لکڑی کی بنی ہوئی کشتی پانی میں کیوں تیرتی ہے، پہاڑ، سمند ر وغیرہ انسانوں کو کیا فائدہ پہنچاتے ہیں اور پھر انسان کی پیدائش سے پہلے ان سب کو کیوں پیدا کیا.ان باتوں پر غور کرنے سے وہ سمجھ جاتا ہے کہ کائنات عالم کا ہر ذرہ ایک نشان ہے.جب ظاہری اور مادی دنیا کی ہر چیز اور اس کا ایک ایک ذرہ اپنے اندر نشان رکھتا ہے تو روحانی دنیا سے تعلق رکھنے والی ہر شے کیوں نشان نہ ہو گی.اگر مادی سورج، چاند، سمندر، پہاڑ، لکڑی، لوہا، زمین، آسمان غرضیکہ ہر چیز ایک نشان ہے تو روحانی زمین و آسمان، روحانی چاند سورج وغیرہ کتنے بڑے نشان ہوں گے لیکن بات یہ ہے کہ ہر ایک کی نگاہ اتنی وسیع نہیں ہوتی اور نہ ہر انسان حقیقت کو دیکھ سکتا ہے.جس طرح ساری دنیا کے اموال ایک ہاتھ میں جمع نہیں ہو سکتے اسی طرح روحانی اموال کا حال ہے.دنیا کے بڑے بڑے بادشاہ بھی سب چیزوں کے مالک نہیں ہوتے وہ بعض کے مالک ہوتے ہیں بعض کے بالواسطہ مالک ہوتے ہیں اور بعض کے مالک نہیں ہوتے.ان کی رعایا کے لوگ اپنے اپنے گھروں، زمینوں، کنووں کے خود مالک ہوتے ہیں.یہی حال روحانی علوم کا ہے کوئی بڑے سے بڑا انسان بھی تمام روحانی اموال کا مالک نہیں سکتا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ قرآن کریم میں بعض ایسی پیشگوئیاں ہیں جن کا حقیقی مفہوم رسول کریم ﷺ پر بھی نہ کھلا.بعض نادان سمجھتے ہیں یہ ہتک اور گستاخی ہے حالانکہ یہ غلط ہے اور اس کا ثبوت دنیاوی سلسلہ پر غور کرنے سے مل سکتا ہے کیونکہ روحانی اور دنیاوی سلسلے ساتھ ساتھ چلتے ہیں.جس طرح دنیاوی بادشاہ بعض اشیاء کا مالک ہوتا ہے لیکن اس سے آگے ملکیت در ملکیت بھی ہوتی ہے.مگر پھر بھی بادشاہ ہی مالک ہوتا ہے کیونکہ جب وہ رعایا کے تمام افراد کا مالک ہے تو ان کی مملوکہ اشیاء کا مالک بھی ہو گا.غرض ایک ملکیت تو براہ راست ہوتی ہے اور ایک قبضہ و تصرف والی ملکیت ہوتی ہے بعض اشیاء پر بادشاہ کو بادشاہت کے لحاظ سے تو ملکیت حاصل ہوتی ہے مگر قبضہ و تصرف کے لحاظ سے نہیں ہوتی.قبضہ و تصرف کی ملکیت اس کو حاصل ہوتی ہے جس کے کھاتہ میں اس کا اندراج ہوتا ہے اور اس کے متعلق خرید و فروخت کرنے کا حق بھی اسی کو ہوتا ہے.ہندوستان کی زمین گورنمنٹ کی ملکیت ہے مگر باوجود اس کے انگریز لوگوں سے ان کی زمینیں یونسی لے نہیں سکتے اگر چہ بادشاہ
خطبات محمود hbd جلد سوم ہونے کے لحاظ سے وہ مالک ہیں.اسی طرح روحانیت کا سلسلہ ہے.بادشاہی کے لحاظ سے تو تمام روحانی اموال اس زمانہ کے نبی کی ملکیت ہوتے ہیں مگر آئندہ زمانوں میں حالات کے مطابق خدا تعالی جس حصہ کا تصرف کسی کے حوالہ کرتا ہے وہ اس کی ملکیت ہو جاتا ہے.مثلاً کسی کو قرآن کریم کی کسی آیت کی کوئی خاص تغییر سمجھادی.کسی کو کسی حدیث کے نئے معنے بتا دیئے ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ یہ معنے رسول کریم ﷺ پر بھی کھلے تھے گو سب حقائق و معارف کے مالک آپ ہی ہیں اور آپ کے فیض سے ہی دوسروں کو یہ نعمت حاصل ہوتی ہے.اللہ تعالی کی طرف سے جو نشان آتے ہیں وہ مختلف اقسام میں منقسم ہوتے ہیں اصل تو وہی ہوتے ہیں جو انبیاء سے تعلق رکھتے ہیں لیکن آگے ان کے ماننے والے، ان کی اولادیں، رشتہ دار اور بیوی بچے سب نشان ہوتے ہیں جو بادشاہت کے لحاظ سے تو اس نبی کی ملکیت ہوتے ہیں جس کی طرف وہ شخص منسوب ہوتا ہے لیکن تصرف کے لحاظ سے اس فرد کی طرف منسوب ہوں گے جسے دیئے جائیں گے.غرض جس طرح دنیا کا ہر ایک ذرہ نشان ہوتا ہے اسی طرح جو خدا تعالیٰ کی طرف سے مامور آتے ہیں ان سے تعلق رکھنے والا ہر فرد بھی ایک نشان ہوتا ہے اور میں تو یہ یقین رکھتا ہوں کہ کوئی کمزور سے کمزور احمدی بلکہ منافق احمدی اور اس سے بھی بڑھ کر مرتد احمدی بھی ایسا نہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا نشان نہ ہو کیونکہ جو چیز آگ سے ایک دفعہ چھو جاتی ہے وہ خواہ بعد میں علیحدہ ہو جائے تو بھی ایک عرصہ تک اس کا اثر ضرور اس میں رہتا ہے.اسی رنگ میں مجھے جماعت احمدیہ کے نکاح بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے نشان نظر آتے ہیں.لوگوں نے ایک مثال بنائی ہے جو اگرچہ ہے تو تحقیر کے لئے لیکن نبی کے زمانہ میں وہ ایک نشان بن جاتی ہے کہتے ہیں کہیں کی اینٹ کہیں کا روڑا بھان متی نے کنبہ جوڑا " خونی رشتوں کے تعلقات ایک عظیم الشان چیز ہیں کہ انسان اس کے لئے ہر قربانی کرنے کے لئے تیار ہو جاتا ہے مگر انبیاء کے زمانہ میں آکر ایسی روح پیدا ہوتی ہے کہ قوم، ملک، اخلاق، تمدن و تہذیب، میل ملاقات، رشتہ داریاں، زبان و غیرہ تمام حد بندیاں ٹوٹ جاتی ہیں اور کہیں کے لوگ کہیں جاملتے ہیں.ان کو اس طرح ملانے والی ظاہری چیز کوئی نظر نہیں آتی سوائے اس کے کہ وہ کہہ چکے ہوتے ہیں.رَبَّنَا إِنَّنَا سَمِعْنَا مُنَادِ يَا يُنَادِى لِلْإِيمَانِ أَنْ امِنُوا بِرَتِكُمْ فَا مَنَا رَبَّنَا
خطبات ۲۹۷ چنده منو کے وہ سب کے سب "نا" میں جمع ہو جاتے اور پھر ایسے رشتے جوڑتے ہیں.الا ماشاء اللہ جس کی نظیر نہیں مل سکتی اور وہ آپس میں بہت ہی محبت و پیار سے رہتے ہیں.ہندوستانی شرفاء میں یورپین عورت سے شادی تک سمجھی جاتی ہے اور یورپین لوگ بھی ہندوستانی عورت سے شادی پسند نہیں کرتے.مگر ہماری جماعت میں یہ بھی تمیز نہیں.پھر نہ پنجابی ہندوستانی کو حقیر سمجھتا ہے اور نہ ہندوستانی پنجابی کو ذلیل خیال کرتا ہے ان سب میں صرف یہی جوڑ ہے کہ وہ اتنا کہ چکے ہیں اور اس لئے نسب میں ایک رشتہ قائم ہو گیا ہے.ہماری جماعت کے رشتے بھی ایک نشان ہیں اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت کا ثبوت ہیں.ایک شدید مخالف حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں آپ کے پاس آیا اور بڑی شوخی سے کہنے لگا آپ مجھے نشان رکھا ئیں.آپ نے فرمایا تم خود میری صداقت کا نشان ہو.ت جب کوئی میرا اور قادیان کا نام بھی نہ جانتا تھا مجھے خدا تعالٰی نے خبردی تھی یا تیگ مِن كُلِّ فَجٍّ عَمِيق - شے کہ لوگ دور دور سے تیرے پاس چل کر آئیں گے اور تم چل کر آئے ہو اس لئے میرا نشان ہو.دراصل توجہ کا ہونا خواہ وہ مخالفت کے رنگ میں ہی ہو خدا کے فضل سے ہی ہوتا ہے.مولوی یار محمد ہمیشہ مجھے لکھتا رہتا ہے کہ تم میری طرف توجہ کیوں نہیں کرتے اور نہیں تو مخالفت ہی کرد - چکڑالویوں کا ایک رسالہ نکلتا ہے جس کے ایڈیٹر مولوی حشمت علی ہیں انہوں نے مجھے لکھا میں چھ ماہ سے رسالہ آپ کو بھیج رہا ہوں مگر آپ اس کے متعلق الفضل میں کچھ بھی نہیں لکھتے.آپ تائید نہ کریں خلاف تو لکھیں.لیکن حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی شدید مخالفت ہوئی اور یہ بھی آپ کے صداقت پر ہونے کا ثبوت ہے.اگر انسان آنکھیں کھول کر دیکھے تو ہر وہ چیز جو آپ سے نسبت رکھتی ہے ایک نشان ہے.میں لکھو گیا.وہاں ندوہ میں ایک مولوی عبد الکریم سلسلہ کے سخت مخالف تھے مگر میرے جانے سے انہوں نے مخالفت کا خاص سلسلہ شروع کر دیا.وہ با قاعدہ لیکچر دینے لگے.ایک لیکچر میں انہوں نے کہا مجھ سے مرزا حیرت نے بیان کیا کہ مرزا صاحب جب دہلی میں آئے تو میں جعلی طور پر انسپکٹر پولیس بن کر ان کے مکان پر گیا اور کہا مرزا صاحب کو فور ابلاؤ میں ملنا چاہتا ہوں.کسی نے کہا وہ اس وقت کھانا کھا رہے ہیں.میں نے کہا کوئی پروا نہیں میں انسپکٹر پولیس ہوں اور فوراً ملنا چاہتا ہوں.مرزا صاحب نے میری یہ بات سن لی اور ننگے سر ہی دوڑتے ہوئے آئے اور جلدی جلدی اترنے کی وجہ سے ان کا پاؤں پھسل گیا اور گر پڑے.یہ واقعہ بیان کر کے وہ
خطبات محمود ٢٩٨ جلد سوم خوب ہنسا کہ یہ نبی ہے.مگر خدا تعالٰی کی عجیب حکمت ہے اسی رات کوٹھے پر سے اس کا پاؤں پھسلا اور وہ پہنچے اگر ا اور مرگیا.تو اس نے جس رنگ میں استہزاء کیا تھا وہی آپ کی صداقت کے لئے ایک نشان بن گیا.غرض اللہ تعالٰی کے مامورین سے تعلق رکھنے والی ہر چیز ایک نشان ہوتی ہے اور جس چیز کو دشمن ان کے ذلیل کرنے کے لئے استعمال کرتا ہے وہی ان کی صداقت پر نشان ہو جاتی ہے.اس بات سے ہم یہ سبق حاصل کر سکتے ہیں کہ اگر انسان کے دل میں تڑپ ہو کہ میں خدا تعالیٰ کا کوئی نشان دیکھوں اور اپنے ایمان کو تازہ کروں تو اس کا طریق یہی ہے کہ زمانہ کے مامور سے گہرا تعلق پیدا کرے اس کے بعد انسان کی اپنی ذات، اس کے بیوی بچے، اس کا کھانا پینا، بیٹھنا اٹھنا، سونا جاگنا سب کچھ ایک نشان بن جاتا ہے.اس وقت میں جس نکاح کے اعلان کے لئے کھڑا ہوا ہوں وہ بھی ایک نشان ہے کیونکہ لڑکا حیدر آباد دکن کا رہنے والا ہے اور لڑکی لاہور کی رہنے والی ہے.دونوں کی نہ تو زبان ایک ہے، نه اطوار، نہ تمدن و تہذیب ایک.مگر دونوں اُمَنَّا کی لڑی میں پروئے جاچکے ہیں اور اسی تعلق کی بناء پر یہ ظاہری رشتہ بھی قائم ہو رہا ہے.اور اگر چشم بصیرت ہو تو یہ بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت کا ایک نشان ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے آنے کی غرض یہ تھی کہ دنیا کو ایک کر دیں اور اس سلسلہ کی پہلی منزل یہی ہے کہ پہلے آپس میں رشتہ داریاں ہو کر ظاہری اتحاد قائم ہو اور اس سے ترقی کر کے آگے ہر چیز میں کامل اتحاد اور یگانگت پیدا ہو جاتی ہے.سیٹھ محمد غوث صاحب جو حیدر آباد کے رہنے والے مخلص اور سلسلہ کے پرانے خادم ہیں اور قادیان میں بھی اکثر آتے رہتے ہیں حالانکہ ایسے کاروباری لوگ عام طور پر یہاں نہیں آسکتے.ان کے لڑکے محمد اعظم صاحب کا نکاح حکیم محمد حسین صاحب قریشی (لاہور) کی لڑکی سے قرار پایا ہے.قریشی صاحب سیٹھ صاحب سے بھی پرانے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام کے اولین صحابہ میں سے ہیں.ه الفضل ۲۶ مئی ۱۹۳۰ء صفحه ۲ له النور : ۴۵ کے ازالہ اوہام حصہ اول صفحه ۲۰۷ روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۳۰۷ الفضل ۲۷ - مئی ۱۹۳۰ء صفحه ۶۴۵) که اول عمران : ۱۹۴ ے تذکرہ صفحہ ۲۰- ایڈیشن چهارم
۲۹۹ 29 جلد سوم فریقین کی عدم موجودگی میں نکاح (فرموده یکم مارچ ۱۹۳۱ء) کم مارچ ۱۹۳۱ء کو بعد نماز ظهر مسجد مبارک میں حضرت طلیقہ البیع الثانی نے حکیم خلیل احمد صاحب مونگیری کا نکاح زبیدہ خاتون بنت خان ذو الفقار علی خان صاحب کے ساتھ دو ہزار روپیہ مہر پر پڑھا.خطبہ مسنونہ کی تلاوت کے بعد فرمایا :- میں ایک نکاح کا اعلان کرنے کے لئے کھڑا ہوا ہوں جو خاں صاحب ذوالفقار علی خان صاحب کی لڑکی زبیدہ خاتون کا حکیم خلیل احمد صاحب مو نکھیری کے ساتھ قرار پایا ہے چونکہ دونوں فریق میں سے اس جگہ کوئی نہیں اس لئے کسی ایسے خطبہ کی ضرورت بھی نہیں جو دونوں فریق کو ان کے فرائض کی طرف توجہ دلانے کے لئے ضروری ہو.میں اس وقت صرف ان دونوں احباب کی خواہش کے مطابق کہ اس نکاح کا اعلان مسجد مبارک میں ہوتا یہ خیر اور برکت کا موجب ہو اعلان کرتا ہوں.مہر دو ہزار روپیہ قرار پایا ہے.دوست دعا کریں اللہ تعالٰی اس نکاح کو بابرکت کرے.(الفضل ۱۷- مارچ ۱۹۳۱ء صفحه ۵)
خطبات محمود ۸۰ لڑکی والوں کی طرف سے مطالبات درست نہیں (فرموده ۲۷ - مارچ ۱۹۳۱ء) ۲۷- مارچ ۱۹۳۱ء بروز جمعہ حضرت خلیفہ المسح الثانی مسجد اقصی میں خطبہ جمعہ پڑھنے کے لئے کھڑے ہوئے تو فرمایا : خطبہ شروع کرنے سے پہلے میں ایک نکاح اے کا اعلان کرنا چاہتا ہوں لیکن ساتھ ہی اس امر کی طرف اپنی جماعت کو متوجہ کرنا چاہتا ہوں کہ رسمیں خواہ کسی رنگ میں ہوں بری ہوتی ہیں.اور مجھے افسوس ہے کہ ہماری جماعت کے لوگوں نے اگر بعض رسمیں مٹائی ہیں تو دوسری شکل میں بعض اختیار کرلی ہیں.نکاحوں کے موقع پر پہلے تو گھروں میں فیصلہ کر لیا جاتا تھا کہ اتنے زیور اور کپڑے لئے جائیں گے پھر آہستہ آہستہ ایسی شرائط تحریروں میں آنے لگیں پھر میرے سامنے بھی پیش ہونے لگیں.شریعت نے صرف صر مقرر کیا ہے اس کے علاوہ لڑکی والوں کی طرف سے زیور اور کپڑے کا مطالبہ ہونا بے حیائی ہے اور لڑکی بیچنے کے سوا اس کے اور کوئی معنے میری سمجھ میں نہیں آئے.یہ خاوند کا کام ہے کہ اپنی بیوی کے لئے جو تحائف مناسب سمجھے لائے اسے مجبور کر کے تحائف لینا ایسا ہی ہے جیسے کوئی کسی کو گردن سے پکڑے اور اس کے منہ پر مکا مار کر کہے مجھے چومو.وہ بھی کوئی پیار ہے جو مار کر کرایا جائے.اسی طرح وہ کیا تحفہ ہے جو مجبور کر کے اور کہہ کر اگر یہ چیزیں نہ دو گے تو لڑکی نہیں دی جائے گی وصول کیا جائے.یہ تحفہ نہیں بلکہ جرمانہ ہو گا جس سے محبت نہیں بڑھ سکتی.
خطبات محمود جلد سوم میں آئندہ کے لئے اعلان کرتا ہوں کہ اگر مجھے علم ہو گیا کہ کسی نکاح کے لئے زیور اور کپڑے کی شرائط لگائی گئی ہیں یا لڑکی والوں نے ایسی تحریک بھی کی ہے تو ایسے نکاح کا اعلان میں نہیں کروں گا.اگر تم نے واقع میں اسلام قبول کیا ہے اور اپنی اصلاح کرنا چاہتے ہو تو اصطلاح کی صحیح صورت اختیار کرو.ایک طرف سے غلاظت پونچھ کر دوسری طرف لگا لیتا صفائی نہیں.فضول رسمیں قوم کی گردن میں زنجیریں اور طوق ہوتے ہیں جو اسے ذلت اور ادبار کے گڑھے میں گرا دیتے ہیں اسلام ان سے منع کرتا اور اعتدال سکھاتا ہے.اور جہاں ان لوگوں کے خلاف اظہار نفرت و حقارت کرتا ہے جو اپنی بیوی کے لئے کسی قسم کا ہدیہ لانا نا جائز سمجھتے ہیں کیونکہ ہدیہ و دار اور محبت کے ازدیاد کا ذریعہ ہوتا ہے وہاں ان کو بھی نفرت کی نگاہ سے دیکھتا ہے جو مجبور کر کے ہدایا اور تحائف وصول کرتے ہیں.اگر یہ ناجائز ہے کہ شادی کے تحائف اور ہدایا رو کر دئیے جائیں اور ان کو قبول کرنے سے انکار کر دیا جائے تو یہ بھی ناجائز ہے کہ کسی کو مجبور کیا جائے کہ ضرور تحائف دو.یہ دونوں باتیں شریعت کے خلاف ہیں.اسلامی است وسطی امت ہے جسے ہر بات میں درمیانہ طریق اختیار کرنے کا حکم ہے.غریب آدمی آہستہ آہستہ مر تو ادا کر سکتا ہے مگر زیور اور کپڑے کے لئے اسے ضرور قرض لینا پڑے گا.اگر یہ رسم جاری ہو گئی تو اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ یا تو لوگ لڑکیوں کو گھروں میں بٹھانے پر مجبور ہوں گے جس سے ان کی اخلاقی حالت کے خراب ہونے کا خطرہ ہو گا یا پھر قرض اٹھانے کی وجہ سے جماعت کی تمدنی حالت بگڑ جائے گی.اس سے زیادہ بیوقوف کون ہو سکتا ہے جو اپنی لڑکی مقروض خاوند کو دیتا ہے جو خاوند رات دن اسی غم میں گھلتا رہتا ہے کہ قرض کس طرح ادا ہو وہ بیوی کو کیا آرام و آسائش پہنچا سکتا ہے.پھر خون جگر پینے والے کی اولاد بھی منحنی، کمزور، کم ہمت اور دائم المریض ہوگی.شریعت چاہتی ہے کہ ہر انسان آزاد ہو اور مقروض آزاد نہیں ہوتا اس کے امد ر جرات اور دلیری نہیں ہوتی جب اور کہیں سے قرض نہ ملے تو ہندوؤں کے پاس جانا پڑے گا اور سودی قرضہ لینا پڑے گا.شاید کوئی کہہ دے مالدار لوگ بھی تو ہوتے ہیں مگر مالدار کے لئے شریعت نے اس کی حیثیت کے مطابق مہر رکھا ہے باقی زیور اور کپڑے وغیرہ محبت کے لئے ہیں تو خاوند اپنی مرضی سے خود دے گا لیکن مجبور کرنے سے محبت نہیں پیدا ہو سکتی.بغیر اشارہ کے اپنی خوشی سے خواہ کوئی دس کروڑ کی مالیت کے تحائف لے آئے لیکن جب فیصلہ کیا جائے کہ اتنا زیور اور کپڑا ضرور لاؤ تو یہ سودا ہے جس سے
خطبات محمود ٣٠٢ جلد سوم خوشی و انبساط نہیں بلکہ جھگڑا پیدا ہو گا.پس آئندہ ہماری جماعت میں اس قسم کی باتیں قطعاً نہیں ہونی چاہئیں.پہلا اعلان تو ابھی میں یہی کرتا ہوں کہ اگر لڑکی والوں کی طرف سے زیو ریا کپڑے کے لئے اشارہ بھی تحریک کی گئی تو میں ایسے نکاح کا اعلان ہرگز نہیں کروں گا بشرطیکہ مجھے علم ہو جائے.ہاں اگر علم نہ ہوا تو اور بات ہے.اگر اس سے بھی یہ سلسلہ بند نہ ہوا اور رسم جاری رہی تو اسے روکنے کے لئے اور کوئی مناسب قدم اٹھاؤں گا.مہر شریعت کے مطابق ضرور رکھو اور اتنا رکھو جو خاوند کو تکلیف میں نہ ڈالے.اس کے بعد اس کی مرضی پر چھوڑ دو کہ بطور تحفہ جو کچھ مناسب سمجھے خواہ زیور اور کپڑے ہزاروں لاکھوں کے لے آئے اور خواہ ایک پیسہ کے بھی نہ لائے.اگر اسے محبت ہوگی تو وہ خود بخود بطور تحفہ اپنی حیثیت کے مطابق کچھ نہ کچھ لائے گا.کیونکہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا ہے تحائف دینے سے محبت بڑھتی ہے کہ اور دنیا میں کون ایسا عظمند ہے جو یہ نہ چاہے کہ بیوی سے محبت ہو.اگر دونوں میں محبت نہ ہوگی تو اسے خود کس طرح آرام کی توقع ہو سکتی ہے جو خوشی سے لانے کے لئے تیار نہیں وہ بخیل ہے.اور بخیل پر جبر کر کے اس سے مال خرچ کرایا جائے تو وہ اور زیادہ رنجیدہ ہو جاتا ہے.پس جسے توفیق اور استطاعت ہے اور ساتھ شوق بھی وہ خود کچھ نہ کچھ لائے گا اور جس کے پاس تو ہے مگر شوق نہیں اسے مجبور کر کے کچھ لینا فساد کی بنیاد ڈالنا ہے پھر جسے توفیق اور استطاعت ہی نہیں اور جس کے پاس مال نہیں اسے خواہ مخواہ مقروض کرنا اور تکلیف میں ڈالنا نادانی ہے اس سے اپنی لڑکی کو بھی آرام نہیں مل سکے گا.ے فریقین کا الفضل سے تعین نہیں ہو سکا.ه موطا امام مالک کتاب الجامع باب ما جاء في المهاجرة الفضل ۷.اپریل ۱۹۳۱ء صفحہ ۵)
خطبات محمود Al چند موم اللہ تعالی کی رضا مد نظر رکھنے سے رحمت کے دروازے کھل جاتے ہیں (فرموده ۲۹ مارچ ۱۹۳۱ء) ۲۹ مارچ ۱۹۳۱ء بعد نماز ظہر حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے ایک نکاح سلے کا اعلان فرمایا.خطبہ مسنونہ کی تلاوت کے بعد فرمایا :- یہ عجیب بات ہے دنیا میں اکثر انسان یہی شور کرتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ ہمیں آزادی نہیں اور یہ کہ ان کے ملک یا ان کی قوم پر یا ان کے گروہ اور ان کے جتھے پر یا ان کی انجمن پریا ان کے سکول یا کالج پر یا ان کے کارخانہ میں یا ان کی تجارتی کو ٹھی میں کسی ایک شخص کی حکومت ہے یا دو کی یا تین کی باقی اس سے محروم ہیں اور حریت کے معنے یہ سمجھے جاتے ہیں کہ انسان اپنی منشاء کے مطابق عمل نہیں کر سکتا.لیکن اگر ہم حقیقت پر غور کریں اور واقعات پر جس صورت میں موجود ہیں نگاہ ڈالیں تو معلوم ہوتا ہے کہ در حقیقت کسی پر کسی دوسرے کی حکومت بہت کم ہے بلکہ عام طور پر انسان پر اس کے اپنے نفس کی حکومت ہوتی ہے.بظا ہر جب انسان دوسرے کی حکومت تسلیم کر رہا ہوتا ہے اس وقت بھی وہ اپنی ہی فرمانبرداری اور اطاعت کر رہا ہوتا ہے اور پھر جن امور میں وہ اطاعت کر رہا ہوتا ہے اگر ہم غور کریں تو ان کی تعداد ان امور کے مقابلہ میں جن میں وہ اپنی مرضی کے مطابق کام کر رہا ہوتا ہے بہت تھوڑی ہوتی ہے.اول تو انسان اپنی ہی اطاعت کرتا ہے لیکن جن کاموں میں وہ یہ خیال کرتا ہے کہ ان میں وہ
خطبات محمود ۳۰۴ جلد سوم دوسروں کی اطاعت کر رہا ہے ان میں بھی دوسروں کی اطاعت نہایت محدود اور تنگ دائرہ میں محصور ہوتی ہے زیادہ تر اس کے وہی کام ہوتے ہیں جو کسی کے ماتحت نہیں ہوتے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ دنیا میں دوسرے کی اطاعت اور فرمانبرداری یا یوں کہو کہ صحیح اطاعت اور فرمانبرداری بہت کم ہے.چنانچہ قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ اَكْثَرُهُمُ الْفَاسِقُونَ - له فاسق کے معنے ہیں اطاعت سے نکل جانے والا یعنی دنیا میں اکثر لوگ اطاعت سے باہر ہیں.بہت تھوڑے ہیں جو اطاعت کے دائرہ کے اندر ہوتے ہیں جب اکثر لوگ صحیح اطاعت سے باہر ہیں تو اطاعت کا تجربہ بھی انہیں نہ ہوا اگر وہ صحیح اطاعت کرتے تو اپنے آپ کو غلام بھی نہ سمجھتے.کیونکہ صحیح اطاعت یعنی وہ جو خدا کے منشاء کے ماتحت ہو انسان کو غلام رکھ ہی نہیں سکتی.ایسی اطاعت کا لازمی نتیجہ آزادی، حریت اور لوگوں کی رہنمائی ہے.چنانچہ حضرت ابراہیم علیہ السلام جن کی اطاعت کی خدا نے ان الفاظ میں گواہی دی ہے کہ جب انہیں کہا گیا اسلم تو انہوں نے کہا اسلمُتُ لِرَتِ العَلَمینَ.سے یعنی انہیں کہا گیا پورے طور پر فرمانبردار ہو جاؤ تو انہوں نے پوری فرمانبرداری کی.مگر فرمانبرداری کا مفہوم انہوں نے کیا سمجھا یہی کہ وَاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِينَ اِما ما.سے وہ خوب جانتے تھے کہ حقیقی اطاعت لوگوں کو غلامی میں نہیں رکھ سکتی؟ بلکہ انہیں سرداری تک پہنچاتی ہے.اس لئے انہوں نے دعا کی کہ خدایا مجھے بھی سرداری بخش - وَمِنْ ذُريتي - شے اور میری اولاد میں سے بھی جو تیری کامل فرمانبرداری کریں انہیں بھی اس مقام پر پہنچا.در اصل فرمانبرداریاں اور سرداریاں دونوں خدا کی طرف سے آتی ہیں.يُضِلُّ مَنْ يَشَاءُ وَيَهْدِي مَنْ يَشَاءُ - له جد و جہد بھی ہوتی ہے مگر اس کی توفیق بھی خدا کی طرف سے ہی ملتی ہے سامان بھی خدا کی طرف سے پیدا ہوتے ہیں.اور نتائج بھی اسی کی طرف سے مترتب ہوتے ہیں.اگر انسان اس پر غور کرے تو اس کے منہ سے بے اختیار الحمد للہ نکلے گا کیونکہ کامل فرمانبرداری کے نتیجہ میں ہی کامل محمد پیدا ہوتی ہے اور جب حمدہ صحیح اللہ تعالی ہی کی ہو سکتی ہے اور چونکہ صحیح انعام اس کی طرف سے آتا ہے اس لئے صحیح اطاعت بھی اسی کی ہوتی ہے یہی وجہ ہے کہ اَلحَمدُ لِلَّهِ رَبِّ العَلَمِینَ.کہ کے آگے یہ نتیجہ نکالا ہے کہ ایاک نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينَ - شه عبودیت تامہ کسی ایسی ذات کی نہیں ہو سکتی جو صحیح احکام نہ دے سکے.سو حقیقی اطاعت اس کے لئے ہے جس کے لئے حقیقی حمد ہے اور وہ خدا تعالیٰ ہی ہے.پھر ظل کے طور پر جو اس
خطبات محمود ۳۰۵ جلد سوم کے مظہر ہوتے ہیں جیسے انبیاء اور خلفاء وغیرہ ان کی اطاعت کرنا بھی ضروری ہے چنانچہ اللہ تعالی فرماتا ہے.وَمَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ فَازَ فَوْزًا عَظِيمًا - سے جو خدا اور رسول کی اطاعت کرے گا وہ کامیاب ہو جائے گا تو حمد کے جواب میں اللہ تعالٰی نے عبودیت کو رکھا اور اطاعت کے جواب میں فوز فرمایا جس کا مطلب یہی ہے کہ اطاعت سے نوز اور حمد سے اطاعت پیدا ہوتی ہے.کامل محمد سے کامل اطاعت پیدا ہو گی اور کامل اطاعت کے بدلے فیضان الھی نازل ہوں گے.اس پر انسان اور حمد کرے گا اور خدا کے فضل زیادہ سے زیادہ نازل ہوتے رہیں گے.پس حقیقی کامیابی کاگر اطاعت ہے اور جب یہ اطاعت خدا کے لئے نہ ہو تو فسادات پیدا ہوتے ہیں اس لئے کہ ان چیزوں کے آگے سرجھکایا جاتا ہے جن کی اطاعت جائز نہیں ہوتی.اگر کوئی شخص اپنے خیال میں اطاعت کرتا ہے مگر نتیجہ پیدا نہیں ہوتا تو سمجھ لے دراصل وہ اطاعت نہیں کر رہا.ایک بزرگ نے تمثیل دی ہے کہ ایک لڑکی بیمار ہوئی اس کی والدہ یہ خیال کیا کرتی تھی کہ مجھے اس سے بڑی محبت ہے اور وہ دعا کیا کرتی کہ اگر ملک الموت نے روح قبض کرنی ہو تو میری کرے.میری لڑکی کو کچھ نہ کہے.اتفاقاً ایک رات اس کی گائے گھر میں کھلی رہ گئی.جس نے صحن میں ادھر ادھر پھر کر برتنوں میں منہ ڈالنا شروع کر دیا.ایک برتن میں اس کا سر پھنس گیا اس پر وہ گھبرا کر صحن میں دوڑنے لگی.لڑکی کی ماں اس شور سے جاگ اٹھی اس نے جو دیکھا کہ کوئی چار لاتوں والی چیز ہے اور اس کے منہ کے آگے ایک بڑا سا برتن ہے تو وہ ڈری اور سمجھی کہ یہی ملک الموت ہے جو میری جان نکالنے آیا ہے جب اسے موت سامنے نظر آئی تو بے اختیار ہو کر کہنے لگی ملک الموت میں میتی نہیں بلکہ بیمار لڑکی کی طرف اشارہ کر کے کہنے لگی میتی وہ ہے اس کی جان نکال لے.تو بسا اوقات انسان خیال کرتا ہے کہ مجھے فلاں سے بڑی محبت ہے مگر دراصل حقیقی محبت نہیں ہوتی.اسی طرح اگر کوئی شخص اطاعت کر رہا ہو لیکن اپنے اندر کمی محسوس کرے اور یہ خیال کرے کہ میں غلامی کی طرف جا رہا ہوں تو وہ سمجھ لے کہ یا تو وہ حقیقی اطاعت نہیں کر رہا یا شیطان کی اطاعت کر رہا ہے ورنہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ خدا کی باتیں پوری نہ ہوں اللہ تعالی فرما چکا ہے.وَمَنْ تُطِعِ اللهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ فَازَ فَوْزًا عَظِيمًا - جو اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرے وہ بہت بڑی کامیابی حاصل کرتا ہے اور جسے کامیابی
خطبات محمود جلد سوم حاصل ہو وہ تو کبھی شکوہ نہیں کرتا.نکاح کے متعلق جو رسول کریم ﷺ نے ان آیتوں کو چنا ہے تو ان میں یہی حکمت ہے کہ نکاح میں بھی ایک اطاعت ہوتی ہے.بیسیوں مرد میں نے دیکھے جو شکایت کرتے ہیں کہ عورتیں ان کی خدمت نہیں کرتیں اور بیسیوں عورتیں ایسی ہیں جو شکایت کرتی رہتی ہیں کہ مردان پر ظلم اور تعدی کرتے ہیں خدا تعالٰی فرماتا ہے تم اگر ایک دوسرے کو اپنی ذات میں خوش کرنے کی بجائے اس لئے خوش کرنے کی کوشش کرو کہ یہ اللہ کا حکم ہے تو اس کا نتیجہ بہت خوشگوار ہوگا.میاں بیوی کی اطاعت کرے اور بیوی میاں کی اطاعت کرے اس لئے کہ یہ خدا کا حکم ہے تو ہمیشہ نتیجہ اچھا ہوتا ہے.بیسیوں باتیں ہیں جن میں خاوند کو بیوی کی اطاعت کرنی پڑتی ہے اور بیسیوں باتیں ایسی ہیں جن میں بیوی کو خاوند کی اطاعت کرنی پڑتی ہے.کوئی خاوند نہیں جو بیوی کی نہ مانے اور کوئی بیوی نہیں ہے جسے کئی باتیں اپنے خاوند کی نہ مانی پڑیں.یہ علیحدہ بات ہے کہ کئی زور سے منواتے ہیں اور کئی محبت سے مگر چاہے وہ غلط طریق سے منوائیں یا صحیح طریق سے انہیں ایک دوسرے کی اطاعت کرنی پڑتی ہے.ان آیات میں اس امر کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ خدا تعالیٰ کی رضا کے لئے ایک دوسرے کی اطاعت کی جائے اور ایک دوسرے کو محض خدا کے لئے خوش رکھنے کی کوشش کی جائے تو نتیجہ اچھا پیدا ہو گا.ہو نہیں سکتا ایک شخص خدا کی رضا کے لئے کام کرے اس کے احکام پر عمل کرے اور پھر اسے ایسا دکھ پہنچے جو اسے تباہ کر دے.انسان کیا چیز ہے اللہ تعالیٰ تو وہ ہستی ہے جو ایک ہی لحظہ میں زمین و آسمان کو تباہ کر سکتا ہے اور کوئی انسان اس کے قبضہ اور تصرف سے باہر نہیں.ایران کے بادشاہ نے ایک دفعہ اپنے گورنر یمن کو لکھا کہ میں نے سنا ہے عرب میں ایک شخص نے رسالت کا دعویٰ کیا ہے میرا یہ حکم جس وقت پہنچے اسی وقت اسے گرفتار کر کے میرے پاس بھیج دیا جائے.گور نریمن نے اپنے سپاہی بھیجے جب وہ رسول کریم ﷺ کے پاس پہنچے اور آپ سے انہوں نے شاہ ایران کے پیغام کا کا ذکر کیا تو آپ نے فرمایا ٹھہرو صبح میں اس کا جواب دوں گا.صبح کے وقت آپ نے فرمایا تمہارے خدا کو میرے خدا نے آج رات ہلاک کر دیا ہے.گور نر ا ر سو ل ا م ر م م ا ا ا ا ا ا ا ا ا یہ جواب سن کر حیران رہ گیا اور کہنے لگا ایسا دلیری کا جواب جھوٹا شخص نہیں دے سکتا.بہر حال اس نے کہا میں انتظار کروں گا اور دیکھوں گا کہ یہ بات کس طرح پوری ہوتی ہے.کچھ دنوں
خطبات محمود جلد سوم کے بعد گور نریمن کے نام شاہ ایران کا ایک خط آیا جسے دیکھتے ہی اس نے سمجھ لیا کہ کوئی خاص بات ہے کیونکہ مرنے بادشاہ کی تھی جب اس نے خط کھولا تو وہ پہلے بادشاہ کے لڑکے کی طرف سے تھا اس میں اس نے لکھا تھا.میں نے اپنے باپ کو اس کے ظلموں کی وجہ سے قتل کر دیا ہے اب میں اس کی جگہ بادشاہ ہوں تم سارے امراء سے میری اطاعت کا اقرار لو.اس وقت معلوم ہوا کہ اسی تاریخ کو ایران کا بادشاہ قتل کیا گیا تھا جس تاریخ کو رسول کریم ﷺ نے فرمایا تھا.اسی خط میں اس نے یہ بھی لکھا کہ میرے باپ نے بہت سے ظالمانہ احکام دیے تھے جن میں سے ایک عرب کے مدعی نبوت کے متعلق بھی تھا اس کو بھی میں منسوخ کرتا ہوں.شله ای وقت سے یمن کے علاقوں میں اسلام کا نور پھیلنا شروع ہو گیا.تو جب انسان خدا کا ہو جاتا ہے نا ممکن ہے اسے نقصان اٹھانا پڑے.البتہ عارضی نقصان بے شک ہوتے ہیں.پس اگر میاں بیوی اپنے تعلقات میں خدا کی رضاء مد نظر رکھیں اور محض اللہ تعالیٰ کے لئے ایک دوسرے سے معاملہ کریں تو ان کے لئے بھی اللہ تعالیٰ اپنی رحمت کے دروازے کھول دیتا ہے مگر جو خدا اور اس کے رسول کی اطاعت کرتا ہے اور پھر اسے کامیابی نصیب نہیں ہوتی وہ سمجھ لے کہ دو ہی باتیں ہیں یا تو خدا کا قول جھوٹا ہے یا اس کا نفس جھوٹا ہے اور جس چیز کو وہ اطاعت سمجھ رہا ہے اطاعت نہیں.کون ہے جو خدا کے کسی حکم کو جھوٹا قرار دے سکے.ہر انسان یہی کہے گا کہ میرے نفس کی غلطی ہے ورنہ اللہ اور اس کے رسول کا فرمودہ بالکل سچا ہے.الفضل ۷ - اپریل ۱۹۳۱ء صفحہ ۶۲۵) لے فریقین کا علم نہیں ہو سکا له ال عمران : il البقرة : ۱۳۲ ته الفرقان : ۷۵ ه البقرة : ۱۲۵ له النحل : ۹۴ : كه الفاتحه : ۲ شو الفاتحه : ٥ شه الاحزاب : ۷۲ شاه طبری جلد ۳ صفحه ۱۵۷۲ تا ۱۵۷۴ مطبوعہ بیروت
محمود ۸۲ جلد سوم قادیان میں نکاح پڑھانے کی غرض فرموده ۸ - اپریل ۱۹۳۱ء بمقام مسجد مبارک قادیان) - اپریل بعد نماز عصر خطبہ مسنونہ کی تلاوت کے بعد دو نکاحوں اے کا اعلان کرتے ہوئے حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے فرمایا : میں اس وقت دو نکاحوں کا اعلان کرنا چاہتا ہوں لیکن گلے میں چونکہ خراش زیادہ ہے اس لئے میں لمبا خطبہ نہیں پڑھ سکتا.ان آیات میں جو ابھی میں نے پڑھی ہیں وہ ساری باتیں بیان کر دی گئی ہیں جن کا خیال رکھنا ضروری ہوتا ہے.یہاں مسجد مبارک میں نکاح پڑھانے کی اصل غرض یہ ہوتی ہے کہ وہ مسجد جس کے متعلق اللہ تعالٰی کا الہام ہے محلُّ امْرِ مُبَارَكِ گل يُجْعَلُ فِيهِ - سے یعنی جو کام اس مسجد میں کیا جائے گا مبارک ہو گا اس میں نکاح ہونا خیر اور برکت کا موجب ہو اور یہ بھی غرض ہوتی ہے کہ تا اس مقام کے رہنے والے لوگ جسے روحانی سلسلہ کا مرکز اور ایک مامور کا مقام ہونے کا فخر حاصل ہے دعا کریں کہ اللہ تعالٰی نکاح میں برکت ڈالے.پس اس وجہ سے اس مسجد میں میں اس وقت دو نکاحوں کا اعلان کرتا ہوں.الفضل ۱۴ اپریل ۱۹۳۱ء صفحہ ۶) اے فریقین کا تعین نہیں ہو سکا.کے تذکرہ صفحہ ۳۵۲۹۰۶- ایڈیشن چهارم
جلد سوم ۳۰۹ ۸۳ طاقت سے بڑھ کر خرچ کرنا اسراف میں داخل ہے (فرموده ۱۹۳۱ء) له خطبہ مسنونہ کی تلاوت کے بعد حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے فرمایا : سے آج کل لوگ اپنی ناک رکھنے کے لئے زیورات اور دیگر زیب و زینت کے لئے طاقت سے زیادہ روپیہ خرچ کرتے ہیں مگر یہ ان کے لئے انجام کار خوشی کا موجب نہیں ہو تا.شریعت نے تو صرف صر ٹھرایا ہے.لوگوں کے پاس روپیہ نقد کم ہوتا ہے.مہر تو انسان تھوڑا تھوڑا کر کے بھی ادا کر سکتا ہے لیکن زیورات وغیرہ کے لئے انہیں ہندوؤں سے قرض لینا پڑتا ہے.ہماری جماعت پہلے ہی مالی لحاظ سے کمزور ہے اس لئے انہیں اپنی طاقت سے بڑھ کر خرچ نہیں کرنا چاہئے اگر کسی کے پاس بہت روپیہ ہو تو وہ جتنا چاہے خرچ کرے لیکن جس کے پاس نقد روپیہ موجود نہیں وہ قرض لے کر خوشی کو غمی میں تبدیل نہ کرے.ناک رکھنے کے لئے روپیہ خرچ کرنا اسرانی میں داخل ہے اور اس طرح انسان کے سارے اعضاء کٹ جاتے ہیں.بھلا جس کے ہاتھ کٹ جائیں، پاؤں کٹ جائیں اور بدن کٹ جائے اس کی ناک کس کام آئے گی.پہلے ہی ہماری جماعت مالی لحاظ سے کمزور ہے پھر ان رسومات کو جاری کر کے افلاس اور غربت میں اضافہ نہیں کرنا چاہئے.خوشی وہ جو انجام کار خوشی ہو.جو لوگ مقروض ہو کر غلامانہ حالت میں گرفتار ہو جاتے ہیں وہ کبھی خوش نہیں رہ سکتے اور وہ لڑکی کب خوش ہو گی جو مقروض خاوند کے گھر جائے گی.ے کے تاریخ اور فریقین کا تعین نہیں ہو سکا.- الفضل ۱۶ جون ۱۹۳۱ء صفحه ۵)
جلد سوم ۳۱۰ ۸۴ نکاح ایک وسیع الاثر معاہدہ ہے (فرموده ۲۹ جنوری ۱۹۳۳ء) ۲۹- جنوری ۱۹۳۳ء بعد نماز عصر حضرت خلیفۃ المسیح الثانی نے باوجود ناسازی طبع حکیم فضل الرحمن صاحب کے گھر تشریف لے جاکر ان کی ہمشیرہ کا نکاح پڑھا.خطبہ مسنونہ کی تلاوت کے بعد فرمایا.دنیا میں ہر ایک معاہدہ کہ نکاح بھی ایک معاہدہ ہی ہے دو سرے سے جداگانہ حیثیت رکھتا ہے ایک شخص میوه فروش کی دکان پر جاتا ہے اور اس سے کچھ میوہ خریدتا ہے ان کا جو یہ لین دین ہوتا ہے اس کا اثر چند گھنٹوں کے اندر اندر ختم ہو جاتا ہے.وہ میوہ اچھا ہو گا یا برا، لذیذ ثابت ہو گا یا بدمزہ، وہ صحت پیدا کرنے والا ہو گا یا صحت کو نقصان پہنچانے والا عام طور پر اس کا اثر محدود ہوتا ہے.اگر لذت یا بد مزگی کا سوال ہو تو چند ساعت کے اندر اندر اس کا اثر زائل ہو جاتا ہے.اگر صحت یا بیماری کا سوال ہو تو وہ بھی تھوڑے عرصہ کے اندر ہی ختم ہو جاتا ہے.الا ماشاء اللہ.کوئی وبائی کیڑے میوہ میں داخل ہو گئے ہوں تو اور بات ہے.اسی طرح ایک خص جو دکان سے ترکاری خریدے گا اس کا اثر میوہ سے زیادہ ہو گا گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹہ دو گھنٹہ تو اس ترکاری کو پکانا پڑے گا پھر کھانے اور اس کے ہضم ہونے تک اس سے تعلق قائم رہے گا پھر جو شخص کپڑا خریدے گا اس کا ان کپڑوں سے تعلق چھ ماہ سال دو سال تک رہے گا.پھر جو مکان بنائے گا اس مکان سے تعلق حسب مراتب پچاس، سوڈیڑھ سو سال رہے گا.لیکن شادی ایک ایسا فعل ہے کہ اس کا اثر لیبے زمانہ تک چلتا ہے اور ہوتا بھی وسیع ہے.بظاہر یہی نظر آتا ہے کہ -
خطبات محمود ۳۱۱ میاں اور بیوی کا تعلق پیدا ہو گیا مگر یہی نہیں ہو تا بلکہ میاں اور بیوی کے ماں باپ بھی اس تعلق میں شامل ہوتے ہیں، ان کے بہن بھائی اور دوسرے رشتہ دار بھی شامل ہوتے ہیں، پھر آگے دوست وغیرہ بھی شامل ہوتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ایک قصہ سنایا کرتے تھے اس میں ذکر تو ایک جانور کا ہے مگر نصیحت کے طور پر بطور مثال بیان کیا گیا ہے.کہتے ہیں کسی کا ریچھ کے ساتھ دوستانہ تھا.اس شخص کی بیوی روز اسے برا بھلا کہتی کہ ریچھ سے دوستانہ کا کیا مطلب کبھی غصہ میں آکر اس نے ریچھ کے سامنے بھی ایسی باتیں کہیں جن میں ریچھ کی تحقیر کی گئی.ایک دن ریچھ نے اپنے دوست سے کہا میرے سر پر کلہاڑا مارو اس نے کہا یہ کس طرح ہو سکتا ہے میں تو تمہیں اپنا دوست سمجھتا ہوں.ریچھ نے کہا نہیں میں جو کہتا ہوں تم ضرور مارو آخر اس نے اسی طرح کیا اور ریچھ زخمی ہو کر چلا گیا.کچھ عرصہ کے بعد آیا اور اپنے دوست سے کہنے لگا میرے سر کو دیکھو وہ زخم کہاں ہے؟ اس نے دیکھا تو معلوم ہو ا ز خم مندمل ہو چکا ہے.ریچھ نے کہا دیکھو وہ زخم تو مٹ گیا مگر تمہاری بیوی نے جو باتیں کہی تھیں ان کا زخم ابھی تک ویسا ہی ہے.یہ ایک قصہ ہے پرانے زمانہ میں لوگ بادشاہوں اور امراء کے ڈر سے کہ وہ تشدد نہ کریں ان کے ناموں کی بجائے جانوروں کے نام رکھ لیا کرتے تھے.غرض بیاہ شادی کا اثر دوستوں پر بھی پڑتا ہے.ایسی بیویاں ہوتی ہیں جو دوستیاں تڑوا دیتی ہیں یا بنا دیتی ہیں.پھر محلہ والوں پر شادی کا اثر پڑتا ہے.کوئی عورت محلہ میں ایسی آجاتی ہے جس سے سب محلہ والے تنگ ہو جاتے ہیں اور کوئی ایسی آتی ہے کہ سب خوش ہوتے ہیں.پھر اولاد کے لحاظ سے ے اثرات بہت وسعت اختیار کر لیتے ہیں.کوئی اولاد اچھی ہوتی ہے اور کوئی بری، کوئی ماں باپ کے نام کو روشن کر دیتی ہے اور کوئی ان کے لئے سامان ندامت پیدا کرتی ہے.مجھے ہمیشہ خیال آیا کرتا ہے کہ ابو جہل کے ماں باپ کی جب شادی ہوئی ہوگی تو بڑی دھوم دھام سے ہوئی ہوگی کیونکہ ان کا خاندان وجاہت کے لحاظ سے بڑے پایہ کا خاندان تھا اس دھوم دھام کا دسواں حصہ بھی رسول کریم کے والدین کی شادی پر نہ ہوا ہو گا کیونکہ آپ کا خاندان مذہبی طور پر معزز سمجھا جاتا تھا دنیوی لحاظ سے ابو جہل کے خاندان جتنا اثر حاصل نہ تھا.اس وقت کسی کو کیا پتہ تھا کہ ابو جہل کے والدین کی شادی کا کیا نتیجہ نکلے گا اور رسول کریم ﷺ کے والدین کی شادی کا کیا.تو شادی کے آئندہ جا کر بھی وسیع اثرات پیدا ہوتے ہیں.
خطبات محمود جلد موم غرض نکاح اثرات کے لحاظ سے جتنی وسعت رکھتا ہے اور بہت کم ایسی چیزیں ہوتی ہیں جیسے مذہب اور حکومتوں کے معاہدات.مگر جو معاملات گھروں میں ہوتے ہیں ان میں نکاح جیسی مثال نہیں مل سکتی اس وجہ سے شریعت نے اس کے متعلق ہدایات دی ہیں.خطرات سے بچنے کے طریق اور فوائد کے حصول کے ذرائع بتائے ہیں.اب وقت اتنا نہیں کہ ان باتوں کی تفصیل بیان کروں اور مختلف خطبات میں بیان کرتا ہی رہتا ہوں.یہ مضمون استاد سیع ہے کہ کبھی ختم ہی نہیں ہو تا.قرآن مجید نے جس مضمون کو بھی لیا ہے اسے غیر محدود اور کبھی ختم نہ ہونے والا بنا دیا ہے.یہ بھی اسلام کی صداقت کا ایک ثبوت ہے کیونکہ اس سے ظاہر ہے کہ غیر محدود چیز غیر محدود منبع سے ہی نکل سکتی ہے.بہر حال نکاح کے بارے میں اسلام نے جس بات پر زور دیا ہے وہ اتقاء ہے عام طور پر لوگ اس کے معنے نہیں سمجھتے وہ اتقاء کے معنے یہی کرتے ہیں کہ ڈرو مگر اس کے یہ معنی ہیں کہ ایسا انسان اس مرتبہ پر پہنچ جاتا ہے کہ یقین اور وثوق سے اپنے معاملات خدا تعالیٰ کے ہاتھ میں دے دیتا ہے جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا بھی الہام ہے گو وہ پرانا مصرعہ ہے کہ سپردم بتو ماید خویش را اس حالت میں انسان کلی طور پر اپنے آپ کو خدا تعالٰی کے آگے ڈال دیتا ہے اور اپنے آپ کو بالکل مردہ سمجھ لیتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرمایا کرتے تھے ایک حیوان کے آگے بھی اگر انسان گر جائے تو وہ اس پر حملہ نہیں کرتا.پھر خد اتعالیٰ کے آگے جو گر جائے اس پر کیونکر حملہ کیا جائے گا اور اللہ تعالی کے آگے گرنا ہی اصل تقویٰ ہے جب یہ مقام حاصل ہو جاتا ہے تو خدا تعالی خود حفاظت کرتا ہے.اسی طرح قرآن میں نکاح کے موقع پر تقویٰ حاصل کرنے کا حکم دے کر اشارہ کیا گیا ہے.الفضل - فروری ۱۹۳۳ء صفحه ۵)
خطبات محمود ۳۱۳ ۸۵ جلد سوم نکاح کے معاملہ میں خدائی مدد کی ضرورت فرموده ۲۸ مارچ ۱۹۳۳ء) ۲۸- مارچ ۱۹۳۳ء بعد نماز ظہر جناب چوہدری فتح محمد صاحب ایم.اے کے برادر خورد چوہدری نور محمد صاحب کا نکاح زینب بنت مولوی غلام رسول صاحب مرحوم ساکن اوجلہ کے ساتھ حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے پڑھا.خطبہ مسنونہ کی تلاوت کے بعد فرمایا.انسانی اعمال بالکل اس شخص کی حرکات سے مشابہ ہیں جو رات کی تاریکی میں ایک گھانس والے جنگل میں ہاتھ مار مار کر اپنی کوئی گمشدہ چیز تلاش کر رہا ہو.جس طرح وہ شخص ہر لمحہ اس خطرہ میں ہے کہ بجائے اس کے کہ اس کی گمشدہ چیز ہاتھ آجائے اسے سانپ یا بچھو یا کوئی اور زہریلا کیڑا کاٹ کھائے اور بجائے اپنی کھوئی ہوئی چیز پانے کے وہ جان سے ہی جائے.اسی طرح تمام انسانی اعمال بالکل یہی رنگ رکھتے ہیں.خواہ وہ اعمال اچھے سے اچھے ہوں یا برے سے برے.یہ نہیں کہ صرف برے اعمال اور گناہ ہی انسان کو خطرہ کی طرف لے جاتے ہیں بلکہ بسا اوقات نیکیاں بھی انسان کو تباہی کے گڑھے کے قریب کر دیتی ہیں.رسول کریم ﷺ فرماتے ہیں کہ ایک شخص نیکیاں کرتا کرتا جنت کے قریب پہنچ جاتا ہے اور قریب ہوتا ہے کہ جنت میں داخل ہو جائے کہ اسے ایسا جھٹکا لگتا ہے جس سے وہ دوزخ میں جا پڑتا ہے.لے قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.فَوَيْلٌ لِلْمُصَدِّينَ - لو کہ بعض نماز پڑھنے والے ایسے ہوتے ہیں کہ بجائے اللہ تعالیٰ کا قرب اور انعام حاصل کرنے کے اس کا غضب حاصل کر لیتے ہیں.
خطبات محمود سم ۳۱ جلد سوم غرض جب تک انسانی اعمال اللہ تعالیٰ کی رضا اور اس کی اطاعت کے تابع نہ ہوں اور انسان کو خدا کی طرف سے نور نہ حاصل ہو کبھی بھی یقین اور اعتماد کے قابل نہیں ہوتے.بعض دفعہ انسان اپنی دیانت اور امانت کو مد نظر رکھتے ہوئے سمجھتا ہے کہ اس کا کوئی فعل بڑا نہیں لیکن اس کے نفس کے تاریک گوشوں میں گندگی اور ناپاکی ایسی پڑی ہوتی ہے جو جوش میں آکر اس کی ساری نیکیاں برباد کر کے اسے کہیں سے کہیں لے جاتی ہے.اسی طرح ایک انسان جو شیطان صورت نظر آتا ہے اور اعمال کے لحاظ سے ناپاک ترین ہستی دکھائی دیتا ہے اس کے دل کے کسی گوشہ میں چھپا چھپایا نیکی کا بیج پڑا ہوتا ہے.بعض ایسے حالات جو انسان کے اختیار اور طاقت میں نہیں ہوتے ان کے ذریعہ وہ بیج نشو و نما پاتا ہے اس وقت بدیوں اور برائیوں کی تمام گھانس جو دل میں لگی ہوتی ہے بڑھنے سے رہ جاتی ہے پھر مرجھا جاتی ہے پھر خشک ہو کر تباہ ہو جاتی ہے اور نیکی کا بیج بڑھتے بڑھتے اسے جنت میں لے جاتا ہے.ہر نبی کی امت اور اس کے صحابہ میں اس کی مثالیں ملتی ہیں.حضرت موسیٰ علیہ السلام کی امت کا ایک شخص اس قدر ناپاک قرار دیا جاتا ہے کہ اسے کہا جاتا ہے جہاں سے گزرو یہ کہتے جاؤ کہ مجھے کوئی نہ چھوٹے سکے لیکن بعض باہر سے آنے والے شخص قرب حاصل کر لیتے ہیں اور ترقی پالیتے ہیں.رسول کریم ﷺ کے زمانہ میں وحی الہی کا کاتب اور مقرب صحابی ٹھوکر کھا جاتا ہے اور ایسی بات پر ٹھو کر کھا جاتا ہے جس پر ایک بچہ کو بھی ٹھو کر نہیں لگ سکتی وہ کفار میں جا ملتا ہے مگر ابو سفیان اور ہندہ جن کی ساری عمر رسول کریم کی شدید مخالفت میں گزری ایسے ایسے قبیح افعال کے مرتکب ہوئے کہ دشمن سے دشمن بھی اسے پسند نہیں کر سکتا اور انسانیت کے لئے ان کا ذکر بھی بارگراں ہے لیکن کوئی نیکی جو ان کے گوشہ دل میں چھپی ہوئی تھی انہیں مسلمان بنا دیتی ہے اور نہ صرف مخلص مسلمان بلکہ ایسے مسلمان جنہیں دین کی خدمت کے مواقع حاصل ہوتے ہیں ایسے مواقع جو انہیں قرب کے اعلیٰ مقام پر پہنچا دیتے ہیں.پس جو چیز انسان کو حقیقی نجات کی طرف لے جاتی ہے اور اس کے علم سے باہر ہے جیسے انسان کی جسمانی صحت باریک ذرات کی درستی پر منحصر ہے ایسے باریک ذرات جنہیں کوئی خوردبین بھی نہیں دیکھ سکتی.بعض دفعہ جب ان کے اثرات نمایاں ہو جاتے ہیں تو لوگ علاج کر لیتے ہیں لیکن بعض دفعہ اثرات ایسے مخفی ہوتے ہیں کہ طبیب بھی سر ٹکراتے ٹکراتے
خطبات محمود ۳۱۵ جلد موم تھک جاتے ہیں اور کچھ نہیں کر سکتے.یہی حال روحانیت کا ہوتا ہے.روحانیت کی بعض مرضیں نمایاں اور عیاں ہو جاتی ہیں لیکن بعض دفعہ اتنی مخفی ہوتی ہیں کہ موت کا فیصلہ جب تک صادر نہ ہو جائے ان کا پتہ نہیں لگتا.پس جس چیز پر انسان کی نجات کا انحصار ہے وہ اللہ تعالی کی مدد اور نصرت اور اس کا فضل ہے جو تاریکی سے نکال کے روشنی کے مینار پر کھڑا کر دیتا ہے.جب انسان کے ایسے اعمال کا یہ حال ہے جو موٹے اور نمایاں ہیں.تو پھر وہ اعمال جن کا سمجھنا ظاہر حالات میں ناممکن ہوتا ہے ان کے اندر جو باتیں مخفی ہوتی ہیں ان کا سمجھنا اور بھی زیادہ نا ممکن ہوتا ہے انہی میں سے ایک نکاح کا معاملہ ہے انسانی نفس کی غلطیاں اور اس کے کیریکٹر اور میلان کی حقیقت ایک دن میں معلوم نہیں ہو سکتی.اور بعض دفعہ تو دس پندرہ سال میں بھی بعض باتیں معلوم نہیں ہو سکتیں.پھر یک دم ان سے آگاہ ہو جانا کیونکر ممکن ہے عورتوں میں بھی ایسی مثالیں ملتی ہیں اور مردوں میں بھی کہ ان کی بعض عادات اور رحجانات کا پتہ کئی کئی سال کے بعد جاکر لگتا ہے ایسی صورت میں اگر کسی کی امداد سے یہ کام سرانجام پاسکتا ہے تو وہ اللہ تعالیٰ ہی ہے.اللہ تعالیٰ کے سوا اس کام میں اور کوئی ہستی محمد اور معاون نہیں بن سکتی.یہی وجہ ہے کہ رسول کریم ﷺ نے نکاح کے موقع کے لئے ان آیات کا انتخاب فرمایا ہے جن میں تمام زور تقویٰ پر دیا گیا ہے.میں نے کئی دفعہ بتایا ہے کہ اتقاء کے معنے پناہ لینا اور بچتا ہیں.لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ خدا تعالیٰ سے دوری ہو بلکہ یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کے ذریعہ بڑی چیزوں سے انسان بچے ورنہ مومن تو خدا تعالٰی کے لقاء کا منتظر ہوتا ہے نہ کہ اس سے پرے ہٹنے کا.قرآن کریم میں مومن کی یہ تعریف لکھی ہے کہ بُر جُو القَاء الله کے یعنی وہ اللہ تعالیٰ سے ملنے کی امید رکھتا ہے اگر تقویٰ کے معنے بچنے کے ہیں تو یہ مطلب ہوا کہ اللہ سے دور بھاگو لیکن اس کے معنے یہ ہیں کہ اللہ کو ڈھال بناؤ اور برائیوں سے بچنے کا ذریعہ بناؤ.اس مقصد کی طرف ایک وہ آیت بھی متوجہ کرتی ہے جو اس موقع پر پڑھی جاتی ہے.اور جو یہ ہے : ياأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللهَ وَلَتَنْظُرُ نَفْسُ مَا قَدَّمَتْ لِغَدٍ وَاتَّقُوا اللهَ إِنَّ الله خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ ثم فرمایا اول تو انسانی اعمال ہی بار یک در باریک ہیں پھر ان کے اندر جو نتائج ہیں ان کو کوئی
خطبات محمود ۳۱۶ جلد موم انسان معلوم نہیں کر سکتا.انسان تو خود اپنے ارادہ کی کنہ کو بھی معلوم نہیں کر سکتا پھر وہ اعمال جن کے نتائج آئندہ نکلتے ہیں ان کے متعلق کیا معلوم کر سکتا ہے بعض دفعہ ایک چھوٹے بچے کا عمل دس، ہیں، چالیس، پچاس سال کے بعد نتیجہ پیدا کرتا ہے.بچپن میں کھیلتے ہوئے ایک بچہ کو چوٹ لگتی ہے جس کی وہ کوئی زیادہ پرواہ نہیں کرتا ایک دو دن میں اچھا بھلا ہو جاتا ہے لیکن جب وہ چالیس پچاس سال کا ہوتا ہے تو اس کی چوٹ کا اثر ظاہر ہوتا ہے اس وقت وہ دس بارہ سال تک چارپائی پر ایڑیاں رگڑ تا رہتا ہے.غرض انسانی اعمال کے نتائج اتنی دیر کے بعد نکلتے ہیں کہ وہ افعال کرتے وقت ان کا خیال بھی نہیں کر سکتا اس لئے جب خدا تعالیٰ نے فرمایا وَ لتَنظُرُ نَفْسُ مَا قَدَّمَتْ لِغَدٍ.کل کے متعلق دیکھو کیا کرتے ہو اور اس طرح ایسی ذمہ داری انسان پر ڈالی جو معمولی نہیں تو اس ذمہ داری سے عہدہ برآ ہونے کا طریق بھی بتا دیا.فرمایا وَ اتَّقُوا الله اِنَّ اللهَ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ تم کل کے لئے انتظام کرد اور خوب سوچ لو لیکن چونکہ.تمہارے اختیار میں نہیں اس لئے جو کچھ کر سکتے ہو کر و باقی جو بات تمہاری دسترس سے باہر ہے وہ بھی ہو جائے گی.تم کو پتہ نہیں کہ جو کام کرتے ہو اس کے کیا نتائج نکلیں گے یہ بات اللہ تعالٰی ہی کو معلوم ہے کیونکہ وہ خبیر ہے تم اس کو ڈھال بناؤ وہ تمہیں بڑے نتائج سے بچالے گا.انسان ہر کام میں خدا تعالٰی کی مدد کا محتاج ہے لیکن بعض کاموں میں تو اتنا نمایاں محتاج ہے کہ معمولی عقل و سمجھ کا انسان بھی اس احتیاج کو سمجھ سکتا ہے انہیں میں سے ایک نکاح کا معاملہ ہے.اس کے متعلق نہ مرد کو پتہ ہوتا ہے بیوی کے حالات کا اور نہ بیوی کو پتہ ہوتا ہے مرد کے حالات کا اس لئے شادی کا دن دراصل بڑی گھبراہٹ اور رونے کا دن ہوتا ہے اور میاں بیوی کی قلبی حالت کی مثال اس بزرگ کی قلبی حالت کی سی ہونی چاہئے جسے بادشاہ نے چیف حج مقرر کر دیا تھا.یہ خبر سن کر ان کے دوست ان کے پاس گئے تاکہ انہیں اتنا بڑا عہدہ ملنے پر مبارکباد دیں لیکن انہوں نے دیکھا کہ وہ مغموم بیٹھے رو رہے ہیں.انہوں نے کہا آپ کے رونے کی وجہ ہماری سمجھ میں نہیں آئی.یہ آپ کے لئے خوشی کا دن ہے نہ کہ رونے کا کیونکہ اتنی بڑی عزت آپ کو حاصل ہوئی ہے.انہوں نے فرمایا یہی عزت مجھے حاصل ہوئی ہے کہ میرے سپرد ایک ایسا کام کر دیا گیا ہے جس کے متعلق مدعی اور مدعا علیہ جو میرے پاس آئیں گے دونوں کو پتہ ہو گا کہ حقیقت کیا ہے لیکن ان کا فیصلہ کرنا میرا فرض ہو گا جسے کچھ پتہ نہ ہو گا یہ تو ایسی ہی مثال ہے جیسا کہ دو بیناؤں کو ایک نابینا راہ دکھانے کے لئے مقرر کر دیا جائے.یہی
خطبات محمود چند سوم حالت میاں بیوی کی شادی کے وقت ہونی چاہئے.بظاہر یہ خوشی کا دن ہو تا ہے اور لوگ خوش ہوتے ہیں لیکن در حقیقت میاں بیوی اس وقت ایسا قدم اٹھا رہے ہوتے ہیں کہ جس کے متعلق انہیں پتہ نہیں ہو تا کہ انہیں کہاں لے جائے گا.اس لئے شادی کے موقع پر تقویٰ ذکر الہی اور امداد و استعانت اللى خاص طور پر طلب کرنی چاہئے کیونکہ اللہ تعالٰی کے سوا کوئی نہیں جو نیک نتائج پیدا کر سکے.لوگ بڑی خوشی کے ساتھ شادی کرتے ہیں اور خوشی کا اظہار کرتے ہیں لیکن ان کی اولاد ایسی گندی نکلتی ہے کہ ساری عمر روتے رہتے ہیں.کئی اچھے اور اعلیٰ خاندان تباہ ہو جاتے ہیں.مجھے ہمیشہ خیال آیا کرتا ہے کہ ابو جہل کے باپ کی شادی جب ہوئی ہوگی تو کس قدر خوشی منائی ہو گی.چونکہ یہ مالدار خاندان تھا اس لئے اس شادی کے موقع پر اونٹ پر اونٹ ذبح کیا گیا ہو گا بڑا اجتماع ہو گا، بڑی چہل پہل ہوگی مگر انہیں کیا پتہ تھا کہ اس شادی کے نتیجہ میں ایسا سانپ پیدا ہونے والا ہے جس کا زہر سارے خاندان کی ہلاکت کا باعث ہوگا اور ایسا وجود رونما ہونے والا ہے جو اپنے ماں باپ اور دنیا کے درمیان لعنت کا پردہ حائل کر دے گا.غرض نکاح کے متعلق اللہ تعالی کے سوا کوئی نہیں جانتا کہ کیا ہونے والا ہوتا ہے اس لئے اس موقع پر اس سے امداد حاصل کرنی چاہئے.له ترمذی ابواب القدر، باب ماجاء ان الاعمال بالخواتيم له الماعون : ۵ وظه : ۹۸ ه العنكبوت : ۶ شه الحشر : ۱۹ الفضل ۴ - اپریل ۱۹۳۳ء صفحه ۱۰۵)
جلد سوم PIA ۸۶ حقیقی ایمان کا نتیجہ، ترقیات (فرموده ۱۸- اپریل ۱۹۳۳ء) ۱۸- اپریل ۱۹۳۳ ء بعد نماز ظہر حضرت خلیفۃ المسیح الثانی نے جناب مرزا محمود بیگ صاحب گوجرہ کی لڑکی ناصرہ بیگم کا نکاح سید کرم شاہ صاحب کے ساتھ پڑھا.خطبہ مسنونہ کی تلاوت کے بعد فرمایا.انسان اپنے تمام کاموں میں اس بات کو ملحوظ رکھتا ہے کہ اسے کامیابی حاصل ہو اکثر لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں کہ جائز ذرائع سے انہیں اپنے مقصد میں کامیابی نہ ہو تو نا جائز ذرائع اختیار کرنا شروع کر دیتے ہیں تاکہ کسی نہ کسی طرح ان کو اپنا مقصد حاصل ہو جائے.اسلام نے اس انسانی خواہش کو بھی باقی خواہشات کی طرح کنٹرول کیا ہے یعنی حد بندی میں مقید کیا ہے برخلاف دو سرے مذاہب کے جو کہتے ہیں کہ انسان کے لئے دنیوی ترقی اور دنیوی آرام و آسائش کی ضرورت نہیں بلکہ اسے دکھ اور تکلیف میں رہنا چاہئے.اسلام نے اس کو رد کیا ہے اور یہ بات کی ہے کہ دنیوی نعمتیں بھی خدا کا فضل ہیں اور ان کا حصول نیکی کے منافی نہیں ہے لیکن دوسری طرف اسلام نے یہ بھی قرار دے دیا ہے کہ کامیابی وہ نہیں جسے کوئی انسان اپنے محدود اور ناقص علم سے تجویز کرتا ہے.اسلام بتاتا ہے بہت سی حالتیں ایسی ہوتی ہیں کہ انسان انہیں کامیابی سمجھتا ہے لیکن دراصل وہ کامیابی نہیں بلکہ ناکامی اور منزل ہوتا ہے.اصل کامیابی اسی چیز میں ہوتی ہے جو انجام میں اچھی ہوتی ہے درمیانی اور عاجل کامیابی حقیقی کامیابی نہیں ہوتی.اسی حد بندی کے بعد اسلام کہتا ہے اگر یہ بات تم اچھی طرح سمجھ لو اور اپنے اندر یہ اصلاح پیدا
خطبات ٣١٩ کر لو تو پھر ہمارا ذمہ ہے کہ ہم سچے مومن کو اس کے مقصد میں کامیاب کریں.اگر کوئی کامیابی کے معنے درمیانی اور عارضی خوشیاں سمجھتا ہے تو یہ چونکہ کامیابی نہیں اس لئے اس میں ہم اس کا ساتھ نہیں دے سکتے.جس طرح ایک ہوشیار اور عظمند دوست نقصان رساں طریق عمل سے اپنے دوست کو روکتا ہے اور اگر وہ نہ رُکے تو خود اس کا ساتھ نہیں دیتا.اسی طرح اللہ تعالی بھی کہتا ہے ایسی خواہشات جن کے پورا ہونے میں وقتی طور پر لذت پائی جائے لیکن اس کا انجام اچھا نہ ہو ان میں تمہارا ساتھ ہم نہیں دے سکتے ہاں اگر حقیقی کامیابی حاصل کرنا چاہتے ہو دائمی خوشی پانے کی خواہش رکھتے ہو اور درمیانی حالتوں کو مقصد قرار نہیں دیتے تو اس کی نہ صرف ہم اجازت دیتے ہیں بلکہ ذمہ لیتے ہیں کہ ضرور کامیاب کر دیں گے.اس کی طرف اللہ تعالی نے اس آیت میں اشارہ فرمایا ہے کہ وَمَنْ تُطِعِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ فَازَ فَوْزًا عَظِيمًا اے فور کہتے ہیں اپنے مقصد میں کامیاب ہونے کو.اس آیت میں وہ دونوں باتیں بتائی گئی ہیں جو کامیابی کے لئے ضروری ہیں مَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَ رَسٹوکے.میں فرمایا تمہارے مقاصد ایسے نہ ہوں جو اللہ اور اس کے رسول کے بتائے ہوئے مقاصد کے خلاف ہوں.اگر ان کے مطابق ہوں تو پھر ہم تمہیں اس بات سے روکتے نہیں کہ دنیا کی خوشیاں حاصل کرو بلکہ فَقَدْ فَازَ فَوذَا عظيما - ہم ذمہ داری لیتے ہیں کہ تم کامیاب ہو جاؤ گے اور کامیابی بھی معمولی نہیں بلکہ عظیم الشان کامیابی حاصل ہوگی.یہ اسلام کا دیگر مذاہب سے فرق ہے.بعض مذاہب نے تو یہ کہا ہے کہ انسانی خواہشات بغیر حد بندی کے انسان کا مقصود ہیں مگر اسلام نے کہا یہ نہیں.انسانی خواہشات حد بندی کے اندر اندر ہی اچھی ہیں اور ان کے لئے حد بندی یہ ہے کہ مَنْ تُطِعِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وہ خواہشات جو اللہ اور اس کے رسول کے منشاء کے ماتحت ہوں وہ اچھی ہیں.پھر بعض مذاہب نے کہا ہے انسانی خواہشات کو مارنا، دکھ اور تکلیف اٹھانا، بڑا اور خراب کھانا کھانا انسانی کمال ہے اسلام کہتا ہے یہ بھی نہیں.جو حد بندی ہم نے کی ہے اس کے اندر رہ کر انسانی خواہشات کو پورا کرنا اور ان کو نہ دبانا ہی کمال ہے.ایسا کرنے سے علو ہمت حاصل ہوگی اور اس میں ہماری مدد شامل ہوگی.اسلام نے یہ بات کس شان اور کتنی وضاحت کے ساتھ پایہ ثبوت تک پہنچائی.اس وقت دیکھو جب رسول کریم ال تشریف لائے تو آپ کے آنے سے مسلمانوں کی ہمتیں کس قدر بڑھ گئیں اور ان کے ارادے کس قدر بلند ہو گئے ابتدائی حالات میں مسلمان کیا سمجھتے ہوں گے کہ انہیں دنیا میں کیا تغیر پیدا کرتا ہے.
خطبات محمود ۳۲۰ جلد موم زیادہ سے زیادہ یہ کہ اپنے ملک میں ایسا انتظام کرنا ہے جو امن قائم کرنے والا ہو.یہ بھی بڑے بڑے لوگوں کے خیالات ہوں گے عام لوگوں کو یہ بھی خیال نہ آتا ہو گا.پھر جب اللہ تعالی نے مسلمانوں کو اس وجہ سے وسعت دی کہ وہ اس کی منشاء کے مطابق کام کرنے والے تھے اس وقت ان کی نظر شام اور مصر تک پہنچی.اس وقت وہ یہ بھی نہ جانتے ہوں گے کہ سپین اور چین کیا چیز ہیں اور کہاں واقع ہیں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں میں سے کسی کے دل میں تجارت کی خواہش پیدا کی کوئی سفر کرتا ہوا دوسرے ممالک میں پہنچ گیا اور پھر ایسے مسلمان وہیں آباد ہو گئے اور تبلیغ اسلام کے ذریعہ مسلمانوں کی تعداد بڑھتی گئی حتی کہ دنیا کا کوئی براعظم ایسا نہیں جہاں مسلمان نہ پہنچے ہوں.تازہ تحقیق سے تو یہ بھی ثابت ہو رہا ہے کہ امریکہ میں مسلمان حضرت عمر کے زمانہ میں پہنچے اور پھر بحری آمد و رفت کے ذرائع میں نقص کی وجہ سے وہ دوسرے مسلمانوں سے تعلقات نہ رکھ سکے اور منقطع ہو گئے.بہر حال وہاں پرانی مساجد کے جو انگریزوں کے وہاں جانے سے پہلے کی ہیں نشانات ملے ہیں ان سے ظاہر ہے کہ مسلمان امریکہ میں بھی گئے.غرض اللہ تعالی کی طرف سے مومن کے لئے اس قدر ترقیات ہوتی ہیں کہ وہ ان کو اپنے خیال میں بھی نہیں لا سکتا.اللہ تعالٰی نے دنیوی نعمتوں کو بھی جنت قرار دیا ہے چنانچہ فرماتا ہے وَ مِنْ دُونِهَا جَنَّتْنِ.سے مومن کے لئے دو جنت میں ایک اس زندگی میں اور ایک دوسری زندگی میں اور جنت کے متعلق رسول کریم فرماتے ہیں : لَا عَيْنَ رَأَتُ وَلَا أَذُن سَمِعَتْ وَلَا خَطَرَ عَلَى قَلْبِ بَشَرٍ - سے کہ ان کو نہ آنکھوں نے دیکھا نہ کانوں نے سنا اور نہ کسی انسان کے دل میں ان کا نقشہ آیا اس لئے وہ جنت جو دنیا میں ہے اس میں بھی اس مشابہت کا پایا جانا ضروری ہے یعنی مومن کا جو ارادہ اور خواہش ہو اس سے بہت بڑھ کر اسے حاصل ہو اور وہ اس قدر ہو جسے نہ پہلے اس کی آنکھوں نے دیکھا نہ اس کے کانوں نے سنا اور نہ اس کے دل میں اس کا خیال آیا ہو اسی صورت میں وہ جنت کے مشابہہ ہو سکتی ہے ایسی ترقیات کا ملنا حقیقی ایمان کے نتیجہ میں ضروری ہے.یہ ترقیات کس طرح ملیں.یہ اللہ تعالیٰ نے اپنے اختیار میں رکھی ہیں اور اس قسم کے قومی وعدے جو مومنوں کے متعلق پورے کئے جاتے ہیں ان کی بنیاد دل کی ان کیفیتوں پر ہوتی ہے جن سے انسان خود بھی آگاہ نہیں ہوتے.رسول کریم اس نے حضرت ابو بکر کے متعلق فرمایا ووو
خطبات محمود ۳۲۱ جلد سوم ہے ان کا درجہ نمازوں کی وجہ سے نہیں بلکہ اس چیز کی وجہ سے ہے جو ان کے دل میں ہے کہ تو خدا تعالیٰ کا معاملہ دل کی کیفیت سے ہوتا ہے.مومن کو چاہئے کہ ہر کام میں وہ خدا اور اس کے رسول کے منشاء کو ملحوظ رکھے تاکہ خدا تعالیٰ کی نصرت اسے حاصل ہو.الفضل ۲۵- اپریل ۱۹۳۳ء صفحه ۶۴۵) الاحزاب : له الرحمن : ۷۳ ه بخاری کتاب بدء الخلق باب ما جاء فى صفة الجنة وانها مخلوقة :
۳۲۲ ۸۷ خطبات تم کل کے لئے کیا جمع کرتے ہو (فرموده ۱۴ ستمبر ۱۹۳۳ء) ۱۴.ستمبر ۱۹۳۳ء بعد نماز عصر حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے مولوی فضل الہی صاحب کے لڑکے فضل الرحمن صاحب کا نکاح سید محمود شاہ صاحب سکنہ کلانور کی لڑکی حفیظ بیگم سے پڑھا.خطبہ مسنونہ کی تلاوت کے بعد فرمایا : انسانی فطرت ہمیشہ ہی آئندہ کے متعلق سوچتی ہے خیال رکھتی ہے.بے شک ایسے انسان بھی دنیا میں پائے جاتے ہیں جو آئندہ کا خیال نہیں رکھتے لیکن انسانوں میں سے اکثریت ایسے ہی انسانوں کی ہے جو آئندہ کا خیال رکھتی ہے.خواہ وہ مسلمان ہوں، ہندو ہوں، عیسائی ہوں، سکھ ہوں، کوئی ہوں لیکن بنی نوع انسان کی حالت کو دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ گویا اکثریت آئندہ کا خیال نہیں رکھتی.ایسی حالت میں صرف یہ نصیحت کر دینا کہ آئندہ کا خیال رکھنا چاہیئے کافی نہیں.بالعموم انسان اس کا جواب یہ دیں گے کہ ہم آئندہ کا خیال رکھتے ہیں یہی وجہ ہے جہاں قرآن مجید نے آئندہ کے متعلق خیال رکھنے کی نصیحت کی ہے وہاں یہ بھی کہا ہے کہ انسان دیکھے آئندہ کا اس نے کیا خیال رکھا ہے.کیونکہ صرف خیال کرلینا کافی نہیں.باوجود آئندہ کا خیال کر لینے کے انسان تکالیف پاتا اور نقصان اٹھاتا ہے.پس مسلمان یہ نہیں دیکھتا کہ اس نے آئندہ کا خیال کیا یا نہیں کیا بلکہ یہ دیکھتا ہے کہ کیا خیال کیا یعنی جو چیز اس نے آئندہ کے لئے رکھی ہے وہ اس کے کام آسکتی ہے یا نہیں.بعض لوگ اچھا کھا پی کر صحت کا خیال رکھتے ہیں اس کی بجائے اگر وہ روپے جمع کرتے ہیں اور ان کے گھروں میں ہزاروں روپے موجود ہوں مگر صحت
جلد سوم خطبات محمود نمیں ۳۲۳ اچھی نہ ہو تو وہ روپے کس کام کے.اس کے مقابلہ میں اگر صحت اچھی ہو اور روپیہ چلا جائے تو پھر بھی لوگ کام چلا لیتے ہیں.اسی طرح لوگ بچوں کی تعلیم پر روپیہ خرچ کرتے ہیں وہ آئندہ کے متعلق یہ خیال رکھتے ہیں کہ بچے قابل ہو کر کمائیں گے اور جب ہم کمانے کے قابل نہ رہیں گے تو ان کی کمائی کھا ئیں گے اس خیال کو مد نظر رکھ کر وہ اپنا روپیہ بنک میں جمع کرانے کی بجائے بچوں کی تعلیم و تربیت پر صرف کرتے ہیں.لیکن عام طور پر لوگ آئندہ کا خیال رکھنا سمجھتے بلکہ گھر میں یا بنک میں روپیہ جمع کرانے کو آئندہ کا خیال قرار دیتے ہیں حالانکہ یہی آئندہ کا خیال نہیں بلکہ اپنی صحت کے لئے خرچ کرنا، اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت پر خرچ کرنا، اپنی قوم کی ترقی کے لئے خرچ کرنا بھی آئندہ کا خیال رکھنا ہی ہے.اس بارے میں جو بات مد نظر رکھنی چاہئے وہ یہ ہے کہ جو چیز آئندہ کے لئے رکھی جارہی ہے کیا ضرورت کے موقع پر وہ کام آجائے گی.ایک شخص لاکھوں روپیہ جمع کر کے جنگل میں کسی جگہ دفن کر دیتا ہے جس کا اسے خود بھی پتہ نہیں لگتا تو وہ روپیہ اس کے کس کام کا یا کسی بنک میں جمع کرتا ہے اور بنک فیل ہو جاتا ہے تو اسے کیا ملے گا.بچوں کو تعلیم دلانے پر خرچ کرتا ہے لیکن بچے سب کچھ کرانے کے کسی کام کے قابل نہیں بنتے یا قابل ہو کر ماں باپ کی خدمت نہیں کرتے.حضرت خلیفہ المسیح الاول ایک ہندو کے متعلق سنایا کرتے تھے.اس نے اپنی ساری جائداد بیچ کر اپنے لڑکے کو تعلیم دلائی.اس زمانہ میں ای اے سی بہت بڑا عہدہ سمجھا جاتا تھا اس لڑکے کو یہ عہدہ مل گیا ایک دفعہ اس کا باپ اس کے پاس ایسی حالت میں گیا کہ میلی سی دھوتی جس طرح عام طور پر ہندو باندھتے ہیں باندھے ہوئے تھا اب بھی یہ طریق ہے لیکن پہلے زیادہ تھا کہ کھلی جگہ لوگ تفریح کے طور پر بیٹھا کرتے تھے اسی طرح اس ہندو کا لڑکا بیٹھا ہوا تھا اور اس کے کچھ دوست جمع تھے اس کا باپ وہاں ہی چلا گیا اور جا کر کرسی پر بیٹھ گیا.اس کی ظاہری حالت کو دیکھتے ہوئے اس کے کری پر آبیٹھنے کی وجہ سے بعض کو تعجب بھی ہوا کہ یہ کون ہے جو یہاں آبیٹھا ہے.اسے جسے اس نے اپنی جائداد بیچ کر تعلیم دلائی تھی یہ کہتے ہوئے شرم محسوس ہوئی کہ یہ میرا باپ ہے اس نے کہا یہ ہمارا پرانا ٹیلیا (خادم) ہے.یہ سن کر اسے بہت غصہ آیا کہنے لگا اس کا ٹملیا نہیں اس کی ماں کا ٹملیا (خاوند) ہوں.تو انسانی اخلاق اس درجہ گر سکتے ہیں کہ باپ کی خدمت کرنا تو الگ رہا اس کی طرف اپنے آپ کو منسوب کرنا بھی اپنی ہتک سمجھنے لگ جاتے ہیں اور وہ ماں باپ جو توقع رکھتے ہیں کہ اولاد فائدہ پہنچائے گی بعض اوقات اولاد ان کی طرف منسوب ہونا بھی پسند
خطبات محمود ۳۲۴ نہیں کرتی.پھر تعلیم پانے والے خود بھی بعض اوقات تعلیم سے فائدہ اٹھانے سے محروم رہ جاتے ہیں.دماغ خراب ہو جاتا ہے پاگل ہو جاتے ہیں صحت خراب ہو جاتی ہے.قرآن کریم میں خدا تعالٰی نے یہ نہیں فرمایا کہ تم یہ دیکھو تم نے کل کے لئے سامان کیا ہے یا نہیں بلکہ یہ فرمایا کہ یہ دیکھو کل کے لئے کیا سامان کیا.کل کے لئے کچھ نہ کچھ سامان کرنا تو فطرتی بات ہے جو حیوانوں میں بھی پائی جاتی ہے کیڑے مکوڑوں میں بھی پائی جاتی ہے.چیونٹی اور شہد کی مکھی خوراک جمع کر لیتی ہے اور بھی جاندار ہیں جو آئندہ کے لئے اندوختہ رکھتے ہیں.اس صورت میں انسان سے یہ سوال کہ اس نے آئندہ کے لئے جمع کیا ہے یا نہیں ایسا موٹا اور اتنا معمولی سوال ہے جو مذہب سے تعلق نہیں رکھتا یہ بات تو حیوانوں میں بھی پائی جاتی ہے.بلکہ سوال یہ ہے کہ کیا جمع کرتے ہو اور کہاں جمع کرتے ہو.حضرت مسیح ناصری علیہ السلام نے کیا عمدہ بات فرمائی کہ اپنا مال رہاں جمع کرو جہاں چوری کا خطرہ نہیں.لے ہی مطلب ہے.وَلْتَنْظُرْ نَفْسٌ مَا قَدَّمَتْ لِغَدٍ - له کا.کہ دیکھو تم نے کل کے لئے کیا جمع کیا اور کہاں جمع کیا.اگر تم نے اچھی جگہ کوئی چیز جمع کرائی تو وہ چیز بھی اچھی ہو گی اس لئے اصل سوال یہی ہے کہ کہاں جمع کرائی.وہ چیز جس کے لئے کوئی خطرہ نہیں وہی ہو سکتی ہے جسے خدا تعالٰی کے ہاں جمع کرایا جائے.اور خدا تعالیٰ فرماتا ہے ہم انسان پر کوئی ظلم نہیں کرتے.انسان کوئی نیکی نہیں کرنا کہ ہم اس کا بدلہ بڑھا چڑھا کر نہیں دیتے اس لئے ضروری ہے کہ جب انسان کوئی اہم کام کرنے لگے تو ساتھ کوئی نہ کوئی نیکی بھی کرے.صلحاء اور انبیاء کا یہی طریق ہے.انسان چونکہ غلطی کر جاتا ہے اس لئے جب وہ کسی کام کے ساتھ کوئی نیکی بھی کرتا ہے تو وہ نیکی تعویذ بن جاتی ہے.وہ تعویذ نہیں جو گلے میں ڈالا جاتا ہے بلکہ وہ تعویذ جو خدا تعالیٰ فرماتا ہے ایسی نیکی کافر بھی کر سکتا ہے اور اسے بھی اس کا اجر مل جاتا ہے.ابو جہل کی نیکیوں کا نتیجہ ہی عکرمہ تھا.جب ابو جہل جہنم میں جانے لگا تو خدا تعالٰی نے پسند نہ کیا کہ اس کی نیکیاں بھی جنم میں چلی جائیں ان نیکیوں کو خدا تعالیٰ نے عکرمہ کی شکل میں تبدیل کر دیا اور بدیوں کو جہنم میں ڈال دیا.پس جب انسان کوئی کام کرے تو ساتھ کوئی نہ کوئی نیکی بھی کرے.استخارہ یعنی طلب خیر کا بھی یہی مطلب ہے کہ جب انسان نیکی کرتا ہے تو پھر جو کام وہ کرنا چاہتا ہے اس کے متعلق خدا تعالیٰ کے فرشتے اس کی حفاظت کرتے ہیں.الفضل ۳ اکتوبر ۱۹۳۳ء صفحه ۶۵)
۳۲۵ لے اپنے لئے آسمان پر مال جمع کرو جہاں نہ کیڑا خراب کرتا ہے نہ زنگ اور نہ وہاں چور نقب لگاتے اور چڑاتے ہیں (متی باب ۶ آیت ۲۰ بائبل سوسائٹی انار کلی لاہور مطبوعہ ۱۹۹۴ء) له الحشر : ۱۹ جلد سوم
خطبات محمود ٤ سیالکوٹ کا ایک نیک خاندان (فرموده ۱۹ - اکتوبر ۱۹۳۳ء) ۱۹ اکتوبر ۱۹۳۳ء حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے بوجہ علالت اندرون قصر خلافت عبد الجلیل صاحب پسر میر حامد شاہ صاحب مرحوم کا رضیہ بیگم بنت سید حبیب اللہ شاہ صاحب سے نکاح پڑھا.خطبہ مسنونہ کی تلاوت کے بعد فرمایا : شادی کے متعلق اسلام نے جس تفصیل کے ساتھ ہدایات دی ہیں وہ اختصار کے ساتھ بیان کرنا بھی میرے لئے صحت کی موجودہ حالت میں مشکل ہے لیکن اس بات کو مد نظر رکھتے ہوئے کہ جس نکاح کا اعلان میں اس وقت کر رہا ہوں وہ ایسے دو خاندانوں سے تعلق رکھتا ہے جو اپنے ذاتی تعلق کے لحاظ سے اور جماعت کے تعلق کے لحاظ سے خصوصیت رکھتے ہیں.میں کچھ بیان کرنا چاہتا ہوں جس عزیز کا نکاح ہے وہ میر حامد شاہ صاحب کے لڑکے ہیں جن کے خاندان کے ساتھ حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کے بہت پرانے تعلقات ہیں.دوسرے خاندان کو مجھ سے ذاتی تعلق ہے یعنی اس خاندان میں میری اپنی شادی ہوئی ہے اس لئے باوجود اس بات کے کہ میری صحت کی نادرستی کی وجہ سے کچھ کہنا مشکل ہے تاہم کچھ بیان کرتا ہوں.میر حامد شاہ صاحب کے جماعت میں خصوصیت رکھنے کے علاوہ ان کے والد حکیم حسام الدین صاحب کے ساتھ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو اس وقت سے واقفیت جب کہ آپ اپنے والد کے بار بار کے تقاضے سے تنگ آکر ملازمت کے لئے سیالکوٹ تشریف
خطبات محمود ۳۲۷ جلد سوم لے گئے اور وہاں کچھری کی چھوٹی سی ملازمت پر کئی سال تک رہے.ان ہی ایام میں حکیم حسام الدین صاحب سے تعلقات ہوئے اور آخر وقت تک تعلقات قائم رہے.یہ تعلقات صرف ان ہی کے ساتھ نہ رہے بلکہ ان کے خاندان کے ساتھ بھی رہے ان کے بعد میر حامد شاہ صاحب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے سلسلہ میں خاص لوگوں میں شمار ہوتے رہے تاہم حکیم حسام الدین صاحب کے ساتھ جو ابتداء کے تعلقات تھے اس مثال سے ان کی خصوصیت نظر آتی ہے کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام دعوئی کے بعد سیالکوٹ تشریف لے گئے حکیم حسام الدین صاحب کو آپ کے تشریف لانے کی بہت خوشی ہوئی.انہوں نے ایک مکان میں ٹھہرانے کا انتظام کیا لیکن جس مکان میں آپ کو ٹھہرایا گیا اس کے متعلق جس معلوم ہوا کہ اس کی چھت پر منڈیر کافی نہیں تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے سیالکوٹ سے واپسی کا ارادہ فرمالیا اور اس وقت میرے ذریعہ ہی باہر مردوں کو لکھ دیا کہ کل ہم واپس قادیان چلے جائیں گے نیز یہ بھی بتلا دیا کہ یہ مکان ٹھیک نہیں کیونکہ اس کی چھت پر منڈیر نہیں.اس خبر کے سننے پر احباب جن میں مولوی عبد الکریم صاحب وغیرہ تھے راضی لقضاء معلوم دیتے تھے لیکن جونہی حکیم حسام الدین صاحب کو معلوم ہوا تو انہوں نے کہا کس طرح واپس جاتے ہیں چلے تو جائیں اور فوراً زنانہ دروازہ پر حاضر ہوئے اور اطلاع کرائی کہ حکیم حسام الدین حضرت صاحب سے ملنے آئے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فور ابا ہر تشریف لے آئے.حکیم صاحب نے کہا مجھے معلوم ہوا ہے کہ حضور اس لئے واپس تشریف لے جانے کا ارادہ رکھتے ہیں کہ یہ مکان مناسب نہیں.مکان کے متعلق تو یہ ہے کہ تمام شہر میں سے جو مکان بھی پسند ہو اسی کا انتظام ہو سکتا ہے.رہا واپس جانا تو کیا آپ اس لئے یہاں آئے تھے کہ فورا واپس چلے جائیں اور لوگوں میں میری ناک کٹ جائے اس بات کو ایسے لب ولہجہ میں انہوں نے ادا کیا اور اس زور کے ساتھ کہا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام بالکل خاموش ہو گئے اور آخر میں کہا اچھا ہم نہیں جاتے.ان کے بعد میر حامد شاہ صاحب نے احمدیت کا اعلیٰ نمونہ دکھلایا اور آخری وقت تک وہ نہایت مخلص رہے.خلات ثانیہ کے ابتداء میں کچھ عرصہ انہوں نے بیعت نہ کی تھی اس کی یہ غرض بیان کی کہ وہ لوگ جو پیغامیوں کے ساتھ زیادہ میلان رکھتے تھے ان کو اس طرف لانے کی کوشش کریں لیکن جب انہوں نے دیکھا کہ وہ حد سے زیادہ گزر گئے تو پھر خود نہایت عجز و
خطبات محمود جلد سوم انکسار کے ساتھ بیعت کرلی اور آخری وقت تک عاشقانہ تعلق رکھا گو ان کے بعد ان کے پس ماندگان میں سلسلہ کے ساتھ اس خصوصیت کا تعلق نہیں ہے مگر اللہ تعالیٰ کے قبضے میں ہے کہ وہ ان کو بھی اپنے بزرگوں کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق دے اور اگر ان میں سے ہر ایک اس بات کی نیت کرے کہ دین کی خدمت کے لئے بھی کچھ کرنا ہے اور اس پر استقلال ظاہر کرے تو بعید نہیں کہ بڑے بڑے عمدہ نتائج پیدا ہو جائیں.سوال نیت کا ہے.میں اللہ تعالی سے دعا کرتا ہوں کہ وہ اپنے فضل سے انہیں تو فیق عطا فرمائے.اس وقت جس نکاح کا اعلان کرتا ہوں وہ عزیز عبد الجلیل صاحب پسر میر حامد شاہ صاحب مرحوم کا رضیہ بیگم سید حبیب اللہ شاہ صاحب کے ساتھ ہے سید حبیب اللہ شاہ صاحب کے ساتھ میرے تعلقات دوستانہ بچپن سے ہیں اور یہ تعلقات ہمیشہ ہی اچھے رہے ہیں سوائے شاؤ و نادر کے اس وقت بھی دوستانہ شکر رنجی سے تجاویز نہیں ہوا.وہ آج کل راولپنڈی میں سپرنٹنڈنٹ جیل ہیں ان کی طرف سے منظوری میرے نام آگئی ہے اور لڑکی سے بھی میں نے دریافت کر لیا ہے اس لئے میں یہ نکاح تین ہزار روپیہ مہر پر عزیزہ رضیہ بیگم کی طرف سے منظور کرتا ہوں.سید عبد الجلیل صاحب آپ کو بھی یہ نکاح تین ہزار روپیہ مہر پر منظور ہے! منظوری کے اقرار کے بعد حضور نے لمبی دعا فرمائی.الفضل ۲۴ - دسمبر ۱۹۳۳ء صفحه (۵)
خطبات محمود ۳۲۹ ۸۹ جلد سوم بعض مخلصین کا ذکر فرموده ۱۱- جون ۱۹۳۴ء) ۱۱- جون ۱۹۳۴ء بعد نماز عصر حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے چوہدری برکت علی خان صاحب آڈیٹر صد را مجمن احمدیہ کی لڑکی حمیدہ بیگم کا نکاح محمد اسماعیل صاحب کے بیٹے سے پڑھا.خطبہ مسنونہ کی تلاوت کے بعد فرمایا :- گلے کی تکلیف کی وجہ سے میں زیادہ نہیں بول سکتا اور میں نے اس نکاح کا اعلان خود کرنا اس لئے منظور کر لیا تھا کہ میری نگاہ میں فریقین مخلص احمدی ہیں.چوہدری برکت علی صاحب جن کی لڑکی کا نکاح ہے.بچپن سے قادیان آئے اور ان چند اشخاص میں سے ہیں جو محبت، کوشش اور اخلاص سے کام کرنے والے ہیں اور جن کے سپرد کوئی کام کر کے پھر انہیں یاد دہانی کی ضرورت نہیں ہوتی.ان افراد میں سے ایک فرد عبدالرحیم صاحب مالیر کوٹلوی مرحوم تھے وہ میرے ہم جماعت تھے.نواب محمد علی خاں صاحب قادیان میں آمد کے ساتھ جن دو لڑکوں کو لائے تھے ان میں سے ایک وہ تھے.میرا ان کے متعلق ہمیشہ یہ تجربہ رہا کہ جس کام پر وہ لگے اسے تندہی اور انہماک سے کیا کہ اس طرح اپنا کام بھی کم لوگ کرتے ہیں.کوئی کام بیاہ شادی کا یا پبلک سے تعلق رکھنے والا کسی کا ہوتا اس میں منتظم بن جاتے اور خوب سرگرمی سے کرتے.دوسرے اس رنگ میں کام کرنے والے شیخ عبدالرحمن صاحب قادیانی ہیں.رفاہ عام کا کوئی کام ہو نہایت بشاشت استقلال اور شوق سے کرتے ہیں.عام پبلک کاموں میں تو میں نے چوہدری برکت علی صاحب کو نہیں دیکھا مگر جن کاموں پر ان کو لگایا گیا ان کے متعلق میرا ذاتی تجربہ اور
خطبات محمود ۲۳۰ جلد سوم نہیں پڑتا.بادشاہ نگران ہے، خلیفہ نگران ہوتا ہے اسی طرح حاکم وقت نگران ہوتا ہے مگر کیا کوئی حکم یا قانون یہ اجازت دیتا ہے کہ وہ جو چاہیں معاملہ کرلیں.نگران تو اس بات کا ہوتا ہے کہ جو حق اس کو ملا ہے اسے وہ شریعت کے احکام کے مطابق استعمال کرے نہ یہ کہ جو چاہے کرے.نگران کا مفہوم یہ ہے کہ اس کو شریعت کے ماتحت چلائے مگر ہمارے ہاں اس کا مفہوم یہ لیا جاتا ہے کہ جو چاہا کرلیا.اس وجہ سے بعض لوگ عورتوں کو حقوق دینے کو تیار نہیں.وہ ان کو گائے بکری سمجھتے ہیں اور عورتوں پر جبریہ حکومت کرنا چاہتے ہیں حالانکہ ایسی حکومت تو خدا بھی نہیں کرتا.وہ تو کہتا ہے تم وہی کہو جو تمہاری ضمیر کہتی ہے.پھر خدا بھی بغیر اتمام حجت کے سزا نہیں دیتا.باوجود اس بات کے کہ وہ مالک ہے تو پھر مرد کے مقابلہ میں عورتوں کو آزادی ضمیر کیوں حاصل نہیں.- اس کے بر خلاف دوسری حد بھی خطرناک ہے جو عورتوں کی طرف سے ہے.قَوَّامُونَ کا لفظ بھی آخر کسی حکمت کے ماتحت ہے.یہ قانون خدا کا بنایا ہوا ہے جو خود نہ مرد ہے نہ عورت اس پر طرف داری کا الزام نہیں آسکتا.پس ایسی ہستی کے قوانین شافی ہو سکتے ہیں.عورت عموماً عورت کی طرف دار ہوتی ہے اور مرد کے طرف دار مرد - مگر خدا کو دونوں کا پاس نہیں.وہ خالق ہے.جو طاقتیں اس نے مرد کو دی ہیں ان کا اس کو علم ہے اور انہی کے ماتحت اس نے اختیارات دیئے ہیں.قوامُونَ کے سر حال کوئی معنے ہیں جو عورت کی آزادی اور حریت ضمیر کو باطل نہیں کرتے.اس کے لئے عورت کے افعال، اس کے ارادے، اس کا دین و مذہب قربان نہیں ہو سکتے مگر قوامون بھی قربان نہیں ہو سکتا.نہ اس کا وجود وہی ہو سکتا ہے قوام نظر آنا چاہئے.اس کے متعلق مثال بیان کرتا ہوں.شریعت کا حکم ہے کہ عورت خاوند کی اجازت کے بغیر باہر نہ جائے.مگر اس کے باوجود مرد عورت کو اس کے والدین سے ملنے سے نہیں روک سکتا.اگر کوئی مرد ایسا کرے تو یہ کافی وجہ خلع کی ہو سکتی ہے.والدین سے ملنا عورت کا حق ہے مگر وقت کی تعیین اور اجازت مرد کا حق ہے.مثلاً خاوند یہ کہہ سکتا ہے کہ شام کو نہیں صبح کو مل لینا یا اس کے والدین کو اپنے گھر بلالے یا اس کو والدین کے گھر بھیج دے.مگر جس طرح مرد اپنے والدین کو ملتا ہے.اسی طرح عورت کا بھی حق ہے سوائے ان صورتوں کے کہ دونوں کا سمجھوتہ ہو جائے.مثلاً جب فساد کا اندیشہ ہویا فتنے کا ڈر ہو.مرد تو پہلے ہی الگ رہتا ہے.مگر عورت خاوند کی مرضی کے خلاف باہر نہیں
خطبات محمود ۹۰ جلد سوم حضرت مسیح موعود کے بعض رفقاء کے حالات فرموده ۲۹ - جون ۱۹۳۴ء) حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے ۲۹.جون ۱۹۳۴ء کو ملک سعید احمد صاحب بی اے ابن ملک مولا بخش صاحب کا نکاح سیدہ محمودہ خاتون صاحبہ بنت سید غلام حسین صاحب سے ایک ہزار روپیہ خر پر پڑھا.خطبہ مسنونہ کی تلاوت کے بعد حسب ذیل ارشاد فرمایا :- جس طرح ہر درخت ایک خاص زمین میں ترقی پاتا ہے اسی طرح صداقتیں بھی اپنے ساتھ کچھ افراد کو وابستہ رکھتی ہیں اور وہ افراد ان صداقتوں سے ایسے وابستہ ہوتے ہیں کہ گو یہ نہیں کہا جاسکتا کہ خود ہی وہ صداقت ہیں مگر یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ وہ اس صداقت سے جدا ہیں.کوئی شبہ نہیں کہ محمد رسول اللہ ﷺ اس وحی کے حامل تھے جو آپ پر نازل ہوئی مگر بو بکر، عمر، عثمان، علی و غیر هم خاص صحابہ کو قرآنی صداقت سے جدا نہیں کر سکتے اور قرآن مجید کو ان سے جدا نہیں کر سکتے.خدا تعالی کی طرف سے فرشتہ جو اسلام لایا وہ رسول کریم کے لئے لایا لیکن رسول کریم ﷺ نے جن برتنوں میں اسے ڈالا وہ پہلے حامل تھے اس کے.جس طرح رسول کریم نے اسلام جبرائیل سے لیا صحابہ نے رسول کریم اے سے لیا.پھر ان کے بھی مدارج تھے جو درجہ حضرت ابو بکر کو حاصل تھا وہ دوسروں کو نہ تھا.رسول کریم ﷺ کے زمانہ میں کسی امر میں حضرت ابو بکر اور حضرت عمرہ کا اختلاف ہو گیا.اختلاف نے مشاجرت کی صورت
خطبات محمود جلد سو اختیار کرلی اور تیز ہو گئی.زیادہ صحیح بات یہ ہے کہ حضرت عمرہ تیز ہو گئے اور جوش میں انہوں نے حضرت ابو بکر پر ہاتھ ڈالا مارنے کو نہیں سمجھانے کو اس پر حضرت ابو بکر غصہ میں آنحضرت کے پاس چلے گئے.اتنے میں حضرت عمر کو بھی خیال آیا کہ میں نے غلطی کی اگر رسول کریم ال سنیں گے تو ناراض ہوں گے وہ بھی رسول کریم اے کے پاس چلے آئے اور بات بیان کر دی.احادیث میں آتا ہے کہ رسول کریم الایا ان کے چہرے پر غضب کے آثار ظاہر ہو گئے اور آپ نے فرمایا کیا تم لوگ مجھے اور ابو بکر کو نہیں چھوڑتے.جس وقت ساری دنیا میری مخالفت کر رہی تھی اس وقت اس نے میرا ساتھ دیا.احادیث میں آتا ہے کہ رسول کریم ای کہا کرتے تھے کہ یا اللہ ! ابو بکر کو میرے ساتھ رکھ.سے قرآن کریم اس معیت کی شہادت اِنَّ اللهَ مَعَنا - سے کے الفاظ میں دیتا ہے.یہ معیت بوجہ سابق بالایمان ہونے کے تھی.پھر ان سے اتر کر دیگر صحابہ حضرت عمر، حضرت عثمان ، حضرت علی و غیر ہم تھے.وہ لوگ بمنزلہ ایسی زمین کے تھے جن میں اسلام کا بیج بویا گیا اور بعد میں آنے والے اس وقت آئے.جب پھل آگیا.السابقون الاولون وہی لوگ تھے جو اس وقت آئے جب اسلام کا پودا لگایا جا رہا تھا اور جب ساری دنیا اسے اکھیڑنے کے درپے تھی گو نہیں کہہ سکتے کہ بعد میں آنے والے پھل کھانے کو آئے مگر آئے اس وقت جب پھل آچکا تھا.یہی حال حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابہ کا ہے.ان پر چند لوگ اس وقت ایمان لائے جب آپ کا ساتھ دینا ہلاکت تھا ایسے ہی لوگ ابو بکر، عمر، عثمان، علی کے مثیل تھے.انہوں نے اپنے قلوب کو پیش کیا کہ ان میں احمدیت کا بیج بویا جائے اور احمدیت کا پودا نشو و نما پائے پھر اور لوگ آئے مگر وہ لوگ پہلے لوگوں کے برابر نہیں ہو سکتے سوائے اس کے کہ وہ تقویٰ میں اس قدر ترقی کر جائیں کہ ان کے دل کا غم ان کے بعد زمانی سے بھاری ہو جائے.پہلے آنے والے لوگوں میں سے ایک سید قاضی امیر حسین صاحب بھی تھے وہ ان لوگوں میں سے تھے جو اس وقت جبکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ابھی الفاظ نبی اور محدث وغیرہ کی تشریح کر رہے تھے کہتے تھے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نبی ہیں.دوسرے لوگوں سے بھی اور خود حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے بھی کہتے.پہلے پہل وہ قادیان میں سات روپیہ ماہور پر آئے اب تو اس تنخواہ پر چپڑاسی بھی نہیں ملتا ان کی طبیعت بہت تیز تھی جلد غصہ آجاتا تھا.حضرت خلیفہ اول کے سامنے تو غصہ کا اظہار بھی
خطبات محمود ۳۳ جلد سوم کرنے لگ جاتے تھے مگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے سامنے ہمیشہ مودب رہتے.مجھے ان کا ایک لطیفہ یاد ہے.یہاں ایک افغان مہاجر تھے جو مسجد میں اذان دیا کرتے تھے ان کی آواز بھاری تھی ایک روز قاضی صاحب نے اس کو اپنے پاس محبت سے بٹھا لیا.وہ کہتا تھا میں نے سمجھا مجھے کچھ انعام دینے لگے ہیں مگر پاس بٹھانے کے بعد کہا دیکھو جس وقت تم اذان کہتے ہو اس وقت خدا اور اس کے فرشتے لعنت کرتے ہیں.آج کل بھی ہماری دونوں مسجدوں میں اس قسم کے مئوذن ہیں کہ ان کو مئوذن نہیں کہہ سکتے.اس مسجد کے مسئوذن تو اس طرح اذان دیتے ہیں جیسے کوئی بند ٹوکرے میں بیٹھ کر بولتا ہے.اذان دیتا بڑا ثواب کا کام ہے اور بڑے بڑے آدمی اذان دیا کرتے تھے.حضرت عمر نے کہا تھا اگر میں خلیفہ نہ ہوتا تو اذان دیا کرتا ہے یہاں مولوی عبد الکریم صاحب بھی اذان دیا کرتے تھے ہم بھی مسوزن تھے.ہم چند آدمی بڑے شوق سے اذان دیتے تھے یہاں تک کہ بعض اوقات ایک نے اذان کہہ دی ہوتی تو دوسرا بھی کہہ دیتا اس طرح کبھی کبھی اس مسجد میں نماز کے لئے تین تین اذانیں ہو جائیں.مجھے یاد ہے مولوی عبد الکریم صاحب نے ایک دفعہ اس پر بہت ڈانٹا.میں نے مولوی عبد ا کریم صاحب کو اور حضرت خلیفہ اول کو بھی اذان کہتے دیکھا ہے مگر اب سمجھا جاتا ہے کہ جو دریاں وغیرہ جھاڑنے پر مقرر ہو وہی اذان بھی دے دیا کرے.اس مسجد مبارک کی اذان تو بعض دفعہ دکاندار بھی نہیں سنتے.صبح کے وقت جبکہ لوگ ابھی خواب کی حالت میں ہوتے ہیں ایسی اذان کچھ معنے نہیں رکھتی.میں اگرچہ پاس ہی سوتا ہوں بعض اوقات میں بھی بمشکل جاگتا ہوں.مجھے خیال آتا ہے کہ اگر قاضی امیر حسین صاحب اس وقت زندہ ہوتے تو ایسے مئوذن کو کتنی لعنتیں ملتیں.قاضی صاحب میں جوش تھا مگر اپنی غلطی معلوم ہونے پر دب بھی جاتے تھے.ایک دفعہ میرے زمانہ خلافت میں سکول والوں نے ان کے لڑکے کو مارا.وہ رات کو آئے اور زور سے میرا دروازہ کھٹکھٹایا.میں باہر آیا اور پوچھا قاضی صاحب خیر تو ہے؟ بولے خیر کیا ہے اگر بھائی عبدالرحیم صاحب پاس نہ ہوتے تو ہیڈ ماسٹر نے میرے لڑکے کو بالکل مار ہی دیا تھا.میں نے کہا آخر وہ لڑکا ہے کہاں اور کس حال میں ہے کہنے لگے میرے پاس تو وہ آیا نہیں وہ تو بھاگ گیا ہے.میں نے پھر کہا پھر خیر بار تو نہیں دیا زندہ ہے.وہ بھاگ جو گیا ہے تو اسے بہت مار نہیں پڑی ہوگی مگر آپ کو کس نے کہا کہ اسے مار ڈالا ہے.بولے ایک لڑکے نے بتایا ہے.میں نے کہا لڑ کے بعض دفعہ جھوٹ بھی بول دیتے ہیں.کہنے لگے اسے جھوٹ بولنے کی کیا ضرورت
خطبات محمود ۳۳ چند موم تھی.آپ خلیفہ ہیں اور خلیفہ کی بڑی ذمہ داریاں ہیں آپ انتظام کریں.میں نے کہا اچھا میں بھائی عبدالرحیم صاحب کو بلواتا ہوں اور تحقیق کرتا ہوں.چنانچہ رات کو ہی بھائی عبدالرحیم صاحب کو بلوایا گیا جب وہ آئے تو ان سے دریافت کیا گیا کہ کیا ہیڈ ماسٹر صاحب نے لڑکے کو مار دیا ہے ؟ تو انہوں نے کہا ہیڈ ماسٹر صاحب نے اسے تین درجن بید کی سزا دی تھی.ڈیڑھ درجن لگ چکے تھے.اس وقت تک تو وہ مسکراتا رہا.پھر میں نے کہا تو ہیڈ ماسٹر صاحب نے اسے چھوڑ دیا.جب یہ سنا تو قاضی صاحب رو پڑے اور کہا مجھے کیا معلوم تھا مجھے تو ایک لڑکے نے بتایا تھا.الغرض قاضی صاحب عجیب رنگ کے آدمی تھے.ان کے بھائی سید غلام حسین صاحب بھی جن کی لڑکی کا آج نکاح ہے پرانے احمدی ہیں میں نے قاضی صاحب کا ذکر اس غرض سے کیا ہے کہ ان لوگوں میں عشقیہ رنگ تھا مگر آج کل کے نوجوانوں میں محض ایک فلسفیانہ رنگ ہے.مولوی عبد الکریم صاحب بھی انہی لوگوں میں سے تھے گرمیوں کے دنوں میں مسجد اقصیٰ سے پانی منگواتے.مٹی کے کچے لوٹے میں پانی لایا جاتا وہ مسجد مبارک میں بیٹھے ہوتے وہ بڑھ کر آگے آتے اور کہتے جب میرے لئے پانی آتا ہے تو میں آگے بڑھ کر اس کے اور قریب ہو جاتا ہوں اور پھر پانی لے کر بڑے زور سے کہتے الحمد للہ.یہی وہ رنگ تھا جو ان کو خصوصیت دیتا ہے.ہم کو لڑکپن میں اس بات کا بڑا لطف آتا اور ہم بھی اسی طرح پانی پیتے اور الحمدللہ کہتے.ایمان عشق سے پیدا ہوتا ہے اس عشق سے جو سوزو گداز پیدا کرے اور ایک آگ لگا دے.جس طرح ایک بچہ کھلونا لے کر سمجھتا ہے کہ سب دنیا اسے مل گئی.اسی طرح مومن بھی ایمان حاصل ہونے پر اور سب چیزوں سے مستغنی ہو جاتا ہے.یہ چیز ہے جو دنیا کو متاثر کرتی ہے خالی باتیں بنانے والا آدمی کوئی اثر نہیں ڈال سکتا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ایک اور پرانے صحابی منشی اروڑے خاں صاحب مرحوم تھے جو کپور تھلہ میں رہتے تھے انہوں نے قصہ سنایا کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کہا میں کپور تھلہ آؤں گا.جس دن توقع تھی اس دن تو آپ تشریف نہ لائے مگر دوسرے دن بلا اطلاع تشریف لے آئے.ایک شخص نے جو منشی صاحب کا سخت مخالف تھا ان کو اطلاع دی کہ مرزا صاحب آگئے ہیں.ان دنوں کپور تھلہ ریل نہیں جاتی تھی ٹانگے یکے وغیرہ جاتے تھے بتانے والے نے کہا میں نے مرزا صاحب کو آتے دیکھا ہے.منشی صاحب کہتے ہیں میں یہ سن کر ننگے سر اور ننگے پاؤں جس طرح بیٹھا تھا دوڑ پڑا کہ جلدی حضرت مسیح موعود علیہ السلام
خطبات محمود ۳۳۵ جلد سوم سے ملوں مگر تھوڑی دور جاکر خیال آیا کہ یہ شخص مخالف ہے اس نے جھوٹ نہ کہا ہو اور میں کھڑا ہو گیا اور اس سے کہنے لگ گیا کہ کیا تم مجھے خراب کرنا چاہتے ہو.ہمارے ایسے نصیب کہاں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام تشریف لا ئیں.مگر اس نے کہا ضرور آئے ہیں آپ جائیں تو سہی.میں پھر دوڑ پڑا.الغرض دو تین دفعہ میں نے ایسا کیا حتی کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نظر آگئے.انہوں نے ایک دفعہ مولوی ثناء اللہ صاحب کا لیکچر سنا ایک اور شخص نے جو ان کے ساتھ تھا انہیں کہا ان باتوں کا کیا جواب ہے.انہوں نے کہا کہ یہ باتیں تو ان لوگوں پر اثر ڈال سکتی ہیں جنہوں نے حضرت مرزا صاحب کو دیکھا نہیں ہم نے تو ان کو دیکھا ہے اور جانتے ہیں کہ ان کا چہرہ جھوٹوں والا نہیں.ان لوگوں کا عشقیہ رنگ تھا.قاضی امیر حسین صاحب کا ایک اور لطیفہ بھی ہے وہ سمجھتے تھے کہ مجلس لگی ہوئی ہو اور کوئی آئے تو کھڑا ہونا جائز نہیں.اس کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا جو عشق اور محبت سے کھڑے ہوں ان کے لئے جائز ہے مگر تکلف سے نہیں.حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے بھی رسول کریم ان کے فوت ہونے پر دو ہنٹر اپنے منہ پر مارا ہی تھا.میرے زمانہ خلافت میں میں نے دیکھا کہ میں جب آتا تو وہ کھڑے ہو جاتے.میں نے پوچھا یہ کیوں؟ تو کہنے لگے "کی کراں رہیا نہیں جاندا" یعنی کیا کروں رہ نہیں سکتا.یہ عشقیہ رنگ تھا.سید غلام حسین صاحب جن کی لڑکی کا نکاح ہے قاضی امیر حسین صاحب کے بھائی ہیں اور پرانے احمدی ہیں.ملک مولا بخش صاحب بھی میرے بہت دیر سے ملنے والے ہیں اور مخلص ہیں جہاں تک میرا خیال ہے وہ اخلاص میں ترقی کرتے رہے ہیں ان کا بیٹا جس کا نام بھی سعید ہے اور ویسے بھی سعید ہے.لڑکی کی طرف سے میں خود ولی ہوں اور میں سید غلام حسین صاحب کی لڑکی محمودہ خاتون کے نکاح کا ایک ہزار روپیہ مہر پر سعید احمد صاحب سے اعلان کرتا ہوں.الفضل (۲۴ جولائی ۱۹۳۴ء صفحه (۲۵) له بخاری کتاب المناقب باب قول النبي ﷺ لو كنت متخذا خليلا له تفسیر در منشور جلد ۳ صفحه ۲۴۲ ه التوبه : ۴۰
خطبات محمود ۳۳۶ ۹۱ جلد سوم حضرت مسیح موعود کے خاندان کی اہم ذمہ داریاں (فرموده ۲- جولائی ۱۹۳۴ء) حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے ۲ جولائی ۱۹۳۴ء کو صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب کا نکاح صاحبزادی منصوره بیگم صاحبہ بنت نواب محمد علی خان صاحب کے ساتھ اور صاحبزادہ مرزا منصور احمد صاحب ابن حضرت مرزا شریف احمد صاحب کا نکاح اپنی صاحبزادی ناصرہ بیگم صاحبہ کے ساتھ پڑھاتے خطبہ مسنونہ کی تلاوت کے بعد فرمایا : اللہ تعالی قرآن کریم میں انسانی پیدائش کے متعلق فرماتا ہے وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ - سه یعنی میں نے جن و انس کو صرف ایک مقصد کے لئے پیدا کیا ہے جو یہ ہے کہ وہ میرے عبد بن جائیں.صفات اللہ کو اپنے اندر داخل کرلیں اور میرے مظہر کامل ہو جائیں گویا ان میں سے ہر شخص باوجود بندہ ہونے کے خدا تعالیٰ کا ظل ہو جو سطح زمین پر چل پھر رہا ہو.ایسے لوگ جنہیں خدا تعالیٰ کی ذات پر یقین نہیں کہا کرتے ہیں کہ خدا کہاں ہے ہمیں دکھا دو اور کئی مئومن حیران ہو کر پوچھا کرتے ہیں کہ اس سوال کا کیا جواب ہے حالانکہ اگر وہ معنوں میں مومن ہوں تو اس سوال کا جواب وہ خود بن جائیں کیونکہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے میں نے ہر انسان کو اپنا کل بننے کے لئے پیدا کیا ہے.پس ہر کامل مومن خدا تعالیٰ کا حل اور خلیفہ اللہ ہے اس کے ہوتے ہوئے کوئی شخص یہ سوال ہی نہیں کر سکتا کہ خدا دکھا دو کیونکہ اس کی موجودگی میں یہ سوال بالکل بے معنی ہے.جب سورج چڑھا ہوا ہو تو کون کہا کرتا ہے کہ مجھے
خطبات محمود جلد سوا سورج دکھاؤ یا دریا موجیں مار رہا ہو تو کون کہہ سکتا ہے کہ مجھے دریا دکھا دو وہ تو ہر شخص کو نظر آرہا ہوتا ہے.پس اگر کوئی شخص دنیا میں وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ کا منظر ہو جائے تو کوئی شخص یہ سوال نہیں کر سکتا کہ مجھے خود خدا د کھاؤ کیونکہ اس کا وجود ہی خدا تعالٰی کی صفات کا مظہر ہوتا ہے اور اس کی تمام صفات اس کے اعمال سے پھوٹ پھوٹ کر نکل رہی ہوتی ہیں.بہر حال یہ مقصد اور غرض ہے جس کے لئے خدا تعالیٰ نے ہر انسان کو پیدا کیا اور اس مقصد کے حصول کے لئے پہلا انسان جسے ذمہ دار قرار دیا گیا قرآن مجید میں اسے آدم کے نام سے موسوم کیا ہے.حضرت آدم ظاہر ہوئے اور انہوں نے دنیا میں خدا تعالیٰ کے وجود کو ظاہر کرنے کی پوری کوشش کی.وہ لوگ جن کی ہستیاں اور جن کے آرام اور تعیش خدا تعالی کے وجود کے ظاہر ہونے سے خطرے میں پڑتے تھے انہوں نے حضرت آدم کا مقابلہ کیا اور طرح طرح سے اس نور کو چھپانے کی کوشش کی جو دنیا میں حضرت آدم کے ذریعہ ظاہر ہوا لیکن وہ مخالف اپنی کوششوں میں ناکام رہے.اور آدم نے جس قدر اس زمانہ میں مقدر تھا خدا تعالی کا نور ظاہر کیا.آدم کا زمانہ گزرا تو حضرت نوح کا زمانہ آیا اس وقت بھی دنیا نے پوری کوشش کی کہ وہ خدا تعالٰی کے نور کو کسی طرح چھپا دے لیکن دنیا کامیاب نہ ہوئی اور خدا تعالٰی نے اپنے جلالی نشانوں کے ذریعہ دنیا میں پھر عبودیت قائم کی پھر اللہ تعالی کے عبد دنیا میں نظر آنے لگے.اس کے بعد شیطان نے پھر زور پکڑا اور ابراہیمی زمانہ تک حضرت نوح کے تمام آثار کو اس نے اپنی دانست میں مٹادیا تو خدا نے حضرت ابراہیم کے ذریعہ پھر دنیا میں اپنا نور قائم کیا اور خدا کے عبد نظر آنے لگے لیکن ابراہیمی نور بھی آخر مدھم پڑ گیا اور خدا کو حضرت موسیٰ علیہ السلام کی شکل میں اپنا نور ظاہر کرنا پڑا.حضرت موسیٰ کے بعد خدا تعالٰی نے نبیوں کا سلسلہ تواتر کے ساتھ شروع کر دیا یہاں تک کہ حضرت عیسی علیہ السلام کا زمانہ آیا اور خدا تعالی کا وجود جس کا اثر دلوں پر نہایت ہی کمزور ہو گیا تھا پھر اپنی عظمت کے ساتھ دنیا میں نظر آنے لگا.لیکن حضرت عیسی علیہ السلام کے بعد ان کے سلسلہ میں بھی کمزوری پیدا ہوئی پھر اللہ تعالیٰ کے نور کی روشنی مدھم پڑ گئی پھر شیطان نے اپنا سر اٹھایا تب خدا تعالیٰ نے اس آخری نور کو جو ہدایت اور راہ نمائی کا آخری سرچشمہ تھا یعنی محمد مصطفی اللہ کی ذات مبارکہ کو دنیا کی اصلاح کے لئے مبعوث فرمایا.رسول کریم اے کو دشمنان دین حق کا مقابلہ جس تختی کے ساتھ کرنا پڑا اور جن تکالیف
خطبات محمود جلد سوم میں سے آپ کو گزرنا پڑا ان سے تمام مسلمان واقف ہیں اور ہماری جماعت کے سامنے تو یہ مسئلہ کئی رنگوں میں آتا رہتا ہے.آپ آخری روشنی تھے جو ظاہر ہوئے آپ کے بعد کوئی نور ایسا آنے والا نہ تھا جو آپ کے نور سے منور نہ ہو.اسی طرح آپ کا ہدایت نامہ آخری ہدایت نامہ تھا یعنی پھر دنیا میں کوئی ایسی ہدایت آنے والی نہ تھی جو آپ کے ہدایت نامہ کے خلاف ہو لیکن آپ کے لئے بھی مقدر تھا کہ کچھ عرصہ کے بعد لوگ آپ کے لائے ہوئے نور سے بھی محروم ہو جائیں، پھر شیطان سر اٹھائے، پھر دنیا میں گمراہی پھیل جائے اور پھر ایسا فتنہ ظاہر ہو جو آپ کی لائی ہوئی تعلیم اور نیکی و ایمان کو خطرہ میں ڈال دے.بلکہ ایک ایسا فتنہ مقدر تھا جس کی مثال دنیا میں نہیں ملتی.خود رسول کریم ﷺ فرماتے ہیں.مَا بَيْنَ خَلْقِ ادم إلى قيَامِ السَّاعَةِ أَحْبَرُ مِنْ أَمْرِ التَّجَالِ.سے یعنی ایک دجالی فتنہ ظاہر ہونے والا ہے کہ خلق آدم سے لے کر قیامت تک اس سے بڑا فتنہ کوئی ظاہر نہیں ہوا ہو گا.پس جس طرح رسول کریم ﷺ کا وجود سارے وجودوں سے بڑھ کر تھا جس طرح آپ کی لائی ہوئی تعلیم تعلیموں سے اکمل تھی ویسے ہی آپ کے بعد ایک ایسا فتنہ ظاہر ہونے والا تھا جو دنیا کے تمام فتنوں سے بڑا تھا.گویا ایک طرف جب آپ کے وجود میں رحمانی طاقتوں نے کامل طور پر ظہور کیا تو آپ کے مقابل پر جو فتنہ اٹھنے والا تھا اس میں شیطانی طاقتوں نے اپنا پورا زور صرف کرنا تھا.اس فتنہ کے مقابلہ کے لئے مقدر تھا کہ رسول کریم ان کی روحانی اولاد اور آپ کے شاگردوں میں سے ایک شخص کو کھڑا کیا جائے اور اس کے ذریعہ اس دجال کا جس نے ایمان کو خطرہ میں ڈال دیا ہو گا سر کچلا جائے.ہم دیکھتے ہیں آج کوئی فتنہ اور کوئی شرارت ایسی نہیں جس کا وجود پہلے زمانوں میں پایا نہ جاتا ہو.اگر آج دہریت پائی جاتی ہے تو یہ ہر ملک اور ہر زمانہ میں پائی جاتی تھی.فلسفیانہ طور پر خدا تعالیٰ کے وجود کا انکار یونانیوں، ہندوستانیوں اور مصریوں میں پایا جاتا تھا اور مذہبی طور پر خدا تعالٰی کے وجود کا انکار یونانیوں، ہندوستانیوں اور مصریوں میں پایا جاتا تھا اور مذہبی طور پر خدا تعالی کے وجود کا انکار قریباً ہر ملک میں پایا جاتا تھا اور تمام ممالک میں ایسے لوگ ملتے تھے جو کہتے تھے کہ مذہبی طور پر خدا تعالی کا وجود ثابت نہیں.اگر آج لوگ انبیاء کا انکار کرتے ہیں، وحی الی کو تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں ہوتے اور فسق و فجور میں مبتلاء رہتے ہیں تو اس قسم کے لوگ پہلے بھی ساری قوموں میں پائے جاتے تھے.پہلے بھی ایسے لوگ تھے جو انبیاء کا انکار کرتے
خطبات محمود ۳۳۹ جلد دوم تھے ، پہلے بھی ایسے لوگ تھے جو وحی الہی کو تسلیم نہ کرتے تھے ، پہلے بھی ایسے لوگ تھے جو فسق و فجور میں مبتلاء رہتے تھے.اور پہلے بھی ایسے لوگ تھے جو دین سے بے اعتنائی کرتے تھے اور بد اخلاقیوں کے مرتکب ہوتے تھے ، پھر وہ کیا چیز ہے دجالی فتنہ میں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا آدم سے لے کر قیامت تک کوئی فتنہ اس سے بڑا نہیں ہو گا.کوئی چیز اس فتنہ میں ہونی چاہئے جو پہلے دنیا میں موجود نہیں تھی.اس حقیقت کے معلوم کرنے کے لئے جب غور کرتے ہیں تو ہمیں دو چیزیں ایسی نظر آتی ہیں جو پہلے فتنوں میں موجود نہیں تھیں.ایک تو یہ کہ پہلے زمانہ میں جو فتنے پیدا ہوتے تھے وہ مقامی ہوتے تھے مثلاً ہندوستان کا فتنہ مستقل ہو تا تھا وہ ایرانی فتنے سے متاثر نہیں ہوتا تھا اور ایرانی فتنہ مستقل ہو تا تھا وہ یونانی فتنہ سے متاثر نہیں ہو تا تھا، اسی طرح مصری فتنہ مستقل ہو تا تھا جو یونانی اور ایرانی فتنہ سے متاثر نہیں ہوتا تھا اس وجہ سے ان فتنوں کا دین پر متفقہ حملہ نہیں ہو تا تھا بلکہ ان کی مثال بالکل ایسی ہی ہوتی تھی جیسے ایک ملک میں ڈاکو لوٹ مار کر رہے ہوں اور کچھ ایک طرف سے حملہ آور ہوں کچھ دوسری طرف سے.ڈاکوؤں سے ملک کا امن بے شک خطرہ میں پڑ جائے گا مگر حکومت تباہ نہیں ہوگی حکومت منظم طاقتوں سے تباہ ہوا کرتی ہے.پس پہلے فتنوں اور موجودہ فتنہ میں فرق یہ ہے کہ یہ فتنہ ایک منظم تحریک کے ماتحت اپنا اثر پھیلا تا جارہا ہے.جاپان کو عیسائی نہیں مگر اس کے خیالات کی رو یورپ کے تابع ہے، چین کو عیسائی نہیں مگر اس کے خیالات یورپ کے تابع ہیں.اسی طرح ایران ہندوستان، ترکستان اور عرب عیسائی نہیں ظاہر ا مسلمان ممالک ہیں مگر ان کے خیالات کی رو یورپ کے تابع ہے.غرض موجودہ زمانہ میں تمام تحریکات ایک ملک میں پروئی ہوئی اور ایک نظام کے ماتحت نظر آتی ہیں جس سے اس فتنہ کی مصیبت بہت بڑھ گئی ہے.پہلے انسان یہ خیال کرتا تھا کہ ایرانی یا یونانی کہتے ہے مگر اب یہ کہا جاتا ہے دنیا کا ہر معقول انسان یوں کہتا ہے.پہلے اگر کسی کے سامنے یہ کہا جاتا تھا کہ ایرانیوں کا یہ عقیدہ ہے تو سننے والا دل میں یہ کہہ سکتا تھا کہ شاید باقی دنیا کا عقیدہ اس کے خلاف ہو وہ مرعوب نہ ہوتا تھا اور عملاً بھی ایسا ہی ہوتا تھا یعنی ایک وقت میں ایک ہی بدی سارے عالم میں پھیلی ہوئی نہ ہوتی تھی.کسی ملک میں کوئی بدی ہوتی تھی تو کسی میں کوئی.اگر ہندوستان میں دہریت کی رو تھی تو ایران میں بد عملی کی رو تھی، یونان میں فلسفہ کی رو تھی تو مصر میں مشرکانہ خیالات کی رو تھی.پس ان کے اعتراض میں یکسانیت نہیں تھی اور مخالفت میں تنظیم نہیں پائی جاتی تھی.لیکن اس زمانہ میں تمام خیالات
خطبات محمود ۳۴۰ جلد سوم ایک کرو اور ایک ہی ملک کے ماتحت ہیں جہاں سے کوئی تحریک اٹھتی ہے اس کا مقصد ایک ہی ہوتا ہے اور وہ یہ کہ دنیا کو خدا سے دور کر دیا جائے.یہ چیز پہلے کبھی دنیا میں ایک وقت میں نظر نہیں آتی.دوسری چیز جو منفردانہ رنگ رکھتی ہے یہ ہے کہ پہلے جتنے حملے ہوتے تھے وہ فلسفیانہ ہوتے تھے اور فلسفہ کی ساری بنیاد واہمہ پر ہے.مگر اس وقت جتنے حملے ہوتے ہیں وہ سائنس کی بناء پر ہوتے ہیں اور سائنس کی بنیاد مشاہدہ پر ہے.فلسفیانہ اعتراضات کے جواب میں تو انسان بڑی دلیری سے کہہ سکتا ہے کہ یہ تمہارے ڈھکوسلے اور دل کے خیالات ہیں لیکن مشاہدہ پر بنیاد رکھتے ہوئے جب ایک سوال پیش کیا جائے تو اس وقت اس کا جواب دینا مشکل ہو جاتا ہے.یہ کہنا کہ "ایسہ جہان مٹھاتے اگلا کن ڈٹھا کہ اس دنیا کی عیش و عشرت پر لطف ہے مرنے کے بعد جو کچھ ہوتا ہے وہ کس نے دیکھا ہے کہ وہاں آرام و آسائش میسر آسکے گی.ایک فلسفیانہ خیال ہے اور اسے سن کر ایک انسان متأثر ہو سکتا ہے مگر دوسرا یہ بھی تو کہہ سکتا ہے کہ یہ ایک کہاوت بنائی گئی ہے حقیقت کا اس میں کوئی دخل نہیں.لیکن ذرات عالم کی بناوٹ پر اپنے خیالات کی بنیاد رکھتے ہوئے اور یہ ثابت کرتے ہوئے کہ دنیا کا ذرہ ذرہ ایک ایسی تنظیم کی صورت رکھتا ہے کہ کارخانہ عالم خود بخود چلتا چلا جاتا ہے.جب کہا جائے کہ اس دنیا کو چلانے کے لئے کسی بیرونی ہستی کی ضرورت نہیں تو یہ سوال ایک نیا رنگ اختیار کر لیتا ہے جو پہلے امر میں نہیں تھا.پھر پہلے خدا تعالٰی کے وجود کے خلاف صرف فلسفی کھڑا ہوا کرتے تھے مگر اب علم النفس والے بھی کھڑے ہیں، علم ہندسہ والے بھی کھڑے ہیں، علم سائنس والے بھی کھڑے ہیں، علم طبقات الارض والے بھی کھڑے ہیں، علم ہیئت والے بھی کھڑے ہیں غرض تمام علوم مشترکہ طور پر ایک نتیجہ پیش کرتے ہیں اور یہ حملہ پہلے سے بہت زیادہ سخت ہے.پہلے یہ سمجھ لیا جاتا تھا کہ ایک فلسفی نے خدا تعالیٰ کی ہستی کا انکار کیا نہ معلوم اس کے قول میں سچائی ہے یا نہیں مگر اب یہ کہا جاتا ہے کہ جس رنگ میں دیکھو یہی نتیجہ نکلے گا کہ خدا نہیں.علم ہیئت سے دیکھو تو بھی یہی نتیجہ نکلے گا کہ خدا نہیں، علم حیات کے ماتحت دیکھو تو بھی یہی نتیجہ نکلے گا کہ خدا نہیں، علم طبقات الارض کے ماتحت دیکھو تب بھی یہی نتیجہ نکلے گا کہ خدا نہیں، اسی طرح اگر علم النفس کے ذریعہ خدا کو معلوم کرنا چاہو تب بھی یہی معلوم ہوگا کہ خدا نہیں، اگر علم ہندسہ کے ذریعہ
خطبات محمود اسم ۳ دیکھو تب بھی یہی معلوم ہو گا کہ خدا نہیں، اگر علم کیمیا کے ذریعہ دیکھو تب بھی یہی معلوم ہو گا کہ خدا نہیں.غرض تمام علوم ایک ہی طرف لگ گئے ہیں جیسا کہ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے جدھر سے نکلو تمہارا دھیان مکہ کی طرف ہونا چاہئے اسی طرح آج جدھر سے کفر اٹھتا ہے ایک ہی خیال اور ایک ہی آواز لے کر آتا ہے کہ دنیا کو کسی خدا کی ضرورت نہیں ہم آزاد ہیں.وہ تمام علوم جن کے ذریعہ خدا تعالیٰ کی ہستی ثابت کی جاتی ہے آج ان کے ماتحت خدا تعالیٰ کا انکار کیا جاتا اور اس انکار کی بنیاد سائنس پر رکھی جاتی ہے.مثلاً رؤیا اور الہام ہیں جو خدا تعالیٰ کے وجود کا ثبوت ہیں پہلے یہ اعتراض کیا جاتا تھا کہ کیا خدا تعالیٰ کی زبان ہے جو وہ بولتا ہے.اس سوال کا آسانی سے جواب دیا جاسکتا تھا یا لوگ کہہ دیتے کہ خواہیں کیا ہیں؟ انسانی خیالات ہی ہیں.اس کا بھی آسانی سے رد کیا جا سکتا تھا لیکن آج خوابوں کے متعلق انسانی علوم نے اتنی تحقیق کی ہے.کہ انسان گھبرا اٹھتا ہے.آج انسانی دماغ کی بناوٹ سے ثابت کیا گیا ہے کہ بغیر اس کے کہ خواہیں خدا تعالی کی طرف سے ہوں انسانی دماغ بہت سی خوابیں دیکھتا اور پھر وہ خواہیں اپنے وقت پر پوری ہو جاتی ہیں.پس خوابوں کا پورا ہو جاتا بھی یہ ثابت نہیں کر سکتا کہ دنیا کا کوئی خدا ہے کیونکہ مشاہدات کے ذریعہ انہوں نے اس کو باطل ثابت کیا ہے.گو وہ الہام جو مذہب کا آخری سہارا تھا اسے بھی دلائل کی رو سے باطل ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے.غرض آج کفر اپنے تمام ہتھیار استعمال کر رہا ہے اور یہ حملہ اپنی کمیت اور کیفیت کے لحاظ سے بے مثال ہے.پہلے حملوں میں آدمی کم ہوتے اور وہ متفرق طور پر حملہ کرتے تھے.ایرانی اور رنگ میں حملہ کرتا تھا اور جاپانی اور رنگ میں مگر اب تمام دنیا متفقہ طور پر حملہ کرتی اور ایک ہی محاذ پر جنگ لڑتی ہے.پھر پہلے حملے فلسفہ تک محدود تھے مگر اب علم معیشت کے ماتحت بھی حملہ کیا جاتا ہے، علم حیات کے ماتحت بھی حملہ کیا جاتا ہے، علم النفس کے ماتحت بھی حملہ کیا جاتا ہے غرض جتنے رائج الوقت علوم ہیں ان سب کو استعمال کیا جاتا ہے.پس اس میں کچھ شبہ نہیں کہ اس فتنہ کے برابر دنیا کا کوئی فتنہ نہیں.اس عظیم الشان فتنہ کے متعلق جب رسول کریم نے دریافت کیا گیا کہ یا رسول اللہ اللہ ! اس کا کیا علاج ہو گا اور وہ کون لوگ ہوں گے جو اس بے مثال فتنہ کا مقابلہ کریں گے جو پھر خدا تعالٰی کی طرف لوگوں کی توجہ کو پھیرا دیں گے، پھر ایمان دنیا میں از سر نو قائم کردیں گے، پھر مخلوق کو اس کے خالق سے ملا دیں گے تو رسول کریم
خطبات محمود سم ۳ جلد سود نے سلمان فارسی کی پیٹھ پر ہاتھ رکھا اور فرمایا - لو كَانَ الاِيْمَانُ مُعَلَّقًا بِالثَّرَيَّا لَنَا لَهُ رَجُلٌ مِنْ هؤلاء - شے اور بعض جگہ رجال من فارس کے الفاظ آتے ہیں یعنی ایمان اگر ثریا سے بھی معلق ہو جائے گا تب بھی سلمان فارسی کی نسل یعنی اہل فارس میں سے کچھ لوگ ایسے کھڑے ہو جائیں گے جو ایمان کو دنیا میں قائم کر دیں گے.اس بہت بڑے فتنے کا ذکر کر کے جس کے سننے کے بعد صحابہ کے ہوش اڑ گئے تھے اور وہ اس قدر خوفزدہ ہوئے تھے کہ ایک دفعہ رسول کریم ﷺ نے دجال کا ذکر کیا اور اس کے فتن کی تفصیلات بیان کیں اور اس کے بعد آپ گھر تشریف لے گئے اور کئی گھنٹے کے بعد جب آپ واپس تشریف لائے تو آپ نے دیکھا کہ صحابہ کے رنگ اڑے ہوئے ہیں اور وہ سخت پریشانی کی حالت میں بیٹھے ہیں.آپ نے فرمایا.تم کو کیا ہوا کہ اس طرح گھبرائے ہوئے ہو ؟ انہوں نے کہا یا رسول اللہ ﷺ ! آپ کے بیان نے تو ہماری جانیں نکال دیں ہم نہیں سمجھتے کہ اتنے بڑے فتنے کے بعد ایمان کے بچاؤ کی صورت کیا ہوگی.رسول کریم ﷺ نے فرمایا جب دجال آیا اگر اس وقت میں زندہ ہوا تو حَجِيجُهُ - شہ میں تمہاری طرف سے اس سے بحث کروں گا اور اگر میں زندہ نہ ہوا تو ہر ے اس سے بھ مومن اپنی اپنی طرف سے لڑے.یہ جو فرمایا کہ اگر میں زندہ ہوا تو تمہاری طرف سے اس سے بحث کروں گا در اصل اس سے بھی وہی مراد ہے جو سورہ جمعہ کی آیت و اخَرِينَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمُ له سے مراد ہے یعنی رسول کریم ﷺ کا بروز کامل.آپ کا مطلب یہ تھا کہ اگر اس وقت ایسا شخص مبعوث ہو چکا ہو جسے میرا و جو د کہا جاسکے تو وہ اس دجال کا مقابلہ کرے گا.ورنہ سوائے اس کے اور کوئی صورت نہ ہوگی کہ مسلمان اس دجال سے لڑ کر مر جائیں.اس عظیم الشان فتنہ کے مقابلہ کے لئے رسول کریم ﷺ نے یہ پیشگوئی کی ہے یا یوں کہنا چاہئے کہ اپیل کی ہے کہ میں یہ امید کرتا ہوں کہ جب یہ فتنہ عظیم پیدا ہو گا تو اہل فارس میں سے کچھ لوگ ایسے کھڑے ہو جائیں گے جو تمام قسم کے خطرات اور مصائب کو برداشت کرتے ہوئے پھر دنیا میں ایمان قائم کر دیں گے.میں سمجھتا ہوں یہ خالی پیشگوئی ہی نہیں بلکہ رسول کریم کی ایک آرزو ہے، ایک خواہش ہے ایک امید ہے اور یہ الفاظ بتاتے ہیں کہ خدا کا رسول ابنائے فارس سے کیا چاہتا ہے.اس فتنہ سے خطرات کے لحاظ سے بہت کم، نتائج کے لحاظ سے بہت کم، زمانہ اور اثرات کے لحاظ سے بہت کم، رسول کریم ﷺ کے زمانہ میں بھی فتنہ
س سوم سر اٹھا.صحابہ نے اس وقت جو نمونہ دکھایا وہ تاریخ کی کتابوں میں آج تک لکھا ہے رسول کریم ایک جنگ میں جو فتح مکہ کے بعد ہوئی شامل ہوئے وہ لوگ جو فتح مکہ کے بعد مسلمان ہوئے تھے اور ابھی ایمان ان کے دلوں میں پوری مضبوطی سے قائم نہیں ہوا تھا وہ اور ان کے علاوہ کچھ کا فر رسول کریم ﷺ کے پاس آئے اور انہوں نے کہا.یا رسول اللہ ! ہمیں بھی اس لشکر میں شامل ہونے کی اجازت دیجئے جس نے ہوازن کا مقابلہ کرنا ہے.رسول کریم نے انہیں شامل ہونے سے روکا مگر جب انہوں نے زیادہ اصرار کیا تو آپ نے شامل ہونے کی اجازت دے دی.دس ہزار کا لشکر تو وہ تھا جس نے مکہ فتح کیا تھا اور دو ہزار یہ لوگ تھے.کہ گویا دس بارہ ہزار کا لشکر میدان جنگ میں چل پڑا.جس وقت ہوازن کے قریب پہنچے تو وہاں ایک درہ تھا جس کے گرد طائف کی اقوام نے اپنے ڈیرے ڈالے ہوئے تھے اور اچھے ہوشیار تیرانداز سڑک کے دونوں طرف چل پڑے تھے.صحابہ کا دس ہزار کا لشکر وہ تھا جس کا ایک ایک شخص کئی کئی کفار کا مقابلہ کر چکا تھا اور اس لحاظ سے ہوازن کا مقابلہ ان کے لئے مشکل نہیں تھا لیکن اب دو ہزار کمزور ایمان والے بھی ان میں شامل ہو گئے تھے.ایسے لوگ ان میں شامل ہو گئے تھے جن کے دلوں میں کبر اور غرور موجود تھا اور جو ایک دوسرے کی طرف دیکھ دیکھ کر کہتے تھے کہ یہ مدینہ والے لڑائی کیا جائیں اور پھر وہ اپنے ساتھیوں کو آواز دیتے ہوئے کہتے اے مکہ والو! آج جرات اور شجاعت دکھانے کا دن ہے.اس غرور اور تکبر کی حالت میں جونہی وہ تیر اندازوں کی زد میں پہنچے ہوازن کے تجربہ کار تیر اندازوں نے بے تحاشا ان پر تیروں کی بارش شروع کر دی.یہ دیکھتے ہی ان کی ساری بہادری جاتی رہی اور وہ ڈر کر میدان جنگ سے بھاگ نکلے.دو ہزار گھوڑوں کا صفوں کو چیرتے ہوئے گزرنا کوئی معمولی امر نہیں تھا نتیجہ یہ ہوا کہ باقی دس ہزار آدمیوں کے گھوڑے بھی برک گئے اور بے تحاشا بھاگنے لگ گئے یہاں تک کہ صرف بارہ آدمی رسول کریم ﷺ کے پاس رہ گئے.اسلامی لشکر اس کا وقت کسی بزدلی کی وجہ سے میدان جنگ سے نہیں بھاگا بلکہ اس لئے بھاگا کہ دو ہزار گھوڑوں کے بھاگنے نے ان کے گھوڑوں کو مرعوب کر دیا اور وہ بھی میدان میں ٹھہر نہ سکے.ایک صحابی کا بیان ہے ہم اپنے گھوڑوں کو روکنے کے لئے ان کی باگیں کھینچتے اور اتنے زور سے کھینچتے کہ ان کی گردنیں ٹیڑھی ہو جاتیں مگر جونہی باگ ڈھیلی ہوتی وہ پھر بھاگ پڑتے.ہم حیران تھے کہ کیا کریں.اتنے میں رسول کریم ﷺ نے اپنے گھوڑے کو ایڑ لگائی اور دشمن کی طرف بڑھنا )
خطبات محمود سلام سلام سر جلد سوم شروع کیا اس وقت بعض صحابہ نے آپ کے گھوڑے کی باگ پکڑ لی اور کہا یا رسول اللہ اللی ! یہ خطرے کا وقت ہے اب مناسب نہیں کہ آپ آگے بڑھیں مگر رسول کریم ا نے فرمایا مجھے چھوڑ دو نبی پیچھے نہیں ہٹا کرتا پھر آپ نے بلند آواز سے کہا.! انا النبيُّ لو كذب انا ابن عبد المطلب ث میں نبی ہوں جھوٹا نہیں میں عبد المطلب کا بیٹا ہوں.پھر آپ نے کہا.عباس بلند آواز سے کہو کہ اے انصار! خدا کا رسول لا تمہیں بلاتا ہے.اس وقت آپ نے مکہ والوں کو آواز دینے کے لئے نہ کہا کیونکہ مکہ والے ہی تھے جنہوں نے اس جنگ میں فتح کو شکست سے بدل دیا تھا پس آپ نے انصار کو مخاطب کیا اور حضرت عباس سے کہا کہ انصار کو آواز دو کہ خدا کا رسول تمہیں بلاتا ہے.حضرت عباس کی آواز بہت بلند تھی جب انہوں نے زور سے کہا کہ اے انصار ! خدا کا رسول الی تمہیں بلاتا ہے تو صحابہ کہتے ہیں یا تو ہماری یہ حالت تھی کہ ہم گھوڑے موڑتے تھے اور وہ نہیں مڑتے تھے جونہی یہ آواز بلند ہوئی کہ اے انصار! خدا کا رسول اے تمہیں بلاتا ہے ہمیں یوں معلوم ہوا کہ قیامت کا دن ہے اور صور اسرائیل پھونکا جا رہا ہے.ہم میں سے جو شخص اپنی سواری کو لوٹا سکا اس نے واپس لوٹا کر اور جس نے دیکھا کہ اس کی سواری نہیں مڑتی اس نے تلوار سے اس کی گردن کاٹ کر رسول کریم ﷺ کی طرف بڑھنا شروع کیا یہاں تک کہ چند منٹ میں ہی میدان لشکر اسلامی سے بھر گیا.شہ یہ وہ آواز تھی جو خدا کے رسول ﷺ نے دی.اور اس کی قدر انصار نے یہ کی کہ جس وقت یہ آواز ان کے کانوں میں پہنچی انہوں نے کسی چیز کی پرواہ نہ کی.اگر ان میں سے کسی کی سواری مرسکی تو سواری پر چڑھ کر ورنہ اپنے گھوڑوں اور اونٹوں کی گردنیں اڑاتے ہوئے چند منٹ میں ہی رسول کریم ﷺ کی آواز پر جمع ہو گئے.اس آواز سے زیادہ شان کے ساتھ ، اس آواز سے زیادہ یقین کے ساتھ ، اس آواز سے زیادہ اعتماد کے ساتھ ، اس آواز سے زیادہ محبت کے ساتھ ، اس آواز سے زیادہ امید کے ساتھ خدا کے رسول ﷺ نے ۱۳ سو سال پہلے کہا تھا.لو كَانَ الإِيمَانُ مُعَلَّقًا بالتُّرَيَا لَنَا لَهُ رِجَالُ مِنْ أَبْنَاءِ فَارَس - شاه وہ وقت جب میری امت پر آئے گا، جب اسلام مٹ جائے گا، جب دجال کا فتنہ روئے زمین پر غالب آجائے گا، جب ایمان مفقود ہو جائے گا، جب رات کو
