Khutbat-eMahmud V25

Khutbat-eMahmud V25

خطبات محمود (جلد 25)

خطبات جمعہ ۱۹۴۴ء
Author: Hazrat Mirza Bashir-ud-Din Mahmud Ahmad

Language: UR

UR
Miscellaneous

حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے خطبات علوم و معارف کا ایک انمول خزانہ ہیں اور پیش گوئی کے الہامی الفاظ ’’وہ علوم ظاہری و باطنی سے پُر کیاجائے گا‘‘ پر شاہدناطق ہیں۔ آپؓ کا دور خلافت نصف صدی سے زیادہ عرصہ پر محیط ہے جو ایک تاریخ ساز دور تھا۔ اس نہایت کامیاب اور طویل دور میں آپؓ نے اپنے خطبات جمعہ کے ذریعہ جماعت کی تعلیم و تربیت میں نہایت اہم کردار ادا کیا۔ سیاسی، سماجی اور مذہبی افقوں پر نمودار ہونےوالے ہر معاملے پر بروقت اور درست رہنمائی عطافرمائی۔ الغرض یہ خطبات جمعہ جماعت احمدیہ کا ایک بہت ہی قیمتی خزانہ اور سرمایہ ہیں۔ جسے فاؤنڈیشن نے یکجا کرکے کتابی شکل دی ہے۔


Book Content

Page 1

$1944 1 -------- 1 محمود خطبات اپنے اندر صحابہ کے سے آداب اور قوت ایمان پیدا کرو (فرمودہ 7 جنوری 1944ء بمقام لاہور) تشہد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: "جیسا کہ دوستوں کو معلوم ہو گا جلسہ سالانہ کے معا بعد جو مجھے یہاں آنا پڑا تو کچھ اس کی وجہ سے، کچھ رستہ کے گردو غبار کی وجہ سے اور کچھ اس وجہ سے کہ جلسہ کے کام کے نتیجہ میں میرا گلا پہلے ہی خراب ہو رہا تھا، یہاں آکر مجھے کھانسی اور نزلہ کی شکایت ہو گئی اور کل سے تو نزلہ کی شکایت میں پھر تیزی پیدا ہو گئی ہے جس کی وجہ سے میں باہر نمازیں پڑھانے کے لیے بھی نہیں آسکا.اس وجہ سے اور اس وجہ سے بھی کہ میری ایک بیوی (مریم صدیقہ بیگم) کا آج گلے کا آپریشن ہوا ہے اور مجھے ان کا حال معلوم کرنے کے لیے جلدی جانا ہے میں مختصر خطبہ ہی پڑھا سکتا ہوں اور اس مجبوری کی وجہ سے نماز کے بعد بھی بغیر دوستوں سے مصافحہ کیے مجھے واپس جانا ہو گا.گویا 20، 25 منٹ یا آدھ گھنٹہ میں میں یہاں سے اِنْشَاءَ اللهُ تعالی روانہ ہو جاؤں گا.اس لیے جیسا کہ میں نے بتایا ہے میں نہایت ہی مختصر الفاظ میں خطبہ کہہ سکتا ہوں اور چونکہ میری آواز دور نہیں جاسکتی اس لیے جب تک لاؤڈ سپیکر کام کرے گا

Page 2

$1944 2 خطبات م محمود اُسی وقت تک میں دوستوں تک اپنی آواز پہنچا سکوں گا.سب سے پہلے تو میں اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتا ہوں جس نے محض اپنے فضل و کرم سے ہماری جماعت کو تعداد کے لحاظ سے بہت بڑی زیادتی بخشی.ایک وہ وقت تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام کی زندگی میں اگر جلسہ سالانہ پر اتنے آدمی جمع ہوتے جتنے اس مسجد میں اس وقت جمع ہیں تو اسے بہت بڑی کامیابی کی علامت سمجھا جاتا تھا.میں نہیں کہہ سکتا کہ اس وقت کتنے آدمی مسجد میں جمع ہوں گے لیکن میر اخیال ہے پانچ چھ سو کے قریب ضرور ہوں گے اور اتنے ہی یعنی سات سو کے قریب آدمی تھے جو حضرت مسیح موعود عليه الصلواۃ والسلام کی زندگی کے آخری سال قادیان میں جلسہ سالانہ پر جمع ہوئے.مجھے یاد ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اُس وقت بار بار فرماتے تھے کہ خدا نے ہمیں جس کام کے لیے دنیا میں بھیجا تھا وہ ہو گیا ہے اور اب اتنی بڑی جماعت پیدا ہو گئی اور اتنی کثرت سے لوگ ایمان لے آئے ہیں کہ ہم سمجھتے ہیں ہمارا مقصد جو اِس دنیا میں آنے کا تھا وہ پورا ہو گیا ہے.اب کجاوہ دن تھا کہ جلسہ سالانہ پر اس قدر اژدہام کو عظیم الشان اثر بام سمجھا جاتا تھا اور کجا یہ وقت ہے کہ اب لاہور شہر میں ہی ہماری ایک جمعہ کی نماز میں اس کے قریب قریب آدمی جمع ہو جاتے ہیں.یہ اللہ تعالیٰ کی نصرت اور اُس کی تائید کا ایک عظیم الشان نشان ہے اور جن جماعتوں کے ساتھ اس کی نصرت ہوتی ہے وہ اسی طرح بڑھتی چلی جاتی اور دشمن کی نگاہوں می میں کانٹوں کی طرح کھٹکنے لگ جاتی ہیں لیکن خدا تعالیٰ کی تقدیر پورا ہوئے بغیر نہیں رہتی اور با وجود دشمنوں کی حاسدانہ نگاہوں کے وہ اپنی جماعت کو بڑھاتا اور اسے دنیا میں ترقی دیتا چلانے جاتا ہے.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ یہ چیز اپنی ذات میں ہمارے لیے بہت بڑی خوشی کا موجب ہے لیکن سب سے بڑی بات جس کا ہمیں ہر وقت فکر رکھنا چاہیے ، وہ یہ ہے کہ ہماری جماعت کا کا ، یہ ایمان اور اس کے اخلاق درست رہیں.ہمیں اپنی تعداد پر بھی اس قدر اطمینان کا اظہار نہیں کرنا چاہیے جس قدر اس بات کا ہمیں فکر رکھنا چاہیے کہ ہماری جماعت کے اخلاق اور اس کی عادات میں کس حد تک ترقی ہو رہی ہے.

Page 3

خطبات محمود 3 $1944 ابھی یہاں مسجد میں داخل ہونے سے پہلے مجھے ایک دوست ملے.مجھے اس وقت تک یہ معلوم نہیں تھا کہ لاؤڈ سپیکر کا مسجد میں انتظام کر لیا گیا ہے، میں نے ان سے کہا کہ قادیان میں جب میں جمعہ کا خطبہ پڑھ رہا ہو تا ہوں تو مجھے یہی احساس ہوتا ہے کہ میں جمعہ پڑھا رہا ہوں.لیکن لاہور میں جہاں کی جماعت قادیان کی جماعت کے مقابلہ میں پانچواں حصہ بھی نہیں، جب میں خطبہ پڑھنے کے لیے کھڑا ہوتا ہوں تو یوں معلوم ہوتا ہے کہ گویا کسی جلسہ میں ہے تقریر کرنے کے لیے کھڑا ہوں.کیونکہ یہاں وہ سکون اور وہ خاموشی نہیں ہوتی جو قادیان میں جمعہ کے موقع پر سات آٹھ گئے زیادہ افراد پر طاری ہوتی ہے.حالانکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں جب جمعہ کے دن خطیب خطبہ کے لیے کھڑا ہو تو ہر شخص کو خاموش رہنا چاہیے اور کسی شخص کو بھی خطبہ کے وقت دوسرے سے گفتگو نہیں کرنی چاہیے.بلکہ آپ نے ہے یہاں تک فرمایا کہ اگر کسی شخص کو یہ معلوم نہ ہو کہ خطبہ میں بولنا منع ہے اور وہ بول پڑے تو دوسرا آدمی جو اسے منع کرنا چاہے اسے بھی یہ نہیں کہ وہ بول کر منع کرے بلکہ اگر بالکل ہی مجبوری ہو جائے تو وہ اشارہ سے دوسرے کو کلام کرنے سے منع کرے، زبان سے کوئی لفظ نہ نکالے.1 پس رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تو یہاں تک حکم دیا ہے کہ خطبہ میں جو شخص شور مچارہا ہو اُسے بھی بول کر نہ روکا جائے.لیکن ہم دیکھتے ہیں بعض لوگ خطبہ میں باتیں کر لیتے اور بعض دفعہ بلا وجہ ایک دوسرے کو اشارے کرتے ہیں.حالانکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے شریعت کا ایک حکم توڑنے والے کو اشارہ سے منع کرنے کی اجازت دی ہے.مگر یہاں لوگ بعض دفعہ ہاتھ کے اشارے سے دوسرے کو اپنے پاس بلا لیتے ہیں اور بعض دفعہ ہاتھ کے اشارے سے کوئی اور حرکت کر لیتے ہیں.مثلاً پانی منگوانا ہو تو ہاتھ کے اشارہ سے منگوا لیں گے.حالانکہ خطبہ کی حالت میں سوائے خطیب کے اور سوائے ایسی صورت کے جو ناگزیر ہو اور جب ایسے خطرہ کی حالت ہو کہ بولنے کے سوا اور کوئی چارہ نہ رہے، کسی کے لیے بولنا جائز ہی نہیں ہوتا.حدیثوں سے معلوم ہوتا ہے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مجالس میں اس قدر خاموشی ہوتی تھی کہ صحابہ کہتے ہیں کہ كَانَ عَلی رُؤُوسِهِمُ الطُّيُورُ- 2 یوں معلوم ہوتا تھا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مجلس میں بیٹھنے والے ہر شخص کے.سر پر

Page 4

$1944 4 خطبات محمود پرندہ بیٹھا ہے اور وہ سمجھتا ہے کہ اگر میں نے سر ہلایا تو پرندہ اڑ جائے گا.اگر کسی مجلس میں دس پندرہ آدمی بیٹھے ہوں اور ان میں سے ہر شخص کے سر پر پرندہ بیٹھا ہو اور ان میں یہ شرط طے پا جائے کہ ہمیں اس طرح سکون کے ساتھ بیٹھنا چاہیے کہ یہ پرندے ہمارے سروں پر.اُڑیں نہیں تو جس خاموشی کے ساتھ وہ بیٹھ سکتے ہیں اُسی قسم کی خاموشی رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مجلس میں بیٹھنے والوں پر طاری ہو ا کرتی تھی.پرندہ انسان سے بہت بھاگتا ہے ہے.پھر اگر پرندہ کسی انسان کے سر پر بیٹھا ہوا ہو تو اس کی ادنیٰ سے ادنی حرکت سے بھی اُڑ جائے گا مگر صحابہ ”جب رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی مجلس میں بیٹھتے تو ایسے ساکت اور ایسے خاموش ہوتے کہ اگر پرندے بھی ان کے سروں پر اُس وقت بیٹھے ہوتے تو انہیں یہ پتہ نہ چلتا کہ وہ درختوں پر بیٹھے ہیں یا آدمیوں کے سروں پر بیٹھے ہیں.صحابہ کی یہی کیفیت ان الفاظ میں بیان کی گئی ہے کہ كَانَ عَلَى رُؤُوسِهِمُ الطُّيُورُ یعنی وہ قطعی طور پر خاموش رہتے تھے اور کوئی ایسی حرکت نہیں کرتے تھے جو اس مجلس کے آداب کے خلاف ہو.پس ہمیں بھی اپنے منی رض اندر وہ آداب پیدا کرنے چاہیں جو صحابہ کے اندر پائے جاتے تھے اور وہی قوتِ ایمان ہمیں اپنے اندر پیدا کرنی چاہیے جو صحابہ کے اندر پائی جاتی تھی.جب تک ہم ان آداب کو اختیار میں نہیں کرتے جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابہ میں پائے جاتے تھے اُس وقت تک ہم ان فتوحات کی قطعی طور پر امید نہیں کر سکتے جو ہمارے لیے مقدر ہیں اور نہ ان فتوحات کی امید کر سکتے ہیں جو اسلام کو حاصل ہونے والی ہیں.کیونکہ ان فتوحات کا ہمارے ساتھ تعلق ہے اور ضروری ہے کہ سب سے پہلے ہم اپنے نفوس کو ان فتوحات کا اہل ثابت کریں.اگر ہم اپنے نفوس میں کوئی تغیر پیدا نہیں کرتے، اگر ہم وہ آداب اختیار نہیں کرتے جو صحابہ نے اختیار کیے، اگر ہم اُس طریق عمل پر نہیں چلتے جس طریق عمل پر صحابہ چلے تو اس کے معنے یہ ہیں کہ ہم اسلام اور محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ان فتوحات سے محروم رکھ رہے ہیں جو فتوحات ہمارے ذریعے سے اسلام اور احمدیت کو حاصل ہونے والی ہیں.کسی جماعت کی طاقت اور قوت کا صحیح معیار یہ ہوا کرتا ہے کہ اس جماعت کے امام کو یہ معلوم ہو کہ میرے احکام کی کس حد تک پابندی کی جائے گی اور در حقیقت وہی امام دنیا میں لڑائی لڑ سکتا ہے جو جانتا ہو کہ یہ

Page 5

خطبات " محمود 5 $1944 میں نے جو بھی حکم دیا لوگ اس کی اطاعت کریں گے.اسی وجہ سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں الْاِمَامُ جُنَّةٌ يُقَاتَلُ مِنْ وَرَائِهِ 3 کہ امام ایک ڈھال کی طرح ہوتا ہے جس کے پیچھے ہو کر لڑائی لڑی جاتی ہے.جب وہ ڈھال آگے کرتا ہے تو جماعت بھی آگے ہوتے جاتی ہے اور جب پیچھے کرتا ہے تو جماعت بھی پیچھے ہو جاتی ہے.جب تک یہ بات کسی جماعت میں پیدا نہ ہو اور جب تک امام کو یہ معلوم نہ ہو کہ لوگوں کے اندر اطاعت اور فرمانبرداری کی ایسی روح پائی جاتی ہے کہ اگر میں کہوں گا بیٹھ جاؤ تو سب بیٹھ جائیں گے ، اگر کہوں گا کھڑے ہو جاؤ تو سب کھڑے ہو جائیں گے ، اگر کہوں گا لیٹ جاؤ تو سب لیٹ جائیں گے اُس وقت تک و کبھی دلیری سے دشمن پر حملہ نہیں کر سکتا.مشہور ہے کہ کوئی شخص کسی کے گھر مہمان آیا.اس نے اپنے نوکر کو ہر قسم کے ضروری آداب سکھائے ہوئے تھے جس کی وجہ سے وہ بر وقت اور نہایت عمدگی سے کام کرنے کا عادی تھا.اتفاقاً مہمان کے سامنے میزبان کو کسی چیز کی ضرورت پیش آگئی.مثلاً دہی کی ضرورت محسوس ہوئی اور اس نے اپنے نوکر کو دہی لینے کے لیے بازار بھیج دیا اور اس دوست وہ سے کہا، میر انو کر بہت مؤدب اور فرض شناس ہے جو کام بھی اسے کرنے کے لیے کہا جائے ٹھیک وقت کے اندر اسے سر انجام دیتا ہے.چنانچہ کہنے لگا دیکھ لیجیے میں نے اسے دہی لینے کے لیے بازار بھیجا ہے اور دکان تک دومنٹ کا راستہ ہے اب چونکہ ایک منٹ گزر چکا ہے اس لیے مجھے یقین ہے کہ وہ فلاں جگہ تک پہنچ گیا ہو گا.تھوڑی دیر کے بعد کہنے لگا اب مجھے یقین ہے کہ وہ دکان تک پہنچ گیا ہو گا.پھر منٹ دو منٹ انتظار کرنے کے بعد جو سودا خریدنے پر صرف ہو سکتے تھے وہ کہنے لگا اب مجھے یقین ہے کہ وہ دہی لے کر وہاں سے چل پڑا ہے.تھوڑی دیر کے بعد کہنے لگا اب وہ فلاں نکڑ تک پہنچ گیا ہے.کچھ اور دیر گزری تو کہنے لگا اب مجھے یقین ہے کہ اب وہ یہ ڈیوڑھی میں آچکا ہے.چنانچہ اس نے آواز دی کہ کیوں میاں! رہی لے آئے؟ نوکر کہنے لگا حضور !حاضر ہے.یہ نمونہ ایسا اعلیٰ تھا کہ اسے دیکھ کر ہر شخص کی طبیعت خوشی محسوس کرتی تھی.چنانچہ مہمان بھی بہت خوش ہوا اور اس نے اپنے دل میں فیصلہ کیا کہ میں بھی اپنے نوکر کی ایسی ہی تربیت کروں گا مگر وہ مہمان خود اجڈ اور جاہل تھا.اس نے اپنے نوکر کو تہذیب و شائستگی ہے ،

Page 6

خطبات محمود 6 $1944 کے اصول کیا سکھانے تھے اس کے اپنے کاموں میں بھی کوئی باقاعدگی نہ پائی جاتی تھی مگر اس کے دل پر ایسا اثر ہوا کہ اس نے کہا اب میں بھی اپنے نوکر کو ایسی ہی تہذیب سکھاؤں گا.چنانچہ اس نے واپس جا کر اپنے نوکر کو سکھانا شروع کر دیا مگر وہ اجڈ، ان پڑھ اور جاہل تھا.اس پر ان کے سبتوں کا کیا اثر ہو سکتا تھا.پانچ چھ ماہ گزر گئے تو اس نے اپنے شہری دوست کی دعوت کی اور ہے اسے کہا کہ گاؤں کی آب و ہوا بہت اچھی ہوتی ہے آپ میرے ہاں تشریف لائیں.چنانچہ وہ یہ اس دعوت پر اس کے گاؤں میں گیا.جب دستر خوان بچھا تو اس نے بھی اس کی نقل کرنی شروع کر دی.زمینداروں کے گھروں میں عام طور پر دہی ہوتا ہے مگر اس نے چونکہ اپنے دوست کو یہ بتانا تھا کہ میر انو کر بھی بڑا ہوشیار اور فرض شناس ہے اس لیے اسے آواز دے کر کہنے لگا میاں ! ذرا جانا اور فلاں دکاندار کے ہاں سے دہی تو لے آنا.پھر تھوڑی دیر کے بعد کہنے لگا میر انو کر بھی بڑا ہوشیار اور مؤدب ہے اب وہ فلاں جگہ پہنچ چکا ہو گا.تھوڑی دیر کے بہ کہنے لگا مجھے یقین ہے کہ اب وہ دکان تک پہنچ چکا ہو گا.پھر کہنے لگا اب وہ دہی لے رہا ہو گا.تھوڑی دیر کے بعد کہنے لگا اب وہ دہی لے کر وہاں سے ضرور چل پڑا ہے.ایک منٹ کے بعد کہنے لگا اب وہ فلاں جگہ پہنچ چکا ہو گا.پھر کچھ وقت گزرا تو کہنے لگا کہ اب مجھے یقین ہے کہ وہ دہی لے کر ڈیوڑھی میں پہنچ چکا ہے.چنانچہ اسے آواز دے کر کہنے لگا کیوں میاں! دہی لے آئے ؟ تو کر کہنے لگا " تمیں اپنے کا ہلے کیوں پے گئے ہو! میں بخشی تے لب لواں.فیر دی ہے بھی لے آواں گا".یعنی آپ اتنی جلدی کیوں کرتے ہیں! میں جوتی تو تلاش کرلوں پھر دہی بھی لے آؤں گا.اب بتاؤ! ایسے انسان جس کے تحت ہوں اُس نے دشمن سے کیا مقابلہ کرنا ہے.مقابلہ کی جرات تو وہی کرتا ہے جو دل میں یہ یقین اور وثوق رکھتا ہو کہ میرے ہر حکم کی لوگ اطاعت کریں گے اور جانتا ہو کہ جب بھی میں کوئی حکم دوں گا وہ نتائج اور عواقب کی پروا کیے بغیر اس کی تعمیل پر کمر بستہ ہو جائیں گے.اگر میں کہوں گا اٹھو! تو وہ اٹھ کھڑے ہوں گے.اگر کہوں گا بیٹھو ! تو وہ بیٹھ جائیں گے.اگر کہوں گا آگے بڑھو ! تو وہ آگے بڑھیں گے.اور اگر کہوں گا پیچھے ہٹوا تو وہ پیچھے ہٹ جائیں گے.مگر آجکل ہمارے زمانہ میں بالخصوص

Page 7

خطبات محج محمود 7 $1944 ہندوستانیوں کی یہ ذہنیت ہے کہ اگر وہ فوج میں با قاعدہ کام نہ کرتے ہوں، انہیں ملازمت سے بر طرف کیے جانے یا تنخواہ کے بند ہو جانے کا ڈر نہ ہو اور وہ اسی طرح رضا کارانہ رنگ میں کام کر رہے ہوں جس طرح ہماری جماعت کام کر رہی ہے تو اگر ان کا امام یا لیڈر انہیں یہ کہے کہ چلو ! دشمن پر حملہ کرو اور وہ بڑی امیدوں اور بہت بڑی امنگوں کے بعد ایسا حکم دے تو ان میں سے کوئی شخص یہ کہنے لگ جائے گا کہ حملہ کے لیے اتنی جلدی کی کیا ضرورت ہے میں اپنے کپڑے تو گھر سے لے آؤں.کوئی کہے گا میں اپنا مال تو کسی محفوظ جگہ میں رکھ لوں.کوئی کہے گا میں اپنے بیوی بچوں کی حفاظت کا سامان تو کرلوں.غرض کوئی کچھ بہانہ بنانے لگ جائے گا اور کوئی کچھ.ان چیزوں کے ہوتے ہوئے صرف ظاہری سامانوں کے ساتھ کسی جماعت کا اپنی کامیابی کی امید رکھنا بالکل غلط ہوتا ہے.کامیابی اسی جماعت کو حاصل ہوتی ہے جسے جن الفاظ میں حکم ہے دیا جائے وہ ان الفاظ کی اتباع کرے اور ایک لمحہ کے لیے بھی اطاعت سے انحراف نہ کرے.مثلاً مجھے یہاں آتے ہی مقامی امیر صاحب نے بتایا کہ دوستوں سے کہہ دیا گیا ہے کہ وہ مصافحہ نہ کریں.میں نے کہا یہ تو آپ نے ٹھیک کیا کہ ایسا اعلان کر دیا کیونکہ میں نے جلدی واپس جاتا ہے لیکن دیکھنے والی بات یہ ہے کہ لوگ اس امر کی کہاں تک تعمیل کرتے ہیں.میں نے ہے دیکھا ہے کہ ایسے مواقع پر جب یہ اعلان کر دیا جاتا ہے کہ کوئی شخص مصافحہ نہ کرے تو پھر بھی کوئی نہ کوئی شخص آگے بڑھ کر مصافحہ کر لیتا ہے اور جب اسے کہا جاتا ہے کہ مصافحہ کرنا تو منع تھا تم نے مصافحہ کیوں کیا؟ تو وہ شور مچانے لگ جاتا ہے کہ کوئی شخص مصافحہ نہ کرے.حالانکہ وہ خود مصافحہ کر چکا ہوتا ہے.پھر کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جو اپنے آپ کو چودھری سمجھ لیتے ہیں اور خیال کرتے ہیں کہ اس قسم کے حکم کی فرمانبرداری دو سروں پر فرض ہے ان پر تم نہیں.حالانکہ جو شخص اپنے آپ کو قوم میں سے اعلیٰ فرد سمجھتا ہے، جو خیال کرتا ہے کہ میں ہے دوسروں سے زیادہ مقرب ہوں یا جماعت کا افسر اور اس کا عہدہ دار ہوں اسے اطاعت اور فرمانبرداری کا بھی دوسروں سے اعلیٰ نمونہ دکھانا چاہیے.مگر ہوتا یہ ہے کہ وہ اپنے آپ کو مستقلی سمجھ لیتا ہے.اول تو ایسے موقع پر جب خلیفہ یا کوئی اور افسر آرہا ہو اسے اطلاع دینی چاہیے کہ ، ہم نے ایسا قانون بنا دیا ہے تاکہ اسے بھی معلوم ہو کہ کس قانون کا اعلان کیا گیا ہے اور اور وہ

Page 8

خطبات محمود 8 $1944 معلوم کر سکے کہ لوگ اس قانون کا کس حد تک احترام کرتے ہیں.پھر میرے نزدیک ایسے حالات میں مقدم امر یہ ہوتا ہے کہ امیر یا پریذیڈنٹ یا کوئی اور عہدیدار خود بھی مصافحہ نہ کرے تاکہ وہ دوسروں کے لیے نمونہ بنے اور اگر اُس نے اپنے آپ کو مستقلی ہی رکھنا ہو تو اس کا می فرض ہونا چاہیے کہ وہ لوگوں میں یہ اعلان کر دے کہ میں فلاں فلاں وجوہ سے اس حکم سے مستقلی رہوں گا.اس کے بعد وہ بے شک منتقلی سمجھا جائے گا.مگر اس اعلان کے بغیر اگر وہ ہے اپنے آپ کو مستثنیٰ سمجھ لے تو اس کا دوسروں پر اچھا اثر نہیں پڑسکتا اور میرے نزدیک بعض حالات یقیناً ایسے پیدا ہو سکتے ہیں جب اس قسم کے حکم سے بعض لوگوں کو منتقلی کرنا ضروری ہے ، ہو.مثلاً استقبال ہے.اگر ساری جماعت استقبال کے لیے کھڑی ہے اور خلیفہ وقت یا امیریا جماعت کا کوئی افسر آرہا ہے تو ایسے موقع پر کوئی نہ کوئی ایسے لوگ ضرور مقرر کرنے پڑیں گے میں جو دوسروں سے آگے بڑھ کر استقبال کا فرض ادا کریں.یہ نہیں ہو گا کہ سب قطاروں میں کھڑے رہیں اور کوئی شخص بھی استقبال کے لیے آگے نہ بڑھے.لیکن بہر حال ایسے موقع پر یہ پہلے سے یہ اعلان کر دینا چاہیے کہ اس ضرورت کے ماتحت فلاں فلاں دوست مستثنیٰ ہوں گے.تا کہ لوگوں پر یہ اثر نہ ہو کہ آپ ہی ایک حکم دیا جاتا ہے اور آپ ہی اس کی خلاف ورزی کی ہے جاتی ہے.یہ ایک غلط خیال ہے جو بعض افسروں کے اندر پایا جاتا ہے اور بعض ماتحت بھی سمجھتے ہیں کہ افسر اپنے حکم کا خود پابند نہیں ہوتا.حالانکہ اس حکم کا وہ ایسا ہی پابند ہوتا ہے جیسے ہی دوسرے لوگ.قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتا ہے لوگوں سے کہہ دے اَنَا اوَلُ الْمُسْلِمِينَ 4 یعنی جب میں کوئی بات کہتا ہوں تو سب سے پہلے اس بات کا مخاطب میرا نفس ہوتا ہے اور میں اپنے آپ کو اس پر عمل کرنے والا قرار دیتا ہوں.لیکن پھر بھی اگر کسی وجہ سے مقامی امیر یا کوئی افسر اپنے آپ کو مستقلی کرنا چاہے تو اسے یہ اعلان کر دینا چاہیے کہ اس حکم کا اطلاق مجھ پر نہیں ہو گا.تاکہ جماعت میں اگر بعض ایسے کمزور طبع لوگ موجود ہوں جنہیں دھوکا لگ سکتا ہو تو اس قسم کے اعلان کی وجہ سے وہ دھوکا نہ کھائیں اور ٹھوکر سے محفوظ رہیں.غرض جماعتی ترقی کے لیے یہ نہایت ضروری ہے کہ لوگوں کے اندر کامل

Page 9

خطبات محمود 9 $1944 فرمانبر داری اور اطاعت کا مادہ پایا جاتا ہو.اگر امام کو یہ یقین ہو اور وہ کامل وثوق سے کہہ سکتا ہو مادہ کہ لوگ میرے ہر حکم کی اطاعت کریں گے تو میں سمجھتا ہوں جتنا کام وہ پہلے کرتا ہو اس سے کئی گنا زیادہ کام وہ کر سکتا ہے.مثلاً مجھے اپنی جماعت کے بارہ میں بہت سی باتوں کے متعلق یہ یقین اور وثوق ہے کہ اُن امور میں جماعت میری فرمانبر داری کرے گی.مگر جن باتوں کے متعلق میرا تجربہ نہیں اُن میں ہمیشہ مجھے شبہ ہی رہتا ہے کہ نہ معلوم جماعت کے افراد ان باتوں میں بھی اطاعت کا کامل نمونہ دکھائیں گے یا نہیں.اگر مجھے یقین ہو کہ ان باتوں میں بھی جماعت اُسی ایمان اور اُسی اخلاص اور اُسی اطاعت کا نمونہ دکھائے گی جس ایمان، اخلاص اور اطاعت کا نمونہ وہ دوسری باتوں میں دکھا چکی ہے تو میر اکام پہلے سے کئی گنا بڑھ جائے.مگر اب ہر قدم کے اٹھاتے وقت مجھے دیکھنا پڑتا ہے کہ جماعت کے کمزور طبقہ کو میں اپنے ساتھ چلا سکتا ہے ہوں یا نہیں.بے شک الہی جماعتوں پر ایک وقت ایسا بھی آتا ہے، جب اس بات کی پروا نہیں کی جاتی کہ کمزور پیچھے رہ گئے ہیں.مگر بہر حال جب تک وہ وقت نہیں آتا کمزور طبع کا خیال رکھنا ہے ہی پڑتا ہے.غزوہ تبوک کے موقع پر کئی لوگ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پا آتے اور آپ سے جنگ پر نہ جانے کی اجازت حاصل کرتے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی ان کی کمزوری ایمان کو دیکھتے ہوئے انہیں اجازت دے دیتے.وہ بظاہر تو مومن تھے مگر ان کے دل میں نفاق تھا اور اس وجہ سے جنگ پر جانے سے ان کا دل لرزتا تھا.کوئی آتا اور کہتا میری بیوی بیمار ہے، کوئی کہتا اگر میں گیا تو میری فصل کو نقصان ہو گا، کوئی کہتا میرے بغیر گھر کی حفاظت کا کوئی ذریعہ نہیں، کوئی کہتا اگر میں جنگ پر چلا گیا تو میر امال سب برباد ہو جائے گا اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس خیال سے کہ یہ کمزور طبقہ جماعت کے ساتھ شامل رہے انہیں اجازتیں دینی شروع کر دیں.چنانچہ جس نے بھی آپ سے پوچھا آپ نے فرمایا بہت اچھا تم رہ جاؤ.مگر جب آپ جنگ سے واپس تشریف لائے تو اس وقت اللہ تعالیٰ نے آپ کو الہاما فرمایا کہ تمہیں یہ حق حاصل نہیں تھا کہ تم ان کو جنگ سے پیچھے رہنے کی اجازت دے دیتے.اب خدا نے فیصلہ کر دیا ہے کہ جو لوگ کمزور ہیں انہیں پیچھے ہیں

Page 10

$1944 10 خطبات محمود کر دیا جائے اور جماعت کو ترقی کے میدان میں بڑھا دیا جائے.5 پس بے شک پہلے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کمزوروں کو جماعت کے طاقتور حصہ کے ساتھ شامل رکھتے مگر پھر الہی حکم کے ماتحت آپ نے ان کو پیچھے کر دیا.چنانچہ اس کے بعد رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے منافقوں کو نگا کرنا شروع کر دیا یہاں تک کہ وہ اکثر لوگوں کو نظر آنے لگ گئے.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پھر بھی حیا سے کام لیا اور صرف چند صحابہ کو ان منافقین کے نام بتائے مگر بہر حال آپ نے ان کو بے نقاب کر دیا.حضرت حذیفہ کو اس بات کا بڑا شوق رہتا تھا کہ وہ منافقوں کے نام معلوم کریں.چنانچہ وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے پڑے رہتے اور کہتے یار سول اللہ ! مجھے ان کے نام ضرور بتا دیجیے.میں ڈرتا ہوں کہ میں کسی منافق کے پیچھے نماز نہ پڑھ لوں یا غلطی سے کسی منافق کا جنازہ نہ پڑھ لوں اور آپ انہیں بتا دیتے.6 مگر فرماتے دیکھو ! حیا سے کام لینا اور ان کو ہے بد نام نہیں کرنا.چنانچہ صحابہ کہتے ہیں ہم جب حضرت حذیفہ سے پوچھتے کہ کون کون منافق ہے ہے؟ تو وہ ان کے نام نہ بتاتے.لیکن ہم اگر دیکھتے کہ حضرت حذیفہ کو کسی مسلمان کا جنازہ پڑھنے کا موقع تو ملا مگر انہوں نے اس کا جنازہ نہیں پڑھا تو ہم بھی اس کا جنازہ نہ پڑھتے اور سمجھے لیتے کہ وہ ضرور منافق ہو گا.اسی طرح اگر حذیفہ کسی شخص کے پیچھے نماز پڑھنے سے گریز کرتے تو ہم بھی اس کے پیچھے نماز نہیں پڑھتے تھے اور سمجھ لیتے تھے کہ وہ منافق ہے.تو ایک وقت ایسا آیا جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے گو منافقوں کا نام لے کر ان کی تشہیر نہیں ہے فرمائی مگر عملی طور پر آپ اُن کو پیچھے چھوڑ گئے اور وہ تمام جماعت سے الگ نظر آنے لگے گئے.اسی طرح ہماری جماعت میں بعض ایسے لوگ موجود ہیں جن کے متعلق یہ یقین کے ساتھ نہیں کہا جا سکتا کہ اگر اسلام اور احمدیت کے لیے جان اور مال کلی طور پر قربان کر دینے کا ہے مطالبہ کیا گیا تو وہ اپنی جان، اپنے مال، اپنے بیوی بچوں اور اپنے وطن کو قربان کرتے ہوئے آگے بڑھیں گے اور اسلام اور احمدیت کے منشاء کے مطابق کام کریں گے یا نہیں.خدا تعالیٰ کے فضل سے گزشتہ تجربہ کی بناء پر میں امید کرتا ہوں کہ جب بھی اسلام اور احمدیت کی طرف سے انتہائی قربانی کا مطالبہ کیا گیا اکثر احمدی لبیک کہتے ہوئے آگے بڑھیں گے اور اپنی جانوں کے

Page 11

خطبات محمود 11 $1944 اور اپنے اموال کو قربان کر دیں گے.لیکن پھر بھی اس بات کا یقین نہیں آتا کہ اگر وہ دن آگیا اور اگر الہی مشیت نے کسی دن یہ فیصلہ کر دیا کہ اب سب لوگ آگے بڑھیں اور اپنی جانوں اور میں اپنے مالوں کو قربان کر دیں تو جماعت میں سے کتنے لوگ اس کی اطاعت کرنے والے ہوں گے اور کتنے لوگ یہ کہنے والے ہوں گے کہ اذْهَبْ اَنْتَ وَرَبُّكَ فَقَاتِلَا إِنَّا هُهُنَا قَعِدُونَ - 1 مگر بہر حال ہر مومن کو اپنے دل میں اس مقصد عظیم کے لیے تیار ہونا چاہیے اور ابھی سے اس می آنے والے دن کے لیے تیاری کرنی چاہیے.غفلت کا سب سے بڑا نقص یہ ہوتا ہے کہ انسان یہ سمجھتا ہے میرے ساتھ یہ معاملہ پیش نہیں آسکتا یا میرے ساتھ وہ معاملہ پیش نہیں آسکتا.مثلاً اس زمانہ میں ہمیں یہ یقین ہے کہ تلوار کے جہاد کا کوئی موقع نہیں آئے گا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اللہ تعالیٰ کے حکم کے ماتحت یہ اعلان کیا ہے کہ اس زمانہ میں تلوار کے جہاد کو اللہ تعالیٰ نے اپنی حکمت کے ماتحت ملتوی کر دیا ہے.8 مگر اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے کہ یہ تلوار کے جہاد کا التواء کتنی دیر تک ہے.ہم جانتے ہیں کہ موجودہ زمانہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر ایمان لانے والی پہلی جماعت ہم ہیں اور اس وجہ سے تلوار کے جہاد کا وقت ہم پر نہیں آسکتا.لیکن پھر بھی ہمارے دلوں میں یہ ایمان ہونا چاہیے کہ گو خدا تعالیٰ ہمیں تلوار کے جہاد کے لیے کھڑا نہیں کرے گا لیکن اگر اس کی مشقت تلوار کے جہاد کا فیصلہ کر دے تو موقع آنے پر ہم اس جہاد کے لیے تیار ہوں گے اور اپنی جانیں احمدیت کے لیے قربان کر دیں گے.جب تک ہم اُس قربانی کے لیے اپنے آپ کو تیار نہیں کرتے بلکہ جب تک ہم ہر اس قربانی کے لیے اپنے آپ کو می تیار نہیں کرتے جو پہلے انبیاء کی جماعتوں کو کرنی پڑی اور اپنے نفوس کو اس بات پر آمادہ نہیں کرتے کہ جب بھی اور جس قسم کی قربانی کا بھی موقع آیا ہم اپنے آپ کو پیش کر دیں گے اس وقت تک ہم کبھی بھی اپنے ایمان کی پختگی پر یقین نہیں رکھ سکتے.اور ہم کبھی بھی اطمینان کے ساتھ یہ نہیں کہہ سکتے کہ ہم پر وہ دن نہیں آسکتا کہ ہم رات کو ایمان کے ساتھ سوئیں اور صبح کا فر اٹھیں یا صبح مومن ہوں اور شام کو کافر ہوں.وہ شخص جس کے دل میں پختہ ایمان نہ ہو اور جو ہر وقت اپنے آپ کو ان قربانیوں کے لیے تیار نہ کرتا رہے وہ وقت آنے پر یقینا اگر ہم

Page 12

$1944 12 خطبات محمود رات کو مومن ہونے کی حالت میں سوئے گا تو صبح کا فراٹھے گا یا صبح مومن ہو گا تو شام ک کافر ہو گا.پس ہمیں جہاں اپنی جماعت کی تعداد بڑھانے کی ضرورت ہے وہاں ہر جماعت کے امیر اور پریذیڈنٹ کو چاہیے کہ وہ جماعت کی اخلاقی نگرانی کی طرف بھی توجہ کریں.ہر شخص جو اپنے ادنیٰ سے ادنی بھائی یا ہمسایہ یا کسی مذہب و ملت سے تعلق رکھنے والے فرد کے مال میں معمولی سے معمولی خیانت بھی کرتا ہے اس کے متعلق تم کبھی یہ خیال نہ کرو کہ وہ خدا کے مال میں خیانت نہیں کرے گا.اگر کوئی شخص یہ سمجھتا ہے کہ کسی ہندو یا سکھ یا عیسائی یا ایک دہریہ سے معاملہ کرتے وقت دیانت کی ضرورت نہیں تو اس کے متعلق تمہیں یہ کبھی گمان نہیں کرنا چاہیے کہ وہ مسلمان سے معاملہ کرتے وقت دیانت داری سے کام لے گا.جو شخص بد دیانت ہے وہ ہمیشہ بد دیانتی کرے گا خواہ وہ ایک مسلمان سے معاملہ کر رہا ہو یا ایک ہندو، سکھ اور عیسائی سے معاملہ کر رہا ہو.یہ خیال نہیں کرنا چاہیے کہ وہ مسلمان کے مال میں بد دیانتی نہیں کر تا صرف ہندو یا سکھ یا عیسائی یا دہریہ کے مال میں بددیانتی کرتا ہے.کیونکہ بد دیانتی ایسے شخص کی فطرت میں داخل ہو جاتی ہے اور فطرت ایسی چیز ہے جو کبھی نہیں بدلتی.اگر کسی نی اونچی جگہ پر قرآن رکھا ہوا ہو اور اسے ایک مسلمان اور ایک سکھ اٹھانے لگیں اور فرض کرو ہے کہ سکھ لمبے قد کا ہو اور مسلمان چھوٹے قد کا تو یہ نہیں ہو گا کہ چھوٹے قد کے مسلمان کا ہاتھ تو ہے قرآن تک پہنچ جائے اور لمبے قد کے سکھ کا ہاتھ وہاں نہ پہنچے.اگر قرآن اونچی جگہ پر ہے تو یقینا ہے لیے سکھ کا ہاتھ وہاں تک پہنچ جائے گا لیکن چھوٹے قد کے مسلمان کا ہاتھ وہاں نہیں پہنچے گا.اسی طرح اگر سمندر کی تہہ میں کوئی چیز جاپڑی ہے تو ایک مسلمان متقی خدا تعالیٰ کی خشیت اور اس کی محبت رکھنے والا اگر تیرنا نہیں جانتا تو وہ اس چیز کو نہیں نکال سکے گا.لیکن ایک ہندو، سکھ ، عیسائی بلکہ دہر یہ جو مذ ہب سے بکلی آزاد ہوتا ہے ، وہ اگر تیر نا جانتا ہو گا تو وہ اسے نکال لے گا.پس فطرت کبھی نہیں بدلتی.اسی وجہ سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا اگر کوئی شخص تمہارے پاس آکر یہ کہے کہ احد پہاڑ اپنی جگہ سے بدل گیا ہے تو تم اس کی بات کو مان لو لیکن اگر میں کوئی شخص تمہیں یہ کہتا سنائی دے کہ فلاں شخص کی فطرت بدل گئی ہے تو تم اسے کبھی نہیں

Page 13

$1944 13 محمود تسلیم نہ کرو.تو جو شخص بد دیانت ہے وہ ہر جگہ بد دیانتی کرے گا.چاہے وہ ہندو سے معاملہ کر رہا ہو یا سکھ سے معاملہ کر رہا ہو یا عیسائی سے معاملہ کر رہا ہو یا ایک مسلمان سے معاملہ کر رہا ہو.جو شخص جھوٹ بولنے کا عادی ہے اس کے متعلق یہ یقین کر لینا کہ وہ ایک سکھ سے تو یہ بعد جھوٹ بولے گا، ایک ہندو سے تو جھوٹ بولے گا، ایک عیسائی سے تو جھوٹ بولے گا، ایک دہریہ سے تو جھوٹ بولے گا، ایک مسلمان سے جھوٹ نہیں بولے گا صریح غلط ہے.وہ جب بھی جھوٹ بولے گا یہ نہیں دیکھے گا کہ جس کے سامنے وہ جھوٹ کہہ رہا ہے وہ ایک مسلمان ہے یا ہندو، سکھ اور عیسائی ہے.ہماری جماعت میں ایک شخص ہوا کرتا تھا میں نے بعض دفعہ اس کا نام بھی لیا ہے اب میں اس کا نام نہیں لوں گا کیونکہ میں اُس کا ایک نقص بیان کرنے لگا ہوں.وہ شخص ! میں شاید پیغامی ہو گیا تھا اور اب تو مر بھی چکا ہے.وہ ایک دفعہ میرے ساتھ ایک ایسی جگہ گیا جہاں احمدیت کی تبلیغ نہیں پہنچی تھی.اُس کو جھوٹ بولنے کی بہت عادت تھی اور ہم ہمیشہ اُسے کہا کرتے تھے کہ بندہ خدا تم کبھی تو سچائی سے کام لیا کرو ہمیشہ جھوٹ ہی بولتے ہو.ایک دفعہ وہ کسی شخص کو تبلیغ کرنے لگا اور احمدیت کی صداقت ثابت کرنے کے لیے اس نے لیکھرام والی پیشگوئی بیان کرنی شروع کر دی.مگر اس نے بیان اس طرح کیا کہ لیکھرام ایک شخص تھا.وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے متعلق سخت بد زبانی کیا کرتا تھا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس کے متعلق پیشگوئی کی کہ وہ فلاں دن، فلاں تاریخ، فلاں سال اور فلاں وقت قتل کر دیا جائے گا.یعنی جن امور کو ہم استدلال کے طور پر بیان کرتے ہیں اُن کو اُس نے اِس رنگ میں بیان کرنا شروع کر دیا کہ گویا انہی لفظوں میں پیشگوئی کی گئی تھی.پھر کہنے لگا چونکہ پیشگوئی اتنی واضح تھی اور اس میں لیکھرام کے قتل ہونے کا سال، اس کی تاریخ، اس کا دن بلکہ وقت تک بتادیا گیا تھا اس لیے جب وہ دن آیا لاہور کی پولیس اس کے مکان کے اندر اور باہر بیٹھ گئی اور چاروں طرف پہرہ دار مقرر کر دیئے گئے تاکہ کوئی شخص قتل کے ارادہ سے اندر داخل نہ ہو سکے.میں اُس وقت کوئی کتاب پڑھ رہا تھا وہ یہ باتیں کرتارہا اور میں سنتا رہا، سنتا رہا.آخر کہنے لگا جب مقررہ وقت آپہنچا تو لیکھرام ایک کمرہ کے اندر بیٹھ گیا اور اس کمرہ کو ہے

Page 14

$1944 14 خطبات محمود باہر سے تالا لگا دیا گیا، سیڑھیوں پر اور مکان کے اندر باہر سب جگہ پولیس بیٹھ گئی اور اپنی طرف سے تمام کوششیں اس غرض کے لیے کر لی گئیں کہ کوئی شخص اسے قتل نہ کر سکے.لیکن وقت گزرنے کے بعد جب لوگوں نے دروازہ کھولا تو وہ اندر زخمی پڑا تھا.لوگوں نے اس کے سے پوچھا کہ تمہیں کون شخص زخمی کر گیا ہے ؟ تو وہ کہنے لگا میں اندر بیٹھا تھا کہ یکدم چھت پھٹی اور اس میں سے ایک فرشتہ نے اندر داخل ہو کر مجھے خنجر سے زخمی کر دیا.وہ جب یہاں تک پہنچا تو مجھ سے برداشت نہ ہو سکا اور میں نے اسے کہا کیا اس قسم کی کذب بیانی پر تمہیں شرم محسوس نہیں ہوتی؟ یہ کونسی پیشگوئی تھی جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے کی ہے اور کب اس رنگ میں پوری ہوئی.اس پر پہلے تو اُس نے بہانہ بنایا کہ میں نے ایسا ہی پڑھا تھا.میں نے کہا یہ تمہارا دوسرا جھوٹ ہے.احمدیوں کی کسی کتاب میں، یہاں تک کہ ان رطب و یابس سے بھری ہوئی تحریروں میں بھی جن میں بعض دفعہ ٹوٹی پھوٹی پنجابی کے اشعار درج ہوتے ہیں لیکھرام والی پیشگوئی کو اس رنگ میں بیان نہیں کیا گیا جس رنگ میں تم نے بیان می کیا ہے.آخر کہنے لگا میں نے سمجھا تھا کہ دوسرے کے دل میں ایمان پیدا کرنے کے لیے ا کرنا جائز ہے.میں نے کہا خدا اور اس کا سلسلہ تمہارے جھوٹ کا محتاج نہیں.اگر تم جھوٹ بول کر سلسلہ کی طرف کوئی غلط بات منسوب کرتے ہو تو چاہے تم دوسرے کے اندر ایمان پیدا کرنے کے لیے ہی ایسا کیوں نہ کرو، یہ ایک شدید ترین گناہ ہے اور اس کا ارتکاب تمہیں مجرم بنانے والا ہے.تو بعض دفعہ انسان یہ خیال کر لیتا ہے کہ فلاں موقع پر جھوٹ بولنا جائز ہے یا فلاں شخص سے بد دیانتی، بددیانتی نہیں کہلا سکتی.مگر یہ اس کے نفس کا دھوکا ہو تا ہے.جسے جھوٹ بولنے کی عادت ہوتی ہے وہ ہر شخص سے جھوٹ بولتا ہے چاہے وہ مسلمان ہو، ہندو ہو ، سکھ ہو، عیسائی ہو.اور جو شخص سچ بولنے کا عادی ہے وہ مسلمان سے بھی سچ بولے گا، وہ ہند و سے بھی سچ بولے گا، وہ سکھ سے بھی سچ بولے گا، وہ عیسائی سے بھی سچ بولے گا.اسی طرح جس شخص کے اندر دیانت پائی جاتی ہے وہ ہر شخص سے دیانتداری کا معاملہ کرے گا چاہے وہ اس کی قوم کا فرد ہو یا کسی اور قوم کا.اور جس شخص کے اندر بددیانتی پائی جاتی ہے وہ ہر شخص سے بددیانتی ہے

Page 15

خطبات محمود 15 $1944 ے گا چاہے وہ اس کے مذہب سے تعلق رکھنے والا ہو یا تعلق نہ رکھنے والا ہو.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرمایا کرتے تھے ایک دفعہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کی چوری ہو گئی.ان کا ایک غلام گھبرا کر ادھر اُدھر دوڑتا پھرتا اور کہتا خدا لعنت کرے اُس شخص پر جس نے چوری کی.ارے چوری اور پھر ابو بکر کی چوری.شام کو وہی زیور جو چرایا گیا تھا ایک یہودی کے پاس سے ملا اور اُس نے بیان کیا کہ میرے پاس یہی غلام فروخت کرنے کے لیے لایا تھا.حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کو معلوم ہوا تو آپ نے فرمایا اگر یہ چوری کرنے والے پر لعنت نہ کر تا تو شاید بچ جاتا.مگر اس نے تو لعنت ڈال کر اپنے آپ کو خود نگا کر لیا.تو یہ کہنا کہ یہ مسلمان کی چوری نہیں ہندو کی چوری ہے، یا مسلمان سے جھوٹ نہیں بولا گیا سکھ سے جھوٹ بولا گیا ہے ، یا مسلمان سے یہ بد دیانتی نہیں کی گئی ایک عیسائی سے بد دیانتی کی گئی ہے میں بالکل لغو اور فضول بات ہے.مومن کے اخلاق تو ایسے ہونے چاہیں کہ جن لوگوں سے وہ معاملہ کر رہا ہو انہیں وہ خواہ جانتا ہو یا نہ جانتا ہو، سب کے ساتھ اس کا حسن سلوک یکساں ہو.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں مومن وہ ہے جو ہر ملنے والے کو سلام کرتا ہے.چاہے وہ اسے جانتا ہو یانہ جانتا ہو.2 اس حدیث کے اور بھی معنے ہیں مگر اس کا ایک یہ مفہوم بھی ہے کہ مومن کا سلام اور اس کا حُسن سلوک کسی خاص شخص سے مخصوص نہیں ہو تا بلکہ ہر شخص کے ساتھ اس کا اخلاقی برتاؤ یکساں ہوتا ہے چاہے وہ اس کو جانتا ہو یا نہ جانتا ہو.تو مومن وہی ہے جس کے حُسنِ سلوک اور جس کے اعلیٰ اخلاق کا تعلق کسی خاص شخص یا کسی خاص قوم سے مخصوص نہ ہو بلکہ ہر شخص کے ساتھ اس کا یکساں تعلق ہو.خواہ وہ اُس کا واقف ہو یا ناواقف.یہ نہ ہو کہ وہ اپنے دوست سے معاملہ کرتے وقت تو حُسنِ سلوک سے کام لے اور دشمن سے معاملہ کرتے وقت بداخلاقی پر اتر آئے.کیا یہ ہو سکتا ہے کہ تمہاری جیب میں مشک پڑا ہو اور اس کی خوشبو صرف تمہارا دوست سُونگھے تمہارا دشمن اس کو نہ سونگھ سکے ؟ کیا یہ ہو سکتا ہے کہ تمہارے گلے میں پھولوں کا ہار پڑا ہوا ہو اور اس کے پھولوں کی مہک تمہارے دماغ میں تو آئے یا تمہارے عزیزوں کے دماغ میں تو آئے لیکن تمہارا غیر اس سے محروم رہے؟ کیا یہ ہو سکتا ہے کہ اگر تم می

Page 16

$1944 16 خطبات محج محمود خوبصورت ہو، تمہارا رنگ سفید ہے، تمہارے نقش اچھے ہیں تو تم اپنے دوست کو تو خو بصورت نظر آؤ لیکن دشمن کو خوبصورت نظر نہ آؤ؟ اگر تمہارے اندر حسن پایا جاتا ہے تو وہ ہر شخص کو نظر آئے گا، چاہے وہ تمہارا واقف ہو یا نا واقف.اسی طرح اگر تمہارے گھر میں گند ہو گا تو یہ نہیں ہو گا کہ وہاں اگر تمہارا دشمن آجائے تو اس کا دماغ تو گند سے پھٹنے لگے لیکن تمہارے دوست کو گند محسوس نہ ہو.یقیناً جس طرح تمہارے دشمن کا دماغ پھٹے گا اُسی طرح اس گند سے تمہارے دوست کا دماغ بھی پھٹے گا.اسی طرح اگر تمہارے پاس خوشبو ہے تو وہ ہر ایک کو آئے گی.یہ نہیں ہو سکتا کہ وہ دوست کو آئے اور دشمن کو نہ آئے.اگر خوشبو تم میں اور تمہارے غیر میں امتیاز نہیں کر سکتی تو یہ کس طرح ممکن ہے کہ تمہارے دل میں ایمان پایا جائے اور پھر تم زید سے اور سلوک کرو اور بکر سے اور سلوک کرو، مسلمانوں سے اور رنگ میں پیش آؤ اور ہندوؤں، سکھوں اور عیسائیوں سے اور رنگ میں پیش آؤ.اگر تمہارے دل میں ایمان ہو گا، اگر تم واقع میں با اخلاق ہو گئے اور اگر تم حقیقت میں اپنے اندر نیکی اور تقوی رکھتے ہے ہوگے تو تمہاری نیکی کی خوشبو جس طرح تمہارے دوست کے ناک میں جائے گی اُسی طرح تمہارا دشمن بھی اس سے متاثر ہو گا.لیکن اگر ایسا نہیں، اگر تمہارا دشمن تمہارے اندر اعلی منی اخلاق نہیں دیکھتا، اگر تمہارے حسن سلوک کا وہ کوئی مشاہدہ نہیں کرتا تو اس کے معنے یہ ہیں کہ تمہارے اندر ایمان نہیں پایا جاتا.ورنہ کس طرح ممکن ہے کہ ایک ہی شیشی کا منہ جب دوستوں کی طرف ہو تو انہیں اس میں سے خوشبو آئے اور جب اس کا منہ دشمنوں کی طرف کر دیا جائے تو انہیں اس سے بد بو محسوس ہو.پس اخلاق کی درستی نہایت ہی ضروری چیز ہے اور ہماری جماعت کے دوستوں کو اس طرف توجہ کرنی چاہیے.یاد رکھو! اخلاق کے بغیر تم میں کبھی وہ مضبوطی اور وہ جرآت پیدا نہیں ہو سکتی جو اسلام می پیدا کرنا چاہتا ہے.مومن تو اپنے ایمان میں ایسی پختگی رکھتا ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کے دین کے لیے ہر قربانی کرنے کے لیے تیار رہتا ہے.زمین و آسمان ٹل سکتے ہیں لیکن اس کی قربانی کے ارادے نہیں مل سکتے کیونکہ می وہ غیر متزلزل ہوتے ہیں.جیسے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ احد پہاڑ کے متعلق اگر تم سنو کہ وہ ہے اپنی جگہ سے بدل گیا ہے تو اسے تسلیم کر لو لیکن تم اس بات کو کبھی تسلیم نہ کرو کہ کسی شخص کی فطرت اور می

Page 17

$1944 17 خطبات محمود طبیعت بدل گئی ہے.اسی طرح جب ایمان کسی شخص کی طبیعت ثانیہ بن جاتا ہے تو اسے کوئی طاقت ایمان سے منحرف نہیں کر سکتی.اس کا سلوک جیسے مومنوں سے ہوتا ہے اسی طرح کافروں سے حسن سلوک کرنا اس کا شیوہ ہوتا ہے.جس طرح تمہاری شکلیں تبدیل نہیں ہو سکتیں، جس طرح تمہارا رنگ تبدیل نہیں ہو سکتا، جس طرح یہ نہیں ہو سکتا کہ تمہاری شکل تمہارے دوست کو اور طرح نظر آئے اور تمہارے دشمن کو اور طرح دکھائی دے، تمہارا دوست تمہارے رنگ کو سفید سمجھے اور تمہارا دشمن تمہارے رنگ کو سیاہ سمجھے اسی طرح اگر ایمان تمہاری طبیعت ثانیہ بن چکا ہے تو یہ نا ممکن ہے کہ تم ایک سے کچھ سلوک کرو اور دوسرے سے کچھ سلوک کرو.لیکن اگر تمہاری طبیعت ثانیہ نہیں بنا تو جب بھی قربانی کا موقع آئے گا تم پھسل جاؤ گے اور تم کبھی بھی مومنوں کی صف میں کھڑے نہیں رہ سکو گے.پس اگر ایمان کسی شخص کی طبیعت ثانیہ نہیں بنا.یا اگر کوئی شخص ایسا ہے جو کہتا ہے میں احمدی سے جھوٹ نہیں بولتا صرف غیر احمدی سے جھوٹ بولتا ہوں، یا احمدی سے بد دیانتی نہیں کرتا صرف ہندو یا سکھ سے بد دیانتی کرنا جائز سمجھتا ہوں تو یہ ثبوت ہوتا ہے اس بات کا، یہ تھرمامیٹر ہوتا ہے اس امر کے پہچاننے کا کہ تمہارے اندر کس قدر ایمان پایا جاتا ہے.پس اگر کسی شخص میں یہ بات پائی جاتی ہے کہ وہ اپنوں اور غیروں سے معاملہ کرتے وقت اخلاق اور محسن سلوک میں امتیاز کرتا ہے ہے تو اسے سمجھ لینا چاہیے کہ اُس کا ایمان کچا ہے اور جب بھی خدا تعالیٰ کی طرف سے اُس کے دین کے لیے قربانی کی آواز آئے گی اس کا نفس کوئی نہ کوئی بہانہ بنا کر اُسے قبول کرنے سے محروم رہ جائے گا.اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اس نقص سے بچائے اور ہمارے اندر وہ اخلاق پیدا فرمائے جو دنیا میں ہر شخص کو نظر آنے لگ جائیں.خواہ وہ ہمارا واقف ہو یا نا واقف اور خواہ وہ ہمارے مذہب کو ماننے والا ہو یا نہ ماننے والا.ہمارا حسن سلوک ہر شخص سے یکساں ہو اور ہمارے اندر وہ اپنے فضل و کرم سے ایسی مضبوطی پیدا کرے کہ ہم خدا تعالیٰ کی آواز سننے اور اُسے قبول کرنے کے لیے ہر وقت اور ہر حالت میں تیار رہیں.اللهم آمین.66 الفضل 12 / اپریل 1944ء) 1 : ترمذی ابواب الصلوة باب ما جاء في كراهية الكلام والامام يخطب

Page 18

--_--_--_--_--_------------ $1944 18 خطبات محمود 23 : بخاری کتاب الجهاد باب فضلِ النَّفَقَةِ في سبيل الله : بخارى كتاب الجهاد باب يقاتل من وراء الامام ويتقى به 4 : الانعام: 164 ج 5 : عَفَا اللهُ عَنْكَ لِمَ اَذِنْتَ لَهُمْ حَتَّى يَتَبَيَّنَ لَكَ الَّذِينَ صَدَقُوا وَ تَعْلَم 6 الكذِبِينَ (التوبة: 43) : زاد المعاد، حصہ سوم، صفحه 50 (اردو ترجمه از رئیس احمد جعفری) مطبوعہ انٹر نیشنل پر لیس کراچی.1962ء 1 : المائدة: 25 ضمیمہ تحفہ گولڑو یہ روحانی خزائن جلد 17 صفحه 77 بخاری کتاب الاستئذان باب السلام للمعرفة وغير المعرفة

Page 19

خطبات محمود $1944 19 2 جماعت احمدیہ کا پروگرام عبادتیں کرنا اور قربانیوں میں ترقی کرنا (فرمودہ 14 جنوری 1944ء) تشہد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: " قرآن کریم میں ایک سورۃ ہے مختصر چھوٹی سی، صرف تین آیتوں کی جس کے متعلق اس سال میں نے جلسہ سالانہ پر عورتوں میں ایک تقریر کی تھی.میں سمجھتا ہوں کہ اس کا مضمون اس قابل ہے کہ اُسے بار بار اور مختلف پیرایوں میں ہماری جماعت کے مردوں اور عورتوں میں دُہرایا جائے کیونکہ اس کا ایک مفہوم ہماری جماعت کے پروگرام کے ساتھ تعلق رکھتا ہے.اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ إِنَّا أَعْطَيْنُكَ الْكَوْثَرَ فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرْه إِنَّ شَانِئَكَ هُوَ الْاَبْتَرُ 10 اور بھی اس کے مفہوم اور مطالب ہیں جن کا بیان کرنا اس موقع پر ضروری نہیں.جس مفہوم کی طرف نہیں ہے توجہ دلانا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ کوثر کے ایک معنے ایسے آدمی کے بھی ہیں جو کثرت سے صدقہ و خیرات کرنے والا ہو.2 پس جہاں اس سورۃ میں اور مطالب کی طرف رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو توجہ دلائی گئی ہے وہاں اللہ تعالی نے اس امر کی طرف بھی آپ کو توجہ ہیں --------

Page 20

خطبات محمود 20 $1944 دلائی ہے کہ ہم تجھے ایک ایسا بیٹا عطا فرمانے والے ہیں جو بہت ہی صدقہ و خیرات کرنے والا ہو گا.دوسری طرف ہم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی نسبت جو پیشگوئی احادیث میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے فرمائی ہوئی پاتے ہیں اس میں یہ نظر آتا ہے کہ وہ مال تقسیم کرے گا اور لوگ اس کو لیں گے نہیں.يُفيضُ الْمَالَ.وہ مال دنیا میں بہادے گا.لوگوں نے اس کے معنے یہ سمجھے ہیں کہ شاید وہ سونے اور چاندی کے سکے لوگوں کو دے گا.حالانکہ سونے اور چاندی کے جو سکتے ہیں ان کو قبول کرنے والے کچھ نہ کچھ لوگ ہمیشہ ہی دنیا میں موجود رہتے ہیں.کروڑوں کروڑ روپیہ رکھنے والے لوگ ہوتے ہیں مگر پھر بھی ان کے دلوں میں لوگوں سے مال لینے کی حرص اور خواہش ہوتی ہے.کئی دفعہ بڑے بڑے افسروں کے خلاف ریل میں بغیر ٹکٹ سفر کرنے کے الزام میں مقدمات چل جاتے ہیں.حالانکہ غریب آدمی بالعموم پیسے ادا کر کے ٹکٹ لیتے ہیں.تم کبھی کسی دکاندار کے سامنے ایک غریب سے غریب شخص کو بھی یہ کہتے نہیں سنو گے کہ میری غربت کی وجہ سے تم فلاں ہے چیز کی قیمت کم کر دو.کیونکہ وہ جانتا ہے کہ دکاندار میرے کہنے پر قیمت کم نہیں کرے گا.لیکن کئی مالداروں کو میں نے دیکھا ہے وہ دکانداروں سے جھگڑتے ہیں اور کہتے ہیں ہماری خاطر تم ہے اس میں سے کتنا چھوڑو گے ؟ حالانکہ وہ روپے والے ہوتے ہیں.مگر باوجود اپنے تمول اور اپنی دولت کے اور باوجود اپنے پاس زیادہ روپیہ رکھنے کے ان کی حرص کم نہیں ہوتی بلکہ زیادہ ہی ہے ہوتی ہے.اور وہ دکاندار سے بار بار یہی کہتے سنے جاتے ہیں کہ ہم جو تمہاری دکان پر چل کر آئے ہیں تو اب ہماری خاطر تمہیں قیمتیں ضرور کم کرنی پڑیں گی.چند سال ہوئے میں بمبئی گیا.وہاں ایک دن میں کپڑ ا خریدنے کے لیے ایک دکان پر چلا گیا اور میں نے دکاندار سے کہا کہ کئی دکاندار ایسے ہوتے ہیں جو اپنی چیزوں کی قیمتیں آگے ہے پیچھے کرتے رہتے ہیں.پنجاب میں بھی ایسے دکاندار پائے جاتے ہیں اور بمبئی میں بھی ہیں.تم ہی یہ بتاؤ کہ تمہارا کیا اصول ہے ؟ وہ کہنے لگا ہماری چیزوں کی تو ایک ہی قیمت ہوا کرتی ہے.میں نے کہا می اب اس پر قائم رہنا.ہم بھی تمہارے ساتھ قیمتوں کے متعلق کوئی جھگڑا نہیں کریں گے.اُس وقت اس دکان میں دو اور آدمی بھی بیٹھے ہوئے تھے اور انہوں نے اُس سے کوئی سودا

Page 21

خطبات محمود 21 $1944 خریدا تھا جس کابل ایک سو تین یا ایک سو چار روپیہ تک جا پہنچا تھا.میں نے دیکھا کہ وہ دونوں اس دکاندار سے بحث کر رہے تھے کہ یہ تو ہوئی چیزوں کی قیمت، تم یہ بتاؤ کہ اب تم نے اس میں سے چھوڑنا کیا ہے؟ اور وہ یہ کہہ رہا تھا کہ ہمارا تو ایک ہی بھاؤ مقرر ہے ہم قیمتوں میں کمی بیشی نہیں کیا کرتے.تھوڑی دیر کے بعد مجھے معلوم ہوا کہ ان میں سے ایک بمبئی کے کوئی مشہور سیٹھ صاحب ہیں اور دوسرا ان کا سیکرٹری ہے کیونکہ دوسرا شخص بار بار کہتا تھا کہ سیٹھ میں صاحب تمہارے پاس آئے ہیں تمہیں ان کی خاطر تو قیمتوں میں ضرور کمی کرنی چاہیے اور دکاندار یہ کہتا تھا کہ میری دکان پر ایک ہی قیمت ہوتی ہے کمی بیشی نہیں ہوتی.غرض اسی طرح آدھ گھنٹہ ضائع ہو گیا.آخر وہ ایک سو روپیہ کا نوٹ اسے دے کر چلے گئے اور اوپر کی رقم انہوں نے نہ دی.ان کے چلے جانے کے بعد میں نے دکاندار سے کہا کہ آپ تو کہتے تھے ہمارا ایک ہی بھاؤ مقرر ہے اور ان لوگوں سے آپ نے اتنے روپے کم وصول کیے ہیں.وہ کہنے لگا.کوئی انصاف ہے؟ یہ تو صریح جبر ہے کہ سودا لے لیا اور قیمت نہ دی.پھر کہنے لگا یہ جو سیٹھ میری دکان پر آیا ہے یہ بمبئی کے تمام ہندوستانی تاجروں میں سے دوسرے نمبر پر ہے اور یہ روزانہ جتنی کمائی کرتا ہے اُس کا آپ اس سے اندازہ لگا سکتے ہیں کہ آدھ گھنٹہ جو اس نے میری دکان پر ضائع کیا ہے اس آدھ گھنٹے میں یہ دس پندرہ ہزار روپیہ کمالیتا ہے.مگر باوجود اس قدر دولت و ثروت کے صرف تین چار روپے چھڑانے کے لیے اس نے اپنا وقت بھی ضائع کیا اور میرا وقت بھی ہے ضائع کیا.تو مال کے لحاظ سے ہم دیکھتے ہیں کہ ایک ایسا آدمی جس کی سالانہ آمدنی چالیس پچاس بلکہ ساٹھ لاکھ روپیہ کی تھی وہ بھی آدھ گھنٹہ تک ایک دکاندار سے لڑتا جھگڑ تا رہا.محض اس میں لیے کہ اس کے بل میں سے تین چار روپے کم ہو جائیں اور وہ بار بار اپنی امارت کا واسطہ دیتا تھا.وہ یہ نہیں کہتا تھا کہ میں غریب ہوں اس لیے تم اتنی قیمت کم کر دو بلکہ وہ کہتا تھا میں امیر ہوں اور میری امارت کا تقاضا یہ ہے کہ چونکہ میں خود چل کر تمہارے پاس آیا ہوں اس لیے تم مجھ سے کم قیمت وصول کرو.جب دنیا کی یہ حالت ہے تو کون عقلمند یہ خیال کر سکتا ہے کہ کسی زمانہ میں مسیح موعود لو گوں کو لاکھوں روپیہ دے گا اور وہ اس کے لینے سے انکار کر دیں گے.وہ شخص جس نے دو چار روپوں کے لیے اپنا آدھ گھنٹہ ضائع کر دیا وہ شخص جس نے دو چار روپوں میں

Page 22

$1944 22 22 خطبات محمود کے لیے دکاندار کے ایک اصول کو توڑ دیا، وہ شخص جس نے دو چار روپوں کے لیے نہ صرف اپنا وقت ضائع کیا بلکہ ہمارا وقت بھی ضائع کیا وہ اور اسی قسم کے اور لوگ بجائے مال لینے سے انکار کرنے کے میرے نزدیک تو اس بات کے لیے بھی تیار ہو جائیں گے کہ اگر انہیں روپوں کے لیے لیے ناک بھی رگڑنی پڑے تو انہیں اس میں کوئی عذر نہ ہو گا.ادھر ہم دیکھتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں کہ نوح کے ہے زمانے سے لے کر تمام انبیاء یہ خبر دیتے چلے آئے ہیں کہ مسیح موعود کے زمانہ میں اتنے گناہ ہوں گے ، اتنی خرابیاں ہوں گی کہ اتنی خرابیاں اور کسی نبی کے وقت میں نہیں ہوں گی.گویا ہے ادھر تو آپ یہ فرماتے ہیں کہ وہ زمانہ ایسا خراب ہو گا کہ اس کی مثال اور کسی زمانہ میں نہیں ملے گی اور دوسری طرف کہا جاتا ہے کہ آپ یہ فرماتے ہیں کہ اس زمانہ کے لوگ اتنے ہی وسیع الحوصلہ ہوں گے ، اس قدر ان کے نفس دنیوی اموال کی محبت سے بیزار ہو چکے ہوں گے اور ان کے دلوں سے دنیا کی محبت اس طرح جاتی رہے گی کہ مسیح موعود اُنہیں مال دے گا مگر وہ لینے سے انکار کر دیں گے.ان دونوں باتوں کا ایک زمانہ میں اجتماع عقل کے بالکل خلاف ہے.یا تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہ فرماتے کہ مسیح موعود کا زمانہ ایسا اعلیٰ ہو گا کہ لوگ می سیر چشم ہوں گے ، ان کی طبیعتوں میں غناء کا مادہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہو گا، ان کے دل دنیاوی اموال کی محبت سے بالکل خالی ہوں گے ، حرص اور لالچ اور طمع ان کے اندر نہیں ہو گا اور وہ اس قدر دنیا سے دور ہوں گے کہ مسیح موعود ان کو مال دے گا تو وہ کہیں گے حضرت ! ہم نے اس جیفہ دنیا کو کیا کرنا ہے ہمیں خدا کی رضا کافی ہے.مگر ایک طرف یہ کہنا کہ اس زمانہ کے لوگ سخت خراب اور گندے ہوں گے ، ان کی طبیعتوں میں لانچ پایا جاتا ہو گا، وہ شیطان کی مچی اتباع کرنے والے ہوں گے ، بات بات پر لڑائی جھگڑا کریں گے ، خدا اور رسول کی محبت ان کے ا دلوں سے اٹھ جائے گی اور اس قدر خرابیاں ان میں پیدا ہو چکی ہوں گی کہ نوش کے زمانہ سے لے کر آج تک کسی نبی کے زمانہ کے لوگ اتنے خراب نہیں ہوئے.اور دوسری طرف یہ کہنا ہے کہ وہ اتنے سیر چشم، اتنے نیک اور متقی اور اس قدر غناء کا مادہ اپنے اندر رکھنے والے ہوں گے کہ مسیح موعود ان کو مال دے گا تو وہ اس کو لینے سے انکار کر دیں گے.یہ دو باتیں ایسی ہیں جن کا

Page 23

خطبات محمود 23 $1944 اجتماع کوئی عقلمند مان ہی نہیں سکتا.اور اسے تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ اس مال سے مراد ظاہری مال و دولت نہیں، ظاہری سونا اور چاندی مراد نہیں ہے بلکہ مال سے مراد وہ معارف ہیں جو مسیح موعود کی زبان پر جاری ہوں گے ، علم و عرفان کے وہ چشمے ہیں جو اس کے لبوں سے چھوٹیں گے، تعلق باللہ کے وہ اسرار ہیں جو اس کے ذریعہ عالم پر منکشف ہوں گے.اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خبر یہ دی ہے کہ جب مسیح موعود آئے گا تو وہ قرآن و حدیث کے ایسے ایسے نکات بیان کرے گا، خدا اور بندوں کے تعلق کے متعلق ایسی پر معرفت باتیں پیش کرے گا اور اسلام کو غالب کرنے کے لیے ایسے ایسے علوم دنیا میں ظاہر کرے گا کہ جن سے لوگ بالکل واقف نہیں ہوں گے.گویا اموالِ روحانی کا ایک خزانہ ان کے سامنے رکھا جائے گا مگر لوگ اپنی بیماری کی وجہ سے اور اپنی طبیعت کے گند اور نفس پرستی کی وجہ سے اُس خیر کا انکار کر دیں گے جو مسیح موعود اُن کو دے گا.چنانچہ ہم دیکھتے ہیں جن کے دلوں میں اس قسم کی روحانی باتوں کی قدر و قیمت ہوتی ہے وہ جب دیکھتے ہیں کہ جماعت احمد یہ کے ذریعہ معارف کا ایک دریا بہایا جا رہا ہے تو وہ حیران ہوتے ہیں کہ یہ جماعت کر کیا رہی ہے اور کیوں ایسے انمول موتی لوگوں کے سامنے بکھیرتی چلی جا رہی ہے.میں نے جب ایک دفعہ ذکر الہی پر جلسہ سالانہ میں تقریر کی تو غالباً ایک غیر احمدی صاحب نے مجھے ایک رقعہ لکھا کہ آپ یہ کیا کر رہے ہیں کہ وہ باتیں جو صوفیاء دس دس سال کی محنت شاقہ کے بعد لوگوں کو بتایا کرتے تھے آپ نے وہ ساری باتیں اپنی ایک ہی تقریر میں بیان کر دی ہیں.گویا ایک طرف ہے مسیح موعود کی بعثت سے پہلے دنیا کے لوگ ایسے خراب ہو چکے تھے کہ دین کی اچھی سے اچھی ہے باتیں ان کے سامنے پیش کی جاتیں تو وہ ان کا انکار کر دیتے اور دوسری طرف وہ لوگ جنہیں تھوڑا بہت دین آتا تھا، انہوں نے دین کی ان باتوں کو اپنی تجارت کا ایک ذریعہ بنالیا تھا.چنانچہ وہ پہلے لوگوں سے اچھی طرح خدمت لیتے اور پھر سالہا سال کے بعد کوئی ایک بات ان کو بتاتے.منشی احمد جان صاحب لدھیانہ والے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے دعوی سے پہلے ہی وفات پا گئے تھے.مگر ان کی روحانی بینائی اتنی تیز تھی کہ انہوں نے مچی

Page 24

خطبات محمود 24 دعویٰ سے پہلے ہی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو لکھا کہ $1944 ہم مریضوں کی ہے تمہی یہ نظر تم مسیحا بنو خدا کے لیے انہوں نے اپنی اولاد کو مرتے وقت وصیت کی تھی کہ میں تو اب مر رہا ہوں مگر اس بات کو اچھی طرح یاد رکھنا کہ مرزا صاحب نے ضرور ایک دعوی کرنا ہے اور میری وصیت تمہیں یہی ہے کہ مرزا صاحب کو قبول کر لینا.غرض اس پایہ کے وہ روحانی آدمی تھے.انہوں میں نے اپنی جوانی میں 12 سال تک وہ چنگی جس میں بیل جو تا جاتا ہے اپنے پیر کی خدمت کرنے می کے لیے چلائی اور 12 سال تک اس کے لیے آٹا پیتے رہے تب انہوں نے روحانیت کے سبق ان کو سکھائے.تو وہ لوگ جو روحانی کہلاتے تھے وہ بھی لوگوں کو روحانی باتیں بتانے میں سخت بخل سے کام لیا کرتے تھے.لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے نہ صرف وہ ساری باتیں دنیا کو بتا دیں بلکہ ان سے ہزاروں گنا زیادہ اور باتیں بھی ایسی بتائیں جو پہلے لوگوں کو معلوم نہیں تھیں اور اس طرح علوم کو آپ نے ساری دنیا میں بکھیر دیا.مگر جیسا کہ حدیثوں میں خبر دی گئی تھی دنیا نے اس کی قدر نہ کی.پس رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اس تشریح نے بھی بتا دیا کہ کوثر سے مراد مسیح موعود ہے.کیونکہ کوثر کے معنے اُس سخی انسان کے ہوتے ہیں جو کثرت سے صدقہ و خیرات کرنے والا ہو.اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں کہ میری امت میں ایک ایسا شخص آنے والا ہے جو خزانے لٹائے گا مگر لوگ ان خزانوں کو قبول نہیں ہے کریں گے.اس تشریح سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ کوثر سے مراد مسیح موعود ہی ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اِنَّا أَعْطَيْنَاكَ الْكَوْثَرَ - اے محمد رسول اللہ ! ہم تجھے ایک ایسا روحانی بیٹا عطا کرنے والے ہیں جو خیر کثیر رکھتا ہو گا جو علومِ روحانیہ کا ایک خزانہ ہو گا.ایسے آدمی کی بعثت پر ہر مومن کا فرض ہوگا کہ فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرُ وہ اللہ تعالیٰ کے حضور عبادتیں کرے اور زیادہ سے زیادہ قربانیاں بجا لائے.یہ صاف بات ہے کہ جبکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جن کے زمانہ میں اس

Page 25

$1944 25 محمود عظیم الشان انسان نے نہیں آنا تھا ان کو اللہ تعالیٰ یہ فرماتا ہے کہ تم اس شکریہ میں میری عبادت کرو اور قربانیوں میں پہلے سے بھی زیادہ جوش سے حصہ لو تو وہ لوگ جن کے زمانہ میں اس انسان نے آنا تھا ان پر یہ کیوں فرض نہیں ہو گا کہ وہ اس شکریہ میں اللہ تعالی کی زیادہ ہے عبادتیں کریں اور اس کے دین کی اشاعت کے لیے زیادہ سے زیادہ قربانیاں کریں.آخر فائدہ تو انہوں نے ہی اٹھانا تھا جن کے زمانہ میں اس انسان نے مبعوث ہونا تھا اور اس لحاظ سے اس نعمت کا زیادہ شکریہ ادا کرنا انہی کا فرض ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس رنگ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا فائدہ نہیں پہنچا جس رنگ میں لوگوں کو آپ کی بعثت کا من فائدہ ہوا ہے.اور اگر دین کی اشاعت کے لحاظ سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فائدہ ہوا ہے تو پھر بھی استاد استاد ہی ہے اور شاگرد شاگر د ہی ہے.مگر جب ایک اچھے شاگرد کے متعلق رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ کہا گیا ہے کہ وہ عبادتیں کریں اور قربانیوں میں حصہ لیں تاکہ اس فضل کا شکریہ ادا ہو سکے تو وہ لوگ جو اس مسیح موعود کے شاگرد ہیں ان پر یہ کس قدر فرض عائد ہوتا ہے کہ وہ عبادتوں اور قربانیوں میں پہلے سے بہت زیادہ حصہ لیں.جس شاگرد کے متعلق استاد کو یہ کہا گیا ہے کہ تم نمازیں پڑھو اور قربانیاں کرو، اس کے اپنے منی شاگردوں کو تو یقیناً لاکھوں گنا زیادہ عبادتیں کرنی چاہیں اور لاکھوں گنازیادہ قربانیوں میں.لینا چاہیے.پس مسیح موعود کی بعثت کے بعد اس حکم کی تعمیل سب سے زیادہ جماعت احمد یہ پر فرض ہے.فرماتا ہے فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرُ.اللہ تعالیٰ کی مرضی کی خاطر عبادتیں بجالا ؤ اور تم اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر قربانیاں کرو.اس شکریہ میں کہ اس نے تمہیں کوثر سے حصہ عطا فرمایا.گو یا اللہ تعالیٰ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مخاطب کر کے احمدی جماعت کو یہ بتایا ہے کہ مسیح موعود کی بعثت کے وقت ان کو کیا کام کرنا چاہیے.اللہ تعالی فرماتا ہے فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرُ.احمدیوں کا فرض ہے کہ وہ اپنے رب کی عبادت کریں اور اس کے دین کے لیے قربانیوں پر قربانیاں کرتے چلے جائیں.یہی ہمارا پروگرام ہے جو اس سورۃ میں بیان کیا گیا ہے.عربی زبان میں نحر اُس جانور کی قربانی کو کہتے ہیں جو ہمارے اپنے قبضہ میں

Page 26

خطبات محمود 26 $1944 ہوتا ہے.پس اس لفظ نے یہ بھی بتا دیا کہ مسیح موعود کے زمانہ میں سب سے بڑی قربانی اپنے نفس کا جہاد ہو گا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ میں سب سے بڑا کام دشمن سے جہاد کرنا تھا مگر اس زمانہ میں سب سے بڑا کام نحر کرنا ہو گا.اور نحر اُس جانور کی قربانی کو کہتے ہیں جو انسان کے اپنے قبضہ میں ہوتا ہے.پس اس لفظ نے یہ بھی بتا دیا کہ مسیح موعود کے زمانہ میں جہاد نہیں ہو گا یعنی دشمن کو تلوار سے مارنا ان کا کام نہیں ہو گا.بلکہ ان کا سب سے بڑا کام اپنے نفس کو مارنا اور اس سے جہاد کرنا ہو گا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ میں بڑی بھاری قربانی یہ تھی کہ اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈال کر دشمن کو کیفر کردار تک پہنچایا ہے جائے مگر فرمایا مسیح موعود کے زمانہ میں جہاد نہیں ہو گا بلکہ نحر ہو گا یعنی اُس زمانہ میں سے بڑی جنگ انسان کو اپنے نفس سے کرنی پڑے گی.صحابہ کے زمانہ میں بڑی قربانی یہ تھی کہ عتبہ اور شیبہ اور ابو جہل کو قتل کرنے کی کوشش کی جائے خواہ اس کوشش اور جدوجہد میں انسان خود ہی کیوں نہ مارا جائے.لیکن مسیح موعود کے زمانہ میں دشمن کو مارنے کا کام نہیں ہو گا.بلکہ بڑی قربانی یہ ہو گی کہ ہر انسان براہ راست اپنے نفس کو مارنے اور اسے ہلاک کرنے کی کوشش کرے.یہ ایک ایسا واضح پروگرام ہے کہ اس کے ہوتے ہوئے کسی اور پروگرام کی ہے طرف جانا قطعاً دانائی نہیں ہو سکتی.خدا سے بہتر کون پروگرام بنا سکتا ہے.یقیناً خدا سے بڑھ کر اور کوئی صحیح پروگرام نہیں بنا سکتا اور خدا نے جماعت احمدیہ کا یہ پروگرام بتا دیا ہے کہ وہ عباد تیں کرے اور قربانیوں میں ترقی کرے.عبادتوں میں سے سب سے اہم عبادت نماز باجماعت ہے.اس کے بعد ذکر الہی، ہے.اس نوافل پڑھنا، درود پڑھنا، تسبیح، تحمید اور تکبیر کرنا.یہ سب چیزیں عبادت میں شامل ہیں مگر میں دیکھتا ہوں ابھی تک ہماری جماعت میں اس طرف بہت ہی کم توجہ ہے.وہ مسجدوں میں آتے ہیں تو بجائے ذکر الہی کرنے کے فضول اور لغو باتوں میں مشغول ہو جاتے ہیں.حالانکہ صحابہ کا طریق یہ تھا کہ جب وہ اکٹھے ہوتے تو کہتے آؤ ہم اپنے ایمان تازہ کریں اور پھر وہ ایک دوسرے سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی باتیں اور آپ کے حالات سنتے.آخر ہر شخص مجلس میں موجود نہیں ہوتا.کئی باتیں ایسی ہوتی ہیں جو ایک شخص تو سنتا ہے مگر دوسرا

Page 27

خطبات محمود 27 $1944 نہیں سنتا.ایسی صورت میں صحابہ کا یہی طریق تھا کہ وہ بیٹھ کر ایک دوسرے کو رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی باتیں سنایا کرتے تھے.مگر اِس زمانہ میں لغو اور فضول باتوں میں بہت زیادہ وقت ضائع کیا جاتا ہے.حالانکہ ہمارے لیے حکم یہی ہے کہ فَصَلِ لِر پک تم اپنے اوقات اِس طرح صرف کرو کہ وہ سب کے سب تمہاری عبادت کی گھڑیاں بن جائیں.پھر فرماتا ہے وَانْحَرْ.تمہارا دوسرا کام یہ ہے کہ تم قربانیوں میں حصہ لو..جہاں تک مالی قربانی کا تعلق ہے اللہ تعالیٰ کے فضل سے آہستہ آہستہ ہماری جماعت ایک نہایت اعلیٰ مقام پر پہنچتی جا رہی ہے.مگر صرف مالی قربانی ہی قربانی نہیں بلکہ اور بھی کئی میں قسم کی قربانیاں کرنا جماعت کا فرض ہے.مثلا وقت کی قربانی ہے یہ بھی ایک اہم قربانی ہے.جذبات کی قربانی ہے یہ بھی ایک اہم قربانی ہے، مگر ان قربانیوں میں ابھی بہت بڑی ترقی کی امینی ضرورت ہے.میں دیکھتا ہوں کہ ذرا ذرا سی بات پر لوگ ایک دوسرے سے لڑنے لگ جاتے ہیں.حالانکہ اگر وہ اپنے جذبات کی قربانی سے کام لیں تو اس قسم کے جھگڑوں کی نوبت ہی نہ آئے.اسی طرح وقت کی قربانی میں تبلیغ بھی شامل ہے مگر اس طرف بہت ہی کم توجہ ہے.میں سمجھتا ہوں اگر ہماری جماعت تبلیغ کا فرض پورے طور پر ادا کرتی تو اب تک موجود ہے جماعت سے بیسیوں گنا زیادہ جماعت ہو جاتی.مگر یہ قربانی پیش کرنے کے لیے ہماری جماعت کے بہت کم دوست تیار ہوتے ہیں.ہر شخص جو یہاں بیٹھا ہے وہ اپنے اپنے نفس میں سوچے اور ہے غور کرے کہ اس نے پچھلے مہینے میں تبلیغ کے لیے کتنا وقت دیا ہے.اگر آپ لوگ غور کریں گے تو آپ کو معلوم ہو گا کہ کئی لوگ ایسے ہوں گے جنہوں نے سارے مہینے میں شاید ایک جی تبلیغ کے لیے دیا ہو گا.کئی ایسے ہوں گے جنہوں نے سارے مہینے میں شاید کسی کو دس منٹ تبلیغ کی ہو گی اور کئی ایسے ہوں گے جنہوں نے تبلیغ کی ہی نہیں ہو گی یا تبلیغ تو کی ہو گی مگر ی وہ حقیقی تبلیغ نہیں ہو گی.جب اس قسم کی عروفی طبائع پر چھائی ہوئی ہو تو محض مالی قربانی سے میں جماعت کی ترقی کس طرح ہو سکتی ہے.مالی قربانی کے ساتھ اگر اوقات کی قربانی نہیں ، اگر تبلیغ کے لیے دلوں میں ایک دیوانگی اور جوش نہیں تو یہ جماعت کی ترقی کی کوئی خوشکن علامت میں نہیں.بلکہ میرے نزدیک اگر روپیہ دینے والا تبلیغ نہیں کرتا اور وہ روپیہ دے کر ہی سمجھ ؟

Page 28

خطبات محمود 28 $1944 لیتا ہے کہ اُس نے اپنے فرض کو ادا کر دیا تو وہ اپنے آپ کو ایک شدید الزام کے نیچے لاتا ہے.کیونکہ وہ کہتا ہے تبلیغ کا جو کام میرے سپرد کیا گیا ہے وہ میری شان سے بہت ادنیٰ ہے اس لیے میں روپیہ دے دیتا ہوں تا کہ اس روپیہ کے بدلے کوئی اور شخص یہ کام کر دے مجھے یہ کام نہ کرنا پڑے.یہ ایک ایسا خطرناک الزام ہے جو اسے کسی صورت میں ہے بھی اللہ تعالی کے حضور بری نہیں کر سکتا.کیونکہ ایک طرف وہ روپیہ دے کر تبلیغ کی ہے ضرورت کو تسلیم کر لیتا ہے مگر دوسری طرف کہتا ہے میرے اپنے لیے تبلیغ ضروری نہیں.پس جو شخص چندہ تو دیتا ہے مگر تبلیغ نہیں کرتا وہ یہ نہیں کہہ سکتا کہ میں تبلیغ کو ہے ضروری نہیں سمجھتا.کیونکہ وہ چندہ دے کر تبلیغ کی ضرورت کو تسلیم کر لیتا ہے.اس سے جب خدا پوچھے گا کہ تو نے کیوں تبلیغ میں حصہ نہیں لیا تو وہ اس کا ایک ہی جواب دے ہے کہ میں تبلیغ کو ایک ادنی کام سمجھا کرتا تھا اس لیے میں نے چندہ دے دیا تھا تا کہ سکتا یہ کام کوئی اور شخص کرتا رہے.پس ہماری جماعت کو چاہیے کہ وہ اس پر وگرام کو اپنے سامنے رکھے جو خدا نے تجویز کیا ہے.وہ ایک طرف تسبیح، تحمید، تکبیر ، درود اور ذکر الہی میں حصہ لے اور دوسری طرف نہ ہے صرف مالی قربانیوں میں حصہ لے بلکہ اپنے اوقات اور جذبات کی قربانی بھی کرے.اس کے بغیر وہ شکریہ ادا نہیں ہو سکتا جس کا ادا کرنا مسیح موعود کی بعثت کے بعد ہم میں سے ہر شخص کا فرض ہے.جیسا کہ میری آواز سے ظاہر ہو رہا ہے گلے کی تکلیف کی وجہ سے بیٹھ گئی ہے اس لیے میں اس وقت کچھ زیادہ نہیں کہہ سکتا.صرف اللہ تعالیٰ سے دعا کر دیتا ہوں کہ جس طرح اُس نے ہمیں مالی قربانیوں میں بڑھنے کی توفیق عطا فرمائی ہے اُسی طرح اللہ کرے ہماری جماعت پر وہ دن بھی آجائے جب ہم میں سے ہر شخص اپنے جذبات کو قربان کرنے کے لیے بھی تیار ہو جائے، اپنے نفس کو قربان کرنے کے لیے بھی تیار ہو جائے، اپنے اوقات کو قربان کرنے کے لیے بھی تیار ہو جائے اور دنیا یہ ماننے پر مجبور ہو جائے کہ ان قربانیوں میں بھی کوئی قوم جماعت احمدیہ کے سامنے نہیں ٹھہر سکتی".

Page 29

--_--_--_--_--_--_--_--_--_--~~ محمود خطبہ ثانیہ میں فرمایا:.29 29 $1944 "میں نماز قصر کر کے پڑھاؤں گا اور گو مجھے یہاں آئے چودہ دن ہو گئے ہیں مگر چونکہ علم نہیں کہ کب واپس جانا ہو گا اس لیے میں نماز قصر کر کے ہی پڑھاؤں گا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ایک دفعہ گورداسپور میں دو ماہ سے زیادہ عرصہ تک قصر نماز پڑھتے رہے کیونکہ آپ کو پتہ نہیں تھا کہ کب واپس جانا ہو گا ".(الفضل 25 مئی 1944ء) 1 : الكوثر : 1 تا آخر 2 :المنجد 3 :بخاری، کتاب الانبياء، باب نزول عیسی ابن مریم

Page 30

خطبات محمود $1944 30 3 اپنے زمانہ کی اہمیت کو سمجھو اور اس سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اُٹھاؤ (فرموده 21 جنوری 1944ء بمقام لاہور) تشہد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: " انسانی فطرت کچھ اس قسم کی ہے کہ انسان بار بار کے تجربہ کے باوجود وہ اپنے لیے ایک ایسی عادت اور ایسا دستور العمل نہیں بنا سکتا کہ وہ اپنے وقت پر کسی چیز کے فوائد کو حاصل ہے کر سکے.پہلے تو وہ ایک عرصہ اس بات میں ضائع کر دیتا ہے کہ جو چیز اس کے سامنے آئی ہے آیا وہ کوئی اہمیت رکھتی بھی ہے یا نہیں رکھتی.پھر کچھ عرصہ وہ اس بات میں گزار دیتا ہے کہ وہ چیز اگر اہمیت رکھتی ہے تو اس کی اہمیت نیک ہے یابد.پھر جب وہ اس کی اہمیت کو سمجھ لیتا ہے مثلاً اس کے متعلق یہ فیصلہ کر لیتا ہے کہ وہ نیک اہمیت رکھتی ہے اُس سے فائدہ اٹھانا چاہیے تو پھر وہ ایک عرصہ اس بات کا اندازہ لگانے میں صرف کر دیتا ہے کہ وہ نیک اہمیت کتنا درجہ رکھتی ہے.اور بسا اوقات جب وہ یہ فیصلہ کرتا ہے کہ وہ نیک اہمیت اتنی اہم اور ضروری ہے کہ نہ صرف وہ موجودہ زمانہ کے لوگوں کے لیے بلکہ آئندہ آنے والے لوگوں کے لیے بھی ایک بہت بڑا خدائی فضل اور خدائی انعام ہے تو اس وقت تک وہ اہمیت رکھنے والی چیز دنیا سے گزر چکی ہے

Page 31

خطبات محمود 31 $1944 ہوتی ہے.آج ہمیں لاکھوں کروڑوں یہودی اس بات کے لیے تکلیف اٹھاتے نظر آتے ہیں کہ وہ دین موسوی کو چھوڑنے کے لیے تیار نہیں ہیں.ان کی تجارتیں توڑی جاتی ہیں، ان کے مکان اور جائیدادیں ضبط کی جاتی ہیں، انہیں قتل کیا جاتا ہے، انہیں ملک بدر کیا جاتا ہے مگر وہ موسوی دین کے چھوڑنے کے لیے تیار نہیں ہوتے.حالانکہ موسوی دین کے ساتھ اب ان کا تعلق صرف سطحی رہ گیا ہے، حقیقی نہیں.اگر موسی کی صحیح است دنیا میں موجود ہوتی تو ہے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت کا زمانہ اس سے اور پیچھے جا پڑتا جس زمانہ میں آپ ظاہر ہوئے.بلکہ اگر موسی کی امت حقیقی موجود ہوتی تو حضرت عیسی علیہ السلام کے آنے کی بھی اُس وقت ضرورت نہ ہوتی جب آپ مبعوث ہوئے.تو جو حقیقی تعلق موسوی قوم کو حضرت موسی علیہ السلام سے تھا وہ ہزاروں سال اپنے اصل مقام سے پیچھے ہٹ چکا تھا.کم سے کم دو ہزار سال سے وہ تعلق قطع ہو چکا تھا.مگر باوجو د اِس کے کہ وہ حقیقی تعلق کھو چکے تھے اس تعلق کی اہمیت اُن کے دلوں میں رہ گئی.اور اس اہمیت کے احساس کا صحیح طریق اب کے - انہیں یہی نظر آتا ہے کہ وہ اپنی جائیدادوں سے بے دخل ہو جائیں، اپنے وطنوں سے الگ ہو جائیں، اپنے مال و اسباب کو قربان کر دیں، اپنی جانوں کو ہلاک کر دیں مگر موسوی دین سے ان امینی کا جو اتصال ہو چکا ہے اس پر کوئی زڈ نہ آنے دیں.لیکن وہی قوم جو آج صحیح طور پر موسوی تعلیم می کو بھی نہیں سمجھتی، جو اس تعلیم پر عمل بھی نہیں کرتی جو اسے دی گئی صرف اس کی اہمیت کا اثر یہ اس کے دل پر باقی رہ گیا ہے.ایک زمانہ میں جبکہ یہ قوم صحیح طور پر موسوی تعلیم پر عمل کرنے کی کوشش کرتی تھی جبکہ موسوی دین سے اس کا تعلق موجودہ تعلق سے یقینا ہزاروں گنا بڑھ کر تھا میں جبکہ موسی کی تعلیم کے زیر اثر اللہ تعالیٰ سے اتصال کی کوشش اس کا شب و روز کا کام تھا.اس کی حالت یہ تھی کہ اسے اتنا بھی معلوم نہ تھا کہ موسیٰ کے ساتھ مل کر دشمن سے جنگ کرنا کس قدر ضروری اور ان کی قومی زندگی کے لیے کیسا مفید ہے.بلکہ ایک موقع پر جب موسیٰ کو خدا تعالیٰ نے حکم دیا کہ آگے بڑھ کر دشمن کا مقابلہ کرو تو موسوی قوم کے لوگوں نے باوجود اس کے کہ وہ اس وقت کے یہود سے زیادہ نیک تھے، اس وقت کے یہود سے زیادہ خدا تعالیٰ سے تعلق پیدا کرنے کے خواہش مند تھے حضرت موسی علیہ السلام سے کہہ دیا کہ اذْهَبْ اَنْتَ وَ رَبُّكَ

Page 32

خطبات محمود 32 $1944 فَقَاتِلَا إِنَّا هُهُنَا فَعِدُونَ 10 موسیٰ ! جان دینا کوئی معمولی بات ہوتی ہے ؟ مانا کہ ہمارا تمہارے ساتھ تعلق ہے، مانا کہ ہم تمہیں ایک قیمتی وجود سمجھتے ہیں مگر اتنا قیمتی تو نہیں کہ تمہارے لیے قوم کی قوم کو برباد کر دیا جائے.جس جنگ کی آگ میں تم ہم کو جھونکنا چاہتے ہو، جس فتنہ میں تم ہم کو مبتلا کرنا چاہتے ہو وہ تو ایک ایسی خطر ناک آگ ہے جو ساری قوم کو بھسم کر دے گی اور تم اتنے قیمتی وجود نہیں کہ تمہارے کہنے پر تمام قوم کو تباہ ہونے دیا جائے.آخر تمہارا وجو د قوم ہے کے لیے ہے نہ کہ قوم کا وجود تمہارے لیے.یہ نقطہ نگاہ تھا جو اُس وقت کے یہود کا تھا حالانکہ وہ موجود و یہودیوں سے بہت زیادہ ترقی یافتہ اور بہت زیادہ ایمان رکھنے والے تھے.آخر ہم یہ کس نے طرح مان سکتے ہیں کہ موسٰی کے ساتھ رہنے والے، دن رات اللہ تعالیٰ کے نشانات دیکھنے والے، اس کے معجزات کا اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کرنے والے اور اس کی تائیدات کے کرشمے اپنی ذات میں دیکھنے والے موجودہ یہودیوں سے اپنے ایمان اور اپنے اخلاص میں کم تھے ؟ یقیناً وہ ان سے بڑھ کر تھے اور ہزاروں گنا بڑھ کر تھے.مگر وہ جو ساتھ رہنے والے تھے، انہوں نے تو یہ جواب دیا کہ اذْهَبْ اَنْتَ وَرَبُّكَ فَقَاتِلَا إِنَّا هُهُنَا فَعِدُونَ - تُو اور تیر ارب دونوں جائیں اور جاکر دشمن سے لڑیں ہم یہاں سے نہیں ملیں گے.مگر آج اس یہودی قوم ہے کے افراد جن کے اعمال اُس زمانہ سے بہت ہی کم ہیں، جن کے ایمان اُس زمانہ کے ایمان سے بہت ہی ادنی ہیں، جن کا اخلاص اُس زمانہ کے لوگوں کے اخلاص کے مقابلہ میں بالکل حقیر اور بیچ ہے اپنی جانیں بھی قربان کر رہے ہیں، اپنے اموال بھی قربان کر رہے ہیں، اپنے وطن بھی ہے قربان کر رہے ہیں، اپنے رشتہ داروں، عزیزوں اور دوستوں کو بھی قربان کر رہے ہیں، اپنے ملک کو بھی قربان کر رہے ہیں مگر وہ اس بات کے لیے تیار نہیں ہیں کہ موسیٰ کو چھوڑ دیں.اس لیے کہ وہ اُس چیز کی اہمیت کو آج اُس سے بہت زیادہ سمجھتے ہیں جس قدر اہمیت موسی کے زمانہ کے لوگ سمجھتے تھے.گویا علم دماغی تو رہ گیا، موسی کی اہمیت تو ان کے دلوں میں رہ گئی لیکن ایمان اور اخلاص مٹ گیا.مگر باوجود ایمان اور اخلاص کے مٹ جانے کے وہ دماغی تعلق جو ان کا حضرت موسٰی علیہ السلام سے تھا اتنا روشن ہوا کہ اب دنیا کی کوئی طاقت ان کو اس سے چھڑا نہیں سکتی.اس سے ہمیں معلوم ہوا کہ موسٰی کے زمانہ کے لوگ بھی موٹی کی اہمیت پر غور ہی کر چینی

Page 33

$1944 33 خطبات محمود رہے تھے کہ ان کی آزمائش کا وقت آگیا اور چونکہ انہوں نے ابھی تک یہ فیصلہ نہیں کیا تھا کہ موسی کی اہمیت کتنا درجہ رکھتی ہے وہ اس امتحان میں فیل ہو گئے اور انہوں نے کہہ دیا کہ جاؤ! تم اور تمہارا رب دشمن سے لڑتے پھر وہم تو نہیں جاسکتے.پھر ان پر ایک ایسازمانہ آیا کہ انہوں نے اپنے دلوں میں موسی کی اہمیت کا فیصلہ کر لیا اور انہوں نے کہا موسی کی اہمیت قومی زندگی سے بھی زیادہ ہے.بلکہ ہماری قومی زندگی اُس وقت تک ناممکن ہے جب تک موسٹی کی اہمیت کو ہماری قوم کا ہر فرد اچھی طرح نہ سمجھ لے.مگر جب انہوں نے یہ فیصلہ کیا اس وقت حضرت موسٰی علیہ السلام گزر چکے تھے ، حضرت موسی علیہ السلام کے خلفاء گزر چکے تھے بلکہ حضرت موسی علیہ السلام پر ابتدائی زمانہ میں ایمان لانے والے اور ان کو دیکھنے والے اتباع بھی گزر چکے تھے.اُس وقت وہ ایمان اور وہ اخلاص جو حضرت موسی علیہ السلام کے ذریعہ قوم میں پیدا ہوا تھا پھیکا پڑ چکا تھا، اللہ تعالیٰ سے قوم کا تعلق کمزور ہو چکا تھا، اتصال ٹوٹ چکا تھا، محبت اور اطاعت کا جوش سرد ہو چکا تھا.اب خالی موسٰی کی اہمیت ان کو قرب الہی نصیب نہیں کراسکتی تھی.پس جب تک موٹی کی اہمیت کے پر کھنے کا وقت تھا، جب تک موسیٰ سے فائدہ اٹھانے کا وقت تھا انہوں نے حضرت موسی کی اہمیت کو نہ پر کھا، انہوں نے موسیٰ سے فائدہ نہ اٹھایا.اور جب انہوں نے موسی کی اہمیت کو سمجھا تو فائدہ اٹھانے کا زمانہ گزر چکا تھا.پھر وہ ایک عام قوم کی طرح ہو گئے جو صرف زور اور طاقت کے ساتھ بڑھتی ہے ایمان کے ساتھ اس کے بڑھنے کا تعلق نہیں ہو تا.یہی حال ہمیں باقی دنیا میں نظر آتا ہے.جانے والے جانتے ہیں کہ عیسائی پادریوں نے نے مسیحیت کی اشاعت کے لیے کس قسم کی قربانیاں کی ہیں.بعض جگہ ایسے واقعات ہوئے ہیں کہ پادری آدم خور علاقوں میں تبلیغ کے لیے گئے اور حبشی انہیں بھون بھان کر کھا گئے مگر جب مرکز میں تار پہنچا کہ فلاں علاقہ میں ہمارے پادریوں پر ایسا حادثہ گزرا ہے تو ہزاروں ہے عیسائیوں نے اُسی دن اپنے آپ کو اس غرض کے لیے وقف کر دیا کہ ہم وہاں تبلیغ کی خاطر جانے کے لیے تیار ہیں اور انہوں نے اس بات کی ذرا بھی پروا نہ کی کہ اس علاقہ میں مردم خور لوگ رہتے ہیں وہ ہمارے ساتھ کیا سلوک کریں گے.مگر ایک زمانہ ایسا گزرا ہے جب صحیح کے ہیں

Page 34

خطبات محج محمود 34 $1944 ایک مقرب صحابی بلکہ بعد میں ہونے والے خلیفہ کی یہ حالت تھی کہ جب حضرت السلام کو اُس نے تکلیف کی حالت میں دیکھا اور اسے معلوم ہوا کہ سپاہیوں نے حضرت عیسی علیہ السلام کو گرفتار کر لیا ہے تو بعض لوگوں نے اُسے دیکھ کر کہا کہ یہ بھی مسیح کے ساتھیوں میں سے ہے.اس پر اُس نے کہا میں اس کے ساتھیوں میں سے نہیں، میں تو اُس پر خدا کی لعنت ڈالتا ہوں.2 مگر پھر یہی شخص اس واقعہ کے چالیس یا پچاس سال کے بعد روم میں گیا اور اسے مسیح کے ساتھ تعلق رکھنے کی وجہ سے پھانسی دے دیا گیا اور وہ خوشی سے ہنستا ہو ا صلیب پر چڑھ گیا.حالانکہ حضرت عیسی کے زمانہ میں یقیناً اس کا ایمان اُس سے بہت زیادہ تھا جتنا ایمان بعد میں اس کے دل میں تھا.اُس وقت زندہ خدا کے نشانات ہر وقت آنکھوں کے سامنے پورے ہوتے نظر آتے تھے جو بعد میں عیسوی امت کی نظر سے اور تھل ہو گئے.پس جس قسم کا ایمان پطرس کو مسیح کی زندگی میں حاصل تھا یقیناً بعد میں ویسا ایمان اس کے دل میں نہ تھا.مگر اُس وقت اُس نے کیوں قربانی نہ کی اور بعد میں کیوں قربانی کی؟ اسی لیے کہ اُس وقت تک حضرت عیسی علیہ السلام کی زندگی کی قدر و قیمت اور اس کی اہمیت کا صحیح اندازہ اس کے دل نے نہیں لگایا تھا اور وہ نہیں جانتا تھا کہ یہ چیز کتنی بڑی اہمیت رکھتی ہے.مگر میں بعد میں جب وہ صلیب پر چڑھ گیا تو گو اُس وقت اُس کا ایمان ویسا نہیں ہو گا جیسا حضرت عیسی علیہ السلام کے زمانہ میں تھا مگر یہ پختگی ضرور پیدا ہو چکی تھی کہ حضرت عیسی علیہ السلام کے مے بغیر یہودی قوم اور وہ قبائل جن کی ہدایت کے لیے آپ مبعوث ہوئے دنیا میں کوئی پائیدار کارنامہ سرانجام نہیں دے سکتے.اور یہ کہ دنیا میں تغیر پیدا کرنے کے لیے ضروری ہے کہ مسیح کی اہمیت کو سمجھا جائے اور اس کی اہمیت لوگوں کے دلوں میں قائم کی جائے.چنانچہ وہ اسی اہمیت کی وجہ سے جو اس کے دل پر نقش ہو چکی تھی خوشی سے صلیب پر چڑھ گیا اور اس می نے اپنی جان کی پروا نہ کی.تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابہ بھی اس بات کو خوب سمجھتے تھے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ میں جو ایمان انہیں نصیب تھا وہ بعد میں اس شکل میں نہیں رہا جس شکل میں وہ ایمان آپ کے زمانہ میں انہیں میں

Page 35

خطبات محمود 35 $1944 حاصل تھا اِلَّا مَا شَاءَ الله - جس نے اپنی ذات میں خدا تعالیٰ کے نشانات دیکھ لیے اور اس سے تعلق پیدا کر کے مقام قرب حاصل کر لیاوہ اس سے مستثنی ہیں.حضرت عمرو بن العاص کے متعلق ہی آتا ہے جب آپ وفات پانے لگے تو رونے لگ گئے.ان کے بیٹے نے جو بہت بڑے مخلص اور بڑی شان رکھنے والے تھے اور باپ سے پہلے ایمان لائے تھے ، ان سے پوچھا کہ آپ روتے کیوں ہیں؟ آپ کو تو خدا تعالیٰ نے اسلام کی خدمت کی بڑی بھاری توفیق عطا می فرمائی ہے اور اب ان سب جذبات کا اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ کو اجر ملنے والا ہے.انہوں نے جواب دیا تم کو کیا معلوم ہے.ہمیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں زندہ خدا نظر آیا کرتا تھا مگر بعد میں ہم دنیا کے جھمیلوں میں ایسے گرفتار ہوئے اور ایسے ایسے جھگڑے آ پڑے کہ ہمارے لیے یہ فیصلہ کرنا بڑا مشکل ہو گیا کہ سچائی کیا ہے.اس لیے نہ معلوم ہم اس می دوران میں کیا کیا گناہ اور کیا کیا غلطیاں کر چکے ہیں اور میں ڈرتا ہوں کہ مرنے کے بعد میں خدا کو کیا جواب دوں گا.3 تو اس میں کوئی شبہ نہیں کہ نبیوں کے زمانہ میں انسان کو جو ایمان حاصل ہوتا ہے وہ بعد میں ویسا نہیں رہتا.سوائے اُن لوگوں کے جن کا خدا تعالیٰ سے براہ راست تعلق ہوتا ہے اور وہ اس کے کلام اور الہام سے فیضیاب ہوتے ہیں.عام لوگ جن کا ایمان ایک دوسرے کو دیکھ کر ہوتا ہے نبی کا زمانہ گزرنے کے بعد اُن کا ایمان اُس رنگ میں نہیں رہتا جس رنگ میں پہلے ہوا کرتا ہے.گو اس میں شبہ نہیں کہ نبی کی پیشگوئیوں کو پورا ہوتے دیکھ کر بلکہ بعض دفعہ دوبارہ اور بعض دفعہ سہ بارہ ان کو پورا ہوتے دیکھ کر ایک اور رنگ کی پختگی ان کے ایمان میں ہے ضرور پیدا ہو جاتی ہے.مگر وہ زندہ خدا جو نبی کے زمانہ میں انہیں اٹھتے بیٹھتے ، چلتے پھرتے ، باتیں بیچے کرتے اور خاموش رہتے نظر آیا کرتا تھا بعد میں نظر نہیں آتا.سوائے ان لوگوں کے جن کا ہے خدا تعالیٰ سے ذاتی تعلق ہوتا ہے اور جو خدا تعالیٰ کے قرب کی وجہ سے اس کی محبت اور تائید کے نمونے اپنی ذات میں بھی اُسی طرح مشاہدہ کرتے ہیں جس طرح انبیاء کے زمانہ میں وہ ان نشانات کا مشاہدہ کیا کرتے ہیں.ہم دیکھتے ہیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ میں بھی بڑی بڑی ہے

Page 36

خطبات محمود 36.$1944 قربانیاں کرنے والے لوگ موجود تھے.ایسے ایسے لوگ پائے جاتے تھے جن کی مثال آج جماعت میں بہت کم نظر آتی ہے.ایسے بیسیوں آدمی تھے جو اپنے گزارے اتنی تنگی سے رکھتے تھے کہ ان کو دیکھ کر کوئی شخص یہ خیال بھی نہیں کر سکتا تھا کہ وہ لوگ خوشحال ہیں.وہ ہمیشہ اپنے مال کا ایک بہت بڑا حصہ دین کی اشاعت کے لیے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو بھجوا دیا کرتے تھے.مگر پھر ہم نے انہیں کو دیکھا کہ بعد میں ان کے دلوں میں یہ حسرت پیدا ہوتی گئی کہ کاش! ہم اس سے بھی زیادہ خدمت کرتے.حالانکہ ان کی خدمت یقیناً موجودہ لوگوں سے بہت زیادہ تھی.مجھے اس کی ایک مثال یاد ہے.چودھری رستم علی صاحب غالباً پہلے سب انسپکٹر تھے پھر خدا تعالیٰ نے ان کو انسپکٹر بنا دیا.سب انسپکٹری کی تنخواہ میں سے وہ ایک معقول رقم ماہوار چندو کے طور پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو بھجوایا کرتے تھے.اس وقت غالباً ان کی اپنی روپے تنخواہ تھی.پھر خداتعالی نے ان کو انسپکٹر بنادیا اور ان کی ایک سو اسی روپے تنخواہ ہو گئی.جب ان کا خط آیا، اس وقت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بیمار تھے.میں نے خود اُن کا خط پڑھ کر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو سنایا.انہوں نے خط میں لکھا تھا اللہ تعالیٰ نے مجھے عہدہ میں ترقی دے کر تنخواہ میں ایک سو روپیہ زیادتی عطا فرمائی ہے.مجھے اپنے گزارہ کے لیے زیادہ روپوں کی ضرورت نہیں.میں سمجھتا ہوں اللہ تعالیٰ نے میری تنخواہ میں یہ اضافہ محض دین کی خدمت کے لیے کیا ہے اس لیے میں آئندہ علاوہ اُس چندہ کے جو میں پہلے ماہوار بھیجا کرتا ہوں یہ سو روپیہ بھی جو مجھے ترقی کے طور پر ملا ہے ماہوار بھیجتار ہوں گا.دیکھو! اس قسم کے نمونے آجکل کتنے نادر ہیں.مگر اُس وقت کثرت سے جماعت میں اس قسم کے نمونے پائے جاتے تھے.لیکن میں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی وفات کے بعد ان کو دیکھا کہ ان کے دل اِس بات پر خوش نہیں تھے کہ انہوں نے جو کچھ کیا وہ کافی تھا بلکہ بعد میں جب انہوں نے محسوس کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا وجود اُس سے بہت زیادہ اہم تھا جتنا انہوں نے سمجھا اور اُس سے بہت زیادہ آپ کے وجود پر دنیا کی ترقی کا انحصار تھا جس قدر انہوں نے پہلے خیال کیا تو ان کے دل روتے تھے کہ کاش! یہ

Page 37

$1944 37 خطبات محمود انہیں یہ بات پہلے معلوم ہوتی اور وہ اس سے بھی زیادہ خدمت کر سکتے.مگر پھر انہیں یہ موقع نصیب نہ ہوا اور وقت ان کے ہاتھ سے چلا گیا.اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ میں کئی لوگ ایسے تھے جنہیں قادیان میں صرف دو تین دفعہ آنے کا موقع ملام اور انہوں نے اپنے دل میں یہ سمجھا کہ خدا تعالیٰ نے بڑا فضل کیا کہ ہمارا قادیان سے تعلق پیدا ہو گیا اور ہم نے زمانہ کے نبی کو دیکھ لیا.مگر آج اس چیز کی اس قدر اہمیت ہے کہ ہماری جماعت می میں سے کئی لوگ ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا زمانہ یاد کر کے بڑی خوشی سے یہ کہنے کے لیے تیار ہو جائیں گے کہ کاش! ہماری عمر میں سے دس یا ہیں سال کم ہو جاتے لیکن می ہمیں زندگی میں صرف ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو دیکھنے کا موقع ملے جاتا.تو جنہیں زندگی میں آپ کو دیکھنے کا موقع ملا گو انہوں نے آپ کو اپنی آنکھوں سے دیکھے لیا مگر بہر حال انہوں نے اس کی اہمیت کا اتنا اندازہ نہ کیا جتنا اندازہ انہیں کرنا چاہیے تھا.اس بارہ میں سب سے زیادہ صحیح اندازہ لگانے والی قوم رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابہ ہیں.ان کی زندگیوں پر غور کرنے سے یوں معلوم ہوتا ہے کہ وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قدر وقیمت کا اندازہ لگانے میں قریبا تکمیل کے مقام تک پہنچ چکے تھے مے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اہمیت کو انہوں نے ایسا سمجھا کہ انہوں نے آپ کے لیے کسی قسم کی قربانی کرنے سے دریغ نہ کیا.لیکن پھر بھی ہم کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی کی جو عظیم الشان برکات تھیں، آپ کی زندگی کی جو اہمیت تھی اگر اُس پر پورا غور کیا جاتا تو صحابہ اس مقام سے بہت اونچے ہوتے جو انہیں حاصل تھا اور اس سے بہت ہے زیادہ قربانیاں کرنے والے ہوتے جتنی قربانیاں انہوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ میں کیں.اب اس زمانہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا مبارک زمانہ ہمیں ملا ہے اور ہمارے لیے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہم وقت پر اس چیز کی اہمیت کو سمجھتے ہے ہیں جس اہمیت کا سمجھنا ہمارے لیے دینی و دنیوی برکات کا موجب ہو ہو سکتا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا زمانہ تو گزر گیا.اب آپ کے خلفاء اور صحابہ کا زمانہ ہے.

Page 38

خطبات محمود 38 $1944 مگر یاد رکھو! کچھ عرصہ کے بعد ایک زمانہ ایسا آئے گا جب چین سے لے کر یورپ کے کناروں تک لوگ سفر کریں گے، اس تلاش، اِس جستجو اور اِس دُھن میں کہ کوئی شخص انہیں ایسا مل جائے جس نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے بات کی ہو.مگر انہیں کوئی شخص ایسا می نہیں ملے گا.پھر وہ کوشش کریں گے کہ انہیں کوئی ایسا شخص مل جائے جس نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے بات نہ کی ہو صرف مصافحہ ہی کیا ہو.مگر انہیں ایسا شخص بھی کوئی نہیں تمہیں ملے گا.پھر وہ کوشش کریں گے کہ انہیں کوئی ایسا شخص مل جائے جس نے حضرت مسیح موعود می علیہ الصلوة والسلام سے بات نہ کی ہو، آپ سے مصافحہ نہ کیا ہو، صرف اُس نے آپ کو دیکھا ہی ہے ہو.مگر انہیں ایسا بھی کوئی شخص نظر نہیں آئے گا.پھر وہ تلاش کریں گے کہ کاش! انہیں کوئی ایسا شخص مل جائے جس نے گو حضرت مسیح موعود علیہ الصلاۃ والسلام سے بات نہ کی ہو، آپ کے سے مصافحہ نہ کیا ہو، آپ کو دیکھا نہ ہو مگر کم سے کم وہ اُس وقت اتنا چھوٹا بچہ ہو کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اُس کو دیکھا ہو مگر انہیں ایسا بھی کوئی شخص نہیں ہیں ملے گا.لیکن آج ہماری جماعت کے لیے موقع ہے کہ وہ ان برکات کو حاصل کرے.آج بعد میں آنے والے لوگوں کے لیے وہ دروازہ کھلا ہے جس سے وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ کی قریب ترین برکات جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ کی برکات سے دوسرے نمبر پر ہیں، بڑی آسانی کے ساتھ حاصل کر سکتے ہیں.مگر ہے کتنے ہیں جو اس چیز کی اہمیت کو سمجھتے ہیں، وہ اِسی دُھن میں رہتے ہیں کہ افسوس انہیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا زمانہ نہ ملا، افسوس وہ ان برکات سے محروم رہ گئے اور اس حسرت وافسوس میں وہ دوسری برکت جو ان کو حاصل ہوتی ہے اور جس سے فائدہ اٹھانا ان کے امکان میں ہوتا ہے وہ بھی ان کے ہاتھ سے نکلتی چلی جاتی ہے.رسہ کھنچتا چلا جاتا ہے، وقت گزرتا چلا جاتا ہے، فائدہ اٹھانے کا زمانہ ختم ہونے کے قریب پہنچ جاتا ہے مگر وہ پہلی برکت کے نہ ملنے پر ہی افسوس کرتے رہتے ہیں اور موجودہ برکت سے کوئی فائدہ حاصل نہیں کرتے.اس کا کیا نتیجہ ہو گا؟ یہی کہ جب ان کے دل اس افسوس سے تھک جائیں گے کہ انہیں کیوں پہلی برکت سے حصہ لینے کا موقع نہ ملا اور وہ کہیں گے اگر پہلی برکت نہیں ملی تو آؤ اب منی

Page 39

$1944 39 خطبات محمود دوسرے درجہ کی برکت سے ہی حصہ لے لیں تو اُس وقت وہ دوسرے درجہ کی برکت بھی جاچکی ہو گی.پھر وہ اس بات پر افسوس کرنے لگ جائیں گے کہ ہمیں دوسرے درجہ کی برکت سے فائدہ اٹھانے کا موقع نہ ملا اور جو تیسرے درجہ کی برکت ان کے سامنے ہو گی اس سے کوئی ہے فائدہ نہ اُٹھائیں گے.آخر جب وہ فیصلہ کریں گے کہ چلو اگر دوسرے درجہ کی برکت نہیں ملی تو تیسرے درجہ کی برکت سے ہی فائدہ حاصل کریں تو اس وقت تیسرے درجہ کی برکت بھی ہے جاچکی ہو گی اور چوتھے درجہ کی برکت آچکی ہو گی.اُس وقت وہ پھر تیسرے درجہ کی برکت سے فائدہ نہ اٹھانے پر افسوس کریں گے اور افسوس کرتے چلے جائیں گے مگر انہیں یہ خیال ہے نہیں آئے گا کہ وہ اب چوتھے درجہ کی برکت سے ہی فائدہ حاصل کر لیں.آخر ایک لمبے عرصہ کے بعد جب ان کے دل فیصلہ کریں گے کہ اگر تیسرے درجہ کی برکات سے ہم حصہ نہیں لے سکے تو چوتھے درجہ کی برکت سے ہی فائدہ اٹھائیں تو اس وقت چوتھے درجہ کی برکت بھی آسمان پر جا چکی ہو گی.پھر وہ چوتھے درجہ کی برکات نہ ملنے پر افسوس کریں گے اور یہ ہے زمانہ افسوس اتنا لمبا ہو گا کہ اس عرصہ میں وہ پانچویں درجہ کی برکت سے بھی فائدہ نہ اٹھا گے.آخر جب وہ فیصلہ کریں گے کہ اگر ہمیں پہلے درجہ کی برکت نہیں ملی، دوسرے درجہ کی ہے برکت نہیں ملی، تیسرے درجہ کی برکت نہیں ملی، چوتھے درجہ کی برکت نہیں ملی تو آؤ ہم پانچویں درجہ کی برکت سے ہی فائدہ حاصل کریں تو کیا دیکھیں گے کہ وہ پانچھ میں درجہ کی برکت بھی گزر چکی ہے.غرض جیسے جیسے خدا تعالیٰ نے مختلف زمانوں میں مختلف برکات رکھی ہیں اور ان برکات کے مختلف مدارج مقرر کیے ہیں اس طرح دو برکات ظاہر تو ہوتی رہیں گی مگر ہے ایسے لوگ جو وقت پر کسی چیز کی پوری اہمیت نہیں سمجھتے جب وقت گنوا دیتے ہیں اُس وقت توجہ کرتے ہیں.پہلی برکت کے نہ ملنے کا دوسری برکت کے زمانہ میں افسوس کرتے ہیں اور دوسری برکت کے نہ ملنے کا تیسری برکت کے زمانہ میں افسوس کرتے ہیں اور تیسری برکت کے نہ ملنے کا چوتھی برکت کے زمانہ میں افسوس کرتے ہیں اور چوتھی برکت کے نہ ملنے کا منی پانچویں برکت کے زمانہ میں افسوس کرتے ہیں اور پانچویں برکت کے نہ ملنے کا چھٹی برکت کے زمانہ میں افسوس کرتے ہیں اور اس طرح یہ سلسلہ چلتا چلا جاتا ہے مگر وہ کسی ایک برکت سے ہے

Page 40

$1944 40 محمود ا فائدہ نہیں اٹھاتے.لیکن مومن وہ ہوتا ہے جو اپنی سابقہ کو تاہی پر جہاں افسوس کا اظہار کرتا ہے وہاں موجودہ نعمت کو وہ اپنے ہاتھ سے نہیں جانے دیتا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ذریعہ اسلام کی جو تشریح ہمیں معلوم ہوئی ہے، جو علوم خدا نے ہم پر کھولے ہیں، جو معارف اُس نے ہمیں سکھائے ہیں اور جو باتیں ہم نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی صحبت میں بیٹھ کر سیکھی ہیں آج دنیا ان کا کہاں مقابلہ کر سکتی ہے.لیکن اگر ہم میں سے ایک حصہ نے وہ زمانہ نہیں دیکھا تو اُسے اب وہ معارف اور علوم ہم سے سیکھ کر دوسرے درجہ کی نعمت سے فائدہ اُٹھانا چاہیے.ایسا نہ ہو کہ یہ دوسرے درجہ کی نعمت بھی اس کے ہاتھ سے نکل جائے.میں نے بتایا ہے کہ یہ زمانہ ایسا ہے جبکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابہ ابھی بہت بڑی تعداد میں موجود ہیں جبکہ خلافت کا نظام ہماری جماعت میں خدا تعالیٰ کے فضل سے قائم ہے اور جبکہ خلافت کے نظام پر وہ لوگ فائز ہوئے ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے صحابی ہیں.پس اس وقت سے فائدہ اٹھانے کا جن لوگوں کو موقع نصیب ہے اگر وہ اس موقع سے فائدہ نہیں اٹھاتے اور جو خدا تعالی کی مشیئت کے ماتحت انہیں نصیب نہیں ہوا اس پر افسوس کرتے ہوئے اپنی عمریں گزار دیتے ہیں تو ممکن ہے بلکہ غالب ہے کہ وہ پہلے زمانہ کی طرح اس دوسرے زمانہ کی برکات کو بھی کھو دیں گے.پس ہمارے دوستوں کو اس امر کی اہمیت اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے اور انہیں یاد رکھنا چاہیے کہ ابھی ان کی زندگیوں میں فائدہ اٹھانے کے اہم مواقع موجود ہیں.اگر پہلا زمانہ انہوں نے اپنی من غفلت سے کھو دیا ہے یا خدا تعالیٰ نے وہ زمانہ انہیں نصیب نہیں کیا تو اب دوسر از مانہ کھو دینے کا انہیں کوئی حق نہیں ہے.مجھے جماعت کو اس امر کی طرف توجہ دلانے کا اس وجہ سے خیال پیدا ہوا کہ میں ایک مجبوری کی وجہ سے قریباً ایک مہینہ سے لاہور میں موجود ہوں.مگر میں نے دیکھا ہے لاہور کے بہت ہی کم دوستوں نے میری موجودگی سے فائدہ اٹھایا ہے.میں باہر آخر ایک ہی وقت میں بیٹھ سکتا ہوں.گو اس کے علاوہ نمازیں پڑھانے کے لیے بھی میں آتا جاتا ہوں مگر لاہور کے بہت ہی کم لوگ ہیں جو اس موقع پر آتے رہے ہیں.شاید وہ اپنے ہی

Page 41

خطبات محمود 41 $1944 دلوں میں بہت دفعہ یہ خیال کرتے ہوں گے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا زمانہ انہیں نہ ملا.اگر ملتا تو ہم یوں کرتے اور اس اس طرح فائدہ اٹھاتے.مگر ان کی ان خواہشات کا باطل اور غلط ہو تا اسی سے ثابت ہے کہ انہیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے برکت حاصل کرنے کا جو می دوسرا موقع ملا اس سے انہوں نے کوئی فائدہ نہ اٹھایا.اگر واقع میں ان کے دلوں میں دین کی اہمیت اور اس کی عظمت کا احساس ہوتا تو جو چیز ان کے ہاتھ سے نکل چکی تھی اس پر افسوس ہے کرنے کی بجائے جو چیز موجود تھی اس سے فائدہ اٹھاتے.* میں نے دیکھا ہے کہ کئی دوست اس خیال میں رہے ہیں اور بعض سے میں نے پوچھا تو میں انہوں نے جو اب بھی یہی دیا کہ جگہ تھوڑی ہے وہاں زیادہ لوگ نہیں آسکتے.لیکن میرے نزد یک گو وہ چھوٹی جگہ ہے پھر بھی اگر دوست آنا چاہتے تو باری باری آکر سب فائدہ اٹھا سکتے تھے.آخر تھوڑی جگہ میں یہ تو نہیں ہو سکتا کہ جماعت کے سب دوست اکٹھے ہو سکیں.ایسی صورت میں فائدہ اٹھانے کا طریق یہی ہوتا ہے کہ باری باری لوگ فائدہ اٹھا لیں.پس بے شک وہ جگہ چھوٹی ہے اور سب دوست وہاں نہیں آسکتے لیکن اگر ان کے دلوں میں فائدہ حاصل کرنے کی خواہش اور تڑپ ہوتی تو بعض لوگ ایک دن فائدہ اٹھا لیتے، بعض دوسرے دن فائدہ من اٹھالیتے اور بعض تیسرے دن فائدہ اٹھا لیتے.اس طرح جگہ کی تنگی کا سوال بھی حل ہو جاتا اور فائدہ بھی سب جماعت کو پہنچ جاتا.یاد رکھو! خدا تعالیٰ کے انبیاء اور ان کے خلفاء جب کسی جگہ جاتے ہیں تو وہاں کے رہنے والوں کے لیے ایک رنگ میں ابتلاء کا بھی موجب ہوتے ہیں.یہاں کی جماعت کے دوست خیال کرتے ہوں گے کہ ہمیں مرکز میں رہنے کا موقع نہیں ملا.اگر ہم مرکز میں رہتے تو یوں دین کی خدمت کرتے اور یوں علمی اور روحانی باتوں کے پھیلانے میں حصہ لیتے.مگر کسی اس خطبہ کے بعد جماعت لاہور نے خاص طور پر نماز کی جماعت کے وقت میں آنا شروع کر دیا اور جہاں تک ہوسکا میری موجودگی سے فائدہ اٹھایا.فَجَزَاهُمُ اللهُ احْسن الْجَزَاء - من

Page 42

$1944 42 خطبات محمود زمانہ میں خدا تعالیٰ خود لوگوں کے گھروں میں مرکز کو لے آتا ہے اور پھر اُن سے پوچھتا ہے کہ اب بتاؤ تم نے کیا فائدہ اٹھایا.بعض چیزیں ایسی ہوتی ہیں جو اپنے وقت میں اتنی اہم نظر نہیں آتیں لیکن کچھ زمانہ ہے گزرنے کے بعد وہی چیز میں عظیم الشان اہمیت اختیار کر لیتی ہیں.آج کئی دینی مسائل خدا تعالیٰ ہماری زبانوں سے اس طرح آسانی کے ساتھ حل کرا دیتا ہے کہ لوگوں کو احساس بھی نہیں ہو تا کہ یہ دین کے اہم ترین مسائل ہیں اور وہ سمجھتے ہیں ان باتوں سے کون انکار کر سکتا ہے.لیکن ایک زمانہ آئے گا جب بڑے بڑے عالم، بڑے بڑے سمجھدار اور بڑی بڑی کتابوں کا مطالعہ رکھنے والے ان باتوں کی تلاش کریں گے اور انہیں معلوم نہیں ہو گا کہ ان مسائل کا کیا حل ہے.جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حدیثیں بیان فرمایا کرتے تھے اُس وقت کتنے صحابی تھے جنہوں نے اس کی اہمیت کو سمجھا.عام لوگ یہی سمجھتے تھے کہ یہ تو ہماری فطرت کے مطابق باتیں ہیں کون ہے جسے ان باتوں کا بھی علم نہیں ہو سکتا اور کون ہے جو ان کا انکار کر سکتا ہے.پھر رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وفات پا گئے اور چند صحابہ، جنہوں نے اس چیز کی اہمیت کو سمجھا تھا انہوں نے حدیثیں بیان کرنا اپنے ذمہ لے لیا.مگر پھر ایک ایسا زمانہ آیا ہے جب حدیث اتنی نایاب ہو گئی کہ بعض محدثین کو ایک ایک حدیث دریافت کرنے کے لیے ہزار ہزار، دو دو ہزار میل کا سفر کرنا پڑا.موجودہ زمانہ میں جو سہولتیں سفر کرنے میں لوگوں کو میسر ہیں ان کو مد نظر رکھتے ہوئے یہ ہزار دو ہزار میل کا سفر ایسا ہی تھا جیسے کوئی دنیا کے گرد چکر لگانے کے لیے چل پڑے.یا یہاں سے پیدل چل کر امریکہ جائے اور پھر وہاں سے واپس آئے.بعض محدثین بخارا سے قیروان تک ایک ایک حدیث معلوم کرنے کے لیے گئے ہیں.مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ میں کتنے لوگ تھے جنہوں نے حدیثوں کی من اہمیت کو سمجھا.صرف تین چار صحابی ایسے نظر آتے ہیں جنہیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی باتیں سننے اور دوسروں کو سنانے کا غیر معمولی اشتیاق تھا.ان میں سے ایک حضرت ابوہریرہ تھے جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی کے آخری چند سالوں میں ایمان لائے.اسی طرح حضرت عبد اللہ بن عمرؓ تھے جو کثرت سے حدیثیں سنتے اور بیان کرتے.

Page 43

خطبات محمود 43 $1944 حضرت عبد اللہ بن عمرؓ کو حدیثیں لکھنے کا بھی شوق تھا اور انہوں نے بہت سی حدیثیں لکھ رکھی تھیں لیکن رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا کہ ان کو جلا ڈالو.ایسا نہ ہو کہ لوگ غلطی سے ان کو قرآن سمجھ لیں.غرض یہ تین صحابی خصوصیت سے حدیثیں بیان کیا کرتے تھے.ان سے نیچے اتر کر دو تین درجن اور صحابی ہیں جن سے متعدد روایات مروی ہیں.مگر پھر ان سے نیچے اتر کر کسی صحابی سے ایک اور کسی سے دو حدیثیں پائی جاتی ہیں اور کسی سے ایک حدیث بھی مروی نہیں.حضرت ابو بکر جیسے آدمی سے بہت محدود روایتیں آتی ہیں.مگر اس کمی کی وجہ اور تھی.عورتوں میں سے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی کثرت سے روایتیں ہیں.غرض یہ صرف چھ سات آدمی ہیں جنہوں نے احادیث کی اہمیت کو سمجھا اور انہوں نے فیصلہ کر لیا کہ بعد میں آنے والے لوگوں تک ان باتوں کو پہنچا دینا ہمارا فرض ہے.اگر یہ پانچ سات میں صحابہ بھی یہی سمجھتے کہ یہ مجلسیں قیامت تک چلی جائیں گی اور ہمیشہ ان باتوں کے سننے اور سنانے والے موجود رہیں گے تو ہم اس قیمتی ذخیرہ کو کہاں سے حاصل کر سکتے.دنیا میں نہ کوئی مجلس قیامت تک رہی ہے اور نہ باتیں سنانے والے ہمیشہ موجود رہتے ہیں.آخر ایک دن می مجلسیں مختم ہو جاتی ہیں، باتیں ختم ہو جاتی ہیں.پھر لوگوں کے دلوں میں سوالات پیدا ہونے می شروع ہو جاتے ہیں، پھر لو گوں کے دلوں میں شبہات اور وساوس پید اہونے شروع ہو جاتے ہیں اور ان وساوس اور شبہات کا رڈ کرنے والا اور ان سوالات کا جواب دینے والا دینے والا کوئی نہیں ہو تا.بے شک رستہ موجود ہوتا ہے مگر اس رستے پر چلنے کا خیال کسی کو نہیں آتا.رستہ تو یہ ہو تا ہے کہ انسان خد اتعالیٰ سے محبت پیدا کرے.پھر اس طرح دل کی کھڑ کی گھل جاتی ہے کہ جو مشکلات ہوں وہ آپ ہی آپ حل ہو جاتی ہیں.ہم دیکھتے ہیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد بڑے بڑے تاریک زمانے آئے.ایسے ایسے زمانے آئے جب علوم میٹ گئے ، روشنی جاتی رہی، ظلمت اور تاریکی پھیل گئی لیکن ایسے تاریک زمانوں میں بھی بعض لوگوں نے جب خدا تعالیٰ کی طرف توجہ کی تو انہوں نے اللہ تعالیٰ سے ایسے ایسے علوم پائے کہ اُن کے ذریعہ سے اپنے زمانہ کی تمام تاریکیوں کو انہوں نے دور کر دیا.انہی بزرگوں میں سے ایک حضرت سید احمد صاحب سرہندی ہوئے ہیں.انہوں نے اپنے زمانہ میں بہت سا باطل جو پھیل

Page 44

$1944 44 خطبات محمود چکا تھا اللہ تعالیٰ سے نور حاصل کر کے دور کیا.اسی طرح اس میدان کے ایک مشہور پہلوان حضرت شاہ ولی اللہ صاحب دہلوی ہوئے ہیں.ان کے زمانہ میں بھی بہت گند تھا، دین سے نفرت پائی جاتی تھی اور اسلامی احکام کی غلط ترجمانی کی جاتی تھی.انہوں نے خدا تعالیٰ سے براہ راست تعلق پیدا کر کے اس ظلمت کو مٹانے کے لیے جو علوم حاصل کیسے اُن کے مطالعہ سے یوں معلوم ہوتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر آسمانی علوم کی جو بارش اللہ تعالیٰ نے برسائی اس کا کچھ ترقیح ایک دو صدیاں پہلے بھی ہو چکا ہے.اگر وہ علوم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بیان کردہ علوم اور مطالب قرآنی تک نہیں پہنچے تو کم سے کم ان کے قریب ہے ضرور پہنچ گئے ہیں.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ موجودہ زمانہ میں ایسے مفاسد بھی پیدا ہو چکے تھے جو حضرت شاہ ولی اللہ صاحب دہلوی کے زمانہ میں نہیں تھے اور اس وجہ سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ان مفاسد کی اصلاح کے لیے جن علوم پر روشنی ڈالی وہ اُن کے وہم وخیال میں بھی نہیں آئے اور نہ آسکتے تھے.لیکن بہر حال خدا تعالیٰ کے تعلق اور اس کے قرب نے ان پر وہ علوم ظاہر کیے جو زمانہ نبوت سے بعد کی وجہ سے میٹ چکے تھے اور دنیا ان میں سے ناواقف ہو چکی تھی.گویاوہ زنجیر جو خدا اور اس کے بندوں کے درمیان اتصال پیدا کرنے میں کے لیے قائم تھی اور جو زنجیر ایک لمبے عرصے سے لوگوں کی بد اعمالی کی وجہ سے کٹ چکی تھی اس زنجیر کے ٹکڑے انہوں نے از سر نو جوڑ کر خدا تعالیٰ سے تعلق پیدا کیا اور نئے سرے سے پھر آسمان سے گمشدہ علوم کو واپس لائے.پس بے شک یہ راستہ کھلا ہے اور قیامت تک گھلا رہے گا.اگر خدا اس دروازہ کو بند کردے تو تعوذ باللہ اس کے معنے یہ ہوں گے کہ وہ دنیا کو روحانی زندگی عطاء کرنے کا ہے خواہشمند نہیں.مگر سوال یہ ہے کہ دنیا میں سے کتنے ہیں جو اس قسم کی قربانی کرتے اور اپنی نفسانی خواہشات کو کچل کر خدا تعالیٰ سے تعلق پیدا کرتے ہیں؟ کم اور بہت کم ایسے لوگ ہوتے ہیں.بعض دفعہ پچاس پچاس ساٹھ ساٹھ سال تک ایسے لوگ پیدا نہیں ہوتے اور دنیا کلی طور پر تاریکی میں مبتلا چلی جاتی ہے.پس بہتر اور آسان طریق دنیا کی ترقی کا یہی ہے کہ اس زنجیر کو نہ ای

Page 45

خطبات محمود رض 45 $1944 ٹوٹنے دیا جائے جو خدا اور اس کے بندوں کے درمیان قائم ہوتی ہے.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ حضرت سید احمد صاحب سرہندیؒ، حضرت ولی اللہ شاہ صاحب دہلوی، حضرت معین الدین صاحب چشتی ، حضرت سید عبد القادر صاحب جیلانی اور اور بہت سے بزرگ ایسے ہوئے ہیں جنہوں نے خدا تعالیٰ سے تعلق پیدا کر کے دنیا کو تاریکی سے نکالا اور اسے آسمانی نور سے منور کیا.لیکن اس میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ اگر یہ زنجیر قائم رہتی، اگر نیکی کا تسلسل قائم رہتا، اگر ایسا ہو تا کہ جیسے ابو بکر کے بعد عمر ہوئے، عمر کے بعد عثمان ہوئے، عثمان کے بعد علی ہوئے.اسی طرح یہ سلسلہ چلتا اور چلتا چلا جاتا تو حضرت سید احمد صاحب سرہندی ، حضرت شاہ ولی اللہ صاحب دہلویؒ، حضرت معین الدین صاحب چشتی اور حضرت سید عبد القادر صاحب جیلانی کو وہ تکالیف اور وہ مشکلات برداشت نہ کرنی پڑتیں جو تکالیف اور مشکلات انہوں نے اپنے اپنے زمانہ میں برداشت کیں.اور نہ صرف ان کو وہ مصیبتیں جھیلنی نہ پڑتیں بلکہ مسلمانوں کی روحانیت کو اُس سے بہت زیادہ فائدہ پہنچتا جتنا فائدہ اس زنجیر کے ٹوٹ جانے کے بعد مسلمانوں کو پہنچا.کیونکہ زنجیر نبوت سلامت ہوتی اور مسلمانوں کے ہاتھ خدا کے ہاتھ میں رہتے.پھر اس میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ گو ان لوگوں نے بڑی بڑی محنتیں کیں اور گم شدہ علوم کو یہ لوگ ہیں آسمان سے واپس لائے.لیکن یہ لوگ جماعتوں کو واپس نہیں لائے.بے شک ہم تسلیم کرتے ہیں کہ تقوی اور روحانیت اور علوم آسمانی کے حاصل کرنے میں ان لوگوں نے اتنی " اور اِس قدر قربانیاں کیں کہ ان کا قدم صحابہ کے قدم سے جاملا.میں اس بات کا قائل نہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد کوئی شخص ہے صحابہ کے مقام تک نہیں پہنچ سکتا.میرے نزدیک یہ بالکل باطل خیال ہے اور دنیا میں مایوسی پیدا کرتا اور خدا تعالیٰ کی محبت دلوں میں سے کم کرتا ہے.میں تسلیم کرتا ہوں کہ حضرت احمد صاحب سرہندی، حضرت ولی اللہ شاہ صاحب دہلوی، حضرت معین الدین صاحب چشتی، حضرت سید عبد القادر صاحب جیلانی اور اور بہت سے بزرگ ایسے ہیں جو کئی صحابہ سے بڑھ کر ہو سکتے ہیں.بلکہ میرے خیال میں یقیناً کئی صحابہ سے بڑھ کر تھے.لیکن باوجود اس کے کہ یہ اپنے ایمان اور اپنی قربانیوں کی وجہ سے صحابہ میں جا شامل ہوئے پھر بھی انہوں نے دنیا میں

Page 46

خطبات محمود 46 $1944 صحابہ کی سی جماعتیں پیدا نہیں کیں.انہوں نے بے شک کتابیں لکھ دیں، علوم کے دروازے کھول دیئے، شیطان کے حملوں کا رڈ کر دیا لیکن صحابہ جیسی کام کرنے والی کوئی جماعت پیدا نہ کر سکے.یہ کام اسی صورت میں ہو سکتا تھا جب تسلسل قائم ہوتا اور زنجیر نبوت سلامت ہوتی.اگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد زنجیر نبوت کو ٹوٹنے نہ دیا جاتا، پیچھے آنے والے پہلوں سے علوم حاصل کرتے اور وہ ان علوم کو اپنی آئندہ نسلوں تک پہنچادیتے تو گو صحابہ سے کم درجہ کی جماعتیں پیدا ہو تیں مگر بہر حال وہ جماعتی طور پر صحابہ کے رنگ میں رنگین ہو تیں اور ہر ملک اور ہر علاقہ میں وہ عوام کی بہتری کا ذریعہ بن جاتیں.قوم میں سے کسی خاص شخص کا بڑا ہو جانا یا چند اشخاص کا کوئی اعلیٰ اعزاز حاصل کر لینا زیادہ اہم بات نہیں ہوا کرتی.یورپ میں ہزاروں لاکھوں ایسے لوگ ہیں جن کی آمدنی کلکتہ اور بمبئی کے بعض تاجروں سے بہت کم ہے.انگلستان کا ایک کثیر حصہ کلکتہ اور بمبئی کے بعض تاجروں سے کم مالدار ہے.لیکن باوجود اس کے ہمارا ملک انگریزوں کی دولت کا مقابلہ نہیں کر سکتا.اس لیے کہ وہاں عوام اچھی حالت میں ہیں اور یہاں صرف چند کروڑ پتی ہیں.اسی طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ میں تمام مسلمان اونچے مقام پر تھے لیکن حضرت ولی اللہ شاہ صاحب دہلوی کے زمانہ میں اگر مسلمان آسمان پر بھی چڑھ گیا تو کیا ہو ا، باقی لوگ تو غلاظت کے ڈھیروں پر ہی کھڑے تھے.پس سوال یہ ہے کہ حضرت سید احمد صاحب سرہندیؒ، حضرت ولی اللہ شاہ صاحب دہلویؒ ، حضرت معین الدین صاحب چشتی اور سید عبد القادر صاحب جیلانی کے زمانہ میں کتنے لوگ تھے جن کے دلوں میں انہوں نے تغیر پیدا کیا؟ کتنے لوگ تھے جنہیں انہوں نے زمینی سے آسمانی بنا دیا؟ کتنے لوگ تھے جو ان کے ذریعہ اسلام کی خدمت کے لیے تیار ہوئے؟ بے شک کچھ لوگ انہوں نے ایسے بھی تیار کیے جو اپنے دلوں میں اسلام کا در درکھتے تھے ، جو اسلام کی اشاعت کے لیے ہر قسم کی قربانی کرنے کے لیے تیار رہتے تھے لیکن بہر حال یہ چند افراد تھے.مگر نبوت کا یہ زمانہ وہ ہوتا ہے جو چند لوگوں کے قلوب میں نہیں ہزاروں لاکھوں قلوب میں تغیر پیدا کر دیا می کرتا ہے.پس اگر اس کڑی کو ٹوٹنے نہ دیا جائے تو عوام میں سے بیشتر وہی روح اپنے اندر رکھنے والے ہوں گے جو زمانہ نبوت میں مسلمانوں کے اندر پائی جاتی ہے لیکن جب وہ کڑی ہے

Page 47

خطبات محمود 47 $1944 ٹوٹ جائے تو اس کے بعد بے شک امتِ محمدیہ میں بڑے بڑے لوگ پیدا ہو جائیں بلکہ میں کہتا ہوں اگر بعض وقتوں میں ابو بکر سے بھی بڑے لوگ پید اہو جائیں تو بھی اسلام کو وہ شوکت نصیب نہیں ہو سکتی جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ میں اسے نصیب تھی.اس لیے کہ گورسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ میں بھی ایک ہی ابو بکر تھا، ایک ہی عمر تھا، ایک ہی عثمان تھا، ایک ہی علی تھا.لیکن اکثر مسلمان ایسے تھے جن کے دلوں میں ایمان تازہ تھا اور جو اللہ تعالیٰ کا عشق اپنے دلوں میں رکھتے تھے.پس گو وہ ابو بکر نہ تھے ، گو وہ عمر نہ تھے ، مگر وہ سارے مسلمان چھوٹے چھوٹے درجہ کے ابو بکر اور چھوٹے چھوٹے درجہ کے عمر تھے.بلکہ ان میں سے ہر ایک اپنے اپنے مقام اور اپنے اپنے درجہ کے لحاظ سے ایک چھوٹا محمد تھا (صلی اللہ علیہ وسلم).اس لیے وہ تغیر جو یہ لوگ پیدا کر سکتے تھے بعد میں پیدا نہ ہوا اور نہ ہو سکتا تھا.کیونکہ وہ اکیلے تھے جماعتیں ان کے ساتھ نہ تھیں.لیکن رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اِلَّا مَا شَاءَ اللهُ ساروں میں ایسا تغیر پیدا کر دیا جو دنیا میں ایک انقلاب پید ا کرنے کا موجب بن گیا.عظه الشان پس اپنے زمانہ کی اہمیت سمجھنے اور اس سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانے کی کوشش کرنی چاہیے.اب بھی جو اخلاص کی روح ہماری جماعت میں موجود ہے اگر یہ اسی طرح بڑھتی چلی جائے اور نہ صرف ہم میں یہ روح رہے بلکہ ہماری نسلوں میں بھی منتقل ہوتی رہے تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایک دن یہ روح لاکھوں سے کروڑوں اور کروڑوں سے اربوں لوگوں میں پھیل جائے گی.لیکن اگر اس زنجیر کو ٹوٹنے دیا جائے ، اگر یہ تعلق قائم نہ رہے تو چاہے بعد میں بعض ایسے لوگ بھی پیدا ہو جائیں جو اپنے درجہ اور مقام کے لحاظ سے خلفاء سے بھی بڑھ کر ہوں پھر بھی وہ دنیا کو وہ ترقی نہیں دے سکیں گے جو آج جماعت احمدیہ کے افراد کے ذریعہ حاصل ہو سکتی ہے.کیونکہ وہ اکیلے ہوں گے اور آج ایک جماعت موجود ہے.اور اس کی وجہ جیسا کہ میں بتا چکا ہوں یہی ہے کہ نبی دنیا کے قلوب میں تغیر پیدا کرنے کے لیے آتے ہیں چند بڑے بڑے آدمی پیدا کرنے کے لیے نہیں آتے.پس یہ موقع جو آج لوگوں کو نصیب ہے اس سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانا ہماری ہے

Page 48

خطبات محمود 48 $1944 جماعت کا اہم ترین فرض ہے.ورنہ جب یہ موقع ہاتھ سے نکل گیا تو نہ صرف اپنی آخری عمر میں وہ اس حسرت و افسوس کے ساتھ اپنے ہاتھ ملیں گے کہ کاش! ہم اس زمانہ سے فائدہ اٹھاتے بلکہ ان کی آئندہ نسلوں کی طرف سے ان پر یہ شدید ترین الزام عائد ہو گا کہ انہوں کے نے اپنی آئندہ نسل کی بہبودی اور اس کی ترقی کے لیے وہ کچھ بھی نہ کیا جو ایک بد معاش دنیا دار بھی اپنی اولاد کی ترقی کے لیے کیا کرتا ہے".(الفضل 15 / اپریل 1944 ء) 1 : المائدة 25 2 : متی، باب 26 آیات 69 تا 74 3 : اسد الغابہ جلد ثالث صفحه 743 زیر عنوان عمرو بن العاص.دارالفکر بیروت لبنان 1998ء(مفہوماً)

Page 49

$1944 49 4 خطبات محمود میں ہی مصلح موعود کی پیشگوئی کا مصداق ہوں (فرمودہ 28 جنوری 1944ء) تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: آج میں ایک ایسی بات کہنا چاہتا ہوں جس کا بیان کرنامیر کی طبیعت کے لحاظ سے مجھے مے پر گراں گزرتا ہے لیکن چونکہ بعض نبوتیں اور الہی تقدیریں اس بات کے بیان کرنے کے ساتھ وابستہ ہیں اس لیے میں اس کے بیان کرنے سے باوجود اپنی طبیعت کے انقباض کے رُک بھی نہیں سکتا.جنوری کے پہلے ہفتہ میں غالباً بدھ اور جمعرات کی درمیانی رات کو ( میں نے غالبا کا لفظ اس لیے استعمال کیا ہے کہ میں اندازہ سے یہ کہہ رہا ہوں کہ وہ بدھ اور جمعرات کی درمیانی رات تھی میں نے ایک عجیب رؤیا دیکھا.میں نے جیسا کہ بارہا بیان کیا ہے، غیر مامورین کا اپنے کسی رؤیا کو بیان کرنا ضروری نہیں ہوتا اور میں خود تو سوائے پچھلے ایام کے جبکہ اس جنگ کے متعلق اللہ تعالیٰ نے بعض اہم خبریں مجھے دیں، بہت کم ہی اپنی رؤیا بتا یا کرتا ہوں.بلکہ ( اللہ بہتر جانتا ہے یہ طریق درست ہے یا نہیں) میں اپنے رویاء و کشوف اور الہامات لکھتا بھی نہیں اور اس طرح وہ خود بھی کچھ عرصہ کے بعد میری نظروں سے اوجھل ہو جاتے ہیں.چنانچہ ابھی لاہور میں مجھے چودھری ظفر اللہ خان صاحب نے ایک امر کے سلسلہ میں میرا ایک میں پچیس سال کا پر انار و یا یاد کر ایا.پہلے تو وہ میرے ذہن میں ہی نہ آیا.مگر بعد میں ہے -------

Page 50

خطبات محمود 50 $1944 جب انہوں نے اس کی بعض تفصیلات بیان کیں تو اُس وقت مجھے یاد آگیا.تو یہ میری عادت نہیں ہے کہ میں رویاء و کشوف بیان کروں لیکن چونکہ اس رویا کا تعلق بعض اہم امور سے ہے.نہ صرف ایسے امور سے جو کہ میری ذات سے تعلق رکھتے ہیں بلکہ ایسے امور سے بھی جو بعض سابق انبیاء کی ذات اور ان کی پیشگوئیوں سے تعلق رکھتے ہیں اور نہ صرف وہ بات سابق انبیاء کی ذات اور ان کی پیشگوئیوں سے تعلق رکھتے ہیں بلکہ آئندہ رونما ہونے والے دنیا کے اہم حالات سے بھی تعلق رکھتے ہیں اس لیے میں مجبور ہوں کہ اُس رؤیا کا اعلان کروں اور میں نے اس کے اعلان سے پہلے خدا تعالیٰ سے اس بارہ میں دعا بھی کی ہے اور استخارہ بھی کیا ہے تاکہ اس معاملہ میں مجھ سے کوئی بات خدا تعالیٰ کے منشاء اور اس کی رضا کے خلاف نہ ہو.وہ رؤیا یہ تھا کہ میں نے دیکھا میں ایک مقام پر ہوں جہاں جنگ ہو رہی ہے وہاں کچھ عمارتیں ہیں.نا معلوم وہ گڑھیاں 1 ہیں یا ٹر نچر 2 ہیں.بہر حال وہ جنگ کے ساتھ تعلق رکھنے والی کچھ عمارتیں ہیں.وہاں کچھ لوگ ہیں جن کے متعلق میں نہیں جانتا کہ آیا وہ ہماری جماعت کے لوگ ہیں یا یو نہی مجھے ان سے تعلق ہے میں ان کے پاس ہوں.اتنے میں مجھے معلوم ہوتا ہے ہے جیسے جرمن فوج نے جو اس فوج سے کہ جس کے پاس میں ہوں بر سر پیکار ہے یہ معلوم کر لیا ہے کہ میں وہاں ہوں اور اس نے اس مقام پر حملہ کر دیا ہے.اور وہ حملہ اتنا شدید ہے کہ اس جگہ کی فوج نے پسپا ہونا شروع کر دیا.یہ کہ وہ انگریزی فوج تھی یا امریکن فوج یا کوئی اور فوج تھی اس کا مجھے اس وقت کوئی خیال نہیں آیا.بہر حال وہاں جو فوج تھی اس کو جرمنوں سے دینا ہے پڑا اور اُس مقام کو چھوڑ کر وہ پیچھے ہٹ گئی.جب وہ فوج پیچھے ہٹی تو جر من اس عمارت میں داخل ہو گئے جس میں میں تھا.تب میں خواب میں کہتا ہوں دشمن کی جگہ پر رہنا درست نہیں اور یہ مناسب نہیں کہ اب اس جگہ ٹھہر جائے یہاں سے ہمیں بھاگ چلنا چاہیے.اُس وقت میں رویا میں صرف یہی نہیں کہ تیزی سے چلتا ہوں بلکہ دوڑتا ہوں.میرے ساتھ کچھ اور لوگ بھی ہیں اور وہ بھی میرے ساتھ ہی دوڑتے ہیں اور جب میں نے دوڑنا شروع کیا تو رویا میں مجھے یوں معلوم ہوا جیسے میں انسانی مقدرت سے زیادہ تیزی کے ساتھ دوڑ رہا ہوں اور کوئی ایسی زبر دست طاقت مجھے تیزی سے لے جا رہی ہے کہ میلوں میں ایک آن میں طے کرتا

Page 51

خطبات محمود 51 $1944 جا رہا ہوں.اُس وقت میرے ساتھیوں کو بھی دوڑنے کی ایسی ہی طاقت دی گئی مگر پھر بھی وہ مجھ سے بہت پیچھے رہ جاتے ہیں اور میرے پیچھے ہی جرمن فوج کے سپاہی میری گرفتاری کے لیے دوڑ تے آرہے ہیں.مگر شاید ایک منٹ بھی نہیں گزرا ہو گا کہ مجھے رویا میں یوں معلوم ہوتا ہے کہ جر من سپاہی بہت پیچھے رہ گئے ہیں مگر میں چلتا ہی جاتا ہوں اور یوں معلوم ہوتا ہے کہ زمین میرے پیروں کے نیچے سمٹتی چلی جا رہی ہے یہاں تک کہ میں ایک ایسے علاقہ میں پہنچا جو دامن کوہ کہلانے کا مستحق ہے.ہاں! جس وقت جرمن فوج نے حملہ کیا ہے رویا میں مجھے یاد آتا ہے کہ کسی سابق نبی کی کوئی پیشگوئی ہے یا خود میری کوئی پیشگوئی ہے اس میں اس واقعہ کی خبر پہلے سے دی گئی ہے تھی اور تمام نقشہ بھی بتایا گیا تھا کہ جب وہ موعود اس مقام سے دوڑے گا تو اس طرح دوڑے گا اور پھر فلاں جگہ جائے گا.چنانچہ رویا میں جہاں میں پہنچا ہوں وہ مقام اس پہلی پیشگوئی کے عین مطابق ہے اور مجھے معلوم ہوتا ہے کہ پیشگوئی میں اس امر کا بھی ذکر ہے کہ ایک خاص رستہ ہے جسے میں اختیار کروں گا اور اس رستہ کے اختیار کرنے کی وجہ سے دنیا میں بہت اہم تغیرات ہوں گے اور دشمن مجھے گرفتار کرنے میں ناکام رہے گا.چنانچہ جب میں یہ خیال کرتا ہوں تو اس مقام پر مجھے کئی پگڈنڈیاں نظر آتی ہیں جن میں سے کوئی کسی طرف جاتی ہے اور کوئی کسی طرف میں ہے ان پگڈنڈیوں کے بالمقابل دوڑتا چلا گیا ہوں تا معلوم کروں کہ پیشگوئی کے مطابق مجھے کس کس راستہ پر جانا چاہیے اور میں اپنے دل میں یہ خیال کرتا ہوں کہ مجھے تو یہ معلوم نہیں کہ میں نے کس راستہ سے جانا ہے اور میراکس راستہ سے جانا خدائی پیشگوئی کے مطابق ہے.ایسا نہ ہو میں غلطی سے کوئی ایسا راستہ اختیار کرلوں جس کا پیشگوئی میں ذکر نہیں.اُس وقت میں اُس سڑک کی طرف جا رہا ہوں جو سب کے آخر میں بائیں طرف ہے.اُس وقت میں دیکھتا ہوں کہ مجھ سے کچھ فاصلہ پر میرا ایک اور ساتھی ہے اور وہ مجھے دیکھ کر کہتا ہے کہ اس سڑک پر نہیں، دوسری سڑک پر جائیں اور میں اس کے کہنے پر اس سڑک کی طرف جو بہت دور ہٹ کر ہے واپس کو شتاہوں.وہ جس سڑک کی طرف مجھے آوازیں دے رہا ہے انتہائی دائیں طرف ہے اور جس سڑک کو میں نے اختیار کیا تھا.وہ انتہائی بائیں طرف تھی.پس چونکہ میں انتہائی بائیں طرف تھا اور جس طرف وہ مجھے بلا رہا تھا ؟ وہ انتہائی دائیں طرف تھی اس لیے میں ٹوٹ کر اس سڑک کی طرف چلا.مگر جس وقت میں ہے

Page 52

خطبات مج محمود 52 $1944 پیچھے کی طرف واپس ہٹا، ایسا معلوم ہوا کہ میں کسی زبر دست طاقت کے قبضہ میں ہوں اور اس زبر دست طاقت نے مجھے پکڑ کر درمیان میں سے گزرنے والی ایک پگڈنڈی پر چلا دیا.میرا ساتھی مجھے آوازیں دیتا چلا جاتا ہے کہ اُس طرف نہیں اس طرف اس طرف نہیں اس می طرف.مگر میں اپنے آپ کو بالکل بے بس پاتا ہوں اور درمیانی پگڈنڈی پر بھاگتا چلا جاتا ہے ہوں.اس جگہ کی شکل رو یا کے مطابق اس طرح بنتی ہے:.شمال مغرب دامن کوہ کا علاقہ دایاں پہاڑی راستہ بڑی سڑک جس پر میں دوڑ رہا ہوں در میانی پگڈنڈی جو آگے جا کر شاخوں میں تقسیم ہو جاتی ہے پھر شاخوا بایاں پہاڑی راستہ مشرق جب میں تھوڑی دور چلا تو مجھے وہ نشانات نظر آنے لگے جو پیشگوئی میں بیان کیے گئے تھے.اور میں کہتا ہوں میں اسی راستہ پر آگیا جو خدا تعالیٰ نے پیشگوئی میں فرمایا تھا.اُس وقت رویا میں میں اس کی کچھ تو جیہہ بھی کرتا ہوں کہ میں درمیانی پگڈنڈی پر جو چلا ہوں تو اس کا کہ مطلب ہے.چنانچہ جس وقت میری آنکھ کھلی معا مجھے خیال آیا کہ دایاں اور بایاں راستہ جو رویا میں دکھایا گیا ہے اس میں بائیں رستہ سے مراد خالص دنیوی کوششیں اور تدبیریں ہیں اور

Page 53

$1944 53 خطبات محمود دائیں رستہ سے مراد خالص دینی طریق، دعا اور عبادتیں وغیرہ ہیں اور اللہ تعالیٰ نے مجھے بتایا ہے کہ ہماری جماعت کی ترقی درمیانی راستے پر چلنے سے ہو گی.یعنی کچھ تدبیریں اور کوششیں ہوں گی اور کچھ دعائیں اور تقدیریں ہوں گی.اور پھر یہ بھی میرے ذہن میں آیا کہ دیکھو ہے قرآن شریف نے امتِ محمدیہ کو اُمّةً وَسَطًا 3 قرار دیا ہے.اس وسطی راستہ پر چلنے کے یہی معنے ہیں کہ یہ امت اسلام کا کامل نمونہ ہو گی.اور چھوٹی پگڈنڈی کی یہ تعبیر ہے کہ راستہ گوئی درست راستہ ہے مگر اس میں مشکلات بھی ہوتی ہیں.غرض میں اُس راستہ پر چلنا شروع ہوگا اور مجھے یوں معلوم ہوا کہ دشمن بہت پیچھے رہ گیا ہے.اتنی دور کہ نہ اس کے قدموں کی آہٹ سنائی ہے دیتی ہے اور نہ اُس کے آنے کا کوئی امکان پایا جاتا ہے.مگر ساتھ ہی میرے ساتھیوں کے ی پیروں کی آہٹیں بھی کمزور ہوتی چلی جاتی ہیں اور وہ بھی بہت پیچھے رہ گئے ہیں.مگر میں دوڑتا چلا جاتا ہوں اور زمین میرے پیروں کے نیچے سمٹتی چلی جا رہی ہے.اُس وقت میں کہتا ہوں کہ اس واقعہ کے متعلق جو پیشگوئی تھی اس میں یہ بھی بتایا گیا تھا کہ اس رستہ کے بعد پانی آئے گا اور اس میں پانی کو عبور کرنا بہت مشکل ہو گا.اُس وقت میں رستے پر چلتا تو چلا جاتا ہوں مگر ساتھ ہی کہتا ہوں وہ پانی کہاں ہے؟ جب میں نے یہ کہا وہ پانی کہاں ہے تو یکدم میں نے دیکھا کہ میں ایک بہت ہے بڑی جھیل کے کنارے پر کھڑاہوں اور میں سمجھتا ہوں کہ اس جھیل کے پار ہو جانا پیشگوئی کے مطابق ضروری ہے.میں نے اس وقت دیکھا کہ جھیل پر کچھ چیزیں تیر رہی ہیں، وہ ایسی لمبی ہیں جیسے سانپ ہوتے ہیں اور ایسی باریک اور ملکی چیزوں سے بنی ہوئی ہیں جیسے بیے 4 وغیرہ کے گھونسلے نہایت باریک تنکوں کے ہوتے ہیں.وہ اوپر سے گول ہیں جیسے اژدہا کی پیٹھے ہوتی ہیں ہے اور رنگ ایسا ہے جیسے بیے کے گھونسلے سے سفیدی، زردی اور خاکی رنگ ملا ہوا.وہ پانی پر تھے تیر رہی ہیں اور اُن کے اوپر کچھ لوگ سوار ہیں جو ان کو چلا رہے ہیں.خواب میں میں سمجھتا ہے ہوں یہ بت پرست قوم ہے اور یہ چیزیں جن پر یہ لوگ سوار ہیں اُن کے بت ہیں اور یہ سال میں ایک دفعہ اپنے بتوں کو نہلاتے ہیں اور اب بھی یہ لوگ اپنے بتوں کو نہلانے کی غرض سے ہے مقررہ گھاٹ کی طرف لے جارہے ہیں.جب مجھے اور کوئی چیز پار لے جانے کے لیے نظر نہ آئی تو میں نے زور سے چھلانگ لگائی اور ایک بت پر سوار ہو گیا.تب میں نے سنا کہ بتوں کے پجاری ہے

Page 54

خطبات محمود 54 $1944 زور زور سے مشرکانہ عقائد کا اظہار منتروں اور گیتوں کے ذریعہ سے کرنے لگے.اس پر میں نے دل میں کہا کہ اس وقت خاموش رہنا غیرت کے خلاف ہے اور بڑے زور زور سے میں نے توحید کی دعوت ان لوگوں کو دینی شروع کی اور شرک کی برائیاں بیان کرنے لگا.تقریر کرتے ہوئے مجھے یوں معلوم ہوا کہ میری زبان اُردو نہیں بلکہ عربی ہے.چنانچہ میں عربی میں بول رہا ہوں اور بڑے زور سے تقریر کر رہا ہوں.رویا میں ہی مجھے خیال آتا ہے کہ ان لوگوں کی زبان تو عربی نہیں یہ میری باتیں کس طرح سمجھیں گے.مگر میں محسوس کرتا ہوں کہ گو ان کی زبان کوئی اور ہے مگر یہ میری باتوں کو خوب سمجھتے ہیں.چنانچہ میں اسی طرح ان کے سامنے عربی میں تقریر کر رہا ہوں اور تقریر کرتے کرتے بڑے زور سے ان کو کہتا ہوں کہ تمہارے یہ بہت اس پانی میں غرق کیے جائیں گے اور خدائے واحد کی حکومت دنیا میں قائم کی جائے گی.ابھی میں یہ تقریر کر ہی رہا تھا کہ مجھے معلوم ہوا کہ اسی کشتی نمابت والا جس پر میں سوار ہوں یا اس کے ساتھ کے بت والا بت پرستی کو چھوڑ کر میری باتوں پر ایمان لے آیا ہے اور موحد ہو گیا ہے.اس کے بعد اثر بڑھنا شروع ہوا اور ایک کے بعد دوسرا اور دوسرے کے بعد تیسرا اور تیسرے کے بعد چوتھا اور چوتھے کے بعد پانچواں شخص میری باتوں پر ایمان لاتا، مشرکانہ باتوں کو ترک کرتا اور مسلمان ہو تا چلا جاتا ہے.اتنے میں ہم جھیل پار کر کے دوسری طرف پہنچ گئے.جب ہم جھیل کے دوسری طرف پہنچ گئے تو میں ان کو حکم دیتا ہوں کہ ان بتوں کو جیسا کہ پیشگوئی میں بیان کیا گیا تھا، پانی میں غرق کر دیا جائے.اس پر جو لوگ موحد ہو چکے ہیں وہ بھی اور جو ابھی موحد تو نہیں ہوئے مگر ڈھیلے پڑ گئے ہیں میرے سامنے جاتے ہیں اور میرے حکم کی تعمیل میں اپنے بتوں کو جھیل میں غرق کر دیتے ہیں اور میں خواب میں حیران ہوں کہ یہ تو کسی تیرنے والے مادے کے بنے ہوئے تھے.یہ اس آسانی سے جھیل کی تہہ میں کس طرح چلے گئے.صرف پجاری پکڑ کر ان کو پانی میں غوطہ دیتے ہیں اور وہ پانی کی گہرائی میں جاکر بیٹھ جاتے ہیں.اس کے بعد میں کھڑا ہو گیا اور پھر انہیں تبلیغ کرنے لگ گیا.کچھ لوگ تو ایمان لا چکے تھے مگر باقی قوم جو ساحل پر تھی ابھی ایمان نہیں لائی تھی اس لیے : میں نے ان کو تبلیغ کرنی شروع کر دی.یہ تبلیغ میں ان کو عربی زبان میں ہی کرتا ہوں.جب ہم

Page 55

خطبات محمود 55 $1944 میں انہیں تبلیغ کر رہا ہوں تاکہ باقی لوگ بھی اسلام لے آئیں تو یکدم میری حالت میں تغیر پیدا ہوتا ہے اور مجھے یوں معلوم ہوتا ہے کہ اب میں نہیں رہا بلکہ خدا تعالیٰ کی طرف سے الہامی طور پر میری زبان پر باتیں جاری کی جارہی ہیں.جیسے خطبہ الہامیہ تھا جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زبان پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے جاری ہوا.غرض میر اکلام اُس وقت بند ہو جاتا ہے اور خد اتعالیٰ میری زبان سے بولنا شروع ہو جاتا ہے.بولتے بولتے میں بڑے زور سے ایک شخص کو جو غالباً سب سے پہلے ایمان لایا تھا، غالباً کا لفظ میں نے اس لیے کہا کہ مجھے یقین نہیں کہ وہی شخص پہلے ایمان لا یا ہو.ہاں غالب گمان یہی ہے کہ وہی شخص پہلا ایمان لانے والا یا پہلے ایمان لانے والوں میں سے با اثر اور مفید وجو د تھا، بہر حال میں یہی سمجھتا ہوں کہ وہ سب سے پہلے ایمان لانے والوں میں سے ہے اور میں نے اس کا اسلامی نام عبد الشکور رکھا ہے.میں اس کو مخاطب کرتے ہوئے بڑے زور سے کہتا ہوں کہ جیسا کہ پیشنگوئیوں میں بیان کیا گیا ہے میں اب آگے جاؤں گا اس لیے اے الشکور ! تجھ کو میں اس قوم میں اپنا نائب مقرر کرتا ہوں.تیر افرض ہو گا کہ میری واپسی تک اپنی قوم میں توحید کو قائم کرے اور شرک کو مٹادے اور تیر افرض ہو گا کہ اپنی قوم کو اسلام کی تعلیم پر عامل بنائے.میں واپس آکر تجھ سے حساب لوں گا اور دیکھوں گا کہ تجھے میں نے جن ہے فرائض کی سرانجام دہی کے لیے مقرر کیا ہے ان کو تو نے کہاں تک ادا کیا ہے.اس کے بعد وہی ہے عبدا الہامی حالت جاری رہتی ہے اور میں اسلام کی تعلیم کے اہم امور کی طرف اسے توجہ دلاتا ہوں اور کہتا ہوں کہ تیر افرض ہو گا کہ ان لوگوں کو سکھائے کہ اللہ ایک ہے اور محمد اس کے بندہ اور اس کے رسول ہیں اور کلمہ پڑھتا ہوں اور اس کے سکھانے کا اسے حکم دیتا ہوں.پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر ایمان لانے کی اور آپ کی تعلیم پر عمل کرنے کی اور سب لوگوں کو اس ایمان کی طرف بلانے کی تلقین کرتا ہوں.جس وقت میں یہ تقریر کر رہا ہوں (جو خود الہامی ہے) یوں معلوم ہوتا ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذکر کے وقت اللہ تعالیٰ نے خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو میری زبان سے بولنے کی توفیق دی ہے اور آپ فرماتے ہیں آنا مُحَمَّدٌ عَبْدَهُ وَرَسُولُهُ.اس کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ذکر پر بھی ایسا ہی ہو تا ہے اور آپ فرماتے ہیں اَنَا الْمَسِيحُ المَوْعُوْدُ.اس کے بعد میں ان کو اپنی

Page 56

$1944 56 خطبات محمود طرف توجہ دلاتا ہوں.چنانچہ اُس وقت میری زبان پر جو فقرہ جاری ہوا وہ یہ ہے اَنَا الْمَسِيحُ الْمَوْعُوْدُ مَثِيْلُهُ وَخَلِيفَتُه اور میں بھی مسیح موعود ہوں یعنی اس کا مثیل اور اس کا خلیفہ ہوں.جب خواب میں ہی مجھ پر ایک رعشہ کی سی حالت طاری ہو جاتی ہے اور میں کہتا ہوں کہ میری زبان پر کیا جاری ہوا اور اس کا کیا مطلب ہے کہ میں مسیح موعود ہوں.اُس وقت معامیرے ذہن میں یہ بات آئی کہ اس کے آگے جو الفاظ ہیں کہ مثیله میں اس کا نظیر ہوں وَخَلِيفَتُهُ اور اس کا خلیفہ ہوں.یہ الفاظ اس سوال کو حل کر دیتے ہیں اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الہام کہ وہ حسن و احسان میں تیر انظیر ہو گا "5 اس کے مطابق اور اسے پورا کرنے کے لیے رہ میری زبان پر جاری ہوا ہے اور مطلب یہ ہے کہ اس کا مثیل ہونے اور اس کا خلیفہ ہونے کے لحاظ سے ایک رنگ میں میں بھی مسیح موعود ہی ہوں.کیونکہ جو کسی کا نظیر ہو گا اور اس کے اخلاق کو اپنے اندر لے لے گا وہ ایک رنگ میں اُس کا نام پانے کا مستحق بھی ہو گا.پھر میں تقریر کرتے ہوئے کہتا ہوں میں وہ ہوں جس کے ظہور کے لیے انیس سو سال سے کنواریاں منتظر بیٹھی تھیں اور جب میں کہتا ہوں " میں وہ ہوں جس کے لیے انیس سو سال سے کنواریاں اس سمندر کے کنارے پر انتظار کر رہی تھیں".تو میں نے دیکھا کہ کچھ نوجوان عور تیں جو سات یا نو ہیں جن کے کے لباس صاف ستھرے ہیں ، دوڑتی ہوئی میری طرف آتی ہیں، مجھے السّلامُ عَلَيْكُمْ کہتی اور ان میں سے بعض برکت حاصل کرنے کے لیے میرے کپڑوں پر ہاتھ پھیرتی جاتی ہیں اور کہتی ہے ہیں "ہاں ہاں ! ہم تصدیق کرتی ہیں کہ ہم انیس سو سال سے آپ کا انتظار کر رہی تھیں".اس کے بعد میں بڑے زور سے کہتا ہوں کہ میں وہ ہوں جسے علوم اسلام اور علوم عربی اور اس زبان کا فلسفہ ماں کی گود میں اس کی دونوں چھاتیوں سے دودھ کے ساتھ پلائے گئے تھے.رویا میں جو ایک سابق پیشگوئی کی طرف مجھے توجہ دلائی گئی تھی اس میں یہ بھی خبر تھی کہ جب وہ موعود بھاگے گا تو ایک ایسے علاقہ میں پہنچے گا جہاں ایک تھیل ہو گی اور جب وہ اس جھیل کو پار کر کے دوسری طرف جائے گا تو وہاں ایک قوم ہو گی جس کو وہ تبلیغ کرے گا اور وہ اس کی تبلیغ سے متاثر ہے ہو کر مسلمان ہو جائے گی.تب وہ دشمن، جس سے وہ موعود بھاگے گا اس قوم سے مطالبہ کرے گا کہ اس شخص کو ہمارے حوالے کیا جائے.مگر وہ قوم انکار کر دے گی اور کہے گی ہم لڑ کر ہی

Page 57

$1944 57 خطبات محمود مر جائیں گے مگر اسے تمہارے حوالے نہیں کریں گے.چنانچہ خواب میں ایسا ہی ہوتا ہے.جرمن قوم کی طرف سے مطالبہ ہوتا ہے کہ تم ان کو ہمارے حوالے کر دو.اُس وقت میں خواب میں کہتا ہوں یہ تو بہت تھوڑے ہیں اور دشمن بہت زیادہ ہے.مگر وہ قوم باوجود اس کے کہ ابھی ایک حصہ اُس کا ایمان نہیں لایا بڑے زور سے اعلان کرتی ہے کہ ہم ہر گز ان کو تمہارے حوالے کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں.ہم لڑ کر فنا ہو جائیں گے مگر تمہارے اس مطالبہ کو تسلیم نہیں کریں گے.تب میں کہتا ہوں دیکھو! وہ پیشگوئی بھی پوری ہو گئی.اس کے بعد میں پھر ان کو ہدایتیں دے کر اور بار بار توحید قبول کرنے پر زور دے کر اور اسلامی کے مطابق زندگی بسر کرنے کی تلقین کر کے آگے کسی اور مقام کی طرف روانہ ہو گیا ہوں.اُس وقت میں سمجھتا ہوں کہ اس قوم میں سے اور لوگ بھی جلدی جلدی ایمان لانے والے ہیں.چنانچہ اسی لیے میں اس شخص سے جسے میں نے اس قوم میں اپنا خلیفہ مقرر کیا ہے کہتا ہوں جب میں واپس آؤں گا تو اے عبد الشکور ! میں دیکھوں گا کہ تیری قوم شرک چھوڑ چکی ہے؟ موحد ہو چکی ہے ؟ اور اسلام کے تمام احکام پر کار بند ہو چکی ہے؟ یہ رویا ہے جو میں نے جنوری 1944ء مطابق صلح 1923 ہش دیکھی اور جو غالباً پانچ اور چھ کی درمیانی شب بدھ اور جمعرات کی درمیانی رات میں ظاہر کی گئی.جب میری آنکھ کھلی تو میری نیند بالکل اُڑ گئی اور مجھے سخت گھبراہٹ پیدا ہوئی.کیونکہ آنکھ کھلنے پر مجھے یوں محسوس ہو تا تھا گویا میں اردو بالکل بھول چکا ہوں اور صرف عربی ہی جانتا ہوں.چنانچہ کوئی گھنہ بھر تک میں اس رویا پر غور کرتا اور سوچتا رہا.مگر میں نے دیکھا کہ میں عربی میں ہی غور کرتا تھا ؟ اور اسی میں سوال و جواب میرے دل میں آتے تھے.اس رویا میں تین پیشگوئیوں کی طرف اشارہ کیا گیا ہے.ایک پیشگوئی تو یوں معلوم ہوتا ہے کہ گویا میں نے ہی کی ہے یا کسی سابق غیر معروف نبی نے.اللہ بہتر جانتا ہے کہ وہ کس نبی کی پیشگوئی ہے اور آیا دنیا کے سامنے اس رنگ میں یہ پیشگوئی پیش بھی ہو چکی ہے یا نہیں.لیکن اس کے علاوہ دو اور پیشگوئیوں کی طرف بھی اس میں اشارہ کیا گیا ہے.پہلی پیشگوئی جس میں یہ ذکر ہے کہ انیس سو سال سے کنواریاں میرا انتظار کر رہی تھیں وہ در حقیقت حضرت عیسی علیہ السلام کی ایک پیشگوئی ہے جس کا انجیل میں

Page 58

$1944 58 خطبات محمود میں ذکر آتا ہے.حضرت مسیح فرماتے ہیں جب میں دوبارہ دنیا میں آؤں گا تو بعض قو میں مجھے مان لیں گی اور بعض قو میں انکار کریں گی.آپ ان اقوام کا تمثیلی رنگ میں ذکر کرتے ہوئے ہے فرماتے ہیں کہ ان کی مثال ایسی ہی ہو گی جیسے کچھ کنواریاں اپنی اپنی مشعلیں لے کر دولہا کے استقبال کو نکلیں.وہ دولہا کے انتظار میں بیٹھی رہیں، بیٹھی رہیں اور بیٹھی رہیں.مگر دولہا نے آنے میں بہت دیر لگائی.جو عقلمند تھیں، انہوں نے تو اپنی مشعلوں کے ساتھ تیل بھی لے لیا تھا.مگر جو بیوقوف تھیں انہوں نے مشعلیں تو لے لیں مگر تیل اپنے ساتھ نہ لیا.جب دولہا نے بہت دیر لگائی تو سب اونگھنے لگیں.تب وہ، جو بے احتیاط عور تیں تھیں انہوں نے معلوم کیا کہ ان کا تیل ختم ہو رہا ہے اور انہوں نے دوسری عورتوں سے کہا اپنے تیل میں سے کچھ ہمیں بھی دے دو کیونکہ ہماری مشعلیں بجھی جاتی ہیں.انہوں نے کہا ہم تمہیں تیل نہیں دے سکتیں.اگر دے دیں تو شاید ہمارا تیل بھی ختم ہو جائے.تم بازار میں جاؤ شاید تمہیں وہاں سے تیل مل جائے.جب وہ مول لینے کے لیے بازار گئیں تو پیچھے سے دولہا آپہنچا اور وہ جو تیار تھیں اُس کو ساتھ لے کر قلعہ میں چلی گئیں اور دروازہ بند کر دیا گیا.کچھ دیر کے بعد وہ بے احتیاط عور تیں بھی آئیں اور دروازے کو کھٹکھٹا کر کہنے لگیں ہمارے لیے بھی دروازہ کھولا ہے جائے ہم اندر آنا چاہتی ہیں.مگر دولہا نے جواب دیا تم نے میرا انتظار نہ کیا، تم نے پوری طرح احتیاط نہ برتی.اس لیے اب صرف انہیں کو حصہ ملے گا جو چوکس تھیں تمہارے لیے دروازہ ہے نہیں کھولا جاسکتا.یہ در حقیقت حضرت مسیح ناصری کی اپنی بعثت ثانیہ کے متعلق ایک پیگلوئی تھی جو انجیل میں پائی جاتی ہے.پس رویا میں میں نے جو یہ کہا کہ "میں وہ ہوں جس میں کے لیے انہیں سو سال سے کنواریاں اس سمندر کے کنارے پر انتظار کر رہی تھیں" اس سے میں یہ سمجھتا ہوں کہ خدا تعالیٰ میرے زمانہ میں یا میری تبلیغ سے یا ان علوم کے ذریعہ سے جو اللہ تعالیٰ نے میری زبان اور قلم سے ظاہر فرمائے ہیں اُن قوموں کو جن کے لیے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر ایمان لانا مقدر ہے اور جو حضرت مسیح ناصری کی زبان میں کنواریاں قرار دی گئی ہیں ہدایت عطا فرمائے گا اور اس طرح خدا تعالیٰ کے فضل سے میں وہ میرے ہی ذریعہ سے ایمان لانے والی سمجھی جائیں گی.اور یہ جو فرمایا کہ مَثِيْلُهُ وَخَلِيفَتُهُ

Page 59

خطبات محمود 59 $1944 اس خدائی الہام نے وہ بات جو ہمیشہ میرے سامنے پیش کی جاتی تھی اور جس کا جواب دینے سے ہمیشہ میری طبیعت انقباض محسوس کیا کرتی تھی آج میرے لیے بالکل حل کر دی ہے.یعنی اس الہام الہی سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ وہ پیشگوئی جو مصلح موعود کے متعلق تھی خدا تعالی ہے نے میری ہی ذات کے لیے مقدر کی ہوئی تھی.لوگوں نے کہا اور بار بار کہا کہ آپ کی ان پیشگوئیوں کے بارہ میں کیا رائے ہے مگر میری یہ حالت تھی کہ میں نے کبھی سنجیدگی سے ان می پیشگوئیوں کو پڑھنے کی بھی کوشش نہیں کی تھی.اس خیال سے کہ میرا نفس مجھے کوئی دھوکا من نہ دے اور میں اپنے متعلق کوئی ایسا خیال نہ کر لوں جو واقعہ کے خلاف ہو.حضرت خلیفہ اول نے ایک دفعہ مجھے ایک خط دیا اور فرمایا میاں ! یہ خط ہے جو تمہاری پیدائش کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے مجھے لکھا.اس خط کو تشخیز الا ذبان میں چھاپ دو.یہ بڑے کام کی چیز ہے.میں نے اُس وقت اُن کے ادب کو ملحوظ رکھتے ہوئے وہ خط لے لیا اور ان کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے اُسے تشخیز میں شائع کرا دیا.مگر ہم اللہ بہتر جانتا ہے میں نے اُس وقت بھی اس خط کو غور سے نہیں پڑھا.صرف سرسری طور پر پڑھا اور اشاعت کے لیے دے دیا.لوگوں نے اُس وقت بھی کئی قسم کی باتیں کیں مگر میں خاموش رہا.اس کے بعد بھی بار بار یہ سوال میرے سامنے لایا گیا مگر ہمیشہ میں نے یہی جواب دیا کہ اس بات کی کوئی ضرورت نہیں کہ جس شخص کے متعلق یہ خبریں ہیں اُسے بتایا بھی جائے کہ یہ تمہارے متعلق خبریں ہیں یا ہر گز یہ ضروری نہیں کہ جس شخص کے متعلق یہ پیشگوئیاں ہیں وہ دعوی بھی کرے کہ میں ان پیشگوئیوں کا مصداق ہوں.بلکہ مثال کے طور پر میں نے بعض دفعہ بیان کیا ہے کہ ریل کے متعلق رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پیشگوئی فرمائی تھی.7 مانے والے مانتے ہیں کہ پیشگوئی پوری ہو گئی کیونکہ وہ واقعات کو اپنی ہی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں.اب یہ ضروری نہیں کہ ریل خود دعوی بھی کرے کہ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی فلاں پیشگوئی کی مصداق ہوں.ہماری جماعت کے دوستوں نے یہ اور اسی قسم کی دوسری پیشگوئیاں بارہا میرے سامنے رکھیں اور اصرار کیا کہ میں ان کا اپنے آپ کو مصداق ظاہر کروں.مگر میں نے انہیں ہمیشہ یہی کہا کہ پیشگوئی اپنے مے

Page 60

$1944 60 خطبات محمود مصداق کو آپ ظاہر کیا کرتی ہے.اگر یہ پیشگوئیاں میرے متعلق ہیں تو زمانہ خود بخود گواہی دے دے گا کہ ان پیشگوئیوں کا میں مصداق ہوں اور اگر میرے متعلق نہیں تو زمانہ کی گواہی میرے خلاف ہو گی.دونوں صورتوں میں مجھے کچھ کہنے کی ضرورت نہیں.اگر یہ پیشگوئیاں میرے متعلق نہیں تو میں یہ کہہ کر کیوں گنہگار بنوں کہ یہ پیشگوئیاں میرے متعلق ہیں اور اگر میرے ہی متعلق ہیں تو مجھے جلد بازی کی کیا ضرورت ہے وقت خود بخود حقیقت ظاہر کر دے گا.غرض جیسے الہامِ الہی میں کہا گیا تھا انہوں نے کہا کہ آنے والا یہی ہے یا ہم دوسرے کی را ہیں تکمیں " 8 دنیا نے یہ سوال اتنی دفعہ کیا، اتنی دفعہ کیا کہ اس پر ایک لمبا عرصہ گزر گیا.اس لمبے عرصہ کے متعلق بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے الہامات میں خبر موجود ہے.مثلاً حضرت یعقوب علیہ السلام کے متعلق حضرت یوسف کے بھائیوں نے یہ کہا تھا که تو اسی طرح یوسف کی باتیں کرتا رہے گا یہاں تک کہ قریب المرگ ہو جائے گا یا ہلاک ہو جائے گا اور یہی الہام حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ہوا.10 اسی طرح یہ الہام ہونا کہ یوسف کی خوشبو مجھے آ رہی ہے، 11 بتاتا تھا کہ خدا تعالیٰ کی مشیت کے ماتحت یہ چیز ایک لمبے عرصہ کے بعد ظاہر ہوگی.میں اب بھی اس یقین پر قائم ہوں کہ اگر ان پیشگوئیوں کے متعلق مجھے اللہ تعالیٰ کی طرف سے موت کے قریب وقت تک یہ علم نہ دیا جاتا کہ یہ میرے متعلق ہیں بلکہ موت تک مجھے علم نہ دیا جاتا اور واقعات خود بخود ظاہر کر دیتے کہ چونکہ یہ پیشگوئیاں میرے زمانہ میں اور میرے ہاتھ سے پوری ہوئی ہیں اس لیے میں ہی ان کا مصداق ہوں تو اس میں کوئی حرج نہ تھا.ی کشف یا الہام کا تائیدی طور پر ہونا ایک زائد امر ہوتا ہے.لیکن خدا تعالیٰ نے اپنی مشیت کے ماتحت آخر اس امر کو ظاہر کر دیا اور مجھے اپنی طرف سے علم بھی دے دیا کہ مصلح موعود سے تعلق رکھنے والی پیشگوئیاں میرے متعلق ہیں.چنانچہ آج میں نے پہلی دفعہ وہ تمام پیشگوئیاں منگوا کر اس نیت کے ساتھ دیکھیں کہ میں ان پیشگوئیوں کی حقیقت سمجھوں اور دیکھوں کہ اللہ تعالیٰ نے اُن میں کیا کچھ بیان فرمایا ہے.ہماری جماعت کے دوست چونکہ میری طرف ان پیشگوئیوں کو منسوب کیا کرتے تھے اس لیے میں ہمیشہ ان پیشگوئیوں کو غور سے

Page 61

$1944 61 خطبات محمود پڑھنے سے بچتا تھا اور ڈرتا تھا کہ کوئی غلط خیال قائم نہ ہو جائے.مگر آج پہلی دفعہ میں نے تمام پیشگوئیاں پڑھیں اور اب ان پیشگوئیوں کو پڑھنے کے بعد میں خدا تعالیٰ کے فضل یقین اور وثوق کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ خدا تعالیٰ نے یہ پیشگوئی میرے ذریعہ سے ہی پوری کی ہے.میں اس کے متعلق اس وقت تفصیل سے کچھ نہیں کہہ سکتا مگر یہ جو آتا ہے کہ " وہ تین کو چار کرنے والا ہو گا" 12 اس کے متعلق ہمیشہ سوال کیا جاتا ہے کہ اس کے کیا معنی ہیں؟ اسی طرح " دو شنبہ ہے مبارک دو شنبہ "13 کے متعلق سوال کیا جاتا ہے.سو یہ جو الہام ہے کہ وہ " تین کو چار کرنے والا ہو گا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا ذہن اس طرف گیا ہے کہ وہ تین بیٹوں کو چار کرنے والا ہو گا.یعنی وہ چو تھا بیٹا ہو گا.اگر یہ مفہوم لے لیا جائے تو چوتھے بیٹے کے لحاظ سے بھی بات بالکل صاف ہے.مجھ سے پہلے مرزا سلطان احمد صاحب، مرزا فضل احمد صاحب اور مرزا بشیر احمد (اول) پیدا ہوئے اور چوتھا میں ہوا.....اسی طرح میرے بعد حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے تین بیٹے ہوئے.اس لحاظ سے بھی میں تین کو چار کرنے والا ہو گا.پھر میری خلافت کے ایام میں اللہ تعالیٰ نے مر زا سلطان احمد صاحب کو احمدیت میں داخل ہونے کی توفیق دی.اس طرح بھی میں تین کو چار کرنے والا ہوا.گویا تین کو چار کرنے والا میں تین طرح ہوں.اول و دوم اس طرح.مرزا سلطان احمد (1) مرزا اصل احمد (2)، بشیر اول (3) مرزا محمود احد (4)، مرزابشیراحمد (3)، مرزا شریف احمد (2)، مرزا مبارک احمد(1) سوم اس طرح:.سلطان احمد ،1 ، مرزا بشیر احمد ،2، مرزا شریف احمد 3، مرزا محمود احمد 4.اس طرح میں نے تین کو چار کر دیا.لیکن میر از من خدا تعالیٰ نے اس طرف بھی منتقل کیا ہے کہ الہامی طور پر میں

Page 62

$1944 62 محمود یہ نہیں کہا گیا تھا کہ وہ تین بیٹوں کو چار کرنے والا ہو گا.الہام میں صرف یہ بتایا گیا تھا کہ وہ تین کو چار کرنے والا ہو گا.پس میرے نزدیک یہ اس کی پیدائش کی تاریخ بتائی گئی ہے.یہ پیشگوئی ابتدا می 1886ء میں کی گئی تھی.پس 1886ء،1887ء، 1888ء تین سال ہوئے.ان تین سالوں کو چار کونسا سال کرتا ہے ؟1889ء کرتا ہے اور سبکی میری پیدائش کا سال ہے.پس تین کو چار کرنے والی پیشگوئی میں یہ خبر دی گئی تھی کہ اس کی پیدائش چوتھے سال میں ہو گی.چنانچہ ایسا ہی ہوا.اور یہ جو آتا ہے " دو شنبہ ہے مبارک دو شنبہ " اس کے اور معنے بھی ہو سکتے ہیں.مگر میرے نزدیک اس کی ایک واضح تشریح یہ ہے کہ دو شنبہ ہفتے کا تیسرا دن ہوتا ہے؛ شنبہ پہلا، یکشنبہ دوسرا اور دوشنبہ تیسرا.دوسری طرف روحانی سلسلوں میں انبیاء اور ان کے خلفاء کا الگ الگ دور ہوتا ہے اور جس طرح نبی کا زمانہ اپنی ذات میں ایک مستقل حیثیت رکھتا ہے اسی طرح خلیفہ کا زمانہ اپنی ذات میں ایک مستقل حیثیت رکھتا ہے.اس لحاظ سے غور کر کے دیکھو پہلا دور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا تھا.دوسرا دور حضرت خلیفہ اول کا تھا اور تیسر اوور میرا ہے.ادھر اللہ تعالیٰ کا ایک اور الہام اس تشریح کی تصدیق کر رہا ہے اور وہ الہام ہے "فضل عمر " 14 حضرت عمر بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے تیسرے مقام پر ہی خلیفہ تھے.پس " دو شنبہ ہے مبارک دو شنبہ" سے یہ مراد نہیں کہ کوئی خاص دن خاص برکات کا موجب ہو گا بلکہ مراد یہ ہے کہ اس موعود کے زمانہ کی مثال احمدیت کے دور میں ایسی ہی ہوگی جیسے دو شنبہ کی ہوتی ہے.یعنی اس سلسلہ میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے خدمتِ دین کے لیے جو آدمی کھڑے کیے جائیں گے ان میں وہ تیسرے نمبر پر ہو گا."فضل عمر " کے الہامی نام میں بھی اسی طرف اشارہ ہے.گویا کلام اللہ میں يُفسّرُ بَعْضُهُ بَعْضًا کے مطابق " فضل عمر " کے لفظ نے " دو شنبہ ہے مبارک دو شنبہ " کی تفسیر کر دی.مگر اس الہام میں ایک اور خبر بھی ہے اور خدا تعالیٰ مبارک دو شنبہ اب ایک ایسے ذریعہ سے بھی لانے والا ہے جو میرے اختیار میں نہیں تھا اور کوئی انسان نہیں کہہ سکتا کہ میں ہے

Page 63

$1944 63 خطبات محمود نے اپنے ارادہ سے اور جان بوجھ کر اس کا اجراء کیا.میں نے 1934ء میں تحریک جدید کو ایسے حالات میں جاری کیا جو ہر گز میرے اختیار میں نہیں تھے.گورنمنٹ کے ایک فعل اور احرار کی فتنہ انگیزی کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے میرے دل میں اس تحریک کا القاء فرمایا اور اس تحریک کے پہلے دور کی تکمیل کے لیے میں نے دس سال میعاد مقرر کی.ہر انسان جب کوئی قربانی کرتا ہے تو اس قربانی کے بعد اس پر ایک عید کا دن آتا ہے.چنانچہ دیکھ لیے لو رمضان کے مہینہ میں لوگ روزے رکھتے اور تکلیف برداشت کرتے ہیں مگر جب رمضان گزر جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ مومنوں کے لیے ایک عید کا دن لاتا ہے.اسی طرح ہماری دس سالہ تحریک جدید جب ختم ہوگی تو اس سے اگلا سال ہمارے لیے عید کا سال ہو گا.دوست جانتے ہیں تحریک جدید کا پہلا دس سالہ دور اسی سال یعنی 1944ء میں ختم ہوتا ہے اور یہ عجیب بات ہے کہ سن 1945ء جو ہمارے لیے عید کا سال ہے، پیر کے دن سے شروع ہوتا ہے.پس اللہ تعالیٰ نے ان الفاظ میں یہ خبر بھی دی تھی کہ ایک زمانہ میں اسلام کی نہایت کمزور حالت میں اس کی اشاعت کے لیے ایک اہم تبلیغی ادارہ کی بنیاد رکھی ہے جائے گی اور جب اس کا پہلا دور کامیابی سے ختم ہو گا تو یہ جماعت کے لیے ایک مبارک ہے وقت ہو گا.اس لیے وہ سال جب مومن اس عہد و قربانی کو پورا کر چکیں گے جو وہ اپنے ذمہ لیں گے تو ایک مبارک بنیاد ہو گی اور اس سے اگلے سال سے خدا تعالیٰ ان کے لیے برکت کا بیج بوئے گا اور خوشی کا دن ان کو دکھائے گا.اور جس سال میں یہ وقوع میں آئے گا اُس کا پہلا دن پیر یادو شنبہ ہو گا.پس وہ سال بھی مبارک اور وہ دن بھی مبارک.پس " دو شنبہ ہے مبارک دو شنبہ ".مگر جیسا کہ میں نے بتایا ہے اس کے ایک معنے یہ بھی ہیں کہ مصلح موعود اس سلسلہ کی تیسری کڑی ہو گا.بعض دفعہ ایک چیز کی کسی اور چیز سے مشابہت دے دی جاتی ہے مگر ضروری نہیں ہوتا کہ اس سے مراد وہی ہو.پس میرے نزدیک اس کے معنے بالکل واضح ہیں اور "فضل عمر " جو الہامی نام ہے وہ ان معنوں کی تائید کرتا ہے.میں اس امر کا بھی ذکر دینا چاہتا ہوں کہ جب رؤیا کے بعد میری آنکھ کھلی تو میں ہے

Page 64

خطبات محمود 64 $1944 اس مسئلہ پر سوچتا رہا اور جیسا کہ میں نے بتایا ہے عربی میں ہی سوچتا رہا.سوچتے سوچتے میرے دماغ میں جو الفاظ آئے اور میں جس نتیجہ پر پہنچا وہ یہ تھا کہ اب تو خدا نے بالکل فیصلہ کر دیا ہے جَاءَ الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِلُ إِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَهُوقًا.15 اور عجیب بات یہ ہے کہ آج میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا اشتہار پڑھ رہا تھا تو اس میں مجھے یہی الفاظ نظر آئے کہ حق اپنی تمام برکتوں کے ساتھ آگیا اور باطل اپنی تمام نحوستوں کے ساتھ بھاگ گیا.16 پس اللہ تعالیٰ نے میرے لیے ( میں یہ نہیں کہتا کہ دوسروں کے لیے بھی.کیونکہ دوسرا شخص کسی غیر مامور کے کشف یا الہام کو ماننے کا مکلف نہیں لیکن میرے لیے خدا تعالیٰ ہے نے ) حقیقت کو کھول دیا ہے اور اب میں بغیر کسی ہچکچاہٹ کے کہہ سکتا ہوں کہ خدا تعالیٰ کی یہ پیشگوئی پوری ہوئی اور خدا تعالیٰ نے ایک ایسی بنیاد تحریک جدید کے ذریعہ سے رکھ دی ہے جس کے کے نتیجہ میں حضرت مسیح ناصری کی وہ پیشگوئی کہ کنواریاں دولہا کے ساتھ قلعہ میں داخل ہوں گی، ایک دن بہت بڑی شان اور عظمت کے ساتھ پوری ہو گی.مثیل مسیح ان کنوار یوں ہے کو اللہ تعالیٰ کے حضور لے جائے گا اور وہ قومیں جو اُس سے برکت پائیں گی خوشی سے پکار اٹھیں گی که هو شعنا، هو شعنا 17 اُس وقت انہیں محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان لانا نصیب ہو گا اور اُسی وقت انہیں حقیقی رنگ میں مسیح اول پر سچا ایمان نصیب ہو گا.اب تو وہ قومیں انہیں خدا تعالیٰ کا بیٹا قرار دے کر در حقیقت گالیاں دے رہی ہیں لیکن مقدر یہی ہے کہ میرے بوئے ہوئے بیچ سے ایک دن ایسا درخت پیدا ہو گا کہ یہی عیسائی اقوام مثیل مسیح سے برکت حاصل کرنے کے لیے اس کے نیچے بسیرا کریں گی اور خدا تعالی کی بادشاہت میں داخل ہو جائیں گی اور جیسے خدا کی بادشاہت آسمان پر ہے ویسے ہی زمین پر آجائے گی".(الفضل یکم فروری1944ء) 1 : گڑھیاں (گڑھی ): چھوٹا قلعہ (فیروز اللغات اُردو جامع) 2 :ٹر نچز (TRENCHES) 3 :البقرة:144

Page 65

$1944 65 خطبات محمود ط 4 : بیٹے (بتا): چھوٹی زرد رنگ کی چڑیا جو تنکوں سے بہت خوبصورت اور مضبوط گھونسلا بناتی.(اُردو لغت جلد دوم.شائع کردہ ترقی اردو بورڈ کراچی) 5 : تذکرہ صفحہ 164 ایڈیشن چہارم : متی، باب 25 آیات 1 تا 13 ہے 1 : کنزالعمال كتاب القيامة باب خروج الدجال جزء 14 صفحہ 327 الطبعة الخامسة 1981ء.الناشر مؤسسة الرسالة 8 : تذکرہ صفحہ 144، طبع چہارم : قَالُوا تَاللهِ تَفْتَواتَ ذُكُرُ يُوسُفَ حَتَّى تَكُونَ حَرَضًا أَوْ تَكُونَ مِنَ الْهَلِدِينَ (يوسف: 86) 10: تذکرہ صفحہ 163 طبع چہارم 11: تذکرہ صفحہ 622 ایڈیشن چہارم 12: اشتہار 20 فروری 1886ء، تذکرہ صفحہ 139 طبع چہارم 13: اشتہار 20 فروری 1886ء.تذکرہ، صفحہ 139 طبع چہارم 14: تذکرہ صفحہ 165 طبع چہارم 15:بنی اسرائیل:82 16: تذکرہ صفحہ 137 ایڈیشن چہارم میں الفاظ اس طرح ہیں " تا حق اپنی تمام برکتوں کے ساتھ آجائے اور باطل اپنی تمام نحوستوں کے ساتھ بھاگ جائے" 17: تذکرہ صفحہ 102 ایڈیشن چہارم -------------

Page 66

$1944 5 99 66 محمود مصلح موعود کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئی فرموده 4 فروری 1944ء) تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: --------- "میں نے پچھلے جمعہ میں اپنی ایک رؤیا سنائی تھی جس میں مجھے بتایا گیا تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی وہ پیشگوئی جو ایک ایسے لڑکے کے متعلق تھی جو میں ضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی مقرر کردہ میعاد کے اندر پیدا ہونے والا تھا اور جو 1886ء کی پیشگوئی کا مصداق تھا وہ میرے ہی متعلق تھی.آج میں بتاتا ہوں کہ کس طرح اس رویا میں بہت سی باتیں اس پیشگوئی کی دہرائی گئی ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمائی.جیسا کہ میں نے بتایا تھا میں نے اس پیشگوئی کو غور و فکر سے پڑھنے کی پہلے کبھی ہے کوشش نہیں کی.بلکہ جب کبھی یہ پیشگوئی میرے سامنے آتی، میں اس کے مضمون پر سے ہم جلدی سے گزر جاتا تھا تا کہ میرا نفس میرے دل میں اس کے متعلق کوئی جھوٹا شبہ پیدا نہ میں کرے اور جبکہ جماعت کے دوستوں کا اصرار تھا کہ وہ اس پیشگوئی کو میرے متعلق سمجھتے ہیں خطبات

Page 67

$1944 67 خطبات محمود میں ہمیشہ ہی اس مضمون سے کتراتا تھا.اس لیے پیشگوئی کی جو تشریحات تھیں وہ میرے ذہن میں نہ تھیں.خصوصاً اس سال کے شروع میں جب یہ رویا ہوا یعنی جنوری کے مہینہ میں، اُس وقت تو کوئی وجہ نہ تھی کہ یہ تشریحات میرے سامنے ہو تیں بلکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ مضمون عرصہ دراز سے میرے سامنے نہ آیا تھا.بے شک بعض علامتیں جو اس پیشگوئی میں بیان کی گئی ہیں وہ میرے ذہن میں تھیں.لیکن باوجود اس کے یہ رؤیا مجھے ایسے رنگ میں آئی ہے جسے و مافی ترجمانی نہیں کہا جاسکتا.اور بعض علامتیں جو اس پیشگوئی میں تو تھیں مگر میرے علم میں نہ تھیں اور گو میں نے وہ علامتیں پڑھی ضرور تھیں مگر اُن علامتوں نے کبھی میرے ذہن میں ہے معین جگہ نہیں پکڑی تھی اور مجھے یاد بھی نہیں تھیں اُن علامتوں کو اس رویا میں اللہ تعالیٰ نے عجیب طریق پر دُہرادیا ہے.مگر پیشتر اس کے کہ میں اُن مشابہتوں کا ذکر کروں، میں اس امر کا ذکر کر دینا ضروری سمجھتا ہوں کہ یہ بھی ایک ظاہری مشابہت میری رویا اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی پیشگوئی کے درمیان پائی جاتی ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو یہ خبر ایک سفر کے موقع پر دی گئی تھی جبکہ آپ ہوشیار پور گئے ہوئے تھے اور ہوشیار پور میں ہی آپ نے وہ اشتہار لکھا جس میں اس پیشگوئی کا من تفصیل کے ساتھ ذکر آتا ہے.چنانچہ اس اشتہار کے شائع کرتے وقت آپ نے اللہ تعالیٰ کے اس الہام کو درج کرتے ہوئے کہ " میں نے تیری تضرعات کو شنا اور تیری دعاؤں کو اپنی رحمت سے بپایہ قبولیت جگہ دی اور تیرے سفر کو تیرے لیے مبارک کر دیا.تحریر فرمایا ہے "جو ہوشیار پور اور لدھیانہ کا سفر ہے " لدھیانہ کا سفر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے پہلے کیا اور ہوشیار پور کا سفر بعد میں اور یہ الہامات آپ کو ہوشیار پور میں ہی ہوئے.چنانچہ میاں بشیر احمد صاحب نے اپنی کتاب "سیرۃ المہدی " میں مولوی عبد اللہ صاحب سنوری کی یہ روایت شائع کی ہے کہ میں اس سفر میں آپ کے ہمراہ تھا.وہیں آپ پر یہ الہامات نازل ہوئے اور وہیں آپ نے یہ اشتہار شائع کیا.پس یہ خبر آپ کو ہوشیار پور کے سفر میں ملی ہے اور عجیب بات یہ ہے کہ مجھ کو بھی یہ رویا سفر میں ہی ہوئی ہے جبکہ میں لاہور میں تھا.پس اس پیشگوئی اور رویا میں سفر کے لحاظ سے بھی آپس میں مشابہت پائی جاتی ہے بلکہ جس وقت میں یہ

Page 68

$1944 68 خطبات محمود ☆ بات بیان کرنے لگا ہوں، میرے ذہن میں ایک اور مشابہت بھی آئی ہے مگر مجھے اس پر ابھی پورا یقین نہیں.اس کے متعلق انشاء اللہ بعد میں تحقیقات کروں گا.اور وہ مشابہت یہ ہے کہ جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے شیخ بشیر احمد صاحب جس مکان میں رہتے ہیں اور جس میں رؤیا کے وقت میری سکونت تھی وہ ہوشیار پور کے رہنے والے ایک صاحب شیخ نیاز محمد صاحب پلیڈر مرحوم کا ہے.پس یہ عجیب بات ہے کہ یہ رؤیا مجھے سفر میں آئی اور اس مکان میں آئی جو ہے ہوشیار پور کے رہنے والے ایک دوست کا مکان ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو یہ الہامات بھی ہوشیار پور میں ہی ہوئے اور ان کی برادری کے ایک آدمی کے گھر پر ہوئے.شیخ نیاز محمد صاحب کا بھی عجیب معاملہ معلوم ہوتا ہے.میری ان سے کوئی زیادہ واقفیت نہ تھی.ہاں یہ جانتا تھا کہ وہ ایک کامیاب وکیل ہیں اور یہ معلوم تھا کہ لوگوں میں خیال کیا جاتا تھا کہ وہ اچھے درجہ پر پہنچ جائیں گے.مگر مجھے وہ صرف ایک دفعہ ملے تھے.اس ملاقات کے مہینوں بلکہ سالوں بعد میں نے ایک رؤیا دیکھی کہ ایک بہت بڑا اثر دہام ہے جس میں ان کو ایک ہاتھی پر چڑھا کر لوگ جلوس کی صورت میں شہر کی طرف لا رہے ہیں.بہت سے مسلمان جمع ہیں اور لوگوں کا بہت بڑا ہجوم ہے اور وہ بہت خوش ہیں کہ ان کو کوئی عزت ملی ہے یا ملنے میں والی ہے.میں رویا میں دیکھتا ہوں کہ جلوس مفتی محمد صادق صاحب کے گھر کی طرف آرہا ہے میں ان کے گھر کے قریب جو موڑ ہے وہاں کھڑا ہو گیا اور جلوس نے اس طرف بڑھنا شروع کر دیا.جس وقت وہ عین منزلِ مقصود پر پہنچ گئے جہاں ان کا اعزاز ہونا تھا تو یکدم آسمان سے ایک ہاتھ آیا اور وہ انہیں اٹھا کر لے گیا.اس رؤیا کے مہینہ ڈیڑھ مہینہ کے بعد وہ فوت ہو گئے.بعد میں معلوم ہوا کہ ہائی کورٹ کی جی کے لیے ان کا نام گیا ہوا تھا اور منظوری آنے ہی ☆ بعد میں تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ یہ خیال درست تھا.یہ صاحب ہوشیار پور ہی کے تھے اور شیخ مہر علی صاحب جن کے مکان میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام ٹھہرے تھے اور جہاں ہے آپ کو 1886ء کے اشتہار والے الہامات ہوئے تھے اور جہاں آپ نے وہ اشتہار لکھا تھا، وہ ہے گو قریبی رشتہ دار تو ان کے نہ تھے مگر ان کی برادری میں سے تھے.منہ

Page 69

خطبات محمود 62 69 $1944 والی تھی کہ وہ فوت ہو گئے.یہ رویا تھی جو میں نے ان کے متعلق دیکھی.حالانکہ میرا ان کے ساتھ کوئی تعلق نہ تھا.صرف ایک دفعہ چودھری ظفر اللہ خان صاحب کے ساتھ وہ مجھ سے ملنے کے لیے آئے تھے.اس سے زیادہ میری ان سے کوئی واقفیت نہ تھی لیکن باوجود اس کے اللہ تعالیٰ نے مجھے بتایا کہ وہ عنقریب فوت ہونے والے ہیں اور ایسے حالات میں فوت ہونے والے ہیں جبکہ مسلمانوں کا نمائندہ ہونے کی وجہ سے ان کو عزت ملنے والی ہے.آج میں سمجھتا ہوں کہ باوجود کوئی ظاہری تعلق نہ ہونے کے ان کی وفات کی خبر کا مجھے دینا اسی نسبت کی وجہ سے تھا کہ ان کے گھر پر اللہ تعالیٰ نے مجھے مصلح موعود ہونے کی خبر دینی تھی.اب میں ان می مشابہتوں کو بیان کرتا ہوں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی پیشگوئی کے ساتھ میری رؤیا کو ہیں.رویا میں میں نے دیکھا کہ میری زبان پر یہ فقرہ جاری ہوا آنَا الْمَسِيحُ الْمَوْعُوْدُ مَثِيْلُهُ وَخَلِيفَتُه ان الفاظ کا میری زبان پر جاری ہونا میرے لیے اس قدر عجوبہ تھا (ظاہر میں تو ہو ہی سکتا ہے لیکن خواب میں ہی میری ایسی کیفیت ہو گئی) کہ قریب تھا اس تہلکہ سے میں جاگ اٹھتا کہ میرے منہ سے یہ کیا الفاظ نکل گئے ہیں.بعد میں بعض دوستوں نے توجہ دلائی کہ مسیحی نفس ہونے کا ذکر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اشتہار مورخہ 20 فروری 1886ء میں بھی آتا ہے.گو اس روز میں یہ اشتہار پڑھ کر آیا تھا لیکن جب میں خطبہ پڑھ رہا تھا اُس وقت اشتہار کے یہ الفاظ میرے ذہن میں نہ تھے.خطبہ کے بعد غالباً دوسرے دن مولوی سید سرور شاہ صاحب نے توجہ دلائی کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اشتہار میں بھی لکھا ہے کہ "وہ دنیا میں آئے گا اور اپنے مسیحی نفس اور روح الحق کی برکت سے بہتوں کو بیماریوں سے صاف کرے گا ".اس پیشگوئی میں بھی مسیح کا لفظ استعمال ہوا ہے.دوسرے میں نے رویا میں دیکھا کہ میں نے بہت تڑوائے ہیں.اس کا اشارہ بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی اس پیشگوئی کے دوسرے حصہ میں پایا جاتا ہے کہ وہ می "روح الحق کی برکت سے بہتوں کو بیماریوں سے صاف کرے گا".روح الحق توحید کی روح کو م کہا جاتا ہے اور سچی بات تو یہ ہے کہ اصل چیز خدا تعالیٰ کا وجود ہی ہے، باقی سب چیزیں اطلال من

Page 70

$1944 70 خطبات محمود اور سائے ہیں.پس روح الحق سے مراد تو حید کی روح ہے جس کے متعلق کہا گیا تھا کہ وہ اس کی برکت سے بہتوں کو بیماریوں سے صاف کرے گا.تیسرے میں نے دیکھا کہ میں بھاگ رہا ہوں.چنانچہ خطبہ میں میں نے ذکر کیا تھا کہ رویا میں یہی نہیں کہ میں تیزی سے چلتا ہوں بلکہ دوڑتا ہوں اور زمین میرے قدموں تلے سمٹتی چلی جاتی ہے.پسر موعود کی پیشگوئی میں بھی یہ الفاظ ہیں کہ وہ جلد جلد بڑھے گا.اسی طرح رویا میں میں نے دیکھا کہ میں بعض غیر ملکوں کی طرف گیا ہوں اور پھر وہاں بھی میں نے اپنے کام کو ختم نہیں کیا بلکہ میں اور آگے جانے کا ارادہ کر رہا ہوں.جیسے میں نے کہا اے عبد الشکور ! اب میں آگے جاؤں گا اور جب اس سفر سے واپس آؤں گا تو دیکھوں گا کہ اس عرصہ میں تو نے توحید کو قائم کر دیا ہے، شرک کو مٹادیا ہے اور اسلام اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تعلیم کو لوگوں کے دلوں میں راسخ کر دیا ہے.حضرت مسیح موعود ہے علیہ الصلوۃ والسلام پر اللہ تعالی نے جو کلام نازل فرمایا اس میں بھی اس طرف اشارہ پایا جاتا ہے ہے.چنانچہ لکھا ہے وہ " زمین کے کناروں تک شہرت پائے گا".یہ الفاظ بھی اس کے دور دور جانے اور چلتے چلے جانے کی طرف اشارہ کر رہے ہیں.پھر یہ جو پیشگوئی میں ذکر آتا ہے کہ وہ :" علوم ظاہری و باطنی سے پر کیا جائے گا".اس کی طرف بھی میری رویا میں اشارہ کیا گیا ہے.چنانچہ خواب میں میں بڑے زور سے کہہ رہا ہوں کہ "میں وہ ہوں جسے علوم اسلام اور علوم عربی اور اس زبان کا فلسفہ ماں کی گود میں اس کی دونوں چھاتیوں سے دودھ کے ساتھ پلائے گئے تھے".پھر لکھا تھا وہ " جلال الہی کے ظہور کا موجب ہو گا ".اس کے متعلق بھی رویا میں وضاحت پائی جاتی ہے جیسا کہ میں نے بتایا کہ رویا میں میری زبان پر تصرف کیا گیا اور میری ہے زبان سے خدا تعالیٰ نے بولنا شروع کر دیا.پھر رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لائے اور آپ نے میری زبان سے کلام فرمایا.پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام آئے اور آپ نے میری زبان سے بولنا شروع کر دیا.یہ جلالِ الہی کا ایک عجیب ظہور تھا جس کا پیشگوئی میں بھی ذکر پایا جاتا تھا.پس یہ بھی ان دونوں میں ایک مشابہت پائی جاتی ہے.

Page 71

$1944 71 محمود پھر لکھا تھا." وہ صاحب شکوہ اور عظمت اور دولت ہو گا".اور رویا میں بھی ہے گیا کہ ایک قوم ہے جس کا میں ایک شخص کو لیڈر مقرر کرتا ہوں اور ان الفاظ میں جیسے ایک طاقتور بادشاہ اپنے ماتحت کو کہہ رہا ہو، اسے کہتا ہوں اے عبد الشکور ! تم میرے سامنے اس بات کے ذمہ دار ہوگے کہ تمہارا ملک قریب ترین عرصہ میں توحید پر ایمان لے آئے ، شرک کو ترک کر دے، رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیم پر عمل کرے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ارشادات کو اپنے مد نظر رکھے.یہ "صاحب شکوہ ا عظمت" کے ہی کلمات ہو سکتے ہیں جو ڈیا میں میری زبان پر جاری کیے گئے.اور اور یہ جو پیشگوئی میں ذکر آتا ہے کہ "ہم اس میں اپنی روح ڈالیں گے".یہ اس بات کی طرف اشارہ تھا کہ اس پر کلام الہی نازل ہو گا اور رویا میں اس کا بھی ذکر آتا ہے.چنانچہ الہی ہے تصرف کے ماتحت رؤیا میں میں سمجھتا ہوں کہ اب میں نہیں بول رہا بلکہ خدا تعالیٰ کی طرف سے الہامی طور پر میری زبان پر باتیں جاری کی جا رہی ہیں.پس اس حصہ میں پیشگوئی کے انہی الفاظ کے پورا ہونے کی طرف اشارہ ہے کہ "ہم اس میں اپنی روح ڈالیں گے".پھر رؤیا کا یہ حصہ بھی پیشگوئی کے ان الفاظ کی تصدیق کرتا ہے کہ رویا میں میں یہ سمجھتا ہوں کہ ہر قدم جو میں اٹھا رہا ہوں وہ کسی پہلی وحی کے مطابق اٹھا رہا ہوں.اب میں خیال کرتا ہوں کہ یہ جو میں سمجھتا ہوں کہ آئندہ میں جو سفر کروں گا وہ ایک سابق وحی کے مطابق ہو گا اس سے اشارہ مصلح موعود والی پیشگوئی ہی کی طرف تھا.اور یہ بتایا گیا تھا کہ میری زندگی اس پیشگوئی کا نقشہ ہے اور الہی تصرف کے ماتحت ہے.اب میں سمجھتا ہوں کہ پہلی پیشگوئی کے متعلق جو یہ ابہام رکھا گیا کہ یہ کس کی پیشگوئی ہے، اس میں یہ حکمت تھی تا مصلح موعود کی پیشگوئی کی طرف توجہ دلا کر اس ذہنی علم کا رویا میں دخل نہ ہو جائے جو مجھے اس پیشگوئی کی نسبت حاصل تھا.اس قسم کی تدابیر رویا اور الہام میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہمیشہ اختیار کی جاتی ہیں اور اسرار سماویہ میں سے ایک سر میں یہ وہ مشابہتیں ہیں جو میری رؤیا اور حضرت مسیح موعود علیہ والسلام کی پیشگوئی میں پائی جاتی ہیں.اب میں واقعات کے لحاظ سے اس پیشگوئی کا تطابق دیکھتا ہوں.اس بارہ میں جماعت

Page 72

خطبات محمود 72 $1944 میں سالہا سال سے کثرت سے مضامین نکل چکے ہیں اور لوگوں نے اس رؤیا سے پہلے ہی پیشگوئی کی بہت سی باتیں مجھ پر چسپاں کی ہیں.اس لیے میں اس وقت چند باتیں جو نہایت اہم ہیں بیان کرتا ہوں.اول یہ کہ جب لوگ میرے متعلق کہتے تھے کہ یہ بچہ ہے اُس زمانہ میں اللہ تعالیٰ نے خلافت کے مقام پر مجھے کھڑا کیا.اس کی طرف بھی پیشگوئی کے ان الفاظ میں اشارہ کیا گیا ہے تھا کہ " وہ جلد جلد بڑھے گا" میرے لیے وہ حیرت کا زمانہ تھا.بلکہ اب تک میں اپنی اس حیرت کو نہیں بھولا.حضرت خلیفہ اول کا زمانہ تھا اور مجھے کچھ پتہ نہ تھا کہ جماعت میں کیا جھگڑا ہے.کسی بات پر فساد اور ہنگامہ برپا ہے.جیسے ایک شفاف آئینہ ہر قسم کی میل کچیل اور داغوں سے منزہ ہوتا ہے ہے وہی میرے دل کی کیفیت تھی.ہر قسم کے بغض سے پاک ہر قسم کی سازش کے خیالات سے مبرا بلکہ حالات کے علم سے بھی خالی تھا.صبح کی نماز کا وقت تھا.حضرت خلیفہ اول نے کچھ سوالات لو گوں کو جواب لکھنے کے لیے بھجوائے ہوئے تھے اور میں نے بھی ان کے جواب تھے.میں اُس وقت حضرت اماں جان کے کمرہ میں، جو مسجد کے بالکل ساتھ ہے نماز کے انتظار میں ٹہل رہا تھا کہ مسجد سے مجھے لوگوں کی اونچی اونچی آوازیں آنی شروع ہو گئیں کسی بات پر وہ جھگڑ رہے ہوں.ان میں سے ایک آواز جسے میں نے پہچانا وہ شیخ رحمت اللہ صاحب کی تھی.میں نے سنا کہ وہ بڑے جوش سے یہ کہہ رہے ہیں کہ ایک بچہ کو آگے کر کے ہم جماعت کو تباہ کیا جا رہا ہے، ایک بچہ کو آگے کرنے کی خاطر یہ سب فساد برپا کیا جارہا ہے، ایک من بچہ کو خلیفہ بنانے کی کوشش ہو رہی ہے.مجھے یاد ہے، میں اُس وقت ان باتوں سے اتنا غافل اور میں اس قدر ناواقف تھا کہ مجھے ان کی یہ بات سن کر حیرت ہوئی کہ وہ بچہ ہے کون، جس کے متعلق ہے یہ الفاظ کہے جارہے ہیں.چنانچہ میں نے باہر نکل کر دوسروں سے پوچھا کہ آج مسجد میں یہ کیسا شور تھا اور شیخ رحمت اللہ صاحب یہ کیا کہہ رہے تھے کہ ایک بچہ کو آگے کرنے کی خاطر ہے جماعت کو تباہ کیا جارہا ہے ؟ وہ بچہ ہے کون جس کے متعلق یہ الفاظ کہے جارہے تھے ؟ اس پر ہے ایک دوست نے ہنس کر کہا کہ وہ بچہ تم ہی تو ہو ، اور کون ہے؟ پس میں اس وقت ان باتوں سے ہے

Page 73

خطبات محمود 73 $1944 اس قدر ناواقف تھا کہ میں اتنا بھی نہ سمجھ سکا کہ اس بچہ سے مراد میں ہوں.لیکن دشمن کا یہ قول در حقیقت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے انہی الفاظ کی تصدیق کر رہا تھا کہ " وہ جلد جلد بڑھے گا".خدا نے مجھے اتنی جلدی بڑھایا کہ دشمن حیران رہ گیا.چند ماہ پہلے مجھے بچہ قرار دے کر وہ نا قابل قرار دے رہا تھا اور چند ماہ بعد وہ مجھے ایک شاطر ، تجربہ کار قرار دے کر میری برائی کر رہا تھا.گویا بچپن کی عمر میں ہی اللہ تعالیٰ نے میرے ہاتھوں سے سلسلہ میں رخنہ ڈالنے والوں کو شکست دلوا دی.یہ ویسے ہی ہوا جیسے حضرت مسیح ناصری سے ہوا.ان کے دشمنوں نے بھی کہا تھا کہ ہم ایک بیچے سے کس طرح باتیں کریں.جب حضرت مسیح ناصری اپنی والدہ کے ساتھ شہر میں آئے اور حضرت مریم نے لوگوں سے کہا کہ ان سے باتیں کرو.تو انہوں نے یہی کہا کہ ہم ایک بچے سے کس طرح باتیں کریں.یہی وہ بات تھی جس کی طرف قرآن کریم میں ان الفاظ میں اشارہ فرمایا ہے کہ كَيْفَ نُكَلِّمُ مَنْ كَانَ فِي الْمَهْدِ صَبِيَّ - - پس اُس وقت میرے متعلق دشمنوں کی طرف سے یہی کہا جاتا تھا کہ یہ ایک بچہ ہے مگر باوجود اس کے کہ یہ لوگ مجھے بچہ سمجھتے تھے اور باوجود اس کے کہ میں واقع میں بچہ تھا، میری عمر اس وقت پچیس سال تھی، اللہ تعالی نے مجھے پچیس سال کی عمر میں ایک حکومت پر قائم کر دیا، اور میں حکومت بھی ایسی جو روحانی حکومت تھی.جسمانی حکومت میں تو بادشاہ کے پاس تلوار ہوتی ہے ، طاقت ہوتی ہے، جتھا ہوتا ہے، فوجیں ہوتی ہیں، جرنیل ہوتے ہیں، جیل خانے ہوتے ہیں، ہم خزانے ہوتے ہیں.وہ جس کو چاہتا ہے پکڑ کر سزا دیتا ہے لیکن حکومت روحانی میں جس کا جی ہے چاہتا ہے مانتا ہے اور جس کا جی چاہتا ہے انکار کر دیتا ہے.زور اور طاقت کا کوئی سوال نہیں ہے ہوتا.پھر خدا تعالیٰ نے مجھے اس حکومت روحانی پر ایسی حالت میں کھڑا کیا جب خزانہ میں صرف چند آنے تھے اور ہزارہا روپیہ قرض تھا اور پھر خدا تعالیٰ نے یہ کام ایسی حالت میں سپرد کیا جب جماعت کے ذمہ دار افراد قریباً سارے کے سارے مخالف تھے اور یہاں تک مخالف تھے کہ ان میں سے ایک شخص نے مدرسہ ہائی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ ہم تو جاتے ہیں لیکن عنقریب تم دیکھ لو گے کہ ان عمارتوں پر عیسائیوں کا قبضہ ہو جائے گا.ایک میں پچیس برس کا لڑکا تھا جس کو ایک ایسی حکومت سپرد کی گئی جس میں طاقت و قوت کا نام و نشان ہے

Page 74

خطبات محمود 74 $1944 تک نہ تھا، جس کو ایک ایسی قوم کی حکومت سپرد کی گئی جس کا خزانہ خالی تھا، جس کو ایک ایسی قوم کی حکومت سپرد کی گئی جس کے اپنے سردار اور تجربہ کار لیڈر اسے چھوڑ کر جارہے تھے.میدان دشمن کے قبضہ میں تھا اور وہ اس بات پر خوشیاں منا رہا تھا کہ ہمارے جاتے ہی اس قوم کی عمارتوں پر عیسائی قابض ہو جائیں گے اور اس کی ترقی کے ایام تنزل اور ادبار سے بدل جائیں گے.تم سمجھ سکتے ہو، ایسے نازک حالات میں اس قوم کا کیا حال ہو سکتا ہے.مگر وہ دن گیا اور آج کا دن آیا.دیکھنے والے دیکھ رہے ہیں کہ جماعت کی جو تعداد اس وقت تھی جب وہ میرے سپرد کی گئی آج خدا تعالیٰ کے فضل سے اس سے سینکڑوں ملنے زیادہ ہے.جن ملکوں میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا نام پہنچ چکا تھا آج اس سے جیوں گنے زیادہ ممالک میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا نام پہنچ چکا ہے.جس خزانے میں صرف اٹھارہ آنے تھے آج اس میں لاکھوں روپیہ پایا جاتا ہے.جس جماعت کے افراد نہایت کمزور حالت میں تھے آج اس جماعت کے افراد ہر لحاظ سے ترقی کر چکے ہیں.اگر میں آج بھی مر جاؤں تب بھی میں خزانہ میں اُس سے بہت زیادہ روپیہ چھوڑ کر جاؤں گا جو مجھے ملا.میں اس سے بہت زیادہ جماعت چھوڑ کر جاؤں گا جو مجھے ملی.میں ان سے بہت زیادہ علماء چھوڑ کر جاؤں گا جو مجھے ملے تھے.میں سلسلہ کی تائید میں اس سے بہت زیادہ کتابیں چھوڑ کر جاؤں گا جو مجھے ملیں اور میں سلسلہ کی خدمت کے لیے ان سے بہت زیادہ علوم چھوڑ کر جاؤں گا جو مجھے اس وقت ملے تھے جب خدا نے مجھے خلافت کے مقام پر کھڑا کیا.پس وہ جو خدا نے کہا تھا کہ " وہ جلد جلد بڑھے گا" اور "خدا کا سایہ اس کے سر پر ہو گا " وہ پیشگوئی ایسے عظیم الشان رنگ میں پوری ہوئی ہے کہ دشمن سے دشمن بھی اس کا انکار نہیں کر سکتا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس پیشگوئی کو اتنا اہم قرار دیا ہے کہ آپ ہے فرماتے ہیں " یہ صرف پیشگوئی ہی نہیں بلکہ ایک عظیم الشان نشانِ آسمانی ہے ".2 جس کو خدا نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صداقت و عظمت ظاہر کرنے کے لیے نازل کیا ہے.پس وہ شخص جو اس پیشگوئی کو سمجھ کر اس پر ایمان لاتا ہے، وہ اللہ تعالیٰ کا ایک ایسا عظیم الشان نشان دیکھتا ہے جس کی مثال اور نشانوں میں بہت کم ملتی ہے.جیسے

Page 75

خطبات محمود 75 $1944 حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے تحریر فرمایا کہ "نو برس کے عرصہ تک تو خود اپنے زندہ رہنے کا ہی حال معلوم نہیں اور نہ یہ معلوم کہ اس عرصہ تک کسی قسم کی اولا د خواہ مخواہ پیدا ہو گی.چہ جائیکہ لڑکا پیدا ہونے پر کسی انکل سے قطع اور یقین کیا جائے" 3 پھر آپ نے لکھا کہ اس پیشگوئی میں صرف یہی نہیں کہ نو برس میں ایک لڑکا پیدا ہونے کی خبر دی گئی ہے بلکہ ساتھ ہی ایسی شرطیں لگا دی گئی ہیں کہ وہ لڑکا اسلام کی شان و شوکت کا موجب ہو گا.اور ایسی شرائط کے ساتھ کسی لڑکے کا پیدا ہونا " انسانی طاقتوں سے بالا تر " اور "بڑا بھاری آسمانی نشان " ہے.4 کسی انسان کے اختیار میں یہ بات نہیں کہ وہ ایسا کر سکے.وہ بھی کیا زمانہ تھا کہ جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر چاروں طرف سے دشمنوں کے حملے ہو رہے تھے.محض اس بناء پر کہ آپ نے الہام کا دعوی کیا ہے.آپ نے مجددیت کا دعوی اُس وقت نہیں کیا تھا.ماموریت کا دعوی اُس وقت نہیں تھا.صرف الہام نازل ہونے کا دعوی کیا اور دنیا آپ کی مخالف ہو گئی.صرف چند افراد آپ کے ساتھ تھے.اُس وقت اللہ تعالی نے آپ کو بتایا کہ تمہیں ایک ایسا لڑ کا ملے گا جو صاحب شکوہ اور عظمت ہو گا جو تمہارے رنگ میں رنگین ہو کر اصلاح کے لیے کھڑا کیا جائے گا.اللہ تعالیٰ اس کے ساتھ ہو گا.وہ سلسلہ اور اسلام کی بہتری کے سامان مہیا کرے گا اور دنیا کے کناروں تک شہرت پائے گا.یہ صاف بات ہے کہ جو شخص کسی کا نائب ہونے کی حیثیت سے کھڑا کیا جائے گا وہ جب دنیا کے کناروں تک شہرت پائے گا تو جو اُس کا آقا اور مطاع ہے اُس کا نام بھی دنیا کے کناروں تک ضرور پہنچے گا.پس جب خدا تعالیٰ نے یہ کہا کہ وہ زمین کے کناروں تک شہرت پائے گا تو اس کے معنے یہ تھے کہ اس کے ذریعہ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وس اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا نام بھی دنیا کے کناروں تک پہنچے گا.اب دیکھ لو! یہ پیشگوئی کتنی واضح ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ میں بیرونی ممالک میں سے صرف افغانستان ہی ایک ایسا ملک تھا جہاں کسی اہمیت کے ساتھ

Page 76

$1944 76 محمود حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا نام پہنچا تھا.اور ممالک میں صرف اُڑتی ہوئی خبریں پہنچی تھیں اور وہ بھی یا تو مخالفوں کی پھیلائی ہوئی تھیں اور یا ایسا ہوا کہ کسی شخص کے پاس سلسلہ کی کوئی کتاب پہنچی اور اس نے آگے کسی کو دکھا دی.باقاعدہ جماعت کسی ملک میں قائم نہیں ہے ا تھی.حضرت خلیفہ اول کے زمانہ میں خواجہ کمال الدین صاحب انگلستان گئے مگر وہاں انہوں احمد - نے احمدیت کا ذکر سم قاتل قرار دے دیا.اس وجہ سے انگلستان میں جو مشن قائم ہوا اس کے ذریعہ احمدیت کا نام نہیں پھیلا، حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ و السلام کا نام نہیں پھیلا.اگر پھیلا تو خواجہ صاحب کا نام پھیلا.اس کے بعد جب اللہ تعالیٰ نے میرے ہاتھ میں سلسلہ احمدیہ کی باگ دی تو میرے زمانہ میں خدا تعالیٰ کے فضل سے سماٹرا میں احمدیت پھیلی، جاوا میں احمدیت پھیلی، سٹریٹ سیٹلمنٹ میں احمدیت پھیلی، چین میں احمدیت پھیلی، ماریشس میں احمدیت پھیلی، افریقہ کے چاروں کناروں تک احمدیت پہنچی اور پھیلی، مصر میں احمدیت پھیلی، شام میں احمدیت پھیلی، فلسطین میں احمدیت پھیلی، ایران میں احمدیت پہنچی، عراق میں ہے مدیت پہنچی، یورپ کے کئی ممالک میں احمدیت پہنچی، چنانچہ اٹلی میں احمدیت پہنچی، سپین میں احمدیت پہنچی، ہنگری میں احمدیت پہنچی، زیکو سلویکیا میں احمدیت پہنچی، جرمنی میں احمدیت پہنچی ہے اور خدا تعالیٰ کے فضل سے جماعتوں کے لحاظ سے انگلستان اور امریکہ میں بڑی بڑی احمدی جماعتیں قائم ہوئیں.اب ساؤتھ امریکہ میں آہستہ آہستہ احمدیت کا نام پھیل رہا ہے.گویا دنیا کے چاروں کناروں تک میرے زمانہ خلافت میں ہی احمدیت کا نام پہنچا اور مختلف مقامات پر جماعتیں قائم ہوئیں.ان میں سے بعض جماعتیں بہت ہی اہم ہیں اور خدا تعالیٰ کے فضل.ان جماعتوں کے افراد ہزاروں کی تعداد میں ہیں.چنانچہ سماٹرا اور جاوا میں ہمارے جو مشن قائم ہیں ان کے ماتحت خدا تعالیٰ کے فضل سے ہزاروں احمدی ہیں.آجکل وہاں دشمن کا قبضہ ہے.اللہ تعالیٰ ہماری جماعت کے لوگوں کے ساتھ ہو اور ان کا حافظ و ناصر ہو.اس کے بعد افریقہ کی جماعتیں ہیں.ان میں سے بھی ایک ایک جماعت میں ہزاروں افراد پائے جاتے ہیں اور یہ اپنے اخراجات آپ برداشت کرتی ہیں.سیر الیون کی جماعت بالکل نئی ہے.مگر پھر بھی اس جماعت نے وہاں مدر سے قائم کر لیے ہیں، مبلغ رکھے ہیں اور ان تمام اخراجات کو وہاں کے ہے ا

Page 77

$1944 77 خطبات محمود افراد خود برداشت کرتے ہیں.لیگوس میں بھی احمد یہ مدارس قائم ہیں اور جماعتیں ارد گرد کے علاقوں میں کثرت سے پھیلی ہوئی ہیں.انہوں نے بھی اپنے ذاتی اخراجات پر مبلغ اور مدرس رکھے ہوئے ہیں.ہم انہیں کوئی خرچ نہیں دیتے.نائیجیریا میں بھی ہماری جماعت خدا تعالی کے ہے فضل سے کافی تعداد میں پائی جاتی ہے اور وہاں کے افراد بھی اخراجات کا بیشتر حصہ خود ادا کرتے ہیں.یہ وہ مقامات ہیں جن میں سے بعض بعض جگہ پچیس پچپیں، تیس تیس ہزار احمدی پائے جاتے ہیں.اور ان کے سالانہ جلسوں کے موقع پر ہی تین تین چار چار ہزار آدمی اکٹھے ہو جاتے ہیں اور یہ ساری جماعتیں ایسی ہیں جن میں سے ایک فرد بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ میں احمدی نہیں تھا، جن میں سے ایک فرد بھی حضرت خلیفہ اول ہے کے زمانہ میں احمدی نہیں تھا، جن میں سے ایک فرد بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے نام سے آشنا نہ تھا اور جن میں سے ہزاروں ایسے تھے کہ گو وہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ و کے نام سے آشنا تھے مگر در حقیقت آپ کے دشمن اور عیسائی مذہب کے پیرو تھے یا بُت پرست ہی تھے.پھر خدا تعالیٰ نے ان کو میرے زمانہ میں ہی کلمہ توحید سکھایا اور ان کو مسلمان ہونے کی توفیق عطا فرمائی.پھر اسلام کی تبلیغ کی ایک اہم ترین بنیاد اللہ تعالیٰ نے میرے ذریعے سے تحریک جدید کے ماتحت رکھ دی.تحریک جدید ایک ایسی تحریک ہے کہ اس کا سارا سلسلہ ہی الہامی ہے.اس لیے کہ تحریک جدید شروع ہوئی احرار اور گورنمنٹ کے ایک فعل سے.اب کیا گورنمنٹ میرے اختیار میں تھی اور کیا میں نے اسے کہا تھا کہ وہ مجھے نوٹس دیتی ؟ پھر گورنمنٹ نے جو میں نوٹس دیا وہ در حقیقت غلطی سے دیا.گورنمنٹ چاہتی تھی کہ احرار کے اجتماع کے موقع پر باہر سے احمدیوں کو نہ بلوایا جائے اور ہم نے اُس کی اس خواہش کو تسلیم کر لیا اور اُسے لکھ دیا کہ اس میں اجتماع کے موقع پر باہر سے احمدیوں کو نہیں بلایا جائے گا.آگے اختلاف ہو جاتا ہے.سی.آئی.ڈی کے جو افسر تھے وہ کہتے ہیں کہ میں نے گورنمنٹ سے کہہ دیا تھا کہ انہوں نے احرار کے اجتماع پر احمدیوں کو قادیان آنے سے منع کر دیا ہے.لیکن باوجود اس کے گورنمنٹ نے نوٹس جاری کر دیا اور بالا افسر یہ کہتے ہیں کہ سی.آئی.ڈی کے سپر نٹنڈنٹ نے ہمیں آکر یہ

Page 78

$1944 78 خطبات محمود کہا کہ وہ احمدیوں کو اس موقع پر قادیان آنے سے روکنے کے لیے تیار نہیں ہیں.چنانچہ انسپکٹر جنرل پولیس نے در د صاحب سے یہی کہا کہ سی.آئی.ڈی کے سپر نٹنڈنٹ صاحب ڈپٹی انس جنرل پولیس کے ساتھ آئے.ان کے ہاتھ میں اُس وقت ایک خط تھا جس کی طرف اشارہ کر کے انہوں نے کہا کہ قادیان سے جواب آگیا ہے کہ ہم احمدیوں کو اس اجتماع کے موقع پر باہر سے آنے سے روکنے کے لیے تیار نہیں ہیں.انسپکٹر جنرل پولیس نے کہا کہ چونکہ ایک اہم ہے عہدیدار یہ خط لا یا تھا اور ڈی.آئی.جی اُس کے ساتھ تھا اس لیے اُن کے کہنے پر اعتبار کر لیا گیا اور چونکہ گورنر صاحب بار بار فون کر رہے تھے کہ قادیان سے کیا جواب آیا ہے اس لیے انہیں فوری طور پر جواب دے دیا گیا کہ قادیان سے جواب آگیا ہے.وہ احمدیوں کو روکنے کے لیے تیار نہیں ہیں.اس پر گورنر صاحب نے فوراً اپنی کو نسل کا اجلاس بلایا اور کہا کہ قادیان سے یہ جواب آیا ہے کہ وہ احمدیوں کو روکنے کے لیے تیار نہیں ہیں اور کونسل نے بغیر اس کے کہ وہ یہ دیکھتی کہ خط میں لکھا کیا ہے، جھوٹ فیصلہ کیا کہ پنجاب کریمنل لاء امنڈ منٹ ایکٹ (PUNJAB CRIMINAL LAW AMENDMENT ACT) 1932ء کے ما تحت امام جماعت احمدیہ کو نوٹس دے دیا جائے کہ وہ ایسا نہ کریں ورنہ وہ قانون کی زد میں آجائیں گے.حالانکہ ابتدا میں جو لوگوں کو بلایا بھی گیا تھا اور جسے بعد میں منسوخ بھی کر دیا گیا وہ میری طرف سے نہ تھا بلکہ امور عامہ کی طرف سے تھا.پس اگر واقع میں اس موقع پر سپر نٹنڈنٹ سی.آئی.ڈی نے افسرانِ بالا کو کوئی دھوکا دیا تو وہ میرے اختیار میں نہیں تھا اور اگر انہوں نے دھوکا دیا تو کیا ڈی.آئی.جی اُن کے ساتھ نہ تھے ؟ اور کیا ان کا فرض نہ تھا کہ وہ اس خط کو پڑھ لیتے اور دیکھ لیتے کہ اس میں کیا لکھا ہے؟ پھر کیا انسپکٹر جنرل پولیس اس خط کو میں پڑھ نہیں سکتا تھا کہ اُسے بھی دھوکا لگ گیا؟ پھر اگر انسپکٹر جنرل پولیس نے غلطی کر دی تو کیا تم گور نر صاحب اُس خط کو نہیں پڑھ سکتے تھے ؟ کیا ان کی کو نسل اس خط کو نہیں پڑھ سکتی تھی؟ اور کیا چیف سیکرٹری اس خط کو نہ پڑھ سکتے تھے ؟ پس اگر یہ غلطیاں ہیں جو یکے بعد دیگرے تمام افسروں سے سرزد ہوتی چلی گئیں تو کیا یہ سب کچھ میرے اختیار میں تھا یا میری طاقت میں تھا کہ میں ایسا کر سکتا؟ واقعات پر غور کر کے دیکھ لو صاف معلوم ہوتا ہے کہ یہ خدا کا ایک فعل تھا تو

Page 79

$1944 79 خطبات محمود اور خدا ہماری جماعت میں بیداری پیدا کرنا چاہتا تھا.خدا میرے ہاتھ سے اسلام کے اس نازک دور میں تبلیغ دین کی ایک عظیم الشان بنیاد رکھنا چاہتا تھا.خدا ہماری جماعت کو ایک کوڑا مار کر جگانا چاہتا تھا اس لیے ڈپٹی انسپکٹر جنرل پولیس نے غفلت کی کہ اس نے خط کو نہ پڑھا.انسپکٹر جنرل پولیس نے غفلت کی اور اس نے خط کو نہ پڑھا.پھر یہی غلطی گورنر صاحب سے ہوئی.پھر یہی غلطی ان کی کونسل کے ارکان سے ہوئی اور ساروں نے ہی یہ سمجھ لیا کہ ہماری طرف سے یہ جواب دیا گیا ہے کہ ہم احمدیوں کو روکنے کے لیے تیار نہیں ہیں.حالانکہ اس جواب کی کوئی بنیاد ہی نہ تھی اور کوئی ایسا خط گورنمنٹ کو لکھا ہی نہیں گیا تھا.مگر اُن ساروں نے یہ غلطی کی اور اس خط کی بناء پر مجھے نوٹس دے دیا گیا جس کی کوئی بنیاد نہ تھی.چنانچہ جب بعد میں ہم نے بالا افسروں سے کہا کہ ہم نے تو احمدیوں کو روک دیا تھا اور امور عامہ نے بھی میری ہدایت کے مطابق اپنے اس حکم کو منسوخ کر دیا تھا، آپ ہمیں وہ خط دکھائیں جس میں ہم نے یہ لکھا ہو کہ ہم احمدیوں کو روکنے کے لیے تیار نہیں ہیں تو وہ اتنے شر مندہ ہوئے کہ اُن سے کوئی جواب نہ بن پڑا.آخر چیف سیکرٹری نے چھ ماہ کے بعد ہمارے ایک وفد سے کہا کہ اب ہماری کافی ذلت ہو گئی ہے ہم مانتے ہیں کہ ہم سے غلطی ہوئی.آپ ہم سے بار بار اس خط کا یہ مطالبہ کر کے ہمیں شرمندہ نہ کریں.تو دیکھو خط میں بالکل الٹ مضمون تھا.اُس خط میں لکھا یہ گیا تھا کہ احمدیوں سے کہہ دیا گیا ہے وہ احرار کے جلسہ کے موقع پر قادیان میں نہ آئیں.مگر میں گور نمنٹ نے یہ نوٹس دے دیا کہ چونکہ تم احمدیوں کو قادیان آنے سے روکنے کے لیے تیار نہیں ہو اس لیے تمہیں آگاہ کیا جاتا ہے کہ اگر اس موقع پر احمدی آئے تو تم قانون کی زد میں میں آ جاؤ گے.حالانکہ وہ خط جس کی بناء پر انہوں نے یہ نوٹس دیا اُن کے ہاتھ میں تھا، اُن کی فائل میں موجود تھا مگر پھر اُن سے یہ غلطی ہو گئی.پس اگر یہ غلطی ہے تو پھر یہ غلطی اسی خدا کی کروائی ہوئی ہے جس خدا نے غارِ ثور کے منہ پر پہنچ جانے والے کفار کی زبان سے یہ الفاظ نکلوا دئے تھے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) اس غار میں نہیں ہو سکتے.اس کے بعد حکومت کی طرف سے ہماری تبلیغ کے راستے میں روکیں پیدا ہونی شروع ہوئیں اور ہمیں یہاں تک خوف پیدا ہوا کہ سلسلہ کے مقدس لٹریچر پر بھی گورنمنٹ ہے

Page 80

$1944 80 خطبات م محمود ہاتھ نہ ڈالے اور میں نے سلسلہ کی کتب کی متعدد کا پیاں مختلف ممالک میں پھیلا دیں.غرض گور نمنٹ کے یہ افعال میری آنکھیں کھولنے کا موجب ہو گئے اور میں نے سمجھا کہ یہ اسلام کی مظلومیت اور احمدیت کی بے کسی کا ثبوت ہے کہ ہر کس و ناکس، چاہے وہ چھوٹا ہو یا بڑا، اونی ہے ہو یا اعلیٰ احمدیت کو اپنے بُوٹ کی ٹھو کر لگانے میں کوئی جھجک محسوس نہیں کرتا.تب میں نے سمجھا کہ ہماری طرف سے اب تک احمدیت کو پھیلانے کی کو کوششیں ہوئی ہیں مگر وہ کوششیں کی ر محنتیں اتنی نہیں ہیں کہ اسلام اور احمدیت کو جلد سے جلد پھیلا سکتیں.ہم نے بے شک اپنے فرض کو ایک حد تک ادا کیا ہے.مگر ایسا احساس ابھی ہم میں پیدا نہیں ہوا کہ اس کے نتیجہ میں قلیل سے قلیل عرصہ میں احمدیت کار عب دنیا پر چھا جاتا اور اس قسم کی فرعونی طبائع کو پتہ لگ جاتا کہ یہ سلسلہ خدائی طاقت سے بڑھ رہا ہے، اس کا مقابلہ دنیا کا کوئی شخص نہیں کر سکتا.اس طرح تحریک جدید کا آغاز ہوا اور پھر ہر قدم پر اس تحریک نے ایسا رنگ بدلا جو میرے اختیار میں نہیں تھا اور جماعت میں خدا تعالیٰ نے اپنے فضل سے ایک ایسی روح پیدا کر دی جو ترقی کرنے والی جماعتوں کے لیے نہایت ضروری ہے.میں تحریک جدید کے اُس چندہ کو اتنی عظمت نہیں دیتا جو ان چند سالوں میں جمع ہوا.میں عظمت دیتا ہوں مجاہدین کی اُس جماعت کو جنہوں نے اپنی زندگیاں دین کے لیے وقف کی ہوئی ہیں یا آئندہ وقف کریں گے اور میں عظمت دیتا ہوں قربانی کی اس روح کو جو جماعت میں ہے پیدا ہوئی.خدا تعالیٰ کی قدرت ہے اس سے پہلے صدر انجمن احمد یہ ہمیشہ مقروض رہا کرتی تھی میں اور اُسے اپنا بجٹ ہر سال کم کرنا پڑتا تھا.جب میں نے اس تحریک کا اعلان کیا تو ناظر وں نے میرے پاس آ آکر شکایتیں کیں کہ اس تحریک کے نتیجہ میں انجمن کی حالت خراب ہو جائے ہے گی.میں نے ان سے کہا کہ تم خدا تعالیٰ پر توکل کرو، انتظار کرو اور دیکھو کہ حالت سدھرتی ہے یا گرتی ہے.چنانچہ خدا تعالیٰ نے ایسا فضل کیا کہ یا تو صدر انجمن احمدیہ کا بجٹ دو اڑھائی لاکھ روپیہ کا ہوا کرتا تھا اور یا اس تحریک کے دوران میں چار پانچ لاکھ روپیہ تک جا پہنچا.اُدھر جماعت نے تحریک جدید کی قربانیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینا شروع کر دیا اور خدا تعالی کے ہے

Page 81

خطبات محمود 81 $1944 دن مل سے پہلے سال کے اندر ہی مطالبہ سے کئی گنا زیادہ رقم جمع ہو گئی.جب میں نے پہلے جماعت سے 27 ہزار روپیہ کا مطالبہ کیا ہے تو واقع میں میں یہی سمجھتا تھا کہ میرے منہ سے رقم نکل تو گئی ہے مگر اس کا جمع ہونا بظاہر بڑا مشکل ہے.لیکن اللہ تعالی کا یہ کس قدر عظیم الشان فضل ہے کہ 27 ہزار کیا اب تک 27 ہزار سے پچاس گنے سے بھی زیادہ رقم آچکی ہے اور یہ اتنی زیادہ رقم ہے کہ مولوی محمد علی صاحب بھی حیرت سے پوچھتے ہیں کہ اگر تیروانی لاکھ روپیہ اکٹھا ہوا تھا تو وہ گیا کہاں ہے ؟ انہیں یقین ہی نہیں آتا کہ اتنا روپیہ جمع ہوا ہو.کیونکہ ی اگر آیا ہوتا تو یہ سارا روپیہ غالباً ان کے خیال میں ہمیں حفاظت کے ساتھ ان کے پاس بھیجوا دینا ہے چاہیے تھا یا کم سے کم ان کا حصہ تو انہیں ضرور بھجوادینا چاہیے تھا.مگر وہ روپیہ آیا اور وہیں خرچ نہیں ہوا جہاں اس خد ا کا منشاء تھا جس نے میری زبان سے اس تحریک کا اجراء کر ایا.یہ ساری چیزیں ایسی ہیں جو بتاتی ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک عظیم الشان کام ہونے والا تھا.سو وہ کام ہوا اور خدائی سامانوں سے ہوا اور ان ذرائع سے ہو ا جو ہمارے اختیار میں نہ تھے.ا پھر اس پیشگوئی میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک یہ خبر بھی دی گئی تھی کہ وہ علومِ ظاہری و باطنی سے پر کیا جائے گا".میں خدا تعالیٰ کے فضل سے دعوے کرنے کا عادی نہیں ہوں لیکن باوجود اس کے میں اس حقیقت کو چھپا نہیں سکتا کہ اسلام کے وہ مہتم بالشان مسائل ہے جن پر روشنی ڈالنا اس زمانہ کے لحاظ سے نہایت ضروری تھا خدا تعالیٰ نے اُن کے متعلق میری زبان اور میرے قلم سے ایسے ایسے مضامین نکلوائے ہیں کہ میں دعوی کر کے کہہ سکتا ہوں کہ اُن تحریروں کو اگر ایک طرف کر دیا جائے تو یقیناً اسلام کی تبلیغ دنیا میں نہیں کی جاسکتی.قرآن کریم میں بہت سے ایسے امور ہیں جن کو اس زمانہ کے لحاظ سے لوگ سمجھ نہیں سکتے تھے جب تک دوسری آیات سے ان کی تشریح نہ کر دی جاتی.اور یہ خدا تعالیٰ کا بے انتہا فضل ہے کہ اس نے میرے ذریعہ سے اُن مشکلات کو حل کیا اور اُن آیات کے صاف اور روشن معنے دنیا کے سامنے ظاہر کیے.باقی میں نے ایسے امور کے متعلق کبھی دعوے نہیں کیے.جیسے میں نے ابھی کہا ہے کہ میں دعوے کرنے کا عادی نہیں ہوں.اب بھی بعض لوگ ایسے ہیں جو میرے اس تازہ اعلان پر جو میں نے اللہ تعالیٰ کے ایک الہام کی بناء پر کیا، کہتے ہیں کہ یہ دعوی ہے.

Page 82

خطبات محمود 82 82 $1944 کیا چیز ہے؟ بعض نے کہا کہ کیا اس کے معنے نبوت کے ہیں ؟ اور بعض نے کہا کہ اس کہنے سے کیا حاصل ہوا جبکہ یہ بات پہلے ہی ظاہر تھی.یہ ذہنی کشمکشیں لازمی چیز ہیں اور لوگوں کے دماغی تفاوت کو مد نظر رکھتے ہوئے اس قسم کی کشمکش کا پیدا ہونا کوئی تعجب انگیز امر نہیں.وہ لوگ جو پوچھتے ہیں کہ کیا اس کے معنے نبوت کے ہیں؟ میں ان سے کہتا ہوں کہ یاد رکھو! مومن کے لیے وہی بات سمجھتی ہے جو اس کا خدا اسے کہتا ہے اور اتنی ہی بات اسے بجتی ہے جتنی اس کا خدا اُسے کہنے کا حکم دیتا ہے.مومن کا یہ کام نہیں کہ وہ اپنے قیاسات کے پیچھے چلے.اس کا فرض یہ ہے ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی طرف اپنی نگاہ رکھے.جہاں اللہ تعالیٰ اسے کہے کہ کھڑے ہو جاؤ وہاں ا اسے کھڑا ہو جانا چاہیے اور جہاں اللہ تعالیٰ اسے کہے کہ آگے بڑھو وہاں اُسے آگے بڑھنا چاہیے.تمہارا حق نہیں ہے کہ تم کوئی نیا لفظ بناؤ یانئے معنے اور نیا مفہوم پیدا کرنے کی کوشش ہے کرو.جو کچھ خدا نے کہا وہ یہ ہے کہ مصلح موعود کی وہ پیشگوئی جو اس زمانہ کو انوار و برکات کے لحاظ سے ویسا ہی زمانہ ثابت کر رہی ہے جیسے کہ خود حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا زمانہ تھا میرے ہی ذریعہ سے پوری ہوئی ہے اور نشانات اور علامات نے بھی بتا دیا ہے کہ یہ پیشگوئی میرے ہی ذریعہ سے پوری ہوئی ہے.اگر تم میں سے بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اس سے کوئی فائدہ نہیں ہوا تو میں تم کو بتاتا ہوں کہ ایسے لوگوں کے نزدیک در حقیقت کسی چیز کا بھی فائدہ نہیں ہوتا.اگر کسی شخص کو خدا بھی مل جائے تو وہ کہیں گے کہ پھر کیا فائدہ ہوا؟ سوال یہ ہے کہ اسلام اس وقت ایک ایسے دور میں سے گزر رہا ہے جو ضعف اور کمزوری کا دور ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے پھر اسلام کی حفاظت کی بنیاد رکھی.لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ میں دشمن کی طرف سے اسلام پر وہ تمدنی حملہ نہیں ہوا تھا جو آج کیا جا رہا ہے.پس خدا نے چاہا کہ آپ کی پیشگوئی کے می مطابق موجودہ زمانہ میں ایک ایسے شخص کو اپنے کلام سے سر فراز فرمائے جو روح الحق کی برکت اپنے ساتھ رکھتا ہو ، جو علوم ظاہری اور باطنی سے پر ہو اور جو دشمن کے ان تمدنی حملوں کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کی تشریح، رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیان فرمودہ تشریح اور قرآن کریم کے منشاء کے مطابق دُور کرے اور اسلام کی حفاظت کا کام سر انجام دے.

Page 83

خطبات م محمود 83 $1944 سو خدا نے اپنا کام کر دیا اور میری تحریروں پر اپنی مہر تصدیق کر دی اور اگر اُس کی مشیت کچھ اور کام کروانے والی ہے تو وہ کام بھی ایک دن دنیا کے سامنے آجائے گا.یہ چیز ہے جو اس پیشگوئی کی اہمیت کو ظاہر کرتی ہے.اگر کوئی شخص اس پیشگوئی کی عظمت کو نہیں سمجھتا تو وہ خدا کے سامنے خود جواب دہ ہے اور اگر کوئی شخص اس کا نیا نام رکھتا اور کوئی نیا عہدہ اس کے لیے تجویز کرتا ہے تو اسے یاد رکھنا چاہیے کہ عہدہ وہی ہوتا ہے جو خدا تعالیٰ کی طرف.آئے.اگر کوئی شخص اس بارہ میں خود قیاس کرتا ہے تو وہ خدا تعالیٰ کے قرب کو حاصل نہیں کرتا بلکہ اس کے غضب کو اپنے اوپر بھڑکاتا ہے.جو کچھ خدا نے کہا ہم اتنا ہی کہہ سکتے ہیں اُس کے سے زیادہ کچھ کہنا ہمارے لیے جائز نہیں.بلکہ میں نے تو اس بارہ میں اتنی احتیاط کی کہ جو پیشگوئیاں پوری ہو رہی تھیں میں نے ان سے بھی اپنی آنکھیں بند کر لیں اور میں نے کہا جب تک خدا مجھے نہیں بلوائے گا میں ان پیشگوئیوں کے متعلق کچھ نہیں کہوں گا.میں نے اپنے دل میں کہا اگر میرے چپ رہنے سے ان پیشگوئیوں کی عظمت ثابت ہوتی ہے تو پھر میرے بولنے سے کیا فائدہ.اور اگر میرے بولنے کے بغیر ان پیشگوئیوں کی عظمت ثابت نہیں ہو سکتی تو بلوانے والا آپ بلوا لے گا.میں خود کیوں بولوں ؟ پس اگر میرے نہ بولنے سے ہے خدا تعالی کا منشاء پورا ہو جاتا تھا تو میرا بولنا عوہ ادبی اور کبر تھا اور اگر میرے چپ رہنے سے نہیں بلکہ بولنے سے خدا تعالیٰ کا منشاء پورا ہو تا تھا تو پھر جس کا یہ کام تھا اُسی کا یہ بھی کام تھا کہ وہ میری زبان کھلواتا.چنانچہ جب وقت آیا، اُس نے یہ بات مجھے بتا دی اور نہ صرف بات بتا دی بلکه ارشاد فرمایا کہ اب میں اور لوگوں کو بھی یہ بات بتلا دوں.اور نہ صرف اُس نے مجھے یہ ارشاد کیا بلکہ اپنے فضل سے ایسے حالات بھی پیدا فرما دیئے جو اس پیشگوئی کی صداقت کے لیے بطور دلیل کے ہیں.جس طرح آسمان پر جب چاند چمکتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے ارد گر دستارے پیدا کر دیا کرتا ہے اسی طرح ان ایام میں بہت سے لوگوں کو ایسی خوابیں آئی ہیں جن میں اسی خواب کا مضمون دُہرایا گیا ہے جو میں نے دیکھی تھی.چنانچہ ابھی میں لاہور میں ہی تھا کہ میری رؤیا کے بعد ایک دوست نے جن کا نام ڈاکٹر محمد لطیف صاحب ہے مجھے بتایا کہ انہوں نے رویا میں دیکھا ہے کہ ایک فرشتہ میرا نام لے کر کہہ رہا تھا کہ انبیاء و رسل کے ساتھ

Page 84

$1944 84 === خطبات محج محمود اس کا نام لیا جائے گا.انبیاء و رسل کے ساتھ نام لیے جانے کے وہی معنے ہیں جس کی طرف حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام کی پیشگوئی میں بھی اشارہ کیا گیا ہے کہ وہ مثیل مسیح ہو گا.یعنی ہم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام جو نبی اور رسول ہیں ان کے ساتھ میرا بھی نام لیا جائے گا.اسی طرح ایک دوست نے لکھا کہ رویا میں میں نے دیکھا کہ مینار پر ہو کر آپ آلیس اللهُ بِكَافٍ عَبْدَةُ کا اعلان کر رہے ہیں.آلَيْسَ اللهُ بِكَافٍ عَبْدَدُ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ابتدائی الہاموں میں سے ہے اور مینار پر اس الہام کے اعلان کرنے کے معنے یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ تبلیغ احمدیت کو میرے ذریعہ سے اور بھی مضبوط کر دے گا.اسی طرح ایک دوست نے دیکھا کہ ایک درخت پر کھڑے ہو کر میں کوئی اعلان ہے کر رہا ہوں.یہ میری رؤیا سے پہلے کی بات ہے اور درخت سے مراد گو اُس وقت میرا ذہن اس طرف نہیں گیا الہام الہی ہوتا ہے.چنانچہ قرآن کریم میں الہام کو شجرۂ طیبہ قرار دیا گیا ہے ہے.پس اس کے معنے یہ تھے کہ خدا تعالیٰ کے الہام اور رؤیا کے ماتحت میں لوگوں کے سامنے کوئی اعلان کرنے والا ہوں لیکن اس بارہ میں سب سے زیادہ عجیب رویا منصف خان صاحب اسسٹنٹ سٹیشن ماسٹر کا ہے.اس رؤیا کو پڑھ کر مجھے حیرت ہوئی کہ کس طرح اس میں میرے پچھلے خطبہ اور خواب کا سارا نقشہ کھینچ کر رکھ دیا گیا ہے.وہ لکھتے ہیں کہ 30 اور 31 جنوری کی درمیانی شب کو میں نے یہ رویا دیکھا ہے.خطبہ میں نے 28 جنوری کو پڑھا تھا اور یقیناً یہ خطبہ خواب دیکھنے کے وقت تک ان کو نہیں ملا."الفضل" میں اس بارہ میں پہلی خبر 30 جنوری کے پرچہ میں شائع ہوئی ہے اور الفضل کا یہ پرچہ ان کو 31 جنوری کو مل سکتا تھا.لیکن انہوں نے 30 اور 31 جنوری کی درمیانی رات کو یہ خواب دیکھا.اور پھر اُن کے خط میں بھی اس امر کا کوئی ذکر نہیں کہ اخبار میں انہوں نے یہ خبر پڑھ لی ہے.جس سے معلوم ہے ہوتا ہے کہ یہ رؤیا ان کو ایسے حالات میں ہوئی ہے جبکہ انہیں اس بات کا کوئی علم نہ تھا کہ میں

Page 85

خطبات محمود 85 $1944 میں نے اپنے خطبہ میں اس پیشگوئی کے مصداق ہونے کا اعلان کیا ہے.وہ لکھتے ہیں کہ رویا میں میں نے دیکھا کہ احمدیوں کا ایک بہت بڑا ہجوم ہے اور یوں معلوم ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ کا کوئی عظیم الشان نشان ظاہر ہوا ہے جس پر وہ خدا تعالیٰ کی حمد اور اس کی تسبیح و تحمید کر رہے ہیں اور بڑے جوش سے ان کے منہ سے تسبیح کی آوازیں نکل رہی ہیں.وہ لکھتے ہیں رویا میں میں نے دیکھا کہ اور لوگوں پر بھی اس کا اثر ہے لیکن مفتی محمد صادق صاحب پر تو وجد کی حالت طاری ہے.اب دیکھو! پچھلے خطبہ میں تمام احمدیوں پر اللہ تعالیٰ کے اس نشان کا اثر تھا مگر مفتی صاحب پر تو اس کا ایسا اثر ہوا کہ وہ خطبہ جمعہ میں ہی بول پڑے.وہ لکھتے ہیں میں حیران ہوا کہ یہ کیا بات ہے.اس کے بعد مجھے ایک کمرہ نظر آیا جس میں شیشے کی تین چوکھٹیں لگی ہوئی ہیں اور ان پر نہایت اعلیٰ پالش کیا ہوا ہے تاکہ اُن پر تصویر آسکے.اس کے بعد میں کیا دیکھتا ہوں کہ اُن پر دو تصویریں نمودار ہو گئی ہیں.ایک تصویر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی ہے اور ایک آپ کی ہے اور یہ دونوں تصویریں اکٹھی کمرہ کے اندر چکر کھارہی ہیں اور ان کو میں دیکھ کر لوگ خوش ہو رہے اور اللہ تعالیٰ کی تسبیح و تحمید کر رہے ہیں.انہوں نے تیسری تصویر کا ہے ذکر نہیں کیا یعنی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تصویر کو انہوں نے نہیں دیکھا.یا شاید دیکھا تو ہو مگر چونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شکل انہوں نے دیکھی ہوئی نہیں تھی اور آپ کی تصویر بھی دنیا میں کوئی موجود نہیں اس لیے وہ نہ سمجھ سکے ہوں کہ یہ کس کی ہے تصویر ہے.لیکن رویا میں انہوں نے شیشے تین ہی دیکھتے ہیں اور میری رؤیا میں بھی تین وجو دوں کے بولنے کا ذکر آتا ہے.پہلے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم آئے اور میری زبان سے بولے.پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام آئے اور میری زبان سے بولے اور پھر میں خود بولا.پھر وہ لکھتے ہیں خواب میں عربی زبان میں کچھ باتیں ہو رہی ہیں جنہیں میں سمجھ نہیں سکا.ایسا معلوم ہوتا ہے کہ نُزُولُ السَّمَاء نُزُولُ السَّمَاء کہا جا رہا ہے.اس میں در حقیقت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اُس الہام کی طرف اشارہ کیا گیا ہے جو آنے والے موعود کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اشتہار میں پایا جاتا ہے کہ كَانَ الله نَزَلَ مِنَ السَّمَاء.چونکہ وہ عربی سے ناواقف ہیں اس لیے کہتے ہیں مجھے اور تو

Page 86

$1944 86 خطبات محمود کچھ یاد نہیں رہا صرف اتنا یاد رہا کہ عربی میں کچھ باتیں ہو رہی ہیں جن میں نُزُولُ السَّمَاء کے الفاظ ہیں.تو دیکھو کس طرح خدا تعالیٰ نے انہیں رویا میں خطبہ کے وقت کی کیفیت بتا دی اور کس طرح اس رؤیا کا نقشہ بھی بتا دیا جو میں نے دیکھی تھی.حالانکہ اُس وقت تک انہیں میرے اس اعلان کا کوئی علم نہیں تھا.اسی طرح اور لوگوں کو بھی ان ایام میں ایسی خواہیں دکھائی گئی ہیں.میں سمجھتا ہوں ایک درجن سے زیادہ لوگوں کو ایسی خواہیں آئی ہیں.اگر ان ب کو جمع کیا جائے تو یہ خواہیں بھی لوگوں کے ایمان کی زیادتی کا موجب ہو سکتی ہیں.پس وہ دوست جنہوں نے مجھے اپنی اپنی خوا ہیں لکھی ہیں انہیں چاہیے کہ وہ الفضل میں ایسی تمام خوابیں شائع کرا دیں اور اگر کسی اور دوست کو بھی کوئی خواب آئی ہو لیکن مجھے اس نے نہ بتائی ہو تو اُسے بھی وہ خواب " الفضل " میں شائع کرا دینی چاہیے.یہ بھی ایک نشان ہے جو لو گوں کے لیے ان کے ایمانوں میں زیادتی کا موجب ہو سکتا ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں الْمُؤْمِنُ يَرى او يُرى له.کہ مومن بعض دفعہ خود خواب دیکھتا ہے اور بعض دفعہ دوسروں کو اس کے متعلق خواہیں دکھائی جاتی ہیں.یہ نشان در حقیقت شکی طبائع کی ہدایت کے لیے ہوتا ہے.وہ لوگ جو دیر سے واقف ہوتے ہیں وہ تو سمجھتے ہیں کہ فلاں شخص جھوٹ بولنے والا نہیں.لیکن بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں جو سمجھتے ہیں کہ اس قسم کی خواہیں خیالات کا اثر ہوتی ہیں.ایسے لوگوں کے لیے یہ خواہیں جو مختلف افراد کو اور مختلف مقامات میں رہنے والوں کو آتی ہیں اپنے اندر ہدایت کا سامان رکھتی ہیں.خیالات کا اثر آخر ایک شخص پر تو ہو سکتا ہے لیکن یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ پانچ ، دس پندرہ یا نہیں لوگوں کو ایک مہینہ کے اندر اندر ایسی خوابیں آ جائیں اور وہ لوگ بھی ایسے ہوں جو ایک دوسرے کے واقف نہ ہوں، ایک جگہ پر نہ رہتے ہوں، ایک دوسرے سے ملتے نہ ہوں اور ایک دوسرے سے ان کا کوئی زیادہ گہرا تعلق نہ ہو.ایسے لوگوں کو ایک وقت میں ایک جیسی خوابوں کا آجاتا ہے بغیر الہی تدبیر کے کس طرح ہو سکتا ہے.پس یہ خواہیں بھی جو مختلف دوستوں کو آئیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس بات کا ایک مزید ثبوت ہیں کہ اس نے مجھ پر جس امر کو منکشف فرمایا وہ اپنے اندر صداقت اور راستی رکھتا ہے.

Page 87

$1944 87 محمود میں نے بتایا ہے کہ مصلح موعود کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر جو الہامات نازل ہوئے ان میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کی ایک یہ علامت بھی بتائی گئی تھی کہ وہ خدا تعالیٰ کے کلام سے مشرف ہو گا.میں دیکھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کا یہ سلوک میرے ساتھ دیر سے چلا آرہا ہے مگر اُن الہامات اور رؤیا و کشوف کو میں نے آج تک بہت ہی کم بیان کیا ہے.کبھی بہت ہی مجبور ہو گیا تو اس وقت اپنے کسی رؤیا یا الہام کو میں نے بیان کیا ہے.یا بھی ہے ایسا ہوا کہ میں نے اپنے کسی رؤیا کا کسی دوست سے ذکر کر دیا.ورنہ بالعموم میں اپنے رویا اور الہامات بتایا نہیں کرتا.لیکن اس میں کوئی شبہ نہیں کہ جیسا کہ پیشگوئی میں بیان کیا گیا ہے، اللہ تعالیٰ کا یہ سلوک میرے ساتھ ہے اور دیر سے چلا آرہا ہے.سب سے پہلی چیز جو اس منصب کی طرف اشارہ کرتی ہے وہ میرا ایک الہام ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی زندگی میں مجھے ہوا اور میں نے جاکر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو بتا دیا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس کو اپنے الہامات کی کاپی میں لکھ لیا.وہ الہام میں نے بارہا سنایا ہے.پہلے میں اسے صرف خلافت کے متعلق سمجھتا تھا لیکن اب میرا ذہن اس طرف منتقل ہوا ہے کہ اس الہام میں میرے اس منصب کی طرف اشارہ تھا جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے مجھے ملنے والا تھا.وہ الہام یہ تھا کہ اِن الَّذِيْنَ اتَّبَعُوكَ فَوْقَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ يقينا اللہ تعالیٰ تیرے متبعین کو تیرے منکروں پر قیامت تک غالب رکھے گا.اس میں ایک لطیف اشارہ ہے جو پیشگوئی کے پورا ہونے کی ترتیب پر دلالت کرتا ہے اور وہ یہ کہ یہ وہ الہام ہے جو حضرت مسیح ناصری کو ہوا اور جس کا قرآن کریم میں بھی ذکر آتا ہے مگر وہاں یہ الفاظ ہیں وَجَاعِلُ الَّذِينَ اتَّبَعُوكَ فَوْقَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ 8 اور یہاں یہ الہام ہے کہ اِنَّ الَّذِينَ اتَّبَعُوكَ فَوْقَ الَّذِيْنَ كَفَرُوا إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ.اس کی وجہ یہ ہے کہ حضرت مسیح ناصری کا دعوای موسوی سلسلے کی آخری نبوت کا تھا اور اس قسم کے دعوے کے متعلق پہلے لوگوں کی مخالفت ضروری ہوتی ہے.پھر ایک لمبے عرصے کے بعد وہ اُس نبی پر ایمان لاتے ہیں لیکن مصلح موعود کی پیشگوئی کے مورد کو چونکہ اللہ تعالی پہلے خلیفہ بنانا چاہتا تھا اور خلیفہ کو معاینی بنائی جماعت مل جاتی ہے اس لیے یہاں میں

Page 88

خطبات محمود 88 $1944 جَاعِلُ الَّذِيْنَ والے حصے کی ضرورت نہیں تھی.حضرت مسیح کے عہدہ والا نبی تو جب بھی لوگوں کے سامنے اپنا دعوی پیش کرتا ہے لوگ اسے سنتے ہی کہنے لگ جاتے ہیں جھوٹا، جھوٹا.کوئی ابو بکر جیسی صفت رکھنے والا انسان ہوا اور اس نے مان لیا تو یہ علیحدہ بات ہے.ورنہ عام طور پر ایسا نبی جب اپنی نبوت کا اعلان کرتا ہے ساری دنیا اُسے جھوٹا قرار دینے لگ جاتی ہے.خود رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ابتدا میں صرف تین لوگ ایمان لائے.لیکن خلیفہ پہلے دن ہی ایک جماعت مانتی ہے.پس اِنَّ الَّذِينَ اتَّبَعُوكَ فَوْقَ الَّذِيْنَ كَفَرُوا إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ فرما کر اللہ تعالیٰ نے اس طرف اشارہ فرمایا تھا کہ اللہ تعالیٰ تم کو ایک دن بنی بنائی جماعت دیدے گا اور پھر اس جماعت کا تعلق تمہارے ساتھ مضبوط کرتا چلا جائے گا یہاں تک کہ ایک دن وہ تمہاری جماعت ظلی طور پر کہلائے گی.اور کچھ لوگ تمہارے مخالف بھی ہوں گے مگر تمہاری بیعت کرنے والوں کو اللہ تعالیٰ قیامت تک تمہارے منکروں پر غلبہ دے گا اور یہ غلبہ تمہارے امام بنتے ہی شروع ہو جائے گا.اور جَاعِلُ الَّذِينَ اتَّبَعُوكَ والے حصہ کی ضرورت نہیں ہوگی کہ تم انتظار کرو کہ لوگ کب ایمان لاتے ہیں یا اکثر لوگ مخالفتیں کریں، فتوے لگائیں، مضحکہ اڑائیں، تحقیر و تذلیل کی کوشش کریں، مٹانے اور برباد کرنے کی تدبیریں کریں اور دنیا کے ایک سرے سے لے کر دوسرے سرے تک طوفانِ مخالفت اُمڈ آئے بلکہ اللہ تعالیٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بنی بنائی جماعت کے اکثر حصہ کو تیرے سپر د کر دے گا اور جس دن یہ جماعت تیرے سپر د ہو گی اُسی دن سے تجھے ماننے والوں کا تیرے مخالفوں پر غلبہ شروع ہو جائے گا.چنانچہ دیکھ لو ایسا ہی ہوا.حضرت مسیح ناصری ہے علیہ السلام کی جماعت کو تو تین سو سال کے بعد غلبہ حاصل ہوا لیکن یہاں اللہ تعالیٰ نے جس وقت خلافت کے مقام پر مجھے کھڑا کیا اُس کے چند ہفتوں کے اندر ہی وہ لوگ جو میرے بالمقابل کھڑے ہوئے تھے اور میرے عہدہ کے منکر تھے یعنی پیغامی، اللہ تعالیٰ نے اُن پر مجھے اور میرے ساتھیوں کو غلبہ دینا شروع کر دیا اور یہ غلبہ خدا تعالیٰ کے فضل سے روز بروز بڑھتا چلا جا رہا ہے.پیغامی آج کہہ رہے ہیں کہ ایک خواب پر انحصار کیا گیا.حالانکہ وہ بھی خواب نہیں کیونکہ اس میں الفاظ ہیں.مگر یہ الہام جو میں نے اوپر لکھا ہے یہ تو الہام ہے اور ہم

Page 89

خطبات محمود 89 $1944 چالیس سالہ پرانا ہے.اللہ تعالیٰ نے خبر دی کہ میں ایک جماعت کا امام ہوں گا.کچھ حصہ میری مخالفت کرے گا، اکثر میرے ساتھ مل جائیں گے اور انہیں اللہ تعالیٰ قیامت تک دوسروں پر غلبہ دے گا.یہ جو فرمایا کہ تیرے ماننے والوں کو تیرے کافروں پر اللہ تعالیٰ قیامت تک غلبہ دے گا اس میں اسی طرف اشارہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ایک دن مجھے ظلی طور پر نبیوں کا یعنی مسیح ناصری اور مسیح محمدی کا نام دینے والا ہے کیونکہ خلیفہ کی جماعت اس کی زندگی تک ہوتی ہے ہے.وفات کے بعد صرف نبیوں کی جماعت یا ان کے اظلال کی جماعت چلتی ہے.اسی طرح كَفَرُوا کے الفاظ نے بھی اسی طرف اشارہ کیا ہے کہ خلافت کے بعد مجھے ایک اور رتبہ ملنے والا ہے جو بعض نبیوں کے ظل" کے طور پر ہو گا.سُبْحَانَ اللَّهِ لَا يُسْئَلُ عَمَّا يَفْعَلُ دوسرے مجھے ایک کشف ہوا جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی زندگی میں ہی میں نے دیکھا تھا.وہ بھی اسی مقام پر دلالت کرتا ہے.میں نے دیکھا کہ میں اُس کمرہ سے نکل رہا ہوں جس میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام رہتے تھے اور باہر صحن میں آیا ہوں.وہاں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام تشریف رکھتے ہیں.اُس وقت کوئی شخص یہ کہہ کر مجھے ایک پارسل دے گیا ہے کہ یہ کچھ تمہارے لیے ہے اور کچھ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے لیے ہے.کشفی حالت میں جب میں اُس پارسل پر لکھا ہوا پتہ دیکھتا ہوں تو وہاں بھی مجھے دو نام لکھے ہوئے نظر آتے ہیں اور پتہ اس طرح درج ہے کہ محی الدین معین الدین کو ملے.میں کشف میں سمجھتا ہوں کہ ان میں سے ایک نام حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا ہے اور دوسرا نام میرا ہے.اُس وقت چونکہ میں بچہ تھا اور حضرت محی الدین صاحب ابن عربی کا نام میں نے سنا ہوا نہیں تھا، صرف اور نگ زیب کے متعلق میں جانتا تھا کہ ان کا نام محی الدین تھا اس لیے میں نے اُس وقت سمجھا کہ محی الدین سے مراد میں ہوں.اور حضرت معین الدین چشتی چونکہ ہندوستان میں ایک مشہور بزرگ گزرے ہیں اس لیے میں نے سمجھا کہ معین الدین سے مراد حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ہیں لیکن بعد میں مجھے معلوم ہوا کہ حضرت محی الدین صاحب ابن عربی بھی ایک بہت بڑے بزرگ ہوئے ہیں تو میں نے سمجھا کہ محی الدین سے مراد حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ہیں اور

Page 90

خطبات محمود 90 90 $1944 جنہوں نے دین کو زندہ کیا اور معین الدین سے مراد میں ہوں جس نے دین کی اعانت کی.پس دین کو زندہ کرنے والے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ہیں اور دین کی نصرت اور اعانت کرنے والا میں ہوں.جیسے ماں بچہ جنتی ہے اور دایہ دودھ پلاتی ہے.تیسرا الہام جو مجھے اسی رنگ میں ہوا لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی وفات کے بعد.وہ یہ ہے کہ اِعْمَلُوا آلَ دَاوُدَ شُكْرًا.اے آلِ داؤد! تم اللہ تعالیٰ کے شکر کے ساتھ اس کے احکام پر عمل کرو.اس الہام کے ذریعہ اِعْمَلُوا کہہ کر اللہ تعالیٰ نے ہمیں اپنے منشاء پر پوری طرح عمل کرنے کا حکم دیا ہے اور آلِ داؤد کہہ کر اللہ تعالیٰ نے مجھے حضرت سلیمان علیہ السلام سے مشابہت دی ہے.حضرت سلیمان علیہ السلام، حضرت داؤد علیہ السلام کے بعد خلیفہ ہوئے تھے اور اُن کے بیٹے بھی تھے.مجھے یاد ہے اُس وقت یہ الہام اتنے زور سے ہوا کہ کتنی دیر تک مجھ پر اس الہام کے نازل ہونے کی کیفیت تازہ رہی.اور یہ الہام اتنا واضح تھا کہ باوجودیکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اس وقت فوت ہو چکے تھے جب میں اپنے بعض ہم عمروں سے سیر میں اس کا ذکر کر رہا تھا یکدم میرے ذہن سے آپ کی وفات کا خیال نکل گیا اور مجھے جوش پیدا ہوا کہ میں دوڑ کر جاؤں اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے جاکر اس کا ذکر کروں.چوتھی شہادت اس رؤیا کی تصدیق میرا یہ کشف ہے کہ میں نے دیکھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے بیت الدعا میں بیٹھا دعا کر رہا ہوں کہ یکدم مجھ پر ظاہر کیا گیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ابراہیم تھے.پھر خدا تعالیٰ کی طرف سے مجھ پر ظاہر کیا گیا کہ اس اُمت میں اور بھی کئی ابراہیم ہوئے ہیں.چنانچہ حضرت خلیفہ اول کے متعلق بتایا گیا کہ آپ بھی ابراہیم ہیں اور آپ کا نام مجھے ابراہیم ادھم بتایا گیا ہے.ادھم ایک بادشاہ تھے جو بادشاہت کو چھوڑ کر تصوف کی طرف متوجہ ہو گئے تھے.پس مجھے بتایا گیا کہ حضرت خلیفہ اول ابراہیم ادھم ہیں.پھر مجھے بتایا گیا کہ ایک ابراہیم تم بھی ہو.پانچویں شہادت جو اس بارہ میں خدا تعالیٰ کی طرف سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی وفات کے قریب مجھے ملی یہ ہے کہ میں نے ایک دفعہ رویا میں دیکھا کہ میں

Page 91

$1944 91 خطبات محج محمود ایک گھنٹی بجی ہے اور اس کی آواز ایسی ہے جیسے پیتل کا کوئی کٹورا ہو اور اُسے کسی چیز سے ٹھکوریں تو اُس میں سے ٹن کی آواز پیدا ہوتی ہے.اس گھنٹی میں سے بھی ٹن کی آواز آئی.مگر وہ آواز ایسی سریلی اور لطیف ہے کہ یوں معلوم ہوتا ہے سارے جہان کی موسیقی کی لذت اس میں بھر دی گئی ہے.یہ آواز بڑھتی گئی، بڑھتی گئی یہاں تک کہ تمام جو میں متشکل ہو کر ایک فریم بن گئی جیسے تصویر کا فریم ہوتا ہے پھر میں نے دیکھا کہ اس فریم میں ایک تصویر نمودار ہوئی جو کسی نہایت ہی حسین اور خوبصورت وجود کی ہے.پھر وہ تصویر بلنی شروع ہوئی اور تھوڑی دیر کے بعد یکدم اس میں سے کود کر ایک وجود میرے سامنے آگیا جس کے متعلق میں سمجھتا ہوں کہ وہ خدا کا فرشتہ ہے اور اس نے مجھے کہا آؤ میں تم کو سورۂ فاتحہ کا درس دوں.چنانچہ اس نے مجھے سورہ فاتحہ کا درس دینا شروع کر دیا اور دیتا گیا، دیتا گیا، دیتا گیا.یہاں تک کہ وہ إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ 2 کی تفسیر شروع کرنے لگا تو کہنے لگا.آج تک جتنے مفسر ہوئے ہیں اُن سب نے ملِكِ يَوْمِ الدِّيْنِ 10 تک تفسیر لکھی ہے لیکن میں تمہیں اس کے آگے بھی تفسیر بتاتا ہوں.چنانچہ اس نے ساری سورۃ فاتحہ کی تفسیر مجھے پڑھادی.جب میری آنکھ کھلی تو رویا میں اُس فرشتہ نے جو باتیں مجھے بتائی تھیں اُن میں سے کچھ باتیں مجھے یاد تھیں لیکن میں نے اُن کو نوٹ نہ کیا اور بعد میں میں خود بھی اُن کو بھول گیا.جب صبح میں نے اپنے اس رؤیا کا حضرت خلیفہ اول سے ذکر کیا اور یہ بھی کہا کہ خواب میں فرشتہ نے جو کچھ باتیں بتائیں تھیں ان میں سے بعض آنکھ کھلنے پر مجھے تھے یاد تھیں لیکن صبح اٹھنے پر وہ بھی میرے ذہن میں سے نکل گئیں.تو حضرت خلیفہ اول خفا ہو کر کہنے لگے کہ تم نے اتنا علم ضائع کر دیا ان کو نوٹ کر لینا چاہیے تھا.مگر وہ دن گیا اور آج کا دن آیا ہے سورہ فاتحہ سے خد اتعالیٰ ہمیشہ ہی مجھے نئے نئے نکات سمجھاتا ہے.چنانچہ اب بھی اس رؤیا کے بعد جب میں نے توجہ کی کہ جماعت کی اصلاح اور اسلامی نظام کی فوقیت ثابت کرنے کے لیے کونسا واضح پروگرام ہو سکتا ہے تو اللہ تعالیٰ نے مجھے سورۂ فاتحہ سے ہی ایک نہایت واضح اور مکمل پروگرام بنایا جس پر چل کر اسلام ایسی ترقی حاصل کر سکتا ہے کہ دشمن اس کو دیکھ کر حیران رہے جائے اور اسلامی تمدن کی فوقیت کا اعتراف کیے بغیر اُس کے لیے کوئی چارہ کار نہ رہے.اس پروگرام کے مطابق ان تمام غلطیوں کا بھی خدا تعالیٰ کے فضل سے ازالہ ہو سکتا.ہے جو اور

Page 92

$1944 92 خطبات محمود رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد مسلمان نظام اسلام اور اس کے تمدنی احکام کو سمجھنے میں کر چکے ہیں اور یہ سب کچھ خدا تعالیٰ نے سورہ فاتحہ کے ذریعہ سے ہی مجھے سمجھا دیا.اور اس رویا کی اصل تعبیر یہ تھی کہ میرے قوائے باطنیہ میں سورہ فاتحہ کا علم خصوصاً اور فہم قرآن کا عموما من رکھ دیا گیا ہے جو وقتاً فوقتاً الہام باطنی کے ساتھ ضرورت کے مطابق ظاہر ہوتارہے گا.چھٹی شہادت اس بارہ میں کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے اپنی وحی سے نوازا اور اس بات کی بھی ہے کہ اُس نے اُس کام کے لیے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی پیشگوئی میں ہے مجھے تیار کیا ہے یہ ہے کہ مجھے ایک رویا ہوا جو غالباً زمانہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام ابتدائے خلافت حضرت خلیفہ اول میں میں نے دیکھا تھا.(یہ رویا میں نے اُسی وقت میجر سید حبیب یب اللہ شاہ صاحب حال سپر نٹنڈنٹ سنٹرل جیل لاہور کو اور دوسرے احباب کو سنا دی تھی.ابھی چند دن ہوئے انہوں نے خود بخود مجھ سے اس رویا کا ذکر کیا.میں نے دیکھا کہ میں مدرسہ احمدیہ میں ہوں اور اُسی جگہ مولوی محمد علی صاحب بھی کھڑے ہیں.اتنے میں شیخ رحمت اللہ صاحب آگئے اور ہم دونوں کو دیکھ کر کہنے لگے آؤ مقابلہ کریں.آپ کا قد لمبا ہے یا مولوی محمد علی صاحب کا.میں اس مقابلہ سے کچھ ہچکچاہٹ محسوس کرتا ہوں مگر وہ زبر دستی مجھے کھینچ کر اُس جگہ پر لے گئے جہاں مولوی محمد علی صاحب کھڑے ہیں.یوں تو مولوی محمد علی صاحب قد میں مجھ سے چھوٹے نہیں بلکہ غالباً کچھ لمبے ہی ہیں لیکن جب شیخ صاحب نے مجھے اور اُن کو پاس پاس کھڑا کیا تو وہ بے اختیار کہہ اٹھے کہ میں تو سمجھتا تھا مولوی صاحب اونچے ہیں لیکن اونچے تو آپ نکلے.چنانچہ رویا میں میں دیکھتا ہوں کہ بمشکل میرے سینہ تک ان کا سر پہنچا ہے.پھر شیخ رحمت اللہ صاحب ایک میز لائے اور اُس پر اُن کو کھڑا کر دیا مگر تب بھی وہ مجھ سے چھوٹے ہی رہے.اس کے بعد انہوں نے اُس میز پر ایک سٹول رکھا اور اُس پر مولوی صاحب کو کھڑا کیا مگر پھر بھی مولوی صاحب مجھ سے چھوٹے ہی رہے.اس کے بعد انہوں نے مولوی صاحب کو اٹھا کر میرے سر کے برابر کرنا چاہا لیکن وہ پھر بھی نیچے ہی رہے.بلکہ مزید براں اُن کی ٹانگیں اس طرح ہوا میں لٹک گئیں گویا کہ وہ میرے مقابل پر بالکل ایک بچہ کی حیثیت رکھتے ہیں اور بمشکل میری کہنیوں تک پاؤں آئے.اب دیکھو! اس میں کس طرح ہے

Page 93

$1944 93 خطبات محمود اس تمام مقابلہ اور پھر اس کے انجام کی بھی خبر دی گئی ہے جو مولوی محمد علی صاحب سے ہونے والا تھا.حالانکہ اگر ابتدائے خلافت اولی کے وقت کی رؤیا ہے تو اس وقت جماعت میں خواجہ کمال الدین صاحب سر اٹھا رہے تھے نہ کہ مولوی محمد علی صاحب.لیکن اللہ تعالیٰ نے اس میں عجیب طریق پر بعد میں پیدا ہونے والے جھگڑوں کا نقشہ کھینچ کر رکھ دیا.چنانچہ دیکھ لو! مولوی محمد علی صاحب میرے مقابلے میں اتنے نیچے ہوئے، اتنے نیچے ہوئے کہ اب اُن کا سارا زور ہی اس بات کے ثابت کرنے پر صرف ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ کے حضور وہی لوگ معزز ہوتے ہیں جو چھوٹے ہوں.پہلے کہا کرتے تھے کہ ہم 95 فیصدی ہیں اور یہ چار پانچ فیصدی ہیں ہیں اور جماعت کی اکثریت کبھی ضلالت پر نہیں ہو سکتی.مگر اب کہتے ہیں بے شک قادیان کی جماعت زیادہ ہے اور ہم تھوڑے ہیں لیکن ان کا زیادہ ہونا ہی ان کے جھوٹے ہونے کا ثبوت ہے.کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے میرے حقیقی بندے تھوڑے ہو ا کرتے ہیں.یہ بالکل وہی نقشہ ہے جو اس رویا میں بتایا گیا تھا.وہ اتنے چھوٹے ہوئے، اتنے چھوٹے ہوئے کہ اب انہیں اپنا چھوٹا ہونا ہی اپنی صداقت کی دلیل نظر آتا ہے.جس وقت جماعت میں اختلاف پیدا ہوا.اللہ تعالیٰ نے مجھے الہاماً بتایا کہ لَنُمَ قَنَّهُمْ ہم ان کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیں گے.اُس وقت یہ لوگ اپنے آپ کو 95 فیصدی کہا کرتے تھے مگر اب اُن کی کیا حالت ہے.خدا نے اُن کو اس پیشگوئی کے مطابق حقیقت میں ٹکڑے ٹکڑے کر دیا ہے.چنانچہ خواجہ کمال الدین صاحب نے اپنی وفات سے پہلے لکھا کہ مرزا محمود نے ہمارے متعلق جو الہام شائع کیا تھا وہ بالکل پورا ہو گیا ہے اور ہم واقع میں ٹکڑے ٹکڑے ہو گئے ہیں.تو اللہ تعالیٰ نے ان کو جیسا کہ الہام میں خبر دی گئی تھی میرے مقابلہ میں ٹکڑے ٹکڑے کر دیا.میں اُس کلام الہی کی مثالیں جو مجھ پر خدا تعالیٰ نے اپنے فضل سے نازل فرمایا اِس وقت اسی قدر بیان کرتا ہوں.ہاں میرا ارادہ ہے کہ تحدیث نعمت کے طور پر ایک مختصر رسالہ میں کسی قدر تفصیل کے طور پر اپنے بعض الہاموں، کشوف اور رؤیا کا ذکر کر دوں.خلاصہ یہ کہ اللہ تعالیٰ نے متعدد دفعہ مجھ پر اپنے غیب کو ظاہر کر کے اس پیشگوئی کو سچاہے

Page 94

خطبات محمود 94 $1944 کر دیا ہے کہ مصلح موعود خدا تعالیٰ کی روح حق سے مشرف ہو گا.یہ اللہ تعالیٰ کے نشانات ہیں جو اس نے میرے ذریعہ سے ظاہر فرمائے.میں نے اب بھی اس پیشگوئی کا مصداق ہونے کا اُس وقت تک اعلان نہیں کیا جب تک خود خدا نے اپنے فضل سے مجھے اس حقیقت سے آگاہ نہیں فرما دیا.لوگ کہتے ہیں کہ اس میں کیا حکمت تھی کہ جماعت کے دوست تو پہلے ہی ان پیشگوئیوں کا مجھے مصداق قرار دیتے رہے اور میں نے اب ان پیشگوئیوں کے مصداق ہونے کا دعوی کیا.میں اُن سے کہتا ہوں اس میں حکمت وہی ہے جس کا قرآن کریم نے ان الفاظ میں ذکر فرمایا ہے کہ مَا كَانَ اللهُ لِيُضِيعَ إِيْمَانَكُمْ - 11 اللہ تعالیٰ جب ایک نبی کی بعثت کے بعد کوئی اور موعود کھڑا کرتا ہے تو اُس وقت اللہ تعالیٰ یہ پسند نہیں کرتا کہ اُس کی قائم کردہ جماعت دوبارہ کفر کا شکار ہو جائے اور اُس کا وہ ایمان ضائع ہو جائے جو اُسے حاصل تھا.اسی لیے وہ پہلے سے ایسار نگ پیدا کر دیتا ہے کہ اکثریت اُس موعود کو ماننے پر مجبور ہو جاتی ہے.فرض کرو کوئی ایسا موعود کھڑا ہو جاتا جس کی صداقت کی کوئی علامت پہلے ظاہر نہ ہو چکی ہوتی تو اس کا کیا نتیجہ نکلتا.یہی نتیجہ نکلتا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی پیشگوئیوں پر جنسی اور تمسخر شروع ہو جاتا اور وہ جماعت جسے بڑی بڑی مشکلات، بڑی بڑی قربانیوں ، بڑی بڑی دعاؤں اور بڑی بڑی کوششوں کے بعد قائم کیا گیا تھا اس کا اکثر حصہ پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے خلاف کھڑ ا ہو جاتا.یہی وجہ ہے کہ جنہوں نے اب تک مصلح موعود ہونے کے دعوے کیے ہیں ان کی ساری لڑائی جماعت کے ساتھ رہی ہے اور ان کی ساری لڑائی محض اس وجہ سے ہوا کرتی ہے کہ احمدی ان کی کیوں بیعت نہیں کرتے.حالانکہ صاف بات ہے کہ اگر خدا نے تمہیں طاقت اور قوت عطا فرمائی ہے تو جس میں طاقت اور قوت سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ایک جماعت بنا لی تھی اُسی طاقت اور قوت سے تم بھی ایک نئی جماعت بنا لو.تمہیں کس نے منع کیا ہے.لیکن وہ نئی جماعت بھی نہیں بنا سکتے اور ہماری جماعت کو بھی اس وجہ سے کافر قرار دیتے ہیں کہ یہ اُن پر ایمان کیوں نہیں لاتی.گویا اُن کے نزدیک ہماری جماعت کے افراد ہیں تو کافر ، لیکن وہ اصرار کرتے ہیں ہم نے لینے یہی کافر ہیں.اب بتاؤ ایسے حالات میں کون ہے جو اُن کے دعوے کو تسلیم کر سکے.پس میری طرف سے بعد میں اعلان ہونے اور جماعت کی طرف سے پہلے مجھے اس پیشگوئی کا مصداق

Page 95

خطبات مج محمود 95 $1944 قرار دینے میں اللہ تعالیٰ کی حکمت یہی ہے کہ مَا كَانَ اللهُ لِيُضِيعَ إِيْمَانَكُمْ اللہ تعالیٰ مومنوں کو دوسری دفعہ کفر و اسلام کے امتحان میں ڈال کر اُن کے ایمان کو ضائع کرنے کے لیے تیار نہ تھا اور نہیں چاہتا تھا کہ وہ دو موتیں اپنی جماعت پر وارد کرے.پہلی موت تو وہ تھی جو غیر احمدیت کی حالت میں اُن پر وارد ہوئی کہ انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے دعوی کو جھٹلایا.لیکن آخر ان کے دل کی کسی نیکی کو قبول کر کے اللہ تعالیٰ نے انہیں زندہ کر دیا اور وہ جماعت احمدیہ میں داخل ہو گئے اور صداقت کو قبول کرنے کے بعد انہوں نے اپنے رشتہ داروں سے قطع تعلق کیا، مصیبتوں اور تکلیفوں کو برداشت کیا، ہزاروں دُکھوں اور بلاؤں کا مقابلہ کیا اور اپنے ایمان کی سلامتی کے لیے ہر وہ عذاب برداشت کیا جو بندے دے سکتے تھے.اس کے بعد یہ خیال کرنا کہ اس ابتلاء میں سے گزرنے والے لوگوں کی زندگی میں خدا تعالیٰ ایک ایسا موعود بھیج دے گا جس کی صداقت کے نشانات اس کے دعوے کے ایک لمبے عرصہ بعد ظاہر ہوں گے، اس کے یہ معنے ہیں کہ مومنوں کو پھر کفر کے گڑھے میں دھکیل دیا جائے اور صحابہ کو دوبارہ کافر و منکر بنا دیا جائے، نئے سرے سے جماعت ابتلاء میں پڑ جائے.یہ اللہ تعالیٰ کے رحم اور اس کی سنت کے خلاف ہے.پس اللہ تعالی ایسا ہر گز نہیں کر سکتا اور اس وجہ سے اس نے مصلح ہیں موعود کے متعلق جو حضرت مسیح موعود کی تیار کردہ جماعت کی زندگی میں ہی آنے والا تھا یہ تدبیر اختیار کی کہ پہلے اُسے جماعت کا خلیفہ بنا کر اُن سے عہد اطاعت لے لیا اور اُن پیشگوئیوں کو پورا کرنے کے سامان پیدا کر دیے جو اس کے متعلق بتائی گئی تھیں اور جب حقیقت جماعت پر روز روشن کی طرح کھل گئی تو پھر اسے بھی اس حقیقت سے بذریعہ آسمانی اخبار کے علم دے دیا تا آسمان اور زمین دونوں کی گواہی جمع ہو جائے اور مومنوں کی جماعت کفر و انکار کے داغ سے بھی محفوظ کر دی جائے.یہ ایسی ہی بات تھی جیسا کہ حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات پر کہا تھا کہ خدا کی قسم! اللہ آپ پر دو موتیں وارد نہیں کرے گا.12 یہی حال سب انبیاء کی قائم کر دہ جماعتوں کا ہوتا ہے اور خدائی قانون یہی ہے کہ وہ اپنی جماعت پر دو موتیں وارد نہیں کیا کرتا.دنیا کو کافر قرار دینے والے اور تمام جہان سے لڑائی کرنے والے نبی اور مامور اور مصلح ایک عرصہ دراز کے بعد آیا کرتے ہیں.قریب زمانہ میں

Page 96

خطبات محمود 96 $1944 نہیں آیا کرتے.وہ اُس وقت آتے ہیں جب لوگوں کے دل واقع میں کافر اور بے دین ہو چکے ہوتے ہیں.لیکن وہ مصلح اور وہ موعود اور پھر ان سے بڑھ کر وہ نبی اور مامور اور مرسل جنہوں نے ایسے وقت میں ظاہر ہونا ہوتا ہے جب جماعت کا قیام ابھی تازہ ہوتا ہے اللہ تعالیٰ ان کے لیے ایسے حالات پیدا کر دیتا ہے کہ جماعت کی اکثریت کو ان کا انکار کرنا نہیں پڑتا.جیسے حضرت ہارون علیہ السلام تھے کہ ان کے لیے قوم کو کوئی علیحدہ جنگ نہیں کرنی پڑی.جب وہ حضرت موسی علیہ السلام پر ایمان لے آئے تو حضرت ہارون پر خود بخود ایمان لے آئے.یا یوشع نبی ہوئے تو ان کو حضرت موسیٰ علیہ السلام کی طرح دنیا سے جنگ نہیں کرنی پڑی بلکہ حضرت موسی علیہ السلام پر ایمان لانے کی وجہ سے اس قوم نے یوشع پر خود بخود اپنے ایمان کا اظہار کر دیا.تو خدا تعالیٰ کی یہ سنت ہے کہ وہ ایک قوم پر دو دفعہ موت وارد نہیں کیا کرتا.جب خداتعالی ایک دفعہ اپنی جماعت کا ایمان کسی نبی کے ذریعہ سے محفوظ کر دیتا ہے تو پھر وہ اسی محفوظ ایمان کے ساتھ بڑھتی اور دنیا میں ترقی کرتی ہے.اسی لیے خدا تعالی نے پہلے علامتیں ظاہر کیں اور پھر مجھے بتا یابلکہ پہلے جماعت خود کہتی رہی تاکہ وقت آنے پر ایمان کی موت سے خدا تعالیٰ اسے بچا لے.باقی جس قدر مدعی ہیں وہ سارے ہی ایسے ہیں جن کے دعوے کو جماعت چونکہ تسلیم نہیں کرتی اس لیے وہ جماعت کے افراد کو کافر اور بے دین قرار دیتے ہیں.حالانکہ یہ خدائی سنت کے خلاف ہے کہ وہ ایک نبی کی جماعت پر دو موتیں وارد کرے.بعد میں جب بگاڑ پید اہو جاتا ہے اور نبی کے زمانہ پر ایک عرصہ دراز گزر جاتا ہے اُس وقت بے شک ایسا مامور آسکتا ہے جس کے انکار کی وجہ سے لوگ کافر اور بے دین قرار پا جائیں.لیکن جب نبی کے قریب ترین زمانہ میں کوئی مصلح اور ہے موعود آتا ہے خواہ وہ نبی ہو یا غیر نب تو اللہ تعالیٰ اپنے فضل کے ماتحت پہلے سے ایسے حالات پیدا کر دیتا ہے جن کی وجہ سے جماعت کی اکثریت ٹھو کر سے محفوظ رہتی ہے.تب ایمان اور جماعتی ترقی کا ایک تسلسل جاری رہتا ہے اور اس میں کوئی روک پیدا نہیں ہوتی.ہاں جب جماعت بگڑ جائے، ایمان مٹ جائے، اخلاق درست نہ رہیں، بے دینی، کفر اور الحاد ہر طرف چھا جائے اُس زمانہ میں جب کوئی موعود آئے گا تو لازما لوگ اُس کا انکار کریں گے اور وہ ایسے طور پر ہی آئے گا کہ اگر کوئی اس کا انکار کرے گا تو وہ اللہ تعالی کے حضور کا فر قرار پائے گا.پس موعود دو الگ الگ قسم کے ہیں

Page 97

خطبات محمود 97 $1944 زمانوں میں آیا کرتے ہیں.اس وقت چونکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے انوار چاروں طرف دنیا میں پھیلے ہوئے ہیں، آپ کی تعلیم پر جماعت قائم ہے، آپ کے احکام کو لوگ تسلیم کرتے ہیں، اللہ تعالیٰ کی رضا کی راہوں پر چلتے اور اس کا قرب حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں اس لیے موجودہ زمانہ میں ضروری تھا کہ اللہ تعالیٰ جس موعود کو کھڑا کرتا اُس کے متعلق پہلے سے علامات ظاہر کر دیتا تا کہ جماعت ٹھوکر سے محفوظ رہے.ہاں جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کانور لوگوں کی نظر سے اوجھل ہو جائے گا اور پھر دنیا میں تاریکی اور ظلمت چھا جائے گی اُس وقت کوئی ایسا موعود بھی آسکتا ہے جس کے انکار پر لوگوں کو کافر قرار دیا ہے جائے.اور اس میں کوئی حرج نہ ہو گا کیونکہ اُس وقت جیسے وہ ظاہر میں کافرہوں گے اُسی طرح اُن کے دل کا فر ہوں گے اور انہیں کا فر قرار دینا در حقیقت اُن کے اپنے کفر کا ہی اظہار کرنا ہو گا.لیکن موجودہ زمانہ میں ایسا نہیں ہو سکتا تھا بلکہ جیسا کہ میں نے بتایا ہے ایسا ہونا اللہ تعالیٰ کی سنت اور اُس کے طریق کے خلاف ہے اور یہ صریح ظلم عظیم ہے کہ ایک قوم کو اللہ تعالی دو موتوں میں داخل ہے کرے".خطبہ ثانیہ میں فرمایا:." مجھے کل سے لاہور سے اطلاعات آ رہی ہیں کہ اتم طاہر کی حالت پھر نازک ہو رہی ہے اور آج کی اطلاع تو یہ ہے کہ ان کی نبض بھی کمزور ہے اس لیے میں کل کی بجائے آج ہی ہے لاہور جارہا ہوں.اگر اللہ تعالیٰ نے مجھے توفیق دی تو میں اگلا جمعہ قادیان میں ہی آکر پڑھانے کی کوشش کروں گا.خدا تعالیٰ نے انسان پر جو خانگی فرائض رکھے ہیں ان کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا اس لیے میں جمعہ کے بعد لاہور جاؤں گا اور چونکہ مجھے جلدی جانا ہے اس لیے جمعہ کی نماز کے ساتھ ہی عصر کی نماز بھی پڑھا دوں گا".(الفضل 16 فروری، 7 مارچ 1944ء) 1 :مریم: 30 2 : تذکرہ صفحہ 139 حاشیہ طبع چہارم 3 : تبلیغ رسالت جلد اوّل صفحہ 89

Page 98

$1944 98 خطبات محمود 4 : تبلیغ رسالت جلد اول صفحہ 76، اشتہار 8 اپریل 1886ء : تذکرہ صفحہ 25 ایڈیشن چہارم 6 : اَلَمْ تَرَ كَيْفَ ضَرَبَ اللهُ مَثَلًا كَلِمَةً طَيِّبَةً كَشَجَرَةٍ طَيِّبَةٍ أَصْلُهَا ثَابِتٌ وَفَرْعُهَا فِي السَّمَاءِ (ابراهيم (25) 1 : ترمذی ابواب الرؤيا باب قوله لهم البشرى في الحياة الدنيا ( يَرَاهَا الْمُؤْمِنُ اَوْ تُرَى لَهُ) 8 :آل عمران: 56 9 : الفاتحة: 5 10: الفاتحة:4 11:البقرة:144 12: بخاری کتاب المغازى باب مرض النبى صلى الله عليه وسلم وَوَفَاتِهِ

Page 99

$1944 99 6 خطبات محمود حضرت محمد صلی اللی علم کے صحابہ خدا تعالیٰ کے قرب کے جس مقام پر پہنچے اُس مقام پر آج بھی ہم پہنچ سکتے ہیں (فرموده 11 فروری 1944ء بمقام لاہور) تشہد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: " مغرب کی نماز کے بعد جبکہ میں باہر بیٹھتا ہوں دوست مجھ سے مختلف سوالات دریافت کیا کرتے ہیں.آج رات جو سوالات کیے گئے اُن میں سے ایک سوال ایسا اہم ہے جس کے متعلق میں پھر زیادہ تشریح اور وضاحت کے ساتھ کچھ بیان کر دینا مناسب سمجھتا ہوں.کیونکہ وہ سوال ہماری تمام جماعت بلکہ تمام مسلمانوں کی عملی زندگی کے ساتھ نہایت گہرا تعلق رکھتا ہے.وہ سوال یہ تھا کہ کیا ہم اب بھی صحابہ میں شامل ہو سکتے ہیں ؟ میں نے اختصار کے ساتھ اس کا جواب دیا تھا کہ صحابی ہونا اپنی ذات میں صرف اس بات پر منحصر ہے کہ کوئی انسان ایسی صورت اختیار کر لے جو اُسے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ہم مجلس اور ہم شریک بنا دے.ورنہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ملنے والوں میں سے ابو جہل بھی تھا، عتبہ اور شیبہ بھی آپ کی مجلس میں بیٹھنے والوں میں سے ہی تھے.اور ظاہر میں ایمان کا دعوی کرنے والوں میں سے عبد اللہ بن ابی ابن سلول بھی تھا مگر ہم ان کو صحابی نہیں کہتے.