خطبات محمود ۳۴۵ جلد سوم انسان مومن ہو گا اور صبح کافر، صبح مومن ہو گا اور شام کو کافر اس وقت میں امید کرتا ہوں کہ اہل فارس میں سے کچھ لوگ ایسے کھڑے ہو جائیں گے جو پھر اس آواز پر جو میری طرف سے بلند ہوئی ہے لبیک کہیں گے پھر ایمان کو ثریا سے واپس لائیں گے.ان الفاظ میں رسول کریم نے خالی رجل نہیں کہا بلکہ دجال کیا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ اشاعت اسلام کی ذمہ داری رجل فارس پر ہی ختم نہیں ہو جائے گی بلکہ اس کی اولاد پر بھی وہی ذمہ داری عائد ہوگی اور ان سے بھی رسول کریم ﷺ اسی چیز کی امید رکھتے ہیں جس کی امید آپ نے رجل فارس سے کی.یہ وہ آواز ہے جو محمد رسول اللہ ﷺ نے اس ناامیدی کی تصویر کھینچنے کے بعد جس سے صحابہ کے رنگ اڑ گئے اور ان کے دل دھڑکنے لگ گئے تھے ان کے دلوں کو ڈھارس دینے کے لئے بلند کی اور یہ وہ امید و اعتماد ہے جس کا آپ نے ابنائے فارس کے متعلق اظہار کیا.میں آج اس امانت اور ذمہ داری کو ادا کرتا ہوں اور آج ان تمام افراد کو جو رجل فارس کی اولاد میں سے ہیں رسول کریم اے کا یہ پیغام پہنچاتا ہوں.رسول کریم ﷺ نے امت محمدیہ کی تباہی کے وقت امید ظاہر کی ہے کہ کنا کہ رِجَالُ مِنْ فَارَس اور یقین ظاہر کیا ہے کہ اس فارسی النسل موعود کی اولاد دنیا کی لالچوں، حرصوں اور ترقیات کو چھوڑ کر صرف ایک کام کے لئے اپنے آپ کو وقف کر دے گی اور وہ کام یہ ہے کہ دنیا میں اسلام کا جھنڈا بلند کیا جائے.ایمان کو ثریا سے واپس لایا جائے اور مخلوق کو آستانہ خدا پر گرایا جائے.یہ امید ہے جو خدا کے رسول نے کی.اب میں ان پر چھوڑتا ہوں وہ اس کا کیا جواب دیتے ہیں.خواہ میری اولاد ہویا میرے بھائیوں کی وہ اپنے دلوں میں غور کر کے اپنے فطرتوں سے دریافت کریں کہ اس آواز کے بعد ان پر کیا ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں.اس میں شبہ نہیں کہ اس وقت دنیا اپنی تمام خوبصورتیوں کے ساتھ ننگی ہو رہی ہے اور اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اس وقت خدا تعالٰی کی حالت نعوذ باللہ اس کو ڑھی کی سی ہے جسے گھر سے اہر پھینک دیا گیا ہو.آج دین کا ساتھ دینے والا کوئی نہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں.بیکے شد دین احمد پیچ خویش و یارنیست ہر کیسے اسی طرح فرماتے ہیں.ور کار خود بادین احمد کار نیست
خطبات محمود را سلام سر ہر طرف کفر است جوشاں ہمچو افواج یزید دین حق بیمار و بیکس ہچو زین العابدین جلد سوم ان حالات میں ان پر کیا ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں اور ان کے دلوں میں کس قسم کے احساسات ہونے چاہئیں یہ ہر شخص اپنے ظرف کے مطابق خود سمجھ سکتا ہے.میں جانتا ہوں کہ جب ایک کمزور انسان کسی کو بلندی پر گامزن دیکھتا جب ایک دولت مند کی دولت اور عہدہ دار کے عہدہ پر نظر ڈالتا ہے تو اس کے دل میں لانچ آتا ہے اور وہ کہہ اٹھتا ہے کہ میں بھی کیوں ایسا نہ بنوں.میں تسلیم کرتا ہوں کہ بے شک ایسا ہوتا ہے مگر یہ ساری چیزیں اس وقت بھی تھیں جب ہوازن کے سامنے صحابہ صف آراء تھے.ان کے سامنے ان کے بیوی بچے تھے ان کے سامنے بھی یہ بات تھی کہ اگر وہ ہوازن کے تیر اندازوں کے سامنے ہوئے تو ان کے سینے چھلنی ہو جائیں گے اور وہ چند منٹوں میں ہی خاک و خون میں لوٹیں گے مگر ان تمام امور کے باوجود انہوں نے رسول کریم ﷺ کی آواز پر اپنی بیویویں اور بچوں کو بھلا دیا اور ایک ہی مقصد اپنے سامنے رکھا کہ جس طرف خدا کا رسول بلاتا ہے اسی طرف جائیں.آج دجالی فتنہ جس رنگ میں دنیا پر غالب ہے اس کی تصویر کھینچنے کی مجھے ضرورت نہیں.کوئی چیز آج اسلام کی باقی نہیں نہ تمدنی احکام قائم ہیں، نہ سیاسی احکام قائم ہیں، نہ اقتصادی احکام قائم ہیں اور نہ شخصی احکام قائم ہیں، ہر چیز میں آج تبدیلی کر دی گئی ہے.پس جب تک اسے مٹانے کے لئے ہمارے اندر دیوانگی نہ ہوگی، جب تک ہمیں اس تہذیب مغربی سے بغض نہیں ہو گا اتنا بغض کہ اس سے بڑھ کر ہمیں کسی اور چیز سے بغض نہ ہو اس وقت تک ہم کبھی کامیاب نہیں ہو سکتے.ہم میں سے جو بھی شخص مغربی تہذیب کا دلدادہ ہے، جو بھی اس تہذیب سے متاثر ہے وہ روحانی میدان کا اہل نہیں.جس تہذیب نے اسلامی تمدن کی شکل کو بدل دیا جب تک اس کی ایک ایک اینٹ کو ہم ریزہ ریزہ نہ کر دیں کبھی چین اور اطمینان کی نیند سو نہیں سکتے.وہ لوگ جو یورپ کی نقالی کرتے ہیں، جو مغربیت کی رو میں بہتے چلے جاتے ہیں وہ کبھی کامیاب نہیں ہو سکتے.ہمارے تن بدن میں تو ان کی ہر چیز کو دیکھ کر آگ لگ جانی چاہئے کیونکہ ہم اور مغربیت ایک جگہ جمع نہیں ہو سکتے یا ہم زندہ رہیں گے یا مغربیت زندہ رہے گی.یہ مت خیال کرو کہ ہم تو انگریزوں کے دوست ہیں پھر مغربیت کے متعلق میں ایسے خیال کیوں رکھتا ہوں کیونکہ انگریز اور مغربیت میں فرق ہے.انگریز انسان ہیں اور ایسے ہی انسان
خطبات محمود جلد سوم ہیں جیسے کہ ہم اور اس لحاظ سے انگریز ہدایت پاسکتے ہیں لیکن مغربیت ہدایت نہیں پاسکتی وہ شیطان کا ہتھیار ہے اور جب تک اسے توڑا نہیں جائے گا دنیا میں امن قائم نہیں ہو سکتا اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کی اولاد میں سے اگر کوئی شخص مغربیت کی نقل کا ذرہ بھی مادہ اپنے اندر رکھتا ہے تو وہ مسیح موعود کا حقیقی بیٹا نہیں کہلا سکتا کیونکہ اس نے اس آواز کو نہیں سنا جسے پھیلانے کے لئے حضرت مسیح موعود مبعوث ہوئے.پس میں وضاحت سے ان کو یہ پیغام پہنچاتا ہوں اور وضاحت سے ہر ایک کو ہوشیار کرتا ہوں کہ میں ہر ایسے خیال اور ہر ایسے شخص سے بیزار ہوں جس کے دل میں مغربیت کی نقل کا ذرہ بھی مادہ پایا جاتا ہے اور جو دین کی خدمت کرنے کے لئے تیار نہیں خواہ وہ میرا بیٹا ہو یا میرے کسی عزیز کا.لیکن میں نے ہمیشہ یہ دعا کی ہے اور متواتر کی ہے کہ اگر میرے لئے وہ اولاد مقدر نہیں جو دین کی خدمت کرنے والی ہو تو مجھے اولاد کی ضرورت نہیں اور میں دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالی مجھے اس دعا کی آخر دم تک توفیق عطا فرمائے.ہمارے سامنے ایک فتنہ ہے اتنا بڑا فتنہ کہ اس کے برابر دنیا میں اور کوئی فتنہ نہیں اگر ہم اس کام کی سرانجام دہی کے لئے کھڑے نہیں ہو جاتے اور اس فتنہ کے مقابلہ کی ضرورت دلوں میں محسوس نہیں کرتے تو میں سمجھ نہیں سکتا کہ ہم دنیا میں ذرہ سی عزت کے بھی مستحق ہو سکتے ہیں.اس وقت اسلام کے مقابل پر بیسیوں جھنڈے بلند ہیں جب تک وہ تمام جھنڈے سرنگوں نہیں ہو جاتے، جب تک تثلیث کا جھنڈا سرنگوں نہیں ہو جاتا، جب تک بت پرستی کا جھنڈا سرنگوں نہیں ہو جاتا، جب تک اسلام کے سوا باقی تمام جھنڈے سرنگوں نہیں ہو جاتے، جب تک سب دنیا میں تکبیر کے نعرے بلند نہیں ہو جاتے ہم کبھی اپنے فرائض کو پورا کرنے والے سمجھے نہیں جاسکتے.یہ وہ چیز ہے جس کو میں آج پیش کرتا ہوں اور اگر چہ میں پہلے بھی اسے پیش کرتا رہا ہوں لیکن کچھ دنوں سے ایک طاقت مجھے مجبور کر رہی ہے کہ میں واضح طور پر پھر یہ بات پیش کردوں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو خدا تعالٰی نے الہاماً فرمایا ہے.سلام على إِبْرَاهِيمَ مَا فَيْنَاهُ وَنَجَيْنَاهُ مِنَ الْغَمَ - تَفَرَّدْنَا بِذَالِكَ فَاتَّخِذُوا مِنْ مَّقَامِ إِبْرَاهِيمَ مُصَلَّى الله ابراہیم یعنی مسیح موعود پر خدا تعالیٰ کی طرف سے سلامتی ہو.صافيناۃ ہم نے اسے اپنے لئے خالص کر لیا وَ نَجَيْنَاهُ مِنَ الْغَم اور ہم نے اسے غم سے نجات دی تَفَر دُنَا بِذَالِکَ یہ
خطبات محمود ۳۴۸ جلد موم سارا کام ہم نے خود کیا فَا تَخِذُوا مِنْ مَقَامِ إِبْرَاهِيمَ مُصَلَّی پس اے ابراہیم سے تعلق رکھنے والو! اس چیز کو اپنا مقام بناؤ جس کو ابراھیم نے بنایا تھا.وہ مقام کیا ہے؟ اس کو قرآن کریم نے ان الفاظ میں کھولا ہے رَبَّنَا اتى اسكنتُ مِنْ ذُرِّيَّتِي بِوَادٍ غَيْرِ ذِي زَرْعٍ عِندَ بَيْتِكَ إِلَى KNOWLEمِ : رَبَّنَا لِيُقِيمُوا الصَّلوةَ فَاجْعَلُ أَفْئِدَةً مِنَ النَّاسِ تَهْوِى إِلَيْهِمُ وَارزُقُهُم منَ الثَّمَرَاتِ لَعَلَّهُمْ يَشْكُرُونَ.١٢ حضرت ابراهیم علیہ السلام دعا کرتے ہوئے کہتے ہیں اے میرے رب ! میں نے اپنی اولاد کو ایک ایسی وادی میں لا بسایا ہے جس میں کوئی کھیتی نہیں ہوتی.اے میرے رب! اس لئے کہ تاوہ اس وادی میں رہتے ہوئے دنیا کے تمام جھگڑوں اور دنیا کے کمانے کے جھمیلوں سے آزاد رہیں.اے خدا تو ان کے دلوں کو ایسا بنا کہ یہ تیری عبادت کرنے والے اور تیرے نام کو دنیا میں بلند کرنے والے ہوں.مگر اے خدا یہ بھیک کا ٹھیکرا لے کر دوسروں کے پاس نہ جائیں بلکہ تیری طرف سے عزت والا رزق انہیں ملے تا ان کے دلوں میں تشکر کا جذبہ پیدا ہو اور یہ کہیں کہ ہم تو دنیا کی طرف نہیں گئے تھے مگر خداتعالی دنیا کو ہماری طرف کھینچ لایا.یہ وہ ابراہیمی مقام ہے جسے خدا تعالٰی نے ہمارے سامنے رکھا.یہاں گو ظاہری طور پر دادی غیر ذی زرع نہیں لیکن روحانی طور پر اب بھی موجود ہے.زرع والی دادی کون سی ہوتی ہے ؟ وہی جہاں لوگ ملازمتیں کرتے اور دنیا کمانے کی جدوجہد کرتے ہیں.مگر جب انسان ان کاموں کو چھوڑ دیتا ہے جن سے دنیا کمائی جائے تو وادی غیر زرع میں چلا جاتا ہے پس ابراہیمی مقام جس پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو کھڑا کیا گیا اور آپ کی اولاد سے جس مقام پر کھڑے رہنے کی امید کی گئی یہ ہے کہ وہ دنیا کمانے کے خیالات سے علیحدہ ہو کر صرف دین کے پھیلانے کے لئے اپنے آپ کو وقف کر دیں.تب خدا تعالی کا یہ وعدہ پورا ہوگا کہ وہ خود لوگوں کو ان کی طرف کھینچ کر لائے گا اور آپ ان کے لئے رزق کا سامان مہیا فرمائے -B نا میرے اس بیان سے وہ لوگ مستثنیٰ ہیں کہ جو سلسلہ کی ضرورتوں کے لئے نوکری کریں لیکن ان کو اپنے اخلاص سے ثابت کرنا چاہئے کہ وہ دنیا کو نفس کی خاطر نہیں بلکہ خدا تعالی کی خاطر قبول کر رہے ہیں.یعنی انہیں ہر وقت پا برکاب رہنا چاہئے کہ جب ان کی ضرورت دین کو ہو سب کچھ چھوڑ کر دین کی خدمت کے لئے آجائیں.نادان کہتے ہیں کہ انگریز کی نوکری کرنے سے روٹی ملتی ہے حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ خدا کی
۳۴۹ جلد سوم نوکری کرنے سے انسان کو روٹی ملتی ہے.لیکن اگر فرض بھی کر لیا جائے کہ دین کی نوکری کرنے سے انسان کو ذلیل روٹی ملتی ہے تو کیا ہم نے خدا تعالی کے رسول کے ہاتھ پر یہ عہد نہیں کیا کہ اگر دین کے لئے ہمیں ذلت بھی برداشت کرنی پڑے گی تو ہم برداشت کریں گے.گو میرے نزدیک دینی خدمت کے ذریعہ روٹی کھانا ذلت نہیں ذلت دنیا کی نوکریوں میں ہے نہ کہ خدا کی نوکری میں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے متعلق کا بلواں (قادیان کے قریب ایک گاؤں) کے ایک سکھ نے مجھے سنایا کہ ایک دفعہ بڑے مرزا صاحب نے ہمیں بلا کر کہا غلام احمد کو جاکر سمجھاؤ کہ کوئی نوکری کرنے ورنہ میرے مرنے کے بعد اسے اپنے بڑے بھائی کے ٹکڑوں پر بسر کرنی ہوگی.وہ کہتا میں ان کے پاس گیا اور کہا آپ کے والد صاحب ناراض ہوتے ہیں آپ نوکری کیوں نہیں کرتے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام یہ سنتے ہی ہنس پڑے اور فرمانے لگے والد صاحب کو یونہی فکر ہے میں نے تو جس کا نوکر ہونا تھا ہو گیا.وہ سکھ یہ سن کر واپس چلا گیا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے والد صاحب سے کہنے لگا وہ کہتے ہیں جس کا نوکر میں نے ہونا تھا ہو چکا ہوں.یہ سن کر باوجود دنیا داری کے خیالات کے انہوں نے ایک آہ بھری اور کہنے لگے کہ اگر وہ کہتا ہے کہ میں نو کر ہو گیا ہوں تو ٹھیک کہتا ہے وہ جھوٹ بولنے والا نہیں.فرض ابراهیمی نسل ہونے کے لحاظ سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اولاد کا فرض ہے کہ وہ اپنی زندگی اس طرح بسر کرے کہ گویا دادی غیر ذی زرع میں رہتی ہے اور اپنے آپ کو دین کے لئے وقف کر دے لیکن ہر کام تیاری سے آتا ہے اگر ہم کام وہ کرنا چاہیں جو رحمانی ہو لیکن طرز ہماری وہ ہو جو شیطانی ہو تو ہم کس طرح کامیاب ہو سکتے ہیں دنیا اس وقت امارت اور حکومت کے خیالات میں مبتلاء ہے، دنیا اس وقت تکلفات میں مبتلاء ہے، دنیا اس وقت مغربی تہذیب کی دلدادہ ہو رہی ہے اگر ہم عملاً اس تہذیب اور اس امارت اور حکومت کی طرف جائیں تو ہمارے ارادوں میں برکت کس طرح ہو سکتی ہے.شیطان کا گلا گھونٹنے کے لئے شیطانی ہاتھ کام نہیں آیا کرتا بلکہ شیطان کا گلا رحمانی ہاتھوں سے گھونٹا جاتا ہے.پس جب تک ان امنگوں سے انسان عاری نہ ہو جائے جو اپنے اندر دنیا دارانہ رنگ رکھتی ہیں اس وقت تک انسان دین کے کام کا اہل نہیں سمجھا جاسکتا.اسلام اسی وجہ سے دنیا میں کامیاب ہوا کہ اس نے محبت و پیارہ کو قائم کیا.اور امارت و غربت کے امتیازات کو مٹا دیا.آئندہ بھی اگر اسلام کا میاب
خطبات محمود ۳۵۰ ہو گا تو اسی وجہ سے.پس وہ شخص جو نوابی کے خیالات اپنے اندر رکھتا ہے جو خادمیت کے لئے اپنے نفس کو تیار نہیں پاتا تو میں نہیں سمجھ سکتا وہ کس طرح کامیاب ہو سکتا ہے.ہاں خادمیت کے بعد اگر خدا تعالی کسی مقام پر انسان کو خود بٹھاتا ہے تو وہ دوسری بات ہے.سید عبد القادر صاحب جیلانی فرماتے ہیں بعض دفعہ خدا تعالیٰ مجھے کہتا ہے اے عبد القادر ! تجھے میری ذات کی قسم تو اچھے سے اچھا کپڑا پہن اور میں پہن لیتا ہوں.بعض دفعہ کہتا ہے اے عبد القادر جیلانی ! تجھے میری ذات کی قسم تو اچھے سے اچھا کھانا کھا اور میں کھا لیتا ہوں.یہی مقام ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ملا.آپ کو بھی خدا تعالیٰ نے عبد القادر کہا اور ایک رویا میں میرا نام بھی عبد القادر رکھا گیا ہے.اس کے یہی معنے ہیں کہ اگر خدا تعالی کہے کہ اچھا کھانا کھاؤ تو ہمارا فرض ہے کہ ہم اچھا کھائیں اور وہ کہے کہ اچھا کپڑا پہنو تو ہمارا فرض ہے کہ اچھا کپڑا پہنیں.اسی طرح اگر وہ کہے کہ معمولی کپڑا پہنو تو یہ بھی ہمارا فرض ہے کہ اس حکم کی بھی اطاعت کریں.پس ہماری کامل فرمانبرداری خدا کے لئے ہو.اگر وہ کہے کہ آسمان پر بیٹھو تو ہم بیٹھ جائیں اگر وہ کہے کہ تحت الثریٰ میں چلے جاؤ تو ہم تحت الٹرکی میں چلے جائیں.وہی ابراہیم والا مقام حاصل ہو کہ خدا نے انہیں کہا اسلم انہوں نے کہا اسلَمُتُ لِرَبِّ العلمين - سے ہمیں اس سے کوئی غرض نہ ہو کہ ہم دکھ میں پڑتے ہیں یا سکھ میں، ہمیں عزت حاصل ہوتی ہے یا ذلت بلکہ ہم دیکھیں کہ ہمارا خدا ہم سے کیا چاہتا ہے.پھر جس رنگ میں وہ ہمیں رکھنا چاہے اس میں ہم خوش رہیں.جیسے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے آخری وقت کا یہ الہام ہے جس کے متعلق میں سمجھتا ہوں کہ آپ کے خاندان کے متعلق ہی ہے کہ آسمان ر سپردم بتو ماید خویش را تو دانی حساب کم پیش را یعنی اے خدا! اب میں دنیا سے جاتی دفعہ اپنا اہل و عیال تیرے سپرد کرتا ہوں تو جس حالت میں چاہے انہیں رکھیو چاہے تو اونچے مقام پر رکھ چاہے تو نیچے مقام پر.یہ چیز ہے جسے ہر وقت اپنے سامنے رکھنا ہمارا کام ہے اور جب تک ہماری اولادیں اس مقصد کو اپنے سامنے نہیں رکھتیں وہ ان انعامات کو حاصل نہیں کر سکتیں جو حضرت مسیح موعود کی اولاد کے لئے مقدر ہیں.اس میں شبہ نہیں کہ ظاہری اولاد کو بھی ایک فخر حاصل ہو تا ہے لیکن وہ فخر اسی وقت تک
۳۵۱ جلد سوم خطبات محمود ہوتا ہے جب تک وہ دین کے راستہ پر گامزن رہتی ہے.چنانچہ رسول کریم ﷺ سے ایک دفعہ صحابہ نے پوچھا یا رسول اللہ ﷺ ! عرب قبائل میں سے بڑے کون ہیں ؟ آپ نے فرمایا جو بحالت کفر بڑے تھے وہی اب بھی بڑے ہیں بشرطیکہ ان میں نیکی پائی جاتی ہو اور انہوں نے اسلام قبول کر لیا ہو.سلے بے شک خاندانی بڑائی بھی ہوتی ہے مگر وہ مشروط ہوتی ہے نیکی اور تقویٰ کے ساتھ.اگر وہ اس امر کی پرواہ نہیں کرتے اور اگر وہ دنیا کے کیڑوں اور کتوں کی طرح دنیا پر گرے جاتے ہیں تو وہ دوسروں سے زیادہ سزا کے مستحق ہوتے ہیں.اس میں شبہ نہیں.یہ خدا کا کام ہے اور اگر ہم اس کام کو نہیں کریں گے تو اور لوگ کھڑے کر دیئے جائیں گے.لیکن وہ دن بد ترین دن ہو گا جب خدا کہے گا کہ رجال فارس نے اشاعت دین سے اپنا منہ موڑ لیا آؤ اب ہم دوسروں کو یہ کام کرنے کا موقع دیں.یہ خدا کی دین ہے اور اس کا احسان ہے کہ اس نے ہمیں کام کرنے کا موقع دیا ورنہ وہ شخص جو یہ سمجھتا ہے کہ وہ قربانی کر رہا ہے تو چاہے وہ کام کرتے کرتے مٹی میں مل جائے اور منہ سے مئومن ہونے کا دعوی کرے وہ منافق ہے کیونکہ اس نے خدا تعالیٰ کی عطا کو قربانی کا نام دیا قربانی کرنے والا ہمیشہ اپنے آپ کو بڑا سمجھتا ہے.رسول کریم ﷺ فرماتے ہیں.اليد العليا خَيْرٌ مِنَ اليد السفلى - هله پس ہمیں دین کی خدمت کرتے ہوئے یہ نہیں سمجھنا چاہئے کہ ہم قربانی کر رہے ہیں بلکہ یہ سمجھنا چاہئے کہ خدا تعالیٰ کا احسان ہے کہ وہ ہم سے کام لے رہا ہے.اگر تم اس حقیقت کو نہیں سمجھتے، اگر تم دین کے لئے فقیر ہونا برداشت نہیں کر سکتے، اگر تم دین کے لئے بھیک مانگنا پسند نہیں کر سکتے، اگر تم دینی خدمت کو ہفت اقلیم کی بادشاہی سے زیادہ اعزاز والا کام نہیں سمجھتے تو تمہارے اندر ایک جو کے دانے کے برابر بھی ایمان نہیں سمجھا جا سکتا.لوگ کہتے ہیں سوال بری چیز ہے اور میں بھی سمجھتا ہوں کہ سوال بری چیز ہے لیکن اگر خدا اور اس کے دین کے لئے ہمیں سوال کرنا پڑے تو یہ کام بھی ہمارے لئے عزت کا کام ہے.پس یہ مت خیال کرو کہ تم دین کی خدمت کر کے کوئی قربانی کر رہے ہو.یہ خدا کا احسان ہے جو تم سے کام لے رہا ہو مگر مجھے افسوس ہے میں نے بعضوں کو دیکھا ہے وہ اپنے نفس میں یہ ہیں کہ وہ قربانی کر رہے ہیں اور کہتے ہیں آؤ اب فلاں قربانی بھی کر لیں حالانکہ اگر کسی کے سامنے پلاؤ زردہ، کباب اور مرغ وغیرہ پکا ہوا پڑا ہو اور دال بھی ہو تو کیا وہ کہا کرتا ہے شخص
خطبات محمود ۳۵۲ تواند توهم کہ آج قربانی کر کے ہم مرغ کھالیتے ہیں.اگر کوئی ایسا کہتا ہے تو دو باتوں میں سے ایک ضرور ہوگی یا تو وہ فریب خوردہ ہے یا پاگل ہو گا کیونکہ یا تو پاگل یہ کہہ سکتا ہے کہ دال چھوڑ کر پلاؤ وغیرہ کھانا قربانی ہے یا فریب خوردہ شخص جو اصلیت سے ناواقف ہو اس طرح کہہ سکتا ہے.اگر دین کوئی قیمتی شے ہے، اگر دنیا کا ایک خدا ہے تو جب خدا تعالی کی طرف سے ایک منادی پکارتا ہے کہ آؤ اور خدا کے دین پر جمع ہو جاؤ تو اس آواز پر لبیک کہنے والا قربانی نہیں کرتا بلکہ اللہ تعالیٰ کے احسان اور اس کے لطف وکرم سے حصہ پاتا ہے اور اگر وہ ایک منٹ کے لئے بھی سمجھتا ہے کہ قربانی کر رہا ہے تو وہ منافق ہے.پس اگر تم میں سے کوئی شخص یہ خیال کرتا ہے کہ وہ دین کی خدمت کر کے قربانی کر رہا ہے تو اس کا کوئی ایمان نہیں اس کو اس راستہ سے ہٹ جانا چاہئے.لیکن اگر دنیا جس کو ذلت سمجھتی ہے تم اسے عزت سمجھو، جس کو دنیا بریکاری خیال کرتی ہے تم اسے کام سمجھو اور جسے وہ قربانی سمجھتی ہے اسے تم انعام قرار دو تب تم حقیقی معنوں میں مومن کہلا سکتے ہو.کیا وہ جرنیل جس کے ہاتھوں پر جرمن فتح ہوا یہ سمجھتا تھا کہ جرنیل بن کر اس نے قربانی کی.اگر دنیاوی جرنیل اپنے عہدوں پر قائم ہو کر کام کرنا قربانی نہیں سمجھتے تو وہ لوگ جن کے سپرد قلوب کی فتح ہو وہ کیونکر اپنے کاموں کو قربانی قرار دے سکتے ہیں.کیا انگریزوں میں سے ہیں اور جرمنوں سے ہنڈن برگ کی جگہ اگر کوئی شخص کام کرنا چاہتا ہے تو وہ اسے قربانی سمجھتا.میں سمجھتا ہوں اس اعزاز کے حاصل کرنے کے لئے اگر ممکن ہو تا تو ہر شخص اپنی آدھی عمر نذر کے طور پر پیش کر دیتا.اسی طرح ممکن ہو تا تو وہ اپنی بیوی اور بچوں کی جان پیش کر کے بھی اس درجہ کو حاصل کرتا اور پھر اسے اپنی قربانی قرار نہ دیتا.اگر دنیوی جرنیلوں کے مقام پر کھڑا ہونا انعام سمجھا جاتا ہے تو کیا خدا تعالی کے جرنیلوں کے مقام پر کھڑا ہونا قربانی کہلا سکتا ہے.پس وہ شخص جو دین کی خدمت کر کے اسے قربانی قرار دیتا ہے وہ خدا تعالیٰ کا منہ چڑاتا ہے اور اس کی ہتک کرتا ہے گویا نعوذ باللہ من ذالک خدا تعالٰی کا انعام تو معمولی چیز ہے مگر شخص کی جان کی بہت بڑی قیمت ہے کہ وہ اپنی کوششوں کو وقیع قرار دیتا ہے اور خدا تعالیٰ کے انعام کو چھوٹا سمجھتا ہے.خدا تعالیٰ اسے ہفت اقلیم کی بادشاہت سے بھی زیادہ انعام دیتا ہے مگر وہ انعام کو نہیں دیکھتا اور اپنی معمولی کوششوں کو قربانی اور ایثار سمجھنے لگ جاتا ہے.پس یہی نہیں کہ تم سے امید کی جاتی ہے کہ تم مغربیت سے علیحدہ رہو گے ، تم سے امید کی جاتی ہے کہ تم دین اسلام کا جھنڈا ہمیشہ بلند رکھو گے ، تم سے امید کی جاتی ہے کہ تم نوع انسان کے خیر خواہ رہو اس
خطبات محمود ۳۵۳ جلد سوم گے، تم سے امید کی جاتی ہے کہ تم فخر اور خیلاء کے خیالات کو اپنے اندر پیدا نہیں ہونے دو گے، بلکہ ان تمام کاموں کے باوجود تم سے امید کی جاتی ہے کہ تم اپنی خدمات کو ایک ذلیل اور کھوٹا پیسہ تصور کرو گے اور کہو گے کہ خدا تعالیٰ کو تم نے ایک کھوٹا پیسہ دیا مگر اس نے تمہیں دولت بے حساب دی.یہ ہے وہ آواز جو تمہیں محمد ﷺ نے دی، اور یہ ہے وہ آواز جو مسیح موعود نے دی، یہ ہے وہ آواز جو خدا تعالیٰ نے دی، اگر خدا اور اس کے رسول اور اس کے مسیح موعود کی پکار کے بعد بھی کسی کے دل سے لبیک کی آواز بلند نہیں ہوتی تو وہ ایک مردہ دل ہے خواہ وہ کتنے ہی کی اچھے لباس میں موجود ہو.کیا لطیف نمونہ ہے جو حضرت بدھ 11 نے دکھایا.بدھ اپنے باپ کے اکلوتے بیٹے تھے.جب خدا تعالیٰ کی تڑپ ان کے دل میں پیدا ہوئی تو وہ اپنے گھر سے نکل گئے اور مدتوں جنگل اور بیابان میں عبادتیں کرتے رہے.آخر خدا تعالیٰ نے ان پر اپنا الہام نازل کیا اور انہیں نبوت کے مقام پر فائز کر کے دنیا کی اصلاح کے لئے مامور کیا.اس زمانہ کے حالات کے لحاظ سے آپ نے اپنے متبعین کو حکم دیا کہ دنیا نہ کماؤ بلکہ دن بھر دین کا کام کرو اور جب بھوک لگے تو بھیک مانگ کر کھالو.جب ان کی شہرت سارے ہندوستان میں پھیل گئی تو ان کے باپ نے بھی جو بہار کے علاقہ میں تھا انہیں بلا بھیجا اور آخر وہ بھی ان کی مریدی میں داخل ہو گیا.جب بدھ وہاں سے واپس آنے لگے تو ان کے باپ کو خیال آیا کہ گدی کے متعلق کوئی فیصلہ ہونا چاہئے.اس زمانہ میں قانون تھا کہ یا باپ خود گدی پر بیٹھتا یا اپنے بیٹے یا پوتے کو گدی بخش دیتا اس صورت کے علاوہ گدی نشین ہونے کی کوئی صورت نہ تھی.بدھ کے باپ نے جب دیکھا کہ یہ تو گدی پر بیٹھیں گے نہیں.اس نے اپنے پوتے کو بلایا اور اسے فقیرانہ لباس پہنا کر اور کشکول ہاتھ میں دے کر کہا اپنے باپ کے پاس جا اور کہ کہ میں بھی اپنا حق مانگنے آیا ہوں.گویا مطلب یہ تھا کہ بادشاہت کے لئے آپ اپنا حق میری طرف منتقل کر دیں.بدھ کا طریق تھا کہ جب کسی کو اپنے سلسلہ میں شامل کرتے تو اس کا سر منڈوا دیتے.جب بیٹا ان کے پاس آیا تو انہوں نے کہا کیا تو مجھ سے بھیک مانگنے آیا ہے؟ اس نے کہا ہاں.انہوں نے کہا.اچھا تو جو کچھ میرے پاس ہے وہ میں دے دیتا ہوں.یہ کہہ کر اپنے ایک شاگرد کو بلایا اور کہا کہ اس کا سر مونڈھ دو اور اسے بھکشو بنا دو.جس کے معنے یہ تھے کہ بادشاہت اس کے خاندان سے نکل گئی.باپ نے جب یہ
خطبات محمود ۳۵۴ جلد سوم سنا تو وہ رو پڑا اور ان سے یہ عہد لیا کہ آئندہ کسی نو عمر کو بھکشو نہ بنائیں.تو اللہ تعالیٰ کے دین کے متعلق جو کام ہمارے ذمہ ہے وہ اتنا عظیم الشان ہے اور اس کی ذمہ داری اتنی وسیع ہے کہ میں افسوس کرتا ہوں ہمارے دل ابھی اس کا اندازہ نہیں کر سکے.میں دیکھتا ہوں جو لوگ دین کی خدمت بھی کرتے ہیں وہ خیال کرتے ہیں کہ گویا انہوں نے قربانی کی حالانکہ قربانی ہمیشہ اعلیٰ چیز کہلاتی ہے.اگر دین کے لئے کام کرنا قربانی ہے تو گویا دین اونی ہے مگر ان کا درجہ اس سے بلند ہے.یہ احساس اگر ایک لمحہ کے لئے بھی ہمارے اندر رہتا ہے کہ ہم دینی کام کر کے قربانی کرتے ہیں تو یقیناً ہم ایمان سے بے بہرہ اور نابینا ہیں.پس پہلے تو میں ان سے جنہیں خدا کے رسول نے آواز دی اور کہا کہ لناله رجال من فارس کہتا ہوں کہ وہ اپنے فرائض اور ذمہ داریوں کو سمجھیں ان کے سامنے ایک بہت بڑا کام ہے.دنیا کی عزتیں اور دنیا کی بڑائیاں کوئی چیز نہیں خدا کے در کی غلامی سب سے زیادہ عزت والی چیز ہے.اگر تم دنیا کماؤ بھی اور سبھی کچھ بن جاؤ تو کیا محمد ﷺ کے خدام سے تمہاری عزت بڑھ سکتی ہے پھر ان نشانات کو دیکھو جنہوں نے دور دور کے اندھوں کو روشنی بخش دی جس سے یورپ اور امریکہ کے نابینا بینا ہو گئے اگر پاس والے اللہ تعالٰی کے اس نور سے فائدہ نہ اٹھا ئیں تو کس قدر افسوس ناک بات ہوگی.پس پہلے تو میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جسمانی اولاد کو مخاطب کرتا ہوں لیکن چونکہ ہر شخص جو کچے دل سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت کرتا اور آپ کے اوامر پر کاربند ہوتا ہے آپ کی روحانی اولاد میں داخل ہے اس لئے روحانی طور پر تمام جماعت احمد یہ رجال فارس میں داخل ہے پس روحانی اولاد ہونے کی نسبت سے میں باقی تمام جماعت سے بھی کہتا ہوں کہ اپنی ذمہ داریوں کو سمجھو.کب تک یہ غفلت شعاریاں چلی جائیں گی، کب تک تمہارے چہروں پر مردنیاں چھائی رہیں گی، کب تک خدا تعالیٰ کے دین کو تحقیر اور تذلیل کی نگاہ سے دیکھا جائے گا اور تم خاموش رہو گے، کب تک تم اپنی حقیر خدمات کو قربانیاں قرار دو گے، کب وہ دن آئے گا کہ تم دین کے لئے بیتاب ہو جاؤ گے اور کب وہ دن آئے گا کہ تم کمر ہمت باندھ کر اس کام کے لئے میدان عمل میں نکل کھڑے ہوگئے جس کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام دنیا میں مبعوث ہوئے.پس میں انہیں بھی کہتا ہوں کہ خدا کی ایک آواز بلند ہوئی ہے اٹھو اور اس آواز کو سن کر وہی کہو جو تم سے پہلے راست بازوں نے آج سے تیرہ سو سال پہلے کہا تھا کہ رَبَّنَا إِتْنَا سَمِعْنَا مُنَادِيًا يُنَادِى
خطبات محمود ۳۵۵ جلد سوم لِلإِيمَانِ اَنْ مِنُوا بِرَتِكُمْ فَا مَنَا رَبَّنَا فَاغْفِرُ لَنَا ذُنُوبَنَا وَكَفِّرْ عَنَّا سَيَاتِنَا وَتَوَفَّنَا مَعَ الْأَبْرَارِ ، رَبَّنَا وَآتِنَا مَا وَعَدَتَنَا عَلَى رُسُلِكَ وَلَا تُخْزِنَا يَوْمَ الْقِيمَةِ ، إِنَّكَ DOWNTOWN TALAGE DAWN NE کے اس تعلیم کو اپنے دل میں پیدا کرو یہاں تک کہ تمہارا ذرہ ذرہ اس تعلیم پر لبیک کہہ اٹھے.پھر اپنی اولادوں کے کانوں میں یہ تعلیم ڈالو اور وہ اپنی اولادوں کے کانوں میں ڈالیں یہاں تک کہ ہمارے کانوں میں سوائے خدا کی آواز کے اور کوئی آواز نہ گونجے.ہماری آنکھوں میں سوائے اس نور کے اور کوئی نور نہ چھکے.جب تک یہ حالت پیدا نہیں ہوتی ہم مٹی کے بت ہیں جو بڑے بڑے کام کرنے کا دعوی کرتے ہیں مڑے ہوئے مردار ہیں جو دنیا کو زندہ کرنے کے مدعی بنتے ہیں.میں اس کے بعد ان نکاحوں کا اعلان کرتا ہوں جن کے لئے یہ اجتماع کیا گیا ہے گو بظاہر اس خطبہ کا نکاح کے ساتھ کوئی تعلق معلوم نہیں ہوتا لیکن حقیقی طور پر اس کا نکاح کے ساتھ گہرا تعلق ہے کیونکہ حقیقت زوجیت خدا تعالی کے تعلق میں ہی ہے یہی وجہ ہے کہ خدا تعالی شادیوں کے ذکر میں نمازوں کا خصوصیت سے ذکر کرتا ہے.اگر ہم دنیا میں زوجیت کا تعلق قبول کرنے کے لئے تیار رہتے ہیں تو کوئی وجہ نہیں خدا اور اس کے رسول کی محبت میں سرشار رہتا ہمیں گوارا نہ ہو اور حقیقی خوشی تو اس وقت تک ہمیں حاصل نہیں ہو سکتی جب تک اسلام دنیا میں قائم نہیں ہو جاتا.اس وقت تک دنیا کی خوشیاں بھی ہمیں غم میں جتلاء کر دیں گی.حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنھا کے متعلق لکھا ہے وہ رسول کریم ﷺ کی وفات کے بعد ایک دفعہ میدہ کی روٹی کھارہی تھیں کہ ان کے آنسو بہنے لگ گئے.کسی نے پوچھا آپ کیوں روتی ہیں.انہوں نے کہا رسول کریم ﷺ کے وقت پکیاں نہیں ہوتی تھیں ہم سل بٹہ پر دانے کوٹ لیتے اور بھوسی پھونک سے اڑا کر آٹا گوندھ کر روٹی پکا لیتے.اب میدہ کی روٹی میرے گلے میں پھنس رہی ہے اور مجھے خیال آتا ہے کہ اگر رسول کریم ﷺ کے زمانہ میں میدہ ہو تا تو میں آپ کو اس کی روٹی پکا کر کھلاتی.جے ایک میدہ کی روٹی کتنی حقیر چیز ہے مگر حضرت عائشہ کے گلے میں وہ بھی پھنس گئی اس لئے کہ انہیں رسول کریم ال کا وقت یاد آگیا.پھر کیا دنیا کی تمام نعمتیں ہمارے گلے میں نہیں پھنسنی چاہئیں.دنیا کی نعمتیں اور حکومتیں کس کے لئے ہیں؟ یہ سب خدا اور اس کے رسول کے لئے اور اس کے شاگرد کامل مسیح موعود کے لئے ہیں.پھر کیوں نہ ہم ان سب نعمتوں کو لا کر خدا اور اس کے رسول کے قدموں میں ڈال دیں.حضرت
خطبات محمود ۳۵۶ جلد سوم عائشہ دنیا کو نصف ایمان سکھانے والی تھیں.عائشہ رسول کریم ﷺ کی پیاری بیوی تھیں ان کا نمونہ ہمارے لئے پاک نمونہ ہے.کیا محبت تھی ان کے دل میں ایک میدہ کی روٹی بھی وہ رسول کریم ﷺ سے جدا ہو کر نہ کھا سکیں اور اس کے کھاتے ہوئے بھی ان کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے.پھر کیا دنیا کی بڑی سے بڑی نعمتیں دیکھ کر ہماری آنکھوں میں آنسو نہیں بھرنے چاہئیں.جب تک اس دنیا میں ہماری وہ حالت نہ ہو جو حضرت عائشہ کی تھی اس وقت تک حقیقی معرفت کے حصول سے ہم دور ہیں.اگر خدا ہمیں اچھا پہناتا ہے تو ہم بے شک پہنیں، اچھا کھلاتا ہے تو ہم بے شک کھائیں مگر ہمارے دل میں یہ درد ہونا چاہئے کہ دنیا پر دجال قابض ہے کاش ہمیں طاقت ہو تو ہم دنیا کی ہر چیز محمد ﷺ اور آپ کے شاگردوں کے لئے مخصوص کردیں.بے شک خدا ہمارا آتا ہے اور وہ ہمیں اچھی چیز کھلاتا یا پہناتا ہے تو ہمیں کھانی یا پہنی چاہئے مگر باوجود اس کے ان چیزوں کو ہمارے گلوں میں پھنسنا چاہئے اور ہمارے دل میں تڑپ ہونی چاہئے کہ جب تک ان کپڑوں کے بننے والے اور کھانوں کو تیار کرنے والے مسلمان نہیں ہو جاتے جب تک ہر تا گا جو دوسرے تاگا میں پر دیا جاتا ہے ایک مسلمان کے ہاتھ سے پر دیا نہ جائے اور اس ANALOGENDANTANA الله محد رسُولُ اللهِ - نہ پڑھا جائے ہم چین، اطمینان اور راحت کے بستر پر نہیں سو سکتے.ان کھانوں کے کھاتے وقت اور ان کپڑوں کے پہنتے وقت ہمارے دل میں ایک آگ ہونی چاہئے ایک سوزش ہونی چاہئے کہ ہر نعمت خواہ وہ دینی ہو یا دنیوی اس کی کنجی محمد ﷺ کے ہاتھ میں ہو.یہ چیز ہے جسے ہمیں اپنے اندر پیدا کرنا چاہئے.اگر ہم اسے پیدا کر لیں تو ہماری عقل اور ہمارے فہم و فراست میں ایک برکت رکھ دی جائے گی.ورنہ یہ ایک طبعی بات ہے کہ خوشی کے موقع پر زیادہ رنج پیدا ہوتا ہے.جب مومن کو کوئی خوشی پہنچتی ہے تو اسے خیال آتا ہے کہ کیا اس خوشی میں محمد ﷺ اور حضرت مسیح موعود شریک ہیں یا نہیں.اگر وہ شریک ہوں تو ہمارے لئے خوشی ہے اور اگر وہ اس میں شریک نہ ہوں تو خوشی رنج کو بڑھانے والی اور ہمارے دلوں کو مغموم کرنے والی ہوگی.ایک خاوند جس کی بیوی مرجاتی ہے یا ایک عورت جس کا خاوند مرجاتا ہے جب وہ اپنے بچوں کی شادیاں کرتے ہیں تو خوش ہوتے ہیں مگر ساتھ ہی ان کے آنسو بھی بہہ رہے ہوتے ہیں اور کہتے ہیں کاش! ان بچوں کی والدہ یا والد زندہ ہوتا.یہی حال مومن کا ہوتا ہے اسے کوئی خوشی پہنچے ساتھ ہی اسے رنج بھی ہوتا ہے اور وہ کہتا ہے کہ کیا 16
۳۵، چاند سوم محمد ﷺ اور حضرت مسیح موعود ان خوشیوں میں شامل ہیں یا نہیں.اگر نہ ہوں تو وہ رسمی خوشی مناتا ہے حقیقی خوشی اسے حاصل نہیں ہوتی.پس یہ بے جوڑ خطبہ نہیں بلکہ اس کا نکاح کے ساتھ بہترین تعلق ہے.اس خطبہ کے بعد اور اس ذمہ داری کی حقیقت واضح کرنے کے بعد کہ ساری ذمہ داریاں اسی میں آجاتی ہیں میں ان نکاحوں کا اعلان کرتا ہوں جن کے لئے میں اس وقت کھڑا ہوا ہوں.اس کے بعد حضور نے نکاحوں کا اعلان فرمایا اور مجمع سمیت لمبی دعا کی.له الفضل ۲۶ اگست ۱۹۳۴ء صفحه ۳ الفضل ۲۶ اگست ۱۹۳۴ء صفحه ۳ تا ۱۰) له الذرت : ۵۷ مسلم كتاب الفتن باب في بقية من احاديث الدجال شه بخاری کتاب التفسير - تفسير سورة الجمعه زير آيت " وآخرين منهم لما يلحقوا بهم" میں حدیث کے الفاظ یہ ہیں لوكان الإيمان عند الثريا لناله رجال او رجل من هولاء" شه مسلم کتاب الفتن باب ذكر الدجال وصفته و ما معه له الجمعة : که طبری جلد ۳ صفحه ۶۹۲ مطبوعہ بیروت شه بخاری کتاب المغازی باب قول الله تعالى و يوم حنين اذا عجبتكم شه سیرت این هشام عربی جلد ۴ صفحه ۸۷ مطبوعہ مصر ۱۹۳۶ء نه ه تذکرہ صفحہ ۱۰۹۹۰۸- ایڈیشن چهارم ے ابراہیم :۳۸ البقرة : ١٣٢ ه بخاری كتاب المناقب باب المـ.قول الله تعالى يايها الناس شاه بخاری کتاب اتر کوو باب لا صدقه الا عن ظهر غنى گاه ال عمران :....The life of BUDDHA (p.190,193) By A Ferdinand Herald (Translated from French by PAUL C,BLUM) ۱۹۵ ۱۹۴ : ه ترمذی ابواب الزهد باب ما جاء فى معيشة النبى صلى الله علیه و سلم و اهله
۳۵۸ ۹۲ خطبات محمود شادی بیاہ کے معاملات میں سچ سے کام لینا چاہئے (فرموده یکم اگست ۱۹۳۴ء) یکم اگست ۱۹۳۴ء بعد نماز عصر حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے بابو محمد اسماعیل صاحب قادیان کی لڑکی اقبال بیگم کے نکاح کا اعلان فرمایا.خطبہ مسنونہ کی تلاوت کے بعد فرمایا :- رسول کریم ﷺ نے نکاح کے موقع پر جن آیات کا انتخاب فرمایا ہے ان میں انصاف اور سچائی کی خصوصیت سے ضرورت بیان کی گئی ہے اور اس پر زور دیا گیا ہے کہ سچائی ہر موقع پر ہی ضروری ہے اور اس کے بغیر کوئی کام نہیں چل سکتا.ایک جگہ مل کر رہنے والے باپ بیٹے بہن بھائی اور دوسرے رشتہ دار اگر ایک دوسرے کے ساتھ سچائی کا معاملہ نہ کریں تو کتنا فساد پیدا ہو سکتا ہے.لیکن میاں بیوی کے معاملہ میں سچائی کی اور بھی ضرورت ہوتی ہے ورنہ بڑے بڑے فتنے پیدا ہو جاتے ہیں.شریعت نے خصوصیت کے ساتھ نکاح کے معاملہ میں سچائی پر زور دیا ہے مگر ہمارے ملک میں بد قسمتی سے سب سے زیادہ جھوٹ نکاح کے متعلق بولا جاتا ہے حتی کہ اتنا جھوٹ بولا جاتا ہے کہ لطائف بن گئے ہیں.کہتے ہیں ایک شخص کا لڑکا کا نا تھا جس کے لئے اسے کہیں سے رشتہ نہ ملتا تھا.آخر کسی جگہ اس نے لڑکا دکھائے بغیر لالچ دے کر رشتہ کر لیا جب شادی ہو گئی تو لڑکے والا کہنے لگا.ہمیں بھلے بھئی ہمیں بھلے کا نا بیٹا بیاہ لے چلے.اس پر لڑکی والے نے کہا
۳۵۹ جلد سوم تمہیں بھلے مت سمجھو جمان بیٹی کا ٹینٹوا کرد دھیان اس میں یہی بتایا گیا ہے کہ نکاح کے متعلق لڑکے والے بھی غریب اور دھوکا سے کام لیتے ہیں اور لڑکی والے بھی اور اتنا نہیں خیال کرتے کہ یہ غریب جلد ہی کھل جائے گا اور اس وقت بہت زیادہ فتنہ پڑے گا.ہم دیکھتے ہیں جہاں امید ہوتی ہے وہاں ہی گلہ اور افسوس بھی کیا جاتا ہے اور جہاں امید نہیں ہوتی وہاں کوئی افسوس نہیں ہوتا.ایک شخص کسی غیر کے گھر جاتا ہے جس کے متعلق اسے اتنی بھی امید نہیں ہوتی کہ عزت و توقیر سے بٹھائے گا تو اس پر اسے کوئی گلہ نہ ہو گا بلکہ اسی بات پر خوش ہو جائے گا کہ اس نے اسے کوئی ناگوار بات نہیں کی.ایسے موقع پر عدم شر کو ہی خوشی کا موجب سمجھ لے گا مگر ایک شخص جو کسی دوست کے ہاں جاتا ہے وہ دوست اگر اس کی اچھی طرح تواضع نہ کرے تو ناراض ہو جاتا ہے غرض جہاں امید ہو وہاں ہی گلہ بھی پیدا ہوتا ہے.لڑکے لڑکی والوں کا ایک دوسرے سے صفائی کے ساتھ بات نہ کرنا نکاح کے بعد گلہ پیدا کرتا ہے اور پھر بڑے بڑے فتنوں تک نوبت پہنچ جاتی ہے.پس بیاہ شادی کے موقع پر خاص طور پر سچ سے کام لینا چاہئے جس طرح عبادات میں نماز اتنی ضروری ہے کہ جو شخص اسے چھوڑتا ہے وہ مسلمان نہیں رہ سکتا.اسی طرح نکاح کے معاملہ میں جو سچ کو چھوڑتا ہے وہ ساری عمر کی مصیبت سمیٹ لیتا ہے.الفضل ۱۴ اگست ۱۹۳۴ء صفحه ۵)
خطبات محمود ٣٦٠ ۹۳ جلد سوم دنیا کی کوئی چیز بے فائدہ نہیں (فرموده ۲۲- اپریل ۱۹۳۵ء) -۲۲ اپریل ۱۹۳۵ء بعد نماز عصر مسجد مبارک میں حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے جناب دری فتح محمد صاحب سیال ناظر اعلیٰ کا نکاح رقیہ بیگم صاحبہ بنت جناب سید محمود اللہ شاہ صاحب کے ساتھ دو ہزار روپیہ مہر پر پڑھا.لے خطبہ مسنونہ کی تلاوت کے بعد فرمایا : یہ وہ خطبہ ہے جو نبی کریم ا نکاح کے موقع پر فرمایا کرتے تھے.یہ ہمیں اسی طرف توجہ دلاتا ہے کہ دنیا کا ذرہ ذرہ اللہ تعالیٰ کی حمد ثابت کر رہا ہے.اَلْحَمْدُ لِلَّهِ نَحْمَدُ ا سے یعنی سب تعریفیں اللہ تعالٰی کے لئے ہیں اور ہم ان تعریفوں کا اقرار کرتے ہیں.بہت سی ایسی چیزیں دنیا میں بیکار نظر آنے والی اور بے غرض و مقصد نظر آنے والی اپنے موقع اور محل پر ایسی ضروری بن جاتی ہیں کہ انسان ان کے بغیر گزارہ ہی نہیں کر سکتا بلکہ میں کہوں گا یہ انسانی دماغ کے تنزل کی علامت ہے کہ وہ کسی چیز کو بے کار قرار دیتا ہے.قرآن کریم میں اللہ تعالی فرماتا ہے.وَامَّا مَا يَنْفَعُ النَّاسَ فَيَمْكُثُ فِي الأرْضِ - سے ہر وہ چیز جو دنیا میں قائم رکھی جاتی ہے اس کے قائم رکھے جانے کی وجہ صرف یہی ہے کہ وہ لوگوں کو نفع پہنچاتی ہے.ہر وہ چیز جو مضر ہو دنیا سے مٹادی جاتی ہے لیکن جب تک وہ اپنے اندر نفع کی کوئی نہ کوئی صورت رکھتی ہے اللہ تعالی اسے دنیا میں قائم رکھتا ہے.اس قانون الہی کے ماتحت ہر انسان دنیا میں زندہ ہے یہ چرند پرند زندہ ہیں اور ہر چیز جو اپنی موجودہ حالت پر قائم ہے کوئی نہ کوئی نفع اپنے اندر رکھتی ہے.جو انسان مرجاتے ہیں وہ اپنے کام کو پورا کر جاتے ہیں مگر ان کی ہڈیاں مٹی میں مل کر اور
خطبات محمود جلد سوم رنگ میں فائدہ دیتی ہیں.ان کی ہڈیوں سے فاسفورس اور نمک اور کئی اجزاء حاصل ہوتے ہیں پھر ان سے کھیتوں کے تیار ہونے میں بھی مدد ملتی ہے.پس مرنے والے کی صرف شکل بدل گئی ہے ورنہ اس کے بعض حصے چونکہ ابھی نفع رساں ہیں اس لئے اسے فنا نہیں کیا گیا.فناوہی چیز ہوتی ہے جو بے نفع ہو جاتی ہے اور قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ دنیا کی ہر چیز نفع رساں ہے.خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ ہم نے زمین و آسمان کو انسان کے فائدہ کے لئے پیدا کیا ہے تو معلوم ہوا کہ دنیا کی کوئی چیز فنا کے قابل نہیں وہ اینٹ، روڑے اور گھاس پھوس جسے ہم بے فائدہ سمجھتے ہیں اللہ تعالیٰ کے کلام سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ بھی اپنے اندر مقصد اور فائدہ رکھتے ہیں ورنہ اللہ تعالی انہیں پیدا ہی کیوں کرتا اور اگر ان کی غرض و غایت ختم ہو جاتی تو انہیں قائم ہی کیوں رکھا جاتا.میں نے ایک دفعہ اس مسئلہ پر غور کیا تو اس سے دنیا کی عمر کا اندازہ لگا لیا.میں نے دیکھا کہ پہاڑوں کی غاروں میں اور ان کی چوٹیوں پر ہزار ہا قسم کی گھاسیں اور جڑی بوٹیاں پیدا ہوتی ہیں.اور سوکھ کر گر جاتی ہیں جن سے کوئی انسان فائدہ نہیں اٹھاتا.ہزاروں لاکھوں ٹن پانی آسمان سے گرتا ہے جس میں سے قلیل حصہ انسان کے کام آتا ہے باقی سب کا سب سمندر میں جاگرتا ہے.ایک لمبا سلسلہ پہاڑوں کا ہے جن میں ہزار ہا غاریں ایسی ہیں جو میلوں زمین کی سطح میں دھنس گئی ہیں ان تمام چیزوں کو میں نے دیکھا اور غور کیا کہ جب قرآن کریم سے معلوم ہوتا کہ ساری چیزیں ہم نے دنیا کے استعمال اور فائدہ کے لئے پیدا کی ہیں تو آخر یہ کیوں ہو رہا ہے.کیا اس وجہ سے اللہ تعالٰی پر کوئی اعتراض نہیں آتا کہ اس نے اتنی چیزیں بے فائدہ پیدا کی ہیں اور اعتراض کرنے والے یہ اعتراض کرتے بھی ہیں.ہزاروں فلاسفر دنیا میں ایسے ہیں جو یہ اعتراض کرتے بھی ہیں کہ پہاڑوں کی چوٹیوں پر پیدا ہونے والی گھاس، تہہ خانوں میں مرنے والے کیڑے مکوڑے، ہزاروں قسم کے پرندے جو کبھی انسان کے کام نہیں آتے یہ سب اللہ تعالٰی نے کیوں پیدا کئے ہیں.میں نے اس مسئلہ پر غور کیا اور اس نتیجہ پر پہنچا کہ جس مذہب نے دی ہے کہ انسان کی غذا اللہ تعالیٰ نے تمام چیزوں سے مشترک بنائی ہے وہی اس عقدہ لا نخل کو حل کر سکتا ہے.وہ مذہب جو صرف حیوانی غذا تجویز کرتا ہے یا نباتاتی غذا تجویز کرتا ہے وہ اسے حل نہیں کر سکتا.وہ مذہب جو یہ کہتا ہے کہ روحیں آسمان سے گرتی ہیں وہ بھی اسے حل نہیں کر سکتا.
خطبات محمود ۳۶۲ جلد سوم پھر وہ مذہب جو یہ کہتا ہے کہ انسان مڑ مڑ کر دنیا میں آتا ہے کبھی چرند بنتا ہے کبھی پرند اور کبھی کسی اور صورت میں دنیا میں آتا ہے وہ بھی اسے حل نہیں کر سکتا.اسے حل کرنے کے لئے کسی ایسے مذہب کی ضرورت ہے جس کا دعوئی یہ ہو کہ انسان ایک ہی بار دنیا میں آتا ہے اور اس کی غذا سب چیزوں پر مشتمل ہوتی ہے.تب میں نے زمین کی طاقتوں پر غور کیا اور سمجھا کہ یہ ہزاروں اقسام کے گھاس اور پھول پھل، حیوانات اور چرند پرند کیوں دنیا میں موجود ہیں، سبزہ کیوں متواتر پہاڑوں پر نکلتا ہے، کیوں پانی ٹپک ٹپک کر چشموں سے گرتا ہے، مختلف انواع و اقسام کے جانور کیوں پیدا ہوتے ہیں یہ سب اس گھڑی کے منتظر ہیں جب انسان انہیں کھا کر اپنے وجود میں جذب کرے تا وہ ابدی زندگی حاصل کرلیں ہر ذرہ بے تابی سے باہر نکلتا ہے کہ انسان مجھے دیکھ لے.پس یہ چیزیں بے فائدہ نہیں ہیں.ایک روڑ ہو رہی ہے.انسان ایک ہی وقت سب کو استعمال نہیں کر سکتا.باری باری سب اس کی نظر کے سامنے آتے جاتے ہیں اور انسانی جسم میں جذب ہوتے جاتے ہیں اور جو ذرہ روح میں شامل ہو جاتا ہے وہ اللہ تعالی کی ابدی رحمت کے نیچے آجاتا ہے اور جب تک کائنات کا ذرہ ذرہ انسانی روح میں جذب نہ ہو جائے گا اس وقت تک دنیا ختم نہ ہوگی اس وقت تک یہ کش مکش برابر جاری رہے گی.جب تک ذرہ ذرہ کو ابدیت حاصل نہ ہو اور جب تک وہ انسان کی روح میں شامل نہ ہو جائے اور جس دن ہر ذرہ کو ابدیت حاصل ہو گئی اس دن سمجھو دنیا نے اپنا مقصد حاصل کر لیا.یہ دنیا تب تک ہی قائم ہے جب تک انسان بنتا ہے تو دیکھو الحَمدُ لِلَّهِ نَحْمَدُ.میں کس طرح ہماری توجہ اس طرف پھیری گئی ہے کہ تم دنیا کی کسی چیز کے متعلق نہیں کہہ سکتے کہ یہ حمد الہی کا ذریعہ نہیں ہے.برے سے برے آدمی کو دیکھ لو.ابو جہل کو ہی لے لو.تم کہو گے اس نے کتنا غضب کیا اور کہو گے کہ اللہ تعالٰی نے اسے کیوں پیدا کیا.اس کے زمانہ میں کوئی مسلمان یہ اندازہ نہ کر سکتا تھا کہ اس کی پیدائش کا کیا مطلب ہے لیکن میں چالیس سال بعد جب وہ عکرمہ کے وجود میں ظاہر ہوا تو معلوم ہوا کہ اس کا وجود کس قدر ضروری تھا اگر اللہ تعالی ابو جہل کو فتا کر دیتا تو عکرمہ کہاں سے پیدا ہوتا.پس ابو جہل تو ایک پوسٹ آفس تھا اور درمیان کی گندی چیز کی وجہ سے آگے آنے والی عمدہ چیز تو کوئی فتا نہیں کیا کرتا.نکی اگر گندی ہو لیکن اس میں سے پانی پاکیزہ آرہا ہو تو اسے تو ڑا نہیں جاتا اور کوئی انسانی نسل ایسی نہیں ہو سکتی جو آدم سے لے کر قیامت تک گندی رہی ہو.پھر کسی کو کس طرح فضول اور بے کار کہا جاسکتا ہے.ابو جہل گو
۳۶۳ جلد سوم گندہ تھا مگر اس کے ملب ترائب میں ایسی پاکیزہ چیز تھی جو رکھے جانے کے قابل تھی اور جب اللہ تعالی کا غضب ابو جہل کو فنا کرنے پر آمادہ ہوتا تو عکرمہ کی روح چلا اٹھتی کہ مجھے کیوں فنا کیا جا رہا ہے.یہ تو ایک مثال ہے.ہر انسان کے اندر قسم قسم کی رو میں چلتی رہتی ہیں کہ وہ اپنے اپنے عرفان کے مطابق اس بات کو بخوبی سمجھ سکتا ہے ورنہ دنیا کی کسی چیز کو اللہ تعالی نے بے فائدہ پیدا نہیں کیا.پاخانہ ہے اسے ہم باہر پھینک دیتے ہیں وہ انسانی جسم سے فنا ہو جاتا ہے پھر کھاد کے طور پر استعمال ہوتا ہے اور اس سے غلے پیدا ہوتے ہیں.گویا جس مقام سے وہ بے فائدہ ہو گیا تھا وہاں سے اسے نکالا گیا مگر دنیا میں ابھی چونکہ اس کا فائدہ تھا اس لئے اسے دنیا سے مٹایا نہیں گیا بلکہ اس سے پھر وہ سبزہ اور ترو تازگی پیدا ہوتی ہے جس کے دیکھنے کے لئے ہم گھروں سے دو دو میل دور نکل جاتے ہیں.ہم اسے دیکھ کر دل کو بہلاتے ہیں مگر اس وقت یہ خیال بھی نہیں کرتے کہ یہ اسی گندے پاخانہ سے پیدا شدہ ہے.تو دنیا کی کوئی چیز ایسی نہیں جو حمد الہی کا ثبوت نہ دے رہی ہو.اس خطبہ میں الحمد کو پہلے رکھا اور نحمدہ کو بعد میں اور اس کی وجہ یہ ہے کہ حمد تو دنیا کا ہر ذرہ کر رہا ہے اور محمدہ ہمارے متعلق ہے اور ہم تھوڑی کرتے ہیں.ہماری حمد تو ایسی ہے جیسے سمندر میں سے کوئی چڑیا چونج میں پانی لے جائے.پس جب معلوم ہوا کہ کائنات کا ہر ذرہ اپنے اندر فوائد رکھتا ہے تو ہم کسی چیز کو حقیر نہیں کہہ سکتے اور فنا کرنے پر آمادہ نہیں ہو سکتے کیونکہ جس چیز کو ہم فنا کرنے کے لئے تیار ہو جائیں ہمیں کیا معلوم ہے کہ اس میں اللہ تعالٰی نے کس قدر فوائد رکھتے ہیں.رسول کریم کفار عذاب مانگتے ہیں مگر اللہ تعالٰی فرماتا ہے کہ ہمارا یہ نبی خواہ کتنی بڑی شان کا کیوں نہ ہو عذاب ہم نے اپنے قبضہ میں ہی رکھا ہے کیونکہ کیا خبر کہ وہ کسی ایسے آدمی کو بھی مار دے جسے ہم نے زندہ رکھنا ہو.پس دنیا کی لڑائیاں جھگڑے جو باپ، بیٹا، میاں بیوی، بھائی بھائی، رشتہ داروں اور محلہ والوں میں ہم دیکھتے ہیں یہ سب عقل کی کو تاہی کا نتیجہ ہیں.ہم جس چیز میں عیب دیکھتے ہیں اگر خدا تعالی کی نظر میں بھی وہ ایسی ہی ہوتی ہیں تو یقیناً اسے مٹا دیا جاتا کیونکہ اللہ تعالی نے قرآن کریم میں فرمایا ہے کہ ہم عیب نہیں رہنے دیں گے اور جب تک کوئی چیز دنیا میں قائم ہے اس کا یہی مطلب ہے کہ اس کے اندر کوئی نیکی اور کوئی خوبی موجود ہے ہماری آنکھ اگر نہیں دیکھتی تو اور بات ہے.اگر کوئی شخص فسادی ہے تو بے شک ہو مگر ایک حصہ میں اگر وہ بے فائدہ ہے تو دوسرے حصہ میں ضرور مفید ہو گا.میں نے پاخانہ کی مثال دی ہے جسے ہم جسم سے
خطبات محمود جلد سوم علیحدہ کر دیتے ہیں مگر پھر بھی وہ بے کار اور بے فائدہ نہیں ہوتا اور یہ نہیں کہ اس میں کوئی خوبی نہ رہے.رسول کریم ﷺ کی نظر ہر پہلو پر تھی اور اسی لئے آپ نے فرمایا کہ کسی چیز کو خبیث نہ کہا کرو.ہر چیز میں کوئی نہ کوئی خوبی ہے اور اس نکتہ کو اگر ہم سمجھ لیں تو بہت سے جھگڑے جو دنیا میں ہو رہے ہیں ختم ہو جائیں ، بہت سی تلخ زندگیاں خوشگوار ہو جائیں اور بہت سے برباد گھر آباد ہو جائیں.یہ سب فساد اور جھگڑے اسی وقت تک ہیں جب تک ہم اپنے کو خدا سمجھتے ہیں اور دوسروں میں بھی خدا کی جھلک دیکھنا چاہتے ہیں.حالانکہ کامل ہمہ وجوہ خدا ہی ہے باقی جو اشیاء ہیں ان میں سے کوئی کسی کے لئے زندہ ہے اور کسی کے لئے مردہ ، کسی کے لئے مفید ہے اور کسی کے لئے غیر مفید - کامل صرف اللہ تعالی ہی کی ذات ہے دوسری چیزیں اگر ایک جگہ نفع رساں ہیں تو دوسری جگہ مضر بھی ہو سکتی ہیں اور اگر دنیا کی اشیاء کو ہم خدا تعالی کی دی ہوئی آنکھ سے دیکھیں تو دنیا با امن ہو جاتی ہے.احرار کو ہی دیکھ لو یہ گو ہمارے لئے جسمانی دکھ کا باعث ہیں ان کی گالیوں کی وجہ سے ہمارے کان تکلیف اٹھاتے ہیں مگر دل مطمئن ہیں کہ خدا نے ان کو بھی کسی غرض کے لئے پیدا کیا ہے بس دنیا میں امن قائم کرنے کا حقیقی ذریعہ یہی ہے کہ انسان اس نکتہ کو سمجھ لے.ہر چیز جس میں ہم عیب دیکھتے ہیں.اپنے نقطہ نگاہ کو بدل کر اس سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں یا کم سے کم یہ سمجھ سکتے ہیں کہ اس میں گو ہمارے لئے فائدہ نہیں لیکن دوسری جگہ یہ مفید ہے بعض شادیاں ہوتی ہیں اور اولاد نہیں ہوتی.میاں بیوی کو بانجھ سمجھتا اور بیوی میاں کو لیکن جب علیحدہ علیحدہ ہو کر بیوی کسی اور مرد سے اور میاں کسی اور عورت سے شادی کرلیتا ہے تو دونوں کے ہاں اولاد ہو جاتی ہے جس سے معلوم ہوا کہ دراصل وہ دونوں بانجھ نہ تھے وہ صرف ایک دوسرے کے لئے بانجھ تھے.پس بسا اوقات انسان ایک چیز کو مصر سمجھتا ہے حالانکہ وہ صرف اس کے لئے مضر ہوتی ہے یا پھر یہ بھی ہوتا ہے کہ وہ اس کا استعمال غلط طور پر کر رہا ہوتا ہے اس لئے اس سے فائدہ نہیں اٹھا سکتا.کوئی شخص اگر پاجامہ کو گلے میں پہن لے تو اس سے فائدہ نہیں اٹھا سکے گا کیونکہ یہ اس کا استعمال غلط ہے اور فائدہ صرف صحیح طور پر استعمال کرنے سے ہی پیدا ہو سکتا ہے.له الفضل ۲۴- اپریل ۱۹۳۵ء صفحه ۱ ے مسند الامام الاعظم (سنن ابی حنیفہ) کتاب النکاح الفضل ۲۷- اپریل ۱۹۳۵ء صفحه ۴۳) الرعد : ۱۸
خطبات محمود ۹۴ انتخاب زوج کے معاملہ میں دین کو ترجیح دینے کی نصیحت (فرموده ۲۶ - جولائی ۱۹۳۵ء) ۲۶.جولائی ۱۹۳۵ء حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے چوہدری سردار احمد صاحب کے نکاح کا اعلان فرمایا.خطبہ مسنونہ کی تلاوت کے بعد فرمایا دنیا کو عربی زبان کے محاورہ میں کھیتی سے مشابہت دی گئی ہے اور اس میں کوئی شبہ نہیں کہ انسانی فطرت پر غور کر کے ہم یقینی طور پر اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ انسان کو بہت سی مشابہت کھیتی یا باغ سے ہے.اچھا باغبان یا اچھا انسان کبھی اس طرح نہیں کرتا کہ خراب بیج بوئے، پانی دے لیکن جب کھیتی تھوڑی بہت آگ آئے تو اس وقت اچھا پیچ تلاش کرنے کی کوشش کرے.ہر وہ کسان یا باغبان جو اچھے بیچ کے حصول کے لئے کھیتی کے اگ آنے پر کوشش کرتا ہے وہ کبھی اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہو سکتا.اچھا کھیتی بونے اور اچھا باغ لگانے کے لئے اچھے بیج اور اچھی زمین کی ضرورت ہوتی ہے پھر اس کے بعد محنت اور کوشش اچھا نتیجہ پیدا کر سکتی ہے.چونکہ انسان کو کھیتی سے مشابہت حاصل ہے اس لئے جس طرح ظاہری کھیتی کے لئے اچھے بیج اور اچھی زمین کی ضرورت ہوتی ہے اسی طرح شادی بیاہ کے معاملہ میں ہمیشہ اچھے مرد اور اچھی عورت کا انتخاب کیا جانا چاہئے.ایک دفعہ رسول کریم ﷺ کے حضور ایک شخص نے ذکر کیا کہ وہ شادی کرنے کا ارادہ رکھتا ہے.آپ نے فرمایا دنیا میں کوئی مال کے لئے شادی کرتا ہے اور کوئی جمال اور حسب و نسب کے لئے لیکن میں کہتا ہوں کہ عَلَيْكَ بِذَاتِ الدِّينِ
خطبات محمود جلد سوم تَرِبَتْ يَدَا گ - له تیرے ہاتھوں کو مٹی لگے تو دین کی خاطر شادی کر.تَرِبَتْ يَدَاكَ.بد دعائیہ فقرہ نہیں بلکہ یہ ایک عربی محاورہ ہے جو پیار کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے.ہر انسان خواہش کرتا ہے کہ اس کا اور اس کی بیوی کا جمال قائم رہے حالانکہ وہ جانتا ہے کہ خوبصورتی ایک عارضی شئے ہے.دوسری چیز جس کے لئے انسان شادی کرتا ہے وہ مال ہے.مال خرچ کرنے کے لئے ہوتا ہے اور مال کی قیمت دراصل وہی ہوتی ہے جس کے لئے وہ خرچ کیا جائے.جو مال خرچ نہ ہو اس کی کوئی قیمت نہیں ہوتی.تیسری چیز حسب و نسب ہے یہ بھی ایک بوجھ ہوتا ہے مثل مشہور ہے کہ جب گیدڑ اکٹھے ہوتے ہیں تو ان میں سے ایک "پدرم سلطان بود " کہتا ہے اور باقی تمام گیدڑ " تراچہ تراچہ " کہنے لگ جاتے ہیں.تو ماں باپ کا بڑے خاندان سے ہونا ایک بوجھ ہوتا ہے صرف اس لئے کہ لوگ کہیں کہ یہ بڑے حسب و نسب والا ہے.ہمیشہ انسان کو اپنی پوزیشن قائم رکھنے کا خیال رہتا ہے اور اس کی وجہ سے اس کے اخراجات بڑھ جاتے ہیں کام آنے والی اور مستقبل پر اثر ڈالنے والی چیز صرف دین ہے.دین اس حالت کا نام ہے جو انسان کے دل میں پیدا ہوتی ہے وہ سوز و گداز وہ رقت اور وہ خشوع جو دل میں پیدا ہوتا ہے حقیقتاً وہی دین ہے.جو نماز نیکی اور تقویٰ پیدا نہ کرے وہ اصل نماز نہیں ہوتی، اسی طرح وہ روزہ بھی اصل دین نہیں جو انسان کے دل میں مخلوق سے ہمدردی کے جذبات پیدا کر کے انسان کو اللہ کے قریب نہ کر دے بلکہ وہ چیز جو اس کے پیچھے ہے اصل دین ہے.اسی طرح وہ حج بھی اصل دین نہیں جس سے محض حاجی کہلانا مقصود ہو بلکہ جن پاک امنگوں کو دل میں لئے ہوئے حج کیا جائے وہ اصل دین ہے یہی زکوۃ کا حال ہے.جس نیت اور ” خواہش سے کوئی انسان دوسرے سے نیکی اور بھلائی کرتا ہے وہی حصہ دین کہلاتا ہے.تمام دنیا کے مذاہب انسان کی تربیت اس کے بالغ ہونے سے شروع کرتے ہیں لیکن اسلام انسان کی اصلاح اور تربیت اس کی پیدائش سے پہلے شروع کر دیتا ہے.جیسے رسول کریم ا نے فرمایا عَلَيْكَ بِذَاتِ الدِّينِ - دین کی خاطر شادی کرو.دین اس تڑپ اور تقویٰ کی کچی خواہش کا نام ہے جو انسان کو اللہ تعالٰی کے قریب کر دیتی ہے.بِذَاتِ الدِّينِ والی شرط مرد عورت دونوں کے لئے ہے صرف عورت کے لئے نہیں.جب عورت اور مرد دونوں ایسے ہوں گے تو گویا اچھا پیچ اور اچھی زمین مل جائے گی.اسلام نے میاں بیوی کے تعلقات کی بنیاد دین پر رکھی ہے اس لئے رسول کریم ﷺ نے فرمایا.مرد عورت کے پاس جاتے وقت یہ دعا
خطبات محمود جلو موم - کیا کرے - اللهم جَيْبُنَا الشَّيْطَنَ وَجَنْبِ الشَّيْنَ مَا رَزَقْتَنَا.کہ یہ دعا ہے جس سے خشیت اٹھی اور تقومی پیدا ہوتا ہے اور اس سے انسان اپنی خوشی کی حالت کو قائم رکھ سکتا ہے.اس کے بعد جب بچہ پیدا ہوتا ہے تو رسول کریم ﷺ کا حکم ہے کہ اس کے کان میں اذان کہو.اگرچہ بچہ نہیں سمجھتا کہ کیا کیا گیا لیکن پھر بھی اس کے اندر بولنے کی قوت مخفی ہوتی ہے جس طرح جنگل کے سرکنڈے میں بولنے کی طاقت مخفی ہوتی ہے مگر اس کا اظہار اس وقت ہوتا ہے جب اس کو کاٹ کرنے (بانسری) بنائی جائے اسی طرح بچے کے اندر بھی بولنے کی قابلیت ہوتی ہے لیکن اس کا ظہور بعد میں ہوتا ہے.بچہ کے اندر قابلیت اور قبولیت دونوں مارے موجود ہوتے ہیں.قبولیت کا مادہ تو روز روشن کی طرح ظاہر ہے اسی بناء پر رسول کریم ﷺ نے بچے کے کان میں اذان دینے کی تاکید فرمائی اور اس کے بعد بچہ کے بڑے ہونے پر اس کی تربیت کی تاکید فرمائی.چنانچہ آنحضرت ﷺ نے ایک دفعہ حضرت امام حسین کی خود تربیت فرمائی.کھانا کھاتے وقت جس طرح بچوں کی عادت ہوتی ہے حضرت امام حسین نے بھی ادھر ادھر سے تھے لینے شروع کر دیئے رسول کریم ﷺ نے فرمایا كُلُّ بِيَمِينِكَ وَ كُلُّ مِمَّا يَلِيْكَ - ٣ یعنی دائیں ہاتھ سے کھاؤ اور اپنے آگے سے کھاؤ.اسی طرح ایک دفعہ صدقہ کی کھجوریں آئیں تو حضرت امام حسین نے ان میں سے ایک کھجور اٹھا کر اپنے منہ میں ڈال لی آنحضرت ا نے اسی وقت ان کے منہ میں انگلی ڈال کر کھجور نکال لی.سے ایسی اور بہت سی مثالیں ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ آپ بچوں کی بچپن سے ہی تربیت کرنا ضروری سمجھتے تھے.پھر جب بچہ ذرا اور بڑا ہوتا ہے اور وہ باتوں کی نقل کرنا سیکھ جاتا ہے تو نماز سکھانے کی تاکید فرمائی.اس کے علاوہ تعلیم پر بھی زور دیا ہے.چنانچہ ایک حدیث میں آتا ہے رسول کریم ا نے فرمایا جو شخص اپنی دو لڑکیوں کو تعلیم دیتا اور آداب سکھاتا ہے وہ اپنے لئے جنت میں گھر بناتا ہے.شہ لوگ عموماً لڑکیوں کو تعلیم نہیں دلاتے اس واسطے لڑکیوں کا رسول کریم ﷺ نے ذکر کیا ہے یہ مطلب نہیں کہ لڑکوں کو تعلیم نہ دلانا کوئی حرج کی بات نہیں.پھر جب بچہ اس سے ترقی کرتا اور بڑا ہوتا ہے تو اسے شریعت کے احکام اور اخلاق فاضلہ سکھائے جاتے ہیں اور یہی چیز ہے جس سے حقیقی نیکی قائم ہو سکتی ہے.
خطبات محمود جلد سوم پس کوشش اس بات کی ہونی چاہئے کہ لڑکے کو اچھی لڑکی مل جائے اور لڑکی کو اچھا لڑ کامل جائے پھر دونوں نیک نیتی اور نیک ارادہ سے آپس میں ملیں اور اولاد پیدا ہونے پر اس کی تربیت کا ابتداء سے ہی خیال رکھیں تو ممکن نہیں کہ اولاد خراب ہو یا کم از کم اس اولاد میں اتنی نیکی کی قوت پیدا ہو جائے گی کہ برائی کا اثر اس پر نہیں ہو گا اور اگر شاز کے طور پر کسی کی اولاد خراب بھی ہو جائے تو اس سے قوم کو بحیثیت مجموعی نقصان نہیں پہنچ سکتا جیسے اگر کسی اعلیٰ آموں کے باغ میں کسی درخت کو خراب پھل لگ جائے یا اعلیٰ کھیت میں کوئی سردہ خراب ہو جائے تو اس ایک دو کی خرابی کی وجہ سے باغ یا کھیت کی شہرت کو کوئی نقصان نہیں پہنچ سکتا.یاد رکھو! یہی وہ طریق ہے جس سے حقیقی فلاح حاصل ہو سکتی ہے.له ترمذی ابواب النكاح باب ما جاء في من ينكح على ثلث خصال کے بخاری کتاب بدء الخلق باب صفة ابليس وجنودة الفضل ۲۸ - اگست ۱۹۳۵ء صفحه ۳) ه بخاری کتاب الاطعمة باب التسمية على الطعام والاكل باليمين که بخاری كتاب الزكوة باب ما يذكر في الصدقة للنبي صلى الله عليه وسلم واهلہ کی روایت میں حضرت امام حسن کا ذکر ملتا ہے.ه ابن ماجه كتاب الادب باب بر الوالد والاحسان الى البنات
خطبات محمود ۳۶۹ ۹۵ جلد سوم میاں بیوی کے تعلق کی بنیاد تقویٰ پر ہونی چاہئے (فرموده ۹ - اگست ۱۹۳۵ء) خطبہ مسنونہ کی تلاوت کے بعد حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے فرمایا : اے اسلام نے اس اہم ضرورت کو جو گھروں میں قیام امن کے لئے ہے تمام مذاہب سے زیادہ بلکہ یوں کہنا چاہئے کہ صرف اسلام نے ہی اسے محسوس کیا ہے دوسرے کسی مذہب نے ادھر توجہ نہیں کی.انسان ہر قسم کی تکلیف برداشت کر سکتا ہے.لیکن وہ اپنے تمام کاموں کے لئے فرداً فرداً اتنا وقت نہیں دیتا جتنا وہ اپنے گھر میں دیتا ہے.گو دن کے لحاظ سے گھر کا وقت کم ہوتا ہے لیکن اگر آدمی دوسرے کاموں کے اوقات کو گئے تو اسے معلوم ہو جائے گا کہ دوسرے کاموں کے اوقات کی نسبت گھر کا وقت زیادہ ہوتا ہے.گھر سے باہر وہ ایک مرد سے ملے گا پھر دوسرے سے، افسروں سے بھی ملے گا اور ماتحتوں سے بھی، رشتہ داروں سے بھی ملاقات کرے گا اور محلہ کے لوگوں سے بھی مگر گھر میں صرف ایک شخصیت سے اس کا تعلق اور واسطہ ہو گا اور اسی کی خوبیوں یا نقائص پر اس کی نظر پڑے گی.نقائص پر نظر پڑتا آدمی کی کمزوری کی وجہ سے ہوتا ہے.جب کسی انسان میں کمزوری پیدا ہو جاتی ہے تو اس کی نگاہ خوبیوں پر کم پڑتی ہے اور نقائص پر زیادہ.ایک دفعہ حضرت عیسی علیہ السلام اپنے حواریوں کے ساتھ کہیں جارہے تھے کہ راستہ میں ان کو ایک مرا ہو اکتا دکھائی دیا.حضرت عیسی علیہ السلام کے حواریوں نے کہا اس سے سخت بدبو
٣٧٠ آرہی ہے مگر حضرت عیسی علیہ السلام نے فرمایا دیکھو اس کے دانت کتنے صاف اور چمکیلے ہیں.گویا مرے ہوئے کتے کے متعلق بھی ان کی نظر خوبی پر ہی پڑی.تو روحانیت اور نیکی انسان کو خوبیوں کی طرف متوجہ کرتی ہے مگر وہ شخص جس میں مذہبی نیکی نہ ہو اس کی نگاہ نقائص پر پڑتی ہے اس طرح کمزور آدمی اگر اپنی بیوی کے نقائص پر نظر رکھے اور اس کی خوبیاں نہ دیکھے تو یہ ایک مصیبت ہو گی جو رات دن ان کو جھیلنی پڑے گی.ایک طرف خاوند اگر یہ کہے گا کہ گھر میں کھانا اچھا نہیں پکتا، برتنوں کی صفائی نہیں ہوتی تو دوسری طرف عورت کے گی کہ مجھے کافی اخراجات نہیں دیئے جاتے جس سے میں اپنے گھر کا انتظام درست رکھ سکوں غرضیکہ کئی قسم کی باتیں طرفین سے ہوتی رہیں گی.بعض آدمی اس سے تنگ آکر اپنی بیوی کے عیوب کی طرف سے لا پروائی اور غفلت اختیار کر لیتے ہیں جس سے بے حیائی پیدا ہوتی ہے اور بعض لوگ گھر کی ضروریات اور بچوں کی تربیت سے ہاتھ کھینچ لیتے ہیں مگر یہ دونوں صورتیں نقصان دہ اور مضر ہیں اور ان سے روکنے کے لئے اسلام نے ایک ذریعہ بتایا ہے وہ یہ کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کے مطیع اور فرماں بردار ہو جاؤ.اب رہا یہ سوال کہ اللہ اور رسول نے کیا بتایا ہے ؟ وہ یہ ہے کہ میاں بیوی کے تعلقات کی بنیاد تقویٰ پر ہونی چاہئے.کسی شاعر نے کہا ہے.خشت اول چون Ü ثریا رور نهد معمار کج دیوار سج لیکن اگر انسان ابتداء ہی میں رسول کریم ﷺ کی تعلیم عَلَيْكَ بِذَاتِ الدِّينِ - له پر عمل کرے تو وہ اپنے گھر کو جنت بنا سکتا ہے.اچھے آدمی کی اولاد بھی اچھی پیدا ہوتی ہے.الا ما شاء اللہ.اور میاں بیوی کے تعلقات کی بنیاد تقویٰ پر ہو تو نتیجہ ہمیشہ نیک ہو گا.دوسری بات یہ ہے کہ شریعت نے اپنی عقل کے علاوہ خدا تعالیٰ پر معاملہ سپرد کر دینے کو کہا ہے اور اللہ تعالیٰ کے سپرد کر دینے سے نتیجہ لازماً اچھا نکلتا ہے.مثلاً استخارہ ہے اس کے لئے ضروری ہے کہ انسان یہ عہد کرنے کہ اگر خدا نے فلاں رشتہ پر شرح صدر نہ کیا تو نہیں کریں گے.اگر یہ عہد نہ کیا جائے تو استخارہ استخارہ نہیں کہلا سکتا.میرے پاس کئی ہندو اور سکھ آتے ہیں اور کہتے ہیں ایسی تدبیر بتا ئیں جس سے اسلام کی صداقت کا آسانی سے پتہ لگ جائے.میں ان سے کہا کرتا ہوں کہ وہ تدبیر جو آسان ہے استخارہ -
خطبات محمود ٣٧١ جلد موم ہے.اگر تمہیں استخارہ سے اسلام کی صداقت کا پتہ لگ جائے تو پھر ضرور اسلام قبول کرنا ہوگا اور اگر دل میں یہ خیال ہو کہ اسلام کو ماننا ہی نہیں تو پھر استخارہ ایک لغو کام ہے اور اللہ تعالی لغو کام پر توجہ نہیں کیا کرتا.استخارہ کرنے والے کی اللہ تعالی راہنمائی کرتا ہے اور اسے ہدایت دیتا ہے.بشرطیکہ وہ یہ.عزم رکھے کہ اگر اللہ تعالیٰ نے کہا تو فلاں کام کریں گے ورنہ نہیں.پھر شریعت نے کہا ہے عفو سے کام لو.مرد میں بھی غلطیاں ہوتی ہیں اور عورت میں بھی.ایسی حالت میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ عفو اور درگزر سے کام لینا چاہئے.یاد رکھنا چاہئے در گزر اور لاپروائی ایک چیز نہیں دونوں میں فرق ہے.عفو کرنے والا آدمی دل سے اس بات کو برا مناتا ہے مگر بے پرواہ آدمی دل سے برا نہیں مناتا اور اس طرح بے غیرتی پیدا ہو جاتی ہے.غرض اسلام نے میاں بیوی کے لئے جو ہدایات مقرر کی ہیں ان پر عمل کرنے سے خانگی زندگی نهایت خوشگوار اور آرام دہ بن سکتی ہے.لے فریقین کا تعین نہیں ہو سکا.ه ترمذى ابواب النكاح باب ما.ينكح على ثلث خصال الفضل ۱۸ اگست ۱۹۳۵ء صفحه (۳)
خطبات محمود ۳۷۲ ۹۶ جلد سوم نیک سے نیک کام میں بھی احتیاط سے کام لو فرموده ۸ جنوری ۱۹۳۶ء) خطبہ مسنونہ کی تلاوت کے بعد حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے فرمایا.اے شادی بیاہ تو انسانی ضرورتوں میں سے ایک ضرورت ہے اس لئے اس کے متعلق کچھ کہنے کی ضرورت نہیں تھی لیکن انسانی فطرت جس قسم کی واقع ہوئی ہے وہ ایسی ہے کہ اچھی.اچھی چیز میں بھی بری بات نکال لیتی ہے حالانکہ اللہ تعالٰی نے انسان کو دو قوتیں اور طاقتیں دی ہیں کہ جو بری سے بری چیز کو اچھی چیز بنا سکتی ہیں.دنیا میں وہ لوگ بھی ہیں جو غلیظ سے غلیظ چیزوں میں سے بھی اچھی چیز نکال لیتے ہیں.ہمارے ملک میں (۸۰) اسی فیصدی طبقہ زمینداروں کا ہے جو ان پڑھ ہے.عام طور پر وہ علوم سے بے بہرہ ہوتے ہیں مگر وہی زمیندار ہیں جو پاخانہ اور بیلوں کے گوبر کو انسانی زندگی کے قائم رکھنے والی اشیاء کو عمدہ بنانے میں صرف کرتے ہیں.دراصل جو شخص اللہ تعالی کی دی ہوئی طاقتوں سے کام لیتا ہے تو وہ بری سے بری چیز کو بھی اچھی چیز بنالیتا ہے.مگر وہ لوگ جو اللہ تعالی کی دی ہوئی طاقتوں سے کام نہیں لیتے وہ اچھی سے اچھی چیز کو بھی بری بنا دیتے ہیں.بعض لوگ دنیا میں ایسے بھی ہیں جو پاخانہ جیسی گندگی کو بھی انسانی ضروریات کے لئے مفید بنا دیتے ہیں اور بعض لوگ ایسے پائے جاتے ہیں جو نمازوں اور روزوں کو بھی شیطنت کا ذریعہ بنا لیتے ہیں اور خدا تعالی ان کے متعلق قرآن مجید میں فَوَيْلٌ لِلْمُصلين له فرماتا ہے.بعض ایسے نماز پڑھنے والوں کے لئے ہلاکت ہے اس قسم کے لوگ بجائے نفع کے نقصان اٹھاتے
خطبات محمود ٣٧٣ جلد سوم ہیں.پس یہ خیال نہیں کرنا چاہئے کہ شادی ایک ضروری چیز ہے اس میں مضرت کا پہلو کیا ہو سکتا ہے.شادی باوجود ایک ضروری چیز ہونے کے اور باوجود اس پر دنیا کی ترقی کا انحصار ہونے کے اور باوجود آئندہ نسلوں کو بڑھانے کا ذریعہ ہونے کے دنیا میں ایک ایسا گروہ بھی ہے جس نے اسے برا قرار دے دیا ہے.وہ لوگ شادی نہیں کرتے بلکہ ساری عمر رہبانیت میں گزار دیتے ہیں یا کم از کم دنیا کو دھوکا دینے کے لئے رہبانی بنے رہتے ہیں.پھر جہاں دنیا میں ایک طرف شادی نہ کرنے پر زور دینے والے موجود ہیں وہاں دوسری طرف ایسے لوگ بھی ہیں جو ہزار ہزار عورتوں سے بیاہ کر لیتے ہیں.وہ اتنی عورتوں سے اس لئے شادی کرتے ہیں کہ وہ ان تمام کو روٹی کھلا سکتے ہیں مگر عورت صرف روٹی کھانے کے لئے نہیں ہوتی جس ضرورت کے لئے عورت ہوتی ہے یقیناً اس کے ماتحت وہ اتنی عورتوں کو نہیں رکھ سکتا.پس ایک طرف اس طبعی تقاضا کو محدود قرار دے دیا جاتا ہے تو دوسری طرف غیر محدود پھر اگر ایک طرف مرد بیوی کی خاطر دین مذہب اور ایمان فروخت کر دیتا ہے اور بیوی مرد کی خاطر مذہب اور ایمان بیچ ڈالتی ہے تو دوسری عورتیں اپنے سسرال اور مرد اپنے سسرال کے ساتھ سلوک کرنے کی بجائے ان سے اپنے تعلقات قطع کر لیتے ہیں اور یہاں تک نوبت پہنچ جاتی ہے کہ ایک دوسرے کی شکل دیکھنا بھی پسند نہیں کرتے.اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالٰی کے فرشتے جہاں نیک تحریک دل میں ڈالتے ہیں وہاں ساتھ ہی شیطان کی ذریت بدی کی تحریک کرتی ہے.مومن کو چاہئے کہ ہر کام جس میں وہ ہاتھ ڈالنا چاہتا ہے دعا کے ذریعہ شروع کرے اور یہ نہ سمجھے کہ جو کام میں کرنے لگا ہوں اس کا کوئی برا پہلو نہیں کیونکہ ہر اچھی چیز کا برا پہلو بھی ہوتا ہے.پس مومن کو تقویٰ پر اپنے ہر کام کا انحصار رکھنا چاہئے اور ہمیشہ نیک کاموں میں حزم اور احتیاط سے کام لینا چاہئے.الفضل سے فریقین نکاح کا تعین نہیں ہو سکا.ہ الماعون : ۵ الفضل -۱۵ جنوری ۱۹۳۶ء صفحه (۳)
خطبات محمود ۳۷۴ جلد سوم شادی عشق الہی سکھانے کا مدرسہ ہے فرموده ۱۱- جنوری ۱۹۳۶ء) جنوری ۱۹۳۶ء بعد نماز عصر حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے جناب مولوی غلام رسول صاحب را جیکی کی دو صاجزادیوں صفیہ بیگم اور زینب بی بی کا نکاح پانچ پانچ سو روپیه مهر پر علی الترتیب غلام محمد ابن میاں مہتاب دین صاحب اور احمد خان ابن حکیم محمد اسماعیل صاحب سکنہ ہائے پیر کوٹ ضلع گوجرانوالہ سے پڑھا.لے خطبہ مسنونہ کی تلاوت کے بعد فرمایا : شادیوں کا معاملہ محبت کی بنیاد کے قیام کے لئے ہے میاں بیوی کی محبت در حقیقت خدا ہی کی محبت کا ظل ہے.شادی ایک مدرسہ ہے جہاں خدا تعالیٰ کے عشق کا سبق پڑھایا جاتا ہے.انے صوفیاء میں سے بعض کے متعلق بعض اقوال سے پتہ لگتا ہے کہ انہیں محبت مجاز نے عشق حقیقی کی راہ دکھلائی.اس میں لوگوں نے مبالغہ کر لیا اور اس کی اصل صورت کو بگاڑ دیا.ہے اور بعض لوگوں کی طرف سے یہ باتیں ایسے طور پر پیش کی گئی ہیں جس سے ان کی پوزیشن تاریک ہو جاتی ہے.کیونکہ جس عشق مجازی کو روایات میں پیش کیا جاتا ہے وہ اتنی گھناؤنی اور مکروہ چیز ہے کہ اسے عشق حقیقی کا پیش رو قرار دینا عقل کے خلاف ہے مگر میں سمجھتا ہوں کہ ماں باپ اور بچوں کا تعلق اور میاں بیوی کا تعلق ایک مدرسہ ہے جس میں اللہ تعالیٰ کے عشق کے حقیقی کا سبق دیا جاتا ہے اور جب خدا تعالیٰ کے پیدا کردہ ایسے سامان موجود ہیں جو محبت کا سبق محبت کی جائز اور طبعی صورت میں پیش کرتے ہیں تو پھر کسی اور صورت کا پیدا کرنا جو نا جائز ہو
۳۷۵ جلد سو اس کی ضرورت ہی کیا ہے؟ ماں باپ کی محبت اپنے بچوں سے اور میاں بیوی کی محبت ایک دوسرے سے پاکیزہ صورت میں خدا کی محبت کی تصویر ہے.رسول کریم اے نے ماں کی محبت کو خدا تعالیٰ کی محبت سے مشابہ قرار دیا ہے اور خاوند بیوی کے تعلقات کی بنیاد جس محبت پر ہے وہ بھی آنحضرت ﷺ کے طریق عمل اور کلمات سے ثابت ہے.پس انبیاء جیسی پاکیزہ درس دینے والی جماعت کے طریق عمل کی موجودگی میں اور کسی کی ایجاد کی ضرورت ہی کیا ہے اور یہ حماقت ہے کہ جس چیز کو اللہ تعالیٰ نے اپنی ملاقات کا ذریعہ بنایا ہے اسے ایسے طریق سے استعمال کیا جائے کہ جو خطرات سے پڑ ہو مگر لوگوں نے اس قسم کی غلطی کا ارتکاب کیا ہے.رسول کریم ا ل کے متعلق احادیث میں آتا ہے کہ آپ فرمایا کرتے تھے کہ جو شخص اپنی بیوی کے منہ میں لقمہ اس نیت سے ڈالتا ہے کہ اللہ تعالیٰ مجھ سے راضی ہو تو ثواب پاتا ہے.کہ وہ کھانا تو بیوی کو کھلاتا ہے جس سے اس کے جسم میں صالح خون پیدا ہوتا ہے، اس کے چہرہ میں خوشنمائی پیدا ہوتی ہے، اس سے تندرست بچے پیدا ہوتے ہیں گویا بیوی اس کی، روٹی اس کی، تندرست بچے اس کے ، مگر راضی اللہ تعالیٰ ہوتا ہے.کیونکہ یہ بھی ایک صدقہ ہے اور یہ بھی ثواب کا موجب ہے.رسول کریم ﷺ کے متعلق احادیث میں آتا ہے کہ اپنی بیویوں کی دلداری کے لئے بعض دفعہ ایسا ہو تا کہ کوئی بیوی بر تن سے جہاں منہ لگا کر پانی پیتی تھی آپ بھی اسی مقام پر منہ لگا کر پانی پیتے.سے ایک بد فطرت انسان نے ایسی احادیث کو جمع کر کے ایک کتاب لکھی ہے.میں نے اس کے ایک حصہ کا جواب بھی لکھا ہے.سے اس نے اپنے خیال میں ایک عورت دیکھی اور ایک مرد اور شہوانی خیال میں مبتلاء ہو کر صحیح راستہ سے بہک گیا.دراصل اس شخص نے فطرت انسانی کو سمجھا ہی نہیں اور محبت الہی کی ابتدائی کڑی کو دیکھا ہی نہیں.اس نے صرف خاوند بیوی کے تعلقات کو دیکھا مگر اس نے یہ نہ دیکھا کہ وہ محبت کیوں کرتے ہیں اور اس میں کیا چیز دیکھتے ہیں.حضرت نظام الدین اولیاء ایک دفعہ بازار سے گزر رہے تھے کہ ایک خوبصورت بچے کو دیکھا آپ آگے بڑھے اور اس کو چوم لیا.ان کے ساتھ ان کے شاگرد بھی تھے انہوں نے بھی اس بچے کو چوما مگر ایک شخص نے جو بعد میں ان کا خلیفہ ہوا نہ چوما.دوسروں نے سمجھا کہ یہ متکبر ہے جس نے مرشد کے طریق کی اتباع نہیں کی لیکن آگے بڑھے تو ایک بھڑ بھو نجی بیٹھی تھی بھٹی میں آگ جلا رہی تھی حضرت نظام الدین اولیاء نے آگے بڑھ کر شعلہ کو چوم لیا.اس پر آپ
خطبات محمود ٣٤٦ جلد سوم کے شاگرد نے بھی شعلہ کو چوم لیا جس نے اس بچے کو نہ چوما تھا مگر باقی کسی نے شعلہ کو نہ چوما تب اس نے دوسروں سے کہا کہ اگر تمہیں مرشد سے محبت تھی تو اب اس شعلہ کو کیوں نہ چوما؟ حضرت نظام الدین صاحب نے تو کسی وجہ سے اس بچہ میں خدا تعالی کا جلوہ دیکھا تھا اور اسے چوم لیا مگر مجھے اس میں وہ جلوہ نظر نہ آیا اس لئے میں نے اسے نہ چوما.اب یہاں آگ کے شعلے میں بھی ان کو خدا کا جلوہ نظر آیا اور مجھے بھی اس میں خدا کا جلوہ نظر آیا تو میں نے اسے چوم لیا.ممکن ہے وہ بچہ کسی نیک ماں باپ کا بیٹا ہو جن کے احترام کی خاطر انہوں نے اسے چوما ہو اور ساتھ ہی اتفاقی طور پر وہ خوبصورت بھی ہو لیکن اگر وہ بدصورت بھی ہوتا تو بھی وہ اس کے نیک ماں باپ کے تعلق کے احترام میں اسے چومتے.مگر ظاہر بین نگاہوں نے یہ سمجھا کہ بچہ کی خوبصورتی کی وجہ سے اسے چوما حالا نکہ یہ کوئی شرط نہیں کہ نیک انسان کا بچہ خوبصورت نہ ہو.ممکن ہے وہ ان کے کسی استاد کا بچہ ہو یا کسی بزرگ کا بچہ ہو یا کسی ایسے شخص کا بچہ ہو جو خدا تعالی کے نشانوں کو ظاہر کرنے والا ہو.اس وجہ سے انہوں نے خدا کا جلوہ دیکھ لیا مگر دیکھنے والوں کو صرف بچہ اور اس کا چومنا نظر آیا.انبیاء علیہم السلام اپنی بیویوں سے جو محبت کرتے ہیں بعض نالائق لوگ جو حقیقت کو نہیں سمجھتے وہ اسے ظاہری نگاہ سے دیکھتے ہیں حالانکہ اللہ تعالٰی نے میاں بیوی کے تعلقات کو اپنی محبت کا ایک نشان قرار دیا ہے.غرض ماں باپ کی محبت خدا تعالیٰ کی محبت کا ایک ظل ہے، بیوی کی محبت بھی خدا تعالیٰ کی محبت کا ظل ہے اور اولاد کی محبت بھی خدا تعالی کی محبت کا ایک ظل ہے.ماضی کے لحاظ سے ماں باپ کی محبت خدا کی محبت کی جانشین ہے حال کے لحاظ سے میاں بیوی کی محبت خدا کی محبت کی جانشین ہے اور مستقبل کے لحاظ سے اولاد کی محبت خدا کی محبت کی جانشین ہے.گویا یہ تینوں ایک درس گاہ ہیں جن میں انسان اللہ تعالٰی کی محبت کا سبق سیکھتا ہے اور دوسروں کو سکھاتا ہے حضرت مولوی عبد الکریم صاحب نے ایک مرتبہ اپنی بیوی سے سختی سے کلام کیا تو اللہ تعالیٰ کو یہ امرنا پسند ہوا.اللہ تعالٰی نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو الہام کیا کہ مسلمانوں کے لیڈر عبد الکریم کو کہہ دیں کہ یہ طریق اچھا نہیں.شو در اصل ظل کی ہتک اصل کی بھی ہتک ہوتی ہے.ایک مخلص مہمان باہر سے یہاں آئے ہوئے تھے وہ اب بھی یہاں ہی ہیں انہوں نے ایک مرتبہ لنگر کے ایک ملازم کے ساتھ سختی کی تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے
خطبات محمود ۳۷۷ جلد سوم فرمایا وہ ہمارا نمائندہ ہے اس کے ساتھ سختی ہمارے ساتھ سختی ہے.آنحضرت ﷺ نے بھی فرمایا ہے.مَنْ اَ طَاعَنِى فَقَدْ اَطَاعَ اللَّهَ وَمَنْ عَصَانِي فَقَدْ عَصَى الله- له اظلال کی نافرمانی کو اصل بھی برا مناتا ہے.یہی وجہ ہے کہ انبیاء کی جماعت کو ان تینوں محبتوں میں جو خدا تعالٰی کی محبت کا ظل ہیں نہایت کامل نظر آتی ہے.رسول کریم ﷺ کے متعلق احادیث میں آتا ہے.ماں باپ تو آپ کے موجود نہ تھے مگر آپ کی رضاعی والدہ تھیں اور جب وہ تشریف لاتیں تو حضور دور ہی سے دیکھ کر تیز تیز دوڑ کر جاتے اور فرماتے امی امی اور اپنی چادر بچھا دیتے.کہ بیویوں کے ساتھ سلوک کے متعلق میں نے بتایا ہے کہ اس قدر خیال رکھتے جہاں سے بیوی برتن کو منہ لگا کے پانی پیتیں آپ بھی اسی جگہ پر منہ لگا کر پیتے.حضرت عائشہ کے متعلق ایک واقعہ آتا ہے کہ ایک دفعہ ان کے سر میں درد تھا آنحضرت ا گھر میں تشریف لائے تو انہوں نے فرمایا میرے سر میں درد ہے آپ نے فرمایا معمولی بات ہے انشاء اللہ آرام ہو جائے گا کوئی فکر کی بات نہیں.حضرت عائشہ نے کہا آپ کا کیا ہے میں مرجاؤں گی تو آپ کسی اور سے شادی کرلیں گے.آپ نے فرمایا عائشہ نہیں.میں فوت ہو جاؤں گا اور تم زندہ رہوگی.شو چنانچہ نبی کریم ﷺ کی وفات آپ سے پہلے ہوئی.پھر حضرت عائشہ فرماتی ہیں.میں جب بھی یہ واقعہ یاد کرتی ہوں تو مجھے ہمیشہ اس بات سے دکھ ہوتا ہے کہ میں نے اس رنگ میں اس وقت کیوں گفتگو کی.اسی طرح اولاد کی محبت کے متعلق بھی نبی کریم ا کا طریق نہایت ہی کامل نظر آتا ہے.انبیاء در حقیقت اس بات کو دیکھتے ہیں کہ اولاد کی محبت خدا تعالی کی ظلی محبت ہے جو آئندہ کی زمانے کے لئے خدا تعالٰی نے ممد بنائی ہے.رسول کریم ﷺ کی نرینہ اولاد تو بڑی عمر کی نہیں ہوئی.لیکن آپ کی لڑکیاں تھیں اور نواسے تھے ان کے ساتھ ہمیشہ آپ محبت اور پیار کا جو سلوک فرماتے اس سے پتہ لگتا ہے کہ آپ کس قدر محبت ان سے کرتے تھے.بعض دفعہ کوئی کم سن بچہ نماز میں آپ کے اوپر آبیٹھتا مگر آپ سجدہ میں ہی رہتے جب تک کہ بچہ خود بخود نہ اٹھا.پھر آپ نے فرمایا کہ اپنی اولاد کی عزت کرو.اولاد چونکہ خدا تعالی کا ظل قرار پائی اس لئے عزت کے قابل ہے.پس ان تمام محبتوں میں ایک سبق ہے اگر انسان سبق لینا چاہے.اپنے ماں باپ کی محبت دیکھے اور سمجھے کہ یہ دراصل خدا تعالی ہی کی محبت ہے جو اس ذریعہ سے میرے ساتھ بول رہی
خطبات محمود ۳۷۸ ہے وہ خود ایک وراء الورئی ہستی ہے مگر اس کی محبت ان کھڑکیوں میں سے جھانکتی ہے.وہ ابتدائی محبت کو ماں باپ کے ذریعہ سے ظاہر کرتا ہے اور حال کی محبت کو میاں بیوی کی محبت کے ذریعہ اور آئندہ زمانہ کی محبت کو اولاد کے ذریعہ.یہ تینوں مدرسے ہیں انسان کے تینوں زمانوں کے لئے.پس انسان کو ان مدرسوں سے حقیقی سبق حاصل کرنا چاہئے تب یہی چیزیں مبارک بن جاتی ہیں اور دنیا نہیں بلکہ دینی نعماء قرار پاتی ہیں.ان سے ان محبتوں کو اللہ تعالیٰ کی محبت کے اظلال سمجھنے کا پتہ اس طرح لگتا ہے کہ اگر ان تعلقات میں اللہ تعالی ہی کی محبت مر نظر ہو تو جب ان میں سے کوئی اللہ تعالیٰ کے مقابل پر آئے اس سے تعلق قطع ہو جانا چاہئے.سب سچی محبتیں اللہ تعالی کی محبت کا ظل ہو جاتی ہیں.اور ایسے کل میں خرابی بھی پیدا ہو سکتی ہے.جب کوئی ظل خدا تعالیٰ سے دور ہو تو اس کی ظلیت میں فرق آجائے گا.ایسے وقت میں خدا تعالیٰ کے لئے محبت کرنے والا انسان الگ ہو کر کھڑا ہو جاتا ہے.ماں باپ کا ادب ہو مگر جہاں وہ شرک کی تعلیم دیں تو انسان کھڑا ہو جائے اور کہہ دے پہلے آپ ظل اللہ تھے مگر اب نہیں رہے لہذا اب میں آپ کا ساتھ نہیں دے سکتا.اسی طرح اگر میاں بیوی یا اولاد میں سے کوئی ظل اللہ ہونے کی حیثیت کو چھوڑ دے تو خدا تعالیٰ کا سچا عاشق بھی اسی وقت ان سے محبت چھوڑ دیتا ہے.جہاں کوئی اخلاق سے یا دین سے گرتا ہے خدا کے لئے محبت کرنے والا انسان کھڑا ہو جاتا ہے.جیسے حضرت نوح علیہ السلام نے اپنے بیٹے کے متعلق کہا جب خدا تعالٰی نے کہا کہ یہ ہمارا ظل نہیں رہا تو حضرت نوح نے اس سے قطع تعلق کر لیا.غرض جہاں اولاد کی محبت اللہ تعالیٰ کی محبت کے بالمقابل آجائے تو وہاں خدا تعالیٰ کی محبت ہی مقدم رہنی چاہئے اور یہی حال دوسری محبتوں میں ہونا چاہئے ان میں کبھی پیدا ہو جانے کے موقع پر ان چیزوں کے ساتھ محبت سرد ہو جانی چاہئے کیونکہ پھر محبت نا جائز ہو جاتی ہے ہاں ان کی اصلاح کی کوشش کرنا منع نہیں.پس یہ نہایت ہی بابرکت مدرسے ہیں جن سے بہت کچھ سبق حاصل کیا جاسکتا ہے مگر افسوس کہ کم لوگ ان سے سبق حاصل کرتے ہیں.الفضل ۱۸ جنوری ۱۹۳۶ء صفحه ۵۰۴)
خطبات محمود ۳۷۹ جلد سوم ن الفضل ۱۴ جنوری ۱۹۳۶ء صفحہ ۱.لے مسند احمد بن حنبل جلد اصفحہ ۱۷۲.ه المواهب اللدنیہ جز اول صفحہ ۲۹۶ مطبوعہ مصر۷ ۱۳۲۶/۶۱۹۰ھ - سے یہ کتاب ایک شیعہ مرزا سلطان احمد نے آنحضرت کی ازواج مطہرات اور خلفاء راشدین کے بارہ میں لکھی ہے.حضور نے ۱۹۲۶ء میں اس کے الزامات کا جواب اپنی کتاب حق الیقین فی رد ہفوات المنافقین میں دیا.شه تذکرہ صفحہ ۳۹۶.ایڈیشن چہارم پر عبارت اس طرح ہے "یہ طریق اچھا نہیں.اس سے روک دیا جائے مسلمانوں کے لیڈر عبد الکریم کو " له بخاری کتاب الاحكام باب قول الله تعالى وأطيعوا الله وأطيعوا الرسول وأولى الأمر منكم كم شه مسند احمد بن فبل جلد ۶ صفحه ۲۲۸
WA.۹۸ خطبات محمود ابنائے فارس کی اہم ذمہ داریاں (فرموده ۸ مئی ۱۹۳۶ء) مئی ۱۹۳۶ء حضرت خلیفۃ المسیح الثانی نے حضرت نواب محمد علی خاں صاحب کے صاحبزادہ میاں محمد احمد صاحب کا نکاح حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ایم.اے کی صاحبزادی سیدہ امتہ الحمید بیگم صاحبہ سے پندرہ ہزار روپیہ مہر پر پڑھا.خطبہ مسنونہ کی تلاوت کے بعد فرمایا : ایک طرف تو ہم دیکھتے ہیں کہ انسانی حیات کے سلسلہ کو ایسا ضروری قرار دیا گیا ہے کہ اللہ تعالی قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ رہبانیت ایک بدعت ہے جو عیسائیوں نے جاری کی تھی اور آنحضرت ﷺ نے فرمایا ہے کہ اسلام کے ساتھ رہبانیت کا کوئی تعلق نہیں.ایک طرف تو نسل انسانی کو چلانے پر اتنا زور دیا گیا ہے کہ شادی نہ کرنے والے کے متعلق رسول کریم نے فرمایا ہے کہ اس کی عمر ضائع ہو گئی اور دنیا سے بھال گیا.لیکن دوسری طرف ہم دیکھتے ہیں کہ بنی نوع انسان کی حالت ایسی بھیانک اور ایسی خطرناک ہو رہی ہیں کہ مثلاً اسی زمانہ کے متعلق بعض بزرگوں کے اقوال سے معلوم ہوتا ہے کہ اس سے درندوں نے بھی پناہ مانگی ہے.قرآن کریم میں بھی اللہ تعالی بعض انسانوں کے متعلق فرماتا ہے.شر البرية ہے أولئِكَ كَالا نُعَام بَلْ هُمْ أَصل - سے بلکہ حیوانوں سے بھی بد تریعنی الْحِجَارَةِ او است قسُوةٌ - سے پتھر دل بلکہ پتھر سے بھی زیادہ سنگدل ہیں.تو ایک طرف انسانوں کی یہ حالت بیان کرنا کہ ان کو حیوانوں سے بھی گرے ہوئے بتانا، بدترین مخلوق قرار دینا اور بزرگوں کا یہ فرمانا
محمود ٣٨١ جلد سوم بعض انسانوں سے جنگل کے درندے بھی پناہ مانگیں گے اور دوسری طرف یہ تاکید کرنا کہ نکاح کرو جو نکاح نہیں کرتا وہ عمر کو باطل کرتا ہے بظاہر ایک معمہ نظر آتا ہے.ایک طرف تو شادی پر اتنا زور ہے مگر دوسری طرف شادی کے نتائج کی اتنی تحقیر ہے اگر شادی کے نتیجہ میں شر البريةِ أُولئِكَ كَالْاِنْعَامِ بَلْ هُم اَمَل.اور اسد قسوگا ہی پیدا ہوئے تھے.اگر یہی مخلوق ہے جو شادی کے نتیجہ میں دنیا میں آئی تھی تو ایسی شادی سے تو روکنے کا حکم دینا چاہئے تھا.اور شاید اسی وجہ سے عیسائیوں میں یہ خیال پیدا ہو گیا کہ شادی نہ کرنا شادی کرنے سے بہتر ہے کیونکہ شرارت اور بدی کو جس قدر جلد مٹایا جاسکے اتنا ہی اچھا ہے.ہمیں غور کرنا چاہئے کہ آخر کیا بات ہے کہ جس سے یہ دو متضاد چیزیں ایک جگہ جمع ہو رہی ہیں اور میں سمجھتا ہوں کہ اس کا حل اس منطقی مسئلہ سے ہو جاتا ہے کہ انسان کے اندر اللہ تعالی نے دو طاقتیں پیدا کی ہیں ایک بالفعل اور ایک بالقوة.ایک وہ جو ظاہر ہو رہی ہوتی ہیں اور ایک کے اظہار کی قابلیت انسان کے اندر ہوتی ہے.بے شک اس زمانہ کے متعلق بہت سخت الفاظ استعمال کئے گئے ہیں اور ہر نبی کی بعثت سے قبل ایسا ہی زمانہ ہوتا ہے.رسول کریم ﷺ کی بعثت سے قبل زمانہ کے متعلق بھی سخت الفاظ آتے ہیں جیسا کہ فرمایا ظَهَرَ الْفَسَادُ فِي الْبَرِّ وَ الْبَحْرِ - له ابل کتاب بھی خراب ہو گئے اور غیر اہل کتاب بھی.حضرت مسیح علیہ السلام نے بھی فرمایا ہے کہ اس زمانہ کے لوگ سانپ اور سانپ کے بچے ہیں اور ان کو سٹور اور کتے قرار دیا ہے اور ہم دیکھتے ہیں کہ کتوں کو عام طور پر لوگ مروانا ہی پسند کرتے ہیں سوائے ان کے جن سے کوئی خدمت لیتے ہیں.میونسپل کمیٹیاں بھی کتوں کو مردانے کا انتظام کرتی ہیں.پس یہ تین زمانے تو ہمارے سامنے ہیں اور ان زمانوں کے لوگوں کے متعلق جو خطاب ہیں وہ بھی ہمارے علم میں ہیں.رسول کریم ﷺ کے زمانہ اور موجودہ زمانہ کے متعلق خطابات تو قرآن کریم میں موجود ہیں اور حضرت مسیح علیہ السلام کے متعلق بائبل میں آتا ہے کہ آپ نے اپنے زمانہ کے لوگوں کو سئور، کتے، سانپ، سانپ کے بچے اور حرام کار قرار دیا اور اس قسم کی نسل کے ہوتے ہوئے اگر انسان سے کہا جاتا ہے کہ اور نسل پیدا کرو تو ہمیں اس میں یہی حکمت نظر آتی ہے کہ اللہ تعالی نے انسان میں بالقوہ ایسی قابلیتیں رکھی ہیں کہ اگر انہیں درست طور پر استعمال کیا جائے اور صحیح لائنوں میں چلایا جائے تو وہ دنیا کا نقشہ بدل سکتی ہیں جو سخت الفاظ استعمال کئے گئے ہیں اور جن برے خطابات سے یاد کیا گیا ہے وہ اس حالت کا اظہار ہے جو موجود ہے لیکن جو
خطبات محمود چند موم شادی کرنے کا حکم دیا گیا ہے اس کے معنے یہ ہیں کہ نئی اولاد کے ذریعہ اس حالت کو درست کیا جا سکتا ہے.جس طرح اگر سالن میں نمک زیادہ ہو تو وہ اس کی موجودہ حالت کا اظہار ہوتا ہے اور ہم اس میں اور پانی ڈلواتے ہیں تو اس لئے کہ اس کی اصلاح ہو جائے.رسول کریم ﷺ نے فرمایا ہے ہر بچہ فطرت اسلامی پر پیدا ہوتا ہے گناہ کی فطرت پر نہیں کیونکہ اسلامی فطرت گناہ کی فطرت کو بے کار کر دیتی ہے اس لئے شریعت ہمیں حکم دیتی ہے کہ اور شادیاں کرو کہ شاید اور پانی پڑنے سے سالن ٹھیک ہو جائے.آپ لوگوں نے دیکھا ہو گا کہ بچے کھیلتے ہیں اور ہم بھی جب بچے تھے کھیلا کرتے تھے.ایک چیز کو تاک کر نشانہ لگاتے تھے ایک کے بعد دوسرا اور دوسرے کے بعد تیسرا حتی کہ مقصد پورا ہو جاتا.اسی طرح یہ حکم دیا گیا ہے کہ شادیاں کرتے جاؤ اور کرتے جاؤ حتی کہ وہ زمانہ آجائے جس کے لئے دنیا پیدا کی گئی ہے.یاد رکھنا چاہئے کہ دنیا میں نیکی اور بدی کے دور ہوتے ہیں.بدی دنیا سے بالکل کبھی نہیں مٹ سکتی لیکن جب صحیح شادی اور صحیح تولید سے وہ زمانہ آجاتا ہے جب بدی کو نیکی ڈھانپ لیتی ہے اور غالب آجاتی ہے تو مقصد پیدائش پورا ہو جاتا ہے.اس کے بعد پھر خرابی پیدا ہو جاتی ہے اور پھر اسے ٹھیک کر دیا جاتا ہے.اس سے یہ مسئلہ حل ہو جاتا ہے کہ دنیا کی اصلاح کا مقصد اولاد کے ذریعہ پورا ہو سکتا ہے.آئندہ نسل کے ذریعہ جس طرح نیکی دنیا میں قائم کی جاسکتی ہے اس طرح موجودہ نسل سے نہیں اور جب تک دنیا یہ نکتہ نہ سمجھ لے اس وقت تک قومی طور پر دنیا کی اصلاح نہیں ہو سکتی ہاں انفرادی طور پر ہو سکتی ہے.رسول کریم اللہ نے یہ نکتہ سمجھایا ہے.چنانچہ فرمایا جب بچہ پیدا ہو اس کے کان میں اذان کی جائے پھر فرمایا.محل مَوْلُودِ يُولَدُ عَلَى فِطْرَةِ الْإِسْلَامِ.كم ادھر قرآن کریم نے فرمایا کہ ہر نفس جو اللہ تعالیٰ سے آتا ہے وہ زکیہ ہوتا ہے بعد میں دوسرے اسے خاک آلود کر کے گندہ کر دیتے ہیں.ود اس سے معلوم ہوتا ہے کہ دنیا کی اصلاح نئی پور کے ذریعہ سے کی جاسکتی ہے پرانی نسل ذاتی اصلاح تو کر سکتی ہے مگر دنیا کی اصلاح نہیں کر سکتی.دنیا کی اصلاح ہمیشہ آئندہ نسلوں کے ذریعہ ہی کی جاسکتی ہے یہی وجہ ہے کہ اسلام نے باوجود یہ تسلیم کرنے کے کہ دنیا خراب ہو چکی ہے یہ حکم دیا ہے کہ شادیاں کرو کیونکہ آئندہ نسل موجودہ کی نسبت دنیا کی اصلاح کے زیادہ قابل ہو گی.
خطبات محمود ٣٨٣ اس میں شبہ نہیں کہ انبیاء کے زمانہ کی جماعت آئندہ آنے والی جماعتوں سے اچھی ہوتی ہے مگر یہ بات اس مسئلہ کے مخالف نہیں جو میں نے بیان کیا ہے یہ ایک علم النفس کا عام مسئلہ ہے کہ دنیا کی اصلاح دو طرح ہی ہو سکتی ہے ایک تعلیم و تربیت کے ساتھ اور ایک کنورشن کے ساتھ.کنورشن کے معنے یہ ہیں کہ انسان کے نفس میں فورا ایسی تبدیلی ہو جائے جو اسے کہیں سے کہیں پہنچا دے اور انسان کی قلب ماہیت ہو جائے گویا ایک زلزلہ انسان کے اندر آجاتا ہے جو اسے کچھ کا کچھ بنا دیتا ہے.مگر یہ اتنی شاذ ہوتی ہے کہ زیادہ تر فلسفی اس کے منکر ہیں اس لئے کہ ان کے اپنے تجربہ میں یہ چیز نہیں آتی یہ ہمیشہ نبیوں کے ذریعہ ہوتی ہے.انبیاء جب آتے ہیں تو نئی زمین اور نیا آسمان بناتے ہیں ان کی مٹھیوں میں برقی طاقت کی بیٹریاں ہوتی ہیں اور جو ان سے چھوتا ہے اس کا گویا اندرونی حصہ دھل جاتا ہے.اس کے سوا جو شخص دنیا کی اصلاح کے لئے کھڑا ہو گا اسے آئندہ نسلوں کی اصلاح سے دنیا کی اصلاح کرنی پڑے گی.قلب ماہیت صرف نبی اور نبی کے قریبی زمانہ سے ہی تعلق رکھتی ہے.نبی کا زمانہ ایک خاص رو اپنے اندر رکھتا ہے یہ نہیں کہ وہ رو فورا ختم ہو جائے بلکہ نبی کی وفات کے بعد بھی ایک عرصہ تک جاری رہتی ہے رسول کریم ﷺ نے فرمایا ہے کہ خَيْرُ الْفُرُونِ قَرْنِى ثُمَّ الَّذِينَ يَكُونَهُمْ ثُمَّ ين يَكُونَهُمْ.ل یعنی سب سے بہتر زمانہ میرا ہے، پھر میرے قریب کا زمانہ اور پھر اس سے قریب کا اس کے بعد عام حالت ہو جائے گی کچھ لوگ نیک ہوں گے تو کچھ بد.میں نبیوں کے زمانہ کو پیش کرتا ہوں کہ وہ روحانی تخلیق کا زمانہ ہوتا ہے.اَخْلُقُ لَكُم مِّنَ الطِّينِ كَهَيْئَةِ الطَّير - کہ اس لئے ان کے یا ان کے قرب کے زمانہ کو چھوڑ کر دنیا کی اصلاح آئندہ نسل کے ذریعہ ہی ہو سکتی ہے.لیکن اگر شادی کے سلسلہ کو بند کر دیا جائے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ اصلاح دنیا کا جو ایک ہی ذریعہ تھا اسے بند کر دیا گیا چونکہ انبیاء کی آمد کے سلسلہ میں وقفہ ہوتا ہے اور کئی کئی صدیوں تک کوئی نبی نہیں آتا اس لئے دنیا کی اصلاح کا صرف یہی طریق باقی ہے کہ شادی کر کے آئندہ نسل پیدا کی جائے.جو قوم رہبانیت قبول کرلیتی ہے وہ دنیا کی اصلاح کا راستہ روک دیتی ہے اس لئے جو قوم دنیا کی اصلاح کرنا چاہتی ہے اس کے لئے ضروری ہے کہ شادی کے سلسلہ کو جاری رکھے جس کام کو پہلی نسل پورا نہیں کر سکتی شاید اسے دوسری نسل کردے.- میں یہاں اس انسان کا ذکر نہیں کرتا جو حیوانیت کے جذبہ کے ماتحت شادی کرتا ہے بلکہ
خطبات محمود ۳۸۴ جلد سوم اس کا ذکر کر رہا ہوں کہ جو غور کرتا ہے کہ مجھے شادی کرنی چاہئے یا نہیں.ایسے انسان کی شادی سے غرض صرف یہ ہوتی ہے کہ بنی نوع انسان کو نیکی پر قائم کرنے کے سامان پیدا کرے.پس جب شادی کی غرض یہی ہے تو شادیوں میں اس بات کو مد نظر بھی رکھنا چاہئے اور اس مقصد کو پورا کرنے کا ارادہ اور عزم کرنا چاہئے جس کی وجہ سے رسول کریم ﷺ نے شادی کے برے نتائج نکلنے کے باوجود اس سلسلہ کو بند کرنے کی اجازت نہیں دی.کیونکہ کسی کو کیا معلوم کہ اس کی نسل سے وہ انسان پیدا ہو جائے جو دنیا کی اصلاح کر سکے.یہ ایسی ہی بات ہے جیسا کہ غوطہ زن موتی کی تلاش میں غوطے لگاتا ہے شادی کی تہہ میں بھی قیمتی موتی موجود ہوتے ہیں اس لئے حکم ہے کہ مارو غوطے شاید وہ موتی جس سے دنیا کی نجات وابستہ ہے تمہارے ہی ہاتھ آجائے.آج سے چودہ سو سال قبل مکہ میں جب ایک شخص عبد اللہ نامی نے ایک عورت آمنہ نامی سے شادی کی تو کون کہہ سکتا تھا کہ یہ غوطہ زن ایسا موتی نکال کر لائے گا جو دنیا کی کایا پلٹ دے گا.مگر وہ بھی ایک شادی ہوئی اور اسی رنگ میں ہوئی تھی کہ مارو غوطے اور موتی تلاش کرو مگر اس کے نتیجہ میں وہ گو ہر دستیاب ہوا کہ جو پیدائش انسانی کا مقصود تھا.ایک مرد ایک یا دو یا تین یا چار عورتوں سے شادی کرتا ہے اور اندھا دھند بے تحاشا نسل پیدا کرتا چلا جاتا ہے اس میں نیچر کا صرف ایک ہی مقصد ہوتا ہے کہ کوشش کرو اور وہ موتی نکالو جو دنیا کی اصلاح کر سکے اور جس طرح غوطہ لگانے والوں کی کوشش کے نتیجہ میں کچھ سیپ نکل آتے ہیں، کچھ ناقص موتی ہاتھ آتے ہیں اور بعض اوقات کامل موتی مل جاتا ہے اسی طرح غوطہ زنی کے سلسلہ میں کچھ گندی نسلیں پیدا ہو جاتی ہیں اور کچھ کامل.مگر اس وقت تک میں نے جو کچھ کہا ہے وہ محض اتفاقی امر ہے.اتفاق سے کوئی بچہ اچھا نکل آیا اور کوئی برا.لیکن اس کے ساتھ ہی اگر ہم اصلاح چاہتے ہیں تو ہمیں اتفاق سے گزر کر یقین کے مقام پر کھڑا ہونا چاہئے اور رسول کریم الی نے ہمیں طریق بھی بتا دیا ہے کہ جس سے ہم یقین کے مقام پر کھڑے ہو سکتے ہیں اور وہ یہ ہے کہ انسان ایسی دعائیں کرتا رہے اور نیت شادی کی یہی رکھے.چنانچہ آپ نے فرمایا کہ جب مرد اور عورت ملیں تو دعا کریں کہ اللهُمَّ جَنِبْنَا الشَّيْطَنَ وَجَنْبِ الشَّيْطَنَ مَا رَزَقْتَنَا.ثم يعنى اے خدا ہمیں شیطان سے محفوظ رکھ اور ہمارے ہاں پیدا ہونے والی اولاد کو بھی.مگر اس کے متعلق یاد رکھنا چاہئے کہ محض منہ سے یہ الفاظ کہہ دینے سے اولاد شیطان سے محفوظ نہیں 03
خطبات محمود ۳۸۵ جلد نوم سکتی بلکہ اس دعا کا مطلب یہ ہے کہ ایسا انسان اپنے دل میں شیطان سے بغض پیدا کر لیتا ہے اور اس لئے وہ اس بات کا خاص خیال رکھے گا کہ شیطان کو اپنے بچہ کے پاس نہ آنے دے کیونکہ جو شخص یہ دعا کرتا ہے کہ خدایا میرا بچہ طاعون سے محفوظ رہے وہ اسے کسی طاعون کے مریض کی گود میں ہرگز نہیں بیٹھنے دے گا بلکہ ایسے مریض سے اپنے بچہ کو دور لے جائے گا.پس جب رسول کریم ﷺ نے یہ فرمایا ہے کہ جو شخص یہ دعا کرے اس کی اولاد شیطان کے اثر سے محفوظ رہتی ہے تو اس کا یہی مطلب ہے کہ ایسا انسان کوشش بھی کرے گا کہ اسے شیطان کے قریب نہ پھٹکنے دے اور اگر کبھی وہ دیکھتا ہے کہ اس کا بچہ شیطان کے پاس پہنچ گیا ہے تو وہ اسے گھسیٹ کر لے آتا ہے.بھلا یہ کس طرح ممکن ہے کہ جو شخص پیدائش سے پہلے اپنی اولاد کو شیطان کے اثر سے محفوظ رہنے کی دعائیں کرتا ہو اس کا بچہ جب شیطان کے پاس پہنچ جائے تو وہ اسے کھینچ کر واپس نہ لائے.اگر وہ ایسا نہیں کرتا تو وہ جھوٹا ہے اور اس کا یہ دعا کرنا دل سے نہیں بلکہ محض زبان سے ہے.پس ہمیں غور کرنا چاہئے کہ ہم میں سے کتنے ہیں جو اپنی اولاد کو شیطان سے بچاتے ہیں.کیا یہ حقیقت نہیں کہ ہم لوگ خود اپنے بچوں کو جھوٹے، فریبی، مکار، غافل، بے دین، بد اخلاق اور کام چور بناتے ہیں.کیا ہم میں ایک فیصدی بھی ایسے لوگ ہیں جو ایسا کرتے ہوں؟ بچے کو تو کچھ علم نہیں ہوتا اس لئے بچے کو شیطان بنانے والا اس کا باپ ہوتا ہے جو اس کی پیدائش سے پہلے تو دعا کرتا تھا کہ شیطان اس کی اولاد کے پاس تک نہ آئے مگر وہ خود اسے شیطان بلکہ اس سے بھی برا بنا دیتا ہے.شیطان کا تصور کیا ہے جبکہ خدا تعالٰی نے اسے اس کام پر لگا رکھا ہے.پاخانہ لاکھ براسی مگر ابو جہل سے تو برا نہیں.ابو جہل جو کر تا تھا بالا رادہ کرتا تھا.شیطان کا فعل ایک طبعی تقاضا ہے مگر جس بچے میں شیطانی عادات پیدا ہوں گی وہ جو کچھ کرے گا بالا رادہ کرے گا اس لئے اسے تو شیطان کا دادا کرنا چاہئے.مجھے سخت افسوس ہے کہ لوگ منہ سے تو دعا کرتے ہیں کہ خدایا ہماری اولاد کو شیطان سے بچا مگر عملاً ان کو جھوٹا، غافل، سست، نمازوں کا تارک بناتے اور دینی تعلیم، تقویٰ اور طہارت کے رستہ سے دور رکھتے ہیں.ان کے جھوٹ کو مخفی کرتے ہیں، ان کی چوری پر پردہ ڈالتے ہیں اس لئے ان کا یہ کہنا کہ انہوں نے دعا مانگی تھی ایسا جھوٹ اور فریب ہے جس سے زیادہ جھوٹ اور فریب اور کوئی نہ ہو گا ان کی دعا کوئی حقیقت نہیں رکھتی.اگر ان کے دل میں شیطان سے فی الواقع ایسی نفرت ہوتی کہ وہ بیوی کے پاس
۳۸۶ جلد سوم جانے سے قبل دعا کرتے کہ اللہ تعالٰی انہیں ایسی نسل عطا کرے جو شیطان کے اثر سے محفوظ ہو تو بچہ کے پیدا ہونے کے بعد تو وہ اس وہم میں پاگل ہو جاتے کہ شیطان ان کے قریب نہ آجائے اور دھکے دے دے کر اسے دور لے جاتے لیکن وہ کرتے کیا ہیں بچے کو شیطان کی گود میں دے دیتے ہیں حتی کہ وہ خود شیطان بلکہ شیطان کا بھی استاد بن جاتا ہے.پس شریعت نے جو شادی کرنے اور اولاد پیدا کرنے کا حکم دیا ہے اس کا یہی مطلب ہے کہ پہلے قصور اور کو تاہی کی تلافی کی کوشش کی جائے.جب کسی دوست سے ہماری لڑائی ہو جائے تو دوبارہ اس کے گھر پر ہمارا جانا اس غرض سے نہیں ہو گا کہ پہلا جھگڑا اور بھی بڑھ جائے بلکہ مصالحت کی نیت سے ہو گا.اسی طرح پہلے خراب نتائج کے باوجود جب یہ حکم ہے کہ شادی کرو تو اس کا مطلب یہی ہے کہ پہلوں کا کفارہ کرو اور کوشش کرو کہ تمہارے ذریعہ ایسی نسل پیدا ہو جو شیطان اور اس کی طاقتوں کو کچل دے.اور وہ انسان جو اس نیت سے شادی کرتا اور پھر اس کے پورا ہونے کے لئے بھی پوری سعی کرتا ہے وہ دنیا کو دوزخ سے جنت میں تبدیل کر دیتا ہے.مگر اس نکتہ کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ کیوں اس قدر گندی دنیا کے موجود ہونے کے باوجود یہ حکم ہے کہ شادی کرو.یہ ایسی ہی بات ہے کہ ایک مناع جب ایک چیز بناتا ہے اور اس میں کوئی نقص رہ جاتا ہے تو وہ پھر کوشش کرتا ہے اور پھر کوشش کرتا ہے حتی کہ کامیاب ہو جاتا ہے.اسی طرح تم میں سے ہر ایک کو کوشش کرنی چاہئے کہ پہلے گناہ کا کفارہ ہو اور جب تک اس لائن پر نہ چلا جائے شادی کا مقصد پورا نہیں ہو سکتا.پس اس تقریب پر میں جماعت کو بالعموم اور اس خاندان کے افراد کو بالخصوص جسے اللہ تعالٰی نے اس زمانے میں اس غرض کے لئے چنا ہے کہ دنیا میں اسلام کو قائم کرے جب رسول کریم نے یہ فرمایا کہ جب ایمان آسمان پر اٹھ جائے گا تو ابنائے فارس سے کچھ لوگ اسے واپس لائیں گے تو یہ صرف پیشگوئی ہی نہیں تھی بلکہ اپیل تھی ابنائے فارس سے کہ جب ایسا دن آئے تو تمہارا فرض ہو گا کہ اسلام کو واپس لاؤ.پس اس اپیل کے جواب میں ابنائے - فارس کا فرض ہے کہ وہ دعاؤں کے ذریعہ، کوشش کے ذریعہ، اپنے جذبات کو مارنے کے ذریعہ، غرضیکہ جس طرح بھی ممکن ہو اسلام کو دنیا میں قائم کریں.قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ اہل بیت اگر اچھے کام کریں تو ان کے لئے دوہرا اجر ہے لیکن غفلت کی صورت میں ان کے لئے سزا بھی دگنی ہے.اس لئے موجودہ زمانہ میں اسلام کے نظام میں جو بگاڑ پیدا
۳۸۷ جلد سود خطبات محمود ہو چکا ہے اس کی درستی کی ذمہ داری حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے خاندان پر دگنی عائد ہوتی ہے ان کے لئے انعام بھی دہرے ہیں مگر سزا بھی دہری ہے.اگر وہ اپنے مقصد کو پورا کریں تو ان کے لئے ثواب بھی دوسروں سے دہرا ہے لیکن اگر ان کے اندر خود سری ہو، اگر دنیا کی بہتری اور ترقی کے لئے ان میں قربانی کا مادہ نہ ہو تو پھر سزا بھی ان کو دوسروں سے زیادہ ملے گی کیونکہ انہوں نے نور کو قریب سے دیکھا اور محروم رہے.- پس اس تقریب پر میں ان نوجوانوں سے جنہوں نے شادیاں کرنی ہیں یا جو نسل پیدا کر رہے ہیں بالخصوص حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے خاندان سے یہ کہنا چاہتا ہوں کہ ان کے شادی کرنے اور اولاد پیدا کرنے سے خدا تعالیٰ کو کیا فائدہ پہنچ سکتا ہے اور اس کی حکومت کو اس سے کیا تقویت حاصل ہو سکتی ہے.وہ اپنی بہتری کے لئے نہیں کہتا بلکہ جس طرح ایک دفعہ نخلط حرف لکھ دینے پر استاد شاگرد سے کہتا ہے کہ پھر کوشش کرو بیٹا ہمت نہ ہارو اسی طرح اس حکم کے ذریعہ اللہ تعالی انسان کا حوصلہ بڑھاتا ہے اور ہمیں توجہ دلاتا ہے کہ اس سے فائدہ اٹھاؤ اور کوشش کر کے ایسی نسل پیدا کرو جو دنیا سے بغض، کینہ، لالچ، حرص، دنیا سے پیار، جھوٹ، فریب، مکاری، دغا بازی وغیرہ وغیرہ کو مٹا دے اور دنیا میں رسول کریم ﷺ سے عشق اور دین سے وابستگی رکھنے والے لوگ پیدا ہوں جو دنیا سے دہریت اور بے دینی کو کچل دیں.شیطان آج ہم پر کس طرح حملہ کرتا ہے عموماً ہمارے بچوں کے ذریعہ سے ہی وہ ہم پر حملہ کرتا ہے.ہمارے بچے جاتے ہیں اور مغربی تعلیم سے متأثر ہو کر اسی تلوار سے باپ دادا کے سر کانتے ہیں.لیکن اگر ہم خود توجہ اور عقل سے کام لیں تو کیا ہم اپنے بچوں کے ذریعہ شیطان کا سر نہیں کاٹ سکتے ؟ یقینا کاٹ سکتے ہیں اور بہت زیادہ آسانی سے کاٹ سکتے ہیں کیونکہ وہ بہر حال غیر ہے اور اپنے بچوں پر ہم جس آسانی سے اثر ڈال سکتے ہیں وہ نہیں ڈال سکتا.پس اس نکتہ کو سمجھ کر آئندہ اپنی اولادوں کی تربیت کرو اور پھر دیکھو دنیا کس آسانی سے بدلی جاتی ہے.لیکن اگر تم خود ان کو نمازوں میں ست کرو، قربانی سے روکے رکھو بلکہ اگر کبھی موقع بھی آئے تو ان کے رستہ میں روک بن جاؤ تو وہ مقصد پورا نہیں ہو سکتا جو رسول کریم نے اس دعا میں رکھا ہے اور ایسے شخص کی دعا جو عملی طور پر کوئی کوشش نہیں کرتا اس کے منہ پر ماری جائے گی اور اسے کوئی فائدہ نہیں دے سکے گی.الفضل ۱۴ مئی ۱۹۳۶ء صفحه ۴ تا ۶)
۳۸۸ له البينه : ۷ ه الاعراف : ۱۸۰ البقرة : ۷۵ ه الروم : ۴۲ له مسلم كتاب الفضائل باب فضل الصحابه ثم الذين يلونهم.......الخ که ال عمران : ۵۰ شه ترمذى كتاب النكاح باب ما يقول اذا دخل على أهله جلد سوم
خطبات محمود ۳۸۹ ٩٩ جلد سوم توکل علی اللہ کے فوائد (فرموده ۲۰ مئی ۱۹۳۶ء) ۲۰.مئی ۱۹۳۶ء کو بعد نماز عصر حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے ایک نکاح اے کا اعلان فرمایا.خطبہ مسنونہ کی تلاوت کے بعد فرمایا : انسانی اعمال خواہ کتنے ہی مکمل ہوں اور کتنی ہی احتیاط سے کئے جائیں کبھی نہ کبھی ان میں کوئی نہ کوئی نقص ضرور ہو گا اور کوئی نہ کوئی خانہ ضرور خالی رہ جائے گا.صرف اللہ تعالٰی ہی کی ذات ہے جو ان خلاؤں کو پر کرتی ہے اور ان سوراخوں کو بند کرتی ہے جن سے نقص نمودار ہوتے ہیں.حضرت خلیفہ اصبح الاول ایک واقعہ بیان فرمایا کرتے تھے کہ رام پور میں ایک غریب پٹھان تھا اسے ملازمت نہیں ملتی تھی مزدوری کرنے کے لئے تیار تھا لیکن اسے مزدوری دینے پر لوگ آمادہ نہ ہوتے تھے.وہ اس تنگی کی حالت میں وزیر اعظم سے ملا اور اپنی تنگی اور تکلیف اس کے روبرو بیان کی.وزیر اعظم اس کی باتوں سے متاثر ہو گیا اور اسے ایک ملازمت دے دی.حضرت خلیفہ اول بیان فرماتے کہ اس پر تبدیل شدہ حالت نے ایسا اثر کیا کہ وہ خدا تعالی کی ہستی کا ہی منکر ہو گیا اور لوگوں سے کہتا پھرتا کہ خدا کوئی نہیں ہے ہمارا خدا تو (وزیر اعظم کی طرف اشارہ کر کے) وہ ہے.یہ لطیفہ مدتوں بنا رہا جب بھی اس سے خدا تعالی کی ہستی کے متعلق دریافت کیا جاتا وہ اللہ تعالی کے وجود کا انکار کرتا ہوا وزیر اعظم کو خدا کہتا.ایک دفعہ نواب کی طرف سے کچھ مٹھائی تقسیم ہونے کی تجویز ہوئی اور وہی پرائم منسٹر مٹھائی تقسیم کرنے لگا جسے وہ پٹھان خدا کہا کرتا تھاوہ مٹھائی کی تقسیم کرتے وقت لوگوں کی بھیڑ میں گھر گیا اس پر اس
خطبات ٣٩٠ جلد سوم ساپر نے ہجوم کو روکنے کے لئے اپنے کوڑے کو حرکت دی تاکہ ہجوم کو پیچھے بنائے اتفاقاً وہی پٹھان وہاں موجود تھا اس نے جب وزیر اعظم کو کو ڑا ہلاتے دیکھا تو اسے غیرت آئی اس نے چاقو نکال کر اس پر حملہ کر دیا.ممکن تھا اس نے وہ چاقو حملہ کی نیت سے نکالا ہو اور یہ بھی ممکن ہے کہ اس نے ڈرانے کے لئے نکالا ہو پھر یہ بھی ممکن تھا کہ وہ حملہ کرتا اور صرف زخم لگ جاتا وہ مرتا نہ مگر اس نے اس زور سے ہاتھ مارا کہ چاقو پرائم منسٹر کے پیٹ میں لگ گیا جس کی وجہ سے انتڑیاں باہر آگئیں اس وقت کسی منچلے نے کہا یہ دیکھو تمہارا خدا پڑا ہے.تو انسانی تدابیر اور انسانی آرزو میں کسی رنگ میں بھی مکمل نہیں ہوتیں.مکمل تدبیریں صرف اللہ تعالی ہی کی ذات کی ہوتی ہیں یا پھر اللہ تعالٰی کے ساتھ تعلق پیدا کرنے کے بعد انسانی تدبیرس کامیاب ہو جاتی ہیں.پس ہر معاملہ میں خواہ چھوٹا ہو یا بڑا خدا تعالیٰ کی طرف توجہ کرنی چاہئے اور اسی پر ہی تدابیر کی کامیابی کا انحصار رکھنا چاہئے.جب انسان اپنی تدابیر کو اللہ تعالی کی تقدیر پر مبنی کر دے تو تدبیر تقدیر کی شکل اختیار کر لیتی ہے یعنی جو تدابیر اللہ تعالی کے حکم کے ماتحت ہوتی ہیں وہ تدبیریں نہیں رہتیں بلکہ تقدیریں بن جاتی ہیں.پس مومن خدا تعالیٰ کے حکم کے ماتحت جو تدبیر کرتا ہے اس کی تدبیر تقدیر سے جدا نہیں ہوتی.ضرورت اس بات کی ہوتی ہے کہ انسان اپنی ذات پر اتکال نہ کرے بلکہ اللہ تعالیٰ کی صفات پر اتکال کرے اور اس کے فضل اور رحم کو مد نظر رکھے انسان کا جب اللہ تعالیٰ پر اتکال ہو جاتا ہے اور اللہ تعالیٰ کے ماتحت وہ آجاتا ہے یعنی اس کا رحم انسان کا سہارا بن جاتا ہے تو اس وقت انسانی تدبیر تقدیر کی شکل اختیار کرلیتی ہے اور وہ سب کمیاں جو انسانی تدبیر میں ممکن ہو سکتی ہیں پوری ہو جاتی ہیں.جس طرح ایک شاگرد اپنی لکھی ہوئی تختی جب استاد کے پاس لے جاتا ہے تو استاد اس کی اصلاح کر دیتا ہے.اسی طرح انسان اپنی لکھی ہوئی تختی یعنی تدبیر خدا تعالیٰ کے حضور لے جاتا ہے اور اللہ تعالی اس کی اصلاح کر دیتا ہے اصلاح کر دینے کے بعد وہ تدبیر کی سختی نہیں کہلا سکتی بلکہ تقدیر کی تختی بن جاتی ہے.اس سے یہ نہ سمجھ لینا چاہئے کہ اتکال کے بعد انسان سے غلطی کا سرزد ہونا نا ممکن ہے.انسان سے انکال کے بعد بھی غلطی ہو جاتی ہے مگر وہ غلطیاں بھی خاص حکمت کی وجہ سے ہوتی ہیں بلکہ یوں کہنا چاہئے کہ وہ غلطیاں تقدیر کے ماتحت ہوتی ہیں اور کسی صورت میں بھی اس سے مستقلی نہیں ہوتیں.اللہ تعالٰی کی حکمت کے ماتحت جو کام بھی ہوتا ہے گو وہ بظاہر اچھا معلوم نہ ہو تا ہو مگر نتائج کے لحاظ سے وہی کام اچھا ہوتا ہے.رسول کریم
خطبات محمود ۳۹۱ جلد سوم نے اپنی پھوپھی کی لڑکی کا نکاح زید سے کرایا.ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ رسول کریم نے استخارہ نہ کیا ہو گا، دعا ئیں نہ کی ہوں گی، اللہ تعالٰی پر اتکال نہ کیا ہو گا یہ سب باتیں رسول کریم ﷺ نے کی ہوں گی آپ نے استخارہ بھی کیا ہو گا، دعائیں بھی کی ہوں گی مگر باوجود اس کے اللہ تعالی نے آپ کی کوشش کو بار آور نہ کیا.اس سے آپ یہ بتانا چاہتے تھے کہ خاندان کچھ چیز نہیں اصل چیز تقویٰ ہے.تو اس بات کو ثابت کرنے کے لئے اور ہزاروں انسان موجود تھے.گزشتہ تیرہ صدیوں میں لاکھوں مسلمانوں نے اس مثال کو قائم کیا اور آئندہ لاکھوں اور کروڑوں ایسے ہوں گے جو قومیت کو نظر انداز کریں گے، مدارج کو نظر انداز کریں گے، صرف تقویٰ کو مد نظر رکھیں گے.پس یہ غرض جس کو پورا کرنے کے لئے لاکھوں مسلمان گزر چکے ہیں اور لاکھوں اور کروڑوں کی تعداد بعد میں آنے والی ہے اللہ تعالیٰ کا خاص رسول کریم کے ذریعے پورا کرنا ضروری نہ تھا.اصل وجہ اس کی یہ تھی کہ اللہ تعالی یہ بات لوگوں پر ظاہر کرنا چاہتا تھا کہ رسول کریم الله کی نرینہ اولاد نہیں ہے خواہ قانون قدرت والی اولاد ہو یا قانون ملکی والی.قانون قدرت کے مطابق تو آپ کو کوئی نرینہ اولاد نہ تھی مگر ملکی دستور اور اس وقت کے قانون شریعت کے مطابق آپ کی اولاد موجود تھی جیسا کہ زید تھا لوگ انہیں ابن محمد ( ) کہا کرتے تھے.حضرت زینب کے نکاح کے واقعہ سے خدا تعالیٰ نے یہ بتایا کہ اولاد وہی ہوتی ہے جو قانون قدرت کے مطابق ہو.قانون ملکی والی اولاد حقیقی اولاد نہیں اور نہ شریعت نے حقیقی اولاد کے لئے جو قوانین رکھے ہیں وہ دوسروں پر عائد ہوتے ہیں.اس بات کو قائم کرنے کے لئے واحد طریق یہی تھا کہ زید کی مطلقہ کے ساتھ رسول کریم ا نکاح فرماتے.اللہ تعالیٰ نے زید اور اس کی بیوی کے تفرقہ کو دور نہ ہونے دیا.باوجود اس کے کہ رسول کریم ﷺ نے استخارہ کیا تھا، دعائیں کی تھیں، اللہ تعالیٰ پر اتکال کیا تھا، کوشش کی تھی مگر حکمت الہی یہی تھی کہ زید اپنی بیوی کو طلاق دے دے اور وہ رسول کریم ﷺ کی زوجیت میں جائے تا یہ ثابت ہو کہ قانون ملکی کے لحاظ سے اولاد قانون قدرت والی اولاد کی طرح نہیں ہوتی.اس مثال کے سوا وہ خیال جو اس زمانہ کے لوگوں میں پایا جاتا تھا دور نہیں ہو سکتا تھا.پس اس مثال میں اللہ تعالیٰ کی حکمت رسول کریم ایک کی حکمت پر غالب آئی.ورنہ صرف قومیت اور دنیوی مدارج کو نظر انداز کر کے رشتہ کے تعلقات پیدا کرنے کی کئی مثالیں موجود ہیں اور موجود ہوتی رہیں گی.
خطبات محمود ۳۹۲ جلد سوم غرض جن لوگوں نے استخاروں اور دعاؤں کے ذریعے کوئی کام کیا اور اللہ تعالٰی پر اشکال کیا ان کا کام ضرور اچھے نتائج پیدا کرے گا اور بظاہر اگر اس میں کوئی مشکل اور تکلیف کی صورت پیدا ہوگی تو وہ حکمت الہی کے ماتحت بہتری کے لئے ہی ہوگی.جیسا کہ زید اور اس کی بیوی کا تفرقہ چونکہ زیادہ فائدہ مند اور بہت اہم نتیجہ پیدا کرنے والا تھا اس لئے وہ دور نہ ہو سکا کیونکہ یہ پر حکمت افتراق اتصال سے اچھا تھا پس استخاروں، دعاؤں اور اتکال کے نتائج یقیناً اچھے ہوتے ہیں.مومن کو چاہئے کہ وہ تمام امور میں خصوصاً نکاح میں استخارہ کرے، دعائیں کرے الفضل -۲۸ مئی ۱۹۳۶ء صفحه ۴) اور اللہ تعالی پر اتکال رکھے.ے فریقین کا تعین نہیں ہو سکا.