Page 100

$1944 100 خطبات محمود حالا نکہ وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مجلسوں میں بیٹھتے اور آپ سے ہمیشہ باتیں کیا کرتے تھے.کچھ لوگوں کو تو ہم اس لیے صحابی نہیں کہتے کہ وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ و کے دعوای کے منکر تھے حالانکہ جہاں تک رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جسم کا تعلق ہے وہ لوگ آپ کے قرب میں بیٹھنے والے تھے.اور کچھ لوگوں کو ہم اس لیے نہیں کہتے کہ گووہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دعوی کو منہ سے تسلیم کرتے تھے مے مگر عملاً آپ سے عقیدت نہ رکھتے اور آپ کے ارشادات کے مطابق عمل کرنے کی کوشش نہیں کرتے تھے.پس باوجود اس کے کہ ان کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا جسمانی قرب حاصل ہوا، ہم اُن کو صحابی نہیں کہتے.ہم یوں نہیں کہتے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ایک صحابی تھا ابو جہل.مگر وہ آپ کا مخالف ہو گیا اور اس نے بڑی شدید دشمنی کی.ہم یہ کبھی نہیں کہتے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ایک صحابی تھا عبد اللہ بن ابی ابن سلول.وہ منہ سے تو کہتا تھا کہ میں اسلام کا شیدائی ہوں لیکن دل سے اسلام کا شدید ترین د دشمن تھا حالا نکہ جو صحابی کے معنے ہیں یعنی پاس بیٹھنے والا اور صحبت سے حصہ پانے والا ، وہ اس میں پائے جاتے تھے.تو میں نے بتایا یہ تھا کہ در حقیقت صحابیت اس محبت اور اخلاص کے تعلق پر مبنی ہے جو انسان کسی رسول کے ساتھ رکھتا ہے اور اسی وجہ سے جن لوگوں نے اس قسم کا اخلاص اپنے اندر پیدا کر لیا وہ باوجود اس کے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ کے بہت بعد پیدا ہوئے، انہوں نے وہی مقام حاصل کر لیا جو صحابہ کو حاصل تھا.چنانچہ میں نے اس کی مثال بھی دی تھی کہ حضرت محی الدین صاحب ابن عربی فرماتے ہیں کہ میں نے ساری بخاری سبقا رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پڑھی ہے.اسی طرح اور بہت سے لوگ محمدیہ میں ایسے گزرے ہیں جنہیں رویا یا کشف میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت نصیب ہوئی، آپ سے باتیں کرنے کا ان کو موقع ملا اور جاگنے کی حالت میں بھی ان کے دلوں میں اخلاص اور تقوی پایا جاتا تھا.ایسے لوگ یقینا صحابی تھے.یہی حالت اگر آج بھی ہم میں پیدا ہو جائے، یہی مرتبہ اگر آج بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہم کو میسر آجائے تو اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ہم آج بھی صحابہ کا مقام حاصل کر سکتے ہیں.ہم خدا تعالیٰ پر بخل کا

Page 101

خطبات محمود 101 $1944 الزام نہیں لگاتے.ہمارا خدا بخیل اور ممسک نہیں کہ ہم یہ خیال کر لیں کہ اس نے اپنی نعمتوں ، پہلوں کو تو حصہ دیا مگر ہمارے لیے ان نعمتوں کے حصول کا دروازہ اس نے بند کر دیا ہے.یہ جواب تھا جو میں نے اس سوال کا دیا.آج میں کسی قدر زیادہ وضاحت سے اس امر کو خطبہ میں بیان کرنا چاہتا ہوں اور جماعت کو اس امر کی طرف توجہ دلاتا ہوں کہ در حقیقت کسی انعام کے متعلق انسان کے دل میں خواہش کا پیدا ہونا یہ بھی بعض دفعہ بناوٹی ہوتا ہے اور کسی انعام کے حصول سے مایوس ہو جانا یہ بھی انسان کے لیے بڑی تباہی کا موجب ہوتا ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں مَنْ قَالَ هَلَكَ الْقَوْمُ فَهُوَ أَهْلَكَهُمْ 1 اے لوگو! جس نے اعلان کرنا شروع کر دیا کہ ہماری قوم ہلاک ہو گئی ، ہماری قوم برباد ہو گئی ہیں فَهُوَ أَهْلَكَهُمْ وہی شخص ہے جس نے اس قوم کو تباہ و برباد کیا.اس حدیث میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قومی ہلاکت کی وجہ بتائی ہے اور فرمایا ہے کہ اس ہلاکت اور بربادی کی ذمہ داری اس آدمی پر ہے جو کہتا ہے کہ قوم ہلاک ہو گئی.بعض لوگوں نے اس حدیث سے یہ دھوکا کھایا ہے کہ کسی شخص کے یہ کہنے سے کہ قوم بلاک ہو گئی، ساری کی ساری قوم کس می طرح ہلاک ہو سکتی ہے اور چونکہ یہ بات ان کی سمجھ میں نہیں آئی اس لیے وہ کہتے ہیں اس حدیث میں اَهْلَكَهُمْ کا لفظ نہیں بلکہ اَهْلَكُهُمْ کا لفظ ہے.یعنی وہ شخص سب سے زیادہ ہلاک ہونے والا ہے.حالانکہ واقع یہ ہے کہ انہوں نے قومی نفسیات کو سمجھا ہی نہیں.یہ کہہ دینا کہ جو شخص کہتا ہے قوم ہلاک ہو گئی وہ سب سے زیادہ ہلاک ہونے والا ہے.اول تو بعض حالتوں میں یہ درست ہی نہیں اور پھر یہ بھی صحیح نہیں کہ ان الفاظ کی وجہ سے وہ سب سے زیادہ ہلاک ہونے ہے والا بن جاتا ہے.در حقیقت ان لوگوں نے اس نکتہ کو نہیں سمجھا کہ جب کسی قوم میں مایوسی پیدا کر دی جائے تو وہ بڑے بڑے کام کرنے سے ہمیشہ کے لئے محروم ہو جاتی ہے.کبھی کسی قوم کا دانا اور سمجھ دار لیڈر ایسا نہیں ہو سکتا جو اس کو مایوس کر دے اور آئندہ ترقیات کے متعلق اس کے دل میں نا امیدی پیدا کر دے.جب کوئی قوم یہ سمجھ لے کہ وہ ترقی کے انتہائی درجہ پر پہنچی گئی تھی ہے یا جب کوئی قوم یہ سمجھ لے کہ وہ منزل کے انتہائی درجہ پر پہنچ گئی ہے تو وہ تباہ ہونا شروع ہے ہو جاتی ہے.چنانچہ دیکھ لو مسلمانوں میں جب یہ خیال پیدا ہوا کہ قرآن کریم کی تفاسیر جو لوگ مانی

Page 102

$1944 102 خطبات محمود پہلے لکھ چکے ہیں ان سے زیادہ اب کچھ نہیں لکھا جا سکتا، اب قرآن کی کوئی نئی تفسیر نہیں کی جاسکتی، معرفت کی کوئی نئی بات اس کی آیات سے نکالی نہیں جاسکتی تو مسلمانوں میں اُسی وقت تنزیل پید ا ہو نا شروع ہو گیا اور ان کی معرفت جاتی رہی، ان کا علم سلب ہو گیا اور ان کی عقل کمزور ہو گئی اور ان کا فہم جاتا رہا اور وہ ان آسمانی علوم سے اس قدر محروم ہو گئے کہ اس زمانہ میں جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے قرآن کریم کے نئے معارف بیان کرنے شروع کر دیے اور ہمارے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ نے اس کے عجیب و غریب اسرار کھولے تو مسلمانوں نے یہ کہنا شروع کر دیا کہ یہ تفسیر بالرائے ہے.گویا انہیں معرفت کی باتوں سے اتنی ہے ڈوری ہو گئی کہ اسلام کی باتیں انہیں کفر کی باتیں دکھائی دینے لگیں اور قرآن کی باتیں انہیں ہے بے دینی کی باتیں نظر آنے لگیں.اس کی وجہ یہی ہے کہ جب قوم سے کہہ دیا گیا کہ آئندہ لوگوں کو کوئی ذہنی ارتقاء حاصل نہیں ہو سکتا، آئندہ کوئی شخص ایسا پیدا نہیں ہو سکتا جو قرآن کریم کو پہلوں سے زیادہ سمجھ سکے.آئندہ کوئی شخص ایسا پیدا نہیں ہو سکتا جو حدیثوں کو پہلوں سے زیادہ سمجھ سکے.تو دوسرے الفاظ میں انہوں نے یہ کہنا شروع کر دیا کہ ہماری قوم ہلاک ہو گئی.اب اس میں کوئی زندہ وجود باقی نہیں رہا اور جب انہوں نے کہنا شروع کر دیا کہ می ہماری قوم میں کوئی زندہ وجود باقی نہیں رہا، ہماری قوم میں کوئی ایسا شخص نہیں رہا جو یہ کہہ سکے ہیں کہ میں نے قرآن سے فلاں نئی بات نکالی ہے تو نتیجہ یہ ہوا کہ لوگوں نے قرآن پر تدبر کرنا ترک کر دیا.انہوں نے حدیثوں پر غور کرنا چھوڑ دیا.انہوں نے کہا جب ہمیں کوئی نئی بات نہ قرآن سے حاصل ہو سکتی ہے نہ حدیث سے مل سکتی ہے تو ہمیں قرآن اور حدیث پر غور کرنے میں کی ضرورت ہی کیا ہے.پرانی تفسیریں ہی ہمارے لیے کافی ہیں.یہ ایک لازمی نتیجہ تھا اس خیال کا کہ قرآن سے اب کوئی نیا نکتہ نہیں نکل سکتا.بلکہ رازی اور ابن حیان اور دوسرے مفسرین نے جو کچھ لکھا ہے ، وہی ہمارے لیے کافی ہے.چنانچہ مسلمانوں نے اس تباہ کن خیال کے زیر اثر قرآن کریم کے پڑھنے اور اسے سمجھنے کو ترک کر دیا اور اپنا تمام تر انحصار تفسیروں پر رکھ لیا.پھر یہ عذاب اتنا بڑھا ، اتنا بڑھا کہ آج سے پچیس تیس سال پہلے بڑے بڑے مولوی ایسے تھے جو قرآن کریم کا صحیح ترجمہ تک نہیں جانتے تھے.کیونکہ وہ سمجھتے تھے ہمارے لیے قرآن کریم کا

Page 103

خطبات محمود 103 $1944 ترجمہ جانناضروری نہیں.اتنا ہی کافی ہے کہ اگر موقع ملے تو کوئی پرانی تفسیر دیکھ لی جائے.یہ ہلاکت ہوئی محض اس بات سے کہ قوم کو مایوس کر دیا گیا.اسے کہہ دیا گیا کہ قرآن کریم کے معارف تک اس کی رسائی نہیں ہو سکتی.اسی طرح جب مسلمانوں کو کہہ دیا گیا ہے کہ خدا بولتا نہیں، وہ کسی سے محبت نہیں کرتا، وہ کسی سے پیار نہیں کرتا، وہ کسی کی التجا اور دعا کا جواب نہیں دیتا تو لوگوں کے دلوں سے خدا تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے اور اس سے ملنے کی خواہش بھی مٹنی شروع ہو گئی.آخر یہ خواہش کہ خدا مجھ سے ملے اور وہ میرے ساتھ باتیں کرے، وہ مجھے اپنا پیارا بنالے، وہ میرا ہو جائے اور میں اس کا ہو جاؤں.کوشش انسان تبھی کرے گا جب اسے یہ خیال ہو گا کہ ایسا ہو سکتا ہے.لیکن جب اس کا یہ خیال ہو کہ ایسا ہو ہی نہیں سکتا تو وہ اس غرض کے لیے کوشش ہی کیوں کرے گا.جب مسلمانوں میں یہ خیال پیدا کر دیا گیا کہ ہم خدا کے نہیں ہو سکتے اور خدا ہمارا نہیں ہو سکتا.جب قوم کے لیڈروں نے یہ کہنا شروع کر دیا کہ هَلَكَ الْقَوْمُ ہماری قوم ہلاک ہو گئی، ہماری قوم میں وہ استعداد ہی نہیں رہی کہ جس سے کام لے کر وہ خدا سے محبت کر سکے ، اس کے فضل کو اپنی طرف کھینچ سکے ، اس کی وحی اور الہام کی مورد بن سکے تو نتیجہ یہ ہوا کہ انہوں نے اس طرف سے اپنی توجہ ہی ہٹالی اور خدا تعالیٰ کے دروازہ کو بند سمجھ کر اسے کھٹکھٹانا ترک کر دیا.مگر کسی مکان کا دروازہ بند ہو، باہر کی طرف اس پر قفل لگا ہوا ہو تو کون بے وقوف ہے جو اس دروازہ پر بیٹھ کر مالک مکان کو آوازیں دینی شروع کرے گا.اگر کسی مکان کے دروازہ کے متعلق یہ اعلان کر دیا جائے کہ اسے قطعی طور پر بند کر دیا گیا ہے اور پھر اس دروازہ کو کوئی شخص کھٹکھٹانا شروع کر دے تو سب لوگ اسے احمق اور پاگل سمجھیں گے.کیونکہ وہ ایسا دروازہ کھٹکھٹا رہا ہو گا جو بند ہو چکا ہے، جس کے بند ہونے کا اعلان ہو چکا ہے اور جس کے کھلنے کا کوئی امکان ہی نہیں ہے.اس کے مقابلہ میں اگر کسی عمارت کا دروازہ تو بند ہو لیکن کھڑ کی کھلی ہو تو سب لوگ اس کھڑی کی طرف ہے جائیں گے دروازہ کی طرف نہیں جائیں گے.وہ کھڑکی کی طرف اس لیے جائیں گے کہ کھڑ کی کھلی ہو گی اور دروازہ کی طرف اس لیے نہیں جائیں گے کہ دروازہ بند ہو گا.اسی طرح جب خدا تعالیٰ کی محبت کا دروازہ بند کر دیا گیا اور جب مسلمانوں میں یہ خیال پیدا کر دیا گیا کہ اس دروازہ سے

Page 104

$1944 104 محمود تمہیں کوئی آواز نہیں آسکتی.خواہ تم کس قدر چلاؤ، خواہ تم کس قدر آہ و زاری سے کام لو.نتیجہ یہ ہوا کہ انہوں نے خدا تعالیٰ کا دروازہ چھوڑ دیا اور پیروں اور فقیروں کے پیچھے چل پڑے.کیونکہ گو وہ چھوٹی چھوٹی کھٹڑ کیاں تھیں.مگر یہ چھوٹی چھوٹی کھڑکیاں انہیں کھلی نظر میں آئیں اور بڑا دروازہ انہوں نے مقفل پایا.پس وہ خدا کے دروازہ کو چھوڑ کر پیروں اور فقیروں کے پیچھے چل پڑے.کیونکہ انہوں نے کہا، یہ ہیں تو کھٹڑ کیاں مگر کھلی کھڑکیاں ہیں.پس آؤ! ہم ان کھڑکیوں سے اندر کی طرف جھانکیں.مگر جانتے ہو اس کا کیا اثر ہوا؟ یہی ہوا کہ خدا کی محبت اور خدا کا پیار مسلمانوں کے دلوں سے جاتا رہا، روحانیت کا ان میں فقدان ہو گیا، وہ اس کے قرب سے ہمیشہ کے لیے محروم ہو گئے اور خدا تعالیٰ کا تازہ بتازہ کلام سننے سے ان کے کان ہمیشہ کے لیے نا آشنا ہو گئے.اسی طرح اسلامی تمدن اور سیاست میں بھی خطرناک نقص پیدا ہو گیا.کیونکہ کہہ دیا گیا کہ صحابہ کے زمانہ میں تمدن نے جو شکل اختیار کی تھی اس سے زیادہ اسلامی تمدن کو کوئی شکل میں نہیں دی جاسکتی.حالانکہ تمدن کی شکل ہر زمانہ کے لحاظ سے بدلتی چلی جاتی ہے.کسی زمانہ میں اس کی کوئی شکل موزوں ہوتی ہے اور کسی زمانہ میں اس کی کوئی شکل موزوں ہوتی ہے.سچانی مذہب وہی ہوتا ہے جو اپنے اندر لچک رکھتا ہے اور اسی لیے وہ مذہب دنیا میں ایک لمبے عرہ کے لیے آتے ہیں.ان کی تعلیم کے اندر ایک قسم کی لچک پائی جاتی ہے جو مختلف زمانوں اور مختلف حالات کے مطابق تغیر پذیر ہوتی چلی جاتی ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ میں اسلامی تمدن نے جو شکل اختیار کی وہ اور تھی.مگر اب اس تمدن نے جو شکل اختیار میں کرنی ہے وہ اور ہے.بے شک اس تمدن کے اصول ایک ہی رہیں گے مگر اس کی شکل زمانہ کے حالات کے لحاظ سے بدلتی چلی جائے گی.اعتراض تب ہو جب اصول میں تبدیلی ہو.لیکن جیسا کہ میں نے بتایا ہے اصول ہمیشہ ایک ہی رہیں گے لیکن اس تمدن کی شکل اور طریق عمل میں ہمیں ضرور فرق کرنا پڑے گا اور موجودہ سوسائٹی کی طرز اور اس کے طریق کے مطابق ہمیں اس میں تبدیلی کرنی پڑے گی اور شکل میں یہ تبدیلی بالکل جائز ہو گی.مگر چونکہ کہہ دیا گیا کہ اسلامی تمدن انتہا تک پہنچ چکا ہے اور یہ کہ اس کے قانون میں کوئی لچک نہیں، اگر لوگ پرانے زمانہ میں

Page 105

خطبات محمود 105 $1944 کے تمدن کی نقل کریں تو بے شک کریں لیکن اس کے خلاف کوئی اور شکل تجویز نہیں کر سکتے.تو نتیجہ یہ ہوا کہ مسلمانوں نے تمدن کے متعلق غور و فکر کرنا چھوڑ دیا اور وہ اس چھوٹے سے تالاب کی صورت میں بدل گیا جس کا پانی نہیں بہتا، جس میں بو تو پید اہو جاتی ہے، جس میں تعفن تو پیدا ہو جاتا ہے، جس میں سڑاند تو آنے لگتی ہے مگر خوشنمائی اور دلکشی باقی نہیں ہے رہتی.اسلامی تمدن بھی مسلمانوں کی اس حماقت کے نتیجہ میں ایک متعفن چیز بن گیا جس سے خود مسلمان بھی نفرت کرنے لگے.پس یہ جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تھا کہ مَنْ قَالَ هَلَكَ الْقَوْمُ فَهُوَ أَهْلَكَهُدیه در حقیقت آپ نے ایک بہت بڑا نفسیاتی نکتہ بیان فرمایا تھا.اگر قوم کے لیڈر، اگر قوم کے صلحاء، اگر قوم کے علماء، اگر قوم کے امراء اس ایک حدیث کو ہی یاد رکھتے ، اگر وہ اپنی قوم کو مایوس نہ کرتے، اگر وہ اپنی قوم کو پژمردہ اور کم ہمت نہ بناتے ، اگر وہ ان کی امیدوں کو قائم رکھتے، اگر وہ ان کی امنگوں کو بڑھاتے ، اگر وہ اپنی جہالت سے ان کو یہ نہ کہتے کہ تمہارے لیے اب ترقی کا کوئی موقع نہیں تو مسلمان روحانی میدان میں بھی آگے رہتے، اقتصادی میدان میں بھی آگے رہتے ، علمی میدان میں بھی آگے رہتے اور سائنٹیفک میدان میں بھی آگے رہتے.مگر ہمارے ہاں تو یہاں تک مصیبت بڑھی کہ مذہب تو الگ رہا انہوں نے دنیوی علوم بھی پہلے لوگوں پر ختم کر دیے.بو علی سینا کے متعلق کہہ دیا کہ اس نے طب میں جو کچھ لکھ دیا ہے اس سے بڑھ کر اور کچھ نہیں لکھا جا سکتا، منطق کے متعلق کہہ دیا کہ اس بارہ میں فلاں منطقی جو کچھ کہہ گیا ہے اس کے بعد منطق کے علم میں کوئی زیادتی نہیں کی جاسکتی.گویا اول تو انہوں نے خاتم النبیین کے غلط معنے کیے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فیضان کو جو ایک دریا کی صورت میں بہہ رہا تھا محدود کر دیا اور دوسری طرف یہ غضب ڈھایا کہ کسی کو خاتم طب بنا دیا، کسی کو خاتم منطق بنا دیا، کسی کو خاتم فلسفہ بنا دیا اور اس طرح ایک ایک کر کے سارے علوم کے متعلق یہ فیصلہ کر دیا گیا کہ ان کے متعلق پہلے لوگ جو کچھ لکھ چکے ہیں ان سے زیادہ اب کوئی شخص نہیں لکھ سکتا.دماغی ترقی رک گئی ہے، ذہنی ارتقائی جاتا رہا ہے، علم و فہم کا مادہ سلب ہو چکا ہے اور علوم کے دروازے سب بند ہو چکے ہیں.گو

Page 106

خطبات محمود 106 $1944 انہوں نے یہ کہنا شروع کر دیا کہ هَلَكَ الْقَوْمُ کہ جو پہلوں کو مل گیا وہ اب دوسروں کو نہیں - مل سکتا.اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ مسلمان بالکل تباہ و برباد ہو گئے.نہ مسلمانوں میں خدا رہے، نہ مسلمانوں میں فقیہہ رہے ، نہ مسلمانوں میں قاضی رہے، نہ مسلمانوں میں عارف رہے، نہ مسلمانوں میں محدث رہے کیونکہ جو چیز بھی تھی اسے گزشتہ لوگوں پر ختم کر دیا گیا اور کہہ دیا گیا کہ آئندہ لوگوں کو کچھ حاصل نہیں ہو سکتا.یہ فطرت ان کی اس قدر بڑھی کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مقابلہ میں بھی انہوں نے اسی حربہ سے کام لینا شروع کر دیا.اس کے جواب میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ایک فقرہ لکھا ہے.وہ بظاہر ایک سادہ فقرہ ہے مگر انتہائی طور پر دلوں کی گہرائیوں پر اثر کرنے والا اور قلوب کو تڑپا دینے والا ہے.آپ پر جب لوگوں نے اعتراض کیا کہ پہلے میچ سے آپ کس طرح بڑھ سکتے ہیں، تو می حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس کا جواب دیتے ہوئے ایک جگہ تحریر فرمایا کہ یہ لوگ تو اس طرح باتیں کر رہے ہیں گویا ان کے نزدیک جو کچھ ہے پہلا مسیح ہی ہے ، دوسرا مسیح کچھ چیز نہیں.یہ بظاہر ایک سادہ سا فقرہ ہے.مگر کس طرح اس گری ہوئی ذہنیت کی دھجیاں اڑارہا ہے جو مسلمانوں میں پیدا ہو چکی تھی کہ تم کہتے یہ ہو کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آئے اور اپنے ساتھ تمام ترقیات کے سامان لائے، تم کہتے یہ ہو کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آئے اور اپنے ساتھ تمام برکات لائے، تم کہتے یہ ہو کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آئے اور می اپنے ساتھ تمام انوار لائے.مگر دوسری طرف تم اسی منہ سے یہ بھی کہہ رہے ہو کہ اب تمام برکتیں ختم ہو چکیں، تمام فیضان بند ہو چکے ، اب کوئی شخص وہ مقام حاصل نہیں کر سکتا جو پہلے میں لوگوں کو ملا.یا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ کے لوگوں کو ملا گویا اسلام کا چشمہ نَعُوْذُ بِاللهِ خشک ہو گیا ہے، محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فیضان نَعُوذُ بِاللهِ ختم ہو گیا ہے، قرآن کا زندگی بخش اثر نَعُوذُ بِالله جاتا رہا ہے.اب خواہ لاکھ کوششیں کرو تمہیں وہ برکات کبھی نہیں مل سکتیں جو پہلے لوگوں کو ملیں.یہ تو ایسی گندی تعلیم ہے، یہ تو ایسی قوم ہے کو تباہ و برباد کرنے والی تعلیم ہے کہ کوئی انسان جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سچی محبت می رکھتا ہو، کوئی انسان جس کے دل میں خدا تعالیٰ کا سچا ادب پایا جاتا ہو ایک منٹ بلکہ ایک سیکنڈ کے ہے

Page 107

$1944 107 خطبات محمود لیے بھی ایسی تعلیم قبول نہیں کر سکتا.یہ تو ایسی گندی اور متعفن اور بد بودار تعلیم ہے کہ اس قابل ہے کہ اسے اٹھا کر میلے کے ڈھیروں پر پھینک دیا جائے، بجائے اس کے کہ لوگوں کے دلوں اور ان کے دماغوں میں اسے جگہ دی جائے.اللہ تعالیٰ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس لیے بھیجا تھا کہ آپ اعلیٰ سے اعلیٰ کمالات کے دروازے لوگوں کے لیے کھول دیں جو آپ کے زمانہ کے لیے ہی مخصوص نہ ہوں بلکہ قیامت تک آنے والے لوگوں کے لیے کھلے ہیں رہیں.اگر یہ تعلیم صرف صحابہ کے لیے ہی تھی، اگر یہ تعلیم باقی ساری دنیا کو خدا تعالی کے قرب اور اس کی محبت سے ہمیشہ کے لیے محروم کرنے والی تھی تو یہ گندی دنیا جو خدا تعالی کے لیے قرب سے محروم ہو چکی تھی، یہ گندی دنیا جو خدا تعالیٰ کے الہام سے محروم ہو چکی تھی، یہ گندی دنیا جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کلام کو سمجھنے سے محروم ہو چکی تھی، یہ گندی دنیا جو ہے اخلاق میں ترقی کرنے سے محروم ہو چکی تھی یہ تو اس قابل تھی کہ اس کو تباہ کر دیا جاتا، اس مینی کو برباد کر دیا جاتا، اس پر عذاب نازل کر کے اسے حرف غلط کی طرح مٹادیا جاتا.نوح کی قوم ہے پر وہ تباہی نہیں آئی جو اس دنیا پر آنی چاہیے تھی، لوط کی قوم پر وہ عذاب نازل نہیں ہوا جو اس دنیا پر نازل ہو نا چاہیے تھا.بشر طیکہ وہ سب کچھ درست ہو تا جو اس زمانہ کے نادان مولوی کہہ رہے ہیں.مگر یہ جھوٹ اور افترا ہے.اللہ تعالیٰ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کرتے ہوئے فرماتا ہے ہم نے تجھے مبعوث کیا ہے.کسی ایک قوم کی طرف نہیں، کسی ایک ملک کی طرف نہیں بلکہ دنیا کے سارے انسانوں کی طرف ہم نے تجھے مبعوث کر کے بھیجا ہے.2 اسی طرح آپ حاضر اور غائب سب کو مخاطب کر کے فرماتے ہیں میں اللہ کا رسول ہوں جو جو تم سب کی طرف بھیجا گیا ہوں.پس جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ساری دنیا کی طرف مبعوث ہوئے اور خدا نے آپ کو وہ تعلیم دی ہے جو سب کو سمیٹنے والی اور ان کو ایک نقطه مرکزی پر جمع کرنے والی ہے تو کیسا نادان اور احمق ہے وہ انسان جو کہتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تمام برکات پہلے لوگوں پر ہی ختم ہو چکیں، اب کوئی انسان وہ مقام حاصل نہیں کر سکتا جو پہلے لوگوں نے حاصل کیا.یہ تو ایسے گندے میں اور ناپاک خیالات ہیں کہ قرآن اور اسلام ان کو ایک منٹ کے لیے بھی برداشت نہیں

Page 108

$1944 108 محمود کر سکتا.حقیقت یہ ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سارے زمانوں کے لیے ہیں اور جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سارے زمانوں کے لیے ہیں تو برکات کا دروازہ اگلے لوگوں لیے بھی گھلا ہونا چاہیے.تا کہ جس طرح پہلے لوگ اللہ تعالیٰ کے قرب میں بڑھے اور انہوں نے اپنی اپنی قربانیوں کے مطابق خدا تعالیٰ کی رضا کا مقام حاصل کیا اُسی طرح آئندہ آنے والوں میں سے جو لوگ زیادہ قربانی کریں وہ اللہ تعالیٰ کا زیادہ قرب حاصل کر لیں.اور جو لوگ کم قربانی کریں وہ اپنے معیار کے مطابق کم درجہ حاصل کریں.یہی چیز ہے جو دلوں میں یقین اور ایمان پیدا کرتی ہے اور یہی چیز ہے جو عمل کا ولولہ قلوب میں موجزن کرتی ہے.اس میں یقین کے بعد جب ہم خدا تعالیٰ کے قرب میں بڑھنے کی کوشش کرتے ہیں، جب ہم اس کی ہے صفات پر غور کرتے ہیں، جب ہم اس کے افضال کو اپنے اندر جذب کرتے ہیں، جب ہم اس کی محبت کے سچے دل سے طالب بن جاتے ہیں تو رفتہ رفتہ ہم اسی طرح محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ کے قریب جا پہنچتے ہیں جس طرح ہم اپنی محبت سے خدا کے قریب پہنچ جاتے ہیں کیونکہ ہم جانتے ہیں ہم خدا نما بھی ہو سکتے ہیں اور ہم محمد نما بھی ہو سکتے ہیں.اگر ہم نہ خدا نما ہو سکتے ہیں، نہ محمد نما بن سکتے ہیں تو ہم نے اس غرض کے لیے کوشش ہی کیوں کرنی ہے.پھر تو ہمیں نہ نماز کی ضرورت ہے، نہ روزہ کی ضرورت ہے، نہ حج کی ضرورت ہے ، نہ زکوۃ کی ضرورت ہے، نہ کسی اور حکم پر عمل کرنے کی ضرورت ہے.جب دروازہ بند ہو چکا، جب خدا تعالیٰ کے قرب کا راستہ مسدود ہو چکا تو کون احمق ہے جو اس بند دروازہ کے سامنے بیٹھے گا اور اس مسدود راستہ پر چلنے کی کوشش کرے گا.یقینا کوئی نہیں جو اس علم کے بعد سچی کوشش کر سکے اور اس علم کے بعد صحیح جدوجہد کرے.لیکن خدا ہمیں کہہ رہا ہے کہ تم کوشش کرو.خدا ہمیں نمازوں کا بھی حکم دے رہا ہے ، وہ ہمیں روزوں کا بھی حکم دے رہا ہے، وہ ہمیں زکوۃ کا بھی حکم دے رہا ہے، وہ ہمیں حج کا بھی حکم دے رہا ہے اور اس طرح بتا رہا ہے کہ تمہیں ان عبادات کے نتیجہ میں وہ سب کچھ مل سکتا ہے جو پہلے لوگوں کو ملا.مگر مسلمان ہمیں یہ بتاتے ہیں کہ ان نمازوں اور ان روزوں کے بعد تمہیں وہ مقام کبھی حاصل نہیں ہو سکتا جو پہلے لوگوں نے حاصل کیا.گو یا خدا ہمیں ہدایت تو یہ دیتا ہے کہ تم نمازیں پڑھو اور ابو بکر جیسی پڑھو.مگر کہتا یہ ہے کہ میں بناؤں گا

Page 109

$1944 109 محمود تمہیں ابوہریرہ جیسا بھی نہیں.خدا ہمیں ہدایت تو یہ دیتا ہے کہ تم روزے رکھو اور ابو بکر جیسے رکھو بلکہ ابو بکر ” کیا رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جیسے رکھو کیونکہ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ 3 تمہارے لیے ہمارا رسول نمونہ ہے.مگر دیکھنا میں تمہیں ایک ادنیٰ.ادنیٰ صحابی کا مقام بھی نہیں دوں گا.تم ز کو تیں دو اور صحابہ بلکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مقرب صحابہ معیسی زکو میں دو مگر یا درکھنا تمہیں اس زمانہ کے ایک ادنی مسلمان جیسا درجہ بھی ہمارے ہاں حاصل نہیں ہو گا.آخر کونسی عقل ہے جو اس تضاد اور تخالف کو تسلیم کر سکتی ہے.اللہ تعالیٰ نے ہمیں بھی وہی دل دیا ہے جو اس نے صحابہ کو دیا، اللہ تعالیٰ نے ہمیں بھی وہی دماغ دیا ہے جو اس نے صحابہ کو دیا، اللہ تعالیٰ نے ہمارے دلوں میں بھی اپنے لقاء اور وصال کی وہی تڑپ رکھی ہے جو اس نے صحابہ کے دلوں میں رکھی.ہمارے قلوب میں بھی اُس نے یہ تمنا اور خواہش پیدا کر دی ہے کہ ہم عرش پر پنجہ ماریں اور خدا کی محبت بھری گود میں جا ہنچیں.مگر دوسری طرف لوگ یہ بتاتے ہیں کہ خدا نے آسمان پر فرشتے بٹھارکھے ہیں کہ دیکھنا ایک ادنیٰ سے ادنی صحابی بھی جس مقام پر پہنچا ہو اس سے تم نے ان لوگوں کو نیچا ہی رکھنا ہے.اوپر اٹھا کر نہیں لے جانا.یہ خدا ہوا ایا نعوذ باللہ ہوا ہوا.یہ سب غلط اور تباہ کن خیالات ہیں ہے جو مسلمانوں میں رائج ہو چکے ہیں.حقیقت یہ ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابہ اللہ تعالیٰ کے قرب کے جس مقام پر پہنچے ہیں اس مقام پر آج بھی ہم پہنچ سکتے ہیں.بلکہ اگر ہم کوشش کریں تو یہی صحابہ سے بھی آگے بھی نکل سکتے ہیں.آخر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے صحابہ سے آگے نکل کر دکھا دیا یا نہیں؟ صحابہ تو کیا آپ گزشتہ انبیاء سے بھی افضل ہیں اور صحابہ ن یقیناً در جہ کے لحاظ سے آپ سے بہت نیچے ہیں.بلکہ آپ کا مقام تو وہ ہے کہ آپ فرماتے ہیں.صحابہ سے ملاجب مجھ کو پایا 4 یعنی جو شخص میرے ہاتھ پر بیعت کرتا اور بچے دل سے میری جماعت میں شامل ہو جاتا ہے وہ ویسا ہے جیسے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ تھے.گویا آپ سے تعلق پیدا کر کے انسان آج بھی صحابہ جیسا بن سکتا ہے.

Page 110

خطبات محمود 110 $1944 پھر آپ کے بعد اب خدا نے مجھے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا مثیل قرار دیا ہے.پس جس طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر ایمان لانے والے صحابہ سے جا ملے اسی طرح وہ لوگ جو آج یا آئندہ میرے نقش قدم پر چلیں گے ، جو میری اتباع میں اسلام اور احمدیت میں کے لیے ویسی ہی قربانیاں کریں گے جیسے صحابہ نے کیں، چونکہ میں مسیح موعود کا مثیل ہوں اس لیے وہ مجھ پر ایمان لانے اور میرے نقش قدم پر چلنے کی وجہ سے مسیح موعود کے صحابہ کے ہے مثیل ہو جائیں گے اور وہ چونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کے مثیل ہیں اس لیے بھی اس مماثلت کی وجہ سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ میں شامل ہو جائیں یہ گے.وہ لفظ جو عام طور پر لوگوں کو دھو کا میں ڈالتا ہے اور جسے سن کر وہ سمجھتے ہیں کہ اب شاید یہ مقام حاصل نہیں ہو سکتا، صحابی کا لفظ ہے.صحابی کے معنے ہوتے ہیں صحبت یافتہ شخص.پس وہ کہتے ہیں جو شخص رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ہوا ہی نہیں اور جسے آپ کی صحبت نصیب ہی نہیں ہوئی وہ صحابی کس طرح کہلا سکتا ہے.چاہے اپنے دل میں وہ کتنا ہی اخلاص رکھتا ہو ہم اُسے صحابی نہیں کہیں گے کیونکہ اُسے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت نصیب نہیں ہوئی.اس کے لیے یاد رکھو کہ دو باتیں ایسی ہیں جن سے اس وسوسہ کا ازالہ ہو سکتا ہے.جہاں تک صحابیت کے درجے اور مقام کا تعلق ہے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے آئندہ آنے والے لوگوں کے لیے اس وجہ سے کہ ان کے دلوں میں پژمردگی پیدا نہ ہو اخوان کا لفظ استعمال کیا ہے.چنانچہ حدیثوں میں آتا ہے ایک دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میرے بعد لوگ پیدا ہوں گے وہ میرے اخوان ہوں گے.صحابہ نے کہا یارسول اللہ ! کیا وہ ا خوان ہوں گے ہم اخوان نہیں ہیں؟ حالانکہ دین کے لیے قربانیاں ہم کر رہے ہیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بے شک تم دین کے لیے قربانیاں کر رہے ہو مگر تم میرے صحابی ہو اور وہ لوگ میرے اخوان ہوں گے.5 گویا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان لوگوں کے متعلق جو بعد میں پیدا ہونے والے تھے اور جن پر صحابی کا لفظ ظاہراً اطلاق نہیں پاسکتا تھا اخوان کا لفظ استعمال کیا ہے اور فرمایا ہے کہ تم تو میرے صحابہ ہو مگر وہ ہے

Page 111

$1944 111 خطبات محمود میرے بھائی ہوں گے.اور بھائی اور صحابی میں یہ فرق ہوتا ہے کہ صحابی وہی ہوتا ہے جسے صحبت میسر آئے.لیکن بھائی وہ بھی ہو سکتا ہے جس کی دوسرے بھائی نے شکل بھی نہ دیکھی ہو اور جو اس کی پیدائش سے پہلے فوت ہو چکا ہو یا اسکی موت کے بعد پیدا ہوا ہو.پس رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرما کر کہ آئندہ پیدا ہونے والے میرے بھائی ہوں گے اس امر کی طرف اشارہ فرما دیا کہ جہاں تک محبت اور پیار اور موانست کے تعلقات کا سوال ہے وہ لوگ کم نہیں ہوں گے.جیسے بھائی اپنے دوسرے بھائی سے محبت اور پیار کے تعلقات رکھتا ہے اسی طرح اُن کے اور میرے تعلقات ہوں گے.لیکن چونکہ وہ میری مجلس میں نہیں بیٹھے ہوں گے ہے اس لیے انہیں صحابہ نہیں کہا جائے گا، اخوان کہا جائے گا.پس وہ لوگ جن کے دلوں میں خلش پید اہوتی ہے کہ کاش !ہم رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ہوتے اور ہم صحابی ہے کہلاتے انہیں یاد رکھنا چاہیے کہ ان کے لیے اس خلش اور بے کلی کی کوئی وجہ نہیں.و بے شک صحابی نہ کہلا سکیں مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اخوان کہلا سکتے ہیں.کیونکہ یہ وہ نام ہے جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خود اُن کو دیا.پس وہ کہہ سکتے ہیں کہ ہم رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بھائی ہیں.اور یہ بھائی کا لفظ کوئی معمولی نہیں بلکہ یہ وہ لفظ ہے جسے سن کر صحابہ کو تکلیف ہوئی اور انہوں نے کہا یا رسول اللہ ! کیا ہم آپ کے بھائی نہیں ہیں؟ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم میرے صحابہ ہو کیونکہ تم میرے زمانہ میں ہو اور تمہیں میری صحبت نصیب ہوئی ہے.بھائی وہ ہوں گے جو بعد میں آئیں گے اور جنہیں اس جسمانی قرب کا موقع نہیں ملا ہو گا.پس صحابہ کا جو مقام ہے وہ یقیناً بعد میں آنے والوں کو حاصل ہو سکتا ہے.فرق صرف یہ ہے کہ وہ لوگ صحابی کہلائے اور بعد میں آنے والوں کا نام رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھائی رکھا ہے.اور جب تم رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بھائی بن گئے تو تمہارے دلوں میں یہ خلش کس طرح رہ سکتی ہے کہ کاش ہمیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابہ بننے کا موقع میسر آتا.تم رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے جسمانی طور پر نہیں ملے مگر تم وہ ہو جنہیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا بھائی قرار دیا ہے اور دنیا میں بھائی کا ہی ایک رشتہ ہے جو

Page 112

خطبات م محمود 112 $1944 بغیر دوسرے بھائی سے ملنے کے بھی قائم ہو جاتا ہے لیکن صحابی کارشتہ ملے بغیر قائم نہیں ہوتا.پھر ایک اور بات بھی مد نظر رکھنی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں جو دین دیا ہے وہ ایک زندہ دین ہے.اگر ہم اس دین اور مذہب پر چل کر خدا سے مل سکتے ہیں جو وراء الوڑی ہستی ہے تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کیوں نہیں مل سکتے.لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم چونکہ فوت ہو چکے ہیں اس لیے اب ہم ان سے مل نہیں ہے سکتے.حالانکہ ہم تو اس بات کے قائل ہی نہیں کہ جو شخص فوت ہو جاتا ہے وہ بالکل مٹ جاتا ہے.ہم تو اس بات کے قائل ہیں کہ موت کے بعد انسانی روح زندہ رہتی ہے اور اُسے اگلے جہان میں ایک اور جسم دے دیا جاتا ہے.جب ہمارا یہ اعتقاد ہے تو کیا دنیا میں کوئی بھی شخص ایسا ہے جو یہ خیال کرتا ہو کہ انسانی روح خدا تعالیٰ سے زیادہ لطیف ہے.بہر حال ہر شخص کو ماننا پڑے گا کہ انسانی روح خواہ اس کے جسم کے مقابلہ میں کتنی ہی لطیف ہو اللہ تعالیٰ سے زیادہ لطیف نہیں ہو سکتی.بلکہ اس کے مقابلہ میں نسبتاً کثیف اور مادہ کے زیادہ قریب ہوتی ہے.پھر جب ہم اس بات کے قائل ہیں کہ ہم خدا سے مل سکتے ہیں، اس کا قرب حاصل کر سکتے ہیں، اس کے کلام سے لطف اندوز ہو سکتے ہیں، وہ ہماری دعائیں سنتا ہے، ہماری حاجات کو پورا کرتا ہے، ہماری ضروریات کا کفیل بنتا ہے تو یہ کیسا بیہودہ خیال ہے کہ چونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فوت ہو چکے ہیں اس لیے اب ہمیں آپ کی صحبت میسر نہیں آسکتی.رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی روح تو الگ رہی ہم تو کافروں کی ارواح کے متعلق بھی اس بات کے قائل ہیں کہ وہ زندہ ہیں.پس جب ہر کافر کی روح زندہ ہے ، ہر مومن کی روح زندہ ہے تو ہم کس طرح مان سکتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی روح نَعُوذُ بِاللهِ فنا ہو چکی ہے اور جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی روح آج بھی زندہ ہے تو یقینا آپ کا قرب بہت زیادہ ممکن ہے.اللہ تعالیٰ کی صفات کی حقیقت اور اس کی گنہ کو پانا بہت مشکل ہوتا ہے اور انسان بہت بڑی جدوجہد ، بہت بڑی قربانیوں اور بہت بڑی عبادتوں کے بعد اپنے درجہ کے مطابق اس چیز کو حاصل کرتا ہے.لیکن محمد صلی اللہ علیہ وسلم چونکہ انسانوں میں سے ہی ایک انسان ہیں اس لیے آپ کو سمجھنا اور آپ کی سکنہ کو پانا خدا تعالیٰ کی صفات کو سمجھنے اور اس کی سکنہ کو پانے سے

Page 113

$1944 113 خطبات محمود بہت زیادہ آسان ہے.پس اگر انسان سچا اخلاص اور سچی محبت رکھنے والا ہو تو اُسے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت کرنے اور آپ کی صحبت سے فائدہ اٹھانے اور آپ سے باتیں کرنے کے اس دنیا میں بھی کئی مواقع نصیب ہو سکتے ہیں اور جب بھی اسے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت نصیب ہو جائے گی یا آپ سے کوئی کلام سننے کی اسے می سعادت حاصل ہو جائے گی وہ اُسی وقت آپ کا صحابی بن جائے گا.جیسے امت محمدیہ میں بہت سے لوگ ایسے گزرے ہیں جنہوں نے کہا کہ ہمیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت نصیب ہوئی اور آپ نے ہم سے باتیں کیں وہ لوگ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بھائی بھی ہے تھے مگر چونکہ محبت کے جوش کی وجہ سے وہ چاہتے تھے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہے زیارت بھی ان کو نصیب ہو جائے اس لیے خدا نے ان کی خواہش کو پورا کر دیا اور انہیں ہے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ملاقات میسر آگئی اور وہ علاوہ بھائی ہونے کے آپ کے صحابی بھی ہو گئے.یہ خواہش آج بھی پوری ہو سکتی ہے بلکہ آج اس خواہش کے پورا ہونے کے سامان بدرجہ اتم موجود ہیں.اس لیے کہ پچھلے لوگوں کو خدا تعالیٰ کے قرب میں بڑھنے کا وہ موقع نہیں ملا جو آج لوگوں کو مل رہا ہے.آج خدا تعالیٰ کا زندہ کلام حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر نازل ہوا ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام وہ انسان ہیں جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قرب میں اس قدر بڑھے کہ آپ اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک ہو گئے.آپ سے پہلے اسلام پر جو مُردنی چھائی ہوئی تھی اور جس طرح اسلام کا تجزیہ ان کے ہاتھوں ہو رہا تھا اُس کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ مسلمانوں کی وحدت مٹ چکی تھی ان کا اتحاد کسی ایک نقطہ مرکزی پر نہیں رہا تھا بلکہ ہندوستان میں مسلمانوں کا کوئی فرقہ کام کر رہا تھا تو ایران میں مسلمانوں کا کوئی اور فرقہ اپنے رنگ میں اسلام کی خدمت سر انجام دے رہا تھا، عرب میں مسلمان کسی اور فرقہ کی طرف اپنے آپ کو منسوب کر رہے تھے تو شام اور مصر کے مسلمان کسی اور فرقہ میں داخل تھے حالانکہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم صرف ہندوستان کے رسول نہیں تھے ، صرف ایران کے رسول نہیں تھے ، صرف عرب کے رسول نہیں تھے ، صرف شام اور مصر کے رسول نہیں تھے بلکہ ساری دنیا کے رسول تھے.جس طرح رب العالمین کی حکومت

Page 114

$1944 114 خطبات محمود.سب جہان پر ہے اُسی طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کے دائرہ سے دنیا کا کوئی خطہ اور دنیا کا کوئی ملک باہر نہیں.ہر اسود و احمر کی طرف رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث ہوئے اور ایک ہی دین لے کر آئے.لیکن مسلمان پیج اعوج کے زمانہ میں اس طرح ہے گروہ در گروہ ہو چکے تھے کہ وہ وحدت جو مسلمانوں کی امتیازی شان تھی، بالکل مٹ گئی تھی.تب خدا نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو مبعوث فرمایا اور آپ کے ذریعہ ہمیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ سے وہ مشابہت تائمہ عطا کر دی جو پہلے لوگوں کو حاصل نہیں تھی.پہلے انسان اگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کرنا چاہتا تھا تو کوئی چشتیوں کے میں سے ہو کر کرتا تھا، کوئی نقشبندیوں میں سے ہو کر کرتا تھا، کوئی سہر وردیوں میں سے ہو کر کرتا تھا، کوئی قادریوں میں سے ہو کر کرتا تھا.اور یہ تو چند بڑے بڑے فرقوں کے نام ہیں ان کے کے علاوہ اور ہزاروں روحانی فرقے مسلمانوں میں پیدا ہو چکے تھے.لیکن آج حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنے ہاتھ کے ذریعہ پھر ساری دنیا کو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے کے نیچے جمع کر دیا ہے.پس آج جو شخص رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کرتا ہے وہ براہ راست محمدی سلسلہ میں داخل ہو کر آپ سے محبت کرتا ہے.وہ قادری سلسلہ میں داخل ہو کر آپ سے محبت نہیں کرتا، وہ چشتی سلسلہ میں داخل ہو کر آپ سے ہے محبت نہیں کرتا، وہ نقشبندی سلسلہ میں داخل ہو کر آپ سے محبت نہیں کرتا، وہ سہر وردی فرقہ میں داخل ہو کر آپ سے محبت نہیں کرتا بلکہ محمد ی سلسلہ میں داخل ہو کر آپ سے محبت کرتا ہے.پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بنی نوع انسان کو پہلے لوگوں سے بہت زیادہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب کر سکتے اور انہیں آپ کی صحبت سے مستفیض ہونے کے مواقع بہم پہنچا سکتے ہیں.پہلے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں لے جانے والے ملی حضرت معین الدین صاحب چشتی یا حضرت سید عبد القادر صاحب جیلانی وغیرہ تھے.مگر آج محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں لے جانے کے لیے مشیل محمد موجود ہے اور یہ صاف بات ہے کہ جہاں مثیل محمد پہنچ سکتا ہے وہاں محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا کوئی جزوی نمونہ نہیں پہنچ ہے سکتا.پس اللہ تعالی نے ہمیں وہ زمانہ عطا فرمایا ہے جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ہے

Page 115

خطبات محمود 115 $1944 ہے کلی نمونہ ہم میں آیا.اور جہاں رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا کلی نمونہ ہمیں پہنچا سکتا.وہاں یقیناً کوئی اور انسان ہمیں نہیں پہنچا سکتا.پس آج رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا قرب حاصل کرنے، آپ کی صحبت میں بیٹھنے اور رو یاد کشوف میں آپ کو دیکھنے کے پہلے سے ہے بہت زیادہ مواقع میسر ہیں.پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے بعد بھی اللہ تعالیٰ نے اس سلسلہ فیوض کو بند نہیں کر دیا.بلکہ جیسا کہ پیشگوئی کی گئی تھی، اللہ تعالیٰ نے پھر اس زمانہ میں مجھے آکر بتادیا کہ آنَا الْمَسِيحُ الْمَوْعُوْدُ مَثِيْلُهُ وَخَلِيْفَتُ میں مسیح موعود کا مثیل اور اس کا خلیفہ اور جانشین ہوں.گویا وہی نام جو مسیح موعود کو دیا گیا تھا اب مجھے دے کر جماعت کو اور زیادہ بشارت دے دی گئی کہ ابھی تمہارے لیے خدا تعالیٰ کے قرب میں ترقی کرنے کے لیے ویسی ہی آسانیاں ہیں جیسی آسانیاں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں تمہیں میسر تھیں.تم آج بھی اسی طرح خدا تعالیٰ کے قرب میں ترقی کر سکتے اور محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا قرب حاصل کر سکتے ہو جس طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں تم حاصل کیا کرتے تھے.کیونکہ مسیح موعود کا ایک مثیل اور بروز تم میں موجود ہے.مگر یہ مقام انسان کو حاصل نہیں ہو سکتا جب تک وہ اپنی قربانیوں سے اس بات کو ثابت نہیں کر دیتا کہ وہ واقع میں اس مقام اور انعام کا مستحق ہے.محض اس بات پر خوش ہو جانا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام آئے اور ہم آپ کے صحابی بن گئے یا مصلح موعود آیا اور ہم اس کی پر ایمان لا کر صحابہ مسیح موعود کے مثیل بن گئے تمہیں حقیقہ اس مقام بلند کا مستحق نہیں بنا سکتا جب تک تم اپنی قربانیوں اور اپنی عبادتوں اور اپنی نیکیوں میں ویسی ہی ترقی نہ کرو جیسی یہ لوگوں نے کی.ہاں! اگر تم ویسی ہی قربانیاں کرو، ویسی ہی عبادتیں بجالاؤ.ویسی ہی نیکیوں کے حصول کی جدوجہد کرو جس طرح کہ پہلے بزرگ کیا کرتے تھے تو پھر یقین رکھو کہ وہ منزل جو انہیں دس قدم چل کر ملی تمہیں چھ قدم چل کر مل جائے گی.مگر بہر حال تمہیں چلنا ضرور پڑے گا.پھر جس سہولت اور آسانی کے ساتھ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ والوں کو صحابیت کا مقام حاصل ہو گیا اُسی کے قریب قریب سہولت اور آسانی کے ساتھ تمہیں بھی یہ مقام حاصل ہو جائے گا.مگر بہر حال یہ مقام تمہیں اس وقت ملے گا جب تم صحابہ ہے

Page 116

خطبات محمود 116 $1944 کے قریب قریب اپنی قربانیوں کو پہنچا دو گے.درمیانی زمانہ میں جب نورِ نبوت سے بہت بُعد پیدا ہو چکا تھا، مسلمانوں کو بہت بڑی مشکلات اور بہت بڑی کوششوں کے بعد یہ مقام حاصل ہوا اور وہ بھی انفرادی طور پر صرف چند مسلمانوں کو کیونکہ ان کے لیے کوئی ایسا سہارا نہ تھا جس پر ٹیک لگا کر وہ سہولت سے ان مدارج قرب کو طے کر سکتے.لیکن اس زمانہ میں خدا تعالیٰ نے تمہارے لیے کئی قسم کے سہارے بہم پہنچائے ہوئے ہیں اور تم ان سہاروں کے ذریعہ آسانی ہے ، ان مقامات قرب کو حاصل کر سکتے ہو.مگر قربانیاں بہر حال ضروری ہوں گی.پس اس بات پر خوش مت ہو کہ تمہارے لیے صحابیت کا دروازہ آج بھی کھلا ہے.اس دروازے کا کھلنا تمہارے لیے عمل کا موجب ہونا چاہیے.ستی اور غفلت کا موجب نہیں ہونا چاہیے.پہلے لوگوں پر نا امیدی کی وجہ سے شستی طاری ہوئی اور اب ہو سکتا ہے کہ کچھ لوگ محض اس امید می کی وجہ سے کہ دروازہ تو کھلا ہے جب چاہیں گے داخل ہو جائیں گے سستی اور غفلت میں مبتلا ہو جائیں اور اس دروازے کا کھلنا ان کے لیے کسی خیر اور برکت کا موجب نہ ہو سکے.پس یہ مقام تو تمہیں مل تو سکتا ہے مگر ملے گا قربانیوں کے بعد ہی.انہی قربانیوں کے بعد جو صحابہ نے کیں اور جن کا ذکر سن کر آج بھی انسانی بدن کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں.وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان لائے اور کچھ ایسے عشق اور محبت سے بھر گئے کہ اپنی تمام میں جائیدادیں انہوں نے چھوڑ دیں اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صحبت سے مستفیض ہے ہونے کے لیے مدینہ جا پہنچے اور آپ کے ارد گرد جمع ہو گئے.تم غور کرو! آج کتنے لوگ ہیں جو اس قسم کی قربانی کرنے کے لیے تیار ہیں.اسلام کی فتح اور کامیابی کے لیے کئی قسم کی جنگوں کی ضرورت ہے اور کئی لڑائیاں ایسی ہے ہیں جن کو آج بھی لڑا جائے تو اسلام کے لیے فتح کا ایک نیا باب کھل سکتا ہے.مگر چونکہ یقین ہے نہیں ہو تا کہ اگر جماعت کو اس لڑائی کا حکم دیا گیا تو وہ پوری طرح اس کے لیے تیار بھی ہو گی یا نہیں، وہ اعلانِ جنگ کا جو اب اپنے شاندار نمونہ سے دے گی یا سستی اور غفلت کا نمونہ دکھائے گی اس لیے ان جنگوں کو دوسرے وقت پر ملتوی کر دیا جاتا ہے تاکہ جماعت سے اُس وقت ان قربانیوں کا مطالبہ ہو جب اس کا قدم مضبوط ہو اور اس میں اضمحلال کے آثار نہ ہوں.

Page 117

خطبات محمود 117 $1944 اس طرح وقت گزرتا جا رہا ہے اور اسلام کی فتح کا دن ہم سے دور ہو تا جا رہا ہے.تم میں سے کوئی شخص کہہ سکتا ہے کہ اسے ذاتی طور پر جماعت کے متعلق یہ تسلی ہے کہ اسے جن قربانیوں کے لیے بھی کہا جائے ، وہ ان کے لیے پوری طرح تیار ہو گی.مگر مجھے چونکہ پوری تسلی نہیں کہ ہم جماعت میں قربانی کا پورا مادہ پایا جاتا ہے اس لیے جتنا جتنا زمانہ دیکھا جاتا ہے اس کے مطابق جماعت کے سامنے اعلان کر دیا جاتا ہے.اور بعض دفعہ ایسا بھی ہوتا ہے جب اللہ تعالیٰ زبر دستی کسی قربانی کا اعلان کرا دیتا ہے اُس وقت وہ اس مطالبہ کو پورا کرنے کا خود ذمہ دار ہوتا ہے، ہمیں فکر نہیں ہوتا کہ یہ مطالبہ کسی طرح پورا ہو گا.بہر حال میں دیکھتا ہوں کہ جماعت میں ابھی ایسی تبدیلی پیدا نہیں ہوئی اور جماعت ایسے مقام پر نہیں پہنچی کہ اسے جو بھی حکم دیا ہے جائے اسے ماننے کے لیے وہ تیار ہو جائے.بعض قسم کی قربانیاں ایسی ہیں جن کی روح جماعت میں پیدا ہو چکی ہے اور جماعت ان کے متعلق بے شک اچھا نمونہ دکھا رہی ہے.گو اس میں بھی ابھی کمزوری پائی جاتی ہے اور ابھی اس میں بھی ترقی کی گنجائش ہے لیکن باقی قربانیاں تو ایسی ہیں ہے کہ ابھی جماعت کا قدم ان کی طرف اٹھا ہی نہیں.حالانکہ ایمان ایک عمارت کا نام ہے.ایک ایسی عمارت کا جس کی شرقی جانب بھی درست ہو، جس کی غربی جانب بھی درست ہو، جس کی شمالی جانب بھی درست ہو، جس کی جنوبی جانب بھی درست ہو ، جس کی چھت بھی درست ہو، جس کی کھڑکیاں بھی درست ہوں، جس کے روشندان بھی درست ہوں، جس کے دروازے بھی درست ہوں، جس کا فرش بھی درست ہو اور جس کا پلستر بھی درست ہو.اسی طرح جب تک دین کے سارے حصے درست نہ ہوں اور جب تک سارے معاملات میں کوئی شخص اعلیٰ نمونہ پیش نہ کر رہا ہو وہ کامل مومن نہیں کہلا سکتا اور جب کامل مومن نہیں کہلا سکتا تو صحابی کس طرح کہلا سکتا ہے.صحابی ایک روحانی درجے کا نام ہے.صحابی وہ ہے جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صحبت میں بیٹھا اور جس نے اپنے دین کے سارے حصوں کو مکمل کر لیا.پس صحابی وہ ہے کہ جس سے اگر جان کی قربانی کا سوال ہو تو وہ اس کے لیے تیار ہو ، اگر مال کی قربانی کا سوال ہو تو وہ اس کے لیے تیار ہو ، اگر وقت کی قربانی کا سوال ہو تو وہ اس کے لیے تیار ہو، اگر جذبات کی قربانی کا سوال ہو تو وہ اس کے لیے تیار ہو، اگر وطن کی ہے

Page 118

خطبات محمود 118 $1944 قربانی کا سوال ہو تو وہ اس کے لیے تیار ہو.غرض جس جس قربانی کا سوال ہو وہ اس کے کرنے کے لیے پوری طرح تیار ہو.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابہ کو دیکھ لو، انہوں نے کس طرح رات اور دن قربانیاں کیں اور اسلام کی اشاعت کے لیے اپنی جانوں اور اپنے مالوں کو قربان کر دیا.ہم اپنے زمانہ میں دیکھتے ہیں، بڑی بڑی زبر دست باتیں بیان کی جاتی ہیں، بڑی بڑی تقریریں کی جاتی ہیں، بڑی بڑی علمی اور روحانی باتیں بتائی جاتی ہیں.لوگ ان میں باتوں کو سنتے ہیں.سر بھی ہلاتے ہیں، سُبْحَانَ الله بھی کہتے جاتے ہیں، زندہ باد کے نعرے بھی ان کی زبانوں سے سے جاتے ہیں.مگر ہم سمجھ رہے ہوتے ہیں کہ جب یہ لوگ اپنے ہی گھروں کو جائیں گے تو یہ سبق ان کو بھولا ہوا ہو گا.اور اگر ان سے پوچھو کہ کیا کہا گیا تھا تو یہی جواب دیں گے کہ ہمیں تو یاد نہیں صرف اتنا پتہ ہے کہ خدا اور رسول کی باتیں بتائی گئی تھیں.ا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ایک دفعہ عورتوں میں ان کی تربیت کے لیے مختلف لیکچر دینے شروع کیے اور کئی دن تک آپ پیکچر دیتے رہے.ایک دن آپ نے فرمایا ہے کہ ہمیں عورتوں کا امتحان بھی لینا چاہیے تا معلوم ہو کہ وہ ہماری باتوں کو کہاں تک سمجھتی ہیں.باہر سے ایک خاتون آئی ہوئی تھیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ان سے پو چھا بتاؤ ہے مجھے آٹھ دن لیکچر دیتے ہو گئے ہیں میں نے ان لیکچروں میں کیا بیان کیا ہے ؟ وہ کہنے لگی یہی خدا اور رسول کی باتیں آپ نے بیان کی ہیں اور کیا بیان کیا ہے.آپ کو اس جواب سے اس می قدر صدمہ ہوا کہ آپ نے بیچروں کے اس سلسلہ کو بھی بند کر دیا اور فرمایا ہماری عورتوں میں ابھی اس قسم کی غفلت پائی جاتی ہے کہ معلوم ہوتا ہے ابھی وہ بہت ابتدائی تعلیم کی محتاج ہیں، اعلیٰ درجہ کی روحانی باتیں سننے کی ان میں استعداد ہی نہیں.یہی بعض مردوں کا حال ہے.اس کے مقابلہ میں صحابہ کو دیکھو، وہ کس طرح رات اور دن رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی باتوں کو سنتے اور پھر ان پر عمل کرنے کے لیے کھڑے ہو جاتے.انہوں نے آپ کی چھوٹی سی چھوٹی اور بڑی سے بڑی بات کو لیا اور دنیا میں نہ صرف اس کو پھیلا دیا بلکہ اس پر عمل کر کے بھی دکھا دیا.میں یہاں لاہور میں مغرب کے بعد روزانہ بیٹھتا ہوں اور مجلس میں کئی قسم کی باتیں

Page 119

$1944 119 خطبات محمود رض ہوتی رہتی ہیں.اگر لاہور کے لوگ میری ان باتوں کو اُسی طرح یاد رکھیں جس طرح صحابہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی باتیں تعہد کے ساتھ یاد رکھا کرتے تھے تو میں سمجھتا ہوں یہی باتیں ان کی زندگی کی کایا پلٹ کر رکھ دیں.لیکن اگر اسی وقت پو چھا جائے کہ کل میں نے کیا کیا با تیں بیان کی تھیں؟ تو کئی لوگ کھڑے ہو کر کہہ دیں گے ہمیں اُس وقت مزا تو بڑا آیا تھا مگر یہ یاد نہیں رہا کہ آپ نے کیا کہا تھا.اگر یہاں کی جماعت صحابہ کے طریق پر عمل ہے کرے اور نہ صرف باتیں سنے بلکہ ان کو یاد کرے اور دوسروں تک ان باتوں کو پہنچائے تو ان باتوں سے جماعت کو غیر معمولی فائدہ پہنچ سکتا ہے.آجکل ایک نوجوان میری ان باتوں کو لکھ بھی رہا ہے اور اس طرح وہ باتیں محفوظ ہو رہی ہیں.اگر مجھ سے نظر ثانی کرانے کے بعد " تفہیمات لاہور یہ " کے نام سے یا اور کسی مناسب نام سے ان تمام باتوں کو ایک رسالہ کی صورت میں شائع کر دیا جائے اور لاہور کے دوست ہی اس کے اخراجات برداشت کریں تو میں سمجھتا ہوں یہاں کی جماعت کی تربیت اور اس کی ترقی کے لیے یہ ایک نہایت ہی مفید چیز ہو گی.مگر صرف اتنا ہی کافی نہیں کہ ان باتوں کو ایک رسالہ کی صورت میں شائع کر دیا جائے بلکہ یہ بھی ضروری ہے کہ جماعت ان باتوں کو یاد ہیں کرے.میں یہ نہیں کہتا کہ وہ اس کے الفاظ یاد کریں، میں یہ کہتا ہوں کہ وہ اس کے مضمون اور اس کی روح اور اس کے مفہوم کو یاد کریں اور نہ صرف خود پڑھیں بلکہ دوسروں کو بھی ہے پڑھائیں اور جب بعد میں لاہور میں اور لوگ ایسے آئیں جو ان مجالس میں شامل نہیں ہوئے تو ان کو وہ تمام باتیں ایک ایک کر کے سنائیں جس طرح صحابہ ایک دوسرے کو حدیثیں سنایا کرتے تھے.یہ طریق ہے جس پر عمل کر کے وہ فائدہ اٹھا سکتے ہیں.خالی باتیں سننا اور ان پر عمل نہ کرنا کوئی مفید نتیجہ پیدا نہیں کرتا.پس لاہور والوں کو چاہیے ، وہ " تفہیمات لاہور یہ " کے نام سے ان تمام باتوں کو ایک کتابی صورت میں شائع کر دیں اور پھر اس کا با قاعدہ درس دیں اور ایک دوسرے کو بتائیں کہ میں نے کیا کہا ہے.اور پھر اس امر کی نگرانی کریں کہ لوگوں نے ان باتوں کو یاد کیا ہے یا نہیں کیا.اگر یہاں کی جماعت کے دوست ایسا کریں تو یقیناً ان کی زندگیوں میں ایک نمایاں تبدیلی پیدا ہو جائے گی.دنیا میں کوئی انسان ایسا نہیں ہوتا جو ہے

Page 120

خطبات مج محمود 120 $1944 کسی قیمتی چیز کو ضائع کر دے.کیا تم نے کبھی سنا کہ کوئی شخص کہہ رہا ہو کہ فلاں جگہ سونے کی بارش ہوئی تھی مگر میں نے کہا سونے کو کیا اکٹھا کرنا ہے اگر ضائع ہوتا ہے تو بے شک ہو جائے.اگر کوئی شخص ایسا کہے تو سب اس پر نہیں گے کہ یہ کیسا احمق ہے جس کے سامنے سونے کی بارش ہوئی اور اس نے اس کو اکٹھا نہ کیا.اگر واقع میں سونے کی بارش ہوئی تھی تو اس کا یہ بھی تو فرض تھا کہ اس سونے کو اکٹھا کرتا اور اس کو اہمیت دیتا.اسی طرح دینی باتیں سن کر میں صرف یہ کرنا کہ کسی بات پر فنس دینا اور کسی پر افسوس کا اظہار کر دینا یہ ہر گز کسی عقلمند انسان من کا طریق نہیں ہو سکتا.صحابہ یہ نہیں کرتے تھے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی کسی ہے بات پر واہ وا کہہ دیں، کسی بات پر افسوس کا اظہار کر دیں اور پھر خالی ہاتھ اپنے گھروں کو چلے ہے جائیں.وہ ایک ایک بات کو سنتے اور اس نیت اور اس ارادہ کے ساتھ سنتے تھے کہ ہم اس پر عمل کریں گے.یہی طریق اگر لاہور والے اختیار کریں تو بہت کچھ فائدہ اٹھا سکتے ہیں.پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کتا ہیں ہیں ان کو پڑھنا اور ان سے فائدہ اٹھانا بھی جماعت کے اہم ترین فرائض میں سے ہے.مگر یادر کھو! صرف لذت حاصل کرنے کے لیے تم ایسا مت کرو.بلکہ فائدہ اٹھانے اور عمل کرنے کی نیت سے تم ان امور کی طرف من توجہ کرو.تم لذت حاصل کرنے کے لیے سارا قرآن پڑھ جاؤ تو تمہیں کچھ فائدہ حاصل نہیں ہو گا.لیکن اگر تم اللہ تعالی کی صفات پر غور کرتے ہوئے اس کی محبت کے جوش میں ایک دفعہ می پر بھی سُبحان اللہ کہہ لو تو وہ تمہیں کہیں کا کہیں پہنچا دے گا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ایک دفعہ مجلس میں بیان فرمایا کہ بعض دفعہ ہم تسبیح کرتے ہیں تو ایک ہے تی سے ہی ہم کہیں کے کہیں جا پہنچتے ہیں.میں اس مجلس میں موجود نہیں تھا.ایک نوجوان ہے نے یہ بات سنی تو وہ وہاں سے اٹھ کر میرے پاس آیا اور کہنے لگا خبر نہیں آج حضرت صاحب نے یہ کیا کہا ہے.وہ صاحب تجربہ نہیں تھا مگر میں اس عمر میں بھی صاحب تجربہ تھا.حالانکہ میں میری عمر اس وقت سترہ اٹھارہ سال کی تھی.میں نے جب اس سے یہ بات سنی تو میں نے کہا ہاں ! ایسا ہوتا ہے.وہ کہنے لگا کس طرح؟ میں نے کہا کئی دفعہ میں نے دیکھا ہے کہ میں نے اپنی زبان سے ایک دفعہ سُبحَانَ اللہ کہا تو مجھے یوں معلوم ہوا جیسے میری روحانیت اُڑ کر

Page 121

$1944 121 محمود کہیں سے کہیں جا پہنچی ہے.وہ یہ سنتے ہی نہایت تحقیر سے کہنے لگا لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللهِ.اس کی وجہ یہی تھی کہ اس نے کبھی سنجیدگی سے سُبحَانَ اللہ کے مضمون پر غور ہی نہیں کیا تھا.اسے سارا سارا دن سُبحان اللہ کہہ کر کچھ نہیں ملتا تھا.مگر میں اپنے ذاتی تجربہ کی وجہ سے جانتا تھا کہ کئی دفعہ ایسا ہوا کہ جب میں نے سُبحَانَ اللہ کہا تو مجھے یوں محسوس ہوا کہ پہلے میں اور تھا اور اب میں کچھ اور بن گیا ہوں.دیکھو! رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھی اس مضمون کو کس عمدگی کے ساتھ بیان کیا ہے.حالانکہ میں نے اُس وقت تک بخاری نہیں پڑھی تھی مگر میرا تجربہ صحیح تھا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں كَلِمَتَانِ حَبِيْبَتَانِ إِلَى الرَّحْمَنِ خَفِيفَتَانِ عَلَى النِّسَانِ دو کلمے ایسے ہیں کہ رحمن کو بہت پیارے ہیں.خَفِيْفَتَانِ عَلَى اللِّسَانِ زبان پر بڑے ہلکے ہیں.انسان ان الفاظ کو نہایت آسانی کے ساتھ نکال سکتا ہے کوئی بوجھ اسے محسوس نہیں ہوتا.ثَقِيلَتَانِ فِی الْمِیزَانِ.لیکن قیامت کے دن جب اعمال کے وزن کا سوال آئے گا تو وہ بڑے بھاری ثابت ہوں گے اور جس پلڑے میں ہوں گے اسے بالکل جھکا دیں گے.وہ کیا ہیں ؟ سُبْحَانَ اللهِ وَ بِحَمْدِهِ سُبْحَانَ اللهِ الْعَظِیمِ.مجھے ان کلمات کے پڑھنے کی بڑی عادت ہے اور میں نے دیکھا ہے بعض دفعہ ایک ایک مرتبہ ہی ان کلمات کو کہنے سے میری روح اُڑ کر کہیں کی کہیں جا پہنچتی ہے.تو اصل چیز یہی ہے کہ ہم سنجیدگی سے اللہ تعالیٰ کے احکام پر غور کریں اور ان پر عمل کرنے کی کوشش کریں.تم صحابہ کبھی خواہش سے نہیں بن سکتے.تم میرے متعلق خواہ کس قدر سمجھو کہ مجھے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے مشابہت ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مشابہت ہے، تمہیں خالی ایسا اعتقاد صحابیت کے مقام تک نہیں پہنچا سکتا.صحابہ تم تبھی بنو گے جب تم اپنی قوتِ عملیہ سے کام لو گے اور دین کی باتوں پر عمل کرنے کے لیے کھڑے ہو جاؤ گے.کیا یہ ممکن ہے کہ تمہیں ایک پیسہ ملے اور تم اسے چھوڑ دو؟ یا کوئی شخص تسلیم کر سکتا ہے کہ تمہیں راستہ میں پڑی ہوئی ایک سوئی میں ملے اور تم اسے نہ اٹھاؤ؟ جب تم ایک چیز لینے کے لیے بھی تیار ہو جاتے ہو ، جب تم ایک سوئی ہیں اٹھانے کے لیے بھی تیار ہو جاتے ہو تو یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ راک فیلر کا خزانہ ہے

Page 122

خطبات محمود 122 $1944 تمہارے سامنے پیش کیا جائے اور تم اس کو ر ڈ کر دو.اور اگر تم اس کو ر ڈ کر دیتے ہو تو اس کے سوائے اس کے اور کوئی معنی نہیں کہ تمہیں اعتبار ہی نہیں کہ جو چیز تمہارے سامنے پیش کی جا رہی ہے وہ ایک خزانہ ہے.نہ صرف تمہارے لیے ، نہ صرف تمہاری نسلوں کے لیے بلکہ قیامت تک آنے والے تمام لوگوں کے لیے بھی.پس اپنی روحانی بینائی کو درست کرو اور دین کا خزانہ جو تمہارے سامنے ہے اُس کی عظمت اور اہمیت کو سمجھو.پھر تمہیں وہ انعامات بھی حاصل ہو جائیں گے جو تم سے پہلے لوگوں کو حاصل ہوئے.میں نے بتایا ہے تمہارے لیے ایک ضروری امر یہ ہے کہ یہاں مجلس میں جو باتیں ہوتی ہیں، ان کو سنو.پھر سُن کر یا د رکھو اور یادر رکھنے کے بعد عمل کرنے کی کوشش کرو.بلکہ جب تمہیں موقع ملے ان باتوں کو رسالہ کی صورت میں چھپوا دو.لاہور کے آدمیوں کا فرض ہونا چاہیے کہ وہ خصوصیت سے اس کے کی مضامین کو یاد رکھیں، دوسروں کو سنائیں اور بار بار اُن کو اپنے مطالعہ میں لائیں.اس طرح دینی امور کی اہمیت بھی ان کے دلوں میں پیدا ہو جائے گی اور صحابہ کے مقام تک پہنچانے والے ہیں اعمال بھی ان سے صادر ہونے شروع ہو جائیں گے.اگر یہ بات نہیں تو یوں ہی مجلس میں بیٹھ جانا اور باتوں سے مزہ حاصل کرنا اور عمل کے لیے کوئی قدم نہ اٹھانا ایک لغو چیز ہے اور یہ داستانِ امیر حمزہ سننے والی بات ہے.دتی اور لکھنو میں داستانِ امیر حمزہ لوگ بڑے شوق سے سنتے بلکہ بعض دفعہ رات کے دو دو بجے تک سنتے رہتے ہیں.وہ اسے سنتے وقت سُبحَانَ اللہ بھی کہتے ہیں، اسْتَغْفِرُ الله بھی کہتے ہیں.ان کے دل بھی اُس وقت جھوم رہے ہوتے ہیں مگر جب وہاں سے اٹھتے ہیں تو بالکل خالی ہاتھ ہوتے ہیں، نہ اُن کے دلوں پر کوئی اثر ہوتا ہے اور نہ ان می کے جوارح پر کوئی اثر ہوتا ہے.پس جب تک دین کی باتوں پر سنجیدگی کے ساتھ غور نہ کیا جائے اُس وقت تک ہے خدا تعالیٰ کا قرب حاصل نہیں ہو سکتا، اس وقت تک محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا قرب حاصل نہیں ہو سکتا، اس وقت تک حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا قرب حاصل نہیں ہو سکتا بلکہ وہ تو وفات یافتہ ہیں.اُس وقت تک ہماری مجلس میں بیٹھنے والے بھی ہم سے کوئی فائدہ حاصل نہیں کر سکتے.وہ بظاہر ہماری مجلس میں بیٹھے ہوئے ہوتے ہیں لیکن وہ ہم سے

Page 123

محمود خطبات محمد 123 $1944 ہزاروں میل دور ہوتے ہیں.کیونکہ ان کے دل ہم سے دور ہوتے ہیں اور ہم میں اور اُن میں کوئی روحانی اتصال نہیں ہوتا.پس یہ رستے کھلے ہیں اور ہمیشہ کھلے رہیں گے.جو شخص خدا تعالیٰ کے قرب کے ان راستوں کو بند قرار دیتا ہے وہ نہایت ہی ظالم انسان ہے.وہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دشمن ہے، وہ خدا کا دشمن ہے، وہ انسانیت کا دشمن ہے، وہ ایمان کا دشمن ہے.مگر اس رستے کے کھلے ہونے کے یہ معنی نہیں ہیں کہ تمہیں آپ ہی آپ تمام مقامات قرب حاصل ہو جائیں گے.رستہ بے شک کھلا ہے مگر یہ قربانیوں کا رستہ ہے.اس راستہ پر چلے بغیر تمہیں کچھ بھی حاصل نہیں ہو سکتا.میں دیکھتا ہوں کہ ادب جو دین کا اہم ترین حصہ ہے وہ ابھی تک ہماری جماعت کے بعض لوگوں میں نہیں پایا جاتا.بعض دفعہ مجلس میں جب کوئی غیر مشخص سوال کر رہا ہو تو اسے میں ایسا جواب دینا پڑتا ہے جو اپنے اندر مذاق کا رنگ رکھتا ہے.تم کسی تاریخ سے یہ ثابت نہیں کر سکتے کہ ایسے موقع پر صحابہ قہقہہ مار کر ہنستے ہوں.مگر اپنی مجلس میں میں نے دیکھا ہے جب کسی مخالف کو کوئی ایسا جواب دیا جاتا ہے تو لوگ قہقہہ مار کر ہنس پڑتے ہیں اور وہ شخص شر مندہ ہے ہو جاتا ہے.حالانکہ وہ ہمارا مہمان ہوتا ہے اور اُس کا ادب ہم پر واجب ہوتا ہے.بے شک ایسی حد تک جو جائز ہو اس جواب سے لذت اندوز ہونا درست ہوتا ہے.مگر کوئی ایسا طریق جائز نہیں جو آداب مجلس کے بھی خلاف ہو اور مہمان کی دل شکنی کا بھی موجب ہو.اسی طرح اور بہت سی باتیں ہیں جن کی طرف ہماری جماعت کو توجہ کرنے کی ضرورت ہے.مگر وہ ایک دن میں آنے والی نہیں.جو کچھ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ نے آپ کی مجلس میں بیٹھ کر سیکھا خد اتعالیٰ نے اُن تمام باتوں کو ہم پر کھول دیا ہے، اس کی حقیقت اُس نے ہمیں سمجھادی ہے اور اُن امور پر عمل کر کے یقیناً ہمیں صحابہ کا مقام حاصل ہو سکتا ہے.بلکہ سچ تو یہ ہے کہ بعض صحابہ سے بھی بڑا درجہ حاصل کرنا چاہیں تو حاصل کر سکتے ہیں.بلکہ ہم اپنے درجہ میں ترقی کر کے وہ مقام بھی حاصل کر سکتے ہیں جب ہم رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بروز بن جائیں.بلکہ اگر کوئی شخص مجھ سے پوچھے کہ کیا محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی کوئی شخص بڑا درجہ حاصل کر سکتا ہے؟ تو میں کہا کرتا ہوں خدا نے اس مقام کا دروازہ بھی بند نہیں کیا.ہے

Page 124

خطبات مج محمود 124 $1944 مگر تم میرے سامنے وہ آدمی تو لاؤ جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے مقامات قرب کے حصول میں زیادہ سرعت اور تیزی کے ساتھ اپنا قدم اُٹھانے والا ہو.ہو سکتا اور چیز ہے اور ہونا اور چیز ہے.قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کر کے فرماتا ہے کہ ما اللہ تو عیسائیوں سے کہہ دے کہ اگر خدا کا بیٹا ہو تا تو میں سب سے پہلے اس کی عبادت کرنے والا ہوتا.8 اب اس کا یہ مطلب تو نہیں کہ واقع میں خدا کا کوئی پینا ہے.اسی طرح ہم یہ نہیں کہتے ہے کہ دنیا میں کوئی شخص ایسا ہے جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنے درجہ میں آگے نکل گیا.ہم یہ کہتے ہیں کہ اگر محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی شخص بڑھنا چاہے تو بڑھ سکتا ہے.خدا نے اس میں دروازے کو بند نہیں کیا.مگر عملی حالت یہی ہے کہ کسی ماں نے کوئی ایسا بچہ نہیں جنا اور نہ قیامت تک کوئی ایسا بچہ جن سکتی ہے جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑھ سکے.وہ شخص جو روحانی میدان میں لنگڑا ہے، جو دو قدم بھی صحیح طور پر نہیں چل سکتا قرب کا میدان تو اس کے لیے بھی کھلا ہے مگر وہ کہاں برق رفتار انسانوں کا مقابلہ کر سکتا ہے.محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تو وہ انسان ہیں جو ایک سیکنڈ میں کروڑوں میں خدا تعالیٰ کے قرب میں بڑھ جاتے ہیں اور لوگوں کی یہ حالت ہوتی ہے کہ وہ سالوں میں بھی ایک منزل طے نہیں کر سکتے.اُن کا اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا مقابلہ ہی کیا ہے ؟ پس محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑھ سکنا اور چیز ہے اور بڑھ جانا اور چیز ہے.محمد صلی اللہ علیہ وسلم جس شان اور شوکت کے ساتھ خدا تعالیٰ کے قرب میں بڑھے ہیں، اُس شان اور شوکت کے ساتھ کوئی شخص بڑھ کر دکھائے گا تو پھر یہ سوال بھی پیدا ہو سکتا ہے.مگر جب کوئی شخص ہمیں ایسا نظر نہیں آتا جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ مقامات قرب طے کر سکا ہو یا آئندہ کر سکتا ہو تو بہر حال محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی سب سے افضل رہے.وہی سب کے سردار اور وہی سب کے آقار ہے.لیکن اس میں کوئی شبہ نہیں کہ صحابہ سے تو یقیناً انسان زیادہ قرب حاصل کر سکتا ہے اور یقیناً ان سے بڑھ سکتا ہے.آخر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ان سے بڑھ کر دکھا دیا یا نہیں؟ مگر یہ مقام محض منہ کی لاف و گزاف سے حاصل نہیں ہو سکتا.تم منہ.ہزار بار مچا کے مارتے جاؤ اور کہو میں تین کھا رہا ہوں، میں پلاؤ کھا رہا ہوں، میں زردہ کھا رہا ہوں

Page 125

$1944 125 محمود تو تمہیں منجن اور پلاؤ اور زردہ کا مزہ نہیں آسکتا.تمہارا پیٹ ان خالی مچاکوں سے بھر نہیں سکتا.اسی طرح تم محض خواہش سے صحابیت کا درجہ حاصل نہیں کر سکتے.تم یہ مقام حاصل کر سکتے ہو مگر اس طرح کہ عمل کرو اور ایسا عمل کرو کہ وہ تمہاری رگ رگ اور نس نس میں سمویا ہے جائے.تم نماز پڑھو تو سنوار کر پڑھو.تم الْحَمْدُ للہ کہو تو تمہیں یہ معلوم نہ ہو کہ تم ایک لفظ اپنی زبان سے نکال رہے ہو.بلکہ تمہیں یوں معلوم ہو کہ تم الْحَمْدُ لِلہ کا مضمون کھا رہے ہو ، تم رب العلمین کہو تو تمہیں یوں معلوم ہو کہ تم خالی الفاظ اپنی زبان سے نہیں نکال رہے بلکہ رَبُّ الْعلمينَ کا لطیفہ 2 کھا رہے ہو.پھر رحمانیت کا ذکر آئے تو تمہاری یہی کیفیت ہو.رحیمیت کا ذکر آئے تو تمہاری یہی کیفیت ہو.پھر بے شک تم یقین رکھ سکتے ہو کہ تمہارا خدا تمہیں بھی پہلے لوگوں کے انعامات سے حصہ دے گا اور وہ تمہارے ساتھ بخل نہیں کرے گا.پس یہ مت خیال کرو کہ ایسا نہیں ہو سکتا.ہو سکتا ہے اور یقیناً ہو سکتا ہے.بلکہ اس زمانہ میں صحابہ کے بعد کے زمانہ سے زیادہ سے زیادہ سہولت سے یہ مقام تم حاصل کر سکتے ہو.کیونکہ یہ وہ زمانہ ہے جسے خدا نے اپنی برکتوں کے لیے مخصوص کر لیا.یہ وہ زمانہ ہے جس کے متعلق قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَ إِذَا الْجَنَّةُ ازْلِفَتْ - 10 جنت اُس زمانہ میں قریب کر دی جائے گی.اس کا یہ مطلب نہیں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ سے بھی جنت لوگوں کے زیادہ قریب کر دی جائے گی.بلکہ مطلب یہ ہے کہ فیج اعوج کے زمانہ میں لوگوں کو اپنے خدا کو پانا اور اس کے قرب میں بڑھنا بہت مشکل تھا.مگر مسیح موعود کے زمانہ میں یہ تمام مشکلات آسان ہو جائیں گی.رستہ بتانے والے موجود ہوں گے، برکات و انوار کا مشاہدہ کرنے والے وجود ان کے سامنے ہوں گے اور ان کے بتائے ہوئے طریقوں پر عمل کر کے وہ زیادہ سرعت سے جنت حاصل کریں گے.چنانچہ موجودہ نشان، جو خدا تعالیٰ نے مصلح موعود کی ہے پیشگوئی کے سلسلہ میں ظاہر کیا اس کو دیکھ لو کہ کس طرح اس نشان کے بعد تمہارے لیے جنت اور زیادہ قریب کر دی گئی ہے.لوگ اس تقریب پر بڑی خوشی کا اظہار کر رہے ہیں.مگر جہاں تک لفظی خوشی کا تعلق ہے مجھے اس سے کیا فائدہ حاصل ہو سکتا ہے.لیکن جہاں تک ہے حقیقی خوشی کا تعلق ہے اس کے بعد آپ لوگوں کی ذمہ داریاں بڑھ جاتی ہیں، کم نہیں ہو تیں.

Page 126

$1944 126 خطبات محمود یہ تازہ نشان خدا نے لاہور میں ظاہر کیا ہے.پس جس طرح مکہ اور مدینہ کے رہنے والوں پر اسلام کی طرف سے خاص ذمہ داریاں عائد ہو گئی تھیں اُسی طرح میں سمجھتا ہوں اس انکشاف کے بعد جو لاہور میں مجھ پر ہوا، یہاں کی جماعت کی ذمہ داریاں پہلے سے بہت زیادہ بڑھ گئی ہیں.میں نے جہاں تک غور کیا ہے اس انکشاف کا مجھ پر سفر میں ہو نا جہاں اس لحاظ ضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اس پیشگوئی سے مشابہت رکھتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی یہ پیشگوئی سفر کی حالت میں ہوشیار پور میں فرمائی اور مجھ پر بھی اس پیشگوئی کے مصداق ہونے کا انکشاف سفر کی حالت میں ہی ہو اوہاں آج اللہ تعالیٰ نے مجھے ایک اور بات بھی سمجھائی ہے.بات یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام لاہور میں فوت ہوئے تھے اور آپ کے لاہور میں فوت ہونے کی وجہ سے لوگوں کے دلوں میں لاہور کے متعلق ایک قسم کا بعض پایا جاتا تھا.یوں تو ہر شخص نے فوت ہونا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام بھی فوت ہو گئے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی فوت ہو گئے.لیکن جب کوئی شخص اپنے لیے گھر پر فوت ہوتا ہے تو اس کے متعلقین کو گو طبعی طور پر رنج ہوتا ہے مگر ان کے دلوں میں کوئی حسرت پیدا نہیں ہوتی.لیکن اگر کوئی شخص سفر کی حالت میں فوت ہو جائے تو اس کے متعلقین میں کے دل ساری عمر اس حسرت و اندوہ سے پُر رہتے ہیں کہ کاش وہ سفر کی حالت میں فوت نہ ہو تا.وہ خیال کرتے ہیں کہ شاید اس کے علاج میں کو تاہی ہوئی ہو ، شاید اس کی تیمار داری میں کمی رہ گئی ہو ، شاید وہاں کی آب و ہوا اُسے موافق نہ آئی ہو یا شاید کوئی اور وجہ ہو گئی ہو.پس ساری عمر اُن کے دلوں سے ایک آہ اُٹھتی رہتی ہے اور انہیں یہ تصور کر کے بھی تکلیف ہوتی ہے کہ اُن کا کوئی عزیز فلاں سفر پر گیا تو پھر وہ واپس نہ آیا بلکہ اُسی جگہ فوت ہو گیا.وہ خیال کرتے ہیں کہ شاید اگر وہ سفر پر نہ جاتا تو نہ مرتا.اسی طرح میں سمجھتا ہوں جماعت کے دلوں پر یہ ایک بہت بڑا بوجھ تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام لاہور میں آئے اور اس جگہ آکر فوت ہو گئے.خود لاہور کی پیشانی پر بھی ایک بدنما داغ تھا مگر جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو الہام کے ذریعہ خبر دی گئی تھی کہ "لاہور میں ہمارے پاک ممبر موجود ہیں" اور یہ کہ "وہ نظیف مٹی کے ہیں".11 خدا تعالیٰ نے ان

Page 127

خطبات محمود 127 $1944 پاک ممبروں کی دعاؤں کو سن کر لاہور کی پیشانی سے اس داغ کو ہمیشہ کے لیے دور کر دیا اور مسیح موعود کو لاہور میں ہی دوبارہ زندہ کر دیا.اب لاہور والے کہہ سکتے ہیں کہ گو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ہم میں فوت ہوئے مگر وہ دوبارہ زندہ بھی ہمارے شہر میں ہی ہوئے ہیں.پس وہ جو لاہور والوں پر ایک داغ تھا خدا نے اس انکشاف کے ذریعہ اس داغ کو دھو دیا اور گومنہ سے احمدی اس بات کا اظہار نہیں کرتے تھے مگر لاہور کا ذکر آنے پر اُن کے دل ضرور بے چین ہو جاتے تھے کہ یہ کیسا شہر ہے جس میں خدا کا مسیح چند روز کے لیے گیا اور فوت ہو گیا.پس یہ داغ خدا نے لاہور والوں سے اب دور کر دیا ہے.مگر اس چیز سے وہ ذاتی طور پر اُس وقت فائدہ اٹھا سکتے ہیں جب اُن میں عمل کی قوت موجود ہو.میں نے بتایا ہے کہ سنجیدگی سے دین کی باتوں پر عمل کرنے کے مواقع ہماری جماعت می کے لیے پوری طرح میسر ہیں.اگر خدا نے ان کو وہ زمانہ نہیں دکھایا جو مسیح موعود کا زمانہ تھا تو ب اس دوسرے موقع سے فائدہ اُٹھا کر وہ اپنی زندگیوں میں بہت کچھ تبدیلی پیدا کر سکتے ہیں.مگر فائدہ اُٹھانا یا نہ اٹھانا تمہارا اپنا کام ہے.یہ تمہارے اپنے اختیار میں ہے کہ تم صحابہ جیسا بنو یا اُن سے بھی آگے نکل جاؤ.گویا جہاں تک کوشش اور جد وجہد کا تعلق ہے وہ تمہاری طرف سے ہونی چاہیے اور جہاں تک انعام اور مقام کا سوال ہے وہ خدا کی طرف سے آئے گا.مگر یہ دوسرا مرحلہ اس وقت آسکتا ہے جب پہلا مرحلہ طے کر لو.اگر تم پہلے مرحلہ کو طے کر لو تو یہ ہوہی ہے نہیں سکتا کہ خدا اپنے وعدہ کو پورا نہ کرے اور تمہیں صحابہ کا مقام عطا نہ کرے.اگر تم چو تھا حصہ صحابی بننے کی کوشش کرو تو یہ تو ہو سکتا ہے کہ خدا تمہیں اپنے فضل سے آدھا صحابی بنا دے ہیں مگر یہ نہیں ہو سکتا کہ وہ تمہیں چوتھے حصہ سے ایک انچ بھی کم رکھے.اگر تم آدھا صحابی بننے کی کوشش کرتے ہو تو یہ تو ہو سکتا ہے کہ خدا تمہیں پورا اصحابی بنا دے مگر یہ کبھی نہیں ہو سکتا کہ وہ تمہیں آدھے حصہ سے ایک سوت بھی کم رکھے.وہ تمہیں بڑھا کر تو اپنا انعام دے سکتا ہے مگر وہ یہ نہیں کر سکتا کہ تمہاری کوشش کے بدلہ میں تمہیں کم بدلہ دے.ہمارا خدا بخیل نہیں ہے، ہمارا خدا کنجوس اور ممسک نہیں ہے.محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی برکات دنیا میں جاری ہیں اور جاری رہیں گی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی برکات دنیا میں جاری ہیں

Page 128

$1944 128 خطبات محمود اور جاری رہیں گی.قیامت تک اس سلسلہ فیوض کو کوئی شخص بند نہیں کر سکتا.قیامت تک اللہ تعالیٰ کے قرب کے اس دروازے کو کوئی شخص مسدود قرار نہیں دے سکتا.خدا تعالیٰ کا قرب حاصل کرنا، محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا صحابی اور آپ کا بھائی بننا یہ سب رستے کھلے ہیں اور ہمیشہ کھلے رہیں گے.ان رستوں کو بند کرنے والے ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مر جائیں گے مگر انہیں ناکامی اور نامرادی کے سوا اور کچھ حاصل نہیں ہو گا.ہمارا خد از ندہ ہونے کے لیے بے تاب ہے اور وہ زندہ ہو کر رہے گا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی روح زندہ ہونے کے لیے تڑپ رہی ہے اور وہ زندہ ہو کر رہے گی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی روح دنیا میں جلوہ نما ہونے کے لیے بے قرار ہے اور وہ جلوہ نما ہو کر رہے گی اور دنیا کی کوئی طاقت اس الہی مشیت کو ظاہر ہونے سے روک نہیں سکتی".(الفضل 16 جون 1944ء) 1 : مسلم كتاب البر والصلة باب النهى عن قول هلك الناس میں الفاظ اس طرح ہیں: " هَلَكَ النَّاسُ فَهُوَ أَهْلَكَهُمْ" - 2 :وَمَا اَرْسَلْنَكَ إِلَّا كَافَةً لِلنَّاسِ بَشِيرًا وَنَذِيرًا وَ لَكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ (السبا: 29) 3 :الاحزاب:22 4 : در ثمین اُردو نظم "بشیر احمد شریف احمد اور مبارکہ کی آمین" 5 : مسلم كتاب الطهارة باب استحباب اطالة الغرّة والتحجيل في الوضوء 6 : الفضل یکم فروری 1944ء 7 بخاری کتاب الدعوات باب فضل التسبيح 8 : قُلْ إِنْ كَانَ لِلرَّحْمَنِ وَلَدٌ فَأَنَا أَوَّلُ الْعُبِدِينَ (الزخرف: 82) 2 : لطیفہ : اچھی چیز.شگوفہ.چٹکلا (فیروز اللغات اردو جامع) 10: التكوير:14 11: تذکرہ صفحہ 402 طبع چہارم

Page 129

$1944 129 7 خطبات محمود لاہور میں مصلح موعود کی پیشگوئی کے متعلق انکشاف اور جماعت احمد یہ لاہور کی ذمہ داریوں میں اضافہ " (فرموده 18 فروری 1944ء بمقام لاہور ) تشہد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: اللہ تعالیٰ جب کسی جگہ پر لعنت ڈالتا ہے تو وہ لعنت اس وقت ہی ختم نہیں ہو جاتی ہے بلکہ وہ چلتی چلی جاتی ہے جب تک کہ خدا تعالیٰ کی کوئی اور رحمت اُس لعنت کو دھو نہیں دیتی.اور جب اللہ تعالی کسی جگہ پر کوئی رحمت نازل کرتا ہے تو وہ رحمت چلتی چلی جاتی ہے ختم نہیں ہے ہوتی جب تک کہ انسان اپنے اعمال سے اس رحمت کے استحقاق کو کھو نہیں بیٹھتے اور خدا تعالیٰ کی ناراضگی دوبارہ اس جگہ پر نازل نہیں ہو جاتی.چنانچہ ہم دیکھتے ہیں رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ایک دفعہ ایک غزوہ پر جارہے تھے کہ ہجر شہر آپ کے راستہ میں آیا اور اس جگہ پر ہے تھوڑی دیر کے لیے آپ نے پڑاؤ کیا تو پڑاؤ کی صورت دیکھ کر صحابہ نے اپنے اپنے آٹے نکالے اور گوندھ کر روٹی پکانے کی فکر میں ہوئے.جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُن کو آٹا گوندھتے اور روٹی پکانے کی فکر کرتے دیکھا تو آپ گھبرا گئے اور آپ نے اپنے صحابہ کو

Page 130

$1944 خطبات محمود 130 مخاطب کرتے ہوئے فرمایا جلدی اپنی سواریوں پر چڑھ جاؤ اور اپنے آٹے پھینک دو کیونکہ اس صحاب وہ جگہ خدا کا غضب نازل ہوا تھا.وہ لوگ جن پر غضب نازل ہوا تھا مر گئے.جس شہر پر نازل ہوا تھا اُجڑ گیا.سالوں کے بعد سال اور صدیوں کے بعد صدیاں گزرتی چلی گئیں مگر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو اب بھی اُس مقام پر عذاب نازل ہوتا نظر آرہا تھا.آپ نے نہ صرف بہ کو وہاں سے جلدی نکل جانے کا ارشاد کیا بلکہ ساتھ ہی مسلمانوں کی دولت کا ایک حصہ یعنی وہ آٹا جو انہوں نے روٹی پکانے کے لیے گوندھا تھا اسے بھی آپ نے پھینکنے کا حکم دیا اور فرمایا کہ اس جگہ کے پانی سے گوندھا ہوا آٹا کھانا بھی تمہارے لیے جائز نہیں ہے.1 حضرت خلیفہ اول کے متعلق مجھے یاد ہے وہ عبدالحکیم مرتد پٹیالوی سے جس احمد کی تھا بہت محبت کیا کرتے تھے اور وہ بھی آپ سے بہت تعلق رکھتا تھا.یہاں تک کہ جب اُس نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی مخالفت کی تو اُس وقت بھی اُس نے یہی لکھا کہ آپ کی جماعت میں سوائے مولوی نورالدین صاحب کے اور کوئی نہیں جو صحابہ کا نمونہ شخص بے شک ایسا ہے جو جماعت کے لیے قابل فخر ہے.عبدالحکیم پیٹیالوی نے ایک تفسیر بھی لکھی تھی اور اُس میں بہت کچھ حضرت خلیفہ اول سے پوچھ کر لکھا تھا.جب عبدا حکیم ہے نے اپنے ارتداد کا اعلان کیا تو میں نے دیکھا، آپ نے گھبر اگر اپنے شاگردوں کا بلایا اور اُن سے فرمایا جاؤ اور جلدی میرے کتب خانہ میں سے عبدا کلیم کی تفسیر نکال دو.ایسا نہ ہو کہ اس کی تھی وجہ سے مجھ پر خدا کی ناراضگی نازل ہو.حالانکہ وہ قرآن کریم کی تفسیر تھی اور اُس کی بہت سی آیات کی تفسیر اس نے خود آپ سے پوچھ کر لکھی تھی.مگر اس وجہ سے کہ اس پر خدا کا غضب نازل ہوا، اُس کی لکھی ہوئی تفسیر کو بھی آپ نے اپنے کتب خانہ سے نکلوا دیا اور اپنے ذوق کے کم مطابق سمجھا کہ یہ کتاب دوسری کتب کے ساتھ مل کر ان کو پلید کر دے گی.یہی حال خدا کی رحمتوں کا ہوتا ہے.مکہ مکرمہ میں خدا نے ایک برکت نازل کی.برکتوں والے چل بسے اور دو ہزار سال کا شرک کا لمبا زمانہ مکہ پر آیا مگر اب بھی هُذَا الْبَلَدِ الْآمِنِینِ 2 کے الفاظ اُس کے متعلق قرآن کریم میں نازل ہو رہے تھے.اب بھی اُس کی عزت کی جاتی تھی، اب بھی اُس کی

Page 131

خطبات محمود 131 $1944 ایسی تھی کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اس مکہ کو خدا نے صرف آج کے دن صرف دو گھڑیوں کے لیے صرف میری خاطر حلال کیا ہے ورنہ اس شہر پر حملہ کرنا اور یہاں کی کسی چیز کو نقصان پہنچانا کسی شخص کے لیے جائز نہیں ہے.دو ہزار سال کے لمبے عرصہ شرک کے بعد بھی مکہ مکرمہ کی تقدیس میں فرق نہیں آیا.دو ہزار سال کے لمبے عرصہ شرک کے بعد بھی مکہ مکرمہ کی عزت اور اُس کے احترام میں فرق نہیں آیا.کیونکہ خدا نے اس کو اپنے عذاب کا شہر قرار نہیں دیا تھا.مدینہ منورہ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رہائش پذیر ہوئے اور وہ قیامت تک منورہ ہی کہلائے گا.کیونکہ خدا تعالیٰ کے آخری نبی اور اس کے محبوب ترین وجو د نے اس جگہ پر بسیرا کیا.گو بعد میں وہاں خرابیاں بھی ہوئیں، وہاں کے لوگ بگڑے بھی، دین کی طرف سے انہوں نے بے رغبتی کا بھی اظہار کیا مگر اللہ تعالیٰ نے اس شہر کو ہمیشہ کے لیے بابر کت کر دیا.تو جب کسی جگہ پر خدا کی طرف سے کوئی رحمت نازل ہوتی ہے تو اس شہر والوں کی ذمہ داریاں اور اُس شہر والوں کی برکات بھی بڑھ جایا کرتی ہیں.سوائے اس کے که قرآن کریم کے اس حکم کے ماتحت کہ ان الله لا يغير ما بقوم حتى يغيروا ما بأنفسهم 23 جب اللہ تعالیٰ کسی قوم پر کوئی فضل نازل کرتا ہے تو جب تک وہ اپنے دلوں کو بگاڑ ہے نہیں لیتے، خدا بھی اپنے سلوک میں بگاڑ پیدا نہیں کرتا.وہ اپنے اعمال میں بگاڑ پیدا کر کے اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کے مورد بن جاتے ہیں.میں سمجھتا ہوں اللہ تعالیٰ نے اپنی کسی حکمت کے ماتحت مجھ پر جو لاہور میں موجودہ انکشاف کیا ہے اُس سے لاہور کی جماعت کی ذمہ داریوں اور ساتھ ہی ان کی امداد کے وعدے کا بھی اللہ تعالیٰ نے اعلان کیا ہے.کیونکہ یہ خدا کی سنت کے خلاف ہے کہ وہ ایک چیز کو اپنے کلام اور اپنی رحمت کے لیے مخصوص کرے اور پھر اُسے یو نہی بھول جائے.لوگ بھول جاتے ہیں لیکن خدا نہیں بھولتا جب تک بندے اُس کو نہیں بھول جاتے.بعض مقامات ایسے ہوتے ہی ہیں جیسے مکہ مکرمہ ہے یا جیسے مدینہ منورہ ہے یا جیسے قادیان ہے کہ یہاں کے رہنے والے اگر خدا کو بھول جائیں تب بھی یہ شہر مغضوب نہیں بن سکتے.وہ ان لوگوں کو تو سزا دے دے گا

Page 132

خطبات محمود 132 $1944 شہروں کی برکتیں واپس نہیں لے گا.لیکن بعض شہر ایسے ہوتے ہیں جن کو عارضی برکتیں مل جاتی ہیں.وہ اگر ان کو دائمی بنانا چاہیں تو دائی بن جاتی ہیں اور اگر ان کو چھوڑ دیں تو وہ ہے چھوٹ جاتی ہیں.ہی ہوا کہ میں دیکھتا ہوں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو یہ الہام بھی یہاں لاہور میں سپردم بتو مایه خویش را تو دانی حساب کم و بیش را 4 یہ الہام در حقیقت آپ کی وفات کی طرف اشارہ کر تا تھا.اللہ تعالیٰ نے آپ کی زبان سے یہ کلمات جاری فرمائے کہ سپر دم بتو مایه خویش را اے خدا! میرے لیے اس دنیا میں تیری مرضی کے مطابق جس قدر رہنا مقدر تھا وہ میں رہ چکا.میری عمر کا جو سرمایہ تھا وہ اب میں تیرے سپر د کر رہا ہوں.تو دانی حساب کم و بیش را تُو چاہے تو میرے اس سرمایہ کو تباہ کر دے اور چاہے تو قائم رکھ.سو اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل اور اپنے کرم سے یہی فیصلہ کیا کہ وہ اس سرمایہ کو قائم رکھے.دشمن نے چاہا کہ وہ اس کے اندر بگاڑ پیدا کر دے مگر وہ ہمیشہ منہ کی کھاتا رہا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام جب فوت ہوئے ہیں میں اُس وقت پاس ہی تھا.میں نے دیکھا کہ بعض احمدی کہلانے والے بھی اُس وقت گھبر اگئے.لاہور کا ہی ایک شخص تھا جو اب فوت ہو چکا ہے بلکہ بعد میں وہ مرتد بھی ہو گیا لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ میں وہ مخلص احمدی میں تھا میں نے دیکھا کہ وہ گھبرایا ہوا کبھی کمرہ کے اندر جاتا تھا اور کبھی باہر نکلتا تھا اور کہتا تھا تیے اب کیا ہو گا؟ اب کیا ہو گا؟ میری عمر اُس وقت انیس سال کی تھی اور میری تعلیم کچھ بھی نہ تھی.جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی وفات کا وقت قریب آیا تو میری منی بیوی اُس سے کچھ دن پہلے مجھ سے اجازت لے کر اپنے والدین سے ملنے کے لیے میکے

Page 133

$1944 133 محمود گئی ہوئی تھیں.والدین کا لفظ صحیح نہیں صرف اُن کی والدہ وہاں تھیں اور وہ اُن سے ملنے کے لیے گئی تھیں.جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی شدت بیماری میں ہمارے نزد یک وقفہ پیدا ہوا اور در حقیقت یہ وہ حالت ہوتی ہے جب مرنے والے کی طبیعت موت کا مقابلہ کر کے تھک جاتی ہے اور بظاہر اطمینان کی حالت نظر آنے لگتی ہے اُس وقت میں وہاں سے چل پڑا تا کہ ان کو لے آؤں.جس وقت میں چلا تھا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی چار پائی اُس کمرہ میں جدھر سے اندر داخل ہوتے ہیں دیوار کے قریب تھی.میں نے زور دے کر اور ہمشکل، کیونکہ عورتیں ایسے مواقع کی اہمیت کو نہیں سمجھ سکتیں اُن کو واپس بلایا.بلکہ مجھے اس وقت ایک حد تک ایسی سختی بھی کرنی پڑی جو میری عام طبیعت کے خلاف تھی.میرے سسرال والوں نے کہا کہ ہم ابھی ان کو نہیں بھیج سکتے کچھ دنوں کے بعد بھیج ہے دیں گے.میں نے اُس وقت، یہاں تک لفظ کہہ دیئے کہ اگر یہ اس وقت میرے ساتھ نہیں جائیں گی تو چونکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام کی حالت نازک ہے میں انہیں وہاں ہے سے طلاق بھیج دوں گا.خیر وہ میرے ساتھ چل پڑیں.جب میں واپس پہنچا تو اُس وقت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے آخری سانحے تھے.میرے دل میں سخت اضطراب تھا کہ میں سمجھتا تھا میری بیوی کے لیے یہ بڑی نحوست کی بات ہو گی اگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی آخری گھڑیوں میں وہ یہاں نہیں ہو گی اور میرے دل میں یہ ڈر تھا کہ میں جو اتنی قربانی کر کے چلا ہوں ایسا نہ ہو کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پیچھے ہی فوت ہو جائیں.جب میں پہنچا ہوں اس وقت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی چار پائی ہے بدل کر دیوار کا جو مقابل کا حصہ تھا وہاں رکھ دی گئی تھی.میں نہیں جانتا کہ ایسا کیوں کیا گیا.ہے بہر حال وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے آخری لمحے تھے اور آپ کے ارد گرد ہے مرد ہی مرد تھے.مستورات وہاں سے ہٹ گئی تھیں.چار پائی کے تینوں طرف مرد کھڑے تھے.میں وہاں جگہ بنا کر آپ کے سرہانے کی طرف چلا گیا یا شاید وہاں نسبتا کم آدمی ہوں.میں میں وہاں کھڑا ہوا اور میں نے دیکھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اپنی آنکھ کھولتے ، ادھر اُدھر پھیرتے اور پھر بند کر لیتے.پھر کھولتے ، اُن کی پتلیاں اِدھر اُدھر مڑتیں اور

Page 134

خطبات محمود.134 $1944 پھر تھک کر آپ اپنی آنکھوں کو بند کر لیتے.کئی دفعہ آپ نے اسی طرح کیا.آخر آپ نے زور لگا کر ، کیونکہ آخری وقت طاقت نہیں رہتی اپنی آنکھ کو کھولا اور نگاہ کو چکر دیتے ہوئے سرہانے کی طرف دیکھا.نظر گھومتے گھومتے جب آپ کی نظر میرے چہرہ پر پڑی تو مجھے اس وقت ایسا کی محسوس ہوا جیسے آپ میری ہی تلاش میں تھے اور مجھے دیکھ کر آپ کو اطمینان ہو گیا.اس کے لیے بعد آپ نے آنکھیں بند کر لیں.آخری سانس لیا اور وفات پا گئے.اس وقت میں نے سمجھا ہے کہ آپ کی نظر مجھ کو ہی تلاش کر رہی تھی اور میں نے اپنے ذہن میں سمجھا کہ میں جو دعائیں کر رہا تھا اُس کا یہ نتیجہ ہے کہ مجھے اللہ تعالیٰ نے توفیق عطا فرما دی کہ میں آخری وقت میں آپ کی آنکھوں کو دیکھ سکوں.آپ کی وفات کے معابعد کچھ لوگ گھبرائے کہ اب کیا ہو گا.انسان انسانوں پر نگاہ کرتا ہے اور وہ سمجھتا ہے کہ دیکھو یہ کام کرنے والا موجود تھا یہ تو اب فوت ہو گیا اب سلسلہ کا کیا بنے گا.جب میں نے اس شخص کو گھبر ائے ہوئے اِدھر اُدھر پھرتے دیکھا.اسی طرح بعض اور لوگ مجھے پریشان حال دکھائی دیئے اور میں نے ان کو یہ کہتے سنا کہ اب جماعت کا کیا حال ہو گا؟ تو مجھے یاد ہے گو میں اُس وقت انیس سال کا تھا مگر میں نے اُسی جگہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے سرہانے کھڑے ہو کر کہا کہ اے خدا! میں تجھ کو حاضر ناظر جان کر تجھ سے سچے دل سے یہ عہد کرتا ہوں کہ اگر ساری جماعت احمدیت سے پھر جائے تب بھی وہ پیغام جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ذریعہ تو نے نازل فرمایا ہے میں اس کو دنیا کے کونہ کونہ میں پھیلاؤں گا.انسانی زندگی میں کئی گھڑیاں آتی ہیں سستی کی بھی، چیستی کی بھی، علم کی بھی، جہالت کی بھی، اطاعت کی بھی، غفلت کی بھی.مگر آج تک میں یہ سمجھتا ہوں کہ وہ میری گھڑی ایسی چستی کی گھڑی تھی، ایسی علم کی گھڑی تھی، ایسی عرفان کی گھڑی تھی کہ میرے جسم کا ہر ذرہ اس عہد میں شریک تھا اور اُس وقت میں یقین کرتا تھا کہ دنیا اپنی ساری طاقتوں اور قوتوں کے ساتھ مل کر بھی میرے اِس عہد اور اس ارادہ کے مقابلہ میں کوئی حقیقت نہیں رکھتی.شاید اگر دنیا میری باتوں کو سنتی تو وہ ان کو پاگل کی بڑ قرار دیتی.بلکہ شاید کیا یقینا وہ اسے جنون اور کی

Page 135

$1944 135 خطبات محمود پاگل پن بجھتی.مگر میں اپنے نفس میں اس عہد کو سب سے بڑی ذمہ داری اور سب سے بڑا فرض سمجھتا تھا اور اس عہد کے کرتے وقت میرا دل یہ یقین رکھتا تھا کہ میں اس عہد کے کرنے میں اپنی طاقت سے بڑھ کر کوئی وعدہ نہیں کر رہا.بلکہ خدا تعالیٰ نے جو طاقتیں مجھے دی ہیں انہی کے مطابق اور مناسب حال یہ وعدہ ہے.میں اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتا ہوں کہ مجھے س نے ہمیشہ ہی اس عہد کے پورا کرنے کی توفیق عطا فرمائی اور جب بھی کوئی ایسا رخنہ جماعت میں پیدا ہونے لگا جس کی وجہ سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی لائی ہوئی تعلیم میں کوئی نقص واقع ہونا تھا تو خدا نے میرے ہاتھ سے اس رخنہ کو بند کرا دیا.دشمن ہمیشہ مجھ پر الزام لگاتا ہے کہ میں نے ایک ایک کر کے حضرت مسیح موعود عليه الصلوۃ والسلام کی تعلیم کو نعوذ باللہ بگاڑ دیا ہے اور میں اپنے دل میں یقین رکھتا ہوں کہ خدا نے ایک ایک کر کے مجھے سچائیوں کے قائم کرنے کا موقع دیا ہے.ایک منٹ کے لیے بھی ہے میں شبہ نہیں کر سکتا کہ مجھ سے ان معاملات میں غلطیاں ہوئی ہیں.بلکہ خواہ مجھے ایک کروڑ زندگیاں دی جائیں اور ایک کروڑ دفعہ مرکز میں پھر اس دنیا میں واپس آؤں تو میں یقین رکھتا ہوں کہ میں پھر بھی اسی طرح ان صداقتوں کی تائید کروں گا جس طرح گزشتہ زندگی میں کر تا رہا ہوں.میرے لیے سب سے بڑا فخر یہی ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی وہ تعلیمیں جنہیں بعض لوگ مٹانے کی فکر میں تھے، جنہیں بعض لوگ دبانے کی فکر میں ہے تھے اللہ تعالیٰ نے اُن کو میرے ذریعہ زندہ کیا اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا صحیح مقام میرے منہ سے ظاہر فرمایا.چیز موجود تھی مگر دنیا اس چیز کو منانے لگی تھی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا ایک الہام ہے اور بار بار کا الہام ہے کہ خدا کا ایک نور آیا لوگوں نے اس کو مٹانا چاہا.مگر اللہ نے اُن کی اِس بات کو ماننے سے انکار کر دیا اور کہا کہ وہ ضرور اس نور کو پورا کر کے چھوڑے گا.وَيَأْبَى اللهُ إِلَّا أَنْ يُتِمَّ نُوْرَكَ اس الہام میں اسی امر کی طرف اشارہ تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تعلیم اور آپ کے درجہ پر لوگوں نے حملہ کرنا تھا.کچھ لوگوں نے اندرونی طور پر اور کچھ لوگوں نے بیرونی طور پر.اللہ تعالیٰ اپنے کام کے لیے آسمان سے نہیں اترتا.وہ اپنے کسی بندے کے ہاتھ کو ہی اپنا ہاتھ ہے

Page 136

خطبات محمود 136 $1944 قرار دیتا اور اپنے کسی بندے کی زبان کو ہی اپنی زبان قرار دیتا ہے.تب اس کا ہاتھ جو کچھ کرتا ہے وہ در حقیقت خدا ہی کرتا ہے اور اس کی زبان جو کچھ کہتی ہے وہ در حقیقت خدا ہی کہہ رہا ہوتا ہے.پس مجھے خوشی ہے کہ اس ہاتھ کے بلند کرنے کے لیے خدا نے اپنے فضل سے مجھے چن لیا اور جو کچھ وہ عرش سے کہہ رہا تھا اُسے اُس نے میرے ذریعہ سے دنیا میں پھیلایا اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تعلیم کو ایسے طور پر قائم کر دیا کہ ان مسائل کے لیے متعلق دشمن اب کسی طرح حملہ نہیں کر سکتا.تیس سال ہو گئے جب سے یہ جنگ شروع ہے بلکہ تیس سال تو میری خلافت کے ہی ہیں اگر حضرت خلیفہ اول کے زمانہ کو بھی شامل کر لیا جائے تو پینتیس چھتیں سال گزر چکے ہیں اِس عرصہ دراز میں کس طرح مڑ مڑ کر دشمن نے حملہ کیا.مگر پھر کس طرح خدا نے اُس کو ناکام و نامراد کیا اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا درجہ قائم ہی رہا.پھر ایک اور فضل یہ ہوا کہ ایسے نازک موقع پر جب ایک فریق تنقیص اور درجہ کی کمی کی طرف اپنا قدم اٹھا رہا ہو دوسرے فریق کے متعلق یہ خطرہ پیدا ہو جاتا ہے کہ وہ مقابلہ میں کہیں مبالغہ اور غلو سے کام لینے نہ لگ جائے.مگر اللہ تعالیٰ نے اس نقص سے بھی ہمیشہ مجھے محفوظ رکھا.حالانکہ جو کام ہمارے سپرد تھا ہو سکتا تھا کہ ہم اس کے کرتے وقت ایسا می درجہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو دے دیتے جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے ہتک کا موجب ہوتا یا خدا کے لیے ہتک کا موجب ہوتا مگر اللہ تعالیٰ نے ہمیشہ میرے قدم کو استوار رکھا اور کبھی کسی کو جرات نہیں ہو سکی کہ میرے ساتھ ہوتے ہوئے وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے درجہ میں کمی کرے یا اللہ تعالیٰ کے درجہ میں کمی کرے.قادیان میں ہی ایک دفعہ کسی نے کہا کہ اب رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی شان میں آگے سے بڑھ کر آئے ہیں.مجھے جب اس بات کا علم ہوا تو میں نے فوراً نوٹس لیا اور ہے اس فقرہ کے کہنے والے کو تیبہ کی کہ ہر چیز کو اس کی اپنی جگہ پر قائم رکھنا ہی دین ہے.جو ہم شخص حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے متعلق ایسے الفاظ استعمال کرتا ہے وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہتک کا ارتکاب کرتا ہے اور اسے قطعاً برداشت نہیں کیا جاسکتا.

Page 137

$1944 137 محمود موعود اسی طرح ایک اور شخص نے ایک دفعہ غلو سے کام لیا اور حضرت سیح.علیہ الصلوۃ والسلام کی نبوت کو اس نے شرعی نبوت کا نام دینا شروع کر دیا.میں نے اس شخص کے خلاف فوراً اعلان کیا اور اس سے قطع تعلق کا حکم دے دیا.وہ سمجھتا تھا کہ شاید احمدی اس کی اس بات سے خوش ہوں گے مگر میں نے اپنی جماعت کو اُس سے تعلق رکھنے سے منع کر دیا.ہاں! پیغامیوں نے اسے اپنے سینہ سے لگالیا.غرض کسی کو موقع نہیں ملا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بالمقابل کھڑا کر سکے اور اللہ تعالیٰ نے اپنے متعلق غیرت میرے دل میں اپنے رسولوں سے بھی زیادہ رکھی ہے اور یہی اصل ایمان ہوتا ہے.ہم کتنا ہی رسولوں سے عشق رکھتے ہوں خدا کا مقام خدا کا ہی ہے.پس جہاں خدا نے مجھے توفیق دی کہ میں اپنے عمل اور اپنی زبان سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے درجہ کو قائم کروں، وہاں اس نے مجھے اس امر کی بھی توفیق عطا فرمائی کہ رات اور دن، سوتے اور جاگتے ایک منٹ اور ایک ساعت کے لیے بھی میں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مقابل کا وجود خیال نہیں کیا.بلکہ ہر حالت میں میں نے یہی سمجھا کہ میں آپ کو وہی ہے جگہ دوں جو ایک استاد کے مقابلہ میں شاگرد کو اور ایک آقا کے مقابلہ میں غلام کو حاصل ہوتی ہے.مگر باوجود اس شدید محبت کے جو مجھے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ہے.چنانچہ جو لوگ میرے خطبات اور تقریریں سنتے ہیں وہ جانتے ہیں کہ مجھ پر کبھی کوئی ایسا وقت نہیں آیا جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی کا کوئی واقعہ میں نے بیان کیا ہو اور رقت سے میر اگلانہ پکڑا گیا ہو.دنیا میں محبتیں ہوتی ہیں کسی وقت کم اور کسی وقت زیادہ.مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مجھے ایسی شدید محبت ہے کہ مجھے اپنی زندگی میں ایک مثال بھی ایسی یاد نہیں کہ میں نے آپ کا ذکر کیا ہو اور مجھے پر رقت طاری نہ ہو گئی ہو اور میر اقلب محبت کی گہرائیوں میں نہ ڈوب گیا ہے ہو.لیکن باوجود اس کے میں نے ایک لمحہ کے لیے بھی محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وجود کو خدا کے مقابلہ میں نہیں رکھا بلکہ ہمیشہ اُس کے چاکروں اور غلاموں کی حیثیت میں ہی آپ کو دیکھا ہے.اور اللہ تعالیٰ نے اپنی محبت میرے دل پر اس طرح ڈال دی ہے کہ وہ ہمیشہ میرے سامنے اُسی طرح آیا ہے جس طرح قُلْ هُوَ اللهُ اَحَدٌ میں اُس کی شان کو بیان کیا گیا ہے.میں نے اس کی

Page 138

خطبات محج محمود 138 $1944 محبت اپنے قلب میں ایسے رنگ میں محسوس کی ہے کہ میں سمجھتا ہوں شاید کیا یقیناً.دنیا کے جو پاگل عاشق ہوتے ہیں وہ بھی اپنے معشوق کا اپنے جسم میں ایسا اثر محسوس نہیں کرتے جیسے اللہ تعالیٰ کے ذکر پر میرے جسم کا ذرہ ذرہ اس کا اثر محسوس کرتا ہے.مجھے یاد ہے میں نے ایک دفعہ رویا میں دیکھا کہ جیسے پہاڑوں میں تلز (TUNNELS) ہوتی ہیں.اسی طرح ایک پہاڑی راستہ ہے جس پر اللہ تعالی کی عاشق ہے روحیں جا رہی ہیں.میں بھی اُن میں شامل ہوں.بہت سے لوگ میرے آگے ہیں اور بہت سے میرے پیچھے ہیں.مگر وہ سب کے سب ایسے ہی ہیں جیسے دیوانہ وار مجذوب ہوتے ہیں.نہ انہیں سر کی فکر ہے نہ پیر کی منہ لباس کی فکر ہے نہ کسی اور چیز کی.ہم سب بڑھتے چلے جارہے ہیں کہ مجھے مے محسوس ہوا ہمارے آگے اللہ تعالیٰ کے فرشتے کچھ شعر پڑھ رہے ہیں.ان کی آواز میں گونج ہے ہے اور وہ بڑی محبت اور جوش کے ساتھ ان شعروں کو پڑھتے جارہے ہیں.ہم اُن کی طرف بڑھتے چلے گئے یہاں تک کہ ہم اس مقام کے قریب پہنچ گئے جہاں سے فرشتوں کے گانے کی آواز آتی رہی تھی اور جو گویا ٹنل (TUNNEL) کا آخری سرا تھا جب ہم وہاں پہنچے تو مجھے وہاں اللہ تعالیٰ کا نور نظر آیا.نہایت تیز روشنی جیسا نور جو تمام اُفق پر چھایا ہوا تھا.اور میں نے دیکھا کہ فرشتے اللہ تعالیٰ کے عرش کے ارد گرد کھڑے اُس سے محبت اور عشق کا اظہار کر رہے ہیں.میں بھی جس طرح دیوانہ انسان اپنا سر مارتا ہے سر مارتے ہوئے وہاں کھڑا ہو گیا اور میں نے یہ شعر پڑھناشروع کیا جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا ہی ہے کہ :.ہیں تری پیاری نگاہیں دلبرا اک تیغ تیز جس سے کٹ جاتا ہے سب جھگڑا غم اغیار کا یہی شعر میں پڑھتا رہا.پڑھتے پڑھتے جب میری آنکھ کھلی تو میں نے دیکھا میں اپنی چار پائی پر لیٹا ہوا یہی شعر پڑھ رہا تھا کہ:.ہیں تری پیاری نگاہیں دلبرا اک تیغ تیز جس سے کٹ جاتا جھگڑا غم اغیار کا

Page 139

$1944 139 محمود تو اللہ تعالیٰ کی محبت سب سے مقدم ہے.ہر شخص جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت میں ایسا دیوانہ ہو جاتا ہے کہ وہ خدا کو بھول جاتا ہے وہ مومن نہیں کافر ہے.ہر شخص جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی محبت میں ایسا دیوانہ ہو جاتا ہے کہ وہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام کو بھول جاتا ہے وہ مومن نہیں کا فر ہے.ہر شخص جو کسی درجہ پر قائم ہے جو شخص اُسے چھوڑتا ہے سوائے اس کے کہ وہ کوئی ایسی غلطی کر بیٹھے جو اجتہاد سے تعلق رکھتی ہو وہ نادان ہے.بلکہ بعض حالتوں میں وہ ایمان سے باہر اور کافر ہے.ہمیں اللہ تعالیٰ سے جو محبت ہے وہ ایسی نہیں کہ ہم لفظوں اور عبارتوں کے پیچھے مرتے ہیں.دنیا میں کئی لوگ ایسے ہوتے ہیں جن کی ساری عمر اس حسرت و افسوس میں ہی گزر جاتی ہے کہ کاش! ہمارا محبوب ہم پر محبت کی ایک نگاہ ہی ڈالتا.پھر کیسا نادان ہے وہ انسان جو کہتا ہے کہ خدا تعالیٰ کی ایک ملاقات سے کیا بتا ہے.جس شخص کے دل میں ایسی ناشکری پائی جاتی ہے اور جو سمجھتا ہے کہ مجھ کو جب تک ساری دنیا کی نعمتیں نہ ملیں میں اُس کی طرف توجہ نہیں کر سکتا.اُسے ساری دنیا سے بڑھ کر کام بھی تو کرنا چاہیے.یہ ایسی ہی بات ہے جیسے غیر احمدی کہا کرتے ہیں ہم نے جب محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو مان لیا تو پھر مسیح موعود کو ماننے کی کیا ضرورت ہے.وہ نادان یہ نہیں جانتے کہ ان کا یہ کہنا کہ ہم نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو مان لیا ہے یہ بھی تو ایک خیال سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتا.اگر انہوں بچے دل سے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو قبول کیا ہو تا تو وہ یہ بھی تو دیکھتے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کس شان کے ساتھ مسیح موعود کی صورت میں آیا.مگر جب انہوں نے مسیح موعود کو نہ مانا تو معلوم ہو گیا کہ ان کا یہ کہنا بالکل غلط تھا کہ انہوں نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو مان لیا ہے یا انہوں نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے حسن اور آپ کے جمال کو دیکھا ہے.بے شک محمد صلی اللہ علیہ وسلم آقا تھے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام آپ کے غلام.لیکن سچی محبت رکھنے والا تو اپنے آقا اور محبوب کی قلیل سے قلیل چیز ملنے پر بھی اپنے جذبات میں تلاطم محسوس کرتا ہے اور وہ بجائے اس کو رد کرنے کے محبت کے ہاتھوں سے اُس کو لیتا اور اپنے سینہ کے ساتھ اس کو لگاتا ہے.ہم جانتے ہیں ہمارے ساتھ ہی جو لوگ محبت رکھتے ہیں ان کی کیفیت یہ ہوتی ہے کہ بسا اوقات وہ میرے پاس آتے ہیں اور کہتے ہیں ہمیں ہے

Page 140

خطبات محمود 140 $1944 ایک کاغذ پر اپنے دستخط ہی کر دیں یا خط لکھتے ہیں تو بڑی منت اور عاجزی سے درخواست کرتے ہیں کہ ہمارے اس خط کا جو جواب ہو اُس پر آپ اپنے دستخط ضرور کریں.کیونکہ ہم اس کو محبت کی یاد گار کے طور پر اپنے پاس محفوظ رکھنا چاہتے ہیں.اب کسی کے خط پر دستخط کرنے سے اُس کو ہماری محبت سے کتنا قلیل حصہ ملتا ہے مگر وہ اُسی کو غنیمت سمجھتا ہے اور اس کے متعلق ناشکری کے کلمات اپنی زبان پر نہیں لاتا.اسی طرح ہر شخص کو آخر اس کی قربانی کے مقابلہ میں ہی درجہ ملے گا.دنیا میں کون ہے جس نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے حضرت مسیح موعود السلام جیسی محبت کی ہو.امتِ محمدیہ میں کروڑوں کروڑ لوگ ہوئے ہیں مگر سوائے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اور کوئی شخص ایسا نہیں ہوا جس نے آپ سے ایسی محبت کی ہو کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا کامل نقش اس کے دل پر پیدا ہو گیا ہو.پس جب سوائے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اب تک امت محمدیہ میں اور کوئی شخص ایسا نہیں ہوا جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت اور آپ کے عشق میں انتہائی مقام تک پہنچ گیا ہو تو یہ لازمی ہے بات ہے کہ اب دوسرا شخص آپ کے توسط سے ہی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ سکتا ہے.اپنے طور پر اگر وہ اس محبت کو حاصل کرنا چا ہے تو بے شک زور لگا کر دیکھ لے اور اگر اس میں اتنا زور ہے صرف کرنے کی ہمت نہیں تو اس کے لیے نجات کا اب یہی ایک راہ ہے کہ خدا نے اس کے لیے آگے بڑھنے کا جو ذریعہ بنایا ہے اُس کو اختیار کرے اور اسی کے توسط سے مقامات قرب کے طے کرے.تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے رحمتوں کا نزول ہمیشہ قربانیوں کا تقاضا کیا کرتا ہے.میں یہاں کے دوستوں کو اس امر کی طرف توجہ دلاتا ہوں کہ اس جگہ مصلح موعود کی پیشگوئی کے متعلق اللہ تعالیٰ کی طرف سے مجھ پر انکشاف کا ہونا لا ہور کی جماعت کی ذمہ داریوں کو بہت بڑھا دیتا ہے.یہیں سے پیغامی فتنہ نے سر اٹھایا اور یہیں ان کا مرکز ہے.یہیں سے احراری فتنہ اٹھا اور یہیں ان کا مرکز ہے.اور بھی جس قدر فتنے اٹھے ان میں زیادہ تر لاہور کا ہی حصہ ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو بھی زیادہ تر چیلنج لا ہور سے ہی ملا کرتے تھے اور یا پھر امر تسر سے.امر تسر سے کم اور لاہور سے زیادہ.پھر اس وقت پنجاب کا سیاسی مرکز بھی لاہور ہے

Page 141

خطبات محمود 141 $1944 ہی ہے.پس بہت بڑی ذمہ داریاں ہیں جو یہاں کی جماعت پر عائد ہوتی ہیں.ان ذمہ داریوں کو پورا کرنے سے ہی تمہیں اُن برکات سے حصہ مل سکتا ہے جو خاص مقامات کے ساتھ تعلق رکھتی ہیں.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ جب خدا کسی مقام کو اپنی برکتوں کے لیے مخصوص قرار دے دیتا ہے تو وہاں کے رہنے والوں کو اپنے انعامات سے بھی زیادہ حصہ دیا کرتا ہے.مگر اس میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ ان مقامات کے رہنے والوں کو قربانیاں بھی دوسروں سے زیادہ کرنی ہے پڑتی ہیں.جو قربانیاں مکہ اور مدینہ والوں کو کرنی پڑیں وہ کسی اور جگہ کے رہنے والوں کو نہیں کرنی پڑیں.مگر جو انعامات مہاجرین اور انصار کو ملے وہ بھی کسی اور کو نہیں ملے.یہ خیال کرنا کہ مکہ اور مدینہ والوں کو اللہ تعالی نے یو نہی انعام دے دیا ہو گا ایک پاگل پن کی بات ہے.انہوں نے اس قدر قربانیاں کیں کہ بلا مبالغہ کہا جا سکتا ہے کہ انہوں نے اپنے آپ کو فنا کر دیا، می انہوں نے خدا کے لیے اپنے آپ کو خاک میں ملا دیا اور پھر اپنی خاک کو بھی اس کی رضا کے حصول کے لیے اُڑا دیا.تب انہیں انعامات حاصل ہوئے تب وہ اللہ تعالیٰ کی رضا کے مستحق ہوئے.پس جماعت لاہور کا فرض ہے کہ وہ اپنی ذمہ داریوں کو سمجھے ، اپنے اندر تغیر پیدا کرے، اپنے اخلاص اور اپنی نیکی میں ترقی کرے اور خدا تعالیٰ کی محبت اپنے قلوب میں پیدا کرے.یاد رکھو خدا تعالیٰ کی محبت کے بغیر تمہیں کوئی مقام حاصل نہیں ہو سکتا.محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ہمارے دلوں میں کوئی عظمت ہے تو اسی وجہ سے کہ انہوں نے بندوں کا ہاتھ خدا کے ہاتھ میں دے دیا.اگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی ہمارے دلوں میں کوئی عظمت ہے تو اسی وجہ سے کہ انہوں نے بندوں کا ہاتھ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ میں دے دیا اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اُن ہاتھوں کو خدا کے ہاتھ میں دے دیا.پس اصل چیز خدا ہی ہے.جو شخص اس سے دور ہے وہ نہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو پاسکتا ہے، نہ مسیح موعود کو پا سکتا ہے اور نہ کسی اور کو پاسکتا ہے.خدا کی شان خدا کے ساتھ ہی مخصوص ہے.جس شخص کے دل میں خدا کی محبت نہیں اس کے اسلام اور احمدیت کے سب دعوے باطل ہیں.

Page 142

خطبات محمود 142 $1944 پس اپنے دل خدا کی طرف متوجہ کرو اور ایسے اخلاص اور ایسی محبت سے اُس کی طرف جھکو کہ تمہیں اس کے ذکر میں لذت آنے لگے.پھر اس ذکر پر مداومت اختیار کرو تامد اومت کی وجہ سے اس کی محبت تمہارے جسم کا جزو بن جائے.جب خدا کی محبت تمہارے دلوں میں حقیقی طور پر پیدا ہو جائے گی تو وہی وقت ہو گا جب تم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام اور اس کی عظمت کو سمجھ سکو گے.حقیقت یہ ہے کہ گو انبیاء خدا تعالیٰ کی شان دنیا میں ظاہر کر کے دکھاتے ہیں مگر وہ ایک مبہم سا نظارہ ہوتا ہے.اصل حقیقت یہی ہے کہ خدا کے ذریعہ سے ہی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا جاسکتا ہے اور خدا کے ذریعہ سے ہی حضرت مسیح موعود الصلوۃ والسلام کو دیکھا جا سکتا ہے.جس نے خدا کو نہیں دیکھا اس نے محمد صلی اللہ علیہ و کو نہیں دیکھا اور جس نے خدا کو نہیں دیکھا اُس نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو بھی نہیں دیکھا.محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خدا تعالیٰ کا ایک ظلی نور ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام خدا تعالیٰ کا ایک ظلی نور ہیں.پس جس کا خدا سے تعلق ہو جائے گا وہ ان نوروں کا بھی مشاہدہ کرلے گا اور جس کا خدا سے تعلق نہیں ہو گا وہ ان نوروں کو بھی نہیں دیکھ سکے گا.یہی وجہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے قرآن کریم کے شروع میں ہی الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ 8 کہا.جس کے معنی یہ ہیں کہ سچی تعریف کرنا خدا کا ہی کام ہے.پس ہم کسی صاحب کمال کی حقیقت کو اُسی وقت پہچان سکتے ہیں جب ہم خدا تعالیٰ کو مل کر اُس کے درجہ سے واقف ہوتے ہیں.پس حقیقت ہی ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو کوئی شخص محمد نہیں مان سکتا جب تک وہ خدا تعالیٰ کا عارف نہیں.اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو کوئی شخص ما مسیح موعود نہیں مان سکتا جب تک وہ خدا کا عارف نہیں ہوتا.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ یہ اللہ تعالیٰ اُن نشانات کو جو انبیاء کے ذریعہ ظاہر ہوتے ہیں اپنی جلوہ نمائی کا ایک ذریعہ بنا لیتا ہے.مگر سوال تو یہ ہے کہ ان کو ذریعہ کس نے بنایا؟ خدا نے.ورنہ اگر خدا ان کو ذریعہ نہ بناتا ہے اور وہ اپنی طرف سے شور مچاتے رہتے تو دنیا کی نظر ان کی طرف کہاں اُٹھ سکتی تھی.خدا کا کلام ہی تھا جس سے وہ دنیا کی توجہ کا مرکز بن گئے.اور اس لیے مرکز بنے کہ لوگوں نے کہا.

Page 143

خطبات محمود 143 $1944 اللہ تعالیٰ کی باتیں ہمیں سناتے ہیں، یہ اُسی کی طرف ہمیں بلاتے ہیں.آؤ ہم ان کی باتوں کی طرف توجہ کریں کہ اس میں ہمارا ہی فائدہ ہے.پس اللہ تعالیٰ کی طرف توجہ کرو اور اپنی ذمہ داریوں کو سمجھو اور فتنوں کے اس مرکز میں رہ کر ہر قسم کے فتنے منانے کی پوری کوشش ہے کرو.صوبہ کا مرکز ہونے کے لحاظ سے اس جگہ کی ترقی سارے پنجاب پر اثر انداز ہوتی ہے.اسی طرح یہاں کے جو فتنے ہیں اُن کا مقابلہ بھی ضروری ہے.کیونکہ ان کا اثر بھی مقامی نہیں بلکہ بہت دور تک جاتا ہے.یاد رکھو! خدا تعالیٰ نے جو تمہارے ساتھ وعدے کیے ہیں ان کے پورا ہونے کے لیے ضروری ہے کہ آپ لوگ قربانیاں کریں.آپ لوگوں کی قربانیاں ہی ہیں جو سلسلہ کو فائدہ پہنچائیں گی اور وہ قربانیاں ایسی ہی ہونی چاہئیں جیسے اعلیٰ درجہ کے صحابہ نے کیں.وہ ایسے تھے ؟ کہ انہوں نے اپنے نفس کے تمام گوشوں سے دُنیا کی محبت نکال دی تھی اور وہ اللہ تعالیٰ کی محبت میں ایسے مست ہو گئے تھے کہ دنیا انہیں بالکل حقیر اور ذلیل نظر آتی تھی.وہ ہمیشہ خدا تعالی کے کام کو مقدم رکھتے تھے اور اپنے کام مؤخر رکھتے تھے.مگر اب وہ زمانہ ہے کہ لوگ اپنے تم کاموں کو مقدم رکھتے ہیں اور خدا تعالیٰ کی طرف سے جس قربانی کا مطالبہ ہو اُسے مؤخر کرتے ہیں.حالانکہ صحابہ کی یہ حالت تھی کہ جب بھی قربانی کا کوئی مطالبہ ہوتا پہلے وہ اس قربانی میں مجھے حصہ لیتے تھے اور بچا ہو ا حصہ آپ لیتے تھے.حدیثوں میں آتا ہے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دفعہ چند مہمان بعض صحابہ میں تقسیم کر دیئے کہ وہ ان کو اپنے اپنے گھروں میں لے جائیں اور انہیں روٹی کھلائیں.ایک صحابی جب مہمان کو اپنے گھر میں لائے تو انہیں معلوم ہوا کہ اُن کے گھر میں ایک ہی آدمی کا کھانا ہے.انہوں نے بیوی سے مشورہ کیا کہ بچوں کو بھو کا سُلا دیا جائے.چنانچہ انہیں بہلا کر بھوکا سُلا دیا گیا.دوسری طرف بیوی نے یہ تدبیر کی کہ خاوند سے کہا جب مہمان تمہارے ساتھ کھانا کھانے کے لیے بیٹھے تو مجھے کہنا دئے کی بیٹی اونچی کر دو اور میں اسے اونچی کرنے کے بہانے سے نکل کر دوں گی.چنانچہ جب مہمان آیا تو میاں بیوی دونوں اس نے کے ساتھ دستر خوان پر بیٹھ گئے.اس وقت تک پردے کا حکم نازل نہیں ہوا تھا اور عرب کے ہم

Page 144

خطبات م محمود 144 $1944 دستور کے مطابق گھر والوں کو بھی مہمان کے ساتھ مل کر کھانا پڑتا تھا.جب کھانا چنا گیا تو مرد نے اپنی بیوی سے کہا کہ دیے کی روشنی بہت مدھم ہے بنی اُونچی کر دو.بیوی اٹھی اور اس نے اونچی کرنے کے بہانہ سے حق کو انگلی سے اس طرح دبایا کہ دیا کل ہو گیا اور اندھیرا چھا گیا.وہ منی صحابی کہنے لگا تم نے یہ کیا کر دیا؟ اب جاؤ کسی ہمسائے کے ہاں سے آگ مانگ کر لاؤ کہ لیمپ کو میں روشن کیا جاسکے.وہ کہنے لگی اب کہاں جاؤں، ہمسائے سوچکے ہوں گے اندھیرے میں ہی کھانا کھالیں.مہمان بھی کہنے لگا.اس تکلیف کی کیا ضرورت ہے میں اندھیرے میں ہی کھانا کھا لوں گا.چنانچہ وہ دونوں اس کے ساتھ بیٹھ گئے اور چونکہ کھانا صرف مہمان کے لیے تھا، انہوں نے بیٹھ کر خالی مچا کے مارنے شروع کر دیئے تاکہ مہمان کو یہی محسوس ہو کہ وہ بھی کھانا کھا رہے ہیں.جب مہمان خوب سیر ہو کر کھا چکا تو انہوں نے برتن اٹھالئے اور سو گئے.صبح می نماز کے لیے جب وہ مسجد میں گئے تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نماز فجر پڑھانے کے بعد مسجد میں ہی بیٹھ گئے اور آپ نے اُس صحابی کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا رات تم نے اپنے ہی مہمان کے ساتھ کیا کیا؟ وہ دل میں گھبرایا کہ نہ معلوم کیا غلطی ہو گئی ہے کہ رسول کریم ہے صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات مجھ سے دریافت کر لی.وہ کہنے لگا یارسول اللہ ! میں نے کیا کیا؟ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے مجھے خبر دی ہے کہ رات جب تم مہمان کو اپنے ساتھ لے گئے تو اُس کو کھانا کھلانے کے لیے تم نے بہانہ سے دیا بجھا دیا اور پھر میاں بیوی اس کے ساتھ بیٹھ کر خالی مچا کے مارتے رہے تاکہ اسے یہی محسوس ہو کہ گویا تم کھانا کھا رہے ہو.جب آپ نے یہ واقعہ بیان فرمایا تو ہنس پڑے اور پھر صحابہ سے فرمایا تم جانتے ہو ہے میں کیوں ہنسا ہوں؟ صحابہ نے عرض کیا یارسول اللہ ! ہمیں تو معلوم نہیں.آپؐ نے فرمایا میر اخدا بھی یہ واقعہ دیکھ کر عرش پر ہنسا تھا اس لیے میں بھی ہنس پڑا 9 تو دیکھو وہ لوگ خدا تعالی کی طرف سے جو چیز آتی تھی اس کو بھی اپنے آپ پر مقدم ہے رکھتے تھے مگر آجکل کا عجیب زمانہ ہے کہ لوگ اپنی بچی ہوئی چیز خدا کے سامنے پیش کرتے ہیں.گویا نَعُوذُ بِاللہ وہ اُسے ایک بھنگی یا چمار کی حیثیت دیتے ہیں کہ اپنا بچا ہوا کھانا، اپنا بچا ہوا مال اور اپنی ضرورت سے بچی ہوئی اشیاء اس کی راہ میں دیتے ہیں.یہ پسند نہیں کرتے کہ اپنی ہی

Page 145

$1944 145 خطبات محمود ضروریات پر اس کو مقدم کر لیں.حالانکہ جب تک ہم اپنے نفس پر اس کو مقدم نہیں کر لیتے اُس وقت تک ہمارے لیے اس سے محبت کا ادنیٰ سے ادنی دعوی کرنا بھی جائز نہیں ہو سکتا.میرا یہ مطلب نہیں کہ جب کوئی شخص یہ کہے کہ اسے خدا سے محبت ہے تو وہ اسی وقت اپنا مکان چھوڑ دے، اپنی جائیدادوں کو ترک کر دے اور اپنے اموال سے دست بردار ہو جائے.مگر ارادہ تو یہی ہونا چاہیے کہ جب بھی خدا تعالیٰ کی طرف سے آواز بلند ہو گی ہم اس کا زبان سے نہیں عمل سے ہے جواب دیں گے.دنیا کیا جانتی ہے کہ کس وقت خدا تعالیٰ کی طرف سے آواز بلند ہونے والی ہے کہ آؤ اور خدا تعالیٰ کے لیے اپنی جانوں کو قربان کر دو، آؤ اور خدا تعالیٰ کے لیے اپنے اموال کو قربان کر دو.اگر جماعت کو یہ یقین ہے کہ میرے ذریعہ سے حضرت مسیح موعود عليه الصلوۃ و السلام کی وہ پیشگوئی پوری ہوئی ہے جو مصلح موعود کے ساتھ تعلق رکھتی ہے، اگر جماعت کو یہ یقین ہے کہ اسلام کے احیاء کا وقت اب آپہنچاتو پھر جماعت کو اس امر پر بھی یقین رکھنا چاہیے کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے قریب یا بعید میں احیاء اسلام کے لیے آواز بلند ہونے والی ہے.اور وہی لوگ اس آواز پر لبیک کہہ سکیں گے، وہی مومن اس جہاد میں اپنی جانیں اور اپنے مال لے کر خدا تعالیٰ کے حضور حاضر ہو سکیں گے جو ابھی سے اس کی تیاری میں مشغول ہو جائیں گے.مگر وہ جنہوں نے تیاری نہیں کی ہو گی، وہ جنہوں نے اپنے اعمال کا بھی جائزہ نہیں لیا ہو گا وہ تین اس قربانی سے محروم رہ جائیں گے.حضرت مسیح ناصری کی پیشگوئی بھی بتارہی ہے کہ کچھ کنواریاں ہے تو دولہا کے ساتھ چل پڑیں گی مگر کچھ کنواریاں پیچھے رہ جائیں گی.10 اس کے معنے سوائے اس کے کچھ نہیں کہ کچھ لوگ اپنے ایمان کے دعووں میں ثابت قدم نکلیں گے اور قربانیوں کے معیار پر پورے اتریں گے.مگر کچھ لوگ ایسے ہوں گے جو وقت پر کمزوری دکھا جائیں گے.دیکھو! اخلاص ان کنواریوں میں بھی تھا جو دولہا کے استقبال کے لیے نکلیں.جو ہم آدھی رات تک اس کا انتظار کرتی رہیں، جو اُس کے آنے کی خوشی مناتی رہیں.مگر چونکہ ہم انہوں نے اپنی غفلت سے کافی تیل اپنے ساتھ نہ لیا اس لیے جب دولہا آیا تو وہ اس کے ساتھ ہے چلنے سے محروم رہ گئیں.تیل نہ ہونے کے یہی معنے ہیں کہ وقت سے پہلے انہوں نے پوری میں تیاری نہیں کی ہوگی.دنیا میں بہت لوگ سمجھتے ہیں کہ چونکہ وہ کہتے ہیں ہم نے اسلام کے لیے ہے

Page 146

خطبات محمود 146 $1944 اپنی جان اور اپنا مال قربان کر دیا اس لیے وقت آنے پر ہم اپنی جان اور اپنے مال کو قربان کر دیں گے.حالانکہ جب تک پوری طرح تیاری نہ ہو محض زبانی دعوے انسان کے کسی کام نہیں آتے.اسی لڑائی کو دیکھ لو انگریزوں نے چونکہ پہلے تیاری نہیں کی تھی اس لیے وہ جرمن کے مقابلہ میں شکست کھاتے چلے گئے اور دو سال تک ایسا ہی ہوتا رہا.مگر اس دو سال کے عرصہ میں انہوں نے یہ نہیں کیا کہ رنگروٹوں کو ہی میدانِ جنگ میں لے جائیں.کیونکہ انہوں نے اِس حقیقت کو سمجھ لیا کہ لڑائی کے لیے تیاری کی ضرورت ہے.پس انہوں نے شکستیں تو کھائیں مگر اس عرصہ میں اپنی تیاری کو انہوں نے مکمل کر لیا اور دور نگروٹوں کو اس میں وقت میدان جنگ میں لے گئے جب وہ پوری طرح سپاہی بن چکے تھے.پس یاد رکھو! تیاری ہے کے بغیر کوئی لڑائی نہیں لڑی جاتی.یہ اللہ تعالیٰ کا احسان ہے کہ ابھی ہم سے اُن قربانیوں کا مطالبہ نہیں کیا گیا جن قربانیوں کا صحابہ سے مطالبہ کیا گیا تھا کیونکہ ابھی ہماری جماعت ان قربانیوں کے لیے پوری طرح تیار نہیں ہے.نادان انسان کہتا ہے کہ ہمارے زمانہ میں وہ قربانیاں نہیں ہیں جو صحابہ کے زمانہ میں تھیں.وہ نادان یہ نہیں جانتا کہ ابھی اُن قربانیوں کا وقت ہی نہیں آیا اور نہ قربانیاں تمہیں وہی کرنی پڑیں گی جو صحابہ نے کیں.تم ابھی رنگروٹ میں ہو اور خدا تمہیں موقع دے رہا ہے کہ تم اس عرصہ میں اپنی تیاری کو مکمل کر لو.پھر کیسا نادان اور احمق ہے اور نگروٹ جو کہتا ہے کہ مجھے ابھی سے میدان جنگ میں کیوں نہیں بھیج دیا جاتا.تم ہو اپنی تیاری کو مکمل کر لو.پھر وہ وقت بھی آجائے گا جب تمہیں قربانیوں کے میدان میں جھونک دیا جائے گا.لیکن جلدی کرو اور سستی سے کام مت لو.آخر کب تک خدا تمہارا انتظار کرتارہے گا کب تک خدا یہ دیکھتا رہے گا کہ ان رنگروٹوں کو سپاہی بن لینے دو.آخر خد ا کارگل ایک دن آسمان سے بجے گا اور کہے گا کہ آؤ اپنی جانیں اور اپنے اموال میری راہ میں قربان کر دو.جس وقت خدا کی طرف سے یہ آواز بلند ہوگی وہ لوگ جنہوں نے ریکروٹنگ (RECRUITING) کے عرصہ میں اپنے آپ کو پوری طرح تیار کر لیا ہو گا آگے بڑھیں گے اور خدا تعالی کی راہ میں اپنا تم سب کچھ قربان کر دیں گے.مگر وہ جنہوں نے اس عرصہ میں اپنے آپ کو پوری طرح تیار نہیں ہے کیا ہو گا اور جو اس بات پر خوش ہوں گے کہ وقت آنے پر ہم اپنے مال اور اپنی جانیں قربان ہے

Page 147

$1944 147 خطبات محمود کر دیں گے وہ ناکام و نامراد اپنے گھروں کو لوٹ جائیں گے اور خدا کا وہ نور جو پہلے اُن کو مل چکا تھا (الفضل 21 جون 1944ء) وہ بھی اُن سے چھن جائے گا".1 : بخاری کتاب المغازی باب نزول رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم الحجر و كتاب التفسير تفسير سورة الحجر و مسلم كتاب الزهد باب النَّهْي عَنِ الدُّخُولِ عَلَى اَهْلِ الْحجر إِلَّا مَنْ يَدْخُلُ بَاكِيًّا 2 : التين:4 3 :الرعد: 12 4 : تذکرہ صفحہ 791.ایڈیشن چہارم 5 : تذکرہ صفحہ 466، 489 ایڈیشن چہارم میں الفاظ اِس طرح ہیں "وَاللهُ يَأْبَى اِلَّا اَنْ يتِمَّ امْرَكَ" 6 : الاخلاص:2 7 : ٹنل: زمین دوز راستہ.ریلوے یا سٹرک کے لیے زمین دوز راستہ 8 : الفاتحة: 2 : بخارى كتاب التفسير تفسير سورة الحشرباب قوله "وَيُؤْثِرُونَ عَلَى انْفُسِهِم " 110 : متی باب 25 آیات 10 تا12

Page 148

$1944 148 8 خطبات محمود کامل اور مخلص مومن بننے کے لیے کیا کرنا چاہیے.فرموده 25 فروری 1944ء بمقام لاہور) تشہد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: "جب انسان کو کوئی صداقت ملتی ہے اور وہ سمجھ جاتا ہے کہ مجھے ایک صداقت ملی ہے تو وہ قدرتی طور پر اس کے ساتھ اپنا لگاؤ ظاہر کرتا اور اُس کے ماتحت چلنے کی خواہش ظاہر کرتا ہے.یہ خواہش اتنی وسیع ہے کہ جب بھی کسی اچھی چیز پر انسان کی نظر پڑتی ہے تو اس کے دل میں یہ خواہش ضرور پیدا ہوتی ہے.گو یہ ضروری نہیں کہ انسان اسے پورا کرنے کی ہے کوشش بھی کرے اور جب تک وہ اس کو پورا کرنے کی کوشش نہیں کرتا ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ اس نے اس کی پوری قدر کی ہے.دنیا میں کروڑوں آدمی ایسے ہیں جو مختلف ممالک کے حالات جب کتابوں میں پڑھتے یا دوسرے لوگوں سے جو ان ممالک کی سیر کر آتے ہیں سنتے ہیں تو ان کے دل میں ان ممالک کو دیکھنے کی خواہش پیدا ہوتی ہے اور ان کے دل و دماغ میں اچھے نظاروں کی طرف ایک لگاؤ پیدا ہوتا ہے اور دل چاہتا ہے کہ ان کو دیکھا جائے.ایسے لوگوں کی تعداد بہت زیادہ ہے جن کے دلوں میں یہ خواہش پیدا ہوتی ہے مگر واقع میں دیکھنے کے لیے جو جاتے ہیں ان کی تعداد بہت تھوڑی ہے.جب لوگ کشمیر کے حالات پڑھتے یا وہاں کے نظاروں کا ذکر دوسروں سے سنتے ہیں

Page 149

$1944 149 خطبات محمود یا یورپ کے ممالک کے حالات پڑھتے یا دوسروں سے سنتے ہیں تو چاہے کسی شخص کی آمد دس روپیہ ماہوار ہی کیوں نہ ہو اُس کا دل ضرور چاہتا ہے کہ میں بھی ان نظاروں کو دیکھوں مگر وہ ہے خواہش عارضی ہوتی ہے.آتی اور گزر جاتی ہے.اس خواہش کے پیدا ہونے کے یہ معنے نہیں ہوتے کہ یہ حقیقی خواہش ہے.بعض اوقات انسان کے دل میں خواہش تو بڑے زور کی ہوتی ہے مگر اُسے پورا کرنے کی مقدرت وہ نہیں رکھتا.اور بعض دفعہ مقدرت اور سامان تو میسر ہوتے ہیں مگر پھر بھی انسان اُسے پورا نہیں کرتا.ہزاروں لکھ پتی اور سینکڑوں کروڑ پتی ہندوستان میں ہیں مگر کیا وہ سارے یورپ کی سیر کر آئے ہیں؟ ان کے دل میں خواہش بھی ہے پیدا ہوتی ہے مگر باوجو دسامان ہونے کے وہ جاتے نہیں.اسی طرح علوم کو لے لو.لوگوں کے اندر یہ خواہش تو پیدا ہوتی ہے کہ وہ علوم کو سیکھیں.وہ سمجھتے ہیں کہ فلسفہ ایک دلچسپ چیز ہے منطق، علم النفس، علم ریاضی اور دیگر علوم بہت مفید ہیں ڈاکٹر بنا بڑی اچھی بات ہے، وکیل بڑا ہے اچھا ہوتا ہے، ہر اچھے پیشے کو دیکھ کر انسان کے اندر اسے سیکھنے کی خواہش پیدا ہوتی ہے.جب ایک آدمی کسی ڈاکٹر سے خوش ہوتا ہے تو خیال کرتا ہے کہ وہ خود یا اُس کا لڑکا ڈاکٹر ہو.جب وکیل کو دیکھ کر خوش ہوتا ہے تو اس کے اندر یہ خواہش پیدا ہوتی ہے کہ وہ خود وکیل بنے یا اپنے لڑکے کو وکالت کی تعلیم دلوائے.غرضیکہ ہر علم اور ہر پیشہ کو دیکھ کر یہ خواہش پید اہوتی ہے کہ اُسے حاصل کروں.مگر کیا اس خواہش کے پیدا ہونے سے ہر شخص ڈاکٹر یا وکیل یا انجینئر بن جاتا ہے یا اپنے بیٹوں کو بنا لیتا ہے ؟ نہیں.بلکہ بسا اوقات اُسی دن بلکہ ایک گھنٹہ کے بعد اسے یہ امر یاد بھی نہیں رہتا.تو محض خواہش کا دل میں پیدا ہونا کسی کو اس پیشہ یا فن کی ہے خوبیوں سے متمتع نہیں کر سکتا.یہ نہیں ہو تا کہ آج کسی کے دل میں ڈاکٹر بننے کی خواہش پیدا ہو تو اگلے روز مریض اس کے پاس علاج کے لیے چلے آئیں.یا وکیل بننے کی خواہش ہو تو لوگ ہے اُس کے پاس مقدمات لے آئیں.یا اگر دل میں یہ خواہش پیدا ہو کہ میں تاجر بنوں گا تو اگلے روز تھوک فروش دکاندار اسے ہول سیل نرخ پر مال دے دیں محض اس لیے کہ اس کے دل میں میں تاجر بننے کی خواہش پیدا ہوئی تھی.یہ خواہش پیدا ہونے کے باوجود وہ جب بازار سے اپنی ضروریات خرید نے جائے گا تو ایک عام فرد کی طرح ہی سودا لے گا.یہ نہیں کہ دکاندار اسے

Page 150

خطبات محج محمود 150 $1944 ایک تاجر کی حیثیت سے مال دے دیں گے.قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے رُبَمَا يَوَدُّ الَّذِينَ كَفَرُوا لَوْ كَانُوا مُسْلِمِينَ 1 یعنی جب کفار قرآن کریم کی تعلیم سنتے ہیں، اخلاق یا نظام قومی کے متعلق اسلامی ہدایات کا ان کو علم ہوتا ہے، ہمسایوں کے متعلق، عورتوں، خاوندوں، والدین، بچوں، غریبوں، مسافروں کے متعلق اسلام نے جو تعلیم دی ہے ، مزدوروں اور سرمایہ داروں کے بارہ میں جو احکام دیئے ہیں ان سے ان کو آگاہی ہوتی ہے اور ہر شخص دیکھتا ہے کہ اس میں اس کے حقوق کی حفاظت کی گئی ہے اور ایسے قوانین بنائے گئے ہیں کہ کوئی کسی کا حق نہ دیا سکے.ہر ایک اطمینان حاصل کر سکے.ایک مزدور جو رات دن اپنے مالکوں کے سے لڑائی جھگڑا کرتا ہے کہ میرا یہ حق نہیں ملا وہ نہیں ملا جب دیکھتا ہے کہ قرآن کریم کی تعلیم ایسی ہے کہ جس سے اس کے تمام حقوق محفوظ ہو جاتے ہیں تو وہ بے ساختہ پکار اٹھتا ہے کہ بات بڑی اچھی ہے.اسی طرح عورتوں اور مردوں کا حال ہے.ہر ایک کے حقوق کی حفاظت تسلی بخش طور پر اسلام نے کی ہے اور جو بھی اپنے متعلق اس کی تعلیم سے آگاہ ہوتا ہے وہ اس کی خوبی کو تسلیم کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے.مگر اس کا نتیجہ یہ تو نہیں ہو سکتا کہ اللہ تعالیٰ اسے کہے گا کہ اے مسلمان! آتجھے میں جنت میں داخل کروں.کیونکہ اس کے یہ معنے نہیں کہ اس شخص کے دل میں ایمان پیدا ہو چکا ہے.یہ تو اسلام کی تعلیم کی خوبی کی علامت ہے.جیسے کشمیر کے حالات پڑھ کر پاسن کر انسان کے دل میں خواہش پیدا ہوتی ہے کہ میں بھی ہے اسے دیکھوں.یورپ کے حالات معلوم کر کے وہ چاہتا ہے کہ ایسے اچھے نظائر کا مشاہدہ کروں.تو اس کا یہ نتیجہ نہیں ہوتا کہ اگلے دن لوگ اس کے پاس ان مقامات کے حالات یہ سمجھ کر سنے ہے کے لیے آجائیں کہ اُس کے دل میں چونکہ ان کو دیکھنے کی خواہش پیدا ہوئی تھی اس لیے یہ ان کو دیکھ چکا ہو گا.بلکہ خواہش کا پیدا ہوناتو محض ان مقامات کے حالات میں بیان کردہ نظاروں کی خوبی کی دلیل ہے.اسی طرح اسلام کی تعلیم کی خوبی کا اقرار محض اس تعلیم کی برتری کی دلیل ہے ہے.اس م ہے.اس سے نہ تو خود وہ انسان اپنے آپ کو مسلمان کھنے لگتا ہے اور نہ ہی اللہ تعالی اسے مسلمان سمجھ کر اس سے معاملہ کرے گا.اگر کسی شخص کے دل میں یہ خواہش پیدا ہو کہ میں ملک کے لیے لڑوں تو گورنمنٹ اس کی تنخواہ مقرر نہیں کر دیتی.یہی حال دین اور ایمان کا ہے.

Page 151

خطبات مج محمود وہ 151 $1944 اگر ایمان لانے کی دل میں محض خواہش پیدا ہو تو ایسا شخص خدا تعالیٰ کے ہاں مومن شمار نہیں ہونے لگتا.جیسے ایک شخص مثلاً مزدوروں کے بارہ میں اسلام کی تعلیم کو پڑھتا یا سنتا اور اس کی تعریف کرتا ہے.جب اسے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عمر کے زمانہ میں ہر شخص کی روٹی اور امین کپڑے کی ذمہ دار حکومت تھی اور تعلیم کا بندوبست بھی حکومت کرتی تھی اور دوسری طرف یہ دیکھتا ہے کہ ہندوستان میں لاکھوں کروڑوں لوگ ایسے ہیں جن کو پیٹ بھر کر کھانا نہیں ملتا تو ہے دہ بے اختیار کہہ اٹھتا ہے کہ کاش! ہمیں بھی ایسی حکومت نصیب ہوتی.مگر اس کے یہ معنے نہیں کہ ایسا کہنے والا مسلمان ہو گیا.کیا کوئی مسلمان اسے مسلمان سمجھ کر اس سے رشتہ وغیرہ قائم کرنے کو تیار ہو گا؟ ہر گز نہیں.بلکہ اس کے معنے تو صرف یہ ہیں کہ تمدن کے متعلق اسلام کی تعلیم کو لوگ بر تر اور افضل سمجھتے ہیں.یا مثلاً ایک عورت ہے جس کی اپنے خاوند سے ہے لڑائی رہتی ہے اور خاوند اس کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کرتا، کسی مسلمان عورت کے ساتھ اس کی ملاقات ہو اور اس کو پتہ لگے کہ اسلامی نظام اور احکام کے ماتحت عورت طلاق حاصل کر سکتی ہے اور وہ یہ بات معلوم کر کے کہے کاش! ہمارے مذہب میں بھی ایسا ممکن ہوتا.تو اس کے یہ معنے ہر گز نہیں ہو سکتے کہ وہ مسلمان ہو گئی.نہ وہ اللہ تعالیٰ کے حضور مسلمان سمجھی جائے گی اور نہ لوگ اسے مسلمان سمجھ کر اس سے ایسا سلوک کریں گے جو ایک مسلمان دوسرے سے کرتا ہے.اس کے دل پر چونکہ چوٹ لگی ہوئی تھی جب اسے معلوم ہوا کہ اس میں کی مشکل کا حل اسلامی تعلیم میں موجود ہے تو وہ اس کی تعریف کیے بغیر نہ رہ سکی.مگر اس کے معنے صرف یہ ہیں کہ وہ اس بارہ میں اسلام کی تعلیم کی برتری کا اعتراف کرتی ہے.غرض ہر شخص جب اپنے پیشہ یا اپنے طبقہ کے لیے اسلام کی تعلیم معلوم کرتا تو بے اختیار کہہ اٹھتا ہے کہ کاش! ہمارے ہاں بھی ایسے ہی احکام ہوتے.مگر اس کے یہ معنے ہے ہر گز نہیں کہ وہ مسلمان ہو گیا.نہ لوگ اسے مسلمان سمجھتے ہیں اور نہ اللہ تعالیٰ اسے مسلمان قرار دیتا ہے.اس قسم کی ہزاروں مثالیں دنیا میں موجود ہیں اور ہزاروں قسم کے لوگ ہیں جو چی اپنی اپنی حیثیت مثلاً باپ بیٹا، بھائی بہن، ماں باپ، خاوند بیوی، مزدور آقا کی حیثیت سے اسلام کی تعلیم کی برتری کا اقرار کرتے ہیں.اپنے اپنے مذہب کی تعلیم سے دکھی دلوں کو جب اسلام میں

Page 152

$1944 ان پر محمود 152 مسلمان کی تعلیم کا علم ہوتا ہے تو وہ کہہ اٹھتے ہیں کہ کاش! ہمارے مذہب میں بھی ایسے ہی احکام ہوتے.مگر اس کے یہ معنے نہیں کہ وہ مسلمان ہو گئے اور اللہ تعالیٰ ان کے ساتھ ایک کے طور پر سلوک کرے گا.اسی مثال کو ہر شخص اپنے اوپر چسپاں کر کے دیکھے.ہم جب دین کی بات سنتے ہیں، اسلامی احکام سنتے یا قرآن کریم میں پڑھتے ہیں تو ہمارے اندر بھی یہ خواہش پیدا ہوتی ہے کہ عمل کریں.جب ہم یہ معلوم کرتے ہیں کہ دوسرے لوگ اسلام اور سلسلہ کے لیے اپنا وقت، اپنا علم، اپنا مال و دولت قربان کرتے ہیں تو ہمارے دل میں بھی یہ خواہش پیدا ہوتی ہے کہ ہم بھی ایسا کریں.مگر محض اس خواہش کے پیدا ہونے سے اسلام یا سلسلہ کو کوئی فائدہ ، نہیں پہنچ سکتا.محض دل میں قربانیوں کی خواہش کے پیدا ہونے پر تو ہمارے متعلق وہی بات کہی جاسکتی ہے جو قرآن کریم نے رُبَمَا يَوَدُّ الَّذِينَ كَفَرُوا لَوْ كَانُوْا مُسْلِمِينَ بیان فرمائی ہے اور ہمارے متعلق اس کے بجائے یہ کہا جاسکے گا کہ رُبمَا يَوَدُّ الَّذِيْنَ اسْلَمُوا لَوْ كَانُوا مُخْلِصِينَ.اور جس طرح رُبَمَا يَوَدُّ الَّذِينَ كَفَرُوا لَوْ كَانُوْا مُسْلِمِيْنَ کے مصداق لوگ مسلم کا مقام نہیں پاسکتے اِس طرح رُبَمَا يَوَدُّ الَّذِيْنَ اَسْلَمُوا لَوْ كَانُوْا مُخْلِصِيْنَ کے مصداق لوگ مخلصین کا مقام حاصل نہیں کر سکتے.اگر اس آیت کے یہ معنے ہیں کہ وہ کافر مسلمان ہو گئے تو بے شک قربانی کی خواہش پیدا ہونے پر ہم لوگ بھی مخلص کہلا سکیں گے.لیکن جب یہ خواہش کہ کاش! ہمارے ہاں بھی ایسی ہی تعلیم ہوتی، کفار کو مسلم نہیں بنا سکتی تو محض قربانی کی خواہش کا پیدا ہونا ہمارے اندر اخلاص کے موجود ہونے پر کیونکر دلالت کی کر سکتا ہے.اگر کوئی کہے کہ میں تو سچی خواہش رکھتا ہوں کہ دین کے لیے قربانی کروں تو ہم نہیں گے کہ وہ عورت جو ازدواجی زندگی کی پریشانیوں میں مبتلا ہے وہ بھی تو کی خواہش ہی میں رکھتی ہے کہ کاش! خلع کے مسئلہ پر وہ عمل کر سکتی.اسی طرح ہر شخص جو اپنی حیثیت کے لحاظ سے دکھی ہے جب اسلام کی تعلیم کو سنا تو اس کے دل میں بھی بچے طور پر یہ خواہش پیدا ہوتی ہے ہے کہ کاش! اسلام کے اس حکم پر وہ اور اس کے ساتھی عمل کر سکتے.یہ تو ہو سکتا ہے کہ کسی غیر مسلم کو ضلع کے مسئلہ سے اختلاف ہو کیونکہ اس کے دل پر کوئی چوٹ نہ لگی ہو.یہ

Page 153

خطبات محمود 153 $1944 لیکن جس کے دل پر چوٹ لگی ہو وہ یقیناً اس سے اتفاق کرے گا اور اس کے دل میں یہ سچی خواہش پیدا ہو گی کہ یہ حکم ان کے ہاں ہونا چاہیے.اسی طرح جن لوگوں کو اسلام سے بغض نہیں، اسلامی احکام کو سن کر ان کے دل میں بھی لازماً یہ خواہش پیدا ہوتی ہے کہ ان کے ہاں بھی یہ تعلیم رائج ہو اور اس طرح فرداً فرداً بنی نوع انسان سے سارے اسلام کے مفید ہونے کی تصدیق کرائی جا سکتی ہے اور کوئی حکم اسلام کا ایسا نہیں جس کی تصدیق نہ ہو سکے.مگر اس کے یہ معنے نہیں کہ جو لوگ یہ تصدیق کرتے ہیں وہ مسلمان ہو گئے.بعض لوگ خلع کے قانون کی تصدیق کرنے والے ہوں گے ، بعض قانونِ وراثت کی، بعض ان قوانین کی جو مزدوروں کے متعلق ہیں اور بعض ان کی جو آقاؤں کے متعلق ہیں.اسی طرح اسلام کے ہر حکم کی تصدیق کرنے والے لاکھوں لوگ مل جائیں گے.مگر ان میں سے کسی ایک کو بھی مسلمان نہیں کہا ہے جاسکتا.اس تصدیق کے معنے صرف یہ ہوں گے کہ اسلامی تعلیم بہت اعلیٰ ہے.اسی طرح ہم میں سے جو لوگ یہ خواہش رکھتے ہیں کہ ہم بھی دین کے لیے قربانیاں کریں، اسلام کی خدمت کریں، وہ خدا تعالیٰ کے ہاں خدمت کرنے والے شمار نہیں ہو سکتے.اس خواہش کے یہ معنے ہیں کہ ان کے نزدیک خدا تعالیٰ کے احکام بہت ضروری ہیں لیکن اس سے وہ کامل اور مخلص مومن نہیں بن سکتے.کامل اور مخلص مومن وہی ہے جو عملی طور پر بھی قربانی کرتا ہے اور جو خدمت اس کے سپرد کی جاتی ہے اور جو ذمہ داری اس پر ڈالی جاتی ہے اس کو پوری طرح ادا کرتا ہے.ایسے لوگ جو خدمات نہیں کر سکتے ان کا بھی ثواب پاتے ہیں.جو خدمت ان کے سپر د ہوتی ہے اس کا ہے ثواب تو ملنا ہی ہے لیکن جن خدمات کا موقع ان کو میسر نہیں آتا ان کا ثواب بھی ان کو مل جاتا ہے.ان کی مثال اس شخص کی ہے جو بوجہ کسی بیماری کے اپنا ایک ہاتھ یا کوئی دوسرا عضو وضو میں کے وقت دھو نہیں سکتا لیکن اس کے نہ دھونے کے باوجود اُس کا وضو مکمل ہو جاتا ہے.اسی طرح وہ مومن جو ان خدمات کو پوری طرح ادا کرتے ہیں جو ان کے سپر د ہیں ان سے جو خدمات رہ گئیں ان کی وجہ سے اللہ تعالی ان کو نہیں پکڑے گا.ایک شخص نماز با قاعدہ اور باجماعت پڑھتا ہے، اپنی حیثیت کے مطابق چندہ دیتا اور تبلیغ کرتا ہے لیکن اس کے پاس

Page 154

خطبات محمود 154 $1944 اتنا مال جمع نہیں کہ زکوۃ ادا کرے تو وہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک ایسا ہی سمجھا جائے گا کہ گویا اُس نے زکوۃ ادا کر دی.یا اگر وہ حج نہیں کر سکا کیونکہ اس کے حالات ایسے نہ تھے کہ اس پر حج فرض ہوتا تو وہ خدا تعالی کے دفتر میں حج کرنے والوں میں ہی لکھا جائے گا.کیونکہ اس نے ہے دوسرے احکام پر عمل کر کے یہ ثابت کر دیا کہ اگر اسے توفیق ملتی تو وہ ضرور ان نیکیوں کو بھی بجالا تاجو وہ بجا نہ لا سکا.ایسی صورت میں بے شک اُس کی خواہش ہی اس کے عمل کے مترادف ہوگی کیونکہ اگر اُس نے زکوۃ نہیں دی تو اُس کی وجہ یہ تھی کہ اس کے لیے زکوۃ ادا کرنے کا موقع ہی نہ تھا.اگر اس نے حج نہیں کیا تو اس واسطے کہ وہ ایسا کرنے سے معذور تھا اس لیے ہے اس کی خواہش ہی کافی سمجھی جائے گی.اللہ تعالیٰ کا اپنے بندوں سے یہی سلوک ہے.پس دل میں نیکی کی خواہش کا پیدا ہونا کافی نہیں.ہاں! جن نیکیوں کی توفیق انسان کو ملتی ہے، جن کے یہ کرنے کا اس کے لیے موقع ہے اگر وہ انہیں ادا کرتا ہے تو پھر بے شک جن نیکیوں کے کرنے کی طاقت اسے نہیں اللہ تعالیٰ کے دفتر میں اس کا نام ان کے کرنے والوں میں ہی لکھا جائے گا.پس انسان کو چاہیے کہ جو نیک خواہشیں وہ پوری کر سکتا ہے انہیں پورا کر دے.پھر وہ خواہشات جن کا پورا کرنا اس کے اختیار میں نہیں ان کا اجر اللہ تعالیٰ اسے خود بخود دے گا.جس درجہ کے مطابق اس کی نیکیاں ہوں گی اُسی درجہ کے مطابق اُسے ان نیکیوں کا ثواب مل جائے گا جن کا کرنا اس کے اختیار سے باہر ہو گا.ایک شخص نماز پڑھتا، روزے رکھتا، چندہ دیتا، تبلیغ کرتا اور وہ تمام نیکیاں کرتا ہے جو وہ کر سکتا ہے تو جس درجہ کے مطابق اُس کی یہ نیکیاں ہوں گی اُسی درجہ کا اُسے زکوۃ کا ثواب مل جائے گا، اسی درجہ کا اُسے حج کا ثواب مل جائے گا.اگر معذوری کی وجہ سے وہ زکوۃ ادا نہ کر سکا یا حج نہ کر سکا ہو.لیکن اگر کسی کے دل میں کوئی نیک خواہش پیدا ہو وہ اسے پورا کر بھی سکتا ہو ادا نہ کرے تو اس نیک خواہش کے صرف پیدا ہونے سے اُسے کوئی فائدہ حاصل نہیں ہو سکتا اور اس کی مثال انہی لوگوں کی ہو گی جن کا ذكر رُبَمَا يَوَدُّ الَّذِينَ كَفَرُوا لَوْ كَانُوا مُسْلِمِيْنَ میں کیا گیا ہے.ایسے لوگ اسلامی احکام کی صحت و درستی کے قائل ہیں.مانتے ہیں کہ یہ تعلیم بڑی اچھی ہے اسے اپنے ہاں جاری کرنے کا احساس بھی ان کے دل میں ہوتا ہے اور اس کی زبر دست خواہش پائی جاتی ہے.مگر ان سب مینی

Page 155

خطبات محمود 155 $1944 باتوں کے باوجود وہ ہیں کافر کے کافر.اسی طرح وہ مومن جو نیک خواہشات کو پورا کرنے کی طاقت رکھنے کے باوجود انہیں پورا نہیں کرتا اور سمجھتا یہ ہے کہ دوسرا موقع آنے پر پورا کرے ہے گا وہ غیر مخلص کا غیر مخلص ہی ہے.پس اپنے جذبات، احساسات اور خیالات کو ٹولو اور سوچو کہ تم پر جو ذمہ داریاں ہیں ہے تم ان کو اس معیار کے مطابق ادا کرتے ہو یا نہیں جو تم کر سکتے ہو.اور دین کے لیے جتنی قربانی ہے تم کر سکتے ہو اتنی کرتے ہو یا نہیں.اگر کرتے ہو تو جن کا کرنا تمہارے قبضہ اور طاقت میں نہیں ان کے کرنے کی خواہش کی وجہ سے ہی اللہ تعالیٰ تمہیں ان کا اجر دے دے گا.لیکن اگر جو کچھ ہے تم کر سکتے ہو وہ بھی نہیں کرتے تو یہ کہنا کہ دوسری نیکیوں کا موقع اگر ملے تو تم وہ ضرور کرو گے بالکل غلط خیال ہے.اگر چندو دے سکنے کے باوجود ایک شخص چندہ نہیں دیتا تو اس کا یہ کہنا کہ میں اگر دین کے لیے جان دینے کا موقع ملے تو میں ضرور دے دوں کیونکر درست سمجھا جاسکتا ہے ہے.جو شخص تھوڑی سی مالی قربانی نہیں کر سکتا یہ کیونکر سمجھا جا سکتا ہے کہ وہ جنگ میں جان ہے بھی دیدے گا.پس اپنے نفسوں کا محاسبہ کرو اور دیکھو کہ تم ان نیک خواہشات کو پورا کرنے کی کوشش کرتے ہو یا نہیں جن کو تم پورا کر سکتے ہو.اگر کرتے ہو تو یقینا تمہیں ان کا ثواب بھی ہے ملے گا جن کا پورا کرنا تمہارے اختیار میں نہیں.یہ ایک ایسا گر ہے کہ جس سے بہت فائدہ اٹھایا ہے جاسکتا ہے اور اس کے مطابق اگر مومن اپنے نفس کا محاسبہ کرتارہے تو ایمان اور عمل میں ہے (الفضل 22 مارچ 1944ء) بہت ترقی کر سکتا ہے".1 :الحجر: 3

Page 156

$1944 156 9 خطبات محمود بندہ کا مقام ہر حالت میں راضی برضائے الہی رہنا ہے (فرمودہ 3 مارچ 1944ء بمقام لاہور ) تشہد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: " آج مجھے شدید سر درد کا دورہ ہوا ہے اور اُمّم طاہر کی حالت بھی ایسی نازک ہے کہ میں زیادہ دیر باہر نہیں رہ سکتا اس لیے میں نہایت ہی اختصار کے ساتھ خطبہ بیان کرنا چاہتا ہوں کیونکہ میں نے ابھی واپس جانا ہے.اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے ساتھ یہ قانون بنایا ہوا ہے کہ وہ جہاں تک دعاؤں کا تعلق ہے ان کے ساتھ دوستانہ رنگ کا معاملہ رکھتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرمایا کرتے تھے کہ دعاؤں کے سلسلہ میں اللہ تعالیٰ بعض دفعہ تو اپنی مالکیت کا اظہار کرتا ہے اور بعض دفعہ اپنے فضل سے بندے کی دُعا کو قبول فرما لیتا ہے.1 آقا کے سامنے غلام کی جرات نہیں ہوتی کہ وہ کوئی بات کرے مگر خدا باوجود آقا ہونے کے اپنے بندوں کو اجازت تا ہے کہ وہ اس سے دعائیں کریں، اس سے التجائیں کریں اور بعض دفعہ ناز اور بعض دفعہ نیاز سے اس سے مانگیں.مگر فرماتے تھے خدا اس بات کی بھی اجازت نہیں دیتا کہ بندہ آقا بننے کی کوشش کرے.یعنی وہ یہ خیال کرلے کہ جو کچھ میں کہتا ہوں اللہ تعالیٰ اسے ضرور مان لے.بے شک وہ دعائیں مانگے ، بے شک وہ اللہ تعالی پر امید رکھے کہ وہ اس کی دعاؤں کو قبول ہے

Page 157

خطبات محمود 157 $1944 فرمائے گا.مگر پھر اسے سمجھ لینا چاہیے کہ جس طرح دو دوستوں کا آپس میں سلوک ہوتا ہے کہ کبھی وہ اس کی بات مان لیتا ہے اور کبھی یہ اس کی بات مان لیتا ہے اسی طرح اللہ کا اپنے بندے کے ساتھ معاملہ ہوتا ہے.کبھی اللہ تعالیٰ کہتا ہے کہ میں نے تمہاری خاطر اپنا ایک لمبا سلسلہ حالات بدل دیا، تمہاری دعا میں نے سن لی اور تمہاری اس دعا کو قبول فرما کر ایک ایسی چیز کو جو بظاہر ہوتی ہوئی نظر آتی تھی میں نے ٹلا دیا اور اپنی تقریر کو بدل دیا یا ایک ایسی چیز جو بظاہر ہے نہ ہوتی ہوئی نظر آتی تھی اسے تمہاری خاطر میں نے ہونے والی بنا دیا.لیکن بھی خدا اپنے لیے بندوں سے کہتا ہے کہ تم جو کچھ طلب کرتے ہو اُسے میری خاطر چھوڑ دو اس وقت میں اپنی مرضی چلانا چاہتا ہوں.یہی رنگ مومن اور خدا میں ہمیشہ چلتا چلا جاتا ہے.بسا اوقات ایک ہی شخص ہوتا ہے مگر ایک طرف تو اس کے متعلق ہمیں یہ نظر آتا ہے کہ وہ خدا کے حکم کے ماتحت مُردوں کو زندہ کرتا چلا جاتا ہے اور دوسری طرف یہ دکھائی دیتا ہے کہ اسی کے ہاتھوں سے زندے نکل کر مر جاتے ہیں.یہ دونوں چیزیں ہمیں سارے انبیاء کے حالات میں نظر آتی ہیں.حضرت عیسی علیہ السلام کے متعلق قرآن کریم میں ذکر آتا ہے کہ وہ مردے زندہ کیا کرتے تھے.2 انجیل میں بھی لکھا ہے کہ کئی مردے حضرت عیسی علیہ السلام کے ہاتھ سے زندہ ہوئے.3 اب مُردے زندہ کرنے کے کوئی معنے لے لو.چاہے وہ لے لو جو عیسائی مانتے ہیں یا بعض مسلمان بھی تسلیم کرتے ہیں کہ حقیقی طور پر وہ جسمانی مردوں کو زندہ کیا کرتے ہو تھے.چاہے وہ معنے لے لو جو ہماری جماعت کرتی ہے کہ ایسے بیمار جو بظاہر مر جانے والے ہوتے تھے جب حضرت مسیح ان کے لیے دعا کرتے تو ان کی دعا اور توجہ کی برکت سے اللہ تعالیٰ ان کو دوبارہ زندگی دے دیتا.چاہے یہ معنے لے لو کہ مردہ دل لوگوں کو وہ تبلیغ کرتے اور اپنی روحانیت کا ایسا اثر ان پر ڈالتے کہ وہ لوگ جو مُردہ دل ہوتے، جو روحانیت سے نا آشنا ہوتے اللہ تعالیٰ ان میں تقوی اور ایمان پیدا کر دیتا.ان میں سے کوئی معنے لے لو بہر حال ہر جگہ حضرت عیسٰی علیہ السلام ایسا نہیں کر سکتے تھے.اگر جسمانی مر دوں کو زندہ کرنا مراد لے لو تب بھی ان کے زمانہ میں لاکھوں لوگ مرے ہوں گے.مگر انہوں نے جن لوگوں کو زندہ ہو گا وہ پانچ سات ہی ہوں گے.خود وہ لوگ جو اس بات کے مدعی ہیں کہ

Page 158

$1944 158 خطبات محمود حضرت عیسی علیہ السلام جسمانی مردوں کو زندہ کیا کرتے تھے وہ بھی پانچ سات مردوں کو زندہ کرنے کے ہی قائل ہیں اور وہ بھی تسلیم کرتے ہیں کہ لاکھوں لوگ ان کے زمانہ میں مرے مگر انہوں نے صرف چند مردوں کو ہی زندہ کیا.اور اگر سخت بیماروں کی شفائے لوتب بھی ان کے زمانہ میں لاکھوں لوگ بیمار ہوئے اور لاکھوں لوگ ہی بیماریوں سے فوت ہوئے ہوں گے مگر ان کی دعاؤں سے اچھے ہونے والے صرف چند لوگ ہی ہوں گے.اور اگر مر دوں کو زندہ کرنے سے مراد روحانی مردوں کا احیاء لیا جائے تب بھی ان کی لاکھوں لاکھ کی قوم جو فلسطین میں آباد تھی اس میں سے چند سو ہی حضرت عیسی علیہ السلام پر ایمان لائے باقی لوگ روحانی لحاظ سے مُردے ہی رہے.غرض کوئی معنے لے لو یہی تسلیم کرنا پڑے گا کہ خدا نے کچھ معاملات میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی سنی اور کچھ معاملات میں ان سے اپنی بات منوائی.یہی حال ہمیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی میں نظر آتا ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک دفعہ دعا فرمائی کہ الہی ! تو عمر بن الخطاب یا ابو جہل میں سے کسی ایک کو ہدایت دے کر اسلام کو تقویت عطا فرما.4 اس پر اللہ تعالیٰ نے حضرت عمرؓ کو ہدایت دے دی مگر ابو طالب جن کے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر بڑے احسانات تھے، جنہوں نے بڑے بڑے مشکل اوقات میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ و کی مدد فرمائی اور جن کی ہدایت کے لیے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم دعائیں بھی کیا ک تھے انہوں نے مرتے وقت بھی یہی کہا کہ اے میرے بھتیجے ! میر ادل تو مانتا ہے کہ جو کچھ تو کہتا ہے سچ ہے مگر میں اپنی قوم کے مذہب کو نہیں چھوڑ سکتا اور اسی پر جان دیتا ہوں گے تو یہ اللہ تعالیٰ کے ہر کام میں حکمتیں ہوتی ہیں.بندے کا کام یہ ہوتا ہے کہ وہ آخر دم تک دعائیں کرتا چلا جائے اور خدا تعالی پر توکل رکھے.لیکن جب خدا کی مشیت ظاہر ہو جائے چاہے خوشی ہے کے رنگ میں، چاہے رنج کے رنگ میں تو اس کا دل تسلی پا جائے اور وہ خد اتعالیٰ پر کسی قسم کے شکوے کا اظہار نہ کرے.اگر خوشی ہو تب بھی اور اگر رنج ہو تب بھی.بندہ کے لیے یہی اصلی اور حقیقی مقام ہے کہ وہ ہر حالت میں اپنے رب کی رضا پر راضی رہے اور یہ نہ کہے کہ جس طرح غلام آقا کی بات مانتا ہے اسی طرح خدا اس کی ہر بات مانتا چلا جائے.آقا آقا ہی ہے

Page 159

خطبات محمود 159 $1944 وہ جس قدر مانتا ہے اس کا احسان ہوتا ہے اور جو بات وہ نہیں مانتا اس میں بندے کو گلے کا کوئی حق نہیں ہوتا.وہ یہ نہیں کہہ سکتا کہ اس نے میری یہ بات کیوں نہ مانی.اس کا ہماری کسی بات کو مان لینا احسان ہے اور کوئی شخص اپنے محسن سے یہ نہیں کہا کرتا کہ جب تو نے مجھ پر دس ہے احسانات کیے تو گیارھواں کیوں نہ کیا؟ پس مومن کو ہمیشہ یہ امر یاد رکھنا چاہیے کہ جہاں تک دعا کا تعلق ہے، مومن کو کبھی ہے تھکنا نہیں چاہیے اور ایک منٹ کے لیے بھی اس کے دل میں یہ خیال نہیں آنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ میری دعا نہیں سنے گا.چاہے کوئی مقدمہ ہو، بیماری ہو، مالی نقصان ہونے والا ہو یا جانی نقصان پہنچنے کا خطرہ ہو یا سیاسی یا اقتصادی نقصان کا احتمال ہو.غرض کتنا ہی بھیانک نقصان میں اسے پہنچنے والا ہو اُس کا فرض ہے کہ وہ اپنے رب پر توکل رکھے.اس سے دعائیں مانگتا چلا ہے جائے اور یہ خیال تک بھی اپنے دل میں نہ لائے کہ ایسا نہیں ہو سکتا.بلکہ یہی کہے کہ سب کچھ خدا کے اختیار میں ہے اور وہ ناممکن کو ممکن بنا سکتا ہے.لیکن جب خدا کا فیصلہ صادر ہو جائے تو خواہ اُس کا فیصلہ بعض دفعہ اُس کی مرضی کے خلاف ہی کیوں نہ ہو اُس کا فرض ہے کہ جس طرح پہلے اس نے مومنانہ رنگ دکھایا اسی طرح اب دوسرا مومنانہ رنگ یہ دکھائے کہ وہ پوری طرح خدا تعالیٰ کے فعل پر راضی ہو جائے.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ انسانی فطرت ایسے مصائب اور مشکلات کے وقت دکھ محسوس کرتی ہے مگر وہ دکھ اور رنج آور چیز ہے اور خدا کی بات پر ناشکری کر نا اور چیز ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ایک نواسے تھے.وہ بیمار ہوئے اور حالت زیادہ خراب ہو گئی.جب آپ کی لڑکی نے سمجھا کہ اب آخری وقت قریب ہے تو انہوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بلا بھیجا مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم چونکہ بڑے رحیم و کریم اور شفیق تھے آپ نے خیال فرمایا کہ اگر میں جاؤں گا تو تکلیف ہوگی اس نے لیے آپ نے جانے سے گریز فرمایا.اس پر پھر آپ کی لڑکی نے بڑے اصرار سے کہلا بھیجا کہ ایک دفعہ ضرور تشریف لائیں.چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لے گئے.بچہ پر اس وقت نزع کی حالت طاری تھی.اسے دیکھ کر آپ کے آنسو جاری ہو گئے.میں

Page 160

خطبات محمود 160 $1944 ایک شخص نے آپ کے آنسو بہتے دیکھ کر کہا.آپ خدا کے رسول ہو کر روتے ہیں؟؟ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا.خدا نے میرے دل میں رحمت اور شفقت پیدا فرمائی ہے.اگر تجھے خدا نے اس شفقت اور محبت سے محروم کر دیا ہے تو میں تیرا کیا علاج کر سکتا ہوں؟6 تو کسی رنج اور صدمہ کے موقع پر ہر انسانی قلب کو جو دکھ پہنچاتا ہے اور جسمانی طور پر اس کی طرف سے اظہارِ غم ہوتا ہے، یہ اور چیز ہے.شریعت اسے رافت اور شفقت قرار دیتی ہے لیکن خدا سے شکوہ کرنا یا یہ کہنا کہ اس نے ہم پر سختی کی ہے یا ہمارا خدا پر کوئی حق تھا یہ کفر میں کی باتیں ہیں.مومن ایسے کلمات اپنی زبان سے نہیں نکال سکتا.مومن کا دل اگر ایک طرف بنی نوع انسان کی محبت سے پر ہوتا ہے تو دوسری طرف وہ خدا تعالی کی رضا پر بھی کامل طور پر راضی رہتا ہے.حقیقت یہ ہے کہ کوئی شخص مومن نہیں ہو سکتا جب تک کہ وہ اپنی بیوی سے، اپنے بچوں سے، اپنے رشتہ داروں سے، اپنے دوستوں اور عزیزوں سے بلکہ اپنے دوستوں اور عزیزوں کے رشتہ داروں اور تعلق رکھنے والوں سے محبت نہ کرے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ہم دیکھتے ہیں آپ اپنی بیویوں سے اس قدر محبت کیا کرتے تھے کہ بیویاں یہ فرماتی ہیں ہم بعض دفعہ پانی پی کر گلاس رکھ دیتیں تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کو میں اٹھاتے اور جہاں ہم نے ہونٹ رکھ کر پانی پیا ہوتا وہاں اپنے ہونٹ رکھ کر پانی پیتے.یہ گویا بالواسطہ بوسہ ہو گیا.حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا ایک دفعہ بیمار تھیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پاس بیٹھے تھے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے اپنے سر کے اوپر ہاتھ مارا اور کہا ہائے میرا سر.معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو اُس وقت شدید سر درد تھا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا عائشہ ! کیوں گھبراتی ہو؟ اللہ فضل کرے گا.حضرت عائشہ نے کہا یا رسول اللہ ! جانے بھی دیجیے اگر میں مرگئی تو آپ کا کیا ہے آپ ایک اور شادی کر لیں گے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس فقرہ کو سن کر فرمایا عائشہ ! تو نے کہا تھا ہائے میرا سر! اور جب میں نے کہا کہ اللہ فضل کرے گا تو تم نے کہہ دیا میرا کیا ہے میں اگر مر گئی تو آپ اور ہے

Page 161

$1944 161 خطبات محمود شادی کرلیں گے.سو اب میں تجھے کہتا ہوں "ہائے میرا سر" 8 چنانچہ آپ اس کے تیسرے دن بیمار ہوئے اور چند دن بعد فوت ہو گئے.معلوم ہوتا ہے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو علم ہو چکا تھا کہ اب میری وفات کا وقت قریب ہے.حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے جب ناز کے ساتھ کہا کہ آپ کو میری کیا فکر پڑی ہے میں مر جاؤں گی تو آپ اور شادی میں کر لیں گے.تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُس راز کو ظاہر کر دیا اور فرمایا کہ تم تو یہ ہے کہتی ہو مگر میں تمہیں یہ بتا تا ہوں کہ تم زندور ہو گی اور میں وفات پا جاؤں گا.تو مومن جس قدر خدا کے قریب ہوتا چلا جاتا ہے بنی نوع انسان کی ہمدردی اور ان کے حقوق کو ادا کرنے کا مادہ بھی اس میں بڑھتا چلا جاتا ہے.مگر اس کے مقابلہ میں اللہ تعالیٰ اپنے فضل و کرم سے اُسے اس بات کی بھی توفیق دے دیتا ہے کہ جب اسے کوئی تلفنی پہنچے تو می اسے وہ بر داشت کرے.چنانچہ وہ پھر بھی خدا تعالیٰ کا شکر گزار ہی ہوتا ہے اور اس کی حمد اس کی زبان پر جاری ہوتی ہے.حضرت خلیفہ اول فرمایا کرتے تھے کہ میرا ایک لڑکا جو میری پہلی بیوی سے تھا اور اُس وقت تک میرا اکلوتا بیٹا تھا فوت ہو گیا اور وہ فوت بھی اس طرح ہوا کہ میں سمجھتا ہوں میں نے ہی اسے قتل کیا.اور یہ اس طرح ہوا کہ وہ معمولی بیمار تھا آپ اسے دیکھنے کے لیے تشریف لے گئے اور اس کے لیے دوائی کی ایک پڑیا تجویز کی.شاید اس کے گلے میں کوئی نقص تھا آپ نے وہ دوا تجویز فرما کر لڑکے کی والدہ سے کہا کہ یہ پڑیا اسے ابھی کھلا دی جائے.آپ فرماتے تھے اسی وقت بچے نے مجھے کہا ابا مجھے ایک گھوڑالے دو.آپ باہر نکلے اور ایک رئیس سے جو گھوڑوں کا اچھا واقف تھا بات کرنے لگے کہ ہمیں ایسا گھوڑا چاہیے کہ اتنا قد ہو اور اتنی قیمت ہو.فرماتے تھے ابھی میں اُس سے باتیں ہی کر رہا تھا کہ نو کر دوڑا ہوا آیا اور کہنے لگا لڑکا فوت ہو گیا ہے.میں جو گیا تو مجھے معلوم ہوا کہ پڑیا جب اُس کے منہ میں ڈالی گئی تو اسے اچھو آیا اور ساتھ ہی اس کا دم نکل گیا.آپ فرماتے تھے مجھے اس کا اتنا صدمہ ہوا، اتنا صدمہ ہوا کہ جب میں نماز کے لیے کھڑا ہوا تو میرے منہ سے اَلْحَمْدُ لِلہ نہ نکلے اور بار بار میرے دل میں یہی خیال آئے کہ کس طرح اچانک میر الڑ کا فوت ہو گیا ہے.اس پر یکدم میرے دل میں خیال ہے

Page 162

$1944 162 خطبات محمود پیدا ہوا کہ نورالدین! تجھے آخر یہی خیال ہے کہ تیرا یہ لڑکا تیری یاد گار ہوتا اور تیر انام دنیا میں باقی رہتا.لیکن اگر بڑے ہو کر یہ لڑ کا چور بن جاتا تو پھر تیری کیا عزت ہوتی یا اگر بڑا ہو کر یہ ظالم ہو تا، ڈاکو بن جاتا اور بنی نوع انسان کو دکھ پہنچاتا تو لوگ صرف اس کو گالیاں نہ دیتے بلکہ تجھے بھی گالیاں دیتے.ایسی حالت میں بچے کو اٹھا لینا یہ تو اللہ تعالیٰ کا تجھ پر احسان ہے اور تیرا فرض ہے کہ تو اس کے اس احسان کا شکر ادا کرے.آپ فرماتے تھے جب میرے دل میں یہ ہے خیال پیدا ہوا تو اس وقت بے اختیار میری زبان سے بڑے زور کے ساتھ نکلا الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ العلمین اور چونکہ میں نے بڑی بلند آواز سے اور چیخ کر کہا تھا الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِيْنَ اس لیے مقتدی بھی حیران ہو گئے کہ یہ کیا ہوا.چنانچہ بعد میں انہوں نے مجھ سے پوچھا اور میں نے بتایا کہ آج اس طرح خدا نے میری راہ نمائی فرمائی ہے ورنہ میرے دل کو سخت صدمہ پہنچا تھا.تو حقیقت یہی ہے کہ مومن اللہ تعالیٰ کی ہر تقدیر پر خوش ہوتا ہے گو وہ اس کی مرضی کے مطابق ہو یا نہ ہو.مگر جہاں وہ اللہ تعالیٰ کی ہی تقدیر پر خوش ہوتا ہے وہاں وہ آخر تک مایوس نہیں ہوتا.ہم نے دیکھا ہے، اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے اور متواتر دیکھا ہے کہ جب کوئی چیز بظاہر بالکل نا ممکن نظر آتی ہو اور ہم سمجھتے ہوں کہ وہ نہیں ہو سکتی اسی وقت ہے خدا تعالیٰ کا فعل اس ناممکن امر کو ممکن بنا دیتا ہے.ایک دفعہ نہیں، دو دفعہ نہیں حضرت سیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی زندگی میں، خود اپنی ذات میں اور جماعت کے متعلق جو ہے دعائیں کی جاتی ہیں ان کے نتیجہ میں یا دعاؤں کے بغیر خدا تعالیٰ کی رحمانیت کے فضل کے نتیجہ میں ہم نے ایسی سینکڑوں مثالیں دیکھی ہیں کہ انسان جب زندگی سے بالکل مایوس ہو جاتا ہے ، عزت سے بالکل مایوس ہو جاتا ہے ، حالات کی درستی سے بالکل مایوس ہو جاتا ہے، اقتصادی یا سیاسی نقصانات کی تلافی سے بالکل مایوس ہو جاتا ہے اور جب اسے نظر آتا ہے کہ اب اس بات کا ہونا بالکل ناممکن ہے اُسی وقت خدا کی تقدیر آسمان سے ظاہر ہوتی ہے ہے.اور جس کام کے متعلق وہ سمجھ رہا ہوتا ہے کہ وہ کبھی نہیں ہو سکتا اتنی آسانی سے ہو جاتا ہے کہ کہنے والے کہتے ہیں یہ بات تو آخر ہو ہی جانی تھی اس میں عجیب بات کونسی ہے.جس طرح انگریزوں کو جب ابتدا میں شکستیں ہوئی شروع ہوئیں تو میں نے قبل از وقت ہے

Page 163

خطبات محمود 163 $1944 اللہ تعالیٰ سے خبر پا کر شائع کر دیا تھا کہ انگریزوں کو فتح ہو گی.اُس وقت حالات ایسے مایوس کن تھے کہ سب لوگ کہتے تھے انگریزوں کا فتح پانا بالکل نا ممکن ہے.پرائم منسٹر نے بھی کہا کہ چھ مہینے پہلے اگر کوئی شخص یہ کہتا کہ ہم اس جنگ میں فتح حاصل کر لیں گے تو ہم اسے یہ پاگل سمجھتے.لیکن جب یہ واقعہ ہو گیا اور چھ ماہ کے بعد جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے خبر دی تھی انگریزوں کی حالت بدلنی شروع ہوئی اور انہوں نے فتوحات حاصل کرنی شروع کر دیں تو بہت لوگوں نے یہ کہنا شروع کر دیا کہ یہ کونسی عجیب بات تھی ہر شخص انگریزوں کی طاقت کو دیکھتے ہوئے قیاس سے کہہ سکتا تھا کہ آخر انہی کو فتح ہو گی.تو بسا اوقات جن باتوں کو تم انسان ناممکن قرار دیتا ہے جب اللہ تعالی ان کے متعلق آسمان پر فیصلہ کر دیتا ہے کہ وہ یہ ہو جائیں تو وہ باتیں ایسی آسانی کے ساتھ ہو جاتی ہیں کہ بعد میں لوگ ان حالات کو دیکھ کر کہتے ہیں کہ ایسا ہو ہی جانا تھا اس میں انوکھی بات کونسی ہے؟ غرض مومن کے لیے دونوں حالتیں ضروری ہیں.ایک طرف وہ اللہ تعالیٰ پر سمج یقین رکھے اور اس کی نصرت اور تائید سے ایک لمحہ کے لیے بھی مایوس نہ ہو.کیونکہ ہمارا تجر بہ بتاتا ہے کہ ناممکن چیزوں کو وہ ممکن بنا دیتا ہے اور جب انسان کی عقل کسی کام کو ہونے ہیں والا قرار نہیں دیتی اللہ تعالیٰ اسے اپنے فضل سے ہونے والا بنا دیتا ہے.لیکن دوسری طرف اللہ تعالی بعض دفعہ اپنے بندوں سے اپنی مرضی بھی منوانا چاہتا ہے.بہر حال وہ بادشاہ ہے اور حق رکھتا ہے کہ جس طرح چاہے کرے.کسی انسان کا اختیار نہیں کہ وہ یہ کہہ سکے کہ اس نے ایساکیوں کیا؟ رَضِيْنَا بِاللهِ رَبًّا وَبِالْإِسْلَامِ دِينًا وَبِمُحَمَّدٍ رَسُوْلًا وَبِالْقُرْآنِ (الفضل 18 اپریل 1944ء) حَكِيمًا.1 : الحکم 10 نومبر 1902ء صفحہ 3 (مفہوٹا) 2 : المائدة: 111 : متی باب 9 آیت 18 تا 26

Page 164

$1944 164 خطبات محمود 4 ترمذی ابواب المناقب مناقب ابو حفص عمر بن الخطاب باب اِسْلَامِ عُمَرَ عَلَى اثْرِ دُعَائِهِ 5 بسیرت لابن ہشام جلد 2 صفحہ 59 زیر عنوان وفاة ابی طالب وخدیجہ.مصطفی البابی الحلبی 6 78 و اولاده بمصر 1936 ء : بخاری کتاب الجنائز باب قول النبى صلى الله عليه وآله وسلم يُعَذِّبُ الميّتُ بِبَعْضِ بُكَاءِ أَهْلِهِ إِذَا كَانَ النَّوْحُ مِنْ سُنَّتِهِ : سنن النسائى كتاب الطهارة باب مواكلة الحائض و الشرب مِنْ سؤرها :سیرت ابن ہشام جلد 4 صفحہ 292 زیر عنوان ابتداء شكوى رسول الله له مصطفی البابی الحلبی واولادہ بمصر 1936ء مطبوعه ---_--_--_-_-_-_-_-_-_-

Page 165

$1944 165 10 خطبات محمود چند نہایت ہی اہم باتیں فرموده 10مارچ1944ء) تشہد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: "حضرت سیدہ اُمم طاہر احمد صاحبہ کی وفات: اس ہفتے جو میرے گھر میں ایک واقعہ ہوا ہے یعنی میری بیوی اہم طاہر فوت ہوئی ہیں اس کے متعلق میں دیکھتا ہوں کہ جماعت میں بہت بڑا درد پایا جاتا ہے.خصوصاً عور تیں اور غریب عورتیں بہت زیادہ اس درد کو محسوس کرتی ہیں کیونکہ میری یہ بیوی جو فوت ہوئی ہیں ان کے دل میں غرباء کا خیال رکھنے کا مادہ بہت زیادہ پایا جاتا تھا.ان کی بیماری کے لمبے عرصہ میں جماعت نے جس قسم کی محبت اور ہمدردی کا من اظہار کیا ہے وہ ایک ایسی ایمان بڑھانے والی بات ہے جس سے پتہ لگتا ہے کہ مومن واقع میں ہے ایک ہی جسم کے ٹکڑے ہوتے ہیں.بلکہ حق یہ ہے کہ جماعت کی ہمدردی کو دعاؤں کی شکل ہے میں ہی ہوتی تھی لیکن قادیان کے لوگوں کے متعلق جب مجھے معلوم ہوتا کہ وہ بار بار مسجد میں ہے جمع ہو کر ان کی صحت کے لیے دعائیں کرتے ہیں تو کئی دفعہ مجھے شک گزرتا کہ ایسانہ ہو ہمارا یہ اضطرار خدا کو نا پسند ہو.جہاں تک میاں اور بیوی کا تعلق ہوتا ہے ان کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنے گھر میں آنے کے لیے بچنا اور ان کی پہلی شادی ہمارے چھوٹے بھائی مبارک احمد مرحوم ---_-_-_-_-_-

Page 166

خطبات محمود 166 $1944 سے ہوئی تھی.اس لیے ان کا انتخاب گویا خود حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ہی کیا ہوا تھا.1921ء کے شروع میں وہ مجھ سے بیاہی گئیں اور اب 1944ء میں وہ فوت ہوئی ہیں.اس طرح 23 سال کا لمبا عرصہ انہوں نے میرے ساتھ گزارا.جو لوگ ہمارے گھر کے حالات جانتے ہیں ان کو معلوم ہے کہ مجھے ان سے شدید محبت تھی لیکن باوجود اس کے جو اللہ تعالی کا فعل ہے اُس پر کسی قسم کے شکوہ کا ہمارے دل میں پید اہو نا ایمان کے بالکل منافی ہے ہو گا.ہر چیز اللہ تعالی کی ہی ہے.ہمیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہی تعلیم دی ہے ہے اور اللہ تعالیٰ نے بھی یہی تعلیم دی ہے کہ جب کوئی شخص وفات پا جائے، ہمارا اصل کام یہی ہوتا ہے کہ ہم کہہ دیں اِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رُجِعُونَ 1 یہ کیسی لطیف تعزیت ہے ہمارے رب کی طرف سے.اِس سے بڑھ کر بندہ بھلا کیا تعزیت کر سکتا ہے.کہتا تو بندہ ہی ہے اِنَّا لِلہ.مگر سکھانے والا خدا ہے.پس جب خدا تعالیٰ نے یہ سکھایا اور بندے کے منہ سے اسے جاری کیا تو وہ الفاظ در حقیقت خدا تعالیٰ کی طرف سے ہی ہیں.ان الفاظ کے معنے یہ ہیں کہ مرنے والا اور باقی رہنے والے سب اس کے ہی ہیں.پس اگر وہ اللہ کی چیز تھی اور ہم بھی اسی کے ہیں تو اللہ تعالی اگر اپنے ایک غلام کے پاس رکھوائی ہوئی امانت اس سے واپس لے گیا تو اسے شکوہ کا ہے کیا حق ہے.مگر یہ پہلا حصہ کچھ استغناء ظاہر کرتا ہے.اس لیے اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں پر رحم فرما کر دوسرا حصہ اس کے ساتھ لگا دیا کہ انا الیه راجِعُون.اس طرح اس تعزیت کو مکمل فرما دیا.پہلے فرمایا تھا کہ اگر ہم تم کو کوئی انعام دیتے ہیں اور پھر وہ انعام تم سے لے لیتے ہیں تو تمہیں اس پر کوئی اعتراض نہیں ہونا چاہیے.کیا کوئی کہہ سکتا ہے کہ میرے محسن نے فلاں چیز مجھے دی تھی اور میں اس سے پانچ سال یا دس سال یا بیس سال یا تیس سال یا چالیس یا پچاس سال تک فائدہ اٹھاتا رہا.اس کے بعد وہ اپنی امانت مجھ سے کیوں لے گیا؟ اس بات پر اسے شکوے کا کیا حق ہے.یہ تو اس کا احسان تھا کہ جتنی مدت وہ چیز اس کے پاس رہی اس سے وہ پوری طرح فائدہ اٹھا تارہا.اب اس کے بعد فرماتا ہے کہ یاد رکھو اگر تمہارا کوئی عزیز ہم نے تم سے جدا کر دیا ہے تو مومن کو یہ بھی تو سوچنا چاہیے کہ دنیا سے کسی کا اٹھ جانا دائمی جدائی کا موجب تو نہیں ہوتا.اگر یہ دائمی جدائی ہوتی اور فرض کرو کہ بعد الموت کوئی زندگی نہ ہوتی ہے

Page 167

خطبات محمود 167 $1944 تب بھی کیا خدا کا حق نہیں تھا کہ جو چیز اس نے دی ہے وہ اسے واپس لے ؟ لیکن وہ زائد وعدہ یہ کرتا ہے کہ اِنَّا إِلَيْهِ رُجِعُوْنَ.ایک شخص اگر خدا کی طرف گیا ہے تو ہم بھی ایک دن اسی کی طرف چلے جائیں گے.فرق صرف یہ ہے کہ کسی نے پہلے سفر طے کر لیا ہے اور کوئی بعد میں سفر کے لیے چل پڑے گاور نہ منزلِ مقصود سب کی ایک ہی ہے اور جب منزلِ مقصود ایک ہی ہے تو اس میں گھبر بہت کی کون سی بات ہے.بچے بعض دفعہ تعلیم حاصل کرنے کے.ولایت بھیج دیئے جاتے ہیں.اب کسی کی زندگی کا کیا اعتبار ہوتا ہے.کون کہہ سکتا ہے کہ وہ ایک یا دو دن بھی اور زندہ رہے گا.نہ والدین جانتے ہیں کہ انہوں نے اتنا عرصہ زندہ رہنا ہے اور نہ لڑکے جانتے ہیں کہ ان کی زندگی کب تک ہے.مگر باوجو د اس کے جب لڑکوں کو پڑھنے کے لیے ولایت بھیجا جاتا ہے تو پانچ پانچ چھ چھ بلکہ دس دس سال تک مائیں صبر کرتی ہیں، باپ ہے صبر کرتے ہیں اور وہ گھبراہٹ سے کام نہیں لیتے.کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ آخر ہمارے بچے ایک دن آجائیں گے.یا اگر کسی سفر پر کوئی شخص پہلے چل پڑتا ہے اور دوسروں نے بھی وہیں ہے جانا ہوتا ہے تو وہ سمجھتے ہیں ہم چند دن کے بعد اس سے جاملیں گے.جانا تو ہے ہی.تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.اِنَّا لِلہ پہلے یہ اقرار کرو کہ خدا نے ہم پر جو احسان کیا ہے ہم اس کے شکر گزار ہے ہیں.پھر یہ بھی سمجھ لو کہ تم سارے ایک دن خدا کے پاس جمع ہونے والے ہو اور اس کے پاس ہے ہو جاؤ گے.پس فرماتا ہے جب تم سارے ایک دن اکٹھے ہونے والے ہو تو خدا کے فعل پر شکوہ یا جزع فزع کتنی بڑی نادانی ہے.اگر تم جزع فزع کرو گے تو اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ تمہارا اپنے عزیزوں سے آخری اتصال کمزور ہو جائے گا کیونکہ جس خدا کے اختیار میں یہ ہے کہ وہ اگلے جہان میں سب کو اکٹھا کر دے اُسی کے اختیار میں یہ بھی ہے کہ وہ اگلے جہان میں بعض کو جد اجدار کھے.پس مومن کی اصل تعزیت اِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رُجِعُونَ ہی ہے.باقی جہاں تک جسم کا تعلق ہے جسم جب کہتا ہے تو ضرور دیکھ پاتا ہے.صحابہ جنگوں میں شہید ہوئے اور اپنی خوشی سے شہید ہوئے.آخر بدریا احد یا احزاب کے موقع پر کون ان کو پکڑ کر لے گیا تھا.وہ اپنی خوشی سے گئے اور اپنی خوشی سے شہید ہوئے لیکن جہاں تک جسم کے کٹنے کا سوال ہے ان کو ضرور تکلیف ہوئی.پس جسم بے شک دُکھ پاتا ہے مگر اللہ تعالیٰ کا بہت بڑا

Page 168

خطبات محمود 168 $1944 احسان ہوتا ہے اُس بندے پر جس کی روح خدا کے آستانہ پر جھکی رہے اور اُس سے کہے کہ اے میرے رب! مجھے کوئی شکوہ نہیں.تُو نے جو کچھ کیا ٹھیک کیا.یہی عین مصلحت تھی اور یہی چیز میرے لیے بہتر تھی.تیرا فعل بالکل درست ہے.اور گو مجھے سمجھ میں نہ آئے مگر میں ہے یہی کہتا ہوں کہ تیرا کوئی کام حکمت کے بغیر نہیں.میں نے جہاں تک ہو سکا مر حومہ کے علاج کے لیے کوشش کی.لمبی بیماری تھی.لیکن اس لمبی بیماری میں خدا تعالی نے مجھے توفیق عطا فرمائی ہیں کہ میں نے ان کی ہر طرح خدمت کی اور ان کے علاج کے لیے کوشش کی.اس طرح اللہ تعالیٰ نے میرے لیے ثواب کا ایک موقع بہم پہنچا دیا.اور اس بات کا بھی کہ میاں بیوی میں بعض ہے دفعہ رنجشیں ہو جاتی ہیں خصوصاً جس کی کئی بیویاں ہوں اُن میں سے بعض کہہ دیا کرتی ہیں کہ میں ہم سے محبت نہیں فلاں سے ہے، چاہے اُس سے زیادہ محبت ہو.مگر اس قسم کے شکوے بعض ہے دفعہ پیدا ہو جایا کرتے ہیں.مجھے ان کی اِس لمبی بیماری کی وجہ سے بہت تکلیف تھی مگر میں سمجھتا تھا اس کے کئی فوائد بھی ہیں.ایک تو یہ کہ میں سمجھتا تھا کم سے کم میری خدمت کی وجہ سے اگر ان کے دل میں اس قسم کا کوئی خیال ہو گا بھی کہ میر اخاوند مجھ سے محبت نہیں کرتا رہا، میری قدر نہیں کرتا تو یہ خیال ان کے دل سے جاتا رہے گا اور ان کی وفات اطمینان کی وفات کے ہو گی اور یہ سمجھتے ہوئے ہو گی کہ میرا خاوند مجھ سے محبت کرتا ہے.دوسری حکمت اس میں یہ تھی کہ ہر انسان سے اپنی زندگی میں کچھ نہ کچھ غلطیاں اور کو تاہیاں ہو جاتی ہیں.لمبی بیماریاں ہے بے شک انسان کے لیے بڑے دکھ کا موجب ہوتی ہیں مگر لمبی بیماریوں سے مرنے والا بشر طیکہ وہ مومن ہو خدا تعالیٰ کی مغفرت کا مستحق ہو جاتا ہے اور اللہ تعالیٰ اسے اپنی بیماری کے ایام میں توبہ کی توفیق دے دیتا ہے، استغفار کی توفیق دے دیتا ہے، دُعا کی توفیق دے دیتا ہے اور یہ سب چیزیں مل کر اُس کی مغفرت اور ترقی درجات کا باعث بن جاتی ہیں.تیسری حکمت یہ ہے کہ ایسی لمبی بیماریوں میں چونکہ بیمار کے رشتہ دار بھی کثرت سے دعائیں کرتے ہیں اس لیے خدا کے حضور جب وہ دعائیں ظاہری صورت میں قبول ہونے والی نہیں ہو تیں تو وہ اُن دعاؤں کے بدلہ میں مرنے والے کی عاقبت کو درست کر دیتا ہے اور فرماتا ہے ہم نے اسے دنیا میں تو صحت نہیں دی مگر آخرت میں اس کی روح کو صحت دے دی ہے.

Page 169

خطبات محمود 169 $1944 پھر ہمارے ساتھ تو اللہ تعالیٰ کا یہ معاملہ ہے اور در حقیقت تمام کامل اور سچے مومنوں کے ساتھ ہوتا ہے کہ وہ قبل از وقت ایسی خبریں دے دیتا ہے جن کے پورے ہونے پر رنج میں بھی خوشی کا سامان پیدا ہو جاتا ہے.آج سے بارہ تیرہ سال پہلے میں نے رویا میں دیکھا کہ طاہر کا آپریشن ہوا ہے مگر میں نے دیکھا کہ ان کا آپریشن دہلی میں ہوا ہے اور مجھے اطلاع ملی ہے کہ اُن کا ہارٹ فیل ہو گیا ہے.میں اس رڈیا کی وجہ سے باوجود اس کے کہ وہ بیمار تھیں ہیں اور لمبے عرصہ سے بیمار تھیں آپریشن سے گھبراتا تھا.کئی دفعہ بعض دوستوں نے کہا کہ دہلی میں ان کا آپریشن ہو جائے مگر میں رُکتا رہا اور چونکہ خواب کی اگر ظاہری شکل بدل جائے تو اس صورت میں بھی وہ بعض دفعہ ٹل جاتی ہے اس لیے ان کو لاہور کے ہسپتال میں داخل کر دیا گیا.وہاں ایسی صورت پیدا ہو گئی کہ سوائے آپریشن کرنے کے اور کوئی چارہ نہ رہا.آپریشن کے بعد دوسرے دن ان کو دل کی کمزوری کا دورہ ہوا اور خطرہ ہو گیا کہ کہیں ہارٹ فیل نہ ہو جائے.اُس وقت میں نے ان کے لیے دعا کرنی شروع کر دی.جب میں دعا کر رہا تھا تو یکدم مجھے یہ رویا یاد آگیا اور میرا ذہن اس طرف منتقل ہوا کہ اس ہسپتال کا نام لیڈی ولنگڈن ہاسپٹل ہے اور لیڈی ولنگڈن وائسرائے کی بیوی تھیں جس کا صدر مقام دبلی ہوتا ہے.پس رویا میں جو دکھایا گیا تھا کہ اُن کا آپریشن دہلی میں ہوا اور اس کے بعد اُن کا ہارٹ فیل ہو گیا اس سے مراد کہیں ایسا ہسپتال نہ ہو جس کی دہلی سے کوئی نسبت ہو.اس سے مجھے سخت تشویش ہوئی اور میں نے ڈاکٹر حشمت اللہ صاحب سے اِس کا ذکر کیا کہ اس خواب کا خیال آکر مجھے سخت تشویش ہے.کیونکہ جب اللہ تعالیٰ اپنی کوئی تقدیر پوری کرنا چاہتا ہے تو باوجو د علم کے آنکھوں پر پردہ پڑ جاتا ہے.میں سمجھتا رہا کہ اس سے مراد شہر دہلی کا ہسپتال ہے مگر اب خوف پیدا ہو رہا ہے کہ کہیں دہلی کے کسی آدمی سے تعلق رکھنے والا ہسپتال مراد نہ ہو.بہر حال اُس وقت ہے میں نے ان کی صحت کے لیے خاص طور پر دعا شروع کر دی اور اللہ تعالی نے اپنے فضل سے اُس وقت ان کو کچھ آرام بھی دے دیا.اس کے بعد جب میں جنوری کے آخر میں یہاں آیا تو میں نے ایک اور رؤیا دیکھا.جب میں یہاں آیا ہوں اُس وقت برابر یہ خبریں آتی رہیں کہ ان کی صحت اچھی ہے.اللہ تعالی کی مشیت ایسی ہی تھی کہ صحیح حالات کا علم نہ ہو سکا.

Page 170

خطبات محمود 170 $1944 ڈاکٹر غلام مصطفی صاحب اس ہسپتال میں کام کرتے ہیں.انہوں نے بڑے اخلاص اور محبت سے تیمارداری میں حصہ لیا ہے.اللہ تعالیٰ ان کو جزائے خیر عطا فرمائے.میری نیت اُس وقت یہی تھی کہ میں جمعہ پڑھا کر قادیان سے جاؤں اور اگلا جمعہ پھر قادیان میں ہی واپس آکر پڑھاؤں.لیکن ڈاکٹر غلام مصطفی صاحب نے یہ اطلاعات دینی شروع کیں کہ مریضہ بالکل اچھی ہیں اور چند دن میں ان کو ہسپتال سے فارغ کر دیا جائے گا.اس وجہ سے میں نے مناسب سمجھا کہ میں اگلے جمعہ تک قادیان ہی ٹھہروں مگر واقعہ یہ تھا کہ اس عرصہ میں ان کا دوبارہ آپریشن ہوا تھا اور ان کی صحت گر رہی تھی.چنانچہ جمعرات کی شب کو فون آیا کہ ان کی حالت بہت نازک ہے اور میرے نہ آنے کی وجہ سے وہ بہت گھبرارہی ہیں.ڈاکٹر میجر سید حبیب اللہ شاہ صاحب ان کے بھائی ان کو ملنے کے لیے گئے تو یہ انہوں نے آکر شیخ بشیر احمد صاحب کو فون پر ان کی نازک حالت کی اطلاع دی اور مزید کہا کہ وہ مجھے اطلاع کر دیں کہ آپ کے نہ آنے کی وجہ سے مریضہ بہت گھبرائی ہوئی ہیں.چنانچہ میں جمعہ پڑھا کر لاہور گیا اور اُس وقت مجھے معلوم ہوا کہ اُن کے پیٹ میں دوبارہ شگاف دیا گیا ہے اور حالت پہلے سے خراب ہے.اس قادیان کے قیام کے ایام میں جبکہ ان کی صحت کے متعلق مجھے اچھی خبریں آرہی تھیں میں نے خواب میں دیکھا کہ شیخ بشیر احمد صاحب مجھ سے ملنے کے لیے آئے ہیں اور کہتے ہے ہیں کہ اقم طاہر کا ہارٹ فیل ہو گیا ہے.پھر کہنے لگے انہوں نے آپ تک پہنچانے کے لیے مجھے کہا تھا کہ سو روپیہ فلاں عورت کو دے دیں اور سو روپیہ فلاں عورت کو دے دیں.ایک عورت کا انہوں نے نام بتایا اور دوسری کا نام انہوں نے نہ بتایا.یوں معلوم ہو تا تھا کہ وہ اس کا نام بھول گئے ہیں مگر ساتھ ہی کہا کہ عجیب بات ہے کہ جب وہ وصیت کر رہی تھیں اور ان کا دل ساکت ہو رہا تھا تو ان کی طبیعت بالکل مطمئن تھی اور ان کے دل پر اُس وقت گھبراہٹ کے کوئی آثار نہ تھے.یہ خواب میں نے لاہور میں بہت سے دوستوں کو سنا دی تھی.خواب کا بعض دفعہ ایک حصہ پورا کر دیا جائے تو وہ مل جایا کرتی ہے اس بناء پر میں نے یہاں سے جا کر ان کو دو سو روپیہ دیا اور کہا کہ ایک سو روپیہ تو فلاں عورت کو دے دو اور ایک سو روپیہ جس عورت کو چاہو ہے

Page 171

خطبات محمود 171 $1944 ہے دے دو مگر شرط یہ ہے کہ پورا سودو.تقسیم کر کے مختلف مستحقوں کو نہ دو.یہ عجیب اتفاق.کہ جس عورت کو انہوں نے سو روپیہ بھجوایا اُس کے متعلق بعد میں معلوم ہوا کہ اُس نے دو دن پہلے کسی سے کہا تھا کہ میرے بیٹے کو سو روپیہ کی ضرورت ہے.میری فلاں فلاں چیزیں فروخت کر دو اور اس کے لیے روپیہ کا انتظام کر دو.اس کے بعد جب ہم ان کو دوسرے ہسپتال میں لے گئے تو ایک دن جب میں اُن کے لیے دعا کر کے سویا تو مجھے رویا میں ایسا معلوم ہوا جیسے اس مکان کی سیڑھیوں پر میرے ساتھی گھبرائے ہوئے چڑھ رہے ہیں.میں ان کے قدموں کی آواز سن کر اور ان کی گھبراہٹ کے محسوس کر کے باہر نکلا تاکہ معلوم کروں کہ کیا بات ہے.جب میں باہر آیا تو میں نے دیکھا کہ ان کے ہاتھ میں گاگریں ہیں.انہوں نے گاگریں میرے سامنے رکھ دیں اور کہا کہ سب سکے سوکھ گئے ہیں، کہیں پانی نہیں ملتا.میں نے اُن سے کہا کہ کہیں سے پانی تلاش کرو.اس پر ہے انہوں نے کہا کہ حضور سب ہی نلکے سوکھ گئے ہیں.میں خواب میں ایسا سمجھتا ہوں کہ اس وقت پانی کی سخت ضرورت ہے اور زور دیتا ہوں کہ کہیں سے پانی تلاش کرو.مگر وہ یہی کہتے ہیں کہ سب نلکے سوکھ گئے ہیں.اس کے بعد میں نے دیکھا کہ کوئی شخص بہت تلاش کرنے می کے بعد پانی کا ایک لوٹا لایا ہے.مجھے یہ یاد نہیں رہا کہ میں نے اُس سے پانی کا لوٹا لیا ہے یا نہیں.پھر اس رڈیا کے مطا بعد یا پہلے جاگتے ہوئے جبکہ میں سو نہیں رہا تھا میں نے دیکھا کہ می کوئی شخص میرے کان پر جھکا اور آہستہ سے میرے کان میں اُس نے کہا السَّلَامُ عَلَيْكُمْ.میں نے دوستوں کو یہ خواب سنایا تو انہوں نے کہا یہ بڑا اچھا خواب ہے کیونکہ السَّلَامُ عَلَيْكُمْ کہا گیا ہے.مگر میں نے کہا مجھے تو یہ منذر معلوم ہوتا ہے کیونکہ آنے والا دور سے السَّلَامُ عَلَيْكُمْ کہا کرتا ہے اور جانے والا پاس سے السَّلَامُ عَلَيْكُمْ کہا کرتا ہے.پانی نہ ملنے کے معنے بھی یہی تھے کہ ان کی زندگی کا پانی ختم ہو چکا تھا اور ایک لوٹا پانی کے معنے یہ تھے کہ اب وہ تھوڑا عرصہ ہی زندہ رہیں گی.چنانچہ اس رؤیا کے بعد وہ صرف اڑتالیس گھنٹے زندہ رہیں.اس کے بعد وفات پا گئیں.تو دیکھو کس طرح ساری باتیں پوری ہو گئیں.بارہ سال پہلے ایک خواب دیکھی گئی تھی جس میں بتایا گیا تھا کہ ان کا آپریشن ہو گا اور آپریشن کے بعد یہ

Page 172

$1944 172 خطبات محمود ان کی وفات دل کے کمزور ہو جانے کی وجہ سے ، نہ کہ اصل آپریشن کی وجہ سے ہو گی.چنانچہ اس کے بعد وہ بیمار ہوئیں اور انہیں ایک ہسپتال میں لے جایا گیا جہاں بظاہر علاج کرانا بہت مشکل تھا.مردوں سے علاج کرانا عورتوں پر بہت گراں گزرتا ہے.گو شریعت میں اس کی اجازت ہے.چنانچہ میں نے خود حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے سنا.آپ نے ایک دفعہ فرمایا کہ اگر کوئی عورت کسی ایسے مرض میں مبتلا ہو جاتی ہے جس کی معالج عورتوں میں کوئی نہ ہو اور کسی ماہر مرد ڈاکٹر سے علاج یا آپریشن کی ضرورت آپڑتی ہے تو ایسی صورت میں اگر وہ عورت مرد ڈاکٹر سے علاج نہیں کراتی اور اس مرض سے فوت ہو جاتی ہے تو ہمارے نزدیک وہ خود کشی کا ارتکاب کرتی ہے.تو شریعت میں اس بات کی اجازت ہے مگر پر دو کے لحاظ میں سے عور تیں عام طور پر مرد ڈاکٹروں سے علاج کرانے سے بچنے کی کوشش کرتی ہیں.مگر ان کی تین حالت ایسی نازک ہو گئی کہ ان خیالات کو چھوڑنا پڑا اور ایک ایسے ہسپتال میں ان کا آپریشن ہوا ہے جس کا نام دہلی کی ایک خاتون سے منسوب تھا.پھر عجیب بات یہ ہے کہ جس وقت میں انہیں روپیہ دینے کے لیے گیا کہ سو روپیہ ہے فلاں عورت کو دے دو اور سو روپیہ جس عورت کو چاہو دے دو اُس وقت صرف ایک عورت ان کے پاس تھی.مگر انہوں نے اپنی وفات سے چار پانچ دن پہلے اصرار کیا کہ فلاں عورت کو ہے بھی میرے پاس بھجوا دو.چنانچہ جب ان کی موت کا وقت آیا تو دو عورتیں اُن کے پاس تھیں.ایک ان کے دائیں طرف بیٹھی تھی اور دوسری ان کے بائیں طرف بیٹھی تھی.خواب میں مجھے شیخ بشیر احمد صاحب نظر آئے تھے مگر جب میں نے دوستوں کو یہ خواب سنائی تو میں نے کہہ دیا کہ میر اخیال ہے اس سے مراد میاں بشیر احمد صاحب ہیں اور خوابوں میں بالعموم ایسا ہو جاتا ہے کہ ایک شخص کی بجائے دوسرا شخص نظر آجاتا ہے جو اس کا ہم نام ہو.پس میں نے ہے کہا اس سے مراد میاں بشیر احمد صاحب ہوں گے.شیخ بشیر احمد صاحب سے انہوں نے کیا بات کرنی تھی اور اُن سے بات کرنے کا موقع بھی کیا ہو سکتا تھا.میاں بشیر احمد صاحب چونکہ میرے بھائی ہیں اس لیے میر اخیال ہے کہ اس سے مراد وہی ہیں.چنانچہ ایسا ہی ہوا.وفات کے قریب

Page 173

$1944 173 خطبات محمود میں بار بار ان کے پاس جاتا انہیں دعائیں سکھاتا کہ یہ یہ دعائیں اس وقت مانگو.پھر جب میں واپس آجاتا تو تھوڑی دیر کے بعد اسی گھبراہٹ میں اپنے ماموں (یعنی ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب) کو بھیج دیتا کہ آپ جائیں اور انہیں قرآن شریف سنائیں.جب ان کا آخری وقت تھا، اُس وقت دہلی کا ایک اور تعلق بھی ظاہر ہو گیا.یعنی اُس وقت ڈاکٹر عبد اللطیف صاحب دہلی والے ان کو آکسیجن سونگھار ہے تھے.پھر یہ جو میں نے دیکھا کہ صبیح بشیر احمد صاحب آئے ہیں اور انہوں میں نے وفات کی اطلاع دی ہے مگر ساتھ ہی کہا ہے کہ ان کا دل مطمئن تھا اور انہیں کوئی تکلیف نہ تھی یہ بھی پورا ہوا.چنانچہ جب انہوں نے آخری سانس لیا تو میاں بشیر احمد صاحب میرے پاس آئے.اُس وقت اُن پر رقت طاری تھی.وہ مجھ سے بولے نہیں.صرف انہوں نے سر سے اشارہ کیا کہ اندر چلے جاؤ.مگر وہ کہتے ہیں جب میں باہر نکلا تو اس وقت یہ گہرا اثر تھا کہ اتم طاہر کے دل پر موت کا کوئی اثر نہیں اور نہایت اطمینان کی حالت میں انہوں نے آخری سانس لیے ہیں.یہاں تک کہ آخری تشنج جو عام طور پر مریض پر وارد ہوتا ہے وہ بھی نہیں ہے ہوابلکہ آہستگی سے سانس لیتے ہوئے وہ فوت ہو گئیں.یہ خدا تعالیٰ کا کس قدر احسان ہے کہ اس نے اگر ایک طرف سے ہم کو صدمہ پہنچایا ہے تو دوسری طرف اپنی ہستی کا ایک زبر دست ثبوت مہیا کر کے ہمارے دلوں کو اطمینان بھی بخشا فَالْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ العلمين اصل بات یہ ہے کہ مجھے اگر کسی چیز سے ان کی وفات کے وقت گھبراہٹ تھی تو وہ یہ تھی کہ لمبی بیماری کے نتیجہ میں بعض دفعہ انسان کے ایمان میں کمزوری پیدا ہو جاتی ہے.وہ یہ نہیں سمجھتا کہ یہ خدا نے اُس کی بخشش کا سامان کیا ہے اور اُس نے چاہا ہے کہ اسی دنیا میں اسے گناہوں سے صاف کر دے اور ہر قسم کی آلائشوں سے پاک کر کے اپنے دربار میں لائے.وہ یہ سمجھتا ہے کہ خدا نے اُس پر سختی کی ہے.پس میرے دل میں یہ کرب تھا جس کی وجہ سے میں ان کے لیے دعا بھی کرتا اور ان کی آخری گھڑیوں میں انہیں بار بار یہی نصیحت کرتا کہ دیکھو ذکر الہی کرو، اللہ تعالیٰ کی طرف توجہ کرو.میں اس وقت دُعا کرتا ہوں تم بھی اللہ تعالیٰ سے اپنے دل میں دعائیں مانگو.میں نے اس وقت یہ بھی سمجھا کہ اگر اس وقت سورہ یسین پڑھی یہ

Page 174

خطبات كنت محمود 174 $1944 جائے تو ممکن ہے اسی سے ان کا ہارٹ فیل ہو جائے.اس لیے میں قرآن کریم کی بعض اور سورتیں پڑھ پڑھ کر ان کا ترجمہ کر کر کے انہیں سناتا رہا اور جب میں کچھ دیر کے بعد ٹھہر گیا تو انہوں نے کہا کہ اور قرآن پڑھو.اِس سے میں نے سمجھا کہ انہوں نے اپنی آخری حالت کو معلوم کر لیا ہے.چنانچہ اُس وقت میں نے سورہ یسین پڑھنی شروع کر دی اور میں نے دیکھا کہ وہ برابر اپنی زبان سے یہ دعائیں مانگتی چلی جاتی تھیں.لَا إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ سُبْحَانَكَ إِنِّي مِن الظَّالِمِيْنَ يَا حَيُّ يَا قَيُّومُ بِرَحْمَتِكَ اَسْتَغِيْثُ رَبِّ إِنِّي ظَلَمْتُ نَفْسِي وَاعْتَرَفْتُ بِذَنْبِي فَاغْفِرْ لِي ذُنُوبِي فَإِنَّهُ لَا يَغْفِرُ الذُّنُوبَ إِلَّا أَنْتَ.سُبْحَانَ اللهِ وَبِحَمْدِهِ سُبْحَانَ اللهِ الْعَظِیمِ.اور میں نے دیکھا کہ برابر وفات تک ان کے ہونٹ ہلتے رہے.اور گو ان کی آواز سنائی نہیں دیتی تھی مگر ان کے ہونٹوں کے ہلنے سے معلوم ہو تا تھا کہ وہ برابر وہی دعائیں مانگ رہی ہیں.میں نے ان کی وفات پر جو پہلا کام کیا وہ تھا کہ میں نے اُسی جگہ زمین پر خدا تعالیٰ کے حضور شکر کا سجدہ کیا کہ ان کا انجام بالخیر ہو گیا اور تکلیف دہ لمبی بیماری نے ان کے دل میں اپنے رب سے کوئی شکوہ نہیں پیدا کیا اور اس کی قضا پر وہ راضی ہو کر اس دنیا سے گئیں.الْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعَلَمِینَ.میں سمجھتا ہوں در حقیقت ایک مومن کے لیے سب سے بڑی چیز یہی ہے کہ مرتے وقت اُس کی زبان پر اور اُس کے عزیزوں کی زبان پر خدا تعالیٰ کا ذکر ہو.اُس کا دل مطمئن ہو اور دعائیں اُس کی زبان پر جاری ہوں تاکہ اللہ تعالیٰ کی رحمت نازل ہو اور اس کی بخشش اُس کا احاطہ کر لے.وفات کے بعد ان کی شکل سے کسی طرح بھی یہ ظاہر نہیں ہوتا تھا کہ ان کے دل میں موت کے وقت کسی قسم کا کرب تھا.بلکہ یوں معلوم ہو تا تھا جیسے کوئی اطمینان سے سو رہا ہو.بلکہ شاید دیکھنے والا ان کے چہرہ کو دیکھ کر یہ بھی نہ سمجھ سکتا کہ وہ فوت ہو چکی ہیں.پس اللہ تعالیٰ کی مشیت پر ہم خوش ہیں.ہم خوش ہیں کہ اس نے قبل از وقت ہمیں آنے والے حالات سے مطلع کیا.اگر وہ پہلے سے یہ خبریں ہمیں نہ بتاتا تو شاید ہمارے دل کا کرب زیادہ ہوتا.مگر جب اس کی بتائی ہوئی خبریں پوری ہو ئیں تو ہمارے لیے یہ خوشی کا مقام ہے کہ اس نے جو کچھ کہا وہ سچ ثابت ہوا.

Page 175

خطبات محمود 175 $1944 حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو ہمارے چھوٹے بھائی مبارک احمد مرحوم سے بہت محبت تھی.جب وہ بیمار ہوا تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اتنی محنت اور اتنی توجہ سے اس کا علاج کیا کہ بعض لوگ سمجھتے تھے اگر مبارک احمد فوت ہو گیا تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو سخت صدمہ پہنچے گا.حضرت خلیفہ اول بڑے حوصلہ والے اور بہادر انسان تھے.جس روز مبارک احمد مرحوم فوت ہوا اُس روز صبح کی نماز پڑھا کر آپ مبارک احمد کو دیکھنے کے لیے تشریف لائے.میرے سپر د اُس وقت مبارک احمد کو دوائیاں دینے اور اُس کی نگہداشت وغیرہ کا کام تھا.میں ہی نماز کے بعد حضرت خلیفہ اول کو اپنے ساتھ لے کر آیا تھا.میں تھا، حضرت خلیفہ اول تھے ، ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب تھے اور شاید ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب بھی تھے.جب حضرت خلیفہ اول مبارک احمد کو دیکھنے کے لیے پہنچے تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا حالت اچھی معلوم ہوتی ہے بچہ سو گیا ہے ہے.مگر در حقیقت وہ آخری وقت تھا.جب میں حضرت خلیفہ اول کو لے کر آیا اُس وقت مبارک احمد کا شمال کی طرف سر اور جنوب کی طرف پاؤں تھے.حضرت خلیفہ اول بائیں طرف کھڑے ہوئے اور انہوں نے نبض پر ہاتھ رکھا.مگر نبض آپ کو محسوس نہ ہوئی.اس پر آپ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے کہا کہ حضور مشک لائیں اور خود ہاتھ کہنی کے قریب رکھ کر نبض محسوس کرنی شروع کی کہ شاید وہاں نبض محسوس ہوتی ہو.مگر وہاں بھی نبض محسوس نہ ہوئی تو پھر آپ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے مخاطب ہو کر کہا کہ جلدی مشک لائیں اور خود بغل کے قریب اپنا ہاتھ لے گئے اور نبض محسوس کرنی شروع کی.اور جب وہاں بھی نبض محسوس نہ ہوئی تو گھبر ا کر کہا حضور ! جلد منتک لائیں.اس عرصہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام چابیوں کے کچھے سے نجی تلاش کر کے ٹرنک کا تالا کھول رہے ہو تھے.جب آخری دفعہ حضرت مولوی صاحب نے گھبراہٹ سے کہا کہ حضور ! مشک جلدی لائیں اور اس خیال سے کہ مبارک احمد کی وفات سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو سخت صدمہ ہو گا باوجود بہت دلیر ہونے کے آپ کے پاؤں کانپ گئے اور آپ کھڑے نہ رہ سکے اور زمین پر بیٹھ گئے.ان کا خیال تھا کہ شاید نبض دل کے قریب چل رہی ہو اور مشک سے قوت کو حضور

Page 176

خطبات محمود 176 اشکوہ ہو.$1944 بحال کیا جا سکتا ہو.مگر ان کی آواز سے معلوم ہو تا تھا کہ یہ امید موہوم بھی.جب حضرت مسیح موع علیہ السلام نے آپ کی آواز کے ترغخش 2 کو محسوس کیا تو آپ سمجھ گئے کہ مبارک احمد کا آخری وقت ہے اور آپ نے ٹرنک کھولنا بند کر دیا اور فرمایا مولوی صاحب! شاید لڑکا فوت ہو گیا ہے.آپ اتنے گھبراکیوں گئے ہیں ؟ یہ اللہ کی ایک امانت تھی جو اس نے ہمیں دی تھی اب وہ اپنی امانت لے گیا ہے تو ہمیں اس پر کیا ہے.پھر فرمایا آپ کو شاید یہ خیال ہے ہو کہ میں نے چونکہ اس کی بہت خدمت کی ہے اس لیے مجھے زیادہ صدمہ ہو گا.خدمت کرنا تو میرا فرض تھا جو میں نے ادا کر دیا اور اب جبکہ وہ فوت ہو گیا ہے ہم اللہ تعالیٰ کی رضا پر پوری طرح راضی ہیں.چنانچہ اسی وقت آپ نے بیٹھ کر دوستوں کو خط لکھنے شروع کر دیئے کہ مبارک احمد فوت ہو گیا ہے.وہ اللہ تعالیٰ کی ایک امانت تھی جو اس نے ہم سے لے لی.تو مومن کا اصل کام یہ ہوتا ہے کہ ایک طرف تو وہ جہاں تک ہو سکتا ہے دوسرے کی خدمت کرتا ہے اور اس خدمت کو اپنے لیے ثواب کا موجب سمجھتا ہے.مگر دوسری طرف ہے جب اللہ تعالیٰ کی مشیت پوری ہوتی ہے تو وہ کسی قسم کی گھبراہٹ کا اظہار نہیں کرتا.وہ سمجھتا ہے خدمت کا ثواب مجھے مل گیا ہے.لیکن جو جزع فزع کرنے والے ہوتے ہیں وہ دنیا کی مصیبت الگ اٹھاتے ہیں اور آخرت کی مصیبت الگ اٹھاتے ہیں.اور اس سے زیادہ بد بخت اور کون ہو سکتا ہے جو دُہری مصیبت اٹھائے.اِس جہان کی مصیبت کو بھی برداشت کرے اور اگلے جہان کی مصیبت کو بھی برداشت کرے.پھر یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ یہ زمانہ اسلام کی فتوحات کا ہے.بادشاہ کا کوئی نوکر یہ جرات نہیں کر سکتا کہ جس وقت اُس کا بادشاہ کامیابی حاصل کر کے واپس آرہا ہو اور فتح کا جشن منارہا ہو تو وہ اُس کے سامنے کسی قسم کے غم کا اظہار کرے خواہ اُس دن اُس کا باپ مر گیا ہو، ہم اُس کا بیٹا مر گیا ہو، اس کی بہن مرگئی ہو، اس کی بیوی مر گئی ہو.وہ اپنی آنکھوں کو پو نچھتا اور اپنی کمر کو سیدھی رکھتا ہے کیونکہ وہ کہتا ہے آج میرے آقا کی خوشی کا دن ہے.آج میرے لیے کا اظہار کرنا جائز نہیں.اسی طرح آج ہمارے لیے خوشی کا دن ہے، آج ہمارے لیے مسرت و شادمانی کا دن ہے کہ تیرہ سو سال کے لیے عرصہ اور ہزار سال کے بیج اعوج کے بعد ہے

Page 177

خطبات محمود 177 $1944 خدا نے پھر چاہا کہ اُس کے بندے اُس کی طرف واپس آئیں.خدا نے پھر چاہا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا نام دنیا میں پھیلے، خدا نے پھر چاہا کہ توحید کو دنیا میں قائم کرے، خدا نے پھر چاہا کہ شیطان کو آخری شکست دے کر دین کو ہمیشہ کے لیے زندہ کر دے.پس آج جبکہ ہمارے رب کے لیے خوشی کا دن ہے ہمارے رنج اُس کی خوشی پر قربان.ہم اس کی خوشی کے دن منحوس باتیں کرنے والے کون ہیں.جتنے احسانات اللہ تعالیٰ نے ہم پر کیے ہیں، واقع یہ ہے کہ اگر ہمارے جسم کا ذرہ ذرہ اور اگر ہماری بیویوں اور ہمارے بچوں کا ذرہ ذرہ آروں سے چیر دیا جائے، تب بھی ہم نہیں کہہ سکتے کہ ہم نے اس کے احسانوں کا کوئی بھی شکریہ ادا کیا ہے.میں یہ نہیں کہتا کہ میں یا تم میں سے سارے اس مقام پر ہیں.مجھ میں بھی کمزوریاں ہیں اور تم میں بھی.لیکن سچی بات یہی ہے اور جتنی بات اس کے خلاف ہے وہ یقیناً ہمارے نفس کا دھوکا ہے.آج آسمان پر خدا کی فوجوں کی فتح کے نقارے بج رہے ہیں، آج دنیا کو خدا کی طرف لانے کے سامان کیے جارہے ہیں، آج خدا کے فرشتے اس کی حمد کے گیت گا رہے ہیں اور ہم بھی اس گیت میں ان فرشتوں کے ہمنوا اور شریک ہیں.اگر ہم جسمانی طور پر غمزدہ ہیں اور ہمارے دل زخم خوردہ ہیں تب بھی مومنانہ طور پر ہمارا یہی فرض ہے کہ ہم اپنے رب کی فتح اور اس کے ہے نام کی بلندی کی خوشی میں شریک ہوں تا اس کی بخشش کے مستحق ہوں.اللہ تعالیٰ ہم پر رحم فرمائے اور ہمارے غموں کو خود ہلکا کرے کہ روح اس کے آستانہ پر مجھکی ہوئی مگر گوشت پوست کا دل دکھ محسوس کرتا ہے.اس کے بعد میں ایک دوسر ا سوال لیتا ہوں.میرا ارادہ ہے کہ آئندہ نسلوں کو دعا کی تحریک کرنے کے لیے اپنی بیوی کی وفات کے متعلق کچھ اور بھی کہوں.لیکن ابھی نہ میں خطبہ میں کچھ بیان کرنا چاہتا ہوں اور نہ قریب ترین عرصہ میں کوئی مضمون لکھنا چاہتا ہوں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے.الصَّبرُ لِأَوَّلِ وَهْلَةٍ 3 صبر پہلے پہلے دنوں میں ہی ہوتا ہے.رنج اور دکھ کے کلمات ہمیشہ انسان کے مُنہ سے نہیں نکلتے بلکہ صدمہ جب تازہ ہو اُس وقت اُس کے منہ سے نکلتے ہیں.پس میں نہیں چاہتا کہ اوّلِ وَهْلَةٍ میں میں کوئی ایسا مضمون لکھوں.بے شک میں نے اُن کی خوبیاں ہی بیان کرنی ہیں لیکن خوبیاں بیان کرتے

Page 178

خطبات محمود 178 $1944 وقت بھی بعض دفعہ ایسا فقرہ انسان کی زبان یا قلم سے نکل جاتا ہے جو رنج کا ہوتا ہے.اور گو رنج ایک طبعی چیز ہے، خدا نے اس سے روکا نہیں مگر پھر بھی میں یہی چاہتا ہوں کہ اوّلِ وهلة میں میں خاموش رہوں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے مزار پر چالیس دن دعا: دوسرا مضمون مینی جو میں آج بیان کرنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ میں نے اعلان کیا تھا کہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی قبر پر جا کر چالیس دن دعا کروں گا تا کہ اللہ تعالیٰ اسلام کی فتح اور اُس کے ہے غلبہ کا راستہ کھولے اور احمدیت کی اشاعت میں جو روکیں حائل ہیں اُن کو دور فرمائے.میں نے اس کی وجہ بھی بتائی تھی کہ حدیثوں سے ثابت ہے کہ شروع شروع میں قبر سے روح کا تعلق زیادہ ہوتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بھی ایک مقام پر فرمایا ہے کہ ارواح کا تعلق قبور سے ضرور ہوتا ہے.4 اسی طرح اولیاء اللہ نے بہت سے کشوف اس بارہ میں بیان کیے ہیں اور انہوں نے لکھا ہے کہ ابتدا میں انسانی روح متوحش ہوتی ہے اور اپنے ہی رشتہ داروں سے جُدا ہونے کا اُسے صدمہ ہوتا ہے اور وہ گھبرائی گھبرائی رہتی ہے.یہاں تک کہ کچھ عرصہ کے بعد وہ ایک مقام پر ٹک جاتی ہے.اگر سعید روح ہو تو اللہ تعالیٰ اسے جنت کے انعامات سے حصہ دینا شروع کر دیتا ہے اور اگر ناپاک روح ہو تو رفتہ رفتہ اُسے دوزخ کا عذاب شروع ہو جاتا ہے.حضرت عثمان فرماتے ہیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ انسانی روح جب قبر میں داخل ہوتی ہے تو اُسے سخت کرب ہوتا ہے.اس کے بعد اُس پر جو حالت بھی وارد ہوتی ہے وہ پہلے کرب سے ادنی ہوتی ہے، زیادہ نہیں ہوتی 5 اس کی وجہ سے اُمت محمدیہ کے صلحاء و اولیاء قبروں پر جاتے اور دعائیں کیا کرتے تھے.مرنے والے کے لیے بھی، اپنے لیے بھی اور اس کے دوسرے رشتہ داروں اور عزیزوں کے لیے بھی.ان دعاؤں سے مرنے والی روح تسلی پا جاتی ہے اور اس کا تو شش کم ہو جاتا ہے.یہ طریق جو عام ہے طور پر لوگوں میں پایا جاتا ہے کہ وہ قبر پر قرآن پڑھنے لگ جاتے ہیں، یہ بالکل لغو ہے.قرآن پڑھنے کا تو ہم کو ثواب ملے گا مُردے کو اس کا کیا ثواب ہو سکتا ہے.اصل چیز یہ ہے کہ انسان جب قبر پر جائے تو میت کے لیے دعا کرے کہ اللہ تعالیٰ اُس کی مغفرت کرے، اُس کے ا

Page 179

خطبات محج محمود 179 $1944 درجات کو بلند فرمائے اور اپنے قرب کے دروازے اُس کے لیے کھولے.پس چونکہ اس قد کی دعا کی خاطر میں نے کچھ دن متواتر اتم طاہر کی قبر پر جانا تھا اس لیے میں نے مناسب سمجھا کہ اس کے ساتھ ہی اسلام کی فتوحات کے لیے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مزار پر دعاؤں کا سلسلہ شروع کر دیا جائے اور اللہ تعالیٰ سے عرض کیا جائے کہ اے اللہ ! تو نے ں شخص سے اسلام کی ترقی اور اس کی فتوحات کے متعلق کچھ وعدے کیے تھے.یہ شخص اب فوت ہو چکا ہے اور تیرے یہ وعدے بہر حال ہمارے ذریعہ سے ہی پورے ہوں گے.مگر ہم دیکھتے ہیں کہ ہمارے اندر ہزاروں قسم کی کمزوریاں اور کو تاہیاں پائی جاتی ہیں ہم میں ان مینی کمزوریوں کو دور کرنے کی طاقت نہیں لیکن تو اگر چاہے تو ان کمزوریوں کو بڑی آسانی سے دور کر سکتا ہے.پس تو اپنے فضل سے ان کمزوریوں کو دور فرما اور اپنے اِس مامور اور پیارے محبوب سے جو تُو نے وعدے کیے ہوئے ہیں اُن کو پورا کرنے کے سامان پیدا فرمادے.ہم کمزوروں کو طاقت بخش، ہم ناتوانوں کو قوت عطا فرما اور ہمارے اندر آپ اپنے فضل سے تغیر پیدا فرما تاکہ ہم دین کا جھنڈا دنیا میں گاڑ سکیں اور کفر کو نابود کر سکیں.میں نے بتایا تھا کہ دعاؤں میں سے یہ قرآنی دعا بہت اعلیٰ درجہ کی ہے کہ رَبَّنَا إِنَّنَا سَمِعْنَا مُنَادِيًا يُنَادِى لِلْإِيْمَانِ أَنْ أَمِنُوا بِرَبِّكُمْ فَأَمَنَا رَبَّنَا فَاغْفِرْ لَنَا ذُنُوبَنَا وَكَفِّرْ عَنَّا سَيَاتِنَا وَتَوَفَّنَا مَعَ الْأَبْرَارِ رَبَّنَا وَاتِنَا مَا وَعَدْتَنَا عَلَى رُسُلِكَ وَلَا تُخْزِنَا يَوْمَ الْقِيْمَةِ إِنَّكَ لَا تُخْلِفُ الْمِيْعَادَ C O بعض دوستوں نے اس کے متعلق کہا ہے کہ ایسا نہ ہو لوگوں میں اِس سے مشرکانہ خیالات پیدا ہو جائیں اور اصل حقیقت کو نہ سمجھتے ہوئے وہ قبروں سے استدعا کرنے لگ جائیں.اِس میں کوئی شبہ نہیں کہ دنیا میں ایسے جاہل لوگ موجود ہیں جو خیال کرتے ہیں کہ قبروں پر دعا کرنے کے نتیجہ میں صاحب قبر اس دعا کو قبول کر کے انسان پر فضل نازل کیا کرتا ہے.مگر کسی کی بدی کی وجہ سے ہم نیکی کو نہیں چھوڑ سکتے.دیکھو! رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں خانہ کعبہ میں بت رکھے ہوئے تھے.مگر اللہ تعالیٰ نے حکم دے دیا کہ بیت المقدس کی بجائے کعبہ کی طرف اپنے منہ پھیر لو.یہی وجہ ہے کہ یہودی اعتراض کیا کرتے تھے مَا وَلَهُمْ عَن قِبْلَتِهِمُ الَّتِي كَانُوا عَلَيْهَا 7 کہ یہ مسلمان

Page 180

خطبات محمود 180 $1944 سیدھے طور پر توحید کے ایک مقام کی طرف منہ کر کے نمازیں پڑھ رہے تھے اب انہیں کیا ہو گیا کہ وہ ایک ایسے مقام کی طرف منہ کر کے نمازیں پڑھنے لگ گئے ہیں جہاں بُت رکھے ہوئے ہیں.مگر اللہ تعالیٰ نے اُن کے اِس اعتراض کی پروا نہیں کی.بے شک مشرکانہ خیالات کو روکنا ایک ضروری چیز ہے.مگر ایک فائدہ والی چیز کو بالکل ترک کر دینا، اُس سے کسی حد تک فائدہ نہ اٹھانا اور یہ سمجھنا کہ اس طرح شرک کے خیالات قوم میں پھیل جائیں گے یہ بھی عقلمندی میں داخل نہیں.اگر ایسا ہی ہو تا تو چاہیے تھا کہ جب تک خانہ کعبہ کے تمام بت توڑ نہ دیئے جاتے اُس وقت تک مسلمانوں کو اُس کی طرف منہ کر کے نماز پڑھنے کا حکم نہ دیا جاتا.اللہ تعالیٰ جانتا تھا کہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اُس وقت تک زندہ رہیں گے جب تک کعبہ تمام بتوں سے صاف نہیں ہو جاتا.اللہ تعالیٰ کو معلوم تھا کہ ایک دن یہ تمام بت توڑے جائیں گے.اللہ تعالیٰ کو معلوم تھا کہ یہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں توڑے جائیں گے.پس وہ اگر چاہتا تو جس طرح پہلے مسلمان بیت المقدس کی طرف منہ کر کے نمازیں پڑھ رہے تھے اُسی طرح بعد میں بھی کچھ عرصہ تک پڑھتے رہتے اور اُس وقت تک خانہ کعبہ کی طرف منہ نہ کرتے جب تک خدا تمام بتوں کو ٹکڑے ٹکڑے نہ کر دیتا.مگر خدا نے اس بات کی کوئی پروانہ ہے کی کہ خانہ کعبہ میں بُبت موجود ہیں اور مسلمانوں کو حکم دے دیا کہ وہ اُس کی طرف منہ کر کے نمازیں پڑھا کریں.پس بعض لوگوں کی غلطیوں کی وجہ سے کسی اچھے فعل کو ترک نہیں کیا تم جاسکتا.ایسی غلطیاں بعض کمزور لوگوں میں ہمیشہ رہتی ہیں اور وہ منع کرنے کے باوجو د بھی باز نہیں آتے.دیکھ لو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان لوگوں پر کس قدر لعنتیں کی ہیں جو اپنے نبیوں اور بزرگوں کی قبروں کو سجدہ گاہ بنا لیتے ہیں.8 مگر کیا اب مسلمانوں میں وہ لوگ موجود نہیں جو قبروں پر سجدے کرتے اور مردوں سے دعائیں مانگتے ہیں ؟ ان چیزوں کو دیکھ کر یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ جو چیزیں ضروری ہیں انہیں بھی چھوڑ دیا جائے.مجھے بتایا گیا ہے بلکہ پہلے بھی میرے علم میں یہ بات تھی کہ بعض لوگ ہماری ہمیں جماعت میں ایسے ہیں جو بعض مشرکانہ حرکات کرتے ہیں.ہماری جماعت چونکہ ایک دریا کی طرح ہے ایک پانی گزرتا اور اس کی جگہ دوسرا پانی آجاتا ہے یعنی نئے نئے لوگ جماعت میں میں

Page 181

$1944 181 خطبات محمود شامل ہوتے رہتے ہیں اس لیے کچھ لوگوں کی تربیت ہوتی ہے تو اُن کے معا بعد کچھ اور لوگ آجاتے ہیں جو ابھی دین سے ناواقف ہوتے ہیں.پھر انہیں سمجھانا پڑتا ہے.اس پر کچھ لوگ سمجھ جاتے اور کچھ پھر بھی نہیں سمجھتے.اسی طرح تربیت میں کئی قسم کے نقائص رہ جاتے ہیں.مگر ہمارا کام یہی ہے کہ ہم انہیں سمجھائیں اور سمجھاتے چلے جائیں.میں نے کئی دفعہ سنا ہے کہ بعض لوگ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے مزار پر جاتے اور وہاں سے تبرک کے ہے طور پر مٹی اٹھا کر لے جاتے ہیں.اسی طرح بعض لوگ قبر پر پھول ڈال جاتے ہیں اور میں نے خود بھی ایک دو دفعہ وہاں پر پھول پڑے دیکھے ہیں اور اُٹھوائے ہیں.یہ سب ناجائز باتیں ہیں، ناپسندیدہ حرکات ہیں اور ہمارا فرض ہے کہ اگر ہم کسی کو ایسا کرتے دیکھیں تو اُسے روکیں.مگر اس کے یہ معنے نہیں کہ جو چیزیں دین سے ثابت ہیں اور ہمارے لیے برکت کا موجب ہیں اُن کو بھی ہم ترک کر دیں.جہاں تک قبروں پر جانے کا سوال ہے احادیث سے ثابت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بارہا قبرستان میں جاتے اور دعائیں کرتے.یہاں تک کہ حضرت عائشہ فرماتی ہیں مجھے ایک دفعہ شبہ پیدا ہوا کہ آپ رات کے وقت مجھے چھوڑ کر دوسری بیویوں کے ہے پاس چلے جاتے ہیں.وہ کہتی ہیں ایک دفعہ میں لیٹی ہوئی تھی.میں نے دیکھا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی جوتیاں اُتاریں اور فرش پر لیٹ گئے.میں بھی آنکھیں بند کر کے یہ لیٹی رہی اور دل میں میں نے سوچا کہ آج دیکھوں گی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کہاں جاتے ہیں.تھوڑی تھوڑی دیر کے بعد رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میری طرف دیکھتے اور معلوم کرتے کہ میں سوئی ہوں یا نہیں.اِس سے مجھے اور شبہ پڑ گیا.کچھ دیر کے بعد جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سمجھا کہ میں سوگئی ہوں تو آپ نے آہستگی سے بجوتیاں ہیں پہنیں اور چل پڑے.میں بھی آپ کے پیچھے چلی مگر میں کیا دیکھتی ہوں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم چلتے چلتے مقبرہ میں پہنچ گئے اور وہاں آپ نے دعائیں مانگنی شروع کر دیں.میں یہ دیکھتے ہی بھاگ کر گھر آگئی کہ کہیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو میرا پتہ نہ لگ جائے.9 ،

Page 182

خطبات محمود 182 $1944 اس کے علاوہ احادیث سے یہ بھی ثابت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فتح مکہ کے بعد اپنی والدہ کی قبر پر تشریف لے گئے اور ایک ہزار صحابی آپ کے ساتھ تھا.صحابہ کہتے ہیں کہ آپ اُس وقت اس قدر روئے کہ ہم نے آپ کو اتنا روتے ہوئے کبھی نہیں دیکھا.آپ کو روتے دیکھ کر سب صحابہ اُس دن بے تاب ہو ہو کر روتے تھے.10 تو زیارت قبور کے لیے انبیاء و اولیاء کا جانا ایک ایسی ثابت شدہ حقیقت ہے جس سے کوئی شخص انکار نہیں کر سکتا.خود می رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبر کی زیارت کرنے کے لیے صلحاء جاتے اور وہاں جاکر بڑی تضرع اور عاجزی سے دعائیں کیا کرتے.حضرت بلال آخری عمر میں شام چلے گئے تھے.وہ چونکہ حبشی تھے اس لیے لوگ اُنہیں رشتہ نہیں دیتے تھے.آخر انہوں نے شام میں ایک جگہ رشتہ کے متعلق درخواست کی اور کہا کہ میں حبشی ہوں اگر چاہو تو رشتہ نہ دو اور اگر میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا صحابی سمجھ کر مجھے رشتہ دے دو تو بڑی مہربانی ہو گی.انہوں نے رشتہ دے دیا اور وہ شام میں ہی ٹھہر گئے.ایک دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم رویا میں ان کے پاس تشریف لائے اور فرمایا بلال ! تم ہم کو بھول ہی گئے.کبھی ہماری قبر کی زیارت کرنے کے لیے نہیں آئے.وہ اُسی وقت اُٹھے اور سفر کا سامان تیار کر کے مدینہ تشریف لے گئے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبر پر رو رو کر دعا کی.اُس وقت ان کو اتنی رقت پیدا ہوئی کہ لوگوں میں عام طور پر مشہور ہو گیا کہ بلال آئے ہیں.حضرت حسن اور حسین، جو اس وقت بڑے ہو چکے تھے دوڑے ہوئے آئے اور کہنے لگے تم رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں اذان دیا کرتے تھے ؟ انہوں نے کہا ہاں! وہ کہنے لگے ہمیں بھی اپنی اذان سناؤ.چنانچہ انہوں نے اذان دی اور لوگوں نے سنی.11 اسی طرح حضرت عمر بن عبد العزیز جنہیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اور سابق بزرگانِ اسلام نے بھی مجدد قرار دیا ہے وہ باقاعدہ سفر کر کے شام سے آتے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر پر دعا کیا کرتے.جو چیز منع ہے وہ یہ ہے کہ قبر والے سے دُعا مانگی جائے.یہ چیز بے شک نا جائز ہے اور ایسا کرنا شرک ہے.جو شخص رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر پر یا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی قبر پر جاکر یہ کہتا ہے کہ یارسول اللہ ! یہ مجھے دیں.

Page 183

$1944 183 خطبات محمود یا مرزا غلام احمد ! یہ مجھے دیں.وہ جاہل اور اسلامی تعلیم سے قطعاً نا واقف ہے.اُس نے سمجھا ہی نہیں کہ اسلام کیا چیز ہے.اسلام تو کہتا ہے کہ صرف خدا ہی زندہ ہستی ہے باقی سب فوت ہونے والے ہیں.پس کسی قبر والے سے دعا مانگنا ہر گز جائز نہیں خواہ وہ نبی ہو یا ولی.ہاں یہ ایک قدرتی بات ہے کہ جب صاحب مزار کی قبر پر کھڑے ہو کر انسان دعامانگتا ہے تو اُس تعلق کی وجہ سے جو اُسے صاحب قبر سے ہوتا ہے.اُس کے دل میں زیادہ رفت پیدا ہوتی ہے اُس کے دل میں زیادہ جوش پید اہوتا ہے اور اس رقت اور جوش سے فائدہ اٹھا کر وہ اللہ تعالیٰ کی رحمت کو زیادہ بھر کا سکتا ہے.پس یہ فائدہ ہے جو قبر پر دعا کرنے سے حاصل ہو سکتا ہے ورنہ یہ تو ہم جانتے ہیں کہ قبر میں جو دفن تھاوہ مٹی ہو چکا اور اُس کا جسم فنا ہو گیا.اُس سے کچھ مانگنا انتہائی حماقت اور پاگل پن ہے.میں اس بات کا قائل نہیں ہوں کہ نبیوں کے جسم محفوظ رہتے ہیں.جو چیز مٹی سے بنی ہوئی ہے میرے نزدیک وہ بہر حال مٹی ہو جاتی ہے خواہ وہ نبیوں کا جسم ہی کیوں نہ ہو.بائبل میں صاف لکھا ہے کہ حضرت یعقوب اور حضرت یوسف علیہما السلام کی ہڈیاں مصر سے کنعان میں لائی گئی تھیں.12 پس میں عوام الناس کے اس خیال کا قائل نہیں کہ نبیوں کے میں جسموں کو مٹی نہیں کھاتی.میرے نزدیک یہ بالکل لغو خیال ہے.آخر نبی بوڑھے ہوتے ہیں یا چی نہیں؟ بیماری آئے تو اس سے کمزور ہوتے ہیں یا نہیں؟ جب وہ عام انسانوں کی طرح بوڑھے ہوتے ہیں، کمزور ہوتے ہیں، بیمار ہوتے ہیں تو کیا دلیل ہے کہ مٹی اُن کے جسم کو نہیں کھا سکتی.پس یہ ایک غلط خیال ہے جو مسلمانوں میں پایا جاتا ہے.مگر بہر حال یہ امر انسانی فطرت میں ہے داخل ہے کہ جب وہ اُس جگہ جاتا ہے جہاں اُس کا محبوب اور پیارا مد فون ہوتا ہے تو اُس پر زیادہ رقت طاری ہوتی ہے اور وہ زیادہ جوش اور زیادہ گریہ و زاری سے خدا سے دعائیں کرتا ہے کہ یہ الہی ! تو ان وعدوں کو پورا فرما جو تو نے اس شخص سے کیے تھے.دوسرے جس جگہ اللہ تعالیٰ کے نبی دفن ہوں خواہ اُن کے جسم مٹی ہو گئے ہوں پھر بھی اللہ تعالی کی یہ سنت ہے کہ وہ ان مقامات پر اپنی برکتیں نازل کرتا ہے اور ان مقامات کی تین ہتک کرنے والوں کو اپنے عذاب کا نشانہ بناتا ہے.دیکھ لو رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو یہ

Page 184

$1944 184 خطبات محمود فوت ہوئے تیرہ سو سال ہوچکے ہیں.میر اعقیدہ جسے میں نے ابھی بیان کیا ہے یہ ہے کہ انبیاء جسم بھی اُسی طرح مٹی ہو جاتے ہیں جس طرح باقی لوگوں کے جسم.البتہ بعض زمینیں اس قسم کی ہوتی ہیں کہ اُن میں جو مر دے دفن ہوں اُن کے جسم ایک لمبے عرصہ تک محفوظ ہے رہتے ہیں.چنانچہ بعض مقامات سے کئی کئی سو سال کی پرانی نعشیں نکلی ہیں اور وہ بالکل سلامت ہیں.لیکن اس میں مومن اور کافر یا ایک نبی اور غیر نبی میں کوئی فرق نہیں.ایسی زمین میں اگر میں ایک کافر دفن ہو گا تو اس کا جسم بھی محفوظ ہو گا اور اگر ایک نبی دفن ہو گا تو اس کا جسم بھی ہے محفوظ ہو گا.پس میرے اِس عقیدہ کے مطابق اگر اُس مٹی کی جس میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دفن ہیں کوئی ایسی تاثیر نہیں ہے جس کی بناء پر وہ اجسام کو محفوظ رکھ سکے تو تیرہ سوسال کے بعد جہاں تک رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جسم کا تعلق ہے وہ متغیر ہو چکا ہو گا.لیکن اگر کوئی دشمن یہ چاہے کہ وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبر کو اکھیڑے تو کیا تم سمجھتے ہو خدا تعالیٰ کا عذاب اُس پر نازل نہیں ہو گا ؟ اور کیا تم سمجھتے ہو اللہ تعالیٰ کے فرشتے اُس کے ہاتھ کو نہیں روکیں گے ؟ فرض کرو وہ مٹی کا ایک ڈھیر ہو تو بھی اللہ تعالیٰ کا عذاب اس ڈھیر کو کھودنے کا ارادہ کرنے والے پر نازل ہو گا.اس لیے کہ گورسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا جسم اطہر اب دوسری صورت میں تبدیل ہو چکا ہو تب بھی اللہ تعالیٰ نے اس مقام کو اپنی برکات کے نزول کے لیے مخصوص فرما دیا ہے اور اب اُس مقام پر حملہ کرنا اللہ تعالیٰ کی غیرت کو بھڑکانا اور اُس کے عذاب کو حرکت میں لانا ہے.اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا الہام ہے " بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے".13 اس الہام سے بھی ثابت ہوتا ہے کہ انبیاء کے جسم کے ساتھ تعلق رکھنے والی چیزوں میں اللہ تعالیٰ ایتی برکات رکھ دیتا ہے.اگر قبر پر جانے سے اللہ تعالی کی برکت سے حصہ نہیں مل سکتا تو ہے کپڑوں سے کس طرح برکت ڈھونڈی جاسکتی ہے.اس سے صاف ثابت ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نشان نمائی کے لیے نبیوں سے تعلق رکھنے والی ہر چیز میں برکت رکھ دیتا ہے اور لوگوں کا فرض ہے ہوتا ہے کہ وہ ان برکات کو حاصل کریں.پس ان برکات سے انکار نہیں کیا جاسکتا.یہ ایک ثابت شدہ حقیقت ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے عمل سے بھی اس کی ہے

Page 185

خطبات محمود 185 $1944 تصدیق ہوتی ہے.اخبار "بدر" میں بھی چھپا ہوا موجود ہے اور مجھے بھی اچھی طرح یاد ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ایک دفعہ دہلی تشریف لے گئے تو آپ مختلف اولیاء کی قبروں پر دُعا کرنے کے لیے گئے.چنانچہ خواجہ باقی باللہ صاحب، حضرت قطب صاحب، خواجہ نظام الدین صاحب اولیاء، شاہ ولی اللہ صاحب، حضرت خواجہ میر درد صاحب اور نصیر الدین صاحب چراغ کے مزارات پر آپ نے دعا فرمائی.اس وقت آپ نے جو کچھ فرمایا وہ جہاں تک ہے مجھے یاد ہے گو ڈائری اس طرح چھپی ہوئی نہیں یہ ہے کہ دنی والوں کے دل مردہ ہو چکے ہیں.ہم نے چاہا کہ اُن وفات یافتہ اولیاء کی قبروں پر جاکر اُن کے لیے ، اُن کی اولادوں کے لیے اور خود دہلی والوں کے لیے دعائیں کریں تاکہ ان کی روحوں میں جوش پید اہو اور وہ بھی ان لوگوں کی ہدایت کے لیے دعائیں کریں.ڈائری میں صرف اس قدر چھپا ہے کہ حضرت مسیح موعود الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہم نے قبروں پر اُن کے لیے بھی دعا کی ہے اور اپنے لئے بھی دعا کی ہے اور بعض امور کے لیے بھی دعا کی ہے.14 اب دیکھو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے خالی ان لوگوں کے لیے دعا نہیں کی.جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ قبر پر جاکر صرف مرنے والے کے لیے دعا کرنی چاہیے ان کا اس ڈائری سے رڈ ہوتا ہے.کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں ہم نے ان کے لیے بھی دعا کی اور اپنے لیے بھی کہ اللہ تعالی ہمیں اپنے مقاصد میں کامیاب فرمائے اور اور کئی امور کے لیے بھی.یہ حضرت یو مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی ڈائری ہے جو ”بدر “ میں چھپی ہوئی موجود ہے.اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام تذکرۃ الشہادتین میں تحریر فرماتے ں کہ میرا ارادہ تھا گورداسپور ایک مقدمہ پر جانے سے پیشتر اس کتاب کو مکمل کر لوں اور اسے اپنے ساتھ لے جاؤں.مگر مجھے شدید درد گردہ ہو گیا اور میں نے سمجھا کہ یہ کام نہیں ہو سکے گا.اُس وقت میں نے اپنے گھر والوں یعنی حضرت اماں جان سے کہا کہ میں دُعا کرتا ہوں آپ آمین کہتی جائیں.چنانچہ اس وقت میں نے صاحبزادہ مولوی عبد اللطیف صاحب شہید کی روح کو سامنے رکھ کر دعا کی کہ الہی ! اس شخص نے تیرے لیے قربانی کی ہے اور میں نے اس کی عزت کے لیے یہ کتاب لکھنا چاہتا ہوں تو اپنے فضل سے مجھے صحت عطا فرما.چنانچہ آپ کے

Page 186

خطبات محمود 186 $1944 فرماتے ہیں.قسم ہے مجھے اُس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ ابھی صبح کے چھ نہیں بجے تھے کہ میں بالکل تندرست ہو گیا اور اُسی روز نصف کے قریب کتاب کو لکھ لیا" 15" اب دیکھ لو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ایک مقدمہ پر جا رہے تھے.آپ چاہتے تھے کہ اُس سے پیشتر کتاب مکمل ہو جائے مگر آپ سخت بیمار ہو گئے.اس پر آپ نے حضرت شہید مرحوم کی روح کو جو آپ کے خادموں میں سے ایک خادم تھے اپنے سامنے رکھ کر دعا کی کہ الہی! اس کی خدمت اور قربانی کو دیکھتے ہوئے نہیں نے یہ کتاب لکھنی چاہی ہے تھی.تو مجھے اپنے فضل سے صحت عطا فرما.اور پھر خدا نے آپ کی اس دعا کو قبول فرمالیا.چنانچہ آپ نے اس واقعہ کا ہیڈنگ ہی یہ رکھا ہے کہ " ایک جدید کرامت مولوی عبد اللطیف صاحب مرحوم کی".پس یہ چیزیں صلحاء اور اتقیاء کے طریق سے ثابت ہیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اس رنگ میں کئی بار دعائیں فرمائی ہیں.جو چیز منع ہے وہ یہ ہے کہ مردہ کے متعلق یہ خیال کیا جائے کہ وہ ہمیں کوئی چیز دے گا.یہ امر صریح نا جائز ہے اور اسلام اسے حرام قرار دیتا ہے.باقی رہا اس کا یہ حصہ کہ ایسے مقامات پر جانے سے رفت پیدا ہوتی ہے یا یہ حصہ کہ انسان أن وعدوں کو یاد دلا کر جو اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی سے کیے ہوں دعا کرے کہ الہی ! اب ہمارے وجو د میں تو ان وعدوں کو پورا فرما.یہ نہ صرف ناجائز نہیں بلکہ ایک روحانی حقیقت ہے اور مومن کا فرض ہے کہ وہ برکت کے ایسے مقامات سے فائدہ اُٹھائے.مثلاً جب ہم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے مزار پر دعا کے لیے جائیں تو ہم اللہ تعالیٰ کو مخاطب کرتے ہوئے یہ کہہ سکتے ہیں کہ الہی! یہ وہ شخص ہے جس کے ساتھ تیرا یہ وعدہ تھا کہ میں اس کے مم ذریعہ اسلام کو زندہ کروں گا.تیر اوعدہ تھا کہ میں اِس کا نام دنیا کے کناروں تک پہنچاؤں گا.تیر اوعدہ تھا کہ اسلام کی فتح میں اس کے ہاتھ پر مقدر کروں گا.تیر اوعدہ تھا کہ شیطان اس کے ہاتھ سے آخری شکست کھائے گا.اے ہمارے رب! یہ تیرے وعدے اِس تھے جو اب مٹی کے ڈھیر تلے مدفون ہے اور اب ان وعدوں کا پورا کر نا ہمارے ہی ذمہ ہے.

Page 187

خطبات محمود 187 $1944 پس اے خدا! ہم تجھ سے ان وعدوں کا واسطہ دے کر عرض کرتے ہیں کہ ہم ان کاموں کے کرنے کی طاقت نہیں رکھتے ، ہم کمزور ہیں، ناطاقت ہیں، گنہگار ہیں اور خطا کار ہیں، جماعت میں ابھی اتنی قربانی کا مادہ اور اس قدر فدائیت نہیں پائی جاتی جس قدر قربانی اور فدائیت اِن عظیم الشان کامیابیوں کے لیے ضروری ہے.تو اپنے فضل سے آسمان سے فرشتے نازل فرما، تو ہمارے قلوب کو صیقل فرما، تو آسمانی انوار سے ہمارے دل اور دماغ کو روشن فرما، تُو ہم کو ایمان بخش اور ان لوگوں کو بھی ایمان بخش جو کروڑوں کی تعداد میں دنیا میں پائے جاتے ہیں، تو ہم کو سلسلہ پر استقامت عطا فرما اور اُن لوگوں کو بھی سلسلہ میں داخل فرما جو کروڑوں کی تعداد میں ہے ابھی اِس سلسلہ کے نام سے بھی نا آشنا ہیں.تو اسلام کی فتح کا دن قریب سے قریب تر لا اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی روحانی بادشاہت کو دنیا میں قائم فرما دے.یہ دعا اگر کی جائے تو بتاؤ اس کے میں کونسا شرک ہے.یہ تو وہ خدا کا فیصلہ ہے جو وہ آسمان پر کر چکا.اب ہم چاہتے ہیں کہ یہ فیصلہ زمین پر بھی نافذ ہو.پس ہمارا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مزار پر دعا کے لیے جانا صرف اس لیے ہے کہ وہ نزولِ برکات کا مقام ہے اور اس لیے ہے کہ وہاں رقت زیادہ پیدا ہوتی ہے اور اس طرح ہم آسانی سے خدا تعالی کی غیرت کو بھر کا سکتے ہیں.بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جو مجھ پر یہ انکشاف فرمایا ہے کہ میں ہی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا وہ لڑکا ہوں جس کی نسبت آپ کو یہ خبر دی گئی تھی کہ اسلام کی منی فتوحات اس کے ہاتھ پر ہوں گی تو اس کے بعد میرے لیے ضروری تھا کہ میں اسلام کی فتح کے ہے لیے کوئی روحانی قدم اُٹھاتا.میں دیکھتا ہوں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے میرے متعلق جو پیشگوئیاں فرمائی ہیں ان میں سے اکثر پوری ہو چکی ہیں اور واقع یہ ہے کہ مجھے مے کوئی ایسی خبر نہیں ملی جس کی بناء پر میں کہہ سکوں کہ میری زندگی ابھی بہت باقی ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اللہ تعالیٰ کا وعدہ تھا کہ وَاللهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ 16 اللہ تعالیٰ تجھے قتل سے محفوظ رکھے گا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو بھی خدا تعالیٰ نے یہ الہام کیا اور پھر یہ بھی فرمایا کہ فری میسن ترے قتل پر مسلط نہیں کیے جائیں گے.17 مگر میرے ساتھ خدا تعالیٰ کا ایسا کوئی وعدہ نہیں.مجھ سے خدا تعالیٰ کا جو وعدہ ہے وہ فقط یہ ہے

Page 188

$1944 188 خطبات محمود إِنَّ الَّذِينَ اتَّبَعُوكَ فَوْقَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ تیرے ماننے والے قیامت تک تیرے منکروں پر غالب رہیں گے.پس یہ وعدہ ہے جو خدا تعالیٰ نے میرے ساتھ کیا.اگر میں آج ہی مر جاؤں تب بھی میں اس الہام کے سچا ہونے میں کوئی شک و شبہ نہیں کروں گا.اگر میں آج ہی قتل ہو جاؤں تو بھی مجھے کوئی شبہ نہیں ہو گا کہ میرے ساتھ خدا کا یہ وعدہ ہے کہ میرے ماننے والے ہمیشہ میرے منکروں پر غالب رہیں گے.ہاں اگر کبھی یہ ثابت ہو جائے کہ میرے ماننے والے مغلوب ہو گئے ہیں اور انکار کرنے والے غالب آگئے ہیں تب بے شک تم سمجھ لو کہ میں نے خدا پر افترا کیا اور جھوٹ بولا.لیکن ایسا کبھی نہیں ہوگا.زمین و آسمان ٹل سکتے ہیں مگر جو میرے ہاتھ پر بیعت کرنے والے ہیں وہ میرے منکروں سے کبھی مغلوب نہیں ہو سکتے.خدا اُن کو اُن کے مخالفوں پر قیامت تک غالب رکھے گا".اس موقع پر کسی شخص نے بلند آواز سے نعرہ تکبیر لگانا چاہا.جس پر حضور نے اظہار ناراضنگی کرتے ہوئے فرمایا."جمعہ میں بولنا منع ہے.خبر دار ! کوئی شخص نعرہ مت لگائے.معلوم نہیں احرار نے یہ کیسی گندی عادت لوگوں میں پیدا کر دی ہے.ہمیں تو دوسرے مواقع پر بھی ایسا نہیں کرنا ہے چاہیے، کجا یہ کہ جمعہ کا دن ہو اور خطبہ کی حالت میں نعرہ تکبیر بلند کیا جائے.یاد رکھو خطبہ عبادت کا حصہ ہوتا ہے.اسی لیے اللہ تعالیٰ نے جمعہ کی نماز کی دو رکعتیں رکھی ہیں.باقی دو رکعتوں کی جگہ خطبہ رکھ دیا.پس خطبہ بھی عبادت کا ایک حصہ ہوتا ہے اور اس میں بولنا جائز نہیں ہوتا.پھر یہ بھی تو سوچو کہ اگر اس طرح جوش اپنے سینوں سے نکال دیا جائے تو دل سرد ہو جاتا ہے.حالانکہ انسان کو اپنے دل میں محبت کی ایسی آگ سلگانی چاہیے جو اُسے خدا کے قریب کر دے.تو میں جس چیز پر قائم ہوں اُس کو دیکھتے ہوئے میرے دل میں قدر تا درد پیدا ہوتا ہے کہ معلوم نہیں میری کتنی زندگی ہے اور کب اسلام کی فتح کا دن آنے والا ہے.بے شک اللہ تعالیٰ نے میرے ذریعہ سے اسلامی علوم کی ایک بہت بڑی بنیاد قائم کر دی ہے اور میرے لیکچروں اور میری کتابوں میں بہت سے علم پائے جاتے ہیں.لیکن پھر بھی میں نے ان می

Page 189

$1944 189 خطبات محمود چالیس روزہ دعاؤں کا آغاز کر دیا تا کہ اگر میری زندگی تھوڑی ہو تو میں ان دعاؤں کے ذریعہ بھی اسلام کی ترقی اور دین کی فتح کی ایک عظیم الشان بنیادرکھ دوں تاکہ خدا کا منشاء جلد سے جلد اور مکمل طور پر دنیا میں ظاہر ہو.مسجد مبارک کی توسیع کے سلسلہ میں نہایت شاندار اخلاص کا نمونہ تیسری بات میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ میں نے پرسوں مغرب کے بعد مسجد مبارک میں قادیان کے دوستوں کو توجہ دلائی تھی کہ اس مسجد کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا یہ الہام ہے مُبَارِكْ وَ مُبَارَكٌ وَ كُلُّ أَمْرٍ مُبَارَكِ يُجْعَلُ فِيْهِ 18 کہ یہ مسجد لوگوں کو برکت دینے والی ہے ، یہ مسجد برکت کے نزول کا مقام ہے اور جو کام بھی اس مسجد میں کیا جائے گا وہ بابرکت ہو گا.میں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اس الہام کی طرف توجہ دلاتے ہوئے کہا تھا کہ دوستوں کو چاہیے کہ وہ کم سے کم ایک نماز روزانہ اس مسجد میں پڑھا کریں.میں دیکھتا ہوں کہ خدا تعالیٰ کے فضل سے اس توجہ دلانے کا یہ نتیجہ ہوا کہ لوگ بڑی کثرت سے وہاں نمازیں پڑھنے کے لیے آنے لگ گئے اور میں جماعت پر یہ فضل اُس دن سے نازل ہو تا محسوس کر رہا ہوں جب سے اللہ تعالیٰ نے مجھ پر یہ انکشاف فرمایا.حالانکہ وہی میں ہوں وہی تم ہو.لیکن جس دن سے یہ انکشاف ہوا ہے جماعت کے قلوب میں ایسا تغیر پیدا ہو رہا ہے کہ معلوم ہوتا ہے کہ انہیں ایک نئی زندگی حاصل ہو گئی ہے.چنانچہ ادھر میں نے یہ تحریک کی اور اُدھر جماعت میں ایک ایسی بیداری پیدا ہو گئی کہ سینکڑوں لوگ مسجد مبارک میں نماز پڑھنے کے لیے آنے لگ گئے.لوگ شکوہ کیا کرتے ہیں کہ مولوی سید سرور شاہ صاحب چونکہ لمبی نماز پڑھایا کرتے ہیں اس لیے لوگ اس مسجد کی بجائے دوسری مساجد میں نمازیں پڑھتے ہیں اور اس میں کوئی شبہ نہیں کہ لوگوں کی یہ شکایت درست ہے.میں نے خود مولوی صاحب کو کئی دفعہ کہلوایا ہے کہ وہ نماز بہت لمبی نہ پڑھایا کریں.لیکن یہ تو درست نہیں کہ اگر کوئی امام لمبی نماز پڑھائے تو ہم اس مسجد میں نماز پڑھنا ہی چھوڑ دیں جسے خدا نے برکت کا مقام ہے قرار دیا ہے.نماز تو خدا تعالیٰ کی عبادت کا نام ہے اور عبادت ٹکریں مارنے سے نہیں ہوتی ہے بلکہ آہستہ آہستہ نماز کے ارکان ادا کرنے اور خشوع و خضوع کے ساتھ اللہ تعالیٰ سے

Page 190

خطبات مج محمود 190 $1944 دعائیں کرنے کے ساتھ مکمل ہوتی ہے.پس اُن کو بھی اپنی عادت بدلنی چاہیے اور تم کو بھی اپنی عادت بدلنی چاہیے.اُن کو یہ عادت ڈالنی چاہیے کہ وہ ہلکی نماز پڑھائیں اور تم کو یہ عادت ڈالنی چاہیے کہ تم لمبی نمازیں پڑھو.بہر حال گزشتہ سال کا اکثر حصہ چونکہ میں باہر رہا ہوں، پہلے بیماری کی وجہ سے پہاڑ پر رہا اور پھر قادیان میں بھی آیا تو اپنی بیماری کی وجہ سے گھر پر ہی نمازیں پڑھتار ہا اور نماز کے لیے مسجد میں نہ آسکا اور جلد ہی اُمم طاہر کی بیماری کی وجہ سے لاہور چلا گیا اس لیے اکثر ایام میں مولوی صاحب ہی نمازیں پڑھاتے رہے ہیں.اور کہا جاتا ہے کہ اس وجہ سے عام طور پر لوگ مسجد مبارک میں نماز پڑھنے کے لیے نہیں آتے مگر میں نے بتایا چی ہے کہ یہ غلط طریق ہے.جہاں مولوی صاحب کا فرض ہے کہ وہ نسبتا ہلکی نماز پڑھایا کریں کیونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اتنی لمبی نماز پڑھانا کہ جس سے لوگ منتظر ہو جائیں ہیں نا پسند فرمایا ہے.19 اس کے ساتھ ہی دوستوں کا بھی فرض ہے کہ وہ اپنی حالت کو بدلیں اور جلدی جلدی نماز پڑھنے کی بجائے ٹھہر ٹھہر کر اور خشوع و خضوع کے ساتھ نمازیں پڑھنے کی و عادت ڈالیں.مسجد اقصٰی چونکہ میرے بالکل قریب ہے اور یہاں کی نماز کی آواز میرے کان میں آتی رہتی ہے اس لیے میں اپنے اندازے کے مطابق کہہ سکتا ہوں کہ مسجد اقصی کی نماز تند مناسب سے چھوٹی ہوتی ہے.اتنی چھوٹی اور ہلکی نماز پڑھانا بھی اچھا نہیں ہوتا.مسجد اقصی والوں کو چاہیے کہ وہ اپنی نماز کو ذرا لمبا کر دیں اور خشوع و خضوع اور آہستگی کے ساتھ نماز کے ارکان ادا کیا کریں.میں دیکھتا ہوں کہ جب امام اللہ اکبر کہہ کر سجدہ کو جاتا ہے تو لو گوں کے گھٹے کھٹ کھٹ کر کے زمین پر لگنے شروع ہو جاتے ہیں حالانکہ نماز کی تمام حرکات میں وقار اور آہستگی چاہیے.اس قسم کی جلدی بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت کے خلاف من ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جب تم نماز پڑھو تو آہستگی اور وقار سے نماز ادا کرو.آہستگی اور اطمینان سے اس کے ارکان ادا کرو.اُٹھو تو آہستگی سے اٹھو، جھکو تو آہستگی سے جھکو.20 یہ نماز کی روح ہے جو پیدا کرنی چاہیے.جو شخص اس طرح نماز نہیں پڑھتا اس کے دل میں درد اور تضرع پیدا نہیں ہو سکتا.بہر حال میں دیکھتا ہوں کہ اب سینکڑوں لوگوں نے مسجد مبارک میں نماز

Page 191

$1944 191 خطبات محمود پڑھنے کے لیے آنا شروع کر دیا ہے.اور یا تو مسجد کی دو تین صفیں ہی پر ہوتی تھیں باقی مسجد خالی پڑی رہتی تھی اور یا اب مسجد کا نچلا حصہ بھی پر ہو جاتا ہے، چھت بھی بھر جاتی ہے اور گلیوں میں کھڑے ہو کر لوگوں کو نمازیں پڑھنی پڑتی ہیں.یہ خدا کا کتنا بڑا فضل ہے جو ہم پر نازل ہوا کہ یا تو ہم کہا کرتے تھے کہ ہم مسجد کو پُر کس طرح کریں کافی تعداد میں لوگ یہاں نماز پڑھنے کے لیے آتے ہی نہیں اور یا پرسوں رات سے ہی جبکہ میں نے اِس طرف توجہ دلائی لوگوں کے قلوب میں ایسا تغیر پیدا ہوا اور اُنہوں نے اتنی کثرت سے مسجد میں آنا شروع کر دیا کہ اب مسجد نمازیوں کے لیے بالکل ناکافی معلوم ہوتی ہے.ہم نے مسجد مبارک کی توسیع ہے کے لیے دیر سے اُس کے ساتھ ہی ایک جگہ لے رکھی تھی.مگر اُس کو بڑھانے کا خیال نہیں آتا تھا.کیونکہ جب پہلے ہی مسجد خالی رہتی ہو تو اسے اور کس طرح بڑھایا جا سکتا تھا.مگر جب اس میں تحریک کے نتیجہ میں لوگوں نے اتنی کثرت سے وہاں نماز کے لیے آنا شروع کر دیا کہ نمازیوں کے لیے گنجائش نہ رہی تو کل عصر کے وقت میں نے اِس کا ذکر کیا کہ اب وقت آگیا ہے کہ ہمیں مسجد مبارک کی توسیع کرنی چاہیے.اس کا اثر یہ ہوا کہ شام کی نماز کے بعد جب میں بیٹھا ہے تو میں نے بعض ایسے دوستوں کا نام لکھوانا شروع کر دیا جنہوں نے اس غرض کے لیے مجھے چندہ دیا ہوا تھا.اس پر دوسرے دوستوں نے بھی اُسی وقت چندہ دینا شروع کر دیا اور بعض نے ے لکھوانے شروع کر دیئے اور اس اخلاص سے چندے دیئے اور وعدے لکھوانے شروع کیسے کہ نماز مغرب میں شامل ہونے والے نمازیوں سے ہی اندازہ کی رقم پوری ہو گئی.ہمارا اندازہ مسجد کی زیادتی کے خرچ کا دس ہزار روپیہ کا تھا.مگر اب تک خدا تعالیٰ کے فضل سے ہے پندرہ ہزار روپے کے وعدے ہو چکے ہیں * اور ان میں سے سات ہزار روپیہ تو نقد وصول ہو چکا ہے.باقی روپیہ بھی امید ہے اور دو چار دنوں میں دوستوں کی طرف سے مل جائے گا.** یہ کیسا شاندار اخلاص کا نمونہ ہے جو ہماری جماعت نے دکھایا.دنیا میں آج کونسی جماعت ہے جو * آج ہفتہ کی شام تک سترہ ہزار سے زائد کے وعدے ہو چکے ہیں.** آج ہفتہ کی شام تک دس ہزار سے او پر نقد آچکا ہے.