خطبات ۳۹۳ 100 جلد سوم تعدد ازدواج (فرموده ۲۸ ستمبر ۱۹۳۷ء) ۲۸ ستمبر ۱۹۳۶ء بعد نماز عصر حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے مسجد مبارک قادیان میں مولوی عبد السلام صاحب عمر خلف نفرت خلیفہ المسیح الاول کا نکاح صغری بیگم بنت حضرت میر عمر سعید صاحب حیدر آبادی سے ایک ہزار روپے سر پر پڑھا.اے خطبہ مسنونہ کی تلاوت کے بعد حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے فرمایا.میں کھانسی کی وجہ سے زیادہ بول تو نہیں سکتا اور آج کل گلے کی جو حالت ہے اس کے لحاظ سے اور دوسرے اس لحاظ سے کہ جمعہ کے خطبہ کا جو اثر میری طبیعت پر پڑتا ہے اور اس سے جو کمزوری پیدا ہوتی ہے وہ دوسرے جمعہ تک پوری نہیں ہوتی کہ دوسرے جمعہ کے خطبہ کی ضرورت پیش آجاتی ہے میرے لئے بولنا مشکل ہے تاہم میں چاہتا ہوں کہ دو چار منٹ میں چند مفید باتیں جو نکاح کے مناسب حال ہوں بیان کردوں.جس نکاح کے اعلان کے لئے میں کھڑا ہوا ہوں دوسرا نکاح ہے یعنی دوسری شادی ہے اور و ہمارے ملک میں یہ رسم ہو گئی ہے کہ لوگ دوسری شادی کو جرم سمجھتے ہیں.اس لئے جب کوئی شخص اس فعل کا مرتکب ہونے لگتا ہے تو وہ اس کے لئے بہت سے دلائل مہیا کرنے کی کوشش کرتا ہے اور کہتا ہے کہ یہ یہ وجوہات ہیں جن کی وجہ سے دوسری شادی کی ضرورت پیش آئی ہے.یا اس کے دوست دوسرے دوستوں نے ذکر کرتے ہیں جس طرح یوپی میں بکرے کا گوشت کوئی شخص خریدنے جائے تو اس کے دوست آشنا اس سے پوچھنے لگ جاتے ہیں کہ
خطبات محمود ۳۹۴ جلد سوم خیریت تو ہے گھر میں کوئی بیمار تو نہیں؟ اسی طرح جب کسی کی دوسری شادی کے متعلق لوگوں میں گفتگو ہوتی ہے تو بعض مسکراتے ہیں اور جو اس کے خلاف ہوتے ہیں وہ کئی قسم کی باتیں بناتے ہیں جو عقیدت مند ہوتے ہیں وہ جواز کے دلائل دینا شروع کر دیتے ہیں اور بیان کرنے لگتے ہیں کہ یہ یہ وجوہات ہیں جن کے باعث دوسری شادی کی ضرورت پیش آئی ہے میں جہاں تک سمجھتا ہوں قرآن کریم میں کوئی ایسی بات نہیں جس کے لئے کسی مسلمان کو معذرت کی ضرورت پیش آئے دراصل برائی وہ ہے جس کو خدا تعالیٰ برائی قرار دے اور نیکی وہ ہے جسے خدا تعالیٰ نیکی قرار دے ہم کون ہیں جو خود ایک فعل کو برائی اور دوسرے کو نیکی قرار دے لیں اور وہ بھی اس لئے کہ چند مغربی اسے برا کہتے ہیں اور اس پر اعتراض کرتے ہیں.مجھے یاد ہے پہلے پہل جب میری توجہ آیت فَانكِحُوا مَا طَابَ لَكُمْ مِنَ النِّسَاءِ مَثْنَى وَثُلث وَرُبَعَ.فان خِفْتُمُ الَّا تَعْدِلُوا فَوَاحِدَةً - سے کی طرف ہوئی تو اس وقت حضرت خلیفہ المسیح الاول کا زمانہ تھا حافظ روشن علی صاحب مرحوم بھی حضرت خلیفۃ المسیح الاول سے پڑھا کرتے تھے گو ہم سبق نہیں تھے وہ منتہی تھے اور میں مبتدی لیکن بعض مبقوں میں ہم جمع ہو جایا کرتے تھے خصوصاً قرآن کریم اور بخاری کا درس ہمارا اکٹھا ہوا کرتا تھا گو ان کا ایک دور پہلے ختم ہو چکا تھا.بسا اوقات ہم میں قرآنی آیات کے متعلق گفتگو ہوا کرتی تھی.مجھے یاد ہے اس آیت کے متعلق ہماری جب گفتگو ہوتی تو میں ان سے ذکر کر تا کہ قرآن کریم کی اس آیت سے تو دو دو تین تین چار چار شادیاں اصلی معلوم ہوتی ہیں یعنی یہ کہ دو تین یا چار شادیاں کرنی چاہئیں اور اِن خِفْتُم کے ساتھ واحِدَةً آیا ہے.یعنی پہلا اصل زیادہ شادیاں کرنے کا ہے اس کے بعد یہ حکم ہے کہ اگر تم زیادہ نہیں کر سکتے تو ایک کرو اور جس چیز کو شریعت نے مقدم رکھا ہے.اس کو ہم مئوخر کیوں کریں اور ایک اصل کو محض یہ سمجھ کر کہ موجودہ زمانہ میں اس کی استثنائی صورتیں زیادہ ہیں کیوں چھوڑیں.مثلاً شریعت نے حج کا حکم دیا ہے لیکن اس کے ساتھ جو شرائط رکھی ہیں ان کے مطابق سو (۱۰۰) اشخاص میں سے ایک ہی حج کو جاسکتا ہے پھر دور کی مسافت اور اسی قسم کی اور باتوں کو دیکھا جائے تو ہزاروں میں سے ایک شخص جاسکتا ہے اگر ہزار میں سے ایک شخص حج کو جائے تو ایک لاکھ میں سے سو جاتا ہے اور ایک کروڑ میں سے دس ہزار جاتا ہے اور آٹھ کروڑ میں سے (۸۰) اسی ہزار جاتا ہے مگر اب جو لوگ حج کو جاتے ہیں ان کی تعداد اتنی نہیں ہوتی.حج کو جانے والوں کی تعداد عام طور پر اوسط تعداد آٹھ یا دس ہزار ہوتی ہے لیکن کتنے
خطبات محمود ۳۹۵ جلد موم ہیں جن پر حج فرض ہوتا ہے لیکن وہ حج کو نہیں جاتے اور جو حج کو جاتے ہیں ان میں سے عموماً صرف دو فی صدی پر حج فرض ہوتا ہے.اگر وہ لوگ جن پر حج فرض ہے حج کو جائیں اور لوگوں کی اوسط عمر ۳۰ سال رکھی جائے تو تیس سال میں سے پندرہ سال بچپن اور بڑھاپے میں گزری جاتے ہیں باقی پندرہ سالوں کو اگر کاموں پر تقسیم کیا جائے تو پانچ چھ سال کا عرصہ ہوتا ہے جس میں وہ حج کو جاسکتے ہیں اگر وہ لوگ جن پر حج فرض ہوتا ہے حج کو جائیں اور ان مسلمانوں کو منہا کر دیا جائے جو یونسی مانگتے ہوئے اور پھرتے پھراتے چلے جاتے ہیں تو جو حاجیوں کی تعداد اب جاتی ہے وہی پھر جائے.اگر ملک کی مالی حالت اچھی ہو جائے اور فرض کرو (۱۰۰) سو میں سے ایک شخص حج کو جانے لگے تو آٹھ کروڑ میں سے آٹھ لاکھ جائے گا اور اگر ایک نسل کا زمانہ پچاس سال رکھا جائے تو پچاس سال میں آٹھ لاکھ جائے گا مگر ظاہر ہے کہ (۱۰۰) سو میں سے ایک کے حج کو جانے کی وجہ سے حج کے حکم میں کمزوری واقع نہیں ہو جاتی.بوجہ اس کے کہ مستثنیات زیادہ ہیں.حکم کے یہ معنے نہیں ہوتے کہ مستثنیات کم ہوں لوگ محض مستثنیات کی اکثریت کو دیکھ کر خیال کر لیتے ہیں کہ یہ کوئی حکم نہیں یا یہ کوئی نیکی نہیں یہ تو مرجع چیز نہیں جیسا کہ میں نے حج کی مثال دی ہے وہی آج کل جہاد کی مثال ہے.تلوار کے ساتھ جہاد کا حکم آج کل بالکل اُڑ گیا ہے جن لوگوں کے ہاتھ میں تلواریں تھیں انہوں نے تلواریں پھینک دی ہیں تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ جہاد کا حکم ہمیشہ کے لئے منسوخ ہو گیا ہے.اصل وجہ یہ ہے کہ یورپ کے اعتراضات سے لوگ گھبراتے ہیں اور تعدد ازدواج کے بارے میں تو معترضین کو خصوصاً عورتوں سے مدد مل جاتی ہے.غیر تو غیر ہماری جماعت میں بھی ایسی مثالیں پائی جاتی ہیں خود قادیان میں ایسی مثالیں موجود ہیں لوگ ایک دوسرے کو السلام علیکم کہتے ہیں، بغل گیر ہوتے ہیں، تمام امور میں ایک دوسرے کی مدد کرتے ہیں.لیکن اس طرف نظر نہیں کرتے کہ ایک شخص دو بیویوں میں انصاف نہ کرتا ہوا نیکی کو چھوڑ کر جنم کے راستے پر جا رہا ہے اور اسے اصلاح کی طرف توجہ نہیں دلاتے.اگر عورتوں سے نا انصافی کے متعلق عورتوں کی زبان بند رہے تو تعدد ازدواج کے مخالفین کی مخالفت خود بخود جاتی رہے.اور میں سمجھتا ہوں آدھا حملہ دشمن کا باطل ہو جائے بلکہ نوے فی صدی حملہ جاتا رہے.لیکن جب تک عورت فریاد کرتی رہے اور وہ مظلوم سمجھی جائے اس وقت تک تعدد ازدواج کی مخالفت کو دبانا مشکل ہے لیکن اس کے یہ معنے نہیں کہ تعدد ازدواج کی اجازت میں نقص ہے بلکہ یہ ہیں
خطبات محمود جلد سوم کہ اس پر عمل کرنے والوں کی کوتاہی ہے.کونسا اسلامی حکم ایسا ہے جس پر یورپ والوں نے حملہ نہیں کیا اور اس پر اعتراض نہیں گئے.انہوں نے حملے کئے مگر منہ کی کھائی پھر کوئی وجہ نہیں کہ ہم ان سے ڈر کر اسلام کے کسی حکم کو چھپائیں یا اسے ناقابل عمل سمجھیں.میں ذکر کر رہا تھا کہ حافظ روشن علی صاحب مرحوم سے اس آیت کے متعلق گفتگو ہوتی رہتی تھی.ان کی طبیعت میں مذاق تھا وہ عموماً بات کو واضح کرانے کے لئے اعتراض کر دیتے اور ہم عموماً اس مسجد کی چھت پر کٹہرے میں جو سیڑھیوں کے ساتھ ہے کھڑے کھڑے گفتگو کیا کرتے تھے.وہ اعتراض کرتے اور میں جواب دیتا.آخر ہماری گفتگو کا خاتمہ ان کے اس فقرہ پر ہو تا کہ اچھا آپ اس بات کا جو مفہوم سمجھتے ہیں اس پر عمل کریں.اور میں کہتا وقت آنے پر میں اس پر عمل کر کے دکھاؤں گا.تو شریعت نے ہمارے لئے تعدد ازدواج کو جائز قرار دیا ہے بلکہ قرآن کریم میں جہاں شادی کا ذکر آتا ہے وہاں ایک سے زیادہ شادیوں کو ایک رنگ میں ترجیح دی ہے.آنحضرت نے ایک سے زیادہ شادیاں کیں مگر آپ نے کبھی کوئی وجہ پیش نہیں کی یہ تو ہم آج وجوہات پیش کرتے ہیں جبکہ نادان آپ کی شادیوں پر اعتراض کرتے ہیں ورنہ ہمارے لئے ہیں حکمت سب سے بڑی ہے کہ ہماری شریعت میں اس کا حکم ہے.یوں بھی لوگ علمتیں نکال لیتے ہیں لیکن وہ ضمنی چیز ہے اصل مقصود نہیں.شادی سے اصل مقصود تو یہ ہے کہ مومنوں میں زیادتی ہو اور جب تعدد ازدواج کے ذریعہ ہم نسل میں اضافہ کرتے ہیں اور ان کی پرورش کا سامان بھی مہیا ہوتا ہے تو اس طرح امت محمدیہ بڑھتی ہے.اس طرح اگر ہم دس نسلیں یا ہیں نسلیں بڑھاتے ہیں اور ان کے لئے سامان بھی مہیا ہوتا ہے تو یہ نسلیں امت محمدیہ کو ہی بڑھاتی ہیں اس لئے رسول کریم ﷺ نے فرمایا - تزوجوا الودود الولود سے یعنی شادیاں کرو ان عورتوں سے جو محبت کرنے والی ہوں اور بہت بچے جننے والی ہوں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جب ہماری شادیوں کی تجویز فرمائی تو سب سے پہلے یہ سوال کرتے کہ فلاں صاحب کے ہاں کتنی اولاد ہے، وہ کتنے بھائی ہیں، آگے ان کی کتنی اولاد ہے؟ مجھے یاد ہے کہ جس جگہ میاں بشیر احمد صاحب کی شادی کی تحریک ہوئی اس کے متعلق
خطبات محمود ۳۹۷ جلد سوم - حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام نے دریافت فرمایا کہ اس خاندان کی کس قدر اولاد ہے اور جب آپ کو معلوم ہوا کہ سات لڑکے ہیں تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام اور تمام باتوں پر غور کرنے سے پہلے فرمانے لگے کہ بہت اچھا ہے.یہیں شادی کی جائے.میری اور میاں بشیر احمد صاحب کی شادی کی تجویز اکٹھی ہی ہوئی تھی ہم دونوں کی شادی کے وقت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے یہی دریافت فرمایا کہ یہ معلوم کیا جائے کہ جہاں رشتے تجویز ہوئے ہیں ان کے ہاں کتنی اولاد ہے کتنے لڑکے ہیں، کتنے بھائی ہیں تو جہاں آپ نے اور باتوں کو دیکھا وہاں ولو دا کو مقدم رکھا.اب بھی بعض لوگ جو مجھ سے مشورہ لیتے ہیں میں ان کو یہی مشورہ دیتا ہوں کہ یہ دیکھو جہاں رشتے تجویز ہوئے ہیں ان کے ہاں کتنی اولاد ہے.پس جب شادی کا ایک اہم مقصد اولاد پیدا کرنا ہے اور تعدد ازدواج سے اولاد میں اضافہ ہوتا ہے تو پھر اس پر اعتراض کیا ہو سکتا ہے.اصل چیز جس پر زور دینے کی ضرورت ہے وہ انصاف ہے.اگر تعدد ازدواج میں انصاف کو قائم رکھا جائے اور کوئی مستثنیات مجبوری کی نہ ہوں تو اکثریت بے شک ایک سے زیادہ شادیاں کریں.لوگ کہتے ہیں کہ اتنی لڑکیاں کہاں سے آئیں گی مگر ان کا یہ خیال غلط ہے اگر اپنے ہاں لڑکیاں کم بھی ہو جائیں تو اور ملکوں سے آنے لگ جاتی ہیں.کئی دفعہ میں نے دیکھا ہے کہ دو دو سال تک لوگ امور عامہ میں خط لکھتے ہیں اور رشتہ تلاش کرتے رہتے ہیں اور شکایت کرتے ہیں کہ کوئی رشتہ ملتا نہیں لیکن اس دوران میں بعض دوسرے لوگ آکر رشتہ کا انتظام کر لیتے ہیں اس کا مطلب یہ ہے کہ حسن انتظام نہیں.ایک طرف محکمہ سستی کرتا ہے اور دوسری طرف خود لوگ غفلت کرتے ہیں ورنہ رشتے موجود ہوتے ہیں جن کا پتہ نہیں لگایا جاتا.میں نے محکمہ والوں کو ہدایت کی ہوئی ہے کہ بیت المال کے انسپکٹروں اور دعوت و تبلیغ کے مبلغین کے ذریعہ جو جگہ جگہ دورہ کرتے رہتے ہیں یہ کام نہایت سہولت سے ہو سکتا ہے.اگر اس قسم کی مشکلات موجود ہیں تو یہ محض انتظام کا نقص ہے ورنہ یہ قانون قدرت ہے اور اس کے لئے خود بخود ایسے سامان مہیا ہو جاتے ہیں کہ لڑکے اور لڑکیوں کا توازن درست رہتا ہے.جس صورت میں توازن درست نہیں رہتا وہ عورتوں کی کثرت ہوتی ہے اس کا علاج بھی اسلام نے ہی کیا ہے کہ ایک سے زیادہ شادیاں کی جائیں.حال ہی میں ہمارے ہنگری کے مبلغ عورتوں کے ایک مجمع میں کثرت ازدواج کے مسئلہ پر بحث کر رہے تھے
خطبات محمود ۳۹۸ اور انہیں کہہ رہے تھے کہ تم اتنی عورتیں ہو بتاؤ تم میں سے کتنی شادی شدہ ہیں اگر تم اسلام کی تعلیم پر عمل کرو تو تمہاری زندگی سدھر سکتی ہے.انہوں نے کہا اگر چہ زبان سے ہم اقرار نہ کریں مگر دل سے ہم یہ محسوس کرتی ہیں کہ تعدد ازدواج کے متعلق اسلامی تعلیم پر عمل کرنے سے ہماری زندگیاں سدھر سکتی ہیں اور اگر ملک میں یہ قانون رائج ہو جائے تو بے شمار نقائص دور ہو سکتے ہیں.لد سوم میں نے کئی دفعہ بیان کیا ہے کہ خلفاء میں سے ایک بھی نہیں جن کی ایک بیوی ہو یعنی حضرت ابو بکر، حضرت عمر، حضرت عثمان ، اور حضرت علی سب نے ایک سے زیادہ شادیاں کیں.پانچویں خلیفہ جن کی خلافت مشتبہ ہے اور جنہیں اس لئے خلیفہ تصور نہیں کیا جاتا کہ اگر اصل میں خلیفہ ہوتے تو خلافت سے خود بخود دستبردار نہ ہوتے.ان کے متعلق بیان کیا جاتا ہے کہ انہوں نے بہت زیادہ شادیاں کیں.ایک دفعہ مجھے کسی نے بتایا کہ مولوی محمد علی صاحب نے میری ایک شادی پر اعتراض کیا ہے کہ رسول کریم ﷺ کے ہاں تو اولاد نہیں ہوتی تھی اس لئے انہوں نے زیادہ شادیاں کی تھیں.میں نے کہا کیا حضرت ابو بکر اور حضرت عثمان کے ہاں بھی اولاد نہیں ہوتی تھی کہ انہوں نے زیادہ شادیاں کیں ؟ پھر حضرت امام حسن جن کے متعلق بعض لوگ کہتے ہیں کہ وہ خلیفہ تھے حالانکہ انہوں نے خلافت کو خود ترک کیا اگر فی الواقع خلیفہ ہوتے تو ایسا نہ کرتے ان کی تو اتنی شادیاں بتائی جاتی ہیں کہ ان کے جواز کے لئے کئی وجوہات پیش کی جاتی ہیں.حضرت خلیفہ اول کا خیال تھا کہ چار سے زیادہ شادیاں کی جاسکتی ہیں.میر محمد اسحق صاحب ایک دن میرے پاس دوڑے دوڑے آئے.ان کی طرز رفتار ایسی تھی کہ گویا کوئی معرکہ سر کر کے آئے ہیں.میں نے پوچھا کیا بات ہے؟ کہنے لگے کہ یہ بات ثابت ہو گئی ہے کہ چار سے زیادہ شادیاں کی جاسکتی ہیں اور ایک حدیث نکل آئی ہے.چنانچہ ان کی بغل میں حدیث کی کتاب تھی اور اس میں کاغذ بطور نشان بھی رکھا ہوا تھا اس میں حضرت امام حسن کی بہت سی شادیوں کا ذکر تھا.ہمیں اس وقت اتنا علم نہیں تھا کہ اس حدیث پر بحث کرتے.پندرہ سولہ سال کی عمر ہوگی میں نے کہا کیا حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کو حدیثوں کا علم نہیں؟ کہ آپ فرماتے ہیں کہ ایک وقت میں چار سے زیادہ بیویاں نہیں کی جاسکتیں آپ کے سامنے یہ حدیث پیش کی جائے.اس پر میر محمد اسحق صاحب کتاب لے کر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی خدمت میں حاضر ہوئے اور حوالہ پیش کیا لیکن جب تھوڑی دیر کے بعد
خطبات محمود ۳۹۹ جلد سوم واپس آئے تو میں نے دیکھا کہ سر نیچا کیا ہوا ہے اور اس کوشش میں ہیں کہ اگر مجھ سے بچ کر نکل سکیں تو نکل جائیں.چونکہ میں انہی کے انتظار میں وہاں کھڑا تھا کہ دیکھوں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے کیا جواب لاتے ہیں.میں دوڑ کر ان کے پاس گیا اور پوچھا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے کیا فرمایا ہے؟ کہنے لگے فرماتے ہیں یہ کہاں لکھا ہے کہ یہ سب بیویاں ایک وقت میں زندہ تھیں.غرض ایک شادی تو استثنائی صورت ہے اور ایک سے زیادہ شادیاں بطور قانون ہیں.بے شک ہمارے ملک میں غربت کی حالت ہے لیکن غربت کے ہوتے ہوئے بھی ایک سے زیادہ شادیاں ہو سکتی ہیں اور امن کی زندگی بسر کی جاسکتی ہے.لیکن مشکل یہ ہے کہ زندگیاں مغربی طرز اختیار کرتی جارہی ہیں اور آمدنیاں کم ہیں.مثنوی رومی والے نے لکھا ہے کہ ایک شخص جب اپنے دوستوں کے ہاں جاتا اور دوست اسے کہتا کہ کھانا کھا لو تو وہ کہتا کیا کھاؤں ناک تک پیٹ بھرا ہوا ہے.ابھی ابھی دینے کا پلاؤ کھا کر آیا ہوں.دیکھیں ابھی تک چربی مونچھوں کو لگی ہوئی ہے.کبھی کہتا تنجن کھا کر آیا ہوں اور دیکھئے چکنائی لبوں سے نہیں اتری.کچھ عرصہ تک وہ اس قسم کی باتیں کرتا رہا ایک دن ایسا اتفاق ہوا کہ اس کے دوست اس کی بیٹھک میں جمع تھے اچانک اس کا لڑکا دوڑتا ہوا آیا اور آکر کہنے لگا.ابا جان دنبے کی وہ چربی جو آپ مونچھوں پر ملا کرتے تھے چیل اٹھا کر لے گئی ہے اس پر اس کا سارا بھانڈا پھوٹ گیا.سکے تو یہاں بھی یہی حال ہے.لوگوں کی زندگیاں تو مغربی طریق پر ہیں اور خیالات وہی پرانے ہیں.اس مجموعے سے ان کے دو کشتیوں میں پاؤں ہیں اور یہی وجہ ہے کہ مشکلات پیدا ہو رہی ہیں.ورنہ قانون قدرت نے کوئی مشکلات پیدا نہیں کیں.بعض اسلامی علاقوں میں مثلاً تبت وغیرہ کی طرف عام طور پر کہا جاتا ہے کہ فلاں شخص بڑا مالدار ہے کیونکہ اس کے گھر میں فلاں جنس بھری پڑی ہے، اس کی اتنی بھینسیں ہیں، اتنے چوپائے ہیں غرض وہاں ان چیزوں کو دولت سمجھا جاتا ہے.بعض اور علاقوں میں مثلاً افغانستان کی سرحد پر کہا جاتا ہے کہ فلاں شخص بڑا دولت مند ہے اس کی چار بیویاں ہیں تو بعض علاقوں میں بیویاں بھی دولت سمجھی جاتی ہیں کیونکہ وہ بھی کھیتی باڑی کا اور دوسرا کام کرتی ہیں اور اس طرح آمدنی بڑھتی ہے.ہاں جو غیر مسلم ہیں وہ بھی مسلمانوں کے اثر کے ماتحت ایک سے زیادہ بیویاں رکھتے ہیں اور چار سے بھی زیادہ کر لیتے ہیں.اور ہندوستان میں نوابوں اور راجوں کے ہاں تو بیویوں کی کوئی حد بندی ہی نہیں.اصل بات یہ ہے کہ ہر ملک
۴۰ کے تمدن کے فرق کے ساتھ خرابیاں پیدا ہوتی ہیں ورنہ در حقیقت کوئی وجہ نہیں کہ غربت میں بھی تعدد ازدواج کی وجہ سے کوئی دقت پیدا ہو.الفضل ۲ اکتوبر ۱۹۳۶ء صفحه ۴ تا ۶) له الفضل ۳۰ ستمبر ۱۹۳۷ء له النساء : ۴ مسند احمد بن حنبل جلد ۳ صفحه ۱۵۸ مطبوعہ بیروت ۶۱۹۷۸ شه مثنوی رومی مترجم مولوی فیروزالدین دفتر سوم صفحہ ۷۶ ۷۷ مطبوعہ ۱۹۲۹ء
خطبات محمود ۴۰۱ 1•1 جلد سوم دینی مسائل پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہو سکتا (فرموده مارچ ۱۹۳۷ء) له خطبہ مسنونہ کی تلاوت کے بعد حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے فرمایا : اللہ تعالی نے قرآن کریم میں تقویٰ پر خاص زور دیا ہے اور رسول کریم اللہ نے نکاح کے موقع پر خاص طور پر تقویٰ کی آیات خطبہ کے لئے جمع کر دی ہیں جس کے معنے یہ ہیں کہ تقویٰ ہر حال میں اچھا ہے مگر اجتماعی صورت میں خاص طور پر اس کی ضرورت ہے.اصل بات یہ ہے کہ انسان جب خدا تعالیٰ کو چھوڑتا ہے تو یا تو وہ بنی نوع انسان کی محبت کی خاطر چھوڑتا ہے یا انسان کے ڈر سے چھوڑتا ہے اس وجہ سے اللہ تعالٰی نے ان آیات میں تقویٰ کا ذکر کیا ہے اور رسول کریم ﷺ نے بھی خصوصیت سے نکاح کے موقع پر ان آیات کو جن میں تقویٰ کا ذکر ہے جمع کر دیا ہے کیونکہ جب ایک مرد کا ایک عورت سے اجتماع ہوتا ہے اور ایک خاندان دوسرے خاندان سے ملتا ہے تو بسا اوقات ان میں سے ایک دوسرے کی وجہ سے دین میں کو تاہی کر جاتا ہے چونکہ اس موقع پر ایک مرد کا عورت سے اور ایک خاندان کا دو سرے خاندان سے اجتماع ہوتا ہے اس لئے رسول کریم ﷺ نے تقویٰ کی طرف خاص طور پر توجہ دلائی ہے کہ تم اپنی شادیوں اور بیا ہوں میں خصوصیت سے تقوی کو مد نظر رکھو.اس قسم کے اجتماع خدا تعالٰی کے مقابل پر کچھ چیز نہیں وہ کسی وقت بھی خدا تعالی کا کچھ بگاڑ نہیں سکتے ، ایک دوسرے سے مل کر اللہ تعالیٰ کے دین کو کچھ بھی ضعف نہیں پہنچا سکتے مگر چونکہ ایسے مواقع پر انسانوں سے غلطیاں سرزد ہو جایا کرتی ہیں اس لئے اللہ تعالیٰ نے اجتماع کے موقع
خطبات محمود ۴۰۲ جلد سوم بر تقویٰ کو زیادہ زور سے بیان کیا ہے.بعض لوگ جنبہ داری میں آکر دین کو ضائع کر دیتے ہیں، بعض پر دوستوں کی محبت غالب آجاتی ہے اور وہ ان کی خاطر تقویٰ سے کام لینا چھوڑ دیتے ہیں اور بے شک وہ یہ فعل اپنی عزتوں کو برقرار رکھنے کے لئے کرتے ہوں گے مگر حقیقی عزت وہی ہے جو خدا تعالی کی طرف سے ہو.رسول کریم ان کے پاس ایک دفعہ مسیلمہ کذاب آیا اور کہنے لگا میرے پاس ایک لاکھ فوج ہے جو ہر وقت میری مدد کے لئے تیار ہے میں آپ سے صرف یہ چاہتا ہوں کہ آپ اپنے بعد خلافت مجھے عطا کریں اور یہ ایک لاکھ فوج حاضر ہے.رسول کریم اے نے یہ سن کر زمین سے ایک تنکا اٹھایا اور فرمایا میں تجھے اس تنکے کے برابر بھی کچھ دینے کے لئے تیار نہیں کہ یہ سب اللہ تعالیٰ کی امانت ہے وہ جس کو چاہے گا دے گا.کیا کوئی بتا سکتا ہے کہ مسیلمہ کی ایک لاکھ فوج کہاں گئی.اس میں سے کئی محمد رسول اللہ اللہ پر ایمان لے آئے اور اس شخص کو جسے یہ دعویٰ تھا کہ یہ لوگ ہر وقت میری مدد کے لئے تیار رہتے ہیں اس کو چھوڑ دیا اور کئی تھے جو ایمان نہ لائے اور صحابہ کی تلواروں سے کاٹے جاکر جہنم میں چلے گئے.ابھی اس وقت مجھے ایک دوست نے ایک رقعہ دیا ہے جس میں مسیلمہ کذاب والی لالچ مجھے بھی دی گئی ہے اس میں لکھا ہے فلاں مولوی صاحب کہتے ہیں کہ مولوی محمد علی صاحب نے کہا ہے اگر میاں محمود مسئلہ کفر میں اصلاح کرلیں تو میں اور بہت سے دوسرے لوگ ان کی بیعت کرلیں گے.یہ لالچ دینے والا شخص یقینا تقویٰ سے بے بہرہ ہے جاہل اور احمق ہے.یہ لوگ جو تقوی سے بالکل عاری ہو چکے ہیں گویا مجھ پر بد دیانتی کا الزام لگاتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ کفرو اسلام کا مسئلہ میں نے خود ہی بنایا ہے اور اگر مجھے لالچ مل جائے تو میں اس مسئلہ کو چھوڑ دوں گا اور مذہب میں سودا کرنے کے لئے تیار ہو جاؤں گا.اس قسم کا خیال رکھنے والے دہر یہ ہیں اور اسلام سے ان کا کوئی واسطہ نہیں.مولوی محمد علی صاحب اور ان کے ساتھیوں کی ہستی ہی کیا ہے کہ میں ان کی خاطر اپنے ایمان کو ضائع کروں.وہ وقت کیا میں بھول چکا ہوں جب میں اکیلا تھا اور یہ لوگ علی الاعلان کہتے پھرتے تھے کہ ہمارے ساتھ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے متبعین میں سے ۹۸ فیصدی لوگ ہیں اور میاں محمود کے ساتھ صرف دو فیصدی.اب جبکہ خدا تعالٰی نے مجھے کمزوری کی حالت سے نکال کر ۹۸ فیصدی لوگوں کو میرے ساتھ کر دیا ہے اور ان کو ۹۸ فیصدی
خطبات محمود جلد سوم که و سے کی بجائے ۲ فیصدی بلکہ اس سے بھی کم کر دیا ہے کس طرح ممکن ہے کہ میں کمزوری دکھلاؤں اور عقائد میں تبدیلی کرلوں.پہلے تو میں نے اس وقت جبکہ ظاہری اسباب ان کے پاس تھے کمزوری نہ دکھائی تو اب جبکہ خدا تعالیٰ نے مجھ سے وہ حالت دور کردی ہے کس طرح کمزوری دکھا سکتا ہوں.میں تو ان کی اس خود پسندی پر حیران ہوں انہوں نے پہلے کون سی کسر ہماری مخالفت میں باقی رکھی ہے.اللہ تعالیٰ نے ان کو ہر موقع پر رسوائی پر رسوائی دکھائی اور یہ ذلیل خوار ہوئے.ابتداء میں جب مجھے ان کے متعلق الہام ہوا ليمَةِ قَنْهُمْ کہ اللہ تعالیٰ ان کو ٹکڑے ٹکڑے اور پراگندہ کر دے گا تو اس وقت وہ اپنے اتحاد اور جبہ پر ناز کرتے تھے.ایک دفعہ اپنی جماعت کے لوگوں میں تفرقہ پیدا ہوتے دیکھا تو کہا کہ میاں صاحب کا الہام کیمز قَنَّهُم پورا ہوتا دکھائی دے رہا ہے.نادان لوگ ہم پر بھی اعتراض کرتے ہیں کہ تمہارے اندر منافق پائے جاتے ہیں.بے شک بعض منافق ہیں مگر ان میں خدا تعالٰی کے فضل سے طاقت نہیں کہ وہ میرے سامنے بولیں مگر پیغامیوں میں کئی لوگ ہیں جو مولوی محمد علی صاحب کے سامنے بولتے ہیں اور بعض استعفیٰ داخل کرنے کی دھمکیاں دیتے ہیں.یہ اس لئے کہ ان کے عقائد سچائی - دور جا پڑے ہیں اس لئے خدا تعالیٰ نے ان سے اپنا ہاتھ کھینچ لیا ہے اور اس کا ہاتھ میرے ساتھ ہے اس وجہ سے نہیں کہ میں اپنی ذات میں کچھ ہوں بلکہ محض اس لئے کہ میں نے سلسلہ کی بہت سی صداقتوں کو اللہ تعالیٰ کے ہی فضل سے نڈر ہو کر بیان کیا اور ان سچائیوں کی خاطر میرے جیسے کمزور اور بے بضاعت شخص کی اس نے مدد کی.پس ایسے لوگوں کو یاد رکھنا چاہئے کہ میں کسی فائدہ کے لئے خدا تعالٰی کی باتوں کو نہیں چھوڑ سکتا.میرا وجود ہے کیا جس کا نفع کوئی قیمت رکھتا ہو.اللہ تعالیٰ کی طرف سے آئی ہوئی ادنی صداقت کے لئے میرے جیسے کروڑوں وجود بے دھڑک قربان کئے جاسکتے ہیں.پس ان لوگوں کو یاد رکھنا چاہئے کہ دین کے مسائل میں کوئی سودا نہیں کیا جا سکتا.اگر ہمارا اختلاف دینی مسئلہ کے لئے ہے تو سودا کرنے کے کیا معنے.جس شخص کو اپنی غلطی کا احساس ہو جائے چاہئے کہ وہ ندامت محسوس کرے اور اللہ تعالی کے حضور دعا کرے اور اللہ تعالیٰ سے اپنے گناہوں کی معافی مانگے.پہلے سلسلہ میں تفرقہ پیدا کرنا اور پھر دین میں سودا کرنے کی کوشش کرنا نہایت گری ہوئی حالت پر دلالت کرتا ہے اور باوجود مولوی محمد علی صاحب سے شدید اختلاف کے میں امید نہیں کرتا کہ انہوں نے ایسی بے حیائی کی بات کہی ہوگی.غالبا یہ تجویز
خطبات محمود جلد سوم کرنے والے کا اپنا اختراع ہو گا لیکن بہر حال یہ ایک نہایت ناپاک تجویز ہے.اس شخص کو سوچنا چاہئے کہ اگر کوئی دین کو فروخت کرنے پر ہی آئے تو کیا وہ اس کی قیمت میں مولوی محمد علی صاحب اور ان کے رفقاء کو قبول کرے گا؟ آخر وہ کون سی طاقت ہے جسے وہ اپنے ساتھ لائیں گے ؟ کیا انہیں طاقت ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کے عذاب سے نافرمانوں کو بچالیں کہ انسان سمجھے خدا تعالی کی ناراضگی کو یہ شخص دور کر دے گا.یا ان میں طاقت ہے کہ وہ قوم کے گرے ہوئے اخلاق کو درست کر دیں اور اس کی ضمیر کو تسلی دے دیں کہ انسان یہ سمجھے کہ چلو اس گناہ عظیم کے بعد ایک نئی روحانی زندگی مجھے کو مل جائے گی میں اس برکت کے حصول کے لئے اس چھوٹے گناہ کا ارتکاب کرلوں.مگر کوئی ایسا انسان نہیں جسے خدا تعالٰی سے یہ رتبہ ملا ہو.پھر کوئی احمق ہی ہو گا جو دنیا کے لئے دین کو فروخت کر دے.ہر انسان جو حق کو قبول کرتا ہے خدا تعالیٰ کا اس پر احسان ہوتا ہے نہ کہ اس کا خدا تعالیٰ پر.جو شخص اس سلسلہ میں داخل ہوتا ہے اور خوشی سے احمدیت کو قبول کرتا ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر ایمان لاتا ہے وہ ہم پر کسی قسم کا احسان نہیں کرتا بلکہ اپنے لئے اور اپنے خدا کو راضی کرنے کے لئے آتا ہے.مگر جو شخص یہ شرط لگاتا ہے کہ وہ ماننے کو تیار ہے بشرطیکہ ہم اس کی خاطر کوئی دینی مسئلہ چھوڑ دیں وہ یا تو سخت دھوکا خوردہ ہے یا پھر فریبی اور بے ایمان ہے اور بدظنی کا ارتکاب کرنے والا ہے ایسے شخص کی حیثیت ایک دھیلے بلکہ کوڑی کے برابر نہیں.دین کے مقابل پر اس کی حیثیت ہی کیا ہو سکتی ہے کہ اس سے ملنے کے لئے دین کو چھوڑا جائے.اللہ تعالی کے وہ بے شمار احسانات جو اس نے ہم گناہ گاروں کے لئے دکھائے ہیں کیا ہم ان کو بھلا سکتے ہیں.اور کیا وہ دن مجھے بھول سکتے ہیں جب اللہ تعالیٰ نے مجھے خلعت خلافت عطا کیا، کیا میں وہ دن بھول سکتا ہوں جب کہ کمزور لوگ آتے اور کہتے تھے کہ مولوی محمد علی صاحب بہت جلد قادیان سے جانے والے ہیں اور خزانہ میں کوئی روپیہ نہیں اب کیا بنے گا؟ بڑے لوگ چلے جائیں گے اور سامان کوئی ہو گا نہیں پھر سلسلہ کا کام کس طرح چلے گا.اور کیا میں وہ دن بھول سکتا ہوں جبکہ غیر مبائعین میں سے بعض علی الاعلان کہتے تھے کہ یہاں آریوں اور عیسائیوں کا قبضہ ہو جائے گا.چنانچہ مرزا یعقوب بیگ صاحب نے یہاں سے جاتے ہوئے تعلیم الاسلام ہائی سکول کی طرف اشارہ کر کے کہا تھا کہ وہ دن قریب ہیں جب کہ یہاں عیسائی قابض ہوں گے مگر دیکھنے والا دیکھ سکتا ہے کہ کیا ہوا اور اللہ تعالٰی نے ان کو کیا دکھایا.صرف یہی نشان
خطبات محمود ۴۰۵ جله موم ان کے لئے کیا کم ہے کہ اللہ تعالٰی نے ان کو ۹۸ فیصدی سے دو فیصدی بلکہ اس سے بھی کم کر دیا اور ہم جو دو فیصدی تھے ۹۸ فیصدی ہو گئے.پہلے جب ہم تھوڑے تھے تو یہ لوگ کہا کرتے تھے کہ ہمارے ساتھ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے صحابہ ۹۸ فیصدی کی تعداد میں ہیں اور میاں محمود کے ساتھ دو فیصدی.گویا پہلے اپنی اکثریت کو اپنی کامیابی کا معیار قرار دیتے تھے مگر اب جبکہ اللہ تعالیٰ نے ان کو کم کر دیا اور ہمیں زیادہ تو کہنے لگ گئے کہ قرآن مجید میں آیا ہ وَاَكْثَرُهُمُ الفسقُونَ.ہے کہ اکثریت فاسقوں کی ہوتی ہے.جب وہ زیادہ تھے تو فاسق نہ تھے بلکہ ان کے نزدیک کامیابی تھی مگر اب جبکہ ہم ان کی نسبت بہت زیادہ ہو گئے تو سب صحابہ فاسق ہو گئے اس سے بڑھ کر ان کی عداوت کی اور کیا دلیل ہو سکتی ہے.ان کے پاس کون سی طاقت تھی جو انہوں نے ہمارے خلاف خرچ نہ کی.ہم کو مقدمات کی دھمکیاں دیں، ہمارا سامان اٹھا کر لے گئے، قرآن مجید کا ترجمہ جماعت کی ایک امانت تھی جو وہ اپنے ساتھ لے گئے، اس کے علاوہ کئی کتابیں اپنے ساتھ لے گئے جن کی قیمت کئی ہزار روپیہ بنتی ہے غرضکہ انہوں نے ہمیں ہر طرح سے نقصان پہنچانے کی کوشش کی اور ہر قسم کے ہتھیار انہوں نے ہمارے خلاف چلائے، حکومت کے پاس ہماری شکایتیں کیں، رعایا کو ہمارے خلاف اشتعال دلایا اور ان کو یہ کہہ کر کہ یہ لوگ تمہیں کافر کہتے ہیں ہمارے خلاف اکسایا مگر اللہ تعالیٰ نے ہر موقع پر ان کو نیچا دکھایا.دنیاوی طاقتیں انہوں نے ہمارے خلاف خرچ کیں اور طرح طرح کے دکھ دینے کی کوششیں کیں مگر دنیاوی طاقتیں اللہ تعالیٰ کی طاقت کے مقابلہ میں کیا حقیقت رکھتی ہیں.ایک دفعہ رسول کریم ﷺ کے پاس مکہ کے لوگ آئے اور عرض کیا کہ آپ ہمارے بتوں کو برا کہنا چھوڑ دیں ان کا بھی یہی مطلب تھا کہ رسول کریم و دین میں تبدیلی کریں اور ہمارے ساتھ مل جائیں مگر رسول کریم ﷺ نے ان کو اس وقت یہی جواب دیا کہ اگر تم سورج کو میرے دائیں ہاتھ پر اور چاند کو بائیں ہاتھ پر رکھ دو تب بھی میں اپنا عقیدہ تبدیل نہیں کر سکتا ہے کیونکہ یہ خدا تعالیٰ کا کلام ہے اور خدا تعالٰی کے کلام میں تبدیلی نہیں ہو سکتی.جب محمد رسول اللہ ﷺ میں یہ طاقت نہ تھی کہ آپ خدا تعالیٰ کے کلام میں تبدیلی کر سکتے تو بھلا ہم جیسے کمزور وجودوں کو یہ اختیار کہاں ہو سکتا ہے کہ خدا تعالی کے حکموں کو مولوی محمد علی صاحب اور ان کے دوستوں کی خوشنودی کے حصول کے لئے بدل دیں اور اگر ہم نعوذ باللہ من ذالک خدا تعالیٰ کے کلام میں تبدیلی کرہی دیں تو دنیا کی وہ کون سی طاقت ہے جو خدا تعالٰی کے
خطبات محمود ۴۰۶ جلد سوم عذاب سے ہم کو بچا سکتی ہے.ہم اپنی باتوں میں تبدیلی کر سکتے ہیں مگر خدا کی باتوں میں تو خدا خود ہی تبدیلی کرے تو کرے.ایک مولوی محمد علی صاحب چھوڑ لاکھ مولوی محمد علی صاحبان بھی آئیں اور ہمیں عقائد تبدیل کرنے کے متعلق کہیں تب بھی ہم عقائد میں تبدیلی نہیں کر سکتے کیونکہ ہم کو اس کا اختیار ہی کوئی نہیں.ایک غلام بادشاہ کے حکم کو نہیں بدل سکتا تو ایک ذلیل مخلوق کی کیا طاقت ہے کہ وہ وحدہ لا شریک خدا کے کلام میں تبدیلی کر سکے.میں نہیں سمجھتا ایک شریف انسان کے منہ سے ایسا فقرہ نکلے اور وہ شرم محسوس نہ کرے.کیا کوئی شخص اس قسم کا سودا کر سکتا ہے جو یہ لوگ ہمارے ساتھ کرنا چاہتے ہیں.جب کہ میں کہہ چکا ہوں اغلب ہے کہ مولوی محمد علی صاحب نے ایسا نہ کہا ہو بلکہ کسی درمیانی آدمی نے یہ خیانت کی ہو مگر بہر حال جس نے یہ فقرہ کہا ہے اس نے اپنی قیمت بہت ہی بڑی قرار دی ہے اور دین کو ایک کھیل سمجھا ہے اور ہم نے ایسے شخص کو اپنے اندر داخل کر کے لینا ہی کیا ہے جس کی وجہ سے ہمیں عقائد میں تبدیلی کرنے کی ضرورت ہو.قرآن مجید سے ثابت ہے کہ ایسے لوگ پہلے بھی ہوا کرتے تھے جو عقائد میں تبدیلی کر لیا کرتے تھے اور اسے معمولی بات سمجھا کرتے تھے.خدا تعالیٰ ان کے متعلق بیان فرماتا ہے.افتُؤْمِنُونَ بِبَعْضِ الْكِتْبِ وَتَكْفُرُونَ بِبَعْضٍ - شے کہ کیا تم کتاب کے ایک حصہ پر ایمان لاتے ہو اور ایک حصہ کا انکار کرتے ہو.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام غیر مبائعین کے نزدیک اللہ تعالیٰ کے مامور نہ سہی، مسیح موعود نہ سہی، بلکہ ایک مجدد ہی سہی، مجدد نہ سہی ایک ولی ہی سہی، ولی نہ سہی ایک مومن ہی سہی مگر کیا ایک مومن کی طرف سے جو بات خدا تعالیٰ کی طرف منسوب کر کے کسی جائے کیا اس کے بارے میں سودے کئے جاسکتے ہیں.کیا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے پہلے کسی مومن کے الہامات اور اس کی خوابوں کے متعلق ایسے سودے کئے گئے ہیں؟ اور اگر نہیں کئے گئے تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی وحی کے متعلق ایسے سودوں کی دعوت کیوں دی جاتی ہے ؟ ان لوگوں کو ان کی یہ خود پسندی ہی خراب کرتی چلی آئی ہے اور یہ حقیقت سے نا آشنا ہوتے جارہے ہیں.ایسے لوگ اللہ تعالیٰ کے نور کو کہاں دیکھ سکتے ہیں جو اللہ تعالٰی کے کلام میں سودے کرتے پھرتے ہیں.حضرت خلیفہ اول کی زندگی میں جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے 1911ء کا نصف یا اس سے کچھ پہلے یا بعد کا واقعہ ہے جب کہ خواجہ کمال الدین صاحب ابھی ولایت نہیں گئے تھے اور عنقریب
خطبات محمود جلد سوم جانے والے تھے.شیخ یعقوب علی صاحب میرے پاس آئے اور کہا کہ صلح کی ایک صورت پیدا ہو گئی ہے.خواجہ کمال الدین سے میری باتیں ہوئی تھیں اگر آپ کچھ نرم ہو جائیں تو صلح ہو جائے گی.میں نے شیخ صاحب سے کہا کہ شیخ صاحب اگر ہماری مخالفت دنیوی جائداد کی ہے تو لاؤ کاغذ میں اس پر دستخط کر دیتا ہوں اور جس طرح خواجہ کمال الدین صاحب چاہیں کریں میری طرف سے کوئی شرط وغیرہ نہیں ہوگی.اور اگر یہ دنیوی جائداد کے متعلق اختلاف نہیں بلکہ دین کا سوال ہے تو ایک خواجہ کمال الدین کیا اگر دس ہزار خواجہ کمال الدین ہوں تب بھی میں ان کی خاطر سچائی کو نہیں چھوڑ سکتا.مجھے تو اس قسم کا خیال رکھنے والوں کی انسانیت پر بھی شبہ ہو گیا ہے.ممکن ہے دہریت کی وجہ سے ان کے دلوں میں یہ خیال پیدا ہو گیا ہو ورنہ مومن کیا معمولی سمجھ رکھنے والا انسان بھی خدا تعالیٰ کے کلام کے متعلق ایسا خیال نہیں کر سکتا.بے شک انسان پھلتا ہے مگر پھسلنا بھی کسی راہ کا ہوتا ہے.جذبات میں آکر انسان پھسل جاتا ہے، لالچ میں آکر پھسل جاتا ہے اور کئی غلطیاں اس سے سرزد ہو جاتی ہیں مگر یہ نہیں ہو تا کہ خدا تعالی کی باتوں میں سودا کرتا پھرے.اگر ان کا مقصد اس سے یہ ہو کہ وہ ہم کو اس طرح آزمانا چاہتے ہیں اور ہمارے ایمانوں کا موازنہ کرنا چاہتے ہیں تو کیا ان کو آزمانے کے لئے صرف کفر کے مسئلہ میں تبدیلی ہی ایک ایسی بات مل گئی ہے جس کے ذریعہ وہ ہمیں آزمانا چاہتے ہیں.اس سے قبل آزمائش کی باتیں کیا وہ کم دیکھ چکے ہیں.اللہ تعالٰی کے لئے غیرت دکھانا اور اس کے دین کے لئے غیرت ایک ادنیٰ قربانی ہے مومن تعداد بڑھانے کے لئے اپنے عقائد میں تبدیلی ہرگز نہیں کر سکتا.اگر ساری دنیا بگڑ رہی ہو تو وہ کبھی بھی یہ نہیں کرے گا کہ اپنے عقائد میں تبدیلی کرلے اور دنیا کو اپنے ساتھ ملالے بلکہ ایک ذرہ بھر بھی اس کو دنیا کے بگڑنے کی پرواہ نہ ہو گی.ہو سکتا ہے کہ دنیا کی نگاہ میں اس کا یہ فعل اچھا نہ ہو اور اس کی وجہ سے وہ عزت کی نگاہ سے نہ دیکھا جائے مگر وہ اس کی ہرگز پرواہ نہیں کرے گا کیونکہ حقیقی عزت اللہ تعالیٰ کی طرف سے ملتی ہے اور وہی عزت اس کے لئے حقیقی عزت ہے جو اسے خدا دیتا ہے.اگر مولوی محمد علی صاحب میری بیعت کرلیں اور میں اس شرط کو مان لوں تو کیا وہ ایک منٹ کے لئے بھی میری زندگی کا ٹھیکہ لے سکتے ہیں.اگر نہیں لے سکتے اور ان کے بیعت کرتے ہی میری جان نکل جائے تو اس مزعومہ عزت سے جو وہ ساتھ لائیں
خطبات محمود ۲۰۸ جلد سوم مجھے کیا فائدہ پہنچے گا اور خود ان کو میری بیعت سے کیا نفع ہو گا.سمجھوتہ دنیوی معاملات میں ہو سکتا ہے، تمدنی مسائل میں ہو سکتا ہے، سیاسی مسائل میں ہو سکتا ہے، اقتصادی مسائل میں ہو سکتا ہے مگر دین کے متعلق کوئی سمجھوتہ نہیں ہو سکتا.مباح اس امر کو کہتے ہیں کہ جس کے بارے میں اجازت ہوتی ہے کہ خواہ کر دیا نہ کرو.ہم دیکھتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ کو ایسے امور میں بھی لوگوں کی خوشنودی چاہنے کی اجازت نہیں دی گئی جو مباح تھے.چنانچہ قرآن کریم میں ایک واقعہ کی طرف اشارہ ہے جس کی تفصیل حدیثوں میں یوں آتی ہے کہ آپ ایک دفعہ شہد کھا کر گھر گئے تو آپ کی دو بیویوں نے کہا تھا کہ آپ کے منہ سے بو آتی ہے.آپ نے فرمایا کہ میں آئندہ شہد نہیں کھایا کروں گا.اس پر اللہ تعالٰی نے فرمایا - لم تُحرم ما احل الله لا.نہ آپ اللہ تعالی کی حلال کی ہوئی شے کو حرام کیوں کرتے ہیں.تو اللہ تعالیٰ نے تو مباح میں سمجھوتہ کرنے کی رسول کریم اللہ کو اجازت نہیں دی چہ جائیکہ عقائد کی تبدیلی میں صلح کی اجازت دے.ہمارا فریق مخالف در حقیقت خود چونکہ سابقہ عقائد کو چھوڑ چکا ہے.اس پر یہ بات گراں نہیں گزرتی کہ دوسروں کو بھی یہ کہے کہ تم اپنے عقائد میں تبدیلی کرلو.یہ خیال ان کے ایمان سے نا آشنا ہونے کے باعث پیدا ہو گیا ہے ور نہ ایک مومن یہ کبھی نہیں کر سکتا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پاس ایک شخص آیا اور اس نے کہا آپ نے دعوئی کرنے میں غلطی سے کام لیا ہے.اگر آپ پہلے مولویوں کے سامنے یہ بات پیش فرماتے کہ اسلام کی حالت حضرت عیسی علیہ السلام کی حیات کے عقیدہ کی وجہ سے سخت خطرہ میں ہے.مسلمان روز بروز کم ہو رہے اور عیسائی بن رہے ہیں اس کا علاج بتا ئیں تو اس وقت سب کے سب یہ کہہ دیتے کہ اس کا علاج آپ ہی سوچیں.پھر آپ ان کو اس کا علاج یہ بتاتے کہ قرآن مجید سے حضرت عیسی علیہ السلام کی وفات ثابت ہے.اس پر سب مولوی کہتے کہ بہت اچھی بات آپ نے سوچی ہے.پھر دوسرا امران مولویوں کے سامنے یہ پیش فرماتے کہ حدیثوں میں عیسی کے آنے کا ذکر ہے، غیر مسلم قومیں اگر اس پر معترض ہوں تو اس کا کیا جواب ہو گا.اس وقت بھی مولوی یہ کہتے کہ آپ ہی اس کا جواب ہمیں بتائیں آپ جواب میں یہ فرماتے کہ عیسی سے مراد وہ عیسی نہیں جو ایک دفعہ دنیا میں آچکا ہے بلکہ عیسی سے مراد مثیل عیسی ہے.پھر تیسرا امریہ پیش فرماتے کہ حدیثوں میں عیسی کے زمانہ کے متعلق جو علامات بیان ہوئی ہیں ان
خطبات جلد سوم میں سے بعض اس زمانہ میں نظر آتی ہیں پس کیوں نہ علماء امت میں سے ایک شخص کے متعلق کہا جائے کہ وہی مثیل مسیح ہے تو سب علماء اس پر پر کہتے کہ یہ بالکل درست ہے اور آپ سے زیادہ مستحق اس دعوی کا کوئی نہیں ہو سکتا اس کے بعد آپ دعوی کر دیتے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے یہ بات سن کر فرمایا کہ بے شک اگر انسانی منصوبہ ہو تا تو میں ایسا ہی کرتا.یہی جواب میرا ہے.ان لوگوں کو یاد رکھنا چاہئے کہ یہ مسئلہ میرا بنایا ہوا نہیں.میں تو ایک کمزور اور گنہگار وجود ہوں میں زندہ رہوں یا مروں، عزت پاؤں یا ذلت، بڑھوں یا گھٹوں یہ مسائل جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تعلیم کا حصہ ہیں انہیں کوئی ضعف نہیں پہنچ سکتا.ان کی ترقی انسانوں کے ہاتھوں سے نہیں خدا تعالی کے ہاتھوں سے ہے.پس نہ ان کو میری وجہ سے تقویت ملی ہے اور نہ میرے چھوڑ دینے کی وجہ سے یہ مٹ سکتے ہیں.اگر میں ان مسائل کو مٹانا چاہوں تو العیاذ باللہ میں مٹ جاؤں گا یہ مسائل نہیں مٹیں گے.یہ اللہ تعالیٰ کا محض فضل ہے.کہ اس بارہ میں اس نے مجھ سے خدمت لے لی ہے اور اس کے فضل سے امید رکھتے ہوئے میں اس سے طالب ہوں کہ مجھے حق پر قائم رکھے اور باطل کی حمایت سے بچائے کہ یہ اس کے فضل کے بغیر نہیں ہو سکتا.غرض اجتماع اچھی شئے ہے مگر وہی جو خدا کے لئے ہو اور جس اجتماع میں خدا تعالیٰ چھوٹے وہ اجتماع بابرکت نہیں.ہم بھی غیر مبائعین سے اجتماع چاہتے ہیں لیکن ایسا ہی جس میں خدا تعالیٰ کے دین کی عزت ہو.جب ایک مرد اور ایک عورت کے اجتماع میں رسول کریم نے تقویٰ پر اس قدر زور دیا ہے.تو قوموں کے اجتماع کے سوال میں اس امر کو کس طرح نظر انداز کیا جا سکتا ہے.الفضل سے تاریخ اور فریقین کا تعین نہیں ہو سکا.الفضل ۲۱ مارچ ۱۹۳۷ء صفحه ۳ تا ۶) کے بخاری کتاب المغازی باب و قد بنى حنيفة وحديث ثمامة بن اثال ه ال عمران : " ه سیرت ابن ہشام جلد ا صفحه ۲۸۵٬۲۸۴ مطبوعہ مصر ۱۹۳۶ء البقرة : ٨٢ التحريم : r
۱۰۲ -19 مستقبل سنوارنے کی کوشش کرو (فرموده ۱۹ اپریل ۱۹۳۷ء) اپریل ۱۹۳۷ء کو بعد نماز مغرب حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے مسجد مبارک میں محمد عبد السلام صاحب بی اے پسر مولوی محمد عبد السبحان صاحب انسپکٹر (بنگال) کا نکاح مسلمہ خاتون بنت خان بهادر چوہدری ابوالہاشم خان صاحب ریٹائرڈ انسپکٹر آف سکولز سے ایک ہزار روپیہ مہر پر پڑھانے خطبہ مسنونہ کی تلاوت کے بعد فرمایا : انسانی اعمال کے لیے حصے دو ہی ہوتے ہیں ایک اس کا ماضی اور ایک مستقبل - حال ایک ایسی خیالی چیز کا نام ہے جس کی تعیین کرنا انسانی طاقت کے لئے بالکل ناممکن ہے.مثلاً جب ایک شخص کہتا ہے کہ میں یہ کام کر رہا ہوں تو جس وقت اس کا یہ فقرہ ختم ہوتا ہے اور نحویوں کے نزدیک اس کے کچھ معنے بنتے ہیں اس وقت اس فقرے کا مفہوم بے معنی ہو چکا ہوتا ہے.کیونکہ گو یہ فقرہ کہ میں کام کر رہا ہوں حال پر دلالت کرتا ہے لیکن وہ ” ہوں" کے نون کے ختم ہونے کے ساتھ ہی ماضی ہو چکا ہوتا ہے.پس جب اس شخص کا کلام با معنی بنتا ہے اس کا مفہوم بے معنے ہو جاتا ہے گویا حال بالکل ایک غیر متعین شئے ہے جو چیز انسان کے ساتھ تعلق رکھتی ہے وہ اس کا ماضی اور مستقبل ہے مگر ماضی وہ ہے جو اس کے ہاتھ سے نکل گیا اور اس کی درستی اس کے اختیار میں نہیں.حال کی کوئی تعیین نہیں کہ اس پر قبضہ کیا جا سکے.گویا ماضی وہ پرندہ ہے جو اڑ چکا ہے اسے پکڑا نہیں جا سکتا اور حال ایک ایسا ہوائی قلعہ ہے جس پر قبضہ نہیں کیا جاسکتا.
خطبات محمود جلد سوم اب صرف مستقبل ہی رہ جاتا ہے لیکن سب سے کم خیال انسان مستقبل کے لئے کرتا ہے اور اپنے تمام اعمال کو ماضی کے لئے وقف کر دیتا ہے.مثلا وہ کہتا ہے کہ میرے باپ دادے اور میرے آباء واجدادیوں کیا کرتے تھے مجھے بھی ایسا ہی کرنا چاہئے تاکہ ان کی شہرت بڑھے گویا دہ اپنے آباء واجداد کی شہرت کو خواہ وہ بری ہو یا بھلی اور زیادہ بڑھانے کے لئے کوشاں رہتا ہے.اسی طرح اگر وہ مسلمان ہے تو اس لئے کہ اس کے ماں باپ مسلمان تھے ، اگر ہندو ہے تو اس لئے کہ اس کے ماں باپ ہندو تھے ، اگر عیسائی ہے تو اس لئے کہ اس کے ماں باپ عیسائی تھے، وہ نماز اس لئے پڑھتا ہے کہ اس کے باپ دادے نماز پڑھا کرتے تھے ، گرجے میں اس لئے جاتا ہے کہ اس کے باپ دادے گرجے میں جایا کرتے تھے ، مندر میں اس لئے جاتا ہے کہ اس کے باپ دادے مندر میں جایا کرتے تھے غرض وہ جو کچھ بھی کرتا ہے سب ماضی کی خاطر کرتا ہے اور اس کے عمل کی بنیاد کسی ایسی حقیقت پر نہیں ہوتی جو مستقبل میں اس کو مل سکے.اور ظاہر ہے کہ انسان جس کی خاطر کوئی کام کرتا ہے گویا اس کے پاس ایک امانت رکھتا ہے.مثلاً جب کوئی شخص زید کی نوکری کرتا ہے تو اس کی مزدوری زید کے پاس جمع ہوتی ہے.اسی طرح جب انسان اپنے آباء واجداد کے لئے کام کرتا ہے تو گویا وہ اپنی مزدوری اپنے آباء و اجداد کے پاس رکھتا ہے.حدیث میں آتا ہے.مَنْ كَانَتْ هِجْرَتُه إلى الله و رسوله فهجرته إلى الله و رَسُولِه.سه یعنی جو شخص اللہ اور رسول کے لئے نیکی کرتا ہے (ہجرت سے مراد نیکی بھی ہے) اس کا فعل اللہ اور رسول کی طرف جاتا ہے.اب یہ عجیب بات ہے کہ انسان جاتا تو اللہ کی طرف ہے مگر امانت یورپ کے کسی شہر کے بنک میں جمع کرا دے.اگر کوئی احمق جاپان کو جاتا ہوا اپنی ہنڈیاں یورپ کے بنکوں میں جمع کرائے گا تو سنگا پور اور ہانگ کانگ پہنچ کر اسے معلوم ہو گا کہ اسے روپیہ نہیں مل سکتا.پس عظمند انسان ہنڈیاں ان شہروں کے بنکوں کی لیتا ہے جو اس کے سفر کے راستہ میں آتے ہیں لیکن ہم انسانی اعمال کی طرف جب دیکھتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ عام طور پر انسان کو مستقبل کا کوئی فکر ہی نہیں وہ ماضی کی طرف خیال لگائے بیٹھا ہے.گویا وہ ان بینکوں میں روپیہ جمع کراتا ہے جو دیوالیہ ہو چکے ہیں اور جن کے دروازے بند ہو چکے ہیں مگر ان بینکوں کو بھول جاتا ہے جن کی شاخیں اگلے سفر میں کام آسکتی ہیں ایسے لوگوں سے زیادہ کون بیوقوف ہو سکتا ہے.ایسے شخص کی مثال پر ایک بچہ بھی ہنس دے گا لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ ایک عظمند کے افعال میں ایسی بیوقوفی کی بے شمار مثالیں پائی جاتی ہیں کہ وہ ماضی کی فکر -
خطبات جلد سوم میں لگا رہتا ہے اور مستقبل کو نظر انداز کر دیتا ہے.حالانکہ واپس وہ جانہیں سکتا اور آگے اس نے سامان بھیجا نہیں اب کون ہے جو اسے عقل مند کے گا.حضرت مسیح علیہ السلام نے وَالتَنْظُرُ نَفْسُ مَا قَدَّمَتْ لِغَدٍ - سلے کی کیا عمدہ مثال دی ہے.فرماتے ہیں تم اپنے خزانے خدا کے پاس جمع کراؤ جہاں کیڑا نہیں لگتا.ہے اس سے مراد یہی ہے کہ اس جگہ وہ ضائع نہیں جاتا.شاید الهامی طور پر حضرت مسیح علیہ السلام کو یہ بتایا گیا ہو اور اس کی قوم کے بینک اس کے سامنے لا کر کشفی طور پر دکھائے گئے ہوں کہ تمہاری قوم ایسے خزانے جاری کرے گی جن میں سونے اور چاندی کی بجائے کاغذ کے سکے ہوں گے جن کو کیڑا کھا سکتا ہے.غرض انسان کو چاہئے کہ وہ مستقبل کی فکر کرے.جنت کی ہر چیز جو ہے وہ سڑنے والی نہیں اس لئے فرمایا جنت عدن سے یعنی وہاں جو چیز بھی ہے خواہ کتنی ہی نازک ہو سڑے گی نہیں.وہاں دودھ کی نہریں ہیں، پانی ہے، میوے ہیں لیکن ان میں سے کوئی چیز سڑنے والی نہیں.پس اللہ تعالی نے وَلَتَنْظُرُ نَفْسُ مَا قَدَّمَتْ لِغَدٍ کی جو مثال دی ہے اس میں یہی بیان فرمایا ہے کہ اس سفر کی فکر کرو جو تمہارے آگے آنے والا ہے.ماضی پر تمہیں کوئی تصرف حاصل نہیں، ہاں آئندہ کا علاج کر سکتے ہو.اور حقیقت میں یہی معقول ترین طریق ہے جو شخص ماضی کی فکر کرتا ہے وہ ناکام رہتا ہے اور جو حال کی فکر میں پڑ جاتا ہے وہ بھی ناکام رہتا ہے.کامیاب ہونے والا شخص وہی ہوتا ہے جو مستقبل کی فکر کرتا ہے.جو لوگ ماضی کے پیچھے پڑ جاتے ہیں وہ ایک بے عقلی کی چیز میں لگ جاتے ہیں اور جو لوگ حال کے پیچھے لگ جاتے ہیں ان کی مثال اس انسان کی سی ہوتی ہے جو ایک ایسے کام کے پیچھے پڑا ہوا ہو کہ پیشتر اس کے کہ کام شروع کرے وہ ختم ہو جاتا ہے.جو شخص مستقبل کی فکر کرتا ہے وہ یقینا ایسی چیز کے لئے کوشش کرتا ہے جو اس کے قابو میں آسکتی ہے اور حقیقت میں کسی چیز کی حفاظت کا یہی طریق ہے کہ آگے سے اس کا راستہ روک لیا جائے.پرانے زمانہ میں وقت سے فائدہ اٹھانے کی جو تصویر بنائی جاتی تھی اس میں یہ دکھایا جاتا تھا کہ ایک شخص آگے سے ہو کر اس کے ماتھے کے بال پکڑ لیتا ہے جس کا مطلب یہی ہے کہ وقت کو مستقبل سے ہی پکڑا جاتا ہے.پس اللہ تعالٰی نے وَلَتَنْظُرُ نَفْسَ مَا قَدَّمَتْ لِغَدِ - میں اس کی طرف اشارہ فرمایا ہے کہ مومنوں کو چاہئے کہ وہ ہر کام کرتے وقت ماضی کی فکر چھوڑ دیں تاکہ ان کی کوشش اور سعی رائیگاں نہ جائے.مجھے یاد ہے کہ جب ملکانہ میں تبلیغ کا کام شروع کیا گیا تو اس وقت ارتداد کے باعث
خطبات محمود ١٣سم جلد سوم مسلمانوں میں ایک شور برپا تھا لیکن وہ جہاں جاتے انہیں ناکامی کا سامنا کرنا پڑتا اور ہر جگہ سے شکست نصیب ہوتی.میں نے جب تبلیغ کا کام شروع کیا تو پہلے ایک سروے کرایا اور چوہدری فتح محمد صاحب کو وہاں بھیجا کہ وہ حالات کا مطالعہ کر کے رپورٹ کریں کہ کس طریق سے موثر رنگ میں تبلیغ کی جاسکتی ہے.انہوں نے وہاں سے رپورٹ بھیجوائی جس میں ایک معقول تجویز پیش کی گئی.انہوں نے لکھا کہ مسلمانوں کی ناکامی کی وجہ یہ ہے کہ آریہ لوگ جن دیہات میں جاتے ہیں مسلمان بھی ان کے پیچھے پیچھے وہیں چلے جاتے ہیں لیکن چونکہ آریوں نے وہاں پہلے ہی لوگوں کو اپنے قابو میں کر کے مسلمانوں کے خلاف بھڑکا دیا ہوتا ہے اس لئے مسلمان جب وہاں جاتے ہیں تو وہ لوگ انہیں مار مار کر نکال دیتے ہیں اور ان کی بات تک سننا گوارا نہیں کرتے.چوہدری صاحب نے لکھا.ان کو اجازت دی جائے کہ جن علاقوں میں آریوں کا اثر قائم ہو چکا ہے ان کو بالکل چھوڑ دیا جائے اور درمیان میں کچھ فاصلہ رکھ کر ان علاقوں کی طرف توجہ کی جائے جہاں ابھی تک آریوں کا اثر قائم نہیں ہوا اور جہاں ابھی آریہ نہیں پہنچے تاکہ وہاں قبل اس کے کہ آریہ اپنا اثر جمانے کی کوشش کریں لوگوں کو پہلے سے ان کے خلاف پوری طرح تیار کر لیا جائے تاکہ آریہ وہاں پاؤں جماہی نہ سکیں.یہ تجویز چونکہ نہایت معقول تھی اس لئے میں نے فورا انہیں حکم بھیج دیا کہ اس پر عمل کیا جائے چنانچہ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہاں دو قسم کے قلعے بن گئے ایک تو وہ قلعے تھے جن پر آریوں کا قبضہ تھا لیکن دوسرے قلعے ایسے تھے جو ہمارے آدمیوں کے قبضہ میں تھے وہاں کے لوگ آریوں کو اپنے گاؤں میں گھنے نہ دیتے اور نہ ان کے قریب میں آتے.اس طریق سے آریوں کے راستے مسدود ہو گئے، اور ان کی ترقی رک گئی.لیکن اگر ہم بھی دوسرے مولویوں کی طرح آریوں کے پیچھے پیچھے جا کر تبلیغ کرتے تو ظاہر ہے کہ وہی شکست جو انہیں ملی ہمیں بھی نصیب ہوتی.پس اللہ تعالی نے ہمیں ایک گر بتایا ہے کہ جس پر چل کر انسان نقصان نہیں اٹھاتا اور وہ گر یہ ہے کہ مستقبل کی فکر کرو..اگر ماضی کے خطرات کی طرف نگاہ دوڑاؤ گے تو اس سے کوئی فائدہ حاصل نہیں ہو گا.اور اگر تمہارا حال بھیانک ہے اور تم اس کی فکر میں لگ جاؤ گے تو وہ تمہاری ساری طاقتوں کو زائل کر دے گا.چاہئے یہ کہ ماضی اور حال کی الجھن سے نکل کر اپنا مستقبل سنوارنے کی کوشش کی جائے.میرے پاس چند دن ہوئے ایک سکھ آیا اس نے کہا کہ نیکی کے معاملہ میں
خطبات محمود سم اسم بڑی دقت کا سامنا کرنا پڑتا ہے نفس ایک چیز کا مقابلہ کرتے کرتے ہار جاتا ہے اور انسان برائی کر بیٹھا ہے.میں نے بتایا کہ انسان اس لئے ناکام رہتا ہے کہ وہ ہمیشہ حال کے جھگڑے میں پڑا رہتا ہے.میں نے کہا کوئی حال جو بیسیوں ماضیوں کے بعد پیدا ہوتا ہے کس طرح درست ہو سکتا ہے جب تک اس کے پیچھے اچھے مانیوں کی طاقت نہ ہو اس لئے تم حال کو بھول جاؤ اور آئندہ کے لئے نیکی کی نیت کر لو تاکہ تمہارے دشمن نے تمہارے خلاف جو قلعے تعمیر کر رکھے ہیں تم مستقبل میں نیکی کی نیت کر کے اس کے خلاف قلعے تعمیر کر لو.جب تم مستقبل میں نیکی کی نیت کر لو گے تو دیکھو گے کہ تمہارے قلعے دشمن کے قلعے کے مقابلہ میں مضبوط ہوتے چلے جائیں گے اور ایک وقت ایسا آجائے گا کہ تم دشمن پر غلبہ پالو گے.آگے اللہ تعالیٰ نے گر بتائے ہیں کہ مستقبل کو کس طرح درست کیا جا سکتا ہے چنانچہ فرمایا وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللهَ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ.نہ یعنی چاہئے کہ اعمال کو انسان کی خاطر کرنے کی بجائے خدا کی خاطر کرو.جب تم ایسا کرو گے تو اللہ تعالیٰ تمہاری ڈھال بن جائے گا اور جب خدا تعالیٰ تمہاری ڈھال بن جائے گا تو وہ کب پسند کرے گا کہ بدی کے تیر تم پر گریں وہ تمہاری ہر طرح سے حفاظت کرے گا اور تمہیں ہر بدی سے بچائے گا کیونکہ اللہ ہی انسانی اعمال سے پوری طرح واقف ہے.انسان تو یہی کر سکتا ہے کہ نیت درست کرے پس تم نیتیں درست کر لو وہ تمہارے اعمال کو درست کر دے گا اس طرح تمہارا مستقبل درست ہو جائے گا اور تمہارے قدم مضبوط ہو جائیں گے.نکاح بھی ان ہی اعمال میں سے ہے جو انسان کے مستقبل پر اثر ڈالتے ہیں اس لئے رسول ر کریم ﷺ نے اس آیت کا نکاح کے لئے انتخاب فرمایا جس کا مقصد یہ ہے کہ اس عمل میں بھی نیتوں کو خدا کے سپرد کر دو تاکہ تمہارے اعمال کے نتیجہ میں تمہارا مستقبل نہایت شاندار ہو.پس نکاح کے نتیجہ میں اگر اعلیٰ درجے کی اولاد پیدا ہو تو نکاح کرنے والا مرد اور عورت اگر وہ زندہ ہوں تو کتنے خوش ہوتے ہوں گے.اور اگر وہ اس وقت فوت ہو جائیں تو ان کی رد میں کس قدر مسرور ہوتی ہوں گی.مکہ میں زندگی بسر کرنے والے والدین رسول کریم کی ارواح کو جب یہ علم دیا جاتا ہو گا کہ رسول کریم اے اور آپ کے صحابہ کے ذریعہ دنیا کو کتنی عظیم الشان نعمت ملی تو انہیں کتنی خوشی ہوتی ہوگی اور وہ کتنا فخر کرتے ہوں گے.خاوند کی روح بیوی کی روح سے کہتی ہوگی دیکھو ہمارا اتحاد کس قدر با برکت ثابت ہوا اور
خطبات محمود ۴۱۵ جلد سوم بیوی کی روح خاوند کی روح کو سنارہی ہوگی کہ دیکھو ہمارے اتحاد کا کتنا شاندار نتیجہ نکلا.یہ خطبہ پڑھنے کے بعد حضور نے اعلان نکاح کرتے ہوئے فرمایا فریقین میں یہ شرط قرار پائی ہے کہ بصورت تبدیلی عقائد احمدیت مولوی عبد السلام صاحب یا ان کی عدم پابندی مذہب یا ان کی عدم ایفاء حقوق زوجہ مسلمہ خاتون کی درخواست پر خلیفہ وقت کو اختیار ہو گا کہ نکاح فسخ کردیں.له الفضل -۲۲ اپریل ۱۹۳۷ء صفحه ۱ الفضل ۲۳ اپریل ۱۹۳۷ء صفحه ۵۷۴) که بخاری کتاب الایمان باب ما جاء ان الاعمال بالنية والحسبة ولكل امرىء مانوى.ه الحشر : 19 سے اپنے لئے آسمان پر مال جمع کرو جہاں نہ کیڑا خراب کرتا ہے" (متی باب ۶ آیت ۲۰ بائبل سوسائٹی انار کلی لاہور مطبوع (۱۹۹۴ء) م الصف : ۱۳ الحشر : ۱۹
خطبات محمود ۴۱۶ ۱۰۳ جلد سوم نیکی اور اس کے طبعی نتائج فرموده ۱۸ جون ۱۹۳۷ء) ۱۸.جون ۱۹۳۷ء حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے بعد نماز عصر دو نکاحوں کا اعلان فرمایا سے خطبہ مسنونہ کی تلاوت کے بعد فرمایا :- دنیا میں دو قسم کے خیالات نیکی کے متعلق رائج ہیں.ایک خیال یہ ہے کہ نیکی نیکی کی خاطر کرنی چاہئے اور اس قسم کی نیکی میں بدلہ کا سوال ہرگز دل میں نہ آنا چاہئے ورنہ وہ نیکی برباد ہو جاتی ہے.دوسرا بعض لوگوں کا خیال ہے کہ نیکی کے بدلے میں جزاء کا پیش کرنا یا جزاء کی امید رکھنا یا جزاء کی امید دلوانا کوئی بڑی بات نہیں بلکہ جائز اور درست ہے.یہ دونوں خیالات نیکی کے متعلق اس زمانہ میں خصوصیت کے ساتھ زیر بحث آتے ہیں.یورپ کے فلسفی ہمیشہ یہ سوال کرتے ہیں کہ نیکی کے بدلہ میں جزاء کا پیش کرنا یا جزاء کی امید رکھنا یا امید دلانا انسان میں لالچ پیدا کرتا ہے اور اسے حریص بناتا ہے.یعنی جو شخص جزاء کو سامنے رکھ کر نیکی کرتا ہے وہ لالچی اور حریص ہے اور جو شخص کسی نیکی کے بدلے میں امید دلاتا ہے وہ گویا اس آدمی میں حرص اور لالچ پیدا کرنے والا ہے.اسی فلسفیانہ خیال کو لے کر عیسائی پادری اسلام پر حملہ آور ہوتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اسلام کی بیان کی ہوئی نیکی کی تعریف انسان میں لالچ پیدا کرتی ہے اور جو اصول اسلام نے نیکی کے متعلق پیش کئے ہیں وہ انسان میں حرص پیدا کرتے ہیں یا ایسے امور کی طرف انسان کو لاتے ہیں جو حرص پیدا ہونے کا باعث ہوتے ہیں.بالعموم دیکھا جاتا ہے کہ مسلمان نوجوان اس خیال سے متأثر ہوتے ہیں اور سمجھتے ہیں یہ
خطبات محمود ۴۱۷ جلد سوم ہمارے مذہب کی کمزوری ہے لیکن اگر ہم غور سے دیکھیں تو یہ بالکل لغو اور باطل خیال نظر آتا ہے.جن لوگوں نے یہ فلسفہ پیش کیا ہے وہ نیکی کی یہ تعریف کرتے ہیں کہ نیکی وہ ہے جس سے زیادہ فائدہ زیادہ وجودوں کو حاصل ہو.فلسفی لوگ چونکہ خدا کے وجود پر اعتقاد نہیں رکھتے بلکہ ان کا زیادہ تر اعتبار طبیعات اور مادیات پر ہوتا ہے اس لئے ان کے نزدیک جو نیکی کی تعریف ہے وہ بہت ادنی ہے.انگریزی میں نیکی کو GOOD کہتے ہیں اور GOOD کی تعریف وہ یہ کرتے ہیں جس کام کے کرنے کا زیادہ فائدہ ہو اور وہ فائدہ زیادہ وجودوں کو پہنچے.اب ایک طرف اس تعریف کو دیکھا جائے اور دوسری طرف اس خیال کو جو یورپین فلسفی نیکی کے متعلق پیش کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ خیال کس قدر احمقانہ اور جاہلانہ ہے.تعریف وہ یہ کرتے ہیں کہ نیکی وہ ہے جس کا زیادہ فائدہ ہو اور زیادہ وجودوں کو فائدہ پہنچے مگر فلسفہ یہ بیان کرتے ہیں کہ نیکی اگر کسی بدلہ کی امید پر کی جائے تو وہ نیکی نہیں رہتی یہ دونوں باتیں کس قدر ایک دوسری کے خلاف ہیں.اس خیال کے ماتحت جب انسان نیکی کرنے کا فیصلہ کرے گا تو لازماً اس کے ساتھ جزاء کا سوال آجائے گا.یہ فلسفہ بعینہ ایسا ہی ہے جیسا کہ ہمارے ملک میں ڈرتال لوگوں کو وظیفہ بتاتے ہوئے کہتے ہیں اس کے ذریعہ جو چاہو گے ہو جائے گا مگر ساتھ ہی اس امر کا خیال رکھنا کہ دوران وظیفہ میں بندر کا خیال نہ آجائے.جب وہ جا کر وظیفہ کرتا ہے تو لازماً اسے بندر کا خیال آجاتا ہے اور وہ سمجھتا ہے چونکہ بندر کا خیال آگیا تھا اس لئے وظیفہ کا اثر نہیں ہوا.پھر وہ وظیفہ کرتا ہے اور پھر بندر کا خیال آجاتا ہے اور وہ اسی چکر میں پڑا رہتا ہے اور کبھی اس کی آرزو پوری نہیں ہوتی.یہی حال یورپین فلاسفروں کا ہے کہ ایک طرف تو وہ نیکی کی یہ تعریف کرتے ہیں کہ نیکی وہ ہے جس سے زیادہ فائدہ زیادہ سے زیادہ وجودوں کو پہنچے مگر دوسری طرف یہ کہتے ہیں کہ جزاء سامنے رکھ کر نیکی کرنے سے نیکی قائم نہیں رہ سکتی.گویا جس چیز سے انسان کو روکا جاتا ہے لازماً کرتے وقت اس کو اس کا خیال آجائے گا.اور اس طرح اس کی نیکی نیکی نہ رہے گی بلکہ اس اصل کے ماتحت کبھی بھی کوئی فعل نیکی نہیں کہلا سکتا کیونکہ نیکی کرتے وقت طور پر کسی نہ کسی رنگ میں بدلہ کا خیال آجاتا ہے اور اس خیال کا نہ آنا نا ممکن ہے.اگر نیکی کی یہی تعریف تسلیم کی جائے جو یورپین فلسفی کرتے ہیں تو کوئی شخص بھی نیکی نہیں کر سکتا اس لئے اس فلسفہ سے بدتر احمقانہ فلسفہ اور کوئی نہیں ہو سکتا.اسلام نے جو نیکی کا حقیقی فلسفہ بیان کیا ہے اس کے متعلق یورپین فلسفیوں کا یہ کہنا کہ وہ لالچ اور حرص پیدا کرتا ہے بالکل احمقانہ
خطبات محمود ۴۱۸ جلد سوم خیال ہے اسلام نے نیکی کے مدارج بیان کئے ہیں.مثلاً قرآن مجید میں آتا ہے.يُطْعِمُونَ الطَّعَامَ عَلى حُبّهِ مِسْكِينَا وَيَتِيمَا وَاسِيرًا - سے یعنی مومن کھانا کھلاتا ہے.مسکینوں، تیموں اور اسیروں کو ایسی حالت میں جب خود اس کھانے کی حاجت ہوتی ہے.یعنی باوجود احتیاج کے وہ یتیموں اور اسیروں کو کھانا کھلاتا ہے یہ وہ مقام ہے جہاں جس سے نیکی کی جاتی ہے اس سے بدلہ کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا.غریبوں اور مسکینوں کو جب مومن کھانا کھلاتا ہے تو اس وقت اس کا یہ جذبہ دوسرے تمام جذبات پر حاوی ہو جاتا ہے کہ وہ ان سے سلوک کرے.ہم روزانہ دیکھتے ہیں کہ بسا اوقات انسان پر ایسی حالت آجاتی ہے کہ اس کو سب کچھ بھول جاتا ہے اور صرف ایک امر کی طرف ہی اس کا خیال لگ جاتا ہے.مثلاً ایک بچہ پانی میں ڈوب رہا ہو تو اس کے ماں باپ سب کچھ بھول جائیں گے حتی کہ وہ یہ بھی بھول جائیں گے کہ انہیں تیرنا آتا ہے یا نہیں اور پانی میں کود پڑیں گے.اس وقت ان میں صرف یہی جذبہ ہوتا ہے کہ ہمارا بچہ بچ جائے.بعض اوقات ایسا ہوا کہ بچہ پانی میں ڈوب رہا ہے والدین اپنے جذبہ کے ماتحت پانی میں کود پڑے اور خود ڈوب گئے اور بچہ کو دوسرے لوگ زندہ نکال لائے.پس یہ مقام جب بھی آجائے اس وقت انسان بے اختیار ہوتا ہے اور مجبور ہوتا ہے کہ وہ فعل کر گزرے اور بے اختیاری کی حالت میں اس سے وہ فعل صادر ہوتا ہے.جب بچہ ڈوب رہا ہو اس وقت ماں باپ کو ہرگز یہ خیال نہیں آتا کہ ہمیں تیرنا نہیں آتا اگر انہیں اس بات کا خیال ہو کہ ہمیں تیرنا نہیں آتا تو وہ کبھی نہ کو دیں وہ سمجھتے بچہ تو ڈوب رہا ہے ہم تیرنا نہیں جانتے اگر ہم کو دے تو ہمارا بھی یہی انجام ہو گا.پس یہ حالت بے اختیاری کی ہوتی ہے.اس کی ایک مثال یہ بھی ہے کہ ایک دفعہ رسول کریم ﷺ نے ایک صحابی کے سپرد ایک مہمان کیا اور فرمایا اس کو گھر لے جاؤ اور اس کی خاطر کرو وہ صحابی اس مہمان کو گھر لے گیا ( اس وقت ابھی فتوحات نہیں ہوئی تھیں اور مسلمان بہت غربت کی حالت میں تھے.اس صحابی نے اپنی بیوی سے کہا کہ میں آج ایک مہمان لایا ہوں اس کی خاطر کرو.بیوی نے کہا گھر میں آج صرف ایک آدمی کا کھانا ہے.میں نے یہ سوچا تھا کہ ہم دونوں نہ کھائیں گے اور یہ کھانا اپنے بچوں کو کھلا دیں گے.یہ سن کر اس صحابی کو بہت صدمہ ہوا کیونکہ اس وقت صرف یہ جذبہ غالب تھا کہ مہمان بھوکا نہ رہے باقی سب جذبات بھول گیا.بیوی نے جب یہ حالت دیکھی تو اس نے کہا میں بچوں کو یونہی بہلا دوں گی اور وہ کھانا مہمان کو کھلا دیں گے.صحابی نے کہا جب مہمان کھانا کھانے لگے گا اور بچوں کو دیکھے گا تو
خطبات محمود چند موم ان کو بلا لے گا اور اس طرح ہمارا پردہ فاش ہو جائے گا.اس پر بیوی نے کہا میں بچوں کو ملا دوں گی.پھر صحابی نے کہا کہ اب ایک اور مشکل در پیش ہے اور وہ یہ کہ جب وہ کھانا کھائے گا تو ہم دونوں کو بھی کھانے کے لئے کہے گا ( اس وقت ابھی پردہ کا حکم نازل نہیں ہوا تھا) بیوی نے کہا میں نے اس کے لئے بھی تجویز سوچ لی ہے میں دیئے کی بتی چھوٹی رکھوں گی جب کھانا مہمان کے سامنے رکھ دیں گے اور وہ ہمیں کھانے پر بلائے گا تو آپ مجھے اس وقت کہیں کہ بھی اوپر کر دو اس وقت میں بجائے اوپر کرنے کے اور نیچی کر دوں گی اور اس طرح دیا بجھ جائے گا.اور ہم کہہ دیں گے کہ اب رات کا وقت ہے آگ ملنی مشکل ہے براہ مہربانی اندھیرے میں ہی کھانا کھالیں.پھر جب مہمان کھانا شروع کر دے گا تو ہم صرف منہ مارتے جائیں گے اور کھانا نہیں کھا ئیں گے.چنانچہ انہوں نے اسی طرح کیا بچوں کو بہلا کر سلا دیا، خود یونہی منہ ہلاتے رہے اور مہمان نے پیٹ بھر کر کھانا کھا لیا.دوسرے روز صبح وہ صحابی رسول کریم ان کی خدمت میں حاضر ہوا تو رسول کریم ﷺ اسے دیکھ کر ہنس پڑے اور فرمایا تمہاری رات والی حرکت پر خدا تعالٰی بھی عرش پر ہنسا تو میں کیوں نہ ہنسوں.پھر رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ رات مجھے اللہ تعالٰی نے بذریعہ وحی تمہارا سب حال بتا دیا تھا.سے یہاں خدا تعالیٰ کے بننے سے یہ مراد نہیں کہ اللہ تعالیٰ کا منہ ہے اور وہ ہنستا ہے بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کو اس صحابی کے اس فعل کی وجہ سے جو اس نے رات کیا.اس سے خاص محبت ہو گئی.اور اس کیفیت کے اظہار کے لئے رسول کریم ال نے بننے کا لفظ استعمال فرمایا.) دوسری مثال اس کی یہ ہے کہ جنگ احد میں رسول کریم ا نے بعض صحابہ کو میدان جنگ میں بھیجا کہ وہ زخمیوں کو دیکھیں اور جو زخمی قابل امداد ہوں ان کو مدد دیں.ایک صحابی زخمیوں کی دیکھ بھال کر رہے تھے کہ انہوں نے ایک انصاری کو دیکھا جو بہت زخمی تھے.اور ان کی آخری حالت تھی.صحابی نے کہا تمہارے بچنے کی کوئی امید نہیں اگر کسی کو کوئی پیغام دینا ہو تو دے دیں میں پہنچا دوں گا.انصاری نے کہا تم مجھ سے عہد کرو کہ واقعی میرا پیغام پہنچا دو گے.صحابی نے وعدہ کیا اور انہوں نے یہ پیغام دیا کہ میرے رشتہ داروں اور عزیزوں کو میرا یہ پیغام پہنچا دیں کہ رسول کریم اللہ ہم میں اللہ تعالی کی امانت ہیں جب تک ہم زندہ رہے ہم اپنی جانیں قربان کر کے محمد رسول اللہ ایک کی حفاظت کرتے رہے اب ہم جاتے ہیں اور اس امانت کو تمہارے سپرد کرتے ہیں اس کے لئے سب کچھ قربان کر دینا تمہارا فرض ہے.سے
خطبات محمود پر ۴۲۰ جلد یہ ایسی حالت تھی کہ جب کہ اکثر لوگوں کو اپنے مال کی فکر ہوتی ہے اپنی بیوی بچوں کی فکر ہوتی ہے مگر وہ انصاری اس وقت بھول گئے اپنی بیوی کے بیوہ ہونے کو ، وہ بھول گئے اس وقت اپنے بچوں کے یتیم ہونے کو اور بھول گئے اپنے روپیہ اور مال کی نگہداشت کو، اس وقت صرف محمد رسول اللہ ا ن کی حفاظت کا خیال ان کو تھا اور یہ جذبہ ان کے تمام جذبات پر غالب تھا.دوسری چیز يُطْعِمُونَ الطَّعَامَ عَلى حُبّهِ مِسْكِينًا وَيَتِيماً وَ اَسِيرًا - میں یہ ہے کہ انسان بعض اوقات اطعام طعام محبت کی وجہ سے کرتا ہے اور بعض وقت عادت کے طور پر پہلی صورت میں یہ فعل اس کا وقتی جذبہ کے ماتحت ہوتا ہے اور دوسری صورت میں بطور عادت ہوتا ہے یعنی بار بار ایک نیکی کرتا ہے یہاں تک کہ اس کو عادت ہو جاتی ہے اور عادتوں کا انسان ر بہت بڑا تصرف ہوتا ہے.ایک ہندو کا واقعہ ہے کہ وہ مسلمان ہو گیا ایک دفعہ مجلس میں بیٹھا تھا کہ کوئی ایسی بات ہوئی جس پر اہل مجلس نے اللہ اللہ کہنا شروع کر دیا مگر وہ رام رام کہنے لگ گیا.اس کے ساتھیوں نے اس سے دریافت کیا کہ تم تو مسلمان ہو گئے پھر رام رام کیوں کہتے ہو.اس نے جواب دیا اللہ اللہ داخل ہوتے ہوتے ہی داخل ہو گا اور رام رام نکلتے ہی نکلے گا.تو انسان عادت کے طور پر بھی کام کرنے لگ جاتا ہے اگر اس عادت کے پورا کرنے میں نیک ارادہ ہو تو وہ ثواب کا مستحق ہوگا اور اگر بد ارادہ ہو تو وہ عذاب کا مستحق ہوگا.یہ کیفیت چونکہ محنت اور کوشش سے پیدا کی جاتی ہے اس لئے یہ نہیں ہو سکتا کہ اس کو اس کی محنت کا بدلہ نہ ملے.وہ جب بھی عادت کے طور پر نیکی کرے گا اس پر جزاء مرتب ہوگی جب اس کا ارادہ نیک ہو گا اس کو ثواب ملے گا اور جب اس کا بد ارادہ ہو گا تو عذاب ہو گا.عادت انسان کو ثواب سے محروم نہیں کرتی.مثلاً ایک شخص نماز اس ارادہ سے پڑھتا ہے کہ اس کے ذریعہ سے روحانی ترقیات حاصل ہوتی ہیں اور نماز بدیوں سے محفوظ رکھتی ہے.اس کو نماز پڑھنے کا جس کا وہ عادی ہو چکا ہے ثواب ملتا رہے گا اور کسی ایک نماز کے ثواب سے بھی وہ محروم نہیں ہو گا.مگر اس کے برخلاف ایک شخص اس ارادہ کو لے کر نماز پڑھتا ہے کہ اسے محلہ کے لوگوں کے سامنے شرمندہ نہ ہونا پڑے.تو یہ نماز اس کے لئے بجائے فائدہ کے نقصان دہ ہوگی اور اسے عذاب کا مستحق قرار دے گی.غرض جس کام کے ساتھ نیک ارادہ ہو اس کی جزاء اچھی ہوتی ہے اور جس کام کے ساتھ
۳۱ جلد موم ہو ارادہ بد ہو اس کی جزاء اچھی نہیں ہوتی.مگر ایسا انسان جس کو بدی کی خبر ہی نہیں بلکہ جو کچھ وہ کرتا ہے ماں باپ کو دیکھ کر کرتا ہے اور اس کی اس کو عادت ہو گئی ہے وہ سزا کا مستحق نہیں سکتا.مثلاً ایک ہندو اور ایک عیسائی کو جو شراب پینے کے نسلاً بعد نسل عادی ہیں عذاب نہیں دیا جائے گا ہاں توحید کے نہ ماننے کی وجہ سے وہ عذاب کے مستحق ہوں گے.مگر ایک مسلمان کو جو شراب پیتا ہے ضرور سزا ملے گی کیونکہ اسلام میں اللہ تعالٰی نے شراب حرام قرار دی ہے.يُطْعِمُونَ الطَعَامَ عَلَى حُبّهِ مِسْكِينَا وَيَتِيماً وَاسِيرًا میں ضمیر اللہ تعالی کی طرف بھی جاتی.ہے بعض مئومنین خدا تعالیٰ کی محبت اور عشق میں اس قدر محو اور رنگین ہو جاتے ہیں کہ ان صفات کا ان سے ظہور ہونے لگتا ہے جو خدا تعالٰی میں ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام کے پاس ایک شخص نے ایک آدمی کے متعلق شکوہ کیا کہ وہ داڑھی نہیں رکھتا.آپ نے فرمایا ہم تو لوگوں کے قلوب کی اصلاح کرنے کے لئے آئے ہیں جب ان کو ہم سے محبت کامل ہو جائے گی تو پھر وہی کریں گے جو ہم کرتے ہیں اور ہماری طرح ڈاڑھی رکھ لیں گے.بعض دفعہ عارضی محبت بھی انسان میں نمایاں تغیر پیدا کر دیتی ہے.ایک مجسٹریٹ صاحب احمدی ہوئے تو مجھے کہنے لگے مجھے آپ کے کوٹ کا ناپ چاہئے آئندہ میں آپ کے کوٹ جیسا کوٹ پہنا کروں گا.ان کو عارضی محبت تھی کیونکہ بعد میں وہ احمدیت سے پھر گئے.لیکن مستقل محبت تو انقلاب عظیم پیدا کر دیتی ہے.مئومنین خدا تعالیٰ کی صفات ستار، باسط رحمان، رحیم، مهیمن واسع وغیرہ اپنے اندر پیدا کر لیتے ہیں اور عشق میں نہایت بلند مقام پر پہنچ جاتے ہیں.غرض نیکی کا انتہائی مقام جو یورپین فلسفی بیان کرتے ہیں وہ اسلام کا ابتدائی درجہ ہے.اسلام نے نیکی کے طبعی نتائج بھی بیان کئے ہیں.مثلاً نماز ہے اس کے متعلق اللہ تعالٰی فرماتا ہے.إِنَّ الصَّلوةَ تَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنكَرِ.شه کہ نماز فحشاء اور منکر سے روکتی ہے.پس فحشاء اور منکر سے روکنا نماز کا طبعی نتیجہ ہے.اسی طرح اللہ تعالٰی اور اس کے رسول کی اطاعت کا طبعی نتیجہ فوز عظیم بیان کیا گیا ہے جیسا کہ ان آیات میں ہے جو اس موقع پر پڑھی جاتی ہے اور جن میں تقویٰ پر زور دیا گیا ہے ایک آیت یہ ہے.وَمَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ فَازَ فَوْزًا عظيماً.ل یعنی جو اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرکے گا اور ان کے احکام کے مطابق اپنے عمل بنائے گا اسے فوز عظیم کا مقام حاصل ہو گا.اس میں مومن کو اعلیٰ مقام کی طرف کھینچ کر لانا مقصود ہے اور جب ایک شخص کو رسول کریم ﷺ کی اطاعت اور پیروی میں فوز عظیم '
خطبات محمود ۴۲۲ جلد سوم کا مقام حاصل ہو سکتا ہے تو رسول کا مقام تو یقینا اس سے بلند تر ہو جائے گا اور یہ وہ مقام ہے جہاں انسان کامل بن جاتا ہے اس لئے وہ فوز عظیم کا محتاج نہیں رہتا بلکہ وہ اتنا بلند مقام ہے کہ دو سروں کو فوز عظیم کے مقام پر پہنچاتا ہے.نے فریقین کا تعین نہیں ہو سکا.له الدهر : ٩ الفضل) ۲۴ جون ۱۹۳۷ء صفحه ۴ تا ۶) ه بخارى كتاب المناقب باب يؤثرون على انفسهم ولو كان بهم خصاصة ه الاستيعاب في معرفة الاصحاب - باد رف السين - جلد ۲ صفحه ۱۵۶ مطبوعہ بیروت ۱۹۹۵ء شه العنكبوت : ۴۶ له الاحزاب : ۷۲
خطبات محمود ۲۳ سوم جلد سوم خدا تعالیٰ ہی اچھے نتائج پیدا کرتا ہے (فرموده ۲۵ - جون ۱۹۳۷ء) ۲۵- جون ۱۹۳۷ء بعد نماز عصر حضرت خلیفۃ المسیح الثانی نے جناب سیٹھ عبد اللہ الہ دین صاحب سکندر آباد کی صاحبزادی زینب کے نکاح کا سات ہزار روپیہ مہر پر محمود الحسن صاحب کے ساتھ اعلان فرمایا.خطبہ مسنونہ کی تلاوت کے بعد فرمایا : انسانی زندگی کے نہایت ہی باریک در باریک اور پر اسرار امور میں سے ایک امر شادی ہے اور در حقیقت انسانی زندگی میں سب سے پیچ دار دنیوی چیز جو سکھ یا دکھ کا موجب ہوتی ہے وہ بیوی ہے.بیوی یا تو انسانی زندگی میں جسم اور روح کے لئے سکھ کا باعث ہوتی ہے یا دکھ کا موجب بن جاتی ہے اور مرد کے مرنے کے بعد خاندان کے لئے عزت و احترام اور آبرو کا موجب ہوتی ہے یا دائمی تردد اور رنج بن جاتی ہے.رسول کریم ﷺ نے فرمایا ہے کہ جنت ماؤں کے قدموں کے نیچے ہے اے بلکہ یہ ہے کہ ماں کی اچھی تربیت سے جنت مل جاتی ہے اور اگر ماں اچھی تربیت نہ کرے، بچہ کے اخلاق کی اصلاح نہ کرے، اس کو مذہب سے واقف نہ کرے تو اس کی حالت تباہ ہو جاتی ہے اور قطعاً ایسی ماں کے قدموں کے نیچے جنت نہیں ہوتی.بے شک باپ متقوم ہوتا ہے، قیم ہوتا ہے، نگران ہوتا ہے مگر وہ اکثر معیشت کی فکر میں گھر سے باہر رہتا ہے اور بہت کم وقت اسے گھر میں رہنے کے لئے ملتا ہے اور اس تھوڑے سے عرصہ میں وہ بچوں کی پوری نگرانی نہیں کر سکتا.بچے کی وہ عمر جس میں وہ نقال ہوتا ہے اور باتیں سیکھتا
خطبات محمود مهموم جلد سوم ہے پانچ چھ سال کی عمر ہوتی ہے اس وقت نہ تو باپ اس کی اصلاح اور نگرانی کر سکتا ہے اور نہ وہ اس عمر میں کسی استاد یا آداب سکھانے والے کے پاس جا سکتا ہے جس سے وہ اخلاق سیکھے صرف ماں جس کے پاس وہ ہر وقت رہتا ہے اس کی نگرانی کر سکتی ہے.اگر ماں بچے کے سامنے جھوٹ بولے گی تو بچہ بھی جھوٹ بولنا سیکھ لے گا اور اگر ماں چوری کرے گی تو بچہ بھی چوری کرنا سیکھ جائے گا اور اگر ماں دین سے بے پروائی اور غفلت اختیار کرے گی تو بچہ بھی دین سے بے پرواہ اور غافل ہو جائے گا.لیکن اگر ماں اس کے سامنے سچ بولے گی تو بچہ بھی سچ بولنے کا عادی ہو گا، اگر ماں دوسروں سے ملتے وقت اخلاق فاضلہ سے پیش آئے گی تو بچہ میں بھی اخلاق فاضلہ پیدا ہو جائیں گے ، اگر ماں غریبوں اور مسکینوں پر رحم کرے گی تو بچہ میں بھی رحم کا مادہ پیدا ہو جائے گا، اگر ماں دیندار اور تقویٰ شعار ہوگی تو بچہ بھی دیندار اور تقویٰ شعار ہو جائے گا غرض ماں کی تربیت پر ہی بچہ کے مستقبل کا انحصار ہوتا ہے اور رسول کریم ﷺ کے ارشاد کا کہ جنت ماں کے قدموں کے نیچے ہے یہی مطلب ہے کہ دنیا میں کئی مائیں ایسی ہوتی ہیں جو بچوں کی اچھی تربیت نہیں کرتیں بلکہ بجائے درست کرنے کے بگاڑ دیتی ہیں مذہب سے لا پرواہ بنا دیتی ہیں ایسی ماؤں کے قدموں کے نیچے جنت کا ہونا کوئی معنے نہیں رکھتا.جو اولاد ا چھی نہ ہو لوگ اس کی ماں کو برا کہیں گے اور اگر اولاد اچھی ہو تو لوگ اس کی ماں کی تعریف کریں گے کیونکہ ابتدائی تربیت جس کا اثر بعد کی زندگی پر پڑتا ہے ماں ہی کرتی ہے باپ کا نام اس لئے نہیں لیا جاتا کہ اسے نگرانی کے لئے موقع بہت کم ملتا ہے مگر ماں کو ہر وقت نگرانی اور اصلاح کرنے کا موقع ملتا رہتا ہے.وہ ہر وقت بچہ کے ساتھ رہتی ہے اور بچہ بھی ہر وقت ماں کی امداد کا طالب ہوتا ہے.بچہ ہر وقت اپنی ماں کا سلوک اور محبت دیکھتا ہے پھر وہی عادات جو اس کی ماں ہوتی ہیں خواہ اچھی ہوں یا بڑی اس بچہ میں پیدا ہو جاتی ہیں.انسانی زندگی میں شادی کو اسی لئے پوشیدہ قرار دیا جاتا ہے کہ اس کے ذریعہ انسان میں ایسا اہم تغیر پیدا ہو جاتا ہے جس کا بعد میں آنے والی زندگی پر بہت بڑا اثر پڑتا ہے.جن ملکوں میں مرد اور عورت ایک دوسرے سے واقفیت پیدا کر کے اور ایک دوسرے سے ملنے کے بعد شادی کرتے ہیں وہ اخلاق کو نہیں دیکھتے بلکہ یا تو حسن دیکھتے ہیں یا شہوت کو پورا کرنا ان کے مد نظر ہوتا ہے.خوبصورتی کا چونکہ طبائع پر گہرا اثر پڑتا ہے اس لئے وہ حسن کو ترجیح دیتے ہیں.
خطبات محمود ۴۲۵ یورپین مصنفین شادی کو راحت کہتے ہیں مگر طلاق کا ان میں اس قدر رواج ہے کہ ہم تو سن کر حیران رہ جاتے ہیں.کئی دفعہ انگریزوں سے مجھے اس مسئلہ پر گفتگو کرنے کا موقع ملا ہے.وہ یہی کہتے ہیں کہ انسان شادی اطمینان قلب کے لئے کرتا ہے اور کامل اطمینان اس صورت میں حاصل ہو سکتا ہے جبکہ مرد اور عورت ایک دوسرے سے شادی سے پہلے واقفیت پیدا کرلیں اسلام نے جو طریقے شادی کے متعلق بیان کئے ہیں وہ جہالت پر مبنی ہیں.جب یہ صحیح ہے کہ شادی راحت کے لئے کی جاتی ہے تو اب یہ دیکھنا ہے کہ حقیقی راحت یورپین لوگوں کی شادیوں میں نظر آتی ہے یا اسلام کے احکام کے ماتحت ہونے والی شادیوں میں اور اگر اسلامی احکام کے مطابق شادی کرنے میں راحت ہے تو پھر ہمیں اس سے کیا کہ وہ راحت جہالت میں ہے ہمیں تو حقیقی راحت سے مطلب ہے.جو سمجھدار ماں باپ لڑکے لڑکی کی شادی کرنے سے قبل مشورہ کرتے ہیں اور عقل سے کام لیتے ہیں ان کا مشورہ اگر اسلام کے بتائے ہوئے احکام کو مد نظر رکھ کر ہو تو اللہ تعالیٰ ان کو صحیح راستہ بتا دیتا ہے.باپ بیٹے سے مشورہ کرتا ہے اور اسلامی احکام کے ماتحت ضروری حالات اسے بتا دیتا ہے تو چونکہ باپ سے بڑھ کر بیٹے کا کوئی اور خیر خواہ نہیں ہو تا اس لئے سعادت مند بیٹا باپ کی بات مان لیتا ہے اور باپ کے انتخاب کو پسند کر لیتا ہے.چونکہ شادی کے نتائج بعد میں ظاہر ہونے والے ہوتے ہیں اور بعد میں ہونے والے واقعات کا دارو مدار گزشتہ حالات پر ہوتا ہے اس لئے شادی کا معاملہ بڑا پیچیدہ اور مشکل ہوتا ہے مگر اس کا حل قرآن مجید میں موجود ہے اور رسول کریم ﷺ نے شادی کے موقع پر جن آیات کا انتخاب فرمایا ہے ان میں آتا ہے اِنَّ اللهَ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ له الله تعالی فرماتا ہے کہ انسان کے مستقبل کے حالات ماضی کے حالات کا نتیجہ ہوتے ہیں اور میں چونکہ کلی طور پر ان حالات سے آگاہ ہوں اس لئے میں ہی ان کی اصلاح کر کے اچھا نتیجہ پیدا کر سکتا ہوں.ایک کام انسان دس سال پہلے کرتا ہے مگر نتیجہ دس سال کے بعد نکلتا ہے.نپولین اس وقت بھی نپولین تھا جب وہ بچہ تھا لیکن اس کی قابلیت کے نتائج اس وقت نکلے جب وہ جوان ہوا.ہمارے ملک میں مثل مشہور ہے.”ہو نہار بروا کے چکنے چکنے پات".سالہا سال ایک چیز کی تربیت کی جاتی ہے تب وہ اپنی اصل حالت پر آتی ہے.ایک موجد کی قابلیت کا سکہ اس وقت بیٹھتا ہے جب وہ بڑا ہو کر کوئی ایجاد مکمل کر لیتا ہے مگر تربیت اس کی بچپن سے ہی ایسی ہوتی ہے کہ وہ بڑا ہو کر قابل انسان ہے.یورپ کے فلسفی فرائڈ سے نے اس بات پر بحث کی ہے کہ
خطبات محمود ۴۲۶ جلد سوم انسان کے بچپن کے اثرات کا جوانی اور بڑھاپے میں جاکر اثر پڑتا ہے.اثرات دو قسم کے ہوتے ہیں ایک اچھے دو سرے برے برے اثرات کے نتیجہ میں ایسی بیماریاں پیدا ہو جاتی ہیں جو ایک لمبے عرصہ کے بعد ظاہر ہوتی ہیں.ان برے اثرات کو زائل کرنے کا طریق انہوں نے تجویز کیا ہے کہ مقناطیسی نیند سلا کر انسان کو سیمیکٹو مائنڈ (SUBJECTIVE MIND) یعنی مخفی اثرات کو جن کا اس پر اثر پڑ رہا ہوتا ہے معلوم کیا جائے اور انہیں مد نظر رکھتے ہوئے ان بیماریوں کا علاج کیا جائے.مگر ان اثرات کو جن سے وہ ماضی میں متاثر ہوا اور مستقبل میں وہ اس پر اثر ڈال رہے ہیں بجائے اس کے کہ ہم سائیکو انیلیسز PSYCHO) (ANALYSIS کے ذریعہ معلوم کریں اور ان کا علاج سوچیں اللہ تعالی جو خبیر ہے اور تمام پچھلے اعمال کو جانتا ہے اس سے کیوں نہ علاج کرائیں.فرائڈ یا فرائڈ کے شاگرد تو مسمریزم کے ذریعہ یا حواس مختل کر دینے کے ذریعہ ماضی کے اثرات کو ایک حد تک کم معلوم کر کے ان کا علاج کرتے ہیں حالانکہ ان کا ان اثرات کے متعلق PSYCHO ANALYSIS کے ذریعہ حاصل کیا ہوا علم یقینی نہیں ہوتا.مگر خدا تعالیٰ خبیر ہے اور ماضی کے تمام حالات کا یقینی علم رکھتا ہے.پس ہم بجائے فرائڈ یا اس کے شاگردوں کے پاس جانے کے کیوں نہ خدا تعالیٰ کی طرف جھکیں اور اس سے دعا کریں کہ الہی تو ہمیں ماضی کے بداثرات کے نتائج سے بچا.پس اس کی طرف جھکنا چاہئے اور اس سے امداد کا طالب ہونا چاہئے کہ اس کی ذات کو ماضی کا کامل ہے.غرض شادی کے موقع پر اِنَّ اللهَ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ کو مد نظر رکھو کیونکہ خدای سب گزشتہ اعمال سے واقف ہے اور اس کے حضور دعا کرو اور اسی سے مدد حاصل کرو.حقیقت یہ ہے کہ جب اسلامی احکام کے مطابق شادی کی جائے تو انسان کے لئے راحت ہوتی ہے اور شادی کے بہترین نتائج نکل سکتے ہیں.لے کنز العمال جلد ۱۶ صفحه ۴۶۱ روایت نمبر ۴۵۴۳۹ مطبوعہ حلب ۱۹۷۷ء ه الحشر : ۱۹ الفضل ۳۰- جون ۱۹۳۷ء صفحه ۵۷۴) SIGMUNDFRED(FROID(۶۱۸۵۷ - ۱۹۳۹ء)، آسٹرین.علم نفسیات کا ماہر
۴۲۷ ۱۰۵ خطبات محمود میاں بیوی کے رشتہ کی بنیاد اعتماد پر ہے (فرموده ۲۰.جولائی ۱۹۳۷ء) ۲۰.جولائی ۱۹۳۷ء مولوی محمد اعظم صاحب بو تالوی مولوی فاضل کا نکاح چار سو روپیه مهر پر مسلماة امتہ الحفیظ صاحبہ بنت پیر محمد عبد اللہ صاحب قریشی سے حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے پڑھا.لے خطبہ مسنونہ کی تلاوت کے بعد فرمایا : نکاح کے معاملہ میں شریعت نے تقویٰ اللہ پر زور دیا ہے.اس کی وجہ یہ ہے کہ نکاح اعتبار پر مبنی ہوتا ہے.مرد عورت پر کلی اعتبار کرتا ہے اور عورت مرد پر کلی اعتبار کرتی ہے.ایک دوسرے کے اموال ایک دوسرے کے قبضے میں ہوتے ہیں اور ایک دوسرے کی عزت ایک دوسرے کے ہاتھ میں ہوتی ہے.وہ ایک دوسرے کو آرام پہنچاتے ہیں اور اگر چاہیں تو ایک دوسرے کو نقصان بھی پہنچا سکتے ہیں.غرض دنیا کا صرف یہی ایک رشتہ ہے جو بے قانون کی حکومت کو چلا رہا ہے.اسلام میں اس بارہ میں قانون ہیں لیکن وہ قانون ابتدائی نیتوں کے متعلق ہیں یا پھر فسادات کے بارہ میں ہیں درمیانی عرصہ کے بارہ میں نہیں بلکہ رشتہ کا درمیانی عرصہ کامل اعتماد پر ہے.دنیا کے تمام کاموں میں شرطیں ہوتی ہیں ملازمت میں بھی بعض افسر اور ماتحت میں اور تعلیم میں بھی یعنی استاد اور شاگرد میں لیکن اس میں کوئی شرط نہیں ہوتی.نہ میاں کی طرف سے، نہ بیوی کی طرف سے، نہ اوقات کی پابندی ہوتی ہے نہ خدمات کی پابندی ہوتی ہے اور
خطبات محمود ۴۲۸ جلد سوم اس طرح بے شرط طور پر یہ رشتہ محبت کا موجب ہوتا ہے.لیکن اگر شرطوں سے اسے مقید کرو تو یہی رشتہ عذاب بن جائے.غرض چونکہ اس میں کوئی شرط نہیں ہوتی اور اس میں ایک دوسرے کو نقصان بھی پہنچایا جاسکتا ہے اس لئے شریعت نے تقویٰ پر زور دیا ہے کیونکہ یہ تعلقات بغیر اعتماد اور دل کی درستی کے نہیں چل سکتے.بالکل اسی طرح امام اور ماموم اور پیر اور مرید کا تعلق ہوتا ہے وہاں بھی شریعت نے کوئی حد بندی مقرر نہیں کی.جب تک اعتماد قائم ہے اس وقت تک یہ رشتہ بھی قائم ہے جب اعتماد نہ رہا تو یہ رشتہ بھی قائم نہیں رہتا.کئی جاہل اور احمق لوگ کہتے ہیں کہ ہمیں خلیفہ کی ذات پر اعتراض ہے ہم جماعت میں نہیں رہ سکتے.میں کہتا ہوں کہ یہ رشتہ بھی اعتماد پر مبنی ہے اگر اس اعتماد کو نکال لیا جائے تو بیعت نہیں رہ سکتی کیونکہ یہ ملازمت کا سوال نہیں کہ چھ گھنٹے کے بعد ملازم کا حق ہوتا ہے کہ وہ آرام کرے.کیا کوئی بیوی کہہ سکتی ہے کہ اب چونکہ اتنے گھنٹے وہ کام کر چکی ہے اس لئے اب بچوں کو جو رو رہے ہیں چپ کرانا خاوند کا کام ہے اس کے کام کا وقت گزر چکا ہے ؟ تو اعتماد والا رشتہ وہی ہوتا ہے کہ جس میں نہ صبح کے وقت کی پابندی ہوتی ہے نہ شام کی اور نہ ہی کوئی حد بندی ہوتی ہے اسی طرح امام اور متبع، خلیفہ اور مبائع میں اعتماد کا رشتہ ہے جب تک اعتماد قائم ہے یہ تعلق بھی قائم ہے اگر اعتماد ٹوٹ جائے تو یہ کہنا کہ لفظی طور پر یہ رشتہ قائم ہے بالکل غلط ہے.شکوک انسان کے دل میں پیدا ہوتے ہیں مگر ان کو حد بندی کے اندر رکھنا یہ اپنے بس کی بات ہے.اگر کوئی حد بندی میں نہیں رکھ سکتا تو وہ اس تعلق سے نکل گیا اور اگر ان کو اپنے دل کے اندر ہی رکھتا ہے اور لوگوں میں ان کا یہ پروپیگنڈہ نہیں کرتا تو کسی کو کیا معلوم کہ اس کے دل کے اندر کیا شکوک ہیں.پس اس سے فتنہ نہیں پھیلے گا کیونکہ ان کا علم صرف خدا کو ہوگا جس کا فیصلہ اللہ تعالیٰ قیامت کو کرے گا.لیکن جب وہ شخص دوسروں کو بتاتا ہے تو شک کی حدود سے نکل کر یہ پروپیگنڈا کی حد میں داخل ہو جاتا اور اس صورت میں یہ کہنا کہ میں بیعت پر قائم ہوں محض دھوکہ ہوتا ہے اور اس کا صاف مطلب یہ ہوتا ہے کہ جس کی میں نے بیعت کی ہے اس کو تھوڑا تھوڑا بد نام بھی کرتا ہوں.غرض ہر معقول سے معقول انسان ایسے شخص کو پاگل کہے گا خواہ وہ تھوڑا مخالفانہ پروپیگنڈہ کرے یا زیادہ.کہتے ہیں کسی ملا سے کسی نے دریافت کیا تھا کہ اگر کسی کی تھوڑی سی ہوا خارج ہو جائے تو کیا اس کا وضو ٹوٹ جائے گا؟ اس نے کہا
خطبات محمود ۴۲۹ جلد سوم ہاں.پھر اس شخص نے دوبارہ پوچھا کہ نہیں اگر ذرا سی ہوا خارج ہو جائے تو پھر بھی.اس نے کہا پھر بھی ٹوٹ جاتا ہے.پھر اس نے اپنی دونوں انگلیوں سے بتا کر کہا کہ اگر بالکل ذراسی ہوا خارج ہو جائے تو کیا پھر بھی وضو ٹوٹ جاتا ہے.اس پر ملا نے جھلا کر کہا کہ تیرے جیسے کا تو اگر پاخانہ بھی نکل جائے تو وضو نہیں ٹوٹتا.پس جب شکوک اعتراض کے مقام پر پہنچ جائیں اور پھر کوئی شخص کہے کہ میں بیعت میں شامل ہوں تو یہ پرلے درجہ کی حماقت ہو گی.شک کے مقام تک تو انسان بیعت میں شامل رہ سکتا ہے لیکن جب اعتراض کے مقام پر پہنچ گیا تو پھر کوئی بیعت نہیں خواہ تھوڑے اعتراض ہوں یا زیادہ.سکتا انہی دن ایک شخص کے متعلق مجھے معلوم ہوا کہ وہ لوگوں میں اپنے بعض اعتراضات کا پروپیگنڈہ کرتا ہے جس کے لئے میں نے ایک کمیشن مقرر کیا.جب کمیشن نے اسے بیان دینے کے لئے کہا تو اس نے کہا کہ چونکہ بیعت کے ذریعہ خلیفہ سے جو تعلق ہو جاتا ہے وہ ایک نازک تعلق ہے اس لئے میں کسی اور کے سامنے بیان دینے کے لئے تیار نہیں ہوں.انہوں نے مجھے بتلایا کہ وہ شخص یوں کہتا ہے تو میں نے کہا اگر کوئی شخص خط کے ذریعہ بیعت کرے تو کیا وہ کہہ ا ہے کہ چونکہ میں نے بیعت خط کے ذریعہ کی ہے اس لئے خط کے ذریعہ سے ہی جواب دے سکتا ہوں.جب اس کے متعلق شکایت ہے کہ اس نے دوسرے لوگوں کے سامنے مخالفانہ باتیں کیں تو اگر واقعی وہ اس تعلق کو نازک سمجھتا تھا تو اسے میرے ہی سامنے باتیں بیان کرنی چاہئیں تھیں.اس صورت میں بے شک سمجھا جاسکتا تھا کہ اس نے اس تعلق کی نزاکت کا خیال رکھا لیکن جب خود اس نے اس رشتہ کو توڑ دیا ہے تو کیا اب میرے منتخب شدہ آدمیوں کے سامنے وہ بات نہیں کر سکتا.وہ اس کی حماقت تھی یا اس کے دماغ میں نقص تھا.بہر حال بیعت کا تعلق واقعی نازک ہوتا ہے لیکن جو اس کی نزاکت تو ڑتا ہے وہی اس کا ذمہ دار ہوتا ہے.رسول کریم کے پاس ایک دفعہ ایک شخص نے ذکر کیا کہ میرے دل میں شکوک پیدا ہوتے ہیں لیکن میں ان کو دبا لیتا ہوں پھر پیدا ہوتے ہیں تو پھر میں ان کو دبا لیتا ہوں.آپ ا نے فرمایا یہی تو ایمان ہے.لہ پس شک کو دبا دینے کی صورت میں کوئی اعتراض نہیں.ظاہر کرنے سے مراد یہ ہے کہ وہ ان کی اشاعت کرتا ہے، اور گویا وہ اسی درخت پر تیر چلاتا ہے جس کی حفاظت کی اس نے قسم کھائی تھی.جو شخص یہ کام کرے اور کہے کہ ابھی میرا ایمان باقی ہے وہ پاگل ہے.جیسے کوئی مالی
خطبات محمود ۳۰م جلد سوم اپنے باغ کے درختوں کو ہی کاٹنا شروع کر دے اور ساتھ ساتھ یہ بھی کہے کہ میری دیانت میں کوئی فرق نہیں آیا تو وہ پاگل سمجھا جائے گا کیونکہ پھر بد دیانتی کس کا نام ہے؟ میاں بیوی کے رشتہ میں بھی یہی بات ہوتی ہے.رسول کریم ﷺ نے میاں بیوی کو یہاں تک ہدایات دی ہیں کہ جب کوئی عورت اپنے میاں کی محبت کی گھڑیوں کی بات سہیلیوں سے کرتی ہو تو فرشتے اس پر لعنت ڈالتے ہیں.سکے تو باوجود اس بات کے سچا ہونے کے پھر بھی فرشتے اس پر لعنتیں ڈالتے ہیں.غرض میاں بیوی کے تعلقات نہایت اہم ہوتے ہیں لیکن وہ شرائط کے ساتھ نہیں ہوا کرتے.لوگ عام طور پر شرطیں لگاتے ہیں کہ مر کتنا ہو گا، جیب خرچ کتنا ہو گا، لیکن اس سے تعلقات درست طور پر نہیں رہتے اسی طرح بیعت میں بھی شرطیں نامناسب ہوتی ہیں اور اگر کوئی شرطیں کرے تو اس کی بیعت حقیقی بیعت نہیں کہلا سکتی.الفضل ۲۸ اگست ۱۹۳۷ء صفحه (۵۴) له الفضل ۲۸ - جولائی ۱۹۳۷ء صفحه ۲ م م م
ی محمود ۴۳۱ جلد سوم استخارہ عام اور استخارہ خاص (فرموده ۲۶ - جولائی ۱۹۳۷ء) ۲۶.جولائی ۱۹۳۷ء حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے میاں محمد حنیف صاحب ولد ڈاکٹر محمد ابراہیم صاحب پیشنر ساکن سٹروعہ ضلع ہوشیار پور کا نکاح محترمہ ہاجرہ بیگم صاحبہ ہمشیرہ مولوی ابو العطاء صاحب جالندھری سے مبلغ - / ۵۰۰ روپے مہر پر پڑھائے خطبہ مسنونہ کی تلاوت کے بعد فرمایا : نکاح کی وہ عبارات جو مسنون ہیں اور جو رسول کریم ا نکاح کے موقع پر ہمیشہ تلاوت فرمایا کرتے تھے اپنے اندر ایسے ہی وسیع مطالب رکھتی ہیں جیسا کہ نکاحوں کے نتائج وسیع ہوتے ہیں.بظاہر نکاح ایک چھوٹی سی چیز ہے ایک مرد آتا ہے اور جائز ذریعہ سے دوسرے گھر کی ایک عورت اپنے ساتھ لے جاتا ہے.لیکن اگر ہم غور سے دیکھیں تو بعض نکاح اتنی اہمیت اختیار کر لیتے ہیں کہ ان کی اہمیت دنیا کے اہم ترین واقعات پر حاوی ہو جاتی ہے.دنیا میں مختلف قومیں ہیں جن کو اپنی قومیت پر فخر ہے مثلاً سادات ہیں یہ ایک نکاح کا ہی نتیجہ ہیں.جب ایک انسان یہ کہتا ہے کہ میں سید ہوں تو درحقیقت وہ ایک لمبا عرصہ قبل کے ایک نکاح کی طرف اشارہ کرتا ہے اور کہتا ہے کہ میں اس انسان کی اولاد میں سے ہوں جس نے رسول کریم ان کی بیٹی حضرت فاطمہ رضی اللہ عنھا سے شادی کی تھی اسی طرح ایک قریش قوم سے تعلق رکھنے والا جب یہ کہتا ہے کہ میں قریشی ہوں تو وہ بھی ایک شادی کی طرف اشارہ کرتا ہے.پھر قوموں کے علاوہ ہم خاندانوں کو دیکھتے ہیں تو ان کی عزتیں اور مراتب بھی نکاحوں پر مبنی ہوتے ہیں.بعض
خطبات محمود ۴۳۲ جلد سوم مرد اعلیٰ قابلیتوں اور اعلیٰ طاقتوں والے ہوتے ہیں جن کی اعلیٰ قابلیتوں اور اعلی طاقتوں والی عورتوں سے شادی ہو جاتی ہے اور ان سے جو اولاد پیدا ہوتی ہے ان میں وہی لیاقت، وہی نم، وہی زیر کی اور وہی ذہانت ہوتی ہے جو ان کے والدین میں ہوتی ہے.ایسے بچے جب بڑے ہو کر کے میدان میں آتے ہیں تو دوسروں کے لئے نمونہ بن جاتے ہیں، جب سیاست کے میدان میں آتے ہیں تو لوگ ان کی قابلیت دیکھ کر حیران رہ جاتے ہیں، جب صنعت و حرفت کے میدان میں آتے ہیں تو اپنی لیاقت کا سکہ لوگوں پر بٹھا دیتے ہیں، ان لوگوں کو تاریخیں محفوظ کر لیتی ہیں اور لوگوں میں ان کی تعریف کے چرچے ہوتے ہیں اور یہ سب کچھ نکاح کا نتیجہ ہوتا ہے.پس نکاح کے معاملہ میں انسان کو بہت زیادہ ہو شیاری سے کام لینا پڑتا ہے.لوگ جب بازار میں جاتے ہیں اور دکانوں سے سودا خریدتے ہیں تو کس قدر احتیاط سے کام لیتے ہیں.اگر تم میں سے کوئی پھل خرید نے جاتا ہے تو کس قدر ہو شیاری سے تم پھل ہاتھ میں اٹھاتے ہو، غور سے دیکھ کر اور چکھ کر پسند کرتے اور پھر قیمت دریافت کرتے ہو.برتن خرید نے جاتے ہو تو اس کو بجا کر دیکھ لیتے ہو کہ کہیں اس میں کوئی نقص تو نہیں، کپڑا خریدنے جاتے ہو تو کھینچ کر دیکھتے ہو کہ کہیں پرانا تو نہیں، اس کا نمبر دیکھتے ہو ، کار خانہ کا نام جس میں وہ کپڑا تیار ہوا ہو دریافت کرتے ہو، تین چار اور دکانداروں سے اس کپڑے کی قیمت پوچھ کر موازنہ کرتے ہو ان سب باتوں کے بعد کپڑا خریدتے ہو.تو جس قدر ان اشیاء کے خریدنے میں لوگ ہوشیاری سے کام لیتے ہیں اس سے بڑھ کر شادی کے معاملہ میں ہوشیاری سے کام لینا چاہئے کیونکہ شادی کے نتائج بہت زیادہ اہمیت رکھتے ہیں.شادی کے معاملہ میں اکثر حصہ مردوں کا ان امور کی طرف خاص طور پر خیال نہیں کرتا جن کی طرف توجہ کرنی ضروری ہوتی ہے.بعض لوگ صرف شکل دیکھتے ہیں حالانکہ شکل کا اثر آئندہ زمانہ پر کچھ نہیں پڑتا.ایک عورت کے پوتے یہ نہیں جاسکتے کہ ہماری دادی کی شکل موجودہ شکل سے پہلے کیا تھی.فرانس میں ایک لطیفہ مشہور ہے ایک لڑکا تھا جو اپنی دادی کے کمرہ سے اس کی بعض چیزیں اٹھا لے جایا کرتا تھا.ایک دن اتفاقاً اس لڑکے کو ایک چھوٹی سی تصویر مل گئی جو اسے بہت پسند آئی وہ اسے اٹھا کر لے گیا اس کے بعد اس نے گھر آنا کم کر دیا لڑکوں کے ساتھ کھیلنا چھوڑ دیا وہ اکیلا جنگل میں چلا جاتا اور سارا دن وہیں گزارتا.باپ نے جب اپنے لڑکے کی یہ حالت دیکھی تو اسے فکر لاحق ہوا کہ میرے بچے کو کیا ہو گیا ہے.آخر اس نے ڈاکٹر
محمود ۳۳ موم جلد موسم کو بلایا ڈاکٹر نے کہا کہ اس کی طبیعت پر کچھ بوجھ ہے.باپ نے اس کا علاج شروع کر دیا لیکن کچھ فائدہ نہ ہوا.ایک دن لڑکے کی دادی کو اس تصویر کی ضرورت پڑی وہ تلاش کرتی رہی مگر اسے نہ ملی آخر اس لڑکے کے ہاتھ میں اس نے وہ تصویر دیکھی اور اسے کہا کہ تم بڑے نالائق ہو جو میری تصویر اٹھا لائے ہو.اس نے زور سے اس بچہ کا ہاتھ بھینچا اور کہا کہ یہ تصویر مجھے دے دو.جونہی اس نے بچہ کا ہاتھ دبایا وہ بیہوش ہو کر گر گیا باقی لوگ گھر کے اسے ہوش میں لانے کے لئے کوشش کر رہے تھے مگر دادی اس کے ہاتھ کو مروڑ رہی تھی کہ کہیں تصویر ضائع نہ ہو جائے.یہ کیفیت دیکھ کر بچہ کی والدہ نے اسے کہا کہ بچہ بے ہوش پڑا ہوا ہے یہ معمولی چیز ہے کیا ہوا اگر اس کے پاس ہے.بچہ کی دادی نے کہا کہ یہ تصویر میری جوانی کے زمانہ کی ہے کیا میں دوبارہ جوان ہو سکتی ہوں کہ اس تصویر کو اس کے ہاتھ میں رکھ کر ضائع کر دوں.بچہ اس وقت ہوش میں آ رہا تھا جونہی اس نے دادی کے منہ سے یہ فقرہ نا کہ یہ میری جوانی کے زمانہ کی تصویر ہے جھٹ اس نے یہ تصویر پھینک دی اور تعجب سے کہا کہ کیا یہ تمہاری ہے.در اصل بات یہ تھی کہ اس کو معلوم نہ تھا کہ یہ تصویر اس کی دادی کی ہے بلکہ اس کے ذہن میں یہ خیال سمایا ہوا تھا کہ یہ کیسی خوبصورت لڑکی کی تصویر ہے جس کے متعلق وہ چاہتا تھا کہ اس سے شادی کرے.اس کی دادی کی تصویر اور اس کے بڑھاپے کی حالت میں بڑا فرق تھا.اس کے رخسار اندر کو گھس گئے تھے بال سفید ہو گئے تھے بلکہ وہ گنجی ہو گئی تھی کمر کبڑی ہو گئی تھی مگر اس کے پوتے نے اپنے ذہن میں یہ اندازہ لگایا کہ ایک نوجوان خوبصورت لڑکی کی تصویر ہے میں اس سے شادی کروں گا.تو شکل کچھ چیز نہیں ایک عرصہ کے بعد شکل بدل جاتی ہے.پوتے، پڑپوتے اپنی دادی اور پڑدادی کی ابتدائی شکلوں سے ناواقف ہوتے ہیں.بچے حقیقت میں یہ سمجھتے ہیں کہ ہمارے ماں باپ کی شکلیں ابتداء سے اسی طرح کی ہیں.وہ سمجھ ہی نہیں سکتے کہ ہمارے ماں باپ کی شکلیں پہلے اور تھیں اور اب بدل گئی ہیں اور وہ نہیں سمجھتے کہ بڑے ہو کر ان کی شکلیں بھی بدل جائیں گی.غرض شکل کچھ چیز نہیں کہ اس کو شادی کے معاملہ میں اہمیت دی جائے.ایسا ہی علم بھی شادی کے معاملہ میں کیا اہمیت رکھتا ہے.ہزاروں ایسے عالم گزرے ہیں جن کی اولادوں میں علم نہیں تھا بلکہ بعض ایسے عالم بھی ہوئے ہیں جو اپنے علم کے باعث بہت مشہور تھے مگر ان کی اولادیں بالکل جاہل تھیں.بعض ایسے جاہل ماں باپ بھی دیکھے گئے ہیں جن
مردم سلم سلوم جلد مو کی اولادیں علم میں ممتاز حیثیت رکھتی ہیں.پس معلوم ہوا کہ مرد اور عورت میں بعض خاصیتیں اور طاقتیں ہوتی ہیں جو پردہ خفا میں ہوتی ہیں جب وہ خفیہ صلاحیتیں آپس میں ملتی ہیں تو اس کے نتیجہ میں اعلیٰ درجہ کی اولاد پیدا ہوتی ہے اور پھر ان طاقتوں اور خاصیتوں کا ایک دو نہیں بلکہ دس میں پشتوں تک اثر چلا جاتا ہے.پس چونکہ طاقتیں اور خاصیتیں انسان میں مخفی ہوتی ہیں اور مرد و عورت اپنی قوتوں کو نہیں جانتے اس لئے خدا نے ہمیں یہ تعلیم دی ہے وَمَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ فَازَ فَوْزًا عظیما - لو کہ اس کے حصول کا ذریعہ یہ ہے کہ خدا اور اس کے رسول کی اطاعت کرو پھر جو مقصد شادی کرنے کا ہے وہ پورا ہو جائے گا.یعنی اللہ تعالیٰ وہ جو ڑا ملا دے گا جس کی ترکیب سے ایسی عمدہ اولادیں پیدا ہوتی ہیں.بے شک تلوار اچھی چیز ہے مگر اس وقت تک جب تک کہ وہ ایک ہنرمند سپاہی کے ہاتھ میں ہو ورنہ تلوار بغیر ہنرمند سپاہی کے بے مصرف بلکہ نقصان رساں ہے.اسی طرح ایک ہنرمند سپاہی بغیر تلوار کے کچھ نہیں کر سکتا جب یہ دونوں چیزیں یک جا ہو جا ئیں تب سپاہی کے جو ہر بھی ظاہر ہوتے ہیں اور تلوار کے بھی.یہی حال انسانوں کا ہے جب اعلیٰ خاصیتوں والی عورت اور اعلیٰ خاصیتوں والے مرد کا آپس میں تعلق ہوتا ہے تو اس سے اعلیٰ خاصیتوں والی اولاد پیدا ہو جاتی ہے بالعموم انسان اوسط درجہ کی نسل پیدا کرتا ہے اور جو ادنی درجہ کی نسل پیدا کرتا ہے اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ وہ جوڑا اعلیٰ نہیں ہوتا.بعض فطرتوں میں اور قسم کی خاصیتیں ہوتی نہیں اور بعض میں اور اس لئے رسول کریم نے فرمایا ہے الارواح جُنُودُ مُجَنَّدَةٌ- ہے کہ روحوں کی بھی قسمیں ہیں جہاں کوئی روح مطابق آتی ہے وہاں لگا دی جاتی ہے.یورپ میں ایک حد تک اس علم کا چرچا ہو گیا ہے.وہ آدمی اور اس کے بچہ کا خون لے لیتے ہیں.چونکہ ان کا خیال ہے کہ ایک نسل کا ایک ہی قسم کا خون ہوتا ہے اس لئے اس خون کے ذریعہ معلوم کرتے ہیں کہ آیا بچہ اسی آدمی کا ہے یا ولد الحرام ہے.جب خونوں میں فرق ہو تو فطرتوں میں بھی فرق ہوتا ہے.ہم بظاہر دیکھتے ہیں کہ بعض مرد اچھے نہیں ہوتے مگر ان کی اولادیں ایسی ہوتی ہیں کہ انہیں دیکھ کر حیرت ہوتی ہے اسی طرح بعض والدین لائق ہوتے ہیں مگر ان کی اولاد نالائق ہوتی ہے.اس کی یہی وجہ ہے کہ وہ جوڑے اچھے نہیں ہوتے.اگر ایک اعلیٰ خربوزہ اور ایک اعلیٰ ام لے کر پیوند لگا دیا جائے تو
خطبات محمود ۴۳۵ جلد سوم اس کا کچھ نتیجہ نہیں ہو گا کیونکہ پیوند کے لئے ہم جنس ہونا اور ایک دوسرے سے مشارکت رکھنا ضروری ہے.اسی طرح نکاح کے معاملہ میں ہونا چاہئے مگر چونکہ مشارکت اور ہم جنس ہونے کا علم انسان کو نہیں ہو تا بلکہ اس کا علم اللہ تعالٰی ہی جانتا ہے اس لئے انسان کو صرف اس کے حاصل کرنے کا ذریعہ بتایا ہے جو یہ ہے.مَن يُطِعِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ فَازَ فَوْزًا عَظِيمًا کہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت اور اس کے رسول کی اطاعت میں وہ ذریعہ انسان کو مل جاتا ہے.پس نکاح سے قبل استخارہ کر لینا چاہئے استخارہ دو قسم کا ہوتا ہے ایک استخارہ عام ہوتا ہے اور ایک استخارہ خاص - استخارہ عام پہلے کیا جاتا ہے اور استخارہ خاص بعد میں.مگر بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ وہ پہلے ایک عورت کو پسند کر لیتے ہیں اور پھر استخارہ کرتے ہیں ایسے استخارہ میں عموماً خیال کا اثر پڑ جاتا ہے اور وہ سمجھنے لگ جاتے ہیں کہ استخارہ ٹھیک ہوا لیکن اگر ان کا رحجان نہ ہو تو وہ اپنے خیال کے ماتحت سمجھتے ہیں کہ استخارہ الٹ پڑ گیا حالانکہ استخارے سیدھے اور الٹ نہیں پڑتے بلکہ ان کا خیال سیدھا اور الٹ پڑتا ہے جس سے وہ غلط نتیجہ اخذ کر لیتے ہیں.استخارہ نام یہ ہوتا ہے کہ قطع نظر کسی خاص شخصیت کے دعا کی جائے کہ اے خدا ہمارے - لئے ایسا جوڑا مہیا فرما جو جُنُودُ مُجَنَّدَةٌ.ہو.دو سرا استخارہ خاص اس وقت کیا جائے جب اس کا موقع آئے اور نام لے کر استخارہ کیا جائے اس طرح استخارہ عام استخارہ خاص کا محافظ ہو جاتا ہے.بعض لوگ پہلا استخارہ کر لیتے ہیں مگر دوسرا نہیں کرتے اور بعض دوسرا کرتے ہیں اور پہلا نہیں کرتے.چاہئے کہ دونوں استخارے کئے جائیں اس صورت میں نتیجہ صحیح لکھتا ہے.اس طرح شادی کرنے سے سو (۱۰۰) میں سے ساٹھ کو فائدہ ضرور ہوتا ہے.اور اگر ساٹھ کو فائدہ نہ ہو بلکہ اس سے کم ہو یہاں تک کہ دس فیصدی فائدہ ہو تو میرے نزدیک ۹۰ فیصدی کمی کو اولادیں پورا کر دیں گی اور وہ دس فیصدی فائدہ نوے کی حفاظت کا ذریعہ ہو جائے گا.الفضل ۱۲ اگست ۱۹۳۷ء صفحه (۵۴) له الفضل ۲۸ - جولائی ۱۹۳۷ء صفحہ ۲ ه الاحزاب : ۷۲ بخاری کتاب بدء الخلق باب الارواح جنود مجندة
خطبات محمود ۳ مهم 1.2.تقوی اللہ اور قول سدید اختیار کرنے کی نصیحت (فرموده ۲۶ - اگست ۱۹۳۷ء) ۲۶.اگست ۱۹۳۷ء حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے دو نکاحوں لے کا اعلان فرمایا :- خطبہ مسنونہ کی تلاوت کے بعد فرمایا :- انسان جب بلحاظ فہم و فراست اور بلوغت کمال کو پہنچ جاتا ہے تو اس کی کو ششیں دو دائروں میں محدود ہوتی ہیں، ایک دائرہ مستقبل کا ہوتا ہے اور ایک دائرہ ماضی کا ہوتا ہے.انسان کے دل میں کچھ امیدیں ہوتی ہیں جن کو وہ پورا کرنا چاہتا ہے اور کچھ ناکامیاں ہوتی ہیں جن کا ازالہ کرنا چاہتا ہے.کچھ چیزیں دور فضا میں ہوتی ہیں جنہیں وہ اپنے مطمح نظر کے مطابق دیکھتا ہے اور کچھ قید میں ہوتی ہیں جو اسے گزشتہ زمانہ کی طرف کھینچ کر لے جاتی ہیں اور اس کی رفتار کی تیزی کو کم کر دیتی ہے.یہ دو چیزیں ہیں جن میں سے ایک انسان کو ترقی اور بلندی کی طرف لے جاتی ہے اور دوسری اسے مشکلات میں ڈالتی اور ترقیات سے دور رکھتی ہے.ادھر انسان کو مستقبل کا خیال آتا ہے اور اپنی اصلاح کرنے لگتا ہے تو ادھر ماضی کا خیال اس کی اصلاح میں رکاوٹ پیدا کر دیتا ہے.غرض انسان مستقبل کو دیکھ کر اس پر فریفتہ ہو جاتا ہے اور اپنی زندگی کو اعلیٰ بنانا چاہتا ہے مگر جونہی اس کا خیال ماضی کے حالات کی طرف منتقل ہو جاتا ہے وہ مستقبل پر فریفتگی کو بھول جاتا اور ماضی کی الجھنوں میں گرفتار ہو جاتا ہے اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اس کا مستقبل بھی خراب ہونے لگ جاتا ہے.فرض کرو ایک چالیس سالہ گناہ گار آدمی کو تو بہ کرنے اور اپنی اصلاح کرنے کی توفیق ملتی ہے تو اس کو گزشتہ چالیس سال کا زمانہ بھی یاد آجاتا ہے جو
خطبات محمود ۳۷ جلد سوم اس کی ترقی میں حائل ہوتا ہے.وہ خود آگے بڑھنے کی کوشش کرتا اور مستقبل کو بہتر بنانے اور آئندہ اپنی اصلاح کرنے کی طرف متوجہ ہوتا ہے مگر معاً اس کو اپنا تاریک ماضی نظر آجاتا ہے اور پھر ایسا ماحول پیدا ہو جاتا ہے جو اس کی ترقی میں روک بن جاتا ہے اور یہ ماحول اس کو ایسا چمٹا رہتا ہے کہ قدم قدم پر اس کے لئے روکیں پیدا کر دیتا ہے.بعض معمولی باتیں ہوتی ہیں مگر ان کی اصلاح کے لئے بہت وقت کی ضرورت ہوتی ہے.بری عادتیں جب انسان چھوڑنا چاہتا ہے تو اس کو بڑی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے.بعض آدمیوں کو عادت ہوتی ہے کہ وہ تقریر کرتے وقت کندھا ہلاتے ہیں، بعض ہاتھ کو حرکت دیتے ہیں، بعض سارے جسم کو حرکت دیتے ہیں یہ عادتیں ہیں جو ان میں ابتداء سے ہنی پیدا ہو جاتی ہیں اور پھر جب وہ ان کو چھوڑنے کا ارادہ کرتے ہیں تو جلد ہی یہ عادتیں دور نہیں ہو جاتیں بلکہ ایسی عادتوں کو چھوڑنے کے لئے بہت وقت درکار ہوتا ہے.انگلستان میں ایک مشہور لیکچرار تھا جب وہ لیکچر دیتا تو کندھا ہلاتا رہتا جو لوگ تقریر سنتے وہ کہتے تقریر تو بہت اچھی تھی مگر کندھا ہلنے کی وجہ سے لوگوں کی توجہ تقریر سے ہٹ جاتی.آخر اس نے ارادہ کیا کہ اس عادت کو ترک کرے چنانچہ اس نے اپنے کمرہ کی چھت سے دو تلواریں دائیں بائیں لٹکا دیں اور اکیلا کمرہ میں داخل ہو کر اس نے لیکچر دینے کی مشق شروع کردی.دوران لیکچر میں جب بھی وہ کندھا ہلا تا تو تلوار اس کے کندھے کو لگتی جب دایاں کندھا حرکت کرتا تو دائیں طرف کی تلوار لگتی اور جب بایاں کندھا ہلتا تو بائیں طرف کی تلوار لگتی آخر ایک عرصہ اس طرح مشق کرنے سے اس کی عادت جاتی رہی.جب ایسی چھوٹی چھوٹی تو عادتوں کو دور کرنے کے لئے انسان کو بہت وقت دینا پڑتا ہے تو بڑی عادات کے ترک کرنے کے لئے کس قدر وقت درکار ہو گا.غرض مستقبل کو درست کرنے کے لئے انسان کے راستہ میں بہت سی مشکلات حائل ہوتی ہیں ایک طرف انسان اپنے اعمال درست کرنے کی فکر میں ہوتا ہے اور آئندہ کے لئے ترقی کی راہ پر گامزن ہونا چاہتا ہے مگر دوسری طرف اس کی عادت اس کے مستقبل کو خراب کر دیتی ہیں.یہ دو حالتیں دیسے تو ہر انسان کو پیش آتی ہیں مگر نکاح کے موقع پر نمایاں طور پر سامنے آجاتی ہیں.انسان شادی کے ذریعہ اپنے مستقبل کو درست کرنے کی طرف مائل ہوتا ہے مگر پچھلی عادات اور گزشتہ حالات جب اس کے اس ارادہ میں حائل ہو جاتے ہیں تو وہ گھبرا جاتا
خطبات محمود ۳۸م جلد سوم ہے.مگر اس کا حل قرآن مجید میں موجود ہے، رسول کریم ﷺ نے اس موقع پر تلاوت کرنے کا ارشاد فرمایا ہے.چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللهَ وقُولُوا قَوْلًا سَدِيدًا ، تُصْلِحُ لَكُمْ أَعْمَالَكُمْ وَيَغْفِرُ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ وَمَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَ رَسُولَهُ فَقَدْ فَازَ فَوْزًا عَظِيمًا لے کہ اے مسلمانو! تم جو نکاح اپنے مستقبل کو درست کرنے کے لئے کرتے ہو مگر اس میں ماضی کے حالات حائل ہو جاتے ہیں اور تم مستقبل کو درست نہیں کر سکتے اس کے ازالہ کے لئے ہم تمہیں دو طریق بتاتے ہیں.جن پر اگر عمل کرو گے تو اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ يُصْلِحُ لَكُمُ اعْمَالُكُمْ وَيَغْفِرُ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ.وہ تمہارے اعمال کی اصلاح کر دے گا اور تمہارے گناہوں کو معاف کر دے گا.يَغْفِرُ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ - فرما کر الله تعالی نے اس میں یہ بتایا ہے کہ وہ تمہاری ماضی کی حالت کو درست کر دے گا اور يُصْلِحُ لَكُم اَعْمَالَكُمُ.میں یہ بیان فرمایا ہے کہ وہ تمہارے مستقبل کو درست کر دے گا.یعنی آئندہ تمہارے اعمال نیک ہو جائیں گے.یہ دو راستے ہیں ایک مستقبل کا اور ایک ماضی کا.ماضی کا راستہ انسان کے اختیار میں نہیں ہوتا اور اس پر ایک پردہ پڑا ہوا ہوتا ہے انسان خود اس پردہ کو نہیں ہٹا سکتا لیکن مستقبل کا راستہ انسان کے اپنے اختیار میں ہوتا ہے اس لئے اللہ تعالٰی نے فرمایا : لايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللهَ وَقُولُوا قَوْلاً سَدِيدًا - کہ اے ایمان والو! اللہ کا تقوی اختیار کرو اور قول سدید اختیار کرو.اس آیت میں دونوں پہلو بیان کئے گئے ہیں.ماضی کا بھی اور استقبال کا بھی.ماضی کا پہلو چونکہ انسان کے قبضہ سے نکل جاتا ہے اس لئے اس سے بچنے کے لئے اللہ تعالٰی نے تقویٰ اللہ کو رکھا کہ ماضی کی مشکلات سے نکلنے اور گزشتہ گناہوں کو معاف کرانے کے لئے اللہ تعالیٰ کا تقویٰ اختیار کرو.اور اسے اپنی ڈھال بنا کر ماضی کے حالات سے لڑو.جب اللہ تعالٰی ڈھال بن جائے گا.تو پھر ماضی کے بداثرات کا اثر بھی جاتا رہے گا.ای طرح دوسرے پہلو سے بچنے کے لئے فرمایا.قُولُوا قَوْلاً سَدِيدًا کہ مستقبل کو درست کرنے کے لئے قول سدید اختیار کرو.اللہ تعالٰی نے اس آیت میں يُصْلِحُ لَكُم اَعْمَالَكُمْ وَيَغْفِرُ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ فيا كر يُصْNANON LEGENDANAT AL کو یعنی مستقبل درست کرنے کے پہلو کو مقدم کیا ہے.اور یا يُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللهَ وَقُولُوا قَوْلاً سَدِيدًا - میں
خطبات محمود کرکے ٣٩ سوم جلد سوم ماضی کے پہلو کو مقدم کیا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ انسانی ذہن کی تربیت کے لحاظ سے يُصلح لَكُمُ اعْمَا لَكُمْ وَيَغْفِرُ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ کے الفاظ بیان کئے گئے ہیں کیونکہ انسان پہلے مستقبل کو درست کرنے کا ارادہ کرتا ہے ماضی کے حالات بعد میں اس کے ذہن میں آتے ہیں اس لئے عمل صالح کو غفران ذنوب پر مقدم کیا گیا ہے.اسی طرح يَا يُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللهَ وَقُولُوا قَوْلاً سَدِيدًا - میں جو اتقوا الله یعنی ماضی کے پہلو کو مقدم کیا گیا ہے اور مستقبل کے پہلو کو موخر کیا گیا ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ خدا تعالی کی ترتیب ہے یعنی علاج کے طور پر چونکہ ماضی کا پہلو مقدم ہے اس لئے اس کو مقدم کیا گیا ہے اور مستقبل کا بعد میں ذکر کیا ہے.علاج میں پہلے بیماری دور کی جاتی ہے پھر کمزوری دور کرنے کے لئے ٹانک دوا دی جاتی ہے سوائے اس بیماری کے جو اپنی ذات میں اتنی غالب ہو جو مریض کو موت کے گھاٹ اتارنے والی ہو.پس خدا تعالٰی نے غفران کے لئے اتقوا اللہ رکھا ہے کہ گناہوں کے بخشوانے کے لئے اللہ تعالیٰ کا تقویٰ اختیار کرو یعنی اللہ تعالیٰ کو بطور ڈھال گناہوں کے مقابلہ میں رکھو تو خدا تعالیٰ خود ان کو دور کر دے گا.ماضی کے گناہوں سے محفوظ ہونے کی مثال ایسی ہی ہے جیسے کوئی شخص پہاڑ کے نیچے کھڑا ہو کر اوپر پہاڑ کی چوٹی پر کوئی پتھر پھینکے تو لازما وہ پتھر کچھ فاصلہ طے کرنے کے بعد اسی شخص کے پاس آجائے گا اور اس طرح کبھی بھی اس سے نہیں بچ سکے گا.مگر جب انسان خدا تعالیٰ کو ڈھال بنالے گا تو پھر خدا تعالیٰ اس پتھر کو راستہ میں ہی روک لے گا اور اس تک نہیں آنے دے گا.اسی طرح مستقبل کی درستی کے لئے قول سدید کو علاج رکھا ہے یعنی جب انسان تقوی اللہ اختیار کرنے سے محبت الہی دل میں پیدا کرتا ہے اور اس سے گزشتہ گناہ معاف ہو جاتے ہیں تو آئندہ کی اصلاح کا یہ علاج ہے کہ انسان قول سدید اختیار کرے.در اصل قُولُوا قَوْلاً سَدِيدًا کا مفہوم یہ ہے کہ اعمال کے متعلق ایسا پختہ فیصلہ کرو جس میں کسی قسم کا دھوکا و فریب نہ ہو.قول سدید سچائی سے بڑا درجہ رکھتا ہے سچائی میں بعض اوقات کمی رہ جاتی ہے مگر سداد میں سچ ہی سچ ہوتا ہے کسی قسم کی کمی نہیں ہوتی.پس صداقت اور سداد میں فرق ہے.صداقت کے صرف اتنے معنے ہیں کہ بات واقعہ کے مطابق ہو مگر سداد میں واقعہ کے مطابق ہونے کے علاوہ یہ بھی ہے کہ وہ صحیح بھی ہو.صداقت کے معنوں میں دوسرے شخص کا عیب بیان کرنا بھی آجاتا ہے اور ہم اس کے متعلق یہی کہیں گے کہ یہ سچ ہے مگر ہم اس کو قول سدید نہیں کہیں گے.چنانچہ رسول کریم ﷺ کے پاس ایک دفعہ ایک
خطبات محمود ۴۴۰ جلد موم شخص آیا اور اس نے عرض کیا.یا رسول اللہ ﷺ! میں ایک شخص کے متعلق سچی بات کہتا ہوں تو وہ گناہ کیسے ہو جاتی ہے ؟ رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ اگر بات سچ نہ ہو تو پھر وہ جھوٹ ہو گا لیکن سچ کہنے میں اس کا نام غیبت ہو گا اور یہ بھی ایک گناہ ہے.سہ پس غیبت کے متعلق ہم یہ تو کہہ سکتے ہیں کہ وہ سچ ہے مگر اسے قول سدید نہیں کہہ سکتے.علاوہ ازیں انسان کے اندر بعض عیوب ہوتے ہیں ان کا ظاہر کرنا گویچ ہو مگر قول سدید نہیں ہو تا جیسے ایک کانے کو کانا کہا جائے تو یہ سچ ہی ہو گا مگر قول سدید نہیں کہلائے گا کیونکہ قول سدید کے اختیار کرنے میں غیبت اور طنز دونوں ترک کرنے پڑتے ہیں.اور شریعت اسلامیہ میں هُمَزَ اور لمز دونوں منع ہیں.چنانچہ غیبت کرنے والے کو ہم کہیں گے کہ وہ سچ بولتا ہے مگر ساتھ ہی ہم یہ بھی کہیں گے کہ وہ ایک گناہ کا ارتکاب کر رہا ہے.ایک طنز کرنے والے شخص کے متعلق کو ہم یہ کہیں گے کہ وہ سچ بولتا ہے مگر ساتھ ہی یہ بھی کہیں گے کہ وہ ایک گناہ کا ارتکاب کر رہا ہے کیونکہ غیبت اور طنز عمل صالح نہیں اور عمل صالح قول سدید کے ذریعہ ہوتا ہے.پس قول سدید اور صداقت میں بڑا فرق ہے.قول سدید نیک عمل کو کہتے ہیں مگر ایسا نیک عمل جو نیک موقع پر اور نیک ذریعہ سے کیا جائے اس لئے جہاں اللہ تعالٰی نے نیکی کا ذکر کیا ہے وہاں عَمِلُوا الصلحت بھی فرمایا ہے یعنی کام بھی نیک ہو اور موقع بھی نیک ہو اور ذریعہ بھی نیک ہو.مثلاً نماز ہے سورج چڑھتے یا سورج ڈوبتے نماز نہیں پڑھی جاتی اور جو شخص ان دونوں وقتوں میں نماز پڑھے وہ شیطانی کام کرنے والا قرار پاتا ہے.اب گو نماز نیک عمل ہے مگر چونکہ طلوع شمس یا غروب شمس کے وقت نماز پڑھنا بے موقع فعل ہے اس لئے وہ عمل صالح نہیں کہلائے گا.عمل صالح موقع و محل پر نیک ذریعہ سے کام کرنے کا نام ہے.جیسا کہ کہتے ہیں فلاں چیز فٹ ہے.عمل صالح بھی وہ نیک عمل ہوتا ہے جو موقع کے لحاظ سے فٹ ہو.پس عمل صالح میں غیبت اور طنز شامل نہیں کیونکہ غیبت اور طنز کو صداقت میں شامل ہیں مگر چونکہ یہ دونوں صداقتیں بے موقع ظاہر کی جاتی ہیں اس لئے عمل صالح میں شامل نہیں سکتیں.غرض اللہ تعالی نے یہ نہیں فرمایا کہ سچ اختیار کرو بلکہ قول سدید کے اختیار کرنے کا حکم دیا ہے.سچ کے ذریعہ انسان اپنا مستقبل درست نہیں کر سکتا بلکہ مستقبل قول سدید کے ذریعہ درست ہو سکتا ہے.پس ماضی کے نقصانات سے بچنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں یہ علاج بتایا کہ تقویٰ اختیار کرو اور مستقبل کو درست کرنے کے لئے قول سدید اختیار کرنے کا ہو
خطبات محمود اسلام سلام جلد سوم حکم دیا.اس کے بعد اللہ تعالی اس کی تشریح کرتے ہوئے فرماتا ہے.وَمَنْ تُطِعِ اللَّهَ وَ رَسُولَهُ فَقَدْ فَازَ فَوْزًا عَظيما - کہ جو شخص اللہ تعالٰی کی اطاعت کرے گا اور اس سے حقیقی معنوں میں محبت کرے گا وہ کامیاب ہو جائے گا.چونکہ ماضی کے خطرات پر انسان کا قبضہ نہیں ہوتا بلکہ صرف اللہ تعالی کا قبضہ ہوتا ہے اس لئے ان خطرات سے بچنے کے لئے اللہ تعالٰی کی اطاعت اور اس سے محبت کی تعلیم دی.دوسری چیز مستقبل کو درست کرنا ہے مگر اس پر چونکہ انسان کا اختیار ہوتا ہے اس لئے مستقبل کو درست رکھنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے رسول کریم کی اطاعت کو ضروری قرار دیا.پس ماضی کے خطرات سے بچنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے تقویٰ اللہ اور اطاعت الہی کو علاج بتایا اور مستقبل کو درست رکھنے کے لئے قول سدید اور رسول کریم ﷺ کی اطاعت کرنے کی تلقین کی.لے فریقین کا تعین سے نہیں ہو سکا.ه الاحتراب : ۷۲۷۱ کے مسلم کتاب البر والصلة باب تحريم الغيبة (الفضل یکم ستمبر ۱۹۳۷ء صفحه ۵۰۴)
خطبات محمود لام سلام ۱۰۸ جلد سوم خالق کو اپنی امیدوں کا مرجع قرار دیں (فرموده ۳ ستمبر ۱۹۳۷ء) مکرم ملک عبد الرحمن صاحب خادم بی اے ایل ایل بی وکیل گجرات کا نکاح مسماة زمانی بیگم صاحبه عرف روزی دختر خان بهادر آصف زمان خان صاحب کلکٹر مرحوم سکنہ پیلی بھیت سے دس ہزار روپیہ مہر پر حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے ۳.ستمبر ۱۹۳۷ء کو بعد نماز عصر مسجد مبارک میں پڑھا.خطبہ مسنونہ کی تلاوت کے بعد فرمایا :- نکاح کے وقت انسان پر بہت سی ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں.اگر فریقین ان ذمہ داریوں کو سمجھیں تو نکاح یقیناً بہت بڑی رحمت اور انعام ثابت ہو سکتا ہے.رسول کریم ﷺ نے ہمیں نصیحت فرمائی ہے کہ حمد کامل صرف خدا تعالیٰ کے لئے ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ اگر اسی نسخہ کو ہر وقت سامنے رکھا جائے تو انسانوں کو ایک دوسرے سے شکوہ و شکایت کرنے کا موقع نہ ملے اور اگر ملے تو بہت کم.میں جب آب و ہوا کی تبدیلی کی غرض سے پہاڑوں پر جاتا ہوں تو کئی چیزیں جو گھر میں ضروری نظر آتی ہیں وہاں جاکر ضروری نہیں رہتیں.میرے ساتھ بالعموم ) افغان دوست ہوتے ہیں جن کو چائے پینے اور نسوار لینے کی عادت ہوتی ہے.پہاڑ پر یا سفر میں ان کی یہ عادت جاتی رہتی ہے یا کم از کم بہت حد تک کم ہو جاتی ہے حالانکہ ان کو آدھ آدھ گھنٹے کے بعد نسوار لینے کی عادت ہوتی ہے.یہ اس لئے کہ ان کو پہلے سے اس کا خیال ہوتا ہے کہ وہاں یہ چیزیں میسر نہ آئیں گی وہاں ان کو نہ تو چائے کی پیالیاں ملتی ہیں اور نہ نسوار ملتی ہے مگر
جلد سوم خطبات محمود ۴۴۳ ان کی طبیعت میں کبھی بھی شکوہ پیدا نہیں ہو تا کیونکہ ان کو ان چیزوں کے ملنے کی امید نہیں ہوتی اور وہ جانتے ہیں کہ یہ چیزیں ان کو میسر نہیں آئیں گی.مگر گھروں میں ان کو یہ چیزیں نہ ملیں تو شکوہ پیدا ہو گا کیونکہ وہاں ان کو امید ہوتی ہے کہ یہ میسر آجا ئیں گی.اسی طرح اگر ایک شخص کسی غیر آدمی کے گھر جائے اور وہ اس کی خاطر نہ کرے حتی کہ پانی بھی نہ پوچھے تو اس کو ہرگز شکوہ نہ ہو گا کیونکہ اسے اس آدمی پر امید نہ تھی.مگر وہی شخص اپنے کسی دوست کے گھر جائے اور وہ کسی قسم کی کوتاہی کردے تو خواہ دس رنگ میں اس کی خاطر و مدارات بھی کر دے اور صرف ایک رنگ میں اس کی خواہش پوری نہ کرے تو وہ اس سے شکوہ کرے گا.شخص: اس میں کوئی شک نہیں کہ تعلقات محبت کی وجہ سے ایک شخص کو دوسرے امیدیں ہوتی ہیں مگر ساری امیدیں صرف اللہ تعالی کے ذریعہ پوری ہو سکتی ہیں انسانوں کے ذریعہ پوری نہیں ہو سکتیں.مگر بعض لوگ اس اصل کو بھول جاتے اور انسانوں پر اپنی امیدیں لگا بیٹھتے ہیں اور اس کے نتیجہ میں وہ رنج اور تکلیف محسوس کرتے ہیں.شادی میں بھی اس اصل کو مد نظر رکھ کر میاں بیوی ایک دوسرے پر امیدیں رکھ لیتے ہیں.مرد اپنی بیوی کے متعلق سمجھتا ہے کہ وہ خوبصورتی میں پرستان کی پری سے بھی بڑھ کر ہوگی اور دنیا میں کوئی بھی عورت خوبصورتی میں اس کا مقابلہ نہیں کر سکے گی.اخلاق کے متعلق وہ یہ اندازہ لگاتا ہے کہ اس کے اخلاق اس قدر بلند ہوں گے کہ دنیا اس کی نظیر لانے سے محروم ہوگی اور وہ یہاں آکر سب کو اخلاق سکھلائے گی.اس کے کھانے پکانے کے متعلق اس کا یہ اندازہ ہوتا ہے کہ وہ ایسا اعلیٰ اور عمدہ کھانا پکانا جانتی ہوگی کہ دنیا کے تمام باورچی اس کے مقابلہ میں بیچ ہوں گے.اس کے حسن انتظام کے متعلق وہ یہ خیال کرتا ہے کہ سو روپیہ جہاں خرچ ہو تا ہو وہاں وہ اپنے حسن انتظام سے دس روپے خرچ کرے گی.حسن سلوک کے متعلق اس کا اندازہ یہ ہوتا ہے کہ گھر میں آتے ہی وہ ایسا جادو کرے گی کہ میرے ماں باپ اس سے بہت زیادہ محبت کرنے لگ جائیں گے اور میرے معاملات میں تو وہ ایسی اچھی ہوگی کہ مجھ پر قربان ہو جائے گی اور میری ایسی مطیع اور فرمانبردار ہوگی کہ میں اس کے مقابلہ میں سب کو بھول جاؤں گا.ادھر بیوی نے بھی اسی طرح امیدیں لگائی ہوتی ہیں.وہ خیال کرتی ہے کہ خاوند کے گھر قدم رکھتے ہی وہ میرا غلام ہو جائے گا اور جہاں مجھے دس روپے کی ضرورت ہوگی وہاں وہ مجھے سو روپیہ دے گا اور اس جیسا با اخلاق آدمی دنیا میں کوئی نہیں ہو گا.پھر خاوند کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ میری بیوی میرے
خطبات محمود مممم جکمار سوام والدین کی خدمت کرے اور انہیں اس کے ذریعہ کسی قسم کی تکلیف نہ پہنچے مگر وہ یہ خیال لے کر آتی ہے کہ میں گھر جاتے ہی اس کے ماں باپ کو نکال دوں گی.غرض یہ متضاد خیالات جو میاں بیوی کے اکٹھے ہونے سے پہلے پیدا ہوتے ہیں کیوں پیدا ہوتے ہیں.اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ وہ ایک غلط اصول پر چل رہے ہوتے ہیں جس سے سوائے فساد کے اور کچھ حاصل نہیں ہوتا.جس قسم کے آرام کی توقع ایک خاوند اپنی بیوی سے رکھتا ہے اس کے بالکل الٹ بیوی اپنے خاوند سے توقع رکھتی ہے.خاوند کی راحت اس میں ہوتی ہے کہ میرے ماں باپ کی خدمت ہو اور سو ۱۰۰ روپے کی بجائے دس روپے خرچ ہوں مگر عورت اس کے مقابل پر یہ خیال کرتی ہے کہ میرا آرام اس میں ہے کہ میں خاوند کے ماں باپ کو گھر سے نکال دوں اور دس کی بجائے سو ۱۰۰ روپیہ خرچ کروں تو ایسے گھر میں نہ تو خاوند کو آرام ہو گا اور نہ بیوی کو چین ہو گا کیونکہ ان کے اصول ہی ایسے ہیں جو فساد کا موجب ہیں.ایسے موقع پر بے شمار درود ہوں ہمارے رسول کریم ﷺ پر جنہوں نے ایک ایسے قانون کی طرف ہمیں توجہ دلائی ہے کہ اگر ہم اس کو اپنے سامنے رکھیں اور پھر شادی کریں تو ہر گزید بات پیدا نہ ہو.رسول کریم ﷺ نے اس موقع پر اَلْحَمْدُ لِلّهِ نَحْمَدُ ، وَ نَستَعينُه نَسْتَغْفِرُ، وَنُؤْمِنُ بِهِ وَنَتَوَكَّلُ عَلَيْهِ.له پڑھنے کا ارشاد فرمایا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ مومن مرد اور مومنہ عورت نکاح کے موقع پر کہتے ہیں اَلحَمدُ لِله نَحْمَدُ ؟ کہ محمد کامل صرف اللہ کے لئے ہے.ہم میں کوئی خوبی نہیں، ہم عیب دار ہیں، عیب سے پاک صرف اللہ تعالیٰ کی ہی ذات ہے وَ نَسْتَعِينُه مومن مرد اور مومنہ عورت کہتے ہیں کہ ہم تو خدا سے مدد طلب کرتے ہیں، انسانوں سے مدد کے طالب نہیں.خاوند کہتا ہے کہ میری تمام امیدیں خدا تعالٰی سے وابستہ ہیں بیوی کچھ نہیں کر سکتی.اسی طرح بیوی کہتی ہے کہ میری تمام امیدیں خدا تعالی کی ذات سے وابستہ ہیں خاوند کچھ نہیں کر سکتا.ونستغفر ، پھر مومن مرد اور مومنہ عورت کہتے ہیں کہ اے خدا ہمارے گناہوں کو ڈھانپ لے ہم تو بڑے گنہگار ہیں صرف تیری ذات ہی ایسی ہے جو غلطی سے پاک ہے.ونُو مِن ہم مومن مرد اور مومنہ عورت پھر یہ کہتے ہیں کہ ہمارا ایمان تو صرف اللہ تعالیٰ پر ہے ہماری ساری امیدیں اللہ تعالٰی ہی پوری کرے گا.کیونکہ اس پر ہمارا ایمان اور یقین ہے کسی انسان پر نہیں کہ وہ ہر وقت ہمارے کام آسکے گا.جب مومن مرد اور مومنہ عورت اپنی کمزوری اور بے بسی کا اس طرح اقرار کرتے ہیں تو اس کے
خطبات محمود ۴۴۵ جلد سوم بعد ده نَتَوَكَّلُ عَلَیهِ کہتے ہیں یعنی ہم تو اللہ تعالیٰ پر توکل رکھتے ہیں.غرض وہ ساری امیدوں کا پورا ہو نا خدا تعالٰی کی ذات سے وابستہ کر لیتے ہیں اور اس طرح ان میں وہ بدمزگی اور ناچاقی پیدا نہیں ہوتی جو اس اصل کو نظر انداز کرنے کی صورت میں پیدا ہو جاتی ہے.غرض یہ ایک عظیم الشان مگر ہے جو شادی کے لئے بمنزلہ بنیاد ہے.جو لوگ اس مگر پر عمل کریں گے ان کے خانگی امور میں کچھ نا اتفاقی نہیں آسکتی.پس مومن مرد اور مئومنہ عورت کسی پر امید نہیں رکھتے وہ صرف خدا پر امیدیں رکھتے ہیں اور اسی صورت میں کامیابی ہوتی ہے.له ابو راؤ ر كتاب النكاح باب في خطبة النكاح الفضل ۱۰ ستمبر ۱۹۳۷ء صفحہ (۴)
خطبات محمود لسمسم جلد سوم 109 ازدواجی تعلقات کے نتیجہ میں جذبہ محبت ترقی کرتا ہے فرموده ۱۵- دسمبر ۱۹۳۷ء) ۱۵- دسمبر ۱۹۳۷ ء حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے دو نکاحوں کا اعلان فرمایا.اے خطبہ مسنونہ کی تلاوت کے بعد فرمایا :- نکاحوں کو اللہ تعالیٰ نے انسانی تمدن کی ترقی کا ذریعہ بنایا ہے.ہمارے ملک میں یہ مقولہ مشہور ہے کہ فلاں شیر و شکر ہو گئے یعنی جس طرح کھانڈ دودھ میں ملا دی جاتی ہے اور بعد میں پہچانی نہیں جاتی گو وہ دودھ کے اندر ہی ہوتی ہے سوائے اس کے کہ کھانڈ زیادہ مقدار میں ملا دی جائے تو تھوڑی سی کھانڈ دودھ کے نیچے بیٹھ جائے گی اسی طرح انسان آپس میں مل جاتے اور شیر و شکر ہو جاتے ہیں.دنیا میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے کئی چیزیں ہیں جو آپس میں مل جاتی ہیں کئی ہیں جو آپس میں نہیں ملتیں.بعض شکل کے لحاظ سے آپس میں نہیں ملتیں، بعض کام کے لحاظ سے سے آپس میں نہیں ملتیں، بعض رنگ کے لحاظ سے آپس میں نہیں ملتیں، بعض سیال چیزیں آپس میں مل جاتی ہیں.مثلاً بعض خشک چیزیں سیال چیزوں کے ساتھ مل جاتی ہیں.مثلاً دودھ سیال چیز ہے اور کھانڈ سیال نہیں بلکہ خشک چیز ہے.یہ دونوں آپس میں مل جاتی ہیں.لیکن بعض سیال چیزیں آپس میں نہیں ملتیں.مثلاً پانی اور تیل یہ دونوں سیال چیزیں ہیں مگر آپس میں نہیں ملتیں ان کو ایک دوسرے میں ملا دیا جائے تو علیحدہ علیحدہ ہو جائیں گی پانی علیحدہ ہو جائے گا اور تیل علیحدہ.پھر کہیں ذرات کا فرق پڑ جاتا ہے، کہیں بوجھوں کا فرق پڑ جاتا ہے، کہیں سیال چیزوں کے
خطبات محمود جلد سوم بوجھوں کا فرق ہوتا ہے، کہیں خشک چیزوں کے بوجھوں کا فرق ہوتا ہے، کہیں ایک چیز کا مادہ کم طاقت رکھتا ہے اور دوسری کا مادہ زیادہ طاقت رکھتا ہے.پھر بعض خشک چیزیں آپس میں ملادی جاتی ہیں تو ان کا وجود ایک دوسرے کے اندر مدغم ہو جاتا ہے اور بعض چیزیں آپس میں نہیں ملتیں اور ڈاکٹر ان کو محلول کرنے کے لئے ان میں ایسی چیزیں ملا دیتے ہیں جن سے وہ محلول ہو جاتی ہیں.جب مادی اشیاء کا یہ حال ہے تو انسانوں کو تو ان سب چیزیوں سے زیادہ آپس میں ملنا چاہئے کیونکہ انسان کو مدنی الطبع کہا جاتا ہے یعنی سب سے زیادہ آپس میں ملنے والے انسان ہی ہوتے ہیں مگر بظاہر انسان آپس میں نہیں مل سکتے.مگر دو انسانوں کا قیمہ بنا کر ملا دو تو بظاہر تو وہ مل جائیں گے مگر دونوں مر جائیں گے.پانی کو دوسری چیز کے ساتھ نہ ملنے میں کوئی خطرہ نہیں ہوتا، کھانڈ اور دودھ کو آپس میں نہ ملنے سے کوئی خطرہ نہیں ہو تا مگر انسان کو آپس میں نہ ملنے سے خطرہ ہے اور وہ یہ کہ اگر انسان آپس میں نہ ملیں تو کسی کو ایک دوسرے کی پرواہ نہ ہوگی.خوں ریزیاں اور لڑائیاں شروع ہو جائیں گی قومیں دوسری قوموں سے جنگ شروع کر دیں گی اور تفرقے پڑ جائیں گے.تو پھر وہ کون سی چیز ہے جو انسانوں کو آپس میں ملانے والی ہے بظاہر تو انسان انسان سے نہیں مل سکتا حالا نکہ سب سے زیادہ انسان کو آپس میں ملنے کی ضرورت ہے کیونکہ اسے مدنی الطبع کہا جاتا ہے.جو دو مادی چیزیں آپس میں نہیں مل سکتیں اللہ تعالٰی نے ان کو ملانے کے لئے ایک اور چیز بنادی ہے.پھر انسان جو بظاہر نہیں مل سکتے اور قومیں جو آپس میں بظاہر نہیں مل سکتیں ان کو ملانے کے لئے اللہ تعالٰی نے کون سی چیز بنائی ہے.شکر اور دودھ ہمیشہ رہنے والی چیز نہیں پس ان کا آپس میں ملنا عارضی ہوتا ہے.لیکن انسان چونکہ قائم رہنے والا وجود ہے اس لئے اللہ تعالیٰ نے اس کے ایک دوسرے سے تعلقات کے لئے ایک قائم رہنے والا ذریعہ بنایا ہے اور وہ مرد و عورت کی آپس میں شادی ہے.اس کے ذریعہ انسان انسان سے مل جاتا ہے، ایک قوم دوسری قوم سے مل جاتی ہے، ایک ملک دوسرے ملک سے مل جاتا ہے.پھر اللہ تعالی اس تعلق کے ذریعہ ایک نسل چلاتا ہے.ایک خاندان کے وہ پوتے اور پوتیاں ہوتی ہیں اور ایک خاندان کے وہ نواسے اور نواسیاں ہوتی ہیں اور دونوں اس میں اپنی اپنی شکل دیکھ رہے ہوتے ہیں.ددھیال اور ننھیال میں تعلقات پیدا ہو جاتے ہیں ان میں محبت پیدا ہو جاتی ہے اور اشتراک پیدا ہو جاتا ہے.پس گو بظا ہر انسان انسان سے نہیں مل سکتا مگر اللہ تعالٰی نے شادی کے ذریعہ ایک انسان کو دوسرے انسان سے کیا قوموں اور ملکوں
خطبات محمود ۴۴۸ جلد سوم کو آپس میں ملا دیا ہے.اسی کے ذریعہ انسان ترقیات کے بلند مقام پر پہنچتا ہے.دو مختلف اقوام کو اللہ تعالی ایک وجود میں اکٹھا کر دیتا ہے.ایک خاندان جو بالکل علیحدہ ہوتا ہے دوسرے خاندان سے مل جاتا ہے اور اس تعلق کو اللہ تعالٰی اس قدر مضبوط کر دیتا ہے کہ بچہ کے نانا اور نانی نواسہ کہہ کر اس پر جان دیتے ہیں تو دوسرے خاندان کے دادا اور دادی پو تاکہہ کر اس پر جان دیتے ہیں اور دونوں خاندانوں کو اس میں اپنی اپنی شکل نظر آرہی ہوتی ہے.غرض ایک ہی وجود کے ذریعہ دو الگ الگ خاندان مل جاتے ہیں، قومیں مل جاتی ہیں، ملک مل جاتے ہیں اور زبانیں مل جاتی ہیں.اسلام کی رو سے ایک ہندو اور ایک یہودی لڑکی کے ساتھ نکاح ہو سکتا ہے گو یہ رواج آج کل نہیں ہے.اب اگر ایک مسلمان مرد ہندو لڑکی سے یا یہودی لڑکی سے شادی کرے تو اس پر دوسرے مسلمان کفر کا فتوی لگا دیں.مگر اسلام میں ایسے نکاح کی اجازت ہے اور اس سے تعلقات وسیع ہوتے ہیں کیا ہی اچھا ہو ایک ہی وجود پر ایک طرف مسلمان ہو تا کہہ کر جان دیتا اور اس سے محبت کرتا ہو تو دوسری طرف ایک ہندو نواسہ کہہ کر اس پر جان دیتا اور اس سے محبت کرتا ہو.اس ذریعہ کو اختیار کرنے سے مذاہب کے اختلاف دور ہو جائیں گے ، رنگوں اور زبانوں کے فرق دور ہو جائیں گے اور وہ سب روکیں جو تعلقات کی وسعت میں حائل ہیں دور ہو جائیں گی.اللہ تعالیٰ جیسے برسات کے موسم میں مینہ برساتا ہے تو پانی ساری دنیا میں پھیلا دیتا ہے کسی خاص جگہ پانی نہیں برساتا بلکہ وہ قطرات نہروں میں بھی پڑتے ہیں، دریاؤں میں بھی پڑتے ہیں، سمندروں میں بھی پڑتے ہیں، بنجر زمینوں پر بھی پڑتے ہیں، سرسبز و شاداب علاقوں پر بھی پڑتے ہیں، گھنے باغوں پر بھی پڑتے ہیں، گندی نالیوں پر بھی پڑتے ہیں، مندروں اور مسجدوں پر بھی پڑتے ہیں اور میدانوں اور آباد مقامات پر بھی پڑتے ہیں.غرض اللہ تعالی بارش کو وسیع سے وسیع تر پھیلاتا ہے.پھر انسان اپنی ضروریات کے ماتحت اس کو اکٹھا کر لیتا ہے.جیسے عورتیں بال گوندھتی اور چوٹی کرتی ہیں تو پہلے بال پھیلے ہوئے ہوتے ہیں مگر ان کو گوندھ کر اکٹھا کر دیا جاتا ہے اسی طرح انسان کی نسل اپنے دادا پڑدادا کی نسل کی نسبت محدود ہوتی ہے.اور دادے پڑدادے کی نسل وسیع ہوتی ہے اس کو محدود کرنے کے لئے شادیاں کی جاتی ہیں.غرض ایک طرف نسل پھیل جاتی ہے اور دوسری طرف شادی کے ذریعے اسے محدود کیا جاتا ہے.اللہ تعالیٰ انسانوں کو پھیلاتا بھی ہے اور شادیوں کے ذریعہ محدود کر کے شیر و شکر بھی بنا دیتا
خطبات محمود ۴۴۹ جلد سوم ہے بعض اوقات عارضی روکوں کے باعث لڑکیاں باہر نہیں دی جاتیں جیسے آج کل ہماری جماعت کو مجبوریاں پیش ہیں مگر الہی منشاء شادی کے ذریعہ تعلقات کو وسیع کرنا ہے.اکثر لوگ آج کل حد بندیاں لگا دیتے ہیں.مثلاً کہتے ہیں کہ شادی غیر ملک میں نہیں کرنی.پھر اس سے بڑھ کر یہ حد بندی لگا دیتے ہیں کہ اپنی قوم سے باہر شادی نہیں کرنی.پھر قوموں کو بھی بعض لوگ خاص کر لیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ فلاں خاندان سے باہر نہیں کرنی.ان لوگوں کی مثال دیسی ہی ہے جیسے کہتے ہیں کہ ایک شخص کو جو امام کے پیچھے نماز پڑھ رہا تھا وہم ہوا کہ آیا میری نیت ٹھیک ہے یا نہیں.اس نے انگلی کے اشاروں سے نیت باندھی، پھر بھی اسے اپنی نیت پر شک رہا تو اس نے صفیں چیر کر اور اگلی صف میں جاکر امام کو دیکھ کر انگلی سے اشارہ کیا مگر پھر بھی اس کا وہم کم نہ ہوا.آخر اس نے امام کو انگلی لگا کر نیت باندھی پھر اسے خیال آیا کہ امام نے کپڑے پہنے ہوئے ہیں شاید میری یہ نیت ٹھیک نہ ہو اس لئے اس سے بڑھ کر حرکت کرنی چاہی.جب نوبت یہاں تک پہنچی تو لوگوں نے اسے پکڑ کر مسجد سے نکال دیا.تو ایسے لوگ جو شادیوں میں حد بندیاں کرتے ہیں کہ سادات قوم ہو اور سید جو بخاری یا ترندی ہو ان میں شادی کرنی ہے ایسے لوگوں کی نسل پانچ دس پشتوں کے بعد بند ہو جاتی ہے.ابھی چند دن کی بات ہے میرے پاس ایک خط آیا جس میں لکھا تھا کہ ہماری نسل کم ہو رہی ہے.میں نے انہیں لکھا کہ اس کی صرف یہ وجہ ہے کہ آپ لوگ شادیاں باہر نہیں کرتے جب شادیاں باہر کریں گے تو نسل بڑھ جائے گی.ہندو معلوم ہوتا ہے اسی فلسفہ کے ماتحت شادیاں کرتے ہیں.ان میں گوتیں ہوتی ہیں وہ کم سے کم دو گوتیں چھوڑ کر تیسری گوت میں شادی کرتے ہیں.اس میں کوئی شک نہیں کہ ایک برہمن کھتری کے ہاں شادی نہیں کرتا مگر ایک برہمن اپنے نزدیک کے رشتہ داروں میں بھی شادی نہیں کر سکتا.دو گوتیں چھوڑ تیسری گوت میں شادی کر سکتا ہے گویا ہندو اپنے خاندانوں میں شادیاں نہیں کرتے بلکہ باہر کرتے ہیں.غرض شادیوں کے پھیلانے سے ہی نسل پھیلتی ہے.خدا تعالیٰ اس سلسلہ کے ذریعہ دو خاندانوں کو شیر و شکر بنا دیتا ہے اور وہ ایسے یک جان ہو جاتے ہیں کہ ”من تو شدم تو من شدی" والا معاملہ ہو جاتا ہے.ایک خاندان ایک ہی وجود کو پوتا کہہ کر اس پر جان دیتا ہے تو دوسرا خاندان اسے نواسہ کہہ کر اس پر جان دیتا ہے دونوں خاندانوں میں اشتراک پیدا ہو جاتا ہے.اللہ تعالیٰ کا منشاء شادی سے ایک طرف خاندانوں میں وسعت پیدا کرتا ہے اور دوسری
خطبات محمود ۴۵۰ جلد سوم طرف ان کو جو ڑ کر محدود کرتا ہے پہلے شادی کے ذریعہ وسعت دیتا ہے اور نسل پیدا ہوتی ہے پھر شادیوں کے ذریعہ محدود کر دیتا ہے پھر نسل پیدا ہوتی ہے تو وسعت دیتا ہے پھر شادیوں کے ذریعہ محدود کر دیتا ہے.اس طرح اللہ تعالیٰ ایک طرف خاندانوں کو پھیلاتا ہے اور وسعت دیتا ہے اور دوسری طرف محدود کر دیتا ہے.اسلام میں شادی انسانی تمدن کو جہاں وسیع کرنے کا ذریعہ ہے وہاں محدود کرنے کا بھی ذریعہ ہے.وسیع اس طرح کہ جب شادی کے ذریعہ دو خاندانوں کو آپس میں ملا دیا جاتا ہے اور نسل پھیل جاتی ہے تو ایک دوسرے سے اجنبی ہونے لگ جاتے ہیں.پھر اس کو محدود کرنے کے لئے اور شادیاں کی جاتی ہیں اور وہ جو اجنبی ہونے لگ جاتے ہیں قریبی رشتہ دار ہو جاتے ہیں.سو اسلام نے شادی کی دو بھاری اغراض رکھی ہیں ایک طرف تو اس کے ذریعہ وسعت پیدا ہوتی ہے اور دوسری طرف تقید پیدا ہوتی ہے اور یہ تعلق ایسا ہے جو شیر و شکر سے بڑھ کر ہے کیونکہ دودھ اور کھانڈ کے ملانے سے ایک طرف وسعت اور دوسری طرف تقیید پیدا نہیں ہوتی.یہ وسعت اور تقیید اللہ تعالیٰ نے صرف شادی میں ہی رکھی ہے.الفضل سے فریقین کا تعین نہیں ہو سکا.الفضل ۲۶ دسمبر ۱۹۳۷ء صفحه (۵۴)
خطبات محمود ۴۵۱ 11.جلد سوم میاں بیوی کے تعلقات کا اثر ہزاروں سال تک چلتا ہے فرموده ۱۷- دسمبر ۱۹۳۷ء) ۱۷.دسمبر ۱۹۳۷ء بعد نماز عصر حضرت خلیفۃ المسیح الثانی نے سید منظور علی شاہ صاحب خلف حضرت سید محمد علی شاہ صاحب قادیان کی لڑکی مسعودہ بیگم کا نکاح سید مقبول احمد صاحب ہوشیار پوری کے ساتھ آٹھ ہزار روپیہ مہر پر پڑھا.خطبہ مسنونہ کی تلاوت کے بعد فرمایا :- نکاح کے بارے میں ہماری شریعت نے اور ہمارے رسول کریم ﷺ نے جو ہدایات دی ہیں وہ ایسی کامل اور اس قدر مکمل ہیں کہ جو شخص ان پر عمل کرے وہ ہر قسم کی تکالیف سے بچ سکتا ہے بلکہ حق تو یہ ہے کہ جن آیات کا انتخاب اس موقع کے لئے آنحضرت ا نے فرمایا ہے وہ اپنے اندر اتنی ہدایات رکھتی ہیں کہ ان میں سے اگر ایک ہدایت کو ہی لے لیں تو اس میں دنیا کی زندگی میں وہی خضر راہ بن سکتی ہے.مثلاً ان آیات میں سے ایک آیت نہیں بلکہ ایک آیت کا حصہ یہ ہے کہ وَلْتَنْظُرْ نَفْسٌ مَا قَدَّمَتْ لِغَدٍ - وَاتَّقُوا اللَّهِ إِنَّ اللهَ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ.اے اس آیت میں نہایت لطیف اور نہایت جامع ہدایت فرمائی گئی ہے.دنیا میں بعض کام ایسے ہوتے ہیں جو آج ہی ختم ہو جاتے ہیں مگر ان میں بھی انسان ممکن گھنٹوں احتیاط سے کام لیتا ہے مثلاً پھلوں میں سے بعض پھل جلدی خراب ہو جاتے ہیں اور چند سے زیادہ دیر تک نہیں رہ سکتے.بے دانہ یعنی گول توت ہیں یہ ایسی چیز ہے جو چند ہی گھنٹے رہ سکتی ہے.اگر صبح کو درخت سے اتارا جائے تو شام تک اس کے ذائقہ میں فرق آجاتا ہے.مگر
خطبات محمود ۴۵۲ جلد سوم کسی کو نہ دیکھو گے کہ بے دانہ خریدتے وقت احتیاط سے کام نہ لے یعنی وہ یہ نہ دیکھے کہ بے دانہ اچھا ہو، بہترین ہو، تازہ ہو تو باوجود اس کے کہ یہ ایسی چیز ہے جو گھنٹہ دو گھنٹہ تین گھنٹہ سے زیادہ دیر تک اپنی اصلی حالت میں نہیں رہ سکتی اس کے متعلق بھی انسان ممکن احتیاط کرتا ہے.پھر ان چیزوں کو لے لیں جن پر ایک یا دو دن گزر سکتے ہیں.مثلاً بعض ایسے پھل ہیں جو دو چار پانچ دن تک خراب نہیں ہوتے.کیلا ہے، انگور ہے یہ اس ملک میں جب پہنچتا ہے تو پانچ دس پندرہ دن تک خراب نہیں ہوتا.ان چیزوں کے خریدتے وقت بھی کوئی بے احتیاطی نہیں کرے گا بلکہ دیکھے گا کہ وہ کام کی ہیں یا خراب تو نہیں.پھر ان سے اوپر چل کر دیکھیں تو بعض چیزیں ایسی ہیں جو کچھ دیر تک رہ سکتی ہیں مگر ان کی بقاء بھی عارضی ہوتی ہے چھ ماہ یا سال کے لئے مثلا مٹی کے برتن یا کپڑے ہیں لیکن اگر کوئی دو پیسے کی ہنڈیا بھی خریدتا ہے تو دیکھتا ہے کہ کس قدر پائدار ہے.پھر وہ چیزیں جو سالہا سال تک چلتی ہیں ان میں تو احتیاط کی حد ہی ہو جاتی ہے.اگر کوئی عمارت بنوائے تو انجینئر سے مشورہ لیتا ہے، سامان اچھا لگاتا ہے، اچھے مستری منتخب کرتا ہے اور کہتا ہے یہ کام روز روز نہیں کئے جاتے اس لئے چیز ا چھی لگنی چاہئے.مگر ایک عمارت کتنا عرصہ چلتی ہے.تاج محل اور قطب صاحب کی لاٹ بڑی شاندار عمارتیں ہیں لیکن قطب صاحب کی لاٹ تو ابھی مرمت ہوئی ہے اور تاج محل کے متعلق خیال کیا جاتا ہے کہ اگر جلد مرمت نہ کی گئی تو اس کے میناروں کے گرنے کا خطرہ ہے یہ ایسی عمارتیں ہیں جن پر کروڑوں روپے خرچ ہوئے اور بادشاہوں نے تیار کرائیں مگر سو ڈیڑھ سو دو سو سال کے عرصہ میں قابل مرمت ہو گئیں.جب ہر چیز کے متعلق ممکن احتیاط کی جاتی ہے تو اس کام کے متعلق کس قدر احتیاط کی ضرورت ہو سکتی ہے جس کا اثر نہایت ہی دیر پا ہو.ایسی چیزوں میں سے ہی انسانی نسل اور تعلقات ازواج ہیں.ایسے ازواج بھی ہوتے ہیں جو ایک دو ہی پشت تک چلتے ہیں.اس سے میرا یہ مطلب نہیں کہ ان کی نسل بند ہو جاتی ہے بلکہ یہ ہے کہ ان کی نسل آباء واجداد کو بھول جاتی ہے پھر کئی خاندان سات آٹھ پشتوں تک چلتے ہیں.مگر یہ چیز ایسی ہے کہ اس کی بقاء بہت لمبی بھی ہو سکتی ہے.جہاں مضبوط سے مضبوط عمارتیں سینکڑوں سال پر جاکر ختم ہو جاتی ہیں یہ عمارت ایسی ہے جو کہ یاد رہنے والی ہے.
خطبات محمود ۴۵۳ تاریخ پانچ ہزار سال تک تو پہنچ چکی ہے.حضرت ابراہیم علیہ السلام کی نسل اس وقت تک موجود ہے مگر ہے کوئی عمارت اتنے عرصہ کی جو موجود ہو.حضرت ابراہیم اور ان کی بیوی ہاجرہ نے ایک طرف اور ان کی دوسری بیوی سارہ نے دوسری طرف ایک عمارت تیار کی.دنیا میں تباہیاں آئیں، حکومتیں بدلیں، مذہب بھی بدلے مگر آج بھی ایسے لوگ موجود ہیں جو وثوق سے کہتے ہیں کہ ہم حضرت ابراہیم کی نسل سے ہیں.یوں تو سارے انسان حضرت آدم کی اولاد سے ہیں مگر یہ تو اصولی بات ہے اور وہی لوگ یہ مانتے ہیں جن کا یہ عقیدہ ہے کہ موجودہ نسل انسانی حضرت آدم علیہ السلام سے چلی مگر دوسرے لوگ اس بات کو اور رنگ میں پیش کرتے ہیں لیکن حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اولاد کا موجود ہونا ایسا تاریخی واقعہ ہے کہ کوئی اس کا انکار نہیں کر سکتا.اسی طرح ہندوؤں میں بھی بعض ایسی نسلیں اور قومیں محفوظ چلی آتی ہیں.جو دو ہزار سال تک پہنچتی ہیں گو ابراہیمی نسل جتنی پرانی کوئی نسل تاریخ سے ثابت نہیں ہوتی.اب دیکھو یہ بقاء اس نسل کو کہاں سے ملی.لازمی بات ہے کہ جس انسان کے نام کی طرف یہ نسل منسوب ہوتی ہے اس کے ازدواجی تعلقات کے اعلیٰ ہونے کی وجہ سے اس کو اس قدر بقاء حاصل ہوئی ہے.اگر حضرت ابراہیم علیہ السلام کی شادی حضرت ہاجرہ سے نہ ہوتی تو ان کی نسل اتنی لمبی نہ چلتی.اسی طرح حضرت ابراہیم علیہ السلام کی زوجیت میں حضرت سارہ نہ آئیں تو ان کی اولاد کو اس قدر بقاء حاصل نہ ہوتی.پس اس عمارت کی تعمیر میں حضرت ہاجرہ اور حضرت سارہ کا بھی دخل ہے ورنہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اور بیویاں بھی تھیں ان کی نسل کا آج کوئی پتہ نہیں لگا سکتا تو اس معاملہ میں جس طرح خاوند کا تعلق ہوتا ہے اسی طرح بیوی کا بھی تعلق ہوتا ہے اور یہ ایسا رشتہ ہے جس کا اثر سینکڑوں اور ہزاروں سال تک چلتا ہے.مثلاً زمانہ کے لحاظ سے رسول کریم کو چودہ سو سال کے قریب اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کو پانچ ہزار سال کے قریب ہو گئے اگر یہ دنیا اور دو لاکھ سال تک قائم رہے تو اس وقت تک آپ کی نسلیں چلیں گی بلکہ رسول کریم ﷺ کی بادشاہت نے چونکہ قیامت تک چلنا ہے اس لئے آئندہ دنیا خواہ دس ہزار ارب سال تک چلے رسول کریم ﷺ کی نسل سے سادات قائم رہیں گے.اسی طرح ابراہیمی نسل چلے گی.غرض رسول کریم ﷺ نے نکاح کے موقع کے لئے یہ آیت منتخب فرما کر بہت بڑے 55
خطبات محمود ۴۵۴ جلد سوم معرفت کے نکتہ کی طرف توجہ دلائی.فرمایا یہ جو شادی ہونے لگی ہے یہ کھیل نہیں ہے.اس میں جیسے تم اخلاق دکھاؤ گے ، جیسی تم نیکیاں کرو گے، جس قدر تم خدا کی خشیت دلوں میں پیدا کرو گے اسی قدر تمہاری اولاد اعلیٰ ہوگی اور تمہارا نیک نام دنیا میں قائم رہے گا.لیکن اگر بدیاں کرو گے، خدا کو بھول جاؤ گے، اس کے احکام کو نظر انداز کرو گے تو اس طرح بھی نسل قائم رہے گی مگر لوگ تمہارا نام برائی سے لیں گے.تو فرمایا میاں شادی کرنے لگے ہو تمہارے چھوٹے چھوٹے اعمال کا ایسا اثر پڑے گا جو سینکڑوں سال تک چلے گا.اگر اچھے اعمال کرو گے تو اچھی صورت میں اور اگر برے اعمال کرد گے تو بری صورت میں اثر پڑے گا.انَّ اللهَ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ اللہ نے فیصلہ کیا ہے کہ جو اعمال انسان بھول جاتا ہے خدا ان کو یاد رکھتا اور ان کے نتائج پیدا کرتا ہے.جو نیک اعمال کرے گا اس کی نیک نسل چلے گی اور جو برے اعمال کرے گا اس کی بری.پھر جب کوئی بڑا نیک پیدا ہوتا ہے تو نسل اسی کی طرف منسوب ہونے لگ جاتی ہے اسی طرح جب کوئی بڑا بد پیدا ہوتا ہے تو لوگ اس خاندان کی نسل کو اس کی طرف منسوب کرنے لگ جاتے ہیں.کہتے ہیں کوئی کفن چور تھا.سب لوگ اسے برے الفاظ میں یاد کرتے اس کا ایک لڑکا تھا اس نے کسی سے پوچھا یہ بدنامی کا داغ کس طرح دور ہو سکتا ہے.اس نے بتایا کہ جب پہلے سے کوئی بڑھ کر پیدا ہو جائے تو لوگ پہلے بد نام کو بھول جاتے ہیں بلکہ اسے اچھا سمجھنے لگ جاتے ہیں.اس پر اس نے خود کفن چرانے شروع کر دیئے اور مزید بر آں یہ کہ لاش کو قبر سے باہر ہی پھینک جاتا.اس پر شور پڑ گیا کہ خدا رحم کرے پہلا کفن چور لاش تو دفن کر جاتا تھا اب کوئی ایسا اٹھا ہے جو لاش باہر ہی پھینک جاتا ہے.اس طرح جب پہلے کفن چور کا تذکرہ لوگوں نے چھوڑ دیا تو اس نے بھی کفن چرانے چھوڑ دیئے.غرض یہ ایک چھوٹی سی آیت کا ایک ٹکڑا ہے جس میں اور بھی بہت سے مضامین ہیں.اس میں یہ کتنی بڑی ہدایت دی کہ میاں بیوی کے تعلقات کی بناء ایسے رنگ میں رکھنی چاہئے کہ اولاد اور نسل نیک ہو اس کے لئے لوگوں کے منہ سے دعائیں نکلیں اور خاندان کی نیک نامی قائم ہو.اس وقت سید منظور علی شاہ صاحب کی لڑکی کا نکاح ہے ان کے والد کئی سال ہوئے فوت ہو چکے ہیں وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی وفات سے چند سال قبل بیعت میں داخل
خطبات محمود ۴۵۵ جلد سوم ہو گئے تھے مگر اس کے اظہار کی اجازت نہ دی گئی تھی.پھر جب خلیفہ اول نے بیعت لی تو شاہ صاحب نے کہا کہ میں کب تک بیعت کو مخفی رکھوں گا.اس پر ان کو علی الاعلان بیعت کرنے کی اجازت دے دی گئی اور انہوں نے جب بیعت کی تو میرے پاس ہی بیٹھے تھے.پھر لڑکی کی دادی اخلاص میں اپنے خاوند سے بھی بڑھی ہوئی تھیں.وہ بہت زیادہ نیک اور احمدیت سے بہت اخلاص رکھنے والی تھیں پس اس لحاظ سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ایک پرانے دوست کی پوتی کی شادی ہے زیادہ توجہ اور دلچسپی کا باعث ہے.پھر اس لحاظ سے کہ لڑکی کی دادی اعلیٰ درجہ کی نیک اور مخلص احمدی خاتون تھیں دو ہرا تعلق اس سے ہے.سید منظور علی شاہ صاحب کے والد حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ اوائل کے واقف تھے ان کے تعلقات ملک غلام محمد صاحب کے والد صاحب کے ساتھ بہت گہرے تھے.یہی وجہ ہے کہ اس وقت ملک صاحب بھی آئے ہوئے ہیں.شاہ صاحب ایام جوانی میں لاہور نوکر تھے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام جب لاہور جاتے تو ان کے پاس ٹھہرتے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے مقدمہ ہارنے کا جو واقعہ لکھا ہے اس میں انہی کا ذکر ہے.آپ مقدمہ کا فیصلہ سننے کے لئے لاہور گئے ہوئے تھے اور روزانہ چیف کورٹ میں جاتے تھے.ایک دن خوش خوش واپس آئے تو شاہ صاحب نے کہا کیا مقدمہ جیت آئے؟ آپ نے فرمایا مقدمہ تو نہیں جیتا مگر اچھا ہوا حکم سنا دیا گیا کیونکہ وہاں جانے کی وجہ سے نمازیں پڑھنے میں تکلیف ہوتی تھی.اس وقت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ابھی دعوئی نہ کیا تھا.شاہ صاحب نے غصہ کا اظہار کرتے ہوئے کہا آپ کے باپ کا اتنا بڑا نقصان ہو گیا ہے اور آپ خوش ہو رہے ہیں.اس سے ظاہر ہے کہ نہایت ابتدائی زمانہ سے شاہ صاحب کے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے تعلقات تھے اور بہت محبت رکھتے تھے.آج ان کی پوتی کی شادی ہے.الفضل ۲۴ دسمبر ۱۹۳۷ء صفحه ۵۴) ل الحشر : 19
خطبات محمود ۴۵۶ 101 جلد سوم نکاح کے نتائج کا علم خدا تعالیٰ ہی کو ہوتا ہے فرموده ۷.جنوری ۱۹۳۸ء) ۷.جنوری ۱۹۳۸ء حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے ڈاکٹر حشمت اللہ صاحب کی بھتیجی ناصرہ بیگم کے نکاح کا اعلان محمد رفیق صاحب ولد شیخ محمد ابراہیم صاحب کانپوری سے فرمایا.خطبہ مسنونہ کی تلاوت کے بعد فرمایا : انسانی زندگی اور انسانی طاقتیں ایسی محدود چیزیں ہیں کہ اپنی ذات میں وہ کوئی بھی حیثیت نہیں رکھتیں.کسی شاعر نے کہا ہے.آدمی بلبلا ہے پانی کا در حقیقت سمندر کے مقابلہ میں جو بلبلا کی حیثیت ہوتی ہے انسان کی خدا تعالیٰ کی ازلی ابدی ہستی کے مقابلہ میں اتنی بھی وقعت نہیں.انسان کی زندگی زیادہ سے زیادہ سو سال ہوتی ہے پھر اس میں بعض اوقات خوشی کی گھڑیاں اسے میسر آتی ہیں اور بعض اوقات رنج کی اور خوشی کی گھڑیوں کے مقابلہ میں رنج کی چھوٹی گھڑیاں اسے لمبی نظر آتی ہیں اور خوشی کی گھڑیاں مختصر.انسان میں قدرتی طور پر یہ خواہش ہوتی ہے کہ اس پر ہمیشہ خوشیوں کی گھڑیاں آئیں رنج کی گھڑیاں نہ آئیں.پھر زندگی کا بہت سا حصہ انسان ادھر ادھر کی باتوں میں صرف کر دیتا ہے بعض آدمی ایک جگہ پر بیٹھ کر باتیں شروع کر دیتے ہیں تو ایسے منہمک ہو جاتے ہیں کہ سارا دن اسی میں ضائع کر دیتے ہیں اور جب انہیں آگاہ کیا جائے تو کہتے ہیں او ہو اس قدر جلدی دن گزر گیا دل تو ابھی اور باتیں سننے سنانے کو چاہتا ہے.برسات کے دنوں میں لوگ گھروں میں پکوان
خطبات محمود ۴۵۷ جلد سوم پکاتے ہیں تو اس قدر اس میں منہمک ہو جاتے ہیں کہ وقت کے گزرنے کی انہیں خبر تک نہیں ہوتی.دوسرا آدمی جب انہیں اطلاع دے کہ دوپہر ہو گئی ہے تو کہتے ہیں ہم نے تو ابھی کام شروع ہی کیا تھا کہ اس قدر دن گزر گیا بعض لوگوں کو کہانیاں سنانے اور بعض کو سننے کی عادت ہوتی ہے.جب کہانی شروع ہو جاتی ہے تو ان کو معلوم نہیں ہو تا کہ کتنی رات گزر چکی ہے.گھر کے دوسرے لوگ ان سے کہتے ہیں کہ آدھی رات ہو گئی سوتے کیوں نہیں مگر ان کو سونے کی کوئی پرواہ نہیں ہوتی اور انہیں محسوس نہیں ہو تا کہ کتنا وقت گزر گیا.غرض خوشی کی لمبی گھڑیاں بھی انسان کو مختصر نظر آتی ہیں اور رنج کی چھوٹی گھڑیاں بھی لمبی بن جاتی ہیں.میرا اپنا واقعہ ہے میری آنکھوں میں لکرے ہیں.ایک دفعہ میر محمد اسماعیل صاحب نے جو میرے ماموں ہیں ایک آنکھ کے نگروں کو چھیل کر کا پر لگایا اور دوسری کے متعلق کہا کہ اگر ایک آنکھ کا آپریشن برداشت کر لیا گیا تو دوسری کا بھی کر دیا جائے گا.آپریش ہونے کے بعد درم اور درد کے باعث مجھے سخت تکلیف ہوئی.حضرت خلیفہ اول کی شروع خلافت کا ابتدائی زمانہ تھا.آپ میرا حال پوچھنے کے لئے تشریف لائے تو عشاء کی اذان ہوئی اپریشن عصر کے بعد ہوا تھا جب اذان ہوئی تو میں نے حضرت خلیفہ اول سے کہا کہ صبح ہو گئی ؟ آپ نے فرمایا نہیں عشاء کی اذان ہے تو درد کے باعث گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹہ مجھے ایسا معلوم ہوا کہ گویا ساری رات جاگا ہوں.غرض تکلیف اور درد کی گھڑی تھوڑی سی بھی بہت لمبی نظر آتی ہے.انسان کی قدرتی خواہش یہ ہوتی ہے کہ اسے آرام میسر آئے اور اس صورت میں وہ اپنی عمر کو چھوٹا سمجھے گا.گویا اگر اس کی زندگی سو سال کی ہو تو آرام کی صورت میں اسے ایسا معلوم ہو گا کہ اس نے دس سال زندگی بسر کی اور اگر دس سال انسان پر رنج اور مصیبت کے آئیں تو اسے دس سال ہزار سال کے برابر معلوم ہوں.یہی وجہ ہے کہ قرآن مجید میں ان لوگوں کے متعلق جن کو آرام کی زندگی میسر تھی یو ما او بعض کیوم فرمایا گیا.جب ان سے پوچھا جاتا کہ تم دنیا میں کس قدر زندگی گزار چکے ہو تو کہتے ایک دن یا دن کا کچھ حصہ.عیسائیوں پر جب راحت اور عروج کا زمانہ تھا ان کے متعلق قرآن مجید میں آتا ہے کہ كُمُ لَبِثْتُمْ قَالُوا لَبِثْنَا يوما أو بَعْضَ يوم لے کہ جب ان سے پوچھا گیا کہ تم کتنا عرصہ رہے تو انہوں نے کہا ہم ایک دن یا دن کا کچھ حصہ رہے.تو راحت کا زمانہ خواہ کس قدر بھی لمبا ہو قلیل نظر آتا ہے.پھر اللہ تعالٰی اپنے دنوں کے متعلق فرماتا ہے.اِنَّ يَومَا عِندَ رَبِّكَ كَالْفِ سَنَةٍ مِّمَّا تَعُدُّونَ کے کہ...
خطبات محمود ۴۵۸ جلد سوم - اللہ تعالیٰ کا دن ہزار برس کا ہوتا ہے اور ہزار برس کو انسانی زندگی کے مقابلہ میں اگر وہ سو سال کی بھی ہو رکھا جائے تو وہ چند گھنٹے بنتی ہے اور اگر وہ بھی راحت کا زمانہ ہو تو پھر ایک منٹ سمجھی جائے گی.اللہ تعالٰی نے کیا ہی لطیف نکتہ بیان فرمایا ہے جسے رسول کریم ﷺ نے اس موقع پر بیان کرنے کا مشورہ دیا فرمایا کہ وَلْتَنْظُرُ نَفْسُ مَا قَدَّمَتْ لِغَدِ - ۳ے کہ ہر انسان شادی سے پہلے غذ پر نظر رکھے.میں جیسا کہ بیان کرچکا ہوں اللہ تعالٰی کا ایک دن انسانوں کے حساب سے ایک ہزار سال کا ہوتا ہے اس غد سے مراد اللہ تعالیٰ کاغذ ہے نہ کہ انسانی غد.اس حساب سے غد انسانی زندگی کے لحاظ سے کم از کم پندرہ سو سال کا بنتا ہے اس میں اللہ تعالیٰ نے بتایا ہے کہ شادی کے متعلق غور تو آج ہی کرو ڈیڑھ ہزار برس بعد پر بھی نظر رکھو.ایک لطیفہ مشہور ہے کہ ایک ملا تھا جو کہتا تھا کہ ایک بالشت سے زیادہ ریشم پہننا جائز نہیں.ایک امیر آدمی جسے ریشم پہنے کا شوق تھا اور فوج کا افسر تھا وہ ملا کے لئے جہاں نوکر تھا وہاں سے ایک تہہ بند لایا جس کا کنارہ ریشم کا تھا.گلا بیچارے نے کبھی اس قسم کا تہبند استعمال نہیں کیا تھا اسے دیکھ کر بہت خوش ہوا اور اسے پہن لیا.لوگوں نے اس پر اعتراض کرنے شروع کئے کہ یہ ملا پہلے تو کہا کرتا تھا کہ ایک بالشت سے زیادہ ریشم پہنا جائز نہیں اب وہ خود ریشمی تہبند باندھتا ہے.کسی شخص نے اسے یہ بات بھی کہہ دی.اس پر وہ بہت لال پیلا ہوا اور کہنے لگا میں نے کب کہا تھا کہ ایک بالشت سے زیادہ ریشم پہننا جائز نہیں بالشت سے مراد حضرت عمر یہ ہی کی بالشت ہے تو اس طرح اس ملانے حضرت عمر بن اللہ کی بالشت کہہ کر ڈیڑھ گز ریشمی کپڑے کا پہننا جائز قرار دے دیا.یہ بات تو لطیفہ ہے مگر ایک حقیقت بھی اس میں ہے.پس خدا تعالیٰ کاغد اور انسان کا غذ الگ الگ ہیں خدا تعالیٰ کے غد سے مراد یہ ہے کہ انسان اپنی نظر لمبی اور دور زمانہ تک رکھے اور شادی کے نتائج کو اگلی نسلوں کے پیدا ہونے تک لے جائے.انسان کی اپنی زندگی تو زیادہ سے زیادہ سو سال کی ہوتی ہے اس کو کیا علم ہے کہ اس دن اور اس سے اگلے دن کیا ہونے والا ہے.رسول کریم نے فرمایا ہے کہ دنیا میں جو کام کرویوں کرو کہ مرنا ہی نہیں.اس کا یہ مطلب نہیں کہ انسان کام کرنے سے مرتا ہی نہیں بلکہ یہ ہے کہ دنیا میں ایسا کام کرو کہ اس کا اثر کبھی ختم نہ ہونے والا ہو.یہاں بھی غد سے یہ مراد ہے کہ شادی ایسی کرو کہ اس کا اثر ختم نہ ہونے والا ہو.
خطبات محمود ۴۵۹ جلد سوم خدا کے دن کے متعلق جیسا کہ قرآن مجید میں آیا ہے کہ وہ ہزار برس کا ہے اسی طرح یہ بھی آیا ہے کہ وہ پچاس ہزار برس کا ہے.قرآن مجید پر حکمت کتاب ہے.اس کی ایک ایک آیت میں کئی کئی حکمتیں ہیں.اگر اللہ تعالیٰ کا دن پچاس ہزار برس کا ہو سکتا ہے تو پچاس کروڑ برس کا بھی ہو سکتا ہے بلکہ اس سے بھی زیادہ پچاس ارب سال کا بھی ہو سکتا ہے تو خدائی غد غیر معین ہے اس قدر غیر معین کہ انسان اس کا اندازہ نہیں کر سکتا.انسان اندازہ کرے بھی کیسے.وہ تو اس دن کے اندر ہی مرجاتا ہے..اسلامی تعلیم یہ ہے کہ جب انسان کی نظر خدا تعالٰی کی طرف ہو تو یہ دھیان رکھے کہ میں ابھی مر رہا ہوں اور جب دنیا کے کام میں لگا ہوا ہو اور اپنے ماحول پر نظر رکھے تو یہ سمجھے کہ میں نے کبھی مرنا ہی نہیں.شادی کے آئندہ اثرات ظاہر ہونے کے متعلق انسان کو کچھ بھی علم نہیں ہو تا اس لئے اللہ تعالیٰ نے اسے اِنَّ اللهَ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ کے کے ساتھ حل کر دیا کہ انسان کام کرتا جائے اثرات پیدا کرنا ہمارا کام ہے اور ہم جانتے ہیں کہ آئندہ اس کے کیا اثرات ظاہر ہونے والے ہیں.بعض لوگ جشن عورتوں سے شادی کر لیتے ہیں اور کئی نسلیں گزر جاتی ہیں ان میں سے کسی پر اس جشن کا اثر نہیں ہو تا آخر ساتویں یا آٹھویں نسل میں جاکر اس کا اثر ظاہر ہوتا ہے.بعض بال حبشیوں کی طرح گھنگھریالے اور رنگ سیاہ ہوتا ہے اس وقت کی نسل کو علم ہی نہیں ہو تا کہ ہمارے باپ دادا میں سے کسی نے جشن عورت سے بھی شادی کی تھی.بعض دفعہ تصویر کے دیکھنے سے بھی بچہ پر اثر پڑ جاتا ہے.یورپ کے ایک آدمی کے ہاں ایک دفعہ حبشی بچہ پیدا ہوا اس کے بال اور شکل حبشیوں کی سی تھی اس پر اس نے اپنی بیوی کو قتل کرنے کا ارادہ کیا کہ ایک ڈاکٹر نے اس کے گھر میں ایک حبشی کی تصویر دیکھی.وہ حبشی کئی سال سے مر چکا تھا اس پر شک بھی نہیں ہو سکتا تھا وہ اس شخص کے باپ دادا میں سے کسی کا غلام تھا ڈاکٹر نے بتایا کہ یہ عورت چونکہ اس تصویر کو دیکھا کرتی تھی اس کا اثر بچہ پر ہو گیا ہے.تو شادی کے بعض اثرات ایسے بھی ظاہر ہوتے ہیں کہ لوگ انہیں دیکھ کر حیران رہ جاتے ہیں کہ یہ چیز کہاں سے آگئی ہے.خوبی اور خرابی کا صرف اللہ تعالیٰ کو ہی علم ہوتا ہے.آج کل خورد بینوں کے ذریعہ اس کی تحقیقات ہوئی ہیں کہ نسل انسانی میں بعض ذرات مخفی طور پر نسلاً
خطبات محمود ۲۶۰ جلد سوم بعد نسل چلے آتے ہیں اور بعد کی کسی نسل میں ظاہر ہو جاتے ہیں.ایک انسان سخی ہوتا ہے مگر بعد میں اس کی نسل میں سخاوت کا ذرہ بند ہو جاتا ہے ساتویں آٹھویں پشت میں جاکر وہ ذرہ ترقی کرتا ہے اور پھر اسی نسل کا انسان سخی بن جاتا ہے.تو اخلاق اور ترقیات انسانی باریک در بار یک ذرات ہوتے ہیں جو کئی کئی نسلوں کے بعد ظاہر ہوتے ہیں پہلے مخفی چلے آتے ہیں.یوں ذرات کئی نسلوں میں چلتے رہتے ہیں مگر نشو و نما پوری طرح نہیں پاتے ، زمین عمدہ ہو اور بیج اچھا نہ ہویا اگر پیچ اچھا ہو زمین اچھی نہ ہو تو ہر دو صورتوں میں نشو و نما پوری طرح نہیں ہوتی.جب زمین اور بیچ دونوں عمدہ ہوں تب نشو و نما عمدہ ہوتی ہے.اِنَّ اللهَ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ کہ کر الله تعالٰی نے بتایا ہے کہ بے شک اثرات ظاہر ہوتے ہیں مگر انسان کو ان کا علم نہیں ہوتا.صرف اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ اس شادی کے اثرات کب اور کیسے ظاہر ہوں گے اس لئے خدا کے احکام کو مد نظر رکھنا چاہئے.الفضل ۱۵ جنوری ۱۹۳۸ء صفحه ۴۷۵) - الكهف : ۲۰ ه الحج : ۳۸ ه الحشر : ۱۹ ه الحشر : 19
۱۱۲ جلد سوم اللہ تعالیٰ کی صفت رقیب ہمیشہ مد نظر رکھو (فرموده ۲۸ جنوری ۱۹۳۸ء) ۲۸ - جنوری ۱۹۳۸ ء حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے میاں عبد الوہاب عمر خلف حضرت خلیفہ المسیح الاول کا نکاح امتہ اللطیف بیگم صاحبہ بنت مفتی فضل الرحمن صاحب حکیم کے ساتھ ڈیڑھ ہزار روپیہ مہر پر پڑھانے خطبہ مسنونہ کی تلاوت کے بعد فرمایا : اللہ تعالیٰ ان آیات میں جن کا رسول کریم ﷺ نے نکاح کے موقع پر انتخاب فرمایا ہے فرماتا ہے يَاأَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّكُمُ الَّذِي خَلَقَكُمْ مِنْ نَفْسٍ وَاحِدَةٍ وَخَلَقَ مِنْهَا زَوجَهَا وَبَثَّ مِنْهُمَا رِجَالًا كَثِيرًا وَنِسَاءً وَاتَّقُوا اللَّهَ الَّذِي تَسَاءَلُونَ بِهِ وَالْأَرْحَامَ.اِنَّ اللهَ كَانَ عَلَيْكُمْ رَقِيباً - سے انسان کو اللہ تعالیٰ نے دنیا میں اپنا مظہر بنایا اور مظہر ہونے کے لحاظ سے اس میں اپنی ان بعض صفات کا جو نظام کے ساتھ اور مخلوق کے ساتھ تعلق رکھتی ہیں پر تو ڈالا اور ان کے ظہور اور ان کے جلوے کی طاقت اس میں رکھی.خدا تعالٰی نے اس کے اندر طاقت رکھی ہے کہ وہ ربوبیت کا اظہار کرے، وہ رحمانیت کا اظہار کرے، وہ رحیمیت کا اظہار کرے، وہ مالکیت یوم الدین کا اظہار کرے، اسی طرح وہ سمیع ہونے کا، وہ بصیر ہونے کا، وہ غفور ہونے کا، وہ شکور ہونے کا، وہ ستار ہونے کا، وہ قادر ہونے کا، وہ قہار ہونے کا، وہ جبار ہونے کا، وہ مہیمن ہونے کا، وہ مومن ہونے کا اور جو دوسری صفات ہیں ان کا اظہار کرے گویا خدا تعالیٰ کی تصویر اور اس کی صفات کا انعکاس اس دنیا میں ہو.
خطبات محمود.سوم جلد سوم پس جو مقصد انسان کے سپرد کیا گیا ہے اس کے ماتحت ضروری تھا کہ یہ تمام قوتیں اس کے اندر ہو تیں.چنانچہ انسان کو خدا تعالٰی نے سنے کی طاقت دی اور وہ سنتا ہے، دیکھنے کی طاقت دی اور وہ دیکھتا ہے، ایک حد تک خلق کی طاقت دی اور وہ بچے پیدا کرتا ہے.چنانچہ میاں بیوی جب ملتے ہیں تو اس طاقت کے ماتحت ان کے ہاں بچے پیدا ہوتے ہیں، اسی طرح مصور ہونے کی طاقت دی اور وہ بڑی بڑی عمارتوں کے نقشے تیار کرتا اور تصویریں بناتا ہے، اسے محی ہونے کی طاقت دی اور وہ بار یک در باریک بیماریوں کے معالجات کا علم رکھتا اور قریب المرگ بیماروں کو زندہ کر دیتا ہے، اسے میت ہونے کی طاقت دی اور وہ ایک مجرم کو پکڑتا اور اسے سزا کے طور قتل کر دیتا ہے.غرض یہ ساری صفات اللہ تعالیٰ نے انسان کے اندر رکھی ہیں اور اس لئے رکھی ہیں کہ وہ دنیا میں خدا تعالٰی کی تصویر بن جائے جیسے ایک آئینہ جسے عربی زبان میں مراد کہتے ہیں دوسرے کی شکل دکھا دیتا ہے.عربی کے الفاظ اپنی ذات میں معانی پر بھی دلالت کیا کرتے ہیں چنانچہ عربی میں آئینہ کو اسی لئے منانا کہتے ہیں کہ وہ دوسرے کے وجود کو دکھا دیتا ہے.اسی طرح انسان کو خدا تعالیٰ نے اس لئے بنایا ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کی تصویر دنیا کو دکھا دے اور اگر وہ اپنے آپ کو اس رنگ میں ڈھالے جس رنگ میں شریعت اسے ڈھالنا چاہتی ہے تو اس میں کوئی شبہ نہیں کہ وہ خدا تعالیٰ کی صفات کا کامل مظہر بن سکتا ہے لیکن سب انسان اس رنگ کو اختیار نہیں کرتے بلکہ وہ بعض صفات کو لے لیتے اور بعض کو چھوڑیتے ہیں.گویا ان کی مثال بالکل ویسی ہی ہوتی ہے جیسے کہتے ہیں کہ کوئی پور بسیہ مرگیا اور اس کی بیوی نے اپنے قبیلہ کے حسب حال بین ڈالنے شروع کر دیئے.جب وہ رونے پیٹنے لگی تو اس دوران میں اس نے اپنے خاوند کی بعض باتیں یاد دلائیں تاکہ اس کی بے کسی کو دیکھ کر اور لوگ بھی روئیں چنانچہ کہنے لگی.فلاں شخص سے اس نے اتنی رقم لینی تھی اب کون لے گا.اس سے غرض اس کی یہ تھی کہ اب میں لاوارث رہ گئی ہوں میرے کام کون سرانجام دے گا.مگر جب وہ روتی اور پیٹتی اور کہتی ہائے ہائے اب فلاں سے جو رقم میں نے لینی ہے وہ کون لے گا تو ایک پور بیہ جو پاس ہی بیٹھا ہوا تھا وہ کہتا اری ہم ری ہم.پھر اس نے کہا فلاں جگہ ہماری اتنی زمین ہے اس کا اب کون انتظام کرے گا تو وہ جھٹ بولا اری ہم ری ہم.پھر کہنے لگی فلاں جگہ ہمارا کام ہے اس کو کون سنبھالے گا تو وہ فورا بولا اور کہنے لگا اری ہم ری ہم.پھر اس نے کہا ہائے میرے خاوند نے فلاں کا اتنا قرضہ دینا تھا اب وہ کون دے گا تو وہ کہنے لگا بھئی برادری میں سے کوئی اور بھی بولے یا میں
سمسم جلد سوم ہی بولتا چلا جاؤں.تو جب تک لینے کا سوال تھا وہ آگے رہا مگر جب دینے کا سوال آیا تو پیچھے ہٹ گیا.یہی حال انسان کا ہے جب انسان کو کہا جاتا ہے.تو خدا تعالیٰ کی صفات کا منظر ہے تو وہ بڑا خوش ہوتا ہے اور کہتا ہے یہ تو بڑی اچھی بات ہے چنانچہ وہ اس امر پر بنیاد رکھتے ہوئے کہنا شروع کر دیتا ہے خدا مالک ہے اس لئے میں بھی مالک ہوں، خدا قہار ہے اس لئے میں بھی قہار ہوں، خدا جبار ہے اس لئے میں بھی جہار ہوں مگر جب اسے کہا جاتا ہے کہ اللہ رب بھی ہے، وہ رحمن بھی ہے، وہ رحیم بھی ہے، وہ غفار بھی ہے، وہ ستار بھی ہے تو وہ مڑ کر دوسرے انسانوں کی طرف دیکھتا ہے اور کہتا ہے ارے میں ہی خدا تعالیٰ کی صفات کا مظہر بنتا چلا جاؤں یا تم میں سے بھی کوئی بنے گا؟ گویا جہاں تک مالکیت، قہاریت اور جہاریت کا سوال ہو، جہاں تک بڑائی اور عظمت کے حصول کا سوال ہو وہ کہتا ہے کہ میں جو خدا تعالیٰ کی صفات کو ظاہر کرنے والا ہوں کسی اور کی کیا ضرورت ہے.مگر جہاں رحیمیت کا سوال آجاتا ہے، جہاں رحمانیت کا سوال آجاتا ہے، جہاں ستار اور غفار ہونے کا سوال آجاتا ہے تو وہ یہ کہتا ہوا دکھائی دیتا ہے کہ اور جو دنیا میں لاکھوں لوگ ہیں وہ کیوں ان صفات کا مظہر نہیں بنتے.اللہ تعالی کی ان ہی صفات میں سے جن کو انسان غلط طور پر استعمال کرتا اور جن پر کلیتہ حاوی ہو جانا چاہتا ہے، ایک صفت رقیب بھی ہے اور اسی کی طرف اس آیت میں جو نکاح کے موقع پر پڑھی جاتی ہے توجہ دلائی گئی ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے یاد رکھو رقیب میں ہوں.یعنی خدا ہی ہے جو لوگوں کا نگران ہے وہ زید کے اعمال کو دیکھتا اور پھر اس کے متعلق فیصلہ کرتا ہے کہ وہ اچھا ہے یا برا.پھر وہ بکر کا رقیب بنتا اور اس کے اعمال کی نگرانی کر کے اس کے متعلق یہ فیصلہ کرتا ہے کہ وہ اچھا ہے یا برا.پس خدا رقیب ہے اور چونکہ انسانوں میں اللہ تعالیٰ نے یہ طاقت رکھی ہے کہ وہ اس کی صفات کو اپنے اندر پیدا کریں اس لئے دنیا کے اکثر انسان لوگوں کے رقیب بننے کے بڑے شائق ہوتے ہیں چاہے وہ خدا کو مانیں یا نہ مانیں.بیشتر حصہ دنیا کے لوگوں کا رقیب بننا چاہتا ہے، بیشتر حصہ دنیا کے لوگوں کا قادر بننا چاہتا ہے، بیشتر حصہ دنیا کے لوگوں کا جبار بننا چاہتا ہے، بیشتر حصہ دنیا کا قادر بننا چاہتا ہے، بیشتر حصہ دنیا کے لوگوں کا جبار بننا چاہتا ہے، بیشتر حصہ دنیا کے لوگوں کا قہار بننا چاہتا ہے.صفات الہیہ کے مظہر ہو جانے کا کوئی قائل ہو یا نہ ہو وہ اس بات کو تسلیم کرے یا نہ کرے.جو تورات میں آتا ہے کہ انسان کو خدا تعالیٰ نے اپنی شکل پر بنایا پھر بھی عملی طور پر
خطبات محمود موسم جلد سوم یہ کہتا دکھائی دیتا ہے کہ کیوں نہ میں مالک بنوں، کیوں نہ میں رقیب بنوں.اور اس طرح کہیں وہ تمام دنیا کے لوگوں کو نیچے گرا کر ان پر خود کھڑا ہو جانا چاہتا ہے، کہیں جبار بن کر ظاہر ہوتا ہے اور خدا تو جبار مصلح کے معنوں میں ہے مگر وہ جبار ظلم کے معنوں میں بنتا ہے، پھر کہیں وہ مالک بنتا ہے اور کہتا ہے سب دنیا میری ہے.کہیں وہ ملک بنتا ہے اور چاہتا ہے کہ سب لوگ میری اطاعت کریں یہاں تک کہ اگر کوئی اس کی بات کا جواب بھی دے تو کہتا ہے نا معقول پاجی تم جانتے نہیں ہم کون ہیں.حالانکہ وہ نہ اسے رزق دے رہا ہوتا ہے، نہ اس کا افسر ہوتا ہے، نہ اسے کپڑے دیتا ہے، نہ اسے کھانا دیتا ہے، فرق صرف یہ ہوتا ہے کہ اس کی تنخواہ سو روپے ہوتی ہے اور دوسرے کی تنخواہ دس.مگر اتنی سی بات پر وہ اسے نامعقول پاجی کہہ دیتا ہے، یا دوسرے کا صرف اتنا قصور ہوتا ہے کہ وہ سید، مغل، راجپوت یا برہمن نہیں ہو تا بلکہ کسی اور قوم میں سے ہوتا ہے اور یہ جو کسی اعلیٰ قوم میں سے ہوتا ہے دوسرے سے مخاطب ہو کر کہتا ہے شرم نہیں آتی کمینہ کہیں کا.حالانکہ کمینہ وہ خود ہوتا ہے جو دوسروں کو اپنی حکومت جتاتا اور ان کے حقوق کو پامال کرتا ہے.تو محض اس وجہ سے کہ اپنے زعم میں اسے کوئی فوقیت حاصل ہے وہ خیال کرتا ہے کہ کسی کا کوئی حق نہیں کہ میرے معاملات میں دخل دے ، کسی کا کوئی حق نہیں کہ مجھے نصیحت کرے، کسی کا کوئی حق نہیں کہ مجھے جواب دے، چاہے وہ کتنی ہی غیر معقول بات کہہ رہا ہو.قومیں ہیں تو ان کا یہی طریق ہے اشخاص ہیں تو ان کا یہی رنگ ہے اور تعجب آتا ہے کہ محض اس وجہ سے کہ انسان میں اللہ تعالیٰ نے مالکیت اور قہاریت او جباریت اور قادریت کی طاقتیں رکھی ہیں وہ ان طاقتوں کا کس طرح ناجائز استعمال شروع کر دیتے ہیں حالانکہ خدا تعالیٰ نے یہ طاقتیں انسان میں اس لئے رکھی تھیں کہ وہ تھوڑا سا رب بنے، تھوڑا سا رحیم ہے، تھوڑا سا غفور ہے، تھوڑا سا شکور بنے، تھوڑا سا سمیع بنے، تھوڑا سا بصیر بنے، تھوڑا سا جبار بنے، تھوڑا سا قہار ہے، تھوڑا سا مالک بنے مگریہ کیا کرتا ہے؟ یہ اپنے مطلب کی صفات لے لیتا ہے اور کہتا ہے سارا ملک میں، سارا جبار میں، سارا قہار میں اور سارے رحیم اور غفور اور شکور اور ستار اور غفار دو سرے.یہ بعینہ ویسی ہی تقسیم ہے جیسے کہتے ہیں کہ کوئی چالاک شخص تھا جس نے کسی سادہ لوح سے اشتراک کر کے کھیتی ہوئی اور کہا کہ ابھی سے آپس میں تقسیم کرلینی چاہئے دوسرے نے کہا یہ درست ہے ابھی سے ہم تقسیم کر لیں اور تقسیم یہی ہے کہ آدھا حصہ تم لے لینا اور آدھا میں لے لوں گا.اس نے کہا اچھا ہے آدھا حصہ لے لینا مگر
خطبات محمود ۴۶۵ جلد سو نیچے کا حصہ میں لوں گا اور اوپر کا حصہ تم لینا.اس پر فیصلہ ہو گیا اور اس نے مولیاں بیچ دیں.نتیجہ یہ ہوا کہ جب تقسیم کا وقت آیا تو مولیاں آپ لے گیا اور پتے دوسرے شخص کو دے دیئے.دو - دوسری دفعہ پھر اس نے اس سے اشتراک کیا اور پوچھا کہ اب کون سا حصہ لو گے اس نے سوچا کہ پہلے اوپر کا حصہ لے کر مجھے گھاٹا رہا تھا اب میں نچلا حصہ لیتا ہوں چنانچہ کہنے لگا نچلا حصہ میں لوں گا اور اوپر کا حصہ تم لے لینا.اس نے گیہوں بو دیئے نتیجہ یہ ہوا کہ دانے دانے یہ میں نے آیا اور ڈنٹھل اسے لینے پڑے، یہ تلخ تجربہ دیکھ کر وہ کہنے لگا اب پھر ہم اکٹھی کھیتی ہوتے ہیں لیکن شرط یہ ہے کہ اوپر کی چیز بھی میں لوں گا اور نیچے کی بھی میں لوں گا تم درمیان کی چیز لے لینا.اس نے سمجھا کہ اگر اب کی مرتبہ اس نے مولیاں بیچ دیں تب بھی مجھے فائدہ رہے ؟ گا اور اگر گیہوں ہوئے تب بھی فائدہ رہے گا مگر اس نے مکئی بودی اور جب فصل کاٹنے کا وقت آیا تو اوپر نیچے کے ٹانڈے اسے لینے پڑے اور دانے یہ گھر لے آیا.یہی حال انسان کا ہے.خدا نے تو یہ چاہا تھا کہ وہ کچھ مالکیت لے لے، کچھ قہاریت لے لے، کچھ جہاریت لے لے، کچھ ستار بنے، کچھ غفار بنے، کچھ رحیم بنے، کچھ کریم بنے، کچھ غفور بنے، کچھ شکور بنے اور اس طرح تھوڑی تھوڑی صفات اللہ تمام انسانوں میں تقسیم ہو جائیں اور سارے انسان ہی میری صفات کا مکمل نمونہ بنیں اور ان کے آئینہ میں میری ہر صفت کا انعکاس ہو.مگر یہ خدا تعالیٰ کی صفات کو تقسیم کرنا چاہتا ہے جیسے بکرے کا گوشت تقسیم کیا جاتا ہے.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ صفات اللہ کا انعکاس بھی منقسم ہوتا ہے مگر وہ جہاں بھی جاتا ہے سارے کا سارا جاتا ہے ٹکڑے ٹکڑے ہو کر نہیں جاتا.تم ایک آدمی کے سامنے ہزار آئینہ بھی رکھ دو.ہر آئینہ میں اس کی تصویر آئے گی.یہ نہیں ہو گا کسی میں اس کی ناک آئے، کسی میں سر، کسی میں ہاتھ اور کسی میں پاؤں بلکہ ہزار آئینے میں ہزار ہی اس کی مکمل تصویریں ہوں گی.اور اگر ہزار کی بجائے تم لاکھ یا کرو ڑیا ارب آئینہ بھی رکھ دو تو یہ نہیں ہو گا کہ کسی میں اس کا سر آگیا تو کسی میں ٹانگیں بلکہ ان میں سے ہر ایک کے اندر انسان کی مکمل صور آجائے گی.یمی خدا تعالیٰ کا انسان کو اپنی صفات کا جلوہ گاہ بنانے سے منشاء ہے یعنی وہ اپنا انعکاس چاہتا ہے نہ کہ تجزیہ اور تقسیم.مگر انسانوں نے خدا تعالیٰ کی صفات کا مکمل انعکاس ظاہر کرنے کی بجائے اس کی صفات کو تقسیم کرنا شروع کر دیا جیسے بکرے کی کلیجی اور اس کا گوشت تقسیم کیا جاتا
۶۶ جلد موم ہے.اور چونکہ خدا تعالیٰ کا تجزیہ نہیں ہو سکتا.تجزیہ اگر ہوگا تو برکات کا ہو گا اس لئے انہیں برکات الہیہ حاصل نہیں ہوتیں بلکہ وہ ان کے حصول سے محروم رہتے ہیں کیونکہ برکات تو جہاں جائیں گی مکمل صورت میں جائیں گی اور جب بھی انہیں تقسیم کیا جائے گا ان کا کچھ بھی باقی نہیں رہے گا.جس طرح پانی کا ایک گلاس اگر کسی نے لینا ہو تو ضروری ہے کہ وہ گلاس بھی اٹھائے تب اسے پانی ملے گا.اگر وہ پانی کو انگلیوں سے پکڑنا چاہے گا تو بہہ جائے گا.اسی طرح خدا تعالیٰ کے نور کا حال ہے اور پانی تو پھر بھی سیال ہونے کے باوجود ایک کثیف چیز ہے خدا تعالیٰ کا نور بہت ہی لطیف ہے اس کو اگر کوئی شخص اپنے قلوب میں نازل کرنا چاہے تو اس کی ایک ہی صورت ہے اور وہ یہ کہ اس کے سامنے کھڑا ہو جائے اور اسے لے لے.یہ نہیں ہو سکتا کہ وہ اس نور پر ہاتھ مارے تو اس کا کوئی حصہ اس کے ہاتھ میں آجائے.اگر یہ اس قسم کی حماقت کرے گا تو اس کی ایسی ہی مثال ہو گی.جیسے کہتے ہیں کہ کسی میراثی کے ہاں رات کے وقت کوئی چور آگیا اس نے بہتیرا تلاش کیا مگر اسے کوئی چیز نہ ملی.اتفاقاً اسی تلاش میں وہ اس کمرہ میں گھس گیا جہاں میراثی سویا ہوا تھا.آہٹ پاکر میراثی کی آنکھ کھل گئی اور اسے معلوم ہو گیا کہ چور اندر داخل ہے مگر وہ چپکا پڑا رہا اور مسکراتا رہا.تھوڑی دیر کے بعد اسے اس کمرہ کے فرش پر ایک جگہ کچھ سفیدی سی نظر آئی دراصل اس کمرہ میں اندھیرا تھا اور دروازے کے اندر سوراخ سے چاند کی روشنی اندر پڑرہی تھی.چور نے سمجھا کہ یہ آٹا پڑا ہوا ہے اسے خیال آیا کہ اگر اور کوئی چیز نہیں ملی.تو چلو آٹا اٹھا کر ہی لے چلیں.چنانچہ اس نے چادر بچھائی اور آٹا اٹھانے کے خیال سے اس نے اس نور کو ہاتھ جو مارا تو بے اختیار میراثی کی ہنسی نکل گئی اور وہ کہنے لگا "جمان کیوں تکلیف کر دے او ایتھے سانوں دنے کچھ نہیں ملدا تہانوں راتیں کی مل سکدا ہے ".یہی مثال اس شخص کی بھی ہوتی ہے یہ بھی چاہتا ہے کہ خدا تعالیٰ کا نور اپنے ہاتھ سے پکڑے حالانکہ وہ نور آنکھوں میں آتا ہے، وہ نور دماغ میں آتا ہے، وہ نور دل میں آتا ہے، کسی انسان کے ہاتھ میں نہیں آتا اور وہ جب بھی آئے گا مکمل آئے گا اور اگر وہ اس کے کسی حصہ پر ہاتھ مار کر تمام نور اٹھانا چاہے گا تو بہہ کر سب نو ر اس کے پاس سے چلا جائے گا.میرے سامنے اس وقت ایک مصری دوست (السید عبدالحمید آفندی خورشید آف قاہرہ) ہیں انہیں دیکھ کر مجھے مصر کا ایک لطیفہ یاد آگیا.جب میں مصر گیا تو ایک دفعہ ہم کسی باہر کے مقام سے ریل میں بیٹھ کر آرہے تھے کہ کھانے کا وقت ہو گیا اور ہم ریل کے اس کمرہ میں
خطبات محمود چلے گئے جو کھانے کے لئے مخصوص تھا ہمارے ملک میں تو یہ بات نہیں مگر مصر میں کثرت سے یورد پین لوگ آتے ہیں وہاں بہت سے یورپین بیٹھے تھے کچھ ہم ہندوستانی چلے گئے.مصر میں ایک کھانا ہوتا ہے جسے میکرونی (معکرونہ) کہتے ہیں وہ اٹالین سویاں ہوتی ہیں اور بڑی لمبی لمبی ہوتی ہیں ان کے متعلق قاعدہ ہے کہ پہلے انہیں ابال لیتے ہیں اور پھر چھوٹے چھوٹے ٹکڑے کاٹ لیتے ہیں اور ایک ایک ٹکڑا کانٹے میں پرو کر اور اسے لپیٹ کر منہ میں ڈال لیتے ہیں.ان انگریزوں میں سے ایک ایسا تھا جو غالبا نیا ہی مصر میں آیا تھا اور اس نے میکرونی کبھی کھائی نہیں تھی.ہم چونکہ اٹالین جہاز میں گئے تھے اور ہمیں پتہ تھا کہ میکرونی کس طرح کھاتے ہیں اس لئے ہمیں تو کوئی دقت محسوس نہ ہوئی مگر اس انگریز کو سخت مشکل پیش آئی اور اتفاقا وہ سویاں کچھ خاص طور پر لمبی تھیں.وہ بیچارا سویوں کو کانٹے سے اٹھاتا اور آہستہ آہستہ منہ کی طرف لاتا اور یوں معلوم ہو تا جس طرح اس نے مرا ہو ا سانپ اٹھایا ہوا ہے مگر چونکہ وہ بہت لمبی تھیں اس لئے جب منہ میں ڈالنے لگتا تو پھسل کر گر جاتیں.وہ پھر میکرونی اٹھاتا اور چمچہ سے نیچے سہارا دیتا اور آہستہ آہستہ اوپر لاتا مگر جب منہ کے قریب پہنچتیں تو دوسری طرف سے پھسل کر نیچے جاپڑ تھیں.یہ دیکھ کر اسے سخت ندامت محسوس ہوتی اور اسی شرم کے مارے وہ آنکھ اٹھا کر کسی کی طرف نہ دیکھتا اور سر جھکائے چار پانچ دفعہ اس نے چاہا کہ میکرونی منہ میں ڈالے مگر اسے کھانے کا طریق معلوم نہ تھا اس لئے وہ پھسل پھسل کر نیچے جا پڑتیں اور دوسرے لوگ اسے دیکھ دیکھ کر ہنتے رہے.یہی حال انسان کا ہے وہ بھی چاہتا ہے کہ خدا تعالیٰ کی صفات میں سے سب جباریت سب قہاریت اور سب قادریت میں لے لوں اور جس قدر ربوبیت اور رحیمیت اور رحمانیت کی صفات ہیں وہ دوسرے لے لیں اور اس طرح وہ سمجھتا ہے کہ وہ خالی جباریت، خالی قہاریت اور خالی مالکیت لے کر خدا تعالیٰ کی صفات کا مظہر ہو گیا حالانکہ خالی جباریت، خالی قہاریت اور خالی مالکیت شیطان میں ہوتی ہے.پس جس وقت وہ سمجھتا ہے کہ میں خدا تعالیٰ کی صفات کا مظہر ہو گیا دراصل وہ شیطان کی صفات کا مظہر بنا ہوا ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ کا نور اس کے دل سے نکل چکا ہوتا ہے.کیونکہ صفات اللہ کے ٹکڑے کرنا شیطان کا کام ہے.اسی لئے اللہ تعالی قرآن کریم میں کفار کے متعلق فرماتا ہے کہ جعَلُوا الْقُرْآنَ عِضِينَ - ۳ے کہ انہوں نے قرآن کریم کو ٹکڑے ٹکڑے کر لیا ہے.پس جو شخص صفات اللہ کو ٹکڑے ٹکڑے کرنے بیٹھ جاتا ہے وہ کافر
خطبات محمود ۴۶۸ بنتا ہے مومن نہیں بنتا.اسی لئے کفار کے متعلق اللہ تعالٰی فرماتا ہے کہ وہ کہتے ہیں.نُؤْمِنُ بَبَعْضٍ وَنَكْفُرُ بِبَعْضٍ.ہے کہ ہم بعض باتوں پر ایمان لاتے ہیں اور بعض کا انکار کرتے ہیں.تو جب کوئی شخص خدا تعالیٰ کی صفات کا تجزیہ اور تقسیم کرتا اور اپنے ذہن میں یہ خیال کر کے خوش ہو رہا ہوتا ہے کہ میں الہی صفات کا مظہر ہو گیا دراصل وہ شیطان کے قریب ہو گیا ہوتا ہے.ورنہ جو واحد اور منفرد خدا ہے اس کا تجزیہ کس طرح ہو سکتا ہے جس کا تجزیہ ہو سکتا ہے وہ تو شیطان ہی ہے اس لئے فرمایا.یا يُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّكُمُ الَّذِي خَلَقَكُمْ مِنْ نَفْسِ وَاحِدَةٍ وَخَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا وَبَثَّ مِنْهُمَا رِجَالًا كَثِيرًا وَنِسَاءً وَاتَّقُوا اللَّهَ الَّذِى تَسَاءَلُونَ بِهِ وَالأَرْحَامَ إِنَّ اللهَ كَانَ عَلَيْكُمْ رَقِيباًا.تم چاہتے ہو کہ ہم ہی دنیا کے رقیب بن جائیں اور تمہیں کبھی یہ خیال نہیں آیا کہ ہمارے سر پر بھی کوئی رقیب اور نگران بیٹھا ہے.پس کیوں تم اپنے آپ کو خدا بنانا چاہتے ہو اور کیوں یہ نہیں سمجھتے کہ خدا تعالیٰ نے یہ صفات اور یہ طاقتیں تم میں اپنے انعکاس اور تصویر کے لئے رکھی ہیں.فرض کرو تمہاری کوئی تصویر ہو اور اسے قوت گویائی دے دی جائے اور وہ یہ کہنے لگ جائے کہ میں ہی اصل آدمی ہوں تو تم کس قدر اسے حقیر سمجھو گے اور اس کی اس حرکت پر ہنسو گے.اس طرح ایک کاغذی انسان بلکہ کاغذ سے بھی زیادہ کمزور بے حقیقت اور ذلیل انسان اٹھتا ہے اور وہ خدا تعالیٰ کی بعض صفات اپنے اندر لے کر جو اس کو کبر کے اظہار کی توفیق دے دیتی ہیں یہ کہنے لگ جاتا ہے کہ میں ہی رقیب ہوں، میں ہی مالک ہوں، میں ہی قادر ہوں اور وہ بھول جاتا ہے اس امر کو کہ خدا تعالیٰ جہاں قادر ہے، جہاں قہار ہے، جہاں جبار ہے وہاں وہ ستار بھی ہے، وہاں وہ غفار بھی ہے، وہاں وہ شکور بھی ہے، وہاں وہ غفور بھی ہے.وہ وراء الورٹی طاقتیں اور عظیم الشان طاقتیں رکھنے کے باوجود پھر تذلل اختیار کرتا پھر انسان کی خدمت کے ہزاروں سامان پیدا کرتا، پھر ایک ادنی دوست کی طرح اس کے سامنے آکھڑا ہوتا ہے اور کہتا ہے آؤ میں تمہاری فلاں خدمت کروں، آؤ میں تمہاری راحت کے لئے فلاں سامان مہیا کروں.پس وہ یہ نہیں سمجھتا کہ جس کی طرف سے اسے یہ طاقتیں ملی ہیں جب وہ یہ محبت کا طریق اختیار کرتا، اپنے بندوں کے لئے تنزل اختیار کرتا اور ان کی خدمت کے لئے ہزاروں سامان پیدا کرتا ہے تو میں جو اس کی ایک تصویر ہوں ان صفات سے کب مستغنی ہو سکتا ہوں مگر خدا تعالیٰ کی صفات کے وہ بعض حصے جو کبریائی اور بڑائی پر دلالت کرتے ہیں انہیں انسان جب اپنے اندر پیدا کر لیتا ہے تو سمجھتا ہے کہ
خطبات محمود ہے.جلد سوم میں خدا کا نائب ہو گیا حالانکہ وہ خدا کا نائب نہیں بلکہ شیطان کا نائب ہوتا ہے کیونکہ خدا تعالیٰ کا تجزیہ کرنے والا شیطان ہے اور شیطان کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ استکبر وہ متکبر ہوتا حالانکہ استکبار مومن بھی کرتا ہے مگر مومن جہاں ایک طرف استکبار کرتا ہے وہاں دوسری طرف سجدہ میں اپنا سر بھی جھکا دیتا ہے.پس مومن کے استکبار اور شیطان کے استکبار میں فرق یہی ہے کہ مئومن تجزیہ نہیں کرتا یعنی وہ تمام صفات کا مظہر بنتا ہے مگر شیطان صفات الیہ کا تجزیہ کر کے اس کی صرف ان صفات کو لے لیتا ہے جو کبریائی اور بڑائی پر دلالت کرتی ہیں اور باقی سب کو نظر انداز کر دیتا ہے.آخر جب ہم کہتے ہیں تَخَلَقُوا بِاخْلَاقِ الله شو کہ اے لوگو! اللہ تعالٰی کی صفات اپنے اندر پیدا کرو تو کیا ہم ساتھ ہی یہ بھی نہیں کہہ رہے ہوتے کہ تم متکبر بھی بنو کیونکہ متکبر خدا تعالیٰ کی صفت ہے.پھر کیا وجہ ہے کہ ہم شیطان کو استکبار کی وجہ سے شیطان کہتے ہیں مگر مومن کو نہیں.بلکہ اگر مومن متکبر نہ ہو تو ہم کہیں گے کہ وہ صفات الہیہ کا کامل مظہر نہیں.اس کی وجہ یہی ہے کہ مومن تمام صفات کو اپنے اندر پیدا کرتا ہے وہ ایک موقع پر اگر بڑائی کا اظہار کرتا ہے تو دوسرے موقع پر تذلل اختیار کرتا اور خدا تعالٰی کی صفات ربوبیت، رحمانیت اور رحیمیت وغیرہ جو خدمت کے ساتھ تعلق رکھتی ہیں ان پر بھی عمل کر کے دکھاتا ہے.یہی وجہ ہے کہ فرشتہ بھی بعض جگہ متکبر ہوتا ہے.چنانچہ جہاں شیطان کی اطاعت کا سوال آتا ہے وہاں وہ انکار کر دیتا ہے مگر جہاں اللہ تعالٰی کی اطاعت کا سوال ہو وہاں انتہائی عاجزی سے جھک جاتا ہے.پس وہ شخص جو تمام صفات الہیہ کا مظہر بنتا ہے رہی ہے جو حقیقی معنوں میں مومن کہلا سکتا ہے مگر جو ایک حصہ کو تسلیم کرتا اور ایک حصہ کا انکار کرتا ہے شیطان ہوتا ہے.محض غرض اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.اِنَّ اللهَ كَانَ عَلَيْكُمْ رَقِيباً.دیکھو اب نکاح کے بعد تمہاری ایک دوسرے سے رشتہ داریاں ہوں گی اور تم ایک دوسرے کے رقیب بننا چاہو گے اور کہو گے کہ فلاں نے یہ کیوں کہا اور فلاں نے وہ کیوں کہا اور تم اس بات کو بھول جاؤ گے کہ تم م ایک انعکاس اور تصویر ہو اور اصل نگران تم نہیں بلکہ اصل نگران خدا ہے.ایک چھوٹا بچہ جب اپنے ہمجولیوں کے ساتھ کھیل رہا ہوتا ہے وہ اپنی بڑائی کے بڑے دعوئی کرتا ہے مگر جونہی کسی بڑے آدمی کو دیکھتا ہے سہم کر خاموش ہو جاتا ہے.اللہ تعالی فرماتا ہے کہ تم بھی اس بڑے کو ہمیشہ اپنے سامنے رکھا کرو بے شک تم رقیب ہو مگر تم عکسی رقیب ہو اور
خطبات محمود جلد سوم گو تصویر بھی بھلی معلوم ہوتی ہے مگر تصویر اور اصل میں کوئی نسبت نہیں ہوتی.ایک بہادر شخص جس کے ہاتھ میں خنجر ہو اس کو اگر کسی وقت شیر سے مقابلہ کرنا پڑے تو وہ اپنے خنجر سے شیر کو مار سکتا ہے لیکن اسی شخص کی اگر ایک تصویر ہو اور اس تصویر میں یہ دکھایا گیا ہو کہ اس کے ہاتھ میں خنجر ہے تو وہ کوئی حقیقت نہیں رکھے گی بلکہ اس کو ایک چوہا بھی کتر کر رکھ دے گا.تو گو تصویر میں حسن اور خوبصورتی ہوتی ہے مگر طاقت اتنی بھی نہیں ہوتی کہ ایک چوہے کا مقابلہ کر سکے اس کے مقابلہ میں جو اصل انسان ہو وہ شیر کو بھی مار سکتا ہے.تو فرمایا تم اپنی نگاہ ہمیشہ اوپر کی طرف رکھا کرو.بے شک رشتہ داری تعلقات میں ایک نظام کو قائم رکھنے کی وجہ سے بعض کو افسری ملے گی اور بعض کو ماتحتی مگر تم سمجھ لو کہ اصل افسر خدا ہی ہے اور تمہاری افسری محض دکھاوے کی چیز ہے.رشیا کا ایک مشہور بادشاہ پیٹر نہ نامی گزرا ہے.اس کی عادت تھی کہ وہ رعایا کے حالات کی نگرانی کے لئے بھیس بدل کر شہر اور دیہات میں گشت لگایا کرتا.ایک دفعہ وہ کسی جگہ سے گزر رہا تھا کہ ایک سارجنٹ جو چھٹی پر آیا ہوا تھا اپنے مکان کے دروازے کے آگے کھڑا سگار پی رہا تھا.گاؤں والے تو سپاہی کو بھی بڑا آدمی سمجھتے ہیں پھر اگر کوئی سارجنٹ ہو جائے تو اسے تو خاص تو قیر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے.وہ اسی طرح کھڑا تھا کہ بادشاہ نے سوال کیا کہ میاں میں نے فلاں کی طرف جاتا ہے اس طرف کون سا راستہ جاتا ہے.سارجنٹ یہ بات سن کر بادشاہ کی طرف متوجہ بھی نہ ہوا بلکہ اس نے دوسری طرف اپنا منہ پھیرتے ہوئے انتہائی بے رخی سے کہا " چلے جاؤ سید ھے".بادشاہ کو اس کی یہ بات بہت بری معلوم ہوئی کہ اس سے اتنا بھی نہ ہو سکا کہ وہ میری طرف منہ کر کے بات کرتا اور اس نے دریافت کیا کہ کیا آپ فوج سے تعلق رکھتے ہیں.اس نے پھر بھی منہ نہ موڑا اور کہنے لگا ہوں" بادشاہ نے کسی معمولی عہدے کا نام لیا اور پوچھا کیا آپ وہ ہیں.وہ سگار کا کش لگاتے ہوئے نہایت متکبرانہ انداز میں کہنے لگا " اوپر چلو " یعنی تم نے جو درجہ بتایا ہے یہ بہت چھوٹا ہے اس سے اوپر کسی درجے کا نام لو.اس نے پھر کسی اور عہدے کا نام لیا اور پوچھا کیا آپ وہ ہیں؟ اس نے کہا " اوپر چلو " بادشاہ کہنے لگا کیا آپ کارپورل ہیں وہ کہنے لگا " اوپر چلو" بادشاہ نے پوچھا کیا آپ سارجنٹ ہیں؟ وہ مسکرا کر کہنے لگا ”ہاں تم اب سمجھے کہ میرا درجہ کیا ہے" یہ پوچھ کر بادشاہ آگے چلنے لگا.تو چونکہ ان باتوں کی وجہ سے اس سارجنٹ کو بھی کچھ دلچسپی ہو گئی تھی اس لئے وہ کہنے لگا میاں کیا تمہارا بھی فوج
ނ Et جلد سوم سے تعلق ہے.بادشاہ کہنے لگا ہاں میرا بھی فوج سے تعلق ہے.وہ کہنے لگا کیا کار پوری ہو.بادشاہ نے کہا اوپر چلو.پھر اس نے کہا کیا سارجنٹ ہیں.بادشاہ نے کہا اوپر چلو اس پر وہ کچھ مودب سا ہو گیا اور کہنے لگا کیا آپ سیکنڈ لیفٹیننٹ ہیں.بادشاہ نے کہا " اوپر چلو“ کہنے لگا کیا لیفٹینٹ ہیں.بادشاہ نے کہا اوپر چلو " کہنے لگا کیا آپ کیپٹن ہیں.بادشاہ نے کہا اوپر چلو " وہ کہنے لگا کیا آپ میجر ہیں اور یہ کہتے ہوئے وہ بہت ہی خوف زدہ ہو گیا.بادشاہ نے کہا "او پر چلو وہ کہنے لگا کیا آپ لیفٹیننٹ کرنل ہیں.بادشاہ نے کہا اوپر چلو وہ کہنے لگا کیا آپ کرنیل ہیں.بادشاہ نے کہا " اوپر چلو پھر تو وہ بہت ہی گھبرایا اور کہنے لگا کیا آپ جرنیل ہیں.بادشاہ نے کہا اوپر چلو".وہ کہنے لگا کیا آپ کمانڈر انچیف ہیں.بادشاہ نے کہا " اوپر چلو“ یہ سنتے ہی اس کے پاؤں لڑکھڑائے اور حضور بادشاہ سلامت کہتے ہوئے اس کے قدموں میں گر گیا.یہی انسانی حالت ہوتی ہے وہ ہمیشہ نچلوں کو دیکھتا اور دیکھ کر اپنی حیثیت کا اندازہ لگاتا اور کہتا ہے میں بھی کچھ بن St گیا ہوں.اللہ تعالی کہتا ہے تم کدھر دیکھتے ہو اِنَّ اللهَ كَانَ عَلَيْكُمْ رَقِيباً ادھر دیکھو تا تم کو اپنا مقام یاد رہے اور تمہیں معلوم ہو کہ تمہاری کیا حیثیت ہے.تو نکاح کے موقع پر رسول کریم ﷺ نے اس آیت کا انتخاب کر کے ایک لطیف وعظ کیا ہے اور مرد کو بتایا ہے کہ وہ اپنی بیوی کے ساتھ کیا سلوک کرے حضرت خلیفہ المسیح الاول فرمایا کرتے تھے کہ ہمارے ملک میں جب میاں بیوی کا آپس میں جھگڑا ہوتا ہے تو مرد ہمیشہ عورت سے کہا کرتا ہے کہ ”توں ہیں کی پیر دی جتی ہی تے ہیں.اک لاہی تے دوجی پالٹی " یعنی تمہاری حیثیت پاؤں کی جوتی سے زیادہ نہیں جو ایک اتار کر دوسری پہن لی جاتی ہے.ایسے موقع پر کیا لطیف نصیحت کی ہے.فرماتا ہے تم اب بادشاہ تو بننے لگے ہو مگر میاں ذرا اوپر بھی دیکھ لیا کرنا.خود رسول کریم ﷺ نے بھی فرمایا ہے.كُلُّكُمْ رَاعٍ وَكُلُّكُمْ مَسْنُولٍ عَنْ رَعَيْتِه كے کہ ہر ایک تم میں سے بادشاہ ہے اور ہر ایک سے اپنی اپنی رعیت کے متعلق سوال کیا جائے گا.گویا بادشاہ کہہ کر اسلام نے اس کا حوصلہ بڑھا دیا اور اسے بھی یہ خیال آنے لگ گیا کہ میں کچھ ہوں.مگر كُتُكُمْ مَسْئُولٌ عَنْ رَعَيْتِهِ کہہ کر پھر اسے اس کے اصل مقام پر لے آیا اور بتا دیا کہ تم پر ذمہ داریاں بھی بہت ہیں اور اوپر کا بادشاہ تم سے سوال کرے گا کہ تم نے اپنی ذمہ داری کو کس حد تک پورا کیا؟ گویا ایک دم انسان کا دماغ بلند کر کے اسلام اسے اوپر بھی لے گیا اور پھر -
خطبات محمود ۴۷۲ جلد سوم ساتھ ہی اس کی نیکی اور تقویٰ کا سامان بھی کر دیا.پس رسول کریم ﷺ نے اس امر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ كُلُّكُمْ رَاعٍ وَكُتُكُمْ مَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ - کہ تم بادشاہ بھی ہو مگر تم ایک اور بادشاہ بھی ہے تمہیں چاہئے کہ اپنے معاملات میں اس کا خیال رکھ لیا کرو گویا ان الله كَانَ عَلَيْكُمْ رَقِيباً.میں جو کچھ بیان کیا گیا تھا رسول کریم ﷺ نے اس کا اپنے الفاظ میں ترجمہ کر دیا پس یہ آیت جو نکاح کے موقع پر پڑھی جاتی ہے اس کا پہلا حصہ یہ بتایا ہے کہ بعض دفعہ تم بڑے ہوتے ہو اور تمہارے رشتہ دار چھوٹے ہوتے ہیں اور تم تکبر سے انہیں دھتکار دیتے اور کہتے ہو کہ ہم کہاں اور تم کہاں مگر دیکھو یہ باری کبھی بدل بھی جاتی ہے اور چھوٹے بڑے اور بڑے چھوٹے ہو جاتے ہیں اس لئے یہی بہتر ہے کہ صلح صفائی سے رہو.ایک دوست نے ایک دفعہ لطیفہ سنایا.وہ لاہور میں اس وقت کو نسل کے ممبر تھے مگر ار کونسل کے ممبر نہیں بلکہ اس سے بہت بڑے عہدہ پر فائز ہیں کہ ایک دفعہ جب پنجاب کو نسل کے لئے الیکشن کا زور تھا ان دنوں ایک زمیندار نے ووٹوں کے حصول میں میری خاص مدد کی اور سو دو سو ووٹ لوگوں سے مجھے دلوا دیئے.میں نے سمجھا اس نے یہ ووٹ مجھے اس لئے دلوائے ہیں کہ اسے میرے متعلق یہ خیال ہے کہ میں کونسل میں خدمت خلق کا خیال رکھتا ہوں، اس کی اور کوئی غرض نہیں کیونکہ وہ دوست کسی کے آگے ہاتھ جوڑ کر ووٹ مانگنے کے عادی نہیں بلکہ یہ کہا کرتے ہیں کہ میں اس رنگ میں کام کرنے والا شخص ہوں اگر تم چاہتے ہو کہ میں تمہارے حقوق کی نگرانی کروں تو مجھے ووٹ دے دو.اپنی اس سعادت کے لحاظ سے انہوں نے بتایا کہ میں سمجھتا رہا اس نے بھی مجھے ایک خادم وطن سمجھ کر ووٹ دلائے ہیں.لیکن جب الیکشن ختم ہو گیا اور میں کامیاب ہو گیا تو ایک دن وہ میرے پاس آیا اور کہنے لگا فلاں جگہ کا ڈپٹی کمشنر آپ کے زیر اثر ہے اس کے سامنے فلاں گاؤں کی نمبرداری کا سوال ہے اور بعض اور لوگ بھی امیدوار ہیں آپ میری سفارش کر دیں.میں نے اسے کہا کہ میں اپنے اصول کا پابند ہوں اور میری یہ عادت ہے کہ میں ایسے معاملات میں جہاں مقدمے کی کوئی صورت ہو کسی کی سفارش کرنے کے لئے تیار نہیں ہوتا اس لئے مجھے افسوس ہے کہ میں آپ کی سفارش نہیں کر سکتا.وہ کہنے لگا آپ بدنامی سے ڈرتے ہوں گے آپ اس کا فکر نہ کریں آپ خط لکھ کر مجھے دے دیں میں صاحب کو پڑھا کر اسی وقت اس سے واپس لے کر پھاڑ ڈالوں گا.میں نے کہا اصول کا سوال ہے بدنامی کا نہیں.جب میں ایسے معاملات میں سفارش کرنے کا عادی ہی
محمود جلد سوم نہیں تو آپ کی کس طرح سفارش کر دوں.کہتے ہیں اس پر وہ کچھ بولا نہیں اور چپ کر کے چلا گیا شکل سے میں نے سمجھا کہ اس نے میرے جواب کو ناپسند کیا ہے مگر میں نے کہا خیر میں بھی مجبور ہوں.اس واقعہ پر ایک عرصہ گزر گیا اور درمیاں میں اس نے کبھی اس کا مجھ سے ذکر نہ کیا لیکن جب دوبارہ الیکشن کا وقت آیا تو دوستوں کی طرف سے مجھے رپورٹ پہنچی کہ وہ شخص جس نے گزشتہ الیکشن کے موقع پر آپ کی خاص طور پر مدد کی تھی اب کچھ بگڑا بیٹھا ہے.آپ اس کے پاس چلیں اور اسے بھی ووٹ دینے پر آمادہ کریں.چنانچہ وہ کہتے ہیں میں اور بعض معزز دوست اس کے مکان پر گئے وہ اس وقت اپنے صحن میں بیٹھا تھا.اس نے ہمارے لئے موڑھے بچھا دیئے مگر منہ دوسری طرف کر لیا اور حقہ کے کش لگانے شروع کر دیئے.دوستوں نے اسے کہا کہ چوہدری صاحب ہم آپ کی خدمت میں اس لئے حاضر ہوئے ہیں کہ اب الیکشن ہو رہا ہے آپ اپنے زیر اثر لوگوں کو تحریک کریں کہ وہ ان صاحب کو ووٹ دیں.وہ کہتے ہیں یہ بات سن کر اس نے پھر بھی ہماری طرف منہ نہ کیا اور اسی طرح حقہ کا کش لگاتے ہوئے کہا سانوں اس نال کی " یعنی ہمیں اس سے کیا غرض ہے وہ کہنے لگے نہیں یہ بڑے لائق آدمی ہیں انہیں ضرور ووٹ دلائیں.اس پر اس نے جواب تک نہ دیا اور منہ برابر دوسری طرف کئے رہا.آخر میں نے کہا کہ اصل بات یہ ہے کہ یہ ایک کام کے لئے میرے پاس آئے تھے جسے میں کر نہیں سکتا تھا معلوم ہوتا ہے ان کی طبیعت پر اس بات کا اب تک اثر ہے.دوستوں نے کہا یہ ! کون سی بڑی بات ہے مگر اس نے منہ پھر بھی نہ پھیرا اور کہنے لگا کر میں انہاں دا ویلا.کریں ساڈ اویلا " وہ کہتے ہیں یہ بات سنتے ہی پھر ہم وہاں سے اٹھ کھڑے ہوئے اور چلے آئے.یہی بات اللہ نے اس جگہ بیان فرمائی ہے فرماتا ہے.وَاتَّقُوا اللهَ الَّذِي تَسَاءَلُونَ بِه والارحام ، کہ دیکھو اپنے رشتہ داروں کا لحاظ رکھا کرو اور یہ سمجھ لو کہ اگر اس وقت وہ غریب ہیں اور تم امیر تو ممکن ہے کل باری بدل جائے اور تم غریب ہو جاؤ اور وہ امیر.پھر جو بعد میں پنے رشتہ داروں کے آگے ہاتھ جوڑنے ہیں تو کیوں ابھی سے صلح صفائی سے نہیں رہتے اور پھر اِنَّ اللهَ كَانَ عَلَيْكُمْ رَقِيباً کہہ کر ایک اور سبق دیا.کہ معاملات کے وقت ذرا اوپر بھی نگاہ اٹھا لیا کرو.یہ کتنے لطیف نکتے ہیں جو اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے بیان فرمائے ہیں اور کوئی وجہ نہیں کہ اگر بنی نوع انسان ان کو اپنے مد نظر رکھیں تو لڑائی جھگڑے ہو سکیں.ایک تو وہ اس نکتہ کو
خطبات محمود جلد سوم مد نظر رکھیں جسے پنجابی زمیندار نے ان الفاظ میں ادا کیا کریں انہاں دا ویلا کریں ساڈا دیلا" اور دوسرے اس نکتہ کو جو اللہ تعالٰی نے اِنَّ اللهَ كَانَ عَلَيْكُمْ رَقِيباً.میں بیان فرمایا ہے پھر امن ہی امن ہو جاتا ہے اور جھگڑا اور فساد سب مٹ جاتا ہے.ن الفضل ۳۰- جنوری ۱۹۳۸ء صفحه ۲ ه النساء : ۲ الحجر : ۹۳ ته النساء : ۱۵۱ الفضل ۳ فروری ۱۹۳۸ء صفحه ۴ تا ۹ | شه PETER.The great.1072 - 1725 Czar of Russia, Showed great ability and energy of reorganisation of his Army and Navy (Long Mans ENGLISH LAROUSSE که بخاری کتاب النکاح باب المراة راعية في بيت زوجها - ENCYCLOPAEDIA
خطبات محمود ۴۷۵ نکاح کے بارہ میں ایک اصولی ہدایت فرموده ۲۰- جون ۱۹۳۸ء) له خطبہ مسنونہ کی تلاوت کے بعد حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے فرمایا : نکاحوں کے بارے میں ہمارے ملک میں ایک غلطی ہو رہی ہے کہ جہاں مرد ولی نہیں ہوتے وہاں عورتوں کو ولی ٹھہرا دیا جاتا ہے.چنانچہ یہی فارم جو اس وقت میرے ہاتھ میں ہے اس میں بھی اسی قسم کی غلطی کی گئی ہے یعنی لڑکی کی والدہ ولی ہے گو یہ صرف ایک اصطلاحی غلطی ہے کیونکہ لڑکی کی والدہ نے مجھ سے دریافت کر لیا ہے اور میرے مشورہ سے اس نے یہ کام کیا ہے بلکہ یوں کہنا چاہئے کہ میرے کہنے پر اس نے یہ کیا ہے صرف اصطلاح کے طور پر والدہ ولی بنی ہے مگر بہر حال ہماری شریعت میں ولی مرد کو ہی ٹھرایا گیا ہے.چنانچہ حدیثوں میں آتا ہے رسول کریم ﷺ کی خدمت میں ایک عورت نکاح کرانے کے لئے آئی تو آپ نے اس کے لڑکے کو جس کی عمر غالبا دس گیارہ سال تھی ولی بنایا.ہے جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ولی مرد ہی ہوتے ہیں.اس عورت کا چونکہ اور کوئی مرد ولی نہیں تھا اس لئے رسول کریم ا نے اس لڑکے سے دریافت کرنا ضروری سمجھا.شریعت اسلامیہ کا قاعدہ ہے کہ جس عورت کا کوئی ولی نہ ہو اس کی ولایت حکومت کے ذمہ ہوتی ہے، حکومت خواہ سیاسی ہو، خواہ دینی اس کا فرض ہے کہ وہ اس لڑکی کا جس کا کوئی مرد ولی نہیں ولی بنے.ہاں لڑکی کی والدہ سے مشورہ کرنا ضروری ہوتا ہے.دیگر رشتہ داروں سے بھی مشورہ کرے مگر آخری فیصلہ حکومت کے ہاتھ میں ہے اور اس کا حق ہے کہ جہاں اس کی
خطبات محمود جلد سوم والده یا دیگر رشته دار پسند کرتے ہیں اگر اسے اس میں کوئی غلطی نظر آئے یالڑ کے میں کسی قسم کا عیب دیکھے تو انکار کردے اور ان کے مشورہ کو رد کر دے.شریعت نے مرد کو اس لئے ولی ٹھہرایا ہے کہ وہ عورت کی نسبت مرد کے حالات اور جذبات کو زیادہ عمدگی سے دیکھ سکتا ہے.وہ دیکھ سکتا ہے کہ آیا یہ مرد دھوکا بازی تو نہیں کرے گا یا اس میں کسی قسم کا عیب تو نہیں.اس نم کے حالات معلوم کرنے کے لئے ضروری ہے کہ مرد ہی ولی ہو مرد کی نسبت عورت نا واقف ہوتی ہے..یہ فارم جو اس وقت میرے پاس ہے اس میں گو یہ اصطلاحی غلطی ہے مگر لڑکی کی ماں کو مرد کے حالات کا پہلے سے ہی علم ہے کیونکہ ان کی پہلے سے ہی رشتہ داری ہے لیکن ایسا شاذ و نادر ہی ہوتا ہے.قاعدہ میں عمومیت دیکھی جاتی ہے.عورتوں میں سے سو میں سے پچانوے ایسی ہوتی ہیں جو مرد کے حالات سے واقف نہیں ہو سکتیں باقی پانچ فیصدی عورتیں رہ جاتی ہیں اور یہ تعداد بہت کم ہے قاعدہ کی بناء ہمیشہ عمومیت پر ہوتی ہے.مرد کو شریعت نے ولی اس لئے بنایا ہے کہ وہ دیکھے لڑکے میں کوئی نقص یا عیب تو نہیں عورت ان حالات کو کیا جان سکتی ہے.الا ماشاء اللہ بعض عورتیں جانتی ہوں گی مگر مسئلہ یہی ہے کہ ولی مرد ہو اور جس کا کوئی ولی نہ ہو اس کی ولی حکومت ہوتی ہے خواہ دنیاوی حکومت ہو یا روحانی.اس نکاح میں جس قسم کے حالات کے ماتحت عورت ولی بنی ہے اس قسم کے حالات ہزاروں میں سے ایک کے ہوتے ہیں.مرد نکاح کرنے والے کو اپنی آنکھوں سے دیکھتا ہے اور بعض دفعہ آدمی کو آنکھوں سے دیکھ کر ہی معلوم کر لیا جاتا ہے کہ وہ کس قسم کا ہے.مرد اس کے اخلاق کا جائزہ لیتا ہے، اس کے بولنے کے طریق کو دیکھتا ہے، اس کے بلین دین پر نظر رکھتا ہے، اس کی مجلس دیکھتا ہے کہ یہ کس قسم کے لوگوں کے پاس بیٹھتا ہے، اس کے سودا سلف خریدنے کی طرف دیکھتا ہے کہ کہیں دھوکا بازی تو نہیں کرتا غر منکہ وہ اس کے اٹھنے بیٹھنے، چلنے پھرنے اور بولنے کو دیکھتا ہے اور معلوم کر لیتا ہے کہ یہ کس قسم کا آدمی ہے مگر عورت کہاں یہ حالات معلوم کر سکتی ہے.شریعت نے اس امر کو مد نظر رکھتے ہوئے مرد کو حق دیا ہے.ہاں استثنائی صورت میں یہ ہو سکتا ہے کہ اس شخص کے اخلاق وغیرہ دیکھنے کی ضرورت ہی نہ ہو مثلا رسول کریم اللہ کے نکاح کے وقت آنحضرت کے اخلاق دیکھنے کی ضرورت نہیں تھی کیونکہ وہاں تو نبوت کا سوال تھا اس قسم کے واقعہ سے بھی شریعت کا مسئلہ نہیں ٹوٹتا بلکہ قائم رہتا ہے کیونکہ نبی تو ایک ہی ہوتا ہے اور وہ
خطبات محمود جلد سوم بھی اربوں ارب میں سے ایک تو قاعدہ وہی ہے البتہ استثنائی صورت نبی کے لئے ہو سکتی ہے اس قاعدہ کی مثال بالکل ایسی ہی ہے جیسے ہماری شریعت کہتی ہے کہ جب آپس میں معاملہ طے کرو تو اس کو تحریر میں لے آیا کرو.باوجود اس قاعدہ کے بعض ایسے لوگ ہوتے ہیں کہ ان کے پاس جتنی امانت رکھی جائے جب بھی چاہو ان سے لے سکتے ہو.سودا وغیرہ دکانداروں سے لیا جاتا ہے تو بغیر تحریر کے دکاندار سودا دے دیتے ہیں اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ ان کو یقین ہوتا ہے کہ وہ دھوکا بازی نہیں کریں گے.ان حالات کی موجودگی میں تحریر کرنے والا قاعدہ بدل نہیں سکتا وہ قاعدہ ویسا ہی قائم ہے جیسے پہلے تھا.تو ولی مرد ہی ہو سکتا ہے.ولایت کا پہلا حق باپ کو ہے اگر وہ نہ ہو تو بھائی ولی ہوتے ہیں اگر وہ بھی نہ ہوں تو پھر عورت کے بھائی ولی ہوتے ہیں اور اگر کوئی مرد ولی نہ ہو تو حکومت ولی ہوتی ہے خواہ وہ حکومت روحانی ہو یا دنیاوی.البتہ حکومت کے لئے ضروری ہوتا ہے کہ وہ لڑکی کی والدہ سے مشورہ کرے.ہمارے پاس اگر ایسے رشتے آئیں تو ہم لڑکی کی ماں سے مشورہ کرنے کے بعد ہی رشتہ کریں اور بسا اوقات اس کی مرضی ہی مقدم رکھی جاتی ہے.مجھے تو یاد نہیں کہ اس قسم کا واقعہ ہوا ہو اگر ہوا تو اس قدر کم کہ وہ اب یاد بھی نہیں رہا.بالعموم ماں کی مرضی دیکھی جاتی ہے البتہ وکالت اور ولایت کوئی عورت نہیں کر سکتی تو ایسے حالات میں کہ لڑکی کا کوئی ولی نہ ہو خلیفہ یا اس کا نمائندہ اس کا ولی ہو گا.نکاح کے بارے میں مجھ سے آج ہی علماء کی طرف سے ایک سوال کیا گیا ہے اس سوال کا تعلق بھی نکاح سے ہی ہے اس لئے میں چاہتا ہوں کہ اس موقع پر اپنے خیالات کا اظہار کردوں.گزشتہ دنوں ہمارے ایک عالم نے دوسری شادی کرنے کا ارادہ کیا تو دوسرے بعض علماء نے ان پر اعتراض کیا.اس عالم نے جواب میں انہیں کہا کہ خلیفہ المسیح کا منشاء یہ ہے کہ ایک سے زیادہ شادیاں کی جائیں اور تغییر قرآن کی رو سے بھی خلیفہ المسیح کے نزدیک ایک سے زیادہ شادیاں کرنی اچھی ہیں.اس پر اعتراض کرنے والے علماء میرے پاس آئے اور سوال کیا کہ یہ مسئلہ بتا ئیں میں نے انہیں کہا کہ میرے نزدیک قرآن سے یہی ثابت ہے کہ ایک سے زیادہ شادیاں کرنی چاہئیں اور قرآن مجید نے بھی کثرت کو پہلے رکھا ہے اور ایک شادی کو بعد میں بیان کیا ہے (اس پر حضور نے فرمایا کسی کے پاس قرآن مجید ہے تو ایک دوست نے قرآن
خطبات محمود ۴۷۸ جلد سوم مجید حضور کو دیا) اور حضور نے یہ آیت تلاوت فرمائی.وَإِنْ خِفْتُمُ الَّا تُقْسِطُوا فِي الْيَتُمى فَانكِحُوا مَا طَابَ لَكُم مِّنَ النِّسَاء مَثْنَى وَثُلث وَرُبَعَ فَإِنْ خِفْتُمُ اللَّا تَعْدِلُوا فَوَاحِدَةً أو مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ - سے میں نے ان دوستوں سے کہا کہ شریعت نے جسے مقدم بیان کیا ہے میں بھی اسے مقدم ہی جانتا ہوں اور جسے مو خر یعنی بعد میں ذکر کیا ہے میں بھی اسے مئوخر ہی قرار دیتا ہوں.قرآن مجید نہیں کہتا کہ ایک شادی کرو اور اگر اس کے بعد ضرورت پیش آئے تو ایک سے زیادہ شادیاں کرو.بلکہ قرآن مجید نے مثنى وثلث اور ربع کو پہلے رکھا ہے اور پھر کہا ہے کہ اگر دو تین اور چار شادیاں کرنے سے تم پر خوف کی حالت طاری ہوتی ہو تو فَوَاحِدَةً ایک ہی شادی کرو.تو ایک شادی کی اجازت اس صورت میں ہے جب کہ انسان کو خوف لاحق ہو.ایک اور بات میں نے ان کے سامنے یہ پیش کی کہ رسول کریم ہمارے لئے اسوہ حسنہ ہیں آنحضرت ا کا اسوہ ہمارے سامنے ہے.آج ایک اور دوست نے بھی ایک سوال پیش کیا ہے کہ اگر ہر مرد چار چار شادیاں کرنے لگ جائے تو اتنی عورتیں کہاں سے آئیں گی.میں نے انہیں بتایا کہ یہ وہم اس لئے پیدا ہوا ہے کہ لوگ الا تَعْدِلُوا کے معنے نہیں سمجھتے.قرآن کریم میں بڑی بڑی باریکیاں اور بڑی بڑی حکمتیں بیان کی گئی ہیں.بعض لوگ قرآن کریم کے الفاظ کی باریکیاں اور حکمتیں نہیں جانتے اس لئے ان کے دلوں میں اس قسم کا وہم پیدا ہو جاتا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَإِنْ خِفْتُمُ الا تَعْدِلُوا یہاں عدل کے معنے تو انصاف کے ہی ہیں مگر لوگ غلطی سے اس کے معنی و اِن خِفْتُم اَلا تَعْدِلُوا بَيْنَهُنَّ کر لیتے ہیں کہ اگر تم عورتوں کے درمیان عدل نہ کر سکو تو پھر ایک ہی شادی پر اکتفا کرد حالانکہ یہ معنی صحیح نہیں بلکہ اللہ تعالٰی نے صرف یہ فرمایا ہے کہ اگر عدل نہ کر سکو تو پھر ایک شادی کی اجازت ہے.عدل کی مختلف صورتیں ہیں مثلاً ایک آدمی کے پاس کھانے کو کچھ نہیں یا صرف دو روٹیاں اپنی بیوی کو کھانے کے لئے دیتا ہے اب اگر وہ دوسری شادی کرے گا تو لا زیادہ اپنی دونوں بیویوں کو ایک ایک روٹی کھانے کے لئے دے گا.اب وہ کہے کہ میں نے دونوں کے درمیان عدل کیا تو یہ معنی عدل کے نہیں بلکہ عدل کے معنے یہ ہیں کہ اتنی روٹی دو جس سے پیٹ بھر جائے.اگر ایک عورت کو دو روٹیوں کی بھوک ہے اور اسے ایک روٹی دی جائے تو یہ عدل
خطبات محمود جلد سوم نہیں بلکہ ظلم ہے یا مثلاً ایک شخص اپنی بیویوں کو کپڑا دے ایک بیوی کا تو اس میں کرتہ بن جائے اور ایک کا پاجامہ بن جائے یا دونوں کے کرتے یا پاجامے بن جائیں اور ان کا خاوند کہے کہ میں نے عدل کیا ہے تو یہ عدل نہیں، قرآن مجید میں یہ نہیں ہے کہ ایک کو پاجامہ دو اور ایک کو کرتہ بلکہ قرآن کریم فرماتا ہے کہ عورتوں کو پورالباس دو.و ایک دوسری صورت الا تعدلوا کی یہ بھی ہے کہ قوت مردمی کمزور ہو اور عورت کے حقوق کو انسان پورا نہ کر سکتا ہو.مثلاً ایک شخص ایک بیوی سے سال میں ایک دفعہ جماع کرتا ہے وہ شخص یہ خیال کرے کہ اب عدل یہی ہے کہ دوسری بیوی سے بھی سال بھر میں ایک ہی بردوود دفعہ جماع کیا جائے تو یہ عدل نہیں کہلائے گا بلکہ دونوں پر ظلم کرنے والا سمجھا جائے گا.تو قرآن مجید ہمیں عدل کرنے کی طرف توجہ دلاتا ہے اللہ تعالیٰ ایک اور جگہ فرماتا ہے اِن اللهَ يَأْمُرُ بِالعدل کے کہ اللہ تعالی تمہیں عدل یعنی انصاف کرنے کا حکم دیتا ہے.عدل کے معنے یہ نہیں کہ دو آدمیوں کو برابر کا حصہ دو بلکہ یہ معنے ہیں کہ ہر شخص کو اس کا حق دو.اگر برابر برابر حصہ دیتا ہی عدل کے معنے ہوں تو اللہ تعالٰی کے مقابلہ میں کون ہے جہاں عدل کرنے کا حکم ہے.اللہ تعالیٰ کے معاملہ میں عدل کرنے کے یہ معنی ہیں کہ اسے اس کی وحدانیت میں یکتا سمجھا جائے.دو خدا تو ہیں نہیں کہ نصف وحدانیت ایک خدا کو دی جائے اور نصف دوسرے کو.اگر خدا کی وحدانیت میں کسی اور کو شریک کیا جائے تو یہ ظلم ہوگا.اسی طرح بیویوں کو ان کے اپنے اپنے حقوق دیئے جائیں تو عدل ہے.لوگوں کو یہ وہم اس لئے پیدا ہوا ہے کہ وہ الا تعدلوا کے معنے نہیں سمجھتے اگر میرے ان معنوں کو لیا جائے تو پھر کسی قسم کا اعتراض نہیں رہتا.ہمارے ملک میں اسی ۸۰ فیصد لوگ ایسے ہیں جو دو عورتوں کو پیٹ بھر کر روٹی نہیں دے سکتے ایسے لوگوں کے لئے فَوَاحِدَةً کا حکم ہے کہ وہ ایک ہی شادی کریں باقی ہیں فیصدی لوگ رہ جاتے ہیں ان میں سے بھی بعض لوگ عدل نہیں کر سکتے بعض کے قومی جسمانی مضبوط نہیں ہوتے.بعض کے جسمانی قوی تو مضبوط ہوتے ہیں اور اس صورت میں دو یا دو سے زیادہ عورتیں کر سکتے ہیں مگر الگ الگ مکان بیویوں کے لئے نہیں بنا سکتے.حالانکہ شریعت یہ کہتی ہے کہ بیویوں کے لئے علیحدہ علیحدہ مکان ہونے چاہئیں.ہماری شریعت میں اس قسم کے جھگڑے بہت ہوتے ہیں کہ مرد اپنی بیویوں کے لئے علیحدہ علیحدہ مکان نہیں بنواتے تو ان معنوں کی رو
خطبات محمود ۴۸۰ جلد سود سے جو میں نے عدل کے کئے ہیں سو 100 میں سے کوئی ہی ہو گا جو ایک سے زیادہ شادیاں کر سکتا ہو.اس دوست نے یہ بھی کہا تھا کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا ہے.مالی تنگی کی حالت میں شادی کرو تو تنگی دور ہو جاتی ہے یہ بھی ایک وسوسہ ہے.میں نے انہیں اس کا یہ جواب دیا کہ رسول کریم ﷺ کا یہ مطلب نہیں کہ ہر انسان جو دوسری شادی کرے اس کا مال بڑھ جاتا ہے.ہم نے دیکھا ہے بیسیوں لوگ دوسری شادی کرتے ہیں اور وہ تنگ دست ہو جاتے ہیں اور عورت کو منحوس کہنے لگ جاتے ہیں.اس قسم کی بہت سی مثالیں ہیں کہ ایک شخص نے دوسری شادی کی تو وہ نوکری سے برطرف ہو گیا یا تجارت میں گھانا پڑ گیا یا اس قسم کی اور کوئی تکلیف اسے پہنچی.ہمارے عام محاورہ میں بھی یہ استعمال ہوتا ہے کہ فلاں شخص نے دوسری شادی کی تو اس کی حالت گر گئی.در حقیقت اس شخص کے متعلق رسول کریم ﷺ کو کشفی طور پر یا رویا میں معلوم ہوا ہو گا کہ شادی کرنے کے بعد اس کی حالت اچھی ہو جائے گی چنانچہ جب وہ رسول کریم ﷺ کے پاس آیا اور اپنا حال عرض کیا تو آنحضرت ا نے اسے دوسری شادی کرنے کے لئے ارشاد فرمایا جب اس نے دوسری شادی کی اور اس کی حالت نہ سدھری تو پھر رسول کریم ﷺ کے پاس آیا اور عرض کیا تو چونکہ رسول کریم ﷺ کو علم تھا کہ اس کے لئے جو بھلائی مقدر ہے وہ شادی ہی میں ہے اس لئے آپ نے فرمایا ایک اور شادی کر لو اس نے تیسری شادی کر لی پھر بھی اس کی حالت اچھی نہ ہوئی.وہ پھر رسول کریم ان کے پاس آیا اور عرض کیا تو رسول کریم ﷺ نے فرمایا اور شادی کرو.چنانچہ اس نے کرلی اس کے کچھ عرصہ بعد ایک دفعہ رسول کریم اے کے پاس آیا اور آپ نے اس سے حال دریافت فرمایا تو اس شخص نے بتایا کہ اب میری تنگی دور ہو گئی ہے اور آرام ہی آرام ہے.شہ بعض دفعہ کشف اور رؤیا کے بغیر بھی اپنی فراست سے مومن ایک بات کہتا ہے اور وہ پوری ہو جاتی ہے.یہاں ایک شخص بہائی عورت بیاہ کر لایا وہ اسے میرے پاس لایا اس وقت میں گول کمرہ میں بیٹھا کرتا تھا اور کہا آپ اسے تبلیغ کریں.مجھے اس وقت ایسا معلوم ہوا میری اور اس کی روحیں آپس میں ٹکراتی ہیں.مجھے ایسا محسوس ہو تا تھا کہ میرے جسم سے ایک چیز نکل کر اس سے ٹکراتی ہے اس سے میں نے معلوم کر لیا کہ یہ عورت ہدایت نہیں پائے گی.چنانچہ وہ مدتوں یہاں رہی اور احمدی نہ ہوئی.ایک دفعہ اس نے بعض اپنے حقوق حاصل کرنے کے لئے احمدیت کا اظہار بھی
خطبات محمود جلد سوم کیا مگر بعد میں پھر وہ اپنی پہلی حالت پر آگئی.تو رسول کریم ﷺ کو کسی خاص حالت کے متعلق کشف یا القاء ہو جاتا اور بات ہے اور الا تعدلوا میں جس عدل کی طرف اللہ تعالیٰ نے اشارہ فرمایا ہے یہ اور بات ہے.میں نے گزشتہ جمعہ کے خطبہ میں بتایا تھا کہ لوگ منگل کے دنوں کو منحوس سمجھتے ہیں اور اس کی دلیل یہ دیتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام منگل کو اچھا نہیں سمجھتے تھے حالانکہ یہ غلط ہے.اگر کسی شخص کو علم ہو جائے کہ فلاں دن تیرے لئے اچھا نہیں تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ دن ہر شخص کے لئے اچھا نہیں ہوتا.بعض لوگوں کے لئے اتوار کا دن منحوس ہوتا ہے، بعض لوگوں کے لئے جمعہ کا دن بھی منحوس ہو جاتا ہے.اگر کسی شخص کا باپ جمعہ کے روز مرجائے تو کیا وہ ہے گا.مئی کا مہینہ کوئی منحوس مہینہ نہیں مگر جب یہ مہینہ آتا ہے ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جدائی کا خیال آجاتا ہے اور ہمیں تکلیف ہوتی ہے.عام مسلمانوں کو جب بارہ ۱۲ وفات کا دن آتا ہے تکلیف ہوتی ہے حالانکہ یہ تاریخ وفات غلط ہے مگر پھر بھی چونکہ وہ اس دن کو حضرت رسول کریم ﷺ کی وفات کا دن سمجھتے ہیں اس لئے جو نہی یہ دن آتا ہے مسلمانوں میں گدگدی شروع ہو جاتی ہے اور غم اور درد کے باعث روتے ہیں.کثرت ازدواج اسلام میں پسندیدہ ہے اور فَوَاحِدَةً بعض حالات کے نہ ہونے کی وجہ ہے اور جب الا تعدِلُوا کے وہ معنے جو میں نے لئے ہیں.لئے جائیں تو پھر کسی قسم کا اعتراض وارد نہیں ہوتا.اس سے پہلے اللہ تعالٰی فرماتا ہے وَإِنْ خِفْتُمُ الَّا تَقْسِطُوا کہ اگر تمہیں ڈر ہو کہ تم انصاف نہ کر سکو.اب اس عدل کے ساتھ اَلا تَعْدِلُوا والا عدل بھی دیکھنا ضروری ہے.مثلاً مرد اپنی ایک بیوی کے رشتہ داروں سے حسن سلوک سے پیش آئے اور دوسری بیوی کے رشتہ داروں سے حسن سلوک سے پیش نہ آئے تو یہ عدل کے خلاف ہو گا.اور اگر ایک آدمی ایک بیوی کے رشتہ داروں سے حسن سلوک کرتا ہے اور دوسری بیوی کے رشتہ داروں سے حسن سلوک نہیں کرتا تو وہ عدل نہیں کر رہا اسے چاہئے کہ وہ اس بیوی کو طلاق دے دے اور اگر عدل چاہتا ہے تو اس کی یہی صورت ہے کہ وہ دونوں بیویوں کے رشتہ داروں سے حسن سلوک کرے.بیوی یہ کہاں برداشت کر سکتی ہے کہ اس کے پاس اس کا خاوند ایک گھنٹہ بیٹھے مگر جب اس کا بھائی اس کے پاس آئے تو وہ اسے ایک دو تھپڑ لگا دے.وہ اس کے ایک گھنٹہ کے بیٹھنے سے خوش نہ ہوگی جب تک اس کے بھائی اور دیگر رشتہ داروں سے
خطبات محمود ۴۸۲ جلد سوم حسن سلوک نہ کیا جائے اس کی یہی خواہش ہوگی کہ جیسے مجھ سے خاوند محبت کرتا اور میری عزت کرتا ہے اسی طرح میرے بھائی اور والدین سے بھی محبت کرے اور ان کی عزت کرے.تو الا تَعْدِلُوا کے معنے اپنے اندر بہت وسعت رکھتے ہیں.کئی ہوتے ہیں جو کپڑے میں عدل نہیں کر سکتے اور کئی ہوتے ہیں جو روٹی میں عدل نہیں کر سکتے اور کئی ہوتے ہیں جو مکان کے معاملہ میں عدل نہیں کر سکتے تو ان سب صورتوں میں مرد کے لئے حکم ہے کہ فَوَاحِدَةً وہ ایک ہی شادی کرے جیسا کہ سوال کرنے والے دوست نے کہا ہے کہ اگر ہر مرد چار شادیاں کرنے لگ جائے تو کئی لوگ کنوارے رہ جائیں گے اور ان کو رشتہ نہیں ملے گا.یہ وسوسہ بھی اگر الا کوا پر غور کیا جائے تو دور ہو جاتا ہے کیونکہ زیادہ شادیاں کرنا اس صورت میں عدل نہیں کہلا سکے گا بلکہ دوسروں پر ظلم ہو گا تو ا لا تعدلوا پر غور کیا جائے تو دور ہو جاتا ہے کیونکہ زیادہ شادیاں کرنا اس صورت میں عدل نہیں کہلا سکے گا بلکہ دوسروں پر ظلم ہو گا تو ا لا تَعْدِلُوا کے معنے بہت زیادہ وسیع ہیں.ہاں قرآن کریم نے جسے افضل قرار دیا ہے وہ افضل ہے قرآن نے دو دو، تین تین اور چار چار شادیاں کرنے کو مقدم رکھا ہے.بعض لوگ یہ سوال کر دیتے ہیں کہ اللہ تعالی نے پہلے منی کا ذکر کیا ہے پھر ٹکٹ کا پھر ربع کا اس لئے سب سے افضل دو شادیاں ہیں اس کے بعد تین اور پھر چار.لیکن یہ بھی غلط ہے یہ تقدیم و تاخیر عدد کے چھوٹے اور بڑے ہونے کی وجہ سے ہے.ہمارے ملک میں بھی اور عربی زبان میں بھی چھوٹے عدد کو پہلے بیان کیا جاتا ہے اور بڑے عدد کو بعد میں.عدد کو درجے کے لحاظ سے بیان کرنا فصاحت ہے اور بغیر درجہ کے بیان کرنا فصاحت نہیں.اس آیت کا مفہوم یہ ہے کہ ہر شخص کے اپنے اپنے حالات ہوتے ہیں جس کے حالات دو شادیاں کرنے کی اجازت دیتے ہیں وہ دو کرنے اور جس کے حالات تین یا چار شادیاں کرنے کی اجازت دیتے ہیں وہ تین یا چار کرے اور اس سے بڑھ کر کوئی نہ کرے اور اگر دو یا تین یا چار کرنے کے حالات اجازت نہیں دیتے تو پھر ایک کرے.حدیثوں میں آتا ہے کہ یاجوج ماجوج کے زمانہ میں بہت سے مرد مر جائیں گے اور عورتیں کثرت سے ہو جائیں گی.یہاں تک لکھا ہے کہ دس مردوں میں سے سات مرد مر جائیں گے اور جب دس میں سے سات مر جائیں گے تو باقی تین رہ جائیں گے اس لحاظ سے بعض مردوں کو تین تین اور بعض کو چار چار شادیاں کرنی پڑیں گی.نہ اس وقت عدل یہی ہو گا کہ شادیاں زیادہ کی جائیں مثلاً اگر ہمیں ایسی جگہ سے گزرنا پڑے جہاں ایک بچہ اور ایک پہلوان لیٹا ہے
محمود اور دو سرا رستہ گزرنے کا نہ ہو اور ہم مجبور ہوں کہ ان میں سے کسی پر پاؤں رکھ کر گزریں تو اس وقت لازماً بچہ پر ہم پیر نہیں رکھیں گے کیونکہ وہ ہمارے بوجھ کو برداشت نہیں کر سکے گا اور پہلوان پر پاؤں رکھ کر گزر جائیں گے کیونکہ وہ ہمارے بوجھ کو برداشت کر سکتا ہے تو عدل اسے بھی کہتے ہیں کہ جب انسان مجبور ہو جائے دو فلموں میں سے ایک کے کرنے پر تو چھوٹا ظلم کرے اور بڑے کو چھوڑ دے.اس وقت بعض کمزور مردوں کو بھی کہا جائے گا کہ وہ زیادہ شادیاں کریں خواہ اس صورت میں عورتوں کے حقوق تلف بھی ہوتے ہوں کیونکہ ایسے موقع پر عدل ہی ہو گا کہ فَوَاحِدَةً والی شرط کی بجائے مثنى وثلث وَرُبَعَ کی شرطوں کو مد نظر رکھا جائے.یورپ کے مصنفین نے لکھا ہے کہ عرب کے حالات کے مطابق اس زمانہ میں کثرت ازدواج بہت ضروری تھا کیونکہ ملک کے رسم و رواج اور عورتوں کی کثرت کے باعث ایک سے زیادہ شادیاں کرنے پر مجبور تھے اور یہ ان کا قومی فرض تھا.یہ بات کو ادنی ہے مگر ہے بادلیل.دوسرے کسی زمانہ میں جب عورتوں کی کثرت ہو تو اس پر عمل کیا جا سکتا ہے اس وقت فَوَاحِدَةً کی شرط نہیں رہے گی.پس اس آیت کے معنے جو میں نے بیان کئے ہیں اگر سمجھ لئے جائیں تو کسی قسم کا اعتراض نہیں رہتا.الفضل ۲۵ - جون ۱۹۳۸ء صفحه ۴ تا ۷ ) ے فریقین کا تعین نہیں ہو سکا.ه نسائی کتاب النکاح باب انكاح الابن امه النماء : ۴ ه النحل ۹۱ :
خطبات محمود ۴۸۴ جلد سوم - ساری عزتیں سلسلہ کے ساتھ وابستہ ہیں (فرموده ۲۶ - دسمبر ۱۹۳۸ء) ۲۶.دسمبر ۱۹۳۸ء حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے مسجد نور میں ظہر و عصر کی نماز میں جمع کر کے پڑھانے کے بعد خطبہ نکاح پڑھا اور اس کے بعد اعلان فرمایا کہ (صاحبزاده) مرزا مظفر احمد صاحب آئی.سی.ایس ابن (حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب ایم اے کا نکاح (صاحبزادی) امتہ القیوم جو میری بیوی (سیده) امتہ الحی بیگم صاحبہ کے بطن سے ہے گیارہ سو روپیہ مہر پر قرار پایا ہے اور دوسرا نکاح میرے لڑکے (صاحبزادہ) مرزا مبارک احمد کا طیبہ بیگم صاحبہ جو میاں عبد اللہ خاں صاحب کی لڑکی ہیں گویا میری چھوٹی ہمشیرہ (صاحبزادی امتہ الحفیظ بیگم کی لڑکی ہیں کے ساتھ گیارہ سو روپیہ مہر پر قرار پایا ہے ".اے : خطبہ مسنونہ کی تلاوت کے بعد فرمایا : ۳۲ سال کا عرصہ ہوا جبکہ پہلے پہل میں نے چند ایک دوستوں کے ساتھ مل کر رسالہ تشحیذ الا زبان جاری کیا تھا اس رسالہ کو روشناس کرانے کے لئے جو مضمون میں نے لکھا جس میں اس کے اغراض و مقاصد بیان کئے گئے تھے وہ جب شائع ہوا تو حضرت خلیفہ المسیح الاول نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے حضور اس کی خاص تعریف کی اور عرض کیا کہ یہ مضمون اس قابل ہے کہ حضور اسے ضرور پڑھیں.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بیت المبارک میں وہ رسالہ منگوایا اور غالبا مولوی محمد علی صاحب سے وہ مضمون پڑھوا کر سنا اور تعریف کی لیکن اس کے بعد جب میں حضرت خلیفہ اول سے ملا تو آپ نے فرمایا میاں تمہارا مضمون بہت اچھا تھا مگر
خطبات محمود ۴۸۵ میرا دل خوش نہیں ہوا اور فرمایا کہ ہمارے وطن میں ایک مثل مشہور ہے کہ اونٹ چالی اور ٹوڈا تالی" اور تم نے یہ مثل پوری نہیں کی.میں تو اتنی پنجابی نہ جانتا تھا کہ اس کا مطلب سمجھ سکتا اس لئے میرے چہرہ پر حیرت کے آثار دیکھ کر آپ نے فرمایا شاید تم نے اس کا مطلب نہیں سمجھا.یہ ہمارے علاقہ کی ایک مثال ہے کوئی شخص اونٹ بیچ رہا تھا اور ساتھ اونٹ کا بچہ بھی تھا جسے اس علاقہ میں ٹوڈا کہتے ہیں کسی نے اس سے قیمت پوچھی تو اس نے کہا کہ اونٹ کی قیمت تو چالیس روپیہ مگر ٹوڈے کی بیالیس روپیہ.اس نے دریافت کیا کہ یہ کیا بات ہے تو اس نے کہا کہ ٹوڈا اونٹ بھی ہے اور بچہ بھی ہے.اسی طرح تمہارے سامنے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تصنیف براہین احمدیہ موجود تھی.آپ نے جب یہ تصنیف کی تو اس وقت آپ کے سامنے کوئی اسلامی لٹریچر موجود نہ تھا مگر تمہارے سامنے یہ موجود تھا اور امید تھی کہ تم اس سے بڑھ کر کوئی چیز لاؤ گے.مامورین سے بڑھ کر علم تو کوئی کیا لا سکتا ہے سوائے اس کے کہ ان کے پوشیدہ خزانوں کو نکال نکال کر پیش کرتے رہیں.حضرت خلیفہ اول کا مطلب یہ تھا کہ بعد میں آنے والی نسلوں کا کام یہی ہوتا ہے کہ گزشتہ بنیاد کو اونچا کرتے رہیں اور یہ ایک ایسی بات ہے کہ جسے آئندہ نسلیں اگر ذہنوں میں رکھیں تو خود بھی برکات اور فضل حاصل کر سکتی ہیں اور قوم کے لئے بھی برکات اور فضلوں کا موجب ہو سکتی ہیں مگر اپنے آباء سے آگے بڑھنے کی کوشش نیک باتوں میں ہونی چاہئے یہ نہیں کہ چور کا بچہ یہ کوشش کرے کہ باپ سے بڑھ کر چور ہو.بلکہ یہ مطلب ہے کہ نمازی آدمی کی اولاد کوشش کرے کہ باپ سے بڑھ کر نمازی ہو، مبلغ کی اولاد باپ سے زیادہ تبلیغ کرنے والی ہو، واعظ کا لڑ کا باپ سے اچھا واعظ بنے کی کوشش کرے اور یہ طریق قوم کی ترقی کا ذریعہ ہو گا.پس حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خاندان کے نوجوانوں کو یہ بات مد نظر رکھنی چاہئے کہ ان پر دوہری ذمہ داریاں ہیں ایک احمدی ہونے کے لحاظ سے اور ایک حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خاندان کا فرد ہونے کے لحاظ سے اور ان دو ہری ذمہ داریوں کی وجہ سے ہی رسول کریم ﷺ کی بیویوں کے متعلق اللہ تعالی نے فرمایا ہے کہ اگر وہ خطا کریں گی تو ان کو دو ہرا عذاب ہو گا اور اگر وہ نیکی کریں گی تو ان کو ثواب بھی دو ہرا ہو گا اور یہ دو ہرا عذاب رکھنا کوئی ظلم نہیں.قرآن کریم نے فرمایا ہے کہ جو شخص کسی کے لئے نیک نمونہ بنتا ہے اس کی نیکی میں سے اسے بھی حصہ ملتا ہے اور جو کسی کے لئے برا نمونہ بنتا ہے اور اسے دیکھ کر وہ بدی کی
خطبات محمود ۴۸۶ طرف مائل ہوتا ہے تو اس کی بدی میں سے اسے بھی حصہ ملتا ہے چنانچہ فرمایا : دوار مَنْ يَشْفَعُ شَفَاعَةً حَسَنَةً يَكُنْ لَهُ نَصِيبٌ مِنْهَا ، وَمَنْ يَشْفَعُ شَفَاعَةَ سَيِّئَةَ يَكنُ لـ كفل منها - له.جلد سوم له یعنی جو کوئی شفاعت حسنہ کرتا ہے یعنی اپنے نیک نمونہ سے دوسرے کو نیکی کی ترغیب دلاتا ہے تو اس کی نیکی سے اسے بھی حصہ ملتا ہے.رسول کریم ﷺ نے بھی فرمایا ہے کہ جو شخص نیکی کی ترغیب دیتا ہے اور اس کی وجہ سے دوسرا شخص کوئی نیکی کرتا ہے تو وہ نیکی اس کے نام بھی لکھی جاتی ہے جس نے اس کی ترغیب دی تھی اور نیکی کرنے والے کے ثواب میں کوئی کمی نہیں آتی.سے تو جب اللہ تعالٰی کی طرف سے کوئی نامور آتا ہے تو اس کے خاندان کے افراد پر دوہری ذمہ داری عائد ہوتی ہے.لوگ ان کو دیکھتے اور اندازہ کرتے ہیں کہ انہوں نے اس مامور سے کیا اخذ کیا ہے اگر ان کا نمونہ نیک ہو تو لوگ سمجھتے ہیں کہ جس چشمہ سے یہ نکلے ہیں وہ بھی ضرور نیک ہو گا اور اگر وہ بد ہوں تو گو یہ ضروری نہیں کہ یہ چشمہ کے گندہ ہونے کا ثبوت ہو کیونکہ آخر نسلیں خراب ہو ہی جایا کرتی ہیں مگر اس کا عام نتیجہ یہ ہو گا کہ لوگ سمجھیں گے ضرور اس چشمہ میں کوئی خرابی ہوگی اور اس طرح ایسا انسان لوگوں کی گمراہی کا موجب ہو جاتا ہے.پھر یہ بھی دیکھنا چاہئے کہ ان کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئیوں پر دوسروں کی نسبت زیادہ ایمان ہو کیونکہ وہ ان گھروں میں رہتے ہیں وہ جگہیں جہاں وہ الہام نازل ہوئے ان کو آنکھوں کے سامنے نظر آتی ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے آثار ہمیشہ ان کے ارد گرد رہتے ہیں اور اس وجہ سے ان کے لئے ہر وقت ایمان کو تازہ کرنے کے مواقع بہم پہنچتے رہتے ہیں اور اس لئے ان کو اس بات پر سب سے زیادہ یقین ہونا چاہئے کہ دنیا کی ساری برکت ان ہی پیشگوئیوں کے پورا ہونے میں ہے.دنیا کی کوئی بڑی سے بڑی زمینداری اور کوئی بڑی سے بڑی تجارت ایسی نہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے چھوٹے سے چھوٹے الہام کی برابری کر سکے.جو وعدے اللہ تعالٰی نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے کئے ہیں ان میں سے چھوٹے سے چھوٹا بھی اتنا قیمتی ہے کہ دنیا بھر کی بادشاہت بھی اس کے سامنے نہیں ٹھہر سکتی اور اگر ان کے ہوتے ہوئے آپ کے خاندان کا کوئی فرد دنیا کی طرف راغب ہوتا ہے تو اس کے معنے یہ ہیں کہ اس کے دل میں ایمان نہیں.اگر آپ کے الہام بچے ہیں اور وہ وعدے پورے
خطبات محمود ۴۸۷ جلد سوم ہونے والے ہیں تو کوئی وجہ نہیں کہ ہم انہیں خود پورا کر کے عزت حاصل نہ کریں.اگر ہم انہیں چھوڑ دیتے ہیں کہ انہیں دوسرے پورا کریں اور عزت حاصل کریں اور خود دنیا کی عزتوں کے حصول میں لگ جاتے ہیں تو اس کے معنے ہی ہیں کہ ہمیں ان پر ایمان نہیں اور ہم یہ یقین نہیں رکھتے کہ وہ وعدے پورے ہونے والے ہیں.وہ وعدے یقیناً پورے ہونے والے ہیں اور حقیقی عزت وہی پائے گا جو ان کو پورا کرنے کی کوشش کرتا ہے.میرا مطلب یہ نہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خاندان کے لوگوں کو دنیا کا کوئی کام کرنا ہی نہیں چاہئے اور یہ ان کے لئے جائز نہیں بلکہ مطلب یہ ہے کہ ان کے دنیوی کاموں میں بھی دینی رنگ غالب نظر آنا چاہئے.وہ اگر زمیندارہ کام کرتے ہیں یا ملازمت کرتے ہیں تو یہ پانچ چھ گھنٹے جو انہیں اپنے فرائض کی سرانجام دہی کے لئے صرف کرنا پڑتے ہیں نکال کر باقی وقت ان الہامات کو پورا کرنے میں صرف کرنا چاہئے.بے شک وہ دنیوی کام کریں مگر ان کے ساتھ اسی حد تک وابستگی رہنی چاہئے جتنی کہ ضرورت طبعی ہے اس سے زیادہ لگاؤ یا شغف نہ رہے.ہر شخص کو طبعی تقاضا کے ماتحت پاخانہ میں جانا پڑتا ہے مگر وہ کوشش کرتا ہے کہ جس قدر جلد ممکن ہو اس سے باہر آجائے جو شخص اس سے زیادہ وقت میں پاخانہ میں بیٹھتا ہے وہ پاگل ہے.پس انہیں دنیوی کاموں کے ساتھ اتنا ہی زیادہ وقت ہونا چاہئے اور کم سے کم ایسے مقام پر کھڑا ہونا چاہئے کہ قیامت کے دن خدا تعالٰی کی ان پر حجت نہ ہو اور وہ یہ نہ کہے کہ تم نے اس جگہ رہتے ہوئے جہاں میرا فلاں الہام نازل ہوا اس کو بھلا دیا اور دنیا کو مقدم کر لیا اسے دوسروں نے قبول کیا مگر تم نے بھلا دیا.ذرا غور کرو یہ کتنا شرمناک وقت ہو گا اگر ایسا معاملہ کیا جائے.ہزاروں میلوں پر رہنے والے ان الہامات کو سنیں اور تسلیم کریں سالہا سال بعد پیدا ہونے والے سلسلہ کے ساتھ محبت و اخلاص میں دیوانے ہو رہے ہوں اور یوں معلوم ہو رہا ہو کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام کا نام لے کر ان پر رقت کی وجہ سے موت طاری ہو جائے گی اور جب ان بے دیکھے اور دور دراز فاصلہ پر رہنے والے عاشقوں کی یہ حالت ہو تو دیکھنے والوں اور گھر میں رہنے والوں کی ذمہ داری کس قدر ہونی چاہئے.پس اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خاندان کے چند افراد کی شادی کی ہے میں انہیں ان کی ذمہ داریوں کی طرف متوجہ کرتا ہوں.انہیں یاد رکھنا چاہئے کہ بے شک نکاح اچھی چیز ہے، میل ملاقات کو اللہ تعالٰی نے اچھی چیز بنایا ہے مگر
خطبات محمود ۴۸۸ جلد سوم اصل وقت خوشی کا وہی ہے جب ہم خدا سے ملتے ہیں اور اس کے محبوب رسول کریم ای سے ملتے ہیں اور ایسی حالت میں ملتے ہیں کہ وہ ہم سے خوش ہوں، ہماری شادیاں، ہمارا اتحاد و اتصال سب بے حقیقت ہیں اگر ہمیں وہ راحت نصیب نہ ہو جو خدا تعالٰی نے ان لوگوں کے لئے مقدر فرمائی ہے جنہیں خدا و رسول کا وصال ہوتا ہے.دنیا اسلام اور اس کی تعلیم سے بہت دور چلی گئی ہے.آج نادان لوگ اسلام اور اس کی تعلیم پر بنتے ہیں اور اس زمانہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ آواز بلند کی ہے کہ اس تعلیم کے ساتھ دنیا کی نجات وابستہ ہے اور ہمارا فرض ہے کہ آپ کے ارشاد کے مطابق اسلام کی تعلیم کو دنیا میں قائم کریں.تمام رسم و رواج اور تمدنی پابندیوں کو ترک کردیں تا وہ اسلامی فضا جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام دنیا میں قائم کرنا چاہتے تھے قائم ہو جائے.یاد رکھو کہ مغربی تہذیب و تمدن اور فیشن ہر گز باقی نہیں رہیں گے بلکہ مٹا دیئے جائیں گے اور ان کی جگہ دنیا میں اسلامی تمدن قائم ہو گا.وہ آگ جو اس بارہ میں میرے دل میں ہے وہ جس دن بھڑکے گی خواہ وہ میری زندگی میں بھڑ کے یا میرے بعد بہر حال جب بھی بھڑکے گی دنیا کو بھسم کر دے گی.اس کا اندازہ یا میں کر سکتا ہوں یا میرا خدا اور وہ بلاوجہ نہیں.اگر وہ میرے دل میں اتنی شدید ہے تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دل میں اور پھر آنحضرت ا کے دل میں کتنی ہوگی.خدا تعالیٰ اپنے سومن بندوں کو اپنی محبت کی آگ دیتا ہے وہ بھی ایک دوزخ میں جل رہے ہوتے ہیں مگر وہ دراصل حقیقی جنت ہوتی ہے.خوب یاد رکھو کہ یہ ممکن ہی نہیں کہ اسلام کے رستہ میں کھڑی ہونے والی چیزیں قائم رہ سکیں وہ یقینا تباہ و برباد ہوں گی اور ان کو اختیار کرنے والے بھی تباہ و برباد ہوں گے اور ان لوگوں کی خاطر جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر ایمان لائے ہیں اور بظاہر بالکل سادہ ہیں زمیندار لوگ ہیں جو تہبند باندھتے اور اچھی طرح بات بھی کرنا نہیں جانتے ان ہی کے ذریعہ اللہ تعالیٰ اس کی تباہی کا کام لے گا اور موجودہ تہذیب مٹ کر ان کے ہاتھوں میں دنیا کی رہنمائی آجائے گی.آج کوئی کہہ سکتا ہے کہ یہ لوگ دنیا کا انتظام کیسے کر سکیں گے لیکن کیا انہوں نے پنجابی کی یہ ضرب المثل نہیں سنی کہ "جس دی کو ٹھی دانے اس دے کملے دی سیانے " خدا تعالی جب برتری دیتا ہے تو عقل خود بخود آجاتی ہے.نادر شاہ ایرانی ایک گڈریا تھا مگر اللہ تعالٰی نے اسے حکومت دی وہ دہلی پر حملہ کرنے آیا اور اسے فتح کر لیا.دہلی کے بادشاہ نے اس سے مذاق کرنا چاہا جس سے اس کا مقصد اس کی سیکی تھا اور اس سے پوچھا کہ آپ کے
۲۸۹ جلد سوم باپ کا نام کیا تھا اور وہ کیا کام کرتے تھے ؟ مجلس لگی ہوئی تھی باتیں ہو رہی تھیں ہر شخص اپنے باپ کا نام اور اس کی تعریف بیان کر رہا تھا اور اس طرح سب اپنے باپوں کا ذکر کر رہے تھے اور آخر نادر شاہ کی باری آئی کہ آپ اپنے باپ کا نام اور اس کی تعریف بیان کریں.اس نے اپنی تلوار کے دستہ پر اپنا ہاتھ رکھا اور کہا کہ میرے باپ کا نام یہ ہے تم میرے باپ کا نام اس لئے پوچھ رہے ہو کہ میری تذلیل کرو اور اپنے باپوں کی تعریف بیان کرتے ہو.مگر یہ نہیں دیکھتے کہ - تم اس وقت میرے غلام ہو اور اگر میں چاہوں تو فوراً تمہاری گردن اڑا دوں.اسی طرح صحابہ کا ایک وفد ایک دفعہ ایران کے بادشاہ کے پاس گیا اس نے ان سے کہا تم روپیہ لے لو اور واپس چلے جاؤ تم میں سے ہر ایک سپاہی کو ایک پونڈ اور ہر افسر کو دو پونڈ دے دوں گا تم یہ رقم لے لو اور چلے جاؤ.اس نے ان کی قیمت بھی کیا لگائی اس نے ان سے کہا کہ تم وہیں کھانے والے، اونٹ کا دودھ پینے والے اور ہر وقت آپس میں لڑنے والے لوگ ہو تم کو حکومت سے کیا واسطہ یہ پیسے لے لو اور واپس چلے جاؤ.رئیس وفد نے جواب دیا کہ بے شک یہ بات صحیح ہے کہ ہماری حالت واقعی یہی تھی مگر وہ باتیں اس وقت کی ہیں جب ہم میں اسلام نہیں آیا تھا اب ہم نے اسلام کو قبول کر لیا اور اب ساری دنیا پر ہم نے حکومت کرنی ہے.یہ بات سن کر بادشاہ کو غصہ آیا اور اس نے اپنے خادموں کو اشارہ کیا کہ مٹی کا بورا لے آؤ اور تذلیل کے لئے مٹی کا بورار میں وفد کے سر پر رکھوا دیا اور کہا کہ جاؤ اس کے سوا تمہیں کچھ نہیں دیا جا سکتا.مگر وہ لوگ جنہیں جاہل اور اونٹ کا دودھ پینے والے سمجھا جاتا تھا ان کو اللہ تعالٰی نے اسلام کے طفیل بے انتہاء عقل دے دی تھی.وہ جانتے تھے مشرک وہمی ہوتا ہے اس لئے جب مٹی کا بورا ان کے سر پر رکھا گیا تو انہوں نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ چلے آؤ چنانچہ وہ سب دوڑے اور کہا کہ ایران کے بادشاہ نے اپنے ہاتھ سے ایران کی زمین ہمارے حوالہ کردی ہے.اس پر بادشاہ نے سواروں کو حکم دیا کہ دوڑو پکڑو اور کسی نہ کسی طرح یہ مٹی واپس لے آؤ مگر وہ اس وقت تک دور نکل چکے تھے.سے اسی طرح دنیا آج سمجھتی ہے کہ یہ جماعت غریبوں اور جاہلوں کی جماعت ہے دوسری سوسائٹیوں میں ملنا جلنا ہی بہتر ہے اور ان ہی میں شامل ہو کر عزت حاصل ہو سکتی ہے.مگر یاد رکھو ان سب کے نام و نشان مٹنے والے ہیں حتی کہ ان کے گھروں کو دیکھ کر رونا آئے گا.آج بے شک ہم کمزور نظر آتے ہیں اور اسلام مغلوب دکھائی دیتا ہے مگر وہ دن دور نہیں جب بڑے
خطبات محمود جلد سوم بڑے پادری چھوٹے سے چھوٹے مسلمان مبلغ کے دروازہ پر جاکر سوال کریں گے.ان کو تو خدا تعالٰی نے ہمارا شکار بنایا ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ.میں ہوا داود اور جالوت ہے میرا شکار جالوت بادشاہ اور حضرت داود گڈریا تھے.شہ اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ لوگ مجھے حقیر سمجھتے ہیں اور بے شک میں ایسا ہوں مگر داود کو بھی حقیر ہی سمجھا جاتا تھا مگر خدا تعالیٰ نے جالوت کو اس کا شکار بنا دیا.اسی طرح اللہ تعالیٰ اس زمانہ میں شیطان کی حکومت کو میرے ذریعہ سے پاش پاش کر دے گا.پس یاد رکھو کہ ہماری تمام ترقیاں اور راحتیں اس جماعت کے ساتھ وابستہ ہیں جو اس نکتہ کو نہیں سمجھتا وہ خدا تعالیٰ سے ہرگز برکت حاصل نہیں کر سکتا.بے شک دنیا کی مجلسیں زیادہ پر رونق نظر آتی ہیں اور ان کی روشنیاں زیادہ دکھائی دیتی ہیں لیکن حقیقت یہی ہے کہ وہ روشنی ٹمٹماتے ہوئے چراغ کی روشنی ہے جو گل ہونے کے قریب تیز ہو جاتی ہے بے شک اسی برس کا بڑھا خواہ وہ مرہی کیوں نہ رہا ہو ایک پیدا ہونے والے بچہ سے طاقت میں زیادہ ہوتا ہے مگر کون عظمند کہہ سکتا ہے کہ وہ بچہ کمزور اور بڑھا طاقتور ہے.یقینا وہ بچہ طاقتور اور بڑھا کمزور ہے کیونکہ اس بچہ کی طاقت بڑھے گی اور بوڑھے کی روز بروز گھٹے گی.پس جماعت کے دوستوں کو بھی اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے خاندان کے افراد کو بھی یاد رکھنا چاہئے کہ ساری عزتیں سلسلہ کے ساتھ وابستہ ہیں.اپنی تمام استعدادوں اور قابلیتوں کو سلسلہ کی ترقی و بہبودی کے لئے لگا دینا ہی ساری ترقیات کا موجب ہے.جو اس بات کو بھولتا ہے خدا تعالیٰ بھی اسے بھول جاتا ہے.پس بے شک اپنی دنیوی بہبودی کا خیال رکھو مگر اصل بہبودی اس میں سمجھو کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام جو پیغام لائے ہیں اس کے ساتھ وابستگی قائم رہنے اور ہم دوسروں کے لئے نیک نمونہ بنیں اور پھر جو لوگ ہمارے ذریعہ ہدایت حاصل کریں ان کی خدمت کریں.الفضل -۳ اگست ۱۹۲۰ء صفحه ۲ تا ۴
خطبات محمود ۴۹۱ جلد سوم له الفضل ۲۸ - دسمبر ۱۹۳۸ء صفحه ۱ النساء : ۸۲ ے ترمذی ابواب العلم باب في من دعا إلى هدى فاتبع شه : "پس سائل نے یسی کے پاس قاصد روانہ کئے اور کہلا بھیجا کہ اپنے بیٹے داؤد کو جو بھیٹر بکریوں کے ساتھ رہتا ہے میرے پاس بھیج دے " (سموئیل اباب ۱۹ آیت 19 بائبل سوسائٹی انار کلی لاہور مطبوعہ ۱۹۹۴ء) " اور داؤد بیت لحم میں اپنے باپ کی بھیڑ بکریاں چرانے کو ساؤل کے پاس آیا جایا کرتا تھا" (سموئیل اباب ۱۷ آیت ۵ بائیل سوسائٹی انار کلی لاہور مطبوعہ ۱۹۹۴ء)
خطبات محمود ۱۱۵ جلد سوم سیٹھ محمد غوث صاحب کے اخلاص کا ذکر (فرموده ۱۰ اپریل ۱۹۳۹ء) ۱۰- اپریل ۱۹۳۹ء بعد نماز عصر مسجد مبارک حضرت خلیفتہ المسیح الثانی نے چوہدری خلیل احمد ناصر بی.اے کے نکاح کا اعلان امتہ الحفیظ بیگم صاحبہ بنت جناب سیٹھ محمد غوث صاحب حیدر آباد دکن سے فرمایا : خطبہ مسنونہ کے بعد فرمایا :- خلیل احمد صاحب ناصر واقف زندگی ہیں ان کی زندگی خدمت سلسلہ کے لئے وقف ہے- اس لحاظ سے بھی مجھے اس رشتہ سے تعلق ہے.پھر سیٹھ محمد غوث صاحب پرانے احمدی ہیں ان کے تعلقات میرے ساتھ نہایت مخلصانہ ہیں، ان کے بچوں کے تعلقات بھی بہت اخلاص پر مبنی ہیں، ان کی بچیوں کے تعلقات میری بچیوں سے نہایت گہرے ہیں غرض ان کے خاندان کے تعلقات ہمارے خاندان سے ایسے ہیں کہ گویا وہ ہمارے ہی خاندان کا حصہ ہیں.ان کی بچیوں کو میں اپنی ہی بچیاں سمجھتا ہوں، اس لئے یہ نکاح گویا ہمارے ہی خاندان میں ہے.سیٹھ صاحب نے اپنی تحریر میں مجھے ولی مقرر کیا ہے اور میں نے ایک ہزار روپیہ مہر پر یہ نکاح تجویز کیا ہے.اللہ تعالی اس نکاح کو بابرکت بنائے.الفضل ۱۳- اپریل ۱۹۳۹ء صفحہ ۲) الفضل ۱۵ اپریل ۱۹۳۹ء صفحه ۲)
خطبات محمود ۴۹۳ 117 جلد سوم قرآنی شریعت نہایت پاک و مطهر ہے (فرموده ۱۵- اپریل ۱۹۳۹ء) ۱۵- اپریل بعد نماز عصر مسجد اقصیٰ میں حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے حضرت میر محمد اسماعیل صاحب کی صاحبزادی امتہ اللہ بیگم صاحبہ کے نکاح کا پیر صلاح الدین صاحب بی اے کے ساتھ اڑھائی ہزار روپیہ مہر پر اعلان فرمایا.اے خطبہ مسنونہ کی تلاوت کے بعد فرمایا :- ایک زمانہ عرب پر ایسا آیا ہے کہ رسم و رواج کی پابندیوں میں وہ ایسے جکڑے گئے تھے کہ گویا وہ قیدی تھی صرف اتنا فرق تھا کہ آج کل کے قیدیوں کی طرح وہ چار دیواری میں بند نہ تھے مگر ان کی وہ قید چار دیواری کی قید سے بھی زیادہ سخت تھی.کیونکہ آج کل کے قیدی جن کمروں میں بند ہوتے ہیں ان کی دیواریں تو آخر ان سے چند گز کے فاصلہ پر ہی ہوتی ہیں مگر وہ جو اپنے جسم میں قیدی تھے ان کی قید تو قید خانہ سے بھی سخت تھی اور ان کی ان جکڑ بندیوں اور قیدوں سے جو اپنی انتہاء کو پہنچ چکی تھیں رسول کریم ﷺ نے آکر ان کو آزاد کر دیا اور وہ غلامی اور قید جو ان کی جائز آزادی کو تلف کئے ہوئے تھی اس کو یک دم اڑا دیا اور ان قیود کی جگہ ایک ایسا نیا قانون ان کو مل گیا جو انسانی جذبات کے مناسب حال اور کامل آزادی دینے والا تھا..در حقیقت آزادی اور غلامی میں قید و بند کا فرق نہیں کیونکہ وہ شخص جس کو ہم غلام کہتے ہیں اس کو بھی کچھ نہ کچھ آزادیاں ہوتی ہیں اور جسے ہم آزاد کہتے ہیں در حقیقت اس کے اوپر
خطبات محمود.۴۹۴ جلد موم بھی بعض قیود ہوتی ہیں.ہم جب کسی کو قیدی یا غلام کہتے ہیں تو اس سے یہ مراد نہیں ہوتی کہ اس شخص کے اوپر تو کچھ پابندیاں ہیں اور جس کو ہم آزاد کہتے ہیں وہ ہر قسم کی پابندیوں سے آزاد ہے.بلکہ در حقیقت دونوں کے اوپر ہی بعض پابندیاں ہوتی ہیں اور دونوں ہی بعض قیود سے آزاد بھی ہوتے ہیں.مگر آج کل غلام اسے کہا جاتا ہے جس پر رواجی قید ہو اور آزاد ا سے کہا جاتا ہے جس پر کوئی جابرانہ رواجی قید نہ ہو یعنی ایک قیدی کو اس لئے قیدی کہا جاتا ہے کہ اس نے مثلاً غبن یا کوئی اور جرم کیا تو حکومت نے اس کو بطور سزا قید کر دیا.اگر اسے کھول دیا جائے تو وہ فورا بھاگ جائے مگر وہ ماں جو اپنے گھر میں ہے اور اس کا اکلوتا بیٹا سخت بیمار پڑا ہے اور وہ اس کی چارپائی پر اس کے پاس بیٹھی ہے کیا وہ قیدی نہیں.وہ بھی قیدی ہے بلکہ وہ اس پہلے قیدی کی نسبت زیادہ سخت قسم کی قید میں ہے مگر باوجود اس کے ہم اسے اس لئے قیدی نہیں کہتے کہ وہ کسی جرم یا کسی گناہ کے بدلہ میں قید نہیں بلکہ اپنے بچہ کی محبت کی وجہ سے اس کے پاس بیٹھی ہے.گو ایسے حالات میں اگر ایک قیدی کو کہا جائے کہ بھاگ جا اور اس کے لئے بھاگنا ممکن ہو تو وہ ضرور بھاگ جائے گا اور اگر اس کے لئے بھاگنے کا کوئی امکان ہی نہ ہو تو بھی اس کا منشاء ضرور ہوتا ہے کہ موقع ملے تو وہاں سے بھاگ نکلوں اور اس کے دل میں ہر وقت بھاگنے کی خواہش موجود ہوتی ہے مگر وہ ماں جو اپنے اکلوتے بیمار بچے کی چارپائی پر بیٹھی رہتی ہے اس کو تو بھاگنے کی خواہش بھی نہیں ہوتی بلکہ اگر تم اسے کہو کہ وہ کیوں بھاگ نہیں جاتی تو وہ اس سے ناراض ہوگی اور کہے گی کہ تم میرے اور میرے اکلوتے بیٹے کی جان کے دشمن ہو.پھر بعض لوگوں کو تین تین چار چار مہینے کی قید ہوتی ہے اور بعض کو قید بامشقت ہوتی ہے.مگر اس کے مقابل پر دیکھ لو کیا ایسی ہی قید بعض حاملہ عورتوں کو ہوتی ہے یا نہیں؟ کئی حاملہ عورتیں ایسی ہوتی ہیں جو ڈاکٹروں کے مشورہ کے مطابق چار چار پانچ پانچ مہینے چلنا پھرنا بند کر دیتی ہیں بلکہ بعض اوقات تو چھ چھ سات سات آٹھ آٹھ اور نو نو مہینے یعنی پورے ایام حمل تک ڈاکٹر عورتوں کو ملنے سے منع کر دیتے ہیں اور تاکید کرتے ہیں کہ اس مریضہ کے لئے ہلنا نہایت مضر ہے اور وہ بے چاری اتنی مدت تک چار پائی پر پڑی رہتی ہے اور کروٹ تک بدل نہیں سکتی.مگر کوئی شخص اس کا نام قید نہیں رکھتا اور نہ ہی وہ لوگ جو حریت " " حریت " پکارتے رہتے ہیں عورتوں کی اس پابندی کو "حریت" کے خلاف قرار دیتے ہیں.کیوں؟ اس لئے کہ یہ قید کسی حکومت کی طرف سے نہیں یا جابرانہ طور پر نہیں بلکہ جس طرح حکومت نے بعض افراد پر
خطبات محمود ۴۹۵ جلد سوم قیدیں لگا رکھی ہیں اسی طرح قانون قدرت میں اللہ تعالی کی طرف سے بعض پابندیاں عورتوں پر لگا دی گئی ہیں جن میں سے ایک یہ ہے کہ وہ اولاد پیدا کریں اس لئے حاملہ عورتوں کو بعض حالات میں ڈاکٹروں کی ہدایات کے مطابق لیٹے رہنا پڑتا ہے تو جسے ہم آزاد کہتے ہیں دراصل وہ بھی بعض پابندیوں میں جکڑا ہوا ہوتا ہے اور جسے ہم غلام یا قیدی کہتے ہیں وہ بھی بعض باتوں میں آزاد ہوتا ہے.چنانچہ چور جب قید ہوتے ہیں تو وہ باوجود قید ہونے کے ان کی روح آزاد ہوتی ہے اور وہ یہ سوچتے رہتے ہیں کہ اس جگہ سے جب بھی چھوٹیں گے تو وہ اس چوری کو پورا کر کے چھوڑیں گے.یا قتل کے ارادہ میں پکڑے جاتے ہیں اور ابھی فعل قتل کو مکمل نہیں کیا ہوتا تو وہ دل میں یہ عہد کئے ہوئے ہوتے ہیں کہ اب اگر اس قید سے نکل کر گئے تو اس قتل کو مکمل کر کے رہیں گے.ایسا شخص بے شک آزاد ہے اور "مادر پدر آزاد شخص بھی آزاد ہے مگر در حقیقت ایسے شخص کو کوئی بھی شریف انسان آزاد نہیں کے گا اور نہ اس کے اس طریق کو آزادی سے تعبیر کرے گا.لیکن ایک شخص جو اپنے گھر میں ہی بیٹھا ہوا ہے اور جو اس چوری یا قتل وغیرہ کے جرائم میں سے کسی ایک جرم کا خیال بھی دل میں آنے نہیں دیتا اور اگر کسی وقت کوئی معمولی سا خیال بھی آجائے تو وہ فوراً اپنے نفس کو ملامت کرتا ہے تو اس پر بظاہر کون سی قید ہے جس کی وجہ سے وہ ایسا کرتا ہے.تو غلامی اور قید در اصل نسبتی امر ہیں بعض باتوں میں ایک آزاد غلام ہوتا ہے اور بعض باتوں میں ایک آزاد بھی مقید ہوتا ہے.اسلام نے بھی ایسی کلی آزادی نہیں دی کہ لوگ جو چاہیں کریں.بلکہ اسلام نے بھی بعض باتوں پر قیود لگا دی ہیں کہ ایسا نہ کرو اور بعض باتوں میں جو لوگوں کی بھلائی کی تھیں انہیں آزادی دے دی ہے گو صرف نسبت کا فرق ہو گیا.مثلاً پہلے بھی وہ اپنے اموال کو خرچ کرتے تھے مگر اب یہ کہا گیا کہ اسلام سے پہلے تو تم اپنے اموال کو غریبوں اور مسکینوں پر خرچ کرنے کی بجائے شراب نوشی اور جوئے بازی میں خرچ کیا کرتے تھے لیکن اب یہ قید لگائی جاتی ہے کہ تم روپیہ تو خرچ کرو مگر نیک کاموں میں خرچ کرد شراب وغیرہ میں خرچ نہ کرو.تو پہلی قیدیں جو ناجائز طور پر انہوں نے اپنے اوپر لگا رکھی تھیں اسلام نے ان کو دور کر دیا اور بعض نئی قیدیں جو ان کے لئے مفید تھیں وہ ان پر لگا دیں اور یہ آزادی یعنی "حریت" کے خلاف نہیں.ہر ایک کے اوپر کچھ نہ کچھ قیدیں خواہ وہ شرعی ہوں یا اخلاقی ہوں یا ذہنی ہوں