Page 192

$1944 192 خطبات محمود دین کی خدمت کے لیے ایسا نمونہ دکھا رہی ہے.لوگ کہتے ہیں کہ قادیان میں لوگ بیٹھے ہیں جو مجاور ہیں اور جن کا کام روٹیاں کھانا ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ جو قربانی یہ ایک چھوٹی سی جماعت کر رہی ہے جس کے افراد کو مجاور یہ کہا جاتا ہے اس کی مثال آج دنیا میں کہیں نہیں مل سکتی.میں جانتا ہوں کہ دنیا میں کروڑ پتی نہیں ارب پتی لوگ بھی موجود ہیں اور وہ اگر چاہیں تو ایک ایک موقع پر ہیں ہیں، تیں تھیں ہیں ہزار بلکہ بعض دفعہ لاکھ لاکھ روپیہ دے دیتے ہیں مگر سوال یہ ہے کہ یہاں کن لوگوں کی جیبوں سے یہ چندہ لکھتا ہے.جن لوگوں کی جیبوں سے یہ چندہ نکلتا ہے وہ کروڑ یا ارب پتی نہیں ہے بلکہ نہایت غریب لوگ ہیں اور ان کے گزارے بہت معمولی اور ادنی ہیں.مگر دین کے لیے جس قربانی اور فدائیت کا وہ ثبوت دے رہے ہیں وہ یقیناً ایک بے مثال بات ہے.میں جانتا ہوں مسلمانوں میں بڑے بڑے جلسے ہوتے ہیں اور مسلمان لیڈر چندہ حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں مگر انہیں سوائے ناکامی کے اور کچھ حاصل نہیں ہوتا.مجھے ایک دفعہ سر سکندر حیات خان مرحوم اور سر فیروز خان نون کا تار ملا کہ سائمن کمیشن کی رپورٹ پر ہم نے بحث کرنی ہے.آپ بھی شملہ اس فرض سے آئیں.چنانچہ میں شملہ چلا گیا.جو جلسہ اس غرض کے لیے منعقد ہوا اُس میں یہ تجویز پیش ہوئی کہ اس غرض کے لیے مسلمانوں کو منظم کیا جائے.اُس وقت جس قدر مسلمان لیڈر موجود تھے انہوں نے کہا اس میں بڑی مشکل بات یہ ہے کہ ہمارے پاس فنڈ ز موجود نہیں ہیں اور اس کام کے لیے روپے کی ضرورت ہے.میں نے کہا آپ لوگ اندازہ لگائیں کہ آپ کس قدر روپے میں یہ کام کر سکتے ہیں.انہوں نے کہا کہ اس کام کے لیے ہمیں دو ہزار روپیہ کی ضرورت ہے.میں ان کی یہ بات سن کر حیران رہ گیا کہ یہ لوگ کیا کہہ رہے ہیں کہ دو ہزار روپیہ سے یہ عظیم کام ہو جائے گا.میں نے اس غلطی کی طرف اُن کو توجہ دلائی تو انہوں نے کہا کہ اصل بات یہ ہے کہ مسلمانوں میں اس وقت ایسی بدظنی کی لہر دوڑ رہی ہے کہ لوگ چندہ دیتے ہی نہیں.میں نے کہا کہ اس غرض کے لیے لاکھوں روپے کی ضرورت ہے.اگر کام کرنا ہے تو ضرورت کے مطابق آپ لوگ روپیہ جمع کریں اور اس کی یہ صورت ہے کہ ہر صوبے کے ذمے

Page 193

$1944 193 خطبات محمود پچاس پچاس ہزار کی رقم ڈال دیں.میں پنجاب کا ذمہ لیتا ہوں.گولوگ ہمارے مخالف ہیں مگر یہ رقم پنجاب سے جمع کر دینے کا میں ذمہ لیتا ہوں.بہر حال آپ کو یہ رقم میں جمع کر دوں گا.اس پر ایک کمیٹی مقرر کی گئی جس میں مجھے بھی ممبر بنایا گیا.میں نے اس کمیٹی کے اجلاس میں مختلف ممبروں پر زور دے کر اُن سے رقوم لکھوائیں اور صرف اس کمیٹی کے ممبروں سے گیارہ ہزار سے زائد کے وعدے لکھوا دیئے.مگر لوگوں کے ڈر سے انہوں نے میری تجویز کو قبول نہ کیا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ دو ہزار مجھ سے ان کو وصول ہوا اور پانچ سو سر فیروز خاں صاحب سے.باقی چندہ انہوں نے وصول ہی نہ کیا بلکہ ایک دوسرے کو چندہ دینے سے روکتے رہے.لیکن اس کے بر خلاف میں دیکھتا ہوں کہ یہاں میں عصر کی نماز میں اس کا ذکر کرتا ہوں اور عشاء کی نماز تک ہمیں اپنے اندازہ سے بھی زیادہ رقم وصول ہو جاتی ہے.باہر کی جماعتوں کو بے شک اس سے صدمہ ہو گا کہ اُنہیں اس تحریک میں حصہ لینے کا موقع نہیں ملا.لیکن اس مسجد اقصٰی کو دیکھو کہ اب یہ بھی تنگ ہو رہی ہے.کس طرح ایک ایک قدم اٹھا کر ہم نے اس مسجد کو بڑھایا.مگر حالت یہ ہے کہ اب پھر یہ مسجد خدا کے فضل سے تنگ ہو رہی ہے ہے.اس مسجد کے ایک طرف پہلے عورتیں بیٹھا کرتی تھیں.ان بیچاریوں نے اس جگہ کے لیے چندہ بھی دیا تھا مگر ہم نے ان کو نکال دیا.اب مرد اس جگہ نماز پڑھتے ہیں اور عورتیں ہی ہمارے گھر میں نماز پڑھتی ہیں.تو باہر کی جماعتوں کو فکر نہیں کرنا چاہیے.اللہ تعالیٰ اُن کے لیے نیکی کے میدان میں آگے بڑھنے کے اور کئی سامان پیدا کر دے گا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ایک دفعہ رویا میں دیکھا کہ قادیان کی آبادی بیاس تک پھیل گئی ہے.21 میں اس رویا سے یہ سمجھا کرتا ہوں کہ قادیان کی آبادی دس بارہ لاکھ کی ضرور ہو گی.اور اگر دس بارہ لاکھ کی آبادی ہو تو اس کے معنے یہ ہیں کہ چار لاکھ لوگ جمعہ پڑھنے کے لیے آیا کریں گے.پس میرے نزدیک یہ مسجد بہت بڑھے گی بلکہ ہمیں اس قدر بڑھانی پڑے گی کہ چار لاکھ نمازی اس مسجد میں آسکیں.اس غرض کے لیے اسے چاروں طرف بڑھایا جاسکتا ہے.اس وقت بھی جس جگہ کھڑے ہو کر میں یہ مخطبہ پڑھ رہا ہوں یہ اُس حصہ

Page 194

$1944 194 خطبات محمود باہر ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ میں تھا.وہ مسجد اس موجودہ مسجد کا غالباً دسواں حصہ ہو گی.تو دیکھو اللہ تعالیٰ کا یہ کتنا بڑا فضل ہے کہ لوگوں کی مسجدیں خالی پڑی رہتی ہیں اور ہم اپنی مساجد کو بڑھاتے ہیں تو وہ اور تنگ ہو جاتی ہیں.یہاں تک کہ لوگوں کو مسجد میں نماز پڑھنے کے لیے جگہ نہیں ملتی.ހނ مجھے یاد ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی میں صرف ایک ہی فعل مجھے.ایسا ہوا جس سے میں سخت ڈرا.اس میں میری ہی غلطی تھی اور میں فوری طور پر پکڑا گیا.لیکن میں خدا تعالیٰ کا شکر ادا کرتا ہوں کہ میری جلد ہی بریت ہو گئی.ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو گردہ میں درد تھا اور آپ جمعہ پڑھنے کے لیے تشریف نہ لاسکے.میری اُس وقت پندرہ سولہ سال کی عمر تھی.میں جمعہ کی نماز پڑھنے کے لیے گھر سے نکلا اور مسجد کو آنے لگا.جب میں موڑ تک پہنچا تو ایک احمدی دوست مجھے ملے جو واپس جارہے تھے.میں نے اُن سے کہا کہ آپ واپس کیوں جارہے ہیں ؟ انہوں نے کہا کہ مسجد میں بیٹھنے کے لیے کوئی جگہ نہیں.میری جو شامت آئی تو بغیر اس کے کہ میں آگے بڑھ کر تحقیق کر لیتا کہ آیا واقع میں مسجد لوگوں سے بھری ہوئی ہے یا نہیں اور وہاں کھڑے ہونے میں با بیٹھنے کی جگہ ہے یا یہ شخص یو نہی کہہ رہا ہے، وہاں سے واپس چلا گیا اور ظہر کی نماز گھر میں ہے پڑھنی شروع کر دی.یہ اللہ تعالی کا احسان ہے کہ میں چھوٹی عمر سے ہی نمازوں کا پابند ہوں اور ہے میں نے آج تک ایک نماز بھی کبھی ضائع نہیں کی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام مجھے سے کبھی یہ دریافت نہیں فرمایا کرتے تھے کہ تم نے نماز پڑھی ہے یا نہیں پڑھی.مجھے یاد ہے جب میں گیارھویں سال میں تھا تو ایک دن میں نے صفحی یا اشراق کے وقت وضو کر کے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا کوٹ پہنا اور خدا تعالیٰ کے حضور میں خوب رویا اور میں نے عہد کیا کہ میں آئندہ نماز کبھی نہیں چھوڑوں گا.خدا تعالیٰ کا فضل ہے کہ اس عہد اور اقرار کے بعد میں نے کبھی کوئی نماز نہیں چھوڑی.لیکن پھر بھی چونکہ میں بچہ تھا اور بچپن میں کھیل گود کی وجہ سے بعض دفعہ جماعت کے ساتھ نماز پڑھنے میں سستی ہو جاتی ہے اس لیے ایک دفعہ کسی نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے پاس میری شکایت کی کہ آپ اسے می

Page 195

خطبات محمود 195 $1944 سمجھائیں.یہ نماز باجماعت پوری پابندی سے ادا کیا کرے.میر محمد اسحق صاحب مجھ دو سال چھوٹے ہیں اور بچپن میں چونکہ ہم اکٹھے کھیلا کرتے تھے اور ہمارے نانا جان میر ناصر نواب صاحب کی طبیعت بہت تیز تھی اس لیے وہ میر محمد اسحاق صاحب کو ناراض ہوا کرتے تھے اور سختی سے انہیں نماز پڑھنے کے لیے کہا کرتے تھے.جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے پاس کسی نے میرے متعلق یہ شکایت کی تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ایک تو میر صاحب کی نماز پڑھتا ہے.اب میں نہیں چاہتا کہ دوسر امیری نماز پڑھے.میں یہی چاہتا ہوں کہ وہ خدا کی نماز پڑھا کرے.تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے مجھے نماز پڑھنے کے متعلق کبھی نہیں کہا.میں خود ہی تمام نمازیں پڑھ لیا کرتا تھا.لیکن اُس دن شاید میری غفلت کو اللہ تعالیٰ دور کرنا چاہتا تھا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے مجھے دیکھ کر کہا کہ محمود ادھر آؤ! میں گیا تو آپ نے فرمایا تم جمعہ پڑھنے نہیں گئے ؟ میں نے کہا میں گیا تو تھا مگر معلوم ہوا کہ مسجد بھری ہوئی ہے وہاں نماز پڑھنے کے لیے کوئی جگہ نہیں.میں نے کہنے کو تو یہ کہہ دیا مگر اپنے دل میں سخت ڈرا کہ میں نے دوسرے کی بات پر کیوں اعتبار کر لیا.معلوم نہیں اُس نے جھوٹ کہا ہے یا سچ کہا ہے.اگر اُس نے سچ بولا ہے تب تو خیر.لیکن اگر اُس نے جھوٹ بولا ہے تو چونکہ اسی کی بات میں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے سامنے بیان کر دی ہے اس لیے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام مجھ سے ناراض ہوں گے کہ تم نے جھوٹ کیوں بولا.غرض میں اپنے دل میں سخت خائف ہوا کہ آج نہ معلوم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام کیا فرماتے ہیں.اتنے میں نماز پڑھ کر مولوی عبد الکریم صاحب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی عیادت کے لیے آئے.میں قریب ہی اِدھر اُدھر منڈلا رہا تھا کہ دیکھوں آج کیا بنتا ہے.اُن کے آتے ہی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اُن سے سوال کیا کہ آج جمعہ میں لوگ زیادہ آئے تھے اور مسجد میں نماز پڑھنے کے لیے گنجائش نہیں رہی تھی ؟ میرا دل ہے تو یہ سنتے ہی بیٹھ گیا کہ خبر نہیں.اُس شخص نے مجھ سے بچ کہا تھا یا جھوٹ کہا تھا.مگر اللہ تعالیٰ ہے نے میری عزت رکھ لی.مولوی عبد الکریم صاحب مرحوم میں خدا تعالیٰ کے احسانات پر

Page 196

$1944 196 خطبات محمود ادا کرنے کا مادہ بہت زیادہ پایا جاتا تھا.انہوں نے یہ سنا تو کہا کہ حضور! اللہ کا بڑا احسان تھا مسجد خوب لوگوں سے بھری ہوئی تھی.اُس میں بیٹھنے کے لیے ذرا بھی گنجائش نہیں رہی تھی.تب میں نے سمجھا کہ اُس احمدی نے جو کچھ کہا تھا وہ سچ تھا.تو اللہ تعالیٰ نے ہماری ترقی کا یہی ذریعہ رکھا ہے کہ ہماری مسجدیں بڑھتی جائیں اور لوگوں سے ہر وقت آباد رہیں.جب تک تم مسجدوں کو آباد رکھو گے اُس وقت تک تم بھی آبادر ہو گے اور جب تم مسجدوں کو چھوڑ دو گے ، اس وقت اللہ تعالیٰ تم کو بھی چھوڑ دے گا.غرض اللہ تعالیٰ کا احسان ہے کہ اُس نے میری تحریک کو قبول فرمایا اور چند گھنٹوں کے اندر اندر ہمارے اندازہ سے زیادہ روپیہ جمع ہو گیا.میر امنشاء ہے کہ اب مسجد مبارک میں ایک لاؤڈ سپیکر بھی لگا دیا جائے کیونکہ نمازیوں کے زیادہ آنے کی وجہ سے بات دُور تک آسانی سے پہنچائی نہیں جاسکتی.باہر کے لوگوں کو گھبرانا نہیں چاہیے کہ وہ اس تحریک میں حصہ لینے سے محروم رہے ہیں.اللہ تعالیٰ ان کے لیے ثواب کے اور مواقع بہم پہنچا دے گا.ابتدائے خلافت میں جب لوگوں نے یہ کہنا شروع کر دیا کہ چند مجاوروں نے، جن کا کام روٹیاں کھانا تھا، خلافت کو تسلیم یا ہے تو معلوم ہوتا ہے قادیان کے لوگوں کو اس سے ضرور صدمہ ہوا ہو گا.کیونکہ انہی دنوں میں میں نے رویا میں دیکھا کہ ایک شخص کھڑا ہے اور کہہ رہا ہے کہ "مبارک ہو قادیان کی غریب جماعت تم پر خلافت کی رحمتیں یا برکتیں نازل ہوتی ہیں".پس یہ خلافت کی برکت ہی ہے جو تم دیکھ رہے ہو کہ کس طرح قادیان کے غریبوں اور مسکینوں نے ایسی قربانی پیش کی ہے جس کی نظیر اور کسی جماعت میں نہیں مل سکتی.آج مجھے حیرت ہوئی جبکہ ایک غریب عورت جو تجارت کرتی ہے، جس کا سارا سرمایہ سو ڈیڑھ سوروپیہ کا ہے اور ہندوؤں سے مسلمان ہوئی ہے صبح ہی میرے پاس آئی اور اُس نے دس دس روپیہ کے پانچ نوٹ یہ کہتے ہوئے مجھے دیئے کہ یہ جمعہ کے معا بعد ایک احمدی، بجلی کے کار خانہ کے مالک نے پیش کیا کہ وہ لاؤڈ سپیکر اس غرض کے لیے مسجد کو اپنی فرم کی طرف سے پیش کریں گے.فَجَزَاهُمُ اللَّهُ أَحْسَنَ الْجَزَاء

Page 197

$1944 197 خطبات محمود میری طرف سے مسجد مبارک کی توسیع کے لیے ہیں.میں نے اُس وقت اپنے دل میں کہا کہ اس عورت کا یہ چندہ اِس کے سرمایہ کا آدھا یا مثلث ہے.مگر اس نے خدا کا گھر بنانے کے لیے اپنا آدھا یا مثلث سرمایہ پیش کر دیا.پھر کیوں نہ ہم یقین کریں کہ خدا بھی اپنی اس غریب بندی کا تم گھر جنت میں بنائے گا اور اسے اپنے انعامات سے حصہ دے گا.پس اللہ تعالیٰ کے جو فضل ہم پر ہیں اُن کو دیکھتے ہوئے ہم یہی سمجھتے ہیں کہ ہمارا ہر قدم ترقی کے میدان میں بڑھتا چلا جائے گا.جتنا کام اس وقت تک ہوا ہے خدا نے کیا ہے اور آگے بھی خدا ہی کرے گا.خاندان حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو نصیحت کہ اپنی تمام زندگی خدا تعالیٰ کے دین کی خدمت کے لیے وقف کر دیں: اس کے بعد میں کچھ اور ہے باتیں کہنا چاہتا ہوں اور میں ان باتوں کو جلدی جلدی اس لیے کہہ رہا ہوں کہ میں نہیں جانتا میری کتنی زندگی ہے.میں اس مقام پر سب سے پہلے اپنے خاندان کو نصیحت کرتا ہوں کہ یہ دیکھو ہمارے او پر اللہ تعالیٰ کے اس قدر احسانات ہیں کہ اگر سجدوں میں ہمارے ناک گھس جائیں ہمارے ماتھوں کی ہڈیاں کھس جائیں تب بھی ہم اس کے احسانات کا شکر ادا نہیں ہے کر سکتے.اللہ تعالیٰ نے اپنے آخری موعود کی نسل میں ہمیں پیدا کیا ہے اور اس فخر کے لیے اُس نے اپنے فضل سے ہمیں چن لیا ہے.پس ہم پر ایک بہت بڑی ذمہ داری عائد ہے.دنیا کے ہے لوگوں کے لیے دنیا کے اور بہت سے کام پڑے ہوئے ہیں.مگر ہماری زندگی تو کلیۂ دین کی خدمت اور اسلام کے احیاء کے لیے وقف ہونی چاہیے.مگر میں دیکھتا ہوں ہمارے خاندان کے کچھ افراد دنیا کے کام میں مشغول ہو گئے ہیں.بے شک وہ چندے بھی دیتے ہیں، بے شک وہ نمازیں بھی پڑھتے ہیں، بے شک وہ اور دینی کاموں میں بھی حصہ لیتے ہیں.مگر یہ وہ چیز ہے جس کی اللہ تعالیٰ ہر مومن سے امید کرتا ہے.ہر مومن سے وہ توقع کرتا ہے کہ وہ جہاں دنیا کے کام کرے وہاں چندے بھی دے، وہاں نمازیں بھی پڑھے ، وہاں دین کے اور کاموں میں بھی حصہ لے.پس اس لحاظ سے ان میں اور عام مومنوں میں کوئی امتیاز نہیں ہو سکتا.حالانکہ خدا ہم سے دوسروں کی نسبت زیادہ امید کرتا ہے.خدا ہم سے یہ نہیں چاہتا کہ ہم کچھ وقت دین کو دیں اور

Page 198

خطبات محمود 198 $1944 باقی وقت دنیا پر صرف کریں.بلکہ خدا ہم سے یہ چاہتا ہے کہ ہم اپنی تمام زندگی خدا تعالیٰ کے دین کی خدمت کے لیے وقف کر دیں.حضرت داؤد فرماتے ہیں میں نے آج تک کسی بزرگ کی سات پشتوں تک کو بھیک مانگتے اور فاقہ کرتے نہیں دیکھا.22 اس کے معنے یہی ہیں کہ سات پشتوں تک اللہ تعالیٰ خود اس خاندان کا محافظ ہو جاتا ہے اور پھر اس کے یہ بھی معنے ہیں کہ جب سات پشتوں تک خدا خود اُس خاندان کا محافظ ہو جاتا ہے تو اس خاندان کے افراد کا بھی فرض ہوتا ہے کہ وہ کم سے کم سات پشتوں تک سوائے دین کی خدمت کے اور کوئی کام نہ کریں.اگر وہ دنیا کے کام چھوڑ دیں تو اس کے نتیجہ میں فرض کرو ان کو فاقے آنے لگ جاتے ہیں تو پھر کیا ہوا.سب کچھ خدا کی مشیت کے ماتحت ہوتا ہے.اگر اس رنگ میں ہی کسی وقت مینی اللہ تعالیٰ ان کا امتحان لینا چاہے اور انہیں فاقے آنے شروع ہو جائیں تب بھی اس میں کونسی میں بڑی بات ہے.کیا لوگ دنیا میں فاقے نہیں کیا کرتے ؟ اگر دنیا کے اور لوگ فاقے کر لیتے ہیں تو فاقہ سے ڈر کر ہمارے لیے دین کی خدمت کو چھوڑ نا کس طرح جائز ہو سکتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام جب فوت ہوئے اُس وقت ہمارے پاس اپنے گزارے کا کوئی سامان نہ تھا.والدہ سے اُس کے ہر بچہ کو محبت ہوتی ہے لیکن میرے دل میں نہ ہے صرف اپنی والدہ ہونے کے لحاظ سے حضرت اماں جان کی عظمت تھی بلکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی اہلیہ ہونے کی وجہ سے آپ کی دُہری عزت میرے قلب میں موجود ہے.اس کے علاوہ جس چیز نے میرے دل پر خاص طور پر اثر کیا وہ یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام جب فوت ہوئے ہیں اس وقت آپ پر کچھ قرض تھا.آپ نے یہ نہیں کیا کہ جماعت کے لوگوں سے کہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر اس قدر قرض ہے یہ ادا کر دو.بلکہ آپ کے پاس جو زیور تھا اسے آپ نے بیچ کر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے قرض کو فورا ادا کر دیا.میں اُس وقت بچہ تھا اور میرے لیے ان کی خدمت کرنے کا کوئی موقع نہ تھا.مگر میرے دل پر ہمیشہ یہ اثر رہتا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو کتنا محبت کرنے والا اور آپ سے تعاون کرنے والا سا تھی دیا.پھر ہمارے لیے حضرت خلیفہ اول نے کچھ گزارہ مقرر کرنا چاہا.میں نے کیے

Page 199

خطبات محمود 199 $1944 اس بات کا پہلے بڑا مقابلہ کیا اور کہا کہ ہم ہر گز گزارہ نہیں لیں گے.لوگ مجھے کہتے کہ آخر آپ کیا کریں گے ؟ تو میں یہی کہتا کہ اگر اللہ تعالیٰ کو ہمیں بھوک رکھنا منظور ہے تو ہم بھوکے رہیں گے مگر جماعت سے گزارہ کے لیے کوئی رقم نہیں لیں گے.یہاں تک کہ حضرت خلیفہ اول کو یہ بات معلوم ہوئی.اس پر آپ نے مجھے بلایا اور فرمایا کہ میاں! خدا کا ایک الہام ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر نازل ہوا اور میں نے اس الہام کے یہ معنے نکالے ہیں اس لیے تم اس گزارہ کو قبول کر لو.چنانچہ میں نے وہ گزارہ قبول کر لیا مگر وہ گزارہ اُس سے بہت کم تھا جو آجکل ہماری اولادوں کو ملتا ہے.اُس وقت مجھے ساٹھ روپے ماہوار ملا کرتے تھے اور ہم نہ صرف میاں بیوی تھے بلکہ اُس وقت تک دو بچے بھی ہو چکے تھے اور ایک خادمہ بھی تھی.اس کے علاوہ میں انہی روپوں میں سے دس روپے کے قریب دینی کاموں میں خرچ کر تا تھا.گویا پچاس روپیہ میں ہم گزارا کیا کرتے تھے.لیکن میرے دل میں اُس وقت یہ کبھی خیال پیدا نہیں ہوا کہ ہمیں گزارہ کم ملتا ہے.ہماری جائیداد بے شک تھی لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام چونکہ جائیداد کی طرف توجہ نہیں کیا کرتے تھے اس لیے ہمیں بھی پتہ نہیں تھا کہ وہ جائیداد کیا ہے اور کتنی قیمت کی ہے.بعد میں وہ جائیداد خدا تعالیٰ کے فضل سے لاکھوں روپیہ کی ثابت ہوئی اور باوجود اس کے کہ بہت سی جائیداد ہم بیچ کر کھا چکے ہیں اب بھی اگر سب بھائیوں میں وہ جائیداد تقسیم کی جائے تو ہر ایک کا لاکھ بلکہ ڈیڑھ ، ڈیڑھ لاکھ روپیہ کا حصہ نکل سکتا ہے.حالانکہ چار پانچ لاکھ روپیہ کی جائیداد ہم پیچ چکے ہیں.تو یہ چیز موجود تھی مگر ہمیں اس کا پتہ نہیں تھا اور نہ اس جائیداد کی قیمت کا ہمیں کوئی علم میں تھا.نہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جائیداد سے کوئی واسطہ رکھا اور نہ ہمیں اِس کی طرف کوئی توجہ پیدا ہوئی.اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے ایسے ذرائع سے روپیہ دینا شروع کر دیا جو میرے وہم و گمان میں بھی نہیں تھے.لوگ جہاں مجھے پر مختلف اعتراضات کیا کرتے ہیں مگر میں ان اعتراضات کی پروا نہیں کیا کرتا وہاں مالی معاملات میں جب بھی مجھ پر کوئی اعتراض کیا گیا ہے ہے میں نے دلیری سے کہا ہے کہ تم مجھ سے پائی پائی کا حساب لے لو.میں تمہیں بتانے کے لیے تیار ہوں کہ میری جائیداد کس طرح بنی ہے.اور یہ تمام باتیں زبانی نہیں بلکہ رجسٹروں

Page 200

خطبات محمود 200 $1944 اور تحریروں سے میں ثابت کر سکتا ہوں.میں نے جماعت کے روپیہ سے جائیداد نہیں بنائی.خدا تعالیٰ نے اپنے فضل سے خود ہی مجھ کو جائیداد دی ہے.چنانچہ آج بڑے سے بڑے دشمن کو بھی میں حساب دینے کے لیے تیار ہوں اور ثابت کر سکتا ہوں کہ میں نے جماعت کے روپیہ سے ہر گز کوئی ناجائز فائدہ نہیں اٹھایا.اس میں کوئی شک نہیں کہ خدا تعالیٰ نے مجھے توقع سے بہت زیادہ جائیداد دی ہے.جس کا قیاس اور وہم و گمان بھی نہیں ہو سکتا تھا.اس لیے پیشگوئی کے ذریعہ سے پہلے مجھے اس جائیداد کی خبر دی.پھر ایسے سامان کیسے کہ معجزانہ رنگ میں وہ جائیداد مجھے مل گئی اور ہر قدم پر ایسے حالات پیدا ہوئے کہ جبر اوہ جائیداد مجھے لینی پڑی.کہیں ہے کوئی مجبوری پیدا ہوئی اور اُس کی وجہ سے جائیداد لینی پڑی اور کہیں کوئی مصلحت نظر آئی تو جائیداد لینی پڑی.بہر حال یاد رکھو خدا اپنے بندوں کو دیتا ہے اور ایسے طور پر دیتا ہے کہ بندہ لیتے لیتے تھک جاتا ہے.پھر کیوں وہ خدا پر یقین اور توکل نہیں کرتے اور دنیوی کاموں میں مشغول رہتے ہیں.وہ خدا تعالیٰ پر توکل کریں اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خاندان میں ہونے کی وجہ سے جس طرح ہم تینوں بھائیوں کو اللہ تعالیٰ نے یہ توفیق دی ہے کہ ہم نے اپنی زندگیاں دین کے لیے وقف کر دی ہیں اسی طرح وہ اپنی زندگیاں خدا تعالیٰ کے لیے وقف کر دیں، اپنی اولادوں کو خدا تعالیٰ کے لیے وقف کر دیں اور دنیوی کاموں کی بجائے دین کے کاموں اور اسلام کے احیاء میں حصہ لیں.اگر وہ ایسا کریں گے تو اول تو میں انہیں بتاتا ہوں خدا انہیں فاقہ نہیں دے گا.لیکن میں کہتا ہوں اگر خدائی مشیت کے ماتحت کسی وقت انہیں فاقہ بھی کرنا پڑے تو یہ فاقہ ہزاروں کھانوں سے زیادہ بہتر ہو گا.اِس وقت دین پر ایک آفت آئی ہوئی ہے، اسلام ایک مصیبت میں مبتلا ہے اور اس کا وہی نقشہ ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ان الفاظ میں کھینچا کہ بیکے شد دین احمد بی خویش دیار نیست پیچ ہر کسے درکار خود با دین احمد کار نیست 23 پس اے ابنائے فارس! تم کو یادرکھنا چاہیے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام

Page 201

$1944 201 خطبات محمود کو خدا تعالیٰ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا بیٹا قرار دیا ہے اور بیٹا اسی وجہ سے قرار دیا ہے تا آپ کے خاندان کو معلوم ہو کہ وہ خویشوں میں سے ہیں اور اُن سے زیادہ توقع کی جاتی ہے کہ وہ دین کی خدمت کریں گے.پس تم رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خویشوں میں ہے سے ہو.تمہیں اوروں سے زیادہ دین کی خدمت کرنی چاہیے.مجھے تو اس بات کی کبھی سمجھ ہی نہیں آسکتی کہ اگر خدا نے دین کی خدمت کا کام کرتے ہوئے دنیوی لحاظ سے مجھے اپنے فضلوں کے سے حصہ دیا ہے تو یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ میری اولا دیا اولاد در اولاد دین کی خدمت کا کام کرے اور وہ فاقہ سے مرتی رہے.اگر وہ مومنانہ رنگ اختیار کریں تو تھوڑے روپیہ میں بھی ہے آسانی سے گزارہ کر سکتے ہیں اور اگر حرص بڑھا لیں تو پھر پانچ یا دس ہزار روپیہ کمانے کی کیا شرط ہے.انسان کہتا ہے مجھے میں ہزار روپیہ ملے جب میں ہزار روپیہ اکٹھا کر لیتا ہے تو کہتا ہے میں میرے پاس پچاس ہزار روپیہ ہو جائے.جب پچاس ہزار روپیہ ہو جاتا ہے تو چاہتا ہے کہ اس کے پاس ایک لاکھ روپیہ ہو جائے.پس اگر اس حرص کو بڑھاتے چلے جائیں تو پھر بڑھتی چلی ہے جاتی ہے اور اس کا کہیں خاتمہ نہیں ہوتا.دنیا میں ایسے ایسے لوگ موجود ہیں جن کی ماہوار آمد پچاس پچاس، ساٹھ ساٹھ لاکھ روپیہ ہے مگر پھر بھی وہ یہی چاہتے ہیں کہ ان کے پاس اور روپیہ آجائے.پس اللہ تعالیٰ پر توکل کرو، دنیوی کاموں کو چھوڑ دو اور دین کے لیے اپنی زندگیوں کو وقف کر دو.اسلام اس وقت قربانی کا محتاج ہے اور سب سے پہلا حق اس قربانی کو ادا کرنے کا ہم پر ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ آپ اول المومنین تھے.24 اس کے معنے بھی یہی ہیں کہ آپ سب سے پہلے اللہ تعالیٰ کے احکام کا مخاطب اپنے آپ کو سمجھتے تھے اور دوسروں کو کہنے سے پہلے خود اس پر عمل کر کے دکھا دیتے تھے.مجھ پر بھی جب یہ تازہ انکشاف ہوا اور اس کے بعد میری آنکھ کھلی تو ایک دو منٹ تو اس رویا پر ہی میں غور کر تا رہا.اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے معا مجھے سمجھ دی کہ اتناوقت میں نے ناحق ضائع کر دیا اور میں نے فوراً اللہ تعالیٰ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا یا رَبِّ أَنَا أَوَّلُ الْمُؤْمِنِينَ.جب خدا کسی کے سپرد کوئی کام کرتا ہے تو اس پر بہت بڑی ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں.یہ خوشی کا ہے مقام نہیں بلکہ گھبراہٹ کا مقام ہوتا ہے اور اس کا فرض ہوتا ہے کہ وہ سب سے پہلے اللہ تعالی ہے

Page 202

$1944 202 خطبات محمود کی بات پر ایمان لائے.خدا تعالیٰ کے دین کے لیے جائیدادیں وقف کرنے کی تحریک: اب میں ایک آخری اور ضروری بات کہہ کر اس خطبہ کو ختم کرتا ہوں.وہ بات یہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے اب اسلام کی فتح کی ایک نئی بنیاد رکھ دی ہے تو یقیناً اس کا یہ مطلب ہے کہ اللہ تعالیٰ اسلام اور احمدیت کی اشاعت کے لیے ہم سے نئی قربانیوں کا مطالبہ کرنے والا ہے.میں نہیں جانتا کہ یہ آواز میرے منہ سے نکلے گی یا کسی اور شخص کے منہ سے نکلے گی.میں یہ بھی نہیں جانتا کہ یہ آواز کس رنگ میں نکلے گی لیکن بہر حال یہ آواز بلند ہونے والی ہے.ہماری جماعت بے شک چندے دیتی ہے اور بہت دیتی ہے، قربانیاں کرتی ہے اور بہت کرتی ہے.مگر یہ قربانیاں اسلام کی اشاعت کے لیے کافی نہیں.پس میں تجویز کرتا ہوں اور اس تجویز کے مطابق سب سے پہلے میں اپنے وجود کو پیش کرتا ہوں کہ ہم میں سے کچھ لوگ جن کو خدا تعالی ہے توفیق دے اپنی جائیدادوں کو اس صورت میں دین کے لیے وقف کر دیں کہ جب سلسلہ کی طرف سے اُن سے مطالبہ کیا جائے گا انہیں وہ جائیداد اسلام کی اشاعت کے لیے پیش کرنے میں قطعاً کوئی عذر نہیں ہو گا.میں سب سے پہلے اس غرض کے لیے اپنی جائیداد وقف کرتا ہوں.دوسرے چودھری ظفر اللہ خاں صاحب ہیں.انہوں نے بھی اپنی جائیداد میری اس تحریک پر دین کی خدمت کے لیے وقف کر دی ہے بلکہ انہوں نے مجھے کہا آپ جانتے ہیں، آپ کی پہلے بھی یہی خواہش تھی اور ایک دفعہ آپ نے اپنی اس خواہش کا مجھ سے اظہار بھی کیا تھا اور میں نے کہا تھا کہ میری جائیداد اس غرض کے لیے لے لی جائے.اب دوبارہ میں اس مقصد کے لیے اپنی جائیداد پیش کرتا ہوں.تیسرے نمبر پر میرے بھانجے مسعود احمد خان صاحب ہیں.انہوں نے کل سنا کہ میری یہ خواہش ہے تو فوراً مجھے لکھا کہ میری جس قدر جائیداد ہے اُسے میں بھی اسلام کی اشاعت کے لیے وقف کرتا ہوں.اس وقف کی صورت یہ ہوگی کہ ایک کمیٹی بنا دی جائے گی اور جب وہ فیصلہ کرے گی کہ اس وقت اسلام کی ضرورت ہے کے لیے وقف کرنے والوں کی جائیدادوں سے اِس اِس قدر رقم لے لی جائے اُس وقت پہلے عام چندے کی تحریک کی جائے گی.اس کے بعد چندہ میں جو کمی رہ جائے گی اس کمی کو یہ کمیٹی میں

Page 203

$1944 203 خطبات محمود ان لوگوں پر نسبتی طور پر تقسیم کر دے گی جنہوں نے اپنی جائیدادیں وقف کی ہوں گی.اور ان کا اختیار ہو گا کہ وہ چاہیں تو نقد روپیہ دے دیں اور چاہیں تو اپنی جائیداد فروخت کر کے یا گرو رکھ کر اتنا روپیہ دے دیں.گویا اسلام کی اشاعت کے لیے آئندہ یہ نہیں ہو گا کہ کہا جائے ہمارے پاس اتنا روپیہ نہیں.جماعت میں پہلے ایک عام تحریک کی جائے گی اور اس کے بعد جو کمی رہ جائے گی اُس بار کو ہم لوگ اپنے اوپر لے لیں گے جنہوں نے دین کے لیے اپنی جائیدادوں کو وقف کر دیا ہو گا.اور جو کمیٹی مقرر ہوگی وہ جائیدادوں کے مطابق ہر ایک کا حصہ اسے بتا دے گی.مثلاً فرض کرو ایک شخص کی جائیداد ایک لاکھ روپے کی ہے اور می دوسرے کی دس ہزار روپیہ کی.تو لاکھ روپے کی جائید اور کھنے والے کے ذمے مثلاً کمیٹی دس حصے مقرر کر دے گی اور دس ہزار روپیہ والے کے ذمہ ایک حصہ.اور ان کا اختیار ہو گا کہ وہ یہ چاہیں تو نقد روپیہ ادا کر دیں اور چاہیں تو اپنی جائیداد کو فروخت کر کے یا گرور کھ کر ادا کر دیں.بہر حال اس معاہدہ کے بعد اُن کا کوئی حق نہیں ہو گا کہ وہ کہہ سکیں کہ ہم اپنی جائیداد کا اتنا حصہ دے سکتے ہیں اتنا نہیں دے سکتے.یہ کمیٹی کا اختیار ہو گا کہ اُن سے جس قدر ضرورت سمجھے مطالبہ کرے.اُن کا حق نہیں ہو گا کہ وہ انکار کریں.اس اقرار کے بعد اگر کوئی شخص اس می جائیداد کو فروخت کرنا چاہے تو چونکہ اس سے پہلے وہ اپنی جائیداد سلسلہ کو دے چکا ہو گا اس لیے اس کے لیے ضروری ہو گا کہ وہ جائیداد فروخت کرتے وقت کمیٹی کو اطلاع دے کہ اِس اِس رنگ میں میں اپنی جائیداد کو بدلنے لگا ہوں تاکہ کمیٹی کو تمام جائیدادوں کے متعلق صحیح علم حاصل ہوتار ہے.اور چونکہ کچھ لوگ اس قسم کے بھی ہوتے ہیں کہ ان کے پاس میں جائیدادیں نہیں ہو تیں لیکن اُن کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ بھی کسی طرح ثواب میں شامل ہوں اس لیے وہ اگر چاہیں تو اس رنگ میں اپنا نام پیش کر سکتے ہیں کہ علاوہ دوسرے چندوں کو ادا ہے کرنے کے جب کبھی اسلام اور احمدیت کی اشاعت کے لیے خاص قربانیوں کا مطالبہ ہوا میں اپنی ایک مہینہ کی یا دو مہینہ کی یا تین مہینہ کی آمد دے دوں گا.اور مجھے اور میرے بیوی بچوں کو خواہ کیسی ہی تنگی سے گزارہ کرنا پڑے میں اس کی پرواہ نہیں کروں گا.اس معاہدہ کے مطابق جب قربانیوں کا وقت آیا تو ان لوگوں سے اُن کے وعدے کے مطابق ایک یا دو یا تین ا

Page 204

$1944 204 خطبات محمود مہینہ کی آمد وصول کر لی جائے گی اور اُن کے لیے ضروری ہوگا کہ وہ اِس میں کسی قسم کا پس و پیش نہ کریں.یہ دو صورتیں ہیں جو اسلام اور احمدیت کی اشاعت کے لیے ضروری ہیں.جو لوگ صاحب جائیداد ہیں اُن کو چاہیے کہ وہ اپنی جائیدادیں دین کے لیے وقف کر دیں اور ہمارے پاس نوٹ کرا دیں کہ ہماری جائیدادیں آج سے خدا کے دین کی اشاعت کے لیے ہے خرچ ہو سکتی ہیں.ہمارا اُن پر کوئی اختیار نہیں ہو گا.یہ جائیدادیں گو اُن کے پاس ہی رہیں کی مگر وقت آنے پر اُن سے فائدہ اُٹھایا جاسکے گا.اس دوران میں اگر وہ اپنی جائیداد میں ہے کوئی تغیر و تبدل کریں تو اُن کا فرض ہو گا کہ وہ ہمیں اس تبدیلی سے اطلاع دیں.جب اسلام کی طرف سے قربانی کی آواز بلند ہو گی اس وقت اگر نصف کی ضرورت ہو گی تو ان می سے نصف جائید ادلے لی جائے گی ، ثلث کی ضرورت ہو گی تو ثلث جائیداد لے لی جائے گی.پانچویں، ساتویں یا دسویں حصہ کی ضرورت ہوگی تو اس قدر حصہ کا مطالبہ کر لیا جائے گا.مگر بہر حال یہ طوعی تحریک ہے.میرا حکم نہیں ہے کہ ہر شخص اس تحریک میں ضرور شامل ہو.جو شخص ثواب کی خاطر اس تحریک میں شامل ہونا چاہے اسے چاہیے کہ وہ اس می میں جلد شامل ہو جائے اور اپنے نام سے ہمیں اطلاع دے تاکہ دین کے کاموں میں آئندہ کسی قسم کا رخنہ پیدا نہ ہو اور ہم دلیری اور جرآت سے تبلیغ واشاعت کے کام میں ہر وقت حصہ لے سکیں.پس آج اس خطبہ کے ذریعہ میں یہ اعلان کرتا ہوں تاکہ ساری جماعت میں یہ بات پھیل جائے اور اللہ تعالیٰ جس جس کو توفیق عطا فرمائے وہ اس تحریک میں شامل ہوتا چلا جائے.میں نے ابھی اس غرض کے لیے چونکہ کوئی کمیٹی مقرر نہیں کی اس لیے جو دوست اس تحریک ہے میں شامل ہونا چاہیں وہ اپنے اپنے ناموں سے مجھے اطلاع دے دیں اور اس امر سے بھی کہ اُن کی کتنی جائیداد ہے جو اسلام کی اشاعت کے لیے وہ وقف کرنا چاہتے ہیں.جو دوست اطلاع دیں گے اُن کا نام رجسٹر میں نوٹ کر لیا جائے گا.اسی طرح تنخواہوں کے متعلق بھی براہ راست مجھے اطلاع دے دی جائے.بعد میں جب رجسٹر بن جائیں گے تو اُن کے نام وہاں درج

Page 205

$1944 205 خطبات محمود کر دیئے جائیں گے.اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق عطا فرمائے کہ ہم نہایت خوشی سے نہایت فرحت سے ، نہایت بشاشت اور دل کی ٹھنڈک سے اپنی ہر چیز ، اپنی جان بھی، اپنا مال بھی، اپنی اولاد بھی، اپنی بیویاں بھی، اپنے عزیز اور رشتہ دار بھی، اپنے جذبات اور احساسات بھی اور اپنے خیالات اور افکار بھی اپنے رب کے پاؤں پر قربان کر دیں اور اس راہ میں کسی قسم کی ہچکچاہٹ اور تنگ دلی من سے کام نہ لیں.اللهم آمين".(الفضل 14 مارچ 1944ء) اس اعلان کے بعد چند گھنٹوں میں چالیس لاکھ کے قریب کی قیمت کی جائیدادیں دوستوں نے وقف کر دیں.فَالْحَمْدُ لِلہ.باہر کے دوستوں اور قادیان کے اور دوستوں کی درخواستوں کے بعد تعجب نہیں کہ کئی کروڑ روپیہ کاریز رو فنڈ اس غرض کے لیے قائم ہو جائے.اللہ تعالیٰ کا رحم ان پر نازل ہو جو آگے بڑھ کر اس تحریک میں حصہ لیں.اللهم آمین 1 : البقرة: 157 2 ترخش ارتعاش 3 : بخاری کتاب الجنائز باب الصبر عند الصدمة الاولى (مفہوم) 4 : الحکم 23 جنوری 1899ء صفحہ 2 5 : مسند احمد بن حنبل، مسند عثمان بن عفان صفحه 62 بیت الافكار الدوليه لبنان 2004ء 7 : آل عمران: 195،194 1 : البقرة: 143 9 10 8 :صحیح بخاری کتاب الجنائز باب ما يكره من اتخاذ المساجد على القبور ابن ماجه کتاب اقامة الصلوة باب ما جاء فى ليلة النصف من شعبان (مفهوبًا) المصنف كتاب الجنائز باب من رخص في زيارة القبور جلد 3 صفحہ 343،342 ادارۃ القرآن والعلوم الاسلامیہ کراچی 1986ء(مفہوٹا) 11: اسد الغابہ جلد اول صفحہ 238 بلال بن رباح بیروت لبنان 2001ء

Page 206

خطبات محمود 206 12: پیدائش باب 50 ، یشوع باب 24 آیت 33،32 13: تذکرہ صفحہ 195،10.ایڈیشن چہارم 14: بدر 8 نومبر 1905ء 15: تذکرۃ الشہادتین روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 75 16:المائدة:68 17: تذکرہ صفحہ 411.ایڈیشن چہارم 18: تذکرہ صفحہ 106.ایڈیشن چہارم $1944 :19 بخاری کتاب العلم باب الغضب فى الموعظة والتعليم اذا رأى ما يكره 20: صحیح بخاری کتاب الاذان باب وجوب القراءة للامام.21: تذکرہ صفحہ 782.ایڈیشن چہارم 22: زبور باب 37، آیت 26 23: بركات الدعاء روحانی خزائن جلد 6 صفحہ 37 24: وَأُمِرْتُ لِأَنْ أَكُونَ أَوَّلَ الْمُسْلِمِينَ (الزمر: 13)

Page 207

خطبات محمود $1944 207 11 ہر قابلیت کے نوجوان خدمت دین کے لیے اپنی زندگی وقف کریں فرمودہ 24 مارچ 1944ء) تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: " مجھے بہت کچھ کہنا ہے مگر نہ تو میری صحت زیادہ بولنے کی اجازت دیتی ہے اور نہ ہی وقت اتنا کافی ہے کہ میں اپنے سارے خیالات کا اظہار کر سکوں.اس وقت بھی کہ میں خطبہ کے لیے کھڑا ہوں میرے پاؤں کانپ رہے ہیں اور کھڑا ہونا دو بھر معلوم ہوتا ہے لیکن کام بہت ہے اور وقت تھوڑا ہے.ہماری ذمہ داریاں بے انتہا ہیں اور مشکلات کا کوئی اندازہ نہیں اور آخر جس طرح بھی ہو گرتے پڑتے ہمت سے کام کرنا ہے اور اللہ تعالیٰ نے ہی چونکہ وہ کام کرنا ہے اس لیے ہماری کوشش کتنی کم کیوں نہ ہو یہ یقین ہے کہ آخر اللہ تعالی ہمیں اس کام کو می پورا کرنے کی توفیق دے دے گا.دو یا تین ہفتے ہوئے میں نے بیان کیا تھا کہ مجھے سلسلہ کی آئندہ ترقی کے متعلق بہت سی باتیں کہتی ہیں مگر چونکہ ایک ہی خطبہ میں ان سب کا بیان کرنا ممکن نہیں اس لیے ہے آہستہ آہستہ مختلف خطبات میں میں انہیں بیان کروں گا اور حقیقت یہ ہے کہ ہر ایک دن جو

Page 208

$1944 208 خطبات محمود دو جمعوں کے درمیان گزرتا ہے ہمارے لیے مشکلات بڑھاتا جاتا ہے اور ضرورت ہے کہ ہم اپنے آپ کو جلد سے جلد ایسے رنگ میں منظم کر لیں کہ خدا تعالیٰ کے فضل سے ایسی بنیاد دین کی اشاعت کے لیے قائم ہو جائے کہ جس پر آئندہ سہولت کے ساتھ عمارت بنائی جاسکے.میں جس سکیم کی طرف سب سے پہلے توجہ دلانا چاہتا تھا وہ جماعت میں علماء کے پیدا کرنے کے متعلق تھی.میر اول کانپ جاتا ہے اس خیال سے کہ اس بارہ میں اس وقت تک ہم سے ہے بہت بڑی کو تاہی ہوئی ہے.حضرت خلیفتہ المسیح الاول کے زمانہ میں جن لوگوں کا انجمن پر تسلط تھا انہوں نے چاہا تھا کہ دینی علوم سے جماعت کی توجہ ہٹا دی جائے اور احمد یہ سکول کو بند کر دیا جائے اور جس قد ر روپیہ میسر ہو وہ قوم کے بچوں کو ڈاکٹر ، وکیل، بیرسٹر اور انجینئر وغیرہ بنانے پر صرف کیا جائے.ان کا خیال یہ تھا کہ دینی علوم تو غیروں سے بھی لیے جاسکتے ہیں مگر دنیوی تعلیم جماعت کی ترقی کے لیے بہت ضروری ہے.اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ اس نے اُس وقت بھی مجھے اس ناپاک سکیم کے توڑنے کی توفیق عطا فرمائی.یہ 1908ء کے سالانہ جلسہ کی بات ہے.میری عمر اس می وقت ہیں سال کی تھی اور میں کسی دوسرے کام میں مشغول تھا کہ کسی نے مجھے بتایا کہ مسجد مبارک میں جلسہ مشاورت ہو رہا ہے اور سلسلہ کے لیے سکیمیں سوچی جا رہی ہیں.باوجودیکہ میں انجمن کا ممبر تھا مگر مجھے کسی نے اس جلسہ کی اطلاع نہ دی تھی.میں یہ اطلاع ملتے ہی مسجد میں آیا اور میں نے دیکھا کہ وہاں جماعتوں کے نمائندے جمع ہیں.خواجہ کمال الدین صاحب تقریر کر رہے تھے اور کہہ رہے تھے کہ جماعت کی ترقی کے لیے ایسے مبلغوں کی ضرورت ہے جو بیرسٹر وکیل اور انجنیئر وغیر ہ ہوں جو اپنا اپنا کام بھی کریں اور ساتھ سلسلہ کی تبلیغ بھی.مولویوں کی ہمیں ضرورت نہیں.یہ لوگ تو جماعت پر بار ہوتے ہیں اور ان کے گزارہ کی جماعت کو فکر ہوتی ہے.اس لیے چاہیے کہ جو روپیہ مدرسہ احمدیہ پر خرچ ہوتا ہے اسے محفوظ کر لیا جائے اور پھر وہ جماعت کے لڑکوں کو وکالت اور ڈاکٹری وغیرہ کی تعلیم دلوانے پر خرچ کیا جائے تاوہ اپنی روزی بھی کما سکیں، چندے بھی دیں اور تبلیغ بھی کرتے رہیں.اس طرح جماعت کو بہت ترقی حاصل ہو سکے گی.میر اعلم اور تجربہ اُس وقت ایسا نہ تھا کہ اس سکیم کے علمی پہلو پر زیادہ بحث کر سکتا.میں جب پہنچا تو جگہ بھی مجھے ایک کونہ میں ملی جہاں لوگ جوتیاں اُتارتے ہیں اور میں ہے

Page 209

خطبات محمود 209 $1944 وہیں کھڑا ہو گیا.میں نے وہیں سے کہا کہ میں بھی کچھ کہنا چاہتا ہوں.اُس وقت خواجہ صاحب کی پیش کردہ سکیم سے 99 فیصدی لوگ مسحور ہو چکے تھے کہ وہ سمجھتے تھے گویا کوئی سونے کی کان اُن کو مل گئی ہے اور اگر اس پر عمل کیا جائے تو جماعت کو بہت ترقی ہوگی اور دنیا کے کناروں تک آسانی سے تبلیغ ہو سکے گی.اللہ تعالیٰ نے اُس وقت مجھے ایک نکتہ سو جھایا اور رمیں نے کھڑے ہو کر جماعت کو اس طرف توجہ دلائی کہ اسلام کی تائید کے لیے اللہ تعالیٰ نے اِس وقت تک دو جماعتیں کھڑی کی ہیں.ایک وہ جس نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہاتھوں میں تربیت پائی اور دوسری وہ جس نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ہاتھوں میں تربیت پائی.آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات کے بعد تمام عرب باغی ہو گیا تھا اور اکثر قبائل نے زکوۃ کا دینا بند کر دیا.ان کا کہنا تھا کہ زکوۃ کا لینا صرف رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ہی حق تھا.قرآن کریم میں انہی کو اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے کہ خُذْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً 1 یعنی اے محمد ! تو ان کے مالوں سے صدقات لے اور جب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی نہ رہے تو یہ حکم بھی باطل ہو گیا اس لیے اب زکوۃ دینے کی ضرورت نہیں.مکہ مدینہ اور ایک اور قصبہ کے لوگ تھے جو ز کوۃ دینے کے لیے تیار تھے اور جو سمجھتے تھے کہ قرآن کریم کے احکام ہمیشہ کے لیے ہیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے ساتھ ہی ختم نہیں ہو گئے.مدینہ چونکہ خلافت کا مرکز تھا اور حضرت ابو بکر مصر تھے کہ قرآنی تعلیم کے مطابق زکوۃ وصول کی جائے.اس لیے مرتدین نے چاروں طرف سے مدینہ پر چڑھائی شروع کر دی تا اس نظام کو توڑ دیں جو ان پر زکوۃ کا جو اپنانے کو تیار نہیں اور ان لشکروں میں جو می مدینہ پر چڑھائی کر رہے تھے بعض میں ایک ایک لاکھ سے زیادہ سپاہی تھے لیکن ان کے مقابل پر ہے صحابہ کی تعداد صرف چند ہزار تھی.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حکم کے ماتحت ایک لشکر حضرت اسامہ بن زید کی قیادت میں شام کی طرف ایک ایسے حملہ کا جواب دینے کے لیے جانے کو تیار تھا جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی میں ہوا تھا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات کی وجہ سے چند روز کے لیے رُک گیا تھا.اس گھر بہت کے عالم ہے میں ایک دن آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اکابر صحابہ ایک جگہ جمع ہوئے اور رضو

Page 210

$1944 210 خطبات محمود صورتِ حالات پر غور کر کے تجویز کی کہ حضرت ابو بکر کے پاس جا کر عرض کریں کہ یہ نازک وقت ہے، مدینہ پر مرتدین کی چڑھائی ہو رہی ہے اس لیے کچھ وقت کے لیے اسامہ کے لشکر کو روک لیا جائے تا پہلے وہ مرتدین کا مقابلہ کرے اور پھر امن قائم ہونے پر شام کی طرف چلا جائے.وہ لوگ اس یقین اور وثوق کے ساتھ حضرت ابو بکر کے پاس گئے کہ اسلام کی بہتری اس تجویز میں ہے کہ اس لشکر کو روک کر پہلے مرتدین کا مقابلہ کر لیا جائے اور وہ سمجھتے تھے کہ ہے یہ ایسی عقل کی بات ہے کہ کوئی بے وقوف ہی اس کا انکار کر سکتا ہے.پھر جن لوگوں نے یہ تجویز کی وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مشیر تھے.چنانچہ وہ حضرت ابو بکر کے پاس ہے گئے اور کہا کہ ہم لوگ مشورہ کر کے آئے ہیں اور حضرت عمر نے یہ تجویز ان کے سامنے پیش ہے کی اور تفصیل کے ساتھ اسلام کی مشکلات کو پیش کیا اور حملہ کے خطرات بیان کیے اور کہا کہ میں ہم یہ درخواست کرنے آئے ہیں کہ اسامہ کے لشکر کو کچھ عرصہ کے لیے روک لیا جائے تا پہلے مرتدین کا مقابلہ کیا جاسکے.اس کے بعد پھر اس لشکر کو شام کی طرف بھیجا جا سکتا ہے.جب حضرت عمررؓ اپنی بات ختم کر چکے تو حضرت ابو بکر نے کہا دوستو! آپ نے جو مشورہ دیا ہے وہ نہایت صحیح ہے مگر کیا ابو قحافہ کے بیٹے ابو بکڑ سے آپ لوگ یہ چاہتے ہیں کہ وہ خلیفہ ہونے کے بعد پہلا کام یہی کرے کہ جو لشکر رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھیجنا تجویز فرمایا تھا اُسے روک لے ؟ میں اپنی خلافت کا زمانہ اس تاریک باب سے شروع کرنے کو تیار نہیں ہوں.اگر مرتدین مدینہ میں گھس آئیں اور مسلمان عورتوں کی لاشوں کو سنتے گلیوں میں تھیٹتے پھر یہ تب بھی یہ نہیں ہو سکتا کہ میں اس لشکر کو روک لوں جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھیجا تجویز فرمایا تھا.2 میں نے کہا یہ تو پہلی جماعت کا حال تھا.ہم دوسری جماعت ہیں جس کی تربیت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے کی.کیا یہ مناسب ہے کہ آپ کی ہم وفات کے بعد پہلے ہی جلسہ پر ہم یہ مشورہ کریں کہ جو مدرسه خود حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام نے اپنے حکم سے قائم فرمایا اور جس کا مشورہ آپ نے خود بیٹھ کر دوستوں سے کیا اور جس کے متعلق فرمایا تھا کہ یہ مولوی عبد الکریم صاحب اور مولوی برہان الدین صاحب کی یادگار ہے تا سلسلہ کے لیے نئے علماء پیدا کیے جائیں ہم آپ کی وفات کے بعد پہلا کام

Page 211

خطبات محمود 211 $1944 یہی کریں کہ اس مدرسہ کو جسے آپ نے جاری فرمایا تھا بغیر کسی ایسے خطرہ کے جو حضرت ابو بکر کو در پیش تھا بند کر دیں اور آپ کے کام کو منسوخ کر کے ایک نیا نظام قائم کر دیں؟ اللہ تعالیٰ نے میری بات میں ایسا اثر دیا کہ اکثر احباب کے قلوب مل گئے.بہت سوں کی آنکھوں میں آنسو آگئے اور کئی کی چنیں نکل گئیں اور سب نے بالا تفاق آواز بلند کی کہ ہم ایسا کرنے کو تیار نہیں ہیں.بلکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جس طرح یہ مدرسہ قائم فرمایا ہم اسے اُسی طرح رکھنا چاہتے ہیں.یہ دیکھ کر خواجہ صاحب اپنی لسانی اور تجربہ اور علم کے باوجود ایسے گھبراگئے کہ انہوں نے جھٹ پہلو بدل کر کہا دوستوں نے میری بات کو سمجھا نہیں میرا مطلب کچھ اور تھا، میں دین کی تعلیم کو روکنا نہیں چاہتا تھا.مگر جو کچھ انہوں نے سمجھانا چاہا ک نے اُس کو نہ سمجھا اور آخر خواجہ صاحب نے فرمایا کہ اب مناسب یہ ہے کہ بعد میں لکھ کر یہ تجویز چلی جائے اور جماعتیں آرام سے غور کر کے مشورہ دیں.اُن کا مطلب یہ تھا کہ اب چونکہ یہ لوگ اُن کی رائے کے خلاف رائے کے ہو گئے ہیں اس لیے بعد میں کسی وقت بیرونی ہے جماعتوں میں یہ تجویز بھیج دیں گے اور اُن کا خیال تھا کہ لوگ اُن کی اِس رائے کے مطابق ہی مشورے دیں گے.مگر اللہ تعالیٰ جس کو مامور بنا کر بھیجتا ہے اس کی جماعت ایسی کچی نہیں ہے ہوتی.وقتی طور پر تو وہ دھوکے میں آسکتی ہے مگر مستقل طور پر دھوکے میں نہیں رہ سکتی.چنانچہ دو تین ماہ کے بعد ان لوگوں کی طرف سے یہ تجویز بیرونی جماعتوں کو بھیجی گئی اور ہے 99 فیصدی جماعتوں نے یہی مشورہ دیا کہ ہم اس مدرسہ کو توڑنے کے لیے تیار نہیں ہیں جسے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے قائم فرمایا.لیکن مجھے افسوس ہے کہ حضرت مسیح موعود می علیہ السلام کے منشاء کو انجمن نے جس کے سپر د نظام کو چلانا ہے اور جس کے کاموں میں میں بہت ہی کم دخل دیا کرتا ہوں تا وہ اپنی ذمہ داری پر کام کو چلا سکیں پوری طرح پیش نظر نہیں ہیں رکھا اور ان کے ذہن سے بہت حد تک وہ پروگرام مستور ہو گیا.انہوں نے مدرسہ کو جاری تو رکھا بلکہ میرے مشورہ سے کالج بھی قائم کر دیا مگر اس کے ساتھ ہی ان کے مد نظر یہ بات ہے بھی رہی کہ ان میں تعلیم پانے والے نوجوان مولوی فاضل کا امتحان پاس کر سکیں اور میں ڈگریاں حاصل کر سکیں تا سرکاری ملازمتیں حاصل کرنے میں ان کو آسانی ہو اور اس طرح ہے

Page 212

$1944 212 محمود تمام کوششیں مولوی فاضل کی ڈگری کے گرد ہی چکر لگاتی رہیں اور ایسے عالم پیدا نہ ہو سکے جو اسلام کا ٹھوس علم رکھنے والے ہوتے.جب اللہ تعالیٰ نے مجھ پر انکشاف فرمایا کہ میرے ذمہ اس وقت اسلام کی خدمت خاص طور پر ہے اور خلافت کی ذمہ داریوں سے علاوہ یہ خاص کام میرے سپر د ہے تو پہلی باتوں میں سے جو میرے ذہن میں آئیں ایک یہ تھی کہ علماء کا ایک مضبوط گروه پیدا کرنا ضروری ہے.قاضی امیر حسین صاحب، حافظ روشن علی صاحب اور مولوی محمد اسمعیل صاحب اپنے اپنے رنگ میں کامل تھے.قاضی صاحب علم حدیث کے ماہر تھے، حافظ صاحب قرآن کریم کی تفسیر کے اور مولوی صاحب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام کی کتب کے.مگر ان کے قائمقام پیدا کرنے کا ہمیں اب تک احساس نہ ہوا تھا.اللہ تعالیٰ نے میرے دل میں یہ بات ڈالی کہ میں اِس کام کو اپنے ہاتھ میں لوں تا جلد از جلد اسلامی علماء کی ایک مضبوط جماعت قائم ہو سکے جو ہمیشہ کے لیے ایک ایسی بنیاد کا کام دے جس سے آئندہ علماء کا سلسلہ چلتا جائے.لیکن ابھی میں اس کا اعلان بھی نہ کرنے پایا تھا کہ ایک اور جید عالم ہم میں سے اُٹھ گیا.اس وقت جہاں تک تعلیم کا سوال ہے ہمارے پاس دو ہی آدمی تھے.یعنی مولوی سید محمد سرور شاہ صاحب اور میر محمد اسحق صاحب لیکن اللہ تعالیٰ کی مشیت نے میر صاحب کو اٹھا لیا اور اب ہمیں تھوڑے سے وقت میں اور بہت تھوڑے سامان سے نئی عمارت کی بنیاد رکھنی ہے.مولوی سید سرور شاہ صاحب بے شک بہت باہمت ہیں اور جس طرح وہ ہر جگہ پہنچ جاتے ہیں اسے دیکھ کر مجھے حیرت ہوتی ہے.مگر اب وہ بوڑھے ہو چکے ہیں، ان کی کمر بھی تم مینی ہو گئی ہے اور اگر اللہ تعالیٰ انہیں زیادہ سے زیادہ عمر بھی دے تو بھی اب وہ زیادہ کام نہیں کر سکتے.اس میں شک نہیں کہ جماعت میں دوسرے درجہ کے علماء کی ایک جماعت ہے ؟ ئس صاحب اور مولوی ابو العطاء صاحب ہیں مگر یہ لوگ دوسرے نمبر پر ہیں.ان کے مطالعہ کی وسعت اور کسی خاص علم میں ان کی خصوصیت مذکورہ علماء جیسی نہیں.ہم میں علماء کی ایک ایسی جماعت کا ہونا ضروری ہے کہ جن میں سے ہر ایک قرآن و حدیث اور کتب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا کامل عالم ہو.بڑے سے بڑے قاضی، فقیہ، محدث

Page 213

خطبات محمود 213 $1944 اور مفسر ہوں اور یہ چیز ابھی ہم سے بہت دور ہے.سال سے کچھ کم عرصہ ہوا میں نے اس کی ا بنیاد قائم کرنی شروع کی تھی.اللہ تعالیٰ کا قاعدہ ہے کہ جب وہ کسی بندے کو اپنے ہاتھ میں لیتا ہے تو اس سے ایسے کام کراتا ہے کہ پہلے اُسے خود بھی نظر نہیں آتا کہ وہ کام کیسا اہم ہے.پھر آہستہ آہستہ جب وہ پھیلتا ہے تو اس کی اہمیت کا احساس ہوتا ہے.چنانچہ میں نے کچھ عرصہ ہوا یہ محسوس کیا کہ تحریک جدید کے واقفین کی تعلیم جس رنگ میں ہو رہی ہے اس طرح وہ مکمل نہیں ہو سکتی اور میں نے اسے اپنے ہاتھ میں لیا تا ایسے اصول پر ان کی تعلیم ہو سکے کہ وہ چوٹی کے علماء بن میں سکیں.اور میں نے ان سے کہا کہ پہلے وہ صرف و نحو کی تعلیم حاصل کریں اور اس میں کامل بنیں کیونکہ یہ علم ہر دوسرے علم کے حاصل کرنے میں مددگار ہوتا ہے.اب ان میں سے بعض طالب علم ایسے مقام پر ہیں کہ دو تین ماہ میں اسے مکمل کر سکیں گے اور پھر اس سے دوسروں کو پڑھانے اور سکھانے کی قابلیت ان میں پیدا ہو جائے گی.اب اللہ تعالیٰ نے جو انکشاف مجھ پر فرمایا ہے وہ یہ ہے کہ جب یہ لوگ صرف و نحو کی تعلیم مکمل کر لیں تو ان کو مختلف گروہوں میں تقسیم کر دیا جائے.بعض کو فقہ کی اعلیٰ تعلیم دلائی جائے، بعض کو حدیث کی ، مینی بعض کو تفسیر کی اعلیٰ تعلیم دلائی جائے اور اس طرح تین تین چار چار کو مختلف علوم کی تکمیل کرائی جائے.اور پھر پانچ چھ ماہ یا سال کے بعد وہ ایک دوسرے کو اپنے اپنے حاصل کر دہ علوم کی تکمیل کرا دیں اور جو جو علم کسی نے سیکھا ہو وہ دوسروں کو سکھا دیں اور اس طرح ان میں سے ہر ایک دوسرے کا شاگرد اور استاد بن جائے اور سب کے سب مختلف علوم میں کمال حاصل کر سکیں.کیونکہ ان میں سے ہر ایک کو اگر باری باری سارے علوم سکھائے جائیں تو کہ سب کے کامل ہونے تک وہ لوگ جماعت میں سے اُٹھ جائیں جو ان نوجوانوں کو تعلیم دیتے ہیں اس لیے ان کو گروہوں میں تقسیم کر دیا جائے.تین چار تفسیر قرآن سیکھنے میں لگ جائیں، تین چار حدیث سیکھنے میں، تین چار تصوف سیکھنے میں، تین چار علم کلام کے سیکھنے میں اور تین چار حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کتب کے سیکھنے میں.اور چونکہ ان سب کو ان سب علوم کا سکھانا ضروری ہے اس لیے ان میں سے ہر ایک، ایک علم میں کمال ہو سکتا؟

Page 214

$1944 214 خطبات محمود حاصل کرنے کے بعد دوسرے کو سکھائے.فقہ کے علماء حدیث کے علماء کو فقہ کی اعلیٰ دیں اور حدیث کے علماء فقہ کے علماء کو حدیث کی اعلیٰ تعلیم دیں اور اس طرح باہم استاد شاگرد ہو کر مکمل علوم کے ماہر بن جائیں.لیکن یہ سکیم پوری طرح کامیاب نہیں ہو سکتی جب تک ایسے افراد زیادہ تعداد میں نہ ہوں جو دین کے لیے اپنی زندگیاں وقف کریں.جسمانی کام ایک ایک آدمی سے بھی چل سکتے ہیں کیونکہ جسم کا فتح کرنا آسان ہے.مگر روحانی کاموں کے لیے بہ آدمیوں کی ضرورت ہوا کرتی ہے کیونکہ دلوں کا فتح کرنا بہت مشکل کام ہے.اس لیے ضرورت ہے کہ ہمارے پاس اتنے معلم ہوں کہ ہم انہیں تمام جماعت میں پھیلا سکیں اور تمام افراد جماعت کو حسب قابلیت قرآن، حدیث اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کتب کی تعلیم دے سکیں.اس وقت یہ حالت ہے کہ علم صرف چند لوگوں تک محدود ہے باقی ہے صرف ایمان رکھتے ہیں زیادہ علم ان کو نہیں.اور یہ چیز جماعت کی ترقی میں محمد نہیں ہو سکتی.ضروری ہے کہ ہماری جماعت کا ہر زمیندار ، تاجر ، پیشہ ور ، وکیل، بیرسٹر ، ڈاکٹر، انجنیئر ایک خاص حد تک قرآن، حدیث اور کتب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا علم رکھتا ہو.مگر یہ نہیں ہو سکتا جب تک ہمارے پاس علماء کی کثرت نہ ہو.اس کے ساتھ ہی اس بات کو بھی مد نظر رکھنا چاہیے کہ علماء کی کثرت کے ساتھ اخراجات میں بھی اضافہ ہونا لازمی ہے.میرا اندازہ ہے کہ فی الحال دو سو علماء کی ہمیں ضرورت ہے تب موجودہ حالات کے مطابق جماعتی کاموں کو تنظیم کے ماتحت چلایا جا سکتا ہے.لیکن اس وقت واقفین کی تعداد 35،30 ہے.اس وقت جماعت کے لوگ اپنے اندر ایک تبدیلی ہے محسوس کر رہے ہیں.مگر میں کہتا ہوں کہ صرف منہ کی بانہیں، بیانات اور نعرے لگا دینے کا ہے کوئی فائدہ نہیں بلکہ ضرورت ہے کہ اس تبدیلی سے فائدہ اٹھایا جائے اور عملی قربانی کے لیے نوجوان آگے آئیں.زمیندار طبقہ ہمارے ملک کی جان ہے.ان میں سے اور اُن قوموں میں سے جو باہر سے ہندوستان میں آئی ہیں مثلاً پٹھان، قریشی، سید ، مغل اور راجپوت و غیره اقوام میں سے بہت کم نوجوانوں نے زندگیاں وقف کی ہیں.زیادہ تر ایسے نوجوانوں نے زندگیاں وقف کی ہیں جن کا پشت پناہ جماعتی طور پر کوئی نہیں.اور ایسی صورت میں بعض اوقات

Page 215

$1944 215 محمود.دشمن اعتراض کر سکتا ہے کہ جن لوگوں کے گزارہ کی کوئی صورت نہ تھی انہوں نے اپنی زندگیاں وقف کر دیں.گو یہ بات ہے تو جھوٹ.خدا تعالیٰ کے فضل سے یہ روح ہماری جماعت میں نہیں مگر کم سے کم دشمن کے لیے اعتراض کا موقع تو ضرور ہے.اس لیے وہ اقوام ہے جن کو اللہ تعالیٰ نے سیاسی عزت دی ہے اگر اپنے فرائض کو ادا کریں تو اُن کی عزت قائم رہ سکتی ہے.اگر ان کے اندر قربانی کا مادہ پیدا نہ ہوا تو ان کی عزت چھن جائے گی.اس وقت دنیا میں ایسے انقلاب اور تغیرات ہونے والے ہیں کہ اگر ان قوموں نے جو اس وقت سیاسی طور پر معزز کبھی جاتی ہیں اپنا حصہ قربانیوں کا ادانہ کیا تو وہ گر جائیں گی اور وہ عزت پا جائیں گی جو اس می وقت سیاسی طور پر معزز نہیں سمجھی جاتیں.قرآن و حدیث میں بھی ایسی پیشگوئیاں موجود ہیں جن سے پایا جاتا ہے کہ مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ میں عزت والی قو میں گر جائیں گی اور ادنی کبھی جانے والی معزز ہو جائیں گی.اسلام نے تو کسی قوم کو ذلیل قرار نہیں دیا اور ہے قومی فرق کو تسلیم نہیں کیا.اسلام کے نزدیک ہر شخص اگر خدمت دین کرے تو وہ معزز اور سر دار ہے.مگر اُن قوموں کے لیے جو سیاسی طور پر معزز سمجھی جاتی ہیں بہت شرم کی بات ہو گی اگر وہ قربانیوں میں حصہ نہ لینے کی وجہ سے گر جائیں اور سیاسی طور پر ادنی سمجھی جانے والی ہیں قو میں آگے آجائیں.پس میں تحریک کرتا ہوں کہ سیاسی طور پر معزز سمجھی جانے والی اقوام کے لوگ اپنے کو اور اپنی اولادوں کو دین کے لیے وقف کریں.وقت بہت تھوڑا ہے اور کام بہت زیادہ ہے.خدا تعالیٰ اب زیادہ انتظار نہیں کر سکتا.اگر ہم سستی سے کام لیں گے تو خدا تعالیٰ اپنے کام کے لیے کوئی اور انتظام کرے گا اور ہماری بد قسمتی پر مہر ہو جائے گی.کاش! ہمارے دل اس فرض کو پورے طور پر محسوس کریں.اے عزیزو! کاش ہمارے ایمان آج ہم کو شرمندگی سے بچا لیں.کاش ہمارے جسم میں ہماری روح کے تابع ہو کر ہمیں اپنا فرض ادا کرنے دیں.کاش! ہمارے آج کے افعال قیامت کے دن ہم کو شر مساری اور روسیاہی سے بچالیں.چاہیے تو یہ تھا کہ ہر فرد آگے بڑھتا اور اپنی زندگی وقف کرتا مگر کم سے کم ایک حصہ کو تو آگے بڑھنا چاہیے.میں مانتا ہوں کہ

Page 216

خطبات محمود 216 $1944 دوست چندے میں قربانی کرتے ہیں لیکن زندگی وقف کرنے کے لیے بہت کم لوگ آئے ہیں.ضرورت ہے کہ آئندہ مدرسہ احمدیہ میں زیادہ بچے داخل کرائے جائیں اور میں انجمن کو توجہ دلاتا ہوں کہ ایسے رنگ میں ان کی تعلیم کا انتظام کیا جائے کہ چاہے مولوی فاضل وہ نہ ہے سکیں مگر دینی علوم کے ماہر بن جائیں.ہمیں مولوی فاضلوں کی ضرورت نہیں بلکہ ضرورت یہ ہے کہ مبلغ مل سکیں.مالی کمزوری کی وجہ سے یہ فیصلہ کیا گیا تھا کہ ہر سال تین نئے مبلغ رکھے جائیں مگر کئی سالوں سے ایک بھی نہیں رکھا گیا اور اب کئی سال کے بعد ایک رکھا گیا ہے.حالانکہ کام کی وسعت کا تقاضا یہ ہے کہ ہر سال ایک سو نہیں بلکہ دو سو مبلغ رکھے جائیں.پس میں ایک تحریک تو یہ کرتا ہوں کہ دوست مدرسہ احمدیہ میں اپنے بچوں کو بھیجیں تا انہیں خدمت دین کے لیے تیار کیا جاسکے اور دوسری تحریک انجمن کو یہ کرتا ہوں کہ پڑھائی کی سکیم ایسی ہو کہ تھوڑے سے تھوڑے عرصہ میں زیادہ سے زیادہ دینی تعلیم حاصل ہو سکے اور اس رستہ میں جو چیز بھی حائل ہو اُسے نکال دیا جائے.مولوی فاضل بنانا ضروری نہیں.جس نے ڈگری حاصل کرنی ہو وہ باہر چلا جائے.اس دوغلا پن کو دور کرناضروری ہے.دو کشتیوں میں پاؤں رکھنے والا کبھی ساحل پر نہیں پہنچا کر تا.پس تعلیم کا انتظام ایسے رنگ میں کیا جائے کہ جلد سے جلد مکمل علماء ہمیں مل سکیں.فقہ، تفسیر، حدیث، تصوف اور کلام وغیرہ علوم میں ایسی دسترس حاصل کر سکیں کہ چوٹی کے علماء میں ان کا شمار ہو.بلکہ دنیا میں صرف وہی علماء سمجھے جائیں اور اسلام کے ہر فرقہ اور ہر ملک کے لوگ اختلاف عقائد کے باوجود یہ تسلیم کریں کہ اگر ہم نے ان علوم کو سیکھنا ہے تو احمدی علماء سے ہی سیکھنا چاہئے.خدا تعالیٰ کے فضل سے ہماری ہے جماعت کا ایک حصہ تبلیغ میں حصہ لیتا ہے مگر ضرورت ہے کہ اس طرف اور زیادہ توجہ کی جائے.اب کے جو میں نے اعلان کیا تو دسویں جماعت کے پانچ طلباء نے بھی اپنے نام پیش کیے ہیں دنیوی علوم حاصل کرنے والے نوجوان بھی اگر اپنے نام پیش کریں تو اُن کو بھی ☆ اس کے بعد اور نوجوان میٹرک پاس نے وقف کیا ہے اور بعض اعلیٰ تعلیم یافتہ والوں نے

Page 217

$1944 217 محمود ایسی تعلیم دی جاسکتی ہے کہ دین کا کام اُن سے لیا جا سکے اور دین کے اُن حصوں میں جن میں دنیوی تعلیم محمد ہوتی ہے ان سے فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے.مثلاً ڈاکٹروں کی ضرورت ہے.ادنیٰ اقوام میں تبلیغ کے لیے ڈاکٹر بہت زیادہ مفید ہو سکتے ہیں.بلکہ ان کے لیے ان سے زیادہ بہتر مبلغ کوئی نہیں ہو سکتا.عیسائیوں نے ہسپتال کھول کر ہی چالیس لاکھ افراد کو عیسائی بنالیا ہے.مدراس میں جو قریباً ایک ہزار سال تک مسلمانوں کے زیر نگین رہا مسلمانوں کا تناسب گل آبادی کا چھ فیصدی ہے مگر عیسائی بارہ فی صدی ہیں.گویا ایک مسلمان کے مقابلہ میں دو عیسائی ہیں اور یہ ترقی انہوں نے صرف ایک صدی میں کی ہے.کیونکہ ان کے ڈاکٹر اپنی زندگیوں کو خطرہ میں ڈال کر ان میں جاکر ہسپتال جاری کرتے اور ان کا علاج کرتے ہیں.اور وہ یہ خیال کرتے ہیں کہ یہ جو ہم سے ہمدردی کرتے ہیں ہم بھی ان کی باتیں سنیں.اور چونکہ عیسائیت کی دینی تعلیم نور نبوت سے متمتع ہے اس لیے مشرکانہ تعلیم کی نسبت اچھی ہے اور وہ لوگ جب اسے سنتے ہیں تو اس پر ایمان لے آتے ہیں.لیکن ان کے بجائے اگر اسلامی ڈاکٹر اُن کا علاج کریں اور ساتھ اسلام کی سادہ اور مساوات کی تعلیم ان کے گوش گزار کریں تو بہت جلد کامیابی ہو سکتی ہے.عیسائی مشنریوں نے ان کو عیسائی تو بنا لیا مگر ان میں مساوات قائم نہیں ہے کر سکے.وہی چھوت چھات کے اثرات ابھی تک ہیں اور دوسری اقوام ان کو حقارت کی نظری سے دیکھتی ہیں.مگر چونکہ اسلام میں جب ایک آدمی داخل ہوتا ہے تو ایسا لگا مسلمان بن جاتا ہے ہے کہ پہلی قومیت بالکل مٹ جاتی ہے اور کوئی مسلمان اس کے ساتھ کھانے پینے میں ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتا.اسلامی تعلیم میں جو خوبیاں ہیں اگر ڈاکٹر اسے اونی اقوام کے لوگوں کے سامنے پیش کریں تو لاکھوں کی تعداد میں ان کو داخل اسلام کیا جا سکتا ہے.پس ایسے نوجوان بھی اپنی زندگیاں وقف کریں جنہوں نے سائنس میں میٹرک پاس کیا ہو یا اس سال پاس ہونے کی امید ہو.اسی طرح گریجوایٹ وغیرہ تاجو ڈاکٹری کے لیے مناسب ہوں اُنہیں ڈاکٹری کی تعلیم دلوا کر ادنی اقوام میں جن تک ابھی اسلام کا نور نہیں پہنچا تبلیغ کے لیے بھیجا جاسکے اور جو دوسرے کاموں کے لیے مناسب ہوں انہیں دوسرے کاموں کے لیے تعلیم دلائی جائے.ہندو ان لوگوں کو ابھی تک ذلیل سمجھتے ہیں، ان سے چھوت چھات ہے

Page 218

خطبات محمود 218 $1944 کرتے ہیں، ان غریبوں کو غلام قرار دے رکھا ہے.اس لیے جب ہمدردی سے ان کی خدمت کی جائے اور احسن رنگ میں اسلامی تعلیم ان کے سامنے پیش کی جائے تو عیسائیوں کی نسبت کئی گنا زیادہ کامیابی ہو سکتی ہے.پس یہ رستہ بھی بند نہیں.دنیوی تعلیم حاصل کرنے والے نوجوان بھی اپنے آپ کو وقف کر سکتے ہیں اور ان سے بھی فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے.مگر یہ یادر ہے کہ تعلیم اور کام کے متعلق ان کا کوئی دخل نہ ہو گا.یہ کام ہمارا ہو گا کہ ہم فیصلہ کریں کہ کس سے کیا کام لیا جائے گا.بعض لوگ حماقت سے یہ سمجھتے ہیں کہ جو تقریر اور تحریر کرے وہی مبلغ ہے.حالانکہ اسلام تو ایک محیط کل مذہب ہے.اس کے احکام کی تکمیل کے لیے ہمیں ہر قسم کے آدمیوں کی ضرورت ہے.وہی مبلغ نہیں جو تبلیغ کے لیے باہر جاتا ہے جو سلسلہ کی جائیدادوں کا انتظام تندہی اور اخلاص سے کرتا ہے اور باہر جانے والے مبلغوں کے لیے ا سلسلہ کے لیے، لٹریچر کے لیے روپیہ زیادہ سے زیادہ مقدار میں کماتا ہے وہ اُس سے کم نہیں اور خدا تعالیٰ کے نزدیک مبلغوں میں شامل ہے.جو سلسلہ کی عمارتوں کی اخلاص سے نگرانی کرتا ہے وہ بھی مبلغ ہے، جو سلسلہ کے لیے تجارت کرتا ہے وہ بھی مبلغ ہے، جو سلسلہ کا کار خانہ چلاتا ہے وہ بھی مبلغ ہے، جو زندگی وقف کرتا ہے اور اسے سلسلہ کے خزانہ کا پہرہ دار مقرر کیا جاتا ہے وہ بھی مبلغ ہے.کسی کام کی نوعیت کا خیال دل سے نکال دو اور اپنے آپ کو سلسلہ کے ہاتھ میں دے دو.پھر جہاں تم کو مقرر کیا جائے گا وہی مقام تمہاری نجات اور برکت کا مقام ہو گا.غرض میں ایک تو اس امر کی طرف جماعت کو توجہ دلاتا ہوں اور دوسراحصہ اخراجات کا ہے جس کی طرف میں توجہ دلانا چاہتا ہوں.میں نے جائیداد وقف کرنے کی تحریک کی تھی.قادیان کے دوستوں نے اس کے جواب میں شاندار نمونہ دکھایا ہے اور اس تحریک کا استقبال کیا ہے.بہت سے دوستوں نے اپنی جائیدادیں وقف کر دی ہیں.مگر بیرونی جماعتوں کی طرف سے اس تحریک کا جواب ایسا شاندار نہیں بلکہ قادیان کی نسبت نصف بھی نہیں.* پس میں بعد میں یہ بات درست ثابت نہیں ہوئی.کئی دن کی ڈاک پڑی ہوئی تھی، جب اسے پڑھا گیا تو سیکڑوں وعدے اُس سے نکلے ہیں.مگر ابھی بہت توجہ کی ضرورت ہے.

Page 219

خطبات محمود 219 $1944 بیرونی جماعتوں کو پھر توجہ دلاتا ہوں کہ دوست جائیدادیں وقف کریں.یہ وقف جیسا کہ میں نے پہلے بیان کیا تھا اس صورت میں ہو گا کہ ان کی جائیداد ان ہی کے پاس رہے گی اور آمد بھی مالک کی ہی ہو گی اور وہی اُس کا انتظام بھی کرے گا.ہاں جب سلسلہ کے لیے ضرورت ہوگی ایسی ضرورت جو عام چندہ سے پوری نہ ہو سکے تو جتنی رقم کی ضرورت ہو گی اُسے ان جائیدادوں پر بحصہ رسیدی تقسیم کر دیا جائے گا.میں پہلے بھی اس تجویز کو بیان کر چکا ہوں لیکن اب پھر اسے بیان کر دیتا ہوں.فرض کرو ایک شخص کی جائیداد ایک ہزار کی ہے، دوسرے کی دس ہزار کی اور تیسرے کی ایک لاکھ کی ہے.ایک کمیٹی مقرر کر دی جائے گی جو کسی ضرورت کے یہ لیے اخراجات کا اندازہ کرے گی.فرض کرو کمیٹی کا اندازہ یہ ہے کہ ایک لاکھ روپیہ کی ہے ضرورت ہے اور یہ رقم اتنی ہے کہ اگر ایک ایک فیصدی حصہ وقف شدہ جائیدادوں کا لے لیا تین جائے تو پوری ہو سکتی ہے تو جس نے ایک ہزار کی جائیداد وقف کی ہے اُس سے دس روپیہ کا مطالبہ کیا جائے گا اور جس کی دس ہزار کی جائیداد ہے اُس سے ایک سو کا اور جس کی ایک لاکھ کی ہے اُس سے ایک ہزار اور جس نے دس لاکھ کی جائیداد وقف کی ہے اُس سے دس ہزار کا مطالبہ کیا جائے گا اور کہا جائے گا کہ اتنے عرصہ میں یہ روپیہ داخل کر دو.جس کے پاس روپیہ ہو وہ اپنے حصہ کاروپیہ ادا کر دے.لیکن جس کے پاس نہ ہو اُس کی جائیداد کو رہن کر کے اس کے حصہ کاروپیہ وصول کر لیا جائے گا اور اس طرح مطلوبہ خرچ چلایا جائے گا.پس جائیدادیں وقف کرنے کا یہ مطلب نہیں کہ وہ اپنی جائیدادیں انجمن کو دے دیں.صرف یہ اقرار کریں کہ جو چندہ ان کے ذمہ ڈالا جائے گا اُسے ادا کریں گے.اگر کمیٹی فیصلہ کرے گی کہ مثلاً ایک ہے کروڑ روپیہ کی ضرورت ہے اور وقف شدہ جائیدادیں دو کروڑ روپیہ کی مالیت کی ہیں تو پچاس فیصدی کا مطالبہ کر لیا جائے گا.جس کی جائیداد دس لاکھ کی ہو گی اُسے پانچ لاکھ اور جس کی دس ماہیے ہزار کی ہو گی اسے پانچ ہزار دینا ہو گا.مگر یہ ابھی دور کی بات ہے.فی الحال میر اخیال ہے کہ یہ ایک سے دس فیصدی تک کی ہی چند سالوں تک ضرورت پیش آسکتی ہے.جن کی جائیدادیں نہیں ہیں اُن کے دل میں اگر خواہش ہو کہ وہ بھی اس تحریک میں شامل ہوں تو وہ اپنی آمد نیاں وقف کر سکتے ہیں اور ایسے بھی بعض دوست ہیں جنہوں نے

Page 220

$1944 220 خطبات محمود آمد نیاں وقف کی ہیں.کسی نے ایک ماہ کی، کسی نے دو کی، کسی نے تین کی اور بعض تو ایسے ہیں جنہوں نے سال بھر کی آمد نیاں ہی وقف کی ہیں اور لکھا ہے کہ جب سلسلہ کو ضرورت ہو تو ہم سارے سال کی آمد دینے کو تیار ہیں.خواہ ہمیں بھیک مانگ کر ہی گزارہ کرنا پڑے.جب ہم سے مطالبہ کیا جائے گا ہم سارے سال کی آمد پیش کر دیں گے.اگر دوست اس تحریک کی طرف پوری توجہ کرتے تو تین چار کروڑ روپیہ کی جائیدادیں وقف ہونا مشکل نہ تھا.پس دوست ہے اس طرف توجہ کریں.مگر اس بات کا خاص خیال رکھا جائے کہ عام چندوں پر اس کا اثر نہ ہو.یہ تحریک طوعی ہے اور ہر شخص کی مرضی پر منحصر ہے کہ وہ چاہے تو اس میں حصہ لے تا زیادہ سے زیادہ ثواب حاصل کر سکے.جب کوئی چیز جماعت کے نظام میں داخل ہو جائے تو ہر شخص تو کو اس میں حصہ لینے پر مجبور کیا جاسکتا ہے اور وہ ہو بھی جاتے ہیں.مگر ان کا ثواب اس قدر نہیں ہو تا.اس لیے میں نے یہ تحریک محض طوعی رکھی ہے.کسی پر جبر نہیں کہ اس میں حصہ لے.اب میں پھر قادیان کے اُن دوستوں کو بھی جنہوں نے ابھی تک اس تحریک میں حصہ نہیں لیا مگر حصہ لینے کی خواہش رکھتے ہیں تحریک کرتا ہوں کہ اس میں شامل ہوں اور بیرونی جماعت کے دوستوں کو بھی توجہ دلاتا ہوں.وقت بہت تھوڑا اور کام بہت زیادہ ہے.پس دوست حبلد اس تحریک میں اپنے نام پیش کریں تا ہم اندازہ کر سکیں کہ ضرورت کے وقت علاوہ انجمن اور تحریک جدید کے بجٹ کے کتنا روپیہ ہمیں مل سکتا ہے.میرا اندازہ ہے کہ جماعت کے دوستوں کی ماہوار آمد پچاس ساٹھ لاکھ روپیہ ہے اور اگر دوست توجہ کریں تو کافی روپیہ ملنے کی امید ہو سکتی ہے.یہ کام ابھی آہستہ آہستہ شروع ہو گا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے کہ ربانی کام وہی ہے جو تھوڑا شروع ہو کر ترقی کرتا ہے.غالبا ہم ابھی اس تحریک کے ماتحت اشد ضرورت کے وقت ایک فیصدی تک حصہ لینا شروع کریں گے.مگر مومن کی نیت یہی ہونی چاہیے کہ اگر ساری جائیداد کی بھی دین کے لیے ضرورت ہو تو اسے دینے میں کوئی عذر نہ ہو گا.مجھے ایک رؤیا میں اس تحریک کی طرف توجہ دلائی گئی تھی.میں نے رویا میں دیکھا کہ ایک عورت ہے جس کا خاوند نیک ہے مگر وہ خود نیک نہیں.اس کا ایک بیٹا ہے.وہ اس سے ہم

Page 221

خطبات محمود 221 $1944 کہتی ہے کہ تیرا باپ اسراف بہت کرتا ہے اگر اس سے کوئی ایک پیسہ مانگے تو پیسہ دے دیتا ہے، اگر دو آنے مانگے تو دو آنے دے دیتا ہے اور وہ اس قسم کا ہے کہ اگر کوئی اس سے سارا مال مانگے تو وہ سارا دے دے گا.اور وہ اپنے بیٹے سے کہتی ہے کہ آؤ ہم اس سے سارا مال مانگ لیں ہیں.وہ ہمیں دے دے گا.تو پھر وہ دین کی راہ میں اس مال کو لٹانہ سکے گا.میں نے رویا میں دیکھا کہ میں جماعت کے دوستوں کے سامنے عربی میں تقریر کر رہا ہوں اور یہ مثال دیتا ہوں کہ اس طرح ایک نیک آدمی تھا مگر اس کی بیوی نیک نہ تھی.اس کا ایک بیٹا جو میں نہیں کہہ سکتا که خود نیک تھا یا بر انگر اُس کی ماں یہ ضرور سمجھتی تھی کہ وہ اسے اپنا آلہ کار بنا سکے گی.وہ اُسے ہے کہتی ہے کہ تیرے باپ سے کوئی جو کچھ مانگے وہ اسے دے دیتا ہے اور ڈر ہے کہ اگر اُس سے کوئی سارا مال دین کے لیے مانگے تو وہ سارا مال دے دے گا.اس لیے آؤ ہم اس سے سارا مال مانگ لیں.اس طرح وہ خدا کی راہ میں اسے خرچ نہ کر سکے گا اور ہمیں نقصان نہ ہو گا.یہ مثال دے کر میں جماعت کو نصیحت کرتا ہوں کہ ایسے فتنے بھی آدمی کو پیش آسکتے ہیں.ان سے ہوشیار رہو.میں یہ کہہ ہی رہا تھا کہ میری آنکھ کھل گئی اور میں نے سمجھا کہ اللہ تعالیٰ کے ایسے بندے بھی ہیں جو دین کی راہ میں اپنا سارا مال خرچ کرنے کو تیار ہیں.مگر یہ بھی خطرہ ہے ہے کہ اُن کی بیویاں اور بچے اُن کے لیے فتنہ بن جائیں.پس پیشتر اس کے کہ وہ فتنہ بنیں، کیوں نہ ہم ہی ان سے دین کے لیے ان کی جائیدادیں طلب کریں.حقیقت یہ ہے کہ جب تک انسان میں ایمان کے اس درجہ پر قائم نہ ہو اس وقت تک وہ صحیح معنوں میں دین کو دنیا پر مقدم کرنے والا میں نہیں ہو سکتا.اس رویا نے مجھے اس طرف توجہ دلائی کہ جب مومن دین کے لیے سب کچھ خرچ کرنے کو تیار ہے تو اگر ہم اس سے ایسا مطالبہ نہ کریں گے تو ہو سکتا ہے کہ اُس کے بیٹے اور اولادیں لے لیں.پس پیشتر اس کے کہ اس طرح مومنوں کے مال ضائع ہوں کیوں نہ دین کے لیے انہیں لے لیا جائے.پس اسی رؤیا کے ماتحت میں نے اس وقف کی تحریک کی اور دوستوں کو چاہیے کہ اس تحریک میں حصہ لیں.یہ وقف ایسا ہے کہ ہم یہ مطالبہ نہیں کرتے کہ ہمیں جائیدادیں دے دو.صرف پابند کرتے ہیں کہ جب اور جتنا مطالبہ کیا جائے گا وہ پیش

Page 222

$1944 222 خطبات محمود کر دیں گے.یہ ادنی سے ادنی قربانی ہے.یہ اقرار تو دراصل وہ ہے جو ہر شخص احمدیت میں داخل ہوتے وقت کرتا ہے اور اب ایسا کرنا گویا اس اقرار کو دُہرانا ہے جو ہر احمدی نے جماعت میں داخل ہوتے وقت کیا تھا.اور اس کا مطلب صرف یہ ہے کہ اس کا بیعت کے وقت کا اقرار مصنوعی نہ تھا بلکہ وہ جماعت کو اختیار دیتا ہے کہ جب اس کے اموال کی ضرورت ہو وہ لے سکتی ہے.پس میں جماعت کو اس کی طرف پھر توجہ دلاتا ہوں کیونکہ ابھی بہت سا حصہ جماعت کا ایسا ہے جس نے ابھی اس پر غور نہیں کیا.یہ میں نہیں کہتا کہ ہر شخص ایسا کرے.ہاں جسے خدا تعالیٰ بشاشت قلب عطا کرے اور توفیق دے وہ ضرور اس میں حصہ لے.ہاں جو بوجھ محسوس کرے اور جو سمجھتا ہے کہ اگر اس نے ایسا کیا اور اس کے بیوی بچے اُس پر معترض ہوئے تو اُسے پچھتانا پڑے گا وہ نہ حصہ لے.صرف وہی حصہ لیں جو سمجھتے ہیں کہ خواہ بیوی، بچے یا عزیز ترین رشتہ دار بھی اس پر ناراض ہوں اسے کوئی پروا نہیں اور جسے اس قربانی کے بعد افسوس نہیں ہو گا بلکہ بشاشت حاصل ہو گی اور جسے یہ خیال نہ آئے گا کہ اُس سے ایسا مطالبہ کیوں کیا گیا.بلکہ اسے یہ افسوس ہو گا کہ اُس سے سارا مال کیوں نہیں لے لیا گیا.قربانی وہی فائدہ دے سکتی ہے جو بشاشت کے ساتھ کی جائے اور یہ بشاشت میں نے دیکھا ہے زیادہ تر یہ غریبوں کو حاصل ہوتی ہے.میری تحریک کے بعد بعض غریب عور نہیں میرے پاس آئیں اور میں اپنے زیور پیش کیسے کہ یہ لے لیں.ایسا نہ ہو کہ ہم خرچ کر لیں اور پھر حصہ نہ لے سکیں.میں نے کہا کہ ابھی ہم اس طرح نہیں لے رہے.ایک عورت نے تو ایک اور عورت کے پاس اپنے ہیں زیور رکھ دیئے کہ جب ضرورت ہو دے دیئے جائیں.ایسا نہ ہو کہ اس کے پاس ہوں تو خرچ ہیں ہو جائیں.ایمان کی علامت یہی ہوتی ہے کہ انسان اپنی جان، مال سب کچھ دین کی راہ میں قربان کرنے کے لیے ہر وقت تیار رہے.اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں یہی فرمایا ہے کہ ان اللَّهَ اشْتَرَى مِنَ الْمُؤْمِنِينَ أَنْفُسَهُمْ وَأَمْوَالَهُمْ بِأَنَّ لَهُمُ الْجَنَّةَ 3 اللہ تعالیٰ نے مومنوں کے اموال اور اُن کی جانیں جنت کے عوض اُن سے خرید لی ہیں.پس جنت کا ملنا اس امر پر موقوف ہے کہ ہم اپنی جانیں اور اپنے مال دین کی راہ میں وقف کر دیں.اس کے بعد میں ایک اور چندہ کی تحریک کرتا ہوں.ہم نے قادیان میں کالج ہے

Page 223

$1944 223 خطبات محمود شروع کر دیا ہے.ابتدائی اخراجات کے لیے ڈیڑھ لاکھ روپیہ کی ضرورت ہے اور ڈگری کالج بنانے کے لیے مزید ڈیڑھ لاکھ روپیہ درکار ہے.ڈگری کالج کے لیے جو خرچ چاہیے وہ تو ڈیڑھ دو سال کے بعد پیش آئے گا اِس وقت ڈیڑھ لاکھ روپیہ درکار ہے.عمارت وغیرہ کے لیے قرض لے کر روپیہ دے دیا گیا ہے تا کام شروع ہو سکے.جن لوگوں کو یہ احساس ہے کہ میٹرک پاس کرنے کے بعد بیرونی کالجوں میں جانے سے ہمارے نوجوانوں پر برا اثر پڑتا ہے ہے کیونکہ ان کی عمر اور علم ابھی ایسا نہیں ہوتا کہ بیرونی اثرات سے وہ محفوظ رہ سکیں وہ خصوصیت سے اس چندہ میں حصہ لیں تا ہمارے بچے باہر جانے سے پہلے کم سے کم دو سال اور یہاں رہ سکیں اور بڑی عمر کے ہو کر باہر جائیں.پس میں جماعت میں یہ تحریک کرتا ہوں کہ عام چندوں کے معیار کو قائم رکھتے ہوئے وہ اس چندہ میں حصہ لے.اور مجھے امید ہے کہ جماعت کا مالدار خصوصاً وہ لوگ جن کو جنگ کی وجہ سے ٹھیکوں وغیرہ کے ذریعہ یا دوسرے ایسے ہی کاموں سے زیادہ روپیہ ملا ہے مثلاً تاجر وغیرہ ہیں جن کی آمدنیوں میں کافی اضافہ ہوا ہے، وہ اس طرف خاص طور پر توجہ کریں.یا وہ زمیندار جن کی آمد نیاں بڑھ گئی ہیں.ہمارے ملک میں عام زمینداروں کی زمینیں پانچ دس ایکڑ ہی ہیں اور ایسے زمینداروں کے گھروں میں اجناس می کی قیمتیں بڑھ جانے کے باوجود دولت جمع نہیں ہو گئی، زیادہ سے زیادہ قرضہ لینے سے بچ گئے ہیں اور وہ روٹی کھانے لگے ہیں.مگر جو بڑے بڑے زمیندار ہیں ان کو کافی روپیہ مل گیا ہے اور ہم وہ کوشش کرتے ہیں کہ اس روپے سے مربعے اور جائیدادیں وغیرہ خرید لیں.وہ بے شک خریدیں میں اس سے روکتا نہیں کیونکہ اس سے بھی سلسلہ کی دولت بڑھتی ہے.مگر میں ان می سے یہ ضرور کہوں گا کہ وہ دین کے حصہ کو نہ بھولیں.پس ایسے لوگ اِس چندہ میں خاص طور پر حصہ لیں.میں کسی کو محروم نہیں کرتا.غریب بھی حصہ لے سکتے ہیں اور اگر کوئی غریب ہے ایک دھیلا بھی دیتا ہے تو وہ رڈ نہیں بلکہ شکریہ کے ساتھ قبول کیا جائے گا اور اس امید کے ساتھ قبول کیا جائے گا کہ اللہ تعالیٰ اسے ایک لاکھ دینے والے امیر سے بھی زیادہ ثواب دے گا.گو اس کا اعلان اخباروں میں ہو چکا ہے مگر اب اس خطبہ کے ذریعہ میں باقاعدہ مقامی دوستوں کو اور پھر اخبار کے ذریعہ بیرونی دوستوں کو بھی توجہ دلاتا ہوں کہ اِس چندہ میں

Page 224

خطبات محمود 224 $1944 حصہ لیں اور کوشش کریں کہ یہ ڈیڑھ لاکھ روپیہ چند ماہ کے اندر اندر آجائے تا کالج کے اخراجات کا بوجھ انجمن پر سے اتر جائے.میری تجویز تو یہ ہے کہ پانچ سال کا بجٹ انجمن کے پاس محفوظ ہونا چاہیے.اسی صورت میں صحیح رنگ میں اور دلیری کے ساتھ کام کیا جاسکتا ہے.اس وقت انجمن کا بجٹ پانچ لاکھ کے قریب ہوتا ہے اور اس طرح کم از کم پچیس لاکھ روپیہ کا ریز رو فنڈ ہونا چاہیے.مگر انجمن ابھی پرانے قرضوں سے آزاد نہیں ہو سکی اور ایسی حالت میں اس پر کوئی نیا بوجھ نہیں ڈالنا چاہیے اور مخلصین کا فرض ہے کہ اس خرچ کو پورا کریں.جن دوستوں کا میں نے ذکر کیا ہے وہ خصوصیت سے اس میں حصہ لیں اور باقی دوست بھی جس قدر دے سکیں دیں.باقی دوست اگر ماہوار آمد کا آدھا حصہ بھی دے دیں مثلاً دس روپے ماہوار پانے والا پانچ روپے دے دے اور پچاس والا پچھیں تو یہ خرچ آسانی سے پورا ہو سکتا ہے.مگر یہ بھی ضروری نہیں کہ ہر شخص ماہوار آمد کا نصف ہی دے.بعض لوگوں پر تحریک جدید اور دوسرے چندوں کی وجہ وجہ سے بوجھ زیادہ ہے وہ جتنا بھی دے سکیں دے سکتے ہیں.مومن کا کام یہی ہے کہ نیکی کے کام میں زیادہ سے زیادہ حصہ لے.اس کے علاوہ گریجوایٹوں اور ایم اے پاس نوجوانوں کی بھی کالج کے لیے ضرورت ہے تا پروفیسر وغیرہ تیار کیے جاسکیں.ایسے ہی واقفین میں سے آئندہ ناظروں کے قائمقام بھی تیار کیے جاسکیں گے.آگے ایسے لوگ نظر نہیں آتے جنہیں ناظروں کا قائمقام بنایا جاسکے.میری تجویز ہے کہ واقفین نوجوانوں کو ایسے کاموں پر بھی لگایا جائے اور ایسے رنگ میں اُن کی تربیت کی جائے کہ وہ آئندہ موجودہ ناظروں کے قائمقام بھی ہو سکیں.پس ایم.اے پاس نوجوانوں کی ہمیں ضرورت ہے جو کوئی خاص علم پڑھانے کا ملکہ رکھتے ہوں.اگر گریجوایٹ بھی ہوں تو ایسے رنگ میں ان کی تربیت کی جاسکتی ہے کہ وہ کام دے سکیں گے مگر بہتر یہی ہے کہ ایم.اے پاس ہوں.دنیا اس قدر تیزی سے بدل رہی ہے کہ جب تک ہم ایک میل کے مقابلہ میں سو میل نہ چلیں ہم اسے زیر نہیں کر سکتے.پس ہمیں چاہیے کہ جلد جلد بڑھیں.مجھے رویا میں بھی یہی دکھایا گیا ہے کہ میں جلد جلد بڑھ رہا ہوں.شاید میرے کام کا وقت تھوڑا ہو اور

Page 225

خطبات محمود 225 $1944 اللہ تعالیٰ میری زندگی میں ہی فتح دلانا چاہتا ہے.اس لیے وہ چاہتا ہے کہ ہم جلدی جلدی آگے بڑھیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی پیشگوئی میں بھی ہے کہ وہ جلد جلد بڑھے گا اور قدرت اور فضل و رحمت کا نشان قرار دیا گیا ہے.4 پس فتح کا دن وہی دیکھ سکتا ہے جو جلدی چلنے کی کوشش کرے اور میرے قدم کے ساتھ قدم ملانے کی کوشش کرے.اے میرے رب ! تو مجھے اور بھی زیادہ تیز چلنے کی اور جماعت کو میرے قدم سے قدم ملانے کی توفیق ہے بخش_ اللهم آمِينَ".(الفضل 31 مارچ1944ء) 1 : التوبة: 103 2 : تاریخ الخلفاء للسیوطی صفحہ 70.مطبع سر کاری لاہور 1870ء 3:التوبة: 111 4 : اشتہار 20 فروری 1886ء مجموعہ اشتہارات جلد اول صفحہ 96،95 ---------_--_-_-_-_--_-_-_-_-

Page 226

خطبات محمود 226 $1944 12 دین کی خدمت کے لیے مالی اور جانی قربانیوں کا مطالبہ ہمیشہ اور ہر آن ہو تا رہے گا فرمودہ 31 مارچ 1944ء) تشہد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: " مجھے اتر سوں شدید پیچش کی شکایت ہو گئی تھی جس سے خون کے دست بھی آتے رہے اور گو کل سے اس میں افاقہ ہے لیکن ابھی بخار روزانہ ہو جاتا ہے.بلکہ اب بھی ہے.چنانچہ ابھی آتے ہوئے تھرما میٹر لگا کر میں نے دیکھا تھا.اس کے علاوہ آج مجھے گردے کے مقام پر درد بھی ہو گیا.ان وجوہ کے ماتحت میں آتو نہیں سکتا تھا لیکن میرے دل نے گوارا نہ کیا ہے اور یہی فیصلہ کیا کہ چاہے بیٹھ کر مجھے خطبہ دینا پڑے اور خواہ بعد میں تکلیف بڑھ جائے پھر بھی خود جا کر مجھے خطبہ پڑھنا چاہیے.اللہ تعالی نے ہمارے سپر د جو کام کیا ہے وہ اتنا اہم اور اتنا عظیم الشان ہے کہ اُس نے کے لیے جتنی بھی قربانی جماعت کو کرنی پڑے در حقیقت وہ کام اس کا مستحق ہو گا اور جتنی بھی قربانی ہم کریں در حقیقت وہ قربانی اس فضل سے کم ہی رہے گی جو اللہ تعالیٰ نے یہ کام ہمارے سپرد کر کے ہم پر کیا ہے.میں تو حیران رہ جاتا ہوں اور میری عقل دنگ ہو جاتی ہے جب ---------------

Page 227

خطبات محج محمود 227 $1944 میں سوچتا ہوں کہ آخر اللہ تعالیٰ نے یہ کام ہمارے سپر د کیوں کیا.ہم سے زیادہ صحت مند لوگ دنیا میں موجو د تھے، ہم سے زیادہ مال رکھنے والے لوگ دنیا میں موجود تھے ، ہم سے زیادہ بظاہر نمازیں پڑھنے والے لوگ دنیا میں موجود تھے، ہم سے زیادہ بظاہر روزے رکھنے والے لوگ دنیا میں موجود تھے، ہم سے زیادہ تسبیحیں پھیرنے والے اور اپنی زندگیوں کو خلوت کی حالت میں خدا تعالیٰ کی یاد میں گزار دینے والے لوگ دنیا میں موجود تھے.آخر خدا نے ہم کو جو اس کام کے لیے چنا تو کوئی خوبی اللہ نے ہی دیکھی ہوگی ورنہ ہمیں تو وہ نظر نہیں آتی.میں تو سمجھتا ہوں کہ یہ محض اس کا احسان ہے کہ اس نے یہ عظیم الشان کام ہمارے سپر د کیا.یعنی ایسا کام جو دنیا کی مختلف اقوام گزشتہ کے کاموں سے بڑھ کر ہے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابہ کی اتباع اور مماثلت کا ہے.ہم حضرت عیسی علیہ السلام کے حواریوں کی بانیاں دیکھتے ہیں تو حیرت آجاتی ہے کہ کس طرح وہ پیدل چلتے ہوئے ایشیا سے لے کر یور تک تبلیغ کے لیے نکل گئے.وہ پھانسیوں پر چڑھ گئے اور انہوں نے ہر قسم کے دکھ نہایت خوشی ہے اور بشاشت سے برداشت کیے.بغیر اس کے کہ کوئی انجمن ہو، بغیر اس کے کہ اُن میں تنظیم ہو، بغیر اس کے کہ انہیں روپیہ کی سہولت حاصل ہو، وہ بھیک مانگتے اور لوگوں کو تبلیغ کرتے ہیں چلے گئے.یہاں تک کہ دنیا میں عیسائیت کے نام کو پھیلا دیا.ہم حضرت موسٰی علیہ السلام کے ساتھیوں کو دیکھتے ہیں.ایک زبر دست بادشاہ کا انہوں نے مقابلہ کیا اور گو انہوں نے کمزوریاں بھی دکھائیں مگر پھر بھی اُن کا نمونہ نہایت شاندار ہے.فرعون جیسا طاقتور بادشاہ جس نے ارد گرد کی تمام حکومتوں کو زیر تگین کر لیا تھا، می جس سے ایران تک ڈرتا تھا، جس سے یورپ تک خائف تھا.ایسے بادشاہ کے مقابلہ میں وہ ہمت سے کھڑے ہوئے.انہوں نے اپنا وطن چھوڑ دیا اور غیر معین وعدوں پر حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ چل پڑے اور چالیس سال تک جنگلوں میں پھرتے رہے.ہم تو دیکھتے ہیں ہے ہم نے صرف چالیس دن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے مزار پر غلبہ اسلام کے لیے لوگوں کو دعا کرنے کی تحریک کی.پھر بھی قادیان میں سے کتنے تھوڑے لوگ ہیں جو التزام کے ساتھ وہاں دعا کرنے کے لیے جاتے ہیں.چالیس دن کی دعا اور چالیس سال تک ہیں

Page 228

$1944 228 خطبات محمود جنگلوں میں بھٹکتے پھر نا کیا ان دونوں میں کوئی بھی نسبت ہے ؟ لیکن اُن لوگوں نے ایسا کر کے دکھا دیا.پھر ہم دیکھتے ہیں اور انبیاء جو بنی اسرائیل میں ہوئے یا اور ممالک میں پیدا ہوئے ان کے ساتھیوں نے بھی حیرت انگیز قربانیاں کیں.ہندوستان میں ہی حضرت کرشن علیہ السلام کے ساتھیوں نے ایک بھاری جنگ میں دشمن کے مقابلہ میں متواتر قربانی کی اور اپنی جانیں حضرت کرشن علیہ السلام کے حکم پر نثار کر دیں.حالانکہ اس میں ان کا کوئی ذاتی فائدہ نہیں تھا بلکہ ان کے لیے ایک ابتلاء اور ٹھوکر کا مقام تھا.کیونکہ حضرت کرشن جس شخص کی تائید کے لیے کھڑے ہوئے تھے ، وہ ان کا ایک رشتہ دار تھا.پس وہ کہہ سکتے تھے کہ یہ لڑائی اپنے ایک رشتہ دار کے لیے کی جارہی ہے ہم اس میں کیوں حصہ لیں.مگر انہوں نے اس بات کی می کوئی پروا نہ کی.ہندوستان کے مختلف علاقوں سے لوگ جمع ہوئے اور ان کے ساتھ مل کر دشمن سے جنگ کرتے رہے.دشمن زبر دست تھا، وہ اپنی طاقت اور تعداد میں زیادہ تھا.مگر پھر بھی ایک لمبے عرصہ تک وہ اپنی جانوں کو ان کے حکم پر قربان کرتے رہے.یہاں تک کہ اللہ تعالی نے پانسہ پلٹ دیا اور حضرت کرشن اور ان کے ساتھیوں کو فتح ہوئی.ہم حضرت زرتشت اور ان کے ساتھیوں کو دیکھتے ہیں تو انہوں نے بھی اس قدر قربانیاں کی ہیں کہ دیکھ کر حیرت آتی ہے.حالانکہ اُس زمانہ میں لوگوں کو وہ سہولتیں میسر ہے نہیں تھیں جو اس زمانہ میں میسر ہیں.اب نہ جان دینے کا مطالبہ ہوتا ہے، نہ وطن چھوڑنے کا مطالبہ ہوتا ہے.صرف چند سالوں کے لیے ایک مبلغ باہر جاتا ہے اور ان چند سالوں کے لیے بھی اُسے اِس قدر سہولتیں میسر ہوتی ہیں کہ ڈاک جاری ہوتی ہے ، ہوائی جہازوں سے خط آتے جاتے ہیں، تاریں آجاتی ہیں، وہ بیمار ہو تو چند گھنٹوں کے اندر اندر اطلاع پہنچ جاتی ہے، اُس کے بیوی بچے بیمار ہوں تو چند گھنٹوں میں اُسے اطلاع ہو جاتی ہے.کوئی موت ہو تو اس کی فوراً اطلاع بھجوادی جاتی ہے، اُس کے گھر میں کوئی مصیبت آئے تو سلسلہ ایک حد تک اپنی ذمہ داری ادا کرنے کے لیے روپیہ بھی خرچ کرتا ہے.کوئی بیمار ہو تو جماعت کے ڈاکٹر علاج کے لیے موجود ہوتے ہیں.غرض اس زمانہ میں کئی قسم کے آرام اور کئی قسم کی سہولتیں لوگوں کو میسر ہیں.

Page 229

خطبات محمود 229 $1944 مگر وہ زمانہ جب پہلے انبیاء کی امتوں نے قربانیاں کیں ایسا زمانہ تھا کہ اُس وقت ان سہولتوں میں سے کوئی سہولت بھی میسر نہ تھی.نہ ڈاک کا انتظام تھا، نہ تار کا انتظام تھا، نہ شفاخانوں کا انتظام تھا، نہ خرچ کا انتظام تھا.بس ان کے دل میں تبلیغ کا خیال آتا اور وہ اُسی وقت اٹھ بیٹھتے اور سینکڑوں ہزاروں میل پیدل سفر طے کرتے ہوئے غیر ملکوں میں تبلیغ کے لیے نکل جاتے.یہ قربانیوں کا نمونہ ایسا شاندار ہے کہ ہم جب اس نمونہ کو دیکھتے اور اس کے مقابلہ میں اپنی قربانیوں کو رکھتے ہیں تو ہماری سمجھ میں ہی نہیں آتا کہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابہ کا قائمقام اللہ تعالیٰ نے ہمیں کیوں بنا دیا.در حقیقت ہمیں صحابہ کا قائمقام بنانا ہی ہمیں اپنے نفس میں شرمندہ کرنے کے لیے کافی ہے.بعض دفعہ کسی شخص کو شر مندہ کیا جاتا ہے تو کوئی بھاری کام اُس کے سپر د کر دیا جاتا ہے.اس کے یہ معنے نہیں ہوتے کہ وہ شخص بڑا ہو گیا.بلکہ اس کے معنے یہ ہوتے ہیں کہ تم اپنے آپ کو بڑا سمجھا کرتے تھے لواب ایک بڑا کام ہم تمہارے سپرد کرتے ہیں تم اس کو کر کے دکھاؤ.ایسے آدمی میں اگر چہ شرافت ہوتی ہے، ایسے آدمی میں اگر ایمان ہوتا ہے تو وہ اُسی وقت اللہ تعالیٰ کے حضور سجدے میں گر جاتا اور اس سے عاجزانہ دعا کرتا ہے کہ الہی تو نے مجھے اس ابتلاء میں تو ڈال دیا اب اپنے فضل سے میری عزت رکھ لے اور میرے ہاتھوں سے یہ کام کرا دے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے وعدوں کو دیکھتے ہوئے اور اللہ تعالیٰ کے اس سلوک کو دیکھتے ہوئے جو ہمارے ساتھ ہے، ہمیں یقین ہے کہ یہ ابتلاء ٹھو کر والا ابتلاء نہیں بلکہ اس کے ذریعہ ہمارے لیے کوئی بہت بڑی فضیلت مقدر ہے.کیوں مقدر ہے ؟ شاید اللہ تعالیٰ یہ بتانا چاہتا ہے کہ پہلی قو میں ایسی تھیں جنہوں نے قربانیاں کر کے فتح حاصل کی.باوجود اس کے کہ ان کے بانی شروع میں کمزور تھے ، دنیا ان کی مخالف تھی اور سخت سے سخت تکلیفیں اور مصیبتیں ان کو پیش آئیں.مگر چونکہ ان کی جماعتوں نے بڑی بڑی قربانیاں کیں اس لیے دنیا نے کہا بے شک وہ نبی کمزور تھے، فتح کے سامان ان می کے پاس نہیں تھے مگر چونکہ انہیں ایسی جماعتیں مل گئیں جو قربانیاں کرنے والی تھیں اس می لیے انہیں فتح حاصل ہو گئی.اگر ایسی قربانی کرنے والی جماعتیں اُن کو میسر نہ آتیں تو ان کو فتح میں اور کامیابی بھی حاصل نہ ہوتی.پس چونکہ دنیا نے یہ اعتراض کیا اس لیے شاید اللہ تعالی اپنے لیے

Page 230

خطبات محج محمود 230 $1944 آخری موعود حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ میں دنیا کو یہ دکھانا چاہتا ہے کہ لو بغیر جماعت کی خاص قربانیوں کے اور بغیر ترقی کے خاص سامانوں کے ہم اپنی طاقت اور قدرت سے ہی کام کر کے دکھا دیتے ہیں.لیکن بہر حال خواہ جماعت کی قربانیوں کے بغیر یہ کام ہو.چونکہ یہ کام ہمارے ہاتھوں سے ہو گا اس لیے ہمیں عزت ضرور مل جائے گی اور مفت میں ہمیں ثواب حاصل ہو جائے گا.یہ ایسی ہی بات ہے جیسے ایک تنکے سے خدا تعالیٰ کشتیوں کا کام لے لے.بے شک ایک تنکا اپنی ذات میں کچھ حقیقت نہیں رکھتا.لیکن جس تنکے میں خدا تعالیٰ یہ طاقت پیدا کر دے کہ وہ سہارا دے کر لوگوں کو دریا سے گزار دے اُس میں بھی ایک خوبی پیدا ہو جاتی ہے.اس میں بھی ایک حرکت پیدا ہو جاتی ہے.اگر وہ تنکا دنیا میں محفوظ ہو تو یقینا ہے ا ہزاروں میل سے لوگ اس کی زیارت کرنے کے لیے آئیں.اسی طرح ہمارے ہاتھ سے اگر یہ کام ہو جائے تو ہماری مثال گو ایک تنکے کی سی ہو گی لیکن چونکہ خدا کا کام ہمارے ہاتھ سے ہوا ہو گا اس لیے ہمارا وجود خدا تعالیٰ کی کرامت اور اس کی قدرت اور اس کی رحمت کا ایک مورد اور ذریعہ ہونے کی وجہ سے دنیا میں ایک نشان بن جائے گا.جس طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا وہ گرتہ نشان تھا جس پر سرخی کے چھینٹے پڑے اور جس طرح ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے وہ بقیہ کپڑے نشان ہیں جن کے متعلق خدا تعالیٰ نے فرمایا کہ "بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے".1 یہ صاف بات ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا گرتہ قربانی نہیں کر رہا تھا، حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا پاجامہ قربانی نہیں کر رہا تھا بلکہ قربانی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام کر رہے تھے.وہ سوزو گداز سے بھری ہوئی دعائیں جو عرش سے ٹکرا رہی تھیں ، وہ خدا کے نام ہے کی اشاعت اور اس کی بلندی کے لیے دن رات کی کوششیں جو دنیا میں ہو رہی تھیں، وہ تین محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے انوار کو پھیلانے اور آپ کی عظمت سے دنیا کو روشناس کرانے کے لیے لیے جد و جہد جو اس عالم میں جاری تھی وہ تمام جد و جہد ، وہ تمام کوشش اور وہ تمام قربانی گرتہ نہیں کر رہا تھا بلکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام خود کر رہے تھے.وہ رات دن کی کوفت جو مختلف علمی کتب لکھنے سے آپ کو ہوئی، وہ محفلی علوم جو آپ دنیا پر ظاہر کر رہے تھے، می دنیا.

Page 231

خطبات محمود 231 $1944 وہ چھپے ہوئے خزانے جن کو آپ زمین سے باہر نکال رہے تھے ، وہ دولتیں جن پر لوگوں کے بخل کی وجہ سے زنگ لگ گیا تھا اور وہ سگے جن پر اس قدر میل جم چکی تھی کہ وہ پہچانے تک نہیں جاتے تھے اُن کو صاف کرنے اور دنیا میں پھیلانے اور لوگوں کے گھروں میں وہ مال ودولت پہنچانے اور ان کی روحانی غربت و افلاس کو دور کرنے اور انہیں ایمان کی دولت سے مالا مال کرنے کا کام حضرت مسیح موعود علیہ السلام کر رہے تھے.آپ کا گرتہ یا پاجامہ یہ نہیں کر رہا تھا.مگر اللہ تعالیٰ نے فرمایا: " بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے".گویا جس نے یہ کام کیا اس کے جسم کے ساتھ لگا ہوا گر تہ ، اُس کی ٹانگوں کے ساتھ لپٹا ہے ہوا پاجامہ، اُس کے سر پر رکھا ہوا عمامہ ، اس کی جیب میں پڑا ہوا رومال اور اس کے پاؤں میں پڑی ہوئی بجوتی بھی برکت والی ہو گئی.کیونکہ جس شخص سے خدا نے کام لیا یہ چیزیں اس کے ہے ساتھ ملی ہوئی تھیں.پس اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ہم اس کام کے مستحق نہیں، ہم اس کام کے لی اہل نہیں، ہم میں وہ خوبیاں نہیں جو اعلیٰ جماعتوں میں پائی جانی چاہئیں.مگر چونکہ خدا نے ہمیں ہے ایک درجہ دے دیا ہے اس لیے اس کام کے ہونے کی وجہ سے ہمیں وہ برکات ملنی ضروری ہیں جو برکات ایسے کاموں سے وابستہ ہوتی ہیں.لیکن بہر حال ہمارے لیے ان برکات کے حصول کے لیے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے وابستہ ہونا ضروری ہے.دیکھو وہی گر نہ برکت پا گیا جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے جسم سے جاملا.اُسی پاجامہ نے برکت حاصل کی جو آپ کی ٹانگوں میں لپٹا رہا.اُسی پگڑی نے برکت حاصل کی جسے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے پہنا.وہی کلاہ عزت کا مستحق ہوا جو آپ کے سر پر رہا، اسی ٹوپی نے عزت حاصل کی ہے جسے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے سر پر رکھا، وہی رومال برکت حاصل کر گیا جو آپ کی جیب میں پڑا رہا اور وہی جوتی برکت والی قرار پائی جو آپ کے پاؤں میں رہی.پس برکت ہے حاصل کرنے کے لیے کم سے کم اتنالگاؤ کا ہونا تو ہمارے لیے ضروری ہے جس طرح گر تہ آپ کے جسم سے چمٹا رہا، جس طرح پاجامہ آپ کی ٹانگوں سے لپٹا رہا، جس طرح رومال آپ کی ہے جیب میں پڑا رہا، جس طرح عمامہ آپ کے سر پر دھرا رہا، جس طرح جوتی آپ کے پاؤں میں پڑی رہی.اسی طرح ہمارا فرض ہے کہ اگر ہم الہی برکات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو ہم ہیں

Page 232

خطبات محمود 232 $1944 دھونی رما کر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے گرد بیٹھ جائیں.اگر ہم اپنے آپ میں گرتے جیسی وابستگی پیدا کر لیں، اگر ہم اپنے آپ میں پاجامے جیسی وابستگی پیدا کر لیں، اگر ہم اپنے ، میں ٹوپی جیسی وابستگی پیدا کر لیں، اگر ہم اپنے آپ میں کلاہ جیسی وابستگی پیدا کر لیں، اگر ہم اپنے آپ میں عمامہ جیسی وابستگی پیدا کر لیں، اگر ہم اپنے آپ میں رومال جیسی وابستگی پیدا کر لیں، اگر ہم اپنے آپ میں جوتی جیسی وابستگی پیدا کر لیں تبھی ہم برکتوں کے مستحق ہو سکتے ہیں ورنہ نہیں.بے شک ایک گرتہ میں ذاتی طور پر کوئی برکت نہیں ہو سکتی.مگر چونکہ وہ گرتہ آپ کے جسم سے لپٹا رہا اس لیے برکت حاصل کر گیا.اسی طرح خواہ ہماری جماعت میں کس قدر کمزوریاں پائی جاتی ہوں جو لوگ مجازی طور پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ساتھ لیٹے رہیں گے وہ برکت حاصل کر لیں گے.اور جو لوگ آپ کے ساتھ نہیں لپٹیں گے وہ ہے برکت حاصل نہیں کر سکیں گے.اول تو ہر شخص کو اپنے اندر ایسی خوبی پیدا کرنی چاہیے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی برکات اور اس کے انوار کو حاصل کر سکے اور خود اس کا وجود اللہ تعالیٰ کی قدرر اور اس کی رحمت کا ایک نشان بن جائے.لیکن جو شخص یہ خوبی اپنے اندر پیدا نہیں کر سکتا اسے کم سے کم گرتہ اور پاجامہ اور رومال اور عمامہ کی طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ لپیٹا تو رہنا چاہیے.ورنہ وہ ان برکات کو کس طرح حاصل کر سکتا ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف.مقدر ہیں.میں نے بتایا ہے کہ ہمارے سپر د جو کام کیا گیا ہے وہ نہایت ہی اہم ہے اور ایسے زمانہ میں یہ کام ہمارے سپرد کیا گیا ہے جب دہریت اور عیش پرستی انتہا کو پہنچ چکی ہے.سائنس کے می ذریعہ اسلام پر نئے نئے حملے کیے جارہے ہیں اور ایمان کے خلاف دنیا میں ایک شدید زہریلی ہوا جاری ہے.دوسری طرف ظلم یہ ہو رہا ہے کہ آدھی دنیا دوسری آدھی دنیا پر حکومت کر رہی ہے ہے اور لوگ مجبور ہیں کہ غلامی کی زندگی بسر کریں.پہلے زمانوں میں دس، ہیں یا پچاس غلاموں پر حکومت کی جاتی تھی مگر آج وہ زمانہ ہے جب آدھی سے زیادہ دنیا غلام ہے.یورپ اور امریکہ اور دوسری فاتح قومیں جن کے ماتحت اور ممالک ہیں چالیس پچاس کروڑ سے زیادہ نہیں ہیں بلکہ اس سے کچھ کم ہی ہیں.لیکن باقی دنیا کی آبادی ڈیڑھ ارب لوگوں پر مشتمل ہے.

Page 233

خطبات محمود 233 $1944 جس کے معنے یہ ہیں کہ ہر بچہ ہر عورت اور ہر بوڑھا تین تین آدمیوں کو غلام بنائے بیٹھا ہے.تمام ایشیا، تمام افریقہ إِلَّا مَا شَاءَ الله، تمام جزائر إلَّا مَا شَاءَ اللہ سارے کے سارے غلامی اور ماتحتی میں اپنی زندگی کے دن گزار رہے ہیں.ان سارے حالات کو بدلنا اور محبت سے ، پیار سے، نیکی سے ، رافت سے اور شفقت سے لوگوں کی اصلاح کرنا ہمارا کام ہے.کیا یہ کوئی معمولی کام ہے جو ہمارے سپرد کیا گیا ہے؟ دنیا میں کونسی قوم ہے جس نے ایسا کام کیا ہو ؟ کوئی قوم ایسی ہے نہیں جس کے سپر د اتنابڑا کام کیا گیا ہو جو ہمارے سپرد کیا گیا ہے.پس جو کام ہمارے سپرد کیا گیا ہے وہ دنیا کی سب قوموں کے کاموں سے بڑا ہے اور جو طاقت ہمارے اندر ہے وہ دنیا کی سب قوموں سے کم ہے.پس یہ کام سوائے اس کے کس طرح ہو سکتا ہے کہ خدا کی طرف سے کوئی من نشان ظاہر ہو اور وہ ہمارے کمزور ہاتھوں سے یہ عظیم الشان عمارت کھڑی کر دے.پس ہماری ذمہ داریاں بہت وسیع ہیں اور اللہ تعالیٰ نے جو کام ہمارے سپرد کیا ہے وہ ایسی اہمیت رکھتا ہے اور اتنا بڑا ہے کہ اگر ہم اپنے اندر کمزوری محسوس کرتے ہیں تو ساتھ ہی ہمارا فرض ہے کہ ہم ہے اور زیادہ قربانیاں کریں، اور زیادہ جدوجہد سے کام لیں تاکہ ہماری جو اندرونی اور باطنی کمزوریاں ہیں اُن کا کچھ کفارہ ہماری ظاہری کوششیں کر دیں.میں دیکھتا ہوں ہماری جماعت میں کچھ لوگ ایسے ہیں جن کو ہندؤوں کی طرح ہر وقت سودے کا خیال رہتا ہے.جس طرح ہند و سودا کرنے کے بعد یہ سوچنے لگ جاتے ہیں کہ انہیں کیا نفع ہوا.اسی طرح وہ چند دن روزے رکھتے ہیں اور پھر پوچھتے ہیں اس کا کیا نتیجہ نکلا.کچھ دن تضرع اور ابتہال سے نمازیں پڑھتے ہیں اور پھر دیکھنے لگ جاتے ہیں کہ ان نمازوں سے انہیں کیا فائدہ حاصل ہوا.بے شک غیر احمدی یہ کہنے کا حق رکھتے ہیں کہ اگر ہم نمازیں پڑھتے ہیں تو ان کا کیا نتیجہ نکلا.کیونکہ انہیں کہیں بھی نتیجہ نظر نہیں آتا.لیکن ہماری جماعت تو وہ ہے جس نے اپنی آنکھوں سے خدا تعالیٰ کے ایک مامور کو دیکھا اور اس کی زندگی میں خدا تعالی کے ہزاروں نشانات کو آسمان سے اتر تے مشاہدہ کیا.پھر اب بھی ہماری جماعت میں وہ لوگ موجود ہیں جن کو ان کی نمازوں، ان کے روزوں اور ان کے چندوں کا نتیجہ مل گیا.کیا وہ نہیں دیکھتے کہ اللہ تعالیٰ ان سے کلام کرتا ہے ، ان کی تائید میں اپنے نشانات ظاہر کرتا ہے، ان کے

Page 234

خطبات محمود 234 $1944 دشمنوں کو مارتا اور تباہ کرتا ہے، ان کے دوستوں کو برکت دیتا ہے، انہیں ہر میدان میں فتح عظیم عطا کرتا ہے، انہیں روحانی علوم سے سر فراز کرتا ہے، قرآن کریم کے معارف ان پر کھولتا ہے ، انہیں غیب کی خبروں سے اطلاع دیتا ہے.اور کونسا نتیجہ ہے جو وہ دیکھنا چاہتے ہیں.اور اگر ان کے اپنے اعمال کا نتیجہ ابھی ظاہر نہیں ہوا تو انہیں کم سے کم یہ تو یقین ہونا چاہیے کہ وہ جس راستہ پر چل رہے ہیں وہ صحیح ہے.اگر اس راستہ پر چلنے کے باوجود ان کے اعمال کا نتیجہ ظاہر نہیں ہوا تو بجائے اِس کے کہ وہ یہ کہیں کہ ان اعمال کا نتیجہ کیا نکلا انہیں اپنے نفس سے سوال کرنا چاہیے کہ اے نفس ! تم نے کیا کمزوری دکھائی کہ ہمارے اعمال نیک کا کوئی نتیجہ ظاہر نہیں ہوا.یہ تو نہیں مانا جاسکتا کہ وہ اعمال اپنا نتیجہ ظاہر نہیں کرتے.تم اپنی آنکھوں سے دیکھ چکے ہو کہ تمہارے سامنے بعض وجودوں میں وہ نتائج ظاہر ہو گئے.پس اگر تمہاری ذات میں وہ می نتائج ظاہر نہیں ہوئے تو تمہیں یقین کر لینا چاہیے کہ اس میں تمہارا اپنا ہی قصور ہے.کیا تم نہیں دیکھتے کہ پانی میں پیاس بجھانے کی طاقت ہے ؟ جو شخص بھی اسے پیتا ہے اس کی پیاس بجھ جاتی ہے ہے اور اس کی روح تر و تازہ ہو جاتی ہے.لیکن بخار کا مریض پانی پینے کے باوجود اپنی پیاس کو بکھتا ہوا محسوس نہیں کرتا.وہ پانی پیتا ہے اور دو منٹ کے بعد پھر کہتا ہے پانی دو.پھر پانی دیا ہے جاتا ہے تو دو منٹ کے بعد پھر کہتا ہے پانی دو.تم اسے پانی پلائے جاتے ہو مگر اُس کی حالت یہ ہوتی ہے کہ ادھر وہ پانی پیتا ہے اور ادھر اس کے ہونٹ خشک ہو جاتے ہیں اور وہ پھر کہتا ہے اور پانی دو.یہاں تک کہ پانی پیتے پیتے بعض دفعہ اُس کا پیٹ پھول جاتا ہے.اس کے پیٹ میں پانی کے لیے گنجائش تک نہیں رہتی.مگر وہ یہی کہتا جاتا ہے کہ پیاس لگی ہے اور پانی دو.اب کیا ہے تم ایسے نظارہ کو دیکھ کر یہ سمجھنے لگتے ہو کہ پانی میں پیاس بجھانے کی طاقت نہیں رہی؟ یا تم خود اس شخص کو مریض تصور کرتے ہو ؟ تم کبھی یہ نہیں کہتے کہ پانی میں پیاس بجھانے کی طاقت ہے نہیں رہی.یہ پانی پیتا ہے اور پھر اسے پیاس لگ جاتی ہے.بلکہ تم کہتے ہو یہ پینے والے کا قصور ہے، اس کے اندر کوئی نقص پیدا ہو گیا ہے جس کی وجہ سے پانی اس پر اثر نہیں کرتا.پس جس می قوم میں نمونہ موجود ہو اور اس نمونہ سے یہ ظاہر ہو رہا ہو کہ خدا کی طرف توجہ کرنے اور اُس کے لیے اپنے نفس کی قربانی کرنے سے آسمان سے برکات نازل ہوتی ہیں اس قوم کے ہیں

Page 235

خطبات محمود 235 $1944 وہ بعض افراد اگر اسی راستہ پر چلتے ہوئے برکات و انوار کا مشاہدہ نہ کریں تو یہ نہیں کہا جاسکتا کہ رستہ ہی غلط ہے.بلکہ یہی کہا جائے گا کہ خود اس کی قربانیوں میں کوئی نقص ہے.ورنہ رستہ صحیح ہے اور وہی ایک طریق ہے جس پر چل کر برکت حاصل ہو سکتی ہے.مگر میں کہتا ہوں اگر نتیجہ نہ بھی نکلے تو بھی ایک مومن کا یہ کام نہیں کہ وہ قربانی کو ترک کر دے.خدا تعالی.بعض کام ایسے ہوتے ہیں جن کے نتائج سالوں بعد ظاہر ہوتے ہیں.حضرت مسیح ناصری نے یو قربانی کی اور وہ صلیب پر چڑھ گئے.مسیح کے بعد پطرس جو آپ کا خلیفہ ہوا اور جو آپ کا بڑا مقرب حواری تھا یہاں تک کہ آپ نے ایک دفعہ کہا میری جماعت کے لیے یہ ایک پہاڑ کی ہے طرح ہے وہ روم میں گیا اور اسے پھانسی پر لٹکا دیا گیا.اسی طرح اور بہت سے لوگ آپ کی ہے جماعت میں سے مارے گئے مگر جو دنیوی ترقیات ہیں وہ تین سو سال کے بعد مسیحی قوم کو ی حاصل ہوئیں.اب کیا مسیح نے صلیب پر لٹکنے سے اس لیے انکار کر دیا کہ میرے زمانہ میں تو حکومتیں نہیں آئیں گی میں نے صلیب پر لٹک کر کیا لینا ہے؟ یا کیا پطرس نے اِس وجہ سے اپنی جان قربان کرنے سے انکار کر دیا کہ جب مجھے حکومت میں حصہ نہیں ملے گا تو میں اپنی جان کیوں قربان کروں؟ نہیں بلکہ مسیح نے بھی صلیب کا مزہ چکھا اور پطرس نے بھی اپنی جان قربان کر دی اور اسی طرح پیکے بعد دیگرے اور ہزاروں لوگ قربانیاں کرتے چلے گئے.کیونکہ وہ جانتے تھے ہماری ترقیاں شخصی نہیں قومی ہیں.اور قومی ترقیاں قربانیوں کے بعد بعض دفعہ دو دو بلکہ تین تین سو سال کے بعد حاصل ہوتی ہیں.دیکھو! خدا تعالیٰ کی قدرت کا دنیا میں ہمیں ایک عجیب نظارہ نظر آتا ہے.قدرت نے کئی جاندار چیزیں ایسی پیدا کی ہیں جو دنیا کے لیے قربانی کر رہی ہیں مگر خود ان کو ان می قربانیوں کے نتائج حاصل نہیں ہوتے.مثلاً مونگا ایک کیڑا ہے جس کے نام پر کئی جزائر آباد ہیں.مونگے میں یہ عادت پائی جاتی ہے کہ زمینیں پیدا کرنے کے لیے ایک مونگا دوسرے مونگے پر چڑھ کر جان دے دیتا ہے.سمندر کی تہہ میں لاکھوں مونگے ہوتے ہیں.دس میں ہے ہزار مونگے ایک دوسرے پر چڑھ کر مر جاتے ہیں.پھر اُن پر دس بیس ہزار اور مونگے چڑھ کر مر جاتے ہیں.ان پر دس میں ہزار اور مونگے چڑھ کر جان دے دیتے ہیں.یہاں تک کہ ہے

Page 236

$1944 236 خطبات محمود ہوتے ہوتے سمندر کی تہہ جو بعض دفعہ دو دو تین تین میل گہری ہوتی ہے ان مونگوں سے بھر جاتی اور وہاں زمین پیدا ہو جاتی ہے.چنانچہ ایک دن انہی مونگوں کے مرنے سے وہاں ایک جزیرہ آباد ہو جاتا ہے.جہاں درخت اُگتے ہیں، کھیتیاں ہوتی ہیں ، مکانات بنتے ہیں اور ہزاروں لوگ رہائش رکھتے ہیں.اس قسم کے بیسیوں جزائر ہیں جو دنیا میں پائے جاتے ہیں.کورل آئی لینڈز (Coral Islands)انہی کو کہتے ہیں اور وہ اسی طرح بنتے ہیں کہ ایک کثیر التعداد کورلز کی مرکر جان دے دیتی ہے.جن پر اور لاکھوں کروڑوں کورلز چڑھ کر جان دے دیتے ہیں اور رفتہ رفتہ ان کی قربانی سے ایک زمین آباد ہو جاتی ہے.پس تعجب کی بات ہے کہ ہمارے اندر ایک کورل جتنی قربانی کا مادہ بھی نہ ہو اور ہم یہ خیال کریں کہ جب تک ہماری قربانیوں کا ہماری ذات کو فائدہ نہ ہو اُس وقت تک قربانیاں کرنا بے معنی ہے.تمہیں اس مثال کو اپنے سامنے رکھنا چاہیے اور تمہیں سمجھ لینا چاہیے کہ اگر تم مر جاتے ہو اور تمہاری قربانیوں سے دو سو یا چار سو سال کے بعد جماعت کو فائدہ پہنچتا ہے تو تمہاری قربانی رائیگان نہیں ہے گئی بلکہ اللہ تعالیٰ کے حضور مقبول ہو گئی.پھر ہمارے لیے تو ایک زائد بات یہ بھی ہے کہ جو شخص مر جاتا ہے اُسے اپنی قربانیوں کا مرتے ہی انعام ملنا شروع ہو جاتا ہے.پھر قربانیوں کی ایک اور مثال ہمارے سامنے موجود ہے.برسات کا موسم ہو اور تم لیمپ روشن کرو تو تم دیکھتے ہو کہ کس طرح پروانے اس پر گر گر کر مرتے چلے جاتے ہیں.ہمارے شاعروں نے تو شمع اور پروانے کا اپنے اشعار میں اس قدر ذکر کیا ہے کہ کوئی شاعر ایسا نہیں جس کے کلام میں شمع اور پروانے کا قصہ نہ آتا ہو.پھر تمہیں سوچنا چاہیے کہ کیا محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے دین کا حسن ہماری نظروں میں ایک شمع جیسا بھی نہیں جو چھ پیسے کو مل جاتی ہے؟ اور کیا ہمیں محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور ہے دین اسلام سے اتنی محبت بھی نہیں جتنی ایک پروانے کو شمع سے ہوتی ہے؟ اگر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا حسن ہم کو شمع جیسا بھی نظر نہیں آتا اور اگر اپنا عشق ہم کو پروانے جیسا بھی نظر نہیں آتا تو سچی بات یہی ہے کہ ہم نے اُس حسن کو دیکھا ہی نہیں اور ہم نے اپنے عشق کو سمجھا ہی نہیں.محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا حسن تو کروڑوں شمعوں سے زیادہ ہے.اس لیے ہے

Page 237

خطبات محمود 237 $1944 قرآن کریم نے آپ کو سرا جا منیرا کے قرار دیا ہے اور سراج منیر قرار دینے میں جہاں اور حکمتیں ہیں وہاں ایک عظیم الشان حکمت ان الفاظ میں یہ بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بتایا ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی امت میں ہمیشہ ایسے لوگ پیدا ہوتے رہیں گے جو پروانوں کی طرح آپ پر جانیں قربان کرتے رہیں گے.جس طرح لیمپ روشن ہو تو پروانے اُس پر گرنے لگ جاتے ہیں.اسی طرح اللہ تعالی نے بتایا کہ ہمیشہ امت محمدیہ میں ایسے لوگ پیدا ہوتے رہیں ہے گے جو پروانوں کی طرح شمع محمدی پر قربان ہوتے رہیں گے.مگر پروانے اُس زمانہ میں ہوتے یں جب برسات کا موسم ہو.یہ نہیں ہوتا کہ موسم خواہ کوئی ہو.جب بھی لیمپ جلایا جائے پروانے اُس پر گرنے لگیں.پروانوں کے نکلنے کا موسم برسات ہے.اسی طرح عالم روحانی میں جب بھی برسات کا موسم ہو گا جب آسمان سے الہام الہی کی تازہ بارش نازل ہو گی.اسی زمانہ میں ایسی جماعت پیدا ہو گی جو پروانوں کی طرح محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر اپنی جانیں قربان کر دے گی.دیکھو! ہر زمانہ میں پروانے شمع پر نہیں کرتے.بلکہ برسات کے موسم میں گرتے ہے ہیں.اسی طرح اللہ تعالیٰ نے سِرَاجًا منیرا کہہ کر اِس امر کی طرف اشارہ فرمایا تھا کہ جب نور نبوت ظاہر ہو گا، جب الہام کی بارش آسمان سے اترے گی، جب عالم روحانی میں برسات کا موسم ہو گا اس وقت ایسے لوگ پیدا ہوں گے جو پروانے بن بن کر محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم من کی شمع پر نو پر قربان ہو جائیں گے.اس سے پہلے زمانوں میں قرآن بے شک موجود تھا، لَا اِلهَ اِلَّا اللهُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللہ کہنے والے مسلمان بے شک موجود تھے، دعائیں اور عبادتیں کرنے والے لوگ بے شک پائے جاتے تھے مگر محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چراغ پر ہے پروانے نہیں گر رہے تھے.لیکن ادھر اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو بھیجا اور ادھر محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر پروانے گرنے لگ گئے.کیونکہ یہ الہام اور وحی کی ہے بارش کا وقت تھا.پس سِرَاجًا منیرا کے ایک معنے یہ بھی ہیں کہ جب بھی بارش وحی اور بارش الہام نازل ہو گی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر پروانے گرنے شروع ہو جائیں گے جو می آپ کی صداقت اور راستبازی کا ایک ثبوت ہو گا کہ الہام ہوتا ہے "ب" پر اور پروانے گرنے لگ جاتے ہیں "الف" پر.گویا یہ ثبوت ہو گا آپ کی صداقت کا اور یہ ثبوت ہو گا اس بات کا ہے

Page 238

خطبات محمود 238 $1944 کہ آنے والا آپ کے شاگردوں اور آپ کے متبعین میں سے ہی ہے.وہ اُس چمنی کی طرح ہوگا جو روشنی کے ارد گرد ہوتی ہے.بے شک چمنی روشنی کو پھیلا رہی ہوتی ہے مگر پروانوں کی کوشش یہی ہوتی ہے کہ چمنی کو چیر کر روشنی تک پہنچ جائیں.اور اگر سنگی روشنی ہو تو وہ وہاں پہنچ پانی جاتے اور شمع پر گر کر اپنی جان قربان کر دیتے ہیں.پس اللہ تعالیٰ نے ہماری ترقی کے سامان تو پیدا کیے ہیں مگر ہماری جماعت نے ابھی اپنے کام کی اہمیت کو پورے طور پر سمجھا نہیں.مثلاً میں نے اعلان کیا تھا کہ ہمیں تبلیغ کے لیے ایسے نوجوانوں کی ضرورت ہے جو اپنی زندگی اس غرض کے لیے وقف کر دیں.یہ کام اپنی ای ذات میں اس قدر اہم ہے کہ ہم اس پر جتنا بھی غور کریں اس کی اہمیت بڑھتی چلی جاتی ہے.سینکڑوں ملک ہیں جن میں ہم نے تبلیغ کرنی ہے، سینکڑوں زبانیں ہیں جو ہم نے سیکھنی ہیں، سینکڑوں کتابیں ہیں جو ان ممالک میں تبلیغ اسلام کے لیے ہم نے شائع کرنی ہیں.پس اس فرض کے لیے ہمیں سینکڑوں مبلغوں کی ضرورت ہوگی، سینکڑوں ترجمہ کرنے والوں کی ضرورت ہو گی اور پھر ان مبلغوں اور سلسلہ کے لٹریچر اور دیگر اخراجات کے لیے جس قدر روپیہ کی ضرورت ہو گی اُس کا کچھ اندازہ اس سے ہو سکتا ہے کہ میں نے ایک دن حساب کیا کہ میں اگر ہم پانچ ہزار مبلغ رکھیں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ایک کشف 3 کو ایک دوسرے رنگ میں پورا کرنے کا ذریعہ ہے تو کس قدر خرچ ہو گا.میں نے اندازہ کیا کہ اگر ی ہم پانچ ہزار مبلغ رکھیں تو ان کا ایک سال کا کم سے کم خرچ دو کروڑ روپیہ ہو گا.امریکہ میں نے صرف روٹی کھانے کے لیے تین سو روپیہ ماہوار کی ضرورت ہوتی ہے، یورپ میں کم سے کم ہے پونے دو سو روپیہ ماہوار میں گزارہ ہوتا ہے اور زیادہ تر یہی ممالک ہیں جن میں ہم نے تبلیغ کرنی ہے.ہندوستان سے باہر مشرقی ممالک میں سوڈیڑھ سو روپیہ ماہوار میں بھی گزارہ ہو سکتا ہے.پھر جو آدمی تبلیغ کے لیے جائیں گے اُن کا کرایہ بھی برداشت کرنا پڑے گا.اور پھر چند سال کے بعد جب پہلے مبلغ واپس آئیں گے اور دوسرے مبلغ اُن کی جگہ بھیجے جائیں گے تو ان کی آمد ورفت پر بھی بہت سا روپیہ خرچ ہو گا.اسی طرح ان کے بیوی بچوں کا ہمیں گزارہ مقرر کرنا پڑے گا.پھر وہاں ملک کے مختلف حصوں میں دورے کرنے کے لیے روپیه

Page 239

خطبات محمود 239 $1944 ضروری ہو گا.مساجد کے لیے روپیہ ضروری ہو گا.اُس ملک کی مختلف زبانوں میں ہر قسم کا لٹریچر شائع کرنے کے لیے روپیہ ضروری ہو گا.ان تمام اخراجات کو اگر ہم کھلے دل کے ساتھ برداشت کریں تو در حقیقت اسی صورت میں صحیح طور پر تبلیغ ہو سکتی ہے.لیکن اگر ہم ان اخراجات کا کم اندازہ بھی کریں تو میرے نزدیک ہر مبلغ کے لیے اگر ہم پانچ سو روپیہ ماہوار کا خرچ رکھیں تب اونی طور پر ہم تبلیغ کا فرض ادا کر سکتے ہیں.اس میں سے دو سو روپیہ تبلیغ پر خرچ ہو گا اور باقی روپیہ اس کے ماہوار کھانے پینے کے اخراجات پر صرف ہو گا.لیکن اگر ہم خالی گزارے کا اندازہ لگائیں تب بھی تین سو روپیہ فی کس خرچ ہو گا اور چونکہ پانچ ہزار مبلغ ہیں ہم نے رکھنے ہیں اس لیے پندرہ لاکھ روپیہ ایک مہینہ کا خرچ ہو گا اور سال میں ایک کروڑ اسی لاکھ روپیہ خرچ ہو گا.میں لاکھ روپیہ آنے جانے کے کرائے، سلسلہ کے لٹریچر کی اشاعت ہے مساجد کی تعمیر ، کتابوں کی تصنیف اور دوسرے ضروری کاموں کے لیے رکھ لیں تو دو کروڑ روپیہ سالانہ خرچ ہو سکتا ہے.لیکن یہ نہیں لاکھ روپیہ پانچ ہزار مبلغین کے لیے بہت ہی کم ہے ؟ اور اس قدر قلیل روپیہ سے صحیح طور پر تبلیغ نہیں ہو سکتی.در حقیقت ہمارے پاس ساڑھے تین کروڑ روپیہ سالانہ ہونا چاہیے تب ہم پانچ ہزار مبلغ رکھ کر انہیں دنیا میں پھیلا سکتے ہیں.لیکن ابھی تو ہماری یہ حالت ہے کہ اگر ہم اپنی ساری جائیدادیں بیچ دیں تب بھی ساری عمر میں ایک دفعہ بھی اتنا روپیہ خرچ نہیں کر سکتے.اگر ان مبلغوں کی تعداد کو کم کر دیا جائے اور ہم سر دست صرف دو سو مبلغ رکھیں تب بھی تم سمجھ لو کہ ساٹھ ہزار روپیہ ماہوار ان کے کھانے پینے پر خرچ آئے گا.جس کے معنے یہ ہیں کہ دو سو مبلغین کا سالانہ خرچ سات لاکھ بیس ہزار ہو گا.دو اڑھائی لاکھ روپیہ اگر لٹریچر کی اشاعت اور دوسرے ضروری اخراجات کے لیے رکھ لیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر ہمارے پاس دس لاکھ روپیہ سالانہ ہو تو ہم دو سو مبلغ رکھ سکتے ہیں.لیکن ابھی تو ہمارے سارے بجٹ ملا کر یعنی تحریک جدید کی آمد اور صدر انجمن احمدیہ کی آمد اور دوسری آمد میں ملا کر دس بارہ لاکھ روپیہ کی رقم بنتی ہے.اور اگر ہم اسی وقت دو سو مبلغ من رکھ لیں تو اس کے معنے یہ ہوں گے کہ ہم باقی سارے کام بند کر دیں.حالانکہ ہمارا کام صرف تبلیغ کرنا نہیں بلکہ جماعت کی تربیت کرنا بھی ہے.پس ضروری ہے کہ اس کے لیے علاوہ

Page 240

$1944 240 خطبات محمود چندوں کے ہمارے پاس مستقل جائیدادیں ہوں جن کی آمد سے اس قسم کے اخراجات کو پورا کیا جاسکے.اسی لیے میں نے تحریک جدید جاری کی تھی اور اسی لیے میں نے تحریک جدید کے چندہ کے ذریعہ جائیدادیں بنائی ہیں.مگر مجھے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ جائیدادیں تو بن گئیں لیکن جتنا حصہ جماعت میں سے کام کرنے والے آدمیوں کا تھا وہ مجھے نہیں ملا.چنانچہ اس وقت تک جتنے آدمی میں نے سندھ کی زمینوں پر کام کرنے کے لیے بھجوائے ہیں وہ سارے کے سارے ناکام رہے ہیں.در حقیقت آجکل جو ایک عام زمیندار کو آمد ہو رہی ہے اُس سے بھی ہماری زمینوں کی آمد کم ہے اور اس کی وجہ یہی ہے کہ ہمیں ابھی تک کام کرنے والے آدمی نہیں ملے.میں سمجھتا ہوں اگر ایک شخص عام زمیندار کی حیثیت سے کام کرے تب بھی پندرہ میں من فی ایکڑ کپاس ہو سکتی ہے.اور اگر سلسلہ کا کام سمجھ کر کوئی شخص محنت سے کام کرے تو بچیں، تیس من فی ایکڑ بھی ہو سکتی ہے.مصر میں پچیس من فی ایکڑ کی اوسط نکالی گئی تھی.مگر ایسا اسی صورت میں ہو سکتا ہے جب کام کرنے والے محنتی ہوں، دیانتدار سلسلہ کے اموال کی اہمیت کو سمجھتے ہوں اور تقوی اور اخلاص سے کام کرنے والے ہوں.محمود آباد میں جہاں میری زمین ہے وہاں ایک دفعہ ایک کھیت میں سے پچاس من فی ایکڑ کپاس نکلی.کیونکہ کام کرنے والے نے محنت اور دیانتداری سے کام کیا.پس محنت سے فصل کو بڑھایا جا سکتا ہے.لیکن میں دیکھتا ہوں سلسلہ کے کاموں پر اس وقت تک جو لوگ گئے ہیں وہ ایسے ست اور غافل اور بد دیانت ثابت ہوئے ہیں کہ وہاں اوسط پیداوار پانچ من کی ہوئی ہے کیونکہ محنت سے کام نہیں لیا گیا تھا.میں نے آخر ملازموں سے تنگ آکر بعض واقفین زندگی کو وہاں بھیجوا دیا مگر ان کی حالت بھی ایسی اچھی نہ تھی بلکہ ایک کے متعلق تو ایسی شکایتیں آرہی ہیں کہ شاید مجھے اُس کے متعلق کوئی کمیشن بٹھانا پڑے اور سخت ایکشن لینا پڑے.کیونکہ شکایت ہے کہ اس نے علاوہ سستی اور ظلم کے بددیانتی سے بھی کام لیا ہے.پس ہمیں روپیہ کی ہی ضرورت نہیں بلکہ آدمیوں کی بھی ضرورت ہے.دنیا میں کوئی ترقی آدمیوں می کے بغیر نہیں ہو سکتی.میں نے تحریک جدید کے شروع میں ہی ایک خطبہ پڑھا تھا.وہ خطبہ چھپا ہو ا موجود ہے اور اسے نکال کر دیکھا جاسکتا ہے.میں نے اس میں کہا تھا کہ دنیا میں روپیہ کے ذریعہ ہوں،

Page 241

$1944 241 محمود کبھی تبلیغ نہیں ہوئی اور جو قوم یہ مجھتی ہے کہ روپیہ کے ذریعہ وہ اکناف عالم تک اپنی تبلیغ کو پہنچا دے گی اُس سے زیادہ فریب خوردہ، اس سے زیادہ احمق اور اس سے زیادہ دیوانی قوم دنیا میں اور کوئی نہیں.جس چیز کے ساتھ مذہبی جماعتیں دنیا میں ترقی کیا کرتی ہیں وہ ذات کی ہے قربانی ہوتی ہے نہ کہ روپیہ کی.تم اگر دنیا میں فتح یاب ہونا چاہتے ہو تو جان دے کر ہو گے.جس دن تم یہ سمجھ لو گے کہ تمہاری زندگیاں تمہاری نہیں بلکہ اسلام کے لیے ہیں، جس دن سے تم نے محض دل میں ہی یہ سمجھ لیا بلکہ عملاً اس کے مطابق کام بھی شروع کر دیا اُس دن تم کہہ سکتے ہو کہ تم زندہ جماعت ہو.4 پس اس تحریک کے ابتدا میں ہی میں نے اس کی بنیاد چندہ پر نہیں رکھی بلکہ میں نے اس کی بنیاد آدمیوں پر رکھی تھی.اور میں نے کہا تھا کہ مجھے وہ آدمی چاہیں جو اپنے دلوں میں ہے اخلاص رکھتے ہوں، جو اپنی جانیں خلیفہ وقت کے حکم پر قربان کرنے کے لیے تیار ہوں، جو رات اور دن کام کرنے والے ہوں اور جو سمجھتے ہوں کہ ہم نے جب اپنے آپ کو پیش کر دیا تو اس کے بعد موت ہی ہمیں اس کام سے الگ کر سکتی ہے.زندگی کے آخری لمحوں تک ہم یہی کام کریں گے اور پورے اخلاص اور پوری ہمت اور پوری دیانت سے کریں گے.جو شخص سمجھتا ہے ہے کہ مجھے جب تبلیغ کے لیے باہر بھجوایا جائے گا اُس وقت میں دیانتداری سے کام لے لوں گا سے پہلے اگر سلسلہ کے کسی اور کام پر مجھے مقرر کیا جاتا ہے تو میرے لیے دیانتداری کی ضرورت نہیں وہ اول درجہ کا احمق اور نادان ہے اور یا پھر دوسروں کو دھوکا اور فریب دینے کے لیے ایسا کہتا ہے.جو شخص سمجھتا ہے کہ صرف تبلیغ میں دیانتداری کی ضرورت ہے کہ ہے لیکن سلسلہ کے اموال میں وہ دیانتداری سے کام نہیں لیتا، سلسلہ کی زمینوں پر وہ محنت سے کام نہیں کرتا، سلسلہ کی مالی ترقی کے لیے اپنے آرام اور آسائش کو قربان نہیں کرتا ، وہ سمجھتا ہی نہیں کہ ہے دین کیا چیز ہے.وہ یقینا فریب خوردہ ہے یا دوسروں کو فریب دینے کی کوشش کرتا ہے.دین تو ایک مجموعہ نظام کا نام ہے جس میں زمینیں بھی شامل ہیں، جس میں جائیدادیں بھی شامل ہیں، جس میں مکانات بھی شامل ہیں، جس میں تجارتیں بھی شامل ہیں، جس میں کارخانے بھی شامل ہیں.صرف تبلیغ کرنا دین نہیں.اگر صرف تبلیغ کرنا دین ہو تو سوال یہ ہے کہ پھر دکانیں

Page 242

$1944 242 خطبات محمود کون چلائے گا، کارخانے کون جاری کرے گا، زمینوں کی کون نگرانی کرے گا، صنعت و حرفت کی طرف کون توجہ کرے گا، علوم کون پھیلائے گا.پس یہ صحیح نہیں کہ صرف تبلیغ کرنا دین ہے.دین اسلامی نظام کے ہر شعبہ کا نام ہے اور اس نظام کا ہر شعبہ ویسا ہی اہم ہے جیسے تبلیغ کرنا.مثلاً جب بعض لوگ تبلیغ کے لیے جاتے ہیں تو ضروری ہے کہ ان کے پیچھے ایسے لوگ ہوں جو لٹریچر تیار کر کے اُن کو بھیجیں.کہیں قرآن کی تفسیر ہو رہی ہو، کہیں حدیثوں کے ترجمے شائع ہو رہے ہوں، کہیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب کے تراجم ہو رہے ہوں، کہیں اور لٹریچر تیار ہو رہا ہو.اگر ان کے پاس کثرت سے لٹریچر نہیں ہو گا، اگر ان کے پاس کتابیں نہیں ہوں گی، اگر ان کے پاس روپیہ نہیں ہو گا تو وہ تبلیغ کو وسیع کرنے کا کام کس طرح کر سکیں گے.پس سلسلہ کا ہر کام تبلیغ سے وابستہ ہے.جو شخص زمین میں ہل چلاتا ہے وہ بھی تبلیغ کرتا ہے ، جو شخص کار خانہ چلاتا ہے وہ بھی تبلیغ کرتا ہے ، جو شخص زمینوں کی نگرانی کرتا ہے وہ بھی تبلیغ کرتا ہے، جو شخص لٹریچر شائع کرتا ہے وہ بھی تبلیغ کرتا ہے، جو ؟ شخص سلسلہ کا کوئی اور کام کرتا ہے وہ بھی تبلیغ کرتا ہے.آخر یہ تمام کام ہوں گے تبھی روپیہ ہے آئے گا اور تبھی اس کے ذریعہ مبلغوں کو پھیلایا جا سکے گا.ہم پر خدا تعالیٰ نے فضل کیا اور میں تحریک جدید کے چندہ کے ذریعہ کئی سو مربع زمین ہمیں مل گئی.پنجاب میں ایک مربع بچیں تیس ہزار روپیہ کو ملتا ہے.گورنمنٹ کی نیلام میں بھی ہیں سے پچیس ہزار تک مربع ملتا ہے اور اگر پبلک میں سے کوئی فروخت کرے تو تیس سے چالیس ہزار روپیہ تک ایک مربع فروخت ہوتا ہے.مگر ہم نے سندھ میں خدا تعالیٰ کے فضل سے قریبا چار سو مربع زمین تحریک ان جدید کی لے لی ہے.اگر پنجاب میں اتنی ہی زمین خریدی جاتی تو ایک کروڑ بیس لاکھ روپیہ خرچ ہوتا.مگر ہم کو وہاں اوسطا مختلف اخراجات شامل کر کے ایک مربع پانچ ہزار روپیہ میں ملا ہے ہے اور وہاں ہماری ساری جائیداد میں لاکھ روپیہ کی ہے.گویا ہمیں لاکھ روپیہ میں ہمیں وہ چیز مل گئی روپیہ میں جو پنجاب میں ایک کروڑ بیس لاکھ روپیہ میں مل سکتی تھی.پس یہ اللہ تعالیٰ کا فضل اور احسان ہے کہ سلسلہ کے لیے ہمیں اس قدر زمین مل گئی.اگر جماعت کے دوست اس کام کو دین کا کام سمجھ کر محنت اور دیانتداری سے سر انجام دیتے اور می

Page 243

$1944 243 خطبات محمود تمام زمین کو اس طرح کھود کر رکھ دیتے کہ وہ اپنے خزانے اُگلنے لگ جاتی تو پھر چاہے ایک سال کے بعد ہی وہ مر جاتے انہیں سمجھنا چاہیے تھا کہ اگر انہیں سو سال کی زندگی ملتی تب بھی اس سو سال کی زندگی میں انہیں اتنا ثواب نہ ملتا جتنا ثواب وہ ایک سال میں حاصل کر گئے.مگر بجائے اس کے کہ محنت اور اخلاص اور دیانتداری کے ساتھ کام کیا جاتا وہاں جو لوگ کام کرنے کے لیے بھیجے گئے انہوں نے محنت اور توجہ سے کام نہیں کیا.بے شک ہم نے اعلیٰ درجہ کے تعلیم یافتہ آدمی وہاں نہیں بھجوائے.ہم نے اب تک انہی لوگوں کو بھیجا ہے جن کی تعلیم ادنی تھی.مگر بہر حال ایمان اور اخلاص تعلیم پر منحصر نہیں.صحابہ میں کونسی تعلیم تھی.میں مثلاً حضرت ابو ہریرہ کہاں تک پڑھے ہوئے تھے ؟ انہوں نے تعلیم نہ ہونے کے باوجود کام کیا ہے اور ایسے اخلاص سے کام کیا کہ آج تک اُن کے نام زندہ ہیں اور ان کے لیے دعائیں کرنے والے لوگ دنیا میں پائے جاتے ہیں.اسی طرح ان لوگوں کو سمجھ لینا چاہیے تھا کہ اگر سلسلہ کے لیے چوبیس گھنٹوں میں سے بائیس گھنٹے انہیں کام کرنا پڑتا ہے تب بھی انہیں کام کرنا ہے چاہیے.وہ اپنے لیے موت پسند کر لیتے مگر چوبیس گھنٹوں میں سے بائیس گھنٹے ہی سلسلہ کے لیے وقف کر دیتے اور سمجھتے کہ جو بنیاد آج ہم اپنے ہاتھوں سے رکھ رہے ہیں اسی پر وہ عمارت تیار ہونے والی ہے جو اسلام کی اشاعت کے لیے ضروری ہے.سینکڑوں مبلغ اس کی آمد سے رکھے جائیں گے اور ہر مبلغ جو دنیا میں اسلام کی تبلیغ کرے گا اُس کا ثواب ہمیں ملے گا.ایک مبلغ کو صرف اسی کوشش کا ثواب مل سکتا ہے جو وہ کرے.لیکن سلسلہ کی زمینوں پر اگر لوگ محنت سے کام کریں تو انہیں سینکڑوں مبلغوں کا ثواب حاصل ہو سکتا ہے.کیونکہ انہی کی محنت ہے کے نتیجہ میں تبلیغ کو وسیع کیا جارہا ہو گا.یہ وہ احساس ہے جس کے ماتحت انہیں کام کرنا چاہیے تھا.مگر مجھے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ وہاں جس قدر کام کرنے کے لیے بھجوائے گئے ہیں ان میں سے کسی نے اس حقیقت کو نہیں سمجھا.بجائے اس کے کہ ان کے ذریعہ سلسلہ کے اموال میں برکت ہوتی وہ اس طرف مشغول ہو گئے کہ انہیں اپنی بھینسوں کے لیے چارہ کا فکر ہے، انہیں اپنی گھوڑیوں کا فکر ہے، کہیں دوسروں کو ڈانٹنے اور ان پر جرمانہ کرنے کا انہیں ہر وقت خیال رہتا ہے.گویا جو اصل کام تھا وہ ان کی نظروں سے اوجھل ہو گیا اور دنیاداری میں ہے

Page 244

خطبات محمود 244 $1944 ملوث ہو گئے اور یہی حال احمدی ہاریوں کا ہے.انہوں نے وہاں کوفہ کے بدفطرت لوگوں کا نمونہ دکھایا ہے اور نیک احمدیوں کا نمونہ نہیں دکھایا.مگر وہ خوش نہ ہوں کہ انہوں نے کچھ کما لیا ہے.زیادہ دن نہ گزریں گے کہ وہ خدا کی گرفت میں آئیں گے.میں ان کا جو انجام دیکھتا ہے ہوں خوش کن نہیں ہے.میری بھی چونکہ وہاں زمین ہے اس لیے میں نے اپنے ایک عزیز کو وہاں بھجوادیا کہ شاید وہ شوق سے کام کرے مگر وہ بھی ناکام ثابت ہوا اور اس نے قطعاً اعلیٰ مخلصوں والی قربانی پیش نہیں کی.غرض اِس وقت تک جتنی کوفت اور تکلیف مجھے اس کام کی وجہ سے اٹھانی پڑی ہے اتنی کوفت اور تکلیف مجھے اور کسی کام سے نہیں ہوئی.دوسرے تمام کاموں میں مجھے اچھے آدمی مل گئے ہیں مگر یہاں شاید دنیا کی لالچ اور حرص آجاتی ہے اس لیے صحیح طور پر کام کرنے والے ابھی تک نہیں ملے.یا شاید وہ کام بھی نہیں کر سکتے تھے اور شاید میں بھی ابھی تک ایسے لوگوں کو نہیں چن سکا جو اِس کام کو پوری محنت اور دیانتداری سے کریں.بہر حال ہمیں مخلص آدمیوں کی ضرورت ہے جو زمینوں کا تجربہ رکھتے ہوں اور جو دیانتداری اور محنت کے ساتھ سلسلہ کا یہ کام کرنے کے لیے تیار ہوں.تاکہ ہمارا مالی پہلو مضبوط ہو اور ہم جلد سے جلد تبلیغ کی اس سکیم کو جاری کر سکیں جو میرے مد نظر ہے.میں علاوہ سندھ کی زمینوں کے ، سلسلہ کے اموال بڑھانے کے لیے بعض اور ذرائع سے بھی کام لے رہا ہوں اور اس کام کو شروع بھی کر دیا گیا ہے مگر میں ابھی اس کا اظہار نہیں کرتا.مجھے یقین ہے کہ اُس کے نتیجہ میں ہندوستان میں ہماری جماعت کو ایسی فضیلت حاصل ہو جائے گی کہ دنیا کے لوگ تسلیم کریں گے کہ یہ جماعت دینی طور پر ہی قابل نہیں بلکہ دنیوی طور پر بھی خدا تعالیٰ نے اس جماعت کو ایسی عزت بخشی ہے جو دوسری قوموں اور جماعتوں کو حاصل نہیں.اگر یہ سکیم کامیاب ہو جائے تو خدا تعالی کے فضل سے ہمیں لاکھوں بلکہ کروڑوں روپیہ بڑی آسانی سے میسر آسکتا ہے.میں چار پانچ سال سے اس کے متعلق کوشش ہے کر رہا تھا.لہا کام تھا اور تعلیم سے تعلق رکھتا تھا اور تھوڑے عرصہ میں نہیں بلکہ چھ سات سال میں یہ کام ہو سکتا تھا.اب یہ عرصہ چونکہ ختم ہونے کے قریب ہے اس لیے اس کام کی مچی

Page 245

خطبات محمود 245 $1944 داغ بیل رکھ دی گئی ہے اور امید ہے کہ سال ڈیڑھ سال تک کام ایک معین صورت اختیار کر لے گا.غرض یہ نئی سکیم اور ہماری سندھ کی زمینیں ایسی چیزیں ہیں جن سے سلسلہ کا مالی پہلو خدا تعالیٰ کے فضل سے بہت مضبوط ہو سکتا ہے اور جماعت کی موجودہ حالت کے لحاظ سے تبلیغ کے لیے دس بارہ لاکھ روپیہ سالانہ کا بوجھ آسانی سے برداشت کیا جاسکتا ہے.سندھ کی زمینوں کے متعلق مجھے اللہ تعالیٰ نے ایک رؤیا بھی دکھایا تھا اور اسی رؤیا کی بناء پر میں نے صدر انجمن احمدیہ کو وہاں کی زمینیں خریدنے کی ہدایت کی.بہت عرصہ کی بات ہے میں نے رویا میں دیکھا کہ میں ایک نہر پر کھڑا ہوں، اس کا پانی نہایت ٹھنڈا اور اس کے کی چاروں طرف سبزہ ہے کہ اسی حالت میں ایک دم شور کی آواز آئی.میں نے اوپر کی طرف دیکھا تو معلوم ہوا کہ نہر ٹوٹ کر اس کا پانی تمام علاقہ میں پھیل گیا ہے اور سرعت سے بڑھتا جاتے رہا ہے.میں نے چاہا کہ واپس لوٹوں تاکہ پانی میرے قریب نہ پہنچی جائے مگر ابھی میں یہ می خیال ہی کر رہا تھا کہ میں نے دیکھا میرے چاروں طرف پانی آگیا ہے.پھر میں نے دیکھا کہ نہر کا بند ٹوٹ گیا اور میں بھی نہر کے اندر جا پڑا.جب میں نہر کے اندر گر گیا تو میں نے تیرنا شروع کیا.یہاں تک کہ میلوں میل میں تیر تا چلا گیا مگر میر ا پاؤں کہیں نہ لگا.یہاں تک کہ میں نے سمجھائیں تیرتے تیرتے فیروز پور تک پہنچ گیا ہوں.تب گھبراہٹ کی حالت میں ہی مینی میں دعا کرتا ہوں کہ یا اللہ ! سندھ میں تو پیر لگ جائیں.یا اللہ !اسندھ میں تو پیر لگ جائیں.اور جب میں نے یہ دعا کی تو مجھے معلوم ہوا کہ سندھ آگیا ہے.پھر جو میں نے کوشش کی تو پیر تک گیا اور پھر میرے دیکھتے ہی دیکھتے سب پانی غائب ہو گیا.یہ رویا 1915ء میں میں نے دیکھا تھا.اُس وقت سندھ میں نہروں کا نام و نشان بھی نہ تھا.اس کے ایک لمبے عرصہ کے بعد وہاں نہریں نکلیں اور ہم نے یہ زمین خریدنی شروع کر دی تو اللہ تعالیٰ نے سندھ میں ہمیں اتنی بڑی زمین دے دی ہے کہ اگر پنجاب میں اتنی ہی زمین کسی زمیندار کو مل جاتی تو اس کے لیے شادی مرگ ثابت ہوتی.ساری عمر لوگ گورنمنٹ کی خوشامد میں کرتے رہتے ہیں اور پھر انہیں اگر پانچ یا دس مربعے مل جائیں تو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ گورنمنٹ نے اُن کی سات پشتوں کی قدر افزائی کر دی.لیکن اللہ تعالیٰ نے

Page 246

$1944 246 محمود وه گھر بیٹھے ہمیں قریباً چار سو مربع زمین دے دیا.چار سو میں پندرہ بیس مربع کی کمی ہے إِنْشَاءَ اللهُ تعالی جلدی پوری ہو جائے گی.میری نیت تو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سلسلہ کی ہزاروں مربع زمین بن جائے.اسی طرح اور کئی کام میرے ذہن میں ہیں اور میں چاہتا ہوں ان کاموں میں اس قدر وسعت ہو اور ان ذرائع سے ہمیں اس قدر آمد ہو کہ سلسلہ کے وہ تمام کام جو میں نے کرنے ہیں آسانی اور سہولت سے ہو جائیں.مگر اس کے لیے مخلص آدمیوں کی ضرورت ہے.لیکن یہ یادرکھو کہ آمد کی زیادتی کے ہر گز یہ معنے نہیں ہیں کہ کسی وقت تم اپنے چندوں سے آزاد ہو جاؤ گے یا کوئی وقت جماعت پر ایسا بھی آجائے گا جب تم سے ہے قربانی کا مطالبہ نہیں کیا جائے گا.میں ایک انسان ہوں اور آخر ایک دن ایسا آئے گا جب میں مر جاؤں گا اور پھر اور لوگ اس جماعت کے خلفاء ہوں گے.میں نہیں جانتا اُس وقت کیا حالات ہوں.اس لیے میں ابھی سے تم کو نصیحت کرتا ہوں تاکہ تمہیں اور تمہاری اولادوں کو ٹھوکر نہ لگے کہ اگر کوئی خلیفہ ایسا آیا جس نے یہ سمجھ لیا کہ جب جماعت کو زمینوں سے اس قدر آمدنی ہو رہی ہے، تجارتوں سے اس قدر آمدنی ہو رہی ہے، صنعت و حرفت سے اس قدر آمدنی ہو رہی ہے تو پھر اب جماعت سے کسی اور قربانی کا مطالبہ کی کیا ضرورت ہے.اس قدر روپیہ آنے کے بعد ضروری ہے کہ جماعت کی مالی قربانیوں میں کمی کر دی جائے.تو تم یہ سمجھ لو وہ خلیفہ خلیفہ نہیں ہے ہو گا بلکہ اس کے یہ معنی ہوں گے کہ خلافت ختم ہوگئی اور اب کوئی اسلام کا دشمن پیدا ہو گیا ہے.اور جس دن تمہاری تسلی اس بات پر ہو جائے گی کہ روپیہ آنے لگ گیا ہے اب قربانی کی ہیں کیا ضرورت ہے اُسی دن تم سمجھ لو کہ جماعت کی ترقی بھی ختم ہو گئی ہے.میں نے بتایا ہے کہ می جماعت روپے سے نہیں بنتی بلکہ آدمیوں سے بنتی ہے اور آدمی بغیر قربانی کے تیار نہیں ہے ہو سکتے.اگر دس ہزار ارب روپیہ آنا شروع ہو جائے تب بھی ضروری ہوگا کہ ہر زمانہ میں جماعت سے اسی طرح قربانیوں کا مطالبہ کیا جائے جس طرح آج کیا جاتا ہے.بلکہ اس سے بھی زیادہ مطالبہ کیا جائے کیونکہ ابھی بڑی بڑی قربانیاں جماعت کے سامنے نہیں آئیں.پس چاہے ایک ارب پونڈ خزانہ میں آجائے تب بھی خلیفہ وقت کا فرض ہو گا کہ وہ ایک غریب کی جیب

Page 247

خطبات محمود 247 $1944 سے جس میں ایک پیسہ موجود ہے دین کے لیے پیسہ نکال لے اور ایک امیر کی جیب سے جس میں دس ہزار روپیہ موجود ہے دین کے لیے دس ہزار روپیہ نکال لے.کیونکہ اس کے بغیر دل صاف نہیں ہو سکتے.اور بغیر دل صاف ہونے کے جماعت نہیں بن سکتی.اور بغیر جماعت بننے کے خدا تعالیٰ کی رحمت اور برکت نازل نہیں ہوتی.وہ روپیہ جو بغیر دل صاف ہونے کے آئے وہ انسان کے لیے رحمت نہیں بلکہ لعنت کا موجب ہوتا ہے.وہی روپیہ انسان کے لیے رحمت کا موجب ہو سکتا ہے جس کے ساتھ ہی انسان کا دل بھی پاک ہو اور دنیوی آلائشوں سے مبرا ہو.پس مت سمجھو کہ اگر کثرت سے روپیہ آنے لگا تو تم قربانیوں سے آزاد ہو جاؤ گے.اگر کثرت سے روپیہ آگیا تو ہمارے ذمہ کام بھی تو بہت پڑا ہے.ہم نے اسلام کی حکومت دنیا میں قائم کرنی ہے.ہم نے دنیا میں وہ نظام قائم کرنا ہے جو اسلام قائم کرنا چاہتا ہے.ہم نے ہر کے لیے کھانا مہیا کر نا ہے، ہم نے ہر شخص کے لیے کپڑا مہیا کرنا ہے، ہم نے ہر شخص کے لیے مکان مہیا کرنا ہے، ہم نے ہر بیمار کے لیے علاج مہیا کرنا ہے، ہم نے ہر انسان کے لیے تعلیم کا سامان مہیا کرنا ہے.کیا یہ ساری چیزیں آسانی سے ہو سکتی ہیں ؟ ان کے لیے تو اربوں ارب روپیہ کی ضرورت ہے.بلکہ اگر اربوں ارب روپیہ آجائے تو پھر بھی یہ کام ختم نہیں ہو سکتا.روپیہ ختم ہو سکتا ہے مگر یہ کام ہمیشہ بڑھتا چلا جائے گا.پس کسی وقت جماعت میں اس احساس کا پیدا ہونا کہ اب روپیہ کثرت سے آنا شروع ہو گیا ہے قربانیوں کی کیا ضرورت ہے اب چندے کم کر دیئے جائیں.اس سے زیادہ کسی جماعت کی موت کی اور کوئی علامت نہیں ہو سکتی.یہ ایسا ہی ہے جیسے کوئی شخص اپنی موت کے فتوی پر دستخط کر دے.پس مت سمجھو کہ ان زمینوں اور جائیدادوں وغیرہ کی آمد کے بعد چندے کم ہو جائیں گے.اگر یہ روپیہ ہماری ضروریات کے لیے کافی ہو جائے تب بھی تمہارے اندر ایمان پیدا کرنے کے لیے ، تمہارے اندر اخلاص پیدا کرنے کے لیے، تمہارے اندر زندگی پیدا کرنے کے لیے، تمہارے اندر روحانیت پیدا کرنے کے لیے ضروری ہے کہ تم سے قربانیوں کا مطالبہ کیا جائے اور ہمیشہ اور ہر آن کیا جائے.اگر قربانیوں کا مطالبہ ترک کر دیا جائے تو یہ تم پر ظلم ہو گا، یہ سلسلہ پر ظلم ہو گا، ہے یہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دین پر ظلم ہو گا ، یہ تقویٰ اور ایمان پر ظلم ہو گا.جب میں ہو

Page 248

خطبات محمود 248 $1944 مسلمانوں نے ترقی کی اور کثرت سے اموال آنے شروع ہوئے اُس وقت اگر ایک مسلمان بادشاہ کھڑا ہو کر اسی طرح بھیک مانگتا جس طرح خدا کے دین کے لیے ہم بھیک مانگتے ہیں (ہم بھیک تو نہیں مانگتے دینے والا سمجھتا ہے کہ ہم اس پر احسان کر رہے ہیں اور ہم سمجھتے ہیں کہ خدا نے ہم پر یہ احسان کیا کہ ہمیں ایسے مقام پر کھڑا کیا لیکن بہر حال طریق بھیک مانگنے کا ہی ہے ہے ) تو اس کو بھی یہ خیال رہتا کہ میں نے دین کی خدمت کرنی ہے اور لوگوں کے دلوں میں ہے بھی یہ احساس رہتا کہ وہ اُس وقت تک ترقی کر سکتے ہیں جب تک وہ دین کے لیے اپنے اموال خرچ کرتے رہیں.اگر بادشاہ لوگوں سے دین کے لیے چندے مانگتے تو میں سمجھتا ہوں لوگوں میں یہ احساس ہمیشہ قائم رہتا کہ ہماری سلطنتیں دنیوی سلطنتیں نہیں بلکہ اسلامی کانسٹی ٹیوشنز (CONSTITUTIONS) ہیں.اسلام کے مختلف محکمے ہیں جو قائم کیے گئے ہیں.اور اُن کے ایمان بھی قائم رہتے.مگر افسوس کہ لوگوں نے اس حکمت کو نہ سمجھا اور انہوں نے قربانیوں کا دروازہ بند کر دیا.جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ مسلمانوں کی ترقی معدوم ہو گئی.پس طوعی چندے ہمیشہ قائم رہیں گے اور قائم رہنے چاہئیں.جب یہ چیز ختم ہو جائے گی اُس وقت سمجھ لینا کہ ایمان بھی ختم ہو گیا.یہ چیز چلتی چلی جائے گی اور خواہ سلسلہ کو کس من قدر روپیہ آنا شروع ہو جائے طوعی چندوں کا سلسلہ بند نہیں ہو گا اور نہیں ہو سکتا.پس میں جماعت کو پھر توجہ دلاتا ہوں کہ ہمیں سندھ کی زمینوں کے لیے ایسے کارکنوں کی ضرورت ہے جو مضبوط ہوں، ہمت والے ہوں، باصحت ہوں اور دیانتداری اور محنت کے ساتھ کام کرنے والے ہوں.میں یہ نہیں چاہتا کہ کوئی شخص اپنے آپ کو وقف کرے اور ساتھ ہی یہ کہے کہ میں فلاں قسم کے کام کے لیے اپنے آپ کو وقف کر تا ہوں.جو شخص اپنے آپ کو وقف کرے وہ اس نیت اور اس ارادہ کے ساتھ کرے کہ میں یہ نہیں ہے دیکھوں گا کہ مجھے کہاں مقرر کیا جاتا ہے.میرے سپر د جو کام بھی کیا جائے گا میں اسے کروں گا اور وہی کام کرنا اپنے لیے باعث سعادت تصور کروں گا.اگر ایک شخص کو سلسلہ کی ضروریات کے لیے چوہڑے کے کام پر مقرر کیا جاتا ہے تو وہ ہر گز اس مبلغ سے کم نہیں ہے جو ؟ نیو یارک اور لندن میں تبلیغ کر رہا ہے.آخر سلسلہ کو چوہڑے کی ضرورت ہو گی تو وہ کہاں سے ہے

Page 249

خطبات مج محمود 249 $1944 پوری کی جائے گی.وہ تم میں سے کسی شخص کے ذریعہ پوری کی جائے گی.یا اگر دھوبی کی ضرورت ہو تو سلسلہ اُس ضرورت کو کس طرح پورا کر سکتا ہے.اسی طرح پورا کر سکتا ہے کہ تم میں سے کسی شخص کو دھوبی کے کام پر مقرر کر دیا جائے.اور یقینا اگر کوئی شخص سلسلہ کے لیے دھوبی کا کام کرتا ہے تو وہ ویسا ہی ہے جیسے تبلیغ کرنے والا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک دفعہ ایک جنگ میں تشریف لے گئے اور آپ نے دیکھا کہ مسلمان عورتیں مشکیں بھر بھر کر زخمیوں کو پانی پلا رہی ہیں.جب جنگ ختم ہوئی، غنیمت کے اموال آئے تو آپ نے فرمایا ان عورتوں کو بھی حصہ دو کیونکہ یہ بھی جنگ میں شریک ہوئی ہیں.5 اب دیکھو انہوں نے جنگ میں صرف پانی پلایا تھا مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو ویسا ہی حصہ دیا جیسے میدانِ جنگ میں لڑنے والے سپاہیوں کو دیا.تو یہ ایک خطرناک غلطی ہے جو بعض لوگوں میں پائی جاتی ہے کہ وہ کہتے ہیں ہم وہ کام کریں گے جو ہماری مرضی کے مطابق ہو گا.یہ تمہارا کام نہیں کہ تم فیصلہ کرو کہ تمہیں کس کام پر لگایا جائے.جو شخص تمہارا امام ہے، جس کے ہاتھ میں تم نے اپنا ہاتھ دیا ہے، جس کی اطاعت کا تم نے اقرار کیا ہے، جس کا فرض ہے کہ وہ تمہیں بتائے کہ تمہیں کس کام پر مقرر کیا جاتا ہے تم اس میں دخل نہیں دے سکتے.نہ تمہارا ہے کوئی حق ہے کہ تم اس میں دخل دو.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں الْاِمَامُ جُنَّةٌ يُقَاتَلُ مِن وَرَائِهِ.امام ایک ڈھال کی طرح ہوتا ہے اور لوگوں کا فرض ہوتا ہے کہ اس کے پیچھے ہو کر دشمن سے جنگ کریں.پس جہاں امام تمہیں کھڑا کرتا ہے وہاں تم کھڑے ہو جاؤ.اگر امام تمہیں سونے کا حکم دیتا ہے تو تمہارا فرض ہے تم سو جاؤ.اگر امام تم کو جاگنے کا ہے حکم دیتا ہے تو تمہارا فرض ہے تم جاگ پڑو.اگر امام تم کو اچھا لباس پہننے کا حکم دیتا ہے تو تمہاری ہے نیکی، تمہارا تقوی اور تمہارا زہد یہی ہے کہ اعلیٰ سے اعلیٰ لباس پہنو اور اگر امام تم کو پھٹے پرانے ہیں کپڑے سینے کا حکم دیتا ہے تو تمہاری نیکی، تمہارا تقویٰ اور تمہارا دینی عیش یہی ہے کہ تم پھٹے ہیں پرانے کپڑے پہنو.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دفعہ کشفی حالت میں ایک شخص کے ہاتھ میں کسری کے سونے کے کنگن دیکھے.جب حضرت عمرؓ کا زمانہ آیا اور اسلامی فوجوں کے مقابلہ

Page 250

خطبات محمود 250 $1944 میں کسریٰ کو شکست ہوئی تو غنیمت کے اموال میں کسرای کے سونے کے کنگن بھی آئے.حضرت عمرؓ نے اس شخص کو بلایا اور فرمایا تمہیں یاد ہے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دفعہ تمہیں کہا تھا کہ میں تمہارے ہاتھ میں کسری کے سونے کے کنگن دیکھ رہا ہوں.اس نے عرض کیا ہاں یاد ہے.آپ نے فرمایا تو لو یہ کسری کے سونے کے کنگن اور انہیں اپنے ہاتھوں میں پہنو.اس نے اپنے ہاتھ پیچھے کر لیے اور کہا عمر! آپ مجھے اس بات کا حکم دیتے ہیں می جس سے شریعت نے منع کیا ہے.شریعت کہتی ہے کہ مردوں کے لیے سونا پہنا جائز نہیں اور آپ مجھے یہ حکم دے رہے ہیں کہ میں کسری کے سونے کے کنگن اپنے ہاتھوں میں پہنوں.حضرت عمر جس طبیعت کے تھے وہ سب کو معلوم ہے.آپ اُسی وقت کھڑے ہو گئے کوڑا اپنے ہاتھ میں لے لیا اور فرمایا خدا کی قسم! اگر تم یہ سونے کے کنگن نہیں پہنو گے تو میں ہے کوڑے مار مار کر تمہاری کمر اُدھیڑ دوں گا.محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے جو کچھ کہا تھا وہی میں پورا کروں گا اور تمہارے ہاتھوں میں میں سونے کے کنگن پہنا کر رہوں گا.تو در حقیقت یہی ہے نیکی اور یہی حقیقی ایمان ہے کہ انسان وہی طریق اختیار کرے جس طریق کے اختیار کرنے کا من العام اُسے حکم دے.وہ اگر اسے کھڑا ہونے کے لیے کہے تو کھڑا ہو جائے اور اگر ساری رات ہے بیٹھنے کے لیے کہے تو وہ بیٹھ جائے اور یہی سمجھے کہ میری ساری نیکی یہی ہے کہ میں امام کے حکم کے ماتحت بیٹھار ہوں.پس جماعت میں یہ احساس پیدا ہونا چاہیے کہ نیکی کا معیار یہی ہے کہ امام کی کامل اطاعت کی جائے.امام اگر کسی کو مدرس مقرر کرتا ہے تو اس کی تبلیغ یہی ہے کہ وہ لڑکوں کو عمدگی سے تعلیم دے.امام اگر کسی کو ڈاکٹر مقرر کر کے بھیجتا ہے تو اس کی تبلیغ یہی ہے ہے کہ وہ لوگوں کا عمدگی سے علاج کرے.امام اگر کسی کو زراعت کے لیے بھیج دیتا ہے تو اس کی تبلیغ ہی ہے کہ وہ زمین کی عمدگی سے نگرانی کرے اور امام اگر کسی کو صفائی کے کام پر مقرر کر دیتا ہے تو اس کی تبلیغ یہی ہے کہ وہ عمدگی سے صفائی کرے.وہ بظاہر جھاڑو دیتا نظر آئے گا، وہ بظاہر صفائی کرتا دکھائی دے گا مگر چونکہ اُس نے امام کے حکم کی تعمیل میں ایسا کیا ہو گا اس میں لیے اس کا جھاڑو دینا ثواب میں اس مبلغ سے کم نہیں ہو گا جو دلوں کی صفائی کے لیے بھیجا جاتا ہے.وہ زمین پر جھاڑو دے رہا ہو گا لیکن فرشتے اس کی جگہ تبلیغ کر رہے ہوں گے.کیونکہ

Page 251

خطبات محمود 251 $1944 وہ کہیں گے خص ہے جس نے نظام میں اپنے لیے ایک چھوٹی سے چھوٹی جگہ پسند کرلی یہ وہ اور امام کے حکم کی اطاعت کی.پس ایک نظام کے اندر رہ کر کام کرو اور تمہارا امام جس کام کے لیے تمہیں مقرر کرتا ہے اُس کو کرو کہ تمہارے لیے وہی ثواب کا موجب ہو گا.تمہارے لیے وہی کام تمہاری نجات اور تمہاری ترقی کا باعث ہو گا.میں دیکھتا ہوں کہ اب خدا تعالیٰ تبلیغ کے لئے نئے نئے رستے کھول رہا ہے.ادھر مجھ پر یہ انکشاف ہوا کہ اب کفر پر حملے کا وقت آگیا ہے اور اُدھر چاروں طرف ایسے حالات پیدا ہونے شروع ہو گئے ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا منشاء اب اسلام اور احمدیت کو جلد سے جلد دنیا میں پھیلانے کا ہے.ایک ملک کا میں نے خاص طور پر ذکر کیا تھا کہ وہاں کے ایک ایسے آدمی نے بیعت کرلی ہے جو بہت بڑار سوخ اور اثر رکھنے والا ہے.میں نے مصلحتاً کہہ دیا تھا کہ اس ملک کا نام شائع نہ کیا جائے.اس کے بعد اب افریقہ سے ہمارے مبلغ مولوی نذیر احمد صاحب کی ایک تازہ چٹھی آئی ہے جس میں وہ لکھتے ہیں کہ یہاں عیسائیت کے خلاف اور اسلام کی تائید میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک زبر دست رو چل پڑی ہے.کئی نواب اور رؤساء ہمیں چٹھیاں لکھ رہے ہیں کہ ہمارے پاس جلدی پہنچو اور ہمیں اسلام کی حقیقت بتاؤ.مگر ہم صرف دو آدمی من ہیں ہر جگہ پہنچ نہیں سکتے لیکن لوگوں کا اصرار روز بروز بڑھتا جارہا ہے اور بعض تو ایک لمبے عرصے سے ہمیں بلا رہے ہیں.مگر پھر بھی ہم آدمیوں کی قلت کی وجہ سے اُن تک نہیں پہنچ سکے.انہوں نے لکھا کہ ڈیڑھ سال سے ایک چیف ہمیں خط لکھ رہا تھا کہ جلدی آؤ اور مجھے اسلام کی حقیقت سمجھاؤ مگر ہم نہ جاسکے.اور اب خبر آئی ہے کہ وہ مر گیا ہے اور ہم سمجھتے ہیں کہ اس کی ذمہ داری ہم پر ہے کہ وہ اسلام کی تبلیغ کے لیے ہم کو بلا تار ہا مگر ہم نہ جاسکے.انہوں نے لکھا ہے کہ یہ رو اس تیزی کے ساتھ چل رہی ہے کہ اب ضروری ہے کہ ہندوستان سے 12 مبلغ اس ملک میں روانہ کیے جائیں.بہت سے نواب، رؤساء اور ہزاروں کی تعداد میں عوام اس بات کے منتظر ہیں کہ ہمارے مبلغ ان کے پاس پہنچیں اور انہیں اسلام کی تبلیغ کریں.پس می انہوں نے تبلیغ کے لیے 12 آدمیوں کا مطالبہ کیا ہے.وہ واقفین زندگی جن کو تیار کیا جارہا ہے ان کے متعلق میں بتا چکا ہوں کہ ان کی علمی میدان میں جماعت کا رعب قائم رکھنے کے لیے

Page 252

$1944 252 خطبات محمود ضرورت ہے.پس انہیں اس تعلیم سے فارغ کر کے وہاں تبلیغ کے لیے نہیں بھجوایا جاسکتا.لیکن میں انہیں نصیحت کرتا ہوں کہ وہ اپنی ذمہ داریوں کو سمجھیں اور جلد سے جلد اپنی مکمل کرنے کی کوشش کریں.یہ سوال قطعا سنا نہیں جاسکتا کہ تعلیم کا پانچ یا چھ یا سات گھنٹے وقت ہے.اگر وہ مسلسل چوبیس گھنٹے پڑھ کر بھی اپنی تعلیم کو جلد سے جلد مکمل کر لیتے ہیں تب بھی انہیں سمجھنا چاہیے کہ انہوں نے پوری قربانی ادا نہیں کی.پس اُن سے تو میں یہ کہتا ہوں کہ وہ جلد سے جلد اپنی تعلیم کو مکمل کرنے کی کوشش کریں اور جماعت سے میں یہ کہتا ہوں کہ ان کو اس کام سے چونکہ فارغ نہیں کیا جاسکتا اس لیے ضروری ہے کہ جماعت کے اور نوجوان ہے آگے بڑھیں اور ان اغراض کے لیے اپنے نام پیش کریں.اگر زمیندار گریجوایٹ ہمیں مل جائیں تو انہیں زمینوں کی نگرانی کے لیے بھیجا جا سکتا ہے یا ایسے مضبو ط نوجوان جو زراعت میں ہے گریجوایٹ تو نہ ہوں لیکن تعلیم یافتہ ہوں اور زمیندارہ کام سے دلچسپی رکھتے ہوں وہ بھی اپنے نام پیش کر سکتے ہیں.ان میں سے کسی کو اکاؤنٹنٹ بنادیا جائے گا، کسی کو منشی بنا دیا جائے گا اور ہے کسی کو اور کام سپر د کر دیا جائے گا.مگر یاد رکھو زندگی وقف کرنے کے بعد انسان پیچھے نہیں ہٹ سکتا.صرف مرتد ہو کر ہی وہ واپس لوٹ سکتا ہے.اس کے بغیر اس کے لیے کوئی صورت نہیں ہو گی.یہاں پچھلے دنوں ایک شخص نے غفلت کی.اس نے اپنی زندگی وقف کی ہوئی تھی.می مگر وقف کے بعد اس نے بد عہدی سے کام لیا جس پر میں نے اسے قادیان سے خارج کر دیا اور میں نے کہہ دیا کہ صرف جلسہ سالانہ اور مجلس شوری کے دنوں میں دس دن کے لیے و وہ قادیان آسکتا ہے.ان ایام کے علاوہ اسے قادیان آنے کی اجازت نہیں.یہ بھی در حقیقت اس سے نرمی ہی کی گئی ہے ورنہ اصل سزا یہی تھی کہ اسے جماعت سے خارج کر دیا جاتا.پس ہے جو شخص بھی آئے اُسے سمجھ لینا چاہیے کہ اُس کا رویہ ایسا قربانی والا ہو کہ وہ سمجھ لے اب میں مر کر ہی اس کام سے ہٹوں گا اس کے علاوہ میرے لیے اور کوئی صورت نہیں.جب تک کوئی شخص اس رنگ میں اپنے آپ کو وقف نہیں کرتا اُس وقت تک اس کا وقف اپنے اندر کوئی حقیقت نہیں رکھتا.بہر حال جماعت میں ایسے ہمت والے لوگ

Page 253

خطبات محمود 253 $1944 موجود ہیں اور جبکہ خدا نے یہ کام ہمارے سپرد کیا ہے تو میں یقین رکھتا ہوں کہ سو میں سے ننانوے ایسے ہی لوگ ہوں گے جو اپنی زندگی وقف کرنے کے لیے تیار ہوں گے.پس وہ لوگ اپنے آپ کو پیش کریں جو مضبوط جسم والے ہوں، زمیندارہ کام سے دلچسپی رکھتے ہوں اور محنت اور شوق سے کام کرنے کے لیے تیار ہوں.اس غرض کے لیے اگر ہمیں ایسے گریجوایٹ مل جائیں جنہوں نے زراعت کا امتحان پاس کیا ہو تو ان کو مینیجر اور بعض کو نائب مینیجر بنایا جا سکتا ہے اور جو کم تعلیم یافتہ ہوں ان کو اکاؤنٹنٹ یا منشی و غیر ہ بنایا جا سکتا ہے.بہر حال ایسے لوگوں کی ہمیں ضرورت ہے.کیونکہ یہی وہ سال ہیں جب اجناس کی قیمتیں زیادہ ہیں اور سلسلہ کو مالی لحاظ سے نفع حاصل ہو سکتا ہے.اس طرح ان زمینوں کی آمد سے ایک بھاری ریز رو فنڈ قائم کیا جاسکتا ہے.میرا دل چاہتا تھا کہ ہم اپنی ساری زمینیں آزاد کرالیں مگر ابھی تک ساری زمینوں کو آزاد نہیں کرایا جاسکا.بہت سی آزاد کرالی گئی ہیں.مگر اس میں تین چار لاکھ روپیہ ایسا ہے جو قرض لیا گیا ہے.میر امنشاء ہے کہ نہ صرف ہم اپنی تمام زمینیں آزاد کرالیں بلکہ انہی کی آمد سے چار پانچ سال کے عرصہ میں کم سے کم پچیس لاکھ روپیہ کا ایک اور ریز رو فنڈ قائم کر لیں اور یہ کوئی بڑی بات نہیں.اگر کام کرنے والے محنت سے کام کریں، دیانتداری سے کام کریں، اخلاص سے کام کریں تو پچیس لاکھ روپیہ کا مزید ریز رو فنڈ قائم ہونا کوئی مشکل بات نہیں.پھر اس پچیس لاکھ روپیہ کو نفع پر لگایا جائے تو اس کی آمد سے میں بعض اور کام کیسے جاسکتے ہیں.معمولی تجارت پر بھی اگر اس قدر روپیہ لگا دیا جائے تو پچیس لاکھ پر پچھتر ہزار روپیہ نفع ہو سکتا ہے اور اگر اس روپے کو کسی اعلیٰ کام پر لگایا جائے تو ڈیڑھ لاکھ ہے روپیہ سالانہ آمد ہو سکتی ہے.اس طرح ایک ریز رو فنڈ سے آہستہ آہستہ دوسرا ریز روفنڈ قائم ہو سکتا ہے اور دوسرے ریزرو فنڈ کی آمد سے تیسرا ریز روفنڈ قائم ہو سکتا ہے.یہاں تک کہ دو تین کروڑ بلکہ دو تین ارب تک یہ رقم پہنچ سکتی ہے.پھر پانچ ہزار ہی نہیں پانچ لاکھ مبلغ اگر ہم رکھنا چاہیں گے تو وہ بھی خدا تعالیٰ کے فضل سے رکھ سکیں گے.کیونکہ پانچ ہزار مبلغ کافی نہیں.یہ چونکہ ہمارا کام جماعت کی تربیت کرنا بھی ہے.اس لیے ہمارے مبلغ پانچ لاکھ ہونے چاہیں جن کا ایک حصہ تبلیغ کرے اور دوسرا حصہ تربیت کی طرف توجہ کرے.پس ایک نا

Page 254

خطبات مج محمود 254 $1944 یہ بات ہے جس کی طرف میں جماعت کے دوستوں کو توجہ دلاتا ہوں.دوسرے میں نے بتایا ہے کہ افریقہ سے مطالبہ آیا ہے کہ وہاں بارہ مبلغوں کی ضرورت ہے.یہ مطالبہ بھی ایسا ہے جسے پورا کرنا ہمارے لیے ضروری ہے.خدا تعالیٰ کے لاکھوں بندے جو افریقہ کے مختلف حصوں میں رہتے ہیں اس وقت غلامی میں مبتلا ہیں اور مصلح موعود کے متعلق اللہ تعالیٰ کی جو پیشگوئی ہے اس میں ایک خبر یہ بھی دی گئی ہے کہ وہ اسیروں کی رستگاری کا موجب ہو گا.یہ وہ قومیں ہیں جو حقیقی معنوں میں اسیر ہیں.ہزاروں سال سے ان اقوام کو حکومت نہیں ملی اور دوسروں کی غلامی اور ماتحتی میں ہی اپنی زندگی کے دن گزارتی چلی آرہی ہیں.آج یہ قومیں ہمیں پکار پکار کر کہہ رہی ہیں کہ آؤ اور ہمیں اسلام آؤ اور ہمیں حریت کا سبق دو.خدا نے ہمیں اس کام کے لیے مقرر کیا ہے کہ ہم ان قوموں کو رستگاری بخشیں، ہم ان کی غلامی کی زنجیروں کو کاٹ دیں.اور نہ صرف انہیں ضمیر کی حریت کا دیں بلکہ ان کی جسمانی ذلت اور ظاہری نکبت کو بھی دور کریں.وہ قو میں تعلیم سے عاری ہیں اور ہمارا فرض ہے کہ ہم ان میں تعلیم کا سلسلہ جاری کریں اور ان میں عقل اور شعور پیدا کریں، انہیں تمدن اور تہذیب سے رہنا سکھائیں، ان میں تعظیم پیدا کریں اور پھر دین کی محبت ہے سکھاؤ، اور خدا تعالیٰ کی اطاعت کا مادہ ان میں پیدا کریں.دیکھو! وہ کس قدر قربانی کرنے والی قومیں ہیں.وہ اتنے جاہل اور تعلیم سے نا آشنا ہونے کے باوجود تمام مشنوں کا خرچ خود برداشت کر رہے ہیں.آپ ہی مدر سے چلاتے ہیں، آپ ہی مسجدیں بناتے ہیں، آپ ہی مبلغوں کو مختلف علاقوں میں مقرر کرتے اور ان کے گزارہ کا بندوبست کرتے ہیں.ابھی اُن کی تعلیم ایسی نہیں کہ وہ اعلیٰ درجہ کے مبلغ پیدا کر سکیں جو تعلیم یافتہ لوگوں کو مذہب کے متعلق اطمینان ولا سکیں.لیکن بہر حال وہ بڑے اخلاص سے تمام کام کر رہے اور اپنے اخراجات خود بر داشت مو کر رہے ہیں.اس علاقہ میں کام کرنے کے لیے کچھ عربی اور کچھ انگریزی کا جاننا ضروری ہے.ان کو تین چار مہینہ کی ٹریننگ دے کر اس ملک میں تبلیغ کے لیے بھجوا دیا جائے گا.وہاں انگریزی میں تبلیغ کرنی ضروری ہوتی ہے.گو اعلیٰ درجہ کی انگریزی نہ آئے مگر ٹوٹی پھوٹی انگریزی ضرور آنی چاہیے.اسی طرح کسی قدر عربی کا آنا ضروری ہوتا ہے

Page 255

خطبات محمود 255 $1944 تاکہ اسلامی مسائل ان کو سمجھائے جاسکیں.پس وہ لوگ جن کو کچھ کچھ عربی اور کچھ کچھ انگریزی آتی ہو وہ اس غرض کے لیے اپنے نام پیش کریں تاکہ ان کو فوراً افریقہ میں بھجوایا جاسکے.دیکھو وہ لوگ خرچ بھی کس قدر کفایت سے کرتے ہیں.ہمارے مبلغ نے لکھا ہے کہ یہاں چالیس روپیہ میں ایک شخص کا گزارہ ہو جاتا ہے اور لکھا ہے کہ اگر چھ مہینے تک جماعت ان 12 مبلغین کا خرچ برداشت کرے تو اس کے بعد مقامی جماعتیں خود اس بوجھ کو اٹھا لیں گی.میں خدا تعالیٰ کے فضل سے چھ مہینے نہیں سال بلکہ دو سال تک بھی ان کے گزارہ کا انتظام کر سکتا ہوں.اس کے بعد وہاں کی جماعتیں ان کے اخراجات کا بوجھ خود برداشت کر سکتی ہیں.بہر حال افریقہ کے ہزاروں لوگ ہمیں پکار رہے ہیں کہ ہم اسلام کی تبلیغ کے لیے اُن کے پاس پہنچیں.سیرالیون جس کا صدر مقام فری ٹاؤن ہے ایک نہایت ہی اہم مقام ہے.اگر اسلام می وہاں سُرعت کے ساتھ پھیل جائے تو تمام افریقہ پر اس کا اثر ہو سکتا ہے.اسی طرح گولڈ کوسٹ اور نائیجیریا میں اسلام پھیل جائے تو قریباً تمام مغربی افریقہ فتح ہو جاتا ہے.وہاں کی مینی ساری آبادی ایک کروڑ ہے اور یہ ایک کروڑ افراد اگر خدا چاہے تو چند سالوں میں ہی احمدی ہو سکتے ہیں اور یہ اتنی بڑی تعداد ہے جو ہماری موجودہ حالت کے لحاظ سے ایک غیر معمولی تعداد ہوگی.پس میں آج کے خطبہ میں جماعت کے دوستوں کے سامنے یہ دو تحریکیں پیش کرتا ہوں.میں زیادہ تر وقف زندگی کی تحریک کرنے کے لیے ہی آیا تھا اور یہی وہ امر تھا جس کے لیے میں بیماری کی حالت میں اٹھ کر چلا آیا.میں کہہ نہیں سکتا کہ اس وقت مجھے بخار - مار ہے یا نہیں.کیونکہ بولنے کی وجہ سے مجھے اس کی جس نہیں رہی.لیکن منہ کا ذائقہ خراب ہے جس سے میں سمجھتا ہوں کہ شاید بخار ہو.اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہماری جماعت کے افراد کو ایسی توفیق عطا فرمائے کہ وہ اخلاص کے ساتھ اپنی ذمہ داریوں کو ادا کریں اور ان میں یہ احساس پیدا ہو جائے کہ زندگی وہی ہے جو دین کے لیے قربان ہو جائے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دفعہ صحابہ سے پو چھا کہ تم کو و و مال پسند ہے جو تمہارے کسی رشتہ دار کے ہاتھ میں ہو یا تم کو وہ مال پسند ہے جو تمہارے اپنے ہاتھ میں ہو ؟ صحابہ نے عرض کیا یارسول اللہ ! کون ہے

Page 256

$1944 256 خطبات محمود ایسا شخص ہو سکتا ہے جو اس بات کو پسند نہ کرے کہ مال اس کے اپنے ہاتھ میں ہو.ہر شخص یہی چاہتا ہے کہ اُس کا مال اُس کے قبضہ میں ہو.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تو پھر سُن لو.وہ مال جو تم خدا کے لیے خرچ کرتے ہو وہ تمہارا ہے اور وہ مال جو تم خدا کے لیے خرچ نہیں کرتے وہ تمہارے رشتہ داروں کا ہے.تم مر جاؤ گے تو تمہارے رشتہ دار آئیں گے اور اُس مال پر قبضہ کر کے لے جائیں گے 8 پس یاد رکھوا وہ زندگی جو تم خدا کے لیے خرچ کرتے ہو وہی تمہاری زندگی ہے.لیکن وہ زندگی جو تم اپنے نفس کے لیے خرچ کرتے ہو وہ ضائع چلی گئی.جو شخص خدا کے لیے اپنی زندگی قربان کرتا ہے وہ چاہے کتنی ہی گمنامی کی زندگی بسر کرے، چاہے دنیا میں اُسے کوئی شخص نہ جانتا ہو آسمان پر خدا اس کو قدر کی نگاہ سے دیکھتا اور اُس کو اپنے قرب میں عزت و احترام کی جگہ دیتا ہے.پس مت خیال کرو کہ دین کے لیے اپنی تم زندگی قربان کر نازندگی کو ضائع کرتا ہے.یہ زندگی کو ضائع کرنا نہیں بلکہ اسے ایک قیمتی اور ہمیشہ کے لیے قائم رہنے والی چیز بنانا ہے.صحابہ کو دیکھو.انہوں نے اپنی زندگیاں دین کے لیے قربان کر دیں.مگر پھر ایک ا رض ایسا وقت آیا جب اسلام یورپ سے لے کر ایشیا تک پھیل گیا.اس وقت امراء ہی نہیں اسلام می کے علماء بھی کروڑ پتی بن چکے تھے.مگر پھر انہی امراء اور انہی علماء نے مل کر ایک ایک صحابی کا نہ لگایا اور اس کے حالات کو کتابوں میں ہمیشہ کے لیے محفوظ کر دیا.یہاں تک کہ وہ عورت جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں آپ کی مسجد میں جھاڑو دیا کرتی تھی اُس کا بھی انہوں نے پتہ لگایا اور اس کے حالات زندگی انہوں نے کتابوں میں درج کر دیئے.کیا تم سمجھتے ہے ہو اگر وہ عورت مدینہ کی بڑی بھاری تاجر ہوتی اور محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صحابیت کا شرف اسے حاصل نہ ہو تا تو یہ عزت اسے حاصل ہو سکتی ؟ اگر وہ کروڑ پتی ہوتی تب بھی کوئی ہے شخص اُس کے حالات سے دلچسپی نہ رکھتا اور آج کسی کو معلوم تک نہ ہوتا کہ مدینہ میں کوئی ہے کروڑ پتی عورت تھی.لیکن تیرہ سو سال کے بعد آج بھی اس جھاڑو دینے والی عورت کے حالات ہمیں کتابوں میں نظر آرہے ہیں.جب وہ مر گئی تو ایک دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اُس کا حال لوگوں سے پوچھا.انہوں نے جواب دیا یارسول اللہ ! فلاں؟ وہ عورت تو ہے

Page 257

$1944 257 محمود مرگئی اور ہم نے اُسے دفن کر دیا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تم نے مجھے کیوں نہ بتایا؟ تمہیں چاہیے تھا کہ تم مجھے بتاتے تاکہ میں اس کے جنازہ میں شریک ہو سکتا.2 تو وہ لوگ جو دین کی خدمت کرتے ہیں دنیا میں ہمیشہ کے لیے ان کی عزتیں قائم کر دی جاتی ہیں.بے شک یہ کہنا کہ مجھے عزت ملنی چاہیے شرم کی بات ہے.مومن ایسا مطالبہ نہیں کیا کرتا.لیکن اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کی عزت دنیا میں ضرور قائم کی جاتی ہے.مومن کی ہے حالت تو یہ ہوتی ہے کہ شبلی سے کسی نے پوچھا آپ اپنی عاقبت کے متعلق اللہ تعالیٰ سے کیا امید امین رکھتے ہیں؟ انہوں نے کہا میں تو خدا سے یہی کہوں گا کہ خدایا! تُو بے شک مجھے دوزخ میں ڈال دے مگر مجھ سے راضی ہو جا.حضرت جنید کہنے لگے.شبلی ابھی بچہ ہے.اگر خدا مجھے کہے کہ جنید! تم کیا چاہتے ہو ؟ تو میں اُسے یہ کہوں کہ خدایا جس میں تیری رضا ہے.اگر تو جنت میں لے جانا ہے چاہتا ہے تو جنت میں لے جا اور اگر تو دوزخ میں داخل کرنا چاہتا ہے تو دوزخ میں داخل کر دے.10 اب دیکھو دوزخ کا خیال کر کے بھی انسان کانپ اٹھتا ہے اور ایک منٹ کے لیے بھی دوزخ کے عذاب کو برداشت نہیں کر سکتا.لیکن اللہ تعالیٰ کے بزرگ بندے بڑی بڑی قربانیاں کرنے کے بعد بھی یہی کہتے ہیں کہ خدایا! اگر تو اسی طرح راضی ہونا چاہتا ہے تو بے شک دوزخ میں ڈال دے.حالانکہ دوزخ وہ چیز ہے جس کا خیال کر کے بھی انسان کانپ جاتا ہے.تو دنیا کا دوزخ کچھ چیز نہیں اور کوئی قربانی ایسی نہیں جس کا کرنا خدا اور اس کے دین کے لیے ایک مومن انسان کے لیے دو بھر ہو.ایک بزرگ تھے.اُن سے ایک دفعہ کسی علاقہ کے پانچ سو آدمی ملنے کے لیے گئے.ج زیارت کر چکے تو انہوں نے خواہش ظاہر کی کہ آپ ہمیں کوئی ہدایت دیں تاکہ ہم اس پر عمل کریں.وہ بزرگ کھڑے ہوئے اور انہوں نے کہا میں نے سنا ہے ہندوستان میں ابھی اسلام پورے طور پر نہیں پھیلا اور وہ لوگ اس بات کے لیے بیتاب ہیں کہ مسلمان آئیں اور انہیں اپنے لیے مذہب کی تعلیم سے آگاہ کریں.میری خواہش ہے کہ آپ لوگ ہندوستان چلے جائیں اور وہاں اسلام کی تبلیغ کریں.وہ پانچ سو آدمی اس وقت وہاں سے اٹھے اور ہندوستان کی طرف روانہ ہو گئے.وہ اپنے گھر بھی نہیں گئے اور سیدھے ہندوستان میں تبلیغ کرنے کے لیے چل کھڑے ہوئے.یہی وہ قربانیاں تھیں جن کی وجہ سے آج ہمیں اپنے اندر اسلام نظر آرہا ہے.اگر ہمارے باپ داداست می

Page 258

$1944 258 خطبات محمود ہوتے اور وہ اسلام کی تبلیغ کے لیے بڑی سے بڑی قربانیاں دلیری سے کرنے کے لیے تیار نہ رہتے تو کبھی اسلام ہم تک نہ پہنچتا.انہوں نے قربانی کی اور ہم تک اسلام پہنچا.اب ہم قربانی کریں گے تو باقی دنیا تک اسلام پہنچ جائے گا.پس یہ ہمارا کام ہے اور ہمارا فرض ہے کہ ہم اس کام کو کریں اور چونکہ یہ کام در حقیقت خدا کا ہی ہے اس لیے ہم امید رکھتے ہیں کہ خدا ہمیں توفیق دے گا کہ ہم ایسا کریں.قادیان کے دوستوں کو اس خطبہ کے ذریعہ یہ تحریک پہنچ گئی ہے اور باہر کے دوستوں کو جب یہ خطبہ اخبار میں شائع ہو گا تو پہنچ جائے گی.میں جماعت کے دوستوں کو توجہ دلا تا ہوں کہ وہ جلد سے جلد ان تحریکوں کے لیے اپنے نام پیش کریں اور اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے وارث ہوں.اے خدا! جب تو نے مجھے اس کام پر مقرر کیا ہے تو میرے الفاظ میں برکت بھی دے اور میرے ہر کام کے لیے اپنی وحی کے ساتھ آدمی بھیجوا اور پھر ان کی دنیا اور عاقبت کا (الفضل 17 اپریل 1944ء) محافظ ہو جا.امین".1 : تذکرہ صفحہ 10 ایڈیشن چہارم 2 : الاحزاب: 47 3 : تذکرہ صفحہ 178،177.ایڈیشن چہارم 4 : الفضل 24 جنوری 1935 ء خطبہ فرمودہ 11 جنوری 1935ء 5 : ابوداؤد كتاب الجهاد باب فى المرأة والعبد يحذيان في الغنيمة 6 : بخارى كتاب الجهاد باب يُقَاتَلُ مِنْ وَرَاءِ الْإِمَامِ وَيُتَّقَى 1 : اسد الغابہ ذکر سراقة بن مالك الجزء الثانى صفحہ 281 دار المعرفۃ بیروت لبنان 7 8 9 2001ء (مفہوما) : سنن نسائی کتاب الوصايا باب الكراهية في تاخير الوصية : بخاری کتاب الصلوة باب كَنْسِ الْمَسجِدِ وَالْتِقَاطِ الْخِرَقِ وَالقَذى وَالْعِيْدان 10: تذكرة الاولیاء حضرت شیخ فرید الدین عطار (اردو ترجمہ) صفحہ 225 ذكر حضرت جنید بغدادی تعلیمی پریس کشمیری بازار لاہور

Page 259

$1944 259 --------- 13 خطبات محمود اشاعت دین کے لیے اموال اور زندگیاں وقف کرنے کا مطالبہ (فرموده 7 / اپریل 1944ء) تشہد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: "دنیا میں فوجیں حکومت کی طرف سے بھیجی جاتی ہیں ایک معین کام کے لیے اور ایک معین مقصود کے لیے.حملہ آور فوجوں کے افسروں سے کہہ دیا جاتا ہے کہ فلاں قلعہ پر تم نے قبضہ کرنا ہے یا فلاں خندق پر قبضہ کرنا ہے یا فلاں شہر کو لینا ہے یا فلاں پہاڑی یا فلاں گھاٹ پر تم نے جھنڈا گاڑنا ہے.یہ آگے ان کی قسمت ہوتی ہے یا ان کی جد وجہد اور کوشش ہوتی ہے کہ وہ اس کام میں تین باتوں میں سے ایک کو حاصل کر لیتے ہیں.یا اس جگہ کو فتح کر لیتے ہیں یا فتح کرنے کی کوشش میں مارے جاتے ہیں یا شکست کھا کر بھاگ جاتے ہیں.مگر بہر حال ان کے سامنے ایک مقصد ہوتا ہے، ایک معین مقصد یا ایک محدود غایت اور منزل.یا پھر قلعوں میں فوجیں بند ہوتی ہیں، چاروں طرف سے ان کا محاصرہ دشمن نے کیا ہوتا ہے ، اُن کے افسروں کا حکم ان کو ملتا ہے کہ تم نے یہ محاصرہ توڑ کر باہر نکلنا ہے.اس جدوجہد میں بھی تین صورتیں ان

Page 260

$1944 260 خطبات محمود ر کے سامنے ہوتی ہیں.اُن کی قسمت یا بد قسمتی یا کوشش اور سستی ان کو ان میں سے کسی ایک جگہ پر پہنچا دیتی ہے اور ان کے ذہنوں میں یہ تینوں صورتیں مستحضر ہوتی ہیں.یا وہ محاصرہ کرنے والی فوج کو کاٹ کر باہر نکل جاتی ہیں یا باہر نکلنے کی کوشش میں ماری جاتی ہیں یا ہمت ہار کر ہتھیار ڈال دیتی ہیں.مگر وائے قسمت اُس فوج کی جس کو ایسے حملہ کے لیے مقرر کیا گیا ہے جس کی کوئی تعیین نہیں، کوئی حد بندی نہیں.وہ نہیں جانتی کہ کس مقام پر اُس نے حملہ کرنا ہے.اور در حقیقت وہ اس کو جان سکتی ہی نہیں کیونکہ جن قلعوں پر حملہ کرنا اس کے سپر د کیا گیا ہے وہ زمین دوز ہیں.باہر ان کا کوئی نشان نہیں.بلکہ وہ انسانوں کے دلوں اور دماغوں میں ہیں.اس کو ان اندرونی سر نگوں کا کوئی علم نہیں جو مستقبل زمانہ کے لیے اندر ہی اندر کھو دی گئی ہیں.ہر زمانہ کا ایک خیال اور ہر زمانہ کی ایک قوم ہوتی ہے.بھی چین کے لیے آگے بڑھنا می مقدر ہوتا ہے اور کبھی جاپان کے لیے، کبھی عرب کے لیے آگے بڑھنا مقدر ہوتا ہے اور کبھی فلسطین کے لیے، کبھی مصر اور شام کے لیے مقدر ہوتا ہے، کبھی مغرب کے لیے آگے بڑھنا مقدر ہوتا ہے اور کبھی مشرق کے لیے مقدر ہوتا ہے اور وہی قوم مستقبل میں کامیابی کا منہ دیکھتی ہے جو اس قوم کو جس کے لیے آئندہ زمانہ میں آگے بڑھنا مقدر ہے اپنے ساتھ ملا لیتی ہے ہے.جب دنیا میں انبیاء صرف ایک ہی قوم کی طرف آیا کرتے تھے اُن کا کام آسان ہو تا تھا.وہ جانتے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے انہی کی قوم کو بڑھانے کا فیصلہ کیا ہے.مگر جب اللہ تعالیٰ نے ایک ہی منہ سے ساری دنیا کو مخاطب کرنا شروع کیا تب سے یہ بات مشتبہ ہو گئی کہ کونسی قوم ہے جس کا آگے بڑھنا مقدر ہے اور اس وجہ سے روحانی جماعتوں کا کام نہایت ہی مشکل ہو گیا.پھر رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ میں یہ آسانی تھی کہ اُس زمانہ میں شریعت کے قیام کا سوال تھا اور شریعت لانے والے انبیاء کی زندگی میں ہی حکومت مل جایا کرتی ہے.ایک من قوم تھی جسے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سکھایا پڑھایا اور پھر اسی کے ہاتھ میں حکومت آگئی اور اس نے اسلام کو پھیلایا.مگر جو کام ہمارے سپر د ہے وہ بہت ہی مشکل ہے.ہمیں کوئی علم نہیں کہ کونسی قوم ہے جس کا بڑھنا اس زمانہ کے لیے اللہ تعالی نے مقدر کیا ہے.احمدیت کا ہے چھینٹا تو اللہ تعالیٰ نے ساری دنیا میں دے دیا ہے.کوئی یہاں کوئی وہاں، کوئی اس ملک سے

Page 261

خطبات محمود 261 $1944 کوئی اُس ملک سے، کوئی اِس مذہب سے کوئی اُس مذہب سے احمدیت کو قبول کرتا جارہا ہے.مگر کوئی معین صورت ہمارے سامنے نہیں جس سے مستقبل کا اندازہ کیا جاسکے.یہی وجہ ہے کہ تحریک جدید کے شروع میں میں نے کہا تھا کہ مکہ کا تو ہمیں علم ہو گیا اب ہمیں احمدیت کے مدینہ کی تلاش کرنا ہے.نادانوں نے میرے کلام کی عظمت کو نہ سمجھتے ہوئے شور مچادیا اور کہا آؤ تمہیں بتا دیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام لاہور میں فوت ہوئے تھے اس لیے احمدیت کا مدینہ لاہور ہے.ان کے نزدیک مدینہ کی عظمت صرف اسی میں ہے کہ وہاں رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فوت ہوئے.حالانکہ یہ بات صحیح نہیں.مدینہ کی اصلی عظمت اس میں ہے کہ اس نے دین کو لیا اور پھر تلواروں کے سایہ کے نیچے ساری دنیا میں پھیلا دیا.تو جب میں نے مدینہ کہا تھا تو اس کے معنے یہ تھے کہ دنیا میں آئندہ چلنے والی رو کا پتہ لگایا جائے اور معلوم کیا جائے کہ اِس زمانہ میں کس قوم کے لیے بڑھنا مقدر ہے اور دیکھا جائے کہ وہ مدینہ سر زمین ہند ہے یا کوئی اور ملک.جس نے اس زمانہ میں نقطہ مرکز یہ بننا ہے، جس نے احمدیت کے لشکر کو سمیٹنا اور پھر اسے آگے بڑھانا ہے اللہ تعالیٰ ی جانتا ہے کہ کسے یہ فخر حاصل ہو گا.بظاہر اللہ تعالیٰ نے اس ملک کو چنا ہے اس لیے پہلا حق ہے ہمارا ہے.لیکن اگر ہم خود ستی سے پلوٹھے ہونے کا حق کھو دیں تو یہ ہماری بد قسمتی ہوگی.جہاں تک اسلام کی ترقی کا سوال ہے.بلحاظ اس کے کہ سب انسان بھائی بھائی ہیں ہمیں کوئی ہے شکوہ نہیں کہ احمدیت کا جھنڈا دنیا کی بلندیوں پر ، خواہ کوئی قوم گاڑ دے.مگر جہاں تک دینی من جد و جہد کا سوال ہے اس بارہ میں باہم رشک کرنا جائز ہے.اس لیے ہم اگر یہ رشک کریں کہ جس طرح اللہ تعالیٰ نے ہمارے ملک کو مکہ بننے کے لیے چنا ہے مدینہ بھی یہی ہو اور اسلام و احمدیت کی فتوحات ہمارے ذریعہ سے ہوں.اور یہ کوئی بُری بات نہیں.ایسا خیال اور ایسی خواہش رکھتے ہوئے ہم اپنے چینی بھائیوں سے غداری نہیں کریں گے، جاپانیوں، روسیوں، فرانسیسیوں سے غداری نہیں کریں گے ، سپینش بھائیوں سے غداری نہیں کریں گے کیونکہ یہ دین کی خدمت کا سوال ہے اور اس میں رقابت جائز ہے.اسی طرح ان اقوام کے دل میں بھی یہی خواہش ہو کہ وہ بغیر کسی پر ظلم کیے اور کسی کو پیچھے بنائے احمدیت کا جھنڈا دنیا میں ہے

Page 262

خطبات محمود 262 $1944 گاڑنے والی ہوں تو ہمیں شکایت کا کوئی حق نہیں.کیونکہ خدا تعالیٰ کے قرب کے سوال میں بھائی بھائی کا مقابلہ کرنے اور اُس سے آگے بڑھنے میں حق بجانب ہوتا ہے.جب محبوب کے پاس جانے کا سوال ہو تو ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کا خیال اور اس کی خواہش ناجائز نہیں ہوتی.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک پیشگوئی میں اجتہادی غلطی کے ماتحت اس ارادہ کے ساتھ مکہ کی طرف گئے کہ عمرہ کریں گے.جب مکہ والوں کو علم ہو ا تو انہوں نے آپ کو روکنے کے لیے مختلف تدابیر اختیار کیں.آخر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو سمجھانے اور یہ بتانے کے لیے کہ ہم محض عمرہ کے لیے آئے ہیں لڑنے اور اپنی فوقیت جتانے کے لیے نہیں آئے اور اس میں تمہارا کیا حرج ہے کہ ہم عمرہ کر لیں ایک سفیر اہل مکہ کی طرف بھیجنا چاہا.اس کے لیے مختلف صحابہ کے نام تجویز ہوئے.مگر سب کی رائے یہی تھی کہ حضرت عثمان اس میں کام کے لیے موزوں ترین ہیں.ان کے خاندان کا رسوخ بھی زیادہ ہے.تب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عثمان کو اس سفارت پر جانے کا حکم دیا.حضرت عثمان گئے اور میں مکہ والوں سے بات چیت شروع کی.مکہ والوں نے کہا کہ اگر مسلمان عمرہ کر جائیں تو یہ ہماری ہتک ہے.لوگ کہیں گے کہ مسلمانوں نے تلوار کے زور سے عمرہ کیا ہے.حضرت عثمان نے ان کو سمجھایا کہ اس میں تلوار کا کوئی سوال نہیں.یہ تو خدا تعالیٰ کی عبادت کا سوال ہے اور ہم عبادت کے لیے آئے ہیں اور ہم یہ نہ کہیں گے کہ ہم نے زور سے عمرہ کیا بلکہ کہیں گے کہ مکہ والوں کا احسان ہے.مگر انہوں نے کہا کہ یہ ہر گز نہ ہو گا.بحث ہوتی رہی اور ہوتی رہی.یہاں تک کہ دیر ہو گئی اور شام کا وقت ہو گیا.ادھر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ حضرت عثمان کی واپسی کے منتظر تھے.جب ان کے واپس آنے میں اتنی دیر ہو گئی تو آپ نے میچ خیال کیا کہ شاید مکہ والوں نے، جو اخلاق کے تمام ضابطوں کو توڑ چکے ہیں عثمان کو شہید کر دیا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا دل اس بات کے لیے بڑا حساس تھا کہ جسے آپ کوئی کام سپرد کریں اسے کوئی تکلیف نہ پہنچے.اپنی اس ذمہ واری کو سمجھتے ہوئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اتنا صدمہ ہوا کہ آپ ایک درخت کے نیچے بیٹھے تھے جو صحابہ آپ کے گرد بیٹھے تھے مے ان سے آپ نے فرمایا کیا آج تم میرے ہاتھ پر ایک بیعت کے لیے تیار ہو ؟ آؤ میں اور تم میں ย

Page 263

خطبات محمود 263 $1944 آج ایک اقرار کریں.صحابہ نے عرض کیا یارسول اللہ ! ہم اس کے لیے تیار ہیں.آپ نے فرمایا اگر مکہ سے یہ خبر آئی کہ اہل مکہ نے عثمان کو شہید کر دیا ہے تو میں اور تم یہ اقرار کریں کہ اب اس جگہ سے زندہ واپس نہ جائیں گے بغیر اس کے کہ یا تو دشمن کو شکست دے کر آئندہ کے لیے رستہ صاف کر لیں یا پھر یہیں مارے جائیں گے.کیا تم اس پر راضی ہو ؟ صحابہ نے کہا یارسول اللہ ! بڑی خوشی سے راضی ہیں.آپ نے فرمایا پھر آؤ بیعت کرو 1 آپ کے ارد گرد چند صحابہ اُس وقت بیٹھے تھے باقی ادھر اُدھر تھے.کسی نے بلند آواز سے اُن کو بھی اطلاع دی اور جس جس کے کان میں یہ آواز پڑتی گئی وہ دوڑتا چلا آتا تھا اور بیعت ہے کا اس قدر زور تھا کہ صحابہ کہتے ہیں ہماری کیفیت یہ تھی کہ اگر خدا تعالیٰ کا خوف نہ ہوتا تو تلوار سے ایک دوسرے کی گردن کاٹ کر بھی پہلے بیعت کرتے.حضرت عبد اللہ بن عمر اس مجلس : میں موجود تھے.انہوں نے دور دور تک نگاہ کی اور دیکھا کہ ان کے والد حضرت عمر وہاں نہ تھے.ان کی بیٹا ہونے کی عصبیت ذاتی جوش پر غالب آگئی اور وہ دوڑ پڑے تا اپنے والد کو تلاش کر کے لائیں.آخر حضرت عمران کو ایک جگہ مل گئے اور وہ ان کو لے آئے اور سب نے بیعت کی.وقت گزر گیا اور معلوم ہوا کہ حضرت عثمان کی شہادت کا خیال صحیح نہ تھا.انہیں گفتگو میں دیر ہو گئی تھی.اہل مکہ نے حضرت عثمان سے کہا کہ آپ آئے ہوئے ہیں آپ چاہیں تو عمرہ کر لیں.مگر آپ نے کہا کہ وہ عمرہ جس سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو روکا گیا ہے میرے لیے حرام ہے.وہ وقت گزر گیا مگر اس بیعت کو صحابہ اپنے عظیم الشان کارناموں میں شمار کرتے تھے اور فخر کے ساتھ اس کا ذکر کیا کرتے تھے.کوئی کہتا میں نے پہلے بیعت کی اور کوئی کہتا ہے فلاں کے بعد میں نے کی.کسی مجلس میں ایک دفعہ اسی طرح ذکر ہو رہا تھا.حضرت عبد اللہ بن عمرؓ بھی اس مجلس میں تھے اور حضرت عمرؓ بھی.حضرت عبد اللہ نے کہا کہ میں سب سے پہلے بیعت کر سکتا تھا مگر میں نے دیکھا کہ میرے والد اس مجلس میں نہ تھے.میں نے خیال کیا کہ وہ ثواب سے محروم نہ رہ جائیں اور اُن کی تلاش میں چلا گیا اور اس طرح مجھے دیر ہو گئی.جب می حضرت عمر نے یہ بات سنی تو کہا خدا کی قسم ! اگر میں تمہاری جگہ ہوتا تو پہلے خود بیعت کرتا اور یہ تمہاری تلاش کے لیے نہ جاتا.تو بات یہی ہے کہ دینی امور میں خدا تعالیٰ کی قربت کا سوال

Page 264

$1944 264 خطبات محمود ہوتا ہے اس لیے قریبی سے قریبی اور عزیز سے عزیز سے بھی آگے بڑھنے کی کوشش کرنا ہے ناجائز نہیں.ناپسندیدہ اور قابلِ اعتراض بات نہیں.کوئی عورت نماز میں کمی نہیں کرتی اس خیال سے کہ اپنے خاوند سے ثواب میں آگے نہ بڑھ جائے اور کوئی خاوند اللہ تعالی کی عبادت میں اس لیے کو تاہی نہیں کرتا کہ اس کی بیوی پیچھے نہ رہ جائے.کوئی بھائی بھائی اور کوئی باپ بیٹے اور کوئی بیٹا باپ سے آگے بڑھ جانے کے خوف سے نیکیوں میں کمی نہیں کرتا.بلکہ ہر شخص آگے بڑھنے کی کوشش کرتا ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عبد اللہ بن مسعود روایت کرتے ہیں کہ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا حَسَدَ إِلَّا فِي اثْنَتَيْنِ رَجُلٌ أَتَاهُ اللَّهُ مَالًا فَسُلِّطَ عَلَى هَلَكَتِهِ فِي الْحَقِّ وَرَجُلٌ أَتَاهُ اللهُ الْحِكْمَةَ فَهُوَ يَقْضِي بِهَا وَيُعَلِّمُهَا 2 یعنی فرمایا اللہ تعالیٰ کے نبی نے کہ دو باتیں ہیں جن میں حسد کرنا جائز ہے.ان کے سوا کسی میں جائز نہیں.ان دو میں بے شک باپ بیٹے سے اور بیٹا باپ سے، بھائی بھائی سے حسد کر سکتا ہے.کیونکہ یہ باتیں روحانیت سے تعلق رکھتی ہیں.وہ دو کیا ہیں؟ ایک یہ کہ ایسے آدمی کی حالت کے متعلق کہ اللہ تعالیٰ نے اُسے مال دیا اور اُسے اپنا مال اللہ تعالیٰ کے رستہ میں ہلاک کرنے کی توفیق دی گئی.اگر اس بات میں کوئی دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرے تو یہ بالکل جائز ہے.دوسرے اس موقع پر جائز ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کسی کو علم ، حکمت اور نفقہ عطا کیا ہے ہو اور وہ اسے دنیا میں نافذ کرتا اور لوگوں کو دین سکھاتا ہے.یہی وہ دو چیزیں ہیں جن کا میں گزشتہ دو خطبوں میں جماعت سے مطالبہ کر چکا ہوں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی میری اس تحریک کی تصدیق فرماتے ہیں.میں نے مطالبہ کیا ہے کہ ایسے لوگ سامنے آئیں جو اپنے مال دین کے لیے وقف کریں اور ایسے نوجوان آگے آئیں جو دین کی اشاعت کے لیے اپنی زندگیاں وقف کریں.تا انہیں علم سکھا کر دین کے کاموں پر لگایا جائے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ یہ دو باتیں ایسی ہیں جن میں حسد جائز ہے.خدا تعالی یہ کسی سے ہر گز نہیں پوچھے گا کہ میں نے تجھے مال دیا تھا جو تو خدا کی راہ میں خرچ کرنے لگا تھا کہ تیرے ماں باپ یا بیوی بچوں یا دوسرے رشتہ داروں نے ایسا کرنے سے تجھے روکا تو توڑ کا کیوں نہیں؟ یادین کو چند مخلص خدام کی ضرورت تھی تیرے دل میں خیال آیا کہ اپنی زندگی وقف کر دوں مگر تیرے ہیں

Page 265

خطبات محمود 265 $1944 ماں باپ اس کے خلاف تھے ، وہ تجھے روکنا چاہتے تھے تو توڑ کا کیوں نہیں.خدا تعالیٰ یہ سوال کسی سے نہ کرے گا.بلکہ کہے گا کہ اے شخص! میں نے تجھے مال دیا تھا تو نے اسے خدا تعالیٰ کی راہ میں قربان کرنے کا ارادہ کیا مگر تیرے ماں باپ یا بیوی بچوں نے اسے روکا اور تیرے رستے میں کھڑے ہو گئے.پھر بھی توڑ کا نہیں بلکہ میری راہ میں دے دیا.اب میری جنت تیر امال ہے.جا اور اس پر قبضہ کرلے.وہ یہ نہیں کہے گا کہ دین کے لیے زندگی وقف کرنے کے لیے تجھ.مطالبہ کیا گیا.جب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دین پر آفت آئی ہوئی تھی، اسلام مددگاروں کے لیے چلا رہا تھا تو نے خیال کیا کہ اپنی زندگی اسلام کے لیے وقف کر دے.مگر تیرے ماں باپ اور بیوی بچے اس کے مخالف تھے اور کہتے تھے کہ کیوں زندگی کو ضائع کرنے لگا ہے.تیرے ماں باپ جن کے احترام کا میں نے حکم دیا ہے، تیری بیوی جس کے ساتھ حُسنِ سلوک کا میں نے حکم دیا ہے تجھے روکتے تھے مگر تو پھر بھی نہ رُکا.تو نے ایسا کیوں کیا اور کیوں ان کی بات نہ مانی.بلکہ اس کے بر خلاف اللہ تعالیٰ ایسے شخص سے یہ کہے گا کہ جس وقت اسلام مصیبت میں تھا، جب محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کی روح مدد کے لیے پکار رہی تھی تو آگے بڑھا کہ اسلام کی خدمت کرے.اس وقت تیرے ماں باپ جنہوں نے تجھے پالا تھا تی اور پڑھایا تھا انہوں نے اپنی ان خدمتوں کا واسطہ دے کر تجھے روکنا چاہا مگر پھر بھی تو نہ رُکا.اے شخص تو نے میری خاطر ماں باپ کو چھوڑ دیا، بیوی بچوں کی کوئی پروا نہ کی اور رشتہ داروں نے سے قطع تعلق سے نہ ڈرا.پس آج میں ہوں تیری ماں اور میں ہوں تیرا باپ.یہی وہ چیز ہے جس کے لیے مومن قربانی کرتا ہے.بائبل میں حضرت مسیح علیہ السلام کے متعلق آتا ہے کہ ان کی ماں مامتا سے بے قرار ہو کر ان کے پاس پہنچیں تو کسی نے اُس سے کہا دیکھ ! تیری ماں اور تیرے بھائی باہر کھڑے ہیں اور تجھ سے بات کرنا چاہتے ہیں.اس نے خبر دینے والے کو جواب میں کہا کون ہے میری ماں اور کون ہیں میرے بھائی".3 پھر واقعہ صلیب سے قبل حضرت مسیح علیہ السلام کی ڈور کی ماں اور اُس کی ماں کی بہن مریم، کلو پاس کی بیوی اور مریم مگر لینی کھڑی ہے تھیں.حضرت مسیح نے اپنی ماں اور اُس شاگرد کو جس سے محبت رکھتا تھا، پاس کھڑے دیکھ کر ماں سے کہا کہ اے عورت! دیکھ تیرابیٹا یہ ہے.پھر شاگرد سے کہا دیکھ ! تیری ماں یہ ہے اور

Page 266

خطبات محج محمود 266 $1944 اُسی وقت وہ شاگرد اُسے اپنے گھر لے گیا.4 گویا آپ نے ایک طرف تو یہ کہہ کر خدا تعالیٰ کا حق ادا کر دیا کہ میرے بھائی اور ماں میرا خدا ہے اور اس خیال سے کہ ماں ہونے کی حیثیت سے اُس کا بھی حق ہے میں جب دین کی خاطر پھانسی پا کر اس کی گود کو خالی کر رہا ہوں اور اسے بے کس چھوڑ کر جارہا ہوں تو اس کی دلجوئی کی صورت بھی پیدا کروں.اور پہلے جو کہا تھا کہ کون ہے میری ماں.اس کا ازالہ اس طرح کر دیا کہ اپنے شاگرد سے کہا کہ آج سے تو اس کو اپنی ماں کی ہے طرح سمجھنا.اور ماں سے کہا کہ مجھے اپنے اِس شاگر د پر اتنا اعتماد ہے کہ میں کہہ سکتا ہوں کہ میں جو حکم اسے دوں گا اسے پورا کرے گا.پس آج سے تو اس کو اپنا بیٹا سمجھ کر جو حکم چاہے ہے دے کہ یہ اُسی طرح تیری دلجوئی کرے گا جس طرح میں تیری دلجوئی کر سکتا تھا.تو اللہ تعالیٰ کے دین کے لیے مومن کی جان اور مال ہمیشہ حاضر ہوتی ہے.ہمیں کچھ کچھ معلوم نہیں کہ کہاں سے حملہ کیا جائے گا یا کب اور کس صورت میں کیا جائے گا.لیکن ہمیں ہر وقت اس کے لیے تیار رہنا چا ہے.کئی ہیں جو فوری جوش کے ماتحت تو قربانی کے لیے اپنے آپ می کو پیش کر دیتے ہیں لیکن اگر سال دو سال کے بعد مانگا جائے تو پس و پیش کرنے لگ جاتے ہیں.وہ خیال کرتے ہیں کہ ادھر ہمارا کارڈ پہنچے گا اور اُدھر سے مطالبہ آجائے گا کہ لاؤ دے دو.ایسے لوگ جو فاصلہ کی لمبائی سے غافل ہوتے ہیں ہمیشہ موقع پر پیٹھ دکھانے والے ثابت ہوتے ہیں.پس مومن کو کبھی غافل نہ ہونا چاہیے اور جب بھی اس سے قربانی کا مطالبہ کیا جائے خواہ وہ سال کے بعد ہو یا دس بیس سال کے بعد اُسے تیار ہونا چاہیے.جس طرح خدا تعالیٰ کے انعامات کا وقت مقرر نہیں، اُس نے یہ نہیں کہا کہ مجھ سے آج مانگو گے تو دوں گا کل نہیں دوں گا اُس کی رحمت کے دروازے ہمیشہ کھلے رہتے ہیں اسی طرح مومن کو بھی ہر وقت قربانی کے لیے تیار رہنا چاہیے.جس طرح خدا تعالیٰ کی رحمت کا انتظار اور عدم انتظار سے تعلق نہیں اُسے کا دروازہ ہر وقت کھلا ہے اسی طرح بندہ کو قربانی کے لیے بھی ہر وقت تیار رہنا چاہیے.مومن اور مخلص وہی ہے جو دین کی راہ میں قربانی کے لیے ہر وقت تیار رہتا ہے.جو سمجھتا ہے کہ دین کا نمائندہ اور ذمہ دار میں ہی ہوں وہ دوسروں کی طرف نہیں دیکھتا بلکہ اپنے آپ کو ہی سارے کام کا ذمہ دار سمجھتا ہے.جب تک ہر شخص کے دل میں یہ بات راسخ نہیں ہو جاتی کہ

Page 267

خطبات محمود 267 $1944 میں ہی اللہ تعالیٰ کا واحد ایجنٹ ہوں اس دنیا میں، خیر و برکت دنیا میں قائم نہیں ہو سکتی.نہ مذہب ترقی کر سکتا ہے اور نہ مذہب کے ماننے والے روحانیت حاصل کر سکتے ہیں.میں نے جلسہ سالانہ کی تقریر میں کہا تھا کہ اگر روحانیت حاصل کرنا چاہتے ہو تو تم میں سے ہر شخص محمد کم بننے کی کوشش کرے.جب تک یہ کوشش نہ کی جائے، جب تک ہر شخص اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کا نمائندہ نہ سمجھے ، جب تک ہر شخص یہ نہ سمجھے کہ کوئی کرے یا نہ کرے میں نے اپنا فرض ضرور ادا کرنا ہے اور میرا فرض ہے کہ میں دین کا کام کروں اُس وقت تک وہ مومن کہلانے کا مستحق نہیں ہو سکتا.مومن اس بات کا محتاج نہیں ہوتا کہ اس کے ساتھ کوئی جتھا ہو، اس کا کوئی مددگار اور سہارا دینے والا ہو.وہ اپنی قربانی پیش کر دیتا ہے اور سمجھتا ہے کہ باقی خدا تعالی کا کام ہے وہ جو چاہے کرے.وہ اس بات سے نہیں ڈرتا کہ میری قربانی کوئی کام نہیں ہے آسکتی اور اس سے کوئی نتیجہ پیدا نہیں ہو سکتا.تاریخ اسلام کی ان باتوں میں سے جو مجھے بہت پیاری لگتی ہیں ایک بات ایک ہسپانوی جرنیل کی ہے جن کا نام غالباً عبد العزیز تھا.جب سپین میں مسلمانوں کی طاقت اتنی کمزور ہو گئی کہ اُن کے ہاتھ میں صرف ایک قلعہ رہ گیا جو آخری قلعہ تھا تو عیسائیوں نے ان کے سامنے بعض شرائط پیش کیں اور کہا کہ اگر بچنا چاہتے ہو تو ان کو مان لو.وہ شرائط ایسی تھیں کہ جنہیں مان کر اسلام سپین میں عزت کے ساتھ نہ رہ سکتا تھا.بادشاہ وقت ان شرائط کو ماننے کے لیے تیار ہو گیا.دوسرے جرنیل بھی تیار تھے.مگر یہ جرنیل کھڑا ہوا اور کہا کہ اے لوگو ! کیا کرتے ہو ؟ کیا تمہیں یقین ہے کہ عیسائی اپنے وعدوں کو پورا کریں گے ؟ ہمارے باپ دادا نے تین میں ہے اسلام کا بیج بویا تھا اب تم لوگ اپنے ہاتھوں سے اس درخت کو گرانے لگے ہو !! ان لوگوں نے ہے کہا کہ سوائے اس کے ہو کیا سکتا ہے.دشمن سے کامیاب مقابلہ کی صورت ہے ہی کیا.اس می جرنیل نے کہا یہ سوال نہیں کہ دشمن کے کامیاب مقابلہ کی صورت کیا ہے.نہ ہمیں اس کے سوچنے کی ضرورت ہے.ہمیں اپنا فرض ادا کرنا چاہیے اور ہم میں سے ہر ایک کو چاہیے کہ مر جائے مگر ان شرائط کو تسلیم نہ کرے.اس طرح یہ ذلت تو نہ اٹھانی پڑے گی کہ اپنے ہاتھ سے حکومت دشمن کو دے دیں.جو کچھ تمہارے اختیار کی بات ہے وہ کر دو اور باقی خدا تعالیٰ ہے

Page 268

$1944 268 خطبات محمود پر چھوڑ دو.یہ بات سن کر وہ لوگ ہنسے اور کہا کہ اس قربانی کا کیا فائدہ؟ اور سب نے انکار کیا.مگر اس نے کہا کہ اگر تم اس بے غیرتی کو پسند کرتے ہو تو کرو میں تو اپنے ہاتھ سے اسلامی جھنڈا دشمن کے حوالہ نہ کروں گا.قریباً ایک لاکھ کا لشکر تھا جو قلعہ کے باہر جمع تھا.وہ اکیلا ہی تلوار لے کر باہر نکلا، دشمن پر حملہ کر دیا اور لڑتے لڑتے شہید ہو گیا.بے شک اس کی شہادت کے باوجو د سپین میں مسلمانوں کی حکومت تو قائم نہ رہ سکی مگر اُس کا نام ہمیشہ کے لیے زندہ رہ گیا اور موت اُسے مٹانہ سکی.وہ بادشاہ اور جرنیل جنہوں نے اُس کے مشورہ کو تسلیم نہ کیا اور اپنی جانیں بچائی چاہیں وہ مٹ گئے.اُن کا ذکر پڑھ کر اور سن کر ہم اپنے نفسوں کو بڑے زور و سے اُن پر لعنت کرنے سے روکتے ہیں.لیکن کبھی سپین کے حالات کا میں مطالعہ نہیں کرتا یا کبھی ایسا نہیں ہوا کہ یہ باتیں میرے ذہن میں آئی ہوں اور اس جرنیل کے لیے دعائیں نہ نکلتی ہے ہوں.اس کے خون کے قطرے آج بھی سپین کی وادیوں میں ہم کو آوازیں دیتے ہیں کہ آؤ! اور میرے خون کا انتقام لو.بے شک وہ بہادر جرنیل مر گیا.مگر مرنا ہے کیا؟ کیا یوں لوگ نہیں مرتے ؟ کیا وہ بادشاہ اور جرنیل جو دشمن سے نہ لڑے، مر نہ گئے ؟ وہ بھی ضرور مر گئے لیکن اُن کے لیے ہمارے دلوں سے لعنت نکلتی ہے اور اس جرنیل کے لیے دعائیں.آج بھی ہے اس کی کشش ہمیں سپین کی طرف بلا رہی ہے اور اگر مسلمانوں کی غیرت قائم رہی اور جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت سے ظاہر ہوتا ہے نہ صرف قائم رہے گی بلکہ ترقی ہے کرے گی اور پہلے سے بھی بڑھ کر ظاہر ہو گی.تو وہ دن دور نہیں جب اس جرنیل کے خون کے قطروں کی پکار ، اس کی جنگلوں میں چلانے والی روح اپنی کشش دکھائے گی اور سچے مسلمان پھر میں سپین پہنچیں گے اور وہاں اسلام کا جھنڈا گاڑ دیں گے.اُس کی روح آج بھی ہمیں بلا رہی ہے اور ہماری روحیں بھی یہ پکار رہی ہیں کہ اے شہید وفا! تم اکیلے نہیں ہو.محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کے سچے خادم منتظر ہیں.جب خدا تعالیٰ کی طرف سے آواز آئے گی وہ پروانوں کی طرح اس ملک میں داخل ہوں گے اور اللہ تعالیٰ کے نور کو وہاں پھیلائیں گے.یہ سوال نہیں کہ ہم امن پسند جماعت ہیں.مخالف امن پسندوں پر بھی تلوار کھینچ کر ان کو مقابلہ کی اجازت دلوا دیا کرتے ہیں.کیا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم امن پسند نہ تھے مگر

Page 269

$1944 269 محمود مخالفین کے ظلموں کی وجہ سے آخر اللہ تعالیٰ نے ان کو مقابلہ کی اجازت دے دی.جیسا کہ فرما يا أُذِنَ لِلَّذِينَ يُقْتَلُونَ بِأَنَّهُمْ ظُلِمُوا وَإِنَّ اللهَ عَلَى نَصْرِهِمْ لَقَدِيرُ 50 جن لوگوں کو خوامخواہ نشانہ مظالم بنایا گیا ہے اب اُن کو بھی اجازت ہے کہ مقابلہ کریں.پس سپین کے لوگ اگر اللہ تعالیٰ کے نزدیک یوں مقدر ہے تو ہماری تبلیغ و تعلیم سے ہی کفر و شرک کو چھوڑ دیں گے.اور یا پھر ہم پر اتنا ظلم کریں گے کہ اللہ تعالی کی طرف سے مقابلہ کی اجازت ہو جائے گی اور وہ جنہوں ہے نے کان پکڑ کر مسلمانوں کو اپنے ملک سے نکالا تھا، کان پکڑ کر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے مزار پر حاضر ہوں گے اور عرض کریں گے کہ حضور کے غلام حاضر ہیں اور اس اکیلے لڑنے والے کی روح نا کام نہیں رہے گی.پس کبھی یہ خیال نہ کرو کہ ہم کیا کر سکتے ہیں.یہ منافقوں والی با جنہوں کہا تھا کہ لَوْ نَعْلَمُ قِتَالًا لَّاتَّبَعْنَكُمْ یعنی اگر ہم کو پتہ ہوتا کہ یہ قتال ہے تو ہم ضرور ساتھ چلتے.مگر یہ قتال نہیں بلکہ خود کشی ہے اس لیے ساتھ نہ گئے.پس خود کشی ہو یا کچھ ، ہمارا فرض ہے کہ اسلام کی فتح کے لیے مال اور جان کی قربانی کے لیے کھڑے ہوں.دوسروں کی طرف نہ دیکھیں بلکہ اپنا فرض ادا کریں.جو ایسا کرے گا آئندہ نسلیں اُس پر بھیجیں گی.لیکن جو غداری کرے گا اور پیٹھ دکھائے گا اللہ تعالیٰ اُس پر رحم کرے.لاکھوں کروڑوں صالحین کی لعنتیں اُس پر پڑتی رہیں گی".(الفضل 6 مئی 1944ء) درود 1 : تاریخ طبری جلد ثانی صفحہ 632،631 - زیر عنوان ذكر الخبر عن عمرة النبى صلى الله عليه وسلم التي صدّه المشركون فيها عن البيت و هى قصة الحديبية.مطبوعہ مصر 1961ء 2 : بخارى كِتَاب الْعِلْمِ ، بَاب الاغتِبَاطِ فِي الْعِلْمِ وَالْحِكْمَةِ 3 : متی باب 12 آیت 46 تا 49 4 : یوحنا باب 19 آیت 25 تا 27 5 :الحج:40 6 :آل عمران: 168

Page 270

270 $1944 14) خطبات محمود خد اتعالیٰ کی طرف سے پیغام جماعت احمدیہ کے نام روز جزا قریب ہے اور رہ بعید ہے (فرمودہ 14/ اپریل 1944ء) تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: اللہ تعالیٰ کے انبیاء جب کبھی دنیا میں آتے ہیں اُن کے ساتھ قیامت کا وجود بھی وابستہ ہو تا ہے.اسی لیے جب بھی کوئی نبی دنیا میں آیا اُس نے اپنے بعد ایک قیامت کی بھی خبر دی ہے.ایک قیامت تو اس کے ذریعہ یہ ظاہر ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کی جماعت کو ترقی دیتا، اُسے دنیا میں غلبہ عطا کرتا اور اُسے نئے سرے سے زندگی بخشتا ہے.اور ایک قیامت اس کے ذریعہ یہ ظاہر ہوتی ہے کہ اللہ تعالی اس کے دشمنوں کو تباہ و برباد کر دیتا ہے.گویا ایک طرف اگر اس کے ذریعہ دنیا میں حشر برپا ہو جاتا ہے تو دوسری طرف ہلاکت کا عذاب دنیا کے ایک حصہ پر وارد ہو جاتا ہے.اور قیامت بھی دو ہی طرح ہو گی.ایک حشر کے ذریعہ اور ایک ہلاکت کے ذریعہ.قیامت اسی کا نام ہے کہ ایک زمانہ میں سب لوگ مر جائیں گے.اور قیامت اسی کا نام ہے کہ ایک زمانہ میں سب لوگ زندہ ہو جائیں گے.پس قیامت کے دو حصے ہیں.ایک لوگوں کا مر جانا اور ایک لوگوں کا زندہ ہو جانا.جب کبھی دنیا میں اللہ تعالیٰ کا کوئی نبی آیا ہے یہ دونوں باتیں ظاہر ہوئی ہیں.اس کے ذریعہ لوگ مر بھی گئے ہیں اور اس کے ذریعہ قوم زندہ بھی

Page 271

خطبات محمود 271 $1944 ہوئی ہے.جو لوگ اس کے دشمن تھے وہ بحیثیت قوم تباہ کر دیئے گئے اور جو لوگ اس کے ساتھی تھے وہ بحیثیت قوم ترقی پاگئے.اور یوں بھی نبیوں کے رخصت ہونے پر ایک قیامت ہے دنیا میں آجاتی ہے.اتنا عظیم الشان انسان جس کا کام خدا تعالیٰ سے خبریں پانا، اپنی جماعت کو تسلی دینا، اس کے لیے دن رات دعائیں کرنا اور ہدایت اور رُشد کے سامان اس کے لیے مہیا کرنا ہو اُس کا دنیا سے اُٹھ جانا کوئی معمولی بات نہیں ہوتی.چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت کے موقع پر بھی اللہ تعالیٰ نے خبر دی کہ قیامت آنے والی ہے.مگر افسوس کہ لوگ قیامت کے اس مفہوم کو نہیں سمجھتے اور یہ کہنا شروع کر دیتے ہیں کہ اس نبی کے کچھ عرصہ بعد دنیا کے تمام لوگ یکدم مر جائیں گے اور اُن پر قیامت آجائے گی.مگر جب کچھ عرصہ گزر جاتا ہے اور لوگ نہیں مرتے تو باوجود اس کے کہ بے وقوفی ان کی اپنی ہوتی ہے کہ قیامت کے ہم انہوں نے وہ معنے سمجھے ہوتے ہیں جو حقیقت میں نہیں ہوتے وہ اس طرف مائل ہونا شروع ہو جاتے ہیں کہ یہ بات ہی غلط ہے کہ قیامت آنے والی ہے.حالانکہ جو معنے انہوں نے سمجھے ہوتے ہیں وہی غلط ہوتے ہیں.اور قرب قیامت کے معنے یہ ہوتے ہی نہیں کہ وہ قیامت آنے والی ہے جس میں تمام دنیا فنا کر دی جائے گی.اس قیامت کے متعلق تو اللہ تعالی قرآن کریم میں صاف طور پر فرماتا ہے کہ وہ ہمارے ہی علم میں ہے کہ کب آئے گی کسی اور کو اُس کا علم نہیں.1 پس نبی کی بعثت کے ساتھ جو قیامت وابستہ ہوتی ہے وہ وہی تین قسم کی قیامت ہوتی ہے ہے جس کا میں نے ابھی ذکر کیا ہے یعنی اس کے دشمنوں کی عام تباہی، اُس کے دوستوں کی عام ترقی اور پھر نبی کی وفات کے ساتھ جو تہلکہ واقع ہوتا ہے وہ بھی ایک بہت بڑی قیامت ہوتی ہے ہے.آخر انسان کے لیے قیاس کا سامان موجود ہے.لوگوں کے باپ مرتے ہیں، لوگوں کی مائیں مرتی ہیں، لوگوں کی بیویاں مرتی ہیں، لوگوں کے بچے بلکہ اکلوتے بچے مرتے ہیں، میں لوگوں کے بھائی مرتے ہیں اور وہ جانتے ہیں کہ ان کے لیے اپنے ان عزیزوں کی وفات کس قدر صدمے کا موجب ہوتی ہے.پھر وہ یہ خیال کر لیں کہ جو شخص ساری دنیا کا باپ تھا، جو می ساری دنیا کی ماں تھی، جو ساری دنیا کی پرورش کرنے والا تھا اس کی موت کتنا عظیم الشان من حادثہ نہ ہو گا.اس کی موت کے ساتھ ہزاروں نہیں لاکھوں یتیم ہو جاتے ہیں.بلکہ سچی بات تو یہ

Page 272

خطبات محمود 272 $1944 یہ ہے کہ اُس کی موت کے ساتھ ساری دنیا یتیم ہو جاتی ہے.فرق صرف یہ ہے کہ کچھ لوگوں کو اپنے یتیم کا احساس ہوتا ہے اور کچھ لوگوں کو اپنے یتم کا احساس نہیں ہوتا.وہ شخص جس کا کوئی بچہ گم ہو جائے اگر اُس کا وہی گمشدہ بچہ کسی دوسرے وقت اسی شہر میں آجائے جس میں اُس کا باپ رہتا ہو اور وہ کوئی پیشہ اختیار کرلے مگر اُسے پتہ نہ ہو کہ میرا باپ بھی اسی شہر میں رہتا ہے تو جس دن اُس کا باپ مرے گا، اُس دن جس طرح اُس کے دوسرے بیٹوں پر قیامت آئے گی اسی طرح اُس پر بھی قیامت آجائے گی.مگر اسے پینا نہیں ہو گا کہ مجھ پر قیامت آئی ہے ہوئی ہے.اسی طرح انبیاء کی وفات ساری دنیا کے لیے قیامت ہوتی ہے.مگر فرق یہ ہوتا ہے کہ کچھ بچوں نے اپنے باپ کو پہچان لیا ہوتا ہے اور کچھ بچے ایسے ہوتے ہیں جنہوں نے اپنے باپ کو پہچانا نہیں ہو تا.مثلاً جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی تو آپ کی وفات ویسی ہی قیامت تھی صحابہ کے لیے جیسے وہ قیامت تھی یہودیوں کے لیے، جیسے وہ قیامت تھی عیسائیوں کے لیے، جیسے وہ قیامت تھی زرتشتیوں کے لیے ، جیسے وہ قیامت تھی جینیوں کے لیے اور بدھوں کے لیے.کیونکہ جو نور آپ خدا تعالیٰ کی طرف سے لائے تھے وہ ساری دنیا کے لیے تھا.وہ نور عیسائیوں کے لیے بھی تھا، وہ نور یہودیوں کے لیے بھی تھا، وہ نور زرتشتیوں کے لیے بھی تھا، وہ نور چینیوں کے لیے بھی تھا، وہ نور جاپانیوں کے لیے بھی تھا، وہ نور جزائر کے رہنے والوں کے لیے بھی تھا.اور روحانی طور پر آپ ہر قوم کے باپ تھے.مگر فرق یہ تھا کہ صحابہ نے اپنے باپ کو پہچان لیا تھا لیکن انہوں نے نہ پہچانا تھا.پس قیامت تو دونوں پر آئی.لیکن اس کا اندازہ احساس کی وجہ سے صرف صحابہ کو ہوا، دوسروں کو نہ ہوا.ورنہ نقصان سب کو یکساں برداشت کرنا پڑا.غرض جب ایک شخص کی موت اُس کے رشتہ داروں میں کہرام مچا دیتی ہے تو انسان خود ہی سمجھ سکتا ہے کہ وہ شخص جس سے ساری مخوبی وابستہ ہو، جس سے ساری ہے وابستہ ہو، جس سے ساری ہدایت وابستہ ہو اُس کی موت کس قسم کی آفت اور مصیبت نہ ہوگی.کیا ہی لطیف پیرایہ میں اس حقیقت کو ہندوستان کے ایک مشہور شاعر نے بیان کیا ہے.غالب کی بیوی کا ایک بھتیجا یا بھانجا تھا جسے اُس نے بچپن سے پالا ہوا تھا.جب وہ مرا تو

Page 273

خطبات محمود غالب نے اُس کی وفات پر کہا 273 مرتے ہوئے کہتے ہیں قیامت کو ملیں گے کیا خوب قیامت کا ہے گویا کوئی دن اور 2 $1944 یعنی میرا وہ عزیز جس کو میں نے بچہ کی طرح پالا ہوا تھا جب فوت ہونے لگا تو مرتے ہوئے کہنے لگا لو اب میں رخصت ہو تا ہوں اب قیامت کو ہی آپ سے ملاقات ہو گی.غالب اس کا ذکر کرتے ہوئے کہتا ہے.کیا خوب قیامت کا ہے گویا کوئی دن اور کیا اس کے سوا کوئی اور بھی قیامت آنے والی ہے.جب تم مر گئے تو قیامت تو تمہارے مرنے سے ہم پر آگئی.تو جس گھر میں کوئی موت ہوتی ہے اُس گھر کے رہنے والے مجھتے ہیں کہ ان پر قیامت آگئی، پھر اگر کوئی ایسا آدمی فوت ہو جس کا سب دنیا کے ساتھ تعلق ہو اور جو تمام عزیزوں اور رشتہ داروں سے زیادہ محبوب اور پیارا ہو تو تم خود ہی سمجھ لو کہ اُس کی موت کیسی عظیم قیامت ہو گی.صحابہ کو دیکھ لو وہ کتنی زیرک اور سمجھ دار قوم تھی.کتنی شرک کے خلاف تعلیم اسے دی گئی تھی اور کس قدر توحید کا سبق اسے بار بار دیا گیا تھا لیکن رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی وفات پر سوائے چند کے سب نے شور مچادیا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فوت نہیں ہوئے بلکہ آسمان پر گئے ہیں اور وہاں سے زندہ واپس آئیں گے.یہ ایک قیامت تھی جو اُن پر آئی.اور یہ اتنی بڑی قیامت تھی کہ جو شخص انہیں ساری عمر سمجھاتا رہا کہ میں ویسا ہی انسان ہوں جیسے تم ہو ، جو ساری عمر انہیں شرک کے خلاف تعلیم دیتارہا، جو ساری عمر انہیں بتا تا رہا کہ اللہ تعالیٰ کو ہی اپنا معبودِ حقیقی سمجھو.اُس کی وفات کا انہیں اتنا شدید صدمہ ہوا کہ ان کے دماغ پھر گئے اور انہوں نے وہی کچھ کہنا شروع کر دیا جس سے انہیں روکا گیا تھا.پس رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات دنیا کے لیے ایک قیامت تھی اور بہت بڑی قیامت.صحابہ کو غلطی لگی اور شدید غلطی لگی.مگر وہ آدمی نیک تھے.

Page 274

$1944 274 خطبات محمود ย آخر حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ آئے اور اُس مجلس میں گئے جہاں صحابہ بیٹھے ہوئے تھے.آپ نے دیکھا کہ حضرت عمرؓ تلوار لیے کھڑے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ جو شخص کہے گا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہو گئے میں تلوار سے اُس کی گردن کاٹ دوں گا.3 انسان اس قیامت کا اندازہ حضرت عمرؓ کے کاموں کو دیکھ کر بآسانی لگا سکتا ہے.عمر وہ شخص ہے جس کی خوبیوں کو دنیا کی تمام قوموں اور مذاہب نے تسلیم کیا ہے.یہاں تک کہ اسلام کے وہ شدید ترین دشمن جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر عیب لگانا اور آپ پر گند اُچھالنا اپنے لیے فخر کا موجب سمجھتے ہیں وہ بھی جس وقت ابو بکر اور عمرؓ کا ذکر آتا ہے یہ کہنے پر مجبور ہوتے ہیں کہ یہ لوگ غیر معمولی وجو د تھے.ان کی خوبیوں کا اعتراف کرنے سے اسلام کے شدید ترین دشمن یعنی عیسائی اور یہودی بھی نہیں رہ سکے اور انہوں نے تسلیم کیا ہے کہ ان کا درجہ غیر معمولی تھا.پس وہ غیر معمولی انسان جس کی دشمنوں نے بھی تعریف کی ہے، جس کی ان لوگوں نے بھی تعریف کی ہے جو اس کے آقا کے دشمن تھے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وس کی وفات پر شدتِ غم سے اُس کی حالت ایسی ہو گئی جو ایک ادنیٰ سے ادنی عقل والے بچہ کی بھی نہیں ہوتی.بچے بھی جب ان کا باپ فوت ہو سمجھ جاتے ہیں کہ ان کا باپ فوت ہو گیا.بچے بھی جب ان کی ماں فوت ہو سمجھ جاتے ہیں کہ ان کی ماں فوت ہو گئی.مگر عمر جیسا با ہمت انسان جس نے ساری دنیا چند آدمیوں کے ساتھ فتح کر لی تھی تلوار لے کر مسجد میں گھومتا پھرتا تھا کہ اگر کسی نے یہ کہا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فوت ہو گئے ہیں تو میں اُس کی گردن کاٹ دوں گا.بھلا کسی کی گردن کاٹنے سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کس طرح زندہ ہو سکتے تھے.مگر انہیں صدمہ اتنا شدید پہنچا تھا کہ وہ یہ سننا بھی برداشت نہیں کر سکتے تھے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فوت ہو گئے ہیں.وہ سوچتے تھے مگر اپنے آپ کو اس بات کی کے ناقابل پاتے تھے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات کی خبر پر یقین لائیں.میں سمجھتا ہوں بہتوں کے دل اُس وقت مانتے تھے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فوت ہو چکے ہیں مگر شدتِ محبت کی وجہ سے وہ اس کا خیال بھی اپنے دل میں لانا اپنے لیے موت اور ہلاکت سمجھتے تھے.آخر حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ آئے اور جہاں

Page 275

$1944 275 خطبات محمود رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نعش مبارک رکھی ہوئی تھی وہاں گئے.آپ کی نعش کو انہوں نے دیکھا اور پھر واپس آگئے اور لوگوں کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا اے لوگو! رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فوت ہو چکے اور اللہ تعالیٰ آپ پر دو موتیں وارد نہیں کرے گا.یعنی ایک تو یہ موت جو آپ پر آئی اور دوسری یہ موت کہ تم چاہتے ہو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پھر اس دنیا میں آئیں اور پھر فوت ہوں.یا ممکن ہے آپ کا منشاء یہ ہو کہ تم اس وقت جو کچھ کہہ رہے ہو یہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے منشاء اور آپ کی تعلیم کے خلاف ہے.وہ موت جو آپ پر وارد ہو چکی وہ اصل موت نہیں.وہ تو جسم سے روح نکل کر اپنے آقا اور محبوب کے پاس چلی گئی ہے.اصل موت یہ ہے کہ وہ بات جس کو روکنے کے لیے آپ نے ساری عمر خرچ کر دی وہی آپ کی وفات پاتے ہی پھر پیدا ہو جائے اور پھر ساری قوم شرک میں مبتلا ہو جائے.یہ موت ایسی ہے جو اللہ تعالیٰ آپ پر کبھی وارد نہیں کرے گا.اِس طرح یہ الفاظ کہہ کر انہوں نے بتادیا کہ تمہارا یہ کہنا کہ اگر کسی شخص نے یہ کہا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہو گئے ہیں تو ہم تلوار سے اس کی گردن اڑا دیں گے یہ محض ایک دھوکا اور غلط فہمی کا نتیجہ ہے.اور تمہارا یہ جوش عارضی اور وقتی ہے ورنہ تم مومن اور موقد ہو اور خدا اور رسول کے عاشق ہو.جب میں تمہیں سچی تعلیم بتاؤں گا تو اس وقت تم اپنے ان تمام خیالات کو چھوڑ دو گے اور اسی تعلیم کو اختیار کرو گے جو صحیح اور حقیقی ہے.غرض رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے متعلق حضرت ابو بکر نے جو فرمایا کہ اللہ تعالیٰ آپ پر دو موتیں وارد نہیں کرے گا اِس کا مطلب یہی تھا کہ ایسا نہیں ہو سکتا کہ آپ جسمانی طور پر بھی وفات پا جائیں اور روحانی طور پر بھی آپ کی قوم پر موت وارد ہو جائے.پھر آپ منبر پر کھڑے ہوئے اور فرمایا مَنْ كَانَ مِنْكُمْ يَعْبُدُ مُحَمَّدًا فَإِنَّ مُحَمَّدًا قَدْ مَاتَ وَمَنْ كَانَ مِنْكُمْ يَعْبُدُ اللهَ فَإِنَّ اللهَ حَقٌّ لَا يَمُوتُ.اے لوگو! تم میں سے جو کوئی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی عبادت کیا کرتا تھا وہ سن لے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہو گئے ہیں.مگر وہ شخص جو اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتا تھا اُسے سمجھ لینا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ زندہ ہے اور وہ کبھی نہیں مرے گا.چونکہ ان لوگوں کے دلوں میں ایمان تھا.صرف ایک قیامت تھی جو اُن پر آئی اور انہوں نے ایک ایسی خبر

Page 276

$1944 276 خطبات محمود اپنے کانوں سے سُنی جس کا اندازہ انہوں نے اپنے ذہن میں کبھی نہیں لگایا تھا اور اس قیامت خیز حادثہ نے وقتی طور پر اُن کے حواس کو مختل کر دیا تھا اس لیے جب حضرت ابو بکر کی تقریر انہوں نے سنی تو فوراً ان کی سمجھ میں بات آگئی.حضرت عمرؓ فرماتے ہیں جب میں نے ابو بگر کی بات سنی تو میں نے سمجھ لیا کہ آپ جو کچھ کہتے ہیں سچ کہتے ہیں اور یا تو میں تلوار لے کر اس نیت اور اس ارادہ کے ساتھ کھڑا تھا کہ اگر کسی شخص کے منہ سے یہ بات نکلی کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فوت ہو گئے ہیں تو میں اُس کی گردن اڑا دوں گا اور یا مجھ پر جب صداقت گھل گئی تو میں کھڑا بھی نہ رہ سکا.میرے گھٹنے کانپ گئے اور میں زمین پر گر گیا.4 حضرت حسان جو رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے درباری شاعر تھے انہوں نے اُس وقت کا کیا ہی عجیب نقشہ کھینچا اور اُس درد کا اظہار کیا ہے جو اُس وقت ان لوگوں کے دلوں میں تھا.جب حقیقت گھل گئی تو حضرت حسان کھڑے ہوئے اور انہوں نے کہا كُنتَ السَّوَادَ لِنَاظِرِي فَعَمِيَ عَلَى النَّاظِرُ 5 اے محمد رسول اللہ ! تم تو میری آنکھوں کی پتلی تھے.فَعَمِن عَلَى النَّاظِرُ اے محمد رسول اللہ ! آج تم نہیں فوت ہوئے میں اندھا ہو گیا.مَنْ شَاءَ بَعْدَكَ فَلْيَمُتْ فَعَلَيْكَ كُنْتُ أحَاذِرُ 6 اب یارسول اللہ ! کوئی مرے، باپ مرے، ماں مرے، بہن مرے، بھائی مرے، بیوی مرے، بچہ مرے، رشتہ دار مریں، دوست مرے کوئی پروا نہیں.فَعَلَيْكَ كُنْتُ أَحَاذِرُ میں تو تیری ہی موت سے ڈرتا تھا.یہ ہر شخص کے دل سے نکلا ہو ا شعر تھا.کہا حسان نے تھا مگر ہر صحابی کے دل کی کیفیت یہی تھی اور وہ سمجھتا تھا کہ آج ہم اندھے ہو گئے.آج ہماری عزیز ترین چیز ہمارے ہاتھوں سے جاتی رہی.چنانچہ تاریخوں میں آتا ہے اس دن تمام ہے بازاروں میں ہر صحابی یہی شعر پڑھتا ہوا سنائی دیتا تھا.جدھر سے گزرو اس شعر کی آواز

Page 277

$1944 277 محمود ต سنائی دیتی تھی.صحابہ بازاروں میں سے گزرتے تھے ، ان کی آنکھوں سے آنسو رواں تھے اور ان کی زبان پر یہ شعر جاری تھے.کہ كُنتَ السَّوَادَ لِنَاظِرِى فَعَمِيَ عَلَى النَّاظِرُ مَنْ شَاءَ بَعْدَكَ فَلْيَمُتْ فَعَلَيْكَ كُنْتُ أَحَاذِرُ ย رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت صحابہ کے دل میں جو کچھ تھی اُس کا تو ہم اندازہ بھی نہیں لگا سکتے.مجھے بعض دفعہ ہنسی آتی ہے کہ ہماری جماعت کے بعض مخلص نوجوان مجھے چٹھیاں لکھتے ہیں کہ ہماری درخواست ہے کہ جب ہم مر جائیں تو ہمارا جنازہ آپ پڑھیں.مجھے اُس وقت خیال آتا ہے کہ دیکھو ان کی عمر اس وقت 30 ،35 سال کی ہے اور میں ان سے بڑی عمر کا ہوں مگر یہ لوگ مجھے کہتے ہیں کہ میں ان کا جنازہ پڑھوں.گویا وہ اپنے دل میں یہ ہے سمجھتے ہیں کہ ہم سارے مرتے چلے جائیں گے مگر یہ ہمیشہ زندہ رہیں گے.پس اس میں کوئی شبہ نہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی موت کا خیال بھی ان کے دلوں میں نہیں ہے آسکتا تھا.ان میں سے ہر شخص خواہ وہ چھوٹا ہو یا بڑا، جوان ہو یا بوڑھا، مرد ہو یا عورت یہ سمجھتا تھا کہ ہم ان کے ہاتھوں میں ہی مریں گے اور یہ خود ہمارا جنازہ پڑھائیں گے.مگر جب وہ زندہ رہ گئے ہیں اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فوت ہو گئے تو ایک قیامت ان پر آگئی.پس یہ بھی ایک قیامت تھی اور بہت بڑی قیامت.اگر لوگ سمجھ لیتے کہ قیامت یہی نہیں کہ دنیا کے تمام لوگ اکٹھے مر جائیں بلکہ کسی اور چیز کا نام بھی قیامت ہے تو وہ قیامت کا یہ دن آنے سے پیشتر زیادہ سے زیادہ روحانی فیوض اور برکات حاصل کرنے کی جدوجہد کرتے.آخر ہر انسان نے ایک دن مرنا ہے.پھر اگر کسی دن تمام لوگ اکٹھے مر جائیں تو یہ کونسی بڑی آفت ہے.جب سب لوگ مرتے چلے آئے اور مرتے چلے جائیں گے تو اگر کسی دن اکٹھے سب لوگ مر گئے تو اسے ہر گز کوئی بڑی آفت قرار نہیں دیا جا سکتا.آفت یہی ہے کہ وہ تو زندہ رہیں مگر ان کو روحانی زندگی بخشنے والا چلا جائے.وہ جسے عرفِ عام میں قیامت کہا جاتا ہے اسے بھی ہم مانتے ہیں اور ہم یقین رکھتے ہیں کہ جس خدا نے یہ دنیا پیدا کی ہے وہ اسے ایک دن ختم بھی کرے گا.لیکن وہ قیامت کوئی صدمہ والی چیز نہیں.صدمہ تب ہو جب کوئی ایسی چیز ظاہر ہو جو نرالی ہو.مگر جب میں

Page 278

خطبات محمود 278 $1944 ہر انسان مرتا چلا آیا اور مرتا چلا جائے گا تو اگر کسی دن تمام انسان اکٹھے مر جائیں گے تو اس میں کونسی بڑی بات ہو جائے گی.یہ قیامت تو میرے نزدیک ذرا بھی اہمیت نہیں رکھتی.اگر کوئی ایک شخص بھی اس وقت بچی رہتا تو ہم کہہ سکتے تھے کہ یہ اس کے لیے بڑے صدمہ کی بات ہے ہو گی کہ اور تو سب لوگ مر جائیں گے اور وہ زندہ رہے گا.مگر جب سارے ہی مر جائیں گے تو اس میں دکھ کی کونسی بات ہے.بلکہ میں سمجھتا ہوں اس میں بہت بڑا سکھ ہے.اب خاوند مرتے ہیں تو ان کی عورتیں بیوہ رہ جاتی ہیں.بیویاں مرتی ہیں تو ان کے خاوند رنڈوے رہ جاتے ہیں، بھائی مرتا ہے تو دوسرے بھائی صدمہ محسوس کرتے ہیں کہ ان کا ایک بھائی جاتا رہا.بچے مرتے ہیں تو ماں باپ کو صدمہ ہوتا ہے.ماں باپ مرتے ہیں تو بچے یتیم رہ جاتے ہیں.غرض ہزاروں دکھ اور مصیبتیں وارد ہو جاتی ہیں.مگر اس وقت کیسا آرام ہو گا کہ سب لوگ یکدم مر جائیں گے اور صدمہ اٹھانے والا کوئی باقی نہیں رہے گا.پس اصل قیامت یہی ہے کہ مرنے والے مر جاتے ہیں مگر ان کے عزیزوں اور رشتہ داروں میں سے جو لوگ رہ جاتے ہیں ان کا کوئی پرسان حال نہیں رہتا، کوئی اُن کا مونس اور غم خوار نہیں رہتا.ماں باپ مرتے ہیں تو بچے رہ جاتے ہیں جو روٹیوں کے محتاج ہوتے ہیں اور در بدر دھکے کھاتے پھرتے ہیں.خاوند مر جاتے ہیں تو ان کی عورتیں ایسی حالت میں رہ جاتی ہیں کہ ان کی دلداری کرنے والا کوئی نہیں ہوتا.خاوند رہ جاتے ہیں اور ان کی محبت کرنے والی بیویاں اُن سے رخصت ہو جاتی ہیں.ماں باپ رہ جاتے ہیں مگر ان کے دلوں کی ٹھنڈک اور ان کے ساتھ کھیلنے والے بچے فوت ہو جاتے ہیں.بھائی رہ جاتا ہے مگر اس کا دوسرا بھائی جو اس کے لیے بازو کی حیثیت رکھتا ہے فوت ہو جاتا اور اس کا بازو کٹ جاتا ہے.دوست رہ جاتے ہیں مگر ایسی حالت میں جبکہ ان کا مونس و غمگسار دوست فوت ہو چکا ہوتا ہے.پس یہ ایک قیامت ہے جو لوگوں پر آتی ہے.مگر وہ بھی کیا ہے قیامت ہے جب سب لوگ اکٹھے مر جائیں گے اس کے آنے پر بھلا کسی کو کیا غم ہو سکتا ہے.تو در حقیقت بڑی قیامت وہ ہوتی ہے جب خدا کا نبی کسی قوم میں سے گزر جاتا ہے.جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہوئے تو یہ ایک بہت بڑی قیامت تھی جو دنیا پر آئی.پھر درجہ بدرجہ امت محمدیہ میں اور لوگوں کے مرنے پر بھی مختلف اوقات میں قیامت ہے

Page 279

خطبات محمود 279 $1944 آتی رہی.اگر مسلمان یہ سمجھتے کہ قرآن کریم میں جس قیامت کا ذکر آتا ہے اس سے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی موت بھی مراد ہو سکتی ہے تو وہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی موت سے پہلے پہلے اس کے بد اثرات سے بچنے کی کوشش کرتے.انہوں نے بعد میں بہت کوششیں کیں کہ وہ اس کے بد اثرات سے محفوظ رہیں لیکن انہیں پو را فائدہ اسی صورت میں ہو سکتا تھا جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں یہ قیامت ان کی آنکھوں کے سامنے رہتی.پھر اگر مسلمان سمجھتے کہ حضرت عمر کی شہادت بھی مسلمانوں کے لیے ایک قیامت ہے تو شاید وہ حضرت عمر کی شہادت کے سامان مہیا نہ ہونے دیتے اور اپنی تمام کوشش اور اپنی تمام جدوجہد ان سامانوں کے خلاف صرف کر دیتے جو حضرت عمر کی شہادت کا موجب ہوئے.پھر اگر صحابہ سمجھتے کہ حضرت عثمان کی شہادت بھی ایک قیامت ہے جو در حقیقت حضرت عمر کی شہادت کے نتیجہ میں واقع ہوئی تو وہ حضرت عثمان کی شہادت کا موقع نہ آنے دیتے.اگر مسلمان سمجھتے کہ حضرت عثمان کی موت کے بعد مسلمانوں میں ایسا تفرقہ پیدا ہو جائے گا جو کبھی مٹ نہیں سکے تھے گا تو میں سمجھتا ہوں وہ اپنے خون کا آخری قطرہ تک اس غرض کے لیے بہا دیتے کہ یہ حادثہ رونما نہ ہو.پھر حضرت علی کے وقت اگر مسلمان یہ سمجھتے کہ اگر ہم علی کو ماریں گے تو ہم علی کو نہیں بلکہ اسلام کو ماریں گے.اگر علی دنیا سے اٹھ گیا تو وہی گندی بادشاہت دنیا میں قائم ہو جائے گی جو بنی نوع انسان کے لیے مہلک ہے.اسی طرح مسلمان اگر سمجھتے کہ ہم علی کو نہیں مار رہے بلکہ ہم اپنی اولادوں کو ہلاک کر رہے ہیں، ہم اپنی عورتوں کی عصمت دری کے سامان مہیا کر رہے ہیں، ہم ظالم بادشاہوں کو موقع دے رہے ہیں کہ وہ ہمیں اپنی جائدادوں سے بے دخل کر دیں، ہم مالداروں کو دعوت دے رہے ہیں کہ وہ آئیں اور ہمارے گھروں کو لُوٹ لے جائیں، ہم اسلامی حکومت کو اجاڑنے اور اسے تباہ وبرباد کرنے کے سامان جمع کر رہے ہیں، ہم دنیا میں ایک یزید پیدا کر رہے ہیں تو میں سمجھتا ہوں ایک ایک مسلمان حضرت علی کے ارد گرد کٹ کر مر جاتا مگر وہ قاتل کا ہاتھ آپ تک نہ پہنچنے دیتا.مگر وہ اس خیال میں ہی بیٹھے ہی رہے کہ قیامت تو وہی ہے جو یکدم سب پر آئے گی اور نظامِ عالم کو تہہ و بالا کر کے رکھ دے گی.

Page 280

$1944 280 خطبات محمود سی انسان کی موت خواہ وہ کتنا بڑا ہو قیامت نہیں ہو سکتی.اگر غالب نے جو بات اپنے جنون کی حالت میں سمجھ لی تھی وہ مسلمان بھی سمجھ لیتے کہ کیا خوب قیامت کا ہے گویا کوئی دن اور تو وہ کبھی ذلت اور رسوائی کا شکار نہ ہوتے.مگر انہوں نے اس حقیقت کو نہ سمجھا.پھر جانتے ہو اس کا کیا نتیجہ نکلا؟ نتیجہ یہ ہوا کہ مسلمانوں پر قیامتیں ٹوٹیں اور بڑی بڑی آئیں.مگر چونکہ انہوں نے قیامت کی اور تعبیر کی ہوئی تھی اس لیے ان کی اولادوں نے یہ کہنا شروع کر دیا کہ قیامت کوئی چیز نہیں.اگر قیامت نے آنا ہوتا تو کیا اب تک آنہ چکی ہوتی.اس طرح وہ بے ایمان اور بے دین ہو گئے.کیونکہ ان کے باپ دادا نے قیامت کی اور تعبیر کی تھی اور خدا اور اس کے رسول نے اور تعبیر کی تھی.انہوں نے یہ کہنا شروع کر دیا کہ دیکھو رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا تھا کہ أَنَا وَالسَّاعَةُ كَهَا تَيْنِ 1 میں اور قیامت آپس میں اِس طرح ملے ہوئے ہیں جس طرح میری دو انگلیاں آپس میں ملی ہوئی ہیں.مگر قیامت ہے کہ ابھی تک آنے میں نہیں آتی حالانکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جو کچھ فرمایا اس کا مفہوم یہ تھا کہ میں اور قیامت آپس میں بالکل ملے ہوئے ہیں.میں مروں گا تو میرے مرنے کے ساتھ ہی تمہاری قیامت شروع ہو جائے گی.پس جو کچھ مجھ سے حاصل کرنا ہے میری زندگی میں ہی حاصل کر لو.ورنہ جس دن میں مرا اُسی دن تم پر قیامت آجائے گی اور پھر تم ان برکات کو حاصل نہیں کر سکو گے.جس طرح اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ قیامت کے دن بعض لوگ خواہش کریں گے کہ کاش! انہیں پھر دنیا میں لوٹا دیا جائے تاکہ وہ نیک اعمال بجالائیں مگر اللہ تعالیٰ فرمائے گا گلا ایسا ہر گز نہیں ہو سکتا.قیامت آنے کے بعد کسی ہے کو واپس لوٹایا نہیں جا سکتا.8 اسی طرح آپ نے فرمایا جب میں مروں گا تو تمہارے دلوں میں جوش پیدا ہو گا کہ کاش! میں پھر اس دنیا میں واپس آجاؤں.کاش! میں پھر حکم دوں اور تم اپنی جانیں میرے حکم پر قربان کر دو، میں پھر تمہیں مالی قربانی کی تحریک کروں اور تم میرے حکم پر اپنے مالوں کو قربان کر دو.اُس وقت تمہارے دلوں میں جوش پیدا ہو گا، تمہارے دلوں میں حسرت پیدا ہوگی کہ کاش! ہم فلاں قربانی میں حصہ لے سکتے.کاش! ہم فلاں حکم کی

Page 281

$1944 281 خطبات محمود تعمیل کر سکتے.مگر اُس وقت ان باتوں کا کوئی فائدہ نہیں ہو گا.تم اگر فائدہ اٹھانا چاہتے ہو تو اس کی صورت یہی ہے کہ اس قیامت کے آنے سے پہلے پہلے فائدہ حاصل کر لو.غرض آپ نے بتادیا کہ میری موت تمہارے لیے قیامت ہو گی اور میری موت کے ہے آنے کے ساتھ ہی تم پر قیامت آجائے گی.مگر سننے والوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اس بات کو نہ سمجھا اور وہ اُسی قیامت کی اہمیت سمجھتے رہے جب سب لوگ اللہ تعالیٰ کے حکم کے ماتحت یکدم مر جائیں گے.حالانکہ وہ قیامت کوئی تکلیف دہ چیز نہیں بلکہ ایک راحت اور آرام کی چیز ہے.کیونکہ اب جو فکر ہوتا ہے کہ فلاں مر گیا تو کیا ہو گا یہ فکر اُس وقت کے نہیں ہو گا.اب مرنے والا کہتا ہے کہ جب میں مر گیا تو پچھلوں کا کیا حال ہو گا اور پچھلے کہہ رہے ہوتے ہیں کہ اب ہمارا کیا بنے گا.یہ دکھ اور تکلیف جو انفرادی اموات سے لوگوں کو ہوتی ہے اسے اگر قیامت کہا جائے تو بالکل ٹھیک اور درست ہے.اسی طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سے جو قیامت دنیا پر آئی یا حضرت عمر، حضرت عثمانؓ اور حضرت علی کی شہادت سے لوگوں پر قیامت آئی اسے جس قدر بڑھا کر سمجھ لو درست ہے.اس کے مقابلہ میں وہ قیامت جسے لوگ عرف عام میں قیامت کہتے ہیں اور جبکہ سب لوگ مر جائیں گے قطعا یہ کوئی اہمیت نہیں رکھتی.اگر یہ کہو کہ اس قیامت کا ایک تکلیف دہ پہلو یہ ہے کہ اُس وقت کچھ لوگ دوزخ میں داخل کیے جائیں گے تو سوال یہ ہے کہ اب جو لوگ مرتے ہیں کیا اُن میں سے کچھ لوگ دوزخ میں نہیں جاتے؟ پھر اس میں اور اُس میں فرق کیا ہوا؟ اب بھی لوگ مرتے ہیں اور اُس دن بھی لوگ مر جائیں گے.فرق صرف یہ ہو گا کہ اب ایک ایک کر کے لوگ مرتے ہیں اور اُس دن سب لوگ اکٹھے مر جائیں گے.پس یہ قیامت ہر گز کوئی ایسی چیز نہیں جس سے ڈر اور خوف محسوس کیا جائے.اصل قیامت جس کے لیے لوگوں کو تیار رہنا چاہیے وہ ہم وہی قیامت ہے جب نبی فوت ہو جاتا ہے یا جب کسی نبی کی جماعت اللہ تعالیٰ کے وعدوں کے مطابق ترقی کرے اور اُس کے دشمن تباہ و برباد ہو جائیں.وہ وقت ایک قیامت کا وقت ہوتا ہے اور وہی ایک قیامت ہے جس کے لیے تیاری اور بہت بڑی تیاری کی ضرورت ہے.اگر نبی کی جماعت دنیا میں ترقی کر جائے، اس کے دشمنوں کی بربادی کا وقت قریب آ پہنچے لیکن جماعت میں ނ

Page 282

خطبات محمود 282 *1944 لوگوں کو سنبھالنے کی قوت اپنے اندر نہ رکھتی ہو تو پھر خود ہی سمجھ لو کہ اس صورت میں کنا بڑی قیامت دنیا پر آجاتی ہے.میں بتا چکا ہوں کہ قیامت کے ایک معنے جماعت کی ترقی اور نبی کے دشمنوں کی تباہی کے بھی ہیں.ایسی صورت میں اگر دشمنوں پر تباہی آجائے ، اگر ان کی می ہلاکت اور بربادی کا وقت اللہ تعالیٰ کی طرف سے قریب آپہنچے اور جماعت غالب آجائے لیکن لوگوں کو سنبھالنے والا کوئی نہ ہو تو یہ جماعت کے لیے کتنی بڑی ذلت اور شرمندگی کی بات ہوگی کہ خدا نے دشمن کی عمارت کو تہہ و بالا کر دیا، خدا نے اس کے قلعوں کو مسمار کر دیا، خدا نے اُس کے بلند و بالا محلات کو تمہیں نہیں کر دیا اور خدا نے اپنی جماعت کے لوگوں سے کہا کہ آؤ اور اب اس متاع کو سنبھال لو، آؤ اور اب دشمن کی جائیدادوں پر قبضہ کر لو مگر جماعت کے لوگ ہیں کہ وہ ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے ہیں.اور کہتے ہیں ہم ان جائیدادوں کو کس طرح ہے سنبھالیں ہم میں تو ان کے سنبھالنے کی طاقت ہی نہیں.یہ وہ قیامت ہے جس کے لیے تیاری کی ضرورت ہے ، یہ وہ قیامت ہے جس کے آنے سے پہلے پہلے ہر مومن مرد اور ہر مومن عورت کا کام ہے کہ وہ اس کے لیے ہمہ تن تیار ہو جائے.ورنہ دوسری قیامت کے لیے کسی خاص تیاری کی ضرورت نہیں.جو تیاری انسان اپنی موت کے لیے کرتا ہے اس سے ایک پیشہ 9 کے پر کے برابر بھی زیادہ تیاری کی ضرورت اس قیامت کے لیے نہیں ہے.بلکہ میرے نزدیک اس کے لیے اس سے بھی کچھ کم تیاری کی ہی ضرورت ہے.کیونکہ مرتے وقت تو انسان کو یہ بھی خیال آجاتا ہے کہ میری اس قدر جائیداد ہے اسے کون لے جائے گا.مگر قیامت کو یہ تمام جھگڑے ختم ہو جائیں گے اور سب لوگ اکٹھے مر جائیں گے.پس اصل قیامت وہ نہیں جسے عرفِ عام میں قیامت کہا جاتا ہے.بلکہ اصل قیامت یہ ہے کہ جب نبی دُنیا سے گزر جائے یا نبی کی پیشگوئیوں کے مطابق دشمن کو تباہ کر دیا جائے تو ہم جماعت اُس وقت حیران و پریشان کھڑی ہو اور وہ کہے کہ اب کیا کیا جائے.اب ان آنے والے لوگوں کو سنبھالنے والا ہم میں کوئی نہیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات کے بعد مسلمانوں کو بڑی بڑی کامیابیاں حاصل ہوئیں.مگر قابل آدمیوں کی کمی کی وجہ سے بہت سے انتظامات اور حکومت کے شعبے اُن لوگوں کے سپر د کرنے پڑے جو اسلام کی

Page 283

خطبات محمود 283 $1944 تعلیم سے پوری طرح واقف نہیں تھے.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ صحابہ میں ہزاروں لوگ قابل تھے، ہزاروں لوگ اسلام کی تعلیم کو سمجھتے تھے، ہزاروں لوگ قرآن کریم کو جانتے تھے اور وہ سب کے سب مختلف کاموں پر مقرر کر دیئے گئے.مگر پھر بھی بعض جگہیں رہ گئیں اور وہ ایسے لوگوں کو دینی پڑیں جو اس کام کے اہل نہیں تھے.اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اسلام کو سخت ضعف پہنچا اور مسلمان تباہ ہو گئے.پس یہ ایک قیامت تھی اور بہت بڑی قیامت مگر افسوس کہ می لوگوں نے اس کے لیے پوری تیاری نہ کی.اب ہمارا زمانہ آیا ہے.اس زمانہ میں خدا نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے جماعت کی ترقی کے متعلق بڑے بڑے وعدے کیے ہیں اور ہمیں یقین ہے کہ وہ اپنی سنت کے مطابق ایک دن اپنے ان وعدوں کو ضرور پورا کرے گا.وہ دن آنے والا ہے جب جماعت کے لوگ کہہ رہے ہوں گے کہ مَتی نَصْرُ الله اور دشمن یہ کہہ رہے ہوں گے کہ کہاں گئے تمہاری ترقی اور کامیابی کے وعدے.مگر آسمان پر خدا کے فرشتے دنیا کو بدلنے کے لیے تیار کھڑے ہوں گے.وہ رات کو یہ کہہ کر سوئیں گے کہ مَتی نَصْرُ الله اور جب صبح اٹھیں گے تو کفر کی دیواریں ٹوٹی ہوئی ہوں گی اور اس کی بنیادیں فرشتوں کے ہاتھوں سے گرائی جاچکی ہوں گی.شام کو کافر کہیں گے کہ کہاں گئے وہ وعدے جو تمہاری ترقیات کے متعلق کیے گئے تھے اور جب صبح ہو گی تو ان کی لاشیں لئے گھسیٹ رہے ہوں گے.لیکن ہمیں اس دن کے آنے کی کیا تو خوشی ہو سکتی ہے جب اِن حالات کو سنبھالنے کی ہم اپنے اندر قابلیت نہیں پاتے.جب ہماری تیاری ابھی بہت پیچھے ہے اور جب ہم میں سے بہتوں نے ابھی اپنے مقام کی اہمیت کو بھی پورے طور پر نہیں سمجھا.میں نے دیکھا ہے بعض دفعہ گورنمنٹ جب کوئی نیا عہدہ نکالتی ہے اور کہتی ہے کہ می ولایت کا پاس شدہ اس عہدہ پر مقرر کیا جائے گا تو کئی ماں باپ گھبر ائے ہوئے پھرتے ہیں کہ ابھی تو ہمارے بیٹے کے آنے میں چھ ماہ باقی ہیں اور عہدہ اب نکل آیا ہے.ہمارا بیٹا اگر ولایت سے جلدی واپس نہ آیا تو یہ عہدہ کوئی اور لے جائے گا.یہی ہماری حالت ہے.ابھی ہم نے وہ امتحان پاس ہی نہیں کیا جس کے بعد اللہ تعالیٰ کی طرف سے دنیا کے نئے نظام کی تکمیل کا کام ہے

Page 284

خطبات محمود 284 $1944 ہمارے سپر د کیا جانے والا ہے.ابھی ہماری جماعت میں بہت بڑی جہالت اور بہت بڑی نادانی پائی جاتی ہے.قادیان کے لوگ تو پھر بھی دین کی باتیں اکثر سنتے رہتے ہیں لیکن باہر کے لوگوں میں سے بہت سے تو بڑو کے بڑو ہیں.انہیں کچھ پتہ نہیں کہ اسلام اُن سے کیا تقاضا کرتا ہے، احمدیت ان سے کیا چاہتی ہے ، خدا اور اس کار سول انہیں کس راستہ پر لے جانا چاہتے ہیں.صرف چند موٹے موٹے مسائل ان کو معلوم ہیں اس سے زیادہ ان کو کچھ پتہ نہیں.اسلامی مسائل کی باریکیاں، احکام الہی کی حکمتیں، قرآن کریم کی تعلیم کی خوبیاں، اسلام کی تمدنی، سیاسی اور اقتصادی تعلیمیں، احمدیت اور اسلام کا روشن مستقبل، حکومت اور نظام سے تعلق رکھنے والی اسلامی تعلیم کی تفصیلات اور اس کی خوبیاں، عبادات اور روحانیت میں ترقی کرنے کے اصول، بندوں اور خدا کے آپس میں تعلقات، دنیا کی پیدائش کی حکمتیں یہ ساری باتیں ایسی ہیں جو ابھی اُن کو معلوم نہیں اور جن کے سیکھنے اور معلوم کرنے کی تڑپ بھی بعض لوگوں کے اندر نظر نہیں آتی.فرض کرو کل ہی وہ دن آجاتا ہے جب دشمن کو تباہ کر دیا جاتا ہے، لفر کو اللہ تعالیٰ کی قدرت کا ایک ہی ہاتھ مٹاکر رکھ دیتا ہے، جب خدا اپنی جماعت کے لوگوں سے کہتا ہے کہ جاؤ اور ان لوگوں کی حکومت کو سنبھال لو.تو ہم کہاں سنبھال سکیں گے.اور جب ہم اس کو سنبھالنے کی اپنے اندر طاقت نہیں پائیں گے تو یہ لازمی بات ہے کہ اُسے کوئی اور قوم لے جائے گی.انگریز جب افریقہ میں گئے تو افریقن قبائل چونکہ چھوٹے چھوٹے تھے اور زمینیں ان کے پاس بڑی کثرت کے ساتھ تھیں جن کی وہ کاشت بھی نہیں کر سکتے تھے اس لیے انگریز ان میں سے کہتے کہ جتنی زمین میں تم آسانی سے ہل چلا سکتے ہو اتنی زمین اپنے پاس رکھ لو باقی زمین ہے تمہیں اپنے پاس رکھنے کی ضرورت نہیں کیونکہ وہ تمہارے لیے بیکار ہے.چنانچہ تھوڑی تھوڑی ہے زمین ان لوگوں نے لے لی اور باقی سب زمین پر انگریزوں نے قبضہ کر لیا.اب کینیا کالونی میں ہے بعض انگریزوں کے پاس ایک ایک لاکھ ایکڑ زمین موجود ہے حالانکہ اس زمین کے مالک ہے افریقہ کے حبشی قبائل تھے.مگر چونکہ وہ ان زمینوں کو سنبھالنے کی قابلیت اپنے اندر نہیں ہے رکھتے تھے اس لیے انگریزوں نے ان سے کہہ دیا کہ جتنی زمین تم سنبھال سکتے ہو وہ سنبھال او من

Page 285

خطبات محمود 285 $1944 اور باقی ہمیں دے دو.نتیجہ یہ ہوا کہ کسی نے دو ایکٹر زمین رکھ لی، کسی نے چار ایکڑ زمین رکھ لی اور باقی سب زمین پر انگریز قابض ہو گئے.اگر پنجابی زمیندار ہوتے تب بھی وہ تیس تیس چالیس چالیس ایکٹر زمین رکھ لیتے مگر انہوں نے صرف دو دو چار چار ایکڑ زمین اپنے پاس رکھی.بلکہ بعض نے تو یہ بھی کہہ دیا کہ ہمیں اتنی زمین کی بھی ضرورت نہیں.کیونکہ ہم اپنی زمین کو سنبھالنے کی طاقت نہیں رکھتے.چنانچہ وہ سب زمین انگریزوں نے لے لی.اور انہوں نے کہنا شروع کر دیا کہ ہم نے ظلم نہیں کیا بلکہ ان کی ضرورت سے جو نا کہ زمین تھی صرف وہ ہم نے متین اپنے قبضہ میں لی ہے.تو جیسے افریقہ کے عبثی قبائل سے ہوا کہ مال تو ان کے پاس تھا مگر چونکہ وہ اُس کو سنبھالنے کی قابلیت نہیں رکھتے تھے اس لیے اُس پر دوسروں نے قبضہ کر لیا.یہی کچھ ہمارے ساتھ بھی ہو سکتا ہے.اللہ تعالیٰ یقیناً ایک دن ایسا لائے گا جب دنیا کی حکومتیں اور طاقتیں ہمارے قبضہ میں آجائیں گی.مگر جب اُن حکومتوں کو سنبھالنے کی ہمارے اندر قابلیت نہیں ہو گی، جب تعلیم کے لیے ہمارے پاس مدرس نہیں ہوں گے ، جب وعظ و نصیحت کے لیے ہے ہمارے پاس علماء نہیں ہوں گے ، جب روحانیت کا درس دینے کے لیے ہمارے پاس عارف نہیں ہوں گے ، جب تبلیغ و تربیت کے لیے ہمارے پاس مبلغ نہیں ہوں گے ، جب زہد و اتقاء کی روح ہے قائم کرنے کے لیے ہمارے پاس سالک اور عابد نہیں ہوں گے تو ہم اس وقت کیا کر سکیں گے.نتیجہ یہ ہو گا کہ چونکہ اس جائیداد کو ہم سنبھال نہیں سکیں گے، اس لیے وہ اسلام کے لیے فتح ہیں کیے ہوئے دل، وہ اسلام کے لیے فتح کی ہوئی جائیں، وہ اسلام کے لیے فتح کیے ہوئے قبائل، وہ اسلام کے لیے فتح کی ہوئی قو میں کچھ دن تو ہمارا انتظار کریں گی مگر پھر ان کے دلوں پر زنگ لگتا ہے شروع ہو جائے گا.پھر خدا کی جائیداد دوبارہ شیطان کے قبضہ میں جانی شروع ہو جائے گی.مجھے اس چیز کا دیر سے فکر تھا اور متواتر اس مضمون کو میں نے اپنے خطبات میں بھی بیان کیا ہے مگر کل مجھے خدا تعالیٰ کی طرف سے جو بات معلوم ہوئی اُس نے تو میری کمر ہی توڑ دی ہے.میں نے کشفی حالت میں یہ نظارہ دیکھا کہ گویا آسمان کے فرشتوں کی آوازیں سن رہا ہوں.مجھے بہت دفعہ کشفی حالت میں ملا اعلیٰ کی آواز سننے کا موقع ملا ہے.کل بھی ایسا ہی ہوا.اور میں نے آسمان کے فرشتوں کو دیکھا کہ

Page 286

خطبات محمود 286 $1944 حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک شعر پڑھ رہے ہیں مگر کچھ تغیر کے ساتھ.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا شعر ہے یارو جو مرد آنے کو تھا وہ تو آچکا یہ راز تم کو شمس و قمر بھی بتا چکا10 مگر میں خواب میں فرشتوں کے پڑھنے کی جو آواز سنتا ہوں اُس میں پہلے دو لفظ بدلے ہوئے ہیں.یعنی فرشتے بجائے یہ کہنے کہ یارو جو مرد آنے کو تھا وہ تو آپکا یہ کہتے ہیں کہ راز تم کو شمس و قمر بھی بتا سوچو جو شخص آنے کو تھا وہ تو آپکا راز تم کو شمس و قمر بھی بتا چکا اور میں سمجھتا ہوں کہ یہ تبدیلی اس زمانہ کے لحاظ سے نہایت مناسب ہے.جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ شعر کہا اُس وقت ہمارے سلسلہ کا ابتدائی زمانہ تھا اور لوگوں کو اس رنگ میں اپیل کرنا مناسب تھا.مگر اب وہ زمانہ گزر چکا ہے اور اب ہے سلسلہ کی ترقی اس حد تک پہنچ چکی ہے کہ لوگوں کو سوچنا چاہیے اور اس بارہ میں انہیں ہے غور و فکر سے کام لینا چاہیے کہ جس شخص نے آنا تھا وہ تو آچکا.چنانچہ میں نے سنا کہ فرشتے کہہ رہے ہیں سوچو جو شخص آنے کو تھا وہ تو آپکا راز تم کو شمس و قمر بھی بتا چکا فرشتے اس شعر کو بہت بلند آواز سے اور بڑی رسیلی اور سریلی آواز میں پڑھ رہے ہیں اور میں سن رہا ہوں.اس کے بعد مجھ پر ایک الہام نازل ہوا جس نے میرے ہوش اُڑا دیئے.

Page 287

$1944 287 خطبات محمود وہ الہام یہ تھا جو خود ایک مصرع کی شکل میں ہے کہ 6 روز جزا قریب ہے اور رہ بعید ہے بڑے زور سے یہ الہام مجھ پر نازل ہوا اور بار بار اس کو دہرایا گیا.اس الہام کے اور معنی بھی ہو سکتے ہیں مگر میں نے اُس وقت جو اس الہام کے معنے سمجھے وہ یہ ہیں کہ وہ تغیرات عظیمہ جن کا پیشگوئیوں میں ذکر کیا گیا تھا اور وہ اسلام اور احمدیت کے غلبہ کے ایام جن کی اللہ تعالیٰ کی طرف سے خبر دی گئی تھی بالکل قریب آپہنچے ہیں.روزِ جزا اب سر پر کھڑا ہے.قدرت کا زبردست ہاتھ اُس دن کو اب قریب تر لا رہا ہے.مگر رہ بعید ہے.جماعت نے اس آنے والے دن کے لیے ابھی وہ تیاری نہیں کی جو اسے کرنی چاہیے تھی.اور ابھی اس نے وہ مقام حاصل نہیں کیا جو اس عظیم الشان یوم جزا کے انعامات کا اسے مستحق بنانے والا ہو.اس کے لیے ابھی بہت بڑا اور لمبا راستہ پڑا ہے جسے اسے طے کرنا ہے.پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: روزِ جزا قریب ہے یعنی وہ جو ہمارا کام تھا ہم نے اسے پورا کر دیا اور ہم نے اُس دن کو تمہارے سامنے لا کر رکھ دیا.جو تمہاری کامیابی اور تمہاری فتح اور تمہارے غلبہ کا دن ہے.گویا اللہ تعالیٰ اس الہام کے ذریعہ جماعت احمدیہ کو مخاطب کرتا اور اسے فرماتا ہے کہ اے احمد کی جماعت ! جو ہمارا حصہ تھا ہم نے اُسے پورا کر دیا، جتنے سامان یوم جزا کو قریب تر لانے کے لیے ضروری تھے ہیں وہ ہم نے سب مہیا کر دیئے اور اسلام اور احمدیت کی فتح کے سامان ہم نے جمع کر لیے.پس اب قریب ترین زمانہ میں اس فتح کے آثار ظاہر ہونے شروع ہو جائیں گے ، قریب ترین زمانہ میں اسلام اور احمدیت کے غلبہ کے راستے دنیا میں کھل جائیں گے.مگر رہ بعید ہے.وہ راستہ جو ابھی تم نے طے کرنا ہے اور جس پر چل کر تم نے اس روز جزا سے فائدہ اٹھانا ہے وہ ابھی بہت بعید ہے.تم میں سے کئی ہیں جنہوں نے ابھی اس راستہ پر چلنا بھی شروع نہیں کیا اور کئی ایسے ہیں جو اس راستے پر چل تو پڑے ہیں مگر انہوں نے سفر ابھی بہت کم طے کیا ہے.گویا ہم نے تو اپنا حصہ پورا کر دیا مگر تم نے اپنے حصہ کو پورا نہیں کیا.اب دیکھو! یہ ایسی ہی بات ہے

Page 288

$1944 288 خطبات محمود ہے جیسے دو شخص آپس میں ٹھیکہ کریں اور ایک شخص دوسرے سے سمجھوتہ کرے کہ نم امر تسر سے دس میل کے فاصلہ پر اتنے لاکھ من سونا پہنچا دو.وہاں تک سونا پہنچانا تمہارا کام ہے.اس کے بعد میر اکام شروع ہو گا اور میں اُس سونے کو اُٹھا کر اپنے گھر لے آؤں گا.اب اگر دوسرا شخص اس معاہدہ کے مطابق ٹھیک مقررہ تاریخ کو امر تسر سے دس میل کے فاصلے پر سونا لا کر رکھ دے مگر یہ شخص ابھی قادیان سے ایک میل کے فاصلے پر ہی ہو تو جانتے ہو اس میں کا کیا نتیجہ ہو گا ؟ یہی ہو گا کہ چور آئیں گے اور اُس سونے کو اٹھا کر لے جائیں گے، ڈاکو آئیں گے اور اس سونے پر قبضہ کر لیں گے اور جب یہ شخص وہاں سونا لینے کے لیے پہنچے گا تو اس جگہ کو بالکل خالی پائے گا.اللہ تعالی بھی اس الہام میں اسی امر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ تم نے تو ابھی اس راستے کو طے ہی نہیں کیا جس پر چل کر ان انعامات کے تم مستحق بن سکتے ہے ہو.مگر ہماری حالت یہ ہے کہ ہم اس دن کو جو تمہاری فتح اور کامیابی کا دن ہے تمہارے قریب ہے لاچکے ہیں.روز جزا قریب ہے اور رہ بعید ہے میری طرف سے جو کچھ ظاہر ہونا تھا اس کی تیاریاں آسمان پر مکمل ہو چکی ہیں مگر تم نے جو کچھ کرنا تھا اُس کے لیے ابھی کئی منزلیں طے کرنی باقی ہیں.مجھے جب یہ الہام ہوا تو میں نے اُس وقت سوچا کہ گو میں جماعت کو جلدی جلدی آگے کی طرف اپنا قدم بڑھانے کی تحریکات کر رہا ہوں.جس پر بعض لوگ ابھی سے گھبرا اٹھے ہیں کہ کتنی جلدی جلدی نئی سے نئی تحریکیں کی جارہی ہیں.کبھی وقف جائیداد کی تحریک مینی کی جاتی ہے، کبھی وقف زندگی کی تحریک کی جاتی ہے، کبھی کالج کی تعمیر کے لیے چندہ کی تحریک کی جاتی ہے مگر اللہ تعالیٰ اس کو بھی ناکافی قرار دیتا ہے اور فرماتا ہے تمہارا رہ بعید ہے.یعنی ابھی تم نے کچھ بھی نہیں کیا.سفر ابھی بہت باقی ہے اور تمہارا قدم خطر ناک طور پر ست ہے.حالانکہ میں نے جو کام کرنا تھا وہ کر لیا، میرا ٹھیکہ پورا ہو گیا اور جو چیز میں نے تم کو دینی تھی وہ منی دے دی.مگر تم ابھی اپنے کام کے لیے تیار نظر نہیں آتے.اس مفہوم کے علاوہ اللہ تعالیٰ کے اس الہام کا ایک اور امر کی طرف بھی اشارہ ہو سکتا.ہے.

Page 289

خطبات محمود 289 $1944 گونزول الہام کے وقت میں نے اس کے وہی معنے سمجھے تھے جو میں نے ابھی بیان کیے ہیں.لیکن پھر بھی اس الہام کا ایک اور مطلب بھی ہو سکتا ہے.لیکن وہ بھی اپنی ذات میں کوئی خوشکن نہیں.یعنی اس الہام کا ایک یہ مطلب بھی ہو سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ہر شخص جو تم میں سے اسلام اور احمدیت کی ترقی کے لیے کوشش کر رہا ہے اُس کی یہ کوشش اتنی تھوڑی اور اس قدر کم ہے کہ اُس کی اِس کوشش اور جدوجہد کے مقابلہ میں اس کی زندگی کے جس قدر ایام ہیں ان میں ان کوششوں کا کوئی نتیجہ نہیں نکل سکتا.گویا تم میں سے ہر شخص جو می کوشش آج اسلام اور احمدیت کے غلبہ کے لیے کر رہا ہے اگر مرتے دم تک وہ اسی رنگ میں کوشش اور جد وجہد کرتارہے اور اپنا قدم تیز نہ کرے تو یہ کو ششیں اِس قدر کم ہیں کہ یہ خیال کرنا کہ ان کوششوں کے نتیجہ میں تم اسلام کا غلبہ اپنی آنکھوں سے دیکھ سکو گے یہ ناممکن ہے ہے.اگر تمہاری کوشش اور جد وجہد کی یہی رفتار رہی تو تم اپنی زندگی میں یوم جزا کو نہیں دیکھے تھے سکو گے.یہ معنے اگر لیے جائیں تو یہ بھی کوئی خوش کن معنے نہیں.مگر جو معنے اُس وقت میں نے سمجھے وہ یہی تھے کہ روز جزا قریب ہے جو کا مطلب یہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے تم سے اسلام اور احمدیت کے غلبہ کے متعلق ? وعدے فرمائے ہیں اُن کے پورا ہونے کا وقت آگیا، آسمان پر فرشتوں کی فوجیں اُس دن کو لانے کے لیے تیار کھڑی ہیں.مگر جو کوشش تم کر رہے ہو وہ بہت ہی حقیر ا بہت ہی ادنی اور معمولی ہے.جب ہم نے اپنے فضل کا دروازہ کھول دیا، جب آسمان من ، فرشتوں کی فوجیں زمین میں تغیر پیدا کرنے کے لیے نازل ہو گئیں، جب کفر بربادی کا وقت آپہنچا، جب اسلام کے غلبہ کی گھڑی قریب آگئی تو اُس وقت تم اگر پوری طرح تیار نہیں ہو گے، تم نے اپنے اندر کامل تغیر پیدا نہیں کیا ہو گا، تم نے اپنی اصلاح کی طرف پوری توجہ نہیں کی ہوگی تو نتیجہ یہ ہوگا کہ تم اس دن سے فائدہ اٹھانے سے محروم رہ جاؤ گے اور اسلام کی دائمی ترقی میں روک بن جاؤ گے.کیا تم نہیں دیکھتے کہ جس پانی کو سنبھالا نہ جائے وہ بجائے فائدہ پہنچانے کے لوگوں کو میچ

Page 290

$1944 290 خطبات محمود تباہ کر دیتا ہے.جس دودھ کو محفوظ نہ رکھا جائے وہ پھٹ جاتا ہے.وہی پانی فائدہ پہنچاتا ہے جس کو سنبھالا جائے اور وہی دودھ انسان کو طاقت بخشتا ہے جس کو پھٹنے سے محفوظ رکھا جائے.پھٹا ہوا دودھ کس کام آسکتا ہے.گرا ہوا سالن کون استعمال کرتا ہے.کتے کے آگے پڑی ہوئی روٹی کون کھا سکتا ہے.اسی طرح اگر ہم نے اس دودھ کو محفوظ نہ رکھا جو خدا نے ہمارے لیے نازل کیا ہے، اگر ہم نے اس کھانے کی حفاظت نہ کی جو خدا نے ہمیں دیا ہے، اگر ہم نے اس پانی کو نہ سنبھالا جو خدا نے آسمان سے اتارا ہے تو یہ پانی اور یہ دودھ اور یہ کھانا ہمارے لیے ایک طعنہ کا موجب بن جائے گا.کیونکہ ہمیں چیز تو ملی مگر ہم نے اُس کی قدر نہ کی.پس میں آج پھر خدا تعالیٰ کے اس پیغام کو جماعت تک پہنچاتا ہوں.پہلے میری طرف سے ہی گھبراہٹ تھی اور میں جماعت کو بار بار کہتا تھا کہ جلد جلد بڑھو، جلد جلد اپنا قدم آگے کی طرف بڑھاؤ.مگر اب خدا تعالی کی طرف سے بھی یہ گھبر ا دینے والا پیغام میں آگیا ہے.روز جزا قریب ہے اور رہ بعید ہے جزا کا دن بہت قریب ہے مگر تمہاری راد بہت بعید ہے.اب چاہے اس کے یہ معنے سمجھ لو کہ ہر ہے شخص کی موت کا دن اُس سے زیادہ قریب ہے جتنا قریب اس کے اعمال کے نتیجہ میں اسلام کی ہے فتح آسکتی ہے.اگر وہ اِسی چال پر چلتے رہے تو ان کا یہ خیال کرنا کہ اسلام کی فتح کا دن ان کی بیتی آنکھوں کے سامنے آجائے گا، ناممکن ہے.رفتار بہت سست ہے، کوششیں بہت محدود ہیں مگر زندگی کے ایام تھوڑے ہیں.اور اگر چاہو تو اس الہام کے یہ معنے سمجھ لو کہ میں نے تم سے اسلام کی ترقی اور احمدیت کے غلبہ کے متعلق جس قدر وعدے کیے تھے ان تمام وعدوں کو پورا کرنے کے سامان میں مہیا کر چکا ہوں وہ وعدے اب عنقریب ظہور پذیر ہونے والے ہیں مگر اے مومنو! اگر قریب ترین عرصہ میں تم نے اس آنے والے دن کے لیے کوئی تیاری نہ کی تو یہ تم ان نعمتوں کو سنبھال نہیں سکو گے.نعمتیں تو آئیں گی مگر بجائے اس کے کہ تم ان پر قابض رہو وہ تمہارے ہاتھ سے نکل جائیں گی.وہ زمین پر بکھر جائیں گی، وہ تباہ اور برباد ہو جائیں گی.میں

Page 291

خطبات محمود 291 $1944 پھر خدا ایک نیا نظام قائم کرے گا اور اُس نئے نظام کے ذریعہ اپنی ان نعمتوں کو دوبارہ واپس لانے کے سامان مہیا کرے گا.کیونکہ جو نعمتیں ایک دفعہ کسی قوم کے ہاتھ سے نکل جائیں وہی قوم ان نعمتوں کو دوبارہ کبھی حاصل نہیں کر سکتی.دنیا کی تاریخ میں یہ کہیں بھی نظر نہیں آتا کہ ایک قوم کے ہاتھ سے جب کوئی نعمت نکل گئی ہو تو پھر وہی قوم اس نعمت کو سمیٹ سکی ہو.اُس وقت بحیثیت قوم ان نعمتوں کو سمیٹا نہیں جاسکتا.ہاں! افراد ایک ایک دانہ چنتے اور استعمال کرتے رہتے ہیں.جیسے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد بھی امت محمدیہ میں بعض بڑے بڑے بزرگ ہوئے.مثلاً حضرت سید عبد القادر صاحب جیلانی حضرت معین الدین صاحب چشتی، حضرت سید احمد صاحب سرہندی، حضرت ولی اللہ شاہ صاحب دہلویؒ ، حضرت شہاب الدین صاحب سہر وردی اور اسی طرح اور ہزاروں اولیاء امتِ محمدیہ میں ہوئے اور اللہ تعالیٰ کی روحانی نعماء سے فائدہ اٹھاتے رہے.مگر ان کی مثال ایسی ہی تھی جیسے مر غاز مین پر سے ایک ایک دانہ چن کر کھاتا ہے.انہوں نے بھی نعمتوں کے ایک ایک وائے زمین سے بچنے اور استعمال کیے.مگر سونے سے بھری ہوئی کا نہیں، موتیوں سے بھرے ہوئے سمندر اور لعل و جواہرات اور ہیروں کے انبار اُن کے زمانہ میں نہ رہے.انہوں نے جس قدر انعامات حاصل کیسے انفرادی انعامات تھے قومی انعامات نہیں تھے.لیکن انبیاء کے زمانہ میں تمام قوم کو انعامات میں سے حصہ دیا جاتا ہے.پس اگر یہ معنے اس الہام کے ہیں تو یہ ہیں بھی تکلیف دہ ہیں.دنیا نے بڑا انتظار کیا ایک ایسی ہدایت کا جو اُسے نور سے بھر دے، دنیا نے بڑا انتظار کیا اُس جنگ کا جو شیطان کو ہمیشہ کے لیے آخری شکست دے دے.لیکن اگر اس جنگ میں شیطان کو فرشتے شکست بھی دے دیں اور مومن آگے نہ بڑھیں تو شیطان پھر واپس لوٹ آئے گا اور پھر اسلام کے قلعہ پر قبضہ کر لے گا.اُسی قلعہ میں دشمن واپس نہیں آیا کرتا جس کے متعلق وہ جانتا ہو کہ اس میں غنیم کی فوجیں جمع ہیں.لیکن اگر فرشتوں نے شیطان کا قلعہ سر کر لیا اور مومن آگے نہ بڑھے تو ہزاروں سال کی پیشگوئیاں اور وہ ایک لمبی لڑائی جو شیطان سے لڑی گئی تھی رائیگاں چلی جائے گی.میں جانتا ہوں کہ پیشگوئیاں گلی طور پر یوں ہی نہیں چلی جاتیں مگر جب کوشش اور

Page 292

خطبات محمود 292 $1944 جد وجہد کا پہلو کمزور ہو تو اس کے نتائج ضرور تلخ ہوتے ہیں.پس میں جماعت کو پھر توجہ دلاتا ہوں کہ دیکھو! رستہ دور کا ہے، وقت تھوڑا ہے، تمہاری کوششیں نامکمل ہیں اور فتح کا دن نزدیک آرہا ہے.تم جلد جلد اپنے قدم بڑھاؤ اور ہر میدان میں اسلام کے جانباز سپاہی بننے کی کوشش کرو.اگر تم میں سے ہر شخص اسلام کی فتح کے لیے اپنے خون کا آخری قطرہ تک بہا دیتا ہے ، اگر تم میں سے ہر شخص اپنے جسم کا ذرہ ذرہ اسلام کی فتح کے لیے اس طرح اُڑا دیتا ہے جس کے طرح روئی دھنکنے والا روئی کے ذرات کو ہوا میں اُڑاتا ہے تو تمہاری اس سے زیادہ خوش قسمتی اور کوئی نہیں ہو سکتی.تمہارا فرض ہے کہ تم باہر نکل جاؤ اور جو لوگ ہماری جماعت میں سے جاہل ہے ہیں ان کو مجبور کرو کہ وہ اسلام کی تعلیم کو سیکھیں اور قرآن کریم کے احکام پر عمل کریں.اسی من طرح جماعت کے افراد کا فرض ہے کہ وہ آگے بڑھیں اور اسلام کی خدمت کے لیے اپنی زندگیوں کو وقف کر دیں.ضرورت ہے کہ ہمارے پاس ہزاروں ایسے لوگ ہوں جو دین کو پوری طرح سیکھے ہوئے ہوں تاکہ جب بھی کوئی ملک اسلام کے لیے فتح ہو اور اللہ تعالیٰ اس میں نیک تغیر پیدا کرے تو ہمارے پاس اس ملک کو سنبھالنے والی جماعت بھی موجود ہو اور ہم یہ نہ کہہ سکیں کہ ملک تو اسلام کے لیے فتح ہو گیا مگر جماعت اس کو سنبھالنے کے لیے تیار نظری نہیں آتی.ہمارے پاس وہ آدمی موجود ہونے چاہیں جن کو اُس ملک میں پھیلایا جا سکے، ہمارے پاس وہ لٹر بیچر موجود ہونا چاہیے جو اس ملک میں شائع کیا جاسکے ، ہمارے پاس وہ کتا ہیں موجود ہونی چاہیں جو اس ملک کے کونے کونے میں پھیلائی جاسکیں، ہمارے پاس روپیہ موجود ہونا چاہیے جس سے مبلغین کے سفر خرچ اور دیگر اخراجات کا انتظام کیا جاسکے.اسی طرح ضروری ہے کہ اسلام کی جائیداد میں ہماری اپنی جائیدادوں سے لاکھوں بلکہ کروڑوں گنازیادہ ہوں اور ہماری مالی قربانیاں اسلام کے فنڈ کو اس قدر مضبوط کر دیں کہ جب کسی ہے ملک میں اسلامی لشکر بھجوانے کی ضرورت محسوس ہو ، جب سپاہیوں کے لیے روحانی گولہ بارود کی ہے ضرورت ہو ، جب لوگوں کی پیاس بجھانے کے لیے لڑیچر فراہم کرنا ضروری ہو تو ہمارے پاس ہے اس قدر سامان موجود ہو کہ ہم بغیر کسی قسم کے فکر کے اور بغیر اس کے کہ ہمارے سپاہیوں کو کسی قسم کی تشویش ہو اسلام کی ان تمام ضروریات کو پورا کر سکیں.اسی طرح ضروری ہے کہ ہے

Page 293

خطبات محمود 293 $1944 ہماری جماعت کے نوجوانوں کو انگریزی یادنیوی تعلیم ایسے رنگ میں دلائی جائے کہ بجائے اس کے کہ وہ تعلیم انہیں اسلام اور ایمان سے بے بہرہ کرنے والی ہو وہ اُن کے دلوں میں اسلام کی صداقت پر زیادہ سے زیادہ یقین اور وثوق پیدا کرنے والی ہو.بجائے اس کے کہ آئندہ سائنر اسلام پر کفر کو غالب قرار دے سکے ، سائنس کفر کو کھا جانے والی اور اسلام کو غالب و بر تر ثابت کرنے والی ہو اور اس کی توپوں کا منہ اسلام کے قلعہ کی بجائے کفر کی طرف ہو اور اس کے لیے گولے کفر کی دیواروں کو گرا رہے ہوں.اسی طرح ہمیں اپنی تمدنی اصلاح کی طرف ابھی بہت بڑی توجہ کی ضرورت ہے.ا ابھی تک خاوندوں کے بیویوں سے اچھے تعلقات نہیں ، بیویوں کے خاوندوں سے اچھے تعلقات نہیں، اولاد اپنے ماں باپ سے اچھے تعلقات نہیں رکھتی اور ماں باپ اولاد کے حقوق کی یہ نگہداشت نہیں کرتے.دوستوں کے دوستوں سے اور ہمسایوں کے ہمسایوں سے اچھے تعلقات نہیں، دکاندار گاہکوں سے اچھی طرح پیش نہیں آتے ، گاہک تاجروں کا خیال نہیں رکھتے ، قرض لینے والے قرض واپس کرنے کا خیال نہیں کرتے اور قرض دینے والے مقروض کی مجبوریوں کا خیال نہیں رکھتے ، استاد شاگردوں سے اچھی طرح پیش نہیں آتے اور شاگرد اُستادوں کا احترام نہیں کرتے.غرض ہمیں تمدنی اصلاح کی ابھی بہت بڑی ضرورت ہے.جب تک ہماری تمدنی اصلاح نہیں ہو گی اُس وقت تک دل صاف نہیں ہوں گے اور جب تک دل صاف نہیں ہوں گے ایمان پیدا نہیں ہو گا اور جب تک ایمان پیدا نہیں ہو گا اللہ تعالیٰ کی محبت حاصل نہیں ہو گی.پس بہت بڑا کام ہے جو ہم نے سر انجام دیتا ہے.بلکہ اتنے بڑے کام ہم نے تے کرتے ہیں کہ اگر ہم ان کو گننے لگیں تو شمار میں ہی نہ لا سکیں.یہ کام جب ہم نے کر لیے تو می يَوْمُ الْجَزَاءِ بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے آجائے گا.جب کفر کو تباہ کر دیا جائے گا اور اسلام کو غالب کر دیا جائے گا.پہلے لوگوں سے یہ غلطی ہوئی کہ انہیں جب قیامت کی خبر دی گئی تو انہوں نے اس کی حقیقت کو نہ سمجھا اور قیامت آنے سے پہلے اس کے لیے کوئی تیاری نہ کی.اب ہماری جماعت کے لیے خوف کا مقام ہے.ایسا نہ ہو کہ بعض نادان اب بھی قیامت کی حقیقت کو نہ سمجھیں اور

Page 294

خطبات محج محمود 294 $1944 اس کی تیاری سے غافل رہیں.میں جس قیامت کی خبر دے رہا ہوں وہ ہمیشہ دنیا میں آتی رہی اور آتی رہے گی.مگر لوگوں نے نہ سمجھا اور قیامت دیکھنے کے باوجود انہوں نے یہی کہا کہ قیامت ابھی تک نہیں آئی.کاش! ہم لوگ اس زمانہ میں ہی قیامت کی حقیقت کو سمجھیں اور ہم اس کے بد نتائج سے بچنے اور اس کے نیک نتائج سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کریں کہ اسی میں اسلام کی ترقی اور اسی میں احمدیت کا غلبہ ہے ".* ( الفضل 27 / اپریل 1944ء) * بعض دوستوں نے خطبہ کے بعد مجھے لکھا ہے کہ اس الہام کا اس الہام کی طرف بھی اشارہ ہو سکتا ہے کہ دیر آمده ز راه دور آمد 116 یعنی گو جماعت کا راہ ڈور ہے مگر اس الہام کے ماتحت تم جماعت کو لے کر اسی دور کی راہ کو جلد طے کر لو گے اور اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے وارث ہو گے.خدا کرے یہ معنی درست ہوں مگر ہمارا کام یہ ہے کہ اپنی کمزوریوں پر نظر رکھیں اور قربانیوں کے لیے اپنے آپ کو تیار کریں.یہ بہت اچھا ہے اس سے کہ ایسی امیدوں پر تکیہ رکھیں جو بعد میں پوری نہ ہوں اور ناکامیوں کے قریب کر دیں.اللہ تعالیٰ اس بُرے دن سے محفوظ رکھے.آمین 1 : إِلَيْهِ يُرَدُّ عِلْمُ السَّاعَةِ وَمَا تَخْرُجُ مِنْ ثَمَاتٍ مِنْ أَكْمَامِهَا وَ مَا تَحْمِلُ مِنْ أُنْثَى وَ لَا تَضَعُ إِلَّا بِعِلْمِهِ وَيَوْمَ يُنَادِيهِمْ اَيْنَ شُرَكَاءِى " قَالُوا أَذَنُكَ " مَا مِنَّا مِنْ شَهِيدٍ (حم السجده:48) 2 : دیوان غالب مطبوعہ آئینہ ادب لاہور صفحہ 89 میں شعر اس طرح سے ہے وو ” جاتے ہوئے کہتے ہو قیامت کو ملیں گے کیا خوب! قیامت کا ہے گویا کوئی دن اور “ : روح البیان فی تفسیر القرآن لشيخ اسماعیل حقی جلد 1 صفحه 372 زیر آیت وَمَا مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُول.....المطبعة النفيسة العثمانية 1306هـ 4 : سیرت ابن ہشام، جلد نمبر 4 صفحہ 334.مطبع حجازی قاہرہ

Page 295

خطبات محمود 295 $1944 5 : دیوان حسان بن ثابت.الجزء الاول نمبر 308 صفحہ 478-المكتبة العلمية لاہور 6 : دیوان حسان بن ثابت.الجزء الاول نمبر 308 صفحہ 478-المكتبة العلمية لاہور 1 : بخارى كتاب الرِّقَاقِ بَاب قَوْلِ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بُعِثْتُ أَنَا وَالسَّاعَةُ كَهَائيي : حَتَّى إِذَا جَاءَ أَحَدَهُمُ الْمَوْتُ قَالَ رَبِّ ارْجِعُونِ لَعَلِّي أَعْمَلُ صَالِحًا فِيمَا de تَرَكْتُ كَلَّا إِنَّهَا كَلِمَةٌ هُوَ قَائِلُهَا وَمِن وَرَائِهِم بَرْزَخٌ إِلَى يَوْمِ يُبْعَثُونَ (المومنون: 101،100) 9 :ہ : مچھر 10 ضمیمہ تحفہ گولڑویہ روحانی خزائن جلد 17 صفحہ 79 11: تذکرہ صفحہ 165.ایڈیشن چہارم -----------------

Page 296

خطبات محمود 296 $1944 15 دنیا فیصلہ کر سکتی ہے کہ دہلی میں جیت ہماری ہوئی یا ہمارے دشمنوں کی؟ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ایک پیشگوئی اس موقع پر پوری ہوئی (فرمودہ 21 / اپریل 1944ء) تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: " دوستوں نے اختصارا دہلی کے جلسہ کے حالات سن لیے ہوں گے.میں اُسی کے متعلق آج کچھ بیان کرنا چاہتا ہوں.اس وقت مسلمانوں کی حالت جس قدر اسلام سے دور ہے وہ خود اس بات پر شاہد ہے کہ اس وقت اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی مامور آنا چاہیے تھا.قرآن کریم کی ایک ایک آیت کو آج مسلمانوں نے نظر انداز کر دیا ہے.اس کی وہ تمام اعلیٰ درجہ کی تعلیمات جو اخلاق فاضلہ اور مُساحت 1 اور بردباری اور استقلال اور ضبط نفس کے متعلق ہیں انہیں انہوں نے اس طرح طاق نسیان پر رکھ دیا ہے کہ یوں معلوم ہوتا ہے اسلام میں ان امور کے متعلق کوئی ہدایت ہے ہی نہیں.حالانکہ اسلام ہی وہ مذہب ہے جس نے ان امور پر روشنی ڈالی ہے.جو باتیں کہ اسلام کا خاص جوہر ہیں، جن سے اسلام کی فضیلت

Page 297

خطبات محمود 297 ا $1944 ظاہر ہوتی ہے انہی پر آج دشمنانِ اسلام اعتراض کرتے ہیں.اور اس کی وجہ یہی ہے کہ اسلام کی تعلیم اور قرآن کریم کو تدبر سے پڑھنے کی امید دشمن سے تو کی ہی نہیں جاسکتی.اگر اُن کو کوئی چیز اسلام کی طرف رہنمائی کر سکتی ہے تو وہ مسلمانوں کا نمونہ اور عمل ہی ہے.اور جب مسلمانوں کا عمل اسلامی تعلیم کے خلاف ہو وہ اسلام کی اعلیٰ تعلیم کو نظر انداز کر دیں، ان کا معاملہ، ان کی گفتگو، اُن کے طور طریقے اسلام کی تعلیم کے خلاف ہوں تو دشمنانِ اسلام تو یہ خیال کریں گے کہ اسلام کی یہی تعلیم ہے اور اس زمانہ میں مسلمانوں کی وجہ سے ہی اسلام اور بانی اسلام علیہ الصلوۃ والسلام کو گالیاں ملتی ہیں.ایک لمبے تجربہ نے بتا دیا ہے کہ مسلمانوں کا موجودہ طریق عمل کچھ مفید نہیں ثابت ہوا.اس سے خود اُن کو بھی کوئی فائدہ نہیں ہو تا.ان کے جوش و خروش نے اسلام کو کوئی طاقت نہیں بخشی اور ان کے غصہ نے ان کو کچھ آگے نہیں ہے بڑھا دیا اور ان کی وحشت نے دنیا میں ان کی کوئی عزت قائم نہیں کی.بلکہ کیا سیاسی لحاظ سے، کیا اقتصادی لحاظ سے اور کیا علوم ظاہری و باطنی کے لحاظ سے مسلمان ایک پسپا ہونے والا ہجوم نظر آتا ہے.مگر افسوس کہ اس بات کو دیکھتے ہوئے بھی ان کی آنکھیں نہیں کھلتیں.ہم نے دہلی میں جو جلسہ کیا اُس کی غرض یہی تھی کہ جس بات کو ہم حق سمجھتے ہیں ہم اُسے لوگوں تک پہنچائیں.اس میں شبہ نہیں کہ وہ لوگ اسے حق نہیں سمجھتے.لیکن اگر یہ اصول تسلیم کر لیا جائے کہ جو بات دوسرے کے نزدیک حق نہ ہو وہ اسے نہ سنانی چاہیے تو پھر مکہ کے لوگوں کو باتیں سنانے کا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو کوئی حق نہ تھا اور اہل مکہ کی ناشائستہ حرکات پر قرآن کریم کو کوئی اعتراض نہ کرنا چاہیے تھا.اور اگر یہ بات درست ہے کہ ہے اپنے عقائد کے خلاف باتیں سنئے سے اشتعال پیدا ہوتا ہے اور اس کا لحاظ کر کے کسی کے عقائد کے خلاف کوئی بات اُسے نہ سنانی چاہیے تو اس قانون کے ماتحت یہ بھی کہنا پڑے گا کہ ہم رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بھی حق نہ تھا کہ اہل عرب کو ان کے عقائد اور عادات و اطوار کے خلاف باتیں سناتے.مگر کوئی مسلمان یہ نہیں سمجھتا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس کا کوئی حق نہ تھا کہ مکہ کے لوگوں کو ان کے عقائد کے خلاف باتیں سناتے.بلکہ اگر کوئی مسلمان ایک منٹ کے لیے بھی ایسا سمجھے تو وہ اسلام کے دائرہ سے خارج

Page 298

$1944 298 خطبات محمود ہو جائے گا.کیونکہ وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر اعتراض اور آپ کے اخلاق پر حملہ کرنے والا ہو گا.بلکہ خود قرآن کریم پر حملہ کرنے والا ہو گا جس نے متواتر نہ صرف اہل مکہ بلکہ تمام یہود و نصاری کے خلاف تعلیمات کو پیش کیا ہے اور اس کے نازل ہونے نیز رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کی غرض یہی ہے.ہم نے تو اپنے ان جلسوں میں کسی کے عقائد کے خلاف کوئی بات نہیں کہی.گو ہمارا حق ہے کہ چاہیں تو کہیں.مگر ہمارے ان جلسوں میں دوسروں پر اعتراض کا کوئی پہلو نہیں.دہلی میں ہمارے جلسہ کے اعلان کے بعد کئی دن وہاں مختلف مقامات پر ایسے جلسے ہوتے رہے کہ احمدیوں کا یہ جلسہ نہ ہونے دیا جائے اور اشتہار بھی شائع کیے گئے بلکہ حکومت کو بھی توجہ دلائی گئی کہ چونکہ اس جلسہ میں ہمارے عقائد کے خلاف باتیں ہوں گی اس لیے اشتعال پیدا ہو گا.حالانکہ دنیا کے تمام مذاہب کا ایک دوسرے سے اختلاف ہے اور کوئی نیا فرقہ اور نئی جماعت تو قائم ہی اس وجہ سے ہوتی ہے کہ اُسے دوسروں سے اختلاف ہوتا ہے.مسلمان اپنے کو مسلمان کیوں کہتے ہیں؟ اسی لیے کہ انہیں ہندوؤں، سکھوں، عیسائیوں، یہودیوں وغیرہ دیگر مذاہب کے لوگوں سے اختلاف ہے؟ اور اگر یہ اختلاف ناجائز ہے تو تمام مذاہب کو مٹادینا ہو گا اور دنیا میں کبھی کوئی صداقت نہ پھیل سکے گی.بہر حال وہ لوگ پہلے سے ہی ہمارے جلسہ کے خلاف جوش پیدا کر رہے تھے اور اسے خراب کرنے کا ارادہ رکھتے تھے.یہ مسلمانوں کا عام طریق ہے بلکہ ہندوستان میں قریباً سب قوموں کا یہی طریق ہے.حتی کہ کانگرس والے بھی ایسا کرتے ہیں کہ جب کوئی جلسہ ان کے خلاف ہونے والا ہو تو کثیر تعداد میں آکر سٹیج پر قبضہ کر لیتے ہیں اور اپنے زور سے جلسہ کرنے والوں کو نکال دیتے ہیں اور پھر اس بات پر فخر کرتے ہیں کہ ہم نے اپنے خلاف باتوں کو زبر دستی روک دیا.اسی نیت اور ارادہ سے مخالفین جلسہ میں آئے.اللہ تعالیٰ بھی ایسے لوگوں لیے کچھ سامان بہم پہنچا دیتا ہے.عزیزم مرزا ناصر احمد صاحب نے تلاوت قرآن کریم شروع کی تو ایک لفظ میں زیر کی جگہ زبر اُن کے منہ سے نکل گئی.انہوں نے قُرْآنَ الْفَجْرِ 2 کی بجائے قُرانِ الْفَجْرِ کہہ دیا.بس یہ الفاظ ان کے منہ سے نکلنے تھے کہ یہ لوگ جو منتظر ہی تھے کہ شور و غیرہ کرنے کا کوئی موقع مل سکے فورا کھڑے ہو گئے اور شور مچانے لگے ہے

Page 299

$1944 299 خطبات محمود کہ قرآن کریم غلط پڑھا جا رہا ہے.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ان کے منہ سے زبر کے بجائے زیر نکل گئی.مگر اس پر اتنا شور مچانے کی تو کوئی وجہ نہ تھی.اتنا کافی تھا کہ ان میں سے کوئی صاحب کھڑے ہوتے اور کہہ دیتے کہ قاری صاحب قرآن کے لفظ پر زیر نہیں بلکہ زبر ہے تو ہم لوگ ان کے ممنون ہوتے.کیونکہ قرآن کریم کے پڑھنے میں اگر کوئی غلطی کرے تو اُس کی اصلاح کر دینا ایک نیکی ہے.تمام عالم اسلامی میں یہ طریق ہے کہ رمضان میں تراویح پڑھانے کے لیے جہاں حافظ مقرر کیے جاتے ہیں وہاں سامع بھی مقرر کیے جاتے ہیں تا اگر حافظ کوئی غلطی کر جائے تو اس کی اصلاح کی جاسکے.اگر قرآن کریم پڑھنے میں یہ معمولی سی غلطی گویا ہی قرآن کریم میں تحریف تھی تو کیا جب تراویح پڑھانے والے حفاظ کے ساتھ سامع مقرر کیے جاتے ہیں تو اس کا یہ مطلب ہوتا ہے کہ حافظ صاحبان سے یہ امید کی جاتی ہے کہ وہ قرآن کریم میں تحریف کریں گے یا اپنی طرف سے باتیں قرآن کریم میں داخل کرتے جائیں گے اور اس بات کی نگرانی کے لیے سامع مقرر کیے جاتے ہیں؟ سامع مقرر کرنے کے معنے یہ ہوتے ہیں کہ حافظ غلطی کر سکتا ہے.مگر کیا اس غلطی کی بناء پر شور اور فساد کرنا جائز ہے ؟ ساری دنیا میں شاید ہی کوئی ایسا قاری اور حافظ ہو جو ان تیس دنوں کی تلاوت کے دوران میں کوئی ایک بھی غلطی نہ میں کرے.لیکن اگر یہ طریق اختیار کیا جائے کہ وہاں تراویح کے لیے جاتے وقت جھولیوں میں پتھر بھر کے لے جائیں اور جہاں کسی حافظ سے کوئی غلطی ہو، بجائے اُسے توجہ دلانے کے اُس پر سنگباری شروع کر دیں تو اگلے سال دنیا میں کہیں بھی نماز تراویح نہ پڑھی جاسکے.غلطی ہو جانا ممکن ہے اور یہی وجہ ہے کہ خود رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے چار قاری مقرر کیے ہوئے ہے تھے جو ایسی غلطیوں کی اصلاح کرتے رہتے تھے.حدیثوں میں آتا ہے کہ ایک دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم قرآن مجید کی تلاوت فرمارہے تھے کہ حضرت علی نے لقمہ دیا.نماز کے بعد آپ نے حضرت علیؓ سے فرمایا کہ یہ تمہارا کام نہ تھا.غلطی کی طرف توجہ دلانے کے لیے میں نے آدمی مقرر کیے ہوئے ہیں.دہلی کے مسلمانوں نے جو اصول پیش کیا اُس کی رو سے تو چاہیے تھا کہ جب قرآن کریم کی تلاوت میں کوئی غلطی ہوتی تمام صحابہ نماز توڑ دیتے ہی اور شور مچانے لگ جاتے.تو غلطی کا امکان انسان کے ساتھ لگا ہوا ہے اور جب کوئی غلطی ہے

Page 300

خطبات محمود 300 $1944 ہو جائے تو صحیح طریق یہی ہے کہ اس کی اصلاح کر دی جائے.ارادہ اور نیت کے ساتھ تلاوت کے وقت کوئی شخص غلطی نہیں کرتا.پھر دنیا میں جو قرآن چھپتے ہیں ان میں بھی زیر زبر کی ہے غلطیاں رہ جاتی ہیں.دہلی میں کئی ایسے لوگ ہیں جو قرآن کریم چھاتے ہیں.کیا دہلی کے یہ لوگ جنہوں نے ہمارے جلسہ میں شور کیا بتا سکتے ہیں کہ وہ ان میں سے کتنوں کے گھروں پر سنگ باری کرنے گئے اور کتنے مطالع کو توڑا پھوڑا؟ اس بناء پر کہ ان میں چھپے ہوئے قرآن کریم میں میں غلطی رہ گئی تھی.دہلی کے ایک مطبع والوں نے قرآن کریم شائع کیا اور انہیں اُس کی صحت پر اس قدر اعتماد تھا کہ اعلان کیا کہ اس میں غلطی نکالنے والے کو ایک اشرفی فی غلطی کی انعام دیا جائے گا.میر مہدی حسن صاحب مرحوم بڑے مُصحح تھے انہوں نے ایک درجن سے زیادہ غلطیاں نکال کر بھیج دیں.مگر بجائے اس کے کہ اشرفیاں دیتے یہ کہہ کر ٹال دیا کہ انعام کے لیے ایک وقت مقرر تھا اب نہیں دیا جا سکتا.مگر ہم نے یہ نہیں سنا کہ دہلی کے ان لوگوں نے اس مطبع والے کے گھر پر جاکر سنگباری کی ہو اور اس کے مطبع وغیرہ کو توڑ پھوڑ دیا ہو اور اس کے متعلق کہا ہو کہ اس نے قرآن کریم میں تحریف کی ہے.پھر جو غلطی ہوئی وہ ایسی نہ تھی جو صرف ونحو کے اصول سے بالکل نا جائز ہوتی.عربی میں جوار کے لحاظ سے بھی اعراب آجاتے ہیں اور قرآن کریم میں اس کی بعض مثالیں موجود ہیں.پس اگر کسی قاری کے منہ سے ایسی غلطی نکل جائے تو یہ کوئی ایسی غلطی نہیں جو علمی لحاظ سے زیادہ قابل اعتراض ہو.مگر جو نہیں ہے عزیزم ناصر احمد صاحب کے منہ سے یہ لفظ نکلا یہ لوگ شور مچانے لگ گئے اور کسی طرح چپ ہونے میں نہ آتے تھے.آخر چند نوجوان مجبور ہو گئے کہ ان کو جلسہ گاہ سے باہر نکال دیں.مگر اُن کی بات سننے کی بجائے ان شور مچانے والوں نے ان پر حملہ کر دیا.نتیجہ یہ ہوا کہ لڑائی شروع ہو گئی.دوسری چیز یہ پیدا ہوئی کہ چونکہ اللہ تعالیٰ دہلی والوں کا امتحان لینا چاہتا تھا لاؤڈ سپیکر خراب ہو گیا.جب ہمارے بعض نوجوان ان لوگوں کو باہر نکالنے لگے اور ان شورش پسندوں نے ان میں سے بعض کو مارنا شروع کر دیا اور ان کا جواب بھی بعض احمدیوں نے دینا شروع کر دیا تو میں نے کہنا شروع کیا کہ ان سے تعریاض نہ کرو.واپس آجاؤ اور اگر مار پڑے تو یہ

Page 301

$1944 301 خطبات محمود برداشت کرو.اور میں حیران تھا کہ میری تاکید کے باوجود احمدی واپس کیوں نہیں آرہے.اس پر ایک شخص نے بتایا کہ لاؤڈ سپیکر خراب ہو گیا ہے اور آپ کی آواز ان لوگوں تک نہیں پہنچ رہی.تب میں نے آدمی مقرر کیے کہ میری آواز کو دہراتے جائیں.پھر کہیں جاکر دوستوں کو میری ہدایات کا علم ہوا اور وہ واپس آئے.تو یہ دوسرا ذریعہ ہو گیا اس فتنہ کو بڑھانے کا.اس کے بعد ان لوگوں نے نہایت ہی ناروا اور ناواجب طریق اختیار کیا اور ایسی گندی گالیاں دیں کہ جنہیں انسان برداشت نہیں کر سکتا.اور یہ محض اللہ تعالیٰ کا فضل اور احسان تھا کہ اُس نے احمدیوں کو ان کے برداشت کرنے کی توفیق دی.میں جب جلسہ گاہ میں داخل ہوا تو ایک آدمی سٹیج کے پاس ہی کھڑا تھا.میں جب اس کے پاس سے گزرا تو اس نے زور سے کہا لَعْنَتُ اللهِ عَلَى الْكَاذِبِيْنَ.اس کا مطلب یہ تھا کہ تم کا ذب ہو اور تم پر اللہ تعالیٰ کی لعنت ہو.مگر ایک احمدی نے زور سے کہا امین.پس ان لوگوں کا شروع سے ہی طریق اشتعال انگیز تھا.ہم نے پہلے جلسہ گاہ میں نماز پڑھی.پھر قرآن کریم کی تلاوت شروع ہوئی مگر ان سب باتوں سے بھی پہلے سے یہ لوگ آوازے کس رہے تھے.اس جھگڑے کے بعد ان کی لوگوں نے سارے شہر میں یہ اعلان کیا کہ احمدیوں نے ہم پر حملہ کر دیا ہے اور لوگوں کو وہاں ہے چلنا چاہیے.نتیجہ یہ ہوا کہ چاروں طرف سے لوگ اکٹھے ہو گئے اور سات آٹھ ہزار کی تعداد میں جلسہ گاہ کے ارد گرد جمع ہو گئے.لاؤڈ سپیکر تو خراب ہی تھا.اس لیے ان لوگوں کا شور و شر جلسہ کی کارروائی کو خراب کر رہا تھا.پھر بھی اللہ تعالیٰ کا ایسا فضل ہوا کہ میری تقریر کے دوران میں وہ کوئی ایسی بات نہ کر سکے کہ تقریر رُک جائے.لیکن جب مبلغین نے تقریریں شروع کیں اور انہوں نے سمجھا کہ شاید اب ہماری تعداد اتنی زیادہ ہو گئی ہے کہ ہم حملہ کر سکتے ہیں ہیں تو انہوں نے اور بھی زور سے نعرے لگانا اور آگے بڑھنا شروع کیا.پولیس نے ان کو روکا مگر وہ رُکے نہیں.اتنے میں مجھے پاؤں کی آوازیں زور سے آنی شروع ہوئیں اور میں نے کھڑے ہو کر دیکھا تو سینکڑوں لوگوں کا ایک گروہ عورتوں کی جلسہ گاہ کی طرف حملہ کرنے کے لیے بھاگا جار ہا تھا.یہ ایک ایسی بات ہے کہ جسے کوئی شریف قوم برداشت نہیں کر سکتی.پولیس بھی ان کو روکنے کے لیے دوڑی.وہ لوگ پولیس کے پہلو بہ پہلو دوڑ رہے تھے مگر پہلے وہاں ہے

Page 302

خطبات محمود 302 $1944 پہنچ گئے.زنانہ جلسہ گاہ کے ارد گرد دو قناتیں تھیں.ایک قنات کے اندر صحن تھا اور پھر آگے جاکر دوسری قنات تھی اور اس کے اندر عورتیں بیٹھی تھیں.اگر ایسا نہ ہوتا تو اس جلسہ کا ایسا ا مخطر ناک انجام ہو تا کہ ممکن ہے بہت زیادہ خون خرابہ ہو جاتا.ان لوگوں نے پہلی قنات کو پھاڑ دیا ہے اور گرادیا.اتنے میں پولیس بھی پہنچ گئی.مگر معلوم ہوتا ہے کہ باہر کے پردہ کے اندر جب انہوں نے دیکھا کہ عورتیں نہیں ہیں تو غالباً یہ سمجھا کہ عورتیں یہاں سے چلی گئی ہیں اور اگلی قناتوں تک ہے وہ نہ گئے اور اس ذریعہ سے اللہ تعالی نے اس بڑے خطرے سے ہمیں بچا لیا.ورنہ اگر عورتوں کی ہے بے حر متی تک نوبت پہنچتی تو پھر کوئی شریف آدمی صبر سے کام نہ لے سکتا تھا.اگر خدانخواستہ ایسا ہو جاتا تو دہلی وہ نظارہ دیکھتی جو اُس نے گزشتہ اسی سال میں نہیں دیکھا.جب انہوں نے عورتوں پر حملہ کا ارادہ کیا تو میں نے حکم دیا کہ ایک سو مضبوط نوجوان جاکر عورتوں کی جلسہ گاہ کے باہر کھڑے ہو کر پہرہ دیں.عورتوں کا احترام نہایت ضروری اور لا بدی ہے.اس لیے وہی کھڑا ہو جو مرنا جانتا ہو.بلکہ میں نے یہاں تک کہا کہ اگر تم میں سے کوئی مرنا نہیں جانتا تو وہ ہر گز نہ جائے اور واپس آجائے اُس کی جگہ میں خود جانے کو تیار ہوں کیونکہ میں خدا تعالیٰ کے فضل سے مرنا جانتا ہوں.اُس وقت جو غیر مسلم اور غیر احمدی خواتین وہاں تھیں اُن کے رشتہ داروں نے کہلا بھیجا کہ ہمیں اپنی مستورات کی نسبت بہت گھبراہٹ ہے، خطرہ بہت ہے، کوئی انتظام کیا جائے.اس پر میں نے ان کی تسلی کے لیے اعلان کیا کہ آپ فکر نہ کریں اپنی عورتوں سے پہلے ہم می آپ کی عورتوں کی حفاظت کریں گے.چنانچہ وہ اس امر کے شاہد ہیں کہ ہم نے وہ وعدہ پورا کر دیا.بعض غیر احمدی مستورات کے ساتھ میری بیٹیاں گئیں اور ان کو گھر پہنچا کر پھر اپنے گھر آئیں.جب وہ ہجوم وہاں سے ہٹا تو پھر مختلف جہات سے سنگباری شروع ہو گئی اور وہ لوگ آگے بڑھنے لگے.حتی کہ ایک دفعہ اتنے قریب آگئے کہ سٹیج کے پاس پتھر پڑنے لگے.یہ وہی موقع تھا جب میرے داماد میاں عبد الرحیم احمد صاحب کے سر پر چوٹ آئی.بعد میں ایکسرے سے معلوم ہوا ہے کہ اُن کے سر کی ہڈیاں تین جگہ سے ٹوٹ چکی ہیں اور حالت خطر ناک ہے ہے اسی طرح اور بھی بہت سے احمدی زخمی ہوئے.پہلے تو مخیال تھا کہ زخمیوں میں حیح حالت اب تک بھی خطر ناک ہے.

Page 303

خطبات محمود 303 $1944 کی تعداد 25،24 ہے مگر بعد میں معلوم ہوا کہ چالیس کے قریب ہے.اُن میں سے بعض کی ضربات شدید ہیں.جیسے میاں عبد الرحیم احمد صاحب کی اور میاں فضل کریم صاحب پر اچہ کی.ان کے ہاتھ کی ہڈیاں ٹوٹ گئی ہیں.چودھری مشتاق احمد صاحب باجوہ بی.اے.ایل.ایل.بی واقف تحریک جدید کے بھی سخت چوٹ آئی ہے اور شبہ ہے کہ ان کی آنکھ کے پاس کی ہڈی ٹوٹ گئی ہے.اب تک وہ سر نہیں اٹھا سکتے.مگر میں اس تمام عرصہ میں متواتر اپنے ہم آدمیوں کو یہ نصیحت کر رہا تھا کہ اپنی جگہ پر بیٹھے رہیں، ماریں کھائیں مگر جواب نہ دیں.اور اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ دشمن کی جو غرض تھی کہ جلسہ نہ ہو اور میں تقریر نہ کر سکوں وہ پوری ہے نہ ہو سکی اور ہم نے دعا اور تقریر کے بعد جلسہ ختم کیا.جب خطرہ بڑھا تو ہم نے فیصلہ کیا کہ عورتوں کو یہاں سے پہرہ کے اندر محفوظ مقامات پر پہنچا دیا جائے.پہلے غیر مسلم اور غیر احمدی خواتین کو پہنچائیں اور پھر احمدی خواتین کو.اس کے لیے لاریاں منگوائی گئیں اور جس جس جگہ کو عورتوں نے اپنے لیے محفوظ سمجھا وہاں ان کو پہنچا دیا گیا.مثلاً سکھ عورتوں نے کہا ہمیں گوردوارہ میں پہنچادیا جائے.چنانچہ ان کو گوردوارہ میں پہنچادیا گیا.اور عورتوں کو محفوظ مقامات پر پہنچانے کی وجہ سے ایک لمبے عرصہ تک ہمیں جلسہ گاہ میں انتظار کرنا پڑا.مگر ان لوگوں کی شرافت کا یہ حال تھا کہ انہوں نے ان میں لاریوں پر بھی حملہ کیا جو عورتوں کو لے جارہی تھیں.چنانچہ ایک گاڑی جس میں عورتیں تھیں ہیں انہوں نے اس کے آگے لاٹھیاں وغیرہ رکھ کر روک لی مگر میں چونکہ جانتا تھا کہ یہ لوگ ایسے اخلاق کے مالک ہیں اس لیے میں نے ہر لاری کے ساتھ محافظ لگانے کا حکم دیا تھا.جب لاری رُک گئی تو انہوں نے بے تحاشا پتھر برسانے شروع کر دیئے.ان حملوں میں ہی ہمارے کئی نوجوان زخمی ہوئے اور بعض تو جب واپس آئے تو سر سے پاؤں تک خون میں نہائے ہوئے تھے.مگر اس موقع پر بھی اللہ تعالی نے دشمن کو یہ بتادیا کہ گو احمدی صبر کرتے ہیں مگر جب ان پر خواہ مخواہ حملہ کیا جائے خصوصا جب عورتوں کی حفاظت کا سوال ہو تو وہ ڈرتے نہیں.اسی سلسلہ میں ایک ہندور کیس نے ڈاکٹر لطیف صاحب کو سنایا کہ میں سڑک پر جا رہا تھا کہ سامنے سے ایک لاری آتی دیکھی جس میں عورتیں تھیں.کئی سو آدمیوں کا ایک ہجوم آگے ہے

Page 304

خطبات محج محمود 304 $1944 بڑھا اور لاری کو روک لیا.لاری کے ساتھ چند ایک نوجوان تھے.جب ہجوم نے لاری کو روکا تو میں نے خیال کیا کہ اب ان نوجوانوں کی خیر نہیں.ہجوم نے پتھر برسانے شروع کیسے مگر میرے دیکھتے دیکھتے پانچ سات نوجوان سامنے آئے اور انہوں نے سینکڑوں لوگوں کا مقابلہ کیا.میں یہ دیکھ کر حیران تھا اور سمجھتا تھا کہ یہ نوجوان مارے جائیں گے.لیکن ابھی دو تین منٹ ہی نہ گزرے تھے کہ میں نے دیکھا وہ ہجوم بھیڑوں بکریوں کی طرح بے تحاشا بھاگا جارہا تھا اور لاری اور اس کے محافظ سائیکلسٹ آرام سے اپنی منزلِ مقصود کی طرف جارہے تھے.بات یہ ہے کہ ہم امن کی وجہ سے خاموش رہتے ہیں اور گور نمنٹ کا کام اپنے ہاتھ میں لینا نہیں چاہتے.ورنہ سچی بات تو یہ ہے کہ انبیاء کی جماعتیں جہاں صبر کرنا جانتی ہیں وہاں مرنا بھی جانتی ہیں اور جو قوم مرنے کے لیے تیار ہو اُسے کوئی نہیں مار سکتا.میں خدا تعالی کے فضل پر ہے بھروسہ رکھتے ہوئے کہہ سکتا ہوں کہ یہ سات آٹھ ہزار آدمی نہیں.اگر دہلی کے تمام لوگ بھی ہم پر حملہ کرتے تو بھی خدا تعالیٰ کے فضل سے ہم اُن کو بھگا دیتے.مگر ہم نے پولیس کے کام میں دخل دینا پسند نہ کیا.جب عورتوں کی لاریوں پر انہوں نے حملہ کیا تو وہاں احمدیوں نے مقابلہ کیا اور خدا تعالیٰ کے فضل سے چند آدمی سینکڑوں کو بھگا کر لے گئے.غیر مسلم اور غیر احمدی خواتین کو خطرہ کا بہت احساس تھا.بعض تو گھبراہٹ میں کانپنے لگیں.مگر اس وقت ہے احمدی عورتوں نے بھی بہت بہادری دکھائی اور ان کے ارد گرد قطار باندھ کر کھڑی ہو گئیں اور ہے کہا کہ آپ گھبرائیں نہیں.اگر کوئی اندر آیا تو ہم مقابلہ کریں گی.حکومت ہند کے ایک من سیکرٹری صاحب کی اہلیہ صاحبہ بھی جلسہ میں تھیں ان کو جب موٹر میں بٹھایا گیا تو ان کے ایک من طرف میری لڑکی بیٹھ گئی اور دوسری طرف ایک اور غیر احمدی خاتون جو بہادر دل کی تھیں تا اگر باہر سے پتھر وغیرہ آئیں تو ان کو نہ لگیں اور اس طرح موٹر میں بٹھا کر ان کو گھر پہنچایا ہے گیا.تو اللہ کے فضل سے اس موقع پر عورتوں نے بھی ثابت کر دیا کہ اگر موقع آجائے تو وہ یہ جان دینے سے دریغ نہیں کرتیں.بہر حال رات تک یہ شور وشر ہو تا رہا.آخر جب عورتیں چلی گئیں جب میں نے افسروں سے کہلا بھیجا کہ اب ہم نے جانا ہے.کیا آپ لوگ ہمارے لیے میں رستہ بنادیں گے یا ہم خود بنا لیں ؟ انہوں نے کہا کہ ہم خود آپ لوگوں کو بحفاظت پہنچائیں گے.

Page 305

خطبات محمود 305 $1944 چنانچہ پولیس گارڈ ہمارے آدمیوں کے آگے پیچھے ہو کر انہیں محفوظ جگہ پر پہنچا آئی.مخالف خوش ہیں کہ انہوں نے شورش کی، پتھر برسائے اور گالیاں دیں.مگر ہم خوش ہیں کہ ہماری ایک اور مماثلت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ پیدا ہو گئی.وہ اپنے ہے نقطہ نگاہ سے خوش ہے اور ہم اپنے نقطہ نگاہ سے خوش ہیں.دشمن اس بات پر خوش ہے کہ اس نے سینکڑوں کی تعداد میں جمع ہو کر عورتوں کی موٹروں اور لاریوں پر حملے کیے.مگر ہم خوش ہیں کہ ہمارے چند نوجوانوں نے اپنی جانیں ہتھیلیوں پر رکھ کر نہ صرف اپنی عورتوں کی بلکہ غیر احمدی اور غیر مسلم عورتوں کی بھی حفاظت کی.وہ خوش ہیں کہ انہوں نے بہت شور مچایا اور ہم خوش ہیں کہ اس قسم کے ماحول کے باوجود جبکہ ہمارے چاروں طرف دشمن ہی دشمن تھے اللہ تعالی نے ہمیں توفیق دی کہ ہم اپنی آواز کو آخر تک سنا سکے.دشمن خوش ہے کہ اس می نے گندی گالیاں دیں، ماؤں اور بہنوں کی فحش اور گندی گالیاں دیں اور ہم خوش ہیں کہ ہمیں خدا تعالیٰ کی خاطر ایسی گالیاں سننی پڑیں.وہ خوش ہیں اس لیے کہ اپنے اخلاق کے مطابق انہیں کامیابی ہوئی اور ہم خوش ہیں کہ اپنے اخلاق کا مظاہرہ کرنے میں ہم کامیاب ہوئے.وہ اس پر خوش ہیں کہ انہوں نے خدا تعالی کی آواز کو دبانے کی کوشش کی.مگر ہم اس پر خوش ہے ہیں کہ باوجود اس قدر مخالف حالات کے ہم خدا تعالیٰ کی آواز پہنچانے میں کامیاب ہوئے.وہ اس پر خوش ہیں کہ وہ یہ مال و دولت لے کر گھروں کو کوٹے کہ انہوں نے گندی گالیاں دیں، پتھر مارے اور عورتوں پر حملے کیے.مگر ہم خوش ہیں کہ خدا تعالی کا پیغام ہم پہنچا سکے اور اپنی عزت، آبرو اور جان قربان کر کے اللہ تعالیٰ کی مشینت کو پورا کرنے میں کامیاب ہوئے.اور اس طرح وہ غلاظت کی پوٹلیاں لے کر اپنے گھروں کو گئے اور ہم خدا تعالیٰ کا نور اور اس کی رضا کو لے کر گھروں کو کوٹے اور اب دنیا خود فیصلہ کر سکتی ہے کہ جیت ہماری ہوئی یا ہمارے دشمنوں کی ؟ اگر یہ صحیح ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ان کی امت کے اعمال پیش ہوتے رہتے ہیں تو کوئی ایک مسلمان بھی ہے جو اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر کہہ سکے کہ وہ گندی اور فحش گالیاں جو ان لوگوں نے دہلی میں ہمیں دی ہیں جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے پیش کی جائیں گی تو آپ کا دل خوش ہو گا یا اس بات پر کڑھے گا کہ آپ کی مینی

Page 306

خطبات محمود 306 $1944 امت کہلانے والوں کے اخلاق ایسے گر چکے ہیں.بلکہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات تو بہت اعلیٰ وارفع ہے میں کہتا ہوں اگر یہی گالیاں جو انہوں نے ہم کو دیں ان لوگوں کی ماؤں کے سامنے دہرائی جائیں تو کیا ان کے دلوں کو خوشی ہو گی ؟ اگر نہیں اور یقینا نہیں تو کیا تم لوگ سمجھتے ہو کہ محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی روح ان کی گالیوں کو سن کر خوش ہوتی ہو گی؟ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت کہلانا اور بات ہے مگر ایسے کام کرنا جن سے آپ کی روح خوش ہو اور بات ہے.میں سمجھتا ہوں اللہ تعالیٰ فرشتوں کو حکم دے گا کہ یہ گالیاں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے کانوں میں نہ پڑنے پائیں تا آپ کے دل سے ان لوگوں کے لیے لعنت نہ نکالے اور آپ کو ملال نہ ہو کہ میری امت اس قدر گر گئی اور گمراہی میں مبتلا ہے.ہم اس لیے بھی خوش ہیں کہ اس شورش اور اس مخالفت کا کوئی بھی وجود نہ تھا کہ اللہ تعالیٰ نے ہمارے لیے راحت اور ایمان میں ترقی کا سامان مہیا فرما دیا تھا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ "رؤیا میں دیکھا کہ دہلی گئے ہیں اور بخیریت واپس آئے ہیں".پھر الہاما یہ الفاظ زبان پر جاری ہوئے الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي أَوْصَلَنِي صحيحًا 3 یعنی اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ جو فساد اور دشمن کے حملے سے صحیح و سالم بچا کر واپس می لے آیا.اس الہام کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ السلام دہلی تشریف لے ہی نہیں گئے.آخری سفر جو آپ نے دہلی کی طرف کیا وہ 1905 ء کا ہے.تو یہ ایک پیشگوئی تھی جس کا مطلب یہ تھا کہ آپ کا مثیل دہلی جائے گا.لوگ اُس پر پتھراؤ کریں گے.یہ جو سنگ باری کی گئی یہ دراصل مجھ پر تھی جسے خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ والسلام کی مسند پر بٹھایا ہے ہے.مگر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وہ آپ کو یعنی آپ کے مظہر کو صحیح و سالم واپس قادیان لے آئے گا.پس جو کچھ ہوا اس میں اس لحاظ سے بھی ہماری فتح اور کامیابی ہے.سلسلہ کی صداقت میں کا ایک ثبوت ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مامور من اللہ اور خد اتعالیٰ کا پیارا ہونے کا ایک ثبوت ہے.ہر پتھر جو وہ لوگ ہم پر مار رہے تھے وہ الْحَمْدُ للهِ الَّذِي أَوْصَلَنِي صحیحا کی صداقت کی گواہی دے رہا تھا اور ہر پتھر شاہد تھا اِس امر کا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اللہ تعالیٰ کی طرف سے تھے اور خدا تعالیٰ آپ سے ہم کلام ہو تا تھا.یہ جو کہا گیا کہ

Page 307

خطبات محج محمود 307 $1944 مجھے صحیح و سالم واپس پہنچا دیا.اس کا مطلب یہ ہے کہ بعض دوسروں کو نقصان پہنچے گا.مگر ان لوگوں کی اصل غرض تو مجھے نقصان پہنچانا تھی.لیکن جہاں سیالکوٹ کے پتھراؤ میں تین پتھر مجھے بھی آلگے تھے.وہاں دہلی میں خدا تعالیٰ کے فضل سے مجھے ایک بھی نہیں لگا.غرض یہ ایک پیشگوئی تھی جس میں بتایا گیا تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک مثیل دہلی جائے گا اور دشمن اُس کو ضرر پہنچانے کی پوری کوشش کریں گے لیکن اللہ تعالی اسے بخیر و عافیت ما قادیان پہنچا دے گا.اور یہ پیشگوئی قریبا 37 سال کے بعد خدا تعالی کے فضل سے پوری ہوئی.ہر انصاف پسند کو سوچنا چاہیے کہ کیا 37 سال قبل ایسی بات بیان کر دینا جو اپنے وقت پر صحیح ہے ثابت ہو کسی انسان کی طاقت میں ہے ؟ یہ ان لوگوں کے لیے بھی قابل غور بات ہے جو پیغامی کہلاتے ہیں.وہ بتائیں کہ اس پیشگوئی کے مطابق کون ہے جو دہلی گیا ؟ مخالفین نے اسے ضرر پہنچانے کی پوری کوشش کی اور اللہ تعالیٰ اُسے صحیح و سالم واپس قادیان لے آیا.یہ لوگ تو اب قادیان آتے ہی نہیں بلکہ بہشتی مقبرہ کے لیے جو وصیتیں کر رکھی تھیں وہ بھی منسوخ ہے کرالیں.ان میں سے اگر کوئی قادیان آئے تو اس کی نگرانی کرتے ہیں مگر حضرت مسیح موعود السلام فرماتے ہیں دیکھا کہ دہلی گئے اور خیریت سے واپس آئے ہیں اور یہ رویا بتاتا ہے کہ قادیان میں ہی ایسے لوگ پیدا ہوں گے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مثیل ہوں سے ہے اور جن کا دہلی جانا اور بہ سلامت واپس پہنچنا خود حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا جانا اور صحیح و سالم وائیس پہنچنا ہو گا.پھر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے الْمُؤْمِنُ يَى اَوْ يُرى لَهُ 4 جس روز میں نے دہلی جانا تھا اُسی روز یا اُس سے ایک روز قبل خلیفہ صلاح الدین صاحب کا خط مجھے دہلی سے ملا کہ میں نے خواب دیکھا ہے کہ قادیان سے خبر آئی ہے کہ خلیفتہ المسیح نگینہ سے بخیریت واپس قادیان پہنچ گئے ہیں.نگینہ انگوٹھی کے مرکز میں ہوتا ہے اور دبلی ہندوستان کا مرکزی شہر ہے.دہلی کو ہندوستان میں وہی حیثیت حاصل ہے جو نگینہ کو انگوٹھی میں.گویا اس نے خواب میں بتادیا گیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جو رویا 13 جنوری 1906ء کو دیکھا تھا وہ اسی سفر کے متعلق تھا.وہی بات جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو 37 سال

Page 308

محمود 308 $1944 قبل دکھائی گئی تھی جلسہ سے چند روز قبل آپ کے ایک مرید کو دکھائی گئی.یہ گویا ایک اشارہ تھا اس امر کی طرف کہ اس پیشگوئی کے پورا ہونے کا وقت آگیا ہے.تو ہمارے لیے ہر حال میں خوشی ہی خوشی ہے.ہر بلا کیں قوم را حق داده اند زیر آن گنج کرم بنهاده اند اسی طرح اس فساد کے ذریعہ سے میرا ایک الہام بھی پورا ہواجو د ہلی کے جلسے.دن پہلے ہوا تھا جو یہ ہے يَدُ اللهِ فَوْقَ ایدیھم خدا کا ہاتھ ان کے ہاتھوں کے اوپر.اس الہام میں خبر دی گئی تھی کہ جلسہ کے فساد کے موقع پر چند احمدی سینکڑوں پر بھاری ثابت ہوں گے اور ہر جگہ ان کو فتح نصیب ہو گی.کیونکہ جہاں ان کو لڑنا پڑے گا وہاں خدا تعالیٰ کا ہاتھ ان کی مدد کے لیے ان کے ساتھ اٹھے گا.چنانچہ جلسہ پر جن لوگوں نے یہ نظارہ دیکھا کہ کس طرح ہے ضرورت کے موقع پر جب احمدی آگے بڑھتے تھے تو آٹھ دس کے مقابل پر سینکڑوں دہلی والے جن میں پٹھان طالب علم بھی شامل تھے سر پر پاؤں رکھ کر بھاگے جاتے تھے.یہ اسی وجہ سے تھا کہ نوجوانوں کے ہاتھ پر خدا کا ہاتھ تھا.فَالْحَمْدُ لِلَّهِ عَلَى ذَلِكَ.ہم پر تو ان پتھروں کا پڑنا بھی خدا تعالی کی ہستی کا ثبوت ہے.سلسلہ کی صداقت اور ایمان کی زیادتی کا موجب ہے.مگر اس میں ہماری جماعت کے لیے ایک سبق ہے.یہ خرابیاں جو مسلمانوں میں آج نظر آتی ہیں ان کے ازالہ اور علاج کی یہی صورت ہے کہ احمدیت کو زیادہ سے زیادہ پھیلایا جائے.اس کے سوا اس گندی حالت کو بدلنے کی کوئی صورت نہیں.ہر ایسی حرکت ہمارے لیے ایک حجت ہے کہ ہم نے اپنے فرض کی ادائیگی میں کو تاہی اور غفلت سے کام لیا ہے.اگر ہم دہلی والوں تک اسلام کی تعلیم اور احمدیت کی روشنی کو پھیلاتے تو پھر آج وہاں کے لوگ پتھر نہ مارتے بلکہ درود بھیجنے والے ہوتے.اِس لیے دوستوں کو چاہیے کہ پہلے سے بھی زیادہ شدت کے ساتھ احمدیت کی تبلیغ میں لگ جائیں.میں لاہور کی جماعت کو تبلیغ کی طرف توجہ دلا کر آیا تھا اور وہاں تھوڑے ہی عرصہ میں کئی لوگوں نے بیعت کی ہے حالانکہ ابھی پورے طور پر

Page 309

$1944 309 خطبات محمود اور باقاعدہ کام شروع نہیں کیا گیا.اگر تمام دوست پوری کوشش سے کام کریں تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے سال دو سال میں ہی تغیر عظیم پید اہو سکتا ہے اور حالات سدھر سکتے ہیں.پس دوستوں کو چاہیے کہ قریب ترین عرصہ میں احمدیت کو پھیلانے میں اپنی ساری تو جہات کو لگا دیں.اگر وہ ریں تو یقینا اللہ تعالیٰ ان کے کام میں سہولت پیدا کر دے گا.یہ کام خدا تعالیٰ کا ہے اور جب ہم اسے کرنے لگیں گے تو خدا تعالیٰ کی غیرت خود بخود جوش میں آئے گی کہ میرے بندے میرا کام کر رہے ہیں.تب فرشتے آسمان سے اتریں گے اور اس کام کو ہاتھ میں لے لیں گے اور تھوڑی سی کوشش سے شاندار نتائج پید اہوں گے.میں نے دوستوں کو بار بار اس طرف توجہ دلائی ہے مگر ابھی انہیں پوری طرح اس کا احساس نہیں ہوا اور جماعت نے مجموعی حیثیت سے کوئی کوشش نہیں کی.آج میں زیادہ نہیں بول سکتا.کیونکہ دہلی سے واپسی پر رستہ میں مجھ پر انفلوانزا کا حملہ ہوا اور اسہال ہوتے رہے اس لیے مشکل سے بول رہا ہوں.اور پھر اس مضمون پر میں اتنی دفعہ بول چکا ہوں، اتنی دفعہ توجہ دلا چکا ہوں کہ زیادہ بولنے کی ضرورت نہیں اور قرآن کریم میں یہ مضمون بڑی وضاحت سے بیان ہو چکا ہے.پس اپنی کوششوں کو تیز کریں.خدا تعالیٰ چاہتا ہے کہ کہ اس کے بندے اُس کی طرف واپس آئیں.آپ لوگوں نے اقرار کیا ہے کہ "دین کو دنیا پر مقدم کریں گے..اس لیے مستیاں ترک کر دیں اور رات دن اس کام میں لگ جائیں.اپنی امین جان اور اپنے اموال اِس کام میں لگا دیں تا خدا تعالیٰ کا نور جلد سے جلد دنیا میں پھیلے.امین".(الفضل 3 مئی،1944ء) 1 : مساحت: چشم پوشی کرنا.کسی سے نرمی کا برتاؤ کرنا 2 : بنی اسرائیل: 79 3 : تذکرہ صفحہ 581-ایڈیشن چہارم 4 : ترمذى كِتاب الرُّؤْيَا بَاب قَوْلِهِ لَهُمُ الْبُشْرَى فِي الْحَيَوةِ الدُّنْيَا میں یہ الفاظ ہیں : الرُّؤْيَا الصَّالِحَةُ يَرَاهَا الْمُؤْمِنُ أَوْ تُرَى لَهُ

Page 310

$1944 310 (16 محمود خطبات دین کی خاطر قربان کرنے کے لیے اپنی ہر چیز تیار رکھیں (فرمودہ 28 / اپریل 1944ء) تشہد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: رات کو مجھے اسہال کی تکلیف ہو گئی تھی.صبح اللہ تعالیٰ نے اس میں کچھ افاقہ تو پیدا کر دیا مگر معلوم ہوتا ہے یہ تکلیف انفلوئنزا کا نتیجہ تھی.کیونکہ آج صبح سے مجھے سر درد کی شکایت شروع ہو گئی ہے جو بڑھتی جارہی ہے.اس لیے اس وقت مجھ سے زیادہ بولا نہیں جاتا.آج بجائے کوئی نئی بات کہنے کے میں جماعت کو پھر اس امر کی طرف توجہ دلاتا ہوں کہ ہر بڑے کام کے لیے ایک تیاری کی ضرورت ہوا کرتی ہے.بہت لوگ ہوتے ہیں جو تیاری کو م غیر ضروری قرار دے کر پیچھے ہٹے رہتے ہیں اور صرف اُس دن کے امیدوار رہتے ہیں جب اصل مقابلے کا وقت آجائے اور وہ سمجھتے ہیں کہ ہم اُس دن مقابلہ کے لیے میدان میں نکل کھڑے ہوں گے مگر یہ لوگ جیسا کہ حضرت مسیح ناصری نے کنواریوں کی مثال میں بتایا ہے وقت آنے پر کام نہیں کر سکتے اور مقابلہ پر پیچھے بٹنے والے ثابت ہوتے ہیں.پھر کچھ لوگ وہ ہوتے ہیں جو تیاری کے لمبے عرصہ سے گھبر اجاتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ شاید کوئی جنگ ہونے والی ہی نہیں.کچھ دن تو اُن کا جوش قائم رہتا ہے مگر پھر اُن میں مساوات کا سارنگ پیدا ہو جاتا ہے.

Page 311

خطبات محمود 311 $1944 یہ لوگ بھی وقت آنے پر کبھی کامیاب ثابت نہیں ہوا کرتے.میں نے جماعت کو اس امر کی طرف پچھلے چند ہفتوں سے توجہ دلائی ہے کہ اسلام کی فتح اور اس کی کامیابی کے لیے جو جنگ ہونے والی ہے وہ اب قریب آرہی ہے اور ہمیں اس کی خاطر قربانیاں کرنے کے لیے تیار رہنا چاہیے.اس غرض کے لیے میں نے بعض مالی تحریکیں کی ہیں بعض وقف زندگی کی تحریکیں ہیں اور اسی سلسلہ کی ایک کڑی گو میں نہیں کہہ سکتا کہ وہ تحریک میں نے کی وہ دوسروں کی طرف سے آئی اور میرے دل نے اُس کو قبول کر لیا، کالج کی تحریک ہے.بعد میں مجھ پر انکشاف ہوا کہ یہ تحریک بھی آئندہ جنگ کی کڑیوں میں سے ک اہم کڑی ہے.ان تحریکوں کے معنے صرف یہ ہیں کہ ہمیں آئندہ جنگ کے لیے تیار ہو جانا چاہیے.جیسا کہ میں نے بار ہا بتایا ہے وہ وقت جب اسلام کے لیے مسلمانوں کو فوری طور ہے پر قربانیاں کرنی پڑیں گی اچانک آئے گا مگر جب تک اُس دن کے لیے پہلے سے تیاری نہ کی جائے وہ اچانک آئے یا خبر دے کر آئے ہمیں کوئی فائدہ نہیں ہو سکتا.تیاری ہی ایک ایسی چیز میں ہے کہ علم کے ساتھ جنگ ہو یا بغیر علم کے جنگ ہو انسان کے کام آیا کرتی ہے.پس میں نے جو مختلف تحریکات کی ہیں وہ اسی لیے ہیں کہ جماعت کو آئندہ جنگ کے لیے تیار کیا جائے.میں جانتا ہوں کہ کئی لوگ ایسے ہیں جو کچھ عرصہ کے بعد کہیں گے کہ کچھ بھی نہیں ہوا اُن کے دل بیٹھنے شروع ہو جائیں گے اور وہ سمجھیں گے کہ وہ دن جس کے لیے ہم تیاری کر رہے تھے نہ معلوم آتا بھی ہے یا نہیں آتا.مگر جب وقت آئے گا ایسے لوگ پیچھے گر جائیں گے.اسی طرح وہ لوگ جو اس وقت اس آواز کا جواب نہیں دیتے اور سمجھتے ہیں کہ ہم بڑے مخلص ہیں، ہم بڑی قربانی کرنے والے ہیں، ہم بڑا ایثار کرنے والے ہیں جب خدا کی طرف سے آواز آئے گی ہم فورا قربانی کے لیے تیار ہو جائیں گے.وہ بھی جب وقت آئے گا پیچھے ہٹ جائیں گے اور اسلام کے بہادر سپاہیوں کے ساتھ اپنے قدم ملا نہیں سکیں گے.صرف وہ منزل مقصود پر پہنچیں گے ، صرف وہ کامیابی کا منہ دیکھیں گے اور صرف وہ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے وارث ہوں گے جو اُس دن کے آنے سے پہلے اس کے لیے تیاری کریں گے اور کرتے چلے جائیں گے زمانہ کا بعد یا زمانہ کا چھوٹا ہونا اُن کی تیاری میں روک نہیں بنتا.

Page 312

خطبات محمود 312 $1944 حضرت مسیح ناصری نے کہا میں جاتا ہوں تاکہ خدا تمہاری طرف دوسری قدرت بھیج دے اور میں اس لیے جاتا ہوں تاکہ خدا کی طرف سے تمہارے لیے فارقلیط آئے.لوگوں نے انتظار کیا اور کرتے چلے گئے.مگر آخر انہوں نے کہا فارقلیط کلیسیا ہی ہے.آخر چندم صدیوں یعنی چھ سو سال کے بعد محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذریعہ وہ فارقلیط ظاہر ہوا اور وہ لوگ جو انتظار کر کے تھک چکے تھے اُس فارقلیط پر ایمان لانے سے محروم رہ گئے.صرف وہ چند لوگ جو اس امید میں زندہ رہے اور اس کا ایک لمبے عرصہ تک انتظار کرتے چلے گئے ہیں انہوں نے اس کو پالیا.تو خدا تعالیٰ کی طرف سے بھی اتنا لمبا انتظار کرنا پڑتا ہے کہ قوم کی قوم ہے سو جاتی ہے اور کبھی وہ گھڑی اتنی قریب کر دی جاتی ہے کہ لوگ ابھی ہتھیار بھی سنبھالنے نہیں پاتے کہ لڑائی ختم ہو جاتی ہے.وہی شخص کامیاب ہوتا ہے جو اپنے آپ کو ہر وقت تیار رکھتا ہے ہے اور سمجھتا ہے کہ نہ معلوم کب اور کس چیز کا میر ادوست مجھ سے مطالبہ کرے گا.مجھے یاد ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سچی دوستی کے متعلق ایک کہانی ہے سنایا کرتے تھے.آپ فرمایا کرتے ایک امیر آدمی تھا جو بہت بڑا دولتمند تھا.اُس کا ایک لڑکا تھا جس نے اپنی دولت کی وجہ سے کئی اوباش نوجوان اپنے ارد گرد جمع کر لیے تھے.وہ ان کے لیے ہے قسم قسم کے کھانے تیار کر کے لے جاتا، قسم قسم کے شربت اُن کے پینے کے لیے تیار کراتا.کبھی فالودہ اُن کو کھلاتا، کبھی پھل اُن کے سامنے پیش کرتا، کبھی مٹھائیاں ان کے لیے منگواتا ، کبھی عطر اور خوشبودار تیل اُن کو دیتا، کبھی مختلف قسم کی خوشبودار دھونیوں سے اُن کے کمرے کو معطر کرتا.غرض ان کی مجلس خوب گرم رہتی.وہ شربت پیتے رہتے ، کھانے کھاتے ہیں رہتے، مٹھائیاں اور پھل وغیرہ استعمال کرتے رہتے اور اقرار کرتے کہ ہم تجھ سے ایسی محبت کرتے ہیں کہ ہمارے جیسے دوست کبھی کسی کو میسر نہیں آئے.باپ اپنے بیٹے کو ہمیشہ نصیحت ہے کرتا اور اسے کہتا کہ ان دوستوں کا کوئی اعتبار نہیں مگر وہ جواب میں یہی کہتا کہ انا آپ کو کیا ہے چند ؟ یہ دوست تو ایسے اچھے اور وفادار ہیں کہ ان سے بڑھ کر وفادار دوست اور کوئی ہو ہی نہیں ہے سکتا.ایک دن باپ نے اپنے بیٹے سے کہا اگر تمہاری یہ بات درست ہے کہ یہ نوجوان تمہارے کچے دوست ہیں اور تمہیں میری بات پر اعتبار نہیں آتا تو تم اس کا تجربہ کر کے دیکھ لو.تم

Page 313

$1944 313 خطبات محمود.ان کے گھروں پر جاؤ اور اُن سے کہو میرے باپ نے مجھے اپنے گھر سے نکال دیا ہے اب میرے گزارہ کی کوئی صورت نہیں مجھے کچھ روپے دو تاکہ میں اُن سے تجارت کر سکوں.پھر دیکھو کہ تم سے یہ دوست کیسا سلوک کرتے ہیں.وہ کہنے لگا بہت اچھا میں اس کا تجربہ کر لیتا ہوں.چنانچہ وہ کسی دوست کے پاس گیا اور اُس سے کہنے لگا ابا نے مجھے اپنے گھر سے نکال دیا ہے اب میں چاہتا ہوں کہ گزارہ کے لیے کوئی تجارت کروں.فی الحال تم مجھے پانچ ہزار روپیہ دے دو.جب تجارت سے آمد شروع ہو گی تو آہستہ آہستہ یہ قرض اتار دوں گا.جس وقت دوست سے اُس نے یہ ذکر کیا وہ سنتے ہی کہنے لگا مجھے آپ سے بڑی ہمدردی ہے مگر مجھے افسوس ہے کہ میر اروپیہ اس وقت فلاں فلاں جگہ پھنسا ہوا ہے.اگر روپیہ میرے پاس ہوتا تو میں ضرور دیتا مگر میں معذور ہوں.یہ کہہ کر اور معذرت کا اظہار کر کے وہ واپس اپنے گھر چلا گیا.اس کے بعد یہ دوسرے دوست کے پاس گیا اور اس نے بھی یہی جواب دیا.پھر تیسرے دوست کے پاس گیا اور اُس نے بھی یہی جواب دیا.چونکہ اس عرصہ میں یہ بات اس کے تمام ہے دوستوں میں پھیل گئی اس لیے آخر میں تو ایسا ہوا کہ یہ جب اپنے کسی دوست کو آواز دیتا تو وہ ہے باہر ہی نہ نکلتا اور نوکر کے ذریعہ کہلا بھیجتا کہ اُس سے جا کر کہہ دو میاں گھر میں نہیں ہیں.آخر وہ مایوس ہو کر رات کو اپنے گھر میں واپس آگیا اور باپ سے کہنے لگا کہ آپ کی بات تو بچی نکلی.میں میں سب کے پاس گیا مگر کسی نے بھی میری مدد نہیں کی.کچھ تو ایسے تھے جنہوں نے باہر نکل کر معذرت کر دی اور اکثر ایسے تھے جو باہر ہی نہ نکلے.باپ نے یہ سن کر کہا تم نے تو اپنے دوست دیکھ لیے آؤ اب میں تمہیں اپنا دوست بتاتا ہوں.یہ کہہ کر اس نے اپنے بیٹے کو ساتھ لیا اور دوست کی طرف چل پڑا.راستہ میں اُسے کہنے لگا بیٹا! سچا دوست بڑی مشکل سے ملا کرتا ہے اور پھر جس طبقہ میں تم اپنے دوست تلاش کرتے ہو اس میں تو کسی بچے دوست کا ملنا اور ہے بھی مشکل ہوتا ہے.تمہیں میرا دوست دیکھ کر تعجب آئے گا مگر سچا دوست وہی ہے.یہ کہتے ہوئے وہ اسے شہر سے باہر لے گیا.وہاں ایک چھوٹی سی جھونپڑی تھی.اس جھونپڑی کے ہیں قریب پہنچ کر اس نے دروازہ پر دستک دی اور جو شخص اس کے اندر تھا اُسے بلایا.بیٹا یہ دیکھ کر بڑا حیران ہوا کہ میرا باپ تو اتنا امیر آدمی ہے اور اس کا دوست ایسا غریب اور چھوٹے

Page 314

$1944 314 طبات محمود طبقے کا ہے کہ ایک جھونپڑی میں رہتا ہے.تھوڑی دیر کے بعد اندر سے آواز آئی کہ کون ہے ؟ اس نے اپنا نام لیا کہ میں ہوں اور ایک ضروری کام کے لیے آپ کے پاس آیا ہوں.اس آواز کو سننے کے بعد خاموشی طاری ہو گئی.دو منٹ، چار منٹ ، دس منٹ میں منٹ گز مگر کسی نے دروازہ نہ کھولا.بیٹے نے اپنے باپ سے کہا آپ کا دوست بھی ویسا ہی نکلا جیسے میرے دوست تھے.باپ نے کہا ذرا ٹھہر جاؤ میر ا دوست ایسا نہیں ہے.معلوم نہیں کیا وجہ ہے پیش آئی کہ اُس نے نکلنے میں دیر لگادی ہے.تھوڑی دیر گزری تو دروازہ کھلا اور اندر سے معمولی غریبانہ لباس میں ایک شخص نکلا جس کے ساتھ اس کی عورت تھی.ہاتھ میں تلوار تھی میں اور کمر کے ساتھ ہمیانی 1 بندھی ہوئی تھی جس میں روپے تھے.اُس نے باہر نکل کر السَّلَامُ عَلَيْكُمْ کہا اور پھر پوچھا کہ کیا کام ہے ؟ اُس نے کہا کام تو پھر بتاؤں گا پہلے تم یہ بتاؤ کہ تم نے باہر نکلنے میں دیر کیوں لگائی ہے؟ وہ کہنے لگا میرے آپ کے ساتھ مدت سے دونہ تعلقات ہیں اور ہم کبھی کبھار آپس میں مل بھی لیتے ہیں.ہمیں ایک دوسرے پر کامل یقین اور اعتبار ہے کہ آپ کو کوئی ضرورت پیش آئے تو میں آپ کے کام آؤں گا اور اگر مجھے کوئی ضرورت پیش آئے تو آپ میرے کام آئیں گے.لیکن یہ واقعہ کہ رات کو آپ میرے پاس ہیں لیکن یہ واقعہ کہ رات کو آپ میرے پاس آئے ہوں اور آپ نے میرا دروازہ کھٹکھٹایا ہو ایسا پہلے کبھی نہیں ہوا.پس جب آپ نے دروازہ کھٹکھٹایا تو میں نے سمجھ لیا کہ ضرور کوئی بڑی مصیبت آئی ہے کبھی آپ رات کو میرے ہم پاس آئے ہیں.لیکن میں نے کہا خواہ کوئی بھی مصیبت ہو مجھے اس کے لیے تیار رہنا چاہے.چنانچہ میں نے سوچا کہ میرے پاس تین چیزیں ہیں.ایک میری بیوی ہے ، کچھ ساری عمر کا اندوختہ پانچ سو روپیہ ہے جو زمین میں دفن ہے جو ایک چھوٹی موٹی ملازمت سے میں نے تھوڑا تھوڑا کر کے جمع کیا ہے اور ایک میری جان ہے.میں نے خیال کیا کہ گو آپ بڑے آدمی ہیں ہم مگر کسی وقت بڑے آدمی کو بھی کوئی مصیبت پیش آجاتی ہے.شاید آپ کو روپیہ کی ضرورت ہو اور اسی لیے آپ میرے مکان پر تشریف لائے ہوں.سو میں اٹھا اور روپیہ نکالنے لگا اور اسی وجہ سے مجھے دیر لگی ہے.کیونکہ میں غریب آدمی ہوں اور میں نے ایک گہرا گڑھا کھود کر وہاں پانچ سو روپیہ دفن کیا ہوا تھا گڑھے کے کھودنے اور روپیہ نکالنے میں کچھ دیر ہو گئی.مگر میں

Page 315

$1944 315 خطبات محمود بہر حال میں نے روپیہ نکال لیا.پھر میں نے اپنی بیوی کو ساتھ لیا اور خیال کیا کہ شاید عورتوں کی خدمت کی ضرورت ہو.چنانچہ میں نے اسے کہا چل نیک بخت! شاید تیری خدمت کی ضرورت ہو.تیسری چیز میری جان ہے سو وہ بھی حاضر ہے.اور تلوار میرے ہاتھ میں ہے کوئی بھی آپ کا دشمن ہو میں اُس سے لڑنے اور اپنی جان دینے کے لیے تیار ہوں.سو میں تینوں چیزیں لے کر آگیا ہوں.اگر کسی عورت کی خدمت کی ضرورت ہے تو میری بیوی حاضر ہے، اگر روپیہ کی ضرورت ہے تو میری ساری عمر کا اندوختہ حاضر ہے، اگر جان کی ضرورت ہے تو میری جان حاضر ہے.جس دشمن کا مقابلہ کرنے کے لیے کہیں میں اُس کا مقابلہ کرنے کے لئے تیار ہوں.اُس امیر آدمی نے شکریہ کے ساتھ اُسے رخصت کیا اور کہا میں تو صرف اپنے بیٹے کو نصیحت کرنے کے لیے یہاں لایا تھا.اس کے بعض او باش نوجوان دوست تھے اور یہ ان کو بڑ او فادار اور سچا دوست سمجھتا تھا.میں نے اسے بتایا کہ وہ سچے دوست نہیں ہیں.سچا دوست اگر تم دیکھنا چاہتے ہو تو میرے ساتھ آؤ.چنانچہ میں نے اسے دکھا دیا کہ سچا دوست کیسا ہوا ہے کرتا ہے.مجھے کسی خدمت کی ضرورت نہیں تم اپنے گھر چلے جاؤ.حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ بھی اپنے ایسے ہی دوست دنیا میں چاہتا ہے.یہی لوگ خدا تعالیٰ کی جنت میں جاتے ہیں اور انہی کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے يَاَيَّتُهَا النَّفْسُ المُضنَّةُ ارْجِعِي إِلى رَبِّكِ رَاضِيَةً مَرْضِيَّةً فَادْخُلِي فِي عِبدِي وَادْخُلِي جَنَّتِي 20 اے نفس مطمئنہ !جو ایک ہی طرف ٹک گیا یعنی جو ایک طرف جھکا اور پھر جھکتا ہی چلا گیا اور میرے ساتھ تعلق پیدا کرنے پر اسے اطمینان ہو گیا.جب کسی شخص کے دل میں کوئی خلش میں ہوتی ہے وہ کبھی دائیں جاتا ہے کبھی بائیں جاتا ہے کبھی آگے جاتا ہے کبھی پیچھے جاتا ہے کیونکہ وہ نے مقصود کی تلاش اور اس کی جستجو میں محو ہوتا ہے.ابھی اس کا مقصود اُسے ملا نہیں ہوتا.لیکن نفسِ مطمئنہ وہ ہے جس کا مقصود اُسے مل گیا.جیسے بچہ جب ماں سے کھویا جاتا ہے تو وہ چیختا چلاتا کبھی دائیں جاتا ہے کبھی بائیں جاتا ہے کبھی ادھر جاتا ہے کبھی اُدھر جاتا ہے لیکن جب اُس کی ماں اُسے مل جاتی ہے تو وہ اس کی گودی میں آرام سے لیٹ جاتا بلکہ بسا اوقات سو جاتا ہے.یہی مراد ہے نفس مطمئنہ سے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اے نفس مطمئنہ ! جسے میری اپنے

Page 316

خطبات محمود 316 $1944 جستجو تھی اور جس کو میں مل گیا اور جو مجھ پر ٹیک لگا کر ایسا لیٹا کہ پھر ادھر اُدھر اُس نے نہیں دیکھا.ارجع إلى رَبِّكِ تُو نے جب مجھے دیکھ لیا تو تیرے دل سے کسی اور کی خواہش بالکل مٹ گئی.چونکہ تیرے دل میں میری بھی خواہش تھی اس لیے آآر اپنے رہے کے پاس آجا.تجھے کسی اور طرف جانے کی ضرورت نہیں.کیونکہ تیری خواہش یہی تھی کہ تو میری گودی میں آجائے.پس تو آ اور میری گودی میں بیٹھ جا.رَاضِيَةً مَرْدِيَّةٌ- تو خوش ہو گیا کہ جس چیز کی تو تجھ کو تلاش تھی وہ تجھے مل گئی.مگر یہی نہیں کہ تو خوش ہو گیا کہ جس چیز کی تجھے تلاش تھی وہ تجھے مل گئی بلکہ بات یہ ہے کہ میں بھی خوش ہو گیا.کیونکہ جس طرح مجھے میری تلاش تھی تمہیں اسی طرح مجھے بھی تیری جستجو تھی.فَادْخُلِي فِي عِبدِي وَادْخُلِي جَنَّتِي آ آ اب تُو میرے بندوں میں داخل ہو جا اور چونکہ اب تو میرے بندوں میں داخل ہو گیا ہے اس لیے جو چیز میری ہے وہ تیری ہے، جو میر امال ہے وہ تیر امال ہے.اور چونکہ میر امقام جنت ہے اس لیے تو بھی جنت میں آجا اور اُن بندوں میں شامل ہو جا جو آقا سے دُوری نہیں رکھتے.آقا کی چیز ان کی چیز ہوتی ہے اور اُن کی چیز آقا کی چیز ہوتی ہے.اب میری چیزیں میری ہی نہیں بلکہ تیری بھی ہے ہیں اور تیرا حق ہے کہ تو ان سے جس طرح چاہے حظ اٹھائے.ان آیات میں تمثیلی طور پر وہی بات بیان کی گئی ہے جو اس مثال میں بیان کی گئی تھی.جیسے اس نے کہا کہ میں اپنی ہر چیز لے آیا ہوں.بیوی لے آیا ہوں کہ شاید کسی عورت کی خدمت کی ضرورت ہو ، مال لے آیا ہوں کہ شاید روپیہ کی ضرورت ہو ، جان لے آیا ہوں اور ساتھ ہی لڑنے کے لیے تلوار بھی کہ شاید میری جان کی ضرورت ہو.اسی طرح فرمایا ارْجِعِي إِلَى رَبِّكِ رَاضِيَةً مرْضِيَّةٌ تُو چاہتا تھا کہ مجھ کو لے لے اور میرے پاس آجائے.پس چونکہ تو نے مجھ کو لے لیا اور میں میرے پاس آگیا اس لیے میرے پاس آنے کی وجہ سے جو کچھ میرا ہے وہ تیرا ہے.فَادْخُلِي فِي عِبْدِي وَادْخُلِي جَنَّتِی.نہ صرف میں نے تجھ کو اپنا وجو د دے دیا بلکہ تجھے کامیاب بھی کر دیا اور اپنی جنت میں تجھ کو داخل کر دیا.یہ کیسی وفا اور اخلاص والی محبت ہے جو اللہ تعالیٰ ہم سے رکھتا ہے.پھر وہ ایسی محبت کا ہم سے بھی تقاضا کرتا ہے.خواہ وہ ہم سے ایک ہزار سال تک انتظار کرائے اور پھر کہے

Page 317

خطبات محج محمود 317 $1944 آجاؤ میرے بندو! مجھے تمہاری جان کی ضرورت ہے اور وہ دوسرے منٹ میں ہی کہے کہ آجاؤ اور اپنی جانیں میرے دروازہ پر قربان کر دو.اس کو ایسے خادموں کی ضرورت نہیں ہے جو قربانی کے لیے تیاری نہیں کرتے یا اس کی طرف سے آواز بلند ہونے میں اگر دیر ہو جاتی ہے تو وہ مست ہو کر بیٹھ جاتے ہیں.پس جو تحریکیں میں نے جماعت میں کی ہیں ان کی طرف میں ایک دفعہ پھر دوستوں کو جی توجہ دلاتا ہوں.کوئی شخص میری ان تحریکات کو اس رنگ میں نہ سمجھے کہ شاید کل ہی وہ دن آنے والا ہے جب اسلام کی ترقی کے لیے جماعت سے انتہائی قربانیوں کا مطالبہ کیا جائے گا.ہم تو کہتے ہیں اس دان کے آنے میں ابھی اور دیر ہو.تاکہ ہمارے کمزور بھی تیاری کر لیں اور ہم میں سے ہر شخص کے اندر ایسا مادہ پید اہو جائے کہ وقت آنے پر ہم اپنے اموال، اپنے اوقات اپنی جانیں، اپنی اولادیں، اپنی منی بیویاں اور اپنے دوست سب کچھ خدا کی خاطر قربان کرنے کے لیے تیار ہو جائیں.جس طرح سفر پر جانے سے پہلے لوگ اپنی پوٹلیوں اور اپنے ٹرنکوں میں اسباب بند کر کے بیٹھ جاتے ہیں اور وہ اس بات کے منتظر ہوتے ہیں کہ گاڑی کی سیٹی بجے تو وہ اپنا اسباب اٹھا کر ڈتے میں بیٹھ جائیں اسی طرح ہم میں سے ہر شخص کا فرض ہے کہ وہ دین کے لیے اپنی تمام چیزیں تیار رکھے.تاکہ جب خدا کی طرف سے آنے والے انجن کی آواز سنائی دے تو وہ دو چار منٹ کے اندر اندر سٹیشن پر پہنچ جائے.اور پھر جتنے منٹ اُس گاڑی نے سٹیشن پر ٹھہر نا ہو اُس وقت کے اندر اندر اُس کا اسباب گاڑی پر لد جائے.اگر اس طرح ہم اُس دن کے لیے تیار نہیں ہیں تو پھر ہم کسی خوش بختی یا ساعت سعید کا بھی انتظار نہیں کر سکتے.ہماری امیدیں محض ایک سراب کی حیثیت رکھیں گی جن سے آنکھیں تو چکا چوند ہو سکتی ہیں، جن سے مایوسی تو پید اہو سکتی ہے مگر تشنگی دور نہیں ہو سکتی".(الفضل 9 مئی،1944ء) 1 : همیانی: روپیہ پیسہ رکھنے کی پتلی تھی.خصوصاًوہ تحصیلی جو حالت سفر میں کمر سے باندھی جاتی ہے 2:الفجر:28تا31

Page 318

خطبات محمود $1944 318 17 احمدی نوجوان جلد اس قابل بنیں کہ اسلام کی جنگ میں انہیں تنور کی لکڑیوں کی طرح جھونکا جا سکے فرموده 5 مئی 1944ء) تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: ہر ایک تحریک کی تکمیل کے لیے کئی مرحلے ہوتے ہیں اور وہ ان میں سے گزر کر مکمل ہوا کرتی ہے.کسی تحریک کا سب سے پہلا حصہ خیال ہو تا ہے.ایک انسان کے دل میں ایک خیال پیدا ہوتا ہے اور وہ یہ سمجھتا ہے کہ فلاں کام کرنا بھی اچھی بات ہے.پھر دوسرا قدم اس کے بعد ارادہ کا ہوتا ہے.یعنی وہ یہ ارادہ کرتا ہے کہ میں فلاں کام کروں گا.تیسر اقدم پھر اس کی تفصیلات کا ہوتا ہے.یعنی وہ اپنے اس خیال کو ایک تفصیلی شکل دیتا ہے.مثلا کسی شخص می کے دل میں یہ خیال آتا ہے کہ ہمیں ایک مکان بنانا چاہیے.تو اس خیال میں ابھی ارادہ شامل ہیں نہیں.کچھ دنوں کے غور کے بعد وہ یہ فیصلہ کرتا ہے کہ میں ایک مکان بناؤں گا.یہ گویا اس کا منہ ارادہ ہے.جب تک صرف یہ خیال تھا کہ مکان بنانا چاہیے.اس وقت تک یہ محض ایک خیال ہے ہی تھا.مگر جب وہ یہ فیصلہ کرتا ہے کہ میں مکان بناؤں گا تو یہ ارادہ.

Page 319

خطبات ہے.محمود 319 $1944 فیصلہ کر لیتا ہے کہ بناؤں گا تو پھر یہ بھی سوچنا شروع کرتا ہے کہ وہ مکان کتنا لمباکتنا چوڑا ہو گا، تنے کمرے ہوں گے ، کتنے کتنے رقبہ کے کمرے ہوں گے ، مکان کی شکل کیا ہو گی.گویا ارادہ کے بعد تفصیلی شکل ہوتی ہے.پہلے خیال ہوتا ہے پھر ارادہ اور پھر تفصیلی تشکیل.جب اس ارادہ کو وہ تفصیلی تشکیل دے لیتا ہے تو اگر تو وہ فردی کام ہے تو اس کے لیے سامان جمع کرنا شروع کرتا ہے.یہ سامان دو قسم کے ہوتے ہیں.پہلے سامان ذریعہ وہ جمع کرتا ہے یعنی وہ سامان ہے جو ذریعہ ہوتے ہیں اصلی اور حقیقی سامانوں کے مہیا کرنے کا.مثلاً میں نے مکان کی مثال دی تفصیلی تشکیل کے بعد انسان اندازہ کرتا ہے کہ اس پر ہزار دو ہر ا، دس ہیں یا پچاس ہزار یالا کھ یا دو لاکھ روپیہ صرف ہو گا.اس لیے پہلے روپیہ کا انتظام کرتا ہے.اس کے بعد وہ روپیہ سے اصلی اور حقیقی سامان مہیا کرتا ہے.یعنی اینٹ، لکڑی، چونا، سیمنٹ، لوہے کا سامان یعنی کیل، کانٹا، قبضہ وغیرہ وغیرہ اشیاء خریدتا ہے.گویا روپیہ سامانِ ذریعہ تھا.جب وہ اسے مہیا کر لیتا ہے تو پھر حقیقی سامان جمع کرتا ہے جس سے مکان تیار ہوتا ہے.اس کے بعد ایک اور مرحلہ ہے.یعنی وہ اس سامان کو استعمال کرنے والے لوگوں کو جمع کرتا ہے.ایسے مستری، معمار اور مز دور وغیرہ اکٹھے کرتا ہے جو اس اینٹ، لکڑی، لوہے اور چونے گارے وغیرہ کو استعمال کر سکیں اور مکان کی حیثیت کے مطابق دو، چار ، دس، بیس یا سو پچاس معمار اور مزدور جمع کرتا ہے.یا اگر عمارت بڑی ہے تو کسی انجینئر کی خدمات حاصل کرتا ہے.پھر سامان کا استعمال شروع کرتا ہے.اور جب تعمیر مکان کر لیتا ہے یعنی سامان کا استعمال بھی کر لیتا ہے تو پھر ایک اور مرحلہ باقی ہوتا ہے.اور وہ اس مکان کی تزئین کا ہوتا ہے یعنی مکان کو رہائش اور آرام و آسائش میں کے قابل بناتا.محض مکان کی شکل کا مکمل ہو جانا انسان کی تسکی، تشقی اور آرام و آسائش کا یہ موجب نہیں ہو سکتا.جہاں تک تو صرف مکان کا سوال ہے.فرش کی بھی ضرورت نہیں.اس میں کسی پاٹ اور کموڈ کی ضرورت نہیں.دری، چار پائی، گلاس، لو ٹا وغیر ہ اشیاء میں سے چاہے ایک بھی کسی مکان میں نہ ہو.چاہے اس میں ایک بھی د بیچی نہ ہو، چلمچی نہ ہو، ایک بھی گڑوی نہ ہو، کوئی دری نہ ہو، چار پائی نہ ہو ، پھر بھی وہ پورا مکان ہے.مگر جہاں تک رہائش کا تعلق ہے جب تک سامان تزئین نہ ہو ، مکان رہائش اور آرام و آسائش کا موجب نہیں ہو سکتا.

Page 320

$1944 320 محمود تو اگر کوئی کام فردی ہو تو اتنے مراحل کے بعد کہیں جاکر ارادہ کی تکمیل ہوتی ہے.اور اگر وہ کام قومی ہو تو اُس کے لیے کام کے سامان جمع کرنے کے علاوہ لوگوں کے دلوں میں تحریک کرنا کہ وہ سامان مہیا کریں ایک مرحلہ ہوتا ہے.لوگوں سے اپیل کرنی پڑتی ہے ، اُن کو سمجھانا پڑتا ہے کہ یہ ضروری کام ہے اس کی تکمیل میں مدد دیں.تو ایک کام کی تکمیل کے لیے کئی مرحلے ہوتے ہیں اور ان تمام سے گزر کر ہی وہ کام ہو سکتا ہے.بعض نادان خیال کرتے ہیں کہ ادھر خیال پید اہوا اور اُدھر کام ہو گیا.حالانکہ خیال تو محض ابتدائی حالت ہے.خیال کے بعد ارادہ، ارادہ کے بعد تفصیلی تشکیل، پھر ان اسباب کا مہیا کرنا جو حقیقی اسباب مہیا کرنے کا موجب ہو سکتے ہیں.اور پھر اگر وہ قومی کام ہو تو سامان ذرائع جمع کرنے سے پہلے لوگوں کو اُس کے لیے تحریک کرنا بھی ایک مرحلہ ہے.پھر چھٹا مر حلہ یہ ہوتا ہے کہ حقیقی اسباب مہیا کیے جائیں.پھر ساتویں اُن لوگوں کو جمع کر ناجو تفصیلی تشکیل کی تکمیل کر سکیں.پھر اس کے بعد یہ مرحلہ باقی ہوتا ہے کہ اُس کی تزئین کی جائے اور اُسے قابل رہائش اور قابل سکون و آرام و آسائش بنایا جائے.اور اگر وہ مکان کرایہ پر دینے کے لیے ہے تو نواں مرحلہ یہ ہوتا ہے کہ اس میں رہنے کے لیے کوئی اچھا کرایہ دار تلاش کریں.تو مکان جیسی معمولی چیز جو ہر خاندان کے لیے ضروری ہے آٹھ نو مراحل گزرنے کے بعد مکمل ہوتی ہے.قرآن کریم نے انسانی پیدائش کے بھی سات مراحل بیان کیے ہیں.1 اسی طرح وہ کام جو اللہ تعالیٰ نے ہمارے سپرد کیا ہے اس کے بھی کئی مراحل ہیں.ان میں سے بعض تو یسے ہیں کہ ابھی اُن کا خیال بھی ہمارے اندر پیدا نہیں ہوا.بعض کا خیال تو پیدا ہو چکا ہے ابھی ارادہ نہیں کر سکے.بعض کا ارادہ کر چکے ہیں مگر اُس کی تفصیلی تشکیل ابھی نہیں کی.پھر بعض کے سامان ذریعہ ابھی مہیا نہیں کر سکے.بعض کے حقیقی سامان ابھی مہیا نہیں کیے گئے.بعض کے سامان بھی مہیا کر لیے ہیں مگر ابھی اس سامان کو استعمال کرنے والے آدمی مہیا نہیں کر سکے.اور بعض کام ایسے ہیں کہ اگر آدمی مل گئے ہیں تو ابھی کام شروع نہیں کر سکے.کام شروع کرنا بھی ایک اہم مرحلہ ہے.بعض کام اگر شروع ہیں تو تکمیل ابھی نہیں ہوئی.اور بعض کی اگر تکمیل بھی ہو چکی ہے تو ابھی تزئین باقی ہے یعنی اسے ابھی قابل استعمال بناتا ہے.

Page 321

خطبات محمود 321 $1944 ر بعض ایسے ہیں کہ اگر تکمیل کے بعد تزئین بھی ہو چکی ہے تو کرایہ دار کی تلاش باقی ہے.گو یا کئی ضروی کام ہیں جن کی ابتدا بھی ابھی ہم نے نہیں کی اور بعض کی ابھی ابتدائی حالت ہے.یوں نام کے طور پر تو ہم سمجھتے ہیں کہ ہم نے اسلام کی جنگ لڑنی ہے مگر اسلام کی جنگ کوئی آسان کام نہیں.یہ پتھر اٹھا کر دریا میں پھینک دینا نہیں بلکہ اتنا اہم اور اتنا مشکل کام ہے کہ جب تک مردوں، عورتوں، بچوں ، جوانوں اور بوڑھوں کی صحیح رنگ میں تعلیم نہ ہو یہ کام نہیں ہو سکتا.جب تک لوگوں کے دلوں اور دماغوں کی صحیح رنگ میں تعلیم اور تربیت نہ ہو یہ کام نہیں ہو سکتا.اور یہ تعلیم کا کام بھی آسان نہیں.یہ نہیں کہ ایک کتاب لکھ لی اور یہ کام ہو گیا.کوئی کتاب یہ کام نہیں کر سکتی.قرآن کریم سے بڑھ کر کوئی کتاب نہیں ہو سکتی.لیکن قرآن کریم کے موجود ہونے کے باوجود لوگوں کے دلوں میں ایمان نہیں.اس کے باوجود اسلام کی عمارت منہدم ہے.ضرورت اس امر کی ہے کہ قرآن کریم کی تعلیم لوگوں کے دلوں میں قائم کی جائے تب جاکر اسلام کی گری ہوئی عمارت دوبارہ قائم ہوگی.اور ابھی احمدیہ جماعت کے دوستوں میں بھی قرآن کریم کی تعلیم کو قائم کرنا باقی ہے.ابھی بہت سے دوست ہیں جنہوں نے اس کام کا ابھی خیال ہی کیا ہے.بعض ابھی ارادہ ہی کر رہے ہیں، بعض نے اس کام کی تفصیلی تشکیل نہیں کی، بعض نے سامانِ ذریعہ بھی ابھی مہیا نہیں کیے یعنی قربانی کا مادہ ان میں ابھی پیدا نہیں ہوا.بعض نے بے شک مالی قربانیوں کا تہیہ تو کر لیا ہے مگر محض مال سے تو دین کا کام نہیں ہو جاتا بلکہ یہ کام ہوتا ہے دین سیکھنے سے اور اپنے اخلاق درست کرنے سے.پھر ابھی وہ مستری بھی ہم تیار نہیں کر سکے جو مکان بناتے ہیں.یاد رکھنا چاہیے کہ روحانی عمارتوں کے معمار فرشتے ہوتے ہیں.جب کوئی انسان ایسے مرحلہ پر پہنچ جاتا ہے کہ اپنا جان و مال، اولاد، عزت، آبرو غرضیکہ سب کچھ خدا تعالیٰ کی راہ میں قربان کرنے کے لیے : ہو تب خدا تعالیٰ کے فرشتے اُس کام کی تکمیل کے لیے نازل ہوتے ہیں.اسلام نماز کا نام نہیں، اسلام روزوں کا نام نہیں، حج اور زکوۃ کا نام نہیں، اسلام ایمان بالقضاء کا نام نہیں، ایمان بالانبیاء کا نام نہیں، ایمان بالدعاء کا نام نہیں، حشر و نشر اور بعث بعد الموت کا نام ایمان نہیں.جس طرح اینٹ، لکڑی اور لوہے کا نام عمارت نہیں بلکہ عمارت نام ہے اس نسبت کا جو

Page 322

$1944 خطبات محمود عمل 322 اینٹوں، چونے، گارے، لکڑی اور لوہے کے سامان کو آپس میں موزوں طور پر حاصل ہوتی ہے.جب وہ سب چیزیں جو عمارت میں استعمال ہوتی ہیں ایک خاص نسبت سے آپس میں ملتی ہیں تو اس کا نام عمارت ہوتا ہے.اگر دس ہزار کیوبک فیٹ (FEET) لکڑی کسی جگہ پڑی ہو تو جی اسے عمارت نہیں کہا جا سکتا خواہ کوئی معمولی جھونپڑی ہی کیوں نہ بنائی ہو.دس ہزار کیوبک فیٹ لکڑی کا نام جھونپڑی نہیں ہو سکتا.بلکہ جھونپڑی بنے گی اُس تھوڑی سی لکڑی، اینٹوں اور گارے و چونے کو ایک خاص نسبت کے ساتھ آپس میں ملانے سے جو اُس جھونپڑی کے لیے ضروری ہیں.اسی طرح خالی نمازیں ایمان نہیں کہلا سکتیں.خالی روزے، خالی حج اور خالی زکوۃ کو ایمان نہیں کہا جاسکتا.جب تک ان کی نسبت کا آپس میں توازن قائم نہ ہو جائے گا ایمان نہیں ہو سکتا.جس طرح جب تک اینٹ ، چونا، گارا، لکڑی اور لوہے کا سامان ایک نسبت اور توازن کے ساتھ اپنی اپنی جگہ نہ رکھا جائے مکان نہیں بن سکتا.اسی طرح نماز کا نام ایمان اور اسلام نہیں رکھا جاسکتا، نہ روزوں کا نام ایمان اور اسلام ہے، نہ نبیوں پر ایمان لانے کا نام اسلام ہے، نہ سچ بولنے اور جھوٹ سے بچنے کا نام اسلام ہے، نہ ظلم سے اجتناب کا نام اسلام ہے.بلکہ ایمان اور اسلام کے لیے ضروری ہے کہ نماز، روزہ، زکوۃ، حج ، ایمان بالانبیاء ایمان بالقضاء، ایمان بالدعاء، حشر و نشر اور بعث بعد الموت پر ایمان نیز تمام اعلیٰ اخلاق کسی شخص کے درجہ کے مطابق ایک خاص نسبت اور توازن کے ساتھ اُس کے دل میں جمع ہو جائیں.اور ان سب باتوں کا جماعت کے دوستوں کے دلوں میں پیدا کر ناضروری ہے اور یہ ایک لمبا کام ہے.محض کسی تجویز کا خواہ وہ کتنی اعلیٰ اور اچھی کیوں نہ ہو شائع کر دینا کافی نہیں.بعض نادان جب یہ سنتے ہیں کہ ہم اس طرح کام کرنے لگے ہیں تو وہ سمجھ لیتے ہیں کہ بس کام ہو گیا اور اسلام کو فتح حاصل ہو گئی.حالانکہ یہ بہت ہی مشکل کام ہے.جب تک خون پسینہ ایک نہ ہو جائے یہ کام نہیں ہو سکتا.میں نے بعض تحریکات چند روز سے شروع کی ہیں.انہیں خیال نہیں کہا جاسکتا کہ وہ خیال سے بالا ہیں.انہیں ارادہ بھی نہیں کہا جا سکتا کہ وہ اس سے بھی بالا ہیں.تفصیلی تشکیل کا می نام بھی انہیں نہیں دیا جاسکتا کہ وہ اس سے کچھ زیادہ ہیں.بلکہ سامان ذریعہ حاصل کرنے کے

Page 323

$1944 323 خطبات محمود مرحلہ پر ہیں.ہم ایسے مقام پر کھڑے ہیں کہ حقیقی سامان جمع کرنے کا سامان جمع کر رہے ہیں اور اب ہمارے سامنے یہ مرحلہ ہے کہ حقیقی سامان فراہم کرنے کا انتظام کریں.اس کی بیبیوں شاخیں ہیں.اور ایک بڑی شاخ علماء کی جماعت کا پیدا کرنا ہے.جب اللہ تعالیٰ نے اس بات کا مجھ پر انکشاف فرمایا تو ساتھ ہی اللہ تعالیٰ نے یہ بھی انکشاف فرمایا کہ علماء کی کثرت اسلام کے قیام کے لیے نہایت ضروری ہے.دوسری شاخ یہ ہے کہ عورتوں کی اصلاح بہت ضروری ہے.اللہ تعالیٰ نے مجھے الہام میں مخاطب کر کے فرمایا ہے کہ "اگر تم پچاس فیصدی عورتوں کی اصلاح کر لو تو اسلام کو ترقی حاصل ہو جائے گی".تو یہ نہایت ہی اہم بات ہے.اس کا یہ مطلب نہیں کہ مردوں کی اصلاح ضروری نہیں.ان کی اصلاح بھی بہت ضروری ہے.مگر ان کی اصلاح کے ذرائع نسبتاً وسیع ہوتے ہیں.ان میں عام طور پر علماء کی کثرت ہوتی ہے وہ عموماً وعظ و نصائح سنتے ہیں.مگر عورتوں کے لیے پردہ کی وجہ سے ایسے مواقع بہت کم ہوتے ہیں اس لیے ان کے لیے الگ انتظام کرناضروری ہے.اب جیسا کہ میں نے بتایا ہے ہم بعض تحریکات کے لحاظ سے ایسے مقام پر کھڑے ہیں کہ حقیقی سامان مہیا کرنے کے سامان جمع کر رہے ہیں.اس لیے میں نے چندوں کا اعلان کیا تھا اور تحریک کی تھی کہ دوست اپنی جائیدادیں اسلام کے لیے وقف کریں.ہزاروں دوستوں نے اس طرف توجہ کی ہے اور ایک کثیر تعداد جائیدادوں کی وقف کی ہے.مگر ابھی بہت سے دوست ہیں جنہوں نے اس طرف توجہ نہیں کی اور وہ ایک ایسا عظیم الشان موقع کھو رہے ہیں جس کے بعد یقیناً انہیں پچھتانا پڑے گا.مگر پھر یہ پچھتانالا حاصل ہو گا.یہ تحریک تو ہوں گا کر شہیدوں میں شامل ہونے سے بھی کم ہے.لہو لگا کر شہیدوں میں شامل ہونے کے لیے بھی خون کا قطرہ بہانا پڑتا ہے.مگر اس تحریک میں تو بغیر ایک پیسہ دیئے شامل ہوا جا سکتا ہے.صرف اس غیر معین عہد کو جو ہر شخص بیعت کے وقت کرتا ہے ایک معین شکل میں پیش کرتا ہے.یعنی یہ وعدہ کرتا ہے کہ جب سلسلہ کو ضرورت ہو گی ان کی جائیدادوں پر جتنا ٹیکس لگے گا وہ اسے ادا کر دیں گے.اور یہ بوجھ ان پر غیر معمولی حالات میں ڈالا جائے گا.ورنہ زیادہ تر خرچ طوعی چندوں سے پورا کرنے کی کوشش کی جائے گی کیونکہ اس میں زیادہ برکت ہوتی ہے.تو ہزاروں لوگوں نے اپنی جائیدادیں ہم

Page 324

خطبات محمود 324 $1944 وقف کی ہیں.مگر ہزاروں ہیں جنہوں نے ابھی توجہ نہیں کی.بہر حال میں نے اپنا فرض ادا کر دیا اور آواز اُن تک پہنچادی ہے.اب بھی اگر وہ یا ان کی اولادیں ان نعمتوں سے محروم رہیں جو اللہ تعالیٰ ان کو دینا چاہتا ہے تو خود اپنے آپ کو یا اپنے والدین کو الزام دیں.میں اللہ تعالی کے حضور بری ہوں کیونکہ میں نے خدا تعالیٰ کی آواز کو ان تک پہنچادیا.خدا تعالیٰ کی بادشاہت میں وہی شخص داخل ہو سکتا ہے جو ہر قربانی کے لیے تیار ہو.ایسا شخص جو اُن تمام سامانوں کو جو اُس کے پاس ہیں خدا تعالیٰ کی راہ میں قربان کر دینے کے لیے تیار نہیں وہ وقت آنے.دھا گا ثابت ہو گا اور اسلام کی جنگ میں فاتح سپاہی کی حیثیت ہر گز حاصل نہ کر سکے گا.بہر حال ہم نے جدوجہد شروع کر دی ہے اور بعض مراحل طے بھی کر لیے ہیں.اب پانچویں مرحلہ کا کام شروع ہے.علماء پیدا کرنے کے لیے میں نے جامعہ احمدیہ کی ہے شکل بدل دی ہے اور اب اسے ایسی صورت میں چلایا جائے گا کہ جلد سے جلد اچھے علماء پیدا ہو سکیں.اِس راہ میں مولوی فاضل کلاس ایک روک تھی جسے اب اُڑا دیا گیا ہے.اور ایسے رنگ میں اس کا نصاب بدل دیا گیا ہے اور اپنی ہدایات کے ماتحت اس میں ایسی تبدیلی کرائی ہے کہ جس سے جلد از جلد علماء پیدا ہو سکیں.مدرسہ احمدیہ کا نصاب بھی ایسے رنگ میں تبدیل کیا جارہا ہے کہ اس میں تعلیم پانے والے جلد از جلد کسی نہ کسی علم کے عالم بن سکیں.بے شک یہ لڑائی کا بنگل نہیں مگر پریڈ کا انگل ضرور ہے.اور جو شخص پریڈ کا اگل عن کر پریڈ میں شامل نہیں تینی ہوتا وہ لڑائی میں شامل نہیں ہو سکتا.پس جن لوگوں کے دلوں میں اسلام کا درد ہے یہ بگل سن کر ان کے دل اچھلنے لگ جانے چاہئیں.جب لڑائی کا بنگل بجتا ہے تو رسالہ کے گھوڑوں میں بھی ایک جوش پیدا ہو جاتا ہے اور وہ ہنہنانے لگتے ہیں.وہ بھی سمجھ جاتے ہیں کہ اب میدان جنگ میں اپنی گردنیں کٹوا کر سر خرو ہونے کا وقت آ پہنچا ہے.لڑائی کا بنگل تو جب اللہ تعالی ہے چاہے گا بجے گا.پریڈ کا بنگل بجادیا گیا ہے اور چاہیے کہ اسلام کا در در رکھنے والے دلوں میں یہ بگل ایک غیر معمولی جوش پیدا کرنے کا موجب ہو.وقت آگیا ہے کہ جن نوجوانوں نے اپنی زندگیاں وقف کی ہیں وہ جلد سے جلد علم حاصل کر کے اس قابل ہو جائیں کہ انہیں اسلام کی جنگ میں اُسی طرح جھونکا جا سکے جس طرح تنور میں لکڑیاں جھونکی جاتی ہیں.اس جنگ میں

Page 325

$1944 325 خطبات محمود وہی جرنیل کامیاب ہو سکتا ہے جو اس لڑائی کی آگ میں نوجوانوں کو جھونکنے میں ذرا رحم نہ سوس کرے.اور جس طرح ایک بھڑ بھونجا چنے بھونتے وقت آموں اور دوسرے درختوں کے خشک پتے اپنے بھاڑ میں جھونکتا چلا جاتا ہے اور ایسا کرتے ہوئے اُس کے دل میں ذرا بھی رحم پیدا نہیں ہوتا اسی طرح نوجوانوں کو اس جنگ میں جھونکتا چلا جائے.اگر بھاڑ میں پتے جھونکنے کے بغیر چنے بھی نہیں بھن سکتے تو اس قسم کی قربانی کے بغیر اسلام کی فتح کیسے ہو سکتی ہے ہے.پس اس جنگ میں وہی جرنیل کامیابی کا منہ دیکھ سکے گا جو یہ خیال کیے بغیر کہ کس طرح ماؤں کے دلوں پر چھریاں چلتی ہیں، باپوں اور بھائیوں بہنوں کے دلوں پر چھریاں چل رہی ہیں نوجوانوں کو قربانی کے لیے پیش کرتا جائے.موت اُس کے دل میں کوئی رحم اور درد پیدا نہ کرے.اس کے سامنے ایک ہی مقصد ہو اور وہ یہ کہ اسلام کا جھنڈا اُس نے دنیا میں گاڑنا ہے اور سنگدل ہو کر اپنے کام کو کرتا جائے.جس دن مائیں یہ سمجھیں گی کہ اگر ہمارا بچہ دین کی راہی میں مارا جائے تو ہمارا خاندان زندہ ہو جائے گا، جس دن آپ یہ سمجھنے لگیں گے کہ اگر ہمارا بچہ شہید ہو گیا تو وہ حقیقی زندگی حاصل کر جائے گا اور ہم بھی حقیقی زندگی پالیں گے.وہ دن ہوگا ہی جب محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کو زندگی ملے گی.جن نوجوانوں نے اپنی زندگیاں وقف کی ہیں اُن کو بلانا شروع کر دیا گیا ہے.بعض کو بلا لیا گیا ہے اور بعض کو بلانے کی تیاری کی جارہی ہے اور جب مدرسہ کھلے گا ان کو بلا لیا جائے گا.لیکن جو نوجوان آئیں وہ یہ عزم صمیم لے کر آئیں کہ وہ ہر قسم کی قربانی کے لیے تیار ہیں.وہ خوب یاد رکھیں کہ دین کی خدمت لیتے وقت کسی رحم سے کام نہیں لیا جائے گا.اسلام کی ہے جنگ جیتنے کا سوال وہی لوگ حل کر سکتے ہیں جو ایسے سنگدل ہوں جیسے شاعروں کے معشوق سنگدل سمجھے جاتے ہیں.میں یقین رکھتا ہوں کہ اس سکیم کے ماتحت اگر اساتذہ اور طالب علم اپنی ذمہ داریوں کو محسوس کریں تو جلد ہی علماء کی ایک ایسی جماعت تیار ہو سکتی ہے جو اسلام کا ہے جھنڈا بیرونی ممالک میں گاڑ سکے اور اسلام واحمدیت کی تعلیم دلوں میں قائم کرنے میں کامیاب ہو سکے.اس کے علاوہ ایک اور بات بھی ہے.ہمارا صرف یہی کام نہیں کہ علماء پیدا کریں

Page 326

$1944 326 خطبات محمود بلکہ یہ بھی ہے کہ غیر احمدی علماء میں سے بھی ایک تعداد کو اپنے ساتھ شامل کریں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں بعض علماء جماعت میں شامل ہوئے اور اُن کے ساتھ ہزاروں لوگ جماعت میں شامل ہوئے.مگر اس کے بعد غیر احمدی علماء کو اپنی طرف کھینچنے میں ہماری طرف سے بہت کو تاہی ہوئی ہے.اب میں نے اس بارہ میں بھی ہدایات دی ہیں اور ابھی بعض اور ہدایات دوں گا.کوئی وجہ نہیں کہ اگر عوام احمدیت کو قبول کر سکتے ہیں تو علماء نہ کریں.کو تا ہی ہماری طرف سے ہے.کہتے ہیں العِلْمُ حِجَابُ الْأَكْبَر.بات یہ ہے کہ علماء اس طریق خطاب کو پسند نہیں کرتے جس سے عوام کو خطاب کیا جاتا ہے.وہ ذرا ذرا سی بات پر اپنی ہتک محسوس کرتے ہیں.جب تک ان کو اس طرح خطاب نہ کیا جائے کہ وہ محسوس کریں کہ ہمیں رسوا نہیں کیا جارہا بلکہ نجات کی طرف بلایا جاتا ہے وہ توجہ نہیں کر سکتے.پس ضروری ہے کہ ہمارے دوست علماء سے ملیں اور اُن کو مناسب رنگ میں تبلیغ کریں.ایک دوست نے اطلاع دی ہے کہ مولوی محمد شریف صاحب نے فلسطین سے لکھا ہے کہ جامعہ ازہر کا ایک بڑا عالم احمدی ہو گیا ہے.مجھے مولوی صاحب کا ایسا کوئی خط نہیں ملا.ممکن ہے رستہ میں کہیں گم ہو گیا ہو.بہر حال اگر یہ خبر صحیح ہے " تو بہت خوش کن ہے.ازہر یونیورسٹی دنیا میں ایک ہی یونیورسٹی ہے جہاں اسلام اور عربی زبان کی اعلیٰ تعلیم کا انتظام ہے اور اگر اس کا ایک بڑا عالم احمدی ہو گیا ہے تو اس کے معنے یہ ہیں کہ خدا تعالیٰ کے فضلوں کا دروازہ اس رنگ میں بھی کھلنا شروع ہو گیا ہے اور اس یونیورسٹی کے علماء میں سے بھی احمدی ہونے شروع ہو گئے ہیں جو اسلام کا گہوارہ سمجھی جاتی ہے.ایک اور بات جس کی طرف میں دوستوں کو توجہ دلانا چاہتا ہوں وہ کالج کے متعلق ہے.کالج شروع کر دیا گیا ہے.پروفیسر بھی خدا تعالیٰ کے فضل سے مل گئے ہیں.اب ضرورت اِس امر کی ہے کہ چندہ جمع کیا جائے اور لڑکوں کو اس میں تعلیم کے لیے بھجوایا جائے.ہر وہ احمدی جس کے شہر میں کالج نہیں وہ اگر اپنے لڑکے کو کسی اور شہر میں تعلیم کے لیے بھیجتا ہے ہے * بعد میں میں نے خط پڑھ لیا ہے ، خبر صحیح ہے.

Page 327

خطبات محمود 327 $1944 زوری ایمان کا مظاہرہ کرتا ہے.بلکہ میں کہوں گا ہر وہ احمدی جو توفیق رکھتا ہے کہ اپنے لڑکے کو تعلیم کے لیے قادیان بھیج سکے خواہ اُس کے گھر میں ہی کالج ہو اگر وہ نہیں بھیجتا اور اپنے ہی شہر میں تعلیم دلواتا ہے تو وہ بھی ایمان کی کمزوری کا مظاہرہ کرتا ہے.پھر کالج کے چندہ ہے کی طرف بھی دوستوں کو توجہ کرنی چاہیے.ڈیڑھ لاکھ روپیہ چندہ کی تحریک میں نے کی تھی.اس میں سے اب تک صرف پچاس ہزار روپیہ کے وعدے آئے ہیں.اس میں سے بائیس ہزار کے وعدے صرف تین آدمیوں کے ہیں اور اس طرح گویا باقی ساری جماعت کے وعدے صرف اٹھائیس ہزار کے ہیں.تین آدمیوں کے بائیس ہزار کے وعدے جماعت کی طرف منسوب نہ ہونے چاہیں.میں نے کہا تھا کہ اگر کوئی پیسہ ہی دے سکتا ہے تو وہی دے دے.بعض لوگوں نے اس کا مطلب یہ سمجھ لیا ہے کہ اگر کوئی سو روپیہ بھی دے سکتا ہے تو اس کے لیے بھی پیسہ ہی دے دینا کافی ہے.حالانکہ میرا مطلب تو یہ تھا کہ اگر کوئی شخص ایسا غریہ ہے کہ پیسہ ہی دے سکتا ہے تو وہ شرمندگی کے خیال سے اس کار خیر میں پیچھے نہ رہے بلکہ پیسہ ہی دے کر شامل ہو جائے.یہ مطلب نہیں تھا کہ جو زیادہ بھی دے سکتے ہیں وہ پیسہ دے دیں.پس ہر جماعت کو چاہیے کہ اس بارہ میں اپنا فرض پوری طرح ادا کرے.بعض دیہات کی جماعتوں کے چندے شہری جماعتوں سے زیادہ ہیں جس کا مطا ہے کہ ان شہری جماعتوں نے پروا نہیں کی.بلکہ سب بڑی بڑی جماعتیں ابھی تک صفر کے برابر ہیں.پانچ سات سو افراد کی جماعتوں نے اگر ڈیڑھ دو سو روپیہ دے دیا تو یہ نہ دینے کے ہی برابر ہے.ان کو تو آٹھ دس ہزار روپیہ دینا چاہیے.اس لیے میں پھر توجہ دلاتا ہوں کہ دوست ہے اپنا فرض ادا کریں.ہم جانتے ہیں کہ اگر انسان مدد نہیں کریں گے تو فرشتے مدد کریں گے.مگر ہم کتنے بد قسمت ہوں گے وہ لوگ جنہوں نے میرے ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر اللہ تعالیٰ سے یہ تھا کہ وہ دین کو دنیا پر مقدم کریں گے.مگر جب عمل کا وقت آیا تو وہ پیچھے ہٹ گئے.بیعت کے لیے انہیں کسی نے مجبور نہیں کیا تھا.بلکہ انہوں نے اپنی سرخروئی کے لیے خدا تعالیٰ سے یہ عہد باندھا تھا.اگر وہ میری آواز کو سن کر قربانی نہ کریں گے تو وہ خدا تعالیٰ سے بد عہدی کر.والے ہوں گے.کیونکہ انہوں نے میرے ہاتھ پر دراصل اللہ تعالیٰ سے عہد کیا تھا.

Page 328

خطبات چھ محمود 328 $1944 اس کے علاوہ میں دوستوں کو اس امر کی طرف بھی توجہ دلاتا ہوں کہ تبلیغ نہایت ہی ضروری ہے.اس کے بغیر ہم آگے قدم نہیں اٹھا سکتے.اس وقت ہماری تعداد اتنی تھوڑی ہے کہ ایک صوبہ کو بھی سہار نہیں سکتی.جب تک جماعت ہیں تیں بلکہ سو گنا نہیں بڑھ جاتی ہم کوئی ایسا کام نہیں کر سکتے جس سے دنیا میں تہلکہ مچ جائے.اس وقت ہماری تعداد چار پانچ لاکھ ہے.جب تک یہ سو گنا نہ ہو جائے کوئی عظیم الشان کام مشکل ہے.اگر تعداد چار پانچ یا کروڑ ہو تو پھر ہم ایسے کام کر سکتے ہیں جن سے دنیا میں تہلکہ مچ جائے.اگر چہ اتنی تعداد بھی بہت کم ہے.مگر جس ارادہ اور عزم کو لے کر ہم کھڑے ہوئے ہیں، جو آگ ہمارے دلوں می میں گھی ہوئی ہے، جو چنگاریاں ہمارے سینوں میں چھنک رہی ہیں اگر اس قسم کے چار پانچ یا چی چھ کروڑ افراد ہوں تو دنیا کو جلا کر راکھ کر سکتے ہیں.گو ہمیں یقین ہے کہ اگر اتنے نہ ہوں چند مخلصین ہی ہوں جن کے دلوں میں ویسا ہی درد ہو جو ہمارے دلوں میں ہے تو ہم اربوں ارب دنیا پر غالب آسکتے ہیں.مگر اتنے زبر دست ایمان کے لوگ زیادہ پیدا نہیں ہوتے.پس ہر نص کا فرض ہے کہ وہ تبلیغ کے لیے باہر نکلے.اگر جماعتیں تبلیغ میں سستی نہ کرتیں تو کوئی وجہ نہ تھی کہ ہر سال جماعت کی تعداد دگنی نہ ہو جاتی.یہ امتحان اور آزمائش کا وقت ہے.ہر شخص کا فرض ہے کہ اپنے کام کاج سے فارغ ہو کر باہر نکل جائے اور تبلیغ کرے.ہر گاؤں، بستی، شہر ، محلہ ، ہر مرد، عورت اور بچے، بوڑھے کے لیے امتحان کا وقت ہے.اگر وہ دین کو پھیلانے میں کوتاہی کرتا ہے تو وہ گنہگار ہے.اور جو شخص چند ماہ بلکہ چند ہفتوں میں ہی اپنا قائمقام پیدا نہیں کر سکتا وہ سمجھ لے کہ اسے خدا تعالیٰ کی تائید حاصل نہیں اور جو وعدہ اُس نے اللہ تعالیٰ سے کیا تھا اسے پورا کرنے کے سامان اسے میسر نہیں ہیں.یہ ممکن نہیں کہ ہم یہ خدا تعالیٰ کی آواز کو لے کر جائیں اور لوگ اس کی طرف توجہ نہ کریں.ضرور ہے کہ وہ موافقت کریں یا مخالفت.وہ یا تو پتھر برسائیں گے یا عقیدت کے پھول.درمیانی رستہ کوئی نہیں.یہ کبھی نہیں ہوا کہ دنیا میں کوئی نبی آیا ہو یا مصلح کھڑا ہو اہو اور دنیا نے اُس سے اغماض کیا ہو.یا تو اسے پتھر مارے جاتے ہیں یا عقیدت کے پھول برسائے جاتے ہیں.بات صرف بہ ہے کہ حقیقت کو کھول کر لوگوں کے سامنے پیش نہیں کیا جاتا.

Page 329

$1944 329 محمود ایک شخص نے مجھے ایک دفعہ لکھا کہ میں اتنی مدت سے آپ کو خط لکھ رہا ہوں آپ میری طرف توجہ کیوں نہیں کرتے.کم سے کم میری مخالفت ہی کریں.یہ خط دیکھ کر میرے دل میں یہ لالچ پیدا ہوا کہ میں اس کا جواب دوں.چنانچہ میں نے لکھوایا کہ مخالفت بھی اللہ تعالیٰ کے انعاموں میں سے ایک انعام ہے جو اللہ تعالیٰ کے ماموروں کو ملتا ہے.آپ اس سے محروم ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرمایا کرتے تھے کہ اب عزت دو ہی طریقوں سے حاصل ہو سکتی ہے.میری بیعت میں شامل ہو کر یا میری مخالفت کر کے.درمیانی طبقہ یعنی خاموش رہنے والے لوگ کوئی عزت نہیں پاسکتے.اور چونکہ عام طور پر لوگوں میں ہے عزت حاصل کرنے کی خواہش ہوتی ہے، اس لیے ان دونوں صورتوں میں سے ایک نہ ایک ضرور اختیار کرتے ہیں.یا بیعت میں شامل ہو جاتے ہیں اور یا مخالفت کرنے لگتے ہیں.صداقت کو کھلے طور پر لوگوں کے سامنے پیش کرنے کی ضرورت ہے.اگر سننے والے نہ مانتے ہیں اور نہ ہی مخالفت کرتے ہیں تو اس کے معنے یہ ہیں کہ تم صداقت کو پیش کرنے میں مداہنت سے کام لیتے ہو.میں جب پچھلے دنوں دہلی گیا تو وہاں ایک بہت بڑے سرکاری عہدیدار جو مسلمانوں کے لیڈر بھی ہیں مجھ سے ملنے آئے اور کہا کہ لندن میں آپ کے مولوی شمس صاحب ہیں.وہ ہیں تو بہت اچھے آدمی مگر آخر مولوی ہی ہیں نا.وہ دوسرے مسلمانوں کے ساتھ مل کر نماز نہیں پڑھتے.وہ گویا مجھے یہ تحریک کر رہے تھے کہ آپ بڑے آدمی ہیں آپ کو اس نقص کی اصلاح کرنی چاہیے.ان کی بات سن کر پہلے تو میں نے ان کو امامُكُمْ مِنكُفر 2 والی حدیث سنائی اور اس کا مطلب سمجھایا.پھر ان سے کہا کہ آخر آپ لوگ فیصلہ کیوں نہیں کرتے کہ آپ کے لیے احمدیت کو ماننا ضروری ہے یا نہیں.پھر میں نے انہیں کہا کہ آپ لوگوں کے پاس ہے کھٹی لٹی ہے اور میرے پاس خالص دودھ جو خدا تعالیٰ نے مجھے دیا ہے.اگر میں آپ کی دس ہزار سیر کھٹی لئی میں اپنا ایک سیر خالص دودھ ڈال دوں تو اس کے معنے یہ ہوں گے کہ یہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر میں خالص دودھ کا ایک قطرہ بھی نہ رہے.آپ کو تو چاہیے تھا کہ آپ اگر کسی احمدی کو غیر احمدیوں میں ملتا ہوا دیکھتے تو گھبرائے ہوئے آتے ہیں

Page 330

$1944 330 خطبات محمود اور میرے پاس شکایت کرتے اور کہتے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جائیداد تباہ ہونے لگی ہے.ہمارے جیسے لوگوں سے ملنے سے اسے بچائیے.تو میں نے صفائی کے ساتھ اُن کو جواب دیا.اگر میں مداہنت سے کام لیتا اور کہتا یہ مجبوریاں ہیں وہ معذوریاں ہیں تو بات ایسی اچھی طرح اُن کے ذہن میں نہ آسکتی.پس ضرورت ہے اس امر کی کہ صفائی اور دلیری کے ساتھ صداقت کو پیش کیا جائے.پھر ضرور یا تو لوگ موافقت کریں گے یا مخالفت.پس تبلیغ کے لیے اپنے گھروں سے نکلو.جب اللہ تعالیٰ نے گھروں سے نکلنے کا حکم دیا تو جو نہیں نکلتا ہے اللہ تعالیٰ اُس پر رحم کرے.اُس کا ایمان کمزور ، اُس کا دین ناقص اور اُس کی امیدیں جھوٹی (الفضل 20 مئی 1944ء) ہیں".1 : وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنْسَانَ مِنْ سُللَةٍ مِنْ طِينٍ ثُمَّ جَعَلْنَهُ نُطْفَةً فِي قَرَارٍ مَكِيْن 8 ثُمَّ خَلَقْنَا النُّطْفَةَ عَلَقَةً فَخَلَقْنَا الْعَلَقَةَ مُضْغَةً فَخَلَقْنَا الْمُضْغَةَ عِظَبًا فَكَسَوْنَا الْعِظْمَ لَحْمًا ثُمَّ اَنْشَأْنُهُ خَلْقًا أَخَرَ فَتَبَرَكَ اللهُ اَحْسَنُ الْخَلِقِينَ (المومنون:13 تا15) 2 :صحیح بخارى كِتَاب أَحَادِيثِ الْأَنْبِيَاءِ بَابِ نُزُولِ عِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ عَلَيْهِمَا السّلام

Page 331

$1944 331 18 خطبات محمود نمازیں سنوار کر پڑھو، تسبیح، تحمید اور درود پڑھنے میں دوام اختیار کرو فرمودہ 12 مئی 1944ء) تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: اللہ تعالیٰ نے جو دنیا میں مذہب بھیجا ہے تو اس کی ایک ہی غرض ہے کہ بنی نوع انسان خدا تعالیٰ کی طرف متوجہ ہوں.شفقت علی خَلق اللہ بھی مذہب کا ایک حصہ ہے.لیکن یہ بھی خدا تعالیٰ کی طرف توجہ کرنے کا ایک لازمی نتیجہ ہے.جب کوئی باپ اور ماں سے محبت کرتا ہے تو ان کے بچوں سے وہ آپ ہی محبت کرتا ہے.اسی طرح جو شخص اللہ تعالیٰ سے محبت کرتا ہے یہ ممکن ہی نہیں کہ بنی نوع انسان کے متعلق اُس کے دل میں بغض اور کینہ باقی رہ جائے.جتنا جتنا کسی کے دل میں بغض اور کینہ ہو اتنا ہی اس کو سمجھ لینا چاہیے کہ اس کا تعلق خدا سے کمزور ہے.نماز خدا کے تعلق کی علامت نہیں بلکہ خدا کے تعلق کا ایک ذریعہ ہے.ذکر الہی بھی خدا کے تعلق کی علامت نہیں بلکہ خدا کے تعلق کا ایک ذریعہ ہے.روزہ بھی خدا تعالیٰ کے تعلق کی علامت نہیں بلکہ خدا کے تعلق کا ایک ذریعہ ہے.حج بھی خدا تعالیٰ کے تعلق کی

Page 332

خطبات محج محمود 332 $1944 علامت نہیں بلکہ خدا کے تعلق کا ایک ذریعہ ہے.اسی طرح اور جس قدر عبادات ہیں وہ سہ کی سب خدا کے تعلق کی علامت نہیں بلکہ خدا کے تعلق کا ذریعہ ہیں.لیکن بنی نوع انسان سے محبت اور ہمدردی کرنا اور اُن سے تعلق اور محبت رکھنا اور اُن سے شفقت کے ساتھ پیش آنا خدا کے ساتھ تعلق پیدا کرنے کا ذریعہ ہی نہیں بلکہ اس کی ایک علامت بھی ہے.یعنی اگر کوئی شخص بنی نوع انسان سے محبت رکھتا ہے، ان کے ساتھ اخلاص سے پیش آتا ہے ، ان کی تکلیف کو اپنی تکلیف سمجھتا ہے، اُن سے کینہ اور بغض نہیں رکھتا، اُن سے لڑائی جھگڑا نہیں بڑھاتا.اس کے دل میں عفو ہے، رحمت ہے ، شفقت ہے تو یہ امر صرف خدا کے تعلق کو بڑھانے کا ایک ذریعہ ہی نہیں ہو گا بلکہ اس بات کی علامت بھی ہو گا کہ یہ تعلق پیدا ہو چکا ہے.بشرط فعل ایمانا اور احتساباً کر رہا ہو.یہ ایک لازمی شرط ہے کہ کوئی چیز اپنی ظاہری صورت میں دین کے لحاظ سے نیکی نہیں بن سکتی جب تک وہ ایمانا اور احتسابانہ ہو.کام کرنے والا ایمان کے لحاظ سے کرے اور اللہ تعالیٰ کی رضا اور اس کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے کرے.مثلاً اگر وہ بنی نوع انسان سے محبت کرتا ہے تو وہ اس لیے محبت نہیں کرتا کہ بنی نوع انسان سے محبت کرنے سے میری قوم ترقی کرے گی.اگر وہ اس نیت سے ان کے ساتھ محبت کرتا ہے تو یہ خدا تعالیٰ کے تعلق کی علامت نہیں ہو گی.لیکن اگر اس کے حُسنِ سلوک کی اصل وجہ یہ ہے کہ وہ سمجھتا ہے یہ میرے رب کی مخلوق ہے اور میرے رب کا حکم ہے کہ ان سے محبت کروں تو اس کا یہ فعل یقینا دین کا حصہ بنے گا اور اس کے لیے خد اتعالیٰ کے قرب کا موجب ہو گا.اسی طرح اگر اُس کے دل میں یہ احساس رہتا ہے کہ میں بنی نوع انسان سے محبت کروں گا تو ہم سب کا روحانی باپ اس نیکی کی وجہ سے میرے ساتھ بھی نیک سلوک کرے گا تو یہ فعل اس کے لیے روحانی درجات کی بلندی کا موجب ہو گا.پس ضروری ہے کہ ایک طرف انسان کا ایمان مضبوط ہو اور دوسری طرف احتساب اُس کے مد نظر ہو کہ میرا پیدا کرنے والا خدا اِس کو پسند کرے گا اور یہ میرا عمل اس کے پاس محفوظ رہے گا.مگر جیسا کہ میں نے بتایا ہے اصل چیز خدا کی محبت ہی ہے اور شفقت علی خلق اللہ اس کا ایک حصہ ہے.کیونکہ وہ ایک علامت ہے اور علامت اپنے اصل سے علیحدہ حیثیت نہیں رکھتی.

Page 333

خطبات محمود 333 $1944 پس مذہب کی غرض صرف یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ اور بندوں کا تعلق قائم کیا جائے.مذہب کا قیام ایسی ہی باتوں سے ہو سکتا ہے جو دین سے تعلق رکھنے والی ہوں اور جن سے خدا کی محبت پیدا ہوتی ہو.پس ہر چیز جس سے خدا کی محبت پیدا ہوتی ہے مذہب کا ایک جزء ہے.نماز مذہب کا ایک جزو ہے، روزہ مذہب کا ایک جزو ہے، زکوۃ مذہب کا ایک جزو ہے، حج مذہب کا ایک جزو ہے، صدقہ و خیرات مذہب کا ایک جزو ہے.لوگوں سے حُسنِ سلوک کرنا، ان کے ساتھ مروت سے پیش آنا، ان سے رافت، شفقت اور ہمدردی کا اظہار کرنا یہ سب چیزیں مذہب کا جزو ہیں.اس لیے کہ ان کے ذریعہ خدا تعالیٰ کا قرب حاصل ہوتا اور اس کے ساتھ انسان کا تعلق قائم ہوتا ہے.دنیا کے عام لوگ جو مذہب کا نام اختیار کر کے لوگوں کو ایک سوسائٹی کی شکل دینا چاہتے ہیں خدا تعالیٰ سے براہ راست محبت پیدا کرنے کے جو ذرائع ہیں اُن کو نظر انداز کر دیتے ہیں.وہ مذہب کے پیچھے نہیں چلتے وہ اپنی نفسانی خواہشات کا نام مذہب رکھ لیتے ہیں.کیونکہ وہ سمجھتے ہیں لوگ مذہب کے نام پر زیادہ قابو آتے ہیں.پس ایسا انسان جو خدا تعالیٰ کے ساتھ کامل تعلق پیدا کرنا چاہتا ہو اُس کے لیے تمام عبادتیں جو خدا تعالیٰ کے قرب کا ذریعہ اور انسانی نفس کی صفائی کرنے والی ہیں نہایت ہی اہمیت رکھتی ہے ہیں.وہ ان کو کسی طرح نظر انداز نہیں کر سکتا، کسی طرح ان کو چھوڑ نہیں سکتا اور کسی طرح ہے ان کو تحقیر کی نگاہ سے نہیں دیکھ سکتا.ہم صحابہ کو دیکھتے ہیں ان کی ساری زندگی ہی ان باتوں میں لگی رہتی تھی جو خدا تعالیٰ کے قرب کا ذریعہ ہیں.لیکن اس زمانہ کے لوگ ان باتوں کو تو چھوڑ دیتے ہیں جو خدا تعالیٰ کے قرب کا ذریعہ ہیں اور ان باتوں کے پیچھے پڑے رہتے ہیں جو اُن کی شہرت اور عزت کا موجب ہوں یا قوم میں اُن کا وقار قائم کرنے کا موجب ہوں.اصل چیز کی طرف ان کی توجہ نہیں ہوتی.مثلاً اس زمانہ میں ہم دیکھتے ہیں نماز کی قدر بہت کم ہو گئی ہے.مسجد میں تو ہیں ہے مگر نمازیوں کے نہ ہونے کی وجہ سے اکثر ویران پڑی رہتی ہیں.میں جب مصر گیا تو وہاں کی سب سے بڑی مسجد میں میں نے دیکھا ظہر کی نماز میں صرف اتنے آدمی تھے کہ اُس کے محراب میں ہی آگئے.آگے امام تھا اور پیچھے چار پانچ آدمی کھڑے تھے.یہ اس شہر کا حال ہے ہے

Page 334

خطبات محمود 334 $1944 جو اسلام کا مرکز کہلاتا ہے.جہاں کئی لاکھ کی مسلم آبادی ہے.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ وہاں اور بھی مسجدیں ہیں.یہ نہیں کہ سب لوگ اُسی مسجد میں آتے ہوں.لیکن جامع مسجد کی اِس حالت کو دیکھ کر اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اور مساجد کی کیا حالت ہو گی.میں تو دنیا میں جہاں ہے جہاں گیا ہوں مساجد مجھے ایسی ہی ویران دکھائی دی ہیں.مجھے زیادہ سیاحت کا موقع نہیں ملا مگر پھر بھی جو اسلامی علاقے میں نے دیکھے ہیں ان میں یروشلم ہے ، حیفا ہے، دمشق ہے، پورٹ سعید ہے، سویز ہے، قاہرہ ہے.یہ علاقے میں نے دیکھے ہیں.اسی طرح ہندوستان کی وہ مساجد جو شمالی ہند میں ہیں یا وہ مساجد جو مغربی ہند میں ہیں میں نے دیکھی ہیں.جنوبی ہند اور مشرقی ہند میں مجھے جانے کا موقع نہیں ملا.مگر میں نے کوئی جگہ بھی ایسی نہیں دیکھی جہاں کی مسجدیں آباد ہوں.سوائے بیت اللہ کے کہ وہ ایک ایسا مقام ہے جو ہمیشہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے والوں سے بھرا رہتا ہے.اللہ تعالیٰ نے اس مقام کی محبت مسلمانوں کے دلوں میں پیدا کر دی ہے.بے شک ہم حج کے دنوں میں وہاں گئے تھے جب اور دنوں کی نسبت وہاں بہت زیادہ عبادت کرنے والے جمع ہو جاتے ہیں مگر میں نے گرید گرید کر لوگوں سے پوچھا تو یہی معلوم ہوا کہ دوسرے ایام میں بھی بالعموم مکہ والے بیت اللہ میں ہی نمازیں پڑھتے ہیں اور ہر وقت ہزاروں نمازی وہاں موجو د رہتے ہیں.حج کے دنوں میں تو یہ تعداد بہت زیادہ ہو جاتی ہے.وہ بڑی وسیع مسجد ہے مگر پھر بھی بعض دفعہ ساری مسجد کناروں تک نمازیوں سے بھر جاتی ہے.عام اندازہ یہ ہے کہ وہاں ساٹھ ہزار سے ایک لاکھ تک لوگ حج کے دنوں میں نمازیں پڑھتے ہیں اور دوسرے دنوں میں بھی ہزاروں کی تعداد میں وہاں نماز پڑھنے والے موجو د رہتے ہیں.وہاں چھوٹی چھوٹی الگ بھی مسجدیں بنی ہوئی ہیں.مگر پھر بھی محلہ والوں کی یہی خواہش ہوا کرتی ہے ہم کوئی نہ کوئی نماز بیت اللہ میں ضرور پڑھیں.اور بعض نے تو یہ عہد کیا ہوتا ہے کہ ہم ساری نمازیں چاہے ہم کتنی ہی دور کیوں نہ رہتے ہوں بیت اللہ میں ہی پڑھیں گے.بس بیت اللہ العتیق کے ہوا قادیان کے باہر میں نے کوئی مسجد آباد نہیں دیکھی.بالعموم مسجدیں نمازیوں سے خالی ہوتی ہیں.اور اس کی وجہ یہی ہے کہ دلوں میں نماز کی اہمیت نہیں رہی.وہ سمجھتے کہ ہیں کہ نماز ایسی ہی چیز ہے جیسے ٹونا یا جادو ہوتا ہے.کوئی حقیقی فائدہ نماز سے حاصل نہیں ہو سکتا.

Page 335

خطبات محمود 335 $1944 میں نے کچھ عرصہ ہوا دوستوں کو نماز باجماعت پڑھنے کی تحریک کی تھی.خدا تعالیٰ کے فضل سے قادیان میں اکثر لوگ باجماعت نماز پڑھنے کی کوشش کرتے ہیں اور بہت کم ہیں جو اس میں سستی کرتے ہیں.لیکن پھر بھی لوگوں کو بیدار کرنے اور ان میں زیادہ مستعدی پیدا کرنے کے لیے میں نے یہ تحریک کی اور میں نے دیکھا کہ اس وقت نماز با جماعت کا چرچا بہت زیادہ ہو گیا اور مساجد میں پھر آبادی بڑھ گئی.اب میری تحریک پر لوگ مسجد مبارک میں ہے نماز پڑھنے کے لیے آنے شروع ہو گئے ہیں اور گو ابھی اتنے لوگ نہیں آئے جتنے آسکتے ہیں یا جتنے لوگوں کو با قاعدگی کے ساتھ مسجد مبارک میں نماز پڑھنے کے لیے آنا چاہیے لیکن بہر حال میں لوگوں میں تحریک ہوئی اور انہوں نے نماز کے لیے مسجد مبارک میں آنا شروع کر دیا.لیکن اس کے علاوہ نماز کے بعض حصے ایسے ہیں جن کی طرف ابھی قادیان کے لوگ بھی متوجہ نہیں اور باہر کی جماعتیں بھی ان امور کی طرف بہت کم توجہ کرتی ہیں.نماز کی ایک خصوصیت یہ ہوا کرتی ہے کہ اسے ٹھہر ٹھہر کر پڑھا جائے.مگر میں ہے دیکھتا ہوں ابھی جماعت میں یہ احساس پورے طور پر پیدا نہیں ہوا کہ وہ نمازیں آہستگی اور اطمینان کے ساتھ پڑھا کریں.ان کی نمازیں بے شک غیر احمدیوں سے اچھی ہوتی ہیں جو اس میں طرح پڑھتے ہیں جیسے مرغا دا نے چنتا ہے.لیکن ایسی بھی نہیں ہو تیں جیسے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا منشا ہے کہ نمازیں پڑھی جائیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس امر کی بڑی تاکید فرمائی ہے کہ جب انسان سجدہ میں جائے تو تمام کلمات عمدگی سے ادا کرے، جب کھڑا ہو تو سورہ فاتحہ اور قرآن مجید کا کچھ حصہ یا صرف سورۂ فاتحہ جیسی بھی صورت ہو اطمینان سے پڑھے اور ایک ایک لفظ کو آرام اور سکون کے ساتھ ادا کرے.جب رکوع میں جائے تو اسی طرح رکوع کی تسبیح آہستگی اور عمدگی سے کرے جلدی جلدی اپنی زبان سے کلمات نہ نکالے.لیکن اس کے علاوہ نماز کا یہ بھی ایک اہم حصہ ہے کہ رکوع اور سجدہ وغیرہ کی حرکات وقار کے ساتھ کی جائیں.جب انسان رکوع کی طرف جائے تو یہ نہ ہو کہ جلدی سے رکوع میں چلا جائے بلکہ آہنگی اور وقار کے ساتھ جائے.جب رکوع سے اٹھے تو جلدی سے نہ اٹھے بلکہ آہستگی اور اطمینان کے ساتھ اس طرح اٹھے جیسے ایک باوقار انسان اٹھتا ہے.جب

Page 336

خطبات محمود 336 $1944 سجدہ میں جائے تو اُس وقت بھی اپنی حرکات میں وقار مد نظر رکھے.یہ نہ ہو کہ وہ گود کر سجدہ میں چلا جائے.اسی طرح دو سجدوں کے درمیان جب بیٹھے تو ایک باوقار انسان کی طرح آہستگی سے اپنا سر اٹھائے اور اطمینان کے ساتھ بیٹھ کر مسنون دعائیں پڑھے.پھر جب سلام پھیر نے لگے تو اُس وقت بھی اِس ہدایت کو مد نظر رکھے.یہ نہ ہو کہ جس طرح کل والا بت حرکت کرتا ہے اسی طرح جلدی سے اُس کی گردن ایک دفعہ دائیں طرف مڑ جائے اور دوسری دفعہ بائیں طرف اور وہ نماز سے فارغ ہو جائے.یہ ساری چیزیں نماز کے اثر کو زائل کرنے اور اس کے فوائد کو باطل کرنے والی ہیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان امور کا اس قدر خیال رکھا ہے کرتے تھے کہ ایک دفعہ آپ مسجد میں تشریف رکھتے تھے کہ ایک شخص آیا اور اُس نے نماز شروع کر دی.جب وہ نماز ختم کرچکا تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے فرمایا کہ تمہاری نماز نہیں ہوئی پھر پڑھو.اُس نے پھر نماز پڑھی.جب فارغ ہو چکا تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تم پھر نماز پڑھو کیونکہ تمہاری نماز نہیں ہوئی.اُس نے پھر نماز پڑھی.اس دفعہ نماز سے فارغ ہوا تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پھر فرمایا تمہاری نماز نہیں ہوئی.آخر جب کئی دفعہ اسی طرح ہوا تو وہ کہنے لگا یار سول اللہ ! مجھے تو کسی اور طرح نماز پڑھنی نہیں آتی.آپ ہی بتائیں میں کس طرح نماز پڑھوں؟ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جب تم نماز پڑھو تو ٹھہر ٹھہر کر اور آہستگی اور و قار سے تمام حرکات ادا کر و.مگر میں دیکھتا ہوں اِس طرف ہماری جماعت کے دوستوں کی بہت کم توجہ ہے.بعض لوگ سجدہ بھی لمبا کر لیں گے لیکن جب اٹھنے لگیں گے تو اس طرح جلدی سے اٹھ کر بیٹھ جائیں گے جیسے کسی مشین کے اوپر سے کوئی تختہ اٹھا دیا جائے تو یکدم مشین باہر نکل آتی ہے.یا سجدہ میں جانے لگیں گے تو ایسا معلوم ہو گا جیسے کسی نے ان کو دھکا ہے دے دیا ہے.یہ ساری باتیں وقار کے خلاف اور نماز کی روح کو نقصان پہنچانے والی ہیں.اسی طرح میں نے دیکھا ہے سجدہ میں جاتے وقت کھٹاکھٹ کی آواز آنی شروع ہو جاتی ہے جس کے معنے یہ ہوتے ہیں کہ وہ گود کر سجدے میں جانے کی کوشش کرتے ہیں.گویا کھڑے کھڑے وہ تنگ آچکے تھے اور اس لیے سجدے میں زمین پر گھنٹے مار کر جاتے ہیں.یہ بھی

Page 337

$1944 337 خطبات محمود وقار کے خلاف ہے.اسلام یہ ہدایت دیتا ہے کہ جب انسان سجدہ میں جائے تو آہستگی جائے، گھٹنوں کو آرام سے زمین پر رکھے.پھر آرام سے زمین پر ہاتھ رکھے اور پھر سجدہ میں اپنا سر جھکا دے.ان تمام حرکات میں مومنانہ و قار مد نظر رکھنا چاہیے.یہ چیز بھی اہم اصول میں سے ہے اور اس سے انسان کے دل میں نور پیدا ہوتا ہے.جو شخص جلدی جلدی حرکات کرتا ہے وہ چاہے پندرہ منٹ کا سجدہ کرے اسے وہ فائدہ کبھی حاصل نہیں ہو سکتا جو اس شخص کو حاصل ہو سکتا ہے جو گو دومنٹ کا سجدہ کرے مگر اپنی تمام حرکات میں وقار مد نظر رکھے اور آہنگی کے ساتھ تمام ارکان نماز بجا لائے.اگر لمبا سجدہ کرنے والا نماز کی درمیانی حرکات کو بھی آہستگی سے ادا کرے تب اسے دوسروں سے زیادہ فائدہ ہو گا.لیکن اگر وہ نماز کی حرکات کرتے وقت تو آہستگی سے کام نہیں لیتا اور سجدہ میں زیادہ وقت صرف کر دیتا ہے تو اس سے وہ شخص زیادہ فائدے میں رہے گا جو گو سجدہ چھوٹا کرتا ہے ( یہ مطلب نہیں کہ وہ بالکل چھوٹا ہو بلکہ مطلب یہ ہے کہ نسبتا چھوٹا سجدہ کرتا ہے) لیکن ارکان آہستگی سے ادا کرتا ہے.ایسے کے قلب میں یقیناً دوسرے سے زیادہ نور پیدا ہو گا اور وہ دوسرے سے بہت زیادہ اللہ تعالیٰ کے قرب میں بڑھ جائے گا.پس ہر شخص کو نماز پڑھتے وقت اپنی حرکات کا میں خصوصیت سے خیال رکھنا چاہیے اور کوشش کرنی چاہیے کہ اُس کی حرکات ایسی ہوں جیسے بادشاہ کے سامنے کوئی موڈب انسان کرتا ہے.دوسری چیز جس کی طرف میں جماعت کو توجہ دلانا چاہتا ہوں ذکر الہی ہے.میں دیکھتا ہوں کہ ابھی تک ہماری جماعت میں ذکر الہی کی پوری اہمیت نہیں پائی جاتی.حالانکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے ہر نماز کے بعد انسان کو تینتیس دفعہ تسبیح، تینتیس دفعہ تحمید اور چو نیس دفعہ تکبیر کہنی چاہیے اور اس بات کو آپ نے اتنی اہمیت دی ہے ہم کہ ایک دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس غرباء آئے اور انہوں نے عرض کیا یارسول اللہ ! آپ کی جماعت میں کچھ امراء بھی ہیں.جو کچھ ہم کرتے ہیں وہی کچھ وہ بھی ہے کرتے ہیں، جیسے ہم جہاد کرتے ہیں ویسے ہی امراء جہاد کرتے ہیں، جس طرح ہم نمازیں پڑھتے ہیں اسی طرح امراء نمازیں پڑھتے ہیں، جس طرح ہم روزے رکھتے ہیں اُسی طرح امراء

Page 338

$1944 338 خطبات محمود روزے رکھتے ہیں، جس طرح ہم حج کرتے ہیں اُسی طرح امراء حج کرتے ہیں لیکن یارسول اللہ ! ایک بات میں وہ ہم سے بڑھ کر ہیں.وہ زکوۃ دیتے ہیں مگر ہم نہیں دے سکتے.کیونکہ ہمارے پاس مال نہیں ہے.اس طرح وہ نیکی میں ہم سے بڑھ جاتے ہیں.یارسول اللہ ! آپ کوئی ایسی ترکیب بتائیں جس سے کام لے کر ہم بھی نیکی میں ان کے برابر ہو جائیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا میں تمہیں ایک ایسی ترکیب بتاتا ہوں کہ اگر تم اس پر عمل کرو گے تو دوسروں سے پانچ سو سال پہلے جنت میں جاؤ گے.انہوں نے عرض کیا ہے یارسول اللہ ! ضرور بتائیے.آپ نے فرمایا، تم ہر نماز کے بعد 33 دفعہ سُبْحَانَ الله ، 33 دفعہ الْحَمْدُ لِله اور 34 دفعہ اللہ اکبر کہہ لیا کرو.اس سے تم پانچ سو سال پہلے جنت ں چلے جاؤ گے.انہوں نے اس پر عمل کرنا شروع کر دیا.کچھ دن گزرے تو پھر وہی صحابہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور انہوں نے عرض کیا یارسول اللہ ! ہم نے آپ کے کہنے پر عمل شروع کر دیا تھا کیونکہ ہم سمجھتے تھے کہ چونکہ ہم ؟ زکوۃ نہیں دے سکتے اور نیکی کے اس میدان میں امراء ہم سے بڑھ جاتے ہیں اس لیے کوئی ایسی ترکیب ہونی چاہیے جس سے امراء ہم سے نہ بڑھ سکیں.مگر یار سول اللہ ! آپ نے جو کچھ ہمیں بتایا تھا اُس کا کسی طرح امراء کو بھی پتہ لگ گیا اور انہوں نے بھی اس پر عمل شروع کر دیا ہے.یارسول اللہ ! آپ امیروں کو روک دیجیے کہ وہ ایسا نہ کریں.رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا میں کسی کو نیکی سے نہیں روک سکتا.2 ! تو دیکھو ان لوگوں میں کیسا اخلاص تھا کہ نیکی کے حصول کا کوئی ذریعہ اپنے ہاتھ سے نہیں جانے دیتے تھے.یہی وجہ تھی کہ ان کو خدا کا قرب حاصل ہوا.اگر وہ بھی اسی طرح ہیں بے پروائی کرتے جس طرح آجکل بے پروائی سے کام لیا جاتا ہے.تو اللہ تعالیٰ کے قرب کا ہے مقام ان کو کس طرح حاصل ہو سکتا.آجکل لوگ دین کی باتیں تو سنتے ہیں.مگر صرف مزہ اٹھانے کے لیے عمل کرنے کے لیے نہیں سنتے.وہ مجلس میں بیٹھے ہوئے سر بھی مار لیتے ہیں، واہ وا ہے بھی کہہ دیتے ہیں.یہ بھی کہنا شروع کر دیتے ہیں کہ واعظ صاحب نے بڑا اچھا وعظ کیا.لیکن یہ درد پیدا نہیں ہوتا کہ ہم ان باتوں پر عمل بھی کریں.اب یہی روایت میں اپنے خطبات میں ہے

Page 339

$1944 339 خطبات محمود بیسیوں دفعہ بیان کر چکا ہوں.مگر کتنے شخص ہیں جو اس پر باقاعدگی سے عمل کر رہے ہیں کہ جب نماز ختم ہو.یہ مطلب نہیں کہ ضرور فرض نماز ہی کے بعد بلکہ مطلب یہ ہے کہ جب نماز سے انسان فارغ ہو جائے تو وہ بیٹھ کر 33 دفعہ تسبیح ، 33 دفعہ تحمید اور 34 دفعہ تکبیر کہے.حالا نکہ اس کے بدلے میں انسان دوسروں سے پانچ سو سال پہلے جنت میں جاسکتا ہے.کیا پانچ سو سال پہلے جنت کا مل جانا کوئی معمولی بات ہے.میں تو سمجھتا ہوں ہزاروں لاکھوں روپے ہے لوگ اس غرض کے لیے دینے کو تیار ہو جائیں اگر وہ سمجھیں کہ انہیں ان روپوں کے بدلہ میں چھ مہینہ کی اور زندگی مل سکتی ہے.حالانکہ چھ مہینے کی کیا حقیقت ہے ؟ کچھ بھی نہیں.لیکن اگر کسی کو یقین ہو جائے کہ اب میری موت کا وقت آپہنچا ہے اور اس وقت اُسے کہا جائے کہ تمہیں ایک ہفتہ کی اور زندگی مل سکتی ہے تم اتنے ہزار روپے دے دو تو نہیں سمجھتا ہوں ایسے موقع پر اُسے ہزاروں باتیں یاد آجائیں گی کہ اگر ایک ہفتہ کی اور زندگی مل جائے تو میں فلاں کام بھی کرلوں، فلاں کام بھی کرلوں اور وہ اس غرض کے لیے اپنی آدھی جائیداد تک دینے کے لیے تیار ہو جائے گا.اگر موت کے یقینی علم کے بعد صرف ایک ہفتہ کی زندگی کے لیے انسان اس قدر قربانی کر سکتا ہے تو جہاں پانچ سو سال کی زندگی ملتی ہو وہاں اس زندگی کے مین حصول کے لیے دل میں کسی تحریک کا پیدا نہ ہونا بتاتا ہے کہ لوگوں کو اس بات پر یقین ہی نہیں کہ یہ خدائی وعدہ ہے اور خدا اپنے وعدوں کو ضرور پورا کیا کرتا ہے.اگر انہیں یقین ہوتا تو میں ہے سمجھتاہوں وہ سر کے بل چل کر مسجدوں میں آتے اور تسبیح و تحمید اور تکبیر کے ثواب سے حصہ پاتے.مگر اتنا چھوٹا سا کام کرنا بھی انہیں دو بھر معلوم ہوتا ہے.میں نے بتایا ہے کہ صحابہ کے می ول میں نیکی میں ترقی کرنے کا کس قدر جوش پایا جاتا تھا کہ غرباء کی یہ خواہش تھی امراء ہم سے نہ بڑھ جائیں اور امراء کی یہ خواہش تھی کہ غرباء ہم سے نہ بڑھ جائیں.ایک اور صحابی کے متعلق لکھا ہے انہوں نے ایک دفعہ مجلس میں بیان کیا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک دفعہ فرمایا تھا کہ جو شخص اپنے بھائی کی تجہیز و تکفین میں میں شامل ہوتا اور پھر اُس کا جنازہ بھی پڑھتا ہے اُسے ایک قیراط کے برابر ثواب ملتا ہے.لیکن وہ شخص جو جنازہ پڑھنے کے بعد میت کے ساتھ جاتا اور اس کے دفن ہونے تک موجود رہتا ہے ہے

Page 340

خطبات محمود 340 $1944 اور اُس وقت واپس آتا ہے جب اُس پر مٹی ڈال دی جاتی ہے اُسے دو قیراط ثواب ملتا ہے اور ہر قیراط اُحد پہاڑ کے برابر ہو گا.دوسرے صحابی نے جب اُن کی زبان سے یہ بات سنی تو وہ خفا ہو گئے کہ تم بڑے ظالم ہو.آج تک تم نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی یہ حدیث ہمیں بنائی کیوں نہیں.خبر نہیں ہم ثواب کے کتنے قیراط ضائع کر چکے ہیں.3 اگر تم پہلے یہ بات بتا دیتے تو ہم جنازہ پڑھ کر واپس نہ چلے جاتے بلکہ میت کے ساتھ جاتے اور اس کے دفن میں ہونے کے بعد واپس آتے.اور اگر ہم نے جلدی ہی واپس آجانا ہو تا تو مجبوری کی حالت میں واپس جاتے ورنہ میت کے دفن ہونے تک ضرور موجود رہتے تاکہ یہ ثواب ہمارے ہاتھ سے نہ جاتا.مگر تم نے تو یہ بات اتنی دیر کے بعد بتائی ہے کہ اب کئی ایسے مواقع ضائع ہو چکے ہیں جب ہم جنازہ کے ساتھ جاسکتے تھے مگر اس حدیث کے عدم علم کی وجہ سے نہ گئے اور ثواب ضائع ہو گیا.اسی طرح روایتوں میں آتا ہے ایک دفعہ حضرت امام حسن اور حضرت امام حسین کے در میان کسی بات پر تکرار ہو گئی.بھائیوں بھائیوں میں بھی بعض دفعہ ناراضگی کی کوئی بات ہو جاتی ہے.حضرت امام حسن کی طبیعت بہت سلجھی ہوئی اور نرم تھی لیکن حضرت امام حسین کی طبیعت میں جوش پایا جاتا تھا.ان میں جو جھگڑا ہوا اُس میں حضرت امام حسین کی طرف سے زیادتی ہوئی.لیکن حضرت امام حسن نے صبر سے کام لیا.اس جھگڑے کے وقت بعض اور صحابہ بھی موجود تھے.جب جھگڑا ختم ہو گیا تو دوسرے دن ایک شخص نے دیکھا کہ حضرت امام حسن جلدی جلدی کسی طرف جارہے ہیں.اس نے ان سے پوچھا آپ کہاں جارہے ہیں؟ حضرت حسن " کہنے لگے میں حسین سے معافی مانگنے چلا ہوں.وہ کہنے لگا کیا آپ معافی مانگنے چلے ہیں ؟ میں تو خود اس جھگڑے کے وقت وہاں موجود تھا اور میں جانتا ہوں کہ حسین نے ہے آپ کے متعلق سختی سے کام لیا پس یہ اُن کا کام ہے کہ وہ آپ سے معافی مانگیں نہ یہ کہ آپ نے ان سے معافی مانگنے چلے جائیں.حضرت حسن نے کہا یہ ٹھیک ہے.میں اسی لیے تو اُن سے معافی مانگنے جارہا ہوں کہ انہوں نے مجھ پر سختی کی تھی.کیونکہ ایک صحابی نے مجھے سنایا ہے کہ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک دفعہ فرمایا جب دو شخص آپس میں لڑ پڑیں تو نہیں

Page 341

$1944 341 خطبات محمود اُن میں سے جو پہلے صلح کرتا ہے وہ جنت میں دوسرے سے پانچ سو سال پہلے داخل ہو گا.میرے دل میں یہ بات سن کر خیال پیدا ہوا کہ کل میں نے حسین سے بُرا بھلا ئنا اور انہوں نے مجھ پر سختی کی.اب اگر حسین معافی مانگنے کے لیے میرے پاس پہلے پہنچ گئے اور انہوں نے صلح ہے کر لی تو میں دونوں جہان سے گیا کہ یہاں بھی مجھ پر سختی ہو گئی اور اگلے جہان میں بھی میں پیچھے رہا.چنانچہ میں نے ہی فیصلہ کیا کہ مجھ پر جو سختی ہو گئی ہے وہ تو ہو گئی اب میں اُن سے پہلے معافی مانگ لوں تاکہ اس کے بدلہ میں مجھے جنت تو اُن سے پانچ سو سال پہلے مل جائے.خواہش تھی جو انہیں نیکیوں میں ترقی کرنے کی طرف لے جاتی تھی.بات سننا اور کان سے نکال دینا یہ کوئی مفید طریق نہیں.ہزار بات سننے اور عمل نہ کرنے سے یہ زیادہ بہتر ہے کہ انسان ایک بات سنے اور اس پر عمل کرے.ایک دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مجلس میں ایک شخص آیا.صحابہ می کہتے ہیں ہمیں دور سے ہی اس کی گنگناہٹ کی آواز آرہی تھی.گویا وہ راستہ میں آتے ہی اپنے لیے منہ میں سوال و جواب کر رہا تھا.جب وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مجلس میں پہنچا تو اُس نے صحابہ سے پوچھا کہ کون ہیں تمہارے صاحب ؟ صحابہ کہتے ہیں ہم نے کہا وہ جو مجلس میں میں تکیہ لگائے بیٹھے ہیں.اس کے بعد وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے مخاطب ہوا اور کہنے لگا میں آپ سے چند باتیں پوچھنا چاہتا ہوں.کیا آپ قسم کھا کر کہہ سکتے ہیں کہ آپ کو خدا نے می لوگوں کو یہ کہنے کا حکم دیا ہے کہ میں خدا کا رسول ہوں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا ہاں! مجھے خدا نے حکم دیا ہے کہ میں دنیا میں اپنی رسالت کا اعلان کروں.وہ کہنے لگا تو بہت اچھا.میں اس پر ایمان لایا ہوں.پھر وہ کہنے لگا اب بتائیے یہ جو نمازوں کا حکم ہے ٹھیک ہے ؟ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہاں! ٹھیک ہے.وہ کہنے لگا.کیا آپ خدا کی قسم کھا کر کہ سکتے ہیں کہ آپ کو ان پانچ نمازوں کا خدا نے حکم دیا ہے ؟ رسول کریم میں صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں! مجھے خدا نے ہی پانچ نمازوں کا حکم دیا ہے.اس کے بعد اس نے نے اسی طرح روزوں کے متعلق پوچھا.پھر حج کے متعلق دریافت کیا.پھر زکوۃ کے متعلق سوال کیا اور ہر بات وہ آپ سے قسم دے کر پوچھتا رہا.جب وہ یہ باتیں دریافت کر چکا تو یہ

Page 342

$1944 342 محمود کوئی اور بات کیے بغیر وہ وہاں سے اُٹھا اور کہنے لگا خدا کی قسم! میں ان میں سے کوئی چیز چھوڑوں گا.مگر ان پر کوئی بات زیادہ بھی نہیں کروں گا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس وقت فرمایا اگر اس شخص نے اپنی بات کو پورا کر لیا تو نجات پا گیا.4 تو دیکھو وہ شخص تھوڑی دیر کے لیے آیا اور چند منٹ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صحبت میں بیٹھا.باتیں اُس نے تھوڑی سی دریافت کیں مگر پھر وہ اس ارادہ سے را ہو گیا کہ اب میں ان باتوں پر عمل کر کے رہوں گا.یہ نہیں ہو گا کہ صرف سنوں اور عمل نہ کروں.اس کے مقابلہ میں وہ لوگ بھی تھے جو بیسیوں دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں آئے، ہزاروں باتیں انہوں نے سنیں مگر وہ منافق کے منافق ہی رہے.انہوں نے باتیں تو سنیں مگر اُن پر عمل نہ کیا اُن سے انہوں نے فائدہ نہ اٹھایا.نتیجہ یہ ہوا کہ وہ زیادہ باتیں سننے والے تو جہنم میں چلے گئے اور چھوٹی سی بات سن کر اس پر عمل کرنے والا جنت می میں چلا گیا تو نیکی کی باتوں کو سنتا اور ان پر عمل کرنا بڑی اہم بات ہوتی ہے اور جتنا کوئی ثواب ہے کے حصول کی کوشش کرتا ہے اتنا ہی وہ ان باتوں کو یاد رکھتا اور ان پر عمل کرنے کی کوشش میں کرتا ہے.مگر یہ امر یاد رکھنا چاہیے کہ بعض دفعہ نیک کاموں میں حصہ لینے کے باوجود انسان کے ایمان کا جو بر تن ہوتا ہے اس کے پیندے 5 میں شگاف ہوتا ہے مگر وہ اس کی طرف سے غافل ہو تا ہے.ایسا انسان نماز تو پڑھتا ہے مگر چونکہ اس کے نماز کے بر تن میں شگاف ہوتا ہے اس لیے اُس کی غفلت کی وجہ سے وہ نماز اس شگاف میں سے نیچے گر جاتی ہے.کئی دفعہ ایسا ہو تا ہے کہ انسان نماز تو پڑھتا ہے مگر اس کا دھیان کسی اور طرف ہوتا ہے.یا وضو میں اُس سے کوئی بے احتیاطی ہو جاتی ہے مگر اسے علم نہیں ہوتا.ایسی صورت میں وہ بظاہر نماز پڑھ رہا ہوتا ہے مگر وہ نماز پیندے کے سوراخ میں سے نیچے گر جاتی ہے.وہ سمجھتا ہے کہ میری ہزار نمازیں جمع ہو چکی ہوں گی حالانکہ وہاں صرف سو نمازیں ہوتی ہیں.اس کی ایسی ہی مثال ہے جیسے کسی کے بٹوے یا جیب میں شگاف ہو مگر اُسے علم نہ ہو.وہ تو یہی سمجھتا رہے گا کہ میری جیب یا بٹوے میں اتنے روپے ہیں مگر جب وہ اپنی جیب میں ہاتھ ڈالے گا تو اسے وہاں کوئی روپیہ نہیں ملے گا.اسی لیے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرض نمازوں کے ساتھ نوافل کا بھی

Page 343

خطبات محمود 343 $1944 حکم دیا ہے تاکہ اگر کچھ نمازیں انسان کی غفلت کی وجہ سے گر جائیں تو نوافل ان کا قائم مقام بن سکیں.یا ذکر الہی کا حکم دے دیا تا کہ اگر نوافل میں کمی آجائے تو ذکر الہی ان نوافل کا ہے قائم مقام ہو جائے.پس اگر تم رو حانی ترقی حاصل کرنا چاہتے ہو، اگر تم اللہ تعالی کی جماعت می میں داخل ہو کر روحانی فیوض حاصل کرنا چاہتے ہو، اگر تم اللہ تعالیٰ کے دین اور اس کے قائم کر وہ نظام سے صحیح رنگ میں فائدہ اٹھانا چاہتے ہو تو نمازوں کی درستی کی طرف توجہ کرو اور بين الأركان حرکات کو وقار سے ادا کرو.پھر دو چیزیں اور بھی ہیں جن کا میں ذکر کر دینا چاہتا ہوں.جماعت کے دوستوں کو ہے کہ وہ کم سے کم مقدار میں ان امور کی پابندی کریں تاکہ اُن کے دلوں کا نور بڑھے اور اللہ تعالیٰ کے فضل ان پر نازل ہوں.اُن دو باتوں میں سے ایک یہ ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں كَلِمَتَانِ حَبِيْبَتَانِ إِلَى الرَّحْمَنِ خَفِيْفَتَانِ عَلَى النِّسَانِ ثَقِيْلَتَانِ فِي الْمِيزَانِ سُبْحَانَ اللهِ وَبِحَمْدِهِ سُبْحَانَ اللهِ الْعَظِيْمِ 6 فرماتے ہیں دو کلمے ایسے ہیں کہ رحمان کو بہت پیارے ہیں خَفِيفَتَانِ عَلَى النِّسَانِ زبان پر بڑے ہلکے ہیں.عالم، جاہل، عورت، مرد، بوڑھا، بچہ ہر شخص ان کلمات کو آسانی سے ادا کر سکتا ہے.اگر تم دوسال کے بچہ کو وہ کلمات سکھانا چاہو تو وہ بھی ان کو سیکھ جائے گا.اگر ایک بڑھے کھوسٹ کو وہ کلمات سکھانے لگو تو وہ بھی ان کو سیکھ لے گا.ثَقِيْلَتَانِ فِي الْمِيزَانِ لیکن قیامت کے دن جب اعمال کا وزن ہو گا تو جس شخص کی نیکیوں کے پلڑے میں وہ ہوں گے وہ اسے بہت بھاری بنا دیں گے اور اُسے دوسرے پلڑے سے نیچا کر دیں گے.وہ کلمے یہ ہیں سُبْحَانَ اللهِ وَبِحَمْدِهِ سُبْحَانَ اللهِ الْعَظِيْمِ.یہ کتنا چھوٹا سا کلمہ ہے.اگر تم اپنے دوسالہ بچے کو یاد کرانا چاہو تو وہ بھی اسے آسانی سے یاد کرے گا.کیونکہ اس کا وزن ایسا.جس میں تو ازنِ شعری قائم ہے اور انسان ان کلمات کے پڑھتے وقت یوں محسوس کرتا ہے کہ گویا ایک جھولا جھول رہا ہے جو کبھی اونچا ہو جاتا ہے اور کبھی نیچا ہو جاتا ہے.پس چونکہ ان میں تناسب صوتی پایا جاتا ہے اس لیے ان کا یاد رکھنا بڑا آسان ہے اور اسے اپنی زبان سے دُہر انا تو اور بھی آسان ہے.جہاں رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تسبیح و تحمید اور تکبیر کی ہے نیچ

Page 344

خطبات محج محمود 344 $1944 طرف توجہ دلائی ہے وہاں تسبیحوں میں یہ تسبیح آپ نے بڑی اہم قرار دی ہے.پس میں جماعت میں تحریک کرتا ہوں کہ ہر احمدی کم سے کم بارہ دفعہ دن میں یہ تسبیح روزانہ پڑھ لیا کرے.وہ چاہے تو سوتے وقت پڑھ لے، چاہے تو ظہر کے وقت پڑھ لے، چاہے تو عصر کے وقت پڑھ لے، چاہے تو مغرب کے وقت پڑھ لے، چاہے تو عشاء کے وقت پڑھ لے، چاہے تو فجر کے وقت پڑھ لے.بہر حال ہر احمدی یہ عہد کرے کہ وہ روزانہ بارہ دفعہ سُبْحَانَ اللهِ وَبِحَمْدِهِ سُبْحَانَ اللهِ الْعَظِیمِ.پڑھ لیا کرے گا.اسی طرح دوسری چیز جو اسلام کی ترقی کے لیے ضروری ہے وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی برکات اور آپ کے فیوض کا دنیا میں وسیع ہونا ہے اور ان برکات اور فیوض کو پھیلانے کا بڑا ذریعہ درود ہے.بے شک ہر نماز میں تشہد کے وقت درود پڑھا جاتا ہے ہے مگر وہ جبری درود ہے اور جبری درود اتنا فائدہ نہیں دیتا جتنا اپنی مرضی سے پڑھا ہوا درود انسان کو فائدہ دیتا ہے.وہ درود بے شک نفس کی ابتدائی صفائی کے لیے ضروری ہے.لیکن تقرب الی اللہ کے حصول کے لیے اس کے علاوہ بھی درود پڑھنا چاہیے.پس میں دوسری تحریک یہ کرتا ہوں کہ ہر شخص کم سے کم بارہ دفعہ روزانہ درود پڑھنا اپنے اوپر فرض قرار دے لے.یہ اس کا اختیار ہے کہ خواہ فجر کے وقت پڑھ لے، خواہ ظہر کے وقت پڑھ لے، خواہ عصر کے وقت پڑھ لے، خواہ مغرب کے وقت پڑھ لے، خواہ عشاء کے وقت پڑھ لے ، خواہ سونے سے پہلے پڑھ لے.بہر حال بارہ دفعہ روزانہ درود پڑھ لیا جائے.مگر درود پڑھنے کے یہ معنے نہیں کہ انسان محض درود کے الفاظ اپنی زبان سے دہراتا جائے بلکہ اسے چاہیے درود سمجھ کر پڑھے.یہ نہیں کہ خالی مُنہ سے اللهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ کہہ دیا جاۓ بلکہ جب انسان اللهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ کہے تو اسے پتہ ہو کہ اس کے معنے یہ ہیں کہ اے خدا! تو محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر رحمت نازل فرما، آپ کے درجات کو بلند کر ، آپ کی ہے تعلیم کو دنیا میں پھیلا، آپ کا نور دنیا میں روشن کر اور آپ جس کام کے لیے دنیا میں بھیجے گئے ہیں ہیں اُس میں آپ کو کامیاب فرما.تاکہ ساری دنیا آپ کے جھنڈے کے نیچے آجائے ، ساری دنیا صداقت کو قبول کرلے اور ساری دنیا آپ کی غلامی کو اختیار کرلے.جب کوئی شخص میں

Page 345

$1944 345 خطبات محمود اس درد سے درود پڑھے گا کہ دنیا کو آپ کے ذریعہ سے ہدایت حاصل ہو اور آپ کا لایا ہوا نور وہ قبول کرلے تو یہ لازمی بات ہے کہ خدا تعالیٰ اس شخص کو بھی اس امر کی توفیق عطا فرما دے گا کہ وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے انوار کو پھیلانے میں حصہ لے اور آپ کے احکام کی دنیا میں اشاعت کرے.ہم دیکھتے ہیں جب کوئی شخص کسی غریب آدمی کا ہاتھ پکڑ کر اسے کسی امیر کے دروازے پر لے جاتا ہے اور کہتا ہے اس کی مدد کی جائے تو اس کے اپنے دل میں بھی اس کے متعلق رحم کے جذبات پیدا ہو جاتے ہیں.اسی طرح جب یہ خدا سے کہے گا کہ خدایا! محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم کو دنیا میں پھیلا تو اس کے اپنے دل میں بھی درد پید اہو گا کہ میں بھی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم کو دنیا میں پھیلاؤں.جب یہ خدا سے کہے گا کہ خدایا! محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا نور دنیا میں روشن فرما تو اس کے اپنے دل میں بھی درد پید اہو گا کہ میں ہے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے نور کو دنیا میں روشن کرنے کا موجب بنوں.جب یہ خدا سے کہے گا کہ خدایا! محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم کی دنیا میں اشاعت فرما تو اس کے اپنے دل میں بھی درد پیدا ہو گا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم کی اشاعت میں حصہ لوں.اور چونکہ آل کے لفظ میں وہ سب لوگ شامل ہیں جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کی اتباع کرتے اور آپ کے انوار کو پھیلانے میں حصہ لیتے ہیں.بالخصوص حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس میں شریک ہیں.اس لیے جب کوئی شخص رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود بھیجے گا تو می حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر درود بھی اس میں شامل ہو جائے گا.لیکن یہ بھی جائز ہے کہ مخصوص طور پر انسان درود میں یہ الفاظ زائد کرلے کہ وَعَلَى عَبْدِكَ الْمَسِيحِ الْمَوْعُوْدِ.ان الفاظ کی وجہ سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وہ فیضان جو بواسطہ مسیح موعود مقدر ہے اُس کی طرف اس کی خاص طور پر توجہ رہے گی اور یہ کوشش کرے گا کہ میں اس فیضان سے بھی حصہ لوں.بہر حال ہماری جماعت کو درود پڑھنے کی طرف بھی خاص مینی طور پر توجہ کرنی چاہیے.ابتدائی طور پر میں نے ہر شخص کے لیے دن میں بارہ دفعہ درود پڑھنا ہے ضروری قرار دیا ہے.اور گو درود اس سے زیادہ پڑھنا چاہیے مگر سب سے بہتر کام وہی ہوتا ہے

Page 346

$1944 346 خطبات محمود جس کو انسان عمدگی سے نباہ سکے.پس ہر احمدی مرد ہو یا عورت، بچہ ہو یا بوڑھا، اُس کو چاہیے کہ شروع میں وہ کم سے کم روزانہ بارہ دفعہ سُبْحَانَ اللهِ وَبِحَمْدِهِ سُبْحَانَ اللهِ الْعَظِیمِ اور بارہ دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود پڑھا کرے.یہ ضروری نہیں کہ کوئی لمبادرود ہو.اگو کوئی شخص لمبادرود نہیں پڑھ سکتا تو وہ چھوٹے سے چھوٹا درود بھی پڑھ سکتا ہے.وہ یہ کہہ کر بھی اپنے اس فرض کو ادا کر سکتا ہے کہ اللهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ وَ بَارِك وَسَلّمْ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَّجِيْدٌ یہ درود ایسا ہے جو معمولی سے معمولی علم والا بھی یاد کر سکتا ہے.یہ درود ایسا ہے جو چھوٹی سے چھوٹی عمر والا بھی یاد کر سکتا ہے.بچے اس درود کو یاد رکھ سکتے ہیں.بوڑھے اس درود کو یادرکھ سکتے ہیں.معمولی علم رکھنے والے اس درود کو یادرکھ سکتے ہیں.اور پھر باوجود اتنا چھوٹا درود ہونے کے سارا مضمون اس میں آجاتا ہے.برکت کی دعا بھی اس میں آجاتی ہے، سلامتی کی دعا بھی اس میں آجاتی ہے ، رحمت اور فضل کی دعا بھی اس میں آجاتی ہے.میں سمجھتا ہوں اگر ہماری جماعت کے دوست یہ قدم اٹھا لیں تو اس کا ذکر اور درود کا ورد انشاء اللہ بڑھتا جائے گا اور پھر ان کے دلوں میں خود بخود نیکی اور تقویٰ پیدا ہو جائے گا.اللہ تعالیٰ کے فیوض سے وہ حصہ لینا شروع کر دیں گے اور انوار الہیہ بھی جلد جلد نازل ہونے لگ جائیں گے.انوار تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ضرور نازل ہوں گے.بڑی چیز یہ ہے کہ ان انوار سے تم کو بھی حصہ ملے.میں تمہیں وہ باتیں نہیں بتاتا جن سے صرف محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو برکتیں ملیں اور تم کو نہ ملیں.بلکہ میں تمہیں وہ طریق بتا رہا ہوں جس سے تم کو بھی اُن برکات سے حصہ مل سکے.محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو تو ضرور برکتیں ملیں گی.یہ نہیں ہو سکتا کہ اللہ تعالیٰ ان کو برکات عطانہ فرمائے اور ان کے انوار دنیا میں روشن نہ کرے.پس تمہیں ان کا فکر کرنے کی ضرورت نہیں.تمہیں یہ فکر ہونا چاہیے کہ تم ان برکات سے حصہ لیتے ہو یا نہیں لیتے.پس تمہارے منہ سے یہ باتیں اس لیے نکلوائی جاتی ہیں کہ اگر تم ان پر عمل کرو گے تو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی برکات و انوار نازل ہونے کی وجہ سے تمہیں بھی ان برکات سے حصہ مل جائے گا.اگر تم درود پر دوام اختیار کرو گے، اگر تم تسبیح و تحمید اور تکبیر میں حصہ لو گے ، اگر تم اپنی نمازیں درست

Page 347

خطبات محمود 347 $1944 کرو گے ، اگر تم ارکانِ نماز کو آہستگی اور اطمینان کے ساتھ ادا کرو گے تو اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ جب زمین پر اللہ تعالیٰ کے فضل اور اس کی برکتیں نازل ہوں گی تو ان برکات سے تم کو بھی حصہ ملے گا اور تمہارا خاندان اور تمہاری نسلیں ان برکات سے محروم نہیں رہیں گی.جب اللہ تعالیٰ اپنے فرشتوں سے کہے گا کہ جاؤ اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے انوار کو دنیا میں پھیلا ؤ، جاؤ اور آپ کی برکات سے زمین والوں کو حصہ دو تو اُس وقت خدا اپنے فرشتوں کو یہ بھی حکم دے گا کہ دیکھنا میرے فلاں بندے کو بھی یاد رکھنا کیونکہ وہ بھی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کی اشاعت کے لیے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر رحمت اور سلامتی نازل ہونے کے لیے مجھ سے عاجزانہ طور پر دعائیں کیا کرتا تھا.پس جب تم آسمان سے رحمتوں کے خزانے لے جاؤ تو اس کے گھر کو نہ بھولنا بلکہ اُسے بھی ان رحمتوں سے مالا مال کر دینا.پس جو لوگ محبت اور اخلاص کے ساتھ درود پڑھیں گے وہ ہمیشہ ہمیش کے لیے اللہ تعالیٰ کی برکات سے حصہ پائیں گے ، ان کے گھر رحمتوں سے بھر دیئے جائیں گے اُن کے دل اللہ تعالیٰ کے انوار کا جلوہ گاہ ہو جائیں گے اور نہ صرف ان روحانی نعماء سے وہ لذت اندوز ہوں گے بلکہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کی وجہ سے چونکہ ان کی خواہش ہو گی کہ اسلام پھیلے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا نام اکناف عالم تک پہنچے اس لیے وہ ہے اپنے اس ایمانی جوش اور دردمندانہ دعاؤں کے نتیجہ میں اسلام کے غلبہ کا دن بھی دیکھ لیں گے.اور کچی بات تو یہ ہے کہ دعائیں ہی ہیں جن سے یہ عظیم الشان کام ہو سکتا ہے.دنیوی کوششیں تو می محض سہارے اور ہمارے اخلاص کے امتحان کا ایک ذریعہ ہیں.ورنہ قلوب کا تغییر محض خدا کے فضل سے ہو گا.اور اس فضل کے نازل ہونے میں ہماری وہ دعائیں مہد ہوں گی جو ہم عاجزانہ طور پر اُس سے کرتے رہیں گے".الفضل 23 / مئی 1944ء) 1 : بخاری کتاب الْأَذَانِ بَاب أَمْرِ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الَّذِي لَا يُتِمُّ 2 رُكُوعَهُ بِالْإِعَادَةِ : مسلم كتاب المساجد بَاب اسْتِحْبَابِ الذِّكْرِ بَعْدَ الصَّلَاةِ 3 : ترمذي ابواب الْجَنَائِزِ بَاب مَا جَاءَ فِي فَضْلِ الصَّلَاةِ عَلَى الْجَنَازَةِ

Page 348

$1944 348 خطبات محمود 4 : مسلم كِتَاب الْإِيمَانِ بَابِ السُّؤَالِ عَنْ أَرْكَانِ الْإِسْلَامِ 5 : پیندے پیندہ: تلا.کسی چیز کا نچلا حصہ 6 : بخارى كتاب التوحيد بَاب قَوْلِ اللهِ تَعَالَى وَنَضَعُ الْمَوَازِينَ الْقِسْطَ لِيومِ القيمة ---------------------------

Page 349

$1944 349 19 خطبات محمود آئندہ چندہ تحریک جدید میں شامل ہونے والوں کے لیے شرائط فرموده 19 مئی 1944ء) تشہد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: " یہ تحریک جدید کا دسواں سال ہے اور پہلی سکیم کے مطابق یہ گویا اس کے پہلے دور کا آخری سال ہے جس کے معنے یہ بنتے ہیں کہ آئندہ تحریک جدید میں اگر کوئی حصہ لینا چاہے تو اس کے لیے کوئی معین صورت ہونی چاہیے اور قواعد ہونے چاہیں.تا اگر کوئی آئندہ اس میں شامل ہونا چاہے تو معلوم کر سکے کہ وہ کس طرح شامل ہو سکتا ہے.کیونکہ اس کا پہلا دور تو ختم ہے ہو چکا ہے.میں نے اس تحریک میں چندوں کے وعدوں کی آخری تاریخ 30 / اپریل رکھی ہوئی تھی ہندوستان کے اُن علاقوں کے لیے جہاں کی زبان اردو نہیں ہے.اور فروری کا پہلا ہفتہ آخری تاریخ تھی ہندوستان کے ان علاقوں کے لیے جہاں اردو بولی اور سمجھی جاتی ہے.اس لیے اب کوئی شخص اس میں ان قواعد کے لحاظ سے تو شامل نہیں ہوسکتا.اور ان --------------▪▪

Page 350

$1944 350 خطبات محمود لوگوں کے لیے جن کے دلوں میں آئندہ اس میں شامل ہونے کی خواہش پیدا ہو ایک سکیم کا فیصلہ کیا ہے اور آج میں اُس کا اعلان کرتا ہوں.تا وہ لوگ جو اب تک شامل نہیں ہو سکے اب اُن کے دل میں شوق پیدا ہو تو وہ اس میں حصہ لے سکیں.شروع زمانہ میں یہ ایک اکٹھا کام تھا اس لیے ایک وقت مقرر کر دیا جاتا تھا کہ جو لوگ اس میں شامل ہونا چاہیں وہ فلاں وقت سے فلاں وقت تک وعدے کر سکتے ہیں.لیکن اب سوال یہ ہے کہ اگر کوئی شخص انفرادی طور پر اس میں حصہ لینا چاہے تو کس طرح لے سکتا ہے.اس میں شک نہیں کہ سلسلہ کی اشاعت ہے کے لیے ایک مستقل فنڈ کا قیام ایک ایسی بات ہے کہ جس میں حصہ لینے کی خواہش ہمیشہ ہی دلوں میں پیدا ہوتی رہے گی.اس لیے ایسے لوگوں کے شامل ہونے کی بھی کوئی صورت ضرور ہونی چاہیے.جو لوگ اس تحریک کی ابتدا میں اس میں شامل ہوئے جبکہ اس کی ایسی شکل نہ تھی جو لوگوں کے لیے دلکشی کا موجب ہو اور اُس وقت شامل ہوئے جب ذہنوں میں یہ بات نہ تھی کہ اس تحریک کو خدا تعالی اسلام کی اشاعت و ترقی کے لیے ایک مستقل فنڈ کی صورت می دے دے گا.اور جب یہ بھی معلوم نہ تھا کہ اِس میں شامل ہو کر انہیں کتنی قربانیاں کرنی پڑیں گی.اور اُس وقت اس میں شامل ہوئے جب جماعت نازک دور میں سے گزر رہی تھی اور ہے دشمن حملہ کر کے اس سلسلہ کو ہمیشہ کے لیے مٹادینا چاہتا تھا وہ دوسروں سے ممتاز ہیں اور ممتاز ہونے کا حق رکھتے ہیں.مگر بعد میں آنے والی نسلیں اور بعد میں جو ان ہونے والے یا بعد میں حصہ لینے کے قابل ہونے والے لوگ بھی اگر اپنے دل میں شوق محسوس کریں تو ان کے لیے بھی کوئی صورت ہونی چاہیے.پہلے کوئی پابندی نہ تھی.صرف یہی شرط تھی کہ پانچ روپیہ سے کم چندہ نہ دیا جائے اور تاریخ مقررہ کے اندر اندر وعدے کر دیئے جائیں.بعض لوگ ایسے بھی تھے کہ اُن کی آمد زائد تھی مگر چندہ وہ صرف پانچ روپیہ لکھواتے تھے مگر ہم ان پر اعتراض نہ کر سکتے تھے کیونکہ ان کا ایسا کرنا اعلان کردہ شرائط کے مطابق تھا.جہاں بعض لوگ ایسے بھی تھے کہ جن کی تنخواہیں سو سوا سو سے زیادہ نہ تھیں مگر وہ ہر سال دو اڑھائی سو روپیہ چندہ دے دیتے تھے وہاں ایسے بھی تھے کہ جن کی تنخواہیں تو پانچ سویا ہزار روپیہ ماہوار ہے تھیں مگر چندہ وہ کم دیتے تھے.یا تاجر وغیر ہ تھے جن کی آمد تو کئی سور و پیہ ماہوار تھی مگر چندہ کم ہیں

Page 351

$1944 351 خطبات محمود ہو تا تھا اور یہ دونوں قسم کے لوگ اس تحریک میں شامل تھے اور چونکہ کوئی معیار نہ تھا اس لیے اپنی آمد کی نسبت سے بہت ہی کم چندہ دینے والوں پر بھی ہم کوئی اعتراض نہ کر سکتے تھے کیونکہ ان کا ایسا کرنا قواعد کے مطابق تھا.کیونکہ قاعدہ یہی تھا کہ ہر شخص پانچ روپیہ یا اس سے زیادہ دے کر شامل ہو سکتا ہے.اور السابقون میں وہ لوگ شمار ہوتے تھے جو ہر سال پہلے سال میں سے بڑھا کر دیتے.خواہ زیادتی ایک پیسہ یا ایک آنہ کی ہی ہو.مگر وہ زمانہ گزر گیا اور السابقون من نے اپنا حق قائم کر لیا.آئندہ اگر کوئی شخص شامل ہو نا چاہے تو اس کے لیے ضروری ہو گا کہ اُس کا ایک سال کا چندہ ایک ماہ کی آمد کے برابر ہو.یعنی اگر کسی شخص کی تنخواہ سو روپیہ ماہواری ہے تو جب تک وہ ایک سال میں ایک سو روپیہ چندہ نہ دے وہ شامل نہ ہو سکے گا.اسی طرح جس کی آمد ایک ہزار روپیہ ماہوار ہے وہ اگر شامل ہونا چاہے تو اس کے لیے ضروری ہے کہ یہ ایک سال میں ایک ہزار روپیہ چندہ دے.دوسری شرط یہ ہوگی کہ آئندہ شامل ہونے والوں کو بجائے دس سال کے انیس سال چندہ دینا ہو گا اور ہر سال پہلے سال سے اتنی زیادتی کرنی ہو گی جتنی کہ آمد میں زیادتی ہو گی.ثلا ایک شخص کی آمد سو روپیہ ماہوار ہے اور اس نے پہلے سال سو روپیہ دے دیا، اگلے سال اپنے اس کی آمد ڈیڑھ سو روپیہ ہو گئی تو اسے دوسرے سال ڈیڑھ سو روپیہ چندہ دینا ہو گا.ہاں اگر اس کی آمد میں کوئی بھی ترقی نہ ہو تو پھر دوسرے سال اسے کچھ نہ کچھ زیادتی کرنی ہو گی.اضافہ بہر حال کرناضروری ہو گا اور وہ اضافہ اتنا ہو گا جتنا وہ پسند کرے.اگر اس نے پہلے سال سو روپیہ دیا اور اگلے سال اس کی آمد میں اضافہ نہیں ہوا تو وہ خواہ سورو پہیہ ایک آنہ یا سورو پسیہ ایک پیسہ دے دے یا جتنی زیادتی وہ چاہے کرتا جائے.اس صورت میں زیادتی اس کی اپنی مرضی سے ہو گی.لیکن اگر آمد میں زیادتی ہو تو اس سال کے چندہ میں زیادتی آمد میں زیادتی ہے کے برابر ہو گی اور اس طرح دس سال تک زیادتی کرنی ہو گی.گیارھویں سال میں وہ پھر نویں سال کے برابر چندہ دے گا، بارھویں سال آٹھویں سال کے برابر ، تیرھویں سال ساتویں سال کے برابر ، چودھویں سال چھٹے سال کے برابر، پندرھویں سال پانچویں سال کے برابر، سولھویں سال چوتھے سال کے برابر، سترھویں سال تیسرے سال کے برابر، اٹھارویں سال

Page 352

خطبات محمود 352 $1944 دوسرے سال کے برابر اور انیسویں سال پہلے سال کے برابر چندہ دینا ضروری ہو گا.سوائے اس کے کہ کوئی فوت ہو جائے.جس طرح پہلے دور میں یہ شرط تھی کہ اگر کوئی پہلے سال میں شامل ہوا اور پھر فوت ہو گیا تو اسے آخر تک شامل ہی سمجھا جائے گا.کیونکہ وہ اسی نیت سے شامل ہوا تھا کہ آخر تک شامل رہے گا.اسی طرح اس دور میں ہو گا کہ جو شخص ایک سال یا چند سال شامل ہونے کے بعد فوت ہو جائے تو اُس کا شمار آخر تک شامل ہونے والوں میں ہو گا.اس طرح اگر کسی کی پنشن ہو جائے تو اُس کی آمد کے لحاظ سے ہی اُس سے چندہ لیا جائے گا.جس کی آمد سو روپیہ ماہوار تھی اور اس سے سو روپیہ چندہ لیا جاتا تھا پینشن ہونے کی صورت میں چونکہ اس کی آمد پچاس روپیہ ماہوار ہو جائے گی اس لیے اس سے چندہ بھی اتنا ہی لیا جائے گا اور یہ کمی، کمی شمار نہ ہو گی بلکہ قواعد کے مطابق ہی سمجھی جائے گی.تیسری شرط یہ ہوگی کہ اگر کسی کی آمد کا ذریعہ بند ہو جائے یا ملازمت سے کوئی علیحدہ ہو جائے تو اس کا فرض ہو گا کہ اپنا معاملہ فردی طور پر تحریک جدید کے دفتر کے سامنے ہے پیش کرے اور دفتر اُس کے متعلق فیصلہ کرے گا.پس اگر کسی کی ملازمت جاتی رہے یا تجارت میں نقصان ہو جائے یا کسی کے پاس پہلے زمین تھی اور بعد میں وہ اس کے قبضہ میں نہ ہے رہے تو وہ اپنا معاملہ دفتر تحریک جدید میں پیش کرے گا.پھر اس کی موجودہ حالت کے مطابق اس کے لیے چندہ مقرر کر دیا جائے گا.یہ وہ شرائک ہیں جن کی پابندی آئندہ شامل ہونے ہیں والوں کے لیے ضروری ہو گی.پس اب اگر کوئی شخص اس تحریک میں حصہ لینے کی خواہش کرے تو دفتر اسے لکھ دے کہ ان شرائط کی پابندی لازمی ہو گی سوائے اس کے کہ کوئی فوت میں ہو جائے یا بیمار ہو جائے.مثلاً مفلوج ہو جائے یا دماغ میں نقص پیدا ہو جائے اور اس کی آمد بالکل جاتی رہے.ایسے لوگوں کے متعلق یہی سمجھا جائے گا کہ وہ قواعد کے مطابق اس تحریک میں حصہ لینے والے ہیں.خواہ یہ حالت ایک ہی سال حصہ لینے کے بعد پیدا ہو جائے یا چند سال کے بعد.کامل ایمان پیدا نہ ہو تو کوئی قربانی نہیں کی جاسکتی.جب انسان کو یہ کامل یقین ہو کہ وہ جس راستہ پر چل رہا ہے وہ کامیابی کا راستہ ہے ، بربادی اور تباہی کا نہیں تو پھر قربانی کی راہ میں کوئی روک نہیں رہتی.وہ سمجھ لیتا ہے کہ اس کی موت اسے حیات بخشے گی.اس کا یا اس کی ہے

Page 353

$1944 353 خطبات محمود اولاد کا قتل ہو جانا اسے اور اس کے خاندان کو زندہ کر دے گا اور رشتہ داروں اور عزیزوں سے جدائی ہی حقیقی وصال کا موجب ہو گی.پھر وہ کسی قربانی سے دریغ نہیں کرتا.صحابہ کرام کو دیکھ لو چونکہ ان کے اندر حقیقی ایمان پیدا ہو چکا تھا اس لیے ان کے نزد یک موت و حیات برابر تھے ، وطن کو چھوڑ دینا اور عزیزوں سے جدائی اختیار کر لینا ان کے لیے کوئی بڑی بات نہ تھی.خدا تعالیٰ کی راہ میں انہیں نہ اپنی موت کی پرواہ تھی اور نہ اپنے ہی رشتہ داروں کی، نہ انہیں اپنے وطن چھوڑنے کا خوف تھا اور نہ رشتہ داروں سے جدائی کا.ان کے سامنے صرف ایک ہی بات تھی اور وہ خدا تعالیٰ کی رضا تھی.اس کے لیے وہ سب کچھ قربان کر دینے کے لیے تیار تھے.حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا واقعہ میں نے کئی بار سنایا ہے.ایک دفعہ وہ اپنے گھر میں بیٹھے باتیں کر رہے تھے آپ کے لڑکے عبد الرحمان بھی تھے اور باتیں ہو رہی تھیں.عبد الرحمان بعد میں مسلمان ہوئے تھے اور بدر کی جنگ میں وہ کفار کے ساتھ ہو کر مسلمانوں سے لڑنے کے لیے آئے تھے.انہوں نے اپنے باپ سے کہا کہ با کی جنگ میں آپ ایک موقع پر جوش میں بہت آگے نکل گئے.میں ایک پتھر کی اوٹ میں اِس تاک میں بیٹھا تھا کہ یہ مسلمان جب واپس آئے گا تو اس پر حملہ کر کے قتل کر دوں گا.جب و آپ قریب پہنچے تو میں حملہ کے لیے آگے بڑھا.مگر جب دیکھا کہ آپ ہیں تو پیچھے ہٹ گیا اور میں نے خیال کیا کہ مجھے اپنے باپ کو نہ مارنا چاہیے.یہ سن کر حضرت ابو بکر نے بے ساختہ کہا ہے کہ عبد الرحمان ! اللہ تعالیٰ نے تمہیں ایمان نصیب کرنا تھا اس لیے میں نے تمہیں نہ دیکھا.خدا کی قسم ! اگر میں تمہیں دیکھ لیتا تو ہر گز زندہ نہ چھوڑتا دیکھو دونوں دشمن کی صفوں میں سے آئے تھے.ایک یہ سمجھ کر جان دینے کے لیے میدان میں آیا تھا کہ اسلام جھوٹا ہے اور دوسرا یہ سمجھ کر آیا تھا کہ کفر جھوٹا ہے.وہ بھی اس نیت سے آیا تھا کہ اپنے مد مقابل کو شکست دینی ہے ہے اور وہ بھی اسی ارادہ سے آیا تھا مگر فرق یہ تھا کہ کفر موقع آنے پر پدری محبت سے مغلوب ہو گیا مگر اسلام نے بھائی کے دل سے بھائی کی، باپ کے دل سے بیٹے کی ، بیٹے کے دل سے باپ کی، خاوند کے دل سے بیوی کی اور بیوی کے دل سے خاوند کی محبت کو سرد کر دیا تھا.وہ صرف یہی سمجھتے تھے کہ جو شخص رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف تلوار اٹھا کر میدان میں آیا ہے ہے

Page 354

خطبات محمود 354 $1944 وہ نہ ہمارا باپ ہے اور نہ بیٹا ، نہ بھائی ہے نہ کوئی اور رشتہ دار.یہی بات تھی جس نے اُن کو ہر چیز سے بے نیاز کر دیا تھا.انہیں یقین تھا کہ خدا ہے اور اگر ہم اس کے لیے قربانی کریں تو اس کی محبت حاصل کر سکتے ہیں.وہ اس نیت سے اپنے گھروں سے نکلے تھے کہ خدا تعالیٰ کی محبت.حاصل کرنی ہے اور اس راہ میں کوئی روک ان کے رستہ میں حائل نہ ہو سکتی تھی.اسی سلسلہ میں عبد اللہ بن ابی بن سلول کے بیٹے کا واقعہ ہے.ایک دفعہ بعض انصار اور مہاجرین میں کچھ جھگڑا ہو گیا تو عبد اللہ بن اُبی نے جو منافق تھا انصار کو جوش دلانے کے لیے کہا کہ لَمِنْ رَجَعْنَا إِلَى الْمَدِينَةِ لَيُخْرِ جَنَّ الْاَعَةُ مِنْهَا الْأَذَلَّ 2 یعنی جب ہم مدینہ پہنچیں گے تو سب سے زیادہ معزز انسان (یعنی وہ خبیث خود سب سے زیادہ ذلیل انسان ( یعنی نَعُوذُ بالله رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مدینہ سے نکال دے گا.یہ بات صحابہ کرام میں پھیلی تو عبد اللہ بن ابی کا لڑکا جو مخلص مسلمان تھا رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہا یارسول اللہ ! میرے باپ نے ایسی بات کہی ہے جس کی سزا قتل کے سوا کوئی نہیں ہو سکتی.میں جانتا ہوں کہ اُس نے آپ کی ہتک کی ہے اور اُس کی سزا قتل ہے اور میں ایک درخواست لے کر آپ کی خدمت میں حاضر ہو اہوں اور وہ یہ کہ اس کے قتل کا حکم کسی اور کو دینے کے بجائے مجھے دیں.تا ایسا نہ ہو کہ کسی وقت ایمان کی کمزوری کی حالت میں اپنے باپ کا قاتل سمجھ کر میں کسی مسلمان پر حملہ کر دوں.پس آپ میرے باپ کے قتل کا می حکم مجھے دیں تاکسی مسلمان کا بغض میرے دل میں پیدا نہ ہو.3 پس صحابہ نے بیٹوں، باپوں، بھائیوں، بیویوں اور خاوندوں وغیرہ سب کی محبت کو دلوں سے نکال دیا تھا.ان کے قلوب میں صرف خدا تعالیٰ کی محبت رہ گئی تھی یا خدا تعالیٰ کے حکم کے مطابق رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی محبت ان کے دلوں میں تھی.او پر مثالیں تو مردوں کی محبت کی تھیں.عورتوں کی محبت بھی کم نہ تھی.اُحد کی جنگ کے موقع پر جب یہ خبر مدینہ میں مشہور ہوئی کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم شہید ہو گئے ہیں اور مسلمانوں کا لشکر تشر بقر ہو گیا ہے تو یہ ایک ایسی خبر تھی کہ اس قسم کی خبر کو سن کر ہمارے ملک کی عورتیں اور بچے تو گاؤں چھوڑ کر بھاگ جائیں.مگر مسلمان عورتیں اور بچے ہے

Page 355

$1944 355 خطبات محمود اس خبر کو سن کر بجائے اس کے کہ مدینہ سے بھاگتے اکٹھے ہو کر اُحد کی طرف چل پڑے.حدیثیں اس بارہ میں خاموش ہیں کہ وہ کیوں اُحد کی طرف چلے.مگر عقل بتاتی ہے کہ ان کی ایک ہی غرض ہو سکتی تھی اور وہ یہ کہ وہ سمجھتے تھے اگر واقعی مسلمانوں کا لشکر تتر بتر ہو چکا ہے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم شہید ہوچکے ہیں تو وہاں جاکر آپ کے جسم حفاظت کرنے کے سوا اُن کی اور کوئی غرض نہ ہو سکتی تھی.بعد میں معلوم ہو گیا کہ یہ خبر غلط تھی.یہ ہجوم تھوڑی ہی دور گیا تھا کہ اسلامی لشکر واپس آرہا تھا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ نے کچھ لوگوں کو آگے بھیجا تھا کہ جلد پہنچ کر مدینہ میں اطلاع دیں تا وہاں جو لوگ ہیں ان کی پریشانی دور ہو.وہ ہجوم اُحد کی طرف جارہا تھا کہ تھوڑے ہی فاصلہ پر ایک مسلمان سواری واپس آتا ہو املا.اس نے عورتوں اور بچوں کے اس ہجوم کو دیکھا تو ایک عورت کو ان میں سے پہچانا.وہ عورت آگے بڑھی اور اس سپاہی سے کہا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا کیا حال ہے؟ وہ چونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو خیریت سے دیکھ کر آیا تھا، اُس کا دل مطمئن تھا اس لیے اُس نے اس عورت کے سوال کا تو کوئی جواب نہ دیا بلکہ اُسے کہا کہ بہن! افسوس ہے تمہارا باپ شہید ہو گیا.یہ سن کر اُس عورت نے کوئی جزع فزع نہ کی بلکہ پو چھا کہ مجھے یہ بتاؤ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا کیا حال ہے؟ اس پر بھی چونکہ اس شخص کے دل میں اطمینان تھا اُس نے کہا کہ افسوس! تمہارا خاوند بھی مارا گیا.مگر اس عورت نے پھر اس بات کی کوئی پروا نہ کی اور پوچھا کہ میں جو پوچھ رہی ہوں وہ بات مجھے بتاؤ کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا کیا حال ہے؟ اس نے پھر بھی اس سوال کا جواب دینے کی بجائے کہا کہ تمہارا بھائی بھی مارا گیا ہے.یہ سن کر بھی اس عورت نے یہی کہا کہ میں نے نہ باپ کا پوچھا ہے، نہ بھائی کا اور نہ خاوند کا.میں تو یہ پوچھ رہی ہوں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا کیا حال ہے.تب اس کی آنکھیں کھلیں اور اس نے دل میں کہا کہ یہ عورتیں اپنے اخلاص میں ہم مردوں سے کم نہیں ہیں اور اس نے کہا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تو خیریت سے ہیں.یہ عن کر اس نے کہا الحمد للہ اگر آپ خیریت سے ہیں تو مجھے کوئی پروا نہیں کہ میرا جی باپ، بھائی اور خاوند مارے گئے.4

Page 356

$1944 356 محمود تو یہ اخلاص اُن کے اندر کس چیز نے پیدا کیا تھا ؟ یہ ایمان ہی کا نتیجہ تھا ان کو خدا تعالیٰ پر اور اس کے کلام پر بے انتہا یقین تھا شبہ کی حالت نہیں تھی.شبہ کی حالت میں انسان اس قدر قربانی نہیں کر سکتا کیونکہ کبھی وہ خیال کرتا ہے کہ شاید یہ بات صحیح ہو اور کبھی خیال کرتا ہے شاید صحیح نہ ہو.مگر وہ لوگ یقین کامل کے مقام پر تھے.موت کے بعد کی زندگی پر بھی انہیں کامل یقین تھا اور وہ خدا تعالیٰ سے ملنے کے لیے بے تاب رہتے تھے اور دین کی راہ میں مرنا بہت بڑی نعمت یقین کرتے تھے.ضرار بن ازور ایک بہت بڑے جرنیل اور بہادر سپاہی تھے.ایک جنگ کے موقع پر کفار کے ایک پہلوان نے مسلمانوں کے بہت سے سپاہی مار دیئے.آخر حضرت ضرار اس کے مقابلہ پر بھیجے گئے.آپ اس کے سامنے ہوئے تو معا واپس دوڑ پڑے اور اپنے لشکر میں پہنچ کر سیدھے اپنے خیمہ میں کھس گئے.یہ دیکھ کر تمام مسلمانوں نے میں ہر اس پھیل گیا اور اسلامی کمانڈر بھی بہت حیران ہوا کہ یہ کیا ہوا.اس نے کسی آدمی کو حکم دیا کہ ضرار سے پوچھو کیا بات ہے.وہ پوچھنے گیا تو ضرار اُس وقت خیمہ سے باہر آچکے تھے.اس نے پوچھا تو ضرار نے جواب دیا کہ میرے متعلق غلط فہمی ہوئی ہے.میں میدان سے بھاگا نہیں میں جب اس کے مقابل پر ہو ا تو اس وقت میں نے زرہ پہنی ہوئی تھی.میرے نفس نے می کہا کہ کیا یہ زرہ تو نے اس لیے پہن رکھی ہے کہ اس کافر کے ہاتھ سے مارا نہ جاؤں.کیا تُو خدا تعالیٰ سے ملنے میں خوف محسوس کرتا ہے.اس پر میں نے سوچا کہ اگر میں مارا گیا تو خدا ہے تعالیٰ کو کیا منہ دکھاؤں گا کہ میں زرہ کی مدد سے تیرے سامنے آنے سے بچنا چاہتا تھا.اس لیے میں واپس آگیا کہ زرہ اُتار دوں.اب میں ننگے بدن اس کے مقابل پر جاتا ہوں.اسے میں نے اس لیے اتار دیا ہے تا میرے اور میرے خدا کے درمیان کوئی روک نہ ہو.یہ یقین اور وثوق جب کسی قوم میں پیدا ہو تو تبھی وہ کامیابی کا منہ دیکھ سکتی ہے.ایسا یقین حاصل ہونے کے بعد کوئی قوم مرنے سے نہیں ڈر سکتی اور جو قوم مرنے کے لیے تیار ہو جائے اسے کوئی بار نہیں سکتا.جو لوگ خود اپنے لیے موت قبول کر لیتے ہیں فرشتے ان کو زندہ کرنے کے لیے آتے ہیں.قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ ہر موت کے بعد زندگی ہوتی ہے اور اس لیے جو خود اپنے لیے موت وارد کرے اسے ہزاروں جانیں مل جاتی ہیں.ایسی قوم کا اگر ہم

Page 357

$1944 357 خطبات محمود ایک فرد مارا جاتا ہے تو ہزار اور کھڑے ہو جاتے ہیں.پس سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ ایسا ایمان اور یقین پیدا کرو.اور اس کے پیدا کرنے کا واحد ذریعہ یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کے کلام یعنی قرآن مجید کو بار بار پڑھو، حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الہامات کو بار بار پڑھو.خدا تعالیٰ کا تازہ کلام انسان کے ایمان میں تازگی بخشتا.تازگی بخشتا ہے.قرآن کریم ایسی کتاب نہیں جو کسی زمانہ میں بھی پرانی ہو جائے.ہمیشہ ہی تازہ ہے.اس میں آج بھی ویسے ہی معارف ہیں جیسے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں تھے اور ہمیشہ یہ خزانہ اسی طرح رہے گا.اس کی عبارتوں کا آپس میں جوڑ ، الفاظ کی ترتیب اور اس کی سورتوں کا آگے پیچھے ہونا سب کچھ معجزہ ہے اور اس لیے اسے جب بھی پڑھا جائے یہ ایمان کو تازگی بخشتا ہے.پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الہامات ہیں یہ بھی اللہ تعالیٰ کا تازہ کلام اور اس لحاظ سے ایمان کو تازہ کرنے والے ہیں.ان کو ہر زمانہ میں پڑھنے والا دیکھتا ہے کہ فلاں الہام اس کے اپنے گھر میں یا ہمسایہ میں یا محلہ یا شہر میں یا ملک میں ہے یاکسی اور ملک میں پورا ہو رہا ہے اور اس سے ایمان تازہ ہوتا ہے.زندہ ایمان بخشنے کاذریعہ اللہ تعالیٰ کے تازہ کلام کے سوا اور کوئی نہیں.پس ہمیشہ اللہ تعالیٰ کا تازہ کلام پڑھتے رہو اور اس بات کو مد نظر رکھو کہ خدا تعالیٰ کا تازہ سے تازہ کلام قرآن کریم ہے.قرآن کریم ایسا کلام ہے جو کبھی بھی باسی نہیں ہو سکتا.پھر اس کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الہامات ہیں.اس کے بعد کئی ایسی باتیں ہیں جو اللہ تعالیٰ نے مجھے قبل از وقت بتائیں اور پھر وہ اُسی طرح کہ جس طرح اللہ تعالیٰ نے بتایا تھا پوری ہوئیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بعض پیشگوئیاں بھی میرے ذریعہ پوری ہوئی ہیں اور یہ بھی ایک ہوش مند انسان کے ایمان کو بڑھانے کا موجب ہیں.پس میں دوستوں کو نصیحت کرتاہوں کہ سب سے پہلے اپنے ایمانوں کو مضبوط کرنے کی کوشش کرو.اس کے بعد تین چیزیں ہیں جب تک وہ جماعت میں قومی طور پر پیدا نہ ہو جائیں قومی ترقی ممکن نہیں.فردی ترقی تو ہو سکے گی مگر قومی نہ ہو گی.ان میں سے پہلی چیز سچ بولنا ہے.میں نے بار بار دوستوں کو توجہ دلائی ہے کہ جب تک قوم میں سچ بولنے کی عادت

Page 358

خطبات محمود 358 $1944 پیدا نہیں ہوتی اُس وقت تک ترقی ممکن نہیں.سچ میں بہت فوائد ہیں.یہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ایک نعمت ہے.خدا تعالیٰ کا اپنا نام حق ہے.لوگ اپنے لڑکوں کے نام عبد الحق، عطاء الحق وغیرہ خدا تعالیٰ کے اسی نام پر رکھتے ہیں یعنی حق کا بندہ حق کی عطاء.پس جو سچ کو چھوڑتا ہے وہ خدا کو چھوڑتا ہے.یورپ کی قوموں کو گوہم سچا نہیں سمجھتے مگر ان میں یہ صفت ہے کہ مقدمات کے وقت ہر شخص کوشش کرتا ہے کہ سچ بولے.مگر یہاں سچ بولنے والا بھی کوشش کرتا ہے کہ کچھ نہ کچھ جھوٹ ضرور بولے.یورپ کے مجرم جھوٹ بولتے ہیں مگر کم سے کم.جتنا وہ اپنے آپ کو بچانے کے لیے ضروری سمجھتے ہوں.مگر یہاں بلاوجہ جھوٹ بولا جاتا ہے.پھر اگر کسی کے دوست پر کوئی الزام آتا ہو تو اس کو بچانے کے لیے بھی جھوٹ بول دیتے ہیں اور یہ کوئی نہیں سوچتا کہ میں نے اپنی قبر میں جانا ہے اور میرے دوست نے اپنی قبر میں.حالانکہ اللہ تعالیٰ کا حکم یہ ہے کہ سچ بولو خواہ وہ تمہارے اپنے نفس کے خلاف ہو، خواہ ماں باپ اور بچوں کے خلاف ہو، خواہ بھائی کے خلاف ہو.ہمیشہ دلیری کے ساتھ سچی گواہی دو.5 ہماری جماعت میں ایک آدمی ہے جو بظاہر نیک ہے.وہ سلسلہ کا کام بھی خوب کرتا ہے.ممکن ہے اب اس کی اصلاح ہو گئی ہو.میں نے ایک دفعہ اس سے بھی بات معلوم کرنے کے لیے ہے آدھ گھنٹہ تک اُس پر سوالات کیے مگر اس نے بچی بات نہ بتائی.جب میں اسے پوچھتا کہ فلاں میں وقت فلاں آدمی وہاں تھا؟ تو وہ جواب دیتا کہ میرا منہ اُس وقت فلاں طرف تھا.آخر آدھ گھنٹہ کی کوشش کے بعد میں نے اُسے کہہ دیا کہ آپ سے سیچ نکالنے میں مجھے بڑی دقت پیش آئی ہے.تو وہ مبلغ بھی ہے، سلسلہ کا کام بھی کرتا ہے (آنریری طور پر، ورنہ کارکن نہیں ہے) مگر سچ بولنا گو یا اس کے لیے موت تھا.میں نے دیکھا ہے کہ جب بھی کسی سے گواہی لینے کا موقع میں ملا وہ سیدھی بات کرنے کے بجائے ضرور ایچا پیچی سے کام لیتا ہے.ساری عمر میں میں نے ہے ایک شخص سے مرعوب کر دینے والا نہ سنا ہے.یہ بہت ہی تھوڑی مثال ہے.مگر بچ بھی بڑا ہے شاندار ہے.اس سے بہت بڑا جرم سرزد ہوا.پھر یہ بھی نہیں کہ وہ گستاخ تھا اور یہ بھی نہیں کہ ہم وہ مقابلہ کرنا چاہتا تھا.میں نے اُسے بلایا اور پوچھا کہ آپ نے یوں کیا ہے ؟ اس کے اس جرم کا کوئی ثبوت نہ تھا.کوئی گواہی اس کے خلاف نہ تھی.مگر جو نہی میں نے اس سے سوال کیا اس می

Page 359

خطبات محمود 359 $1944 کے چہرہ پر سرخی کی ایک لہر دوڑ گئی.اس نے سر نیچے ڈال دیا اور کہا ہاں میں نے ایسا کیا ہے.یہ ایک واقعہ میری ساری عمر کا ہے.اس واقعہ پر 24، 25 سال بلکہ اِس سے بھی زیادہ عرصہ گزر چکا ہے مگر مجھے وہ وقت نہیں بھولتا جب اُس نے یہ جواب دیا.تو حیثیت ہی بدل گئی اور مجھے یوں معلوم ہونے لگا کہ گویا وہ حج ہے اور میں مجرم ہوں جو اس کے سامنے پیش ہوں.تو بیچ ایک ایسی چیز ہے کہ اگر تم اسے اپنے اندر پیدا کر لو تو دنیا میں عظیم الشان تغیر پیدا کر سکتے ہے را ہو.مگر سچ صرف اپنے اندر پیدا کرنا کافی نہیں بلکہ ضروری ہے کہ اپنی اولاد، بیوی، بھائی بہنوں، ماں باپ، خاوند سب کے اندر سچ بولنے کی عادت پیدا کی جائے اور سب کے متعلق سچ بولا جائے.بہت لوگ ہیں جو شاید اپنے متعلق تو سچ بول دیں مگر جب سوال پید ا ہوتا ہے بیوی بچوں کا ، ماں باپ کا یا دوسرے رشتہ داروں کا تو اسی بیچ کرنے لگتے ہیں.پھر یہ بھی ضروری نہیں ہے کہ تم خواہ مخواہ سچ بیان کرتے پھرو.بلکہ اُس وقت سچ بولو جب وہ شخص پوچھے جسے خدا تعالیٰ نے پو چھنے کا حق دیا ہے.اس کے سامنے کی بات بیان کر دو.اگر کسی کا کوئی عیب دیکھو تو سچ ہے بولنے کا یہ مطلب نہیں کہ اسے ہر جگہ بیان کرتے پھرو.یہ سچ نہیں بلکہ یہ غیبت ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک دفعہ صحابہ نے پوچھا کہ یارسول اللہ ! کیا کسی کے ہے متعلق سچی بات کا بیان کرنا بھی غیبت ہے؟ آپ نے فرمایا یہی تو غیبت ہے.اگر بیان کر دہ بات یچ نہ ہو تو وہ جھوٹ ہے 6 تو سچ بولنے کے یہ معنے نہیں کہ دوسروں کی کمزوریوں کو ہر جگہ ہے بیان کرتے پھرو.بچی کو اپنے مخالف سے بدلہ لینے کا ذریعہ بنانا جائز نہیں.یہ بیچ نہیں بلکہ بعض اور کینہ ہے اور مردہ بھائی کا گوشت کھاتا ہے.سچ بولنے کے معنے یہ ہیں کہ جب قاضی کے مین سامنے شہادت کا موقع آئے تو سچی بات بیان کر دو اور جب پوچھا جائے کہ فلاں واقعہ تم نے دیکھا ہے وہ کس طرح ہوا.تو بغیر اس بات کا خیال کیسے کہ سچا واقعہ بیان کرنے سے تمہارے دوست یا بھائی یا باپ یا بیوی یا خاوند پر کوئی الزام آئے گا کچی بات بیان کر دو.اپنے کسی دوست یا عزیز کے بارہ میں جھوٹا پروپیگنڈا بھی کبھی نہ کرو.اگر تم سچ نہیں بول سکتے تو جھوٹ بھی نہ بولو اور چپ رہو.پس اگر قوم کے اندر سچائی قائم کرنا چاہتے ہو تو اس کا طریق یہی ہے کہ بغیر اس می بات کا خیال کیے کہ تمہارا کوئی دوست یا عزیز رشتہ دار زیر الزام آتا ہے صحیح واقعہ بیان کر دو

Page 360

خطبات محمود 360 $1944 اور جہاں خدا تعالیٰ کا حکم ہے کہ سچ بات بیان کرو وہاں کبھی جھوٹ نہ بولو.اور یہ عہد کر لو کہ جب بھی کوئی بات بیان کرنے کا موقع آئے گا، سچ بیان کرو گے ، جھوٹ کبھی نہ بولو گے.سچ بولنا ایسا مشکل ہو گیا ہے کہ میں نے دیکھا ہے بعض لوگ مجھ سے پوچھتے ہیں کہ فلاں شخص نے مہین وصیت کی ہے اور ہم سے اُس کی تصدیق مانگی گئی ہے ہم کیا لکھیں ؟ وہ ڈرتے ہیں کہ اگر کچی ہے بات لکھی تو وہ شخص دشمن ہو جائے گا.وہ انسان کی دشمنی سے ڈرتے ہیں خدا تعالی بے شک مین دشمن ہو جائے اس کی پروا نہیں.جب قوم میں سچ بولنے کی عادت ہو جائے گی تو بہت سے نقائص خود بخود دور ہو جائیں گے.جب ایک شخص کو معلوم ہو گا کہ اگر میں نے دوسرے کو گالی دی تو میر اباپ یا میر ابھائی جو بھی موقع پر موجود ہے میرے خلاف گواہی دے دے گا تو وہ دوسرے کو گالی دینے سے پہلے ضرور سوچ لے گا کہ میں سزا سے نہیں بیچ سکوں گا اور اس طرح گالیاں دینے کی عادت خود بخود ترک ہو جائے گی.اسی طرح کسی کو مارنے والے کو جب یہ احساس ہو گا کہ میرے اپنے عزیز اور دوست بھی میرے خلاف گواہی دے دیں گے تو وہ اسی صورت میں مارے گا کہ جب وہ سمجھتا ہو گا کہ مجھے خود قاضی کے سامنے جا کر ماننا پڑے گا کہ میں نے مارا ہے اور اس طرح میں خود بھی مار کھاؤں گا.تو سچ سے سب قومی اخلاق درست ہو سکتے ہیں.پس سچ کو اپنے اندر قائم کرو.دوسری چیز یہ ہے کہ ہر شخص دیانتدار ہو اور دیانت پر قائم رہنے کا عہد کرے.کسی کاروپیہ کسی کے پاس امانت ہے اسے بروقت ادا کرنا بہت ادنی درجہ کی دیانت ہے.مگر بہت لوگ کوشش کرتے ہیں کہ دوسرے کا پیسہ کھینچا جاسکے.مومن کو چاہیے کہ وہ اس بات کا خیال ہے رکھے کہ میرا کوئی پیسہ کسی کے پاس چلا جائے تو بے شک چلا جائے کسی کا میری طرف نہ رہے.صحابہ کرام نے اگر تھوڑے ہی عرصہ میں عظیم الشان ترقیات حاصل کیں اور دلوں کو موہ لیا تو ہے اسی لیے کہ اُن میں دیات تھی.مسلمانوں نے یروشلم کو فتح کیا.مگر بعد میں اسے خالی کرنے می کی ضرورت محسوس ہوئی.اسلامی کمانڈر نے حضرت عمرؓ کو لکھا کہ اپنا عقب محفوظ کرنے کے لیے بار برداری کے راستہ کو چھوٹا کرناضروری ہے اس لیے یروشلم کو چھوڑ ناضروری ہے.مگر میں ان لوگوں سے ہم ایک سال کا ٹیکس اس وعدہ پر وصول کر چکے ہیں کہ ان کی حفاظت کریں

Page 361

خطبات محمود 361 $1944 گے.اب چونکہ ان کی حفاظت نہ کر سکیں گے اس لیے اس وصول شدہ ٹیکس کے متعلق کیا حکم ہے؟ حضرت عمر نے جواب دیا کہ ٹیکس فوراً واپس کیا جائے.چنانچہ ہر شخص سے جتنا جتنا ٹیکس وصول کیا گیا تھا اسے واپس کر دیا گیا.یہ دیانت کی ایسی اعلیٰ مثال ہے کہ دنیا کی کوئی اور ہے حکومت اس کی نظیر پیش نہیں کر سکتی.دنیا کی حکومتوں کا قاعدہ یہ ہے کہ جب وہ کسی علاقہ یا شہر کو چھوڑتی ہیں تو اس امر کی پروا نہیں کرتیں کہ سپاہی اس علاقہ کو لوٹ لیں.کیا کوئی امید می کر سکتا ہے کہ اگر انگریز ہندوستان سے چلے جائیں تو ملک سے وصول شدہ مالیہ واپس کر دیں گے ؟ ہر گز نہیں.سارے ملک کا تو کجا کسی ایک شہر یا گاؤں کا بھی واپس نہ کریں گے.مگر مسلمان جب یروشلم کے علاقہ سے ہے تو تمام وصول شدہ ٹیکس واپس کر دیا.اس کا اتنا اثر تھا ہے که باوجود یکہ یروشلم پر جو فوج بڑھ رہی تھی وہ عیسائیوں کی تھی اور اس کے افسر یروشلم کے ہے پادری تھے جب مسلمان واپس ہو رہے تھے تو عیسائی مرد اور عور تیں اور بچے رو رو کر دعائیں کر رہے تھے کہ خدا تم لوگوں کو واپس لائے.اسی طرح اگر تم بھی دیانت پر پوری طرح قائم و ہو جاؤ تو لوگ ہاتھ اٹھا اٹھا کر دعائیں کریں گے کہ اللہ تعالیٰ احمدیت کو یہاں لائے.لیکن اگر دیانت تم میں پیدانہ ہو گی تو کوئی بھی تمہارے لیے ایسی دعا نہ کرے گا اور اگر بد دیانتی ہوگی تو میں لوگ یہ دعائیں کریں گے کہ اللہ تعالیٰ ان کو غارت کرے.پس اپنے اندر دیانت پیدا کرو.لین دین میں صفائی پیدا کرو، نہ صرف اپنے اندر بلکہ اپنے ہمسائیوں اور رشتہ داروں کے اندر بھی دیانت پیدا کرنے کی کوشش کرو.تمہارا جو دوست بد دیانت ہو اس کے پیچھے پڑ جاؤ کہ اس سے باز آجائے اور اسے بتا دو کہ تمہاری دوستی اس سے اسی صورت میں رہ سکتی ہے کہ وہ دیانتدار بنے ورنہ نہیں.کیا کبھی کوئی شخص کسی کوڑھی سے دوستی پیدا کرتا ہے اور اس کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھا سکتا ہے ؟ اگر نہیں تو تم ایک بد دیانت سے کس طرح دوستی رکھ سکتے ہو.پس خود بھی صفائی کے ساتھ دوسروں کے حقوق ادا کرو اور اپنے دوستوں اور رشتہ داروں میں بھی یہ بات پیدا کرو.ورنہ تم روحانی لحاظ سے کوڑھی ہو گے.اور یہ چیز نہ صرف اپنے نفسوں میں بلکہ اپنے بھائیوں، بیٹوں، ماں باپ، خاوند بیوی، غرضیکہ سب میں پیدا کرنے کی کوشش کرو.اگر ہر شخص اس رنگ میں دوسروں کے لیے نگران بن جائے تو قوم میں ہے

Page 362

$1944 362 خطبات محمود دیانت پیدا ہو سکتی ہے.تیسری چیز عورتوں کی اصلاح ہے.جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے الہام کے ذریعہ مجھے فرمایا ہے کہ "اگر تم پچاس فیصدی عورتوں کی اصلاح کر لو تو اسلام کو ترقی حاصل ہو جائے گی" تو ہے عورتوں کی اصلاح بھی جماعت پر ایک بہت بڑی ذمہ داری ہے اور اس کے لیے ضروری ہے کہ عورتوں کو اپنے جیسا انسان سمجھا جائے.ان کے حقوق پوری طرح ادا کیے جائیں.میں نے نہایت افسوس کے ساتھ دیکھا ہے کہ ہماری جماعت کے بعض لوگ بھی ابھی تک یہی سمجھتے ہیں کہ عور تیں بھینس اور گائیں ہیں.جیسا سلوک چاہا اُن سے کر لیا.میں نے کئی بار مخلی بالطبع ہو کر سوچا ہے اور میں اسی نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے دل و دماغ کے لحاظ سے عورت اور مرد میں کوئی فرق نہیں رکھا.اور اسی طرح عورتوں کے بھی مردوں پر ویسے ہی حقوق ہیں جیسے عورتوں پر مردوں کے.اور میں یقیناً کہہ سکتا ہوں کہ جو کتاب عورت اور مرد کے حقوق میں فرق کرتی ہے وہ خدا تعالیٰ کی کتاب نہیں ہو سکتی.جس خدا نے ایک جیسے دل اور ایک جیسے دماغ دونوں کو دیئے ہیں ضروری ہے کہ وہ ایک ہی جیسے حقوق بھی دے.دنیا میں انصاف قائم رکھنے کے لیے کسی کے ہاتھ فیصلہ کی آخری کنجی رکھ دینا اور بات ہے.مگر جہاں تک حقوق کا ہے سوال ہے اسلام نے مرد و عورت میں کوئی فرق نہیں کیا.جیسا کہ فرمایا.وَ لَهُنَّ مِثْلُ الَّذِى عَلَيْهِنَّ بِالْمَعْرُوفِ 8 یعنی جیسے ہم نے عورتوں پر مردوں کے حقوق رکھے ہیں ویسے ہی ہے - مردوں پر عورتوں کے حقوق ہیں.مگر لوگ اس بات کا خیال نہیں رکھتے بلکہ عورتوں پر کرتے ہیں.جب چاہا طلاق دے دی، جب چاہا گھر سے نکال دیا.ایسی حالت میں یہ امید رکھنا کہ عور تیں بھی دین کے لیے ویسی ہی قربانیاں کریں جیسی مرد کرتے ہیں بالکل غلط امید ہے.جب تک عورتوں میں بھی مردوں جیسا ہی جذبہ قربانی کا پیدا نہ ہو فتح حاصل نہیں ہو سکتی اور جب تک ہم نہ صرف تعلیم سے بلکہ عمل سے بھی یہ نہ ثابت کر دیں کہ خدا تعالی کی کتاب میں ان کے حقوق بھی ویسے ہی محفوظ کیے گئے ہیں جیسے مردوں کے، عورتوں میں قربانی کی صحیح ہے رُوح پیدا نہیں ہو سکتی.جب تک عورتیں یہ نہ سمجھیں وہ خدا تعالیٰ کی کتاب پر سچے دل سے ایمان نہیں لاسکتیں.اور اگر واقعی ایسا نہ ہو تو وہ حق رکھتی ہیں اِس بات کا کہ قرآن کریم کو

Page 363

$1944 363 خطبات محمود خدا تعالیٰ کی کتاب نہ سمجھیں کیونکہ خدا کے قول اور فعل میں تضاد نہیں ہو سکتا.جب اس نے عورتوں کو بھی دل ویسے ہی دیئے ہیں جیسے مردوں کو.جب دماغ ایک سے دیئے ہیں تو ضروری ہے کہ ان کو حقوق بھی ویسے ہی دے.اگر خدا تعالیٰ نے مردوں کو یہ حق دیا ہو تا کہ وہ جیسا چاہیں عورتوں سے سلوک کریں اور ان پر حکومت کریں تو وہ عورتوں کو ویسا ہی دل و دماغ نہ دیتا.اس نے بھینس پر ہمیں حکومت دی ہے مگر بھینس کو ہمارے جیسا دل اور دماغ نہیں دیا.گائے بکری پر حکومت دی ہے مگر گائے بکری کو ہمارے جیسا دل اور دماغ نہیں دیا.پس عورتوں کی اصلاح کے لیے ضروری ہے کہ پہلے ان کے حقوق دیے جائیں.اگر مسلمان عورتوں کو قرآن کریم کے حکم کے مطابق حقوق دیں تو یہ یقینی بات ہے کہ عورتیں بھی دین کی راہ میں پورے شوق سے قربانی کریں گی.اگر تم ان کے حقوق ادا کرو، اُن کے ساتھ ویسا ہی حُسنِ سلوک کرو جیسا کہ اسلام کا حکم ہے اور پھر ان سے کہہ دو کہ اگر تم اسلام کی راہ میں قربانی نہ کرو گی.تو ہمارے ساتھ تمہارا نہاونہ ہو سکے گا، مجبوراً تمہیں طلاق دینی پڑے گی تو می یقینی بات ہے کہ وہ تمہارے ساتھ قربانی کے لیے تیار ہو جائیں گی.کیونکہ وہ سمجھیں گی کہ جیسا حسن سلوک مسلمان کرتے ہیں اور کسی قوم میں عورت کے ساتھ ایسا سلوک نہیں ہوتا.وہ ہے مجبور ہوں گی کہ تمہارے دوش بدوش قربانی کریں اور اپنی اولاد کو اسی طرح قربانی کا بکرا بنا دینے کے لیے تیار ہو جائیں گی جس طرح مرد ہو سکتے ہیں.کیونکہ وہ محسوس کرتی ہوں گی کہ می اگر ہماری عزت ہے، وقار ہے تو مسلمان خاوند کی وجہ سے ہی ہے ورنہ اس سے الگ ہو کر ہم گائے اور بھینس بن جائیں گی.پس تم عورتوں کو ان کے حقوق ادا کرو اور وہ قوم اور اسلام کے مین حقوق ادا کریں گی اور وہ تمہارے دوش بدوش قربانی کے لیے اُسی خوشی کے ساتھ تیار ہو جائیں گی جس خوشی سے عید کے دن بکر اقربان کیا جاتا ہے.پس خوب یاد رکھو کہ ان چیزوں کے بغیر کامیابی کی امید نہیں کی جاسکتی.پہلی چیزی ایمان ہے، دوسری چیز بیچ ہے، تیسری دیانت اور چوتھی عورتوں کی اصلاح.ان کو قومی کیرکٹر کا جزو بناؤ.پھر دیکھو تمہارے کام کس طرح خود بخود ہوتے ہیں اور کس طرح اللہ تعالیٰ کے فضل سے کامیابی حاصل ہوتی ہے.ان کے بغیر جب اسلام کی لڑائی لڑنے کا دن آئے گا یہ

Page 364

خطبات محمود 364 $1944 تو وہ تمہارے لیے بہت تلخ تجربہ لائے گا.لیکن اگر تم ان چیزوں کو اپنے اندر پیدا کر لو تو خدا تعالیٰ کا ہاتھ تمہارے ہاتھ کے ساتھ اُٹھے گا.تم پر وار کرنے والا تم پر نہیں بلکہ خدا تعالیٰ پر وار کرنے والا ہو گا اور تم دشمن پر وار نہیں کرو گے بلکہ خدا تعالیٰ کا ہاتھ اُس پر وار کرنے والا (الفضل 28 مئی 1944ء) ہو گا".1 : مستدرک حاکم جلد 3 صفحه 475 كتاب معرفة الصحابة مناقب عبدالرحمان 2 بن ابي بكر مطبوعہ بیروت 1978ء :المنافقون:9 3 : تفسیر ابن جریر، تفسیر سورۃ المنافقون 4 : سیرت ابن ہشام جلد 3 صفحہ 93 مطبوعہ مصر 1965ء : كُونُوا قَوْمِينَ بِالْقِسْطِ شُهَدَاءَ لِلَّهِ وَ لَوْ عَلَى أَنْفُسِكُمْ أَوِ الْوَالِدَيْنِ وَ الْأَقْرَبِينَ (النساء:136) 6 : مسلم كتاب البر والصلة باب تحريم الْغِيْبَةِ 1 : فتوح البلدان بلاذری صفحہ 143 144 مطبوعہ قاہرہ مصر 1319ھ 8 :البقرة:229

Page 365

$1944 365 20 خطبات محمود دین کے لیے زندگی وقف کرنے والے وقف کی حقیقت سمجھیں فرموده 26 مئی 1944ء) تشہد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: " آج میں ایک ایسے امر کے متعلق کچھ کہنا چاہتا تھا جو بعض اہم مضامین پر مشتمل تھا اور جس کے متعلق میں سمجھتا ہوں کہ اس کا جماعت کے مختلف حصوں تک پہنچنا نہایت ضروری ہے.لیکن چونکہ لاؤڈ سپیکر کی حالت ٹھیک نہیں پہلے تو بندی تھا اب کہتے ہیں کبھی بندم ہو جاتا ہے اور کبھی کھل جاتا ہے میں نے اپنا ارادہ بدل دیا ہے کیونکہ میں اس مضمون کو ایسی حالت میں بیان کرنا نہیں چاہتا کہ اس کا سب تک پہنچنا خطرے میں ہو.اس لیے میں آج ہے اختصاراً ایک دو اور باتوں کی طرف جماعت کو توجہ دلا دیتا ہوں جن کی طرف پہلے بھی توجہ دلائی جاچکی ہے.لیکن پھر بھی ہر امر ایک دفعہ بیان کرنے سے ذہن نشین نہیں ہو جاتا بلکہ بعض امور کے متعلق متواتر اور بار بار توجہ دلانے کی ضرورت ہوتی ہے اور بعض امور تو صدیوں تک بیان کرنے کے باوجود پھر بھی پورے طور پر ذہن نشین نہیں ہو سکتے.

Page 366

خطبات محمود 366 $1944 سب سے پہلی بات جس کی طرف میں توجہ دلانا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ جن لوگوں نے زندگیاں وقف کی ہیں اُن میں سے بعض کے متعلق یہ اعلان کر دیا گیا تھا کہ وہ 25 مئی تک انٹرویو کے لیے قادیان پہنچ جائیں تاکہ ان کے متعلق یہ فیصلہ کیا جاسکے کہ سلسلہ ان کا وقف نے کے لیے تیار ہے یا نہیں یا سلسلہ انہیں کس کام پر مقرر کرنے کا ارادہ رکھتا ہے.مجھے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اس سلسلہ میں بعض لوگ جنہوں نے اپنے آپ کو وقف کیا تھا وقت پر حاضر نہیں ہوئے.میں تحقیقات کروں گا کہ اُن کے وقت پر حاضر نہ ہونے کی ذمہ داری تحریک جدید کے دفتر پر ہے یا اُن پر ہے.اگر تحقیقات کے بعد یہ ثابت ہوا تو کہ اس کی ذمہ داری دفتر تحریک جدید پر ہے اور اُس نے میرے کہنے کے باوجود ان لوگوں کو اطلاع نہیں دی تو اس صورت میں اس کی سرزنش اور پرسش کا مستحق دفتر تحریک جدید ہو گا.لیکن اگر یہ ثابت ہوا کہ ان لوگوں کو اطلاع تو مل گئی تھی مگر باوجود اطلاع مل جانے کے وہ می نہیں آئے اور کم سے کم انہوں نے یہ اطلاع بھی نہیں دی کہ ہم وقت پر فلاں مجبوریوں کی وجہ سے حاضر نہیں ہو سکتے.تو ایسے احمدی جنہوں نے اپنے آپ کو وقف کیا تھا انہیں یا د رہنا چاہیے کہ اب ان کو انٹرویو کے لیے نہیں بلایا جائے گا.بلکہ ان کو اس لیے بلایا جائے گا کہ کیوں نہ اُن کو اس مجرم کی بناء پر سلسلہ سے خارج کر دیا جائے.میں ہار ہا بتا چکا ہوں کہ وقف جہاد کا ایک حصہ ہے.ہر وہ شخص جو وقف کو کھیل میں سمجھتا ہے وہ اپنی بے ایمانی پر مہر لگاتا ہے اور اس بات کا اظہار کرتا ہے کہ اس کو در حقیقت سلسلہ سے کوئی تعلق ہی نہیں.وہ ایک کھیل اور تماشا سمجھ کر اس جماعت میں داخل ہوا تھا.قرآن کریم میں نہایت وضاحت سے فرمایا گیا ہے کہ جہاد میں حصہ لینے والے شخص کے لیے جہاد میں مر جانا یا فتح حاصل کر کے واپس لوٹنا یہ دو ہی چیزیں ہیں.اگر کوئی شخص موقع سے پیچھے مے ہتا ہے تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ دوزخ کے سوا اُس کا کہیں ٹھکانا نہیں ہے.1 حقیقت یہ ہے کہ آج اسلام ایسی مصیبت میں مبتلا ہے جس کا اندازہ لگانا بھی انسانی قیاس اور واہمہ سے باہر ہے.آج دنیا میں ہر شخص کے لیے ٹھکانا ہے لیکن اگر ٹھکانا نہیں تو محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ کے دین کے لیے.جیسے حضرت مسیح ناصری نے کہا تھا کہ می

Page 367

خطبات مج محمود 367 ولیا $1944 پرندوں کے لیے گھونسلے ہیں اور درندوں کے لیے غاریں لیکن ابن آدم کے لیے سر چھپانے کی بھی جگہ نہیں.2 یہی حال آج اسلام کا نظر آرہا ہے.آج دنیا میں ہر قوم کے لیے ٹھکانا ہے لیکن اسلام کے لیے کوئی ٹھکانا نہیں.اگر ہندوستان میں مسلمان ہیں تو وہ ہندؤوں اور انگریزوں کی کے رقم پر ہیں.اگر ہندوستان سے باہر مسلمان ہیں تو وہ کلی طور پر عیسائیوں کے رحم پر ہیں.مصر ہے تو وہ بھی انگریزوں کے رحم پر ہے.پہلے اس میں فرانسیسی بھی شامل تھے مگر اب وہ ہی انگریزوں کے رحم پر ہی ہے ، ٹرکی ہے تو وہ بھی انگریزوں اور دوسروں کے رحم پر ہے، ایران ہے تو وہ بھی انگریزوں اور روسیوں کے رحم پر ہے، افغانستان ہے تو وہ بھی انگریزوں اور روسیوں کے رحم پر ہے.کوئی احمق اور جاہل اور گودن 3 شخص ہی یہ سمجھ سکتا ہے کہ ان حکومتوں کو کوئی طاقت حاصل ہے.اس قسم کے پاگل لوگ ہی تھے جو آج سے پچاس سال پہلے یہ کہا کرتے تھے کہ لڑکی کا بادشاہ جب باہر نکلتا ہے تو یورپ کے بارہ بادشاہ اُس کے گھوڑے کی باگ پکڑ کر چلتے ہیں.اسی طرح کوئی پاگل اور احمق ہی ٹرکی اور ایران اور مصر اور عرب اور افغانستان کی حکومتوں کے متعلق یہ خیال کر سکتا ہے کہ ان کو یور بین حکومتوں کے مقابلہ میں کوئی طاقت حاصل ہے.ان کے پاس اگر حکومت ہے تو محض اس لیے کہ دنیا کے پر دو پر چند ہی بڑی بڑی کھیل کرنے والی حکومتیں یہ سمجھتی ہیں کہ بظاہر ان ملکوں کا آزا در ہنا ہمارے لیے مفید ہے.جس طرح بلی چوہے سے کھیلتی ہے اسی طرح وہ لوگ ان ملکوں سے کھیل رہے ہیں.پس بے شک ان کو آزادی حاصل ہے مگر یہ آزادی اُس ترنم کی وجہ سے ہے یا اُن اغراض فاسدہ کی وجہ سے ہے جو یورپین لوگوں کو انہیں آزاد رکھنے پر مجبور کر رہی ہیں.ور نہ دیکھ لو وہی ایران جس کے متعلق یہ کہتے تھے ایران ہمارا دوست ہے، ایران ہمارا بھائی اور ایران ہمارا برادر ہے.اسی دوست، اسی بھائی اور اسی برادر کے متعلق جس دن انہیں معلوم ہوا کہ وہ جرمنوں کے ساتھ ہمدردی رکھتا ہے اُسی دن انہوں نے اس کے بادشاہ کو پکڑ کر ملک سے باہر نکال دیا اور خود اس پر قبضہ کر لیا.گویا وہی جسے وہ سچا دوست اور ہمارا بھائی کہہ کہہ کر پکارتے تھے چند دنوں کے اندر اندر ان کا چپڑاسی اور ان کا غلام اور ان کا قیدی بن گیا.بھلا ایسا سلوک کوئی دوسری طاقت انگریزوں سے، امریکہ والوں سے یاروس والوں سے کر سکتی تھی؟

Page 368

خطبات محمود 368 $1944 اب تو روس اپنی مرضی سے انگریزوں کے ساتھ ہے لیکن اگر وہ انگریزوں کے ساتھ نہ ہوتا بلکہ جرمنوں کی تائید میں ہوتا تو کیا انگریز اور امریکن روس سے کہہ سکتے تھے کہ اگر تم جرمنوں کو اپنے ملک سے نہیں نکالو گے تو ہم تمہارے ملک پر جنگی مفادات کے لیے قبضہ کر لیں گے ؟ اور وہ ایسا کبھی نہیں کہہ سکتے تھے کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ روس ایک طاقت ہے.اور ایران کے متعلق وہ سمجھتے ہیں کہ وہ کوئی طاقت نہیں.وہ ایک مسکین اور غریب ملک ہے، جدھر اس کی ناک موڑو وہ مُڑ جائے گا.پس چاہے وہ اِس ملک کو آزاد کہہ دیں، چاہے اسے اپنا بھائی کہہ دیں، چاہے اسے اپنا ہر اور قرار دیں، چاہے اس کی حکومت کو اپنے بھائی کی حکومت قرار دیں ہے پھر بھی اس کے معنے یہی ہوں گے وہ ہمارا غلام ہے، وہ ہمارا چپڑ اسی ہے ، وہ ہمارا قیدی ہے.بلکہ میں کہتا ہوں اگر وہ یہ بھی کہیں کہ شہنشاہ ایران ہمارا سرتاج ہے تو بھی اس کے یہی معنے ہوں گے کہ اس غلام کو ہم اتنے دن ظاہر میں آزاد رکھنا چاہتے ہیں اس سے زیادہ اس کے کوئی معنے نہیں.غرض دنیا میں اسلام سے بڑھ کر اور کوئی بے کس نہیں.بے شک مسلمان تعداد کے لحاظ سے کافی ہیں مگر وہ تعداد ایسی ہے جو مختلف ملکوں میں بکھری ہوئی ہے اور اس انتشار کی وجہ سے مسلمانوں سے بہت زیادہ ہندؤوں کو طاقت حاصل ہے.کیونکہ ہند و جتنے بھی ہیں سب ایک ملک میں ہیں، سب ایک جگہ اکٹھے ہیں، ایک ہی ملک میں وہ تیس کروڑ تک پہنچے ہوئے ہیں.مگر چالیس کروڑ مسلمان وہ ہیں جو ساری دنیا میں پھیلے ہوئے ہیں.اور ظاہر ہے کہ ایک جگہ پر تیس کروڑ آدمیوں کو جو طاقت حاصل ہو سکتی ہے وہ ان چالیس کروڑ آدمیوں کو حاصل ہے نہیں ہو سکتی جو ساری دنیا میں پھیلے ہوئے ہوں.اگر ایک خاندان کے دس آدمی شہر کے مختلف حصوں میں پھیلے ہوئے ہوں تو چور یقینا ان کے گھر پر حملہ کر سکتا ہے.لیکن اگر وہ دس آدمی می اپنے گھر میں اکٹھے ہوں تو چور ان کے گھر پر حملہ کرنے سے ڈرتا ہے.کیونکہ وہ سمجھتا ہے کہ شاید یہ دس آدمی لٹھ لے کر کھڑے ہو جائیں اور میر اسر پھوڑ دیں.پس گو بظاہر سیاستاً بظاہر کمزور نظر آتے ہیں مگر ان کی پوزیشن اور ان کا مقام ایسا ہے جس نے انہیں مسلمانوں سے زیادہ ہے طاقتور بنایا ہوا ہے.ایسے نازک وقت میں اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام

Page 369

$1944 369 خطبات محمود کے ذریعہ اسلام کو ایک نئی زندگی اور نئی حیات بخشنے کا فیصلہ کیا ہے.پس چاہے اس کو کوئی شکل دے دو، چاہے اس کا کوئی نام رکھ لو بہر حال یہ ایک جہاد ہے جو اسلام کے احیاء کے لیے جاری ہے اور ہر شخص کا فرض ہے کہ اس جہاد میں شامل ہو.اگر کسی وقت نظام سلسلہ کی طرف سے کسی شخص کو اس جہاد میں شامل ہونے کے لیے نہیں بلایا جاتا تو وہ گنہگار نہیں.لیکن اگر کسی شخص کو بلایا جاتا ہے اور بلایا بھی ایسی صورت میں جاتا ہے جب وہ طوعی طور پر اپنا نام پیش ہے کر چکا ہوتا ہے اور اُسے کہا جاتا ہے کہ فلاں وقت حاضر ہو جاؤ تو اس کے بعد اگر وہ مقررہ وقت پر پہنچنے میں ایک منٹ کی بھی دیر کر دیتا ہے تو وہ باغی ہے اور وہ اس قابل ہے کہ اسے جماعت سے خارج کر دیا جائے.اُسی وقت وقف زندگی کے عہد میں ان کی سنجیدگی سمجھی جاسکتی تھی جب فرض کرو قادیان ایک پہاڑی مقام پر ہوتا اور اُس کے چاروں طرف برف بھی ہوئی ہوتی ہے جس پر چلنا مشکل ہو تا مگر پھر بھی مرکز کی طرف سے اعلان ہونے پر اپنی زندگی وقف کرنے والے پیٹوں کے بل گھسٹتے ہوئے اور اپنے ناخن زمین میں گاڑتے ہوئے یہاں تک پہنچ جاتے.میں تب بے شک ان کو مومن سمجھا جا سکتا تھا.تب بے شک کہا جا سکتا تھا کہ انہوں نے اپنے عہد کو پورا کر دیا.مگر موجودہ صورت تو ایسی ہے جو کسی حالت میں بھی قابل عفو نہیں.دیکھو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھی یہی فرمایا ہے کہ جب مہدی آئے گا اُس وقت اگر تمہیں گھٹنوں کے بل بھٹتے ہوئے بھی اس کے پاس جانا پڑے تو جاؤ اور اس کی آواز پر لبیک میں کہو 4 اس حدیث کے معنے در حقیقت یہی ہیں کہ جب تمہارے کان میں مہدی کی طرف سے آواز آئے تو تم اس جوش کے ساتھ اس آواز پر لبیک کہو اور اس طرح پروانہ وار اس کی ہے طرف بھا گو کہ رستہ ہونے یا نہ ہونے کا کوئی سوال ہی تمہارے سامنے نہ ہو.جب وہ دعوای کرے اس وقت تمہیں راستہ ملے، یا نہ ملے تمہیں گھٹنوں کے بل چلنا پڑے یا پیٹ کے بل، تم میں اُس کے پاس پہنچو.بلکہ اگر تمہیں پہاڑوں کی چوٹیوں پر سے بھی گزرنا پڑتا ہے تو تم اِس بات کی پروا مت کرو.اگر تمہیں پھسلنا پڑتا ہے تو اپنے پھسلنے کی پروا نہ کرو اور جلد سے جلد اس کے ہم پاس پہنچ جاؤ.میں دفتر تحریک جدید کو ہدایت کرتا ہوں کہ وہ فوڑا ایسے لوگوں کے نام ہیں

Page 370

$1944 370 خطبات محمود میرے سامنے پیش کرے اور پھر اپنے ڈاک کے رجسٹروں سے یہ ثابت کرے کہ اُس نے ان سب کے نام چٹھیاں بھجوا دی تھیں.اس کے بعد وہ مجھ سے ایک تاریخ مقرر کروا کر الفضل میں اعلان شائع کرا دے کہ یہ لوگ فلاں تاریخ کو میرے سامنے ایک مجرم کی حیثیت میں پیش ہوں اور جواب دیں کہ کیوں نہ اُن کو اس جرم کی وجہ سے جماعت سے خارج کر دیا جائے.میں اس موقع پر ان لوگوں کو جنہوں نے اپنی زندگیاں دین کے لیے وقف کی ہوئی ہیں ایک بار پھر یہ بتادینا چاہتا ہوں کہ دیکھو زندگی وقف کرنے کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ تم نے اپنی جان دین کے لیے دے دی.میں نے متواتر سمجھایا ہے کہ جب کوئی شخص اپنے آپ کو چی وقف کر دیتا ہے تو اس کے بعد اُس کا کوئی باپ نہیں ہوتا سوائے سلسلہ کے، کوئی ماں نہیں ہوتی سوائے سلسلہ کے ، کوئی بہن نہیں ہوتی سوائے سلسلہ کے ، کوئی بھائی نہیں ہوتا سوائے سلسلہ کے، کوئی بیوی نہیں ہوتی سوائے سلسلہ کے ، کوئی بچے نہیں ہوتے سوائے سلسلہ کے.اس وقف کے معنے یہ ہیں کہ وہ دنیا سے کٹ گیا.مگر میں دیکھتا ہوں ابھی تک برابر مائیں اِس قسم کے رقعے لکھتی رہتی ہیں کہ ہمارے بچوں کا خیال رکھا جائے ، باپ رقعے لکھتے رہتے ہیں کہ ہمارے بیٹوں کا خیال رکھا جائے بلکہ ابھی ایک واقف زندگی کے باپ نے مجھے لکھا کہ میرے بیٹے نے چونکہ فلاں وقت اپنی زندگی وقف کی تھی اس لیے اسے فلاں جگہ رکھا جائے.وہ اپنے آپ کو باپ سمجھتا ہو گا مگر ہم تو اُسے اِس لڑکے کا باپ سمجھتے ہی نہیں.جس دن اُس نے اپنے یٹے کو دین کے لیے وقف کر دیا اُس کے بعد اس کا کوئی حق نہیں رہا کہ وہ اپنے بیٹے کے متعلق سے کوئی بات کہے.اگر کوئی باپ ایسا رقعہ بھیجتا ہے تو ہم اسے پھاڑ کر پھینک دیتے ہیں اور پروا بھی نہیں کرتے کہ اس میں کیا لکھا ہے.لڑکا اگر کچھ کہنا چاہتا ہے تو بے شک کہے.اگر لڑکا کوئی ایسی بات کہے گا جو اُس کے حقوق سے تعلق رکھتی ہو گی اور ہم سمجھیں گے کہ وہ چیز اس کے وقف میں روک نہیں تو اُس کا مطالبہ پورا کر دیا جائے گا.اور اگر کوئی ایسی بات کہے گا جو اُس کے وقف کے خلاف ہو گی تو اسے مجرم سمجھا جائے گا.بہر حال کسی واقف زندگی کے باپ یا ماں یا بھائی یا بہن یا بیوی یا بچے کا کوئی حق نہیں کہ وہ وقف کے متعلق ہم سے کوئی بات کرے.اگر کوئی ایسا رقعہ لکھے گا تو ہم اسے پھاڑ دیں گے.اور اگر وہ کوئی بات کرے گا تو ہم اسے سنے ہے

Page 371

$1944 371 خطبات محمود کے لیے قطعا تیار نہیں ہوں گے.ہاں! اگر کوئی باپ اپنے بچے کی شادی کے متعلق کوئی بات کہنا چاہتا ہے تو گو اِس صورت میں بھی سلسلہ ہی اُس کا باپ ہے اور سلسلہ ہی اس کی ماں.مگر چونکہ جسمانی رشتہ ٹوٹ نہیں سکتا اس لیے ایسے امور جو وقف سے تعلق نہیں رکھتے ان کے متعلق ہم ان کی بات سن بھی سکتے ہیں.مثلاً وہ کہہ سکتا ہے کہ لڑکا جوان ہے اس کی شادی کا انتظام کیا جائے.لیکن اگر وہ کوئی ایسی بات کہے گا جو وقف سے تعلق رکھتی ہو گی مثلاً وہ یہ لکھے گا کہ اسے فلاں جگہ مقرر کیا جائے یا اُس کی تعلیم کے متعلق کوئی بات لکھے گا یا اُس کے کام کے متعلق کوئی بات لکھے گا یا جس ملک میں تبلیغ کے لیے اُسے بھجوانے کا ارادہ ہو اُس کے متعلق وہ بات لکھے گا یا اُس کے گزارہ کے متعلق کوئی بات لکھے گا تو ہمارا ایک ہی جواب ہو گا کہ ہم اس کے رقعہ کو پھاڑ کر پھینک دیں گے.چاہے اُس کے نزدیک اس رقعہ میں کتنی ہی اہم باتیں کیوں ہے نہ لکھی ہوں.کیونکہ ہم یہ سمجھتے ہی نہیں کہ ان معاملات میں وہ باپ رہ گیا ہے یاماں رہ گئی ہے یا بھائی رہ گیا ہے یا بہن رہ گئی ہے.ان کا باپ بھی سلسلہ ہے، ان کی ماں بھی سلسلہ ہے، ان کی جی بہن بھی سلسلہ ہے اور ان کا بھائی بھی سلسلہ ہے.بلکہ اگر ان کے لڑکے کو یہ پتہ لگ جائے کہ میری ماں یا میرا باپ میرے کام کے متعلق یا ان ذمہ داریوں کے متعلق جو تحریک جدید کی میں طرف سے مجھ پر عائد کی گئی ہیں کوئی رقعہ لکھنے والے ہیں تو ایسی صورت میں اگر وہ لڑکا اپنے باپ یا اپنی ماں پر ناراضگی کا اظہار نہ کرے تو ہم اس کے متعلق بھی یہی سمجھیں گے کہ وہ اپنے مین وقف میں ثابت قدم نہیں.اسے صاف طور پر کہہ دینا چاہیے کہ تم میرے ماں باپ نہیں ہو.جب تم نے مجھے وقف کر دیا، جب تم نے مجھے سلسلہ کے سپرد کر دیا تو اب صرف میری شخصیت کا سوال رہ سکتا ہے.وہ جہاں تک کام کا تعلق ہے، جہاں تک جسم کا تعلق ہے، جہاں تک تقریر کا تعلق ہے میرا باپ بھی سلسلہ ہے، میری ماں بھی سلسلہ ہے، میری بہن بھی سلسلہ ہے اور میر ابھائی بھی سلسلہ ہے.حضرت مسیح ناصری نے کیا ہی عمدہ اور لطیف بات کہی.ایک دفعہ ان کی ماں اور ان کے بھائی ان سے ملنے کے لیے آئے مگر چونکہ وہ اُس وقت سلسلہ کا کام کر رہے تھے اس لیے انہوں نے کہا میں نہیں جانتا میراباپ کون ہے، میں نہیں جانتا میری ماں کون ہے ، می

Page 372

خطبات محمود 372 $1944 میں نہیں جانتا میر ابھائی کون ہے اور پھر اپنے حواریوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ہے ہیں میرے باپ، یہ ہیں میرے بھائی اور یہ ہے میری ماں.یہ وہ ایمان ہے جس کا حضرت مسیح ناصری نے اظہار کیا اور یہی وہ ایمان ہے جس کے بعد انسان کی قربانی کر سکتا ہے.جب ہم اس چیز کو تسلیم کر لیتے ہیں تو ہمارے لیے پہلی دفعہ قربانی کا راستہ کھلنا شروع ہوتا ہے اور پھر جوں جوں ہم اخلاص دکھاتے ہیں یہ راستہ بڑھتا چلا جاتا ہے.پس میں جماعت کے دوستوں کو ایک بار پھر ہوشیار کر دیتا ہوں کہ وہ وقف کی حقیقت سمجھیں.ممکن ہے وہ کہہ دیں کہ ایسی باتوں کا نتیجہ یہ ہو گا کہ لوگ قربانی کے لیے آگے نہیں آئیں گے.مگر میں کہتا ہوں وہ می لوگ جو اپنی ذمہ داریوں کو نہیں سمجھتے، وہ لوگ جو وقف کی حقیقت سے غافل ہیں ، وہ لوگ جو نام پیش کرتے وقت تو سب سے آگے آجاتے ہیں مگر جب قربانیوں کے لیے بلایا جاتا ہے تو اُن کا قدم پیچھے ہٹ جاتا ہے.ایسے لوگوں کی مجھے قطعاً ضرورت نہیں.وہ ایک شکست خوردہ اور ماری ہوئی قوم ہیں.مجھے ایسے لوگوں کا کوئی فائدہ نہیں ہو سکتا.اگر جماعت میں ایسے ہی لوگ ہے ہیں جو اپنے نام پیش کرنے کے لیے تو تیار ہو جاتے ہیں لیکن اگر سلسلہ ان سے کام لیتا ہے یا ا سلسلہ اُن کو ڈانٹتا ہے تو وہ اپنے قدم پیچھے ہٹا لیتے ہیں تو میں ایسے لوگوں سے کہتا ہوں ہے تمہیں سات سلام، تم مردہ ہو تم کسی کام کے اہل نہیں.تم اپنے گھر بیٹھو میں اپنے گھر میں ہے خوش ہوں.وہی جماعتیں دنیا میں کام کر سکتی ہیں جو اپنی ذمہ داریوں کو سمجھتی ہیں اور می اپنی ذمہ داریاں ادا کرنے کی وجہ سے وہ جان دینے کے لیے بھی تیار رہتی ہیں.میں نے پہلے بھی کئی دفعہ سنایا ہے کہ فرانس کا ایک مشہور واقعہ ہے.نہ معلوم وہ ہے تاریخی واقعہ ہے یا کہانی.بہر حال ایک مؤرخ جو کہانیوں کے رنگ میں واقعات لکھنے کا عادی ہے اُس نے لکھا ہے کہ فرانس کے یورپین خاندان کے خلاف جب بغاوت ہوئی اور لوگوں نے اس خاندان کو اپنے ملک سے نکال دیا تو وہ خاندان فرانس سے نکل کر انگلستان چلا آیا.کچھ عرصہ کے بعد بادشاہت کے مدعی نے انگلستان سے ایک مختصر سا دستہ فرانس بھجوایا تا کہ وہ دوبارہ بغاوت پیدا کر کے اس کی بادشاہت کے لیے راستہ تیار کرے.جس جہاز میں یہ جماعت سوار تھی اسی جہاز میں ایک اور شخص بھی سوار تھا.مگر سپاہیوں کو کچھ پتہ نہیں تھا کہ متنی

Page 373

خطبات محمود 373 $1944 وہ کون ہے.انہوں نے سمجھا کہ کوئی مسافر ہے جو اسی جہاز سے سفر کر رہا ہے یا کوئی اور گمنام شخص ہے.انہیں یہ بھی پتہ نہیں تھا کہ اس شخص کا کیا عہدہ ہے یا کیا کام کرتا ہے.ایک دن ایک سپاہی جو پہرے پر مقرر تھا اس کی غفلت کی وجہ سے ایک توپ کا ہک کھل گیا.جہاز میں جب تو پیں رکھی جاتی ہیں تو انہیں باندھ کر رکھا جاتا ہے.کیونکہ تو ہیں بڑی بڑی وزنی ہوتی ہیں.اگر انہیں باندھا نہ جائے تو جہاز کے چلتے وقت وہ لڑھکنے لگ جائیں اور جہاز چونکہ لکڑی کا ہوتا ہے ہے اس لیے خطرہ ہوتا ہے کہ ٹوٹ کر ڈوب جائے.اسی وجہ سے جہاز میں بڑے بڑے ہک لگے ہوتے ہیں جن سے تو پوں کو باندھ دیا جاتا ہے.ایک دن اتفاقا سپاہی سے کوئی بے احتیاطی تم ہوئی اور ہک سے وہ رستہ نکل گیا جس سے توپ بندھی ہوئی تھی.اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ تختہ جہاز پر توپ ادھر اُدھر لڑھکنے لگی.توپ چونکہ سو سو بلکہ بعض دفعہ دو دو سو من کی ہوتی ہے، اس میں لیے جب وہ دائیں طرف لڑھکتی تو جہاز دائیں طرف جھک جاتا اور جب بائیں طرف لڑھکتی تو جہاز بائیں طرف جھک جاتا.سمندر کی لہروں کی وجہ سے جہاز پہلے ہی خطرے کی حالت میں تھا.اب توپ کے کھل جانے کی وجہ سے یہ خطرہ اور بھی بڑھ گیا اور یہ سمجھ لیا گیا کہ جہاز ٹوٹ کر فرق ہو جائے گا.لوگوں میں سخت گھبر بہٹ پیدا ہو گئی اور انہوں نے لحاف اور تو نکلیں اور ہے کمبل وغیرہ اکٹھے کر کے توپ کے آگے پھینکنے شروع کر دیئے تا کہ اس کا راستہ رک جائے اور یہ وہ حرکت نہ کر سکے.مگر توپ کا لڑھکنا نہ ڑکا اور لوگوں کو زیادہ سے زیادہ اس امر کا یقین ہوتا چلا گیا کہ اب جہاز ضرور ڈوب جائے گا.جب بالکل مایوسی کی حالت پیدا ہو گئی تو وہی سپاہی جس سے یہ غفلت ہوئی تھی گود کر اُس تختے پر چلا گیا جہاں توپ کا ہک تھا اور جہاں اس کو باندھا جاتا ہے تھا.جب لڑھکتے لڑھکتے توپ اُس مقام پر پہنچی تو لوگوں نے یہ یقین کر لیا کہ اب یہ شخص اِس توپ کے نیچے پس جائے گا.مگر وہ نڈر ہو کر کھڑا رہا.جب توپ بک کے پاس پہنچی تو اس نے دوڑ میں کر اُس کا رشتہ ہک میں ڈال دیا اور اتفاق ایسا ہوا کہ رشتہ ہک میں پھنس گیا اور توپ باندھی گئی.اب ایسا سو میں سے ایک دفعہ بلکہ ہزار میں سے ایک دفعہ ہی ہو سکتا ہے.ورنہ نو سوننانوے دفعہ ایسے حالات کے پیدا ہونے پر یہی یقین ہوتا ہے کہ جہاز ٹوٹ جائے گا اور سب لوگ غرق ہو جائیں گے.لوگ بھی اُس وقت یہی سمجھتے تھے کہ اس شخص کے جسم پر سے توپ ہے

Page 374

$1944 374 محمود گزر جائے گی اور یہ اس کے نیچے پس جائے گا.کیونکہ ایک سیکنڈ میں لڑھکنے والی توپ کو ہک کے ساتھ باندھنا کوئی معمولی بات نہیں ہوتی.لوگ یہی سمجھتے تھے کہ وہ مر جائے گا.وہ خود بھی یہی سمجھتا تھا کہ میں مر جاؤں گا.مگر اتفاق ایسا ہوا کہ وہ بچ گیا اور اُس نے اپنے ملک کی فوج کو بھی بچالیا.گویا وہ اتفاق جو ہزار میں سے ایک دفعہ ہی ہو سکتا تھا اُس وقت پیدا ہو گیا اور مخطرہ جاتارہا.جب توپ باندھی گئی تو وہی شخص جسے سپاہیوں نے مسافر سمجھا تھا کھڑا ہوا اور اُسے نے بتایا کہ میں فلاں افسر ہوں.پھر اُس نے سب سپاہیوں کو اکٹھا کیا اور کہا جس شخص سے یہ غلطی ہوئی تھی اُسے سامنے لاؤ.جب اُسے سامنے لایا گیا تو اس نے فرانس کا سب سے بڑا بہادری کا تمغہ اُس کے سینہ پر لگایا اور کہا لو میں یہ تمغہ تمہیں بادشاہ کی طرف بڑی بہادری دکھانے پر دے رہا ہوں.اس کے بعد اس نے بارہ سپاہی مقرر کیے کہ اس شخص کو دیوار کے ساتھ کھڑا کر کے باڑ مار دو.چنانچہ انہوں نے اسے باڑ ماردی.جب و ساحل فرانس پر اترا اور کشتی میں سوار ہوا تو اتفاقاً اُس کی کشتی پر جو ملاح مقرر تھا وہ اس سپاہی ہے کا بھائی تھا جسے اُس نے گولی سے اڑا دیا تھا.جب کشتی ساحل کی طرف بڑھ رہی تھی اُس ملاح نے موقع پاکر افسر سے کہا آپ کو معلوم ہے میں کون ہوں؟ وہ کہنے لگا مجھے تو پتہ نہیں.ملاح کہنے لگا میں اُس شخص کا بھائی ہوں جسے آپ نے گولی مارنے کا حکم دیا تھا اور چونکہ آپ نے میرے بھائی کو مروا دیا ہے اس لیے میں نے اسی وقت یہ نیت کر لی تھی کہ میں آپ سے اپنے بھائی کا انتقام لوں گا اور میں اسی موقع کی تاڑ میں تھا.اُس وقت سمندر میں طوفان زیادہ تھا مگر آپ کا حکم تھا کہ مجھے جلدی سے ساحل پر پہنچایا جائے میں نے اپنے آپ کو اسی نیت سے پیش ہے کیا تھا کہ مجھے موقع مل گیا تو میں راستہ میں اپنے بھائی کا بدلہ لے لوں گا.اب آپ قتل ہونے کے لیے تیار رہے.آپ نے میرے بھائی کو ہلاک کر کے مجھے اتنا صدمہ پہنچایا ہے کہ اب میں سوائے اس کے میرے پاس کوئی صورت نہیں کہ میں اس کشتی کو غرق کر دوں اور خود بھی ہے مر جاؤں اور آپ کو بھی مار ڈالوں.وہ افسر اُس سے کہنے لگا تمہیں پتہ ہے میں نے تمہارے بھائی کو کیوں مرد ایا ؟ وہ کہنے لگا مجھے پتہ ہے.مگر اس نے اپنے مجرم کا ازالہ بھی تو کر دیا تھا.افسر نے کہنے لگا اُس نے ازالہ تو کیا مگر کیا یہ ازالہ اُس کے اختیار میں تھا؟ کیا ہزار میں سے

Page 375

خطبات محمود 375 $1944 نوسو ننانوے دفعہ یہ امکان نہیں تھا کہ جہاز ڈوب جائے اور فوج تباہ ہو جائے ؟ اگر نو سو ننانوے دفعہ یہ امکان تھا تو اُس کا ایک دفعہ کامیاب ہو جانا صرف اتفاق کہلائے گا اور یہی کہنا پڑے گا کہ اُس نے نو سو ننانوے دفعہ اپنے ملک کو تباہ کر دیا صرف ایک دفعہ اس نے اپنے ملک کو بچایا.مگر وہ بھی ایک اتفاقی امر تھا.اُس کے اختیار کی بات نہیں تھی.بہر حال اُس کا یہ فعل ایسا تھا جس کی وجہ سے نو سو ننانوے دفعہ ناکامیاں ہی پیش آسکتی تھیں.صرف ایک دفعہ کامیابی حاصل ہوئی اور وہ بھی اتفاقی طور پر.پس چونکہ اُس نے نو سو ننانوے دفعہ فرانس کو تباہ کرنے کی کوشش کی اور صرف ایک دفعہ محسنِ اتفاق سے اپنی جان کو ہلاکت کے خطرہ میں ڈال کر اپنے ملک کو بچایا اس لیے میں نے ایک طرف تو تمہارے بھائی کو اُس کے اچھے کام کی وجہ سے فرانس کا سب سے بڑا بہادری کا انعام دے دیا اور دوسری طرف نو سو ننانوے دفعہ اُس نے اپنے ملک کو جس خطرے میں ڈالا تھا اُس کی پاداش میں اُسے گولی سے اُڑا دیا.اگر تمہارا دل فرانس کی محبت سے خالی ہے تو میری جان کا کیا ہے.میں نے تو دشمن کے ہاتھ سے بھی مرنا ہی ہے.اگر تم مجھے یہیں ماردو گے تو اس میں کونسی بڑی بات ہے.مگر یاد رکھو کہ اگر تم مجھے مارو گے تو تم مجھے نہیں مارو گے بلکہ فرانس کو مارو گے.جب افسر نے یہ بات کہی اس کے بھائی کی من رائے بالکل بدل گئی اور اُس نے کہا میں سمجھتا ہوں کہ میں غلطی پر تھا.اب میں خطرات میں پڑکر بھی آپ کو اس مقام پر پہنچاؤں گا جہاں کوئی اور شخص آپ کو نہیں پہنچا سکتا کیونکہ اس میں وقت سمندر میں طوفان ہے اور کوئی اور ملاح اس سمندر میں کشتی چلانے پر قادر نہیں ہو سکتا.چنانچہ اُس نے ہر قسم کے طوفانی خطرات کا مقابلہ کرتے ہوئے افسر کو اُس کے مقام تک پہنچا دیا.جب دنیوی قربانیوں کا یہ حال ہے تو جو شخص ایسے نازک اوقات میں جبکہ اسلام اور بانی اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت خطرے میں ہے کوئی کمزوری دکھاتا یا اپنا سینہ تان کر آگے نہیں آتا اس کا اپنے متعلق یہ امید رکھنا کہ ہم اسے مسلمان سمجھیں یا خادم دین قرار دیں یا اُسے خدا اور رسول سے محبت رکھنے والا سمجھیں کس طرح درست ہو سکتا ہے.ایسے وقت میں تو ہر شخص کا فرض ہوتا ہے کہ وہ آگے آئے.اور پھر جو شخص آگے آئے اس کا م

Page 376

$1944 376 خطبات محمود دوسرا فرض یہ ہوتا ہے کہ وہ بے نیاز ہو جائے سارے تعلقات سے ، وہ بے نیاز ہو جائے سارے رشتہ داروں سے، وہ بے نیاز ہو جائے ساری محبتوں سے.اور ایک ہی مقصود اس کے سامنے رہ جائے کہ میں نے اسلام کے لیے اپنی جان دینی ہے، میں نے قرآن کے لیے اپنی جان دینی ہے، میں نے احمدیت کے لیے اپنی جان دینی ہے.جس وقت یہ روح جماعت میں پیدا ہو جائے گی اُس وقت اور صرف اُس وقت ہماری جماعت کامیاب ہو گی.اور گو اس وقت میں ہم تھوڑے ہیں، گو ہم ذلیل اور حقیر سمجھے جاتے ہیں، گو ادنیٰ سے ادنی اقوام ہمیں آنکھیں دکھانے کے لیے تیار ہو جاتی ہیں.وہ مسلمان جو سکھوں کی گھر کیوں سے ڈر جاتے ہیں، وہ مسلمان جو ہندوؤں کی گھر کیوں سے ڈر جاتے ہیں.وہ مسلمان جو عیسائیوں کی گھر کیوں سے ڈر جاتے ہیں، وہ بھی ہمیں غصہ سے لال لال آنکھیں نکال کر دکھاتے ہیں.اور وہ حکومت جو سکھوں سے ڈر جاتی ہے ، وہ حکومت جو ہندؤوں سے ڈر جاتی ہے وہ بھی اپنے سارے ایکٹ قادیان کے احمدیوں کو ستانے کے لیے استعمال کرتی ہے.لیکن اگر یہ روح ہماری جماعت اپنے اندر پیدا کر لے تو نہ ہندو اُسے ڈرا سکتے ہیں، نہ سکھ اُسے ڈرا سکتے ہیں، نہ مسلمان اُسے ڈرا سکتے ہیں، نہ ہندوستان کے انگریز اسے ڈرا سکتے ہیں، نہ برطانیہ کے انگریز اسے ڈرا سکتے ہیں، نہ دنیا کی ہے کوئی اور قوم اسے ڈرا سکتی ہے.کیونکہ یہ روح قوموں کو ایسی زندگی بخشتی ہے، ایسی طاقت بخشتی ہیں ہے، ایسی مضبوطی بخشتی ہے کہ دنیا کی کوئی تلوار اس کو کاٹ نہیں سکتی.دنیا کی کوئی توپ اس کو ہے مٹا نہیں سکتی.جو شخص خدا کی خاطر مرنے کے لیے تیار ہو جاتا ہے اس کو مارنے والا وجود آج تک دنیا میں پیدا نہیں ہوا اور قیامت تک پیدا نہیں ہو سکتا.دوسری دو چیزیں جن کی طرف میں جماعت کو توجہ دلانا چاہتا ہوں کالج اور سائنس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کا قیام ہے.میں پہلے بھی جماعت کو کالج کی طرف توجہ دلا چکا ہوں.مگر میں دیکھتا ہوں ابھی تک اس طرف پوری توجہ نہیں کی گئی.جہاں تک کالج میں تعلیم حاصل ہے کرنے کے لیے لڑکوں کی طرف سے درخواستیں آنے کا سوال ہے وہ بھی ابھی توجہ طلب ہے.اور جہاں تک کالج کے لیے روپیہ کا سوال ہے وہ بھی ابھی بہت کم جمع ہوا ہے.آخری می رپورٹ نظارت بیت المال کی طرف سے اس بارہ میں یہ تھی کہ بیاسی ہزار روپیہ کی رقوم میں

Page 377

خطبات محمود 377 $1944 اور وعدے آچکے ہیں.کچھ اور اطلاعات میرے پاس بھی آئی ہوئی ہیں اگر اُن کو بھی شامل کر لیا جائے تو پچاسی ہزار کے قریب یہ رقم بن جاتی ہے.مگر جو نیا اسٹیمیٹ (ESTIMATE) لگایا گیا ہے اس کی بناء پر دولاکھ روپیہ خرچ کا اندازہ ہے اور رقم ابھی تک نصف بھی جمع نہیں ہے ہوئی ہے.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ابھی جماعت کا بہت سا حصہ ایسا رہتا ہے جس نے اس چندہ ہے میں حصہ نہیں لیا.مگر اس میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ جس رفتار سے اس تحریک میں حصہ لیا گیا ہے ہے وہ بہت ہی سُست ہے.میں نے مجلس شوری میں جماعت کو اس امر کی طرف توجہ دلائی تھی اور بعد میں بھی مختلف مواقع پر میں توجہ دلا تارہا ہوں.مگر مجھے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ جس قدر یہ ضروری امر ہے اُسی قدر جماعت نے اس کی اہمیت کو نہیں سمجھا اور اس کی طرف توجہ کرنے میں بہت بڑی نشستی سے کام لیا ہے.پہلے سال کالج پر دولاکھ روپیہ خرچ کا یہ اندازہ ہے.اس کے بعد تیس چالیس ہزار روپیہ سالانہ خرچ آئے گا.میں نے بتایا تھا کہ یورپ کے فلسفہ کی اس وقت اسلام کے ساتھ ایک عظیم الشان جنگ جاری ہے اور اس فلسفہ کے ذریعہ لوگوں کے دلوں میں مختلف قسم کے شبہات پیدا کیے جارہے ہیں.کہیں خدا کے متعلق لوگوں کے دلوں میں شبہات پیدا کیے جاتے ہیں، کہیں ملائکہ کے متعلق لوگوں کے دلوں میں شبہات پیدا کیے جاتے ہیں، کہیں روح کے متعلق لوگوں کے دلوں میں شبہات پیدا کیے جاتے ہیں، کہیں مرنے کے بعد کی زندگی کے متعلق لوگوں کے دلوں میں شبہات پیدا کیے جاتے ہیں.غرض قسم قسم کے شبہات اور وساوس ہیں جو لوگوں کے قلوب میں پیدا کر کے اُن کو اسلام اور ایمان سے برگشتہ کیا جاتا ہے.اس زہر کے ازالہ کا بہترین طریق یہی ہے کہ وہ کالج جن میں یورپ کا یہ فلسفہ پڑھایا جاتا ہے اُنہی کالجوں میں ایسے پروفیسر مقرر کیے جائیں جو دین کو سیکھنے اور اُس پر غور کرنے والے ہوں اور اُن کا یہ کام ہو کہ وہ دن رات اس جستجو میں رہیں کہ ان شبہات کا کس طرح ازالہ کیا جا سکتا ہے جن کو یورپ کا موجودہ فلسفہ لوگوں کے قلوب میں پیدا کر رہا ہے.پھر ہمارا کام ہو گا کہ ہم اُن پروفیسروں کو بلائیں، اُن کے دلائل سنیں، انہیں ہدایات دیں، اُن کے علوم میں دلچسپی لیں اور ایسے دلائل مہیا کریں جن سے یورپ کے اِس زہر کا ازالہ ہو سکے اور قرآن کی حکومت دنیا پر قائم ہو.مگر ایسے مواقع قادیان سے باہر

Page 378

محمود خطبات محمد 378 $1944 ہندوستان کے کسی کالج میں میسر نہیں آسکتے.بلکہ ہندوستان کیا ساری دنیا میں کوئی ایسا کالج نہیں جہاں ان شبہات کے تدارک کا سامان ہو.بے شک باہر کئی قسم کے کالج ہیں مگر اُن کالجوں کی غرض یورپ کے اِن پیدا کردہ شبہات کو رد کرنا نہیں بلکہ ان شبہات کی تائید کرنا اور ان وساوس میں اور ہزاروں لوگوں کو مبتلا کرنا ہے.اگر مسلمانوں کا کوئی کالج ہے تو اس کے پروفیسر بھی ایسے ہیں جو خود ان شبہات میں مبتلا ہیں اور وہ اسلام کی فوقیت یورپ کے موجودہ فلسفہ پر ثابت نہیں کر سکتے.اس لیے اُن کی اس طرف توجہ ہی نہیں.پھر سب سے بڑی بات یہ ہے کہ یہ کام اُن لوگوں کا ہے جو دینی علوم سے واقفیت رکھتے ہوں.مگر بیرونی دنیا میں وہ خود انگریزی دان طبقہ کے تابع ہیں.دنیا میں کوئی ایسوسی ایشن (ASSOCIATION) ایسی نہیں جہاں دین کے لوگ حاکم ہوں اور انگریزی دان اُن کے محکوم ہوں.ساری دنیا میں صرف قادیان ہی ایک ایسا مقام ہے جہاں وہ لوگ جو دین کے نگران ہیں وہ تو حاکم ہیں لیکن انگریزی دان اور پروفیسر ان کے ماتحت ہیں.اور یہ ایک ایسی امتیازی ہے خصوصیت ہے جو دنیا میں اور کسی مقام کو حاصل نہیں.پس جہاں اور سوسائیٹیوں اور جماعتوں میں کا مقصد اول یہ ہوتا ہے کہ وہ یورپ کے فلسفہ کی اسلام پر فوقیت ثابت کریں وہاں ہماری جماعت کا مقصد اول یہ ہے کہ وہ خدا اور اُس کے رسول کی حکومت دنیا میں قائم کرے اور یورپ کے فلسفہ کا جھوٹا ہونا ثابت کرے.اس لیے ہماری ہدایت کے ماتحت جو پروفیسر کام کریں گے در حقیقت وہی ہیں جو یورپ کے پیدا کردہ شبہات کا ازالہ کر سکیں گے.خدا تعالیٰ کی حکمت ہے کہ ایک لمبے عرصہ تک میری اِس طرف توجہ ہی نہیں ہوئی کہ قادیان میں ہمارا اپنا کالج ہونا چاہیے.بلکہ ایسا ہوا کہ بعض لوگوں نے کالج کے قیام کے متعلق کوشش بھی کی تو میں نے انہیں کہا کہ ابھی اس کی ضرورت نہیں کالج پر بہت روپیہ خرچ ہو گا.لیکن پچھلے سال می مجلس شوری کے موقع پر بحث کے بعد یکدم جب بعض دوسرے لوگوں نے تحریک کی تو یہ اللہ تعالیٰ نے میرے دل میں یہ تحریک پیدا کر دی کہ واقع میں قادیان میں جلد سے جلد ہمیں اپنا کالج کھول دینا چاہیے.حالانکہ اُس وقت تک نہ صرف اس تحریک کا میرے دل میں کوئی خیال نہیں تھا بلکہ جب بھی کسی نے ایسی تحریک کی میں نے اس کی مخالفت کی.لیکن اس وقت ہے

Page 379

خطبات مج محمود 379 $1944 یکدم خدا تعالیٰ نے میرے دل میں اِس خیال کی تائید پیدا کر دی اور نہ صرف تحریک پیدا کی بلکہ بعد میں اس تحریک کے فوائد اور نتائج بھی سمجھا دیئے.ہمارا کالج در حقیقت دنیا کی اُن زہروں کے مقابلہ میں ایک تریاق کا محکم رکھتا ہے جو دنیا کے مختلف ملکوں اور مختلف قوموں میں سائنس اور فلسفہ اور دوسرے علوم کے ذریعہ پھیلائی جارہی ہیں.مگر اس زہر کے ازالہ کے لیے خالی فلسفہ اور دوسرے علوم کام نہیں آسکتے.بلکہ اس غرض کے لیے عملی نتائج کی بھی ہے ضرورت ہے.کیونکہ ایک کثیر حصہ سائنس کی ایجادات سے دھوکا کھا گیا ہے اور وہ یہ سمجھنے لگ گیا ہے کہ سائنس کے مشاہدات اور قانون قدرت کی فعلی شہادات اسلام کو باطل ثابت کری رہی ہیں.اسی لیے کالج کے ساتھ ایک سائنس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ بھی قائم کی گئی ہے تاکہ بیک وقت ان دونوں ہتھیاروں سے مسلح ہو کر کفر پر حملہ کیا جاسکے.اس انسٹی ٹیوٹ کے قیام پر ہے بھی دولاکھ روپیہ خرچ ہو گا.پہلے سال کا خرچ تو اتنی، نوے ہزار کے قریب ہے لیکن ہے اگلے سال جب عمارت کو مکمل کیا جائے گا اور سائنس کا سامان اکٹھا کیا جائے گا کم سے کم ہے دو لاکھ روپیہ خرچ ہو گا.پھر سالانہ ستر ، اسی ہزار کے خرچ سے یہ کام چلے گا.اس کام کو چلانے کے لیے ہمیں قریباً میں آدمی ایسے رکھنے پڑیں گے جنہوں نے سائنس کی اعلیٰ درجہ کی مین تعلیم حاصل کی ہو.گویا کالج سے بھی زیادہ عملہ اس غرض کے لیے ہمیں رکھنا پڑے گا.کچھ عرصہ کے بعد امید ہے کہ یہ انسٹی ٹیوٹ خود روپیہ پیدا کرنے کے قابل بھی ہو سکے گی.کیونکہ می اس ادارہ میں جب علوم سائنس کی تحقیق کی جائے گی تو ایسی ایجادات بھی کی جائیں گی جو تجارتی دنیا میں کام آسکتی ہیں یا صنعت و حرفت کے ساتھ تعلق رکھتی ہیں اور ان ایجادات کو دنیا کے ہیں تجارتی اور صنعتی اداروں کے پاس فروخت کیا جائے گا.ہم اُن اداروں سے کہہ سکتے ہیں کہ ہمارے محکمہ نے یہ یہ ایجادات کی ہیں اگر تم خریدنا چاہتے ہو خرید لو.اس طرح جو روپیہ آئے ہیں گا اُس کے ذریعہ اس کام کو اِنشَاءَ اللہ زیادہ سے زیادہ وسیع کیا جاسکے گا..اسی طرح میرا یہ بھی ارادہ ہے کہ سائنس کی جو ایجادات ایسی مفید ہوں کہ جماعت ان کو اپنے خرچ پر جاری کر سکتی ہو وہ ایجادات ہم اپنے ہاتھ میں رکھیں گے اور جماعتی خرچ سے اُن کو دنیا میں فروغ دیں گے.جیسے ہوزری (HOSIERY) کا کارخانہ ہے.اِس نے

Page 380

خطبات محج محمود 380 $1944 ایک لمبے عرصہ تک نقصان اٹھایا.مگر اب وہ خدا تعالیٰ کے فضل سے قریباً سو فیصدی نفع دے سکتا ہے.تیس فیصدی نفع تو دے بھی چکا ہے.اسی طرح آہستہ آہستہ سائنس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کی ایجادات کے ذریعہ بھی سلسلہ کے مقاصد کی تکمیل کے لیے بہت کچھ روپیہ جمع ہونا شروع ہو جائے گا.انگلستان جو ساری دنیا کی دولت پر قبضہ کیے ہوئے ہے اس نے اِسی طرح دولت کمائی ہے کہ اس میں دو کمپنیاں ایسی پیدا ہو گئیں جو غیر ملکوں میں چلی گئیں اور اُنہوں نے اپنا کاروبار شروع کر دیا.ایک امریکہ میں چلی گئی اور دوسری ہندوستان میں آگئی.ہندوستان کی کمپنی زیادہ ترقی کر گئی اور اس طرح رفتہ رفتہ ان دو کمپنیوں کی وجہ سے انگلستان نے کئی ملکوں کی حکومت پر قبضہ کر لیا.حالانکہ انگلستان کی آبادی بنگال کی آبادی سے بھی کم ہے.لیکن باوجود اِس کے کہ اس کی آبادی اس قدر کم ہے ، اس نے ہندوستان پر بھی قبضہ کر لیا، اس نے افریقہ پر بھی قبضہ کر لیا، اس نے آسٹریلیا پر بھی قبضہ کر لیا جو ہندوستان سے دُگنا ملک ہے.اسی طرح اور سینکڑوں نہیں ہزاروں چھوٹے چھوٹے جزیروں اور ملکوں کو اپنے زیر نگیں کر لیا.اس وقت میں جب انگلستان کی دو کمپنیاں غیر ملکوں میں تجارت کے لیے گئی تھیں کون شخص یہ خیال بھی کر سکتا تھا کہ انگلستان اس ذریعہ سے اپنے علاقہ سے کئی عوشنے زیادہ علاقہ پر اور اپنی آبادی سے میں دسیوں گنے زیادہ آبادی پر حکومت کرلے گا.انگلستان کی ساری آبادی چار کروڑ کی ہے لیکن اگر انگلستان کی رعایا کی آبادی دیکھی جائے جو دنیا کے مختلف ممالک میں پھیلی ہوئی ہے تو وہ انی کروڑ سے بھی زیادہ ہے.گویا آبادی کے لحاظ سے اس نے ہمیں گنا آبادی کو اپنے ماتحت ہے کر لیا اور رقبہ کے لحاظ سے اپنے ملک سے کئی سوٹنے زیادہ رقبے پر قبضہ کر لیا.مگر یہ بات ان کو مین کس طرح نصیب ہوئی؟ اسی طرح کہ وہ دنیا دار لوگ تھے انہوں نے کہا اگر ہم دنیا حاصل کرنا چاہتے ہیں تو ہمارا کام یہی ہے کہ ہم دنیا کمانے کے لیے صحیح طریق اختیار کریں اور پھر اپنی امین جدوجہد اور کوشش کو کمال تک پہنچا دیں.لیکن ہمارا کام دین کی تقویت کرنا اور اسلام کی بنیادوں کو ایسا مضبوط بناتا ہے کہ آئندہ کسی دشمن کو اس پر حملہ کرنے کی جرات نہ ہو سکے.پس ہے اگر وہ دنیا میں اس طرح مصروف ہو گئے تھے کہ انہیں اپنے سر پیر کی بھی ہوش نہیں رہی تھی ہیں تو کیا ہمارا فرض نہیں کہ ہم دین کی ترقی کے لیے ان امور کی طرف ایسی توجہ کریں کہ اسلام اور ہے

Page 381

خطبات محمود 381 $1944 قرآن کی اشاعت کے سامان بھی پیدا ہو جائیں، جماعت میں کام کرنے کی عادت بھی پیدا ا ہو جائے، اسے محنت و مشقت کا برداشت کرنا بھی دو بھر معلوم نہ ہو اور وقت کو ضائع کرنے کی عادت بھی اس سے جاتی رہے.دنیا میں جس قدر سائنس کی انسٹی ٹیوٹز ( INSTITUTES) ہیں اُن کے موجد اس لیے ایجادات کرتے ہیں کہ تا اسلام تباہ ہو اور یورپ کا فلسفہ دنیا پر غالب آئے.مگر ہمارے موجد اس لیے ایجادات کریں گے تاکہ کفر تباہ ہو اور اسلام یورپ کے کے فلسفہ اور یورپ کے تمدن پر غالب آجائے.یہ لڑائی ہے جو اسلام اور یورپ میں جاری ہے، یہ لڑائی ہے جو احمدیت اور یورپ کا فلسفہ آپس میں لڑنے والے ہیں.اگر وہ اس طرف ہے لگے ہوئے ہیں کہ خدا تعالی کی فعلی شہادت کو اس کے کلام کے خلاف پیش کریں تو ہم اس طرف لگے ہوئے ہیں کہ اگر خدا تعالیٰ کی فعلی شہادت کو اُس کے کلام کی صداقت اور تائید میں پیش کریں.اور یہ بات بالکل صاف ہے کہ اگر کوئی خدا ہے اور یقینا ہے.اگر دنیا کو اس نے پیدا کیا ہے اور یقیناً اُس نے پیدا کیا ہے اگر قانونِ قدرت اُس کا اپنا بنایا ہوا ہے اور یقیناً اُس کا اپنا بنایا ہوا ہے تو یقینا نیچر سے جو کچھ ظاہر ہو گا قرآن کی تائید میں ہی ظاہر ہو گا، اسلام کی تائید میں ہی ظاہر ہو گا ، محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی تائید میں ہی ظاہر ہو گا.یہ ہو نہیں سکتا کہ خدا تعالیٰ کی قولی شہادت کچھ اور کہہ رہی ہو اور اُس کی فعلی شہادت کچھ اور کہہ رہی ہو.اگر دشمن خدا تعالیٰ کی پیدا کردہ مخلوق سے خدا تعالیٰ کے کلام کے خلاف استنباط کر رہا ہے، اگر وہ سائنس کے بل بوتے پر خدا کا کلام اُس کی فعلی شہادت کی روشنی میں غلط ثابت کرنا چاہتا ہے تو چونکہ قرآن خدا کا کلام ہے اور یہ ہو نہیں سکتا کہ خدا کی فعلی شہادت اس کے کلام کے خلاف ہو اس لیے ہمیں اس بات پر کامل یقین ہے کہ سائنس کے ذریعہ ہمیں ایسے علوم عطا کیے جائیں گے کہ یورپ کو اس مقابلہ میں سوائے پیٹھ دکھانے کے اور کوئی چارہ ہے نہیں رہے گا.پس ہمارے لیے اس میدان میں گود کر دشمن پر فتح پانا بہت زیادہ آسان اور ہے بہت زیادہ ممکن الحصول ہے.کیونکہ اس میدان میں ہم اکیلے نہیں جاتے بلکہ خدا کی فعلی شہادت ہمارے ساتھ ہوتی ہے.جب مکہ فتح ہوا تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اُس وقت جن لوگوں کے یہ

Page 382

$1944 382 محمود ہے.قتل کیے جانے کا حکم دیا تھا اُن میں ایک ہندہ بھی تھی.کیونکہ اُس نے لوگوں کو روپے دے دے کر کئی مسلمان مروا ڈالے تھے.مگر ہندہ بڑی ہوشیار عورت تھی.اُسے جب اِس حکم کا علم ہوا تو اس نے چادر اوڑھ لی اور عورتوں کے ساتھ مل کر جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیعت کرنے کے لیے آئی تھیں آپ کی بیعت کرنی شروع کر دی.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو کچھ معلوم نہیں تھا کہ ان عورتوں میں ہندہ بھی بیٹھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بیعت لیتے لیتے اس مقام پر پہنچے کہ تم اقرار کرو ہم کبھی شرک نہیں کریں گی تو ہندہ سے نہ رہا گیا اور کہنے لگی یارسول اللہ ! کیا اب بھی آپ سمجھتے ہیں ہیں ہم شرک میں گرفتار رہیں گی ؟ ساری قوم ہمارے ساتھ تھی اور آپ اکیلے تھے ، ہمارے پاس دولت تھی لیکن آپ کے پاس دولت نہ تھی، ہمارے پاس جتا تھا لیکن آپ کے پاس میں جتھانہ تھا، ہمارے پاس سپاہی تھے لیکن آپ کے پاس کوئی سپاہی نہ تھے پھر ہم سمجھتے تھے کہ ہمارے ساتھ ہمارے بت ہیں جو ہمارے خدا ہیں لیکن آپ کے ساتھ کوئی خدا نہیں.گویا ہم اپنے آپ کو خدا والا اور آپ کو خدا کی مدد سے محروم قرار دیتے تھے.ہم سب نے آپ کا مقابلہ کیا اور متواتر اور مسلسل مقابلہ کیا.مگر یا رسول اللہ ! ہر میدان میں آپ نے ہمیں پیٹا، ہر میدان میں آپ نے ہمیں لتاڑا ، ہر میدان میں ہمیں شکست سے دوچار ہونا پڑا.آپ ایک سے دو اور دو سے چار اور چار سے دس، دس سے سو اور سو سے ہزار اور ہزار سے دس ہزار ہوئے اور ہم دس ہزار سے چار ہزار ، چار ہزار سے دو ہزار، دو ہزار سے ایک ہزار اور ایک ہزار سے چند سو ہوئے اور پھر آخر میں یہاں تک ذلیل اور خوار ہوئے کہ اب ہمیں ندامت اور شرمندگی کے ساتھ آپ کے پاس آنا پڑا.یارسول اللہ ! کیا اب بھی ہمارے دل میں اسلام کی صداقت کے متعلق کوئی شبہ رہ سکتا ہے اور کیا اب بھی ہمیں بتوں کی طاقت کا کوئی یقین ہو سکتا ہے؟ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہندہ ہے ؟ اس نے کہا یا رسول اللہ ! ہندہ تو ہوں مگر مسلمان ہندہ ہوں، کا فرہندہ نہیں.اب میں کلمہ پڑھ چکی ہوں اور آپ مجھے قتل نہیں کر سکتے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس کا جواب سن کرمی مسکرائے اور خاموش ہو گئے.1

Page 383

$1944 383 محمود تو دیکھو! ہندہ نے اسلام کی صداقت کے متعلق اُس وقت کیا ہی لطیف جواب دیا.یہی جواب ہم آج بھی دے سکتے ہیں کہ اگر دنیا کی پیدائش کا یہ سلسلہ ، اگر دنیا کا ذرہ ذرہ، اگر دنیا کے کو ملے اور تارکول اور کیمیائی مرکبات اور گرمی سردی کا اثر ، اگر میٹر کا پھیلنا اور تنگ ہونا، اگر ستاروں اور سورج اور چاند کی شعائیں اور ان کے اثرات جو خدا نے پیدا کیے ہیں ان سے یورپ اپنی ناواقفیت کی وجہ سے یا جہالت کی وجہ سے یا شرارت اور فتنہ وفساد کی نیت سے ایسے دلائل اخذ کر سکتا ہے جو خدا کے کلام کو لوگوں کی نگاہوں میں باطل ٹھہرانے والے ہوں تو کیا اگر مسلمان سچے دل سے کائناتِ عالم کے اس سلسلہ پر غور کریں گے تو یہ سورج اور یہ چاند اور یہ ستارے اور یہ کیمیکل اجزاء اور یہ گرمی اور سردی کے اثرات اور یہ مادے کا پھیلنا اور تنگ ہونا جن کا خالق خدا ہے، جن کا مالک خدا ہے، جن کو نیست سے ہست میں لانے والا خدا ہے اُس کی صفات کو کائنات کا یہ ذرہ ذرہ اُسی طرح ظاہر نہیں کرے گا جس طرح سورج اور چاند اور ستارے اپنی روشنی ظاہر کر رہے ہیں؟ اگر کافروں کے ہاتھ میں یہ چیزیں بولنے لگ جاتی ہیں تو کس طرح ممکن ہے کہ دنیا کا ایک ایک ذرہ ہمارے ہاتھ میں آکر خدا کی تائید میں نہ بولنے لگ جائے.بلکہ سچی بات تو یہ ہے کہ جس طرح یہ چیزیں ہمارے ہاتھ میں ایک سال کے اندر اندر بول سکتی ہیں یورپ کے ہاتھ میں اس طرح عو سال میں بھی نہیں بول سکتیں.کیونکہ یورپ ان چیزوں سے جھوٹی گواہی دلوانا ہے چاہتا ہے اور جھوٹی گواہی دلوانا مشکل ہوتا ہے.لیکن ہم ان چیزوں سے سچی گواہی دلوائیں ہے گے اور سچی گواہی دلوانا بہت آسان ہوتا ہے.پس یہ دو بہت بڑے کام ہیں جو اس وقت ہمارے سامنے ہیں.جہاں تک یورپ کے فلسفہ پر اسلامی احکام کی فوقیت کو ثابت کرنے کا مسئلہ ہے ہم نے کالج کی داغ بیل رکھ دی ہے.لیکن ابھی ہم نے اس کالج کو ڈگری کالج بنانا ہے.پھر ایم اے تک پہنچانا ہے.پھر ڈاکٹری کی تعلیم کا اِس میں انتظام کرنا ہے.پس بہت بڑا کام ہے جو ہمارے سامنے ہے اور بہت بڑی قربانیاں ہیں جن میں ہماری جماعت نے ابھی ہے.یہی وجہ ہے کہ میں بار بار قربانیوں کی تحریک کر رہا ہوں اور بار بار جماعتوں سے کہہ رہا ہوں کہ وہ اپنے ایمانوں کا جائزہ لیں، صدق وصفا کا وہ نمونہ دکھائیں جو لینا

Page 384

$1944 384 خطبات محمود اسلام کے احیاء کے لیے ضروری ہے.بے شک یہ سال قربانیوں کا سال ہے مگر یاد رکھو! قربانیوں کے سال انسانوں پر کبھی کبھی آتے ہیں اور یہ دن خدا تعالیٰ کی رحمتوں سے ہی نصیب ہوا کرتے ہیں.اللہ تعالیٰ نے بہت سے لوگوں کے لیے رزق کی فراوانی کا یہ سامان پیدا کیا ہوا ہے کہ جنگ ہو رہی ہے اور انہیں پہلے سے زیادہ مال حاصل ہو رہا ہے.پس جنگ کی وجہ سے جب تمہیں اللہ تعالی کی طرف سے زیادہ مال مل رہا ہے تو تمہارا یہ بھی فرض ہے یہ کہ اس مال کو زیادہ سے زیادہ خدا کی راہ میں خرچ کرو.ورنہ دنیا میں کسی کے پاس مال نہیں رہا.اگر کوئی شخص خدا کے لیے اپنے مال کو خرچ نہیں کرے گا تو اسے اپنی اولاد کے لیے یا مکان کے لیے یا بیماریوں کے علاج کے لیے اس مال کو خرچ کرنا پڑے گا.پھر کیسا بد قسمت ہے وہ انسان جسے خدا کے لیے تو اپنا مال خرچ کرنے کی توفیق نہ ملی مگر دنیا کے لیے اُس نے اپنا مال خرچ کر دیا.پس اب موقع ہے کہ تم آگے بڑھو اور بڑھو اور اپنی خوشی سے خدا کی راہ میں اپنے مالوں کو قربان کر دو.اگر تم خوشی سے اپنے اموال خدا کی راہ میں نہیں تناؤ گے تو یاد ہے رکھو اللہ تعالیٰ کی طرف سے بعض دفعہ انسان بڑی بڑی مشکلات میں مبتلا کر دیا جاتا ہے.پس تم خوشی سے اپنے اموال قربان کرو تا کہ خدا تم کو کسی ایسی تکلیف میں نہ ڈالے جس پر روپیہ الگ خرچ ہو اور تمہیں الگ مصیبت برداشت کرنی پڑے.بعض دفعہ گھروں میں ہے بیماریاں آجاتی ہیں تو پانی کی طرح روپیہ بہانا پڑتا ہے.اگر وہی روپیہ انسان اپنی خوشی سے ہے خدا کی راہ میں دے دے تو اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے اُسے آنے والی بیماریوں سے بھی بچالیتا ہے.یا اگر بیماری نہیں آتی تو بعض دفعہ کوئی مقدمہ بن جاتا ہے اور اس پر روپیہ خرچ ہونا ہے شروع ہو جاتا ہے.یا کسی سے لڑائی جھگڑا ہو جاتا ہے اور اُس میں رو پیسہ برباد ہو جاتا ہے.پس میں ایک دفعہ پھر جماعت کو اِن دونوں امور کی طرف توجہ دلاتا ہوں.میں نے ابھی سائنس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کی طرف جماعت کو چندہ کے لیے توجہ نہیں دلائی اور نہ اس وقت میر امنشاء اس کے لیے کسی چندہ کی تحریک کرنا ہے.میں نے صرف یہ کہا ہے کہ یہ دو کام ایسے ہیں جو یورپ کی دہریت کے رڈ کے سامان اپنے اندر رکھتے ہیں.سامان تو سب قرآن مجید میں موجود ہیں مگر ہمارا کام یہ بھی ہے کہ ہم قانونِ قدرت کو اُس کے کلام کی

Page 385

خطبات محمود 385 $1944 تائید میں بطور گواہ پیش کریں اور لوگوں کو بتائیں کہ خدا کے قول اور فعل میں کوئی تخالف نہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کتابوں کو دیکھ لو.آپ نے جہاں اسلامی مسائل کی فوقیت ثابت کرنے کے لیے قرآنی آیات پیش کی ہیں وہاں آپ نے قانون قدرت سے بھی دلائل پیش کیے ہیں اور فرمایا ہے کہ خدا کے کلام کی سچائی کا شاہد خدا کا فعل ہے اور یہ ناممکن ہے کہ خدا کا قول اور ہو اور اُس کا فعل کچھ اور ظاہر کر رہا ہو.ہمارا کام بھی ہے یہی ہے کہ ہم خدا کی فعلی شہادت اسلام اور احمدیت کی تائید میں کالج اور سائنس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے ذریعہ دنیا کے سامنے پیش کریں.یہی مقصد کالج کے قیام کا ہے اور میں یہی مقصد ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے قیام کا ہے.جن میں اللہ تعالیٰ کے احکام اور اس کی تعلیم میں کے ماتحت دین کی تائید کو مد نظر رکھتے ہوئے نیچر پر غور کیا جائے گا.تاکہ ہم اسلام کی سچائی ہے کی عملی شہادت دنیا کے سامنے پیش کر سکیں اور یورپ کے لوگوں سے کہہ سکیں کہ آج تک تم نیچر اور اس کے ذرات کی گواہی قرآن کے خلاف پیش کرتے رہے ہو مگر یہ بالکل ہے جھوٹ تھا.تم دنیا کو دھوکا دیتے رہے ہو، تم جھوٹ بول کر لوگوں کو ورغلاتے رہے ہو.آؤ! ہم تمہیں دکھائیں کہ دنیا کا ذرہ ذرہ قرآن اور اسلام کی تائید کر رہا ہے اور نیچر اپنی عملی میں شہادت سے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی راستبازی کا اعلان کر رہا ہے.یہ کام بہت مشکل ہے، کام بہت لمبا ہے اور اس کے لیے بہت بڑے سرمایہ کی ضرورت ہے.ابتدائی کام کے لیے ہیں ایم ایس سی ایسے درکار ہوں گے جو رات اور دن اِس کام میں لگے رہیں اور اسلام کی تائید کے لیے نئی سے نئی تحقیقا تیں کرتے رہیں.میں نے بتایا ہے کہ اس کام پر ستر ہزار سے ایک لاکھ روپیہ تک سالانہ خرچ ہو گا اور شروع میں کم سے کم اس غرض کے دولاکھ روپیہ کی ضرورت ہو گی.یورپ میں تو دو دو، چار چار کروڑ روپیہ کے سرمایہ سے ایسے کاموں کا آغاز کیا جاتا ہے اور ممکن ہے ہمیں بھی زیادہ روپیہ خرچ کرنا پڑے مگر ہم امید رکھتے ہیں کہ آہستہ آہستہ یہ انسٹی ٹیوٹ اپنی آمد خود پیدا کرے گی اور مستقل اخراجات کے لیے چندہ کی ضرورت نہیں رہے گی.سر دست میں نے اِس کا سارا بوجھ تحریک جدید پر ڈال دیا ہے جماعت سے کسی علیحدہ چندے کا مطالبہ نہیں کیا.میں اس وقت صرف

Page 386

خطبات محمود 386 $1944 کالج کے لیے جماعت کے دوستوں کو تحریک کرتا ہوں کہ اپنے لڑکے کالج میں تعلیم حاصل کرنے کے لیے بھیجو اور کالج کے اخراجات کے لیے روپیہ بھی دو.ابھی تک لڑکے بہت کم آئے ہیں اور چندہ بھی ضرورت سے بہت تھوڑا اکٹھا ہوا ہے.اللہ تعالیٰ تمہاری شستی کو دور کرے اور تمہارے لیے بھی اور میرے لیے بھی اپنے فضلوں کے دروازے کھول دے".(الفضل 31 مئی 1944ء) 1 : يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا لَقِيتُمُ الَّذِيْنَ كَفَرُوا زَحْفًا فَلَا تُوَلُّوهُمُ الْأَدْبَارَةَ وَ مَنْ يُولِهِمْ يَوْمَن دُبُرَةً إِلَّا مُتَحَرفًا لِقِتَالٍ أَوْ مُتَحَها إلى فِئَةٍ فَقَدْ بَاءَ بِغَضَبٍ مِنَ الله : وَمَأْويهُ جَهَنَّمُ وَبِئْسَ الْمَصِيرُ (الانفال 16-17) 2 : متی باب 8 آیت 20 3 : گودن: کند ذہن.نادان احمق 4 :ابن ماجه ابواب الفتن بَابِ خُرُوحِ الْمَهْدِي : متی باب 12 آیت 46 تا50 6 بار : بوچھاڑ، بلغار، لگاتار.باڑ مار نا (محاورہ) گولیوں کی بوچھاڑ کر نل ( اردو لغت تاریخی اصول پر جلد دوم ترقی اردو بورڈ کراچی) 1 : تفسیر رازی جلد 29 صفحه 307 مطبوعہ طہران 1328ھ

Page 387

$1944 387 (21) خطبات محمود اطاعت ، اطاعت، اطاعت خلاصہ ہے دین کا فرموده 2 / جون 1944ء) تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: "دنیا میں ہر کام کے لیے کچھ رستے ہوتے ہیں اور اُن رستوں کے بغیر کسی جماعت کا ترقی کرنا بالکل ناممکن ہوتا ہے.قومی ترقی کے رستوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ جو قومی کارکن اور جماعتی خادم ہوں اُن کے اندر اطاعت اور فرمانبرداری کا مادہ پایا جائے.جب اطاعت اور فرمانبرداری کا مادہ پوری طرح نہ پایا جائے جماعتی کام کبھی ترقی نہیں کر سکتے.جماعتوں کے سرے ہمیشہ مضبوط ہاتھوں میں نہیں ہو سکتے.کبھی یہ ایسے ہاتھوں میں ہوتے ہیں جو مضبوط ہوتے ہیں اور کبھی ایسے ہاتھوں میں جو کمزور اور نرم ہوتے ہیں.جس وقت یہ رشتہ مضبوط دل والے آدمی کے ہاتھ میں ہو اطاعت سے گریز کرنے والے یا تو اپنا رویہ بدل لیتے ہیں یا علیحدہ کر دیے جاتے ہیں.مگر جب یہ رشتہ کسی ایسے آدمی کے ہاتھ میں ہو جو کمزور دل کا ہے ہو تو اُس وقت ایسے سرکش لوگ جماعتوں کو توڑنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں خواہ اُن کی نیتیں کیسی ہی نیک اور اعلیٰ کیوں نہ ہوں.پس جماعتی ترقی کے لحاظ سے اطاعت اور فرمانبرداری کا مادہ کارکنوں میں ہونا نہایت ہی ضروری ہوتا ہے.اسی لیے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے

Page 388

$1944 388 خطبات محمود كه مَنْ أَطَاعَ أَمِيرِى فَقَدْ أَطَاعَنِي وَمَنْ عَلى أَمِيرِى فَقَدْ عَصَانِي 1 یعنی جو میرے مقرر کردہ امیر کی اطاعت کرتا ہے وہ گویا میری اطاعت کرتا ہے اور جو میرے مقرر کردہ امیر کی نافرمانی کرتا ہے وہ میری نافرمانی کرتا ہے.مگر انسانی کمزوریوں میں جہاں اور نقائص ہوتے ہیں مثلاً جھوٹ، غیبت، شستی، کسل وغیرہ یا طنز و طعن کی بات کرنا وہاں بعض لوگوں میں یہ نقص بھی ہوتا ہے کہ وہ اطاعت سے گریز کرتے ہیں اور جب بھی انہیں کوئی حکم ہے ایسا دیا جاتا ہے جو اُن کی پسند کے خلاف ہوتا ہے تو وہ مقابلہ کے لیے کھڑے ہو جاتے ہیں.اس قسم کے لوگوں سے قوم کو کلی طور پر پاک کر نا تونا ممکن ہوتا ہے مگر اس کی برداشت کر لینا بھی ہے ناممکن ہے.بے شک ایک انسان کی عادت ہی ایسی ہو سکتی ہے اور وہ اپنی فطرت کے لحاظ سے ایسا کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ افسر کے احکام کو نہ مانے اور جب وہ کوئی حکم دے تو اس پر حملہ کرنے اور کاٹنے کی کوشش کرتا ہے.مگر جہاں وہ اپنی فطرت کے لحاظ سے مجبور ہے وہاں سلسلہ بھی مجبور ہے کہ اگر ایسا انسان اپنی اصلاح نہ کرے تو اُسے جماعتی کاموں سے علیحدہ کر دیا جائے.لوگ کہتے ہیں کہ فلاں آدمی کی طبیعت ہی ایسی ہے اور وہ مجبور ہے مگر جماعت بھی مجبور ہے کہ اگر وہ اپنی طبیعت کی اصلاح نہ کرے تو اُسے جماعتی کاموں سے علیحدہ کر دے.عدم اطاعت کی کئی وجوہ ہوتی ہیں.ایسا شخص کبھی تو ایسے خاندان سے تعلق رکھنے والا ہوتا ہے کہ جس کی لوگ عزت کرتے ہیں اور اس وجہ سے اُس کا دماغ خراب ہو چکا ہوتا ہے اور وہ سمجھتا ہے ہے کسی کو مجھے حکم دینے کا حق نہیں.کبھی اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ کسی بیماری کے نتیجہ میں ہے اس کی طبیعت میں چڑچڑا پن پیدا ہو چکا ہوتا ہے.کبھی اُس کے اندر غرور اور کبر کا مادہ ہوتا ہے ہ سمجھتا ہے کہ میں اتنا بڑا عالم اور عظمند انسان ہوں کہ کسی کو مجھے کوئی حکم دینے کا حق ہی نہیں.پھر بعض لوگ ایسی دماغی پریشانی میں مبتلا ہوتے ہیں کہ جو کام بھی ان کے سپرد کیا جائے میں ہ کہتے ہیں کہ جب تک اس کام کی باگ ڈور کلیہ میرے ہاتھ میں نہ دی جائے اور تمام اختیارات مجھے حاصل نہ ہوں کام ٹھیک طرح چل ہی نہیں سکتا.ہندوستان کے لوگوں میں بالخصوص یہ خرابی پائی جاتی ہے کہ جو کام بھی اُن کے سپرد ہو وہ چاہتے ہیں کہ تمام کے تمام اختیارات اُن کے ہاتھ میں ہوں.سندھ کی زمینوں کے بارہ میں میں نے اس کا خوب تجربہ کیا ہے.