خطبات محمود ۴۹۶ جلد سوم عائد ہوتی ہیں.مثلاً وہ لوگ جو حریت یعنی "حریت ضمیر " اور "حریت افعال کے بڑے حامی ہیں کیا ان میں سے کوئی اپنے باپ کو جوتے لگانے یا اپنی ماں کو چوٹی سے پکڑ کر مارنے کے لئے تیار ہو سکتا ہے ؟ وہ نہ تو خود ایسا کرنے کے لئے تیار ہو سکتا ہے اور نہ ہی تم اس کی ایسی حرکت کو پسند کرو گے.بلکہ تم بھی اس پر ایک ذہنی قید وارد کرو گے اور کہو گے کہ کامل آزادی سے یہ مطلب نہیں کہ انسان مادر پدر آزاد ہو.اسی طرح رسول کریم ﷺ نے دنیا میں مبعوث ہو کر لوگوں کو ایک بہت بڑی حریت عطا فرمائی ہے.مگر اس کے یہ معنے نہیں کہ اب انسان اپنے عمل میں آزاد ہے یا جیسے عیسائی کہتے ہیں کہ شریعت لعنت ہے.سہ اسی طرح نعوذ باللہ ہم شریعت کے احکام سے آزاد ہو گئے ہیں بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ جو کام میں تم کو بتا تا ہوں وہ کرو اور جن سے میں روکتا ہوں ان سے بچو کیونکہ تمہارا اس میں فائدہ ہے.تو بعض قیود اور پابندیاں اچھی ہوتی ہیں اور بعض قیود اور پابندیاں بری ہوتی ہیں.جو اچھی پابندیاں تھیں وہ رسول کریم ﷺ نے لوگوں پر لگا دیں اور جو بری رسوم تھیں ان کے بچنے کی قیود ان پر عائد کر دیں اور یہ ان لوگوں کے لئے کوئی نئی بات نہیں تھی.آخر وہ پہلے بھی بعض کاموں کو چھوڑنے کی قیود اپنے اوپر رکھتے تھے اور بعض کاموں کو کرنے کی پابندیوں میں جکڑے ہوئے تھے.مگر رسول کریم ﷺ کی عائد کردہ پابندیوں کو ایک عرصہ کے بعد لوگوں نے پس پشت ڈال دیا اور اس نور کو جو ان کی طرف نازل کیا گیا تھا رد کر کے اپنے آپ کو غلط "حریت " کا دلدادہ بنالیا اور اس کی ایسی ہی مثال ہے جیسے خدا تعالٰی نے کروڑوں کروڑ میل پر سورج کو رکھا ہے جو بدبودار جگہوں، جو ہڑوں، تالابوں، نالیوں، نہروں، دریاؤں اور سمندروں وغیرہ سے بخارات کو اٹھاتا ہے اور پھر اس پانی کو نہایت مصفی کر کے واپس لوٹاتا ہے مگر انسان اس صاف کئے ہوئے پانی کو پی کر پیشاب، پسینہ یا بلغم وغیرہ بنا کر پھینک دیتا ہے.اسی طرح انسان کا حال ہے کہ خدا تعالیٰ تو انسان کو نہایت پاک مصفی اور مطہر شریعت عطا کرتا ہے مگر جب انسان اسے گندہ کر کے پھینک دیتا ہے تو وہ بد نما نظر آنے لگتی ہے.رسول کریم ﷺ کے ذریعہ شریعت نازل کر کے خدا نے مسلمانوں کو بھی ہزاروں قسم کے گندوں سے نکالا تھا مگر آپ کے بعد آج پھر مسلمان اپنی غلطیوں سے ان ہی قید و بند کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے ہیں جن سے رسول کریم نے ان کو نکالا تھا اور باوجود شریعت اسلام کے پاک و مظہر ہونے کے خود مسلمانوں نے اس کو غیروں کے لئے بد نما داغ بنا رکھا ہے.مثلاً جب ان سے نماز کے لئے کہا جائے تو کہتے ہیں
خطبات محمود ۴۹۷ بڑی مصیبت پڑ گئی حالانکہ اور ہزاروں قسم کی قیدیں جو انہوں نے خود اپنے اوپر لگارکھی ہیں ان کی وہ پوری پوری پابندی کرتے چلے جائیں گے.مثلاً حقہ کی قید اسلام نے نہیں لگائی بلکہ مسلمانوں نے خود اپنے اوپر لگائی ہے.اب جہاں حقہ نظر آتا ہے دس ہیں آدمی اس کے ارد گرد اکٹھے ہو کر حقہ پینے لگ جائیں گے مگر نماز کے لئے نہیں جائیں گے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ میں ایک دفعہ قادیان میں ایک شخص آیا اور ایک دن ٹھہر کر چلا گیا.جنہوں نے اسے بھیجا تھا انہوں نے خیال کیا یہ قادیان جائے گا اور وہاں کچھ دن ٹھہر کر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام کی باتیں سنے گا وہاں کے حالات دیکھے گا تو اس پر احمدیت کا کچھ اثر ہو گا.مگر جب وہ صرف ایک دن ہی ٹھہر کر واپس چلا گیا تو ان بھیجنے والوں نے اس سے پوچھا کہ تم اتنی جلدی کیوں آگئے.وہ کہنے لگا تو بہ کرو جی وہ بھی کوئی شریفوں کے ٹھرنے کی جگہ ہے.انہوں نے خیال کیا کہ شاید کسی کے نمونہ کا اچھا اثر نظر نہیں آیا ہوگا جس سے اس کو ٹھوکر لگی ہوگی.انہوں نے پوچھا کہ آخر کیا بات ہوئی جو تم اتنی جلدی چلے آئے.ان دنوں قادیان اور بٹالہ کے درمیان کیسے چلا کرتے تھے اس نے کہا میں صبح کے وقت قادیان پہنچا مہمان خانہ میں مجھے ٹھرایا گیا میری تواضع اور آؤ بھگت کی گئی ہم نے کہا سندھ سے آئے ہیں راستہ میں تو کہیں حقہ پینے کا موقع نہیں ملا اب اطمینان سے بیٹھ کر حقہ پئیں گے اور آرام کریں گے.ابھی ذرا حقہ آنے میں دیر تھی کہ ایک شخص نے کہا بڑے مولوی صاحب حضرت خلیفہ اول کو لوگ بڑے مولوی صاحب کہا کرتے تھے ) اب حدیث کا درس دینے لگے ہیں پہلے درس سن لیں پھر حقہ پینا.ہم نے کہا چلو اب قادیان آئے ہیں تو حدیث شریف کا بھی درس سن لیں.حدیث کا درس سن کر آئے تو ایک شخص نے کہا کھانا بالکل تیار ہے.پہلے کھانا کھالیں.ہم نے کہا ٹھیک بات ہے کھانے سے فارغ ہو کر پھر اطمینان سے حقہ پئیں گے.ابھی کھانا کھا کر بیٹھے ہی تھے کہ کسی نے کہا ظہر کی اذان ہو چکی ہے.ہم نے کہا.اب آئے ہیں چلو قاریان میں نماز بھی پڑھ لیتے ہیں ظہر کی نماز پڑھ چکے تو مرزا صاحب بیٹھ گئے اور باتیں وہاں شروع ہو گئیں.ہم نے کہا چلو مرزا صاحب کی گفتگو بھی سن لیں کہ کیا فرماتے ہیں پھر چل کر حقہ پئیں گے.وہاں سے باتیں سن کر آئے اور آکر پیشاب پاخانہ سے فارغ ہو کر اطمینان سے بیٹھے اور حقہ سلگایا کہ اب تو سب طرف سے فارغ ہیں اب تسلی سے حقہ پیتے ہیں لیکن ابھی دو کش بھی حقے کے نہ لگائے تھے کہ کسی نے کہا عصر کی اذان ہو چکی ہے نماز پڑھ لو.حقہ کو اسی طرح
خطبات محمود ۴۹۸ جلد سوم چھوڑ کر ہم عصر کی نماز کو چلے گئے عصر کی نماز پڑھی تو خیال تھا کہ اب تو شام تک حقہ کے لئے آزادی ہوگی کہ کسی نے کہا بڑے مولوی صاحب مسجد اقصیٰ میں چلے گئے ہیں اور وہاں قرآن کریم کا درس ہو گا.ہم نے سمجھا تھا کہ اب شام تک حقہ پینے کا موقع ملے گا پر خیر اب آئے ہیں تو قرآن کریم کا درس بھی سن ہی لیتے ہیں.بڑی مسجد میں گئے درس سنا اور سن کر واپس آئے تو مغرب کی اذان ہو گئی اور حقہ اسی طرح دھرا رہا اور ہم مغرب کی نماز کے لئے چلے گئے.نماز پڑھ کر پھر مرزا صاحب بیٹھ گئے اور ہم بھی مجبور آبیٹھ گئے کہ مرزا صاحب کی باتیں سن لو.آخر وہاں سے آئے اور سوچا کہ اب شاید حقہ پینے کا موقع ملے لیکن کھانا آگیا اور کہنے لگے کھانا کھالو پھر حقہ پینا.شام کا کھانا بھی کھالیا اور خیال کیا کہ اب تسلی سے حقہ کے لئے بیٹھیں گے کہ عشاء کی اذان ہو گئی اور لوگ کہنے لگے نماز پڑھ لو خیر عشاء کی نماز کے لئے بھی چلے گئے.نماز پڑھ کر خدا کا شکر کیا کہ اب تو اور کوئی کام نہیں رہا اب پوری فرمت ہے اور حقہ پیتے ہیں لیکن ابھی حقہ سلگایا ہی تھا کہ پتہ لگا کہ باہر سے آنے والے مہمانوں کو عشاء کے بعد بڑے مولوی صاحب کچھ وعظ و نصیحت کیا کرتے ہیں.اب بڑے مولوی صاحب وعظ کرنے لگ گئے.وہ ابھی وعظ کر ہی رہے تھے کہ سفر کی کوفت اور تکان کی وجہ سے ہم کو بیٹھے بیٹھے نیند آگئی پھر پتہ ہی نہیں کہ ہم کہاں ہیں اور ہمارا حقہ کہاں ہے.صبح جو اٹھا تو میں تو اپنا بستر اٹھا کر وہاں سے بھاگا کہ قادیان میں شریف انسان کے ٹھرنے کی کوئی جگہ نہیں.اب دیکھو یہ حقہ کی قید لوگوں نے خود ہی اپنے اوپر لگا رکھی ہے.کسی زمیندار کو دیکھ لو وہ دو دو تین تین گھنٹے روزانہ اور بیسیوں کام چھوڑ کر اور اپنا حرج کر کے بھی حقہ کے لئے ضرور وقت دے گا.اور جو لوگ اکٹھے بیٹھ کر حقہ پینے کے عادی ہیں وہ جتنا وقت صرف کرتے ہیں وہ دو تین گھنٹے سے قطعا کم نہیں ہو تا، مگر نماز کے لئے دیکھو دن رات میں پانچ نمازیں مقرر ہیں اور فی نماز پانچ چھ منٹ لگتے ہیں بلکہ ہمارے ملک میں مشہور ہے کہ حنفیوں کی نماز پر تو دو تین منٹ سے زائد وقت لگتا ہی نہیں.اب کو اپنی مرضی سے جسے خدا توفیق دے وہ ایک نماز کے لئے گھنٹہ گھنٹہ لگا لے مگر عام طور پر آٹھ دس منٹ ہی لگتے ہیں اور اس طرح پانچوں نمازوں پر پچاس منٹ یا ایک گھنٹہ صرف ہو گا مگر پھر بھی جب تم ان کو نماز کے لئے کہو گے، تو وہ یہی کہیں گے کہ کون نماز پڑھے وقت بالکل نہیں ملتا حالانکہ اور جگہوں پر وقت خرچ کرنے کی قید لگی ہوئی ہے.فرق صرف یہ ہے کہ انہوں نے وہ قید لگائی ہے جو محمد رسول اللہ ا نے نہیں
خطبات محمود ۲۹۹ جلد سوم لگائی اور وہ قید جو محمد رسول اللہ ﷺ نے لگائی ہے اس کو اپنے اوپر نہیں لگائیں گے.اسی طرح زکوۃ ہے.لوگ مال خرچ کر لیتے ہیں مگر اس میں سے زکوۃ نہیں نکالیں گے.گو ہمارے ملک میں تو اب حالت ایسی ہے کہ لوگوں کے پاس اتنا روپیہ ہی نہیں ہوتا اور جو کوئی روپیہ پیسہ ہوتا بھی ہے تو اس کے متعلق " آیا کھایا اور اڑایا " والی کیفیت ہوتی ہے اور جس گھر میں روپیہ آیا اور کھایا اڑایا والا معاملہ ہوتا ہے تو وہاں زکوۃ کیسے لگے گی.مگر باوجود اس کے آخر انسان بعض موقعوں کے لئے روپیہ جمع کر کے رکھتے ہیں مثلاً بیاہ شادی کے موقعوں کے لئے عموماً لوگ کچھ نہ کچھ جمع کرتے ہیں اور جو مال زکوۃ کے نصاب کو پہنچے اس پر زکوۃ واجب ہوتی ہے لیکن لوگ زکوۃ کے لئے تو اس میں سے کچھ نہیں دیں گے اور سارا مال بیاہ شادیوں کے موقع پر اڑا دیں گے.تو روپیہ تو وہ بھی خرچ کر دیتے ہیں مگر جہاں اللہ تعالی اور رسول کریم ا نے خرچ کرنے کی قید لگائی ہے وہاں خرچ نہیں کریں گے.تو بے شک بہت سی پابندیاں رسول کریم ﷺ نے آکر لگائی ہیں مگر وہ پابندیاں بہت زیادہ ہیں جو آج مسلمانوں نے خود اپنی مرضی سے اپنے اوپر لگارکھی ہیں اور جن میں وہ اپنا تمام روپیہ تباہ کر رہے ہیں.ابھی تھوڑا ہی عرصہ ہوا فیروز پور کا ایک واقعہ میں نے اخباروں میں پڑھا تھا کہ ایک شخص نے شاید ساٹھ روپے ماہو کار سے لئے تھے اور اب وہ ننانوے ہزار روپے سود در سود بن کر ہو گئے ہیں.اسلام نے بھی گو پابندیاں رکھی ہیں مگر وہ کہتا ہے کہ ہم تمہارے اوپر اتنا بوجھ ڈالیں گے جتنا تم اٹھا سکو گے.مگر ہم لوگوں نے اس حکم کی خلاف ورزی کر کے اپنی مرضی سے اپنے اوپر نا قابل برداشت بوجھ ڈال رکھے ہیں اور جہاں خدا کے دین کے لئے خرچ کرنے کو کہو تو کہیں گے جی کہاں سے دیں ؟ ہمیں تو آپ کھانے تک کو نہیں ملتا.اسی طرح بیاہ شادی ہے عیسائی، ہندو، مسلمان و غیرہ سب ہی بیاہ شادیوں پر پانی کی طرح روپیہ بہاتے ہیں بلکہ مسلمان تو چونکہ ہندو بنیوں سے لے لے کر اخراجات کرتے رہتے ہیں اس لئے وہ جو کچھ کماتے ہیں ان کی وہ ساری کمائی بننے کے گھر ہی چلی جاتی ہے اور بننے بھی جو کچھ جمع کرتے رہتے ہیں وہ جیسا کہ مثل مشہور ہے " بننے کی کمائی بیاہ یا مکان نے کھائی".سب بیاہ شادی کے موقعوں پر اڑا دیتے ہیں.چنانچہ ہندوؤں کا سارا روپیہ بیاہ کے موقع پر لڑکے والے لے جاتے ہیں اور وہ اس طرح کہ ان میں رواج ہے کہ جب بیاہ پر جاتے ہیں تو لڑکے والے لڑکی والوں سے کہتے ہیں بتاؤ کیا دو گے.چنانچہ بنگال کی طرف یہ عام رواج ہے 03-
خطبات محمود جلد سوم بڑے بڑے لوگ بلکہ چوٹی کے خاندانوں میں جو ملک کے لیڈر ہیں یا سر وغیرہ کے خطاب رکھتے ہیں وہ بھی جاکر کہیں گے کہ دو گے کیا؟ اور بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ لڑکے کو جس چیز کا زیادہ شوق ہو وہ اس کا مطالبہ کرتا ہے.مثلاً اگر اسے موٹر کا شوق ہے تو وہ کہہ دے گا مجھے موٹر لے دو یا اور جس چیز کی خواہش کرے لڑکی والے مہیا کر دیتے ہیں خواہ اس بیچارے میں اتنی طاقت نہ ہو اور اگر وہ کہہ دے کہ فلاں مطالبہ کو پورا کرنے کی مجھ میں طاقت نہیں تو لڑکے والے کہیں گے کہ اگر طاقت نہیں تو ہم تمہاری لڑکی لینے کے لئے تیار نہیں.جاؤ کسی اور کو لڑکی دے دو.حتی کہ بعض اوقات نہایت تکلیف دہ حالات پیش آجاتے ہیں اور کئی موقعوں پر تو لڑکیوں نے ایسی باتوں سے تنگ آکر خود کشیاں کرتی ہیں.بنگم پیٹر جی ایک بنگالی مصنف نے کئی ایسے واقعات لکھے ہیں اور حقیقت یہ ہے کہ قوم کے جو لوگ ایسے کام کرتے ہیں جن میں وہ اپنے اموال کو تباہ و برباد کرتے ہیں وہ اپنی دنیاوی خواہشوں کے مطابق خرچ کریں گے مگر اس طریق پر جسے ہر مذہب کے داناؤں نے پیش کیا ہے نہیں چلیں گے.اسی طرح ہمارے مسلمانوں کا حال ہے ان میں بھی شادی بیاہ کے موقعوں پر نہایت بے دردی سے روپیہ اڑا دیا جاتا ہے حالانکہ اسلام نے نہایت سادہ طریق پر شادیاں کرنے کا حکم دیا تھا.چنانچہ خود رسول کریم ان کی اپنی لڑکی کا بیاہ دیکھو وہ کیسا سادہ تھا.مسجد میں صحابہ جمع ہیں رسول کریم ﷺ تشریف لاتے ہیں اور اپنی لڑکی حضرت فاطمہ کا حضرت علی سے نکاح کا اعلان فرماتے ہیں، پھر چند عورتیں لڑکی کو رخصت کر کے لانے کے لئے آپ کے گھر جاتی ہیں، آپ نے دودھ کا پیالہ منگوایا، اپنی لڑکی اور داماد کو پلایا اور دعا کر کے لڑکی کو رخصت کر دیا.اس کا یہ مطلب نہیں کہ لڑکیوں کو کچھ دیتا ہی نہیں چاہئے، بلکہ اصل بات یہ ہے کہ اس وقت رسول کریم کی حالت ایسی ہی تھی کہ آپ کچھ دے نہیں سکتے تھے.در حقیقت اس میں آپ نے ہمیں یہ سبق دیا ہے کہ جیسی جیسی تمہاری حالت ہوا کرے دیسا ہی معاملہ کرلیا کرد.اسی طرح آج کل بڑی شان و شوکت سے رہے کئے جاتے ہیں خواہ اپنی حیثیت اس قسم کے دیموں کو برداشت نہ کر سکتی ہو.دیکھ لو رسول کریم ﷺ نے اس موقع کے لئے کیا حکم دیا ہے آپ فرماتے ہیں اولِم وَ لَوْ بِشَاہ سے کہ ایک امری ربج کر کے ولیمہ کر دو اور لوگوں کو کھانا
خطبات محمود کھلا دو.۵۰۱ جلد سوم اسی طرح صر ہے لوگ اب اپنی حیثیت سے بہت بڑھ چڑھ کر مہر باندھتے ہیں بلکہ ہمارے ملک میں تو لاکھوں تک بھی مہرباندھے جاتے ہیں.مگر وہ صر صرف باندھے ہی جاتے ہیں ان کے ادا کرنے کی کوئی نیت نہیں ہوتی.اس وقت جس نوجوان کا نکاح ہے ان کے والد پیر اکبر علی صاحب کا نکاح بھی میں نے ہی پڑھا تھا اس میں مہر دس ہزار روپیہ تھا میں جب نکاح پڑھنے لگا تو میں نے پیر صاحب سے کہا کہ اگر یہ مہر دینے کی نیت ہے تو اتنا مہرباند ھیں ورنہ کم کر دیں.اس پر وہ کھڑے ہو گئے اور انہوں نے کہا حضور اب میں نیت کرتا ہوں کہ یہ مہر ضرور ادا کردوں گا.شاید خدا نے ان کی اس وقت کی نیت اور نیک ارادہ کرنے کی وجہ سے بعد میں ایسے سامان پیدا کر دیئے کہ انہوں نے دس ہزار روپیہ مہر ادا کر دیا.مگر لوگ تو ایسی حالت میں مہر باندھتے ہیں کہ وہ خود کنگال ہوتے ہیں اور گھر میں کھانے تک کو کچھ نہیں ہوتا یہاں تک کہ نکاح کے دو جوڑے بھی بننے سے قرض لے کر لاتے ہیں.مگر مہر دیکھو تو کیا ہو گا تین گاؤں، ایک ہاتھی، اتنے گھوڑے اور اتنے روپے وغیرہ.میں نے تو خود تو کوئی ایسا واقعہ نہیں سنا مگر مولوی نذیر احمد صاحب دہلوی لکھتے ہیں جو میں نے پڑھا ہے کہ مہر میں اتنی مکھیوں کے پر اور اتنے مچھروں کے انڈے بھی شامل ہوتے تھے گویا یہ ان کی بڑائی کا نشان ہوتا ہے اور ان کا خیال ہوتا ہے کہ ادھر ہماری بیٹی کی شادی ہوئی اور پھر سارا ملک مکھیوں کے پر اور مچھروں کے انڈے جمع کرنے میں لگ جائے گا.مگر دیکھو رسول کریم ﷺ کے پاس ایک عورت آتی ہے اور اگر کہتی ہے یا رسول اللہ ا ! میں اپنے آپ کو حضور کے لئے ہبہ کرتی ہوں آپ فرماتے ہیں مجھے تو حاجت نہیں مگر ہم کسی اور نیک مرد سے تمہاری شادی کرا دیں گے.اسی مجلس میں سے ایک اور شخص اٹھ کر عرض کرتا ہے یا رسول اللہ ! مجھ سے کرا دیجئے.آپ نے پوچھا، کچھ پاس بھی ہے؟ اس نے کہا یارسول اللہ ﷺ پاس تو کچھ نہیں.آپ نے کہا لوہے کی انگوٹھی ہی سہی.معلوم ہوتا ہے وہ صحابی بھی بہت ہی غریب تھا اس نے کہا یا رسول اللہ الله لوہے کی انگوٹھی بھی نہیں.آپ نے کہا اچھا قرآن شریف کی کچھ سورتیں ہی یاد ہیں.اس نے جواب دیا ہاں فلاں فلاں سورتیں یاد ہیں.آپ نے فرمایا چلو قرآن کریم کی تین سورتیں ہی مر میں یاد کرا دیتا.کے در حقیقت عورت کا مہر اس لئے رکھا گیا ہے کہ بعض ضروریات تو خاوند پوری کر دیتا ہے
محمود ۵۰۲ جلد سوم لیکن بعض ان سے بھی زائد ضرورتیں ہوتی ہیں جن کو عورت اپنے خاوند پر ظاہر نہیں کر سکتی.پس وہ اپنے اس حق سے ایسی ضروریات کو پورا کر سکتی ہے اس لئے اسلام نے مہر کے ذریعہ عورت کا حق مقرر کیا ہے اور وہ خاوند کی حیثیت کے مطابق رکھا ہے.مگر لوگ اتنا مہر باندھتے ہیں کہ بعض اوقات خاوند کی ساری ساری جائداد دے کر بھی وہ مہر پورا نہیں ہوتا اور اس طرح متقدمات ہوتے ہیں اور اب تو عدالتیں ایسے دعووں میں نصف مہر عورت کو دلا دیتی ہیں.اور بعض مجسٹریٹ اتنے بڑے بڑے مہروں کو ظالمانہ فعل کہہ دیتے ہیں اور بعض دفعہ مرد کی جائداد سے دلا بھی دیتے ہیں.اسی طرح ورثہ ہے لوگ رو پے کو اور اور طرح اڑا دیں گے.بیاہ شادیوں پر لنا دیں گے مگر لڑکیوں کو ان کا جائز حق جو اسلام نے مقرر کیا ہے نہیں دیں گے.شادیوں کے وقت اگر کہو کہ اس قدر خرچ نہ کرو تو کہیں گے اگر ہم یہ خرچ نہ کریں تو ہماری ناک کٹ جائے گی.مگر جوں ہی لڑکی گھر سے جاتی ہے تو پہلے تو شاید ان کی مصنوعی ناک ہی کٹتی مگر اب چلتے پھرتے اٹھتے بیٹھتے سچ مچ ان کی ناک کٹ رہی ہوتی ہے یعنی جب سود خوار ان کے پیچھے پیچھے پھرتے ہیں، جب وہ عدالتوں میں مقدمات لئے پھرتے ہیں، جب جائدادیں فرق ہو رہی ہوتی ہیں تو اس وقت حقیقی طور پر ان کی ناک کٹ جاتی ہے.اگر نکاح کے وقت وہ ایسا نہ کرتے تو شاید ان کی ناک کی چونچ ہی کشتی یا نہ کئی مگر اب تو سب کی سب کٹ جاتی ہیں.لیکن خدا تعالٰی کا یہ حکم کہ لڑکیوں کو ان کا حق دو وہ پورا نہیں کریں گے اور یوں سب کچھ تباہ و برباد کر لینا گوارا کرلیں گے.مگر بغدا تعالٰی کا احسان ہے کہ اس نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ذریعہ پھر ہمیں ان قباحتوں سے بچالیا جن میں آج مسلمان مبتلاء ہیں گو ابھی یہ تو تھیں کہ ہم میں سے کوئی بھی غلطی نہیں کرتا تاہم ہمارے اندر ایک خاصی تعداد ایسے لوگوں کی ضرور ہے جو اسلامی تعلیم پر عمل کر رہی ہے اور رسم و رواج کی ان قیدوں سے آزاد ہو رہی ہے.چنانچہ ہماری جماعت میں پہلے بھی بہت سے لوگ ایسے تھے جو لڑکیوں کو ورثہ دیتے تھے لیکن اب تو جب سے پچھلے سال میں نے جلسہ سالانہ کے موقع پر اپنی جماعت کو اس طرف خصوصیت سے توجہ دینے کی ہدایت کی ہے سب نے اقرار کئے ہیں کہ وہ ضرور اسلامی تعلیم کے مطابق لڑکیوں کو ورثہ دیا کریں گے چنانچہ بہت سے لوگ اپنے اقرار کے مطابق ایسا کر رہے ہیں.غرض شریعت کا صحیح نمونہ ہماری جماعت میں موجود ہے.گو ابھی پورے طور پر نہیں مگر جتنے حصہ کو پورا کرنے کی ہمیں توفیق ملی
خطبات محمود ہے اس سے یہ اندازہ تو کیا جاسکتا ہے کہ ہم اس حصہ کے پورا کرنے سے بگڑے ہیں یا اچھے ہوئے ہیں اور پھر باقی حصے پر عمل نہیں کرتے تو اس صورت میں ہم خدا تعالی کے سامنے زیادہ مجرم قرار پائیں گے اور اللہ تعالی ہمیں کہہ سکتا ہے کہ جب تم لوگوں نے بعض حصوں پر عمل کر کے میرے احکام کا میٹھا اور پھل دار ہوتا دیکھ لیا تھا تو پھر کیوں تم نے ان تمام احکام پر عمل نہ کیا.تو آدمی بهر حال کسی نہ کسی قید میں ہو گا خواہ وہ شرعی قیود کو اپنے اوپر وارد کرے یا خواہ اپنی مرضی سے رسم و رواج کی پابندیوں میں اپنے آپ کو جکڑ لے مگر وہ ضرور کسی نہ کسی قید میں ہو گا اور کسی قوم میں بھی اپنے کسی عزیز کی نسبت "مادر پدر آزاد" والی آزادی کو اچھا قرار نہیں دیا جاتا بلکہ کوئی اپنے لئے یہ الفاظ بھی سننے کے لئے تیار نہیں ہو سکتا کیونکہ "مادر پدر آزاد" والی حریت در اصل ایک گالی ہے کہ فلاں شخص اپنے اوپر کسی قسم کی بھی قید نہیں لگاتا.تو جب ہم میں سے ہر ایک کو اپنے اوپر کوئی نہ کوئی قید لگانی ہی پڑتی ہے اور ہم میں سے ہر ایک کو کسی نہ کسی طرح غلامی کرنی پڑتی ہے تو پھر کیوں نہ ہم محمد رسول اللہ ﷺ کی غلامی اختیار کریں اور کیوں نہ ہم آپ کے فرمائے ہوئے احکام کی قیود کو اپنے اوپر وارد کریں کیونکہ بڑے آدمیوں کی غلامی بھی تو ایسے اعلیٰ مقامات پر پہنچا دیتی ہے جہاں دوسرے لوگ پہنچنے.قاصر ہوتے ہیں.مثلاً ایک تحصیلدار ہے اب بے شک تحصیلدار اپنی جگہ ایک بڑا آدمی ہے لیکن جہاں ڈپٹی کمشنر کا بہرہ جا سکتا ہے کیا تحصیلدار وہاں جاسکتا ہے.پھر اور دیکھو ڈپٹی کمشنر جہاں خود جا سکتا ہے وہیں اس کا بہرہ بھی جاسکتا ہے لیکن کئی مقامات پر ڈپٹی کمشنر نہیں جاسکتا مگر کمشنر کا بہرہ وہاں بھی جا سکتا ہے.اسی طرح کمشنر کا بہرہ بھی صرف وہاں جا سکتا ہے جہاں خود کمشنر جا سکتا ہے.لیکن کئی مقامات پر کمشنر بھی نہیں جا سکتا مگر گورنر کا بہرہ وہاں بھی پہنچ سکتا ہے.تو بڑوں کی غلامی بھی انسان کو بڑا بنا دیتی ہے اور جب ہر انسان کو کسی نہ کسی رنگ کی قیدیں لگی ہوئی ہیں تو کیوں نہ ہم اپنی مرضی سے اپنے اوپر قید لگانے کی بجائے رسول کریم ﷺ کی قیدوں کو اپنے او پر لگا ئیں اور آپ کی غلامی اختیار کریں جن کی غلامی سے بھی ہم کو عزت حاصل ہوگی اور جن کی بڑائی کے ساتھ ساتھ ہمیں بھی اللہ تعالی کے حضور بڑائی حاصل ہو گئی.الفضل ۳۱ اگست ۱۹۶۰ء صفحه (۲ تا ۵
خطبات محمود ۵۰۴ جلد سوم له الفضل ۱۸ اپریل ۱۹۳۹ء صفحه ۲ и کے مسیح جو ہمارے لئے لعنتی بنا اس نے ہمیں مول لیکر شریعت کی لعنت سے چھڑایا" گلتیوں باب ۳ آیت ۱۳ بائیل سوسائٹی انار کلی لاہور مطبوعہ (۱۹۹۴ء) ه بخاری کتاب النکاح باب الوليمة ولو بشاة که بخارى كتاب النكاح باب عرض المراة نفسها على الرجل الصالح
خطبات محمود ۵۰۵ 112 جلد سوم اس وقت کی قدر کرو اور فائدہ اٹھاؤ (فرموده ۱۱ مئی ۱۹۳۹ء) ۱ مئی ۱۹۳۹ء آج حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے بعد نماز عصر مسجد اقصیٰ میں صاحبزادہ مرزا ظفر احمد صاحب بی اے.بیرسٹرایٹ لاء ابن حضرت مرزا شریف احمد صاحب کا نکاح سیدہ نصیرہ بیگم بنت جناب مرزا عزیز احمد صاحب ایم.اے خلف حضرت مرزا سلطان احمد صاحب کے ساتھ ایک ہزار روپیہ مہر پر پڑھا.اے خطبہ مسنونہ کی تلاوت کے بعد فرمایا :- اس دنیا کو اللہ تعالیٰ نے ایسے رنگ میں بنایا ہے کہ بسا اوقات انسان یہ خیال کرتا ہے کہ وہ ترقی کر رہا ہے، وہ خیال کرتا ہے کہ اسے عروج حاصل ہو رہا ہے، وہ خیال کرتا ہے کہ وہ قدم بقدم آگے کی طرف بڑھ رہا ہے مگر ابھی زیادہ عرصہ نہیں گزرتا کہ اسے یہ محسوس ہونے لگتا ہے کہ وہ چیز جسے اس نے اپنا عروج سمجھا تھا در حقیقت اس کے زوال کی ابتداء تھی، جسے اس نے اپنی ترقی کی سیڑھی سمجھا تھا وہ اس کے گرنے کی تمہید تھی اور جسے وہ بڑھنا قرار دے رہا تھا در حقیقت وہ پیچھے لوٹنا تھا.اس کا دل اس تصور سے خوشی محسوس کر رہا تھا کہ وہ سیدھا جارہا ہے وہ ایک ایسی سڑک پر چل رہا ہے جس میں کوئی غم نہیں لیکن جب وہ اس عمر کو پہنچتا ہے جو فکر اور شعور کی عمر کہلاتی ہے اور جس میں انسان غور کرنے کے بعد مختلف نتائج اخذ کرتا ہے تو یک دم اسے محسوس ہوتا ہے کہ وہ آگے کی طرف نہیں بڑھ رہا بلکہ پیچھے کی طرف لوٹ رہا ہے.اس کی جوانی کی عمر کا جو بھی اندازہ ہو اور یہ اندازے مختلف ہوتے ہیں، کسی کی جوانی چالیس
خطبات محمود 0.4 جلد سوم سال چلتی ہے، کسی کی جوانی پچاس سال چلتی ہے، کسی کی جوانی ساٹھ سال چلتی ہے اور کسی کی جوانی ستر سال چلتی ہے بہرحال اس کی جوانی کا جو بھی اندازہ ہو انسان اس عمر تک چلتا چلا جاتا ہے اور اسے یہی محسوس ہوتا ہے کہ وہ جوانی کی سڑک پر چل رہا ہے.مگر چلتے چلتے اسے ایک دم ایک دن معلوم ہوتا ہے کہ جسے وہ چلنا سمجھ رہا تھا وہ دراصل واپس لوٹنا تھا.سڑک بالکل سیدھی معلوم ہوتی ہے اور اس میں کوئی خم دکھائی نہیں دیتا لیکن حقیقت اس کے بر عکس ہوتی ہے اور انسان اس سڑک پر سے گزر کر پھر واپس لوٹ رہا ہوتا ہے مگر خدا تعالٰی نے انسانی زندگی میں کچھ ایسا جادو بھر دیا ہے کہ واپس لوٹنا معلوم ہی نہیں ہوتا.نہ اسے سڑک میں کوئی خم دکھائی دیتا ہے نہ اس کے نفس میں یہ احساس پیدا ہوتا ہے کہ میں ٹیڑھا ہونے لگا ہوں.زمانہ کی لکیر بھی سیدھی ہی ہوتی ہے چنانچہ پچاس کے بعد ۵۱ ہی آتا ہے ۴۹ نہیں آتا اور اکاون کے بعد باون ہی آتا ہے اڑتالیس نہیں مگر باون بتا رہا ہوتا ہے کہ وہ در اصل ۴۸ ہے.اسی طرح باون کے بعد سینتالیس کبھی نہیں آئے گا آئے گا تو ترین ۵۳ ہی آئے گا مگر ترین اپنی ذات میں سینتالیس کا قائمقام ہو گا.اسی طرح اسی ۸۰ کے بعد نوے، نوے ۹۰ کے بعد سو اور سو کے بعد ایک سو دس ہی آئے گا یہ نہیں ہو گا کہ اسی کے بعد ستریا نوے کے بعد اتنی یا سو کے بعد نوے یا ایک سو دس کے بعد سو آ جائے.مگر حقیقتاً بعض دفعہ سو دو کے برابر ہو جاتا ہے اور بعض دفعہ.ایک کے برابر ہو جاتا ہے.چنانچہ بعض لوگ جو سو برس کی عمر کو پہنچ جاتے ہیں چھوٹے بچے کی طرح ہو جاتے ہیں چارپائی پر ہر وقت پڑے رہتے ہیں اور پوتے پڑپوتے انہیں رضائیوں میں لپیٹ کر ایک جگہ سے اٹھا کر دوسری جگہ لے جاتے ہیں اور ان کے منہ میں دودھ وغیرہ ڈالتے رہتے ہیں.اس وقت بظاہر ان کی عمر سو سال کی ہی ہوتی ہے مگر دراصل ان کی عمر ایک یا دو سال کے بچے جتنی ہوتی ہے وہ سیدھے چل رہے ہوتے ہیں اور ہر ایک کو یہی نظر آتا ہے کہ وہ آگے کی طرف بڑھ رہے ہیں مگر دراصل وہ واپس لوٹ رہے ہوتے ہیں.غرض خدا تعالٰی نے یہ ایک عجیب حیرت انگیز سلسلہ جاری کیا ہوا ہے جس کو سمجھنا انسانی عقل سے بالکل بالا ہے.آج جس لڑکے کا نکاح پڑھانے کے لئے میں کھڑا ہوا ہوں وہ مجھ سے چھوٹے سے بھی چھوٹے بھائی کا لڑکا ہے اور جس لڑکی کا نکاح ہے وہ بھی بہر حال بڑی نہیں بلکہ اس سے بڑا ایک بھائی تھا جو فوت ہو چکا ہے.اس وقت میری آنکھوں کے سامنے وہ زمانہ آگیا ہے جبکہ کبھی ہم خطبہ پڑھنے والے نہ تھے، خطبہ سننے والے نہ تھے بلکہ خطبہ اگر سنتے تو سمجھ بھی نہیں سکتے تھے.مجھے یاد
خطبات محمود جلد سوم ہے میں سکول کی طرف سے ایک دن آرہا تھا اس گلی میں سے گزر کر جس گلی میں سے گزر کر ہم مسجد میں آتے ہیں میرے سامنے قریباً میرا ہی ہم عمر ایک چھوٹا سا لڑکا گزر رہا تھا میرے ساتھ اس وقت شیخ یعقوب علی صاحب یا غالبا کوئی اور دوست تھے انہوں نے اس وقت اس لڑکے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا میاں تیرا بھتیجا آگیا ہے.اس وقت کی عمر کے لحاظ سے بھتیجے کو نہ معلوم میں نے کیا سمجھا مجھے یاد ہے میں نے یہ الفاظ سنتے ہی ایک چھلانگ لگائی اور دوڑ کر گھر گیا.میرے لئے یہ فقرہ اس وقت ایسا ہی شرمناک تھا جیسے کسی کو کہہ دیا جائے کہ غلطی سے تم مجلس میں ننگے آگئے ہو.میں بھی یہ فقرہ سنتے ہی دوڑ پڑا انہوں نے کوشش کی کہ مجھے پکڑ کر ہم دونوں کو آپس میں ملا دیں لیکن میں ان سے پکڑا نہیں گیا.کچھ دنوں کے بعد شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی اور غالبا قاضی امیر حسین صاحب نے کوشش کر کے ہم دونوں کو اکٹھا کر دیا.اس وقت تک بوجہ اس اختلاف کے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور مرزا سلطان احمد صاحب میں تھا اور بوجہ اس کے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام مرزا سلطان احمد صاحب سے ناراض رہتے تھے ہم کبھی اکٹھے نہیں ہوئے تھے.گھر اگر چہ ہمارے پاس پاس ہی تھے مگر مرزا سلطان احمد صاحب چونکہ باہر ملازم تھے اور ان کے بچے بھی باہر ان کے ساتھ ہی رہتے تھے اس لئے اپنے بھتیجے کو دیکھنے کا میرے لئے یہ پہلا موقع تھا.ان دونوں نے ہم کو اکٹھا کر دیا اور پھر اس کے بعد بھی یہ دونوں ہم کو آپس میں ملاتے رہے.اس کے بعد انہوں نے میرے کانوں میں یہ بات ڈالنی شروع کی کہ اپنے ابا سے کہو کہ یہ بچہ بیعت کرنا چاہتا ہے.میں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے اس کا ذکر کیا تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا بچے نے کیا بیعت کرنی ہے.اس کو کیا پتہ کہ احمدیت کیا ہے اور ہم کس غرض کے لئے مبعوث ہوئے ہیں مگر یہ پھر بھی میرے پیچھے پڑے رہے اور مجھے کہتے رہے کہ جاکر کہو اس نے بیعت کرنی ہے.آخر حضرت مسیح موعود عليه الصلواة والسلام نے مجھے اجازت دی اور فرمایا اسے جاکر گھر میں لے آؤ چنانچہ میں انہیں اپنے گھر لے گیا.جہاں تک مجھے یاد ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اس وقت کوئی تصنیف فرما رہے تھے آپ نے اس بچے کو دیکھا اس کے سر پر ہاتھ پھیرا اور کوئی بات کی جو اس وقت مجھے یاد نہیں اور پھر ہم چلے آئے.اس کے یہ معنے تھے کہ گویا انہیں ہمارے گھر میں آنے کا پاسپورٹ مل گیا.پھر میں بھی بڑا ہوا اور وہ بھی بڑے ہوئے انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی دستی بیعت کرلی.پھر خدا کی قدرت وہ علی گڑھ گئے.۱۹۰۷ ء میں
خطبات محمود ۵۰۸ چاند سوم ایک سٹرائیک میں شریک ہو گئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اس پر سخت ناراض ہوئے اور آپ نے بدر اور احکم میں ان کے اخراج کا اعلان کر دیا.بعد میں ان کے ابا نے انہیں کہا کہ جاؤ اور معافی مانگو چنانچہ انہوں نے معافی مانگی اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے انہیں معاف کر دیا.یہ تغیرات تھے جو یکے بعد دیگرے ہوتے چلے گئے پھر مجھے وہ دن بھی یاد ہے کہ جہاں آج کل مرزا گل محمد صاحب کی دکانیں ہیں وہاں ایک چبوترہ ہوا کرتا تھا.جس پر عام لوگ بیٹھ جایا کرتے تھے.مرزا نظام الدین صاحب اور ان کے بھائی بھی وہاں بیٹھ جاتے اور بعض احمدی بھی بعض دفعہ بیٹھ جاتے.ہم بچے بھی کبھی وہاں کھیلا کرتے تھے.میری عمر اس وقت کوئی سات آٹھ سال کی تھی ہم وہاں کھیل رہے تھے کہ ایک چھوٹی سی لڑکی جو چار پانچ سال کی ہوگی وہاں کھیلتی ہوئی آئی اور کسی نے مجھے کہا کہ یہ لڑکی تمہارے بھیجے عزیز احمد کی منگیتر ہے (اس وقت تک شاید مرزا عزیز احمد صاحب سے میری ملاقات ابھی نہیں ہوئی تھی) میں نہیں جانتا کہ آج کل کے بچوں میں بھی یہ احساسات ہیں یا نہیں مگر اس وقت مجھے یہ بات بڑی ہی شرمناک معلوم ہوئی میرا دل دھڑکنے لگ گیا.مجھے پسینہ آگیا اور میں نے کہا یہ منگیتر ہے.اس سے میں سمجھتا ہوں کہ بچپن میں ہی یہ بات طے ہو چکی ہوگی پھر ہم بڑے ہوئے ، ہماری شادیاں ہو ئیں اور ہمارے بچے ہوئے.پھر وہ بچے پہلے چھوٹے تھے پھر بڑے ہوئے اور اب ان کی شادیوں کا وقت آگیا ہے.شاید یہ زمانے ان پر بھی آئے ہوں، شاید یہ لطائف ان سے بھی گزرے ہوں یہ تو وہی جانتے ہیں کہ یہ حالات ان پر گزرے ہیں یا نہیں مگر بہر حال ہم پر گزرے اور اب وہ وقت آگیا کہ ہمارے بچے خود شادیوں کے قابل ہو گئے ہیں اور وہی ذمہ داریاں جو ہم پر پڑیں ان پر بھی عائد ہونے والی ہیں.اللہ بہتر جانتا ہے کہ وہ ان ذمہ داریوں کو کس طرح ادا کریں گے مگر بہر حال شادیوں کی خوشیاں اپنے اندر ایسا رنگ رکھتی ہیں جو ہر قوم میں خوشی کے جذبات پیدا کر دیا کرتی ہیں.مگر بعض خوشیاں ایسی ہوتی ہیں جو اپنے اندر غم کے جذبات بھی رکھتی ہیں اور انسان محسوس نہیں کر سکتا.فرق نہیں کر سکتا کہ غم کہاں سے شروع ہوتا ہے اور خوشی کہاں ختم ہوتی ہے.اگر ایک طرف دیکھا جائے تو وہ کہتا ہے کہ میں بڑا خوش ہوں اور دوسری نگاہ سے اسے دیکھا جائے تو وہ سمجھتا ہے کہ میں بڑا غمگین ہوں.وہ کچھ ایسا اجتماع ضدین ہوتا ہے کہ اس کی مثال دنیا میں بہت ہی کم چیزوں میں پائی جاتی ہے.سفیدی اور سیاہی ایک جگہ جمع نہیں ہوتے، نور اور تاریکی ایک جگہ جمع نہیں ہوتے، لیکن خوشی اور غم کا
خطبات محمود ۵۰۹ چاند سوم اجتماع بعض دفعہ ایسا عجیب ہوتا ہے کہ اسے دیکھ کر انسان حیران اور دنگ رہ جاتا ہے.ایک ہی وقت میں انسان بہت خوش ہوتا ہے اور اسی وقت انسان بہت ہی غمگین ہوتا ہے.مثلا رہی شادیاں جو ان دنوں ہمارے خاندان میں ہو ئیں ایسی ہی ہیں.میری بچی کی شادی بھی ایسی ہی تھی.آج جس بچی کی شادی ہے وہ بھی ایسی ہی ہے یعنی ان بچیوں کی مائیں ان کے بچپن میں ہی فوت ہو گئیں.نصیرہ بیگم جس کی آج شادی ہے اس کی والدہ بھی بچپن میں فوت ہو گئی تھیں جس کا میں نے ابھی ذکر کیا ہے کہ وہ کھیلتے ہوئے میرے پاس آئی اور کسی نے مجھے کہا کہ یہ تمہارے بھتیجے کی منگیتر ہے اور امتہ القیوم جو میری لڑکی ہے اس کی والدہ بھی فوت ہو چکی ہے سو ایسے خوشی کے اوقات میں قدرتی طور پر انسانی ذہن ان حالات کی طرف بھی چلا جاتا ہے اور یہ ایک عجیب قسم کے مخلوط جذبات ہو جاتے ہیں.کبھی انسان اپنے ذہن میں ان باتوں کو لاتا ہے کہ اگر لڑکی کی والدہ زندہ ہوتی تو وہ کیسی خوش ہوتی اور کبھی انسانی ذہن اس طرف جاتا ہے کہ اس بچی کے دل میں کیا خیال آتا ہو گا کہ اگر میری والدہ ہوتیں تو وہ آج کیسی خوش ہو تیں اور کبھی انسان کے دل میں یہ خیال آتا ہے کہ انسانی فطرت کو سب سے زیادہ صدمہ پہنچانے والی جو بات تھی وہ اس بچی کو پہنچی کیونکہ لڑکی کے لئے ماں کی وفات سے زیادہ صدمہ والی بات اور کوئی نہیں ہو سکتی.انسانی واہمہ خیال کرتا ہے کہ وہ ایک ہی زمانہ جو حقیقی آرام کا زمانہ ہے یعنی بچپن کا زمانہ جس میں انسان غم کو غم اور فکر کو فکر نہیں سمجھتا.وہ زمانہ جو خدا نے باقی ساری دنیا کے لئے آرام کا زمانہ بنایا ہے وہ خدا کی کسی عظیم الشان مصلحت کے ماتحت اس بچی کے لئے غم کا زمانہ بن گیا.پس دل ڈرتا اور انسانی قلب میں یہ واہمہ پیدا ہوتا ہے کہ کہیں اس بچی کا مستقبل بھی غمگین نہ ہو.غرض عجیب قسم کے جذبات مخلوط ہوتے ہیں.ایک طرف شادی ہوتی ہے اور ایک طرف انسانی واہمہ قسم قسم کی باتیں کر کے اس کے سامنے لاتا ہے.کسی اور کا کیا ذکر ہے خود رسول کریم ﷺ کو ہی دیکھ لو کہ آپ نے کیسے تکلیف دہ حالات میں پرورش پائی آپ کے والد آپ کی پیدائش سے ہی پہلے فوت ہو چکے تھے اور آپ کی والدہ آپ کی پیدائش کے کچھ عرصہ بعد وفات پاگئیں اور آپ کامل طور پر یتیمی کی حالت میں آگئے.اس کے بعد آپ کچھ عرصہ تک اپنے دادا حضرت عبدالمطلب کے پاس رہے اور جب وہ وفات پاگئے تو اپنے چھا ابو طالب کی کفالت میں آگئے.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ انہوں نے آپ کے ساتھ بڑی محبت اور پیار کا سلوک کیا اور آپ کے جذبات اور احساسات کا ہر طرح خیال رکھا مگر آپ کی اپنی
خطبات محمود ۵۱۰۰ جلد سوم کیفیت یہ تھی کہ جب آپ کے چچا کے گھر میں کھانا تقسیم ہوتا تو تاریخیں بتاتی ہیں کہ آپ کبھی بڑھ کر اپنی چچی سے کھانا نہیں مانگا کرتے تھے بلکہ خاموشی سے ایک کونہ میں کھڑے ہو جاتے.دوسرے بچے شور مچاتے اور اچھل اچھل کر اپنی والدہ سے چیزیں لیتے مگر آپ ایک گوشہ میں خاموشی کے ساتھ کھڑے رہتے.اے گویا سمجھتے میرا اس گھر میں کیا حق ہے اگر یہ لوگ مجھے کچھ کھلاتے پلاتے ہیں تو در حقیقت مجھ پر احسان کرتے ہیں ورنہ میرا حق نہیں کہ میں ان سے کچھ مانگ سکوں.غرض آپ نے اپنے بچپن کا زمانہ انتہائی تکلیف دہ حالات میں گزارا اور پھر بڑے ہوئے تو مکہ والوں نے آپ کو اپنے مظالم کا تختہ مشق بنالیا.لیکن پھر ایک دن آیا جب کہ وہی جو اپنے آپ کو لاوارث سمجھتا تھا، جو اپنے چچا کے گھر میں بھی اپنا کوئی حق نہیں سمجھتا اور جسے مکہ والوں نے بھی انتہائی دکھ دیا تھا مکہ میں فاتحانہ طور پر داخل ہوا اور اس نے قریش سے مخاطب ہو کر کہا کہ بتاؤ اب تمہارے ساتھ کیا سلوک کیا جائے ؟ انہوں نے کہا آپ ہم سے وہی سلوک کریں جو یوسف نے اپنے بھائیوں کے ساتھ کیا تھا تب آپ نے فرمایا لَا تَشْرِيْبَ عَلَيْكُمُ الْيَوْمَ - سه جاؤ آج تم پر کوئی گرفت نہیں میں نے تمہیں معاف کر دیا.حالانکہ مکہ والوں نے آپ سے جو سلوک کیا تھا وہ ایسا ظالمانہ تھا کہ آج بھی تاریخ میں ان واقعات کو پڑھ کر بدن کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں.لیکن ظاہر ہے کہ لَا تَثْرِیبَ عَلَيْكُمُ الْيَوْمَ کے معنے یہ نہیں ہوتے کہ وہ مقام حاصل ہو گیا جو ابتدائی زمانہ میں ایمان لانے والوں کو حاصل تھا.لَا تَثْرِيبَ عَلَيْكُم اليوم - کے صرف اتنے معنے تھے کہ رسول کریم ایا میں نے انہیں معاف کر دیا.ورنہ جو مقام ابتدائی زمانہ میں ایمان لانے والوں کو حاصل تھا وہ مکہ والوں کو حاصل نہ ہوا.مکہ والوں کی تو یہ کیفیت تھی کہ جب رسول کریم ﷺ پر وحی نازل ہوئی کہ جا اور لوگوں کو خدائی عذاب سے ہوشیار کر تو رسول کریم اے نے تمام لوگوں کو جمع کیا اور ان سے فرمایا کہ مجھے خدا نے تمہاری ہدایت کے لئے بھیجا ہے اگر تم خدائی عذاب سے بچنا چاہتے ہو تو میری آواز سنو اور خدائے واحد کے پرستار بن جاؤ.اس پر تمام لوگ آپ کو پاگل اور جھوٹا کہتے ہوئے منتشر ہو گئے سے اور انہوں نے آپ کی بات کی طرف کوئی توجہ نہ کی.اس کے مقابلہ میں حضرت ابو بکر کی یہ حالت تھی کہ جب رسول کریم ﷺ نے دعویٰ نبوت کیا تو اس وقت وہ تجارت پر باہر کسی گاؤں میں گئے ہوئے تھے.جب آپ مکہ میں واپس آئے اور دوپہر کے وقت سانس -
خطبات محمود ۵۱۱ جلد خوم لینے کے لئے تھوڑی دیر کے لئے گھر میں لیٹے تو ایک لونڈی دوڑی ہوئی آپ کے پاس آئی اور کہنے لگی ہائے ہائے تیرا دوست تو آج پاگل ہو گیا ہے.حضرت ابو بکر میں بیٹی نے کہا کونسا دوست اس نے کہا محمد ( اور کونسا.حضرت ابو بکر بھی نہ کہنے لگے تمہیں کیو نکر پتہ لگا کہ وہ پاگل ہو گیا ہے.وہ کہنے لگی آج اس نے قوم کے ندوہ میں اعلان کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فرشتے میرے پاس آتے اور مجھ سے باتیں کرتے ہیں.حضرت ابو بکر لیٹے ہوئے تھے یہ سنتے ہی آپ اٹھ کھڑے ہوئے اور آپ نے اپنی چادر سنبھالی.ہمارے ملک میں جیسے ساڑھیاں ہوتی ہیں اس قسم کی چادر اہل عرب بھی اپنے ارد گرد لپیٹ لیا کرتے تھے اور ایک حصہ کا تو تہبند بنالیتے اور دوسرا اوپر لپیٹ لیتے.انہوں نے جلدی سے چادر درست کی جوتی پہن لی اور سیدھے رسول کریم کے دروازہ پر پہنچے اور دستک دی.رسول کریم ال باہر تشریف لائے تو آپ نے کہا اے میرے دوست! کیا یہ سچ ہے کہ تو کہتا ہے فرشتے مجھ پر نازل ہوتے اور مجھ سے باتیں کرتے ہیں.رسول کریم ﷺ نے اس خیال سے کہ آپ کو ٹھوکر نہ لگے چاہا کہ ابو بکر کو پہلے یہ مسئلہ سمجھالوں اور پھر کوئی اور بات کروں چنانچہ آپ نے فرمایا ابو بکڑ دیکھو بات یہ ہے.حضرت ابو بکڑ نے کہا میں نے آپ سے ایک سوال کیا ہے آپ کا فرض صرف اتنا ہے کہ میرے سوال کا جواب دیں آپ مجھے کوئی اور بات نہ بتائیں.میں نے آپ سے صرف یہ سوال کیا ہے کہ کیا یہ درست ہے کہ فرشتے آپ پر نازل ہوتے اور آپ سے کلام کرتے ہیں.رسول کریم نے پھر چاہا کہ جواب دینے سے پہلے میں ان کو مسئلہ سمجھالوں تاکہ ٹھوکر نہ لگے چنانچہ آپ نے فرمایا ابو بکر دیکھو بات یہ ہے.حضرت ابو بکر نے کہا میں آپ کو خدا کی قسم دے کر کہتا ہوں کہ آپ مجھے ہاں یا نہ میں جواب دے دیں.اب رسول کریم اے کے لئے سوائے اس کے کوئی چارہ نہ تھا کہ آپ جواب دے دیتے چنانچہ آپ نے فرمایا ابو بکر پھر بات تو یہی ہے اور اس کے ساتھ ہی آپ کے دل میں اس خیال سے افسردگی پیدا ہوئی کہ ابو بکر میرا پرانا دوست تھا یہ بھی میرے ہاتھ سے گیا.مگر جب آپ نے کہا ابو بکر بات تو یہی ہے کہ فرشتے مجھ سے ہم کلام ہوتے ہیں تو حضرت ابو بکڑ نے کہا آپ گواہ رہیں کہ میں آپ پر ایمان لایا.رسول کریم ا نے فرمایا ابو بکر تم مجھے بات تو پوری کر لینے دیتے.حضرت ابو بکڑ نے کہا یا رسول اللہ ﷺ میں نے آپ کو پوری بات اس لئے نہیں کرنے دی کہ جب میں نے ہمیشہ آپ کو صادق اور راست باز پایا ہے تو اب میں اپنے ایمان کو دلیلوں سے کیوں خراب کروں.شے
خطبات محمود ۵۱۲ جلد سوم اب یہ کیونکر ممکن تھا کہ ابو بکر اور وہ لوگ برابر ہو جائیں جو فتح مکہ کے وقت رسول کریم پر ایمان لائے.بے شک رسول کریم ال کا عضو وسیع تھا، بے شک آپ نے انہیں کا يب عَلَيْكُمُ اليَوم کر دیا مگر لا تخريب عَلَيْكُمُ اليَوم کہنا بالکل اور چیز ہے اور ابو بکر اور عمر اور عثمان اور علی اور ان دوسرے صحابہ" کا مقام بالکل اور چیز ہے جو ابتدائی زمانہ میں رسول کریم ﷺ پر ایمان لائے.ابتدائی زمانہ میں ایمان لانے والوں کے مقام کا اندازہ تم اس سے لگا سکتے ہو کہ ایک دفعہ حضرت ابو بکر اور حضرت عمر کے درمیان کسی بات پر جھگڑا ہو گیا اس دوران میں حضرت عمر میں ہویہ نے حضرت ابو بکر" پر ہاتھ ڈالا اور ان کا کپڑا پھٹ گیا.حضرت عمر کو خیال گزرا کہ اگر رسول کریم ﷺ کو اس واقعہ کی اطلاع پہنچی تو آپ ناراض ہوں ہے.ادھر کسی شخص نے انہیں خبر دی کہ حضرت ابو بکر کو اس نے رسول کریم ﷺ کی خدمت میں جاتے دیکھا ہے حالانکہ حضرت ابو بکر اس وقت گھر گئے تھے.رسول کریم ای کی خدمت میں نہیں گئے تھے.یہ دوڑے دوڑے رسول کریم ﷺ کے پاس پہنچے اور کہنے لگے یا رسول الله الی آج مجھ سے ایک غلطی ہو گئی ہے میں ابو بکر سے لڑ پڑا ہوں.اتنے میں کسی شخص نے حضرت ابو بکر بھی بیٹی کو جاکر خبر دی کہ عمر رسول کریم ﷺ کے پاس پہنچ گئے ہیں اور خبر نہیں وہ بات کو کس رنگ میں بیان کریں.حضرت ابو بکرہ بھی جلدی سے روانہ ہوئے اور رسول کریم ﷺ کی مجلس میں پہنچے.جب آپ دروازے میں سے داخل ہوئے تو انہوں نے دیکھا کہ رسول کریم اس کے چہرہ پر شدت غضب کے آثار ہیں اور آپ حضرت عمر کو مخاطب کر کے کہہ رہے ہیں کہ اے لوگو! کیا تم میرا اور اس شخص کا پیچھا نہیں چھوڑو گے جس نے مجھے اس وقت قبول کیا جب ہر شخص کے دل میں کبھی پائی جاتی تھی.اور حضرت عمر نہایت رقت اور زاری کی حالت میں کہہ رہے تھے کہ یا رسول اللہ ﷺ میرا قصور تھا.اتنے میں حضرت ابو بکر میں بھی آگے بڑھے اور وہ رسول کریم ان کے سامنے دو زانو ہو کر بیٹھ گئے اور کہنے لگے یا رسول اللہ ا عمر کا تصور نہیں قصور میرا ہی تھا.لے ان واقعات کو دیکھ کر سوچو کہ یہ کیسے ہو سکتا تھا کہ خدا تعالیٰ ایسے لوگوں کی قربانیوں کو بھلا دیتا.پس لا تخریب عَلَيْكُمُ اليوم نے ظاہر طور پر بے شک انہیں سزا سے بچالیا اور ان کی گردنیں کٹنے سے بچ گئیں مگر وہ عزت ان کو کیسے حاصل ہو سکتی تھی جو ان لوگوں کو حاصل تھی جو ابتدائی زمانہ میں رسول کریم ﷺ پر ایمان لائے.چنانچہ اس واقعہ پر کئی سال گزر گئے
خطبات محمود ۵۱۳ جلد سوم رسول کریم ﷺ وفات پاگئے اور حضرت ابو بکر رینالہ خلیفہ ہوئے، پھر حضرت ابو بکر نے وفات پائی اور حضرت عمر خلیفہ ہوئے، ان کی خلافت پر بھی کئی سال گزر گئے تو ایک حج پر حضرت عمر عبداللہ گئے.اب وہ زمانہ نہیں تھا جبکہ اونٹ چرانے والے عرب بدوی سمجھے جاتے ہوں بلکہ وہ زمانہ تھا جبکہ قیصر و کسری کے ایلچی ان کے آگے ہاتھ جوڑ کر منتیں کرتے اور کہتے کہ ہمیں معاف کر دیا جائے.پس آج عرب کے رؤوسا کی کیا حیثیت تھی بڑے بڑے بادشاہ ان کے قدموں میں بیٹھنے پر فخر کرتے تھے اور آج عمرہ کی حیثیت بھی معمولی نہ تھی بلکہ دنیا کے ایک زبر دست بادشاہ کی سی تھی.چاروں طرف سے وفد آرہے تھے اور اپنی ضرورتیں آپ کی خدمت میں پیش کر رہے تھے.مکہ کے وہ بڑے بڑے خاندان جو آخر دم تک رسول کریم سے لڑتے رہے اور جنہیں رسول کریم ﷺ نے لَا تَشْرِيبَ عَلَيْكُمُ الْيَوْمَ کیا تھا وہ بھی آج آئے ہوئے تھے اور حضرت عمر بنی اہلیہ سے ملنے کے خواہش مند تھے کیونکہ آج عمر سے ملنا کوئی معمولی بات نہیں تھی بلکہ دنیا کی سب سے بڑی بات سمجھی جاتی تھی.چنانچہ وہ عرب کے رؤوسا آئے اور حضرت عمر بنیں چین کے پاس بیٹھ گئے اتنے میں ایک غریب مسلمان جس کے تن پر پورے کپڑے بھی نہ تھے آیا اور اس نے کہا السلام علیکم یا امیر المومنین.آپ نے فرمایا وعلیکم السلام.پھر آپ نے پاس بیٹھے ہوئے رؤساء سے فرمایا ذرا ان کے لئے جگہ چھوڑ دینا.چنانچہ وہ پیچھے ہٹ گئے اور اس صحابی کو آپ نے دائیں طرف بٹھا لیا.وہ بیٹھے ہی تھے کہ مکہ کا ایک اور غریب صحابی جو کسی زمانہ میں غلام تھا آیا اور اس نے کہا السلام علیکم یا امیر المومنین! آپ نے فرمایا وعلیکم السلام اور ان رؤساء سے فرمایا ذرا پیچھے ہٹ جاؤ اور ان کے لئے جگہ خالی کردو.وہ پیچھے ہٹ گئے اور اس صحابی کو بھی حضرت عمر نے اپنے قریب بٹھا لیا.اسی طرح صحابی کے بعد صحابی آتا چلا گیا.وہی صحابی جن کو مکہ کے رؤوساء سخت تنگ کیا کرتے تھے ، ان میں وہ بھی تھے جن کو وہ پتھروں پر گھسیٹا کرتے تھے، ان میں وہ بھی تھے جن کے سروں پر وہ جوتیاں مارا کرتے تھے ، ان میں وہ بھی تھے جن کے ناک میں آگ کا دھواں پہنچایا جاتا اور کہا جاتا کہ لا الہ الا الله کا انکار کرو گے تو تمہیں چھوڑ دیں گے ورنہ نہیں اور ان میں وہ بھی تھے جن کی آنکھیں انہوں نے نکالی تھیں.غرض ایک کے بعد دوسرا اور دوسرے کے بعد تیسرا صحابی آیا اور حضرت عمر جی اللہ ان کو اپنے پاس بٹھاتے چلے گئے اور رؤساء سے یہی کہتے چلے گئے کہ ذرا پیچھے ہٹ جاؤ.یہاں تک کہ دائیں صف صحابہ سے بھر گئی پھر بائیں صف بھرنی شروع ہوئی وہ بھی پڑ ہو گئی اور
طبات ۵۱۴ جلد سوم صرف جوتیوں میں بیٹھنے کی جگہ رہ گئی.رؤساء وہاں آکر بیٹھے اور پھر اٹھ کر ڈیوڑھی میں چلے گئے اور انہوں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھ کر کہا.ہم کون لوگ ہیں ؟ انہوں نے کہا مکہ کے رئیں اور یہ کون لوگ ہیں جن کو مجلس میں جگہ دی گئی ؟ انہوں نے خود ہی کہا مکہ کے وہ ذلیل ترین لوگ جو ہمارے خدمت گزار ہوا کرتے تھے.پھر انہوں نے ایک دوسرے سے کہا کیا تم نے دیکھا کہ آج ہم سے کیا سلوک ہوا ہے.ایک ایک کر کے فقیر اور غریب لوگ آگے بٹھائے گئے اور عمر نے ان کو ہم پر ترجیح دی.یہاں تک کہ ہم کو جوتیوں میں بیٹھنا پڑا.کیا اس سے بڑھ کر ہماری کوئی اور بھی ذلت ہو سکتی ہے.ان میں سے ایک جو زیادہ شریف الطبع تھا اور اپنے اندر روحانیت رکھتا تھا اس نے کہا یہ بالکل ٹھیک ہے کہ یہ ذلت ہمارے لئے ناقابل برداشت ہے مگر کیا ہم خود اس ذلت کے ذمہ دار نہیں.ہم نے محمد اس کا مقابلہ کیا اور آپ پر ایمان لانے والوں کو دکھ دیا مگر یہ وہ لوگ تھے جو آپ کے ساتھ رہے پس اب ہمارا اور ان کا کیا مقابلہ ہو سکتا ہے.وہ لوگ بھی اس بات کو سمجھ گئے اور انہوں نے تسلیم کیا کہ یہ سب کچھ ہماری ہی غلطیوں کا نتیجہ ہے.مگر انہوں نے کہا اب اس کا کوئی علاج بھی ہو سکتا ہے اور کیا کوئی ایسی صورت نہیں ہو سکتی جس سے ذلت اور رسوائی کا یہ بد نما داغ ہم سے دور ہو سکے.تب وہی جو ان سب میں سے زیادہ سمجھدار تھا پھر بولا اور اس نے کہا.عمر سے ہی اس کا علاج دریافت کرنا چاہئے.چنانچہ انہوں نے اجازت مانگی اور وہ آپ کی خدمت میں جا کر بیٹھ گئے اور کہنے لگے آج جو کچھ ہم سے سلوک ہوا ہے ہم اس کے بارہ میں کچھ عرض کرنے آئے ہیں.حضرت عمر بھی اللہ کا خاندان انساب عرب یاد رکھنے میں نہایت مشہور تھا اور آپ جانتے تھے کہ یہ لوگ خاندانی لحاظ سے کس عظمت کے مالک ہیں.جب انہوں نے یہ بات کہی تو آپ کی آنکھوں میں آنسو ڈیڈ یا آئے اور آپ نے فرمایا میں سمجھتا ہوں مگر میں معذور ہوں تم جانتے ہو یہ وہ لوگ ہیں جو رسول کریم ﷺ کے صحابی ہیں اور اس وجہ سے میرا فرض تھا کہ میں ان کو مقدم رکھتا.انہوں نے کہا ہم یہ بات سمجھ کر آئے ہیں.مگر اب ہم آپ سے یہ پوچھنا چاہتے ہیں کہ کیا اب کوئی ایسی صورت نہیں جس سے یہ بد نما داغ ہم سے دور ہو سکے.حضرت عمر بھی اللہ بڑے رقیق القلب تھے یہ سنتے ہی آپ کی آنکھوں میں آنسو آگئے آپ کی آنکھوں کے سامنے وہ تمام نظارہ آگیا کہ کس طرح یہ لوگ لمبی لمبی تہبندیں باندھ کر بیٹھا کرتے تھے اور لوگ ان کے سامنے یہ کہتے ہوئے اپنے ہاتھ جو ڑا کرتے تھے کہ آپ ہمارے بادشاہ اور سردار ہیں.اور پھر کس طرح
خطبات محمود ۵۱۵ جلد سوم اس سرداری اور حکومت کے گھمنڈ میں وہ مسلمانوں کو تکلیفیں پہنچایا کرتے تھے.یہ تمام نظارے یکے بعد دیگرے آپ کی آنکھوں کے سامنے آگئے اور آپ پر اس قدر رقت طاری ہوئی کہ الفاظ آپ کے منہ سے نہیں نکل سکے آپ نے کوشش کی کہ زبان سے ان کی بات کا جواب دیں مگر رقت کے غلبہ کی وجہ سے آپ جواب نہیں دے سکے.صرف آپ نے اپنا ہاتھ اٹھایا اور شمال کی طرف جہاں ان دنوں لڑائی ہو رہی تھی اشارہ کر کے کہا.وہاں.یعنی اب تمہاری اس ذلت کا صرف ایک ہی علاج ہے اور وہ یہ کہ تم یہاں سے چلے جاؤ اور اس جہاد میں شامل ہو جاؤ جو شام میں کفار سے کیا جا رہا ہے اور وہاں مارے جاؤ.چنانچہ وہ خاموشی سے اٹھے اور انہوں نے کہا کہ ہم ممنون ہیں کہ آپ نے ہمیں یہ مشورہ دیا.ہم اب اس مشورہ پر عمل کر کے رہیں گے چنانچہ وہ چھ نوجوانوں کا قافلہ وہاں سے نکلا اور چھ کے چھ ہی شام میں مارے گئے ان میں سے ایک بھی مکہ واپس نہیں آیا.کہ اس واقعہ سے ہمیں ایک عظیم الشان سبق ملتا ہے اور وہ یہ کہ یہی غم کے حالات ہمارے لئے بھی کمال خوشی اور ترقی کا ذریعہ بن سکتے ہیں بشرطیکہ ہم اپنے آپ کو خدا تعالیٰ کے سپرد کر دیں اور بشر طیکہ ہم کلیتہ خدا تعالیٰ کے ہو جائیں جس خدا نے ابو طالب کے ایک کونے میں بیٹھے ہوئے بھتیجے کو عظیم الشان ترقی دی اور اسے انتہائی کمال عطا فرمایا اس خدا کے خزانے آج ختم نہیں ہو گئے.آج بھی اس کے خزانے بھرے ہوئے ہیں.آج بھی وہ اپنے پیاروں کی خاطر اسی قسم کے نظارے دکھانے کی قدرت رکھتا ہے.چنانچہ بعینہ اسی قسم کا نظارہ خدا تعالیٰ نے مسیح موعود علیہ السلام کے متعلق دکھایا.آپ فرماتے ہیں.لَفَاظَاتُ المَوَائِدِ كان اكلي وَصِرتُ اليومَ مِطَعَامَ الأهالى ثم کہ کسی دن میرا یہ حال تھا کہ لوگ اپنے دستر خوان سے بچا کھچا اٹھا کر میرے آگے رکھ دیتے اور جو کچھ وہ دیتے میں کھا لیا کرتا مجھے ان سے جو کچھ ملتا میں اسے ان کا رحم سمجھتا تھا یہ خیال نہیں کرتا تھا کہ اس چیز پر میرا کوئی حق بھی ہے مگر آج وہ دن ہے کہ گھروں کے گھر اور خاندانوں کے خاندان میرے ذریعہ پل رہے ہیں.میں نے بعض بوڑھے لوگوں سے اپنی تائی صاحبہ کے متعلق سنا ہے اللہ تعالیٰ انہیں معاف کرے وہ بعد میں احمدی بھی ہو گئیں اور موصیہ بھی بن گئیں اور اب بہشتی مقبرہ میں دفن ہیں.مگر لوگ سنایا کرتے تھے کہ جوانی کے ایام میں
خطبات محمود ۵۱۶ جلد سوم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ہاں جب کوئی مہمان آتا اور آپ کو کھانا تیار کرنے کے لئے کہتے تو وہ کہلا بھیجتیں کہ تمہارے مہمانوں کے لئے ہمارے پاس کوئی کھانا نہیں.آخر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کسی بہانے مہمان کو اپنا کھانا کھلا دیتے اور خود فاقہ کرتے اور بعض دفعہ جب کوئی کہتا کہ بی بی یہ تو آدھی جائداد کا مالک ہے آپ اس سے ایسا سلوک کیوں کرتی ہیں تو وہ کہتیں ایہہ سارا دن میتے بیٹھا رہندا اے.اس دا جائداد نال کی تعلق ہے".یعنی یہ سارا دن مسجد میں بیٹھا رہتا ہے اس کا جائداد سے کیا تعلق ہے؟ یہ ہمارا پنجابی محاورہ ہے اس کا یہ مطلب ہوا کرتا ہے کہ جب فلاں شخص اپنے بھائیوں کا ہاتھ نہیں بٹاتا تو اس کا جائداد سے بھی کوئی تعلق نہیں ہو سکتا.اب کجا وہ حالت کہ قادیان ایک کو ردہ تھا جس کو دنیا میں کوئی بھی نہیں جانتا تھا اور کجا یہ حالت کہ خدا تعالٰی نے دین کی تمام ترقیات کا مرکز قادیان کو بنا دیا اور آئندہ اسلام کو جو بھی عظمت حاصل ہوگی اس عظمت کی بنیاد رکھنے والی فوجیں ہیں سے تیار ہو کر نکلیں گی.مجھے یاد ہے کہ ہم چھوٹے بچے تھے تو تائی صاحبہ ہمیں دیکھ کر ہمیشہ یہ کہا کرتی تھیں کہ ”جیو جیا کاں اوہو جہی کو کو کہ جیسے باپ خراب ہے ویسے ہی اس کے بچے بھی ہیں.چونکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ان لوگوں کی مخالفت کی وجہ سے الگ رہتے تھے اس لئے وہ آپ کو اچھا نہیں سمجھتی تھیں اور انہیں شکوہ رہتا تھا کہ وہ مجھے آکر سلام نہیں کرتا.تو خدا تعالٰی کے ان زندہ معجزات کو دیکھنے کے بعد کیونکر ممکن ہے کہ لوگ دین کو دنیا پر مقدم کریں اور پھر خدا ان کے لئے بھی اپنے تازہ معجزات اور نشانات نہ دکھائے.لوگوں کی بڑی غلطی یہ ہے کہ وہ سمجھتے ہیں اصل عزت وہ ہے جو دنیا کی طرف سے ملتی ہے حالانکہ اصل عزت وہ ہے بلکہ حقیقت عزت وہ ہے جو خدا تعالیٰ کی طرف سے حاصل ہوتی ہے.مرزا سلطان احمد صاحب جو میرے بڑے بھائی تھے وہ ڈپٹی کمشنر ہو کر ریٹائر ہوئے تھے اور دنیوی لحاظ سے ان کی اچھی عزت تھی لیکن تم سمجھتے ہو اگر وہ میری بیعت نہ کرتے تو ان کو وہ مقام حاصل ہو سکتا جو آج حاصل ہے ؟ آج لاکھوں لوگ ان کا نام ادب سے لیتے اور ان کے لئے دعا کرتے ہیں لیکن اگر وہ میری بیعت نہ کرتے تو لاکھوں لوگ ان کا نام لیتے ہی منہ پھیر لیتے.تو دنیا کی افسری اور گورنمنٹ انگریزی کے عہدے کسی کام نہیں آسکتے صرف اطاعت ہی تھی جو ان کے کام آگئی کیونکہ بڑے بھائی کا ایک چھوٹے بھائی کی بیعت کرنا جو اس کے بچوں کے برابر ہو معمولی قربانی نہیں.ایک تلخ گھونٹ تھا جو ان کو پینا پڑا مگر اس تلخی نے ان کی ہمیشہ کی زندگی کو سنوار
خطبات محمود ۵۱۷ جلد سوم دیا.گزشتہ دنوں جب چیف جسٹس صاحب نے یہاں آئے تو وہ مجھے باتوں باتوں میں کہنے لگے کہ کیا آپ خیال کرتے ہیں کہ اگر آپ کے والد زندہ ہوتے تو وہ آپ کی بیعت کر لیتے.میں نے انہیں کہا کہ میرے والد تو بانی سلسلہ تھے اور میں ان کا دوسرا خلیفہ ہوں.پس ان کی بیعت کا تو کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ہاں میں آپ کو یہ بتا سکتا ہوں کہ جب میں خلیفہ ہوا ہوں تو میرے نانا زندہ تھے اور انہوں نے میری بیعت کی.اسی طرح والدہ نے میری بیعت کی اور پھر میرے بڑے بھائی نے میری بیعت کی.انہوں نے یہ باتیں سن کر بڑی حیرت کا اظہار کیا اور کہا یہ بہت بڑی قربانی ہے.تو اللہ تعالیٰ کا ہو جانا یہ بڑی چیز ہے.اللہ تعالیٰ نے قادیان کو خصوصاً حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے خاندان کو اس لئے بنایا ہے کہ وہ دین اسلام کی خدمت کریں اور دین کو عزت کے مقام پر پہنچا ئیں اس لئے نہیں بنایا کہ وہ دنیا کمائیں اور اس میں تمام عمر مشغول رہیں اور یہی وہ شرف اور عزت ہے جس کی وجہ سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خاندان کا ایک ادنیٰ سے ادنی فرد اس سے بہت زیادہ عزت رکھتا ہے جتنی عزت دنیا میں کوئی بڑے سے بڑا آدمی رکھتا ہے.آج یہ عزت نظر نہیں آتی کیونکہ عزت کرنے والے معمولی لوگ ہیں لیکن جب بادشاہ اس سلسلہ میں داخل ہوئے اور انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خاندان کے افراد کی عزت کی تو اس وقت لوگ محسوس کریں گے کہ اس خاندان کو کتنی بڑی عظمت حاصل ہے.یہ نہیں کہ اس وقت عزت زیادہ ہو جائے گی عزت تو اسی قدر ہے جتنی آج ہے مگر چونکہ لوگ یہ کہتے ہیں کہ جب بڑے آدمی عزت کریں تو وہ عزت بڑی ہوتی ہے اور جب چھوٹے آدمی عزت کریں تو وہ عزت معمولی ہوتی ہے اس لئے جب بادشاہ اور بڑے حکام عزت کریں گے تو اس وقت لوگ کہیں گے کہ اس خاندان کی عزت بہت زیادہ ہو گئی.حالانکہ عزت تو آج بھی حاصل ہے مگر چونکہ عزت کرنے والے اکثر معمولی آدمی ہیں اس لئے لوگوں کو عزت کوئی بڑی دکھائی نہیں دیتی.بہر حال خدا یہ فیصلہ کر چکا ہے کہ وہ اس خاندان کو ترقی دے.چنانچہ جب خدا کہتا ہے کہ "بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے " تو اس کا یہی مفہوم ہے کہ کپڑے جو تھوڑی دیر کے لئے ملابست حاصل کر سکتے ہیں جب خدا ان کو برکت دے گا تو وہ لوگ جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے خاندان کے افراد ہوں گے ان کو کیوں عزت نہیں دے گا.پس حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ذریت کو ہمیشہ دین کی خاطر اپنی زندگیاں بسر کرنی
خطبات محمود ۵۱۸ چاہئیں کیونکہ انہی سے لوگوں نے برکتیں حاصل کرنی ہیں.اگر وہ ان برکتوں کے وارث ہو جائیں اور خدا تعالیٰ کے فضلوں کو جذب کرلیں تو ان کے حق میں بہت سے خدائی وعدے موجود ہیں.لیکن اگر وہ دین کی خاطر اپنی زندگیاں بسر نہیں کریں گے تو خدا تعالیٰ کو تو کسی کی پرواہ نہیں وہ غنی عن العالمین ہے.وہ اپنے روحانی فضل ان سے اٹھا لے گا.بے شک دنیا است وقت بھی ان کی عزت کرے گی کیونکہ جو خاندان ایک دفعہ اونچا ہو جائے لوگ ایک لمبے عرصے تک اس کی عزت کرنے پر مجبور رہتے ہیں لیکن خدا کے حضور ان کی کوئی عزت نہیں ہوگی.جیسے آج کئی سید ہیں مگر نو مسلموں سے بھی بدتر ہیں لیکن انہیں شاہ صاحب شاہ صاحب ہی کہتے ہیں.حالانکہ خدا تعالیٰ کی نگاہ میں ایسے سید کی نسبت اس ادنی انسان کی زیادہ عزت ہوتی ہے جو اسلام کے احکام پر عمل کرتا ہے.پس ظاہری عظمت کچھ چیز نہیں اصل عظمت وہی ہے جو روحانی رنگ میں حاصل ہوتی ہے.ظاہری عظمت تو اب ہمارے خاندان کی خدا تعالٰی کے فضل سے چلتی چلی جائے گی کیونکہ جو خاندان بڑے ہو جائیں گے ان کے افراد کو بعد میں روحانی اور اخلاقی لحاظ سے گر بھی جائیں دنیا ان کا ادب کرتی ہے مگر بہر حال اس وقت ان کی حیثیت آثار قدیمہ کی سی ہوتی ہے.جس طرح بعض دفعہ پرانی پھٹی ہوئی جوتی کو احتیاط سے اٹھالیا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ یہ تیمور کی پھٹی ہوئی جوتی ہے حالانکہ اپنے زمانہ میں اس پھٹی ہوئی جوتی کی کوئی وقعت نہیں ہوتی.اسی طرح بڑے خاندان کے افراد اگر بعد میں خراب بھی ہو جائیں تو آثار قدیمہ سمجھتے ہوئے ان کی کچھ عزت کی جاتی ہے لیکن وہ حقیقی عزت نہیں ہوتی.حقیقی عزت وہی ہے جس کے ساتھ زندہ خدا کی نصرت شامل ہو اور اگر کسی کے ساتھ زندہ خدا کی نصرت شامل نہیں تو خواہ لوگ اس کو کس قدر عزت کی نگاہ سے دیکھیں وہ مردود اور روحانی لحاظ سے مردہ ہے اور قطعا زندہ کہلانے کا مستحق نہیں.بے شک وہ لوگوں کو زندہ دکھائی دیتا ہے مگر خدا تعالیٰ کی نگاہ میں مردہ ہوتا ہے کیونکہ اس کی روحانی قوتیں مردہ اور بیکار ہوتی ہیں.حضرت مسیح موعود نے جب عبد اللہ آتھم کے متعلق پیشگوئی کی کہ اگر وہ اسلام کے خلاف بد زبانی سے باز نہ آیا تو پندرہ ماہ کے اندر ہلاک ہو جائے گا اور آتھم نے اس عرصہ میں پیشگوئی کی ہیبت سے متأثر ہو کر اپنے رویہ میں تبدیلی کرلی اور وہ ہلاکت سے بچ گیا تو اس پر مخالفین نے بہت شور مچایا اور کہا کہ مرزا صاحب کی پیشگوئی جھوٹی نکلی.اس زمانہ میں جو نواب صاحب بہاول پور تھے اور جن کا نام صبح بہار صادق یا کچھ اور تھا ایک دن ان کی مجلس میں بھی اس 1
خطبات محمود ۵۱۹ جلد سو پیشگوئی کا ذکر آگیا اور لوگوں نے کہنا شروع کر دیا کہ مرزا صاحب قادیانی کی پیشگوئی جھوٹی نکلی اور درباریوں نے بہت کچھ نہیں اور استہزاء سے کام لینا شروع کر دیا.ہنسی مذاق ہو ہی رہا تھا کہ نواب صاحب بھی اس میں شامل ہو گئے اور انہوں نے کہا کہ ہاں یو نہی لوگ پیشگوئیاں کر دیتے ہیں اور اپنے آپ کو خدا رسیدہ ظاہر کرنے کی کوشش کرتے ہیں مگر جب پیشگوئی پوری نہیں ہوتی تو ان کی قلعی کھل جاتی ہے اور ظاہر ہوتا ہے کہ وہ کسی روحانیت کے مالک نہ تھے.نواب صاحب کے پیر چاچڑاں شریف والے بھی اس مجلس میں موجود تھے جب تک لوگ مذاق کرتے رہے وہ خاموشی سے بیٹھے رہے مگر جب نواب صاحب بھی شریک ہو گئے تو چونکہ وہ نواب صاحب کے پیر تھے اور ان کو ڈانٹ ڈپٹ بھی کیا کرتے تھے اس لئے جوش میں آگئے اور انہوں نے نواب صاحب سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا تم کو کیا معلوم ہے کہ پیشگوئیاں کیا ہوتی ہیں اور تم ایسی باتوں میں کیوں دخل دیتے ہو.تم کہتے ہو کہ آ تم زندہ ہے مجھے تو اس کی لاش اپنے سامنے نظر آرہی ہے.شاہ اور حقیقت بھی یہی ہے.آتھم اس وقت روحانی لحاظ سے زندہ نہیں تھا بلکہ مر چکا تھا کیونکہ جب اسے کہا گیا کہ تم جو محمد ﷺ کے متعلق کہتے ہو کہ وہ نعوذ باللہ جھوٹے اور دجال تھے اگر تم اپنی اس شرارت سے باز نہ آئے اور رسول کریم کے متعلق ایسے کلمات کا استعمال تم نے ترک نہ کیا تو پندرہ ماہ کے اندر تم ہادیہ میں گرائے جاؤ گے تو اس نے پیشگوئی سنتے ہی اپنے کانوں کو ہاتھ لگایا اور کہا میری توبہ میں آئندہ ایسے الفاظ نہیں کہوں گا.پس وہ تو مردہ ہو چکا کیونکہ جس مذہب اور جس عقیدہ پر وہ پہلے ایمان رکھتا تھا اس کو اس نے اپنے عمل سے باطل ثابت کر دیا اور گویا وہ پہلا آتھم نہ رہا بلکہ پہلے آتھم پر ایک موت آگئی اور اب ایک نیا آتھم بن گیا.یہی بات چاچڑاں شریف والے جو پیر تھے انہوں نے بھی کسی اور فرمایا کہ تم غلط کہتے ہو کہ آ تم زندہ ہے مجھے تو اس کی لاش سامنے نظر آرہی ہے.تو بہت سے لوگ بظاہر زندہ نظر آتے ہیں مگر حقیقتاً مردہ ہوتے ہیں اور بہت سے بظاہر معزز دکھائی دیتے ہیں مگر حقیقتاً ذلیل ہوتے ہیں.عزت رہی ہے جو خدا تعالی کی طرف سے آتی ہے اور زندگی رہی ہے جس کا جام اس کی طرف سے تقسیم ہوتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خاندان اور آپ کے متبعین کے لئے بھی اللہ تعالیٰ نے برکتوں کے دروازے کھول دیئے ہیں بشر طیکہ وہ دنیوی عزتوں کا حصول اپنا مستمی قرار نہ دیں.دنیا کمانی منع نہیں مگر دنیا کا ہو رہنا منع ہے.اسی طرح روٹی کمانا منع نہیں مگر دین کو دنیا پر مقدم نہ رکھنا اور آٹھوں پر روٹی کمانے میں
خطبات محمود ۵۲۰ چند موم مشغول رہنا منع ہے.مومن کا کام صرف اتنا ہے کہ وہ دنیا کے لئے اتنا وقت خرچ کرے جتنے وقت کے بعد اسے روٹی مل جائے اور اس سے زائد وقت جتنا ہو اسے خدا کے دین کے لئے صرف کرے.مگر دنیا کی ترقی میں ایک دوسرے کا مقابلہ کرنا یہ چیز ہے جس کو خدا ان لوگوں کے لئے پسند نہیں کرتا جن کے لئے اس نے روحانی اور ضروری عزتیں مقدر کی ہوئی ہوں.اور ی لوگ اگر دنیا کمانے میں اس طرح مشغول ہو جائیں تو وہ ان کو معاف بھی کر دیتا ہے.لیکن اگر وہ لوگ اس طرف متوجہ ہوں جن کو اس نے دینی طرف سے عزتیں دینے کا وعدہ کیا ہو تو وہ ان کو کبھی معاف نہیں کرتا.غرض میں یہ بتا رہا تھا کہ ہمارے ملک میں بے ماں کے بچوں کی شادیاں بھی رقت پیدا کرنے کا موجب ہو جاتی ہیں اور کئی قسم کے جذبات دل میں اٹھنے لگ جاتے ہیں گویا آج ہماری مثال بالکل وہی ہے جو فتوحات مکیہ میں محی الدین صاحب ابن عربی نے لکھی ہے....وہ لکھتے ہیں ایک دفعہ میں کہیں جا رہا تھا کہ رستہ میں میں نے ایک درخت پر ایک کوے اور کبوتر کو اکٹھے بیٹھے دیکھا.وہ بیٹھے رہے اور بیٹھے رہے اور میں دل میں یہ سوچتا رہا کہ کوے اور کبوتر کا آپس میں کیا جوڑ ہے مگر مجھے کچھ پتہ نہ لگا لیکن میں نے تہیہ کر لیا کہ میں اس کی حکمت معلوم کر کے جاؤں گا.چنانچہ میں وہیں بیٹھ گیا اور کافی دیر بیٹھا رہا آخر وہ دونوں ہے تو مجھے معلوم ہوا کہ دونوں ہی لنگڑے ہیں اور اس وجہ سے وہ ایک جگہ بیٹھے ہیں.اسے وہ تو کوے اور کبوتر کا اجتماع ہے جوڑ سا نظر آتا تھا مگر یہاں ایک خاندان کے آگے پیچھے دو شادیاں ایسی ہوئی ہیں جن میں دونوں لڑکیاں بے ماں ہیں.یعنی میری لڑکی امتہ القیوم کی والدہ بھی فوت ہو چکی ہے اور نصیرہ بیگم کی والدہ بھی عرصہ ہو ا فوت ہو چکی ہے.ان شادیوں کا تصور کر کے میرا ذہن اس طرف گیا کہ بے شک یہ جذبات کو ابھارنے اور افکار میں ایک انگیخت پیدا کرنے والی چیز ہے مگر اس غم پر غالب آنے کی قوت بھی رسول کریم ای کے نمونہ کو دیکھ کر پیدا ہو سکتی ہے اور وہ اس طرح کہ ہماری بچیاں تو ہے ماں کی ہیں مگر محمد ﷺ کی والدہ بھی بچپن میں فوت ہو چکی تھیں اور ان کے والد بھی وفات پاچکے تھے اور اس طرح وہ بے باپ اور بے ماں کے تھے.پھر آپ کو پرورش کرنے والے ایسے لوگ نہیں ملے جیسے پرورش کرنے والے ہماری بچیوں کو ملے ہیں.گو اپنی نسبت کچھ کہنا معیوب سا دکھائی دیتا ہے مگر میں سمجھتا ہوں کہ میں نے اپنی بچی کا اس حد تک خیال رکھا ہے جس حد تک کوئی باپ اپنی بچی کا خیال رکھ سکتا ہے اسی طرح میں جانتا ہوں کہ
خطبات محمود ۵۲۱ جلد سو مرزا عزیز احمد صاحب نے بھی اپنی لڑکی کا بہت خیال رکھا ہے مگر محمد رسول اللہ الہی کی پرورش کرنے والے ان کے چچا تھے اور چچا کے متعلق بھتیجا یہی سمجھا کرتا ہے کہ اگر وہ مجھے پالتا ہے تو مجھ پر احسان کرتا ہے.اپنی ماں اور اپنے باپ پر تو وہ اپنا حق سمجھتا ہے مگر کسی دوسرے سے اسے چیز مانگتے ہوئے حجاب آتا ہے اور وہ خیال کرتا ہے کہ میں اس سے کیوں مانگوں میرا کوئی حق تو نہیں.تو وہ حالت جو رسول کریم ﷺ کی تھی اور وہ بے بسی کی کیفیت جو اس امر سے ظاہر ہوتی ہے کہ رسول کریم اے الگ ایک گوشے میں کھڑے رہتے اور اگر کچھ کھانے کو ملتا تو لے لیتے.نہیں تو زبان سے کچھ نہ کہتے.ہماری بچیوں کی حالت اس سے بدرجہا بہتر رہی.مگر پھر رسول کریم ﷺ کی حالت بھی بدل گئی اور اس میں اتنا زبر دست اور عظیم الشان تغیر آگیا کہ آپ ہی دنیا کے مالک بن گئے اور تمام جہان آپ کے قدموں میں گر گیا.اسی طرح ان بچیوں اور ان سے تعلق رکھنے والوں کے بھی اختیار میں ہے کہ وہ اگر چاہیں تو ترقی کر سکتے ہیں اور بہت زیادہ عزت اور عظمت حاصل کر سکتے ہیں اگر وہ خدا تعالیٰ کے ہو جائیں تو ان کو بھی عزت مل سکتی ہے اور ان کے غم اور دکھ بھی خوشی سے بدل سکتے ہیں.باقی رہی مرنے والوں کی جدائی سو یہ تو ایک عارضی جدائی ہے.چنانچہ موت کی خبر سن کر اسلام نے زبان سے و کلمہ کہنے کا ارشاد فرمایا ہے وہی اس قدر امید افزا ہے کہ اس کو زبان سے نکالنے کے بعد کوئی کلفت باقی نہیں رہتی.اسلام کہتا ہے جب کسی کی موت کی خبر سنو تو تم کہو اِنَّا لِلَّهِ وَ اِنَا الیه رَاجِعُونَ.لا یعنی اے مرنے والے ہم اللہ کے ہیں اور جہاں تم جا رہے ہو وہیں ایک دن ہم بھی آرہیں گے.دنیا کی جدائیوں میں بے شک تکلیف ہو سکتی ہے.مگر اس آخری جدائی میں جو موت کی جدائی ہے اگر انسان ایمان پر قائم ہو تو کوئی زیادہ تکلیف نہیں ہو سکتی.کیونکہ انا لله وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ میں اللہ تعالیٰ نے ملاقات کا وعدہ دیا ہوا ہے.ضرورت اس امر کی ہے کہ انسان خدا تعالیٰ کے وعدوں اور اس کی باتوں کی عظمت کو سمجھتا ہو.خدا تعالیٰ کی طرف.ایک ہوا چل رہی ہے جو شخص خدا تعالیٰ کی اس چلائی ہوئی ہوا کے موافق چلتا ہے وہ سرعت کے ساتھ آگے کی طرف بڑھتا چلا جاتا ہے مگر وہ جو خدا تعالیٰ کی چلائی ہوئی ہوا کے مخالف چلتا ہے وہ گرتا ہے اور پھر سنبھلتا ہے پھر گرتا ہے اور پھر سنبھلتا ہے یہاں تک کہ آخری دفعہ ایسا گر تا ہے کہ ہمیشہ کے لئے گر جاتا ہے.الفضل ۳.مئی ۱۹۶۱ء صفحہ ۲ تا ۷)
خطبات محمود الفضل ۱۳ مئی ۱۹۳۹ء صفحہ 1 ۵۲۲ سیرت حلبیہ جلد ۱ صفحه ۱۳۵ مطبوعہ مصر ۱۹۳۵ء سیرت حلیہ جلد ۳ صفحه ۱۱۳ مطبوعہ مصر ۱۹۳۵ء زاد المعاد جلد ۱ صفحه ۴۲۴ متولفه ابن قیم مطبوعه مصر جمه بخاری کتاب التغير تفسير آيت تبت يدا أبي لهب ه بخاری کتاب المناقب باب فضل البي بكر بعد النبي الله کے سیرت عمر بن الخطاب (عربی) لابن الجوزی صفحه ۸۷٬۸۵ مطبوعہ مصر ش آئینہ کمالات اسلام صفحه ۵۹۶ روحانی خزائن جلد نمبر ۵ شه تاریخ احمدیت جلد ۸ صفحه ۶۲۱ شاه نیز یہ بھی فرمایا کہ آتھم مرزا صاحب کی دعا سے مرا ہے.اشارات فریدی صفحه ۱۴۶۳ مطبوعہ مطبع مفید عام اگر ه ۵۱۳۲۰) اله البقرة : ۱۵۷ جلد سوم
خطبات محمود ۵۲۳ جلد سوم اسلام نے تجرد کو نا پسندیدہ قرار دیا ہے (فرموده ۲۲ - مارچ ۱۹۴۰ء) ۲۲.مارچ ۱۹۴۰ء کو خطبہ جمعہ سے قبل حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے مسجد نور میں اپنی دو صاحبزادیوں امتہ الرشید بیگم صاحبہ اور امتہ العزیز بیگم صاحبہ کے نکاحوں کا ایک ایک ہزار روپیہ مهر پر اعلان فرمایا : اے خطبہ مسنونہ کی تلاوت کے بعد فرمایا : خطبہ جمعہ شروع کرنے سے پہلے میں دو نکاحوں کا اعلان کرنا چاہتا ہوں مگر اس سے قبل میں منتظمین پر اظہار افسوس کرنا چاہتا ہوں کہ انہوں نے عورتوں کے لئے پردہ وغیرہ کا کوئی انتظام نہیں کیا.وہ جانتے ہیں کہ ہماری عورتوں میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے کافی بیداری ہے اور وہ حتی الوسع کسی جلسه یا خطبہ کے موقع کو جانے نہیں دیتیں ایسی صورت میں ان کے لئے انتظامات کو فراموش کر دینا بہت ہی افسوس کی بات ہے.وہ اپنے اخلاص اور جوش کی وجہ سے موقع کو چھوڑ بھی نہیں سکتیں اور انتظام نہ ہونے کی وجہ سے تکلیف اٹھاتی ہیں اور یوں بھی جماعت احمدیہ کی معزز مستورات کے بیٹھنے کے لئے مناسب انتظام کا نہ ہونا اپنوں اور پراؤں کے سامنے شرمندگی کا موجب ہے.ہماری جماعت پچاس سال سے قائم ہے اور اس عرصہ میں پچاسوں ہی مرتبہ اس بات کا تجربہ ہوچکا ہے مگر پھر بھی اس کو بھول جانا میری سمجھ اور عقل سے باہر ہے.یوں تو ہماری مستورات ہر جمعہ میں آتی ہیں مگر بالخصوص جب جلسہ ہو تو اس موقع پر تو ضرور ہی پہنچتی ہیں اس لئے اس موقع پر اگر اور نہیں تو سامنے کی طرف ہی قناتیں لگا دینی چاہئیں تھیں تا
خطبات محمود ۵۲۴ جلد سوم وہ سامنے کی طرف سے تو کھلی نظر نہ آئیں.اس کے بعد میں نکاح کے خطبہ کی طرف توجہ کرتا ہوں.اللہ تعالیٰ نے مومنوں کے لئے شادی کی ضرورت کو نہ صرف تسلیم کیا ہے بلکہ اس کو ضروری قرار دیا ہے.اسلام اور دوسرے مذاہب میں یہ فرق ہے کہ قریباً قریباً دوسرے تمام مذاہب میں کم از کم تجرد کو نکاح پر فضیلت ضرور دی گئی ہے.بعض نے تو نکاح کو ایک قسم کا گناہ قرار دیا ہے اور بعض نے تجرد کو بڑی نیکی اور بعض نے تجرد کو نکاح کی نسبت زیادہ اچھا بتایا ہے اور دنیا میں صرف اسلام ہی ایک ایسا مذہب ہے جس نے اصولی طور پر نکاح کو جزو دین قرار دیتے ہوئے تجرد کو دین کے خلاف قرار دیا ہے.سب سے زیادہ باقاعدگی کے ساتھ تجرد کی صورت عیسائیوں میں ہے اور بدھوں میں بھی ان سے ملتی جلتی ہے.ان دونوں مذاہب میں تجرد کو قائم رکھنے کے لئے منظم صورتیں موجود ہیں، ہندوؤں میں بھی سادھوؤں وغیرہ کا سٹم ہے جو مرد بھی ہوتے ہیں اور عورتیں بھی مگران کے لئے کوئی باقاعدہ نظام ان میں نہیں.عیسائیوں اور بدھوں میں باقاعدہ نظام کے ماتحت ان کے لئے ادارے وغیرہ بنے ہوئے ہوتے ہیں اور جو لوگ اپنی زندگیوں کو وقف کریں وہ وہاں جمع ہوتے رہتے ہیں اور ان کے لئے حکم ہوتا ہے کہ شادی نہ کریں اور اسے گویا اعلیٰ درجہ کی نیکی سمجھا جاتا ہے.یہود میں بھی تجرد کو ترجیح دی گئی ہے اور جیسا کہ قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے ان میں بھی ایسے وقف ہوا کرتے تھے.حضرت مریم کو ابتداء میں وقف کیا گیا تھا گو بعد میں اللہ تعالیٰ کے منشاء کے ماتحت تجرد توڑ دیا گیا تو یہود میں بھی اس کا رواج تھا.عیسائیوں میں MONK HOUSES ہوتے ہیں جہاں ایسے مرد عورت جمع رہتے ہیں.یہود میں کوئی ایسا طریق تو نہ تھا مگر آخری زمانہ میں بہر حال تجرد کو نکاح پر ترجیح دی جاتی تھی اور ان میں جن لوگوں نے ایسا کیا ان کے متعلق تعریفی کلمات پائے جاتے ہیں اور سمجھا جاتا ہے کہ وہ اچھے لوگ تھے اور نیک تھے.عورتوں کو بھی وقف کیا جاتا تھا اور اسے نیکی سمجھا جاتا تھا.دنیا میں یہی بڑے بڑے مذاہب ہیں ، عیسائی، ہندو، بدھ اور یہودی اور ان سب میں تجرد کو ترجیح حاصل ہے.ان نیچے اتر کر زرتشتی مذہب ہے اور جہاں تک میں سمجھتا ہوں ان میں تجرد کی مثالیں یوں تو موجود نہیں مگر تجرد کو ترجیح ان میں بھی ہے.جیسے ان کے قبرستانوں میں کام کرنے والے مجرد ہوتے ہیں اور یہ ان کے نیک ہونے کا ثبوت سمجھا جاتا ہے جس کے معنے یہ ہیں کہ ان میں تجرد کو نیکی سمجھا گیا ہے.مگر اسلام کی تعلیم ان سب کے خلاف یہ ہے کہ شادی ضروری ہے اور
خطبات محمود ۵۲۵ جلد سوم شادی نہ کرنے کی مخالفت کی گئی ہے.گویا دونوں شقیں صرف اسلام نے ہی اختیار کی ہیں یعنی تجرد کو نا پسند اور برا قرار دیا ہے اور شادی کو نہ صرف پسندیدہ بلکہ ضروری بتایا ہے اور رسول کریم ا نے فرمایا ہے کہ جو شخص تجرد کی حالت میں فوت ہو وہ بطال ہے گویا اس نے اپنی عمر ضائع کر دی اور اس کی پیدائش کا جو منشاء تھا اسے اس نے پورا نہیں کیا.اصل بات یہی ہے کہ انسان اور حیوان میں فرق یہ ہے کہ حیوان چونکہ عارضی زندگی کے لئے ہے اس لئے اس کی شادی یا بیاہ کا سوال ہی نہیں مگر انسان کو چونکہ اللہ تعالیٰ نے مستقل زندگی دی ہے اور یہ مستقل زندگی مستقل قیام بھی چاہتی ہے اور اس سے چاہا گیا ہے کہ وہ نیکی کو دنیا میں قائم رکھے.اللہ تعالٰی بھی اسے اپنی ربوبیت کی چادر اوڑھا دیتا ہے اور کسی چیز کے متعلق یہ نہیں کہ وہ ہمیشہ قائم رہے نہ زمین کے متعلق یہ بات ہے اور نہ آسمان کے متعلق اگر کسی کے لئے ہے تو صرف انسان کے لئے جس کے یہ معنی ہیں کہ انسان میں اپنی ذات میں کوئی ایسی خوبی رکھی گئی ہے کہ جو ہمیشہ رکھے جانے کے قابل ہے اور جب یہ صورت ہو تو اسے اس دنیا میں فنا ہونے کی اجازت کیونکر دی جاسکتی ہے.اگر یہ صحیح ہے کہ مرنے کے بعد بھی زندگی ہے تو اس کا منطقی نتیجہ یہ ہے کہ دنیا میں بھی اس کی نسل قائم رہنی چاہئے.دنیا میں کوئی معمولی عقل و سمجھ کا انسان بھی ایسا نہیں کرتا کہ عمدہ غلہ کو ضائع کر دے، اعلیٰ بیج تو نہ رہنے دے سڑا گلا ہوا رکھ لے.یا جانوروں مثلاً گھوڑے، بھیڑ، بکری وغیرہ کے تندرست بچے تو ضائع کر دے اور جو ناقص ہوں انہیں رہنے دے.ہمیشہ اچھی نسل کو قائم رکھا جاتا ہے اور اگر یہ صحیح ہے کہ دنیا کی مخلوق میں سے بہترین انسان ہے، اگر یہ صحیح ہے کہ انسانوں میں سے بھی بعض بہتر ہوتے ہیں تو یہ بھی ضروری ہے کہ انسان کے مرنے کے بعد اس کی نسل بھی باقی رہے اور یہ کہ جو انسانوں میں اعلیٰ ہو اس کی نسل کا باقی رہنا دوسرے انسانوں سے بھی زیادہ ضروری ہے.تمام مذاہب یعنی ہندو ، بدھ ، عیسائی اور زرتشتی سب مانتے ہیں گو بدھوں میں کچھ اختلاف بھی ہے مگر زیادہ تر میلان اسی طرف ہے کہ مرنے کے بعد روح کا قیام رہتا ہے.تناسخ کے عقیدہ کی بنیاد ہی اس صورت میں قائم رہ سکتی ہے کہ روح کے قیام کو تسلیم کیا جائے.گویا انسان کے مرنے کے بعد روح کے زندہ رہنے اور ترقی کرنے پر سب مذاہب کا اتفاق ہے جس کے معنے یہ ہوئے کہ یہ بہترین چیز ہے اور ایسی چیز کو دنیا سے فنا ہونے سے بچانا ضروری ہے.اور ظاہر ہے کہ تجردا سے فنا کرنے والی بات ہے.اگر تجرد اچھی چیز ہے تو اسے زیادہ سے زیادہ لوگوں میں قائم کرنا چاہئے
خطبات محمود ۵۲۶ جلد سوم مگر ایسا کرنے کا نتیجہ ظاہر ہے یعنی نسل انسانی مٹ جاوے گی یا متقی نیک اور پاکباز لوگ دنیا میں بے نسل رہ جائیں گے اور ہمیشہ گندے لوگوں سے ہی نسل چلے گی.پس اگر شادی بری چیز ہے اور نیک وہ ہے جو شادی نہ کرے تو نیکیوں کی نسل کا دنیا سے خاتمہ ہو جائے گا اور صرف بدوں کی نسل باقی رہ جائے گی اور اگر تجرد اچھی چیز ہے تو مانا پڑے گا کہ انسان قائم رکھے جانے کے قابل نہیں اور اگر اس دنیا میں رکھے جانے کے قابل نہیں تو پھر اگلے جہان میں اس کے زندہ رکھنے میں کوئی حکمت ہی باقی نہیں رہتی.اور اگر اعلیٰ اور بہتر انسان اسے مانا جائے جو شادی نہ کرے تو اس کا یہ مطلب ہوگا کہ دنیا میں گھٹیا درجہ کے لوگوں کی نسل قائم رہے اور نیک لوگوں کی فنا ہو جائے حالانکہ ایسا تو عام دنیا دار لوگ بھی نہیں کرتے.دنیوی حکومتیں بھی ایسے انتظامات کرتی ہیں کہ سانڈ وغیرہ اچھی نسل کے رکھے جائیں تا عمدہ جانور مہیا ہو سکیں ردی اور بیمار جانوروں کی نسل کو محفوظ نہیں رکھا جاتا بلکہ نسل کشی کے لئے اعلیٰ درجہ کے سانڈ رکھے جاتے ہیں.اسی طرح بیج وغیرہ بھی اعلیٰ قسم کے رکھے جاتے ہیں ادنیٰ نہیں.پھر یہ کس طرح ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ کا منشاء یہ ہو کہ نیک لوگ تو دنیا سے مٹ جائیں اور بروں کی نسل جاری رہے.انسان کے لئے جو مذہب تجرد کو بہتر قرار دیتا ہے وہ گویا یہ چاہتا ہے کہ دنیا میں نسل ادنی درجہ کے لوگوں سے چلائی جائے صرف اسلام ہی ایک ایسا مذ ہب ہے جو تجرد کے خلاف اور جس نے شادی کو ضروری قرار دیا ہے اور یہ اسلام کی ایک بہت بڑی فضیلت دوسرے ادیان پر ہے اور یہ نہایت درجہ کا فلسفہ ہے جس پر مسلمانوں نے بھی غور نہیں کیا.جب اللہ تعالیٰ نے نسل انسانی کو ایسا اہم قرار دیا ہے اور انسان کی ذات میں بہت خوبیاں رکھی ہیں تو تجرد اختیار کرنے یا اس کی حوصلہ افزائی کرنے کے یہ معنی ہوں گے کہ ان خوبیوں کو دنیا سے ضائع کر دیا جائے حالانکہ انسان کا یہ فرض ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ودیعت کردہ خوبیوں کو دنیا میں نمایاں کرنے کا سامان کرے اور بہتر سامان کرے اس لئے ہمارا فرض ہے کہ اس چیز کو قائم رکھنے کی کوشش کریں جس کے لئے نسل انسانی کو پیدا کیا گیا ہے.جب ہم ایک طرف تسلیم کرتے ہیں کہ پیج عمدہ ہونا چاہئے تو یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ دوسری طرف وہ احتیاطیں نہ برتیں جن سے بہتر غلہ پیدا ہو سکے.اس لئے ایک طرف تو شادی ضروری ہے اور دوسری طرف شادی کرتے وقت اس بات کا خیال رکھنا ضروری ہے کہ جو ڑا عمدہ ہو اور تعلق ایسا ہو جو دین و دنیا دونوں لحاظ سے اچھا ہو.بے جوڑ شادیوں کے نتائج ہمیشہ برے نکلتے ہیں.اللہ تعالیٰ نے جو جوڑ لگائے ہیں دیکھو ان میں
خطبات محمود ۵۲۷ جلد موم کیسی خوبصورتی ہے.خدا تعالی کی بنائی ہوئی چیزوں کو دیکھو وہ اگر پراگندہ ہوں تو بھی ان میں ایک حسن نظر آئے گا.دریا نہروں کی طرح باقاعدگی کے ساتھ بنائے نہیں جاتے مگر ان پر جا کر طبیعت پر جو خوش کن اثر ہوتا ہے وہ نہروں پر جانے سے نہیں ہوتا.پہاڑ کسی انسانی قاعدہ کے مطابق بنے ہوئے نہیں ہوتے مگر پہاڑ کے نظاروں کو دیکھ کر جو فرحت حاصل ہوتی ہے وہ لارنس گارڈن کو دیکھ کر نہیں ہوتی.کتنے لوگ ہیں جو لارنس گارڈن دیکھنے کے لئے جاتے ہیں اور کتنے ہیں جو پہاڑوں پر جاتے ہیں.دراصل بات یہ ہے کہ پہاڑوں کی وسعت اور ان کے بے ڈول ہونے میں بھی ایک تناسب قدرت نے رکھا ہے اور یہ تناسب قدرت کی ہر چیز میں ہے اور اس میں یہ سبق سکھایا گیا ہے کہ ہم بھی اپنے کاموں میں اسے مد نظر ر کھیں.اس لئے نکاح کرتے وقت وہ اصول مد نظر رکھنے ضروری ہیں جو اسے دین اور دنیا دونوں لحاظ سے زیادہ سے زیادہ ترقیات کا موجب بنا سکیں.چونکہ اس کے بعد مجھے جمعہ کا خطبہ بھی پڑھنا ہے اس لئے خطبہ کو اس حد تک رکھتا ہوں اور یہ اعلان کرنا چاہتا ہوں کہ اس وقت میری لڑکیوں امتہ الرشید بیگم اور امتہ العزیز بیگم کے اح ہیں امتہ الرشید کا نکاح میاں عبدالرحیم احمد صاحب کے ساتھ تجویز ہوا ہے ان کا پہلا نام عبد الرب تھا مگر ایک مصلحت اور خواب کی بناء پر اب ان کا نام عبد الرحیم رکھدیا گیا ہے اور چونکہ ان کے والد کا نام علی احمد ہے اس لحاظ سے احمد بھی ساتھ لگا دیا گیا ہے.اس کے متعلق میں نے جس خواب کا ذکر کیا ہے وہ یہ ہے کہ جب میں اس رشتہ کے متعلق استخارہ کر رہا تھا تو میں نے خواب دیکھا کہ مدرسہ احمدیہ کے صحن میں ایک بہت بڑی دعوت کا انتظام ہو رہا ہے اس میں بہت سے لوگ شریک ہیں میز کرسیاں اور بیج پڑے ہیں صدر کی جگہ میں بیٹھا ہوں اور کچھ پیچ لوگ اور بھی میرے ساتھ ہیں.حضرت خلیفہ المسیح الاول بھی دعوت میں شریک ہیں اور اس دعوت میں جو سرو (Serve) (خدمت) کرنے والا ہے معلوم نہیں وہ کس حکمت سے بھائی عبدالرحیم صاحب معلوم ہوتے ہیں.یوں تو بھائی صاحب اب بہت ضعیف ہیں نظر بھی کچھ کمزور ہو چکی ہے مگر اس وقت وہ بالکل جو ان معلوم ہوتے ہیں عمر جو میں سال کی ہے.حضرت خلیفہ اول مجھے مخاطب ہو کر فرماتے ہیں میاں دیکھو تو یہ کیسا نوجوان ہے میں حیران ہو تا ہوں کہ یہ تو قریباً ۶۵ سال کی عمر کے بوڑھے تھے مگر اب کیسے جوان ہیں.میں نے اس خواب کی تعبیر یہی سمجھی کہ حضرت خلیفہ اول چونکہ میری اس لڑکی کے نانا ہیں
خطبات محمود ۵۲۸ جلد - اس لئے ان کے دکھائے جانے کے یہ معنے ہیں کہ ان کے نزدیک بھی یہ رشتہ پسندیدہ ہے بھائی عبدالرحیم صاحب کا جو ان نظر آنا اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ چونکہ میاں عبدالرحیم احمد صاحب کی صحت کمزور ہے، دبلے پتلے ہیں اللہ تعالٰی نے بتایا ہے کہ وہ چاہے تو ان کی جسمانی صحت کو مضبوط کردے گا.میرے نزدیک تو یہی دیکھنا چاہئے کہ لڑکا نیک اور دیندار ہو.بڑی دعوت کے دکھائے جانے کے یہ معنے ہیں کہ اس لڑکے کے والدین غریب میں والد چونکہ بیمار ہیں اس لئے گزارہ کی کوئی ایسی صورت نہیں میں نے خیال کیا کہ دعوت سے اللہ تعالٰی نے یہ اشارہ کیا ہے کہ رزق کی کشائش اس کے ہاتھ میں ہے وہ اگر چاہے تو غریبوں کو بھی امیر کر سکتا ہے اور چاہے تو امیروں کی دولت بھی چھین سکتا ہے.بعض دوستوں نے جن سے میں نے مشورہ کیا یہ تحریک کی تھی کہ ان کا نام عبد الرب تبدیل کر دیا جائے اور خواب کے مطابق عبدالرحیم رکھ دیا جائے چنانچہ میں نے ان کا نام عبدالرحیم احمد رکھ دیا ہے.یہ رشتہ گو ہمارے خاندان سے باہر ہے مگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی اولاد بڑھے گی تو آخر رشتے خاندان سے باہر بھی کرنے پڑیں گے.میری یہ لڑکی امتہ الرشید بیگم مرحومہ امتہ الحی کی لڑکی ہے اس کی بڑی بہن کا رشتہ گزشتہ سال میاں مظفر احمد صاحب کے ساتھ ہو چکا ہے.دوسری لڑکی امتہ العزیز کا نکاح میاں حمید احمد صاحب کے ساتھ طے پایا ہے وہ میرے اور مرزا بشیر احمد صاحب کے لڑکے ہیں.ایک ایک ہزار روپیہ دونوں کا مہر ہے.میاں عبدالرحیم احمد صاحب پروفیسر علی احمد صاحب بھاگلپوری کے لڑکے ہیں اور میری مرحومہ بیوی سارہ بیگم صاحبہ کے رشتہ دار ہیں.ضمن میں ایک لطیفہ مجھے یاد آگیا.بعض باتیں ہوتی ہیں جن میں اللہ تعالیٰ کی بعض عجیب ممتیں ہوتی ہیں شروع شروع میں جب میاں عبدالرحیم احمد قادیان آئے تو بہت چھوٹے تھے ان کے ساتھ ایک اور چھوٹا سا لڑکا بھی تھا جب یہ دونوں ان سے ملنے کے لئے آئے تو میں مرحومه ساره بیگم صاحبہ کے کمرہ میں تھا اور اس وقت ان کے ساتھ یہی گفتگو کر رہا تھا کہ بہار کے لوگ اردو صحیح نہیں بول سکتے بلکہ الفاظ آگے پیچھے کر دیتے ہیں.اس سے چند روز پہلے چودھری شمشاد علی صاحب مرحوم یہاں آئے تھے اور میں ذکر کر رہا تھا کہ انہوں نے اس زبان کے تغیر کے کئی واقعات سنائے تھے.غرض میں سارہ بیگم صاحبہ مرحومہ سے کہہ رہا تھا کہ بہار کی
۵۲۹ جلد سوم اردو دلی کی ارود سے بہت مختلف ہے اور وہ کہہ رہی تھیں کہ یہ بات نہیں دیہات کے لوگ اس طرح بولتے ہیں شہروں کے اور بالخصوص تعلیم یافتہ لوگ ایسا نہیں کرتے.یہی باتیں ہو رہی تھیں کہ یہ دونوں بچے آگئے انہوں نے ہنس کر کہا کہ یہ رشتہ میں میرے دادا ہوتے ہیں مگر یہ بات آہستہ سے کی اس لئے میں سمجھ نہ سکا کہ ان دونوں میں سے رشتہ میں دادا کس سے متعلق کہا گیا ہے یہ دونوں تھوڑی دیر ٹھہر کر چلے گئے.میاں عبدالرحیم احمد صاحب پہلے واپس ہوئے اور دوسرا لڑکا ان کے ذرا پیچھے تھا کہ میں نے آہستہ سے پوچھا کہ دادا ان میں سے کون سا لڑکا ہے یہ بات اس دوسرے لڑکے نے سن لی اور کہا کہ " وہی تو تھے جو گئے چلے " میں نے سارہ بیگم صاحبہ مرحومہ سے کہا کہ دیکھ لو میری بات کی سند مل گئی.اپنے رشتہ داروں سے تعلقات بڑھانے کا شوق ہر انسان کو ہوتا ہے اتفاق کی بات ہے کہ سارہ بیگم مرحومہ نے کہیں میاں عبدالرحیم صاحب سے کہا کہ تم شوق اور کوشش سے پڑھو، اگر تم تعلیم میں ترقی کرو گے تو میں کوشش کروں گی کہ امتہ القیوم بیگم اور امتہ الرشید بیگم میں سے کسی کے ساتھ تمہارا نکاح ہو جائے.اور یہ عجیب اتفاق کی بات ہے کہ ان کی بات جو اس وقت شاید محض نہی میں کی گئی تھی آج پوری ہو رہی ہے اور آج میں اپنی لڑکی امتہ الرشید بیگم کے ساتھ ان کے نکاح کا اعلان کر رہا ہوں یہ علی گڑھ میں ایم.اے میں پڑھتے ہیں.اس کے بعد حضور نے ایجاب و قبول کرایا.میاں حمید احمد صاحب اٹھے تو ان کے گلے میں پھولوں کے بہت سے ہار تھے مگر میاں عبدالرحیم احمد صاحب کے محلے میں کوئی نہ تھا حضور نے کی میاں حمید احمد صاحب کو مخاطب کر کے بزبان پنجابی فرمایا کہ میاں عبدالرحیم احمد کے گلے میں بھی ہار ڈال دو ان کے یہاں کوئی رشتہ دار نہیں ہیں جو ان کو بھی ہار ڈالتے اس فقرہ کا سننے والوں پر بہت اثر ہوا.میاں حمید احمد صاحب نے اپنے ہار ان کے گلے میں ڈال دیئے اور بعض دوسرے احباب نے بھی ڈالے.) له الفضل ۲۴ مارچ ۱۹۴۰ء صفحه ا الفضل ۱۴ فروری ۱۹۴۱ء صفحه ۱ تا ۳)
خطبات محمود ۵۳۰ ١١٩ جلد سوم تبرکات کے متعلق اصولی ہدایت فرموده ۱۹ اپریل ۱۹۴۰ء ۱۹ اپریل ۱۹۴۰ء بعد نماز عصر حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے مرزا عزیز احمد صاحب پسر مرزا عطاء اللہ صاحب ہیڈ کلرک ڈائریکٹر سرشتہ تعلیم لاہور کا نکاح ایک ہزار روپیہ مہر پر امتہ الرشید بیگم بنت جناب مرزا محمد شفیع صاحب محاسب صدر انجمن احمدیہ کے ساتھ پڑھا.لے خطبہ مسنونہ کی تلاوت کے بعد فرمایا :- مجھ سے خواہش کی گئی ہے کہ مسجد کے اس حصہ میں کھڑے ہو کر اعلان کروں جو ابتداء میں مسجد تھی اور میں نے اس خواہش کو منظور کر لیا ہے.لیکن اس رنگ میں یہ آخری موقع ہے آئندہ کسی کی ایسی خواہش کو میں منظور نہیں کروں گا.باقی مسجد بھی اسی کا حصہ ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس جگہ بھی کھڑے ہوتے رہے ہیں.اس قسم کی باریکیاں آہستہ آہستہ بدعات پیدا کر دیا کرتی ہیں آج تو میں نے یہ بات مان لی ہے مگر آئندہ نہیں مانوں گا.کسی وقت کوئی ذوقی بات ہو تو اور بات ہے ورنہ اس قسم کی خواہشات پیش کرنا صحیح نہیں اس مسجد کے ساتھ اور بھی جو حصے ملتے جائیں گے وہ بھی ویسے ہی بابرکت ہوں گے ورنہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا الهام وسِعُ مَكَانَكَ سے پورا نہیں ہو سکتا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ آپ کے گھر میں طاعون نہیں آئے گی.تو کیا اس کے معنے یہ ہیں کہ آپ کے گھر میں اگر وسعت ہو تو اس میں آسکتی ہے یا کیا رسول کریم اے کی مسجد کا وہی حصہ بابرکت ہے جو ابتداء میں بنا یہ صحیح نہیں.اس مسجد میں جہاں بھی نماز پڑھی
خطبات محمود ۵۳۱ جلد سوم جائے وہ بابرکت ہے.اسی طرح مسجد اقصیٰ اب بہت وسیع ہو گئی ہے اس کا یہ مطلب نہیں کہ اس کا پہلا حصہ ہی اصل مسجد ہے اور باقی نہیں.پس یہ ساری مسجد ہی خدا تعالیٰ کے فضل سے بابرکت ہے اور جتنی یہ بڑھتی جائے گی اس کی برکات اور دعائیں بھی ساتھ ہی ساتھ جائیں گی.چونکہ میرا گلا خراب ہے اس لئے میں کچھ زیادہ بیان نہیں کر سکتا اور صرف اعلان نکاح پر الفضل ۲۵ اپریل ۱۹۴۰ء صفحه ۲) اکتفا کرتا ہوں.له الفضل ۲۱ اپریل ۱۹۴۰ء صفحه ۲ شه تذکره صفحه ۵۳.ایڈیشن چهارم
خطبات محمود ۵۳۲ جلد سوم شادی کے ساتھ انسانی ذمہ داریاں بڑھ جاتی ہیں (فرموده ۷.ستمبر ۱۹۴۰ء) ۷.ستمبر ۱۹۴۰ء بعد نماز عصر مسجد اقصیٰ میں حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے محترمہ سیدہ بیگم صاحبہ بنت حضرت میر محمد اسحق صاحب کا نکاح پانچ ہزار روپیہ مہر پر جناب ملک عمر علی صاحب بی اے رئیس ملتان کے ساتھ پڑھا.حضرت میر محمد اسحق صاحب چونکہ علالت طبع کی وجہ سے اس تقریب میں شریک نہ ہو سکے اس لئے حضور نے حضرت میر صاحب کی درخواست پر اس نکاح کی منظوری کا کا اعلان فرمایا اس کے بعد حضور نے مولوی عبد المنان صاحب عمرایم اے خلف حضرت خلیفہ المسیح الاول کا نکاح ایک ہزار روپیہ مہر پر محترمہ امتہ الرحمن بیگم صاحبہ بی.اے بی ٹی بنت حضرت مولوی شیر علی صاحب کے ساتھ پڑھا.اس موقع پر حضور نے مولوی رحمت علی صاحب سابق مبلغ سماٹرا و جاوا کی لڑکی رحمت النساء بیگم صاحبہ کا نکاح ایک ہزار روپیہ مہر پر ماسٹر قمر الدین صاحب مدرس تعلیم الاسلام ہائی سکول کے ساتھ پڑھا.لے : خطبہ مسنونہ کی تلاوت کے بعد فرمایا دنیا میں نکاح بھی ہوتے ہیں اور بچے بھی پیدا ہوتے ہیں، لوگ بیمار بھی ہوتے ہیں اور مرتے بھی ہیں، ایک گھر کے کونہ میں ایک لاش دفنانے کی منتظر پڑی ہوتی ہے تو دیوار کے دوسری جانب ایک دلسن سرخ جوڑا اپنے اپنے رخصتانہ کے انتظار میں بیٹھی ہوئی ہوتی ہے پھر یہی چیز کچھ دنوں کے بعد بدل جاتی ہے.وہ گھر جس میں سے گانے کی آوازیں آرہی تھیں و کسی نئی مصیبت کی وجہ سے چیخ و پکار کا مرجع بن جاتا ہے اور وہ گھر جس میں سے رونے چلانے
خطبات محمود سم سمه کی آوازیں آرہی تھیں وہاں کسی شادی کی وجہ سے گانا بجانا ہو رہا ہوتا ہے.ایک وقت میں ایک انسان اس دنیا سے جدا ہو رہا ہوتا ہے اور اس کی اولاد اس کے رشتہ دار اپنے اپنے کاموں میں مشغول ہوتے ہیں اور وہ سمجھتے ہیں کہ کون ساری عمر کسی آدمی کے لئے اپنے آپ کو وقف کر سکتا ہے.مگر کچھ دنوں کے بعد ہی وہی آدمی بوڑھے ہو جاتے ہیں اور اگلی نسلیں ان سے ویسا ہی سلوک کرنے لگ جاتی ہیں.ان دنوں شاید ان کو خیال آتا ہو گا کہ اگر ہم اپنے ماں باپ سے یہ سلوک نہ کرتے تو ہماری اولادیں بھی ہم سے یہ سلوک نہ کرتیں مگر یہ سلسلہ چلتا ہے چلتا ہے.اور چلتا چلا جاتا ہے.بائیبل میں بہت سی باتیں غلط ہیں لیکن اس میں بعض سکتے بھی ہیں ان ہی میں سے ایک نکتہ یہ بھی ہے کہ تیرے بیٹے کو غیر گھر کی ایک عورت آکر اپنا بنائے گی اور تیری طرف سے اس کے دل کو بالکل پھرالے گی.کس طرح یہ نظارے روزانہ گھروں میں نظر آتے ہیں، کس طرح وہ بچہ جو ماں کی چھاتیوں کو چھوڑنے کے لئے تیار نہیں ہو تا تھا.جس کی غذا ماں کی چھاتیوں کے دودھ سے تیار ہوتی تھی اس کا دودھ ماں نے کس مصیبت سے چھڑایا، کس طرح وہ راتوں کو چینی بلبلاتا اور شور مچاتا تھا اور کس طرح اس کا تمام سکھ اور آرام ماں میں ہی مرکوز ہو تا تھا، کس طرح کو نین لگا لگا کر نوشادر لگا لگا کر اور کیا کیا بلائیں لگا لگا کر اس نے اپنے پستان کو اس کے لئے مکروہ بنایا اور کن کن مصیبتوں سے اس کا دودھ چھڑایا.پھر جب وہ روٹی کھانے لگ گیا تو اس وقت بھی وہ ہر وقت اپنی ماں کا دامن پکڑے رہتا تھا اور ایک منٹ کے لئے بھی اپنی ماں سے جدا نہیں ہوتا تھا.پھر ایک دن ایسا آیا کہ وہ شادی کر کے لایا اور اس شادی کے بعد ہم دیکھتے ہیں کہ وہی بچہ جو بچپن میں اپنی ماں کی گود سے نہیں اترتا تھا جو اس کے پستانوں سے دودھ پیتا تھا اور جس کا دودھ چھڑایا گیا تو سارا دن وہ ریں ریں کرتا رہتا تھا ذراماں اس کی آنکھوں سے اوجھل ہوتی تو وہ اماں اماں کہہ کر چیچنیں مارنے لگ جاتا شادی کے بعد اس کی اپنے ماں باپ کی طرف توجہ ہی نہیں رہتی.مگر اس کے بیوی اور بچے ہی اس کی خوشیوں کا مرکز بن جاتے ہیں اور اگر کوئی آدمی اس کو نصیحت کرتا ہے اور کہتا ہے کہ دیکھو اپنے ماں باپ کی خدمت کرنی چاہئے اگر تو وہ شریف ہوتا ہے تو کہتا ہے مجھے بھی خیال ہے مگر گھر کے اخراجات سے کچھ بچتا ہی نہیں.آخر میری بیوی ہے بچے ہیں اور میرے ذمہ ان سب کے انجراجات ہیں میں ان اخراجات کو پہلے پورا کروں تو پھر کسی اور کی خدمت کروں.گویا جن کی گودوں میں وہ پلا تھا ان کو اب اپنے گھر سے باہر سمجھنے لگ جاتا ہے اور اگر وہ غیر شریف ہوتا
خطبات محمود ۵۳۴ جلد سوم ہے تو سات صلواتیں سنادیتا ہے اور کہتا ہے کہ میں اپنے بچوں کا پیٹ کاٹ کر دوں؟ خدا نے مجھے اپنے فضل سے جوانی کے ایام سے ہی اپنے مقام پر رکھا کہ میرے سامنے کسی کو ایسے الفاظ کہنے کی جرات نہیں ہوتی مگر پھر بھی بعض لوگوں کے فقرے مجھے پہنچ جاتے ہیں اور مجھے ان کے سننے کا اتفاق ہو جاتا ہے.چنانچہ میرے پاس بیان کیا گیا ہے کہ ایک دفعہ ایک نوجوان کو توجہ دلائی گئی کہ وہ اپنے ماں باپ کی خدمت کیا کرے تو اس نے بڑے جوش سے کہا کیا میں اپنے ماں باپ کے لئے بچوں کو فاقے مار دوں اسے یہ فقرہ کہتے ہوئے ذرا بھی خیال نہ آیا کہ انہوں نے فاقے کر کر کے ہی اسے پالا تھا.تو شادی جہاں اپنے ساتھ بڑی بڑی برکتیں لاتی ہے وہاں بڑے بڑے ابتلاء بھی لاتی ہے اور انسان کی آزمائش در حقیقت اس کی شادی کے ساتھ ہو جاتی ہے.پس جہاں شادی انسان کے لئے ایک نئی جنت پیدا کرتی ہے وہاں یہ پہلی بنی ہوئی جنت سے انسان کو محروم بھی کر دیتی ہے.مجھے ہمیشہ ہی حیرت آتی ہے کہ بات تو وہی ہوتی ہے مگر لوگ اور طرف منہ کر کے قربانی کر دیتے ہیں اور اخلاقی طور پر مجرم سمجھے جاتے ہیں.حالانکہ اب بھی ایسا ہی ہوتا ہے کہ کچھ لوگ دوسروں کے لئے قربانی کر رہے ہیں اگر یہ قربانی آگے کی طرف کرنے کی بجائے لوگ پیچھے کی طرف منہ کر کے کرتے تو پھر بھی دنیا اسی طرح رہتی مگر وہ اخلاقی ذمہ داریوں سے عہدہ برآ سمجھی جاتی.اگر باپ بجائے اس کے کہ بچوں کی طرف زیادہ توجہ کرتا اپنے ماں باپ کی طرف توجہ کرتا تو اس کے بچے اس کی طرف توجہ کرتے اور دنیا پھر بھی چلتی چلی جاتی مگر اخلاقی ذمہ داریاں پوری ہو جاتیں.اب تو ایسی ہی بات ہے جیسے گاڑی کے پیچھے بیل جوت لیا جائے.آج دنیا نے بے شک ترقی کا یہ ایک ذریعہ قرار دیا ہے کہ ہر باپ اپنے بچوں کی طرف توجہ کرے لیکن اگر ہر شخص اپنے ماں باپ کی طرف منہ کرتا تو دنیا اسی طرح چلتی رہتی صرف یہ ہو تاکہ لوگ اخلاقی ذمہ داری سے عہدہ بر آہو جاتے.اسی طرح رسول کریم ا نے فرمایا ہے ماؤں کے قدموں کے نیچے جنت ہے.سے اس حدیث کے اور بھی معنی ہیں لیکن ایک معنی یہ بھی ہیں کہ انسان اس طرف منہ کر کے کھڑے ہو جائیں تو دنیا کا فتنہ و فساد دور ہو جائے.اگر بجائے اگلی نسل کا فکر کرنے کے وہ پچھلی نسل کا فکر کرتے تو اول تو دادا دادی بلا وجہ یہ نہ کہتے کہ پوتوں کا خیال نہ رکھا جائے اور اگر بعض لوگ کہتے بھی تو ان کی نسل ان کی خدمت کرنے لگ جاتی.بہر حال شادی کے ساتھ انسانی ذمہ داریاں بڑھ جاتی ہیں، بے شک
۵۳۵ جلد سوم خطبات محمود اس کا آرام بھی بڑھتا ہے، اس کی راحت بھی بڑھتی ہے لیکن اگر وہ اپنی پچھلی ذمہ داریوں کو ترک کر دے تو بسا اوقات اسے نقصان بھی اٹھانا پڑتا ہے.حالانکہ انسان اگر غور کرے تو وہ اپنے شرف کو پچھلے لوگوں سے ہی حاصل کرتا ہے بے شک بعض دفعہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ ایک گوادنی اخلاق کا آدمی ہوتا ہے لیکن اس کی اولاد کی وجہ سے اسے عزت حاصل ہوتی ہے لیکن اکثر اسے عزت اس وجہ سے حاصل ہوتی ہے کہ وہ اچھے خاندان میں سے ہوتا ہے.کہتا ہے میں ایسے خاندان میں سے ہوں ایسے ماں باپ کا بیٹا ہوں.مگر کیا یہ عجیب بات نہیں کہ اس کی عزت تو اپنے ماں باپ سے وابستہ ہوتی ہے مگر وہ ان کی خدمت نہیں کرتا اور نہ ان سے شخص حسن سلوک کے ساتھ پیش آتا ہے.ان ہی نقائص کو دور کرنے کے لئے رسول کریم نے ہدایت دی ہے کہ عَلَيْكَ بِذَاتِ الدِّينِ تَرِبَتْ يَدَاكَ - سے تم دیندار عورت کو لاؤ وہی تمہاری ذمہ داریوں کو پورا کرنے میں تمہاری مددگار ہوگی.تم غور کر کے دیکھ لو جہاں کوئی دیندار عورت آئے گی وہ ایسے رنگ میں کام کرے گی جو دین کو فائدہ پہنچانے والا ہو گا اور دین کسی خاص چیز کا نام نہیں دین نماز کا نام ہے، دین روزے کا نام ہے، دین حج کا نام ہے، دین زکوۃ کا نام ہے، دین محنت کا نام ہے، دین روحانیت کا نام ہے غرض دین ہزاروں چیزوں کا نام ہے.ایک پیشہ ور جو اپنے پیشہ میں محنت سے کام کرتا ہے وہ دیندار ہے، ایک نو کر جو اپنی نوکری میں محنت سے کام لیتا ہے وہ دیندار ہے، ایک مزدور جو محنت سے مزدوری کرتا ہے، دیندار ہے، ایک زمیندار جو اچھی طرح ہل چلاتا ہے دیندار ہے، غرض دینداری ایک وسیع چیز کا نام ہے.پر عَلَيْكَ بِذَاتِ الد ین کے معنے یہ ہیں کہ وہ خود اپنی ذمہ داریوں کو ادا کرنے والی ہو اور خاوند کو اس کی ذمہ داریوں کی ادائیگی میں مدد دینے والی ہو جب یہ چیز پیدا ہو جائے تو لازمی طور پر فتنہ و فساد مٹ جاتا ہے.دنیا میں ہم دیکھتے ہیں کہ ہر شخص صرف اپنا حق مانگتا ہے لیکن دیندار دوسرے کو اس کا حق دلاتا ہے.جیسے میں نے ابھی کہا ہے کہ اگر بچوں کی خدمت کی بجائے انسان ماں باپ کی خدمت کرے تو اس کے بچے اس کی خدمت کرنے لگ جائیں گے اور اپنا حق لینے کی بجائے دوسروں کو اس کا حق دیں.اس طرح اگر انسان دوسروں کو ان کے حقوق دلوائے اور اپنے حق پر اصرار نہ کرے تو حقوق پھر بھی ملتے ہیں مگر امن کے قیام میں بہت مدد ملے گی.اگر خاوند بیوی سے کہے کہ تم میرے ماں باپ کی خدمت کرو اور بیوی خاوند سے کہے کہ تم میرے ماں باپ سے حسن سلوک کرو تو اگر وہ دونوں خاندان شریف ہیں تو بیوی خاوند
خطبات محمود ۵۳۶ چار سو کے ماں باپ کی خدمت کرے گی اور خاوند بیوی کے ماں باپ کی خدمت کرے گا.لیکن اگر اس کی بجائے بیوی خاوند کو تو جہ دلائے کہ تم اپنے ماں باپ کی خدمت کیا کرو اور خاوند بیوی کو توجہ دلائے کہ تم اپنے ماں باپ کی خدمت کیا کرو تو بات پھر بھی وہی ہوگی مگر فرق یہ ہوگا کہ درمیان میں سے ذاتی غرض جاتی رہے گی اور یہ توجہ دلانا نیکی بن جائے گا.کیونکہ یہ اپنے حق کا مطالبہ نہیں ہو گا بلکہ ایک نیکی کی راہ پر دوسرے کو چلانا ہو گا.گو اس صورت میں بھی حق اسی طرح مل جائے گا جس طرح پہلی صورت میں لیکن بجائے اس کے لوگ یہ کرتے ہیں کہ اپنے حق کا مطالبہ کرتے ہیں.اگر لوگ دوسروں کے حقوق دلوانے کی کوشش کریں تو ان کے اپنے حق بھی انہیں مل جائیں اور دنیا میں بھی امن قائم ہو جائے.رسول کریم ﷺ فرماتے ہیں جو شخص نیکی کی تحریک کرتا ہے اسے دو ثواب ملتے ہیں ایک نیکی کی تحریک کا اور ایک اس نیکی کا جو دوسرا شخص اس کی تحریک پر کرے.پس دوسروں کے حقوق دلواؤ تاکہ دنیا میں امن قائم ہو.اگر ایک عورت یہ کہے کہ میرے ماں باپ سے حسن سلوک کرو اور خاوند کے کہ میرے ماں باپ کی خدمت کرو تو اس میں خود غرضی پائی جائے گی لیکن اگر خاوند عورت سے کے اپنے ماں باپ کی خدمت کیا کرو اور عورت خاوند سے یہ کہے کہ تم اپنے ماں باپ کی خدمت کیا کرو تو اس کے نتیجہ میں بھی دونوں کے والدین کی خدمت ہوتی رہے گی لیکن اس کے ساتھ ہی دونوں کا فعل نیکی اور تقویٰ قرار دیا جائے گا.تو رسول کریم ﷺ نے عَلَيْكَ بِذَاتِ الدِّينِ تَرِبَتْ يَدَاكَ - فرما کر اس طرف توجہ دلائی ہے.دین کے معنی فرض اور واجبات کے ہوتے ہیں اور عَلَيْكَ بِذَاتِ الدین کے معنی یہ ہیں کہ تم اس عورت کو لاؤ جو اپنے واجبات اور فرائض کو سمجھنے والی ہو.اس طرح عورت کے لئے ایسا خاوند تلاش کرو جو اپنے فرائض اور واجبات کو سمجھنے والا ہو.جب دونوں اپنے اپنے فرائض اور واجبات کو سمجھیں تو لازماً دنیا میں امن قائم ہو گا اور جب دونوں اپنے اپنے فرائض سمجھیں گے تو وہ ثواب میں بھی شریک ہوں گے جیسے رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ بہترین گھر وہ ہے جس میں تجد کے وقت اگر بیوی کی آنکھ نہیں کھلتی تو خاوند پانی کا چھینٹا اس کے منہ پر مارتا ہے اور اگر خاوند کی آنکھ نہیں کھلتی تو بیوی اس کے منہ پر پانی کا چھینٹا مارتی ہے ہے یہ گویا ایک دوسرے کے فرائض کو یاد دلانے کی رسول کریم ال نے ایک مثال دی ہے اور بتایا ہے کہ مرد اور عورت کو ایسا ہی ہونا چاہئے.