Page 389

خطبات محمود 389 $1944 وہاں جس شخص کو مقامی ایجنٹ بنایا جائے وہ یہی کہتا ہے کہ اختیارات میرے ہاتھ میں نہیں پھر کام کس طرح ٹھیک طور پر چل سکتا ہے.اور اُس کی مراد اس سے یہ ہوتی ہے کہ مرکز نے جو اختیارات اپنے ہاتھ میں رکھے ہوئے ہیں وہ بھی جب تک ایجنٹ کے ہاتھ میں نہ دے دیے جائیں کام ٹھیک طرح نہیں چل سکتا.اور منیجر (MANAGER) یہ کہتے ہیں کہ جب تک اختیارات ایجنٹ کے ہاتھ میں ہیں کام ٹھیک نہیں ہو سکتا اختیارات ہمارے ہاتھ میں ہونے چانمیں.مینجروں کے بعد منشی ہوتے ہیں.وہ کہتے ہیں کہ اختیارات تو منیجروں کے ہاتھ میں ہیں کام کیسے چلے.تمام خرابی اسی لیے ہے کہ اختیارات منیجروں کے سپر دہیں.اور ہاری کہتے ہیں کہ ہمیں آزادی کے ساتھ کام کرنے دیں پھر دیکھیں کیسا اچھا کام ہوتا ہے.اور اصل بات یہ ہے کہ سب کے دماغ پریشان ہیں.نہ ایجنٹ کا دماغ ٹھیک ہے نہ منیجر کا، نہ منشی کا ٹھیک ہے اور نہ ہاری کا.ہندوستان میں یہ عام مرض ہے کہ جو بھی کسی کام پر مقرر کیا جائے وہ کہتا ہے کہ سارے اختیارات مجھے مل جائیں تب کام ٹھیک طور پر چل سکتا ہے ورنہ نہیں.حالانکہ نظام کے معنے یہ ہوتے ہیں کہ اختیارات تقسیم ہو جائیں.مگر ہر شخص چاہتا یہ ہے کہ تمام اختیارات اُس کے ہاتھ میں ہوں.پھر اس کے الٹ ایک اور بات بھی ہے.جس طرح ہر ماتحت کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ تمام اختیارات مجھے مل جائیں اسی طرح ہر افسر یہ کوشش کرتا ہے کہ تمام اختیارات اپنے ہاتھ میں رکھے.جس طرح ہر ماتحت اپنے اوپر والے کے اختیارات چھینا چاہتا ہے ہے اسی طرح ہر اوپر والے کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ سب اختیارات اپنے ہاتھ میں رکھے.میں نے دیکھا ہے کہ ایک عرصہ تک اصلاح کی صورت رہنے کے بعد پھر یہ مرض لسلہ کے بعض کارکنوں میں پیدا ہونے لگا ہے.آج سے 15، 20 سال پہلے ایسی خرابی پیدا ہوئی تھی مگر وہ دبانے سے دب گئی.لیکن اب پھر کچھ نوجوان ایسے ہیں جو حکم نہیں مانتے اور ہے سرکشی کرتے ہیں.جس طرح جب کسی جانور کو چھیڑا جائے تو وہ دولتی مارتا ہے اسی طرح ان کی حالت ہے.جب انہیں کوئی حکم دیا جائے تو وہ دولتی مارنے اور کاٹنے کی کوشش کرتے ہیں.ان کا کلام غیر شریفانہ اور ناشائشتہ ہوتا ہے.انہیں میں نصیحت کرتا ہوں کہ وہ اپنی اصلاح کریں اور اطاعت و فرمانبرداری کی عادت ڈالیں.اور میں افسروں کو بھی نصیحت کرتا ہوں

Page 390

$1944 390 خطبات محمود کہ وہ بھی سیدھا راستہ اختیار کیا کریں.وہ صاف کہہ دیں کہ مجھے یہ حکم دینے کا اختیار ہے اور میں یہ حکم دیتا ہوں.اگر مانتے ہو تو مانو ورنہ انکار کر دو اور پھر ایسے موقع پر بزدلی نہ دکھانی چاہیے اور ایسے لوگوں کے متعلق فوزا فیصلہ کر دینا چاہیے.مخط و کتابت پر وقت ضائع کرنے کی بینی ضرورت نہیں.کیونکہ وہ جواب دہ ہیں اپنے افسروں کے سامنے، اپنے ماتحتوں کے سامنے نہیں.صدر انجمن احمد یہ میرے سامنے ذمہ دار ہے، ناظر صدر انجمن احمدیہ کے سامنے ذمہ دار ہیں، ان کے ماتحت مجالس یا افسر اُن کے سامنے ذمہ دار ہیں اپنے ماتحتوں کے سامنے نہیں.پس ایسی صورت میں کسی افسر کو خط و کتابت پر وقت ضائع کرنے کی ضرورت نہیں.وہ صاف کہہ دے کہ یہ میرا اختیار ہے اور میں یہ حکم دیتا ہوں اور اس کی تعمیل ضروری ہے.ہاں یہ درست ہے کہ وہ ماتحت اُس حکم کے خلاف اپیل کر سکتا ہے.مگر ھم ملتے وقت اس کا ہے فرض ہے کہ اس حکم کی تعمیل کرے.اس کے بعد اگر وہ سمجھتا ہے کہ اس حکم کا دینا افسر کے ہے اختیار میں نہ تھا تو وہ اس کی اپیل کر سکتا ہے.لیکن اگر کوئی انکار کرتا ہے تو فورا اس کے متعلق فیصلہ کیا جائے لٹکانے کی ضرورت نہیں.یہ بھی بزدلی کی بات ہوتی ہے کہ ماتحت کی بات سن کر فیصلہ نہ کیا جائے اور بحث اور دلائل میں پڑا جائے.اس کے بعد وہ کارکن یا تو حکم کی تعمیل کرے گا اور کام کرے گا یا پھر کام چھوڑ دے گا.یا یہ بھی ہو سکتا ہے کہ وہ حکم مان لے مگر افسروں کے پاس اپیل کرے.اگر اپیل کا فیصلہ اس کے حق میں ہو تو پھر افسر کا فرض ہے کہ وہ اپنی اصلاح کرے.اِس سال تعلیم الاسلام ہائی سکول کا نتیجہ بہت خراب نکلا ہے.سال بھر میرے پاس ایسی شکایات آتی رہی ہیں کہ اساتذہ آپس میں لڑتے جھگڑتے رہتے ہیں اور ہیڈ ماسٹر سے تعاون نہیں کرتے اور یہی وجہ ہے کہ نتیجہ سخت خراب نکلا ہے.استاد اپنی تنخواہیں بھی لیتے رہے ہیں، اپنے عہدوں پر بھی قابض رہے ہیں مگر کام دیانتداری سے نہیں کرتے رہے اور انہوں نے نوجوانوں کی عمریں خراب کر دی ہیں.وہ اس بات پر بہت خوشی کا اظہار کرتے ہیں کہ سکول کی بلڈنگ نہایت شاندار ہے، فلاں انسپکٹر اسے دیکھ کر بہت خوش ہوا اور اُس نے کہا کہ ایسی شاندار بلڈ نگ سارے پنجاب میں کسی اور سکول کی نہیں.مگر اس میں خوشی کی کونسی بات ہے میں

Page 391

$1944 391 خطبات محمود اگر استاد نالائق ہیں اور وہ قوم کے نوجوانوں کی عمریں تباہ کرتے ہیں.یہ لوگ تو سلسلہ کے کار کن ہیں اور اس کام کو دیانت داری کے ساتھ کرنے کی صورت میں ان کے لیے اللہ تعالیٰ کی طرف سے جنت کا وعدہ ہے.اِس خدمت کا معاوضہ صرف وہ تنخواہ ہی نہیں جو ان کو ملتی ہے بلکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے انعامات کا وعدہ بھی ہے.مگر وہ اطاعت اور فرمانبر داری اُن لوگوں جتنی بھی نہیں کرتے جو صرف تنخواہ کے لیے کام کرتے ہیں.جو لوگ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے جنت اور انعامات کے وعدوں کے باوجود اور متقی، مخلص اور مومن کہلانے کے باوجو د اوقات کو ضائع کرتے اور اپنے لڑائی جھگڑوں میں قوم کے نوجوانوں کی عمریں تباہ کرتے ہیں ان سے زیادہ بے ایمان کون ہو سکتا ہے.انہوں نے دولتیاں مار مار کر ثابت کر دیا ہے کہ بعض انسان جانوروں سے بھی بدتر ہوتے ہیں جیسا کہ قرآن کریم نے فرمایا أولياكَ كَالأَنْعَامِ بَل هُم أَضَلُّ 2 اور انہوں نے اپنے عمل سے ثابت کر دیا کہ واقعی بعض انسان جانوروں سے بھی بدتر ہوتے ہیں.میں ایسے لوگوں کو پھر متنبہ کرتا ہوں جیسا کہ تھوڑا ہی عرصہ ہوا میں پہلے بھی توجہ ہے دلا چکا ہوں کہ سلسلہ مقدم ہے سب انسانوں پر.سلسلہ کے مقابلہ میں کسی انسان کا کوئی لحاظ نہیں کیا جائے گا.خواہ وہ کوئی ہو.حتی کہ اگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا بیٹا بھی مجرم ہو تو اُس کا بھی لحاظ نہیں کیا جائے گا.کوئی انسان بھی سلسلہ سے بالا نہیں ہو سکتا.اسلام اور قرآن محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بھی بالا ہیں.اسی طرح احمدیت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے بھی بالا ہے.اسلام اور احمدیت کے لیے اگر ہمیں اپنی اولادوں کو بھی قتل کرنا پڑے تو ہم اپنے ہاتھوں سے قتل کر دیں گے.لیکن سلسلہ کو قتل نہ ہونے دیں گے.پس تم اپنے اندر سلسلہ کی صحیح اطاعت اور فرمانبرداری کا مادہ پیدا کرو.اگر تم چاہتے ہو کہ خدا تعالیٰ کا فضل تم پر نازل ہو، اگر تم چاہتے ہو کہ بے دینوں کی موت نہ مرو اور ایسے مقام پر کھڑے نہ ہو کہ موت سے پہلے اللہ تعالیٰ تم کو مرتدین میں داخل کر دے تو اپنے اندر صحیح اطاعت اور فرمانبرداری کا مادہ پیدا کرو.احمدیت یقیناً خدا تعالیٰ کی طرف سے ہے.احمدیت ایک ایسی دھار ہے کہ جو بھی اس کے سامنے آئے گا وہ مٹادیا جائے گا.یہ تلوار کی دھار ہے اور جو بھی اس کے سامنے کھڑا ہو گا وہ ٹکڑے ٹکڑے کر دیا جائے گا.خدا تعالی ہے

Page 392

خطبات محمود 392 $1944 جس سلسلہ کو قائم کرنا چاہے اُس کی راہ میں جو بھی کھڑا ہو وہ مٹا دیا جاتا ہے.اور یہ سلسلہ چونکہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ہے اس لیے اس کے مقابلہ میں کسی انسان کی پروا نہیں کی جائے گی.خواہ وہ کوئی ہو، خواہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا بیٹا کیوں نہ ہو.خواہ وہ میرا بیٹا کیوں نہ ہو.سلسلہ مقدم اور غالب ہے ہر انسان پر.پس میں نے پھر ایک دفعہ کھول کر اس بات کو بیان کر دیا ہے تا کوئی یہ نہ کہہ سکے کہ غفلت ہو گئی اور خیال نہ رہا.خوب یاد رکھو کہ اطاعت ، اطاعت، اطاعت خلاصہ ہے دین کا.جو شخص افسر کی اطاعت نہیں کرتا وہ سمجھ لے کہ اس کی نمازیں اور اُس کے روزے اور اُس کا ایمان اُسے کوئی فائدہ نہ دے سکے گا.وہ کفر کی ہے سرحد پر کھڑا ہے اور ایک دھکے سے کافروں میں جاگرے گا اور اُس کی نمازیں اور اس کے روزے اور اس کی زکوۃ اور اُس کے صدقات اُس کے کسی کام نہ آسکیں گے.جو شخص نمازیں پڑھتا ہے ، چندے دیتا ہے، زکوۃ ادا کرتا ہے، صدقات کرتا ہے اور دوسری نیکیاں بجالاتا ہے مگر اُس میں یہ نقص ہے کہ وہ اطاعت اور فرمانبرداری نہیں کرتا تو وہ ایسے مقام پر کھڑا ہے جہاں ابلیس تھا.ابلیس بھی اپنے آپ کو موحد سمجھتا تھا.مگر چونکہ اُس نے نشوز اختیار کیا اور نافرمانی کا مادہ اُس کے اندر تھا اس لیے ایک دن وہ کچھ اور تھا اور دوسرے دن کچھ اور ہو گیا.مولوی محمد حسین بٹالوی صاحب نے بھی بہت خدمات کی تھیں.اِس لیے اُن کو خیال تھا کہ مجھ سے بڑا کون ہو سکتا ہے.جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے دعویٰ کیا تو انہوں نے کہا کہ میری خدمات بہت ہیں اگر اللہ تعالیٰ نے کسی کو مامور کرنا ہو تا تو میں اس کا مستحق تھا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ میں بھی ایک شخص زید نام تھا جو شرک کا سخت مخالف تھا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مجلس میں ایک دفعہ اُسے کھانا پیش کیا گیا تو اُس نے کہا کہ میں مشرکوں کا کھانا نہیں کھایا کرتا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ میں نے شرک کبھی نہیں کیا.تو وہ شخص شرک کا مخالف تھا مگر جب رسول کریم میں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دعویٰ کیا وہ منکر ہو گیا.کسی نے اُس سے کہا کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تو وہی تعلیم دیتے ہیں جو آپ دیا کرتے تھے.یعنی لا إِلهَ إِلَّا اللهُ تو اس نے کہا کہ اگر خدا تعالیٰ نے کسی کو نبی بنا کر بھیجنا ہوتا تو مجھے نہ بناتا.تو وہ انسان جو اطاعت اور

Page 393

$1944 393 خطبات محمود فرمانبر داری نہیں کرتا اور سلسلہ کے کام میں تعاون نہیں کرتا وہ اس خطرہ میں ہے کہ ایمان سے ہاتھ دھو بیٹھے اور بے دینوں اور کافروں کی موت مرے.پس میں آج پھر یہ نصیحت کرتا ہوں کہ اپنے اندر اطاعت اور فرمانبرداری کی روح پیدا کرو.جب تک یہ روح زندہ رہے گی احمدیت زندہ رہے گی.لیکن جب یہ روح مٹ گئی اور نشوز اور سرکشی کی عادت پیدا ہو گئی وہ دن اگر تو اللہ تعالیٰ کے نزدیک بھی سلسلہ کے خاتمہ کا من دن ہو گا تو تم اس کا گلا گھونٹنے والے ہوگے.لیکن اگر وہ دن اللہ تعالیٰ کے نزدیک سلسلہ کے خاتمہ کا نہ ہو گا تو اللہ تعالی کے ہاتھ تمہارا گلا گھونٹ دیں گے.دوسری بات جس کے متعلق میں جماعت کو توجہ دلانا چاہتا ہوں یہ ہے کہ میں نے پچھلے دنوں بعض تحریکات کی تھیں اور اُن کے متعلق جماعت کی حالت کو دیکھ کر یوں معلوم ہوتا ہے کہ جس حد تک جماعت نے قربانی کا عزم کیا تھا شاید عزم کی آخری حد پہنچ گئی ہے.ان تحریکات کے جواب میں رفتار بہت سست ہے اور جوں کی چال چلی جا رہی ہے اور یوں معلوم ہوتا ہے کہ گویا جسم تھکے ہوئے ہیں.اس میں شبہ نہیں کہ جب ایک شخص فیصلہ کر لیتا ہے ہے کہ میں فلاں جگہ تک چلوں گا جب وہ جگہ آجاتی ہے تو اُس کی رفتار میں شستی پیدا ہو جاتی ہے.مگر یہی چیز ہماری راہنمائی کا موجب بن سکتی ہے.انتہائی قربانیوں کے مقام پر پہنچ جاناہی میں بتاتا ہے کہ اب ہمیں اپنے ارادے اور بلند کرنے چاہیں اور وہ وقت اب ہمارے لیے آگیا ہے.اب ہمیں قربانیوں کے متعلق اپنے معیار کو اور بلند کرنا ہو گا.اب بار بار قربانی ہوگی.جانوں کی بھی اور اموال کی بھی.بے شک جماعت نے بہت قربانی کی ہے.ایسی قربانی کہ جس کی مثال اور کسی قوم میں نہیں مل سکتی.مگر اب وقت ایسا آگیا ہے کہ ہمیں قربانیوں کے معیار میں کو اور بلند کرنا پڑے گا.بعض ایسے کام شروع کیے گئے ہیں کہ لاکھوں کا خرچ بڑھ گیا ہے.میرا خیال ہے کہ اس سال چار پانچ لاکھ روپیہ کا خرچ بڑھ گیا ہے.کالج جاری کر دیا گیا ہے، سائنس انسٹی ٹیوٹ بھی کھولی جارہی ہے.کالج کے سلسلہ میں بلڈ نگ وغیرہ کی بھی ضرورت ہے اور ان سب کے لیے چار پانچ لاکھ روپیہ کی ضرورت ہو گی.اس کے یہ معنے نہیں کہ جماعت پر زائد بوجھ ڈال دیا گیا ہے.بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالی ہمیں قربانیوں کے پہلے معیار سے

Page 394

$1944 394 خطبات محمود آگے بڑھانا چاہتا ہے اور جو کہے گا کہ میں آگے نہیں بڑھوں گا بلکہ کھڑا ہی رہوں گا وہ کھڑا نہ رہ سکے گا بلکہ گرے گا.نظام قدرت میں کوئی چیز کھڑی نہیں رہ سکتی بلکہ حرکت کرتی ہے.پہلے خیال کیا جاتا تھا کہ بعض ستارے ساکن ہیں مگر اب اس خیال کی تردید ہو چکی ہے اور ثابت ہے ہو گیا ہے کہ سب چل رہے ہیں.دنیا میں کوئی چیز کھڑی نہیں حتی کہ ہمارے جسم کے ذرات بھی چکر کھاتے ہیں.ہم جو روٹی کھاتے ہیں، جو چائے پیتے ہیں، جو چیز بھی استعمال کرتے ہیں میں ج سب میں ایک حرکت ہے.اگر یہ حرکت نہ ہو تو وہ طاقت مٹ جائے جس سے وہ قائم ہیں.ہم یہاں بیٹھے ہیں مگر جتنی دیر میں خطبہ ختم ہو گاز مین ایک لمبا فاصلہ طے کر جائے گی.اگر چہ ہم اس حرکت کو محسوس نہیں کرتے مگر حرکت ہو ضرور رہی ہے.جیسے ایک شخص لاہور سے گاڑی پر بیٹھتا ہے وہ خود بیٹھا ہی رہتا ہے مگر امر تسر پہنچ جاتا ہے.کیونکہ اس کی حرکت می متوازی ہو جاتی ہے ریل کی حرکت کے.یہی وجہ ہے کہ اسے معلوم نہیں ہوتا کہ وہ حرکت کر رہا ہے.دو گھوڑے اگر بالکل متوازی دوڑتے جائیں تو ان پر جو سوار ہوں گے وہ اگر چہ اوپر ہے بیٹھے ہوں گے اور ساکن نظر آئیں گے، وہ آپس میں باتیں بھی کر رہے ہوں گے گویا بیٹھے ہوئے ہیں مگر دراصل وہ حرکت کر رہے ہوں گے.تو خدا تعالیٰ کے کاموں میں کوئی ساکن نہیں رہ سکتا.اسی طرح کسی شخص کا ایمان بھی ایک جگہ پر ساکن نہیں رہ سکتا.جس وقت وہ کھڑا ہو گا گرے گا.اس وقت قربانیوں کا جو مطالبہ کیا جا رہا ہے اس کا یہ مطلب نہیں کہ جماعت پر بوجھ ڈالا جارہا ہے.بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالی چاہتا ہے کہ ہم قربانی کے یہ متعلق اپنے معیار کو بلند کریں.پہلے ہم نے اگر یہ فیصلہ کر رکھا تھا کہ دس فیصدی تک قربانی ہے کریں گے تو اب اللہ تعالیٰ یہ چاہتا ہے کہ اس معیار کو بڑھا کر بیس فیصدی کر دیں.اگر پہلے ہمارا معیار بیس فیصد ی تھا تو اس کے یہ معنے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے اسے قبول کر لیا اور اب وہ چاہتا ہے کہ اسے بڑھا کر چالیس فیصدی کر دیں.تو مومن سے جب بھی زیادہ قربانی کا ہے مطالبہ کیا جائے وہ سمجھتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے میری پچھلی قربانی کو قبول کر لیا ہے اور اب وہ چاہتا ہے کہ ہم اپنے ایمان میں ترقی کریں.پس میں جماعت کو ہوشیار کرتا ہوں کہ جو تحریکیں کی گئی ہیں ان کی طرف پوری مہینہ

Page 395

$1944 395 خطبات محمود توجہ کریں.میں نے مجلس مشاورت کے موقع پر غرباء کے لیے غلہ فراہم کرنے کی تحریک کی تھی.جماعتوں کے نمائندے اُس موقع پر موجود تھے.مگر معلوم نہیں کہ وہ سوئے ہوئے تھے کہ واپس جا کر انہوں نے اِس طرف کوئی توجہ نہیں کی.قادیان کی جماعت نے بھی اور باہر کی جماعتوں نے بھی اس میں بہت کم حصہ لیا ہے.میں نے خود پچھلے سال سو من غلہ اس تحریک میں دیا تھا.مگر اِس سال دو سو من دیا ہے.اسی طرح ملک عمر علی صاحب نے اس سال دوسو من غلہ دیا ہے.مگر باقی دوستوں نے اِس طرف بہت کم توجہ کی ہے.اور جنہوں نے اِس تحریک میں حصہ لیا بھی ہے اُنہوں نے دس دس یا پندرہ پندرہ سیر گندم اس تحریک میں دی ہے حالانکہ مومن کے ایمان میں ترقی کے ساتھ قربانی کا معیار بڑھنا بھی ضروری ہے.یہی حال دوسرے چندوں کا ہے.ان میں بھی بہت کو تا ہی ہو رہی ہے.کالج کے متعلق چندہ کو اگر دیکھا تو جائے تو ایک درجن سے کم آدمی ایسے ہیں جن کا چندہ چالیس ہزار روپیہ ہے.باقی جماعتوں نے اس میں بہت ہی کم حصہ لیا ہے.ان چند آدمیوں کا چندہ اگر نکال کر باقی کو جماعتوں پر پھیلایا جاۓ تو معلوم ہو سکتا ہے کہ اس میں کس قدر کوتاہی کی گئی ہے.پشاور کی ایک جماعت ہے جس نے جماعتی لحاظ سے معقول حصہ لیا ہے اور اڑھائی ہزار روپیہ دیا ہے.باقی کسی جماعت نے ہم جماعتی لحاظ سے اپنا فرض ادا نہیں کیا.ان میں سے بعض افراد نے اچھا حصہ لیا ہے.اسے اگر الگ کر دیا جائے تو جماعتی چندہ بہت کم رہ جاتا ہے.کلکتہ کے ایک دوست نے پانچ ہزار روپیہ دیا ہے ہے مگر وہ ایک فرد ہیں جماعت ان کے چندہ کو اپنے چندہ میں شمار کر کے یہ نہیں کہہ سکتی کہ ہے اس نے اپنا فرض ادا کر دیا.کلکتہ کی جماعت کا بحیثیت جماعت کالج کا چندہ نہ ہونے کے برابر ہے.ایسے افراد کے چندوں کو شمار کر کے جماعتوں کا یہ سمجھ لینا کہ انہوں نے کافی رقم دے دی ہے اس کی مثال ایسی ہی ہے جیسے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سنایا کرتے تھے کہ ایک عورت کسی شادی میں شامل ہوئی.وہ بخیل تھی مگر اس کی بھاوج حوصلہ والی تھی.اس عورت می نے ایک روپیہ کا تحفہ دیا مگر اس کی بھاوج نے نہیں روپے کا.جب وہ واپس آئیں تو کسی نے اس کی بخیل عورت سے پوچھا کہ تم نے شادی کے موقع پر کیا خرچ کیا؟ اس نے کہا کہ میں نے اور بھاوج نے اکیس روپے دیے ہیں.تو بعض افراد کے خاص چندوں کو جماعتوں کا اپنی طرف ہے

Page 396

خطبات محمود 396 $1944 منسوب کرنا ایسا ہی ہے جیسا اس بخیل عورت کا یہ کہنا کہ میں نے اور بھاوج نے اکیس روپے دیے ہیں.ان چندوں کو نکال کر اگر دیکھا جائے تو جماعتوں کی آنکھیں گھل جائیں کہ انہوں نے کتنی کو تاہی کی ہے.مجلس مشاورت کے موقع پر میں نے توجہ دلائی تھی کہ غرباء کے لیے غلہ کی تحریک بہت اہم ہے.میں نے بتایا تھا کہ سرگودھا، لائلپور ، منٹگمری اور ملتان کے اضلاع سے اگر زمین کے لحاظ سے بھی چندہ لیا جائے تو کافی غلہ جمع ہو سکتا ہے.جس شخص کی ایک مربع زمین ہو وہ بڑی آسانی سے من ڈیڑھ من غلہ اس تحریک میں دے سکتا ہے.جس کی زمین ایک مربع ہو وہ چھ سات کیلے گندم ضرور کاشت کرتا ہے اور اگر اوسط پیداوار فی کیلہ نہیں من ہے بھی سمجھ لی جائے تو گویا اس کی گل گندم 120 یا 140 من ہو گی اور اتنی گندم میں سے من ڈیڑھ من اس تحریک میں دے دینا کوئی بڑی بات نہیں.ایک یا ڈیڑھ فیصدی پیداوار کا غرباء کے لیے دے دینا بالکل معمولی بات ہے.اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ جب درختوں پر پھل آئیں یا کوئی فصل ہو تو غرباء کو فراموش نہ کرو اور ان کا حصہ ادا کرو.مگر معلوم ہوتا ہے مجلس مشاورت میں جو نمائندے آئے تھے وہ سوئے ہوئے تھے جب میں نے یہ تحریک کی تھی.انہوں نے واپس جاکر اس طرف کوئی توجہ نہیں کی اور نہ کوئی کام کیا اور نہ رپورٹ بھیجی اور نہ کوئی چندہ بھجوایا.حالانکہ ان اضلاع میں احمدیوں کی ملکیت قریباً ایک ہزار مربع اراضی ہو گی اور اگر فی مربع من ڈیڑھ من بھی چندہ وصول ہو تا تو بارہ تیرہ عو من ہو جانا چاہیے تھا.اگر ہے ایک من ہی فی مربع دیا جاتا اور نادہندوں کو بھی چھوڑ دیا جائے تو کم سے کم سات آٹھ سو من خلہ پھر بھی ہو جانا چاہیے تھا.مگر صرف اس وجہ سے کہ میں نے دوبارہ اعلان نہیں کیا اس کے طرف بہت کم توجہ کی گئی ہے.حالانکہ جب ایک دفعہ توجہ دلا دی جائے تو مومن کا فرض ہے کہ خود خیال رکھے.جیسا کہ میں بیان کر چکا ہوں کالج کے متعلق چندہ کا بھی یہی حال ہے اور جماعتی چندوں کی مقدار بہت کم ہے.ہاں پشاور اور حیدر آباد کی جماعتیں مستقلی ہیں اُن کا چندہ جماعتی لحاظ سے ایک خاص مقدار میں آیا ہے.باقی قادیان کی بھی اور باہر کی جماعتوں نے بھی بہت کو تاہی کی ہے اور جماعتی لحاظ سے بہت کم توجہ کی ہے.اگر کئی سو افراد کی جماعت سے

Page 397

خطبات محمود 397 $1944 سو دو سو روپیہ چندہ آ بھی گیا تو یہ نہیں کہا جا سکتا کہ اُس نے اپنا فرض ادا کر دیا.پس میں جماعتوں کو پھر توجہ دلاتا ہوں.اب معلوم ہوتا ہے کہ پہلا قربانی کا معیار ہو چکا ہے اور وقت آگیا ہے کہ اگر سلسلہ کا موجودہ بار اٹھانا ہے تو جماعت ایمان کا معیار بڑھائے.ایمان کے سابق معیار پر اب جماعت نئے بوجھوں کو نہیں اٹھا سکتی.1944ء کا احمدی 1943ء کے احمدی سے ایمان میں بڑھے گا تب وہ اپنی ذمہ داریوں کو پورا کر سکے گا ور نہ ناکام ہو کر ذلت کا منہ دیکھے گا.پس دوستوں کو چاہیے کہ نئے ارادے اور نئے عزائم پیدا کریں ورنہ خطرہ ہے کہ خدا نخواستہ 1922ء والی حالت نہ ہو جائے.جبکہ صدر انجمن ایسی مقروض ہو گئی تھی کہ کئی سالوں تک سخت مشکلات میں کام کرنا پڑا اور کئی سال تک یہ بوجھ نہ اتر سکا.مگر میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے امید رکھتا ہوں کہ 1922 ء کا احمدی وہ نہ تھا جو 1944ء کا ہے اور آج کا ایمان 1922ء کے ایمان سے بہت زیادہ ہے.مجھے خدا تعالیٰ کے فضل سے یہ یقین ہے کہ ویسی حالت پھر نہ ہو گی.کیونکہ خدا تعالیٰ نے احمدیوں سے اس سال ایک نیا عہد لیا ہے.خدا تعالیٰ دوستوں کو توفیق دے کہ وہ اپنے ایمان کے اونچے معیار کے مطابق قربانی کے معیار کو بھی بلند کر سکیں.حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں نِيَّةُ الْمُؤْمِنِ خَيْرٌ مِنْ عمده یعنی مومن کی نیت اس کے عمل سے اونچی ہوتی ہے.اس کے مطابق خدا تعالیٰ ہے جماعت کو قربانیوں کے معیار کو بلند کرنے کی توفیق عطا فرمائے تا قربانی کا جو موقع بھی آئے ہے ہمارے دلوں کی خواہش ہمیشہ ہماری قربانی سے بالا ہو".(الفضل 15 جون 1944ء) 1 : بخاری کتاب الاحكام بَاب قَوْلِ الله تَعَالى أَطِيْعُوا اللَّهَ وَأَطِيْعُوا الرَّسُوْلَ 2 : الاعراف: 180 4 : كُلُوا مِنْ ثَمَرِةٍ إِذَا أَثْمَرَ وَأَتُوا حَقَّهُ يَوْمَ حَصَادِهِ (الانعام : 142) : المعجم الكبير جلد 6 صفحہ 228 مطبوعہ عراق 1979ء میں یہ الفاظ حضر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب ہیں.

Page 398

$1944 398 ------------------- (22) خطبات محمود دینی علم نہ ہونے اور عربی زبان سے ناواقفیت کی وجہ سے دقتیں (فرموده 9 جون 1944ء بمقام ڈلہوزی) تشہد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: "چونکہ قرآن کریم عربی زبان میں ہے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی احادیث بھی عربی میں ہیں اور عرب اس وقت سب سے پیچھے ہیں تعلیم میں، دین میں اور دین پر عمل کرنے میں اور زیادہ تر مقابلہ جو اسلام کا غیر مذاہب سے ہو رہا ہے وہ دوسرے ممالک خاص کر ہندوستان میں ہو رہا ہے.عرب میں دجالی فتنے اتنے زور شور سے داخل نہیں ہوئے جتنے زور سے دوسرے ممالک میں داخل ہوئے ہیں.بوجہ عربوں میں تعلیم کی کمی کے اور بوجہ اس ملک کے غیر ذی زرع ہونے کے غیر قوموں کی توجہ کو اس نے اپنی طرف اس طرح نہیں کھینچا جس طرح دوسرے زرخیز ممالک نے کھینچا ہے.اس وجہ سے وہ قو میں جو مختلف رنگوں میں اسلام پر حملہ آور ہیں اس کثرت سے اس ملک میں داخل نہیں ہوئیں جس کثرت سے دوسرے ممالک میں داخل ہوئی ہیں.اس لیے اسلام اور غیر اسلام کی جنگ کا میدان

Page 399

$1944 399 خطبات محمود اس زمانہ میں عرب نہیں بلکہ دوسرے ممالک ہیں اور خصوصاًہند وستان ہے کیونکہ ہندوستان ہی اس زمانہ میں سب مشہور مذاہب کا مرکز بنا ہوا ہے.دوسرے ممالک میں یہ بات نہیں پائی جاتی.مثلاً مصر ہے.وہ اتنا دور ہے ہندو مذہب سے اور وہ اتنا دور ہے ہندو تہذیب سے کہ وہاں ہندو دھرم کی اسلام سے جنگ نہ ہو سکتی تھی.اسی طرح مصر اتنا دور ہے بدھ مت سے اور اتنا دور ہے بدھ تہذیب سے کہ وہاں اسلام اور بدھ مت کا مقابلہ نہیں ہو سکتا تھا.بے شک بعض اور ممالک ایسے بھی ہیں جہاں اسلام کی غیر مذاہب سے جنگ ہو سکتی تھی مگر وہاں بھی سارے ادیان سے نہیں ہو سکتی تھی.ایسی جنگ صرف ہندوستان میں ہی ہو سکتی تھی اور ہورہی ہے.یہاں عیسائیت موجود ہے کیونکہ حکمران عیسائی ہیں.یہاں یہودی قوم کی بھی پرانی نسل اور کئی نئی نسلیں پائی جاتی ہیں.چونکہ ہندوستان ایک بہت بڑا ملک ہے اور زر خیز اور تجارتی ملک میں ہے اور یہودی تجارت پیشہ لوگ ہیں اور بڑے بھاری تجار ہیں اس لیے وہ ہندوستان میں آئے اور یہاں بس گئے.اسی طرح زرتشت مذہب بھی بحیثیت قوم ہندوستان میں پایا جاتا ہے اور ہے صرف ہندوستان میں ہی پایا جاتا ہے.سیر وسیاحت کے لیے اس مذہب کے لوگ کسی اور ملک میں چلے جائیں تو اور بات ہے مگر بحیثیت قوم یہ مذہب ہندوستان میں ہی پایا جاتا ہے.اسی طرح قدیم مذاہب میں سے ہندو دھرم ہے اور ہندوستان اِس کا مرکز ہے.پھر جین مت ہے اِس کا مرکز بھی ہندوستان میں ہی ہے.پھر بدھ مت ہے اس کا مرکز بھی ہندوستان ہی ہے.گو اور علاقوں کی طرف یہ مت ہندوستان کی نسبت زیادہ پھیل گیا ہے مگر ہندوستان کے ساتھ پہلے برما بھی شامل تھا اور برما میں اس مذہب کا بہت بڑا مرکز ہے.پس ہندوستان دنیا کے تمام معروف اور قدیم مذاہب کا یا تو مرکز ہے یا وہ کسی نہ کسی وجہ سے ہندوستان میں جمع ہو گئے ہیں.ہندو دھرم، بدھ مت، جین ازم اور پیار کی مذاہب کا تو ہے ہندوستان مرکز ہے.عیسائی کو یہاں کثرت سے نہیں لیکن ان کے حاکم ہونے کی وجہ سے یہ مذہب بھی ہندوستان میں آگیا.یہودی چونکہ تاجر لوگ ہیں وہ تجارت کی وجہ سے ہندوستان میں آگئے.اسلام تو ہندوستان میں ہے ہی.غرض جو مذاہب پرانی تہذیبوں کے مدعی ہیں یا دوسروں پر اپنی فوقیت کا دعویٰ رکھتے ہیں وہ ہندوستان میں موجود ہیں.گویا بہت سے تو ایسے

Page 400

خطبات محمود 400 $1944 مذاہب ہیں جن کا یا تو ہندستان مرکز ہے یا پھر وہ باہر سے ہندوستان میں آگئے ہیں.اس لیے اس زمانہ میں ہندوستان ہی ایک ایسا ملک ہے جہاں اسلام اور غیر مذاہب کی مکمل جنگ ہو سکتی تھی.ادھر ہندوستان ہی ایک ایسا ملک ہے جو عربی زبان سے بالکل بے بہرہ ہے.اگر کوئی محنت اور کوشش کر کے قرآن کریم اور احادیث پڑھ لے تو اور بات ہے ورنہ پنجابی جاننے والے، بنگالی جاننے والے ، مرہٹی جاننے والے، تلنگو جاننے والے اور ہندوستان کی دوسری زبانیں جاننے والے عربی زبان سے بہت دور ہیں کیونکہ یہ زبانیں عربی سے بہت دور ہیں.البتہ اردو کسی قدر عربی زبان کے قریب ہے.ان حالات میں ہندوستان کے مختلف علاقوں میں بسنے والے مسلمان دینِ اسلام سیکھنے کی آسانی میں سب سے پیچھے ہیں.بے شک چین میں بھی مسلمان پائے جاتے ہیں اور وہاں بھی ان کی کروڑوں کی تعداد ہے مگر پھر بھی ہندوستان کے می مسلمانوں کی تعداد کے برابر اُن کی تعداد نہیں اور نہ اور مذاہب کے لوگ مثلاً جینی، پارسی اور ہند و وہاں پائے جاتے ہیں.اس لیے خدا تعالیٰ نے اپنا مامور اس ملک میں بھیجا جو سارے مذاہب کا مرکز ہے اور وہ ہندوستان ہے.مگر ہمارے لیے سب سے زیادہ مشکل یہ ہے کہ بڑی محنت سے اور بڑی کوشش سے دین کی واقفیت حاصل ہو سکتی ہے.ورنہ زبان سے تعلق رکھنے والی جو آسانیاں ہوتی ہیں وہ ہندوستان میں رہنے والے لوگوں کو حاصل نہیں ہیں.نہ تو عرب سے ہندوستان کی سرحد ملتی ہے، نہ عربی تمدن ہندوستان میں پایا جاتا ہے، نہ ہندوستان کے لوگ عربی زبان جانتے ہیں.بلکہ ایسی زبانیں جانتے ہیں جو کسی وقت گو عربی زبان سے ہی نکلی ہوں کیونکہ عربی زبان انظم الانسہ ہے.مگر اس وقت ان زبانوں کا عربی سے اتنا بعد ہو چکا ہے کہ گویا ہے عربی سے ان کا بھی جوڑ ہوا ہی نہیں تھا.مرہٹی اور گجراتی زبانوں کے لہجے اور مالا باری اور تانگو میں زبان کے الفاظ عربی زبان کے سامنے رکھے جائیں تو کوئی نہیں کہہ سکتا کہ ان کا کوئی تعلق عربی زبان سے ہے."ڑ" اور "ڈ" کا اِن میں اتنا زور ہوتا ہے کہ عربی سے ان کا کوئی تعلق معلوم نہیں ہوتا.اس وجہ سے میں نے دیکھا ہے کہ ہندوستان میں جہاں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی صداقت پیش کرنے میں اور آپ کے سلسلہ کی اشاعت کرنے میں اور ہے مشکلات ہیں وہاں زبان عربی سے لوگوں کا ناواقف ہونا بھی بہت بڑی مشکل ہے.اسی طرح

Page 401

$1944 خطبات محمود 401 حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو ماننے اور آپ پر ایمان لانے والوں کی تربیت کرنا بھی بے حد مشکل ہے.عربوں کے لیے عربی جاننے کی وجہ سے دین سیکھنے میں بہت آسانی تھی.جب تک ہے اُن کے سامنے یہ سوال ہو تا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم بچے اور راستباز ہیں یا نہیں، قرآن خدا کا یہ کلام ہے یا نہیں، اُس وقت تک اُن کے لیے مشکل ہوتی تھی.لیکن جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت اُن پر واضح ہو جاتی اور وہ آپ پر ایمان لے آتے اور یقین کر لیتے کہ قرآن کریم خدا تعالی کا کلام ہے تو پھر قرآن کریم ان کے لیے بالکل کھلی ہوئی کتاب ہوتی اور مین رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ارشادات سمجھنا بالکل آسان ہوتا.وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مجلس میں بیٹھتے اور آپ جو کچھ فرماتے وہ عربی زبان میں بیان فرماتے ہے اور سننے والے بآسانی اسے سمجھ لیتے اور اس کے مطابق اپنے عقائد اور اعمال بنا لیتے اور اپنی اصلاح کرتے ہوئے روحانی مدارج حاصل کرتے جاتے.اس طرح اُن کے لیے کس قدر آسانی تھی.اسی طرح یہود کی زبان عبرانی تھی اور اُن میں جو انبیاء آئے وہ عبرانی میں باتیں کرتے تھے اور عبرانی میں ہی دین کی تعلیم دیتے تھے، اسی زبان میں اُن کی مقدس کتا بیں تھیں.مگر اس کے بعد خدا تعالیٰ نے ایک نیا طریق جاری کیا اور وہ یہ کہ عرب میں ایک ایسا نبی بھیجا جو ساری دنیا کے لیے تھا اور دنیا کی ساری زبانیں بولنے والے لوگوں کے لیے تھا.عرب اس کے پہلے مخاطب تھے اور عربوں نے خدا تعالیٰ کے اس انعام اور فضل کی جو قدر کی اور اس کے لیے جس قدر قربانیاں کیں کسی اور قوم میں اس کی مثال نہیں ملتی.مگر 50 ،60 سال سے زیادہ عرصہ تک عربوں کے پاس حکومت نہ رہی.بنو امیہ کی سوسال تک حکومت رہی.وہ خالص عرب تھے اور عربوں کی پرورش بھی کرتے رہے مگر انہوں نے عرب کو چھوڑ کر اپنا مرکز دمشق کو بنالیا.بنو عباس بھی عرب تھے مگر انہوں نے مرکز کے طور پر بغداد کو چنا اور ان پر عجمی اثر اتنا غالب تھا کہ عرب سے اُن کا تعلق نہ رہا.انہوں نے اکثر اپنے وزراء اور می جرنیل بھی بجھی مقرر کیے.غرض جہاں تک قومی حکومت کا تعلق ہے عربوں کا اس قدر جلدی میں منزل ہوا کہ شاید ہی کسی اور قوم کا ہوا ہو.جہاں نہایت قلیل عرصہ میں عربوں کی ترقی کی ہے پر

Page 402

خطبات محمود 402 $1944 مثال نہیں ملتی وہاں اتنے قلیل عرصہ میں ان کے تنزیل کی بھی مثال نہیں ملتی.جب قوم اٹھی تو چند ہی سال میں ساری دنیا پر چھا گئی.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد خلافت راشدہ کے ساڑھے پچیس سال کے عرصہ میں عربوں نے ساری دنیا کو روند ڈالا.مگر پھر 14،12 سال کے اندر اندر بحیثیت عرب ختم ہو گئے.بلکہ جس دن دمشق میں حکومت چلی گئی اسی دن ملک عرب بحیثیت حکومت ختم ہو گیا.حضرت علی اور بنو امیہ کے زمانہ میں نے بھی عربوں کا اثر تھا مگر اسے ملک عرب کا اثر نہیں کہا جاسکتا تھا.گویا عربوں نے 25 سال کے عرصہ میں جو کچھ فتح کیا تھا اسے 13،12 سال میں کھو دیا گیا.شام کا ملک تھا جہاں مسلمان ہے بادشاہ تھے مگر ان کا عرب مرکز نہ تھا.مختلف ممالک پر اس خاندان کی حکومت 98 سال کے قریب بنتی ہے.اگر اس خاندان کی حکومت کو عرب کی قومی حکومت بھی قرار دے دیا جائے میں اور اس کے زمانہ حکومت سے 25 سال کامیابی اور ترقی کے نکال دیے جائیں تو گویا73 سال کے عرصہ میں مسلمان بالکل ملیا میٹ ہو گئے.پھر جہاں تک عربی تمدن کا تعلق تھا وہ بھی بہت جلد ختم ہو گیا.بنو عباس عرب تھے مگر عرب بحیثیت قوم ان کی ترقی کے اثرات سے محروم تھے.عربوں نے سپین میں بڑی ترقی کی مگر اس کا اثر بھی عربوں پر نہ پڑا.عرب جو سپین میں جاتا وہ ذاتی طور پر فائدہ اٹھاتا مگر عرب کا ملک محروم تھا.اب خدا تعالیٰ نے عرب کو اسلام کے دوبارہ زندہ کرنے کے لیے نہ چنا بلکہ ہندوستان کو منتخب کیا کیونکہ عرب نے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو چنا اور مر گیا اُسی طرح جس طرح ایک ماں بچہ جننے کے بعد مر جائے تو دوسری شادی کی جاتی ہے.اب خدا تعالیٰ نے ہندوستان کو چنا اور ہندوستان اس بات کا حق دار تھا کہ اسے بچنا جاتا.کیونکہ جیسا کہ میں نے بتایا ہے ہندوستان ہی اس زمانہ میں تمام معروف مذاہب کی جولانگاہ ہے.مگر مشکل یہ ہے کہ ہندوستانیوں کے لیے عربی پڑھنا اور سمجھنا اتنا آسان نہیں ہے جتنا اہل زبان کے لیے ہے.اس وجہ سے بعض مشکلات ہیں.عوام الناس کا جہاں تک تعلق ہے اور جتھا بندی کا جہاں تک سوال ہے ایسی اصلاح اُسی وقت ہو سکتی ہے جب قوم میں عام علم ہو.اور ساری کی ساری

Page 403

$1944 403 خطبات محمود قوم میں علم پیدا کرنا اتنا مشکل کام ہے کہ جس کے لیے بڑی جدوجہد اور کوشش کی ضرورت ہے.ہندوستان کا تمدن، ہندوستان کی زبان اور ہندوستان کا علم چونکہ بالکل الگ ہے اس لیے سب کچھ نئے سرے سے سکھانا اور پڑھانا پڑتا ہے.اس وجہ سے جہاں یہ کام بہت بڑا اور بہت مشکل ہے وہاں عربی نہ جانے کی وجہ سے بعض لوگوں کو کئی رنگ میں ٹھوکریں بھی لگ جاتی ہیں اور اسی وجہ سے ہماری جماعت کے بعض لوگ اتنے لمبے عرصہ میں یہ بھی نہیں سمجھ سکتے کہ در حقیقت مامور اور نبی ایک ہی ہوتا ہے.پیغامی اسی بات سے ٹھو کر کھا گئے.انہوں نے مامور اور نبی کو الگ الگ سمجھ لیا.حالانکہ نبی اور مامور ایک ہی ہوتا ہے.جسے خدا تعالیٰ امر دے کر لوگوں کی اصلاح کے لیے کھڑا کرے وہی نبی، وہی رسول اور وہی مامور ہوتا ہے.ان میں فرق کرنے کی وجہ سے لوگوں کو دھوکا لگ جاتا ہے.اور میں دیکھتا ہوں عجیب لطیفہ یہ ہے کہ یہ بات نہ سمجھنے کی وجہ سے ایسے لوگ کھڑے ہو جاتے ہیں جو دعویٰ تو یہ کرتے ہیں کہ ہم مامور ہیں لیکن ساتھ ہی یہ بھی کہتے ہیں کہ ہم نبوت کا دروازہ بند سمجھتے ہیں.حالانکہ مامور اور نبی ایک ہی ہو تا ہے.یہ ہو نہیں سکتا کہ ایک شخص نبی ہو مگر مامور نہ ہو.یا نبی نہ ہو اور مامور ہو.جسے خدا تعالی لوگوں کی اصلاح کے لیے حکم دے کر کھڑا کرتا ہے وہی مامور ہوتا ہے اور اُسی کو نبی کہا جاتا ہے.خدا تعالیٰ جب ایک بندہ کو یہ حکم دے کر بھیجتا ہے کہ جاؤ جا کر لوگوں سے میرے احکام منواؤ تو لوگوں کے لیے بھی اُس کا یہ حکم ہوتا ہے کہ یہ جو کچھ کہتا ہے ہماری طرف سے کہتا ہے.تمہارا فرض ہے کہ اسے مانو.مگر کتنا تعجب ہے اس عقیدہ پر کہ گویا خدا تعالیٰ ایسے لوگوں سے یہ تو کہتا ہے کہ تم میری طرف سے مامور ہو اور تمہارا کام یہ ہے کہ لوگوں سے جاکر میرے احکام منواؤ.مگر لوگوں کے متعلق اُس کا یہ فیصلہ ہے کہ تم اسے مانو یا نہ میں مانو کوئی حرج کی بات نہیں ہے.یہ کتنی صاف اور واضح بات ہے کہ خدا تعالیٰ کبھی ایسا نہیں ہے کر سکتا.مگر عربی زبان نہ جاننے کی وجہ سے کئی لوگ اِس بات کے سمجھنے سے قاصر رہ جاتے ہیں.یعنی جسے مامور قرار دیتے ہیں اُس کے متعلق خیال کر لیتے ہیں کہ اُس کا نبی اور رسول ہونا ضروری نہیں ہے اور اُس کی بات کا مانا سب پر فرض نہیں ہے.حالانکہ کوئی نبی لوگوں کو خدا تعالیٰ کی کوئی خبر دے گا کس طرح، جب تک کہ خدا تعالیٰ اُسے بھیجے گا نہیں.اور جب و.

Page 404

$1944 404 خطبات محمود خدا تعالیٰ کا بھیجا ہوا ہو گا تو رسول بھی ہو گا.پھر یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ خدا تعالیٰ کسی کو رسول بنا کر بھیجے اور وہ لوگوں کو خدا تعالیٰ کی خبر نہ پہنچائے اور چپ چاپ گھر میں بیٹھ رہے.وہ نبی کیسا.وہ تو جہنمی ہو گا.بات یہ ہے کہ دنیا کی اصلاح کے لیے مامور ہونے والا جب خدا تعالیٰ کے سامنے کان سے کام لیتا ہے تو رسول ہوتا ہے، جب خدا کی بات پہنچانے کے لیے بندوں کے پاس بھیجا جاتا ہے اور زبان سے کام لیتا ہے تو نبی ہوتا ہے.گویا کان کے لحاظ سے رسول ہوتا ہے اور خدا تعالیٰ کی بات زبان کے ذریعہ پہنچانے کے لحاظ سے نبی.اور یہ ہو نہیں سکتا کہ ایک بندہ خدا تعالی کی بات کان سے نئے مگر لوگوں کے سامنے اس کی زبان نہ چلے.جسے خدا تعالی نبی کی بناتا ہے وہ زبان بھی ضرور ہلاتا ہے.ورنہ جو یہ دعوی کرے کہ مجھے خدا نے لوگوں کی اصلاح کے لیے بھیجا ہے مگر لوگوں کو خدا کی بات نہ پہنچائے وہ مفتری ہو گا نبی نہ ہو گا.یہ ساری ہے مشکلیں عربی زبان کے نہ سمجھنے کی وجہ سے پیدا ہوتی ہیں.اسی طرح جو شخص نبوت کا دعوی اس بناء پر کرتا ہے کہ خدا تعالی نے قرآن کریم می میں بیان کیا ہے کہ نبی آتے رہیں گے اُس سے پوچھنا چاہیے کہ تمہاری صداقت کے دلائل کیا دیے ہیں ؟ کیونکہ خدا تعالیٰ کسی کو ہلا دلیل نہیں بھجوایا کرتا.ایک دفعہ تیما پوری قادیان میں آیا تو مجھ سے کہنے لگا میں مامور ہوں آپ مجھے مانیں.میں نے کہا خدا تعالیٰ نے آپ کی سچائی کی کیا دلیل پیش کی ہے کہنے لگانشان بعد میں ظاہر ہوں گے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے دعوی کے وقت کیا دلائل پیش کیے تھے میں نے کہا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ بات پھبتی تھی کہ آپ خدا تعالیٰ کے مامور اور مرسل ہونے کا دعوی کریں.آپ کو خدا تعالیٰ نے ایسا مضبوط کریکٹر دیا تھا جو سارے علاقہ میں شائع اور معروف تھا اور ہر شخص جانتا تھا کہ ممکن ہی نہیں کہ آپ نَعُوذُ بِاللہ جھوٹ بولتے.جب صبح کو آپ نے دعوی کیا تو چونکہ رات کو سونے تک آپ کو سارے علاقہ میں صادق یقین کیا جاتا تھا اس لیے قوم کو تسلیم کرنا پڑا کہ آپ نے خدا پر بھی جھوٹ نہیں بولا اور جو شریف الطبع انسان تھے انہوں نے پہلے ہی آپ کو مان لیا.پس یہ دلیل تھی جو معجزات سے پہلے خدا تعالیٰ نے آپ کو مہیا کر کے دی.اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے

Page 405

$1944 405 خطبات محمود دعوی سے قبل براہین احمدیہ جیسی کتاب تصنیف فرمائی اور اس میں اسلام کی صداقت کے متعلق جو دلائل پیش فرمائے وہ اتنے شاندار اور اتنے بے مثل تھے کہ تقوی رکھنے والے انسان انہیں دیکھ کر سمجھ گئے کہ یہ دلائل کوئی ایسا انسان نہیں لکھ سکتا جو مفتری ہو.یہ تو ایسا ہی انسان لکھ سکتا ہے جو اسلام کو دوسرے تمام مذاہب پر غالب کرنے والا، اسلام کو زندہ اور زبر دست دین ثابت کرنے والا ہو.کیونکہ یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ خدا تعالیٰ ایک جھوٹے اور مفتری سے ایسا کام لے.میں نے کہا یہی بات دیکھ کر مولوی نورالدین صاحب اور دوسرے مخلص لوگوں نے آپ کو صادق مان لیا اور پھر اور لوگ مانتے چلے گئے.کہنے لگا آپ مجھ سے کیا چاہتے ہیں ؟ میں نے کہا براہین احمد یہ جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے لکھنی شروع کی تھی نا مکمل رہ گئی ہے اسے پورا کر دو.اگر ایسا کر دو تو میں تمہاری بیعت کر لوں گا.مگر اس کا وہ کوئی جواب نہ دے سکا.تو جن کے سپر د خدا تعالیٰ کوئی کام کرے وہ مامور ہوں یا غیر مامور، اُن کی دو حالتیں ہوتی ہیں.ایسا مصلح یا تو پہلے نبی کے کام کو مکمل کرنے کے لیے آتا ہے.اُس وقت نئے دین کی ضرورت نہیں ہوتی بلکہ اس دین کے قبول کرنے والوں میں قوت علیہ پیدا کرنے کی ضرورت ہے ہوتی ہے.جو کام جاری ہوتے ہیں انہیں مکمل کرنا اس مصلح کا کام ہوتا ہے.جیسے حضرت داؤد علیہ السلام کے بعد حضرت سلیمان علیہ السلام آئے اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بعد حضرت یوشع آئے.چنانچہ انہوں نے کہا کہ میں ان کے کام کو پورا کرنے کے لیے آیا ہوں.اس صورت میں دیکھنا یہ چاہیے کہ ایسے مصلح نے وہ کام پورا کر دیا یا نہیں.اگر کر دیا تو اس کے آنے کا مقصد حل ہو گیا اور اُس کے آنے کی غرض پوری ہو گئی.دوسری حالت یہ ہوتی ہے کہ ہم مصلح اور مامور نئی شریعت لاتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے پسر موعود اور ہے مصلح موعود کے متعلق جو پیشگوئی کی وہ اپنے دعوی کی صداقت کے ثبوت کے لیے کی.جب ہوشیار پور میں آپ نے دعا کی تو یہی کی کہ الہی میں جو دعوی صداقت اسلام اور برتری کا دنیا کے سامنے پیش کرتا ہوں لوگ اسے نہیں مانتے.اے خدا! تو دنیا کو میری صداقت کا کوئی زندہ نشان دکھا.اس دعا کی قبولیت میں آپ کو پسر موعود کا نشان دیا گیا.اب پسر موعود کا ظہور ہے

Page 406

خطبات محمود 406 $1944 حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے دعوی کی تکمیل کے لیے ہے اس سے علیحدہ کوئی چیز نہیں اور کوئی نیاد عوامی نہیں ہے.لیکن دوسری قسم کا مدعی اُس وقت مبعوث کیا جاتا ہے جب قوم میں خرابی پیدا ہو جاتی ہے.پسر موعود نے چونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دعویٰ کی صداقت پیش کرنی اور آپ کے مقاصد کی تکمیل کرنی ہے.اس لیے اس بات کی ضرورت نہیں ہے کہ جماعت میں کسی خرابی کی تلاش کی جائے.جہاں تک اس کے نام مصلح موعود کا تعلق ہے وہ غیر احمدیوں کے لیے ہے.ان لوگوں کے لیے جو یہ سمجھتے تھے کہ حضرت مسیح موعود عليه الصلوۃ والسلام کی وفات کے بعد یہ سلسلہ ختم ہو جائے گا.مصلح موعود اُن کے اِس خیال کو غلط ثابت کرے گا اور سلسلہ کو پہلے سے بہت زیادہ طاقت ، شوکت اور وسعت دے گا اور ان لوگوں کی اصلاح کر کے انہیں احمدیت میں داخل کرے گا.گویا وہ اِس طرح کا مصلح موعود نہ ہو گا جو کسی جماعت کے بگڑ جانے کے بعد اُس کی اصلاح کے لیے آتا ہے.کیونکہ اس قدر قریب نبی کے بعد اُس کی جماعت نہیں بگڑا کرتی.اگر اس قدر جلدی نبیوں کی جماعتیں بگڑ جائیں تو دوسروں کو مومن کون بنائے.ہر نبی اپنے بعد ایک مومن جماعت چھوڑ کر جاتا ہے جو اُس کے کام کو جاری رکھتی ہے اور ایک عرصہ تک صداقت پر قائم رہتی ہے.یہ نہیں ہوتا کہ ادھر نبی فوت ہو اور اُدھر اُس کی جماعت مرتد ہو جائے.اگر کوئی جماعت کسی مدعی کی وفات کے معابعد مرتد ہو جاتی ہے تو وہ خدا کی جماعت نہیں ہو سکتی اور نہ اس کا بانی خدا کی طرف سے ہو سکتا ہے.نبی کی جماعت ایک عرصہ تک صداقت پر قائم رہتی ہے اور ترقی کرتی ہے.پھر اس میں کمزوری پیدا ہوتی ہے اور وہ اصلاح کی محتاج ہو جاتی ہے.اس سے نبی کی صداقت پر کوئی حرف نہیں آتا.لیکن اگر اُس کی جماعت ابتدا میں ہی بگڑ جائے اور صداقت سے روگرداں ہو جائے تو اُس سے اس کی صداقت قائم نہیں رہ سکتی.اگر گٹھل سے پودا نکلے جو سال دو سال کے بعد جل جائے تو اُس کے متعلق یہ نہیں کہا جائے گا کہ اپنی عمر کو پہنچ کر ختم ہوا.لیکن اگر وہ بڑھا، پھولا اور اس نے پھل دیا اور پھر سوکھ گیا تو اس کے کامیاب ہونے میں شک نہیں کیا جاسکتا.اسی طرح وہ جماعت جس میں کوئی نبی آئے اُس کی نسلیں چلیں اور ٹھیک و درست راستہ پر چلیں، پھل دیں اور بعد میں گندی ہو جائیں تو یہ کوئی قابل اعتراض ہے

Page 407

$1944 407 خطبات محمود بات نہ ہو گی.ایک عرصہ کے بعد ہر ایک جماعت ایسی ہو ہی جاتی ہے.اس وجہ سے کسی جماعت کو ناکام نہیں کہیں گے.لیکن اگر جماعت کی وہ اکثریت جو نبی کے ہاتھ پر جمع ہوئی ہو اپنی زندگی میں تباہ ہو جائے اور گمراہی کے گڑھے میں جاگرے اور اصل تعلیم پر قائم نہ رہے تو یہ ایسا مامور جھوٹا ثابت ہو گا.غرض جماعت احمدیہ میں تو مصلح موعود حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مشن اور آپ کی تعلیم کو پھیلانے کے لیے آیا ہے.اب چاہے خدا تعالی اسے یہ ا اتنی کامیابی اور اتنی عظمت دے کہ دنیا کے کناروں تک اسلام پھیل جائے اور ایمان زمین سے عرش تک پہنچ جائے.جماعت چلے گی اُدھر ہی جدھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے چلایا ہے ہے اور اُسی تعلیم پر عمل کرے گی جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے پیش فرمائی ہے.اس سے ذرا بھی ادھر ادھر ہونے میں تباہی و بربادی ہے اور ایسے لوگوں کا حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے کوئی تعلق اور واسطہ نہیں ہو سکتا.اسی بات کے نہ سمجھنے کی وجہ سے جتنے مدعی کھڑے ہوتے ہیں وہ کوئی اور راہ اختیار کر کے کہتے ہیں کہ ہم جماعت کی اصلاح کرنے کے لیے آئے ہیں.دراصل انہوں نے اصل حقیقت کو سمجھا ہی نہیں.بلکہ جیسا کہ میں بتا چکا ہوں مصلح دو قسم کے ہوتے ہیں.ایک وہ مصلح جو نبی کے بعد اس لیے آتا ہے کہ اُس کے کام کو جاری رکھے اور اُسے وسعت دے.جیسے حضرت سلیمان حضرت داؤد علیہ السلام کے بعد اور یوشع حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بعد آئے.اُس وقت بنی اسرائیل میں کوئی خرابی نہ پیدا ہو گئی تھی بلکہ اس لیے آئے تھے کہ حضرت موسی علیہ السلام نے جو تعلیم دی تھی اُسے پھیلائیں اور ترقی دیں.اس وقت یہودی اپنی غلطی سے تائب ہو چکے تھے.حضرت یوشع نے ہے آکر انہیں بت پرستی کے گڑھے سے نہیں نکالا.بت پرستی سے تو وہ حضرت موسی علیہ السلام کے وقت میں ہی نکل چکے تھے.حضرت یوشع نے یہی کہا کہ میں موسی کا شروع کیا ہوا تسلسل میں قائم رکھنے کے لیے آیا ہوں.اسی طرح مصلح موعود کا جماعت احمد یہ میں آنا حضرت مسیح موعود عليه الصلوة والسلام کے تسلسل کو قائم رکھنے کے لیے ہے اور اسی مقصد کو پورا کرنے کے لیے آیا ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا تھا.نہ یہ کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلاة من والسلام نے جو جماعت قائم فرمائی ہے وہ بگڑ چکی ہے اور اس کی اصلاح کے لیے آیا ہے.

Page 408

خطبات محمود 408 ، ا $1944 دوسری قسم کا مصلح اُس وقت آتا ہے جب قوم کی قوم بگڑ جاتی ہے اور اصل دین کھو بیٹھتی ہے.دیکھو! حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے وہی باتیں پیش فرمائیں جو اسلام نے پیش کی ہیں.لیکن مسلمان چونکہ بگڑ چکے تھے ، اسلام کی اصل تعلیم فراموش کر چکے تھے اور سراسر غلط عقائد پر قائم تھے اس لیے غیر احمدیوں نے یہ سمجھا کہ آپ نے ہر بات نئی اور خود ساختہ پیش کی ہے.لیکن میرے وقت میں جماعت کی اکثریت اور بہت بڑی اکثریت وہی باتیں مانتی ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے پیش فرمائیں اور وہی کہتی ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے کہا.کیونکہ خدا تعالی کے فضل سے جماعت حضرت می مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی اصل تعلیم پر قائم ہے.غرض ہمارے راستہ میں بہت سی دقتیں ہیں.بعض لوگ یہ تو مان لیتے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سچے تھے لیکن یہ مان لینے سے اُن کی دوڑ نماز ، روزہ، حج، زکوۃ وغیرہ مسائل تک ہی ہوتی ہے.چونکہ ہماری دینی زبان عربی ہے اور وہ عربی زبان سے ناواقف ہوتے ہیں اس لیے دین کے مغز تک نہیں پہنچتے.نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ کسی کو کوئی ایک ہے آدھ رؤیا ہو گیا تو وہ کہنے لگ جاتا ہے کہ ہم پر وحی نازل ہوتی ہے اور ہم مامور ہیں.پھر اس کے ساتھ جب اُسے خیال آتا ہے کہ دعوای تو کر دیا مگر کام کچھ ہے نہیں.لوگ متوجہ کیونکر ہوں گے.تو اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ کوئی تو کہہ دیتا ہے کہ میں محمد ہی مقام پر فائز ہوا ہوں اور کوئی ہے اس سے بھی بڑا مقام اپنے لیے تجویز کر لیتا ہے.دراصل وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلاة و والسلام سے آگے بڑھ جانے کے لیے اس قسم کی حرکات کرتے ہیں اور اصل چیز کو نہیں ہے دیکھتے.ایسے لوگ جب دیکھتے ہیں کہ قرآن کریم کی صحیح تفسیر تو وہی ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے پیش کی اور اس کی رو سے ان کے لیے کسی قسم کے دعوی کی کوئی ہے گنجائش باقی نہیں ہے.تو وہ خیال کرتے ہیں کہ جب تک حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے جدا نہ ہوں گے اُس وقت تک کام نہیں بنے گا.کیونکہ لوگ پوچھیں گے کہ جب باتیں وہی ہیں تو آپ کے تشریف لانے کی کیا ضرورت تھی اور اس طرح اپنا اڈہ قائم نہیں کیا جاسکے گا.اس لیے وہ ساتھ نہیں رہتے بلکہ الگ راہ اختیار کر لیتے ہیں.کوئی تیا پور میں ، کوئی لاہور میں

Page 409

$1944 409 خطبات محمود اور کوئی کہیں اور بیٹھا دعوی کر دیتا ہے کہ میں مصلح موعود ہوں اور میں دنیا کی نجات کے لیے مبعوث ہوا ہوں.چونکہ نہ انہیں علم دین حاصل ہے اور نہ خدمت دین کرنے والے اور تبلیغ اسلام میں حصہ لینے والے آدمی اُن کے پاس ہیں اس لیے ان کے پاس ایک ہی چیز رہ جاتی ہے اور وہ یہ ہے کہ کوئی بڑا سا دعوی کر دیں تاکہ لوگ سمجھیں کہ کچھ نہ کچھ تو ہے.حالانکہ مصلح خدا تعالیٰ نام کے لیے نہیں بھیجتا بلکہ کام لیے بھیجتا ہے.اور یا تو اُس کا کام وہی ہو تا ہے جو اُس سے پہلے نبی نے جاری کیا ہوتا ہے اور یا پھر پہلے نبی کی تعلیم کو لوگ بھول چکے ہوتے ہیں وہ اُس کو دوبارہ زندہ کرتا ہے.اگر تو وہ اُس کام کو جاری رکھنے کے لیے آتا ہے تو جماعت اُس کی مخالفت نہیں کرتی بلکہ تسلسل قائم رہتا ہے.وہ آگے آگے چلتا ہے اور جماعت اس کے پیچھے چلتی ہے مگر رستہ وہی ہوتا ہے جو پہلے نبی نے بتایا ہوتا ہے.یا پھر مصلح کا یہ کام ہوتا ہے کہ نبی کی تعلیم میں جو بگاڑ پیدا ہو جائے اُس کو دور کر کے صحیح تعلیم اور صحیح نقشہ پیش ہے کرے.مگر یہ باتیں ان دعوی کرنے والوں کے پاس نہیں ہو تیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اسلام کی اس تعلیم کی جسے بگاڑ دیا گیا تھا جو اصلاح کی ہے قرآن کریم کے ذریعہ اور الہام الہی کے ذریعہ ، اس کے ہوتے ہوئے کسی اور اصلاح کی ضرورت نہیں ہے.الہام، وحی، معجزات، ملائکہ، یوم آخرت وغیرہ مسائل کے سمجھنے میں لوگوں کو جو غلطی لگی ہوئی تھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اسے دور کر کے ان مسائل کو صاف کر دیا ہے ہے.اسی طرح ناسخ و منسوخ، اِحیائے موتی وغیرہ مسائل میں لوگوں نے جو گڑ بڑ پیدا کر دی تھی اسے دور کر دیا ہے.اب دعوی کرنے والے بتائیں کہ اسلام کی تعلیم میں جو خرابیاں پیدا کر دی گئی تھیں انہیں دور کرنے میں کوئی کسر رہ گئی ہے کہ خدا تعالی نے کسی اور مدعی کو بھیجنا ہے تھا.دراصل یہ ساری خرابی دین سے ناواقفیت کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے.اگر خدا تعالیٰ نے ایسے ہی مدعیوں کو سچا بنایا ہو تا تو ان کو کچھ عطا بھی کرتا اور اُن پر انعام بھی نازل کرتا.مگر اس قسم کی ہے کوئی بات ان میں نہیں پائی جاتی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی زندگی میں ایک شخص یہاں آیا.اس کے متعلق لوگوں نے آپ سے عرض کیا کہ وہ الہام کا دعوی کرتا ہے.آپ نے اُسے بلا کر پوچھا ہے

Page 410

خطبات محمود 410 $1944 آپ کو کیا الہام ہوئے؟ اُس نے کہا یہی کہ کبھی مجھے کہا جاتا ہے تو موسیٰ ہے، کبھی کہا جاتا ہے نوح ہے، کبھی کہا جاتا ہے تو عیسی ہے، کبھی کہا جاتا ہے تو ابراہیم ہے، کبھی کہا جاتا ہے تو محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہے.آپ نے فرمایا خدا تعالیٰ نے ہر نبی کو کچھ نہ کچھ خاص کمالات دیے ہیں اگر تم کو خدا تعالیٰ نے فی الواقع موسٰی، عیسی، نوح، ابراہیم اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قرار دیا ہے تو کیا اُن کے کمالات بھی دیے ہیں ؟ کیا جب تمہیں نوح کہا جاتا ہے تو نوح کی طرح کشتی بھی عطا کرتا ہے؟ جب موسیٰ کہتا ہے تو کیا ید بیضاء بھی اُس نے عطا کیا ہے؟ جب ابراہیم کہتا ہے تو کیا احیائے موتی کا معجزہ بھی دکھاتا ہے؟ یا جب محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کہتا ہے تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر جو مکمل اور کامل کتاب نازل کی اُس کے معارف اور باریکیاں بھی سمجھاتا ہے ؟ کہنے لگا کہتا تو ہے کہ تو محمد ہے، تو ابراہیم ہے، تو موسیٰ ہے، تو نوح ہے مگر دیتا کچھ نہیں.آپ نے فرمایا پھر آپ کو سمجھنا چاہیے کہ شیطان آپ کو دھوکا دے رہا ہے.کیونکہ خدا تعالیٰ جب کسی کو کوئی منصب دیتا ہے تو اُس منصب کے مطابق انعامات بھی نازل کرتا ہے.وہ کسی کو دھوکا نہیں دیتا.پس مصلح یا تو وہ ہو گا جو پہلے نبی کے تسلسل کو جاری رکھنے والا ہو گا یا نئی شریعت یا شریعت کی نئی تفسیر لانے والا می ہو گا.اگر وہ صاحب شریعت ہونے کا مدعی ہو گا تو اُسے یہ ثابت کرنا ہو گا کہ پہلی شریعت میں یہ یہ بگاڑ پیدا ہو گیا تھا اور اُس کی میں نے یہ اصلاح کی ہے.جب میں ولایت گیا تو مجھے ایک عورت ملنے کے لیے آئی جو بہائی تھی.میں نے اُسے کہا بہاء اللہ جو شریعت پیش کرتا ہے اُس کی ضرورت ہی کیا ہے.قرآن کریم ہر دینی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے کافی ہے.ہاں اگر آپ یہ ثابت کر دیں کہ کوئی ضرورت ایسی ہیں ہے جسے قرآن کریم پورا نہیں کرتا یا اس میں کوئی نقص ہے جسے بہاء اللہ نے آکر ڈور کر دیا ہے تو میں مان لوں گا.کہنے لگی قرآن مجید میں لکھا ہے کہ ایک سے زیادہ شادیاں کرنے کی اجازت ہے.یہ قابل اصلاح بات ہے اور بہاء اللہ نے ایک ہی شادی جائز قرار دی ہے.میں نے کہا دلیل تو نہایت ناقص ہے.کیونکہ خاتم شریعت نبی کی ایک خرابی کے دور کرنے کے لیے نہیں آیا کرتے.لیکن اگر یہ بات درست ثابت ہو تو چلو میں پھر بھی مان لوں گا مگر

Page 411

$1944 411 خطبات محمود یہ بات درست نہیں ہے.بہاء اللہ نے ایک سے زیادہ شادیوں کی اجازت دی ہے.اس انگریز عورت نے اس کا بشدت انکار کیا.لیکن آخر جب میں نے اُسے مجبور کیا کہ اپنے ساتھ کی عورت سے جو ایرانن تھی اور چھ ماہ کے قریب مرزا عباس علی کے پاس رہ آئی تھی، اس بارہ می میں پوچھے تو اول تو اُس ایران عورت نے جو خود بھی پکی بہائی تھی جواب دینے سے انکار کیا لیکن آخر مجبور کرنے پر کہا دو شادیوں کا ذکر تو آتا ہے مگر بہاء اللہ نے لکھا ہے کہ میرے کلام کی جو تشریح مرزا عباس علی کریں وہی درست ہو سکتی ہے اور انہوں نے یہی تشریح کی ہے کہ ایک ہی شادی کرنی چاہیے اس پر اس انگریز عورت نے کہا کہ دیکھیے بات حل ہو گئی.میں نے کہا اول تو یہ غلط ہے کہ دو کا مطلب ایک ہو سکتا ہے.لیکن اگر یہی مطلب ہے تو پھر اس سے پوچھو کہ کیا وجہ ہے کہ بہاء اللہ نے خود بھی دو شادیاں کیں.اِس سوال پر اُس ایر ان عورت نے پھر عذر معذرت شروع کی.مگر آخر کہنے لگی ہاں! دو شادیاں کی تھیں.مگر دعوی کے بعد ایک بیوی کو انہوں نے بہن قرار دے دیا تھا.اس پر پھر اُس انگریز عورت نے خوشی کا اظہار کیا.لیکن میں نے کہا تمہارا عقیدہ ہے کہ امام کو دعوی سے پہلے بھی ہر بات کا علم ہوتا ہے.اگر بہاء اللہ کو یہ علم تھا کہ مجھے بیوی کو بہن قرار دینا پڑے گا تو انہوں نے دوسری شادی کیوں کی ؟ مگر وہ انگریز مصر رہی کہ بس! یہ جواب کافی ہے.اس پر میں نے اُسے کہا کہ اپنی بہائی بہن سے جو ایرانن ہے پوچھو کہ کیا اس بہن کے بطن سے بہاء اللہ کے ہاں اولاد بھی ہوئی تھی یا نہیں؟ اس پر وہ کہنے لگی آپ تو گالیاں دینے لگ گئے ہیں.میں نے کہا یہ گالیاں نہیں بلکہ میں حقیقت ہے.تم اس بہائی بہن سے پوچھو کہ کیا دعوی کے بعد بہاء اللہ کے ہاں اس دوسری عورت سے اولاد ہوئی یا نہیں؟ اس دفعہ اُس ایران نے دیر تک جواب دینے سے انکار کیا.مگر آخر تسلیم کر لیا کہ دوسری بیوی سے دعوی کے بعد بھی ان کے ہاں اولاد ہوئی تھی.جس پر وہ ہے انگریز عورت غصہ سے اٹھ کر کھڑی ہو گئی.میں نے کہا بہاء اللہ کو ہم اسی صورت میں مان سکتے تھے کہ قرآن کریم کے ساتھ ہماری دینی ضروریات پوری نہ ہو سکتیں اور بہاء اللہ وہ ضرورت پوری کر دیتے.لیکن اگر وہ ایسا نہیں کر سکتے اور اُدھر کوئی ایسی ضرورت بھی نہیں ہے جسے اسلامی شریعت پوری نہ کر سکے تو پھر ان کو ماننے کا سوال ہی پیدا نہیں ہو تا.

Page 412

خطبات محمود 412 $1944 پس اگر کوئی مدعی پہلے نبی کے قائم کردہ امور کے تسلسل کو قائم رکھنے کے لیے آتا ہے تو ہم یہ دیکھیں گے کہ وہ اس تسلسل کو قائم رکھتا ہے یا نہیں.اگر ان کاموں کو پورا کرتا ہے اور اُس کی جماعت کو ساتھ لے کر اسے ترقی کی طرف لے جاتا ہے تو ہم اسے مان لیں گے.لیکن اگر وہ نیا دعوی پیش کرتا ہے اور نیار ستہ اختیار کرتا ہے تو ہم اس سے پوچھیں گے کہ وہ کیا نئی چیز ہے جو تم خدا تعالی کی طرف سے لائے ہو اور جو پہلے موجود نہ تھی.یعنی جو پچھلائی آیا می اُس کے ذریعہ لوگوں کو نہ ملی.یہ دونوں باتیں ضروری طور پر ایسے نکتے وجودوں کی حقیقت ظاہر کر دیتی ہیں اور کوئی سمجھدار انسان ان کی طرف توجہ کرنے کی ضرورت نہیں سمجھتا.مگر ساری دقتیں دینی علم نہ ہونے اور عربی زبان سے ناواقفیت کی وجہ سے پیش آتی ہیں.جب کبھی پر بھیڑے 1 کی طرح ایسے لوگ کھڑے ہوتے ہیں تو کچھ بیوقوف انہیں ایسے مل جاتے ہیں میں جو اُن کو کھمب سمجھ لیتے ہیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانیہ میں جو کجھوٹے مدعی کھڑے ہوئے تھے مے وہ کچھ نہ کچھ تعلیمیں بھی پیش کرتے تھے.خواہ وہ تعلیمیں کیسی ہی بے ہودہ ہوتی تھیں.کیونکہ وہ جانتے تھے کہ دعوی پیش کرنے کے بعد اس بات کا مطالبہ ہو گا کہ تم لائے کیا ہو.لیکن آجکل مصیبت یہ ہے کہ نہ تو نئی شریعت لانے کا دعوی کیا جاتا ہے، نہ پرانی شریعت کی تفصیلات پر نئی روشنی ڈالنے کا جس کے بغیر ایمان اور عمل لوگوں کا نا قص تھا.نہ سابقہ نبی کی ہے تعلیم کا تسلسل قائم رکھنے کا دعوی کیا جاتا ہے.بلکہ صرف یہ کہہ دیا جاتا ہے کہ خدا نے ہمارا یہ نام رکھ دیا ہے.اس پر جماعت میں سے کچھ لوگ ایسے نام کے ڈر کی وجہ سے یہ کہنے لگ جاتے ہے ہیں کہ یہ غور کے قابل بات ہے حالانکہ وہ بات قابل غور نہیں ہوتی بلکہ ان لوگوں کی حالت قابل غور ہوتی ہے.کیونکہ وہ اتنا بھی نہیں جانتے کہ اس وقت خدا تعالی نے اس قسم کا مدعی ہے کیوں بھیجا ہے اور اس کی ضرورت کیا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے سینکڑوں اور ہزاروں مسائل میں اتنی اصلاح کی کہ عام لوگ کہنے لگ گئے کہ آپ کوئی نیا دین لائے ہے ہیں.حالانکہ آپ کوئی نیا دین نہیں لائے تھے.بلکہ لوگ اصل دین کی سب باتیں چونکہ بھول چکے تھے یا ان کو بگاڑ چکے تھے.اس لیے جب وہی باتیں اصل صورت میں ان کے سامنے

Page 413

$1944 413 خطبات محمود پیش کی گئیں تو وہ اُنہیں نئی سمجھنے لگ گئے.لیکن جوں جوں اُنہیں معلوم ہو رہا ہے کہ آپ نے اصلاح کر کے جو تعلیم پیش فرمائی ہے وہی اصل دین ہے تو اسے مانتے جارہے ہیں.مثلاً حضرت عیسی علیہ السلام کی وفات کا اقرار بڑے بڑے علماء کر رہے ہیں.پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے قرآن کریم کے نئے نئے معارف بیان کیے.پہلے لوگ کہتے تھے کہ جو تفسیریں لکھی جاچکی ہیں اُن سے باہر کوئی معنی کرنا جائز نہیں.مگر اب دوسرے لوگ بھی یہ کوشش کرتے رہتے ہیں کہ نئے نئے مطالب بیان کریں.غرض کوئی ایک اصلاح نہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے درجنوں اور بیبیوں نہیں بلکہ سینکڑوں غلطیاں ہیں جو آپ نے نکالیں اور بتایا کہ ان سے یہ یہ نقصان پہنچا ہے.پھر جو اصلاح فرمائی اب دنیا اسی طرف آرہی ہے.اس سے معلوم ہوا کہ آپ کے آنے کی خاص ضرورت تھی اور ایک عظیم الشان کام تھا جو آپ کے سپرد کیا گیا.مگر اب دعوی کرنے والے صرف یہ کہہ دیتے ہیں کہ ہم پر یہ تجملی ہوئی اور یہ الہام ہوا ہے، کر کے کچھ نہیں دکھاتے اور نہ یہ بتاتے ہیں کہ ان کے سپر د اصلاح کا کیا کام کیا گیا ہے.یہ علم عربی نہ جاننے اور دین کی حقیقت نہ سمجھنے کی وجہ سے ہے.اور اسی وجہ سے ایسے مدعیوں کو کچھ ایسے لوگ بھی مل جاتے ہیں جو اُن کی ہاں میں ہاں ملانا شروع کر دیتے ہیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد عربوں میں بھی کئی مدعی کھڑے ہو گئے تھے.گو وہ جھوٹے تھے مگر کچھ نہ کچھ ثبوت تو اپنے دعوے کے متعلق پیش کرتے تھے.گو وہ کیساہی بیہودہ ہو تا تھا.یہ تو نہ کہتے کہ ہم مامور ہیں، ہم پر خدا کی کامل تجلی ہوئی ہے مگر اس کا ہم کوئی ثبوت نہیں دیتے.کچھ اور نہیں تو وہ یہی کہہ دیتے کہ ہمارے دعوی کا ثبوت یہ ہے کہ ہم دو من لکڑیاں پھاڑ سکتے ہیں.حضرت خلیفۃ المسیح الاول کے زمانہ میں ایک شخص محمد بخش ہو تا تھا.تھی تو یہ لغو ہی بات مگر مناسبت کی وجہ سے اس کا ذکر کیا جاتا ہے.ایک لڑکے نے اسے کہا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلاۃ والسلام کو تو غیر زبانوں میں بھی الہام ہوتے تھے تم جو دعوی کرتے ہو کیا تم تمہیں بھی ایسے الہام ہوتے ہیں؟ اس نے کہا ہاں! مجھے بھی انگریزی میں یہ الہام ہوا ہے کہ

Page 414

خطبات محمود 414 $1944 "آئی وٹ وٹ".لڑکے نے کہا.یہ تو کسی زبان کا کوئی با معنی فقرہ نہیں.کہنے لگا یہ خدا کی انگریزی ہے تمہاری انگریزی نہیں.یہ کیسی لغو بات تھی مگر دعوی کی مناسبت کے لحاظ سے اس نے دلیل تو دی.مگر مصلح موعود ہونے کا دعوی کرنے والوں کی یہ دلیل تو اتنی بھی ہے مناسبت نہیں رکھتی کہ چونکہ جماعت بگڑ گئی ہے اس لیے ہم کھڑے ہوئے ہیں اور جماعت کے بگڑنے کا ثبوت یہ ہے کہ وہ ہمیں نہیں مانتی.یہ بھی جماعت کے بگڑنے کا کوئی ثبوت ہے ؟ کوئی نہ کوئی عقائد کی خرابی یا تعلیمات کی خرابی پیدا ہوتی ہے جب خدا تعالیٰ جماعت کی اصلاح ہے کے لیے مامور بھیجتا ہے.مگر خدا تعالیٰ کے فضل سے احمدیوں میں کوئی ایسی بات نہیں پائی جاتی ہے اور نہ تنزل کے کوئی آثار ہیں جن سے یہ سمجھا جائے کہ جماعت گرنے لگی ہے.غرض ان کے دعوی اور دلیل میں کوئی بھی مناسبت نظر نہیں آتی.مگر محض اس لیے انہیں قرآن اور مینی حدیث نہیں آتی ایسا دعوی کر دیں گے اور درجن دو درجن بیوقوف اُن کے ساتھ ہو جاتے ہیں.اس قسم کی خرابیوں کا علاج یہی ہے کہ ہم اپنی جماعت میں زیادہ سے زیادہ عربی تعلیم جاری ہے کریں، عربی تمدن جاری کریں تاکہ لوگ اس قسم کا دھوکا نہ کھائیں جو بالبداہت دھوکا ہو".(الفضل 5 جولائی 1944ء) 1 : پر بھیڑے: ایک قسم کی (چھتری نما) جڑی بوٹی جو برسات کے دنوں میں زمین سے نکلتی ہے ہے ( پنجابی اردو لغت مر تبہ تنویر بخاری صفحه 343اردوسائنس بورڈا پر مال لاہور )

Page 415

$1944 415 23 خطبات محمود الانذار فرمودہ 16 جون 1944ء) تشہد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: دلوں کا فتح کرنا اس میں کوئی شبہ نہیں کہ نہایت ہی مشکل کام ہوتا ہے.اول تو لوگ اپنی عقل سے کام لینے کے عادی ہی نہیں ہوتے.رسم و رواج کی ظلمت اُن کے دلوں پر چھائی ہوتی ہے اور اس پر دے کو چاک کرنا کوئی آسان کام نہیں ہو تا.لوگ اپنے رسم ورواج کے مقابلہ میں خدا اور رسول کے احکام کی بھی پروا نہیں کرتے.ابھی زیادہ زمانہ نہیں گزرا کہ مسلمانوں سے گورنمنٹ نے پوچھا کہ تم شریعت کے پابند ہونا چاہتے ہو یا رسم و رواج کے ؟ تم قرآن کی حکومت اپنے اوپر جاری کرنا چاہتے ہو یا اپنے باپ دادا کے بنائے ہوئے قوانین کے تم ماتحت چلنا چاہتے ہو ؟ پنجاب کے مسلمانوں کی ریڑھ کی ہڈی زمیندار ہیں.اُس وقت ایک کے بعد دوسرا مسلمان زمیندار آگے بڑھتا اور کہتا ہم قرآن کی حکومت نہیں چاہتے ، اپنے باپ دادا کے قوانین پر عمل کرنا چاہتے ہیں.پنجاب کے ایک سرے سے لے کر دوسرے سرے تک سارے زمینداروں نے ایک زبان سے یہ اقرار کیا کہ ہمیں خدا اور رسول کی حکومت ---------

Page 416

خطبات محمود 416 $1944 منظور نہیں، رسم و رواج کی پابندی ہمیں منظور ہے.یہ کتنی بڑی ظلمت ہے جو ان کے دماغوں پر چھائی ہوئی تھی.جب کوئی نئی تعلیم خدا تعالیٰ کی طرف سے آتی ہے پہلی ظلمت یہی ہوتی ہے کہ لوگ اپنے آباء واجداد کی اقتداء کو ترک کرنا پسند نہیں کرتے.جیسے عنکبوت نے اپنے ارد گرد ایک جالا بنا ہوتا ہے جس میں سے نکلنا وہ پسند نہیں کرتی اسی طرح ان کے آباء و اجداد نے ایک جالاشن دیا ہوتا ہے جس میں سے نکل کر وہ خدا کی وسیع دنیا کو دیکھنا نہیں چاہتے.پھر دوسری ظلمت عادات کی ہے.بہت سے احکام تو رسم و رواج کے ماتحت لوگ چھوڑ دیتے ہیں جن کا اُن سے منوانا بہت مشکل ہوتا ہے.اور جو باتیں رسم و رواج سے باہر رہ جاتی ہیں وہ عادات کے چکر میں آجاتی ہیں.جیسے شادی بیاہ کا معاملہ ہے، اولاد کی تربیت کا معاملہ ہے، عورتوں سے حسن سلوک کا معاملہ ہے، کسی کے مرنے کے بعد اس کے بعض ہے رشتہ داروں کا ایصالِ ثواب کے عمل کا معاملہ ہے.یہ ساری چیزیں رسم و رواج کے ماتحت آجاتی ہیں.پھر ان سے ہٹ کر جو نماز اور روزہ اور حج اور زکوۃ وغیرہ کے مسائل ہیں وہ عادتوں کا شکار ہو جاتے ہیں.بچپن سے انہیں نماز اور روزے کی عادت ہی نہیں ہوتی.جب کوئی شخص اُن کے پاس پہنچے، انہیں دین کی تعلیم دے، انہیں خدا اور رسول کے احکام پر چلنے کے لیے کہے تو وہ ہے کہتے ہیں بات تو ٹھیک ہے لیکن ہم نے یہ کام کبھی کیے نہیں اس لیے ہم سے ایسا نہیں ہو سکتا.پھر تیسری ظلمت اکابر کا اثر ہوتا ہے.یعنی قوم میں جو بڑے لوگ ہوتے ہیں اُن کی با تیں عام لوگ رد نہیں کر سکتے.پس اگر کوئی چیز رسم و رواج کی زد میں نہیں آتی، اگر کوئی چیز ہے عادات کی زد میں نہیں آتی تو وہ اکابر کے اثر کی زد میں آجاتی ہے.لوگ کہتے ہیں فلاں میں چودھری صاحب جب یوں کہتے ہیں، فلاں رئیس صاحب جب اِس طرح کہتے ہیں تو ہم ان کو کس طرح چھوڑ دیں.یہ تو عوام کا حال ہے.بڑوں کے لیے تیسری ظلمت جتھا بندی کی ہوتی ہے.جس طرح عوام کہتے ہیں ہم بڑوں کو نہیں چھوڑ سکتے اسی طرح بڑے کہتے ہیں کہ ہم جماعت کو نہیں چھوڑ سکتے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چچا ابو طالب رسول کریم می صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بڑی محبت رکھتے تھے اور واقع میں اُنہوں نے ایسی شاندار قربانیاں دین اسلام کی امداد کے لیے کی ہیں کہ ان کو دیکھ کر حیرت آتی ہے کہ کس طرح وہ شخص جو می

Page 417

خطبات محمود 417 $1944 رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جماعت میں شامل نہیں تھا آپ کے لیے ہر طرح قربانیاں کرتا رہا.ایک دفعہ ابو طالب کی قوم کے لوگ اُن کے پاس آئے اور کہا ابو طالب ! ہم نے اب تک تمہاری خاطر تمہارے بھتیجے کو کچھ نہیں کہا.مگر اب اس کی باتیں حد سے بڑھتی جاتی ہیں.وہ ہمارے معبودوں کی نسبت روز بروز ایسے الفاظ استعمال کر رہا ہے جن کا سُننا ہماری طاقت برداشت سے باہر ہے اور اب ہم نے فیصلہ کر لیا ہے کہ اگر اس کی طرف سے یہی کیفیت جاری رہی تو ہم تمہارا بھی لحاظ نہیں کریں گے.پس یا تو زور ڈال کر اس سے ہماری باتیں منوالو.ہم اور کچھ نہیں چاہتے وہ صرف اتنا کرے کہ ہمارے معبودوں کو بُرا بھلانہ کہے.اپنی تعلیم بے شک پیش کرتا رہے لیکن ہمارے معبودوں کے نقائص اور ان کی کمزوریاں بیان نہ کرے.اور اگر ایسا نہ ہوا تو اے ابو طالب! ہمیں تم کو چھوڑ دینا پڑے گا.ابو طالب نے مجے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بلایا اور کہا اے میرے بھتیجے ! میری قوم کے سردار آج میرے پاس آئے تھے انہوں نے کہا ہے کہ ہم نے تیری خاطر تیرے بھتیجے کو اب تک زیادہ تکلیف نہیں دی مگر اب اس کی باتیں حد سے بڑھ گئی ہیں.وہ ہمارے معبودوں کی تنقیص کرتا ہے، وہ ان کی کمزوریاں اور نقائص بیان کرتا ہے اور یہ چیز ایسی ہے جس کو ہم برداشت نہیں ہے کر سکتے.پس اپنے بھتیجے کو سمجھا لو.ہم اس سے اور کچھ نہیں چاہتے.صرف اتنا کہتے ہیں کہ و ہمارے معبودوں کے نقائص بیان نہ کیا کرے اور جو کچھ چاہے کہتا رہے.جاتے ہوئے انہوں میں نے آخری دھمکی بھی دے دی ہے کہ اے ابو طالب ! اگر تم اپنے بھتیجے کو سمجھاؤ گے نہیں تو ہم تم سے بھی قطع تعلق کر لیں گے.میں نے جیسا کہ بتایا ہے یہ چوتھی ظلمت بھی بڑی خطرناک ہے ہوتی ہے یا اگر چو تھی نہیں تو اکابر کے لحاظ سے اسے تیسری ظلمت سمجھ لو.بہر حال یہ ظلمت میں اکابر کے لیے بڑی خطر ناک ہوتی ہے.چنانچہ ابو طالب یہ ذکر کرتے ہی رو پڑے اور کہنے لگے اے میرے بھتیجے ! تو جانتا ہے کہ قوم کا چھوڑ نا کتنا گراں ہوتا ہے.ان کی یہ بات سن کر مجھ می سے برداشت نہیں ہو سکا اور میں نے تجھ کو اسی لیے بلایا ہے کہ تجھ سے دریافت کروں کہ آیا می تو اپنے رویہ میں کوئی تبدیلی کرنے کے لیے تیار ہے یا نہیں؟ اپنے مہربان چا کی رقت اور اُن کی پر نم آنکھوں کو دیکھ کر رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آنکھوں میں بھی آنسو آگئے.ہم

Page 418

خطبات محمود 418 $1944 آپ نے فرمایا چچا! آپ نے مجھ پر جو مہربانیاں کی ہیں وہ میری نظر سے پوشیدہ نہیں.میں ان کا شکر گزار ہوں.آپ میری خاطر اپنی قوم سے نہ بگاڑیں.آپ لوگوں میں اعلان کر دیں کہ آج سے میں نے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو چھوڑ دیا ہے.باقی رہا میر ا فیصلہ سو خدا کی قسم ! اگر یہ لوگ سورج کو میرے دائیں اور چاند کو میرے بائیں لاکر کھڑا کر دیں، تب بھی میں توحید کی تعلیم اور شرک سے نفرت کے اظہار سے باز نہیں رہ سکتا.1 یہ ایسا شاندار جواب تھا کہ ابو طالب کا دنیا دار دل بھی اِس کو برداشت نہ کر سکا اور وہ بے اختیار ہو کر بولے نہیں! اگر یہی سوال آئے گا تو تمہاری خاطر میں اپنی قوم کو چھوڑ دوں گا.تم جس طرح چاہو کہتے رہو.مگر یہی ابو طالب تھے کہ جب وفات کے وقت رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان سے کہا اے چا! اب تو کلمہ پڑھ لو تا کہ نہیں خدا کے سامنے آپ کی شفاعت کر سکوں.تو ابو طالب نے کہا اے میرے بھتیجے ! تیرے دین کی میرے دل میں بڑی قدر ہے.پر میں اپنی قوم کو نہیں چھوڑ سکتا.2 مرتے وقت انہوں نے اپنی قوم کی کیا لیڈری کرنی تھی چند منٹ میں ان میں اور ان کی قوم میں اتنا بڑا فاصلہ ہو جانا تھا جسے کوئی انسانی طاقت طے نہیں کر سکتی.مگر چند منٹ کی لیڈری بھی ابو طالب قربان نہ کر سکے.پس یہ تیسری ظلمت بھی بڑی خطرناک ہوتی ہے.چوتھی ظلمت ظلمت جہل ہے.یعنی جہالت اور ناواقفیت کی ظلمت دلوں پر چھائی ہے ہوئی ہوتی ہے.انسان دین کی باتوں پر غور ہی نہیں کرتا.نئی سے نئی باتیں اُس کے سامنے پیش کی جاتی ہیں مگر اُسے ان پر غور کرنے کی عادت ہی نہیں ہوتی.وہ کوشش ہی نہیں کرتا کہ ان می باتوں کو سمجھے اور ان پر عمل کرنے کے لیے اپنا قدم بڑھائے.وہ ظلمت جہل میں ہمیشہ مبتلا رہتا ہے اور دین کی باتوں کی طرف توجہ سے کام نہیں لیتا.پس بہت سی ظلمتیں ہیں جو بنی نوع انسان پر چھائی ہوئی ہوتی ہیں.مگر اس میں بھی ہے کوئی شبہ نہیں کہ انبیاء ہمیشہ کامیاب ہوتے ہیں اور وہ تمام ظلمتوں کو پھاڑ کر اپنی منزلِ مقصود کو پالیتے ہیں.کو نسا نبی دنیا میں ایسا آیا جو اپنی تعلیم کو پھیلانے میں ناکام رہا، کو نسائی دنیا میں ایسا آیا می جس نے رسم و رواج کی چادر کو پھاڑ کر نہیں رکھ دیا، کو نسائی دنیا میں ایسا آیا جس نے عادات کی امینی

Page 419

خطبات محمود 419 $1944 چادر کو پھاڑ کر نہیں رکھ دیا، کو نسا بی دنیا میں ایسا آیا جس نے اکا بر کار عب خاک میں نہیں ملا دیا، کونسا نبی دنیا میں ایسا آیا جس نے جتھا بندی کا رعب لوگوں کے دلوں سے نہیں نکال دیا.آدم سے لے کر آج تک جس قدر انبیاء دنیا میں آئے ہیں وہ ان چاروں ظلمتوں کو دور کرنے میں ہمیشہ کامیاب ہوئے اور اُن کی جماعتیں ان ظلمتوں کو پھاڑتی ہوئیں لوگوں کے دلوں تک خدا تعالیٰ کا نور پہنچانے میں کامیاب ہوئیں اور سچے مذہب کو انہوں نے پھیلا دیا.پس جو کچھ آج تک ہزاروں سال سے ہوتا چلا آیا ہے ہم کس طرح مان لیں کہ وہ ہمارے لیے نہیں ہو سکتا.بے شک ہمارے راستہ میں رسم و رواج کا پردہ حائل ہے مگر جس طرح پہلے انبیاء کی اُمتوں نے اس پر دے کو چاک کر دیا اُسی طرح ہم اگر کوشش کریں تو اس پر دے کو چاک کر سکتے ہیں، بے شک ہمارے رستہ میں عادتوں کا پردہ حائل ہے لیکن جس طرح پہلے انبیاء کی امتوں نے اس م پردے کو چاک کر دیا اُسی طرح ہمارے لیے بھی وہ سامان مہیا ہیں کہ جن سے اس پر دہ کو چاک کر کے ہم لوگوں کے دلوں تک پہنچ سکتے ہیں، بے شک جس طرح پہلے زمانوں کے اکابر اور انبیاء کی جماعتوں کے درمیان جتھا بندی کا پردہ حائل ہوا کرتا تھا ویسا ہی ہمارے درمیان اور ہمارے مخالفوں کے درمیان حائل ہے مگر جس طرح انہوں نے جتھا ہندی کے پردے کو چاک کر دیا اور وہ صداقت کا نور لے کر لوگوں کے دلوں تک پہنچ گئے اور ان کو حلقہ بگوشِ دین بنادیا اسی طرح کوئی وجہ نہیں کہ اگر ہم کوشش کریں تو لوگوں کے دلوں تک رسائی حاصل نہ کر سکیں.میں دیکھتا ہوں ابھی تک ہماری جماعت میں تبلیغ کی اہمیت کا وہ احساس پیدا نہیں ہوا جو اس زمانہ میں اصلاح نفس اور اصلاح عالم کے لیے ضروری ہے.دو ارب دنیا میں افراد بس یہ رہے ہیں اور ان دو ارب لوگوں میں سے اس وقت تک پانچ لاکھ کے قریب احمدی ہیں.اگر دنیا ہے کی ایک کروڑ آبادی ہوتی تو اس کے مقابلے میں احمدی پانچ فیصدی ہوتے.لیکن چونکہ دنیا کی آبادی دو ارب کے قریب ہے اس لیے چار ہزار آدمیوں کے مقابلے میں ایک احمدی بنتا ہے.گویا ابھی تک کوئی نسبت ہی آپس میں نہیں اور یہ ساری منزل ابھی ہم نے طے کرنی ہے.ہمارے سپر وجو کام کیا گیا ہے وہ ساری دنیا میں اسلام اور احمدیت کو پھیلانا ہے.مگر میں دیکھتا ہوں

Page 420

$1944 420 خطبات محمود ابھی تک ہماری جماعت میں یہ احساس پوری طرح پیدا نہیں ہوا.ہر دل دُکھیا نہیں ، ہر دل میں اسلام کی وہ محبت پائی نہیں جاتی جو انسان کو دیوانہ اور مجنون بنا دیتی ہے.ہزاروں انسان ایسے ہیں جن کے باپ، جن کی مائیں، جن کے بھائی، جن کی بہنیں، جن کے چچا، جن کے بھیجے، جن کے ماموں، جن کے بھانجے اور جن کے دوسرے کئی رشتہ دار غیر احمدی ہیں.وہ اُن ملتے جلتے ہیں، وہ اُن سے ہر طرح کے تعلقات رکھتے ہیں لیکن اُن کے دلوں میں یہ درد پیدا نہیں ہوتا کہ وہ اُن کو بھی احمدی بنائیں.بے شک وہ اتنا کر لیتے ہیں کہ جب مجھ سے ملتے ہیں تو کہتے ہیں کہ آپ دعا کریں کہ ہمارا باپ احمد کی ہو جائے ، ہماری والدہ احمدی ہو جائے، ہمارا بھائی احمدی ہو جائے، ہماری بہن احمدی ہو جائے ، ہمارا فلاں رشتہ دار احمدی ہو جائے.مگر یہ رسمی بات تو ہر کوئی کہہ سکتا ہے.اگر واقع میں ان کے دلوں میں درد ہوتا کہ وہ کیوں ابھی تک احمدیت میں شامل نہیں ہوئے تو میں سمجھتا ہوں وہ کھانا پینا اپنے اوپر حرام کر لیتے اور اپنے اپنے غیر احمدی عزیزوں اور رشتہ داروں کے پاس جا کر بیٹھ جاتے اور کہتے یا ہم مر جائیں گے اور میں یا پھر آپ کو ہدایت منوا کر رہیں گے.ہم اُس وقت تک کھانا نہیں کھائیں گے ، ہم اُس وقت تک پانی نہیں پئیں گے جب تک آپ ہم سے کھل کر باتیں نہ کر لیں اور ہم پر یہ ثابت نہ کر دیں کہ ہم ایک غلط راستہ پر جارہے ہیں.اور یا پھر آپ نہ مان لیں کہ ہم سچائی پر ہیں اور آپ ایک غلط راستہ پر جارہے ہیں.ہم اس وقت تک یہاں سے ہلیں گے نہیں جب تک اس بات کا فیصلہ نہ ہو جائے اور جب تک ہم پھر مل کر ایک نہ ہو جائیں.ہمیں یہ دکھ اور درد تڑپا رہا ہے کہ ہم اور طرف جارہے ہیں اور آپ اور طرف جارہے ہیں.اب فیصلہ اسی طرح ہوگا کہ یا آپ ہم پر ہماری غلطی ثابت کر دیں یا ہم آپ پر آپ کے عقائد کی غلطی ثابت کر دیتے ہیں.پھر جس کی بھی غلطی ثابت ہو جائے اُس کا فرض ہے کہ وہ دوسرے کی بات مان لے تاکہ یہ اختلاف دُور ہو اور ہم پھر ایک دوسرے سے مل جائیں.میں سمجھتا ہوں اگر اس رنگ میں سب احمدی اپنے اپنے رشتہ داروں کے پاس بیٹھ جائیں اور کہیں کہ ہم نے فیصلہ کر لیا ہے کہ یا ہم مر جائیں گے یا آپ سے ہدایت منوا کر رہیں گے تو وہی لوگ جو تمسخر کیا کرتے ہیں، جو ہنسی اور مذاق سے کام لیا کرتے ہیں، جو گالیوں اور بد زبانیوں پر اتر آتے ہیں سنجیدگی سے باتیں کرنے لگ جائیں کے می

Page 421

خطبات محمود - 421 $1944 اور چند دنوں میں ہی سچائی کو قبول کر کے اسلام اور احمدیت میں شامل ہو جائیں گے.میں سمجھتا ہوں اگر سو میں سے ایک میں بھی یہ درد ہوتا، اگر سو میں سے ایک میں بھی یہ جنون ہو تا تو سو غیر احمدیوں میں سے پچاس اب تک احمدیت کو قبول کر چکے ہوتے اور ہماری جماعت کی تعداد می پانچ لاکھ نہ رہتی بلکہ اب تک وہ پچاس لاکھ سے بھی متجاوز ہو چکی ہوتی.کیونکہ ہر آدمی کے دس، ہیں، پچاس، سورشتہ دار ہوتے ہیں اور وہ اُن کو آسانی سے تبلیغ کر سکتا ہے.بہر حال اب وقت آگیا ہے کہ جماعت تبلیغ کی طرف خاص طور پر توجہ کرے.میں دیکھتا ہوں کہ اب ہماری جماعت ہندوستان سے باہر تو زیادہ پھیلنی شروع ہو گئی ہے اور ہندوستان میں اس کی اشاعت کم ہونی شروع ہو گئی ہے.چنانچہ اس وقت دونوں کی آپس میں جو نسبت ہے وہ نہایت ڈراؤنی صورت اختیار کر رہی ہے.میرے نزدیک سارے ہندوستان میں ہماری معلومہ جماعت اب تک تین لاکھ کے قریب ہے اور ہندوستان کے باہر دوسرے ممالک میں ہماری جماعت کی تعداد دولاکھ کے قریب ہے.میں سمجھتا ہوں کہ سال دو سال کے اندر اندر بیرونی ممالک کے احمدیوں کی تعداد ہندوستان کے برابر ہو جائے گی.لیکن جڑ اور درخت کی یہ ایک خطرناک نسبت ہے جو دکھائی دے رہی ہے.جس جماعت نے مبلغین تیار کرنے ہوں، جس جماعت نے مذہب کی حفاظت کا کام سر انجام دینا ہو اُس جماعت کی بنیاد بہت زیادہ وسیع ہونی چاہیے.ہٹلر نے جس وقت جرمنی پر قبضہ کیا ہے اُس نے ایک کتاب لکھی جس میں اُس نے اس امر پر بہت لمبی بحث کی ہے.اس کے کام خواہ ہم کتنے ہی ظالمانہ سمجھیں، اس نے اپنی کتاب میں یہ ایک نہایت ہی لطیف بات لکھی ہے کہ کوئی قوم جو حکمرانی کرنا چاہے وہ دنیا پر حکمرانی نہیں کر سکتی جب تک اُس کے ملک کی آبادی وسیع نہ ہو.وہ کہتا ہے عمارت بنانے کا اصول یہی ہے کہ بنیاد ہمیشہ موٹی تیار کرتے ہیں اور اُس پر عمارت بنیاد کے مقابلہ میں چھوٹی تیار ہوتی ہے.اگر دوفٹ کی دیوار بنانی ہو تو بنیاد تین فٹ رکھیں گے.اگر چارفٹ کی دیوار بنانی ہو تو ؟ بنیاد چھ فٹ رکھیں گے.کیونکہ اگر بنیاد وسیع نہ ہو تو وہ بوجھ کو سہار نہیں سکے گی اور جو عمارت تیار ہو گی وہ بنیاد کے مضبوط نہ ہونے کی وجہ سے گر پڑے گی.اسی طرح جس ملک کو میں خدا تعالیٰ صداقت اور ایمان کے لیے پہنتا ہے اُس ملک میں بھی صداقت کے پیروؤں کی

Page 422

خطبات محمود 422 $1944 بہت زیادہ تعداد ہونی چاہیے.شروع شروع میں تو ہندوستان میں ہماری جماعت کی تعداد زیادہ تھی اور بیرونی ممالک میں کم تھی.اگر ہندوستان میں پانچ دس ہزار احمدی تھے تو باہر چند سو سے زیادہ نہیں تھے اور اگر ہندوستان میں احمدیوں کی تعداد ایک لاکھ تک پہنچ گئی تو بیرونی ممالک می میں پندرہ بیس ہزار تک احمدیوں کی تعداد ہو گئی.مگر اب ان دونوں نسبتوں میں بڑا بھاری فرق پیدا ہو تا جارہا ہے.جہاں تک بیرونی ممالک میں جماعت احمدیہ کی تعداد کا ترقی کرنا ہے ہم اسے خدا کا فضل سمجھتے ہیں.لیکن جہاں تک ہندوستان میں ہماری جماعت کی تعداد کا کم ہو جانا ہے یہ ایک نہایت ہی تشویش ناک امر ہے.بیرونی ممالک میں سے سماٹرا، جاوا اور بورنیو کی جماعتوں کو ملا کر.اسی طرح افغانستان کی جماعت کو (گو یہ جماعت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ سے ہی قائم ہے ) اور مشرقی افریقہ کی جماعتوں کو ملا کر ، پھر فلسطین اور مصر وغیرہ کی جماعتیں ملا کر بہت بڑی تعداد بن جاتی ہے.اس کے بعد ہم مغربی ہے افریقہ میں چلے جائیں تو وہاں بھی مختلف علاقوں میں ہزاروں احمد کی پائے جاتے ہیں.اسی طرح ہے یورپ کے مختلف حصے ہیں جہاں احمدی پائے جاتے ہیں، امریکہ کے کئی علاقے ہیں جہاں جماعتیں قائم ہیں.دنیا کے بعض ممالک تو ایسے ہیں کہ وہاں ہیں ہیں، تیس تیس ہزار احمدی موجود ہیں.ان ساری جماعتوں کو ملا لیا جائے تو بیرونی ممالک میں دولاکھ کے قریب احمدی بن جاتے ہیں.اگر بیرونی ممالک کی جماعتیں اسی طرح بڑھتی چلی گئیں تو نتیجہ یہ ہو گا کہ کفر پر حملہ کی ابتدا ان کے ہاتھوں میں چلی جائے گی اور ہندوستان کی مرکزیت جاتی رہے گی.چونکہ موجودہ زمانہ میں دین کا آغاز قادیان سے ہوا ہے اور دین کی باتیں صحیح طور پر جاننے والے ہی قادیان کے ہی لوگ ہیں اس لیے دینی امور کے متعلق فیصلہ کرنے کا حق قادیان ہی رکھتا ہے.مگر جب بیرونی ممالک کے احمدی تعداد میں زیادہ ہو جائیں گے تو وہ دینی امور کا فیصلہ اپنے ہاتھ میں لینے کی کوشش کریں گے.جس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ جس طرح عیسائیت جب مرکز میں کمزور ہو گئی اور باہر زیادہ پھیلنی شروع ہو گئی تو انہوں نے عیسائیت کو اپنے رنگ میں ڈھال لیا اور می بجائے توحید کے تثلیث کا عقیدہ اختیار کر لیا.اسی طرح اگر مرکز میں احمدیت کمزور ہو گئی تو باہر کے لوگ دینی امور کی باگ اپنے ہاتھ میں لینے کی کوشش کریں گے اور چونکہ وہ احمدیت سے

Page 423

$1944 423 خطبات محمود ناواقف ہوں گے اس لیے وہ احمدیت کو بدل ڈالیں گے.پس ہماری جماعت اس وقت ایک نہایت ہی نازک مرحلہ پر آپہنچی ہے اور ضروری ہے کہ ہم اپنے دانتوں میں زبان دبا کر اور پوری طرح کمر کس کر ہندوستان میں اپنی تبلیغ کو وسیع کرنے کے لیے کھڑے ہو جائیں اور کوشش کریں کہ آئندہ ایک صدی تک بیرونی ممالک میں احمدیوں کی تعداد جس نسبت سے ترقی کرے اُس سے کئی گنا بڑھ کر ہندوستان میں ہماری جماعت پھیلے.گویا بیرونی ممالک کے مقابلہ میں زیادہ سرعت سے ہندوستان میں احمدیت پھیلنا شروع کر دے.کیونکہ ہندوستان ہی وہ ملک ہے جس کے رہنے والے اردو زبان جانتے ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کتابوں کو زیادہ سمجھ سکتے ہیں، جو بار بار قادیان آسکتے ہیں، جو ہم سے مل کر دینی مسائل کو عمدگی سے سیکھ سکتے ہیں، جو ہماری تربیت کے زیر اثر دوسروں تک دین کی باتیں پہنچا سکتے ہیں، جن کے علماء ہماری نگرانی میں تیار ہو کر دین کی حقیقت کو اچھی سمجھ سکتے ہیں اور دوسروں کو سمجھا سکتے ہیں.ایسی صورت میں یہ وہی بات ہے کہ جب ہندوستان میں احمدیوں کی کثرت ہو گی تو باقی ممالک کے لوگ اگر دین سیکھنا چاہیں گے تو ہندوستان کے لوگوں سے ہی سیکھیں گے اور وہ اپنے آپ کو دینی امور میں ہندوستان کا تابع سمجھیں گے.لیکن اگر بیرونی ممالک میں احمدیوں کی تعداد بڑھتی چلی گئی اور ہندوستان میں احمدیوں کی تعداد کم رہی تو وہ سمجھیں گے کہ اب ہم لوگ اس بات کا حق رکھتے ہیں کہ دین کے معاملات میں دخل دیں اور چونکہ وہ خود دینی باتوں سے پورے واقف نہ ہوں گے اس لیے نتیجہ یہ ہو گا کہ دین بدل جائے گا اور اس میں غلط باتیں شامل ہو جائیں گی.پس یہ ایک نہایت خطرناک موقع پیدا ہو گیا ہے جس سے میں جماعت کو ابھی سے ہوشیار کر دیتا ہوں.میں نے متواتر جماعت کو تبلیغ کی طرف توجہ دلائی ہے.مگر میں دیکھتا ہوں ابھی تک ہماری جماعت میں تبلیغ کا احساس پیدا نہیں ہوا.آج میں پھر ان کے سامنے یہ بات کھول کر رکھ دیتا ہوں کہ اگر جماعت نے تبلیغ کی طرف توجہ نہ کی اور اگر ہندوستان کی جماعت اس میدان میں بیرونی ممالک سے کئی گنا نہ بڑھ گئی تو دین خطر ناک ہاتھوں میں چلا ہے جائے گا اور پیشتر اس کے کہ وہ پینے اس پر مُرجھانے کے آثار ظاہر ہونے شروع

Page 424

$1944 424 خطبات محمود ہو جائیں گے.کوئی عمارت جو پتیلی بنیاد پر کھڑی کی جائے کبھی اونچی نہیں ہو سکتی.جب بھی وہ اونچی ہو گی ٹیڑھی ہو جائے گی اور جب اور زیادہ اونچی ہو گی تو گر جائے گی.اس وقت حالت یہ ہے کہ ہماری بنیاد چھوٹی ہے اور اوپر کی دیوار جلد جلد چوڑی ہو رہی ہے.پس ضرورت اس بات کی ہے کہ اس بنیاد کو اور زیادہ چوڑا کیا جائے اور پھر اس بنیاد کو ہم چوڑا کرتے چلے جائیں تا کہ اس پر جو بھی عمارت تیار ہو وہ بنیاد کے مقابلہ میں چھوٹی ہو.اور پھر جوں جوں وہ عمارت اونچی ہو ہمارا فرض ہے کہ ہم بنیاد کو اور بھی وسیع کرتے چلے جائیں.تب احمدیت مضبوط اور محفوظ ہاتھوں میں ہو گی اور تب خدا کا دین ایک لمبے عرصہ تک محفوظ و مصئون صورت میں چلتا چلا جائے گا.میں نے بعض جماعتوں کو خصوصیت سے تبلیغ کی طرف توجہ دلائی تھی اور میں دیکھتا ہوں کہ ان میں کچھ بیداری بھی پائی جاتی ہے مگر ابھی میں نہیں کہہ سکتا کہ انہوں نے کچھ کام بھی کر کے دکھایا ہے یا نہیں.مثلا لاہور کی جماعت کو میں نے تبلیغ کی طرف توجہ دلائی ہے تھی.وہاں سینکڑوں کی جماعت ہے مگر تبلیغ کرنے کا صرف پچیس تیس لوگوں نے وعدہ کیا.اور پھر اُن پچیس تیس لوگوں کی کارگزاری کی جو پہلی رپورٹ میرے سامنے آئی اُس میں دس پندرہ کی نسبت یہ لکھا ہوا تھا کہ انہوں نے کہا، ہم نے اس ہفتہ میں تبلیغ یہ کی ہے کہ اسلام کی ترقی کے لیے دعا کی ہے.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ تبلیغ کا ایک ذریعہ دعا بھی ہے مگر جب تبلیغی رپورٹ پیش کی جارہی ہو تو اس وقت یہ کہنا کہ ہم نے اس ہفتہ صرف دعا کی ہے دین اور مذہب سے تمسخر کرتا ہے.گویا اول تو سینکڑوں کی جماعت میں سے صرف پچیس تیس آدمیوں نے اپنے آپ کو تبلیغ کے لیے پیش کیا اور پھر وہ پچھیں تھیں جنہوں نے وعدہ کیا تھا اُن میں سے بھی اکثر میدان جنگ سے بھاگ گئے.حالانکہ لاہور کی جماعت میں سے تین چار سو بلکہ پانچ سوتی کے قریب ایسے آدمی نکل سکتے ہیں جو تبلیغ کریں.اور قادیان میں سے تو تین چار ہزار آدمی ہیں مختلف علاقوں میں تبلیغ کے لیے جاسکتے ہیں.میں نے گزشتہ دنوں یہاں تبلیغ کے لیے حلقے مقرر کرنے کی ہدایت دی تھی اور می میری غرض یہ تھی کہ لوگ وہاں متواتر جائیں اور تبلیغ کریں.مگر انہوں نے بھی تبلیغ کو میں

Page 425

$1944 425 محمود ایک تمسخر کا ڈھانچہ بنا کر رکھ دیا.چنانچہ مجھے بتایا گیا کہ ارد گرد کے چند علاقوں میں پندرہ دن میں ایک دفعہ چالیس پچاس آدمی گئے اور انہوں نے تبلیغ کی.حالانکہ میر امنشاء یہ تھا کہ حلقے مقرر کر کے مختلف لوگوں کے سپر د کر دیے جائیں اور اُن کا یہ فرض قرار دیا جائے کہ وہ اپنے اپنے حلقہ کے تمام دیہات میں متواتر جائیں اور تبلیغ کریں.تبلیغ کے لیے ایک وسیع حلقہ میں پندرہ دن کے بعد ایک روز جانے کے کوئی معنے ہی نہیں.قریب کے گاؤں میں ہر دوسرے دن انسان تبلیغ کے لیے جاسکتا ہے.بلکہ اگر کوشش کرے تو روزانہ بھی جاسکتا ہے.مگر انہوں نے اتنا ہی کافی سمجھ لیا کہ پندرہ دن کے بعد ایک دن سیر کے لیے نکل گئے.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ تبلیغ کی کوئی اہمیت ہی دلوں میں باقی نہیں رہی.اور جب بھی کوئی کام کیا جاتا ہے معمولی سا قدم اٹھا کر یہ سمجھ لیا جاتا ہے کہ ہم نے بہت بڑا کام کر لیا.حالانکہ قادیان میں تین چار ہزار آدمی موجود ہیں.اگر ہر شخص سچا احمدی ہو تا تو اُس کے اندر ایک جنون ہونا چاہیے تھا کہ میں احمدیت کو پھیلاؤں.اور یہ جنون اس حد تک بڑھا ہوا ہو تا کہ اگر ان میں.شخص کو روٹی کھانے کے لیے کہا جاتا تو وہ کہتا کہ میں روٹی اُس وقت تک نہیں کھا سکتا جب تک دین کی کچھ نہ کچھ تبلیغ نہ کرلوں.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ بعض لوگوں کے کام مرکزی ہوتے ہیں.مگر یہ تو نہیں کہ جو لوگ تبلیغ کے لیے نہیں جاتے وہ سب کے سب مرکزی کاموں میں مصروف ہیں.اگر قادیان کے چار ہزار افراد میں سے تین ہزار نو سو پچاس دین کا ہے مرکزی کام کر رہے ہوتے ، جسے چھوڑ کر باہر جانا اُن کے لیے ناممکن ہوتا تو میں مان لیتا کہ وہ چالیس پچاس جو تمسخر کے طور پر پندرہ دن کے بعد ایک دفعہ بٹالہ یا امر تسر چلے جاتے ہیں.یہ اُن کا پندرہ روزہ تبلیغ کے لیے باہر جانا اپنے اندر کوئی معقولیت رکھتا ہے.مگر میں تو دیکھتا ہوں کہ ان تین ہزار نو سو پچاس لوگوں میں سے اکثر ایسے ہیں جو مرکز میں دین کا کوئی کام نہیں ہے کرتے.وہ رات دن دنیا کے کاموں میں مصروف رہتے ہیں.کوئی اپنی تجارت کے کام میں لگا ہوا ہے، کوئی زراعت کے کام میں لگا ہوا ہے ، کوئی صنعت و حرفت کے کام میں لگا ہوا ہے دین متی سے ان کو کوئی مش ہی نہیں.جب حالت یہ ہے تو ان پچاس آدمیوں نے کرنا ہی کیا ہے اور ان کا اثر ہی کیا ہو گا.اور وہ بھی ایسی حالت میں کہ پندرہ روز کے بعد ایک دن اُٹھے اور دورہ

Page 426

خطبات محمود 426 $1944 کرنے کے لیے چلے گئے جیسے کوئی شخص سیر کرنے کے لیے چلا جاتا ہے.حالانکہ قادیان میں ہی اتنے احمدی موجود ہیں کہ اگر سچے طور پر ان میں اخلاص ہو تا، ان میں تقوی ہوتا، ان میں دین کی محبت ہوتی تو وہ ہزارہ کی جماعت اب تک بڑھا چکے ہوتے.پھر بچوں بچوں جماعت بڑھتی ہے چلی جاتی دائرہ تبلیغ کو بھی ہم وسیع کر سکتے تھے.مگر مجھے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ انہوں نے اِس طرف کوئی توجہ نہیں کی.اسی طرح باہر کے لوگوں کا حال ہے.بعض جماعتوں پر سالہا سال گزر جاتے ہیں مگر اُن میں کوئی نیا احمدی داخل نہیں ہوتا.جس کی وجہ یہی ہوتی ہے کہ وہ تبلیغ نہیں کرتے، سستی ان پر چھا جاتی ہے، دین ان کا کمزور ہو جاتا ہے اور ی مذہبی احکام پر عمل بہت کم ہو جاتا ہے.جس کے نتیجہ میں ان کی نمازوں میں بھی شستی آجاتی ہے، ان کے روزوں میں بھی سستی آجاتی ہے، ان کی زکوۃ میں بھی شستی آجاتی ہے، ان کے صدقہ و خیرات میں بھی شستی آجاتی ہے.بے شک چندہ ایسی چیز ہے جس کے متعلق ہماری جماعت میں بیداری پائی جاتی ہے مگر وہ بیداری شاید اس لیے ہے کہ بیت المال کا صیغہ ہے دعوة و تبلیغ سے زیادہ احساس اپنے اندر رکھتا ہے.ان کو فکر ہے کہ اگر چندہ پورا نہ ہوا تو سلسلہ کے کام بند ہو جائیں گے اور لوگ اعتراض کریں گے.لیکن دعوۃ و تبلیغ والوں کو یہ کوئی فکر نہیں ہے کہ وہ نئے آدمی جماعت میں شامل کرنے کی کوشش کریں.کیونکہ وہ سمجھتے ہیں جماعت کو بھی اس کے متعلق کوئی احساس نہیں.اگر ہم نے کوئی کام نہ کیا تب بھی جماعت کوئی اعتراض نہیں ہے کرے گی.بہر حال ہماری جماعت میں تبلیغ کے متعلق خطرناک طور پر شستی پائی جاتی ہے.جماعتوں کا فرض ہے کہ وہ اس کو دور کرنے کی کوشش کریں.ابھی یہ خطرہ نمایاں نہیں ہوا کیونکہ جنگ کی وجہ سے بیرونی ممالک کی تبلیغ پر زیادہ زور نہیں دیا جاسکتا.لیکن اس خطرہ سے آنکھیں بند کر لینا انتہائی طور پر نادانی اور حماقت ہے.میرے اعلان پر سینکڑوں لوگوں نے اپنی زندگیاں اسلام کی تبلیغ کے لیے وقف کی ہیں اور بیسیوں مبلغ ہیں جو بیرونی ممالک کی تبلیغ کے لیے تیار ہو رہے ہیں اور تھوڑے ہی عرصہ کے بعد وہ ہندوستان سے باہر تبلیغ کے لیے بھجوادیئے جائیں گے.اور جیسا کہ گزشتہ تجربہ بتارہا ہے جب یہ لوگ تبلیغ کے میدان میں کھڑے ہوئے

Page 427

خطبات محمود 427 $1944 تو انشاء اللہ ہر علاقہ میں یکدم ہزاروں لوگ ہمارے سلسلہ میں داخل ہونے شروع ہو جائیں گے.باہر کے لوگوں میں ہندوستان کے لوگوں سے زیادہ بیداری پائی جاتی ہے.چنانچہ جس جس ملک میں ہم نے اپنے مبلغ بھجوائے ہیں وہاں ہزاروں لوگوں نے بیعت کرلی ہے.پس سب بیسیوں مبلغ باہر کے ممالک میں تبلیغ کے لیے بھجوائے گئے تو چند سالوں میں ہی لاکھوں لوگ خدا تعالیٰ کے فضل سے احمدیت میں داخل ہو جائیں گے.مگر یہ بات ہندوستان کے لوگوں کے لیے نہایت ہی شرمناک ہو گی اور اس صورت میں باہر کے لوگوں کی باگ سنبھالنا بھی اس کے لیے سخت مشکل کام ہو جائے گا.وہ لوگ کہیں گے کہ تمہارا کیا حق ہے کہ ہماری رہنمائی کرو.ہم تعداد میں تم سے زیادہ ہیں.ہم قربانیوں میں تم سے زیادہ ہیں اور تم ہمارے مقابلہ میں کوئی نسبت نہیں رکھتے.اس لیے لوگوں کی رہنمائی کا حق ہمیں حاصل ہونا چاہیے اور مرکز ہمارے ہاتھ میں ہونا چاہیے تاکہ ہم جس طرح چاہیں دین کی اشاعت کا کام کریں.تب احمدیت کے لیے وہی خطرہ کی صورت پیدا ہو جائے گی جو روما میں عیسائیت کے لیے پیدا ہوئی.،فلسطین میں عیسائیوں کی تعداد کم ہو گئی اور اٹلی میں عیسائیت زیادہ پھیلنی شروع ہوئی تو جب عیسائیت کا مرکز فلسطین نہ رہا بلکہ اٹلی بن گیا.اور چونکہ وہ مرکز کفر تھا اس لیے عیسائیت کفر کے رنگ میں رنگین ہونی شروع ہو گئی.اسی طرح قادیان کی نگرانی کے بغیر جو مرکز بنے گا ہی چونکہ وہ قادیان کے مقدس ماحول کے زیر اثر نہیں ہو گا اس لیے وہ مرکز دین کے لیے تباہی کا یہ موجب ہو گا اس کے لیے کسی خیر اور برکت کا موجب نہیں ہو گا.پس میں ایک دفعہ پھر جماعت کو ہوشیار کر دیتا ہوں کہ اسے ہندوستان کی تبلیغ کی ہے اہمیت سمجھنی چاہیے.میں جماعت کو بتا دیتا ہوں کہ اس وقت ہندوستان کی مرکزی حیثیت خطرے میں ہے.اگر جلد ہی ہندوستان کے احمدیوں نے اپنے اندر چستی اور ہوشیاری پیدا نہ کی تو قادیان جو ہمارا تبلیغ کا مرکز ہے اور ہندوستان جو اس مرکز کا ماحول ہونے کی وجہ سے تمام دنیا میں احمدیت کی تبلیغ اور اس کی اشاعت کے لیے بنیادی طور پر ایک مرکزی حیثیت رکھتا ہے اس میں کمزوری اور ضعف کے آثار پیدا ہونے شروع ہو جائیں گے.اور ایسی صورت پیدا ہو جائے گی کہ بجائے اس کے کہ ہندوستان کے لوگ دوسروں کی اصلاح کریں اور انہیں یہ

Page 428

$1944 428 خطبات محمود دینی مسائل سکھائیں وہ اور لوگوں کے رحم پر ہوں گے کہ وہ جس طرح چاہیں اِن سے سلوک کریں اور جس طرح چاہیں دین کو بدلتے چلے جائیں.کیونکہ ایسی صورت میں ہندوستان دوسرے ممالک سے تعلیم حاصل کرنے کا محتاج قرار دیا جائے گا گو ہو گا نہیں.میں امید کرتا ہوں کہ یہ میری آخری تنبیہ جماعت کی اصلاح اور اس کی بیداری کا موجب ہو گی.میں اس کو آخری تنبیہہ اس لیے کہتا ہوں کہ وقت ایسا نازک آگیا ہے کہ چند مہینوں یا چند سالوں کے اندر اندر بیر و نجات میں نہایت سرعت کے ساتھ احمدیت پھیلنے والی ہے اور جنگ کے بعد ان جماعتوں کے بڑھنے کا زبر دست طور پر امکان پایا جاتا ہے.پس بیشتر اس کے کہ بیر و نجات کے احمدی مرکز کو اپنے ہاتھ میں لینے کی کوشش کریں اور ہندوستان کے لوگوں کی راہنمائی کا حق جاتا ہے چاہیے کہ ہندوستان میں ہماری جماعت کے افراد اپنی تعداد کو موجودہ تعداد سے کئی گنا بڑھا کر دکھا دیں اور پھر تعلیم و تربیت کی طرف بھی توجہ کریں تا کہ می ہندوستان کا حق قائم رہے اور اس کی رہنمائی پر کوئی اور ملک قبضہ نہ کرلے.میں امید کرتا ہوں کہ جماعتیں اپنی ذمہ داری کو محسوس کریں گی اور نہ صرف تعداد میں اپنے آپ کو بڑھانے کی کوشش کریں گی بلکہ تعظیم میں بھی دوسروں کے لیے نمونہ بنیں گی.میر امنشاء ہے کہ پرائیویٹ سیکرٹری کے ساتھ ایک اور سیکرٹری ایسا مقرر کروں جس کا کام ہندوستان کے لوگوں کو تبلیغ کی طرف توجہ دلانا ہو.اس کا یہ بھی کام ہو گا کہ وہ بیعتوں کا نقشہ ہے تیار کر کے تھوڑے تھوڑے وقفہ کے بعد اخبار میں شائع کرتا رہے تاکہ جماعتوں کو یہ معلوم ہو تا رہے کہ انہوں نے تبلیغی لحاظ سے کیا جدوجہد کی ہے اور جو جماعتیں غافل اور ست ہوں وہ بھی بیدار ہونے کی کوشش کریں.اس طرح جو مبلغین باہر جاتے ہیں ان سے بھی کہا جائے گا کہ فلاں فلاں علاقہ میں جماعتیں کم ہیں ان علاقوں میں احمدیت کو بڑھانے کی کوشش کریں.میں سمجھتا ہوں ہمیں تبلیغی نقطہ نگاہ سے شہروں کی طرف زیادہ توجہ کرنی چاہیے.مثلاً دہلی ہے، لکھنو ہے، لاہور ہے، امر تسر ہے ، پشاور ہے ، راولپنڈی ہے ، ملتان ہے، منٹگمری ہے کیونکہ شہروں میں تنظیم اور تربیت نسبتاً آسان ہوتی ہے.میرا یہ مطلب نہیں کہ دیہات میں تبلیغ ضروری نہیں.دیہات اس بات کا زیادہ حق رکھتے ہیں کہ اُن کی طرف توجہ کی جائے.

Page 429

$1944 429 خطبات محمود مگر گاؤں کے لوگوں میں عام طور پر ابھی ایسا ملکہ پیدا نہیں ہوا کہ وہ دوسروں کو احمدیت سکھا سکیں.بعض گاؤں ایسے ہیں جہاں صرف ایک دو دفعہ ہمارا کوئی مولوی گیا تو وہاں کے لوگوں نے اس سے احمدیت کی بعض باتیں سیکھ لیں.اس سے زیادہ ان کو دین کا کوئی علم نہیں.پس ہے شہروں کی جماعتوں کو مضبوط کر کے ارد گرد کے علاقوں کے لیے تعلیمی مرکز بنائے جائیں تاکہ گاؤں والے آسانی کے ساتھ وہاں مسائل دین سیکھ سکیں.شہروں میں تعلیمی مرکز قائم کر کے ہے کہ گاؤں کی جماعتوں کو تحریک کی جائے کہ اپنا ایک ایک نمائندہ وہاں بھجوادیں تا چار پانچ ماہ میں دین کے بڑے بڑے مسائل سیکھ لے اور اس طرح آہستہ آہستہ سارے علاقہ میں علم دین پھیل جائے.اور ہر گاؤں میں کوئی نہ کوئی شخص ایسا موجود رہے جو احمدیت کو خود بھی سمجھتا ہو اور دوسروں کو بھی سمجھا سکتا ہو.اسی طرح ضروری ہے کہ بیر و نجات کی جماعتیں اپنا ایک ایک طالب علم تعلیم حاصل کرنے کے لیے قادیان بھی بھجوائیں.میرے نزدیک دعوۃ و تبلیغ والوں کو ایک سال کا کورس ایسا تیار کرنا چاہیے جو باہر سے آنے والے لوگوں کو پڑھایا جاسکے اور جس کو پڑھ کر وہ سلسلہ کے ضروری مسائل سے اچھی طرح آگاہ ہو جائیں.اس کورس کی تیاری کے بعد ہر جماعت پر یہ واجب کر دیا جائے کہ جس طرح وہ چندے دیتی ہے ہے اسی طرح ہر جماعت آئندہ اپنا ایک ایک آدمی بھی تعلیم کے لیے قادیان بھیجا کرے.اس کا سال بھر کا خرچ وہاں کی جماعت کو خود برداشت کرنا پڑے گا.جب ایک لڑکا حاصل کر کے واپس چلا جائے تو اگلے سال جماعت دوسر اطالب علم بھجواسکتی ہے.بہر حال ہر جماعت کو مجبور کیا جائے کہ جس طرح وہ روپیہ کی صورت میں چندہ دیتی ہے اسی طرح وہ آدمیوں کی صورت میں بھی چندہ پیش کرے تاکہ ہندوستان کے ہر علاقہ میں ایسے لوگ پیدا ہو جائیں جو مسائل دینیہ سے پوری طرح آگاہ ہوں.میں سمجھتا ہوں اگر یہ دونوں طریق اختیار کیے جائیں تو جماعت میں ایک عظیم الشان بیداری پیدا ہو سکتی ہے.لیکن جب تک یہ انتظام نہ ہو جس جس کو جو کچھ آتا ہے اُسی کو لے کر وہ باہر نکل جائے اور لوگوں کو تبلیغ کرنا شروع کر دے.اور جیسا کہ میں نے بتایا ہے تبلیغ کا بہترین طریق یہ ہے کہ انسان اپنے غیر احمدی رشتہ داروں کے پاس چلا جائے اور اُن سے کہے کہ اب میں نے یہاں سے مر کر ہی اٹھنا ہے

Page 430

خطبات محمود 430 $1944 ور نہ یا تم مجھ کو سمجھا دو کہ میں غلط راستہ پر ہوں اور یا تم سمجھ جاؤ کہ تم غلط راستے پر جارہے ہو.اس عزم اور ارادہ سے اگر ساری جماعت کھڑی ہو جائے تو میں سمجھتا ہوں ابھی ایک سال بھی ختم نہیں ہو گا کہ ہماری ہندوستان کی جماعت میں صرف احمدیوں کے رشتہ داروں کے ذریعہ ہی ایک لاکھ آدمی بڑھ جائیں گے.سوال صرف ہمت کا ہے.اگر لوگ ہمت کریں اور اس ارادہ کو پورا کرنے کے لیے عملی قدم اٹھائیں تو بہت جلد اس کے نیک نتائج پیدا ہو سکتے ہیں.اللہ تعالی ہے ہماری جماعت کو توفیق عطا فرمائے کہ وہ اپنی اس اہم ذمہ داری کو سمجھے اور اپنے اندر چیستی اور مین بیداری پیدا کر کے تبلیغ احمدیت کی طرف پوری طرح متوجہ ہو جائے ورنہ نہایت ہی خطرناک ایام قریب آرہے ہیں.جیسے عذاب کی آندھی اٹھتی ہے تو ڈور سے اس کی سرخی نظر آتی ہے جسے دیکھتے ہی دل کانپ اٹھتے ہیں اسی طرح کی سرخی میں بھی فضا میں دیکھ رہا ہوں.اور وہ دن ہے مجھے قریب آتے نظر آرہے ہیں جب ہندوستان اپنی راہنمائی کا حق کھو بیٹھے گا کیونکہ بیرونی ممالک میں احمد کی زیادہ ہو جائیں گے اور ہندوستان میں کم ہو جائیں گے.ہم امید کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اس نہایت ہی نازک موقع پر ہماری راہنمائی کرے گا.مگر ہمارا بھی فرض ہے کہ ہم وقت پر بیدار ہو جائیں، مستقبل کے آثار کو پہچان لیں اور اُن کے مطابق اپنے اندر تغیر پیدا کرنے کی کوشش کریں".(الفضل 6 جولائی 1944ء) 1 2 : سیرت ابن ہشام جلد 463 464 مطبوعہ القاہرہ مصر 1964ء : بخاری کتاب مناقب الانصار باب قصة أبي طالب

Page 431

خطبات محمود $1944 431 (24) خدام الاحمدیہ میں ہر احمدی نوجوان کا شامل ہونا لازمی ہے فرمودہ 23 جون 1944ء) تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: " اللہ تعالیٰ کے قانون میں ہمیں یہ بات نظر آتی ہے کہ جو چیزیں اپنی ضرورت کے زمانہ تک چلتی چلی جاتی ہیں اُن میں تناسل کا سلسلہ جاری نہیں ہوتا.مثلاً سورج ہے.جب تک سورج چلے گا یہ دنیا بھی اُس کے ساتھ چلے گی.جب سورج فنا ہو جائے گا تو اُس کے ارد گرد کے جو گرے ہیں وہ بھی فنا ہو جائیں گے.اس لیے اللہ تعالیٰ نے سورج کے لیے تناسل کا سلسلہ جاری نہیں کیا.تناسل کا سلسلہ جاری کرنے کے یہ معنے ہوتے ہیں کہ اس چیز کا قائم مقام پیدا ہو اور سورج کے قائم مقام کی چونکہ ضرورت نہیں اس نے اپنے مقصد تک اپنے آپ کو لئے میں جاتا ہے اس لیے اللہ تعالی نے اس کے لیے سلسلہ تناسل جاری نہیں کیا.جب وہ فنا ہو جائے گا ہے اللہ تعالیٰ اسی طرح کا اور سورج پیدا کر دے گا.اسی سورج میں سے اور سورج نکالنے کی

Page 432

خطبات محمود 432 $1944 ضرورت نہیں.اسی طرح پہاڑ ہیں.جو پہاڑ اللہ تعالیٰ نے پیدا کیے ہیں وہی چلے جاتے ہیں.کبھی کوئی یہ نہیں کہتا کہ آج ہمالیہ نے بچہ دیا ہے یا آج ہمالیہ مر گیا.آج فلاں چٹان نے بچہ دیا یا آج فلاں چٹان مر گئی.آج لو باد نیا میں مر گیا یا آج لوہے کے ہاں بچہ پیدا ہوا.اس لیے کہ جب تک لوہے کی ضرورت ہے وہی لوہا دنیا میں کام آتا رہے گا.اس لیے ان چیزوں کے لیے اللہ تعالیٰ نے سلسلہ تناسل جاری نہیں کیا.مگر وہ چیزیں جو اپنے قومی مقصد و مدعا کے حصول سے پہلے ختم ہو جاتی ہیں اُن کے لیے اللہ تعالیٰ نے تناسل کا سلسلہ جاری کیا ہے.جب تک دنیا ہے اور انسان اس میں آباد ہیں سواری اور بوجھ اٹھانے کے لیے گھوڑوں کی ضرورت ہے، خچروں اور گدھوں کی ضرورت ہے.مگر یہ چیزیں مرتی ہیں.گھوڑے مر جاتے ہیں اس لیے اللہ تعالیٰ اور گھوڑے پیدا کر دیتا ہے.خچریں مرتی ہیں اور اللہ تعالی اور خچریں پیدا کر دیتا ہے ہے.گدھے مرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ اور گدھے پیدا کر دیتا ہے.ان کے لیے سلسلہ تناسل جاری ہے.یہی حال انسان کا ہے.انسان کو اللہ نے خاص مقصد کے لیے پیدا کیا ہے.وہ مقصد کسی خاص انسان کے ساتھ وابستہ نہیں.کوئی ایک انسان نہیں جس کے ساتھ انسانی پیدائش کی غرض پوری ہو جاتی ہو.اس لیے اللہ تعالی نے انسانی پیدائش کا ایک لمبا سلسلہ جاری کیا ہے ہے تاجب تک اس مقصد کی تکمیل کا وقت آئے انسان دنیا میں موجود رہے اور خدا تعالیٰ سے ملنے اور اُس کا قرب حاصل کرنے کی کوشش کرتا رہے.مگر چونکہ انسان مرتے ہیں اس لیے ان میں سلسلہ تناسل جاری کیا گیا ہے.ایک انسان مرتا ہے تو اس کے پیچھے دو تین، چار پانچ یا کم و بیش بچے اُس کے قائم مقام موجود ہوتے ہیں.تو جہاں تک جسمانیات کا تعلق ہے انسان میں تناسل کا سلسلہ موجود ہے.اس کے مقابلہ میں روحانی حالت ہے.اس کے لیے بھی تناسل کا سلسلہ ضروری ہے کیونکہ جب تک تناسل کا سلسلہ جاری نہ ہو ایک نسل کے بعد پھر کفر و بدعت دنیا میں پھیل جائے.جس طرح جسمانی لحاظ سے سلسلہ تناسل ضروری ہے اسی طرح روحانی لحاظ سے بھی ضروری ہے.جس طرح جسمانی نسل چلانے کے لیے مرد و عورت باہم ملتے ہیں اور بچہ پیدا ہوتا ہے اسی طرح روحانی نسل کے لیے مامور اور مرید یا معلم اور متعلم کا ملنا ضروری ہے.

Page 433

خطبات محمود 433 $1944 خدا تعالیٰ کی طرف سے ایک نبی آتا ہے اور اُس کی اُمت کے لوگ اس کے ساتھ ملتے ہیں.اس کے حسن کو اپنے دلوں پر نقش کر لیتے ہیں اور اس کی تعلیمات کو سیکھتے ہیں.اور جس طرح جب ایک انسان فوت ہوتا ہے تو اُس کا حسن اُس کے بعد بھی اُس کی اولاد میں موجود ہوتا ہے نبی اور مامور کے بعد اس کے متبعین میں اُس کا حسن منتقل ہو جاتا ہے.جس طرح ایک انسان کی وفات کے بعد اس کی جسمانیت اس کی اولاد میں منتقل ہو جاتی ہے اسی طرح نبی اور مامور کی وفات کے بعد اُس کا نور اور اس کی روحانیت اس کے متبعین میں منتقل ہو جاتی ہے.اگر اس کی اولاد ایسی نہیں جو رجولیت سے محروم ہو تو وہ پھر آگے ایسے لوگ جنتی ہیں جن میں ان کا اثر موجود ہوتا ہے اور پھر وہ آگے اس سلسلہ کو چلاتے جاتے ہیں.حتی کہ وہ زمانہ آجاتا ہے جب روحانی نسل روحانی طور پر بانجھ اور نامرد پیدا ہوتی ہے اور نسل بند ہو جاتی ہے.مگر چونکہ جسمانی نسل بند نہیں ہوتی اور سلسلہ تناسل جاری ہوتا ہے اس لیے اللہ تعالیٰ ایک نیا روحانی آدم پیدا کرتا ہے.مگر سوال یہ ہے کہ کیا اس نئے آدم کے پیدا کیے جانے سے پچھلی امت کی ذمہ داریاں ختم ہو جاتی ہیں؟ ہر گز نہیں.وہ یہ نہیں کہہ سکتی کہ نیا آدم جو پیدا ہو گیا اس لیے ہماری ذمہ داری ختم ہو گئی.خدا تعالیٰ ان سے کہے گا کہ اگر میں نے نیا آدم پیدا کیا تو اس لیے ہے کہ تمہاری وجہ سے روحانی سلسلہ بند ہو گیا.اور اس سلسلہ کو بند کرنے کی وجہ سے وہ خدا تعالیٰ کی لعنت کے نیچے آجاتے ہیں.اگر کوئی شخص کسی کے بچہ کو مار دے اور کہے کہ کیا ہوا مار دیا ماں باپ ابھی زندہ ہیں اور بچہ پیدا کر سکتے ہیں تو کیا اُس کے ماں باپ اُس کو چھوڑ دیں گے ؟ اسی طرح اللہ تعالی ان لوگوں کو یہ جواب دے گا کہ میں نے نیا آدم تو اس مجبوری کی وجہ سے پیدا کیا کہ پہلا سلسلہ تم نے بند کر دیا.اگر تم اسے جاری رکھتے تو نیا آدم پیدا کرنے کی کیا ضرورت تھی.تو روحانی نسل کا جاری رکھنا بلکہ آئندہ نسل کو پہلی سے بہتر بنانے کی کوشش کرنا نہایت ہی ضروری ہے.انگریزوں کی خواہ کوئی کتنی بُرائی کرے اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ یہ لوگ اپنے ملک میں بھی اور یہاں بھی ہمیشہ پیج کو بہتر بنانے کی کوشش کرتے رہتے ہیں اور ہمیشہ کوشش کرتے رہتے ہیں کہ بیچ پہلے سے اچھے ہوں.ہندوستان میں پہلے گندم بہت اونی قسم کی من

Page 434

خطبات محمود 434 $1944 ہوتی تھی.دانے بہت چھوٹے چھوٹے ہوتے تھے اور جھاڑ 1 بھی بہت کم ہو تا تھا.بے شک ایک قسم کی گندم یہاں ہوتی تھی جسے وڈانک 2 کہتے تھے.اس کا دانہ بے شک موٹا ہو تا تھا مگر اسے ہونا اور پرورش کرنا بہت مشکل تھا.عام طور پر جو گندم یہاں ہوتی تھی اس کے دانے چھوٹے چھوٹے ہوتے تھے.مگر انگریزوں نے بیجوں کو ترقی دے دے کر کئی اقسام کی اعلی امینی درجہ کی گندم پیدا کر دی ہے.کوئی 518 ہے، کوئی 591 وغیرہ وغیرہ ہے اور اس طرح بڑھاتے بڑھاتے کئی قسمیں گندم کی پیدا کر لی ہیں جن کا دانہ بھی اچھا ہو تا ہے اور جھاڑ بھی زیادہ ہوتا ہے.اسی طرح کپاس کا حال ہے.اس کے بیج کو بھی ترقی دے کر ایسی اقسام پیدا کر لی ہیں کہ دیسی روئی سے بہت اعلیٰ روئی پیدا ہونے لگی ہے جس کے ریشے بھی لمبے ہوتے ہیں اور قیمت بھی زیادہ ہوتی ہے.دیسی روئی اگر بارہ روپے من بکتی ہے تو وہ بائیس روپے من بکتی ہے ہے.جھاڑ بھی زیادہ ہوتا ہے، کپڑا بھی اس سے عمدہ اور نرم تیار ہوتا ہے.تو اللہ تعالی جس قوم کو پیدا کرتا ہے اس کا فرض ہوتا ہے کہ وہ صرف یہ نہ دیکھے کہ ہے وہ ایمان لے آئی ہے بلکہ یہ بھی دیکھے کہ اُس کی آئندہ نسل پہلی نسل سے اچھی ہو.اگر پا لوگ آدھ گھنٹہ تہجد پڑھتے ہیں تو اگلی نسل کے لوگ ایک گھنٹہ پڑھنے والے ہوں.ایک نسل ہے اگر نماز کو اس طرح پڑھتی ہے کہ پانچ نمبر ملتے ہیں تو اگلی نسل ایسی ہونی چاہیے کہ جو سات آٹھ نمبر حاصل کرنے والی ہو.پہلی نسل کی نسبت دوسری نسل عرفان میں زیادہ ہو.اگر اس بات کا من خیال رکھا جائے تو دنیا میں ہدایت پھیل سکتی ہے ورنہ اگر یہ نہ ہو تو قوم کا روحانی فیض بند ہو جائے گا.بچپن میں ہمیں کئی دفعہ لدھیانہ آنا جانا پڑتا تھا.وہاں ایک دریا ہے جسے بڑھا دریا نی کہتے ہیں.اُس کا پانی بہت کم ہے اور وہ ریت میں ہی جذب ہو جاتا ہے.اسی طرح جو قوم اپنی ہیں آئندہ نسل کی روحانی ترقی کا خیال نہیں کرتی اس کا روحانی فیض بند ہو جاتا ہے.اسی غرض کے لیے میں نے خدام الاحمدیہ کا قیام کیا تھا.بڑوں کا فرض ہے کہ نوجونوں کی اصلاح کریں.مگر میں نے خدام الاحمدیہ کی تحریک اس لیے جاری کی کہ اگر بڑے نوجوانوں کی اصلاح کے کام میں سستی کریں تو نوجوان خود اس کی کوشش کریں.پہلے یہ صرف قادیان کے لیے ہی تھی.پھر قادیان میں اسے لازمی کر دیا گیا اور باہر کی جماعتوں میں ہے

Page 435

خطبات محج محمود 435 $1944 جو عہد یدار چالیس سال سے کم عمر کے ہوں اُن کے لیے خدام الاحمدیہ کا ممبر ہونا ضروری قرار دے دیا گیا.اب تک یہ صرف تجربہ ہی تھا.اب اسے مستقل کیا جارہا ہے اور میں یہ قاعدہ بنانے والا ہوں کہ ہندوستان میں جہاں جہاں بھی جماعت ہے وہاں کے نوجوانوں کے لیے جو پندرہ سال سے زیادہ اور چالیس سال سے کم عمر کے ہوں مجلس خدام الاحمدیہ کا ممبر ہونا لازمی ہو گا اور ضروری ہو گا کہ وہ اس میں شامل ہوں.اور مجلس خدام الاحمدیہ مرکز یہ قریب زمانہ میں اس کا اعلان کرنے والی ہے.اور اس خطبہ کے ذریعہ میں جماعت کو توجہ دلاتا ہوں کہ جو نوجوان اس میں شامل نہ ہو گا یہ سمجھا جائے گا کہ وہ سلسلہ کی خدمت کے لیے آمادہ نہیں اور وہ اپنی زبان سے اپنے آپ کو قومی غدار قرار دیتا ہے.اور ہر وہ ماں باپ جو اپنے بچوں کو اس میں شامل کرنے میں حصہ نہ لیں گے سمجھا جائے گا کہ وہ اپنے بچوں کو سچا مسلمان بنانے کی ہے خواہش نہیں رکھتے.اور ہر وہ جماعت جو اس تحریک کو کامیاب بنانے میں حصہ نہ لے گی اور اپنے نوجوانوں کو اس میں شامل ہونے پر مجبور نہ کرے گی سمجھا جائے گا کہ وہ اپنا فرض ادا نہیں ہے کر رہی.جیسا کہ میں نے بتایا ہے قومی زندگی کے لیے یہ امر نہایت ضروری ہے کہ قوم کے ہے نوجوان پہلے سے بہتر ہوں.پس اس کے لیے میں خدام کو بھی توجہ دلاتا ہوں کہ وہ نوجوانوں میں ذکر الہی، نمازوں کو پابندی اور عمدگی کے ساتھ ادا کرنے اور تہجد پڑھنے کی عادت ڈالیں.مجھے افسوس ہے کہ ابھی تک خدام میں یہ باتیں پوری طرح نظر نہیں آتیں.نماز مغرب کے بعد مسجد مبارک میں جو مجلس ہوتی ہے اُس میں بعض دفعہ کوئی ایسا سوال بھی کر دیتا ہے جو عقل کے خلاف ہوتا ہے اور میں نے دیکھا ہے کہ اس پر نوجوان ہنس پڑتے ہیں.پھر میں نے دیکھا ہے کہ کھٹا کھٹ کی وجہ سے وہ نماز خراب کرنے لگ جاتے ہیں.ابھی میں سنتیں ہی پڑھ رہا ہو تا ہوں کہ وہ نیچے سے اوپر آنے لگ جاتے ہیں اور اس طرح نماز خراب کرتے ہیں اور اُن کو یہ خیال نہیں آتا کہ اس طرح شور کر کے نماز خراب نہ کریں.تنظیم کے معنے یہ ہوتے ہیں کہ تعلیم دی جائے اور نوجوانوں کو سمجھانا چاہیے کہ نماز بہت ضروری چیز ہے اسے وقار کے ساتھ اور عمدگی کے ساتھ ادا کرنا چاہیے.اس کی کیا وجہ ہے کہ ہم ابھی ایک رکعت سنتوں کی بھی ہے

Page 436

خطبات محج محمود 436 $1944 پوری نہیں کرنے پاتے کہ وہ نماز ختم کر کے اوپر آنے لگ جاتے ہیں؟ گویا ایک رکعت کرنے سے بھی پہلے وہ دونوں رکعت سنت ادا کر لیتے ہیں اور نماز فرض کی جو رکعتیں اُن کی باقی ہوتی ہیں وہ بھی پوری کر لیتے ہیں.نیچے عام طور پر وہی لوگ ہوتے ہیں جو بعد میں آکر جماعت میں شامل ہوتے ہیں اور جب تک میں آدھی سنتیں ادا کرتا ہوں وہ ساری نماز ختم کر کے اوپر آنا شروع کر دیتے ہیں اور دوسروں کے آدھی نماز ادا کرنے تک وہ سنتیں بھی ادا کر لیتے ہیں اور فرض بھی پورے کر لیتے ہیں.صرف اس لیے کہ وہ آگے جگہ حاصل کر سکیں.وہ نہ صرف اپنی نماز کو وقار اور عمدگی کے ساتھ ادا نہیں کرتے بلکہ دوسروں کی نماز بھی خراب کرتے ہیں.حالانکہ اگر وہ قریب جگہ حاصل کرنا چاہتے ہیں تو اس کے لیے انہیں پہلے آنا چاہیے.نماز کو ہمیشہ آہستگی اور وقار کے ساتھ ادا کرنا چاہیے.اسی طرح ذکر الہی ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ ہر نماز کے بعد 33 دفعہ تسبیح ، 33 دفعہ تحمید اور 34 دفعہ تکبیر کہنی چاہیے 2 اور جو لوگ نیچے سے اتنی جلدی او پر چڑھنے لگتے ہیں وہ یہ ذکر بھی ہے 3 نہیں کرتے ہوں گے.گویا ایک تو وہ جلدی جلدی نماز ادا کرتے ہیں اور دوسرے ذکر الہی بھی ہے نہیں کرتے.اور جو لوگ مجلس میں تو آتے ہیں مگر عمل نہیں کرتے اُن کے آنے کا کیا فائدہ؟ کچھ مدت ہوئی ایک خطبہ میں نمازوں کو اچھی طرح ادا کرنے کی طرف میں نے توجہ دلائی تھی.اُس وقت میں نے دیکھا کہ دو آدمی جو کسی گاؤں کے رہنے والے معلوم ہوتے تھے نماز کو بہت اچھی طرح ادا کر رہے تھے.مجھے یہ دیکھ کر خوشی ہوئی کہ گاؤں کے رہنے والے بھی و قار، آہستگی اور عمدگی سے نماز پڑھ رہے ہیں.گاؤں کے لوگ تو سن کر عمل کرنے لگے مگر میں کس قدر افسوس کہ قادیان کے نوجوان اس طرف توجہ نہیں کرتے اور نماز جلدی جلدی ختم ہے کر کے دوڑتے ہوئے اوپر آنے لگتے ہیں اور کھٹا کھٹ کے شور سے دوسروں کی نماز بھی خراب کرتے ہیں.صرف اس لیے کہ مجلس میں اچھی جگہ مل سکے.حالانکہ اگر ان کی یہ خواہش ہے تو انہیں چاہیے کہ پہلے آئیں.ایک تو پیچھے آنا پھر جلدی جلدی نماز ختم کرنا، ذکر الہی نہ کرنا اور دوسروں کی نماز بھی خراب کرنا یہ سب روحانیت کو مارنے والی باتیں ہیں.پھر تہجد کی عادت بھی نوجوانوں میں بہت کم ہے.خدام کا فرض ہے کہ کوشش کریں سو فیصدی نوجوان ہے

Page 437

$1944 437 خطبات محمود نماز تہجد کے عادی ہوں.یہ ان کا اصل کام ہو گا جس سے سمجھا جائے گا کہ دینی روح ہمارے نوجوانوں میں پیدا ہو گئی ہے.قرآن کریم نے تہجد کے بارے میں اَشَدُّ وَطا 4 فرمایا ہے.یعنی یہ نفس کو مارنے کا بڑا کارگر حربہ ہے.پس خدام الاحمدیہ کو دیکھنا چاہیے کہ کتنے نوجوان با قاعدہ تہجد گزار ہیں اور کتنے بے قاعدہ ہیں.با قاعدہ تہجد گزار وہ سمجھے جائیں جو سو فیصدی تہجد ادا کریں.سوائے اس کے کہ کبھی بیمار ہوں یارات کو کسی وجہ سے دیر سے سوئیں یا سفر سے واپس آئے ہوں اور صبح اٹھ نہ سکیں.اور بے قاعدہ وہ سمجھے جائیں جو ہفتہ میں ایک دو دفعہ ہی ادا کریں.باقاعدہ تہجد پڑھنے کا مطلب یہ ہے کہ سو فیصدی تہجد گزار ہوں إِلَّا عالقاء الله سوائے ایسی کسی صورت کے کہ وہ مجبوری کی وجہ سے ادانہ کر سکیں اور خدا تعالیٰ کے حضور ایسے معذور ہوں کہ اگر فرض نماز بھی جماعت کے ساتھ ادا نہ کر سکیں تو قابل معافی ہوں.اگر یہ بات ہمارے نوجوانوں میں پیدا ہو جائے تو ان میں ایسا ملکہ پیدا ہو جائے گا کہ وہ دین کی باتوں کو سیکھ سکیں گے اور اگر یہ نہیں تو باقی صرف مشق ہی رہ جاتی ہے جو انگریز، جرمن اور مچی امریکن بھی کرتے ہیں.بلکہ وہ ہمارے نوجوانوں کی نسبت زیادہ کرتے ہیں.اسی طرح دیانت، محنت اور مشقت برداشت کرنے کی عادت بھی ہمارے نوجوانوں میں ہونی چاہیے.ہمارے ملک میں مشقت برداشت کرنے کی عادت بہت کم ہے.جہاں کوئی ہے ایسا کام پیش آیا جس میں محنت اور مشقت کی ضرورت ہوتی ہے تو فوراً دل چھوڑ دیتے ہیں.حالانکہ ہمیں سب سے زیادہ محنت اور مشقت برداشت کرنے کی عادت کی ضرورت ہے.میں نے بار بار توجہ دلائی ہے کہ دنیا میں ہماری نسبت چار ہزار کے مقابل میں ایک کی ہے اور جب تک ہم دوسروں کی نسبت چار ہزار گنا زیادہ کام نہ کریں کس طرح کامیاب ہو سکتے ہیں.مثل مشہور ہے کہ جتنا گڑ ڈالا جائے اتنا ہی میٹھا ہو گا.پس جتنی محنت ہم کریں گے اتنی ہی ہے کامیابی کی امید کی جاسکتی ہے.جب ہمارا مقابلہ ایسے لوگوں سے ہے جو ہم سے چار ہزار گنا ہیں تو ہمارے لیے ضروری ہے کہ ہم میں سے ہر ایک کوشش کرے کہ اُس کا کام وقت، مشق، نیک نیتی، قربانی اور اخلاص کے لحاظ سے ایسا ہو کہ وہ اللہ تعالیٰ کے حضور چار ہزار افراد کے کام کے برابر شمار ہو سکے.تب ہم امید کر سکتے ہیں کہ ہم دنیا پر غالب ہوں گے.کیونکہ گو ہم تعداد

Page 438

$1944 خطبات محمود 438 میں کم ہوں گے مگر قربانی میں چار ہزار کے برابر ہوں گے.مولوی محمد علی صاحب کو مباہلہ کی دعوت : اس کے بعد میں ایک اور مضمون کے بارہ میں کچھ کہنا چاہتا ہوں.حال ہی میں مولوی محمد علی صاحب نے ایک مضمون لکھا ہے جس میں ہمیں بہت سی گالیاں دی ہیں.ان گالیوں کے متعلق تو میں کچھ نہیں کہوں گا.برتن کے اندر جو کچھ ہوتا ہے وہی باہر آتا ہے.مگر ایک بات ایسی ہے جس کا جواب دینے سے میں باز نہیں رہ سکتا.ان کی طرف سے بار بار ہم پر یہ الزام لگایا جاتا ہے اور اس مضمون میں بھی اس الزام کو دہرایا گیا ہے کہ ہم کلمہ طیبہ کو منسوخ کرتے ہیں.یہ ایک ایسا اتہام ہے کہ میں نہیں سمجھ سکتا اس سے بڑا جھوٹ بھی کوئی بول سکتا ہے.وہ قوم جو کلمہ طیبہ کی خدمت کو اپنی زندگی ہے کا مقصد بجھتی ہو اُس پر یہ الزام لگانا کہ وہ اسے منسوخ قرار دیتی ہے اتنا بڑا ظلم ہے اور اتنی بڑی دشمنی ہے کہ ہماری اولادوں کو قتل کر دینا بھی اس سے کم دشمنی ہے.ہماری اولادوں کو ی قتل کر دینا اتنی بڑی دشمنی نہیں جتنا یہ کہنا کہ ہم لا إله إلا الله محمد رسول الله كے منكر ہیں.اور ایسا جھوٹ بولنے والے کے دل میں خدا تعالیٰ اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ و کی محبت ہر گز نہیں ہو سکتی.جس کے دل میں خدا اور رسول کی محبت ہو وہ ایسا جھوٹ نہیں بول سکتا.یہ ہم پر اتنا بڑا الزام ہے کہ ہمارے کسی بڑے سے بڑے مگر شریف دشمن سے بھی پوچھا جائے تو وہ یہ کہے گا کہ یہ جھوٹ ہے.اور میں سمجھتا ہوں اب فیصلہ کا صرف ایک ہی ذریعہ ہے.اگر مولوی صاحب میں تخم دیانت باقی ہے تو وہ اور ان کی جماعت ہمارے ساتھ اس بارہ میں مباہلہ کریں کہ آیا ہم کلمہ طیبہ کے منکر ہیں ؟ اور اگر ان کی جماعت اِس بارہ میں ان کا ساتھ دینے کو تیار نہ ہو تو وہ اپنے آپ کو اور اپنے بیوی بچوں کو ساتھ لے کر میرے ساتھ مباہلہ کریں.میں بھی اپنی جماعت کے ساتھ مباہلہ کروں گا.اور اگر ان کی جماعت ان کا ساتھ نہ دے اور وہ اپنے بیوی بچوں کے ساتھ مباہلہ کریں تو میں بھی اپنے بیوی بچوں کے ساتھ مباہلہ کروں گا.وہ بھی یہ اعلان کریں کہ اے خدا! جس کی جھوٹی قسم کھانا لعنتیوں کا کام ہے اور جو دلوں کی باریکیوں کو بھی جانتا ہے میں تیری قسم کھا کر کہتا ہوں کہ مرزا محمود احمد اور اس کی جماعت کلمہ شہادت کو منسوخ قرار دیتے ہیں اور اگر میں اِس دعوی میں جھوٹا ہوں بھی

Page 439

خطبات محمود ا 439 $1944 تو مجھ پر اور میری اولاد پر عبرت ناک عذاب نازل کر.اور میں بھی یہ اعلان کروں گا کہ اے خدا! جس کی جھوٹی قسم کھانا لعنتیوں کا کام ہے ، جو ہمارا خالق اور مالک ہے اور جو دلوں کی باتوں کو بھی جانتا ہے اگر ہم اس اظہار میں منافقت سے کام لے رہے ہیں کہ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللہ پر ہمارا کامل ایمان ہے اور اسے ہم نجات کا ذریعہ یقین کرتے ہیں تو ہمیں ایسے عذاب میں مبتلا کر کہ جب سے دنیا پیدا ہوئی ہے تو نے کسی پر ایسا عذاب نازل نہ کیا ہو.پس اگر مولوی صاحب میں تخم دیانت باقی ہے تو وہ اِس طریق فیصلہ کو منظور کریں.لیکن اگر وہ ایسا نہ کریں اور اس کے باوجود اس جھوٹ پر قائم رہیں تو وہ یقینا اللہ تعالی کی گرفت سے بچ نہ کی سکیں گے اور ممکن ہے اس کی سزا میں اللہ تعالیٰ اُن کو اور ان کے ساتھیوں کو ظاہر طور پر بھی کسی ایسی بے ایمانی میں مبتلا کر دے جو لوگوں کے لیے عبرت کا موجب ہو یا اگر اب نہیں تو یہ آئندہ خدا تعالیٰ یہ ظاہر کر دے کہ ان کی جماعت میں ایمان نہیں.پس اگر مولوی صاحب میں تخم دیانت باقی ہے تو وہ اپنی جماعت کے ساتھ مباہلہ کے لیے نکلیں اور اگر ان کی جماعت ان کا ساتھ دینے کو تیار نہ ہو تو اپنے خاندان کو ساتھ لے کر نکلیں اور میرے خاندان کے ساتھ مباہلہ کریں.ہم قسم کھائیں گے کہ ہمیں کلمہ پر پورا پورا ایمان ہے اور ہمارے نزدیک اس پر ایمان کے بغیر کسی کی نجات نہیں ہو سکتی.سوائے اس کے کہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے کسی کو بخش دے.ہم خدا کے فضل کی حد بندی نہیں کر سکتے.ہم جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو نبی کہتے ہیں تو اس کا صرف یہ مطلب ہے کہ آپ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مظہر اور آپ کا بروز بن گئے اور ایسا قرب حاصل کیا کہ یہ محمدیت کی چادر اللہ تعالیٰ نے آپ کو پہنا دی.یہ گویا محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہی نبوت ہے جو ہم آپ میں دیکھتے ہیں.ورنہ نئی نبوت کا دعویدار ہمارے نزدیک کافر اور دجال ہے.ایسا ہی شخص نبی ہو سکتا ہے جس پر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کی چادر ڈال دی گئی.ہاں! ہم نبوت کی چادر کو نبوت ہی کہیں گے اگرچہ بروزی طور پر ہی نور نبوت حاصل ہوا ہو.اس کے بغیر ہم کسی نبوت کو نہیں مانتے.پس مولوی محمد علی صاحب کو چاہیے کہ اس طریق پر فیصلہ کرلیں.اگر ان میں ہمت ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ یہ الزام صحیح ہے تو ان کے لیے ہے

Page 440

$1944 440 خطبات محمود ڈرنے کی کوئی وجہ نہیں اور انہیں چاہیے کہ سامنے آئیں اور اپنی جماعت کو ساتھ لائیں.یا اگر وہ شامل نہ ہو تو اپنے بیوی بچوں کے ساتھ آئیں اور اس طرح اس الزام کا فیصلہ کر لیں.وہ بھی اپنی جماعت کے ساتھ یا اپنے اور اپنے بیوی بچوں کے ساتھ اس الزام کے جھوٹا ہونے کی صورت میں اللہ تعالیٰ کا عذاب طلب کریں اور میں بھی اس الزام کے صحیح ہونے کی صورت میں اپنے لیے اور اپنی جماعت یا اپنے بیوی بچوں کے لیے جو بھی صورت ہو عذاب طلب کروں.پس یہ فیصلہ کا آسان طریق ہے اور مولوی صاحب میں اگر ہمت ہے تو وہ اسے اختیار کر کے فیصلہ کر لیں.مگر ہم جانتے ہیں کہ بزدل ہمیشہ اتہام لگاتا ہے مگر مقابل پر نہیں آیا کرتا.مولوی محمد علی صاحب بزدل بھی ہیں اور جھوٹے بھی.وہ کبھی اپنے آپ کو اور اپنے بیوی بچوں کو اس مقام پر کھڑا نہ کریں گے بلکہ اس عظیم الشان جھوٹ بولنے کے بعد بزدلوں کی طرح بہانوں سے اپنے آپ کو اور اپنی اولاد کو جھوٹوں کی سزا سے بچانے کی کوشش کریں گے.وہ وقتی طور پر بے شک بچ جائیں لیکن اگر وہ اس انتہام سے باز نہ آئیں گے اور خدا تعالی کی پھانسی سے بھی بھاگنے کی کوشش کرتے رہیں گے تو ایک دن آئے گا کہ خواہ وہ اِس پھانسی سے بھا گیں، پھانسی خود ان کے پاس جائے گی اور خدا تعالیٰ کی لعنت کذابوں کی طرح ان کا گلا گھونٹ کر رکھا ہے دے گی اور وہ بھی اور اس افتراء میں شرکت کرنے والا ان کا ہر ساتھی خدا کی چکی میں پیس دیا جائے گا.وہ اپنے افتراء کی لعنت کو اپنے صحنوں میں اترتا ہوئے دیکھیں گے اور کذابوں کی ہے (الفضل 17 جولائی 1944ء) موت مریں گے".1 : جھاڑ : پھل.نتیجہ 2 : وڈاٹک: گندم کی ایک قسم جس کا پودا بڑے قد کا ہوتا ہے اور دانے موٹے ہوتے ہیں.3 : بخاری کتاب الاذان باب الذِّكْرِ بَعْدَ الصَّلوة 4 : المزمل: 7

Page 441

$1944 441 25 خطبات محمود ہندوستان میں تبلیغ احمدیت کے لیے خاص جد وجہد کی جائے (فرمودہ 30 جون 1944ء بمقام ڈلہوزی) تشہد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: "میں نے پچھلے خطبات میں اس امر کی طرف توجہ دلائی ہے کہ جماعت میں تبلیغ کی طرف سے بہت ہی استغناء پیدا ہو رہا ہے.1942ء میں میں نے دیکھا کہ تبلیغ کے ذریعہ سے غالباً تین ہزار کے قریب احمدی ہوئے تھے لیکن 1943ء میں پندرہ سولہ سو رہ گئے.اور اب 1944ء کی بیعت میں اگرچہ فرق نظر آتا ہے کہ تعلیم یافتہ طبقہ متوجہ ہے مگر اس کی وجہ جماعت کے افراد کی تبلیغ نہیں بلکہ المصلح الموعود کا اعلان ہے.کیونکہ بالعموم اس امر کا ذکر ان کے خطوط میں ہوتا ہے اور اس طرح جو بیعت میں شامل ہوئے ہیں ان میں کافی تعداد ایسے لوگوں کی ہے جنہوں نے مصلح موعود کا دعوی سن کر توجہ کی ہے.مگر اسے جماعت کی تبلیغ کا می نتیجہ قرار نہیں دیا جا سکتا یہ تو الہی کام ہے.آجکل کاغذ کی بہت دقت ہے.میں سمجھتا ہوں کہ اگر اس اعلان کو کثرت سے شائع کیا جاتا تو چونکہ طبائع میں قدرتی طور پر یہ مادہ ہوتا ہے کہ خدا کی طرف سے جب آواز آئے ہیں

Page 442

خطبات محمود 442 $1944 تو قبول کرنے کو تیار ہو جاتی ہیں.بلکہ اگر جھوٹا شخص بھی کہے کہ میں خدا کی طرف سے ہوں تو اس سے بھی لوگ ڈر جاتے ہیں.گو بعد میں تحقیق سے پتہ لگ جائے تو انکار کر دیتے ہیں.سچائی کو خدا کی آواز ہونے کی وجہ سے فائدہ پہنچتا ہے اور لوگوں کو خدا کی طرف سے کہنے کی وجہ توجہ پیدا ہوتی ہے.جو رو تعلیم یافتہ طبقہ میں چلی ہے متواتر خطوط سے پتہ لگتا ہے کہ لوگ تحقیق کرنے لگے ہیں.یہ جماعتی تبلیغ کے نتیجہ میں نہیں بلکہ خدا کے اعلان کے نتیجہ میں ہے کہ لوگ سمجھنے لگے ہیں کہ اب خاموش رہنا مناسب نہیں.بلکہ خدا کی آواز پر غور کرناضروری ہو گیا ہے ور نہ مجرم بن جائیں گے.یوں جماعتی تبلیغ میں کمی ہے.یہ بھی خدا تعالیٰ نے جماعت پر حجت کا ذریعہ پیدا کر دیا ہے کہ ایک طرف تو تعلیم یافتہ طبقہ متوجہ ہو رہا ہے.کچھ مان رہے ہیں، کچھ قریب ہو رہے ہیں.اس سے اللہ تعالیٰ نے جماعت پر حجت قائم کر دی ہے کہ یہ بات نہیں ہے کہ ماننے والوں کا گروہ کم ہو گیا ہے.اگر یہ کم ہو تا تو لوگ کہہ سکتے تھے کہ اب باقی وہی لوگ رہ گئے ہیں جو نوح کی قوم کی مانند عذاب ہی کے قابل ہے تھے.اس اعلان ( مصلح موعود) نے لوگوں کے اِس خیال کی اس طرح تکذیب کر دی کہ جن تک اعلان اپنی رہا ہے وہ توجہ کر رہے ہیں اور ایک نتیجہ پر پہنچ رہے ہیں.اب جب اس خیال کی چینی تردید ہو گئی تو ایک ہی بات رہ گئی کہ جماعت میں تبلیغ کی طرف پوری توجہ نہیں.جیسا کہ میں نے بتایا ہے ہمارے آئندہ حالات پر یہ امر خطر ناک طور پر اثر انداز ہونے والا ہے.اب بیرونی جماعتیں قریب قریب ہندوستان کی جماعتوں کی تعداد کے برابر پہنچ رہی ہیں.ہندوستان میں اندازاً تین ساڑھے تین لاکھ کے قریب احمدی ہیں جو جانی ہو تبھی ہوئی جماعت ہے.یوں تو میں عام تعداد زیادہ ہوگی لیکن جماعتی کاموں میں حصہ لینے والے یا تعلق رکھنے والے سارے ہندوستان میں اندازاً تین ساڑے تین لاکھ کے قریب رہے ہیں.ہندوستان سے باہر خصوصاً افریقہ اور جاوا، سماٹرا میں جماعت چند سالوں میں اِس سرعت سے پھیلی ہے کہ اُن کی تعداد دولاکھ کے قریب پہنچ گئی ہے.اب یہ خطر ناک بات ہے کہ جس جماعت نے باہر اشاعت کرنی ہو اُس کی تعداد تو ساڑھے تین لاکھ ہو اور بیرونی جماعت دولا کھ ہو.بیرونی ملکوں میں اس قدر جلدی احمدیت پھیلی ہے کہ جہاں کوئی نیا مبلغ پہنچا ہے میں

Page 443

$1944 443 خطبات محمود سال دو سال میں ہزاروں کی تعداد میں احمدی ہو گئے ہیں.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ہندوستان سے باہر مخالفت نہیں.یہاں رقابت ہے.بجائے اس کے کہ لوگ خوش ہوں کہ ہم میں سے نبی آیا، اُلٹا مخالف ہورہے ہیں کہ ہم میں سے کیوں آیا.خدا تعالیٰ رسولوں کی نسبت فرماتا ہے کہ ہم مین آنفسِسٹم کے رسول بھجواتے ہیں.مگر لوگ کہتے ہیں کہ ہم میں سے کیوں ہیں رسول آیا.لیکن اگر باہر سے آتا ہے تو کہتے ابعث اللهُ بَشَرًا نَسُولًا 2 کیا بشر کو اللہ تعالی نے ان رسول بنا کر بھیج دیا؟ گویا عرب اس پر خوش نہ تھے کہ عربوں میں سے ایک رسول آیا ہے بلکہ وہ اس بات پر بھی خوش نہ تھے کہ انسانوں میں سے رسول آئے.گویا گھوڑا یا بیل رسول ہو کر آسکتا تھا لیکن انسانوں میں سے کوئی اس کا مستحق نہیں تھا کہ ان میں سے رسول آئے.یہی حال آجکل ہندوستانیوں کا ہے.پس رقابت کا لبعض ہندوستان میں بہت زیادہ پایا جاتا ہے.جب کسی کو تبلیغ کی جائے تو گاؤں کے لوگ عام طور پر کہہ دیتے ہیں کہ اجی ہندوستان میں ہی خدا نے رسول بھیجنا تھا؟ مکہ میں آجاتا یا قاہرہ میں آجاتا ہندوستان میں کیوں آیا؟ گویا وہ اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کا اتنا مقہور اور اتنا مطرود سمجھتے ہیں کہ وہ اس کی کسی بھی نعمت کے مستحق نہیں.لیکن بیرونِ ہند میں ایسا نہیں بلکہ وہ سمجھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ہماری مدد کی طرف توجہ فرمائی ہے.اس لیے وہ ہماری تبلیغ کی طرف توجہ کرتے ہیں اور سچائی کو صرف توجہ ہی کی ضرورت ہوتی ہے.جب لوگ توجہ ہے کرتے ہیں تو گو سارے تو نہیں لیکن ستر اسی فیصدی شکار ہو جاتے ہیں.باہر کے لوگوں پر یوں بھی ہندوستان کا اثر ہے.اول تو اِس لیے کہ یہاں بہت سے مسلمان ہیں.دوسرے اِس لیے کہ آخری حکومت یہاں پر مسلمانوں کی تھی.تیسرے انگریزوں کی بڑائی کا جہاں کہیں ذکر آتا ہے تو کہا جاتا ہے کہ ہندوستان کی وجہ سے ان کی عظمت بڑھی ہے اور ہندوستان کو انگریزوں می کے تاج کاہیر اسمجھا جاتا ہے.اس لیے جب بھی مسیح موعود کا نام لو تو باہر کے لوگ یہ نہیں کہتے کہ ہندوستان میں مسیح کیوں آیا.اور مبلغ کو حقارت سے نہیں دیکھتے.بلکہ وہ سمجھتے ہیں کہ ہندوستان واقعی بڑا ملک ہے، وہاں بڑی کثرت سے مسلمان ہیں اس لیے وہاں خدا تعالیٰ کا مامور آئے تو تعجب کی بات نہیں ہے.جب یہ خیال اُن کو آتا ہے تو وہ سلسلہ کی باتیں سنتے اور

Page 444

خطبات محمود 444 $1944 وہ لٹریچر پڑھنے کی طرف متوجہ ہو جاتے ہیں.اُن کو یہ خیال نہیں آتا کہ ہم سنیں کیوں.بلکہ و صرف یہ تقاضا کرتے ہیں کہ ہم مانیں کیوں؟ تم دلائل دو ہم سننے کے لیے تیار ہیں.اس وجہ سے دیکھا گیا ہے کہ بیرونی ممالک میں جہاں بھی احمد ی گئے ہیں کثرت سے اور بہت جلدی احمدیت پھیلی ہے اور ان میں اخلاص پایا جاتا ہے.یہاں کی آبادی کی کثرت نے لوگوں کے خیالات کو خراب کر دیا ہے.شد پریشاں خواب من از کثرت تعبیر با اتنی بڑی آبادی کو پڑھانا مشکل ہے.لیکن دوسرے ملکوں میں آبادی کم ہے.حکومت کی ذرا سی توجہ سے لوگ تعلیم یافتہ ہو جاتے ہیں.اس وجہ سے جتنا بھی لٹریچر اُن تک پہنچے وہ پڑھ لیتے ہیں.مصری یا افریقن جماعتوں کی قربانی کے متعلق جو خبریں آئی ہیں، وہ ہندوستان کی بہت سی جماعتوں سے زیادہ ہوتی ہیں.ان میں باوجو د وحشی ہونے کے پھر بھی تعلیم کا چر چا اور ذوق و شوق زیادہ ہے.جب حکومت اعلان کرتی ہے کہ علم سیکھنا چاہیے تو خواہ وہ علم حاصل نہ کر سکیں اُن کو ذوقِ مجالس پیدا ہو جاتا ہے اور وہ ہر مجلس میں پہنچ جاتے ہیں.اس لیے اُن کے اندر علم کی اہمیت قائم ہے اور ہمارے ملک میں جہالت کی اہمیت قائم ہے.اگر ہم تبلیغ کریں تو لوگ کہتے ہیں کہ ہمارا اس سے کیا تعلق؟ یہ تو پڑھے لکھے لوگوں کی باتیں ہیں.لیکن بیرونِ ممالک میں یہ نقطہ نگاہ لیتے ہیں کہ اگر ہم کتابیں نہیں پڑھ سکتے تو مبلغ کی مجلس میں پہنچ کر ہی اُس کی باتیں سن لیں.اسی طرح وہاں علم کا غلبہ ہے تو یہاں جہالت کا غلبہ ہے اور اسی وجہ سے ہندوستانی چاہے پڑھا لکھا بھی ہو پھر بھی وہ ہماری باتیں سننے سے انکار کر دیتا ہے.ان حالات کے ماتحت گو احمدیت کی ترقی کے سامان باہر زیادہ ہیں مگر ساتھ خطرات بھی زیادہ ہیں.اگر وہاں جماعت زیادہ ہو گئی تو احمدیت کی تعلیم خطرہ میں پڑ جائے گی.جیسا کہ مسیح ناصری کے زمانہ میں ہوا کہ عیسائیت اپنے مرکز سے نکل کر روما چلی گئی.جب تک اپنے مرکز میں تھی اس میں شریعت کا ادب تھا.مسیح کو خدا کا نبی مانتے تھے لیکن جب روم میں گئی جو ہے کفر کا مرکز تھا تو مذہب کی اہمیت جاتی رہی اور کفر کے نقش و نگار چڑھنے شروع ہوئے ہیں

Page 445

$1944 خطبات محمود پر 445 ر تھوڑے ہی عرصہ میں کچھ کا کچھ بن گئی.چنانچہ میں نے اپنی آنکھوں سے کیٹا کو مبز (CATACOMBS) کو دیکھا ہے اور اُس وقت کی عیسائیت مشاہدہ کی ہے.ایک پادری ہمارے ساتھ تھا جو کتبوں کا ترجمہ کر کے ہمیں سناتا جاتا تھا.اُن سے وضاحت سے معلوم ہوتا تھا کہ وہ لوگ مسیح کو خدا کا نبی مانتے تھے، بیٹا بھی مانتے تھے مگر بمعنی نبی جیسا کہ بائبل میں دوسرے انبیاء کو بیٹا کہا گیا ہے.غرض جتنے نشان تھے عہد نامہ قدیم سے تھے اور یونس نبی کے معجزہ پر خاص طور پر زور دیا گیا تھا.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بھی عیسی علیہ السلام کے اِس معجزہ پر خاص طور پر زور دیا ہے کہ جیسا یونس علیہ السلام مچھلی کے پیٹ میں زندہ داخل ہوئے اور زندہ ہی نکلے.ایسا ہی مسیح علیہ السلام کے لیے ضروری تھا کہ زندہ ہی قبر میں داخل ہوں اور زندہ نکلیں.اس نشان کی ہزاروں تصاویر وہاں تھیں.لیکن اس قسم کی کہ مسیح سے دعا ہو کہ صحیح ہم پر فضل کرے، بہت ہی شاذ تھیں.اتنا ظلم ہوتا ہے کہ مسیح سے درخواست کی جاتی تھی کہ اے مسیح ! خدا سے ہمارے لیے دعا کر کہ وہ ہم پر فضل کرے.غرض عیسائیت کی موجودہ خرابی اسی وجہ سے نظر آتی ہے کہ وہ اپنے مرکز سے نکل کر روما چلی گئی.یہی خطرہ ہمارے سامنے ہے.ایک طرف ہم بیبیوں مبلغ تیار کر رہے ہیں، میں کانپ جاتا ہوں جب سوچتا ہوں کہ اگر چار پانچ مبلغوں کے ذریعہ سے دس ہیں ہزار کی جماعت بن جاتی ہے.اگر سو دو سو مبلغ گئے تو دس بارہ سال میں تھیں چالیس لاکھ بن جائے گی.اور یہ قدرتی بات ہے کہ جب ان کا یہ زور زیادہ ہو جائے گا تو وہ اس بات کا بھی دعوی کریں گے کہ ہم خود تبلیغ کریں گے ہم کو بھی تبلیغ کا شوق ہے.ہندوستان کے مبلغ کی اب ضرورت نہیں اس کو کسی نئے علاقہ میں بھیج دیا ہے جائے اب ہم آپ اپنے مبلغ تیار کریں گے.پہلے پہلے شیطان نیک خیال پیدا کرتا ہے.وہ پہلے تو یہ کہیں گے کہ قادیان کی حکومت سر آنکھوں پر مگر ہمیں بھی ثواب کا موقع ملنا چاہیے.ہندوستان کا مبلغ بیوی بچوں کو چھوڑ کر آتا ہے، اس کو کسی اور ملک میں بھیج دیا جائے.ہمارے ملک میں ہمارے اپنے ملک کا مبلغ مناسب رہے گا.تو پہلے چھوٹی سی خرابی پیدا ہوتی ہے آخر وہی بڑھتے بڑھتے کچھ کی کچھ ہو جاتی ہے اور مرکز کے دور ہونے کی وجہ سے خرابی بڑھتی جائے گی.پس جب تک ایک لمبے عرصہ تک تبلیغ اور تربیت میں نگرانی ہندوستان اور قادیان کی نہ

Page 446

$1944 446 خطبات محمود رہے گی احمدیت کی جڑیں مضبوط نہ ہوں گی.بے شک حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے انتظام کے لحاظ سے قادیان کو مرکز قرار دیا ہے.پس وہ مرکز رہے گا.لیکن اگر تبلیغ اور تربیت پر بھی لمبی نگرانی نہ رہی تو عقیدہ اور عمل میں بگاڑ پید اہونالازمی ہے.ان حالات کی اصلاح تبھی ہے ہو سکتی ہے کہ جماعت پورے طور پر اپنی ذمہ داری کو سمجھے اور تبلیغ کرے.اس طور پر کہ اگر وہاں ایک احمدی ہو تو اس کے مقابلہ میں یہاں تین ہوں.جہاں جماعت باہر بڑھے تو ساتھ ہی یہاں کی جماعت بنیاد کے طور پر بڑھے.کیونکہ بنیاد اوپر کی دیوار سے موٹی ہونی چاہیے.یہ ایک اہم سوال ہے جس کے متعلق میں نے پچھلے خطبہ میں توجہ دلائی تھی.گو میں نے یہ کہا تھا ؟ کہ یہ میری تنبیہہ آخری بار ہے لیکن پھر بھی یہ ایسا امر نہیں ہے کہ اسے ایک دفعہ کہہ کر چھوڑ دیا جائے بلکہ ضرورت ہے کہ ہماری جماعت کا ہر سیکرٹری، ہر خطیب اس کو دُہراتا رہے کہ ہندوستان کی جماعت کو بڑھاؤ ورنہ خطرہ ہے کہ وہ مصفی تعلیم جو تیرہ سو سال کے بعد آئی ایسے ہاتھوں میں چلی جائے جو اسے ناپاک کر دیں.پس میں پھر جماعت کو توجہ دلا کر اپنے فرض سے ہے سبکدوش ہو تا ہوں.جیسا کہ میں نے بتایا ہے خدا کے فضل نے دکھا دیا ہے کہ لوگوں کو توجہ ہے اور لوگوں کے دل ماننے کو تیار ہیں.لوگ لٹریچر منگواتے ہیں، احمدیوں کو تلاش کر کے ان پوچھتے ہیں کہ ہم نے ایسا دعوی سنا ہے.تعلیم یافتہ طبقہ خصوصیت سے اس طرف متوجہ ہے.پس یہ کہنا کہ سنتے نہیں یہ غلط ہے.جہاں جماعتوں نے توجہ کی ہے لوگ سنتے ہیں.اس میں کوئی شک نہیں کہ لوگ تعصب بھی دکھاتے ہیں اور روکیں پیدا کرتے ہیں.لیکن روکیں مٹانا ہمارا فرض ہے.خدا کے فرشتے اس کام پر لگے ہوئے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا ہے الہام ہے فَحَانَ اَنْ تُعَانَ وَتُعْرَفَ بَيْنَ النَّاسِ 3 وقت آگیا ہے کہ سعید روحیں تیری مدد کریں اور تُو لو گوں میں روشناس کرایا جائے.اور بھی الہامات ہیں جیسے يَا نَبِيَّ اللهِ كُنْتُ آخر 4 یہ الہام بتاتا ہے کہ آپ کو دنیا قبول کرے گی لیکن سوال تو یہ ہے کہ ان می نعمتوں کو لے جانے والا کون ہو گا.خواہ وہ لے جانے والا میر ابیٹا ہی ہو.مگر خدا کی محبت کے مقابلہ میں مجھے بیٹے سے بھی رقابت پیدا ہو گی.بچے مومن کو یہی شوق ہونا چاہیے.جہاں تک میں

Page 447

خطبات محمود 447 $1944 تعلیم کا سوال ہے میں اپنے بیٹے کو تعلیم دلاؤں گا.لیکن جب کام کا سوال پیدا ہو گا تو عشق کی علامت یہی ہوگی کہ وہ انسان یہ چاہے کہ زیادہ کام میں ہی کروں.کام تو کبھی ختم نہیں ہوتا.ترقی کرنے والی جماعت کے لیے نئے سے نئے کام نکلتے آتے ہیں.جب دنیا سمجھتی ہے کہ پروگرام ختم ہو گیا ہے تو نیا نکل آتا ہے.جب کبھی بھی دنیا میں ایک قوم ترقی حاصل کرے گی، چی اسے ایک اور بلندی اور رفعت کا مقام نظر آجائے گا.پس یہ غلط ہے کہ اگر باپ ایک کام کو ہے کر جائے تو اُس کی اولاد کیا کرے گی.اولاد کے لیے اور کام خدا تعالیٰ پیدا کر دے گا.پس ہر شخص کی کوشش یہی ہونی چاہیے کہ سب کام میں ہی کر جاؤں.اسے بالکل نہیں گھبر انا چاہیے ہے کہ میرے بعد آنے والے لوگ کیا کریں گے.کیونکہ ان کے لیے نئے کام نکل آئیں گے.بہر حال اُس کے سامنے جو کام ہیں اُسے اپنے ہی زمانہ میں ختم کرنے کی کوشش کرنی چاہیے.اس می طرح اگر لوگ کام کرنے لگ جائیں تو خدا تعالیٰ تبلیغ کا دروازہ کھول دے گا اور اُس کی برکتیں اور رحمتیں اعلی پیمانہ پر نازل ہونی شروع ہو جائیں گی".(الفضل 19 جولائی 1944ء) 1 :التوبة: 128 2 : بنی اسرائیل:95 3 : تذکرہ صفحہ 66.ایڈیشن چہارم 4 : تذکرہ صفحہ 595.ایڈیشن چہارم

Page 448

Page 449

$1944 449 (26) خطبات محمود ہمارے نزدیک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑھ کر بلند مقام وشان رکھنے والا دنیا میں اور کوئی انسان نہیں (فرمودہ 7 جولائی 1944ء بمقام ڈلہوزی) تشہد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جو تعلیم دی ہے اُس کا بنیادی اصول انسانوں میں سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت اور عشق ہے.اللہ تو اللہ ہی ہے.اس کے ساتھ تو کسی مخلوق کی کوئی نسبت ہی نہیں ہو سکتی.اور نہ دونوں کا آپس میں کوئی جوڑ اور مقابلہ ہو سکتا ہے.جہاں تک بنی نوع انسان کا تعلق ہے ہمیں یہ سبق گھٹی میں پلایا گیا ہے ہے، بار بار اس پر زور دیا گیا ہے اور بڑے تکرار اور تواتر سے اس کو بیان کیا گیا ہے.یہاں تک کہ یہ سبق ہمارے رگ وریشہ اور ہمارے جسم کے ذرہ ذرہ میں داخل ہو گیا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے زیادہ بلند مقام رکھنے والا اور آپ سے زیادہ بلند شان رکھنے والا دنیا میں اور کوئی انسان نہیں.مجھے وہ نظارہ خوب یاد ہے کہ لاہور میں آریہ سماج نے ایک جلسہ کیا اور اس جلسہ کے متعلق بار بار پہلے ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب کی معرفت اور پھر تحریراً انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے درخواست کی کہ آپ بھی ان سوالات کے متعلق

Page 450

خطبات محمود 450 $1944 اپنا مضمون لکھ کر بھیجیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے پہلے تو انکار کیا اور فرمایا یہ لوگ سخت بد زبانی کرنے والے ہیں ان کے وعدوں کا مجھے کوئی اعتبار نہیں.مگر ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب نے یقین دلایا کہ ایک ڈاکٹر جو میر ادوست بھی ہے اس جلسہ کا سیکرٹری ہے اور اُس نے پختہ یقین دلایا ہے کہ اس جلسہ میں کوئی ایسی بات نہیں ہو گی جو دوسرے مذاہب والوں کے لیے دل شکنی کا باعث ہو، نہ کسی مذہب کے بانی کے خلاف کوئی بات کہی جائے گی بلکہ صرف اپنے اپنے مذہب کی خوبیاں ہی بیان کی جائیں گی.اور پھر تحریر اً بھی انہوں نے اقرار کیا کہ یہ جلسہ نہایت پر امن ہو گا، اس میں کسی مذہب کے بانی کے خلاف کوئی بات نہیں کہی ہے جائے گی بلکہ ہر مذہب کا نمائندہ صرف اپنے اپنے مذہب کی خوبیوں کے بیان کرنے پر ہی اکتفا کرے گا.تب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ایک مضمون لکھا اور چونکہ مولوی عبد الکریم صاحب جو اس قسم کے مضامین حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی طرف سے جلسوں میں پڑھ کر سنایا کرتے تھے فوت ہو چکے تھے اس لیے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے مسجد مبارک میں ایک جلسہ منعقد کیا اور اس میں ڈاکٹر مرزا یعقوب صاحب، شیخ یعقوب علی صاحب اور حضرت خلیفہ اول سے یہ مضمون پڑھوا کر سنا.شاید مرزا خدابخش صاحب سے بھی یہ مضمون سنا گیا.مگر ان تینوں کے پڑھنے پر آپ کی تسلی نہ ہوئی اور آپ نے فرمایا، کسی کی آواز اونچی نہیں، کسی کی آواز بھرائی ہوئی ہے اور کسی میں کوئی اور نقص ہے.مگر بہر حال آپ نے فیصلہ فرمایا کہ حضرت خلیفہ اول یہ مضمون پڑھ دیں.کیونکہ آپ کا عالمانہ رنگ ہے اور مضمون کی عبارت وہاں صحیح طور پر پڑھی جائے گی.جب اِس مضمون کے سنائے جانے کا فیصلہ ہوا تو آریہ سماج کے اس جلسہ میں شمولیت کے لیے قادیان سے بھی اور باہر کی جماعتوں کی طرف سے بھی بہت سے لوگ چلے گئے.کیونکہ انہوں نے سمجھا کہ یہ جلسہ نہایت پر امن ہو گا، کسی تقریر میں بد زبانی سے کام نہیں لیا جائے گا اور نہ دوسرے مذاہب اور ان کے بانیوں کے خلاف اعتراضات کا دروازہ کھولا جائے گا بلکہ ہر مذہب کا نمائندہ صرف اپنے اپنے مذہب کی خوبیوں کو ہی بیان کرے گا.اور یہ لازمی بات ہے کہ جب ایسا ہو کہ ہر مذہب والا صرف اپنے اپنے مذہب کی خوبیوں اور اس کی تعلیم کے محاسن کو ہی بیان کرنے پر اکتفا کرے،

Page 451

$1944 451 خطبات محمود دوسرے مذاہب پر دل آزار اور گندے حملے نہ کرے اور نہ ایسے اعتراضات کرے جو واقعات کے خلاف ہوں تو ایسی حالت میں اسلام ہی تمام مذاہب پر غالب ثابت ہو گا اور اسی کی فضیلت ثابت ہوگی.کیونکہ اسلام ہی ایک ایسامذ ہب ہے جو انسانی زندگی کے ہر پہلو پر بحث کرتا اور ہر ضرورت کے متعلق نہایت کامل اور احسن تعلیم دنیا کے سامنے پیش کرتا ہے.وہ اخلاق پر بھی بحث کرتا ہے ، وہ عادات پر بھی بحث کرتا ہے ، وہ رسم و رواج پر بھی بحث کرتا ہے ، وہ تمدن اور سیاست پر بھی بحث کرتا ہے ، وہ خدا اور بندوں کے تعلقات پر بھی بحث کرتا ہے اور ان تمام معاملات میں انسانی فطرت کے مطابق تعلیم دیتا ہے.مگر باقی مذاہب وہ ہیں جو ان مسائل کو ی چھوتے ہی نہیں.اور اگر ان مسائل کے متعلق کوئی تعلیم پیش کرتے ہیں تو وہ ایسی ہوتی ہے جس کے خلاف انسانی فطرت بغاوت کرنے کے لیے تیار ہو جاتی ہے اس لیے یہ ایک لازمی اور منطقی نتیجہ تھا کہ ہم میں سے ہر شخص یہ یقین رکھتا کہ اس جلسہ میں اسلام کو بڑی بھاری کامیابی ہے ہو گی.اور جب اسلام کی وہ فطرتی تعلیم دنیا کے سامنے پیش کی جائے گی جس میں ہر درجہ اور ہر ہے نوع کے لوگوں کے حقوق کی حفاظت کی گئی ہے.اور اسلام کی وہ زندگی بخش تعلیم لوگوں کو پڑھ کر سنائی جائے گی جو قلوب کو ہر قسم کی ظلمات سے پاک کر کے انہیں اللہ تعالی کی محبت می سے لبریز کر دیتی ہے تو تمام مذاہب والوں پر بڑا بھاری اثر ہو گا اور اسلام کا کمال اور اُس کی صداقت کا اعتراف کیے بغیر ان کے لیے کوئی چارہ نہیں رہے گا.چنانچہ ہماری جماعت کے ہے دوست اسلام کی فتح کا ڈنکا بجاتے وہاں پہنچے اور وہ اس یقین اور وثوق کے ساتھ گئے کہ اپنے اپنے مذہب کی خوبیاں بیان کرنے میں کوئی مذہب اسلام کے مقابلہ میں نہیں ٹھہر سکے گا.میں بھی ہے اُس وقت ساتھ تھا اور میری عمر سترہ سال کے قریب تھی.شہری لوگ چونکہ مذہب سے بہت میں کم دلچسپی رکھتے ہیں اور وہ ہر وقت مادیات کی طرف جھکے رہتے ہیں اس لیے لاہور کے رہنے والے اس جلسہ میں کم شامل ہوئے.وہ ہال جس میں یہ جلسہ ہوا اُس میں چودہ پندرہ سو آدمی ہوں گے.ان چودہ پندرہ سو میں سے تین چار سو باقی مذاہب کے پیرو تھے ، چھ سات سو احمد کی ہے تھے اور باقی آریہ سماجی تھے.گویا آریہ سماج کے اس جلسہ کی رونق کی بنیاد ہماری منی جماعت کے افراد تھے.کیونکہ ہماری جماعت کی طرف سے چھ سات سو آدمی اس جلسہ میں

Page 452

$1944 452 خطبات محمود شریک ہوئے.اور دو تین سو مسلمان جو تقریریں سننے کے لیے آئے.وہ بھی در حقیقت ہماری وجہ سے ہی آئے تھے کیونکہ انہوں نے سمجھا کہ اس جلسہ میں چونکہ اسلام کی طرف سے بھی مضمون پڑھا جانے والا ہے اس لیے ضروری ہے کہ یہ مضمون سب پر غالب رہے اور باقی مذاہب اپنی تعلیموں میں اسلام کے مقابلہ میں نہ ٹھہر سکیں.غرض آریہ سماج کے اس جلسہ کی کامیابی محض ہماری وجہ سے تھی.اگر ہماری جماعت کا چھ سات سو آدمی اس جلسہ میں شریک نہ ہے ہوتا اور اگر ہمارا مضمون جو اسلام کی صداقت اور اس کی تائید میں تھا، سُننے کے لیے دو تین مسلمان نہ آتے تو آریہ سماج کا یہ جلسہ نہایت ہی بے رونق ہوتا اور کسی کو اس کی طرف ذرا بھی توجہ پیدا نہ ہوتی.جلسہ شروع ہوا اور مختلف لوگوں نے اپنے اپنے مذاہب کے متعلق تقریریں کیں.جہاں تک اس بات کا تعلق تھا کہ کسی مذہب کے متعلق کوئی ایسی بات نہ کہی جائے جو اس مذہب کے پیرؤوں کے لیے دل شکنی کا باعث ہو، عیسائیوں اور سناتنیوں وغیرہ نے اس کا لحاظ رکھا اور انہوں نے اپنے مضامین میں ایسی کوئی بات نہ کہی جو مسلمانوں کے لیے دل آزاری ہے کا باعث ہوتی.آریہ سماج نے اپنا مضمون سب سے آخر میں رکھا ہوا تھا.درمیان میں ایک مقام پر پروگرام کے مطابق جماعت احمدیہ کی طرف سے بھی مضمون پڑھ کر سنادیا گیا.آخر آریہ سماج کی باری آئی اور وہی ڈاکٹر صاحب جنہوں نے ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب کو یقین دلایا تھا کہ اس جلسہ میں کسی مذہب کے پیرؤوں کی دل شکنی نہیں کی جائے گی اور کوئی ایسی بات نہیں کہی جائے گی جو مسلمانوں یا دوسری اقوام کے لیے دل آزار ہو مضمون پڑھنے کے لیے کھڑے ہوئے اور انہوں نے بجائے آریہ سماج کی خوبیان بیان کرنے کے اپنا رُخ اسلام کی طرف پھیر دیا اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نسبت ( نَعُوذُ بِاللهِ مِنْ ذَالِكَ) ڈاکو اور فریبی اور اسی طرح کے اور نہایت ہی گندے اور ناپاک الفاظ استعمال کرنے شروع کر دیے.شدید سے شدید دل شکنی جو ہو سکتی تھی انہوں نے کی اور شدید سے شدید دل آزاری جو وہ کر سکتے تھے اس سے انہوں نے دریغ نہ کیا.مجھے یاد ہے میری عمر اس وقت سترہ سال کی تھیمگر میں اس بد گوئی کو برداشت نہ کر سکا اور میں نے کہا میں تو ایک منٹ کے لیے بھی مچی اس جلسہ میں نہیں بیٹھ سکتا میں یہاں سے جاتا ہوں.اکبر شاہ خان صاحب نجیب آبادی جو

Page 453

$1944 453 خطبات محمود پہلے ہماری جماعت میں شامل تھے مگر بعد میں پیغامی ہو گئے اور پھر پیغامیوں سے بھی علیحدہ ہو کر دوسرے مسلمانوں سے جاملے ان کو تاریخ کا بہت ہی شوق تھا اور انہوں نے اسی علم میں اپنی تمام عمر گزار دی اور پھر اس میں ایسی ترقی کی کہ وہ ہندوستان کے مشہور مؤرخوں میں سے سمجھے جانے لگے اور تمام ہندوستان میں مشہور ہو گئے.وہ اُس وقت میرے پاس ہی بیٹھے تھے.جب میں اٹھنے لگا تو انہوں نے مجھے روک لیا.حضرت خلیفہ اول اُس وقت خلیفہ نہ تھے کیونکہ یہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی زندگی کا واقعہ ہے.لیکن بہر حال انہیں جماعت میں ہے عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا ان کا ذکر کر کے اکبر شاہ خان صاحب نجیب آبادی مجھے کہنے لگے مولوی صاحب تو یہاں بیٹھے ہیں اور آپ اُٹھ کر باہر جارہے ہیں.اگر یہ غیرت کا مقام ہوتا تو کیا مولوی صاحب کو غیرت نہ آتی؟ میں نے کہا کچھ ہو مجھ سے تو یہاں بیٹھا نہیں جاتا اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نسبت یہ سخت کلامی مجھ سے برداشت نہیں ہو سکتی.وہ کہنے لگے آپ کو کم سے کم نظام کی تو اتباع کرنی چاہیے.مولوی صاحب اِس وقت ہمارے لیڈر ہیں اس لیے جب تک وہ بیٹھے ہیں اُس وقت تک نظام کی پابندی کے لحاظ سے آپ کو اُٹھ کر باہر نہیں جانا چاہیے.اُن کی یہ بات اُس وقت کے لحاظ سے مجھے معقول معلوم ہوئی اور میں بیٹھ گیا.جب ہم واپس آئے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو اس واقعہ کا علم ہوا تو مجھے یاد ہے آپ کو اس قسم کا غصہ پیدا ہوا کہ ویسا غصہ آپ میں بہت ہی کم دیکھا گیا ہے.آپ بار بار فرماتے دوسرے مسلمان تو مردہ ہیں اُن کو کیا علم ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی کیا شان ہے؟ لیکن ہم نے تو اس طرح اسلامی تعلیم کو کھول کھول کر بیان کر دیا ہے اور اس طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فضائل اور آپ کے کمالات کو روشن کیا ہے کہ اس کے بعد یہ تعلیم ہی نہیں کیا جاسکتا کہ ہماری جماعت کو یہ معلوم نہیں تھا کہ رسول کریم ہے صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی کیا شان ہے.آپ نے فرمایا تمہیں تو ایک منٹ کے لیے بھی اس جگہ پر بیٹھنا نہیں چاہیے تھے.بلکہ جس وقت اُس نے یہ الفاظ کہے تھے تمہیں اسی وقت کھڑے ہو جانا چاہیے تھا اور اُس ہال سے باہر نکل آنا چاہیے تھا.اور اگر وہ تمہیں نکلنے کے لیے راستہ نہ دیتے تو پھر اُس ہال کو خون سے بھرا ہوا ہونا چاہیے تھا.یہ کیونکر تم نے بے غیرتی دکھائی ؟

Page 454

خطبات محمود 454 $1944 رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو گالیاں دی گئیں اور تم خاموشی سے بیٹھ کر ان گالیوں کو سنتے رہے ؟ حضرت خلیفہ اول اُس وقت آپ کے سامنے بیٹھے ہوئے تھے.وہ جماعت کے ایک بڑے آدمی تھے مگر وہ بھی سر ڈالے بیٹھے رہے.آپ بار بار فرماتے تمہاری غیرت نے یہ کیونکر برداشت کرلیا کہ تم اُس جگہ پر بیٹھے رہو جہاں رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہتک ہو رہی ہے.تب مولوی محمد احسن صاحب امروہی گھٹنوں کے بل بیٹھ گئے اور جس طرح حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ایک ناراضگی کے الفاظ کہے تھے کہ رَضِيْتُ بِاللهِ رَبَّا وَبِالْإِسْلامِ دِينًا وَبِمُحَمَّدٍ رَسُوْلًا إِى قسم کے الفاظ اُنہوں نے کہے اور پھر کہا حضور ! ذہول ہو گیا.یعنی ہر آدمی سے بعض موقعوں پر غلطی ہو جاتی ہے ہم سے بھی ذہول کے ماتحت یہ غلطی ہوئی ہے، حضور در گزر فرمائیں.آخر بہت دیر کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا غصہ فرو ہوا اور آپ نے اس غلطی کو معاف فرمایا.پھر ہم دیکھتے ہیں بعض لوگوں کی یہ حالت ہوتی ہے کہ ذرا ان سے کوئی بڑا آدمی ملنے می کے لیے آجائے تو ان کی سب غیرت جاتی رہتی ہے اور وہ اُس بڑے آدمی کے آنے میں ہی اپنی عزت سمجھنے لگتے ہیں اور خیال کرتے ہیں کہ ہمارے لیے یہی بہت بڑی عزت ہے کہ ہمیں فلاں قوم کا لیڈر یا فلاں جماعت کا سردار ملنے کے لیے آیا.لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے دل میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے متعلق جس قدر غیرت پائی جاتی تھی اُس کا ثبوت اس واقعہ سے بھی ملتا ہے جب پنڈت لیکھرام آپ سے ایک دفعہ ملنے کے لیے آیا.میں تو اُس وقت چھوٹا تھا اس لیے مجھے تو یہ واقعہ یاد نہیں لیکن جو آدمی اُس وقت موجود تھے وہ اس واقعہ کو بیان کرتے ہیں.اور یہ واقعہ ایسا ہے جو بار بار چھپ بھی چکا ہے کہ لاہور یا امر تسر کے سٹیشن پر ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام موجود تھے کہ پنڈت لیکھرام آپ سے ملنے کے لیے آیا.ہماری جماعت اب بھی چھوٹی سی ہے مگر اس وقت تو بہت ہی چھوٹی تھی.آریوں سے مقابلہ رہتا تھا اور آریہ وہ تھے جن کی تعداد اور دولت کا مقابلہ ہماری جماعت اس وقت کر ہی نہیں سکتی تھی.ان آریوں کا لیڈر پنڈت لیکھرام اتفاقا سٹیشن پر امین

Page 455

$1944 455 خطبات محمود آ نکلا اور جب اُس نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو دیکھا تو وہ آپ کی طرف آیا اور آکر سلام کیا.مگر آپ نے اُس کے سلام کا کوئی جواب نہ دیا.شیخ رحمت اللہ صاحب جو لاہور کے مشہور تاجر تھے انہوں نے جب دیکھا کہ پنڈت لیکھرام حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو سلام کرنے کے لیے آیا ہے تو انہوں نے اپنے دل میں فخر محسوس کیا کہ آریوں کا ایک لیڈر آپ کو سلام کرنے کے لیے آیا ہے.مگر جب انہوں نے دیکھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے سلام کا کوئی جواب نہیں دیا تو انہوں نے خیال کیا کہ شاید حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے پنڈت لیکھرام کو دیکھا نہیں.پنڈت لیکھرام نے بھی یہی سمجھا کہ مجھے جو آپ کی طرف سے سلام کا جواب نہیں ملا تو اِس کی وجہ یہی معلوم ہوتی ہے کہ آپ نے مجھے دیکھا نہیں.ورنہ یہ کس طرح ہو سکتا تھا کہ میں آپ کو سلام کرنے کے مے لیے آتا اور آپ سلام کا جواب تک بھی نہ دیتے.چنانچہ وہ دوسری طرف سے مُڑ کر آیا اور کہنے لگا مر زا صاحب! سلام.لیا.لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے پھر بھی جو اب نہ دیا.تب وہ لوگ جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ساتھ تھے انہوں نے سمجھا کہ عزت افزائی کا یہ اتنا بڑا موقع کیوں ضائع ہو کہ آریوں کا ایک لیڈر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو سلام کرنے کے لیے آپ کی خدمت میں حاضر ہوتا ہے.انہوں نے خیال کیا کہ اس سے بڑی عزت اور کیا ہو سکتی ہے کہ مخالف قوم کا ایک لیڈر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی خدمت میں آتا ہے اور حاضر ہو کر سلام عرض کرتا ہے.چنانچہ رحمت اللہ صاحب آگے بڑھے اور اُنہوں نے کہا حضور نے ملاحظہ نہیں فرمایا، پنڈت لیکھرام صاحب حضور کو سلام کرتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بڑے جوش سے فرمایا شیخ صاحب! میں نے دیکھ لیا ہے لیکن وہ شخص جو میرے آقا کو گالیاں دیتا ہے کیا اسے شرم نہیں آتی کہ وہ مجھے جو اس کا ایک ادنی خادم ہوں آکر سلام کرتا ہے !! یہ ایسے واقعات نہیں جو صرف ایک دو ہوں.بلکہ یہ متعدد واقعات ہیں اور بار بار ہم نے دیکھے ہیں.ان واقعات کو دیکھنے کے بعد رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے متعلق بھلا ہمارے جذبات اور دوسرے لوگوں کے جذبات آپس میں مل ہی کس طرح سکتے ہیں.

Page 456

$1944 456 خطبات محمود حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں اور ہم ہی وہ لوگ ہیں جو اپنے تجربہ سے اس کو صحیح سمجھ سکتے ہیں کہ بعد از خدا بعشق محمد مخمّرم گر کفر این بود بخدا سخت کافرم2 میری قوم کے لوگ مجھے کہتے ہیں کہ تو کافر ہے کا فر ہے شاد بعد از خدا بعشق محمد مخمّرم فرماتے ہیں میر امذ ہب تو یہ ہے کہ میں خدا کے بعد محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کو اپنے ایمان کا جزو سمجھتا ہوں اور آپ سے زیادہ عشق میں اور کسی انسان سے نہیں رکھتا؟ گر کفر این بود بخدا سخت کافرم اگر محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت رکھنا کفر ہوتا ہے اور اگر محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے عشق رکھنا کفر ہوتا ہے تو پھر جتنا چاہو مجھے کافر کہہ لو.تم جتنا کا فر مجھے کہو ان معنوں میں ہے میں اس سے بھی زیادہ کا فر ہوں.مجھے یاد ہے گو اس وقت یہ بات مجھے بری معلوم ہوئی لیکن میں بعد میں میں نے سمجھا کہ یہ بات نیک نیتی سے ہی کہی گئی تھی اور وہ یہ کہ جب گورنمنٹ نے مذہب کے متعلق یہ قانون پاس کیا کہ کسی مذہب کے لیڈر اور اُس کے بانی کے خلاف کوئی ایسا سخت کلمه استعمال نہ کیا جائے جو اُس مذہب کے پیرؤوں کے لیے دل شکنی کا باعث ہو اور جس سے تنافر اور تباغض پیدا ہو سکتا ہو.اگر کوئی شخص کسی مذہب کے متعلق سخت الفاظ استعمال کرے گا یا اُس مذہب کے بانی کے خلاف ایسے الفاظ استعمال کرے گا جو دل آزار ہوں یا قوم میں تفرقہ پیدا کرنے کا باعث ہوں تو اُسے گرفتار کر لیا جائے گا.اُن دنوں مرزا سلطان احمد صاحب ایک دفعہ رخصت پر قادیان آئے.مرزا سلطان احمد صاحب اُس وقت تک احمدی نہیں ہوئے تھے اور گو اُن کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے عقیدت تھی مگر بیعت میں شامل نہیں تھے.بعد میں تو وہ اپنی عقیدت میں بہت ترقی کر گئے اور خدا تعالیٰ ہے نے انہیں بیعت میں شامل ہونے کی توفیق بھی عطا فرما دی.مگر اُس وقت تک وہ احمدی

Page 457

خطبات محمود 457 $1944 نہیں تھے اور شاید گوجرانوالہ میں ای.اے.سی تھے.قادیان میں چند دنوں کی چھٹی پر آئے ہوئے تھے کہ میں اُن سے ملنے کے لیے گیا.باتوں باتوں میں وہ بڑے جوش سے کہنے لگے میں تو کہتا ہوں بڑے مرزا صاحب فوت ہو گئے تو اچھا ہی ہوا.میری طبیعت پر ان کا یہ فقرہ بہت ہی میں گراں گزرا.مگر اُن کے اگلے فقرہ نے بتا دیا کہ ان کا منشاء بُرا نہ تھا بلکہ اچھا تھا.گو اُن کا فقرہ مجھے پھر بھی گستاخانہ ہی معلوم ہوا.اُنہوں نے کہا میں تو کہتا ہوں بڑے مرزا صاحب فوت ہو گئے تو اچھا ہی ہوا ورنہ گورنمنٹ نے جو یہ قانون بنایا ہے کہ جو شخص کسی مذہب کے پیرؤوں کی دل شکنی کرے گا، اُسے گرفتار کر لیا جائے گا.اگر یہ قانون ان کی زندگی میں بن جاتا اور کوئی شخص رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہتک کا ارتکاب کر دیتا تو انہوں نے باز نہیں آنا تھا.وہ اس کی ایسی خبر لیتے اور اس طرح سختی کے ساتھ اس مذہب کی برائیاں بیان ہے کرتے کہ ذرا بھی قانون کی پروا نہ کرتے اور جیل خانے چلے جاتے.میں اُس وقت سمجھا کہ انہوں نے نیک معنوں میں ہی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے متعلق یہ الفاظ استعمال کیے ہیں اور اس طرح اس محبت اور عشق کا اظہار کیا جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلاة من والسلام کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات کے ساتھ تھا.چنانچہ انہوں نے بڑے ہیں زور سے کہا میں تو کہتا ہوں بڑے مرزا صاحب فوت ہو گئے تو اچھا ہی ہوا.ورنہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے متعلق اگر کوئی سخت کلامی سے کام لیتا تو انہوں نے باز نہیں آنا تھا اور ضرور جیل خانے چلے جانا تھا.یہ واقعات ہیں جو ہم نے دیکھے ہوئے ہیں.پس ہم جانتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ و آلہ و سلم کا ادب اور احترام ہمارے دلوں میں کس طرح کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے.ہم جانتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا کتنا بڑا بلند مقام ہے اور ہم جانتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اللہ تعالیٰ کے حضور جو مقام قرب حاصل ہے اُس کے قریب بھی اور کوئی شخص نہیں پہنچ سکتا.میں ایک دفعہ قصور گیا اور وہاں میں نے اسلام کے محاسن اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فضائل کے متعلق تقریر کی.میں نے یہ بیان کیا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہے

Page 458

$1944 458 خطبات محمود.اخلاق فاضلہ ہمارے لیے راہنمائی کا کام کر رہے ہیں اور ہمارا فرض ہے کہ ہم اپنے ہر قول و فعل میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اقتدا کریں اور دیکھیں کہ آپ نے ہمارے سامنے کیا نمونہ پیش کیا ہے کیونکہ اخلاق کا کوئی شعبہ ایسا نہیں جس کے متعلق رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی میں ہمارے لیے نمونہ موجود نہ ہو اور ہم اس کی راہنمائی میں صحیح راستہ پر نہ چل سکتے ہوں.ایک ہندور کیس بھی میری اس تقریر میں موجود تھا.جب لیکچر ختم ہو گیا تو ہے وہ بعد میں مجھ سے ملنے کے لیے آیا اور کہنے لگا مجھے عام طور پر مذہبی امور سے دلچسپی ہے اور جہاں بھی مجھے یہ معلوم ہو کہ مذہب کے متعلق کوئی تقریر ہونے والی ہے میں وہاں پہنچتا ہوں.مگر اب تک اسلام کے متعلق میں نے جس قدر لیکچر نے ہیں اُن میں یہی ذکر ہو تا تھا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بال ایسے تھے ، آپ کا رنگ ایسا تھا، آپ کی آنکھیں ہے ایسی تھیں، آپ کا قد ایسا تھا.وہ شخص ہندو تھا اور ہندو ہونے کی وجہ سے اُس کا سخت الفاظ استعمال کرنا باعث تعجب نہ تھا بلکہ اس موقع پر اس نے سخت الفاظ استعمال بھی کیے.چنانچہ من اُس نے کہا کوئی بتائے کیا ہم عشق کرنے کے لیے ایسے مواقع پر آتے ہیں ؟ ہماری غرض تو یہ ہوتی ہے کہ ہم دیکھیں آپ نے دنیا میں آکر لوگوں کو دین کس طرح سکھایا اور ان کے اخلاق میں کی کس طرح نگہداشت کی.مگر آج تک مجھے کہیں بھی یہ سننے کا اتفاق نہیں ہوا کہ آپ نے یہ یہ تعلیم پیش کی ہے جو اخلاق اور روحانیت کے لیے عطیہ ہے.یہ پہلا موقع ہے کہ میں نے بانی اسلام کے فضائل ایک جلسہ میں سُنے.ورنہ اب تک تو ہمیں یہی پتہ تھا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ایک کمبل اپنے جسم پر لپیٹ لیتے تھے، لمبی لمبی زلفیں تھیں، رنگ سفید می تھا اور شکل ایسی تھی، اس سے زیادہ ہمیں کچھ پتہ نہیں تھا کہ اسلام کے بانی کی کیا شکل ہے.آج پہلی دفعہ میں نے آپ کی تقریر میں یہ باتیں سنی ہیں جس سے مجھے معلوم ہوا ہے کہ اسلام کے ہم پانی کی کیا تعلیم تھی اور انہوں نے اپنے نمونہ سے لوگوں کے سامنے کیا کیا باتیں پیش کی ہیں.میں میں نے معذرت کی کہ مسلمانوں میں واقع میں یہ کو تا ہی پائی جاتی ہے اور ان میں یہ کمزوری ہے ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اعلیٰ اخلاق اور آپ کے بے مثال کارناموں کو پیش کرنے کی بجائے وہ یہی باتیں بیان کرتے رہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شکل می

Page 459

خطبات محمود 459 $1944 ایسی تھی اور آپ کا رنگ ایسا تھا لیکن باوجود اس کے ہمیں اصل چیز کو دیکھنا چاہیے.یہ نہیں دیکھنا چاہیے کہ لوگ اپنی غلط فہمیوں کے نتیجہ میں اس شکل کو بگاڑ کر کس رنگ میں پیش کر رہے ہیں.غرض رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت اور آپ کا عشق ہمارے ایمان کا جزو ہے.مگر باوجود اس کے جب میں دیکھتا ہوں کہ بعض مسلمان اپنی نادانی اور جہالت کی وجہ سے بلکہ تعصب اور دشمنی میں حد سے نکل جانے کی وجہ سے ہماری باتوں کو منی توڑ مروڑ کر اور اُنہیں اصل معنوں سے پھر ا کر لوگوں کے سامنے پیش کرتے ہیں تو مجھے حیرت آتی ہے کہ ان کے ایمانوں کو کیا ہو گیا ہے.ابھی چند دن ہوئے ایک موقع پر میں نے بعض باتیں کیں جن کا مفہوم یہ تھا کہ ہم رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے متعلق یہ یقین رکھتے ہیں کہ آپ نے اللہ تعالی کے ہے حضور جو درجہ اور مقام حاصل کیا ہے وہ اپنے زورِ عمل سے حاصل کیا ہے.ہم یہ خیال نہیں کرتے کہ خدا تعالیٰ نے زبر دستی آپ کو اس مقام پر کھڑا کر دیا اور پھر باقی لوگوں اور آپ کے در میان وہ خود کھڑا ہو گیا.تاکہ کوئی شخص اُس مقام تک نہ پہنچ سکے جس مقام پر اس نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پہنچایا ہے.ہمارے نزدیک یہ عقیدہ بالکل غلط اور خلاف قرآن ہے.اگر ایسا سمجھا جائے اور یہ خیال کیا جائے کہ خدا تعالیٰ نے بلا استحقاق رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ایک اعلیٰ مقام پر پہنچادیا اور باقی دنیا کو اس نے خود ہی اُس مقام تک پہنچنے سے روک دیا تو اس میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا کوئی کمال نہیں ہوگا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا کمال اسی میں ہے کہ اس روحانی میدان میں دنیا کی امینی تمام ارواح کو دوڑانے کے لیے کہا جائے اور کسی ایک شخص کو بھی آگے بڑھنے اور ترقی کرنے سے نہ روکا جائے.مگر پھر محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سب سے آگے نکل جائیں اور دنیا کو دکھا نہیں دیں کہ باوجود اس کے کہ خدا نے ہر ایک کے لیے میدان گھلار کھا تھا، خدا نے ہر ایک کے لیے دروازہ کھلا رکھا تھا، خدا نے ہر ایک کے اندر ترقی کا مادہ پیدا کیا تھا.پھر بھی اس دوڑ میں ہے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آگے نکل گئے اور ساری دنیا پیچھے رہ گئی.میرا یہ خطبہ جب شائع ہوا تو "پیغام صلح" لاہور نے جو ہماری دشمنی میں یزید سے بھی دو قدم آگے رہتا ہے،

Page 460

$1944 460 خطبات محمود وہ کتر بیونت 3 کر کے اس خطبہ کے کچھ اقتباس شائع کیسے اور لوگوں کو اشتعال دلایا.جس پر "احسان"، "زمیندار"، "شہباز" اور "پیام دہلی" وغیرہ نے یہ شور مچانا شروع کر دیا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہتک کی گئی ہے کیونکہ کہا گیا ہے کہ دوسرے لوگ بھی اِس دوڑ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بڑھ سکتے تھے.مجھے تعجب آتا ہے کہ یہی بات اگر ان کے باپ کے متعلق کہی جائے، اگر ان کے بیٹے کے متعلق کہی جائے، اگر ان کے مین بھائیوں کے متعلق کہی جائے تو وہ سر پھوڑنے کے لیے تیار ہو جائیں.مگر جب یہی بات رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے متعلق کہتے ہیں تو انہیں ذرا بھی احساس نہیں ہوتا کہ وہ تین کیا کہہ رہے ہیں.اگر کسی کا لڑکا یا کسی کا بھائی یا کسی کا باپ یا کسی کا کوئی اور رشتہ دار کہیں اعلیٰ درجہ کی ملازمت حاصل کرلے اور اُس کے متعلق یہ کہا جائے کہ اُسے سرکار نے خود ہی اونچے درجے پر پہنچا دیا ہے اس نے اپنے زورِ بازو سے یہ درجہ حاصل نہیں کیا تو اس کے رشتہ دار یہ بات کہنے والے سے لڑنے کے لیے تیار ہو جائیں گے.اور کہیں گے ، اس کا مطلب ہے یہ ہے کہ وہ تھا تو نالائق تھا تو نا اہل مگر گورنمنٹ نے رعایت کر کے ایک نالائق اور نا اہل شخص کو یہ مقام دے دیا اور باقی لوگوں کو اس کے حصول سے محروم کر دیا.غرض کسی کے متعلق بھی ہے یہ فقرہ کہہ دیا جائے اُس کے عزیز اور رشتہ دار اس فقرہ کو برداشت نہیں کر سکیں گے اور اسے سب ہتک قرار دیں گے.مگر ہماری دشمنی کی وجہ سے یہ لوگ رسول کریم صلی اللہ علیہ و کے متعلق اس قسم کے الفاظ استعمال کرتے ہیں اور انہیں ذرا بھی احساس نہیں ہوتا کہ وہ اِن الفاظ کے پردہ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی کیسی خطرناک ہتک کے مر تکب ہو رہے ہیں.اگر کہا جائے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے خود بخود ایک خاص مقام وئے دیا اور لوگوں کو اس مقام تک پہنچنے سے جبراً روک دیا تو اس کے معنے یہ ہوں گے کہ ہے دنیا میں کئی لوگ ایسے تھے جو رسول کریم سے اِس روحانی دوڑ میں بڑھ سکتے تھے مگر چونکہ خدا نے ان کو جبر آروک دیا اور وہ خود محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور لوگوں کے درمیان حائل ہو گیا اس نے لیے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم خدا تعالیٰ کا خاص قرب حاصل کر گئے ورنہ اور لوگ بھی ایسے ہو سکتے تھے جن کو اگر موقع دیا جاتا تو وہ اس مقام کو حاصل کر لیتے.میرے نزدیک یہ

Page 461

خطبات محمود 461 $1944 اِس سے بڑھ کر اور کوئی گالی نہیں ہو سکتی.یہ خدا کے لیے بھی گالی ہے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے بھی گالی ہے.خدا کے لیے اس طرح گالی ہے کہ اس کے نتیجہ میں خدا تعالیٰ پر ناجائز طر فراری کا الزام عائد ہوتا ہے اور کہنا پڑتا ہے کہ جو لوگ آگے بڑھنے کے مستحق تھے اُن کو تو خدا نے بڑھنے نہ دیا اور جو شخص اس مقام کا مستحق نہیں تھا، اُسے آگے بڑھا دیا.اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اس میں اس طرح بنک ہے کہ اس کے نتیجہ میں یہ تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جو مقام بلند حاصل کیا وہ آپ نے اپنی قابلیت سے حاصل نہیں کیا.اگر قابلیت کا سوال ہو تا تو اور کئی لوگ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑھ سکتے تھے.پس تعجب ہے کہ وہ بات جس کا سننا کوئی ماں اپنے بیٹے کے متعلق برداشت نہیں ہے کر سکتی، کوئی بیٹا اپنے باپ کے متعلق برداشت نہیں کر سکتا، کوئی بھائی اپنے بھائی کے متعلق برداشت نہیں کر سکتا وہ محض ہماری مخالفت کی وجہ سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق کہی جاتی ہے اور ہمارے متعلق یہ کہا جاتا ہے کہ ہم نَعُوذُ بِالله رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہتک کا ارتکاب کرنے والے ہیں.کیونکہ ہم کہتے ہیں کہ خدا تعالیٰ نے کسی کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بڑھنے سے نہیں روکا.اگر کسی شخص میں ہمت ہے تو بڑھ جائے.مگر وہ بڑھے گا نہیں کیونکہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو قربانی کی ہے کوئی وہ قربانی دینے کا اہل نہیں ہے.یہ صاف بات ہے کہ بڑھ سکنا اور چیز ہے اور بڑھنا اور چیز.بڑھ سکنے کے یہ معنی ہیں کہ ہر شخص کے لیے آگے بڑھنے کا موقع تھا اور یہ راستہ اُس کے لیے بند نہیں تھا بلکہ گھلا تھا.لیکن جب کوئی شخص آپ سے بڑھا نہیں تو معلوم ہوا کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو عشق کا نمونہ دکھایا ویسا نمونہ اور کوئی نہیں دکھا سکا.عام آدمی تو الگ رہے وہ نمونہ ابراہیم، موسی اور عیسی بھی نہیں دکھا سکے.اب اس عقیدہ میں رسول کریم کی ہتک کو نسی ہو گئی.یہ تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت ہے کہ خدا نے سب لوگوں کے لیے دروازہ کھول دیا اور کہا کہ آؤ! اور اس دروازے میں داخل ہونے کے لیے ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرو.اِس پر

Page 462

$1944 462 خطبات محمود الله سة لوگ دوڑے مگر چونکہ ان میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جیسا عشق نہ تھا وہ اس زور سے نہ دوڑ سکے جس زور سے محمد رسول اللہ صلی علیکم دوڑے.نتیجہ یہ ہوا کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آگے نکل گئے.پس اس میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہتک نہیں بلکہ عزت ہے.اور یہ ایسی ہی بات ہے جیسے کالج میں جب طالب علم جاتے ہیں تو ہر ایک کے لیے موقع ہوتا ہے کہ وہ دوسروں سے آگے نکل جائے.مگر جب نتیجہ نکلتا ہے تو ایک آگے بڑھ جاتا ہے اور باقی پیچھے رہ جاتے ہیں.اب اس کے آگے نکل آنے پر دوسرے لوگ یہ نہیں کہہ سکتے کہ اس سے خاص رعایت کی گئی ہے.کیونکہ رعایت کا تب سوال پیدا ہوتا ہے جب ان کے لیے محنت کا دروازہ بند کیا گیا ہوتا اور کہا جاتا کہ ہم نے اسی لڑکے کو آگے بڑھانا ہے، دوسروں کو آگے نہیں بڑھانا.مگر جب ہر ایک کے لیے دروازہ کھلا تھا کہ وہ دوسروں سے آگے نکل جاتا تو ایک لڑکے کا محنت اور کوشش کر کے دوسروں سے آگے نکل جانا اُس کی قابلیت کا ثبوت ہو گا.لیکن اگر یونیورسٹی کسی کو خاص طور پر آگے کر دے اور دوسروں کو جبر ایچھے رکھے تو ہر کہے گا یہ دھوکا بازی ہے ، یہ جانبداری اور طرفداری ہے.دوسروں کا رستہ روک کر ایک کو آگے کر دینا ہر گز اُس کی قابلیت اور کمال کا ثبوت نہیں ہو سکتا.ہاں! اگر ہر ایک کے لیے راستہ گھلا ہو، ہر ایک کو یہ آزادی حاصل ہو کہ وہ اپنی محنت کے مطابق جو مقام حاصل کرنا چا ہے کر لے تو اس کے بعد اگر ایک شخص محنت کرے، کوشش کرے، عرق ریزی سے کام لے، دماغی قوتوں کا صحیح استعمال کرے اور پھر دوسروں سے آگے بڑھ کر دکھا دے تو بے شک اس میں اُس کی بہت بڑی عزت ہو گی.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے متعلق بھی یہی دو تی باتیں تسلیم کرنی پڑیں گی.یا تو یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی من قابلیت اور اپنے زور سے تمام بنی نوع انسان کو شکست دے کر اور اُن کو اس میدان میں پیچھے چھوڑ کر باوجود اس کے کہ اُن کے لیے بھی خدا تعالیٰ کی طرف سے ترقی کے راستے کھلے تھے اللہ تعالیٰ کے قرب میں بڑھ گئے.وہ خدا تعالیٰ کے قرب میں بڑھے اپنی قربانیوں کی وجہ سے، وہ خدا تعالیٰ کے قرب میں بڑھے اپنی وفاداریوں کی وجہ سے ، وہ خدا تعالیٰ کے قرب میں بڑھے اپنی دینداری کی وجہ سے ، وہ خدا تعالیٰ کے قرب میں بڑھے اپنے تقوی اور اپنے اخلاص اور اپنی

Page 463

$1944 463 خطبات محمود محبت کی وجہ سے.اور اس طرح اُنہوں نے وہ مقام حاصل کر لیا جس کو دوسرے لوگ حاصل نہ کر سکے.پس ایک تو یہ تو جیہہ ہے جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق کی جاسکتی ہے اور ایک توجیہہ یہ ہے کہ بہتیرے آدمی ایسے تھے جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑھ سکتے تھے.آپ کا آگے نکل جانا آپ کے کامل نبی ہونے کی نَعُوذُ بِاللہ کوئی دلیل نہیں کیونکہ خدا رستہ میں حائل ہو گیا تھا اور اُس نے درمیان میں کھڑے ہو کر باقی سب لوگوں کو وہاں تک پہنچنے سے محروم کر دیا.یا دوسرے لفظوں میں یہ کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے وہ قابلیتیں دیں جو دوسروں کو نہیں دیں اس لیے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آگے ہے نکل گئے اور دوسرے لوگ پیچھے رہ گئے.ہم وہ ہیں جو اِس بات کے قائل ہیں کہ وہ لوگ جھوٹے ہیں جو خیال کرتے ہیں کہ اس دوڑ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اور لوگ اس لیے نہیں بڑھے کہ خدا تعالیٰ نے اُن کو وہ طاقتیں نہیں دی تھیں جو خاص طور پر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دی گئی تھیں.کیونکہ خدا تعالیٰ نے عملی طور پر دکھا دیا کہ سب لوگ دوڑے مگر کوئی شخص رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جیسا تیز دوڑ نہ سکا اور اِس وجہ سے جو مقام رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حاصل کیا وہ کوئی دوسرا شخص حاصل نہ کر سکا.مگر یہ لوگ اس بات کے قائل ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اور لوگ بھی بڑھ سکتے تھے.مگر خدا نے اُن کو جبر آ آگے بڑھنے سے روک دیا.وہ خود اُن کے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام کے درمیان حائل ہو گیا اور اس طرح اُن کو ترقی کے حصول سے جبری طور پر محروم کر دیا.ہر وہ شخص جس کے اندر تخم دیانت پایا جاتا ہے ان دونوں امور پر غور کر کے بتائے آیارسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق یہ پہلو زیادہ مناسب اور آپ کی عزت کو بڑھانے والا ہے کہ خدا نے زبر دستی آپ کو آسمان پر بٹھا دیا اور دوسروں کو زمین پر گرا دیا یا یہ پہلو آپ کی شان اور عظمت کو بڑھانے والا ہے کہ خدا نے ہر ایک کے لیے ترقی کا راستہ گھلا رکھا تھا، ہر ایک کے لیے موقع تھا یے که و ورسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی آگے بڑھ سکتا مگر کوئی شخص ایسانہ نکلا جو اپنی قربانی ہے اور اپنی محبت اور اپنے ایثار اور اپنے خلوص اور اپنے تعلق باللہ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ہے

Page 464

خطبات محمود 464 $1944 آگے بڑھ جاتا.یہ ایسی بات ہے جسے ایک بچہ بھی سمجھ سکتا ہے مگر ہماری دشمنی کی وجہ سے یا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کی کمی کی وجہ سے یا سچائی سے بیزاری کی عادت رکھنے کی وجہ سے جو بات رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان کو بڑھانے والی ہے اُس کو ماننے سے تو وہ انکار کرتے ہیں اور جو باتیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان اور آپ کی عظمت کو کم کرنے والی ہیں اُن کو وہ تسلیم کرتے ہیں.مثلاً مسلمانوں میں مولود کی رسم ہے.مولود میں سوائے اس کے کچھ نہیں ہوتا کہ ایک مولوی اُٹھ کر وعظ کرنا شروع کر دیتا ہے اور کہتا ہے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بال ایسے تھے.کوئی ان سے پوچھے کیا خدا نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو لمبے اور ملائم بالوں کی وجہ سے رسول بنا کر بھیجا تھا؟ یا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا رنگ ایسا تھا؟ کیا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے سفید رنگ کی وجہ سے نبی بنا کر بھیجا تھا؟ یارسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا قد ایسا تھا ؟ کیا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے اچھے قد کی وجہ سے نبی بنا کر بھیجا تھا؟ یا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھیں ایسی تھیں؟ کیا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو خدا نے اعلیٰ درجہ کی آنکھوں کی وجہ سے نبی بنا کر بھیجا تھا؟ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ و کو تو یہ مقام اُس قربانی اور ایثار کی وجہ سے ملا تھا جس کا آپ نے اپنے عمل سے ثبوت دیا.اس محبت کی وجہ سے ملا تھا جو آپ کے دل میں پائی جاتی تھی.آپ نے ایک طرف خدا تعالیٰ سے ایسی محبت کی جس کی مثال دنیا کا کوئی اور شخص پیش نہ کر سکا اور دوسری طرف بنی نوع انسان سے ایسی محبت کی جس کا نمونہ کوئی اور شخص نہ دکھا سکا.آپ کو یہ مقام اس عشق کی وجہ سے حاصل ہوا جو آپ کے رگ وریشہ میں پایا جاتا تھا، اُس عبادت کی وجہ سے حاصل ہوا جس پہ آپ کو دوام حاصل تھا، ان اعلیٰ صفات کی وجہ سے حاصل ہوا جو آپ سے ظاہر ہوتی تھیں، ان می جذبات کی وجہ سے حاصل ہو ا جو آپ میں پائے جاتے تھے اور جن کے نتیجہ میں آپ رات اور دن اللہ تعالی کی رضا کے لیے ہر قربانی کرنے پر تیار رہتے تھے.مگر جن چیزوں کی وجہ سے محمد صلی اللہ علیہ وسلم محمد کہلائے مسلمان ان کا تو ذکر نہیں کرتے اور یہ کہنا شروع کر دیتے ہیں کہ آپ نے ایک کمبل لپیٹا ہوا ہوتا تھا، آپ کے گیسو ایسے تھے اور آپ کا رنگ ایسا تھا.میں

Page 465

خطبات محمود 465 $1944 یہ تو صریح ہتک ہے جو مسلمانوں کی طرف سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی، کی جاتی ہے.اور یہ ایسی ہی بات ہے جیسے کسی شخص سے پوچھا جائے کہ ہٹلر کی لوگ کیوں تعریف کرتے ہیں ؟ تو وہ کہے اس لیے کہ اس کا قد پانچ فٹ کا ہے ، وہ فلاں کو ٹھی میں رہتا ہے اور اس کی زبان ہے ایسی ہے.اس کے صاف معنے یہ ہوں گے کہ یا تو یہ تعریف کرنے والا پاگل ہے اور یا اُسے اندرونی طور پر دوسرے شخص سے کوئی شدید دشمنی ہے جس کا وہ اس رنگ میں اظہار کر رہا ہے.ہے.اسی طرح مسلمان وہ باتیں تو بیان نہیں کرتے جن سے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی حقیقی شان ظاہر ہوتی ہے اور یہ کہنا شروع کر دیتے ہیں کہ آپ کے گیسو ایسے تھے اور آپ کا ہے رنگ ایسا تھا.حالانکہ لمبے گیسوؤں والے دنیا میں ہزاروں مل سکتے ہیں، سفید رنگ والے دنیا میں ہزاروں مل سکتے ہیں، اچھے قد والے دنیا میں ہزاروں مل سکتے ہیں، خوبصورت آنکھوں والے دنیا میں ہزاروں مل سکتے ہیں.اور یہ خوبیاں ہر گزایسی نہیں جن میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم دوسروں سے ممتاز ہوں.جس چیز میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم منفر د ہیں اور جس چیز میں دنیا کا کوئی شخص آپ کے مقابلہ میں پیش نہیں کیا جا سکتا وہ محبت اور وہ عشق ہے جو ہمیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالی کی ذات کے ساتھ تھا.تم ایسا کوئی شخص دنیا میں تلاش ہے نہیں کر سکتے جس نے خدا سے وہ محبت کی ہو جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کی، جس نے اس عشق کا اظہار کیا ہو جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ظاہر ہوا.تم لیے گیسوؤں والے ہزاروں نہیں لاکھوں آدمی دنیا میں دکھا سکتے ہو لیکن آدم سے لے کر قیامت تک تم ایک شخص بھی ایسا پیش نہیں کر سکتے جس نے پاکیزگی اور طہارت کا وہ نمونہ دکھایا ہو جور سول کریم صلی اللہ وسلم نے دکھایا.پس رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو رسالت کے اس بلند ترین مقام پر پہنچائے والی آپ کی وہ صداقت تھی جس کا آپ نے نمونہ دکھایا اور جس کی مثال آدم سے ہے لے کر قیامت تک دنیا کے کسی شخص میں نہیں مل سکتی.اس مقام پر پہنچانے والی آپ کی وہ امانت تھی جس کا آپ نے نمونہ دکھایا اور جس کی مثال آدم سے لے کر قیامت تک دنیا کے کسی شخص میں نہیں مل سکتی.اس مقام پر پہنچانے والا آپ کا وہ انصاف تھا جس کا آپ نے نمونہ دکھایا اور جس کی مثال آدم سے لے کر قیامت تک دنیا کے کسی شخص میں نہیں مل سکتی.میں

Page 466

خطبات محمود 466 $1944 ہے اس مقام پر پہنچانے والا آپ کا وہ ایثار تھا جو بنی نوع انسان کے لیے آپ سے ظاہر ہوا اور جس کی مثال آدم سے لے کر قیامت تک اور کسی شخص میں نہیں مل سکتی.اس مقام پر پہنچانے والا آپ کا دین کے لیے اپنے آپ کو اس طرح وقف کر دینا تھا کہ آدم سے لے کر قیامت تک ایسا کوئی شخص پیش نہیں کیا جاسکتا جس نے دین کے لیے اپنے آپ کو رات اور دن اس طرح وقف کر دیا ہو.یہ اور اسی قسم کی ہزاروں نہیں لاکھوں خوبیاں ایسی ہیں جن میں رسول کریم صلی اللہ علیه و سلم بالکل منفرد ہیں اور کوئی شخص ان خوبیوں اور کمالات میں آپ کی ہمسری کا دعوی نہیں کر سکتا.مگر مسلمان ان خوبیوں کو تو چھوڑ دیتے ہیں اور بیان یہ کرنے لگ جاتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زلفیں ایسی تھیں اور آپ کا رنگ ایسا تھا اور آپ کا قد ایسا تھا.اور آپ کی خوبیوں کے متعلق یہ کہتے ہیں کہ آپ نے اپنا عہدہ عشق الہی اور خدمت خلق کے کمال سے حاصل نہیں کیا بلکہ یونہی اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس مقام پر کھڑا کر دیا تھا.ان باتوں کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ جب دشمن کے سامنے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق یہ باتیں بیان کی جاتی ہیں تو وہ ہنستا ہے اور بجائے اِس کے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خوبیوں اور آپ کے کمالات اور فضائل کا اُس پر اثر ہو ، وہ تعجب کرتا ہے کہ کہنے والے کی عقل ہے کو کیا ہو گیا کہ وہ آپ کی ذاتی خوبیاں تو پیش نہیں کرتا بلکہ یہ کہہ کر کہ خدا تعالیٰ نے یو نہی آپ کو اعلیٰ مقام دے دیا تھا آپ کی ذاتی خوبیوں کا انکار کرتا ہے اور وہ خوبیاں پیش کر رہا ہے جن میں آپ کا کوئی دخل نہیں.یہ خوبیاں کہ آپ کا رنگ ایسا تھا اور آپ کا قد ایسا تھا اور آپ کی زلفیں ایسی تھیں ایسی ہی ہیں جیسے تاج محل کے متعلق کہا جائے کہ وہ بڑا خوبصورت ہے.بیشک تاج محل بہت خوبصورت ہے مگر کیا تاج محل اپنے اس حسن پر فخر کر سکتا ہے اور کہہ سکتا ہے کہ اس خوبی کے بدلہ میں مجھے بھی جنت میں کوئی اعلیٰ مقام ملنا چاہیے ؟ آخر تاج محل کیوں اپنے ہی حسن پر فخر نہیں کر سکتا اور کیوں یہ مطالبہ نہیں کر سکتا کہ اُسے بھی اس خوبی کی وجہ سے جنت میں جگہ ملنی چاہیے ؟ اس لیے کہ تاج محل کی خوبیاں اس کی ذاتی نہیں بلکہ کسی معمار کی مرہونِ منت ہیں.ایک معمار نے جس رنگ میں چاہا اسے بنادیا.معمار نے اُسے تاج محل بناد یا تو وہ تاج محل بن گیا.اگر وہ اسے معمولی مکان بنادیتا تو وہ ویسا ہی بن جاتا.اسی طرح ہے

Page 467

خطبات محمود 467 $1944 دنیا کے خوبصورت پہاڑی مقامات مثلاً کشمیر یا ڈلہوزی یا کھمیار 4 وغیرہ کیا جنت میں کہ اعلیٰ درجہ کے مقام کے مستحق ہو سکتے ہیں؟ اور کیا وہ کہہ سکتے ہیں کہ چونکہ ہمارے اندر بھی خوبیاں پائی جاتی ہیں اس لیے ہمیں بھی اللہ تعالی کی جنت میں جگہ ملنی چاہیے ؟ آخر کیوں وہ یہ مطالبہ نہیں کر سکتے ؟ اسی لیے کہ اُن کی بناوٹ اور اُن کی پختگی میں اُن کا کوئی ذاتی دخل نہیں.اسی طرح اگر خدا نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے زور سے ایک بلند ترین مقام پر پہنچادیا تو اس کے معنے یہ ہیں کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نَعُوذُ بِاللهِ عزت کے مستحق نہیں کیونکہ اُن کا اِس مقام کو حاصل کرنا اُن کی کسی ذاتی خوبی کا نتیجہ نہیں خدا نے زبر دستی دوسروں کا راستہ روک کر اُن کو اس مقام پر پہنچادیا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت اور آپ کے مقام کا احترام صرف اسی صورت میں ہے جب یہ تسلیم کیا جائے کہ ہر شخص کے لیے ہے خدا تعالیٰ کے قرب میں بڑھنے کا موقع تھا.ہر شخص کا اختیار تھا کہ وہ آگے بڑھتا اور اپنے عشق اور اپنی محبت کے زور سے اس مقام کو حاصل کر لیتا.خدا تعالیٰ نے ہر شخص کے اندر بلیتیں رکھی تھیں، ہر شخص کے اندر اس نے طاقتیں رکھی تھیں، ہر شخص کے اندر اس نے یہ ملکہ رکھا تھا کہ وہ نوع انسان کی خدمت یا عبادت یا محبت الہی میں ترقی کر کے اللہ تعالیٰ کے قرب کا بلند سے بلند مقام حاصل کرلے.مگر باوجود اس کے کہ سب کو مشابہ طاقتیں دی گئی تھیں، سب کو مشابہ قابلیتیں دی گئی تھیں، سب کو آگے بڑھنے کے مشابہ مواقع حاصل تھے، سب کے لیے خدا تعالیٰ کے قرب کے راستے کھلے تھے پھر بھی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آئے اور سب سے آگے بڑھ گئے.جیسے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو خداتعالی کے ہے قرب میں بڑھنے کے لیے موقع حاصل تھا ویسا ہی موقع آدم کو حاصل تھا، ویسا ہی نوح کو حاصل تھا، ویسا ہی ابراہیم کو حاصل تھا، ویسا ہی موسیٰ کو حاصل تھا، ویسا ہی عیسی کو حاصل تھا اور انہوں نے اپنے اپنے رنگ میں اللہ تعالیٰ کے قرب کے کمالات کو طے بھی کیا.مگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کمال یہ ہے کہ آپ نے اُن سب سے بڑھ کر اپنے عشق و محبت کا ثبوت دیا ہے اور اس طرح دنیا کے تمام لوگوں سے آگے بڑھ کر دکھا دیا.ہر شخص سمجھ سکتا ہے کہ اگر کہیں بڑے بڑے پہلوان جمع ہوں اور اُن میں سے ایک پہلوان سب پر غالب آجائے تو و وہ

Page 468

$1944 468 خطبات محمود بہت زیادہ عزت اور بہت زیادہ انعام کا مستحق سمجھا جائے گا.بھلا اس میں کسی کی کیا عزت ہے کہ بہت سے پہلوان جمع ہوں تو ایک شخص کو بلاوجہ آگے کر دیا جائے اور دوسروں کو پیچھے ہٹا دیا جائے.یہ بات اُسے معزز ثابت کرنے والی نہیں ہو گی.بلکہ اُسے دوسروں کے مقابلہ میں نااہل قرار دینے والی ہوگی.ہمیں تو جس چیز میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت نظر آتی ہے ہم اسی کو پیش کرتے ہیں.مگر ان مسلمانوں کے دلوں سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت اتنی نکل چکی ہے، ان کا تعلق آپ سے اتنا کٹ چکا ہے اور ہمارا لبعض ان کے دلوں میں اس قدر بڑھ چکا ہے کہ ہم اگر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو بڑا کہیں تو وہ چھوٹا کہہ دیتے ہیں، ہم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو خدا رسیدہ قرار دیں تو وہ آپ کو نَعُوذُ باللہ خدا سے دور قرار دینے کے لیے تیار ہو جاتے ہیں.میں نہیں سمجھ سکتا یہ کیسا ایمان ہے اور کس طرح یہ سمجھا جاسکتا ہے کہ ان کے دلوں میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا عشق پایا جاتا ہے.پھر عجیب بات یہ ہے کہ اس بنیاد پر اور اپنی اس حالت کے ہوتے ہوئے ہم سے یہ بحث کی جاتی ہے کہ انہیں کافر کیوں کہا جاتا ہے.جن لوگوں کے دلوں میں ہماری دشمنی اتنی بڑھ چکی ہے کہ وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی دشمنوں کی نگاہ میں ذلیل کرنے کے لیے تیار ہیں محض اس وجہ سے کہ اُن کی باتوں سے لوگوں میں ہمارے خلاف اشتعال پید اہو جائے اُن کے ایمان کا خیال بھی کسی کو کس طرح آسکتا ہے.ہمارے خلاف اگر وہ لوگوں کو بھڑکانا چاہتے ہیں تو بیشک بھر کا ئیں ہمیں ان کی مخالفت کی کوئی پروا نہیں.اگر وہ ہمارے خلاف لوگوں کو اشتعال دلانا چاہتے ہیں تو بیشک دلائیں.پہلے کب لوگوں نے ہمارے خلاف اشتعال کا اظہار نہیں کیا اور پہلے کب انہوں نے ہماری مخالفت میں اپنی انتہائی کوشش صرف نہیں کی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام فرماتے ہیں اور ہمارا بھی یہی مذہب ہے کہ در کوئے تو اگر سر عشاق را ز نند اول کسے کہ لافِ تعشق زند مم5 اگر تیرے کوچہ میں یہ حکم ہو کہ جو شخص تیری محبت کا دعوی کرے گا اُس کا سر

Page 469

$1944 469 محمود قلم کر دیا جائے گا تو پہلا شخص جو تیرے کوچہ میں اپنے عشق و محبت کا اظہار کرے گا وہ میں ہوں گا.پس " پیغام جنگ " یا " پیام دہلی " یا " شہباز " یا "زمیندار" یا " احسان" کی مخالفت کی ہمیں کوئی پروا نہیں.ہمارے خلاف اس سے پہلے بڑے بڑے فتوے شائع کیے گئے اور ہندوستان کے ایک سرے سے لے کر دوسرے سرے تک ان فتووں کی تشہیر کی گئی اور کوشش کی گئی کہ جماعت احمدیہ کو مٹادیا جائے.مگر کیا ہم ان کے فتووں سے ڈر گئے ؟ یا ان کی مخالفتیں ہمارا کچھ بگاڑ سکیں؟ ہم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے نام کو بلند کرنے اور آپ کی عزت کو قائم کرنے کے لیے دنیا میں کھڑے ہوئے ہیں اور ہم نے یہ کام سخت سے سخت مشکلات اور شدید سے شدید مخالفت میں بھی کیا ہے.دشمن نے ہمیں کہا کہ تم رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہتک کا ارتکاب کرتے ہو.مگر یہ نہیں ہوا کہ اس مخالفت کے ڈر سے ہم نے اُن عقائد کو اختیار کر لیا ہو جو ان ظالم دشمنوں اور دین سے بیزار لوگوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کیے ہیں اور جن سے آپ کی ہتک ہوتی ہے.بلکہ ہم انہی عقائد پر قائم ہیں اور قائم رہیں گے جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت کو بڑھانے کا موجب ہیں.اگر گورنمنٹ اس مجرم پر ہم سب کو گرفتار کرلے اور ہمارے سروں پر آرے رکھ کر جسموں کو چیر ڈالے تب بھی ہم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کو دنیا کی ہر چیز پر مقدم رکھیں ان گے اور ہم یہی کہیں گے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم، اللہ تعالیٰ کی محبت اور اس کے قرب کے میدان میں اپنے زور سے بڑھے ہیں.یہ نہیں ہوا کہ خدا نے ان کو زبر دستی آگے کر دیا ہو اور باقی لوگوں کا رستہ روک لیا ہو.پس یہ جہالت ہے کہ "زمیندار" کے ایک مضمون سے یا " پیغام جنگ " یا " پیام دیلی" اور "شہباز " یا " احسان" کے لکھنے سے ہم ڈر جائیں اور اپنے ان عقائد کو ترک کر دیں جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان کو بلند کرنے کا موجب ہیں.ہم تو خدا کے فضل سے توپوں کے منہ کے سامنے کھڑے ہو کر بھی یہی کہنے کے لیے تیار ہیں کہ ہم نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت کو قائم کرنے کا بیڑہ اٹھایا ہے اور ہم آپ کی عزت دنیا میں قائم کر کے رہیں گے.دنیا آج نہیں تو کل مجبور ہو گی کہ وہ منی

Page 470

خطبات محمود 470 $1944 ہمارے ان عقائد کو تسلیم کرے اور انہی کو صحیح اور درست سمجھے.کیا ہمیں یہ نظارے نظر نہیں آتے کہ چالیس سال پہلے جن مسائل کی وجہ سے ہم پر کفر کے فتوے لگائے جاتے تھے، آج انہی مسائل کو مسلمان اپنے اعتقادات قرار و ہیں؟ کہا جاتا تھا کہ قرآن کریم کی کئی آیتیں منسوخ ہیں مگر آج ہر تعلیم یافتہ مسلمان قرآن کریم میں نسخ کے عقیدہ کو باطل عقیدہ قرار دیتا ہے اور یقین رکھتا ہے کہ قرآن کریم کی کوئی آیت منسوخ نہیں.بلکہ سارے کا سارا قرآن بنی نوع انسان کے لیے واجب العمل ہے.اسی طرح آج سے چالیس سال پہلے محض اس بناء پر کہ ہم وفات مسیح کے قائل ہیں، ہم پر کفر کے فتوے لگائے گئے.مگر آج ہر تعلیم یافتہ انسان سمجھتا ہے کہ عیسٰی مر گیا.حالانکہ یہ وہ مسئلہ تھا جس کو ماننے پر ہمیں گالیاں دی جاتی تھیں، ہمیں پتھر اؤ کیا جاتا تھا، ہمیں کافر اور دجال کہا جاتا تھا.مگر ہم اُس وقت بھی یہی کہا کرتے تھے کہ عیسی اگر مرتا ہے تو بے شک مرے، ہمیں تو اسلام کی زندگی کی ضرورت ہے.اگر اسلام کی زندگی میسی کی وفات میں ہے تو عیسی خواہ سو دفعہ مرے ہمیں اس کی کوئی پروا نہیں کیونکہ ہم صرف اسلام کے احیاء کو دیکھنا چاہتے ہیں.غرض جیسیوں عقائد اور بیسیوں مسائل ہیں جن میں احمدیت کو فتح حاصل ہوئی.اسی طرح یہ ہم پر کفر کا فتوی لگانے کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ ہمارے متعلق کہا جاتا تھا یہ لوگ ہند وپس میں ہے سے بت پوجنے والے کو نبی کہتے ہیں یعنی ان لوگوں کو جن کو ہندو اوتار کہتے ہیں، اللہ تعالی کا نبی ہے مانتے ہیں.مگر آج دیکھ لو مسلمانوں کا اکثر تعلیم یافتہ طبقہ اس مسئلہ کو اپنی تقریروں اور تحریروں میں بیان کر رہا ہے کہ یہ لوگ خدا تعالی کے نبی تھے.چنانچہ لاہور ، دہلی اور حیدر آباد میں سے مسلمانوں کی یہ آوازیں اُٹھنی شروع ہو گئی ہیں کہ حضرت کرشن بھی خدا تعالیٰ کے نبی تھے اور حضرت را مچندر بھی خدا تعالیٰ کے نبی تھے.حالانکہ انہی باتوں کی وجہ سے پہلے ہم پر کفر کے فتوے لگائے جاتے تھے.تو ہمارا تجربہ بتا رہا ہے کہ جو بات ہماری طرف سے پیش کی جاتی ہے ، چالیس پچاس سال کے بعد وہی بات مسلمان کہنے لگ جاتے ہیں.میں نہیں سمجھ سکتا کہ جب مسلمانوں میں بیداری پیدا ہو گی، جب اُن میں سچا اخلاص پیدا ہو گا، جب اُن کے دلوں میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سچی محبت پیدا ہوگی تو وہ اس بات کو نہیں سمجھ ہے

Page 471

خطبات محمود 471 $1944 سکیں گے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت آیا اس بات میں ہے کہ آپ نے ساری دنیا کا مقابلہ کیا اور پھر تمام لوگوں کو شکست دے کر اور اُن کو اپنے پیچھے چھوڑ کر خدا تعالیٰ کے خاص قرب کا مقام حاصل کر لیا یارسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت اس بات میں ہے کہ خدا نے ان کو زبر دستی لوگوں کے آگے کر دیا اور خود روک بن کر لوگوں میں اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم میں حائل ہو گیا اور اُس نے آگے بڑھنے سے اوروں کو جبراً روک دیا تا وہ کہیں اس مقام تک نہ پہنچ جائیں جس مقام پر وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بچانا چاہتا تھا.میں یقیناً سمجھتا ہوں جب ہماری مخالفت کم ہو گی، جب مسلمانوں میں بیداری ہے پیدا ہو گی تو وہ تسلیم کر لیں گے کہ یہی عقیدہ درست ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابلہ میں سب لوگ دوڑے اور ہر ایک نے چاہا کہ وہ اللہ تعالی کا زیادہ سے زیادہ قرب حاصل ہے کرے.مگر اس میدان میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیا کے تمام انسانوں کو شکست دے دی اور خود وہ مقام حاصل کر لیا جو تمام مقامات سے ارفع و اعلیٰ ہے اور جہاں نہ کوئی پہلے پہنچا اور نہ قیامت تک کوئی شخص پہنچ سکتا ہے.یہی وہ عقیدہ ہے جس میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت ہے اور یہی وہ عقیدہ ہے جس سے نہ خدا پر کوئی اعتراض عائد ہوتا ہے ہے ،نہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے کمالات میں کوئی نقص ثابت ہو تا ہے.غرض بِلا وجہ ہم پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہتک کا الزام عائد کیا جاتا ہے اور ہمیں آپ کے مقام کو گرانے والا قرار دیا جاتا ہے.حالانکہ ہم ہی ہیں جو رسول کریم اللہ علیہ وسلم کی عزت کرنے والے اور آپ کے نام کو بلند کرنے والے ہیں.ان باتوں سے جہاں ہمیں تعجب پیدا ہوتا ہے کہ ہماری دشمنی لوگوں کے دلوں میں کس قدر بڑھ چکی ہے کہ وہ اس دشمنی کی وجہ سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی علات کو کم کرنے اور آپ کے ہے درجہ کو گرانے سے بھی دریغ نہیں کرتے ، وہاں ہم اس مخالفت سے ذرا بھی نہیں گھبراتے اور ہمارے لیے گھبراہٹ کی کوئی وجہ بھی نہیں.کیونکہ ہمارا تجربہ بتا رہا ہے کہ جو بات ہماری طرف سے پیش کی جاتی ہے وہی چالیس پچاس سال کے بعد مسلمان کہنے لگ جاتے ہیں.میں نے غیر مذاہب کے متعلق جلسے منعقد کرنے کی تحریک کی تو پہلے اس کی بڑی مخالفت ہوئی مگر اب میں

Page 472

خطبات محمود 472 $1944 ہر جگہ یہ جلسے ہوتے ہیں اور تقریروں میں تسلیم کیا جاتا ہے کہ ہندوستان میں امن قائم کرنے اور باہمی بغض و کینہ کو دور کرنے کا یہی ایک ذریعہ ہے.اسی طرح اس مسئلہ کے متعلق بھی ہمارے لیے گھبراہٹ کی کوئی وجہ نہیں.تھوڑے ہی دنوں کے بعد یہی لوگ یا ان کی اولادیں اسی مضمون کو بیان کرنے لگ جائیں گی اور وہ کہیں گی احمدیوں کو کیا پتہ ہے، یہی ہمارے باپ دادا کا عقیدہ ہوا کرتا تھا".(الفضل 16 جولائی 1944ء) 1 : مسند احمد بن حنبل جلد 4 صفحہ 513 حدیث نمبر 15437 مطبوعہ بیروت لبنان 1944ء میں حضرت عمرؓ کے حوالہ سے ” رَضِيْنَا بِاللهِ رَبَّاً وَ بِالْإِسْلَامِ دِينًا وَ بِمُحَمَّدٍ يا الله رَسُولًا “ کے الفاظ ہیں.2 : ازالہ اوہام، جلد اول، روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 185 3 : کتربیونت: کانٹ چھانٹ 4 : کھیار:(KHAJJIAR) ہماچل پردیس (انڈیا) کا ایک خوبصورت مقام جسے مینی سوئٹزر لینڈ بھی کہا جاتا ہے 5 : در ثمین فارسی صفحہ 143 - شائع کردہ نظارت اشاعت ربوہ

Page 473

خطبات محمود $1944 473 (27) الہام الہی کی بناء پر معاملات کی صفائی اور مظلوم کی امداد کے متعلق تحریک (فرمودہ 14 جولائی 1944ء بمقام ڈلہوزی) تشہد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: "میں آج ایک ایسے امر کے متعلق بیان کرنے لگا ہوں جو اِس لحاظ سے کہ جن لوگوں کے ساتھ اِس کا تعلق ہے اُن میں سے اکثر اس وقت موجود نہیں ہیں، کچھ عجیب سا لگتا ہے.لیکن میں نہیں چاہتا کہ اس کے اظہار کے لیے ایک دن کی بھی دیر لگاؤں.اس لیے اس میں کو بیان کر دیناضروری سمجھتا ہوں.تین چار دن کی بات ہے کہ صبح کے وقت جب میری آنکھ کھلی تو اس وقت ایک لمبا الہ مضمون میرے دل پر نازل ہو رہا تھا.وہ اتنا لمبا مضمون تھا کہ میں اُس کو یاد رکھ ہی نہیں سکتا تھا لیکن اس کا مفہوم اختصاراً یاد رہ گیا ہے.اس حالت میں میں نے دیکھا کہ میں گویا اپنی اولاد کو مخاطب کر کے کچھ کہہ رہا ہوں.وہ مضمون تو جیسا کہ میں نے بتایا ہے بہت لمبا تھا لیکن اُس کا خلاصہ یہ ہے کہ میں کہتا ہوں کہ جس طرح حلف الفضول رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ------------

Page 474

$1944 474 خطبات محمود ہوئی تھی اگر ایسا ہی ایک معاہدہ میری اولاد کر لے تو اس کے نتیجہ میں اس پر خدا کے فضل خاص طور پر نازل ہوں گے اور وہ کبھی تباہ نہ ہو گی.یہ چیز جس کی طرف میں نے اشارہ کیا ہے اس وقت پوری طرح یاد نہیں کہ تاریخوں میں اس کا نام حلف الفضول ہے یا حلف الفضول ہے.بہر حال دونوں لفظ عربی ہیں.حلف کے معنے قسم کے ہیں اور حلف معاہدہ کو کہتے ہیں.جہاں تک یاد پڑتا ہے غالباً حلف الفضول کا لفظ ہے.یہ ایک معاہدہ تھا جو حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں بعثت سے قبل ہوا جس میں زیادہ جوش کے ساتھ حصہ لینے والے تین فضل نام کے آدمی تھے اس لیے اس کو حلف الفضول کہتے ہیں.اور اس معاہدہ کا مطلب یہ تھا کہ ہم مظلوموں کو ان کے حقوق دلوانے میں مدد کیا کریں گے اور اگر کوئی اُن پر ظلم کرے گا تو ہم اس کو روکیں ہے گے.باہر سے جو لوگ مکہ میں آتے ہیں اُن میں سے کوئی حج کے لیے آتا ہے، کوئی عمرہ کے لیے آتا ہے اور کوئی تجارت کے لیے آتا ہے.یہاں کی غذا اور دیگر تمام ضروریات باہر سے پوری ہوتی ہے ہیں.اس لیے اگر وہ نہ آئیں تو گزارہ نہیں ہوتا اور اگر آئیں تو اُن پر ظلم ہوتا ہے.بعض دفعہ لوگ اُن سے چیزیں لے لیتے ہیں اور قیمت نہیں دیتے اور بعض دفعہ چیز خراب کر کے واپس کر دیتے ہیں.اس لیے انہوں نے معاہدہ کیا کہ جب کبھی اس قسم کی بات ہو گی حلف الفضول والے مل کر یا اکیلے اکیلے مظلوم کا حق دلوایا کریں گے اور اس بات میں ایک دوسرے کی تائید کریں گے.حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بھی ایک آدمی آیا اور اس نے ذکر کیا کہ اس قسم کا ایک معاہدہ ہوا ہے آپ بھی اس میں شامل ہوں.آپ نے اس کو بہت پسند فرمایا یہ اور اس معاہدہ پر آپ نے بھی دستخط کر دیئے یعنی شمولیت کا اظہار فرمایا.ورنہ ویسے تو آپ دستخط نہیں کر سکتے تھے.بعد میں نبوت کے ایام میں بلکہ مدینہ کی زندگی میں ایک دفعہ ایک شخص نے ذکر کیا کہ یا رسول اللہ ! کفر میں بھی بعض اچھے کام ہوتے تھے.چنانچہ اس نے حلف الفضول کا ذکر کیا اور عرض کیا کہ سنا ہے آپ بھی اُس میں شامل ہوئے تھے ؟ آپ نے فرمایا ہاں.اگر جاہلیت کی کسی ایسی ہی چیز کی طرف جس طرح کہ حلف الفضول تھی مجھے پھر بلایا جائے میں تو میں اُس کو ضرور قبول کروں اور اُس میں شامل ہوں.فرمایا لو دُعِيْتُ لأَجَبْتُ 1

Page 475

$1944 475 خطبات محج محمود آج بھی میں اس قسم کی دعوت کو قبول کرنے کے لیے تیار ہوں.چنانچہ اور کافروں کا تو پتہ نہیں کہ انہوں نے اِس معاہدہ پر عمل کیا یا نہیں لیکن آپ نے اس پر عمل کیا.نبوت کے دعوی کے بعد جبکہ مخالفت شدید ہو گئی اور مخالف ہر رنگ میں آپ کو اور آپ کے صحابہ کو نقصان پہنچانا جائز سمجھتے تھے.جس طرح کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ میں بھی ہوا کہ مخالفین، احمدیوں کا مال کھالیتا اور ان کو نقصان پہنچانا جائز سمجھتے ہے ہیں.اسی طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں مکہ میں صحابہ کو یہ سب تکالیف ہوتی تھیں.کفار کے بڑے بڑے سردار جن میں ابو جہل، عتبہ اور شیبہ وغیرہ شامل تھے اکٹھے ہوئے اور انہوں نے مسلمانوں سے بائیکاٹ کرنے کا معاہدہ کیا کہ کوئی شخص ان کے ساتھ کلام نہ کرے، ان کے سلام کا جواب نہ دے، ان کے حقوق کو دبالینا سراسر جائز ہے اور ان کی کوئی بات خواہ وہ بالکل سچی ہو بالکل نہ مانو.اُس زمانہ کا واقعہ ہے کہ ایک دفعہ باہر سے ایک شخص آیا.ابو جہل نے اُس سے کچھ مال خریدا تھا اور اس کی قیمت ادا نہیں کرتا تھا اور نہ ہی مال واپس کرتا تھا.وہ شخص آیا اور جن جن لوگوں نے حلف الفضول میں حصہ لیا تھا باری باری اُن کے پاس گیا اور کہا کہ آپ لوگوں نے عہد کیا ہوا ہے کہ مظلوم کی مدد کریں گے آپ میری مدد ہے کریں اور ابو جہل سے میرے مال کی قیمت یا میر امال واپس دلوا دیں.لیکن ان میں سے ہر ایک شخص ابو جہل جیسے بد گو انسان کے پاس جانے سے ڈرتا تھا اور پھر وہ رکیس بھی تھا اس لیے ہر ایک نے انکار کر دیا کہ وہ نہیں جاسکتا.آخر پھرتے پھراتے وہ سول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہا کہ اس اس طرح ابو جہل نے مجھ سے مال لیا تھا اب نہ وہ قیمت دیتا ہے اور نہ مال ہے ہی واپس کرتا ہے.آپ میری مدد کریں اور میر امال واپس دلوا دیں یا قیمت لے دیں.آپ نے فرمایا ہاں چلو.اور باوجود اس قدر شدید مخالفت کے کہ وہ آپ کی بات سننا بھی نا پسند کرتا تھا آپ اُس کے ساتھ چل پڑے اور ابو جہل کے گھر پر جاکر دستک دی.اُس نے اندر سے پوچھا کون ہے ؟ آپ نے فرمایا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم).اس نے دروازہ کھول دیا اور پوچھا کہ یہ کس طرح آئے ہیں؟ آپ نے فرمایا یہ شخص کہتا ہے کہ آپ نے اس سے کچھ سامان لیا تھا اور اس کے روپے نہیں دیے.میں اس لیے آیا ہوں کہ اس کے روپے ادا کر دیجیے.اُس نے بغیر

Page 476

خطبات محج محمود 476 $1944 کسی چون و چرا کے کہا بہت اچھا اور روپے لا کر دے دیے.جس شخص پر آپ نے اتنا بڑا احسان کیا تھا وہ کب خاموش رہ سکتا تھا.محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تو اس کا ذکر نہیں کرنا تھا.لیکن اُس نے ہر جگہ ڈھنڈورا پیٹنا شروع کر دیا کہ میں فلاں کے پاس گیا اور اس کے نے میری مدد نہ کی، فلاں کے پاس پہنچا اور اُس نے مدد سے انکار کر دیا.آخر میں رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے پاس گیا اور انہوں نے میرا حق دلوا دیا.جب یہ بات پھیلی تو لوگوں میں نے ابو جہل پر ہنسنا شروع کیا کہ یہ عجیب بے غیرت آدمی ہے.یہ تو کہا کرتا تھا کہ ان کے ساتھ بات کرنا بھی منع ہے اور ان کی سچی بات کو ماننا بھی جائز نہیں.لیکن جس بات سے یہ لوگوں کو ی منع کیا کرتا تھا خود اس نے اس کی خلاف ورزی کی اور محمد سے ڈر کر اس کی بات مان لی.آخر بڑھتے بڑھتے نوبت یہاں تک پہنچی کہ چھوٹوں سے بڑوں نے سنا اور بڑوں سے پھر اُن سے بڑوں نے سنا اور ہوتے ہوتے یہ بات عقبہ ، شیبہ وغیرہ کے پاس بھی جا پہنچی اور انہوں نے ابوجہل کو اس بات پر مجلس میں پکڑا کہ تم نے یہ کیا حرکت کی؟ جس بات سے تم دوسروں کو روکا کرتے تھے تم خود اس کے مرتکب ہوئے یہ کیا تمسخر ہے ؟ ابو جہل نے جواب دیا خدا کی قسم ! معلوم نہیں کیا ہوا.میں ان کی بات تو سننے والا نہیں تھا.لیکن جب میں نے دروازہ کھول کر دیکھا تو یوں معلوم ہوا کہ دو وحشی اونٹ محمد کے دائیں اور بائیں سے اس طرح میری طرف بڑھے کہ مجھے یوں معلوم ہوا کہ اگر میں نے انکار کیا تو یہ مجھے کھا جائیں گے.اس وجہ سے مجھے طاقت نہ رہی کہ میں انکار کرتا.2 اب چاہے اس کو معجزانہ طور پر سمجھ لو اور چاہے یہ سمجھ لو کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اخلاقی طاقت اور جرآت دیکھ کر کہ باوجو د شدید مخالفت کے آپ ابو جہل کے گھر پر جا پہنچے، ابو جہل کے مشرک دماغ پر تو ہم کے اثر سے یہ صورت پیدا ہوگئی.پس چاہے اس کو ابو جہل کے دماغ کے وہم کی ایجاد سمجھ لو ، چاہے صرف خدا کی نصرت کا معجزہ سمجھ لو بہر حال ہوا ہے یہی کہ ابو جہل نے بغیر کسی چون و چرا کے فورامال کی قیمت ادا کر دی.تو یہ ہے وہ حلف الفضول جس کے متعلق میں نے رویا میں دیکھا کہ میں اپنی اولاد کو مخاطب کر کے کہہ رہا ہوں کہ اگر اسی قسم کا ایک معاہدہ وہ بھی کریں اور پھر اس کو پورا

Page 477

$1944 477 محمود کرنے کی کوشش کریں تو خدا تعالیٰ ان کو ضائع نہیں کرے گا بلکہ ان پر اپنے فضل نازل فرمائے گا.اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے کہ اس سے مراد جسمانی اولاد ہے یا جماعت مراد ہے کیونکہ جماعت بھی روحانی اولاد ہی ہوتی ہے.بہر حال یہ ایک ایسا مضمون ہے جو شاید سالہاسال سے بھی میرے ذہن میں نہیں آیا ہو گا.آٹھ دس سال سے تو حلف الفضول کا لفظ بھی میرے ذہن میں نہیں آیا.مگر اللہ تعالیٰ نے اِس طرف توجہ دلائی ہے جو اس امر کا ثبوت ہے کہ یہ الہام ربانی ہے.اس میں نفس کا دخل نہیں.در حقیقت یہ اس زمانہ کی اہم درجہ کی نیکی ہے اور ہم دیکھتے ہیں کہ اس زمانہ میں بالخصوص امیر لوگ غریبوں کو ٹوٹتے ہیں اور اس ٹوٹنے میں راحت محسوس کرتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرمایا کرتے تھے کہ کسی شخص نے جس کا نام نانک تھا یا شاید اس نے شر ار تأبا بانانک” کا نام لے کر یہ شعر بنالیا.حضرت بابا نانک تو نیک آدمی تھے.ان کی زبان سے تو اس قسم کی بات نہیں نکل سکتی.وہ کہتا ہے مال پرایا نانکا جیوں بُوری مہیں دا دودھ کھائے پیئے ورتیے تے کارن ہوون شدھ یعنی اے نانک ! پر ایامال ایسا سمجھنا چاہیے جس طرح بھوری بھینس کا دودھ ہوتا ہے.بھوری بھینس کے دودھ کو اچھا سمجھا جاتا ہے.عام طور پر سیاہی مائل بھینس کثرت سے ہوتی ہے.خالص بھوری بھینس کم ہوتی ہے.جیسے کالی گائے کم ہوتی ہے اس کے دودھ کو بھی عمدہ سمجھا جاتا ہے.تو کالی گائے اور بھوری بھینس دونوں کم ملتی ہیں.بالعموم بھینسیں پوری سیاہ یا سیاہی مائل ہوتی ہیں.تو وہ کہتا ہے کہ جس طرح بھوری بھینس کا دودھ طاقتور اور لذیز ہوتا ہے ایسا ہی دوسروں کا مال بھی لذیز ہوتا ہے.اس لیے پرائی چیز اگر لینے والی ہو تو لے لو.اگر برتنے والی ہو تو اُسے بر تو.اگر کھانے والی ہو تو اُسے کھاؤ.اگر ایسا کرو گے تو "کارن ہوون شدھ ".اگر غیر کے مال کو اٹھانا جائز سمجھو گے تب تمہارے کام درست ہوں گے.اور اگر نیکی اور تقوی اختیار کروگے کہ غیر کے مال کو لینا حرام اور ناجائز ہے تو مصیبت میں پڑے رہو گے اور اس طرح

Page 478

$1944 478 محمود تمہیں امن نہیں ملے گا.یہ گویا اس وقت کے لوگوں کا نقشہ ہے.کسی نانک نے جو یقیناً حضرت باوانانک نہیں بلکہ کوئی ایسا انک ہے کہ جو خدا اور رسول کی عزت اپنے دل میں نہیں رکھتا تھا اپنے زمانہ کا یہ نقشہ کھینچا ہے کہ اس وقت دنیا کا یہ حال ہے کہ اس زمانہ میں تقوی اور امانت کو بالکل نقصان دہ اور خرابی والی چیز سمجھا جاتا ہے.اگر کوئی ان باتوں پر عمل کرے جو اسلام نے نیکی، تقوی، می دیانتداری وغیرہ کے متعلق بتائی ہیں بلکہ دوسرے مذاہب نے بھی نیکی اور دیانت کے متعلق جو تعلیم دی ہے اس میں سارے مذہب شامل ہیں.ہندو بھی یہی کہتے ہیں کہ دیانت داری بڑی اچھی چیز ہے، عیسائی بھی یہی کہتے ہیں کہ یہ بڑی اچھی چیز ہے، یہود بھی یہی کہتے ہیں کہ یہ بڑی ہے اچھی چیز ہے.پس جہاں تک اصول کا تعلق ہے کوئی مذہب بھی ایسا نہیں جو یہ کہتا ہو کہ امانت مینی نہ برتو یا سچائی اور دیانتداری سے کام نہ لو یا انصاف نہ کرو.لیکن اس کا کہنے والا اس قسم کی ہے باتوں پر عمل کرنا اپنی بربادی سمجھتا ہے اور اپنی راحت اور چین اور سکھ اسی میں سمجھتا ہے کہ ا غیروں کا مال جس طرح چاہو ہتھیاؤ اور کھاؤ اور پیو.اگر ایسا کرو گے تو یہی سکھ کا موجب ہو گا اور اگر ایسا نہیں کرو گے تو راحت اور چین نہیں ملے گا.اس کے نزدیک یہ بھی کوئی عظمندی ہے کہ ہمارے پاس پیسے نہ ہوں اور ہم ہاتھ پر ہاتھ دھرے بغیر اپنی ضرورت کو پورا کرنے کے بیٹھے رہیں.عقلمندی یہی ہے کہ اپنی ضرورت کو پورا کرنا چاہیے اگر چہ ڈاکہ ڈال کر یا بددیانتی ہے سے پوری کرنی پڑے.یہ چیز اس زمانہ میں ہم عام طور پر دیکھ رہے ہیں اور سو میں سے ننانو.آدمی اسی خرابی میں مبتلا ہیں.ہماری جماعت خدا تعالیٰ کے فضل سے بہت کچھ پاک ہے.مگر پھر بھی معاملات کی صفائی اور مظلوم کی امداد میں بہت کچھ ترقی کی ان کو ضرورت ہے.یاد رکھو! بعض چیزیں تقوی شعار ہوتی ہیں اور ہر زمانے کا یہ شعار اُس زمانے کی نیکی کے لحاظ سے اونچا نیچا ہوتارہتا ہے.اس لیے میں نے بارہا خطبات اور تقاریر میں اس طرف توجہ دلائی ہے کہ کبائر کے یہ معنے کرنا کہ وہ کوئی خاص جرائم ہیں یہ غلط ہے.کبیرہ تو اُس کو کہتے ہیں جس کا چھوڑنا نفس پر بو جھل ہو.پس جو چیز جسم پر بو جھل محسوس ہو اسی کو کبیرہ کہیں گے.چنانچہ قرآن کریم میں بھی یہ لفظ می

Page 479

خطبات محمود 479 $1944 انہی معنوں میں آیا ہے کہ إِنَّهَا لَكَبِيرَةٌ إِلَّا عَلَى الْخَشِعِينَ 3 کہ نماز نہ ڈرنے والوں کی طبیعت پر بوجھل ہے.تو کبائر کے معنے یہ ہیں کہ جن کا چھوڑ نا طبائع پر بو جھل محسوس ہو.اسی طرح نیکیوں میں سے بھی جو نیکی زمانہ یا طبائع کے لحاظ سے زیادہ گراں ہو گی اس زمانہ میں ہے اُسی کو بڑی نیکی کہا جائے گا.اگر کسی زمانہ میں مثلاً لوگوں کو روپیہ ضائع کرنے کی عام عادت ہو لیکن جان دینے سے ڈرتے ہوں تو اس زمانہ میں چندے دینا بڑی نیکی نہیں ہو گی بلکہ جان دینا بڑی نیکی ہو گی.اور اگر کسی زمانہ میں کھانے پینے کے لحاظ سے لوگ اس بات کے عادی ہو چکے ہے ہوں کہ وہ بھوکا رہنا برداشت نہ کر سکیں تو اُس زمانہ میں نہ جان دینا بڑی نیکی ہو گی اور نہ چندہ دینا بلکہ روزہ رکھنا بڑی نیکی سمجھا جائے گا.ایسا ہی اگر کسی زمانہ میں عدل و انصاف اُڑ گیا ہو تو اس زمانہ میں عدل و انصاف کو قائم کرنا سب سے بڑی نیکی ہو گی.اگر کسی زمانہ میں ماں باپ کا ہے ادب اولاد کے دلوں سے اٹھ گیا ہو تو اس زمانہ میں ماں باپ کا ادب سب سے بڑی نیکی کہلائے گا.پس جو نیکی طبائع پر گراں گزرتی ہو اُس زمانہ کے لحاظ سے وہی سب سے بڑی نیکی ہو گی.اور جس بدی کا چھوڑنا طبیعت پر گراں ہو اُس زمانہ میں وہی بدی اس زمانہ کے لحاظ سے کبیرہ کہلائے گی.تو گناہ بھی اور نیکیاں بھی زمانہ کے لحاظ سے بدلتی رہتی ہیں.اس زمانہ میں سب سے بڑا گناہ یہ ہے کہ دین کو دنیا پر مقدم نہیں رکھا جاتا.یہی وجہ ہے کہ ہماری جماعت کے لوگ دوسرے سارے کام کر لیں گے ، چندے بھی دیں گے ، نمازیں بھی پڑھیں گے ، اور بھی کئی کام کر لیں گے لیکن جہاں دین کو دنیا پر مقدم کرنا پڑے گا وہاں ان میں سے کچھ کمزوری دکھلائیں گے.پس ایسے موقع پر چندہ دینا بڑی نیکی نہیں کہلائے گا بلکہ اس میں موقع پر دین کو دنیا پر مقدم کرنا سب سے بڑی نیکی ہوگی کیونکہ ہر موقع پر نیکی کی شکل بدلتی ہے رہتی ہے اسی طرح یہ بھی ہے کہ امیر اور غریب میں امتیاز کیا جاتا ہے.قضاء اور عدالت کے مج معاملہ میں کمزوری دکھائی جاتی ہے.اور تو اور بعض لوگ میرے پاس بھی آجاتے ہیں حالانکہ میں وہ آخری شخص ہوں جس کو قضاء کا احترام قائم کرنا چاہیے.لیکن وہ میرے پاس بھی ہے آجائیں گے اور مَنْ يَشْفَعْ شَفَاعَةً حَسَنَةً يَكُن لَّهُ نَصِيبٌ مِنْهَا 4 کی آیت پڑھ کر کہیں گے کہ میں اُن کی شفاعت کروں یا بطور قاضی یہ بد دیانتی کروں کہ جس کا حق ہے اُس کے

Page 480

$1944 480 خطبات محمود حق کو نظر انداز کر کے ان کو وہ حق دلا دوں.اس سے صاف پتہ لگتا ہے کہ انصاف اور عدالت کی عظمت باقی نہیں رہی.ورنہ یہ بات تو انہیں ایک چوہڑے کے سامنے بیان کرتے ہوئے بھی شرم کرنی چاہیے تھی.مگر وہ چوہڑے کے پاس نہیں، کسی مومن کے پاس نہیں، کسی صالح کے پاس نہیں، کسی صدیق کے پاس نہیں بلکہ خلیفہ وقت کے پاس براہ راست جاکر یہ بات کہتے ہیں کہ یوں کر دو.جس کے معنے یہ ہیں کہ ایسے انسان کا دل او ليكَ كَالأَنْعَامِ بَان هُمْ أَضَلُّ 5 کے مطابق جانور کی طرح بلکہ اُس سے بھی بدتر ہوتا ہے.اور پھر ساتھ ساتھ قرآن بھی پڑھتے جائیں گے کہ شفاعت کا حکم تو خدا نے دیا ہے حالانکہ اس موقع پر خدا اور اس کے فرشتے لعنت بھیج رہے ہوتے ہیں.فرض دین کو دنیا پر مقدم کرنے کی شکل بدلتی رہتی ہے.عدل اور انصاف آجکل بہت مشکل ہو گیا ہے.ہمارے ملک میں بغیر کمی بیشی کے کسی چیز کی خرید و فروخت نہیں ہوتی.دو پیسے کا سودا لینا ہو آدھ گھنٹہ بحث کریں گے تب جا کر اسے خریدیں گے.یہاں ڈلہوزی کا واقعہ ہے کہ ہمارے ایک ساتھی ایک دکان سے تصویروں کا ایک سیٹ خریدنے کے لیے گئے اور گھنٹہ بھر اُس دکاندار سے بحث کرتے رہے اور جھگڑا چھ آنے سے بارہ آنے تک اوپر نیچے ہو تا رہا اور اس پر ایک گھنٹہ صرف کر دیا.آخر دکاندار نے اُن سے کہا کہ آپ نے خوامخواہ میرا بھی وقت ضائع کیا اور اپنا بھی اور اپنے ان ساتھیوں کا بھی.تو ہمارے ملک میں یہ عام مرض ہے کہ کسی طرح دوسرے کو ٹوٹ لیں.پس حلف الفضول یہ ہے کہ یہ معاہدہ کیا جائے کہ ہر شخص کا جو حق ہو وہ اس کو میں ولانے کی کوشش کی جائے.اور یہ عادت چھوڑ دیں کہ کسی کا حق ماریں بلکہ جس شخص کا حق مارا یہ جا رہا ہو اس کا حق دلانے کی کوشش کریں.خود میرے بھائیوں، بیویوں اور اولاد کے بارے می میں بھی مجھ پر یہی اثر ہے کہ وہ سب اس نیکی میں سو فیصدی پورے نہیں اترے.بلکہ میں نے دیکھا ہے کہ ان میں سے بھی بعض سودا کرتے وقت یا لین دین کے وقت چاہیں گے کہ رعایت می سے اُن کو حق سے کچھ زیادہ ہی مل جائے.پس میں سمجھتا ہوں کہ شاید اسی وجہ سے خدا تعالیٰ نے اس طرف توجہ دلائی ہے.جس سے اگر میری جسمانی اولاد مراد ہے تو وہ اور

Page 481

$1944 481 خطبات محمود اگر روحانی مراد ہے تو وہ اس قسم کا معاہدہ کریں کہ امانت، عدل اور انصاف کو قائم کریں گے.شروع میں ہر چیز کی بنیاد چھوٹی ہوتی ہے مگر پھر اُسی پر بڑی عمارت تیار ہوتی ہے.ابتدا میں ہر چیز قلیل ہوتی ہے اور پھر اس سے ترقی کرتے کرتے بڑی بنتی ہے.چھوٹے چھوٹے مادے جن می کو نیو کلیس(Neuclious) کہتے ہیں شروع میں باریک ذرے ہوتے ہیں جو بعد میں ترقی کرتے کرتے اربوں ارب ٹن کے اجرام بن جاتے ہیں جن کے سامنے زمین بھی ذرہ معلوم ہوتی ہے.لیکن یہی چیز پہلے چھوٹے چھوٹے ذرات ہوتے ہیں جو غبار میں حرکت کرتے رہتے ہیں اور پھر چکر کھانا شروع کر دیتے ہیں.درمیان میں گریوٹی (Gravity) پیدا ہو جاتی ہے اور می چکر کھاتے کھاتے اور ذرّے اُس کے ساتھ چمٹتے جاتے ہیں یہاں تک کہ ایک گولا بن جاتا ہے.اسی طرح بڑھتے بڑھتے جب وہ گیند کے برابر ہو جاتا ہے تو اُس کے اندر اور طاقت پیدا ہو جاتی ہے.جب فٹ بال کے برابر ہو جاتا ہے تو اُس کے اندر اور طاقت پیدا ہو جاتی ہے.یہاں تک کہ ہوتے ہوتے جزیرہ بن جاتا ہے.پھر اور کشش ہوتی ہے.ادھر سے چکر اُدھر سے کشش.لازمی بات ہے کہ جب کسی چیز کے اندر چکر پیدا ہو تو وہ کچھ چیزوں کو اپنے اندر بھیجتی ہے ہے اور کچھ چیزوں کو باہر پھینکتی ہے.آخر اسی طرح کشش اور چکر کے نتیجہ میں زمین تیار ہو جاتی ہے.اسی طرح اگر چند مومن اس کام کے لیے کھڑے ہو جائیں کہ آئندہ ہم نہ کسی کا مینی حق ماریں گے اور نہ مارنے دیں گے.تو خدا کے نزدیک وہ اس زمانہ کے آدم ہوں گے امانت ما کے ، آدم ہوں گے دیانت کے، آدم ہوں گے عدل و انصاف کے.اگر میری اولاد کو خدا تعالیٰ یہ توفیق دے تو وہ یہ عہد کریں کہ جہاں کہیں بھی انہیں یہ معلوم ہو کہ کوئی کسی کا حق مار رہا ہے ان تو وہ اُس کو سمجھائے اور کسی کا حق مارنے سے اُسے روکے.اس سے اپنی بھی اصلاح ہوتی ہے کیونکہ اگر منع کرنے والے شخص کے اپنے اندر یہ نقص ہو گا تو جب وہ دوسرے کو منع کرے گا تو وہ اسے پکڑے گا کہ تو نے فلاں شخص کا حق مارا تھا.تو اس طرح انسان کو اپنے نقص کا پتہ لگتا یہ رہے گا.یا اگر وہ مراد نہ ہوں تو اللہ تعالیٰ روحانی اولاد کو توفیق دے دے کہ وہ یہ عہد کریں کہ ان ہم کسی کا حق نہیں ماریں گے اور جہاں پتہ لگے گا کہ کوئی کسی کا حق مار رہا ہے ہم وہاں جا پہنچیں ہیں گے اور خواہ کوئی ہم سے پوچھے یا نہ پوچھے ہم ضرور اس میں دخل دیں گے کہ اس کا حق میں

Page 482

$1944 482 خطبات محمود ملنا چاہیے.جیسے حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا اور ابو جہل کے گھر پر جا پہنچے جو آپ کا دشمن تھا.اسی طرح ہماری جماعت کے چند افراد یہ عہد کر لیں کہ ہم دیانت اور امانت کو قائم کریں گے اور جہاں پتہ لگے گا کہ کسی کی حق تلفی ہو رہی ہے چاہے کوئی پوچھے یا نہ پوچھے ہم چودھری بن کر جا پہنچیں گے اور کوشش کریں گے کہ مظلوم کا حق دلایا جائے.مگر اس جاف میں کے لیے ابتدا میں کچھ تعداد ہونی چاہیے.اکیلے معاہدہ کرنے کے کوئی معنے نہیں.اکیلے میں ہے بعض لوگ دشمنی کا بدلہ لینا ہو تو تقوی کا نام لے کر جس سے دشمنی ہو گی اس کے خلاف شور مچانا شروع کر دیں گے کہ اس نے فلاں کا حق مار لیا.لیکن اگر جماعتی معاہدہ ہو گا تو نگرانی بھی ہوتی رہے گی اور باقی ساتھی اس شخص کو جو اس عہد سے ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے مخالفوں میں کو ذلیل کرنا چاہے گا پکڑیں گے کہ تم نے تو اس عہد کو اُلٹا غصہ نکالنے کا ذریعہ بنالیا ہے اور اس طرح جماعت روک بن جائے گی اُس کے غلط استعمال میں.پس کچھ لوگ چانہیں جو یہ معاہدہ ہے کریں کہ اس معاملہ میں ایک دوسرے کی مدد کریں گے ، مظلوموں کو اُن کے حق دلوائیں گے ، دیانت، امانت ، عدل اور انصاف کو قائم کریں گے.پس میں نے یہ بات آج خطبہ میں بیان کر دی ہے.اگر اللہ تعالیٰ کے نزدیک میری ہے جسمانی اولاد مراد ہے تو پھر بھی یہ بڑی رحمت ہے اور خدا فرماتا ہے کہ جو اِس طرح کریں گے وہ تباہ نہیں ہوں گے اور اُن پر خدا کے فضل نازل ہوں گے.اور اگر خدا تعالیٰ کے نزدیک بھی روحانی اولاد مراد ہو تو چاہیے کہ جماعت کے چند آدمی یہ معاہدہ کریں کہ وہ نہ خود کسی کا حق ہے ماریں گے اور نہ کسی کو مارنے دیں گے اور دوسرے لوگوں کو بھی اپنے میں شامل ہونے کی تحریک کریں.اگر جماعت اس پر پورا پورا عمل کرے تو چند سالوں کے اندر ہی امانت اور دیانت اور عدل و انصاف لوگوں کے دلوں میں قائم ہو جائے.پس میں نے اپنے فرض سے یہ کہہ کر سبکدوشی حاصل کرلی ہے کہ مخطبہ میں اس کا اعلان کر دیا ہے.بجائے اس کے کہ میں ہے قادیان جاؤں یا لڑکے یہاں آئیں، میں نے فوراً اِس کا بیان کر دینا ضروری سمجھا.کیونکہ یہ پیغام ایسا نہیں کہ میں ایک دن کی بھی اس میں دیر کروں.بلکہ میں اس میں دیر کرنا ہے

Page 483

$1944 483 خطبات محمود ناجائز سمجھتا ہوں.کیا معلوم انسان پر کونسا وقت آجائے کہ پھر وہ پیش ہی نہ کر سکے.اس لیے اس خیال سے کہ جمعہ کی تقریب پر وہ وقت آیا ہوا ہے میں نے یہی ضروری سمجھا کہ اس کے بیان میں دیر نہ کروں.پس ہر وہ شخص جس کے دل میں تقوی اور احکام میں سابق بننے کی خواہش ہے وہ آگے بڑھے اور یہ معاہدہ کر کے اللہ تعالیٰ کے دربار میں اس نیکی کا آدم بنے.جس طرح نیکی کا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہوتا ہے اسی طرح نیکی کا آدم بھی ہوتا ہے.ہر وہ شخص جس سے کسی نیکی کی ابتدا ہو وہ اس نیکی کا آدم کہلاتا ہے.پس خدا تعالی توفیق ہیں دے کہ ہر شخص آگے بڑھے اور بغیر اس بات کا انتظار کرنے کے کہ دوسرے کب اُس نیکی میں شامل ہوتے ہیں وہ سب سے پہلے ثواب حاصل کرنے کی کوشش کرے.آمین".* (الفضل 22 جولائی 1944ء) سر دست یہ عہد اپنے دل میں ہونا چاہیے.یہاں تک کہ میں اس کے قواعد بنا کر ایک مجلس کی تشکیل اسے دوں.1 : سیرت ابن ہشام - الجزء الاول زیر عنوان فى شهوده عليه الصلوة والسلام حلف الفضول صفحہ 258.مطبوعہ القاہرہ 1964ء 2 : سیرت ابن ہشام جلد 2 صفحہ 30،29.مطبوعہ مصر 1936ء 3 :البقرة: 46 4 : النساء: 86 5 :الاعراف: 180

Page 484

$1944 484 (28) خطبات محمود ہندوستان کے سات مقامات میں مراکز تبلیغ بنانے کی ضرورت (فرمودہ 21 جولائی 1944ء بمقام ڈلہوزی) تشہد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: " بعض اصول ایسے ہوتے ہیں جو ابتدا میں بظاہر چھوٹے نظر آتے ہیں لیکن اپنے خواص کے لحاظ سے اور اپنے فوائد کے لحاظ اور اپنے نتائج کے لحاظ سے وہ بہت وسیع ہوتے ہیں.ان کی مثال بالکل ایک بیج کی سی ہوتی ہے کہ جس طرح ایک مفصلی ہوئی جاتی ہے اور اس مفصلی میں کے بوئے جانے کے فعل کو ہر ایک شخص اتنا حقیر جانتا ہے کہ اس کو قابل توجہ بھی خیال نہیں کرتا.مگر اُسی بیچ اور اُسی گٹھلی کے نتیجہ میں چند سال کے بعد ایک بڑا بھاری درخت تیار ہو جاتا ہے جس کے نیچے سینکڑوں آدمی آرام کرتے ، اس کے نیچے بسیر ا کرتے اور اس کے سایہ سے راحت حاصل کرتے ہیں.بعض گاؤں میں تو وہ پبلک ہال کا کام دیتا ہے.ان لوگوں کے پاس اتنا روپیہ اور اتنی توفیق تو نہیں ہوتی کہ وہ ہال کمرے بنوا سکیں اس لیے وہ بڑ کے درخت کے نیچے یا پیپل کے درخت کے نیچے جمع ہو جاتے ہیں.وہی ان کا پبلک ہال ہوتا ہے.-----------

Page 485

خطبات محج محمود 485 $1944 وہی مہمانوں کو دن کے وقت ٹھہرانے کی جگہ ہوتی ہے اور وہیں ان کی مجالس منعقد ہوتی ہیں.اب یہ کتنا بڑا فائدہ ہے مگر یوں دیکھو تو بڑ کا پیج اتنا چھوٹا اور رائی کے دانے کے برابر ہوتا ے کہ اس کو دیکھ کر کوئی مخصر ہے کہ اس کو دیکھ کر کوئی شخص یہ خیال بھی نہیں کر سکتا کہ اس سے اتنا بڑا اور سخت نکل آئے ہے گا.یہی حال ہم کو انسانوں میں بھی نظر آتا ہے.ہم دیکھتے ہیں کہ انسانی نطفہ کتنی حقیر چیز ہے مگر اس حقیر قطرہ سے بڑے بڑے پہلوان، بڑے بڑے طاقتور ، بڑے بڑے عالم و فاضل اور بڑے بڑے سیاستدان پید اہوتے ہیں.اسی طرح بعض حکمتوں کا بھی اسی اصل سے تعلق ہے کہ جسم کے لحاظ سے تو نہیں مگر اپنی حکمت کے لحاظ سے بعض چیزیں نشو و نما پانے والی ہوتی ہیں.قرآن مجید میں خدا تعالیٰ فرماتا ہے.اِنَّ اوَلَ بَيْتٍ وُضِعَ لِلنَّاسِ لَلَّذِي بِبَكَةَ مُبْرَكًا وَ هدى للعلمين - 1 سب سے پہلا مکان جو خدا تعالیٰ نے بنی نوع انسان کے فائدہ اور ہدایت کے لیے بنایاوہ مکہ میں ہے.اب وہ مکان جو مکہ میں بنایا گیا ہے کوئی جسمانی شان نہیں رکھتا اور کوئی ظاہری شوکت اُس میں نہیں پائی جاتی.معمولی پتھر کا ایک مکان ہے.اسی قسم کے پتھروں کے بعض مکان اس سے زیادہ قیمتی اور ظاہری لحاظ سے اس سے زیادہ شان رکھتے ہیں.مگر وہ مکان جو کہ آج سے نہ معلوم تین ہزار سال پہلے یا چار ہزار سال پہلے یا پانچ ہزار سال پہلے یا دس ہزار سال پہلے کب بنایا گیا تھا بہر حال خدا فرماتا ہے اَوَلَ بَيْتٍ وُضِعَ لِلنَّاسِ کہ یہ پہلا مکان ہے جو بنی نوع انسان کے فائدہ کے لیے مکہ میں بنایا گیا ہے.کس شان و شوکت کا مالک ثابت ہوا ہے.پس خواہ اس کے یہ معنے کریں کہ نماز کے لیے پہلا مکان تھا جو تیار کیا گیا ہے، خواہ یہ معنے کریں کہ اجتماعی نماز کے لیے یہ پہلا مکان تھا جو تیار کیا گیا ہے اس کی شان بے مثل نظر آتی ہے.میرے نزدیک اس آیت کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اس سے پہلے کوئی اور مکان ہے نہیں تھا جس میں عبادت ہوتی تھی.بلکہ اس کے یہ معنے ہیں کہ ایسی عبادت کے لیے یہ پہلا مکان ہے جو اجتماعی رنگ اپنے اندر رکھتی ہے.عبادت تو پہلے بھی ہوتی تھی.لیکن انفرادی طور پر کسی جگہ پر جا کر عبادت کرنا اور چیز ہے اور ایک جگہ پر مل کر اکٹھے عبادت کرنا بالکل اور چیز ہے.جیسے مندر میں جا کر عبادت کرنا اجتماعی نہیں کہلا سکتا کیونکہ وہاں ایک ہی وقت میں سب جمع ہو کر

Page 486

$1944 486 خطبات محمود عبادت نہیں کرتے بلکہ جو آیا ماتھا ٹیکا اور چلا گیا مگر یہ اجتماعی عبادت کے لیے پہلا گھر ہے جو مکہ میں بنایا گیا ہے.علاوہ ازیں اس آیت کے یہ بھی معنے ہو سکتے ہیں کہ عبادتوں کے لیے تو اور بھی مکان تھے مگر جو مکان ساری دنیا کے لیے بنایا گیا تھا، جس میں ہر اسود و احمر، ہر جاہل و عالم، مشرقی و مغربی، سامی اور آرین تمام قوموں کی آمد مد نظر تھی وہ مکہ میں ہی تعمیر کیا گیا تھا.اگر کوئی کہے کہ یہ جو کہا گیا ہے اولَ بَيْتٍ وُضِعَ لِلنَّاسِ کہ یہ پہلا مکان ہے جو لوگوں کے فائدہ کے لیے بنایا گیا ہے تو کیا اس کے یہ معنے ہیں کہ اس کے بعد اور مکان بھی اسی غرض سے بنائے جائیں گے تو اس کا جواب یہ ہے کہ ان الفاظ میں بھی پیشگوئی کی گئی تھی کہ اس کے بعد اس غرض کو پورا کرنے کے لیے اور مکانات بھی بنے والے ہیں.مگر ایسے سب مکانوں میں سے پہلا مکان یہ ہے.ہو سکتا تھا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم خانہ کعبہ کو عالمگیر عبادت گاہ قرار دیتے اور آپ اس میں کامیاب نہ ہوتے.مگر خدا تعالیٰ نے اِنَّ أَوَّلَ بَيْتٍ وضِعَ لِلنَّاسِ بِبَكَةَ میں بتایا ہے کہ یہ مکان اپنی شان کے لحاظ سے پہلا تو ہے مگر آخری نہیں.بلکہ اس کی نقل پر اور بھی عمارتیں بنیں گی جو اس کی قائم مقام ہوں گی اور جس طرح یہ مكان هُدًى لِلنَّاسِ ہے اسی طرح وہ بھی هُدًى لِلنَّاسِ ہوں گی.خدا تعالیٰ کی فرمائی ہوئی یہ بات ایسی درست اور صادق ثابت ہوئی کہ دنیا بھر میں کعبہ کے نقش پر عمارتیں بن رہی ہیں.کوئی بستی ایسی نہیں (سوائے اس کے کہ وہاں کے حالات روک ہوں ) جہاں مساجد کا سلسلہ نہ ہو.بعض جگہ اتنی بڑی بڑی مسجدیں ہیں جو ظاہری وسعت کے لحاظ سے خانہ کعبہ کے برابر ہیں.میں نے مصر میں مسلمانوں کے زمانہ کی بنی ہوئی مسجدیں دیکھی ہیں جن میں سے مسجد عمرو بہت بڑی مسجد ہے.عمرو بن العاص نے اس کو بنایا تھا اس لیے اس کو مسجد عمر د کہتے ہیں.اب تو وہ ویران ہے اور اس کے ارد گرد آبادی نہیں لیکن اس کو دیکھنے سے پتہ لگتا ہے کہ جب کبھی وہ آباد تھی ایک وقت میں ایک لاکھ آدمی اس میں کھڑا ہو کر نماز پڑھ سکتا تھا.وہ اتنی وسیع مسجد ہے کہ اتنی وسیع مسجد ہندوستان میں کوئی نہیں.پھر لاہور کی شاہی مسجد ہے جو غالباً ہندوستان کی سب سے بڑی مسجد ہے.پھر دہلی کی جامع مسجد ہے.پھر کئی اور بھی ہیں.پس یہ ساری کی ساری مساجد ان اولَ بَيْتٍ وُضِعَ لِلنَّاسِ کی پیشگوئی کو پورا کرنے والی ہیں کہ یہ گھر ہے

Page 487

$1944 487 خطبات محمود جو خدا نے تمام لوگوں کی ہدایت کے لیے مکہ میں بنایا ہے.یہ پہلا گھر ہے آخری نہیں.اس کی نقل اور اتباع میں اور کئی گھر بنیں گے.چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ بڑے سے بڑے شہروں سے لے کر چھوٹے سے چھوٹے گاؤں میں بھی یہ پیشگوئی نہایت وضاحت اور شان کے ساتھ پوری ہے ہوئی.حتٰی کہ جس گاؤں میں صرف دس ہیں مسلمان رہتے ہوں وہاں بھی ایک چھوٹی سی کچی مسجد اس پیشگوئی کے سچا ہونے کی شہادت دے رہی ہوتی ہے.پس إِنَّ أَوَّلَ بَيْتٍ وُضِعَ لِلنَّاسِ میں یہ زبر دست پیشگوئی تھی کہ یہ گھر بطور بیج اور گٹھلی کے ہے اور جو لوگ یہ سمجھتے تھے کہ مسلمان ایک جگہ محدود ہو کر رہ جائیں گے یا ہم اس تحریک کو تباہ کر دیں گے یا یہ سمجھتے تھے کہ مسلمان اس جگہ سے باہر نہیں پھیلیں گے اور مٹ جائیں گے.ان سب کو یہ اعلان کر کے بتا دیا کہ تمہارا یہ خیال غلط ہے.کیونکہ مکہ کا یہ گھر جسے خدا تعالیٰ نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ سے تمام بنی نوع انسان کی عبادت کے لیے مقرر فرما دیا ہے یہ پہلا تو ہے مگر آخری نہیں.بلکہ اس کے نقش پر اور اس کی اتباع میں اور کئی گھر بنیں گے جن میں ہر اسود و احمر، مشرقی اور مغربی، کالے اور گورے، امیر اور غریب کے لوگوں کے لیے سکون اور راحت کا سامان ہو گا.سب اکٹھے مل کر ان میں نماز پڑھیں گے اور ان میں کالے اور گورے، امیر اور غریب، مشرقی اور مغربی، کے درمیان کوئی امتیاز اور کوئی افتراق نہیں ہو گا.بلکہ وہ جگہیں ھڈی لِلنَّاسِ ہوں گی.ان میں تمام ہیں بنی نوع انسان کا حق مشترک طور پر قائم ہو گا.میں نے دیکھا ہے کہ پہاڑوں میں بعض اتنی چھوٹی چھوٹی مساجد ہوتی ہیں کہ ان میں بمشکل تین چار آدمی نماز پڑھ سکتے ہیں.بس ایک چھوٹی سی محراب ہوتی ہے جو کسی چھوٹے سے کونے میں بنی ہوئی ہوتی ہے.یہ تمام مسجدیں ان کی ایک ایک اینٹ اور ان کو لگی ہوئی مٹی کا ایک ایک ذرہ اس اعلان اِنَّ اَوَلَ بَيْتٍ وُضِعَ لِلنَّاسِ کی تصدیق کر رہا ہوتا ہے کہ عبادت کا گھر مکہ میں پہلا ہے آخری نہیں.یہ پھلے گا اور پھولے گا اور ساری دنیا میں اس کی نسل پھیل جائے گی.پہاڑوں کی چوٹیاں، دریاؤں کے موڑ، جنگلوں کی چھوٹی چھوٹی بستیاں جہاں پر اس پہلے گھر کی اتباع میں مسجدیں بنائی گئی ہیں ان کی ایک ایک اینٹ اور ایک ایک ذرہ اس بات کی گواہی ہے

Page 488

$1944 488 خطبات محمود دیتا ہے کہ یہ پیشگوئی بالکل کچی اور عظیم الشان طور پر پوری ہوئی.اس پیشگوئی کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اتنا اہم سمجھا کہ اس کو پورا کرنے کے لیے کہ یہ گھر اؤل ہے آخری نہیں آپ کی ایک حدیث ہے.اس مضمون کی اور بھی کئی میں حدیثیں ہیں مگر اس وقت جس کو بیان کرنے کا میر امنشاء ہے وہ حدیث احمد بن حنبل نے عبد اللہ بن عباس سے روایت کی ہے.جو یہ ہے کہ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ مَنْ بَنِى بَيْتاً لِلَّهِ وَلَوْ كَمَفْحَصِ القَطَاةِ لِلْبِيْضِ فَبَنَى اللَّهُ لَهُ بَيْتًا فِي الْجَنَّةِ 2 کہ جو شخص خدا کے لیے گھر بناتا ہے خواہ وہ اتنا چھوٹا ہو کہ بھٹ تیتر 3 کے انڈا دینے کے لیے زمین کھودنے کی جگہ کے برابر ہو اللہ تعالیٰ اُس کے لیے جنت میں گھر بنائے گا.شراح اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں کہ بھٹ تیتر کے انڈا دینے کے لیے کھودی ہوئی جگہ کی مثال کو یہاں پر اس لیے اختیار کیا گیا ہے کہ وہ بہت چھوٹی سی ہوتی ہے.پس اگر کوئی چھوٹی سی مسجد بھی بنائے گا تو اس کا بھی اُسے ثواب ملے گا.گویا مبالغہ کے طور پر بھٹ تیتر کے انڈا دینے والی جگہ کو بیان کیا ہے کہ خواہ کوئی کتنی ہی چھوٹی مسجد بنائے خدا تعالیٰ اس کے بدلہ میں اس کا جنت میں گھر بنائے گا.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ الا مال بالنا : : : : کے مطابق ہر شخص کو اس کی نیت کے برابر بدلہ ملتا ہے.اگر ایک جگہ پر پانی سات آدمی ہیں میں اور اُن کو اتنی ہی توفیق ہے کہ وہ دو چار گز کی مسجد بنا لیں تو خداتعالی ان کی نیت کے موافق ان کو میں بدلہ دے گا.کیونکہ ان کی نیت بڑی مسجد بنانے کی تھی لیکن ان کے پاس مال نہیں تھا اور نہ اتنے نمازی تھے کہ وہ بڑا گھر بناتے.پس اگر انہوں نے اپنے گاؤں کی ضرورت کے مطابق اور اپنی وسعت کے مطابق خدا کا گھر بنا دیا تو خدا تعالیٰ بھی اپنی وسعت کے مطابق ان کو جنت میں گھر دے گا.کیونکہ بندے نے اپنی وسعت کے مطابق گھر بنانا ہے اور خدا نے اپنی وسعت کے مطابق.اس لیے چاہے بندے نے دو انچ کی جگہ کے برابر خدا تعالیٰ کا گھر بنایا ہو خدا تعالیٰ کی طرف سے اس کو وسیع محل دیا جائے گا.بہر حال خدا وہی بنائے گا جو اس کی شان کے مطابق ہے.دیکھو! بادشاہ اگر کسی کو خلعت دے گا تو وزیر کو وزیر کے درجہ کے مطابق دے گا، امیر کو امیر کے درجہ کے مطابق دے گا اور خادم کو خادم کے درجہ کے مطابق دے گا

Page 489

خطبات محمود 489 $1944 اور جہاں وہ لینے والوں کے درجہ کو مد نظر رکھے گا وہاں خلعت دیتے وقت وہ اپنی شان کو بھی مد نظر رکھے گا.بادشاہ سے اتر کر اگر کوئی اور شخص انعام دے گا تو وہ بادشاہ سے کم دے گا مگر حفظ مراتب کو وہ بھی اپنے درجہ کے مطابق ملحوظ رکھے گا.غرض جب بھی کوئی کسی کو انعام دیتا ہے اس میں دینے والے کی حیثیت کو بھی مد نظر رکھا جاتا ہے اور لینے والے کی حیثیت کو بھی مد نظر رکھا جاتا ہے.پس اس حدیث کے بعض نے یہ معنے کیے ہیں کہ خدا تعالیٰ ہر اُس انسان کو جو خدا کے لیے گھر بناتا ہے اُس کی نیت اور حیثیت کے مطابق بدلہ دے گا مگر اپنی شان کو بھی مد نظر رکھے گا.اگر کوئی چھوٹی سی مسجد بناتا ہے تو خداتعالی قیامت کے دن بہت بڑا چی محل اس کو دے گا.بعض نے اس حدیث سے یہ استدلال کیا ہے جو میرے نزدیک بہت عمدہ ہے کہ ظاہری لفظوں سے صرف اتنا پتہ لگتا ہے کہ جو شخص بھٹ تیتر کے انڈا رکھنے کی جگہ کے برابر ہے مسجد بنائے خدا تعالی اُس کے لیے جنت میں گھر بنائے گا.لیکن بھٹ تیتر کی کھو دی ہوئی جگہ میں کے مطابق بنائی ہوئی مسجد اتنی چھوٹی ہوگی کہ اُس میں ایک آدمی بھی کھڑا ہو کر نماز نہیں پڑھ حکمت سکے گا.پس اس مثال کے استعمال میں ضرور رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے کوئی رکھی ہے.اور وہ حکمت وہ یہ بتاتے ہیں کہ اگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم صرف اتناہی فرما دیتے کہ جو شخص خدا کے لیے گھر بنائے گا خدا تعالیٰ اُس کے لیے جنت میں گھر بنائے گا تو پھر ایسی صورت میں صرف امراء یا صاحب توفیق لوگ ہی اس میں حصہ لے سکتے تھے.اس لیے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ الفاظ بیان فرما کر اس طرف اشارہ فرمایا ہے کہ مسجد کا یہ ایک حصہ بھی مسجد ہی ہے.اس لیے اگر کوئی شخص مسجد بنانے میں اتنا حصہ لیتا ہے جتنی کہ بھٹ تیتر کے بیٹھنے کی جگہ ہوتی ہے تو وہ گویا خدا کا گھر بنانے کے ثواب میں شریک ہے اور اس کے لیے خدا تعالیٰ جنت میں گھر بنائے گا.گویا اس حدیث سے یہ بتایا ہے کہ صرف اُس شخص کو جنت میں گھر نہ ملے گا جو اکیلا مسجد بنائے بلکہ ہر وہ شخص جو کسی مسجد کی تعمیر کے چندہ میں حصہ لیتا ہے اُسے بھی جنت میں گھر ملے گا خواہ اس کے چندہ سے مسجد کا ایک انچ ٹکڑا ہی کیوں نہ بنا ہو.میرے نزدیک بھی یہ معنے بہت لطیف ہیں.کیونکہ کثرت کے ساتھ مساجد چندہ سے ہی

Page 490

خطبات محمود 490 $1944 بنتی ہیں.ورنہ اگر یہ صورت نہ ہو تو صرف بادشاہوں اور امیروں کے لیے ہی جنت میں گھر بنیں اور غریب محروم رہ جائیں.مگر ان معنوں کے لحاظ سے غریب کا بھی حصہ ہو جاتا ہے.اگر اس نے ایک آنہ چندہ دیا ہے یا دو آنے چندہ دیا ہے تو گویا اُس نے مسجد کا اتنا حصہ بنا دیا جو بھٹ تیتر کے انڈار کھنے کے لیے کھو دی ہوئی جگہ کے برابر ہے اور اس طرح وہ بھی خدا کے نزدیک جنت میں گھر لینے کا مستحق بن گیا.خدا تعالیٰ اُس کو یہ نہیں کہے گا کہ تم نے ایک کمرہ نہیں بنایا اس لیے تمہیں جنت میں گھر نہیں ملے گا، تم نے صحن نہیں بنایا اس لیے تمہیں جنت می میں گھر نہیں ملے گا، تم نے دیوار نہیں بنائی اس لیے تمہیں جنت میں گھر نہیں ملے گا.بلکہ اگر مسجد کے بنانے میں اُس نے بھٹ تیتر کے انڈا کے رکھنے کی جگہ کے برابر بھی حصہ لیا ہو گا تو خدا تعالیٰ جنت میں اُس کا وسیع گھر بنائے گا.پس رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے لَوْ كَمَفْحَصِ القَطَاةِ کا لفظ رکھ کر فرمایا کہ یہ نہیں کہ صرف امیروں کو ہی بدلہ ملے گا بلکہ ہر ایک کو اُس کے حصہ کے مطابق بدلہ ملے گا.حتی کہ اگر کسی نے ایک انچ کے برابر بھی مسجد بنانے میں حصہ لیا ہے تو وہ بھی ضائع نہ جائے گا.بلکہ اس کو اس کا بدلہ ملے گا.اگر کوئی پیسہ یا دو پیسے چندہ دیتا ہے تو اس کے حصہ میں ایک ہی انچ کے برابر جگہ تو ضرور آہی جائے گی.گویا حقیر سے حقیر چندہ دینے والے کو بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے جنت میں گھر ملنے کا وعدہ دے کر سب کو آمادہ کیا کہ جس کو زیادہ توفیق ہے وہ زیادہ قربانی کرے.امیر اور صاحب توفیق اپنی طاقت کے مطابق حصہ لے اور غریب اپنی طاقت کے مطابق حصہ لے.میں سمجھتا ہوں کہ یہ دونوں معنے جو اوپر بیان ہوئے ہیں اپنی اپنی جگہ پر درست اور صحیح ہیں.اگر کوئی اکیلا خدا کا گھر بناتا ہے تو اس کو بھی خدا تعالیٰ جنت میں گھر دے گا اور اگر چند آدمی مل کر بناتے ہیں تو اُن کو بھی خدا تعالیٰ جنت میں گھر دے گا.اور اگر اُس کے بنانے میں کسی شخص کا بھٹ تیتر کے انڈا رکھنے کے لیے کھو دی ہوئی جگہ کے برابر حصہ ہے تو خدا تعالیٰ اس کے لیے بھی جنت میں گھر بنائے گا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ جو فرمایا ہے کہ بھٹ تیتر کے انڈا رکھنے کی جگہ کے برابر.اِس میں بھی ایک لطیف اشارہ پایا جاتا ہے.

Page 491

خطبات محمود 491 $1944 آپ یہ بھی فرما سکتے تھے کہ جو شخص ایک بالشت کے برابر یا اس کے دسویں حصہ کے برابر خدا تعالیٰ کا گھر بناتا ہے.خدا تعالیٰ اُس کے لیے جنت میں گھر بنائے گا.مگر انڈار کھنے کی جگہ کے الفاظ استعمال کر کے جو لفظ مسکن پر دلالت کرتا ہے اس طرف اشارہ فرمایا ہے کہ مسجد کی تی مثال ایسی ہی ہے جیسے کہ انڈا سینے کی جگہ.وہاں سے پرندوں کی نسل چلتی ہے.اسی طرح مسجد سے روحانی پرندوں کی نسل چلتی ہے اور صداقت کے پھیلانے کے لیے وہ ایک مرکز ہوتی ہے.پس مَفْحَصُ الْقَطَاةِ لِلْبِيْضِ کے الفاظ نے معنوں کو اور زیادہ وسیع کر دیا.بالشت کا لفظ استعمال کرنے سے مضمون تو اور ہو جاتا.مگر یہ خوبی نہ رہتی.پس میرے نزدیک اس حدیث میں اوپر کے دونوں معنوں کے علاوہ ایک اور لطیف مضمون ادا ہوا ہے جس کی طرف شراح کی نظر نہیں گئی.مَفْحَصُ الْقَطَاةِ لِلْبِيْضِ کہ کر مسجد کو روحانی پرندوں کی نسل کے پھیلنے کا ذریعہ قرار دیا گیا ہے.بھٹ تیتر جب انڈا رکھنے کے لیے جگہ کھودتے ہیں تو اُس جگہ پھر ان انڈوں کو سیتے ہیں، ان پر بیٹھ کر ان کو گرمی پہنچاتے ہیں، ان میں سے بچے نکلتے ہیں.پھر وہ ان کی پرورش کرتے ہیں اور پھر بڑے ہو کر وہ بچے بھی اسی طرح کرتے ہیں.پس میرے نزدیک یہ ایک اور لطیف مضمون ہے جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حدیث میں بیان فرمایا ہے کہ مساجد تبلیغ اسلام کے لیے ایسی ہی ہیں جس طرح کہ انڈے سینے کی جگہ ہوتی ہے.جس طرح جانور انڈوں کو سیتا ہے اور پھر اس سے بچہ نکالتا ہے.پھر اس بچہ سے اسی طرح اور بچے نکلتے ہیں اور ان سے پھر آگے اور بچے پیدا ہوتے ہیں.اسی طرح مساجد کے ذریعہ سے اسلام کی نسل پھیلتی ہے.پس اگر کوئی شخص مسجد بناتا ہے تو می یقیناً وہ جنت میں گھر لینے کا مستحق ہے.کیونکہ جو دوسروں کو خدا کے گھر میں لاتا ہے وہ بھلا خود کیونکر خدا کے گھر سے باہر رہ سکتا ہے.انڈے کے لفظ سے اس طرف اشارہ فرمایا گیا ہے کہ ہم مسجد تبلیغ کا مرکز ہوتی ہے.جو لوگ بھی مسجد میں آئیں گے وہ فائدہ اٹھائیں گے.تو پھر یہ شخص جس نے مسجد بنائی اور اس فائدے کا موجب بنا یہ تو خدا کے حضور سے باہر رہ سکتا ہی ہے نہیں.اگر کسی شخص کا بچہ تم ہو جاتا ہے اور ایک شخص اُس کو اٹھا کر اس کے گھر والوں کے پاس ہے پہنچا دیتا ہے تو کیا تم خیال کرتے ہو کہ گھر والے اُس شخص سے یہ کہیں گے کہ بچہ تو ہے

Page 492

خطبات محمود 492 $1944 ہمارے حوالہ کر دو اور تم گلی میں کھڑے رہو.کوئی بے شرم انسان نہیں.جس کا کھویا ہوا بچہ اُس کو واپس مل جائے اور وہ بچہ لانے والے کو یہ کہے کہ بچہ تو مجھے دے بچہ تو مجھے دے دو اور تم خود باہر گالی میں کھڑے رہو.کوئی ذلیل سے ذلیل اور کمینہ سے کمینہ انسان بھی ایسا نہیں کر سکتا.بلکہ وہ اُس شخص کا ممنون ہو گا.اس کو چار پائی پر بٹھائے گا اور اُس کی خاطر تواضع کرے گا اور اگر وہ مالی باہر کا رہنے والا ہو گا تو اُسے کہے گا کہ آج آپ یہی رہیں اور اُس کو اصرار کے ساتھ اپنے پاس بٹھائے گا اور اس کی عزت کرے گا.خدا تعالٰی بھی فرماتا ہے کہ جو شخص دین سے بے بہرہ ہے اور بچے دین کو بھول چکا ہے اور اُس کا مجھ سے محبت کا تعلق نہیں رہا ایسے سب انسان میرے بھولے ہوئے بچے ہیں.جو کوئی ان کو واپس لاتا ہے وہ ایسا ہی ہے جس طرح کہ ایک گمشدہ اور بھولے ہوئے بچے کو والدین سے لاکر ملا دیتا ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہم اس کی مثال بدر کے موقع پر بیان فرمائی ہے.بدر کے موقع پر ایک عورت کا بچہ گم ہو گیا.جنگ کے بعد آپ صحابہ کے ہمراہ بیٹھے ہوئے تھے کہ وہ عورت کبھی ادھر بھاگی بھائی جاتی اور کبھی مجھے اُدھر جاتی.جنگ کا میدان بڑاو سیع اور پھیلا ہو ا تھا.وہ اس وسیع میدان میں دوڑتی پھرتی تھی.اگر راستہ میں اسے کوئی بچہ مل جاتا تو وہ اسے گلے سے لگالیتی.کچھ دیر اس سے پیار کرتی اور پھر اُس کو چھوڑ کر آگے چلی جاتی.پھر اور کوئی بچہ مل جاتا تو وہ اس کو بھی گلے سے لگا لیتی اور تھوڑی دیر پیار کر کے پھر اُسے چھوڑ کر آگے بھاگ جاتی.یہاں تک کہ پھرتے پھراتے اُسے اپنا بچہ مل گیا اور وہ اُس کو گلے سے لگا کر اطمینان کے ساتھ بیٹھ گئی.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس عورت کو دیکھا اور صحابہ کو اشارہ کیا کہ اس عورت کی طرف دیکھ.یہ اپنے بچے کے لیے کس طرح بیتاب تھی کہ کسی طرح اس کا بچہ مل جائے اور اس جنون میں جو بچہ بھی اسے مل جاتا تھا تہی اسے پیار شروع کر دیتی تھی.اب جبکہ اس کو اپنا بچہ مل گیا ہے تو یہ اسے پا کر اطمینان سے بیٹھے گئی ہے.اس کو پتہ ہی نہیں کہ جنگ کے میدان میں بڑے بڑے سردار مارے گئے ہیں، سپاہی زخمی ہوئے ہیں.کیا تم نے اس کی محبت کو دیکھا ؟ صحابہ نے عرض کیا ہاں یار سول الله - آپ نے فرمایا خدا کو اپنی مخلوق سے اِس ماں سے بھی زیادہ محبت ہے.جب اُس کا کوئی بندہ گمراہ ہو جاتا ہے تو اس کو اتنی ہی گھبراہٹ ہوتی ہے اور جب وہ بھولا ہوا بندہ اس کی درگاہ میں ہے

Page 493

خطبات محمود 493 $1944 واپس آجاتا ہے تو خدا تعالیٰ کو ایسا ہی اطمینان اور ایسی ہی راحت ہوتی ہے جیسے کہ ایک ماں کو اپنے گمشدہ بچے کے مل جانے سے ہوتی ہے.5 پس بُھولے بھٹکے انسان بھی خدا تعالیٰ کے حضور ایسے ہی ہیں جیسے ایک ماں کا گمشدہ بچہ.اور ان کا خدا کے حضور میں واپس آ جانا اور ہدایت پا جانا ایسا ہی ہے جیسے ماں کو اُس کا بچہ مل جائے.کوئی ذلیل سے ذلیل اور کمپنی سے کمیٹی یہاں بھی اس شخص کے متعلق جو اُس کا گمشدہ بچہ اُس کے پاس لائے یہ نہیں کر سکتی کہ اپنے ہے پر کو تو واپس لے لے اور اُس لانے والے کو کہے کہ تم اپنے گھر جاؤ.وہ کوشش کرے گی کہ اُس کی خدمت کا اسے موقع ملے اور اس کی عزت کرے گی.پس کس طرح ممکن ہے کہ کوئی ہے ایسا سامان کرے جس سے خدا تعالیٰ کے بُھولے بھٹکے بندے اُس کی درگاہ میں واپس آجائیں اور خدا تعالی اس کو کہے کہ تم میرے بچہ کو تو لے آئے، یہ مجھے دے دو اور تم جنت ہے سے باہر رہو.لازمی بات ہے کہ جو شخص بھی خدا کے بندوں کو واپس لائے گا خدا تعالیٰ جنت میں اُس کا گھر بنائے گا.پس یہ ایک طبیعی بدلہ ہے جو مسجد بنانے سے لکھتا ہے.انسان کے بدلہ دینے اور خد اتعالیٰ کے بدلہ دینے میں یہاں ایک یہ فرق ہے.انسان جانتا ہے کہ جو شخص اُس کے گمشدہ بچہ کو واپس لایا ہے اس کا اپنا بھی گھر ہے، اس کے اپنے بھی ہے بیوی بچے ہیں جن کو وہ چھوڑ نہیں سکتا.مگر خدا تعالیٰ کے معاملہ میں یہ بات نہیں.کیونکہ وہاں پر اس شخص کا اپنا کوئی گھر نہیں ہو گا، اس کے بیوی بچے بھی وہیں ہوں گے جہاں خدا اس کے لیے لیے گھر بنائے گا.اس لیے بندے کی جزاء اور خدا تعالیٰ کی جزاء میں فرق ہے.انسان اپنے گمشدہ بچہ کو لانے والے کو چند دن کا مہمان بناتا ہے خدا تعالیٰ اسے ہمیشہ کے لیے اپنے گھر میں جگہ دیتا ہے.پھر خدا کا گھر اتنا وسیع ہے کہ ادنیٰ سے ادنی نیکی کے بدلہ میں بھی جو مکان ملے گا اُس کی چوڑائی زمین اور آسمان کے برابر ہو گی.پس بندہ اپنی وسعت اور حیثیت کے مطابق بدلہ دیتا ہے اور خدا تعالیٰ اپنی حیثیت کے مطابق بدلہ دے گا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب ایک طرف تو یہ فرمایا ہے کہ مسجد کا بنانا ایسا ہے جیسے بھٹ تیتر اپنے انڈے کے لیے جگہ بناتا ہے، جہاں پر اُس کو سیتا اور اُس میں سے بچہ نکالتا ہے.یعنی وہ تبلیغ و ہدایت کے لیے افزائش نسل کا موجب ہیں اور دوسری طرف آپ نے مین

Page 494

$1944 494 خطبات محمود اشاعتِ اسلام کے یہ معنے فرمائے ہیں کہ تبلیغ کر کے خدا تعالیٰ کے بُھولے بھٹکے انسانوں کے راہ راست پر لانا ایسا ہی ہے جیسے کھوئے ہوئے بچہ کو واپس لانا.ان دونوں باتوں کے بعد ایک تیسرا نتیجہ بھی طبعی طور پر نکلتا ہے.جو یہ ہے کہ اگر مسلمان حقیقی طور پر ترقی کرنا چاہتے ہیں تو ان کو چاہیے کہ اپنے مرکزی کاموں اور مرکزی ہے چیزوں کو بالخصوص مساجد کو مضبوط بنائیں.اسلام نے تمام کاموں کامرکز مسجد کو قرار دیا ہے.مسلمانوں کے تمام کام مساجد میں ہوتے تھے.قضاء کا کام مسجدوں میں ہو تا تھا، معلم مسجدوں میں درس دیتے تھے، فقیہہ مسجدوں میں فقہ کے مسائل بیان کرتے تھے ، نمازیں مسجدوں میں ہوتی تھیں، ذکر الہی مسجدوں میں ہوتا تھا، قومی اجتماع اور قومی کام مسجدوں میں ہوتے تھے، لشکر کشی کے فیصلے مسجدوں میں ہوتے تھے.پس مسجد کو اسلام نے یہی نہیں کہ صرف تسبیح ہے پھیرنے کی جگہ بنایا ہے بلکہ قومی اجتماع کا ذریعہ قرار دیا ہے.تبلیغ اور تنظیم کا کام مسجد میں من ہوتا ہے.جہاد کے متعلق مشورہ کرنا ہو تو مسجد میں ہوتا ہے ، نماز پڑھنی ہو تو مسجد میں پڑھی جاتی ہے ، ذکر الہی کرتا ہو تو مسجد میں کیا جاتا ہے، اگر علمی باتوں کے متعلق مجلس ہو تو مسجد میں ہوتی ہے ہے.غرضیکہ مسجد مرکز ہے تمام قومی کاموں کا، مرکز ہے تمام اجتماعی کاموں کا، مرکز ہے اندرونی انتظامات کرنے کا، مرکز ہے بیرونی انتظامات کرنے کا.یہ ظاہر ہے کہ وہ جماعت جس کا قومی مرکز نہ ہو وہ پورے طور پر اپنی تعلیم اور تبلیغ کو چی پھیلا نہیں سکتی.اس لیے جہاں بھی کوئی جماعت پورے طور پر اپنی تعلیم کو پھیلانا چاہتی ہو.اس کے لیے مرکز کا ہو نانہایت ضروری ہے.اول تو شہرت ہی مرکز سے ہوتی ہے.ایک شخص جو تبلیغ کرنے کے لیے باہر جاتا ہے اور وہاں پر کرایہ کے مکان میں رہتا ہے سارے جانتے ہیں کہ اُس کی رہائش یہاں پر عارضی ہے اس لیے کوئی اثر نہیں ہوتا اور نہ ہی شہرت ہوتی ہے.اور اگر کوئی اُس کا پتہ دریافت کرے کہ فلاں شخص کہاں رہتا ہے ؟ تو کوئی بھی نہیں بتائے گا.اور اگر کسی بڑے شہر مثلا نیو یارک پالندن میں کوئی شخص کسی کا نام لے کر اُس کا پتہ پوچھتا پھرے کہ جی ! فلاں شخص کہاں رہتا ہے تو وہ ہنس پڑیں گے.کیونکہ کرایہ دار تو ہر مہینے جگہ بدل لیتا ہے ہے لیکن اگر وہاں پر مسجد ہو تو اس میں چونکہ تبدیلی نہیں ہو سکتی وہ پتہ مشہور ہو جائے گا اور می

Page 495

$1944 495 محمود ہر شخص اس یقین کے ساتھ پتہ پوچھے گا کہ جو اس جگہ کو جانتا ہے جہاں آج سے کچھ مہینے پہلے مرکز تبلیغ تھا اس کا علم اب بھی میرے لیے صحیح ثابت ہو گا ہم تو پھر بھی یہ کہتے ہیں کہ بعض مجبوریوں میں تبدیلی ہو سکتی ہے مگر دوسرے مسلمانوں کے نزدیک تو کسی صورت میں بھی تبدیلی نہیں ہو سکتی.گو ہمارے نزدیک بھی تبدیلی والی صورت بالکل شاذ ہے ورنہ عام حالات میں ہم بھی یہی مانتے ہیں کہ مسجد میں تبدیلی نہیں ہو سکتی ).غرض اگر اس شہر میں مسجد ہو گی تو یہ چونکہ ایک مستقل مرکز ہے اس لیے آہستہ آہستہ لوگوں میں اس کی شہرت ہو جائے گی اور پھر وہ شہرت بڑھتی چلی جائے گی.پھر چاہے تم بران جیسے شہر میں یا نیو یارک جیسے شہر میں بھی کوئی شخص پوچھے گا کہ مسجد کہاں ہے؟ تو وہ بتا دیں گے.جب میں لنڈن گیا تو مجھے اس کا تجربہ ہوا.لندن کتنا بڑا شہر ہے.اگر نیو یارک اِس سے بڑھ نہیں گیا تو وہ دنیا میں سب سے بڑا شہر ہے.اور اگر نیو یارک اس کے برابر ہو چکا ہے تو دو بہت بڑے شہروں میں سے ایک ہے.جب میں لندن گیا ہوں تو ہم مسجد سے دور ایک اور جگہ پر ٹھہرے ہوئے تھے.پہلی دفعہ جب جمعہ پڑھنے کے لیے ہم مسجد کی طرف گئے تو اتفاقاً موٹر میں بیٹھے.لوگوں میں سے کسی کو بھی مسجد کا صحیح پتہ معلوم نہ تھا.نہ ہمیں یاد رہا کہ مسجد کا پتہ پوچھ لیں اور نہ ہی مسجد والوں کو اِس کا خیال آیا کہ وہ ہم کو بتا چھوڑتے.اتفاق کی بات ہے جس موٹر میں ہم سوار ہوئے.اُس کا ڈرائیور بھی لندن کے باہر کا تھا.اُس کو بھی لندن کا پورا علم نہیں تھا.ہم کو صرف اتنا پتہ تھا کہ مسجد پینٹی میں ہے.اب چٹنی ایک علاقے کا نام ہے.جیسے امرتسر ہے یا شاید لدھیانہ یا سیالکوٹ کے برابر ہو گا.اب نہ موٹر والے کو مسجد کی جگہ کا پتہ کیونکہ وہ دوسری جگہ سے کرایہ پر موٹر لے کر آیا ہوا تھا اور نہ ہی ہمیں اُس کا کوئی پتہ معلوم تھا.ہم بہت گھبر ائے کہ نماز کا وقت ہو چکا ہے لوگ مسجد میں جمع ہوں گے اور ہمارا انتظار کرے رہے ہوں گے.یہ پہلا جمعہ تھا جو ہم نے وہاں پر پڑھنا تھا.خیال تھا کہ اگر ہم وقت پر نہ پہنچ ہی سکے تولوگوں پر برا اثر پڑے گا کہ یہ لوگ وقت کے بھی پابند نہیں.موٹر والے کو صرف جہت ہے کا پتہ تھا وہ اُس طرف موٹر لے گیا.اُس علاقہ میں ایک شخص کو ہم نے دیکھا جو موٹر سائیکل لیے ایک شخص سے جو موٹر میں سوار تھا باتیں کر رہا تھا.ہم نے ڈرائیور سے کہا ان سے

Page 496

خطبات محمود 496 $1944 پتہ پوچھو.اُس نے ان سے پتہ دریافت کیا تو موٹر سائیکل والا شخص کہنے لگا لنڈن ماسک (London Mosque).ہاں میں جانتا ہوں.چنانچہ وہ ہمارے ساتھ آیا اور مسجد کے دروازہ تک چھوڑ کر واپس گیا.جہاں وہ شخص ہمیں ملا تھا وہ جگہ مسجد سے کوئی دو اڑھائی میل کے فاصلہ پر تھی.اب یہ مسجد کے نام کی خوبی تھی.حالانکہ وہ ابھی بنی بھی نہیں تھی کیونکہ میں نے جاکر اس کی بنیاد رکھی تھی.صرف مسجد کی جگہ کی وجہ سے وہ زمین "مسجد لنڈن " کے نام سے مشہور ہو گئی تھی.اگر کرایہ کی جگہ پر نماز ہوا کرتی تو کسی کو بھی اس جگہ کا علم نہ ہوتا.یہاں تک کہ سڑک کی نکڑ پر رہنے والوں کو بھی پسند نہ ہوتا.پس جہاں پر جماعت کا مرکز ہو وہاں دین کا کام کرنے میں بھی آسانی ہوتی ہے اور ملنے کے لیے آنے والے لوگوں کے لیے بھی سہولت ہوتی ہے.پھر یہ بات بھی ہے کہ جہاں پر مرکز ہو گا.قدرتی طور پر جماعت کے لوگ بھی اُس کے ارد گرد مکان بنائیں گے تاکہ مرکز کے قریب رہیں، نہیں تو مکان اُس کے قریب کرایہ پر ہی لے لیں گے.لیکن یہ خوبی کرایہ کی جگہ ہے میں نہیں ہو سکتی.کیونکہ اگر کسی شہر میں کرایہ کی جگہ لے کر اُس میں مبلغ رہتا ہے تو دوسرے لوگ اس طرح اُس کے قرب میں آنے کی کوشش نہیں کریں گے کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ یہ تم کرامیہ کی جگہ ہے.اگر کل اس کو نکال دیا گیا تو پھر ہم کو بھی نکلنا پڑے گا.لیکن اگر مستقل طور پر اپنا مرکز ہو تو پھر خواہ لوگوں کو اس کے آس پاس آ کر کرایہ پر رہنا پڑے وہ کوشش کریں گے کہ مرکز کے قریب رہیں اور اس طرح تبلیغ اور تربیت کے کام میں بہت آسانی ہو جاتی ہے.پھر مسجد ایک ایسی جگہ ہے کہ پانچوں وقت الله اكبر الله اکبر کی آواز وہاں سے اٹھتی ہے جس کے ذریعہ سے تبلیغ ہوتی رہتی ہے.مساجد کے اندر ایسا سامان بیج کے طور پر ہوتا ہے جس سے اسلام کی شعاع مسجد سے نکلنا شروع ہوتی ہے اور بڑھتے بڑھتے پھر وہ اور شعاعوں کامرکز بن جاتا ہے.پس یہ حدیث ہمیں اس طرف توجہ دلاتی ہے کہ جس طرح بھٹ تیتر زمین میں گڑھا کھودتا ہے اور اُس میں انڈے سیتا ہے اور کچھ دنوں کے بعد اُس میں سے بچہ نکل آتا ہے اسی طرح مساجد بظاہر مٹی اور گارے کی بنی ہوئی ہوتی ہیں لیکن اتنے فوائد اپنے اندر رکھتی ہیں کہ ہے

Page 497

$1944 497 خطبات محمود ان کے اندر سے روحانی پرندے پیدا ہوتے ہیں اور اُن پر خدا کی برکات نازل ہوتی رہتی ہیں.پس اس نکتہ کے ماتحت میں نے ایک فیصلہ کیا ہے جس کا اعلان آج کے خطبہ میں کرنا چاہتا ہوں ( قادیان سے باہر ہونے کی حالت میں اعلان کرنے کا افسوس بھی ہے کہ ایک محدود طبقہ میں ہوتا ہے.مگر خدا تعالیٰ نے ہمیں ایسا سامان دے رکھا ہے کہ خطبہ شائع ہو کر تمام جماعت تک چ جاتا ہے).میں نے سوچا ہے کہ ہندوستان میں اشاعت اسلام میں جو کوتاہی ہوئی ہے اس می کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ہم نے موزوں جگہوں میں مرکز بنانے کی طرف توجہ نہیں کی جو ہندوستان اور ہندوستان سے باہر اشاعت اسلام کے لیے بیج کا کام دیں.اور.اور میں نے فیصلہ کیا ہے کہ ہندوستان میں جو اہمیت رکھنے والی جگہیں ہیں وہاں پر ایسے مراکز قائم کیے جائیں جن کے اخراجات کا ایک حصہ گولو کل جماعت پر ڈالا جائے مگر چونکہ وہ مقامات بہت گراں ہیں اور وہاں کی جماعتیں چھوٹی ہیں اس لیے ہم بھی مرکزی ذمہ داری اور جماعتی نظام کے ماتحت ان کی امداد کریں اور کمی کو مرکز سے پورا کریں.جس طرح گورنمنٹ سرحدوں پر بعض انتظامات کے لیے خرچ کرتی ہے.مگر چونکہ اُن اخراجات کا موجب مقامی ضروریات نہیں ہو تیں بلکہ فوجی ضروریات ہوتی ہیں اس لیے وہ اس کا ایک حصہ ملٹری ضروریات کے لحاظ سے مرکز پر ڈال میں دیتی ہے اور فیصلہ کر دیتی ہے کہ اگر آمد خرچ سے کم رہی تو اس کمی کو ملٹری پورا کر دے گی.ی طرح اگر ہم بھی اس قسم کے مراکز قائم کرنے کا بوجھ مرکزی جماعت پر ڈال دیں کہ جو کمی ہے رہ جائے اُس کو جماعتی ذمہ داری کے ماتحت پورا کیا جائے تو اس سے اشاعتِ اسلام کا کام زیادہ آسان ہو جائے گا.میں نے سوچا ہے کہ ہندوستان میں اس طرح کی سات جگہیں ہیں جن جگہوں میں ہمارے مرکز قائم ہونے ضروری ہیں.ان میں سے ایک جگہ پشاور ہے جہاں پر ہمارا مرکز ہونا ضروری ہے.گو وہاں پر ہماری مسجد موجود ہے مگر وہ چھوٹی ہے.یہ شہر صوبہ سرحد کا دار السلطنت ہونے کے علاوہ یہ اہمیت بھی رکھتا ہے کہ ایک طرف افغانستان کا دروازہ ہے ایک طرف روس ہے اور ایک طرف ہندوستان ہے.گویا یہ شہر ایک قسم کا سہ حدہ ہے.یہاں پر ہمارا ایک مضبوط مرکز ہونا چاہیے جس میں ایک بڑی مسجد ہو ، لائبریری ہو ، مہمان خانہ ہو ،

Page 498

خطبات محمود 498 $1944 مبلغ کے رہنے کا مکان ہوتا کہ اس مرکز سے تبلیغ اسلام وسیع طور پر کی جاسکے اور فارسی، پشتو اور ان علاقوں کے لیے دوسری مناسب زبانوں میں وہاں پر لٹریچر رکھا جائے.اسی طرح دوسرا مرکز کراچی ہے.یہ شہر ایران، بلوچستان اور عراق کا مرکز ہے.عرب کا دروازہ ہے جو ملک ہمارے لیے اسلام اور ہدایت کا موجب ہوا.ایک حصہ افغانستان کا بھی ملتا ہے اور پھر ایک طرف سے کچھ مارواڑ کا علاقہ ہے.پس ان تمام علاقوں کے لیے کراچی بھی ایک اہم مرکز ہے.وہاں بھی ہماری ایک مسجد اور اُس کے ساتھ لائبریری اور مہمان خانہ اور مبلغ کے لیے رہنے کا مکان ہونا چاہیے.اور عربی، فارسی، پشتو، سندھی وغیرہ زبانوں میں ان ممالک کے لیے لٹریچر ہو تو یہاں سے بہت دور دور تک تبلیغ پہنچائی جاسکتی ہے.پھر ہندوستان میں اسی قسم کی ایک اہم جگہ بمبئی ہے.یہ ہندوستان میں دوسرے نمبر کا شہر ہے اور غالباً تمام دنیا میں چھٹے درجہ کا ہے اور پھر اس لحاظ سے بھی یہ جگہ اہم ہے کہ یورپ کا دروازہ ہے.پھر حج کے لیے جانے کا بھی مرکز ہے، افریقہ کا بھی راستہ ہے، مشرقی افریقہ کے تمام ممالک کے جہاز یہیں آکر ٹھہرتے ہیں.پس یہ بھی بہت بڑا مرکز ہے جو یورپ، مصر، شام، فلسطین، عدن ، یمن اور حج کو جانے والوں کا مرکز ہے.اس لیے یہ جگہ بھی بہت اہمیت رکھتی ہے.یہاں پر بھی ہماری مسجد ، مہمان خانہ، لائبریری اور مبلغ کے رہنے کا مکان ہو نا چاہیے اور مختلف زبانوں کا لٹریچر رکھا جائے.بڑے بڑے شہروں میں لوگوں کو رہنے کے لیے جگہ نہیں ملتی اور اگر مل بھی جائے تو بہت خرچ ہوتا ہے.اس لیے اگر ہمارا مہمان خانہ ہو تو ہمارا کوئی زیادہ خرچ نہیں ہو گا مگر تبلیغ کے لیے بہت مفید ہو گا اور اشاعت اسلام کا ذریعہ بن جائے گا.چوتھی جگہ مدراس ہے جو تمام جزائر سیلون، سماٹرا، جاوا، سٹریٹ سیٹلمنٹ کا دروازہ ہے، برما اور جاپان کا بھی دروازہ ہے ہے، اسی طرح ساؤتھ امریکہ کا دروازہ ہے.اور یہاں پر بعض پرانی قومیں آباد ہیں جن کو ڈریویڈینز (DRAVIDIANS) کہتے ہیں.ان کی زبان بھی پرانی ہے، یہاں بیٹھے بیٹھے اُن کو تبلیغ نہیں ہو سکتی.اس لیے ہمارا ایک مرکز مدراس میں ہو ناضروری ہے.اس قسم کا پانچواں مقام کلکتہ ہے جو ہندوستان کا سب سے بڑا شہر ہے جو ایک طرف.

Page 499

خطبات محمود 499 $1944 برما، جاپان اور جزائر کا دروازہ ہے اور دوسری طرف یورپ اور امریکہ کا دروازہ ہے.چونکہ یہ بڑا بھاری شہر ہے اور ہندوستان کا پرانا دارالامارہ ہے اس لیے بعض کمپنیوں کے جہاز بمبئی کی بجائے سیدھے کلکتہ آتے ہیں.پھر یہ بنگال کا دارالامارہ ہے.پنجاب کی کل آبادی اڑھائی کروڑ ہے جس میں سے نصف مسلمان ہیں.لیکن بنگال کی کل آبادی پانچ کروڑ سے زیادہ ہے جس میں سے نصف مسلمان ہیں.گویا پنجاب میں جتنے ہندو، سکھ اور مسلمان ہیں بنگال میں اتنی تعداد صرف مسلمانوں کی ہے بلکہ اس سے بھی زیادہ.پس یہ خاص اہمیت رکھنے والا صوبہ ہے اور کلکتہ ایک ایسا اہم مقام ہے کہ جہاں پر ہمارا مرکز ہونا نہایت ضروری ہے جس میں مسجد ہو، مہمان خانہ ہو ، لائبریری ہو ، مبلغ کے رہنے کا مکان ہو اور مختلف زبانوں میں لٹریچر رکھا جائے.پھر کلکتہ سے واپس لوٹتے ہوئے راستے میں دہلی ہے جو سارے ہندوستان کا دار الامارة - ہے اور آجکل خصوصیت سے چاروں طرف سے مختلف قسم کے لوگوں کی ایک خاصی تعداد یہاں آکر بسی ہوئی ہے جو جنگی کاموں کے سلسلہ میں آئے ہوئے ہیں.پھر یہاں پر مرکزی اسمبلی ہے اور راجے مہاراجے ہندوستان کا صدر مقام ہونے کی وجہ سے یہاں آکر رہتے ہیں.غرضیکہ یہ جگہ ہندوستان کا مرکزی مقام ہے اور یہاں پر بھی احمدیت کا مرکز قائم کرنے کے ہیں لیے مسجد کے لیے ایسی جگہ ہونی چاہیے جو اس مرکزی شہر کی شان کے مطابق ہو.اور صرف بلی کی جماعت پر اس کام کو چھوڑ دینا مناسب نہیں.اس لیے ضرورت ہے کہ مرکزی جماعت اس کام کی ذمہ داری لے اور جماعت سے پوری قربانی کروانے کے بعد مرکزی طور پر امداد کا ہے انتظام کروائے.پھر وہاں سے ادھر آکر لاہور ہے.یہاں پر مسجد بھی موجود ہے اور جماعت بھی کافی تعداد میں ہے.لیکن لاہور جیسے شہر کے لیے جو پنجاب کا مرکز ہے اس بات کی ضرورت ہے کہ یہاں پر ایک وسیع مسجد ہو.موجودہ مسجد اتنی چھوٹی ہے کہ اگر ساری جماعت کے دوست آئیں تو اس میں سما نہیں سکتے.میں نے دیکھا ہے کہ لاہور میں قیام کے دوران میں جب میں جمعہ پڑھانے کے لیے مسجد میں جایا کرتا تھا تو لوگ گلی میں اور چھتوں پر کھڑے ہو کر نماز پڑھتے تھے کیونکہ مسجد کے اندر جگہ نہیں ہوتی تھی.پس وہ مسجد تو جماعت کی موجودہ وسعت کے لحاظ سے

Page 500

خطبات محمود 500 $1944 بھی ناکافی ہے چہ جائیکہ جماعت کی آئندہ ترقی کو مد نظر رکھتے ہوئے اسے کافی سمجھ لیا جائے.اگر پورے زور سے تبلیغ کی جائے گی جیسا کہ چاہیے تو وہ مسجد بہت جلد بالکل ناکافی ثابت ہو گی.پس پنجاب کے اس مرکزی شہر کے لیے بھی ضروری ہے کہ یہاں پر ایک وسیع مسجد ہو جس کے ساتھ لائبریری ہو، مہمان خانہ ہو ، مبلغ کا مکان بھی ہو اور مختلف زبانوں میں لٹریچر بھی موجود ہو.یہ سات مقامات ایسے ہیں کہ میرے نزدیک اس وقت ہندوستان میں ان جگہوں پر ہمارے مراکز ہونے نہایت ضروری اور لازمی ہیں اور میں سمجھتا ہوں کہ لَوْ كَمَفْحَصِ الْقَطَاةِ لِمپنی کی حدیث میں اس طرف خاص طور پر اشارہ کیا گیا ہے کہ اگر ترقی چاہتے ہو تو ؟ جس طرح جانور گڑھا کھودتا ہے اور اُس میں اپنے انڈے کو سیتا ہے اور پھر اس سے بچے نکلتے ہیں ہیں.اسی طرح تم بھی مسجدوں کو زیادہ کرو.کیونکہ ترقی اسی طریق سے ہو سکتی ہے.اور اس می وجہ سے فرمایا کہ یہ مت سمجھو کہ اگر تم نے پوری مسجد نہ بنائی تو تم کو کیا ملتا ہے.اگر تم نے اس می کا تھوڑا حصہ بھی بنایا ہو گا تو خدا کے نزدیک اس کی جنت میں گھر لینے کے مستحق ہوگے.خدا تعالیٰ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زبان سے پہلے سے یہ الفاظ کہلوا دیے کہ چونکہ تم مسجد بنانے میں حصہ لے کر اسلام کی اشاعت اور تبلیغ کے لیے ایک مرکز قائم کرتے ہیں ہو اور چونکہ اس طریق سے گم گشتہ انسانوں کو واپس لاتے ہو.اس لیے ساری مسجد کا سوال ہے ہیں بلکہ اگر تم نے اتنا بھی حصہ لیا ہے جتنا کہ جانور کے انڈار کھنے کی جگہ ہوتی ہے تو چونکہ تم خدا کے گم گشتہ بندے کو خدا کے گھر میں واپس لانے کا موجب ہوئے ہو اس لیے خدا تعالیٰ تمہارا گھر جنت میں بنائے گا.اور اس طرح رغبت دلائی کہ چھوٹی سے چھوٹی نیکی کے بدلہ میں بھی خدا تعالیٰ کی طرف سے وسیع انعام ملے گا.تم نے اپنی حیثیت کے مطابق اور اپنی طاقت کے مطابق کام کیا اور خدا اس کے بدلہ میں وہ انعام دے گا جو اُس کی حیثیت کے مطابق ہوگا اور اس طرح سے اس بات پر آمادہ کیا کہ کہیں اپنی کوششوں کو حقیر سمجھ کر پیچھے نہ ہٹ جانا.اگر تھوڑی سی نیکی بھی تم کرو گے تو خدا اس کو ضائع نہیں کرے گا بلکہ اس کو بڑھائے گا.یہاں تک کہ قیامت کے دن اس تھوڑی نیکی کے بدلہ میں بھی تمہیں وسیع انعام ملے گا.پس میں

Page 501

خطبات مج محمود 501 $1944 میں نے فیصلہ کیا ہے کہ ان سات مقامات کی مساجد بنانے کے لیے مرکزی جماعت کو ذمہ دار قرار دیا جائے.میرا اندازہ ہے کہ ان سات جگہوں پر کم از کم سات لاکھ روپیہ خرچ آئے گا.چالیس پچاس ہزار روپیہ ایک مسجد کے لیے زمین خریدنے پر اور چالیس پچاس ہزار روپیہ اوپر کی عمارت پر کم از کم خرچ آئے گا.کچھ جگہیں ایسی بھی ہیں کہ شاید وہاں پر کم خرچ ہو.مثلاً ہے کراچی میں زمین نسبتا سکتی ہے.اب تو شاید جنگ کی وجہ سے وہاں بھی مہنگی ہو گئی ہو.اس نے طرح ممکن ہے پشاور میں بھی کم خرچ ہو.لیکن بمبئی اور کلکتہ میں لاکھ یا سوالا کھ یا ڈیڑھ لاکھ روپیہ خرچ ہو گا.پس اوسط اندازہ سات لاکھ روپے کا ہے.بعض جگہوں پر وہاں کی مقامی جماعت کی طرف سے بھی کافی رقم اکٹھی ہو جائے گی.مثلاً بمبئی کی جماعت بھی کچھ رقم دے گی اور کچھ حیدر آباد والے بھی جو بمبئی سے خاص تعلق رکھتے ہیں.اِس کام میں بمبئی کی ، کریں گے ، باقی رقم مرکز چندہ کر کے ادا کرے گا.کلکتہ کی جماعت نے تو پچاس ہزار روپیہ زمین کے لیے جمع کر لیا ہے اور انہوں نے امید دلائی ہے کہ اوپر کی عمارت کے لیے بھی ہم اور رقم ہے جمع کریں گے تو گویا بہت ساری رقم وہاں سے ہی مل جائے گی اور شاید تھوڑی مدد ہمیں دینی پڑے.اسی طرح دہلی کی جماعت نے تیس ہزار کے وعدے بھیجے ہیں.وہاں بھی چالیس ہزار میں کی زمین خریدی جارہی ہے.امید ہے کہ زمین کی قیمت وہاں کی جماعت خود ہی ادا کر دے گی.في الحال ہم نے اُن کو زمین خریدنے کے لیے روپیہ قرض دے دیا ہے.امید ہے کہ اس جگہ کی مسجد کے لیے اور یہاں پر مرکز قائم کرنے کے لیے کچھ روپیہ وہاں کی مقامی جماعت اور دے دے گی اور کچھ حصہ ہمیں مرکزی ذمہ داری کے ماتحت ادا کرنا پڑے گا.پس بمبئی، کلکتہ می اور دہلی میں کام شروع ہو چکا ہے.کراچی میں بھی جلدی شروع ہو جائے گا.ہماری جماعت کے بہت سے دوستوں کی سندھ میں زمینیں ہیں.ممکن ہے سارا یا بہت سا حصہ وہاں سے پورا ہو جائے.لاہور میں بھی ہمیں وقت پر ستی زمین مل گئی تھی وہاں پر اچھی وسیع مسجد بن جائے گی.باقی مدراس اور پشاور میں ابھی کوئی کوشش نہیں ہوئی.میں سمجھتا ہوں کہ ارادہ کی دیر ہے.اس طرح اگر خدا چاہے تو ایک دو سال میں ان سات مقامات پر ہمارے مرکز قائم ہو سکتے ہیں.

Page 502

خطبات محمود 502 $1944 اِس وقت میں کوئی چندہ کی تحریک نہیں کر رہا.میں یہ اعلان صرف اِس لیے کر رہا ہوں تا کہ جماعت آمادہ رہے کہ آئندہ ہمارے پروگرام میں سات ایسے مقامات ہیں جہاں پر ہمارا مرکز ہونا نہایت ضروری ہے.پس جماعت کو تیار کرنے کے لیے میں یہ اعلان کر رہا ہوں.تا کہ وقت پر اس کام کے لیے احباب پورا پورا حصہ لے سکیں.میں نے وقف جائیداد کی تحریک کی تھی اور اس وقت تک اندازہ ہے کہ ایک کروڑ یا اس سے زیادہ کی جائیدادیں ہی وقف ہو چکی ہیں.پس اگر اس تحریک میں کچھ کمی رہ جائے گی تو وقف کی تحریک سے پوری ہو سکتی ہے.مثلاً اگر تین چار لاکھ روپیہ چندہ جمع ہو جائے تو باقی تین لاکھ رہ جاتا ہے جو اگر وقف جائیداد سے پورا کر لیا جائے تو واقفین کو صرف تین فیصدی اپنی جائیداد کا دینا پڑے گاجو کچھ زیادہ نہیں.لیکن جیسا کہ میں نے اعلان کیا ہوا ہے وقف جائیداد والی سکیم تو آخری سہارا ہے ہے.جس طرح فوج اپنے لیے ایک آخری خندق بناتی ہے کہ اگر فلاں جگہ سے پیچھے ہٹنا پڑا اور فلاں جگہ سے بھی پیچھے ہٹنا پڑا تو اس آخری خندق کو استعمال کریں گے.اسی طرح وقف جائیداد میں سے اِس کمی کو پورا کرنا بھی آخری خندق ہے جو اسی وقت استعمال ہو سکتی ہے جب کوئی اور صورت نہ ہو.اس لیے پہلی کوشش یہی ہوگی کہ طوعی تحریک کے ذریعہ سے اس رقم کو پورا کیا جائے.میں سمجھتا ہوں جس قسم کی بیداری ہماری جماعت کے قلوب میں پیدا ہو رہی ہے اُس کے سامنے یہ کوئی بڑی بات نہیں.خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو فرمایا تھا سَيَنْصُرُكَ رِجَالٌ تُوْحِيَ إِلَيْهِمْ مِّنَ السَّمَاءِ کہ تیری مدد ایسی جماعت کرے گی جس پر ہم آسمان سے وحی نازل کریں گے.چنانچہ میں دیکھتا ہوں کہ جماعت کے اندر جو مالی قربانی کا مادہ پیدا ہو رہا ہے یہ اس الہی وحی کا نتیجہ ہے جو آسمان سے خدا تعالیٰ ان کے دلوں پر نازل کرتا ہے.کوئی تحریک ہو وہ خدا کے فضل سے بہت کامیاب ہو جاتی ہے.خصوصاً ان دو تین سالوں میں جماعت نے اس نصرت الہی کا بہت اچھا نمونہ دکھایا ہے.اس سال تین لاکھ سے او پر تحریک جدید کا چندہ ہوا اور ڈیڑھ لاکھ کے قریب کالج کا چندہ ہوا ہے اور دوسرے طوعی چندے ملا کر چھ سات لاکھ کے قریب بن جاتا ہے جن میں سے چار پانچ لاکھ وصول ہو چکا ہے.

Page 503

خطبات محمود 503 $1944 یہ ایسی قربانی ہے کہ دو تین سال میں بھی جماعت نے اتنی قربانی نہیں کی جتنی کہ اس سال کی ہے.پس اس کام کے لیے پہلے طوعی تحریک کے ذریعہ چندہ کیا جائے گا اور اگر یہ رقم پوری نہ ہوئی تو پھر وقف جائیداد والی چیز تو بہر حال ہمارے پاس موجود ہی ہے.لیکن میر انشایہ نہیں ہے کہ ابھی سے اس سکیم کو شروع کر دیا جائے.کیونکہ اگر یکدم شروع کر دیا جائے تو ہمارے پاس ہے اتنے مبلغ کہاں سے آئیں گے.ابھی تو ان کے تیار ہونے میں بھی تین چار سال لگ جائیں گے.سر دست دہلی، کلکتہ اور ممبئی تین جگہیں ہیں جہاں پر کام شروع ہو گیا ہے.کلکتہ میں جماعت نے چالیس پچاس ہزار کے قریب رقم جمع کرلی ہے.دہلی میں بھی زمین خریدی جارہی ہے.بمبئی میں زمین کا انتظام ہو رہا ہے.میرا ارادہ ہے کہ سر دست وہاں کی جماعت کو زمین کی قیمت قرض کے طور پر دے دی جائے.پھر کچھ حصہ اُس علاقہ کے احمدیوں سے وصول کیا جائے اور باقی رقم تمام دوسری جماعتوں سے چندہ کر کے لی جاوے.سب سے مقدم زمین کا خریدنا ہے.زمین ہو تو اگر ہم چھپر ڈال کر ہی کام شروع کر دیں یا خیمہ لگا کر ہی وہاں مبلغ بیٹھ جائے اور بورڈ لگا دے تب بھی ایک شہرت ہو جائے گی جو اشاعت اسلام اور تبلیغ کا موجب ہو گی اور اس طرح ایک طاقت اور قوت پیدا ہو گی.بہر حال اس قسم کے مراکز کی اشد ضرورت ہے تاکہ می کثرت سے اشاعتِ اسلام ہو سکے اور لوگوں پر دھاک بیٹھ جائے اور یہ رو پیدا ہو جائے کہ ہندوستان میں اگر طاقتور اور فعال جماعت ہے تو صرف جماعت احمدیہ ہی ہے.اگر ہم یہ رو پیدا کر دیں تو پھر جب ہمارا مبلغ امریکہ میں یا کینیڈا میں جائے گا اور وہاں کے لوگ کہیں گے کہ آپ کو ہم نہیں جانتے تو جو امریکن یا کینیڈین یہاں ہندوستان میں ہمارے کام کو دیکھ چکے ہوں گے وہ آگے بڑھیں گے اور کہیں گے کہ ہم جانتے ہیں.ہندوستان میں اگر کام کرنے والی اور زندہ جماعت ہے تو یہی ہے.پس اس وقت کو ضائع نہیں کرنا چاہیے.کیونکہ اس وقت ہے کثرت سے غیر ممالک کے لوگ یہاں آئے ہوئے ہیں.چاہیے کہ بمبئی، کلکتہ اور دہلی میں کم از کم زمین فوراً خرید لی جائے اور پھر وہاں پر قناتیں لگا کر یا چھپر ڈال کر اور بورڈ لگا کر اور مختلف زبانوں کا لٹریچر لے کر ہمارے مبلغ بیٹھ جائیں تاکہ ان مقامات پر احمدیت کے مرکز قائم ہو جائیں.

Page 504

خطبات محمود 504 $1944 میں اِس خطبہ کے ذریعہ جماعت کو اس بات کے لیے تیار کرنا چاہتا ہوں کہ ابھی.ہندوستان کی جماعتی تبلیغ کے مراکز کی طرف وہ اپنی توجہ پھیر لے.اور ابھی سے ایسی مضبوط بنیاد تیار کر لی جائے کہ جب ہمارے مبلغ تیار ہو جائیں تو ہندوستان کے تمام علاقوں پر یک لخت تبلیغی دھاوا بولا جاسکے.اور جو دلوں کا لوہا عذاب الہی کی آگ سے نرم ہو رہا ہے.اُس کو پیشتر اس کے کہ وہ ٹھنڈا ہو کوٹ لیا جائے.کیونکہ جب تک لوہا گرم ہو اُس کو کوٹنا ہے آسان ہوتا ہے.مگر جب وہ ٹھنڈا ہو جائے تو پھر اُس کو کوٹنا بڑا مشکل ہو جاتا ہے".(الفضل 14 اگست،1944ء) 1 : آل عمران: 97 2 : مسند احمد بن حنبل، جلد 1، صفحہ 399 نمبر 2158 مسند اہل بیت مسند عبد اللہ بن عباس بیروت لبنان 1994ء میں "مَنْ بَنی لِلَّهِ مِسْجِدًا وَلَوْ كَمَفْحَصِ قَطَاةٍ لِبَيْضِهَا بَنَى اللهُ لَهُ بَيْتًا فِي الْجَنَّةِ" کے الفاظ ہیں.3 : بھٹ تیتر : ایک قسم کا تیتر جس کا رنگ سیاہی مائل ہوتا ہے.(بھٹ: غار.کھوہ) 4 بخاری کتاب بدء الوحی.باب گیف كَانَ بَدْءُ الْوَحْيِ إِلَى رَسُولِ الله.: بخاری کتاب الادب باب رَحْمةِ الولد و تقبيله و معانقته 6 : تذکرہ صفحہ 50.ایڈیشن چہارم میں يَنْصُرُكَ کے الفاظ آتے ہیں.

Page 505

$1944 505 (29) خطبات محمود اَشْهَدُ أَنْ لا إلهَ إِلَّا اللهُ کی ترتیب الفاظ میں حکمت (فرمودہ 28 جولائی 1944ء) تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: " مجھے چونکہ کل سے نقرس کے درد کا دورہ ہے اس لیے میں جمعہ کے ساتھ ہی عصر کی نماز بھی جمع کر کے پڑھاؤں گا.کیونکہ بار بار میں باہر نہیں آسکتا.اسی طرح خطبہ بھی لمبا نہیں پڑھ سکتا کیونکہ مجھے تکلیف ہے.ہماری شریعت کی یہ ایک امتیازی شان ہے کہ جو باتیں بھی خدا تعالیٰ کے کلام میں پائی جاتی ہیں خواہ وہ الہامات جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر خدا تعالیٰ کی طرف سے نازل ہوئے یا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنا کلام، کیونکہ وہ بھی الہی تصرف کے ماتحت ہے اِن دونوں میں اس بات کو مد نظر رکھا گیا ہے کہ ان میں کوئی بات زائد اور فضول نہیں.دونوں میں تھوڑے سے تھوڑے الفاظ زیادہ سے زیادہ معنوں کے حامل ہوتے ہیں.پھر جس رنگ میں وہ الفاظ ہوتے ہیں یہ نہیں کہ اُن کی ترتیب یو نہی رکھ دی گئی ہے بلکہ وہ الفاظ حکمت کے ماتحت

Page 506

$1944 506 خطبات محمود ہوتے ہیں.مثلاً ہمارے کلمہ کا پہلا جُزو یہ ہے اَشْهَدُ اَنْ لَّا إِلَهَ إِلَّا اللهُ - اِس کلمہ کی اصل غرض تو یہ ہے کہ خدا کی توحید کو قائم کیا جائے اور خدا سے بندے کو روشناس کرایا جائے.لیکن اس فقرہ کی بناوٹ اس کے الٹ ہے.بجائے اللہ سے پہلے روشناس کرانے کے پہلے معبودانِ باطلہ کی نفی کی.یہ نہیں فرمایا کہ اللہ موجود ہے یا اللہ ایک ہے اور اُس کے سوا اور کوئی معبود نہیں.مثلاً اَشْهَدُ اَنَّ اللهَ هُوَ الْإِلهُ وَ لا إِلهَ سِوَادُ نہیں فرمایا تا پہلے اللہ کا الہ ہونا ثابت ہو اور بعد میں دوسرے معبودان باطلہ کی نفی کی جائے بلکہ اَشْهَدُ اَنْ لَّا إِلَهَ إِلَّا اللهُ فرمایا.یعنی میں گواہی دیتا ہوں کہ کوئی معبود نہیں مگر اللہ تعالیٰ معبود ہے.پس کلمہ کے اِس مجزو میں معبودانِ باطلہ کی نفی پہلے کی گئی ہے اور بعد میں اُس چیز کو رکھا ہے جو اصل مقصود تھی.جہاں ہم دیکھتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کے باقی کلمات سب کے سب پر حکمت ہیں تو اس میں ہے بھی کوئی نہ کوئی حکمت ضرور ہے.اس حکمت کو سمجھنے کے لیے اگر ہم غور کریں کہ جب بچہ پیدا ہوتا ہے تو اُس کو سب سے پہلے کس چیز سے روشناس کرایا جاتا ہے.آیا سب سے پہلے اللہ سے روشناس کرایا جاتا ہے یا غیر اللہ سے ؟ تو اس کلمہ کی طبعی ترکیب ہماری سمجھ میں آجاتی ہے.اللہ تعالیٰ کی ہستی کا علم ایسا ہے جو دوسری چیزوں کے علم اور معرفت کے بعد حاصل ہوتا ہے.کیونکہ وہ کلی علم ہے.بعض چیزیں اپنی ذات میں نظر آنے والی ہوتی ہیں.ان کے دیکھنے میں سے انسان کو ان کا علم ہو جاتا ہے.مثلاً بچہ کے سامنے اگر انگلی رکھیں تو قطع نظر اس سے کہ وہ ہے اس قسم کی تفصیلات معلوم کرے کہ اُس انگلی کے پیچھے ایک پنجہ ہے اور اُس پنجہ کے پیچھے ایک بازو ہے اور اُس بازو کے پیچھے کندھا ہے.وہ کندھا گر دن کے واسطہ سے سر سے ملتا ہے اور اُس سر میں ایک دماغ ہے کہ جس کے حکم سے ان چیزوں نے حرکت کی ہے اور پھر یہ انگلی میرے سامنے آگئی ہے.وہ یہ سمجھ لے گا کہ اتنی لمبی اور اتنی موٹی ایک چیز سامنے آگئی ہے.پس انگلی کا علم باقی علم کی ضرورت کا پابند نہیں.لیکن اللہ تعالیٰ کی ذات کا علم کلی علم کے طور پر ہے اور جب تک جزئیات کا علم نہ ہو اس وقت تک کلی علم حاصل نہیں ہو سکتا.ہم خدا تعالیٰ تک اُس کے کی مخلوقات کے ذریعہ سے پہنچتے ہیں اور پھر اس میں بھی تکمیل کے بعد تکمیل اور وسعت کے بعد وسعت پیدا ہوتی چلی جاتی ہے.ایک چیز کے علم کے بعد دوسری چیز کا علم حاصل ہوتا ہے، یہ

Page 507

خطبات محمود.507 $1944 دوسری کے بعد تیسری چیز کا اور تیسری کے بعد چوتھی کا علم حاصل ہوتا ہے.یہاں تک کہ مخلوق کی جزئیات کا علم ہوتے ہوتے انسان خدا تعالیٰ تک معرفت پیدا کرتا جاتا ہے.ایک ادنیٰ سے ادنی انسان بھی اگر غور کرے تو اس کے لیے بھی خدا تعالیٰ کی ہستی کی منی دلیل موجود ہے.جیسے ایک اعرابی سے کسی نے پوچھا کہ تم خدا کو کیوں مانتے ہو، اُس کے موجو د ہونے کی تمہارے پاس کیا دلیل ہے ؟ تو وہ ہنس پڑا کہ میں اتنا پاگل تو نہیں ہوں کہ خدا کو بھی نہ پہچان سکوں.بکریوں کی مینگنیاں راستہ میں پڑی ہوئی ہوتی ہیں تو میں ان کو دیکھ کر سمجھ لیتا ہوں کہ یہاں سے بکری گزری ہے، اونٹ کا پاخانہ پڑا ہوا ہو تو اسے دیکھ کر میں سمجھ ہے لیتا ہوں کہ ادھر سے اونٹ گزرا ہے.تو کیا اتنی وسیع دنیا کو دیکھ کر میں نہیں سمجھ سکتا کہ ایک خدا موجود ہے جو اس ساری دنیا کا خالق اور اس نظام کا پیدا کرنے والا ہے ؟ یہ ایک بسیط علم ہے جس پر فلسفیوں نے اعتراض کیا ہے کہ آخر اتفاقات بھی تو ہوتے ہیں؟ اس لیے خالی زمین و آسمان کی پیدائش اس بات کی دلیل نہیں ہو سکتی کہ ان کا کوئی خالق ہے.بعض چیزیں اتفاقاتی ہو جاتی ہیں.ہم روز مرہ دیکھتے ہیں کہ دنیا میں کوئی بات اتفاقاً ہو جاتی ہے اور تمام لوگ کہتے ہیں کہ یہ اتفاقی بات ہے.قرآن مجید نے فلسفیوں اور مفکرین یورپ کے اس اعتراض کی تردید میں ہے یہ دلیل دی ہے کہ خالی اس دنیا کا وجود بیشک خدا تعالیٰ کے خالق ہونے کی مکمل دلیل نہیں اور تم اس کو اتفاقی کہہ سکتے تھے مگر اس تمام عالم میں ایک ترتیب کا پایا جانا اور ہر ایک چیز کا دوسری چیز کے ساتھ جوڑ موجود ہونا اور ہر ایک چیز اور اُس کے ایک ایک ذرہ میں حکمت کا پایا جانا یہ سب کچھ اتفاقی نہیں.بلکہ اس دنیا کی ترتیب اور ہر ایک چیز کا دوسری چیز کے ساتھ جوڑ اور ہر ایک ذرہ کی حکمت یہ سب چیزیں اس بات کی دلیل ہیں کہ اس سارے نظام اور ساری دنیا کا پیدا کرنے والا خدا موجود ہے جس نے حکمت کے ماتحت اِس ساری دنیا کو پیدا کیا ہے.انسان کی آنکھ پیدا کی جس میں دیکھنے کی طاقت رکھی تو اس کے مقابل میں سورج کے اندر روشنی پیدا کی جس کے ذریعہ سے انسان دیکھتا ہے.ناک پیدا کی جس سے انسان سونگھتا ہے تو اس کے مقابل میں خوشبو پیدا کی.کان پیدا کیا جس سے انسان سنتا ہے تو اس کے مقابل میں ہوا میں یہ خصوصیت رکھی کہ وہ جنبش کرتی ہے اور اس کے ذریعہ سے کان تک آواز پہنچتی ہے.اب کیا ہے

Page 508

خطبات محمود 508 $1944 دیکھنے کے لیے اگر آنکھ اتفاقاً پیدا ہو گئی تو اس کے مقابل میں سورج کی روشنی بھی اتفاقاً پیدا ہو گئی ؟ سونگھنے کے لیے اگر ناک اتفاقاً پیدا ہو گئی تو کیا اس کے مقابل میں خوشبو بھی اتفاقاً پیدا ہو گئی ؟ اگر سننے کے لیے کان اتفاقا پیدا ہو گئے تو کیا اس کے مقابل میں ہوا کے اندر بھی جنبش کر کے کانوں تک آواز پہنچانے کی قابلیت اتفاقاً پیدا ہو گئی ؟ پس ان چیزوں کے اندر اگر کوئی جوڑ نہ ہوتا، کوئی ترتیب نہ ہوتی اور کوئی حکمت نہ ہوتی تو ان کو اتفاق کہا جا سکتا تھا.لیکن دنیا کا ہے کوئی ذرہ ایسا نہیں جس میں کوئی ترتیب نہ ہو ، کوئی ذرہ ایسا نہیں جس میں کوئی حکمت نہ ہو، کوئی چیز ایسی نہیں جس کا کسی دوسری چیز سے جوڑ اور وابستگی نہ ہو.تو ہم کس طرح مان لیں کہ یہ ساری کی ساری چیزیں اور یہ سارے کا سارا نظام خود بخود اور اتفاقی ہے.پس خدا تعالیٰ کے موجو د ہونے کی یہ دلیل قرآن مجید نے دی ہے.مگر یہ دلیل اسی صورت میں فائدہ دے سکتی ہے جب انسان بڑا ہو اور ان چیزوں پر غور کرے.آنکھوں سے دیکھے، دل اور دماغ سے سو چھے ، ادھر ان چیزوں پر نگاہ ڈالے ، اُدھر اپنے دل کے جذبات پر غور کرے، سورج اور چاند کی روشنی کو دیکھے، ہوا اور اُس کے اثرات پر غور کرے، گرمی اور سردی کے اثرات کو دیکھے، سبزیوں اور ترکاریوں کے پید اہونے اور ان خاصیتوں پر غور کرے.جب تک وہ ان چیزوں پر غور کرنے اور ان سے نتیجہ نکالنے کی اہلیت نہیں رکھتا اُس وقت تک وہ خدا تعالیٰ تک کس طرح پہنچ سکتا ہے.یہ بات خلاف عقل ہے کہ ایک بچہ ان تمام چیزوں پر غور کر کے اس نتیجہ تک پہنچ جائے کہ ایک خدا موجود ہے.بچہ تو سب سے پہلے اپنی ماں سے روشناس ہوتا ہے اور اُسی کو سب کچھ سمجھتا ہے.پھر جب اُس کو پتہ لگتا ہے کہ ماں کو بھی سب چیزیں باپ ہی لا کر دیتا ہے تو یہ پھر وہ باپ سے محبت کرتا ہے.بڑا ہو کر جب اپنی گلی کے بچوں سے کھیلتا ہے تو پھر اُن سے محبت کرتا ہے.اگر اُس کا کوئی دوست نہ ملے تو رونے لگ جاتا ہے اور اصرار کرتا ہے کہ میرے دوست کو بلاؤ، اُس کے بغیر میرا گزارہ نہیں.پھر کھانے پینے اور پہنے کی چیزوں کا شوق پیدا ہوتا ہے تو ان سے محبت کرتا ہے.اگر اُس کی مرضی کے مطابق کھانا نہ ملے یا مرضی کے مطابق کپڑا نہ ملے تو روٹھ جاتا ہے کہ میرا اُس کے بغیر گزارہ نہیں.پھر اور بڑا ہوتا ہے تو سیر وشکا سے محبت کرتا ہے اور ان چیزوں کے بغیر اپنی زندگی کو بے تکلف سمجھتا ہے.غرض یہ چیزیں ہیں

Page 509

خطبات محمود 509 $1944 ایک ایک کر کے اُس کے سامنے آتی ہیں اور ہر ایک کے متعلق وہ یہی اندازہ لگاتا ہے کہ اس کے بغیر میرا گزارہ نہیں.گویا وہی اُس کا خدا ہوتا ہے.مگر آہستہ آہستہ اِن سب کو چھوڑتا چلا جاتا ہے.پہلے ماں سے محبت ہوتی ہے تو اسی کو اپنا خدا سمجھتا ہے، پھر باپ سے محبت ہوتی ہے تو اُسی کو اپنا خدا سمجھتا ہے، پھر بھائیوں اور دوستوں سے محبت ہوتی ہے تو ان کو اپنا خدا سمجھتا ہے، پھر کھانے پینے اور پہنے کی چیزوں سے محبت ہوتی ہے تو اُن کو اپنا خدا سمجھتا ہے.یہاں تک کہ جب عاقل بالغ ہو جاتا ہے پھر اگر اُس پر خدا کا فضل ہو جائے، اچھا استاد مل جائے جو اسے علم می سکھائے اور ماں باپ بھی اچھی طرح تربیت کرنے والے ہوں تب وہ ان تمام چیزوں کو چھوڑ کر اصلی خدا کی طرف آجائے گا اور سمجھ لے گا کہ یہ سب نقلی خدا تھے جن کو میں نے اپنی خواہشات کے ماتحت سب کچھ سمجھ رکھا تھا.اصل خدا تو یہ ہے جو ان سب کا پیدا کرنے والا ہے.پس اس طبعی ترتیب کے مطابق اَشْهَدُ اَنْ لَّا اِلهَ ہی پہلے ہے.پہلے غیر اللہ کی محبت انسان کے دل میں پیدا ہوتی ہے اور وہ سمجھتا ہے کہ میری زندگی کا سارا انحصار انہی پر ہے.لیکن می ایک ایک کر کے پھر ان کو چھوڑتا چلا جاتا ہے.پہلے ماں کی گود کو ہی سب کچھ سمجھتا ہے اور اس سے الگ ہونے میں اپنی ہلاکت سمجھتا ہے.پھر بڑا ہوتا ہے تو بھائیوں اور دوستوں سے محبت کرنے لگتا ہے اور اپنی زندگی کا تمام سکھ اور راحت انہیں کے ساتھ کھیلنے میں سمجھتا ہے.جب ان سے مل کر کھیل رہا ہو تو ماں کے بلانے پر بھی نہیں جاتا.اس کی ساری خوشی کھیلنے میں ہوتی ہے ہے.پھر اور بڑا ہوتا ہے تو سیر و شکار سے محبت ہوتی ہے.پھر صحن اور گلی میں کھیلنے کو بھول جاتا ہے اور اس کی ساری خوشیاں سیر و شکار میں ہوتی ہیں.اگر اُس کو ان چیزوں سے روکا جائے تو یہ اِس میں اپنی ہلاکت سمجھتا ہے.لیکن آہستہ آہستہ آپ ہی آپ ان سب کو چھوڑتا چلا جاتا ہے.یہاں تک کہ جب بلوغت کو پہنچ جاتا ہے تو غور و فکر کے بعد خدا کی حقیقی شکل اُس کو نظر آجاتی ہے ہے اور ان تمام چیزوں کو لغو سمجھ کر چھوڑ دیتا ہے.ا پس اَشْهَدُ اَنْ لَّا إِلَهَ إِلَّا الله کی ترتیب اِس حکمت کے ماتحت رکھی گئی ہے کہ طبعی طور پر انسان پہلے غیر اللہ سے روشناس ہوتا ہے اور پھر آہستہ آہستہ ترقی کر کے اللہ تک پہنچتا.اس لیے پہلے لا الہ رکھا اور بعد میں اِلَّا الله فرمایا.اسی ترتیب طبعی کے ماتحت

Page 510

خطبات محمود 510 $1944 مفسرین نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے واقعہ کی یہ تفسیر کی ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے پہلے ستارہ کو چمکتا ہوا دیکھا تو اس کو اپنا خدا سمجھ لیا، پھر چاند کو دیکھا کہ ستارہ سے بڑا اور اُس سے زیادہ روشن ہے تو اُس کو اپنا خدا سمجھ لیا، پھر سورج کو دیکھا کہ ستارے اور چاند دونوں سے بہت بڑا اور بہت زیادہ روشن ہے تو اس کو اپنا خدا سمجھ لیا.مگر جب ایک ایک کر کے سب چُھپ گئے تو آپ نے فرمایا إِنِّي بَرِى مِنَا تُشْرِكُوْنَ إِنِّي وَجَهْتُ وَجْهِيَ لِلَّذِي فَطَرَ السَّمواتِ وَالْأَرْضَ 1 آخر میں آپ خدا تعالیٰ پر ایمان لے آئے.حضرت ابراہیم علیہ السلام کے متعلق یہ واقعہ درست نہیں مگر مفسرین کا دماغ اِس بات تک صحیح پہنچا ہے کہ انسانی دماغ بغیر الہام کے جب ہدایت پاتا ہے تو ادنی سے اعلیٰ تک جاتا ہے ہے.بچے کے نزدیک ابتدا میں اس کی ماں ہی سب کچھ ہوتی ہے یا دوسرے لفظوں میں اُس کا یہ خدا ہوتی ہے.بلکہ اُس کو ماں کی بھی خبر نہیں ہوتی.وہ سب سے پہلے پستان ہی کو اپنا خدا سمجھتا ہے کیونکہ وہ جانتا ہے کہ مجھے اس سے دودھ ملتا ہے.اگر پستان نہ ملے تو روتا ہے.پھر ماں کو پہچانتا ہے تو اس سے محبت کرتا ہے.پھر باپ کو پہچانتا ہے تو اس سے محبت کرتا ہے.پھر بھائی سے محبت کرتا ہے.پھر ساتھ کھیلنے والوں سے محبت کرتا ہے.گلی اور محلے والوں سے محبت کرتا ہے.پھر دوسری ضروریات کھانے پینے اور پہنے کی چیزوں سے محبت کرنے لگتا ہے اور ان میں سے ہر ایک کو اپنے اپنے مقام پر اپنا مقصود سمجھتا ہے.مگر آہستہ آہستہ ان سب کو چھوڑ تا چلا جاتا ہے.یہاں تک کہ یہ چیزیں اُسے خدا تک پہنچادیتی ہیں.اگر سال یا چھ ماہ کے بچہ کے اندر بولنے اور سمجھنے کی طاقت ہوتی اور اُسے کہا جاتا کہ تُو بڑا ہو کر اپنی ماں کی گود کو چھوڑ دے گا؟ تو وہ اِس بات سے اتنا ہی حیران ہو تا جتنا کہ ایک سائنسدان اس بات سے حیران ہو تا کہ اسے کہا جائے آگ جلاتی نہیں بلکہ بجھاتی ہے یا سورج چلتا نہیں بلکہ کھڑا ہے یا چاند کی روشنی میں مکتب نہیں بلکہ آپ ہی آپ ہے.غرض جس طرح ایک سائنسدان اوپر کی باتوں سے حیران ہو گا وہ بچہ بھی اگر اُس کو یہ بات سمجھائی جاسکتی کہ ایک دن وہ اپنی ماں کی گود سے اتر جائے گا اور اس کی رغبت اپنی ماں سے کم ہو جائے گی حیران ہوتا.اگر سات آٹھ سال کے بچہ کو یہ بات کہہ دی جائے کہ بڑا ہو کر تو ایک عورت سے شادی کرے گا اور اُس سے

Page 511

$1944 511 خطبات محمود تیری رغبت زیادہ ہو جائے گی اور تو اپنی ماں کو چھوڑ دے گا تو وہ کہے گا میں ایسا پاگل نہیں ہوں کہ اپنی ماں کو چھوڑ دوں.وہ اور ہوں گے جو ایسا کرتے ہیں.میں تو کبھی اس طرح نہیں کر سکتا.تو رات میں بھی انسان کو مخاطب کر کے کہا گیا ہے کہ تجھے یہ سزا دی جائے گی کہ تیرا بچھ تجھ کو چھوڑ کر اپنی عورت سے محبت کرنے لگ جائے گا 2ے پس یہ ایک فطرتی چیز ہے یہ کہ انسان مختلف وقتوں میں مختلف چیزوں سے رغبت کرتا ہے اور جس وقت وہ اُس چیز سے.رغبت کر رہا ہوتا ہے اُس وقت وہ یہ و ہم بھی نہیں کر سکتا کہ ایک دن میں اِس چیز کو چھوڑ دوں گا.اور جب بڑا ہوتا ہے تو پھر اس بات کا اُسے خیال بھی نہیں آتا کہ کسی وقت میں اس چیز سے رغبت رکھتا تھا اور اس کے بغیر اپنی زندگی حرام سمجھتا تھا.ہم نے دیکھا ہے کہ بڑا بچہ چھوٹے بچہ کو گود میں بیٹھا ہوا دیکھ کر بہت بُرا مناتا ہے اور حقارت سے اس کی طرف دیکھ کر کہتا ہے کہ ہر وقت گود میں بیٹھا رہتا ہے، کبھی نیچے اترتا ہی نہیں.اور اگر چھوٹے بچہ کو کھانے پر بیٹھا ہوا دیکھ لے تو کہے گا ہر وقت کھانے پر ہی دھرنا مار کر بیٹھارہتا ہے، یہاں سے اُٹھنے کا نام ہی نہیں لیتا.مگر اُس کو پتہ نہیں کہ پہلے اُس کی بھی یہی حالت تھی.وہ بھی گود میں بیٹھتا تھا اور اُس سے نیچے نہیں اتر تا تھا.وہ بھی سارا دن کھانے پر مچی بیٹھارہتا تھا اور وہاں سے ملنے کا نام نہیں لیتا تھا.پس جس چیز کو ایک وقت میں وہ خود اچھا سمجھتا تھا اُسی چیز کو دوسرے وقت میں حقیر سمجھتا ہے.جس چیز کو ایک وقت اپنے لیے ضروری سمجھتا تھا دوسرے وقت میں اسی چیز کو دوسرے کے لیے غیر ضروری قرار دیتا ہے.یہی معنے اَشهَدُ انْ لَّا إِلَهَ إِلَّا الله کے ہیں کہ پہلے انسان غیر اللہ کی طرف توجہ کرتا ہے جو بظاہر غیر اللہ کا راستہ ہے.مگر اللہ تک پہنچنے کا اصل راستہ ہی ہے.اگر بچہ کے اندر پستان کی محبت نہ ہوتی تو میں اس کے اندر ماں کی محبت بھی کبھی نہ ہوتی، اگر بچہ کو ماں سے محبت نہ ہوتی تو اس کو باپ سے ہے بھی کبھی محبت نہ ہوتی، اگر بچہ کو باپ سے محبت نہ ہوتی تو اس کو بھائی بہنوں سے بھی کبھی محبت میں نہ ہوتی، اگر بچہ کو بھائی بہنوں سے محبت نہ ہوتی تو اس کو دوستوں اور ساتھ کھیلنے والوں سے بھی کبھی محبت نہ ہوتی.اور اگر اس کو اپنے اپنے وقت پر ان اشیاء سے رغبت نہ ہوتی تو سچی بات ہے یہ ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کو بھی اپنے وقت پر نہ پا سکتا.بات یہ ہے کہ انسان اپنی فطرت میں ہے

Page 512

خطبات محمود 512 $1944 جو خلاء محسوس کرتا ہے اُس کو پُر کرنے کے لیے وہ مختلف وقتوں میں مختلف چیزوں سے رغبت کرتا ہے کہ شاید یہ چیز میری ضرورت کو پورا کر دے.جب اُس چیز سے اُس کی تسلی نہیں ہوتی تو پھر دوسری چیز سے رغبت کرتا ہے کہ شاید اس چیز سے میری ضرورت پوری ہو جائے.پھر جب اُس چیز سے بھی اُس کا خلاء پر نہیں ہو تا تو تیسری چیز سے رغبت کرتا ہے کہ شاید یہاں میرا مقصد مل جائے.جب اس سے بھی اسے طمانیت حاصل نہیں ہوتی تو پھر چوتھی چیز سے رغبت کرتا ہے کہ شاید یہی میرا مقصود ہو.یہاں تک کہ ایک ایک کر کے ان تمام چیزوں کو چھوڑتا چلا جاتا ہے اور آخر خدا تک جا پہنچتا ہے.پس لا اِلهَ راستہ ہے إِلَّا اللهُ کا.جو شخص اپنے خدا سے ملنے کی سچی تڑپ رکھتا ہے اور اُس کو پتہ نہیں کہ وہ کہاں ہے وہ اپنی اس تڑپ میں ہر غیر اللہ کو اللہ سمجھ لیتا ہے اور اُس کی پرستش شروع کر دیتا ہے.یعنی اُس کی طرف کامل طور پر متوجہ ہو جاتا ہے.یہاں تک کہ جب اُس کو اللہ مل جاتا ہے تو اُس کو پکڑ کر بیٹھ جاتا ہے اور پھر اس مقام سے نہیں ہلتا.جس طرح ایک شخص زید کی تلاش میں ہو اور اُسے پتہ نہ ہو کہ زید کہاں رہتا ہے ؟ وہ ایک دروازہ پر جا کر دستک دیتا ہے اور پوچھتا ہے کہ کیا زید یہاں رہتا ہے.اندر سے جواب ملتا ہے یہاں نہیں آگے جاؤ.آگے جا کر وہ دوسرے دروازے پر دستک دیتا ہے اور پوچھتا ہے کہ کیا زید یہاں ہے؟ وہاں سے بھی یہی جواب ملتا ہے کہ یہاں نہیں آگے جاؤ.یہاں تک کہ مختلف دروازوں پر پھرتے پھراتے جب اُسے زید کا دروازہ مل جاتا ہے تو پھر وہاں بیٹھ جاتا ہے.پس اس شخص نے غیر زید کا جو دروازہ بھی کھٹکھٹا یا وہ غیر زید کی محبت میں نہیں کھٹکھٹایا بلکہ زید کی محبت اور زید سے ملنے کی تڑپ میں کھٹکھٹایا.پس ہم یہ نہیں کہیں گے کہ وہ غیروں کے دروازہ پر پھر تارہابلکہ زید کی محبت اور تڑپ اُس سے یہ کام کروا رہی تھی اور وہ ہر غیر زید کا دروازہ، زید کا دروازہ سمجھ کر کھٹکھٹاتا رہا.اُسے غیروں سے محبت نہیں تھی بلکہ زید کی محبت اور زید کی تلاش تھی یہاں تک کہ اس کی تڑپ اس کو زید کے دروازے تک لے میں آئی.پس بچپن میں غیر اللہ سے روشناس ہونا اللہ تک پہنچنے کا رستہ ہے.کیونکہ وہ ہر غیر اللہ کے پاس اللہ سمجھ کر جاتا ہے لیکن عقلی "لا إلهة" " إِلَّا الله متک پہنچنے کا رستہ نہیں ہے

Page 513

خطبات محمود 513 $1944 جس شخص کو بڑے ہو کر اللہ کا علم ہو چکا ہو اُس کا غیر اللہ کی محبت میں پھنسے رہنا عرفان نہیں بلکہ ، ضد اور ہٹ دھرمی کہلائے گا.جس طرح اُس شخص کو جو زید کی تلاش میں تھا اگر معلوم ہو جاتا ہے کہ یہ زید کا گھر نہیں بلکہ غیر زید کا ہے اور وہ زید کی تلاش کو چھوڑ کر وہیں بیٹھ جاتا ہے تو اُس کا ٹھہر جانا عرفان نہیں کہلا تا بلکہ ہٹ دھرمی کہلاتا ہے.پس إِلَّا الله سے پہلے لا الهَ ایک فطرتی دروازہ ہے جس سے گزر کر انسان خدا تک پہنچتا ہے.بچہ ماں کی محبت میں سے ہے گزرتا ہے، باپ کی محبت میں سے گزرتا ہے، بھائی کی محبت میں سے گزرتا ہے، دوستوں اور ہمجولیوں کی محبت میں سے گزرتا ہے، کھیل کود کی محبت میں سے گزرتا ہے، کھانے پینے اور پہننے کی چیزوں کی محبت میں سے گزرتا ہے اور ان سب چیزوں میں سے گزر کر آخر خدا تک جا پہنچتا ہے.قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.إِلى رَبِّكَ مُنْتَههَا 3 کہ ان تمام چیزوں میں سے جو غیر اللہ ہیں گزر کر ایک دن انسان اپنی منزل مقصود یعنی خدا تک جا پہنچتا ہے اور وہ فوراًہی اس منزل پر نہیں پہنچ جاتا.بلکہ راستہ میں کئی چیزیں آتی ہیں جن کو بچپن کی وجہ سے خدا سمجھ لیتا ہے.پستان کو بھی خدا سمجھ لیتا ہے ، ماں کو بھی خدا سمجھ لیتا ہے ، باپ کو بھی خدا سمجھ لیتا ہے، دوستوں کو بھی خدا سمجھ لیتا ہے، کھانے پینے اور پہنے کی چیزوں کو بھی خدا سمجھ لیتا ہے مگر آہستہ آہستہ ان سب کو چھوڑتا چلا جاتا ہے اور ہر چیز اُس کی انگلی پکڑ کر اُسے خدا کے قریب کر دیتی ہے.پس اَشْهَدُ اَنْ لَّا إِلَهَ إِلَّا اللهُ میں یہ حکمت ہے کہ اگر انسان نیک نیتی اور حقیقی تڑپ کے ساتھ خدا کی تلاش میں بظاہر غیر اللہ سے محبت کرتا ہے اُس کی محبت اور تڑپ آخر اُسے خدا کی طرف لے جاتی ہے.خدا تعالیٰ فرماتا ہے.وَ الَّذِينَ جَاهَدُوا فِيْنَا لَتَهْدِيَنَّهُمْ سُبلتا 4 کہ جو شخص سچی محبت اور حقیقی تڑپ کے ساتھ ہماری تلاش کرتا ہے، ہماری تلاش میں اُس کا ہر قدم اُسے ہمارے قریب کرتا چلا جاتا ہے.یہاں تک کہ وہ ہمارے پاس پہنچ جاتا ہے.اس نکتے کو اگر ہم سمجھ لیں تو دنیا کی ساری خرابیاں دور ہو جائیں.دنیا کی ہے ساری خرابیاں اس وجہ سے ہوتی ہیں کہ اللہ کا علم ہونے پر بھی انسان نیک نیتی سے اس می تک پہنچنے کی جدوجہد نہیں کرتا.اُسے اللہ تعالی کا علم تو ہوتا ہے مگر پیار نہیں ہوتا.اسے می

Page 514

$1944 514 خطبات محمود اللہ تعالیٰ کا علم تو ہوتا ہے مگر اُس تک پہنچنے کی حقیقی تڑپ نہیں ہوتی.اس لیے جب بھی اُ.ٹھوکر لگے وہ خدا کو چھوڑ دیتا ہے اور غیر اللہ کی محبت میں پھنس کر رہ جاتا ہے.تھوڑا عرصہ ہوا میں نے قادیان میں عورتوں کے درس میں یہ بات بیان کی تھی کہ معلوم ہوتا ہے عورتوں کا ایمان مردوں کے لیے ہوتا ہے.قادیان میں جتنے مردوں پر بھی ابتلاء آئے اور وہ مرتد ہوئے اُن سب کی بیویاں بھی اُن کے ساتھ ہی مرتد ہو گئیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اُن کا دین اور اُن کا ایمان صرف خاوند کی وجہ سے تھا.جب خاوند کہتا تھا احمدیت ٹھیک ہے بیوی بھی کہتی تھی احمدیت ٹھیک ہے.جب خاوند نے کہہ دیا کہ احمدیت درست نہیں تو بیوی نے بھی ساتھ ہی کہہ دیا کہ احمدیت درست نہیں.جب خاوند کہتا تھا خدا ہے بیوی بھی کہتی تھی خدا ہے اور جب خاوند کہتا ہے خدا کوئی نہیں بیوی بھی کہتی ہے خدا کوئی من نہیں.جس سے صاف طور پر ظاہر ہوتا ہے کہ ایسی عورتوں کو اللہ تعالیٰ پر ایمان نہیں ہوتا اور اللہ تعالی تک پہنچنے کی سچی محبت اور تڑپ نہیں ہوتی بلکہ غیر اللہ سے پیار ہوتا ہے.پس خدا تعالیٰ تک پہنچنے سے پہلے درمیان میں جتنی چیزوں سے انسان محبت اور رغبت کرتا ہے یا تو عدم علم کی وجہ سے کرتا ہے جیسے بچہ کو علم نہیں ہوتا وہ تو ضرور اصل مقام پر پہنچے گا کیونکہ اُس کے اندر حقیقی تڑپ ہے جو اُسے وہاں تک پہنچائے گی.اور یا اللہ کا علم ہونے کے بعد بھی غیر اللہ.رغبت رکھتا ہے اور اُن کی محبت کو نہیں چھوڑتا وہ لازمی طور پر گمراہ ہے.کیونکہ وہ اُس فطری خلاء کو پر کرنے کے لیے غیر اللہ پر نہیں ٹھہرا بلکہ اصل چیز سے اُسے بعد اور تنفّر ہے جس کی وجہ سے وہ غیر اللہ پر ہاتھ مارتا ہے اور اُس کو چھوڑ نہیں سکتا.بس أشهد أن لا إلهَ إِلَّا الله میں بتایا کہ تم اگر اپنی فطرت پر غور کر کے دیکھ لو تو تمہیں معلوم ہو جائے گا کہ کس طرح قدم ہے قدم پر تم غیر اللہ کو چھوڑتے آئے ہو.پستان کو چھوڑا، ماں کی گود کو چھوڑا، ساتھ کھیلنے والوں کو جو چھوڑا، سیر وشکار کو چھوڑا، کھانے پینے اور پہنے کی چیزوں کی محبت کو چھوڑا اور آخر جب ہمارے پاس پہنچ گئے تو یہاں آکر پھر ایسا دھر نا مارا کہ پھر یہاں سے نہیں ہلا.کیونکہ یہی اس کا اصل مقصود تھا جو اُسے مل گیا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ اگر تیرے سر پر آرہ رکھ کر تجھے چیرا جائے اور پھر بھی تیرے ایمان میں تزلزل یا وسوسہ پیدا نہ ہو تو

Page 515

خطبات محج محمود 515 $1944 ادنی بشاشت ایمان ہے.5 جب انسان کے سر پر آرہ رکھ کر اُس کو چیر دینا اور اُس کا متزلزل نہ ہونا ادنی بشاشت ایمان ہے تو پھر اعلی کیا ہو گی.دنیا میں یہ انتہاء درجہ کی جسمانی سزا ہے کہ انسان کے سر پر آرو رکھ کر اسے چیر دیا جائے مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے ہیں کہ سیہ ادنی بشاشت ایمان ہے کہ انسان اس سزا کو قبول کر لے.پس معلوم ہوا کہ جب انسان غیر اللہ کو چھوڑ کر خدا کے دروازہ پر جا پہنچتا ہے تو پھر کوئی چیز اسے وہاں سے نہیں ہلا سکتی.اس میں کے سر پر آرو رکھ کر اس کو چیر دیا جائے تب بھی وہ اس مقام سے پیچھے نہیں ہٹ سکتا اور کوئی ہے چیز اسے وہاں سے متزلزل نہیں کر سکتی.بدر کی جنگ کے موقع پر ایک عورت کا بچہ گم ہو گیا.وہ اس کی تلاش میں ادھر سے اُدھر اور اُدھر سے ادھر بھاگی پھرتی تھی.راستہ میں جو بچہ بھی اسے مل جاتا وہ اپنی تڑپ اور محبت ہے کی وجہ سے اُس بچہ کو گلے سے لگا لیتی.تھوڑی دیر پیار کرتی اور پھر اُسے چھوڑ کر آگے چلی جاتی.یہاں تک کہ جب اس کا اپنا بچہ مل گیا تو اسے لے کر وہ اطمینان سے بیٹھ گئی.اسی طرح انسان پہلے غیر اللہ کو اپنا معبود سمجھ کر غلط فہمی میں اُس سے پیار کرتا ہے مگر پھر اُس کو چھوڑ دیتا ہے یہاں تک کہ لا الہ سے گزر کر إِلَّا اللہ تک پہنچ جاتا ہے اور پھر وہاں سے نہیں جانتا.راستہ میں چلنے پہنے والا انسان ہلتا رہتا ہے.مگر جو اپنی منزلِ مقصود پر پہنچ جائے وہ نہیں ہلا کرتا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت میں کفار مکہ ابو طالب کے پاس آئے اور کہا کہ ہم تمہارے بھتیجا کی ہے باتیں سن سن کر تنگ آگئے ہیں.آئے دن ہمارے معبودوں کی جو ہتک کی جاتی ہے اب ہم اس کو برداشت نہیں کر سکتے.اس لیے یا تو آپ اپنے بھتیجے کو سمجھائیں کہ وہ ان باتوں سے باز آجائے اور یا آپ اس کی حفاظت چھوڑ دیں.ابو طالب نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بلایا اور کہا ت ے بھیجے ! آج قریش کے سردار میرے پاس آئے تھے اور انہوں نے کہا ہے کہ یا تو تم ا.بھتیجے کو سمجھاؤ کہ وہ ہمارے معبودوں کی بہتک سے باز آ جائے اور یا تم اس کی حفاظت چھوڑ دو.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے چا! اگر یہ لوگ سورج کو میرے دائیں ہاتھ پر اور چاند کو میرے بائیں ہاتھ پر رکھ دیں تب بھی میں اُن باتوں کے کہنے سے نہیں رک سکتا جن کا کہنا خدا کی طرف سے مجھ پر فرض ہے.پس اپنی جگہ پر پہنچی ہوئی چیز کہاں مل سکتی ہے.

Page 516

خطبات محمود 516 $1944 غیر اللہ والے ہلتے رہتے ہیں اور بھی ایک جگہ پر نہیں ٹھہرتے.مگر جو اللہ کو پالیتے ہیں وہ کبھی اپنی جگہ سے نہیں ہلتے چاہے زمین و آسمان ہل جائیں.اسی لیے فرمایا يَايَتُهَا النَّفْسُ المُسنَّة ارجعي إلى رَبِّكِ رَاضِيَةً مَرْضِيَّةً 20 جون خدا تک پہنچ جاتا ہے اس کے اندر کوئی اضطراب نہیں رہتا اور اسے طمانیت نصیب ہو جاتی ہے.پس أَشْهَدُ اَنْ لَّا إِلَهَ إِلَّا الله کی ترتیب والفاظ میں ایک حکمت ہے کہ انسان غیر اللہ کے واسطہ سے اللہ تک پہنچتا ہے اور اُن چیزوں سے جو غیر اللہ ہیں پہلے اُن کو اپنا مقصود سمجھ کر اُن سے رغبت رکھتا ہے.مگر پھر آہستہ آہستہ اُن کو چھوڑ کر اللہ تک پہنچ جاتا ہے.اگر کوئی شخص ایسی چیزوں سے رغبت رکھتا ہے جو غیر اللہ ہیں اور پھر اُن کو چھوڑنا نہیں چاہتا تو اس کی مثال ایسی ہے جیسے سفر میں چلنے والا انسان کسی جگہ پر ستانے کے لیے بیٹھ جائے اور پھر وہاں سے نکلنے کو اُس کا دل نہ چاہے تو ایسے شخص کے متعلق یہی سمجھا جائے گا کہ اُس کے دماغ میں خرابی ہے.پس بچپن میں دوسری چیزوں کی طرف متوجہ ہونا اور بات ہے.کیا.لیکن جب انسان جو ان اور عظمند ہو کر بھی اصل مقصود کو چھوڑ کر غیر اللہ سے رغبت رکھتا ہے تو یہ بچپن سے بھی گئی گزری بات ہے اور اُس کی ضد اور جہالت کی علامت ہے.جب انسان خدا تعالیٰ کا علم ہونے پر بھی غور نہ کرے اور دوسری چیزوں کی طرف متوجہ ہو تو آخر اس کا دل سیاہ ہو جاتا ہے (الفضل 6 اگست 1944ء) اور اس پر زنگ لگ جاتا ہے".1 : الانعام: 80،79 2 : متى باب 19 آیت 5 3 :النازعات:45 34501 4 : العنكبوت: 70 : بخاری کتاب المناقب بَاب مَا لَقِيَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَصْحَابُهُ مِنَ الْمُشْرِكِينَ بِمَكَّةَ 6 : سیرت ابن ہشام.الجزء الاول صفحہ 464،463 مطبوعہ قاہرہ 1964ء 7 1 :الفجر:28، 29

Page 517

خطبات محمود $1944 517 30 سابق واقفین زندگی اپنی ذمہ داریاں سمجھیں " (فرموده 4 اگست 1944ء بمقام ڈلہوزی) تشہد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: بھی کیا تھا کہ چند ماہ کا عرصہ ہوا مجھے ایک الہام ہوا تھا جس کو میں نے ایک خطبہ جمعہ میں بیان ے اک طلبہ روز جزا قریب ہے اور رہ بعید ہے اُس وقت میں نے اس کا جو مطلب سمجھا تھا وہ یہ تھا کہ اسلامی فتوحات کا زمانہ قریب ہے.لیکن ابھی ہماری تیاری مکمل نہیں اور جو راستہ ہم نے طے کرنا ہے وہ ابھی بہت دور ہے.اس الہام کے بیان کرنے کے بعد جو حالات ظاہر ہوئے ہیں اُن سے میرا خیال اس طرف جاتا ہے کہ ان معنوں کے علاوہ جو میں پہلے بیان کر چکا ہوں اس الہام کے یہ معنے بھی ہو سکتے ہیں کہ موجودہ جنگ عظیم کا خاتمہ شاید قریب ہے اور ہماری جماعت کو تبلیغ کے لیے ابھی بہت بڑی تیاری کی ضرورت ہے.میں دیکھتا ہوں اِس عرصہ میں اتحادیوں کو اس طرح متواتر فتوحات نصیب ہوئی ہیں اور محوریوں 1 کو اس طرح متواتر شکستیں ہوتی جار ہی ہیں کہ جن کو دیکھ کر بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ جنگ کچھ دنوں میں ختم ہونے والی ہے.

Page 518

$1944 518 خطبات محمود آج سے دو تین سال پہلے جبکہ جنگ کا پہلو انگریزوں کے خلاف تھا اُسی وقت میں نے 6 اِس بات کا اظہار کیا تھا اور بتایا تھا کہ میری رائے میں جنگ 1944ء کے آخر یا 1945ء کے شروع میں ختم ہو جائے گی.میں نے جو یہ بات کہی تھی اس کی بنیاد کسی الہام پر نہیں تھی.بلکہ اس بات پر تھی کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے الہامات اور میرے الہامات اور جماعت کے بعض اور لوگوں کے الہامات سے معلوم ہوتا تھا کہ تحریک جدید کا اجراء خاص الہی تصرف کے ماتحت ہوا ہے.چونکہ تحریک جدید کے پہلے دور کی میعاد 1944ء کے آخر میں ختم ہو جاتی ہے اس لیے میرا خیال تھا کہ اس خدائی فعل کا خاتمہ ضرور کسی اہم مقصد کے ساتھ تعلق رکھتا ہے.اور جس وقت میں نے تحریک جدید شروع کی تھی اُس وقت میں نے بتایا تھا کہ چونکہ حکومت کے بعض افسروں نے ہم پر ظلم کیے ہیں اس لیے ان کو ضرور اس ظلم کی سزا ملے گی.اور میں نے بیان کیا تھا کہ ہمارے پاس تو ایسے سامان نہیں کہ ہم ان کو سزا دے سکیں لیکن خدا کے پاس ہر قسم کے سامان ہیں وہ ضرور ان کو ان کے ظلم کی سزا دے گا.یہ بات میرے 1934ء اور اس کے بعد کے خطبات میں موجود ہے جس کے ماتحت انگریزوں کا جنگ میں حصہ لینا مقدر تھا.میں نے قبل از وقت کہہ دیا تھا کہ گو آخر میں فتح ہے انگریزوں کے لیے مقدر ہے مگر حکومت کی طرف سے ہمارے ساتھ انصاف کرنے میں جو کو تا ہیاں ہوئی ہیں.ان کی سزا ان کو ضرور ملے گی.چنانچہ جنگ میں بے شک ان کی فتح تو ہوتی جائے گی لیکن ان کے لاکھوں آدمی مارے گئے ہیں اور کروڑوں کروڑ روپیہ خرچ ہو گیا ہے.پس انگریزوں کو فتح کو حاصل ہو جائے گی مگر مالی لحاظ سے وہ کچلے جائیں گے اور ان کے لیے جنگ کے بعد سر اٹھانا مشکل ہو گا.دراصل جنگ کے بعد مالی لحاظ سے انگریز امریکنوں کے ہاتھ میں ہیں اور ان کی حالت اقتصادی طور پر جنگ کے بعد کے چند سالوں تک امریکہ کے مقابل ایک ماتحت کی سی رہ جائے گی.یعنی اگر امریکن ان پر کوئی دباؤ ڈالنا چاہیں تو انگریز انکار نہیں کر سکیں گے.اس کے مقابلہ میں جہاں تک فوجی طاقت کا سوال ہے یہ طاقت روس کی بہت بڑھ گئی ہے.روس نے فوجی لحاظ سے اتنی عظیم الشان طاقت پیدا کر لی ہے کہ جنگ کے بعد جہاں میں امریکہ مالی لحاظ سے سب سے آگے نکل جائے گا وہاں فوجی طاقت کے لحاظ سے روس بہت آگے

Page 519

خطبات محمود 519 $1944 نکل جائے گا.بہر حال تحریک جدید کا اجراء جن اغراض کے ماتحت الہی تصرف سے ہوا تھا اُن کی وجہ سے میں سمجھتا تھا کہ تحریک جدید کا پہلا دور جب ختم ہو گا تو خدا تعالیٰ ایسے سامان بہم پہنچائے گا کہ تحریک جدید کی انفراض کو پورا کرنے میں جورو کیں اور مواقع ہیں خدا تعالیٰ ان کو ہے دور کر دے گا اور تبلیغ کو وسیع کرنے کے سامان بہم پہنچا دے گا.اور چونکہ تبلیغ کے لیے سامان بغیر جنگ کے خاتمہ کے میسر نہیں آسکتے اس لیے میں سمجھتا تھا کہ 1944 ء کے آخر یا 1945ء کے شروع تک یہ جنگ ختم ہو جائے گی اور ہمیں تبلیغ کے لیے آسانی سے سامان میسر آسکیں گے.چنانچہ اب اس قسم کے آثار پیدا ہو رہے ہیں.مستقبل کے متعلق یقینی طور پر تو ی نہیں کہا جاسکتا لیکن "ہو نہار بروا کے چکنے چکنے پات".آثار سے پتہ لگتا ہے کہ میر اوہ خیال رست تھا.اب ایسے تغیرات پید اہورہے ہیں کہ جنگ اِس سال کے آخر یا اگلے سال کی پہلی ششماہی میں مختم ہو جائے گی.چنانچہ آج انگلستان کے وزیر اعظم کی اخبارات میں تقریر شائع ہوئی ہے کہ عنقریب ہم جرمنی کو شکست دیں گے جس کے بعد جاپان بھی ہتھیار ڈال دے گا.اس کے ساتھ ہی ہے انگلستان کے وزیر خارجہ نے پارلیمنٹ کے اجلاس کو ختم کرتے ہوئے کہا کہ پارلیمنٹ کا موجودہ اجلاس ختم ہوتا ہے.اب 20 ستمبر کو پارلیمنٹ کھلے گی.اگر اس عرصہ میں دشمن نے ہتھیار ڈال دیے تو 20 ستمبر سے پہلے ہی پارلیمنٹ کا اجلاس بلا لیا جائے گا.اِس اعلان سے معلوم ہو تا ہے کہ گورنمنٹ کو امید ہے کہ شاید دشمن 20 ستمبر سے پہلے ہی ہتھیار ڈال دے گا.یہ حالات بتارہے ہیں کہ جنگ اس سال کے آخر یا 1945ء کے شروع میں ختم ہو جائے گی.جنگ کے ختم ہو جانے کے معابعد تبلیغ کے لیے تمام سہولتیں میسر نہیں آسکتیں مگر بہت سی تنگیاں ضرور دور ہو جائیں گی.اگر پہلے گورنمنٹ پاسپورٹ دینے میں بخل سے کام لیتی تھی تو جنگ کے بعد می بخل تو کرے گی مگر اتنا نہیں.پہلے اگر دس ہیں آدمیوں کو پاسپورٹ ملتا تھا تو پھر پچاس ساٹھ آدمیوں کو ملنے لگ جائے گا.غرض کچھ نہ کچھ سہولتیں جنگ کے خاتمہ پر ضرور میسر آجائیں گی میں اور جنگ کے خاتمہ کے بعد ایک سال کے اندر اندر تو انشاء الله حالات بالکل پلٹا کھا جائیں گے.فوجوں کے اپنے اپنے ملکوں میں واپس چلے جانے کے سبب بہت سے جہاز فارغ ہے

Page 520

$1944 520 خطبات محمود ہو جائیں گے.جنگی سامان بھی ادھر اُدھر لے جانے کی ضرورت نہیں رہے گی، سپاہی واپس آجائیں گے.چھ سات ماہ یا آٹھ نو ماہ تک تو جہازوں پر سے جنگ کا بوجھ بالکل اٹھ جائے گا اور کثرت سے جہاز فارغ ہو جانے کی وجہ سے پھر جہاز ران کمپنیوں کا آپس میں مقابلہ شروع ہو جائے گا.جب مقابلہ ہو گا تو جہاز سواریوں کے محتاج ہوں گے اور جب سواریوں کے محتاج ہوں گے تو لا ز ما زیادہ جگہ ملے گی.گورنمنٹ تجارت کو فروغ دینے کے لیے جہازی انتظام کو می ترقی دیتی ہے.جب جہازی انتظام وسیع ہو گا اور اس میں ترقی ہو گی تو لازماً پاسپورٹوں کے حاصل کرنے میں زیادہ سہولتیں دی جائیں گی.کیونکہ اگر پاسپورٹ زیادہ نہیں ملیں گے تو میں سواریاں کم ہوں گی اور اگر سواریاں کم ہوں گی تو جہازی کمپنیوں کی مالی حالت کمزور ہو جائے گی اور اگر جہازی کمپنیوں کی مالی حالت کمزور ہوگی تو ملک کی تجارت بھی لازما کمزور ہو جائے گی.اس لیے لاز ما گور نمنٹ جہازوں کے انتظام کو ترقی دینے کے لیے زیادہ پاسپورٹ دے گی تاکہ جہازی کمپنیوں کے کام میں ترقی ہو.پس جہاز رانی کی ترقی کے ساتھ جب سفر میں سہولت ہے ہو جائے گی جب گورنمنٹ جہاز رانی کی ترقی اور تجارت کو فروغ دینے کے لیے زیادہ پاسپورٹ دے گی تو ہم آسانی سے جہاں چاہیں گے مبلغ بھیج سکیں گے.تحریک جدید کے واقفین کو تین تین چار چار سال پڑھائی کرتے ہو گئے ہیں مگر ابھی بہت فاصلہ باقی ہے جس کو انہوں نے ملے کرتا ہے.واقعین کے اس گروپ کی پڑھائی کی تکمیل کا ہے اندازہ ایک سال کا ہے.یہ ایک سال بھی دنیاوی علوم کے لیے ہے.اس کے بعد علم کلام، بائیبل اور غیر مذاہب کے لٹریچر کے مطالعہ اور سلسلہ کے لٹریچر کے مطالعہ پر بھی کچھ عرصہ لگے گا.گویا قریب ترین میعاد دو سال کی ہے.اگر واقعین دیانت داری اور محنت سے تعلیم حاصل کریں تو یہ دو سال میں وہ تیار ہوں گے اور جنگ کے خاتمہ پر جو تغیرات پیدا ہوں گے اُن سے ہم پورے طور پر فائدہ نہیں اٹھا سکیں گے.اس وجہ سے میں نے واقعین تحریک جدید پر زور ڈالا تھا کہ وہ اپنی تعلیم کو جلدی مکمل کریں.مگر افسوس ہے کہ جتنی پڑھائی انہوں نے اس عرصہ میں کی ہے میں میرے نزدیک اگر دیانت داری اور محنت سے کام لیا جاتا تو اس سے آدھے وقت میں اتنی پڑھائی ہو سکتی تھی.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ باری باری ایک سیڑھی سے دوسری سیڑھی پر اور دوسری

Page 521

خطبات محمود 521 $1944 سے تیسری سیڑھی پر چڑھا جاتا ہے.ممکن ہے واضعین کا دوسرا پیج (Badge)، پہلے بیج (Badge) کی پڑھائی کے تجربہ سے فائدہ اٹھاتا ہوا زیادہ سہولت کے ساتھ اور زیادہ تفصیلی علم حاصل کرے.مگر اس سے پہلے بیج (Badge) کی قدر ضرور کم ہو جائے گی.پس ہے میں واقفین کو توجہ دلاتا ہوں کہ اگر انہوں نے اپنی ذمہ داریوں کو نہ سمجھا اور محنت سے کام نہ لیا تو ان کے لیے پہلی صف میں لڑنے کا موقع کھویا جائے گا.جتنی جلدی وہ پڑھائی مکمل کریں گے اتنی ہی جلدی ان کو بطور مبلغ باہر بھیجا جاسکے گا.اور جتنی وہ پڑھائی میں دیر کریں گے اتنا ہی ان کو باہر بھیجنے میں دیر لگے گی یا اگر جلدی بھیج دیا گیا تو وہ مبلغ بے تیاری کے باہر جائے گا.نتیجہ یہ ہو گا کہ ان کے بعد آنے والا گروہ کامل علم والا ہو گا اور آخر عمر تک فوقیت رکھنے والا ہو گا.کیونکہ پہلے گروہ میں سے جب کسی کو ایک جگہ تبلیغ کا انچارج مقرر کر دیا جائے گا تو پھر اس سے یہ امید رکھنا مشکل ہے کہ وہ اپنی پڑھائی مکمل کر سکے گا.لیکن دوسر اگر وہ زیادہ علم حاصل کرلے گا اور یہ لازمی بات ہے کہ جو علم میں بڑھ کر ہو گا اُس کو پہلی صف میں کام کرنے کا موقع زیادہ ملے گا اور یہ پہلا گر وہ پہلی صف کی جگہ دوسری صف میں کھڑ اہونے پر مجبور ہو گا.پس ایک تو میں واقفین کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ زیادہ محنت اور دیانت داری سے پڑھائی کریں.دوسرے میں جماعت کو تحریک کرتا ہوں کہ واقفین کی تحریک کو زیادہ سے زیادہ مضبوط بنایا جائے.اس وقت تک جتنے آدمیوں نے اپنے آپ کو وقف کے لیے پیش کیا ہے ان میں سے کئی ایسے ہیں جو سوتے ہوئے اپنے آپ کو وقف کے لیے پیش کر دیتے ہیں اور ان کو علم نہیں ہوتا کہ وقف کیا چیز ہے؟ اور اس کے بعد کون کونسی ذمہ داریاں ہم پر عائد ہوتی ہے ہیں.کئی ایسے ہیں جو اپنے آپ کو وقف کے لیے پیش کرتے ہیں مگر جب اُن کو بلایا جاتا ہے تو می پھر آتے نہیں.کئی ایسے ہیں جنہوں نے اپنے آپ کو اخلاص سے وقف کے لیے پیش کیا لیکن میں در حقیقت اُن کی قربانی وقت کے لحاظ سے مفید نہیں کیونکہ ان میں سے یا تو اچھے اچھے پیشوں پر لگے ہوئے ہیں یا اچھی اچھی کمائیاں کر رہے ہیں.مثلاً بعض وکیل ہیں، بعض ڈاکٹر ہیں، بعض اور اچھے اچھے کاموں پر لگے ہوئے ہیں اور ان کی عمر کا کافی حصہ گزر چکا ہے.اس قسم کے لوگ اگر پنشن لے کر اور اپنے کام سے فارغ ہو کر مرکز میں آکر کام کریں تو سلسلہ کے لیے مفید ہے

Page 522

$1944 522 خطبات محمود ہو سکتے ہیں.لیکن اگر ان کو ولایت یا امریکہ باہر کسی جگہ تبلیغ کے لیے بھیج دیا جائے تو وہ مفید نہیں ہوسکتے.کیونکہ اول تو ان کی عمر کا وہ حصہ گزر چکا ہے جس میں ان کو مبلغ بننے کے لیے ٹرینڈ کیا جائے اور دوسرے وہ خود اور ان کے بیوی بچے پانچ پانچ ، چھ چھ سو یا ہزار ہزار روپے میں گزارہ کرنے کے عادی ہو چکے ہیں.اب اگر ان کو ہمیں پچیس روپے دیے جائیں تو اس میں وہ گزارہ نہیں کر سکتے.یہ ایسی چیز ہے کہ ہم ڈرتے ہیں کہ ایسے موقع پر اپنے آپ کو وقف کرنے والے لوگ کہیں اپنا پہلا ایمان بھی نہ کھو بیٹھیں.اگر اس قسم کے واقفین کو نکال دیا جائے تو باقی واقفین کی تعداد سو ڈیڑھ سورہ جاتی ہے.باقی یا تو وہ ہیں جنہوں نے اپنے آپ کو بغیر ، سمجھے پیش کر دیا ہے اور اُن کو وقف کی حقیقت کا بالکل علم نہیں.اس قسم کے واقفین میں سے ایک شخص کی چٹھی آئی کہ میں اپنے آپ کو وقف کرتاہوں مگر یہ بتائیے تنخواہ کیا ملے گی ؟ یہ بالکل ایسی ہی بات ہے کہ ایک لڑائی کے موقع پر انگریزوں نے کشمیر کے راجہ سے کہا کہ تم بھی ہماری مدد کے لیے فوج بھیجو.چنانچہ راجہ نے افسروں کو حکم دیا کہ فوج تیار کرو.افسروں نے فوج سے جا کر کہا کہ تم سر کار کا نمک کھاتے رہے ہو ، اب لڑائی کا موقع ملا ہے تمہارا فرض ہے کہ حق نمک ادا کرو.تمہیں انعام ملیں گے اور عزت بھی بڑھ جائے گی.اس کے بعد پھر افسروں نے راجہ سے درخواست کی کہ ہم ایک ضروری بات عرض کرنا چاہتے ہیں.راجہ نے اجازت دی اور اُن کشمیری فوجی افسروں نے آکر عرض کیا کہ حضور ! فوج تیار ہے اور فوج کے سب لوگ خوش ہیں کہ انہیں لڑنے کا موقع ملا ہے.مگر وہ کہتے ہیں کہ پٹھانوں میں سے لڑائی ہے اور وہ بہت سخت ہوتے ہیں اس لیے ہمارے ساتھ مضبوط پہرہ کا انتظام کیا جائے.اسی طرح واقفین کا حال ہے کہ بار بار خطبے سنتے اور پڑھتے ہیں، وقف کی شرائط اور چمچ فارم چھپے ہوئے ہیں.ان میں لکھا ہوا ہے کہ وقف کرنے والا یہ عہد کرے کہ میں بغیر کسی ہے معاوضہ کے دین کا کام کروں گا اور اگر سلسلہ کی طرف سے مجھے کچھ دیا جائے گا تو میں اُس کو خدا کا احسان سمجھوں گا.لیکن بعض واقف ایسے ہیں کہ اپنے آپ کو وقف کے لیے پیش تو یہ کرتے ہیں لیکن جب ان کو بلایا جائے تو کہتے ہیں یہ بتائیے تنخواہ کیا ملے گی.معلوم ہوتا ہے کہ میں ایسے لوگ کانوں میں روئی ٹھونس کر خطبہ سنتے ہیں اور آنکھوں پر پٹی باندھ کر شرائط ہیں

Page 523

$1944 523 خطبات محمود پڑھتے ہیں.اس قسم کے لوگوں سے دین کی خدمت کی کیا امید ہو سکتی ہے.ایسا انسان سوتا ہی پیدا ہو تا ہے، سوتا ہی زندگی بسر کرتا ہے اور سوتا ہی مر جاتا ہے اور سلسلہ کو اس سے کوئی بھی فائدہ نہیں پہنچ سکتا.وہ سمجھتا ہے کہ شاید صرف نام پیش کر دینے سے ہی عزت مل جائے گی.حالانکه نام پیش کر کے پیچھے ہٹ جانا خدا تعالیٰ کے عذاب کو بلانے کا موجب ہے.پس واقفین میں سے ایک طبقہ تو اس قسم کا ہے کہ اس کو وقف کی حقیقت کا علم نہیں اور دو سر اطبقہ اس قسم میں کا ہے کہ انہوں نے اخلاص سے اپنا نام پیش کیا ہے لیکن اُن کے حالات ایسے نہیں کہ اُن کا وقف مفید ہو سکے.کیونکہ یا تو وہ مفید کاموں پر لگے ہوئے ہیں اور یا اُن کا اس جگہ سے ہٹانا اُن کے لیے اور اُن کے خاندان کے لیے ٹھوکر کا موجب ہو گا.اور طاقت و قوت اور عمر کے لحاظ سے اُن کو کام سپر د کرنا ایسا ہی ہے جیسے لنگڑے آدمی کو دوڑنے کے لیے کہا جائے.اس دوڑ میں تو ایسے آدمیوں کی ضرورت ہے جن کی دونوں ٹانگیں سلامت ہوں.اگر ہم ایسے آدمی کو دوڑنے کا حکم دیں جس کی دونوں نا تمھیں ماری ہوئی ہوں یا ایک ٹانگ ماری ہوئی ہو تو یہ چیز ہماری ہے کم عقلی پر دلالت کرے گی کہ ہم نے صحیح انتخاب نہیں کیا.پس اگر اس قسم کے آدمیوں کو نکال دیا جائے تو چار پانچ سو میں سے صرف چالیس پچاس یا ساٹھ ستر واقفھمین ایسے رہ جاتے ہیں میں جو تمام شرائط کے مطابق اُتریں گے.لیکن جو کام ہمارے سامنے ہے اُس کے لیے سینکڑوں بلکہ ہزاروں آدمیوں کی ضرورت ہے.پس میں جماعت کو توجہ دلاتا ہوں کہ وقف کے لیے ایسے نوجوانوں کو تیار کر لیں کہ ایک تو اُن کی عمر تیس سال سے کم ہو اور دوسرے جسم کے لحاظ سے ایسے مضبوط ہوں کہ حاصل کر سکتے ہوں.تیسرے یہ کہ عربی یا انگریزی کے گریجوایٹ ہوں تا اُن کو جلدی ٹرینگ دے کر تیار کیا جاسکے.ہم نے اس سال انٹرنس 2(ENTRANCE) پاس بھی لیے ہیں اور مدرسہ احمدیہ کے ساتویں پاس بھی لیے ہیں.کیونکہ فوری ضرورت تھی.اب چونکہ تیس چالیس نوجوان میں پڑھائی کرنے والے ہو گئے ہیں.اس لیے آئندہ وقف کے لیے شرط یہ ہے کہ یا عربی گریجوایٹ ہو ( ہمارے نقطہ نگاہ سے عربی گریجوایٹ سے مراد مولوی فاضل نہیں ہے

Page 524

$1944 524 خطبات محمود مولوی فاضل کو ہم نے اس سال سے اُڑا دیا ہے بلکہ گریجوایٹ سے اپنی یونیورسٹی کا گریجوایٹ مراد ہے یعنی جو جامعہ کی چار جماعتیں پاس ہو) یا پھر پنجاب یونیورسٹی کا گریجوایٹ ہو.ہاں! اگر کوئی ایسا طالب علم اپنا نام پیش کرے جو ابھی تعلیم حاصل کر رہا ہے تو تعلیم مکمل کرنے کے بعد اُس کو بھی لے لیا جائے گا.لیکن اُس کا فرض ہو گا کہ وہ اپنے طور پر تعلیم مکمل کرے اور تعلیم کا خرچ خود برداشت کرے سلسلہ اُس کی تعلیم کا بوجھ نہیں اٹھائے گا کیونکہ اگر اس طرح اُس پر روپیہ خرچ ہو تا ر ہے تو آئندہ تبلیغ کے رستہ پر چلنا مشکل ہو جائے گا.تیسرے میں جماعت کو توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ تحریک جدید کے پہلے دور کی قربانی ابھی ابتدائی قربانی ہے جس میں زیادتی کی گنجائش ہے.تحریک جدید کے دوسرے دور کا اعلان تو میں انشاء اللہ نومبر میں کروں گا جس میں دوسرے دور کے قواعد وغیرہ بیان کروں گا.اس وقت میں جماعت کے کارکنوں اور تحریک جدید کے سیکرٹریوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ جماعت کو دوسرے دور میں حصہ لینے کے لیے آمادہ کریں.جنہوں نے پہلے دور میں حصہ نہیں لیا وہ دوسرے دور میں حصہ لینے کے لیے تیار ہو جائیں.اور جنہوں نے پہلے دور میں حصہ لیا ہے وہ دوسرے دور میں پہلے سے بڑھ کر حصہ لیں تاکہ تحریک جدید کے دوسرے دور میں پہلے دور سے زیادہ ریز رو فنڈ قائم ہو جائے جو تبلیغ کو وسیع کرنے میں محمد ہو.ابھی جماعت میں اس تحریک کا بہت موقع اور گنجائش ہے.ہماری لاکھوں کی جماعت ہے مگر صرف پانچ ہزار آدمی ہیں جنہوں نے تحریک جدید کے پہلے دور میں حصہ لیا ہے.اگر اس تحریک کو زیادہ وسیع کیا جائے تو دو تین لاکھ آدمی حصہ لے سکتے ہیں.اگر اس تعداد میں سے آدھے بچے نکال دیے جائیں تو ڈیڑھ لاکھ اور اگر عورتوں کو بھی نکال دیں تو 75 ہزار آدمی تحریک میں حصہ لینے والے ہونے چاہئیں جن میں سے پہلے دور میں صرف پانچ ہزار نے حصہ لیا ہے اور 70 ہزار باقی ہیں.اگر تحریک جدید کا محکمہ مضبوط خط و کتابت کرے اور جماعت کے لوگ بھی کوشش کریں تو دوسرے دور میں پہلے زور سے بھی زیادہ ریز روفنڈ قائم ہو سکتا ہے.میں نے کئی دفعہ بتایا ہے کہ یہ زمانہ ٹھہرنے کا نہیں بلکہ دوڑنے اور کام کرنے کا زمانہ ہے.دشمن جتنا آگے دوڑتا جارہا ہے اس کو پکڑنے کے لیے اس سے زیادہ رفتار کے ساتھ ہم کو ی

Page 525

خطبات محمود 525 $1944 اُس کے پیچھے بھاگنا چاہیے.جو آگے دوڑنے والے سے کم دوڑتا ہے یا اُس کے برابر دوڑتا ہے وہ آگے دوڑنے والے کو کبھی نہیں پکڑ سکتا.وہی پکڑے گا جو آگے دوڑنے والے سے زیادہ تیز رفتار ہو.پس جب تک ہم یورپ کے لوگوں سے زیادہ تیز رفتاری اختیار نہیں کرتے ، جب تک ہے ہم یورپ کے لوگوں سے زیادہ قربانیاں نہیں کرتے ، جب تک ہم یورپ کے لوگوں سے زیادہ محنت نہیں کرتے، جب تک ہم یورپ کے لوگوں سے زیادہ سلسلہ کے کاموں پر وقت خرچ ہے نہیں کرتے اس وقت تک یہ امید رکھنا غلطی ہے کہ دین کی فتح کا کام ہمارے ہاتھوں سے ہو گا ہے اور خد اتعالیٰ ہماری جگہ کسی اور کو کھڑا نہیں کرے گا.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ جس وقت اپنی طرف سے پوری کوشش اور پوری طاقت خرچ کر دی جائے تو بقیہ کمی خدا اپنے پاس سے پوری کر دیتا ہے.لیکن جب تک مومن کافر سے زیادہ محنت نہیں کرتا، جب تک مومن کا فر سے زیادہ قربانی نہیں کرتا، جب تک مومن کافر سے زیادہ تیز رفتار نہیں ہوتا، جب تک مومن کا فر سے زیادہ اپنا وقت دین کے کاموں پر خرچ نہیں کرتا اُس وقت تک یہ امید رکھنا کہ خدا تعالیٰ اپنے فضل سے کمی کو پورا کر دے گا یہ خدا تعالیٰ سے تمسفر ہے.اور یاد رکھو بادشاہوں سے تمسفر کبھی اچھے پھل نہیں لایا کر تا".(الفضل 29 / اگست،1944ء) 1 : محوریوں (The Axis) دوسری جنگ عظیم کے دوران جرمنی، اٹلی اور جاپان کا باہمی اتحاد 2 : انٹرنس (Entrance) وہ امتحان جسے پاس کر کے طالبعلم کالج میں داخلہ لے سکتا ہے.

Page 526

$1944 526 31 خطبات محمود ہماری ساری زندگی رمضان میں زندگی کی طرح بسر ہونی چاہیے (فرمودہ یکم ستمبر 1944ء بمقام ڈلہوزی) تشہد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: گو میرے گلے کی تکلیف ابھی باقی ہے لیکن اس میں چونکہ کچھ تخفیف پیدا ہو گئی ہے اس لیے میں نے ضروری سمجھا کہ خود ہی اختصار کے ساتھ خطبہ پڑھوں.یہ مہینہ رمضان کا ہے اور رمضان کا مہینہ اپنے اندر یہ خصوصیت رکھتا ہے کہ قرآن کریم رمضان کے مہینہ میں اُترنا شروع ہوا اور اس نسبت کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے اس کو ہمارے لیے روزوں کا مہینہ قرار دیا ہے.روزے کیا ہوتے ہیں ؟ ان میں انسان کا عام طریق زندگی تہہ و بالا ہو جاتا ہے.بہت سی ایسی چیزیں جو انسان کے لیے جائز ہوتی ہیں ناجائز ہو جاتی ہیں.بلکہ بعض دفعہ انسان کی ضروری اور پسندیدہ چیزیں بعض وقتوں میں اُس کے لیے ممنوع، بعض وقتوں میں اُس کے لیے مکر وہ اور بعض وقتوں میں ناجائز ہو جاتی ہیں.گویا ضروری اور جائز کے مقابلہ میں ان چیزوں کو غیر ضروری اور ناجائز کی صورت حاصل ہو جاتی ہے.اس میں ہمیں یہ سبق دیا گیا ہے کہ جب کبھی خدا کی طرف سے کوئی پیغام دنیا میں آتا ہے تو اُس زمانے میں اُس کلام کے ماننے والوں کو اپنی زندگی کے عام دستور کو تہہ و بالا کرنا پڑتا ہے.قرآن مجید کے نزول کے مہینہ کو ہمیشہ

Page 527

خطبات محمود 527 $1944 کے لیے روزوں کا مہینہ قرار دے کر اس طرف اشارہ فرمایا ہے کہ خدا کے کلام کے نازل ہونے کے بعد انسانی زندگی کا عام دستورالعمل قائم نہیں رہ سکتا.کبھی بھی کوئی پیغام الہی دنیا می میں نہیں آیا جس کے نازل ہونے کے بعد انسانی زندگیوں کا دستور اور قاعدہ اُسی طرح قائم رہا ہو جس طرح کہ اس پیغام الہی کے نازل ہونے سے پہلے تھا.جس طرح روزوں کے مہینہ میں ہے انسان کو جائز ضرور توں اور جائز چیزوں کو بعض وقتوں میں ترک کرنا پڑتا ہے اسی طرح انبیاء کی بعثت کے ایام میں اُن پر ایمان لانے والوں کو جائز رزق سے ہاتھ دھونا پڑتا ہے.کچھ تو دشمن کی کارروائیوں کی وجہ سے اور کچھ خود نظام سلسلہ کی پابندی کی وجہ سے.کچھ تو دشمن ایمان لانے میں والوں کا بائیکاٹ کر کے اور اُن کی تجارتوں کو نقصان پہنچا کر اُن کے جائز اموال سے اُن کو محروم کر دیتا ہے اور اُن پر قسم قسم کے مظالم توڑ کر اُن کی زندگی کے دستور کو تہ و بالا کر دیتا ہے اور کچھ نظام سلسلہ کے ماتحت جہاد کے لیے، اشاعت دین کے لیے، تبلیغ کے لیے اور تعلیم کے لیے اُن پر چندے لگا دیے جاتے ہیں.غرض دو طرف سے ان کے اموال کی ٹوٹ شروع ہو جاتی ہے.خدا کی طرف سے بطور ٹیکس کے اور دشمن کی طرف سے بطور تعذیب کے.گویادہ زمانہ ان کے لیے روزوں کا ہے زمانہ ہوتا ہے.رمضان کے روزے تو سال میں ایک مہینہ ہوتے ہیں مگر وہ ساری عمر ہی روزے رکھتے ہیں.اور جس طرح روزوں کے مہینہ میں جائز چیزوں کو بعض وقتوں میں چھوڑنا پڑتا ہے اسی طرح انبیاء کی بعثت کے ایام میں جائز چیزوں اور جائز ضرورتوں اور جائز خواہشوں کو یا تو خدا کے دین کی خاطر اور یادشمن کی تعذیب کے ماتحت چھوڑنا پڑتا ہے.ہمارے ملک کا ہے محاورہ ہے کہ اتنی تکلیف پہنچی کہ "نیند حرام ہو گئی".روزوں میں بھی نیند حرام ہو جاتی ہے ، کچھ تو سحری کے وقت کھانا پکانے کے لیے اٹھنا پڑتا ہے اور کچھ تہجد اور دعا کے لیے.جس کی وجہ ہے سے نیند کا ایک حصہ ضائع ہو جاتا ہے.اسی طرح انبیاء کی بعثت کے زمانہ میں اُن پر ایمان لانے والوں پر قسم قسم کے مصائب کی وجہ سے نیند حرام ہو جاتی ہے.گویا ان کو ساری عمر روزوں کی ہے زندگی میں سے گزرنا پڑتا ہے.جس طرح رمضان میں تہجد اور دعاؤں پر زور دیا جاتا ہے اسی طرح انبیاء کے زمانہ میں مومنوں کی جماعت کو خصوصیت سے دعائیں کرنی پڑتی ہیں کیونکہ جو ہے

Page 528

$1944 528 خطبات محمود کام اُن کے سپرد ہوتا ہے وہ انسانی طاقت سے بالا ہوتا ہے.کسی نبی کی قوم نہیں جس نے اپنی طاقت اور اپنی قوت سے فتح حاصل کی ہو.ہر نبی کے زمانہ میں دعاؤں اور التجاؤں سے فتح حاصل ہوتی ہے.اور اگر وہ پورے طور پر اپنے فرض کو سمجھیں اور انبیاء کی بعثت کی غرض کو جانیں تو یقیناً اُن پر راتوں کی نیند حرام ہو جاتی ہے.تہجد پڑھتے ہیں، رات کو اٹھ اٹھ کر دعائیں کرتے ہیں اور گڑ گڑا کر اور آہ وزاری سے خدا کے حضور فریاد کرتے ہیں کہ خدا تعالیٰ اُن کی کمزوریوں کو ڈھانپ لے اور اپنے فضل سے انہیں کامیاب فرمائے.اگر کوئی قوم ایسا نہیں کرتی اور سمجھتی ہے ہے کہ صرف چندے دے کر یا صرف اپنی طاقت سے کام لے کر بغیر دعاؤں کے بغیر راتوں کو اٹھ اٹھ کر آہ و زاری کرنے کے اور بغیر نمازیں اور تہجد پڑھنے کے کامیاب ہو سکتی ہے تو وہ دنیا کی بد ترین احمق قوم ہو گی.اسی طرح رمضان کے مہینہ میں ایک وقت میں مرد و عورت کے تعلقات بھی حرام ہو جاتے ہیں.یہ چیز بھی نبیوں کے زمانہ میں پائی جاتی ہے.اُس زمانہ میں ایمان لانے والوں کو اپنے عزیزوں سے تعلقات منقطع کرنے پڑتے ہیں، کبھی ان کے مخالف ہونے کی وجہ سے اُن کو چھوڑنا پڑتا ہے اور کبھی سلسلہ حقہ کی ضرورتوں کے ماتحت دور دراز ملکوں میں تبلیغ کے لیے جانے کی وجہ سے اُن سے الگ ہونا پڑتا ہے.گویا کبھی کفر کی بناء پر ان میں سے قطع تعلق کرنا پڑتا ہے اور کبھی ایمان کی بناء پر ان سے الگ ہو نا پڑتا ہے.پس رمضان کا مہینہ جہاں انفرادی طور پر ایک فرد کے ایمان اور اخلاص کے لیے آزمائش کا مہینہ ہے اور ہر زمانہ میں قیامت تک کے لیے آزمائش کے سلمان اپنے اندر رکھتا ہے وہاں انبیاء کی جماعت کے لیے بھی سبق اور ہدایت ہے جس پر عمل کرنے سے ہی وہ جماعت کامیاب ہو سکتی ہے.اگر وہ جماعت اپنے جائز امور اور جائز ضرورتوں کو خدا کے لیے قربان ہے کرنے کے لیے تیار نہیں تو اس جماعت کا کوئی فرد صرف یہ کہہ کر کہ حرام چیزیں اس کے لیے ہے حرام ہیں اور ناجائز چیزوں کو وہ ناجائز سمجھتا ہے کسی صورت میں بھی جماعت کے لیے مفید وجود ثابت نہیں ہو سکتا.نبیوں کے زمانہ میں وہی شخص دین کی حقیقی خدمت کرنے والا ہوتا ہے جو نہ صرف حرام چیزوں کو حرام سمجھ کر چھوڑ دے بلکہ بعض وقتوں میں سلسلہ حقہ کی صورتوں کے مطابق جائز چیزوں کو بھی اپنے اوپر حرام کرے.

Page 529

خطبات محمود 529 $1944 خدا تعالیٰ انبیاء کے زمانہ میں عجیب تضاد پیدا کر دیتا ہے کہ انبیاء اپنی بعثت کے زمانہ میں ایک طرف تو حرام کو حلال کر دیتے ہیں جیسے خدا کا کلام کرنا، اُس کا دیدار نصیب ہونا.اِن چیزوں کو اُن کی بعثت سے پہلے لوگ حرام سمجھتے ہیں.انبیاء آکر نئے سرے سے ان کو جائز کر دیتے ہیں.دوسری طرف انبیاء آکر حلال کو حرام کر دیتے ہیں.وہی چیزیں جو بعد میں یا پہلے جائز ہوتی ہیں دین کے مطالبات کے ماتحت حرام ہو جاتی ہیں.ہزاروں دفعہ مومنوں کی جماعت کو کھانا پینا، اپنی جائیداد، عمدہ جذبات، خواہش اور وطن جس کی محبت کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایمان کی علامتوں میں سے بیان فرمایا ہے کے ان سب چیزوں کو اپنے ہی او پر حرام کرنا پڑتا ہے.اگر کوئی مومن ایسا نہ کرے تو اس کا ایمان باطل ہو جاتا ہے.گو یا انبیاء ایک طرف تو حرام چیزوں کو حلال کر دیتے ہیں اور جن چیزوں سے دنیا محروم ہوتی ہے وہ ان می کو نئے سرے سے لے آتے ہیں اور دوسری طرف جو چیز میں ضروری اور جائز ہوتی ہیں اُن کو حرام کرنے کا اعلان کر دیتے ہیں اور اس کے مطابق جائز حقوق اور جائز چیزوں کو دین کے مطالبات کے ماتحت چھوڑنا پڑتا ہے.اگر کوئی ایسا نہیں کر تا تو وہ ایمان کی حد سے نکل جاتا ہے.وطن کی محبت ایمان میں شامل ہے لیکن خدا تعالی بعض دفعہ ہجرت کا حکم فرماتا ہے اور وطن کو چھوڑنا پڑتا ہے.اسی طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جو شخص اپنے مال کی حفاظت کرتا ہو امارا جائے وہ شہید ہے.2 لیکن دین کے مطالبات کے ماتحت اس مال کو ہے بھی چھوڑنا پڑتا ہے.پس جو چیز دوسرے وقت میں ایمان میں شامل ہوتی ہے نبی کے وقت میں وہی چیز دین کے مطالبات کے ماتحت حرام اور قطعی حرام ہو جاتی ہے اور اگر کوئی شخص پھر بھی اُس کو لینے کی خواہش کرے تو وہ مومن نہیں بلکہ کافر ہو جاتا ہے.پس انبیاء آکر کچھ تو حرام حصہ کو حلال کر دیتے ہیں اور کچھ حلال حصہ کو حرام کر دیتے ہیں اور اگر ایسا نہ ہو تو کبھی ہے حقیقی ایمان کا نمونہ قائم نہ ہو سکے.ہماری جماعت کے آدمی بھی بعض دفعہ لڑ پڑتے ہیں کہ ہمارا یہ حق مارا گیا اور ہمارا وہ حق نہیں ملا.وہ یہ نہیں جانتے کہ انبیاء کے زمانہ میں حقوق تلف کرنے میں ایمان ہوتا ہے.جو شخص اپنا مال، اپنی دولت، اپنا آرام و آسائش، اپنے جذبات، اپنی خواہش،

Page 530

خطبات محمود 530 $1944 اپنی جائیداد، اپنے عزیز رشتہ دار اِن سب چیزوں کو خدا کے حکم کے مطابق اور دین کی ضرورت کے ماتحت قربان نہیں کرتا وہ کبھی بھی نہ سلسلہ کے لیے مفید ہو سکتا ہے اور نہ مومنوں کی جماعت میں شامل ہونے کے قابل ہے.ہماری جماعت کے ہر ایک فرد کو اس کی اہمیت سمجھنے اور دوسروں کو سمجھانے کی ضرورت ہے.بہت سے لوگ ایسے ہوتے ہیں جو خود تو کسی بات کو سمجھ لیتے ہیں مگر دوسروں کو سمجھانے میں کو تاہی کرتے ہیں.حالانکہ انبیاء کی جماعت کو تو دوسروں کو سمجھانے میں لگے رہنا چاہیے.انبیاء سے ڈوری کے زمانہ میں اگر پچاس فیصدی لوگوں میں ایمان پا یا جائے اور وہ دین کے مطابق زندگی بسر کرنے والے ہوں تو غنیمت سمجھا جاتا ہے.لیکن نبیوں کے زمانہ میں تو ننانوے فیصدی لوگوں میں ایمان کا پایا جانا اور دین کے مطابق زندگی بسر کرنا ضروری ہوتا ہے ہے کیونکہ اگر اُس زمانہ میں ہی اُن کے اندر خرابی پیدا ہو جائے تو سلسلہ کی حفاظت نہیں ہو سکتی.انبیاء کے زمانہ کے بعد دین کی حفاظت کا وقت نہیں ہوتا بلکہ عمل کا وقت ہوتا ہے لیکن نبیوں کی بعثت کے زمانہ میں تو دین کی حفاظت کا سوال ہوتا ہے.پس انبیاء کے زمانہ میں نہ صرف انفرادی ایمان پیدا کرنے کی ضرورت ہوتی ہے بلکہ قومی من ایمان پیدا کرنے کی ضرورت ہوتی ہے، دین کی ضرورتوں کے مطابق قومی قربانیاں کرنے کی ضرورت ہوتی ہے.اور جب تک قومی رنگ میں ایمان پیدا نہ ہو اور جب تک قومی رنگ میں قربانیاں نہ کی جائیں اُس وقت تک نبی کی بعثت کی غرض پوری نہیں ہوتی.اور جب تک نبی کی بعثت کی غرض پوری نہ ہو اس نبی کی قوم بری الذمہ ہے نہیں ہوتی.بلکہ مجرم ٹھہرتی ہے کہ جو کام اُس کے ذمہ لگایا گیا تھا اُس کو اُس قوم می ہے.نے پورا نہیں کیا.پس ہمیں ہر رمضان سے یہ سبق حاصل کرنا چاہیے اور یاد رکھنا.چاہیے کہ جس طرح سال میں رمضان کا ایک مہینہ ہر مسلمان پر روزے رکھنا فرض ہے ہمارے لیے سارا سال ہی رمضان ہے.ہمارے لیے صرف ایک مہینہ ہی روزوں کا مہینہ نہیں بلکہ بارہ مہینے ہی روزوں کے مہینے ہیں.جب تک اسلام دوبارہ دنیا میں

Page 531

خطبات محمود 531 $1944 پھیل نہ جائے اور جب تک تمام دنیا کے لوگ اسلام میں داخل اسلام میں داخل نہ ہو جائیں اُس وقت تک ہماری جماعت کے لیے صرف سال میں ایک مہینہ ہی روزوں کا مہینہ نہیں بلکہ سال میں بارہ مہینے ہی روزوں کے مہینے ہیں.ہماری مثال بالکل اُس بزرگ کی سی ہے جس سے کسی نے پوچھا ز کوۃ کے متعلق کیا حکم ہے ؟ انہوں نے جواب دیا کہ عام می لوگوں کے لیے چالیس روپوؤں پر ایک روپیہ زکوۃ ہے اور میرے لیے چالیس رپوؤں پر اکتالیس روپے زکوۃ ہے.کیونکہ عام لوگوں کے لیے عام حکم ہے مگر میرے ساتھ خدا تعالیٰ کا یہ سلوک ہے کہ میری ساری ضرور تھیں وہ خود پوری کرتا ہے اور اُس کا میرے ساتھ وعدہ ہے کہ میں تیری تمام ضرورتوں کا کفیل ہوں.اگر باوجود اس کے میں روپیہ جمع کروں تو وہ روپیہ میں ناجائز حالت میں جمع کروں گا جو مجھے واپس کرنا چاہیے اور ایک روپیہ جرمانہ کا ادا کرنا چاہیے کہ باوجود خدا تعالیٰ کے وعدہ کے میں نے اپنی ضرورتوں کے لیے خود انتظام کیا.یہی حال ہمارا ہے.لوگوں کے لیے بارہ مہینوں میں سے صرف ایک مہینہ رمضان یعنی روزوں کا ہوتا ہے مگر ہمارے لیے سارا سال ہی روزوں کا ہونا چاہیے اور ہماری ساری زندگی رمضان کی طرح بسر ہونی چاہیے.میرا یہ مطلب نہیں کہ سارا سال ہی روزے رکھے جائیں.یہ تو منع ہے کہ کوئی شخص تمام سال روزے رکھتا رہے.میر ا مطلب یہ ہے کہ ہماری جماعت کے لوگوں کے لیے اپنے نفس کو خدا کے احکام کے تابع کر کے ضروری اور جائز چیزوں کو بھی حرام اور غیر ضروری قرار دینا ہو گا..پس ہمارے لیے بارہ مہینے ہی رمضان ہے اور شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِي أُنْزِلَ فِيْهِ القُرآن 3 میں ہمیں یہ سبق دیا گیا ہے کہ انبیاء کی بعثت کے زمانہ میں ان کے ماننے والوں کے لیے بارہ مہینے ہی بلکہ ساری زندگی ہی رمضان میں سے گزرنا پڑتا ہے.عام لوگوں کے لیے بارہ میں سے صرف ایک مہینہ روزوں کا ہوتا ہے مگر ہمارے لیے بارہ مہینوں میں سے بارہ ہی روزوں کے مہینے ہیں.کیونکہ جس وقت خدا کا کلام نازل ہوتا ہے تو وہ روزوں کا زمانہ ہوتا ہے.جس طرح کہ قرآن مجید کے متعلق خدا تعالیٰ

Page 532

$1944 532 خطبات محمود فرماتا ہے کہ وہ رمضان کے مہینہ میں اتارا گیا ہے".(الفضل 19 ستمبر 1944ء) 1 : موضوعات ملا علی قاری صفحہ 35 مطبوعہ دہلی 1315ھ 2 : بخارى كتاب المظالم باب مَن قَاتَلَ دُونَ مَالِهِ 3 :البقرة:186 ---------------------------

Page 533

$1944 533 (32) خطبات محمود رمضان کا آخری عشرہ اور جماعت احمدیہ (فرمودہ 8 ستمبر 1944ء) تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: نقرس کے درد کی وجہ سے میں اس قابل تو نہ تھا کہ جمعہ میں شامل ہو سکوں اور خطبہ پڑھوں.مگر چونکہ رمضان کا آخری عشرہ شروع ہونے والا ہے اور چند ہی روز کے بعد رمضان کا مہینہ ختم ہو جائے گا.اس لیے میں نے مناسب سمجھا کہ جماعت کو ان ایام میں اُس کی ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلاؤں.دعا کا ہر انسان محتاج ہے.چاہے وہ دعا کو مانے یا نہ مانے.مگر ہر انسان کی فطرت ضرور دعا کرتی ہے.علاج کیا ہے؟ وہ بھی تو ایک دعا ہی ہے.یعنی اللہ تعالیٰ کے مقرر کردہ قانون سے فائدہ اٹھانا.پھر ہم دیکھتے ہیں کہ جو لوگ خدا تعالیٰ کی ہستی کے قائل نہیں یا دعا پر اعتقاد نہیں رکھتے مصیبت کے وقت اُن کے دل میں بھی یہ خواہش ضرور پیدا ہوتی ہے کہ کاش! اُن کا بیمار اچھا ہو جائے یا اُن کی مصیبت دور ہو جائے، ان کی پریشانی میں رفع ہو ، اُن کا دشمن ناکام رہے یا جس غرض کے حاصل کرنے کے لیے وہ کوشاں ہیں وہ میچ حاصل ہو سکے.دنیا کا کوئی انسان ایسا نہیں جو دیانتداری سے یہ کہہ سکے کہ اس کے دل میں یہ منی خواہش پیدا نہیں ہوتی.کسی دہریہ سے بھی پوچھ کر دیکھ لو کہ جب اُس کا کوئی رشتہ دار بیمار ہوتا

Page 534

خطبات محمود 534 $1944 ہے اُس کے دل میں یہ خواہش پیدا ہوتی ہے یا نہیں کہ کاش! وہ اچھا ہو جائے.چاہے وہ خدا کا بھی قائل نہ ہو مگر اُس کے دل میں یہ خواہش ضرور پیدا ہوتی ہے کہ کاش! اُس کا رشتہ دار اچھا ہو جائے اور اگر کوئی خدا نہیں تو اس کی فطرت یہ "کاش " کس سے کہتی ہے اور یہ خواہش کس چی سے کرتی ہے؟ اس سے صاف پتہ لگتا ہے کہ اُس کی فطرت ایسے وجود کی متمنی یا قائل ہے جو اُس کے مریض کو اچھا کرنے پر قادر ہے یا کم سے کم اس کے مریض کو اچھا کرنے پر قادر ہو.اسی طرح کسی دہریہ سے یا ایسے شخص سے جو کسی مقدمہ میں پھنسا ہوا ہو پوچھا جائے کہ اُس کے دل میں یہ خواہش پیدا ہوتی ہے یا نہیں کہ " کاش ! وہ مقدمہ جیت جائے.تو معلوم ہو گا کہ ضرور ہوتی ہے.پس اگر کوئی خدا نہیں، کوئی ایسی بالا طاقت نہیں تو اِس خواہش کے پیدا ہونے کے کوئی معنے ہی نہیں.واقعات کے لحاظ سے جو نتیجہ نکلتا ہے وہ دہ نکل کر رہے گا اور جب کوئی ہستی ان واقعات میں دخل دینے والی ہے ہی نہیں تو اس خواہش کے پیدا ہونے کے کیا معنے ہو سکتے ہیں.اس کے معنے یہی ہیں کہ گو وہ شخص عقیدۂ خدا تعالیٰ کا قائل نہیں یا دعا کا قائل نہیں مگر جب اُس پر مصیبت آئی تو اُس کے دل نے یہ خواہش کی کہ کاش! کوئی ایسی ہستی ہوتی جو میری اس تکلیف دہ حالت کو بدل سکتی.پس یہ خواہش یا بار یک رنگ میں ایمان ہر فطرت میں داخل ہے اور ہر انسان خواہ وہ دعا کو مانے یا نہ مانے دعا کرتا ضرور ہے.مومن تو اِس طرح دعا کرتا ہے کہ اے خدا! فلاں بیمار کو اچھا کر دے.اے خدا! میرے قرضوں کو دور کر دے، میرے مقدمہ میں مجھے کامیاب کر ، مجھے ذلتوں سے بچا لے.مگر دہر یہ یا ایک ایسا انسان جو دعا کا قائل نہیں وہ بینک اس طرح تو دعا نہیں میں کرتا مگر اُس کا دل بھی یہ ضرور کہتا ہے کہ کاش! ایسا ہو جائے.یہ بالواسطہ دعا ہے.جیسے بعض متکبر لوگ دوستوں سے یہ تو نہیں کہتے کہ میری فلاں ضرورت ہے اسے پورا کر دیں ہیں لیکن مجلس میں بیٹھے ہوئے اس رنگ میں بات کر دیتے ہیں کہ مجھے بڑی خوشی ہو گی کہ اگر اس بات کے اس طرح ہو جانے کا سامان پیدا ہو سکے اور اُس کا مطلب یہی ہوتا.دوسرے اس بات کو سُن کر اس کی ضرورت کو پورا کر دیں.تو ہر انسان دعاؤں کا محتاج ہے.مگر وہ قوم جس کی حالت ایسی ہو جیسے بتیس دانتوں

Page 535

خطبات محمود 535 $1944 میں زبان کی ساری دنیا جس کی مخالف ہو ، حکام اور رعایا دونوں جسے مٹانے پر تلے ہوئے ہوں.پھر جس قوم کے مقاصد اتنے عالی ہوں کہ ان کے پورا ہونے کی بظاہر کوئی صورت نظر نہ آتی ہوایسی قوم تو دعا کی بہت ہی محتاج ہے.اور آج دنیا میں ایسی قوم جماعت احمدیہ کے سوا اور کوئی نہیں.اور کوئی قوم ایسی نہیں کہ جس کے مقاصد اتنے بلند ہوں جتنے ہماری جماعت کے مقاصد بلند ہیں.اور کوئی قوم ایسی نہیں جس کے راستہ میں اتنی مشکلات ہوں جتنی ہمارے راستہ میں ہیں.اور کوئی قوم ایسی نہیں جو ایسی بے سروسامان ہو جیسی بے سرو سامان جماعت احمدیہ ہے.اور کوئی قوم ایسی نہیں جس کے اتنے دشمن ہوں جتنے جماعت احمدیہ کے ہیں.پس ہمیں دعاؤں کی انتہا درجہ کی ضرورت ہے.اگر خدا تعالیٰ دعاؤں کو سننے والا نہ ہو تو سو فیصدی ناکامی اور نامرادی ہمارے حصہ میں ہے.مگر ہم اُس خدا کے ماننے والے ہیں جو فرماتا ہے کہ مجھ سے دعا کرو میں قبول کروں گا.جیسے کہ فرمایا ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ 1 تم مجھ سے مانگو میں سنوں گا.وہ خدار مضان کے مہینہ میں خصوصاً اس کے آخری عشرہ میں دعائیں سننے پر دوسرے وقتوں کی نسبت زیادہ آمادہ ہوتا ہے.پس ہم جن کے لیے کامیابی کا کوئی راستہ نہیں، جن کے چاروں طرف دشمن ہی دشمن ہیں اور جن کا کوئی ذریعہ اپنے مقاصد کو حاصل کرنے کا نہیں اور جن کا ھے کام اتنا بڑا ہے کہ کسی بڑی سے بڑی حکومت اور طاقت کا کام بھی اتنا بڑا نہیں.ہمارے لیے تو یہ خدا تعالی کی طرف سے بھیجا ہو اوقت ہے.ہماری بے بسی اور کمزوری اور بے سروسامانی کو دیکھ کر آج وہ آسمان سے اترا ہے تاہم اُس سے مانگیں اور وہ ہمیں دے.اور اگر ہم اپنے فرض کو سمجھتے ہیں اور اپنی ذمہ داریوں کو محسوس کرتے ہیں تو ہمیں اس رمضان کے دنوں میں کوشش کرنی چاہیے کہ اسلام اور احمدیت کی فتوحات کے لیے اور جماعت کی اصلاح نفس کے لیے اور اسلام کی تعلیم پر ثابت قدم رہنے کے لیے خدا تعالیٰ کا ایسے رنگ میں دامن پکڑیں کہ ہے وہ ہمارے ہاتھوں سے اُس وقت تک نہ چھوٹے جب تک کہ خدا تعالیٰ خود یہ نہ کہہ دے کہ اے میرے بندے! میں نے تیری دعاؤں کو سنا اور قبول کیا.زمانہ ہمارے لیے تاریک سے تاریک تر ہوتا جا رہا ہے، مشکلات زیادہ سے زیادہ بڑھتی جاتی ہیں، دشمن روز بروز طاقتور ہوتا ہے جا رہا ہے اور آئندہ آنے والے مصائب گزشتہ مصائب کی نسبت بہت زیادہ نظر آتے ہیں اور می

Page 536

خطبات محمود 536 $1944 ہماری کمزوریاں روز بروز دشمنوں پر ظاہر ہوتی جاتی ہیں.اگر آج ہمارے لیے آسمان سے نصرت نازل نہ ہو ، رحمت نازل نہ ہو اور اللہ تعالیٰ کا فضل اور بخشش نازل نہ ہو تو دنیا میں ہمارا کوئی ٹھکانہ نہیں.اگر ہم اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو آج جذب نہیں کر سکتے، اگر اُس کی رحمتوں کو آج جذب نہیں کر سکتے تو ہمارے لیے زمین کی سطح کی نسبت قبروں کی لحدیں زیادہ اچھی ہیں اور ہماری زندگیاں بے حقیقت اور بے فائدہ ہیں.بلکہ ہماری زندگی کا ایک ایک لمحہ ہمارے لیے عار اور اسلام کے لیے ننگ کا موجب ہے.پس آؤ! ان دنوں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے اندر ایسی تبدیلی پیدا کریں، خدا تعالیٰ کے حضور اس طرح گڑ گڑا کر دعائیں کریں کہ وہ رحیم و کریم ہستی ہماری بے بسی اور بے کسی پر رحم کرتے ہوئے ہمارے کسی عمل کی وجہ سے نہیں بلکہ اپنے فضل سے ہماری کسی کوشش کی وجہ سے نہیں بلکہ اپنے احسان سے اور محض اپنی بخشش سے ہمارے ہاتھوں سے اُس مقصد کو پورا کرا دے جس کے پورا کرنے کے لیے اس نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو م بھیجا.اور جس کے لیے آج سے تیرہ سو سال قبل برگزیدہ ترین انسان اور نبیوں کے سردار محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر اُس نے قرآن کریم نازل فرمایا تھا.کاش! ہمیں یہ توفیق عطا ہے ہو کہ ہم اُس سے دعائیں کریں جنہیں اللہ تعالیٰ قبول فرمائے اور ہماری مشکلات کو دور فرمائے اور ہم اپنی موتوں سے پہلے اُس کے جلال کو ظاہر ہوتا ہوا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن کریم کی حکومت کو دنیا میں قائم ہوتے ہوئے دیکھ لیں.امِيْنَ اللَّهُمَّ أَمِيْنَ".(الفضل 10 ستمبر 1944ء) 1 :المومن:61

Page 537

خطبات محمود $1944 537 (33) دنیا پر واضح کر دو کہ چلو! ہم پاگل تو پاگل ہی سہی (فرمودہ 22 ستمبر 1944ء بمقام ڈلہوزی) تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: "مختلف حالات کے لحاظ سے انسانوں کی محنتیں اور کوششیں بدلتی چلی جاتی ہیں.اللہ تعالیٰ نے انسان کے اندر جو جو اس پیدا فرمائے ہیں اُن میں سے ایک حس موازنہ کی بھی ہے.انسانی جسم میں خدا تعالیٰ نے ایک مادہ یہ بھی رکھا ہے کہ جب وہ کوئی کام کرنے لگتا ہے تو اُس کے دماغ کے ایک خاص حصہ میں اُس کام کا ایک وزن قرار دیا جاتا ہے.اُس وزن کے مطابق جسم کو زور لگانے کی ہدایت دی جاتی ہے.اور جب اس کے دماغ کا فیصلہ اس چیز کے وزن کے مطابق ہو جاتا ہے تو وہ کام ہو جاتا ہے اور جب اُس کے دماغ کا فیصلہ اُس چیز کے وزن کے مطابق نہیں ہوتا تو وہ کام نہیں ہوتا.یہ حس ایسی ہے جس کی طرف بہت کم لوگوں نے توجہ کی ہے بلکہ دنیا میں اس کا احساس پیدا ہی اِس قریب زمانہ میں ہوا ہے.پہلے صرف حواسِ خمسہ کہلاتے تھے.حالانکہ حواس پانچ نہیں بلکہ زیادہ ہیں.موجودہ تحقیقات کی رُو سے نو جتیں ہیں.ممکن ہے اور بھی ہوں مگر اس وقت تک نو ثابت ہو چکی ہیں.ان میں سے ایک جس موازنہ کی ہے یعنی جس کے ساتھ کسی کام یا کسی چیز کا دماغ میں وزن کیا جاتا ہے.

Page 538

خطبات محمود 538 $1944 اسی طرف قرآن کریم نے اشارہ فرمایا ہے کہ ہر چیز کے لیے ایک میزان مقرر ہے یعنی ہر کام کے مناسب حال ایک طاقت مقرر کی گئی ہے.اسی وجہ سے ہم دیکھتے ہیں کہ عام طور پر جن چیزوں کے اٹھانے یا جن چیزوں کے ہلانے کی عادت ہوتی ہے جب انسان اُن کو اٹھانے یا اُن کو ہلانے کی کوشش کرتا ہے تو اُس کو اُن کے اٹھانے یا ہلانے سے صدمہ نہیں پہنچتا کیونکہ اُس کو اُس چیز کا وزن معلوم ہوتا ہے.مگر جب کبھی وہ اس کا وزن معلوم کرنے میں غلطی کر جاتا ہے تو اُس کو اُس کے اٹھانے میں صدمہ پہنچتا ہے.مثلاً ایک شخص کو اندھیرے میں ایک چیز پڑی ہوئی نظر آتی ہے وہ سمجھتا ہے یہ لکڑی کی چیز ہے مگر ہے وہ لوہا.تو اس چیز کو اٹھاتے ہوئے اُس اٹھانے والے کو اسی قسم کا صدمہ پہنچے گا جس طرح بجلی کی تار کو ہاتھ لگانے سے صدمہ پہنچتا ہے.پھر بھی وہ چیز ہلے گی نہیں.بعد میں جب پتہ لگ جائے گا کہ وہ لوہا ہے تو دوسری دفعہ وہ ہے اُس کو اٹھانے میں کامیاب ہو جائے گا کیونکہ اب اُس کا دماغ اُس چیز کو اٹھانے کے لیے اتنی ہی طاقت بھیج دے گا جتنی طاقت کی کہ ضرورت تھی اس لیے دوسری دفعہ وہ اس کو اٹھالے گا.جب میں کوئی 19 ، 20 سال کا تھا پہلی مرتبہ ڈلہوزی آیا.پہاڑ تو پہلے بھی دیکھا ہوا تھا.اس سے پہلے شملہ کیا تھا مگر ڈلہوزی پہلی مرتبہ آیا تھا.فارگوسن عیسائیوں کا ایک بڑا مشہور ہیں پادری تھا.سیالکوٹ میں ہزار ہا لوگ اس کی محنت اور کوشش سے عیسائی ہوئے تھے.ج میں اس سے ملا ہوں اُس وقت اس کی عمر کوئی 75 سال کے قریب تھی.اس وقت وہ پونا 2 میں مقرر تھا اور تبدیلی آب و ہوا کے لیے یہاں آیا ہوا تھا.وہ روزانہ ڈلہوزی میں مختلف ف کے دو دو چار چار صفحات کے ٹریکٹ بانٹا کر تا تھا جس کی وجہ سے لوگوں میں ہیجان تھا.مسلمان یہ سب کچھ دیکھتے تھے مگر سمجھتے تھے کہ اُن میں جواب کی طاقت اور ہمت نہیں ہے.میں بچہ ہی تھا مگر احمدی تبلیغ کی دھاک مدتوں سے لوگوں کے دلوں پر بیٹھی ہوئی تھی.اس لیے بعض مسلمان میرے پاس آئے اور مجھے تحریک کی کہ آپ اس پادری سے بات کریں.میں نے آمادگی کا اظہار کیا.اُس وقت عیسائی لٹریچر کا مطالعہ تو مجھے نہیں تھا.وہی باتیں معلوم تھیں جو احمد یہ لٹریچر میں عیسائیوں کے متعلق پڑھی ہوئی تھیں.وہ 75 سال کا تجربہ کار اور اُس کے مقابلہ میں میں 20 سال کا ناتجربہ کار.مگر باوجود ناتجربہ کاری کے اتنا میں جانتا تھا کہ

Page 539

خطبات محمود 539 $1944 عیسائیوں کا یہ طریق ہے کہ وہ بات کرتے وقت بار ثبوت مسلمانوں پر ڈالنے کی کوشش کیا کرتے ہیں اور اپنے آپ کو ایک حملہ آور کی حیثیت سے پیش کیا کرتے ہیں.یہ بات میرے ذہن میں تھی اور جاتے جاتے میں سوچ رہا تھا کہ میر اتجربہ کم ہے اور علم بھی کم ہے.اس کے مقابل میں اس پادری کا تجربہ بھی زیادہ ہے اور علم بھی زیادہ ہے.اس کی ساری عمر بحث مباحثے کرنے میں گزر گئی ہے.وہ بات کو اس رنگ میں غلط کرنے کی ضرور کوشش کرے گا کہ اپنے آپ کو معترض اور حملہ آور کی حیثیت دے کر ہم پر اعتراض کرے.اس لیے میں نے سوچا کہ مناسب یہی ہے کہ میرا پہلو جارحانہ ہو اور اُس کا پہلو مدافعانہ.جب ہم وہاں پہنچے تو پادری صاحب کو کہلا بھیجا کہ ہم آپ سے بات کرنے کے لیے آئے ہیں.اس نے کہا آ جائیں.ہم اندر جاکر بیٹھ گئے.پادری صاحب نے پوچھا آپ کس طرح آئے ہیں؟ میں نے کہا ہم مذہبی تحقیق کے لیے آئے ہیں.کہنے لگا آپ کا مذہب کیا ہے ؟ میں نے کہا جب میں تحقیق کرنے کے لیے آیا ہوں تو یہ سوال پیدا ہی نہیں ہوتا کہ میر امذ ہب کیا ہے.تحقیق کے بعد جو مذہب سچا معلوم ہو گا اُسے مانوں گا.اگر ثابت ہو گیا کہ اسلام ہی سچا مذہب ہے تو میں کہوں گا جو مذہب سچا ہے میں اُس پر قائم ہوں اور اگر ثابت ہو گیا کہ عیسائیت کی ہے تو اس کے بعد یہ کی سوال ہی نہیں رہے گا کہ تحقیق سے پہلے میرا کیا مذہب تھا.پس میری حیثیت تو ایک تحقیق کرنے والے کی ہے.اس لیے میں مطالعہ کے بعد ہی اس کا جواب دے سکوں گا کہ میرا کیا مذہب ہے.میں آپ کے پاس تو تحقیق کے لیے آیا ہوں آپ مجھے عیسائیت کی بات بتائیں.آپ روزانہ ٹریکٹ تقسیم کرتے ہیں کہ عیسائیت کی ہے اور باقی مذاہب درست نہیں ہیں، آپ بتائیں میں کیونکر مانوں کہ آپ کی بات درست ہے.اس نے جواب دیا عیسائیت کو سچا ماننے کی وجہ یہ ہے کہ خداوند کی ہستی کا جو ثبوت اور خداوند کی جو حقیقت عیسائیت میں بیان کی ہے گئی ہے وہ اور کسی مذہب میں نہیں پائی جاتی اور چونکہ خداوند خدا کی ذات پر ایمان لانے کے بغیر نجات حاصل نہیں ہو سکتی اس لیے عیسائیت دوسرے مذاہب کے مقابلہ میں سچی ہے.میں نے کہا آپ کے نزدیک خدا تعالیٰ کی تعریف کیا ہے ؟ جو تعریف آپ بیان کریں گے اُسی کے مطابق ہم آپ سے بات کریں گے.میں نے سنا ہے کہ عیسائی باپ کو بھی خدا مانتے ہیں.

Page 540

$1944 540 خطبات محمود آپ بتائیں یہ تینوں ایک ہی خدا کی الگ الگ حیثیتیں ہیں یا تینوں حقیقتا خدا ہیں ؟ اس نے کہا یہ حیثیتیں نہیں بلکہ حقیقتا تینوں خدا ہیں.اُس وقت میں یہ بات سمجھتا تھا کہ اگر صفات کے متعلق پہلے سے ہی بات صاف نہ کر لی گئی تو یہ دلیل میں پھنس کر اپنے بچاؤ کے لیے صفات کی طرف آجائے گا اور کہہ دے گا کہ تینوں اقنوم ایک خدا کی صفات ہیں الگ ہستیاں نہیں اس لیے میں نے اس سے منوالیا کہ یہ صفات نہیں بلکہ حقیقت تینوں خدا ہیں.پھر میں نے پوچھا یہ تینوں میں مل کر ایک خدا بنتا ہے یا تینوں اپنی اپنی ذات میں خدا ہیں ؟ کہنے لگا چونکہ تینوں ایک ہی مقصد کے لیے ہیں اس لیے ایک ہی ہیں اور چونکہ تینوں اپنی اپنی ذات میں مکمل ہیں.اس لیے تین ہیں.پھر میں نے سوال کیا یہ بتائیے اگر تینوں اپنی اپنی ذات میں مکمل ہیں تو یہ جو دنیا نظر ان آ رہی ہے کیا اس کو پیدا کرنے کی اکیلے باپ میں طاقت تھی؟ کیا اکیلے بیٹے میں اس دنیا کو پیدا کرنے کی طاقت تھی؟ کیا اکیلے روح القدس میں اس دنیا کو پیدا کرنے کی طاقت تھی؟ کہنے ہے لگا ہاں.اس کے بعد میں نے کہا اب میں آپ سے ایک سوال کرنا چاہتا ہوں کہ فرض کرو آپ کو نوٹ کرنے کے لیے اس پنسل کی ضرورت ہے جو آپ کے سامنے میز پر پڑی ہے.اس کو اٹھانے کا ایک طریق تو یہ ہے کہ آپ اُٹھیں اور خود ہی اس پنسل کو اٹھا لیں.دوسرا طریق یہ ہے ہے کہ وہ صاحب جو سامنے بیٹھے ہیں یہ آپ ان سے کہیں کہ مہربانی کر کے یہ چنسل اٹھادیں.یہ دونوں طریق تو سمجھ میں آجاتے ہیں لیکن اگر آپ اس کی بجائے یہ طریق اختیار کریں کہ آپ ہے کھڑے ہو جائیں اور اپنے پاس والے کو بھی کہیں کہ مہربانی کر کے ذرا میری مدد کریں اور ارد گرد بیٹھنے والوں کو بھی بلا لیں اور اپنے بیرے اور خانسامہ کو بھی آوازیں دینا شروع کر دیں کہ ذرا ادھر آنا اور پھر سب مل کر اس ایک پنسل کو اٹھانے کی کوشش کریں تو اب بتائیں یہ پاگل پن کی بات ہوگی یا عقلمندی کی ؟ کہنے لگا اس کا ہماری بات سے کیا تعلق ہے ؟ میں نے یے کیا تعلق ہے یا نہیں.اس کو آپ رہنے دیں.پہلے جو میں پوچھتا ہوں آپ اُس کا جواب دیں.کہنے لگا یہ تو یقینا پاگل پن کی بات ہوگی کہ ایک پنسل کو اٹھانے کے لیے میں اتنے آدمیوں کو اکٹھا کروں اور اپنی مدد کے لیے بلانا شروع کر دوں.میں نے کہا اب آپ فرمائیے کہ آپ میں وقت میاں شریف احمد صاحب سامنے بیٹھے تھے.

Page 541

$1944 541 محمود ابھی تسلیم کر چکے ہیں کہ اکیلے باپ میں اس دنیا کو پیدا کرنے کی طاقت تھی.اکیلے بیٹے میں بھی اس دنیا کو پیدا کرنے کی طاقت تھی.اکیلے روح القدس میں اس دنیا کو پیدا کرنے کی طاقت تھی.اگر یہ بات درست ہے تو آپ کو یا تو یہ مانا پڑے گا کہ صرف ایک خدا نے یہ سب کام کیا ہے اور باقی دو خدا نکے بیٹھے ہیں.اور یا یہ کہنا پڑے گا کہ خدا باپ یا خدا روح القدس یا خدا بیٹا اکیلا یہ کام کر سکتا تھا مگر باوجود اس کے کہ ان میں سے ہر ایک اکیلا یہ کام پوری طرح کر سکتا تھا پھر بھی تینوں خدا مل کر اس کام کے کرنے کے لیے لگے ہوئے ہیں.آسمان اور زمین کو خدا باپ بھی بنا سکتا تھا، خدا بیٹا بھی بنا سکتا تھا، خدا روح القدس بھی بنا سکتا تھا مگر سارے کے سارے مل کر اس کام کو کرنے میں لگے ہوئے ہیں جس کو اکیلا خدا بھی کر سکتا تھا.آپ انسانوں کے متعلق تو یہ کہتے ہیں کہ اس پنسل کو اگر سارے مل کر اٹھا میں تو یہ پاگل پن کی بات ہے اور خدا کے لیے ہے تو زمین و آسمان کا پیدا کرنا اور اس سلسلہ کو چلانا اس سے بھی زیادہ آسان ہے جتنا کہ آپ کے لیے پنسل اٹھانا آسان ہے.پھر جب ہماری طاقت کی نسبت کے لحاظ سے جو کام ہمارے لیے آسان ہے اگر ہم اس کو ایک سے زیادہ آدمی مل کر کریں تو یہ پاگل پن ہے.تو وہ ہستیاں جن کے لیے زمین و آسمان کا پیدا کرنا ہمارے پنسل اٹھانے سے بھی زیادہ سہل ہے.وہ اگر اس کام ہے کو ایک سے زیادہ مل کر کریں تو کیا یہ ہمارے مذکورہ بالا فعل سے بھی زیادہ پاگل پن کی بات نہ ہو گی ؟ پادری حیران سا ہو گیا اور کہنے لگا آسمانی باتوں میں عقلی دلیل نہیں چلا کرتی.غرض یہ ایک حقیقت ہے کہ انسان کسی کام کے مطابق اپنی طاقت خرچ کرتا ہے.حضرت خلیفہ اول ایک شخص کے متعلق فرمایا کرتے تھے کہ مجھے امید نہیں اس کا ایمان محفوظ رہے اور اس کی موجودہ حالت قائم رہے.یہ ضرور ٹھو کر کھائے گا.اب تو پتہ نہیں وہ شخص مر گیا ہے پیاز ندہ ہے اس کی کافی زمین تھی اور اچھی خاصی آمدنی تھی.قریبا خود و شور و پیہ ماہوار آمدنی میں تھی.ایک زمیندار کے لیے یہ بڑی چیز ہے.حضرت خلیفہ اول فرمانے لگے جب سے اس کی حالت درست ہوئی ہے اس کا یہ حال ہو گیا ہے کہ کسی کام کو ہاتھ نہیں لگاتا.دوسروں پر ہی سارا من انحصار رکھتا ہے.فرمایا میں نے ایک دفعہ اس سے پو چھا جب تم باہر سفر پر جاؤ لی تو ضرور کرتے ہو؟ گے.کہنے لگا ہاں مولوی صاحب اس کے بغیر عزت قائم نہیں رہتی.میں اپنا سامان قلی سے ولى

Page 542

خطبات محمود 542 $1944 اٹھواتا ہوں بلکہ اگر سامان ساتھ نہ ہو تو قلی کو اپنا رومال دے دیتا ہوں کہ اس کو اٹھا کر میرے ساتھ چلو.نتیجہ یہ ہوا کہ اس کی جائیداد بک گئی، آمدنی جاتی رہی اور بالکل کنگال ہو جانے کے بعد آخر عیسائی ہو گیا.معلوم نہیں اب وہ شخص زندہ ہے یا نہیں.دو تین سال ہوئے زندہ تھا.پس موازنہ کی حس ایک اہم چیز ہے.بڑے کام کے لیے چھوٹی طاقت خرچ کرنا یہ بھی پاگل پن کی علامت ہے اور چھوٹے کام کے لیے بڑی طاقت خرچ کرنا یہ بھی پاگل پن کی یہ علامت ہے.پنسل کو اگر دو تین آدمی مل کر اٹھائیں جیسے کھمبا اٹھایا جاتا ہے تو یہ بھی پاگل پن کی علامت ہے.اسی طرح اگر پہاڑ کی چوٹی کو ایک آدمی ہلا رہا ہو کہ اس کے ہلانے سے وہ پہاڑ گر جائے گا تو اس کو بھی پاگل کہیں گے.جب ایک کام میں اور اس کام کے کرنے والے انسان ہے کی طاقت میں زیادہ فرق نہ ہو تو ہم اسے غلطی خوردہ کہیں گے.اور اگر اس کام میں اور کرنے والے کی طاقت میں نمایاں فرق ہو جسے وہ کر ہی نہیں سکتا تو ہم اسے پاگل کہیں گے.مثلاً اگر کوئی شخص کسی چیز کے متعلق اندازہ لگاتا ہے کہ 20 ، 25 سیر وزنی چیز ہے جسے وہ اٹھا سکتا ہے ؟ مگر ہو وہ من دو من کی تو ہم اسے غلطی خوردہ کہیں گے کہ اس کو اس چیز کا اندازہ لگانے میں غلطی لگی ہے.مگر جب بہت بڑی چیز ہو اور اس کا اندازہ بھی بڑا ہو جسے ایک آدمی اٹھا سکتا ہی ہے نہیں مگر وہ اکیلا اٹھانا چاہتا ہو تو اسے پاگل کہیں گے.اسی طرح ایک چیز کے متعلق ایک شخص سمجھتا ہے کہ من دو من کی ہے اور اُس کو اٹھانے کے لیے دوسرے آدمیوں کو ساتھ ملا لیتا ہے مگر ہو وہ 20 ، 25 سیر کی تو ہم اسے غلطی خوردہ سمجھیں گے کہ اس کو اندازہ لگانے میں غلطی لگی ہے.دراصل یہ چیز اتنی نہیں تھی جتنی یہ سمجھ رہا تھا.لیکن اگر وہ اتنی چھوٹی چیز ہو کہ اُسے ایک آدمی آسانی سے اٹھا سکتا ہے جیسے میں نے پنسل کی مثال دی ہے مگر وہ دوسروں کو ساتھ ملا کر اٹھانا چاہتا ہو تو یہ پاگل پن کہلائے گا.اس بات کو مد نظر رکھتے ہوئے ہماری جماعت کو دیکھنا چاہیے کہ کس قسم کی طاقت استعمال کرنے والا کام اس کے سپر د کیا گیا ہے.ہمارے سامنے جو کام ہے وہ اتنی بڑی طاقت کا استعمال چاہتا ہے کہ معمولی طاقت ہر گز اس کام کے کرنے پر قادر نہیں ہو سکتی.بلکہ یہ کام اتنی طاقت اور اتنی قربانی چاہتا ہے کہ اس قسم کے کام کی مثال دنیا میں نہیں ملتی یا کم سے کم می

Page 543

خطبات محمود 543 $1944 اس سے زیادہ قربانی اور اس سے زیادہ طاقت کے محتاج کام کی مثال دنیا میں نہیں ملتی.اللہ تعالیٰ نے ایسے مذہب کا قیام اور ایسی قوم کو زندہ کرنے کا کام ہمارے سپر د کیا ہے جو ہر جگہ ذلیل اور کمزور ہے.آج دنیا میں مسلمانوں کی اتنی بھی پوزیشن نہیں کہ دنیا کی حکومتیں آئندہ نظام کے متعلق کوئی فیصلہ کرتے وقت ان سے مشورہ بھی لیں.بلکہ مسلمانوں کو بالکل نظر انداز کر دیا جاتا ہے.آج انگلستان، امریکہ ، روس اور چین یہ چار طاقتیں ہیں جو آئندہ نظام کے متعلق فیصلے کرتی ہیں مگر مسلمانوں کا ان فیصلوں میں کوئی ذکر نہیں ہوتا.وہ قوم جس کی آج سے چھ سات سوسال پہلے یہ حالت تھی کہ دنیا میں اس کا مقابلہ کرنے والا کوئی نہ تھا، وہ قوم جو یورپ کے مغربی کنارہ سے لے کر ایشیا کے مشرقی کنارے تک حکومت کرتی تھی آج اس کی یہ حالت ہے ہے کہ دنیا کی بڑی بڑی طاقتیں آئندہ نظام کے متعلق کوئی فیصلہ کرتے وقت اتنا بھی نہیں کرتیں کہ اس سے بھی رائے پوچھ لیں.گویا اس کی رائے کی کوئی قدر و قیمت ہی نہیں.جنگ سے پہلے تو بعض مسلمان حکومتوں کو محض تمسخر کے طور پر مشوروں میں بلا بھی لیا جاتا تھا یا بعض دفعہ مصلینا کوئی بات پوچھ لی جاتی تھی.مگر دوسری جنگ عظیم کے خاتمہ کے موقع پر تو اس طرح ہے بھی نہیں پوچھا جاتا.بلکہ اب صرف اتنا کہا جاتا ہے کہ آئندہ نظام میں ہم تمہاری پرورش کا خیال رکھیں گے.گویا مشورہ یارائے نہیں لی جاتی صرف پرورش کا وعدہ کیا جاتا ہے.پہلے مصلحنا میں مشورہ لیا جاتا تھا مگر اب وہ بھی نہیں.جو قوم اس حالت میں سے گزر رہی ہے ہمارا دعوی ہے کہ ہم اس کو طاقتور بنا دیں گے.یہ کتنا عظیم الشان کام ہے.یہ الفاظ کہنے والے اگر امریکن یا تی روی ہوں تو بھی یہ کام بہت بڑا ہے.مگر کرنے والے بھی چونکہ طاقتور ہوں گے اس لیے ہم نے اس کو پاگل پن نہیں کہیں گے.لیکن اس کے مقابل میں ہماری یہ حیثیت دنیا میں کسی ایک جگہ ہے بھی نہیں.ایشیا میں بھی نہیں، ہندوستان میں بھی نہیں، پنجاب میں بھی نہیں.سارے پنجاب می میں احمدیوں کی آبادی دو تین لاکھ ہے اور سارے ہندوستان میں چار لاکھ اور باہر کی ملا کر پانچ چھ لاکھ احمدیوں کی کل تعداد ہے.یہ اتنی تھوری تعداد ہے جس کی خود اپنے ملک میں بھی کوئی اہمیت نہیں.ہمارے صوبہ کی گورنمنٹ احمدیوں کے مفاد، احمدیوں کی دلداری اور

Page 544

خطبات محمود 544 $1944 احمدیوں کی دلد ہی 3 کی پروا نہیں کرتی.کیونکہ ہماری تعداد اتنی تھوڑی ہے کہ دوسروں کو ناراض کر کے وہ احمدیوں کے مفاد کا خیال رکھنے اور ان کی دلداری کرنے کے لیے تیار نہیں.1917ء کا واقعہ ہے میں نے شملہ یادہلی میں چودھری سر ظفر اللہ خان صاحب کو کمانڈر انچیف کے پاس ایک کیس کے سلسلہ میں بھیجا.کیس یہ تھا کہ ایک احمدی پر فوج میں سختی کی گئی اور پھر باوجود یہ تسلیم کر لینے کے کہ قصور اُس کا نہیں، فوج سے بلا وجہ نکال دیا گیا تھا.اس کیس کے متعلق بات کرنے کے لیے میں نے چودھری صاحب کو کمانڈر انچیف کے پاس بھیجا.چودھری صاحب نے اس سے جا کر کہا کہ دیکھیے کتنے ظلم کی بات ہے کہ جس شخص ہے کے متعلق یہ تسلیم کیا جاتا ہے کہ وہ حق پر ہے اور مظلوم ہے اُس کو بلاوجہ فوج سے نکال دیا گیا ہے.حالانکہ ہماری جماعت ایسی ہے جو ملک کی خدمت کے لیے کام کرتی ہے روپیہ کی غرض سے نہیں.کمانڈر انچیف ساری بات سننے کے بعد کہنے لگا کہ میں تسلیم کرتا ہوں کہ آپ کی جماعت ملک کی خدمت کی خاطر فوج میں کام کرتی ہے اور میں جانتا ہوں کہ اس جماعت کے لیے اندر حب الوطنی کا جذبہ پایا جاتا ہے اور اسی جذبہ کے ماتحت یہ جماعت کام کرتی ہے روپیہ کی یہ خاطر کام نہیں کرتی.تنخواہ تو ہمارے انگریز بھی لیتے ہیں مگر وہ تنخواہ کی خاطر کام نہیں کرتے ہے بلکہ ملک اور قوم کی خاطر کام کرتے ہیں.اسی طرح آپ کی جماعت بھی روپیہ کی خاطر کام نہیں ہے کرتی بلکہ اس کے اندر یہ احساس پایا جاتا ہے کہ وہ ملک کی خدمت کرے.اور میں اس بات کو ی بھی سمجھتا ہوں کہ دوسروں پر اتنا اعتماد نہیں کیا جا سکتا جتنا کہ آپ کی جماعت پر ہمیں اعتماد ہے لیکن ایک بات میں آپ کے سامنے رکھتا ہوں آپ اس کا جواب دیں.اور وہ بات یہ ہے کہ یہ ہندوستان کی حفاظت کے لیے اس وقت اڑھائی تین لاکھ فوج کی ضرورت ہے.اگر ہم آپ کے ایک آدمی کی خاطر اور اس کے حق بجانب ہونے کی بناء پر دوسروں کو خفا کر لیں اور وہ ہے ناراض ہو کر کہہ دیں کہ ہم فوج میں کام نہیں کرتے ہمیں فارغ کر دیں تو کیا آپ کی جماعت اڑھائی تین لاکھ فوج ملک کی حفاظت کے لیے مہیا کر کے دے سکتی ہے ؟ اگر یہ ممکن ہے تو پھر آپ کی بات پر غور کیا جاسکتا ہے.اور اگر یہ بات آپ کے نزدیک بھی نا ممکن ہے تو بتائیے ہم تم آپ کی جماعت کی دلداری کی خاطر سارے ہندوستان کی حفاظت کو کس طرح نظر انداز می

Page 545

خطبات محمود 545 $1944 کر سکتے ہیں.جب چودھری صاحب نے کمانڈر انچیف کی یہ بات میرے پاس آکر بیان کی تو میں نے کہا اُس نے ٹھیک کہا ہے اور اُس کی یہ بات بالکل معقول ہے کیونکہ جب بہر حال حکومت نے ملک کی حفاظت کرنی ہے تو پھر ہمارا یہ مطالبہ کرنا کہ ہماری اتنی دلداری کرو کہ اگر چہ دوسرے خفا ہو کر چلے جائیں پھر بھی تم ہمارا خیال رکھو یہ فضول مطالبہ ہے.پس ہماری یہ حالت ہے کہ ہمارے اپنے ملک میں بھی ہماری بات کو کوئی وقعت نہیں دی جاتی.حکومت جو تمام رعایا سے یکساں سلوک کا دعوی کرتی ہے وہ بھی بعض دفعہ افسروں کی مخالفت کی وجہ سے اور بسا اوقات اِس وجہ سے ہمارا ساتھ دینے سے انکار کر دیتی ہے کہ ہمارا ساتھ دینا حکومت کے لیے ضعف کا موجب ہو گا اور وہ نہیں چاہتی کہ جماعت کی بات کو مان کر ملک کی اکثریت کو ناراض کرے.پس جو ایسی کمزور قوم ہو اور اتنے بڑے کام کے لیے کھڑی ہو کہ اگر امریکہ اور روس جیسی طاقتوں کے سپر د وہ کام کیا جاتا تب بھی وہ کام ان کی طاقت سے بالا نظر آتا.گو وہ پاگل پن نہ کہلاتا کیونکہ اُن کے پاس دنیا کی طاقت ہے تو اس قوم کو دنیا پاگل ہے نہ کہے تو اور کیا کہے.پس اسی وجہ سے لوگ ہمیں پاگل کہتے ہیں.ہمیں کوئی شک نہیں کہ ایک ہے گر وہ مخالفوں کا ہمیں منتقلی، بدعتی اور فتنہ پرداز کہتا ہے.مگر ایک گروہ جو تعلیم یافتہ ہے وہ ہمیں پاگل ہی سمجھتا ہے کہ اتنے بڑے کام کا دعوی کرتے ہیں جو ان کی طاقت بالکل باہر ہے.ނ پس ایسے حالات میں اس مقصد کے حصول کے لیے کہ جس کے لیے ہم کھڑے ہوئے ہیں جدوجہد پاگلوں جیسی ہی چاہیے.کم از کم ہمیں دنیا پر یہ تو ثابت کر دینا چاہیے کہ اگر تم ہمیں پاگل کہتے ہو تو ہم اس کام کے لیے پاگلوں والا زور لگانے کے لیے بھی تیار ہیں.اگر لوگ ہمارا نام پاگل رکھتے ہیں تو ہمیں اپنی ہر ایک بات اور ہر ایک کام میں ثابت کر دینا چاہیے کہ یہ چلو پاگل تو پاگل ہی سہی.لیکن دنیا ہمیں پاگل کہے اور ہمارا عمل عقلمندوں والا ہو اور ہم اتنی جد و جہد نہ کریں جتنی کہ ہمارے لیے ضروری ہے.خواہ وہ جد وجہد کام کے مطابق نہ ہو تو یہ ایک نہایت بے اصول بات ہو گی.آدھا تیتر اور آدھا بٹیر کبھی کامیابی حاصل نہیں کر سکتا.اگر کوئی دعوای تو ایسے کام کا کرے جو اُس کی طاقت سے بہت بالا ہو ، اتنا بلند کہ اس دعوی کی بناء

Page 546

$1944 546 خطبات محمود پر اُسے پاگل کہا جائے مگر عمل ایسا کرے جو اپنی ہڈی پسلی کو بچانے والا ہو تو وہ شخص في الواقع پاگل ہے جو اپنی ہڈی پسلی کو بچا کر رکھنے کی خواہش رکھتا ہو.اُسے ایسے ہی کاموں پر ہاتھ ڈالنا چاہیے جو ناممکن نہ ہوں.مگر جو ایسے کام پر ہاتھ ڈالتا ہے اور ایسے کام کا دعوی کرتا ہے جس کا ہے دعوی اُس کے مخصوص حالات میں جنون ہی کہلا سکتا ہو تو پھر اُس کو پاگلوں کی طرح عمل بھی کرنا چاہیے.مجھے یاد ہے حضرت خلیفہ اول کے زمانہ میں ایک عورت جو استانی تھی پاگل ہو گئی.درمیان میں کبھی کبھی اس کی حالت درست بھی ہو جایا کرتی تھی.ایک دفعہ عورتوں میں درس ہے ہو رہا تھا.وہ بھی درس میں شامل تھی.ہمارے گھر میں ہی درس ہوا کرتا تھا.یکدم اُس عورت کو جنون کا دورہ ہوا اور وہ کھڑکی میں سے گود کر نیچے گرنے لگی.حضرت خلیفہ اول نے اٹھ کر اُسے پکڑ لیا.یہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی وفات کے دو چار ماہ کے بعد کا واقعہ ہے.ابھی حضرت خلیفہ اول گھوڑے سے نہیں گرے تھے اور آپ میں اتنی طاقت تھی کہ ہے بعض دفعہ اپنا ہاتھ بڑھا کر فرمایا کرتے تھے کہ کوئی اسے ٹیڑھا کر کے دکھا دے.آپ نے اُٹھ کر اُس عورت کو پکڑ لیا لیکن باوجود سارا زور لگانے کے وہ ڈیلی پتلی عورت آپ کے ہاتھوں سے ہے نکلی جاتی تھی.اس پر آپ نے عورتوں کو آواز دی کہ یہ تو کرنے لگی ہے میری مدد کے لیے ہے آؤ.پھر پانچ سات عورتوں نے آپ کے ساتھ مل کر اسے باندھا.حالانکہ عقل اور ہوش کے ن زمانہ میں اس عورت کو 18،17 سال کا بچہ بھی پکڑ سکتا تھا.پس مجنون انسان اپنی انتہائی طاقت استعمال کر دیتا ہے.مگر دانشمند اس حد تک استعمال نہیں کر سکتا کیونکہ وہ سمجھتا ہے کہ خاص حد سے زیادہ اُس نے اپنی طاقتوں کا استعمال کیا تو اُسے نقصان پہنچے گا.لیکن پاگل کا دماغ اُسے حد سے زیادہ طاقت خرچ کرنے سے نہیں روکتا.کیونکہ وہ انجام کی پروا نہیں کرتا.یہی وجہ ہے کہ پاگلوں میں بہت زیادہ طاقت آجاتی ہے.ایک پاگل کو آٹھ آٹھ دس دس آدمی مل کر پکڑتے ہیں تب وہ قابو میں رہتا ہے.اور وہی آدمی اگر عقلمند ہو اور اُس کے ہوش و حواس قائم ہوں تو اُس کو پکڑنے کے لیے ایک آدمی ہی کافی ہوتا ہے.پس پاگل دو ہی وجہ سے پاگل کہلا تا ہے.ایک تو اس وجہ سے کہ ایسے کام کا دعوی کرے جو عقل سے بالا ہو.دوسرے اِس وجہ سے کہ

Page 547

خطبات محمود 547 $1944 اِس قدر جوش کام میں دکھائے جو عقل کے خلاف ہو.ہم میں پاگلوں والی ایک وجہ تو پائی جاتی ہے مگر دوسری نہیں پائی جاتی.ہم دعوی تو ایسا کرتے ہیں جو دنیا والوں کی عقل سے بالا ہے اور اس قسم کا دعوای عقلمند نہیں کر سکتا.مگر اس کے مقابلہ میں اتنی طاقت خرچ نہیں کرتے اور اتنا زور نہیں لگاتے جو پاگل لگایا کرتے ہیں.پس ہمیں در حقیقت اسی چیز کی ضرورت ہے اور اگر ہم یہ کر لیں تو خدا تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ باقی کمی ہم اپنی طرف سے پوری کر دیں گے.مجھے کشمیر کا ایک نظارہ یاد ہے.کشمیر میں ایک جھیل ڈل ہے جو قریب دو میل لمبی اور میل بھر چوڑی ہے.اس میں کشمیری لوگ کیلیاں لے کر ان پر مٹی ڈال دیتے ہیں اور اُن پر سبزیاں بوتے ہیں جن کو جھیل کے پانی کی نمی پہنچتی رہتی ہے اور اوپر سے پانی دینے کی ضرورت نہیں ہوتی.سرینگر کو یہیں سے سبزیاں جاتی ہیں.صبح کے وقت کشتیاں بھر کے لے جاتے ہیں.ہم ڈل کی سیر کے لیے گئے.ڈل میں ایک سوراخ کر کے اُسے اُس نہر سے ملا دیا گیا ہے جو دریائے جہلم میں سے نکلتی ہے اور سرینگر کے گرد چکر لگاتی ہے.وہاں ہم کھڑے تھے کہ اتنے میں سبزیوں والی ایک کشتی شہر کی طرف سے آئی جو سبزیاں بیچ کر واپس آ رہی تھی.بعض دفعہ جب دریائے جہلم میں طغیانی ہو تو شہر میں زیادہ پانی چھوڑ دیتے ہیں جس کی وجہ سے ہے نہر کا پانی ڈل کے پانی سے اونچا ہو جاتا ہے.ایسے موقع پر ڈل سے نہر کی طرف کشتی مشکل سے لے جائی جا سکتی ہے.اس کے برخلاف بھی ایسا ہوتا ہے کہ نہر کا پانی کم ہو جانے پر نیچا ہو جاتا ہے اور ڈل کا پانی اونچا ہو جاتا ہے.اُس وقت نہر کی طرف سے ڈل کی طرف کشتی لے جانی مشکل ہو جاتی ہے.اس وقت ہی حالت تھی یعنی ڈل کا پانی اونچا تھا اور نہر کا پانی نیچا تھا.اس وجہ سے ڈل کی طرف کشتی لے جانا بہت مشکل تھا.کشتی والوں نے زور لگا یا مگر کشتی ڈل میں چڑھ نہ سکی.کشمیری لوگ زیادہ تر دو چیزوں کو مانتے ہیں.ایک مقامی پیر ہیں یعنی شاہ زین الدین صاحب اور دوسرے سید عبد القادر صاحب جیلانی رحمۃ اللہ علیہ.تیسرے وہ ضرورت کے موقع پر کبھی کبھی خدا کو بھی یاد کر لیتے ہیں.مجھے اب یاد نہیں کہ وہ شاہ زین الدین صاحب کا ہے کیا نام لے کر نعرہ لگاتے ہیں مگر سید عبد القادر جیلانی رحمتہ اللہ علیہ کا " یا پیر دستگیر " کہہ کر نعرہ لگاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کا ذکر لا يلة يلا اللہ کہہ کر کرتے ہیں.چونکہ وہ ہمزہ ادا نہیں کر سکتے ہے

Page 548

خطبات محمود 548 $1944 اس لیے ہمزہ کی جگہ "ی" بولتے ہیں اور لا يله يلا اللہ کہتے ہیں.اُس کشتی والوں نے جب زور لگایا اور پھر بھی کشتی نکالنے میں کامیاب نہ ہوئے.کیونکہ نہر نیچی اور ڈل اونچا تھا تو انہوں نے سمجھ لیا کہ معمولی طریقوں سے کام نہیں بنے گا.تب اُنہوں نے شاہ زین الدین صاحب کو پکارنا شروع کیا اور ان کا نعرہ لگا کر زور لگانا شروع کیا.کشتی میں جو آدمی بیٹھے تھے اس نعرہ کے ساتھ ہی اُن میں سے دو تین چھلانگ لگا کر باہر آگئے اور انہوں نے رسوں سے پکڑ کر کشتی کو بھینچنا شروع کیا مگر ڈل اور نہر کے پانی کا فرق چونکہ زیادہ تھا اس لیے باوجود اس قدر کوشش ہے کے بھی وہ کامیاب نہ ہو سکے.جب اس طرح بھی کام نہ بنا تو پھر جتنے مرد کشتی میں بیٹھے تھے ؟ سارے کود کر باہر آگئے اور انہوں نے لا يله يلا الله ، لا يله يلا الله کہہ کر بے تحاشا زور لگانا شروع کیا مگر پھر بھی کشتی اوپر نہ چڑھ سکی.جب انہوں نے پیر دستگیر کو پکارنا شروع کیا تھی اور یا پیر دستگیر کا نعرہ لگانا شروع کیا اور اس موقع پر بچوں اور عورتوں نے بھی کشتی میں سے گود میں کر اس طرح زور لگانا شروع کیا کہ کشتی کو نکال کر لے گئے.میں نے کہا ان کے دل میں جس ہستی کی سب سے زیادہ عزت تھی اُس کی خاطر انہوں نے اپنی ساری طاقت صرف کر دی.زین الدین کی عزت کم تھی اس کے لیے تھوڑے آدمیوں نے زور لگایا.اللہ تعالیٰ کی عزت اس سے زیادہ تھی اس کے لیے سارے مرد نیچے اتر آئے اور انہوں نے اپنی طاقت صرف کی.پیر دستگیر کی عزت سب سے زیادہ تھی اس کے لیے بچے اور عور تیں بھی کود پڑے اور اُن سب نے مل کر اپنی ساری طاقت خرچ کر دی اور کشتی کو کھینچ کر لے گئے.یہ نظارہ دیکھ کر میں نے کہا کہ چاہے ہم ان کو مشرک اور پیر پرست کہیں مگر جس وجود کی سب سے زیادہ عزت ان کے دل میں تھی اُس کے نام پر انہوں نے کام کر کے دکھا دیا.اب تم غور کرو کہ اگر ایک مومن اور موقد خدا کا نام لے کر ایک کام کرے اور پھر اپنا سارا زور نہ لگائے تو یہ کتنے شرم کی بات ہو گی.اگر دستگیر کی عزت اور محبت اپنے دل میں رکھنے والے دستگیر کا نعرہ لگا کر اپنی تمام طاقت صرف کر دیں اور ان کے بچے اور ان کی عورتیں ہے بھی اپنا سارا زور لگا دیں تو ایک مومن اور موحد کہلا کر اور یہ اعلان کر کے کہ خدا تعالیٰ نے مجھے یہ کام کرنے کے لیے کہا ہے پھر اگر ہم خدا تعالیٰ کے نام پر اپنا سارا زور نہ لگائیں اور مرد اور ہے

Page 549

$1944 549 خطبات محمود عور تیں اور بچے سب مل کر اپنی طاقت صرف نہ کریں تو کیا یہ نہایت بے ایمانی کی بات ہوگی یا نہیں؟ ہماری جماعت کو خدا تعالیٰ نے کہا ہے کہ اسلام کی عزت قائم کرنا تمہارا کام ہے، خدا تعالیٰ نے کہا ہے کہ قرآن مجید کی عزت قائم کرنا تمہارا کام ہے، خدا تعالیٰ نے کہا ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عزت قائم کرنا تمہارا کام ہے.یہ اتنا عظیم الشان کام ہے کہ اس کے لیے ہماری محنتیں اور ہماری کوششیں پاگل نہ ہونی چاہئیں.اگر ہم اپنی طرف.ނ اپنی تمام طاقت صرف کر دیں گے تو باقی کمی خدا تعالیٰ اپنے فضل سے پوری کر دے گا.پس میں جماعت کو توجہ دلاتا ہوں کہ اس کام کی اہمیت کو مد نظر رکھتے ہوئے کوشش کریں.ہمیں اپنی ساری باتوں کو بھول کر اسلام اور قرآن مجید کی حکومت کے قیام کے لیے اپنی ساری طاقت صرف کر دینی چاہیے.اور ایسا زور لگانا چاہیے کہ دنیا صرف ہمارے دعوی کی وجہ سے ہمیں پاگل نہ کہے بلکہ کام کی وجہ سے بھی پاگل کہے.ہماری کامیابی میں اتنی ہی دیر ہے ہے کہ جس طرح لوگ ہمارے دعوی کی وجہ سے ہمیں پاگل کہتے ہیں اسی طرح ہمارے کام کی وجہ ہے سے بھی ہمیں پاگل کہنے لگیں.اگر ایسا ہو جائے اور ہم پاگلوں کی طرح اشاعت و قوتِ اسلام کے لیے کام کرنے لگیں تو ہماری کامیابی میں کوئی شک نہیں رہ جائے گا.کیونکہ خدا تعالیٰ اور اُس کے فرشتے اس وقت کے انتظار میں کھڑے ہیں.جب وہ وقت آگیا تو وہ ہماری مدد کے لیے کود پڑیں گے اور جب وہ ہمارے ساتھ مل گئے تو اسلام کی کشتی کا پار لگانا ایک مجنونانہ دعوی ( الفضل 5 اکتوبر 1944ء) نہیں بلکہ ایک سہل ترین کام ہو جائے گا".1 : وَوَضَعَ الْمِيزَانَ ( الرحمان:8) 2 : یونا: ہندوستان کے صوبہ مہاراشٹر کا ایک شہر 3 :ولدہی: تسلی.تشقی.

Page 550

$1944 550 (34) خطبات محمود جنگ کے بعد دنیا پھر ایک ظلم کا بیج بونے والی ہے (فرموده 29 ستمبر 1944ء بمقام ڈلہوزی) تشہد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: " پچھلے جمعہ میں میں نے اس مضمون پر خطبہ بیان کیا تھا کہ ہر کام کے لیے ایک مناسب حال طاقت اور قوت کی ضرورت ہوتی ہے اور جب تک اس کے مناسب حال طاقت اور قوت استعمال نہ کی جائے اُس وقت تک اُس کام میں کامیابی بالکل محال اور نا ممکن ہوتی ہے.اور یہ کہ اگر کسی قوم کو خدا تعالیٰ کی طرف سے یہ وعدہ دیا جائے کہ باوجو د غیر معمولی حالت کے جن میں عام طور پر کسی شخص کا اپنی کامیابی کے متعلق دعوی کرنا جنون سمجھا جاتا ہے، اس قوم کو کامیابی حاصل ہو جائے گی تو اللہ تعالیٰ اُس قوم سے یہ ضرور امید رکھتا ہے کہ وہ اتنی محنت، اتنے جوش اور اتنی قربانی سے کام کرے کہ دنیا اُسے پاگل کہنے لگ جائے.اور میں نے بتایا تھا کہ ہمیں دنیا ایک لحاظ سے یا گل کہتی بھی ہے.یعنی اس لحاظ سے کہ ہم ایک ایسا کام کرنے کا ہے دعوی کرتے ہیں جس کام میں کامیابی بظاہر حالات بالکل ناممکن ہے.اس لیے لوگ کہتے ہیں کہ یہ قوم مجنون ہے.لیکن اس کے علاوہ ایک دوسرا طریق بھی ہوتا ہے جس کے ماتحت انبیاء کے می زمانہ میں اُن پر ایمان لانے والے لوگ ہمیشہ مجنون کہلاتے رہے ہیں اور وہ طریق یہ ہے کہ وہ

Page 551

$1944 551 خطبات محمود ایسی محنت کرتے ہیں جو محنت عام طور پر عظمند انسان نہیں کیا کرتا.ایک عظمند انسان کی مختلف ضرور تیں ہوتی ہیں.مختلف خواہشات ہوتی ہیں، مختلف اغراض ہوتی ہیں، مختلف میلانات ہوتے ہیں اور وہ ان مختلف خواہشوں، مختلف میلانوں اور مختلف اغراض کے ماتحت اپنے اوقات اور اپنے اموال کی تقسیم کر دیتا ہے.ہر چیز کے مناسب حال رقم مقرر کر دیتا ہے اور ہر چیز کے مناسب حال وقت مقرر کر دیتا ہے.لیکن پاگل چونکہ ایک ہی طرف لگ جاتا ہے میں اور باقی تمام پہلوؤں سے اپنی توجہ کو ہٹا لیتا ہے اس لیے لوگ اُس کو پاگل کہتے ہیں.ایک ہوش مند اور عقل و فہم رکھنے والا انسان کچھ وقت اپنے بیوی بچوں میں صرف کرتا ہے، کچھ وقت ہمسائیوں کے حقوق کی ادائیگی میں صرف کرتا ہے، کچھ وقت دکان وغیرہ میں صرف کرتا ہے، کچھ وقت اپنے پیشہ پر صرف کرتا ہے اور کچھ حصہ اُس کے اوقات کا سیر وسیاحت میں صرف ہو جاتا ہے.اِس طرح اُس کا وقت مختلف کاموں اور مختلف ضرورتوں کو سر انجام دینے کے لیے تقسیم ہو جاتا ہے.لیکن پاگل کی یہ حالت ہوتی ہے کہ اگر اسے اینٹیں ڈھونے کا من خیال آ جائے تو وہ دن کو بھی اینٹیں ڈھوتا رہے گا، رات کو بھی اینٹیں ڈھوتا رہے گا، صبح کو دیکھا جائے تو اس وقت بھی وہ اینٹیں ڈھو رہا ہو گا اور شام کو دیکھا جائے تو اُس وقت بھی وہ اینٹیں ڈھونے میں مشغول ہو گا.نہ اُسے بیوی کا خیال ہو گا، نہ اُسے دوستوں اور عزیزوں کا خیال ہو گا اور نہ اُسے کسی اور کام کا خیال ہو گا.وہ اپنے تمام اوقات صرف ایک ہی کام میں صرف کر دے گا.یہی وہ بات ہے جس کی طرف مومنوں کو قرآن کریم میں ان الفاظ میں توجہ دلائی گئی ہے کہ مِنْ حَيْثُ خَرَجْتَ فَوَلِ وَجْهَكَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَ حَيْثُ مَا كُنْتُمْ فَوَلُّوا وُجُوهَكُمْ شَطْرَة 1 فرماتا ہے اے مسلمانو! تمہارے سامنے صرف ایک ہی مقصد رہنا چاہیے کہ ہم نے مکہ فتح کرنا اور وہاں اسلام کو قائم کرنا ہے.اس لیے مِنْ حَيْثُ خَرَجْتَ فَوَلِ وَجْهَكَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَ حَيْثُ مَا كُنْتُمْ فَوَلُّوا وُجُوهَكُمْ شَطْرَةً تم جہاں سے بھی نکلو، جدھر سے بھی چلو تمہارے دل اور تمہارے دماغ پر صرف ایک ہی خیال غالب رہے کہ ہم نے کسی طرح مکہ فتح کرنا ہے اور وہاں اسلام کی بنیادوں کو پوری مضبوطی کے ساتھ قائم کر دینا ہے.یہ پروگرام تھا جو مسلمانوں کا مقرر کیا گیا.

Page 552

خطبات محمود 552 $1944 اور اس میں کوئی شبہ نہیں کہ یہ پروگرام ان کی طاقت سے بہت بالا تھا.بے شک عرب آرگنائزڈ سٹیٹ (ORGANIZED STATE) نہیں تھی مگر وہ انار کی بھی نہیں تھی.عرب کی ایک حکومت سمجھی جاتی تھی.مختلف بادشاہ اس کے ساتھ تعلق رکھتے اور معاہدات وغیرہ کرتے تھے.اس طرح مکہ گوڈس آر گنائزڈ (DISORGANIZED) ہو مگر بہر حال وہ ایک ایسے ملک کا دارالحکومت تھا جس کی آبادی 15 ، 20 لاکھ تھی.ارد گرد کے تمام قبائل کی نگاہیں اسی کی طرف اٹھتی تھیں اور وہ اس کے فیصلوں اور حکموں کو واجب الاطاعت سمجھتے تھے.پھر اُس زمانہ کے لحاظ سے وہ ایک بہت بڑا شہر تھا.پندرہ سولہ ہزار اُس کی آبادی تھی.اور نہ صرف تمام کی تمام آبادی بلکہ ملک بھر کے پندرہ بیس لاکھ آدمی سب کے سب سپاہی تھے.فنونِ جنگ میں بہت بڑی مہارت رکھتے تھے.جنگجو، بہادر اور لڑا کے تھے اور مسلمانوں کے لیے اُن کا مقابلہ کرنا کوئی آسان کام نہیں تھا.جس وقت آیت رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نازل ہوئی ہے اس وقت مسلمانوں میں صرف چار پانچ سو سپاہی تھے.زیادہ سے زیادہ ہزار سمجھ لو اور عورتوں اور بچوں وغیرہ کو ملا کر اُن کی گل تعداد گیارہ بارہ ہزار ہو گی اس سے زیادہ مسلمانوں کی تعداد نہیں تھی.اور ان کی جنگی طاقت تو میں بہر حال نا قابلِ ذکر تھی.مگر ایسی حالت میں جب کہ مسلمان سخت کمزور تھے، جب اُن کی تعداد کفار کے مقابلے میں کوئی نسبت ہی نہیں رکھتی تھی، جب ان کے پاس لڑائی کا کوئی سامان ہے نہ تھا اور جب ان کی جنگی طاقت کفار کے مقابلہ میں کوئی حقیقت نہیں رکھتی تھی اللہ تعالی تمہیں تمام کفار کو چیلنج دیتا ہے کہ یہ مسلمان کو تمہیں تھوڑے دکھائی دیتے ہیں، تمہیں کمزور اور ناطاقت نظر آتے ہیں مگر یہی مسلمان ایک دن تمہارے ملک کو فتح کریں گے ، تمہارے دارالحکومت پر قابض ہوں گے اور وہاں ان کو اس قدر غلبہ میسر آجائے گا کہ یہ اسلام کے احکام کو وہاں جاری کریں گے اور کفر کو عرب کی سرزمین سے بالکل مٹا دیں گے.یہ دعوی مسلمانوں کی حالت کے لحاظ سے ایک مجنونانہ دعوی تھا اور پھر یہ دعوی ایسا تھا جو کسی خاص علاقہ سے مخصوص نہیں تھا بلکہ اس دعوی کا اثر وسیع سے وسیع تر تھا.کیونکہ نہ صرف اس میں مکہ کو فتح کرنے کی پیشگوئی کی گئی تھی، نہ صرف عرب پر غالب آ جانے کا اعلان کیا گیا تھا

Page 553

$1944 553 خطبات محمود بلکہ عیسائیت کو بھی چیلنج دیا گیا تھا، یہودیت کو بھی چیلنج دیا گیا تھا، مجوسیت کو بھی چیلنج دیا گیا تھا، ہندومت کو بھی چیلنج دیا گیا تھا اور بڑے زور سے یہ اعلان کیا گیا تھا کہ ان تمام مذاہب کو شکست دے کر اسلام ساری دنیا پر غالب آجائے گا.یہ دعوی بھی ایک مجنونانہ دعوی تھا.اس وجہ سے کفار رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پاگل کہا کرتے تھے اور صحابہ کو بھی وہ پاگل سمجھتے ؟ تھے کیونکہ وہ ایک ایساد عوامی کر رہے تھے جس کے پورا ہونے کے اس مادی دنیا میں انہیں کوئی ہے اسباب نظر نہیں آتے تھے.دعوی کے لحاظ سے جس طرح لوگ آج ہمیں پاگل کہتے ہیں اور ان کا حق ہے کہ وہ ہمیں پاگل کہیں.اسی طرح دعوی کے لحاظ سے دور سول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہے اور آپ کے صحابہ کو بھی پاگل کہا کرتے تھے.اور جہاں تک ان کی محدود عقلوں کا سوال تھا ان کا حق تھا کہ وہ ایسا کہتے کیونکہ یہ دعوی ایسا تھا جو انسانی طاقتوں سے بالا تھا.مگر جس طرح ہے میں نے گزشتہ خطبہ میں توجہ دلائی تھی صرف دعوای کے لحاظ سے نہیں بلکہ عمل کے لحاظ سے بھی دنیا کو ہمیں پاگل سمجھنا چاہیے اور ہمیں ایسے جوش، ایسی محنت اور ایسی قربانی سے کام کرنا میں چاہیے کہ دنیا کہہ اُٹھے یہ قوم صرف اپنے دعوی کے لحاظ سے ہی اپنے اندر جنون نہیں رکھتی تھی بلکہ عملی لحاظ سے بھی ایک پاگل اور دیوانی قوم ہے.یہی بات قرآن کریم نے مسلمانوں میں کے سامنے رکھی ہے چنانچہ اللہ تعالی صحابہ کو مخاطب کر کے فرماتا ہے حَيْثُ مَا كُنتُمْ فَوَلُوا وجُوهَكُمْ شَطرۂ پاگل وہ ہوتا ہے جو اپنی تمام تر توجہ صرف ایک کام کی طرف لگا دیتا ہے.اور ی جب کوئی شخص دن رات صرف ایک کام میں مشغول رہتا ہے، کسی اور کام کا اُسے ہوش نہیں ہو تا تولوگ کہتے ہیں یہ پاگل ہو گیا ہے.کیونکہ اسے کسی اور بات کا خیال ہی نہیں.اٹھتے بیٹھتے، چلتے پھرتے ، سوتے اور جاگتے اُسے ایک ہی دھن لگی ہوئی ہے.اسی طرح اللہ تعالیٰ فرماتا ہے حَيْثُ مَا كُنتُمْ فَوَلُّوا وُجُوهَكُمْ شَطْرَهُ تم دنیا کا کوئی کام کر رہے ہو، تم تجارت میں مشغول ہو یا زراعت میں مصروف ہو یا اپنے دوست کی ملاقات کے لیے جا رہے ہو یا لڑائی کے لیے نکل رہے ہو قولوا وُجُوهَكُمْ شَظرہ تمہارا منہ ہمیشہ مکہ کی طرف رہنا چاہیے.یعنی تمہارے سامنے صرف ایک مقصد رہنا چاہیے کہ تم نے مکہ فتح کرنا ہے اور کوئی خیال، کوئی کام، کوئی جذبہ اور کوئی خواہش تمہارے اس مقصد پر غالب نہیں آنی چاہیے.یہی دھن ہے جو تمہیں

Page 554

خطبات محمود 554 $1944 آٹھوں پہر رہے.یہی خیال ہے جو ہر وقت تمہارے دماغوں میں چکر لگاتار ہے اور یہی پروگرام ہے جو تمہاری نظروں کے سامنے رہے.اور کسی شخص کا ایک ہی مقصد کی طرف اپنی تمام توجہ کو صرف کر دینا اس کو دنیا جنون کہتی ہے.بلکہ موجودہ طلب میں تو مانومینیا ( MANOMANIA) ایک اصطلاح بھی بن گئی ہے جو اسی جنون کے لیے استعمال کی جاتی ہے جس میں انسان پر ہمیشہ ایک ہی قسم کا خیال غالب رہتا ہے.وہ اور باتوں میں عام لوگوں کی طرح ہوتا ہے لیکن پھر بھی ہے اُسے پاگل کہا جاتا ہے کیونکہ لوگ کہتے ہیں یہ وہ شخص ہے جس کی ساری توجہ صرف ایک بات کی طرف مبذول ہو گئی ہے.اور گو دوسری باتوں کے لحاظ سے اُس میں معقولیت بھی دکھائی ہے دیتی ہے مگر چونکہ کسی خاص بات کی طرف وہ حد سے زیادہ توجہ کرتا ہے اور وہ خیال اُس کے دل اور دماغ میں ایسی مضبوطی سے جاگزیں ہو جاتا ہے کہ گویا اس خیال نے اس کا چاروں ہے طرف سے احاطہ کر لیا ہے اور بجز اس خیال کے وہ کسی اور کام کی طرف توجہ نہیں کرتا.اِس لیے طبی اصطلاح میں اِس کو مانومینیا کہا جاتا ہے.اسی وجہ سے آج تک دشمنانِ اسلام رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر یہ الزام لگاتے چلے آئے ہیں کہ آپ نَعُوذُ بِاللهِ پاگل تھے کیونکہ وہ حیرت سے دیکھتے تھے کہ یہ کیسا شخص ہے کہ رات اور دن اور اُٹھتے اور بیٹھتے اور سوتے اور جاگتے اسے ایک ہی دھن ہے کہ جس مقصد کے لیے میں دنیا میں بھیجا گیا ہوں وہ پورا ہو جائے اور اسلام اپنی پوری شان کے ساتھ قائم ہو جائے.دنیا میں اور بھی کئی لوگ ایسے ہوئے ہیں جنہیں بعض کاموں کی بڑی دُھن تھی.نپولین بڑی ڈھن والا تھا، ہٹلر بڑی ذھن والا ہے، اسی طرح مسولینی بڑی ڈھن والا تھا.مگر ان میں لوگوں کی زندگیوں پر جب ہم غور کرتے ہیں تو یہ لوگ ہمیں اور کاموں اور بعض دوسری قسم ہے کے مشاغل میں بھی مصروف نظر آتے ہیں.کوئی آرٹ کا دلدادہ ہوتا ہے، کوئی میوزک کا ولدادہ ہوتا ہے اور کوئی کسی اور چیز کا دلدادہ ہوتا ہے.مثلاً مسولینی تھا اس کو ہوائی جہازوں کا ہے بڑا شوق تھا.ہوائی جہازوں کے کارخانوں میں جانا، اُن کو دیکھنا اور ہوائی جہازوں کو اُڑانا اس کا خاص مشغلہ تھا.اسی طرح وہ اپنے بیوی بچوں میں وقت کا ایک کافی حصہ صرف کیا کرتا تھا.ہٹلر ہے اس کو بھی بعض قسم کے شوق ہیں.نپولین تھا اس کو بھی بعض قسم کے شوق تھے.یہ

Page 555

$1944 555 خطبات محمود پس باوجود ایک دُھن رکھنے کے یہ لوگ بعض اور مقاصد سے بھی دلچسپی رکھتے تھے اور اپنے اوقات ان میں صرف کیا کرتے تھے لیکن محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ہم دیکھتے ہیں تو ہمیں نظر آتا ہے کہ آپ اپنی بیویوں سے جب بات کرتے ہیں تو یہی ہوتی ہے کہ اسلام دنیا میں کس طرح پھیل سکتا ہے.بچوں سے بات کرتے ہیں تو اُس کا بھی ایک ہی مقصد ہوتا ہے کہ اسلام کسی طرح دنیا میں قائم ہو ، ہمسائیوں سے ملتے ہیں تو اس کی تہہ میں بھی ایک ہی غرض کام کر رہی ہوتی ہے کہ اسلام کی تعلیم لوگوں کے قلوب میں راسخ ہو.اسی طرح قضاء کا کام کرتے ہیں تو اس میں بھی اسلام کا غلبہ مد نظر ہوتا ہے.جرنیلی کا فرض سر انجام دیتے ہیں تو اس وقت بھی یہی بات پیش نظر رہتی ہے کہ اسلام دنیا پر غالب آئے اور کفر کا خاتمہ ہو.لڑائی کرتے ہیں تو اُس میں بھی کوئی ذاتی غرض کام نہیں کر رہی ہوتی بلکہ اسلام کا غلبہ ، دین کا قیام اور خدا تعالیٰ کے احکام کا اجراء ہر وقت سامنے ہوتا ہے.غرض کوئی کام ہو، کوئی بات ہو، کوئی شغل ہو صرف ایک ہی چیز رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے رہتی تھی یعنی اسلام کا غلبہ ہے اور دین کا قیام.اور یہی وہ چیز ہے جس کو لوگ جنون کہتے ہیں.اسی کو جب وہ کسی ادنیٰ مقصد کے لیے ہو اور لغو ہو طبی اصطلاح میں مانومینیا کہتے ہیں اور ایسے ہی شخص کو لوگ پاگل اور ہے مجنون کہا کرتے ہیں.حقیقت یہ ہے کہ جب تک غیر معمولی کاموں کے لیے ہر انسان کے اندر وہ حالت نہ پیدا ہو جائے جسے بعض حالتوں میں طب مانو مینیا کہتی ، جب تک وہ اور تمام مقاصد کو بھول نہ جائے، جب تک اُس کے اندر ہر وقت ایک خلش اور بے تابی نہ پائی جائے اور جب تک ان غیر معمولی کاموں کے لیے اُس کے اندر جنون کا سارنگ پیدا نہ ہو جائے اُس وقت تک اُن کاموں میں کبھی کامیابی نہیں ہو سکتی.پس جس چیز کی طرف میں اپنے سابق خطبہ میں توجہ دلا چکا ہوں اُسی کی طرف قرآن کریم نے بھی اِن الفاظ میں توجہ دلائی ہے کہ حَيْثُ مَا كُنتُم فَوَلَّوْا وُجُوْهَكُمْ شَطْرَۂ تم باقی تمام مقاصد کو بھول جاؤ اور صرف اس مقصد کو اپنے سامنے رکھو کہ ہم نے اسلام کے لیے دنیا کو فتح کرنا ہے.لوگ اس آیت کے معنے یہ سمجھتے ہیں کہ تم میں جہاں سے بھی نکلو قبلہ کی طرف اپنا منہ کرو.حالانکہ اگر اس آیت کے یہ معنے ہوتے کہ.

Page 556

خطبات محمود 556 $1944 قبلہ کی طرف ہمیشہ اپنا منہ رکھا کرو تو مِنْ حَيْثُ خَرَجْتَ کے الفاظ آیت میں نہ ہوتے بلکہ ان الفاظ کی بجائے یہ الفاظ ہوتے کہ تم جہاں کہیں ہو قبلہ کی طرف اپنا منہ رکھو.قبلہ کی طرف منہ کرنے کے لیے جہاں کہیں کے الفاظ ہونے چاہئیں تھے نہ یہ کہ تم جہاں سے بھی نکلو ہے قبلہ کی طرف اپنا منہ پھیر دو.کیا لوگ کہیں سے نکلنے کے وقت نمازیں پڑھا کرتے ہیں؟ نکلنے کے وقت تو لوگ چلا کرتے ہیں نمازیں نہیں پڑھا کرتے.پس اس آیت کا نمازوں کی ادائیگی ہے کے ساتھ کوئی تعلق نہیں.بلکہ اس آیت کا صرف یہ مطلب ہے کہ تم جہاں سے بھی نکلو تمہارے سامنے صرف ایک ہی مقصد ہونا چاہیے کہ تم نے مکہ فتح کرنا اور وہاں اسلام کو قائم کر کے سارے عرب کو اپنے زیر اثر لانا ہے.ان معنوں کے لحاظ سے مِنْ حَيْثُ خَرَجْتَ فَوَلِ وَجْهَكَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَحَيْثُ مَا كُنْتُمْ فَوَلُّوا وُجُوهَكُمْ شَطْرَہ کا نماز کے ساتھ کوئی جوڑ ثابت نہیں ہوتا.نماز تو انسان کھڑا ہو کر پڑھتا ہے.اس کا انسان کے خروج کے ساتھ کوئی تعلق نہیں.پس اس آیت کے معنے یہی ہیں کہ تم کوئی کام کرو، کسی طرف سے بھی نکلو، چاہے تم اس مقام سے نکلو جس کا منہ مشرق کی طرف ہو ، چاہے تم اس مقام سے نکلو جس کا منہ مغرب کی طرف ہو، چاہے تم اس مقام سے نکلو جس کا منہ شمال کی طرف ہو اور چاہے تم اس مہین مقام سے نکلو جس کا منہ جنوب کی طرف ہو بہر حال تمہارا منہ مکہ کی طرف ہونا چاہیے.یعنی تمہاری توجہ اور تمہارا خیال اور تمہارا ذہن صرف اسی بات کی طرف رہنا چاہیے کہ تم نے مکہ کو فتح کرنا ہے.وجوہ کے معنے تو جہات کے بھی ہوتے ہیں.پس معنے یہ ہیں کہ تمہارا ایک ہی مقصد ہونا چاہیے کہ تم نے خانہ کعبہ کو فتح کر کے اسے اسلام کا مرکز بنانا ہے.کیونکہ جب تک مکہ میں اسلام پھیل نہیں جاتا، جب تک مکہ مسلمانوں کے ماتحت نہیں آجاتا اُس وقت تک باقی تمام عرب مسلمان نہیں ہو سکتا.ہماری جماعت کے لیے بھی اس اصول کے ماتحت چلنا نہایت ضروری ہے اور اگر جماعت کے افراد اپنے کاموں میں اس کو نظر انداز کر دیتے ہیں تو وہ اپنی ترقی کی ساعت کو بہت پیچھے ڈال دیتے ہیں.میں نے بتایا تھا کہ جس کام کے لیے ہم کھڑے ہوئے ہیں وہ دنیا کے تمام کاموں سے ایک ممتاز حیثیت رکھتا ہے.یورپ اور انگلستان اور امریکہ جیسے عیاش ملکوں اور چین اور جاپان ہے

Page 557

خطبات محمود 557 $1944 جیسے آزاد ملکوں کو جو کسی شریعت کے پابند نہیں ہیں اسلام کا حلقہ بگوش بنانا اور وہاں کے رہنے والوں کو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی میں لانا کوئی آسان کام نہیں.یورپ اور امریکہ میں بے شک عملاً آزادی ہے مگر عقیدہ اور ذہن وہ آسمانی قانون کو قبول کرنے کے لیے ر رہتے ہیں.لیکن چین اور جاپان کسی آسمانی قانون کو نہیں مانتے.اس لیے گوان میں اتنی آزادی نہیں جتنی یورپ اور امریکہ میں پائی جاتی ہے مگر پھر بھی ان کے دماغ آسمانی قانون کو ماننے کے لیے تیار نہیں ہیں.اس کے مقابلہ میں یورپ اور امریکہ آسمانی قانون ماننے کے لیے تو تیار ہیں لیکن اپنی عادتوں اور طرز رہائش وغیرہ کی وجہ سے وہ آسمانی قانون کو قبول کرنے سے گریز کرتے ہیں.وہ سمجھتے ہیں کہ اگر ہم نے آسمانی باتوں کو مانا تو ہمیں اپنے تمدن اور اپنے طریق رہائش کو یکسر بھولنا پڑے گا اور یہ چیز بظاہر حالات ان کے لیے نا قابل برداشت ہے.ان سارے ملکوں کو اور پھر ان مسلمانوں کو جو دنیا میں بالکل گرے ہوئے ہیں اور جن کی کہیں بھی کوئی حیثیت تسلیم نہیں کی جاتی اسلام کا تابع فرمان بنانا ہمارا اولین فرض ہے.ہمارا دعوی ہے کہ ہم مسلمانوں کو نئے سرے سے مسلمان بنائیں گے.ہمارا دعوی ہے کہ ہم دنیا میں نئے سرے سے قرآن کی حکومت قائم کریں گے.ہمارا د عوامی ہے کہ ہم دنیا کے تمام مذاہب اور منی تمام حکومتوں کو اخلاقی طور پر مٹاکر خدا کی بادشاہت دنیا میں جاری کریں گے اور اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ہمارا یہ دعوی ایسا ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ کے الہامات اور ایمان سے علیحدہ ہو کر ہم خود بھی اس پر غور کرنے لگیں اور یہ فیصلہ کرنے بیٹھیں کہ ہم اس دعوی میں عقل سے کام لے رہے ہیں یا جنون اور پاگل پن کی کیفیت ہم پر طاری ہے تو ہمیں یہی فیصلہ کرنا پڑے گا کہ ہم پاگل اور مجنون ہیں.کیونکہ ہم وہ دعوی کر رہے ہیں جن کے پورا ہونے کی بظاہر حالات کوئی صورت نہیں.لیکن ہمارے اِس دعوای کی بنیاد محض اس بات پر نہیں کہ چونکہ ہم ایسا کہتے ہیں اس لیے دنیا میں یہ تغیر پید اہو کر رہے گا بلکہ ہمارے دعوی کی دلیل یہ ہے کہ ہمیں خدا تعالیٰ نے ایسا کہا ہے.اور جس کام کے کرنے کا خد اتعالیٰ وعدہ کرے وہ کام دنیا میں ہو کر رہتا ہے.حکومتیں مٹ جاتی ہیں، طاقتیں فنا ہو جاتی ہیں، روکیں کٹ جاتی ہیں لیکن وہ بات سچی ہو کر رہتی ہے ہے جس کے کرنے کا خدا تعالیٰ نے وعدہ کیا ہو.پس جس طرح کسی تاگے سے کوئی چیز

Page 558

$1944 558 محمود لٹکی ہوئی ہو اور اگر اُس تاگے کو توڑ دو تو وہ چیز گر کر ٹوٹ جاتی ہے.اسی طرح ہم میں اور مجنون میں اگر کوئی فرق ہے تو یہ کہ ہمارا د عوای الہی الہام کی بنیادوں پر قائم ہے.ورنہ ہماری سب باتیں مجنونوں سے ملتی ہیں، پاگلوں سے ملتی ہیں، دیوانوں سے ملتی ہیں اور ہم میں اور ان کی میں کوئی فرق نظر نہیں آتا.اور چونکہ دنیا میں اکثر لوگ ایسے ہیں جو اس بات کے قائل نہیں اور وہ اس بات کو تسلیم نہیں کرتے کہ خدا نے ایسا کہا ہے اس لیے جب وہ ہمارے منہ سے ان باتوں کو سنتے ہیں تو وہ ہمیں پاگل اور مجنون کہتے ہیں.ہم خود بھی اپنے سارے حالات کے لحاظ سے اپنے آپ کو مجنون ہی کہتے ہیں.لیکن اس عقیدہ کی وجہ سے کہ خدا نے یہ باتیں ہمیں کہی ہے ہیں.ہم حقیقتا پاگل نہیں ہیں.مگر دوسری طرف اس حقیقت کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ہے کہ عملی طور پر جب تک واقع میں ایک جنون کی سی کیفیت پیدا نہ ہو جائے اور جب تک پاگلوں ہے کی طرح ہر وقت یہ مقصد لوگوں کے سامنے نہ رہے کہ ہم نے خدا کا نام دنیا میں پھیلانا ہے ، ہم نے خدا کے دین کو دنیا میں قائم کرنا ہے اُس وقت تک اللہ تعالیٰ کا وعدہ پورا نہیں ہوتا.یہ اللہ تعالیٰ کی ایک دائمی سنت ہے جس کا اُس نے اِن الفاظ میں اظہار فرمایا ہے کہ حَيْثُ مَا كُنْتُمْ فَوَلُّوا وُجُوهَكُمْ شَطْرَۂ یعنی فتح تو ہو گی مگر اُسی صورت میں جب تم رات اور دن اور صبح اور شام اس کام میں مشغول رہو گے اور اپنی تو جہات کا نقطہ مرکزی صرف اسی امر کو ٹھہراؤ گے کہ تم نے اسلام کو قائم کرنا ہے، تم نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کو دنیا میں روشن کرنا ہے.اسی لیے میں نے جماعت کو کچھ عرصہ سے تین مختلف حصوں میں تقسیم کر دیا ہے تا کہ جماعت کا سارازور اور اس کی طاقت اسلام اور احمدیت کی اشاعت میں صرف ہو.اسلامی عقائد کے قیام میں وہ مشغول ہو جائے اور اعمال خیر کی ترویج میں اس کی تمام مساعی صرف ہونے لگ جائے.جماعت کے یہ تین اہم ترین حصے انصار اللہ، خدام الاحمدیہ اور اطفال الاحمدیہ ہیں.یہ ایک قدرتی بات ہے کہ جس قسم کا کوئی آدمی ہوتا ہے اسی قسم کے لوگوں کی وہ نقل کرنے کا عادی ہوتا ہے.بوڑھے عام طور پر بوڑھوں کی نقل کرتے ہیں اور یہ نوجوان عام طور پر نوجوانوں کی نقل کرتے ہیں اور بچے عام طور پر بچوں کی نقل کرتے ہیں.میں

Page 559

خطبات محمود 559 $1944 کہتے ہیں کہ کوئی بچہ تھا جو مکان کی چھت پر چڑھ کر اُس کے کنارہ کی طرف چلا گیا اور آہستہ آہستہ ایسی جگہ پہنچ گیا کہ قریب تھا وہ نیچے گر جائے.وہ چھت کے کنارے پر کھڑے ہو کر بازار کی طرف جھانک رہا تھا کہ اُس کی ماں نے اسے دیکھ لیا اور اس نے گھبر اگر اسے پکڑنا چاہا ہے تا کہ وہ کہیں نیچے نہ گر جائے.بچوں کی عادت ہوتی ہے کہ اگر ان کو پکڑنے کے لیے کوئی ہے دوڑے تو وہ اور آگے کی طرف بھاگتے ہیں.جب اُس کی ماں نے گھبراہٹ کی حالت میں اُسے پکڑناچاہا تو کسی سمجھدار انسان نے اُسے دیکھ لیا اور اُسے کہا کہ یہ بے وقوفی نہ کرنا.اگر تم نے ایسا کیا تو بچہ آگے کی طرف دوڑے گا اور نتیجہ یہ ہو گا کہ وہ نیچے گر جائے گا.اگر تم بچے کو آرام ہے سے نیچے اتارنا چاہتی ہو تو اس کا طریق یہ ہے کہ اس کے پیچھے کی طرف کوئی بچہ لا کر بٹھا دیا جائے.اُسے دیکھ کر یہ پیچھے کو مڑ جائے گا.اور یا کوئی شیشہ رکھ دیا جائے اس شیشہ کو جب یہ دیکھے گا تو اپنا عکس اُس میں دیکھ کر خیال کرے گا کہ یہ بھی کوئی بچہ ہے اور جب یہ اُس کی طرف جھکے گا تو سمجھے گا کہ دوسرا بچہ بھی میری طرف جھک رہا ہے.اس طرح وہ دوسرے بچہ کے خیال کے ماتحت اُسی جگہ بیٹھ جائے گا اور اس کے گرنے کا خطرہ جاتارہے گا.چنانچہ وہ شیشہ لائی یا کوئی بچہ لا کر اُس کے پیچھے بٹھا دیا اور اس طرح اس بچہ کو سلامتی کے ساتھ نیچے اتار نے میں کامیاب ہو گئی.تو دنیا میں یہ قاعدہ ہے کہ ایک قسم کی چیزیں ایک دوسرے کی طرف زیادہ جھکتی ہے ہیں.نوجوان قدرتی طور پر یہ خیال کرتے ہیں کہ بوڑھوں کا کیا ہے وہ اپنی عمریں گزار چکے ہیں اور ہم وہ ہیں جو ابھی جوانی کی عمر میں سے گزر رہے ہیں.اس وجہ سے اگر کوئی بوڑھا انہیں میں نصیحت کرے کہ اپنا وقت ضائع نہیں کرنا چاہیے ، اپنے اشغال اور افعال میں نیکی اور تقوی مد نظر رکھنا چاہیے اور کوئی ایسا کام نہیں کرنا چاہیے جو اخلاق اور مذہب کے خلاف ہو.تو وہ اُس کی بات کو مذاق میں اڑا دیتے ہیں، اُس کی طرف کوئی توجہ نہیں کرتے اور خیال کرتے ہیں بوڑھوں کا کیا ہے یہ اپنے وقت میں تو مزے اُٹھا چکے ہیں اور اب ہمیں نصیحت کرنے لگ گئے ہیں کہ ہم ہر قسم کے کاموں سے اجتناب کریں.لیکن اگر ویسی ہی نصیحت انہیں کوئی نوجوان می کرے تو وہ اس کو یہ نہیں کہہ سکتے کہ تم اپنی عمر عیش و عشرت میں گزار کر اب ہمیں ہے

Page 560

خطبات محمود 560 $1944 نصیحت کرنے لگ گئے ہو.بلکہ وہ مجبور ہوتے ہیں کہ اُس کی نصیحت پر کان دھریں اور اُس کی بات کو تسلیم کریں کیونکہ وہ دیکھتے ہیں کہ یہ نصیحت کرنے والا بالکل ہمارے جیسا ہے.یہ بھی اسی عمر کا ہے جو ہماری عمر ہے.اس کا بھی ویسا ہی دل ہے جیسا ہمارا دل ہے.اس کے اندر بھی ویسے ہی جذبات اور احساسات ہیں جیسے جذبات اور احساسات ہمارے اندر ہیں.لیکن جب یہ بھی ہمیں نصیحت کر رہا ہے تو ہمیں ضرور اس کی بات پر غور کرنا چاہیے.اور اگر کچھ نوجوان ایسے بھی ہوں جو اُس کی نصیحت پر عمل کرنے کے لیے تیار نہ ہوں تو کم سے کم وہ اعتراض کا کوئی اور طریق اختیار کریں گے یہ نہیں کہیں گے کہ خود جوانی کی عمر میں مزے اٹھا کر اب ہمیں روکا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ ہم نیکی کی طرف توجہ کریں.اسی طرح بچے بچوں کے ذریعہ بہت جلد سمجھ سکتے ہیں اور بوڑھے بوڑھوں کے ذریعہ باتیں سمجھنے کے عادی ہوتے ہیں.اگر کسی بوڑھے کے پاس کوئی نوجوان جا کر کہے کہ جناب! فلاں بات اس طرح ہے اور آپ اس طرح کر رہے ہیں تو وہ فوراً اس کی بات سنتے ہی کہہ دے گا کہ میاں! کوئی عقل کی بات کرو.تم ابھی تی کل کے بچے ہو اور میں بوڑھا تجربہ کار ہوں.تم ان باتوں کی حقیقت کو کیا سمجھو.میں خوب جانتا ہوں کہ بات کس طرح ہے اور نیکی اور تقوی کا کونسا پہلو ہے.اسی طرح اگر کوئی بچہ بوڑھے کو نصیحت کرے تو وہ نصیحت کی بات اس بچہ کے منہ سے سُن کر ہنس پڑے گا اور کہے گا یہ پاگل ہو گیا ہے.ابھی تو خود ناتجربہ کار ہے.بچپن کے زمانہ میں ہے اور نصیحت مجھے کر رہا ہے.لیکن اگر بوڑھا بوڑھے کو نصیحت کرے تو وہ ضرور اُس نصیحت پر کان دھرے گا.کیونکہ وہ نہیں کہہ سکتا کہ تم تجربہ میں مجھ سے کم ہو میں تمہاری بات کس طرح مان سکتا ہوں.غرض یہ ایک حقیقت ہے کہ ”ہم عمر “ ہی اپنے ”ہم عمروں “ کو اچھی طرح سمجھا سکتے ہیں.بلکہ میں نے تو یہاں تک دیکھا ہے کہ اگر عمر میں پانچ دس سال کا فرق ہو تب بھی مہینہ دوسرا شخص سمجھتا ہے کہ میں تو اوروں کو نصیحت کرنے کا حق رکھتا ہوں.مگر کوئی دوسرا شخص جو عمر میں مجھ سے کم ہے چاہے چند سال ہی کم ہو یہ حق نہیں رکھتا کہ مجھے نصیحت کرے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ میں صدر انجمن احمدیہ کے اجلاس میں جب مختلف معاملات بحث ہوتی تو بسا اوقات خواجہ کمال الدین صاحب پر

Page 561

خطبات محمود 561 $1944 مولوی محمد علی صاحب اور شیخ رحمت اللہ صاحب ایک طرف ہوتے اور بعض دوسرے دوست دوسری طرف ان میں سے شیخ رحمت اللہ صاحب مولوی محمد احسن صاحب امر وہی سے عمر میں صرف چار پانچ سال چھوٹے تھے.مگر میں نے کئی دفعہ دیکھا کہ جب آپس میں کسی ہے بات پر بحث شروع ہو جاتی تو مولوی محمد احسن صاحب امروہی شیخ رحمت اللہ صاحب کے مخاطب کر کے کہتے کہ تم تو ابھی کل کے بچے ہو ، تمہیں کیا پتہ کہ معاملات کو کس طرح طے کیا جاتا ہے.میرا تجربہ تم سے زیادہ ہے اور جو کچھ میں کہہ رہا ہوں وہی درست ہے.حالانکہ مولوی محمد احسن صاحب اور شیخ رحمت اللہ صاحب کی عمر میں صرف چار پانچ سال کا فرق تھا.مگر چار پانچ سال کے تفاوت سے ہی انسان یہ خیال کرنے لگ جاتا ہے کہ مجھے اس بات کا حق حاصل ہے کہ دوسروں پر حکومت کروں، مجھے حق حاصل ہے کہ میں دوسروں کو نصیحت کا من سبق دوں اور اُن کا فرض ہے کہ وہ میری اطاعت کریں اور جو کچھ میں کہوں اس کے مطابق ہے عمل بجالائیں.پس ایسی صورت میں اگر کوئی نوجوان کسی بوڑھے کو نصیحت کرے گا تو یہ صاف ہے بات ہے کہ بجائے نصیحت پر غور کرنے کے اُس کے دل میں غصہ پیدا ہو گا کہ یہ نوجوان مجھے ہے نصیحت کرنے کا کیا حق رکھتا ہے.اس طرح بجائے بات کو ماننے کے وہ اور بھی بگڑ جائے گا.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ بعض دفعہ انسان ایک بچہ کے منہ سے بھی نصیحت کی بات سن کر سبق حاصل کر لیتا ہے.مگر ایسا شاذ و نادر کے طور پر ہوتا ہے.اسی طرح بعض دفعہ ایک نوجوان کے منہ سے کوئی بات سن کر ایک بوڑھا انسان بھی سبق حاصل کر سکتا ہے.مگر ایسا بہت کم اتفاق ہوتا ہے.عام طور پر عمر کے تفاوت کے ماتحت چاہے ایک بڑی عمر والا بیوقوف ہی کیوں نہ ہو وہ چی یہی سمجھتا ہے کہ میر احق ہے کہ میری بات کو مانا جائے کیونکہ میں بڑی عمر کا ہوں دوسرے کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ مجھے نصیحت کرے یا مجھے کسی نقص کے اصلاح کی طرف توجہ دلائے.یہی حکمت ہے جس کے ماتحت میں نے انصار اللہ ، خدام الاحمدیہ اور اطفال الاحمدیہ تین الگ الگ جماعتیں قائم کی ہیں تاکہ نیک کاموں میں ایک دوسرے کی نقل کا مادہ جماعت میں زیادہ سے زیادہ پیدا ہو.بچے بچوں کی نقل کریں، نوجوان نوجوانوں کی نقل کریں اور بوڑھے بوڑھوں کی نقل کریں.جب بچے اور نوجوان اور بوڑھے سب اپنی اپنی جگہ یہ دیکھیں گے کہ ہے

Page 562

$1944 562 خطبات محمود ہمارے ہم عمر دین کے متعلق رغبت رکھتے ہیں، وہ اسلام کی اشاعت کی کوشش کرتے ہیں ، وہ اسلامی مسائل کو سیکھنے اور اُن کو دنیا میں پھیلانے میں مشغول ہیں، وہ نیک کاموں کی بجا آوری میں ایک دوسرے سے بڑھ کر حصہ لیتے ہیں تو اُن کے دلوں میں بھی یہ شوق پیدا ہو گا کہ ہم بھی ان نیک کاموں میں حصہ لیں اور اپنے ہم عمروں سے نیکی کے کاموں میں آگے نکلنے کی کوشش کریں.دوسرے وہ جو رقابت کی وجہ سے عام طور پر دلوں میں غصہ پیدا ہوتا ہے وہ بھی پیدا نہیں ہو گا.جب بوڑھا بوڑھے کو نصیحت کرے گا، نوجوان نوجوان کو نصیحت کرے گا اور بچہ بچے کو نصیحت کرے گا تو کسی کے دل میں یہ خیال پیدا نہیں ہو گا کہ مجھے کوئی ایسا شخص ہے نصیحت کر رہا ہے جو عمر میں مجھ سے چھوٹا یا عمر میں مجھ سے بہت بڑا ہے.وہ سمجھے گا کہ میرا ایک ہم عمر جو میرے جیسے خیالات اور میرے جیسے جذبات اپنے اندر رکھتا ہے مجھے سمجھانے کی کوشش کر رہا ہے اور اس وجہ سے اُس کے دل پر نصیحت کا خاص طور پر اثر ہو گا اور وہ اپنی اصلاح کی طرف متوجہ ہو جائے گا.مگر یہ تغیر اسی صورت میں پیدا ہو سکتا ہے جب جماعت میں یہ نظام پورے طور پر رائج ہو جائے اور کوئی بچہ ، کوئی نوجوان اور کوئی بوڑھا ایسا نہ رہے جو اس نظام میں شامل نہ ہو.اگر جماعت کے چند بوڑھے اس مقصد کے لیے اکٹھے ہو جاتے ہیں، اگر جماعت کے چند نوجوان اِس نظام کو جاری کرنے کے لیے اکٹھے ہو جاتے ہیں، اگر جماعت کے چند بچے اس امر کی اہمیت کو سمجھ کر اکٹھے ہو جاتے ہیں تو ان چند نوجوانوں، چند بوڑھوں اور چند بچوں کی وجہ سے اس نظام کے وسیع اثرات ظاہر نہیں ہو سکتے اور نہ اس کے نتیجہ میں ساری دنیا میں بیداری پید ا ہو سکتی ہے.ساری دنیا میں اس تحریک کو قائم کرنے، ساری دنیا کو بیدار کرنے اور ساری دنیا کو اس نظام کے اندر لانے کے لیے ضروری ہے کہ ہماری جماعت کے نوجوان اپنے آپ کو اس قدر منظم کر لیں کہ وہ یقینی اور حتمی طور پر کہہ سکیں کہ ہم نے اپنی من اندرونی تنظیم کا کام اُس کے تمام پہلوؤں کے لحاظ سے پوری خوش اسلوبی کے ساتھ ختم کر ہے.اسی طرح بچے اپنے آپ کو خدام الاحمدیہ کی مدد سے اس قدر منظم کر لیں کہ تنظیم کا کوئی پہلو نا قص نہ رہے اور اُن کا اندرونی نظام ہر جہت سے مکمل ہو جائے.یہی حال انصار اللہ کا ہو کہ وہ اپنے آپ کو اس طرح منظم کر لیں، اس طرح ایک نظام میں اپنے آپ کو منسلک کر لیں ہے

Page 563

خطبات محج محمود 563 $1944 کہ وہ مسرت کے ساتھ یہ اعلان کر سکیں کہ ہم نے اپنی اندرونی تنظیم پورے طور پر مکمل کر لی ہے.اب ہم میں تنظیم کے لحاظ سے کسی قسم کی خامی اور نقص باقی نہیں رہا.جب خدام الاحمدیہ اور انصار اللہ اور اطفال الاحمد یہ تینوں اپنے آپ کو اس رنگ میں منظم کر لیں گے اور اپنی اندرونی خامیوں کو کلیہ دور کر دیں گے تب وہ اِس قابل ہو سکیں گے کہ دوسروں کی اصلاح کریں اور تب دنیا مجبور ہو گی کہ اُن کی باتوں کو ٹنے اور اُن پر غور کرے.میں نے دیکھا ہے بعض بچے چھوٹی عمر کے ہوتے ہیں لیکن چونکہ وہ ذہین ہوتے ہیں اور دین کی باتوں کو سمجھتے ہیں اس لیے اُن کا طبعی طور پر دوسرے بچوں پر نمایاں اثر ہوتا ہے اور وہ بھی اِس رنگ کو اختیار کرنے کی کوشش کرتے ہیں.کیونکہ وہ رنگ اُن کو خو بصورت دکھائی دیتا ہے اور وہ باتیں اُن کو جاذبیت رکھنے والی معلوم ہوتی ہیں.ہمارا ایک عزیز بچہ ہے.تین چار سال اُس کی عمر ہے مگر ذہین اور ہوشیار ہے.وہ اپنے رشتہ داروں کے ساتھ باہر گیا ہوا ہے جس گھر میں وہ ٹھہرے ہوئے ہیں اُس گھر کے بچوں پر اُس کا اتنا اثر ہوا کہ انہی میں سے ایک لڑکے نے مجھے خط لکھا کہ آپ اپنے فلاں بچہ کو اجازت دیں کہ وہ ہمارے ساتھ مل کر ایک دفعہ میوزیکل کنسرٹ (MUSICAL CONCERT) دیکھ لے.اُس نے لکھا کہ میں نے اسے بہت کہا ہے کہ ایک دفعہ ہمارے ساتھ میوزیکل کنسرٹ دیکھ لو مگر وہ مانا نہیں.اس نے کہا ہے کہ ہم ایسی چیزیں نہیں دیکھ سکتے کیونکہ ہمیں ان چیزوں کے دیکھنے سے منع کیا گیا ہے.اُس نے یہ بھی لکھا کہ مجھے اس کی باتیں سن کر احمدیت کے متعلق رغبت پیدا ہو گئی ہے بھی ایک چھوٹا بچہ ہے مگر معلوم ہوتا ہے ہمارے عزیز کی طرح وہ بھی ذہین ہے اور بات کو بہت ہیں جلدی سمجھ جاتا ہے.پس ایک چھوٹی عمر کے بچے کا دوسرے سے یہ کہنا کہ ہم میوزیکل کنسرٹ میں شامل نہیں ہو سکتے کیونکہ ہمیں ان چیزوں کے دیکھنے سے منع کیا گیا ہے اور پھر دوسرے لڑکے کا میری طرف خط لکھنا کہ اسے ایک دفعہ اجازت دیجیے کہ وہ میوزیکل کنسرٹ دیکھ لے بتاتا ہے کہ بچوں میں بھی یہ قابلیت پائی جاتی ہے کہ وہ ایک دوسرے کو سنبھال سکیں.اور نوجوانوں میں بھی یہ قابلیت پائی جاتی ہے کہ وہ ایک دوسرے کو سنبھال سکیں اور بوڑھوں میں بھی یہ قابلیت پائی جاتی ہے کہ وہ اپنے تجربہ اور اپنے علم اور اپنی من

Page 564

$1944 564 خطبات محمود عقل سے دوسروں کی راہنمائی کر سکیں.مگر یہ فرض اپنی پوری خوش اسلوبی سے اُس وقت تک ادا نہیں ہو سکتا جب تک ہماری جماعت کے تمام نوجوان، تمام بوڑھے اور تمام بچے اپنی اندرونی تنظیم کو مکمل نہیں کر لیتے.ہماری جماعت کے سپر د یہ کام کیا گیا ہے کہ ہم نے تمام دنیا کی اصلاح کرنی ہے.تمام دنیا کو اللہ تعالیٰ کے آستانہ پر جھکانا ہے.تمام دنیا کو اسلام اور احمدیت میں داخل کرنا ہے.تمام ہے دنیا میں اللہ تعالیٰ کی بادشاہت کو قائم کرنا ہے.مگر یہ عظیم الشان کام اُس وقت تک سر انجام نہیں دیا جا سکتا جب تک ہماری جماعت کے تمام افراد خواہ بچے ہوں یا نوجوان ہوں یا بوڑھے ہوں اپنی اندرونی تنظیم مکمل نہیں کر لیتے اور اُس لائحہ عمل کے مطابق دن اور رات عمل نہیں کرتے جو ان کے لیے تجویز کیا گیا ہے.دنیا میں ہمیشہ یہی طریق ہوتا ہے کہ پہلے اندرونی کمروں می کی صفائی کی جاتی ہے پھر بیرونی کمروں کی صفائی کیا جاتی ہے.پھر صحن کی صفائی کی جاتی ہے.پھر ڈیوڑھی کی صفائی کی جاتی ہے اور پھر گلی کی صفائی کی جاتی ہے.یہ کبھی نہیں ہوا کہ کوئی شخص ہے ڈیوڑھی یا باہر کی گلی تو صاف کرنے لگ جائے اور اُس کے اندرونی کمروں میں گند بھرا ہوا ہو.ہمیشہ بیرونی صفائی سے پہلے اندرونی صفائی کی جاتی ہے.باہر کی سڑکوں اور گلیوں اور صحن وغیرہ میں کو صاف کرنے سے پہلے اندرونی کمروں کی غلاظت اور گند کو دور کیا جاتا ہے.اس کے بعد بیرونی کمروں کی صفائی کا وقت آتا ہے.پھر صحن کی صفائی کی طرف توجہ کی جاتی ہے.پھر گلی کی منی صفائی کا اہتمام کیا جاتا ہے.اور جب ان تمام مراحل کو طے کر لیا جاتا ہے تو پھر اللہ تعالیٰ بعض لوگوں کو توفیق عطا فرما دیتا ہے کہ وہ میونسپل کمیٹی کی شکل میں سارے شہر کی صفائی کا اہتمام کریں.پھر اس سے ترقی کر کے اللہ تعالیٰ بعض اور لوگوں کو یہ توفیق عطا فرما دیتا ہے کہ وہ ایک حکومت کی شکل میں سارے ملک کی صفائی کا انتظام کریں.بہر حال یہ تدریج ضروری ہے اور میں بغیر جماعتی تنظیم اور اصلاح کو مکمل کرنے کے ہم ساری دنیا کی تنظیم اور اس کی اصلاح کی تی طرف توجہ نہیں کر سکتے.ہم اُسی وقت باہر کی طرف توجہ کر سکتے ہیں جب ہم اپنی اندرونی اصلاح کو مکمل کر لیں.جب ہم اپنے داخلی نظام کو مکمل کر لیں گے ، جب ہم تمام جماعت کے افراد کو ایک نظام میں منسلک کر لیں گے تو اس کے بعد ہم بیرونی دنیا کی اصلاح کی طرف ہے

Page 565

$1944 565 خطبات م محمود کامل طور پر توجہ کر سکیں گے.اس اندرونی اصلاح اور تنظیم کو مکمل کرنے کے لیے میں نے خدام الاحمدیہ ، انصار اللہ اور اطفال الاحمدیہ تین جماعتیں قائم کی ہیں اور یہ تینوں اپنے اُس مقصد میں جو ان کے قیام کا اصل باعث ہے اُسی وقت کامیاب ہو سکتی ہیں جب انصار اللہ، خدام الاحمدیہ اور اطفال الاحمدیہ اُس اصل کو اپنے مد نظر رکھیں جو حَيْثُ مَا كُنْتُمْ فَوَلُّوْا وُجُوْهَكُمْ شَطْرَہ میں بیان کیا گیا ہے کہ ہر شخص اپنے فرض کو سمجھے اور پھر رات اور دن اُس فرض کی ادائیگی میں اس طرح مصروف ہو جائے جس طرح ایک پاگل اور مجنون تمام اطراف سے اپنی توجہ کو ہٹا کر صرف ایک بات کے لیے اپنے تمام اوقات کو صرف کر دیتا ہے.جب تک رات اور دن انصار اللہ اپنے کام میں نہیں لگے رہتے، جب تک رات اور دن خدام الاحمدیہ اپنے کام میں نہیں لگے رہتے اور جب تک اطفال الاحمدیہ اپنے کام میں نہیں لگے رہتے اور اپنے مقصد کو پورا کرنے کے لیے تمام اوقات کو صرف نہیں کر دیتے اس وقت ہیں تک ہم اپنی اندرونی تنظیم مکمل نہیں کر سکتے.اور جب تک ہم اپنی اندرونی تنظیم کو مکمل نہیں ہے کر لیتے اُس وقت تک ہم بیرونی دنیا کی اصلاح اور اس کی خرابیوں کے ازالہ کی طرف بھی پوری طرح توجہ نہیں کر سکتے.یاد رکھو اوہ دن قریب ترین آتے جاتے ہیں جب دنیا کسی نہ کسی فیصلہ پر پہنچنے کی ہے کوشش کرے گی.اس وقت فاتح مغربی اقوام کے دماغ اس امر کی طرف مائل ہو رہے ہیں کہ وہ جنگ کے بعد مفتوح قوموں کو بالکل کچل کر رکھ دیں اور ان کو ابتدائی انسانی حقوق سے بھی محروم کر دیں.گویا پرانے زمانہ میں جس غلامی کا دنیا میں رواج تھا اُسی غلامی کو بلکہ اُس سے بھی بد تر غلامی کو وہ اب پھر دنیا میں رائج کرنا چاہتی ہیں.اور ان اقوام میں سے بعض سرکردہ لوگ اس امر کا اظہار کر رہے ہیں کہ وہ پرانے زمانہ کے غلاموں سے بھی بدترین سلوک جرمنی اور جاپان کے ساتھ کریں.دوسرے الفاظ میں یوں سمجھ لو کہ جیسے ابتدائی ایام میں آرین اقوام متی نے ہندوستان کی دیگر اقوام سے سلوک کیا تھا اور اُنہوں نے ان اقوام کے لیے بعض خاص پیشے مقرر کر دیے تھے اور کہہ دیا تھا کہ وہ ان پیشوں کے علاوہ اپنی معاش کے لیے کوئی اور ذریعہ اختیار نہیں کر سکتے اور نہ ترقی کے لیے کوئی تدبیر اختیار کر سکتے ہیں.اسی طرح آج انگلستان

Page 566

$1944 566 خطبات " محمود اور امریکہ کے بعض اکابرین کی طرف سے یہ آوازیں اُٹھ رہی ہیں کہ جنگ کے بعد جرمنی اور جاپان دونوں کے لیے بعض پیشے مقرر کر دیے جائیں گے اور فیصلہ کر دیا جائے گا کہ وہ ان مخصوص پیشوں کے علاوہ اور کوئی پیشہ اختیار نہیں کر سکتے.یہ چیزیں جب ظاہر ہوتی ہیں اُس وقت طبائع قدرتی طور پر فیصلہ کی طرف مائل ہوتی ہیں اور وہ اس نتیجہ پر پہنچتی ہیں کہ موجودہ نظام کے علاوہ کوئی اور نظام دنیا میں رائج ہونا چاہیے جو کمزور کی حق تلفی نہ کرے اور طاقتور کو مین ناجائز حقوق نہ دے.پس اگر جنگ کے بعد مفتوح اقوام سے اُسی قسم کا وحشیانہ سلوک کیا گیا جس قسم کا وحشیانہ سلوک اچھوت اقوام سے کیا گیا تھا تو یہ لازمی بات ہے کہ یورپ میں بھی اور ہے امریکہ میں بھی اور جاپان میں بھی اور جرمنی میں بھی دنیا کے موجودہ نظام کے خلاف آوازیں اٹھنی شروع ہو جائیں گی، طبائع میں ایک ہیجان پیدا ہو جائے گا اور لوگوں کے اندر یہ احساس ہے پیدا ہو ناشروع ہو گا کہ موجودہ نظام تسلی بخش نہیں.اور وہی وقت ہو گا جب گرم گرم لوہے پر ا چوٹ لگا کر اُسے اسلام کے بتائے ہوئے طریق کے مطابق ڈھالا جاسکے گا.دیکھو! قرآن کریم نے لیگ آف نیشنز کے بعض اصول بیان کیے ہیں اور وضاحت کے ساتھ بیان فرمایا ہے کہ جب تک ان اصول پر لیگ آف نیشنز کی بنیاد نہیں رکھی جائے گی میں اُس وقت تک دنیا میں کبھی امن قائم نہیں ہو سکے گا.میں نے 1924ء میں اپنی کتاب " احمدیت یعنی حقیقی اسلام" میں ان اصول کو قرآن کریم کی آیات کی روشنی میں بیان کیا تھا.اسی طرح جب میں ولایت گیا تو وہاں مختلف لیکچروں میں نہایت وضاحت اور تفصیل کے ساتھ میں نے ان اصول کا ذکر کیا.اس کے بعد 1935ء میں جلسہ سالانہ کے موقع پر میں نے بچے اپنے ایک لیکچر میں جو سیاسیات عالم کے متعلق تھا اس امر کو پھر بڑی تفصیل سے بیان کیا تھا اور بتایا تھا کہ جب تک قرآنی اصول پر لیگ آف نیشنز کی بنیاد نہیں رکھی جائے گی اس وقت تک میں د نیا بین الا قوامی جھگڑوں سے کبھی امن حاصل نہیں کر سکتی.یہ تمام اصول میری کتاب میں چھپے ہوئے ہیں اور دنیا دیکھ سکتی ہے کہ وہ کیسے پختہ ، کیسے شاندار اور کیسے زبر دست اصول ہیں.آج لیگ آف نیشنز اگر اپنے مقصد میں ناکام ہوتی ہے تو اسی وجہ سے کہ اُن اصول کو اس نے مچی اپنے نظام میں شامل نہیں کیا تھا.انہی اصول میں سے ایک اصل میں نے یہ بیان کیا تھا کہ یہ

Page 567

$1944 567 خطبات محمود خیال کر لینا کہ اس نظام کے قیام کے لیے کسی فوجی طاقت کی ضرورت نہیں نادانی اور حماقت ہے.یہ نظام قائم نہیں ہو سکتا جب تک اس کے ساتھ فوج کی بہت بڑی طاقت نہ ہو تاکہ جب بھی کوئی قوم لیگ آف نیشنز کے فیصلہ کی خلاف ورزی کرے اُس کے خلاف طاقت کا استعمال کر کے اُسے اپنے ناجائز طریق عمل سے روک دیا جا سکے.غرض میں نے وضاحت کے ساتھ اس امر کا ذکر کر دیا تھا کہ لیگ آف نیشنز اس وقت تک صحیح معنوں میں قائم نہیں ہو سکتی اور نہ ہے اپنے مقصد میں کامیاب ہو سکتی ہے جب تک اُس کے ساتھ فوجی طاقت نہ ہو.میں نے یہ اصل اپنی کتاب میں بیان کیا، اپنے لیکچروں میں بیان کیا اور بار بار اس بات پر زور دیا مگر یور بین ہے لوگوں کی طرف سے ہمیشہ یہی کہا گیا کہ یہ بالکل غلط ہے.ہم تو دنیا کو لڑائی سے بچانا چاہتے ہیں ہے اور آپ پھر ایسی تجویز پیش کر رہے ہیں جس میں فوج اور طاقت کا استعمال ضروری قرار دیا گیا ہے.انگلستان میں جب میرے لیکچر ہوتے تو ان کے بعد عام طور پر لوگ یہی کہا کرتے کہ یہی تو وہی پرانی جنگی سپرٹ ہے جو دنیا میں پہلے سے قائم ہے.ہمارے نزدیک یہ تجویز درست نہیں، ہم نے لیگ کے اصول ایسے رکھے ہیں جن میں فوجی طاقت کو استعمال کرنے کی کوئی ضرورت پیش نہیں آسکتی.اُس کے اصول میں یہی روح کام کر رہی ہے کہ فوجی طاقت سے نہیں بلکہ دوسروں کو سمجھا کر صلح اور پیار کی طرف مائل کیا جائے اور اسے بدعنوانیوں سے روکا جائے.انسانی فطرت ایسی ہے کہ جب کسی غلط بات پر قائم ہو جائے تو خواہ اُسے ہزار کہا جائے وہ اپنی بات کو غلط تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتی.یورپین مدبرین نے اُس وقت میری بات کو قابل اعتناء نہ سمجھا.مگر آج تمام مدبرین یک زبان ہو کر کہہ رہے ہیں کہ لیگ آف نیشنز کی ناکامی کی بڑی وجہ یہ ہے کہ اس کے پاس فوجی طاقت نہیں تھی.اگر اس کے پاس فوجی ہیں طاقت ہوتی تو اُس کا یہ انجام نہ ہوتا.حالانکہ یہ وہ اصول ہے جو قرآن کریم نے آج سے پورے چودہ سوسال پہلے سے بیان کیا ہوا ہے، قرآن کریم میں موجود ہے اور میں نے بڑی وضاحت سے آج سے کئی سال پہلے اس کا اپنی کتابوں اور اپنے لیکھروں میں ذکر کر دیا تھا اور کہہ دیا تھا کہ لیگ آف نیشنز کے ساتھ فوجی طاقت کا ہونا نہایت ضروری ہے.لیکن اُسوقت توجہ نہ کی گئی جس کا نتیجہ نہایت تلخ اور افسوس ناک نکلا.