محمود ۵۳۷ جلد سوم پس شادی کرتے وقت ہر انسان کو اس ذمہ داری کے سمجھنے کی کوشش کرنی چاہئے جو اس عائد ہوتی ہے.اس خیال سے شادی نہیں کرنی چاہئے کہ ایک ایسی عورت آئے جو میری خدمت کرے بلکہ اس نیت اور اس ارادہ سے شادی کرنی چاہئے کہ ایک ایسی عورت آئے جو اپنی ذمہ داریوں کو ادا کرتے ہوئے مجھے اپنی ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلائے اور ہم دونوں مل کران فرائض اور واجبات کو ادا کریں جو اللہ تعالی کی طرف سے ہم پر عائد کئے گئے ہیں.اگر اس رنگ میں شادیاں کی جائیں تو لازما فساد مٹ جائے گا خاوند بیوی کے رشتہ داروں سے کبھی بد سلوکی نہیں کرے گا اور بیوی خاوند کے رشتہ داروں سے کبھی بد سلوکی نہیں کرے گی بلکہ وہ ایک دوسرے کی مدد کرنے والے ہوں گے.یہی ذریعہ ہے جو دنیا میں امن قائم کر سکتا ہے.جب تک لڑکی کے رشتہ دار اس خیال میں رہیں گے کہ لڑکا اپنے ماں باپ کی خدمت نہ کرے بلکہ ہماری کرے اور جب تک لڑکے کے رشتہ دار اس خیال میں رہیں گے کہ لڑکی اپنے ماں باپ کی خدمت نہ کرے بلکہ ہماری کرے اس وقت تک دنیا کبھی سکھ نہیں پاسکتی.جس طرح ہاتھ کے دیکھنے سے سر کو سکھ نصیب نہیں ہو سکتا اسی طرح بیوی کے دکھ سے خاوند کو سکھ نصیب نہیں ہوگا، خاوند کے دکھ سے بیوی کو سکھ نہیں ہو گا اور ان دونوں کے دکھ سے ان کے رشتہ داروں کو سکھ نصیب نہیں ہو گا.لیکن اگر اس ذمہ داری کو سمجھ لیا جائے اور لوگ اس طرف توجہ کریں تو دنیا کا اس میں فائدہ ہو گا.مگر لوگوں کی مثال بعض دفعہ اس بیوقوف کی سی ہو جاتی ہے جس کے متعلق مشہور ہے کہ وہ دھوپ میں بیٹھا ہوا تھا کہ کسی نے اس سے کنا میاں دھوپ میں کیوں بیٹھے ہو سائے میں آجاؤ وہ کہنے لگا اگر میں سائے میں آجاؤں تو تم مجھے کیا دو گے؟ یہ بھی دکھ اٹھاتا ہے تکلیف سہتا ہے مگر اس سایہ کے نیچے نہیں آتا جو رسول کریم ﷺ نے تیار کیا ہے.آپ فرماتے ہیں عَلَيْكَ بِذَاتِ الدین مناسب یہی ہے کہ تم ایسی عورت لاؤ جو اپنے فرائض اور واجبات کو سمجھنے والی ہو اسی طرح لڑکی کے لئے ایسا خاوند تلاش کرنا چاہئے جو اپنے فرائض اور واجبات کو سمجھنے والا ہو.اگر اس امر کو مد نظر نہیں رکھو گے.اور چاہو گے کہ لڑکی ایسی ہو جو صرف تمہاری خدمت کرنے والی ہو یا لڑکا ایسا ہو جو صرف تمہاری خدمت کرنے والا ہو تو تم دکھ پاؤ گے کیونکہ جو شخص دوسروں کے حقوق غصب کرتا ہے وہ صرف دوستوں کو ہی نقصان نہیں پہنچا تا بلکہ اپنے لئے بھی ظلم کا بیج ہوتا ہے.حقوق کی مثال ایسی ہی ہوتی ہے جیسے لڑکے بعض دفعہ پندرہ میں اینٹیں ایک لائن میں
خطبات محمود ۵۳۸ جلد سوم کھڑی کر دیتے ہیں اور جب ایک کو دھکا دیتے ہیں تو سب اینٹیں ٹھیک ٹھیک کرتے ہوئے گر جاتی ہیں.جب کوئی شخص کسی کا حق غصب کرلیتا ہے تو وہ اپنے عمل سے دوسروں کو بھی اس کی تحریک کرتا ہے کہ وہ بھی اس کے حقوق کو غصب کرلیں.اس طرح رفتہ رفتہ اس کے ارد گرد ایک ایسا دائرہ بن جاتا ہے جس میں کسی کا حق مارنا گناہ خیال نہیں کیا جاتا اور اس کا نقصان خود اس کو بھی ہوتا ہے.لیکن اگر اسے دوسروں کے حقوق کے اتلاف کا خیال نہ ہو بلکہ وہ بجائے اس خیال کے کہ میں ایسی بیوی لاؤں جو میری خدمت کرے یہ ارادہ کرے کہ میں علیگ بذاتِ الدین کے ارشاد کے مطابق ایسی بیوی لاؤں جو اپنے فرائض اور واجبات کو ادا کرنے والی ہو اور عورت بھی یہ خیال نہ کرے کہ اس کا خاوند ایسا ہو جو صرف اس کی خدمت کرے بلکہ وہ ان فرائض اور واجبات کو ادا کرنے والا ہو جو اللہ تعالٰی کے مقرر کئے ہوئے ہیں.تو ی چونکہ ہر شخص اپنی ذمہ داریوں کو سمجھے گا اور اسے معلوم ہوگا کہ رشتہ دار کے لئے یا سو سائٹی کے لئے یا مذہب کے لئے کس قسم کی قربانیوں کی ضرورت ہے اس لئے ہر شخص دوسرے کے لئے قربانی کرنے والا ہو گازاتی آرام اور ذاتی نفع کا خیال کسی کے دل میں نہیں آئے گا.پس یہ ایک ایسا راحت اور آرام کا ذریعہ ہے کہ اگر ہم چاہیں تو اس سے کام لے کر اپنے ارد گرد جنت بنا سکتے ہیں اور در حقیقت جب رسول کریم ﷺ نے یہ فرمایا کہ تمہاری ماؤں کے قدموں کے نیچے جنت ہے تو آپ کا اسی طرف اشارہ تھا کہ تم اپنے بچوں کا فکر کر کے جنت حاصل نہیں کر سکتے بلکہ اپنی ماں اور اپنے ماں باپ کی خدمت کر کے جنت حاصل کر سکتے ہو.تم اپنے ماں باپ کی خدمت کرو تاکہ جب تم بوڑھے ہو جاؤ تو تمہاری اولاد تمہاری خدم کرے.جب تک تمہارا رخ اگلی طرف رہے گا تمہیں دکھ ہی دکھ ہو گا لیکن اگر پیچھے کی طرف منہ کر کے کھڑے ہو جاؤ تو تمہارے بچے تمہاری خدمت کریں گے اور دنیا کا دوزخ جنت سے بدل جائے گا.له الفضل ۱۰.ستمبر ۱۹۴۰ء صفحه ۲ سے کنز العمال جلد ۱۲ صفحه ۴۶ روایت نمبر ۲۵۴۳۹ مطبوعہ حلب ۱۹۷۷ء ترمذی ابواب النكاح باب ما جاء فى من ينكح على ثلث خصال شه مشكورة - كتاب الصلوة باب التحريض على قيام الليل - الفضل ۹ - نومبر ۱۹۶۰ء صفحه ۳ تا ۵)
خطبات محمود ۵۳۹ ۱۲۱ جلد سوم سیٹھ عبد اللہ اللہ دین صاحب کا ذکر خیر (فرموده ۱۶ جولائی ۱۹۴۰ء) ۱ جولائی ۱۹۴۰ء بعد نماز مغرب مسجد مبارک قادیان میں حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے سیٹھ عبد اللہ اللہ دین صاحب سکندر آباد کی صاحبزادی امتہ الحفیظ بیگم صاحبہ کا نکاح تین ہزار را پیہ مہر پر شیر علی صاحب ولد سیٹھ علی محمد بھائی صاحب کے ساتھ پڑھا.اے خطبہ مسنونہ کی تلاوت کے بعد فرمایا : جس نکاح کے اعلان کے لئے میں اس وقت کھڑا ہوں اس میں لڑکی سیٹھ عبد اللہ بھائی صاحب کی ہے جو سکندر آباد کے رہنے والے ہیں گو آج مجھے نقرس کے درد کی تکلیف ہے اور یوں بھی جب لڑکے لڑکی والے دونوں یہاں موجود نہ ہوں تو عربی کے خطبہ پر ہی کفایت کرتا ہوں کیونکہ نصیحت جن کے لئے ہوتی ہے وہ خود ہی موجود نہ ہوں تو چنداں فائدہ نہیں ہو تا مگر اس وقت میں نے الفضل والوں کو بلا لیا ہے تاکہ خطبہ لکھ لیں تاکہ شائع ہو کر ان تک پہنچ جائے اور یہ ان تعلقات کی وجہ سے ہے جو سیٹھ عبداللہ صاحب سے مجھے ہیں.سیٹھ صاحب جب غیر احمدی تھے ایک ہمارا وفد حیدر آباد میں تبلیغ کے لئے گیا.وفد کے ارکان کو کسی ذریعہ سے معلوم ہوا کہ سکندر آباد میں خوجوں میں سے ایک صاحب دین سے بہت دلچپسی رکھتے ہیں نماز روزہ کے پوری طرح پابند ہیں اس پر وہ دوست ان کے پاس بھی گئے اور تبلیغ کی.سیٹھ صاحب نے چار پانچ سوال لکھ کر دیئے کہ ان کے جواب دے دیئے جائیں اگر ان سے میری تسلی ہو گئی تو میں احمدی ہو جاؤں گا.ہمارے مبلغین نے وہ سوال مجھے دیئے اور
خطبات محمود ۵۴۰ جامد سوم ساتھ ہی لکھا کہ یہ صاحب بہت شریف اور با اخلاق ہیں ان کے دل میں دین کی بڑی محبت ہے، ان کے لئے دعا کی جائے کہ احمدی ہو جائیں کیونکہ اگر یہ احمدی ہو گئے تو اس علاقہ میں تبلیغ احمدیت کا بڑا ذریعہ بن جائیں گے میں نے ان کے سوالات کا جواب بھی لکھا اور دعا بھی کی.میں نے رویا میں دیکھا کہ باہر صحن میں ایک شخص بیٹھا ہے سیٹھ صاحب کو میں نے دیکھا ہوا نہیں تھا.جب بعد میں دیکھا تو ان کی شکل اس شخص سے ملتی جلتی تھی جسے میں نے رویا میں دیکھا تھا.تو میں نے دیکھا ایک صاحب باہر تخت پر بیٹھے ہیں ان کے سر پر چھوٹی سی ٹوپی ہے وہ کھلے آسمان کے نیچے بیٹھے ہیں.اس وقت یوں معلوم ہوتا ہے کہ آسمان میں شگاف ہوا ہے جس میں سے نور پھینک رہے ہیں اور وہ اس شخص پر گر رہا ہے.میں نے اسی وقت سمجھ لیا کہ ان کو اللہ تعالی ہدایت دے گا اور نہ صرف ہدایت دے گا بلکہ سلسلہ کے لئے مفید بنائے گا.میرا خیال ہے کہ شاید ان کے سوالات کے جواب ابھی میری طرف سے انہیں نہ پہنچے تھے کہ انہوں نے استخارہ کر کے بیعت کرلی.اس کے بعد احمدیت سے ان کا عشق بڑھتا گیا اور وہ بڑی سے بڑی قربانی اور ہر رنگ کی قربانی کرتے رہے ہیں.تبلیغ میں اس حد تک انہیں جوش ہے کہ جیسا کہ قرآن کریم میں والنزعتِ غَرُقًا ه وَالتُنشِطَتِ نَشْطًا ، والشبحتِ سُبْعًا ، فَالشبقتِ سُبقًا 0 فا لمديرتِ امراه سے ارشاد فرمایا گیا ہے یہ مقام ان کو حاصل ہے.یوں ان کی مذہبی تعلیم کچھ نہیں انگریزی کا چونکہ ان کی قوم میں رواج ہے کہ اس میں خط و کتابت کرتے ہیں اس لئے وہ اس میں لکھ پڑھ لیتے ہیں ورنہ کالج میں تعلیم پاکر اس میں خاص کسب کمال کیا ہو یہ بات نہیں مگر اس جوش میں کہ تبلیغ کریں اردو، انگریزی اور گجراتی میں کتابیں لکھتے رہتے ہیں اور پھر تبلیغی لٹریچر شائع کرانے کی انہیں ایسی دھن ہے کہ ان کی جدوجہد کو دیکھ کر شرم آجاتی ہے کہ قادیان میں اتنا عملہ ہونے کے باوجود اس دھن سے کام نہیں ہو تا جس سے وہ کرتے ہیں.انہوں نے تبلیغی لٹریچر کی اشاعت کے کئی ڈھنگ نکالے ہوئے ہیں.کسی غریب اور بے کار آدمی کو پکڑ لیتے ہیں اور تبلیغی لٹریچر دے کر کہتے ہیں جاؤ سٹیشنوں پر جاکر اسے فروخت کرو اور جو آمد ہو وہ تم لے لو.اس طرح وہ اپنی ایک کتاب کے ۱۵- ۱۶۹۱۵ - ۱۶ ایڈیشن شائع کر چکے ہیں.غرض وہ اس دھن سے تبلیغ احمدیت کا کام کرتے ہیں کہ اگر چند اور ایسے کام کرنے والے
خطبات محمود ۵۴۱ جلد سوم ہوتے تو اس وقت تک بہت بڑا کام ہو چکا ہوتا.مدراس وغیرہ کی طرح جماعتیں کو ابھی چھوٹی چھوٹی ہیں مگر ان کے لٹریچر کی وجہ سے پیدا ہوئی ہیں.وہ عام اخبارات میں اشتہار دیتے رہتے ہیں کہ ہمارے پاس یہ کتابیں ہیں اگر کوئی مول لینا چاہے تو قیمتا لے لے اور اگر کوئی مفت لینا چاہے تو مفت منگالے اس طرح لوگ ان سے کتابیں منگاتے اور پڑھتے ہیں.پھریوں بھی تبلیغ میں اس قسم کا جوش پایا جاتا ہے کہ وہ دیوانگی جو ایمان اور اخلاص ایک مومن میں پیدا کرنا چاہتا ہے ان میں پائی جاتی ہے آگے اولاد کے متعلق بھی ان کی یہی خواہش ہے کہ وہ تبلیغ میں مصروف رہے.انہوں نے اپنے بڑے بیٹے سیٹھ علی محمد صاحب کو ولایت بھیجوایا ان کے واپس آنے پر یہی خواہش ظاہر کی کہ دین کی خدمت کرے.چھوٹے لڑکے کے متعلق بھی ان کی یہی خواہش ہے کہ دین کا خادم بنے.وہ مجھ سے جب بھی اپنی اولاد کے لئے دعا کی خواہش کرتے ہیں تو یہی کہتے ہیں کہ دعا کریں میری اولاد دین کی خادم ہو.یہی شادی جس کا میں خطبہ پڑھ رہا ہوں اس میں بھی یہی خواہش کام کر رہی ہے.سیٹھ صاحب خود خدا کے فضل سے زیادہ آسودہ حال ہیں لڑکا ایسا نہیں ہے مگر سیٹھ صاحب کی خواہش ہے کہ چونکہ اس خاندان میں احمدیت نہیں اس لئے جب لڑکی جائے گی اور انہیں تبلیغ کرے گی تو وہ لوگ بھی احمدی ہو جائیں گے.سیٹھ صاحب کے چھوٹے بھائی خان بہادر احمد صاحب چھوٹے رہ گئے تھے جب ان کے والد فوت ہوئے سیٹھ عبد اللہ بھائی کی یہ بھی نیکی ہے کہ انہوں نے چھوٹے بھائی کو پالا اور اپنی کوئی الگ جائداد نہ بنائی بلکہ بھائی کے ساتھ مشترکہ ہی رکھی.وہ سیٹھ صاحب کے منجھلے بھائی ہیں، اپنے کاروبار میں بہت ہوشیار ہیں، اتنے ہو شیار کہ سیٹھ صاحب کو بھی پیچھے چھوڑ گئے ہیں.وہ بہت زیادہ کما سکتے ہیں کماتے رہے ہیں اور کماتے ہیں.مگر باوجود اس کے کہ وہ مالی لحاظ سے، رسوخ کے لحاظ سے ، حکام سے میل جول کے لحاظ سے اور پبلک کے ساتھ تعلقات کے لحاظ سے بہت زیادہ بڑھے ہوئے ہیں ان پر سیٹھ صاحب کے سلوک کا ایسا اثر ہے کہ جس طرح بہت نیک بیٹا اپنے باپ کا ادب کرتا ہے اسی طرح وہ سیٹھ صاحب کا ادب کرتے ہیں.ان کے متعلق بھی سیٹھ صاحب کی یہی خواہش ہے کہ دعا کریں احمدی ہو جا ئیں.بلکہ جب میں حیدر آباد گیا تو جس وقت دونوں بھائی میرے سامنے اکٹھے ہوتے انہیں سیٹھ صاحب یہی کہتے احمد بھائی بہت دنیا کمائی.اب احمدی ہو جاؤ.تو تبلیغ کا ان میں وہ جوش پایا جاتا
خطبات محمود ۵۴۳ جلد سوم ہے جو بعض ان مبلغین میں بھی نظر نہیں آتا جنہوں نے خدمت دین کے لئے زندگیاں وقف کی ہیں.میں اللہ تعالٰی کے احسانوں میں سے یہ بھی ایک احسان سمجھتا ہوں کہ تجارت کرنے والے طبقہ میں سے بھی احمدی ہوں جو اپنے طبقہ میں تبلیغ کر سکیں.سیٹھ عبد الرحمن صاحب مدراس کے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ میں احمدی ہوئے ان میں بڑا اخلاص تھا اور خوب تبلیغ کرنے والے تھے ان کا ایک واقعہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام بڑے درد سے سنایا کرتے تھے اور مجھے بھی جب وہ واقعہ یاد آتا ہے تو ان کے لئے دعا کی تحریک ہوتی ہے.ابتداء میں ان کی مالی حالت بڑی اچھی تھی اور اس وقت وہ دین کے لئے بڑی قربانی کرتے تھے.تین سو ، چار سو ، پانچ سو روپیہ تک ماہوار چندہ بھیجتے تھے.خدا کی قدرت وہ بعض کام غلط کر بیٹھے اور اس وجہ سے ان کی تجارت بالکل تباہ ہو گئی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو یہ الہام ان ہی کے متعلق ہوا.- قادر ہے وہ بارگاہ جو ٹوٹا کام بتادے بنا بنایا توڑ دے کوئی اس کا بھید نہ پارے سے جب یہ الہام ہوا تو پہلے مصرعہ کی طرف ہی خیال گیا اور ” قادر ہے وہ بارگاہ جو ٹوٹا کام بنادے" سے یہ سمجھا گیا کہ سیٹھ صاحب کا کاروبار پھر درست ہو جائے گا.اور دوسرے مصرعہ بنا بنایا تو ڑ دے کوئی اس کا بھید نہ پاوے" کی طرف ذہن نہ گیا کہ پہلے کام بن کر پھر بگڑ جائے گا بلکہ اسے ایک عام اصول سمجھا گیا.سیٹھ صاحب کے کاروبار کو دھکا لگنے کے بعد دو تین سال حالت اچھی ہو گئی مگر پھر خراب ہو گئی اور یہاں تک حالت پہنچ گئی کہ بعض اوقات کھانے پینے کے لئے بھی ان کے پاس کچھ نہ ہوتا.ایک دن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے عجیب محبت کے رنگ میں ان کا ذکر کیا.فرمایا سیٹھ عبد الرحمن حاجی اللہ رکھا صاحب کا اخلاص کتنا بڑھا ہوا تھا پانچ سو روپے کی رقم تھی جو انہوں نے اس موقع پر بھیجی تھی کسی دوست نے ان کی مشکلات کو دیکھ کر دو تین ہزار روپیہ انہیں دیا کہ کوئی تجارتی کام شروع کر دیں یا برتنوں کی وکان کھول لیں.اس میں سے پانچ سو روپیہ انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو بھیجوا دیا اور لکھا مدت سے میں چندہ نہیں بھیج سکا اب میری غیرت نے برداشت نہ کیا کہ جب خدا تعالیٰ نے مجھے ایک رقم بھجوائی ہے تو میں اس میں سے دین کے لئے کچھ نہ دوں.غرض خدمت دین کے لئے ان کا اخلاص بہت بڑھا ہوا تھا.ایک عرصہ تک شیخ رحمت اللہ صاحب کو
خطبات محمود ۵۲۳ جلد سوم بھی خدمت دین کی توفیق ملی مگر افسوس کہ ان کا انجام اتنا اچھا نہ ہوا.سیٹھ عبد الرحمن صاحب نے ابتداء سے خدمت شروع کی حضرت خلیفہ اول کا زمانہ بھی پایا، پھر میرا زمانہ بھی پایا، اب بھی ان کی لڑکیوں کی اولاد کو احمدی نہیں مگر حالت یہ ہے کہ سال ڈیڑھ سال کا عرصہ ہوا مدراس کے ایک محمد یعقوب صاحب بہت مشہور کا نگری تھے ان کے ایک بھائی کو سیٹھ صاحب کی نواسی بیاہی ہوئی تھی ان کی طرف سے کپڑوں کا ایک پارسل پہنچا اور ساتھ لکھا تھا میں غیر احمدی ہوں، میری بیوی سیٹھ عبدالرحمن حاجی اللہ رکھا صاحب کی نواسی تھی.اس نے کہا تھا کہ جب میں مرا جاؤں تو میرے کپڑے قادیان پہنچا دینا اب میں یہ کپڑے بھیج رہا ہوں.یہ سیٹھ صاحب کے اخلاص کا ہی نتیجہ تھا کہ اتنے عرصہ کے بعد بھی ان کے خاندان کی ایک عورت کو قادیان کا خیال رہا.مجھے سیٹھ صاحب کا ایک لطیفہ بھی کبھی نہیں بھولتا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام يه نے ان کی بڑی تعریفیں کی ہیں اور اس وقت کے لوگ جانتے ہیں کہ آپ سیٹھ صاحب کی کتنی قدر کرتے تھے اور جماعت میں بھی ان کی کتنی قدر تھی.سیٹھ صاحب کا لفظ سیٹھ عبد الرحمن صاحب سے مخصوص تھا.بغیر نام سننے کے سیٹھ صاحب کہنا کافی ہوتا اور لوگ سمجھ لیتے تھے کہ مراد سیٹھ عبدالرحمن صاحب ہیں انہیں صدر انجمن کا ممبر بنایا ہوا تھا.حضرت خلیفہ اول کے وقت میں جب اختلاف شروع ہوا تو دونوں فریق نے کوشش کی کہ سیٹھ صاحب ہمارے ساتھ ہوں.دونوں فریق نے انہیں لٹریچر بھیجا تو وہ بے چین سے ہو گئے چونکہ بہت غربت کی حالت تھی قادیان نہ آسکتے تھے ان کے ایک دوست کروڑپتی تھے ان سے کسی نے سیٹھ صاحب کی بے چینی کا ذکر کیا تو انہوں نے کچھ روپے دیئے اور کہا کہ آپ قادیان ہو آئیں.روپیہ ملنے پر وہ چل پڑے راستہ میں صندوق کھول کر جو کوئی چیز نکالنے لگے تو بٹوا جس میں روپیہ اور ٹکٹ بھی تھا نیچے گر گیا اور انہیں پتہ نہ لگا.ایک جگہ انہوں نے دودھ خریدا اور بٹوا نکال کر پیسے دینے لگے تو معلوم ہوا کہ بوہ تو ہے ہی نہیں.اس پر انہوں نے دودھ واپس کر دیا اور دودھ والا برا بھلا کہتا چلا گیا.ان کے ساتھ ہی کوئی اور بھی سوار تھا اسے یہ دیکھ کر تعجب تو ہوا مگر کچھ نہ بولا.سیٹھ صاحب نے سنایا دو تین گھنٹہ کے بعد جب کھانے کا وقت آیا تو اس نے کھانا کھایا مگر میں یونہی بیٹھا رہا شام کے وقت اس نے پھر کھانا کھایا مگر میں نے کچھ نہ کھایا.اس وقت وہ میرے پاس آیا اور کہنے لگا کیا بات ہے آپ نے سارے دن میں کچھ نہیں کھایا حالانکہ آپ بوڑھے
خطبات محمود ۵۴۴ جلد سوم آدمی ہیں آپ کو تو بار بار کھانا چاہئے تھا.میں نے کہا بات یہ ہے کہ میرا بٹوہ گم ہو گیا ہے جس میں نقدی تھی اور ٹکٹ بھی تھا.اس نے کہا یہ بہت افسوس کی بات ہے.آپ نے مجھے علم نہ دیا میں چونکہ آپ کا ساتھی ہوں اس لئے میرا حق ہے کہ ایسی حالت میں آپ کی مدد کروں چنانچہ وہ زبردستی انہیں ہوٹل میں لے گیا اور کھانا کھلایا اور پھر راستہ میں کھلاتا پلاتا آیا اور ٹکٹ کے متعلق اس نے کہہ دیا آپ کوئی فکر نہ کریں پچھلا کرایہ میں ادا کردوں گا اور آگے کے لئے ٹکٹ لے لوں گا.کسی جگہ جہاں گاڑی بدلتی تھی غالبا د ہلی کا سٹیشن تھا وہاں جب ٹرنک اٹھایا تو نیچے سے بٹوہ نکل آیا.آخر سیٹی صاحب یہاں پہنچے بعض دوست ان کے پاس گئے اور سمجھانے لگے.ادھر مولوی محمد علی صاحب وغیرہ نے انہیں اپنی طرف کھینچنے کی کوشش کی.چونکہ سیٹھ صاحب کا احمدیت سے تعلق اخلاص اور محبت کا تھا اس لئے بظاہر باتوں کا ان پر کوئی اثر نہ معلوم ہوتا.آدمی تجربہ کار تھے کچھ ظاہر نہ ہونے دیتے.دونوں خیال کے لوگ سمجھتے کہ ہمارے ساتھ ہیں اتنے میں صدر انجمن احمدیہ کی میٹنگ ہوئی اور اس میں فیصلہ طلب مسائل پیش ہوئے.ان لوگوں کی عادت تھی کہ جب وہ دیکھتے کہ کوئی بات مولوی محمد علی صاحب کی طرف سے پیش ہو رہی ہے تو اس کے متعلق مولوی صاحب کی رائے معلوم کرنے کے لئے کتنے مولوی صاحب ہمیں تو اس کے متعلق کچھ علم نہیں آپ اس کی تفصیل اور تشریح کر دیں.اس پر مولوی صاحب بتا دیتے کہ اس بارے میں ان کا کیا خیال ہے اس کے بعد ان کے ساتھی وہی رائے دے دیتے.چونکہ کثرت ان کی تھی ہمارے لئے بولنے کا موقع ہی نہ ہوتا.مولوی محمد علی صاحب کی رائے کی تائید میں برائے دینے والے ڈاکٹر محمد حسین صاحب تھے، شیخ رحمت اللہ صاحب تھے ، ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب تھے ، خواجہ صاحب تھے ، شروع میں ایک لمبے عرصہ تک خلیفہ رشید الدین صاحب مرحوم بھی ان کے ساتھ رہے اور ان کے بڑے جوشیلے ساتھی تھے ادھر میں اکیلا یا ہم دو آدمی ہوتے تھے ہماری رائے پر کوئی غور ہی نہ کرتا تھا.نواب صاحب نے مجلس میں جانا چھوڑ دیا تھا ڈاکٹر محمد اسمعیل صاحب باہر ہوتے تھے اس لئے مجلس میں جانے والا آخر میں ہی رہ گیا تھا.اس دن ان لوگوں نے سیٹھ صاحب پر زور دیا کہ آپ بھی رائے دیں پہلے تو انہوں نے کہا کہ میں کیا رائے دے سکتا ہوں میں دیکھتا ہوں آپ کام کریں.جب پھر زور دیا تو چونکہ بزنس مین کی سمجھ بڑی تیز ہوتی ہے.انہوں نے دیکھا کہ یہ تو ان لوگوں نے محول بنا رکھا ہے.ایک ہی
جلد سو خطبات کور ۵۴۵ شخص سے پوچھتے ہیں آپ اس بارے میں کیا فرماتے ہیں اور جب وہ اپنی رائے ظاہر کر دیتے ہیں تو وہی رائے خود دے دیتے ہیں.دو تین بار یہی طریق دیکھ چکے تھے جب انہیں پھر کسی نئے مسئلہ کے بارہ میں کہا گیا کہ سیٹھ صاحب آپ اس بارہ میں کیا فرماتے ہیں تو اسی کمرہ میں جو اس مسجد کے ساتھ چھوٹا سا ہے اسی طرز پر جس طرح وہ لوگ ہاتھ بڑھا کر کہا کرتے تھے میری طرف اشارہ کر کے کہنے لگے اس بارے میں جو میاں صاحب فرماتے ہیں وہی میری رائے ہے.یہ پہلی دفعہ تھی جب انہوں نے اپنی رائے کا اظہار کیا اور پھر کھل گئے.غرض اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو سیٹھ صاحب کا وجود بھی ایک نشان کے طور پر دیا ہوا تھا.ان کی دینی تعلیم کوئی ایسی نہ تھی مگر یہ راس میں ان کی وجہ سے جماعت قائم ہو گئی اور دوسرے لوگوں پر بھی ان کا نہایت اچھا اثر تھا.مجھے یاد ہے کہ سالہا سال تک ایک سیٹھ لال جی دال جی تین سو روپیہ ماہوار حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بھیجتا رہا.وہ یہی لکھتا تھا کہ میرے دوست سیٹھ عبدالرحمن حاجی اللہ رکھا صاحب کی حالت چونکہ کمزور ہو گئی ہے اس لئے اب میں ثواب حاصل کرنے کے لئے یہ رقم بھیجتا ہوں.ان کے بعد سلسلہ میں بڑے تاجروں میں سے کوئی نہ رہا تھا اور خیال آیا کرتا تھا کہ تاجروں میں سے کوئی احمدی ہو.تاکہ اس طبقہ میں تبلیغ کی جاسکے.پنجاب میں تو کوئی بڑا مبائع تاجر نہیں ہے، معمولی ہیں ان کی اور بات ہے سیٹھ عبداللہ صاحب کو خدا تعالی نے شروع خلافت میں ہی دے دیا اور انہوں نے اسی وقت سے نہایت سرگرمی کے ساتھ تبلیغ شروع کردی جس پر آج ۲۲ ۲۳ سال کا زمانہ گزر رہا ہے مگر ان کے جوش تبلیغ میں فرق نہیں آیا.ان پر خدا تعالیٰ کا یہ بھی فضل ہو گیا کہ وہ پہلے بہت اونچا سنتے تھے کان پر ایک کچی سی لگا کر بیٹھتے تھے اور جوں جوں انسان کی عمر بڑھتی ہے یہ مرض بھی بڑھتا جاتا ہے.اس وقت کہا کرتے تھے کہ دعا کریں کان درست ہو جائیں تاکہ تقریریں اچھی طرح سن سکوں اب خدا تعالٰی نے ان پر ایسا فضل کیا ہے کہ کان کے پیچھے ہاتھ باندھ کر دور بیٹھے ہوئے بھی سن لیتے ہیں.پہلے تو ان کی یہ حالت تھی کہ میرے سامنے میز پر بیٹھ کر یا میز سے ٹیک لگا کر لاؤڈ سپیکر کا سا آلہ کان سے لگا کر سنا کرتے تھے.میں نے ان کے اخلاص اور تبلیغی خدمات کا اس لئے بھی ذکر کیا ہے کہ ہمارے کام کرنے والے نوجوان ان سے سبق سیکھیں اور دیکھیں کہ کس طرح ایک شخص بڑی عمر میں جب آرام کرنے کا وقت ہوتا ہے کام کر رہا ہے.دکان کے کاروبار سے وہ پنشن لے چکے ہیں اس میں کام
خطبات ۵۴۶ جلد سوم نہیں کرتے ان کا الگ کمرہ ہے جس میں اب وہ تصنیف کا کام کرتے ہیں نوجوانوں کو ان سے سبق حاصل کرنا چاہیئے.پھر میں نے اس لئے بھی ذکر کیا ہے کہ جب کسی انسان کی خدمات اور اخلاص کے متعلق واقفیت ہو تو اس کے لئے دعا کی تحریک ہوتی ہے.جیسا کہ میں نے بتایا ہے لڑکے کی مالی حالت ان جیسی نہیں ہے.لیکن انہوں نے محض اس لئے کہ لڑکی اس خاندان میں جاکر تبلیغ احمدیت کرے یہ رشتہ کیا ہے.احباب دعا کریں کہ سیٹھ صاحب نے جس خواہش کے پیش نظر یہ رشتہ کیا ہے خدا تعالی اسے پورا کرے اور اس خاندان میں احمدیت پھیلائے.اس میں شبہ نہیں کہ اس قوم نے جس کو دین سمجھا اس کے لئے بڑی بڑی قربانیاں کی ہیں.مالی قربانی کرنے میں یہ لوگ خوجے، میمن اور بو ہرے بہت بڑھے ہوئے ہیں اور خدا تعالٰی نے دنیوی لحاظ سے انہیں برکت بھی دی ہے.یہ لوگ ظاہر میں جسے دین سمجھتے ہیں خواہ حقیقت میں وہ غلط ہی ہو اس کے لئے انہوں نے بڑی بڑی قربانیاں کی ہیں.ہماری جماعت میں سے جو لوگ وصیت کرتے ہیں وہ دسواں حصہ دیتے ہیں اور جماعت کے مقابلہ میں ایسے لوگوں کی تعداد بہت کم ہے لیکن ہر خوجہ اپنی آمدنی کا دسواں حصہ دیتا ہے.پچھلے زمانہ میں تو ان میں اتنا غلو پایا جاتا تھا کہ ایک آغا خان تھے (یہ خطاب ہے نام نہیں) ان کا حکم تھا کہ اگر مقررہ رقم کی ادائیگی کے وقت تم سمندر میں ہو تو سمندر میں ہی گرادو ہمیں پہنچ جائے گی.دراصل یہ ایک ڈھنگ تھا باقاعدہ ادائیگی کے لئے پابند بنانے کا اگر پانچ فیصدی رقم سمندر میں گرا بھی دی جاتی تو ۹۵ فیصدی با قاعدہ پہنچ جاتی.وہ لوگ اسی طرح کرتے اگر سمندر میں جاتے ہوئے وقت آجاتا تو سمندر میں پھینک دیتے.پس ان قوموں نے جسے دین سمجھا اس کے لئے بڑی قربانی کی ان میں اگر احمدیت پھیل جائے تو اس کا بہت اچھا اثر ہندوستان میں ہو گا.سیٹھ صاحب کی کتابیں دور دور اثر کرتی ہیں ان کے لٹریچر کے ذریعہ ہی ایک بڑے آدمی کی بیوی احمدی ہوئی.میں ان صاحب کا نام نہیں لیتا بہت بڑے آدمی ہیں بڑے بڑے افسروں اور گورنروں کی پارٹیوں میں جاتے ہیں اور وہ ان کے گھر پر آتے ہیں ان کی بیوی نے سیٹھ صاحب کی کسی کتاب میں پردہ کے متعلق پڑھا تو پردہ کرنے لگ گئی اور پارٹیوں میں جانا چھوڑ دیا.اس پر سارے گھر والے اسے پاگل کہنے لگ گئے اس نے مجھے لکھا میں حیران ہوں کہ کیا کروں.میں
خطبات محمود ۵۴۷ چند مو نے جواب دیا کہ پردہ کرنا شریعت کا حکم ہے جس حد تک اس پر عمل کر سکتی ہو کر و.مجھ پر اس سے یہ اثر ہوا کہ سیٹھ صاحب کی کتاب کا اثر کہاں جاپہنچا اتنے بڑے گھرانے کی خاتون ولایت سے پھر کر آئی ہوئی اس کے خاوند اور خسر کو نواب کا خطاب ملا ہوا ہے وہ ایسی متاثر ہوئی کہ پردہ کر کے گھر میں بیٹھ گئی.کیونکہ سیٹھ صاحب کے دل سے نکلی ہوئی بات اپنا اثر کر رہی ہے اور جنوب مغربی ہند میں اس کا بہت اثر ہے.یہ رشتہ کی خواہش بھی نیک ہے اس لئے میں نے چاہا کہ اس موقع پر سیٹھ صاحب کی تبلیغی خدمات کا ذکر کروں تاکہ دعا کی تحریک ہو.سیٹھ صاحب کی لڑکی کا نام امتہ الحفیظ بیگم ہے ان کی سالی کا لڑکا ہے جسے کوشش کر کے انہوں نے احمدی بنایا ہے اور وہ کئی سال سے احمدی ہے.اس کا نام شیر علی ہے اور بمبئی کے پاس تھانہ میں رہتا ہے.دونوں کی طرف سے تار آگیا ہے انہوں نے مجھے اپنا وکیل بنایا ہے پس میں اعلان کرتا ہوں کہ سیٹھ عبداللہ الہ دین صاحب سکندر آباد کی لڑکی امتہ الحفیظ بیگم کا نکاح تین ہزار مهر پر شیر علی ولد علی محمد بھائی صاحب سے قرار پایا ہے.میں دونوں کی طرف سے منظور کرتا ہوں دعا کریں کہ خدا تعالی مبارک کرے.له الفضل ۱۸.جولائی ۱۹۴۰ء صفحه ۲ له النزعت : ۲ تا ۶ کے تذکرہ صفحہ ۶۸۲ - ایڈیشن چهارم الفضل ۶ - اگست ۱۹۴۱ء صفحه (۵۷۳
۵۴۸ ۱۲۲ الی جماعتیں بطور پیج کے ہوتی ہیں (فرموده ۱۵- ستمبر ۱۹۴۱ء) ۱۵- ستمبر ۱۹۴۱ء بعد نماز عصر مسجد مبارک میں حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے جناب سیٹھ محمد غوث صاحب حیدر آباد دکن کی صاحبزادی محترمہ امتہ الحی بیگم صاحبہ کا نکاح مکرم محمد یونس صاحب ولد عبد العزیز صاحب ساکن لاڈوہ ضلع کرنال کے ساتھ ایک ہزار روپیہ مہر کے عوض پڑھا.بے خطبہ مسنونہ کی تلاوت کے بعد فرمایا :- اللہ تعالی کی سنت کے ماتحت جو قدیم سے ماموروں کے متعلق چلی آتی ہے اس نے ہماری جماعت کو بھی مختلف علاقوں میں پھیلایا ہوا ہے.یہ اللہ تعالی کی قدیم سنت ہے کہ اللی جماعتیں بطور پیج کے پھینکی جاتی ہیں جس طرح اگر ہم ایک فٹ سے زمین پر دانے پھینکیں تو وہ تھوڑی سی جگہ میں پھیلیں گے لیکن اگر ایک بلند مینار پر سے پھینکیں تو دور دور گریں گے اور کسی بلند پہاڑ پر سے پھینکیں گے تو اور بھی دور زمین پر پھیلیں گے اسی طرح چونکہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ایمان آسمان سے پھینکا جاتا ہے وہ ساری دنیا پر پھیل جاتا ہے.ایک یہاں، ایک وہاں، ایک کہیں، ایک کہیں، شروع شروع میں یہ چیز اللی جماعتوں کے لئے بظاہر کمزوری کا موجب ہوا کرتی ہے کیونکہ جن جماعتوں کے جتھے ہوں ان کو ایک طاقت حاصل ہو جاتی ہے لیکن ایک دائرہ میں محدود ہونے کی وجہ سے وہ آخر مٹ جاتی ہیں مگر اللی جماعتیں دور دور قائم ہوتی ہیں.گویا ان کا بیج آسمان سے پھینکا جاتا ہے اس لئے دور دور پھیلتا ہے اور اس وجہ سے ان کی
خطبات محمود ۵۴۹ جلد سوم طاقت شروع شروع میں کمزور نظر آتی ہے کیونکہ ان کے افراد ایک ایک، دو دو، چار چار کر کے دور دور پھیلے ہوتے ہیں.اگر شروع میں وہ سب اکٹھے ہوں تو کافی طاقتور نظر آئیں مثلا ہماری جماعت کئی لاکھ ہے اور اگر یہ ساری کی ساری گورداسپور کے علاقہ میں جمع کر دی جائے تو یہاں ہماری نمایاں طور پر برتری اور طاقت نظر آئے مگر اس وقت چونکہ وہ ساری دنیا میں پھیلی ہوئی ہے اس لئے ہم کسی جگہ بھی ایسے محفوظ اور طاقتور نظر نہیں آتے جتنے اگر ساری جماعت ایک جگہ ہوتی تو نظر آسکتے.بعض دفعہ جب الہی جماعتوں کو ایک جگہ جمع کرنا مطلوب ہو تو اس کے لئے ہجرت کرائی جاتی ہے.اللہ تعالی ایسی جماعت کو بھی پھیلا تا تو چاروں طرف ہے مگر پھر کسی مصلحت کے ماتحت انہیں ایک جگہ جمع ہونے کا حکم دے دیتا ہے جیسے رسول کریم ا کے زمانہ میں ہجرت کا حکم ہوا اور تمام یمنی ، نجدی حجازی، ایرانی مسلمانوں کو مدینہ میں جمع ہونے کا حکم دے دیا گیا اور اس طرح وہ بات بھی پوری ہو گئی کہ ایمان چاروں طرف پہنچ گیا اور پھر مسلمانوں کی طاقت بھی ایک جگہ جمع ہو گئی.جب ایک نجد کا مسلمان مدینہ گیا تو پیچھے اس کے رشتہ دار موجود تھے، ایرانی مسلمان تو مدینہ آگیا مگر اس کے متعلقین ایران میں رہے اور جہاں جہاں بھی کوئی مسلمان تھا اس نے اسلام کا تعارف وہاں کرایا اور اس طرح چاروں طرف اشاعت کا سامان بھی ہو گیا اور جتھا بھی قائم ہو گیا.پس اللی جماعتوں کے متعلق اللہ تعالی کی سنت یہی ہے کہ وہ ایمان کو چاروں طرف پھیلاتا ہے مگر بعض دفعہ کسی مصلحت کے ماتحت تمام ایمان لانے والوں کو اکٹھا بھی کر دیتا ہے مگر اس کا ذریعہ ہجرت ہے.حضرت موسیٰ علیہ السلام کے وقت میں بھی ایسا ہی ہوا.مصر کے مختلف مقامات پر آپ کے ماننے والے تھوڑی تھوڑی تعداد میں موجود تھے مگر پھر ان کو اکٹھا ہونے کا حکم دیا گیا اور پھر ایمان کو پھیلانے کے لئے کنعان کی طرف روانہ کیا گیا تا وہ مختلف قوموں اور گروہوں میں سے گزرتے ہوئے ان میں دین کو پھیلاتے جائیں.رسول کریم ﷺ کے زمانہ میں مسلمانوں کو ہجرت کر کے مدینہ جمع ہونے کا حکم دیا گیا اس میں بھی مصلحت تھی.یہ بھی تو ہو سکتا تھا کہ سب کو مکہ میں ہجرت کر کے جمع ہونے کا حکم دے دیا جاتا اور اس طرح سارے مسلمان اگر مکہ میں اکٹھے ہو جاتے تو اس طرح بھی ان کی ایک طاقت بن جاتی مگر اس طرح یہ غرض پوری نہ ہو سکتی تھی کہ اسلام سارے عرب میں پھیل جائے.مکہ سے مدینہ قریباً دو سو میل کے فاصلہ پر ہے اور اللہ تعالیٰ رسول کریم ﷺ کو مکہ سے دو سو میل کے فاصلہ پر لے گیا
خطبات محمود ۵۵۰ جلد سو تا رستہ میں جو علاقے آئیں ان میں اشاعت اسلام ہو سکے.ہماری جماعت بھی اللہ تعالٰی نے اسی سنت کے ماتحت قائم کی ہے اور احمدی مختلف مقامات پر پھیلے ہوئے ہیں اور چونکہ یہ زمانہ جنگ کا نہیں اس لئے ہجرت کا بھی حکم نہیں دیا گیا.صرف یہ حکم ہے کہ جن کو توفیق ملے وہ قادیان میں جمع ہوتے جائیں.تا سب مل کر یہاں نظام کو مضبوط کر سکیں.مگر یہ حکم لازمی نہیں جن کو سامان میسر آگئے وہ تو یہاں جمع ہو گئے ہیں اور جن کو سامان میسر نہیں وہ نہیں آئے.اسی چھینٹے میں مختلف علاقوں میں مختلف مدارج کے لوگ پیدا ہوئے ہیں.افغانستان میں سید عبد اللطیف صاحب، نعمت اللہ صاحب اور کئی شہداء پیدا ہوئے.پھر کئی ان میں سے قادیان آگئے اور ان کے ذریعہ تمام علاقہ میں تبلیغ ہو گئی.ورنہ کہاں ہندوستان اور کہاں افغانستان ہمارے لئے تو سرحدوں پر بھی تبلیغ کرنا مشکل تھا مگر یہ اللہ تعالی کی مشیت تھی کہ وہ ان لوگوں کو سرحدوں سے پارلے گیا تا اس تمام علاقہ میں تبلیغ ہو سکے.چنانچہ کل ہی مجھے ایک پٹھان کی بیعت کا خط آیا ہے اس نے لکھا ہے کہ عرصہ ہوا میں نے مولوی نعمت اللہ صاحب سے احمدیت کے متعلق بات سنی تھی اور اس وقت سے برابر تحقیقات کرتا رہا اس اثناء میں میں اپنے گھر کو چھوڑ کر مختلف علاقوں میں پھرتا رہا ہوں اور اب مجھے بیعت کی توفیق ملی ہے.اور اسی طرح ابتدائی ایام میں سیٹھ عبدالرحمن حاجی اللہ رکھا صاحب احمدی ہوئے ان کو مدراس میں اللہ تعالیٰ نے بیعت کی توفیق دی، کسی کو بہار اور کسی کو بنگال میں اور کسی کو یوپی میں بیعت کی توفیق نصیب ہوئی اور ان سب نے اپنی اپنی جگہ احمدیت کو پھیلانا شروع کر دیا.ان ہی میں سے ایک حیدر آباد کی جماعت ہے جو یہاں سے قریباً ڈیڑھ ہزار میل دور ہے بیچ میں ایک لمبا علاقہ ہے جہاں نام کو بھی کوئی احمدی نہیں.سی پی کا علاقہ بیچ میں ہے اس میں جتنے احمدی ہیں وہ سب مل کر بھی شاید شہر حیدر آباد کی جماعت کے برابر نہ ہوں.یوپی میں بھی بہت کم ہیں اور ان سب علاقوں کو پار کر کے اللہ تعالٰی نے حیدر آباد میں ایک جماعت قائم کر دی اور وہاں ایسے مخلص احباب پیدا ہوئے جنہوں نے احمدیت کے لئے بہت قربانیاں کی ہیں اور ایثار سے کام کیا.وہاں جماعت مولوی محمد سعید صاحب کے ذریعہ قائم ہوئی.اڑیسہ میں ایک گاؤں سنبل پور سارے کا سارا احمدی ہے اور وہ بھی دراصل حیدر آباد کی ہی پیدا شدہ جماعت ہے.سید عبدالرحیم صاحب وہاں کے رہنے والے حیدر آباد گئے تھے وہاں وہ مولوی محمد سعید صاحب سے ملے مولوی صاحب نے انہیں تبلیغ کی اور بعض کتابیں بھی دیں جن کے مطالعہ سے وہ احمدی
خطبات محمود ۵۵۱ چاند سوم ہو گئے.اور پھر ان کے اثر کی وجہ سے یہ گاؤں سارے کا سارا احمدی ہو گیا.اس وقت میں جن کی لڑکی کے نکاح کا اعلان کرنے والا ہوں وہ حیدر آباد کے رہنے والے سیٹھ محمد غوث ہیں وہ بھی ان مخلصین میں سے ہیں جن کا دل خدمت سلسلہ کے لئے گداز ہے اور وہ اس کا بہت ہی احساس رکھتے ہیں.ہیں تو وہ پہلے سے احمدی مگر میرے ساتھ ان کی واقفیت جو ہوئی تو وہ حج کو جاتے ہوئے ۱۹۱۲ء میں ہوئی تھی.شاید ان کو علم ہو کہ میں جارہا ہوں یا شاید وہ تجارت کے سلسلہ میں وہاں آئے ہوئے تھے بہر حال ان سے میری پہلی ملاقات وہاں ہوئی اور پھر ایسے تعلقات قائم ہو گئے کہ گویا واحد گھر کی صورت پیدا ہو گئی مستورات کے بھی آپس میں تعلقات ہو گئے.حج کے موقع پر عبدالحی عرب بھی میرے ساتھ تھے وہاں سے روانگی کے وقت سیٹھ صاحب نے ان کو بعض چیزیں دیں جن میں ایک گلاس بھی تھا.وہ انہوں نے عبد الحی صاحب کو یہ کہہ کر دیا تھا کہ جب آپ اس میں پانی پئیں گے تو میں یاد آجاؤں گا اور اس طرح آپ میرے لئے دعا کی تحریک کر سکیں گے.غرض سیٹھ صاحب حیدر آباد کے نہایت مخلص لوگوں میں سے ہیں.چندہ کی فراہمی کے لحاظ سے جماعت میں اتحاد و اتفاق قائم رکھنے کے لحاظ سے انہوں نے بہت اچھا کام کیا ہے اور بغیر اس کے کہ کوئی وقفہ پڑا ہو کیا ہے اور ان کے اخلاص کا ہی نتیجہ ہے کہ ان کو اولاد بھی اللہ تعالٰی نے مخلص دی ہے.بعض لوگ خود تو مخلص ہوتے ہیں مگر ان کی اولاد میں وہ اخلاص نہیں ہو تا مگر سیٹھ صاحب کی اولاد بھی مخلص ہے.ان کے بڑے لڑکے محمد اعظم صاحب میں ایسا اخلاص ہے جو کم نوجوانوں میں ہوتا ہے تبلیغ اور تربیت کی طرف انہیں خاص توجہ ہے.میں نے دیکھا ہے ریاستوں میں تبلیغ کرنے سے لوگ عام طور پر ڈرتے ہیں اور کوئی بات ہو بھی تو کوشش کرتے ہیں کہ بڑے بڑے لوگوں کو اس کی اطلاع نہ ہو سکے مگر میں نے دیکھا ہے محمد اعظم صاحب کو شوق ہے کہ ریاست میں کھلی تبلیغ اور اشاعت کی جائے اس کے متعلق وہ مجھ سے بھی مشورے لیتے رہے ہیں اور وہاں بھی نوجوانوں میں جوش پیدا کرتے رہتے ہیں.دوسرے لڑکے معین الدین ہیں وہ بھی بہت اخلاص سے سلسلہ کے کاموں میں حصہ لیتے ہیں اور خدام الاحمدیہ کی تحریک میں بہت جدوجہد کرتے ہیں.ہاتھ سے کام کرنے کی تحریک کو مقبول بنانے کا بھی انہیں شوق ہے.لڑکیوں میں سے ان کی بڑی لڑکیوں کے تعلقات امتہ الحی مرحومہ کے ساتھ تھے.پھر ان کی چھوٹی لڑکی خلیل کے ساتھ بیاہی گئی جو تحریک جدید کا مجاہد ہے اس لڑکی کے امتہ القیوم کے ساتھ بہنوں جیسے تعلقات ہیں اور شروع سے اب تک اس
خطبات ۵۵۲ جلد سوم خاندان نے ایسے اخلاص کے ساتھ تعلق رکھا اور اسے نباہا ہے کہ اس میں کبھی بھی کمی نہیں آئی.اللہ تعالیٰ ایسے مخلص کے لئے ذرائع بھی خود مہیا کر دیتا ہے ان کے لڑکوں کی شادیاں بھی ایسے گھرانوں میں ہوئی ہیں جو بہت مخلص ہیں.محمد اعظم کی شادی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مخلص اور فدائی صحابی حکیم محمد حسین صاحب قریشی موجد مفرح عنبری کی لڑکی سے ہوئی ہے.قریشی صاحب بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ابتدائی صحابہ میں سے تھے اور ایسے مخلص تھے کہ اللہ تعالٰی نے ہر ابتلاء سے انہیں بچالیا.جب پہلے پہل خلافت کا جھگڑا اٹھا تو خواجہ صاحب اور ان کے ساتھیوں نے لاہور کی جماعت کو جمع کیا اور کہا کہ دیکھو سلسلہ کس طرح تباہ ہونے لگا ہے یہ حضرت خلیفہ المسیح الاول کی خلافت کا زمانہ تھا جب میر محمد اسحق صاحب نے بعض سوالات لکھ کر دیئے تھے اور آپ نے جواب کے لئے وہ باہر کی جماعتوں کو بھیجوا دیئے تھے.اس وقت لاہور کی ساری کی ساری جماعت اس پر متفق ہو گئی تھی کہ دستخط کر کے خلیفہ اول کو بھجوائے جائیں کہ خلافت کا یہ طریق احمد یہ جماعت میں نہیں بلکہ اصل ذمہ دار جماعت کی انجمن ہے.جب سب لوگ اس امر کی تصدیق کر رہے تھے قریشی صاحب خاموش بیٹھے رہے اور کہا کہ میں سب سے آخر میں اپنی رائے بتاؤں گا.آخر پر ان سے پوچھا گیا تو انہوں نے بڑے زور سے اس خیال کی تردید کی اور کہا کہ یہ گستاخی ہے کہ ہم خلیفہ کے اختیارات معین کریں ہم نے ان کی بیعت کی ہے اس لئے ایسی باتیں جائز نہیں.وہ آخری آدمی تھے ان سے پہلے سب اپنی اپنی رائے ظاہر کر چکے تھے مگر ان کے اخلاص کا نتیجہ تھا کہ سب لوگوں کی سمجھ میں یہ بات آگئی اور خواجہ صاحب کے موید صرف وہ لوگ رہ گئے جو ان کے ساتھ خاص تعلقات رکھتے تھے.اسی طرح میری خلافت کے ابتدائی ایام میں بھی غیر مبائعین سے مقابلہ کرنے میں انہوں نے تندہی سے حصہ لیا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ان ہی کی معرفت لاہور سے سامان وغیرہ منگوایا کرتے تھے حضور خط لکھ کر کسی آدمی کو دے دیتے جو اسے حکیم صاحب کے پاس لے جاتا اور وہ سب اشیاء خرید کر دیتے گویا وہ لاہور میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ایجنٹ تھے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بھی ان سے بہت محبت رکھتے تھے.لاہور کی احمد یہ مسجد بھی انہی کا کارنامہ ہے دوسروں کا تو کیا کہنا میں خود بھی اس کا مخالف تھا کیونکہ میں سمجھتا تھا کہ یہ اتنا بڑا بوجھ ہے کہ جو لاہور کی جماعت سے اٹھایا نہ جاسکے گا مگر انہوں نے پیچھے پڑ کر مجھ سے اجازت لی اور ایک بھاری رقم کے خرچ سے لاہور میں ایک مرکزی مسجد
خطبات محمود بنادی.۵۵۳ جلد سوم سیٹھ صاحب کے دوسرے لڑکے کی شادی خان صاحب ذوالفقار علی خاں صاحب کی لڑکی سے ہوئی ہے.خاں صاحب بھی بہت مخلص آدمی ہیں اور گو وہ بہت پرانے نہیں مگر پیچھے آکر بھی انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے اپنے تعلقات مضبوط کئے اور بڑھائے تو ان کے لڑکوں کے رشتے بھی اللہ تعالیٰ نے مخلص گھرانوں میں کرا دیئے.لڑکیوں کی شادیاں بھی وہ چاہتے تھے کہ پنجاب میں ہی ہوں غرض امتہ الحفیظ کا نکاح تو خلیل احمد صاحب سے ہو گیا جو مجاہدین میں سے ہیں اور سلسلہ کے ان بچوں میں سے ہیں جن پر امید کی جاتی ہے کہ وہ اپنی قربانیوں سے سلسلہ کی ترقی کا باعث ہوں گے اور چھوٹی لڑکی امتہ الٹی کے نکاح کا اعلان میں اس وقت کر رہا ہوں جو خان صاحب ڈاکٹر محمد عبد اللہ صاحب کے ایک قریبی عزیز اور شاید بھانجے محمد یونس صاحب کے ساتھ قرار پایا ہے اس رشتہ میں بھی سیٹھ صاحب نے اخلاص مد نظر رکھا ہے.تمدن کے اختلاف کی وجہ سے میں ان کو لکھتا تھا کہ حیدر آباد میں ہی رشتہ کریں مگر ان کی خواہش تھی کہ قادیان یا پنجاب میں ہی رشتہ ہو تا قادیان آنے کے لئے ایک اور تحریک ان کے لئے پیدا ہو جائے.محمد یونس صاحب ضلع کرنال کے رہنے والے ہیں جو دہلی کے ساتھ لگتا ہے ہے مگر حیدر آباد کی نسبت قادیان سے بہت نزدیک ہے.سیٹھ صاحب کا خاندان ایک مخلص خاندان ہے ان کی مستورات کے ہمارے خاندان کی مستورات، ان کی لڑکیوں کے میری لڑکیوں سے اور ان کے اور ان کے لڑکوں کے میرے ساتھ ایسے مخلصانہ تعلقات ہیں کہ گویا خانہ واحد والا معاملہ ہے.ہم ان سے اور وہ ہم سے بے تکلف ہیں اور ایک دوسرے کی شادی و غمی کو اسی طرح محسوس کرتے ہیں جیسے اپنے خاندان کی شادی و غمی کو.ان کی لڑکی امتہ الحی کا نکاح ایک ہزار روپیه مهر پر محمد یونس صاحب ولد عبد العزيز صاحب ساکن لاڈ وہ ضلع کرنال کے ساتھ قرار پایا ہے سیٹھ صاحب نے لڑکی کی طرف سے مجھے ولی مقرر کیا ہے.اس نکاح کے ساتھ ہی حضور نے ایک اور نکاح کا اعلان بھی فرمایا جو میاں غلام حسین صاحب رہتاسی کے ایک پوتے اور ایک پوتی کا تھا.حضور نے فرمایا.میں نے پہلے اس کاغذ کو نہیں دیکھا تھا.میاں غلام حسین صاحب بھی بڑے پرانے احمدی ہیں اور انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بہت خدمت کی ہے.ہم بہت چھوٹے تھے جب وہ نانبائی کا کام کیا کرتے تھے ان کے لڑکے بھی اس وقت ہمارے ہاں ہی رہا
خطبات محمود ۵۵۴ جلد سوم کرتے تھے اور انہوں نے ایک حصہ تک تعلیم بھی ہمارے ہاں ہی رہتے ہوئے پائی ان میں سے ملک محمد حسین صاحب جن کی لڑکی کا اس وقت نکاح ہے میرے بچپن کے دوست تھے اور ہم سالها سال تک اکٹھے رہے ہیں وہ افریقہ چلے گئے تھے اور بیرسٹر ہو گئے تھے مگر اب فوت ہو چکے الفضل ۵- نومبر ۱۹۴۱ء صفحه ۴۷۳) ہیں.له الفضل ۱۶ ستمبر ۱۹۴۱ء صفحہ ۲.
بیاد موم ۵۵۵ ۱۲۳ اعمال نیتوں کے تابع ہوتے ہیں (فرموده ۲ ستمبر ۱۹۴۲ء) ۲ ستمبر ۱۹۴۲ء بعد نماز ظہر حضرت مصلح موعود نے حضرت مولانا سید محمد سرور شاہ صاحب کی بیٹی ناصرہ بیگم صاحبہ کا نکاح ایک ہزار روپیہ مہر پر مکرم عبدالرحیم صاحب ولد میاں عبد اللہ خان صاحب افغان کے ساتھ اور محترم ماسٹر احمد حسین صاحب فرید آباد مرحوم کی بیٹی حمیدہ بیگم صاحبہ کا نکاح مکرم سید نذیر احمد صاحب ابن سید محمد صاحب مرحوم امرتسر کے ساتھ سات سو روپیہ مہر پر پڑھا.اے خطبہ مسنونہ کی تلاوت کے بعد حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے فرمایا : نکاح کے متعلق رسول کریم ﷺ نے جن کلمات سے ابتداء فرمائی ہے وہ کلمات حمد ہیں.فرماتے ہیں الْحَمدُ لِلَّهِ نَحْمَدُ : - سے سب تعریفیں اللہ ہی کی ہیں اور ہم اسی کے بتائے ہوئے طریقوں کے مطابق اس کی تعریف کرتے ہیں یا یہ کہ سب تعریفیں اللہ ہی کی ہیں اور ہم اس کی ان صفات کے ظہور کی وجہ سے جو صفات حمدیہ ہیں اور جن سے ہم نے بھی حصہ پایا ہے ان لوگوں میں سے ہیں جو خدا تعالیٰ کی حمد کرتے ہیں گویا الحمد للہ نے اللہ تعالیٰ کی صفات کو علمی رنگ میں بیان فرمایا ہے مگر نحمدہ نے ان کا عملی اظہار کیا ہے اور ہم ان صفات کے ظہور کو اپنے نفس میں بھی دیکھ چکے ہیں.اور اپنے نفس میں ان صفات کے ظہور کو دیکھنے کے بعد اس امر کا اقرار کرنے سے نہیں رہ سکتے کہ ہم بھی اس کی تعریف کرنے پر مجبور ہیں اور ہم پر اس کی تعریف واجب ہے.
خطبات محمود ۵۵۶ ان کلمات سے معلوم ہوتا ہے کہ جیسے اور بڑے بڑے کاموں کو رسول کریم نے مومن کے لئے بشارت اور برکت کا موجب قرار دیا ہے اور ان کو برکت اور بشارت کا موجب بنانے کی تاکید فرمائی ہے ویسے ہی نکاح کو آپ نے برکت اور بشارت کا موجب بنانے کی تحریک فرمائی ہے کیونکہ اگر نکاح برکت اور بشارت کا موجب نہیں تو اس کی ابتداء میں الحمد للہ کہنے کے کوئی معنے نہیں اور اگر نکاح ہمارے لئے برکت اور بشارت کا موجب نہیں تو ہمارے منہ سے حمد اس موقع پر زیب نہیں دیتی.ہزاروں آدمی دنیا میں اس قسم کے موجود ہیں جو ان غلط خیالات میں مبتلاء ہیں کہ شادیاں وبال جان ہوتی ہیں لڑکیوں میں بھی ایسی ہیں اور لڑکوں میں بھی ایسے ہیں خصوصاً یورپ اور امریکہ می ۴۰ ۵۰۰ - ۵۰ سال تک لوگ شادیاں نہیں ، کرتے اور جب ان سے پوچھا جائے کہ کیوں نہیں کرتے تو وہ کہتے ہیں جتنے دن بھی آزادی اور آرام کے مل جائیں اتنا ہی اچھا ہے.یہی حال لڑکیوں کا ہے وہ چالیس چالیس، پچاس پچاس سال کی عمر تک آزاد رہتی ہیں اور جب ان سے پوچھا جائے تو وہ کہتی ہیں اول تو ہم نے شادی کرنی ہی نہیں اور اگر کرنی ہی پڑی تو اس سے پہلے جتنے دن آزادی کے میسر آجائیں اتنا ہی غنیمت ہے.گویا شادی اور بیاہ کو وہاں کی لڑکیاں اور لڑکے قید خیال کرتے ہیں.جس کے دوسرے معنے یہ ہیں کہ وہ اس کو حمد کا موجب قرار نہیں دیتے.ایسا عقیدہ رکھنے والا انسان نکاح کی تقریب پر الحمد للہ کہنے کا مستحق نہیں اور اگر وہ کہتا ہے تو منافقت سے کام لیتا ہے.جب تک کوئی شخص اس عقیدہ کا پیرو نہ ہو اور اسے دل سے تسلیم کرنے والا نہ ہو کہ نکاح اللہ تعالٰی کی برکات میں سے ایک برکت ہے اور اس کی رحمتوں میں سے ایک بڑی رحمت ہے اور اللہ تعالیٰ کے قائم کئے ہوئے نظام کی تکمیل کا ذریعہ ہے اور اللہ تعالی کے فضل کو ہم پر نازل کرنے کا ایک سبب ہے اس وقت تک کوئی انسان سچے دل سے یہ الفاظ نہیں کہہ سکتا.پھر دوسرا حصہ جو نَحْمَدُ ؛ کا ہے کہ ہم حمد کرتے ہیں اس کے خلاف بھی بہت سے لوگ دنیا میں پائے جاتے ہیں.ہزار ہا لوگ ایسے ہیں جو شادی کرتے وقت بھی انصاف اور محبت کی بنیاد رکھنے کے لئے تیار نہیں ہوتے.وہ شادیاں کرتے ہیں مگر ان کی نیتوں اور ارادوں میں کبھی دو سروں سے بدلہ لینا ہوتا ہے، کبھی فتنہ و فساد کی آگ کو بھڑکانا ہوتا ہے، کبھی گھر کے کام کاج کے لئے ایک نوکر لانا ہوتا ہے اور کبھی اس قسم کے اور نتیح و غلیظ اور خبیث خیالات ان کے دلوں میں پائے جاتے ہیں.بعض دفعہ ادنی اونی ضرورتوں کو پورا کرنا ان کا مقصد ہوتا ہے، بعض
خطبات محمود ۵۵۷ دفعہ ایک انسان کو غلامی کا طوق پہنانا ان کے مد نظر ہوتا ہے اور بعض دفعہ اپنے ماں باپ یا دوسرے عزیزوں اور رشتہ داروں کا بغض نکالنا ان کا منشاء ہوتا ہے.جو شخص اپنے دل میں اس قسم کے ارادے رکھ کر نکاح کی مجلس میں حاضر ہوتا ہے وہ کب سچے دل سے نحمدُ ، کہہ سکتا ہے.وہ تو اپنا بغض نکالنا چاہتا ہے، وہ تو گھروں کے امن کو برباد کرنے کا ارادہ کر چکا ہوتا ہے، وہ تو اپنے پرانے شکوے کو ناقابل معافی سمجھ کر شریعت کے احکام کو رد کرنے کے لئے تیار ہو کر آتا ہے اور سمجھتا ہے کہ جو شکوے میرے دل میں ہیں اسے اب کوئی معافی مٹا نہیں سکتی.ایسے خیالات کے ہوتے ہوئے وہ کس طرح حمد کر سکتا ہے یا اگر وہ نکاح کے ذریعہ کسی کی گردن میں غلامی کا طوق ڈالنے کا ارادہ کرتا ہے اور اپنی بیوی کو اپنا ہمراز اور ہم سفر بنانے کی بجائے اسے ایک نوکر کی حیثیت سے لانے کے لئے نکاح کرتا ہے تو وہ کس طرح حمد کر سکتا ہے.اگر وہ حمد کر سکتا ہے تو وہ ڈا کو بھی الحمد للہ کہہ سکتا ہے جو کسی کو مار کر اس کی جیب میں سے دو چار روپے نکال لیتا ہے، اگر وہ حمد کر سکتا ہے تو وہ چور بھی الحمد للہ کہہ سکتا ہے جو کسی کے مکان میں سیندھ لگا کر اس کا ٹرنک اٹھائے جائے اور راستہ میں کہتا چلا جائے کہ الحمد للہ میں چوری میں کامیاب و گیا.اگر ان خیالات کے ساتھ نکاح میں شامل ہونے والا نحمدُ ، کہہ سکتا ہے تو وہ ظالم اور جابر بادشاہ جو لاکھوں اور کروڑوں لوگوں کو تہ تیغ کر کے ہزاروں اور لاکھوں گھرانوں کو برباد کر دیتا ہے، جو ملکوں کے ملک تباہ کر دیتا ہے، جو لوگوں کی لاشوں کو روند کر فخر محسوس کرتا ہے وہ بھی کہہ سکتا ہے الحمد للہ میں نے ایک لاکھ آدمی مروا ڈالے، میں نے ایک لاکھ عورتوں کو بیوہ بنا دیا، میں نے چار لاکھ بچوں کو یتیم بنا دیا اگر ایسا شخص الحمد للہ کے تو اس طرح الحمد للہ کہنے والے پر لوگ لعنت بھیجیں گے.اور اس کی حمد کو عجیب سمجھیں گے.وہ کہیں گے اسے تو چاہئے تھا کہ استغفراللہ کہتا مگر وہ کہ الحمد للہ رہا ہے.تو آیات نکاح کو اَلْحَمْدُ لِلهِ نَحْمَدُ ؟ سے شروع کر کے رسول کریم ﷺ نے ہمیں یہ نصیحت فرمائی ہے کہ ہمارے نکاح حمد پر مبنی ہونے چاہئیں اور اگر انسان اس کی نیت کرلے تو اسے اللہ تعالیٰ کی طرف سے اپنی نیت کو پورا کرنے کی توفیق بھی مل جاتی ہے.نہ کرے تو توفیق نہیں ملتی.نیت کی مثال در حقیقت ایسی ہی ہے جیسے انسان کسی جہت کو اپنا منہ کرلیتا ہے.اگر کسی نے مشرق کی طرف منہ کر لیا ہو تو وہ مشرق کی طرف چلتا چلا جائے گا.مغرب کی طرف منہ کر لیا ہو تو مغرب کی طرف چلتا چلا جائے گا.گویا جس چیز کی نیت ہوگی ویسے ہی عمل کی اسے توفیق حاصل ہوگی اس لئے رسول کریم اے نے
د محمود ۵۵۸ فرمایا ہے اِنَّا الاعمال بالنیات سے یعنی اعمال نیتوں کے تابع ہوتے ہیں اور پھر فرمایا من كانَتْ هِجْرَتُهُ إِلَى اللهِ وَرَسُولِهِ فَهِجْرَتُهُ إِلَى اللهِ وَ رَسُولِہ سے جو شخص ایسا ہو کہ اس نے خدا اور اس کے رسول کی خاطر ہجرت کی ہو اسے ہجرت کے بعد خدا تعالی کی طرف سے ایسے ہی اعمال کی توفیق مل جاتی ہے اور اس کی ہجرت خدا اور اس کے رسول کے لئے ہو جاتی ہے.وَمَنْ كَانَتْ هِجْرَتُهُ إِلى دُنْيَا يُصِيبُهَا أَوْ اِمْرَأَةَ تُزَوِّجُهَا - شے لیکن اگر اس کی ہجرت کی نیت کسی دنیوی مقصد کے لئے یا کسی عورت کے لئے ہو جس سے وہ شادی کرنا چاہتا ہے فَهِجُرَتُهُ إِلَى مَا هَاجَرَ اللهِ تو اس کی ہجرت اس کے لئے ہوگی جس کی اس نے نیت کی ہے.تو رسول کریم ﷺ نے اس حدیث میں یہ بیان فرمایا ہے کہ انسان کی نیتوں کے تابع اس کے اعمال ہوتے ہیں.اگر وہ نیت پوری نہیں کرتا یا ادنی اور ناقص نیت کرتا ہے تو ایسی نیست کے نتیجہ میں اس سے ادنی اور ناقص اعمال ہی سرزد ہوں گے اور اگر وہ اعلیٰ نیت کرتا ہے تو اس کی نیت کے نتیجہ میں اعلیٰ درجہ کے اعمال صادر ہوں گے.اب ہجرت بظاہر ایک ہی چیز ہے مگر ایک ہجرت انسان کو خدا تک پہنچا سکتی ہے، ایک ہجرت اسے دنیا دار بنا سکتی ہے اور ایک ہجرت اسے گھر یلو اور پالتو جانوروں کی حیثیت دے دیتی ہے.اسی طرح نکاح کا نعل ایک ہی ہے مگر کوئی نکاح ایسا ہوتا ہے جو انسان کے خیالات اور اس کے حوصلوں کو بلند اور وسیع کر دیتا ہے.اس کے ذریعہ امن قائم ہوتا اور فسادات کا قلع قمع ہو جاتا ہے.چنانچہ بعض دفعہ ایک نکاح کے ذریعہ ملکوں میں امن قائم ہو جاتا ہے جب مختلف بادشاہوں کے بیٹوں بیٹیوں کی آپس میں شادیاں ہوتی ہیں تو بسا اوقات اس کے نتیجہ میں ملکوں کی آپس میں لڑائیاں دور ہو جاتی ہیں اور امن قائم ہو جاتا ہے وہ بظاہر ایک مرد اور ایک عورت میں شادی ہوتی ہے مگر صلح ملکوں میں ہو جاتی ہے.اسی طرح بعض دفعہ قبائل میں صلح ہو جاتی ہے شادی تو ایک قبیلہ کے لڑکے کی دوسرے قبیلہ کی لڑکی سے ہوتی ہے مگر اتفاق و اتحاد دو قبیلوں کے اندر قائم ہو جاتا ہے.بعض دفعہ دو خاندانوں میں شادی کے نتیجہ میں صلح اور محبت پیدا ہو جاتی ہے اور آپس کی لڑائیاں دور ہو جاتی ہیں مگر اس کے بالکل الٹ بعض دفعہ شادی تو ایک مرد اور ایک عورت کی ہوتی ہے مگر لڑائی ملکوں میں شروع ہو جاتی ہے.بادشاہ کے بیٹوں اور بیٹیوں کی شادیاں ہوتی ہیں مگر ان کے دلوں میں کھوٹ ہوتا ہے نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ملکوں اور قوموں میں لڑائیاں شروع ہو جاتی ہیں.گویا وہ شادی بجائے اس کے کہ ایک مرد اور عورت کے دل میں محبت پیدا کرنے کا موجب
خطبات محمود ۵۵۹ جلد سوم ہو جاتی وہ لاکھوں اور کروڑوں لوگوں کے دلوں میں کینہ اور بغض پیدا کرنے کا موجب بن جاتی ہے.اس طرح بعض دفعہ قبائل میں شادیاں ہوتی ہیں مگر بجائے اس کے کہ وہ مرد اور عورت کے دل میں محبت پیدا کرنے کا موجب ہوں قبائل میں فتنہ و فساد کی آگ بھڑ کانے کا موجب بن جاتی ہیں اور ان میں آپس میں لڑائی شروع ہو جاتی ہے اور بعض دفعہ اگر دو خاندانوں میں لڑائی نہیں ہوتی تو کم سے کم مرد اور عورت کی آپس میں ہمیشہ لڑائی رہتی ہے حالانکہ مرد نکاح کی مجلس میں براہ راست حاضر ہو کر اور عورت اپنے ولی کے ذریعہ اقرار کرتی ہے کہ وہ آپس میں میاں بیوی بن کر رہیں گے.مرد بھی اس کا اقرار کرتا ہے اور عورت بھی اس کا اقرار کرتی ہے لیکن وہ دونوں ہی سب سے زیادہ اس اقرار کی بے حرمتی کرنے والے ہوتے ہیں.وہ مجلس میں کہتے ہیں کہ ہمیں نکاح منظور ہے مگر ان کا رات دن کا چین یہ ہوتا ہے کہ عورت جو بات کہتی ہے مرد کہتا ہے کہ میں اسے ماننے کے لئے تیار نہیں اور مرد جو بات کہتا ہے عورت اسے ماننے کے لئے تیار نہیں ہوتی.گویا وہی دو افراد جو مجلس میں سب کے سامنے یہ عہد کرتے ہیں کہ وہ آپس میں محبت اور پیار سے رہیں گے اس عہد کی رات اور دن خلاف ورزی کرتے رہتے ہیں.وہ مونہہ سے نہیں کہتے کہ ہم اس محمد کی خلاف ورزی کر رہے ہیں مگر اپنے عمل سے اس کا اظہار کرتے ہیں.در حقیقت رسول کریم ﷺ نے حمد سے کلمات نکاح شروع کر کے بتایا ہے کہ یہ طریقہ اچھا نہیں تم کو اپنے نکاحوں کی بنیاد ایسے طریق پر رکھنی چاہئے جو حمد پیدا کرنے کا موجب ہو تا کہ تم سچے دل سے نَحْمَدُہ کے مقام پر کھڑے ہو سکو اور تمہارے دل سے ہر وقت اللہ تعالی کی حمد بلند ہوتی رہے.الفضل ۲ دسمبر ۱۹۶۰ء صفحه ۴۷۳) ه الفضل ۲ ستمبر ۶۱۹۴۲ له این ماچه ابواب النکاح باب خطبة النكاح ه بخاری باب كيف كان بدء الوحى إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم ه بخاری کتاب الایمان والنذور باب ما جاء أن الاعمال بالنية والحسبة ولكل امرى مانوى...
خطبات محمود ۵۶۰ ۱۲۴ جلد سوم خد اتعالیٰ کا وعدہ ہے کہ قادیان بہت ترقی کرے گا (فرموده ۹ - ستمبر ۱۹۴۲ء) ۹ ستمبر ۱۹۴۲ء بعد نماز عصر مسجد مبارک قادیان میں حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے مکرم میاں صلاح الدین صاحب ابن جناب مولوی فضل الدین صاحب وکیل کا نکاح محترمہ اقبال جہاں بیگم بنت کیپٹن عمر حیات خان صاحب ساکن بنوں سے ایک ہزار روپیہ مہر پر پڑھا.اے خطبہ مسنونہ کی تلاوت کے بعد حضرت خلیفۃ المسیح الثانی نے فرمایا : اللہ تعالیٰ کی قدرت ہے اور وہی لوگ اس قدرت کا مشاہدہ کر سکیں گے اور کرتے ہوں گے اور اس سے لطف اٹھا سکتے ہوں گے جنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ابتدائی ایام کے حالات کو دیکھا ہو ، بعد میں آنے والے اس کا اندازہ اور قیاس نہیں کر سکتے.جبکہ قادیان ایک چھوٹی سی بستی تھی جب قادیان میں احمدیوں کی تعداد اس چھوٹی سی بستی میں بھی آٹے میں نمک کے برابر نہیں تھی، جب ساری احمدی آبادی صرف تین گھروں میں محصور تھی، ہمارا گھر تھا، حضرت خلیفہ اول کے مکان کا کچھ حصہ تھا یا وہ مکان تھا جہاں مولوی قطب الدین صاحب اب مطب کیا کرتے ہیں.اسی طرح تیسری عمارت موجودہ مہمان خانہ کی تھی، یہ یہ صرف چار عمارتیں اس زمانہ میں تمھیں درمیان کی عمارتیں، ساتھ کی عمارتیں، بورڈنگ اور مدرسہ کی عمارتیں سب بعد کی ہیں.خود یہ گھر جس میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام رہتے تھے بہت چھوٹا سا تھا اور اس کے کئی حصے اس وقت نہیں بنے تھے تو یہ تھوڑی سی آبادی تھی جو اس وقت احمدی جماعت کہلاتی تھی.مجھے یاد ہے میں نہیں کہہ سکتا کہ وہ پہلا جلسہ تھایا
خطبات محمود ۵۶۱ جلد سوم دوسرا پہلا تو غالبا نہیں ہو گا کیونکہ مجھے اس کا نظارہ اچھی طرح یاد ہے ۱۸۹۱ء میں پہلا جلسہ ہوا ہے اور اس وقت میری عمر بہت چھوٹی تھی اس لئے غالبا یہ دوسرا جلسہ ہو گا.مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ جہاں آج کل مدرسہ احمدیہ ہے یہاں ایک پلیٹ فارم بنا ہوا تھا.پہلے یہاں فصیل ہوا کرتی تھی گورنمنٹ نے اسے نیلام کردیا اور اس ٹکڑے کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے خرید لیا.جہاں تک مجھے یاد ہے یہ ٹکڑا زمین ستر روپوں میں خریدا گیا تھا حضرت خلیفہ اول ان دنوں جموں میں تھے جب آپ کو یہ اطلاع ہوئی کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام یہ زمین خریدنا چاہتے ہیں تو غالبا آپ نے ہی روپے بھجوائے تھے اور آپ کے روپوں سے ہی یہ زمین خریدی گئی تھی.اس وقت یہاں ایک چبوترہ سا تھا وہ جگہ اس سے کم ہی چوڑی تھی جتنی اس مسجد مبارک کی چوڑائی ہے لیکن لمبی چلی جاتی تھی مہمان خانے کے ایک سرے سے شروع ہو کر نواب صاحب کے مکانوں کی حد تک چلی گئی تھی اور وہاں فصیل کے گر جانے کی وجہ سے چبوترہ بنا دیا گیا تھا.دوسرا جلسہ یا دوسرے جلسے کا کچھ حصہ اس فصیل پر ہوا تھا.مجھے یاد ہے ہم اس وقت اس جلسہ اور اس کی غرض و غایت کو سمجھنے کی طاقت نہیں رکھتے تھے البتہ ایک بات مجھے اچھی طرح یاد ہے اور میں نے اس کے متعلق بعض پرانے لوگوں سے دریافت بھی کیا ہے مگر کسی نے مجھے صحیح جواب نہیں دیا اور وہ یہ کہ اس چبوترے پر دو چھوٹی چھوٹی دریاں بچھا دی گئی تھیں جن پر لوگ بیٹھے تھے یہ بات میری سمجھ میں اب تک نہیں آئی کہ اس وقت کیا ہوا کہ ان دریوں کو بار بار اٹھا کر جگہ بدلی گئی تھی اور کئی بار ایسا ہوا کہ پہلے ایک جگہ دریاں بچھائی جاتیں اور جب لوگ بیٹھ جاتے تو تھوڑی دیر کے بعد وہاں سے اٹھا کر دریاں اور جگہ بچھا دی جاتیں نہ معلوم دھوپ پڑتی تھی یا کوئی اور بات تھی.میں اس کے متعلق یقینی طور پر کچھ نہیں کہہ سکتا اور اس وقت سے لے کر اب تک مجھے کوئی ایسا آدمی ملا نہیں جو اس کی وجہ بتا تا.مجھے بچپن کے لحاظ سے یہ نظارہ خوب یاد ہے اور ایک تماشا سا لگتا تھا کہ پہلے لوگ ایک جگہ بیٹھے ہیں اور پھر یک دم کھڑے ہو کر دوسری جگہ بیٹھ جاتے ہیں غرض اس وقت احمدیت کی ساری کمائی دو دریوں پر آگئی تھی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس وقت کی تعداد اپنی ایک کتاب "آئینہ کمالات اسلام" میں شائع کی ہے اس کو دیکھا جائے تو معلوم ہو سکتا ہے کہ اس وقت کتنے لوگ جلسہ میں شامل ہوئے پھر جس قدر نام حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام نے شائع کئے ہیں وہ سارے ایسے نہیں ہیں جو ایک وقت جلسہ میں شامل ہوئے ہوں
خطبات محمود ۵۶۲ جلد سوم اور نہ سارے بڑی عمر کے آدمی ہیں بلکہ ان میں سے کچھ حصہ تو بچوں کا ہے اور کچھ ایسا ہے جو ایک وقت جلسہ میں شامل ہوا اور پھر چلا گیا.جلسہ سالانہ چونکہ تین چار دن رہا تھا اس لئے ان شامل ہونے والوں میں سے کوئی ایک دن رہا اور چلا گیا، کوئی دو دن رہا اور چلا گیا، کوئی تین دن رہا اور چلا گیا اس لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے "آئینہ کمالات اسلام میں جلسہ میں شامل ہونے والوں کی ۳۲۷ تعداد لکھی ہے ان میں نہ تو سارے بالغ تھے اور نہ سارے ایک وقت میں جمع ہوئے تھے بلکہ میں جہاں تک سمجھتا ہوں ایک وقت میں زیادہ سے زیادہ سو ڈیڑھ سو آدمی جلسہ میں شامل ہوئے تھے اور کچھ ایسے بھی تھے جو تھوڑی دیر کے لئے آتے اور چلے جاتے.یہ جماعت احمدیہ کا دوسرا سالانہ جلسہ تھا اور اگر میرا حافظہ غلطی نہیں کرتا تو اس مسجد میں جتنے لوگ نظر آرہے ہیں ان سے کم ہی اس جلسہ میں نظر آتے تھے.پھر خدا نے یہ برکت دی کہ اس نے چاروں طرف سے لوگوں کو جمع کرنا شروع کر دیا اور اللہ تعالیٰ کا یہ الهام پورا ہونا شروع ہوا کہ يَأْتِيكَ مِنْ كُلِّ مَعَ عَمِيقٍ له يَأْتُونَ مِنْ كُلِّ فَجٍّ عَمِيقٍ له تیری طرف دور دور سے لوگ تحائف لے کر آئیں گے کہ سڑکوں میں گڑھے پڑ جائیں گے.اس الہام کے پورا ہونے کا جو لطف ہم لوگ اٹھا سکتے ہیں جنہوں نے پہلا نظارہ دیکھا ہوا ہے وہ لطف وہ لوگ نہیں اٹھا سکتے جنہوں نے قادیان کو بھر پور ہونے کی صورت میں دیکھا.وہ لوگ جنہوں نے قادیان کو ۱۹۰۰ ء میں دیکھا تھا انہیں بھی اب بہت بڑا فرق محسوس ہوتا ہے مگر ہمیں تو ۱۹۰۰ء کا قادیان بھی بہت آباد دکھائی دیتا ہے.پھر جنہوں نے ۱۹۰۷ء میں قادیان کو دیکھا وہ بھی اپنے دل میں اس کی موجودہ حالت کو دیکھ کر بہت بڑا فرق محسوس کرتے ہیں مگر ۱۹۰۷ء میں ہماری یہ کیفیت تھی کہ ہم سمجھتے تھے ہم ساری دنیا پر چھا گئے ہیں اور اب قادیان بہت آباد شہر ہو گیا ہے.اس طرح ۱۹۱۳ء میں قادیان کی اور حالت تھی ۱۹۱۴ء میں قادیان کی اور حالت ہو گئی.۱۹۱۷ء میں اس نے اور زیادہ ترقی کی اور ۱۹۴۰ ء میں اس کی آبادی میں اور زیادہ اضافہ ہو گیا.حتی کہ بعض وہ لوگ جنہوں نے میری خلافت کے ایام میں ہی قادیان کو دیکھا تھا جب وہ پانچ سات سال تک قادیان میں نہ آئے اور اس کے بعد انہیں قادیان کو دیکھنے کا موقع ملا تو انہوں نے ذکر کیا کہ پانچ سات سال کے بعد آکر ہم نے قادیان کو پہچانا نہیں.یہ کیسا عظیم الشان نشان ہے جو احمدیت کی صداقت کے متعلق خدا تعالیٰ نے ظاہر کیا.بے وقوف لوگ کہتے ہیں کہ دنیا
خطبات محمود ۵۶۳ میں بعض اور شہر بھی بڑھ جاتے ہیں حالانکہ ان شہروں کے بڑھنے کی وہ وجوہات نہیں تھیں.بے شک اب ہوتی جائیں گی کیونکہ خدا نے آخر قادیان کو ہمیشہ ان باتوں سے محروم نہیں رکھنا یہاں بھی تجارتیں ہوں گی اور نئے سے نئے کارخانے کھلتے چلے جائیں گے.مگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ابتدائے دعوئی سے لے کر آج سے دو تین سال پہلے تک قادیان کی ترقی کا کوئی مادی ذریعہ نہیں تھا مگر پھر بھی خدا نے اسے بڑھا کر دکھا دیا اور اس طرح ثابت کر دیا کہ احمدیت اس کے ہاتھ کا لگایا ہوا پودا ہے.اسی طرح قادیان میں جو مختلف قوموں کے افراد کے آپس میں پیوند لگتے ہیں وہ بھی اپنی ذات میں خدا تعالی کا ایک بہت بڑا نشان ہے.شاید قاریان میں جتنے نکاح مختلف قوموں اور مختلف علاقوں کے لوگوں کے آپس میں ہوتے ہیں حالانکہ قادیان کی آبادی صرف دس ہزار ہے اتنے نکاح مختلف علاقوں اور مختلف زموں کے لوگوں کے درمیان شاید لاہور جیسے شہر میں بھی نہیں ہوتے ہوں گے جس کی آبادی پانچ لاکھ کے قریب ہے.یہ ایک بہت بڑا نشان ہے جس کو ہم اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہیں.جب تک اس زمانہ کے لوگ زندہ رہیں گے ان نشانات کو تازہ رکھیں گے مگر بعد میں آنے والے ان نشانات کو صرف کتابوں میں پڑھیں گے اور کتابوں میں پڑھ کر وہ لطف نہیں اٹھا سکیں گے جو ہم اٹھاتے ہیں.ہم کتابوں میں ہمیشہ پڑھتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ کو کفار نے یہ دکھ دیا، وہ دکھ دیا اور پھر ان دکھوں کے بعد خدا تعالٰی نے کفار کو اس رنگ میں اپنے عذاب کا نشانہ بنایا مگر اس کا ہمیں وہ نہیں آسکتا جو حضرت ابو بکر اور دوسرے صحابہ کو آیا کرتا تھا اور نہ اگلی نسل کو وہ لطف آسکتا ہے جو آج ہمیں اللہ تعالٰی کے نشانات دیکھ کر آتا ہے آئندہ آنے والے دل کو تسلی دینے کے لئے ضرور خیال کر لیا کرتے ہیں کہ اتنی گری ہوئی حالت تو نہیں ہو سکتی تھی.بہر حال جو دیکھنے والے ہیں وہ جانتے ہیں کہ ہم میں سے کوئی یوپی کا باشندہ ہوتا ہے، کوئی سی پی اور بنگال کا رہنے والا ہوتا ہے، کوئی سرحد میں رہتا ہے، کوئی سندھ میں رہتا ہے، کوئی پنجاب میں رہتا ہے اور پھر ان کے آپس میں احمدیت کے ذریعہ اس طرح جوڑ ملتے ہیں کہ وہ دونوں ایک چیز ہو کر رہ جاتے ہیں.بعض دفعہ عادات کا فرق ہوتا ہے، بعض دفعہ رسم در اوج میں فرق ہوتا ہے، بعض دفعہ تمدن میں فرق ہوتا ہے، بعض دفعہ زبان میں فرق ہوتا ہے مگر پھر بھی ان کے آپس میں نکاح ہو جاتے ہیں.ہم نے قادیان میں ٹھیٹھ پنجابیوں کو ٹھیٹھ ہندوستانیوں سے بیاہ کرتے دیکھا ہے.ہم نے قادیان میں ایسا بھی دیکھا ہے کہ بیوی اردو کا ایک لفظ نہیں
خطبات ۵۶۴ جلد سوم بول سکتی اور خاوند پنجابی کا کوئی لفظ نہیں سمجھ سکتا.ہم نے قادیان میں خاوند کو پشتو میں بڑ بڑاتے ہوئے اور بیوی کو اردو میں چہچہاتے ہوئے دیکھا ہے مگر پھر ایسا بھی دیکھا ہے کہ بیوی کا سارا دن سرد تا چلتا رہتا ہے اور میاں نے عمر بھر کبھی پان نہیں کھایا ہو تا یہ نظارے ہم نے قادیان میں اکثر دیکھے ہیں.الفضل - ستمبر ۱۹۴۲ء کے تذکرہ صفحہ ۲۰۱- ایڈیشن چهارم ۲۹۷۰.ایڈیشن چهارم الفضل -۱۸ ستمبر ۱۹۴۲ء صفحہ )
خطبات ما ۵۶۵ ۱۲۵ جلد سوم ہر انسان دیکھے کہ اس نے کل کے لئے کیا بھیجا ہے (فرموده ۱۳- اکتوبر ۱۹۴۲ء) له خطبہ مسنونہ کی تلاوت کے بعد حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے فرمایا :- انسانی زندگی سب کی سب وَلَتَنْظُرْ نَفْسٌ مَا قَدَّمَتْ لِغَدِ لے کے ارد گرد چکر لگا رہی ہے.لیکن انسان کی عادت ہے کہ جہاں وہ اپنی امنگوں اور اپنے ارادوں کو مستقبل سے وابستہ کر لیتا ہے وہاں وہ اپنے اعمال اور اپنے افعال کو حاضر پر محصور کر دیتا ہے.حالانکہ اگر ایک گاڑی کے دو گھوڑے ہوں اور دونوں میں سے ایک کو پیچھے کی طرف باندھ دیا جائے اور دوسرے کو آگے کی طرف باندھ دیا جائے تو یقینی بات ہے کہ وہ گاڑی یا ٹوٹ جائے گی یا گر جائے گی.اس صورت میں گاڑی چل سکتی ہے، جب دونوں گھوڑے ایک طرف ہوں اسے تم مشرق کی طرف لے جاؤ یا مغرب کی طرف لے جاؤ ، شمال کی طرف لے جاؤ یا جنوب کی طرف لے جاؤ، اس کا سوال نہیں، بہر حال جدھر بھی گھوڑے لگا دو ادھر گاڑی چلی جائے گی.چاہے وہ غلط طرف ہی کیوں نہ جائے.لیکن اگر ایک گھوڑے کو ایک طرف باندھ دیا جائے اور دوسرے گھوڑے کو دوسری طرف باندھ دیا جائے تو پھر وہ گاڑی کہیں بھی نہیں جائے گی بلکہ ٹوٹ جائے گی.انسانی منزل کے بھی دو گھوڑے ہوتے ہیں اور دونوں گھوڑے انسانی ترقی کے لئے یک جا باندھے جاتے ہیں ان میں سے ایک انسان کے عمل ہوتے ہیں اور ایک اس کی امنگیں اور خواہشیں ہوتی ہیں.عمل امنگ کو بڑھاتا ہے اور امنگ عمل میں زیادتی کرتی ہے اور اس طرح ہر قدم جو ایک گھوڑے کا اٹھتا ہے وہ دوسرے کے آگے بڑھنے کا ذریعہ بن جاتا ہے.آخر امنگ کیا چیز
خطبات محمود ۵۶۶ جلد سوم ہے، امید کیا چیز ہے، امید اپنے حال کو مستقبل میں اور آگے دیکھنے کا ہی نام ہے اور ان دونوں میں کوئی نہ کوئی نسبت قائم ہوتی ہے ورنہ یوں تو ہر ایک شخص کے دل میں امنگ ہوتی ہے مگر ایک امنگ والے کو تم پاگل کہہ دیتے ہو اور دوسرے امنگ والے کے متعلق کہتے ہو کہ وہ بڑا باہمت اور ہوشیار ہے.ایک طالب علم کالج میں پڑھتا ہے، اسے امنگ ہوتی ہے کہ میں ایک دن بڑا فلسفی بنوں گا اور تم اسے دیکھ کر کہتے ہو، یہ طالب علم بڑا ہو نہار اور ذہین معلوم ہوتا ہے، اس کے ارادے بہت اونچے ہیں.وہ تاریخ پڑھ رہا ہوتا ہے اور کہتا ہے میں ایک دن بڑا مورخ بنوں گا، تمہیں معلوم نہیں ہو تاکہ وہ مورخ بنے گا یا نہیں، مگر تم کہتے ہو یہ طالب بڑا ہو نہار ہے ہو سکتا ہے کہ کسی دن بڑا مورخ بن جائے.کیونکہ تم اس کے عمل کو دیکھتے ہو اور جب تمہیں دکھائی دیتا ہے کہ وہ تاریخ اچھی طرح پڑھ رہا ہے تو تم قیاس کرتے ہو کہ اس کی یہ امنگ بھی درست ہے اور ہو سکتا ہے کہ وہ ایک دن مورخ بن جائے حالانکہ اس کی امنگ اور عمل میں اس وقت بہت بڑا فرق ہوتا ہے.مگر چونکہ وہ امنگ اس کے عمل کے مطابق ہوتی ہے اس لئے گو اس کی امنگ تو مستقبل کے متعلق ہے تو ایسی چیز کے متعلق جس کا وجود ابھی ظاہر نہیں مگر چونکہ وہ اسی جہت کی طرف جا رہا ہے جس جہت کی طرف اس کا عمل جا رہا ہے اس لئے تم کہتے ہو یہ بڑا ہو نہار اور ہوشیار ہے.اسی طرح ایک اور طالب علم کالج میں حساب پڑھتا ہے اور کہتا ہے میں ایک دن بڑا مندس بنوں گا.تم پر وفیسروں کے ساتھ اس کے تعلقات کو دیکھتے ہو ، تم اس کی اطاعت اور فرمانبرداری کی روح کو دیکھتے ہو، تم اس محبت کو دیکھتے ہو جو اسے حساب سے ہوتی ہے اور تم ان تمام باتوں کو دیکھ کر کہتے ہو یہ طالب علم بڑا ہو نہار ہے واقعی کسی دن مہندس ہو جائے گا.ایک شخص فقہ کی کتابیں پڑھ رہا ہوتا ہے، ان کے مطالعہ میں مصروف ہوتا ہے استاد کی باتوں پر غور کرتا ہے فقہ کے متعلق مختلف نوٹ لکھتا رہتا ہے اور کہتا ہے میرا ارادہ کسی دن بہت بڑا قیمہ بننے کا ہے تم ایسے شخص کو پاگل نہیں کہتے بلکہ تم کہتے ہو یہ شخص بڑا ہو شیار اور ہونہار ہے اس لئے کہ وہ قدم اسی طرف اٹھا رہا ہے جس طرف اس کی منزل ہے اور کو نظر اس کی آگے کی طرف ہے اور نظر ہمیشہ آگے ہی ہوتی ہے) مگر چونکہ اس کا قدم اسی طرف اٹھ رہا ہے جس طرف اس نے جاتا ہے اس لئے تم کہتے ہو یہ ٹھیک کہہ رہا ہے حالانکہ اس کے موجودہ مقام اور اس مقام میں جہاں وہ پہنچنے کا ارادہ رکھتا ہے بہت بڑا فرق ہے.اس کے مقابلہ میں ایک اور شخص ہل چلا رہا
خطبات محمود ۵۶۷ جلد سوم ہوتا ہے اور کہتا جاتا ہے میں ایک دن بڑا مہندس بنوں گا تم فورا اسے دیکھتے ہی کہہ دیتے ہو یہ شخص پاگل ہے.آخر یہ فرق کیوں ہے؟ اس کی منزل بھی دور ہے اور اس کی منزل بھی دور ہے مگر ایک کو تم پاگل کہہ رہے ہو اور دوسرے کو ہو نہار اور ہوشیار قرار دیتے ہو.فرق یہی ہے کہ ایک کا قدم مشرق کی طرف اٹھ رہا ہے مگر وہ جانا مغرب کی طرف چاہتا ہے اور دو سرا جس طرف جانا چاہتا ہے اسی طرف اپنا قدم بڑھا رہا ہوتا ہے.گویا ایک کی امنگ اور طرف جا رہی ہے اور عمل اور طرف جا رہا ہوتا ہے مگر دوسرے کی امنگ اس طرف جارہی ہوتی ہے جس طرف اس کا عمل جا رہا ہوتا ہے اگر اس کا عمل ایک طرف اور امنگ دوسری طرف تو تم کہہ دیتے ہو یہ شخص پاگل ہے.محض اس لئے نہیں کہ اس کا مستقبل نظر نہیں آتا اس بناء پر ہم کسی کو پاگل نہیں کہتے بلکہ پاگل ہم اس لئے کہتے ہیں کہ اس کی امنگ اور ہے اور عمل اور ہے.اس کے مقابلہ میں ایک اور شخص ہوتا ہے جس کا مستقبل اسی طرح نظر نہیں آتا جس طرح پہلے کا مستقبل نظر نہیں آتا مگر ہم کہتے ہیں وہ بڑے حوصلوں والا ہے، بڑے ارادوں والا ہے بلکہ ہم کہہ دیتے ہیں ”ہو نہار بروا کے چکنے چکنے پات " گویا ہم اس کی تصدیق کرتے ، اس کے جذبات کو پسند کرتے اور اس کے آئندہ مستقبل کے متعلق خود بھی امیدیں کرنے لگ اتے ہیں کیونکہ ہم دیکھتے ہیں جدھر اس کا قدم اٹھ رہا ہے ادھر ہی اس کی امید جا رہی ہے.لیکن ایک شخص جو جا تو بٹالے کی طرف رہا ہو اور کہتا یہ ہو کہ میں دریائے بیاس پہنچ جاؤں گا تو ہم کہیں گے یہ شخص پاگل ہے.گویا ہم کسی کو اس کی امنگ کی وجہ سے پاگل نہیں کہتے بلکہ امنگ اور عمل کے فرق کی وجہ سے پاگل کہتے ہیں.اللہ تعالٰی ہمیں قرآن کریم میں نصیحت فرماتا ہے کہ وَلَتَنْظُرُ نَفْسُ مَا قَدَّمَتْ لِغَدِ ہر انسان کو چاہئے کہ وہ اس بات پر غور کرے اور دیکھے کہ مَا قَدَّمَتْ لِغَدِ اس نے غدر کے لئے کیا بھیجا ہے اور اس کا عمل اس کی امنگ کے مطابق ہے یا نہیں.پھر فرماتا ہے وَاتَّقُوا اللهَ إِنَّ الله خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ سے تمہارے جو آئندہ کے متعلق امیدیں اور ارادے ہیں ان کے بارہ میں تم نے کبھی یہ بھی سوچا ہے کہ ان امیدوں اور تمہارے عمل میں کوئی مطابقت ہے یا نہیں.آخر آج سے ہی پیدا ہو گا غر غر سے پیدا نہیں ہو گا.مستقبل کیا ہے ؟ مستقبل حال کا بچہ ہے.اگر حال کا قدم اور طرف اٹھ رہا ہے تو لازما مستقبل بھی اسی حال کے مطابق ہو گا.گدھی کا بچہ آخر گدھا ہی ہو گا شیر نہیں ہو گا اور شیر کا بچہ شیری ہو سکتا ہے گائے یا بکری نہیں بن سکتا.پس
خطبات محمود ۵۶۸ جلد سوم فرمايا والتنظُرُ نَفْسَ مَا قَدَّمَتْ لِغَدٍ تم جو بڑی بڑی امنگیں کرتے ہو ہم تمہیں ان امنگوں سے منع نہیں کرتے.اگر وہ تمہارے عمل کے مطابق ہیں تو بے شک کرو.حضرت عمر فرماتے ہیں.نية المومِن خَيْرٌ مِنْ عَمَلِہ سے جس شخص کے دل میں ترقی کے متعلق کوئی امنگ نہیں کوئی خواہش اور امید نہیں وہ ایک ذلیل اور ناکارہ وجود ہے.اگر ایک شخص کے عمل ناکافی ہیں مگر اس کے باوجود یہ امید نہیں رکھتا کہ وہ کل اپنے خدا کو پالے گا تو اس کے متعلق ہم یہ نہیں کہیں گے کہ وہ بڑا نیک ہے بلکہ ہم کہیں گے وہ بے ایمان ہے.نیک ہم اس کو کہیں گے جس کا آج کا عمل بے شک کمزور ہو مگر اس کے دل میں یہ امید ہو کہ اگر آج وہ اپنے خدا سے نہیں ملا تو کل اس سے جائے گا.وہ آج نمازیں پڑھتا ہے، روزے رکھتا ہے، زکوۃ دیتا ہے، اور دوسری نیکیوں میں حصہ لیتا ہے مگر اس کے باوجود اگر اسے آج خدا نہیں ملتا تو وہ مایوس نہیں ہو جاتا بلکہ کہتا ہے کل میں اپنے رب کے پاس جا پہنچوں گا.گویا ہر وقت اس کے دل میں ایک امنگ اور امید تازہ رہتی ہے اور تھوڑے سے عمل کے باوجود خدا تعالی سے ملنے کی تڑپ ہر وقت اس کے دل میں موجود رہتی ہے ایسے شخص کے متعلق ہم بے شک کہیں گے کہ وہ نیک ہے.لیکن اگر یہ امنگ اس کے دل میں نہیں پائی جاتی تو ہم اسے اچھا نہیں کہیں گے.تو مستقبل کے متعلق امیدیں رکھنا ترقی کی ایک کلید ہے جو شخص مستقبل کے متعلق کوئی امید نہیں رکھتا وہ کبھی ترقی نہیں کر سکتا.پس حقیقت ہی ہے کہ نِيَّةُ المُؤْمِن خَيْرٌ مِنْ عَمَلِهِ مومن کی نیت اس کے عمل سے بہتر ہوتی ہے یعنی وہ جتنا کام کرتا ہے آئندہ اس سے زیادہ کام کرنے کی نیت رکھتا ہے.اگر کوئی شخص کسی راستہ پر جارہا ہو اور اس کی اپنے پیروں پر نظر ہو تو لازما وہ ٹھوکریں کھائے گا اسی طرح اگر وہ پیچھے کی طرف دیکھے گا تب بھی ٹھوکریں کھائے گا.کیونکہ ٹھوکر کی چیز آگے ہوتی ہے مگر جو آگے کی طرف دیکھتا ہے وہ ہر قدم کے اٹھانے سے پہلے اگلی چیزوں کو دیکھ لیتا ہے اور کہتا ہے یہ بھی ٹھوکر کی جگہ ہے وہ بھی ٹھوکر کی جگہ ہے اور بعد میں چاہے اس کی آنکھ کسی اور طرف ہو اس کے دماغ کے پیچھے جو علم جاری ہو گا وہ اسے بتا رہا ہو گا کہ اتنے فاصلہ پر ٹھوکر کا مقام ہے چنانچہ جب بھی وہ اس مقام پر پہنچے گا سنبھل جائے گا اور ٹھو کر کھانے سے محفوظ ہو جائے گا.تو امید میں انسانی ترقی کے لئے ایک نہایت ہی ضروری اور لازمی چیز ہیں ہاں جو امیدیں عمل کے مطابق نہ ہوں وہ انسان کی تباہی کا موجب بن جاتی ہیں.مگر کتنے لوگ ہیں جو اس اصل کے مطابق چلتے ہیں.دنیا میں اکثر ایسے ہی لوگ ہیں جو ایسی امیدیں
خطبات محمود ۵۶۹ جلد سو شخص کرتے ہیں جو ان کے عمل کے مطابق نہیں ہو تیں یا ان کے دلوں میں امنگیں تو ہوتی ہیں مگر ان امنگوں کو ان کے اعمال سے کوئی مناسبت نہیں ہوتی اور یا پھر ایسے لوگ پائے جاتے ہیں جن کے دلوں میں کوئی امنگ ہی نہیں ہوتی اور اس طرح وہ تباہ ہو جاتے ہیں.حالانکہ جس کے دل میں امنگ نہیں وہ کبھی کامیاب نہیں ہو سکتا.اور جس کی امنگ اس کے عمل کے مطابق نہیں وہ بھی کبھی کامیاب نہیں ہو سکتا.پس اللہ تعالٰی فرماتا ہے وَلْتَنْظُرُ نَفْسُ مَا قَدَّمَتْ لِغَدٍ امیدوں کو تم چھوڑو نہیں بلکہ غد کے متعلق تم ہمیشہ امیدیں لگاؤ اور ان کے مطابق عمل بھی کیا کرو.اور اگر آج تم امیدیں لگا بیٹھتے ہو اور ان کے مطابق عمل کرتے ہو تو تمہیں پھر بھی یہ یاد رکھنا چاہئے کہ اِنَّ اللهَ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ مستقبل تمہارے ہاتھ میں نہیں بلکہ خدا کے ہاتھ میں ہے.پس جس کے ہاتھ میں مستقبل ہے تم بھی اس کے ہاتھ میں اپنا ہاتھ دے دو تاکہ وہ مستقبل تمہاری امیدوں اور خواہشوں کے مطابق بنا دے.اگر تم خدا تعالی کو اپنا بنا لو گے تو تمہاری امنگ اور تمہارا عمل دونوں یکساں ہو جائیں گے.یہ نہیں ہو گا کہ تمہارا عمل کہیں پڑا رہے اور تمہاری امنگ کہیں بھاگی جارہی ہو.ه م م م م فریقین کا تعین نہیں ہو سکا.الحشر : 19 الحشر : ۱۹ الفضل ۲۳ اکتوبر ۱۹۴۲ء صفحه ۴۰۳
خطبات محمود ۵۷۰ ۱۲۶ جلد سوم وقف کی حقیقت و عظمت فرموده ۱۰ اپریل ۱۹۴۴ء) ۱۰ اپریل ۱۹۴۳ء بعد نماز عصر حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے مولوی نور الحق صاحب مولوی فاضل کا نکاح صفیہ صدیقہ بنت قاضی محمد رشید صاحب کے ساتھ پانچ سو روپیہ مہر پر اور سید محمد اکمل صاحب کا نکاح صادقہ بیگم بنت مرزا قدرت اللہ صاحب سے دو ہزار پانچسو روپیہ مصر پر پڑھا.اے خطبہ مسنونہ کی تلاوت کے بعد فرمایا میں اس وقت کچھ زیادہ نہیں کہنا چاہتا کیونکہ میں نے دعا کے لئے بھی جاتا ہے لیکن اس کے نکاح کی نسبت جس کے اعلان کے لئے میں کھڑا ہوا ہوں دو ضروری باتیں میں اس وقت کہنا چاہتا ہوں ایک تو جماعت کے لحاظ سے اور ایک ان لوگوں کے لحاظ سے جن کی وجہ سے مجھے اس بات کے کہنے کی ضرورت پیش آئی.قرآن کریم میں اللہ تعالى حكما فرماتا ہے وَلتَكُنْ مِنْكُمْ اُمَّةٌ يَدْعُونَ إِلَى الخَیر سے تم میں سے ایک جماعت حتمی طور پر ایسی ہونی چاہئے کہ وہ دعوت الی الخیر کرتی رہے.یہ جماعت جو کلی طور پر اپنے آپ کو دعوت الی الخیر کے ساتھ وابستہ کر دے گی یہ لازمی بات ہے کہ وہ اس قسم کے دنیوی فوائد حاصل نہیں کر سکے گی جس قسم کے دنیوی فوائد دوسرے لوگ حاصل کرتے ہیں یا اس قسم کی تعلیم حاصل نہیں کر سکتی جس قسم کی تعلیم آج کل دولت لایا کرتی ہے.وہ دین کی خاطر اپنے آپ کو وقف کرنے کے لئے اور دینی خدمات کرنے کے لئے لازماً ان ذرائع کو اپنے ہاتھ سے کھو بیٹھیں گے جو دولت لاتے ہیں یا آج کل کے معیار
خطبات محمود 841 جلد سوم کے لحاظ سے عزت لاتے ہیں کیونکہ آج کل ساری عزت دولت سے وابستہ ہے اور جب وہ اس معیار کو کھو بیٹھیں گے جس کے ذریعہ دولت کمائی جاتی ہے تو اس کے دوسرے معنے یہ ہوں گے کہ وہ دولت مند نہیں ہوں گے کیونکہ وہ اپنی زندگی دین کے لئے وقف کر چکے ہوں گے.بلکہ اگر انہیں وہ ذرائع معلوم بھی ہوتے جن سے دولت کمائی جاسکتی ہے تب بھی دولت کما نہ سکتے.الا ماشاء اللہ.کیونکہ جب اللہ تعالٰی نے یہ فرمایا ہے وَلتَكُن مِنْكُمُ أُمَّةٌ يَدْعُونَ الى الخير تم میں ہمیشہ ایک جماعت ایسی موجود ہونی چاہئے جو دعوت الی الخیر کا کام کرتی رہے تو یہ لازمی بات ہے کہ ایسا کام کرنے والی جماعت دولت نہیں کما سکے گی إِلَّا مَنْ يَفْتَح الله له اَبْوابَ رَحْمَتِهِ بِيَدِهِ الكَرِيمَةِ کیونکہ ان کے پاس وقت ہی نہیں ہو گا.یا دوسروں کے مقابلہ میں نہایت قلیل اور تھوڑا وقت ہو گا تو چونکہ اس زمانہ میں ساری عزت، ساری ترقی اور سارا و قار دولت کے ساتھ وابستہ ہے اس لئے قدرتی طور پر لوگوں میں اس قسم کے آدمی تحقیر کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں اور لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ ایسے آدمیوں کو اپنی بیٹیاں دینا ان کی زندگیوں کو خراب کرنا ہے چنانچہ جب بھی رشتہ کا سوال آتا ہے انہیں رشتہ دینا ان کی طبائع پر گراں گزرتا ہے.اسی طرح وہ جب کبھی ایسی مجلس میں جاتے ہیں جہاں بڑے آدمی بیٹھے ہوں تو اول تو وہ ان کی طرف رغبت ہی نہیں کرتے اور اگر کریں تو ان کی رغبت ایسی ہوتی ہے جیسے انگریز مرد اور عورت اپنے کتے سے رغبت کا اظہار کرتے ہیں اور پھر جو لوگ ان کا بظاہر ادب اور لحاظ کرتے ہیں ان کے طریق عمل سے بھی یہ بات صاف طور پر ظاہر ہوتی ہے کہ وہ تذلل اختیار کر کے یا صدقہ و خیرات کے طور پر یا پبلک سے ڈر کر ان کی طرف توجہ کرتے ہیں ورنہ ان کے دلوں میں ان کا احترام نہیں ہوتا.رسول کریم ﷺ کے زمانہ میں یا اس سے پہلے زمانوں میں یہ بات کم تھی کیونکہ اس وقت دولت کی اتنی قدر نہ تھی جتنی آج کل ہے آج کل تمام باتوں میں اہمیت دولت کو ہی حاصل ہے پہلے زمانوں میں بھی تھی لیکن ایک حد تک.شیخ سعدی رحمتہ اللہ علیہ کا ایک لطیفہ مشہور ہے وہ ایک دفعہ سفر کرتے ہوئے کسی شہر کی سرائے میں اترے تو انہیں معلوم ہوا کہ کسی رئیس کے ہاں بہت بڑی دعوت ہے.اس زمانہ میں بے تکلفی لوگوں میں زیادہ پائی جاتی تھی اور پھر اس کی دعوت بھی عام تھی سرائے والے نے کہا ہم نے آج کھانا نہیں پکایا کیونکہ فلاں امیر نے دعوت کی ہے آپ بھی وہاں تشریف لے جائیں.یہ وہاں سے اٹھے اور انہی میلے کچلیے
خطبات محمود ۵۷۲ جلد سوء کپڑوں میں اس امیر کے ہاں چلے گئے چونکہ یہ بہت بڑے عالم فاضل تھے اس لئے جاتے ہی دلیری سے صاحب صدر کے پاس جا کر بیٹھ گئے.اتنے میں ایک رئیس اس دعوت میں شمولیت کے لئے آگیا اس پر ایک نوکر دوڑا دوڑا آیا اور انہیں کہنے لگا میاں ذرا پیچھے ہٹ جاؤ یہ جگہ آپ کے لئے نہیں.وہ وہاں سے اٹھے اور دوسری جگہ جا بیٹھے تھوڑی دیر کے بعد ایک اور رئیس آگیا اور اس پر دوسرا نو کر دوڑا دوڑا آیا اور اس نے وہاں سے بھی اٹھا دیا وہ اٹھ کر اور پیچھے چلے گئے.اتنے میں بعض اور رؤسا آگئے اور نوکروں نے پھر ان سے کہا میاں ذرا اور پرے ہو جاؤ وہ ان کے کہنے پر اور پیچھے ہٹ گئے یہاں تک کہ ہٹتے ہٹتے شیخ سعدی رحمتہ اللہ علیہ جوتیوں میں جابیٹھے خیر انہوں نے کھانا کھایا اور اٹھ کر چلے گئے.اس رئیس نے تین دن کی دعوت کی ہوئی تھی دوسرے دن انہوں نے ایک بڑا سا خلعت جو کسی بادشاہ نے ان کو دیا تھا اور جس پر سونے چاندی کا خوب کام کیا ہوا تھا پہنا اور جا کر جوتیوں میں بیٹھ گئے.اس پر جس طرح کل ایک ایک نوکر ان کو پیچھے ہٹاتا تھا اسی طرح ایک ایک نوکر آتا اور کہتا یہاں نہیں آگے تشریف لے چلیں، پھر دوسرا نو کر آتا اور کہتا یہاں نہیں اور آگے چلیں یہاں تک کہ ہوتے ہوتے وہ صاحب صدر کے قریب جا بیٹھے.جب کھانا سامنے آیا تو چونکہ وہ صوفی منش تھے اور جبوں اور خلعت کی انہیں کوئی پرواہ نہ تھی اس لئے انہوں نے اپنے اس کوٹ کو جو خوب ملا اور موتیوں سے جڑا ہوا تھا مروڑا اور شوربے کے پیالے میں بھگو دیا اس پر سب لوگ حیران ہو گئے کہ یہ کیا کر رہا ہے.انہوں نے سمجھا کہ شاید پاگل ہو گیا ہے کہ ایسا قیمتی کوٹ شوربے کے پیالے میں ڈبو رہا ہے.صاحب خانہ کو بھی یہ بات عجیب معلوم ہوئی اور اس نے ان سے کہا صاحب آپ یہ کیا کر رہے ہیں اس پر انہوں نے کہا کل میں آیا تھا تو مجھے گھسیٹ گھسیٹ کر جوتیوں میں بٹھا دیا گیا تھا مگر آج کوٹ صاحب آئے ہیں تو ان کی خاطر مجھے بھی اونچی جگہ پر بٹھا دیا گیا اس لئے یہ دعوت ان کی ہے میری نہیں اور میں انہیں کو یہ دعوت کھلا رہا ہوں.لوگوں نے نام دریافت کیا تو معلوم ہوا کہ آپ شیخ سعدی ہیں.چونکہ ان کا نام ہر جگہ پہنچ چکا تھا اس لئے صاحب خانہ نے بڑی معذرت کی کہ نوکروں نے حماقت سے کام لیا اور آپ کو بلا وجہ تکلیف پہنچی.لیکن واقعہ یہ ہے کہ نوکروں نے کیا حماقت کرنی تھی دنیا میں رواج یہی ہے کہ روپیہ کی عزت کی جاتی ہے، علم کی عزت نہیں کی جاتی، دین کی عزت نہیں کی جاتی، شرافت کی عزت نہیں کی جاتی، تقوی وطہارت کی عزت نہیں کی جاتی، سوائے اس تقویٰ و طہارت کے جہاں
خطبات محمود ۵۷۳ جلد سوم فحان ان تعان وتعرف بین الناس کے کا حکم اللہ تعالی کی طرف سے صادر ہو جاتا ہے مگر وہ عزت بھی لوگ فرشتوں کی مار کھا کر کرتے ہیں اپنے طور پر نہیں کرتے.میں دیکھتا ہوں کہ یہ مرض ہماری جماعت میں بھی پایا جاتا ہے جب کبھی وقف زندگی کی تحریک کی جائے اور نوجوانوں سے کہا جائے کہ وہ اپنے آپ کو خدمت دین کے لئے وقف کریں اول تو کھاتے پیتے لوگوں کی اولاد وقف زندگی کی طرف آتی ہی نہیں اور پھر جو لوگ آتے ہیں امراء ان کی طرف تحقیر کی نگاہوں سے دیکھتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ان سے بات کرنا یا ان کے ساتھ چلنا پھرنا ہماری طرف سے ایک قسم کا تذلل ہے ورنہ خود یہ اس بات کے مستحق نہیں ہیں.اسی طرح ان کی شادیوں اور بیاہوں میں بڑی دقتیں پیش آتی ہیں اور میرے نزدیک یہ امر بہت بڑے قومی تنزل کی علامت ہے.اگر واقع میں یہ درست ہے کہ اِنَّ اَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللهِ اتقكُمُ که تو خدا تعالیٰ کے حضور حسن کو عزت حاصل ہو ہمیں اسی کو عزت دینی چاہئے یا تو ہمیں یہ تسلیم کرنا چاہئے کہ جو شخص بڑا دنیا دار ہو وہ خدا کے حضور معزز ہوتا ہے اور اگر یہ بات درست نہیں تو پھر اللہ تعالی جن کو عزت دیتا ہے یقیناً ہمارا بھی فرض ہے کہ ہم انہیں کو عزت دیں اور ہمیں سمجھ لینا چاہئے کہ خدا تعالیٰ کے دربار میں عزت پانے والے کے مقابلہ میں دنیا کا بڑے سے بڑا بادشاہ بھی کوئی حقیقت نہیں رکھتا، نہ قیصر اس کے مقابلہ میں کوئی حقیقت رکھتا ہے، نہ کسرئی اس کے مقابلے میں کوئی حقیقت رکھتا ہے، نہ کوئی اور بادشاہ یا پریذیڈنٹ اس کے مقابل پر کوئی عزت رکھتا ہے.بے شک دنیوی بادشاہ بھی عزتیں رکھتے ہیں مگر انہیں دنیا کی عزتیں ہی حاصل ہیں اللہ تعالیٰ کے حضور ان کی کوئی عزت نہیں.پس یہ ایک غلط بات ہے جو ہماری جماعت میں پیدا ہو گئی ہے اور جس کا بدلہ نفسیاتی طور پر انہیں ضرور ملے گا اگر وہ سلسلہ کی خدمت کرنے والوں کی عزت نہیں کریں گے.میں یہ تو نہیں کہتا کہ آئندہ لوگ دین کے لئے اپنی زندگیاں وقف نہیں کریں گے کیونکہ یہ سلسلہ روحانی ہے اور اللہ تعالی ایسے لوگ ہمیشہ پیدا کرتا رہے گا جو دین کے لئے اپنی زندگیاں وقف کریں مگر یہ ضرور ہو گا کہ جو لوگ معزز سمجھے جاتے ہیں خدا تعالی ان کو ذلیل کر دے گا.دوسری طرف میرے نزدیک ہر چیز میں ایکشن اور ری ایکشن یعنی تأثیر اور تاثر کا ایک لمبا سلسلہ جاری ہے اور یہ تأثیر اور تاثر کا سلسلہ ابھی اتنا وسیع نظر آتا ہے کہ اس کی کوئی حد ہی نہیں.میں نے اپنی زندگی میں جس سبق کو متواتر سیکھا ہے اور میں جس بات کو بچپن میں نہیں
خطبات محمود ۵۷۴ جلد سوم سمجھتا تھا جس بات کو جوانی میں نہیں سمجھتا تھا مگر جس بات کا ایک لمبے تجربہ کے بعد مجھے قائل ہونا پڑا وہ یہ ہے کہ خدا تعالی کی طرف سے مکافات عمل کا سلسلہ دنیا میں ایسے باریک طور پر جاری ہے کہ جو شخص اس سلسلہ کا مطالعہ کرتا ہے وہ حیران رہ جاتا ہے اور بعض دفعہ تو یہ سمجھنے لگ جاتا ہے کہ تو بہ اور معافی کوئی چیز ہی نہیں.دنیا میں مکافات عمل ایسی شدت سے جاری ہے اور ایسے باریک در باریک اور پیچیدہ در پیچیدہ طریق پر اور ایسے مماثل طور پر وہ شکل اختیار کر کے ظاہر ہوتی ہے کہ انسان کو حیرت آجاتی ہے اور وہ سمجھ ہی نہیں سکتا کہ اگر دنیا میں یہ سلسلہ جاری ہے تو پھر تو بہ اور معافی کے معنی ہی کیا ہوئے.ہیں بات یہ ہے کہ لوگ زبانی تو بہ کو تو بہ اور استغفار کو استغفار سمجھ لیتے ہیں اور خیال کر لیتے ں کہ جب انہوں نے زبان سے معافی مانگ لی اور جب انہوں نے مونہہ سے استغفار کر دیا تو خدا نے بھی ان کو معاف کر دیا ہو گا حالانکہ جو چیز معافی دلاتی ہے وہ زبانی تو بہ نہیں بلکہ وہ گھری تو بہ ہے جو دل کو چیر دینے والی اور اسے خون کر دینے والی ہوتی ہے.وہ تو بہ ہو تو انسان مکافات عمل سے بچ سکتا ہے ورنہ ننانوے فی صدی لوگ ایسے ہی ہوتے ہیں جو گناہوں کے بعد توبہ کرتے ہیں مگر ان کی توبہ حقیقی توبہ نہیں ہوتی.ان کا استغفار حقیقی استغفار نہیں ہوتا وہ سمجھ رہے ہوتے ہیں کہ ان کا گناہ معاف ہو چکا مگر بار یک در باریک راہوں سے انہیں اپنے اعمال کا بدلہ دنیا میں ہی مل جاتا ہے.میں نے اس بات کا تجربہ کیا اور بار ہا اور متواتر تجربہ کیا ہے.بعض دفعہ دس دس پندرہ پندرہ سال کے بعد کوئی شخص پکڑا جاتا ہے وہ اس وقت یہ نہیں سمجھ رہا ہو تاکہ وہ کیوں پکڑا گیا مگر مجھے اس کا دس یا پندرہ سال پہلے کا کوئی واقعہ یاد ہوتا ہے اور میں سمجھ رہا ہوتا ہوں کہ وہ کیوں اس کی گرفت میں آیا.میں نے اس بات کو اتا دیکھا ہے اتنا دیکھا ہے کہ مجھے یوں معلوم ہوتا ہے دنیا میں تدبیر کچھ نہیں تقدیر ہی تقدیر چل رہی ہے.پس چونکہ دنیا میں تمام اشیاء تأثیر و تأثر کا ایک لمبا سلسلہ اپنے اندر رکھتی ہیں.اس لئے جب.ساعت کے ایک حصہ میں یہ نقص پایا جاتا ہے کہ وہ دین کے لئے اپنی زندگی وقف کرنے والوں کو تحقیر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں تو میں واقفین سے کہتا ہوں کہ ان کو بھی غور کرنا چاہیئے کہ کیوں ان کے ساتھ یہ سلوک ہو رہا ہے.بے شک وہ واقفین زندگی ہیں مگر میں ان میں بھی دنیا داری دیکھتا ہوں.فرض کرو ہماری جماعت میں سے بعض دنیا دار یہ کہتے ہیں کہ ہم ایسے شخص کو اپنی لڑکی کیوں دیں جس کے پاس دنیا نہیں اور ان کی یہ بات سن کر وہ واقف زندگی یا
خطبات محمود ۵۷۵ جلد سوم اس کے رشتہ دار برا مناتے ہیں تو سوال یہ ہے کہ وہ واقف کیوں اوپر کی طرف نگاہ رکھتا ہے.جب کسی نے اپنے آپ کو دین کے لئے وقف کر دیا تو اس کے لئے یہ سوال جاتا رہا کہ اس کی شادی کسی امیر کی لڑکی سے ہوتی ہے یا اس کی شادی کسی غریب کی لڑکی سے ہوتی ہے مگر جب وہ چاہتا یہ ہے کہ جس شخص کی آمد مجھ سے زیادہ ہو، جس کی مالی حالت مجھ سے بہتر ہو ، جو شخص دولت اپنے پاس رکھتا ہو اس کی لڑکی سے میں شادی کروں تو اس کے معنے یہ ہوں گے کہ گو اس نے اپنے آپ کو وقف کیا ہوا ہے مگر پو جاوہ دنیا کی ہی کرتا ہے اور وہ بھی اسی مندر میں جاکر اپنا ماتھا ٹیکتا ہے جس میں دوسرا دنیا دار اپنا ماتھا ٹیک رہا ہوتا ہے تبھی تو وہ ایسے گھرانوں میں اپنی شادی کا خواہش مند ہوتا ہے جو مالدار ہوں اور جو دولت و ثروت رکھتے ہوں.اگر وہ دنیا کو چھوڑ چکا ہے تو کیوں وہ چھوٹی جگہ اپنے لئے پسند نہیں کر لیتا.اس کے دل میں یہ احساس کہ میری شادی کسی کھاتے پیتے شخص کی لڑکی سے ہو کسی غریب کے ہاں میری شادی نہ ہو بتاتا ہے کہ دنیا کا بت اس نے اپنے دل سے نکالا نہیں صرف اس کی جگہ بدل لی ہے ایک کمرہ سے اس بت کو نکال کر اس نے دوسرے کمرہ میں رکھ لیا ہے ورنہ وہ سجدہ تو اسی بت کو کرتا ہے اور پرستش اس بت کی کر رہا ہے.اگر دنیا کو وہ چھوڑ چکا ہوتا اگر خدا کے لئے وہ حقیقی معنوں میں اپنی زندگی کو وقف کر چکا ہوتا تو پھر اسے یہ کوئی خیال نہیں آنا چاہئے تھا کہ اس کی شادی کسی امیر کے ہاں ہوتی ہے یا چوہڑوں اور چہاروں کے ہاں ہو جاتی ہے.اگر اس نے دنیا چھوڑنی ہے تو دنیا چھوڑنے کی علامت بھی تو اس میں نظر آنی چاہئے.ہماری جماعت کے ایک دوست ہیں ان کی یہ عادت ہے کہ وہ ہمیشہ سلسلہ کے چوٹی کے امیر آدمیوں کے گھروں میں اپنے بیٹوں کے رشتہ کے متعلق درخواست دے دیتے ہیں اور جب وہ انکار کر دیتے ہیں تو پھر شور مچاتے اور مجھے خط پر خط لکھتے ہیں کہ دیکھئے ابھی تک جماعت کی اصلاح نہیں ہوئی آپ اور خطبہ پڑھیں اور جماعت کو توجہ دلائیں کہ رشتہ کے بارہ میں وہ کسی امتیاز کا خیال نہ کریں.مجھے ہمیشہ ان کے خطوط پر ہنسی آتی ہے اور میں انہیں کہا کرتا ہوں کہ آپ تو کبھی امراء کو درخواست نہیں دیتے آپ تو ہمیشہ اپنے سے ادنیٰ لوگوں کے ہاں اپنے لڑکوں کے متعلق درخواست دیا کرتے ہیں.اگر آپ چاہتے ہیں کہ لوگ اس امتیاز کو مٹا دیں تو پھر آپ کیوں اپنے لڑکوں کے رشتہ کے متعلق انہی لوگوں کو درخواست دیتے ہیں جو دنیوی طور پر معزز ہوتے ہیں.اگر اسلام کا یہ حکم ہے کہ لڑکی کا رشتہ اگر اپنے سے ادنی درجہ والے کو دینا
چند سوم پڑے تو بے شک اسے دے دو تو اسلام لڑکوں کے متعلق بھی تو یہ ہدایت دیتا ہے کہ اگر تمہیں ان کے لئے غرباء میں رشتہ ملتا ہے تو بے شک غریب لڑکی کا رشتہ لے لو.ایک حکم کو ماننا اور دوسرے کا انکار کر دیتا یہ کہاں کا انصاف ہے.لڑکے والوں کو بھی حکم ہے کہ جہاں خدا نے ان کے لئے رشتہ مقدر کیا ہو قطع نظر اس سے کہ لڑکی امیر ہو یا غریب لے لیں اور لڑکی والوں کو بھی حکم ہے کہ شرافت اور تقوی کو دیکھ کر رشتہ کریں.اور اگر انہیں کوئی امیر رشتہ نہیں ملتا تو غریب کو ہی دے دیں.پس میں ان میں بھی دنیا داری دیکھتا ہوں.وہ شخص جو کہتا ہے کہ جس نے دین کے لئے اپنی زندگی وقف کر دی ہے میں اسے اپنی لڑکی کیوں دوں اور وہ اسے تحقیر و تذلیل کی نگاہ سے دیکھتا ہے اور سمجھتا ہے کہ جب یہ اپنے آپ کو دین کے لئے وقف کر چکا تو روٹی کہاں سے کھائے گا اس کے اس نقطہ نگاہ کے معنے یہ بنتے ہیں کہ جو شخص خدا کے لئے اپنی زندگی وقف کرتا ہے وہ حقیر ہے مگر جو انگریز کو اپنی زندگی دے دیتا ہے وہ معزز ہے.جو شخص انگریز کو اپنی زندگی دے دیتا ہے اور صوبیدار یا تحصیلدار یا ای اے سی بن جاتا ہے وہ بڑا معزز ہے مگر وہ جو خدا کے لئے اپنی زندگی وقف کر دیتا ہے وہ نعوذ باللہ بڑا ذلیل ہے.گویا دوسرے الفاظ میں اس کا مطلب یہ ہوا کہ اس سے زیادہ معزز کون ہے جو انگریزوں کا غلام بن جائے اور اس سے زیادہ ذلیل کون ہے جو بندوں کی نوکری چھوڑ کر خدا کی نوکری کرنے لگ جائے.اس کے مقابلہ میں جب ایک واقف زندگی کے دل میں یہ احساس پیدا ہوتا ہے کہ میری شادی فلاں مالدار کے گھر میں ہو جائے یا میری شادی فلاں کھاتے پیتے شخص کی لڑکی سے ہو جائے تو اس کے معنی یہ ہوں گے کہ وہ منہ سے تو کہتا ہے کہ اس نے دنیا کو چھوڑ دیا مگر عملی طور پر وہ دنیا کا ہی پرستار ہے.اگر واقع میں اس نے دنیا کو چھوڑ دیا ہوتا، اور اگر واقعہ میں وہ اپنے تمام ارادوں اور اپنی تمام نیتوں کو خدا کے تابع کر چکا ہوتا تو اس صورت میں اگر ایک چوڑھی سے بھی اسے شادی کرنی پڑتی تو وہ خوشی سے شادی کے لئے تیار ہو جاتا اور کہتا کہ اگر خدا میرے لئے ایک چوڑھی پسند کرتا ہے تو مجھے وہ چوڑھی منظور ہے.اللہ تعالٰی میرے لئے ایک چمارن کا فیصلہ کر دیتا ہے تو مجھے اپنے لئے وہ چمارن منظور ہے.جس چیز کی اس کو ضرورت ہو سکتی ہے وہ یہ ہے کہ ایسی بیوی جو تعلیم یافتہ ہو اور اس تہذیب و تمدن کی حامل ہو جس تہذیب و تمدن کا وہ خود حامل ہے.پس اگر لڑکی میں یہ تمام باتیں پائی جاتی ہیں وہ دین سے واقفیت رکھتی ہے وہ تعلیم یافتہ ہے وہ اسلامی تہذیب
خطبات محمود جلد سوم و تمدن کی حامل ہے اور یہ سب چیزیں اس میں پائی جاتی ہیں تو کوئی وجہ نہیں کہ وہ اس رشتہ کے متعلق نا پسندیدگی کا اظہار کرے اور کہے کہ مجھے وہ منظور نہیں کیونکہ وہ غریب ہے.بے شک شریعت نے پسندیدگی کی شرط رکھی ہے.بے شک شریعت نے اس امر کو جائز قرار دیا ہے کہ تم اپنی رغبت کو بھی دیکھ لو اور پھر فیصلہ کرو کہ تمہیں کہاں رشتہ منظور ہے.یہ شرط نبی کے لئے بھی ہے اور غیر نبی کے لئے بھی.اگر کسی کو پندرہ رشتے ملتے ہوں تو خواہ وہ کیسے ہی ادنیٰ ہوں وہ پندرہ میں سے ایک کو انتخاب کرنے کا ضرور حق رکھتا ہے اور میرے نزدیک وہ لوگ نادان ہیں جو دو سرے کو مجبور کرتے ہیں کہ ضرور فلاں رشتہ لو.جب شریعت کا فیصلہ یہ ہے کہ فَانْكِحُوا مَا طَابَ لَكُم مِّنَ النِّسَاء شه تو بهر حال شادی کرنے والے کی مرضی کو مقدم رکھا جائے گا اور یہ صورت اسی وقت ہو گی جب اسے نساء مل رہی ہوں گی اور جب اسے نساء مل سکتی ہوں تو ایسی صورت میں مَا طَابَ لَكُم کو ملحوظ رکھنا بھی ضروری ہوگا.پس وہ شخص جو کسی کو مجبور کرتا ہے اور کہتا ہے کہ ضرور فلاں جگہ رشتہ کر دیا ضرور میری لڑکی لو وہ بھی نادان ہے.جب خدا نے یہ کہہ دیا ہے کہ فَانكِحُوا مَا طَابَ لَكُم تو تم کون ہو جو مجبور کرو.نہ لڑکے والوں کو اس بات پر مجبور کیا جا سکتا ہے کہ وہ ضرور فلاں جگہ رشتہ کریں نہ لڑکی والوں کو مجبور کیا جا سکتا ہے کہ وہ ضرور فلاں جگہ رشتہ کریں دونوں کے لئے مَا طَابَ لَكُمُ کے الفاظ ہیں.جس طرح مردوں کو اس بات میں آزادی حاصل ہے کہ وہ وہیں رشتہ کریں جہاں وہ پسند کرتے ہیں قرآن کریم میں صاف لکھا ہے کہ جیسے مردوں کو ہم نے حقوق دیئے ہیں ویسے ہی عورتوں کو حقوق حاصل ہیں پس مَا طَابَ لَكُمُ کا حکم مرد کے لئے بھی ہے اور عورت کے لئے بھی ہے.لیکن جہاں تک تمدنی درجہ کا سوال ہے اسے اس بات کی کوئی پرواہ نہیں ہونی چاہئے کہ لڑکی غریب ہے یا امیر.اور اگر وہ ہمیشہ اپنے سے اوپر درجہ والے کی تلاش میں سرگردان رہتا ہے اگر وہ چاہتا ہے کہ اس کی شادی کسی امیر کے ہاں ہو کسی کھاتے پیتے اور معزز آدمی کے ہاں ہو، غریب کے ہاں اگر اس کی شادی کی تجویز کی جائے تو وہ برا مناتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ ابھی اس کے دل میں شرک باقی ہے اور وہ دنیا کا ہی پرستار ہے.فرق صرف یہ ہو گا کہ دوسرا شخص دنیا کی زیادہ پرستش کرتا ہے اور یہ کچھ کم کرتا ہے مگر ہو گا دنیا دار ہی.حالا نکہ انسان کو جو رشتے مل سکتے ہوں اس کا فرض ہے کہ ان میں سے ایک کو منتخب کرلے اور بجائے یہ دیکھنے کے کہ امیر کون ہے اور غریب کون وہ صرف یہ دیکھے کہ میری ضرورتیں کیا ہیں
خطبات محمود ۵۷۸ جلد سوم اور کس قسم کا رشتہ میری ان ضرورتوں کو پورا کر سکتا ہے.مثلاً اگر کسی لڑکی میں دینی تعلیم پائی جاتی ہے یا وہ تقویٰ و طہارت اپنے اندر رکھتی ہے تو اسی قدر پایا جانا کافی ہے.ہاں اگر اس قسم کے دس میں رشتے اس کے سامنے ہوں تو پھر بے شک اسے مجبور نہیں کیا جا سکتا اور یہ نہیں کہا جا سکتا کہ فلاں رشتہ لو یہ اس کا اپنا اختیار ہے کہ ان میں سے جس کو چاہے پسند کرے.میں نے دیکھا ہے بعض لوگ اپنی حماقت کی وجہ سے اس بات پر ناراض ہو جاتے ہیں کہ ہماری لڑکی کا رشتہ فلاں نے کیوں نہیں لیا حالانکہ یہ اس کا حق تھا کہ وہ جس کو چاہے لے اور جس کو چاہے رد کر رہے.اسی طرح لڑکی والوں کا حق ہے کہ وہ جس کو چاہیں رشتہ دیں اور جس کو چاہیں رو کردیں سوائے اس کے کہ رشتہ سے انکار کرنے کی بنیاد یہ نہ ہو کہ چونکہ اس نے دین کے لئے اپنی زندگی وقف کی ہوئی ہے اس لئے ہم اسے رشتہ نہیں دیتے اگر وہ ایسا کے تو اس کے معنے یہ ہوں گے کہ وہ شخص جو دین کے لئے قربانی کرتا ہے وہ ذلیل ہے اور یہ ایک ایسی بات ہے جسے کوئی عظمند قبول کرنے کے لئے تیار نہیں ہو سکتا.اسی طرح وہ واقف ہے جس کے سامنے غریب لڑکیوں کے رشتے پیش کئے جاتے ہیں تو وہ انکار کر دیتا ہے اور امیروں پر چھاپہ مارنے کے لئے تیار رہتا ہے اس کا طریق عمل بھی صریحاً غلط ہے اور اس کو صحیح تسلیم کرنے کے معنے یہ ہوں گے کہ نیکی اور تقوی مالداروں میں ہی ہوتا ہے غریبوں میں نہیں ہوتا.آخر جب وہ کہے گا کہ میں فلاں غریب لڑکی کا رشتہ نہیں لیتا تو کیا کہے گا یہی دلیل دے گا کہ اس میں نیکی کم ہے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ غرباء نیک نہیں ہوتے صرف امراء ہی نیک ہوتے ہیں اور یہ بات بھی بالبداہت باطل ہے اور اگر غرباء میں بھی نیکی ہوتی ہے ہے، ان میں بھی تقوی ہوتا ہے، ان میں بھی تعلیم ہوتی ہے، ان میں بھی دیانت ہوتی ہے تو اس کا غریب رشتہ لینے سے انکار کرنا سوائے اس کے کوئی مفہوم نہیں رکھتا کہ یہ بھی دنیا دارانہ خیالات اپنے اندر رکھتا ہے پس دونوں فریق کا یہ طریق عمل عقل اور حقیقت کے بالکل خلاف ہے اگر کوئی امیر اپنا پیچھا چھڑانے کے لئے یہ کہتا ہے کہ شریعت نے بے شک دین اور نیکی کو مقدم قرار دیا ہے مگر مجھے دین ان دینداروں میں نظر نہیں آتا مجھے تو دنیا داروں میں دین نظر آتا ہے تو تم خود سوچ لو اس کا یہ فقرہ کتنا غیر معقول اور حقیقت سے دور ہو گا.اگر کوئی شخص یہ کہتا ہے کہ مجھے دینداروں میں دیندار نظر نہیں آتا تو اس کی یہ بات ایسی ہی ہوگی جیسے کوئی کہے کہ سفید تاگوں میں مجھے کوئی سفید تاگا نظر نہیں آتا یا سیاہ لاگوں میں مجھے کوئی سیاہ تاگا نظر نہیں
خطبات محمود ۵۷۹ جلد سوم یا یہ بات ایسی ہے جیسے کوئی کہے کہ ہندوؤں میں مجھے کوئی ہندو نظر نہیں آتا مسلمانوں میں مجھے کوئی مسلمان نظر نہیں آتا.اگر کوئی ایسا کہتا ہے تو یہ اس کے جنون کی علامت ہوگی اس کی عقل کا ثبوت نہیں ہو گا کہ دینداروں میں مجھے کوئی دیندار نظر نہیں آتا لیکن دنیا داروں میں مجھے دیندار نظر آتے ہیں.اسی طرح کسی واقف زندگی کا یہ طریق عمل اختیار کرنا کہ جب غریب لڑکیوں کے رشتے اس کے سامنے پیش ہوں تو وہ کہہ دے کہ ان میں نیکی اور تقویٰ کم ہے بتاتا ہے کہ اس کے نزدیک امراء میں تو نیکی ہوتی ہے غرباء میں نیکی نہیں ہوتی.پس ان الفاظ سے یہ دونوں اپنے جھوٹے ہونے، اپنے غیر متقی ہونے اور اپنے مشرک ہونے کا اقرار کرتے ہیں اور دونوں دنیا پر نگاہ رکھتے ہوئے نظر آتے ہیں یہ چیز ہے جس کی اصلاح نہایت ضروری ہے.ہماری جماعت میں لاکھ پتی یا کروڑ پتی کوئی ہے نہیں.صرف چند لوگ ایسے ہیں جو اچھے کھاتے پیتے اور امراء میں شامل ہیں لیکن ان لوگوں کی ذہنیت یہی ہے کہ اگر کوئی واقف زندگی اپنی حماقت اور بیوقوفی سے ان کے سامنے رشتہ کی درخواست پیش کر دے تو وہ یوں سمجھتے ہیں گویا انہیں بازار میں کھڑا کر کے جوتیاں ماری گئی ہیں.اس کے مقابلہ میں جو واقف ہیں ان کی یہ حالت ہے کہ جب غریب لڑکیوں کے رشتے ان کے سامنے پیش کئے جائیں تو وہ ان میں کئی کئی نقص نکالیں گے.کبھی کہیں گے تقویٰ اعلیٰ درجہ کا نہیں، کبھی کہیں گے تعلیم زیادہ اعلیٰ نہیں، کبھی کہیں گے سلسلہ سے انہیں محبت کم ہے لیکن جہاں کہیں کسی کھاتے پیتے آدمی کا رشتہ ان کے سامنے آجائے تو فورا کہہ دیں گے ہاں یہ ٹھیک ہے یہ لڑکی نیک اور دیندار ہے.اس وقت انہیں نیکی بھی نظر آنے لگ جائے گی، اتقاء بھی نظر آنے لگ جائے گا، تعلیم بھی نظر آنے لگ جائے گی اور وہ اس رشتہ پر رضا مند ہو جائیں گے.پس دونوں کا طریق عمل بالکل غلط، ناجائز اور خلاف اصول ہے.جب تک دونوں فریق اپنی اپنی اصلاح نہیں کریں گے اس وقت تک اس نقص کا ازالہ نہیں ہو سکے گا.یاد رکھو دنیا انہی لوگوں کے پیچھے پھرا کرتی ہے جو دنیا کو کلی طور پر چھوڑ دیتے ہیں وہ خدا کے لئے دنیا چھوڑتے ہیں اور دنیا کی حالت یہ ہوتی ہے کہ وہ ان کے پیچھے پیچھے بھاگتی پھرتی ہے اور انسان حیران ہوتا ہے کہ اب میں جاؤں کہاں.لیکن جب تک دنیا پر نگاہ رکھی جائے دنیا آگے آگے بھاگتی ہے اور انسان اس کے پیچھے پیچھے دوڑتا ہے مگر پھر بھی اسے دنیا حاصل نہیں ہوتی.یہ تقریب چونکہ ایک واقف زندگی کے نکاح کا اعلان کرنے کی غرض سے تھی اس لئے میں
خطبات محمود ۵۸۰ جلد موم نے یہ باتیں کہہ دی ہیں تاکہ جماعت کی اصلاح اور اس کے حالات کی درستی کا موجب ہوں.میں نے اعلان کیا ہوا ہے کہ میں سوائے اپنے عزیزوں کے اور کسی کا نکاح نہیں پڑھاؤں گا مگر چونکہ یہ واقف زندگی ہیں اور اس وجہ سے میرے عزیزوں میں ہی شامل ہیں اس لئے میں اس نکاح کا اعلان کر رہا ہوں اور اس بنیاد پر ایک دوسرے نکاح کا بھی اعلان کروں گا کیونکہ جب ایک نکاح پڑھنے کے لئے کھڑا ہوا ہوں تو دوسرے نکاح کے اعلان میں میرا کوئی زائد وقت خرچ نہیں ہوتا.له الفضل ۱۲ اپریل ۱۹۴۲ء صفحه ۱ له ال عمران : ۱۰۵ کے تذکرہ صفحہ ۶۶.ایڈیشن چهارم ه الحجرات : ۱۴ هه النساء : ۴ الفضل (۲۲ جون ۱۹۴۴ء صفحه ۱ تا ۴)
۵۸۱ ۱۲۷ خطبات محمود حضرت سیده مهر آیا کا خطبہ نکاح (فرموده ۲۴ جولائی ۱۹۴۴ء) ۲۴.جولائی ۱۹۴۴ء بعد نماز عصر مسجد مبارک قادیان میں حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے حضرت سیدہ بشری بیگم صاحبہ بنت محترم سید عزیز اللہ شاہ صاحب مرحوم کے ساتھ اپنے نکاح کا ایک ہزار روپیہ مہر پر اعلان فرمایا.لے دنیا میں بعض اعمال بظاہر متفرق کڑیاں معلوم ہوتے ہیں اور بعض اعمال ایک زنجیر کی طرح چلتے ہیں.آج جس واقعہ کا میں ذکر کرتا ہوں وہ بھی اسی زنجیر کی ایک کڑی ہے.آج سے ۳۸ سال قبل ایک واقعہ یہاں ہوا تھا.ہمارا ایک چھوٹا بھائی تھا جس کا نام مبارک احمد تھا اس کی قبر بہشتی مقبرہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مزار کے مشرق کی طرف موجود ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو وہ بہت ہی پیارا تھا.مجھے یاد ہے جب ہم چھوٹے ہوتے تھے ہمیں مرغیاں پالنے کا شوق پیدا ہوا کچھ مرغیاں میں نے رکھیں، کچھ میر محمد اسحاق صاحب مرحوم نے رکھیں اور کچھ میاں بشیر احمد صاحب نے رکھیں اور بچپن کے شوق کے مطابق صبح ہی صبح ہم جاتے ، مرغیوں کے ڈربے کھولتے، انڈے گنتے اور پھر فخر کے طور پر ایک دوسرے سے مقابلہ کرتے کہ میری مرغی نے اتنے انڈے دیتے ہیں اور میری نے اتنے.ہمارے اس شوق میں مبارک احمد مرحوم بھی جا کر شامل ہو جاتا.اتفاقاً ایک دفعہ وہ بیمار ہو گیا اس کی خبر گیری سیالکوٹ کی ایک خاتون کرتی تھیں جن کا عرف دادی پڑا ہوا تھا ہم بھی اسے دادی ہی کہتے تھے اور دوسرے سب لوگ بھی.حضرت خلیفہ اول اسے دادی کہنے پر بہت چڑا
خطبات محمود ۵۸۲ جلد سوم کرتے تھے مگر اس لفظ کے سوا شناخت کا کوئی اور ذریعہ بھی نہ تھا اس لئے آپ بجائے دادی کے انہیں جگ دادی کہا کرتے تھے.جب مبارک احمد مرحوم بیمار ہوا تو دادی نے کہدیا کہ یہ بیمار اس لئے ہوا ہے کہ مرغیوں کے پیچھے جاتا ہے.جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ بات سنی تو فوراً حضرت اماں جان سے فرمایا کہ مرغیاں گنوا کر ان بچوں کو قیمت دے دی جائے اور مرغیاں ذبح کر کے کھالی جائیں.تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو مبارک احمد بہت پیارا تھا ۱۹۰۷ء میں وہ بیمار ہو گیا اور اس کو شدید قسم کے ٹائیفائڈ کا حملہ ہوا اس وقت دو ڈاکٹر قادیان میں موجود تھے.ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب مرحوم و مغفور تھے ان کے دل میں یہ خیال پیدا ہو گیا تھا کہ ہمیں باہر نوکری کرنے کی بجائے قادیان میں رہ کر خدمت کرنی چاہئے اور اس رنگ میں شائد وہ پہلے احمدی تھے جو ملازمت چھوڑ کر یہاں آگئے تھے ایک تو وہ تھے اور دوسرے ڈاکٹر سید عبد الستار شاہ صاحب تھے جو رخصت پر یہاں آئے ہوئے تھے.حضرت خلیفہ اول بھی ان کے ساتھ مل کر مبارک احمد مرحوم کا علاج کیا کرتے تھے.اس کی بیماری کے ایام میں کسی شخص نے خواب دیکھا کہ مبارک احمد کی شادی ہو رہی ہے اور معبرین نے لکھا ہے کہ اگر شادی غیر معلوم عورت سے ہو تو تعبیر موت ہوتی ہے مگر بعض معبرین کا یہ بھی خیال ہے کہ اگر ایسے خواب کو ظاہری صورت میں پورا کر دیا جائے تو بعض دفعہ یہ تعبیر مل جاتی ہے.پس جب خواب دیکھنے والے نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اپنا یہ خواب سنایا تو آپ نے فرمایا کہ معبرین نے لکھا ہے کہ اس کی تعبیر تو موت ہوتی ہے مگر ظاہری رنگ میں پورا کر دینے کی صورت میں بعض دفعہ یہ تعبیر مل جاتی ہے اس لئے آؤ مبارک احمد کی شادی کریں.گویا وہ بچہ جسے شادی بیاہ کا کچھ بھی علم نہ تھا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اس کی شادی کا فکر ہوا.جس وقت حضور علیہ السلام یہ باتیں کر رہے تھے تو ڈاکٹر سید عبدالستار شاہ صاحب کے گھر سے جو یہاں بطور مہمان آئے ہوئے تھے صحن میں نظر آئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ان کو بلایا اور فرمایا ہمارا انشاء ہے کہ مبارک احمد کی شادی کردیں آپ کی لڑکی مریم ہے آپ اگر پسند کریں تو اس سے مبارک احمد کی شادی کر دی جائے.انہوں نے کہا کہ حضور مجھے کوئی عذر نہیں لیکن اگر حضور کچھ مہلت دیں تو ڈاکٹر صاحب سے بھی پوچھ لوں.ان دنوں ڈاکٹر صاحب مرحوم اور ان کے اہل و عیال گول کمرہ میں رہتے تھے وہ نیچے گئیں اور جیسا کہ بعد کے واقعات معلوم ہوئے وہ یہ ہیں کہ ڈاکٹر صاحب شاید وہاں نہ تھے کہیں باہر گئے ہوئے تھے.انہوں نے کچھ دیر.