Page 568

خطبات محمود 568 $1944 اسی طرح ایک دوسری بات بھی میں نے اپنی کتاب " احمدیت " میں بیان کی ہوئی ہے جس کو آج میں بڑے زور سے بیان کر دیتا ہوں.پہلی بات کے متعلق لوگ کہہ دیتے ہیں کہ ہمیں اس کا علم نہیں تھا کہ آپ نے اس اصول کا ذکر کیا ہوا ہے.اس لیے اب میں دوسری بات کو ایک دفعہ پھر وضاحت کے ساتھ بیان کر دیتا ہوں.کیونکہ وہ بھی ایسی اہم ہے کہ اُس ہدایت کی خلاف ورزی دنیا میں کبھی نیک نتائج پیدا نہیں کر سکتی.اور ہمارے غیر ممالک کے مبلغین کو چاہیے کہ فوراً اس اصل کی عام طور پر اشاعت شروع کر دیں تا بعد میں کوئی یہ نہ کہے کہ وقت پر ہمیں اس طرف توجہ نہ دلائی گئی تھی.دوسری بات جو میں نے قرآن کریم کی روشنی میں بیان کی ہوئی ہے یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جب تم طاقت استعمال کر کے بگڑی ہوئی اور نافرمان پارٹی کو مفتوح کر لو، اُس پر پوری طرح غلبہ و اقتدار حاصل کر لو اور تم آخر میں اپنے اور دوسروں کے حقوق کے متعلق فیصلہ کرنے لگو تو یاد رکھو! اُس وقت جوش میں مفتوح قوم پر اپنا غصہ مت نکالو بلکہ جس حد تک جھگڑا ہو صرف اُسی حد تک اپنے فیصلوں کو محدود رکھو.یہ نہ ہو کہ جوش اور غصہ کی حالت میں تم اپنی حدود سے متجاوز ہو جاؤ اور اُس پر مظالم کرنے لگ جاؤ.یا کوشش کرو کہ وہ قوم اس طرح کچلی جائے کہ آئندہ صدیوں تک تمہارے مقابلہ میں سر نہ اٹھا سکے.تمہارا فرض ہے کہ تم صرف جھگڑے تک اپنے فیصلوں کو محدود رکھو اور ناجائز پابندیاں، ناجائز قیود اور ناجائز دباؤ مفتوح قوم پر مت ڈالو.اگر تم ایسا کرو گے تو اس کے ہے نتیجہ میں پھر فساد پیدا ہو گا، پھر بدامنی پیدا ہو گی، پھر لڑائی شروع ہو گی اور پھر دنیا کا امن برباد ہو جائے گا.یہ اصول ہے جس کو میں نے بڑی وضاحت سے اپنی کتاب میں بیان کیا ہوا ہے مگر میں دیکھتا ہوں جس طرح مغربی اقوام نے پہلے اصول کی خلاف ورزی کی تھی اسی طرح آج وہ اس اصول کی خلاف ورزی کے لیے تیار ہو رہی ہیں.چنانچہ اس قسم کی آواز میں اُٹھنی شروع ہو ا گئی ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ جنگ کے بعد جب روس، برطانیہ، امریکہ اور چین طاقتیں مل کر دنیا میں امن قائم کریں گی تو جرمنی اور جاپان سے نہ صرف وہ تمام چیزیں لے لی ہے جائیں گی جن پر انہوں نے غاصبانہ قبضہ کیا تھا بلکہ ان کی بغاوت کی سزا کے طور پر ہمیشہ کے لیے ان کی قوت کو کچل دیا جائے گا اور انہیں ابتدائی انسانی حقوق سے بھی محروم کر دیا جائے گا.میں

Page 569

$1944 569 خطبات محمود ابتدائی انسانی حقوق میں سے ایک حق یہ ہے کہ ہر شخص کو اس بات کا اختیار حاصل ہے کہ وہ جو پیشہ اپنے لیے مناسب سمجھتا ہے اُس پیشہ کو اپنی زندگی کا جزو بنا لے.اگر وہ تجارت کرنا چاہتا ہے تو تجارت کرے، زراعت کرنا چاہتا ہے تو زراعت کرے، صنعت و حرفت اختیار کرنا چاہتا ہے تو صنعت و حرفت اختیار کرے، سائنس کی طرف توجہ کرنا چاہتا ہے تو سائنس کی طرف توجہ کرے.مگر اس حق سے بھی جرمنی اور جاپان کو محروم کرنے کی سکیمیں تیار ہو رہی ہے ہیں.کہا جاتا ہے کہ ان کے انڈسٹریل سکول بند کر دیے جائیں گے، انڈسٹریل سوسائیٹیاں توڑ دی جائیں گی اور اُن کو مجبور کیا جائے گا کہ وہ صرف زمیندارہ کریں اور ضرورت سے زائد اُن کے پاس جو کچھ بچے وہ اُن سے خرید لیا جائے.یہ وہی سلوک ہے جو ہندوؤں نے اچھوت اقوام سے روا رکھا اور جس کی بناء پر انہوں نے مدتوں تک اچھوتوں کو سر نہ اٹھانے دیا.گویا وہی سلوک جو ہندوؤں نے اچھوت اقوام سے کیا تھا اب خطرہ ہے کہ مغربی اقوام اپنی مفتوح قوموں سے ویسا ہی سلوک کریں اور پھر دنیا کے ایک طبقہ کو بدترین غلامی کے چکر میں پھنسا دیں.کوئی کہہ سکتا ہے کہ ہندوؤں نے تو اچھوت اقوام سے ہزاروں سال تک فائدہ اٹھالیا.اب ممکن ہے مغربی اقوام بھی اس طریق سے ایک لمبے عرصہ تک فائدہ اُٹھا لیں.ہندوؤں کی تاریخ بہت مبالغہ آمیز ہے.اس لحاظ سے ہزاروں سال کہنا تو صحیح نہیں ہو سکتا لیکن اس میں کوئی شبہ نہیں کہ انہوں نے ڈیڑھ دو ہزار سال تک اچھوت اقوام کو اپنے ماتحت رکھا اور اس طرح ان سے فائدہ اٹھاتے رہے.پس اس مثال کی بناء پر کوئی کہہ سکتا ہے کہ اب ممکن ہے یہ قومیں دوسری قوموں کو اچھوت بنا کر اُن سے لمبے عرصے تک فائدہ اٹھاتی رہیں.لیکن یاد رکھنا چاہیے کہ گواچھوت قوموں سے ہندو ہمیشہ فائدہ اٹھاتے رہے لیکن اس کے ساتھ ہی ہندوستان کے ایک طبقہ کو اچھوت بنا کر خود ہندو قوم بھی ایک ہزار سال سے مغلوب ہوتی چلی آئی ہے.یہ الگ بات ہے کہ وہ چوڑھوں سے مغلوب نہیں ہوئی، وہ سانسیوں سے مغلوب نہیں ہوئی، وہ بھیلوں سے مغلوب نہیں ہوئی مگر وہ پہلے یونانیوں اور پھر پٹھانوں اور بعد میں مغلوں سے مغلوب ہو گئی.اور اس مغلوبیت کی وجہ یہی تھی کہ ملک کی اکثریت ایسی تھی جسے حکومت سے کوئی ہمدردی نہیں تھی، اس کے معاملات سے اسے کوئی دلچسپی نہیں تھی اور اس کی خیر خواہی

Page 570

خطبات محمود 570 $1944 اور بھلائی اس کے مد نظر نہیں تھی کیونکہ وہ مجھتی تھی ہم خواہ جیئیں یا مریں حکومت کو ہمارے ساتھ کوئی ہمدردی نہیں ہے.پس اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اچھوت اقوام سے آرین اقوام نے ذلت کا سلوک روا رکھا، اُن کے حقوق کو تلف کیا اور ان کی ترقی کو روک دیا.مگر اسی وجہ سے خدا نے اور قوموں کو کھڑا کر دیا جنہوں نے مقابلہ کیا.اس طرح وہی قوم جس نے اچھوتوں کو ذلیل کیا تھا اسے خود دوسروں کا محکوم بننا پڑر اسی طرح بالکل ممکن ہے کہ اگر فاتح ہیں مغربی اقوام جرمنی اور جاپان سے اچھوتوں والا سلوک کریں تو گو جر منی اور جاپان سے یہ قومیں ذلت نہ اٹھائیں مگر اس ظلم کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ بعض اور قومیں کھڑی کر دے جن کا مقابلہ ان کے لیے آسان نہ ہو.پس دنیا پھر خدانخواستہ ایک غلطی کرنے والی ہے.پھر خدانخواستہ ایک ظلم کا بیج سکتا.بونے والی ہے.پھر ایک ایسی حرکت کرنے والی ہے جس کا نتیجہ بھی اچھا پیدا نہیں ہو کبھی اور ہمارا فرض ہے کہ ہم خدا تعالیٰ سے دعا کریں کہ وہ اِس غلطی سے حاکم اقوام کو بچائے.اور دوسری طرف ہمارا فرض ہے کہ ہم دنیا کو اس غلطی سے آگاہ کریں اور تبلیغ اسلام کے متعلق زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھائیں.اس جنگ کے بعد کم سے کم دو ملک ایسے تیار ہو جائیں گے ہے جو ہماری باتوں پر سنجیدگی اور متانت کے ساتھ غور کریں گے.یعنی جرمنی اور جاپان.یہ دو ملک ایسے ہیں جو ہماری باتیں سننے کے لیے تیار ہو جائیں گے.خصوصاً جر منی ایک ایسا ملک ہے جو اس لحاظ سے خاص طور پر اہمیت رکھتا ہے.ہم ان لوگوں کے پاس پہنچیں گے اور انہیں بتائیں گے کہ دیکھو! عیسائیت کتنی ناکام رہی کہ عیسائیت کی قریبا دو ہزار سالہ غلامی کے بعد بھی تم مینی غلام کے غلام رہے اور غلام بھی ایسے جن کی مثال سوائے پرانے زمانہ کے اور کہیں نظر نہیں آسکتی.اس وقت ان کے دل اسلام کی طرف راغب ہوں گے اور ان کے اندر یہ احساس پیدا ہو گا کہ آؤ ہم عیسائیت کو چھوڑ کر اسلام پر غور کریں اور دیکھیں کہ اس نے ہمارے دکھوں کا کیا علاج تجویز کیا ہوا ہے.پس وہ وقت آنے والا ہے جب جرمنی اور جاپان دونوں کے سامنے ہمیں عیسائیت کی ناکامی اور اسلامی اصول کی برتری کو نمایاں طور پر پیش کرنا پڑے گا.اسی طرح انگلستان اور امریکہ اور روس کے سمجھدار طبقہ کو ( اور کوئی ملک ایسے سمجھدار طبقہ

Page 571

$1944 571 خطبات محج محمود سے خالی نہیں ہوتا) اسلام کی تعلیم کی برتری بتا سکیں گے.مگر یہ اُسی وقت ہو سکتا ہے جب ہماری طاقت منظم ہو ، جب ہماری جماعت کے تمام افراد زیادہ سے زیادہ قربانیاں کرنے کے لیے تیار ہوں، جب کثرت سے مبلغین ہمارے پاس موجود ہوں اور جب ان مبلغین کے لیے ہر قسم کے سامان ہمیں میسر ہوں.اسی طرح یہ کام اُسی وقت ہو سکتا ہے جب جماعت کے تمام نوجوان پورے طور پر منتظم ہوں اور کوئی ایک فرد بھی ایسا نہ ہو جو اس تنظیم میں شامل نہ ہو.وہ سب کے سب اس ایک مقصد کے لیے کہ ہم نے دنیا میں اسلام اور احمدیت کو قائم کرنا ہے اس طرح رات اور دن مشغول رہیں جس طرح ایک پاگل اور مجنون شخص تمام جہات سے اپنی توجہ ہٹا کر صرف ایک کام کی طرف مشغول ہو جاتا ہے.وہ بھول جاتا ہے اپنی بیوی کو ، وہ بھول جاتا ہے اپنے بچوں کو، وہ بھول جاتا ہے اپنے دوستوں اور رشتہ داروں کو اور صرف ایک مقصد اور ایک کام اپنے سامنے رکھتا ہے.اگر ہم یہ جنون کی کیفیت اپنے اندر پیدا کر لیں اور اگر ہماری جماعت کا ہر فرد دن اور رات اس مقصد کو اپنے سامنے رکھے تو یقیناً خدا تعالیٰ ہماری جماعت کے کاموں میں برکت ڈالے گا اور اس کی کوششوں کے حیرت انگیز نتائج پیدا کرنا شروع کر دے گا.اب بھی خدا تعالیٰ کے فضل سے ہماری جماعت کا دنیا پر غیر معمولی رُعب پایا جاتا ہے اور بہت سے شہر ایسے ہیں جہاں احمدیہ انجمنیں قائم ہو چکی ہیں.بے شک ایسے بھی کئی شہر ہیں جہاں ابھی تک کوئی احمدی نہیں اور ایسے بھی شہر ہیں جن میں صرف ایک ایک احمدی ہے مگر باوجود اس کے ہندوستان میں ہماری جماعت کی دھاک بیٹھی ہوئی ہے اور لوگوں کے دل می محسوس کرتے ہیں کہ یہ ایک کام کرنے والی اور دنیا میں ترقی کرنے والی زندہ قوم ہے.اسی طرح تم مصر چلے جاؤ، عرب چلے جاؤ، شام چلے جاؤ، ٹر کی چلے جاؤ سب جگہ لوگوں کو یہی کہتا سنو میں گے کہ جماعت احمد یہ بہت بڑا کام کر رہی ہے.حالانکہ ساری دنیا میں ہمارے صرف آٹھ دس مبلغ ہیں اور تعداد کے لحاظ سے ہم دوسروں کے مقابلہ میں کوئی حقیقت ہی نہیں رکھتے.مگر بوجہ اس کے کہ ہماری جماعت کے افراد دوسروں سے بہت زیادہ قربانی اور ایثار کا مادہ اپنے اندر رکھتے ہیں اور اسلام کی اشاعت کے لیے وہ جس قدر کوشش کرتے ہیں اُس کا عشر عشیر بھی ہے دوسرے مسلمانوں میں نظر نہیں آتا.جہاں چلے جاؤ احمدیت کی تعریف میں لوگ یہ

Page 572

خطبات محمود 572 $1944 رطب اللسان ہوں گے اور وہ اس حقیقت کو بر ملا بیان کر رہے ہوں گے کہ جماعت احمد یہ ایک زندہ جماعت ہے.یورپ اور امریکہ جیسے ممالک میں اِس وقت تک قریباً بارہ کتابیں ایسی چھپ چکی ہیں جو احمدیت کے متعلق ہیں یا ان کتابوں میں احمدیت کے متعلق کوئی نہ کوئی مضمون لکھا گیا ہے.ان سب کتابوں میں یورپین اور عیسائی مصنفین نے اقرار کیا ہے کہ مسلمانوں میں صرف جماعت احمدیہ ہی ایک کام کرنے والی اور ہر قسم کی قربانیوں میں حصہ لینے والی قوم ہے.اگر عیسائیت کو آج کسی قوم سے خطرہ ہے تو وہ صرف احمدی قوم ہے.اور کسی مذہب یا مذہب کے کسی فرقہ سے عیسائیت کو اتنا خطرہ نہیں جتنا احمدیت سے ہے.حالانکہ ہم اپنی جماعت کے جو حالات جانتے ہیں اُن کے لحاظ سے ہم سمجھتے ہیں کہ ظاہری طاقت کے لحاظ سے ہم دوسروں کے مقابلہ میں کچھ بھی نہیں.پس جب ہماری تھوڑی سی کوشش تھوڑی سی قربانی اور تھوڑی ہیں کی جد وجہد کے بعد دنیا پر اس قدر رعب پڑ سکتا ہے تو اگر ہماری ساری جماعت منتظم ہو جائے، اگر ہماری جماعت کے نوجوان بھی اور بوڑھے بھی اور بچے بھی اپنی اندرونی اصلاح کرنے کے لی بعد بیرونی دنیا کی اصلاح کی طرف متوجہ ہو جائیں تو غور کرنا چاہیے ہمارے اِس رُعب میں کتنا بڑا اضافہ ہو سکتا ہے.یقیناً موجودہ رُعب سے ہزاروں گنارُ عب ہماری جماعت کا ہو سکتا ہے.اور موجودہ تعداد سے ہزاروں گنا تعداد ہماری جماعت کی بڑھ سکتی ہے.اور نہ صرف رُعب اور تعداد کے لحاظ سے ہماری جماعت میں اضافہ ہو سکتا ہے بلکہ ہم موجودہ کام سے ہزاروں گنا زیادہ کام کر کے دنیا کو دکھا سکتے ہیں.اب بھی ہماری یہ حالت ہے کہ باوجو د اس کے کہ ہم کمزور ہیں، ہمارے پاس سامان نہیں، ہمارے پاس دولت اور طاقت نہیں ہے پھر بھی بعض ممالک میں احمدیت کی دھاک بیٹھ چکی ہے.مثلاً! افریقہ ایک بہت بڑا بڑا عظم ہے.اُس کا مغربی حصہ نصف بڑا اعظم ہے.اس نصف بڑا عظیم میں ہمارا تبلیغ کرنا ایسا ہی ہے جیسے روس کے کنارہ ہے سے جاپان تک کے علاقہ کو تبلیغ کی جائے.ہمارے اس وسیع علاقہ میں صرف چار مبلغ کام کر رہے ہیں.مگر ان چار مبلغوں کی تبلیغ کے نتیجہ میں افریقہ کے سارے کنارے میں ایک دھوم مچی ہوئی ہے.ہزار ہالوگ ہیں جو احمدیت قبول کر چکے ہیں.گورنمنٹ ہے تو اس پر جماعت کا اثر ہے اور یورپین مصنفین گھلے بندوں تسلیم کرتے ہیں کہ عیسائیت کے مقابلہ میں

Page 573

$1944 573 خطبات محمود جماعت احمدیہ کے مشنری اس علاقہ میں جو کچھ کر رہے ہیں وہ عیسائیت کے لیے نہایت خطر ناک ہے.غرض گورنمنٹ کیا اور پبلک کیا سب جماعت احمدیہ کی طاقت کو تسلیم کرتے ہیں اور وہ دلائل کے میدان میں ہمارا مقابلہ کرنے سے گھبراتے ہیں حالانکہ ہمارے وہاں صرف چار مبلغ ہیں.چار مبلغ ایک ضلع کے لحاظ سے بھی بہت کم ہیں مگر چونکہ اللہ تعالیٰ کی تائید اور اُس کی نصرت ہمارے شامل حال ہے اور وہ اپنے فضل سے ہماری ناچیز کوششوں میں بھی برکت پیدا کر دیتا ہے.اس لیے اُن چار احمدی مبلغین کا ایک وسیع علاقہ پر حیرت انگیز اثر ظاہر ہو رہا ہے.وہ علاقہ اتنا وسیع ہے کہ اُس کی لمبائی کئی ہزار میل کی ہے اور اس علاقہ کو اگر ایک جہاز طے کرنے لگے تو اُسے بھی سات آٹھ دن لگ جاتے ہیں.مگر اتنے وسیع علاقہ میں صرف چار احمدی مبلغین کی تبلیغ کے نتیجہ میں جماعت کی دھاک بیٹھ چکی ہے اور ہر جگہ یہ ہے احساس پایا جاتا ہے کہ جماعت احمدیہ کا مقابلہ کرنا کوئی آسان بات نہیں.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ وہاں بعض مقامی مبلغ بھی کام کر رہے ہیں مگر وہ بھی ہمارے مبلغین نے ہی تیار کیے ہیں.اس لیے اُن کا کام بھی ایک لحاظ سے ہمارے مبلغین کا ہی کام ہے.پس اگر چار مبلغین کی کوششوں کے نتیجہ میں ایک وسیع بڑا عظم کے لوگوں میں اتنا بڑا تغیر پیدا ہو سکتا ہے تو اگر ہماری ساری جماعت اسلام اور احمدیت کی اشاعت کے لیے کھڑی ہو جائے اور دن اور رات اِس کام میں لگ جائے، وہ اپنے آرام کو نظر انداز کر دے، اپنی سہولت کو پس پشت پھینک دے اور دیوانہ وار اس کام میں مشغول ہو جائے تو گو ہماری تعداد تھوڑی ہے، ہمارے پاس اور اقوام کے مقابلہ میں سامان بہت کم ہیں مگر یقیناً اس مجنونانہ کوشش کے نتیجہ میں دنیا میں ایک عظیم الشان تغیر رو نما ہو جائے گا اور ایک بہت بڑا انقلاب الہی ہاتھوں سے ظاہر ہو گا.بے شک آج ہمارے دعووں کو جنون سمجھا جاتا ہے، آج ہمارے دعووں پر جنسی اُڑائی جاتی ہے، آج ہمارے کاموں کی تحقیر کی جاتی ہے لیکن اگر ہماری جماعت اپنی کوششوں کو اسی طرح بڑھاتی چلی جائے تو کل دنیا میں یہ سمجھا جائے گا کہ ان ہاتھوں سے اُس عظیم الشان قربانی کی وجہ سے جس کا نمونہ اس جماعت نے دکھایا یہ کام ہو جانالازمی اور ضروری تھا.ضرورت صرف اس امر کی ہے کہ ہمارے اندر ایک مجنونانہ جوش پیدا ہو جائے، ایک آگ ہو جو ہمارے سینہ میں ہر وقت سلگ رہی ہو ، بے تابی

Page 574

$1944 574 خطبات محمود ہو جو ہمیں کسی پہلو چین نہ لینے دیتی ہو اور ہم پورے عزم اور استقلال کے ساتھ اِس بات پر قائم ہوں کہ ہماری زندگیوں کا مقصد سوائے اس کے اور کچھ نہیں کہ اسلام اور احمدیت پر عمل اور اسلام اور احمدیت کے لیے قربانی".(الفضل 11 / اکتوبر 1944ء) 1 : البقرة: 151 2 : مانومينيا:(MANOMANIA) اپنی خواہش، خیال یا نظریہ کے پیچھے دیوانہ ہو جانا اور اپنے اوپر غالب کر لینا ------------------------

Page 575

$1944 575 (35) خطبات محمود دعا کرو کہ خدا تعالیٰ تیسری جنگ کی نوبت نہ آنے دے (فرموده 6 اکتوبر 1944ء بمقام ڈلہوزی) \---------- تشہد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: میں نے گزشتہ دو خطبوں میں اس بات کا ذکر کیا تھا کہ جنگ اپنے اختتام کی طرف آرہی ہے.مگر اس کے معنی صرف اتنے ہی ہیں کہ تو پوں اور بموں کی جنگ اختتام کی طرف آن رہی ہے.لیکن اصلی جنگ کے خاتمہ میں ابھی بہت دیر ہے.لوگ غلطی سے یہ سمجھتے ہیں کہ جنگ تو ہیں چلنے اور بم پھینکنے کا نام ہے حالانکہ اصل جنگ نام ہے اُن عداوتوں اور ان تنافروں اور اُن حسدوں اور اُن بعضوں اور اُن کینوں کا جو قوموں کو آپس میں مل کر بیٹھنے نہیں دیتے.توپ اور بم یا ایسے ملکوں میں جہاں تو ہیں اور بم نہیں ہوتے وہاں لاٹھیاں اور سونٹے اور پتھر وغیرہ یہ بیماری کی علامتیں ہیں اصلی بیماری نہیں ہیں.جس طرح انسانی جسم میں کچھ بیماریاں ہوتی ہیں اور کچھ بیماریوں کی علامتیں ہوتی ہیں.اسی طرح یہ چیزیں خود اپنی ذات میں بیماری نہیں بلکہ بیماری کی علامتیں اور اس کو پہچاننے کے نشانات ہیں.ایک شخص کو درد ہو رہا ہوتا ہے

Page 576

خطبات محمود 576 $1944 اور اُس درد کی وجہ سے وہ کراہ رہا ہوتا ہے.اسے کسی پہلو قرار نہیں آتا.وہ بار بار کروٹیں بدلتا اور شدت درد کی وجہ سے چیخ رہا ہوتا ہے.اگر اُسے دیکھ کر کوئی شخص یہ خیال کرے کہ اُس کی اصل بیماری یہ درد ہی ہے تو وہ غلطی کا مرتکب سمجھا جائے گا.اس لیے کہ درد اصل بیماری نہیں ہے بلکه در د کسی جگہ خون کے اجتماع کا نام ہے یا اعصاب پر بوجھ پڑ جانے کا نام ہے یا قوت جسمانی کا نظام بگڑ کر اعصاب کو کسی تکلیف کے پہنچ جانے کا نام ہے.اور درد ایک علامت ہے جو کسی ایسی ہے بیماری پر دلالت کرتی ہے جو درد کے پیچھے موجود ہوتی ہے.جب تک اصل بیماری دور کرنے کی کوشش نہ کی جائے گی محض درد کو فرو کرنے کی کوشش بالکل عبث اور فضول ہو گی.مثلاً اگر میں کسی شخص کے پیٹ میں کوئی شدہ پھنس گیا ہے اور اس وجہ سے اُسے درد ہو رہا ہے تو اُس وقت اصل بیماری درد کو نہیں سمجھا جائے گا بلکہ اصل بیماری یہ ہوگی کہ شدہ پھنسا ہوا ہے.ایسی حالت میں اُس درد کا صحیح ترین علاج سوائے اس کے اور کچھ نہیں ہو گا کہ اُس شدہ کو نکالنے کی کوشش کی جائے.جب تک اُس عدہ کو دور کرنے کی کوشش نہیں کی جائے گی اُس وقت تک ہے خواہ کسی اور طریق سے درد کو دبانے کی کوشش کی جائے بیماری کا مادہ جسم میں موجو د رہے گا.پھر وہ عارضی سبب کے دور ہونے پر نمودار ہو جائے گا.اسی طرح جب انسانوں میں تنافر اور ہم تباغض اور کینہ اور غصہ اور جوش پیدا ہو گیا ہو تو جب تک طبیعتوں میں یہ بغض اور کینہ اور حسد اور ایک دوسرے کے خلاف غیظ و غضب کا مادہ موجود رہے گا اُس وقت تک جنگ کا امکان بہر صورت رہے گا.اور اگر جنگ کو کسی نہ کسی طرح دبادیا گیا تب بھی بیماری کا اصل مادہ موجود رہے گا اور اس کے متعلق ہر وقت یہ خطرہ ہو گا کہ عارضی روکوں کے دور ہونے پر پھر چھوٹ کر ظاہر ہو جائے اور دنیا کو پھر تباہی اور بربادی کے گڑھے میں دھکیل دے.پس جب تک اِس جنگ کی بنیادی وجوہ کو دور نہیں کیا جاتا، جب تک اُس بغض اور کینہ اور غصہ کو دور نہیں کیا جاتا ہے جو اندر ہی اندر قوموں کے دلوں میں پایا جاتا ہے اُس وقت تک ہتھیار چھین کر یا دباؤ ڈال کر جنگ کو بند کرا دینا محض بیماری کی ایک علامت کو دبانا ہو گا اور یہ ایسا ہی ہو گا جیسے شدت درد سے تڑپنے والے مریض کو افیون کھلا دی جائے.اگر ہم کسی ملک پر غلبہ حاصل کر کے اُسے دبات لیتے ہیں، اس کی تو ہیں چھین لیتے ہیں، اس کے ہم چھین لیتے ہیں، اُس کے ہوائی جہاز ہے

Page 577

$1944 577 خطبات مج محمود ولیا چھین لیتے ہیں، اُس کی تلواریں چھین لیتے ہیں، اُس کی مشین گنیں چھین لیتے ہیں، اُس کی لٹریاں چھین لیتے ہیں، اُس کی تجارت پر قبضہ کر لیتے ہیں، اُس کی صنعت و حرفت کو برباد کر دیتے ہیں اور یہ خیال کر لیتے ہیں کہ ہم نے جنگ کے امکانات کا کلی طور پر انسداد کر دیا ہے تو ہم ایسا ہی کرتے ہیں جیسے ڈاکٹر مریض کو افیون کھلا کر اس کی بیماری کو دبا دیتا ہے یا اس کی بے چینی اپنے کو عارضی طور پر کم کر دیتا ہے.بظاہر یہ معلوم ہو گا کہ مریض کو آرام آگیا ہے لیکن جب افیون کا اثر کم ہو گا، جب عارضی علاج کے اثرات جاتے رہیں گے تو اُس کی بیماری پھر عود کر آئے گی اور یا پھر اسی افیون کے نشہ میں بیمار مر جائے گا.اسی طرح اگر اس جنگ کے اختتام پر صرف یہ کیا گیا کہ مغلوب قوموں سے ہتھیار لے لیے گئے ، اُن کے حقوق کو تلف کر دیا گیا اور اُن کے ساتھ ذلت اور نا انصافی کا سلوک روا رکھا گیا تو یہ صرف ایک علامت کا دبانا ہو گا بیماری موجود رہے گی اور وہ پھر کسی نہ کسی صورت میں دنیا میں ظاہر ہو کر رہے گی.یہی بات دیکھ لو کیا ہندوستان سے انگریزوں نے ہتھیار نہیں لے لیے تھے ؟ مگر کیا دنیا کا کوئی شخص بھی کہہ سکتا ہے؟ کہ انگلستان اور ہندوستان میں جنگ نہیں ہو رہی؟ وہ ہزاروں ہزار آدمی جو کانگرسی یا انارکسٹ ہیں جو انگریزوں کے خلاف نفرت و حقارت کے جذبات اپنے دلوں میں رکھتے ہیں، جو انگریزوں کی حکومت کو ایک لمحہ کے لیے بھی پسند نہیں کرتے گو ان کے پاس تلواریں نہیں ہیں، گو ان کے پاس بندوقیں نہیں ہیں، گو ان کے پاس تو میں نہیں ہیں، گو ان کے پاس ہم نہیں ہے ہیں، گو ان کے پاس ہوئی جہاز نہیں ہیں مگر ان کی لڑائی انگریزوں سے برابر جاری ہے.ان کے دل کا ہر وہ خیال جو انگریزوں کے خلاف پیدا ہوتا ہے، ان کی زبان کا ہر وہ لفظ جو انگریزوں کے خلاف نکلتا ہے تلوار اور بندوق اور توپ اور بم کا ہی قائم مقام ہوتا ہے.صرف بیچارگی کی وجہ سے، صرف بیکسی کی وجہ سے، صرف کمزوری کی وجہ سے ہوائی جہازوں کی جگہ اُن کے خیال نے لے لی اور بموں کی جگہ اُن کی زبان نے لے لی ورنہ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اُن کی انگریزوں سے لڑائی جاری ہے.اور یہ خیال کر لینا کہ چونکہ انگریزوں نے ہندوستان سے ہتھیار لے لیے ہیں اس لیے یہ لڑائی بند ہو چکی ہے نادانی اور حماقت ہے.وہ ہال جن میں کھڑے ہو کر وہ تقریریں کرتے ہیں اور وہ چوک جن میں انگریزوں کے خلاف وہ اپنے خیالات می

Page 578

خطبات محج محمود 578 $1944 کا اظہار کرتے ہیں وہی میدان جنگ ہیں.صرف مجبوری اور بیکسی کی وجہ سے میدانِ جنگ نے ہالوں اور چوکوں کی صورت اختیار کی ہوئی ہے.ورنہ اگر یہ مجبوری اور بیکسی نہ ہوتی اور یہ لوگ با قاعده میدانِ جنگ میں نکلنے کی طاقت رکھتے تو یہ بھی اُسی طرح انگریزوں سے لڑتے جس طرح اور قومیں آپس میں بر سر پیکار ہو رہی ہیں.پس صرف تو پوں اور بموں کا کسی قوم سے چھین لینا قیام امن کے لیے کافی نہیں ہو تا بلکہ اُن اسباب کو دُور کرنے کی ضرورت ہوتی ہے جو لڑائی کی محرک ہوتی ہیں.اگر موجودہ جنگ کے نتیجہ میں بھی بعض قوموں سے بم چھین لیے گئے، تو ہیں چھین لی گئیں، ہوائی جہاز چھین لیے گئے تو اس کے یہ معنے نہیں ہوں گے کہ لڑائی ہے بند ہو گئی بلکہ اس کے معنے صرف یہ ہوں گے کہ لڑائی کی ایک علامت کو دبا دیا گیا ہے ورنہ لڑائی کا مادہ ماده موجود رہے گا اور خطرہ ہے کہ کسی دوسرے وقت زیادہ شدت سے نمودار ہو جائے.کیونکہ لڑائی تلوار کے استعمال کا نام نہیں، لڑائی تو ہیں چلانے کا نام نہیں، لڑائی بم کرانے کا نام نہیں، لڑائی ہوائی جہازوں کو استعمال کرنے کا نام نہیں بلکہ یہ علامتیں ہیں لڑائی ہے کی.اس لیے اگر صرف ان علامتوں کو دبا دیا گیا اور لڑائی کے اصل سبب کو قائم رہنے دیا گیا تو وہی قومیں جن کو آج ذلیل سمجھا جاتا ہے پھر اپنے بغض اور کینہ کو نکالنے کے لیے ایک اور جنگ کی آگ بھڑ کا دیں گی.یہ خیال کر لینا کہ جو قومیں آج مغلوب ہوں گی وہ ہمیشہ دنیا میں مغلوب ہی رہیں گے نادانی ہے.قوموں کا عروج اور زوال ایک دوری کیفیت رکھتا ہے اور جو قوم آج غالب ہوتی ہے وہ کل مغلوب نظر آتی ہے.اور جو آج مغلوب ہوتی ہے وہ کل غالب نظر آتی ہے.آج سے چھ سات سو سال پہلے کون شخص یہ خیال کر سکتا تھا کہ انگریزوں کو کسی میں زمانہ میں بہت بڑی طاقت حاصل ہو جائے گی.یا آج سے چھ سات سو سال پہلے کون شخص خیال کر سکتا تھا کہ امریکہ کسی زمانہ میں بہت بڑی طاقت شمار ہو گی.یا آج سے بیس سال پہلے کون یہ خیال بھی کر سکتا تھا کہ روس دنیا کی ایک مضبوط طاقت بننے والا ہے.وہ ایک راندہ ہوا اور مردود ملک تھا.ساری قوموں نے اس کو ذلیل سمجھا ہو ا تھا اور وہ وہاں تک سامان بھی نہیں پہنچنے دیتے تھے مگر آج روس دنیا کی بہت بڑی طاقت سمجھا جاتا ہے.پس یہ خیال کر لینا کہ جو قومیں اِس جنگ میں گر جائیں گی وہ آئندہ کبھی ترقی نہیں کریں گی اور ان کے حقوق کا فیصلہ صرف میں

Page 579

$1944 579 خطبات محمود فاتح اقوام کے ہاتھوں میں ہی رہے گا نادانی اور جہالت کی بات ہے.طاقتور قو میں مغلوب ہوتی چلی آئی ہیں اور مغلوب قو میں طاقتور بنتی چلی آئی ہیں اور یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس کا ثبوت تاریخ کے اوراق میں موجود ہے.پس دنیا میں امن کے قیام کے لیے سامانِ جنگ کا چھین لینا یا مغلوب قوموں کو ان کے ابتدائی انسانی حقوق سے بھی محروم کر دینا قطعاً کوئی علاج نہیں ہے.یہ صرف بیماری کی علامتوں کو دبانا ہے اور بیماری کی علامتوں کو دبانا مگر اصل بیماری کا علاج نہ کرنا انسان کو ہرگز شفاء نہیں دے سکتا.اسی طرح دنیا میں کبھی امن قائم نہیں ہو سکتا جب تک اس نبض اور اس نے حسد کو دور نہ کیا جائے جو تمام فتنہ و فساد کی جڑ ہوتا ہے اور جس کی وجہ سے آتش جنگ کے شرارے دنیا کے امن کو راکھ کر دیتے ہیں.پس دنیا میں امن کے قیام کے لیے نفوس کی اصلاح کی ضرورت ہے، اس بات کی ضرورت ہے کہ بعضوں اور کینوں کو دور کیا جائے اور دلوں میں محبت اور پیار پیدا کیا جائے.مذہبی لا ابالینی بھی آپس کے بغض اور کینہ سے پیدا ہوتی ہے اور دنیوی لڑائیاں بھی آپس کے بغض اور کینہ سے پیدا ہوتی ہیں.مگر لوگ غلطی سے اُن سامانوں کو تو دور کرنے کی کوشش کرتے ہیں جو محض بیماری کی علامتیں ہوتی ہیں مگر اصل ہے اندرونی اسباب کو دور کرنے کی طرف کوئی توجہ نہیں کرتے.ہمارے ملک میں بھی مذہبی لڑائیوں کے پیدا ہونے پر بالعموم لوگ اسی قسم کے علاج سے کام لیا کرتے ہیں جو عارضی ہے تسکین کا موجب ہوتا ہے.مگر حقیقی اور صحیح علاج کی طرف ان کی نظر نہیں اٹھتی.جب عیسائیوں کی طرف سے اسلام کے خلاف ایک نہایت ہی گندی کتاب " امہات المومنین" نکلی تو مسلمانوں نے بڑا زور اس بات پر دیا کہ گورنمنٹ کو چاہیے اس کتاب کو ضبط ہے کرائے.مگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے لکھا کہ اس کتاب کو ضبط کرنے کا کیا فائدہ ہے.امہات المومنین " کی تصنیف تو نتیجہ ہے اُس بغض اور اس کینہ کا جو عیسائیوں وغیرہ کے دلوں میں اسلام کے خلاف پایا جاتا ہے.وہ ایک آہ ہے جو اُن کے سینوں سے بلند ہوئی ہے اور وہ ایسی ہی آہ ہے جیسے درد سے کراہنے والا شدتِ درد میں آہیں بھرتا چلا جاتا ہے.یا کسی شخص کو جنون ہو جائے تو وہ بے تحاشا گالیاں دینے لگ جاتا ہے.ایسی صورت میں

Page 580

خطبات مج محمود 580 $1944 اگر انسان دوسرے کے زخم کو دور کرنے کے بغیر یا اُس پر مرہم کا پھایا لگانے کے بغیر اس کی آہوں کو دبانا چاہے یا ایک پاگل اور مجنون شخص کی گالیوں کو روکنا چاہے تو وہ آہیں اور وہ گالیاں کس طرح رُک سکتی ہیں.وہ آہیں پھر نکلیں گی، پھر نکلیں گی اور پھر نکلیں گی.اسی طرح اگر بغیر جنون کا علاج کرنے کے کوئی شخص ایک مجنون اور پاگل کی گالیوں سے بچنا چاہے تو وہ بچ نہیں سکتا.ضرور ہے کہ اس کو گالیاں ملیں اور ضرور ہے کہ وود کھ اٹھائے کیونکہ جنون ہے کی موجودگی میں گالیوں کا ملنا ضروری ہے.اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے لکھا کہ امہات المومنین" کو ضبط کرانا اصل علاج نہیں ہے.بلکہ اصل علاج یہ ہے کہ اُن طریقوں کو اختیار کیا جائے جن پر چل کر اس قسم کی لڑائیاں دور ہو سکتی ہیں.اور وہ طریق یہی ہے ہے کہ جو مذ ہب سچا ہے اس کو دنیا میں زیادہ سے زیادہ پھیلایا جائے.لوگوں کو دوسرے مذہب ہے کے خلاف اسی لیے غصہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ سنجیدگی سے غور کرنے کے عادی نہیں ہوتے.اگر بار بار اُن کے سامنے ایک سچائی کو پیش کیا جائے اور انہیں کہا جائے کہ اگر تمہارے مذہب میں بھی ایسی ہی سچائی پائی جاتی ہے تو اُس کو پیش کرو تو وہ اس بات پر مجبور ہوتے ہیں کہ بچے مذہب کو اختیار کریں.اور یا پھر دوسری صورت ان مذہبی جھگڑوں کے انسداد کی یہ ہو سکتی ہے ہے کہ ہر مذہب کا پیر و صرف اپنے اپنے مذہب کی خوبیاں بیان کرے، دوسروں پر حملہ کرنا اور اُن کی عیب چینی میں مشغول رہنا ترک کر دیا جائے.جب یہ طریق اختیار کیا جائے گا تو اس کے نتیجہ میں اسلام کو فتح حاصل ہو گی.کیونکہ جب وہ اسلام کی خوبیاں دیکھ لیں گے اور جب وہ اپنے مذاہب کو ان خوبیوں سے بالکل خالی پائیں گے تو ان کے دل اسلام کی صداقت پر مطمئن ہو جائیں گے اور وہ سمجھ جائیں گے کہ ان کی مخالفت کرنا صحیح نہیں.ہم دیکھتے ہیں عیسائیوں اور ہندؤوں وغیرہ کے مجمع میں جب اسلام کی خوبیاں بیان کی جاتی ہیں، جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فضائل بیان کیے جاتے ہیں، جب قرآن کریم کی خوبیاں پیش کی جاتی ہیں تو تین بعد میں کئی ہندو اور عیسائی یہ کہتے سئے جاتے ہیں کہ ہمیں پتہ نہیں تھا اسلام ایسا اچھا مذہب ہے، ہمیں پتہ نہیں تھا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں یہ یہ کمالات پائے جاتے ہیں.جس کے دوسرے معنے یہ ہوتے ہیں کہ ہم اس لیے گالیاں دیتے تھے کہ ہم سمجھتے تھے

Page 581

خطبات محمود 581 $1944 ہے اسلام بہت بُر امذ ہب ہے اور ہم اس لیے لڑتے تھے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نَعُوْذُ بِاللهِ اچھے آدمی نہیں تھے.پس جو چیز اُن کی زبانوں اور اُن کے قلموں سے نکلتی.اُس کا موجب اُن کے دلی خیالات ہوتے ہیں.اگر ان خیالات کی اصلاح کر دی جائے، اگر اُن کے کے سامنے اسلام کی صحیح تصویر پیش کی جائے اور اگر اُن کی غلط فہمیوں کو دور کیا جائے تو ان کی زبان بھی اسلام اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعریف کرنے لگ جائے اور اُن کے قلم بھی اسی کام میں مشغول ہو جائیں.یہی حال حکومتوں کا ہوتا ہے اگر ان کے بغض اور ان کے کینہ کو دور کرنے کی ہے کوشش نہ کی جائے بلکہ انہیں سختی سے دبا کر رکھا جائے ، اُن کے حقوق کو تلف کر دیا جائے، اُن کی ترقی کے مواقع کو مسدود کر دیا جائے اور اُن کے ساتھ ذلت آمیز سلوک روا رکھا جائے تو اُن کے دلوں میں یہ احساس پیدا ہونا شروع ہو جاتا ہے کہ یہ غالب اقوام موقع پاکر بڑھ گئی ہیں اب یہ نہیں چاہتیں کہ کوئی دوسری قوم ان سے بڑھ سکے.یہ احساس ہے جو اس دباؤ کے می نتیجہ میں لازمی طور پر پیدا ہوتا ہے.تم اس احساس کو غلط کہو یا صحیح بہر حال جب تک یہ احساس موجو د رہے گا، جب تک مغلوب اقوام کے دلوں میں یہ خیال رہے گا کہ بڑھنے والی قومیں یہ نہیں چاہتیں کہ روس کی جگہ جرمنی لے لے یا انگلستان کی جگہ جاپان لے لے اور یہ ہمیشہ دوسروں کو دبا کر اُن پر تسلط اور غلبہ قائم رکھنا چاہتی ہیں اُس وقت تک ہر وہ تجویز جو امن کے می قیام کے لیے کی جائے گی ناکام ثابت ہو گی، ہر کوشش رائیگاں جائے گی، ہر تدبیر بے اثر رہے گی.اور یہ خیال مضبوط سے مضبوط تر ہوتا چلا جائے گا کہ ہماری کمزوری سے ناجائز فائدہ اٹھایا جاتا ہے اور ہمیں آگے بڑھنے سے محض اس لیے روکا جاتا ہے کہ اس دور میں بعض اور قومیں آگے نکل چکی ہیں.چنانچہ جب بھی غالب اقوام کی طرف سے یہ اعلان کیا جاتا ہے کہ جنگ کے بعد ہم فیصلہ کریں گی کہ کس قوم کے کیا حقوق ہیں، ہم فیصلہ کریں گی کہ ان کو کیا کیا مراعات مانی چائیں اور ہم اس امر کی نگرانی رکھیں گی کہ ان کے جائز مطالبات پامال نہ ہوں.تو می دوسرے الفاظ میں اس قسم کے اعلان کے معنے یہ ہوتے ہیں کہ ہم مائی باپ ہیں، ہم تمہارے حاکم ہوں گے.اور تم ہمارے محکوم ہو گے اور یہ وہ بات ہے جس کو دنیا کی کوئی آزاد قوم ہے

Page 582

$1944 582 خطبات محمود برداشت نہیں کر سکتی.پس جو باتیں اس وقت علاج کے طور پر پیش کی جا رہی ہیں وہ دنیا کے بغض اور اس کے کینہ کو اور بھی بڑھانے والی ہیں.جس وقت اتحادیوں کی طرف سے یہ اعلان کیا جاتا ہے کہ ہم اس امر کی نگرانی رکھیں گے کہ چھوٹی چھوٹی قوموں کے حقوق کو کوئی اور قوم تلف نہ کرے تو وہ حقارت کی ہنسی ہنستی ہیں کیونکہ وہ الا ئنز (Alliance) کے ماتحت نہیں ہیں.وہ قومیں اپنے آپ کو آزاد سمجھتی ہیں اور وہ اس قسم کے اعلان کا سوائے اس کے اور کوئی مفہوم نہیں سمجھتیں کہ دنیا میں غالب اقوام کی طرف سے یہ اعلان کیا جارہا ہے کہ آئندہ ہم اتالیق ہوں گی اور تم ہماری زیر نگرانی رہنے والے شاگرد ہو گے اور یہ ایک ایسی بات ہے جو فتنہ وفساد کی آگ کو اور بھی بھڑ کانے والی ہے.پس یہ علاج جو آج تجویز کیا جا رہا ہے خطرات کو بڑھانے والا اور فتنہ و فساد کی آگ کو اور بھی ہوا دینے والا ہے.جب تک لوگوں کے دلوں میں غیرت باقی ہے، جب تک لوگوں کے دلوں میں حُب الوطنی کا جذبہ باقی ہے، جب تک لوگوں کے دلوں میں انسانی شرافت کا احساس باقی ہے.اُس وقت تک بنی نوع انسان لازمی طور پر کسی ایسے نظام میں جکڑا جانا پسند نہیں کر سکتے جس نظام کو وہ اپنی خوشی اور مرضی سے اپنے لیے قبول کرنے کے تیار نہ ہوں.یہ ایک صاف اور سیدھی بات ہے اور انسانی فطرت کے اس جذبہ سے انکار نہیں کیا جا سکتا.چاہے کوئی عیسائی ہو، ہندو ہو ، سکھ ہو ، کوئی ہو، کسی مخالف سے مخالف کے سامنے بھی یہ بات بیان کی جائے تو میں نہیں سمجھ سکتا کہ وہ اِس کو ماننے سے انکار کر سکے کہ انسان اُسی نظام پر تسلی پاتا ہے جس نظام کو اس نے خود چتا ہو یا جس کے پچھنے میں اس کا ہاتھ ہو.دنیوی میں باتوں کو جانے دو نماز جو ایک شرعی فرض ہے اسی کے متعلق میں نے خود بعض لوگوں کی زبان سے یہ فقرہ سنا ہے کہ جب اُن سے کہا گیا کہ آؤ اور نماز پڑھ لو تو انہوں نے اس غصہ میں کہ یہ کون ہیں نماز کی تحریک کرنے والے.یہاں تک کہہ دیا کہ جاؤ ہم نماز نہیں پڑھتے.نماز پڑھنی ہے ہوگی تو ہم خود پڑھ لیں گے تم کون ہو جو ہماری نمازوں میں دخل دیتے ہو.اب دیکھو! نماز ہے ایک ایسا فرض ہے جو خدا تعالیٰ کی طرف سے مقرر کیا گیا ہے مگر جب اس فرض کی طرف بعض لوگوں کو توجہ دلائی جاتی ہے تو محض توجہ دلانے پر ہی وہ بگڑ جاتے ہیں اور کجھتے ہیں کہ ہم

Page 583

خطبات محمود 583 $1944 نماز ایک ایسی عبادت ہے جس کا میرے اور میرے خدا کے درمیان واسطہ ہے اس میں کوئی دوسرا کیوں دخل دے رہا ہے.اگر نماز جیسی چیز پر لوگ چڑ جاتے اور غصہ میں آ جاتے ہیں تو وہ ہے ملکی نظام اپنے لیے کس طرح برداشت کر سکتے ہیں جس میں ان کا کوئی دخل نہ ہو، جس نظام کو جاری کرنے میں اُن کا کوئی ہاتھ نہ ہو اور جس نظام کے ساتھ اُن کی رضامندی شامل نہ ہو بلکہ دوسروں کا یہ اختیار ہو کہ وہ آئیں اور فیصلہ کریں.ہاں جو نظام پہلے سے جاری ہو اور جس میں انسان ایک دفعہ شامل ہو چکے ہوں اُس نظام کی پابندی کرنا انسان کے لیے ضروری ہوتا ہے اور اُس کا کوئی حق نہیں ہوتا کہ وہ اُس کے خلاف آواز بلند کرے.مثلاً ہندوستان انگریزوں کے ماتحت ہے.یہ بحث کرنا کہ ہندوستان پر انگریزوں نے کیوں قبضہ کیا، اُن کا کیا حق تھا کہ وہ ہندوستانیوں پر حکومت کرتے بالکل فضول اور لغو ہے.ہندوستان بہر حال انگریزوں کے یہ ماتحت ہے.یہ الگ سوال ہے کہ وہ انگریزوں کے ماتحت کس طرح آیا اس میں ہندوستانیوں کا اپنا قصور تھایا انگریزوں کا.بہر حال ہندوستان انگریزوں کے ماتحت ہے.ہندوستان اُس نظام کو قبول کر چکا ہے جو انگریزی نظام ہے اور جب ہندوستان انگریزوں کے ماتحت ہے تو لازماً انگریزوں کو ہندوستان کے متعلق کوئی نہ کوئی فیصلہ کرنا پڑے گا.ہندوستانیوں کو یہ حق حاصل ہیں نہیں کہ وہ کہیں کہ انگریزوں نے اُن کے ملک پر کیوں قبضہ کیا یا اُن کے حقوق کا فیصلہ کرنے کا انگریز کیا اختیار رکھتے ہیں.مگر آزاد حکومتیں یہ کبھی برداشت نہیں کر سکتیں کہ ان پر حکمرانی جتائی جائے اور اُن کے حقوق کے تصفیہ کے لیے یہ قومیں آگے بڑھیں اور ہمیشہ اُن کو اپنے ماتحت رکھنے کی تدابیر عمل میں لائیں.آزاد قوموں پر اُن قوانین کا جاری کرنا جو ماتحت اور مفتوح قوموں پر جاری کیے جاتے ہیں فتنہ و فساد کی نئے سرے سے بنیاد رکھنا ہے.اور اگر موجودہ جنگ کے بعد اس بہت بڑے نقص کو دور کرنے کی کوشش نہ کی گئی تو لازماً ایک نئی من لڑائی کی بنیاد قائم ہو جائے گی.اور اگر یہ قومیں خود مقابلہ کے لیے نہیں اٹھ سکیں گی تو می دوسروں کو لڑائی کے لیے اکسائیں گی.دوسروں کو جنگ کے لیے بر انگیختہ کریں گی اور اس طرح ایک نئی جنگ کا دروازہ کھول کر اپنے بعضوں اور کینوں کو نکالنے کی کوشش کریں گی.دنیات میں مظلوم کا یہی طریق ہوا کرتا ہے کہ جب وہ دیکھتا ہے میں خود انتقام لینے سے قاصر ہوں،

Page 584

خطبات محج محمود 584 $1944 میرے اندر ایسی طاقت نہیں کہ ظلم کا بدلہ لے سکوں تو وہ کسی دوسرے کو اُکسا کر اپنے جذبہ انتقام کو فرو کرنے کی کوشش کرتا ہے.مجھے اس بارہ میں ایک قریب کا تجربہ ہے.ہم ایک دفعہ موٹر میں جارہے تھے کہ ایک پولیس افسر نے ہمارے ڈرائیور کو دق کیا.میرے خیال میں بھی اُس افسر کا رویہ ناجائز تھا.کیونکہ بعض باتیں میں نے خود دیکھی تھیں اور میں سمجھتا تھا اس افسر نے دیانتداری سے کام میں نہیں لیا.مگر ایک ڈرائیور کی یہ طاقت کہاں ہوتی ہے کہ وہ انسپکٹر کا مقابلہ کر سکے.پولیس افسر نے جب اسے ناجائز طور پر دق کیا تو اسے بہت غصہ آیا کیونکہ اُس پر ناجائز الزام لگایا گیا تھا اور میں بھی اس بات کا گواہ تھا مگر وہ پیچ و تاب کھا کر رہ گیا اور اپنی کمزوری کی وجہ سے اس افسر کے مقابلہ میں کچھ کہہ نہ سکا.کچھ دور جانے کے بعد اسی افسر نے ایک اور موٹر والے کو اسی طرح دق کیا.اس موٹر میں ایک کر نیل سوار تھا.ہم بھی اُس وقت اُسی جگہ سے گزر رہے تھے.یہ دیکھ کر موٹر ڈرائیور مجھے کہنے لگا آپ مجھے اجازت دیں کہ میں اِس جگہ موٹر ٹھہرا کر اس کرنیل سے تھوڑی دیر کے لیے بات کرلوں.میں نے اُسے کہا کہ تمہارا اُس سے کیا واسطہ ؟ مگر وہ کہنے لگا آپ اجازت دے دیں.یہ پولیس افسر اسی طرح دق کیا کرتا ہے اور اس کا علاج کرناضروری ہے.چنانچہ میری اجازت پر اُس نے کرنیل کی گاڑی کے آگے اپنی گاڑی کھڑی کر لی جس پر اسے بھی ٹھہر نا پڑا اور پھر اُس نے نیچے اتر کر کر نیل کو خوب اکسایا کہ یہ افسر اسی طرح ہر موٹر ڈرائیور کو دِق کیا کرتا ہے.اِس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اُس کر نیل نے منزل پر پہنچ کر پولیس افسر کو خوب گالیاں دیں.تو دیکھ لو اس نے اپنا بدلہ لیا.مگر اس رنگ میں کہ ایک ہے طاقتور شخص کو اُس نے دوسرے کے خلاف اکسا دیا.اس میں خود یہ طاقت نہیں تھی کہ وہ ظالم ہیں افسر سے بدلہ لے سکتا مگر چونکہ وہ ہوشیار تھا اس لیے اس نے انتقام لینے کا یہ طریق سوچا کہ کسی میں طاقتور شخص کو اُس کے خلاف بھڑ کا دوں.چنانچہ اُس نے ایسا ہی کیا اور اپنا انتقام اس افسر - لے لیا.اسی طرح اگر اس قسم کے فساد جاری رہے تو نتیجہ یہ ہو گا کہ جرمنی اور جاپان و غیر وی سے کوئی امریکہ سے مل جائے گا، کوئی روس سے مل جائے گا، کوئی انگریزوں سے مل جائے گا

Page 585

خطبات محمود 585 $1944 اور جس طرح درباری خوشامدیوں کا طریق ہوتا ہے وہ بات بات پر کہیں گے کہ دیکھیے آپ کے فلاں کام میں امریکہ نے دخل دے دیا حالانکہ امریکہ کا کیا حق تھا کہ وہ اِس میں دخل دیتا.امریکہ کو کہیں گے فلاں کام میں انگریزوں نے مداخلت کر دی ہے حالانکہ انگریزوں کا کوئی حق نہ تھا کہ وہ مداخلت کرتے.اسی طرح کوئی پارٹی روس سے جاملے گی اور اُسے انگریزوں اور امریکنوں کے خلاف اکساتی رہے گی.نتیجہ یہ ہو گا کہ فساد کی روح بڑھ جائے گی اور پھر دنیا ایک خطر ناک جنگ کی لپیٹ میں آجائے گی.یہ خیال کرنا کہ اتحادی جس طرح آج مل کر لڑ رہے ہیں.اسی طرح ہمیشہ ان میں اتحاد ر ہے گا بیوقوفی کا خیال ہے.اگر فتنہ وفساد کی اِس روح کو کچلا نہ گیا اور مفتوح قوموں کی مختلف پارٹیاں امریکہ اور روس اور انگلستان سے جاملیں اور ان طاقتوں کو اُنہوں نے ایک دوسرے کے خلاف اکسانا شروع کر دیا تو ابھی ایک سال بھی نہیں گزرے گا کہ آپس میں اختلاف شروع ہو جائے گا.اور جب سیاسی معاملات میں حکومتوں کا آپس میں اختلاف شروع ہوتا ہے تو اُس وقت کچھ لوگ تو سنجیدگی سے معاملات پر غور کرتے ہیں مگر کچھ جو شیلے لوگ ہوتے ہیں وہ اُسی وقت مقابلہ میں کھڑے ہو جاتے ہیں اور کہتے ہیں فلاں ملک کے لوگوں کی کیا طاقت ہے کہ ہمارے مقابلہ میں اٹھ سکیں.ہم کل تک ان کی مدد کرتے رہے تھے اور آج وہ ہمارے خلاف کھڑے ہو گئے ہیں.نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ آپس میں سر پھٹول شروع ہو جاتی ہے.حقیقی امن ہمیشہ دل کی صفائی سے پیدا ہوتا ہے.پس جب تک ایسے طریق اختیار نہیں کیے جائیں گے جو امن کو مضبوط بنیادوں پر قائم کرنے والے ہوں اُس وقت تک محض جنگ کی علامات کو دبا دینا قطعاً کوئی مفید نتیجہ پیدا نہیں کر سکتا.ہم اس بات کے قائل ہیں کہ مجرم کو سزاملنی چاہیے.ہم انجیلی تعلیم کی طرح ہر گز اس بات کے قائل نہیں ہیں کہ اگر کوئی ہے ایک گال پر تھپڑ مارے تو اس کی طرف دوسری گال بھی پھیر دینی چاہیے.2 مگر ہم اس کے ساتھ ہی اس بات کے بھی قائل ہیں کہ سزا میں محبت کا جذبہ ہونا چاہیے.عداوت اور بغض اور کینہ سزا دیتے وقت دل کے کسی گوشہ میں بھی نہیں ہونا چاہیے.جب حضرت مسیح نے اپنے حواریوں سے کہا کہ خدا محبت ہے 3 تو در حقیقت انہوں نے سچ کہا اور انہوں نے اسی نظریہ کو

Page 586

خطبات محمود 586 $1944 لوگوں کے سامنے پیش کیا کہ عفو اور سزا دونوں کی بنیاد محبت پر ہونی چاہیے.جب تم عفو کرو تب بھی محبت اس کا باعث ہو اور جب تم کسی قصور پر مجرم کو سزا دو تب بھی اس کا باعث صرف محبت ہو.اسلام بھی یہی کہتا ہے کہ تم محبت سے عفو کرو یا محبت سے سزا دو.محبت ہی اصل چیز ہے.اور یہی تمہارے تمام کاموں کی بنیاد ہونی چاہیے.جب تم سزا دو تب بھی اصلاح مد نظر رکھو اور جب تم عفو سے کام لو تب بھی اصلاح مد نظر رکھو.چنانچہ فرماتا ہے.جَزْؤُا سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ مِثْلُهَا فَمَنْ عَفَا وَ أَصْلَحَ فَأَجْرُهُ عَلَى اللهِ 4 پس اسلام سزا میں بھی اصلاح کا پہلو مد نظر رکھتا ہے اور عفو میں بھی اصلاح کا پہلو مد نظر رکھتا ہے.گویا اسلام میں عفو بھی اُس وقت تک جائز نہیں جب تک جذبہ محبت اور جذبہ اصلاح عفو کے پیچھے کام نہ کر رہا ہو.ایک شخص کسی جگہ ڈاکہ ڈال کر آتا ہے اور وہ اس بات کا مستحق ہوتا ہے کہ اسے سزادی ان جائے مگر وہ افسر کی خوشامد شروع کر دیتا ہے اور کہتا ہے کہ مجھے معاف کر دیا جائے.اُس وقت اگر وہ افسر یہ جانتے ہوئے اسے معاف کر دیتا ہے کہ اگر میں نے اسے معاف کیا تو یہ یہاں سے اٹھتے ہی کسی اور جگہ ڈاکہ ڈالے گا اور لوگوں کا مال و اسباب لوٹ لے گا اور اُن کی جانوں کو نقصان پہنچائے گا تو اُس کا عفو بزدلی کی علامت ہو گا، کمزوری کی علامت ہو گا، ناجائز خوشامد کا نتیجہ ہو گا جس سے وہ اپنی جبلی طبیعت کے ماتحت متاثر ہوا.یہ نہیں کہا جائے گا کہ اُس نے جذبہ محبت کے ماتحت عفو سے کام لیا ہے کیونکہ اُس نے عفو اصلاح کی وجہ سے نہیں کیا، محبت کی وجہ سے نہیں کیا بلکہ اُس نے عفو بزدلی کی وجہ سے کیا، اُس نے عفو خوشامد کی وجہ سے کیا اُس نے عفو طبیعت کی کمزوری کی وجہ سے کیا.لیکن اگر وہ اِس لیے دوسرے کو معاف کرتا ہے کہ اُس کی اصلاح ہو چکی ہے تو اس کے متعلق بے شک یہ کہا جاسکے گا کہ اُس نے جذبہ محبت کے ماتحت دوسرے کو معاف کیا.پس ہماری شریعت کا یہ حکم ہے کہ عفو بھی جذ بہ اصلاح کے ماتحت ہونا چاہیے اور سزا ہے بھی جذبہ اصلاح کے ماتحت دینی چاہیے.اور چونکہ جنگ کے حالات ایسی صورت اختیار کر رہے ہیں جب یہ خطرہ روز بروز بڑھتا جا رہا ہے کہ اتحادی اپنی فتح اور غلبہ کے گھمنڈ میں مفتوح اقوام پر ناجائز دباؤ نہ ڈالیں اور انہیں ان کے جائز حقوق سے محروم کر کے ایک نئی جنگ کی ہے

Page 587

خطبات محمود 587 $1944 بنیاد نہ رکھ دیں اس لیے ہماری جماعت کو آجکل خصوصیت سے یہ دعائیں کرنی چاہیں.اللہ تعالیٰ اتحادیوں کو یہ توفیق عطا فرمائے کہ وہ انصاف سے کام لیں اور کوئی ایسا فیصلہ نہ کریں جو امن کو برباد کرنے والا یا آئندہ کسی نئی جنگ کی آگ میں دنیا کو جھونکنے والا ہو.ہم ذاتی طور ہے پر بھی یہ پسند نہیں کر سکتے کہ یہ جنگ ایسی صورت میں ختم ہو کہ پھر ایک نئی جنگ کی ابھی سے بنیاد قائم ہو جائے.ہم نے اس جنگ کے لیے بہت بڑی قربانیاں کی ہیں اور ہماری خواہش یہی ہے ہے کہ اللہ تعالی انگریزوں کو فتح دے اور اس کے ساتھ ہی انہیں اس بات کی بھی توفیق عطا ہے فرمائے کہ وہ عدل و انصاف سے کام لیں اور ناجائز دباؤ ڈال کر لوگوں کے دلوں میں لبغض و عداوت کی آگ کو نہ بھڑکائیں.جہاں تک لڑائی کا سوال ہے ہمیں اس بات کا یقین ہے ہے کہ جرمنی وغیرہ ظالم تھے اور انہوں نے بلا وجہ جنگ کی.اسی بناء پر ہم انگریزوں کی مدد کرتے رہے ہیں اور ان کی کامیابی کے لیے ہم نے دعائیں بھی کیں.لیکن اس کے مقابلہ میں ہم یہ بھی سمجھتے ہیں کہ اگر وہ رویہ اختیار کیا گیا جس کے آثار ابھی سے ظاہر ہو رہے ہیں تو یہ لڑائی جاری رہے گی.چاہے جرمنی اور جاپان مقابلہ میں نہ کھڑے ہوں.مگر اور کسی نہ کسی وجہ سے انگریزوں وغیرہ کو لڑائی کے لیے آگے آنا پڑے گا.بے شک لڑنے والے ہاتھ اور ہوں گے لیے مگر وہی بم ہوں گے جو آجکل استعمال کیے جاتے ہیں.وہی جہاز ہوں گے جن سے آجکل کام لیا جاتا ہے.وہی تو ہیں اور مشین گنیں ہوں گی جن سے آجکل ہلاکت بر پا کی جاتی ہے اور پھر دنیا ایک ہولناک تباہی کے کناروں پر کھڑی ہو جائے گی.اتنی بڑی لڑائی اور اتنی بڑی خونریزی کے بعد جو موجودہ جنگ میں ہوئی ہے جلد ہی دنیا کا ایک اور جنگ کے لیے تیار ہو جانا ایک ایسا خیال ہے جو انسانی جسم کو کپکپا دیتا ہے.اس لیے خدا تعالیٰ کے حضور ہمیں خاص طور پر دعائیں کرنی چاہیں کہ اللہ تعالی اتحادیوں کو اس بات کی توفیق عطا فرمائے کہ وہ صرف لڑائی کی علامات کو ہی نہ دبائیں بلکہ لڑائی کے اسباب کو بھی دور کرنے کی کوشش کریں.اگر اس جنگ کے بعد اتحادیوں نے اپنی غلطی سے لڑائی کے حقیقی اسباب کو دور کرنے کی کوشش نہ کی اور مفتوح قوموں پر ناجائز دباؤ سے کام لیا تو جلد یا پندرہ ہیں سال کے بعد جب ہم میں سے بہت سے لوگ چل بسے ہوں گے پھر ہماری اولادوں کو ایک نئی مصیبت پیش آئے گی.پھر انہیں جنگ کی

Page 588

خطبات محمود 588 $1944 ہولناکیوں سے دو چار ہونا پڑے گا.پھر انہیں لوگوں کے سامنے لیکچر دینے پڑیں گے کہ جاؤ اور میدانِ جنگ میں اپنی جانیں قربان کرو.جاؤ اور اپنے آپ کو قوم اور ملک کی حفاظت کے لیے فنا کر دو.آخر وہ کیوں اپنی جانیں قربان کریں اور کیوں اپنے آپ کو قتل کے لیے پیش کریں.اگر کسی نہ کسی رنگ میں اس قربانی سے محفوظ رہ سکتے ہوں.بے شک جب مصیبت سر پر آجاتی ہے اس وقت ہر قسم کی قربانی کے لیے انسانوں کو تیار ہونا پڑتا ہے لیکن اگر کسی آنے والی ہے مصیبت کو روکا جاسکے ، اگر حکمت عملی سے کام لے کر تباہی کے دروازہ کو بند کیا جاسکے تو وجہ کیا ہے کہ ابھی ایک نسل اپنی قربانی سے فارغ بھی نہیں ہوئی کہ پھر پھانسی کا پھندا دوسری نسل ہے کے لیے تیار ہو جائے.پھر گولیاں اُن کے سینہ کو چھلنی کرنے کے لیے تیار ہونی شروع ہو جائیں اور پھر تباہی اور بربادی ان کو اپنا لقمہ بنانے کے لیے منہ کھولے کھڑی ہو.پس اگر اس میں تباہی کو روکا جاسکتا ہو تو ہمارے لیے اس کا رو کنا نہایت ضروری ہے تاکہ ہماری آئندہ نسل اس مصیبت سے محفوظ رہے اور اسے اپنی جانوں کی قربانی نہ کرنی پڑے.مگر یہ کام ایسا ہے جس کو یہ سرانجام دینے کی ہم میں طاقت نہیں.ہم دوسروں کو صرف نصیحت کر سکتے ہیں اور یا پھر اللہ تعالیٰ سے ہم دعا کر سکتے ہیں کہ وہ اپنے فضل سے فاتحین کی آنکھیں کھولے، ان کے دماغوں کو روشنی بخشے ، ان کے دلوں کو ہر قسم کے بغض اور کینہ سے پاک کرے اور ان کو توفیق عطا فرمائے کہ وہ پھر کسی تیسری جنگ کی بنیاد اپنے ہاتھوں نہ رکھ دیں.تا ایسا نہ ہو کہ ہیں پچیس سال کے بعد پھر قومیں ایک دوسری سے بر سر پیکار ہوں اور پھر دنیا ہلاکت کے گڑھے میں گر جائے.جس طرح پہلی جنگ سے اس دوسری جنگ میں بہت زیادہ خونریزی ہوئی ہے.اسی طرح یہ ایک یقینی بات ہے کہ اگر اس جنگ کے بعد تیسری جنگ ہوئی تو وہ اِس دوسری جنگ سے بہت زیادہ مخطر ناک ہو گی.یہ خیال بھی کسی قوم کے افراد کو اپنے دلوں میں نہیں لانا چاہیے کہ جب ہم لوگوں سے تو پیں چھین لیں گے، تلواریں چھین لیں گے ، ہوائی جہاز چھین لیں گے ، ہم چھین لیں گے، اسی طرح ان کی فیکٹریوں اور کار خانوں وغیرہ پر قبضہ کر لیں گے تو اس کے بعد لڑائی کے لیے ان کے پاس کونسی چیز باقی رہ جائے گی.کیونکہ ایجادات کا سلسلہ دنیا میں جاری ہے اور اس وجہ ہے

Page 589

خطبات محمود 589 $1944 سے یہ نہیں کہا جاسکتا کہ اگر ان ہتھیاروں کو چھین لیا گیا تو اس کے بعد لڑائی کے لیے کسی نئی چیز کی ایجاد نہیں ہو سکے گی.گزشتہ جنگ میں توپوں کی کثرت تھی اور خیال کیا جاتا تھا کہ اگر کسی قوم سے تو میں لے لی جائیں تو وہ لڑائی کے ناقابل ہو جاتی ہے مگر اس کے بعد ہوائی جہاز نکل ہے آئے.اور اب موجودہ جنگ میں تو فلائنگ بم کی ایجاد سے خطرہ بہت بڑھ گیا ہے اور خیال کیا جاتا ہے کہ یہ دنیا کے امن کو برباد کرنے والی ایک خطرناک ایجاد ہے جو نبی نوع انسان کو تو پوں اور ہوائی جہازوں سے بھی بڑھ کر نقصان پہنچا سکتی ہے.جب آج تک ایجادات کا سلسلہ جاری رہا اور جنگ کے اسلحہ میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے تو کسی کو کیا پتہ کہ کل کوئی ایسی گیس نکل آئے جس کا لوگوں کو علم بھی نہ ہو اور وہ آنا فانا اُن کو ہلاک کر دے.پس یہ بالکل احمقانہ بات ہو گی اگر یہ خیال کر لیا جائے کہ فلاں ملک کو ہم نے مغلوب کر لیا ہے ، وہ ایک چھوٹاسا ملک ہے، چند لاکھ اُس کی آبادی ہے، ہتھیار اُس سے چھین لیے گئے ہیں اور اب وہ ہمارے خلاف لڑائی کے لیے کبھی کھڑا نہیں ہو سکتا.جب دلوں میں بغض اور کینہ موجود ہو اور لوگوں کے اندر یہ احساس ہو کہ ہم نے دوسری قوم سے انتقام لینا ہے تو وہ ایسے ہتھیار ایجاد و اد نہیں کرتے جن کے کارخانے لوگوں کو نظر آتے ہوں.بلکہ وہ اس قسم کے ہتھیاروں کے بنانے میں مشغول ہو جاتے ہیں جن کے کارخانے نظر نہیں آتے اور اس طرح باوجو د ہتھیار بنانے کے وہ پکڑے نہیں جاتے.پس ممکن ہے جب مغلوب اقوام یہ دیکھیں کہ ہمیں ایسے ہتھیار ہے بنانے نہیں دیئے جاتے جن کے کارخانے نظر آتے ہوں تو وہ کہیں آؤ ہم ایسی گیسیں دریافت کرنے میں لگ جائیں جو ملک کے ملک کو ایک لمحہ میں فنا کر دیں.پچھلی ایجادات سے یہ بات واضح طور پر ثابت ہوتی ہے کہ خدا تعالیٰ نے دنیا میں ایجادات کا وسیع سلسلہ رکھا ہوا ہے.پس ممکن ہے اس خصہ اور بغض اور کینہ کے نتیجہ میں کوئی قوم کسی خطرناک گیس کے تیار کرنے میں میں کامیاب ہو جائے جو ملکوں کے ملک ایک آن میں تباہ کر سکتی ہو.اور اگر ایسی گیس ایجاد ہو گئی تو پھر سوائے اس کے اور کوئی نتیجہ نہیں نکلے گا کہ ایک دن جب دنیا سو کر اٹھے گی تو یہ آدھی دنیافتا ہو چکی ہو گی اور آدھی دنیا خوف سے کانپ رہی ہو گی.پس یہ ایک خطرناک رو ہے جس کو روکنا ہماری جماعت کے لیے نہایت ضروری ہے اور دوستوں کا فرض ہے کہ وہ ان دنوں ہے

Page 590

$1944 590 خطبات م محمود ا خصوصیت سے اُسی طرح دعائیں کریں جس طرح میری ہدایت کے ماتحت وہ اس جنگ کے شروع میں دعائیں کرتے رہے ہیں.پہلے میری ہدایت یہ تھی کہ جماعت کے دوست یہ دعا کریں کہ اللہ تعالی انگریزوں اور اُن کے ساتھیوں کو موجودہ جنگ میں فتح دے.ان دعاؤں کے نتیجہ میں یہ فتح خدا تعالیٰ کے فضل سے آچکی ہے.مگر اب ہمارے لیے یہ دعائیں کرنا نہایت ضروری ہے کہ اللہ تعالیٰ انگریزوں اور اُن کے ساتھیوں کو ایسی فتح عطا فرمائے جس کے نشہ میں مخمور ہو کر وہ کوئی ایسی بنیاد قائم نہ کر دیں جس کے نتیجہ میں پھر جنگیں ہوں، پھر لڑائیاں ہوں، مصیبتیں اور آفتیں نازل ہوں.بیشک یہ کام بہت مشکل ہے مگر اللہ تعالیٰ کو سب طاقتیں حاصل ہیں اور وہ اگر چاہے تو اپنے فضل سے اس مشکل مرحلہ کو بھی طے کر سکتا ہے.جہاں تک اس جنگ کے متعلق مجھے رویا ہوئے ہیں اور جہاں تک قرآن کریم اور احادیث کی پیشگوئیوں کا تعلق ہے اُن سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ اس بات کا سخت خطرہ ہے کہ اِس دوسری نگ کے اختتام پر تیسری جنگ کی بنیاد ڈال دی جائے گی اور وہ تیسری جنگ اِس دوسری جنگ سے زیادہ خطر ناک ہو گی.لیکن اللہ تعالیٰ کے فضلوں پر بھروسہ کرتے ہوئے ہماری دعا اُس سے یہی ہے کہ وہ لوگوں کی غلطیوں کو معاف کرے اور انہی دو جنگوں کو لوگوں کی اصلاح کے لیے کافی سمجھ لے.لیکن اگر اُس کی مشیت کے ماتحت ایک تیسری جنگ بھی آنے والی ہے تو اللہ تعالیٰ اُس وقت تک ہماری جماعت کو اتنی طاقت عطا فرما دے کہ وہ آنے والی جنگ کے بد اثرات ہمیشہ کے لیے دور کر سکے".(الفضل 12 جنوری 1945ء) 1 بچھایا پھاہا: کپڑا جس پر مرہم رکھ کر زخم پر چپکاتے ہیں.2 : متی باب 5 آیت 40 3 :2 کرنتھیوں باب 13 آیت 11 4 :الشورى:41

Page 591

$1944 591 36 خطبات محمود دنیا کی آٹھ بڑی بڑی زبانوں میں تراجم قرآن کریم اور دوسرا تبلیغی لٹریچر شائع کرنے کی سکیم (فرمودہ 20/ اکتوبر 1944ء) تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: اسلحہ کی جنگوں میں بعض وقت جبری تعطل آتے ہیں اور بعض وقت عارضی صلح کے ہم ذریعہ ضرورۃ تعطل قائم کیا جاتا ہے.عارضی صلح کے ذریعہ جو تعطل پیدا کیا جاتا ہے اُس کی ایک غرض تو یہ ہوتی ہے کہ طرفین اپنے اپنے مردوں کو دفن کر لیں اور زخمیوں کو اٹھا لیں.اور جبری تعطل کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ طرفین اپنی اپنی طاقتوں کو مجتمع کر لیں اور ہمتوں کو استوار کر لیں.پس عارضی صلح کے ذریعہ جو تعطل پیدا کیا جاتا ہے اس کی غرض تو یہ ہوتی ہے که طرفین اپنے اپنے مردوں کو دفن کر لیں اور زخمیوں کو مستشفی میں پہنچا سکیں.اور جو نعطل جبری طریق سے پیدا ہوتا ہے وہ خدا تعالیٰ کی طرف سے طاقتوں کے مجتمع کرنے کے لیے ہوتا ہے.خدا تعالیٰ نے دن اور رات بنائے ہیں.دن کو لوگ لڑتے ہیں اور رات کے وقت تاریکی کی وجہ سے آپ ہی آپ لڑائی کا بیشتر حصہ ختم ہو جاتا ہے.آجکل بے شک ایسے ذرائع نکل

Page 592

$1944 592 خطبات محمود آئے ہیں جن سے مصنوعی روشنی پیدا کر کے حملے کیے جاتے ہیں.مگر یہ مصنوعی روشنی ہر رات استعمال نہیں کی جاسکتی اور نہ ہر جگہ استعمال کی جاسکتی ہے.اور باوجود ان ذرائع کے رات کو پھر بھی ہر ایک فریق غنیمت سمجھتا ہے تا کہ فریقین آرام کر سکیں اور اپنی اپنی طاقتوں کو بحال کر لیں.خاص خاص ایام میں اور خاص خاص حملوں کے موقع پر جبکہ ایک فریق لمبی تیاری کے بعد حملہ آور ہوتا ہے اُس وقت بے شک رات کو بھی جنگ جاری رہتی ہے ورنہ عام طور پر صرف دن کو ہی لڑائی لڑی جاتی ہے.رات کے وقت تھوڑے تھوڑے سپاہی خبر رسانی کے طور پر کام کرتے ہیں تا کہ اگلے پچھلے حالات کا علم ہوتار ہے.یا بعض دفعہ چھاپہ بھی مارا جاتا ہے مگر فوج کے کے بیشتر حصہ کو آرام کا موقع دیا جاتا ہے تا کہ وہ اپنی طاقت کو بحال کر کے دن کی لڑائی کے لیے تیار ہو جائے.اگر اللہ تعالی رات کو پیدا نہ فرماتا تو بعض مجنون دشمن دن اور رات لڑائی ہے جاری رکھ کر خود بھی زیادہ تکان اور زیادہ کوفت کر لیتے اور مد مقابل کو بھی زیادہ تکان اور زیادہ کوفت کرا دیتے.جس طرح یہ اسلحہ کی جنگ میں ہوتا ہے اسی طرح خدا تعالیٰ تبلیغی جنگوں میں بھی وقفوں کے سامان پیدا فرما دیتا ہے.مثلاً یہی جنگ عظیم جو ہو رہی ہے یہ 1939ء میں شروع ہوئی تھی اور اس وقت تک اس کو شروع ہوئے پانچ سال گزر گئے ہیں.اس جنگ کی وجہ سے تبلیغ کے رستے رُکے ہوئے ہیں.سوائے لڑائی کے کاموں کے عام سفر کے لیے جہاز بند ہیں.حکومتیں پاسپورٹ دینے میں بخل سے کام لیتی ہیں کیونکہ وہ ڈرتی ہیں کہ ہمارے ملک کا آدمی باہر جاکر کہیں نقصان کا موجب نہ ہو.اس وجہ سے ہماری تبلیغ پانچ سال سے بیرونی می ممالک میں رکی پڑی ہے.بعض جگہ جہاں جنگ سے پہلے کے مبلغ موجود ہیں، وہ پھیل نہیں ہے سکتے اور لٹریچر نہ پہنچا سکنے کی وجہ سے ہم بھی اُن کی زیادہ مدد نہیں کر سکتے.کیونکہ پار سلوں کا جانا آنا بند ہے.بہت ہی تھوڑی تعداد میں پارسل جاسکتے ہیں.گو یا خدا تعالیٰ نے پانچ سال کی رات ہے ہم پر نازل فرمائی ہے تاکہ تحریک جدید کی تیاری میں موقع مل سکے.اگر لڑائی کی وجہ سے یہ وقفہ پیدا نہ ہوتا تو جماعت کے بعض ایسے احباب جو نچلا بیٹھنا نہیں جانتے شور مچانا شروع کر میں دیتے کہ تحریک جدید کو شروع ہوئے اتنے سال گزر گئے اور کام شروع نہیں ہوا.مگر اللہ تعالیٰ نے ان کا منہ بند کرنے کے لیے ایسا سلسلہ شروع کر دیا کہ وہ لوگ بھی کہتے ہیں کہ ہاں جی ہے

Page 593

$1944 593 خطبات محمود حالات ہی ایسے ہیں کہ ان حالات میں کام ہو ہی نہیں سکتا.پس یہ اتنا لمبا عرصہ خدا تعالیٰ نے ہمیں تیاری کے لیے دیا ہے تاکہ ہم اپنی طاقت کو جمع کر لیں.لیکن اب یہ عرصہ ختم ہوتا نظر آرہا ہے اور آثار ظاہر کر رہے ہیں کہ جنگ ایسے مقام پر پہنچ گئی ہے کہ کوئی نہ کوئی فریق بلکہ إنشاء الله محوری طاقتیں ہتھیار ڈالنے اور اتحادیوں کی اطاعت قبول کر لینے پر مجبور ہو جائیں میں گی.اس کے بعد چھ سات ماہ یا سال تک رستے گھل جائیں گے اور عام آمد ورفت جاری ہو جائے گی.اِس عرصہ میں ہم نے مبلغ تیار کرنے اور ریزرو فنڈ قائم کرنے کی کوشش کی ہے.اس میں کوئی شک نہیں کہ مادی کوششوں کے لحاظ سے ہماری کوشش بہت محدود ہے.عیسائیوں کی کروڑ کروڑ، دو دو کروڑ روپے کی ایک ایک انجمن ہوتی ہے.ان کے مقابلہ میں ہمارا دس پندرہ لاکھ روپے کا ریز رو فنڈ کوئی حقیقت نہیں رکھتا.بلکہ اس میں مشنوں کے سامانوں کو دیکھتے ہوئے ساری دنیا تو الگ رہی ایک ایک ملک میں بھی دس پندرہ لاکھ کی کوئی حقیقت نہیں.مگر بہر حال جس خدا نے ہمیں اتنی طاقت دی ہے کہ دس پندرہ لاکھ ریز رو فنڈ اکٹھا کریں.وہ اس سے زیادہ کی بھی طاقت دے گا.مگر جس طرح دنیا کی جنگ کے لیے تیاری اور ٹریننگ کی ضرورت ہوتی ہے اُسی طرح دین کی جنگ کے لیے بھی تیاری اور ٹریننگ کی ضرورت ہوتی ہے.ہر شخص اس بات کا اہل نہیں ہوتا کہ مبلغ بن سکے.جب تک وہ اسلامی مسائل اور علوم دینیہ سے اچھی طرح واقف نہ ہو.جو ان باتوں سے ناواقف ہو گا وہ خود بھی گمراہ ہو گا اور دوسروں کو بھی گمراہ کرے گا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے کہ مسلمانوں کی ہے تباہی جن وجوہ کی وجہ سے ہو گی ان میں سے سب سے بڑی وجہ یہ ہو گی کہ ایسے لوگ غالب ہے ہوں گے جو علوم دین سے ناواقف ہونے کی وجہ سے خود بھی گمراہ ہوں گے اور دوسروں کو بھی ہے گمراہ کریں گے 1 اگر ہم بھی اسی قسم کے مبلغ باہر بھیج دیتے جو دینی علوم سے واقف نہ ہوتے تو وہ اصلاح کرنے کی بجائے خرابی پیدا کرنے کا موجب ہوتے.اس لیے ضروری تھا کہ میں جن کو تبلیغ کے لیے باہر بھیجا جائے، اُن کو علوم دینیہ پر عبور حاصل ہو.یہ ہماری نئی کوشش تھی.سامان تھوڑے تھے ، ذرائع کم تھے اور تجربہ کو تاہ تھا.اس میں ہم نے شروع شروع میں مہینے

Page 594

خطبات محمود 594 $1944 غلطیاں بھی کیں.جن کی وجہ سے جو کام دو سال میں ہو سکتا تھا.اُس پر چار سال صرف ہوئے مگر بہر حال خدا کے فضل اور کرم سے ایک جماعت تیار ہو گئی ہے اور ہو رہی ہے جو علوم دینیہ سے واقف ہے.اور انْشَاءَ اللہ ایک دو سال تک اس جماعت کے طلباء پورے عالم ہو جائیں گے اور ہم اُن کو باہر تبلیغ کے لیے بھیج سکیں گے.مگر جتنے مبلغ تیار ہوں گے اُن کا اور اُن کے لیے تبلیغ کے سامان مہیا کرنے کا تمام بوجھ ہمارا موجودہ ریزر و فنڈ نہیں اٹھا سکتا.لیکن جس خدا نے آج تک ہماری مدد فرمائی ہے اُس پر ہمیں وثوق ہے کہ وہ آئندہ بھی ہماری مدد فرمائے گا اور جو کمیاں اور خامیاں ہمارے کام میں رہ جائیں گی ان کو اپنے فضل سے پورا کر دے گا اور جماعت کو بھی اخلاص کے ساتھ زیادہ سے زیادہ قربانی کرنے کی توفیق بخشے گا.جوں جوں وہ دن نزدیک آتا جارہا ہے کہ اسلحہ کی جنگ ختم ہو اور تبلیغ کی جنگ شروع ہو جائے ہمارے لیے فکر کا موقع بھی بڑھ رہا ہے.کیونکہ ابھی ہم نے بہت سا رستہ طے کرنا ہے.ایسی زبانیں جو دنیا میں کثرت سے رائج ہیں اور اُن ممالک کے علاوہ جن کی وہ مادری زبانیں ہیں دوسرے مختلف ممالک میں بھی بولی اور سمجھی جاتی ہیں نو زبانیں ہیں.ان میں سے ایک زبان عربی ہے جو سب سے زیادہ غیر ممالک میں بولی اور سمجھی جاتی بعض ممالک ایسے ہیں جن کی مادری زبان عربی نہیں تھی مگر اب وہاں پر عربی ہی مادری ہے.زبان کے طور پر رائج ہے اور یہ زبان اپنے ملک سے نکل کر غیر ممالک میں پھیل گئی ہے اور ی کثرت سے ان ممالک میں بولی اور سمجھی جاتی ہے.اس قسم کی دوسری زبان انگریزی ہے.یہ زبان بھی اس ملک کے علاوہ جس کی یہ مادری زبان ہے دوسرے ممالک میں رائج ہے اور کروڑوں کروڑ انسان یہ زبان بولتے اور سمجھتے ہیں.اس قسم کی تیسری وسیع زبان روسی ہے.روس کی سلطنت بہت وسیع ہے جو ایشیا کے مشرقی کنارے سے لے کر یورپ کے مغربی کنارے تک پھیلی ہوئی ہے.اس کی حکومت کے کنارے سمندر کے واسطہ سے ایک طرف جاپان سے ملتے ہیں اور دوسری طرف چین کی سرحد کے ساتھ ساتھ بڑھتے چلے گئے ہیں.چین کا ملک بہت وسیع ملک ہے مگر باوجود اس کی وسعت کے روس کی سرحد اس کے ساتھ ساتھ چلتی چلی جاتی ہے یہاں تک کہ چین کا ملک

Page 595

خطبات محمود 595 $1944 ہو جاتا ہے.اُس سے آگے پھر روس کی سرحد افغانستان اور ہندوستان کی سرحدوں سے ٹکراتی ہوئی ان دونوں ملکوں کو بھی ختم کر دیتی ہے.پھر ایران کی سرحد شروع ہوتی ہے اور وہ بھی ختم ہو جاتی ہے.پھر ٹرکی کا ملک شروع ہوتا ہے اور روس کی سرحد اُس کے ساتھ ساتھ بھی چلتی ہے.اس کے بعد اصلی روسی ملک کے ایک طرف فن لینڈ ہے، پھر پولینڈ ہے، زیکو سلواکیہ اور رومانیہ سے بھی اس کی سرحدیں ٹکراتی ہیں.غرض یہ اتنا وسیع ملک ہے کہ دنیا کی آٹھ حکومتوں کے ساتھ اس کی سرحدیں ملتی ہیں.صرف تھوڑی تھوڑی جگہ سے نہیں بلکہ بڑی لمبائی تک ان کے ساتھ ساتھ چلتی ہیں.اتنے بڑے وسیع ملک کی زبان بھی نظر انداز کرنے کے قابل نہیں.اس قسم کی چوتھی زبان جرمن ہے.اس زبان کی اہمیت کی وجہ یہ ہے کہ جرمن میں بڑے علمی لوگ ہیں.ہم ان کے کتنے ہی عیوب بیان کریں مگر اس بات سے انکار نہیں کر سکتے کہ جر من لوگ علوم کو علوم کی خاطر حاصل کرتے ہیں.علوم کی خاطر جو جد وجہد جرمنوں نے کی ہے اس کی مثال دوسری قوموں میں نہیں ملتی.دوسری قومیں رسوخ اور اثر پیدا کرنے کی خاطر علمی جد و جہد کرتی ہیں مگر جر من لوگ علم کو علم کی خاطر کرتے ہیں.اس لیے اعلیٰ علوم کی خاطر جرمن زبان کا جاننا ضروری ہے.مثلاً سائنس کے علم میں جرمنوں نے دوسرے ممالک کی نسبت بہت زیادہ جد و جہد اور بہت زیادہ ترقی کی ہے.اس لیے جب تک جرمن زبان نہ سیکھی جائے سائنس کے اعلیٰ علوم سے استفادہ نہیں کیا جاسکتا.اس لحاظ سے یہ زبان بھی بہت اہمیت رکھنے والی ہے.پانچویں زبان فرانسیسی ہے.یہ زبان اس لیے اہمیت رکھتی ہے کہ پرانے زمانہ میں یورپ کی عام زبان فرانسیسی تھی.جس طرح ہندوستان میں اُردو ہے.ہندوستان میں جہاں تامل زبان بولی جاتی ہے وہاں اردو بھی سمجھی جاتی ہے، جہاں اڑ یازبان بولی جاتی ہے وہاں اُردو بھی سمجھی جاتی ہے، جہاں مرہٹی زبان بولی جاتی ہے وہاں اُردو بھی کبھی جاتی ہے، جہاں گجراتی ہیں زبان بولی جاتی ہے وہاں اردو بھی سکبھی جاتی ہے.اسی طرح یورپ کے تمام ممالک انگلستان من اٹلی اور سیتین وغیرہ میں جہاں اپنی اپنی زبانیں بولی جاتی ہیں وہاں ساتھ ساتھ فرانسیسی زبان بھی ہے

Page 596

$1944 596 محمود مجھی جاتی ہے اور اس زبان کے ذریعہ کئی معاملات طے کیے جاتے ہیں.یورپ کے ملکی تعلقات اور معاملات میں بھی یہ زبان استعمال ہوتی ہے.اس کے علاوہ انگریزوں کے بعد فرانس ہی ایک ایسا ملک ہے جس کا دوسرے کئی ممالک پر اثر ہے اور اس کی نو آبادیات کثرت سے باہر پھیلی ہوئی ہیں.شمالی افریقہ اور مغربی افریقہ کا ایک حصہ اس کی نو آبادیات میں شامل ہے.پھر بحر ہند کے کئی جزائر پر فرانس کا قبضہ ہے.چین تک اس کی نو آبادیات پھیلی ہوئی ہے ہیں.امریکہ کے پاس بھی بعض جزائر پر فرانس کا قبضہ ہے.پس پانچویں وسیع اثر رکھنے والی زبان فرانسیسی ہے.اس قسم کی چھٹی زبان اطالوی ہے.اس زبان کو یہ خصوصیت حاصل ہے کہ یورپ کی علمی اصطلاحات لاطینی سے تیار کی جاتی ہیں اور لاطینی زبان ماں ہے اطالوی زبان کی بیٹی اپنی ماں سے الگ نہیں ہوتی بلکہ ماں کا اثر ضرور اپنے اندر رکھتی ہے.اس لیے لاطینی اصطلاحات کے لیے اطالوی زبان کا جاننا ضروری ہے.اسی طرح مسیحیت کا مرکز ہونے کی وجہ سے پادریوں کے ذریعہ سے اطالوی زبان ہر ملک میں پھیلی ہوئی ہے.مزید بر آں اطالوی نسل بڑی جلدی جلدی بڑھ رہی ہے جس کی وجہ سے کئی کروڑ اطالوی نسل کے آدمی امریکہ میں جابسے ہیں.اسی طرح اٹلی کی نو آبادیات جن پر جنگ سے پہلے اٹلی کا قبضہ تھا اُن میں بھی اس زبان کو سمجھا جاتا ہے.پھر مصر اور مشرق بعید کے علاقوں پر بھی اٹلی زبان کا اثر ہے کیونکہ وہاں بھی اٹلی کے لوگ تجارتوں اور دوسرے کاموں کی وجہ سے بہت پھیلے ہوئے ہیں.پس یہ چھٹی زبان ہے جو نہایت اہمیت رکھنے والی ہے اور مختلف ممالک میں اس سے فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے.ساتویں زبان ڈچ ہے جو ہالینڈ کی زبان ہے.سماٹرا، جاواو غیرہ کے جزائر جن میں کئی کروڑ کی مسلمان آبادی ہے یہ لوگ ڈچ حکومت کے ماتحت ہیں ان میں تبلیغ کرنے کے لیے ڈچ زبان کا جاننا ضروری ہے.ان جزائر میں جتنے تعلیم یافتہ لوگ ہیں وہ سب ڈچ زبان جانتے ہیں اور اس زبان کو سماٹرا، جاوا و غیرہ میں وہی اہمیت حاصل ہے جو ہندوستان میں انگریزی کو حاصل ہے.ہندوستان میں کئی تعلیم یافتہ لوگ ایسے ہیں جن کو اگر اردو رسالہ پڑھنے کو دیا جائے تو کہیں گے اگر کوئی انگریزی رسالہ ہو تو دیجیے.اپنی زبان اردو ہے مگر ما نگیں گے انگریزی ہے

Page 597

$1944 597 خطبات محمود اسی طرح لمبی حکومت کی وجہ سے سماٹرا، جاوا کے اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگوں میں ڈچ زبان کو پسند کیا جاتا ہے اور مقامی زبان کو اس کے مقابلہ میں کم پسند کیا جاتا ہے.ان علاقوں میں تبلیغ کرنے کے لیے اس زبان کا جاننا بھی نہایت ضروری ہے.آٹھویں زبان ہسپانوی ہے.ہسپانیہ تین چار کروڑ کا ملک ہے.افریقہ کی بہت سی آبادی کا اسلامی حصہ خصوصاً وہ مورش قوم جنہوں نے سپین پر حکومت کی ہے اور ایک لمبے عرصہ تک سپین میں اسلامی حکومت کے علمبر دار رہے ہیں.اُس کا بڑا حصہ ہسپانیہ کے ماتحت ہے اور وہاں کے علمی لوگ ملازمت وغیرہ حاصل کرنے کے لیے اور حکام کے ساتھ تعلقات رکھنے کے لیے ہسپانوی زبان سیکھتے ہیں.اسی طرح جنوبی امریکہ کا ایک حصہ بھی ہسپانیہ کے ماتحت تھا.اب وہ آزاد ہے مگر چونکہ ہسپانوی نسل وہاں آباد ہے اس لیے ہسپانوی زبان وہاں اینی بولی جاتی ہے.پس سپینش زبان جانے کا نہ صرف ہسپانیہ میں تبلیغ کرنے کے لیے فائدہ ہو سکتا ہے بلکہ افریقہ کے بعض اسلامی ممالک میں بھی اور جنوبی امریکہ کے بیشتر حصہ میں بھی اس سے فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے.ہے نویس زبان پر تگیزی ہے.پرتگیزی قوم کی باہر تو تھوڑی سی ٹو آبادیات ہیں لیکن جنوبی ہے امریکہ کی بعض حکومتوں کے ماتحت کثرت سے پرتگیزی نسل آباد ہے.علاوہ ازیں پرتگیزی ہے قوم کی بھی نو آبادیاں دنیا کے مختلف حصوں میں ہیں.اس لیے اصل ملک کے علاوہ وہاں پر تبلیغ کرنے کے لیے بھی پر تگیزی زبان کا جاننا ضروری ہے.پس یہ نو زبانیں ہیں جو نہ صرف اپنے اپنے ملک میں بلکہ غیر ممالک میں جا کر بھی کام دیتی ہیں.اگر ہم دنیا میں تبلیغ کرنا چاہیں تو ہمارے لیے ان نو زبانوں کا جانا اور ان نو زبانوں میں ہے لٹریچر مہیا کرنا ضروری ہے.عربی، انگریزی، روسی، جرمن، ڈچ، فرانسیسی ، اطالین، ہسپانوی مینی اور پرتگیزی.اگر ہم اپنے مبلغ ان ممالک میں بھیجیں یا ان ممالک میں بھیجیں جہاں یہ زبانیں بولی یا کبھی جاتی ہیں یا وہاں کی علمی زبان ہیں تو لازمی بات ہے کہ ہمارے مبلغ کے پاس جب تک میں اُس زبان میں لٹریچر نہیں ہو گا وہ مبلغ آسانی کے ساتھ وہاں تبلیغ نہیں کر سکے گا اور جلدی کامیاب نہیں ہو سکے گا.ایک دن میں ایک مبلغ یہی کر سکے گا کہ دو یا تین آدمیوں کو تبلیغ

Page 598

$1944 598 خطبات محمود کر لے گا مگر تین یا چار یا دس کروڑ کی آبادی والے ملک میں روزانہ دو تین آدمیوں کو تبلیغ کرنے سے کیا بنے گا.پھر سال کے تمام دن کام کرنا مشکل ہے.کسی دن آدمی بیمار ہوتا ہے ، کسی دن کسی اور وجہ سے ناغہ ہو جاتا ہے.حسابی لوگوں نے سال میں اڑھائی سو دن کام کی اوسط لگائی ہے.اگر اس کو بڑھا کر تین سو دن بھی کام کا شمار کر لیا جائے اور ایک مبلغ دو آدمیوں کو روزانہ تبلیغ کرے تو اس کے یہ معنے ہوں گے کہ تین مبلغ سال بھر میں اٹھارہ سو آدمیوں کو تبلیغ کریں گے اور ایک سوسال میں ایک لاکھ اسی ہزار آدمیوں کو تبلیغ کریں گے اور وہ بھی اس طریق سے کہ ایک ایک آدمی کو صرف ایک ایک گھنٹہ تبلیغ ہو گی اور ہر روز نئے آدمی کو تبلیغ کی جائے تب اتنی تعداد بنے گی.حالانکہ ایک گھنٹہ تبلیغ کرنے سے کیا بنتا ہے.ایک ایک آدمی کو سو سو گھنٹے تبلیغ کی جائے تب جاکر کہیں کامیابی ہوتی ہے.پس اگر صرف مبلغ کے ذریعہ تبلیغ پر اکتفا کیا جائے تو تین مبلغ اوسطا دو دو آدمیوں کو روزانہ تبلیغ کر کے سال بھر میں صرف اٹھارہ سو آدمیوں کو تبلیغ کر سکیں گے.لیکن اگر ان کے پاس اس زبان کا لٹریچر ہو تو ایک مبلغ من ایک دن میں ہزار آدمیوں کو تبلیغ کر سکتا ہے.وہ اس لٹریچر کو لائبریریوں میں رکھے گا، لوگوں میں تقسیم کرے گا.پھر مشہور کتابیں پک بھی جاتی ہیں وہ ان کو ایجنٹوں کی معرفت فروخت بھی کرے گا.پس اگر ملکی زبان کا لٹریچر پاس ہو تو مبلغ کامیاب طور پر تبلیغ کر سکتا ہے اور یہ طریقہ ایسا ہے جس کے ذریعہ سے دو تین یا چار مبلغ پانچ کروڑ کی آبادی کے ملک میں سال ہے بھر میں کئی لاکھ آدمیوں کو کامیاب طور پر تبلیغ کر سکتے ہیں.گو پوری تبلیغ پھر بھی نہیں کہلا سکے گی کیونکہ اتنی آبادی والے ملک کے لیے تو تین چار سو مبلغ کی ضرورت ہے.مگر بہر حال اس میں طریق سے ایسی تبلیغ ہو سکے گی جسے نظر انداز نہ کیا جاسکے اور جو بااثر ہو.تین چار کروڑ کی آبادی والے ملک میں ہمارے مبلغ ایک سال میں چار پانچ لاکھ آدمیوں تک لٹریچر پہنچا سکیں گے اور ہے ہزاروں کے پاس فروخت کر سکیں گے اور اس طریق سے ہماری تبلیغ اس ملک میں پھیل جائے گی.پس اگر ہم تبلیغ کرنا چاہتے ہیں اور اس کا اچھا نتیجہ دیکھنا چاہتے ہیں تو ہمارے لیے ضروری ہے کہ ہم ایسے سامان پیدا کریں کہ جہاں ہمارے مبلغ جائیں ان کے پاس

Page 599

$1944 599 خطبات محمود اُس ملک کی مروجہ زبان میں ایسا لٹریچر ہو جس کے ذریعہ اُس ملک کے تعلیم یافتہ لوگوں اور عوام کے اندر ہیجان پیدا کیا جا سکے.اس غرض کو پورا کرنے کے لیے سب سے پہلے قرآن مجید کے ترجمہ کی ضرورت ہے ہے.کیونکہ یہ جامع کتاب ہے جس میں تمام علوم اور سارے مضامین جمع ہیں.باقی کتابوں میں ایک ایک مضمون ہوتا ہے مگر یہ تمام مضامین کا مجموعہ ہے.پھر دوسری کتابوں کی طرف توجہ دلانے کے لیے ہمیں زور لگانے کی ضرورت ہوتی ہے.مگر قرآن مجید اپنا زور آپ لگاتا ہے.ہر ملک کی زبان میں اگر اس کا ترجمہ کر دیا جائے تو جس زبان میں بھی اس کا ترجمہ ہو گا اُس زبان کے جاننے والے لوگ بڑے شوق سے اسے لیں گے اور پڑھیں گے.دوسری کتابوں کے لیے ہمیں پروپیگینڈا کرنا پڑتا ہے مگر قرآن مجید کو یہ فضیلت حاصل ہے کہ اس کا پروپیگینڈا ہو چکا ہے ہے اور تیرہ سو سال سے ہوتا چلا آرہا ہے.اس لیے بڑی سہولت کے ساتھ یہ تمام دنیا میں پھیل سکتا ہے.پس سب سے پہلی ضرورت یہ ہے کہ قرآن مجید کا ترجمہ آٹھ زبانوں میں کردیا جائے.عربی میں تو وہ پہلے ہی ہے.باقی آٹھ زبانوں میں اس کا ترجمہ ہونا ضروری ہے.انگریزی، روی، جرمن، فرانسیسی ، اطالین، ڈچ، سپینش اور پرتگیزی.ان آٹھ زبانوں میں اگر قرآن مجید کا ترجمہ ہو جائے تو دنیا کے ہر گوشہ میں قرآن مجید پہنچ سکتا ہے اور ساری دنیا میں تبلیغ ہو سکتی ہے سوائے چین اور جاپان کے.مگر یہ دونوں محدود زبانیں ہیں.چین میں چونکہ آٹھ کروڑ مسلمانوں کی آبادی ہے اس لیے وہاں عربی کام دے سکتی ہے.البتہ جاپان ایسا ملک ہے جو باہر رہ جائے گا.مگر وہ دنیا کا ہزارواں حصہ ہے.فی الحال اگر اس کو نظر انداز بھی کر دیا ہے جائے تو کوئی حرج نہیں.فوری طور پر ان آٹھ زبانوں میں تراجم شائع کرنے کی ضرورت ہے.اگر ان زبانوں میں ہمارے نقطہ نگاہ سے صحیح تراجم شائع ہو جائیں تو مبلغین آسانی سے اس ملک یا اس زبان کے جانے والے علمی طبقہ تک پہنچ سکیں گے اور کہہ سکیں گے کہ آپ کی زبان میں ہے قرآن مجید کا ترجمہ چھپ چکا ہے.خرید کر یا فلاں لائبریری سے لے کر پڑھ لیں.انگریزی کا ترجمہ ہمارے ہاں دیر سے ہو رہا ہے.گو افسوس ہے کہ کسی نہ کسی غلطی کی وجہ سے جو تراجم کے مراکز سے دور ہونے کی وجہ سے ہو جاتی ہے اس پھرتی سے کام نہیں ہو رہا جس پھرتی سے ہے

Page 600

خطبات محمود 600 $1944 ہونا چاہیے.مگر بہر حال اس کی پہلی جلد شائع ہو رہی ہے اور پر لیس والوں نے وعدہ کیا ہے کہ وہ مارچ اپریل تک اس کو مکمل کر کے دے دیں گے.ترجمہ سارے قرآن مجید کا ہو چکا ہے، ضروری نوٹ بھی قریباً سارے ہو چکے تھے مگر ان میں کچھ نقص رہ گیا تھا.اس لیے اب میں دوبارہ اپنی ہدایات کے مطابق ان کی اصلاح کروارہا ہوں اور وہ اصلاح پندرہ سولہ پارہ تک ہو چکی ہے.چنانچہ پہلی جلد کا کام ختم ہو چکا ہے اور جیسا کہ میں نے بتایا ہے پر میس والوں کا وعدہ ہے کہ مارچ اپریل تک چھاپ کر دے دیں گے.اب باقی سات زبانیں رہ جاتی ہیں.انگریزی زبان چونکہ بہت پھیلی ہوئی ہے اور اس میں بعض سہولتیں بھی میسر ہیں جو دوسری زبانوں میں میسر نہیں اس لیے انگریزی ترجمہ کے ساتھ تفسیر بھی ہے.مگر باقی زبانوں میں اس لیے کام کی ضرورت نہیں.چھوٹے حجم کا ہے قرآن مجید مختصر نوٹوں اور ترجمہ کے ساتھ شائع ہو جائے تو کثرت سے لوگ خرید سکتے ہیں.انگریزی میں تو ہو چکا ہے.باقی سات زبانوں میں بھی اگر ترجمہ ہو جائے تو ساری دنیا میں نے قرآن مجید کی اشاعت ہو سکتی ہے.سوائے جاپان کے جس کو سر دست اگر نظر انداز کر دیا جائے تو کوئی حرج کی بات نہیں.وہاں مبلغ بھیجے جائیں گے تو ترجمہ کروالیں گے.میری اس نے سکیم کے ماتحت ساتوں زبانوں میں ترجمہ شروع کرادیا گیا ہے.امید کی جاتی ہے کہ 1945ء کے نصف یا اُس کے آخر تک اِنْشَاءَ اللہ ساتوں زبانوں میں ترجمہ مکمل ہو جائے گا.پچھلے دنوں تار آیا تھا کہ ساتوں زبانوں میں تین تین پاروں کا ترجمہ ہو چکا ہے.اس کے بعد دو تین ہفتے گزر چکے ہیں.اس لیے چار یا پانچ پاروں تک ہو چکا ہو گا.اس کے خرچ کا میں نے اندازہ کروایا ہے.چونکہ انگریزی ترجمہ کی نسبت سے یہ چھوٹا کام ہے کیونکہ لمبی تفسیر نہ ہوگی اس لیے ایک ایک زبان میں قرآن مجید کے ترجمہ پر چھ چھ ہزار روپیہ اوسطاً خرچ آئے گا اور سات ترجموں پر بیالیس ہزار روپیہ لگے گا.میں جماعت میں تحریک کرنا چاہتا ہوں کہ یہ ایک ایسا مستقل کام ہے جو صدیوں تک دنیا کی ہدایت کا موجب بننے والا ہے.پس اگر ان سات تراجم کا خرچ مختلف افراد یا جماعتیں اپنے ذمہ لے لیں تو یہ چیز دائی ثواب کا ذریعہ ہے.روسی، جرمن، فرانسیسی، اطالین، ڈچ، ہسپانوی اور پرتگیزی یہ تی

Page 601

خطبات محج محمود 601 $1944 ☆☆ سات زبانیں ہیں.میں یہ اعلان کر دیتا ہوں کہ اپنی طرف سے اور اپنے بیوی بچوں کی طرف سے ایک زبان کے ترجمہ کی رقم میں ادا کروں گا.باقی چھ ترجمے رہ جاتے ہیں.ان چھ میں سے ایک ترجمہ کے لیے میں نے تجویز کیا ہے کہ سارے ہندوستان کی لجنہ مل کر ایک ترجمہ کا ہے خرچ ادا کرے اور یہ ترجمہ جرمن زبان کا ہو.کیونکہ جرمنی میں مسجد کی تعمیر کا ارادہ بھی لجنہ ہی نے کیا تھا.باقی رہ گئیں پانچ زبانیں.میں سمجھتا ہوں خدا کے فضل سے قادیان کی آبادی اتنی ام ہے کہ یہاں کی جماعت آسانی سے ایک ترجمہ کا خرچ ادا کر سکتی ہے.یہاں کی جماعت ہمیشہ اخلاص دکھانے میں آگے قدم رکھا کرتی ہے.قادیان میں مسجد مبارک کی توسیع کے لیے ایک دن میں چوبیس ہزار روپیہ جمع ہو گیا تھا.اس لیے چھ ہزار روپیہ جمع کرنا ان کے لیے کوئی مشکل کام نہیں.پس میں ایک ترجمہ کی رقم قادیان کی جماعت کے ذمہ لگاتا ہوں.باقی چار ہو گئے.میرے نزدیک باقی چار ترجموں کی رقم چار شہروں کی جماعتیں یا افراد اپنے ذمہ لے لیں.میں ان جماعتوں کے نام نہیں لیتا بلکہ جماعتوں پر چھوڑتا ہوں کہ وہ خود آگے بڑھیں.جو فرد اکیلا ایک ترجمہ کی رقم اٹھانا چا ہے وہ اکیلا اٹھا لے.جو چند دوستوں کے ساتھ مل کر یہ بوجھ اٹھانا چاہتا ہو وہ ایسا کر لے.جو جماعت مل کر ایک ترجمہ کی رقم دینا چاہے وہ جماعت اس کا وعدہ کرے لے.جو صوبہ ایک ترجمہ کی رقم دینا چاہے وہ صوبہ اس کا وعدہ کر لے.میں اگر چاہتا تو سہولت سے بعض جماعتوں کے نام لے سکتا تھا مگر میں نہیں چاہتا کہ جماعتوں کا یا افراد کا ثواب ضائع ہیں جمعہ کی نماز سے فارغ ہونے کے بعد حضور نے اعلان فرمایا کہ نماز شروع کرتے وقت خدا تعالیٰ نے میرے دل میں ڈالا کہ چونکہ پہلے مسیح کا خلیفہ کہلانے والا اٹلی میں رہتا ہے.اس مناسبت سے قرآن مجید کا جو ترجمہ اطالوی زبان میں شائع ہو وہ مسیح محمدی کے خلیفہ کی طرف سے ہو نا چاہیے.اس لیے میں یہ اعلان کرتا ہوں کہ اطالین زبان میں قرآن مجید کے ترجمہ کا خرچ میں ادا کروں گا.☆☆ خطبہ کے بعد ایک ترجمہ کا خرچ چودھری سر محمد ظفر اللہ خان صاحب اور ان کے چند آور دوستوں نے اپنے ذمہ لیا.اس طرح صرف تین تراجم باقی رہ گئے ہیں.

Page 602

خطبات محمود 602 $1944 کروں.ہاں اپنا حق میں مقدم سمجھتا ہوں کیونکہ تمام ذمہ داری مجھ پر ہے.اس لیے ایک ترجمہ کی رقم میں نے اپنے ذمہ لے لی ہے.قادیان کا بھی حق ہے کیونکہ یہ خدا تعالی کے عمر سل کا مرکز ہے.اس لیے میں نے اس کا نام چنا ہے.بچنا نہیں بلکہ اس کے ثواب کو بچانے کے کے لیے کہ اس کی جگہ کوئی اور نہ لے لے میں نے قادیان کا نام لے دیا ہے.عورتیں بھی چونکہ بے زبان ہوتی ہیں اور اُن تک آواز پہنچنے میں دیر لگ جاتی ہے اس لیے میں نے ان کا بھی نام لے دیا ہے.میر احق تھا کہ اس کام میں میرا حصہ ہو اس لیے میں نے اپنا نام لے دیا ہے.قادیان کا حق تھا کہ اس کام میں اِس کا حصہ ہو اس لیے میں نے قادیان کا نام لے دیا ہے.عورتوں کا حق تھا کہ اس کام میں ان کا حصہ ہو اس لیے میں نے عورتوں کا نام لے دیا ہے.جن کے حقوق ظاہر تھے ان کے نام میں نے لے دیے ہیں اور باقی چار ترجموں کی رقم میں نے تین جماعتوں پر چھوڑ دی ہے.مختلف شہر یا صوبے، یا افراد اپنے ذمہ ایک ایک ترجمہ کی رقم لے لیں اور یہ چندہ مارچ 1945ء کے آخر تک پہنچی جانا چاہیے.اس وقت تک ہم نے تحریک جدید کے فنڈ سے رقم خرچ کی ہے جو تراجم کی رقوم وصول ہونے پر تحریک جدید کو واپس کر دی جائے گی.اس لیے چندے اور وعدے بھی تحریک جدید کے نام آنے چاہئیں یعنی اس کے مچی فنانشل سیکر ٹری کے نام.اس کے بعد چھپوائی کا سوال رہ جاتا ہے.میرا اندازہ ہے کہ اِن سات تراجم کی پانچ پانچ ہزار کا پیاں پندرہ پندرہ ہزار روپیہ میں چھپ سکیں گی اور جماعت کے جوش اور اخلاص کو دیکھا جائے تو اس کے لحاظ سے یہ کوئی بڑی رقم نہیں.میں سمجھتا ہوں جس وقت تراجم مکمل ہو جائیں گے اُس وقت اس پندرہ پندرہ ہزار روپیہ کی رقم کا ادا کر نا جماعت کے لیے کوئی مشکل کام نہیں ہو گا.اس کے بعد ہمارے مبلغوں کے پاس قرآن مجید کے علاوہ کچھ اور لٹریچر ہونا بھی ضروری ہے جو مخصوص اور ضروری مسائل پر مشتمل ہو.میں سمجھتا ہوں کہ بارہ بارہ کتابوں کا سیٹ ہمارے مبلغوں کے پاس ہونا چاہیے جسے وہ فروخت کر سکیں یا تحفہ دے سکیں.چودھری صاحب کے وعدے کے بعد تین

Page 603

خطبات محمود 66 603 $1944 اِس سیٹ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کتب کا ہونا ضروری ہے، تبرک کے طور پر اور اس لحاظ سے بھی کہ حضور علیہ السلام کی کتب میں اس زمانہ کی ضرورت کے مطابق تمام قسم کے علوم اور مسائل آگئے ہیں.ان میں سے ایک اسلامی اصول کی فلاسفی" اور دوسری " مسیح ہندوستان میں" ہونی چاہیے.باقی دس رہ جاتی ہیں.ایک میری کتاب " احمدیت یعنی حقیقی اسلام" رکھ لی جائے.کیونکہ اس میں بھی موجودہ ضروریات کے مطابق بہت سے مسائل آ گئے ہیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سوانح عمری اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی سوانح عمری یہ دو کتابیں بھی ضروری ہیں.ایک کتاب ترجمہ احادیث رکھی جائے.اسی طرح پرانے اور نئے عہد نامہ میں سے ”رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق پیشگوئیاں یہ مضمون بھی عیسائی ممالک میں اثر پیدا کرنے والا ہے.اس لیے ایک کتاب اس مضمون پر مشتمل ہونی چاہیے.اسی طرح پرانے اور نئے عہد نامہ کی روشنی میں توحید پر بھی ایک کتاب ہونی ضروری ہے جو تثلیث کی تردید کرے.الہامی لحاظ سے بھی اور پرانے اور نئے عہد نامہ کے حوالوں کی رو سے بھی.نظام نو پر بھی ایک کتاب ہونی چاہیے آجکل کے لحاظ سے یہ مضمون بھی نہایت ضروری ہے.یہ نو کتابیں بن جاتی ہیں.باقی تین کتابوں کے متعلق بعد میں تصفیہ کر لیا جائے گا.یا تو پرانی کتابوں میں سے انتخاب کر کے سیٹ میں رکھ دی جائیں گی پانے مضامین مقرر کر کے ان پر کتابیں لکھوالی جائیں گی.میں سوچ رہا ہے ہوں کہ کس قسم کے مضامین ہونے چاہیں جو اثر انداز ہوں.باقی دوست بھی اس کے متعلق مشورہ دیں.پس ان بارہ کتابوں کا سیٹ آٹھ زبانوں میں تیار کرنا بہت ضروری ہے.یہ سیٹ عیسائی ممالک کے لیے ہے.عربی ممالک کے لیے اور قسم کی کتابوں کا سیٹ تجویز ہونا چاہیے جو اُن کی ضرورت کے مطابق اور اُن کے مناسب حال مضامین والی کتابوں پر مشتمل ہو.اس کے علاوہ چونکہ ہر شخص یہ کتابیں خرید کر نہیں پڑھ سکتا اور نہ ہی ہر ایک کو مفت دی جاسکتی ہیں ضروری ہے کہ ان نو زبانوں میں چھوٹے چھوٹے ٹریکٹ اور اشتہار چھپوائے جائیں جو چار چار صفحے سے لے کر سولہ سولہ صفحے تک کے ہوں.تاکہ کثرت کے ساتھ ان کی اشاعت ہو سکے اور ہر آدمی کے ہاتھ میں پہنچائے جاسکیں.ہمارے ملک میں چھوٹے چھوٹے

Page 604

$1944 604 محمود ٹریکٹ نہیں سکتے.لیکن عیسائی ممالک میں اس قسم کے ٹریکٹ بک بھی جاتے ہیں.مبلغ کو اجازت ہو کہ وہ ان ٹریکٹوں اور اشتہاروں کو جس قدر چاہے مفت تقسیم کرے اور جس قدر سکیں بیچ دے.پس اس قسم کے ٹریکٹ اور اشتہار بھی کثرت سے ان نو زبانوں میں تیار.کیے جائیں.کثرت سے چھپوانے پر کم خرچ ہوتا ہے.اگر ہم اوسطانی اشتہار آٹھ صفحہ کا تو سمجھیں اور چھپوائی کا اندازہ فی صفحہ دو روپے فی ہزار لگا لیں تو سولہ سو روپیہ میں آٹھ صفحے کا ہے ایک لاکھ اشتہار ایک زبان میں چھپ سکتا ہے جس کے معنی یہ ہیں کہ نو زبانوں میں ایک ایک لاکھ اشتہار چھپوانے پر ساڑھے چودہ ہزار روپیہ خرچ آئے گا.ممکن ہے یہ خرچ اور بھی کم ہو کر دس ہزار تک آجائے.اور چالیس ہزار روپیہ میں ہم ہر ایک زبان کا چار چار لاکھ اشتہار شائع کر سکیں.جس کا مطلب یہ ہے کہ سال بھر میں اتنے اشتہارات شائع کر کے ہم ایک سال میں ہے چھتیں لاکھ انسانوں تک اپنا پیغام پہنچا دیں گے.بعض دفعہ ایک ایک اشتہار کو کئی کئی آدمی پڑھتے ہیں.اس طرح یہ تعداد اور بھی بڑھ جائے گی.لیکن اگر سال میں چھتیس لاکھ انسانوں تک بھی ہمارا پیغام پہنچ جائے تو اس کے یہ معنی ہیں کہ ایک ایک روپیہ میں نوے توے یا سوسو آدمیوں تک ہمارا پیغام پہنچ جائے گا.گویا اتنی تبلیغ پر فی آدمی ایک پیسہ بھی خرچ نہ آئے گا.پس یہ تین چیزیں ضروری ہیں.اول آٹھ زبانوں میں قرآن مجید کا ترجمہ ، دوسرے نو زبانوں میں بارہ کتابوں کا سیٹ، تیسرے نو زبانوں میں مختلف چھوٹے چھوٹے ٹریکٹ اور اشتہارات.شروع شروع میں ٹریکٹ تھوڑے تھوڑے چھپوا لیے جائیں اور پھر آہستہ آہستہ ان کی اشاعت کو بڑھاتے چلے جائیں.جب اشاعت بڑھ جائے گی تو یہ ٹریکٹ اپنا خرچ خود نکالنے لگ جائیں گے.چھوٹے چھوٹے ٹریکٹ بڑی کتاب کی نسبت زیادہ بکتے ہیں.اگر ایک ٹریکٹ ایک پیسہ میں بھی فروخت ہو جائے تو کافی خرچ نکل سکتا ہے.مگر پیسہ کا رواج صرف ہمارے ملک میں ہے انگریزی ممالک میں کم از کم سنکہ ایک آنہ ہوتا ہے.اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر ایک ایک ٹریکٹ ایک ایک آنہ میں فروخت کیا جائے تو ہزاروں کی آمدنی ہو سکتی ہے اور اس آمدنی سے اور اشتہارات چھپوائے جاسکتے ہیں.پس یہ ایک ایسی سکیم ہے جو تبلیغ کو کامیاب بنانے کے لیے نہایت ضروری ہے.ایک

Page 605

$1944 605 خطبات محمود تو قرآن مجید کا سات زبانوں میں ترجمہ ہے.اس پر فوری طور پر عمل کرنے کے لیے چندہ کی ضرورت ہے.ایک ترجمہ کا خرچ تو میں نے اپنے ذمہ لے لیا ہے، ایک ترجمہ کا خرچ قادیان کی جماعت کے ذمہ لگایا ہے اور ایک کا سارے ہندوستان کی لجنہ اماءاللہ کے ذمہ لگایا ہے.ایک ترجمہ کا خرچ چودھری ظفر اللہ خان صاحب نے اور ان کے چند دوستوں نے اپنے ذمہ لیا ہے.باقی تین ترجموں کا خرچ مختلف افراد یا جماعتیں اپنے ذمہ لے لیں.اور اُمید ہے کہ جماعتیں جلدی اپنے اپنے ذمہ ایک ایک ترجمہ کا خرچ لے لیں گی ( مجھے بتایا گیا ہے کہ قادیان کی جماعت غالباً دو تراجم کا بوجھ اٹھائے گی اور اسی طرح لجنہ اماءاللہ بھی دو تراجم کا خرچ دے گی.اگر ایسا ہوا تو صرف ایک ترجمہ بیرون جات کی جماعت کے حصہ میں آتا ہے).بہت ساری جماعتیں ایسی ہیں جن کے لیے یہ معمولی بات ہے.ممکن ہے خدا تعالیٰ بعض افراد کو بھی توفیق دیدے.چونکہ اس سکیم پر عمل کرنے کے لیے چندہ کی فوری ضرورت ہے.اس لیے میں نے اس کے متعلق اعلان کر دیا ہے کہ جماعتیں اپنے اپنے ذمہ ایک ایک ترجمہ کی رقم لے کر جلدی اطلاع دیں.باقی دو یعنی کتابوں کا سیٹ اور ٹریکٹوں کے متعلق میں نے اس لیے اعلان کیا ہے تاکہ جماعتیں مفید مشورہ دے سکیں کہ کون کونسی کتابیں سیٹ میں رکھنی چاہیں اور ٹریکٹ اور اشتہارات کس قسم کے ہونے چاہیں تاکہ جب کام کا وقت آئے تو ہم سہولت کے ساتھ کتابوں اور ٹریکٹوں کے متعلق فیصلہ کر سکیں کہ کسی قسم کی کتابیں اور ٹریکٹ ہونے ضروری می ہیں.اس کام کے پورا ہو جانے کے بعد میں سمجھتا ہوں جہاں ہمارا مبلغ جائے گاوہ اکیلا نہیں ہے ہو گا بلکہ اُس کے پاس جتنے ٹریکٹ ہوں گے اُس کے ساتھ اتنے رسالے جنگ کے ہوں گے ہمارے ہاں ٹریکٹ کو رسالہ کہتے ہیں).اگر اُس کے پاس پچاس ٹریکٹ ہوں گے تو اس کے ہے معنے یہ ہیں کہ اس کے ساتھ پچاس رسالے فوج ہو گی.اگر اس کے پاس بارہ کتا نہیں ہوں گی تو می اس کے معنی یہ ہیں کہ اس کے ساتھ بارہ تجربہ کار جرنیل ہوں گے.اگر اس کے پاس ہے قرآن مجید ہو گا تو اس کے یہ معنی ہیں کہ اس کے ساتھ ایک عظیم الشان کمانڈر انچیف ہوگا ہے جس نے تیرہ سو سال تک کامیابی سے حکومت کی ہے.اس کے بعد پھر وہ مبلغ اکیلا ہونے کی ہے

Page 606

خطبات محمود 606 $1944 وجہ سے ناکام نہیں ہو گا بلکہ خدا کے فضل سے چند مہینوں کے اندر تہلکہ مچاسکتا ہے.پس میں امید کرتا ہوں کہ جماعت کے باہمت افراد اور جماعتیں خدا کے فضل کو جذب کرنے کے لیے قرآن مجید کے تراجم میں حصہ لینے کے لیے آگے بڑھیں گی.اور اُمید ہے کہ جماعت کے علماء اور بیرونی ممالک کے مبلغ اپنے تجربہ کی بناء پر کتابوں اور ٹریکٹوں کے متعلق ٹھوس مشورہ دیں گے کہ کسی قسم کی کتابیں اور کسی قسم کے ٹریکٹ باہر مفید ہو سکتے ہیں.اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق دے کہ جنگ کے خاتمہ کے بعد جب آمد ورفت کے لیے رستے تو سینکڑوں قوموں میں ہماری تبلیغ شروع ہو جائے.اسلحہ کی جنگ کے خاتمہ پر اُدھر سے صلح کا انگل بچے اور ادھر ہماری طرف سے تبلیغی جنگ کا بنگل بجا دیا جائے".کھیں 1 : مسلم كتاب العلم باب رَفْعِ العِلْم و قَبْضُهُ (الفضل 27 / اکتوبر 1944ء)

Page 607

$1944 607 (37) خطبات محمود تراجم قرآن کریم اور دوسرے تبلیغی لٹریچر کے اخراجات کا اندازہ فرموده 27 / اکتوبر 1944ء) تشہد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: گزشتہ جمعہ کے خطبہ میں میں نے جو تحریک کی تھی میں امید کر رہا تھا کہ اس کے متعلق اس جمعہ کے خطبہ میں بعض اور امور مفصل بیان کروں گا مگر اللہ تعالیٰ کی مشیت کے ماتحت اس قسم کے حالات پیدا ہو گئے ہیں کہ میں مفضل طور پر ان کو بیان نہیں کر سکتا.کل کا واقعہ ہے میں قرآن شریف کے نوٹ ٹھیک کرا رہا تھا، مولوی نور الحق صاحب آئے ہوئے تھے.ان نوٹوں میں ایک سوال تھا جس کے جواب کے لیے کتاب سے حوالہ دیکھنے کی ضرورت تھی.میں نے کہا ابھی کتاب نکال کر یہ حوالہ دیکھنا چاہیے.چنانچہ میں اٹھ کر اپنی لائبریری میں میں گیا.کتابوں کی الماری کے اوپر ایک لکڑی کی بنی ہوئی جھالر تھی جو الماری کو خوبصورت بنانے کے لیے اوپر لگائی ہوئی ہوتی ہے.جھاڑنے اور صفائی کرنے سے وہ کہیں اپنی جگہ سے ہل گئی ہوئی تھی.میں نے جب الماری کھولنے کے لیے اُس کا دروازہ اپنی طرف کھینچا تو کھینچنے کے

Page 608

$1944 608 خطبات محمود ساتھ ہی وہ جھالر گر کر میرے سر پر آپڑی جس کی وجہ سے سر میں چوٹ آئی اور ورم ہو گیا.اس کی وجہ سے رات کو بخار بھی ہو گیا.پس وہ لمبی تفصیل تو مشکل ہے کیونکہ چوٹ کے اثر سے اب بھی سر میں درد ہو رہا ہے.آج اگر خدا نے توفیق دی تو گزشتہ طریق کے مطابق مغرب کی نماز کے بعد مسجد میں بھی بیٹھنے کا بھی ارادہ ہے.لیکن اگر طبیعت زیادہ خراب ہو گئی تو پھر آج بھی بیٹھنا مشکل ہو گا.اس صورت میں اگر خد اتعالیٰ نے فضل کیا تو انشاء اللہ کل سے بیٹھوں گا.میں نے پچھلے خطبہ میں جو مضمون بیان کیا تھا اس کے کئی پہلوا بھی باقی ہیں.لیکن ان پہلوؤں کے بیان کرنے کے لیے جتنی تفسیر اور جتنی وضاحت کی ضرورت ہے میری حالت جیسا کہ میں بیان کر چکا ہوں ایسی ہے کہ شاید میں اتنی تفسیر اور اتنی وضاحت نہ کر سکوں.تاہم گزشتہ مضمون کا تسلسل قائم رکھنا چونکہ ضروری ہے اس لیے اس مضمون کے متعلق اختصار کے ساتھ کچھ باتیں بیان کر دیتا ہوں.میں نے گزشتہ خطبہ میں بیان کیا تھا کہ اب چونکہ جنگ ختم ہونے والی ہے اور ایسے آثار ظاہر ہو رہے ہیں کہ چھ ماہ یا سال کے اندر اندریا سال سے کچھ کم یعنی سات آٹھ ماہ کے اندر جنگ ختم ہو جائے گی اور پھر اس کے بعد چھ ماہ یا سال تک گویا آج سے ڈیڑھ سال یا دو سال کے عرصہ تک آمد ورفت کے رستے گھل جائیں گے اور مبلغین باہر جاسکیں گے.اس لیے ہمیں آج ہی سے تیاری کرنا چاہیے.کچھ تیاری تو پچھلے پانچ سال میں ہم نے کی ہے اور ایسے مبلغ تیار کیے ہیں جو خدا کے فضل و کرم سے غیر ممالک میں جا کر تبلیغ کر سکتے ہیں.اس سے میری مراد یہ ہے کہ اکثر عربی اور بعض انگریزی میں اچھے ماہر ہیں اور ان دو زبانوں والے ممالک میں وہ اچھی طرح کام کر سکتے ہیں.عربی کے ذریعہ اسلامی ممالک میں تبلیغ ہو سکتی ہے اور بہت سے ممالک میں انگریزی کے ذریعہ تبلیغ ہو سکتی ہے.کیونکہ یہ زبان اکثر یورپین ممالک میں پھیلی ہوئی ہے اور لوگ اس کو بولتے اور سمجھتے ہیں.باقی سات زبانوں کے جاننے والے ابھی ہماری جماعت میں پیدا نہیں ہوئے.اگر کوئی ہیں تو بہت کم یا ایسے ماہر نہیں کہ ان زبانوں میں پوری طرح قابل ہوں اور اپنے لٹریچر کا ہے ان زبانوں میں ترجمہ کر سکیں.سوائے دو چار کے مثلاً ملک محمد شریف صاحب اٹلی میں ہیں.

Page 609

خطبات محمود 609 $1944 انہوں نے وہاں شادی بھی کر لی ہے.اگر ان کی شادی ہمارے پروگرام میں روک نہ بن سکے یعنی مزید تعلیم حاصل کرنے میں حارج نہ ہو کیونکہ ان کی عربی تعلیم ابھی کم ہے تو اس صورت میں وہ اٹالین زبان کو جاننے والے ہوں گے.دوسرے مولوی رمضان علی صاحب ساؤتھ امریکہ میں ہیں.ممکن ہے اس وقت تک پر تگیزی یا سپینش زبان انہوں نے سیکھ لی ہو اور وہ اِس قابل ہو چکے ہوں کہ ان زبانوں میں تبلیغ کا کام کر سکیں.تیسرے صوفی عبد القدیر صاحب جاپان میں رہ آئے ہیں.مزید کوشش کے بعد وہ جاپانی زبان میں مہارت پیدا کر سکتے ہیں.باقی زبانوں کے جاننے والے ہماری جماعت میں کوئی نہیں.ہماری جماعت میں بعض جرمن زبان جانتے ہیں لیکن صرف اتنی کہ کتابیں پڑھ سکیں.یہ نہیں کہ اس زبان میں کتابیں لکھ سکیں یا ترجمہ کر سکیں یا اس زبان میں تقریریں کر سکیں.مگر بہر حال خدا کے فضل سے گزارہ کے مو لیے ہمارے پاس ایسے آدمی تیار ہو گئے ہیں اور ہو رہے ہیں جو عربی اور انگریزی جاننے والے ممالک میں تبلیغ کا کام کر سکیں.انگریزی زبان یورپ کے قریبا ہر ملک میں استعمال ہوتی ہے ہے اور ہر ملک میں لاکھوں آدمی یہ زبان بولتے اور جانتے ہیں.اس زبان کے ذریعہ یورپین ممالک میں کام شروع ہو سکتا ہے.اسی طرح اسلامی ممالک میں عربی اور فارسی جاننے والے مبلغ کام کر سکتے ہیں.باوجو د وہاں کی لوکل زبان نہ جاننے کے وہاں کام شروع ہو سکتا ہے.کیونکہ اسلامی ممالک کا بیشتر حصہ عربی اور فارسی سمجھتا اور جانتا ہے.پھر دو تین سال وہاں رہنے سے مبلغین وہاں کی لوکل زبان بھی سیکھ لیں گے.پس جہاں تک مبلغوں کی تیاری کا سوال ہے ہم نے خدا کے فضل سے ابتدائی تیاری کر لی ہے.اس وقت تک جو واقفین ہم نے لیے ہیں وہ ساٹھ کے قریب ہیں جن میں سے کچھ تو دفاتر میں کام کرنے کے لیے ہیں اور کچھ باہر تبلیغ کی خاطر بھیجنے کے لیے.گو یہ تعداد کافی نہیں ہمیں بہت زیادہ مبلغین کی ضرورت ہے.مگر بہر حال اس سے کام شروع کیا جاسکتا ہے.روپیہ کا سوال اس حد تک حل ہو چکا ہے کہ وہ روپیہ مرکزی اور دفتری کاموں کا بوجھ اٹھا سکے.لیکن مبلغین کے لیے لٹریچر مہیا کرنے اور دوسری تبلیغی ضروریات پورا کرنے کا بوجھ نہیں اٹھا سکتا.تحریک جدید کے گزشتہ دور میں دس پندرہ لاکھ کا ریز رو فنڈ قائم ہوا ہے.یہ فنڈ ایسا ہے جس میں وہ روپیہ بھی شامل ہے جو جائیداد کی

Page 610

$1944 610 خطبات محمود صورت میں ہے بلکہ یہ تمام ریزرو فنڈ جائیداد کی صورت میں ہی ہے.پس یہ فنڈ اس حد تک تعاون کر سکتا ہے کہ دفتری اور مرکزی کام کا بوجھ اٹھا سکے اور یہ بوجھ جماعت پر نہ پڑے.لیکن مبلغین کی دوسری تمام ضروریات کا متحمل نہیں ہو سکتا.ممکن ہے تحریک جدید کے آئندہ دوروں کے ذریعہ یہ فنڈ اس حد تک بھی ہو جائے کہ تبلیغ کے لیے لٹریچر مہیا کرنے اور مبلغوں کے اخراجات کی برداشت کر سکے مگر اس وقت تک جو ریز رو فنڈ قائم ہو رہا ہے وہ اس کی برداشت نہیں کر سکتا.البتہ اس کے ذریعہ غیر ممالک میں تبلیغ کی ابتدا کی جاسکتی ہے.وسیع پیمانہ پر تبلیغ کے لیے بھاری فنڈ کی ضرورت ہے جو مبلغین کی تبلیغی ضروریات پورا کر سکے اور کتب رسالے وغیرہ کثرت سے لٹریچر شائع کرنے کا بوجھ اٹھا سکے.پچھلے جمعہ میں نے جو خطبہ دیا تھا اس میں میں نے جماعت کے سامنے ایک سکیم یہ پیش کی تھی کہ ہمیں فوری طور پر آٹھ زبانوں میں قرآن مجید کے تراجم کی ضرورت ہے اور میں نے بتایا تھا کہ خدا کے فضل سے یہ کام شروع ہو چکا ہے.انگریزی ترجمہ تو مکمل ہو گیا ہے جو دو جلدوں میں انشاء اللہ تعالی شائع ہو گا.پہلی جلد چھپ رہی ہے جس کے مجلس شورای من تک شائع کر دینے کا پریس والوں نے وعدہ کیا ہے.دوسری جلد کے تفسیری نوٹوں کی میں اپنی ہدایات کے مطابق اصلاح کرا رہا ہوں.وہ بھی اِنشَاءَ اللہ جلدی مکمل ہو جائے گی.باقی سات اور زبانوں میں تراجم کی ضرورت ہے.اور میں نے بتایا تھا کہ ان ساتوں زبانوں میں تراجم شروع ہو چکے ہیں.یعنی روسی، جرمن، فرانسیسی، اطالین، ڈچ، پرتگیزی اور سپینش زبانوں میں.ہمیں یقین دلایا گیا ہے کہ یہ تراجم غالباً جون یا جولائی 1945 ء تک مکمل ہو جائیں گے.اس کے بعد کچھ وقت نظر ثانی پر بھی لگے گا.اس لیے جنگ کے خاتمہ تک تراجم إنْشَاءَ اللهُ بالکل تیار ہو جائیں گے.پھر چھپوائی پر بھی کچھ وقت لگے گا.میں نے تراجم کے خریج کا اندازہ بتایا تھا کہ فی ترجمہ اگر چھ ہزار روپیہ اوسط لگا لیں تو سات تراجم کے لیے بیالیس ہزار روپیہ کا اندازہ ہے.اس بارہ میں یاد رکھنا چاہیے کہ تراجم کے کرنے کا وعدہ سات جماعتوں یا افراد کی طرف سے آچکا ہے (1) میری طرف سے (2، 3) لجنہ اماء اللہ کی طرف سے (4 ، 5) قادیان و کارکنان صدر انجمن کی طرف سے (6) سر محمد ظفر اللہ خان صاحب

Page 611

خطبات محمود 611 $1944 اور ان کے بعض دوستوں کی طرف سے (7) میاں غلام محمد صاحب اختر اور ان کے دوستوں کی طرف سے یا لاہور کی جماعت کی طرف سے ان دو امید واروں کی نسبت بعد میں فیصلہ ہو گا کہ کسے حق دیا جائے.اس کے علاوہ کلکتہ کی جماعت کی طرف سے اور میاں محمد صدیق اور محمد یوسف صاحبان تاجران کلکتہ کی طرف سے.بغدَه ملک عبد الرحمان صاحب مل اونر قصور اور سیٹھ عبد اللہ بھائی صاحب سکندر آباد کی طرف سے بھی ایک ایک ترجمہ کے خرچ کا وعدہ آچکا ہے.جَزَاهُمُ اللهُ اَحْسَنَ الْجَزَاءِ لیکن اب یہ مد ختم ہو چکی ہے.اِس وجہ سے پانچ وعدے شکریہ کے ساتھ واپس کرنے ہوں گے.اس کے بعد چھپوائی کا سوال ہے.میں نے بتایا تھا کہ اگر ایک ترجمہ کی چھپوائی کا اندازه پند رو ہزار روپیہ اوسطالگا لیں تو سات تراجم کی چھپوائی پر ایک لاکھ پانچ ہزار روپیہ خرچ ہے آئے گا.گویا تراجم کا خرچ شامل کر کے ساتوں کی مکمل اشاعت پر ایک لاکھ سینتالیس ہزار روپیہ خرچ آئے گا اور اگر جلد بندی وغیرہ کا خرچ بھی تیرہ چودہ ہزار روپیہ شمار کر لیا جائے تو ایک لاکھ ساٹھ ہزار روپیہ بنتا ہے.قرآن مجید کے تراجم کے علاوہ میں نے بتایا تھا کہ مختلف مسائل کی کتابوں کا ایک سیٹ ہونا چاہیے اور یہ سیٹ میں نے بارہ بارہ کتابوں کا تجویز کی تھا.پس ساتوں زبانوں کی چوراسی کتابیں بنتی ہیں.آج میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ ان پر کتنا خرچ ہو گا.انگریزی اور عربی کے لیے ترجمہ ہے کے خرچ کی ضرورت نہیں.صرف سات زبانوں میں ترجمہ کے خرچ کی ضرورت ہے.پس ان چوراسی کتابوں کا اگر ایک ہزار روپیہ اوسطاًفی کتاب ترجمہ کا خرچ لگا لیں تو چوراسی ہزار روپیہ بنتا ہے اور اگر ایک ایک روپیہ اوسطاًفی کتاب جلد بندی سمیت لاگت شمار کر لیں تو اس کے یہ معنے ہوئے کہ ایک زبان میں ایک کتاب کی پانچ ہزار کا یہاں چھپوانے پر پانچ ہزار روپیہ ہے خرچ ہو گا اور ایک زبان میں بارہ کتا ہیں پانچ پانچ ہزار چھپوانے پر ساٹھ ہزار روپیہ لگے گا اور ساتوں زبانوں میں بارہ بارہ کتابوں کا سیٹ چھپوانے پر چار لاکھ میں ہزار روپیہ خرچ آئے گا.انگریزی اور عربی زبانوں میں بارہ بارہ کتب کے سیٹ کے چھپوانے پر مزید ایک لاکھ بیس ہزار روپیہ خرچ آئے گا.اس میں چوراسی ہزار روپیہ کتابوں کے تراجم کا خرچ شامل کیا جائے

Page 612

$1944 612 محمود تو گل خرچ کتب کے ترجمہ اور چھپوائی پر چھ لاکھ چوبیس ہزار ہوتا ہے.اس میں ایک لاکھ ساٹھ ہزار روپیہ قرآن مجید کے تراجم کا بھی شمار کر لیا جائے تو سات لاکھ اٹھاسی ہزار روپیہ کی رقم بنتی ہے.اور جیسا کہ میں نے بتایا تھا مختلف قسم کے ٹریکٹوں اور اشتہارات کے کی بھی ان زبانوں میں ضرورت ہے.اگر چالیس ہزار روپیہ اشتہارات کا خرچ بھی شامل کر لیا جائے تو یہ آٹھ لاکھ چوبیس ہزار روپیہ کا اندازہ ہو جاتا ہے.اور اگر مخط و کتابت تاریں اور دوسرے فوری اخراجات کو شامل کر لیا جائے تو یوں سمجھنا چاہیے کہ اس سارے کام کے لیے ساڑھے آٹھ لاکھ روپیہ کی ضرورت ہے.اتنی رقم ہمارے پاس ہونی چاہیے تاکہ ہم کام کی ابتدا ای کر سکیں.جس طرح فوجوں کے لیے میگزین مہیا کیا جاتا ہے اسی طرح ہمارے لیے بھی دنیا میں تبلیغ کی ابتدا کرنے کے لیے اس میگزین کی ضرورت ہے.پس ہمیں یہ روپیہ مہیا کر نا ہو گا ہی تا کہ جنگ کے خاتمہ پر ہم تیار ہوں اور مبلغین کو باہر بھیج سکیں.اس کے علاوہ جماعت کے نظام کو مکمل کرنے اور مضبوط بنانے کے لیے مجلس شوری نی کے موقع پر میں نے تحریک کی تھی کہ انجمن کا کام بڑھ رہا ہے.اس کے لیے بہت سے زائد عملہ کی اب ضرورت ہے.چنانچہ بہت سے نائب ناظر اور معاون ناظر اور کلرکوں کی جگہ بجٹ میں رکھی گئی تھی.اس بڑھے ہوئے خرچ کے چلانے کے لیے بہت سے زائد روپیہ کی بھی ضرورت ہو گی اور تنگی کے زمانوں کے لیے ایک بڑے ریزرو فنڈ کی بھی.اس وقت جنگ کی وجہ سے ہمارے بہت سے آدمی اچھے کاموں اور اچھی تنخواہوں پر لگے ہوئے ہیں.پس اگر یہ کام اس وقت نہ ہوا تو جنگ کے خاتمہ پر اس کا ہونا بہت مشکل ہو گا.جنگ کے بعد اگر جماعت کے چندہ کا یہی معیار قائم رہا جو اس وقت ہے تو یقیناً یہ بات خطر ناک ہو گی کیونکہ جنگ کے بعد بہت سے لوگ جو اس وقت چندہ دے رہے ہیں ملازمتوں سے برخواست کر دیے جائیں گے.مثلاً اس وقت فوج میں ہمارے دو سو کے قریب آدمی کنگز کمیشن حاصل کیے ہوئے ہیں جو اِس وقت پانچ سو سے آٹھ سو تک تنخواہیں لے رہے ہیں.اگر ہم دو سو کی بجائے ایسے ڈیڑھ سو آدمی شمار کر لیں اور ہر ایک کی تنخواہ اوسطاً چھ سو روپیہ سمجھ لیں تو یہ نوے ہزار روپیہ ماہوار کی آمدنی بنتی ہے.اگر یہ سمجھ لیا جائے کہ ان کی وصایا نہیں ہیں اور عام چندے دیتے ہیں تب ہے

Page 613

خطبات مج ہے جو محمود 613 $1944 بھی ستر ہزار روپیہ کے قریب اِن کا سالانہ چندہ بن جاتا ہے.یہ چندہ صرف ان ملازموں کا بنتا و کنگز کمیشن حاصل کر دہ ہیں.اس کے علاوہ کئی ایسے ہیں جو وائسرائے کے کمیشن پر فائز ہیں.مثلاً صوبیدار جمعدار وغیرہ ہیں.پھر ہزاروں کی تعداد میں فوج کے عام ملازم ہیں.اِن سب کو ملا کر کوئی پونے دولاکھ کی رقم چندہ کی بنتی ہے جو سالانہ صدر انجمن میں آنی چاہیے اور غالباً اس کے قریب آتی ہو گی (یہ میں نہیں کہہ سکتا کہ اس قدر آتی بھی ہے یا نہیں.یہ لوگ مانی سوائے اس کے جو مستقل ہیں سارے ایسے ہیں کہ جنگ کے بعد فارغ ہو کر واپس آ جائیں گے وہ اور جو اس وقت پانچ چھ سو روپیہ ماہوار لیتے ہیں.ہمارے ملک کی تنخواہوں کے لحاظ ساٹھ ستر روپے ماہوار لے سکیں گے.اور جو اس وقت سو سو روپیہ ماہوار لے رہے ہیں وہ پچیس تیس روپے ماہوار لے سکیں گے.بشر طیکہ کام مل جائے.بہت سارا طبقہ ایسا بھی ہوتا ہے جسے نہیں ملتا.تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ بجائے پونے دو لاکھ روپیہ سالانہ آمد کے جو اس وقت براہ راست یا ان کے رشتہ داروں کے ذریعہ ان لوگوں کی طرف سے ہمیں ہوتی ہے زیادہ سے زیادہ تیس چالیس ہزار روپیہ کی آمد رہ جائیگی اور باقی ایک لاکھ چالیس ہزار روپیہ یا ایک لاکھ تیس ہزار روپیہ کی آمد خطرے میں پڑ جائے گی.ممکن ہے خدا تعالیٰ ان کے لیے ایسا سامان ہے کر دے کہ وہ اچھی کمائیاں کر سکیں.مگر پھر بھی حساب کا طریق یہی ہے کہ حساب کرتے وقت خطرے کو زیادہ سے زیادہ مد نظر رکھا جاتا ہے اور محسن قلنی کو کم ملحوظ رکھا جاتا ہے.جہاں افراد کے متعلق یہ طریق ہے کہ محسنِ ظنی سے زیادہ سے زیادہ کام لیا جائے وہاں حساب کے معاملات میں یہ طریق ہے کہ محسن قلنی کو نظر انداز کر کے خطرے کے پہلو کو مد نظر رکھا جائے.اسی کے طرح دوسری آمدنیوں کی طرف ہم دیکھتے ہیں تو جنگ کے بعد وہ بھی بظاہر کم ہو جائیں گی.زمینداروں کی آمد اس جنگ میں زیادہ ہے مگر افسوس ہے کہ انہوں نے اس جنگ میں اتنی ہی قربانی نہیں کی جتنی گزشتہ جنگ کے موقع پر کی تھی.اس لیے زمینداروں کے لحاظ سے اتنا مخطرہ نہیں.مگر تاجروں کے لحاظ سے زیادہ خطرہ ہے.کیونکہ تاجروں نے کو پورا حصہ نہیں لیا ہے مگر جتنا لیا ہے وہ پچھلی جنگ کی نسبت سے بہت زیادہ ہے.پس اگر تاجروں اور زمینداروں دونوں کو شامل کر لیا جائے تو گل دو تین لاکھ کی آمد خطرے میں پڑ جائے گی.اس وقت اگر

Page 614

خطبات محمود 614 $1944 گل چندہ کی آمد سات لاکھ ہے تو جنگ کے بعد پانچ لاکھ یا چار لاکھ رہ جائے گی.گو میرا اندازہ ہے کہ اگر محکمہ بیت المال زور دے تو موجودہ آمد زیادہ ہو سکتی ہے اور اگر وہ محنت کرے تو جنگ کے ایام میں ایک بڑا ریزرو فنڈ جمع کر لینے کے علاوہ وہ انجمن کا معمولی چندہ بھی اتنا زیادہ کر سکتا ہے کہ ریز روفنڈ کی مدد لینے کی ضرورت ہی کبھی نہ پیش آئے.بہر حال خطرے کا موقع آرہا ہے.اگر ہم آج سے ہی اس کا مقابلہ کرنے کا عزم اور ارادہ پیدا نہ کریں تو نئی سکیموں پر عمل کرنا تو ایک طرف رہا پرانے کاموں کا چلانا بھی مشکل ہو گا.میں نے وقف جائیداد کی تحریک کی تھی اس وقت تک جو جائدادیں وقف ہو چکی ہیں اتنے وہ ساٹھ لاکھ روپیہ کی ہیں.ابھی پانچ چھ سو آدمی ایسے بھی ہیں جنہوں نے وقف جائیداد کے فارم نہیں بھجوائے.ان کو شامل کر کے ایک کروڑ روپیہ کی جائدادیں وقف ہو چکی ہیں اور صحیح حسابی نقطہ نگاہ سے سواکروڑ روپیہ کی.کیونکہ کچھ آمد نیاں بھی وقف ہیں اور ہم نے ان کو اتنا ہی شمار کیا ہے جتنی کہ آمدنی ہے.حالانکہ جائیداد اور آمدنی میں فرق ہے.جائیداد سے اس کی منی مالیت کا بیسواں حصہ آمدنی ہوتی ہے.سوروپیہ کی جائیداد ہو تو اس سے پانچ روپیہ کی آمد درست سمجھی جاتی ہے.پس اس کے بر خلاف اگر پانچ روپیہ کی آمد وقف ہو تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ایک سو روپیہ کی جائیداد وقف ہو گئی.چونکہ ایک لاکھ تیس ہزار روپیہ کی آمد وقف ہو چکی ہے اس لیے حسابی لحاظ سے ہم کہیں گے کہ چھیں لاکھ روپیہ کی جائیداد و قف ہو گئی ہے.اس حساب سے بجائے نوے لاکھ کے ایک کروڑ سترہ لاکھ کی جائیداد وقف ہو چکی ہے.ابھی جماعت میں بہت ساحصہ باقی ہے اگر وہ بھی اس امر کو سمجھیں کہ یہ چیز بہت ضروری ہے تو یہ ہے وقف جائیداد کا فنڈ بہت زیادہ بڑھ سکتا ہے.زمیندار طبقہ نے اس طرف بہت کم توجہ کی ہے.اس وقت تک جس قسم کے لوگوں نے سوا کروڑ روپیہ کی جائیدادیں وقف کی ہیں ان کے مقابلہ میں صرف سرگودھا، لائل پور اور منٹگمری کے علاقوں میں ایک کروڑ روپیہ کی جائیدادیں وقف ہو سکتی ہیں.بہر حال اس وقت تک ایک کروڑ ستر و لاکھ روپیہ کی جائیدادیں می وقف ہو چکی ہیں.اگر کسی وقت ہم اس کے پانچ فیصدی کا مطالبہ کریں تو اس کے معنے م ہیں سوا چھ لاکھ یا اس سے زیادہ روپیہ ہم ضرورت کے وقت مہیا کر سکتے ہیں.اور اگر

Page 615

خطبات محمود 615 $1944 وقف جائیداد کی تحریک مکمل ہو جائے اور جن لوگوں نے ابھی تک اس میں حصہ نہیں لیا وہ بھی حصہ لیں تو پھر اس روپیہ کی مقدار جسے ہم ضرورت کے وقت مہیا کر سکتے ہیں اور بھی بڑھ جائے گی.لیکن جیسا کہ میں پہلے بھی کئی دفعہ بیان کر چکا ہوں.یہ آخری حد اور ہماری آخری خندق ہو گی.اس سے پہلے ہم اپنا سارا زور لگا دیں گے کہ طوعی چندہ سے سلسلہ کی ضرورتیں پوری ہوں.وقف جائیداد کی سکیم ہماری آخری خندق ہے مگر یہ ایسی چیز ہے اور ایسی شاندار خندق ہے کہ اس کی وجہ سے کام کرنے والوں کی ہمتیں بڑھ جاتی ہیں اور حوصلے بلند ہو جاتے ہیں اور وہ سمجھتے ہیں جب کوئی صورت نہ رہے گی تو ہمارے پاس ایک ایسی چیز موجود ہے جس می سے کام کی ضرورت کے مطابق ہم روپیہ لے سکتے ہیں.اس وقت تک ساری جماعت نے اس کی اہمیت کو نہیں سمجھا.اس وقت تک صرف سولہ سو کے قریب آدمیوں نے وقف جائیداد کی تحریک میں حصہ لیا ہے اور یہ قریباً سوا کروڑ روپیہ کا وقف صرف سولہ سو آدمیوں کی جائیدادوں اور آمدنیوں کے وقف سے قائم ہوا ہے.اگر جماعت کے باقی افراد بھی اس کی اہمیت کو سمجھیں اور اس تحریک میں حصہ لیں.بلکہ اگر صرف پانچ چھ ہزار آدمی ہی اِس تحریک میں حصہ لیں تو یہ تحریک بہت مضبوط ہو سکتی ہے اور اس وقت تک جتنی جائیدادیں ہیں وقف ہو چکی ہیں اگر ہم ان وقف کرنے والوں کی جائیدادوں کی قیمت موجودہ واقتحسین کی تین جائیداد کی قیمت سے نصف بھی لگا لیں تو بھی موجودہ وقف شدہ جائیدادیں ملا کر اڑھائی کروڑ کے روپیہ کا وقف ہو جائے گا.بلکہ اس سے بھی زیادہ.جس کے یہ معنے ہیں کہ اگر ہم اڑھائی کروڑ روپیہ کی وقف شدہ جائیدادوں پر صرف پانچ فیصدی کا مطالبہ کریں تو بارہ تیرہ لاکھ روپیہ کی منی آمدنی چند ماہ میں ہو سکتی ہے.پس اگر ہم دنیا میں وسیع پیمانہ پر حملہ کرنا چاہتے ہیں اور ایسے رنگ میں تبلیغ کرنا چاہتے ہیں جو دنیا میں ہیجان پیدا کر دے تو اس کے لیے نہایت ضروری ہے کہ ہمارے پاس کوئی ایسی چیز ہو جس کے ذریعہ ہم فوری ضرورت کو پورا کر سکیں.ممکن ہے کسی ملک میں ایسا جوش پیدا ہو جائے کہ وہاں پر بہت سے مبلغین بھیجنے پڑیں اور ہمیں مبلغین کی تعداد اور خرچ کو بڑھانا پڑے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ میں ایک موقع پر اکٹھے چالیس مبلغ ایک ہے

Page 616

خطبات محمود 616 $1944 قبیلہ کے لیے بھیجنے پڑے.1 حالانکہ اُس وقت صرف ہزاروں کی جماعت تھی اور محدود سلسلہ تھا.مگر ایک قبیلہ کے لیے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے چالیس مبلغ بھیجے.ایک دوسرے موقع پر آپ نے ایک جگہ ستر مبلغ بیجے.2 اسی طرح ممکن ہے ہمیں بھی زیادہ ہے مبلغین بھیجنے کی ضرورت پڑے.ممکن ہے روس میں ہماری تبلیغ سننے کا جوش پیدا ہو جائے یا امریکہ میں جوش پیدا ہو جائے یا جرمنی میں جوش پیدا ہو جائے یا سپین میں جوش پیدا ہو جائے.اگر ہم وقت پر ان کے جوشوں کو نہیں سنبھالیں گے تو وہ ٹھنڈے ہو جائیں گے.اور اگر سنبھالیں گے تو کسے معلوم ہے کہ دو ہزار مبلغوں تک کی ضرورت یک دم پیش نہ آجائے.اگر ایسا ہوا تو ہمیں ان کے اخراجات کے لیے بہت سے روپیہ کی ضرورت پڑے گی.اگر ہم لٹریچر وغیر ہ ملا کر ایک مبلغ کا خرچ تین ہزار روپیہ اوسطا لگالیں تو ہمیں دو ہزار مبلغین کے لیے ہے ساٹھ لاکھ روپیہ کی ضرورت پڑے گی.پس جماعت کو اپنے اندر بیداری پیدا کرنا چاہیے اور آنے والی ضرورت کو آج ہی ہے محسوس کر کے اُس کے لیے سامان مہیا کرنے کی کوشش کرنا چاہیے.دوسری طرف تبلیغ پر بھی ہیں ہمیں زور دینے کی ضرورت ہے.کیونکہ اس وقت ہماری تعداد بہت کم ہے اور جتنا وسیع ہمارا کام ہے اتنی بنیاد نہیں.عمارت بنانے میں سب سے زیادہ جس چیز کا خیال رکھا جاتا ہے وہ بنیاد ہے.بنیاد جتنی مضبوط ہوگی اور اس میں جتنی روڑی کوئی جائے گی عمارت بھی اتنی ہی مضبوط ہے ہو گی اور بلند جاسکے گی.دین کی جو عمارت بنے گی اُس میں ہماری حیثیت روڑی کی ہے اور ہمارا ہے مقام روڑی کا ہے.اس لیے ہماری جتنی کوٹائی ہو گی ہم پر بنے والی عمارت اتنی ہی مضبوط ہو گی.میں اس منارۃ المسیح کی بنیاد 30 فٹ کھود کر اس میں کو ٹائی کی گئی تھی.میں اس وقت بچہ تھا.میں تمہیں اِس قدر گہرے گڑھے کو ایک بے ہودہ کام سمجھتا تھا اور حیران ہو تا تھا کہ عمارت کے لیے اتے گہرا گڑھا کھودنے کی کیا ضرورت ہے.عمارت تو آپ اپنی طاقت سے کھڑی ہو گی.مگر جب بڑے ہو کر عمارت کے فن سے کچھ واقف ہوا تو معلوم ہوا کہ زمین ہی عمارت کا بوجھ اٹھاتی ہے اور اس کی بنیاد کو جتنا گہر ا کھودا جائے گا اور جتنی مضبوط کو ٹائی کی جائے گی اتنی ہی عمارت بھی مضبوط بنے گی.اور اس میں کوئی شبہ نہیں کہ بڑی سے بڑی عمارت کا قیمتی حصہ وہ روڑی ہے

Page 617

خطبات محمود 617 $1944 ہوتی ہے جو اس کی بنیادوں میں کوئی جاتی ہے.صحابہ کی روڑی اور اس کی کوٹائی اتنی مضبوط تھی کہ تیرہ سو سال تک کام دیتی رہی اور اس پر مضبوط عمارت قائم ہوئی.پس جتنی زیادہ گہری بنیاد ہو گی اور اس میں جتنی زیادہ روڑی کوئی جائے گی اتنی ہی وہ عمارت مضبوط بنے گی.لیکن امینی اگر اس عمارت کی بنیاد کے لیے دس ہزار بورے روڑی کی ضرورت ہو اور ہم اس میں ڈالیں ہے ایک ہزار بورا.تو عمارت کی بنیاد کبھی مضبوط نہیں ہو گی.جب تک کہ اُس کے لیے ہم دس ہزار بورے مہیانہ کریں.اس زمانہ میں ہم نے اسلام کی عمارت کے لیے اس کی ضرورت کے مطابق روڑی بھی مہیا نہیں کی.جس کا سب سے پہلے مہیا کرنا ضروری ہے.اگر ہم نے اس روڑی کو مہیانہ کیا تو ہمارا کامیابی حاصل کرنے کا زمانہ پانچ دس گنا اور لمبا ہو جائے گا اور اُس وقت تک ہم کامیاب نہیں ہوں گے جب تک زیادہ کو ٹائی نہ ہولے اور مضبوط بنیاد کا کام دینے والی بنیاد تیار نہ ہو.پس ایک تو اس بات کی ضرورت ہے کہ جماعت پورے زور کے ساتھ تبلیغ کی طرف توجہ میں کرے اور اپنی تعداد کو بڑھائے اور دوسرے اِس بات کی ضرورت ہے کہ وقف جائیداد کی تحریک میں زیادہ سے زیادہ آدمی حصہ لیں اور وقف کے فنڈ کو بڑھائیں.تیسرے اس بات کی ہے ضرورت ہے کہ عام چندوں کو باقاعدہ شرح کے ساتھ ادا کرنے کا انتظام کیا جائے اور بیت المال اپنی ذمہ داری کو سمجھتے ہوئے پوری کوشش کرے کہ کوئی شخص بھی پوری شرح کے ساتھ میں با قاعدہ چندہ ادا کرنے سے باہر نہ رہے.اور جو استثناء کیا جائے وہ با قاعدہ مرکز سے اجازت لے کر کیا جائے، اگر اس کام کو پوری کوشش کر کے وسیع کیا جائے تو موجودہ آمد ڈیڑھ گنا بڑھ سکتی ہے ہے.مثلاً اس وقت اگر سات لاکھ ہے تو کوشش کرنے سے دس گیارہ لاکھ ہو سکتی ہے.اگر پوری توجہ اور کوشش سے کام لیا جاتا تو جتنی آمدنی اس وقت جنگ کے ایام میں ہو رہی ہے.اتنی آمدنی جنگ سے پہلے ہو سکتی تھی اور جنگ کے ایام میں یہ آمدنی بڑھ سکتی تھی.میرے نزدیک اب بھی اگر بیت المال پوری کوشش سے کام کرے تو جنگ کے بعد موجودہ مد نہ صرف قائم رہ سکتی ہے بلکہ بڑھ سکتی ہے.اور جنگ کے بعد جس کمی کا خطرہ ہے اُس کمی کو اِس کوشش سے پورا کیا جا سکتا ہے کہ جماعتوں میں با شرح اور باقاعدہ چندہ ادا کرنے کی عادت ڈالی جائے.

Page 618

خطبات محمود 618 $1944 مفضل حقیقت ہماری جماعت کے پورے حصہ کے اندر یہ احساس نہیں پایا جاتا کہ وہ باشرح چندہ دے.میں سمجھتا ہوں ہماری جماعت کا پچاس فیصدی حصہ ایسا ہے جس پر ہماری آمدنی کا انحصار ہے.باقی پچاس فیصدی ایسے ہیں جو یا تو بالکل چند و ادا نہیں کرتے یا اگر کرتے ہیں تو شرح سے کم ہے اور بے قاعدہ.پس اگر بیت المال اس نظام کو مکمل کر کے با قاعدہ اور باشر ح چندہ وصول کرنے کا انتظام کرے تو آمدنی بڑھ سکتی ہے اور جو جماعتیں یا افراد پہلے سے باقاعد ہ اور پوری شرح سے ادا کر رہے ہیں اُن میں بھی قربانی کی روح کو مضبوط کیا جائے.قربانی کی روح ایمان سے بڑھتی ہے کثرت اسباب سے نہیں بڑھتی.پس جو قربانی کر رہے ہیں اُن کے اندر ایمان ہے اور جس کا ایمان ہے جتنا جتنا بڑھتا جائے گا اتنا اتنا ہی اُس کے اندر قربانی کامادہ بھی ترقی کرتا جائے گا.اس کے بعد میں جماعت کو ایک اور بات کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں.طور پر تو میں اِنْشَاءَ اللہ اگلے خطبہ میں بیان کروں گا اس وقت صرف یہ بتانا چاہتا ہوں کہ اب وقت آگیا ہے کہ تبلیغی شعبہ کو مکمل کرنے کے لیے ہماری جماعت کے مختلف پیشہ وروں کے ادارے ہوں جن کے ذریعہ تبلیغ کے نظام کو مکمل کیا جائے.اب ضرورت ہے کہ ہماری جماعت کے تاجروں کی ایک انجمن ہو، صناعوں کی ایک انجمن ہو ، مزدوروں کے کی ایک انجمن ہو، محکمہ تعلیم کے کارکنوں کی انجمن ہو ، وکیلوں کی انجمن ہو ، ڈاکٹروں کی انجمن ہو تا کہ اِس طریق سے یہ تمام ادارے وَحَيْثُ مَا كُنْتُمْ فَوَلُّوا وُجُوهَكُمْ شَطْرَہ 3 کے اصول کے مطابق اپنے اپنے حلقہ میں اپنے اثر ورسوخ کو کام میں لا کر تبلیغ کر سکیں.وکیل وکالت کے ذریعہ اپنے اثرورسوخ کو وسیع کر کے تبلیغ کا کام کرے، ڈاکٹر اپنی ڈاکٹری کے ذریعہ جہاں جائے اسلام کی تعلیم پھیلانے کا موجب بنے ، تاجر اپنی تجارت ہے کے ذریعہ اپنا اثر ورسوخ بڑھا کر تبلیغ کا میدان پیدا کرے، صناع اپنی کاریگری کے ذریعہ اثر و رسوخ پیدا کر کے تبلیغ کا ذریعہ بنے.ان سب پیشہ وروں کی انجمنیں ہونی چاہئیں جو اس کام کو چلائیں.جب تک تاجر اپنی تجارت کو اس رنگ میں بدل نہیں لیتے کہ اُن کی تجارت سے اُنہی کو فائدہ نہ ہو بلکہ اسلام اور احمدیت کی ترقی میں بھی وہ ممید ہو.جب تک صناع اپنے آپ کو اس رنگ میں نہیں ڈھال لیتے کہ اپنی کاریگری کے ذریعہ تبلیغ کا موجب ہے

Page 619

خطبات محمود 619 $1944 ہوں.جب تک ڈاکٹر اور وکیل اپنے آپ کو اِس رنگ میں منظم نہیں کر لیتے کہ اپنے اپنے حلقہ میں اپنے کام کے لحاظ سے اس قسم کا اثر و رسوخ پیدا کریں جو نہ صرف اُن کے مفید ہو بلکہ احمدیت کی مضبوطی کا بھی موجب ہو اُس وقت تک غیر وں میں ہماری تبلیغ کبھی کامیاب اور وسیع نہیں ہو سکتی.ایک تبلیغ عقلی اور علمی ہے اور ایک تبلیغ یہ ہے کہ عقلی دلائل کو عمل میں لا کر تبلیغ کی جائے.جب تک ہم علمی اور عملی دونوں کو ملا کر تبلیغ نہ کریں اُس وقت تک ہم کامیاب نہیں ہو سکتے.اس کے متعلق پوری تفصیل میں اِنْشَاءَ اللہ آئندہ خطبہ میں بیان کروں گا.فی الحال میں نے جماعت کے ان لوگوں کو اِس طرف توجہ دلائی ہے تاکہ آنے والے کام کے لیے اپنے آپ کو آمادہ کر لیں، اپنے ایمانوں کو پختہ کر لیں اور اپنے کمزوروں کو چست کر لیں.پس وقف جائیداد کے حصہ کو مضبوط بنایا جائے تاکہ ضرورت کے وقت کارکنوں کو تسلی ہو کہ دشمن اگر ہمیں پیچھے دھکیل دے گا تو ہمارے پیچھے ایک خندق اور ایک مضبوط مورچہ موجود ہے.اس پر جاکر ہم پھر دشمن کا مقابلہ کر سکتے ہیں.اس وقت اس تحریک کے صرف یہ معنی ہیں کہ جب ہمارے سار ہمارے سارے ذرائع ختم ہو جائیں تو اُس وقت اسلام کی ضرورت کے لیے مطالبہ کرنے پر کسی اشتباه یا دغدغہ 4 کا سوال باقی نہ رہے بلکہ اس وقت ہمارے پاس " وقف جائیداد" کا سہارا موجود ہو اور ہم وقف کرنے والوں سے مطالبہ کر سکیں کہ آپ کا وعدہ ہے کہ یہ جائیداد اسلام کی ضرورت کے لیے وقف ہے آج اسلام کو اس کی ضرورت ہے اور اس ضرورت کو پورا کرنے کے لیے ہم آپ سے اس کا مطالبہ کرتے ہیں.آپ اس میں سے ہمیں اتنا حصہ دے دیں.چونکہ ہر مومن جب وعدہ کرتا ہے تو اُسے پورا کرتا ہے.اس لیے ہم یقین رکھیں گے کہ وہ اپنا وعدہ پورا کرے گا اور اسلام کی ضرورت پوری ہو جائے گی.میں نے اندازہ لگایا ہے کہ ایک کروڑ روپیہ کی جائیدادیں قادیان میں ہی وقف ہو سکتی ہیں.ایک کروڑ نہ سہی پچاس ساٹھ لاکھ روپے کی جائیدادیں تو ضرور قادیان میں وقف ہو سکتی ہیں.پس اگر ساری منی جماعت اس کی اہمیت کو سمجھے تو " وقف جائیداد" کا اتنا بڑا فنڈ قائم ہو سکتا ہے جو بغیر فوری بوجھ کے جماعت کو مضبوط کر دے.اور یہ فنڈ اسلام کے مجاہدین کے لیے تسلی کا موجب

Page 620

$1944 620 خطبات محمود ہو گا اور وہ اس اطمینان کے ساتھ آگے بڑھیں گے کہ ہمارے پیچھے گولہ بارود بھیجنے والا (الفضل 13 نومبر 1944ء) ذخیرہ محفوظ ہے".1 : عمدة القاري شرح صحيح بخارى كتاب المغازى باب غزوة الرجيع والرعل و ذكوان الجزء السابع عشر صفحه 174 الطبعة الاولى 1702ء مكتبه رشیدیہ کوئٹہ بلوچستان 2 : بخارى كتاب الجهاد بَاب مَنْ يُنْكَبُ أَوْ يُطْعَنُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ 3 : البقرة: 151 4 : دغدغه : خدشہ.کھٹکا.تشویش.خوف -----_--_--_-----------------

Page 621

$1944 621 (38) خطبات محمود سات زبانوں کے تراجم قرآن اور سات زبانوں کی ایک ایک کتاب کے خرچ کی علاقہ وار تقسیم فرموده 3 نومبر 1944ء) تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: " تین دن سے مجھے پھر نقرس کی تکلیف ہو گئی ہے.پہلے یہ تکلیف ایک ایک پاؤں میں ہے ہوا کرتی تھی اب دونوں میں ہوتی ہے.اس وجہ سے خطبہ دینا مشکل تھا.یہاں تک مسجد میں آنا بھی مشکل تھا کیونکہ اس وقت بھی درد ہو رہا ہے.بھوتی میں پاؤں ڈالنا بھی مشکل ہے.مگر میں اِس لیے چلا آیا ہوں کہ قرآن کریم کے تراجم کے لیے چندہ کی تحریک میں جو نئی بات پیدا ہو گئی ہے اُس کے لحاظ سے بعض امور بیان کروں.میں نے پچھلے خطبہ سے پہلے خطبہ میں 20 / اکتوبر کو قرآن مجید کے سات تراجم کے متعلق تحریک کی تھی.جہاں تک اس کی کامیابی کا ہے سوال تھا مجھے اس میں کسی قسم کا شبہ نہیں ہو سکتا تھا کیونکہ اس وقت تک خدا تعالیٰ کا میرے ساتھ ہمیشہ یہ معاملہ رہا ہے کہ وہ جب بھی میرے منہ سے کوئی بات نکلواتا ہے تو اس کی ہے ------

Page 622

خطبات محمود 622 $1944 کامیابی کے سامان بھی کر دیتا ہے.لیکن اس میں ایک نئی بات پیدا ہو گئی ہے کہ اس تحریک کے بعد جو درخواستیں آئی ہیں وہ ہمارے مطالبہ سے بہت زیادہ ہیں.ہمارا مطالبہ تھا سات تراجم کے اخراجات کا اور درخواستیں آئی ہیں بارہ تراجم کے اخراجات کے لیے.اور ابھی بیرون جات سے چٹھیاں آرہی ہیں کہ وہ اِس چندہ میں حصہ لینا چاہتے ہیں.جہاں تک وسیع علاقوں کا تعلق ہے اور جہاں جماعتیں پھیلی ہوئی ہیں وہ علاقے چونکہ سب کے مشورہ کے بغیر کوئی ذمہ داری نہیں اٹھا سکتے.اس لیے ان درخواستوں میں وہ شامل نہیں.کیونکہ وہ جلدی مشورہ کر کے اتنے وقت کے اندر اطلاع نہیں دے سکتی تھیں.یہ درخواستیں صرف ان جماعتوں کی طرف سے ہیں جو اپنی ذمہ داری پر اس بوجھ کو اٹھا سکتی تھیں.یا افراد کی طرف سے ہیں مثلا ہے چودھری ظفر اللہ خان صاحب اور ان کے بعض دوستوں کی طرف سے، میاں غلام محمد صاحب اختر اور اُن کے دوستوں کی طرف سے لاہور کی جماعت کی طرف سے، کلکتہ کی جماعت کی طرف سے اور میاں محمد صدیق صاحب اور محمد یوسف صاحبان تاجران کلکتہ کی طرف سے، ملک عبد الرحمان صاحب مل اونر قصور کی طرف سے اور سیٹھ عبد اللہ بھائی سکندر آباد کی طرف یہ سب درخواستیں اُن جماعتوں کی ہیں جہاں یا افراد زیادہ ہیں اور وہ اِس ذمہ داری کا بوجھ بغیر دوسری جماعتوں سے مشورہ کرنے کے خود اُٹھا سکتی ہیں یا اُن افراد کی طرف سے ہیں جو صاحب توفیق ہیں اور یہ بوجھ اٹھا سکتے ہیں.قادیان کی جماعت کے متعلق مجھے یقین دلایا گیا ہے ؟ کہ ایک ترجمہ کی جگہ وہ دو کا خرچ اپنے ذمہ لے گی اور لجنہ کا بھی جس رنگ میں چندہ ہو رہا ہے اِس رنگ میں دو کا بھی سوال نہیں بلکہ اس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ ان کا چندہ دو سے بھی بہت زیادہ ہو گا.کیونکہ اس وقت تک لجنہ قادیان کی طرف سے چھ ہزار تین سو روپے کے وعدے آچکے ہیں اور ابھی ہزار بارہ سو روپیہ کے وعدوں کی اور امید ہے.گو میں نے سارے ہے ہندوستان کی لجنہ کے ذمہ جو ایک ترجمہ کا خرچ لگایا تھا اُس سے زیادہ کے وعدے قادیان سے ہی ہو چکے ہیں اور ابھی باہر کی ساری بنا ئیں باقی ہیں.اسی طرح قادیان کی جماعت کے علاوہ خطبہ صاف کرتے وقت تک آٹھ ہزار سے زائد کے وعدے ہو چکے ہیں.

Page 623

$1944 623 خطبات محمود صدر انجمن کے کارکنوں نے بھی ایک ترجمہ کا خرچ اپنے ذمہ لیا ہے.کارکنوں کے علاوہ دوسروں کے چندہ کا وعدہ ایک لاکھ سے زیادہ کا ہو چکا ہے اور ابھی اور ہو رہا ہے.اب اُن جماعتوں یا افراد کی طرف سے جن کا حصہ نہیں لیا جاسکا الحاح کی چٹھیاں آرہی ہیں اور وہ اصرار کے ساتھ لکھ رہی ہیں کہ ہمیں بھی اس چندہ میں حصہ لینے کا موقع دیجیے.لیکن میں سات تراجم میں سے بارہ حصہ لینے والوں کو کس طرح موقع دے سکتا ہوں.میں یہ بھی نہیں کرے کہ جو پہلے ہوں اُن کو پیچھے کر دوں.اِس طرح ان تراجم میں وہی حصہ لے سکے گا جو قُرب میں رہتا ہے.میں اس میں دخل نہیں دے سکتا اور کوئی صورت انسانی ذہن میں ایسی نہیں آسکتی کہ قرب میں رہنے والوں اور باہر رہنے والوں کو قربانی کا ایک سا موقع دیا جا سکے اور نہ ہی کوئی ایسی شرط لگائی جاسکتی ہے جس سے دونوں برابر ہو جائیں.فرض کرو ہم یہ شرط لگا دیں کہ فلاں وقت کے بعد آکر اپنے وعدے دے جائیں تو اُس وقت بھی جو قرب میں رہتا ہو گا وہ دروازہ پر آکر کھڑا رہے گا اور جب بھی وہ وقت ہو گا اپنا وعدہ دے جائے گا.پس ایسا کوئی ذریعہ نہیں جس سے یہ خدائی فرق مٹ جائے.اس کا مٹانا نا ممکن ہے.صرف بے وقوف یا خشک فلسفی جنہوں نے روحانیت اور ایمان میں قدم نہیں رکھا وہی اس قسم کی مساوات کا قائل ہو سکتا ہے جس میں کوئی امتیاز باقی نہ رہے.تعلیم کو ہی لے لیا جائے تو کیا سارے تعلیم حاصل کرنے والے ایک جیسی قابلیت اور ایک جیسے دماغ کے ہوتے ہیں؟ اور کیا سکول میں پڑھنے ہے والوں میں سے سارے انٹرنس پاس کر لیتے ہیں؟ سارے لڑکے ایک ہی وقت میں ایک ہی ہے استاد سے ایک ہی کتاب پڑھتے ہیں مگر اُن میں سے ایک کا دماغ نہایت اعلیٰ ہوتا ہے اور اس کے ہے اندر زیادہ قابلیت پیدا ہو جاتی ہے اور دوسرے کے اندر وہ قابلیت پیدا نہیں ہوتی.یہی انٹرنس پاس تھے یا ان سے کم تعلیم یافتہ لوگ جن میں سے ایڈیسن اور ایسے ہی اور مشہور لوگ پیدا ہوئے کہ بڑے بڑے انٹرنس پاس اور بڑے بڑے سائنسدان اُن کے سامنے طفل مکتب کی بھی حیثیت نہیں رکھتے.ایک طرف وہ بھی تھے اور دوسری طرف بعض انٹرنس پاس بھی ملی ہوتے ہیں کہ اگر ان کو ایک فقرہ لکھایا جائے تو صحیح نہیں لکھ سکیں گے.پس اس قسم کی ہے مساوات انسانی طاقت سے بالا ہے.ایسے موقع پر یہی کیا جائے گا کہ جنہوں نے قرب میں ہے

Page 624

$1944 624 خطبات محج محمود رہنے کے لیے قربانی کی ہو گی اُن کی وہ قربانی کام آجائے گی اور دوسروں سے پہلے دین کے کاموں میں حصہ لے سکیں گے.پس ان حالات میں نہ تو میں یہ کر سکتا ہوں کہ جو پہلے ہیں اُن کو پیچھے کر دوں اور نہ ہی یہ کر سکتا ہوں کہ سات تراجم کے لیے بارہ کے وعدے لے لوں.آخر سوچ کر میں نے فیصلہ کیا کہ چونکہ سینکڑوں کے دل میں اس موقع سے محروم رہنے سے خلش پیدا ہو رہی ہے اس لیے چاہیے کہ ان کو بھی فائدہ اٹھانے کا موقع دیا جائے.اور ایسے حالات میں میں میں نے مناسب سمجھا کہ گزشتہ جمعہ میں جس امر کے متعلق خطبہ دینے کا اعلان میں نے کیا تھا اُسے ملتوی کر کے آج کے خطبہ میں اس بات کے متعلق بیان کر دوں تاکہ جو تراجم میں لینے کے لیے بے تاب ہیں اُن کو بھی موقع دیا جائے اور اُن کے لیے بھی اس تحریک میں حصہ لینے کا رستہ کھل جائے.جیسا کہ میں نے اعلان کیا تھا سات زبانوں میں بارہ بارہ کتابوں کے سیٹ کی اشاعت کے خرچ کا اندازہ پانچ لاکھ چار ہزار روپیہ ہے (عربی اور انگریزی میں بارہ بارہ کتب کا ہے سیٹ چھپوانے پر ایک لاکھ بیس ہزار روپیہ خرچ کا اندازہ اِس کے علاوہ ہے ) اور قرآن مجید کے تراجم کی چھپوائی کا اندازہ ایک لاکھ پانچ ہزار روپیہ اور جلد بندی کا خرچ شامل کر کے ایک لاکھ ہے بائیس ہزار روپیہ کا اندازہ ہے.تراجم کا بیالیس ہزار کا وعدہ تو آچکا ہے.اب چھپوائی کا خرچ باقی ہیں ہے.میں چاہتا ہوں کہ اس خرچ کے حصے کر دوں تاکہ سب کو حصہ لینے کا موقع مل سکے اور می ان پر کوئی ایسا بوجھ نہ پڑے کہ وہ دوسرے اہم چندوں میں پیچھے رہ جائیں.اس لیے میں نے تجویز کی ہے کہ قرآن مجید کے سات تراجم کی اشاعت کا خرچ اور سات زبانوں میں بارہ بارہ کتابوں کے سیٹ کی مکمل اشاعت کا خرچ ( یعنی پانچ ہزار روپیہ ایک کتاب کا جلد بندی سمیت من چھپوائی کا خرچ اور ایک ہزار روپیہ ایک کتاب کا ایک زبان میں ترجمہ کا خرچ) میں خود جماعتوں پر تقسیم کر دوں.قرآن مجید کے ایک زبان کے ترجمہ کی اشاعت کا پندرہ ہزار روپیہ اور ایک زبان میں ایک کتاب کی مکمل اشاعت کا چھ ہزار روپیہ یہ اکیس ہزار روپیہ بنتا ہے.اگر خدا تعالیٰ توفیق دے تو چند افراد مل کر یا ایک ایک جماعت ہی یہ اکیس ہزار روپیہ کر تو سکتی ہے مگر اس قسم کی ساری جماعتیں نہیں ہیں.جیسا کہ میں نے بتایا ہے کلکتہ کی جماعت نے ایک ہیں

Page 625

$1944 625 خطبات م محمود ترجمہ کا خرچ اور ایک ترجمہ کی اشاعت کا خرچ جس کے معنے ہیں اکیس ہزار روپیہ اپنے ذمہ لیا ہے.کلکتہ کی جماعت نے ابھی ابھی بغیر دوسرے لازمی چندوں میں کوئی کمی کرنے کے پچاس ہزار روپیہ وہاں کی مسجد کے لیے جمع کیا تھا.اتنی بڑی قربانی کے بعد وہ بھی زیادہ روپیہ نہیں ہے دے سکتے تھے مگر خدا تعالیٰ نے ان کو توفیق دی اور انہوں نے اکیس ہزار روپیہ اپنے ذمہ لیا ہے.مگر عام طور پر وہ حلقے جو ایک قرآن کریم کے ترجمہ کی اشاعت اور ایک کتاب کے ترجمہ اور اُس کی اشاعت کا بوجھ اُٹھا سکیں اتنے وسیع ہیں کہ اپنے علاقہ سے مشورہ کرنا اُن کے لیے بہت وقت چاہتا ہے.سوائے قادیان کے حلقہ کے کہ یہ جماعت ایسی ہے کہ وہ اکیلی یہ بوجھ اٹھا سکتی ہے اور بوجہ ایک شہر کی جماعت ہونے کے فوراً مشورہ کر سکتی ہے.باقی جماعتیں ایسی ہیں جو اگر حصہ لینا چاہیں تو تین تین چار چار یا پانچ پانچ ضلعے مل کر اس رقم کو پورا کر سکتی ہیں اور اس نے وجہ سے اُن کا جلدی مشورہ کر کے اس تحریک میں حصہ لینے کی اطلاع دینا مشکل بلکہ ناممکن ہے.لیکن جن کے دلوں میں جوش اور اخلاص ہے اُن کو اس موقع سے محروم کر دینا بھی ظلم ہے ہے.مومن ہی سمجھ سکتا ہے کہ قربانی کا موقع نہ ملنے سے اُسے کتنی تکلیف ہوتی ہے.منافق تو موقع نکل جانے پر سمجھتا ہے چلو چھٹی ہوئی.مگر مومن کی اس چھ ہزار یا پانچ ہزار یا دس ہزار ہے روپیہ کی قربانی کو اگر قبول نہ کیا جائے تو اس کو یہ نہیں معلوم ہو تا کہ اُس کو دس ہزار روپیہ واپس کر دیا گیا ہے یا پانچ ہزار روپیہ واپس کر دیا گیا ہے یا چھ ہزار روپیہ واپس کر دیا گیا ہے بلکہ اُسے یوں معلوم ہوتا ہے کہ چھ ہزار خنجر اُس کے سینہ میں گھونپ دیا گیا ہے.اس تکلیف کو وہی سمجھ سکتا ہے جس کی روحانی آنکھیں ہوں.دوسری دنیا اس تکلیف کو نہیں سمجھتی.پس ان حالات کو مد نظر رکھ کر میں نے تجویز کیا ہے کہ قرآن مجید کے تراجم کی اشاعت کا خرچ اور سات زبانوں میں ایک ایک کتاب کی اشاعت کا خرچ میں خود ہی علاقوں پر تقسیم کر دوں تاکہ سب کو اس تحریک میں حصہ لینے کا موقع مل سکے اور اس ثواب سے وہ محروم نہ رہیں.جیسا کہ میں نے بتایا ہے کلکتہ کی جماعت نے خود اپنے ذمہ اکیس ہزار روپیہ لیا ہے.اس کے علاوہ وہاں کے ایک خاندان کے دو بھائیوں نے چھ ہزار روپیہ جماعت علیحدہ اپنے ذمہ لیا ہے.پس وہاں سے یہ رقم آسانی سے جمع ہو سکتی ہے.کیونکہ انہوں نے خود ہی ہم

Page 626

خطبات محمود 626 $1944 یہ بوجھ اُٹھانے پر آمادگی ظاہر کی ہے.پس ان سات حصوں میں سے پہلے حصہ کے بوجھ اٹھانے کا حق کلکتہ کو ملتا ہے.یعنی قرآن مجید کے ایک ترجمہ کی چھپوائی اور ایک کتاب کی مکمل اشاعت کا خرچ.اور یہ حق میں ان کو دیتا ہوں.اگر وہ چاہیں تو ہماری طرف سے اجازت ہے کہ وہ بنگال کی دوسری جماعتوں کو بھی اس میں شامل کر لیں.اس کے علاوہ قرآن مجید کے ایک ترجمہ کی اشاعت اور ایک کتاب کی اشاعت کا خرچ قادیان کی جماعت کے ذمہ لگاتا ہوں.یہ دو تراجم کے خرچ کے علاوہ ہو گا.اگر میری اور میرے خاندان کی حالت اس وقت ایسی ہوتی کہ ہم اپنے ذمہ ایک ترجمہ کی اشاعت کا خرچ علیحدہ لے سکتے تو میں اپنا حصہ الگ لے لیتا لیکن سر دست میں اس کا فیصلہ نہیں کر سکتا.اس لیے سر دست ہم بھی باقی جماعت قادیان کے ساتھ شامل ہو کر ایک ترجمہ کی اشاعت میں حصہ لے لیں گے.قرآن مجید کے ایک ترجمہ کی چھپوائی کا خرچ اور ایک کتاب کی ایک زبان میں مکمل اشاعت کا خرچ میں لجنہ اماء اللہ کے ذمہ لگاتا ہوں.لجنہ کی طرف سے بارہ ہزار کا وعدہ پہلے آچکا ہے.یعنی دو تراجم کرانے کا خرچ اس بارہ ہزار کو اِس نئی ذمہ داری کے ساتھ ملایا جائے تو گل تینتیس ہزار روپیہ بنتا ہے.اس رقم کا جمع کرنا ان کے لیے مشکل نہیں.میں سمجھتا ہوں اگر وہ اچھی طرح کوشش کریں تو تینتیس من ہزار روپیہ سے بھی زیادہ جمع کر سکتی ہیں.مسجد جرمن کے لیے ستر ہزار سے زیادہ روپیہ انہوں نے جمع کر لیا تھا اور اب اُس وقت سے جماعت بھی زیادہ ہے اور مالی حیثیت کے لحاظ سے بھی پہلے کی نسبت اب اچھی حالت ہے.اس لیے بغیر اس کے کہ دوسرے چندوں پر کوئی اثر پڑے وہ یہ بوجھ آسانی سے اٹھا سکتی ہیں.بلکہ حق یہ ہے کہ وہ اس سے زیادہ بوجھ اٹھا سکتی ہیں.اگر لجنہ کی تنظیم اچھی ہو اور اچھا کام کرنے والیاں ہوں جو پروپیگینڈا کریں اور چٹھیاں لکھیں تو وہ ایک لاکھ روپیہ بغیر کسی مشکل کے بڑی آسانی سے ادا کر سکتی ہیں.ہماری جماعت میں دو تین سو آدمیوں کی بیویاں ایسی ہیں جو سو سو روپیہ آسانی سے دے سکتی ہیں.یہ سو سو روپیہ میں نے کم سے کم بتایا ہے ورنہ بعض ایسی بھی ہیں جو تین تین چار چار سو دے سکتی ہیں.بعض ایسی ہیں جو ہزار ہزار روپیہ دے سکتی ہیں.بہر حال ایسی مالدار عور تیں آسانی سے تیس چالیس ہزار دے سکتی ہیں اور باقی متوسط طبقہ اور غرباء کو ملا کر آسانی سے ایک لاکھ روپیہ جمع ہو سکتا ہے کیونکہ می ا

Page 627

$1944 627 خطبات محمود مالدار طبقہ سے زیادہ چندہ غرباء کا ہوتا ہے.غرباء کی تعداد زیادہ ہوتی ہے.پس اگر ہماری جماعت کی غریب مستورات سے اٹھنی اٹھنی بھی جمع کی جائے تو پچاس ہزار روپیہ بن جائے گا.پس عورتوں کے ذمہ ایک لاکھ روپیہ بھی لگا دیا جائے تو آسانی سے دے سکتی ہیں.مگر چونکہ تحریک جدید بھی اور دوسری بھی بعض مدیں ہیں اس لیے فی الحال اکیس ہزار روپیہ کی رقم ان کے ذمہ اور لگا تا ہوں.بارہ ہزار کا ان کا پہلا وعدہ ہے.اکیس ہزار روپیہ یہ ملا کر تینتیس ہزار روپے ہو جائیں گے.چوتھا حصہ حیدر آباد دکن صوبہ مدراس اور بمبئی اور میسور کی جماعتوں کو دیتا ہوں.گویا بمبئی، مدراس اور ان صوبوں سے ملحقہ ریاستیں یہ سب مل کر اکیس ہزار روپیہ اپنے ذمہ لے لیں.اگر یہ جماعتیں اخلاص سے چندہ دیں تو میں سمجھتا ہوں کہ یہ رقم دے سکتی ہیں.گو ان علاقوں میں جماعتیں کم ہیں مگر آسودہ حال لوگ خاصی تعداد میں ہیں.باقی تین حصے رہ گئے.چونکہ ایک ترجمہ کے خرچ کا وعدہ لاہور کی جماعت نے اور ایک ترجمہ کے خرچ کا وعدہ قصور کے عبدالرحمان صاحب مل اونر نے کیا ہوا ہے اور یہ بارہ ہزار روپیہ کی رقم بنتی ہے اور صرف نو ہزار کی زائد ضرورت رہتی ہے.پس اس حصہ کی رقم کو پورا کرنے کی ذمہ داری میں اضلاع لاہور، فیروز پور، شیخوپورہ، گوجر انوالہ اور امر تسر پر مقرر کرتا ہوں.یہ پانچ ہے اضلاع مل کر اکیس ہزار روپیہ آسانی سے دے سکتے ہیں.اگر جماعتوں کے کارکن اپنی ذمہ داری کو سمجھیں تو ان پانچ ضلعوں کے لیے یہ کوئی بڑی رقم نہیں.ایک ترجمہ قرآن مجید کی ہے چھپوائی کا خرچ اور ایک کتاب کی اشاعت کا خرچ اکیس ہزار روپیہ صوبہ سرحد اور صوبہ سندھ مل کر اُٹھا سکتے ہیں.ان صوبوں میں جماعتیں بے شک کم ہیں لیکن اگر وہاں کے کارکن صحیح طور پر کوشش کریں تو اتنا چندہ کوئی مشکل نہیں.پھر اس کی ادائیگی کی مدت بھی ایک سال تک چلے گی اس لیے اس عرصہ میں ایسی کوشش کی جاسکتی ہے کہ بغیر دوسرے چندوں پر اثر ہونے کے یہ رقم آسانی سے جمع ہو سکے.31 اکتوبر 1945ء تک اس وعدہ کی ادائیگی کی میعاد ہے.اس کے متعلق مجھے پوری واقفیت نہیں کہ ان صوبوں میں جماعتوں کی تعداد کتنی ہے.اگر بعد میں معلوم ہوا کہ ان کی تعداد تھوڑی ہے اور اس لحاظ سے اکیس ہزار روپیہ کی رقم زیادہ ہوئی تو پھر پنجاب کے بعض اضلاع مثلاً ملتان، ڈیرہ غازیخاں، مظفر گڑھ ، راولپنڈی ، کیمل

Page 628

خطبات مج محمود 628 $1944 بھی ان کے ساتھ شامل کر دیے جائیں گے.یہ چھ حصوں کی تقسیم ہوئی.ساتویں ترجمہ قرآن بد کی چھپوائی اور ایک کتاب کی اشاعت کا خرچ میں ضلع لدھیانہ ، ضلع انبالہ ، ریاست پٹیالہ دہلی، یوپی اور بہار کے علاقوں کے ذمہ لگاتا ہوں.یہ تین صوبے اور کچھ حصہ پنجاب کا.ہندوستان کا یہ وسطی علاقہ قرآن مجید کے ایک ترجمہ کی چھپوائی کا خرچ اور ایک کتاب کی اشاعت کا خرچ اکیس ہزار روپیہ میرے نزدیک آسانی سے جمع کر سکتا ہے.ان سات جگہوں ایک ایک ترجمہ قرآن مجید کی چھپوائی اور ایک ایک کتاب کی اشاعت کا خرچ میں نے خود تقسیم کر دیا ہے.لیکن ایسا میں نے حکما نہیں کیا بلکہ ان کی آسانی اور سہولت کے لیے ایسا کیا ہے.لاہور کے علاقہ کی ذمہ داری میں لاہور کی جماعت پر ڈالتا ہوں کہ وہ شیخوپورہ، گوجرانوالہ، فیروز پور اور امرتسر کے اضلاع سے مشورہ کریں.اور اگر اس مشورہ کے بعد وہ ایک حصہ کی ذمہ داری اُٹھا سکتے ہوں تو ایک حصہ اس حلقہ کے لیے لے لیں.اگر معلوم ہوا کہ می حلقہ اس رقم کو پورا نہیں کر سکتا اور کچھ کسر رہ جاتی ہے تو کچھ اور اضلاع اس حلقہ میں ملا دیے جائیں گے.لیکن اگر فرق زیادہ ہو تو پھر یہ حصہ کسی اور جماعت اور حلقہ کو دے دیا جائے گا.یا تی یوں کہنا چاہیے کہ اگر وہ یہ انعام نہ لینا چاہیں تو پھر یہ انعام اور علاقوں کو دے دیا جائے گا.اسی طرح صوبہ سرحد اور صوبہ سندھ کے امراء اپنے اپنے صوبہ کی جماعتوں سے مشورہ کر کے اطلاع دیں کہ اُن کا صوبہ کس حد تک یہ بوجھ اٹھا سکتا ہے.جب ان دونوں کی طرف سے اطلاع آجائے گی تو پھر ہم اندازہ کر سکیں گے کہ آیا دونوں صوبے مل کر اکیس ہزار روپیہ کا بوجھ اٹھا سکتے ہیں یا نہیں.اگر اس اندازہ سے کچھ کمی ہوئی تو پھر اور علاقہ ان کے ساتھ ملا دیں گے.لیکن اگر یہ معلوم ہوا کہ ودر تم اندازہ سے بہت کم ہے تو پھر یہ انعام ہم کسی اور علاقہ کو میں دے دیں گے.اسی طرح دہلی کے حلقہ کے لیے دہلی مرکز ہے.دہلی کی جماعت اپنے حلقہ یعنی ضلع لدھیانہ، ضلع انبالہ ، ریاست پٹیالہ ، یوپی اور بہار کی جماعتوں سے مشورہ کر کے اطلاع دے کہ آیا یہ حلقہ اکیس ہزار روپیہ کا بوجھ بغیر اس کے کہ دوسرے چندوں پر اس کا اثر پڑے اپنے ذمہ لے سکتا ہے یا نہیں.اگر ان کا جواب آیا کہ ہاں ہم آسانی سے لے سکتے ہیں تو پھر یہ انعام میں

Page 629

$1944 629 خطبات محمود ان کو دے دیا جائے گا ورنہ یہ انعام ہم کسی اور علاقہ کو دے دیں گے.کلکتہ والوں نے خود ہی وعدہ کیا ہے.اس لیے ان کی طرف سے کسی اطلاع کی ضرورت نہیں.البتہ ہماری طرف سے اجازت ہے کہ اگر وہ چاہیں تو بنگال کی جماعتوں کو ساتھ ملالیں.حیدر آباد کے حلقہ کے لیے میں سکندر آباد اور حیدر آباد کی جماعتوں کے امراء اور سیکرٹریوں کو ذمہ دار بناتا ہوں کہ وہ ،بمبئی اور مدراس کی جماعتوں کے امراء اور کارکنوں سے مشورہ کر کے اطلاع دیں.اگر ان جماعتوں نے کہا کہ ہم یہ بوجھ اٹھا سکیں گے تو یہ انعام ان کے پاس رہنے دیں گے.یا اگر انہوں نے کہا کہ فلاں حد تک اُٹھا سکتے ہیں تو پھر اور قریب قریب کے علاقوں کو ان کے ساتھ ملا دیا جائے گا.اور اگر انہوں نے کہا کہ ہم یہ بوجھ نہیں اٹھا سکتے یاوہ اندازہ سے بہت کم اٹھا سکتے ہے ہوں کیونکہ اس طرف جماعتیں بہت کم ہیں تو پھر ہم یہ انعام کسی اور علاقہ کو دے دیں گے.پس ان سات جگہوں پر میں نے یہ انعام اپنی طرف سے تقسیم کر دیا ہے.حکم کے طور پر پر نہیں بلکہ ان کی سہولت اور آسانی کے لیے.کیونکہ خود حلقے مقرر کرنا جماعتوں کے لیے ناممکن تھا تاکہ وہ اس انعام سے محروم نہ رہ جائیں.ابھی بہت سے علاقے باقی ہیں سیالکوٹ، گجرات، جہلم، سرگودها، لائلپور، ملتان منکمری، جالندھر، ہوشیار پور وغیرہ سیہ سب اضلاع ابھی تک ریز رو کے طور پر رکھے ہیں تا کہ اگر دوسرے حلقوں میں سے بعض یہ پورا بوجھ نہ اُٹھا سکیں اور اُن کے چندوں میں کچھ کمی رہ جائے تو ان علاقوں میں سے کچھ حصہ اُن کے ساتھ ملادیا جائے.یا اگر کوئی علاقہ یہ بوجھ نہ اٹھانا چاہے تو پھر وہ انعام ریز رو اضلاع کو دے دیا جائے.متذکرہ علاقوں کے سوا اور بھی کئی علاقے ہیں جن کو میں نے ریزرو کے طور پر رکھ لیا ہے.پس یہ اعلان میں نے اِس لیے کر دیا ہے تاکہ جن لوگوں کے دلوں میں اس تحریک میں حصہ لینے اور اس موقع سے فائدہ اٹھانے کا جوش ہے وہ مایوس نہ ہوں.تراجم کا خرچ پورا ہو چکا ہے.مگر خالی ترجمہ اُس وقت تک کوئی فائدہ نہیں دے سکتا جب تک چھپ کر اُس کی اشاعت نہ ہو.اِس لیے ان تراجم کا چھپوانا بھی ترجمہ ہی کا حصہ ہے.اور جن کو تراجم میں حصہ لینے کا موقع نہیں ملا وہ ان کی چھپوائی میں حصہ لے کر ثواب میں شریک ہو سکتے ہیں.کیونکہ ترجمہ جب تک چپ نہ جائے بالکل ایسا ہی ہے جس طرح ایک آدمی گونگا ہو اور بات نہ کر سکے ہے

Page 630

$1944 630 خطبات محمود اور بہرا ہو کسی دوسرے کی بات بھی نہ سن سکے.ایسے ہی ترجمہ بھی اُس وقت تک بے کار ہے جب تک اُسے شائع نہ کیا جائے.پس تراجم کی اشاعت میں حصہ لینے والے تراجم کرانے میں لینے والوں سے کم نہیں.اُنہوں نے ترجمہ کروانے میں حصہ لے کر ثواب حاصل کیا، یہ اس ترجمہ کو چھپوا کر اس ثواب میں شامل ہو سکتے ہیں.جنہوں نے تراجم میں حصہ لے لیا ہے اُنہوں نے اس لیے حصہ نہیں لیا کہ وہ دوسروں سے اخلاص میں زیادہ تھے بلکہ اِس لیے کہ قرب میں رہنے کی وجہ سے ان کو حصہ لینے کا پہلے موقع مل گیا.ہماری شریعت کا فیصلہ ہے کہ جس کے اندر جوش اور اخلاص ہو خدا تعالیٰ اُس کو ثواب میں حصہ دے دیتا ہے.مگر چونکہ ظاہر طور پر حصہ نہ لے سکنے کا دل کو صدمہ ہوتا ہے اس لیے میں نے ظاہر میں بھی موقع مہیا کر دیا ہے تاکہ مومنوں کے دلوں کو صدمہ نہ ہو اور وہ ظاہر و باطن میں ثواب اور کام میں شریک ہوں.اور اسی غرض کے لیے میں نے ایک ایک ترجمہ قرآن کریم کی اشاعت اور ایک ایک کتاب کی اشاعت کا خرچ ان سات حصوں پر تقسیم کر دیا ہے.ایک ترجمہ قرآن مجید اور ایک کتاب کی اشاعت کا خرچ سارے ہندوستان کی لجنہ اماء اللہ کے ذمہ لگایا ہے.ایک ترجمہ قرآن مجید کی اشاعت اور ایک کتاب کی اشاعت کا خرچ قادیان کی جماعت کے ذمہ ڈالا ہے.ایک ترجمہ قرآن مجید کی اشاعت اور ایک کتاب کی اشاعت کا خرچ لاہور ، امرتسر، شیخوپورہ، گوجر انوالہ اور فیروز پور کی جماعتوں پر ڈالا ہے.ایک قرآن مجید کے ترجمہ کی اشاعت اور ایک کتاب کی اشاعت کا خرچ دہلی، بہار، یوپی اور ضلع لدھیانہ، ضلع انبالہ اور ریاست پٹیالہ کے ذمہ لگایا ہے.ایک ترجمہ کی اشاعت اور ایک کتاب کی اشاعت کا بوجھ پہلے ہی کلکتہ کی جماعت نے اپنے ذمہ لے لیا ہوا ہے.ایک ترجمہ قرآن مجید کی اشاعت اور ایک کتاب کی اشاعت کا بوجھ حیدر آباد دکن، میسور، بمبئی، مدراس اور اس کے ساتھ ملحقہ ریاستوں کے ذمہ لگایا ہے.اور ایک ترجمہ قرآن مجید کی اشاعت اور ایک کتاب کی اشاعت کا بوجھ صوبہ سرحد اور صوبہ سندھ کی جماعتوں کے ذمہ لگایا ہے.یہ سات تراجم قرآن کی اشاعت اور سات کتب کی اشاعت کا خرچ ہے.مگر جیسا کہ میں نے بتایا ہے یہ ذمہ داری اختیاری ہے جبری نہیں.جو حلقہ اس بوجھ کو نہ اُٹھا سکے وہ اطلاع دے.اُس کا حصہ

Page 631

خطبات مج محمود 631 $1944 کسی دوسرے حلقہ کو دے دیا جائے گا.پس جب ان علاقوں کی طرف سے اطلاع آجائے گی کہ انہوں نے یہ بوجھ اپنے ذمہ لے لیا ہے اُس وقت سے یہ چندہ ان کے ذمہ سمجھا جائے گا.میں نے صرف ان کو مشورہ دیا ہے اور اس لیے ان کے نام لے دیے ہیں تاکہ وہ اس موقع سے محروم نہ رہ جائیں.ورنہ ضروری نہیں کہ وہ یہ بوجھ اپنے ذمہ لیں.میں نے صرف اس لیے نام لے دیے ہیں تاکہ مشورہ کر کے ہمیں جلدی اطلاع دے سکیں.اور اگر وہ حصہ نہ لینا چاہیں تو ہے خدا تعالیٰ کے فضل سے ابھی ہمارے پاس جماعت کے ایسے حصے ریزرو ہیں جو اس بوجھ کو اُٹھا لیں گے یا یوں کہو کہ اس انعام کو اچک لیں گے.پس میں نے جماعتوں کے نام بھی بتا دیے ہیں اور ہر جگہ کا مرکز بھی مقرر کر دیا ہے.ہر علاقہ کے مراکز کو چاہیے کہ مجھے ایک مہینہ کے اندر اندر یعنی 30 نومبر تک اپنے حلقہ کی جماعتوں سے مشورہ کر کے اطلاع دیں کہ کس حد تک ان کا علاقہ بوجھ اٹھا سکتا ہے.اِن وعدوں کی ادائیگی کے لیے ایک سال کی میعاد ہے.آخری میعاد 31 / اکتوبر 1945ء ہے.پس ٹھے ایک مہینہ کے اندر اندر یعنی 30 نومبر تک بلکہ 25 نومبر تک یہ اطلاع پہنچ جانی چاہیے کہ آیا وہ علاقے جن کے میں نے نام لیے ہیں یہ بوجھ اٹھانے کا ذمہ لینے کے لیے تیار ہیں یا نہیں.میں تا کہ اگر وہ تیار نہ ہوں تو ہم یہ انعام دوسروں کو دے سکیں.ابھی پنجاب کے کئی ضلعے باقی ہیں ہیں اور ابھی ہندوستان کے کئی علاقے باقی ہیں جن پر ہم یہ انعام تقسیم کر سکتے ہیں.اسی طرح ہندوستان کے باہر کے علاقے باقی ہیں.اور ابھی بعض افراد کے گروپ بھی باقی ہیں جو آسانی سے یہ بوجھ اپنے ذمہ لے سکتے ہیں.اس لیے جن علاقوں کے میں نے نام لیے ہیں اُن پر کوئی جبر نہیں بلکہ اُن کی سہولت کے لیے نام لیے ہیں.چاہیں تو یہ بوجھ اپنے ذمہ لے لیں اور نہ چاہیں تو معذوری ظاہر کر دیں.ہم بغیر کسی شکوہ کے یہ بوجھ کسی اور علاقہ کے سپر د کر دیں (الفضل 8 نومبر 1944ء) گے".

Page 632

$1944 632 39 خطبات محمود مخلصین جماعت کی التجاؤں پر تراجم قرآن کریم کے اخراجات کی نئی تقسیم فرموده 10 نومبر 1944ء) تشہد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: " مجھے بعض حالات کی وجہ سے اس دفعہ پھر گزشتہ خطبات کے تسلسل میں ہی جمعہ کا خطبہ پڑھنا پڑا ہے اور وہ حالات یہ ہیں کہ جماعت کے مختلف افراد کی طرف سے ، اُن کی طرف سے بھی جنہوں نے چندہ کی پیشکش کی تھی اور اُن کی طرف سے بھی جو اس چندہ میں شمولیت کا ارادہ رکھتے تھے متواتر اور مسلسل اس بات پر زور دیا گیا کہ انہیں اس تحریک میں شامل ہونے کا موقع ملنا چاہیے.جن لوگوں نے قرآن کریم کے تراجم کے متعلق پوری رقم کا وعدہ کیا تھا تے اُنہوں نے تو گووہ مختلف جگہوں کے ہیں یہ سوال اٹھایا ہے جس کا ایک رنگ میں میں پچھلے جمعہ میں جواب دے بھی چکا ہوں کہ جس وقت ہم نے خطبہ پڑھا ہے اس وقت ہم نے اپنی من درخواست بھجوادی تھی.اس لیے ہم میں اور اُن لوگوں میں امتیاز نہیں ہو نا چاہیے جنہوں نے کہ خطبہ کے بعد اُسی عرصہ میں اپنی درخواستیں بھجوائی ہیں.ان میں سے بعض نے یہ سوال

Page 633

$1944 633 خطبات محمود بھی اٹھایا ہے کہ جو تراجم آپ نے جماعت پر تقسیم کیے ہیں اُن میں سے بعض ایسے ہیں جو اُن لوگوں نے خود نہیں مانگے جن کے سپرد اُس ترجمہ کے اخراجات کا مہیا کرنا کیا گیا ہے مثلاً لجنہ اماء اللہ کے سپر د جو دو تراجم کیے گئے ہیں وہ دونوں ایسے ہیں جو لجنہ نے خود نہیں مانگے.اسی طرح قادیان کے رہنے والوں کو جن تراجم کا حق دیا گیا ہے ان میں سے ایک ایسا ہے جس کا انہوں نے خود مطالبہ نہیں کیا.اس طرح تین تراجم ایسے ہیں یا اگر ایک کو اس وجہ سے الگ ہے کر دیا جائے کہ عورتیں بھی اس تحریک میں شامل ہونے کا حق رکھتی ہیں تو دو تراجم ایسے ہیں جو بجائے اُن لوگوں کو ملنے کے جنہیں زائد طور پر یہ حصہ دے دیا گیا ہے اُن دوسرے لوگوں کو ملنے چاہیں جن کا حق مارا گیا ہے.اور جو اگر پورے ترجمہ کے خرچ میں حصہ نہیں لے سکے تو وہ اپنی طاقت اور توفیق کے مطابق اس تحریک میں شامل ہو کر ثواب حاصل کرنے کی انتہائی آرزور رکھتے ہیں.بعض لوگوں نے اپنے خطوط میں یہ بھی لکھا ہے کہ ہم تو پورے ترجمہ کا حصہ لینا چاہتے تھے لیکن پیشتر اس کے کہ ہم رقم کا انتظام کر سکتے یہ اعلان ہو گیا کہ تمام حصے ختم ہوتے گئے ہیں.اسی طرح وہ لوگ جو انفرادی طور پر اس تحریک میں حصہ لینا چاہتے تھے اُنہوں نے یہ اعتراض کیا ہے کہ آپ کی طرف سے جو تقسیم کی گئی ہے اس میں ہمارا کوئی حصہ نہیں رکھا ہے گیا.مثلاً ہماری جماعت کے وہ دوست جو فوج میں بھرتی ہو کر گئے ہیں اُن میں سے بعض کے مجھے مخطوط آئے ہیں کہ ہمیں کسی گروہ میں بھی شامل نہیں کیا گیا حالانکہ ہم بھی اس تحریک میں میں شامل ہونا چاہتے ہیں.اسی طرح بعض اضلاع ایسے ہیں جن کو ریزرو کے طور پر رکھا گیا تھا ممکن ہے اُن کے دلوں میں بھی اس تقسیم کے متعلق کوئی اعتراض پیدا ہو.انہی اعتراضات میں میں سے ایک اعتراض اُن افراد کی طرف سے بھی آیا ہے جو براہِ راست مرکز میں اپنا چندہ بھجوایا کرتے ہیں کہ اس تحریک میں بڑی بڑی جماعتیں تو شامل کر لی گئی ہیں لیکن وہ افراد جو براہ راست اپنا چندہ قادیان بھیجا کرتے تھے رہ گئے ہیں اور اُن کو اس تحریک میں شمولیت کا کوئی حق نہیں دیا گیا.غرض مختلف جماعتوں اور مختلف افراد کی طرف سے اس بارہ میں مجھے خطوط پانچ رہے ہیں.اور بعض مخطوط میں تو اس قسم کے اضطراب کا اظہار کیا گیا ہے اور اس قدر قلق اور گھبراہٹ کا ان خطوط سے پتہ چلتا ہے کہ یوں معلوم ہوتا ہے ہماری جماعت کے ان -

Page 634

$1944 634 خطبات محمود دوستوں کو جنہیں اس ثواب میں شامل ہونے کا موقع نہیں ملا سخت تکلیف ہو رہی ہے اور اُن کے لیے یہ امر انتہائی کرب اور دُکھ کا موجب ہوا ہے.جس دوست نے یہ لکھا ہے کہ بعض حصے بلا طلب کرنے کے بعض کو زائد طور پر دے دیے گئے ہیں جیسے لجنہ اماء اللہ ہے کہ اُسے بجائے ایک حصہ کے دو حصے دے دیے گئے ہیں میں نے اُس دوست کے اس سوال پر غور کیا ہے اور مجھے اُس کی یہ بات معقول معلوم ہوئی ہے.یعنی جہاں تک مطالبہ کرنے والوں کا سوال ہے اُسے نظر انداز کر کے بھی بعض جماعتوں کو اُن کے حق سے زائد حصہ دے دیا گیا ہے.مثلاً لجنہ اماء اللہ کو پہلے ایک حصہ دیا گیا تھا اور اس کی وجہ جیسا کہ میں نے بیان بھی کی تھی یہ تھی کہ عورتیں ایک بے زبان گروہ ہیں جو ابھی پورے طور پر منتظم نہیں ہوئیں اور اُن کے لیے اکٹھا ہونے اور باقاعدہ طور پر اس تحریک میں اپنی شمولیت کا اعلان کرنے میں بہت سی مشکلات پیش آسکتی تھیں.اس لیے میں نے اُن کو ایک ترجمہ قرآن کے خرچ کا حق اپنے طور پر دے دیا تھا.لیکن بعد میں ان کو جو دوسر ا حصہ دیا گیا وہ یقیناً ایک زائد چیز ہے.اسی طرح قادیان والوں کا ایک حصہ تو اُن کا حق کہلا سکتا ہے لیکن دوسرا حصہ جو اُن کو دیا گیا وہ اُن کا حق نہیں کہلا سکتا بلکہ یہی کہنا پڑتا ہے کہ ایک جگہ اور ایک مقام میں رہنے والوں کو بجائے ایک کے دو حصے دے دیے گئے ہیں.پس اس حصہ کے متعلق بھی جو اعتراض دوستوں کی طرف سے کیا گیا ہے وہ ایک حد تک وزنی ہے اور میرے نزدیک وہ اس سوال کے اٹھانے میں حق بجانب ہیں کہ جب وہ اس بوجھ کو اٹھانے کے لیے تیار ہیں تو پھر جن کو زائد از حق ملا ہے ان سے وہ حصہ انہیں واپس دلایا جائے.ہماری جماعت کے وہ چندہ دہندگان جو براہ راست اپنا چندہ مرکز میں بھجوایا کرتے ہیں اور جنہوں نے یہ اعتراض کیا ہے کہ ہمیں اس تحریک میں شامل ہونے کا موقع نہیں ملا اُن کا اعتراض بھی ایک حد تک وزنی ہے.گو میں نے ایسے تمام دوستوں کو ریز رو کے طور پر رکھا ہوا تھا اور میر انشاء یہ تھا کہ اگر چندہ میں کمی رہی یا بعض اضلاع اپنی ذمہ داری کو پوری طرح ادا کرنے سے قاصر رہے تو ایسے دوستوں کو اس ثواب میں شامل ہونے کا موقع دے دیا جائے گا.مگر جو لوگ ریزرو کے طور پر علیحد و ر کھے گئے ہوں ضروری نہیں ہوتا کہ اُن تک حصہ پہنچے.

Page 635

خطبات محج محمود 635 $1944 اس کی ایسی ہی مثال ہے جیسے کسی کو کہا جائے کہ بچا ہوا کھانا ہم تمہیں دیں گے.جب کسی کو یہ کہا جائے تو ضروری نہیں ہو تا کہ اُسے کھانا ملے بلکہ اُس کو کھاناملنا اس شرط کے ساتھ مشروط ہوتا ہے کہ ضرورت سے زائد اگر کچھ بچاتو دیا جائے گا ورنہ نہیں.اسی طرح ضروری نہیں تھا تے کہ ریزرو میں جن اضلاع یا جن افرادِ جماعت کو رکھا گیا تھا اُن کو اس تحریک میں شامل ہونے کا ضرور موقع ملتا.بالکل ممکن تھا کہ یہ تحریک دوسرے دوستوں کے ذریعہ ہی پوری ہو جاتی.اسی من وجہ سے اُن کے دلوں میں یہ اعتراض پیدا ہوا ہے اور میں سمجھتا ہوں اُن کا یہ اعتراض درست ہے.جیسے میں نے بتایا ہے کہ ہماری جماعت کے وہ دوست جو فوج میں ملازم ہیں اُن کی طرف سے یہ سوال پیش ہوا ہے کہ ہم ایک ایسے مقام پر ہیں جہاں ہماری جان جانے کا ہر وقت خطرہ ہے اور ہم اس مقام پر محض آپ کے ارشاد اور آپ کے حکم کی تعمیل میں آئے ہیں.آپ نے ہمیں کہا کہ ہم جنگ میں بھرتی ہوں اور آپ نے ہمیں کہا کہ اس جنگ میں شامل ہونا ہے انصاف کے قیام اور اسلام کی ترقی کے لیے نمید ہے.آپ کے اس حکم کی تعمیل کرتے ہوئے ہم میں جنگ میں شامل ہوئے اور اب ہر وقت اپنی جان کو قربان کرنے کے لیے ہم تیار کھڑے ہیں.مگر ہمارا اس تحریک میں کوئی حصہ نہیں رکھا گیا.جب ہم آپ کے حکم سے فوج میں بھرتی ہے ہوئے ہیں اور مرکز سے ڈور چلے گئے ہیں تو قرآن کریم کے ترجمہ میں حصہ لینے سے اس لیے ہے محروم رہ جانا کہ ہم دُور ہیں اور ہم تک فوراً آواز نہیں پہنچ سکتی درست نہیں.ان کی یہ بات بھی میرے نزدیک بہت معقول ہے اور اس قابل ہے کہ اس کی طرف توجہ کی جائے.اسی طرح پنجاب کے بہت سے اضلاع ایسے ہیں جنہیں اس تحریک میں شامل نہیں کیا گیا.مجھے اُن اضلاع کی طرف سے ابھی تک اجتماعی رنگ میں کوئی خطوط موصول نہیں ہوئے.میرے پاس یا تو ان افراد کی طرف سے مخطوط آئے ہیں جنہوں نے ایک ایک ترجمہ کا پورا خرچ میں چندہ کے طور پر پیش کیا تھا مگر اُن کا وعدہ اس لیے قبول نہ کیا گیا کہ اس وقت تک بعض اور دوست مطلوبہ رقم کو پورا کر چکے تھے یا جو اس طرح حصہ لینا چاہتے تھے مگر اطلاع دینے سے پہلے ہی حصے ختم ہو گئے.یا اُن لوگوں کی طرف سے خطوط آئے ہیں جو سپاہی وغیرہ ہیں اور

Page 636

خطبات محمود 636 $1944 فوج میں بھرتی ہو چکے ہیں.اور یا پھر اُن افراد کی طرف سے خطوط پہنچے ہیں جو جماعتوں میں شامل نہیں.انفرادی طور پر الگ الگ مرکز میں اپنا چندہ بھجواتے ہیں.ممکن ہے وہ جماعتیں جن کو اس تحریک میں ابھی تک شامل نہیں کیا گیا وہ بھی موقع پر احتجاج کرتیں جیسے سیالکوٹ ہے، سرگودھا ہے، لائل پور ہے، منٹگمری ہے، گجرات ہے، جہلم ہے، جالندھر ہے ، ہوشیار پور ہے مگر ابھی تک اُن کی طرف سے مجھے اس قسم کے کوئی خطوط موصول نہیں ہوئے.صرف تین گروہ ہیں جن کی طرف سے مجھے اعتراضات پہنچے ہیں.اوّل وہ جنہوں نے پورے ترجمہ کا خرچ برداشت کرنے کا وعدہ کیا تھا.مگر اس وجہ سے کہ اُس وقت تک تمام تراجم کے حصے پورے ہو چکے تھے اُن کا وعدہ قبول نہ کیا گیا اُن کا یہ اعتراض ہے کہ جماعت میں سے ترجمۃ القرآن کے سلسلہ میں بعض کو چندہ دینے کا دُہر احق دے دیا گیا ہے اور پھر بعض صورتوں میں یہ ڈہر احق اُن کو دیا گیا ہے جنہوں نے اس حق کو مانگا نہیں تھا.وہ کہتے ہیں کہ اول تو اگر کوئی مانگے بھی تو اسے زہر احق نہیں ملنا چاہیے لیکن بغیر مانگنے میں اور بغیر تقاضا کرنے کے تو کسی کو اُس کے حق سے زائد کوئی چیز دے دینا بالخصوص ایسی صورت میں جب کہ بعض اور لوگوں کے حقوق پر اس کا اثر پڑتا ہو درست نہیں ہو سکتا.اور میں نے ہے جیسا کہ بیان کیا ہے میرے نزدیک اُن کا یہ اعتراض معقول ہے.دوسرے وہ ہیں جو براہ راست چندہ بھیجا کرتے ہیں انہوں نے یہ اعتراض اٹھایا ہے کہ ہمارے لیے اس تحریک میں شامل ہونے کا کوئی حق نہیں رکھا گیا.تیسرے وہ جو میدانِ جنگ میں گئے ہوئے ہیں یا فوج میں مختلف عہدوں پر کام کر رہے ہیں اُن کی طرف سے یہ شکایت پہنچی ہے کہ جب ہم آپ کے حکم کے مطابق فوج میں بھرتی ہوئے ہیں تو ہمارا بھی اس تحریک میں حصہ ہونا چاہیے.در حقیقت ہندوستان میں تین قسم کے سپاہی کام کر رہے ہیں.ایک وہ جو محض تنخواہ میں اور روپیہ کے لیے فوج میں بھرتی ہوتے ہیں.اُن کا مقصد صرف دنیا کمانا ہوتا ہے کوئی اور ہے مقصد اُن کے سامنے نہیں ہوتا.دوسرے وہ لوگ ہوتے ہیں جن کا پیشہ سپاہ گری ہوتا ہے اور وہ فوج میں بھرتی ہو کر اپنی جنگی سپرٹ کو قائم رکھنا چاہتے ہیں.گو ان لوگوں کے دلوں میں بھی ہے

Page 637

خطبات محمود 637 $1944 حُب الوطنی کا جذبہ موجود ہوتا ہے مگر بہر حال فوج میں شامل ہونے سے اُن کی اصل غرض اپنی فوجی روح اور جنگی سپرٹ قائم رکھنا ہوتی ہے.تیسرے وہ لوگ ہوتے ہیں جو کسی ہے بلند مقصد کے لیے فوج میں بھرتی ہوتے ہیں جیسے ہماری جماعت کے افراد جو فوج میں بھرتی ہے ہوئے انہوں نے میری ہدایات اور میرے احکام کے مطابق اپنے آپ کو بھرتی کے لیے پیش کیا بلکہ ہماری جماعت میں بعض ایسے لوگ بھی ہیں جو اپنی معقول ملازمتیں ترک کر کے ان محض میرے حکم کی اطاعت کے لیے فوج میں بھرتی ہو گئے تاکہ وہ اس جنگ میں حصہ لے لی سکیں جس کے متعلق میں نے انہیں یہ کہا تھا کہ یہ ملک کی خدمت اور دنیا سے ظلم اور تعدی کو ی مٹانے کا ذریعہ ہے.میں یہ نہیں کہتا کہ ہماری جماعت میں سے جس قدر لوگ فوج میں بھرتی ہوئے ہیں وہ سب کے سب ہلا استثناء اسی مقصد کو اپنے سامنے رکھتے ہوئے فوج میں بھرتی ہوئے ہیں.ممکن ہے بعض احمدی بھی روپیہ کمانے کے لیے فوج میں بھرتی ہوئے ہوں.اسی طرح ممکن ہے ہے بعض احمدی بھی جنگی روح اور اپنی خاندانی روایات کو قائم رکھنے کے لیے فوج میں شامل ہے ہوئے ہوں.لیکن بہر حال ہماری جماعت کے وہ دوست جو محض میرے حکم کی تعمیل کے لیے ہے اس جنگ میں شامل ہوئے ہیں جو اس لیے فوج میں بھرتی نہیں ہوئے کہ دنیا کمائیں یا اپنی جنگی سپرٹ کو قائم رکھیں بلکہ اس لیے گئے ہیں کہ یہ جنگ دنیا سے ظلم مٹانے کے لیے لڑی جارہی ہے ہے اور مومن کا کام ہے کہ وہ جور اور ظلم کو مٹائے اور اپنے ملک کی خدمت کرے وہ یقیناد نیا کمانے کے لیے نہیں گئے بلکہ ثواب کمانے کے لیے گئے ہیں.اور ایسے آدمی اگر اس جنگ میں ہے مارے جائیں گے تو وہ یقیناً جیسا کہ گزشتہ دنوں "الفضل " میں ایک بحث بھی چھپی تھی ایک رنگ کے شہید قرار پائیں گے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے شہادت کا دائرہ محدود نہیں رکھا بلکہ اس کے دائرہ کو آپ نے بہت وسیع قرار دیا ہے.ایک شہادت وہ ہوتی ہے جو خالص دینی جنگ میں شامل ہونے پر انسان کو حاصل ہوتی ہے.جب اسلام پر اس کو مٹانے کے لیے دشمن کی طرف سے حملہ ہو تو اس وقت خطرات بہت زیادہ ہوتے ہیں اور اُس وقت جان جانے کا بہت زیادہ امکان ہوتا ہے.اسی لیے جو شخص اس قسم کی مذہبی جنگ میں شامل ہوتا

Page 638

خطبات محمود 638 $1944 اور اپنی جان اسلام کے لیے قربان کر دیتا ہے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے شہید قرار دیا ہے.لیکن شہادت صرف یہی نہیں بلکہ اور بھی کئی قسم کی شہادتیں ہیں جنہیں اسلام نے تسلیم کیا ہے.انہی شہادتوں میں سے ایک یہ بھی شہادت ہے یعنی اگر ہماری جماعت کا کوئی شخص اس جنگ میں مارا جاتا ہے تو وہ یقیناً شہید ہے.بشر طیکہ اس کی نیت درست ہو اور وہ محض اسی ارادہ سے اس جنگ میں شامل ہوا ہو کہ مجھے اپنے امام کی طرف سے یہ بتایا گیا ہے کہ دنیا سے ظلم اور تعدی کو مٹانے اور اسلام کے راستہ سے مختلف قسم کی روکوں کو دور کرنے کے لیے اس جنگ میں شمولیت ضروری ہے.پس وہ لوگ جو میرے حکم کے مطابق فوج میں بھرتی ہوئے ہیں اُن کا حق یقیناً ہم نظر انداز نہیں کر سکتے.اسی طرح وہ لوگ جن کو اِس چندہ میں بالکل شامل نہیں کیا گیا اور انہیں اس ثواب میں شامل ہونے کا موقع نہیں ملا اُن کا اعتراض بھی ہے وزنی ہے.ان حالات میں میں نے غور کیا کہ کیا میں کوئی ایسی تدبیر اختیار کر سکتا ہوں جس میں سے یہ تمام اعتراضات مٹ جائیں.آخر غور کرنے کے بعد میں اس نتیجہ پر پہنچا کہ سب.میں اپنی قربانی پیش کروں اور اس ذریعہ سے دوسرے دوستوں کے لیے اس تحریک میں شامل ہونے کا راستہ صاف کر دوں.چنانچہ میں نے فیصلہ کیا کہ میں نے جو ایک ترجمۃ القرآن اپنے اور اپنے خاندان کے لیے مخصوص کیا ہوا تھا میں اس ترجمہ کی رقم کو قادیان کے چندہ میں میں ہی جمع کرادوں اور اپنا حق چھوڑ دوں.میں نے جس رقم کا وعدہ کیا تھاوہ بہر حال قائم رہے گی یہ لیکن اب بجائے اس کے کہ وہ ترجمہ القرآن میری طرف سے شائع ہو قادیان کی جماعت کی امین طرف سے شائع ہو گا اور میرا چندہ بھی قادیان کے چندہ میں ہی شامل ہو گا.لجنہ اماء اللہ کو جو حصہ حق کے طور پر مل سکتا ہے وہ در حقیقت ایک ہی ہے.دوسرا حصہ اُن کو زائد طور پر اِس امید پر دیا گیا تھا کہ وہ اس حصے کا بوجھ بھی اٹھا سکیں گی اور زائد طور پر اس قدر چندہ اکٹھا کر لیں گی.خود لجنہ کی طرف سے اس قسم کی درخواست نہیں آئی تھی.پس وہ دوسر ا حصہ جو لجنہ اماءاللہ کو دیا گیا تھا اُس سے بھی میں لجنہ اماء اللہ کو فارغ کرتا ہوں.ان دو حصوں کو فارغ کرنے کے بعد میں نے فیصلہ کیا کہ میرے پاس اِس سلسلہ میں جو

Page 639

خطبات محمود 639 $1944 دو درخواستیں آئی ہوئی ہیں میں یہ فارغ کر دہ حصے اُن میں تقسیم کر دوں.مثلاً حلقہ لاہور کی طرف سے ہی میرے پاس دو درخواستیں آئی ہوئی ہیں.مگر دو حصے کسی ایک حلقہ کو نہیں دیے جاسکتے.کیونکہ اس طرح پھر وہی اعتراض پید اہو جائے گا جو پہلی تقسیم پر کیا جا چکا ہے اور چونکہ یہ اعتراض خود دوسرے دوستوں نے ہی اٹھایا ہے.اس لیے اب دوبارہ کسی کو دو حصے دینا کوئی معنے نہیں رکھتا.بہر حال حلقہ لاہور کو ایک حصہ ہی مل سکتا ہے دو حصے نہیں مل سکتے.پس دو حصے جو فارغ ہوئے ہیں ان میں سے ایک حصہ میں حلقہ لاہور کے دوستوں کو دیتا ہوں اور اعلان کرتا ہوں کہ قرآن کریم کے ایک ترجمہ کا خرچ اور قرآن کریم کے ایک ترجمہ کی اشاعت اور اس کی چھپوائی کا خرچ اسی طرح بارہ کتابوں میں سے کسی ایک کتاب کے ترجمہ کا خرچ اور کسی ایک کتاب کے ترجمہ کی اشاعت اور اُس کی چھپوائی کا خرچ جو ستائیس ہزار روپیہ ہو گا حلقہ لاہور برداشت کرے.ملک عبد الرحمان صاحب قصور والوں نے ایک ترجمہ کا خرچ برداشت کرنے کے متعلق جو اطلاع دی ہوئی ہے وہ بھی اسی میں شامل ہو گی.چونکہ ایک ترجمہ کے خرچ کا وعدہ لاہور کی جماعت کر چکی ہے اور ایک ترجمہ کے خرچ کا وعدہ ملک عبد الرحمان صاحب قصور والوں کی طرف سے ہے اس لیے یہ دونوں رقمیں مل کر بارہ ہزار روپیہ بن گیا.باقی صرف پندرہ ہزار روپیہ رہ جاتا ہے جو اُن پانچ اضلاع کے لیے پورا کر نا کچھ مشکل نہیں.جو حلقہ لاہور میں شامل کیے گئے ہیں یعنی اضلاع لاہور، فیروز پور، شیخوپورہ، گوجرانوالہ اور امر تسر.اب میں چھٹا ضلع سیالکوٹ بھی ان کے ساتھ شامل کر دیتا ہوں.سیالکوٹ وہ مقام ہے جہاں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنی زندگی کے ابتدائی ایام گزارے.اس لحاظ می سے سیالکوٹ کو خاص اہمیت حاصل ہے.پس میں سیالکوٹ کو بھی حلقہ لاہور میں ہی شامل کرتا ہوں تا کہ وہ اس ثواب میں شامل ہونے سے محروم نہ رہے.دوسرا بچا ہو ا حصہ میں کلکتہ والوں کو دیتا ہوں.ان کی طرف سے بھی دو تراجم کے خرچ کو برداشت کرنے کا وعدہ آیا ہوا ہے.پس میں یہ اعلان کرتا ہوں کہ قرآن کریم کے ایک ترجمہ کا خرچ اور قرآن کریم کے ایک ترجمہ کی اشاعت کا خرچ اور اسلامی کتب میں سے کسی ایک کتاب کے ترجمہ کا خرچ اور اسلامی کتب میں سے کسی ایک کتاب کی اشاعت کا خرچ

Page 640

خطبات محمود 640 $1944 بحیثیت جماعت کلکتہ کے ذمہ ہو گا.کلکتہ کی جماعت کے علاوہ جس نے ایک ترجمہ قرآن اور اس کی چھپوائی کا خرچ برداشت کرنے کا وعدہ کیا ہے ایک اور درخواست ترجمہ قرآن کا خرچ دینے کی شیخ محمد صدیق اور شیخ محمد یوسف صاحبان کی طرف سے بھی ہے.یہ دونوں بھائی ہیں ہم اور اکٹھا ہی تجارت کا کام کرتے ہیں.انہوں نے تو یہاں تک اپنے اخلاص کا نمونہ دکھایا ہے کہ ان کی طرف سے مجھے چٹھی آئی ہے کہ اگر آپ قرآن کریم کا ایک ترجمہ ہمیں نہیں دیتے تو میں کم از کم قرآن کریم کے ایک ترجمہ کی چھپوائی کا سارا خرچ جو پندرہ ہزار روپیہ ہے ہمارے ذمہ ڈال دیا جائے.اس جماعت کے ذمہ بھی ستائیس ہزار روپیہ کا اکٹھا کرنا ہو گا.مگر چونکہ انگلستان سے اطلاع آئی ہے کہ تراجم کا خرچ زیادہ ہو گا اِس لیے میں بجائے ستائیس ستائیس ہزار روپیہ کے اٹھائیس ہزار روپیہ فی حصہ مقرر کرتا ہوں جس کے اندر ایک زبان میں قرآن کریم کے ہے ترجمہ کا خرچ اور ایک زبان میں قرآن کریم کو چھپوانے کا خرچ، اسی طرح ایک زبان میں سلسلہ کی کسی کتاب کو چھپوانے کا خرچ شامل ہو گا.قسم کے لحاظ سے دو لیکن حصوں کے لحاظ سے یہ چار کتابیں بن جاتی ہیں.یعنی دو تر جموں اور دو کتابوں کی اشاعت ایک ایک حلقہ کے ذمہ ہو گی.یہ دونوں مل کر چار کتابیں بن جاتی ہیں.لیکن چونکہ ایک ترجمہ قرآن اور ایک اس ترجمہ قرآن مجی کی اشاعت کا خرچ ہو گا اور یہ ایک ہی چیز ہے.اسی طرح کسی ایک کتاب کا ترجمہ اور اس کتاب کی اشاعت کا خرچ علیحدہ ہو گا اور یہ بھی ایک ہی چیز ہے.اس لیے اقسام کے لحاظ سے تو یہ چار اقسام چندہ کی ہیں لیکن کام کے لحاظ سے دو ہی ہیں.پس اس حصہ کا خرچ میں کلکتہ والوں پر ڈالتا ہوں.مگر چونکہ دوسری جماعتیں بھی اِس چندہ میں شامل ہونے کا حق رکھتی ہیں اس لیے بنگال اور اڑیسہ اور آسام اور برما فرنٹ کی طرف کے تمام فوجیوں کو میں اس جماعت کے چندہ میں حصہ لینے کا حق دیتا ہوں.یہ تمام جماعتیں اور افراد اگر اس میں حصہ لینا چاہیں تو وہ بڑے شوق ہے سے لیں اور قادیان میں اپنا چندہ بھجوا دیں.تحریک جدید کا سیکرٹری چونکہ اس تحریک کا بھی سیکرٹری مقرر کیا گیا ہے اس لیے جب ان جماعتوں کی طرف سے چندہ آئے گا تو فنانشل سیکرٹری ان جماعتوں کا چندہ کلکتہ کے حلقہ میں درج کرے گا.اس طرح بنگال کے اگر میں کوئی اور دوست اس میں حصہ لینا چاہیں تو وہ بھی لے سکتے ہیں.آسام کی طرف کے جس قدر

Page 641

$1944 641 خطبات م محمود فوجی ہیں اور جو اس چندہ میں حصہ لینے کی خواہش رکھتے ہیں وہ بھی بڑے شوق سے اس میں حصہ لے سکتے ہیں.اُن کو میری طرف سے اس تحریک میں شامل ہونے کی اجازت ہے.گویا یہ چندہ خالص کلکتہ کی جماعت کی طرف سے نہیں ہو گا بلکہ کلکتہ اور اُس کے نواحی کی تمام جماعتوں اور افراد کو یہ حصہ دیا جائے گا.ایک حصہ جیسا کہ پہلے اعلان ہو چکا ہے میں سارے ہندوستان کی لجنہ اماء اللہ کو ی دیتا ہوں پہلے لجنہ اماء اللہ کے سپرد تینتیس ہزار روپیہ کا جمع کرنا تھا.مگر اس لیے کہ اب ہے لجنہ اماء اللہ کو صرف ایک حصہ دیا جائے گا اٹھائیس ہزار روپیہ اُس کے ذمہ ڈالا جاتا ہے جو ہم سارے ہندوستان کی عورتوں کی طرف سے ہو گا.میں اس کے ساتھ ہی یہ بھی کہہ دینا چاہتا ہوں کہ جو جو حلقے مقرر کیے گئے ہیں اُن حلقوں کی عورتوں کا چندہ اُن کے حلقوں میں شمار نہیں ہو گا بلکہ لجنہ اماء اللہ کے چندہ میں اُس کو شامل کیا جائے گا.مثلاً لاہور کے حلقہ میں عورتوں کی طرف سے جو چندہ جمع ہو گا وہ لاہور کے حلقہ میں شامل نہیں ہو گا بلکہ لجنہ اماء اللہ کے چندہ میں اُس روپے کو شامل کیا جائے گا.اسی طرح کلکتہ یا دوسرے حلقوں کی عورتیں جو چندہ جمع کریں گی وہ چندہ اُن حلقوں میں شمار نہیں ہو گا بلکہ لجنہ اماء اللہ کے حلقہ میں شمار ہو گا.پس قرآن کریم کے ایک ترجمہ کا خرچ اور قرآن کریم کے ایک ترجمہ کی اشاعت اور اُس کی چھپوائی کا خرچ، اسی طرح سلسلہ احمدیہ کی کتابوں یا اسلامی کتب میں سے کسی ایک کتاب کے ترجمہ کا خرچ اور اُس کتاب کی چھپوائی اور اُس کی اشاعت کا خرچ لجنہ اماء اللہ کے ذمہ ہو گا.یہ تین حصے ہوئے.اس کے علاوہ ایک ترجمہ قرآن کا خرچ اور ایک ترجمہ قرآن کی چھپوائی کا خرچ، اسی طرح ایک کتاب کے ترجمے کا خرچ اور ایک کتاب کی چھپوائی کا خرچ خلیفہ قادیان کے ذمہ ہو گا.یہ چار حصے ہوئے.اب صرف تین حصے اور رہ گئے ہیں.میں اپنے حق کی قربانی کا اعلان کر چکا ہوں اور میں نے بتایا ہے کہ دوستوں کی خواہشوں کو مد نظر رکھتے ہوئے وہ حق جو میں نے اپنے لیے رکھ لیا تھا اسے میں نے ترک کر دیا ہے.پس میں اپنا چندہ جو چھ ہزار روپیہ ہے قادیان کی مو جماعت کے چندہ میں انشاء الله جمع کرادوں گا.لجنہ اماء اللہ نے چونکہ خود مطالبہ نہیں کیا تھا.بلکہ انہیں زائد طور پر ایک حق دے دیا گیا تھا اس لیے میں نے اُن کا وہ حصہ باہر کی جماعتوں کو ہے

Page 642

خطبات محمود 642 $1944 دے دیا ہے.میں اس نمونہ کو پیش کرتے ہوئے قادیان کی جماعت کے دوستوں سے بھی کہتا ہوں کہ اُن کو دو تراجم کا حق نہیں بلکہ صرف ایک ترجمے کا حق حاصل ہے.مگر چونکہ وہ دوسرے ترجمے کے متعلق مجھ سے اجازت لے چکے ہیں اس لیے میں یہ معاملہ اُن پر چھوڑتا ہوں کہ اگر وہ اپنے باہر کے بھائیوں کے جذبات اور اُن کے احساسات کو مد نظر رکھتے ہوئے اپنے ایک حق کو چھوڑنا چاہیں تو جس طرح میں نے اپنے حق کو دوسروں کی خاطر چھوڑ دیا ہے ہے اسی طرح وہ بھی اپنے ایک حق کو جو اُنہیں زائد طور پر دیا گیا تھا دوسرے بھائیوں کی خاطر چھوڑ دیں.اگر کارکنان صدر انجمن احمد یہ جنہوں نے بعد میں ایک ترجمہ قرآن کا چندہ اپنے ذمہ ہے لے لیا تھا اپنے دوسرے بھائیوں کے جذبات کا پاس کرتے ہوئے اور یہ سمجھتے ہوئے کہ وہ اپنا حصہ قادیان کے ہی چندہ میں منتقل کر دیں گے جس کا حق قادیان والے پہلے حاصل کر چکے ہیں اس دوسرے حصے سے دست بردار ہو جائیں تو اس طرح ایک اور ترجمہ فارغ ہو جائے گا جو باہر کی جماعتوں کو دیا جاسکے گا.میں سمجھتا ہوں اگر صدر انجمن احمدیہ کے کارکنان یہ قربانی کریں اور اس طرح ایک ترجمہ اور فارغ ہو جائے تو یہ حصہ ہم صوبہ سرحد والوں کو دے دیں گے.اِس صورت میں صوبہ سرحد والوں کا فرض ہو گا کہ وہ ایک ترجمہ قرآن کا خرچ اور ایک ترجمہ قرآن کی چھپوائی کا خرچ، اسی طرح اسلامی کتب میں سے کسی ایک کتاب کے ترجمہ کا خرچ اور کسی ایک کتاب کی چھپوائی کا خرچ اپنے اوپر برداشت کریں.یہ حصہ تمام شمال مغربی ہے اسلامی حلقہ میں تقسیم ہو جائے گا.اور چونکہ میں اس چندہ میں ساروں کو شامل کر نا چاہتا ہوں اس لیے صوبہ سرحد میں صرف صوبہ سرحد اور اُس کی جماعتیں شامل نہیں ہوں گی بلکہ صوبہ سندھ بھی شامل ہو گا.اسی طرح بلوچستان کا علاقہ بھی اسی میں شامل ہو گا.پھر نہ صرف سندھ اور بلوچستان صوبہ سرحد کے ساتھ شامل ہوں گے بلکہ جس قدر شمال مغربی اضلاع حلقہ لاہور میں شامل نہیں کیے جاسکے وہ سب کے سب اس میں شامل ہوں گے.چنانچہ جہلم، گجرات، راولپنڈی، میانوالی، کیمل پور، مظفر گڑھ، ڈیرہ غازی خان، ملتان، منٹگمری، جنگ، سرگودھا اور لائل پور تمام اضلاع اسی حلقہ میں شامل ہوں گے.اسی طرح ریاست کشمیر بھی، اسی طرح جس قدر اسلامی ممالک اس تحریک میں حصہ لینا چاہیں ان کا چندہ بھی اسی حلقہ میں شمار ہو گا.ہے

Page 643

خطبات محمود 643 $1944 مثلاً ایران، افغانستان، عراق، شام، فلسطین اور مصر وغیرہ اسلامی ممالک کی طرف سے اگر چندہ آیا تو وہ بھی اسی حلقہ میں شمار کیا جائے گا.اب گویا ایک قرآن قادیان والوں کے حصہ میں آگیا، ایک قرآن لجنہ اماء اللہ کے حصہ میں آگیا، ایک قرآن حلقہ لاہور کے حصہ میں آگیا ایک قرآن حلقہ کلکتہ کے حصہ میں آگیا اور ایک قرآن صوبہ سرحد کے حصہ میں آگیا.اب رہاد ہلی.دہلی میں چودھری ظفر اللہ خان صاحب نے ایک ترجمۃ القرآن کے متعلق اپنا حصہ لیا ہوا ہے.اگر اللہ تعالیٰ اُن کو توفیق دے اور وہ بھی جماعت کے لیے اپنے اس حق کو چھوڑ دیں اور جو چندہ اُنہوں نے دینا ہے وہ اس حلقہ والوں کو دے دیں تو اس طرح قرآن کریم کے ایک ترجمہ کا خرچ اور قرآن کریم کے ایک ترجمہ کی چھپوائی کا خرچ، اسی طرح اسلامی کتب میں سے ایک کتاب کے ترجمے کا خرچ اور ایک کتاب کی چھپوائی کا خرچ دہلی والوں کے حصہ میں آجاتا ہے.اس حلقہ میں بعض اُن اضلاع کو بھی شامل کرتا ہوں جو دوسرے حلقوں میں نہیں آسکے.جیسے جالندھر ، ہوشیار پور ، لدھیانہ ، انبالہ، ریاست ہائے پٹیالہ ، نابھ ، مالیر کوٹلہ وغیرہ ہیں.میں اس علاقہ کو دہلی کے حلقہ میں ہی شامل کرتا ہوں.اسی طرح یوپی اور بہار وغیرہ کا چندہ بھی حلقہ دہلی میں شامل سمجھا جائے گا.گویا ہندوستان کا تمام شمالی اور مشرقی اور مغربی حصہ اس تحریک میں شامل ہو گیا.اب صرف ایک ترجمہ رہ جاتا ہے جس کے اخراجات کو پورا کرنا میں حیدر آباد کے حلقہ کے سپرد کرتا ہوں.ایک ترجمہ قرآن کا خرچ زیر بحث تھا وہ اب میں اس حلقہ کو دیتا ہوں.گویا (1) ایک ترجمہ قادیان کی جماعت کی طرف سے ہو گا (2) ایک لجنہ اماء اللہ کی طرف سے (3) ایک حلقہ لاہور کی طرف سے (4) ایک حلقہ صوبہ سرحد کی طرف سے (5) ایک حلقہ کلکتہ کی طرف سے (6) ایک حلقہ دہلی کی طرف سے (7) ایک حلقہ حیدر آباد کی طرف سے.حیدر آباد سکندر آباد کے حلقہ میں ناگپور، میسور، بہار، مدراس، بمبئی اور ان صوبوں سے ملحقہ ریاستیں سب شامل ہوں گی.اسی طرح سیلون بھی حیدر آباد کے حلقہ میں شامل ہو گا اور افریقہ کے مشرقی اور مغربی علاقے جو اس تحریک میں حصہ لینا چاہیں وہ بھی نہی حیدر آباد دکن کے ساتھ شامل ہوں گے.اگر ان کی طرف سے کوئی چندہ آیا تو وہ اس حلقہ میں ہے شامل ہو گا.میں سمجھتا ہوں یورپین لوگوں میں خواہش ہو سکتی ہے کہ وہ قرآن کریم کے

Page 644

خطبات محمود 644 $1944 ان تراجم کے اخراجات میں حصہ لیں اور ہم اُن کی خواہش کو بھی نظر انداز نہیں کر سکتے.انگلستان میں تو چھوٹی جماعت ہے مگر امریکہ میں خدا کے فضل سے ہزاروں نو مسلم ہماری جماعت میں شامل ہیں اور بالکل ممکن ہے کہ جب اُن کے پاس یہ تحریک پہنچے تو ان کے دلوں میں بھی یہ خواہش پیدا ہو کہ انہیں اس تحریک میں حصہ لینے کا موقع ملنا چاہیے.اس لیے میں ہے یورپین ممالک کو قادیان کے حلقہ میں شامل کرتا ہوں تاکہ دنیا کا کوئی حصہ بھی ایسا باقی نہ رہے ہے جس کو اس تحریک میں شامل ہونے کا موقع نہ ملا ہو.جاوا، سماٹر ا وغیرہ علاقے اس وقت جنگ کی آگ میں گھرے ہوئے ہیں ان کی طرف سے کچھ رقم بطور ثواب کلکتہ کے حلقہ میں شامل کر دی جائے گی تا یہ لوگ بھی اس تحریک میں شامل ہو جائیں.اطالین زبان کے ترجمہ کے متعلق چونکہ میں نے یہ اعلان کیا تھا کہ قرآن کریم کا ترجمہ میری طرف سے شائع ہو گا اور اب میں نے اپنے حق کی قربانی کر کے اُس چندہ کو جماعت قادیان کے چندہ میں منتقل کر دینے کا اعلان کیا ہے اس لیے میں یہ بھی تصریح کر دینا چاہتا ہوں کہ چونکہ میر اچندہ اب قادیان کے چندہ میں جمع ہو گا اور میں نے اطالین زبان کا ترجمہ اپنے لیے مخصوص کیا ہوا تھا اس لیے اب اطالین زبان میں قرآن کریم کا ترجمہ اور اطالین زبان میں قرآن کریم کے ترجمہ کی چھپوائی، اسی طرح اطالین زبان میں سلسلہ کی کسی ایک کتاب کا ترجمہ اور اطالین زبان میں سلسلہ کی کسی ایک کتاب کی چھپوائی قادیان کی جماعت می کے چندہ سے ہو گی.دوسری زبان جرمن ہے.جرمنی میں مسجد قائم کرنے میں چونکہ ہماری جماعت کی عورتوں نے حصہ لیا تھا اس لیے میں اُن کی اس نیکی کی یاد گار کے طور پر اعلان کرتا ہے ہوں کہ جرمن زبان میں قرآن کریم کا ترجمہ اور جرمن زبان میں قرآن کریم کے ترجمہ کی چھپوائی، اسی طرح جرمن زبان میں کسی ایک کتاب کا ترجمہ اور جرمن زبان میں کسی ایک کتاب کی چھپوائی لجنہ اماء اللہ کے چندہ سے ہو گی.تیسری زبان ڈچ ہے جس پر کلکتہ کے حلقہ کی می طرف سے جمع شدہ روپیہ خرچ کیا جائے گا.گو یاڈچ زبان میں قرآن کریم کا ترجمہ اور ڈچ زبان میں قرآن کریم کے ترجمہ کی اشاعت، اسی طرح ڈچ زبان میں کسی ایک کتاب کا ترجمہ اور ڈچ زبان میں کسی ایک کتاب کی چھپوائی حلقہ کلکتہ کے چندہ کے ذریعہ سے ہوگی.کیونکہ جادا اور ہے

Page 645

$1944 645 خطبات محج محمود ހނ سماٹرا کا ان علاقوں کے ساتھ تعلق ہے جن میں کئی کروڑ مسلمان آبادی ہے اور وہ ڈچ حکومت کے ماتحت رہتے ہیں اُن میں تبلیغ کرنے کے لیے ضروری ہے کہ کلکتہ کی طرف.جو ترجمۃ القرآن شائع ہو وہ ڈچ زبان میں ہو.دہلی کی زبان اردو ہے جو ہندوستان کی لینگو افری (LINGUA FRANCA) کہلاتی ہے دوسری طرف یورپ کی لینگو افرینکا ہے فرانسیسی زبان کہلاتی ہے.اس مناسبت کی بناء پر میں اعلان کرتا ہوں کہ فرانسیسی زبان میں ہے قرآن کریم کا ترجمہ اور فرانسیسی زبان میں قرآن کریم کے ترجمہ کی چھپوائی ، اسی طرح فرانسیسی زبان میں اسلامی کتب میں سے ایک کتاب کا ترجمہ اور فرانسیسی زبان میں اسلامی کتب میں سے کسی ایک کتاب کی چھپوائی حلقہ دہلی کے چندہ سے ہو گی.اور چونکہ میں نے اسلامی ممالک کو صوبہ سرحد والے علاقہ میں شامل کر لیا ہے اور ان علاقوں میں رہنے والوں کا فرض ہے کہ وہ امین اپنی اُس ذمہ داری کو ادا کریں جو اُن پر اپنے اُن آباء و اجداد کی طرف سے عائد ہوتی ہے جنہوں نے مدتوں تک سپین پر حکومت کی اور پھر بزدلی سے اس ملک کو چھوڑ دیا اس لیے میں ہسپانوی زبان میں قرآن کریم کے ترجمہ کا خرچ اور ہسپانوی زبان میں قرآن کریم کے ترجمہ کی اشاعت کا خرچ، اسی طرح ہسپانوی زبان میں کسی ایک کتاب کا ترجمہ اور ہسپانوی زبان میں کسی ایک کتاب کی اشاعت کا خرچ صوبہ سرحد کے حلقہ پر ڈالتا ہوں.اور فیصلہ کرتا ہوں کہ یہ ترجمہ اُن کے جمع کر دہ چندہ سے شائع کیا جائے.پرتگیزی زبان میں قرآن کریم کے ترجمہ اور اُس کی اشاعت کا خرچ، اسی طرح اسلامی کتب میں سے کسی ایک کتاب کا پرتگیزی زبان میں ترجمہ اور اس کی اشاعت کا خرچ میں حیدر آباد دکن کے سپر د کر تا ہوں.یہ ترجمہ اس حلقہ کے چندہ سے شائع کیا جائے گا.کیونکہ پرتگیز ہندوستان میں اسی علاقہ سے آئے تھے اور اب تک اُن کی - نو آبادیاں اِس علاقہ میں موجود ہیں.اسی طرح بمبئی اور مدراس وغیرہ سے اُن علاقوں کی طرف جہاز جاتے رہتے ہیں جہاں پر تگیزی زبان بولی جاتی ہے.اسی طرح روسی زبان میں ہے قرآن کریم کے ترجمہ اور اس کی چھپوائی اور ایک اسلامی کتاب کے ترجمہ اور اس کی چھپوائی کا خرچ میں لاہور کے حلقہ کے ذمہ لگاتا ہوں کہ یہ علاقہ اس وقت کمیونسٹ تحریک کا مصنوعی یا حقیقی مرکز بنا ہوا ہے.غرض سات زبانوں میں تراجم قرآن سات حلقوں کی طرف سے

Page 646

$1944 646 محمود ہو گئے.ایک حلقہ کی طرف سے صرف ایک زبان میں قرآن کریم کے ترجمہ اور اُس کی اشاعت کا خرچ، اسی طرح ایک زبان میں کسی ایک کتاب کے ترجمہ اور اُس کی اشاعت کا خرچ لیا جائے گا.میں سمجھتا ہوں اگر وہ لوگ جنہیں زائد حصہ دیا گیا تھا قربانی اور ایثار سے کام لیتے ہوئے اس موقع پر اپنے حق کو ترک کر دیں تو یہ دوسرے لوگوں کی دلجوئی اور ان کی خوشی کا ہے موجب ہو گا.انہیں اللہ کی طرف سے جو ثواب ملنا تھا وہ تو مل گیا.کیونکہ جب انہوں نے ہے میری طرف سے ایک آواز کے بلند ہونے پر اپنا وعدہ لکھوا دیا تو اللہ تعالیٰ نے اُن کو ثواب دے دیا.پس اگر وہ اس موقع پر اپنے حق ترک کر دیں گے تو اس سے ان کے ثواب میں ہے کوئی فرق نہیں آسکتا اور نہ اُن کے اخلاص میں اس سے کوئی کمی آئے گی.انہوں نے اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے جو وعدہ کیا تھا اُس کا ثواب خدا نے اُن کو دے دیا.اب اگر وہ چاہیں تو قربانی ہے کر کے اپنے اس حق کو اوروں کے لیے ترک کر دیں تاکہ اُن کے وہ بھائی جو اب تک اس ثواب می میں شامل نہیں ہو سکے اور جن کے دل اس شوق سے تڑپ رہے ہیں کہ انہیں بھی اس تحریک میں میں شمولیت کا موقع ملے وہ بھی اس میں شامل ہو جائیں اور ان کے دل بھی اطمینان اور سکون حاصل کریں.لیکن اگر وہ اپنے حق کو ترک کرنا نہ چاہیں تو پھر دوسرے لوگوں کو چاہیے کہ وہ ان صبر سے کام لیں اور قرآن کریم کے کسی ترجمہ کی چھپوائی اور ایک کتاب کے ترجمہ اور چھپوائی ہے پر کفایت کریں.اللہ تعالیٰ ان کے لیے نیکیوں میں حصہ لینے کے اور کئی راستے کھول دے گا.بہر حال میں نے اپنا حق چھوڑ دیا ہے اور لجنہ اماءاللہ کو جو ایک زائد حق دے دیا گیا تھا وہ بھی میں نے اس سے واپس لے لیا ہے.باقی دوستوں کی طرف سے بعض درخواستیں آئی تھیں میں جن کو قبول کر لیا گیا اور چونکہ میں نے اُن کے وعدوں کو منظور کر لیا تھا اس لیے میں اُنہیں حکما تو نہیں کہہ سکتا کہ وہ اپنے حق کو چھوڑ دیں لیکن میں نے اپنی مثال ان کے سامنے پیش ہیں کر دی ہے.اور میں امید کرتا ہوں کہ وہ میری اِس مثال کو سامنے رکھتے ہوئے خود بھی دوسروں کے لیے نمونہ پیش کریں گے اور اپنے حصہ کو بعض دوسری جماعتوں اور افراد کے لیے چھوڑ دیں گے.اور اپنا موعودہ چندہ ان جماعتوں کے چندہ میں شامل کر دیں گے تاکہ انہیں بھی اس ثواب میں شامل ہونے کا موقع مل سکے.اس تقسیم کے مطابق

Page 647

خطبات محمود 647 $1944 اٹھائیس اٹھائیس ہزار روپیہ کے سات و عدے بن جاتے ہیں.گو میں یہ بھی سمجھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے بعض حلقے ایسے ہیں جن کی طرف سے اس سے بھی زیادہ چندہ وصول ہونے کی امید ہے.گورداسپور کے ضلع کے متعلق میں یہ اعلان کرتا ہوں کہ اس کا چندہ قادیان میں ہی شامل ہو گا.پس گورداسپور کے ضلع میں سے جو دوست خواہش رکھتے ہوں کہ انہیں اس تحریک میں شامل ہونے کا موقع ملے وہ اپنا چندہ مرکز میں بھیجوا دیں.اُن کا چندہ قادیان کے چندہ میں شامل کر لیا جائے گا.میں نے بتایا ہے کہ بعض اضلاع کے متعلق میں سمجھتا ہوں کہ اگر اللہ تعالیٰ کا فضل شامل حال ہوا تو مطلوبہ رقم سے بھی زیادہ رقم ان کی طرف سے جمع ہو جائے گی اور اس بات کی ضرورت بھی ہے کیونکہ تراجم کے خرچ کے متعلق میر اپہلے جو اندازہ تھاوہ غلط ثابت ہوا ہے.میں نے فی کتاب ایک ہزار روپیہ ترجمہ کے خرچ کا اندازہ لگا یا تھا اور میں نے سمجھا تھا کہ چونکہ کتابیں چھوٹی بڑی ہوں گی اِس لیے کسی کتاب کے ترجمہ پر پانچ چھ سو روپیہ خرچ آجائے گا اور کسی پر ہزار یا اس سے زائد ، اور اس طرح مل کر ایک ہزار روپیہ فی کتاب ترجمہ کے خرچ کی اوسط نکل آئے گی.لیکن میرا یہ اندازہ صحیح ثابت نہیں ہوا.مثلاً حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کتاب " اسلامی اصول کی فلاسفی" کے متعلق میرا اندازہ تھا کہ چونکہ یہ چھوٹی سی کتاب ہے اس لیے پانچ چھ سو روپیہ میں اس کا ترجمہ ہو جائے گا.مگر میرے اندازہ سے اِس کے حروف زیادہ نکلے اور اس طرح اس کے ترجمہ کا خرچ بڑھ گیا.غرض تراجم کے متعلق جو انتظام کیا گیا ہے اُس کے متعلق اخراجات کا جو پہلا اندازہ تھا اُس سے زیادہ کا مطالبہ کیا جا رہا ہے.اسی طرح " احمدیت " کے متعلق میرا خیال تھا کہ اس کا ڈیڑھ ہزار روپیہ میں ترجمہ ہو جائے گا اور چھوٹی بڑی کتاب مل کر ایک ہزار روپیہ فی کتاب ترجمہ پر خرچ آجائے گا.لیکن احمدیت" کے ترجمہ کے متعلق مجھے ولایت سے یہ اطلاع آئی ہے کہ سات زبانوں میں اس کا ترجمہ اڑھائی سو پونڈ میں ہو گا.جس کے معنے یہ ہیں کہ پانچ ہزار روپیہ محض ہے " احمدیت" کے ایک زبان میں ترجمہ کرنے پر خرچ ہو گا.پس میرا اندازہ جو ڈیڑھ ہزار روپیہ کا تھا وہ غلط ثابت ہوا.میں سمجھتا ہوں کہ گو ہماری طرف سے اٹھائیس اٹھائیس ہزار روپیہ کا ہی مطالبہ کیا گیا ہے لیکن امید ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے بعض حلقوں کی رقوم اس سے بڑھ

Page 648

خطبات محمود 648 $1944 جائیں گی اور اس طرح اندازہ سے زائد جو اخراجات ہوں گے وہ اِنشَاءَ اللہ پورے ہو جائیں گے.لیکن اگر روپیہ خدانخواستہ کم اکٹھا ہوا تو پھر قرآن کریم کے تراجم کو مقدم رکھا جائے گا.اگر قرآن کریم کے تراجم اور ان کی اشاعت کے اخراجات کے بعد روپیہ بچا تو وہ دوسری کتب کے ترجمہ اور اُن کی اشاعت پر خرچ کیا جائے گا ورنہ جس قدر روپیہ باقی بچا اُسی کے مطابق کتابیں شائع کی جائیں گی یعنی جس قدر زبانوں میں اِس وقت ترجمہ کرایا جائے گا جب ان کے لیے روپیہ ہمارے پاس جمع ہو گا.بہر حال مقدم قرآن کریم کا ترجمہ اور اس کی اشاعت ہو گی.اور چونکہ یہ کام اپنے اندر بہت بڑی وسعت رکھتا ہے اور ہر جماعت اپنے اپنے حلقہ کی خود نگرانی نہیں کر سکتی اس لیے میں ایک دفعہ پھر دفتر تحریک جدید کو توجہ دلاتا ہوں کہ اس تحریک کی نگرانی کرنا، اس کی کامیابی کے لیے متواتر جد و جہد کرنا، لوگوں سے چندہ وصول کرنا، ان کا با قاعدہ حساب رکھنا اور وعدہ کرنے والوں کو اپنے وعدوں کی ادائیگی کی طرف بار بار توجہ دلاتے رہنا یہ تحریک جدید کے مرکزی کارکنوں کا فرض ہے.صرف مقامی جماعتوں پر ہی اس کی ذمہ داری نہیں.بے شک وہ جماعتیں بھی ذمہ دار ہوں گی کہ اِس بوجھ کو اٹھائیں مگر مرکز اپنی نگرانی کے فرض سے سبکدوش نہیں ہو سکتا.میں اس موقع پر پھر یہ کہہ دینا چاہتا ہوں کہ میری طرف سے وہ شرط برابر قائم ہے جس کا میں ایک دفعہ پہلے بھی اعلان کر چکا ہوں کہ اگر کوئی جماعت اس بوجھ کو نہیں اُٹھا سکتی تو وہ بیشک ہمیں اطلاع دیدے.ہم یہ انعام اُس کی بجائے کسی اور کو دے دیں گے.لیکن اگر وہ جماعتیں خوشی سے اس بوجھ کو اُٹھا لیتی ہیں تو اس کے بعد گو اصل ذمہ داری ان جماعتوں پر بھی عائد ہو گی اور ان کا یہ ذاتی فرض ہو گا کہ وہ ہمیں اپنے وعدوں کو پورا کریں اور چندوں کی ادائیگی کی کوشش کریں.لیکن مرکز اپنی ذمہ داری سے فارغ نہیں ہو گا.بلکہ مرکز کی ذمہ داری ان کے ساتھ شامل ہو گی.مرکز کو اس تحریک کے ہے متعلق اس طرح کوشش کرنی چاہیے کہ گویا ان علاقوں پر کوئی ذمہ داری نہیں.اور ان علاقوں میں ہے رہنے والوں کو اس تحریک کے متعلق اس طرح کوشش کرنی چاہے کہ گویا مر کز پر کوئی ذمہ داری ہے نہیں.یہ ذمہ داری جو مرکز پر عائد کی جارہی ہے میری طرف سے ہے.جماعتوں کا یہ حق نہیں ہو گا کہ وہ بعد میں یہ کہیں کہ چونکہ مرکز نے ہماری مدد نہیں کی تھی اِس لیے ہم

Page 649

$1944 649 خطبات محمود ا.اپنے وعدوں کو پورا نہیں کر سکے.وہ اپنی اپنی جگہ اس بات کے ذمہ دار ہوں گے کہ جو اخراجات اُن کے حلقہ کے سپر د کیے گئے ہیں اُن کو وہ جلد سے جلد پورا کریں.وہ اس تحریک کو اپنے علاقوں میں پھیلائیں، لوگوں کو اس سے واقف کریں، اُن سے جلد سے جلد وعدے لیں اور پھر وہ وعدے دفتر فنانشل سیکرٹری تحریک جدید میں بھجوا دیں.کیونکہ چندہ کی وصولی براہِ راست مرکز کی طرف سے ہو گی.وصولی کرنا ان کا کام نہیں مگر ان کا یہ فرض ضرور ہے کہ وہ اپنے اپنے حصہ کی رقم جلد سے جلد پوری کریں.وعدے مرکز کو بھجوائیں اور پھر ان وعدوں کی ادائیگی کا فکر کریں.دفتر تحریک جدید والوں کو چاہیے کہ وہ ان حلقوں کے متعلق الگ الگ ہے کھاتے اور رجسٹر تیار کر لیں.ایک حلقہ وسطی ہے جس میں لاہور اور اس سے تعلق رکھنے والے اضلاع شامل ہیں.ایک حلقہ مغربی ہے.ایک حلقہ قادیان کا ہے.ایک حلقہ لجنہ اماء اللہ کا ہے.ایک حلقہ وسطی ہند کا ہے.ایک حلقہ مشرقی ہند کا ہے اور ایک حلقہ جنوب مغربی ہے.حلقے ہیں جو مقرر کیے گئے ہیں اور ان حلقوں کے نام پر الگ الگ چندے جمع ہوں گے.پس تحریک جدید والے بھی سات الگ الگ کھاتے کھول لیں اور پھر خط و کتابت کے ذریعہ ہر ضلع کی جماعتوں اور اُن کے پریذیڈنوں اور سیکرٹریوں کو اس تحریک کی طرف توجہ دلائیں.اس کے غرض کے لیے اگر انہیں زائد عملہ کی ضرورت ہو تو وہ فوراً مجھ سے اس کی منظوری لے کر اپنے عملہ میں اضافہ کر لیں.لیکن بہر حال میں تحریک جدید والوں سے یہ نہیں سنوں گا کہ اس کی ذمہ داری ان پر نہیں تھی بلکہ جماعتوں پر تھی جس طرح میں جماعتوں سے یہ نہیں سنوں گا کہ اس کی ذمہ داری مرکز پر تھی جماعتوں پر نہیں تھی.ان جماعتوں کا یہ حق ہے کہ اگر وہ اس میں بوجھ کو برداشت کرنے کی اپنے اندر طاقت نہیں رکھتیں تو اسی وقت انکار کر دیں.خدا تعالیٰ کے فضل سے ہماری جماعت میں اور بہت سے افراد ایسے ہیں جو اس بوجھ کو خوشی سے اٹھالیں گے.لیکن اگر وہ انکار نہیں کرتے بلکہ خوشی سے اس ذمہ داری کو قبول کرتے ہیں تو اس کے بعد اُن کی طرف سے کوئی عذر نہیں سنا جائے گا اور اُن کا فرض ہو گا کہ وہ اس روپیہ کو پورا کریں.خواہ چند افراد سے لے کر پورا کریں اور خواہ ساری جماعتوں سے لے کر پورا کریں.گو مناسب یہی ہے کہ اس تحریک کو وسیع سے وسیع تر کیا جائے اور زیادہ سے زیادہ لوگوں کو اس میں ہے

Page 650

$1944 650 خطبات محمود شامل ہونے کا موقع دیا جائے.دوسرے اِس امر کو بھی مد نظر رکھنا چاہیے کہ دو تین ہفتہ تک میری طرف سے تحریک جدید کے نئے دور کا اعلان ہونے والا ہے.تحریک جدید تبلیغ احمدیت کے لیے ایک بنیاد کے طور پر ہے اور کتابیں اور لٹریچر وغیرہ ہتھیار کے طور پر ہیں.بے شک ہتھیار بھی نہایت ضروری ہوتے ہیں لیکن جس طرح ہتھیار کے بغیر سپاہی کسی کام کا نہیں ہوتا اسی طرح اگر سپاہی نہ ہوں تو وہ ہتھیار بھی کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکتے.اچھے سپاہی کے لیے اچھے ہتھیاروں کا ہونا ضروری ہے اور اچھے ہتھیاروں کے لیے اچھے سپاہی کی موجودگی ضروری ہے.پس میں دوستوں کو یہ بتا دینا چاہتا ہوں کہ انہوں نے صرف ایک تحریک میں حصہ نہیں لینا بلکہ عقریب تحریک جدید کا بار بھی اُن پر پڑنے والا ہے.میں جماعت کے مخلصین سے امید رکھتا ہے ہوں کہ وہ خدا تعالیٰ کی رضا اور اُس کے دین کی خدمت کے لیے ہر بوجھ کو خوشی سے برداشت کریں گے اور اپنے ثبات و استقلال کو قائم رکھتے ہوئے قربانیوں کے میدان میں بڑھتے چلے جائیں گے.کیونکہ ہمارا کام بہت وسیع ہے.ہماری ذمہ داریاں بہت اہم ہیں اور ہمارے فرائض اتنے نازک ہیں کہ ہماری ذرا سی غفلت اور ذراسی کو تاہی بھی بہت بڑے نقصان کا موجب بن سکتی ہے.میں ابھی اس کے متعلق کچھ کہنا نہیں چاہتا کہ یہ تحریک کس رنگ میں اور کس شکل میں جماعت کے سامنے آنے والی ہے.لیکن بہر حال میں امید رکھتا ہوں کہ مومن کا اخلاص ہر مصیبت اور ہر مشکل کے وقت اُس کے کام آتا ہے اور وہ کسی قربانی سے بھی دریغ نہیں کرتا.خواہ وہ اس کے سامنے کسی شکل میں ہی کیوں نہ پیش ہو.میں سمجھتا ہوں ہماری جماعت کا وہ طبقہ جو اپنے دلوں میں نورِ ایمان رکھتا ہے ، جو اپنے قلوب میں اخلاص اور محبت کی آگ رکھتا ہے، جس کا ایمان صرف زبانوں پر نہیں بلکہ اُس کے قلوب ایمان کی روشنی سے منور ہیں وہ اس بوجھ کو بھی اٹھائے گا اور آنے والے بوجھ کو اٹھانے کے لیے بھی پوری ہمت کے ساتھ تیار ہو گا.اور جب اس کے سامنے اُس قربانی کو پیش کیا جائے گا تو وہ انتہائی جوش کے ساتھ اس میں میں حصہ لیتے ہوئے خدا تعالیٰ کے سامنے سرخرو ہو جائے گا اور اپنے نفس کے لیے دائمی خواب میں حاصل کر لے گا.لیکن وہ جو کمزور ہیں، جو قربانیوں کے میدان میں قدم رکھتے ہوئے ہے

Page 651

خطبات محمود 651 $1944 ہچکچاتے ہیں، جن کے پاؤں میں ثبات نہیں اور جن کے ارادوں میں مضبوطی نہیں ہمیں اللہ تعالیٰ سے دعا کرنی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ اُن کو اخلاص سے حصہ عطا فرمائے، اُن کے دلوں میں دین کے لیے قربانی اور اُس کی رضا کے لیے مر مٹنے کا جوش بے انتہاء طور پر پیدا فرمائے، اُن کی غفلتوں کو دور فرمائے اور اُن کی کمزوریوں کو نیکیوں سے بدل دے تاکہ وہ ہر قسم کی قربانی پر آمادہ ہو جائیں اور خدا تعالی کی آواز سن کر آگے کی طرف بڑھیں.پیچھے کی طرف بنے ہے والوں میں سے نہ ہوں.ہم یقین رکھتے ہیں کہ ہمارے سپر د جو کام کیا گیا ہے وہ خدا تعالیٰ کا ہے اور ہم یقین رکھتے ہیں کہ یہ کام خدا تعالیٰ نے ہی کرنا ہے ہم نے نہیں کرنا اور ہم یہ بھی یقین ہے رکھتے ہیں کہ جس بات کے کرنے کا خدا تعالیٰ ارادہ کرلے وہ ہو کر رہتا ہے.جیسے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں جس بات کو کہے کہ کروں گا یہ میں ضرور ٹلتی نہیں وہ بات خدائی یہی تو ہے 2 سیہ ملنے والی بات نہیں.خدا تعالی کا فیصلہ ہے جو آخر ہو کر رہے گا.ہماری غفلتیں اس فیصلہ کو روک نہیں سکتیں.ہاں اگر ہم کوشش کریں تو ہمارے لیے یہ ایک ثواب کی بات ہوگی ہے اور ہم بھی لہو لگا کر شہیدوں میں شامل ہونے والے قرار پا جائیں گے.ہماری خواہش تو یہ ہے ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں حقیقی شہداء میں شامل فرمائے وہ شہداء جن کے ذریعہ خدا تعالیٰ کے جلال اور اُس کے جمال کا جھنڈادنیا میں بلند کیا جاتا ہے.جو اس کے عشق اور محبت کی ایک غیر فانی یادگار ہوتے ہیں اور جن پر ابد تک خدا تعالیٰ کی رحمتیں برستی رہتی ہیں لیکن جب تک ہمیں ان حقیقی شہداء میں شامل ہونے کا موقع میسر نہیں آتا ہمیں کم سے کم اتنی کوشش تو کرنی چاہیے کہ ہم می لہو لگا کر ہی شہیدوں میں شامل ہو جائیں.اگر آج ہم لہو لگا کر شہیدوں میں شامل ہونے کی کوشش کرتے ہیں تو ہماری یہی قربانی آئندہ بہت بڑی قربانیوں کا پیش خیمہ ثابت ہو گی کیونکہ وہ وقت آنے والا ہے جب خدا تعالی کی طرف سے ایک آواز بلند ہو گی اور مومنوں کو اپنی تم جانیں اسلام اور احمدیت کی حفاظت کے لیے اُس کے آستانہ پر قربان کر دینی پڑیں گی

Page 652

خطبات محمود 652 $1944 جس طرح ایک چڑیا کا خون بہاتے وقت کسی انسان کے دل میں درد پیدا نہیں ہوتا اسی طرح اُس وقت کسی قربانی میں رحم سے کام نہیں لیا جائے گا اور مومنوں کا فرض ہو گا کہ وہ آگے بڑھیں اور اپنی جانیں ایک بے حقیقت شے کی طرح اُس کے آستانہ پر قربان کر دیں.لیکن جب تک وہ وقت نہیں آتا جو حقیقی ایمان کے مظاہرہ کا وقت ہو گا اُسوقت تک ہمارے لیے ضروری ہے کہ ہم لہو لگا کر ہی شہیدوں میں شامل ہونے کی کوشش کریں تاکہ ایمان اور اخلاص اور محبت کا کوئی نہ کوئی رنگ ہم اپنے ساتھ رکھتے ہوں اور خدا تعالیٰ کے سامنے ننگے، اندھے، بہرے اور گونگے ہونے کی حالت میں نہ کھڑے ہوں.اَلْعِيَاذُ بِاللهِ".(الفضل14/اکتوبر 1944ء) 1 : لینگوا فرینکا (LINGUA FRANCA) ایسی زبان جس میں مختلف زبانیں بولنے والے تبادلہ خیال کر سکیں.2 : در ثمین اُردو.صفحہ 158.زیر عنوان متفرق اشعار

Page 653

$1944 653 40 خطبات محمود صنعت و حرفت کے متعلق اسلام کے چند اہم اصول فرموده 17 نومبر 1944ء) تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: گزشتہ دو خطبات سے پہلے میں نے اپنے ایک خطبہ جمعہ میں ذکر کیا تھا کہ تبلیغی لحاظ سے جہاں میں نے قرآن شریف کے تراجم اور بعض دوسری اسلامی کتابوں کے تراجم کی طرف توجہ دلائی ہے وہاں اسی سلسلہ میں میں ایک اور مضمون کی طرف بھی جماعت کو توجہ دلانا چاہتا ہوں اور وہ مضمون اُس کی تجارت اور صنعت کے ساتھ تعلق رکھتا ہے.آج میں اسی ہے مضمون کے متعلق اپنے بعض خیالات کا تفصیلی طور پر اظہار کرناچاہتا ہوں.دنیا میں جب کبھی مذہبی یا غیر مذہبی جماعتیں بڑھتی اور ترقی کرتی ہیں تو ان کے کام بھی ساتھ ہی ساتھ بڑھتے چلے جاتے ہیں.فرض کرو پہلے ایک جماعت زمینداروں کے ساتھ تعلق رکھتی ہے تو پھر ترقی کر کے وہ ملازموں کو اپنے اندر شامل کرنا شروع کر دیتی ہے.پھر ہم مزدور پیشہ لوگوں کو وہ اپنے اندر شامل کرنا شروع کر دیتی ہے.پھر کاریگر اُس میں شامل ہوتے ا ہیں.پھر صناع اُس میں شامل ہوتے ہیں.پھر تاجر اس میں شامل ہوتے ہیں.اور ہر ایک جماعت جو اس بڑی جماعت میں آکر داخل ہوتی ہے وہ اپنے ساتھ اپنی روایتیں لاتی ہے، ا

Page 654

$1944 654 خطبات محمود اپنے ساتھ اپنی خوبیاں لاتی ہے.اور اپنے ساتھ اپنے نقائص بھی لاتی ہے بہر حال بڑھنے والی جماعت مجبور ہے کہ وہ چاروں گوشوں میں ترقی کرے.اگر وہ چاروں طرف ترقی نہیں کرے گی تو وہ ایک بیمار جسم کی صورت اختیار کر لے گی.جیسے اچھا درخت وہی ہوتا ہے جس کی شاخیں چاروں طرف پھیلی ہوئی ہوں.اگر کسی درخت کی شاخیں صرف ایک طرف نکلی ہوئی ہوں یا دو طرف پھیلی ہوئی ہوں یا صرف تین طرف پھیلی ہوئی ہوں تو ہر شخص دیکھ کر اسے میں بیمار اور کمزور قرار دے گا.اعلیٰ درجے کا درخت قرار نہیں دے گا.پس مذہبی جماعت ہو یا دنیا کی کوئی اور جماعت ہو جب کبھی ترقی کرے گی اُس کے کاموں میں تنوع پید ا ہو تا چلا جائے گا، اُس کے کاموں کی مختلف قسمیں نکلتی آئیں گی اور اُس کے کاموں کا دائرہ وسیع سے وسیع تر ہوتا چلا جائے گا.اُس کی مثال بالکل بچہ کی سی ہوتی ہے کہ جب وہ بڑھتا ہے تو اس کے تمام ہے اعضاء متناسب طور پر بڑھتے چلے جاتے ہیں.پہلے تو اُس کے جسم کے سارے اعضاء بنتے ہیں اور پھر سارے اعضاء ترقی کرتے جاتے ہیں.اسی طرح جوں جوں وہ جماعت طاقت پکڑتی جاتی ہے اُس کے باقی ماتحت حصے بھی اُس کے ساتھ ہی ترقی کرتے چلے جاتے ہیں.بچہ جب بڑھتا ہے تو یہ نہیں ہوتا کہ اُس کے ہاتھ چھوٹے رہ جائیں اور پاؤں بڑھ جائیں، یا پاؤں چھوٹے رہ جائیں اور میں ہاتھ بڑھ جائیں، یا سر تو بڑھتار ہے مگر سینہ نہ بڑھے، یاسینہ تو بڑھے مگر سر چھوٹا ہے ایسا نہیں ہوتا ہے بلکہ اس کی ساری چیزیں یکساں طور پر ترقی کرتی ہیں.اسی طرح جب کوئی جماعت پھیلنے لگتی ہے تو می جہاں اُس کے پھیلنے کے ساتھ دین ترقی کرتا ہے وہاں اُس کی دنیا بھی بڑھتی چلی جاتی ہے.ہاں یہ امر بھی یاد رکھنا چاہیے کہ مذہبی جماعتیں اپنی ترقی کی نسبت تین قسم کے خیالات رکھتی ہیں:.(1) بعض جماعتوں کا یہ خیال ہے کہ مذہب نام ہی اس بات کا ہے کہ دنیا کو چھوڑ دیا جائے اور کلی طور پر تمام افراد اپنے تمام اوقات دینی کاموں میں مشغول رکھیں.ایسی جماعتیں یا تو دنیا ہے میں صرف تصوف کا ایک سلسلہ ہو کر رہ گئی ہیں اور یا پھر وہ اپنی بات پر عمل نہیں کر سکیں.بہت سے سادھو اور فقیر دنیا میں ایسے نظر آتے ہیں جو اس قسم کی تعلیم دیتے ہیں کہ دنیا کمانی من نہیں چاہیے، کارخانوں کو جاری نہیں کرنا چاہیے، تجارتوں میں مشغول نہیں ہونا چاہیے ، میں

Page 655

$1944 655 خطبات محمود زمیندارہ کام کی طرف توجہ نہیں کرنی چاہیے بلکہ ان تمام کاموں کو چھوڑ کر صرف خدا تعالیٰ کی یاد اور اُس کی محبت میں اپنی عمر گزار دینی چاہیے.مگر ایسی جماعتیں ہزاروں اور لاکھوں.آگے کبھی نہیں بڑھیں.کیونکہ وہ فطرت انسانی کے خلاف تعلیم دیتی ہیں اور اگر کوئی جماعت باوجود اس تعلیم کے بڑھی ہے تو وہ اس تعلیم کو پس پشت پھینک کر بڑھی ہے اس پر عمل کر کے نہیں بڑھی.مثلاً حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی طرف یہ بات منسوب کی جاتی ہے کہ انہوں نے ایک شخص سے کہا پہلے اپنا مال لٹاؤ اور پھر میرے پاس تعلیم حاصل کرنے کے لیے آؤ.یا کہا جاتا ہے کہ انہوں نے اپنے حواریوں سے یہ بات کہی کہ " اونٹ کا سوئی کے ناکے میں سے نکل جانا اس سے آسان ہے کہ دولت مند خدا کی بادشاہت میں داخل ہو".1 یہ تعلیم ہے جو حضرت مسیح علیہ السلام نے دی اور جس کا موجودہ انا جیل میں ذکر آتا ہے.اب دیکھنے والی بات یہ ہے کہ بے شک عیسائی بڑھے اور اُنہوں نے دنیا میں خوب ترقی کی لیکن کیا عیسائیوں کی ترقی اس تعلیم پر عمل کرنے کے نتیجہ میں ہوئی یا اس تعلیم کو رڈ کرنے اور اس کو اپنی پیٹھ کے پیچھے ہے پھینک دینے کے نتیجہ میں ہوئی؟ ہر شخص جو ذرا بھی عقل و فہم سے کام لے سمجھ سکتا ہے کہ عیسائیوں کی ترقی اس تعلیم کا نتیجہ نہیں بلکہ اِس تعلیم سے منہ پھیر لینے کا نتیجہ ہے.بے شک دنیا میں سب سے زیادہ مال آج عیسائیوں کے پاس ہے، دنیا میں سب سے زیادہ کارخانے آج عیسائیوں کے قبضہ میں ہیں، دنیا کی تجارتوں کا اکثر حصہ یورپین اقوام کے ہاتھ میں ہے.اسی طرح زراعت پر ان کا قبضہ ہے، مختلف پیشوں اور فنون پر ان کا تسلط ہے.اور ہم تسلیم کرتے ہیں کہ عیسائیت نے ترقی کی مگر حضرت مسیح کی طرف جو تعلیم منسوب کی جاتی تھی اُسے توڑ کر اور اُس کی خلاف ورزی کر کے انہوں نے ترقی کی ہے اس تعلیم پر عمل کر کے ترقی نہیں کی.(2) پھر بعض قو میں ایسی ہیں جو کہتی ہیں کہ مذہب کو دولت کمانے کے ذرائع سے کوئی واسطہ نہیں.دین اور مذہب عقیدہ سے تعلق رکھنے والی چیز ہے.مذہب کا اس بات سے کیا تعلق.کہ ہم کیا کماتے ہیں، کس طرح کماتے ہیں اور کن ذرائع سے کماتے ہیں.ایسی جماعتوں نے بے شک دنیا میں ترقی کی مگر اُن کا مذہب ایک مُرجھائی ہوئی جھاڑی کی طرح رہ گیا.وہ جماعتیں بے شک دنیا میں بڑھیں اور انہوں نے خوب ترقی کی مگر اس نظریہ کا نتیجہ یہ ہوا کہ ہمیں ہے

Page 656

$1944 656 خطبات محمود صرف دنیا ہی دنیا ان کے پاس رہ گئی دین اور مذہب کے ساتھ اُن کا کوئی تعلق نہ رہا.(3) ان دونوں اصول کے خلاف اسلام نے ایک اور تعلیم بنی نوع انسان کے سامنے پیش کی ہے اور وہ یہ کہ اسلام کہتا ہے ہم دنیا کمانے سے تمہیں منع نہیں کرتے بلکہ قرآن کریم وہ کتاب ہے جس میں مال کا نام فضل اللہ رکھا گیا ہے 2 اور بتایا گیا ہے کہ مال و دولت کا میسر آنا بھی اللہ تعالیٰ کے فضلوں میں سے ایک فضل اور اُس کے انعامات میں سے ایک بہت بڑا انعام ہے.پس اسلام دنیا کمانے اور مال و دولت حاصل کرنے سے نہیں روکتا.اسلام کہتا ہے کہ بے شک تم دنیا کماؤ مگر کماؤ اسلام کے قواعد کے نیچے رہتے ہوئے.یہ نہیں ہو سکتا کہ تم اسلامی احکام سے الگ ہو کر دنیا کمانے میں مشغول ہو جاؤ.تم دنیا کما سکتے ہو مگر اسلامی قواعد کی پابندی اور ان کی اپنے اطاعت کرتے ہوئے.اگر ان احکام کی پابندی کرتے ہوئے تم دنیا کماؤ تو ہم تمہیں اس سے ہم روکتے نہیں.لیکن اگر تم ان قواعد کو توڑ کر دنیا کماؤ تو ہم یہ نہیں کہہ سکیں گے کہ تم مذ ہبی آدمی ہے ہو.ایسی حالت میں تم مذہب کو چھوڑنے والے قرار پاؤ گے اور مذہب کی طرف منسوب ہونا ہے تمہارے لیے جائز نہیں ہو گا.وہ ہدایتیں جو اسلام دنیا کمانے کے متعلق دیتا ہے یا مال و دولت اپنے پاس رکھنے والوں کے متعلق دیتا ہے اُن میں سے بعض تجارت اور صنعت کے ساتھ خاص طور پر تعلق رکھتی ہیں اور بعض ایسی ہیں جو ہر ایسے شخص کے متعلق ہیں جس کے پاس کسی قسم کا مال ہو خواہ اس نے می کسی اور ذریعہ سے ہی کیوں نہ کمایا ہو.اور چونکہ میں اس وقت صرف تجارت اور صنعت کے متعلق کچھ کہنا چاہتا ہوں اس لیے میں نے ان دونوں باتوں کو جمع کر دیا ہے.وہ باتیں بھی جو خاص طور پر تجارت اور صنعت کے متعلق ہیں اور وہ باتیں بھی جو ہر اُس شخص کے متعلق ہیں جو کسی ذریعہ سے مال کمائے یا مال اس کے پاس آجائے.وہ قوائد جو اسلام نے تجویز کیے ہیں اور ہے جن کو پیش کرتے ہوئے وہ کہتا ہے کہ صنعت و تجارت منع نہیں مگر بعض حدود کے اندر لوگوں کو رہنا چاہیے اگر وہ اسلامی حد بندی کے اندر ہیں اور اس کے لیے مفید اور نفع رساں وجود بنیں تو تجارت اور صنعت جائز ہے.ورنہ یہ ایک ایسی چیز ہو گی جو روکنے کے قابل ہو گی.سارے کے سارے اصول تو میں اس وقت بیان نہیں کر سکتا.صرف چند موٹے موٹے

Page 657

خطبات محمود 657 $1944 اصول جو اسلام نے بیان کیے ہیں اُن کو میں جماعت کے سامنے پیش کرتا ہوں.پہلا قاعدہ قرآن کریم میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ اگر مسلمان رہتے ہوئے لوگ مال کمانا چاہیں تو ان کی حالت یہ ہونی چاہیے کہ لا تلهيهِمْ تِجَارَةٌ وَلَا بَيْعٌ عَن ذِكْرِ اللهِ 3 : مومنوں کو بیع و شرا خدا تعالیٰ کے ذکر سے غافل نہیں کر سکتے.پس مومن کہلانے والے بے شک تجارت کریں ، وہ بے شک خرید و فروخت کریں مگر یہ چیزیں دین کے راستہ میں روک ہے نہیں ہونی چاہیں.اسی طرح خدا تعالیٰ کے ذکر کے راستہ میں تجارت اور بیج وغیرہ حائل نہیں ہونی چاہیے.اگر ایک شخص صنعت و حرفت کے ذریعہ مال کمانا چاہتا ہے تو اسلام کہتا ہے بے شک تم مال کماؤ اور بے شک صنعت و حرفت اختیار کرو مگر دیکھو اس کے ساتھ ہی تمہیں پانچوں وقت نماز کے لیے مسجد میں آنا پڑے گا.یا اگر ایک شخص تجارت کرنا چاہے تو اسلام میں کہے گا بے شک تجارت کرو مگر تمہیں پانچ وقت روزانہ اپنی دکان بند کر کے مسجد میں آنا پڑے گا.اسی طرح اگر تجارت اور صنعت و حرفت کرتے ہوئے روزوں کے ایام آجاتے ہیں تو تمہارا فرض ہے کہ تم روزے رکھو.یہ نہ کہو کہ تجارت یا صنعت و حرفت میں مشغول رہنے کی وجہ سے روزے رکھنے ہمارے لیے مشکل ہیں.اگر یہ چیزیں نماز کے رستہ میں روک بنتی ہیں.اگر ہے یہ چیزیں روزوں کے رستہ میں روک بنتی ہیں.اگر یہ چیزیں اور کئی قسم کے دینی کاموں میں ہے روک بنتی ہیں تو اس وقت تمہارا فرض ہے کہ ان کاموں کو چھوڑ دو اور اپنے دین کو خراب ہونے سے محفوظ رکھو.لیکن اگر یہ چیزیں دین کے راستہ میں روک نہیں تو پھر بے شک دنیا کماؤ اسلام تمہیں اس سے منع نہیں کرتا.اسی طرح ذکر الہی ہے.اسلام کہتا ہے کہ پانچ نمازوں کے علاوہ ہے اپنے اوقات میں سے کچھ وقت نکال کر علیحدگی میں خدا تعالیٰ کو یاد کیا کرو، اُس کی حمد کرو، اُس کی تسبیح کرو، اس کی بڑائی بیان کرو، اس کی صفات پر غور کرو، اپنے نفس کو الہی احکام کا تابع ہے کرنے کی کوشش کرو اور اپنے قلب کو ہر قسم کی کدورتوں اور ہر قسم کے میل کچیل سے صاف ا کر کے ایک ایسا مصفی اور روشن آئینہ بن جاؤ جس میں خداتعالی کا چہرہ منعکس ہو جائے اور خدا کی صفات کا ظہور تمہارے ذریعہ سے ہونے لگے.اگر تم ایسا کرتے ہو تو پھر بے شک تم اچھے لوہار بنو ، اچھے تاجر بنو ، اچھے صناع بنو، اچھے کارخانہ دار بنو اور خوب مال کماؤ ہماری طرف سے

Page 658

$1944 658 خطبات محمود اس میں کسی قسم کی روک نہیں.کیونکہ تمہارے یہ کام ہمارے دین اور ہمارے ذکر میں حائل نہیں ہیں.پس پہلی شرط جس کو اسلام پیش کرتا ہے وہی ہے جس کا اِس آیت میں ذکر آتا ہے کہ رِجَالٌ لَّا تُلْهِيهِمْ تِجَارَةٌ وَلَا بَيْعٌ عَنْ ذِكْرِ اللهِ مومن بے شک تجارت بھی کرتے ہیں، خرید و فروخت بھی کرتے ہیں، صنعت و حرفت بھی کرتے ہیں مگر اِس اصل کو ہمیشہ مد نظر رکھتے ہیں کہ یہ چیزیں خدا تعالیٰ کے ذکر اور اُس کے دین کی مدد میں روک بن کر حائل نہ ہو جائیں.پس ایک مومن اور غیر مومن میں فرق یہ ہے کہ مومن بھی تجارت کرتا ہے اور غیر مومن بھی تجارت کرتا ہے، مومن بھی صنعت و حرفت اختیار کرتا ہے اور غیر مومن بھی صنعت و حرفت اختیار کرتا ہے مگر غیر مومن جب ان کاموں میں مشغول ہوتا ہے تو خدا تعالیٰ ہے کی طرف سے اُس کی توجہ بالکل ہٹ جاتی ہے.لیکن جب ایک مومن یہ کام اختیار کرتا ہے تو یہ چیزیں خدا تعالیٰ کے ذکر میں روک نہیں بنتیں، ان مشاغل کے باوجود اُس کی ذکر الہی کی عادت پھر بھی قائم رہتی ہے، نمازیں پھر بھی باقاعدگی سے ادا کرتا ہے، زکوۃ پھر بھی با شرح ادا کرتا ہے، روزے پھر بھی پوری احتیاط سے رکھتا ہے، حج پھر بھی استطاعت پر کرتا ہے.گویا د نیوی مشاغل دین کی خدمت کے راستہ میں روک نہیں بنتے.اور چونکہ دین کا پہلو مضبوط رہتا ہے اس لیے اسلام کہتا ہے کہ ہمیں تمہارے دنیا کمانے پر کوئی اعتراض نہیں لیکن اگر مثلاً تبلیغ کا وقت آجائے اور یہ فیصلہ کیا جائے کہ جماعت کا ہر فرد تبلیغ کے لیے وقت دے اور اُس وقت کوئی شخص یہ کہے کہ میں تبلیغ کے لیے وقت کس طرح دے سکتا ہوں میں اگر وقت دوں تو میری دکان کا نقصان ہوتا ہے تو اسلام کہے گا یہ تجارت تمہارے لیے جائز نہیں.یا اگر کوئی کارخانہ دار کہے کہ میں کس طرح تبلیغ کے لیے باہر جا سکتا ہوں میں اگر باہر جاؤں تو کار خانے کا تمام کام درہم برہم ہو جائے گا تو اسلام کہے گا ایسا کارخانہ تمہارے لیے جائز نہیں ہے.پس مومن وہی ہیں کہ لا تُلْهِيهِمْ تِجَارَةٌ وَلَا بَيْعٌ عَنْ ذِكْرِ اللهِ تجارت اور بیج اُن کو اللہ تعالیٰ کے ذکر سے نہیں روکتی، دین کے کاموں میں یہ چیزیں حائل نہیں بنتیں بلکہ جب بھی خدا تعالیٰ کی طرف سے آواز بلند ہوتی ہے ایک مومن تاجر، ایک مومن کارخانہ دار اور ایک

Page 659

$1944 659 خطبات محمود مومن صناع اپنی تجارت اور اپنے کارخانہ اور اپنی صنعت کو چھوڑ کر اُس آواز کی طرف متوجہ ہو جاتا ہے اور خد اتعالیٰ کے احکام کو پورا کرنے کے لیے کھڑا ہو جاتا ہے.ولیا دوسری شرط اسلام نے یہ مقرر کی ہے کہ وَالَّذِينَ يَكْنِزُونَ الذَّهَبَ وَالْفِضَّةَ وَلَا يُنْفِقُوْنَهَا فِي سَبِيْلِ اللهِ فَبَشِّرْهُمْ بِعَذَابِ اَلِيْمٍ 4 یعنی وہ لوگ خدا تعالیٰ کی قائم کردہ جماعت میں سے نہیں کہلا سکتے جو سونا اور چاندی جمع کرتے ہیں.جو شخص مال کماتا ہے اور اُس کو یہ ذریعہ بنالیتا ہے سونا اور چاندی جمع کرنے کا، بخل کا مرض اُس میں ترقی کرتا چلا جاتا ہے ، ادھر روپیہ کماتا ہے اور ادھر اُس کو لن کے میں جمع کر دیتا ہے تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ایسا شخص مومن ہے نہیں.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ مومن بھی اپنی تجارتوں کو بڑھاتے ہیں.اگر وہ اپنی تجار توں کو ترقی نہیں دیں گے تو ان کے پاس روپیہ کس طرح آئے گا.روپیہ کمانے کے لیے ضروری ہے کہ تجارت اور صنعت کو فروغ دیا جائے لیکن اگر کسی تجارت یا صنعت کا یہ نتیجہ نکلے کہ انسان روپیہ جمع کرنا شروع کر دے تو اسلام کے لحاظ سے وہ تجارت اور وہ صنعت بالکل ناجائز ہو گی.وہی تجارت اور وہی صنعت جائز ہے جس کے نتیجہ میں روپیہ جمع نہ کیا جائے.تیسری چیز جس پر خصوصیت سے اسلام نے زور دیا ہے اور جس کی طرف قرآن کریم میں بار ہا تو جہ دلائی گئی ہے وہ یہ ہے کہ روپیہ بے شک کماؤ مگر جو کچھ کماؤ اس پر زکوۃ ادا کرو اسلام نے بے شک روپیہ جمع کرنا نا جائز قرار دیا ہے مگر روپیہ کمانا منع نہیں ہے کیا.پس فرماتا ہے اگر تم روپیہ کماتے ہو اور کچھ روپیہ اپنی ضروریات کے لیے عارضی طور پر جمع کر لیتے ہو جس پر ایک سال گزر جاتا ہے تو اس روپیہ پر زکوۃ ادا کیا کرو.چوتھی بات یہ ہے کہ علاوہ زکوۃ کے اسلام یہ بھی حکم دیتا ہے کہ سراء اور ضراء دونوں حالتوں میں اتفاق کیا جائے.چنانچہ اللہ تعالی مومنوں کی یہ صفت بیان فرماتا ہے کہ ان الَّذِينَ يُنْفِقُونَ فِي السَّرَّاءِ وَالضَّرَّاءِ 7 مومن کشائش کی حالت میں بھی اور تنگی کی حالت میں بھی غرباء ومساکین کے لیے اپنے اموال خرچ کرتے رہتے ہیں.ہر انسان پر خواہ وہ کس قدر مالدار ہو بعض تنگی کی حالتیں آتی ہیں اور بعض حالتیں کشائش رزق کے اعتبار سے اچھی ہوتی ہیں.اسلام یہ تعلیم دیتا ہے کہ مومن کا فرض ہے وہ ان دونوں حالتوں میں خدا تعالی کے ان

Page 660

$1944 660 خطبات محمود رستہ میں غرباء و مساکین پر خرچ کرتارہے.ضَرّاء کے یہ معنے نہیں کہ انسان کے پاس کچھ نہ ہو تب بھی وہ خرچ کرے.بلکہ ضَرّاء کا لفظ استعمال کرنے کی اصل غرض یہ ہے کہ بڑے بڑے تاجروں پر بھی بعض دفعہ تنگی کے اوقات آجاتے ہیں.دس میں لاکھ کا کارخانہ ہوتا ہے مگر کسی وجہ سے مال کا فروخت ہونا رُک جاتا ہے.اُس وقت لوگ کہتے ہیں ہم پر بڑی مصیبت آگئی ہے اب ہم کیا کریں.پہلی سی حالت ہماری نہیں رہی ہم بڑی تنگی میں مبتلا ہو گئے ہیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے جب ایسی حالتیں آئیں اُس وقت بھی تمہارا فرض ہے کہ تم اپنے مال خرچ کرو.کیونکہ اگر یہ فرض بھی کر لیا جائے کہ ایک دس لاکھ روپیہ کے مالک کارخانہ دار کا کام ہے خراب ہو گیا ہے تب بھی چار پانچ لاکھ روپیہ اُس کے گھر میں موجود ہو گا.پس اسے سمجھنا چاہیے کہ اگر دین کے لیے وہ شخص قربانی کرتا ہے جس کی آمد پانچ دس یا پندرہ لاکھ روپے ہے تو اس کے لیے دین کی خاطر قربانی کرنے میں کونسی مشکل در پیش ہے جب کہ اُس کے قبضہ میں دیع الیہ ہونے کے باوجود چار پانچ لاکھ روپیہ مال ہے.پس اس آیت کے صرف یہ معنے نہیں ہے ہیں کہ مومن غربت اور امارت دونوں حالتوں میں خرچ کرتے ہیں بلکہ یہ مطلب بھی ہے کہ امیر پر بھی بعض دفعہ تنگی کی گھڑیاں آجاتی ہیں.پس اُن تنگی کی گھڑیوں کے متعلق اسلام یہ حکم دیتا ہے کہ تم اُس حالت میں بھی غرباء و مساکین پر اپناروپیہ خرچ کیا کرو اور یہ نہ کیا کرو کہ ہم کس طرح خرچ کریں ہماری آجکل بکری کم ہے.جب وہ شخص جس کے پاس تمہارے مقابلہ میں کچھ بھی نہیں دین کی خاطر قربانی کرتا رہتا ہے تو تمہارے پاس تو پھر بھی لا کھ دولاکھ یا چار لاکھ روپے موجود ہیں تمہارے لیے ہچکچاہٹ کی کوئی وجہ نہیں.پانچویں ہدایت جو اسلام نے اس سلسلہ میں دی ہے اور جو تمام لوگوں سے تعلق ہیں رکھتی ہے.ان لوگوں سے بھی جو تجارت اور صنعت و حرفت کرنے والے ہیں اور ان سے بھی ہے جن کے پاس کسی اور ذریعہ سے مال آتا ہے کہ تَعاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَ التَّقْوَى & جو شخص بھی کوئی کام کرتا ہو اُس کے لیے ضروری ہے کہ وہ نیکی اور تقوی کے ساتھ ایک دوسرے کی مدد کرے.پس وہی تجارت اور وہی صنعت مفید ہو سکتی ہے جو ہر اور تقوی پر دوسروں سے تعاون میں کرتی ہے.اس کی تشریح انشاء اللہ آگے چل کر کروں گا.