خطبات محمود ۵۸۳ چار سو انتظار کیا تو وہ آگئے جب وہ آئے تو انہوں نے اس رنگ میں ان سے بات کی کہ اللہ تعالٰی کے دین میں جب کوئی داخل ہوتا ہے تو بعض دفعہ اس کے ایمان کی آزمائش بھی ہوتی ہے اگر اللہ تعالی آپ کے ایمان کی آزمائش کرے تو کیا آپ پکے رہیں گے.ان کو اس وقت دو خیال تھے کہ شاید ان کی وجہ سے ڈاکٹر صاحب کو یہ رشتہ کرنے میں تامل ہو ایک تو یہ کہ اس سے قبل ان کے خاندان کی کوئی لڑکی کسی غیر سید کے ساتھ نہ بیاہی گئی تھی اور دوسرے یہ کہ مبارک احمد ایک مہلک بیماری میں مبتلاء تھا اور ڈاکٹر صاحب مرحوم خود اس کا علاج کرتے تھے اور گھر میں جاکر ذکر کیا کرتے تھے کہ اس کی حالت نازک ہے اور اس وجہ سے وہ خیال کریں گے کہ یہ شادی نناوے فیصد خطرہ سے پر ہے اور اس سے لڑکی کے ماتھے پر جلد ہی ہوگی کا ٹیکہ لگنے کا خوف ہے.اور ان باتوں کی وجہ سے ڈاکٹر صاحب کے گھر والوں کو یہ خیال تھا کہ ایسا نہ ہو کہ ڈاکٹر صاحب کمزوری دکھائیں اور ان کا ایمان ضائع ہو جائے اس لئے انہوں نے پوچھا کہ اگر اللہ تعالی آپ کے ایمان کی آزمائش کرے تو کیا آپ پکے رہیں گے.ڈاکٹر صاحب نے جواب دیا کہ مجھے امید ہے کہ اللہ تعالٰی استقامت عطا کرے گا اس پر والدہ مریم بیگم مرحومہ نے ان کو بات سنائی اور بتایا کہ اس طرح میں اوپر گئی تھی تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ مریم کی شادی مبارک احمد سے کر دیں.یہ سن کر ڈاکٹر صاحب نے فرمایا کہ اچھی بات ہے اگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو یہ پسند ہے تو ہمیں اس پر کیا اعتراض ہو سکتا ہے.ان کا یہ جواب سن کر مریم بیگم مرحومہ کی والدہ اللہ تعالیٰ ان کے درجات کو ہمیشہ بڑھاتا چلا جائے رو پڑیں اور بے اختیار ان کی آنکھوں سے آنسو رواں ہو گئے.اس پر ڈاکٹر صاحب مرحوم نے ان سے پوچھا کہ کیا ہوا کیا تم کو یہ پسند نہیں.انہوں نے کہا مجھے پسند ہے.بات یہ ہے کہ جب سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے نکاح کا ارشاد فرمایا تھا میرا دل دھڑک رہا تھا اور میں ڈرتی تھی کہ کہیں آپ کا ایمان ضائع نہ ہو جائے اور اب آپ کا یہ جواب سن کر میں خوشی سے اپنے آنسو روک نہیں سکی چنانچہ یہ شادی ہو گئی اور کچھ دنوں کے بعد وہ لڑکی بیوہ بھی ہو گئی.اللہ تعالی کسی کے اخلاص کو ضائع نہیں کرتا آخر وہی لڑکی پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خاندان میں آئی اور خلیفہ وقت سے بیاہی گئی اور باوجود شدید بیمار رہنے کے اللہ تعالٰی نے اسے اس وقت تک مرنے نہیں دیا جب تک کہ اس نے اپنی مشیت کے ماتحت اس پیشگوئی کے میرے وجود پر پورا ہونے کا انکشاف نہ فرما دیا جو اسلام اور احمدیت کی ترقی کے لئے حضرت مسیح
خطبات محمود ۵۸۴ جلد سو موعود علیہ السلام نے فرمائی تھی اور اسے ان خواتین مبارکہ میں شامل نہ کر لیا جو ازل سے مصلح موعود سے منسوب ہو کر حضرت مسیح موعود کا جزو کہلانے والی تھیں.میں سمجھتا ہوں یہ اللہ تعالی کی طرف سے اس ایمان کی جزاء تھی جو مریم بیگم مرحومہ کی والدہ نے اس وقت ظاہر کیا تھا.مریم بیگم کی وفات کے بعد پہلے کچھ دن تو اس قسم کی بات کا احساس ہو ہی نہ سکتا تھا مگر کچھ دنوں کے بعد مجھے یہ احساس ہوا کہ وہ گھر اس لحاظ سے ویران ہے کہ اس میں ماں ہے اور نہ باپ.ایک شادی شدہ انسان کی راتوں پر اس کی زندہ بیویوں کا حق ہوتا ہے اور پہلے میری راتیں جو چار حصوں میں تقسیم ہوتی تھیں اب تین حصوں میں تقسیم ہونے لگیں.دن کے وقت تو میں کام کی وجہ سے گھر جا سکتا ہی نہیں اور اب رات کو بھی اس گھر میں نہ جا سکتا تھا اور اس طرح مریم بیگم مرحومہ کے بچے نہ دن کو میرے پاس رہ سکتے تھے اور نہ رات کو.اس احساس کے بعد مجھے خیال ہوا کہ ان بچوں کو کسی دوسری بیوی کے سپرد کر دوں تاجب میں اس کی باری میں اس کے گھر جاؤں تو ان کی نگرانی بھی کر سکوں اور ان کے حالات سے باخبر رہ سکوں.یہ خیال آنے پر میں نے غور کیا کہ کسی بیوی کے پاس ان کو رکھ سکتا ہوں تو میں نے سمجھا کہ میری چھوٹی بیوی مریم صدیقہ ہی ہیں جو مریم بیگم مرحومہ کے گھر میں جاکر رہ سکتی ہیں اور ان کے بچوں کا محبت کے ساتھ خیال رکھ سکتی ہیں.مگر ساتھ ہی مجھے یہ بھی خیال آیا کہ وہ حضرت (اماں جان) کے ساتھ رہتی ہیں اور ان کی خدمت کا ان کو موقع ملتا ہے.دوسرے میں نے دیکھا کہ ان کے متعلق بھی ڈاکٹروں کی یہی رائے ہے کہ وہ بھی اسی مرض میں مبتلاء ہیں جو ام طاہر مرحومہ کو تھا ایک لڑکی کی پیدائش کے بعد سات سال سے ان کے ہاں اور اولاد نہیں ہوئی اور پھر ان کی طبیعت ایسی ہے کہ میری رضا جوئی کے لئے جب بچے آپس میں لڑ پڑیں تو چاہے ان کی لڑکی کا قصور ہو اور چاہے کسی دوسرے بچے کا وہ اپنی لڑکی کو ہی سزا دیتی ہیں تا دوسرے بچوں کے دل میں یا میرے دل میں احساس پیدا نہ ہو کہ وہ اپنی لڑکی کی طرفداری کرتی ہیں اور بوجہ بنت العم ہونے کے مجھ سے دو ہرا تعلق رکھتی ہیں اور اس لئے دو ہری محبت.گو میری امتہ الحی مرحومہ کی سی فرمانبرداری کا مقام انہیں حاصل نہیں کہ مرحومہ امتہ الحئی نے دس سالہ مصاحبت میں ایک دفعہ بھی میری بات کو رد نہیں کیا.میرے واہمہ میں بھی نہیں آسکتا تھا کہ اس سے بڑھ کر فرمانبردار بیوی کوئی اور ہو سکتی ہو (حالانکہ استاد کی بیٹی ہوتے ہوئے اگر
خطبات محمود ۵۸۵ چند موم وہ کبھی مجھ سے تیزی کرتیں تو ہرگز قابل تعجب نہ ہوتا.پس میں نے خیال کیا کہ یہ بہت بہت ظلم ہو گا کہ جس کے ہاں ایک ہی بچہ ہے اور بظاہر اور ہونے کا احتمال کم ہے اگر ہم اللہ تعالی کی رحمت سے مایوس نہیں) اس کے ایک ہی بچہ کو دکھ میں ڈال کر ماں کو دکھ میں ڈال دیا جائے یہ تکلیف مالا يطاق ہوگی اور اس کے علاوہ میں نے مریم بیگم مرحومہ کے تجربہ کی بناء پر سوچا کہ کسی عورت کا دوسری بیوی کے بچوں کو پالنا اس کے لئے بہت کچھ ابتلاؤں کا موجب ہوتا ہے خصوصاً اس صورت میں کہ وہ بچے جن کو پالنا اس کے سپرد ہو دوسرے خاندان سے تعلق رکھتے ہوں.میں نے ”میری مریم" کے عنوان سے جو مضمون لکھا اس میں یہ لکھا تھا کہ جب میں نے امتہ الحتی مرحومہ کے بچوں کو ام طاہر مرحومہ کے سپرد کیا تو نہ انہیں اور نہ مجھے معلوم تھا کہ ہم اس وقت ان کی موت کے فیصلہ پر دستخط کر رہے تھے کیونکہ اس ذمہ داری کی وجہ سے انہیں بھی اور مجھے بھی بہت تکلیف پہنچیں اور یہ اس طرح ہوا کہ امتہ الحی مرحومہ کے خاندان کے بعض افراد یہ پسند نہ کرتے تھے کہ میرے بچے میرے گھر میں رہیں بلکہ چاہتے تھے کہ اپنی نانی کے سپر ہو جائیں مگر میں نے فیصلہ کیا کہ وہ میرے گھر میں رہیں اور ان کو مریم بیگم مرحومہ کے سپرد کر دیا.اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ امتہ الکئی مرحومہ کے خاندان کے بعض افراد کی ساری کوششیں ام طاہر مرحومہ کے خلاف استعمال ہونے لگیں.(میں اس تفصیل کو اور معاملہ کو خدا تعالیٰ پر چھوڑتا ہوں خلاصہ یہ ہے کہ ان حالات میں مریم بیگم کی صحت خراب ہو گئی اور بیہوشی کے دورے ہونے لگے جن دوروں میں اندرونی اعضاء کو نقصان پہنچا اور اس کے نتیجہ میں آج میں الگ تکلیف میں ہوں اور ان کے بچے الگ غموں کا شکار ہو رہے ہیں.مگر اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں بھی معاف فرمائے اور دوسرے لوگوں کو بھی معاف فرمائے کہ اس کے فضل کے بعد سب مصائب اور فکر، رحمت اور برکت بن جاتے ہیں) بہر حال ان بچوں کو مریم بیگم مرحومہ کے سپرد کرنا ان کی موت کے موجبات میں سے ایک ہوا.اور میں نے اپنے دل میں کہا کہ یہی بات دوبارہ دوسری مریم کی نسبت دہرائی نہیں جاسکتی.اب مجھے کوئی اور رستہ نظر نہ آتا تھا ایک دن میں تذکرہ پڑھ رہا تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ۱۸ فروری ۱۹۰۷ ء کے حسب ذیل الہامات پڑھے : كُلُّ الْفَتْحِ بَعْدَة له مَظْهَرُ الْحَقِّ وَالْعَلَاءِ كَانَ اللَّهَ نَزَلَ مِنَ السَّمَاءِ له
خطبات محمود ۵۸۶ پھر اس کے بعد ۲۰ فروری کے یہ الہام درج ہیں.اني مَعَ الرَّسُولِ أَقُومُ - وَالُومُ مَنْ يَكُومُ له -۲- " پسپا شده ہجوم" شه افسوس ناک خبر آئی ہے." 21 فرمایا اس الہام پر ذہن کا انتقال بعض لاہور کے دوستوں کی طرف ہوا.مگر یہ انتقال ذہن بعد بیداری ہوا.الہام بھی شاید اس کے متعلق ہو.بہتر ہو گا کہ اور شادی کر لیں.فرمایا معلوم نہیں کہ کس کی نسبت یہ الہام ہے.كه te ۱۸.فروری کا الهام مُظْهَرُ الْحَقِّ وَالْعَلَاءِ وہ الہام ہے جو اس سے پہلے پسر موعود کے متعلق ہو چکا تھا.جب میں نے یہ الہام پڑھا تو میرے ذہن میں آیا کہ یہ پیشگوئی دوبارہ بیان کی گئی ہے اور عجیب بات یہ نظر آئی کہ پہلی پیشگوئی بھی فروری میں کی گئی تھی اور یہ الہام بھی فروری کا ہے پس معلوم ہوتا ہے کہ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات کا وقت قریب آیا یعنی آپ کی وفات سے سوا سال قبل اللہ تعالیٰ نے پھر اس پیشگوئی کو دہرا دیا تا ایک لمبا عرصہ گزر جانے کی وجہ سے لوگ یہ نہ سمجھیں کہ یہ منسوخ ہو گئی ہے.اور ساتھ ہی یہ فرمایا کہ محل الفتح بعد ه کہ اس نشان کے بعد اصل فتوحات ہوں گی.پھر آگے اسی سلسلہ میں یہ الہام ہے ك اني مَعَ الرَّسُولِ أَقومُ وَالُومُ مَنْ يَكُومُ اس میں بتایا گیا ہے کہ جب اس پیشگوئی کا ظہور ہو گا تو چاروں طرف سے دشمن حملہ کرے گا.چنانچہ اس طرف مجھ پر اس پیشگوئی کا انکشاف ہوا ادھر پیغامیوں نے مخالفت کی آگ پورے زور کے ساتھ بھڑکائی اور طرح طرح کے اتہامات، جھوٹ اور کذب بیانیوں سے کام لینا شروع کر دیا مگر ساتھ اللہ تعالی نے یہ بھی بتا دیا کہ " پسپا شدہ ہجوم " اس کا مفہوم وہی ہے جو قرآن کریم کی آیت سيهزم الجَمْعُ وَيُوَلُّونَ الدبرش کا ہے یعنی سب دشمن جمع ہو کر حملہ کریں گے مگر اللہ تعالی ان کو ذلیل و رسوا کرے گا اور وہ شکست کھا جائیں گے.یہ الہام اس دوسرے الہام سے جو پسر موعود کے متعلق ہے بہت ملتا ہے کہ جاءَ الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِلُ اِنَ الْبَاطِلَ كَانَ زَهُوقًا - له یعنی جب پر موعود ظاہر ہو گا تو حق آجائے گا اور باطل بھاگ جائے گا.باطل تو بھاگنے ہی کی اہلیت رکھتا ہے پھر اس الہام کے بعد یہ الہام ہے کہ افسوس ناک خبر آئی.چنانچہ ایسا ہی ہوا کہ انکشاف کے سوا ماہ بعد ام طاہر مرحومہ کی وفات ہوئی اس الہام کی تشریح کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ
خطبات محمود ۵۸۷ جلد سوم السلام نے فرمایا کہ ذہن کا انتقال بعض لاہور کے دوستوں کی طرف ہوا گو یہ انتقال ذہنی تھا مگر واقعہ نے بتادیا ہے کہ در حقیقت یہ الہام لاہو ر ہی کے بارہ میں تھا کیونکہ ام طاہر احمد لاہور میں ہی فوت ہو ئیں.اللہ تعالٰی کے الہامات فضول نہیں ہوتے.خالی یہ خبر دینا کہ ایک افسوسناک خبر آئی بغیر کسی ایسے قرینہ کے جس سے یہ معلوم ہو سکے کہ وہ خبر کس کے متعلق ہے کس قسم کی ہے بالکل بے معنی ہو جاتا ہے لیکن جب ہم یہ امر دیکھیں کہ یہ سلسلہ الہام ہے پہلے پسر موعود کے ظہور کا ذکر ہے، پھر دشمنوں کے شور اور ان کی ناکامی کا، پھر ایک افسوس ناک خبر کا، جس کا نتیجہ یہ پیدا کیا ہے کہ بہتر ہو گا کہ اور شادی کرلیں تو ان الہامات سے صاف پتہ چلتا ہے کہ افسوس ناک خبر کسی کی بیوی کی وفات کی خبر ہے کیونکہ اگلا الہام کسی مرد کی نسبت کہتا ہے کہ بہتر ہے کہ شادی کرلیں.پس افسوس ناک خبر سے مراد اس شخص کی بیوی کی وفات ہی ہو سکتی ہے.اور چونکہ اسی سلسلہ میں الہامات میں پسر موعود کے سوا کسی اور مرد کا ذکر نہیں اس لئے یہ بھی ظاہر ہے کہ یہ فوت ہونے والی بیوی پسر موعود کی بیوئی ہوگی.جو پسر موعود کے دعوئی کے قریب زمانہ میں لاہور میں فوت ہوئی.ان تمام الہامات کے پڑھنے کے بعد اور یہ دیکھ کر کہ ادھر مجھ پر اس پیشگوئی کے میری ذات میں پورا ہونے کا انکشاف ہوا ادھر پیغامیوں نے پورے جوش کے ساتھ حملے شروع کر دیئے ، پھر ام ظاہر کی وفات واقع ہوئی میں نے سمجھا کہ شاید میرا یہ نتیجہ نکالنا کہ بچوں کو کسی اور بیوی کے سپرد کرنا چاہئے صحیح نہیں ہے اور اللہ تعالی کا منشاء یہ معلوم ہوتا ہے کہ شادی کرنا بہتر ہو گا.تب میرا ذہن اس طرف گیا کہ جو دوسری بیوی بھی آئے گی بچے اسے غیر سمجھیں گے اور مرحومہ کے رشتہ دار بھی اس کے پاس نہیں آسکیں گے اور اس طرح بچوں کو دیکھ نہ سکیں گے جس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ ان میں سے جو کمزور ہوں گے وہ اس کے ساتھ وہی سلوک کریں گے جو مریم مرحومہ کے ساتھ امتہ الحی مرحومہ کے بعض رشتہ داروں نے کیا تھا اس کا جواب کچھ دن تک میں نہ دے سکا.اتفاقاً ایک روز میں نے تذکرہ سے فال دیکھی.میں فال کا قائل تو نہیں مگر مصیبت کے وقت بعض دفعہ انسان ان باتوں کی طرف بھی توجہ کر لیتا ہے جن کا وہ قائل نہیں ہو تا بشر طیکہ وہ ناجائز نہ ہوں.میں نے تذکوہ کھولا تو اس میں لفظ بشری موٹے حرف میں لکھا ہوا نظر آیا.اس وقت مجھے معلوم نہیں کہ وہ کونسا صفحہ تھا اسے دیکھ کر میرا ذہن اس طرف گیا کہ میر محمد اسحاق صاحب مرحوم کی لڑکی کا نام بشری ہے مگر اس سے تو میری شادی کا سوال ہی پیدا نہیں ہو سکتا کیونکہ میر صاحب مرحوم نے حضرت اماں جان کا دودھ پیا ہے
خطبات محمود ۵۸۸ جلد سوم پس بشری میری بھتیجی ہے.اس کے بعد میں نے اس بات کا ذکر مریم مرحومہ کے خاندان کے بعض افراد سے کیا تو انہوں نے کہا کہ ہمارا اپنا خیال یہ ہے کہ مرحومہ کے گھر میں کوئی بڑا آدمی ضرور ہونا چاہئے اور اس وجہ سے ہم میں سے بعض کی رائے یہی ہے کہ آپ اور شادی کرلیں تو اچھا ہے اور کہ اگر ہمارے ہی خاندان میں ہو جائے تو اور بھی اچھا ہے اس صورت میں بچوں کی نگرانی زیادہ آسان ہوگی.تب میرا ذہن اس طرف گیا کہ ان کے خاندان میں بھی ایک لڑکی بشری نام کی ہے اور اتفاق کی بات ہے کہ بعض بیماریوں کی وجہ سے اس کی شادی اس وقت تک نہیں ہو سکی اور اس کی عمر بھی بڑی ہو گئی ہے اور اس لئے وہ بچوں کی دیکھ بھال اور نگرانی کا کام زیادہ اچھی طرح کر سکے گی.اس کے بعد میں نے استخارہ کیا تو رویا ہوئی جو یکم جون ۱۹۴۴ء کے الفضل میں شائع ہو چکی ہے.رویا میں میں نے دیکھا کہ مجھے کوئی سفر در پیش ہے اور اس کے لئے میں سوچتا ہوں کہ کس رنگ میں کروں مولوی ابو العطاء صاحب ایک سواری میرے سامنے پیش کرتے ہیں اور بجائے اس کے کوئی جانور مجھے دکھا ئیں مجھے ایک سر دکھاتے ہیں جو میں سمجھتا ہوں کہ خچر کا سر ہے اور وہ کہتے ہیں کہ کیا میں اس کو آپ کی سواری کے لئے سدھاؤں اور میں کہتا ہوں بے شک سدھائیں.مگر کوئی خاص رغبت میرے دل میں پیدا نہیں ہوتی میں کچھ آگے جاتا ہوں تو وہ میرے پیچھے دوڑتے ہوئے آتے ہیں اور پھر اس فیچر کا سر مجھے دکھاتے اور کہتے ہیں کہ دیکھتے ہیں اس کو آپ کی سواری کے لئے سدھاتا ہوں تیسری بار وہ پھر آتے اور کہتے ہیں کہ میں اس کو سدھا رہا ہوں اور اس کی تعریف کرتے ہیں کہ یہ بڑی عمدگی سے سیکھ رہا ہے.اس کے بعد میں اس ٹیچر پر سواری کرنے اور اپنے سفر کو پورا کرنے کے لئے جاتا ہوں مگر جب وہ سواری میرے سامنے آئی تو میں نے دیکھا کہ مادہ شتر مرغ ہے.یہ رویا شائع ہو چکی ہے مگر اس کی تعبیر شائع نہیں ہوئی.معبرین نے لکھا ہے کہ نیچر کو خواب میں دیکھنے کی تعبیر یہ ہے کہ ایسی عورت سے شادی ہو جس کے ہاں اولاد نہیں ہو سکتی اور مجھے بشری بیگم صاحبہ کے متعلق علم تھا کہ ڈاکٹروں کی رائے ہے کہ ان کے ہاں اولاد نہیں ہو سکتی مگر میں نے سوچا کہ خواب میں میں جس پر سوار ہونے لگا ہوں وہ خچر نہیں بلکہ مادہ شتر مرغ ہے اس لئے ممکن ہے وہ کوئی اور عورت ہو جس سے شادی ہوگی.یہ خیال کر کے میں نے پھر تعبیر نامہ کے ورق الٹنے شروع کئے اور شتر مرغ پر سواری کی تعبیر دیکھی تو وہاں لکھا تھا کہ ایسی
خطبات محمود ۵۸۹ جلد سوم عورت سے شادی ہو جس سے اولاد نہیں ہو سکتی.فیچر ایک ایسا جانور ہے جس سے بالطبع کچھ نفرت سی پیدا ہوتی ہے اور اس لئے اللہ تعالیٰ کی حکمت نے اس کی بجائے شتر مرغ دکھا دیا جس کے لئے عربی میں لفظ مکا مة ہے جو نعمت سے نکلا ہے جس سے اس طرف اشارہ کیا کہ اللہ تعالٰی اس خواب کی مورد کی اصلاح فرما کر اسے نعمت و رحمت کا موجب بنا دے گا.غرض اس رویا میں ایک ہی چیز کی دو مختلف صورتیں بتائی گئیں اور بتایا گیا کہ پہلے کچھ بری باتیں پیدا ہوں گی مگر بعد میں نیک صورت پیدا ہو جائے گی.اس کے بعد میں نے پھر استخارہ کیا تو میں نے ایک رؤیا دیکھی جو شائع نہیں ہوئی.میں نے دیکھا کہ میں ایک جگہ گیا ہوں ایک بہت بڑا احاطہ ہے جس میں ایک شخص رہتا ہے اور اس احاطہ میں پانچ چھ چارپائیاں بچھی ہیں جو اس کے خاندان کے لوگوں کی ہیں.وہ شخص مجھے کہتا ہے کہ آپ یہیں ٹھہریں یہ کہہ کر وہ خود باہر چلا گیا اور پھر نہیں لوٹا.میں وہاں ٹہل رہا ہوں وہاں میں نے دو چار پائیاں الگ بچھی ہوئی دیکھیں اور ان میں سے ایک پر میں نے بشری بیگم صاحبہ کی بہن ناصرہ بیگم صاحبہ کو لیٹے دیکھا اس سے بھی میں نے سمجھا کہ اس خواب کی تعبیر اسی خاندان سے وابستہ ہے.مگر یہ بات میری سمجھ میں نہ آئی کہ وہ آدمی گیا ہے تو پھر لوٹا کیوں نہیں گو بعد کے واقعات نے اس کی تعبیر ظاہر کر دی کیونکہ برادرم عزیز اللہ شاہ صاحب پہلے تو اس رشتہ پر راضی ہو گئے مگر بعد میں سیدہ بشری بیگم کی گھبراہٹ کی وجہ سے وہ بھی متردد ہو گئے بلکہ عجیب بات یہ ہے کہ جب با قاعدہ پیغام دیا گیا تو اس وقت دورہ پر چلے گئے تھے اور میں نے پھر تخارہ جاری رکھا اور پھر میں نے وہ رویا دیکھی جو ۲۰.جون ۱۹۴۴ء کے الفضل میں شائع ہو چکی ہے اور جس میں میں نے دیکھا کہ میں ایک ایسی جگہ گیا ہوں جہاں میں سمجھتا ہوں کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے بھی پناہ لی تھی وہاں دو بار مجھے سید ولی اللہ شاہ صاحب ملے ہیں.پہلی بار تو وہ اپنے کام کی رپورٹ سنائے بغیر گذر گئے ہیں اور دوسری بار انہوں نے کہا کہ میں جب آیا تھا تو میرے ساتھ میری بیوی کے علاوہ خاندان کی کچھ مستورات بھی تھیں اور میں ان کو چھوڑنے چلا گیا.ایک نام انہوں نے اپنی بیوی سیارہ حکمت صاحبہ کا لیا اور دوسرا نام جو لیا اس کا ایک حصہ میں نے ظاہر نہیں کیا تھا اور صرف غلام مرزا بتایا تھا جو شائع ہو چکا ہے مگر اصل میں انہوں نے بشری غلام مرزا کہا تھا مگر خواب بیان کرتے وقت میں نے بشری کا لفظ اڑا دیا تا لوگوں کو ابھی میرے ارادہ کا علم نہ ہو.( تعجب ہے بعض لوگوں کو پھر بھی علم ہو ہی گیا.معلوم نہیں کس طرح
خطبات محمود ۵۹۰ جلد سوم شاید بعض لوگ خطوط پڑا کر پڑھ لیتے ہیں، مگر پھر بھی مجھے خیال رہا کہ یہ غلام مرزا نام جو خواب میں آیا ہے ممکن ہے اس سے مراد کوئی اور عورت ہو اور شاہ صاحب کے ان الفاظ سے کہ میرے ساتھ سیارہ بشری غلام مرزا ہیں دو نہیں بلکہ تین عورتیں مراد ہوں.اس وجہ سے میں نے استخارہ جاری رکھا اسی عرصہ میں سید ولی اللہ شاہ صاحب سے بھی ذکر آیا اور میں نے انہیں بتایا کہ اس طرح تذکرہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئی ہے اور پھر اپنے رویا بتائے اور ان سے پوچھا آپ کی کیا رائے ہے ؟ انہوں نے کہا کہ میری رائے میں تو بہت اچھی بات ہے اگر شادی ہو جائے تو بشری ذمہ داری کو نبھا سکتی ہے.اس پر میں نے بشری بیگم صاحبہ کے والد صاحب کو ایک خط لکھا اور سید ولی اللہ شاہ صاحب سے کہا کہ اسے ان کے پاس لے جائیں مگر ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ اگر آپ کو یہ خیال ہو کہ وہ اس بات کو برا ما نہیں گے تو چونکہ اتنی خوابوں اور اللہ تعالٰی کی طرف سے اشارہ کے بعد اس بات کو رد کر دینے کی صورت میں وہ خدا تعالٰی کی گرفت کے مورد ہو سکتے ہیں اور میں اس بات کو پسند نہیں کرتا کہ مریم بیگم مرحومہ کے رشتہ داروں میں سے کوئی کسی قسم کے عذاب میں مبتلاء ہو اس لئے آپ مجھے بتا دیں تو میں یہ خط بھیجتا ہی نہیں اور اسے پھاڑ دیتا ہوں مگر انہوں نے کہا کہ میرے خیال میں تو وہ ضرور مان لیں گے اور ان کے اطمینان دلانے پر میں نے یہ خط ان کو دیا.اس کے بعد میں نے ایک اور رویا دیکھی کہ لڑکی کے والد صاحب مجھے ملے ہیں اور مجھ سے بعض امور میں مشورہ لیتے ہیں مگر اشاروں میں مجھ سے بات کرتے ہیں واضح بات نہیں کرتے مگر میں سمجھتا ہوں کہ یہ شادی کے بارہ میں ہی مجھ سے مشورہ کر رہے ہیں.خلاصہ ان کی بات کا یہ ہے کہ اگر کسی کے سامنے کوئی بات پیش کی جائے اور وہ اسے کرنا نہ چاہے تو کیا کرے.میں خواب میں خیال کرتا ہوں کہ مجھے انکو ایسا جواب دینا چاہئے کہ جس سے ان کے شبہ کا ازلہ ہو.چنانچہ میں ان کو کوئی جواب دیتا ہوں تو پھر وہ پوچھتے ہیں کہ اچھا اگر کوئی اس بات کے کرنے پر راضی ہی ہو جاوے تو پھر جلدی سے اس کام کو کر دے یا دیر کرے میں نے ان سے کہا کہ یہ تو کام کی نوعیت پر منحصر ہے.اگر اس کام کے جلدی سے کرنے میں فائدہ ہے تو جلدی کرے اور دیر سے کرنے میں فائدہ ہے تو دیر سے کرے اور اس خواب سے میں نے سمجھا کہ ضرو ر اس معاملہ میں پہلے کچھ گڑ بڑ ہو گی.چنانچہ سید ولی اللہ شاہ صاحب جو پیغام لے کر گئے تھے واپس آئے تو انہوں نے مجھے بتایا کہ لڑکی کے والد تو راضی ہیں مگر لڑکی کہتی ہے کہ میں تو شادی کے
خطبات محمود ۵۹۱ جلد سوم قابل ہی نہیں پہلے ہی لوگ کہتے تھے کہ انہوں نے ایک بیمار عورت حضرت صاحب کے گھر میں بھیج دی ہے اب اگر میں گئی تو خاندان کی بدنامی ہوگی اور لوگ کہیں گے کہ ایک اور بیمار بھیج دی اور اس طرح یہ خاندان بیماروں کو بھیج کر بوجھ ڈالتا ہے.شاہ صاحب نے آکر جب مجھے یہ بات بتائی تو میں نے ان سے کہا کہ اللہ تعالی کی طرف سے مجھے پہلے ہی یہ بتایا گیا ہے کہ پہلے کچھ مشکلات پیدا ہوں گی اس عرصہ میں اور بھی بہت سے لوگوں نے میرے اور ان کے خاندان کے متعلق خواب دیکھے جن میں اس امر کی طرف اشارہ تھا.چنانچہ جب میں نے سید ولی اللہ شاہ صاحب کو بھیجا تو ان سے کہا تھا کہ پہلے برادرم سید حبیب اللہ شاہ صاحب سے لاہور میں ملتے جائیں.(وہ میرے بچپن کے دوست ہیں اور بشری بیگم کے چچا) وہ جب سید حبیب اللہ شاہ صاحب کے ہاں پہنچے تو ان کے دل میں چونکہ فکر تھا کہ شاید میری بات نہ مانی جائے وہ کچھ افسردہ سید حبیب اللہ شاہ صاحب کی اہلیہ انگریز ہیں اور بڑی زیرک ہیں انہوں نے سید ولی اللہ شاہ صاحب کے چہرے کو دیکھ کر پہچان لیا کہ ان کو کوئی فکر ہے اور جب یہ غسل خانہ میں غسل کے لئے گئے تو انہوں نے اپنے میاں سے کہا کہ بھائی کے چہرے سے ظاہر ہوتا ہے کہ انہیں کوئی فکر ہے آپ نے ان سے پوچھا کیوں نہیں؟ شاہ صاحب نے سنایا کہ جب میں نہا رہا تھا تو بھائی حبیب اللہ صاحب اپنی اہلیہ سے یہ معلوم کر کے غسل خانہ کے آگے آکر ٹہلنے لگے اور میں جب باہر آیا تو مجھ سے پوچھا کہ کیا بات ہے وہ ان کو یہ بات سنانے لگے تو سید حبیب اللہ شاہ صاحب نے کہا کہ مجھے تو پہلے ہی علم ہو چکا ہے کہ یہی بات ہے کیونکہ آپ کے غسل خانہ سے نکلنے سے قبل میں نے کشفا دیکھا کہ بشری بیگم سفید لباس میں ملبوس میرے سامنے کھڑی ہے اور حضور کو بھی دیکھا کہ قریب ہی ایک طرف کھڑے ہیں اور یہ القاء ہوا کہ " بشری بیگم صاحبہ حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ کے لئے ہیں نیز شاہ صاحب نے بتایا کہ جب میں بھائی حبیب اللہ صاحب سے مشورہ کرنے کے بعد جہلم پہنچا تو چونکہ میری آمد اچانک تھی ہمشیرہ زہرہ بیگم لڑکی کی والدہ بہت خوش ہو ئیں اور ملتے ہی سنایا کہ خدا کی قسم آج ہی میں نے تین چار گھنٹے قبل خواب میں دیکھا کہ آپ آئے ہیں اور آپ کے ہاتھ میں شہد ہے اور آپ نے کہا کہ یہ شہر میں آپ کے لئے لایا ہوں اور یہ کہ آپ کے والدین بھی (جو ان کے پھوپھا اور پھوپھی ہیں) وہ بھی کمرے میں موجود ہیں پھوپھی صاحبہ کہتی ہیں کہ اس شہد میں میرا بھی حصہ ہے میرا حصہ محفوظ رکھنا.اس کے ساتھ ہی دیکھا کہ شہد کی مکھیاں بھی پیچھے پیچھے اڑتی آرہی ہیں اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ
خطبات محمود ۵۹۲ جلد سوم ایک بار وہاں سے اڑ چکی ہیں اور اب دوبارہ بیٹھنا چاہتی ہیں.اس طرح گویا خود لڑکی کے رشتہ داروں نے بھی خدا تعالٰی سے اس رشتہ کی بشارات پائی تھیں مگر میری خواب کے مطابق ہوا یہ کہ لڑکی نے کہہ دیا کہ میں تو بہار ہوں اس لئے یہ بوجھ نہ اٹھا سکوں گی اور لوگ کہیں گے کہ اس گھر سے پہلے ایک بیمار آئی تھی وہ فوت ہو گئی تو اب دوسری آگئی ہے اور لڑکی نے اپنے والد کو ایک بہت درد ناک خط لکھا جس میں اپنی بیماری کی حالت بیان کر کے لکھا کہ ایسا نہ ہو کہ ہم لوگ بجائے ثواب کے عذاب میں مبتلاء ہو جائیں اور اللہ تعالیٰ کی کسی گرفت میں آجا ئیں اور لڑکی کے والد صاحب کا بھی یہی خیال ہو گیا اس عرصہ میں لڑکی کی والدہ نے اسے سمجھایا اور کہا کہ لیڈی ڈاکٹر کی رائے لے لی جائے.چنانچہ ایک لیڈی ڈاکٹر کی رائے لی گئی تو اس نے کہا کہ لڑکی ہر گز ایسی بیمار نہیں کہ شادی کے قابل نہ ہو اور ذمہ داری نہ اٹھا سکے اس پر لڑکی کا شبہ بھی دور ہو گیا اور اس کے والد بھی راضی ہو گئے.اب میں نے جو رؤیا دیکھا تھا اس کا دوسرا حصہ ابھی پورا ہونا باقی تھا یعنی یہ کہ اگر کوئی راضی ہی ہو جائے تو پھر جلدی کرے یا دیر کرے.چنانچہ وہ اس طرح پورا ہوا کہ جب نکاح کے ذکر کے ساتھ رخصتانہ کا ذکر ہوا تو برادرم سید عزیز اللہ شاہ صاحب نے سید ولی اللہ شاہ صاحب سے کہا کہ رخصتانہ ہم جلدی نہیں کر سکتے تیاری کے لئے ہمیں وقت ملنا چاہئے ہم نہیں چاہتے کہ جلدی میں کوئی سامان نہ کر سکیں اور لڑکی کی دل شکنی ہو اور وہ سمجھے کہ میں چونکہ بیمار تھی اس لئے والدین مجھے یوں ہی پھینک رہے ہیں اس طرح گویا رویا کا ہر حصہ پورا ہو گیا میں نے اپنے خاندان کے جن افراد سے مشورہ کیا انہوں نے بھی یہی رائے دی کہ بچوں کے انتظام کے لئے اور شادی ہی مناسب رہے گی میری زیادہ بے تکلفی اپنی ہمشیرہ مبارکہ بیگم سے ہے ان سے میں نے ذکر کیا تو انہوں نے تذکرہ کے یہی الہامات مجھے سنائے اور کہا کہ میں تو خود آپ سے یہ کہنا چاہتی تھی مگر مریم بیگم مرحومہ سے چونکہ مجھے بہت محبت تھی اور لوگوں کو معلوم تھا کہ ہمارے باہم بہت تعلقات تھے اس لئے میں نے اس ڈر سے آپ کو یہ مشورہ پہلے نہیں دیا کہ لوگ سمجھیں گے کہ زندگی میں جس سے اتنی محبت تھی اس کی وفات کے بعد فوراہی اور شادی کر لینے کا مشورہ دے رہی ہیں.انہوں نے اپنا ایک خواب بھی سنایا جو انہوں نے ام طاہر مرحومہ کی زندگی میں دیکھا تھا جس کی تعبیر یہی ہے کہ اس خاندان میں میری دوسری شادی ہوگی.عجیب بات یہ ہے کہ جو خواب مبارکہ بیگم نے دیکھا تھا وہی خواب برادرم سید ولی اللہ
خطبات محمود ۵۹۳ جلد سوم شاہ صاحب نے بھی مرحومہ کی زندگی میں دیکھا تھا جو انہوں نے اپنی بیوی کو سنا دیا تھا.پھر اور لوگوں نے بھی ایسے خواب دیکھے ہوئے تھے جو بعد میں معلوم ہوئے مثلاً ایک عورت نے شاہ صاحب کے گھر میں اپنا خواب سنایا جو اس نے ام طاہر مرحومہ کی زندگی میں وفات سے چھ یا سات ماہ پہلے دیکھا تھا.اور اس وقت یہ خواب سنایا جب کہ اس قسم کا علم کسی کو نہیں تھا اس نے کہا کہ میں نے دیکھا تھا کہ حضرت صاحب کی شادی بشری بیگم سے ہو رہی ہے کوئی بری تعبیر نہ ہو.اسی طرح پروفیسر بشارت الرحمان صاحب ایم اے نے بتایا کہ انہوں نے ام ظاہر کی بیماری میں دیکھا کہ آپ کی شادی ایک بشری نام کی عورت سے ہوئی ہے.یہ خواب انہوں نے اسی وقت کسی کو سنا دیا تھا اور اس موقع کے لحاظ سے تعبیر کی کہ ام طاہر کو صحت ہو جائے گی یہ بشارت ہے.علاوہ ازیں سیدہ لال بی بی افغان نے ام طاہر کی زندگی میں خواب میں دیکھا کہ میری شادی ہو رہی ہے اس پر وہ کہتی ہیں کہ میں نے کہا چلو میں بھی دلہن کو دیکھوں جب دلہن کو دیکھا تو وہ ام طاہر مرحومہ ہی تھیں اس پر وہ کہتی ہیں کہ میں حیران ہوئی کہ دوبارہ حضرت صاحب نے ام طاہر صاحبہ سے ہی شادی کی ہے.یہ خواب انہوں نے ام طاہر احمد کو سنایا تو انہوں نے ہنسی سے کہا لال پری جس طرح تم پاگل ہو تمہاری خواہیں بھی پاگل ہیں.ان سب خوابوں سے یعنی ان میں سے جو اس تحریک کے وقت معلوم ہو ئیں (مذکورہ خوابوں کے علاوہ کوئی نصف درجن خواہیں اور بھی لوگوں نے اس بارہ میں بتائی ہیں اور انہی خوابوں سے میں نے آخر یہی فیصلہ کیا کہ اللہ تعالی کا منشاء یہی ہے کہ میں بشری بیگم سے شادی کر لوں (ان رؤیا کے علاوہ ایک رویا چوہدری عبد اللطیف صاحب بی اے کی بھی ہے انہوں نے اس تحریک کے علم سے پہلے دیکھا کہ میری شادی ہو رہی ہے اور وہ اپنے ایک دوست سے کہتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئی کہ مصلح موعود سات بیویاں کرے گا پوری ہو گئی اور ایک خواب شیخ ناصر احمد صاحب بی اے نے کوئی تین ماہ ہوئے دیکھی جو انہوں نے اسی وقت مجھے سنادی تھی کہ میری شادی ام نسفان سے ہوئی ہے.فسفان اس برتن کو کہتے ہیں جو پورا بھر کر بہہ پڑے پس ام نشان سے مراد یا تو نہایت محبت کرنے والی عورت کے ہیں یا سخی کے اور یا دونوں صفات رکھنے والی کے) اس میں کوئی شک نہیں کہ میرے رویا اور خوابوں میں کسی جگہ کی تعیین نہ تھی سوائے اس ایک کے جس میں میں نے دیکھا کہ بشری بیگم صاحبہ کے والد صاحب مجھے ملے ہیں اور مجھے
خطبات ۵۹۴ جلد سوم سے بعض باتیں پوچھتے ہیں مگر قرائن بہت سے پائے جاتے تھے.اسی طرح بعض دوسرے لوگوں کی خوا ہیں ایسی تھیں جن سے تعیین ہوتی تھی اور واقعات بھی اسی طرح ظاہر ہوتے چلے گئے جس طرح خوابوں میں بتایا گیا تھا اس لئے میں اس نتیجہ پر پہنچا کہ ان خوابوں اور الہامات سے سیده بشری بیگم ہی مراد ہیں لیکن باوجود اس کے انسان نہیں کہہ سکتا کہ آئندہ کیا ہو.بعض دفعہ الی نشان ایک طرف جاتا ہے مگر وہ دراصل ایک امتحان ہوتا ہے اور اللہ تعالی اپنے بندہ کو آزمائش میں ڈالنا چاہتا ہے.اس لحاظ سے اور اس لحاظ سے بھی کہ اس گھر کو آباد کرنے کی ضرورت ہے بہت دعاؤں کی ضرورت ہے.اس محبت کی وجہ سے جو مجھے ام طاہر مرحومہ سے تھی یہ قدم جو میں اٹھا رہا ہوں میرے لئے سہل اور خوشی کا موجب نہیں بلکہ رنج اور تکلیف کا موجب ہے.مجھے امید نہیں کہ اللہ تعالٰی کے منشاء کے ماتحت جس طرح کہ میں نے اسے سمجھا میں نے جو قدم اٹھایا ہے میرا رحیم و کریم خدا میرے لئے اسے کسی پریشانی کا موجب بنائے گا تو بھی اگر یہ خواہیں میری آزمائش کے لئے بھی ہیں تو میں پھر بھی اس سے دعا کرتا ہوں کہ جب میں نے اس کا کمزور بندہ ہوتے ہوئے اس کے اشارہ پر چلنے کا فیصلہ کیا ہے تو وہ طاقتور اور رحیم کریم ہوتے ہوئے ضرور اگر یہ کوئی آزمائش کی بات بھی ہے تو اس ابتلاء کو ابتلائے رحمت بنا دے.جیسا کہ میں بیان کر چکا ہوں اس بارہ میں مجھے بھی اور بہت سے دوستوں کو بھی رویا ہوئے ہیں.ڈاکٹر حشمت اللہ صاحب نے بھی خواب میں دیکھا کہ ایک شخص جس کا نام بشارت اللہ ہے میرے گلے میں ہار ڈال رہا ہے اور اس لئے میں چونکہ اللہ تعالٰی کے حکم اور اس کے منشاء کے ماتحت یہ کام کر رہا ہوں میں امید رکھتا ہوں کہ اللہ تعالٰی اسے موجب خیر و برکت کرے بعض لوگوں نے اعتراض بھی کئے ہیں اور اسی وجہ سے میں نے تمام واقعات بیان کر دیئے ہیں بعض دوستوں کو غلط فہمیاں بھی ہیں جن کا دور کرنا ضروری ہے، بعض نے لکھا ہے کہ یہ لوگ آپ کو دھوکا دے کر یہ رشتہ کر رہے ہیں حالانکہ جیسا کہ میں بتا چکا ہوں سب سے پہلے مجھے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الہامات سے اس طرف توجہ ہوئی اور پھر میں نے استخارہ کیا، اپنے خاندان کے بعض افراد سے مشورہ کیا، خواہیں ہو ئیں، دوسروں کی خواہیں سنیں اور پھر خود سید ولی اللہ شاہ صاحب سے تحریک کی اور ان کو آپ کہہ کر لڑکی کے والد کے پاس تحریک کرنے کے لئے بھیجا.پس ان حالات میں یہ کہنا کہ مجھے دھوکا دے کر یہ شادی کی جارہی
خطبات محمود ۵۹۵ جلد سوم ہے بہت بڑا ظلم ہے.اگر یہ دھوکا ہے تو یہ میرے خدا نے مجھے دیا ہے یا میں نے خود اپنے نفس کو دیا ہے لڑکی کے خاندان کا معاملہ اس میں بالکل صاف اور اعتراض سے کلی طور پر بالا ہے.بعض دوستوں نے لکھا ہے کہ آپ کو کسی بڑی عمر کی لڑکی کے ساتھ شادی کرنی چاہئے.ان کو بھی یہ معلوم نہیں کہ بوجہ بیماری کے بشری بیگم کی اب تک شادی نہیں ہوئی ورنہ ان کی عمر اس کی وقت ۲۷ سال ہے اور یہ وہ عمر ہے جب عورت کی عقل پختہ ہو جاتی ہے.باقی یہ تو قیاس بھی نہیں کیا جا سکتا کہ بڑی عمر کی عورت کے ساتھ شادی کا مشورہ دینے والا کوئی عقلمند یہ بھی کہہ سکتا ہے کہ بڑی عمر سے مراد پچاس سال کی عورت ہے.بشری بیگم کی عمر اپنی مرحومہ پھوپھی سے صرف ساڑھے گیارہ سال کم ہے.مریم بیگم مرحومہ کے ہاں سب بچے پیدا ہو چکنے پر دو سال گزرنے کے بعد جتنی ان کی عمر تھی اتنی عمر اس وقت بشری بیگم کی ہے.پس میں یقین رکھتا ہوں کہ اگر یہ سب خواب اور الہامات اسی رشتہ کے متعلق ہیں تو اللہ تعالی ان کو توفیق دے دے گا کہ وہ اپنے آپ کو غلام مرزا ثابت کر سکیں اور جیسا کہ میں نے ایک اور رویا میں دیکھا تھا کہ ایک فرشتہ آواز دے رہا ہے کہ مہر آپا کو بلاؤ جس کے معنی ہیں محبت کرنے والی آیا.تو ان کے اندر اللہ تعالیٰ یہ احساس پیدا کر دے گا کہ مرحومہ کے بچوں کے لئے محبت کرنے والی آپا بن کر نہ صرف ایک عام ثواب حاصل کر سکیں بلکہ ایک بزرگ مهربان کی خدمت کا بدلہ اتار سکیں اسی طرح جماعت کی مستورات اور مساکین کے لئے مہر آیا ثابت ہوں.پس جن لوگوں نے اعتراض کئے ہیں اور غلط ضمی اور لاعلمی سے کئے ہیں اگر اس میں کوئی غلطی یا قصور ہے تو میری طرف سے ہے بلکہ یوں کہنا چاہئے کہ اگر کوئی غلطی اس میں ہے تو اللہ تعالٰی نے اپنے ایک بندہ کے ابتلاء کے سامان کئے ہیں.اس قدر کثرت سے رویا اور خواب اس بارہ میں آئے ہیں کہ بظاہر امید نہیں اس میں کوئی غلطی ہو لیکن اللہ تعالی بہتر جانتا ہے کہ آئندہ کیا ہونے والا ہے.بعض اوقات اس کے کاموں میں بعض بڑے باریک راز ہوتے ہیں اس لئے ہم اپنے اس غنی خدا سے ہی ابتلاؤں سے پناہ مانگتے ہیں.میرے لئے یہ زمانہ دوڑ کا زمانہ ہے اور میں امید نہیں کرتا کہ میرا رحیم و کریم خدا ایک طرف تو مجھے دوڑنے کا حکم دے اور دوسری طرف ایک پتھر میرے گلے میں لٹکا دے کہ میں روڑ نہ سکوں.اس رحیم وکریم سے میں ایسی امید نہیں کر سکتا اور اس کے ہی فضل پر بھروسہ
خطبات محمود ۵۹۶ جلد سوم رکھتے ہوئے میں سیدہ بشری بیگم صاحبہ بنت سید عزیز اللہ شاہ صاحب کے ساتھ ایک ہزار روپیہ مر پر اپنا نکاح قبول کرتا ہوں اور اور دعا کرتا ہوں کہ وہ اس گھر میں آنے والی کو سلسلہ کا خادم بنائے اور اسلام اور احمدیت کی خدمت کی توفیق عطا کرے اور اس غرض کے پورا کرنے والی بنائے جو میرے مد نظر ہے یعنی مرحومہ کے بچوں کی نگرانی اور تربیت کی توفیق عطا کرے.وہ ہمارے گھر میں محبت اور پیار سے رہنے والی ہو ، میری دوسری بیویوں سے لڑنے جھگڑنے والی نہ ہو، غریبوں اور مسکینوں کے لئے ہمدرد اور مہمانوں کے لئے خبر گیر ہو، اسلام اور سلسلہ کی خدمت میں اپنی زندگی خرچ کرنے والی ہو تا جب وہ دنیا سے رخصت ہو تو خدا تعالیٰ کے فرشتے اس کے مالک کا سلام پہنچاتے ہوئے اس کی روح کے استقبال کے لئے آگے بڑھیں.آمین.الفضل یکم اگست ۱۹۴۴ء صفحه ۱ تا ۸) ه الفضل ۲۶ جولائی ۱۹۴۴ء صفحہ ۱ کے تذکرہ صفحہ ۶۹۶ - ایڈیشن چهارم شه القمر : ۴۶ -496 ایڈیشن چهارم شه تذکرہ صفحہ ۱۹۷ حاشیہ ایڈیشن چهارم
خطبات محمود ۵۹۷ ۱۲۸ جلد سوم واقف زندگی میری اولاد کی طرح ہیں (فرموده ۲۰ ستمبر ۱۹۴۴ء) ۲۰ ستمبر ۱۹۴۴ء بعد نماز عصر ڈاکٹر محمد احمد صاحب ابن مکرم جناب ڈاکٹر حشمت اللہ خان صاحب کے نکاح کا اعلان حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے عزیزہ امته اللطیف صاحبه بنت خان محمد اشرف صاحب مرحوم فیروز پوری کے ساتھ مبلغ دو ہزار روپیہ حق مہر پر اور ملک محمد صدیق صاحب ابن مهاشه فضل حسین صاحب کے نکاح کا اعلان ایک ہزار روپیه مهر پر سید مفتی اظهار حسین صاحب ساکن بریلی کی لڑکی فیروز جہاں بیگم سے فرمایا : اے جو خطبہ مسنونہ کی تلاوت کے بعد فرمایا : میں نے یہ اعلان کیا ہوا ہے کہ سوائے اپنے عزیزوں کے یا ایسے لوگوں کے جن کے تعلقات دینی یا تمدنی لحاظ سے اس قسم کے ہوں جن کی وجہ سے وہ گویا کالا قرباء ہی سمجھے جانے کے قابل ہیں جب تک میری صحت اچھی نہیں ہوتی میں کوئی نکاح نہیں پڑھایا کروں گا.اس اعلان کے مطابق میں نے بعض واقفین تحریک جدید کے نکاح پڑھے ہیں کیونکہ : شخص زندگی وقف کرتا ہے وہ ایک ایسا تعلق دین اور اسلام سے پیدا کر لیتا ہے کہ گویا وہ سلسلہ کی اولاد ہے اور جو سلسلہ کی اولاد بن جائے وہ کسی صورت میں ہمیں اپنی اولادوں سے کم نہیں ہو سکتا کیونکہ اس کا تعلق دینی لحاظ سے ہے اور رشتہ داروں کا دنیوی لحاظ سے.گو رشتہ داروں کا دینی لحاظ سے بھی تعلق ہوتا ہے مگر ظاہری اور ابتدائی تعلق ان کا دنیوی لحاظ سے ہی ہوتا ہے آج بھی اسی اصل کے ماتحت میں ڈاکٹر حشمت اللہ صاحب کے لڑکے کا نکاح پڑھنے کے لئے کھڑا
خطبات محمود ۵۹۸ جلد سوم ہوا ہوں میں نے یہ بھی اعلان کیا ہوا ہے کہ جب میں ایک نکاح کے اعلان کے لئے کھڑا ہوں تو اگر کوئی اور فارم بھی ساتھ ہوں تو ان کے مطابق نکاحوں کا اعلان مجھ پر کوئی بوجھ نہیں ڈال سکتا آج بھی بعض اور فارم آئے ہیں ان کے متعلق بھی اعلان ساتھ ہی کر دوں گا.ڈاکٹر حشمت اللہ صاحب اپنی ذات میں واقف زندگی ہیں.یعنی انہوں نے اپنی زندگی سلسلہ کے لئے وقف کر رکھی ہے.اور ایک لمبے عرصہ سے جو ۲۵ سال سے بھی زائد ہے وہ اپنے آپ کو وقف کئے ہوئے ہیں پھر ان کا ذاتی تعلق بھی میرے ساتھ اس قسم کا ہے کہ جو ان کو اس بات کا مستحق بنا دیتا ہے کہ ان کے ساتھ خاص سلوک کیا جائے اور اسی وجہ سے میں ابھی گیا ہوں ورنہ مجھے درد کی ایسی تکلیف ہے کہ سجدہ کرنا اور بیٹھنا مشکل ہے اور اس وقت درد بھی صبح کی نسبت کچھ زیادہ ہی تھی.الفضل ۱۴ اکتوبر ۱۹۴۴ء صفحه (۳) الفضل ۲۲ ستمبر ۱۹۴۴ء صفحه ۱
خطبات محمود ۵۹۹.۱۲۹ جلد سوم ماضی میں جو کام تم نے کئے ہیں وہی مستقبل میں پھل لائیں گے فرموده ۱۴ دسمبر ۱۹۴۴ء) ۱۴- دسمبر ۱۹۴۴ء بعد نماز عصر حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے شیخ محمد اسحاق صاحب ابن مکرم شیخ مشتاق حسین صاحب لاہور کا نکاح شفقت خانم صاحبہ بنت شیخ عبد الحفیظ صاحب سیالکوٹ کے ساتھ پانچ ہزار روپیہ مہر پر پڑھالے خطبہ مسنونہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:- انسانی کوششیں اور انسانی تدبیریں سب نہایت ہی قریب کے واقعات اور حالات کو دیکھ کر ہوتی ہیں.اب اس وقت ہم لوگ جو مسجد میں بیٹھے ہیں ہماری وسعت نگاہ صرف اس حد تک ہے جس حد تک ہم بولتے وقت حالات کا جائزہ لے سکتے ہیں لیکن ایک منٹ کے بعد کے مستقبل کو بھی ہم نہیں دیکھ سکتے.دنیا میں اس قسم کے ہزاروں واقعات پائے جاتے ہیں کہ کئی انسان ایک منٹ کے اندر دل کی دھڑکن بند ہو جانے کی وجہ سے فوت ہو جاتے ہیں حالانکہ فوت ہونے سے چند منٹ پہلے اگر ان سے دریافت کیا جاتا کہ وہ آئندہ کے لئے کیا ارادے رکھتے ہیں تو ان میں سے ہر ایک شاید پچیس تیس یا چالیس سال کے متعلق اپنا پروگرام بیان کر دیتا کہ اگلے سال میرا فلاں کام ہے اور پانچ سال بعد میرا فلاں کام ہے اور دس سال کے بعد میرا یہ ارادہ ہے اور میں سال کے بعد میرا یہ ارادہ ہے.خدا کی طرف سے مقرر شدہ نگران ان
خطبات محمود ۶۰۰ جلد سوم کی ان باتوں کو سن کر حیران ہوتا ہو گا کہ یہ تو ابھی ایک منٹ کے اندر مرنے والا ہے مگر اس کے ارادے اتنے لمبے ہیں.تو انسان اپنا مستقبل اپنی عقل اور اپنے ارادہ کے ذریعہ سے نہیں پہچان سکتا بلکہ مستقبل کے پہچاننے اور جاننے کا اصل اور کامل ذریعہ خدا تعالیٰ ہی ہے اور مستقبل کے متعلق یقینی علم وہ نہیں جو حالات حاضرہ سے حاصل ہو رہا ہوتا ہے بلکہ یقینی علم وہ ہے جو خدا تعالی کی بتائی ہوئی بات کے ذریعہ سے حاصل ہو یا پھر دوسرا پہلو جس سے مستقبل کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے وَ لتَنْظُرُ نَفْسٌ مَا قَدَّمَتْ لِغَدِ سے ہے یعنی ہر انسان کے اعمال ایک پھل لاتے ہیں اور وہ پھل بالعموم اس کے اعمال کے مطابق ہوتا ہے.پس اگر ہم غد کا اندازہ اس سے لگائیں کہ انسان کے ارادے کیا ہیں اس کے پاس سامان کیا ہیں تو ہم موجودہ حالت سے اس کا صحیح اندازہ نہیں لگا سکتے بلکہ اس کے مستقبل کا اندازہ ماضی کے حالات سے لگا سکتے ہیں.خدا تعالیٰ فرماتا ہے وَ لتَنْظُرُ نَفْسٌ مَا قَدَّمَتْ لِغَدِ کہ یہ خیال نہ کرو کہ فلاں انسان کے پاس لاکھوں روپیہ ہے جس کے ذریعہ سے یہ کل دنیا کی تجارت پر غالب آجائے گا بلکہ تم اس کے ماضی کو دیکھو کہ اگر اس نے ہزاروں اور لاکھوں انسانوں پر ظلم کیا ہے اور ان کا خون چوس چوس کر اس نے یہ روپیہ جمع کیا ہے تو کون کہہ سکتا ہے کہ کل وہ مظلوم اس کے خلاف بغاوت نہ کر دیں گے اور اس کی بوٹی بوٹی نہ نوچ لیں گے.پس اس کے مستقبل کا اندازہ اس روپیہ سے نہ لگاؤ جو اس کے پاس ہے، ان سامانوں سے نہ لگاؤ جو اسے حاصل ہیں بلکہ اس کے مستقبل کا اندازہ اس بغض اور کینہ سے لگاؤ جو اس کے بڑے اعمال کے نتیجہ میں لوگوں کے دلوں میں پیدا ہو چکا ہے.اسی طرح ایک دو سرے آدمی کے مستقبل کا اندازہ اس خالی بڑے سے نہ لگاؤ جو اس کی جیب میں ہے بلکہ اس غیر متناہی اخلاص اور محبت سے لگاؤ جو اس کے نیک اعمال کی وجہ سے لوگوں کے دلوں میں پیدا ہو چکی ہے.اگر ایک شخص لوگوں کے ساتھ ظلم، بے انصافی، جفاگری، جھوٹ، دعا اور فریب کا سلوک کرتا رہا ہے تو اس کے بھرے ہوئے خزانے اس کے مستقبل کے یقینی طور پر عمدہ ہونے کی علامت نہیں.اور اگر ایک شخص لوگوں کے ساتھ انصاف اور رحم کا سلوک کرتا رہا ہے تو تم اس کے مستقبل کا اندازہ اس کے خالی بٹوے سے نہ لگاؤ کہ اس میں کوئی روپیہ نہیں، اس کے ماحول سے نہ لگاؤ کہ اس کے رشتہ دار طاقت ور نہیں بلکہ اس کے مستقبل کا اندازہ اس اخلاص
خطبات محمود 4.1 اور محبت سے لگاؤ جو اس کے نیک اعمال کی وجہ سے لوگوں کے دلوں میں پیدا ہو چکی ہے رسول کریم ان کے رشتہ دار بالعموم آپ کے مخالف تھے یہاں تک کہ جب مکہ فتح ہوا تو صحابہ نے آنحضرت ﷺ سے پوچھا یا رسول اللہ آپ کہاں ٹھہریں گے ؟ تو آپ نے فرمایا کہ میں کیا کہہ سکتا ہوں ہمارا تو کوئی گھر رشتہ داروں نے باقی نہیں چھوڑا.کے ابتدائی ایام میں صرف حضرت علی تھے جو آپ کے رشتہ داروں میں سے آپ کے ساتھ تھے اور جو بچے کی حیثیت رکھتے تھے.جب غزوہ بدر ہوا تو اس وقت وہ بڑے ہو چکے تھے مگر پھر بھی ان کی عمر پچیس سال کے قریب تھی.تو غزوہ بدر کے موقع پر آپ کے رشتہ داروں میں سے صرف حضرت علی اور حضرت حمزہ" آپ کے ساتھ تھے.حضرت علی کے ایک اور بھائی بھی مسلمان ہوئے تھے مگر غالبا اس وقت وہ حبشہ میں تھے.آپ کے و بچے تھے مگر ان میں سے صرف ایک آپ کے ساتھ تھا اور آپ کے بچوں کے لڑکے بہت سے تھے مگر صرف دو تھے جو مسلمان تھے اور ان میں سے بھی ایک اس وقت باہر تھا اور ایک وہاں موجود تھا باقی سب آپ کے مخالف تھے.ایسی حالت میں جب کہ مکہ والوں نے آپ پر حملہ کیا تو کیا آپ کے خاندانی حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے آپ کے بچاؤ کی کوئی صورت نظر آتی تھی.جس کے بچے اس کے خلاف ہوں جس کے چچیرے بھائی اس کے خلاف جنگ پر آمادہ ہوں جس کے دور کے رشتہ دار اور قریبی رشتہ دار اس کی موت میں اپنی فلاح سمجھتے ہوں اس کے مستقبل کے متعلق کیا اندازہ لگایا جا سکتا ہے.دنیوی سامانوں کے لحاظ سے کیا چیز تھی جس پر آپ بھروسہ کر سکتے تھے.پس آپ کا مستقبل ان رشتہ داروں کے سلوک سے نہیں دیکھا جا سکتا تھا بلکہ آپ کا مستقبل اس قربانی کے ذریعہ دیکھا جا سکتا تھا جو آپ دنیا کی خاطر کر رہے تھے قرآن مجید میں خدا تعالٰی آپ کے متعلق فرماتا ہے لَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَفْسَكَ الَّا يَكُونُوا مُنُو مِنِينَ ہے کہ اے محمد رسول اللہ ! تجھے اپنی قوم کی کتنی فکر ہے اور تیرے دل میں کتنی غیر محدود محبت ہے اپنے دشمنوں کے متعلق کہ شاید تو اس غم میں اپنی رگ جان کاٹ لے گا اور اس غم سے ہلاک ہو جائے گا کہ یہ مسلمان کیوں نہیں ہو جاتے.جس کے دل میں اپنے دشمنوں کے متعلق یہ درد پایا جاتا ہو کہ غم کی چھری کے ساتھ اپنی رگ جان انتہائی درجہ تک کاٹ لینے کے لئے تیار ہو (باخع کے معنی رگ کو آخر تک کاٹ دینے والے کے ہوتے ہیں) تو جس کی قربانی اپنے دشمنوں کے متعلق انتہاء تک پہنچی ہوئی ہو اس کے دل میں دوستوں کے متعلق کس قدر محبت
خطبات محمود ۶۰۲ چاند سوم ہوگی اور جو دشمنوں کے لئے اس حد تک قربانی کرتا ہو کہ گویا غم کی شدت سے اپنی رگ جان کاٹ لینے کے لئے تیار ہو وہ دوستوں کے لئے کیا کچھ نہ کرتا ہو گا.پس دیکھنا یہ نہیں تھا کہ محمد رسول اللہ ﷺ کے گھر میں کتنا خزانہ تھا، دیکھنا یہ نہیں تھا کہ چچیرے بھائیوں میں سے کتنے بھائی آپ کے ساتھ تھے کیونکہ صرف ایک ہی بھائی آپ کے ساتھ تھا دیکھنا یہ نہیں تھا کہ چوں میں سے کتنے تھے جو آپ کے ساتھ تھے کیونکہ صرف ایک ہی چچا آپ کے ساتھ تھا اور وہ بھی اگلی لڑائی میں شہید ہو گیا بلکہ دیکھنا یہ تھا کہ محمد رسول ا کے اعمال نے لوگوں کے قلوب میں کتنی محبت پیدا کر دی تھی اور کس طرح کئی دشمنوں کو اپنا عاشق اور گرویدہ بنا لیا تھا.جب آپ نے بدر کے موقع پر صحابہ کو مخاطب کر کے فرمایا کہ لوگو مجھے مشورہ دو کہ کیا کرنا چاہئے تو مہاجرین نے مشورہ دیا اور انصار اس مصلحت پر خاموش رہے کہ جن کے ساتھ لڑائی ہے خاندانی لحاظ سے وہ مہاجرین کے بھائی ہیں اگر ہم نے کہا کہ ہم لڑیں گے تو شاید مہاجرین کو یہ برا معلوم ہو اس لئے انہیں کو بولنا چاہئے.چنانچہ مہاجرین مشورہ دے رہے تھے لیکن رسول کریم متواتر اس فقرہ کو دہرا رہے تھے کہ لوگو! مجھے مشورہ دو کیا کرنا چاہئے.تب ایک انصاری کھڑے ہوئے اور انہوں نے کہا یا رسول اللہ ! ) مشورہ تو آپ کو دیر سے مل رہا ہے پھر آپ کا متواتر یہ فرمانا کہ اے لوگو! مجھے مشورہ دو میں کیا کروں شاید آپ کی مراد اس سے یہ ہے کہ آپ چاہتے ہیں کہ انصار مشورہ دیں.آپ نے فرمایا ہاں.اس انصاری نے کہا یا رسول اللہ ! شاید آپ کے دل میں یہ خیال پیدا ہوا ہو گا کہ جب آپ کو مدینہ لانے کے لئے ہمارا اوفر آپ کے پاس مکہ میں حاضر ہوا تھا تو اس وقت آپ سے ایک معاہدہ ہوا تھا اور وہ معاہدہ یہ تھا کہ اگر دشمن مدینہ میں آپ پر حملہ آور ہو تو ہم آپ کے ذمہ دار ہوں گے اور اس کے معنے یہ تھے کہ مدینہ سے باہر اگر آپ کو دشمن سے لڑنا پڑے تو اس کی ذمہ داری ہم پر نہیں ہوگی.لیکن یا رسول اللہ ! ( ) جس وقت ہم نے وہ معاہدہ کیا تھا تو اس وقت تو ہمیں پتہ ہی نہیں تھا کہ آپ کی کیا حیثیت ہے.صرف ایک سطحی ایمان حاصل تھا اور آپ کی نیکیوں اور خوبیوں کی گہرائیوں سے ہم واقف نہ تھے مگر یا رسول اللہ ! ( آپ ہمارے پاس تشریف لے آئے تو ہمیں معلوم ہوا کہ آپ کیا چیز ہیں.اب اس معاہدہ کا کوئی اثر ہم پر نہیں اور ہم اس معاہدہ کی کوئی حقیقت نہیں سمجھتے.یا رسول اللہ ! ( ) فیصلہ کرنا آپ کے اختیار
خطبات محمود ۶۰۳ جاد مو میں ہے لڑائی کریں یا نہ کریں اگر لڑائی ہو تو میں انصار کی طرف سے عرض کر دینا چاہتا ہوں کہ ہم آپ کے دائیں بھی لڑیں گے اور آپ کے بائیں بھی لڑیں گے اور آپ کے آگے بھی لڑیں گے اور آپ کے پیچھے بھی لڑیں گے شے اور یا رسول اللہ ! ) دشمن اس وقت تک آپ کے پاس نہیں پہنچ سکے گا جب تک ہماری لاشوں پر سے گزر کر نہ جائے.یہ کون سے بھائی تھے ، یہ کون سے نیچے تھے ، یہ کون سے چچیرے بھائی تھے ، یہ کون سے خونی تعلق رکھنے والے تھے، وہ کسی ایک شخص سے نہال کا رشتہ تھا نانی کے دور کے رشتہ داروں کا اثر ہی کیا ہو سکتا ہے اور وہ تعلق بھی صرف ایک گھرانے سے تھا.پس آپ کے مستقبل کو پڑھنے کا ایک ہی ذریعہ تھا اور وہ تھے آپ کے گذشتہ اعمال جن کے نتیجہ میں غیر متناہی محبت لوگوں کے دلوں میں پیدا ہو چکی تھی.انصار بولتے یا نہ بولتے ، ان کو کی طرف سے یہ جواب ملتایا نہ ملتا، آپ کے گذشتہ حالات کا مطالعہ کرنے والا ہر انسان وہی جواب جو انصار نے دیا قبل از وقت دے سکتا تھا کہ آپ کے صحابہ آپ کی خاطر اپنی جانیں نچھاور کریں گے.پس کسی انسان کا مستقبل دکھانا تو خدا کا کام ہے اس کا مستقبل لذت اور راحت سے وابستہ ہے یا دکھ اور تکلیف ہے.اور دوسرا طریق مستقبل دیکھنے کا یہ ہے کہ وَلْتَنْظُرْ نَفْسٌ مَا قَدَّمَتْ لِغَدِ یعنی ماضی میں جو کام تم نے کئے ہیں وہی کام مستقبل میں جا کے پھل لائیں گے.یقینی اور قطعی علم تو خدا کو ہے کہ تمہارا مستقبل اچھا ہو گا یا برا، راحت والا ہو گا یا دکھ اور تکلیف والا مگر ایک حد تک مستقبل کا اندازہ انسان کے گذشتہ اعمال سے بھی لگایا جا سکتا ہے.اگر اس نے لنگڑے یا خاص الخاص یا ثمر بہشت کا درخت لگایا ہے تو اس سے لنگڑے یا خاص الخاص یا ثمر بهشت ہی پیدا ہوں گے انگور یا سیب پیدا نہیں ہوں گے اور نہ ہی وہ حنظل اور محمد پیدا ہو گا.پس اگر ایک شخص اس بات سے یہ قیاس کرتا ہے کہ میں نے جو آم کا درخت لگایا ہے اس سے آم ہی پیدا ہوں گے حنظل یا تحمتہ پیدا نہیں ہو گا تو اس کا یہ قیاس درست ہو گا.اسی طرح جو شخص اپنے گذشتہ اعمال کو دیکھ کر اپنے مستقبل کا قیاس کرتا ہے اس کا وہ قیاس نوے فیصد درست ہو گا.پس مستقبل کو پڑھنے کے دو ہی طریق ہیں یا تو خدا بتا دے یا پھر انسان گذشتہ اعمال کے نتائج سے اس کا استنباط کر سکتا ہے.پس جو شخص اپنے ماضی کو پڑھنے کا عادی نہیں وہ یکدم مصیبت میں جلاء ہو گا لیکن اگر وہ اپنے ماضی کو پڑھنے کا عادی ہو گا کہ میرا ماضی خراب
خطبات محمود ۶۰۴ جلد سوم ہے یا اچھا، میں نے اپنے ماضی میں اچھا درخت لگایا ہے یا برا تو ماضی کے مطالعہ سے اسے یہ تو موقع مل جائے گا کہ اگر وہ دیکھے گا کہ میں نے ماضی میں خراب درخت لگایا ہے جو کبھی اچھے پھل نہیں لا سکتا تو وہ اس برے درخت کو اکھاڑ سکتا ہے.اگر اس نے آم کی بجائے کیکر کا درخت لگایا ہے اور اسے اپنے ماضی کا مطالعہ کرنے کا موقع مل گیا ہے تو اور نہیں تو کم از کم وہ اس کیکر کو اکھاڑ سکتا ہے.اسی طرح اگر انسان اپنے گذشتہ اعمال کا محاسبہ کرتا ہے اور اگر وہ خراب ہوں تو ان سے توبہ کرے اور خدا کے حضور جھکے اور معافی مانگے تو اس میں کوئی شبہ نہیں کہ گو اپنے گذشتہ اعمال کو بدل لینا اس کے اختیار میں نہیں مگران اعمال کے بد نتایج کو اس رنگ میں بدل سکتا ہے کہ تو بہ کرے اور اپنے گناہوں سے معافی مانگے کیونکہ خدا کو قدرت ہے کہ کانٹوں کو اکھاڑ دے اور اس کی جگہ خوشنما اور پھلدار درخت لگا دے.پس انسان کو اپنے اعمال میں ہمیشہ دو باتوں پر توجہ رکھنی چاہئے.ایک اللہ تعالیٰ پر انحصار اور اس سے مستقبل کی فلاح طلب کرنا اور دوسرے اپنے گذشتہ اعمال کا محاسبہ تاکہ وقت پر اپنی برائی کا اسے علم ہو سکے اور اس برائی کے بد نتائج کو وہ تو بہ کر کے اور خدا سے معافی مانگ کر بدل سکے اور جب ان دو باتوں پر انسان عمل کرے تو اس کے مستقبل کی بھلائی کے متعلق ایک حد تک یقین اور وثوق پیدا ہو سکتا ہے.له الفضل ۱۵ د سمبر ۱۹۴۴ء صفحه ۱ الحشر : ۱۹ الفضل ۲۶ فروری ۱۹۴۵ء صفحه ۴۰۳) ه بخاری کتاب المغازی باب این ركز النبي صلى الله عليه وسلم الراية يوم الفتح ه الشعراء: ۴ شه بخاری کتاب المغازى باب قول الله تعالى ان تستغيثون ربكم فاستجاب لكم...
خطبات محمود ۶۰۵ ١٣٠ جلد سوم ہم تری نَسُلاً بَعِيدًا کا نشان دیکھ رہے ہیں (فرموده ۲۹ دسمبر ۱۹۴۴ء) ۲۹ - دسمبر - ۱۹۴۴ء میاں عباس احمد خان صاحب ابن خان محمد عبد اللہ خاں صاحب کا نکاح صاجزادی امتہ الباری صاحبہ بنت حضرت مرزا شریف احمد صاحب سے پندرہ ہزار روپیہ مہر پر حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے پڑھا.لے خطبہ مسنونہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: میں جمعہ کا خطبہ شروع کرنے سے پہلے چند نکاحوں کا اعلان کرنا چاہتا ہوں.میں یہ بات کئی دفعہ ظاہر کر چکا ہوں کہ کچھ عرصہ تک میں ایسے لوگوں کے نکاح پڑھا سکوں گا جو یا تو میرے عزیز ہوں یا ان سے میرے تعلقات عزیزوں کی طرح ہوں مثلاً دین کے لئے زندگی وقف کر چکے ہوں.اس کے علاوہ کسی دوسرے کا نکاح اسی صورت میں پڑھا سکوں گا جب کہ ایسے موقع پر وه درخواست پیش کی جائے کہ میں کسی عزیز کے نکاح کا اعلان کرنے والا ہوں.آج میں عزیزم عباس احمد کے نکاح کا اعلان کرنا چاہتا ہوں جو میری چھوٹی بہن اور میاں عبداللہ خاں صاحب کے لڑکے ہیں اور لڑکی عزیزم میاں شریف احمد صاحب کی ہے گویا لڑکا میرا بھانجا ہے اور لڑکی میری بھتیجی ہے.عزیزم عباس احمد ہمارے خاندان میں سے دو سرا بچہ ہے جو کہ حقیقی طور پر دین کی خدمت کرنے کے لئے تیاری کر رہا ہے اور اس نے اپنی زندگی دین کے لئے وقف کی ہوئی ہے.یوں تو ہمارے خاندان میں سے ہر ایک نے اپنی زندگی وقف کی ہوئی ہے لیکن بعض کا وقف کچھ ایسا ادھوری قسم کا ہے کہ اس کو استعمال نہیں کیا جاسکتا اور ایسے
خطبات محمود جلد سوم سامان پیدا نہیں ہوئے کہ اس سے کام لیا جا سکے یا تو مکمل دینی تعلیم حاصل نہیں کرتے یا ان کی زندگی ایسے رنگ میں گزر رہی ہوتی ہے کہ ہم سمجھتے ہیں وہ سختیوں اور مشکلات کو برداشت نہیں کر سکتے جن مشکلات کو دین کی خدمت کے لئے برداشت کرنا پڑتا ہے یا دنیا کی محبت کی ملونی ان میں پائی جاتی ہے جس کی وجہ سے ہم ان سے فائدہ نہیں اٹھا سکتے.سب سے پہلے ہمارے خاندان میں عزیزم مرزا ناصر احمد نے اپنے آپ کو وقف کیا تھا اور اس وقت تک اس نے اپنے وقف کو نباہا ہے.اب دوسرے نمبر پر عزیزم عباس احمد نے اپنے آپ کو دین کی خدمت کے لئے وقف کیا ہے اور اس عزم اور ارادہ کے ساتھ باقاعدہ دینی تعلیم حاصل کر رہا ہے کہ وہ اپنی زندگی دین کی خدمت میں لگائے گا.اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے کہ ان کے بعد ہمارے خاندان میں سے کس کس کو ایسے رنگ میں وقف کرنے کی توفیق ملے کہ ان کا وقف سلسلہ کے لئے فائدہ مند ہو اور جس کے حالات وقف کے مطابق ہوں تادہ خود اپنے لئے اور جماعت کے لئے بھی ٹھوکر کا موجب نہ بن جائے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے آج سے ساٹھ ستر سال پہلے یہ الہام شائع فرمایا ما ترى نسلاً بَعِيدًا لے اور ہم اللہ تعالٰی کے فضل سے اس نشان کو ایسے رنگ میں پورا ہوتے دیکھ رہے ہیں کہ روز بروز اس نشان کی اہمیت اور عظمت بڑھتی چلی جاتی ہے.بعض نشان اس قسم کے ہوتے ہیں کہ جس وقت وہ شائع کئے جاتے ہیں تو بڑے ہوتے ہیں اور ان کی عظمت زیادہ ہوتی ہے مگر جوں جوں زمانہ گزرتا جاتا ہے اس نشان کی عظمت میں آہستہ آہستہ کمی ہوتی چلی جاتی ہے.لیکن بعض نشان اس قسم کے ہوتے ہیں کہ ابتداء میں چھوٹے ہوتے ہیں مگر زمانہ کے ساتھ ساتھ وہ بڑے ہوتے چلے جاتے ہیں جوں جوں زمانہ گزرتا ہے ان کی عظمت بڑھتی چلی جاتی ہے.چنانچہ جس وقت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو یہ الہام ہوا کہ ترى نسلاً بعيدا اس وقت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے صرف دو بیٹے تھے اس کے بعد اللہ تعالی کے فضل سے آپ کے ہاں کچھ اور بیٹے بیٹیاں پیدا ہو ئیں اور پھر خدا تعالٰی نے ان کو وسیع کیا اور اب ان بیٹوں اور بیٹیوں کی نسلیں الہام الہی کے ماتحت شادیاں کر رہی ہیں اور تری نسلاً بعيدا کے نئے نئے ثبوت مہیا کر رہی ہیں.دنیا میں نسلیں تو پیدا ہوتی ہی رہتی ہیں ایک معترض کہہ سکتا ہے کہ یہ کو نسا نشان ہے نسلیں تو دنیا میں اکثر آدمیوں کی چلتی ہی ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ کتنے آدمیوں کی نسلیں ہیں جو ان کی
خطبات محمود جلد سوه طرف منسوب بھی ہوتی ہوں اور منسوب ہونے میں فخر محسوس کرتی ہوں.اکثر آدمیوں کی 3 نسلیں ایسی ہوتی ہیں کہ اگر ان سے پوچھا جائے کہ تمہارے پردادا کا کیا نام تھا تو ان کو پتہ نہیں ہو تا نگر ترای نسلاً بَعِيدًا کا الہام بتا رہا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی نسل آپ کی طرف منسوب ہوتی چلی جاتی جائے گی اور لوگ انگلیاں اٹھا اٹھا کر کہا کریں گے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی یہ نسل آپ کی پیشگوئیوں کے ماتحت آپ کی صداقت کا نشان ہے.پس توی نسلاً بَعِيدًا میں صرف یہی پیشگوئی نہیں کہ آپ کی نسل کثرت سے ہوگی بلکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی عظمت شان کا بھی اس رنگ میں اس پیشگوئی میں ذکر ہے کہ آپ کا مرتبہ اتنا بلند اور آپ کی شان اتنی ارفع ہے کہ آپ کی نسل ایک منٹ کے لئے بھی آپ کی طرف منسوب نہ ہونا برداشت نہیں کرے گی اور آپ کی طرف منسوب ہونے میں ہی ان کی شان اور ان کی عظمت بڑھے گی.پس اس پیشگوئی میں خالی اس بات کا ہی ذکر نہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اولاد کثرت سے ہوگی بلکہ یہ بھی ذکر ہے کہ روز بروز بڑھے گی اور وہ خواہ کتنے ہی اعلیٰ مقام اور اعلی مرتبہ تک جا پہنچے اور خواہ ان کو بادشاہت بھی حاصل ہو جائے پھر بھی وہ اپنے آپ کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی طرف منسوب کرنے میں ہی فخر محسوس کرے گی.پس توی نَسُلًا بَعِيدًا کے یہی سنے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ تیری نسل تجھے کبھی اپنی آنکھوں سے اوجھل نہیں کرے گی اور تیری نسل کبھی اپنے دادا کو بھلانے کی کوشش نہیں کرے گی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس الہام کی تشریح کرتے ہوئے فرماتے ہیں.غموں کا ایک دن اور چار شادی جس کے یہ معنی ہیں کہ بے شک آپ کی نسل میں سے بعض لوگ مریں گے بھی جیسا کہ خدا تعالی کی سنت ہے مگر آپ کی نسل کم نہیں ہوگی بلکہ بڑھتی چلی جائے گی.اگر ایک مرے گا تو چار پیدا ہوں گے اور جہاں ایک مرے گا اور چار پیدا ہوں گے لازمی بات ہے کہ وہ نسل بڑھتی چلی جائے گی.پس حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اولاد حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی عظمت اور آپ کے درجہ کی بلندی کا ہمیشہ نشان رہے گی اور ہمیشہ اپنے آپ کو آپ کی طرف منسوب کرنے میں فخر محسوس کرے گی اور جب وہ آپ کی طرف منسوب کرنے میں فخر محسوس
خطبات محمود ۶۰۸ جلد سوم کرے گی تو دوسرے لفظوں میں اس کے معنی ہیں کہ وہ اولاد اپنے دادا کی بڑائی اور عظمت کا اقرار کرتی ہے اور دنیا اس اقرار کی عظمت کو تسلیم کرتی ہے.له الفضل ۳۰ دسمبر ۱۹۴۴ء صفحه ۴ کے تذکرہ صفحہ ۱۸۵- ایڈیشن چهارم الفضل ۱۲ جنوری ۱۹۴۵ء صفحه (۳)
خطبات محمود ۶۰۹ ۱۳۱ جلد سوم غموں کا ایک دن اور چار شادی (فرموده ۳۰ مارچ ۱۹۴۵ء) ۳۰ مارچ ۱۹۴۵ء خطبہ جمعہ سے قبل مسجد نور میں حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے اپنے دو صاحبزادگان اور دو صاحبزادیوں کے نکاحوں کا اعلان فرمایا.صاحبزادہ مرزا خلیل احمد کا نکاح صاحبزادی امتہ المجید صاحبہ بنت حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کے ساتھ مبلغ ایک ہزار روپیہ صر پر اور صاحبزادہ مرزا حفیظ احمد صاحب کا نکاح سیدہ تنویر الاسلام صاحبہ بنت مکرم سید عبد السلام صاحب سیالکوٹ کے ساتھ ایک ہزار روپیہ مہر پر نیز صاحبزادی امتہ الحکیم صاحبہ کا نکاح سید داؤد مظفر صاحب ابن سید محمود اللہ شاہ صاحب ہیڈ ماسٹر تعلیم السلام ہائی سکول سے ایک ہزار روپیہ مہر پر اور صاحبزادی سیدہ امتہ الباسط صاحبہ کا نکاح سید داؤد احمد صاحب ابن حضرت میر محمد اسحاق صاحب کے ساتھ ایک ہزار روپیہ مہر پر پڑھا.لے خطبہ مسنونہ کی تلاوت کے بعد فرمایا : میں جمعہ کے خطبہ سے پہلے بعض نکاحوں کا اعلان کرنا چاہتا ہوں.دنیا میں سب سے قیمتی وجو د رسول کریم ہیں.زمانہ کے گزرنے اور حالات کے بدل جانے کی وجہ سے چیزوں کی وہ اہمیت باقی نہیں رہتی جو اہمیت کہ ان حالات کی موجودگی اور ان کے علم کے ساتھ ہوتی ہے.رسول کریم ﷺ جب مبعوث ہوئے اس وقت دنیا کی جو حالت تھی اس کا اندازہ آج لوگ نہیں کر سکتے.اگر رسول کریم ﷺ کو خدا تعالی مبعوث نہ فرما تا تو آج دنیا میں دین کے معنے یہ سمجھے جاتے کہ بعض انسانوں کی پوجا کرلی، قبروں کی پوجا کر لی اور بتوں کی پوجا کر لی.قانون،
خطبات محمود 41 جلد سوم اخلاق کو دنیا میں کوئی قیمت حاصل نہ ہوتی، مذہب کوئی اجتماعی جدوجہد کی چیز نہ ہوتا، خدا کے ساتھ بنی نوع انسان کا تعلق پیدا ہونا بالکل ناممکن ہو تا بلکہ ایسے تعلق کو بے دینی اور لامذہبی قرار دیا جاتا، بنی نوع انسان کے مختلف حصوں کے حقوق کی کوئی حفاظت نہ ہوتی، عورتیں بدستور غلامی کی زندگی بسر کر رہی ہوتیں، بت بدستور پوجے جارہے ہوتے، خدا تعالٰی بدستور متروک ہو تا، غلامی بدستور دنیا میں قائم ہوتی، لین دین کے معاملات میں بدستور ظلم اور تعدی کی حکمرانی ہوتی غرض دنیا آج وہ کچھ نہ ہوتی جو آج ہے.بعض لوگ نادانی کی وجہ سے موجودہ زمانہ کی ترقی کو دیکھ کر یہ خیال کرتے ہیں کہ یہ چیز بہر حال ہو جاتی ہے مگر وہ نہیں جانتے کہ جب ایک چیز موجود ہو اس کی نقل کر کے ترقی کرنا اور چیز ہے اور اپنے طور پر ترقی حاصل کرنا بالکل اور چیز.آج سارے مذاہب میں توحید پائی جاتی ہے مگریہ توحید ممنون ہے اسلامی توحید کی اگر اسلام توحید کا خیال دنیا میں پیدا نہ کرتا تو پھر دنیا میں توحید قائم ہی نہ ہو سکتی.اگر رسول کریم ﷺ کے بغیر یہ چیز قائم ہو سکتی تھی تو پھر وجہ کیا ہے کہ رسول کریم ﷺ سے پہلے قائم نہ ہوئی.اگر اسلام عورتوں کے حقوق اس طرح قائم نہ کرتا تو جو حقوق آج ان کو دیئے جارہے ہیں یہ نہ دیئے جاتے کیونکہ اگر انسان نے یہ حقوق اپنے ذہن میں تجویز کر کے دینے ہوتے تو پہلے کیوں نہ دیئے.اگر رسول کریم اس کے ذریعہ اخلاق قائم نہ ہوتے تو آج اخلاق پر زور نہ دیا جاتا کیونکہ اگر آپ کی رہبری کے بغیر بھی دنیا اس طرف جاسکتی تھی تو دنیا میں آپ سے پہلے کیوں اخلاق قائم کرنے کی طرف توجہ پیدا نہ ہوئی.پس موجودہ اخلاق اور موجودہ توحید خواہ وہ عیسائی قوم میں ہو یا یہودی قوم میں یا دنیا کی کسی اور قوم میں ہو وہ ممنون ہے رسول کریم الله کے احسان اور آپ کی رہنمائی کی.مگر اب چونکہ وہ چیز موجود ہے اسلئے ہر شخص یہ خیال کرتا ہے کہ شاید اسکے بغیر بھی ہم کو ترقی حاصل ہو جاتی اور اس چیز کی عظمت اس زمانہ کے حالات دیکھے بغیر قائم نہیں ہو سکتی مگر رسول کریم اے کا زمانہ جن لوگوں نے دیکھا ان کیلئے آپ کا وجود ایسا قیمتی تھا کہ وہ آپ کے بغیر دنیا میں زندہ رہنا بیچ سمجھتے تھے.دنیا میں جو اقوال اور جو باتیں لوگوں نے کمی ہیں ان میں سے راست بازی کے اعلیٰ معیار پر پہنچی ہوئی وہ بات ہے جو حسان نے رسول کریم ﷺ کے متعلق کمی كُنتَ السَّوَادَ لِنَاظِرِى فَعَمِيَ عَلَيْكَ النَّاظِرُ مَنْ شَاءَ بَعْدَكَ فَلْيَمُتُ فَعَلَيْكَ كُنْتُ حَاذِره
خطبات محمود ۶۱۱ جلد سوم رسول کریم ﷺ کی وفات کے وقت حضرت حسان نے کہا كُنتَ السَّوَادَ لِنَا ظِرِی تو میری آنکھ کی پتلی تھا فَعَ عَلَى الناظر پس تیری موت کے ساتھ آج میری آنکھیں اندھی وگئی ہیں مَنْ شَاءَ بَعْدَكَ فَلَيَمُت تیرے مرنے کے بعد جو چاہے مرے فَعَلیكَ كُنْتُ احاذر میں تو تیری موت سے ڈرتا تھا کسی اور کی موت کا مجھ پر اثر نہیں ہو سکتا.اس شعر کے معنوں کی عظمت کا اس بات سے پتہ لگتا ہے جس کو لوگ نظر انداز کر دیتے ہیں کہ اس شعر کا کہنے والا ایک نابینا شخص تھا اگر ایک بینا شخص یہی شعر کہتا تو وہ صرف ایک شاعرانہ مذاق اور ایک ادبی لطیفہ کہلا سکتا تھا مگر اس شعر کے ایک نابینا شخص کے مونہہ سے نکلنے کی وجہ سے اس کی حقیقت بالکل بدل جاتی ہے.یعنی حضرت حسان اس شعر میں یہ دعوی کرتے ہیں کہ جب رسول کریم ﷺ زندہ تھے تو باوجود اس کے کہ میری ظاہری آنکھیں نہیں تھیں پھر بھی میں بینا ہی تھا.میری جسمانی آنکھیں نہ ہونے کی وجہ سے لوگ مجھے اندھا سمجھتے تھے لیکن میں اپنے آپ کو اندھا نہیں سمجھتا تھا کیونکہ رسول اے کے ذریعہ مجھے دنیا نظر آ رہی تھی اور اب بھی لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ میں ویسا ہی ہوں حالانکہ میں ویسا نہیں.پہلے میں بینا تھا لیکن اب میں اندھا ہو گیا ہوں.تو رسول کریم ﷺ دنیا میں سب سے قیمتی وجود تھے مگر اللہ تعالیٰ کے قانون کے ماتحت آپ بھی آخر ایک دن دنیا سے جدا ہو گئے.لیکن بہت لوگ ہیں مسلمان کہلانے والے بھی اور بہت لوگ ہیں رسول کریم ال پر اپنے ایمان کا اظہار کرنے والے بھی جن کی عمریں گزر جاتی ہیں بعض دفعہ سو (۱۰۰)، سو(۱۰۰) سال تک ان کی عمریں ہوتی ہیں مگر ان کے اندر یہ احساس پیدا نہیں ہو تا کہ رسول کریم ﷺ کی وفات کے ساتھ بہت بڑا حادثہ ان پر گزرا ہے اس لئے کہ رسول کریم ان کا زمانہ انہوں نے نہیں دیکھا، اس لئے کہ رسول کریم کا وجود ان کو اس طرح نظر نہیں آتا جس طرح صحابہ کو نظر آتا تھا، نقصان کے لحاظ سے تو جیسے صحابہ کو نقصان با ویسا ہی بعد میں آنے والوں کو بھی نقصان پہنچا، مگر صحابہ نے اس کو محسوس کیا کیونکہ رسول ریم کے آنے سے جو کام ہوئے ان کو انہوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا اور آپ کے نہ آنے کی صورت میں جو خطرہ تھا اس کو بھی انہوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا.مگر بعد کے لوگوں نے چونکہ اس چیز کو اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھا اس لئے باوجود اس کے کہ رسول کریم پر وہ ایمان لاتے ہیں اور ان کے اندر اخلاص پایا جاتا ہے پھر بھی رسول کریم ان کی وفات ان کو اپنی زندگی کا سانحہ معلوم نہیں ہوتا.الا ماشاء اللہ - اللہ تعالی کے بعض بندے ایسے
خطبات محمود جلد سوم بھی ہیں جنہوں نے رسول کریم ﷺ کو نہیں دیکھا مگر آپ کی وفات کو وہ اپنی زندگی ہی کا سانحہ سمجھتے ہیں.ان کو آپ کی وفات ایسی ہی معلوم ہوتی ہے جیسا کہ صحابہ کو محسوس ہوئی جن کے سامنے آپ تھے یہی چیز در حقیقت کامل ایمان کی علامت ہے.میں فخر نہیں کرتا لیکن اللہ تعالٰی کا مجھ پر احسان ہے کہ میں رسول کریم ﷺ کی محبت کے لحاظ سے ہمیشہ ہی آپ کی وفات کو اسی طرح محسوس کرتا ہوں کہ گویا میری زندگی میں ہی آپ زندہ تھے اور میری زندگی میں ہی آپ فوت ہوئے.بہر حال رسول کریم ﷺ کی وفات سے جیسا کہ حسان نے کہا من شَاءَ بَعْدَكَ فَلْيَمُتُ فَعَلَيْكَ كُنتُ أحاذر هر انسان پر یہ بات کھل رہی ہے کہ دنیا میں کوئی وجود بھی ہمیشہ نہیں رہا اور رسول کریم ﷺ کی وفات کے بعد کسی مسلمان کا یہ خیال کر لینا کہ حضرت عیسی زنده آسمان پر بیٹھے ہیں میرے نزدیک ایسا خیال ہے جو عقل کے کسی گوشے میں نہیں آسکتا اور ایک مسلمان ایک لحظہ کے لئے بھی یہ تسلیم نہیں کر سکتا کہ رسول کریم ی تو فوت ہو جائیں اور حضرت عیسی زندہ آسمان پر بیٹھے ہوں میں تو سمجھتا ہوں کہ اگر یہ بات ہوتی تو صحابہ رسول کریم ﷺ کی وفات کے ساتھ ہی سارے کے سارے مرجاتے چنانچہ بعض صحابہ نے اس بات کی شہادت بھی دی.رسول کریم ﷺ کی وفات کے موقع پر جب حضرت ابو بکڑ نے کھڑے ہو کر خطبہ پڑھا کہ اگر تم محمد ﷺ کے متعلق یہ خیال کرتے ہو کہ آپ زندہ ہیں تو یہ غلط ہے وَمَا مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ أَفَانُ مَاتٌ اوقتِل انقلبْتُم عَلى أَعْقَابِكُم سے یعنی رسول کریم ﷺ بھی خدا کے رسولوں میں سے ایک رسول تھے جس طرح آپ سے پہلے تمام رسول فوت ہو چکے ہیں اسی طرح آپ بھی فوت ہو گئے ہیں تب ان کے دلوں کو تشفی ہوئی ورنہ وہ اپنے آپ کو پاگلوں کی طرح محسوس کر رہے تھے.اگر کوئی استثناء ہو تا تو صحابہ کے نزدیک یقینا وہ استثناء رسول کریم اللہ کے لئے ہوتا.تو دنیا میں انسان آتے ہیں اور جاتے ہیں، پیدا ہوتے ہیں اور مرتے ہیں، دنیا میں کوئی انسان بھی ایسا نہیں جو ہمیشہ قائم رہا ہو اور دنیا میں کوئی انسان بھی ایسا نہیں جو ہمیشہ زندہ رہنے والا ہو.اس صورت میں انسان کی ترقی کا مدار اسی بات پر ہے کہ جانے والوں کے قائم مقام پیدا ہوں.اگر مرنے والوں کے قائم مقام پیدا ہوتے ہیں تو مرنے والوں کا صدمہ آپ ہی آپ مٹ جاتا ہے اور انسان سمجھتا ہے کہ اگر ہمارے پیدا کرنے والے کی مرضی ہی یہی ہے تو پھر جزع فزع کرنے یا حد سے زیادہ افسوس کرنے کی کوئی وجہ نہیں یہ عقل کے خلاف اور جنون کی علامت ہوگی.
خطبات محمود ۶۱۳ جلد سوم مجھے یاد ہے بچپن میں بچوں کو کھیلوں کا شوق ہوتا ہے یہاں ایک دوست ہیں میں ان کا نام نہیں لیتا وہ آپ سمجھ جائیں گے.بچپن میں جب ہم ان سے کہتے کہ فلاں میچ ہے چلو دیکھ آئیں تو وہ جواب دیتے اللہ تعالٰی قرآن مجید میں فرماتا ہے کہ جنت میں مومن جو کچھ خواہش کرے گا اس کی وہ خواہش پوری کر دی جائے گی تو پھر میچ دیکھنے کی کیا ضرورت ہے.جنت میں کہیں گے ہم نے فلاں میچ دیکھنا ہے ہم کو دکھا دیا جائے گا.بظاہر یہ نسی کی بات ہے ہم بھی اس بات پر ہنسا کرتے تھے لیکن واقعہ یہی ہے کہ انسان کی تمام ترقیات اور تمام مراتب کی بلندی اخروی زندگی سے وابستہ ہیں اور جس کو اخروی زندگی حاصل ہو جائے وہ ہر قسم کی ہلاکت سے محفوظ ہو جاتا ہے.یہ اخردی زندگی دو قسم کی ہوتی ہے.اخروی زندگی وہ بھی ہے جو مرنے کے بعد ہے اور اخر دی زندگی یہ بھی ہے کہ جب انسان مر جائے تو اس کا قائم مقام کھڑا ہو جائے تو اس کے معنے ہیں کہ اس کے مرنے کے بعد بھی اس کا کام جاری ہے اور یہی زندگی ہے.ایک دفعہ ایک عباسی بادشاہ ایک بڑے عالم سے ملنے گیا جا کے دیکھا کہ وہ اپنے شاگردوں کو درس دے رہے تھے.بادشاہ نے کہا اپنا کوئی شاگر د مجھے بھی دکھاؤ میں اس کا امتحان لوں انہوں نے ایک شاگرد پیش کیا.بادشاہ نے اس سے بعض سوال پوچھے اس نے نہایت اعلیٰ صورت میں ان سوالوں کا جواب دیا یہ سن کر بادشاہ نے کہا ما مَاتَ مَنْ خَلَفَ مِثْلَكَ وہ شخص جس نے تیرے جیسا قائمقام چھوڑا کبھی نہیں مرسکتا کیونکہ اس کی تعلیم کو قائم رکھنے والا تو موجود ہو گا.انسان کا گوشت پوست کوئی قیمت نہیں رکھتا.گوشت پوست جیسے ایک چور کا ہے ویسے ہی ایک نیک آدمی کا ہے، ہڈیاں جیسے ایک چور کی ہیں ویسے ہی نیک آدمی کی ہیں، خون جیسے ایک چور کا ہے ویسے ہی نیک آدمی کا ہے فرق صرف یہ ہے کہ اس کے اخلاق برے ہیں اور اس کے اخلاق اعلیٰ درجہ کے ہیں اس کے اندر روحانیت نہیں اور اس کے اندر اعلیٰ درجہ کی روحانیت پائی جاتی ہے.پس اگر اس کی وہ روحانیت اور اعلیٰ درجہ کے اخلاق دوسرے میں باقی رہ جائیں گے تو یہ مراکس طرح؟ قبر میں اس کا گوشت پوست گیا جو کوئی حقیقت نہیں رکھتا مگر روحانیت دنیا میں قائم رہی.پس ساری کامیابی اس میں ہے کہ انسان کے پیچھے اچھے قائم مقام رہ جائیں یہیں چیز ہے جس کے لئے قومیں کوشش کیا کرتی ہیں.یہی چیز ہے کہ اگر یہ قوم کو حاصل ہو جائے تو یہ بہت بڑا انعام ہے.آج تک کبھی دنیا نے یہ محسوس نہیں کیا کہ ساری کامیابی فتوحات میں نہیں بلکہ نسل میں ہے اگر آئندہ نسل اعلیٰ اخلاق کی ہو تو وہ قوم مرتی کبھی نہیں بلکہ زندہ رہتی ہے
خطبات محمود ۶۱۴ جلد سوم اور اگر آئندہ نسل اچھی نہ ہو تو اس کی تمام فتوحات بیچ اور لغو ہیں.میں ہمیشہ حیران ہوا کرتا ہوں کہ وہ کونسی چیز ہے جس کی وجہ سے انگریز جیت جاتے ہیں اور دوسری قومیں ہار جاتی ہیں.انگریزوں میں اور دوسری قوموں میں یہی فرق ہے کہ انگریز قوم موجودہ کی نسبت آئندہ نسل پر زور دیتی ہے اس لئے انگریزی قوم یہ اعتبار رکھتی ہے کہ اگر ہمارے بڑے لوگ مرگئے تو اس کی جگہ دوسرے بڑے لوگ پیدا ہو جائیں گے جو ان کے قائم مقام ہوں گے اس لئے وہ ڈرتی نہیں کہ اگر آج ہمارے بڑے لوگ مرگئے تو کل بڑے لوگ پیدا نہیں ہوں گے بلکہ وہ جانتی ہے کہ اگر آج ہمارے بڑے لوگ مر جائیں گے تو کل ان کے قائمقام دوسرے لوگ کھڑے ہو جائیں گے.مگر دوسری قوموں کو یہ امید نہیں ہوتی مثلا فرانس میں نپولین اٹھا اور اس نے یہ کوشش کی کہ آٹھ دس سال میں تمام یورپین ممالک کو فتح کرلے یہ خیال اس کے دل میں تبھی پیدا ہوا کہ وہ جانتا تھا کہ اگر نپولین مرگیا تو فرانس میں دوسرا نپولین پیدا نہیں ہو گا.اگر ہٹلر نے جلد بازی کی تو اس کی وجہ بھی یہی تھی کہ ہٹلر کے دل میں یہ خیال تھا کہ میرے بعد جرمنی میں دوسرا ہٹلر پیدا ہونے کی امید نہیں، اگر مسولینی کو ذلت اٹھانی پڑی تو اس کی وجہ بھی یہی تھی کہ مسولینی کے دل میں یہ خیال تھا کہ اگر مسولینی مرگیا تو اٹلی کو ابھارنے والا دو سرا مسولینی پیدا نہیں ہو گا.لیکن انگلستان کا ہر فرد یہی سمجھتا ہے کہ اگر میرے زمانہ میں فتوحات حاصل نہ ہو ئیں تو آئندہ آنے والے لوگ ان کو حاصل کریں گے.وہ خیال نہیں کرتے کہ اگر آج لائڈ جارج مر گیا یا چرچل مر گیا تو کل دوسرا لائڈ جارج یا دوسرا چر چل پیدا نہیں ہو گا بلکہ وہ جانتے ہیں کہ انگلستان میں ہر روز نئے لائیڈ جارج اور نئے چرچل پیدا ہوتے رہیں گے اس لئے ان کے لئے جلد بازی کرنے کی کوئی وجہ نہیں.پس قوموں کی ترقی ان کی آئندہ نسلوں کی ترقی پر منحصر ہوتی ہے اس لئے ہمارا زور اس بات پر ہونا چاہئے کہ آئندہ نسلوں میں ہم اپنے اچھے قائم مقام چھوڑیں جو اسلام کی ترقی اور اسلام کے مستقبل کے ضامن ہوں.سب سے زیادہ یہ چیز نکاح سے ہی حاصل ہوتی ہے اور نکاحوں سے ہی نئی نسل آتی ہے اس لئے نکاح انسانی زندگی کا سب سے اہم کام ہے.یہی وجہ ہے کہ رسول کریم ﷺ نے نکاح کے بارے میں استخارہ کرنے، غور و فکر سے کام لینے اور جذبات کی پیروی کرنے سے روکنے کی تعلیم دی ہے اور آپ نے فرمایا ہے کہ نکاح ایسے رنگ میں ہونے چاہئیں کہ نیک اور قربانی کرنے والی اولاد پیدا ہو.پھر فرمایا.ساری خرابی اس وجہ سے پیدا ہوتی ہے کہ اولاد کو مقدم رکھا جاتا ہے اور اس کی ناز
خطبات محمود ۶۱۵ جلد سوم برداری کی جاتی ہے جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ناز برداری کی وجہ سے دین کی روح ان کے اندر سے مٹ جاتی ہے.قرآن مجید میں خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ وہ شخص دیندار نہیں جو اپنی اولاد کی ناز برداری کرتا ہے اور اس کو دین کے تابع نہیں رکھتا دیندار وہ ہے جو اپنی اولاد کو دین کے تابع رکھتا ہے جو شخص اپنی اولاد کو دین کے تابع رکھے گا وہ کبھی اپنی نسل کو خراب نہیں ہونے دے گا کیونکہ ناز برداری سے ہی نسلیں خراب ہوتی ہیں.پس اسلامی زندگی میں اہم ترین چیز نکاح ہے جیسے عمارت کے لئے بنیاد کھودی جاتی ہے اور اس کو کوٹا جاتا ہے لیکن اگر بنیاد پختہ نہیں ہوگی تو عمارت گر جائے گی.اسی طرح اگر نکاح میں غور و فکر اور دعا سے کام نہ لیا جائے تو نکاح بھی بربادی کا پیش خیمہ ثابت ہو گا گویا وہ چیز جس سے خوشی ہو رہی ہوتی ہے در حقیقت رہی خطرے کا وقت ہو تا ہے.بسا اوقات نکاح پر لوگ خوش ہو رہے ہوتے ہیں گھر میں خوشی کی لہر دوڑ رہی ہوتی ہے کہ ہم آبادی کا سامان کر رہے ہیں مگر آسمان کے فرشتے رو رہے ہوتے ہیں کہ آبادی کی نہیں بلکہ یہ بربادی کی بنیاد قائم کر رہے ہیں.پس مومن کو ہمیشہ ڈرتے ہوئے قدم اٹھانا چاہئے.میں آج جن چند نکاحوں کا اعلان کرنے لگا ہوں ان میں سے چار میرے اپنے بچوں کے نکاح ہیں.میں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اس قول کے پورا کرنے کے لئے غموں کا ایک دن اور چار شادی فَسُبْحَانَ الَّذِي اخْزَى الاعادي یہ چار نکاح اکھٹے رکھے ہیں.یہ چار نکاح خلیل احمد ، حفیظ احمد ، امتہ الحکیم اور امتہ الباسط کے ہیں.ان میں سے تین کی والدہ فوت ہو چکی ہیں اللہ تعالی کے اختیار میں ہے اور اس کے قبضہ میں ہے کہ اس نے جس طرح ہمیں غموں کا ایک دن اور چار شادیاں دکھائی ہیں وہ ان کی روحوں کو بھی خوش اور مسرور کر دے.میں نے اپنے بچوں کے نکاحوں میں کبھی بھی اس بات کو مد نظر نہیں رکھا کہ ان کے نکاح آسودہ حال اور مالدار لوگوں میں کئے جائیں اور میں نے ہمیشہ جماعت کے لوگوں کو بھی یہی نصیحت کی ہے کہ جماعت کے لوگ اس بات کی طرف چلے جاتے ہیں کہ انہیں ایسے رشتے میں جو زیادہ کھاتے پیتے اور آسودہ حال ہوں.ہمیں ایسے رشتے ملے ہیں مگر ہم نے ان کو رد کر دیا تاکہ ہمارا جو معیار ہے وہ قائم رہے.میں نے ایک ہی رشتہ زیادہ
خطبات محمود 414 جلد سوم تعلیم یافتہ لڑکے سے جو ہمارے گھر کا لڑکا ہے کیا ہے مگر اس میں میرے لئے یہ بات خوشی کا موجب نہیں مظفر احمد اعلیٰ سرکاری ملازم ہے بلکہ میرے دل میں ہمیشہ خلش سی رہتی ہے.میں نے اپنے بچوں کی عمروں کی ترتیب کے لحاظ سے نام لئے ہیں.اسی ترتیب کے لحاظ سے میں نکاحوں کا اعلان کرنا چاہتا ہوں.له الفضل ۳۱ مارچ ۱۹۴۵ء صفحه ۱ که دیوان حسان بن ثابت صفحه ۹۴ مطبوعہ بیروت ۱۹۲۷ء ه ال عمران : ۱۴۵ الفضل ۶ - اپریل ۱۹۴۵ء صفحه ۱ تا ۳)
412 ۱۳۲ خطبات محمود لمبے لمبے نام پسندیدہ نہیں ہیں (فرموده ۲۸ جون ۱۹۴۵ء) ۲۸ جون ۱۹۴۵ء بروز جمعرات بعد نماز عصر حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے مسجد مبارک میں اخوند حمید الله فلائی برادر اخوند محمد عبد القادر خاں صاحب کے نکاح کا صالحہ صدر الجہاں بیگم بنت جناب قاسم علی خاں صاحب رامپوری کے ساتھ مبلغ پانچ صد روپیہ مہر پر اور عبد القادر صاحب ابن حضرت مولوی محمد اسماعیل صاحب کے نکاح کا صالحه بیگم صاحبه دختر مولوی چراغ دین صاحب قادیان سے ایک ہزار روپیه مهر پر اعلان فرمایا : اے خطبہ مسنونہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:- میں نے اعلان کیا ہوا ہے کہ میں سوائے اپنے عزیزوں کے یا ان کے جن کے تعلقات میرے ساتھ عزیزوں کی طرح ہوں کوئی نکاح نہیں پڑھایا کروں گا چنانچہ اس وقت میں جس نکاح کا اعلان کرنے کے لئے کھڑا ہوا ہوں وہ مولوی محمد اسماعیل صاحب مرحوم کے لڑکے عبد القادر صاحب کا ہے اور مولوی صاحب مرحوم کے ساتھ میرے تعلقات ایسے تھے جن کی بناء پر میرا اس نکاح کے اعلان کے لئے کھڑا ہونا میرے اعلان کے خلاف نہیں بلکہ عین مطابق ہے.اول تو مولوی صاحب مرحوم میرے استاد تھے دوسرے آپ خود بھی کتابوں کا بہت شوق رکھتے اور بہت سی کتابیں دوستوں کو بھی تحفہ کے طور پر دیا کرتے تھے اسی وجہ سے وہ اکثر مقروض رہتے تھے.انہیں کتابیں خریدنے کا عشق تھا کئی کتابیں انہوں نے مجھے بھی تحفہ کے طور پر دی تھیں تیسرے تفسیر کبیر جلد سوم جو شائع ہو چکی ہے اس کی لغت، ترجمہ اور تدوین کا اکثر
خطبات محمود YIA جلد سوم کام ان کے سپرد کیا گیا تھا گو آخری حصہ کے وقت مولوی صاحب وفات پاچکے تھے تاہم تیسری جلد جو شائع ہوئی ہے اس کی تدوین لغت اور ترجمہ کا بہت کچھ کام انہوں نے ہی کیا.ان کی وفات کے بعد مولوی نور الحق صاحب کے سپرد یہ کام کیا گیا باوجود اس کے کہ ان کا علمی پایہ مولوی محمد اسماعیل صاحب جیسا نہیں اور باوجود نوجوان اور نا تجربہ کار ہونے کے انہوں نے میرے منشاء کو سمجھا اور خدا تعالیٰ نے انہیں میرے منشاء کے مطابق کام کرنے کی توفیق عطا فرمائی.ان تین وجوہ کی بناء پر مولوی صاحب کے بچوں کے نکاح کا اعلان کرنا نہ صرف میرے اعلان کے مخالف نہیں بلکہ عین مطابق ہے.اس خطبہ کے بعد حضور نے مولوی محمد اسماعیل صاحب مرحوم کے لڑکے کے نکاح کا اعلان فرمایا) حضور نے فرمایا : خطبہ تو میں پڑھ چکا ہوں لیکن دوستوں کو ایک بات کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں آج کل لوگوں میں ایک شدید مرض پھیل چکا ہے کہ ناموں کو لمبا کیا جاتا ہے اگر یہی سلسلہ جاری رہا تو اگلی نسل کے نام لیتے وقت ان کو یہ کہنا پڑے گا کہ آپ اپنا نام بولتے جائیں اور میں دہراتا جاؤں گا.اسی مسجد میں ایک نکاح کے موقع پر اسی قسم کا ایک واقعہ ہوا.اتفاق کی بات ہے کہ مفتی محمد صادق صاحب بھی میرے پاس بیٹھے تھے ان کے لڑکے میاں منظور احمد صاحب کی شادی سید اعجاز علی صاحب کی صاحبزادی کے ساتھ قرار پائی تھی.میں نے نکاح کے اعلان کے وقت سید صاحب کا نام دستور کے مطابق عزت سے لے لیا یعنی سید اعجاز علی صاحب اس پر سید صاحب اکڑوں کھڑے ہو گئے اور انہوں نے کہا میرا نام سید پیر میر اعجاز علی شاہ ہے.میں نے دوبارہ اسی طرح نام لیا لیکن کچھ حصہ نام کا پھر رہ گیا اس پر وہ پھر گھٹنوں کے بل کھڑے ہو گئے اور پھر اپنا نام بتلانا شروع کیا اس پر میں نے کہا کہ آپ بولتے جائیں اور میں دہراتا جاتا ہوں.سب لوگ اس لطیفہ کو سمجھ گئے لیکن وہ نہ سمجھے اور بڑی سنجیدگی کے ساتھ انہوں نے کہنا شروع کیا سید پیر میر اعجاز علی شاہ اور میں دہرا تا گیا.یہ ایک سخت غلطی ہے کہ نام کو خواہ مخواہ لمبا کیا جیسے سیدہ اختر سعیده انور وغیرہ وغیرہ.یہ مرض مردوں اور عورتوں دونوں میں ہے.صالحہ ایک مکمل نام ہے اور اس کے آگے کچھ اور لگانے کی ضرورت نہیں امتہ اللہ اور امتہ
خطبات محمود ۶۱۹ جلد سوم الرحیم نام کو لمبا کرنے کی وجہ سے نہیں کہا جاتا بلکہ اس لئے کہ اسے صرف اللہ نہیں کہہ سکتے.اسی طرح عبد اللہ اور عبد الرحیم نام کو لمبا نہیں کیا گیا بلکہ اللہ اور رحیم چونکہ نہیں کہہ سکتے اس لئے عبد ساتھ لگایا گیا.صالحہ صدر الجہاں بیگم یہ تین بالشت کا نام ہے لمبے نام رکھنے کا آج کل ایک غلط رواج پڑ گیا ہے.جس کو دور کرنا چاہئے.اس موقع پر میں ہدایت کرتا ہوں مرد اور عورتیں اپنے نام مختصر کریں جیسا کہ ابوبکر ایک مختصر نام ہے لیکن اگر شمس الہد کی بدر الدجی ابو بکر رکھا جائے تو یہ ڈیڑھ بالشت کا نام بن جائے گا.رسول کریم الله کا نام محمد (ا) ہے لیکن اس مختصر نام میں جو خوبی ہے وہ کسی ڈیڑھ بالشت کے نام میں کہاں ہو سکتی ہے.له الفضل ۳ جولائی ۱۹۴۵ء صفحه ۸ الفضل (۱۹ جولائی ۱۹۴۵ء صفحہ ۳)
خطبات محمود ۶۲۰ ١٣٣١ جلد سوم شادی بیاہ کے موقع پر خشیت و خضوع سے دعاؤں کی تلقین (فرموده ۲۷ ستمبر ۱۹۴۶ء بعد نماز مغرب بمقام ۸ یا رک روڈ دہلی) خطبہ مسنونہ کی تلاوت کے بعد حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے فرمایا : مجھے اس وقت سر درد کی شکایت ہے اس لئے میں زیادہ بول نہیں سکتا میں مختصر طور پر خطبہ پڑھوں گا.دنیا کا سارا امن وامان شادی بیاہ پر منحصر ہے.بظاہر یہ اعلان معمولی معلوم ہوتا ہے لیکن در حقیقت ساری دنیا کی سیاست، حکومت اور اقتصادی حالت نکاح پر منحصر ہے.اور جتنی نیک تحریکیں یا جتنے فتنے پیدا ہوتے ہیں ان سب کی بنیاد نکاح پر ہوتی ہے.بعض لوگوں نے ان فتنوں کو دیکھ کر یہ عقیدہ رائج کیا ہے کہ شادیاں نہیں کرنی چاہئیں کیونکہ ان کی وجہ سے ہی سب فسادات پھیلتے ہیں.چنانچہ اسی وجہ سے منک (Monk) اور نن (Non) کا طریق رائج ہوا اور لوگوں نے رہبانیت کے طریق کو اختیار کیا کہ نہ اولادیں پیدا ہوں اور نہ یہ فسادات پھیلیں.گویا اس طریق سے انہوں نے فتنہ کا سد باب کرنا چاہا مگر انہوں نے یہ نہ سوچا کہ جس چیز کی خواہش فطرت کے اندر رکھ دی گئی ہے اسے چھوڑا نہیں جا سکتا اور اس سے رکنا دنیا کے لئے نا ممکن ہے.باوجود اس کے عیسائی دنیا میں ہزاروں ہزار منگ اور ننز ہیں لیکن دنیا کی آبادی میں کمی نہیں ہوئی اور ان فتنوں اور فسادوں کے دروازے بند نہیں ہوئے.پس یہ سمجھنا کہ رہبانیت دنیا کو امن دے سکتی ہے یہ بالکل غلط ہے اور نہ ہی دنیا اسے اختیار کر سکتی ہے.اب سوال ہوتا ہے کہ اگر یہ فطرتی خواہش ہے اور انسان شادی کرنے پر مجبور ہے اور پھر آگے شادی سے نسل پیدا ہوتی ہے اور نسلوں کے بڑھنے سے فسادات پھیلتے ہیں تو پھر کیا کیا جائے.
خطبات محمود ۶۲۱ اس کا جواب یہ ہے کہ شادی کے اس طریقہ کو اختیار کیا جائے جو بنی نوع انسان کے لئے مفید اور باعث راحت و آرام ہو اور وہ اصل طریقہ اسلام نے پیش کیا ہے.اسلام کہتا ہے کہ نسلوں کے منبع کی تربیت کرد اگر تمہاری عورتوں میں نیکی اور تقویٰ ہو گا تو آئندہ تمہاری اولادوں میں بھی یہ چیز پیدا ہو جائے گی اور وہ دنیا کے لئے فتنہ و فساد کا موجب نہ بنیں گے بلکہ دنیا کے لئے امن کا ذریعہ بنیں گے.اور چونکہ شادی کے نتیجہ میں بچے پیدا ہوتے ہیں اس لئے اسلام نے یہ ضروری قرار دیا کہ نکاح کے موقع پر بھی میاں بیوی کو وعظ و نصیحت کی جائے اسی لئے رسول کریم ﷺ نے یہ آیات جو میں نے ابھی تلاوت کی ہیں ہمیشہ نکاح کے موقع پر پڑھی ہیں ان میں والدین اور میاں بیوی کے فرائض بیان کئے گئے ہیں.نکاح کی رسم تو قریباً تمام قوموں میں ہے اس موقع پر خوشیاں منائی جاتی ہیں یعنی لوگ باجے بجاتے ہیں بعض کئی اور رسوم ادا کرتے ہیں.ہندوؤں میں مٹھائیوں کی گڑیاں بنائی جاتی ہیں اور میاں بیوی کو پھیرے دیئے جاتے ہیں.اس میں شبہ نہیں کہ یہ خوشی کا موقع ہوتا ہے لیکن اسلام نے اس موقع کو صرف خوشی ہی نہیں قرار دیا بلکہ مرد اور عورت کو سنجیدگی کے ساتھ غور کرنے کا بھی حکم دیا ہے اور بتایا ہے ہے کہ.نکاح جو تم کرنے لگے ہو اس سے بچے پیدا ہوں گے جن سے ہزار ہا قسم کی خوبیاں یا عیب رونما ہو سکتے ہیں اس لئے اللہ تعالٰی سے دعا کرتے ہوئے اس کام میں ہاتھ ڈالو.مثال کے طور پر تم دیکھو انبیاء بھی عورتوں سے ہی پیدا ہوئے اور نکاحوں کے نتیجہ میں پیدا ہوئے اور ان کے دشمن بھی عورتوں سے ہی پیدا ہوئے اور نکاحوں کے نتیجہ میں پیدا ہوئے لیکن دونوں میں زمین اور آسمان کا فرق ہے.فرعون موسیٰ یعنی جو موسیٰ علیہ السلام کے زمانہ میں تھا اور جس کا نام رعمیس تھا جب اس کے ماں باپ کی شادی ہوئی ہو گی تو کتنی دھوم دھام سے ہوئی ہو گی لاکھوں روپے کا جہیز دیا گیا ہو گا ملک بھر میں چراغاں کیا گیا ہو گا کہ شہزادہ کی شادی ہو رہی ہے، ملک کے کونے کونے سے مبارکباد کے پیغام آئے ہوں گے مگر کسی کو معلوم نہ تھا کہ اس دھوم دھام کی شادی کے نتیجہ میں وہ انسان پیدا ہو گا جس پر ہمیشہ لعنتیں پڑتی رہیں گی اور جب حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ماں باپ کی شادی ہوئی ہوگی تو کتنی خاموش شادی ہوگی حضرت موسیٰ علیہ السلام کے والد غریب آدمی تھے بھٹے میں اینٹیں پکانے کا کام کرتے تھے ان کی خوشی زیادہ سے زیادہ یہ ہوئی ہوگی کہ پانچ سات آدمیوں کو کھانا کھلا دیا ہو گا.سارے ملک میں چراغاں تو کجا کسی ایک شہر میں بھی چراغاں نہ ہوا بلکہ کسی ایک قصبہ میں بھی نہ ہوا ہو گا کسی گاؤں میں بھی نہ ہوا ہو گا، بلکہ
خطبات محمود ۶۲۲ جلد سوم کسی گاؤں کی گلی میں بھی نہ ہوا ہو گا، بلکہ ان کے اپنے گھر میں بھی نہ ہوا ہو گا.مگر کون کہہ سکتا تھا کہ اس خاموش شادی کے نتیجہ میں ایک ایسا انسان پیدا ہو گا جس پر دنیا کے سارے کونوں سے رحمتیں بھیجی جائیں گی.ایک طرف تو وہ دھوم کی شادی جس کے نتیجہ میں وہ شخص پیدا ہوا جس پر تمام دنیا کی لعنتیں پڑتی ہیں اور دوسری طرف وہ خاموش شادی ہے جس کے نتیجہ میں وہ شخص پیدا ہوا جس پر صبح و شام رحمتیں بھیجی جاتی ہیں.اسی طرح حضرت عیسی علیہ السلام کے زمانہ میں جو بڑے بڑے فریسی تھے ان کے والدین کی جب شادیاں ہوئی ہوں گی تو کس شان و شوکت سے ہوئی ہونگی اور ملک بھر میں شور پڑ گیا ہو گا کہ فلاں عالم کی شادی ہے.مگر مسیح علیہ السلام جب پیدا ہوئے تو یہودی علماء نے آپ کو سخت سے سخت تکلیفیں دیں اور ان کے ماننے سے انکار کیا ان کی والدہ پر بہتان باندھے کہ نعوذ باللہ یہ ولد الزنا ہے اور مسیح علیہ السلام کو مصلوب کرنے کی انتہائی کوششیں کیں گو وہ صلیب پر چڑھانے میں تو کامیاب ہو گئے لیکن اللہ تعالی نے مسیح علیہ السلام کو صلیب سے زندہ اتار لیا اور یہودیوں کے اس سلوک کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ان پر لعنت کی.اب یہودی جہاں جاتے ہیں وہاں ان پر لعنت ہی پڑتی ہے.ہٹلر مسولیتی اور فرینکو نے ان کے لاکھوں آدمیوں کو مروا دیا.اور ان پر ایسی لعنت پڑی ہے کہ انہیں سو سال گزر چکے ہیں اور یہودی لاکھوں خون دے چکے ہیں لیکن ان سے وہ لعنت دور نہیں ہوتی.یہ سب اس وجہ سے ہوا کہ انہوں نے حضرت مسیح علیہ السلام کی مخالفت کی اور انہیں صلیب پر لٹکایا.اس کے مقابلہ میں اللہ تعالٰی نے حضرت مسیح علیہ السلام کے ماننے والوں کو اس قدر ترقی دی کہ وہ تمام دنیا پر چھائے ہوئے ہیں.یہی کیفیت رسول کریم اے کی پیدائش کے وقت تھی.جب ابو جہل پیدا ہوا ہو گا تو پتہ نہیں کتنی قربانیاں ذبح کی گئی ہوں گی اور کتنی دعوتیں کی گئی ہوں گی اس وقت لوگ کہتے ہوں گے کتنا بھاگوان بچہ ہے کہ جس کی خوشی میں اس قدر قربانیاں ذبح کی گئی ہیں اور اتنے غریبوں کو کھانا ملا ہے.لیکن جب رسول کریم ﷺ پیدا ہوئے اس وقت آپ کے والد فوت ہو چکے تھے اور آپ یتیم ہونے کی حالت میں اس دنیا میں آئے لیکن وہ بچہ جس کے متعلق لوگوں کا خیال تھا کہ یہ بڑا بھاگوان ہے وہ وطن سے دور لعنتی موت مرا اور ہمیشہ کے لئے ذلت کے گڑھے میں جا پڑا اور آج کوئی اس کا نام لینا بھی پسند نہیں کرتا.اس کی اپنی اولاد نے بھی اس کا نام لینا پسند نہ کیا لیکن جہاں اس کا کوئی نام لینے والا موجود نہیں وہاں رسول کریم ﷺ کا نام لینے والے
خطبات محمود ۶۲۳ جلد موم کروڑوں لوگ دنیا میں موجود ہیں حالانکہ آپ کی کوئی نرینہ اولاد نہ تھی.پس اللہ تعالٰی فرماتا ہے وَلْتَنْظُرْ نَفْسٌ مَا قَدَّمَتْ لِغَدٍ لے کہ کل کو اس کام کے بڑے بڑے نتائج نکلنے والے ہیں اس لئے تقویٰ اور خشیت اللہ کے ساتھ اس گھر میں داخل ہو اور ہمیشہ اللہ تعالی کے بیان کردہ احکام کے مطابق اپنی زندگی گزارنے کی کوشش کرو.اگر تم ایسا نہیں کرو گے تو آئندہ تمہاری قوم کے لئے خطرناک نتائج پیدا ہوں گے.پس شادی کے وقت مرد اور عورت کو دوسرے رشتہ داروں کو بہت دعا ئیں کرنی چاہئیں کہ اللہ تعالی اس تقریب کو ان کے لئے آرام اور اطمینان کا باعث بنائے.جب تقویٰ اللہ کا خانہ خالی چھوڑا جاتا ہے اس وقت شادیاں دنیا کے لئے تباہی کا موجب بن جاتی ہیں.یورپ کے لوگ چونکہ محض نفسانی خواہشات کے لئے شادیاں کرتے ہیں اس لئے ان شادیوں کے بد نتائج بھی نکل رہے ہیں اور تمام ممالک اکثر ایک دو سرے سے بر سر پیکار رہتے ہیں اور ایک قوم دوسری قوم کو تباہ کرنا چاہتی ہے.کیونکہ اللہ تعالی کا یہ قانون ہے کہ جب بھی نفسانی لذات کے پورا کرنے کے لئے شادیاں کی جائیں گی ان کے نتائج برے ہی نکلیں گے اور ان کی نسلیں اپنی قوم کی تباہی کا موجب بنیں گی اور آج ہمیں یہ نظارہ یورپ میں نظر آرہا ہے.پس دنیا کی فتوحات اتنی اہم نہیں، کسی ملک کا فتح ہونا یا ہاتھ نکل جانا اتنا اہم نہیں جتنا کہ شادی اور بچے کا پیدا ہونا اہم ہے.بعض لوگ ان خوشی کے مواقع پر اللہ تعالی کو بھول جاتے ہیں اور خلاف شریعت افعال بھی شادی بیاہ کے موقع پر کر گزرتے ہیں حالانکہ یہ ایک ایسا موقع ہے جس پر انسان کو پوری خشیت اور خضوع سے دعاؤں میں لگ جانا چاہئے تاکہ اللہ تعالیٰ ان کو تاہیوں اور لغزشوں کو معاف فرماتے ہوئے شادی کے نیک نتائج پیدا کرے ہماری جماعت کو یہ بات خاص طور پر مد نظر رکھنی چاہئے کہ شادیوں اور نکاحوں کے مواقع پر ان کی حرکات اور ان کے افعال دوسرے لوگوں جیسے نہ ہوں اور وہ اس موقع پر اللہ تعالی کے حضور جھک جائیں تاکہ اللہ تعالٰی اپنے فضل سے ان شادیوں کو حقیقی معنوں میں شادیاں بنائے.بہت سی باتیں ایسی ہوتی ہیں جن کا انسان کو علم نہیں ہو تا یا اس کے بس سے باہر ہوتی ہیں وہ خود ان کی اصلاح نہیں کر سکتا ایسے مواقع پر دعا ہی اس کے لئے بہتری کے سامان پیدا کرتی ہے.(الفضل یکم دسمبر ۱۹۶۰ء صفحه ۳، ۴) له الفضل سے فریقین کا تعین نہیں ہو سکا.ه الحشر : ۱۹
خطبات محمود (۱۳۴ چاند سوم دین کی خدمت میں ہی حقیقی عزت ہے (فرموده ۲۶ - اپریل ۱۹۴۷ء) ۲۶ - اپریل ۱۹۴۷ء بعد نماز مغرب حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے ملک فیض الرحمن صاحب فیضی ایم اے لیکچرار تعلیم الاسلام کالج بردار خورد ملک عبدالرحمن صاحب خادم گجرات کا نکاح محترمه وسیمہ بیگم صاحبہ بنت جناب سید ولی اللہ شاہ صاحب ناظر امور عامہ کے ساتھ مبلغ تین ہزار روپیہ مہر پر پڑھا.اے خطبہ مسنونہ کی تلاوت کے بعد فرمایا : ہماری جماعت خدا تعالٰی کے ایک مامور کی قائم کردہ جماعت ہے جسے دین کی اہمیت اور اس کی عظمت کا سب سے زیادہ احساس ہونا چاہئے مگر مجھے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ جماعت کے نوجوانوں کا ایک طبقہ اس اہمیت سے غافل ہوتا جا رہا ہے اور بجائے اس کے کہ وہ دین کی خدمت کو خدا تعالٰی کا ایک بہت بڑا انعام سمجھیں اور دنیا کی بڑی سے بڑی عزت کو بھی اس کے مقابلہ میں بالکل حقیر اور ذلیل سمجھیں دنیا کمانے کا احساس ان میں ترقی کرتا جا رہا ہے اور دین سے ایک قسم کی بے رغبتی ان میں پیدا ہو رہی ہے.میں سمجھتا ہوں اس کی بڑی حد تک ذمہ داری ان لوگوں پر بھی عائد ہوتی ہے جو دینی کاموں میں اپنی زندگیاں بسر کرنے والوں کے مقابلہ میں دنیوی عزت و وجاہت رکھنے والوں کو اپنی مجالس میں اونچا مقام دیتے اور ان سے امتیازی سلوک روا رکھتے ہیں.اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ نوجوان جو ابھی دین کے مغز سے ناواقف ہوتے ہیں یہ خیال کرنے لگ جاتے ہیں کہ اصل عزت اسی میں ہے کہ دنیا کمائی جائے اور اپنے
۶۲۵ جلد سوم خطبات محمود احساس پیدا مقام کو بلند کیا جائے.میں نے بار ہا بتایا ہے کہ جو لوگ دین کی خدمت کے لئے اپنے آپ کو پیش کرتے ہیں ان کا اصل اجر تو اللہ تعالیٰ کے پاس ہی ہے لیکن جہاں تک جماعت کی زمہ داری کا تعلق ہے وہ اپنے فرض سے اس وقت تک کبھی سبکدوش نہیں ہو سکتی جب تک وہ اپنے اندر یہ ا نہیں کرتی کہ دین کی خدمت کرنے والوں کے مقابلہ میں دنیا کا ایک بڑے سے بڑا عہدیدار بھی کوئی حقیقت نہیں رکھتا.اگر اس احساس کو تم لوگ زندہ رکھو گے تو تمہاری اولادوں میں بھی دین کی خدمت کرنے کا جذبہ زندہ رہے گا اور ہمیشہ تمہیں دین کے لئے اپنی جانیں قربان کرنے والے لوگ میسر آتے رہیں گے.لیکن اگر تم نے بھی دنیوی اعزاز رکھنے والوں کو ہی عزت دینی شروع کر دی اور جب کسی نے زندگی وقت کرنے کا ارادہ کیا تو رشتہ داروں نے یہ کہنا شروع کر دیا کہ یہ کھائے گا کہاں سے تو اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ خدمت دین کا جذبہ تمہاری آئندہ نسل کے دلوں میں سے مٹ جائے گا اور وہ کہیں گے کہ آؤ ہم بھی اسی راستہ پر چلیں جس پر چل کر ہمیں دنیا میں عزت حاصل ہو سکتی ہے.بے شک اصل عزت وہی ہے جو ایک متقی کو حاصل ہوتی ہے اور اصل انعام بھی وہی ہے جو خدا تعالیٰ کی طرف سے ملتا ہے مگر کوئی چیز اپنے ماحول سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہتی.اگر ماحول ایسا ہو جس میں دین کی خدمت کرنے والوں کو اس نگاہ سے نہ دیکھا جاتا ہو جس نگاہ سے دیکھے جانے کے وہ مستحق ہیں تو لازما کمزور طبائع اس سے متأثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتیں.پس میں جماعت کو ہو شیار کرتا ہوں کہ وہ اس رویہ میں تبدیلی پیدا کرے اور خدمت دین کرنے والوں کے متعلق یہ کبھی سوال پیدا نہ ہونے دے کہ یہ لوگ کھائیں گے کہاں سے تاکہ اسے ہمیشہ ایسے لوگ میسر آتے رہیں جو دین کے لئے قربانیاں کرنے والے ہوں.تم عیسائیوں کو خواہ کتنا برا کہہ لو ان کی اس خوبی کو کبھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ انہوں نے اپنے اندر پادریوں کا سسٹم جاری رکھ کر اور پھر ان کو عزت کا مقام دے کر اپنے مذہب کی عظمت کو قائم کر دیا ہے.ان کا پادری حکومت سے تنخواہ پاتا ہے اور پھر اسے عزت کے ساتھ ہر مجلس میں بٹھایا جاتا ہے مگر مسلمانوں کا ملاں در بدر روٹی مانگتا پھرتا ہے اور اپنے ہی مقتدیوں کی نگاہ میں وہ ذلیل اور حقیر ہو جاتا ہے.اب بھلا ایک مولوی کی کیا عزت ہو سکتی ہے جبکہ وہ نان شبینہ کے لئے بھی دوسروں کا محتاج ہو.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرمایا کرتے تھے کہ قادیان کے اندر دو ملاں تھے جن
خطبات محمود ۶۲۶ جلد سوم میں بسا اوقات اس قسم کی باتوں پر جھگڑا ہو جایا کرتا تھا کہ کسی شخص کے مرنے پر اس کے کفن کی چادر کے متعلق ایک کہتا تھا کہ یہ میرا حق ہے اور دوسرا کہتا تھا کہ میرا حق ہے.آپ فرماتے تھے کہ ہمارے والد صاحب نے ان جھگڑوں کو دیکھ کر قادیان کے دو حصے کر کے ان میں بانٹ دیئے تاکہ ان میں لڑائی نہ ہو مگر ان میں سے ایک ملاں دو تین دن کے بعد روتا ہوا والد صاحب کے پاس آیا والد صاحب نے پوچھا کیا بات ہے.وہ چیخ مار کر کہنے لگا مرزا صاحب آپ نے انصاف سے کام نہیں لیا.والد صاحب نے پوچھا تمہارے ساتھ کیا ہے انصافی ہوئی تو وہ اپنی ہچکی کو بند کرتے ہوئے کہنے لگا " تساں جہڑے آدمی میرے حصے وچ دتے نے اونہاں دا قد اتنا چھوٹا اے کہ اونہاں دے کفن دی چادر دی چنی بھی نہیں بن سکدی." یعنی آپ نے میرے حصہ میں جن لوگوں کو رکھا ہے ان کا قد تو اتنا چھوٹا ہے کہ ان کے کفن کی چادر سے ایک چھوٹا سا دوپٹہ بھی نہیں بن سکتا.اب اندازہ لگاؤ جہاں ملاؤں کے اخلاق اتنے پست ہوں وہاں ترقی کی کیا امید ہو سکتی ہے.مگر عیسائیوں کے پادری جہاں جاتے ہیں ان کے لئے حکومتیں ٹیکس مقرر کرتی ہیں اور اس ٹیکس میں سے ان کو معقول گزارے دیئے جاتے ہیں.وہ دربدر کی روٹیوں اور کفن کی چادروں پر نہیں پلتے.یہی وجہ ہے کہ کوئی شخص ان کو حقارت کی نگاہ سے نہیں دیکھتا بلکہ ہر مجلس میں اور ہر سوسائٹی میں ان کو احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے اور وہ جہاں جاتے ہیں ان کو عزت کی جگہ پر بٹھایا جاتا ہے.تم چاہے عیسائیوں کو کتنا برا کہ لو مگر وہ پادری کا اس طرح احترام کرتے ہیں جیسے ہمارے ہاں نواب یا رئیس کا ہوتا ہے.ہمارا ایک اچھے گھرانے کا رئیس اور ان کا پادری بالکل یکساں ہوتے ہیں.جہاں کہیں دعوت ہوتی ہے پادری کو بھی بلایا جاتا ہے اور اس کو عزت کی جگہ پر بٹھایا جاتا ہے.مگر مسلمانوں کی یہ حالت ہے کہ اگر کہیں دعوت ہو تو باقی تمام لوگوں کے کھانا کھا چکنے کے بعد ملاں بھی بغل میں تھال دبائے آپہنچتا ہے اور گھر والے بچے کھچے ٹکڑے اس کو دے دیتے ہیں.بچپن میں ہم نے ایک لطیفہ سنا تھا کہ کوئی لڑکا کھیر کی بھری ہوئی ایک تھالی اپنے ملاں کے پاس لے کر گیا اور کہا تماں جی یہ کھیر اماں نے آپ کے لئے بھیجی ہے.ملاں صاحب کو پہلے تو اس بات کا یقین ہی نہ آیا اور تعجب سے پوچھا.کھیر - لڑکے نے کہا.ہاں کھیر ہے.ملاں صاحب کو لڑکے کی والدہ کی یہ خلاف معمول سخاوت عجیب سی معلوم ہوئی اس لئے لڑکے سے پوچھنے لگے آج کیا بات ہوئی جو انہوں نے اتنی کرم فرمائی کی.لڑکے نے کہا ملاں جی اصل بات یہ ہے کہ کھیر پکی ہوئی ٹھنڈی ہونے کے لئے رکھی تھی کہ ایک کتا آگیا اور اس
خطبات محمود ۶۲۷ جلد سوم نے اس میں سے کھانا شروع کر دیا کتے کو تو خیر بھگا دیا مگر والدہ نے کہا یہ باقی کھیر ضائع کیوں جائے جاؤ ملاں جی کو دے آؤ.چنانچہ میں لے کر آپ کے پاس آگیا ہوں.ملاں جی نے جب یہ سنا تو سخت طیش میں آگئے اور تھالی کو دور پھینکا جو گرتے ہی ٹوٹ گئی.یہ دیکھ کر لڑکا رونے لگ گیا.ملاں جی نے کہا کمبخت اس میں رونے کی کیا بات ہے تم کھیر لائے تھے اور میں نے قبول نہیں کی بس قصہ ختم اور تھالی جو ٹوٹی ہے وہ معمولی بات ہے.لڑکا کہنے لگا ہے تو معمولی مگر والدہ مجھے سخت مارے گی کیونکہ یہ تھالی نھے کے پاخانہ والی تھی اب ہمارا انتھا کس میں پاخانہ بیٹھے گا.اب دیکھو یہ حالت مسلمانوں کے ملاؤں کی ہے.اس کے مقابلہ میں پادریوں کو دیکھ لو ان کو بڑی سے بڑی مجالس میں بھی عزت کے ساتھ اونچی جگہ پر بٹھایا جاتا ہے اور ان کا پورا احترام کیا جاتا ہے.پچھلے دنوں جو برطانیہ کے شہنشاہ کی معزولی کا واقعہ ہوا تھا اور جس کے چرچے گھر گھر ہوتے رہے تھے اس کی وجہ یہ تھی کہ شہنشاہ کے بعض عیسائیت کے خلاف عقائد کی وجہ سے انگلستان کے لاٹ پادری نے اعتراض کر دیا اور یہاں تک کہہ دیا کہ اگر ایسا ہوا تو میں سرکاری مواقع میں کوئی حصہ نہیں لوں گا.چنانچہ جب شہزادہ نے اس کی بات کو نہ مانا تو اس کو تخت سے دست بردار ہونے کے لئے مجبور کر دیا گیا.یہی چیزیں ہیں جن کی وجہ سے قوم ترقی کر گئی ہے.پھر پادریوں کے کام کے لئے بڑے بڑے خاندانوں کے نوجوان اپنی زندگیاں وقف کر کے آگے آتے ہیں اور ان کو جہاں کہیں بھیجا جاتا ہے وہ بلا پس و پیش جاتے ہیں اور کام کرتے ہیں.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اب وقف کے سلسلہ میں ہماری جماعت کا قدم بھی دن بدن آگے بڑھ رہا ہے لیکن میں نے اکثر دیکھا ہے کہ زندگیاں وقف کرنے والوں کے بارہ میں ان کے رشتہ داروں کی طرف سے یہ سوال اٹھایا جاتا ہے کہ یہ لوگ کھائیں گے کہاں سے؟ اور یہ ایک ایسا سوال ہے جو عیسائیوں جیسی مشرک قوم کے پادریوں نے انیس سو سال کا لمبا عرصہ گزرنے کے باوجود نہیں کیا تھا اور ان کو کبھی یہ خیال نہ آیا تھا کہ وہ کھا ئیں گے کہاں سے مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہماری جماعت کے لوگوں نے ایک صدی بھی گزرنے نہ دی اور یہ سوال پیش کر دیا.ذرا خیال تو کرو کہ جب جڑہی اس قسم کی ہوگی تو آگے درخت کی کیا حالت ہوگی.اگر روٹی کی کوئی حقیقت ہے تو خدمت دین کی بھی کوئی حقیقت ہونی چاہئے کیا روٹی اور سالن دین کی خدمت سے زیادہ قیمتی ہیں.ایک شخص جو صدق دل سے دین کی خدمت پر کمر بستہ ہو تا ہے اس کے دل کے اندر یہ خیال ہی پیدا نہیں ہو سکتا کہ وہ کھائے گا کہاں سے کیونکہ اس کا اللہ ویر
خطبات محمود ۶۲۸ جلد سوم تعالی پر توکل ہو گا اس کا قسم کا خیال تو وہی شخص کر سکتا ہے جو دین کی خدمت کی حقیقت سے نا آشنا ہو.ورنہ جو شخص دین کی کچھ بھی حقیقت سمجھتا ہے وہ اس قسم کا سوال کرتا ہوا شرمائے گا اور ایسا سوال دل کے اندر پیدا ہونے پر وہ ندامت محسوس کرتے ہوئے اور اس چیز کو اپنی غلطی سمجھتے ہوئے خدا تعالیٰ کے حضور سجدہ میں گر کر کے لگا کہ اے میرے خدا! یہ میری غلطی اور نادانی تھی کہ میرے دل میں اس قسم کا خیال پیدا ہوا.میں تجھ پر سچا تو کل کرتا ہوں اور تیرے دین کی خدمت کے لئے بغیر کسی مطالبہ کے حاضر ہوں.غرض جب تک ہماری جماعت کے لوگوں کے دلوں میں یا خود زندگی وقف کرنے والوں کے دلوں میں اس قسم کے سوالات اٹھتے رہیں گے ترقیوں اور کامیابیوں کا منہ دیکھنا نا ممکن ہو گا.یہ احساس جب تک مٹ نہ جائے گا اور جماعت کا ہر بچہ اور بوڑھا ہر مرد اور ہر عورت اور ہر چھوٹا اور ہر بڑا اپنے دل کو اس یقین سے لبریز نہ کر لے گا کہ جو کچھ ہے وہ دین ہی ہے اس وقت تک ہم ترقی کے میدان میں آگے بڑھنے کے قابل نہیں ہو سکتے.پس ہماری جماعت کے ہر فرد کو یہ اچھی طرح جان لینا چاہئے کہ خدمت دین ہی سب سے بڑی، سب سے اعلیٰ اور سب سے ارفع خوبی ہے.جب تک طبائع میں یہ احساس پیدا نہ ہوگا دین کا ادب اور احترام قائم نہیں ہو سکتا اور جو قوم اپنے دین کا ادب اور احترام نہیں کرتی وہ زیادہ دیر زندہ بھی نہیں رہ سکتی.عیسائیوں کے اپنے دین کی خدمت کا ادب اور احترام کرنے کا ہی یہ نتیجہ ہے کہ ان کے بڑے بڑے خاندانوں کے لوگ پادریوں میں نام دیتے ہیں اور اکثران میں لارڈوں کے بیٹے ہوتے ہیں.مثلاً آج کل لندن میں مسزائیلے سے ایک پادری عورت ہے جو ہمارے لندن والے مشن میں بھی چار پانچ دفعہ آچکی ہے.گو وہ متعصب ہے مگر اس پر ہمارے مشن کا اثر ضرور ہے وہ برطانیہ کے سب سے بڑے وزیر کی بیوی ہے.وہاں تو یہ حال ہے ہے کہ کوئی لیبر ہو ، کنز روٹیو ہو، یا لبرل ہو وہ لوگ اپنی بڑائی کا اسی میں یقین کرتے ہیں کہ دین کی خدمت کے لئے اپنی زندگیاں وقف کر دیں.لیکن ہمارے ہاں یہ حال ہے کہ زندگیاں تو ہے شک وقف ہوتی ہیں لیکن ساتھ ہی روٹی اور سالن کا سوال بھی پیدا ہو جاتا ہے.اگر جماعت نے اپنے اس رویہ میں تبدیلی نہ کی تو ہم ایسے راستہ پر قدم مار رہے ہوں گے جس پر چل کر کوئی کامیابی حاصل نہیں کی جاسکتی.جب تک یہ نہ سمجھ لیا جائے کہ ہم یا ہمارے رشتہ دار اگر دین کی خدمت کرتے ہیں تو یہی ہمارے لئے سب سے اعلیٰ بڑائی اور فخر کا مقام ہے اس وقت تک ہم
خطبات محمود ۶۲۹ جلد سوم ان ترقیات کو نہیں پا سکتے جو ہمارے مد نظر ہیں.ہم میں سے بڑے سے بڑا عالم، بڑے سے بڑا ڈاکٹر، بڑے سے بڑا وکیل، بڑے سے بڑا تاجر اور بڑے سے بڑا صناع جب تک اپنے اندر یہ حالت نہیں پاتا کہ جب وہ سنے کہ فلاں نے اپنی زندگی دین کے لئے وقف کی ہے تو وہ خوشی کے ساتھ اچھل پڑے اور اسے اپنے سے زیادہ معزز سمجھے اس وقت تک ہم ایک ایسا خواب دیکھ رہے ہوں گے جو کبھی شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکتا اور ہمارا یہ کہنا کہ ہماری جماعت تمام دنیا کو اسلام کے لئے فتح کرلے گی صرف منہ کی بات ہوگی.پس میں جماعت کو توجہ دلاتا ہوں کہ یہ معمولی مسئلہ نہیں کہ اس کی پرواہ ہی نہ کرو بلکہ تمہیں چاہئے کہ اسے شیخ کی طرح اپنے دلوں میں گاڑ لو یہاں تک کہ جماعت کے ہر فرد کو یہ پختہ یقین ہو جائے بلکہ قیامت تک یہ یقین رہے کہ دین کی خدمت کرنے والا ہی سب سے بڑا معزز ہے.له الفضل ۲۸ اپریل ۱۹۳۷ء صفحه ۱ الفضل ۸ نومبر ۱۹۷۱ صفحه ۳۲) Clemaent Recead Attlee (1883-1967) ✓ Prime Minator of the First Majority Labour Goverment (1945-51) محترم چوہدری ظہور احمد صاحب باجوہ نے بتایا کہ وہ ان دنوں امام مسجد لندن تھے.مزائیلے پرائم منسٹر کی بڑی بہن تھیں یہ مشرقی افریقہ میں مشنری رہی تھیں.مگر بشیر احمد آرچرڈ ایک میٹنگ میں اس سے ملے اور اس کو مسجد آنے کی دعوت دی.یہ مشرقی افریقہ میں ہمارے مبلغوں سے مل چکی تھی اور احمدیت سے واقفیت رکھتی تھی.بشیر احمد آرچرڈ کی طرف دیکھتے ہوئے اس نے کہا: "I have spent my life in East Africa but The light I see in your face I have not seen hefore"
خطبات محمود ۶۳۰ (۱۳۵ جلد سوم واقفین زندگی کا مقام (فرمودہ ۷ جون ۱۹۴۷ء) ۷ جون ۱۹۴۷ء بعد نماز مغرب حضرت خلیفۃ المسیح الثانی نے جناب مرزا عبدالحق صاحب وکیل گورداسپور کی لڑکی عزیزہ بیگم صاحبہ کا نکاح محترم حیدر علی صاحب ابن حکیم رحمت علی صاحب آف دہلی کے ساتھ مبلغ دو ہزار روپیہ مہر پر پڑھا.لے خطبہ مسنونہ کی تلاوت کے بعد فرمایا : نکاحوں کے متعلق میرا عام طریق یہی ہے کہ میں واقفین زندگی کے نکاح ہی پڑھا کرتا ہوں یا پھر ایسے لوگوں کے نکاح بھی پڑھ دیا کرتا ہوں جن کے ساتھ میرے ذاتی تعلقات ہوں اور وہ تعلقات بھی ایسے ہوں کہ ان کی وجہ سے وہ نکاح پڑھے جانے کے حقدار قرار پاتے ہوں لیکن اس کی وجہ یہ نہیں کہ میں واقفین زندگی کو دوسروں پر ترجیح دیتا ہوں یا واقفین زندگی کو تو معزز سمجھتا ہوں اور دوسروں کو حقیر سمجھتا ہوں بلکہ اس لئے کہ چونکہ اب جماعت خدا تعالٰی کے فضل سے ترقی کر چکی ہے اور کاروبار وسیع ہو چکا ہے اس لئے ایسے کاموں کے لئے وقت نکالنا بہت مشکل ہوتا ہے.پس ضروری تھا کہ ایک حد بندی قائم کر دی جاتی.ہاں جب کوئی ایسا نکاح آجاتا ہے کہ وہ مجھ سے پڑھے جانے کا مستحق ہو تو اس وقت بعض دوسرے نکاح بھی شامل کر لئے جاتے ہیں.آج جس نکاح کے اعلان کے لئے میں کھڑا ہوا ہوں وہ لڑکا تو واقف زندگی نہیں لیکن لڑکی کے والد یعنی مرزا عبد الحق صاحب بی اے ایل ایل بی واقف زندگی ہیں اور گو ابھی تک ہم نے ان
خطبات محمود کو وقف کے سلسلہ میں مرکز میں نہیں بلوایا اور انہیں اجازت دے رکھی ہے کہ وہ ابھی اپنا کام بھی کریں اور سلسلہ کے بعض ضروری کاموں میں بھی حصہ لیں لیکن وہ اپنا کافی وقت سلسلہ کے کاموں کے لئے دیتے ہیں اور ہر اتوار کو قادیان آجاتے ہیں.اس کے علاوہ ان کے تعلقات میرے ساتھ پرانے ہیں اور وہ تعلقات ایسے ہیں کہ وہ میرے لئے بمنزلہ عزیز کے ہیں اس لئے میں نے مناسب سمجھا کہ ان کی لڑکی کا نکاح پڑھا دوں.اس میں شبہ نہیں کہ ہماری جماعت کے سے افراد میں خدا تعالیٰ کے فضل سے قربانی کی روح پائی جاتی ہے.الا ماشاء اللہ اور وہ سب ہی اچھے ہیں.لیکن اس میں شبہ نہیں کہ ان اچھوں میں بھی کچھ زیادہ اچھے ہوتے ہیں اور کچھ کم اچھے ہوتے ہیں رسول کریم ﷺ کے سارے صحابہ کے متعلق اللہ تعالیٰ نے رضِی اللهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ نے فرمایا ہے لیکن ان میں بھی مدارج تھے اور ان میں سے بعض صحابہ اپنے ایثار اور قربانی اور اخلاص کی وجہ سے بعض دوسروں پر فوقیت رکھتے تھے.یہی حال ہماری جماعت کا بھی ہے اس لئے دنیوی کاموں میں ان کی دینی قربانیوں کی وجہ سے بعض کو بعض پر ترجیح دینی ہی پڑتی ہے اور جب کام کی زیادتی ہو تو حد بندی لگانی ہی پڑتی ہے.ہماری جماعت کے اندر ایک مرض ایسا ہے جو صحابہ میں نہیں تھا اور وہ یہ ہے کہ ہماری جماعت کا ہر شخص ایک نئی راہ کی تلاش میں رہتا ہے جس کے ذریعہ وہ خلیفہ وقت سے کام لے سکے اور ان میں سے ہر ایک کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ ان کے بعض کام خلیفہ وقت ہی کرے.مثلاً کسی نے مکان بنانا ہو تو اس نے مجھ سے آکر کہہ دیا چلئے بنیادی اینٹ رکھ دیجئے میں نے بھی سمجھا کہ اس کی دلجوئی ہو جائے گی اس لئے انکار نہ کیا مگر جب دوسروں نے دیکھا کہ خلیفہ وقت نے فلاں شخص کے مکان کی بنیادی اینٹ رکھی ہے تو جس کسی نے مکان بنوانا چاہا اس نے کہا میرے مکان کی بنیادی اینٹ بھی رکھ دیجئے اس طرح ایک خلیفہ تو مکان کی اینٹیں رکھنے کے لئے چاہئے.اسی طرح قادیان میں شادیوں اور بیاہوں پر ہوتا رہا ہے اور جس کسی کے ہاں شادی ہوتی یا کسی نے اپنے دوستوں یا عزیزوں کو دعوت چائے یا دعوت طعام دی تو پہلے ایک نے پھر دوسرے نے اور پھر دیکھا دیکھی ہر ایک نے مجھے بلانا شروع کر دیا.اب چونکہ یہ تو نہیں ہو سکتا تھا کہ میں ایک کی بات مانتا اور اس کی دلجوئی کرتا اور دوسرے کی بات کو رد کر دیتا کیونکہ جس کی بات مانی گئی وہ تو خوش ہو گیا اور جس کی نہ مانی گئی اس کے دل کو ٹھیس لگی اس لئے میں نے اس رواج کو بند کر دیا.پچھلے دنوں ایک دوست ٹائیفائڈ سے بیمار ہوئے اور ایک دن انہوں نے پانی
خطبات محمود ۶۳۲ جلد سوم کا ایک گلاس میرے پاس بھیجوایا کہ یہ پانی دم کر دیا جائے.ان کی عمر کی زیادتی کی وجہ سے اور پھر اس وجہ سے کہ وہ بیمار ہیں ان کے دل کو تکلیف ہوگی میں نے پانی دم کر کے دے دیا مگر پھر انہوں نے دوسرے دن بھی تیسرے دن بھی اور پھر باقاعدہ پانی بھجوانا شروع کر دیا اور میں بھی دم کر کے دیتا رہا.وہ تو خیر اچھے ہو گئے اس کے بعد میں اس انتظار میں رہا کہ ان کی دیکھا دیکھی دوسروں کو کب پانی دم کرانے کا خیال آتا ہے.چنانچہ آج ایک اور دوست نے بھی پانی کا گلاس دم کرنے کے لئے بھیج دیا.میں نے سمجھا اب تو دم کرانے والوں کا تانتا بندھ جائے گا اور میں سلسلہ کے دوسرے کام چھوڑ چھاڑ کر صرف دموں کے لئے ہی وقف ہو جاؤں گا اس لئے میں نے وہ گلاس واپس کر دیا اور کہہ دیا جاؤ میں نے ایک کی بات تو اس کی دلجوئی کے لئے مان لی تھی اب دوسرے کی بات نہیں مانتا.رسول کریم الی ایک دن مجلس میں بیٹھے ہوئے صحابہ کے سامنے ذکر فرما رہے تھے کہ اللہ تعالٰی کی طرف سے نبیوں کو جو انعامات ملتے ہیں ان سے مجھے وافر ملا ہے اور میرے لئے اللہ تعالیٰ نے یہ یہ انعامات مقرر کئے ہیں.آپ نے بہت سے انعامات گنتے ہوئے جنت کی نعماء کا بھی ذکر فرمایا یہ سن کر ایک صحابی کھڑے ہوئے اور عرض کیا یا رسول اللہ ! میرے لئے بھی دعا فرما ئیں کہ میں بھی وہیں آپ کے ساتھ جنت میں رہوں آپ نے اس کے لئے دعا فرمائی.اس کی دیکھا دیکھی دوسروں نے بھی اٹھنا اور دعا کے لئے کہنا شروع کر دیا آپ نے فرمایا ایک کے لئے تو میں نے دعا کر دی ہے اب دوسروں کے لئے نہیں کر سکتا.یہ تو ایک مثال ہے اور بھی کئی ایسی مثالیں ہونگی.صحابہ اس بات کو اچھی طرح سمجھتے تھے کہ رسول کریم چونکہ ایک بشر ہیں اور بشر بشر ہی ہوتا ہے اور وہ یہ نہیں کر سکتا کہ دنیا بھر کی اصلاح بھی کرے اور ہمارے سارے کام بھی وہی سرانجام دے اس لئے وہ آپ کو اپنے ذاتی کاموں کے لئے تکلیف نہیں دیتے تھے.اور صحابہ کو اس کے متعلق اتنا احساس تھا کہ حضرت عبد الرحمن بن عوف جو نہایت اعلیٰ پایہ کے صحابی تھے اور عشرہ مبشرہ میں سے تھے اور جن کے متعلق رسول کریم ﷺ نے ایک دفعہ فرمایا جب تک عبدالرحمن بن عوف زندہ ہے میری امت میں فساد نہیں ہو گا.ایک دن عبد الرحمن بن عوف رسول کریم ﷺ کے پاس آئے ان کے کپڑوں کو رنگ کے کچھ داغ لگے ہوئے تھے اور وہ رنگ کے داغ اس قسم کے تھے جیسے عرب میں عام طور پر شادی بیاہ کے مواقع پر کپڑوں پر لگائے جاتے تھے.آپ نے فرمایا
خطبات محمود ۳۳ عبدالرحمن تمہارے کپڑوں پر یہ داغ کیسے ہیں انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! میری شادی ہوئی ہے.کہ اب دیکھو حضرت عبد الرحمن بن عوف جو اتنے اعلیٰ پایہ کے صحابی تھے ان کی شادی ہوتی ہے اور رسول کریم ﷺ کو پتہ ہی نہیں لگتا.حضرت عبدالرحمن بن عوف سے بڑھ کر کون اس بات کا مستحق ہو سکتا تھا کہ آپ اس کی شادی میں شمولیت فرماتے مگر چونکہ صحابہ کو اس بات کا پورا احساس تھا کہ آپ کے اوقات کو محفوظ کر لیا جائے اور اس قسم کے گھر کے معاملات میں آپ کا قیمتی وقت ضائع نہ کیا جائے تاکہ آپ پوری طرح دین کی خدمت کر سکیں اس لئے انہوں نے آپ سے اس کا ذکر نہ کیا.پھر آپ نے حضرت عبدالرحمن سے دریافت فرمایا کس سے شادی ہوئی ہے.انہوں نے عرض کیا فلاں عورت سے.معلوم ہوتا ہے وہ بڑی عمر کی تھی.آپ نے فرمایا کسی جوان لڑکی سے شادی کرتے تو اچھا تھا.غرض میں نے جو نکاحوں وغیرہ کے متعلق پابندی لگائی ہوئی ہے اس کی یہ وجہ نہیں کہ میں بعض کو حقیر سمجھتا ہوں اور بعض کو معزز خیال کرتا ہوں بلکہ صرف اس لئے کہ میں ایک بشر ہوں اور سلسلہ کے کاموں کا بوجھ مجھ پر زیادہ ہے اور میں ہر ایک کی تقریب پر نہیں پہنچ سکتا اس لئے میں نے مناسب سمجھتے ہوئے حد بندی لگادی ہے اور سوائے کسی خاص وجہ کے ایسے کاموں میں حصہ نہیں لیتا.اگر میں ہر ایک کی بات مانتا چلا جاؤں تو سلسلہ کے کاموں میں حرج واقع ہوتا ہے اور اللہ تعالٰی نے دین کی خدمت کا جو کام میرے سپرد کیا ہے میں اس کو پوری طرح سرانجام نہیں دے سکتا.الفضل -۸- دسمبر ۱۹۶۰ء صفحه (۴۳ له الفضل اجون ۱۹۴۷ء له المجادلة : ۲۳ که بخاری کتاب الرقاق باب يدخل الجنة سبعون الفا بغير حساب که بخارى كتاب النكاح باب كيف يدعى للمتزوج
خطبات محمود ۶۳۴ جلد سوم اچھی تربیت سے اپنے قائمقام پیدا کرو (فرموده ۲- اپریل ۱۹۴۸ء) ۲- اپریل ۱۹۴۸ء بعد نماز مغرب حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے مکرم عبد الخالق صاحب مہتہ ابن جناب بھائی عبد الرحمن صاحب قادیانی کے نکاح مکرمہ ممتاز عصمت صاحبہ بنت مکرم ڈاکٹر منیر امرتسری بعوض دو ہزار روپیہ اور حفیظ احمد خان صاحب ابن چوہدری نذیر حسین صاحب کے نکاح کا اعلان فرمایا.لے خطبہ مسنونہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: دنیا میں لوگ پیدا بھی ہوتے ہیں اور مرتے بھی ہیں.بعض پیدا ہو کر بڑے ہو جاتے ہیں اور بعض تو پیدا ہو کر چھوٹے رہ جاتے ہیں.جس طرح گٹھلی یا بیج سے سبزہ نکلتا ہے تو سوائے ایک واقف کار آدمی کے جو جانتا ہے کہ اس سے کیا پیدا ہو گا دوسرا یہ نہیں کہہ سکتا کہ اس سبزہ میں کوئی معمولی سا گھاس یا پودا پیدا ہو گا یا اس سے بہت بڑا درخت بنے گا.کئی گھاس اور پورے نصف انچ یا ایک انچ رہ جاتے ہیں اور کئی چھوٹی چھوٹی سبزیاں ترقی کر کے اتنا بڑا درخت بن جاتی ہیں کہ سینکڑوں آدمی اس کے سایہ کے نیچے آرام کر سکتے ہیں اور سایہ میں بیٹھ سکتے ہیں.ابتدائی حالت میں وہ یکساں ہوتی ہیں لیکن انتہائی حالت میں وہ مختلف ہو جاتی ہیں.کوئی روئیدگی ایسی ہوتی ہے کہ مہینہ ڈیڑھ مہینہ میں اس کا سارا جوش ختم ہو جاتا ہے اور پھر سوکھے گھاس کی طرح ہو جاتی ہے اور کوئی سبزہ ایک مضبوط درخت بن جاتا ہے یا ایک چھوٹا سا پودا سینکڑوں سال کی عمر تک جاتا ہے.بعض پھول جو بنگلوں میں لگائے جاتے ہیں ایک یا دو دن میں
خطبات محمود ۶۳۵ جلد سوم سوکھ جاتے ہیں لیکن انگور کا درخت ہزار سال تک کی عمر بھی پالیتا ہے، بڑ کا درخت سینکڑوں سال تک چلا جاتا ہے اسی طرح جو بچے پیدا ہوتے نہیں ان کی مثال بالکل سبزہ یا روئیدگی کی طرح ہوتی ہے کوئی نہیں کہہ سکتا کہ کل کو یہ سبزہ کیسا ہو گا آیا چند دن بہار دینے کے بعد سوکھ جائے گا یا معمولی نظارہ کی لذت اس سے پیدا ہوگی.جس طرح گھاس پیدا ہوتا ہے اور بعد میں جانوروں کو کھلا دیا جاتا ہے ایسے ہی یہ بچہ امراء اور ظالم حکام کا شکار بنا رہے گا.نوکریاں کرتا پھرے گا، سٹیشن پر قلیوں کا کام کرے گا یا اس کی حالت اس سبزہ کی ہوگی جو خود بڑھتا ہے اور سینکڑوں آدمی اس کے سایہ کے نیچے آرام کرتے ہیں.صرف دس ہیں یا پچاس سال تک کی عمر نہ ہوگی بلکہ دو سو، پانچ سو یا ہزار سال تک کی اس کی عمر ہو گی.اس دنیا میں مادی لحاظ سے ایک آدمی پانچ سال تک نہیں جاتا لیکن روحانی لحاظ سے بعض دفعہ اس سے بھی زیادہ چلا جاتا ہے.رسول کریم اس کو دعوٹی کئے ہوئے ۱۳۰۰ سال ہو چکے ہیں لیکن آپ کا زمانہ ختم نہیں ہوا بلکہ ابھی تک جاری ہے اور جاری رہے گا اس وقت تک جب تک دنیا آباد ہے بلکہ اس کے بعد بھی انسان ان کی تعلیم اور لائی ہوئی شریعت پر عمل کر کے اگلے جہان میں اعلیٰ زندگی حاصل کرے گا.میں سمجھتا ہوں کہ روحانی تعلیم اور جسمانی روئیدگی میں مشابہت ہے.آخر انسان کیا چیز ہے ایک گھاس یا سبزہ ہے جو جنگلوں میں اگتا ہے اس کو بیل گائے یا بکریاں کھاتی ہیں اور اسی گھاس سے گائے بیل کی مادہ دودھ دیتی ہے، اسی گھاس کو کھا کر ان کا نطفہ بنتا ہے، پھر بچھڑا پیدا ہوتا ہے، اسی گھاس کو کھا کر ایک بکرا اپنی نسل چلاتا ہے، دنبہ کھا کر نسل چلاتا ہے اور اسی گھاس کو کھا کر ایک بکری دودھ دیتی ہے، پھر انسان اسی دودھ کو پیتا اور ان جانوروں کا گوشت بھی کھاتا ہے، پھر درختوں کے پھل بھی کھاتا ہے، یہی گھاس ہے جس سے جسم بنتا ہے، جس سے خون بنتا ہے، یہی گھاس ہے جس سے ہڈیاں بنتی ہیں، انہی چیزوں کے خلاصہ کا نام نطفہ ہے جس سے انسان بنتا ہے.غرض یہی چیزیں ایک شکل بدل کر دائمی زندگی حاصل کرتی ہیں.گھاس گھاس ہونے کی صورت میں دائمی نہیں بلکہ جانور میں جاکر گوشت اور دودھ بنتا ہے اور پھر انسان اسے کھاتا ہے تو وہ انسان کا جزو بن جاتا ہے اور وہ انسان خدا تعالیٰ کے حکم پر چلنے کے بعد اور مرنے کے بعد نئی دائمی زندگی، ابدی زندگی اور نہ ختم ہونے والی زندگی حاصل کرتا ہے.جو چیزا.اگلے جہان میں جاتی ہے وہ خلاصہ ہوتی ہے اس روح کا جوان ترکاریوں اور سبزیوں
خطبات محمود جلد سوم - سے حاصل ہوتی ہے.گھاس کو براہ راست زندگی نہیں ملتی زمین سے نکلے ہوئے درخت کو دائمی زندگی نہیں ملتی اس انسان کے گوشت پوست کو اپنی ذات میں دائمی زندگی نہیں ملتی بلکہ دائی زندگی حاصل کرتی ہے ان سے بننے والی روح.یہی حال روحانی زندگی کا ہے.جس طرح مادی اشیاء روح کا حصہ ہیں زیادہ تر روح کی ترقی روحانی تعلیموں سے ہوتی ہے وہ تعلیمیں اپنی ذات میں زندگی حاصل نہیں کرتیں اور نہ اپنی ذات میں جنت میں جاتی ہیں مگر ان پر عمل کر کے جو روح ترقی کرتی ہے وہ دائمی زندگی پاتی ہے اور پھر جنت میں جاتی ہے.جس طرح مادی گھاس، ترکاریاں، غلے اور درخت نئی شکل بدل کر جنت میں پائے جاتے ہیں اسی طرح انسان اخلاص اور تقویٰ کی راہوں پر چل کر ایک نئی شکل اختیار کرتا ہے.فرق صرف یہ ہوتا ہے کہ مادہ اس دنیا میں نمایاں اور روح مخفی ہوتی ہے اگلے جہان میں روح ظاہر اور مادہ مخفی ہو جاتا ہے.جیسے کوٹ پر انا ہو جاتا ہے تو غرباء اسے الٹا کر پھر سلوا کر پہنتے ہیں.کپڑا وہی ہوتا ہے صرف نیچے کا اوپر ہو جاتا ہے اور اوپر کا نیچے ہو جاتا ہے.جس طرح زمیندار ہل چلا کر اس مٹی کو جو گذشته سال فصل دے چکی ہوتی ہے نیچے کر دیتا ہے اسی طرح جب یہ مادہ کام کر چکتا ہے فرشتے ہل چلا کر اس کو الٹا دیتے ہیں.مادہ غائب ہو جاتا ہے اور پھر نئی زندگی پاتا ہے.ہم دیکھتے ہیں کہ ہمیشہ ہمیش سے اسی طرح ہوتا چلا آیا ہے.پیدائش ہوتی ہے اور اس کے نتیجہ میں ایک انسان پیدا ہو جاتا ہے اس کی مثال کبھی گھاس کی طرح ہوتی ہے اور کبھی ایک تناور درخت کی.اسی طرح موتیں آتی ہیں موتوں کا سلسلہ ہمیشہ سے ہے لوگ مرتے ہیں اور پیدا ہوتے ہیں.احادیث میں رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں کہ ہر دن اور رات کے وقت فرشتے آتے ہیں اور آواز دیتے ہیں.لِدُوا اللمَوتِ وَابْنُو اللخَرَابِ له بچے جنو تا ایک دن جا کر مریں - مکان بناؤ تا ایک دن گرے.تو مکان گرتے اور بچے مرتے ہیں.یہ سلسلہ ہمیشہ سے چلا آتا ہے.ہمیں اس کو دیکھتے ہوئے ایک سبق حاصل کرنا چاہیے جو ان آیات میں ذکر ہے آيَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللهَ وَلْتَنْظُرُ نَفْسُ مَا قَدَّمَتْ لِغَدِ سه ای مومنو! اللہ کا تقویٰ اختیار کرو اور چاہئے کہ ہر جان اس بات پر غور کرے کہ کل کے لئے اس نے کیا چھوڑا ہے مَا قَدَّمَتْ لِغَدٍ سے مراد یہ بھی ہو سکتا ہے کہ آئندہ زمانہ کے لئے کیا چھوڑا ہے یعنی اولاد وغیرہ.اس غر کو انسان دیکھتا ہے اور بسا اوقات اپنے مرنے سے پہلے معلوم کر لیتا
خطبات محمود ۶۳۷ ہے کہ کیا چھوڑا ہے.انسان کو چاہئے کہ وہ دیکھے کہ وہ کیسی دنیا چھوڑ جائے گا.اگر اس کی اولاد کی دیندار ہو گی، متقی ہو گی، ان میں صلاحیت ہوگی، قربانی اور ایثار کا مادہ ہو گا، اگر وہ دین کو دنیا پر مقدم رکھتی ہوگی تو سمجھ لینا چاہئے کہ اس کی اگلی دنیا اچھی ہے اور اگر اس کی اولاد ایسی نہیں، وہ دیندار متقی نہیں، قربانی اور ایثار کا مادہ ان میں نہیں پایا جاتا، دین کو دنیا پر مقدم کرنے والی نہیں تو یہ اس کے لئے بھی اور اس کی اولاد کے لئے بھی بلکہ دنیا کے لئے بھی برا ہو گا.ہم تھوہر کا درخت لگاتے ہیں یا نیم کا درخت لگاتے ہیں یا اس قسم کا کوئی اور درخت لگاتے ہیں اور ہم خیال کرتے ہیں کہ ہماری اولاد اور دنیا اس سے فائدہ اٹھائے گی اور پھل کھائے گی تو ہم سے زیادہ احمق کون ہے.اگر ہم عمدہ پھل کی گٹھلیاں اور بیج لگاتے ہیں جو شیریں ہوتے ہیں انسان کی زبان کو لذت دیتے ہیں یا انسان کے دماغ کو طراوت بخشنے والے ہوتے ہیں تو یقینا ہم خوش ہوں گے اور چار پانچ سال گزرنے کے بعد ہم اور ہماری اولاد اس کا پھل کھائے گی.غرض یہ آیت نہایت ہی اہم ہے اس کو نظر انداز کرنے سے تباہی آتی ہے جو اس کو مد نظر نہیں رکھتے وہ اولاد کو اس نظر سے نہیں دیکھتے.ایک شخص گٹھلی کو اس لئے ہوتا ہے کہ ایک دن وہ درخت بنے اور پھل دے، لوگ اس سے فائدہ اٹھا ئیں اس نقطہ نگاہ سے اگر اولاد کی تربیت کی جائے تو دنیا کا مستقبل ایک حد تک خوش کن ہو سکتا اور اگر اس نقطہ نگاہ سے اولاد کی تربیت نہیں کی جاتی تو دنیا کا مستقبل خوش کن نہیں ہو سکتا.بلی بھی اپنے بچے سے محبت کرتی ہے، کہتے بھی اپنے کتورے سے محبت کرتے ہیں.مگر وہ امید نہیں کر سکتے کہ ان کی دنیا اچھی ہو گی.بلی بھی اپنی اولاد سے محبت کرتی ہے، سانپ بھی اپنی اولاد سے محبت کرتا ہے، بچھو بھی اپنی اولاد سے محبت کرتا ہے.یہ تو ایک ابتدائی چیز ہے اس مومن کی بچوں سے محبت اور سانپ اور بچھو کی اپنے بچوں سے محبت میں کیا فرق ہے؟ یہی فرق کہ سانپ اولاد سے اس لئے محبت نہیں کرتا کہ وہ بڑا ہو کر کسی کو کاٹے گا اور وہ اس کی وجہ سے مرجائے گا بچھو اپنے بچوں سے اس لئے محبت نہیں کرتا کہ بڑے ہو کر یہ انسان کو کاٹیں گے اور اس کی زندگی دو بھر ہو جائے گی لیکن مئومن بچوں سے اس لئے محبت کرتا ہے کہ اس کو آدمی بنائے تادین کی ترقی کے لئے کام کرے اور سلام کے غلبہ کے لئے کام کرے.وہ سمجھتا ہے کہ اگر وہ ایسا کرے گا تو میرا بچہ ہے ورنہ سانپ کا بچہ ہے اور کیا کوئی سانپ کے بچہ سے محبت کرتا ہے.ایک دفعہ حضرت حسنؓ نے حضرت علی سے سوال کیا کہ ابا جان کیا آپ کو مجھ سے محبت
خطبات محمود ۶۳۸ جلد سوم ہے؟ آپ نے فرمایا ہاں.پھر حضرت حسن نے سوال کیا.کیا آپ کو خدا سے محبت ہے؟ آپ نے فرمایا ہاں.حضرت حسن نے کہا کہ پھر تو آپ مشرک ہیں آپ مجھ سے بھی محبت کرتے ہیں اور خدا سے بھی محبت کرتے ہیں.حضرت علیؓ نے فرمایا.ٹھیک ہے کہ میں تم سے بھی محبت کرتا ہوں اور خدا سے بھی محبت کرتا ہوں مگر تمہاری محبت اگر خدا کی محبت سے ٹکرا جائے تو میں اس کو مسل ڈالوں گا.کہ جب تک یہ روح کام نہیں کرتی ہمارا ارادہ اور ایمان اصلاح کے لئے کافی نہیں ہو سکتا کسی بڑے سے بڑے آدمی کا ایمان بھی دنیا کی اصلاح کے لئے کافی نہیں ہو سکتا، ایک نبی کا ایمان بھی آئندہ دنیا کی اصلاح کے لئے کافی نہیں خود رسول اللہ ا کا ایمان بھی آئندہ زمانے کی اصلاح کے لئے کافی نہیں ہو سکتا.خود خداتعالی فرماتا ہے بلغ مَا أُنْزِلَ إِلَيْكَ شے کہ جو پیغام تم لائے ہو لوگوں تک پہنچاؤ تا تمہارا وجود مستقبل کی دنیا کے لئے مفید ہو.ورنہ تمہارا وجود اپنے لئے مفید ہو گا اس دنیا کے لئے مفید ہو گا مگر اگلوں کے لئے نہیں ہوگا.لیکن اگر تم تبلیغ کرو گے اور اپنے قائم مقام پیدا کرو گے تو تمہارا نور ہر زمانہ میں روشنی تا رہے گا.جب اس نقطہ نگاہ کو دنیا سمجھ لے اور اولاد کی محبت امانت سمجھ کر کرے کہ وہ قربانی کے بکرے ہیں جو تیار کئے گئے ہیں.عید کے بکرے کو اس لئے نہیں کھلاتے کہ وہ اس کو چومیں گے اور چاہیں گے.اس نقطہ نگاہ سے اگر اولاد کی تربیت کی جائے اور اولاد پیدا کی جائے تو یقیناً دین کی ترقی کا موجب ہوگی اور اگر اس طرح تربیت نہیں کی جاتی تو پھر کچھ بھی نہیں.خدا تعالیٰ نے انسان کو ہر قسم کی مخلوق کا جامع بنایا ہے، سارے حیوانوں کا بھی جامع بنایا ہے، انسان کا بچہ سانپ اور بچھو کا بچہ بھی بن سکتا ہے، بھیڑیے کا بچہ بن سکتا ہے، شیر کا بچہ بھی بن سکتا ہے اور انسان کا بچہ بھی بن سکتا ہے بلکہ میں تو کہتا ہوں کہ وہ اپنے اعمال کی وجہ سے فرشتوں کا بچہ کہلانے کا مستحق بھی ہو سکتا ہے.له الفضل -۴- ایریل ۱۹۴۸ء صفحه ۴ الفضل ۲۵ - اپریل ۱۹۴۸ء صفحه ۴۷۳) له الجامع لاحكام القرآن لقرطبي الجز الثامن ص ٣٧٣ مطبوعه قاهرة ١٩٣٩ء الحشر : ۱۹ ته المائدة : ۶۸
۶۳۹ ۱۳۷ خطبات محمود خطبہ جمعہ سے قبل اعلان نکاح فرموده ۲۳ جولائی ۱۹۴۸ء بمقام یا رک ہاؤس کوئٹہ ) ۲۳ جولائی ۱۹۴۸ء حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے خطبہ جمعہ سے قبل سید شریف احمد ولد سید عبد الحئی صاحب آف منصوری کے نکاح کا اعلان مکرمہ عطیہ بیگم بنت سیٹھ محمد اعظم صاحب کے ساتھ فرمایا : خطبہ مسنونہ کی تلاوت کے بعد فرمایا : یہ میری عادت نہیں کہ خطبہ جمعہ کے ساتھ اعلان (نکاح) کروں مگر چونکہ میں سفر میں ہوں اور یہاں سوائے جمعہ کے احباب کا جمع ہونا مشکل ہوتا ہے اس لئے میں نے مناسب سمجھا کہ خطبہ جمعہ سے پہلے اعلان کر دوں.سیٹھ محمد اعظم صاحب جن کی لڑکی عطیہ بیگم کے نکاح کا میں اعلان کرنے لگا ہوں ان کے خاندان سے ہمارے ایسے تعلقات ہیں کہ میں چاہتا تھا کہ میں اس موقع پر لمبا خطبہ پڑھوں مگر جمعہ کی وجہ سے خطبہ جمعہ پر ہی اکتفا کرتا ہوں.الفضل ۲۸ جولائی ۱۹۴۸ء صفحه ۱)
۶۴۰ ۱۳۸ خطبات محمود چوہدری سعید احمد صاحب درویش کے نکاح کا اعلان ( فرموده ۱۰- اپریل ۱۹۵۰ء) ۱۰ اپریل ۱۹۵۰ء حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے ربوہ میں بعد نماز عصر چوہدری سعید احمد صاحب بی اے درویش قادیان کا نکاح طاہرہ بیگم بنت شیخ خیر الدین صاحب لکھنو کے ساتھ چار ہزار روپے مہر پر پڑھائے خطبہ مسنونہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: جیسا کہ احباب کو معلوم ہی ہے کہ قادیان میں ہمارے کچھ لوگ اس کی حفاظت کا حق ادا کر رہے ہیں ان میں سے بعض ایسے ہیں جو وہاں کے رہنے والے ہیں اور بعض ایسے ہیں جو ہنگامہ کے ایام میں باہر سے حفاظت کی غرض سے وہاں گئے تھے اور راستہ بند ہونے کے باعث وہاں مقیم تھے اور حالات کی تغیر سے بعد میں انہوں نے وہاں رہنے کا ارادہ کر کے مستقل رہائش کا محمد کر لیا ہے.وہاں کے رہنے والوں میں سے ایک مخلص نوجوان چوہدری سعید احمد صاحب بی.اے بھی ہیں جو وہاں کی صدر انجمن احمدیہ کے محاسب ہیں.ان کے متعلق یہاں سے (E.A.C) ای.اے.سی کی منظوری آچکی تھی لیکن انہوں نے کمال اخلاص سے وہاں کی رہائش کو ترجیح دے کر واپس آنے سے انکار کر دیا.وہ چوہدری فیض احمد صاحب کے صاجزادہ ہیں جو سلسلہ کے کارکن ہیں اور ان کے دادا چوہدری غلام محمد صاحب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پرانے صحابی بڑے مخلص اور اپنے علاقہ کے امیر اور بااثر و معزز بزرگ ہیں.
خطبات محمود جلد سوم چونکہ موجودہ وقت میں وہاں قریباً ۳۲۰ افراد فروکش ہیں جن میں سے بعض نوجوان ہیں اور بعض بوڑھے اور بعض ادھیڑ عمر کے بھی ہیں بلکہ بعض ایسی عمر کو پہنچ چکے ہیں جو چند سالوں کے بعد ہم سے جدا ہو جائیں گے.اس طرح وہاں کے مقیم لوگوں کی تعداد دن بدن کم ہونی شروع ہو جائے گی اور پاکستان سے وہاں جانے میں چونکہ بعض رکاوٹیں ہیں اس لئے یہی مناسب سمجھا گیا ہے کہ وہاں کے رہنے والوں کو ہندوستان کے رہنے والوں سے شادیاں کرنے کی اجازت دی جائے.اس طرح کرنے سے ایک تو آبادی بڑھ جائے گی مثلاً اگر پچاس شادیاں ہو جائیں تو لازماً پچاس خواتین کی آمد سے پچاس افراد کا اضافہ ہو جائے گا اور پھر افزائش نسل کو سے انشاء اللہ تدریجی ترقی ہوتی چلی جائے گی اس لئے گزشتہ ایام میں سب سے پہلا نکاح قادیان میں ہوا تھا اور اب یہ دوسرا نکاح چوہدری سعید احمد صاحب کا سیٹھ خیر الدین صاحب آف لکھنو کی صاحبزادی کے ساتھ تجویز کیا گیا ہے.سیٹھ صاحب بڑے مخلص، نیک اور اعلیٰ قربانی کرنے والے فرد ہیں اور وہاں کی جماعت کے پریذیڈنٹ بھی ہیں.پارٹیشن کے بعد جب کہ میں نے مالی مشکلات کے پیش نظر چندوں کے اضافہ کی تحریک کی تھی تو انہوں نے اپنی آمد کے تیسرے حصہ کی ادائیگی کا وعدہ کیا تھا اور دریافت کرنے پر پتہ چلا ہے کہ وہ اس وقت سے مسلسل - /.سے ہزار روپیہ تک ماہوار چندہ ادا کر رہے ہیں.لہذا امید کی جاتی ہے کہ یہ رشتہ جانبین کے لئے مبارک اور بابرکت ہو گا.سیٹھ خیر الدین صاحب نے اپنی اور اپنی لڑکی کی طرف سے مفتی محمد صادق صاحب کو ولی مقرر کیا ہے اور سعید احمد صاحب نے اپنے والد چوہدری فیض احمد صاحب کو جو یہاں ہی مقیم ہیں ولی مقرر کیا ہے لہذا میں اس نکاح کا اعلان کرتا ہوں.۵۰۰ الفضل ۲۳- اپریل ۱۹۵۰ء صفحه ۱۷۳) له لے اس کے ساتھ حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کا جو مضمون الفضل -۱۶ اپریل ۱۹۵۰ء صفحہ کے پر شائع ہوا ہے وہ بھی خطبہ سے مناسبت کی وجہ سے ذیل میں مندرج ہے: مورخہ ۱۰ اپریل ۱۹۵۰ء کو حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے ربوہ کے مرکز میں بعد نماز عصر چوہدری سعید احمد صاحب بی اے درویش قادیان اور طاہرہ بیگم بنت سیٹھ خیر الدین صاحب لکھنو کے نکاح کا اعلان چار ہزار روپیہ مہر پر فرمایا.حضور نے اپنے خطبہ نکاح میں اس شادی میں خوشی کا اظہار فرماتے ہوئے ہر دو خاندانوں کے اخلاص اور خدمت اور دینداری کا ذکر فرمایا.چنانچہ چوہدری سعید احمد صاحب بی اے درویش قادیان کے متعلق حضور نے فرمایا کہ وہ چوہدری غلام محمد صاحب سکنہ پوہلا مہاراں ضلع سیالکوٹ کے ہوتے ہیں جو پرانے صحابی ہونے کے علاوہ بڑے مخلص اور اپنی جماعت کے امیر اور ایک با اثر اور معزز بزرگ ہیں اور خود چوہدری سعید احمد نے اپنی دنیوی ترقی کو خیر باد کہتے ہوئے (کیونکہ ان کے لئے ابی.اے.سی میں منتخب ہونے کی تجویز ہو چکی تھی.قادیان میں درویشی زندگی کو ترجیح دی اور ان کے والد چوہدری فیض احمد صاحب انسپکٹر بیت المال ربوہ بھی ایک مخلص کارکن ہیں دوسری طرف سیٹھ
خطبات محمود جلد سوم خیر الدین صاحب لکھنو کے متعلق حضور نے فرمایا کہ وہ جماعت لکھنو کے پریذیڈنٹ اور بہت نیک اور اعلیٰ قربانی کرنے والے مخلصین میں سے ہیں.چنانچہ ملکی تقسیم کے بعد انہوں نے سلسلہ کی مشکلات کو دیکھتے ہوئے اپنی آمد کے تیسرے حصہ کی ادائیگی کا وعدہ کیا.جسے وہ بڑے اخلاص کے ساتھ نبھا رہے ہیں.پس میں امید کرتا ہوں کہ خدا کے فضل سے یہ رشتہ جانبین کے لئے بابرکت ہوگا.، سیٹھ خیر دین صاحب کی طرف سے حضرت مفتی محمد صادق صاحب اور چوہدری سعید احمد صاحب کی طرف سے ان کے والد چوہدری فیض احمد صاحب ولی تھے) خطبہ کے دوران میں حضور نے یہ اظہار بھی فرمایا کہ چونکہ ملکی تقسیم کے نتیجہ میں قادیان اور پاکستان کے درمیان آمد و رفت کا سلسلہ نہایت محدود (بلکہ عام حالت میں عملاً بند) ہو چکا ہے.اس لئے میں نے اس بات کی تحریک کی تھی کہ اب قادیان کے دوستوں کو چاہئے کہ وہ ہندوستان کی جماعتوں میں رشتے کر کے قادیان میں اطمینان اور ترقی کی زندگی اختیار کریں.سو یہ نکاح اسی مبارک تحریک کے نتیجہ میں قرار پایا ہے اور اس سے پہلے ایک نکاح قادیان میں بھی ہو چکا ہے.
۶۴۳ ۱۳۹ خطبات محمود بعض درویشان قادیان کے نکاحوں کا اعلان (فرموده ۲۲ مئی ۱۹۵۱ء) ۲۲ مئی ۱۹۵۱ء حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے قادیان کے بعض درویشوں مکرم یونس احمد صاحب واقف زندگی پسر مکرم ماسٹر محمد شفیع صاحب اسلم ربوہ اور مکرم محمد ابراہیم صاحب ٹیلر ماسٹر ر فضل کریم صاحب کے نکاحوں کا اعلان فرمایا.یہ نکاح علی الترتیب محترمہ امته السلام صاحبه اور محترمہ امتہ القیوم بیگم صاحبہ سے ایک ایک ہزار روپیہ پر قرار پائے جو محترم قریشی حبیب احمد صاحب بریلی (بھارت) کی بیٹیاں ہیں.نکاحوں کا اعلان حضور نے صبح گیارہ بجے اپنے دفتر واقعہ ربوہ میں فرمایا.اس موقع پر حضور نے شیخ نصیر الدین احمد صاحب ابن ڈاکٹر بدرالدین احمد صاحب ربوہ.اور محترمہ امتہ الحمید صاحبہ بنت مکرم عبد الحمید خان صاحب مرحوم ربوہ کے نکاح بعوض سات صد پچاس روپیہ اعلان بھی فرمایا : اے خطبہ مسنونہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: چونکہ قادیان کے ملنے میں دیر ہو رہی ہے قادیان ہمارا مقدس مقام ہے جس کی حفاظت ہمارا فرض ہے اس لئے ضروری تھا کہ ہماری جماعت کا ایک حصہ وہاں رہے اور مقدس مقامات اور شعائر اللہ کی حفاظت کرے.مگر چونکہ نوجوانوں کے لئے ایک لمبے عرصہ تک شادی کے بغیر رہنا مشکل ہوتا ہے اس لئے میں نے یہ تجویز کی کہ جس طرح بھی ہو وہاں کے رہنے والے قادیان سے باہر شادیاں کرلیں تاکہ ان کو اطمینان اور سکون حاصل ہو.عربوں میں تو غیر ملکی لوگوں سے اپنی لڑکیاں بیاہنے کا رواج ہے کہ باوجود اس کے کہ تیرہ سو سال گزر چکے ہیں اور
خطبات محمود جلد سوم ہزاروں خرابیاں ان میں پیدا ہو چکی ہیں پھر بھی ان کی یہ شان اب تک باقی ہے کہ خواہ کسی ملک کا باشندہ ان کے ہاں چلا جائے وہ اس کے ساتھ اپنی لڑکی بیاہ دینے میں قطعی طور پر کسی قسم کی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتے.چنانچہ اس کا نتیجہ ہے کہ آج حبشیوں کے ہاں عرب لڑکیاں موجود ہیں، چینیوں کے ہاں عرب لڑکیاں موجود ہیں، یورپین مسلمانوں کے ہاں عرب لڑکیاں موجود ہیں غرض اسلامی اخوت کی یہ بنیادی چیز ایسی ہے جسے اہل عرب نے اب تک قائم رکھا ہوا ہے اور میں سمجھتا ہوں یہ رسول کریم اللہ کے معجزوں میں سے ایک بہت بڑا معجزہ ہے مگر افسوس ہے کہ باقی مسلمانوں نے اس کی اتباع ترک کر دی ہے اور وہ غیر ملکی تو الگ رہے غیر صوبہ بلکہ غیر ضلع والوں کے ساتھ اپنی لڑکیوں کے بیاہنے میں ہچکچاہٹ محسوس کرتے ہیں.بلکہ آج کل کے مسلمانوں کی تو یہ حالت ہے کہ گزشتہ دنوں مسٹر کنزے اور مسٹر رشید احمد امریکن کی ہم نے یہاں شادی کی یہ دونوں غیر ملکی ہیں اور تنگ گزارہ کرنے والے ہیں) ان کے ساتھ اپنی لڑکیاں بیاہنے والوں نے یقیناً ایک رنگ میں قربانی سے کام لیا ہے گو یہ قومی قربانی نہیں صرف فردی قربانی ہے مگر ان شادیوں پر بھی غیر احمدیوں نے شور مچانا شروع کر دیا کہ لوجی اب غیر ملکیوں کو اپنی لڑکیاں دی جارہی ہیں اب یہ باہر جائیں گی اور جاسوسی کریں گی.گویا ہجائے اس کے کہ وہ اسلامی روح کا مظاہرہ کرتے وہ حقیقی اسلامی روح کے مظاہرہ پر معترض ہو گئے حالانکہ یہ چیز ندہی ترقی کے لئے نہایت ضروری ہے.بہر حال جب میں نے یہ تحریک کی کہ ہندوستان کے دوسرے صوبوں کے احمدی قادیان کے درویشوں کو اپنی لڑکیاں دیں تو اس پر بارہ چودہ شادیاں ہو گئیں اور اب آہستہ آہستہ اور شادیاں بھی ہو رہی ہیں اور یہ یقینی بات ہے کہ شادی کے بعد انہیں ایک قسم کا سکون حاصل ہو جائے گا اور ایک تنگ جگہ میں رہنے کی وجہ سے ان کے دلوں میں پہلی سی بے تابی نہیں رہے گی.میاں بیوی کا رشتہ خدا تعالیٰ نے ایسا بنایا ہے کہ بغیر اس کے انسان زیادہ دیر تک آرام سے زندگی بسر نہیں کر سکتا.لیکن جب بیوی بچے ساتھ ہوں تو پھر سالہا سال بھی انسان تکالیف کو زیادہ محسوس نہیں کرتا.ہمارے ملک کے تاجر باہر جاتے ہیں تب بعض دفعہ پندرہ پندرہ میں ہیں سال تک باہر رہتے ہیں.جالندھر کے راول جاتے ہیں تو دس دس پندرہ پندرہ سال باہر رہتے ہیں اسی طرح پھیری کا کام کرنے والے تاجر سالہا سال باہر رہتے ہیں اور وہ گھبراتے نہیں کیونکہ ان کی قوم کو اس بات کی عادت ہو گئی ہے.دوسرے لوگوں کو یہ عادت نہیں اس لئے وہ بغیر شادی کے رہنے
خطبات محمود ۶۴۵ جلد سوم سے گھبراتے ہیں.اگر ان کی شادیاں ہو جائیں اور بیویاں ساتھ ہوں تو تکلیف دہ حالات کو بھی خوشی سے برداشت کرنے لگتے ہیں اور ان کے ماں باپ بھی خوش رہتے ہیں.کیونکہ انہیں خبریں آتی رہتی ہیں کہ اب ان کا فلاں پوتا پیدا ہوا ہے اب فلاں پوتی پیدا ہوئی ہے، وہ دور بیٹھے اس خیال سے خوش رہتے ہیں کہ ہماری نسل چل رہی ہے.پھر اس سے نہ صرف قلبی اطمینان حاصل ہوتا ہے بلکہ یہ احساس بھی مٹ جاتا ہے کہ میں کسی جگہ قیدی بن کر رہ گیا ہوں.ایک جگہ بیٹھا ہوا انسان بعض دفعہ گھبرا جاتا ہے لیکن شادیوں کا یہ فائدہ ہے کہ اگر کوئی شخص گھبرائے اور اس کی شادی مثلاً میرٹھ یا شاہ جہان پوریا دلی میں ہو چکی ہو تو وہ مہینہ بھر کے لئے اپنے سسرال چلا جائے گا اور اس طرح اپنی گھبراہٹ کو دور کر سکے گا.غرض ایک طرف وہ سمجھے گا کہ میں قیدی نہیں اور دوسری طرف اس کے ماں باپ کو گو اس کی جدائی کا احساس و گا مگر اس خیال سے کہ ہمارے لڑکے کا گھر آباد ہے ان کا صدمہ نسبتاً کم ہو جائے گا.(الفضل یکم جون ۱۹۵۱ء صفحه ۳۷۲) ہو له الفضل ۲۶ مئی ۱۹۵۱ء
خطبات محمود ۱۴۰ ایک نو مسلمہ لڑکی کے نکاح کا اعلان (فرموده ۲۶ جون ۱۹۵۱ء) چوہدری شکر الہی صاحب اور میاں عبد الحئی صاحب کا نکاح بشری سعید صاحبہ اور امتہ العزیز صاحبہ بنت ڈاکٹر بدرالدین احمد کے ساتھ حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے مورخہ ۲۶ جون ۱۹۵۱ء کو دس بجے صبح اپنے دفتر میں پڑھا.خطبہ مسنونہ کی تلاوت کے بعد فرمایا : یہ دو نکاح جن کے اعلان کے لئے میں کھڑا ہوا ہوں دونوں ہی مبلغین کے نکاح ہیں.میری صحت اس بات کی اجازت تو نہیں دیتی کہ تفصیل سے کچھ بیان کروں لیکن یہ نکاح ایسے ہیں کہ میں چاہتا ہوں کہ اس موقع پر کچھ کہوں.ایک نکاح چوہدری شکر الہی صاحب کا سعیدہ بشری صاحبہ کے ساتھ قرار پایا ہے جو پہلی امریکن سفید فام لوگوں میں سے ہیں اس سے پہلے بھی شاید کوئی اور سفید فام امریکن احمدی ہوا لیکن اس لڑکی کو بعض اہمیتیں حاصل ہیں جو ان لوگوں کے علاقوں کو بھی حاصل نہیں جو اسلامی علاقوں سے تعلق رکھتے ہیں یا اسلامی تعلیم سے وابستہ ہیں.ہو سعیدہ کے اسلام لانے پر اس کے والدین اس سے خوش نہیں.ان کو گزارے کے لئے تو کوئی دقت نہیں تھی کیونکہ یورپ اور امریکہ میں لڑکے لڑکیاں جوان ہوتے ہی اپنا بوجھ خود سنبھالنے کی کوشش کرتے ہیں.ہمارے ملک کے لوگوں کی طرح نہیں کہ جو تک کی طرح ماں باپ کے ساتھ آخری عمر تک چھٹے رہتے ہیں وہاں پر یہ حال ہے کہ جہاں بچہ نیم بالغ ہوا روزی کا
خطبات محمود ۶۴۷ جلد سو.سوال اس کے سامنے آجاتا ہے.سو جہاں تک گزارے کا سوال تھا وہ تو ایسا مشکل نہ تھا البتہ چونکہ رہائش وہ اپنے ماں باپ کے پاس رکھتی تھیں اور اب بھی رکھتی ہیں اس لئے مختلف مواقع پر مختلف قسم کی عیب جوئیاں اور طعنے برداشت کرنے پڑے.ان کے تعصب کا یہ حال تھا کہ ان کے کسی رشتہ دار کو ذیا بیطس کی شکایت تھی اور چوہدری صاحب کو بھی چونکہ یہ شکایت ہے تو سعیدہ نے چوہدری صاحب سے کہا کہ اس ڈاکٹر کے پاس اس عزیز کے بارہ میں سفارش کردیں جو چوہدری صاحب نے قبول کر لی لیکن اس عزیز سے جب اس سفارش کا ذکر کیا گیا تو اس نے کہا کہ وہ ایک مسلمان کی سفارش قبول کرنے کے لئے تیار نہیں.جس وقت سے وہ مسلمان ہوئی ہیں برابر تبلیغ میں لگی رہتی ہیں ٹریکٹ لکھتی ہیں تقسیم کراتی ہیں غرض ابتداء سے ہی انہوں نے بہت جوش سے کام کیا ہے.قریب عرصہ میں انہوں نے وقف بھی کر دیا اور یہاں آنے کی تیاری بھی کر لی لیکن میں نے انہیں روک دیا کیونکہ ہمارے پاس عملہ نہیں جو انہیں تربیت دے سکے.اس کے ساتھ ہی میں نے یہ فیصلہ کیا کہ ایک مسلمان عورت کی ایک مسلمان مرد سے ہی شادی ہونی چاہئے اور میں نے انہیں یہ تحریک کی تو انہوں نے قبول کر لیا اور یہ نکاح چوہدری شکر الہی صاحب سے قرار پایا.دوسرا نکاح میاں عبد الحئی صاحب کا امتہ العزیز صاحبہ بنت ڈاکٹر بد رالدین احمد صاحب سے قرار پایا ہے.ڈاکٹر صاحب کی آمد کا معتدبہ حصہ سلسلہ کی ضروریات کے لئے ہی صرف ہوتا ہے.عبد الحئی صاحب واقف زندگی ہیں اور مبلغ ہیں ان کو بچپن میں ان کے والد نے وقف کیا تھا.پہلے ان کو ملایا میں مقرر کیا گیا اور آج کل وہ جزیرہ بالی میں کام کر رہے ہیں.الفضل ۲۰ جولائی ۱۹۵۱ء صفحہ ۲)
جلد سوم ۶۴۸ ۱۴۱ سوائے خاوند کے تین دن سے زیادہ ماتم کی اجازت نہیں (فرموده ۲۷ جون ۱۹۵۱ء) ۲۷- جون ۱۹۵۱ء حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے محترمہ آمنہ بیگم صاحبہ بنت ملک خدا بخش صاحب لاہور کا نکاح پانچ ہزار روپے مہر پر نعمت اللہ خان صاحب ولد بابو محمد عالم خان صاحب مرحوم ایم بی ای - ممباسہ (کینیا) سے پڑھا.لے خطبہ مسنونہ کی تلاوت کے بعد فرمایا : ایک ڈیڑھ ماہ قبل ملک عطاء المنان نے مجھ سے اس نکاح کے بارے میں مشورہ کرنے کے لئے آیا.خدا تعالی کی مشیت ہے کہ وہ فوت ہو گیا لیکن خدا کی مشیت کی مختلف وجوہ ہوتی ہیں جنہیں انسان نہیں سمجھتا لیکن باوجود اس صدمہ کے میں نے یہی مناسب سمجھا کہ نکاح سابقہ طے شدہ تجویز کے مطابق ہو جائے.حیات و ممات کا سلسلہ تو انسان کے ساتھ لگا ہوا ہی ہے کوئی انسان اپنی تدبیر سے اسے الگ نہیں کر سکتا.اسلام نے مرد چھوڑ عورتوں کو بھی سوائے خاوند کے تین دن سے زیادہ ماتم کی اجازت نہیں دی اور مجھ سے جب اس امر کا ذکر کیا گیا تو میں نے کہا کہ اس وجہ سے شادی نہیں رکنی چاہئے اور مجھے خوشی ہے کہ فریقین نے میری بات مان لی.اللہ تعالٰی اس خوشی کی تقریب کو ہر طرح مبارک و با برکت بنا کر اس صدمہ رسیدہ خاندان کے زخم کے اند مال کا ذریعہ بنائے اور اس تعلق کو فریقین اور سلسلہ کے لئے مبارک کرے اس خاندان کے دو نوجوان مصروف جہاد ہیں اس لحاظ سے یہ آپ کی دعاؤں کے بجا طور پر مستحق ہیں.
خطبات محمود ۶۴۹ جلد موم احباب یہ سن کر خوش ہوں گے کہ ملک عطاء الرحمٰن صاحب اور ملک احسان اللہ صاحب کو واپسی کی ہدایات جا چکی ہیں اور عنقریب سفر پر روانہ ہو جائیں گے خدا تعالیٰ انہیں بخیر د عافیت واپس لائے.الفضل ۵ جولائی ۱۹۵۱ء صفحه ۴) له محترمہ آمنہ بیگم صاحبہ ملک عطاء الرحمن صاحب سابق مبلغ فرانس اور ملک احسان اللہ صاحب سابق مبلغ مغربی افریقہ کی بہن ہیں (الفضل ۵ جولائی ۱۹۵۱ء) ه ملک عطاء المنان صاحب ابن) ملک خدا بخش صاحب مرحوم ) لاہور نے ۲۴ سال کی عمر میں ۱۳ جون ۱۹۵۱ء کو وفات پائی الفضل ۲۸ جون ۱۹۵۱ء)
جلد موم ۶۵۰ ۱۴۲ افتتاح جلسہ سالانہ سے قبل دو نکاحوں کا اعلان (فرموده ۲۶ دسمبر ۱۹۵۷ء) ۲۶ دسمبر ۱۹۵۱ء جلسہ سالانہ کے افتتاح سے قبل حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے صاحبزادہ مرزا وسیم احمد صاحب کا نکاح امتہ القدوس بیگم صاحبہ بنت ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب سے ایک ہزار روپے حق مہر پر اور پیر معین الدین صاحب کا نکاح صاحبزادی امتہ النصیر بیگم صاحبہ سے ایک ہزار روپے حق صر پر پڑھا.لے خطبہ مسنونہ کی تلاوت کے بعد فرمایا : میں بعض حالات کی وجہ سے افتتاح جلسہ سے پہلے دو نکاحوں کا اعلان کرنا چاہتا ہوں.میں نے اس امر کو پہلے ظاہر نہیں ہونے دیا کیونکہ ایسے موقع پر بہت سے احباب اپنے کاغذات دے دیتے ہیں اور وہ اتنا وقت لے لیتے ہیں کہ جس سے تقریر پر یا جلسہ پر بھی اثر پڑ جاتا ہے یہ دو نکاح جن کا میں اعلان کرنا چاہتا ہوں ایک تو میرے لڑکے مرزا د سیم احمد کا ہے جو شروع ایام ہجرت سے قادیان میں بیٹھا ہوا ہے یہ نکاح امتہ القدوس بیگم جو ہمارے ماموں مرحوم و مغفور میر محمد اسماعیل صاحب کی لڑکی ہیں ان سے ایک ہزار روپیہ مہر پر قرار پایا ہے.لڑکی کی طرف سے اس کے چچا زاد بھائی سید داؤد احمد وکیل ہیں اور لڑکے کی طرف سے قبول کرنے کا اختیار میرے نام آیا ہوا ہے.اس کے بعد حضور نے سید داؤ د احمد صاحب سے فرمایا کہ سید داؤد احمد تمہیں امتہ القدوس کے حقیقی ولیوں کی طرف سے اور امتہ القدوس بیگم کی طرف سے ان کا نکاح ایک ہزار روپیہ مہر
طبات محمود ۶۵۱ جلد سوم پر مرزا د سیم احمد ولد مرزا محمود احمد سے منظور ہے اس پر سید داؤد احمد صاحب نے اپنی منظوری کا اعلان کیا.اس کے بعد حضور نے فرمایا.اب میں مرزا د سیم احمد کی طرف سے یہ اعلان کرتا ہوں کہ ان کو ایک ہزار روپیہ مر پر امتہ القدوس بیگم بنت ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب مرحوم سے اپنا نکاح منظور ہے.دوسرا نکاح امتہ النصیر بیگم جو میری لڑکی ہے اور سارہ بیگم مرحومہ کے بطن سے ہے اس کا ایک ہزار روپیہ مہربر پیر معین الدین ولد پیراکبر علی صاحب مرحوم سے قرار پایا ہے.احباب کو معلوم ہو گا کہ میں اپنی لڑکیوں کا نکاح صرف واقفین زندگی سے کر رہا ہوں اور اس رشتہ میں بھی میرے لئے یہی کشش تھی کہ لڑکا واقف زندگی ہے.میں اپنی طرف سے اور امتہ النصیر بیگم کی طرف سے پیر معین الدین صاحب ولد پیراکبر علی صاحب مرحوم سے ایک ہزار روپیہ مہر بران کے نکاح کی قبولیت کا اعلان کرتا ہوں.پیر معین الدین ولد پیراکبر علی صاحب مرحوم کیا آپ کو ایک ہزار روپیہ مہر پر امتہ النصیر بیگم بنت مرزا محمود احمد سے اپنا نکاح منظور ہے.ان کی منظوری کے بعد حضور نے فرمایا: دوست اب دعا کریں.اس کے بعد جلسہ کا افتتاح ہوگا.چنانچہ سب دوستوں نے حضور نے ساتھ مل کر لمبی دعا کی.له الفضل یکم جنوری ۱۹۵۲ء صفحہ ۱ الفضل یکم جنوری ۱۹۵۲ء صفحه ۳)
خطبات محمود ۲۵۲ ۱۴۳ جلد موم زنده بنو اور خود اللہ تعالیٰ کی نعمتیں حاصل کرو (فرموده ۱۴ جولائی ۱۹۵۲ء) ۱۴.جولائی ۱۹۵۲ء بعد نماز عصر مسجد مبارک ربوہ میں حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے جناب ڈاکٹر عبد الحمید صاحب چغتائی دار السلام منزل بیرون دہلی دروازہ لاہور کی صاحبزادی سارہ برجیس صاحبہ کا نکاح ایک ہزار روپیہ مہر پر پیر ہارون الرشید صاحب ابن مکرم جناب پیر مظہر الحق صاحب خزانچی صدرانجمن احمد یہ پاکستان کے ساتھ پڑھا.آیات مسنونہ کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا : ڈاکٹر عبد الحمید صاحب چغتائی لاہور ایک پرانے مخلص احمدی خاندان میں سے ہیں.یعنی وہ میاں فیملی میں سے ہیں جن کے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ساتھ ابتدائے دعوئی سے مخلصانہ تعلقات رہے ہیں.میاں چراغ الدین صاحب مرحوم جن کے ڈاکٹر عبد الحمید صاحب پوتے ہیں اور لڑکی ان کی پڑپوتی ہے، وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ اتنا پرانا تعلق رکھنے والے تھے کہ میری پیدائش پر جب میرا عقیقہ ہوا تو اس موقع پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ان کو بھی لاہور سے بلوایا تھا.اس سے سمجھ لو کہ ان کے کتنے پرانے تعلقات تھے.میری پیدائش کے ساتھ ہی حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بیعت کا اعلان فرمایا تھا.اور مسیحیت کا دعوئی آپ نے اس کے قریباً سال ڈیڑھ سال بعد کیا.پس میری پیدائش پر انہیں عقیقہ کی تقریب میں لاہور سے بلانا اسی صورت میں ہو سکتا تھا جب وہ سالہا سال پہلے.مخلصانہ تعلقات رکھتے ہوں.گویا میری عمر سے بھی زیادہ اس خاندان کے تعلقات کی عمر ہے.کم سے
خطبات محمود ۶۵۳ جلد سوم سے کم ہی سمجھ لیا جائے تو سات آٹھ سال پہلے کے تعلقات ضرور ثابت ہوتے ہیں.میری پیدائش ۱۸۸۹ء میں ہوئی ہے.اس لحاظ سے سمجھنا چاہئے کہ ان کے تعلقات حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے ۱۸۸۰ء سے چلے آرہے تھے گویا براہین کے زمانہ سے یا اس سے بھی پہلے کے تعلقات ہیں.پس اس نکاح میں ایک فریق تو وہ ہے جو میاں چراغ الدین صاحب کے خاندان میں سے ہے.دوسرا فریق بھی ایسے ہی پرانے تعلقات والوں میں سے ہے.یعنی پیر مظہر الحق صاحب جو لڑکے کے والد ہیں.یہ پیر افتخار احمد صاحب کے لڑکے ہیں اور پیر افتخار احمد صاحب حضرت خلیفہ اول کے سالے اور صوفی احمد جان صاحب لدھیانوی کے لڑکے تھے.جنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دعوئی سے پہلے ہی بشارت دی تھی.کہ آپ ایک دن مسیحیت کے منصب پر فائز ہونے والے ہیں.چنانچہ انہوں نے اپنے ایک خط میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو دعوئی سے پہلے ہی لکھا کہ ہم مریضوں کی ہے تم ہی نظر تم مسیحا ہنو خدا کے لئے اس وقت تک حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ابھی دعوی نہیں فرمایا تھا لیکن روحانیت اور تقویٰ کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ان پر یہ انکشاف فرما دیا.اور جبکہ اور لوگ دعوئی کے بعد بھی مخالفت کرنے لگے، اللہ تعالٰی نے انہیں دعوئی سے پہلے ہی بتا دیا کہ ہم اسے منی بنانے لگے ہیں.دیکھو کتنا بڑا فرق ہوتا ہے روحانی نگاہ کا اور جسمانی نگاہ کا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام آخر ایک ہی چیز تھے دو نہیں تھے.مگر ایک وجود دعوئی کے بعد ہر قسم کے دلائل نہ دینے کے باوجود ہر قسم کے نشانات دکھانے کے باوجود مولویوں کی نظر میں کافر ٹھرتا ہے.انہوں نے دعوئی سناء، دلیلیں سنیں، نشانات دیکھے، معجزات دیکھے مگر پھر فتویٰ لگا دیا کہ یہ شخص کافر ہے.لیکن دوسرا آدمی جو روحانی تھا اس نے نہ دعوئی سنا، نہ دلیلیں سنیں، نہ نشانات دیکھے، نہ معجزات دیکھے مگر اس کی آنکھوں نے بھانپ لیا کہ اس پر خدا تعالیٰ کے انوار نازل ہونے والے ہیں اور پیشتر اس کے کہ وہ دعوی کرتا اس نے کہا میں آپ کی تصدیق کرتا ہوں.یہ کتنا نمایاں فرق ہے جو دکھائی دیتا ہے.ایک آنکھ دعوئی سے پہلے ہی دیکھ لیتی ہے اور دوسری آنکھ دعوئی سننے اور دلائل سننے کے بعد بھی نہیں دیکھ سکتی.غرض ان کا تعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ساتھ نہائت اخلاص پر مبنی تھا.اور اسی وجہ سے جب حضرت خلیفہ اول کو دوسری.
خطبات محمود ۶۵۴ جلد سوم شادی کی ضرورت محسوس ہوئی تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے آپ کے لئے اس جگہ رشتہ کرنا پسند فرمایا.غرض یہ دونوں خاندان احمدیت سے پرانا تعلق رکھتے ہیں.لیکن اصل حقیقت تو یہ ہے کہ پرانا اور نیا سب نسبتی چیزیں ہیں.جب تک پیوند قائم رہے پر انا زیادہ برکت کا مستحق ہوتا ہے اور دنیا اس سے کم لیکن جب آئندہ نسل اپنے تعلقات کو منقطع کرلے.تو خدانہ پرانے کا لحاظ کرتا ہے نہ نئے کا.خدا تعالٰی کا سلوک ہمیشہ تعلق کی بناء پر ہوتا ہے.دنیا میں بھی دیکھ لو جب تک کوئی دوست تم سے اچھا سلوک رکھتا ہے تم اس سے محبت اور پیار کے ساتھ پیش آتے ہو.اور اگر وہ دشمن ہو جاتا ہے تو تم بھی اس کے دشمن ہو جاتے ہو.یہ کبھی نہیں ہوا کہ تم اپنے کسی دشمن کو موقع دو کہ وہ تمہارے کھانے میں زہر ملا دے اس لئے کہ وہ آج سے پانچ سال پہلے تمہارا دوست ہوا کرتا تھا.جب وہ دشمن ہو جائے گا تو وہ بہر حال تمہیں دکھ دینے کی کوشش کرے گا چاہے وہ تمہارا پانچ سالہ دوست ہو یا دس سالہ دوست ہو.جب دنیا میں تمام سلوک تعلقات پر منحصر ہوتے ہیں تو یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ خدا تعالٰی اس کو نظر انداز کر دے.جب اچھے خاندان اور پرانے خاندان اپنے تعلقات کو قائم رکھتے ہیں تو خدا ان کا زیادہ لحاظ کرتا ہے.حدیثوں میں آتا ہے کہ ایک دفعہ رسول کریم ﷺ سے صحابہ بھی لی نے پوچھا کہ یا رسول اللہ عرب میں سب سے زیادہ شریف خاندان کونسے ہیں.آپ نے فرمایا وہی جو پہلے شریف تھے بشرطیکہ وہ خدا تعالٰی کا تقویٰ اختیار کریں.اگر وہ تقویٰ اختیار کریں گے تو خدا تعالیٰ ان کی قربانیوں کو قبول کرے گا اور ان کے باپ دادا کی خدمات کی وجہ سے بھی ان کو اپنی برکتوں سے حصہ دے گا اور اگر وہ کمزور ہو جائیں گے تو محض اس وجہ سے کہ ان کے باپ نے قربانی کی تھی یا دادا شہید ہو گیا تھا.یا پردادا نیک تھا یا چا زیادہ چندے دیا کرتا تھا، وہ خدا تعالٰی کے فضلوں کے مستحق نہیں ہو سکتے.ان باتوں سے بھلا بنتا ہی کیا ہے.مثل مشہور ہے کہ کسی نے پوچھا کہ گیدڑ جو رات کو چلاتے اور شور مچاتے ہیں تو آخر اس کی وجہ کیا ہے ؟ جواب دینے والا کوئی بانداق آدمی تھا.کہنے لگا رات کو ایک گیدڑ ایک طرف کھڑا ہو جاتا ہے اور دوسرے دوسری طرف.وہ گیدڑ جو علیحدہ کھڑا ہوتا ہے کہتا ہے پدرم سلطان بود - میرا باپ بادشاہ تھا.اس پر تمام گیدڑ شور مچانا شروع کر دیتے ہیں.کہ ترا چہ ترا چہ یعنی پھر تجھے کیا؟ پھر تجھے کیا؟ اگر وہ بادشاہ تھا تو ہو چکا.اس کی بادشاہت کا اب تجھے کیا فائدہ ہے.یہ مثال کسی نے اس لئے بنائی ہے کہ یہ کہنا کہ میرا باپ ایسا تھا اور میرا دادا ایسا تھا یہ کوئی خوبی کی
خطبات محمود ۶۵۵ جلد سوم بات نہیں یہ تو گیدڑوں والی بات ہے گیدڑ خود شکار نہیں کرتا بلکہ وہ شیر کا مارا ہوا شکار کھایا کرتا ہے.اسی طرح بعض فطرتیں ایسی گندی ہوتی ہیں کہ وہ آپ تو کام نہیں کرتیں اور قصے سناتی رہتی ہیں کہ ہمارے باپ نے یوں کیا اور ہمارے دادا نے یوں کیا اگر تم نے اپنی زندگی میں کچھ نہیں کیا تو تمہارے باپ اور دادا اور چا کی قربانیاں تمہارے کام نہیں آسکتیں انہوں نے تو جو بدلہ لینا تھا وہ اللہ تعالی سے لے لیا مرنے والے مر گئے اور انہوں نے اللہ تعالٰی سے نعمتیں لے لیں وہ نعمتیں انہوں نے اپنی نسل کے لئے رکھ نہیں چھوڑیں بلکہ ساری کی ساری نعمتیں انہوں نے خود وصول کر لی ہیں.ایک پیسہ اور دھیلہ تک انہوں نے اپنی اولاد کے لئے نہیں چھوڑا.اب اولاد کا کیا حق ہے کہ وہ ان قربانیوں کو اپنے لئے کافی سمجھے؟ اگر واقعہ میں انہوں نے قربانیاں کی ہیں اور قربانیاں کرنا اچھی چیز ہے تو خود بھی قربانیاں کریں اور وہ مقام حاصل کریں جو ان کے باپ دادا نے حاصل کیا تھا.بہر حال جب کوئی شخص نیکی پر قائم رہتا ہے تو اس کے باپ دادا کی نیکی کسی حد تک اسے ضرور فائدہ پہنچاتی ہے چنانچہ قرآن کریم میں خدا تعالیٰ نے فرمایا ره ہے کہ جنتیوں کے ساتھ ان کے بیوی بچوں اور رشتہ داروں کو بھی رکھا جائے گا بشرطیکہ تومن اور نیک عمل کرنے والے ہوں.اس کے یہ معنے نہیں کہ طاقتور کو کمزور کے ساتھ ملایا جائے گا بلکہ کمزور کو طاقتور کے ساتھ ملایا جائے گا اور نچلے درجہ والے کو اوپر کا مقام رکھنے والے رشتہ دار کے ساتھ اکٹھا کیا جائے گا.تو رشتہ داری کا تعلق بھی کچھ نہ کچھ فائدہ تو دیتا ہے مگر قرآن کریم بتاتا ہے کہ یہ فائدہ اسی صورت میں ہو سکتا ہے جب انسان خود ایمان اور عمل صالح پر قائم ہو.جو لوگ ایمان اور عمل صالح پر قائم نہیں ہوں گے انہیں یہ فائدہ حاصل نہیں ہو سکے گا.بہر حال یہ دونوں خاندان ایسے ہیں جن کا عزت سے نام لیا جاتا ہے.مگر جیسا کہ میں نے بتایا ہے حقیقی برکت اسی وقت حاصل ہو سکتی ہے جب آئندہ نسل بھی اپنے اندر تغیر پیدا کرے.میاں چراغ الدین صاحب نے خدا تعالیٰ سے کوئی پروانہ نہیں لیا ہوا تھا.اگر دیسی ہی قربانیاں آج کوئی اور شخص کرے اور سلسلہ کی خدمت کے لئے اپنے آپ کو بچے طور پر وقف کر دے تو اللہ تعالی اس کے نام کو بھی بلند کر دے گا.اس کی عزت کو قائم کر دے گا اور اس کے کارناموں کو یاد رکھنے والے لوگ پیدا کر دے گا.خدا تعالیٰ کے دروازے کبھی بند نہیں ہوتے.بد قسمت انسان آپ ان دروازوں کو بند کر لیتا ہے اور کہتا ہے کہ میں اس مقام کو کہاں حاصل کر سکتا ہوں جو پہلے لوگوں نے حاصل کیا.اس طرح وہ خدا تعالیٰ کی رحمت سے مایوس
خطبات محمود ۶۵۶ جلد موعد ہو کر اپنی عملی قوتوں کو ضائع کر دیتا ہے.تمہیں نئی برکتیں حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے تم مردوں کی قربانیوں پر فخر کرنا چھوڑو تم زندہ ہنو.اور زندہ قوموں کی طرح خود ان نعمتوں کو حاصل کرو.لے مسند احمد بن حنبل جلد ۲ صفحه ۳۸۵ الفضل ۶ - اگست (۱۹۵۲ء)
خطبات محمود ۱۴۴ جلسہ سالانہ پر اعلان نکاح کے بارہ میں ایک ہدایت (فرموده ۲۶ - دسمبر ۱۹۵۲ء) یہ کوئی علیحدہ خطبہ نکاح نہیں بلکہ اس خطبہ جمعہ کا حصہ ہے جس سے قبل حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے محترم صاجزادہ مرزا رفیع احمد صاحب کے نکاح کا اعلان فرمایا جو سیدہ امتہ السیمین صاحبہ بنت حضرت میر محمد اسماعیل صاحب کے ساتھ بعوض ایک ہزار روپیہ مہر قرار پایا تھا.نیز حضور نے سیدہ آنسہ بنت حضرت پیر محمد اسحق صاحب کے نکاح کا بھی اعلان فرمایا جو محترم قاضی محمود شوکت صاحب ابن قاضی محمد حنیف صاحب سے تین ہزار روپیہ مہر پر قرار پایا تھا.ان نکاحوں کے بعد حضور نے خطبہ جمعہ میں نکاحوں سے متعلق مندرجہ ذیل فقرات ارشاد فرمائے.جو اس مجموعہ کی نسبت سے یہاں درج کر دیئے گئے ہیں.حضور نے فرمایا : کئی اور دوستوں کی بھی خواہش ہوتی ہے کہ وہ اس موقع پر مجھ سے نکاح پڑھوائیں.ان کی اصل غرض تو یہ ہوتی ہے کہ مرکزی جماعت کے لوگ دعا میں شریک ہو جائیں لیکن ساتھ ہی وہ یہ بھی چاہتے ہیں کہ دو دفعہ آنے کی بجائے اب جلسہ سالانہ پر آئے ہیں تو ساتھ ہی نکاح بھی پڑھوا لیں.اس غرض کے لئے بیسیوں لوگ اپنی شادیاں ملتوی کر دیتے ہیں ایسے دوستوں کی خواہش ہوگی کہ میں ان کے نکاح کا اعلان کردوں.لیکن چونکہ نکاحوں کے اعلان پر گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹہ لگ جاتا ہے اور جلسہ سالانہ کے پروگرام کو اتنی دیر تک روکا نہیں جاسکتا اس لئے میں نے فیصلہ کیا ہے کہ ۲۸ دسمبر کو مغرب اور عشاء کے درمیان نکاحوں کا اعلان کر دیا جائے.
خطبات محمود ۲۵۸ جلد سوم سو دوست یاد رکھیں کہ ۲۸ دسمبر کی شام اور عشاء کے درمیان نکاحوں کا اعلان کر دیا جائے گا جو دوست مجھ سے نکاح پڑھوانا چاہتے ہیں وہ اپنے اپنے کاغذات تیار رکھیں اور ۲۸ دسمبر کو جمع کر کے دفتر پرائیویٹ سیکرٹری میں پہنچا دیں.میں آج نکاحوں کا اعلان کر دیتا لیکن ایجاب و قبول میں اتنا وقت لگ جاتا کہ نہ صرف خطبہ اور نماز کے لئے وقت نہ بچتا بلکہ جلسہ کا کچھ وقت بھی اس میں صرف ہو جاتا اس لئے میں نے نکاحوں کا اعلان نہیں کیا.ایک دو اعلانات ہوتے تو میں انہیں ان نکاحوں کے اعلانات کے ساتھ شامل کر لیتا.ایسے موقع پر وقت نہایت قیمتی ہوتا ہے اور تھوڑا ہوتا ہے اس لئے ہمیں کوشش کرنی ہے چاہئے کہ اس سے ہم زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھا ئیں.الفضل ۱۸ جنوری ۱۹۵۳ء صفحه ۲)
خطبات محمود ۶۵۹ ۱۴۵ چار سو یتامی کی پرورش قوم میں بہادری پیدا کرتی ہے ( فرموده یکم نومبر ۱۹۵۳ء) : یکم نومبر ۱۵۳ ۱۹۵۳ء حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے محترم عارف نعیم صاحب آف سائپرس کا نکاح محترمہ خدیجہ بیگم صاحبہ بنت مکرم محمد ابراہیم صاحب سے ایک ہزار روپے مہر پر پڑھا.لے خطبہ مسنونہ کی تلاوت کے بعد فرمایا عام طور پر لوگ بیتائی کی پرورش نوکروں کے طور پر کرتے ہیں اور ان سے نوکروں کی طرح کام لیتے ہیں حالانکہ قرآن کریم کا منشاء یہ ہے کہ بتائی کی پرورش ایسے رنگ میں کی جائے جیسے اپنی اولاد کی کی جاتی ہے.قرآن کریم نے بیتائی کی پرورش پر بہت زور دیا ہے یہی ایک چیز ہے جو اگر کسی قوم میں پائی جائے تو اس قوم کے افراد موت سے بے خوف ہو جاتے ہیں.کیونکہ موت کے وقت انسان اپنی موت سے نہیں ڈرتا وہ جس چیز سے ڈرتا ہے وہ اپنے بیوی بچوں کا بیوہ اور یتیم رہ جاتا ہوتا ہے کہ میرے بعد ان کا کیا بنے گا.لیکن اگر ہر شخص اپنے ارد گرد دیکھ رہا ہو کہ قوم اپنے تائی اور بیوگان کے بہترین انتظام سے غافل نہیں بلکہ ان کے ساتھ ہر شخص اپنی بہنوں اور اولاد کا سا سلوک کرتا ہے تو وہ موت سے بے خوف ہو جائے اور وہ قوم جس کے افراد موت سے نڈر ہو جا ئیں اسے مٹایا نہیں جا سکتا.یورپین اقوام بھی اس حقیقت سے غافل نہیں کہ جس قوم کے افراد موت سے بے خوف نہ ہوں وہ زندہ نہیں رہ سکتی لیکن اس کے لئے انہوں نے شراب نوشی کو ترجیح دی ہے یہی وجہ
خطبات محمود ۶۶۰ جلد سوم ہے کہ فوج میں سپاہیوں کو شراب نوشی کی رغبت دلائی جاتی ہے اور جنگ کے موقع پر شراب کا راشن بڑھا دیا جاتا ہے تاکہ نشہ کے نتیجہ میں وہ عواقب سے لا پرواہ ہو جائیں اور میدان جنگ میں اس بات کا خیال نہ کریں کہ ان کی موت کے بعد ان کے بیوی بچوں پر کیا گزرے گی.لیکن یہ ظاہر ہے کہ اسلام تو ایک طبعی طریقہ اختیار کرتا ہے اور در حقیقت بتائی اور بیوگان کی حفاظت اور پرورش کا مناسب انتظام کر کے قوم کے افراد کو مطمئن کر دیتا ہے کہ وہ مذہب اور ملک کی خاطر مرنے سے نہ ڈریں.مگر یورپین لوگوں نے یہ ذریعہ اختیار کیا ہے کہ شراب کثرت سے خریدی جائے اور پلائی جائے اس طرح یہ لوگ مصنوعی طور پر اپنے سپاہیوں کی عقل پر پردہ ڈال دیتے ہیں تاکہ وہ ملک کی خاطر لڑتے وقت موت سے بے خوف ہو جائیں.(المصلح کراچی ۷ او سمبر ۱۹۵۳ء صفحه ۴) لے یکم نومبر ۱۹۵۳ء کو صبح ساڑھے نو بجے حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے قصر خلافت میں محترم عارف نعیم صاحب ( آف سائپرس متعلم جامعہ المبشرين ربوہ کا نکاح محترمہ خدیجہ بیگم صاحبہ بنت جناب محمد ابراہیم صاحب مرحوم سے مبلغ ایک ہزار روپیہ مہر پر یکم نومبر ۵۳ء کو صبح ساڑھے نو بجے حضرت مصلح موعود نے قصر خلافت میں پڑھا.خطبہ نکاح قلم بند نہ ہو سکا اس کا خلاصہ اپنے الفاظ میں محترم مولانا نذیر احمد علی صاحب مبلغ مغربی افریقہ کی طرف سے شائع ہوا تھا.جو درج کر دیا گیا ہے.خطبہ میں حضور نے خواجہ گل محمد صاحب سکنہ چکوال جو لڑکی کے پرورش کنندہ ہیں کے نیک نمونہ کی تعریف فرمائی جو انہوں نے یتیم بچی کی پرورش کے ضمن میں پیش کیا.(المصلح کراچی ۱۷- دسمبر ۱۹۵۳ء صفحه
محمود 441 ۱۴۶ جلد سوم اخلاص دولت سے زیادہ قیمتی ہے (فرموده ۱۴- دسمبر ۱۹۵۳ء) ۱۴ دسمبر ۱۹۵۳ء بروز سوموار حضرت خلیفۃ المسیح الثانی نے بعد نماز عصر مسجد مبارک میں مرزا محمد ادریس صاحب سابق مبلغ بورنیو کا نکاح امتہ العزیز صاحبہ بنت محترم حافظ ڈاکٹر بدرالدین احمد صاحب آف بورنیو سے ایک ہزار روپیہ مہر پر پڑھا.لے خطبہ مسنونہ کی تلاوت کے بعد فرمایا : گلے کی تکلیف کے باعث میں کوئی تقریر تو نہیں کر سکتا تھا لیکن اس نکاح کے متعلق میں کچھ کہنا ضروری خیال کرتا ہوں.چند سال سے مجھے اطلاعات ملتی رہی ہیں کہ لوگ واقف زندگی کو اس لئے لڑکیاں دینے سے گریز کرتے ہیں کہ بوجہ وقف زندگی انہیں تنگی سے گزارہ کرنا پڑے گایا یہ کہ وہ بھو کی مریں گی.اگر یہ اطلاع صحیح ہے اور بیان کرنے والوں کو غلط فہمی نہیں ہوئی تو میں کہوں گا کہ جس شخص نے اس قسم کے خیال کا اظہار کیا ہے وہ عقل و خرد سے بالکل عاری ہے کیونکہ دولت روپے ہی کا نام نہیں بلکہ اس قابلیت اور اس چیز کا نام ہے جس کی کسی نہ کسی منڈی میں قیمت پڑے مثلاً اگر کسی کے پاس دو تین من افیون ہو تو اگر چہ جو لوگ اسے استعمال نہیں کرتے انکے نزدیک اس کی کوئی قیمت نہ ہو مگر سکھوں کے علاقہ میں یا ایسے لوگوں کے نزدیک جو اسے استعمال کرتے ہیں یہ لاکھوں روپے کی چیز ہے اس طرح بھنگ چرس اور شراب وغیرہ ہیں.شراب کے مٹکے اگر مسلمانوں کے محلہ میں کسی کے پاس ہوں گے تو لوگ اسے یہی مشورہ دیں گے کہ اسے پھینک دے شاید کوئی منچلا ہمسایہ ایسا بھی نکل آئے جو خود ہی جاکر ان
خطبات محمود ۶۶۲ جامد سوم مشکوں کو پھوڑ دے.لیکن امریکنوں اور انگریزوں کے نزدیک وہی شراب ایک قیمتی چیز ہے اسی لئے علم اقتصادیات کے ماہرین نے دولت (Wealth) اور روپیہ (Money) میں فرق کیا ہے.چنانچہ یورپین لوگ عموماً کہا کرتے ہیں کہ ہندوستان ایک دولت مند ملک ہے.لیکن کئی ہندوستانی یہ دیکھ کر کہ اس ملک کے باشندے بوجہ غربت بھوکے مرتے ہیں خیال کرتے ہیں کہ غلط بیانی ہے حالانکہ دولت مندی کا مفہوم یہ ہوتا ہے کہ اس ملک کی سرزمین میں اس قدر معدنی اور زرعی دولت مخفی ہے کہ اگر پورے طور پر اس سے فائدہ اٹھایا جائے تو دنیا کی بہت سی منڈیوں میں اس کی مانگ ہو.دنیا میں بڑے بڑے ادیب اور فلاسفر گزرے ہیں کہ جو روپے کے لحاظ سے بے شک غریب تھے مگر ان کے پاس وہ چیز تھی جس کے اس زمانہ کے امراء اور ملوک تک خریدار تھے.یونان میں ایک فلسفی دیو جانس سے نامی گزرا ہے وہ جہاں رہتا تھا اس کے قریب سے ایک دفعہ سکندر اعظم سے کا گزر ہوا تو سکندر بھی اس کی ملاقات کے لئے حاضر ہوا.دیو جانس اس وقت دھوپ میں بیٹھا ہوا تھا کیونکہ اس کا خیال تھا اور یہ خیال آج کل کی جدید تحقیقات نے درست قرار دیا ہے کہ سورج کی شعائیں جسم انسانی کے لئے بہت مفید ہیں.سکندر نے کہا کہ اگر اسے کسی چیز کی ضرورت ہو تو وہ خدمت کے لئے حاضر ہے.دیو جانس نے صرف اس قدر کہا کہ آپ نے دھوپ سے مجھے اوٹ میں لے لیا ہے.اس لئے دھوپ چھوڑ دیں.دیو جانس کے نزدیک دھوپ جسے عموماً معمولی سی چیز خیال کیا جاتا ہے ایسی قیمتی چیز تھی کہ اس کے مقابلہ میں سکندر کی خدمت کی پیشکش بے قیمت تھی.بہر حال باوجود غربت کے دیو جانس کے پاس وہ چیز تھی جس کی سکندر کے دل میں بھی قدر تھی.اسی طرح ہارون رشید کا واقعہ ہے کہ اس نے اپنے دو لڑکے ایک ادیب کے پاس جو ظاہری مال و دولت کے لحاظ سے کچھ بھی نہ تھا تعلیم کے لئے بھیجے.ایک دن اس نے دیکھا کہ جب استاد نے اپنا جوتا اتارا تو جو تا سنبھالنے کے لئے دونوں شہزادے ایک دو سرے سے لڑ پڑے اس پر ہارون رشید نے اسے کہا کہ تو ایسا شخص ہے جو مر نہیں سکتا.تجھ میں وہ چیز ہے جو موت کے بعد بھی تجھے زندہ رکھے گی.کیا ظاہری مال و دولت کے لحاظ سے حضرت موسیٰ اور حضرت مسیح ناصری علیہما السلام اور ان حضرت رسول کریم ای دولت مند تھے ؟ ہر گز نہیں.حضرت مسیح ناصری علیہ السلام کی یہ حالت تھی کہ فرمایا کہ ہوا کے پرندوں کے لئے گھونسلے ہیں مگر ابن آدم کے لئے کوئی پناہ کی جگہ
خطبات محمود جلد سوم نہیں.عام حالت ایسی تھی کہ بعض اوقات کسی شاگرد کے ہاں سے کھانا طلب فرما لیتے لیکن اس کے باوجود ان کے پاس وہ چیز تھی جس کی اللہ تعالٰی کے ہاں قدر تھی یہاں تک کہ بعض دولت مند عورتیں نہایت قیمتی عطر کثرت سے ان کے پاؤں پر ملتیں اور اپنے سر کے بالوں سے ان کے پاؤں کو خشک کرتیں.اسی طرح حضرت رسول کریم نہایت غربت کی حالت میں زندگی بسر کرتے تھے مگر عرب کا کوئی معزز قبیلہ نہ تھا جس کی لڑکی حضور کے گھر میں نہ ہو اور وہ لوگ اس بات پر فخر کرتے تھے.اسی طرح حضور کے ایک صحابی تھے جو کسی پیدائشی نقص کی وجہ سے نہایت ہی بد شکل تھے اور نہایت درجہ غریب بھی.جسم اور کپڑے خاک آلود تھے اسی حالت میں پسینہ سے لبریز وہ بازار میں کسی کی کوئی چیز بیچ رہے تھے مگر اس صحابی میں کوئی چیز تھی جس کی حضور کے دل میں قیمت تھی اسی حالت میں جب کہ خود انہیں اپنے آپ سے گھن آری تھی حضور پیچھے سے تشریف لائے اور جس طرح بچوں سے کھیلتے ہیں اپنے ہاتھوں سے ان کی آنکھیں بند کرلیں.انہوں نے ٹول کر معلوم کر لیا کہ یہ حضور کے ہی ہاتھ ہیں کیونکہ حضور کے جسم پر بال بالکل ہی نہ تھے یا بہت کم تھے اور جسم بھی نہایت درجہ ملائم تھا اس پر وہ بھی محبت سے اپنا جسم حضور کے جسم سے رگڑنے لگے.جس سے حضور کا جسم اور کپڑے بھی میلے ہونے لگے مگر حضور نے ذرہ بھر برا نہ منایا.حضور نے ان پر ہاتھ رکھا اور فرمایا یہ میرا غلام ہے کوئی ہے جو اسے خریدے.اس پر ان کا دل بھر آیا اور حضور سے کہا میرے آقا یہ تو ایک بے نفع اور بے نیمت چیز ہے اسے کون خریدے گا؟ حضور نے فرمایا ہر گز نہیں اللہ کے نزدیک اس کی بہت قیمت ہے.کہ جو لوگ مالی تنگی کی وجہ سے دین کے خادموں کی کم قیمت لگاتے ہیں وہ غلطی کرتے ہیں کیا وہ چیز تو قیمتی ہے جس کے امریکن یا سکھ اور ہندو خریدار ہوں مگر اس چیز کی کوئی قیمت نہیں جس کا خود اللہ تعالی خریدار ہے.ڈاکٹر بدرالدین احمد صاحب میں یہ خوبی ہے اور یہ ان کی خوش قسمتی ہے کہ انہیں وہ چیز نظر آگئی جو دوسروں کو نظر نہیں آتی.انہوں نے اپنی پہلی لڑکی بھی ایک خادم دین کو دی تھی یعنی صوفی مطیع الرحمن صاحب بنگالی.اگر چہ وہ ڈاکٹر ہیں اور ہزاروں روپیہ ماہوار کماتے ہیں ں مگر وہ اپنی لڑکی ایک واقف زندگی کو دے رہے ہیں کیونکہ اس میں انہیں وہ چیز نظر آتی ہے جو انہیں اپنے آپ میں نظر نہیں آتی.میں نے خوش قسمتی اس لئے کہا ہے کہ کئی لوگ باوجود خادم دین
خطبات محمود ۶۶۴ جلد سوم - کی قدر و قیمت پہچاننے کے پھر بھی عمل کی توفیق نہیں پاتے.اب میں دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ اس شادی کو طرفین کے لئے بابرکت کرے.(المصلح یکم جنوری ۱۹۵۴ء صفحه ۴) مجلس نکاح میں کوئی زود نویس موجود نہیں تھا اس لئے خطبہ حضرت مولانا نذیر احمد علی صاحب سابق رئیس التبلیغ مغربی افریقہ نے اپنے الفاظ میں تحریر فرمایا فجزاہ اللہ احسن الجزاء DIOGENES (412.323 B.C.) ✓ Greek Philosopher of The Cymic Sect Who praised self sufficiency and despised Social Convetions ALEXANDER ¡¡ THE Great (356.323 B.C.) شه اسد الغابہ جلد ۲ صفحہ ۱۹۳ زیر عنوان زاهر بن حرام مطبوعه بیروت لبنان ۱۹۷۷ء
خطبات محمود ۶۶۵ ۱۴۷ چلند سوم حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی عظمت فرموده ۲۵ جنوری ۱۹۵۴ء) مورخہ ۲۵ جنوری ۱۹۵۴ء کو بعد نماز عصر حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے مکرم چوہدری کرم الی صاحب ظفر مبلغ سپین کا نکاح مسماۃ رقیہ ٹیم بشری بنت مکرم ماسٹر محمد اسحق صاحب ہیڈ ماسٹر گورنمنٹ ہائی سکول فورٹ عباس ریاست بہاولپور کے ساتھ بعوض تین ہزار روپیہ مہر پڑھا.خطبہ مسنونہ کی تلاوت کے بعد فرمایا : نکاح تو ہوتے ہی رہتے ہیں مگر ان نکاحوں کے ساتھ بہت کچھ اونچ نچ بھی ہوتی ہے.بعض دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ لڑکے اور لڑکی والے دونوں تقویٰ کے نام پر وجاہت پسندی میں مشغول ہوتے ہیں.یعنی نام اس کا تقویٰ رکھ دیتے ہیں لیکن حقیقتاً وہ تقویٰ کے ساتھ دور کا تعلق رکھنے والی بات بھی نہیں ہوتی.مثلاً ایک مالدار لڑکی ہوتی ہے اور کوئی شخص اس سے شادی کرنا چاہتا ہے اب اس کے دل میں تو یہ ہوتا ہے کہ اس لڑکی سے شادی کر لینے کے نتیجہ میں مال و دولت اس کے ہاتھ آجائیں گے لیکن وہ خود اور اس کے متعلقین جب لوگوں سے بات کریں گے تو اس رنگ میں کریں گے کہ یہ لڑکی بڑی دیندار ہے اس لئے وہ چاہتے ہیں کہ یہ رشتہ حاصل کیا جائے.گویا دیندار مالدار لڑکی ہی ہوتی ہے کوئی غریب لڑکی دیندار نہیں ہو سکتی.یہی لڑکی والوں کا حال ہوتا ہے وہ خیال کرتے ہیں کہ اگر ان کی لڑکی کا نکاح فلاں لڑکے سے ہو جائے تو وہ آسودہ حال ہو جائیں گے لیکن گردو پیش کے حالات سے ڈرتے ہوئے اور اس چیز سے خوف کھاتے ہوئے کہ اگر وہ دنیا داری کو ظاہر کریں گئے تو لوگ کیا کہیں گے وہ رنگا رنگ کے پر دے
خطبات محمود 444 جلد موم ڈال کر باتیں کرتے ہیں اور کہتے ہیں فلاں لڑکا بڑا متقی ہے بڑا مخلص ہے اس لئے ہم چاہتے ہیں کہ ہماری لڑکی کا رشتہ اس سے ہو جائے.حالانکہ متقی اور دیندار لڑکے غریب بھی ہو سکتے ہیں دیندار اور متقی ہونے میں امیر کی کیا شرط ہے.یہ طبقہ اپنے حالات کے لحاظ سے بہت ہی قابل افسوس ہوتا ہے اور مجھے تو ان لوگوں سے خاص طور پر تنفر ہوتا ہے کہ وہ دین کو دنیوی اغراض کے لئے ڈھال بناتے ہیں.اگر لڑکی والے کہیں کہ وہ اپنی لڑکی کی کسی مالدار لڑکے سے شادی کرنا چاہتے ہیں یا لڑکے والے کہیں کہ وہ اپنے گھر کوئی مالدار بہو لانا چاہتے ہیں تو چاہے اسے کوئی شخص کتنا ہی معیوب قرار دے ہم اسے دین کی فروخت نہیں سمجھیں گے اگر چہ یہ اچھی خواہش نہیں ہوگی کہ کوئی کہے میں اپنی لڑکی کی شادی کسی مالدار لڑکے سے کرنا چاہتا ہوں یا میں اپنے گھر مالدار بھولانا چاہتا ہوں کم از کم اس نے اپنا دین تو نہیں بیچا سیدھے سادے طور پر اپنی خواہش کو ظاہر کر دیا.لیکن جب مال کو تقویٰ کے پردہ میں لینے کی کوشش کی جائے تو یہ نہایت افسوس ناک بات ہوتی ہے.پھر ان سے بھی گھٹیا قسم کے وہ لوگ ہوتے ہیں جو دین کی ظاہراً حقارت کرتے ہیں یعنی ایک شخص جو اپنی زندگی دین کی خدمت کے لئے لگا دیتا ہے اسے اپنی لڑکی دینا پسند نہیں کرتے وہ اس سے گریز کرتے ہیں.گویا ان کے نزدیک جس شخص کی جیب میں روپے ہوں وہ تو قیمتی وجود ہے لیکن اگر اس کے دل میں نور ہو تو وہ قیمتی نہیں.آخر جو شخص اپنی زندگی وقف کرتا ہے اور اسے دین کے لئے لگا دیتا ہے اور دوسرا شخص خدا تعالیٰ سے دور ہوتا ہے یا اس قدر قریب نہیں ہوتا جتنا ایک زندگی وقف کرنے والا تو یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ ایک مومن خدا کا قرب حاصل کرنے والے کو تو حقارت کی نگاہ سے دیکھے اور اس سے نسبتا خدا تعالیٰ سے دور شخص کو عظمت اور عزت کی نگاہ سے دیکھے.رسول کریم ﷺ کو دیکھ لو آپ نے ابھی نبوت کا دعوئی بھی نہیں کیا تھا کہ حضرت خدیجہ نے جو ایک مالدار عورت تھیں آپ سے شادی کی خواہش ظاہر کی.حضرت خدیجہ کے پاس دولت تھی اور رسول کریم اے غریب تھے لیکن آپ نے حضرت خدیجہ کے مالدار ہونے کی وجہ سے ان سے شادی کی خواہش کا اظہار نہیں کیا بلکہ خود حضرت خدیجہ نے رسول کریم سے شادی کی خواہش کی.عربوں میں ہمارے ملک کی طرح اتنی شرم نہیں تھی کہ ان کی عورتیں منہ سے بولیس ہی نہیں مگر پھر بھی عرب عورتیں مردوں کی نسبت زیادہ شرم کرتی ہیں.
خطبات محمود षष6 جلد سوم انہوں نے اپنی ایک سہیلی کو بیچ میں ڈالا اور اس سے کہا وہ معلوم کرے کہ اگر انہیں شادی کی تحریک کی جائے تو کیا وہ راضی ہو جائیں گے.رسول کریم ﷺ کو ابھی روحانی برتری حاصل نہیں ہوئی تھی صرف اخلاقی برتری آپ کو حاصل تھی اور لوگ آپ کو دیانتدار، سچا اور امین سمجھتے تھے.آپ کا خدا تعالیٰ سے تعلق کا ابھی اظہار نہیں ہوا تھا لیکن محض آپ کی دیانت اور امانت کو دیکھ کر اس مالدار عورت نے جو مکہ کے بڑے مالداروں میں سے ایک تھیں خود تحریک کی کہ آپ اس سے شادی کرلیں.پھر خالی شادی کی ہی تحریک نہیں کی کیونکہ ہو سکتا ہے کہ ایک مالدار عورت کسی غریب مرد سے شادی کا اظہار کرے مگر اس کے دل میں یہ ہو کہ اس کے پاس کھانے پینے کو تو ہے ہی اگر کوئی معقول آدمی مل جائے جس سے وہ شادی کرلے تو اسے دولت کی ضرورت نہیں وہ سمجھتی ہے روپیہ میرے پاس ہے اور عقل اور سمجھ اس کی ہوگی اور اس طرح زندگی آرام سے گزر جائے گی.یہ جذبہ بھی اپنی جگہ پر برا نہیں لیکن حضرت خدیجہ کا جذبہ بہت اعلیٰ تھا.کیونکہ جب حضرت رسول کریم ﷺ کی شادی ان سے ہوئی تو انہوں نے جلد محسوس کر لیا کہ ان کی شادی ایسے شخص سے ہوئی ہے جو غیرت مند ہے.اس کے پاس پیسہ بھی نہیں اور میرے پاس بڑی دولت ہے میں اس کے آگے کھانا رکھوں گی تو اس کے ذہن پر یہ اثر ہو گا کہ یہ کھانا اس کی بیوی نے دیا ہے، میں اسے کپڑے بنا کر دوں گی تو وہ سمجھے گا یہ اس کی بیوی نے بنا کر دیئے ہیں میں اسے روپے دوں گی تو وہ سمجھے گا یہ اس کی بیوی نے دیئے ہیں اور وہ یہ بات برداشت نہیں کرے گا کیونکہ خدا تعالیٰ نے اسے غیرت مند بنایا ہے.چنانچہ حضرت خدیجہ نے شادی کے بعد رسول کریم ﷺ سے عرض کیا (ہم تو آپ کو رسول کریم اے کہتے ہیں لیکن اس وقت تک آپ کو یہ مقام عطا نہیں ہوا تھا کیونکہ یہ رسالت سے پندرہ سال پہلے کی بات ہے) کہ میں ایک خواہش کا اظہار کرتی ہوں آپ اسے قبول فرمالیں.آپ نے فرمایا کیا بات ہے.حضرت خدیجہ نے کہا میں گواہوں کو بلا کر اپنا سارا مال آپ کو دینا چاہتی ہوں آپ جس طرح چاہیں خرچ کریں.شاید یہ بات بھی رسول کریم ﷺ پر گراں گزرتی مگر حضرت خدیجہ نے عرض کیا میں اپنے سارے غلام بھی آپ کو دیتی ہوں.رسول کریم ﷺ چونکہ غلامی کو پسند نہیں فرماتے تھے اس لئے یہ بات بھی اس بات کا محرک ہو گئی کہ آپ حضرت خدیجہ کی پیشکش کو قبول فرمالیں.آپ نے فرمایا خدیجہ ! تم خوب سوچ سمجھ لو ایسا نہ ہو کہ بعد میں پچھتاؤ.میں غلام رکھنا پسند نہیں کرتا اگر تم نے اپنے غلام مجھ کو دے دیئے تو میں -
خطبات محمود جلد سوم فوراً انہیں آزاد کر دوں گا.حضرت خدیجہ نے کہا مجھے منظور ہے.چنانچہ حضرت خدیجہ نے اپنا سران اور سارے غلام آپ کو دے دیئے اور آپ نے اسی وقت سارے غلاموں کو آزاد کر دیا.کہ اب آپ نے جس وقت یہ فرمایا اگر تم نے اپنے غلام مجھے دے دیئے تو میں غلامی کو پسند نہیں کرتا میں انہیں آزاد کردوں گا تو حضرت خدیجہ سمجھ گئی ہوں گی کہ میری دولت نہ میرے کام آئے گی نہ ان کے کام آئے گی یہ تو دولت کو لٹا دینے والی بات ہے.جب رسول کریم ﷺ کو پہلا الہام ہوا تو حضرت خدیجہ نے فرمایا آپ تو مظلوموں کی حمایت کرتے ہیں جو لوگ جائز طور پر مقروض ہوتے ہیں آپ ان کے قرض اتارنے میں ان کی مدد کرتے ہیں جن میں بوجھ اٹھانے کی ہمت نہیں ہوتی آپ ان کے بوجھ اٹھانے میں مدد دیتے ہیں کہ اس کا مطلب یہ تھا کہ آپ اپنی ساری آمد خدا کے رستہ میں خرچ کر دیتے ہیں اس کے بعد حضرت خدیجہ کی زندگی امیروں والی نہیں تھی.پس حضرت خدیجہ نے صرف یہی نہیں کیا کہ ایک غریب شخص سے شادی کی بلکہ اس کے ساتھ شادی کرنے کے بعد انہوں نے اس بات کو بھی نظر انداز کر دیا کہ ان کا مال ان کے لئے آرام کا موجب ہو گا وہ بھی اپنے خاوند کے حوالہ کر دیا کہ وہ اسے لٹا دے.یہی وہ چیز تھی جس کی وجہ سے رسول کریم اے کے دل میں آپ کی انتہائی محبت تھی.آخر زندگی میں بھی حضرت خدیجہ کا بڑا ادب اور عزت اور احترام تھا مدینہ کی طرف ہجرت سے دو تین سال پہلے حضرت خدیجہ فوت ہو گئی تھیں ہجرت کے بعد آپ کی حضرت عائشہ سے شادی ہوئی جو حضرت خدیجہ سے عمر کے لحاظ سے بھی جو ان تھیں، خوبصورت بھی تھیں اور دین کا علم رکھنے والی بھی تھیں.آپ کا نکاح تو ملکہ میں ہی ہو گیا تھا لیکن رخصتانہ مدینہ میں جا کر ہوا.پھر آپ کی اور بھی بیویاں تھیں وہ حضرت خدیجہ سے عمر کے لحاظ سے جو ان بھی تھیں اور ان کے خاندان کی نسبت معزز خاندانوں کی لڑکیاں تھیں لیکن اس کے باوجود حضرت خدیجہ کی وہ قربانی آپ کو ہمیشہ یاد رہتی.حضرت عائشہ کی رسول کریم ﷺ سے جب شادی ہوئی تو اس وقت رسول کریم دنیا کی نگاہ میں بڑے نہیں تھے لیکن مومنوں کی نظر میں یقیناً آپ بڑی شان کے مالک بن چکے تھے دعوی نبوت ہو چکا تھا اور خدا تعالیٰ کا کلام آپ پر نازل ہو چکا تھا اس لئے حضرت ابو بکر نے اپنی لڑکی کسی غریب شخص کو نہیں دی بلکہ محمد رسول کریم ﷺ کو دی لیکن حضرت خدیجہ نے باوجود مالدار ہونے کے ایک غریب شخص سے جس کو کسی قسم کی وجاہت حاصل نہیں !
خطبات محمود ۶۶۹ تھی شادی کرنا منظور کر لیا.پس ان دونوں میں بہت بڑا فرق ہے.پھر آپ مدینہ تشریف لے گئے تو خدا تعالیٰ نے آپ کو دنیوی شان بھی عطا کی آپ میں شاہانہ باتیں نہیں پائی جاتی تھیں مگر اس میں شبہ نہیں کہ مدینہ میں جن عورتوں سے آپ کی شادیاں ہو ئیں ان کے اور ان کے متعلقین کے سامنے آپ کی ظاہری شان بھی قائم ہو چکی تھی لیکن حضرت خدیجہ نے محض دین کی خاطر آپ سے شادی کرنا منظور کیا.یہ ایک ایسی چیز تھی جسے رسول کریم ﷺ اپنی عمر بھر نہیں بھلا سکے.حضرت عائشہ نوجوان بھی تھیں، خوبصورت بھی تھیں، دیندار بھی تھیں، ان کا باپ آپ کا سب سے زیادہ مقرب بھی تھا، ان کا اجتہاد اور فہم سب عورتوں سے بالا تھا.حتی کہ رسول کریم ﷺ کو یہ کہنا پڑا کہ آدھا دین تم عائشہ سے سیکھو.سے لیکن باوجود اس کے کوئی موقع ایسا نہیں آتا تھا کہ آپ فرماتے خدیجہ کی یہ بات تھی.خدیجہ کی وہ بات تھی.حضرت عائشہ کے دل میں اکثر یہ خیال آتا کہ وہ دیندار بھی ہیں عالم بھی ہیں نوجوان بھی ہیں، پھر آپ کی خدمت گار بھی ہیں اور خدیجہ عمر میں آپ سے بڑی تھیں جب شادی ہوئی تو ان کی عمر آپ کی عمر سے پندرہ سال زیادہ تھی پھر آپ بار بار ان کا نام کیوں لیتے ہیں.چنانچہ ایک دن حضرت عائشہ نے چڑ کر کہا یا رسول اللہ ! آپ ہر وقت خدیجہ خدیجہ کیوں کرتے رہتے ہیں کیا خدا تعالیٰ نے آپ کو ان سے زیادہ خوبصورت، ان سے زیادہ نوجوان اور ان سے زیادہ خدمت گار بیویاں نہیں دیں؟ آپ نے فرمایا عائشہ تم جانتی نہیں کہ خدیجہ کے اندر کیا نیکی تھی اور اس نے کس طرح میری خدمت کی.سے اس کی یہی وجہ تھی کہ حضرت خدیجہ نے رسول کریم کا نور اس وقت دیکھا جب کوئی اور دیکھنے والا نہیں تھا، انہوں نے آپ پر اس وقت ساری دولت قربان کی جب کوئی دوسرا آپ کے لئے ایک پیسہ بھی خرچ کرنے والا نہیں تھا.حتی کہ احادیث میں آتا ہے ایک دفعہ رسول کریم ای مجلس میں بیٹھے تھے اور عورتوں کو سبق دے رہے تھے کہ حضرت خدیجہ کی کوئی بہن مجلس میں آئیں ان کی آواز حضرت خدیجہ کی آواز سے بہت حد تک ملتی تھی.حضرت خدیجہ مکہ میں ہی ہجرت سے قبل فوت ہو چکی تھیں اور آپ مدینہ میں بیٹھے عورتوں کو وعظ فرما رہے تھے کہ اتنے میں وہ آئیں.اور انہوں نے کوئی بات کہی.اب باوجود اس کے کہ حضرت خدیجہ کی وفات پر سات آٹھ سال گزر چکے تھے اور باوجود اس کے کہ اسلام کی تعلیم کے مطابق مردے دوبارہ اس دنیا میں نہیں آتے اس کی آواز سنتے ہی آپ کی حالت یوں ہو جاتی ہے کہ جیسے کوئی شخص دنیا سے کھویا جاتا ہے.آپ نے
خطبات محمود ۶۷۰ جلد سوم بے تاب ہو کر کہا میری خدیجہ میری خدیجہ اتنے میں وہ آپ کے سامنے آگئیں تو آپ کو معلوم ہوا کہ وہ حضرت خدیجہ کی بہن ہیں.تب آپ نے فرمایا اے میرے اللہ مجھے کیا ہو گیا یہ تو فلاں عورت ہے شہ گویا حضرت خدیجہ کی وفات سے آٹھ سال بعد بھی ان کی آواز سے ملتی جلتی آواز سن کر ان کی خوبیوں کی یاد تازہ ہو گئی.یہ وہی چیز تھی جو حضرت خدیجہ کی ابتدائی قربانیوں کے نتیجہ میں آپ کے دل میں پیدا ہوئی.پس شادیاں دین تک رکھنی چاہئیں.پھر یہی نہیں کہ صرف ایک فریق اس کا لحاظ رکھے بلکہ فریقین کو ایسا کرنا چاہئے.رسول کریم ﷺ فرماتے ہیں کوئی شخص شادی کرنا چاہتا ہے حسن کی خاطر، کوئی شادی کرنا چاہتا ہے عزت و جاہ کی خاطر، کوئی شادی کرنا چاہتا ہے بلند و پست کی خاطر اور کوئی شادی چاہتا ہے جانداروں کی خاطر لیکن علیكَ بِذَاتِ الدِّينِ تَرِبَتْ يَدَاكَ له اے میرے ماننے والے! تو کسی دیندار عورت کی تلاش کر.تیرے ہاتھ مٹی سے بھریں - تربت یداک پیار کے الفاظ ہیں.ہمارے ملک میں بھی عورتیں اپنے بہن بھائیوں سے مذاق کی کوئی بات کریں.تو کہتی ہیں کالا منہ.اب یہ کالا منہ بدبخت کے معنوں میں استعمال نہیں کیا جاتا بلکہ پیار کی وجہ سے بولا جاتا ہے.اسی طرح عربوں میں بھی تربَتْ يَدَاكَ پیار اور محبت کے الفاظ تھے.رسول کریم ﷺ نے بھی انہیں معنوں میں یہ الفاظ استعمال کئے ہیں.کہ تیرے ہاتھ مٹی والے ہوں تو دین کی خاطر شادی کر.مگر ایسا کرنا فریقین کے لئے ضروری ہے جیسا کہ میں نے بتایا ہے بعض لوگ اس سے ناجائز فائدہ اٹھاتے ہیں یعنی غرض تو ان کی حصول جاہ ہوتی ہے یعنی کہتے یہ ہیں کہ لڑکا دیندار ہے یا لڑکی دیندار ہے حالانکہ کیا ایک غریب لڑکا یا ایک غریب لڑکی دیندار نہیں ہو سکتے حضرت خدیجہ کا واقعہ دیکھ لو یہاں ایک غریب لڑکے نے ایک مالدار عورت سے شادی کی خواہش نہیں کی بلکہ ایک مالدار عورت نے ایک غریب لڑکے سے شادی کی خواہش کی ہے اگر غریب امیر سے شادی کی خواہش کرتا ہے اور کہتا ہے کہ وہ تقویٰ اور دین کی خاطر ایسا کر رہا ہے تو وہ لوگوں کو دھوکا دینا چاہتا ہے لیکن امیر کا غریب کو چنتا نیکی ہے.پس شادیوں کے وقت ان امور کو مد نظر رکھنا بڑی نیکی ہے اور یقیناً موجب برکت ہے اور پھر اگر اسے قائم رکھا جائے تو اس سے نیک نتائج نکلتے ہیں.رسول کریم ﷺ نے فرمایا ہے نیکی کا نتیجہ نیک نکلتا ہے بشرطیکہ اسے ہمیشہ قائم رکھا جائے.کے آج مجھے اس بات سے خوشی ہے کہ ایک طرح ایک ہی خاندان میں تھوڑے ہی عرصہ میں
خطبات محمود 461 جلد سوم یہ دوسری شادی ہے جس میں ایک مبلغ سے تعلقات پیدا کرنے کی کوشش کی گئی ہے.یعنی یہ لڑکی جس کے نکاح کا میں اعلان کرنا چاہتا ہوں بھائی عبدالرحیم صاحب کی تو اسی ہے اور اس سے قبل ان کی دوسری لڑکی کے سوتیلے بیٹے ڈاکٹر بدرالدین احمد صاحب نے باوجود اس کے کہ وہ مالدار شخص ہیں اور اڑھائی تین ہزار روپیہ آمد پیدا کر رہے ہیں اپنی لڑکی کے لئے مبلغ کو چنا ہے اور مبلغ کو پچاس ساٹھ روپیہ ملتے ہیں.پس موجودہ افسوس ناک حالات کے باوجود یہ نہایت نیک نمونہ ہے جو ڈاکٹر بدرالدین احمد صاحب نے دکھایا ہے اور اس موقع پر بھی اگر چہ یہ نسبتا پہلے واقعہ سے کم درجہ رکھتا ہے ایک مبلغ سے تعلق پیدا کرنے کی خواہش نمایاں پائی جاتی ہے اور یہ ایک نیکی کی بات ہے بشرطیکہ اس سے دوسرے لوگ بھی فائدہ اٹھائیں اور شادیوں کو اپنی دنیا داری کے چھپانے کا ذریعہ نہ بنائیں.✓ له بخاری باب كيف كان بدء الوحى الى رسول الله صلى الله عليه وسلم - كم Pn fc Po Pz Pr Pf.له بخاری کتاب النکاح باب الاكفاء في الدين
خطبات محمود ۱۴۸ جلد سوم اعلانات نکاح بر موقع جلسه سالانه فرموده ۲۶ دسمبر ۱۹۵۵ء) ۲۶ دسمبر ۱۹۵۵ء جلسہ سالانہ کے افتتاح سے قبل حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے سید میر محمود احمد صاحب کا نکاح صاحبزادی امتہ المتین صاحبہ کے ساتھ اور صاحبزادہ مرزا خورشید احمد صاحب کا نکاح صاحبزادی امتہ الوحید بیگم صاحبہ کے ساتھ پڑھا.اس موقع پر مزید پانچ نکاحوں کا اعلان بھی فرمایا : خطبہ مسنونہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: افتتاحی کلمات اور دعا سے پہلے میں چند نکاحوں کا اعلان کرنا چاہتا ہوں.عام طریق کے مطابق تو نکاح ۲۹ دسمبر کو ہوا کرتے ہیں مگر ان نکاحوں میں کچھ مستثنیات ہیں ایک تو یہ کہ ایک نکاح میری اپنی لڑکی امتہ المتین کا ہے جو سید میر محمود احمد صاحب ابن میر محمد اسحق صاحب سے قرار پایا ہے.دوسرے عزیزم چوہدری ظفر اللہ خاں صاحب کی لڑکی عزیزہ امتہ الحئی کا نکاح ڈاکٹر اعجاز الحق صاحب لاہور سے قرار پایا ہے تیسرے امتہ الوحید بیگم بنت مرزا شریف احمد صاحب کا نکاح عزیزم مرزا خورشید احمد صاحب ابن مرزا عزیز احمد صاحب سے قرار پایا ہے.چوتھے امتہ الحفیظ صاحبہ بنت چوہدری اسد اللہ خاں صاحب کا نکاح خواجہ سر فراز احمد صاحب ابن خواجه عبدالرحمن صاحب سیالکوٹ سے قرار پایا ہے پانچویں یہ نکاح بھی خصوصیت رکھتا ہے کیونکہ ایک پاکستانی لڑکی ایک انڈو نیشین واقف زندگی کے ساتھ بیاہی جانے والی ہے یعنی امتہ النصیر بیگم بنت مولوی محمد تقی صاحب کا نکاح صالح شبیبی صاحب ابن سلیمان شبیبی انڈونیشیا سے قرار پایا
خطبات جلد سوم مت ہے.صالح شبیبی ایک مخلص انڈو نیشین نوجوان ہیں اور عربی النسل ہیں.وہ انڈونیشین بھی ہیں اور عرب بھی ہیں.یہاں ربوہ میں عرصہ تک پڑھتے رہے ہیں.اب وہ دلی میں اپنی انڈو نیشین ایمبیسی میں ملازم ہیں اور زندگی بھی انہوں نے وقف کی ہوئی ہے.چھٹا نکاح سیدہ ناصرہ خاتون بنت ڈاکٹر سید عنایت اللہ شاہ صاحب کا میجر انور احمد صاحب سے قرار پایا ہے.ڈاکٹر سید عنایت اللہ شاہ صاحب ایک نہایت ہی پرانے احمدی خاندان میں سے ہیں ان کے والد سید فضل شاہ صاحب حضرت صاحب کے نہایت ہی مکرم صحابی تھے اور عام طور پر حضرت صاحب کی خد کیا کرتے تھے اور اکثر قادیان میں آتے جاتے تھے.سید ناصر شاہ صاحب اوور میئر جو بعد میں شاید ایس ڈی او ہو گئے تھے ان کے بھائی تھے.ان میں بھی بڑا اخلاص تھا اور وہ بھی حضرت صاحب کو بہت پیارے تھے اور وہ بھی اپنے اخلاص کی وجہ سے اپنے بھائی کو کہا کرتے تھے کہ کام کچھ نہ کرو، قادیان جا کے بیٹھے رہو حضرت صاحب سے ملاقات کیا کرو، مجھے کچھ ڈائریاں بھیج دیا کرو، کچھ دعاؤں کے لئے کہتے رہا کرو، اخراجات میں بھیجا کروں گا چنانچہ وہ اپنے بھائی کی مدد کرتے رہتے تھے محض اسی وجہ سے کہ وہ قادیان میں حضرت صاحب کے پاس بیٹھے ہوئے ہیں.مجھے یاد ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی ایک وحی جس کے شروع میں الرحی لے آتا ہے اور جو خاص ایک رکوع کے برابر ہے وہ ایسی حالت میں نازل ہوئی جب کہ حضرت صاحب کو درد گردہ کی شکایت تھی اور وہ آپ کو دبا رہے تھے.گویا ان کو یہ خاص فضیلت حاصل تھی کہ ان کی موجودگی میں دباتے ہوئے حضرت صاحب پر وحی نازل ہوئی اور وحی بھی اس طرز کی تھی کہ کلام بعض دفعہ اونچی آواز سے آپ کی زبان پر بھی جاری ہو جاتا تھا.مجھے یاد ہے ہم چھوٹے بچے ہوتے تھے کہ ہم بے احتیاطی سے اس کمرہ میں چلے گئے جس میں حضرت صاحب لیٹے ہوئے تھے آپ نے اوپر چادر ڈالی ہوئی تھی اور سید فضل شاہ صاحب - مرحوم آپ کو دبا رہے تھے ان کو محسوس ہوتا تھا کہ رحی ہو رہی ہے انہوں نے اشارہ کر کے مجھے کہا یہاں سے چلے جاؤ چنانچہ ہم باہر آگئے بعد میں پتا لگا کہ بڑی لمبی وحی تھی جو نازل ہوئی تھی.ساتواں نکاح طاہرہ زکیہ صاحبہ بنت میاں عطاء اللہ صاحب ایڈووکیٹ کا ڈاکٹر محمد حسین صاحب ساجد سے قرار پایا ہے.آٹھواں نکاح مسعود احمد صاحب ابن چوہدری نذیر احمد صاحب کا عطیہ صاحبہ بنت چوہدری شکر اللہ خاں صاحب سے قرار پایا ہے.
خطبات محمود ۶۷۴ جلد موم اب میں ایک ایک کر کے ان نکاحوں کا اعلان کرتا ہوں امتہ المتین مریم صدیقہ سے میری لڑکی ہے ان کا نکاح ایک ہزار روپیہ مہر پر سید محمود احمد صاحب ابن میر محمد اسحق صاحب مرحوم سے قرار پایا ہے.محمود احمد اس وقت لندن میں بی اے میں پڑھ رہے ہیں اور اگر اللہ تعالیٰ نے خیریت رکھی تو ارادہ ہے کہ اگلے سال مئی میں وہ واپس آجائیں.میں اپنے تینوں بچوں کو محمود احمد کو جو داماد ہے اور واؤر احمد کو جو داماد ہے اور ظاہر احمد کو جو ام طاہر مرحومہ کا لڑکا ہے وہاں چھوڑ آیا ہوں تاکہ وہ تعلیم پائیں اور آئندہ سلسلہ کی خدمت کریں.ان کو تاکید ہے کہ انگریزی میں لیاقت حاصل کریں ممکن ہے ان میں سے کوئی ایم اے کر سکے تو پھر وہ یہاں کالج میں پروفیسر ہو سکتا ہے نہیں تو اگر انگریزی تعلیم اچھی طرح حاصل ہو جائے تو چونکہ یہ تینوں مولوی فاضل ہیں اور عربی تعلیم بھی ان کی نہایت اعلیٰ ہے اگر انگریزی تعلیم بھی اعلیٰ ہو گئی تو قرآن شریف کا ترجمہ اور حضرت صاحب کی کتابوں کا ترجمہ انگریزی میں کر کے وہ سلسلہ کی اشاعت میں مددگار ہو سکتے ہیں.ریویو آف ریلیجنز بھی اس بات کا محتاج ہے کہ اس کا کوئی اچھا اور لائق ایڈیٹر ہو.اس غرض کے لئے میں اپنے بچوں کو وہاں چھوڑ آیا ہوں کو اس بیماری اور کمزوری میں اتنے اخراجات برداشت کرنا کہ تین بیٹے وہاں پڑھیں (رد داماد اور ایک بیٹا) مشکل ہے مگر میں نے سمجھا کہ جماعت کی مشکل میری مشکل سے بڑی ہے.بہر حال ہمیں آئندہ کے لئے کام کرنے والے تیار کرنے چاہئیں.ریویو آف ریلیجز میں پہلے مولوی محمد علی صاحب آئے، ہم کتنا بھی ان سے اختلاف رکھتے ہوں لیکن اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اپنے وقت میں نوہ قربانی کر کے آئے تھے.اس زمانہ میں ایم اے کی بڑی قدر ہوتی تھی وہ اسلامیہ کالج میں پروفیسر بھی تھے ، وکیل بھی تھے اور ایم اے بھی تھے.جو بھی تنخواہ انہوں نے اس وقت لی وہ اس سے کم تھی جو وہ کما سکتے تھے یعنی سو روپے ان کو ملتے تھے اور انگریزی اچھی لکھتے تھے.کچھ مدت تک انہوں نے ریویو کو چلایا پھر جب وہ لاہور چلے گئے تو مولوی شیر علی صاحب نے یہ خدمت سر انجام دی پھر جب یہ ریویو ادھر ربوہ میں آگیا تو صوفی مطیع الرحمن صاحب نے اس کو سنبھالا جو امریکہ میں لمبے عرصے تک رہے تھے مگر اچانک ان کی وفات ہو گئی.اس سے پھر وہ جگہ خالی ہو گئی ہے.اب چوہدری مظفر الدین صاحب وہ کام کر رہے ہیں.مگر بہر حال ان کی تعلیم ایسی اعلیٰ نہیں اس لئے اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے کہ آئندہ ریویو کس پایہ پر چھپتا ہے.عزیزم چوہدری ظفر اللہ خان صاحب نے مجھے مشورہ دیا تھا کہ اس کو امریکہ منتقل کر دیا
460 خطبات محمود جائے تو وہاں اچھے پیمانہ پر چھپے گا.بات تو بڑی معقول تھی مگر میرا دل نہیں چاہتا کہ جس رسالہ کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے شائع کرنا شروع کیا تھا اس کو ہم دوسرے علاقہ میں منتقل کر دیں.جہاں تک ہو سکے ہمیں کوشش کرنی چاہئے کہ ہمیں اچھے آدمی پیدا ہو جائیں اور وہ اس رسالہ کو جاری رکھیں.چاہے اس کا دوسرا ایڈیشن وہاں بھی چھپ جائے.امریکہ کے بعض اخبار ایسے ہیں جن کا ایک ایڈیشن کینیڈا میں نکلتا ہے اور ایک انگلینڈ میں نکلتا ہے اب ریڈرز ڈائجسٹ READERS DIGEST کا ایک ایڈیشن پاکستان میں بھی نکلنا شروع ہوا ہے.تو بے شک اس کے دو ایڈیشن کر دیئے جائیں ایک امریکہ سے چھپے اور ایک پاکستان سے چھپے.مگر میرا دل چاہتا ہے کہ یہ ہمارے قریب سے چھپے تاکہ ہمارے دلوں کو یہ تسلی رہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جو امانت ہمارے سپرد کی تھی اس کو ہم نے سنبھالا ہوا ہے.یہ نکاح جو امتہ المتین کا سید محمود احمد صاحب سے قرار پایا ہے چونکہ سید محمود احمد صاحب انگلینڈ میں ہیں اور وہ عزیزم مرزا عزیز احمد صاحب کے سالے ہیں اس لئے ان کی طرف سے ان کو ایجاب و قبول کا اختیار ملا ہے.اپنی لڑکی کی طرف سے میں قبولیت کا اعلان کرتا ہوں کہ امتہ المتین جو میری لڑکی ہے اس کو اپنا نکاح ایک ہزار روپیه مهر پر سید محمود احمد صاحب ابن میر محمد اسحق صاحب مرحوم سے منظور ہے.مرزا عزیز احمد صاحب آپ فرما ئیں کہ سید محمود احمد صاحب کی طرف سے ان کا نکاح ایک ہزار روپیہ مہر پر میری لڑکی امتہ المتین سے منظور ہے.انہوں نے منظوری کا اعلان کیا فرمایا اس کے بعد حضور نے باقی سات نکاحوں کا اعلان فرمایا مرزا خورشید احمد صاحب ابن مکرم مرزا عزیز احمد صاحب کے نکاح کا اعلان کرتے ہوئے یہ لڑکا بھی ہمارے خاندان میں سے وقف ہے.مرزا عزیز احمد صاحب کو خدا تعالیٰ نے توفیق دی کہ وہ اپنے اس بچہ کو اعلیٰ تعلیم دلا میں چنانچہ ان کا یہ لڑکا ایم اے میں پڑھ رہا ہے ابھی پاس تو نہیں ہوا.مگر انگریزی میں ایم اے کا امتحان دے رہا ہے اور کہتے ہیں کہ انگریزی میں بڑا لائق ہے.میرا ارادہ ہے کہ بعد میں یہ کالج میں پروفیسر کے طور پر کام کرے.ایجاب وقبول کے بعد حضور نے فرمایا اب سب احباب دعا کریں اس کے بعد میں کچھ کلمات کہہ کے اور دعا کر کے جلسہ کا
خطبات محمود 424 جلد سوم افتتاح کروں گا کہ اللہ تعالٰی ان سارے نکاحوں کو بابرکت کرے دینی طور پر بھی اور دنیوی طور ر بھی اور آئندہ سلسلہ کی طاقت اور قوت کی بنیاد ان نکاحوں کے ذریعہ سے پیدا ہو.ان کلمات کے بعد حضور نے احباب سمیت لمبی دعا فرمائی.) ے تذکرہ صفحه ۳۴۵- ایڈیشن چهارم الفضل ۴ فروری ۱۹۵۶ء صفحه ۴۷۳)
خطبات محمود ۱۴۹ جلد موم حضرت خان محمد خان صاحب کپور تھلوی کا ذکر خیر ( فرموده ۸ مارچ ۱۹۵۶ء) ۸ مارچ ۱۹۵۶ء بروز جمعرات حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے اپنے صاحبزادے مرزا اظہر احمد صاحب کا نکاح ہمراہ قیصرہ خانم سعید بنت خان سعید احمد خان صاحب مرحوم کے ساتھ ایک ہزار روپیہ حق مہر پر پڑھا.لے آیات مسنونہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: میں آج جس نکاح کے اعلان کے لئے کھڑا ہوا ہوں وہ میرے لڑکے مرزا اظہر احمد کا ہے جو خان سعید احمد خان صاحب مرحوم ابن) کرنل اوصاف علی خاں صاحب مرحوم کی لڑکی قیصرہ خانم سعید سے قرار پایا ہے.قیصرہ خانم سعید پہلے ہماری دوہری رشتہ دار تھیں لیکن اب اس نکاح کی وجہ سے ان کا ہم سے تہرا رشتہ ہو گیا ہے.ان کا ایک رشتہ تو یہ ہے کہ وہ کرنل اوصاف علی خان صاحب کی ہوتی ہیں اور کرنل اوصاف علی خاں صاحب نواب محمد علی خان صاحب کے بہنوئی اور خالہ زاد بھائی تھے گویا یہ اس شخص کے بہنوئی کی ہوتی ہیں جنہیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنی لڑکی کا رشتہ دیا بلکہ بعد میں حضرت خلیفہ المسیح الاول کے زمانے میں ان کے بیٹے کو آپ کی دوسری لڑکی کا رشتہ دے دیا گیا.دوسرا رشتہ جس کی بناء خدا تعالی کے ایک الہام پر ہے یہ ہے کہ یہ خان محمد خان صاحب کپور تھلوی کے بیٹے عبد المجید خاں صاحب کی نواسی ہیں خان محمد خان صاحب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے بہت پرانے صحابی تھے.افسوس ہے کہ ہماری جماعت اپنی تاریخ کے یاد رکھنے میں نہائت ست واقع ہوئی ہے.
محمود 42A جلد سوم شاید ہی کوئی اور قوم ایسی ہو جو اپنی تاریخ کے یاد رکھنے میں اتنی ست ہو جتنی ہماری جماعت کی ہے.عیسائیوں کو لے لو انہوں نے اپنی تاریخ کے یاد رکھنے میں اتنی سستی سے کام نہیں لیا اور مسلمانوں نے تو صحابہ کے حالات کو اس تفصیل سے بیان کیا ہے کہ اس موضوع پر بعض کتابیں کئی کئی ہزار صفحات پر مشتمل ہیں لیکن ہماری جماعت باوجود اس کے کہ ایک علمی زمانہ میں پیدا ہوئی ہے اپنی تاریخ کے یاد رکھنے میں سخت غفلت سے کام لے رہی ہے.میں نے بتایا ہے کہ خان محمد خان صاحب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے پرانے صحابی تھے اور آپ سلسلہ سے اتنی محبت رکھتے تھے کہ جب وہ یکم جنوری ۱۹۰۴ء کو فوت ہوئے تو دوسرے دن حضرت مسیح موعود علیہ السلام مسجد میں صبح کی نماز کے لئے تشریف لائے اور فرمایا آج مجھے الہام ہوا ہے کہ اہل بیت میں سے کسی شخص کی وفات ہوئی ہے " سے حاضرین مجلس نے کہا کہ حضور کے اہل بیت تو خدا تعالیٰ کے فضل سے خیریت سے ہیں.پھر یہ الہام کس شخص کے متعلق ہے.آپ نے فرمایا خان محمد خان صاحب کپور تھلوی کل فوت ہو گئے ہیں اور یہ الہام مجھے انہی کے متعلق ہوا ہے.گویا خدا تعالٰی نے الہام میں انہیں اہل بیت میں سے قرار دیا ہے.پھر ان کے متعلق یہ الہام بھی ہوا کہ اولاد کے ساتھ نرم سلوک کیا جائے گا " سے بہر حال ان کی وفات پر اللہ تعالیٰ کا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے تعزیت کرنا اور یہ کہنا کہ اہل بیت میں سے کسی شخص کی وفات ہوئی ہے بتاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک وہ روحانی رنگ میں اہل بیت میں ہی شامل تھے.پس قیصرہ خانم کا ہم سے یہ دوسرا رشتہ ہے کہ وہ اس شخص کے ایک بیٹے کی نواسی ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے اہل بیت میں سے قرار دیا ہے.لڑکی کے والد بچپن میں ہی فوت ہو گئے تھے بعد میں اس کے دادا بھی لاہور میں وفات پاگئے اس کے بھائیوں میں سے ایک بھائی جس کا نام انیس احمد ہے کراچی میں محکمہ کسٹم میں ملازم ہے، دوسرا بھائی جس کا نام شہزاد ہے فوج میں لفٹینٹ ہے رسول کریم ﷺ نے فرمایا ہے کہ لڑکی کا باپ فوت ہو گیا ہو تو اس کا کوئی بھائی جو موجود ہو چاہے وہ چھوٹی عمر کا ہی ہو اختیار رکھتا ہے کہ اپنی بہن کی شادی کر دے.خود آپ نے ایک شادی کی تو اس وقت اس عورت کا والد فوت ہو چکا تھا صرف ایک بھائی تھا جس کی عمر ۸ - ۹ سال کی تھی آپ نے فرمایا وہی کافی ہے
خطبات محمود شریعت نے اسے حق دیا ہے.کے پس والد کی عدم موجودگی میں لڑکی کا بھائی اس کا نکاح کرنے کا حق رکھتا ہے.قیصرہ خانم کا بڑا بھائی تو دور تھا لیفٹینٹ شہزاد نے ہی نکاح کی اجازت دی ہے لیکن وہ خود اس موقع پر یہاں نہیں آسکے انہوں نے اپنے چا میجر بشیر احمد صاحب کے متعلق لکھا ہے کہ وہ ولی اور سرپرست کے طور پر اپنی بھتیجی اور میری بہن قیصرہ خانم کے نکاح کی منظوری دے دیں.ہمارا خاندانی طریق یہی ہے کہ لڑکا ہو یا لڑکی اس کا مہر ایک ہزار روپیہ رکھا جاتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ السلام نے اپنی زندگی میں میرا جو مہر رکھا وہی میں نے بعد میں بھی رکھا ہے.بعض رشتے نوابوں کے خاندان میں بھی ہوئے لیکن میں نے اسی قدر مهر تجویز کیا تاکہ کوئی یہ نہ کہے کہ اپنی بیٹیوں کا مر زیادہ رکھا ہے اور ہماری بیٹیوں کا کم.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ہماری بڑی ہمشیرہ مبارکہ بیگم صاحبہ کا مر۷ ۵ ہزار روپیہ رکھا گیا تھا.لیکن اس کی وجہ یہ تھی کہ مالیر کوٹلہ میں یہ طریق رائج تھا کہ نواب خاندان کی عورتوں کو ورثہ نہیں ملتا تھا.چنانچہ اس موقع پر بعض نے کہا کہ مہر تو اس لئے کم رکھا جاتا ہے کہ عورت خاوند کی جائداد کی وارث ہوتی ہے لیکن ریاست مالیر کوٹلہ کے قانون کے مطابق عورت وارث نہیں ہو سکتی اس لئے مہر زیادہ رکھا جانا ضروری ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا اچھا اگر یہ صورت ہے تو ورثہ میں لانے والی جائداد کا حساب لگا لیا جائے اور اسی قدر مہر رکھ لیا جائے.پس در حقیقت ہمشیرہ مبارکہ بیگم صاحبہ کا مر بھی اس لئے زیادہ رکھا گیا تھا کہ مالیر کو ٹلہ کی ریاست کے دستور کے ماتحت وہ اپنے خاوند کے ورثہ کی حقدار نہیں ہو سکتی تھیں.لیکن جہاں عورت کو خاوند کی جائداد سے ورثہ مل سکتا ہے وہاں ہم نے ایک ہزار روپیہ سے زیادہ مہر کبھی نہیں رکھا.وہ لوگ جن کی دنیوی حیثیت ہم سے بہت ہی کم ہے وہ اپنی لڑکیوں کا مر بعض دفعہ آٹھ آٹھ دس دس ہزار روپیہ رکھ لیتے ہیں مگر چونکہ لڑکا اسے منظور کر لیتا ہے اس لئے ہمیں بھی اسی مر پر نکاح کا اعلان کرنا پڑتا ہے.در حقیقت اسلام نے عورت کو اس کے خاوند کی جائداد کا وارث بنایا ہے اور جب یہ صورت ہے تو زیادہ مہر کی کیا ضرورت ہو گی اگر خاوند کی اولاد ہوگی تو بیوی کو اس کی جائداد کا آٹھواں حصہ مل جائے گا اور اگر اولاد نہیں ہوگی تو وہ اس کی جائداد کے چوتھے حصے کی وارث ہوگی.پس جیسا کہ میں نے بتایا ہے ہمارے خاندان میں ایک ہزار مہر کا رواج ہے.صرف ہمشیرہ
خطبات محمود ۶۸۰ جلد سوم مبارکہ بیگم کا مہر زیادہ تھا اور وہ حضرت خلیفہ المسیح الاول کی تحریک پر مقرر کیا گیا تھا اور پھر نواب محمد علی خان صاحب نے بھی یہی کہا کہ ریاستی قوانین کے مطابق چونکہ عورتوں کو حصہ نہیں ملتا اس لئے مہر زیادہ رکھا جائے چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس کی اجازت دے دی.نواب صاحب کی وفات کے بعد اگر ان کی جائداد کا آٹھواں حصہ بطور ورثہ ہمشیرہ مبارکہ بیگم کو ملتا تو اس کی قیمت ۵۷ ہزار روپے سے یقیناً بہت زیادہ تھی کیونکہ بعد میں جائداد کی قیمتیں بہت بڑھ گئی تھیں.اس وقت جو جائداد ہمشیرہ وہاں چھوڑ آئی ہیں اس کا کلیم دیا گیا ہے وہ پندرہ لاکھ سے زیادہ کی ہے.ممکن ہے نکاح کے وقت نواب صاحب نے یہ خیال کیا ہو کہ ہمشیرہ مبارکہ بیگم کو ان کے خاندان میں جا کر مالی لحاظ سے فائدہ ہو گا لیکن واقعہ یہ ہے کہ ہمیں جو جائداد حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے ملی تھی وہ نواب صاحب کی جائداد سے بہت زیادہ قیمتی تھی کیونکہ جو جائدادیں ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ السلام سے ملی تھیں وہ قادیان کے بڑھنے کی وجہ سے بہت قیمتی ثابت ہو ئیں.جب ہمشیرہ مبارکہ بیگم کا نکاح ہوا ہے تو گو ہم بادشاہوں کی اولاد تھے اور نواب محمد علی خان صاحب محض نواب تھے لیکن ہماری خاندانی حیثیت اس وقت مٹی میں دبی ہوئی تھی اور ان کی حیثیت قائم تھی.وہ سمجھتے تھے کہ ہم نواب ہیں لیکن ہم اپنی حیثیت ایک زمیندار سے زیادہ قرار نہیں دیتے تھے اس لئے ممکن تھا کہ کسی وقت ہمشیرہ کو طعنہ دیا جاتا کہ تو اب بڑے گھر میں آگئی ہے اس لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو ان کے بچپن میں ہی رؤیا میں دکھایا گیا کہ مبارکہ بیگم کہہ رہی ہیں کہ : مینوں کوئی نہیں کہہ سکدا کہ ایسی آئی جس نے ایسہ مصیبت پائی" شه چنانچہ جب نواب صاحب کے مقروض ہونے کی وجہ سے ان کی مالی حالت خراب ہوئی تو آخری عمر میں ہمشیرہ اور ان کے بچے ہی نواب صاحب کے اخراجات کے لئے رقم مہیا کرتے تھے.غرض ہمشیرہ کے بچپن میں اور پھر ایسے وقت میں جب کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام کی حیثیت ایک زمیندار سے زیادہ نہیں تھی خدا تعالیٰ کا ہمشیرہ مبارکہ بیگم کی زبان سے الهاماً بتانا کہ مینوں کوئی نہیں کہہ سکدا کہ ایسی آئی جس نے ایسہ مصیبت پائی" کتنا بڑا نشان ہے.بے شک وہ ایک نواب خاندان میں بیاہی گئی تھیں لیکن اللہ تعالٰی جانتا تھا کہ ایک وقت ایسا آئے گا جب نواب صاحب کو مالی مشکلات پیش آئیں گی اور اس وقت خود
خطبات محمود ۶۸۱ جلد سوم اس لڑکی کی جائداد خاندانی مصائب کو دور کرنے کا موجب ہوگی.تو یہ الہی تدبیر تھی بچپن میں ایک بات کہی گئی تھی اور پھر وہ بات بڑی شان سے پوری ہوئی بہر حال یہ اللہ تعالٰی کے غیب کا ایک بین ثبوت ہے.اسی طرح اور بھی سینکڑوں پیشگوئیاں ہیں جو بعد میں پوری ہو ئیں اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی صداقت کا بین ثبوت بنیں.مثلاً میرے متعلق ہی آپ کی یہ پیشگوئی تھی کہ " وہ صاحب شکوہ اور عظمت و دولت ہو گا " اب آپ لوگ دیکھ لیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی اپنی زندگی میں آپ کی کس قدر جائداد تھی.آپ نے مخالفین کو انعامی چیلنج کرتے ہوئے لکھا ہے کہ میں اپنی ساری جائداد جو دس ہزار روپیہ مالیت کی ہے پیش کرتا ہوں گویا اس وقت آپ کی جائداد صرف دس ہزار روپیہ کی تھی لیکن اب وہ لاکھوں روپے کی ہو چکی ہے.یہ دولت کہاں سے آئی ہے یہ سب خدا تعالیٰ کا فضل ہے ورنہ مجھے یاد ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ السلام کی وفات کے بعد جب نانا جان نے ہماری زمینوں سے تعلق رکھنے والے کاغذات واپس کئے تو میں اپنے آپ کو اتنا بے بس محسوس کرتا تھا کہ میں حیران تھا کہ کیا کروں.اتفاق سے شیخ نور احمد صاحب میرے پاس آئے اور کہنے لگے مجھے معلوم ہوا ہے کہ آپ کو ایک ملازم کی ضرورت ہے آپ مجھے رکھ لیں.میں نے کہا میں تنخواہ کہاں سے دوں کو گا میرے پاس تو نہ کوئی رقم ہے جس سے تنخواہ دے سکوں اور نہ جائداد سے اتنی آمد کی توقع ہے انہوں نے کہا آپ جو چھوٹی سے چھوٹی تنخواہ دینا چاہیں وہ دے دیں اور پھر انہوں نے خود ہی کہہ دیا کہ آپ مجھے دس روپے ماہوار ہی دے دیں.چنانچہ میں نے انہیں ملازم رکھ لیا اور یہ خیال کیا کہ چلو اس قدر تو آمد ہو ہی جائے گی.لیکن بعد میں اللہ تعالیٰ نے ایسا فضل کیا کہ جوں جوں شہر ترقی کرتا گیا اس جائداد کی قیمت بھی بڑھتی چلی گئی.جب قرآن کریم کے پہلے ترجمہ کے چھپوانے کا سوال پیدا ہوا تو میں نے چاہا کہ اس ترجمہ کی اشاعت کا سارا خرچ ہمارا خاندان ہی برداشت کرے.میں نے اس وقت شیخ نور احمد صاحب کو بلوایا اور ان سے کہا کہ اس وقت مجھے دو ہزار روپے کی ضرورت ہے کیا اس قدر روپیہ مہیا ہو سکے گا انہوں نے کہا آپ زمین کا کچھ حصہ مکانات کے لئے فروخت کرنے کی اجازت دے دیں تو پھر جتنا چاہیں روپیہ آجائے گا.چنانچہ میں نے کچھ زمین فروخت کرنے کی اجازت دے دی یہ زمین ۵۰ کنال کے قریب تھی اور اس جگہ واقع تھی جہاں بعد میں محلہ دار الفضل آباد ہوا.تھوڑی دیر کے بعد شیخ صاحب واپس
خطبات محمود جلد سوم آئے اور ان کے ہاتھ میں روپوں کی ایک تھیلی تھی انہوں نے کہا یہ دو ہزار روپیہ ہے اور اگر آپ کو دس ہزار کی بھی ضرورت ہو تو وہ بھی مل سکتا ہے.میں نے کہا اس وقت مجھے اتنے ہی روپیہ کی ضرورت تھی زیادہ کی ضرورت نہیں چنانچہ اس طرح محلہ دار الفضل کی بنیاد پڑی اور وہ روپیہ اشاعت قرآن میں دے دیا گیا.بعد میں اللہ تعالٰی نے فضل کیا اور باغوں کی آمد کے علاوہ زمینوں کی آمد ہی لاکھ دو لاکھ روپیہ سالانہ تک پہنچ گئی اور مزید فضل اس نے مجھ پر یہ کیا کہ میں نے اس آمد کو اپنی ذات پر خرچ کرنے کی کوشش نہیں کی بلکہ ہمیشہ یہ روپیہ میں نے خدمت اسلام پر صرف کیا.اس کے بعد میں نے سندھ میں بھی زمین خریدی اور اس کی آمد بھی ہمیشہ سلسلہ کے کاموں میں ہی خرچ ہوتی رہی چنانچہ اس وقت تک میں دو لاکھ تیس ہزار روپیہ چندہ تحریک جدید کو دے چکا ہوں.اسی طرح ایک زمین چوہدری ظفر اللہ خاں صاحب نے مجھے بطور نذرانہ دی جو ڈیڑھ لاکھ روپیہ کی تھی وہ بھی میں نے تحریک جدید کو دے دی.اسی طرح تھل والی زمین میں نے صدر انجمن احمدیہ کے نام صبہ کر دی ہے.بہر حال اللہ تعالیٰ کا مجھ پر یہ فضل رہا کہ اس نے مجھے دولت کو ضائع کرنے سے محفوظ رکھا.آخر میرے بیوی بچے بھی تھے اور ان کی خواہش تھی کہ میں ان کے آرام کی کوئی صورت پیدا کروں لیکن میں نے ان کی پرواہ نہیں کی بلکہ ہمیشہ اپنی آمد کا اکثر حصہ اشاعت اسلام کے لئے دیتا رہا اور یہ اللہ تعالٰی کا احسان ہے اس پر نہ مجھے کوئی فخر ہے اور نہ کسی تعریف و توصیف کی خواہش ہے.یہ اللہ تعالی کا احسان ہے جس کا شکر ادا کرنے کے لئے اس کے آگے جس قدر بھی ماتھا رگڑا جائے کم ہے.جائدادیں اکثر اوقات انسان کے لئے وبال جان بن جاتی ہیں اور اس سے خاندان تباہ ہو جاتے ہیں.ہاں اگر اللہ تعالی کسی کو عقل دے دے تو وہ ان تباہیوں سے بیچ جاتا ہے.بہر حال میں بتانا چاہتا تھا کہ کس طرح ایک زمانہ میں خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی زبان سے ایک پیشگوئی فرمائی اور پھر اسے پورا کیا.۱۹۰۴ء میں ایک شخص کے متعلق اس نے الہام فرمایا کہ وہ اہل بیت میں سے ہے.کوئی کہہ سکتا تھا کہ یہ یوں ہی ایک گپ بانک دی گئی ہے لیکن کسی کو کیا پتہ تھا کہ ان کے بیٹے کی بیٹی اس خاندان میں بیاہی جائے گی جس میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنے بیٹے کی شادی کی اور آپ کے بعد حضرت خلیفہ اول کے ارشاد پر ہم نے اپنی دوسری بہن کا رشتہ بھی اس خاندان میں کر دیا اور پھر اس
خطبات جلد سوم لڑکی کی لڑکی میرے بیٹے کے نکاح میں آئے گی اور اس طرح صرف روحانی طور پر ہی نہیں بلکہ جسمانی طور پر بھی وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے اہل بیت میں شامل ہو جائیں گے.یہ ایک عظیم الشان پیشگوئی ہے جو اللہ تعالٰی نے پوری فرمائی اور اس طرح حضرت مسیح موعود عليه الصلوۃ والسلام کی صداقت کو اس نے روز روشن کی طرح واضح کر دیا.له الفضل ۱۰ مارچ ۱۹۵۷ء صفحه ا الحکم ۱۴ ستمبر ۱۹۳۵ء صفحه ۴ کے نسائی کتاب النکاح باب إنكاح الابن امه شه الحکم ۱۰ جون ۱۹۰۳ء الفضل ۲۳- نومبر ۱۹۷۰ء صفحه ۲ تا ۴)
ت محمود YAM ۱۵۰ جلد موم مکرم حفیظ الرحمن صاحب کے خاندان کا ذکر خیر (فرموده ۲۸ ستمبر ۱۹۵۷ء) ۲۸ ستمبر ۱۹۵۷ء بروز ہفتہ بعد نماز عصر مسجد مبارک میں حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے مکرم عبد العزیز جمن بخش صاحب آف سورینام (امریکہ) کے نکاح کا اعلان فرمایا یہ نکاح محترمہ امتہ الحفیظ صاحبہ بنت شیخ عبد الکریم صاحب مرحوم آف گجرات سے چار صد پونڈ سٹرلنگ مہر پر ہوا.خطبہ مسنونہ کی تلاوت کے بعد فرمایا : لڑکی کے ماموں حفیظ الرحمن صاحب واحد واقف زندگی کی دیرینہ خواہش تھی کہ ان کی بھانجی کا رشتہ کسی واقف زندگی مبلغ سے ہو.اللہ تعالیٰ نے ان کی یہ خواہش پوری کر دی ہے کیونکہ عبد العزیز جمن بخش صاحب امریکہ سے وقف زندگی کر کے تعلیم کے لئے یہاں آئے تھے اب فارغ ہو کر بطور مبلغ اپنے ملک میں واپس جا رہے ہیں.حضور نے حفیظ الرحمن صاحب کے خاندان کے بارے میں فرمایا کہ یہ ایک پرانا مخلص خاندان ہے اور ذرا اوپر جا کر یہ خاندان حضرت خلیفہ اول کے خاندان سے مل جاتا ہے آپ نے اس خاندان کی اس قربانی کی بھی تعریف فرمائی کہ انہوں نے محض دین کی خاطر دور دراز کے اس رشتہ کو ترجیح دی ہے لڑکی کے دادا شیخ رحیم بخش صاحب اور پڑدادا شیخ الہی بخش صاحب بھی پرانے صحابی تھے.(الفضل یکم اکتوبر ۱۹۵۷ء صفحه (۸)
انڈیکس -۱- آیات قرآنیہ ۲- احادیث -- الهامات حضرت مسیح موعود ۱۳
الفاتحة الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ تغییر آیات قرآنیہ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ (100) إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ ١٩٣ وَلْتَكُنْ مِنْكُمْ أُمَّةٌ يَّدْعُونَ إِلَى الْخَيْرِ الْعُلَمِينَ (٢) إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ (٥) ۳۰۴ رَاجِعُونَ (۱۵۷) ۵۲۱ (۱۰۵) ۵۷۱۵۷۰ أكْثَرُهُمُ الْفُسِقُونَ (11) ٢٠٥ ۳۰۰ هُنَّ لِبَاسٌ لَّكُمْ وَأَنْتُمْ وَمَا مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ لِبَاسٌ لَّهُنَّ (۱۸۸) ۲۵۸ وَعَسَى أَنْ تَكْرَهُوا 192 قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرسل (۱۴۵) عَلَيْهِمْ (۷) البقرة الْحِجَارَةُ أَوْ أَشَدُّ قَسْوَةٌ (۷۵) أَفَتُؤْمِنُونَ بِبَعْضٍ الْكِتَابِ وَتَكْفُرُونَ ۳۸۰ شَيْئًا وَهُوَ خَيْرٌ لَكُمْ (۲۱۷) وَلَهُنَّ مِثْلُ الَّذِي عَلَيْهِنَّ (۲۲۹) عَلَيْهَا مَا اكْتَسَبَتْ ۲۴۹ ۲۴۴ بِبَعْضٍ (٨٦ ) وَمِنْ ذُرِّيَّتِي (۱۲۵) (۲۸۷) ۴۰۶ ۳۰۴ أل عمران ۲۱۴ قُلْ إِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّونَ أَسْلَمْتُ لِرَبِّ الْعَلَمِينَ (۱۳۲) ۳۵۰٬۳۰۲ اللهَ فَاتَّبِعُونِي (۳۲) اخْلُقُ لَكُمْ مِّنَ الدِّينِ وَمِنْ حَيْثُ خَرَجْتَ فَوَل وَجْهَكَ شَطْرَ كَهَيْئَةِ الطَّيْرِ (٥٠) ۱۴ rAr رَبَّنَا إِنَّنَا سَمِعْنَا مُنَادِيًا يُنَادِی (۱۹۴) ۳۵۵٬۳۵۴٬۲۹۶ رَبَّنَا آتِنَا مَا وَعَدْتُنَا عَلَى رُسُلِكَ (۱۹٥) النساء ياَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّكُمُ الَّذِي خَلَقَكُمْ ۳۵۵ HA'AQʻYA'IA (۲) ۲۶۵۱۹۷۱۵۸٬۱۵۲۱۳۱۱۳۹٬۱۳۸ ۴۷۴۲۴۷۱۴۶۹۴۶۸۴۶۱۲۱ فَانْكِحُوا مَا طَابَ لَكُمْ
من النساء (۵۷۷۲۷۸۳۹۸۴ اسْتَجِيْبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ وَيَهْدِي مَنْ يَّشَاءُ الرِّجَالُ قَوَّامُونَ عَلَى النِّسَاء (۳۵) فَابْعَثُوا حَكَمًا مِّنْ أَهْلِهِ وَحَكَمًا مِّنْ اهلها (۳۶) وَمَا أَرْسَلْنَا مِنْ رَّسُولٍ إِلَّا لِيُطَاعَ بِإِذْنِ اللَّهِ (۶۵) مَنْ يَشْفَعْ شَفَاعَةٌ حَسَنَةً يَكُن لَّهُ نَصِيبٌ مِّنْهَا (۸۶) نُؤْمِنُ بِبَعْضٍ وَنَكْفُرُ بِبَعْضٍ (۱۵۱) المائدة بَلِّغْ مَا أُنْزِلَ ۲۲۹ ۶۴ ۲۹۱ ٤٨٦ ۴۶۸ (۲۵) التّوبة إِنَّ اللهَ مَعَنَا (۴۰) (۹۴) ۲۷۳ ٣٣٢ بنی اسرائیل كُلا نُمِد هؤلاء خُذْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ صَدَقَةٌ وَهُوَ لا مِنْ عَطَاءِ تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِمْ (۱۰۳) ۲۷۵ رَبِّكَ (۲۱) الكهف كَمْ لَبِثْتُمْ قَالُوا لَبِثْنَا ۳۰۴ ۲۵۴ يَوْمًا أَوْ بَعْضَ يَوْم (۲۰) ۴۵۷ الرعد وَأَمَّا مَا يَنْفَعُ النَّاسَ الحج فَيَمْكُثُ فِي الْأَرْضِ (IA) ابراهیم رَبَّنَا إِنِّي أَسْكَنْتُ مِنْ ذُرِّيَّتِي بِوَادٍ غَيْرِ ذِى زرع (۳۸) الحجر ۳۴۸ إِنَّ يَوْمًا عِنْدَ رَبِّكَ كَالْفِ سَنَةٍ مِّمَّا تَعُدُّونَ (۴۸) النُّور إِنَّ فِي ذَلِكَ لَعِبْرَةٌ ۴۵۷ ۲۹۴ إِلَيْكَ (٢٨) الاعراف أولَئِكَ كَالْأَنْعَامِ بَلْ هُمْ أَضَلُّ (۱۸۰) الانفال يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا ۶۳۸ ۳۸۰ جَعَلُوا الْقُرْآنَ عِضِيْنَ (۹۲) النَّحل إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ (91) يُضِلُّ مَنْ يَشَاءُ ۴۷۹ لا ولِي الْأَبْصَارِ (۴۵) الفرقان وَاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِينَ إِمَامًا (۷۵) الشعراء لَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَّفْسَكَ الا يَكُونُوا مُؤْمِنِينَ (۴) ۳۰۴
الروم لِتَسْكُنُوا إِلَيْهَا (۲۲) محمد مَا ذَا قَالَ (۱۷) ۲۴۸٬۱۹۷۱۵ | الحجرات ظَهَرَ الْفَسَادُ فِي الْبَرِ وَالْبَحْرِ (۴۲) العنكبوت (۶) يَرْجُوا لِقَاءَ اللهِ (1) إِنَّ الصَّلوةَ تَنْهَى الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرِ (۴۶) ۳۸۱ ۳۱۵ ۴۲۱ إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللَّهِ أَثْقَكُمْ (۱۴) التريت وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ (۵۷) القمر ۴۲ ٣٣٦ الحشر وَلْتَنْظُرْ نَفْسٌ مَّا قَدَّمَتْ لِغَدٍ (۱۹) 'ror'riz'IZA'102'100'10'ZA ۴۲۵۴۴۱۴۴۱۲٬۳۲۴٬۳۱۵٬۳۹۱ ۶۰۳٬۶۰۰٬۵۶۸٬۵۶۷٬۵۶۵٬۴۵۸ الصف حَثْتِ عَدْنٍ (۱۳) الجمعة ۶۲۳ ۴۱۲ الاحزاب سَيُهْزَمُ الْجَمْعُ وَيُوَلَّوْنَ وَأَخَرِينَ مِنْهُمْ لَمَّا قُولُوا قَوْلاً سَدِيدًا (۷۱) ۱۸۲ الدُّبُر (۴۶) ۱۷۸۱۵۹٬۱۵۶٬۱۲۸٬۹۰ ۴۳۸٬۲۱۸ | الرحمن ۵۹۲ يَلْحَقُوا بِهِمْ (۳) ۳۴۲ وَمَنْ يُطِعِ اللَّهَ رَسُولَهُ فَقَدْ فَازَ فَوْزًا عَظِيمًا (۷۲) ۴۳۹ 2° ۴۳۸٬۴۳۵٬۴۳۴۴۲۱۲۱۸ فَأَبَيْنَ أَنْ يَحْمِلْنَهَا وَأَشْفَقْنَ مِنْهَا وَحَمَلَهَا الْإِنْسَانُ (۷۳) ۷۵ وَ مِنْ دُونِهَا جَنَّتْنِ (۶۳) الحديد ۳۲۰ التحريم لِمَ تُحَرِّمُ مَا اَحَلَّ اللَّهُ لك (۲) الدهر ۴۰۸ يُطْعِمُونَ الطَّعَامَ عَلَى وَرَهْبَاتِيَّةُ إِبْتَدَعُوْهَا حبه (۹) ما كَتَبْنَهَا عَلَيْهِمْ (۲۸) ۲۸۱ المجادلة النزعت وَالنَّزِعَتِ غَرْقًا....رَضِي اللهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ (۲۳) (۲ تا ۶) ۴۱۸ ۵۴۰
۳۸۰ الفجر بأَيَّتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّةُ ارْجِعِي إِلَى رَبِّكِ رَاضِيَةً مَّرْضِيَّةٌ (۲۹٬۲۸) البينة شَرُّ الْبَرِيَّة (۷) الماعون فَوَيْلٌ لِلْمُصَلِّينَ (۵)۳۷۲٬۳۱۳ الكوثر إِنَّ شَانِئَكَ هُوَ الْاَبْتَرُ ۳۹ (له )
احادیث ( ترتیب بلحاظ حروف تنجی) 1 ۴۳۴۲۷۱۲۰۴ الْحَمْدُ لِلَّهِ نَحْمَدُهُ الْأَرْوَاحُ جُنُودُ مُجَنَّدَةٌ الْأَعْمَالُ تَخَلَّقُوا بِأَخْلَاقِ اللَّهِ تَزَوَّحُوا الْوَدُودَ الْوَلُودَ خ كُلُّكُمْ رَاعٍ وَكُلُّكُمْ مَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ ل خَيْرُ الْقُرُونِ قَرْنِي ثُمَّ لَا تَشْرِيْبَ عَلَيْكُمُ الْيَوْمَ ۵۱۳۵۱۰ ۵۵۸۱۸۳٬۱۸۲ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ بالنيات ع ٥٥٥٬۴۴۴۰۱۶۸۰۹۹ عَلَيْكَ بِذَاتِ الدِّينِ ۳۸۳ لَا رَهْبَائِيَّةُ فِي الْإِسْلَامِ لَا عَيْنٌ رَاتْ وَلَا أُذُنٌ سَمِعَتْ ۲۸۱ ۳۲۰ ۴۶۹ ٣٩٦ ۴۷۱ اللهُمَّ جَنِّبْنَا الشَّيْطَنَ وَ تَرِبَتْ يَدَاكَ ۳۶۵ لِدُوا لِلْمَوْتِ وَابْنَوا جَنْبِ الشَّيْطَنَ مَا ۷۷۰٬۵۳۷٬۳۶۶ لِلْحَرَابِ رزقتنا ۳۸۴٬۳۶۷ ف لَوْ كَانَ الْإِيْمَانُ مُعَلَّقًا اللهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ فَاظُفُرُ بِذَاتِ الدِّينِ بِالثُرَيَّا ۳۴۴۴۳۴۲ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ ۱۸۸ تَرِبَتْ يَدَاكَ ۷۸ أَوْلِمْ وَلَوْ بِشَاةٍ ۵۰۰ ک أَنَا النَّبِيُّ لَا كَذِبُ أَنَا ابْنُ عَبْدُ الْمُطَلِب اليدُ الْعُلْيَا خَيْرٌ مِّنَ ۳۴۴ الْيَدِ السُّفْلَى ۳۵۱ يُخْزِيكَ الله كُلِّ بِيَمِينِكَ وَكُلِّ مِمَّا يليك كلا والله ما مَا بَيْنَ خَلْقِ أَدَمَ إِلَى قِيَامِ السَّاعَة مَنْ أَطَاعَنِي فَقَدْ أَطَاعَ اللَّهَ وَمَنْ عَصَانِي فَقَدْ عَصَى الله ۳۷۷ ٣٣٨ ۲۸۰ مَنْ كَانَتْ هِجْرَتُهُ إِلَى
۵۰۱ ۴۸۶ ۴۸۲ 109 ۵۱ ۱۳۳ 1+9 اللهِ وَرَسُولِهِ ۵۵۸٬۴۱۱ ہیں....فرمایا تم جانتی نہیں کہ خدیجہ کے اندر کیانیکی تھی ۶۶۹ لئے ہبہ کرتی ہوں جو شخص نیکی کی ترغیب دیتا ہے اور هَلْ لا أَكُونَ عَبْدًا مجلس میں حضرت خدیجہ کی بہن کی دوسرا نیکی کرتا ہے تو وہ نیکی اس کے نام بھی لکھی جاتی ہے یا جوج ماجوج کے زمانہ میں بہت ۶۷۰ آواز سن کر فرمایا.میری خدیجہ میری خدیجہ ۲۹۱ شَكُورًا ی يَتَحَنَّتُ اللِّيَالِي ایک عورت نکاح کے لئے آپ" سے مرد مر جائیں گے اور عورتیں ۲۸۰ کے پاس آئی تو آپ نے اس کے احادیث بالمعنى بیٹے کو ولی بنایا ۴۷۵ کثرت سے ہو جائیں گی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے غسل جو بیوی کے منہ میں لقمہ اس نیت لوگوں کو جمع کیا اور کہا کہ مجھے خدا قَالَ بِيَدِهِ ے ڈالتا ہے کہ اللہ تعالی مجھ سے راضی ہو تو وہ ثواب پاتا ہے ۳۷۵ حضرت امام حسین کے منہ میں انگلی ڈال کر آنحضرت نے صدقہ وحی کے نزول پر آنحضور نے کے ذکر میں آتا ہے کہ نے تمہاری ہدایت کے لئے بھیجا ہے بعض لوگوں کا حساب چند دن دیر تو لوگ آپ کو پاگل اور جھوٹا کہتے میں لیا جائے گا ہوئے منتشر ہو گئے ۵۱۰ آنحضرت جب شہد پی کر آئے تو حضرت ابوبکر اور حضرت عمر کا بیویوں نے کہا کہ آپ کے منہ سے کسی بات پر جھگڑا ہو گیا دونوں نے بو آتی ہے کی کھجور نکال لی ۳۶۷ حضرت عبد الرحمان بن عوف سے حاضر ہو کر عرض کی کہ قصور میرا آنحضرت کا استفسار کہ کپڑوں پر تھا ۵۱۲ آنحضرت صحابہ کے سامنے حضرت عائشہ کے ساتھ دوڑے داغ کیسے ہیں.عرض کیا میری شادی ہوئی ہے آپ نے فرمایا آدھا دین تم عائشہ سے سیکھو ۶۳۲ آنحضرت کے دعویٰ نبوت کی خبر نکاح سے قبل لڑکی کو دیکھنا جائز ہے سن کر حضرت ابو بکر سید ھے آپ بطور مهر قرآن کریم کی کسی سورۃ ۷۲ کے پاس پہنچے ۵۱۱ کا حفظ کروا دیتا ۵۹ ۶۶۹ ایک عورت آئی اور کہا کہ یا رسول ایک انگشتری بطور مہر مقرر کرنا ۵۹ حضرت عائشہ نے کہا آپ ہر وقت اللہ میں اپنے آپ کو حضور کے تمہیں تمہیں ہزار مہر بھی مقرر ہوا ہے ۵۹ خدیجہ خدیجہ کیوں کرتے رہے
ایک شخص نے عمارت بنوائی.ظہر کے لئے...۱۸۴ ڈالتے ہیں تک کام کرنے والوں کو ایک ایک حضرت عائشہ " کا کھانا کھاتے ہوئے مسیلمہ کذات نے آنحضرت سے کہا دینار دیا.ظہر سے عصر تک والوں روتے جاتا اور پوچھنے پر کہنا کہ کہ میرے پاس ایک لاکھ فوج ہے کو بھی ایک دینا ر دیا رسول کریم کے وقت میں چکی آنحضرت کا فرمانا کہ اگر کوئی لسان اچھی نہ تھی اور آٹا موٹا بنتا تھا ۳۵۵ میں آپ سے صرف یہ چاہتا ہوں کہ آپ اپنے بعد خلافت مجھے عطا کریں ۴۰۲ اور طرار شخص دھوکا سے مجھ سے ابوبکر کا درجہ نمازوں کی وجہ سے مکہ کے لوگ آنحضرت " کے پاس اپنے حق میں فیصلہ کر والے تو وہ اپنے گھر جنم کا حصہ لے آیا ۲۶ نہیں بلکہ اس چیز کی وجہ سے ہے جو ان کے دل میں ہے ۳۲۱٬۳۲۰ آئے اور عرض کیا کہ ہمارے بتوں کو برا کہنا چھوڑ دیں ۴۰۵ جو شخص اپنی دو لڑکیوں کو تعلیم دیتا حضرت عائشہ کے سر میں درد تھا آنحضرت نے فرمایا بہترین گھر وہ ہے اور آداب سکھاتا ہے وہ اپنے لئے آنحضور نے فرمایا اگر اسی سردرد جس میں تہجد کے وقت اگر بیوی کی جنت میں گھر بناتا ہے ۳۶۷ آنکھ نہیں کھلتی تو خاوند پانی کا چھینٹا اور میری زندگی میں تمہاری وفات ہو جاتی تو میں تمہارے لئے استغفار کوئی بیوی بر تن سے جہاں منہ لگا کر ۳۷۵ 144 اس کے منہ پر مارتا ہے....دائیں ہاتھ سے کھاؤ اور سامنے آنحضرت نے فرمایا کہ شادی نہ سے کھاؤ آنحضرت نے سوال کرنے سے منع پانی پیتی آپ بھی اسی مقام پر منہ لگا کرنا کر پانی پیتے ایک شخص نیکیاں کرتا کرتا جنت فرمایا ہے 129 کے قریب پہنچ جاتا ہے کہ اسے ایسا جو شخص دو بیویوں سے مساوی کرنے والے کی عمر ضائع ہو گئی اور سلوک نہیں کرتا وہ ایسے حال میں جھٹکا لگتاب جس سے وہ دوزخ میں جاپڑتا ہے آنحضرت نے نکاح سے قبل استخارہ کا حکم دیا ٣١٣ وہ دنیا سے بطال گیا ۵۳۶ ۵۲۵ آنحضرت " سے ایک شخص نے اٹھے گا کہ اس کا آدھا دھڑ ہوگا اور آدھا نہیں ہو گا ۷۸۷۱ جب کوئی عورت اپنے میاں کی ۲۱۴ غربت کا اظہار کیا تو آپ نے اس کو شادی کرنے کا مشورہ دیا آنحضرت نے فرمایا کوئی حسن کے محبت کی گھڑیوں کی بات سہیلیوں جب بچہ پیدا ہو تو اس کے کان لئے شادی کرتا ہے کوئی مال میں اذان کی جائے سے کرتی ہو تو فرشتے اس پر لعنت ۴۸۰ rar
آنحضرت کہا کرتے تھے کہ یا اللہ سواریوں کو موڑنے کی کوشش کرنا بار بار دہرانے پر ایک انصاری نے ابو بکر کو میرے ساتھ رکھ ۳۳۲ اور نہ مڑنے پر سواریوں کہا.ہم آپ کے آگے بھی لڑیں حضرت ابو بکر اور حضرت عمر کے کی گردنیں اڑا دینا ۳۴۴۴۳۴۳ گے اور آپ کے پیچھے بھی لڑیں گے yor'yor اختلاف نے مشاجرت کی صورت سے محبت بڑھتی ہے ٣٠٢ آنحضرت نے ایک صحابی کے سپرد درمیان اختلاف رائے ہو گیا اور آنحضرت نے فرمایا تحائف دینے اختیار کر لی.حضرت ابوبکر غصہ حضرت عمرو بن عاص کا فرمانا کہ ایک مہمان کیا.گھر میں صرف ایک میں آنحضرت کے پاس چلے گئے اور ایمان لانے سے قبل میں بغض اور آدمی کا کھانا تھا.کھانے کے وقت آنحضرت نے فرمایا کہ کیا تم لوگ عناد کی وجہ سے آپ کے چہرہ کی مجھے اور ابو بکر کو نہیں چھوڑتے ۳۳۲٬۳۳۱ طرف نہ دیکھ سکتا تھا....۲۹۲ بیوی نے بھی اوپر کرنے کے بہانے دیا گل کر دیا اور دونوں میاں بیوی آنحضرت نے فرمایا کسی کی منہ پر قحط پڑنے پر لوگوں کا حضرت عمر محض مچا کے لیتے رہے تعریف کرنا اس کی ہلاکت کا باعث ہے ۱۷۲ سے دعا کے لئے کہنا اور آپ کا دعا جنگ احد میں ایک انصاری صحابی کا کرنا کہ انہی ! پہلے تیرا نبی ہم میں تھا آخری حالت میں اپنے عزیزوں آنحضرت نے فرمایا کہ جب رجال وہ دعا کیا کرتا تھا اور تو قبول کرلیتا آیا اگر اس وقت میں زندہ ہوا تو تمہاری طرف سے بحث کروں گا ۳۴۲ تھا.....۲۸۱ اور رشتہ داروں کے نام پیغام کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہم مکہ فتح ہوا تو صحابہ نے آنحضرت" میں اللہ تعالی کی امانت ہیں شاه ایران کے بھیجے ہوئے سپاہیوں سے پوچھا کہ آپ کہاں ٹھہریں جنت ماؤں کے قدموں کے نیچے کو آنحضرت کا جواب کہ تمہارے گے.فرمایا میں کیا کہہ سکتا ہوں ۴۱۸ ۵۳۴ خدا کو میرے خدا نے آج رات ہلاک کر دیا ہے ہمارا تو کوئی گھر رشتہ داروں نے باقی نہیں چھوڑا ۶۰۱ آنحضرت کے پاس ایک شخص نے ذکر کیا کہ میرے دل میں شکوک پیدا جنگ میں حضرت عباس کا پکارنا کہ بدر کے موقع پر آپ کے مشورہ ہوتے ہیں تو میں ان کو دبا لیتا ہوں.اے انصار ! خدا کا رسول " تمہیں طلب کرنے پر مہاجرین نے مشورہ آپ نے فرمایا یہی تو ایمان ہے بلاتا ہے.آواز سن کر صحابہ کا دیا اور انصار خاموش رہے.ایک شخص نے عرض کیا یا رسول" ۴۲۹
11 اللہ ! میں ایک شخص کے متعلق بھی آنحضرت نے فرمایا کہ لڑکی کا باپ آنحضرت نے ایک شادی کی تو اس بات کہتا ہوں تو وہ گناہ کیسے ہو جاتی فوت ہو گیا ہو تو اس کا کوئی بھائی جو عورت کا والد فوت ہو چکا تھا اور ہے؟ فرمایا اگر بات سچ نہ ہو تو وہ موجود ہو چاہے وہ چھوٹی عمر کا ہی ہو صرف ایک بھائی تھا جس کی عمر ۸-۹ جھوٹ ہو گا لیکن سچ کہنے میں اس کا اختیار رکھتا ہے کہ اپنی بہن کی سال کی تھی آپ نے فرمایا وہی کافی نام غیبت ہو گا ۴۴۰۴۳۹ شادی کرے ۶۷۸ ہے شریعت نے اسے حق حضرت خدیجہ نے اپنا سارا مال نیکی کا نتیجہ نیک نکلتا ہے بشرطیکہ اسے دیا ہے اور غلام آنحضرت " کے سپرد کر ہمیشہ قائم رکھا جائے دیئے اور آنحضرت نے اس وقت سب کو آزاد کر دیا ۶۶۸۶۶۷ ۶۷۰ آنحضرت نے فرمایا جب تک عبد الرحمان بن عوف زندہ ہے میری امت میں فساد نہیں ہو گا
الهامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام عربی الهامات عِنْدِهِ وَلَوْلَمْ يَعْصِمُكَ زندگی کے فیشن سے دور جا پڑے ۱۴۷ إِنِّي مَعَ الرَّسُولِ أَقُومُ وَالُومُ مَنْ تَلُومُ تَى نَسْلاً بَعِيدًا ۵۸۶ النَّاسُ ۸۲ قادر ہے وہ بارگاہ جو ٹوٹا کام بنا دے بنا بنا یا توڑ يَأْتُونَ مِنْ كُلِّ فَجٍّ عَمِيقٍ ۵۶۲ دے کوئی اس کا بھید نہ پارے يَأْتِيكَ مِنْ كُلِّ فَجٍّ جَاءَ الْحَقُّ وَزَهَقَ ۵۴۲ الْبَاطِلُ إِنَّ الْبَاطِل كَانَ زَهُوقًا سَلَامٌ عَلَى إِبْرَاهِيمَ فَحَانَ أَنْ تُعَانَ وَ تُعْرَفَ بَيْنَ النَّاسِ كُلُّ الْفَتْحِ بَعْدَهُ ۵۸۶ ۵۷۳ ۵۸۵ عَمِيقٍ يَادَمُ اسْكُنُ أَنْتَ ۵۶۲ میں تیری تبلیغ کو زمین کے کناروں تک پہنچاؤں گا وَزَوْجُكَ الْجَنَّةَ ۲۷۰۲۴۷ یہ جو مسجد مبارک کے پاس مکان ہے اردو الهامات اس میں ہم کچھ حسنی طریق سے افسوس ناک خبر آئی ہے اہل بیت میں سے کسی شخص کی بہتر ہو گا کہ اور شادی کرلیں ۵۸۶ ۶۷۸ ۵۸۶ داخل ہوں گے اور کچھ حسینی طریق سے كُلُّ أَمْرٍ مُبَارَكٌ يُجْعَلُ وفات ہوئی ہے فِيهِ مَظْهَرُا لْحَقِّ وَالْعَلَاءِ كَانَّ اللَّهَ نَزَلَ مِنَ السَّمَاء وَسِعُ مَكَانَكَ وَاللَّهُ يَعْصِمُكَ مِنْ ٣٠٨ ۵۸۵ ۵۳۰ پسپا شده هجوم دنیا میں ایک نذیر آیا پر دنیا نے اس کو قبول نہ کیا لیکن خدا اسے قبول کرے گا اور بڑے زور آور حملوں ۵۸۶ سے اس کی سچائی ظاہر کر دے گا ۸۲٬۳۸ ۳۸ ۴۰
بائبل اپنے لئے آسمان پر مال جمع کرو جہاں نہ کیڑا خراب کرتا ہے نہ زنگ اور نہ وہاں چور نقب لگاتے اور چراتے ہیں ۳۲۵ حاشیه اپنے لئے آسمان پر مال جمع کرو جہاں نہ کیڑا خراب کرتا ہے......۳۱۵ ماشیہ پس ساؤل نے میتی کے پاس قاصد روانہ کئے اور کہلا بھیجا کہ اپنے بیٹے داؤد کو جو بھیٹر بکریوں کے ساتھ رہتا ہے میرے پاس بھیج دے ۴۹۱ حاشیہ اور خداوند نے کہا کہ آدم کا اکیلا رہنا اچھا نہیں اس کے لئے ایک مدد گار اس کی مانند بتاؤں گا ۲۳۸ حاشیہ مسیح جو ہمارے لئے لعنتی بنا اس نے ہمیں مول لیکر شریعت کی لعنت سے چھڑا یا...۵۰۴ حاشیه ۱۴
جلد سوم ۱۵ خطبات محمود نمبر شمار نام خاوند ( زوج) ۴ فهرست فریقین نکاح نام اہلیہ (زوجہ ) خطبہ نمبر صفحه پیرا کبر علی صاحب وکیل ممتاز بیگم دختر مرزا ناصر علی صاحب وکیل قاضی عبدالحق صاحب محمد بی بی بنت جمال الدین صاحب منشی فرزند علی صاحب بنت شیخ عبدالرحیم صاحب قاضی عبد اللطیف صاحب ام کلثوم بنت قاضی حبیب اللہ لاہور مولوی غلام محمد صاحب میمونہ بنت منشی حبیب احمد صاحب سردار بیگم بنت میاں گوہر علی صاحب سر بلند خان صاحب ماسٹر شیر عالم صاحب ۴ ۶ ± 12 I ۲۵ ۲۵ ۲۵ ۲۲ ۲۵ 노오오오오 Λ Λ ۲۵ ۲۵ ۲۵ ۲۹ 13⑆⑆0003 Α ۹ ۲۹ ۲۹ ۹ ۲۹ ۳۱ حمیدہ بیگم ہمشیرہ بابو محمد حسین صاحب احمد صاحب دانی صاحبہ جان صاحب محمد بی بی صاحبہ مولا بخش صاحب سکینہ صاحبہ محمد ظریف صاحب بی بی فاطمه جمیلہ بنت مولوی محمد احسان الحق صاحب بھاگلپوری غلام قادر صاحب فاطمہ بیگم صاحبہ جھنڈ و صاحب زینب بی بی صاحبہ عبد الغنی صاحب سلطانیہ بیگم صاحبہ فیروز دین صاحب حرمت بی بی صاحبہ معراج الدین صاحب خاور رشید صاحبه عبد القدوس صاحب فضل بی بی صاحبہ محمد اسماعیل صاحب صغری بیگم صاحبہ ڈاکٹر عطر الدین صاحب نصرت بانو بنت سید عزیز الرحمن صاحب Δ ۹ 1.۱۲ ۱۳ ۱۴ ۱۵ ۱۶ 16 ۱۸ ۱۹
خطبات محمود نمبر شمار | نام خاوند ( زوج) ۲۰ 14 جلد سوم نام اہلیہ (زوجہ ) خطبہ نمبر صفحه مرزا گل محمد صاحب ولد مرزا رضیہ بیگم صاحبہ بنت ڈاکٹر خلیفہ رشید نظام دین صاحب الدین صاحب ۳۲ है ۴۲ ۱۲ ۴۹ ۴۹ ۴۹ 7 7 2 2 2 777 ۲۱ ۲۳ 구구 ۲۲ ۲۴ ۲۵ ۲۶ نام مذکور نہیں امتہ العزیز صاحبہ بنت قاضی فضل کریم صاحب بھیروی عزیز احمد صاحب عظیمہ بیگم صاحبہ مهرالدین صاحب ریشم بی بی صاحبہ بابو غلام رسول صاحب حلیمہ بیگم صاحبہ بنت بابو فقیر علی صاحب روشن دین صاحب امینه بی بی صاحبہ عصمت اللہ خان صاحب پر نصیرہ بیگم صاحبہ چوہدری فضل احمد خان صاحب ۲۷ شیخ غلام فرید صاحب بی.اے نواب بیگم صاحبہ ہمشیرہ شیخ فضل حق ۲۸ ۲۹ i ۳۱ صاحب بٹالوی سید مهدی حسین صاحب پسرسید رقیہ بیگم صاحبہ بنت ڈاکٹر سید غلام حسین ولایت علی شاہ صاحب صاحب حصار میر غلام حیدر صاحب ساکن خیر انعام الی صاحبہ بنت مولوی احمد حسن پور میری صاحب مظفر نگر میاں عنایت اللہ صاحب قادیانی غلام فاطمہ صاحبہ بنت حکیم عبدالله ماسٹر نذیر احمد صاحب صاحب کپور تھلہ مزمل بیگم صاحبہ بنت مرزا حسین بیگ صاحب سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب مر النساء بیگم صاحبہ بنت امیر محمد خان صاحب ڈاکٹر سید محمد حسین شاہ صاحب صفیہ بیگم صاحبہ ہمشیرہ سکینۃ النساء اہلیہ قاضی محمد اکمل صاحب عبدالحمید احمدی صاحب پر کرم فضل بی بی صاحبہ بنت مولوی عمر الدین بخش صاحب جالندھری صاحب شملوی ۱۴ ۵۲ ۱۵ ۶۲ = = ۶۲ لا ۱۷ ۶۶ ۱۸ ۷۳ ۲۱ ۸۰ ۲۲ ΛΥ ۲۳
خطبات محمود 16 جلد سوم نمبر شمار نام خاوند ( زوج) نام اہلیہ (زوجہ ) خطبہ نمبر صفحه ۳۵ ظہور الدین صاحب دھرم کوئی خورشید بیگم صاحبہ بنت محمد الدین صاحب ڈاکٹر محمد عالم صاحب وٹرنری فیروزه بیگم صاحبہ بنت بابو محمد عمر حیات ۳۶ اسٹنٹ صاحب ۳۷ خان محمد اوصاف علی خان صاحب امتہ اللہ سلیمہ بیگم صاحبہ بنت جناب ۳۸ ۳۹ ۴۰ ۴۱ 3 مولوی ذوالفقار علی خان رامپوری میاں چراغ صاحب پر اللہ دتہ صاحب سید بی بی صاحبہ بنت محمد دین صاحب محمد اسماعیل صاحب ولد نظام مریم صاحبہ بنت محمد عبد اللہ صاحب الدین صاحب AY ۲۳ ۲۴ > ۹۲ ۲۵ ۹۵ ۲۶ ۲۷ احمد اللہ خان صاحب ولد قدرت فاطمہ صاحبہ بنت ڈاکٹر محمد عبد اللہ صاحب ۳۵ اللہ خان صاحب ملک احمد حسین صاحب ولد ملک نیاز بیگم صاحبہ بنت بابو عبد الرحیم ۳۷ غلام حسین صاحب صاحب احمدی ۴۲ شیخ یوسف علی صاحب پر شیخ نواب بی بی صاحبہ بنت میاں غلام حیدر یعقوب علی صاحب ایڈیٹر محکم صاحب ۴۳ سید صادق علی صاحب ولد سید سلمی صاحبہ بنت سید محبوب عالم صاحب امداد على صاحب امبينها ۴۴ سید احمد نور صاحب کابلی سعیدن صاحبہ ۴۵ سید محمد یوسف صاحب عرائض نویس امتہ الحفیظ صاحبہ بنت مولوی اللہ دتہ صاحب 3 ۴۷ ولد مولوی سید احمد حسین صاحب بابو عنائت الهی صاحب ولد چراغ حمیدہ بیگم صاحبہ بنت امیر خان صاحب دین صاحب عطاء اللہ صاحب ولد مولوی محمد فاطمہ صاحبہ بنت فضل دین صاحب عبد الله صاحب احمد می مردان احمدی سب اوور میٹر پشاور ۴۸ ڈاکٹر شمس الدین صاحب بنت شیخ غلام احمد صاحب ۹۷ ۱۲۰ ۱۲۶ ۱۳۱ ۳۹ ۴۱ 3 쿠크 ۴۴ ۱۳۵ ۱۳۵ ۱۴۰ الده ۱۵۰ ۴۶ ۱۵۳ ۴۷
خطبات نمبر شمار نام خاوند ( زوج) ۴۹ 3 ۵۱ ۵۲ ۱۸ نام اہلیہ (زوجہ ) جلد سوم خطبہ نمبر صفحه میاں عبدالسلام صاحب خلف محمودہ صاحبہ بنت چوہدری ابوالہاشم خان ۴۹ حضرت خلیفۃ المسیح الاول صاحب بنگال میاں محمد ظہور صاحب پٹیالہ برادر سکینہ صاحبہ بنت میاں عبد الحق صاحب میان و خورد ڈاکٹر حشمت اللہ خان صاحب بدو ملی میاں عبدالرحیم صاحب پسر میاں بنت شیخ محمد حسین صاحب منصف زیره غلام محمد صاحب امرتسری شریف احمد صاحب پسر میاں رشیدہ صاحبہ بنت میاں عبدالرشید عبد العزیز صاحب صاحب Ē ۱۶۹ ۵۰ ۱۷۲ ۵۱ ۱۷۳ ۵۲ ۵۳ نصیر احمد صاحب پسر میاں زبیدہ صاحبہ بنت حکیم غلام غوث ۵۲ ۵۴ ۵۵ ۵۶ نورالدین صاحب راولپنڈی.صاحب امرتسری میاں عبدالرحیم صاحب سردار بیگم صاحبہ بنت محمد اسمعیل ڈرانسمین شملہ صاحب ۵۲ مرزا رشید احمد صاحب خلف صاحبزادی امتہ السلام صاحبہ بنت حضرت ۵۵ الرشید خان بهادر مرزا سلطان صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب احمد صاحب میاں عبدالرحیم خان صاحب سلیمہ بیگم صاحبہ بنت مولانا سید محمد سرور ۵۶ ہزاروی شاہ صاحب ۵۷ حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد حضرت ساره بیگم صاحبہ بنت مولوی ۵۷ صاحب خلیفہ المسیح الثانی عبد الماجد صاحب بھاگلپوری ۵۸ ۵۹ حضرت حافظ روشن علی صاحب امتہ المجید صاحبہ بنت ابو عبید اللہ حافظ غلام رسول صاحب و زیر آبادی ۱۷۳ IAY ۱۹۵ 69 ١٩٩ ۲۱۰ ۵۸ مرزا برکت علی صاحب آبادان امته الرحیم صاحبہ بنت بھائی عبد الرحیم ۵۹ ۲۱۶ صاحب قادیانی
خطبات محمود نمبر شمار نام خاوند (زوج) ۶۱ ۶۲ ۶۳ ۶۴ ۶۵ ۶۶ = ۱۹ جلد سوم نام اہلیہ (زوجہ ) خطبہ نمبر صفحه عبد العزیز صاحب اوور میٹر بشارت خاتون صاحبہ بنت شیخ مولا بخش گوجرانوالہ صاحب سید وزارت حسین صاحب صابرہ صاحبہ بنت مولوی منیر الدین صاحب عبد العزیز صاحب ولد عمر دین مسعوده بیگم صاحبہ بنت مولوی محمد علی صاحب بد و ملی صاحب صریح ۲۲۰ ۶۰ = ۲۲۲ ۲۲۲ ۶۱ فضل الرحمان صاحب سامانوی ظهورن صاحبہ بنت منشی محمد مستقیم ۶۲ صاحب سنور جمیل الرحمان صاحب سامانوی رشیدن صاحبہ بنت منشی محمد مستقیم ۶۲ صاحب سنور چوہدری سردار خان صاحب ولد عائشہ بیگم صاحبہ بنت چوہدری چراغ دین ۶۳ اصالت خاں صاحب صاحب اوصاف علی خان صاحب اقبال بیگم صاحبہ بنت چوہدری نعمت خان ۶۴ صاحب سب حج ۶۷ چوہدری فتح محمد صاحب سیال صادقہ بیگم صاحبہ بنت مرزا محمود بیگ صاحب ۶۸ صوفی غلام محمد صاحب بی.اے استانی فاطمہ بیگم صاحبہ ۶۹ ง لاد کو مد ۲۲۷ ۲۲۷ ۲۲۹ ۲۳۳ ۲۳۹ ۲۴۳ YY ۲۴۶ میاں عبدالسلام صاحب ابن سعیدہ بیگم صاحبہ بنت حضرت مفتی محمد ۶۷ حضرت خلیفة المسیح الاول صادق صاحب شیخ داؤد احمد صاحب پر شیخ بلقیس بیگم صاحبہ بنت بابو فیروز علی یعقوب علی صاحب عرفانی صاحب ۲۵۴ ۶۹ مولوی علی محمد صاحب مولوی عائشہ بیگم صاحبہ بنت بھائی عبدالرحیم اے اے فاضل اجمیری ۷۲ صاحب مرزا عزیز احمد صاحب خلف مرزا نصیرہ بیگم صاحبہ بنت حضرت میر محمد سلطان احمد صاحب اسحاق صاحب ۲۵۹ ۲۶۳ ۷۲
خطبات محمود جلد سوم نمبر شمار نام خاوند ( زوج) نام اہلیہ (زوجہ ) خطبہ نمبر صفحه مولوی غلام محمد خان صاحب امتہ العزیز بیگم صاحبہ بنت قاضی ۷۳ ۲۷۳ عبدالرحیم صاحب بھٹی ۷۴ ۷۵ محمد فقیر اللہ صاحب انسپکٹر مدارس مبارکہ بیگم صاحبہ بنت ڈاکٹر ظفر حسن صاحب خواجہ علی صاحب بشری بیگم صاحبہ بنت قاضی امیر حسین صاحب لا لا سیٹھ محمد اعظم صاحب پر سیٹھ عزیز النساء بیگم صاحبہ بنت حکیم محمد ۷۸ محمد غوث صاحب حیدر آباد دکن حسین صاحب قریشی لاہور ۷۷ حکیم خلیل احمد صاحب زبیده خاتون صاحبه بنت خان ذوالفقار مونگهیری علی خان صاحب ۷۸ (اغلبا چوہدری محمد حسین صاحب) ہمشیرہ حکیم فضل الرحمان صاحب ง ۷۹ ۲۸۴ ۲۸۹ ۲۹۴ ۲۹۹ ۷۹ ۸۴ زینب صاحبہ بنت مولوی غلام رسول ۸۵ ۳۱۰ ۳۱۳ ۳۱۸ چوہدری نور محمد صاحب صاحب او جله ۸۰ سید کرم شاہ صاحب ناصرہ بیگم صاحبہ بنت سید مرزا محمود بیگ ۸۶ صاحب ۳۲۲ AL ۳۲۶ ۳۲۹ محمود شاہ فضل الرحمان صاحب پسر مولوی حفیظ بیگم صاحبہ بنت سید فضل الہی صاحب صاحب عبد الجلیل شاہ صاحب پسر میر حامد رضیہ بیگم صاحبہ بنت سید حبیب اللہ شاہ صاحب شاہ صاحب ابن محمد اسماعیل صاحب حمیدہ بیگم صاحبہ بنت چوہدری برکت علی ۸۹ خان صاحب حسین ۳۳۱ ۹۰ ۳۳۶ ۹۱ ملک سعید احمد صاحب ولد ملک محمودہ خاتون صاحبہ بنت سید غلام مولا بخش صاحب صاحب حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحبزادی منصوره بیگم صاحبہ بنت حضرت نواب محمد علی خان صاحب صاحب Al ۸۲ ۸۳ ۸۴ ۸۵
محمود نمبر شمار نام خاوند ( زوج) جلد سوم نام اہلیہ (زوجہ ) خطبہ نمبر صفحه ΔΥ صاحبزادہ مرزا منصور احمد صاحب صاحبزادی ناصرہ بیگم صاحبہ بنت حضرت ولد حضرت مرزا شریف احمد مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب خلفية المسیح الثاني صاحب ۸۷ ناظر حسین صاحب اقبال بیگم صاحبہ بنت ابو محمد اسماعیل صاحب ۸۸ چوہدری فتح محمد صاحب سیال رقیه بیگم صاحبہ بنت سید محمد اللہ شاہ صاحب نام مذکور نہیں چوہدری سردار احمد صاحب.۸۹ ۹۰ ۹۱ ۹۲ ۹۳ ۹۴ ۳۳۶ ۹۱ ۳۵۸ ۹۲ ۳۶۰ ۹۳ ۳۶۵ ۹۴ ۳۷۴ غلام محمد صاحب ولد میاں مہتاب صفیہ بیگم صاحبہ بنت مولوی غلام رسول ۹۷ دین صاحب پیر کوٹ صاحب را جیکی احمد خان صاحب ولد حکیم محمد زینب بی بی صاحبہ بنت مولوی غلام اسماعیل صاحب پیر کوٹ رسول صاحب را جیکی (نواب) محمد احمد خان صاحب ولد صاحبزادی امتہ الحمید بیگم صاحبہ بنت حضرت نواب محمد علی خان حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ایم اے صاحب مولوی عبد السلام صاحب عمر ولد صغری بیگم صاحبہ بنت حضرت میر محمد حضرت حکیم مولوی نور الدین سعید صاحب حیدر آبادی صاحب خلیفة المسیح الاول محمد عبد السلام صاحب پر مولوی مسلمہ خاتون صاحبہ بنت چوہدری محمد عبدالسبحان صاحب ابوالہاشم خان صاحب ۳۷۴ ۹۷ ۹۸ ۳۹۳ 1•• ۴۱۰ ۱۰۲ ۹۵ محمود الحسن صاحب ولد ڈاکٹر لعل زینب صاحبہ بنت سیٹھ عبد اللہ الہ دین ۱۰۴ ۹۶ ۹۷ محمد صاحب صاحب سکندر آبادی مولوی محمد اعظم صاحب بو تالوی امتہ الحفیظ صاحبہ بنت پیر محمد عبد الله صاحب قریشی میاں محمد حفیف صاحب ولد ڈاکٹر ہاجرہ بیگم صاحبہ ہمشیرہ مولوی ابو العطاء محمد ابراہیم صاحب سروعہ صاحب جالندھری ۴۲۳ ۴۲۷ ۱۰۵ ⑆ ۴۳۱
الخطبات نمبر شمار نام خاوند ( زوج) جلد سوم نام اہلیہ (زوجہ ) خطبہ نمبر صفحه ۹۸ ۹۹ : 1+1 ۱۰۲ ملک عبدالرحمان صاحب خادم زمانی بیگم صاحبہ بنت خان بهادر آصف ۱۰۸ گجراتی زمان خان صاحب پیلی بھیت سید مقبول احمد صاحب ہوشیار مسعوده بیگم صاحبہ بنت سید محمد علی شاہ پور صاحب قادیان محمد رفیق صاحب ولد شیخ محمد ناصرہ بیگم صاحبہ بھیجی ڈاکٹر حشمت اللہ ابراہیم صاحب کانپوری خان صاحب 11.میاں عبد الوہاب عمر خلف حضرت امتہ اللطیف بیگم صاحبہ بنت مفتی حکیم ۱۱۲ حکیم مولوی نور الدین صاحب فضل الرحمان صاحب خليفة المسيح الاول صاحبزادہ مرزا مظفر احمد صاحب صاحبزادی امتہ القیوم صاحبہ بنت حضرت ولد حضرت مرزا بشیر احمد صاحب مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب خلیفة المسیح الثانی صاجزادہ مرزا مبارک احمد طیبہ بیگم صاحبہ بنت نواب محمد عبد الله صاحب ولد حضرت مرزا بشیر خان صاحب الدین محمود احمد صاحب خليفة المسیح الثاني ۱۰۴ چوہدری خلیل احمد ناصر صاحب امتہ الحفیظ بیگم صاحبہ بنت سیٹھ محمد غوث ۱۰۵ ۱۰۶ I بی.اے صاحب پیر صلاح الدین صاحب املہ اللہ بیگم صاحبہ بنت حضرت میر محمد اسماعیل صاحب صاحبزادہ مرزا ظفر احمد صاحب ولد نصیرہ بیگم صاحبہ بنت مرزا عزیز احمد صاحب خلف حضرت مرزا شریف احمد صاحب حضرت مرزا سلطان احمد صاحب ۴۴۲ ۴۵۱ ۴۵۶ ۴۶۱ ۴۸۴ ۴۸۴ ۱۱۴ g ۴۹۲ ۱۱۵ ۱۱۷ ۴۹۳ ۵۰۵
خطبات نمبر شمار نام خاوند ( زوج) جلد سوم نام اہلیہ (زوجہ ) خطبہ نمبر صفحہ ۱۰۷ میاں عبدالرحیم احمد صاحب ولد صاحبزادی امتہ الرشید بیگم صاحبہ بنت پروفیسر علی احمد صاحب حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب بھاگلپوری خلیفة المسیح الثانی ۱۰۸ صاحبزادہ مرزا حمید احمد صاحب صاحبزادی امتہ العزیز بیگم صاحبہ بنت 109 11+ ۱۱۲ ۱۱۳ དྭཱ ᎫᏛ.۱۱۵ ولد حضرت مرزا بشیر احمد صاحب حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب خلیفة المسیح الثانی ۵۲۳ ۱۱۸ ۱۱۸ S ۵۲۳ ۵۳۰ 119 مرزا عزیز احمد صاحب پسر مرزا امتہ الرشید بیگم صاحبہ بنت مرزا محمد شفیع ۱۱۹ عطاء اللہ صاحب لاہور صاحب محاسب صد را مجمن احمدیه ملک عمر علی صاحب رئیس مامان سیدہ بیگم صاحبہ بنت حضرت میر محمد - ۱۲۰ اسحاق صاحب شیر علی صاحب ولد علی محمد بھائی امتہ الحفیظ بیگم صاحبہ بنت سیٹھ عبد الله ۱۲۱ صاحب اله دین صاحب سکندر آباد محمد یونس صاحب ولد عبد العزیز امتہ الحئی بیگم صاحبہ بنت سیٹھ محمد غوث ۱۲۲ صاحب حیدر آباد دکن صاحب کرنال عبدالرحیم خان صاحب ولد ناصرہ بیگم صاحبہ بنت حضرت مولانا سید - ۱۲۳ عبد اللہ خاں صاحب افغان محمد سرور شاہ صاحب سید نذیر احمد صاحب ولد سید محمد حمیدہ بیگم صاحبہ بنت ماسٹر احمد حسین ۱۲۳ صاحب فرید آبادی احمد صاحب امرتسر میاں صلاح الدین صاحب ولد اقبال جہاں بیگم صاحبہ بنت کیپٹن عمر ۱۲۴ مولوی فضل الدین صاحب وکیل حیات خان صاحب ۱۱۶ مولوی نور الحق صاحب 117 صفیہ صدیقہ صاحبہ بنت قاضی محمد رشید ۱۲۶ احمد صاحب ۱۱۷ سید محمد اکمل صاحب صادقہ بیگم صاحبہ بنت مرزا قدرت اللہ صاحب ۵۳۲ ۵۳۹ ۵۴۸ ۵۵۵ ۵۵۵ ۵۷۰ ۵۷۰ ۱۲۶
خطبات محمود ۲۴ جلد سوم نمبر شمار نام خاوند ( زوج) 119 ۱۲۰ ۱۲۱ ۱۲۲ ۱۲۳ ۱۲۴ ۱۲۵ نام اہلیہ (زوجہ ) خطبہ نمبر صفحه حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد حضرت سیدہ بشری بیگم صاحبہ بنت سید صاحب خلیفة المسیح الثانی عزیز اللہ شاہ صاحب ڈاکٹر محمد احمد صاحب ولد ڈاکٹر امتہ اللطیف صاحبه بنت خان محمد اشرف ۱۲۸ حشمت اللہ خان صاحب صاحب فیروز پوری ملک محمد صدیق صاحب ولد فیروز جہاں بیگم صاحبہ بنت سید مفتی ۱۲۸ مهاشه فضل حسین صاحب اظهار حسین صاحب بریلی شیخ محمد اسحاق صاحب ولد شیخ شفقت خانم صاحبہ بنت شیخ عبد الحفیظ ۱۲۹ مشتاق حسین صاحب لاہور صاحب سیالکوٹ میاں عباس احمد خان صاحب ولد صاحبزادی امتہ الباری صاحبہ بنت حضرت حضرت نواب محمد عبد اللہ خان صاحب مرزا شریف احمد صاحب ۱۳۰ صاحبزادہ مرزا خلیل احمد صاحب صاحبزادی امتہ المجید صاحبہ بنت حضرت ۱۳۱ ولد حضرت مرزا بشیر الدین محمود مرزا بشیر احمد صاحب احمد صاحب خلیفتہ المسیح الثانی صاحبزادہ مرزا حفیظ احمد صاحب سیدہ تنویر الاسلام صاحبہ بنت سید ولد حضرت مرزا بشیر الدین محمود عبد السلام صاحب سیالکوٹ احمد صاحب خلیفة المسیح الثانی ۵۸۱ ۵۹۷ ۵۹۷ ۵۹۹ ۶۰۹ ۶۰۹ ۱۳۱ سید داؤود مظفر صاحب ولد سید صاحبزادی امتہ ا حکیم صاحبہ بنت حضرت ۱۳۱ محمود اللہ شاہ صاحب مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب خلیفة المسیح الثانی سید داؤد احمد صاحب ولد حضرت صاحبزادی امتہ الباسط صاحبہ بنت حضرت میر محمد اسحاق صاحب مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب خلیفہ المسيح الثاني ۱۳۲ ۱۲۷ اخوند حمید اللہ غلزئی صاحب برادر صالحہ صدر الجہاں بیگم صاحبہ بنت قاسم ۱۳۲ اخوند عبد القادر خان صاحب علی خان صاحب رامپوری ۶۰۹ ۶۱۷ ۶۱۷
خطبات محمود نمبر شمار نام خاوند ( زوج) ۱۲۸ ۲۵ جلد سوم نام اہلیہ (زوجہ ) خطبہ نمبر صفحہ عبد القادر صاحب ولد مولوی محمد صالحہ بیگم صاحبہ بنت مولوی چراغ دین ۱۳۲ اسماعیل صاحب صاحب قادیان ملک فیض الرحمان صاحب فیضی وسیمہ بیگم صاحبہ بنت سید ولی الله شاه ۱۳۴ برادر خورد ملک عبد الرحمان صاحب صاحب خادم گجرات ۱۳۰ حیدر علی صاحب ولد حکیم رحمت عزیزہ بیگم صاحبہ بنت مرزا عبدالحق ۱۳۵ صاحب وکیل گورداسپور علی صاحب و علی ۱۳۱ عبد الخالق صاحب مہتہ ولد بھائی ممتاز عصمت صاحبہ بنت ڈاکٹر منیر ۱۳۶ عبد الرحمان صاحب قادیانی صاحب امرتسری ۱۳۲ حفیظ احمد خاں صاحب ولد نام مذکور نہیں چوہدری نذیر حسین صاحب ۱۳۳ سید شریف احمد صاحب ولد سید عطیہ بیگم صاحبہ بنت سیٹھ محمد اعظم ۱۳۷ ۱۳۴ عبد الحئی صاحب آف منصوری صاحب سعید احمد صاحب درویش ولد طاہرہ بیگم صاحبہ بنت سیٹھ خیر دین ۱۳۸ چوہدری فیض احمد صاحب صاحب لکھنؤ ۱۳۵ یونس احمد صاحب درویش ولد امتہ السلام صاحبہ بنت قریشی حبیب احمد ماسٹر محمد شفیع صاحب اسلم ربوہ صاحب بریلی ۱۳۹ محمد ابراهیم صاحب درویش ٹیلر امتہ القیوم صاحبہ بنت قریشی حبیب احمد ۱۳۹ ماسٹر ولد فضل کریم صاحب صاحب بریلی ۱۳۷ شیخ نصیر الدین احمد صاحب ولد امتہ الحمید صاحبہ بنت عبد الحمید خان ۱۳۹ ڈاکٹر بدرالدین صاحب صاحب ۱۳۸ چوہدری شکر الہی صاحب بشری سعید صاحبہ آف امریکہ ۱۳۹ میاں عبد الحئی صاحب امتہ العزیز صاحبہ بنت ڈاکٹر د رالدین صاحب ۶۱۷ ۶۲۴ ۶۳۰ ۶۳۴ ۶۳۴ ۶۳۹ ۶۴۰ ۶۴۳ ۶۴۳ ۶۴۳ ۶۴۶ ۱۴۰ ۶۴۶ ۱۴۰
خطبات محمود نمبر شمار نام خاوند ( زوج) ۱۴۰ الدا ۱۴۲ ۲۶ نام المیہ (زوجہ ) نعمت اللہ خان صاحب ولد بابو محمد آمنہ بیگم صاحبہ بنت ملک خدا بخش عالم خان صاحب آف ممیاسه صاحب جلد سوم خطبہ نمبر صفحه ۶۴۸ ۱۴۱ صاجزادہ مرزا وسیم احمد صاحب امتہ القدوس بیگم صاحبہ بنت حضرت میر ۱۴۲ قادیان محمد اسماعیل صاحب پیر معین الدین صاحب ولد پیر صاجزادی امتہ النصیر بیگم صاحبہ بنت ۱۴۲ اکبر علی صاحب حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب خلیفة المسیح الثاني ۱۴۳ پیر ہارون الرشید صاحب ولد پیر سارہ بر جبیں صاحبہ بنت ڈاکٹر عبد الحمید ۱۴۳ ۱۴۴ مظہر الحق صاحب صاحب چغتائی صاحبزادہ مرزا رفیع احمد صاحب امتہ السمیع صاحبہ بنت حضرت میر محمد ۱۴۴ ولد حضرت مرزا بشیر الدین محمود اسماعیل صاحب احمد صاحب خلیفة المسیح الثانی ۱۴۵ قاضی محمود شوکت صاحب ولد سیده آنسہ صاحبہ بنت حضرت میر محمد قاضی محمد حنیف صاحب اسحاق صاحب ۱۴۶ عارف نعیم صاحب آف سائپرس خدیجہ بیگم صاحبہ بنت محمد ابراہیم صاحب ۱۴۷ (قبرص) ۶۵۰ ۶۵۰ ۶۵۲ ۶۵۷ ۶۵۷ ۱۴۴ ۶۵۹ ۱۴۵ مرزا محمد ادریس صاحب مبلغ امتہ العزیز صاحبہ بنت ڈاکٹر ید رالدین احمد ۱۴۶ مبلغ امتہ بنت ڈاکٹرید بورنیو صاحب ۱۴۸ چوہدری کرم الہی صاحب ظفر رقیه همیم بشری صاحبہ بنت ماسٹر محمد اسحاق ۱۴۷ ۱۴۹ مبلغ پین صاحب سید میر محمود احمد ناصر صاحب ولد صاحبزادی امتہ المتین صاحبہ بنت حضرت ۱۴۸ حضرت میر محمد اسحاق صاحب مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب خلیفہ المسیح الثانی ۶۶۱ ۶۶۵ ۶۷۲
خطبات محمود نمبر شمار نام خاوند (زوج) ۲۷ جلد سوم نام اہلیہ (زوجہ ) خطبہ نمبر صفحه ۱۵۰ ڈاکٹر اعجاز الحق صاحب لاہور امتہ الحئی صاحبہ بنت حضرت چوہدری محمد ۱۴۸ ۱۵۱ ۱۵۲ ظفر اللہ خان صاحب مرزا خورشید احمد صاحب ولد صاجزادی امتہ الوحید بیگم صاحبہ بنت ۱۴۸ حضرت مرزا عزیز احمد صاحب حضرت مرزا شریف احمد صاحب خواجہ سرفراز احمد صاحب ولد امتہ الحفیظ صاحبہ بنت چوہدری اسد الله ۱۴۸ خواجہ عبد الرحمان صاحب خان صاحب سیالکوٹ ۱۵۳ صالح شبیبی صاحب ولد امه النصیر بیگم صاحبہ بنت مولوی محمد تقی ۱۴۸ سلیمان شبیبی صاحب انڈونیشیا صاحب ۱۵۴ میجر انور احمد صاحب سیده ناصره خاتون صاحبہ بنت ڈاکٹر سید ۱۴۸ عنایت اللہ صاحب ۱۵۵ ڈاکٹر محمد حسین صاحب ساجد طاهره ذکیہ صاحبہ بنت میاں عطاء اللہ ۱۵۶ ۱۵۷ صاحب ایڈووکیٹ مسعود احمد صاحب ولد چوہدری عطیہ صاحبہ بنت چوہدری شکر اللہ خان نذیر احمد صاحب صاحب الد ٧ ۶۷۲ ۶۷۲ ۶۷۲ ۶۷۲ ۶۷۲ ۶۷۲ ۶۷۲ ۱۴۸ صاحبزادہ مرزا اظهر احمد صاحب قیصرہ خانم صاحبه بنت خان سعید احمد خان ۱۴۹ ولد حضرت مرزا بشیر الدین محمود صاحب احمد صاحب خلیفہ المسیح الثانی ۱۵۸ عبد العزيز جمن بخش صاحب آف امتہ الحفیظ صاحبہ بنت شیخ عبد الكريم ۱۵۰ سورینام (امریکہ) صاحب ۶۸۴