Page 661

$1944 661 محمود چھٹی بات یہ ہے کہ ایک عام اصل جو قرآن کریم میں بیان کیا گیا ہے اور جس کو مد نظر رکھنا ہر وقت ضروری ہے وہ یہ ہے کہ حَيْثُ مَا كُنتُمْ فَوَلُّوا وُجُوْهَكُمْ شَطْرَةً یعنی جس کام میں بھی تم لگے ہوئے ہو تمہارے سامنے صرف ایک ہی مقصد رہنا چاہیے اور وہ یہ کہ دین کے غلبہ اور ترقی کے لیے تم نے کوشش کرنی ہے.پس اگر کوئی شخص تجارت کرتا ہے یا صنعت و حرفت اختیار کرتا ہے تو اُسے ہر وقت یہ اصول اپنے سامنے رکھنا چاہیے.اس اصول کے ماتحت اگر کوئی شخص اپنی تجارت یا اپنی صنعت کو اسلام کی شوکت اور اُس کے غلبہ کا ذریعہ بناتا ہے تو وہ دنیا نہیں کماتا بلکہ دین کماتا ہے.خواہ وہ اپنی تجارت اور صنعت کے ذریعہ لاکھوں روپے کیوں نہ کما رہا ہو.ساتواں حکم قرآن کریم یہ دیتا ہے کہ ماپ تول اور وزن درست ہونا چاہیے.10 تاجروں میں بالعموم یہ خرابی پائی جاتی ہے کہ جائز طور پر مال کمانے کے علاوہ وہ ماپ اور تول میں ہے ضرور کچھ نہ کچھ کمی کر دیتے ہیں.کبھی بٹے چھوٹے رکھتے ہیں، کبھی ڈنڈی مار دیتے ہیں اور اس طرح کوشش کرتے ہیں کہ وزن میں کچھ نہ کچھ کمی کر لیں.آٹھواں حکم اسلام نے یہ دیا ہے کہ دھوکا اور فریب اور بناوٹ جائز نہیں.11 بے شک تم تجارت کرو مگر تجارت میں یہ چیزیں نہیں ہونی چاہیں.نواں حکم اسلام نے یہ دیا ہے کہ تم جو مال بناؤ یا دوسروں سے خرید و اُسے روک کر نہ رکھ لیا کرو کہ جب مال مہنگا ہو گیا اُس وقت ہم فروخت کریں گے.12 اگر کوئی تاجر مال کو اس لیے روک کر رکھ لیتا ہے کہ جب مال مہنگا ہو گیا اس وقت وہ اسے فروخت کر کے زیادہ نفع ہے کمائے گا تو اسلام کے رو سے وہ ایک ناجائز فعل کا ارتکاب کرتا ہے.دسواں حکم یہ دیتا ہے کہ تم مزدور کو اُس کا پورا حق دو اور پھر وہ حق اپنے وقت پر ادا کی کرو.13 گویا مزدور کے متعلق دو حکم اسلام دیتا ہے.اول یہ کہ اس کی تنخواہ کام کے مطابق مقرر کرو.دوسرے یہ نہ کرو کہ وقت پر اُس کی مزدوری ادا کرنے میں لیت و لعل سے کام لینے لگ جاؤ.میں نے دیکھا ہے کہ بالعموم لوگ اس حکم کی پروا نہیں کرتے.وہ مزدور سے پورا کام لیتے ہیں لیکن جب اُس کی تنخواہ یا اجرت کی ادائیگی کا وقت آتا ہے تو اس میں تساہل سے

Page 662

$1944 662 خطبات محمود کام لیتے ہیں جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ اُن کے دروازے پر بار بار آتا اور اپنی تنخواہ کا مطالبہ کرتا ہے.اس پر بھی وہ اُسے اُس کا حق ادا نہیں کرتے بلکہ کہتے ہیں آج نہیں کل آنا.کل آتا ہے تو کہتے ہیں پرسوں آنا.اِس طرح بار بار اُسے اپنے پاس آنے پر مجبور کرتے ہیں اور پھر اس کے بعد بھی کسی دن اُسے ایک روپیہ دے دیتے ہیں، کسی دن دو روپے دے دیتے ہیں، کسی دن چار روپے دے دیتے ہیں.گویا اُسے خراب کر کے اُس کی مزدوری دیتے ہیں.جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنی مزدوری سے فائدہ نہیں اُٹھا سکتا.اگر اُسے اکٹھی اُجرت مل جاتی تو وہ اپنی ضروریات اکٹھی خرید لیتا اور اس طرح اُسے فائدہ رہتا.لیکن چونکہ اُسے ٹکڑے ٹکڑے کر کے اجرت دی جاتی ہے اس لیے اُسے تکلیف الگ اٹھانی پڑتی ہے اور پھر اکٹھی اجرت ملنے سے جو فائدہ اسے پہنچ سکتا تھا وہ بھی نہیں پہنچتا.پس اسلام یہ حکم دیتا ہے کہ مزدور کے ساتھ اِس قسم کا سلوک نہ کیا جائے.اُسے اُس کا حق پورا ادا کرو اور پھر عین وقت پر ادا کرو.یہ نہ ہو کہ وہ اپنے حق کے لیے تمہارے دروازے کھٹکھٹا تار ہے اور تم اُسے بار بار ٹالتے رہو.گیارھواں حکم اسلام یہ دیتا ہے کہ بیشک تم مال کماؤ لیکن دیکھو اس کے نتیجے میں تمہارے اندر کیبر اور خیلاء پیدا نہ ہو.اگر کبر اور خیلاء تمہارے اندر پیدا ہو جائے تو پھر مال کمانا تمہارے لیے جائز نہیں ہو گا.بارھواں حکم اسلام یہ دیتا ہے کہ مالدار شخص کو چاہیے کہ وہ اپنی موت کے وقت رشتہ داروں کو یہ وصیت کر جائے کہ وہ اُس کے مال کا کچھ حصہ خدا تعالیٰ کی راہ میں اُس کے غریب بندوں کے فائدہ اور ترقی کے لیے خرچ کر دیں.14 یہ بارہ موٹے موٹے حکم ہیں جو قرآن اور احادیث سے معلوم ہوتے ہیں.پس صنعت و حرفت اور تجارت کو روکا نہیں جاسکتا بشر طیکہ وہ شرائط پوری ہوں جن کا اوپر ذکر کیا ہے گیا ہے.میں نے بتایا ہے کہ اسلام تجارت اور صنعت و حرفت سے منع نہیں کرتا.اگر اسلام منع کرتا تو اس کے معنی یہ ہوتے کہ اسلام اس امر کو روا رکھتا ہے کہ دنیا کا ایک حصہ تو اسلام میں داخل ہو لیکن دوسرا حصہ بے شک داخل نہ ہو.مثلاً جہاز رانی دنیا کی تجارت کا

Page 663

$1944 663 خطبات مج محمود ایک اہم ترین شعبہ ہے.اگر جہاز بنانے اور جہاز چلانے اسلام کے نزدیک منع ہوتے تو پھر دو صورتوں میں سے ایک صورت ضرور ہوتی.یا تو سفر منقطع ہو جاتے اور دنیا کی تہذیب اور اُس کے تمدن پر ایک کاری ضرب پڑتی اور یا پھر اس بات کو تسلیم کرنا پڑتا کہ جو لوگ جہاز بناتے اور جہاز چلاتے ہیں وہ بے شک مسلمان نہ ہوں ہند و یا عیسائی یا سکھ ہی رہیں کیونکہ اگر وہ اسلام میں داخل ہوئے تو انہیں اِس کام سے دست بردار ہونا پڑے گا.مگر یہ بات بھی عقل کے خلاف اور دیدہ دانستہ دنیا کے ایک طبقہ کو اسلام سے محروم رکھنا ہے جس کی اسلام اجازت نہیں دیتا.یا مثلاً کان کنی ایک ایسی چیز ہے جس سے حکومت کو بہت بڑی طاقت حاصل ہوتی ہے.اگر اسلام روپیہ کمانے سے ہ کمانے سے بنی نوع انسان کو منع کرتا ہے تو وہ یہ حکم دے دیتا کہ تم نے کان کنی نہیں کرنی.کیونکہ اگر کان کنی کرو گے تو تمہیں روپیہ حاصل ہو گا.اور یا پھر یہ کہا جاتا کہ دنیا میں جس قدر کانوں کے مالک ہیں وہ بے شک مسلمان نہ ہوں.اور یا پھر یہ حکم دیا جاتا کہ کانوں کا کھودنا ہی بند کر دیا جائے تاکہ دین کو کوئی نقصان نہ پہ تھے.یا مثلاً غیر ملکوں سے مال کا لانا ہے یہ ہے ایک بہت بڑی فائدہ بخش تجارت ہے اور کروڑوں روپیہ اس تجارت کے ذریعہ کمایا جاسکتا ہے.مگر یہ کام بڑے بڑے تاجر ہی کر سکتے ہیں.دس میں چالیس یا پچاس ہزار روپیہ سرمایہ بھی اگر کسی شخص کے پاس ہو تو وہ یہ کام نہیں کر سکتا اور نہ اتنے معمولی سرمایہ سے وہ انگلستان سے یا امریکہ سے یا فرانس سے یا چین سے یا جاپان سے بڑی مقدار میں مال منگوا سکتا ہے.کیونکہ غیر ملکوں سے تمام مال جہازوں کے ذریعہ آتا ہے اور کوئی معمولی تاجر اس قسم کی تجارت میں ہاتھ نہیں ڈال سکتا.لازماً ایسے ہی تاجر انگلستان سے مال منگوائیں گے یا امریکہ سے مال منگوائیں گے یا فرانس اور جاپان وغیرہ سے مال منگوائیں گے یا جر منی سے مال منگوائیں گے جن کے پاس دس ہیں بلکہ چالیس پچاس لاکھ روپیہ ہو گا.بلکہ اس سے بھی بڑھ کر ایسے ہی تاجر اس میں حصہ لے ہے سکتے ہیں جن کے پاس کروڑ کر وڑ روپیہ ہو.پس اگر اسلام روپیہ کمانے کی اجازت نہ دیتا تو دوہی صور تیں ہو سکتی تھیں.یا تو یہ اعلان کر دیا جاتا کہ اس قسم کی تجارت کرنے والے بے شک مسلمان نہ ہوں.وہ تجارتیں کرتے رہیں مگر اسلام قبول نہ کریں کیونکہ اسلام اس قسم کی ہے تجارتوں سے منع کرتا ہے.اور یا پھر یہ کہہ دیا جاتا کہ لوگ مسلمان بے شک ہو جائیں مگر ہے

Page 664

خطبات محمود 664 $1944 اپنی تجارتیں بند کر دیں.آئندہ وہ کوئی مال ایک جگہ سے دوسری جگہ نہیں لے جاسکتے کیونکہ ہمارے مذہب میں یہ بات ناجائز ہے.لیکن یہ دونوں باتیں عقل کے خلاف ہیں.نہ تجارتوں کو بند کیا جاسکتا ہے اور نہ ان تجارتوں میں حصہ لینے والوں کے متعلق یہ کہا جاسکتا ہے کہ وہ بے شک ہندو یا سکھ یا عیسائی ہی رہیں اسلام میں داخل نہ ہوں.بہر حال دو صورتوں میں سے ہے کسی ایک صورت کو اختیار کیے بغیر ہمارے لیے کوئی چارہ نہیں ہو گا.یا تو ہم سب تجارتوں کو بند ہے کر کے دنیا کے تمدن اور اس کی تہذیب کو برباد کر دیں اور لوگوں پر ان کی زندگیاں وبالِ جان بنا دیں اور یا پھر یہ کہہ دیں کہ ان تجارتوں میں حصہ لینے والوں کا مسلمان ہونا ناجائز ہے.اگر کار خانوں کا کوئی مالک ہمارے پاس مسلمان ہونے کے لیے آتا ہے تو یا تو اسے یہ کہنا پڑے گا کہ تم اپنے کارخانے کو بند کر دو اور یا پھر اُسے یہ کہنا پڑے گا کہ چونکہ کارخانے کو بند کرنا دنیا کی می مشکلات کو بڑھا دیتا ہے.اس لیے بے شک تم مسلمان نہ بنو ہندو یا سکھ یا عیسائی ہی رہو.یا موٹر کے کارخانے کی مثال لے لو.ایک ایک موٹر ، چار چار ، دس دس میں ہیں ہزار روپے میں آتا ہے ہے اور موٹر کا کارخانہ وہی شخص کھول سکتا ہے جس کے پاس دس میں کروڑ روپیہ موجود ہو.اگر اسلام دنیا کمانے کی اجازت نہ دیتا اور موٹروں کے کارخانہ کا کوئی مالک ہمارے پاس اسلامی قبول کرنے کے لیے آتا تو یا تو ہم اُسے یہ کہتے کہ تم مسلمان نہ بنو.کیونکہ اگر تم مسلمان بنے تو دنیا کو نقصان پہنچے گا اور تمہیں اپنا کارخانہ بند کرنا پڑے گا.تم بے شک عیسائی ہی رہو یا سکھ ہی ہے رہو یا ہندو ہی رہو اسلام کو قبول مت کرو.اور یا پھر ہم اُسے یہ کہتے کہ تم آئندہ موٹریں بنانی چھوڑ دو اور کار خانہ بند کر دو.مگر یہ دونوں صورتیں ایسی ہیں جو نا جائز ہیں.نہ اسلام ایک کو جائز ہے قرار دیتا ہے اور نہ دوسری صورت کو درست تسلیم کرتا ہے.ان مشکلات کو اپنے سامنے دیکھتے ہوئے ہمیں تسلیم کرنا پڑے گا کہ صنعت و حرفت اور تجارت کو روکا نہیں جاسکتا اور دوسری ہے طرف قبول اسلام میں بھی کسی قسم کی دیوار کو حائل نہیں کیا جاسکتا.اس لیے ضروری ہے کہ می ان دونوں حالتوں کے درمیان کوئی راستہ تلاش کیا جائے جس سے یہ دونوں مشکلات دور ہو جائیں.نہ دنیا کے تمدن اور اس کی تہذیب کو نقصان پہنچے اور نہ اسلام میں داخل ہونے سے کسی شخص کو روکا جاسکے.اور جیسا کہ میں نے بتایا ہے اسلام نے اس نظریے کے ماتحت بعض قواعد من

Page 665

$1944 665 خطبات محمود پیش کیے ہیں اور بتایا ہے کہ ہم لوگوں کو دنیا کمانے سے منع نہیں کر سکتے.وہ بیشک تجارت کریں، وہ بے شک صنعت و حرفت اختیار کریں مگر ان کے لیے ضروری ہے کہ وہ بعض قواعد کی پابندی اپنے اوپر لازم کر لیں تاکہ دین کو بھی کوئی نقصان نہ ہو اور دنیا کی مشکلات میں بھی ہے کوئی اضافہ نہ ہو.چنانچہ اُن قواعد کو میں اوپر بیان کر چکا ہوں.یہ قواعد ایسے ہیں جن پر عمل کرنے سے باوجو د تجارت اور صنعت کا کام کرنے کے وہ خرابیاں پیدا نہیں ہو تیں جو تجار توں اور صنعت و حرفت کے کاموں سے دنیا میں عام طور پر پید اہوتی ہیں.اب میں تفصیل سے اوپر کی بارہ باتوں کو بیان کرتا ہوں.پہلی چیز جس کا میں نے ذکر کیا تھا وہ یہ تھی کہ اسلام یہ ہدایت دیتا ہے کہ تجارت اور صنعت ذکر الہی میں روک نہیں ہونی چاہیے.میں نے اس کی تشریح بھی کر دی تھی کہ مثلاً جہاد کا وقت آجاتا ہے یا موجودہ زمانہ کے لحاظ سے تبلیغ پر زور دینے کا وقت آ جاتا ہے اور ہم ضروری سمجھتے ہیں کہ لوگوں کو باہر بھیجیں تاکہ وہ دوسروں کو احمدیت میں داخل کر سکیں.ایسے موقع پر اگر کوئی کارخانہ دار یا کوئی تاجر یہ کہتا ہے کہ میں تبلیغ کے لیے نہیں جاسکتا کیونکہ اگر میں جاؤں تو میری تجارت یا میرے کارخانے کو نقصان پہنچے گا تو اسے سمجھ لینا چاہیے کہ ی اُس کا کارخانہ اور اُس کی تجارت اسلام کے منشاء کے مطابق نہیں بلکہ یقیناً اسلام کے خلاف ہے اور وہ اپنے لیے جائز کمائی نہیں کر رہا بلکہ ناجائز اور حرام مال کما رہا ہے.اسلام ایسی ہی تجارت اور ایسے ہی کار خانہ اور ایسی ہی صنعت کی اجازت دیتا ہے جو خدا تعالیٰ کے ذکر اور اُس کے دین کے کام میں روک بن کر کھڑی نہ ہو جائے.اسلام کے نزدیک انسان مال بے شک کما سکتا ہے مگر اُسی صورت میں جب وہ خدا کو اور خدا کے دین کو دنیا پر مقدم رکھے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے کس طرح ایک چھوٹے سے فقرہ میں اسلام کے اس قیمتی اصل کو بیان ہے فرما دیا ہے کہ "میں دین کو دنیا پر مقدم رکھوں گا".15 دنیا کمانے کے متعلق بھی یہ ایک نہایت ہی قیمتی اصل ہے جس کو اپنے سامنے رکھ کر ہر شخص اپنے متعلق یہ فیصلہ کر سکتا ہے کہ وہ جائز رنگ میں دنیا کما رہا ہے یا ناجائز رنگ میں.اگر کوئی شخص دین کو دنیا پر مقدم رکھتا ہے ہے تو اسے سمجھ لینا چاہیے کہ اس کی دنیا، دنیا نہیں بلکہ اس تقدم کی وجہ سے اس کی دنیا بھی ہے

Page 666

خطبات محمود 666 $1944 دین بن گئی ہے.اس کی ایسی ہی مثال ہے جیسے کوئی ملازم جو اپنے آقا کے حکم کے مطابق کام کرنے کا عادی ہو.لازماً اُسی قسم کے کام کرے گا جس قسم کے کام کرنے کا اُس کے آقا کی طرف سے اس کو حکم ملے.فرض کرو ایک شخص بخیل اور کنجوس ہے لیکن اس کا آقا رحم دل ہے ہے اور وہ غریبوں سے حُسنِ سلوک کرنے کا عادی ہے تو ایسا شخص خواہ بخیل اور کنجوس ہی کیوں نہ ہو جب وہ رحم دل اور سخی آقا کے ماتحت کام کرے گا اور آقا اُسے کہے گا کہ وہ بھی اپنے مال میں سے غریبوں کا حق ادا کرے اور وہ اس حکم کی تعمیل میں غریبوں کی مدد کرے گا تو لازماً اسے اپنے آقا کی خوشنودی حاصل ہوگی اور وہ بھی آہستہ آہستہ اپنے آقا کا ہم رنگ ہو جائے ہے گا.اسی طرح جو شخص دنیا کماتا ہے لیکن پھر اپنے اموال کو خد اتعالیٰ کے احکام کے تابع کر دیتا ہے تو اُس کی دنیا بھی دین بن جاتی ہے.کیونکہ اُس نے وہ سب کچھ کیا جس کے کرنے کا اُسے خدا نے حکم دیا تھا.پس اس کا مال کماناد نیانہ رہا بلکہ دین کا ایک حصہ بن گیا.دوسری ہدایت اسلام نے یہ دی ہے کہ روپیہ جمع نہ کیا جائے.یہ ہدایت بھی ایسی ہے جس کی طرف خاص طور پر توجہ کرنے کی ضرورت ہے.مگر یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ اس ہدایت کے یہ معنے نہیں ہیں کہ کسی کے گھر روپیہ نہ ہو.وہ روپیہ جس کا رکھنا کسی خاص فرض کے لیے ضروری ہو مثلا کام کے نقصان کو پورا کرنے کے لیے یا مکان وغیرہ کے لیے یا روزانہ ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیے تو ایسا روپیہ ہر شخص اپنے پاس رکھ سکتا ہے.پس روپیہ جمع نہ کرنے کے معنے یہ نہیں کہ کسی قسم کا روپیہ بھی انسان کے پاس جمع نہیں ہونا چاہیے.بلکہ اسلامی ہے ہدایت کے ماتحت اتنا روپیہ انسان اپنے پاس رکھ سکتا ہے جو اس کے کاموں کے لیے ضروری ہے ہو.مثلاً ایک شخص نے کارخانہ کھولا ہوا ہے اُسے کارخانہ کے لیے کبھی اوہ خریدنا پڑتا ہے، کبھی کوئلہ خریدنا پڑتا ہے، کبھی مٹی کا تیل خریدنا پڑتا ہے، کبھی آئے یا عوجی بنانے کے لیے اسے گیہوں خریدنا پڑتا ہے.یا اگر بوٹ کا کارخانہ اُس نے جاری کیا ہوا ہو تو اسے مشینیں خریدنی پڑتی ہے ہیں، کیل خریدنے پڑتے ہیں، چھڑا خریدنا پڑتا ہے اور پھر بعض دفعہ کارخانوں میں کام کرتے کرتے مشینوں کے پرزے ٹوٹ جاتے ہیں، بعض دفعہ کوئی مشین ہی ناکارہ ہو جاتی ہے یہ اور اس وقت ضرورت ہوتی ہے کہ اور مشین یا مشین کے اور پر زے خریدے جائیں.ان می

Page 667

خطبات محج محمود 667 $1944 تمام کاموں کے لیے جب تک روپیہ پاس نہ ہو کوئی کارخانہ دار اپنے کارخانے کو چلا نہیں سکتا.اسلام کے نزدیک اس قسم کے کام کو چلانے کے لیے جتنے روپیہ کی ضرورت ہو وہ انسان اپنے پاس رکھ سکتا ہے.یا مثلاً ایک شخص نے دو تین سال تک اپنے کسی بچہ کی شادی کرنی ہے اور روپیہ اس کے پاس نہیں اس ضرورت کے لیے اگر وہ رو پیر کو پس انداز کرناشروع کر دیتا ہے یا تی مکان بنانے کے لیے روپیہ جمع کرنا شروع کر دیتا ہے یا کسی اور ایسی ہی ضرورت کے لیے روپیہ جمع کرنا شروع کر دیتا ہے جس کے لیے اُس کی روزانہ کی آمد کافی نہیں ہو سکتی تو یہ اسلام کے خلاف نہیں ہو گا اور نہ یہ اُس رنگ میں روپیہ کا جمع کرنا کہلائے گا جس رنگ میں روپیہ جمع کرنا اسلام نے منع قرار دیا ہے.یہ صرف بعد میں آنے والے ضروری اخراجات کو مہیا کرنے کی ایک جائز صورت ہو گی.یا دوسرے الفاظ میں یوں کہہ لو کہ بعد میں اُس نے جو کچھ خرچ کرنا ہے اُس کے لیے یہ اُس کی تیاری ہے.پس چونکہ یہ روپیہ محض جمع رکھنے کے لیے نہیں بلکہ کسی دوسرے وقت خرچ کرنے کے لیے ہے اس لیے اس قسم کا روپیہ پس انداز کرنا اسلام کے رو سے بالکل جائز ہو گا.ہاں جن لوگوں کے پاس ضرورت سے زائد روپیہ ہوتا ہے اور وہ اس روپیہ کو جمع کر دیتے ہیں تو اسلام اس کی اجازت نہیں دیتا.جیسے کئی لوگ ضرورت سے زائد روپیہ کی بنکوں میں جمع کر دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اگر ہم نے بنک میں روپیہ جمع نہ کیا تو گھر میں ہی خرچ ہو جائے گا.یا بعض لوگ چوری چھپے اس لیے روپیہ جمع کرتے رہتے ہیں کہ لوگوں کو پتہ نہ لگے ہے کہ ان کے پاس مال ہے.اس قسم کا روپیہ جمع رکھنا اسلامی احکام کے ماتحت ناجائز ہے.اسلام کے نزد یک اگر ایک شخص دس لاکھ روپیہ سے ایک کار خانہ جاری کر دیتا ہے تو یہ بالکل جائز ہے.لیکن اگر کوئی شخص دس ہزار روپیہ غلق میں بند کر کے رکھ دیتا ہے تو یہ ناجائز ہے.اس کی وجہ یہ ہے کہ جب ایک شخص دس لاکھ روپیہ کسی کار خانے پر لگاتا ہے تو اسے کئی ہزار روپیہ مشینوں کے خریدنے پر صرف کرنا پڑتا ہے.پھر ان مشینوں سے کام لینے والے مستریوں کی اُسے ضرورت ہوتی ہے، فٹروں کی اسے ضرورت ہوتی ہے، مزدوروں کی اُسے ضرورت ہوتی ہے اور اس طرح سینکڑوں لوگوں کے لیے روزگار کی صورت پیدا ہو جاتی ہے.اسی طرح جب کوئی کارخانہ جاری کیا جاتا ہے تو اس میں کچھ لوگوں کو افسر مقرر کرنا پڑتا ہے، کچھ ماتحت ہوتے ہیں، کچھ تلی ہے

Page 668

$1944 668 خطبات محمود ہوتے ہیں، کچھ نگر ان ہوتے ہیں.اس طرح دو دو سو، چار چار سو، پانچ پانچ سو بلکہ ہزار ہزار آدمیوں کے لیے روزگار کی صورت پیدا ہو جاتی ہے اور بڑے بڑے کارخانوں میں تو بعض دفعہ ہیں بیس ہزار آدمی ایک وقت میں کام کر رہے ہوتے ہیں.اِس طرح اُس کا روپیہ بند نہیں رہتا بلکہ بنی نوع انسان کے کام آتا رہتا ہے.یا اگر کوئی شخص اپنے روپیہ سے تجارت کرتا ہے تب آتارہتا بھی وہ لوگوں کے کام آتا ہے.لیکن اگر کوئی شخص دس ہزار روپیہ بند کر کے رکھ دیتا ہے تو چونکہ لوگ اُس روپیہ سے فائدہ نہیں اٹھا سکتے اس لیے اسلام کے نزدیک اِس قسم کا روپیہ جمع رکھنا ناجائز ہو گا.پس گو روپیہ کم ہو مگر اُس کا جمع کرنانا جائز ہے اور گو روپیہ زیادہ ہو مگر اس کو کام میں لگانا جائز ہے کیونکہ روپیہ کو کام پر لگانے سے بنی نوع انسان کو فائدہ پہنچتا ہے.تیسرا حکم اسلام کی طرف سے یہ دیا گیا ہے کہ ہر شخص جس کے پاس روپیہ جمع ہو وہ ہے اپنے مال کی دیانتداری سے زکوۃ ادا کرے.اگر کوئی شخص با قاعدگی سے زکوۃ ادا کرتا ہے تو یہ اس بات کا ثبوت ہوتا ہے کہ وہ دنیا کو دین کی خاطر کماتا ہے.لیکن اگر کوئی شخص زکوۃ نہیں دیتا ہے تو یہ اس بات کا ثبوت ہوتا ہے کہ وہ دنیا محض دنیا کی خاطر کما رہا ہے خدا تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کا شوق اُس کے دل میں نہیں.اگر واقع میں اُس کے دل میں خدا تعالیٰ کے قرب اور اس می کی محبت کو جذب کرنے کا احساس ہوتا، اگر دنیا کو وہ دین کی خاطر کمارہا ہو تا تو اُس کا فرض تھا کہ وہ اپنے مال میں سے خدا تعالیٰ کا حق ادا کرتا اور پوری دیانتداری کے ساتھ ادا کرتا.لیکن جب وہ زکوۃ ادا نہیں کرتا تو یہ اِس بات کا ثبوت ہوتا ہے کہ وہ شیطان کا تابع ہے خدا تعالیٰ کے احکام کا تابع نہیں ہے.زکوۃ کے معاملہ میں میں دیکھتا ہوں کہ تاجروں میں بہت بڑی کو تا ہی پائی جاتی ہے.پرانے زمانہ میں تو غیر احمدی تاجروں نے بالکل اندھیر مچار کھا تھا.حضرت خلیفہ اول سنایا کرتے تھے کہ بھیرہ میں ایک بہت بڑا مسلمان تاجر تھا جو ہر سال با قاعدگی سے زکوۃ دیا کرتا تھا تی مگر اُس کی زکوۃ دینے کا طریق یہ تھا کہ وہ زکوۃ کا تمام روپیہ ایک گھڑے میں بند کر دیتا تھا.فرض کرو اُس کے پاس ایک لاکھ روپیہ ہوتا جس میں سے اڑھائی ہزار روپیہ زکوۃ دینا اس پر فرض ہوتا تو وہ اڑھائی ہزار روپیہ ایک گھڑے میں ڈال دیتا اور ان روپوں کے اوپر

Page 669

خطبات محمود 669 $1944 دو چار سیر گیہوں ڈال کر کسی ملا کو بلاتا اور اُس کی خوب پر تکلف دعوت کرتا.جب وہ کھانے سے فارغ ہو جاتا تو اُسے کہتا مولوی صاحب! اِس گھڑے میں جو کچھ ہے وہ میں آپ کی ملک کرتا ہوں.لوگوں کو بھی اُس کے اس طریق کا علم تھا اور وہ جانتے تھے کہ گھڑے میں اس نے زکوۃ کا روپیہ رکھا ہوا ہے جو اڑھائی یا تین ہزار روپیہ ہے.مگر اُسے کچھ کہہ نہیں سکتے تھے.تھوڑی دیر کے بعد وہ خود ہی کہتا کہ آپ اس گھڑے کو اٹھا کر کہاں لے جائیں گے اسے میر.پاس ہی بیچ ڈالیے.بتائیے آپ اس گھڑے کی کیا قیمت لیں گے ؟ ملا ڈرتے ڈرتے کہ نہ معلوم کس حد تک سودا ہو پانچ دس یا پندرہ روپے بتاد بنا تھا اور وہ جھٹ اتنے روپے نکال کر اُس کے سامنے رکھ دیتا اور کہتا کہ مولوی صاحب! جو کچھ اس میں ہے وہ آپ نے پندرہ روپے میں مجھے دے دیا ہے.یہ کہہ کر وہ گھڑا اُٹھا کر اندر رکھ لیتا اور سمجھ لیتا کہ اُس کی طرف سے زکوۃ ادا ہو گئی ہے.تو دنیا میں اس قسم کی دھوکا بازی کرنے والے لوگ بھی پائے جاتے ہیں جو خدا تعالیٰ کے احکام سے تمسخر کرتے ہیں اور پھر یہ سمجھتے ہیں کہ اُن پر خدا تعالیٰ کی طرف سے جو فرض عائد ہوتا تھا اُس کو انہوں نے ادا کر دیا ہے.ہماری جماعت میں خدا تعالیٰ کے فضل سے اس قسم کے لوگ تو نہیں مگر ابھی ہماری جماعت میں لوگ احتیاط سے زکوۃ ادا نہیں کرتے.بالخصوص تاجروں میں زکوۃ کے معاملے میں بہت بڑی کو تاہی پائی جاتی ہے حالانکہ زکوۃ کے متعلق اسلامی شریعت میں اتنے شدید احکام پائے جاتے ہیں کہ صحابہ کا فیصلہ یہ ہے کہ جو شخص زکوۃ ادا نہ کرے وہ مسلمان ہی نہیں رہتا.وجہ یہ ہے کہ قرآن کریم میں خدا تعالیٰ نے یہ اصول بیان فرمایا ہے کہ تم جو کچھ مال کماتے ہو اُس میں دوسرے لوگوں کا بھی حصہ ہے.کیونکہ مال جن چیزوں سے کمایا جاتا ہے وہ ساری کی ساری ایسی ہیں جو کسی خاص شخص کی ملک نہیں بلکہ ساری دنیا ان پر حق رکھتی ہے.مثلاً تجارت کو لے لو، تجارت لوہے کی ہوتی ہے یا لکڑی کی ہوتی ہے یا اور بعض چیزوں کی ہوتی ہے ہے.مگر کیا لوہا اور لکڑی تاجر آپ بناتا ہے؟ اللہ تعالی نے لکڑی بنائی ہے سارے انسانوں کے مین لیے، اللہ تعالی نے کوئلہ بنایا ہے سارے انسانوں کے لیے، اللہ تعالی نے مٹی کا تیل بنایا ہے سارے انسانوں کے لیے اللہ تعالیٰ نے کپاس بنائی ہے سارے انسانوں کے لیے اللہ تعالیٰ نے یہ

Page 670

خطبات محمود 670 $1944 گندم بنائی ہے سارے انسانوں کے لیے.مگر جب ایک شخص ان چیزوں سے خاص طور پر نفع کماتا ہے تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اب تمہارا فرض ہے کہ تم مالک کو اُس کا ٹیکس ادا کرو کیونکہ یہ وہ چیزیں ہیں جن کی ساری دنیا مالک ہے.پس جس طرح مزارع اپنے مالک کو ٹیکس ادا کرتا ہے اُسی طرح اللہ تعالیٰ ایسے شخص کو حکم دیتا ہے کہ وہ بھی ٹیکس ادا کرے.وہ فرماتا ہے چونکہ تم کسان بنے اور تم نے اس زمین میں زراعت کی جو ساری دنیا کی ہے اس لیے اب تمہارا فرض ہے کہ تم مالک کو اس کا حق دو.چنانچہ اڑھائی فیصدی ٹیکس اُس سے وصول کیا جاتا ہے اور پھر جو نظام مقرر ہوتا ہے وہ اس ٹیکس کو غرباء کی مدد کے لیے خرچ کرتا ہے.لیکن اگر کوئی شخص خدا تعالیٰ کے مقرر کردہ ٹیکس ادا نہیں کرتا یا ادا کرتا ہے مگر پورے طور پر ادا نہیں کرتا، کسی قدر حصہ اپنے پاس رکھ لیتا ہے تو اسلامی نقطہ نگاہ سے وہ ایک چور کی حیثیت رکھتا ہے.بظاہر ایک شخص کپڑے کا تاجر ہو گا لیکن در حقیقت وہ چور ہو گا.کیونکہ کپڑا آخر کن چیزوں سے تیار ہوتا ہے؟ کپڑا تیار ہوتا ہے روئی سے.اور روئی تیار ہوتی ہے زمین سے.اور زمین کسی خاص شخص کے لیے نہیں بنائی گئی بلکہ اللہ تعالیٰ نے ساری دنیا کے لیے بنائی ہے.پس جب زمین ساری دنیا کے لیے بنائی گئی ہے اور اسی زمین میں سے روئی کی فصل تیار کر کے ایک شخص ہے کپڑے کی تجارت کرتا ہے تو اس کا فرض ہے کہ وہ اس ٹیکس کو ادا کرے جو اس پر عائد ہوتا ہے کہ اُس نے اُس چیز سے فائدہ اٹھایا جس میں ساری دنیا کا حصہ تھا.اسی طرح زمینوں پر زکوۃ کا حکم ہے کیونکہ زمین کسی ایک شخص کی نہیں بلکہ ساری دنیا کی ہے.اگر بعض وجوہ سے کوئی ٹکڑا کسی شخص کے قبضہ میں چلا گیا ہے تو بہر حال اُسے غریبوں کو اُن کا حق دینا پڑے گا اور وہ یہ کہہ کر اس ٹیکس سے نہیں بچ سکے گا کہ جب میں نے اپنی ذاتی کوشش سے یہ روپیہ کمایا ہے تو میں غریبوں کو اپنے مال کا ایک حصہ کیوں دوں؟ اس لیے کہ گو اس نے ذاتی محنت سے روپیہ کمایا ہے مگر بہر حال اُس نے روپیہ ایک ایسی چیز سے کمایا ہے جو ساری دنیا کے لیے مشترک تھی اور جس میں غرباء کا حق بھی رکھا گیا تھا.پس اسلام کی ہدایت کے مطابق اس شخص سے زکوۃ لی مین جائے گی اور غرباء پر خرچ کی جائے گی.اگر کوئی شخص زکوۃ نہیں دیتا تو و و یقینا چور ہے.خواہ وہ منی یہ کہے کہ میں نے رات اور دن محنت کر کے کپڑے کی تجارت سے یہ روپیہ کمایا ہے، خواہ وہ

Page 671

خطبات محمود 671 $1944 یہ کہے کہ میں نے رات اور دن محنت کر کے لوہے کے کارخانہ سے یہ روپیہ کمایا ہے، خواہ وہ یہ کہے کہ میں نے رات اور دن محنت کر کے مٹی کے تیل کی تجارت سے یہ روپیہ کمایا ہے ، خواہ کسی چیز کی تجارت سے اُس نے روپیہ کمایا ہو اُس میں ساری دنیا کا حصہ ہے اور اُس کا فرض ہے کہ وہ اس حصہ کو ادا کرے اور اگر وہ بغیر اس ٹیکس کو ادا کرنے کے روپیہ اپنے گھر میں لے جاتا ہے تو وہ چور ہے، ڈاکو ہے، دھوکے باز ہے اور قطعاً اسلام اُسے مومن کہنے کے لیے تیار نہیں ہے.ہاں ایک بات یادر کھنی چاہیے اور وہ یہ کہ اس زمانہ میں چونکہ ٹیکس ڈہرا ہو گیا ہے یعنی گورنمنٹ بھی ٹیکس لیتی ہے اور اسلام بھی ایک ٹیکس لیتا ہے اس لیے جس پر گورنمنٹ کی طرف سے ٹیکس عائد ہوتا ہو اگر اس کے ٹیکس کی رقم زکوۃ کے برابر یاز کوۃ سے زیادہ ہو تو پھر زکوۃ دینا اُس پر واجب نہیں ہے.یہ امر بھی یاد رکھنا چاہیے کہ گورنمنٹ جمع شدہ مال پر ٹیکس نہیں لیتی بلکہ آمد پر ٹیکس وصول کرتی ہے.لیکن اسلام اس مال سے زکوۃ وصول کرتا ہے جو انسان کے پاس جمع ہو اور جس پر سال گزر گیا ہو.فرض کرو ایک شخص دس ہزار روپیہ ا سالانہ کماتا ہے اور گور نمنٹ اُس سے ٹیکس لے لیتی ہے اور وہ ٹیکس زکوۃ سے زیادہ ہے تو ہم کہیں گے اب ایسے شخص پر زکوۃ واجب نہیں.جیسے زمیندار سے بھی گورنمنٹ مالیہ وصول کر لیتی ہے تو اس کے بعد اگر وہ مالیہ زکوۃ کے برابر یا اُس سے زیادہ ہوتا ہے تو اُس پر زکوۃ واجب نہیں رہتی.لیکن اگر کوئی زمیندار معاملہ ادا کرنے کے بعد اپنے اخراجات میں کفایت سے کام لینا شروع کر دیتا ہے اور اس طرح وہ کچھ روپیہ پس انداز کر لیتا ہے جس پر ایک سال گزر جاتا ہے تو اُس روپیہ پر زکوۃ کا حکم عائد ہو جائے گا.فرض کرو اس نے کفایت کرتے کرتے پانچ ہزار روپیہ جمع کر لیا ہے اور اس پانچ ہزار روپیہ پر ایک سال گزر گیا ہے تو اسلام کی طرف سے ہے اُس پر زکوۃ کا ٹیکس لگ جائے گا.پس جمع شدہ مال پر جب سال گزر جائے اور وہ مال زکوۃ کے نصاب کے اندر ہو تو شریعت کی طرف سے زکوۃ کا حکم انسان پر عائد ہو جاتا ہے.خواہ وہ زمیندار کامال ہو یا تاجر کا ہو یا کسی اور کا ہو.ہاں ! اُس مال میں سے جس پر ٹیکس گورنمنٹ نے زکوۃ کے برابر یا اس سے زائد لے لیا ہو بچا ہوا روپیہ اگر سال ہی میں خرچ ہو جائے تو اس پر

Page 672

خطبات محمود 672 $1944 زکوۃ واجب نہیں ہے.مگر کچھ نہ کچھ رقم ثواب میں شمولیت کے لیے طوعی طور پر انسان کو پھر بھی دینی چاہیے.ہاں! اگر انکم ٹیکس یا مالیہ کم ہو اور زکوۃ یا عشر اُس پر زیادہ عائد ہوتا ہو تو پھر جتنی کمی رہ جائے گی اس کو پورا کرنا اس کا فرض ہو گا.فرض کرو زکوۃ کے میں روپے کسی شخص کے ذمہ تھے.گورنمنٹ نے ٹیکس کے ذریعہ پندرہ روپے وصول کر لیے تو باقی پانچ روپے اسلام کا قائم کر دہ نظام اُس سے ضرور وصول کرے گا.لیکن اگر گور نمنٹ نے اُس سے ٹیکس اکیس روپے لے لیے ہیں تو پھر زکوۃ اُس پر واجب نہیں ہوگی.زکوۃ کا حکم ایسے شخص پر اُسی صورت میں عائد ہو گا جب وہ اپنی آمد کو جمع رکھے اور پھر اُس جمع شدہ مال پر جب وہ نصاب سے زائد ہو ایک سال گزر جائے.چوتھی بات میں نے یہ بتائی تھی کہ اسلام نے ایک یہ حکم بھی اپنے ماننے والوں کو دیا ہے ہے جن میں تاجر اور صناع خصوصیت سے شامل ہیں کہ وہ تنگی کی حالت میں بھی انفاق سے کام لیں.اِس بارہ میں اللہ تعالیٰ نے ایک اور مقام پر بھی توجہ دلائی ہے.فرماتا ہے وَفِي أَمْوَالِهِمْ حَقٌّ لِلسَّابِلِ وَ الْمَحْرُومِ 16 یعنی اُن کو بھی دو جو سوال کرتے ہیں، اُن کو بھی دو جو سوال نہیں کر سکتے.اور اُن کو بھی دو جو سوال کر ہی نہیں سکتے.سوال نہ کر سکنا کئی طرح سے ہوتا ہے.مثلاً ایک شخص گونگا ہوتا ہے اور وہ بول ہی نہیں سکتا.یا جانور ہیں کہ وہ جب کسی مصیبت میں مبتلا ہوں تو دوسرے سے کوئی سوال نہیں کر سکتے.دنیا میں عام طور پر دیکھا جاتا ہے کہ جب کوئی جانور بوڑھا ہو کر ناکارہ ہو جاتا ہے تو لوگ اُسے مار کر اپنے گھر سے نکال دیتے ہیں اور کوئی اس کا پرسان حال نہیں رہتا.ایسے جانوروں کو پالنا مالک کا کام ہوتا ہے یا پھر حکومت کا فرض ہو تا ہے کہ وہ مالک کو مجبور کرے کہ اُس جانور کو اپنے گھر میں رکھے.آخر یہ کوئی انصاف نہیں کہ جب تک کسی جانور سے کمائی کی جاسکتی تھی اُس وقت تک تو اُسے کھلایا پلایا اور جب وہ بوڑھا ہو گیا اور کام کے قابل نہ رہا تو اُسے مار کر اپنے گھر سے باہر نکال دیا.گائے اور بیل ایسے جانور ہیں جن کے بوڑھایا ناکارہ ہونے پر لوگ ان کو ذبح کر لیتے ہیں مگر گھوڑا اور گدھا وغیرہ ایسے جانور ہیں جن کو ذبح نہیں کیا جاسکتا.پس اللہ تعالی فرماتا ہے کہ وَفِي أَمْوَالِهِمْ حَق لسايل والمَحْرُومِ لوگوں کے اموال میں اُن کا بھی حق ہے جو محروم ہیں اور بولنے کی من

Page 673

خطبات مج محمود 673 $1944 طاقت اپنے اندر نہیں رکھتے.انصاف یہ ہے کہ اول تو مالک کو مجبور کیا جائے کہ وہ اُس جانور کو رکھے.جب ساری عمر اس نے کمائی کی ہے تو اب بوڑھا ہونے پر اُسے گھر سے نکال دینا اور اس کی خبر گیری نہ کرنا ہر گز جائز نہیں.اور اگر مالک کسی طرح بھی اس کو رکھنے کے لیے تیار نہ ہوتی اور حکومت اپنے ہاتھ میں نہ ہو تو پھر ملک کا فرض ہے کہ وہ اس کی خبر گیری کرے.یہ مالداروں پر خصوصاً حق مقرر کیا گیا ہے کہ وہ اپنے روپیہ میں سے سائل اور محروم دونوں کا خیال رکھیں.پانچویں بات تَعَاوُن عَلَى الْبِرِّ وَ التَّقْوی تھی.یہ فرض بھی جیسا کہ میں نے بتایا ہے سب پر عاید ہوتا ہے.لیکن تجارت اور صنعت و حرفت کا کام کرنے والوں پر خصوصاً یہ اہم ترین ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ تَعَاوُن عَلَى الْبِرِّ وَ التَّقْوَی کریں.تاجر اور صناع دو ایسے گروہ ہیں کہ اُن کا تعاون بہت وسیع ہو سکتا ہے.مثلاً صناع اگر ایسی صورت میں اپنی صنعت و حرفت کو فروغ دیں کہ اُن کی صنعت سے مذہب کو شوکت حاصل ہونے لگ جائے، دین کی شہرت پھیلنے لگ جائے اور سلسلہ کی مضبوطی پہلے سے بڑھ جائے تو یقیناً اُن کی صنعت دین کا ایک حصہ سمجھی جائے گی.یا اگر کوئی شخص دو کام کر سکتا ہو اور ان دونوں میں سے ایک کام ایسا ہو جس سے دین کی مدد ہوتی ہو اور دوسر ا کام ایسا ہو جس سے دین کی مدد نہ ہوتی ہو تو اسے بہر حال وہ کام کرنا چاہیے جس سے دین کی مدد ہوتی ہو.خواہ اس میں تھوڑے بہت نفع کا ہے فرق ہی کیوں نہ ہو.اگر ایسا شخص وہ کام اختیار کرتا ہے جس سے دین کی مدد ہوتی ہو تو وہ یقیناً ثواب کا مستحق ہو گا اور اُس کا دنیا کمانا محض دنیا نہیں بلکہ دین کا ایک حصہ ہو گا.عام لوگ اِس بات کو نہیں سمجھ سکتے کہ کس طرح بعض تجار تیں دین کے لیے مفید ہو سکتی ہیں اور نہ اِن تمام باتوں کو تفصیلاً بیان کرنے کا یہ موقع ہے.لیکن ہوتا یہی ہے کہ بعض تجار تیں اور بعض صنعتیں دین کے لیے مفید ہوتی ہیں اور بعض تجار تیں اور بعض صنعتیں دین کے لیے مفید نہیں ہو تیں.اور اس کی تفصیل تاجروں اور صناعوں کو بتائی جاسکتی ہے.پس انہیں صرف اُن تجارتوں اور ان صنعتوں کو ترجیح دینی چاہیے جن سے دین کی تائید ہوتی ہو.اسی طرح تَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَی میں جہاں یہ بات داخل ہے کہ ایسی تجارتیں

Page 674

خطبات محمود 674 $1944 اور ایسی صنعتیں اختیار کی جائیں جو دین کی تقویت کا موجب ہوں وہاں آپس میں ایک دوسرے سے تعاون کرنے کا بھی اِس آیت میں حکم پایا جاتا ہے.آخر ایک شخص کی تجارت کیوں چل نکلتی ہے اور دوسرے شخص کی تجارت کیوں رہ جاتی ہے ؟ اسی لیے کہ ایک شخص کو تجارت میں کامیابی حاصل کرنے کے گر معلوم ہوتے ہیں اور دوسرا شخص تجارت کے اصول سے ناواقف ہو تا ہے.ایک شخص جانتا ہے کہ سودا کہاں سے ستا ملتا ہے، سودا کس طرح فروخت کرنا چاہیے، کسی منڈی میں بیچنے سے زیادہ نفع حاصل ہوتا ہے اور کس منڈی میں بیچنے سے کم نفع حاصل ہوتا ہے.مگر دوسرا شخص ان باتوں کو نہیں جانتا.پس اگر ہماری جماعت کے تاجر اپنی ہی تجارت کے ساتھ ساتھ کسی اور آدمی کو بھی تجارت کا کام سکھا دیں اور اُسے بھی تجارت کے رازوں سے واقف کر دیں تو یہ بھی ایک قومی تعاون ہو گا اور اس کے نتیجہ میں بھی وہ بہت بڑے ثواب کے مستحق ہوں گے.اسی طرح اگر ایک شخص کو کوئی پیشہ یا ہنر آتا ہے تو اسے چاہیے کہ اس پیشہ یا ہنر کو اپنے پاس بھی نہ رکھے بلکہ دوسرے کو بھی سکھا دے.پرانے زمانہ میں لوگوں کو یہ عادت تھی کہ وہ بعض ہنر مخفی رکھتے تھے.جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ ہنر اُن کے ساتھ ہی چلے گئے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سنایا کرتے تھے کہ ایک نائی تھا جسے زخموں کو اچھا کرنے کا ایک نہایت ہی اعلیٰ درجے کا نسخہ معلوم تھا.دور دور سے لوگ اُس کے پاس علاج ہے کے لیے آتے اور فائدہ اٹھاتے مگر وہ اتنا بخیل تھا کہ اپنے بیٹے کو بھی اُس مرہم کا نسخہ نہ بتاتا اور کہتا کہ یہ اتنا بڑا ہنر ہے کہ اس کے جاننے والے دو آدمی ایک وقت میں نہیں ہو سکتے.بیٹے نے می بہتیری منتیں کیں اور کہا کہ مجھے یہ نسخہ آپ بتا دیں مگر وہ یہی جواب دیتا کہ مرتے وقت تمہیں بتاؤں گا اس سے پہلے نہیں بتا سکتا.بیٹا کہتا کہ موت کا کوئی پتہ نہیں وہ کس وقت آجائے آپ مجھے ابھی یہ نسخہ بتادیں.مگر باپ آمادہ نہ ہوا.آخر ایک دفعہ وہ بیمار ہوا اور سخت نازک حالت ہو گئی.بیٹا کہنے لگا باپ! مجھے اب تو نسخہ بتادیں.مگر وہ جواب دیتا کہ میں مرتا نہیں اچھا ہو جاؤں گا.پھر اور حالت خراب ہوئی تو بیٹے نے پھر منتیں کیں مگر اُس نے پھر یہی جواب دیا کہ کیا تو سمجھتا ہے میں مرنے لگا ہوں؟ میں تو ابھی نہیں مرتا.غرض اسی طرح وہ جواب دیتا رہا

Page 675

$1944 675 خطبات محمود یہاں تک کہ مر گیا اور اُس کا بیٹا جاہل کا جاہل ہی رہا.تو اسلام اس بات کو جائز قرار نہیں دیتا.اسلام کہتا ہے کہ تم علم کو صرف اپنی ذات تک محدود نہ رکھو بلکہ اُسے وسیع کرو اور دوسرے لوگوں میں پھیلاؤ.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ہے بعض علم اور بعض پیشے ایسے ہیں جن میں ایک حد تک اور ایک وقت تک اخفاء جائز ہوتا ہے مگر ہمیشہ کے لیے اخفاء جائز نہیں ہوتا.یورپ میں ادویہ کو پیٹنٹ (PATENT) کرانے کا ایک نہایت ہی مفید طریق جاری ہے.وہ کہتے ہیں اگر کوئی شخص ایجاد کرے تو چالیس سال تک وہ اس سے فائدہ اٹھانے کا حق رکھتا ہے.ہم کسی کو یہ اجازت نہیں دیں گے کہ وہ اس کی نقل کرے.لیکن چالیس سال کے بعد اجازت ہونی چاہیے کہ سب لوگ اُس سے فائدہ اٹھائیں.در حقیقت یہ ایک بہت ہی اچھا طریق ہے جو یورپ والوں نے ایجاد کیا ہے کہ وہ کچھ وقت موجد کو دے دیتے ہیں کہ وہ اُس میں اپنی ایجاد سے فائدہ اٹھائے اور پھر ساری دنیا میں اُس کو پھیلا دیتے ہیں تاکہ اور لوگ بھی اگر اس سے فائدہ اٹھانا چاہیں تو اٹھا لیں.اسی طرح صناع اور تاجر ہے اگر اپنی صنعت اور تجارت کے ساتھ ساتھ دوسروں کو بھی یہ پیشے سکھا دیں یا ان پیشوں کے سیکھنے میں اُن کی مدد کریں تاکہ دوسرے شہروں یا دوسرے ملکوں میں صنعت و حرفت اور تجارت کو فروغ حاصل ہو تو یہ بھی ایک رنگ کی زکو ہو گی جو اُن کی تجارت اور صنعت کو پاک کرنے کا ذریعہ بن جائے گی.تَعَاوُن عَلَى الْبِرِّ وَ التَّقوی میں تجارتی کمیٹیاں اور صناعوں کی کمیٹیاں بھی شامل ہیں کہ ایک دوسرے کے مال کے فروخت کرنے میں مدد دیں اور ایک دوسرے کی تجارتوں کے فروغ میں مدد دیں.مسلمان عموماً تجارت میں اس لیے نقصان اٹھاتے ہیں کہ ان کی تجارتوں کو نہ دوسرے نجار سے مد د ملتی ہے اور نہ گاہکوں سے.اس کے بالمقابل ہندو تاجروں کو دونوں طرف سے مدد ملتی ہے اور وہ کامیاب ہو جاتے ہیں.چھٹے میں نے بتایا تھا کہ اسلام نے یہ اصل پیش کیا ہے کہ حَيْثُ مَا كُنتُم فَوَلُّوا وجُوهَكُمْ منظرہ.اس میں یہ گر بتایا گیا ہے کہ صناع اور تاجر جہاں کہیں ہوں اُن کی پالیسی اور شَطْرَهُ اُن کا طریق ایسا ہونا چاہیے کہ اُن کے کام کے نتیجہ میں اسلام کو غلبہ حاصل ہو ، دین کی طاقت بڑھے اور مذہب کی دنیا میں زیادہ سے زیادہ اشاعت ہو.اس اصل کے ماتحت ہر شخص پر

Page 676

خطبات محمد محمود 676 $1944 بڑی بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے خصوصاً تاجروں اور صناعوں پر کیونکہ تاجروں اور صناعوں کولوگوں میں زیادہ رسوخ حاصل ہوتا ہے.انہیں ایک دوسرے سے ملنے کے زیادہ مواقع ملتے رہتے ہیں اور وہ اگر چاہیں تو اپنے اس رسوخ سے دین کی خاطر بہت زیادہ فائدہ اٹھا سکتے ہیں.پس تاجروں اور صناعوں کا وجود مذہب کی تائید اور دین کی تقویت کا بہت زیادہ موجب بن سکتا ہے.اور اگر وہ صرف دنیا کمانے میں اپنے آپ کو مشغول نہ رکھیں تو اسلامی نقطہ نگاہ سے وہ بہت کچھ ثواب حاصل کر سکتے ہیں.ساتویں اسلام نے وزن اور ماپ وغیرہ کی درستی کی ہدایت کی ہے.یہ نقص بھی ہے تاجروں میں خاص طور پر پایا جاتا ہے.پہلے تو وہ صرف ڈنڈی مارا کرتے تھے مگر اب کئی قسم کے تم بے بنا لیے گئے ہیں.پہلے بھی جب اسلام میں تجارت کا زور تھا لوگوں میں یہ نقص پیدا ہو گیا ہے چنانچہ پرانی کتب میں بھی ذکر آتا ہے کہ پرانے زمانہ میں بھی تین قسم کے بے ہوا کرتے تھے.ایک لینے کے لیے، ایک دینے کے لیے اور ایک افسروں کو دکھانے کے لیے.پس پہلے بھی یہ نقص تھا مگر اس زمانہ میں اس نقص نے بہت بڑی اہمیت اختیار کر لی ہے.اسلام یہ ہدایت دیتا ہے کہ مومن کو چاہیے وہ تول اور ماپ میں کسی قسم کی کمی نہ کرے.جب کوئی چیز میں لے تو تول کر لے اور جب کوئی چیز دے تو تول کر دے.کسی قسم کی دھوکا بازی اور فریب اسلام میں جائز نہیں ہے.اور اگر کوئی تاجر یا صناع ایسا کام کرتا ہے تو اس کا کام محض دنیا داری ہے اور وہ خدا تعالیٰ کی خوشنودی کا موجب نہیں بلکہ اُس کی ناراضگی کو بھڑ کانے کا موجب ہے.جب وہ اس قسم کے دھوکا کے بعد کوئی مال کما کر اپنے گھر میں لے آتا ہے تو حرام مال ہوتا ہے.اور ایسا ہی ہوتا ہے جیسے چوری اور ڈاکہ سے حاصل کیا ہو ا مال ہو.چاہے اُس نے دکان پر ہی بیٹھ کر کیوں نہ حاصل کیا ہو.آٹھویں دھوکا، فریب اور بناوٹ سے اسلام نے نہایت شدت کے ساتھ منع کیا ہے.یہ نقص بھی ایسا ہے جس کا ازالہ نہایت ضروری ہے.ہندوستان میں تو یہ مرض اس قدر پھیلا ہے ہوا ہے کہ کوئی چیز دھوکا اور بناوٹ سے نہیں بچی.گھی فروخت کریں گے تو اس میں چربی یا تیل میں وغیرہ ملا کر، تیل بیچیں گے تو وہ خالص نہیں ہو گا.بلکہ اُس میں بعض اور تیلوں کی

Page 677

خطبات محمود 677 $1944 ملاوٹ ہو گی.یہی باقی تمام چیزوں کا حال ہے.سب ہی میں دھوکا اور فریب سے کام لیا جاتا ہے اور خالص چیز خریداروں کو مہیا نہیں کی جاتی.غیر ملکوں سے تو اب یہ عیب اٹھتا جا رہا ہے.یورپ میں بھی بہت کم رہ گیا ہے.مگر ہندوستان میں ابھی یہ نقص کافی حد تک پایا جاتا ہے.یہ نقائص صرف اسی زمانہ میں نہیں بلکہ اسلامی حکومت کے زمانہ میں بھی یہ نقائص پائے جاتے تھے اور انہی کو دور کرنے کے لیے اسلامی حکومت کی طرف سے محتسب مقرر تھے.ہم نے بھی مرکز میں ایک محتسب اسی قسم کے کاموں کی نگرانی کے لیے رکھا ہوا تھا.غرض کئی قسم کے دھوکوں اور فریبوں سے اشیاء کو خراب کیا جاتا اور بجائے خالص چیز کے ناقص اور گندی امینی اشیاء لوگوں کو مہیا کی جاتی ہیں.میرے پاس عربی کی ایک کتاب ہے جو دو تین سو صفحوں کی ہے اور جس میں بازار کے تمام ہتھکنڈوں کا پوری تفصیل کے ساتھ ذکر کیا گیا ہے.وہ کتاب در حقیقت اسلامی زمانہ میں محتسب کی راہنمائی کے لیے لکھی گئی تھی.چنانچہ جب کسی شخص کو اس ڈیوٹی پر مقرر کیا جاتا ہے تو اُسے بتایا جاتا تھا کہ لوگوں کی طرف سے چیزوں کو کس طرح خراب کیا جاتا ہے اور ہمیں ان خرابیوں کا کس طرح انسداد کرنا چاہیے.یا کس طرح معلوم کرنا چاہیے کہ ان چیزوں میں ہے ملاوٹ اور دھوکا بازی سے کام لیا گیا ہے.گویا وہ محتسب کا نصاب تعلیم تھا جسے پڑھا کر اسے میں احتساب کے کام پر مقرر کیا جاتا تھا تا کہ وہ خالص چیزیں لوگوں کے لیے مہیا کرے اور انہیں ہم دھوکا بازی کا شکار ہونے سے بچائے.اس کتاب کو پڑھ کر حیرت آجاتی ہے کہ کوئی پیشہ ایسا نہیں جس میں دھوکا اور فریب کا کوئی نہ کوئی رستہ پیدا نہ کر لیا گیا ہو.پھر اس دھوکا اور فریب کو چی پہچاننے کے لیے کئی کئی قسم کی تراکیب بتائی گئی ہیں.مثلاً بتایا گیا ہے کہ عنبر کو لوگ اس طرح ہے خراب کرتے ہیں اور اِس اِس طریق پر معلوم کیا جاسکتا ہے کہ عنبر خالص ہے یا اُس میں بعض اور چیزوں کی ملاوٹ ہے.اسی طرح اس میں بتایا گیا ہے کہ لوگ گھی کو کس طرح خراب کرتے ہیں، موم کس طرح خراب کرتے ہیں.تیل کو کس طرح خراب کرتے ہیں، لوہے کو کس طرح خراب کرتے ہیں اور پھر یہ بھی بتایا گیا ہے کہ جب لوگ ان چیزوں کو خراب کر دیں تو تم کس طرح ان خرابیوں کو معلوم کر سکتے ہو.پس یہ بھی ایک بہت بڑا نقص ہے جس کے کو

Page 678

$1944 678 خطبات محمود دور کرنا چاہیے.نویں اسلام کا یہ حکم ہے کہ احتکار نہ ہو.احتکار کے معنے صرف جمع کر کے رکھنے اور بعد میں مہنگا فروخت کرنے کے ہیں.اس میں غلہ کی کوئی شرط نہیں بلکہ کسی چیز کو بھی اگر اس غرض کے لیے بند کر کے رکھ لیا جاتا ہے کہ جب وہ چیز مہنگی ہوگی تو اس وقت ہم فروخت ہے کریں گے تو اسلام کے نزدیک یہ احتکار ہو گا جسے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ناجائز قرار دیا ہے.چنانچہ حدیثوں میں صاف طور پر ذکر آتا ہے کہ اگر کوئی شخص غلہ خرید کر اس لیے روک لیتا ہے کہ جب غلہ مہنگا ہو گا تو اس وقت میں اُسے فروخت کروں گا تو وہ ایک ناجائز فعل کا ارتکاب کرتا ہے.17 بعض لوگوں نے غلطی سے یہ سمجھ لیا ہے کہ یہ حکم صرف غلہ کے متعلق ہے اور چیزوں کے متعلق نہیں.حالانکہ تفقہ کے معنے ہی یہی ہوتے ہیں کہ جو حکم کسی خاص موقع پر دیا جائے اُس کے متعلق یہ دیکھا جائے کہ اس حکم کی فرض کیا تھی.اور پھر جہاں جہاں وہ غرض پائی جائے اس حکم کو چسپاں کر دیا جائے.پس گو انکار کا حکم غلہ کے متعلق ہے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صرف غلہ کے تاجر کے متعلق یہ فرمایا ہے کہ اگر وہ غلہ کو روک لیتا ہے اس ارادہ اور اس نیت سے کہ جب غلہ مہنگا ہو گا تب فروخت کروں گا تو وہ ناجائز فعل کا ارتکاب کرتا ہے.لیکن اس سے استدلال عام کیا جائے گا.کیونکہ اس علم کی مبین اصل غرض یہ ہے کہ لوگ کسی چیز کو روک کر نہ رکھیں تا کہ لوگوں کو کسی قسم کی تکلیف نہ ہو.پس جس طرح غلہ روک کر ایک شخص احتکار کرتا اور شریعت کے نزدیک مجرم قرار پاتا ہے اسی طرح اگر کوئی کپڑے کا تاجر کپڑے کو روک لے اور لوگوں میں فروخت نہ کرے تو وہ بھی ایسا ہی سمجھا جائے گا.یا اگر کوئی لکڑی کو روک لیتا ہے یا لوہے کو روک لیتا ہے یا کوئلے کو روک نے لیتا ہے اور سمجھتا ہے کہ جب یہ چیزیں مہنگی ہوں گی تب میں ان کو فروخت کروں گا تو وہ یقینا ہے اسلام کے خلاف چلتا ہے.پس شریعت اسلامی کے رو سے کوئی ایسی تجارت اور کوئی ایسی صنعت جائز نہیں جس میں انکار سے کام لیا گیا ہو.یعنی یہ مد نظر رکھا گیا ہو کہ جب چیزیں مہنگی ہے ہوں گی تب ان چیزوں کو ہم فروخت کریں گے اُس سے پہلے ہم فروخت نہیں کریں گے.انکار کے سلسلہ میں یہ امر بھی مد نظر رکھنا چاہیے کہ بعض تاجر اس پر وہ میں بھی ہے

Page 679

خطبات محمود 679 $1944 دوسرے کو دھوکا اور فریب دے دیتے ہیں.مثلاً ایک تاجر ایسا ہے جس کے پاس سو من غلہ ہے.ایک دوسرے تاجر کو یہ بات معلوم ہو جاتی ہے جس کے پاس پہلے ہی دو تین سو من غلہ موجود ہے اور وہ اُس کے پاس آکر کوشش کرتا ہے کہ اُس سے بھی سو من غلہ خرید لے تاکہ غله صرف اُسی کے پاس رہے اور کسی کے پاس نہ رہے.وہ اس کے پاس آتا ہے اور کہتا ہے اپنا ہی ایک سو من غلہ میرے پاس فروخت کر دو.اِس پر اگر دوسرا شخص انکار کر دے تو وہ بالکل حق بجانب ہو گا.کیونکہ وہ اُس کے پاس غلہ فروخت کرنے سے اس لیے انکار نہیں کرتا کہ وہ خود اشتکار کرنا چاہتا ہے بلکہ اس لیے انکار کرتا ہے کہ اگر میں نے غلہ فروخت کر دیا تو اس دوسرے تاجر کو احتکار کرنے کا زیادہ موقع مل جائے گا.پس وہ احتکار کے لیے نہیں بلکہ احتکار کو روکنے کے لیے غلہ فروخت کرنے سے انکار کرتا ہے اور وہ سمجھتا ہے کہ یہ شخص ایسا ہے جس کے پاس پہلے ہی کافی غلہ موجود ہے.مگر اس کا منشاء یہ ہے کہ ارد گرد سے سب غلہ اکٹھا کر لے اور اسے گراں قیمت پر فروخت کرے.پس چونکہ وہ احتکار کے لیے نہیں بلکہ دوسرے کو احتکار سے بچانے کے لیے غلہ فروخت کرنے سے انکار کرتا ہے اس لیے اُس کا یہ فعل اسلامی تعلیم کے رو سے بالکل جائز اور درست ہو گا.غرض احتکار کی اسلام میں نہایت سختی سے ممانعت کی گئی ہے اور یہ ایک ایسا عیب ہے جس کی اصلاح نہایت ضروری ہے.آجکل جنگ کی وجہ سے تاجروں میں خصوصیت سے احتکار پایا جاتا ہے.اُن کے پاس کپڑا موجود ہوتا ہے مگر وہ انکار کر دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہمارے پاس کپڑا نہیں.اس سے ان کی غرض یہ ہوتی ہے کہ جب کپڑا اور زیادہ مہنگا ہو گا تب ہم فروخت کریں گے.اسی طرح لکڑی موجود ہوتی ہے مگر جب کوئی لکڑی کا خریدار آتا ہے تو اُس کے سامنے انکار کر دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہمارے پاس لکڑی نہیں.کو مکہ موجود ہوتا ہے ہے مگر جب کو ئلہ مانگنے کے لیے آتا ہے تو انکار کر دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہمارے پاس کوئلہ نہیں.شریعت کے رو سے یہ بالکل ناجائز ہے.اور ہر شخص جو احتکار کے نتیجہ میں روپیہ کماتا ہے اُسے اچھی طرح یاد رکھنا چاہیے کہ وہ حرام خوری کا ارتکاب کرتا اور اللہ تعالیٰ کے غضب کو اپنے اوپر بھڑ کاتا ہے.اللہ تعالی نے دنیا کمانے کے جو جائز ذرائع رکھے ہوئے ہیں ؟

Page 680

خطبات مج محمود 680 $1944 صرف أن ذرائع سے کام لینا چاہیے.ناجائز اور گندے اور ناپاک ذرائع جن کا اسلام د ہے، جن سے اُس نے بڑی شدت کے ساتھ منع کیا ہے اُن کو اختیار کرنا دین کی ہتک کرنا اور خدا تعالیٰ کی نگاہ میں موردِ غضب اور قہر بننا ہے.اللہ تعالیٰ نے ایک مومن کے لیے دنیا کا مال کمانا اس لیے جائز رکھا ہے کہ دنیا اُس کے دین کے لیے مددگار ہو.اگر کوئی شخص دین کو نظر انداز کر دیتا ہے تو اُس کا دنیا کمانا اُس کے لیے لعنت کا ایک طوق ہے جو اسے خدا تعالیٰ کے حضور ایک مجرم کی حیثیت میں کھڑا کرے گا.انسان کو ان گندے ذرائع اختیار کرنے کا لالچ صرف اس لیے پیدا ہوتا ہے کہ وہ اپنے ہمسایوں کو دیکھتا ہے کہ وہ بھی ایسا کر رہے ہیں.جب وہ اپنے کسی ہمسایہ یا اپنے کسی دوست یا اپنے کسی واقف تاجر کو اس قسم کے ذرائع اختیار کرتے ہیں ہوئے دیکھتا ہے تو اُس کے دل میں بھی خیال آجاتا ہے کہ میں بھی اس ذریعہ سے دولت کما دیکھوں.حالانکہ اگر وہ جھک مارتا ہے تو کیا تم بھی جھک مارنے لگ جاؤ گے.اگر کل کو وہ شراب میں پینے لگ گیا تو کیا تم بھی شراب پینے لگ جاؤ گے ؟ اور کہو گے کہ میں شراب کیوں نہ پیوں، میرا فلاں ہمسایہ جو شراب پیتا ہے.اسی طرح دنیا میں بہت سے لوگ ہیں جو سور کھاتے ہیں.پھر کیا تم ان کو دیکھ کر سور بھی کھانے لگ جاؤ گے ؟ اور کہو گے کہ ہم ان سے کیوں پیچھے رہیں؟ دنیا می میں بعض مردار خور قومیں ہیں جو مر دار اور خون تک کھا جاتی ہیں.کیا ایسی حالت میں تم بھی مردار کھانے لگ جاؤ گے اور اپنے دین کو تباہ کر لو گے؟ ایک واقعہ مشہور ہے کہ ایک غریب شخص کسی گاؤں میں رہتا تھا.وہاں کا نمبر دار ایک دن اس کے پاس آیا اور بعض بر تن اس سے مانگ کر لے گیا کیونکہ اس کے ہاں شادی کی من تقریب تھی.اُس شخص نے سمجھا کہ نمبر دار چند روز تک میرے بر تن مجھے واپس کر دے گا مگر جیسے جابر زمینداروں کا طریق ہوتا ہے اُس نے بر تن واپس نہ کیے یہاں تک کہ مہینہ دو مہینے گزر گئے.ایک دن وہ اتفاقاً اُسی زمیندار کے گھر جانکلا.تو اُس نے دیکھا کہ وہ اُسی کے پیالہ میں ساگ کھا رہا ہے.یہ دیکھ کر اسے سخت جوش آیا اور زمیندار سے کہنے لگا چودھری ! یہ بھی کوئی ہے انصاف کی بات ہے کہ تم مجھ سے بر تن مانگ کر لائے اور پھر کئی مہینے گزرنے کے باوجود تم نے می واپس نہ کیے بلکہ آج تم میرے پیالہ میں ہی ساگ کھا رہے ہو! ! پھر ایک گالی دے کر کہنے لگا ہے

Page 681

خطبات محمود 681 $1944 تم مجھے بھی ایسا ویسا سمجھنا اگر میں تمہارا برتن نہ لے جاؤں اور اُس میں پاخانہ ڈال کر نہ کھاؤں.اب دیکھو اُس نے ایک بات تو کہی مگر سوائے اپنی ناک کاٹنے کے اُس نے اور کیا کیا؟ اُس نے چاہا تو یہ تھا کہ دوسرے کو ملامت کرے مگر اپنی بیوقوفی کی وجہ سے خود ہی ذلیل ہو گیا.تو وہ شخص جو کہتا ہے کہ چونکہ فلاں ایسا کرتا ہے اس لیے میں نے بھی ایسا ہی کیا وہ اپنی بیوقوفی کا آپ اقرار کرتا ہے اور اس کے معنے یہ بنتے ہیں کہ چونکہ فلاں نے جھک ماری اس لیے میں بھی جھک مارتا ہوں یا چونکہ فلاں نے نجاست کھالی اِس لیے میں بھی اس کے کھانے سے باز نہیں رہ سکتا.اگر کوئی اور شخص ایسے فعل کا ارتکاب کرتا ہے تو بجائے اس کے کہ تم اس کی نقل کرو تمہیں یہ سمجھ لینا چاہیے کہ وہ خدا کا نا فرمان ہے.خدا کے احکام کا دشمن ہے.اس کے دل میں ایمان کا ایک ذرہ بھی نہیں.اُسے اپنی موت کا کوئی یقین نہیں.اسے جنت اور دوزخ پر کوئی ہے ایمان نہیں.اگر تمہارا بھی یہی حال ہے تو بے شک تم بھی ایسا ہی کر لو.اور اگر تم اپنے دل میں ایمان رکھتے ہو تو تمہیں گندے افعال میں دوسرے کی متابعت کا خیال ہی کس طرح پیدا ہو سکتا ہے.دسویں میں نے بتایا ہے کہ مزدور کو اُس کا حق دو اور وقت پر دو.یہ بھی ایک ایسا حکم ہے جس کی طرف عام طور پر توجہ سے کام نہیں لیا جاتا.یورپ میں تو مزدوروں نے اپنی تم کمیٹیاں بنائی ہوئی ہوتی ہیں جن کے ذریعہ وہ اپنے حقوق کے لیے جد و جہد کرتے رہتے ہیں.لیکن ہندوستان میں یہ بات نہیں.یہاں اول تو لوگ مزدور کو اُس کے حق سے کم دیتے ہیں اور پھر جو کچھ دیتے ہیں وہ بھی وقت پر نہیں دیتے.اس کا نتیجہ یہ ہو رہا ہے کہ نہ صرف مزدور طبقہ کی حق تلفی ہو رہی ہے بلکہ مالکوں کو بھی نقصان پہنچ رہا ہے.گویا اس فعل کے نتائج دُہرے طور پر نکل رہے ہیں.مزدور بھی نقصان اٹھا رہے ہیں اور مالک بھی نقصان اٹھارہے ہیں.کیونکہ مالکوں کو مزدوروں سے ہی کام لینا پڑتا ہے اور جب اُن کے حقوق ادا نہیں کیے جاتے تو وہ ہیں خوش دلی سے کام نہیں کرتے.جس کا اثر اُس کام پر پڑتا ہے جو اُن کے سپرد کیا جاتا ہے اور اِس طرح مالک بھی مزدور کی حق تلفی کر کے اپنے آپ کو نقصان پہنچاتے ہیں.یورپ میں میں نے دیکھا ہے کوئی شخص چلتا ہوا نظر نہیں آتا.یوں معلوم ہوتا ہے

Page 682

خطبات محمود 682 $1944 کہ سب لوگ دوڑ رہے ہیں.جب ہم یورپ گئے تو ایک دفعہ میں نے حافظ روشن علی صاحب سے پوچھا یا حافظ صاحب نے مجھ سے پوچھا کہ کیا آپ نے لنڈن میں کسی کو چلتے بھی دیکھا ہے؟؟ اس کا جواب انہوں نے مجھے یہ دیا یا میں نے انہیں یہ جواب دیا کہ لنڈن میں ہم نے کسی شخص کو اُس طرح چلتے نہیں دیکھا جس طرح ہمارے ملک میں لوگ چلتے ہیں.بلکہ وہاں ہم نے جس کو بھی دیکھا ہے دوڑتے ہوئے دیکھا ہے.بازاروں میں بھی ہم نے کسی کو اپنے ملک کے لوگوں نے کی طرح چلتے نہیں دیکھا بلکہ ہر ایک ہمیں دوڑتا ہواہی نظر آیا ہے.وہاں ہم نے ایک دفعہ ایک عمارت بنتی دیکھی تو حیرت آگئی کہ کس پھرتی کے ساتھ مز دور وہاں کام کر رہے ہیں.ہمارا مزدور جب اینٹ اٹھانے لگتا ہے تو ہاتھوں میں اٹھا کر اور ایک آہ بھر کر ٹوکری میں ڈالتا ہے.پھر دوسری اینٹ اٹھاتا اور یہ دکھانے کے لیے کہ وہ کام کر رہا ہے اس طرح پھونک مار مار کر اُس پر سے گرد ہٹاتا ہے کہ گویا اطلس یا کمخواب کا کوئی تھان اُس کے سامنے پڑا ہوا ہے.کبھی اُس کے ایک طرف پھونک مارے گا کبھی دوسری طرف پھونک مارے گا اور بہانہ صرف یہ ہو گا کہ کچھ نہ کچھ دیر لگ جائے.پھر آرام سے اٹھتا ہے اور آہستہ آہستہ چلتے ہوئے اُسے معمار کے پاس لے جاتا ہے اور جب اِس انداز میں وہ دو تین ٹوکریاں اٹھا لیتا ہے تو اُس کے بعد بیٹھ جاتا ہے اور کہتا ہے میں حقہ کے دو گھونٹ تو پی لوں.مگر یورپ میں یہ بات نہیں.وہاں ہر دوڑتا ہوا نظر آتا ہے.اور پھر جس عمارت کا میں نے ذکر کیا ہے وہ عمارت جس طرح میں نے منٹوں میں اُٹھتی دیکھی ہے اُس طرح گھنٹوں میں بھی ہمارے ملک میں کوئی عمارت کھڑی نہیں ہوتی.پس اس کا نتیجہ دونوں کے حق میں خراب نکل رہا ہے مزدور کے حق میں بھی منی اور آقا کے حق میں بھی.جب مزدور کو اُس کی مزدوری صحیح طور پر نہیں دی جاتی تو وہ بھی دل لگا کر کام نہیں کرتا.بلکہ اگر اسے پوری اجرت دو تب بھی وہ کام نہیں کرتا.کیونکہ سستی اور ہے کاہلی اور نکے پن کی اُس کے اندر عادت پیدا ہو چکی ہوتی ہے.اس کے لیے ہمیں ایک ایسے انتظام کی ضرورت ہے جو دونوں طرف کی بُری عادتوں کو دور کر دے.ادھر مزدوروں کو محنت اور دیانتداری سے کام کرنے پر مجبور کرے اور اُدھر مالکوں کو اس بات پر مجبور کرے کہ وہ مزدوروں کو اُن کا پورا حق دیں اور ٹھیک وقت پر دیں.

Page 683

خطبات محمود 683 $1944 مجھے نہایت افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ میں نے اس ملک میں پوری دیانتداری اور محنت کے ساتھ کام کرنے والا ایک مزدور بھی نہیں پایا.خواہ لوہار ہوں، نجّار ہوں، معمار ہوں سب میں میں نے یہ نقص دیکھا ہے کہ اُن کی کوشش یہ ہوتی ہے کہ آنکھ بچا کر کسی طرح کام سے بچ جائیں.دوسری طرف مالکوں کی یہ حالت ہوتی ہے کہ وہ مزدوروں کا خون چوستے رہتے ہیں اور اُن کی جائز مزدوری دینا بھی اُن کے لیے مشکل ترین مرحلہ ہوتا ہے.اسلام نے اس نقص کی طرف بھی تاجروں اور صناعوں کو خاص طور پر توجہ دلائی ہے اور ہدایت کی ہے کہ مزدور کو اس کی پوری مزدوری دو اور پھر وہ مزدوری عین وقت پر دو.گیارھویں بات یہ ہے کہ انسان کے اندر تکبر اور خیلاء وغیرہ پیدا نہ ہو.دولت کمانے سے اسلام کبھی منع نہیں کرتا.اسلام صرف یہ کہتا ہے کہ تم دولت تو کماؤ مگر وہ دولت امیر اور غریب میں فرق پیدا کرنے کا موجب نہ بن جائے.اگر کوئی دولت امیر اور غریب میں فرق ڈال دیتی ہے ، امارت اور غربت میں امتیاز پیدا کر دیتی ہے تو وہ دولت اسلامی نقطہ نگاہ سے ناجائز ہو گی.اگر کوئی امیر اپنے غریب بھائی سے مل کر بیٹھ نہیں سکتا، اگر وہ ایک دستر خوان پر اُس کے ساتھ کھانا نہیں کھا سکتا، اگر وہ ملنے کے لیے آتا ہے تو امیر آدمی اُس سے اپنی پیٹھ موڑ لیتا ہے یا وہ بات کرتا ہے تو یہ غصے اور جوش کی حالت میں اُس سے کہتا ہے تم جانتے نہیں میں کون ہوں؟ تو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ وہ شخص دولت کمانے کے بعد انسان نہیں رہا بلکہ حیوان بن گیا ہے.اور دولت صرف انسان کے لیے جائز ہے حیوان کے لیے جائز نہیں.لیکن اگر کسی شخص کے پاس دولت تو آجاتی ہے مگر اس کے باوجود اس میں اور دوسرے غریب بھائیوں میں ہے مغائرت کی کوئی دیوار حائل نہیں ہوتی، وہ اپنے آپ کو کوئی علیحدہ جنس سمجھنے نہیں لگتا، وہ ہے دوسروں کو تحقیر اور تذلیل کی نگاہ سے نہیں دیکھتا، وہ اُن سے محبت کے ساتھ بات چیت کرتا ہے، ان کے دُکھ سکھ میں شریک ہوتا ہے، اپنے آپ کو کوئی الگ قسم کا آدمی اور غریبوں کو کوئی ہے الگ قسم کا آدمی نہیں سمجھتا تو ایسے شخص کے لیے دولت کمانا بالکل جائز ہے.بارھویں میں نے بتایا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ایک یہ حکم بھی دیا ہے کہ كُتِبَ عَلَيْكُمْ إِذَا حَضَرَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ مِنْ تَرَكَ خَيْرًا الْوَصِيَّةُ لِلْوَالِدَيْنِ وَالْأَقْرَبِينَ

Page 684

خطبات محمود 684 $1944 بِالْمَعْرُوفِ حَقًّا عَلَى الْمُتَّقِينَ 18 یعنی اگر کوئی شخص مرنے لگے اور مال و دولت اُس کے پاس ہو تو وہ کچھ روپیہ غرباء کی بہبودی اور دین کی خدمت کے لیے وقف کر دے.گو اس آیت کے ایک دوسرے معنے بھی ہیں کہ رشتہ داروں کو وصیت کر جائے کہ شریعت کے مطابق اُس کی جائیداد کی تقسیم ہو.لیکن اس آیت کے ایک یہ معنے بھی ہو سکتے ہیں کہ جب کسی شخص کے ہم پاس ضرورت سے زیادہ مال ہو تو وہ موت کے وقت ایک حصہ کی وصیت کر جائے.اور جہاں کسی آیت کے دو معنے ہو سکتے ہوں وہاں دونوں لیے جائیں گے.یہ نہیں ہو گا کہ ایک معنے ترک کر دیے جائیں اور دوسرے معنے لے لیے جائیں.اس وقت میں خصوصیت اپنی جماعت کے تاجروں اور صناعوں صنعت و حرفت اور تجارت کی اِن ذمہ داریوں میں سے تین باتوں کی طرف توجہ دلاتا ہوں.یوں تو بارہ کی بارہ ہدایات ہی اس قابل ہیں کہ ان کی طرف ہمیشہ اور ہر آن توجہ رکھی جائے.لیکن اس وقت خصوصیت کے ساتھ میں تین باتوں کی طرف توجہ دلاتا ہوں.اول_ تَعَاوُن عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَى دوم - حَيْثُ مَا كُنْتُمْ فَوَلُّوا وُجُوهَكُمْ شَطْرَةً سوم.مزدور کے حق کی ادائیگی.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں.اگر تو اپنی بیوی کے منہ میں ثواب کی نی نیت سے لقمہ ڈالتا ہے تو یہ بھی تیری طرف سے ایک صدقہ ہے.19 بیوی انسان کی ایک نہایت ہی پیاری چیز ہوتی ہے جسے انسان کھلاتا پلاتا ہے مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں گو تمہارا اپنی بیوی سے پیار ایک نفسیانی بات ہے گو جذباتی لحاظ سے تم اُس سے محبت رکھتے ہو اور گو اپنی شہوات کو پورا کرنے کے لیے تم اس سے محبت کرتے ہو اور اسے اچھا کھلاتے اور اچھا پہناتے ہو لیکن اگر تم اپنی بیوی کی خاطر تواضع کرتے ہوئے اُس سے پیار اور محبت کرتے ہوئے یہ نیت کر لیا کرو کہ چونکہ خدا کا حکم ہے کہ بیویوں سے محبت کی جائے اس لیے میں محبت ہے کرتا ہوں.اور چونکہ خدا نے ان کو کھلانے کا حکم دیا ہے اس لیے میں اسے کھلاتا ہوں تو تمہارا ہے یہ کام شہوانی نہیں رہے گا بلکہ دین بن جائے گا.خواہ تمہارا وہ کام صرف اتنا ہو کہ تم نے

Page 685

$1944 685 خطبات محمود اپنی بیوی کے منہ میں لقمہ دیا ہو.اس سے معلوم ہوا کہ اسلام کے نزدیک اگر کام کی نیت درست ہو اور اسے تمدن ومذہب کی درستی کے لیے استعمال کیا جائے تو دنیا کا کام بھی دین بن جاتا ہے.پس اگر ہماری جماعت کے تاجر اور صناع اپنی نیتوں کو درست کر لیں اور اُن تین باتوں کو ہمیشہ مد نظر رکھیں جن کا ابھی میں نے ذکر کیا ہے اور جو تمدن کے ساتھ نہایت گہرا تعلق رکھتی ہیں تو ان کی تجارت اور اُن کی صنعت و حرفت دنیا نہیں رہے گی بلکہ دین بن جائے ہے گی.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ باقی کی نو باتیں بھی نہایت ضروری ہیں مگر میں ان تین کا خصوصیت سے اس لیے ذکر کر رہا ہوں کہ یہ تین باتیں جماعتی ترقی کے ساتھ گہرا تعلق رکھتی ہیں.اگر ہم تعَاوُن عَلَى الْبِرِّ وَ التَّقْوَى سے کام لیں، اگر ہم حَيْثُ مَا كُنتُمْ فَوَلُّوا وُجُوهَكُمْ شَطْرَہ کا اصل ہر وقت اپنے سامنے رکھیں اور اگر ہم مزدور کو اس کا حق دینے میں کسی قسم کی ہچکچاہٹ سے کام نہ لیں اور اُس کا حق بر وقت ادا کر دیں تو گو تجارت اور صنعت و حرفت بظاہر دنیا کمانا ہے لیکن چونکہ ایسا تاجر اور صناع دین کے لیے مفید وجو د ہو گا.اس لیے اس کا دنیا کمانا دنیا کمانا نہیں ہو گا بلکہ دین کمانا ہو گا.پس ہر صناع اور ہر تاجر اگر اپنے کام کو دین کی مدد کی امین نیت سے کرتا ہے تو یہ کام اُس کے لیے ثواب کا موجب ہو جائے گا.لیکن اگر وہ ایسا نہ کرے تو محض دنیا کمانا ہو گا جو اس کے لیے لعنت کا موجب بن جائے گا.میں اس وقت تاجروں کی نسبت کلام کر رہا ہوں لیکن چونکہ ہماری جماعت میں ایک بہت بڑا طبقہ زمینداروں کا بھی ہے اور وہ بھی مال کماتے ہیں.اس لیے میں زمینداروں کی مثال دیتے ہوئے کہتا ہوں کہ دیکھو! قادیان ہماری جماعت کا مرکز ہے اور مرکز ہونے کی وجہ سے قادیان میں جس قدر ہماری جماعت کی مضبوطی ہو گی اور جس قدر اُس کی طاقت اور قوت میں اضافہ ہو گا اُسی قدر مضبوطی ہماری سب جماعت کی طاقت اور اُس کی قوت کا موجب بنے گی.اس حقیقت کو اپنے سامنے رکھتے ہوئے اگر ایک زمیندار قادیان یا اُس کے نواح میں ایک گھماؤں یا دو گھماؤں یا چار گھماؤں زمین خریدتا ہے تو زمین کے لحاظ سے وہ صرف دنیا کماتا ہے.کیونکہ زمین ایک ایسی چیز ہے جو باہر بھی خریدی جاسکتی ہے.وہ گجرات میں بھی خرید سکتا ہے، وہ گوجر انوالہ میں بھی مجھ

Page 686

خطبات محج محمود 686 $1944 خرید سکتا ہے، وہ شیخو پورہ میں بھی خرید سکتا ہے، وہ لاہور میں بھی خرید سکتا ہے، وہ فیروز پور میں بھی خرید سکتا ہے ، وہ جھنگ میں بھی خرید سکتا ہے.اگر اُس نے قادیان میں زمین خرید لی تو اس سے کوئی خاص فرق نہیں پڑ گیا.لیکن اگر یہ زمین اُس نے اِس لیے خریدی ہے کہ اس سے دین کو طاقت حاصل ہو گی، مجھے یہاں رہنے کا موقع مل جائے گا، میری اولاد اس جگہ تعلیم حاصل کرلے گی اور وہ اپنی آئندہ زندگی میں دین کی خدمت کرنے کے قابل بن سکے گی.اسی من طرح میرا یہاں زمین خرید نا جماعت کی اقتصادی ترقی کا موجب ہو گا تو اُس کا زمین خرید نا دین کا ایک کام بن جائے گا.دانہ یہاں سے بھی پیدا ہو گا اور وہاں سے بھی.لیکن اگر وہ شیخو پورہ یا پتے جھنگ یا گوجرانوالہ میں زمین خرید تا تو اس کا زمین خرید نا محض دنیا ہوتا.لیکن یہاں اس کا زمین میں خریدنا دین بن گیا.قادیان اور اُس کے نواح میں بہت سے احمدی زمینداروں نے زمینیں خریدی ہوئی ہیں اور اگر اُنہوں نے اسی نیت سے زمینیں خریدی ہیں کہ یہ امر مرکز سلسلہ کی تقویت کا موجب ہو گا اور خود اُن کے لیے اور اُن کی اولاد کے لیے روحانی برکات کے حصول کا موجب ہو گا تو اُن کا زمینیں خرید نا دنیانہ رہا بلکہ دین بن گیا اور وہ زمین خرید کر خدا تعالیٰ کی رضا اور اُس کی خوشنودی کے مستحق ہو گئے.اگر وہ باہر زمین خریدتے تو روٹی ان کو وہاں بھی مل ہے جاتی اور ویسی ہی ملتی جیسے قادیان میں زمین خرید کر اُن کو روٹی ملتی ہے.یہ تو نہیں ہوتا کہ قادیان میں زمین خریدنے والے کو غلہ زیادہ ملنے لگ جاتا ہے یا اس کی پیداوار خاص طور پر بڑھ جاتی ہیں ہے.دنیوی لحاظ سے جس طرح باہر کی زمینوں سے ایک انسان فائدہ اٹھاتا ہے اُسی طرح قادیان کی زمین سے بھی فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے.لیکن چونکہ قادیان میں زمین خریدنے والے اپنی نیتیں ہیں درست کر لیتے ہیں اور وہ محض دنیا کے لیے نہیں بلکہ دین کی تقویت کے لیے یہاں زمینیں خریدتے ہیں اس لیے گو بظاہر ان کا قادیان میں زمینیں خرید ناویسا ہی ہے جیسے گجرات یا شیخو پورہ یا تی لاہور یا فیروز پور میں زمین خرید لے مگر اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں اُن کا یہ فعل قابل تعریف سمجھا جاتا ہے ہے اور وہ بہت بڑے ثواب کے مستحق ہوتے ہیں.اسی طرح اگر تاجر اور صناع اپنی تجارت اور اپنے کارخانوں کے قیام میں اس بات کو مد نظر رکھیں کہ وہ اپنی تجارتوں اور اپنے کارخانوں کو ایسے رنگ میں چلائیں گے کہ اسلام کی مدد ہو، احمدیت کو مضبوطی حاصل ہو اور جماعت کی ہے

Page 687

$1944 687 خطبات محمود ترقی میں یہ امور ممد و معاون ہوں تو وہ دنیا نہیں بلکہ دین کماتے ہیں.بے شک انہیں اپنے کار خانوں اور اپنی تجارتوں کے نتیجہ میں مال بھی ملے گا، دولت بھی ملے گی اور وہ سب چیزیں اُنہیں حاصل ہوں گی جو دنیا داروں کو تجارت اور صنعت و حرفت کے نتیجہ میں حاصل ہوتی ہیں لیکن پھر بھی خدا کی نگاہ میں وہ دیندار سمجھے جائیں گے.کیونکہ انہوں نے اپنے سامنے اصل مقصد صرف دین کی خدمت اور جماعت کے ساتھ تعاون رکھا.یہ علیحدہ بات ہے کہ خدا نے انہیں تابع کے طور پر دنیا بھی دے دی.چنانچہ صحابہ کو دیکھو انہوں نے جہاد کیا اور اِس لیے کیا کہ کفار نے اسلام کو تلوار کے زور سے مٹانے کی کوشش شروع کر دی تھی.انہوں نے ہے اسلام کی حفاظت کے لیے محض دین کی خاطر خدا تعالیٰ کی رضا اور اس کے کلمہ کے اعلاء کی ہے خاطر جہاد کیا اور اپنی جانیں قربان کر دیں.مگر اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ نہ صرف اسلام قائم ہوا بلکہ یہ اُنہیں بادشاہت بھی حاصل ہو گئی.اگر وہ صرف بادشاہت کے لیے لڑتے تو وہ دنیا کے کیڑے سمجھے جاتے.لیکن چونکہ وہ خدا کے لیے لڑے اس لیے نہ صرف وہ شہید قرار پائے بلکہ اس کا ہے یہ نتیجہ بھی نکلا کہ وہ دنیا کے بادشاہ بن گئے.جنگ کرنے اور اپنی جانوں کو قربان کرنے کے لحاظ سے وہ اُسی طرح لڑتے تھے جس طرح آجکل روسی اور جرمن اور انگریز اور فرانسیسی لڑرہے ہیں.لیکن چونکہ وہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لا کر دنیا کو بالکل چھوڑ چکے تھے اور اُنہوں نے جنگیں اس لیے نہیں کی تھیں کہ وہ دنیا کمائیں بلکہ انہوں نے اِس لیے جنگیں کیں کہ اسلام کو غلبہ حاصل ہو.اور چونکہ انہوں نے محض خدا کی رضا کی خاطر لڑائی کی اس لیے گو وہ اُسی طرح لڑے جس طرح آجکل کی جنگوں میں لوگ لڑتے ہیں مگر نیت اور ارادہ کے فرق کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے اُن کو صالح اور شہید اور صدیق قرار دیا اور اُن کو اپنے ابدی انعامات سے اس طرح نوازا کہ آج تک رَضِيَ اللهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ 20 کہتے کہتے مسلمانوں کے منہ سوکھ جاتے ہیں.اور پھر اس پر مزید انعام اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کو یہ حاصل ہوا کہ اُن کو حکومتیں بھی ملیں اور بادشاہتیں بھی حاصل ہوئیں.اسی طرح اگر ہماری جماعت کے صناع اور تاجر اس نیت اور ارادہ سے صنعت و حرفت اور تجارت کریں کہ وہ تَعَاوُن عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوی کریں گے، ہر کام میں اسلام کی

Page 688

خطبات محمود 688 $1944 شوکت اور اُس کی ترقی کو مد نظر رکھیں گے اور مزدوروں کو اُن کا حق ادا کریں گے تو اِس کا یہ نتیجہ ہو گا کہ دنیوی لحاظ سے بھی اُن کو کوئی نقصان نہیں ہو گا اور اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں بھی وہ دین کا کام کرنے والے قرار پا جائیں گے.آخر دنیوی لحاظ سے جو فائدہ ایک ایسے تاجر کو حاصل ہو سکتا ہے جو محض دنیا کمانے کے لیے تجارت کرتا ہے وہی فائدہ اُس تاجر کو بھی حاصل ہوتا ہے جو دینی قواعد کی پابندی کرتے ہوئے تجارت کرتا ہے، جس طرح وہ بُوٹ فروخت کرتا ہے اُسی طرح یہ بھی بُوٹ فروخت کرتا ہے، جس طرح وہ لوہا بیچتا ہے اسی طرح یہ بھی لوہا بیچتا ہے، جس طرح وہ کپڑا بیچتا ہے اسی طرح یہ بھی کپڑا بیچتا ہے اور جس طرح وہ نفع کماتا ہے اسی طرح ہے یہ بھی نفع کماتا ہے لیکن اگر یہ شخص اس نیت اور اس ارادے سے کپڑے بیچتا یا بوٹوں کی مچی نجارت کرتا یا لوہا فروخت کرتا ہے کہ اسلام کو فائدہ حاصل ہو، دین کی شوکت اور اُس کی طاقت میں اضافہ ہو، قومی رعب میں ترقی ہو ، جماعت کی اقتصادی حالت درست ہو اور اس نیت کے ماتحت وہ اسلام کی مقرر کردہ پالیسی اور نظام اور قانون کے ماتحت تجارت کرتا ہے تو روٹی تو وہ بھی کماتا ہے مگر اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں جب وہ بُوٹ یا کپڑا یا لوہا یا تیل یا کوئی اور چیز فروخت کر رہا ہوتا ہے تو وہ ایسا ہی سمجھا جاتا ہے جیسے وہ دین کا کام کر رہا ہے.وہ بُوٹ نہیں بیچتا بلکہ کفر کی بربادی کے سامان کرتا ہے اور وہ پیسے لے کر اپنے گھر میں واپس نہیں لوٹتا بلکہ خدا تعالیٰ کی رضا اور اُس کی محبت کا تحفہ لے کر گھر میں آتا ہے.پس تجارت اور صنعت جو بظاہر دنیوی ترقی کے اسباب میں سے ہیں اور جن کا دین کے ساتھ کوئی تعلق معلوم نہیں ہوتا یہ سب کی سب دین بن جاتی ہے بشر طیکہ اسلام کی شوکت اور دین کی ترقی میں چیزیں محمد ہوں.یہ مضمون بہت وسیع ہے اور کسی ایک خطبہ میں اس مضمون کی تمام تفصیلات کو بیان ہے نہیں کیا جاسکتا لیکن چونکہ میں ایک ہی خطبہ میں اس مضمون کو ختم کرنا چاہتا ہوں اس لیے میں خلاصہ اس طرف توجہ دلاتا ہوں کہ : (1) ہماری جماعت کے تاجر اور صناع آپس میں تعاون کریں اور ایک ایسی کمیٹی بنائیں جس کی غرض یہ ہو کہ وہ اپنے کارخانے اور تجار تیں اس طرح چلائیں گے کہ دین کی مدد ہو.

Page 689

خطبات محمود 689 $1944 میرے نزدیک اب وقت آگیا ہے کہ ہمارے تاجر اور صناع ایک کمیٹی بنائیں جو صرف تاجروں اور صناعوں پر مشتمل ہو.اور اُس کمیٹی کے قیام کی اصل غرض یہ ہو کہ وہ اپنے کارخانے اور اپنی تجارتیں اس رنگ میں چلائیں گے کہ دین کو تقویت حاصل ہو اور سلسلہ کی عظمت میں اضافہ ہو.(2) دوسرے اس کمیٹی کی تشکیل کے بعد انہیں اس بات کا فیصلہ کرنا چاہیے کہ وہ آئندہ اس طرح کام کریں گے کہ دوسرے دوستوں کے لیے بھی کام مہیا ہو سکے اور ہر جگہ احمدیوں کی تجارت مضبوط ہو.گویا اُن کی کوشش یہ ہونی چاہیے کہ وہ ایک تنظیم کے ماتحت دوسرے شہروں اور دوسرے علاقوں بلکہ دوسرے ملکوں میں بھی اپنی تجارت کو پھیلائیں گے.اور جو غریب احمدی ہوں گے اُن کی مدد کر کے انہیں کام پر لگائیں گے اور انہیں بھی تجارتوں اور میں کارخانوں کی ترقی کے اصول سے واقف کریں گے تاکہ تَعَاوُن عَلَى الْبِرِّ وَ التَّقْوَى سلسلہ اُن کی طرف سے جاری رہے اور جماعت کے غریب طبقہ کی ترقی کا سامان ہو تا رہے.پھر نہ صرف انہیں غریب احمدیوں کی مدد کرنی چاہیے بلکہ اگر وہ ترقی کر کے دوسرے مسلمانوں کی مدد کر سکیں تو یہ اور بھی بہتر ہے.بلکہ اس سے بڑھ کر اگر وہ ہندوؤں اور سکھوں کی مدد کر سکیں تو ان کی مدد کرنے سے بھی انہیں کوئی دریغ نہیں ہونا چاہیے.بالخصوص اچھوت اقوام میں ایسی ہیں کہ ان کی طرف خاص طور پر توجہ کرنے کی ضرورت ہے.یہ امر یا درکھنا چاہیے کہ ایک مسلمان کا تعاون محدود نہیں ہو تا بلکہ غیر معمولی طور پر وسیع ہوتا ہے.بے شک پہلا حق اپنی جماعت کا ہوتا ہے لیکن انہیں یہ کبھی خیال تک بھی اپنے دل میں نہ لانا چاہیے کہ ہم دوسروں کی مدد نہیں کریں گے.اگر وہ ایسا خیال اپنے دلوں میں پیدا کرتے ہیں تو ایک گناہ کا ارتکاب کرتے ہیں.مثلاً تجارت ہے اس کے متعلق یہ ایک حقیقت ہے کہ یہ کثرت سے ہندؤوں کے ہاتھ میں ہے.مگر پھر بھی سارے ہندؤوں کے ہاتھ میں تجارت نہیں.بلکہ خود ہندؤوں میں سے ایک طبقہ بہت بُری حالت میں ہے اور وہ اس بات کا مستحق ہے کہ اُس کی مدد کی جائے.اسی طرح سکھ اکثر زمیندار ہوتے ہیں.اسلامی حکومت کے تنزل کے وقت سکھوں نے فائدہ اٹھا کر بہت سی زمینوں پر قبضہ کر لیا تھا مگر پھر بھی

Page 690

خطبات محمود 690 $1944 سارے سکھ زمیندار نہیں بلکہ اُن میں سے بھی بہت سے ایسے ہیں جو سخت غربت اور تنگی کی حالت میں اپنی زندگی کے دن گزارتے ہیں.پس بے شک ہماری جماعت کے تاجروں اور صناعوں کا پہلا کام احمدیوں کی مدد کرنا ہے لیکن اس کے بعد انہیں اپنی مدد کا دائرہ وسیع کرنا ہے چاہیے اور کوشش کرنی چاہیے کہ دوسرے مسلمان جو تجارت اور صنعت میں پیچھے ہیں یا دوسری اقوام جو تجارت اور صنعت میں پیچھے ہیں اُن کی مدد کریں.یہ تجاویز ابھی بیالی ڈھکو سکے معلوم ہوتی ہیں لیکن جب کوئی جماعت طاقت پکڑ لیتی ہے اور وہ اپنے تمام افراد کو پورے طور پر منتظم کر لیتی ہے تو تھوڑے دنوں میں وہ خود بھی اپنے پاؤں پر کھڑی ہو جاتی ہے میں اور دوسری اقوام کی مدد کرنے کے لیے بھی تیار ہو جاتی ہے.(3) تیسرے وہ ایسی صنعتوں اور تجارتوں کی طرف توجہ کریں جو دین کی ترقی کے لیے مددگار ہوں.میں ابھی اِس کی تشریح نہیں کرتا.جب کمیٹی بن جائے گی تو اس وقت میں کمیٹی کے سامنے اس کی تفصیل بیان کروں گا کیونکہ بعض باتیں ایسی ہوتی ہیں جو صرف کمیٹیوں کے ساتھ تعلق رکھتی ہیں اور بعض باتیں ایسی ہوتی ہیں جن کا عام لوگوں کے سامنے ذکر کر دینے میں کوئی حرج نہیں ہوتا.پس چونکہ اس کی تفصیل کمیٹی کے سامنے ہی بیان کرنی مناسب ہے.عام لوگوں میں بعض رازوں کا اظہار نہیں کیا جاسکتا اس لیے میں اِس وقت صرف اسی قدر کہنا چاہتا ہوں کہ ہماری جماعت کے تاجروں اور صناعوں کو صرف ایسی تجارتوں اور صنعتوں کی طرف توجہ کرنی چاہیے جس کی طرف توجہ کرنا دینی لحاظ سے مفید ہو.(4) چوتھے وہ اپنے کاموں کا انتظام اس طرح کریں کہ مزدور کو اُس کا جائز حق ملے اور وقت پر ملے.(5) پانچویں مزدور بھی اپنی انجمن بنائیں جس طرح صناع اور تاجر اپنی انجمن بنائیں.مگر جہاں ہے کارخانہ داروں اور تاجروں کی انجمن کی غرض یہ ہوگی کہ وہ مزدوروں کو اُن کا جائز حق دلائیں وہاں متر دوروں کی انجمن کی غرض یہ ہو کہ وہ مزدوروں میں محنت اور دیانت کا مادہ پیدا کریں.ہم یورپ کا طریق اپنے ہاں جاری کرنا نہیں چاہتے.وہاں مزدور اپنے حق کا مطالبہ کرتا ہے، تاجر اپنے حق کا مطالبہ کرتا ہے اور صناع اپنے حق کا مطالبہ کرتا ہے.مگر ہم اور رنگ میں ہے

Page 691

$1944 691 خطبات محمود کام کرنا چاہتے ہیں کہ ہمارا تاجر اور ہمارا صناع یہ مطالبہ کرے کہ مزدوروں کو اُن کا حق دیا جائے اور ہمارا مز دور اس بات کا مطالبہ کرے کہ مزدوروں میں دیانت اور محنت کا زیادہ سے زیاد مادہ ہونا چاہیے.اور ہم یہ طریق اپنے ہاں رائج کرنا نہیں چاہتے کہ مالک اپنا حق مانگتا پھرے اور مزدور اپنے حق کا مطالبہ کرتا رہے.یورپ نے یہ طریق اختیار کیا اور اس کے نتیجہ میں فسادات نے ترقی کی.اس لیے ہم یورپ کی نقل کرنا نہیں چاہتے.ہم اسلام کا قائم کر وہ نظام ہے دنیا میں جاری کرنا چاہتے ہیں.اور اسلام یہ ہدایت دیتا ہے کہ مزدور اپنا حق نہ مانگے بلکہ مالک کا حق ادا کرے.مزدور یہ نہ کہے کہ میں اپنے حق کا مطالبہ کرتا ہوں بلکہ مزدور مزدوروں کو سمجھائے اور انہیں نصیحت کرے کہ تم محنت اور دیانت داری سے کام کرو.اسی طرح مالک اکٹھے ہو کر اپنے حق کا مطالبہ نہ کریں بلکہ وہ مالکوں کو سمجھائیں کہ مزدوروں کو اُن کا حق دو اور ٹھیک وقت پر دو.اگر اس طرح مزدور اور سرمایہ دار دونوں ایک دوسرے کے حقوق کا خیال رکھیں تو نہ مزدوروں میں بے چینی پیدا ہو سکتی ہے اور نہ تاجروں اور صناعوں کی حق تلفی ہو سکتی ہے.(6) چھٹے مزدوروں کی ایک مشترکہ انجمن ہو کہ وہ آپس میں مل کر ایک دوسرے کے حقوق میں پر غور کریں.لیکن جہاں وہ آپس میں تصفیہ نہ کر سکیں وہاں سلسلہ سے اس بات کو طے کرائیں اور قضاء کے ذریعہ باہمی اختلاف کو دور کریں.اسلامی قانون یہی ہے کہ جب مزدور اور آقا میں کوئی جھگڑا ہو تو وہ قضاء سے فیصلہ کرائیں.اس طرح بڑی آسانی سے آپس کے تمام تنازعات کا تصفیہ ہو جاتا ہے.کیونکہ محکمہ قضاء غیر جانبدارانہ رنگ میں غور کرتا ہے.میں نے بتایا ہے کہ ان میں سے بعض امور ابھی تشریح طلب ہیں اور پھر وہ تشریحات ایسی ہیں جن کو خطبہ میں بیان کرنا مناسب نہیں.مثلاً ! اگر میں اس وقت بتادوں کہ فلاں قسم کے کام اگر احمدی تاجر اور صناع شروع کر دیں تو جماعت کو بہت بڑی ترقی حاصل ہو سکتی ہے تو اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ دوسروں کو پتہ لگ جائے گا اور چونکہ لوگ ہمارے دشمن ہی ہیں اس لیے ان باتوں کا علم ہونے پر وہ ہمارے راستہ میں روکیں پیدا کر دیں گے.اور بجائے اِس کے کہ ہمارے قبضہ میں وہ تجار تیں آئیں اُن تجارتوں پر وہ خود قابض ہونے کی کوشش کریں گے.اس لیے میں تفصیلی باتیں اُسی وقت بیان کروں گا جب کمیٹی بن جائے گی.اس مہینہ

Page 692

$1944 692 خطبات محمود انجمن کے قیام کے لیے ابھی یہ تو نہیں ہو سکتا کہ ایک ایک شہر میں ہزار ہزار تاجر یا صناع ہوں اور ہر شہر میں ایک ایک کمیٹی بنادی جائے.یہ ابھی دور کی بات ہے.اللہ تعالیٰ کے فضل جب ہماری جماعت میں تاجروں اور صناعوں کی زیادتی ہوئی تو اس وقت ہو سکتا ہے کہ ایک ایک شہر میں انجمن بنادی جائے.پھر یہ بھی ہو سکتا ہے کہ الگ الگ صوبوں کی انجمنیں بنادی جائیں.اور پھر یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ایک آل انڈیا یا آل ورلڈ انجمن بنادی جائے.مگر سر دست می اس کام کے چلانے کے لیے میں سمجھتا ہوں کہ ہمارے لیے یہ امر نہایت ضروری ہے کہ مرکز میں اس کی ایک شاخ کھول دی جائے اور ایک سیکرٹری مقرر کیا جائے جس کا یہ فرض ہو کہ وہ جماعت کے تمام صناعوں اور تاجروں کی لسٹیں تیار کرے اور پھر اُن کو بلا کر مشورہ طلب کرے کہ کونسی تجار تہیں ہماری جماعت کے لیے مفید ہو سکتی ہیں یا کونسی صنعتیں ایسی ہیں جن کو اختیار ہے کرنے سے اسلام اور احمدیت کو طاقت حاصل ہو سکتی ہے.اسی طرح اُس سیکرٹری کا یہ بھی کام ہو گا کہ وہ جماعت میں تجارت اور صنعت کے متعلق ایک عام تحریک کرے تاکہ لوگوں کو اس طرف توجہ پید ا ہو.ہماری جماعت کے دوستوں میں سے اس وقت دو سو بلکہ اِس سے بھی کچھ زیادہ ایسے لوگ ہیں جو کنگز کمیشن حاصل کیے ہوئے ہیں.جب جنگ کے ختم ہونے پر یہ لوگ ہیں واپس آئیں گے تو ان سب کو نوکریاں تو نہیں مل سکیں گی.ان کے لیے بہترین ذریعہ معاش اس وقت یہی ہو گا کہ ان کو تجارت پر لگا دیا جائے.اور میرے نزدیک ایسے کئی ذرائع ہیں جن کے نتیجہ میں وہ اپنے پاؤں پر کھڑے ہو سکتے ہیں اور تبلیغ بھی وسیع ہو سکتی ہے.میں نے دیکھا ہے سندھی قوم میں سے شکار پور کے رہنے والوں میں بیداری پیدا ہوئی اور وہ تجارت کے لیے باہر نکل گئے.جس کا نتیجہ یہ ہے کہ آج یورپ میں چلے جاؤ ، افریقہ میں چلے جاؤ سب جگہ شکار پور کے تاجر موجو د ہوں گے.اسی طرح اگر ہماری جماعت کے نوجوان غیر ملکوں میں تجارت کے لیے چلے جائیں تو وہ بھی بہت بڑے فوائد حاصل کر سکتے ہیں.بیرونی ممالک کے مبلغ مجھے اطلاعات بھیجوار ہے ہیں کہ وہاں کئی قسم کی تجارتیں شروع کی جاسکتی ہیں اور کئی علاقے ہیں ؟ جہاں اگر کام کیا جائے تو بہت وسیع ہو سکتا ہے.ایسی جگہوں میں ایک ایک دو دو نہیں بلکہ بعض میں دفعہ سوسو آدمی ہمیں یکدم بھیجنے پڑیں گے.اور میں سمجھتا ہوں اگر ہماری جماعت کے نوجوان

Page 693

خطبات محمود 693 $1944 اس طرف توجہ کریں تو جماعت کی اقتصادی حالت بھی بہتر ہو جائے گی اور احمدیت کو بھی ترقی حاصل ہو گی.یہ ذرائع ایسے ہیں جن پر عمل پیرا ہو کر ہم بہت جلد بغیر کسی خاص قربانی کے اپنی تبلیغ کو وسیع کر سکتے ہیں.مگر جیسا کہ میں نے بتایا ہے ان امور کی تفصیلات میں اس جگہ بیان می نہیں کر سکتا.ان کو علیحدہ انجمن کے سامنے انشاء اللہ بیان کروں گا.تجارت اور صنعت و حرفت میں ترقی کرنے کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ جماعت کے افراد میں محنت اور دیانتداری کا مادہ پیدا کیا جائے اور سائنس کی تعلیم کو اس قدر وسیع کیا جائے کہ ہمارا ہر نوجوان سائنس پڑھا ہوا ہو.اِن دو باتوں میں سے سائنس کی تعلیم کے لحاظ سے تعلیم الاسلام کالج اور اخلاق میں سے محنت اور دیانتداری کی عادت نوجوانوں میں پیدا کرنے کے لحاظ سے خدام الاحمدیہ کی مدد کی ہمیں ضرورت ہے.خدام الاحمدیہ کا یہ ایک اہم ترین فرض ہے کہ وہ نوجوانوں میں محنت، جفاکشی اور دیانتداری کا مادہ پیدا کریں.مجھے نہایت ہی افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ابھی تک ہماری جماعت کے نوجوانوں میں محنت اور جفاکشی ہے کی عادت پیدا نہیں ہوئی.اگر سلسلہ کا کوئی انتہائی ضروری کام بھی ان کے سپر د کیا جائے تو وہ چھ گھنٹے کام کرنے کے بعد اپنے گھروں میں چلے جاتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ اُن کا فرض ادا ہو گیا.ان کی سمجھ میں اتنی بات نہیں آتی کہ جب ایک کام اُن کے سپرد کیا گیا ہے تو اس کے لیے چھ گھنٹے کیا اگر ان کو چومیں گھنٹے بھی کام کرنا پڑتا ہے تو کرنا چاہیے.مگر بالعموم ایسا نہیں کیا جاتا اور دفتری اوقات میں کام کرنا ہی اپنی ذمہ داری کی ادائیگی کے لیے کافی سمجھا جاتا ہے.حالانکہ زندہ قوموں میں سے ہر شخص اپنے فرض اور اپنی ذمہ داری کو سمجھتا ہے اور اس کی ادائیگی کے لیے اگر اُسے اپنی جان بھی قربان کرنی پڑے تو وہ اس سے دریغ نہیں کرتا.انگریزوں میں قصہ مشہور ہے کہ ایک گاؤں کے پاس دریا کا ایک بند تھا جس میں ایک دن چھوٹا سا شگاف ہو گیا.آٹھ دس سال کا ایک لڑکا شام کے وقت اُدھر سے گزر رہا تھا کہ اُس نے دیکھا بند میں شگاف ہو گیا ہے.یہ دیکھتے ہی وہ اُسی جگہ بیٹھ گیا اور اُس نے اپنی انگلی اُس شگاف میں دے دی.کچھ دیر کے بعد وہ شگاف اور چوڑا ہو گیا تو اُس نے اپنا ہاتھ اُس میں دے دیا اور اسی طرح وہ اُس جگہ بیٹھا رہا.یہاں تک کہ رات ہو گئی اور شگاف پانی کے زور.

Page 694

خطبات محمود 694 $1944 اور چوڑا ہو گیا.تب اُس نے اپنے سارے جسم کو اُس شگاف کے سامنے ایک دیوار کی طرح رکھ دیا تا ایسانہ ہو کہ پانی بڑھ کر تمام گاؤں کو برباد کر دے.جب صبح ہوئی تو چند زمیندار اُس طرف آنکلے اور انہوں نے دیکھا کہ لڑکے نے اُس بند کے شگاف میں اپنے آپ کو ڈالا ہوا ہے اور خود بیہوش پڑا ہے.چنانچہ انہوں نے بچے کو نکالا اور اُس شگاف کو بند کر دیا.اب دیکھو! وہ آٹھ دس سال کا بچہ تھا اور اُسے بظاہر اس سے کوئی غرض نہیں تھی کہ بند ٹوٹتا ہے یا سلامت رہتا ہے مگر چونکہ وہ ایک زندہ قوم کا فرد تھا اُس نے سمجھا کہ اگر میں اِس وقت چلا گیا تو سارا گاؤں تباہ ہو جائے گا.لیکن اگر میں اپنے آپ کو فنا کر کے اس بند کو ٹوٹنے سے محفوظ رکھتا ہوں تو گاؤں بچ جائے گا.چنانچہ اُس نے اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈال دیا اور سارے گاؤں کو بچالیا.وہ لڑ کا اگر زندہ رہتا اور یہ کام نہ کرتا تو آج دنیا میں کوئی اس کا نام بھی نہ جانتا.مگر آج سارے انگریز وہ نظمیں پڑھتے ہیں جن میں یہ ذکر ہوتا ہے کہ وہ لڑکا ایسا بہادر تھا، ایسا بہادر تھا.تو اُسے اپنی اس قربانی کا جو بدلہ ملاوہ ایسا شاندار ہے کہ اگر وہ زندہ رہتا تو یہ بدلہ اُسے کبھی نہ ملتا.پس محنت اور جفاکشی اور دیانتداری کا مادہ جماعت کے ہر فرد میں پیدا کرنا نہایت ضروری ہے.خدام الاحمدیہ کو چاہیے کہ وہ اس طرف خاص طور پر توجہ کریں اور نوجوانوں کا ہے امتحان لیا کریں کہ اُن میں محنت اور دیانت کا مادہ کہاں تک پایا جاتا ہے.اسی طرح انہیں نوجوانوں کے اندر یہ احساس پیدا کرنا چاہیے کہ جب کوئی اہم کام ان کے سپرد کیا جائے تو پھر یہ چھ گھنٹوں کا سوال نہیں اگر چو ہیں بلکہ اڑتالیس گھنٹے بھی انہیں مسلسل کام کرنا پڑتا ہے تو کرنا چاہیے اور یہ جواب ہر گز ان کے منہ سے نہیں نکلنا چاہیے کہ چونکہ وقت ہو گیا تھا اس لیے میں ہے کام کو چھوڑ کر چلا آیا.دوسراحصہ جو سائنس کی تعلیم کے ساتھ تعلق رکھتا ہے اس میں کالج والے جماعت کی مدد کر سکتے ہیں.کالج والوں کو چاہیے کہ وہ کوشش کریں کہ جو لڑ کے یہاں ہے تعلیم حاصل کرنے کے لیے آئیں وہ زیادہ سے زیادہ سائنس لیں.یہاں تک کہ سائنس کو اتنی ترقی ہو اتنی ترقی ہو کہ ہماری جماعت کا پچاس فیصدی حصہ سائنس کو پوری طرح جانتا ہو.جب جماعت کے نوجوان سائنس سے اِس طرح واقف ہو جائیں گے تب صنعت و حرفت کامیاب ہو گی.سائنس کے بغیر صنعت و حرفت میں کامیابی حاصل نہیں کی جاسکتی.

Page 695

خطبات محمود 695 $1944 غرض اس سکیم کو کامیاب بنانے کے لیے سر دست ایک مرکزی دفتر کا کھولا جانا ضروری ہے.دفتر کا کام یہ ہوگا کہ وہ لوگوں میں صنعت اور تجارت کے متعلق تحریک کرتا رہے.اسی طرح اُس کا یہ بھی کام ہو گا کہ وہ صناعوں اور تاجروں کی فہرستیں تیار کرے، کمیٹی کے اجلاس بلائے اور پھر اس امر کی نگرانی رکھے کہ تاجر اور صناع ان قواعد کی کہاں تک پابندی کر رہے ہیں جو اسلام نے ان کے لیے تجویز کیے ہیں.اس غرض کے لیے ایک ایسا افسر بھی ہے مقرر کرنا پڑے گا جس نے تجارتی تعلیم پائی ہو یا تجارتی کاموں سے اُس کا تعلق رہا ہو.اُس کا کام یہ بھی ہو گا کہ وہ جماعتوں میں دورہ کر کے صناعوں اور تاجروں کو منظم کرے.اسی طرح اُس کا یہ بھی کام ہو گا کہ وہ خط و کتابت کر کے ساری جماعت کے صناعوں اور تاجروں کی آراء اور اُن کے خیالات معلوم کرتا رہے تا کہ اُن آراء سے جماعتی رنگ میں فائد واٹھا یا جا سکے.میں سمجھتا ہوں پہلے سال اس کام پر دس ہزار روپیہ خرچ ہو گا اور چونکہ یہ کام محض تاجروں اور صناعوں کی بہبودی کے لیے شروع کیا جا رہا ہے اس لیے میں صرف تاجروں اور صناعوں کو یہ تحریک کرتا ہوں کہ وہ اس چندہ میں حصہ لیں اور دس ہزار روپیہ جو پہلے سال کا خرچ ہے جمع کر دیں.سر دست اس کمیٹی کا ایک سیکرٹری مقرر کر دیا جائے گا جو اُس وقت تک سلسلہ کے ماتحت کام کرے گا جب تک کہ تمام تاجر اور صناع منظم نہیں ہو جاتے.پھر آہستہ آہستہ تاجر اور صناع اپنا دفتر بھی بنا سکتے اور اپنے کام کو زیادہ وسیع کر سکتے ہیں.بہر حال سیکرٹری کا کام یہ ہو گا کہ وہ تاجروں سے مشورہ طلب کرے کہ کون کونسے ایسے کام ہیں جن کو اگر شروع کیا جائے تو سلسلہ کے لیے وہ مفید ثابت ہو سکتے ہیں.اس قسم کی تمام تجاویز کو جمع کرنا سیکرٹری کا کام ہو گا.اسی طرح اس کا ایک یہ کام بھی ہو گا کہ تاجر اور صناع ایک دوسرے سے تعاون کریں اور ایک دوسرے کی تجارت اور صنعت کو فروغ دینے کی کوشش کی جائے.مثلاً ایک شخص نے کسی شہر میں اپنا کارخانہ کھولا ہو اہو اور وہ اپنے حلقہ میں نہایت مفید کام کر رہا ہو تو اگر اس کی ایجنسیاں مختلف جگہوں میں قائم کر دی جائیں تو یہ بات اس کارخانہ کی ترقی میں اور بھی ممد ہو سکتی ہے.پس تاجروں اور صناعوں کو اس بات پر آمادہ کیا جائے گا کہ وہ ایک دوسرے سے تعاون کریں اور اپنے اپنے شہر یا اپنے اپنے صوبہ کے حالات کا جائزہ لیتے ہوئے

Page 696

$1944 696 خطبات محمود ایک دوسرے کی ایجنسیاں اپنے ہاں قائم کرنے کی کوشش کریں تاکہ ہماری جماعت کی تجارت میں ترقی ہو.بعض قسم کی تجارتیں ایسی ہیں جن پر اس وقت قبضہ کیا جاسکتا ہے.سیکرٹری کا کام ہو گا کہ وہ تاجروں اور صناعوں سے اِس بارہ میں خط و کتابت کر کے فیصلہ کرے کہ کون کونسی تجار تیں ایسی ہیں جن پر قبضہ کیا جاسکتا ہے اور کون کونسی تجار تیں ایسی ہیں جن ہے پر قبضہ اسلام اور احمدیت کے نقطہ نگاہ سے زیادہ مفید ہے.میں بتا چکا ہوں کہ اس تحریک کا چندہ صرف تاجروں اور صناعوں کے ذمہ ہے.اُن کا فرض ہے کہ وہ اس چندہ میں حصہ لیں.جب تاجروں اور صناعوں کی طرف سے جواب آجائے گا تو پھر کسی تعلیم یافتہ شخص کو جس نے تجارتی اور صنعتی تعلیم حاصل کی ہو گی سیکرٹری مقرر کر کے اِس کام کا عملی رنگ میں اِنْشَاءَ اللهُ آغاز کر دیا جائے گا.وہ سیکرٹری مختلف مقامات کا دورہ کرے گا، تاجروں اور صناعوں کو منظم کرے گا اور ان سے مشورہ کر کے سلسلہ کے سامنے یہ رپورٹ پیش کرے گا کہ آئندہ ہم اپنی تجارت اور صنعت کو اس رنگ میں کس طرح چلا سکتے ہیں کہ اول اس سے اسلام کو مدد پہنچے.دوم اس سے جماعت کے دوسرے افراد کو فائدہ پہنچے اور وہ بھی تجارت اور صنعت و حرفت کے اصول اور ان میں کامیابی حاصل کرنے کے رازوں سے واقف ہو جائیں.سوم مزدوروں کو اُن کے حقوق ادا ہوتے رہیں اور ایسی تہذیب اور شائستگی اور متانت سے اُن کے ساتھ برتاؤر کھا جائے کہ دوسری قومیں ہماری جماعت کے تاجروں اور صناعوں کو دیکھ کر سبق حاصل کریں.اور وہ اس حقیقت کو تسلیم کیے بغیر نہ رہیں کہ مومن تجارت میں کسی من غریب شریک کا حق نہیں مارتا.بلکہ خوشی سے اُس کو اُس کا حق دیتا اور ٹھیک وقت پر دیتا ہے.وَاخِرُ دَعْوَينَا أَنِ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ ".(الفضل 22 نومبر 1944ء) 1 : متی باب 19 آیت 24 2 :...وَابْتَغُوا مِن فَضْلِ اللَّهِ وَاذْكُرُوا اللهَ كَثِيرًا...(الجمعة: 11) النور: 38 3

Page 697

خطبات محمود 4 : التوبة: 34 5 غلق:غلک، نقدی رکھنے کا برتن : وَأتُو الزكوة (البقرة: 44) 1 :آل عمران:135 8 :المائدة:3 9:البقرة:151 $1944 697 10 أو فوالكَيْلَ وَالْمِيزَانَ بِالْقِسْطِ (الانعام: 153 ) 11: صحیح بخاری کتاب البیوع باب النجش و من قال لا يجوز ذلك البيع.13 ابن ماجه ابواب التجارات باب الحكرة والجلب : ابن ماجه کتاب الرهون باب اجر الاجراء :14: كُتِبَ عَلَيْكُمْ إِذَا حَضَرَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ إِن تَرَكَ خَيْرًا الْوَصِيَّةُ لِلْوَالِدَيْنِ وَالْأَقْرَبِينَ بِالْمَعْرُوفِ حَقًّا عَلَى الْمُتَّقِينَ (البقرة : 181) 15: الحلم 24 جولائی 1902 ، صفحہ 11 16: الذاريات: 20 :17: سنن ترمذی ابواب البيوع باب ماجاء فِي الْاِحْتِكَار 18:البقرة:181 19 بخاری کتاب الایمان باب ما جاء أنَّ الْأَعْمَال بِالنِّيَّةِ وَالْحِسْبَةِ 20: البينة 9 --------------

Page 698

$1944 698 41 خطبات محمود زبان گومیری ہے مگر بلا واخد اتعالیٰ کا ہے فرموده 24 نومبر 1944ء) تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: آج سے دس سال قبل اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل اور اپنے کرم سے ایک فتنہ جماعت می کے خلاف اٹھوایا تھا.تھا تو وہ فتنہ مگر الہی منشاء اس کے اٹھائے جانے میں یہ تھی کہ اُس کے ذریعہ سے جماعت میں بیداری اور ہوشیاری پید اہو.مولانا روم فرماتے ہیں ؎ ہر بلا کیں قوم را حق داده اند زیر آں آن گنج کرم بنهاده اند یعنی مسلمانوں کے لیے جو بلاء بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے آتی ہے اُس بلاء کے نیچے اللہ تعالیٰ اپنے فضل اور احسان سے ایک بڑا خزانہ مخفی کر دیتا ہے.اس وقت بیٹھے بٹھائے بغیر اس کے کہ ہماری طرف سے کوئی انگیخت ہو احرار نے تمام پنجاب میں پروپیگنڈا کر کے قادیان میں ایک بہت بڑا جلسہ کرنے کی تیاری کی اور بڑے زور شور سے اعلان کیا کہ وہ قادیان کی اینٹ سے اینٹ بجادیں گے بلکہ بعض نے یہاں تک کہا کہ وہ مقبرہ بہشتی اور ہمارے دوسرے مقدس مقامات پر حملہ کریں گے.ایسے موقع پر قدرتی طور پر جماعت کو خود حفاظتی کی

Page 699

*1944 699 خطبات محمود ضرورت تھی اور نظارت امور عامہ نے جماعت کے دوستوں کو اطلاع دی کہ وہ اِس موقع پر قادیان جمع ہوں اور اپنے مقدس مقامات کی حفاظت کا فرض ادا کریں.یہ ایک جائز بات تھی.قادیان ہمارا مقدس مقام ہے نہ کہ احرار کا.قادیان ہمارا مرکز ہے نہ کہ احرار کا.اور اس لیے اگر کسی شخص کو قادیان آنے کا حق ہے تو وہ احمدی ہے کسی دوسرے شخص کا یہ مذہبی حق نہیں.مگر اُس وقت کی پنجاب گورنمنٹ نے یہ نرالا طریق اختیار کیا کہ باوجود اس کے کہ وہ اطلاع جو ہے نظارت کی طرف سے احمدیوں کو قادیان میں جمع ہونے کی دی گئی تھی حکومت کی طرف سے ہے یہ یقین دلائے جانے پر کہ وہ حفاظت کا انتظام پوری طرح کرے گی منسوخ کر دی گئی ہیں تھی اور جماعتوں کو لکھ دیا گیا تھا کہ ان کے یہاں آنے کی ضرورت نہیں.اچانک کریمنل لاء ایمنڈ منٹ ایکٹ (CRIMINAL LAW AMENDMENT ACT) کے ماتحت حکومت کی طرف سے مجھے یہ نوٹس دیا گیا کہ قادیان میں جماعت کے آدمیوں کو بلانے کی آپ کو اجازت نہیں.یہ بالکل نئی قسم کی چیز تھی.یہ بالکل ایسی ہی بات تھی جیسے کسی کے ہم ماں باپ کو یا بچے کو لوگ مار رہے ہوں اور گورنمنٹ مارنے والوں کو تو کچھ نہ کہے مگر جسے مارا جا رہا ہے اس کے رشتہ داروں کو حکم دیدے کہ تم اپنے گھروں سے باہر مت نکلو.غرض اس میں وقت پنجاب بلکہ سارے ہندوستان میں ہمارے خلاف فضا مکدر ہو چکی تھی اور گورنمنٹ اور رعا یا مل کر احمدیت کو کچلنا چاہتے تھے.یہ حالات دیکھ کر مجھے اس امر کا احساس ہوا کہ یہ نتیجہ ہے اس امر کا کہ ہم نے تبلیغ میں کو تاہی کی ہے اور ہمیں قلیل التعداد اور تھوڑے سمجھ کر جو چاہتا ہے ہم پر ظلم کرنے کے میچ لیے تیار ہو جاتا ہے.تب خدا تعالیٰ نے میرے دل میں ڈالا کہ تبلیغ کے کام کو وسیع کرنا چاہیے اور جماعت کی قوت اور شوکت کو بڑھانے کے لیے ہر قسم کے سامان جمع کرنے چاہیں.اس میں خیال کے ماتحت دس سال پہلے میں نے ایک تحریک جاری کی جس کا نام اب تحریک جدید مشہور ہو چکا ہے.اس تحریک کے کرنے کے وقت خود میرے دل میں اس کی پوری اہمیت نہ تھی اور ہے نہ ہی کام کی وسعت کا اندازہ تھا.میں نے نوجوانوں کو پکارا کہ وہ آگے آئیں بغیر اِس کے کہ کوئی خاص تعداد میرے ذہن میں مستحضر ہو.جماعت کے نوجوانوں نے دلیری سے آگے

Page 700

$1944 700 خطبات محمود بڑھ کر میری اِس آواز پر لبیک کہا.پھر میں نے جماعت کے آسودہ حال لوگوں کو پکارا کہ وہ اپنے روپوں کو پیش کریں اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے باوجود اس کے کہ میں نے گل 27 ہزار کا مطالبہ کیا تھا اور وہ بھی تین سال میں.مگر جماعت نے پہلے ہی سال ایک لاکھ سے زیادہ روپیہ پیش کر دیا اور تین سال میں بجائے 27 ہزار کے چار لاکھ کے قریب جمع کر دیا.اور جوں جوں یہ کام وسیع ہوتا جاتا ہے اس کی اہمیت بھی خدا تعالیٰ کے فضل سے ظاہر ہوتی جاتی ہے.اس تحریک کے پہلے دور کی میعاد دس سال تھی اور یہ اس دور کا آخری مہینہ ہے اور اس کے ساتھ پہلے دور کی میعاد پوری ہو جائے گی.اس دور میں اللہ تعالی نے جماعت کو جس می قربانی کی توفیق دی ہے.اُس کا اندازہ اس سے ہو سکتا ہے کہ اُس نے اس عرصہ میں جو چندہ اِس تحریک میں دیاوہ 13، 14 لاکھ روپیہ جتا ہے.اور اس روپیہ سے جہاں ہم نے اس دس سال یی کے عرصہ میں ضروری اخراجات کیے ہیں وہاں اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایک ریز رو فنڈ بھی قائم کیا ہے اور اس ریز رو فنڈ کی مقدار 280 مربع زمین ہے.اس کے علاوہ ابھی ایک سو مربع زمین ایسی ہے جس میں سے کچھ حصہ کے خریدنے کا ابھی وقت نہیں آیا.کچھ حصہ گو خرید اتو گیا ہے مگر اس پر ابھی قرض ہے.اسے اگر شامل کر لیا جائے تو کل رقبہ 380 مربع ہو جاتا ہے ہے.اگر پنجاب کی زمینوں کی قیمتوں پر قیاس کیا جائے تو یہ تمام زمین قریبا ستر استی لاکھ روپیہ کی ہوتی ہے.مگر آج کل سندھ میں زمین کی جو قیمتیں ہیں اُن کے لحاظ سے بھی یہ جائیداد 25 ، 26 لاکھ روپیہ کی ہے جو ہمارے قبضہ میں آچکی ہے یا خریدی گئی ہے یا جس کے بیانے دیئے جاچکے ہیں.سو اللہ تعالیٰ نے اس عرصہ میں جہاں ہمیں کام کے جاری رکھنے کی توفیق عطا فرمائی وہاں ریزرو فنڈ کے قائم کرنے کی بھی توفیق بخشی.مگر جو کام ہمارے سامنے ہے اُس کے لحاظ سے یہ ریز رو فنڈ ا بھی اتنا بھی نہیں جیسے سمندر کے مقابلہ میں قطرہ ہوتا ہے.بہت بڑا کام ہمارے سامنے ہے اور ہم پر بہت بڑی بڑی ذمہ داریاں ہیں.اس دوران میں تحریک جدید کے ماتحت ہمارے مبلغ جاپان میں گئے ، تحریک جدید کے ماتحت چین میں مبلغ گئے، تحریک جدید کے ماتحت سماٹرا اور جاوا میں مبلغ گئے، سنگا پور میں گئے اور اس تحریک کے ماتحت خدا تعالی میں کے فضل سے سپین، اٹلی، ہنگری، پولینڈ، البانیہ، یوگوسلاویہ اور امریکہ میں بھی مبلغ گئے ہے

Page 701

خطبات محمود 701 $1944 اور افریقہ کے بعض ساحلوں پر بھی اسی تحریک کے ماتحت مبلغ گئے اور ان مبلغین کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہزاروں لوگ سلسلہ احمدیہ میں داخل ہوئے اور سلسلہ سے لاکھوں لوگ روشناس ہوئے اور دنیا کے دور دراز کناروں تک اس تحریک کے ماتحت احمدیت کا نام اور اس کی شہرت پہنچی.تحریک کے شروع میں جو مبلغ لیے گئے وہ ہنگامی طور پر لیے گئے تھے اُن کی تبلیغی تعلیم پوری نہ تھی.اِلَّا مَا شَاءَ اللہ اور ان مبلغین میں سے بعض اس وقت لا پتہ ہیں.مثلاً مولوی محمد الدین صاحب یہاں سے افریقہ بھیجے گئے تھے.راستہ میں وہ جہاز جس میں وہ سفر کر رہے تھے غرق ہو گیا اور اب ہمیں پتہ نہیں کہ وہ زندہ بھی ہیں یا نہیں.اگر زندہ ہیں تو اِس وقت کہاں ہیں.تحریک جدید کے بعض مبلغین اس وقت دشمن کے ہاتھوں میں قیدی ہیں.سٹریٹ سیٹلمنٹ میں ہمارے مبلغ مولوی غلام حسین صاحب ایاز تھے ، جاوا سماٹرا میں مولوی شاہ محمد صاحب اور ملک عزیز احمد صاحب گئے تھے اور یہ تینوں اس وقت جاپانیوں کی قید میں ہیں.تو گویا یہ تین قید ہیں اور ایک اس وقت تک لاپتہ ہیں.اللہ تعالیٰ نے اس دس سال کے عرصہ میں سلسلہ کو خاص ترقی دی اور احمدیت کا نام اور اس کی شہرت کو دنیا کے کناروں تک پہنچا دیا.اور یہ ایک ایسی غیر معمولی کامیابی ہے کہ جس کی مثال ہمارے سلسلہ کے دورِ خلافت میں نہیں ملتی.مگر یہ کام اس قسم کا نہیں کہ آج ہی ہم اسے ختم کر دیں.بے شک ہم نے ایک من ریز رو فنڈ تو قائم کیا ہے مگر کام کی وسعت کے مقابلہ میں یہ بہت ہی کم ہے.سندھ میں زمینداری کا کام ابھی نیا نیا ہے اور یہ کام کرانے والے بھی ابھی نئے ہیں اور زمیندارہ کام سے ناواقف ہیں بلکہ کام کرنے والے بھی ابھی ناواقف ہیں.اس لیے وہاں زمین کی آمد ا بھی پنجاب کی زمینوں کی آمد کی نسبت دسواں بیسواں حصہ بھی نہیں اور اس وقت گل آمد پچاس ساٹھ ہزار روپیہ سے زیادہ نہیں.اور جیسا کہ میں بتا چکا ہوں زمین کا کچھ حصہ ابھی ایسا ہے جس کی قیمت بھی ابھی ادا کرنی ہے.کچھ قرضے بھی ہیں اور اندازہ ہے کہ جب ساری زمین پوری طرح آزاد ہو جائے گی اور قرضے وغیرہ اتر جائیں گے تو لاکھ سوا لاکھ روپیہ تک آمد ہو سکے گی.ابھی چار لاکھ روپیہ کے قریب بار اس زمین پر ہے.گو کچھ روپیہ ہمارے پاس محفوظ بھی ہے میں

Page 702

$1944 702 خطبات محمود مگر اسے نکال کر بھی دو اڑھائی لاکھ روپیہ کے قریب رقم قرضہ کی ہے اور ہم نے ادا کرنا ہے.اور اس عرصہ میں جو اخراجات ہوں گے وہ علاوہ ہیں.جیسا کہ میں بیان کر چکا ہوں ہمارے سامنے جو کام ہے وہ بہت بڑا ہے اور ہماری ذمہ داریاں بہت زیادہ ہیں.ابھی تک ہم ہندوستان سے باہر تبلیغ کی طرف بہت تھوڑی توجہ دے سکے ہیں کیونکہ اس کے لیے ابھی مبلغ تیار نہیں ہو سکے.مگر پھر بھی اس وقت تحریک کا ستر اسی ہزار روپیہ سالانہ خرچ ہے.اس کے علاوہ اب بعض نئے کام بھی جاری کیے گئے ہیں سال کے اخراجات علاوہ ہیں اور یہ سب ملا کر تین لاکھ کے قریب کل خرچ ہے.اور پھر اِس کام کو چلانے کے لیے الگ روپیہ کی ضرورت ہے.اور وہ قرضے جو ابھی ادا کرنے ہیں وہ اِس کے علاوہ ہیں اور انہیں ادا کر کے ہی زمین کو آزاد کرایا جا سکتا ہے.پھر ریز رو فنڈ کو بڑھانے اور اسے مضبوط کرنے کی بھی ضرورت ہے.اور یہ سب کام ایسے ہیں کہ ان کے لیے روپیہ کی سخت ضرورت ہے.اِس عرصہ میں ہم نے تبلیغ کو وسیع کرنے کے لیے جو تیاری کی ہے اس کے سلسلہ میں چالیس کے قریب نوجوان ہیں جو تیار کیے جارہے ہیں.ان میں سے ہیں کے قریب تو ایسے ہیں کہ جو اپنی تعلیم کو جلد ہی ختم کرنے والے ہیں اور ہیں کے قریب ابھی ابتدائی تعلیم میں حاصل کر رہے ہیں اور امید کی جاتی ہے کہ تین چار سال میں اپنی تعلیم کو مکمل کر سکیں گے اور می کام کے قابل ہو سکیں گے.اس عرصہ میں اللہ تعالیٰ نے مجھے اپنی حکمت کے ماتحت یہ بات بھی سمجھا دی کہ تحریک جدید کے ماتحت علماء کی تیاری کا کام کس قدر اہم ہے اور وہ اس طرح کہ اس عرصہ میں علمی لحاظ سے بعض ایسے صدمے پہنچے کہ میں نے محسوس کیا کہ اگر ہماری غفلت اسی طرح جاری رہی تو جماعت علماء سے محروم ہو جائے گی.مولوی محمد اسمعیل صاحب کی وفات بھی اسی عرصہ میں ہوئی اور پھر میر محمد الحق صاحب فوت ہو گئے اور اس طرح پرانی طرز کے علماء میں سے صرف مولوی سید محمد سرور شاہ صاحب باقی رہ گئے.پہلے علماء میں سے حضرت مولوی عبد الکریم صاحب، مولوی برہان الدین صاحب، مولوی غلام حسین صاحب، مولوی برہان الملک صاحب مشہور صرفی عالم، حضرت خلیفہ اول اور مولوی عبد القادر صاحب لدھیانوی

Page 703

$1944 703 خطبات محمود تھے.ان میں سے چار حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ سے لے کر خلافتِ اولی تک وفات پاگئے.ان کے بعد مولوی عبد القادر صاحب، مولوی برہان الملک صاحب، قاضی امیر حسین صاحب، مولوی سید محمد سرور شاہ صاحب، مولوی محمد اسمعیل صاحب، حافظ روشن علی صاحب اور میر محمد اسحق صاحب باقی رہ گئے.اور اس عرصہ میں جماعت کی توجہ ایسے کاموں کی طرف رہی کہ اسے علماء پیدا کرنے کا خیال ہی نہ آیا اور اس نے ایسے علماء پیدا کرنے کا کوئی انتظام نہ کیا جو ہر قسم کے دینی علوم کی تعلیم دے سکتے ہوں.اور اِس وقت یہ حالت ہے کہ اس قسم کے علماء میں سے صرف ایک باقی ہیں.یعنی سید محمد سرور شاہ صاحب اور وہ بھی اب نہایت ضعیف العمر ہو چکے ہیں.اس وقت ان کی عمر ستر سال کے قریب ہے.جس طرح حضرت مولوی عبد الکریم صاحب اور مولوی برہان الدین صاحب کی وفات کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی توجہ اس طرف مبذول ہوئی کہ ایک مدرسہ قائم کیا جانا چاہیے جہاں ان علماء کے جانشین تیار ہو سکیں اور آپ نے مدرسہ احمدیہ جاری کرایا.اسی ہے طرح میر محمد اسحق صاحب کی وفات کے بعد مجھے یہ احساس ہوا کہ جماعت میں علماء کی تیاری کا ہے کام بہت تیزی سے ہونا چاہیے.اگر چہ جامعہ احمد یہ موجود ہے اور اس میں بہت سے نوجوان مولوی فاضل کا امتحان بھی پاس کرتے تھے مگر اس زمانہ کے مولوی فاضل پاس اور پرانی طرز میں کے علماء میں بہت بڑا فرق ہے.مولوی فاضل کا امتحان ایک خاص قسم کا نصاب پڑھ کر دیا ہے جاسکتا ہے.مگر اسے پاس کر کے کوئی شخص ایسا عالم نہیں ہو سکتا کہ ہر قسم کی علمی مشکل کو حل کرنے کے قابل ہو.بہت سی علمی کتابیں ایسی ہیں کہ جنہیں نہ وہ پڑھتے ہیں اور نہ ہی اُن کے پڑھنے کا ان کو موقع مل سکتا ہے اور اس لیے جو علماء تیار ہو رہے تھے وہ درمیانی قسم کے تھے.مگر کسی قوم کے دیگر اقوام پر غالب آنے کے لیے یہ ضروری ہے کہ اس میں ایسے چوٹی کے علماء ہوں جو ہر علم و فن کے ہر گوشہ میں مخالفین کو شکست دے سکیں.مثلا فقہ کا علم ہے اس کے ایسے علماء ہوں جو فقہی لحاظ سے بھی احمدیت کے نقطہ نگاہ کی فضیلت ثابت کر سکیں.پھر احادیث کا علم ہے، پرانی تفاسیر ہیں، فلسفہ ہے تو ہر فن کے ایسے علماء کا جماعت میں ہو ناضروری ہے جو احمدیت کے نقطہ نگاہ کی فضیلت ثابت کر سکیں اور اس کے لیے ضروری ہے

Page 704

$1944 704 خطبات محمود کہ احادیث، تفسیر اور فلسفہ وغیرہ علوم کے اعلیٰ درجہ کے ماہر علماء ہم میں موجود ہوں.قرآن کریم کی ادبی شان اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی ادبی شان کو ظاہر کرنے کے لیے ضروری ہے کہ صرف و نحو اور ادب میں اعلیٰ درجہ کا کمال رکھنے والے علماء ہم میں پائے جاتے ہوں اور اِس لیے اِن علوم کی تکمیل کرانا انتہائی طور پر ضروری ہے.اس کے بغیر علمی لحاظ سے احمدیت کو دنیا میں غالب کرنا ممکن نہیں.فرض کرو ہمارا ایک مبلغ مصر جاتا ہے.وہاں ہے جامعہ از ہر ہے جو نہ صرف مصر بلکہ تمام دنیا میں علمی لحاظ سے ایک چوٹی کی جگہ ہے.وہاں ہمارا ایک مبلغ جائے اور اُن علوم میں جو وہاں پڑھائے جاتے ہیں وہاں کے علماء کا مقابلہ نہ کر سکے.تو گو یہ تو صحیح ہے کہ ہمیں مذہبی شکست تو نہ ہوگی مگر مخالفین کو شور مچانے کا موقع تو ضرور مل جائے گا اور یہ بات بہت سے لوگوں کے لیے ہدایت سے محروم ہو جانے کا ذریعہ ہو جائے گی.ی طرح ہندوستان میں دیوبند ہے جو علمی لحاظ سے کافی شہرت رکھتا ہے.اگر ہمارے علماء وہاں ہے کے علوم سے واقف نہ ہوں اور وہاں کے علماء کو ساکت نہ کر سکیں تو وہاں کے علماء اپنے علمی ہے غرور میں سچائی کو ماننے سے محروم رہ جائیں گے اور اُن کے مانے والے بھی ہدایت نہ پاسکیں ہے گے.بہت کم لوگ ہوتے ہیں جو صداقت کو اُس کے اصل معیار پر پر کھتے ہیں.ایسے لوگ اُسی قسم کے ہوتے ہیں جیسے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابہ تھے.وہ لوگ نہ صرف ونحو سے واقف تھے اور نہ دیگر ایسے علوم سے.حدیث کے قواعد تو مدون ہی بعد میں ہوئے.وہ تو صرف اتنا جانتے تھے کہ ہم نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے یہ بات سُنی اور اُسے آگے سنانا ہے.اُس وقت تک اسناد وغیرہ کے متعلق پیچیدگیاں پیدا ہی نہ ہوئی تھیں.یہ تو سو دو سو سال بعد میں ہوئی ہیں.تو اصل صداقت معلوم کرنے کے لیے ان باتوں کی ضرورت نہیں.مگر جن لوگوں سے ہمارا مقابلہ ہے اُن کا مقابلہ کرنے کے لیے ان کی ضرورت ہے.اور پھر وسعت نظر کے لیے بھی یہ بات نہایت ضروری ہے کہ ہر قسم کے علوم سے مزین علماء اور چوٹی کے علماء جماعت میں موجود ہوں.اور میر محمد اسحق صاحب کی وفات نے میری زیادہ توجہ اس طرف پھیری کہ جماعت میں چوٹی کے علماء پیدا کرنے کے لیے زیادہ تیزی سے کام ہونا چاہیے.گو اللہ تعالی کا فضل ہے کہ میں ایک سال پہلے سے ہی اس میں

Page 705

خطبات محمود 705 $1944 طرف توجہ کر رہا تھا، تعلیم کے طریق میں تبدیل کر چکا تھا مگر میر صاحب کی وفات پر اس طرف اور زیادہ توجہ ہوئی اور دو درجن کے قریب طلباء کو میں نے اعلیٰ علوم کی تکمیل کے لیے مقرر کر دیا ہے.غرض اب جبکہ تحریک جدید کے پہلے دس سال کا دور ختم ہونے کو ہے، کام کی اہمیت بہت زیادہ ہو گئی ہے.اس کی مشکلات آگے سے بہت زیادہ واضح ہو چکی ہیں.چنانچہ جماعت کو نہیں بھی اِس کا احساس ہو رہا ہے اور بعض دوست مجھے لکھ رہے ہیں کہ اس عرصہ میں ہمیں قربانی کی عادت ہو گئی ہے.اب یہ دور ختم ہونے والا ہے.ایسا نہ ہو کہ آئندہ ہم اس نیکی سے محروم ہو ہے جائیں.کسی نہ کسی صورت میں اس قربانی کا دروازہ جماعت کے لیے گھلا رہنا چاہیے.مگر کچھ لوگ ایسے بھی ہوں گے جو اپنے دلوں میں کہتے ہوں گے کہ احمہ اللہ ہمیں اس تحریک میں ہے حصہ لینے کا موقع مل گیا.اب دس سال پورے ہو رہے ہیں اور یہ تحریک ختم ہو جائے گی اور یہ ہمیں آرام کرنے کا موقع مل جائے گا.اور عجیب بات ہے کہ میں اس موقع پر جب می تحریک جدید کے دس سال پورے ہونے کو ہیں اللہ تعالیٰ نے جماعت کے خلاف بعض فتنے پیدا کر دیے ہیں جو ظاہر کرتے ہیں کہ جماعت کے بعض دوستوں کے دلوں میں سستی کے خیالات پیدا ہونے شروع ہو گئے ہیں.ان فتن میں سے ایک تو یہ ہے کہ احرار نے پھر قادیان میں جلسہ منعقد کرنے کی کوشش کی اور اس کی بنیاد اس امر پر رکھی کہ میں نے دہلی میں کہا تھا کہ احراری قادیان میں آئیں اور جلسہ کریں.حالانکہ یہ بات بالکل غلط تھی.اصل بات یہ تھی کہ جب دہلی میں جلسہ ہوا اور میں وہاں گیا تو وہاں بعض لوگوں نے ہمارے خلاف سخت فتنہ اٹھایا، بہت سے پتھر مارے اور حملہ کر دیا اور اِس طرح کوشش کی کہ جلسہ نہ ہو سکے اور لوگ ہماری باتیں نہ سن سکیں.اس پر میں نے کہا کہ یہ طریق بالکل غلط اور اسلام کی تعلیم کے سراسر خلاف ہے.ہماری باتیں سننے میں ان لوگوں کا کیا حرج ہے.اگر یہ سمجھتے ہیں کہ حق اُن کے پاس ہے تو پھر ہماری باتیں سننے سے اُن کو کیا خطرہ ہو سکتا ہے، اور پھر میں نے یہ بھی کہا کہ اگر یہ خیال ہے کرتے ہیں کہ جو لوگ احمدی ہوئے ہیں وہ اِس وجہ سے ہوئے ہیں کہ ان لوگوں کی باتیں سننے کا اُن کو موقع نہیں مل سکا تو بے شک اپنے نقطہ نگاہ کو احمدیوں کے سامنے پیش کرنے کے لیے ہے

Page 706

خطبات محمود 706 $1944 اُن کا کوئی عالم قادیان آئے.میں اُس کا خرچ بھی خود دوں گا اور جماعت کے دوستوں کو بھی جمع کرادوں گا تا وہ اُنہیں اپنی باتیں سنا سکے.اب ظاہر ہے کہ اس بات کا کہ جو آئے گا اُس کا خرچ میں دوں گا اور اس کی تقریر سننے کے لیے احمدیوں کو جمع بھی کرادوں گا یہی مطلب ہو سکتا ہے کہ جو آئے گا وہ مجھے پوچھ کر آئے گا اور مجھ سے دریافت کر کے کہ آپ میری تقریر سننے کے لیے کب احمدیوں کو جمع کر سکیں گے آئے گا.میری بات کے یہ معنی تو کسی صورت میں بھی نہیں ہو سکتے کہ تمام ملک میں سے غیر احمدیوں کو قادیان پر یورش کرنے کی میں نے دعوت دی ہے.میں نے یہ تو نہیں کہا تھا کہ غیر احمدی اکٹھے ہو کر قادیان آئیں اور اپنے تم مولویوں کی تقریریں سنیں.بلکہ میں نے تو یہ کہا تھا کہ غیر احمدیوں کے کوئی بڑے مولوی اگر احمدیوں کو اپنی باتیں سنانے کے لیے آنا چاہیں تو میں اُن کا خرچ بھی برداشت کروں گا اور ان میں کی باتیں سننے کے لیے احمدیوں کو جمع بھی کرادوں گا.غیر احمدیوں کو اپنے مولویوں کی باتیں ہیں سننے کے لیے قادیان آنے کی کیا ضرورت ہے؟ وہ تو ان کی باتیں دہلی میں بھی سن سکتے ہیں، لاہور میں بھی سن سکتے ہیں، امر تسر میں بھی سن سکتے ہیں.اُن کو یہاں آکر سننے کی کیا ضرورت ہے ؟ میری غرض تو یہ تھی کہ غیر احمدی علماء کا اگر یہ خیال ہو کہ جو لوگ احمدی ہوئے وہ اس مہینے وجہ سے ہوئے ہیں کہ ہماری باتیں سننے کا انہیں موقع نہیں مل سکا تو وہ بے شک قادیان آکر اپنی باتیں احمدیوں کو سنائیں میں اُن کا خرچ بھی خود دوں گا.اور یہ بات میں اب بھی کہتا ہوں کہ اگر اُن کے کوئی بڑے عالم مثلاً مفتی کفایت اللہ صاحب یا مولوی شبیر حسین صاحب دیو بندی مجھے لکھیں کہ وہ قادیان میں آکر احمدیوں کو اپنی باتیں سنانا چاہتے ہیں اور ان کے آنے پر یہ غیر احمدیوں کا کوئی مظاہرہ یا جلسہ نہ ہو گا تو میں اس کا انتظام کر دوں گا اور اُن کا خرچ بھی ادا کروں گا اور میں خود گورنمنٹ سے بھی یہ کہوں گا کہ اس میں کوئی حرج نہیں اور اس میں کوئی ہے خطرہ کی بات نہیں.اجتماع احمدیوں کا ہو گا صرف ایک دو مولوی صاحبان تقریر کرنے والے باہر سے آئیں گے اور اس صورت میں فتنہ کا کوئی خوف نہیں.مگر میں نے تو کہا تھا کہ اگر کوئی ہے غیر احمدی عالم احمدیوں کو اپنی باتیں سنانے کے لیے قادیان آنا چاہے تو بے شک آئے میں اُس کا خرچ بھی دوں گا مگر اِن لوگوں نے سارے ہندوستان میں اعلان کیا کہ غیر احمدی کثرت سے

Page 707

خطبات محمود ا 707 $1944 قادیان پہنچیں اور وہاں ہماری باتیں سنیں.حالانکہ غیر احمدیوں کو اپنے علماء کی باتیں سننے کے لیے قادیان آنے کی کیا ضرورت ہے.وہ یہ باتیں تو ہر جگہ سن سکتے ہیں.کسی غیر احمدی عالم کے یہاں آنے کی غرض تو یہی ہو سکتی ہے کہ احمدیوں کو وہ باتیں سنائی جائیں.پس میں اب بھی وہ بات کہتا ہوں جو دہلی میں کہی تھی کہ اگر کوئی غیر احمدیوں کا بڑا عالم یہاں آکر اپنی باتیں احمدیوں کو سنانا چاہے تو اُس کا انتظام کر دوں گا اور اُس کا خرچ بھی دوں گا اور گور نمنٹ سے بھی یہ کہہ دوں گا کہ اُس کے یہاں آنے اور تقریر کرنے میں کوئی حرج نہیں اور وہ احمدیوں کے سامنے تقریر کرے تا اسے تسلی ہو سکے کہ جن لوگوں نے احمدیت کو قبول کیا ہے ناواقفیت کی وجہ سے نہیں کیا بلکہ سوچ سمجھ کر کیا ہے اور اچھی طرح موازنہ کر کے کیا ہے.اور اگر اُس کا یہ خیال درست ہو گا کہ جو لوگ احمدی ہوئے ہیں وہ دھو کا کا شکار ہوئے ہیں تو اُس کی تقریر سننے والے احمدی خود بخود اُس کے ساتھ ہو جائیں گے.لیکن اگر ایسا نہیں تو اس تقریر کو سن کر ان کے ایمان اور زیادہ مضبوط ہوں گے.غرض اِن دونوں باتوں میں یعنی جو کچھ میں نے دہلی میں کہا اور جو کچھ احرار نے میری طرف منسوب کیا زمین و آسمان کا فرق ہے.میں نے تو کہا تھا کہ ان کے علماء قادیان میں اگر احمدیوں کو اپنی باتیں سنانا چاہیں تو میں اس کا انتظام کر دوں گا.مگر میں اُنہوں نے سارے ہندوستان میں یہ ڈھنڈورا پیٹ دیا کہ غیر احمدی جمع ہو کر قادیان چلیں.میں نے تو کہا تھا کہ اُن کی تقریر کے لیے انتظام میں کر دوں گا.مگر انہوں نے خود ہی لوگوں کو جمع کر کے قادیان میں لانے کی کوشش شروع کر دی.قادیان ایک چھوٹی سی بستی ہے.اس کی آبادی تیرہ چودہ ہزار سے زیادہ نہیں اور اس میں میں احمدیوں کی آبادی قریباً دس ہزار ہو گی.تو ایک ایسی چھوٹی سی بستی میں چاروں طرف سے مخالفین کو اکٹھا کر کے لانا ایک ایسی بات ہے کہ کون امید کر سکتا ہے کہ یہ فتنہ کا موجب نہ ہو گی.پھر ان لوگوں کی طرف سے اشتعال بھی دلایا جارہا تھا.جس کے نتیجہ میں بعض لوگ اس بات پر آمادہ ہو جاتے کہ ہمارے مقدس مقامات پر حملہ کر دیں.جیسا کہ پہلے ان کی طرف سے اس ارادہ کا اظہار بھی ہو چکا ہے.پس ان لوگوں نے جو کچھ کرنا چاہا وہ میری تجویز ہرگز نہ تھی.میں نے جو بات پیش کی تھی اس کے مطابق اگر یہ لوگ چاہیں تو اب بھی انتظام ہے

Page 708

$1944 708 خطبات محمود ہو ہو سکتا ہے.وہ ایسی بات ہے کہ جس پر گورنمنٹ کو بھی اعتراض کرنے کی ضرورت نہیں سکتی.اگر قادیان میں احمدی جمع ہوں اور اُس مجمع میں کوئی غیر احمدی مولوی تقریر کرے تو گورنمنٹ کو فساد کا کوئی خطرہ نہیں ہو سکتا اور ایسے اجتماع کے انعقاد کے لیے میں بھی ان کے ہم ساتھ مل کر گورنمنٹ سے اجازت لینے کی کوشش کروں گا.کیونکہ اس میں فتنہ کا کوئی خدشہ ہے نہیں.مگر ان لوگوں نے ایک نرالا ڈھونگ رچایا اور لوگوں کو اکٹھا کر کے قادیان پر یورش کرنا ہے چاہی اور جب گورنمنٹ نے انہیں ایسا کرنے کی اجازت نہ دی تو شور مچادیا کہ احمدیوں نے ہمارا جلسہ بند کرادیا.یہ صحیح ہے کہ سلسلہ کے ایک افسر نے اس بارہ میں ذمہ دار سرکاری افسر سے ملاقات کی تھی مگر جب وہ ملا تو اس سرکاری افسر نے کہا کہ میں تو دوروز ہوئے اِس جلسہ کے بند کیے جانے کا حکم دے چکا ہوں.پس یہ بات غلط ہے کہ ان کے جلسہ میں روک جو پیدا ہوئی وہ ہے ہماری وجہ سے ہوئی اور اِس طرح یہ بات بھی غلط ہے کہ ہمارے بعض جلسوں پر انہوں نے جو حملے کیے، پتھر پھینکے اور احمدیوں کو زخمی کیا اُس کی وجہ قادیان میں ان کے جلسہ کا بند کیا جانا ہے.کیونکہ دہلی میں تو ہمارا جلسہ قادیان میں اُن کے جلسہ کے اعلان سے بھی بہت پہلے منعقد ہوا تھا اور وہاں ہمارے جلسے پر ان لوگوں نے پتھر پھینکے اور حملے کیے تھے.پس اُن کا یہ کہنا کہ لاہور اور امر تسر وغیرہ مقامات پر سیرت النبی کے جلسوں کے موقع پر ان لوگوں نے جو حملے کیسے ہیں وہ قادیان میں ان کے جلسہ کو بند کرانے کا انتقام لیا ہے بالکل غلط ہے.دہلی میں ہمارے جلسہ پر اس قدر سخت پتھراؤ کے بعد یہ کہنا کہ یہ قادیان میں ان کے جلسہ نہ ہونے دیے جانے کا انتقام ہے صریح جھوٹ ہے.پہلے ان لوگوں نے لدھیانہ میں ہمارے جلسہ کے موقع پر گالیاں دیں، پتھر پھینکے اور سوانگ 1 نکالے.پھر دہلی میں ہمارے جلسے پر پتھراؤ کیا.بلکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ میں بھی جب آپ دہلی تشریف لے گئے تو مخالفین نے سخت شور و شر کیا.پھر امر تسر میں جلسہ کو روکا اور پتھر پھینکے.لاہور میں بھی اسی طرح کیا.یہ سب کچھ نصف صدی پہلے ان کے قادیان میں کونسے جلسہ کو روکے جانے کے انتقام کے طور پر کیا گیا تھا؟ اب بھی ان کے جلسہ کو اگر روکا تو حکومت نے روکا.اور وہ اِس لیے کہ اس سے فتنہ وفساد کی بو آتی تھی.مگر یہ لوگ تو ہمیشہ سے ہمارے جلسوں پر پتھراؤ کرتے ہیں

Page 709

خطبات محمود 709 $1944 آئے ہیں.1931ء میں جب میں سیالکوٹ گیا تو میری تقریر کے وقت انہی مولوی عطاء اللہ صاحب کی انگیخت پر قریباً نہیں ہزار کا مجمع پورا ایک گھنٹہ اور پانچ منٹ ہم پر پتھراؤ کرتا رہا اور پھر ان پتھر اؤ کرنے والوں کی بہادری یہ تھی کہ جب مسٹر یوسٹس نے جو اُس وقت وہاں ڈپٹی کمشنر تھے حکم دیا کہ اگر پانچ منٹ تک یہ مجمع منتشر نہ ہوا تو وہ پولیس کو حملہ کرنے کا حکم دیں گے.تو پانچ منٹ کے اندر اندر ہی یہ لوگ اس طرح جلسہ گاہ سے غائب ہو گئے جیسے گدھے کے سر سے سینگ.پس ان لوگوں کا ہمارے جلسوں پر حملے کرنا کوئی نئی بات نہیں.ان فتنوں کے اس وقت اٹھنے میں اللہ تعالیٰ کا منشاء یہ ہے کہ جماعت کو متنبہ کرے کہ اپنے آپ کو امن میں نہ سمجھنا.فتنے ابھی موجود ہیں اور دشمن احمدیت کو مٹانے کے لیے کھڑا ہے.اگر ان حالات سے جماعت آنکھیں بند کرلے تو اس کی مثال وہی ہو گی کہ جیسے کبوتر بلی کو دیکھ کر آنکھیں بند کر لیتا ہے اور وہ کسی بہتر نتیجہ کی امید نہیں کر سکتی.پس یہ سامان اللہ تعالی نے خود اس لیے پیدا کیا ہے کہ تادلوں سے غفلت کو دور کرے اور ہماری مستیوں کے ازالہ کا سامان فرمائے اور جیسا کہ اس سال کے شروع میں اُس نے مجھے رویا میں دکھایا تھا کہ اسلام کے لیے جنگ کرنے میں مجھے دنیا میں دوڑنا ہو گا اور جب میں دوڑوں گا تو اُن لوگوں کے لیے جنہوں نے میرے ہاتھ میں ہاتھ دے رکھا ہے دوڑنا لازمی ہو گا.بیعت کرتے وقت ہاتھ میں ہاتھ دینے کے ایک معنے یہ بھی ہوتے ہیں کہ جس طرح ماں باپ جب تیز چلنے لگتے ہیں تو بچہ کا ہاتھ پکڑ لیتے ہیں تاہم وہ ساتھ ساتھ چل سکے اسی طرح بیعت کرنے والا بھی ہاتھ میں ہاتھ دے کر ساتھ چلنے کا اقرار کرتا ہے.پس میں جب دوڑوں گا تو جن لوگوں نے میرے ہاتھ میں ہاتھ دے کر بیعت کی ہے اُن کے لیے بھی لازمی ہو گا کہ یا تو میرے ساتھ دوڑیں اور یا پھر اپنا ہاتھ ھیچ لیں.اور جو شخص میرے ساتھ دوڑنے میں کوتاہی کرتا ہے وہ گویا اپنی بیعت کے ناقص ہونے کا اقرار کرتا ہے.یا درکھو! کہ آج اسلام سے زیادہ کوئی مذہب حقیر اور کمزور نہیں.وہی طاقتیں جو کسی زمانہ میں اس کی قوت کا موجب تھیں مثلاً ایران، افغانستان، بخارا، مصر وغیرہ وہ ایسی چھوٹی چھوٹی ہیں کہ ان کی کوئی حیثیت ہی نہیں کبھی جاتی.اگر مصر، مرا کو، الجیریا، سوڈان ، مینی

Page 710

خطبات محمود 710 $1944 عرب، شام، فلسطین، ترکی، بخارا، البانیه، ایران، افغانستان سب ایک حکومت کے ماتحت ہوتے تو دس بارہ کروڑ کی آبادی اس کی ہوتی.جیسے امریکہ کی ہے اور اس صورت میں اس کی کوئی آواز بھی ہوتی.مگر اب تو ایسا وقت ہے کہ شاید ان کی بات سننے کے لیے بھی کوئی تیار نہ کی ہو گا.نام کو تو یہ کئی حکومتیں ہیں مگر چھوٹی چھوٹی اور ٹکڑے ٹکڑے ہونے کی وجہ سے ان کی کوئی آواز نہیں.وہی حکومتیں جو آزادی کے نام پر جنگ کر رہی ہیں اُن میں سے ایک نے ایران کو نوٹس دیا ہے کہ اپنے تیل کے ذخائر ہمارے حوالے کر دو.کیا یہی نوٹس کوئی انگلستان، امریکہ یا روس کو دے سکتا ہے؟ جس چیز کا ہزارواں حصہ اپنے بارہ میں مداخلت سمجھا جاتا ہے اُس بات کو دوسرے کمزور ہمسایوں کے بارہ میں حق اور جائز سمجھا جاتا ہے.یہ صرف کمزوری کا نتیجہ ہے.غرض آج مسلمانوں کا کوئی وقار دنیا میں نہیں.پھر علمی لحاظ سے بھی ان کا وجود مٹتا جا رہا ہے.ہندوستان کے پرانے علماء کی بھی یہی رائے ہے کہ پرانے علوم اب مٹتے جارہے ہیں اور اب مسلمانوں میں ان کے حصول کا شوق باقی نہیں رہا.مصر کی از ہر یونیورسٹی جو اِن علوم کی سب سے بڑی یونیورسٹی ہے اس سے لوگوں کی دلچسپی بھی کم ہو رہی ہے.مصر میں بھی نئے علوم کی یونیورسٹیاں قائم ہو رہی ہیں اور ہوشیار طلباء زیادہ تر اُن ہی میں داخل ہو رہے ہیں.مسلمانوں میں اب تصوف بھی باقی نہیں رہا.پہلے تو تصوف کے یہ معنے تھے کہ تصوف کی گدی پر بیٹھنے اور اس رستہ پر چلنے والا اللہ تعالیٰ کی ڈیوڑھی کا دربان ہو تا تھا مگر آج صوفی کے معنے دنیا کے پیسوں کا رکھوالا کے ہیں.خدا تعالیٰ کی مدد اور نصرت اب ان کے ساتھ نہیں رہی اور صوفی کہلانے والے تو گل کے مقام سے بہت دور ہیں اور اب صوفیوں میں عام دنیا داروں والی باتیں پائی جاتی ہیں.مولوی امام الدین صاحب مرحوم جو قاضی اکمل صاحب کے والد تھے ان کو یہ تصوف کی باتوں کا بہت خیال رہتا تھا اور وہ ہمیشہ مجھ سے سوال کیا کرتے تھے کہ پرانے صوفیاء کی مجالس میں جو باتیں ہوتی تھیں وہ یہاں نہیں ہیں.کبھی عرش پر سجدے اور کبھی عرش پر خدا تعالیٰ سے باتیں ہوتی تھیں.یہ کمالات یہاں بھی دکھائے جائیں.میں اُن کو جواب دیا کرتا تھا مگر اُن کی تسلی نہیں ہوتی تھی.ایک دن خدا تعالیٰ نے میرے دل میں ڈالا اور میں نے منی

Page 711

خطبات محمود 711 $1944 اُن سے کہا کہ آپ یہ بتائیں کہ بادشاہ کے نوکر کو کبھی یہ بھی فکر ہو سکتا ہے کہ اُسے کھانا کہاں سے ملے گا؟ وہ تو جانتا ہے کہ جہاں سے بادشاہ کے لیے آئے گا اُس کے لیے بھی آجائے گا.اگر ان صوفیاء میں جن کی مجالس کے قصے آپ بیان کرتے ہیں اللہ تعالی پر حقیقی تو کل ہو تو انہیں ہے کوئی ذاتی ہوس نہ ہو اور دنیا کی محبت اُن کے قلوب سے سرد ہو جائے.آپ جن صوفیاء کا ذکر کرتے ہیں کیا آپ کہہ سکتے ہیں کہ اُن میں حقیقی تو گل پایا جاتا ہے ؟ اور کیا انہیں اللہ تعالی پر ایسا ایمان ہے کہ وہ خود اُن کا کفیل ہو گا اور یہ کہ انہیں بندوں کی مدد کی ضرورت نہیں ؟ اس پر اُن کی سمجھ میں بات آگئی اور اُنہوں نے کہا کہ بس اب میں سمجھ گیا.انہوں نے کہا کہ میرے ایک استاد تھے اور جب بھی میں اس قسم کے سوالات کرتا تھا تو مجھے انہی کا خیال آیا کرتا تھا مگر اُن کی عادت یہ تھی کہ جب غلہ نکلنے کا موسم آتا تو وہ زمینداروں سے کہا کرتے تھے کہ ہمارا بھی خیال رکھنا.تو آج صوفیاء میں حقیقی تو کل نام کو باقی نہیں رہا.کئی ایسے ہیں جو تصوف کی آڑ میں ٹھگ بنے پھرتے ہیں اور لوگوں کے زیورات اور نقدی و غیرہ کسی نہ کسی بہانہ سے ٹھگ کر لے جاتے ہیں.آج مسلمانوں میں نہ ظاہری شان و شوکت ہے نہ علوم ظاہری ہیں اور نہ تصوف.ہر لحاظ سے ان پر ایک جمود کی حالت طاری ہے.دیکھو ! عیسائیت کتنا جھوٹا مذہب ہے.وہ ایک بندے کو خدا بناتا ہے مگر اُن کے پادری کس جوش سے کام کرتے ہیں.کہیں وہ لوگوں کو علوم سیکھنے کی تحریک کرتے ہیں، کہیں لوگوں کو علوم سکھاتے ہیں، کہیں غرباء کی خدمت کرتے ہیں، کہیں بہاروں کا علاج کرتے ہیں، مصیبت زدہ لوگوں کی مصائب اور مشکلات میں مدد کرتے ہیں اور ان میں ایک استغناء کا رنگ نظر آتا ہے، ایک وقار پایا جاتا ہے.مگر ان کے مقابل مسلمان مولویوں کی کیا حالت ہے.اِلَّا ماشاء اللہ ان میں سے چند ایک کو چھوڑ کر باقی سب میں بددیانتی پائی جاتی ہے.میں نے بچپن ہے میں ایک دفعہ دیکھا کہ رام باغ امر تسر میں ایک مولوی صاحب جارہے تھے اور پیچھے پیچھے ایک غریب آدمی اُن کی منتیں کرتا جاتا تھا اور وہ مولوی صاحب اُسے جھڑ کتے اور گالیاں دیتے جاتے تھے.آخر مولوی صاحب آگے نکل گئے اور وہ بیچارہ پیچھے رہ گیا.میں نے اس سے پو چھا کہ کیا ہے بات ہے؟ اس نے بتایا کہ میں مزدوری کرتا ہوں.مزدوری سے ہی تھوڑے تھوڑے پیسے

Page 712

خطبات محمود 712 $1944 بچا کر ان مولوی صاحب کے پاس جمع کرا تا گیا کہ شادی پر خرچ کروں گا.اب سو یا دو سو روپیہ جمع ہو گئے تو میں نے ان سے واپس مانگے مگر اس پر یہ مجھے گالیاں دیتے اور جھڑ کتے جاتے ہیں اور میری رقم دینے سے انکار کرتے ہیں.تو ان لوگوں میں سے دیانت اور امانت بالکل مٹ گئی ہے ہے اور ایسے حالات میں آج اسلام جس قدر مدد کا محتاج ہے وہ ظاہر ہے.جس قدر مدد کا محتاج آج اسلام ہے اور کوئی مذہب نہیں.فرض کرو اگر عیسائیت دنیا میں غالب آجائے تو اس کے لیے معنے یہ ہوں گے کہ خدا تعالیٰ کا نام دنیا سے مٹ گیا.بدر کے موقع پر جب مسلمانوں کی تعداد بہت تھوڑی تھی یعنی وہ تین سو کے قریب تھے اور کفار کا لشکر بہت زیادہ تھا اور بظاہر مسلمانوں کے غلبہ کی کوئی صورت نہ تھی اُس وقت رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دعا کی کہ اے اللہ! اگر آج یہ مسلمانوں کا چھوٹا سا گر وہ مٹ گیا تو دنیا میں تیری عبادت کرنے والا کوئی ہے باقی نہ رہے گا.2ے وہی حال آج احمدیت کا ہے اگر یہ غالب نہ آئے، اگر احمدیت کا درخت مر جھا کر رہ گیا تو دنیا میں خداتعالی کا نام لینے والا کوئی باقی نہ رہے گا.پس چاہیے کہ ہمارے سامنے خواہ کس قدر مشکلات ہوں ہم اپنے خون کے آخری قطرہ تک کو خد اتعالیٰ اور اسلام کی راہ میں بہادیں.اور اگر ہم اس کے لیے تیار نہیں ہیں، اگر ہم اس قربانی سے ہچکچاتے ہیں، اگر ہمیں ایسا کرنے میں کوئی تامل ہے تو اس کے معنے یہ ہیں کہ ہمارا سلسلہ احمدیہ میں داخل ہونا محض ایک دکھاوا ہے، قریب ہے، مکاری ہے اور دغا بازی می.ہے.دنیا میں لوگ انسانوں سے دھوکا کرتے ہیں، ایک دوسرے سے فریب کرتے ہیں اور دغا بازی سے کام لیتے ہیں اور شریف لوگ ایسے لوگوں کو ادنی اخلاق کا اور بہت گرا ہوا سمجھتے ہے ہیں.لیکن اگر ہم اس وقت خدا تعالی کی آواز پر لبیک نہ کہیں گے ، اگر اسلام کے لیے قربانی ہے کرنے سے ہچکچائیں گے تو ہم اُن لوگوں سے بھی گئے گزرے سمجھے جائیں گے جو ایک دوسرے سے دھو کا کرتے ہیں.کیونکہ یہ لوگ باوجود اپنے گرے ہوئے اخلاق کے اپنے لیڈروں کی آواز پر لبیک کہتے ہیں.ہم اگر خداتعالی کی آواز پر بھی لبیک نہ کہیں تو ہم سے وہ دنیا دار لوگ ہی ہے اچھے ہوں گے.اور یہ ایک ایسا بدترین مظاہرہ ہو گا جو ہمیں انسانیت کے درجہ سے گرا کر حیوانیت کے درجہ پر پہنچا دے گا.بے شک قربانیوں کا رستہ لمبا ہوتا جاتا ہے مگر اچھی طرح ہے

Page 713

خطبات محج محمود 713 $1944 یاد رکھو کہ جب تک کوئی قوم زندہ رہنا چاہتی ہے اُسے قربانیاں کرنی پڑیں گے.قربانی کے بغیر زندگی ممکن ہی نہیں.اور جس دن کوئی قوم یہ چاہے کہ خدا تعالیٰ اس سے قربانی کا مطالبہ نہ کرے، اس کو ابتلاء میں نہ ڈالے تو اس کے معنے یہ ہوں گے کہ وہ چاہتی ہے کہ خداتعالی اسے چھوڑ دے.قربانی کے مطالبہ کے معنی یہ ہیں کہ خدا تعالیٰ اسے یاد کر رہا ہے.اور جو شخص قربانی کے دروازہ کے بند کیے جانے کا خیال بھی دل میں لاتا ہے وہ ایمان کی حقیقت سے واقف نہیں.جو امید رکھتا ہے کہ اللہ تعالیٰ قربانی کے دروازہ کو بند کر دے وہ گویا دعا کرتا ہے کہ اے خدا! مجھے چھوڑ دے.اے خدا ! مجھے بھول جا.اے خدا! مجھے کبھی یاد نہ کر.اور ظاہر ہے کہ ایسی دعا کرنے والا مومن نہیں ہو سکتا.مومن کا جواب تو قربانی کے ہر مطالبہ پر وہی ہوتا ہے اور وہی ہونا چاہیے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ایک شعر میں بیان فرمایا ہے.حضور علیہ السلام فرماتے ہیں.در کوئے تو اگر سر عشاق را زنند اول کے کہ لاف تعشق زند منم 3 یعنی اگر یہ فیصلہ ہو جائے کہ یار کے کوچہ میں ہر عاشق کا سرکاٹ دیا جائے گا تو اس ، فیصلہ کو سننے کے بعد جو سب سے پہلے یہ کہے گا کہ میں عاشق ہوں وہ میں ہوں گا.خوب یاد رکھو کہ موت ہی میں دراصل زندگی ہے اور قربانی زندگی کے لیے نہایت ضروری ہے.حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے بیٹے کو اللہ تعالی کی راہ میں قربانی کے لیے ہے پیش کر دیا تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ میں تیری نسل کو اتنا بڑھاؤں گا کہ اُسے شمار کرنا مشکل ہو گا.آپ نے خداتعالی کی خاطر اپنی نسل کو تباہ کر دینا چاہا.جب اللہ تعالیٰ نے ان سے فرمایا کہ میں چاہتا ہوں تو اپنے بیٹے کو میری راہ میں قربان کر دے تو آپ نے کہا اے میرے رب ! میں اس کے لیے تیار ہوں.اس کے بدلہ میں اللہ تعالیٰ نے ان سے فرمایا کہ میں تیری نسل کو کبھی نہ مرنے دوں گا.بعض لوگ کہا کرتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مقام تو سب نبیوں سے بلند تر ہے پھر یہ دعا کیوں سکھائی گئی کہ اللهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ

Page 714

خطبات محمود 714 $1944 وَ عَلَى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى إِبْرَاهِيْمَ.اس کے ہم اور معنے بھی کرتے ہیں.مگر ایک معنے اس کے یہ بھی ہیں کہ خدا تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام سے یہ وعدہ کیا تھا کہ میں تیری نسل کو کبھی فنانہ ہونے دوں گا.سو درود میں آپ کا نام شامل کر کے اللہ تعالیٰ اُس وعدہ کو یاد دلا رہا ہے کہ جو اُس کا ہو جاتا ہے وہ کس طرح اُسے ہمیشہ کے لیے قائم کر ادیتا ہے.انگریزی میں ایک ضرب المثل ہے کہ ایک دفعہ تو تم نے بے لکھے چکھا تھا مگر اب کہ میں تم اسے چکھ چکے ہو.اسے چکھنے کے بعد ایک بار پھر چلکھو.ایک مٹھائی کو تم نے پہلے بغیر چکھنے کے چکھا تھا مگر اب کہ تم اس کے مزے سے آشنا ہو چکے ہو.ایک دفعہ اسے اور چکھو.اسی طرح میں کہتا ہوں کہ تحریک جدید کا پہلا دور تو ایسا ہی تھا کہ جیسے بغیر پہلے چکھنے کے کسی مٹھائی وغیرہ کو چکھنا.اُس وقت تو کوئی علم نہ تھا کہ یہ بیچ جو ہم بو رہے ہیں یہ کتنا بڑا درخت پیدا کرے گا.مگر اب کہ تم دیکھ چکے ہو کہ اس کے نتیجہ میں کتنا بڑا ریز رو فنڈ قائم ہو چکا ہے.اتنا بڑا کہ گوی وہ اپنی ذات میں کتنا ہی حقیر ہو مگر ہماری جماعت کی مالی حالت کے لحاظ سے اس کا ہم کبھی خیال بھی نہ کر سکتے تھے.پھر اس کے نتیجہ میں احمدیت کی تبلیغ اور اس کی شہرت دنیا کے چاروں طرف پھیل چکی ہے.ہماری تنظیم اس سے بہت زیادہ مضبوط ہو چکی ہے جتنی دس سال قبل امینی تھی.اور آج ہماری جماعت ہر لحاظ سے دس سال قبل کی نسبت اللہ تعالیٰ کے فضل سے کئی گنا تیل اچھی ہے.تو میں کہتا ہوں کہ جو کام پہلے دور میں آپ لوگوں نے چکھے بغیر کیا تھاوہی اب کہ ہے اس کی لذت سے آپ لوگ آشنا ہو چکے ہیں آپ کو چاہیے کہ اور بھی زیادہ جوش کے ساتھ کریں.اور چونکہ کسی کام میں حصہ لینے کی طرف رغبت دلانے کے لیے ضروری ہوتا ہے کہ اُس کام کی اہمیت بیان کر دی جائے اس لیے میں مختصر طور پر اب یہ بتاتا ہوں کہ وہ کام کیا ہے جس سے ہم دنیا میں حرکت پیدا کر سکتے ہیں.تحریک جدید کا کام تبلیغ کو منظم اور زیادہ وسیع کرنا ہے.میرے نزدیک تبلیغ کا کام تین حصوں میں تقسیم ہونا چاہیے.(1) تبلیغ بیرون ہند (2) تبلیغ اندرون ہند (3) مبلغ تیار کرنے والا نظام.

Page 715

$1944 715 محمود تبلیغ بیرون ہند کے کئی حلقے ہیں.ایک حلقہ ان میں سے اسلامی ممالک کا ہے.ممالک اس بات کے حق دار ہیں کہ ہدایت اُن تک پہنچانے کا انتظام کیا جائے کہ انہی ممالک کے لوگوں کے ذریعہ اسلام پھیلا اور ہم تک پہنچا.ان ممالک میں آج جو لوگ بستے ہیں اُن کے آباء و اجداد کا یہ احسان تھا کہ انہوں نے اسلام کو پھیلایا اور اس طرح وہ ہم تک پہنچا.اس لیے ہمارا فرض ہے کہ آج جب اُن کی اولادیں اسلام سے غافل ہو چکی ہیں ہم پھر انہیں اسلام کی طرف لائیں.اس حلقہ میں عراق، شام، فلسطین، مصر، ایران، لبنان (گو اس ملک میں عیسائی زیادہ آباد ہیں مگر پھر بھی یہ اسلامی تحریک کا مرکز ہے) وغیرہ ممالک ہیں.ان ممالک میں کم سے کم دو دو مبلغ ہونے چاہیں.ایک ایک ملک کے لیے دو دو مبلغ بہت ہی کم ہیں.دو مبلغ تو ضلع گورداسپور کے لیے بھی کافی نہیں ہو سکتے.مگر فی الحال اگر ہم ان ممالک کے لیے دو دو مبلغ بھی رکھیں تا کم سے کم وہاں اسلام کی آواز اُٹھتی رہے تو بھی یہ بارہ مبلغ ہوئے.اس کے بعد ایک حلقہ افریقن ممالک کا ہے.ان میں سے اکثر میں اسلامی آبادی ہی زیادہ ہے اور ان میں مسلمان بکثرت آباد ہیں.مثلاً سوڈان، نائیجیریا، گولڈ کوسٹ، سیر الیون، آزاد علاقہ یعنی لائبیریا، پانچ فرانسیسی علاقے، بیلجین کا نگو اور پرتگیزی علاقہ میں.کل بارہ علاقے ہیں.ان میں سے ہر ایک کے لیے اگر تین تین مبلغ بھی رکھے جائیں تو اس کے یہ معنی ہیں کہ 36 مبلغ ان علاقوں کے لیے درکار ہیں.پھر یورپین ممالک ہیں انگلینڈ، جرمنی، فرانس، اٹلی، ہالینڈ اور سپین تو بڑے ملک ہیں.ان کے علاوہ مشرقی اور شمالی یورپ کے ممالک کا اگر ایک ایک دائرہ شمار کیا جائے تو یہ کل آٹھ علاقے ہوتے ہیں.ان میں سے ہر ایک کے لیے اگر تین تین مبلغ رکھے جائیں تو ان ممالک کے لیے کل 24 مبلغین کی ضرورت ہے.اس کے بعد امریکہ ہے جس میں کینیڈا، یونائیٹڈ سٹیٹس اور جنوبی امریکہ کی ریاستیں ہیں.ان کے لیے ضرورت تو بہت زیادہ مبلغین کی ہے لیکن اگر ان کے پانچ حلقے مقرر کر کے ہر ایک کے لیے تین تین مبلغ رکھے جائیں تو پندرہ مبلغ یہ ہوئے.اس کے بعد مشرقی ممالک ہیں چین، سماٹرا، جاوا، سٹریٹ سیٹلمنٹ اور جاپان ہیں.اگر جاپان اور چین کے لیے چھ مبلغ ہوں.جاوا، سماٹر اوغیرہ میں احمدیت خدا کے فضل سے ایک حد تک پھیل چکی ہے مگر پھر بھی ان کے لیے دس مبلغ کم سے کم ہونے چاہئیں اور سٹریٹ سیٹلمنٹ کے لیے تین.گویا گل 19 ہوئے.

Page 716

$1944 716 محمود قلیل سے قلیل تعداد مبلغین کی ہے جس سے دنیا میں ایک حرکت پیدا کی جاسکتی ہے.یوں تو ہر ملک میں اس سے بہت زیادہ مبلغین کی ضرورت ہے.مثلاً انگلستان، جرمنی، فرانس وغیرہ ممالک کے لیے تین مبلغ کافی نہیں ہو سکتے.لیکن فی الحال اگر تین تین بھی بھیجے جاسکیں تو کام می شروع کیا جاسکتا ہے.ایک ان میں سے کوئی رسالہ وغیرہ نکال لے، ایک دورے وغیرہ کرتا رہے اور ایک ہیڈ کوارٹر میں رہے، کتب وغیرہ فروخت کرے اور چھوٹے پیمانے پر کوئی لائبریری و غیر ہ جاری کرلے.یہ صرف کام شروع کرنے کے لیے ہے ورنہ تین تین مبلغین بہت تھوڑے ہیں.قادیان ایک چھوٹی سی بستی ہے اور پندرہ ہیں علماء یہاں ہر وقت موجود رہتے ہیں پھر بھی شور رہتا ہے کہ آدمی کافی نہیں ہیں اور اس لحاظ سے جن ممالک کی آبادی پانچ ہے چھ کروڑ ہو وہاں تین مبلغین کی مثال ایسی بھی نہیں جیسے آٹے میں نمک کی.ان کی حیثیت اتنی ہے بھی نہیں جتنی جسم انسانی کے ایک بال کی جو نسبت جسم میں ہے پانچ چھ کروڑ آبادی کے ملک میں میں تین مبلغین کی نسبت اتنی بھی نہیں بنتی.اور یہ تعداد صرف اتنی ہی ہے جو جھنڈ ابلند رکھے اس سے زیادہ نہیں.اور پھر یہ بات بھی ہے کہ یہ مبلغ ساری عمر وہاں نہیں رہ سکتے.کیونکہ ان کے بیوی بچے یہاں ہوں گے.ان سے ملنے نیز دین کی تعلیم کو تازہ کرنے کے لیے ان کو تین چار سال کے بعد واپس بلا نالازمی ہو گا.اِس لیے کم سے کم دُگنی تعداد ہی کام دے سکتی ہے.یہ علقہ وار مبلغین کی تقسیم جو میں نے بیان کی ہے اس کی مجموعی تعداد 106 بنتی ہے.پس اتنے می ہی مبلغ ہمیں یہاں رکھنے پڑیں گے تا تین تین یا چار چار سال کے بعد ان کا آپس میں تبادلہ ہوتا رہے.غیر ممالک میں کام کرنے والے تین چار سال کے بعد قادیان آجائیں اور یہاں جو ہوں وہ اُن کی جگہ جاکر کام کریں.ورنہ غیر ممالک میں کام کرنے والے مبلغین کی مثال ویسی ہی ہو گی جو اس وقت ہمارے امریکہ کے مبلغ کی ہے.ان کو کچھ مشکلات درپیش ہیں اور وہ واپس آنا چاہتے ہیں اور وہ لکھ رہے ہیں کہ مجھے واپس آنے دیا جائے.میں نے صدر انجمن احمدیہ سے کہا بھی ہے کہ ان کو بعض خاندانی مشکلات ہیں ان کو واپس بلایا جائے مگر اس نے ابھی تک کوئی انتظام نہیں کیا.صدر انجمن احمدیہ نے بعض نام امریکہ میں بطور مبلغ بھیجنے کے لیے میرے سامنے پیش کیے ہیں مگر ان میں ایک صاحب ایسے ہیں کہ جو 24 سال سے قادیان نہیں آئے.

Page 717

خطبات محمود 717 $1944 کیونکہ وہ کہتے ہیں کہ گھر سے نکلوں تو نزلہ کی تکلیف ہو جاتی ہے.ایک صاحب ایسے ہیں جو اس وقت موتیا بند کی مرض میں مبتلا ہیں.ایک ان میں سے انٹرنس (ENTRANCE) فیل یا شاید انٹرنس (ENTRANCE) پاس ہیں اور اس طرح بہت سے ایسے نام میرے پیش کر دیے گئے ہیں کہ جن کو نہ دینی تعلیم ہے اور نہ دنیاوی.یہ نتیجہ آدمی تیار نہ کرنے کا ہوتا ہے.مجھے حیرت ہے کہ صدر انجمن احمدیہ کو یہ نام پیش کرنے کی جرات کیسے ہوئی.انجمن میں پانچ میں سات تعلیم یافتہ اور ذمہ دار آدمی ہیں.جب وہ یہ رپورٹ میرے پاس بھجوانے کے لیے رہے تھے ان کے ہاتھ کیوں نہ کانپ گئے.یہ تمسخر ہے جو خدا او رسول اور اس کے خلیفہ سے کیا گیا.امریکہ میں جو علمی لحاظ سے چوٹی کا ملک ہے کسی انٹرنس فیل یا انٹرنس پاس کو بطور مبلغ بھیج دینا جو دینی علوم سے بھی کو راہے یا ایک ایسے شخص کو بھیج دینا جو 24 سال سے قادیان اس واسطے نہ آئے ہوں کہ گھر سے نکلیں تو بیمار ہو جاتے ہیں جگ ہنسائی کی بات ہے.در حقیقت یہ نتیجہ ہے آدمی تیار نہ کرنے کا.مگر ہم ایسی غلطی انشاء اللہ نہ کریں گے.ہم اگر 106 مبلغ من بیرونی ممالک میں بھیجیں گے تو اتنے ہی یہاں رکھیں گے تا پہلے مبلغ تین چار سال کے بعد واپس آسکیں اور دوسرے ان کی جگہ لے سکیں.اس انتظام کے بغیر کوئی تبلیغی مرکز کھولنا جنسی اور ہے مذاق ہو گا.ان تبلیغی مراکز کے علاوہ یہاں ایک تعلیمی ادارہ کا ہونا بھی ضروری ہے جس میں علماء تیار ہوتے رہیں کیونکہ کسی جماعت کی زندگی کا انحصار اس کے علماء پر ہوتا ہے.اس لیے علاوہ مدرسہ احمدیہ اور جامعہ احمدیہ کے اساتذہ کے چھ ایسے علماء کا مرکز میں موجود رہنا ضروری ہے جو چوٹی کے علماء تیار کر سکیں اور جو ہر وقت مرکز میں موجود ہوں.پھر اسی طرح ہندوستان میں دوسرے مقامات پر بھی مرکز کھولنے چاہئیں.اس کے بغیر تعلیمی تعظیم مکمل نہیں ہو سکتی.میں بنگال، بہار اور یوپی وغیرہ کے طالب علم قادیان میں تعلیم حاصل کرنے کے لیے بکثرت نہیں ہے آسکتے.کیونکہ ایک تو یہاں آکر تعلیم حاصل کرنے میں خرچ زیادہ ہوتا ہے دوسرے بعض اپنے اپنے علاقہ کے رسم و رواج کی مشکلات ہوتی ہیں اور پھر بعض والدین بھی بچوں کو اپنے سے جدا کر کے کسی اور جگہ پر بھیجنے سے کتراتے ہیں اور اس لیے جب تک مختلف مقامات پر

Page 718

$1944 718 محمود علیمی مراکز قائم نہ کیے جائیں فائدہ نہیں ہو سکتا.اس لئے میرے نزدیک ایک مدرسہ دینیہ بنگال اور بہار کے لیے ہونا چاہیے، ایک سندھ کے لیے، ایک صوبہ بمبئی کے لیے، ایک مدراس کے لیے اور ایک صوبہ سرحد کے لیے اور ایک یوپی کے لیے.ان مراکز کے قائم کرنے کا ایک لازمی نتیجہ یہ ہو گا کہ ان علاقوں کے طلباء ان میں تعلیم حاصل کریں گے.بنگال کا ایک لڑکا اگر قادیان میں تعلیم حاصل کرنے آتا ہے تو اس سے باقی بنگالیوں میں اپنے بچوں کو تعلیم حاصل ہے کرنے کے لیے قادیان بھیجنے کا زیادہ شوق پیدا نہیں ہو سکتا.لیکن اگر ان کے لیے بنگال میں ہی ایک تعلیمی مرکز کھول دیا جائے تو ضرور دینی تعلیم حاصل کرنے کا شوق ان میں پیدا ہو گا اور یہی ہے حال دوسرے صوبوں کا ہے.اگر ہم صوبہ مدراس کے لیے دو چوٹی کے عالم مقرر کر دیں، دومین بنگال کے لیے ، دو بمبئی کے لیے، دوسندھ کے لیے، دو صوبہ سرحد کے لیے اور دو یوپی اور بہار کے لیے تو اس سے ان علاقوں میں دینی تعلیم کے حصول کا شوق بہت جلد پیدا ہو جائے گا اور ہر علاقہ میں ایسے علماء پیدا ہو جائیں گے جو علم حاصل کرنے کے بعد اپنے اپنے علاقوں کو سنبھال ا سکیں گے.اس طرح بارہ مدرس ان مراکز کے لیے درکار ہوں گے.ان کے علاوہ دو عالم زائد رکھنے ہوں گے تاان میں سے اگر کسی کو رخصت وغیرہ پر آنا پڑے یا کوئی بیمار ہو جائے تو کام بند نہ ہو.اس طرح یہ نہیں علماء رکھنے ضروری ہیں.اس انتظام کے بغیر ہم علم دین کو عام نہیں کر سکتے.اور جب تک علماء عام نہ ہوں تربیت کا کام ناقص رہے گا.اب بھی یہ شکایت عام ہو رہی ہے کہ جماعتیں تو قائم ہو رہی ہیں مگر انہیں سنبھالنے والے آدمی بہت تھوڑے ہیں اور اس طرح جماعت کی ترقی میں بھی روک پیدا ہو رہی ہے اور تربیت میں بھی نقص رہتا ہے.لیکن اگر اس طرح مختلف صوبوں میں ہم مدارس قائم کر دیں تو بیسیوں علماء پیدا ہو سکیں گے اور جماعت بھی ان کے ذریعہ بہت ترقی کرے گی.ایک ایک عالم کے ذریعہ بعض اوقات سینکڑوں ہزاروں لوگ احمدیت میں داخل ہوئے ہیں.بنگال میں ایک عالم مولوی عبد الواحد صاحب گزرے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ ان کی خط و کتابت بھی براین احمدیہ حصہ پنجم میں شائع شدہ ہے.ان کے ذریعہ بنگال میں ہزاروں لوگوں نے بیعت می کی.تو جہاں جہاں بھی کوئی بڑا عالم ہوا ہے سینکڑوں ہزاروں نے اس کے ذریعہ بیعت کی ہے.

Page 719

خطبات محمود 719 $1944 پس اگر اس طرح ہم علماء تیار کر سکیں تو تبلیغ کے کام میں بھی بہت ترقی ہو سکتی ہے اور لوگوں میں دینی ذوق پیدا ہونے کا سامان بھی پیدا ہو سکتا ہے.اگر مختلف صوبوں میں قائم شدہ مدارس میں تعلیم حاصل کرنے کے لیے چھ چھ طلباء کو بھی وظائف دیے جائیں تو کم سے کم 36 طلباء کا من مزید بوجھ سلسلہ پر پڑے گا.اس سلسہ میں تیسری چیز دیہاتی سکیم کی ہے.کچھ عرصہ ہوا میری توجہ اس طرفہ منعطف ہوئی کہ ہمارے موجودہ مبلغ چونکہ اعلیٰ تعلیم پاتے ہیں اور شہری تمدن رکھتے ہیں.اِس لیے وہ دیہات میں اور زمینداروں میں تبلیغ کا کام كَمَاحَقہ نہیں کر سکتے.دیہاتیوں میں تبلیغ وہی کر سکتا ہے جو اُن میں رہے، اُن جیسا ہی تمدن رکھتا ہو.چنانچہ دیہات میں جہاں جہاں بھی جماعتیں قائم ہوئی ہیں وہ عام طور پر پٹواریوں، دیہاتی مدرسوں اور نمبر داروں وغیرہ کے ذریعہ سے ہوئی ہیں.اور اب بھی جہاں کوئی پٹواری یا مدرس احمدی ہو تھوڑی بہت جماعت بڑھتی رہتی ہے اور خدا تعالیٰ نے سامان بھی ایسے کر دیے کہ بہت سے پٹواری، دیہاتی مدرس اور نمبر دار وغیرہ جماعت میں داخل ہو گئے.یہ لوگ چونکہ دیہاتیوں میں ہی رہتے اور اُن سے ملتے جلتے رہتے ہیں اس لیے زیادہ کامیابی کے ساتھ اُن کو تبلیغ کر سکتے ہیں.اس لیے میں نے خیال کیا کہ دیہات کی تبلیغی ضرورت کو پورا کرنے والے علماء تیار کیے جائیں.چنانچہ میں نے دیہاتی مبلغین کی سکیم تیار کی.دیہات میں تبلیغ کرنے والوں کو زیادہ منطق اور فلسفہ وغیرہ علوم کی ضرورت نہیں.بلکہ قرآن کریم کا ترجمہ، تفسیر ، کچھ حدیث کا علم اور کچھ فقہی مسائل کا علم ہو نا کافی ہے اور کچھ طب کا جاننا ضروری ہے تا وہ تکلیف کے وقت دیہاتیوں کی مدد کر سکیں اور خود بھی کچھ کما سکیں.دیہاتی مبلغین کی ہمیں کس قدر ضرورت ہے ؟ اس کا اندازہ اس سے کیا جاسکتا ہے کہ ہندوستان میں اندازاً تین سو اضلاع ہیں.ہر ضلع میں اوسطاً چار تحصیلیں ہیں تحصیل میں کم و بیش پانچ سو دیہات ہیں.گویا ایک ضلع میں دو ہزار کے قریب دیہات ہیں اور اس طرح ہندوستان بھر میں دیہات کی تعداد قریباً چھ لاکھ ہے اور ریاستی علاقہ بر طانی ہند کے 1/3 کے قریب ہے.اس لیے قریبا دو لاکھ گاؤں ریاستوں کے ہیں اور انہیں شامل کر کے ہندوستان کے گل دیہات کی تعداد کم و بیش آٹھ لاکھ ہو جاتی ہے.اس لحاظ سے اور ہر

Page 720

خطبات محمود 720 $1944 ابھی ہر جگہ مبلغ رکھنے کا تو ہم واہمہ بھی نہیں کر سکتے سوائے اِس کے کہ ہم میں سے ہر ایک کو اللہ تعالیٰ یہ توفیق دیدے کہ وہ تبلیغ کے لیے باہر نکل جائے.موجودہ صورت میں تو اگر ایک ایک مبلغ کے سپر د پچاس پچاس گاؤں بھی کیے جائیں تو بھی کم سے کم سولہ ہزار مبلغ در کار ہوں ہے گے اور ہم تو یہ بھی فی الحال نہیں کر سکتے حالانکہ ایک آدمی کا پچاس دیہات میں تبلیغی کام کرنا بہت مشکل ہے.ایک آدمی زیادہ سے زیادہ پندرہ سولہ دیہات میں کام کر سکتا ہے.لیکن اگر میں ہم اعلی پیمانہ پر کام نہ کر سکیں تو اس کے یہ معنے نہیں کہ بالکل ہی نہ کریں.اس لیے فی الحال ہم سو دیہاتی مبلغوں سے بھی کام شروع کر سکیں تو بھی بڑی بات ہے.ان کے ذریعہ اور جماعتیں ہیں پیدا ہوں گی اور وہ اور بوجھ اٹھائیں گی اور اُن کے ذریعہ اور ہوں گی اور آگے وہ بھی اور بوجھ اٹھائیں گی اور اس طرح یہ سلسلہ خدا تعالیٰ چاہے تو ترقی کرتا جائے گا.اور جوں جوں جماعت ترقی کرتی جائے گی یہ بنیاد مضبوط ہوتی چلی جائے گی.اور جتنی جتنی بنیاد مضبوط ہوتی جائے گی اتنی اتنی ہی عمارت اور نیچی ہوتی جائے گی.اب ان کاموں کے اخراجات کا اندازہ سن لیں جو قلیل ترین اخراجات کا ہے.بیرونی ممالک کے لیے جو 106 مبلغ ہوں گے ان میں سے ہر ایک کے لیے اگر سات سو روپیہ ماہوار سفر خرچ اور لٹریچر کے خرچ کو شامل کر کے رکھا جائے جو بہت ہی تھوڑا ہے تو یہ خرچ چوہتر ہزار دو سور روپیہ ماہوار ہو گا اور سال کا یہ خرچ آٹھ لاکھ نوے ہزار دو سو روپیہ ہو گا.اور 106 مبلغ جو ریز رور ہیں گے اور جن سے پہلے گروپ کا تبادلہ ہوتارہے گا، ہندوستان میں چونکہ خرچ تھوڑا ہوتا ہے اور انہیں سفر بھی کم کرنا پڑے گا گو ان سے بھی ہندوستان میں کام لیا ہے جائے گا ان میں سے ہر ایک کے لیے اگر دو سو روپیہ ماہوار خرچ رکھا جائے تو ان پر گل خرچ سور 24,200 روپیہ ماہوار ہو گا.گویا ان پر سالانہ خرچ دو لاکھ چون ہزار چار سو روپیہ مدرسین میں سے ہر ایک کا خرچ بھی اگر دو سو روپیہ ماہوار رکھا جائے تو ہیں مدرسین کا ماہوار خرچ چار ہزار اور سالانہ اڑتالیس ہزار ہو گا.چھتیں طلباء میں سے ہر ایک کو اگر میں روپیہ وظیفہ دیا جائے تو ان وظائف پر سال بھر میں 8640 روپیہ صرف ہو گا.اس کے علاوہ دفتری اخراجات ہیں، نگرانی کے اخراجات ہیں، عملہ کے اخراجات ہیں، ڈاک تار وغیرہ کے ہو گا.

Page 721

$1944 721 خطبات محمود اخراجات ہیں اور یہ سب ملا کر میرا اندازہ ہے کہ ان پر ساٹھ ہزار روپیہ سالانہ خرچ آئے گا اور اس طرح گویا گل خرچ 13,98,700 روپیہ ہو گا.اور اتنے اخراجات سے ہم جو کام شروع کریں گے اُس کی حیثیت آٹے میں نمک کی ہوگی.ہم نے یہ جو اندازہ کیا ہے یہ قریباً 350 مبلغین کا، دیہاتی مبلغین اور مدرسین کو ملا کر ہے.مگر عیسائیوں کی ایک ایک سوسائٹی کے دس دس ہزار مناد اس وقت کام کر رہے ہیں اور اُن کے گل مبلغین کی تعداد پچھتر ہزار ہے جن کے دو لاکھ کے قریب مدد گار بھی ہیں.اور ہم نے ان سب کا مقابلہ کرنا ہے.اور دنیا بھر میں عیسائی مشنریوں کی کل تعداد کا اندازہ بیس لاکھ کے قریب ہے.ان کا ہی نہیں حکومت کا اندازہ ہے کہ ہندوستان میں چھ لاکھ کے قریب ہندو سادھو ہیں جو ملک میں پھرتے رہتے ہیں اور ان میں سے ہر ایک اپنے مذہب کا مبلغ ہوتا ہے.اور ظاہر ہے کہ اگر اتنی بڑی تعداد کے مقابلہ میں ہم 350 مبلغ بھیج بھی دیں تو اتنی بڑی تعداد سے ان کی نسبت ہی کیا ہو سکتی ہے.لیکن یہ 350 مبلغ بھیجنے کے لیے بھی ہمیں قریبا ساڑھے تیرہ لاکھ روپیہ کا بوجھ ہے برداشت کرنا پڑتا ہے اور بظاہر ہماری جماعت یہ بوجھ اٹھانے کے بھی قابل نہیں ہے اور اگر ہم اس کام کا فی الحال چوتھا حصہ بھی شروع کریں تو بھی اسے شروع کرنے کے لیے 3,42,475 روپیہ کی ضرورت ہے.مشرقی ممالک میں اور افریقہ کے بعض ممالک ایسے ہیں جن میں اخراجات یورپین ممالک کی نسبت کم ہوتے ہیں.پھر افریقہ کے بعض علاقے ایسے ہیں کہ جہاں کے احمدی کچھ عرصہ کے بعد تبلیغ کا کچھ خرچ خود بھی برداشت کر سکیں گے.اسے مد نظر رکھتے ہوئے اگر ساڑھے تین لاکھ روپیہ کل اخراجات کی رقم سے کم بھی کر دیا جائے تو میں بھی 10,09,900 روپیہ کی ضرورت ہو گی.اور اگر اس کا بھی نصف کیا جائے پھر بھی قریباً پانچ لاکھ روپیہ سالانہ چاہیے.اس سلسلہ میں ایک اور سوال یہ ہے کہ ابھی ہمارے پاس اتنے علماء تیار بھی نہیں ہیں.اس وقت ساڑھے تین سو میں سے صرف چالیس آدمی ہمارے پاس ہیں اور وہ بھی ابھی تیار ہو رہے ہیں زیادہ مبلغ تیار ہونے میں ابھی تین چار سال اور لگیں گے اور اس میں کے بعد اس چھوٹی سکیم پر کام شروع کیا جاسکے گا جس کا اوپر ذکر ہوا ہے.پس جب تک پورے مبلغ تیار ہوں اُس وقت تک دو لاکھ روپیہ سالانہ خرچ ہو گا.اس وقت تک ہم نے جو

Page 722

خطبات محمود 722 $1944 ریز رو فنڈ قائم کیا ہے اُس کی آمد اگر ایک لاکھ روپیہ سالانہ تک بڑھ جائے تو پانچ سال میں کہیں جاکر وہ سابق قرض کو اتار سکے گی.پس اس کی آمد پر ہم ابھی کسی کام کا بوجھ نہیں ہے رکھ سکتے.اِس لیے میں تحریک کرتا ہوں کہ دوست آگے آئیں اور جس طرح تحریک جدید کے دس سالہ دور میں وہ ہر سال اپنے چندوں کو بڑھاتے گئے ہیں اُسی طرح آئندہ نو سالوں میں ہر پہلے سال کے چندہ کے برابر چندہ دیتے جائیں یعنی گیارھویں سال میں اپنے نویں سال کے چندہ کے برابر دیں، بارھویں سال میں آٹھویں سال کے برابر، تیرھویں سال میں ساتویں سال کے برابر، چودھویں میں چھٹے سال کے برابر، پندرھویں میں پانچویں سال کے برابر، سولھویں میں چوتھے سال کے برابر ، سترھویں میں تیسرے سال کے برابر، اٹھارھویں میں دوسرے سال کے برابر اور انیسویں سال میں پہلے سال کے برابر چندہ دیں (اس کے بعد موقع کے لحاظ سے پھر حالات پر غور کر کے فیصلہ کیا جائے گا) اس طرح ان کے چندہ کی رقم ہر سال ہے بڑھنے کے بجائے کم ہوتی جائے گی.ہو سکتا ہے کہ اس نئے دور میں بعض لوگ حصہ نہ لے سکیں.بعض پنشنوں پر آگئے ہوں.کچھ دوست وفات پاگئے ہوں گے اس لیے ہو سکتا ہے کہ مین پہلے دور کی نسبت اب چندہ کم ہو.مگر ایسے بھی ہو سکتے ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے مالی وسعت دی ہو اور جو بڑھ کر حصہ لیں.وہ دسویں سال کے برابر ہی دیں یا اس سے بھی بڑھا دیں.بہر حال ہر دوست جس سال کا چندہ دے کم سے کم اُس کے مقابل کے سال کے چندہ کی رقم کے برابر دے.اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ ریز رو فنڈ پر کوئی ہار نہ پڑے گا اور وہ زیادہ مضبوط ہوتا جائے گا.دوسری تحریک میں یہ کرتا ہوں کہ پانچ ہزار دوستوں کی ایک نئی جماعت آگے آئے جو اس تحریک میں حصہ لے.جس طرح پہلے دور میں حصہ لینے والوں کے چندہ کی رقم ہر سال کم ہوتی جائے گی ان کے چندہ کی رقم ہر سال بڑھتی جائے گی.مگر ان نئے شامل ہونے والوں کے لیے ضروری شرط یہ ہے کہ وہ ہر سال کم سے کم ایک ماہ کی آمد کے برابر چندہ دیں اور پھر ہر سال اس میں اضافہ کرتے جائیں.اضافہ خواہ ایک آنہ بلکہ ایک پیسہ کا ہی ہو مگر وہ اضافہ کرتے ضرور جائیں.پس آج میں یہ دو تحریکیں کرتا ہوں.دوست اِن میں حصہ لیں اور

Page 723

خطبات محمود 723 $1944 جب تک ہمارا ریز رو فنڈ مضبوط نہ ہو جائے اس طرح اس بوجھ کو اٹھائیں.امید ہے کہ سال ڈیڑھ سال میں اب جنگ ختم ہو جائے گی.چھ سات ماہ تک یورپ کی جنگ ختم ہو جانے کی امید ہے اور اگر جرمنی کی طاقت کا خاتمہ ہو جائے تو جاپان زیادہ دیر تک مقابلہ نہ کر سکے گا اور اِس طرح رستے گھل جائیں گے.اور ہمیں چاہیے کہ اگلی جنگ جس کے سامان دنیا پیدا کر رہی ہے اور جس کی خبر مجھے اللہ تعالیٰ نے دو سال ہوئے دے دی تھی اور جو میں یہاں بیان بھی کر چکا ہے ہوں.گو نام ظاہر نہیں کیے گئے اور چھپی ہوئی موجود ہے.اس کے شروع ہونے تک کے درمیانی وقفہ سے فائدہ اٹھائیں اور جتنا فائدہ اٹھایا جاسکے اٹھائیں.اس کے علاوہ میں نے قرآن کریم کے تراجم کی تحریک بھی کی ہے.اُن سے تبلیغ کو بہت مدد ملے گی.مختلف زبانوں میں لٹریچر کا نہ ہونا تبلیغ کے رستہ میں بڑی روک تھی جو ہے خدا تعالیٰ نے چاہا تو اب دور ہو جائے گی.ایک اور روک یہ بھی رہی ہے کہ ہم مبلغین کو صرف اُتنا ہی خرچ دیتے ہیں کہ وہ کھانا کھا سکیں.انگلینڈ کے مبلغ کو خرچ اُتنا ہی ملتا ہے کہ وہ روٹی کھا سکے یا مکان کی معمولی مرمت و غیرہ کر اسکے.کرایوں وغیرہ کے لیے کافی رقم نہیں دی جاسکتی سفر کرے اور اس طرح تبلیغ کے کام کو وسیع کرے.اور جب کوئی مبلغ دورہ نہ کر سکے تو جانے کا فائدہ ہی کیا.پھر تبلیغ کے لیے کافی لٹریچر چاہیے اور ہم اب تک وہ بھی مہیا نہیں ہے کر سکے.اب تک تو یہ حالت ہے کہ ہم صرف مبلغ بھیج دیتے ہیں مگر تبلیغ کے لیے کافی سامان مہیا نہیں کرتے.گویا ہم صرف اُسے اس لیے کسی بیرونی ملک میں بھیج دیتے ہیں کہ وہاں جاکر روٹی کھاؤ.یہاں کی روٹی تمہیں ہضم نہیں ہو سکتی اس لیے انگلستان میں جاکر کھاؤ یا امریکہ میں میں جاکر کھاؤ.گو امریکہ میں یہ حالت نہیں.وہاں کی جماعت مبلغ کے دورہ کے اخراجات برداشت کر لیتی ہے.مگر انگلینڈ میں ایسا نہیں.پس ضروری ہے کہ جو مبلغ بیرونی ممالک میں جائیں ان کے لیے کافی رقم سفر خرچ کے لیے مہیا کی جائے، کافی لٹر بچر مہیا کیا جائے اور پھر سے سے ضروری بات یہ ہے کہ اُن کی واپسی کا انتظام کیا جائے.ہر تیسرے سال مبلغ کو واپس بھی بلانا چاہیے.اور پرانے مبلغوں کو بلانے اور نئے بھیجنے کے لیے کافی روپیہ مہیا کر نا ضروری ہے.ابھی ہم نے تین نوجوانوں کو افریقہ بھیجا ہے.وہ ریل کے تھرڈ کلاس میں اور لاریوں میں سفر

Page 724

خطبات محمود 724 $1944 کریں گے.مگر پھر بھی 18،17 سو روپیہ اُن کے سفر خرچ کا اندازہ ہے.اگر ہم یہ اندازہ کریں کہ ہر سال 33 فیصدی مبلغ واپس بلائے جائیں گے اور 33 فیصدی اُن کی جگہ بھیجے جائیں گے اور ہر ایک کے سفر خرچ کا تخمینہ پندرہ سو روپیہ رکھیں تو صرف یہی خرچ ایک لاکھ روپیہ سالانہ کا ہو گا اور یہ صرف سفر خرچ ہے.اور اگر مبلغین کو چار چار سال کے بعد بلائیں تو یہ خرچ پھر بھی ہے ہزار روپیہ ہو گا اور کم سے کم اتنے عرصہ کے بعد ان کو بلا نا نہایت ضروری ہے تا اُن کا اپنا 3 ایمان بھی تازہ ہو تا رہے اور اُن کے بیوی بچوں اور خود اُن کو بھی آرام ملے.اب تو یہ حالت ہے کہ حکیم فضل الرحمان صاحب کو باہر گئے ایک لمبا عرصہ گزر چکا ہے اور انہوں نے اپنے بچوں کی شکل بھی نہیں دیکھی.جب وہ گئے تو اُن کی بیوی حاملہ تھیں.بعد میں لڑکا پیدا ہوا اور ان کے بچے پوچھتے ہیں کہ اماں ! ہمارے ابا کی شکل کیسی ہے ؟ اسی طرح مولوی جلال الدین مین صاحب شمس انگلستان گئے ہوئے ہیں اور صدر انجمن احمد یہ اس ڈر کے مارے ان کو واپس نہیں بلاتی کہ ان کا قائم مقام کہاں سے لائیں.اور کچھ خیال نہیں کرتی کہ ان کے بھی بیوی بچے ہیں ہم جو اُن کے منتظر ہیں.اُن کا بچہ کبھی کبھی میرے پاس آتا اور آنکھوں میں آنسو بھر کر کہتا ہے کہ میرے ابا کو واپس بلا دیں.پھر اتنا عرصہ خاوندوں کے باہر رہنے کا نتیجہ بعض اوقات یہ ہوتا ہے کہ عور تیں بانجھ ہو جاتی ہیں اور آئندہ نسل کا چلنا بند ہو جاتا ہے.ایک اور مبلغ باہر گئے ہوئے ہیں اُن کے بچہ نے جو خاصا بڑا ہے نہایت ہی درد ناک بات اپنی والدہ سے کہی.اس نے کہا اتاں دیکھو ! ہمارا فلاں رشتہ دار بیمار ہوا تو اُس کا بیٹا اُسے پوچھنے کے لیے آیا.تم نے ابا سے کیوں شادی کی جو کبھی ہمیں پوچھنے بھی نہیں آیا؟ اس نے بچپن کی وجہ سے یہ تو نہ سمجھا کہ اگر ہے یہ شادی نہ ہوتی تو وہ پیدا کہاں سے ہوتا اور اس طرح ہنسی کی بات بن گئی.مگر حقیقت پر غور کرو تو یہ بات بہت ہی درد ناک ہے.اس کے والد عرصہ سے باہر گئے ہوئے ہیں اور ہم اُن کو واپس نہیں بلا سکے.پس یہ بہت ضروری ہے کہ مبلغین کو تین چار سال کے بعد واپس بلایا جائے اور ایک مبلغ کو واپس بلانے پر اگر وہ تھرڈ کلاس میں سفر کرے ، دک پر یعنی کھلے میدان میں ہے سوئے، ہزاروں میل لاریوں میں سفر کرے تو بھی اُس کا خرچ کم سے کم پندرہ سو روپیہ ہو گا اور اُس کے قائم مقام کے جانے کا خرچ بھی اتنا ہی ہو گا.اگر چھوٹی سے چھوٹی سکیم بھی

Page 725

خطبات محمود 725 $1944 جاری کی جائے اور ہر چار سال کے بعد مبلغین کو تبدیل کیا جائے تو بھی پچھتر ہزار روپیہ اس پر خرچ ہو گا اور اگر اس سے کم عرصہ کے بعد تبدیلی ہو تو اس سے بھی زیادہ خرچ ہو گا اور اس طرح اخراجات اس قدر زیادہ ہیں کہ اگر جماعت خوشی اور ہمت کے ساتھ قربانی کے لیے تیار ہے نہ ہو تو انہیں پورا نہیں کیا جاسکتا.پس آج میں خداتعالی پر توکل کرتے ہوئے تحریک جدید کے دور ثانی کا اعلان کرتا ہے ہوں.اور پھر یہ بھی اعلان کرتا ہوں کہ علاوہ پرانے انصار کے نئے پانچ ہزار دوست اور آگے آئیں جنہوں نے پہلے دور میں حصہ نہیں لیا.اور ان میں سے ہر ایک کم سے کم ایک ماہ کی آمد کے برابر حصہ لے.پھر میں یہ بھی کہتا ہوں کہ دوست دعائیں بھی کریں.ریزرو فنڈ کی مضبوطی کی کچھ مزید تجاویز جن میں سے بعض زرعی اور بعض صنعتی ہیں میرے ذہن میں ہیں.دوست دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ انہیں کامیاب کرے اور خد اتعالیٰ اپنے سلسلہ کو ایسے خادم دے جو دیانتداری اور محنت سے کام کرنے والے ہوں.اور ہمارے کاموں میں برکت دے تا بجائے اس کے کہ وہ سونے میں ہاتھ ڈالیں تو وہ مٹی ہو جائے وہ مٹی میں بھی اگر ہاتھ ڈالیں تو وہ سونا بن جائے اور خدا تعالیٰ اپنے دین کو غلبہ عطا کرے.میں اللہ تعالیٰ سے اُمید کرتا ہوں کہ وہ اپنے فضل و کرم سے جماعت کے دوستوں میں محبت پیدا کرے گا اور پھر جو کوتاہی رہ جائے گی اُسے وہ اپنے فضل سے پورا کر دے گا.یہ اُسی کا کام ہے اور اُسی کی رضا کے لیے میں نے یہ اعلان کیا ہے.زبان گومیری ہے مگر بلاوا اسی کا ہے.پس مبارک ہے وہ جو خدا تعالیٰ کی طرف سے بلاوا سمجھ کر ہمت اور دلیری کے ساتھ آگے بڑھتا ہے.اور خدا تعالیٰ رحم کرے اُس پر جس کا دل بزدلی کی وجہ سے پیچھے ہٹتا ہے.آمین".(الفضل128 نومبر 1944ء) 1 سوانگ تماشہ، شعبده، نقل (فیروز اللغات اردو جامع) 2 : صحیح مسلم كتاب الجهاد باب الامداد بالملائكة في غزوة بدر 3 : در ثمین فارسی صفحہ 143 مطبوعه نظارت اشاعت ربوہ

Page 726

$1944 726 42) خطبات محمود مالی قربانی کے لیے دو تحریکیں (فرمودہ یکم دسمبر 1944ء) تشہد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: "میں نے گزشتہ ایام میں دو تحریکیں جماعت کے سامنے پیش کی تھیں.ایک تحریک قرآن کریم کے تراجم کے متعلق تھی جو سات مغربی زبانوں میں کیے جائیں گے یا یوں کہنا چاہیے کہ کیے جارہے ہیں اور ان تراجم کی اشاعت کے اخراجات کے متعلق اور اس کے ساتھ ہی ایک ایک کتاب اسلام کے متعلق جو سات زبانوں میں ترجمہ کی جائی گی اور ساتوں زبانوں میں شائع کی جائے گی.میں نے اس تحریک کو سات حصوں میں تقسیم کر دیا تھا.ایک حصہ کا بوجھ لجنہ اماء اللہ پر ڈالا گیا تھا، ایک حصہ کی ذمہ داری قادیان اور ضلع گورداسپور کی جماعت پر جس میں یورپین ممالک بھی شامل ہیں، ایک حصہ کی ذمہ داری لاہور اور اُس کے متعلقات پر ، ایک حصہ کی ذمہ داری دہلی اور اُس کے متعلقات پر، ایک حصہ کی ذمہ داری کلکتہ اور اُس کے متعلقات پر، ایک حصہ کی ذمہ داری جنوبی ہند اور اُس کے متعلقات پر اور ایک حصہ کی ذمہ داری صوبہ سندھ اور صوبہ سرحد اور اُس کے متعلقات پر.یہ ساری تحریک ایک لاکھ چھیانوے ہزار روپیہ کی تھی.جہاں تک میں ان وعدوں سے اندازہ کر تاہوں جو اس وقت تک

Page 727

خطبات محمود 727 $1944 دفتر میں پہنچ چکے ہیں میرا اندازہ ہے کہ غالباً اس تحریک کی مد میں جو رقم مانگی گئی ہے اس سے زیادہ انشاء الله وصول ہو جائے گی کیونکہ اس وقت تک دفتر تحریک جدید میں جو وعدے آ چکے ہیں وہ ایک لاکھ ساٹھ ہزار روپیہ کے ہیں اور بقیہ کمی کو پورا کرنے کی ذمہ داری بھی ہے جماعتوں کی طرف سے اٹھالی گئی ہے.بعض حلقوں کی رقم مقرر کردہ اٹھائیس ہزار کی رقم سے زائد ہے.بعض حلقوں کی رقم قریب قریب اتنی ہی ہے اور بعض حلقوں کی رقم میں ابھی فرق میلی ہے.مگر جیسا کہ میں نے بتایا ہے جماعتوں نے جن کے ذمہ جو حصہ مقرر کیا گیا تھا ہر ایک نے اپنے اپنے حصہ کو پورا کرنے کا اقرار کر لیا ہے.چونکہ وصولی میں بعض دفعہ بعض ر تمہیں رہ جاتی ہے مثلاً بعض وعدہ کرنے والے فوت ہو جاتے ہیں، بعض وعدہ کرنے والوں کو کوئی مالی ابتلاء پیش آ جاتا ہے یا کوئی ٹھوکر لگ جاتی ہے اس وجہ سے اگر وصولی میں ایک دو فیصدی کا فرق پڑی جائے تو جو زائد وصولی ہو گی اُس کے ذریعہ سے اُس کمی کو پورا کیا جا سکتا ہے.پس اگر وعدوں کی وصولی برابر رہی تو پھر اُس حساب سے تراجم شائع کیے جائیں گے جو پہلے بتایا گیا ہے اور اگر وصولی بڑھ گئی تو پھر جتنی وصولی بڑھ جائے گی اُس حساب سے اُتنے ہی اور کتابوں کے تراجم بڑھا دیے جائیں گے.دوسری تحریک میں نے گیارھویں سال کے لیے تحریک جدید کے متعلق کی تھی.گزشتہ جمعہ کے خطبہ میں میں نے اِس کا اعلان کیا تھا اور اس وقت تک اس تحریک میں گیارہ ہزار روپیہ کے وعدے آچکے ہیں.جس بنیاد پر اس کا اعلان کیا گیا تھا اُس کے لحاظ سے گیارھویں سال کے کم از کم ایک لاکھ نوے ہزار کے وعدے آنے چاہئیں.اس بارہ میں بعض ہے باتیں گزشتہ خطبہ جمعہ میں بیان کرنے سے رہ گئی تھیں وہ باتیں میں اس خطبہ میں بیان کر دیتا ہے ہوں.ایک بات تو یہ ہے کہ بعض دوست اس غلطی میں پڑے ہیں یا ان کو یہ غلطی لگ سکتی ہیں ہے کہ چونکہ یہ اعلان کر دیا گیا ہے کہ گیارھویں سال کے وعدے کم از کم نویں سال کی رقم سے برابر ہوں.گو جن کو خدا تعالیٰ توفیق دے وہ زیادہ بھی دے سکتے ہیں.وہ جتنا زیادہ دیں گے اتنا ہی اُن کے لیے زیادہ برکت کا موجب ہو گا.مگر گیارھویں سال کا وعدہ کم از کم نویں سال کے ہے

Page 728

خطبات محمود 728 $1944 وعدہ کے برابر ہونا چاہیے.اس سے بعض دوستوں کو یہ دھوکا لگا ہے کہ گویا ہم نے حُکماً گیارھویں سال کے لیے وہ رقم مقرر کر دی ہے جو اُنہوں نے نویں سال میں دی تھی اور اب ان کو گیارھویں سال کا وعدہ لکھوانے کی ضرورت نہیں.آپ ہی آپ دفتر والے سال نہم کے ہیم مطابق اُن کا وعدہ لکھ لیں گے لیکن یہ بات غلط ہے.تحریک جدید کی بنیاد شروع سے ہی طوعی چندوں پر رکھی گئی ہے ہم اس میں کوئی چندہ حکما مقرر نہیں کرتے ، اور جیسا کہ میں نے ہے تحریک جدید کو جماعت کے سامنے پیش کرتے وقت بیان کیا تھا اس کی وجہ یہ ہے کہ حُكماً قربانی کرنے میں گو ثواب تو مل جاتا ہے لیکن اس قدر نفس کی صفائی نہیں ہوتی جس قدر کہ میں انسان کو اس کے نتیجہ میں نفس کی صفائی حاصل ہوتی ہے کہ اپنی مرضی سے اپنے ذمہ کوئی رقم مقرر کرے.اس لیے میں یہ اعلان کر دیتا ہوں اور جماعت پر واضح کر دیتا ہوں کہ کسی کے ذمہ خود بخود کوئی رقم مقرر نہیں کی جائے گی.جو نہیں لکھوائیں گے اُن کے متعلق یہی سمجھا جائے گا کہ وہ نہیں لکھوانا چاہتے.یہ نہیں ہو گا کہ دفتر والے آپ ہی آپ نویں سال کے مطابق اُن کا وعدہ لکھ لیں.بے شک ایک رنگ اخلاص کا یہ بھی ہے کہ دوست یہ کہیں کہ جب ہماری جان اور ہمارا مال سب کچھ خدا کی راہ میں اسلام کی خاطر وقف ہے تو جور تم بھی ہمارے ذمہ مقرر کی جائے گی ہم اُس کو ادا کر دیں گے.مگر اس سے وہ فرض فوت ہو جاتی ہے جو میں تحریک جدید میں رکھی گئی ہے.یہ تحریک شروع سے آخر تک طومی رہی ہے اور طوقی رہے ہے گی.جس کی مرضی ہوگی اپنا وعدہ لکھوائے گا اور جس کی مرضی نہیں ہوگی وہ نہیں لکھوائے ہے گا.اور جو اپنا وعدہ نہیں لکھوائے گا دفتر والے آپ ہی آپ اس کا وعدہ نہیں لکھیں گے.پس ہے قادیان کی جماعت پر بھی اور باہر کی جماعتوں پر بھی میں یہ واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ جب تک کوئی شخص گیارھویں سال کے لیے خود اپنا وعدہ نہیں لکھوائے گا اُس وقت تک اُس کے نام کوئی رقم نہیں لکھی جائے گی.دوسری بات جو گزشتہ خطبہ میں بیان کرنے سے رہ گئی تھی وہ یہ ہے کہ میں نے وقت نہیں بتایا تھا.اب میں یہ اعلان کر دیتا ہوں جیسا کہ گزشتہ سالوں میں قاعدہ رہا ہے اس سال بھی وعدے بھیجوانے کا اصل وقت تو 31 دسمبر تک ہے.جماعت کے جو دوست

Page 729

خطبات محمود 729 $1944 پہلے دس سالوں میں حصہ لے چکے ہیں اور آئندہ اپنا حصہ جاری رکھنا چاہتے ہیں اُن کو چاہیے کہ 31 دسمبر تک انفرادی طور پر یا جماعتی رنگ میں اپنے وعدے تحریک جدید میں بھجوا دیں.لیکن چونکہ جلسہ سالانہ پر آنے کی وجہ سے بعض جماعتوں کے وعدوں کی فہرستیں جلدی مکمل ہے نہیں ہو سکتیں اور بعض علاقے ذرا دور کے بھی ہیں اس لیے اجازت ہوگی کہ سات فروری 1945ء تک جو وعدے قادیان پہنچ جائیں گے یا اس تاریخ تک اپنے شہر سے روانہ ہو جائیں یہ گے اُن کو رجسٹر میں درج کر لیا جائے گا.گو بہتر یہی ہو گا کہ 31 دسمبر تک وعدے آجائیں.لیکن ہندوستان کے وہ علاقے جہاں اردو سمجھی جاتی ہے ان علاقوں کی جماعتوں یا افراد کو سات فروری تک وعدے بھیجوانے کی مہلت ہو گی.سات فروری آخری میعاد ہے.اس کے بعد کوئی ہے وعدہ ہندوستان کی اُن جماعتوں کی طرف سے جہاں اردو کبھی جاتی ہے قبول نہیں کیا جائے گا.ان ہر سال یہ اعلان کیا جاتا ہے اور ہر سال ہی میں نے یہ دیکھا ہے کہ سات فروری کے بعد بعض درخواستیں آجاتی ہیں کہ ہم میعاد کے اندر وعدہ بھجوانے سے رہ گئے تھے ہمیں بھی شامل کر لیا جائے اور ہر سال ہی سوائے کسی استثنائی صورت کے ہمیں ایسے وعدوں کو رڈ کرنا پڑتا ہے.کیونکہ جہاں چندہ لینے سے ہماری یہ غرض ہے کہ خدا تعالیٰ کی راہ میں دوست اپنے اموال خرچ کریں اور اس سے اسلام کی تائید ہو وہاں ساتھ ہی ساتھ ہماری یہ بھی خواہش ہے کہ جماعت کو تربیت کی صحیح لائن پر لایا جائے.اور جماعت کے اندر یہ احساس پیدا کیا جائے کہ جب کوئی ہے وقت مقرر کیا جائے تو اُس وقت کے اندر اندر وہ اپنی قربانی پیش کرے.پس اگر وقت کے بعد آنے والے وعدوں کو ہم رڈ کر دیتے ہیں تو وعدہ کرنے والوں کو جو دکھ اس سے پہنچتا ہے اُس کی ذمہ داری ہم پر نہیں بلکہ اُن پر ہے.اگر وقت کے بعد آنے والے وعدوں کو ہم بلا وجہ قبول کر لیں تو اس کے یہ معنے ہیں کہ ہم اور لوگوں کو بھی نشستی کی تحریک کرتے ہیں.پس میں اس امر کی وضاحت کیے دیتا ہوں کہ بہتر تو یہی ہے کہ 31 دسمبر تک تحریک جدید کے گیارھویں سال کے وعدے مرکز میں پہنچ جائیں.لیکن اگر کوئی روک پیدا ہو جائے تو سات فروری 1945ء تک وعدے بھجوانے کی اجازت ہے.اور جیسا کہ گزشتہ سالوں میں بھی ہوا کرتا تھا سات فروری آخری میعاد ہے.اس کے بعد آنے والے وعدے قبول نہیں کیے جائیں گے

Page 730

خطبات محج محمود 730 $1944 سوائے کسی ایسی صورت کے کہ وعدہ کرنے والے کی معذوری روزِ روشن کی طرح واضح ہو.اسی طرح جن علاقوں میں اردو نہیں سمجھی جاتی مثلاً بنگال ہے یا مدراس کا علاقہ ہے وہاں اردو بہت کم سمجھی جاتی ہے اور اُن تک بات کا جلدی پہنچنا مشکل ہوتا ہے ایسے علاقوں کے لیے پہلے ہم بھی 30 اپریل تک کی میعاد مقرر ہوتی ہے اب بھی اُن کے لیے آخری میعاد 130 اپریل 1945ء ہو گی.وہ اپنے گیارھویں سال کے وعدے اِس میعاد کے اندر اندر بھجوا دیں.اور چونکہ جنگ کی وجہ سے ہندوستان سے باہر کی جماعتوں تک آواز پہنچنے میں دو تین ماہ کی دیر ہو جاتی ہے اور پھر دو تین ماہ تیاری پر لگ جاتے ہیں.کیونکہ بعض علاقے ایسے ہیں کہ سارے علاقہ میں بات کا جلدی پہنچنا مشکل ہوتا ہے جیسے یونائیٹڈ سٹیٹس امریکہ ہے ، وہ ملک ہمارے ہندوستان سے چار گنا ہے اور صرف ایک مبلغ وہاں کام کرتا ہے جو ہر ایک جماعت تک جلدی نہیں پہنچ سکتا اور اُن جماعتوں تک بات پہنچنے میں دیر لگ جاتی ہے اس لیے ان باتوں کی وجہ سے اور ان مشکلات کو مد نظر رکھتے ہوئے ہندوستان سے باہر کی جماعتوں کے لیے ہمیشہ جون کی آخری تاریخ وعدہ کی آخری میعاد مقرر ہوتی ہے.چنانچہ اب بھی میں جون کی آخری تاریخ ہندوستان سے باہر کی جماعتوں کے وعدوں کی آخری میعاد مقرر کرتا ہوں.یونائیٹڈ سٹیٹس امریکہ کی جماعتوں کے دسویں سال کے تحریک جدید کے وعدے جون کے چلے ہوئے اب نومبر کے شروع میں آکر ہمیں ملے ہیں.اسی طرح اب تو جاوا اور سماٹر اجاپان کے قبضہ میں ہیں اور ہمارے ساتھ ان کے تعلقات قائم نہیں.جب تعلقات قائم تھے اُس وقت سماٹرا اور جاوا کے وعدے بھی جلدی نہیں پہنچ سکتے تھے.خدا تعالیٰ کا ہم پر یہ فضل اور احسان ہے کہ ہندوستان میں کوئی اسلامی جماعت ایسی نہیں بلکہ کوئی غیر اسلامی مذہبی جماعت بھی ایسی نہیں جس کو خدا تعالیٰ نے ان اقوام سے مدد دلائی ہو جو اس وقت اسلام کے مد مقابل ہیں.بلکہ میں کہتا ہوں سارے ایشیا بلکہ سارے مشرق میں کوئی ایسی مذہبی جماعت نہیں جس کے مذہبی چندوں کی تحریک میں مغربی لوگوں نے حصہ لیا ہو.صرف ہماری جماعت کو استثنائی حیثیت حاصل ہے کہ ہمارے مذہبی چندوں کی تحریک میں ہر سال انگلستان کے لوگ بھی حصہ لیتے ہیں اور امریکہ کے لوگ بھی حصہ لیتے ہیں.چنانچہ اس سال بھی امریکہ کی جماعت نے

Page 731

$1944 731 خطبات محمود اڑھائی ہزار روپیہ کے وعدے بھجوائے ہیں.پس وقتوں کے متعلق بھی میں نے تشریح کر دی ہے اور وعدوں کے متعلق بھی میں نے تشریح کر دی ہے.اس کے بعد میں جماعت کے اُس طبقہ کو توجہ دلاتا ہوں جنہوں نے پہلے دس سالوں میں حصہ نہیں لیا.کئی ایسے لوگ ہیں جن کو اس وقت مالی کشائش حاصل نہیں تھی جب ہے تحریک جدید شروع کی گئی اور اب حاصل ہے.کئی ایسے ہیں جو اُس وقت نابالغ تھے اور اب بالغ ہو چکے ہیں.دس سال کی بات ہے جب میں نے یہ تحریک شروع کی تھی.کئی لڑکے ایسے تھے جن کی عمر اس وقت نو یا دس سال کی تھی اور اب اُن کی عمر انیس یا ہمیں سال کی ہو چکی ہے.کئی من ایسے تھے جن کی عمر اس وقت بارہ یا تیرہ سال کی تھی اور اب ان کی عمر بائیس یا تیئیس سال کی تم ہو چکی ہے اور اب اُن کو ملازمتیں یا کام مل گئے ہیں اور وہ برسر روزگار ہیں اور ان کی خواہش ہے کہ وہ بھی اس تحریک میں حصہ لیں.ایسے لوگوں کے لیے میں نے اجازت دی ہے کہ ایک نیا رجسٹر کھولا جائے جس میں ایسے نئے شامل ہونے والوں کے نام درج کیے جائیں.مگر جہاں گزشتہ سالوں میں حصہ لینے والوں کے لیے یہ شرط تھی کہ پہلے سال پانچ یا دس یا پند رو یا این پانچ کے وعدہ کے لحاظ سے بڑھا کر کوئی رقم دیں وہاں اب نئے شامل ہونے والوں کے لیے یہ تی شرط ہوگی کہ پہلے سال کے لیے کم از کم اپنی ایک ماہ کی آمد کے برابر چندہ دیں اور پھر ہر سال اُس پر کچھ نہ کچھ اضافہ کرتے چلے جائیں.ایسے کچھ لوگوں کی طرف سے درخواستیں آنا شروع ہو ہے گئی ہیں.ہمیں کوشش کرنی چاہیے کہ جس طرح پہلے دس سالوں میں پانچ ہزار آدمیوں نے اِس تحریک میں حصہ لیا ہے اس طرح نئے شامل ہونے والے بھی پانچ ہزار آدمی ہونے چاہئیں جو اس تحریک میں حصہ لینے کے لیے آگے بڑھیں تاکہ اس تحریک کے ذریعہ سے اسلام کی تبلیغ اور تائید کے لیے مضبوط ریز رو فنڈ قائم ہو.چونکہ دورِ ثانی کا لفظ جو آجکل استعمال کیا جا رہا ہے یہ مشتبہ ہے یعنی یہ شبہ پڑتا ہے کہ اُن کا بھی دور ثانی ہے جو دس سالوں کے بعد حصہ لے رہے ہیں.اس لیے میرے نزدیک تحریک جدید کا دوسراحصہ یعنی جس میں نئے حصہ لینے والے شامل ہوں اس کے لیے الگ رجسٹر کھولا جائے جس کا نام دفتر ثانی رکھ دیا جائے.پہلے دس سالوں سے جو لوگ حصہ لیتے چلے آرہے ہیں اُن کے نام جس رجسٹر میں درج ہوں اُس کا نام دفتر اول رکھ

Page 732

$1944 732 خطبات محمود دیا جائے.اس طرح تحریک جدید میں پہلے دس سالوں سے حصہ لینے والوں اور اب نئے شامل ہونے والوں کے درمیان امتیاز ہو جائے گا.پہلے دس سالوں سے حصہ لینے والوں یعنی جو دفتر اول والے ہیں اُن کا یہ دور کم از کم انہیں سال کا ہو گا جو آج سے نو سال بعد جا کر پورا ہو گا ہی اور دفتر ثانی والوں کے لیے یعنی جو نئے شامل ہونے والے ہیں ان کے لیے بھی کم از کم انیس سال کا دور مقرر ہو گا جو اس سال سے شروع ہو کر آج سے انہیں سال بعد جاکر پورا ہو گا.پہلے دفتر والوں کے لیے یہ شرط نہیں تھی لیکن دوسرے دفتر والوں کے لیے یہ ضروری شرط ہے کہ پہلے سال کے لیے کم از کم اپنی ایک ماہ کی آمد کے برابر اس تحریک میں چندہ دیں اور پھر ہر سال اِس میں کچھ نہ کچھ اضافہ کرتے چلے جائیں.تیسری بات میں اُن لوگوں کے متعلق کہنا چاہتا ہوں جو دفتر اول میں بعد میں چندہ ہے دے کر شامل ہوئے.مثلاً اس تحریک کے شروع میں وہ اس لیے شامل نہ ہو سکے کہ اُس وقت وہ نابالغ تھے اُن کی عمر چودہ یا پندرہ سال کی تھی.بعد میں جب وہ جوان ہوئے اور اُن کو ملازمتیں مل گئیں تو انہوں نے پچھلے سالوں کا چندہ دے کر دفتر اول میں نام لکھوالیا.یا بعض م ایسے تھے جو اس تحریک کے شروع میں بے کار تھے بعد میں اُن کو کام مل گیا اور وہ بر سر روزگار ہے ہو گئے تو انہوں نے پچھلے سالوں کا چندہ دے کر دفتر اول میں اپنا نام لکھوالیا.چونکہ انہوں نے ہے آٹھ یا نو یا دس سالوں کا اکٹھا چندہ دینا تھا اس لیے اُنہوں نے اس رعایت سے فائدہ اٹھایا کہ پہلے سالوں میں تھوڑا تھوڑا چندہ دے کر اور آخری سال میں زیادہ چندہ دے کر دفتر اول میں اپنا نام لکھوالیا.مثلاً بعض ایسے ہیں جو پانچ سو روپیہ یا چھ سو روپیہ ماہوار تنخواہ لیتے ہیں.اُن کو چونکہ اکٹھا چندہ دینا پڑا اس لیے وہ پہلے سالوں میں دس یا پندرہ یا بیس روپیہ کے حساب سے چندہ دے کر اور آخری سال میں پانچ سو روپیہ چندہ دے کر دفتر اول میں شامل ہو گئے.اب اگر گیارھویں سال میں وہ نویں سال کے برابر چندہ دیں یا بارھویں سال میں آٹھویں سال کے برابر چندہ دیں یا تیرھویں سال میں ساتویں سال کے برابر چندہ دیں تو اُن کی موجودہ آمد کے لحاظ سے یہ چندہ بہت حقیر اور اُن کی قربانی کو گرانے والی چیز ہے.ان کو پہلے سالوں میں کم چندہ دینے کی تم اجازت تو اس لیے دی گئی تھی کہ انہوں نے ایک سال یا دو سال یا تین سال میں پچھلے سالوں کا ہے

Page 733

خطبات محمود 733 $1944 چندہ اکٹھا دینا تھا اس لیے اُن کے لیے یہ رعایت رکھی گئی تھی کہ گزشتہ تمام سالوں کا اکٹھا چندہ ادا کرنے کی وجہ سے اُن پر بار تھا.اب چونکہ وہ بار اُن سے اتر چکا ہے اور واپسی کی طرف اِس طرز پر کودنا ہے کہ گیارھویں سال کا چندہ کم از کم نویں سال کے برابر ہو.تو ایسے لوگوں کو چاہیے کہ وہ اپنی موجودہ حیثیت کے مطابق گیارھویں سال کا چندہ دیں نہ کہ نویں سال کے برابر جو ان کی موجودہ حیثیت کے معیار سے بہت گری ہوئی چیز ہے.میں دیکھتا ہوں کہ جماعت کے اندر خدا کے فضل سے اخلاص پایا جاتا ہے.خطبہ شائع ہوئے ابھی چار پانچ روز ہی ہوئے ہیں کہ جماعت نے اپنے اخلاص کا نمونہ دکھانا شروع ہے کر دیا ہے.میرے پاس بالعموم ایسی چٹھیاں آئی ہیں کہ خطبہ پڑھنے کے بعد پہلے ہم نے گیارھویں سال کا وعدہ نویں سال کے برابر لکھا دیا مگر دوسرے دن سخت شرم آئی کہ پیچھے کی ہے طرف جانے کی بجائے ہم اپنا قدم خدا تعالیٰ کی راہ میں آگے کیوں نہ رکھیں.اس لیے ہم نویں سال کے برابر چندہ دینے کی بجائے گیارھویں سال کا چندہ دسویں سال سے بڑھا کر پیش کرتے ہیں.اور بعض ایسے ہیں جنہوں نے خطبہ پڑھنے کے بعد ہی گیارھویں سال کا چندہ دسویں سال سے بڑھا کر پیش کر دیا اور اُنہوں نے لکھا کہ ہم تو زیادہ ثواب حاصل کرنے کے لیے آگے ہی بڑھیں گے پیچھے کی طرف بھاگ کر ہم اپنا ثواب کیوں کم کریں.یہ وہ لوگ ہیں جن کے متعلق تھوڑی سی عقل رکھنے والا انسان بھی سوچ سکتا ہے کہ ان کی قربانی کو اللہ تعالیٰ کبھی ضائع نہیں ہے کرے گا بلکہ قدر کی نگاہ سے دیکھے گا.اور یہی وہ لوگ ہیں جو دین اور دنیا میں خدا تعالیٰ کے فضلوں کے وارث ہوں گے.جو ہر قربانی کے موقع پر نہ صرف یہ کہ ثابت قدم رہتے ہیں بلکہ می ہر قربانی کے موقع پر دو سر اقدم پہلے قدم سے بڑھا کر رکھتے ہیں اور دین کے راستہ میں ہر قربانی کو چی خدا تعالیٰ کا فضل سمجھتے ہیں.اور جس طرح انسان خدا تعالیٰ کے فضل کو زیادہ سے زیادہ حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے اسی طرح وہ ہر قربانی کو زیادہ سے زیادہ کر کے پیش کرتے ہیں.پس میں سمجھتا ہوں کہ عام طور پر تو جماعت میں یہی احساس پایا جاتا ہے کہ وہ اپنی قربانی کو گھٹا کر پیش کرنے کی بجائے پہلے سے بڑھا کر پیش کریں تا کہ وہ زیادہ ثواب حاصل کریں.لیکن سینکڑوں لوگ ایسے ہیں جو آٹھویں یانویس یاد سویں سال میں آکر اس تحریک میں ہے

Page 734

$1944 734 خطبات محمود شامل ہوئے ہیں اُن کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ اِس غفلت میں اپنے ثواب کو کم نہ کریں کہ اب میں پیچھے کی طرف جانے کی اجازت مل گئی ہے اور وہ گیارھویں سال کا چندہ نویں سال کے مطابق لکھوا کر اپنی قربانی کو حقیر نہ بنائیں.وہ بے شک کمی کریں مگر اپنی موجودہ حیثیت کے مطابق نویں سال انہوں نے مثلاً چالیس یا پچاس روپے چندہ دیا تھا اور دسویں سال ان کا چندہ ہے پانچ سو روپیہ تھا تو اب گیارھویں سال کے لیے اگر وہ کمی کریں تو دسویں سال کی حیثیت سے ہم کریں نہ کہ نویں سال کے مطابق.کیونکہ نویں سال کا چندہ اُن کی حیثیت سے بہت کم تھا اور اُس وقت کمی کی رعایت اُن کو اِس لیے دی گئی تھی کہ اُنہوں نے گزشتہ تمام سالوں کا چندہ اکٹھا ادا کرنا تھا.اب جب وہ اُس بار کو اُتار چکے ہیں تو اُن کو گیارھویں سال کا چندہ لکھواتے وقت اپنی موجودہ حیثیت کو مد نظر رکھنا چاہیے نہ کہ نویں یا آٹھویں یا ساتویں سال کے معیار کو جو اُن کی حیثیت سے بہت گرا ہوا ہے.ہماری جماعت کو یہ بات یاد رکھنا چاہیے کہ ہم جس کام کے لیے کھڑے کیے گئے ہیں ؟ وہ کام بے دریغ قربانی چاہتا ہے.جب تک ہم بے دریغ قربانی کرنے کے لیے تیار نہیں ہے ہوتے اسلام اپنے حق کو واپس نہیں لے سکتا جو غیروں کے پاس جاچکا ہے.رسول کریم صلی اللہ وسلم کاور کا ورثہ عیسائیت کے قبضہ میں جاچکا ہے.اس کو واپس لانا آسان نہیں.اگر ساری دنیا کے مسلمان ہمارے ساتھ متفق ہوتے تو نسبتاً یہ کام آسان ہو تا.مگر مسلمانوں کا ہمارے ساتھ متفق ہونا تو الگ رہا وہ تو اجتماع کر کے اور انفرادی طور پر پورا زور لگا رہے ہیں کہ اس جماعت کو تباہ کر دیں جو اسلام کو اُس کا حق دلانے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ورثہ کو غیروں سے واپس لانے کی کوشش کر رہی ہے.بجائے اس کے کہ وہ ہماری مدد کرتے وہ اِس کوشش میں رہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ورثہ کو واپس لانے والی قلیل ہے جماعت جو انگلیوں پر گنی جاسکتی ہے اس کو نقصان پہنچائیں تا کہ وہ بھی آسانی سے یہ کام نہ کر سکے.پس ہم تھوڑے سے لوگ جو اتنے بڑے کام کے لیے کھڑے ہوئے ہیں جب تک اپنی منی تمام طاقتوں کو مجنونوں کی طرح نہ لگا دیں اور دیوانوں کی طرح ہر ایک قربانی کے لیے تیار نہ ہوں اس وقت تک یہ کام ہمارے ہاتھوں سے ہونا مشکل ہے.

Page 735

خطبات محمود 735 $1944 شاہجہان کی بیوی ممتاز محل جب فوت ہوئی تو چونکہ اُس کو اپنی بیوی سے بہت محبت تھی اس لیے اُس کی وفات کی وجہ سے شاہجہان کے قلب پر بہت صدمہ تھا.ایک دن اُس نے خواب دیکھا جس میں اس کو ایک محل دکھایا گیا کہ یہ تیری بیوی کی قبر کی جگہ ہے.شاہجہان نے دربار کے تمام انجنیئروں کو بلایا اور اُن کے سامنے اپنا خواب بیان کیا اور خواب میں اُس نے جو عمارت دیکھی تھی اس کا نقشہ ان کے سامنے پیش کیا کہ اس قسم کی عمارت ہے جو میں بنوانا ہے چاہتا ہوں.یہ عمارت تیار کر ادو.مختلف انجنیئروں نے اُس نقشہ پر غور کیا اور آخر سب نے انکار کر دیا کہ ہم اس قابل نہیں ہیں کہ اس قسم کی عمارت تیار کراسکیں.آخر ایک انجنیئر جو کوئی چوٹی کے انجنیئروں میں سے تو نہیں تھا مگر اچھے پایہ کا تھا اس نے کہا میں اس بات کے لیے تیار ہوں اور جس کام سے باقی بڑے بڑے انجنیئروں نے انکار کر دیا ہے میں وہ کام کر سکتا ہے ہوں.مگر میری ایک درخواست ہے کہ بادشاہ سلامت میرے ساتھ کشتی میں بیٹھ کر جمنا پار تشریف لے چلیں اور دولاکھ روپوں کے توڑے اپنے ساتھ کشتی میں رکھ لیں.میں دریا کے ہے اُس طرف جاکر اپنا مشورہ دوں گا.چنانچہ بادشاہ نے دولاکھ روپیہ اپنے ساتھ رکھ لیا اور اُس انجنیر کے ساتھ کشتی میں بیٹھ کر دریا میں روانہ ہوا.دو لاکھ روپیہ کے کوئی دو دو ہزار کے توڑے تھے.جب کشتی کنارے سے گز بھر کے فاصلہ پر گئی تو اس انجنیئر نے روپوں کی ایک میں تھیلی پکڑ کر دریا میں پھینک دی اور کہا بادشاہ سلامت! جو عمارت آپ بنوانا چاہتے ہیں اس پر ہے اس طرح روپیہ خرچ ہو گا.پھر ذرا اور گز بھر کے فاصلے پر کشتی گئی تو اس نے دوسری تحصیلی پکڑے کر دریا میں ڈال دی اور کہا بادشاہ سلامت! آپ کے ذہن میں جس قسم کی عمارت بنوانے کا ہے نقشہ ہے اس پر اس طرح روپیہ خرچ ہو گا.پھر کشتی ذرا اور آگے گئی تو اس نے تیسری تحصیلی دریا میں پھینک دی اور کہا کہ بادشاہ سلامت! اس عمارت پر اس طرح روپیہ خرچ ہو گا.اسی طرح ہیں دوسرے کنارے تک پہنچتے پہنچتے اُس نے سارا روپیہ دریا میں پھینک دیا.مگر بادشاہ کے ماتھے پر کوئی کل نہ آیا.جس وقت دریا کے دوسرے کنارے پر پہنچے تو اس انجنیئر نے کہا ہے بادشاہ سلامت! مبارک ہو اب یہ عمارت تیار ہو جائے گی.اگر پہلے انجنیئروں نے اس کام میں ہے ہاتھ نہیں ڈالا تو صرف اس لیے کہ وہ یہ سمجھتے تھے کہ جس قسم کی عمارت کا نقشہ آپ نے ہم

Page 736

خطبات محمود 736 $1944 بتایا ہے اُس پر اتنی رقم خرچ آئے گی کہ حکومت اس رقم کو برداشت نہیں کر سکتی.مگر اب میں نے امتحان لے لیا ہے کہ آپ واقعی سچی نیت کے ساتھ یہ عمارت بنانا چاہتے ہیں اور مجھے یقین ہو گیا ہے کہ اس عمارت کے بنانے میں آپ بے دریغ روپیہ خرچ کرنے کے لیے تیار ہیں.اب یہ عمارت تیار ہو سکتی ہے.چنانچہ پھر وہ عمارت بنائی گئی جو آج ساری دنیا میں نمونہ کی عمارت ہے.کچھ عرصہ ہوا حکومت کی طرف سے سارے سامانوں کے ساتھ اُس کی مرمہ شروع کی گئی.ابھی تھوڑی سی مرمت ہوئی تھی کہ لوگوں نے شور مچا دیا کہ تم اس کی مرمت نہیں کر رہے بلکہ اس کو بگاڑ رہے ہو.مرمت کو جانے دیجیے اور اس عمارت کو اس کی حالت پر رہنے دیجیے.چنانچہ اب تک اس عمارت کی بعض باتوں کا حل نہیں ہو سکا.پس جب تک ہم اس ارادہ کے ساتھ کھڑے نہیں ہوتے جو ارادہ شاہجہان تاج محل بنانے کے متعلق رکھتا تھا بلکہ اُس سے بہت زیادہ ارادہ کے ساتھ اُس وقت تک ہم اسلام کی عمارت کو کھڑ ا کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکتے.تاج محل سے اسلام کی حیثیت بہت زیادہ ہے.بلکہ تاج محل کی عمارت کو اسلام ہے کی اس عمارت سے کوئی واسطہ اور کوئی نسبت ہی نہیں جس عمارت کو قائم کرنے کے لیے ہم کھڑے ہوئے ہیں.اتنے بڑے کام کے مقابلہ میں ہم ہیں ہی کیا.پنجاب میں ہماری مردم شماری لاکھ سوالا کھ ہے.آج سے دس سال پہلے ستر ہزار تھی تو اب لاکھ سوا لاکھ ہو گی.لیکن یوں ہماری تعد اد اس سے زیادہ ہے کیونکہ مردم شماری میں کام کرنے والے لوگ متعصب تھے اس لیے انہوں نے ہماری تعداد کم درج کی.میرا اپنا اندازہ ہے کہ پنجاب میں ہماری تعداد اڑھائی لاکھ ہے اور سارے ہندوستان میں ساڑھے تین لاکھ ہے اور ہندوستان سے باہر ڈیڑھ لاکھ ہے.اس طرح ساری دنیا میں ہماری تعداد کوئی پانچ چھ لاکھ کے قریب ہے جو ہمیں معلوم ہے.یوں تو میں سمجھتا ہوں کہ بہت سارے ایسے احمدی بھی ہیں جن کا ہمیں پتہ نہیں یا ایسے ہیں جو اپنے آپ کو چھپاتے ہیں اُن کو ملا کر کوئی دس بارہ لاکھ کے قریب ہماری تعداد بنتی ہے.مگر جو اپنے آپ کو چھپاتے ہیں اُن سے ہم فائدہ نہیں اٹھا سکتے.ہم صرف انہی سے فائد و اٹھا سکتے ہیں جن کا می ہمیں علم ہے اور جو منظم ہیں.ایسی جماعت جو منظم ہے وہ پانچ چھ لاکھ سے زیادہ نہیں.یہ بات ظاہر ہے کہ قربانی کا بوجھ ہندوستان کی جماعت پر ہے.ہندوستان سے باہر جو جماعتیں ہیں

Page 737

$1944 737 خطبات محمود اُن میں بہت ساری ایسی ہیں جو نو مسلموں کی جماعتیں ہیں.بہت ساری ایسی جماعتیں ہیں جو غیر تعلیم یافتہ ہیں.مغربی افریقہ میں ساٹھ ستر ہزار کے قریب احمدی ہیں اور ان میں سے ایک تعداد وہ ہے جو احمدیت میں داخل ہونے سے پہلے ننگے پھرا کرتے تھے.اب اسلام میں داخل ہونے کی وجہ سے انہوں نے کپڑے پہنا شروع کیے ہیں.بہت سارے ایسے ہیں جو جنگلوں میں رہتے ہیں اور اُن کی کوئی آمدنی نہیں.اُن کی خوراک یہ ہے کہ سارا سال مکئی کا آٹا بھون کر پانی میں بھگو کر استعمال کرتے ہیں.ایسے لوگوں کی آمد کیا ہو گی اور وہ ہماری کیا مدد کر سکتے ہیں.بہت سی بیرونی جماعتیں ایسی بھی ہیں جو بوجھ اٹھا رہی ہیں مگر اُن کا بوجھ اٹھانا محض اخلاص کے اظہار تک محدود ہے.پس اصل بوجھ ہندوستان پر ہے جس میں ہماری تعداد ساڑھے تین لاکھ ہے.تو ساڑھے تین لاکھ میں سے کمانے والا چالیس پچاس ہزار آدمی ہے جس کا مقابلہ ساری ہے دنیا کی دو ارب آبادی سے ہے.اور یہ آبادی ایسی نہیں جو ہمارے کام کو محبت کی نگاہ سے دیکھتی ہے ایسی آبادی نہیں جو ہمارے کام کو بے توجہی سے دیکھتی ہے بلکہ یہ دو ارب آبادی ایسی ہے جس کا اکثر حصہ جتنی ہمیں مٹانے کی کوشش کرتا ہے اُتنی ہی اُسے راحت محسوس ہوتی ہے.پس اتنے بڑے دشمن کے مقابلہ میں اتنی تھوڑی سی جماعت جب تک اپنی قربانیوں کو انتہا تک ہے نہ پہنچا دے اُس وقت تک کامیابی کی کوئی امید نہیں کی جاسکتی.اور اپنی قربانیوں کو انتہا تک پہنچا دینے پر بھی کامیابی اس لیے نہیں ہوگی کہ ہم نے اس کام کے برابر قربانی کر دی ہے بلکہ اس می لیے ہو گی کہ جب ہم اپنی قربانیوں کو انتہا تک پہنچا دیں گے تو آسمان سے فرشتے نازل ہوں گے جو یہ کام کریں گے.اور پھر بھی کامیابی ہمارے ہاتھ سے نہیں ہو گی بلکہ خدا کے ہاتھ سے ہو گی.پھر بھی کامیابی اُن تدبیروں کی وجہ سے نہیں ہو گی جو ہم زمین پر کریں گے بلکہ اُن تدبیروں سے ہو گی جو ہمارا خدا عرش پر کرے گا.اور اگر ایک دن نہیں، ایک گھنٹہ نہیں، ایک منٹ نہیں بلکہ ایک سیکنڈ بھی ہمارے دل میں یہ خیال پید اہوتا ہے کہ ہم اپنی کوششوں اور اپنی تدبیروں سے کامیاب ہو سکتے ہیں تو ہمارے مجنون ہونے میں کوئی شبہ نہیں.صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی مدد سے ہی ہم کامیاب ہو سکتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی مدد کے حصول کے لیے جب تک ہم اپنے آپ کو مردوں کی طرح اس کے دروازہ پر نہ ڈال دیں اس وقت تک اس کا فضل کھینچنے مہم

Page 738

$1944 738 خطبات مج محمود میں ہم بھی کامیاب نہیں ہو سکتے.پرسوں ہی انگلستان کی قربانیوں کی فہرست شائع ہو رہی ہے جو اس نے جنگ کے دوران میں کہیں.ان کو پڑھ کر حیرت آجاتی ہے.جتنی قربانیاں انہوں نے اپنے ملک کو بچانے کے لیے کی ہیں وہ ہمارے لیے قابل غور ہیں.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ان کی جنگ چند سال کے لیے ہے اور ہماری جنگ ہمیشہ کے لیے ہے مگر پھر بھی یہ تو مد نظر رکھنا چاہیے کہ ہماری ہے قربانیوں کو ان کی قربانیوں سے کوئی نسبت تو ہو.انگلستان، سکاٹ لینڈ اور ویلز کی آبادی ساڑھے چار کروڑ کی ہے اور اس پانچ سال کے عرصہ میں ساڑھے چار کروڑ کی آبادی میں سے ہے پینتالیس لاکھ سپاہی انہوں نے تیار کیا ہے.یعنی ہر دس آدمیوں میں سے ایک آدمی سپاہی بنایا گیا ہے.ان کے ہاں دنیا کی جنگ میں جو مقام سپاہی کا ہے وہی مقام ہمارے ہاں دینی جنگ میں مبلغ کا ہے.اگر اسی لحاظ سے ہماری جماعت مبلغ تیار کرے تو ہندوستان کی ساڑھے تین لاکھ کی آبادی میں سے پینتیس ہزار مبلغ ہونے چاہئیں.کجا پینتیس ہزار مبلغ اور کجا مبلغوں کی موجودہ ہے تعداد.اس وقت ساری کی ساری مبلغوں کی تعداد ڈیڑھ سو کے قریب ہے.پس جب اِس چھوٹے سے ملک نے جس کی زمین پر دشمن نے حملہ کیا، جس کے جسم پر دشمن نے حملہ کیا تو ہے اس حملہ کے دفاع کے لیے اس ملک نے اپنی قربانیوں کو انتہا تک پہنچا دیا اور ساڑھے چار کروڑ کی آبادی میں سے پینتالیس لاکھ سپاہی گویا گل آبادی کا دسواں حصہ سپاہی تیار کیے.اگر ہماری جماعت کو بھی خدا تعالیٰ توفیق دے اور دین کی جنگ کے لیے ہم پینتیس ہزار مبلغ تیار کر لیں تو میں سمجھتا ہوں کہ پانچ دس سال میں ہی ہندوستان کی کایا پلٹ جائے اور پھر لاکھوں ہزاروں کا ہے سوال ہی نہ رہے بلکہ ایک معقول عرصہ میں ہندوستان میں احمدیوں کی اکثریت ہو جائے.پھر انگلستان پر جو تباہی اور بربادی آئی ہے اسے پڑھ کر حیرت ہوتی ہے یوں معلوم ہوتا ہے جیسے انگلستان کا کچھ بھی نہیں رہا.انگلستان میں گل ڈیڑھ کروڑ مکان ہیں اور ڈیڑھ کروڑ مکانوں میں ساڑھے چار کروڑ آدمی رہتا ہے.اس پانچ سال کے عرصہ میں یہ راز انگلستان کی حکومت نے مبین چھپائے رکھا جسے اب ظاہر کیا گیا ہے کہ پانچ سال کی جنگ میں انگلستان کے مکانوں کا ایک تہائی تی حصہ جرمنی کی بمباری سے تباہ ہو ا یعنی پینتالیس لاکھ مکان برباد ہو گئے ہیں.پھر ان لوگوں کی ہے

Page 739

خطبات محمود 739 $1944 مالی قربانیوں کی فہرست جو شائع ہوئی ہے وہ بھی ہمارے لیے قابل غور ہے.جنگ سے پہلے انگلستان کے سینکڑوں آدمی کروڑ پتی تھے اور کروڑ کروڑ ڈیڑھ ڈیڑھ کروڑ روپیہ اُن کی سالانہ آمدنی تھی اور اب یہ حالت کہ جنگ میں ٹیکسوں کے ادا کرنے کے بعد صرف دو تین درجن آدمی ایسے رہ گئے ہیں جن کی سالانہ آمدنی پچھتر ہزار روپیہ ہے اور اب انہوں نے پچاس فیصدی تک جنگ کے لیے ٹیکس لینے کا فیصلہ کر لیا ہے.گویا جس کو سو روپیہ آمد ہو گی وہ ہے پچاس روپیہ جنگ کے لیے ٹیکس ادا کرے گا، جس کی پچیس روپیہ آمد ہو گی وہ ساڑھے بارہ روپیہ ٹیکس ادا کرے گا.پس ایسی ہی قربانی ہوا کرتی ہے جس کے ذریعہ کامیابی اور فتح حاصل ہوتی ہے.ہماری جماعت بھی جب تک اس عظیم الشان کام کے لیے جو اس کے سپر د کیا گیا ہے اور اس اعلیٰ درجہ کے مقصد کو مد نظر رکھتے ہوئے جو اس کے سامنے ہے اپنی قربانیوں کو انتہا تک نہ پہنچا دے گی اُس وقت تک اس کام میں کامیاب ہو نا مشکل ہے.پس جہاں میں دفتر اول لمبا کرنے اور دفتر ثانی کو کھولنے کی طرف توجہ دلاتا ہوں کہ پانچ ہزار آدمی اور آگے آئیں اور اپنے اموال اسلام کی خاطر پیش کریں وہاں میں جماعتوں کو یہ بھی توجہ دلاتا ہوں کہ ہماری معمولی قربانیوں سے دین کو فتح حاصل نہیں ہو سکتی.ہمیں ہر قسم کے لوگوں کی ضرورت ہے.جب تک ہماری جماعت کے نوجوانوں میں بے انتہاء جوش نہ ہو کہ وہ آگے بڑھیں اور دین کے لیے اپنے آپ کو وقف کریں اور جب تک ہماری جماعت میں بے انتہا جوش نہ ہو کہ وہ بڑھ بڑھ کر اپنے اموال خدا کی راہ میں پیش کریں اُس وقت تک کامیابی حاصل کرنا مشکل ہے.یاد رکھو! یہ اموال ہمیشہ نہیں رہیں گے اور یہ زندگیاں بھی ہمیشہ نہیں رہیں گی.کوئی انسان زندہ نہیں رہتا.ہم بھی اپنی زندگیاں بسر کر کے خدا کے پاس جانے والے ہیں.یہ کی تنگیاں ہمارے ساتھ نہیں جائیں گی بلکہ ہمارے چندے اور ہماری قربانیاں ہمارے ساتھ جائیں گی.یہاں کا کھایا ہوا ہمارے کام نہیں آئے گا بلکہ جو خدا کے رستہ میں خرچ کیا ہوا ہو گا وہی ہمارے کام آئے گا.پس ابدی اور دائمی زندگی حاصل کرنے کے لیے آگے بڑھو.آپ لوگوں کا دعوی ہے کہ آپ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابہ کے مثیل ہیں.

Page 740

$1944 740 محمود رض مگر منہ کے کہنے سے کچھ نہیں بنتا.وہ قربانیاں پیش کرو جو صحابہ نے پیش کیں.اُسی طرح اپنی جانیں خدا کی راہ میں پیش کرو جس طرح صحابہ نے پیش کیں.اسی طرح اپنے اموال دین کے رستہ میں خرچ کرو جس طرح صحابہ نے خرچ کیے.اُسی طرح اپنے وطنوں کو قربان کرو جس طرح صحابہ نے اپنے وطنوں کو قربان کیا.اور دین کی خدمت کے لیے ہر وقت کمر بستہ رہو جس طرح صحابہ ہر وقت کمر بستہ رہتے تھے.اور ہر طریق سے اپنی قربانیوں کو خدا کے حضور پیش کرو.اور جس طرح تم زبان سے کہتے ہو کہ ہمیں صحابہ" کا مثیل بننے کا موقع ملا.خدا کرے وہ دن آئے کہ جب تم خدا کے حضور پیش ہو تو تمہارا خدا اور اُس کا رسول یہ کہے کہ یہ ہیں میرے صحابہ جو بعد میں آئے مگر ان کی قربانیوں نے ان کو صحابہ میں شامل کر دیا.اور ہیں وہ لوگ جنہوں نے اپنی جانیں اور اپنے اموال اور اپنی عزتیں اور اپنے وطن اور اپنی ہر ا چیز کو خدا کی راہ میں قربان کر دیا.پس صحابیت وہی ہے جو خدا تعالیٰ کے منہ سے نکلے، صحابیت وہی ہے جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے منہ سے نکلے، صحابیت وہی ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے منہ سے نکلے.ہمارے منہ کی باتوں کا کیا اثر ہو سکتا ہے.قائم اور دائم اور ثابت رہنے والی عزت اور نیک نامی وہی ہے جو خدا اور اُس کے رسول کی طرف سے ملے.سکھ وہی ہے جو خدا کی طرف سے ملے.عزت وہی ہے جو خدا اور اس کے رسول کی طرف سے ملے.نام وہی ہے جو خدا اور اُس کے رسول کی طرف سے ملے.کاش! خدا اور اُس کے رسول کے نزدیک آپ اس مبارک نام کے مستحق ہوں.خدا کرے کہ آپ اپنی جانوں، اپنے اموال اور اپنے وجود اور اپنی ہر ایک چیز کو خدا کی راہ میں قربان کرنے والے ہوں تاکہ ہمارے خدا کے منہ سے نکلے کہ یہ ہیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابہ.اور خدا اور اُس کے رسول کے منہ سے نکلے کہ یہ ہیں وہ لوگ جو اپنی ہر ایک چیز کو دین کی خاطر قربان امینی کر کے اسلام کو زندہ کرنے والے ہیں".(الفضل 16 دسمبر 1944ء)

Page 741

خطبات محمود $1944 741 (43) تحریک جدید کے مالی پہلو کے ساتھ ساتھ دیگر مطالبات کی طرف بھی توجہ کریں فرموده 8 دسمبر 1944ء) تشہد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: "میں آج پھر تحریک جدید کے متعلق کچھ کہنا چاہتا ہوں.مگر اس مضمون کو شروع کرنے سے پہلے میں اس آنے والے جلسہ سالانہ کے متعلق یہ اعلان کرنا چاہتا ہوں کہ اِس سال کسی الہی مصلحت کے ماتحت عورتوں میں کثرت سے بیماریاں پائی جاتی ہیں اور یہ کثرت حیرت انگیز ہے.معلوم ہوتا ہے خدا تعالیٰ کے بعض بار یک قانون ایسے ہیں جن کو ابھی طب نہیں سمجھ سکی.بعض دفعہ بیماریوں کا زیادہ حملہ بوڑھوں پر ہوتا ہے، بعض دفعہ زیادہ حملہ بیماریوں کا نوجوانوں پر ہوتا ہے، بعض دفعہ زیادہ حملہ بچوں پر ہوتا ہے، بعض دفعہ بیماریوں کا زیادہ حملہ مردوں پر ہوتا ہے ، بعض دفعہ بیماریوں کا زیادہ حملہ عورتوں پر ہوتا ہے اور اس سال بیماریوں کا زیادہ حملہ عورتوں پر معلوم ہوتا ہے.یہ بیماریوں کا حملہ عورتوں کے متعلق اس سال ایسا حیرت انگیز ہے کہ ایک دن ایک ڈاک میں پانچ مختلف مقامات سے پانچ احمد کی خواتین کی مبین --------------

Page 742

$1944 742 خطبات محمود وفات کی خبریں آئیں اور ان سب کی وفات قریباً ایک ہی بیماری کے نتیجہ میں واقع ہوئی تھی.اور پانچ خواتین کی وفات کی اطلاع کے ساتھ چھ تار آئے اور ہر تار کے الفاظ یہی تھے کہ Wife seriously ill, pray.یعنی میری بیوی سخت بیمار ہے دعا کی جائے.ایک محدود ڈاک میں ایک دن میں ہی گیارہ ایسی اطلاعات کا ملنا جن میں سے پانچ اطلاعات وفات کی اور چھ سخت بیماری کی ہیں سخت حیرت انگیز بات ہے اور سب کی بیماری قریباً ایک ہی جیسی تھی.یعنی یا تو اسقاط ہوا اور یا پھر زیادہ خون کا آنا لکھا تھا.علاوہ اس کے عورتوں کی بیماری کی خبریں متواتر آرہی ہیں.گوچند دنوں کی ڈاک میں زیادہ خبریں تو نہیں آئیں مگر پھر بھی متواتر ایسی خبریں آرہی ہیں.خود قادیان میں بھی متواتر ایسے کیس ہوئے ہیں کہ اسقاط ہو گیا یا غیر معمولی طور پر خون کے زیادہ آنے کی وجہ سے وفات کے ہو گئی یا بیماری کا سخت حملہ ہو گیا.ایسے حالات میں عورتوں کے لیے جلسہ پر آنے کے لیے سفر کرنا میں سمجھتا ہوں مناسب نہ ہو گا.پچھلے سال بھی بعض مجبوریوں کی وجہ سے میں نے اعلان کیا تھا کہ جہاں تک ہو سکے عورتیں نہ آئیں.مگر پھر بھی قادیان کے ساتھ محبت کے جوش میں عورتیں آہی گئی تھیں اور عورتوں کے جلسہ میں حاضری پہلے سالوں کی نسبت کم نہ تھی بلکہ کچھ زیادہ ہی تھی.اس میں شبہ نہیں کہ اخلاص اور محبت انسان سے بہت کچھ قربانیاں کرا لیتی ہے.مگر می اس میں بھی شبہ نہیں کہ مومن کی جان خدا تعالیٰ کی نگاہ میں بہت قیمتی ہوتی ہے.حدیث میں آتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے مجھ پر مومن کی جان ہے نکالنے کا فعل بہت گراں ہوتا ہے.1 تو مومن کی جان بہت قیمتی ہوتی ہے.خصوصاً عورتوں کی جان بہت زیادہ قیمتی ہوتی ہے جو آئندہ نسل کو قائم رکھنے والی ہوتی ہیں.ان حالات میں میں نے سمجھتا ہوں مجھے پچھلے سال سے زیادہ زور کے ساتھ یہ اعلان کر دینا چاہیے کہ اس دفعہ عورتیں بالعموم نہ آئیں.خصوصاً ایسی بیماری کے دنوں میں بچے بیماری کے اثر کو زیادہ قبول کرتے ہیں اور یہ عورتوں میں بیماری کی وباء کا خاص موسم ہے.بارشیں بھی نہیں ہوئیں اور خشک سردی پڑ رہی ہے اور اس وجہ سے بھی عورتوں اور بچوں کے بیماری کا شکار ہو جانے کا زیادہ موقع ہے.

Page 743

خطبات محمود 743 $1944 اور اس سال ایک نئی بات یہ پیدا ہو گئی ہے کہ چونکہ گاڑیوں کے دروازوں میں اور پائیدانوں پر کھڑے ہو کر سفر کرنے کی وجہ سے ایسے حوادث ہوئے ہیں جن کے نتیجے میں کئی اموات ہوتی رہی ہیں اس لیے قریباً ایک ہی ہفتہ ہوا گورنمنٹ نے ایک نیا آرڈیننس جاری کر دیا ہے کہ اگر کوئی شخص گاڑی کے دروازہ میں یا پائیدان پر کھڑا ہو کر سفر کرتا ہوا پایا گیا تو اسے قید کی سزا دی جائے گی.اور قادیان آنے کے لیے اول تو ویسے بھی گاڑیوں کا انتظام کم ہے اور پھر جب گاڑیوں کے کمروں میں عورتیں بھر جاتی ہیں تو مردوں کو مجبوراً باہر کھڑے ہو کر سفر کرنا پڑتا ہے اور گور نمنٹ نے جو حکم نافذ کیا ہے اُسے اُس نے ضرور پورا کرنا ہے اور دوسری طرف گاڑیوں کے اندر گنجائش نہ ہونے کی وجہ سے مردوں کے لیے باہر کھڑے ہو کر سفر کرنے کے سوا چارہ نہ ہو گا.تو اس کے معنے یہ ہوں گے کہ ہمارے سینکڑوں آدمی بلا وجہ اور بغیر کسی ایسے قانون کو توڑنے کے جس سے ملک کا امن برباد ہو تا ہو قید و بند کی مصیبت میں مبتلا ہو جائیں گے.پس عورتوں میں بیماری کی کثرت، بارشوں کے نہ ہونے کی وجہ سے ، خشک سردی کے باعث بچوں اور عورتوں کے بیماریوں کا شکار ہو جانے کے خطرہ اور گورنمنٹ کے اس نئے قانون کی وجہ سے میں اعلان کرتا ہوں کہ پنجاب کی عورتیں اس سال جلسہ سالانہ پر نہ آئیں.اس میں میں یہ استثنا کر دیتا ہوں کہ بعض لوگوں کے رشتہ دار کہیں دور دراز مقامات پر باہر گئے ہوئے ہوتے ہیں اُن کے ہاں شادی وغیرہ کا موقع ہوتا ہے اور وہ جلسہ کے موقع پر ہی شادی کی تاریخ رکھ لیتے ہیں اور اس وجہ سے اُن کی عورتوں کا آنا ضروری ہو جاتا ہے وہ آسکتی ہیں.یا جن عورتوں کے ساتھ بچے نہ ہوں یا جن کو سفر کی سہولتیں حاصل ہوں مثلاً وہ فرسٹ اور سیکنڈ کلاس میں سفر کر سکتی ہوں یا موٹر میں کر سکتی ہوں وہ بھی اِس سے مستثنیٰ ہیں مگر عور تیں بالعموم اس سال جلسے پر نہ آئیں سوائے کسی اشد ضرورت کے.مثلاً جیسا کہ میں نے بتایا ہے شادی کی کوئی تقریب ہو یا اور کوئی ایسی ہی ضرورت ہو.انسان کے لیے کوئی مکمل قانون بنانا مشکل ہوتا ہے.ممکن ہے کسی کو کوئی ایسی ضرورت پیش آجائے جو اس وقت میرے ذہن میں نہ ہو.ایسی صورت میں تو عورتوں کو اجازت ہے اور ایسی ہی عورتیں آسکتی ہیں.

Page 744

$1944 744 خطبات محمود یا پھر وہ عورتیں آسکتی ہیں جن کے ساتھ چھ سات سال سے کم عمر کے بچے نہ ہوں.یا وہ آسکتی ہیں جن کو سواری کی سہولتیں میسر ہوں.ایسی عورتوں کے سوا پنجاب کی عورتیں نہ آئیں.پنجاب سے باہر کے لیے میں نے یہ پابندی نہیں رکھی کیونکہ ان کے لیے قادیان آنے کی کا موقع جلسہ سالانہ ہی ہوتا ہے مگر پنجاب کی عورتیں دوسرے موقع پر بھی آسکتی ہیں.مثلاً مجلس شوری کے موقع پر مرد کم آتے ہیں اس لیے عور تیں آسانی سے آسکتی ہیں.کیونکہ ان کے لیے اُن ایام میں گاڑیوں میں زیادہ گنجائش نکل سکتی ہے اور وہ قادیان کو دیکھنے ، یہاں کی صحبت سے فائدہ اٹھانے اور برکت حاصل کرنے کے لیے آسانی کے ساتھ آسکتی ہیں.ایسے مواقع پر جب تکالیف کا وقت ہو حج بھی جو فرض ہے منع ہو جاتا ہے.احادیث اور کتب فقہ میں آتا ہے کہ حج صرف اس کے لیے ہی کرنا فرض ہے جس کے پاس حج کے اخراجات کے لیے ہے کافی رقم ہو اور وہ اپنے گھر والوں کو بھی کافی خرچ دے سکتا ہو اور جسے سفر کے لیے ہر قسم کی ہے ا سہولتیں حاصل ہوں.اگر ان شرائط کے بغیر کوئی حج کے لیے جاتا ہے تو چونکہ وہ حج کی شرائط کی خلاف ورزی کرتا ہے اس لیے فقہ والوں کے نزدیک وہ گنہگار ہوتا ہے.قرآن کریم میں حج کے متعلق ایک عام اصول بیان گیا ہے.چنانچہ فرمایا مَنِ اسْتَطَاعَ إِلَيْهِ سَبِيْلاً 2 یعنی جب تمام ضروری سامان مہیا ہوں تو حج کرنا جائز ہے ورنہ نہیں.تو جب ایسا موقع بھی ہوتا ہے کہ جب حج جو ایک فرض ہے منع ہو جاتا ہے تو ہمارا جلسہ تو بہر حال نوافل میں سے ہے اور کوئی وجہ نہیں کہ مومنوں کی جانیں نوافل کے لیے قربان کرنے کا خطرہ برداشت کیا جائے.جو مر د جلسہ پر آئیں وہ واپس جاکر وہ باتیں جو وہ یہاں سنیں عورتوں کو سنا سکتے ہیں اور یہاں آنے سے علوم میں زیادتی کا جو موقع عورتوں کو میسر آسکتا ہے اُسے وہ اپنے خاوندوں یا بھائیوں یا بیٹوں یا باپوں سے حاصل کر سکتی ہیں.میں امید کرتا ہوں کہ جماعتیں اصرار اور توجہ کے ساتھ میری اس ہدایت پر کاربند ہونے کی کوشش کریں گی اور عورتوں کو اس بات پر آمادہ کریں گی کہ وہ قربانی ہے کریں اور اپنی اور اپنے مردوں کی جانوں کو خطرہ میں نہ ڈالیں.ہاں جیسا کہ میں نے بتایا ہے استثنائی صورتیں بھی ہو سکتی ہیں اور اشد ضرورت کے ماتحت جیسے کوئی شادی ہو.مثلاً کسی کا کوئی رشتہ دار جو فوج میں ملازم ہے جلسہ پر آیا ہے اور اُسے دو تین روز کی ہی رخصت ہے اور

Page 745

$1944 745 خطبات محمود وہ جلسہ کے بعد گھر جا کر اپنے رشتہ داروں سے نہ مل سکے گا.ایسے لوگوں کی رشتہ دار عورتیں آسکتی ہیں.ورنہ عام ہدایت یہی ہے کہ پنجاب کی عورتوں کو جلسہ پر آنے سے روکا جائے.سوائے اُن کے جن کے ساتھ چھ سات سال سے کم عمر کے بچے نہ ہوں.اس سے زیادہ عمر کے بچے ایک حد تک سفر کی تکالیف برداشت کر سکتے ہیں اور ان میں علم حاصل کرنے کا بھی شوق پیدا ہو نا شروع ہو جاتا ہے.مگر جن عورتوں کے ساتھ چھ سات سال سے کم عمر کے بچے ہوں وہ نہ آئیں اور جن کو سفر کی سہولتیں حاصل ہو سکتی ہیں وہ بھی اس سے مستثنیٰ ہیں.اس کے بعد میں تحریک جدید کی طرف دوستوں کو پھر توجہ دلاتا ہوں.جہاں اس کا ایک پہلو مالی تھا وہاں کچھ اور قیود بھی تھیں مثلاً سادہ زندگی اختیار کرنا اور کھیل تماشوں وغیرہ سے اجتناب.جہاں تک مجھے علم ہے جماعت کی اکثریت نے اس پر عمل کیا ہے.مگر پھر بھی ہے ایک طبقہ ایسا ہے جس نے پورے طور پر اس پر عمل نہیں کیا.چنانچہ تھوڑے ہی دن ہوئے دہلی سے ایک نوجوان کا خط مجھے ملا کہ یہاں بعض نوجوان سینما جاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اسے نہ دیکھنے کا کوئی حکم نہیں ہے.اس میں شبہ نہیں کہ جہاں تک قانون کا سوال ہے جبر آروکنے کا اختیار حکومت کو ہی ہو سکتا ہے ہمیں یہ اختیار نہیں.مگر رو کنا بھی کئی قسم کا ہوتا ہے.ایک مینی روکنا محبت اور پیار کے ذریعہ ہوتا ہے.بچے اگر ماں باپ کی بات مانتے ہیں تو محبت اور پیار کی وجہ ہے سے ہی مانتے ہیں ورنہ کونسا ایسا قانون یا قاعدہ ہے کہ جس سے ماں باپ بچوں کو مجبور کر کے حکم منوا سکتے ہیں.بسا اوقات بچے جوان ہوتے ہیں، خود کماتے ہیں اور ماں باپ کی بھی پرورش کرتے ہیں.مگر پھر بھی ماں باپ اُن کو کوئی ہدایت کریں تو وہ اسے مانتے ہیں.اس لیے نہیں کہ ہے اگر وہ نہ مانیں تو ماں باپ مجبور کر کے منوا سکتے ہیں.بلکہ اس لیے کہ ماں باپ کے ساتھ اُن کا تعلق محبت اور پیار کا ہوتا ہے.اسی طرح ہمارا نظام بھی محبت اور پیار کا ہے.کوئی قانون ہمارے ہاتھ میں نہیں کہ جس کے ذریعہ ہم اپنے احکام منوا سکیں.بلکہ میری ذاتی رائے تو یہی ہے کہ احمدیت میں خلافت ہمیشہ بغیر دنیوی حکومت کے رہنی چاہیے.دنیوی نظام حکومت الگ ہونا چاہیے اور خلافت الگ تا وہ شریعت کے احکام کی تعمیل کی نگرانی کر سکے.ابھی ہمارے ہاتھ میں حکومت ہے ہی نہیں لیکن اگر آئے تو میری رائے یہی ہے کہ خلفاء کو ہمیشہ ہے

Page 746

خطبات محمود 746 $1944 عملی سیاسیات سے الگ رہنا چاہیے اور بھی بادشاہت کو اپنے ہاتھ میں لینے کی کوشش نہ کرنی ہے چاہیے.ورنہ سیاسی پارٹیوں سے براہ راست خلافت کا مقابلہ شروع ہو جائے گا اور خلافت ایک سیاسی پارٹی بن کر رہ جائے گی اور خلفاء کی حیثیت باپ والی نہ رہے گی.اس میں شک نہیں کہ ہے اسلام کی ابتداء میں خلافت اور حکومت جمع ہوئی ہیں مگر وہ مجبوری تھی کیونکہ شریعت کا ابھی نفاذ نہ ہوا تھا اور چونکہ شریعت کا نفاذ ضروری تھا اس لیے خلافت اور حکومت کو اکٹھا کر دیا گیا.اور ہمارے عقیدہ کی رو سے یہ جائز ہے کہ دونوں اکٹھی ہوں اور یہ بھی جائز ہے کہ الگ الگ ہوں.ابھی تو ہمارے ہاتھ میں حکومت ہے ہی نہیں مگر میری رائے یہ ہے کہ جب خدا تعالیٰ کی ہمیں حکومت دے اس وقت بھی خلفاء کو اسے ہاتھ میں لینے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے.بلکہ الگ رہ کر حکومتوں کی نگرانی کرنی چاہیے اور دیکھنا چاہیے کہ وہ اسلامی احکام کی پیروی کریں اور مینی ان سے مشورہ لے کر چلیں اور حکومت کا کام سیاسی لوگوں کے سپر دہی رہنے دیں.پس اگر حکم ہے کا سوال ہے تو میر انقطہ نگاہ تو یہ ہے کہ اگر میری چلے تو میں کہوں گا کہ حکومت ہاتھ میں آنے می پر بھی خلفاء اسے اپنے ہاتھ میں نہ لیں.انہیں اخلاق اور احکام قرآنیہ کے نفاذ کی نگرانی کرنی ہے چاہیے.پس اگر کوئی ہماری نصیحت کو نہیں مانتا تو اس طرح کا حکم تو جیسے حکومت کے احکام ہوتے ہیں نہ ہمارے اختیار میں ہے اور نہ ہم دے سکتے ہیں اور نہ اس کا نفاذ کر اسکتے ہیں.اور میرے دل کا میلان یہ ہے کہ ایسے اختیارات کو لینا میں پسند ہی نہیں کرتا.اس لیے ہم تو جب می بھی کوئی بات کہیں گے محبت اور پیار سے ہی کہیں گے.اور اگر اس سے کوئی یہ استدلال کرتا ہے کہ حکم نہیں تو اسے یاد رکھنا چاہیے کہ ایسے احکام دینا نہ تو ہمارے اختیار میں ہے اور نہ ہی ہم ایسے احکام کے نفاذ کی طاقت رکھتے ہیں.اور ایسے لوگ جو حکم تلاش کرتے ہیں وہ اس جماعت میں داخلہ سے کوئی فائدہ بھی حاصل نہیں کر سکتے.فائدہ وہی حاصل کر سکتا ہے جو محبت کے تعلق کو قائم رکھے اور یہ نہ دیکھے کہ کوئی بات حُکماً کہی گئی ہے یا نہیں.بلکہ صرف یہ دیکھے کہ جس سے پیار ہے اُس کی بات کو وزن دینا ضروری ہے اور اس کے نقش قدم پر چلنا لازمی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے سوال کیا گیا کہ آپ کی مجلس میں بعض میں

Page 747

خطبات محمود آ 747 $1944 ایسے لوگ بھی بیٹھتے ہیں جو داڑھیاں منڈواتے ہیں اور آپ اُن کو داڑھی منڈوانے سے روکتے بھی نہیں.آپ نے فرمایا کہ ہمارا تعلق تو محبت کا ہے.جب ان لوگوں کو ہمارے ساتھ محبت ہو گی اور یہ دیکھیں گے کہ ہم داڑھی رکھتے ہیں اور داڑھی کا رکھنا پسند کرتے ہیں، رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی داڑھی تھی اور آپ اسے پسند کرتے تھے تو خود بخو د ر کھنے لگ جائیں گے اور اس کی کوئی ضرورت ہی نہ رہے گی کہ مجبور کر کے ان کو داڑھی رکھوائی جائے یا کوڑے ای مار کر یا سزا دے کر رکھوائی جائے.جب ان کے اندر عشق پید اہو گا تو اس عشق کی وجہ سے یہ خود بخود رکھنے لگ جائیں گے.3 تو بے شک ان معنوں میں تو ہم نے حکم نہیں دیا کہ تماشے وغیرہ نہ دیکھے جائیں جن معنوں میں حکومت کے احکام ہوتے ہیں ورنہ ہدایت بھی حکم ہی ہوتی ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کہاں یہ حکم دیا ہے کہ دائیں ہاتھ سے کھایا جائے اور نہ یہ ضروری ہے کہ آپ کا کوئی ایسا حکم معین الفاظ میں ہی ہو تو اُس کو مانا جائے.ہر مومن جب دیکھتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم دائیں ہاتھ سے کھاتے تھے اور اسے پسند کرتے تھے اور بعض دوسروں کو آپ نے اس کی ہدایت کی تو وہ اس پر عمل کرنا ضروری سمجھتا ہے.اور اگر وہ اس پر عمل نہیں کرے گا تو یقینا اس کے ایمان میں رخنہ پیدا ہو گا.تو یہ بات ہی میں غلط ہے کہ ہر بات کے لیے حکم ہی ہو تو اس پر عمل ہو گا ورنہ نہیں.اگر ہر بات کے لیے حکم ہوا تو وہی مثال ہو گی جیسے کہتے ہیں کوئی آقا تھا جو اپنے نوکروں پر بہت سختی کیا کرتا تھا.ایک شخص اُس کے پاس آکر نو کر ہوا اور اُس نے کہا کہ جناب مجھے لکھ کر دے دیجیے کہ مجھے کیا کیا کام کرنے ہوں گے.اگر میں ان میں سے کسی میں بھی کوتاہی کروں تو جو سزا چاہیں دیں.اور اگر میں میں آپ کے وہ تمام احکام بجالاؤں تو پھر آپ کو خفگی کا کوئی حق نہ ہو گا.آقا بے وقوف تھا وہ دھوکے میں آگیا اور اُس نے خیال کیا کہ اب یہ اچھی طرح قابو آجائے گا.وہ لکھنے بیٹھ گیا اور ہے بہت دیر تک سوچ سوچ کر اُس نے ایک لمبی فہرست تیار کی اور نوکر کو دے دی.نو کر کچھ دن وہ تمام کام کرتارہا.ایک دن آقا گھوڑے پر سوار تھا اور نوکر ساتھ چلا جارہا تھا کہ گھوڑا ہرک گیا ہے اور ایسا بھا گا کہ آقا نیچے گر گیا.مگر اُس کا ایک پاؤں رکاب میں پھنسارہ گیا.گھوڑا بھاگا جارہا تھا اور وہ ساتھ ساتھ کھسٹتا جا رہا تھا.اُس نے نوکر کو آواز دی کہ بھاگ کر آؤ اور میرا پیر

Page 748

$1944 748 خطبات محمود رکاب میں سے نکالو.نوکر نے جیب سے اُس کے تحریر کردہ احکام کی فہرست نکالی اور کہا:.دیکھ لو سر کار اس میں شرط یہ لکھی نہیں.اب بھلا یہ بات کس کے ذہن میں آسکتی ہے کہ یہ بھی لکھ دوں کہ اگر میں کبھی گھوڑے سے گر پڑوں اور پاؤں رکاب میں پھنس جائے تو اسے نکالنا بھی تمہارا فرض ہے.تو اس قسم کا تعلق بالکل بے معنی ہوتا ہے.کسی کا باپ، بیٹا، بھائی یا کوئی اور عزیز اس طرح گر رہا ہو اور یہ وہ ساتھ ہو تو خواہ اسے کوئی حکم نہ بھی ہو وہ فورا بھاگ کر اس کی مدد کو پہنچے گا.بلکہ اگر کوئی ہے تعلق رشتہ داری کا نہ ہو تب بھی انسان ایسی حالت دیکھ کر بے تاب ہو جاتا ہے.لیکن جہاں سارا تعلق احکام پر ہی ہو وہاں یہی مثال صادق آتی ہے جو اس آقا اور نوکر کی ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک دفعہ جب عمرہ کے لیے گئے تو حدیبیہ کے مقام پر کفار نے ان کو روکا اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خدا تعالیٰ کے منشاء کے مطابق یہی مناسب سمجھا کہ صلح کر لی جائے.صلح کی شرائط طے کرنے کے لیے مکہ کا ایک سر دار رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور بات چیت کرنے لگا.آپ اُس کی پیش کردہ شرائط پر جرح فرماتے اور بعض شرائط کے متعلق فرماتے کہ یہ سختی ہے اسے بدلو.وہ بعض دفعہ آپ کی بات ہے مان لیتا اور بعض دفعہ زور دیتا کہ آپ اُس کی بات مان لیں.وہ بوڑھا آدمی تھا اِس لیے بعض اوقات کہتا کہ دیکھو میں باپ کی جگہ ہوں میری بات مان لو اس میں آپ کے لیے فائدہ ہے.اور باتیں کرتے وقت وہ بھی آپ کی داڑھی کو ہاتھ لگاتا اور کہتا کہ میری یہ بات مان لیں.یہ عام طریق ہے کہ بڑی عمر کے آدمی جب کسی سے کوئی بات کرنے لگتے ہیں تو کبھی اپنی داڑھی کو ہاتھ لگاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ دیکھو ! میری اس داڑھی کا لحاظ کرو اور میری بات مان لو اور کبھی دوسرے کی داڑھی کو ہاتھ لگاتے ہیں.اب یہ کوئی شریعت کا حکم نہیں تھا کہ اگر کوئی کافر رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی داڑھی کو ہاتھ لگائے تو صحابہ کا فرض ہے کہ اُسے رو کیں.مگر محبت خود حکم تجویز کر لیتی ہے.جب اس نے دو تین بار اس طرح آپ کی داڑھی من کو ہاتھ لگایا تو ایک صحابی سے نہ رہا گیا اور انہوں نے آگے بڑھ کر تلوار کا گندا اُس کے ہاتھ پر مار کر اُس کا ہاتھ ہٹادیا اور کہا اپنا ناپاک ہاتھ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ریش مبارک کو می

Page 749

خطبات محمود 749 $1944 مت لگاؤ.اب جہاں تک عمر کا سوال ہے یہ ایک عام قاعدہ ہے کہ بڑی عمر کے لوگ چھوٹی عمر کے آدمیوں سے بات کرتے وقت کبھی اپنی داڑھی کو ہاتھ لگاتے ہیں اور کبھی دوسرے کی داڑھی کو.اور گو وہ شخص عمر میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑا تھا مگر صحابہ کے نزدیک تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بزرگی کے مقابل میں اس کی کوئی حیثیت ہی نہ تھی.اس کہانی صحابی نے جب اس طرح اُس کا ہاتھ پیچھے بنا دیا تو اس نے نظر او پر اٹھا کر اس صحابی کی طرف ہے دیکھا.اُنہوں نے خود پہنا ہوا تھا جس سے چہرہ ڈھکا ہوا تھا صرف آنکھیں ننگی تھیں.اس لیے اُسے پہچاننے میں کچھ دیر لگی مگر اُس نے پہچان لیا اور کہا کہ کون ؟ کیا تم فلاں کے بیٹے ہو ؟ اس صحابی نے کہا ہاں.اُس نے کہا تمہیں شرم نہیں آتی کہ مجھ سے ایسا سلوک کرتے ہو ؟ تمہارے خاندان پر میرے یہ یہ احسانات ہیں پھر تم نے یہ حرکت کیسے کی؟ واقع میں وہ محسن طبیعت کا من آدمی تھا، سب کی خدمت کیا کرتا تھا اور قریباً سب اہل مکہ اُس کے زیرِ احسان تھے.عربوں بالخصوص مسلمانوں میں احسان کی بڑی قدر تھی اس لیے گو صحابہ کے دل یہ دیکھ کر کہ وہ بار بار آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ریش مبارک کو ہاتھ لگا تا تھا جل رہے تھے مگر اُس کے احسانات کی وجہ سے خاموش تھے اور وہ پھر بڑے جوش سے باتیں کرتا ہوا آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ریش مبارک کو ہاتھ لگا دیتا اور کہتا کہ دیکھو! میں عرب کا باپ ہوں میری یہ بات مان لو اِس میں آپ لوگوں کا فائدہ ہے.وہ اِس طرح باتیں کر رہا تھا کہ جس طرح بڑی عمر کے لوگ چھوٹی عمر والوں سے باتیں کیا کرتے ہیں اور صحابہ میں سے کسی کو جرات نہ ہوتی تھی ہیں کہ اُسے روکیں کیونکہ قریباً سب مکہ والے اُس کے زیر احسان تھے.اُس نے دو تین بار جو اِس طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ریش مبارک کو ہاتھ لگایا تو صحابہ میں سے ایک آگے بڑھا اور اُس کے ہاتھ کو پیچھے بنا کر کہا کہ اپنا ہاتھ پیچھے بنا.تو کون ہے جو رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ریش مبارک کو ہاتھ لگاتا ہے.اُس نے اس صحابی کی طرف دیکھا اور پھر پہچان کر کہا کہ کون ہے؟ ابو بکر ابو قحافہ کا بیٹا؟ اور پھر کہا کہ بے شک تمہارا حق مجھے روکنے کا ہے.تمہارے خاندان پر بے شک میرا کوئی احسان نہیں 4 حضرت ابو بکر کی طبیعت شر میلی تھی مگر آپ سمجھ گئے کہ اُس شخص کو روکنے کی جرآت اب کوئی صحابی نہیں کر سکتا.میں ہی ہوں

Page 750

خطبات محمود 750 $1944 جس پر اس کا کوئی احسان نہیں اور اس لیے آگے بڑھ کر اسے روک دیا.تو اب یہ کونسا حکم تھا کہ اگر کوئی کافر آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے باتیں کرتے ہوئے آپ کی ریش مبارک کو ہاتھ لگا دے تو اُسے روکا جائے.یہ صرف محبت کا ہی تعلق تھا بلکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم منع فرماتے تب بھی صحابہ کے دل اس موقع پر اُبلنے ضروری تھے.آخر جب معاہدہ تحریر کیا جانے لگا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے لکھوایا کہ میں محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اہل مکہ کے ساتھ یہ معاہدہ کرتا ہوں.اس پر اُس شخص نے اعتراض کیا اور کہا کہ اگر ہم آپ کو رسول اللہ مانتے تو پھر کسی معاہدہ کی ضرورت ہی کیا تھی.پھر تو ہم آپ پر ایمان ہی لے آتے.پس اس معاہدہ میں جو دو فریقوں کے درمیان ہو رہا ہے رسول اللہ لکھنے کے کیا معنے ہیں.یہ سن کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے لکھنے والے سے فرمایا کہ رسول اللہ کا لفظ کاٹ کر اس کی بجائے محمد بن عبد اللہ لکھ دو.حضرت علی لکھنے والے تھے.انہوں نے عرض کیا کہ میں تو رسول اللہ کا لفظ کاٹنے کی جرات نہیں کر سکتا.اب یہاں تو حکم بھی تھا کہ یہ لفظ کاٹ دو مگر حضرت علی کی محبت نے انہیں ایسا نہ کرنے دیا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُن سے فرمایا کہ لاؤ کاغذ مجھے دو اور اپنے ہاتھ سے رسول اللہ کا لفظ کاٹ دیا.ے تو یہاں بظاہر حکم بھی تھا مگر اس حکم کے ہوتے ہوئے بھی حضرت علیؓ اسی رستہ پر چلے جو محبت اور ادب کا رستہ تھا.مگر چونکہ کفار کا یہ اعتراض صحیح تھا کہ اگر ہم آپ کو اللہ تعالی کا رسول مانتے تو پھر آپ سے کوئی معاہدہ ہی کیوں کرتے.معاہدہ کرنے کے تو معنے ہی یہ ہیں کہ ہم آپ کو رسول اللہ نہیں مانتے اس لیے اس معاہدہ میں وہ لفظ نہیں لکھا جانا چاہیے جو ہم مانتے ہی تم نہیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُن الفاظ کو خود کاٹ دیا.یہ آپ کا انصاف تھا.مگر آج احرار نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بارہ میں یہ وطیرہ اختیار کرے رکھا ہے کہ جب امرتسر کے جلسہ میں ایک معزز سکھ نے حضرت محمد صاحب کہا تو وہ گالیاں دینے لگ گئے کہ حضرت محمد صاحب کیوں کہتے ہو ؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کیوں نہیں کہتے ؟ حالانکہ اُن کے سامنے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اپنا نمونہ موجود تھا کہ جب کفار نے رسول اللہ کے لفظ پر اعتراض کیا تو آپ نے اپنے ہاتھ سے اسے کاٹ دیا.

Page 751

خطبات محمود 751 $1944 مگر جس فیصلہ کا اعلان آج سے چودہ سو سال قبل خود آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرما چکے ہیں یہ احراری آج اسے رد کر رہے ہیں اور پھر اِس طرزِ عمل کے باوجود آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ محبت کا دعوی بھی کرتے ہیں.اور نادان اتنا نہیں سمجھتے کہ اگر وہ شخص آپ کو رسول اللہ مانتا تو پھر سکھ کیوں رہتا مسلمان کیوں نہ ہو جاتا.اُس کا حق یہی تھا کہ " حضرت محمد صاحب" کہہ دیتا اور مسلمانوں کو اُس کا ممنون ہونا چاہیے تھا کہ وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نام احترام کے ساتھ لیتا ہے.مگر احراریوں نے شور مچادیا اور گالیاں دینے لگے حالانکہ خود مسلمانوں کے لٹریچر میں کئی جگہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ذکر صرف محمد اور احمد کہہ کر کیا گیا ہے.گو یہ محبت کی وجہ سے ہی ہوتا ہے.یہ ایک ضمنی بات تھی اور یہ مثال میں نے اس لیے دی ہے کہ جہاں محبت کا تعلق ہو وہاں حکم تلاش نہیں کیے جاتے بلکہ ہدایت اور منشاء کو تلاش کر کے پیچھے چلنا ضروری ہوتا ہے.احادیث میں اس کی ایک اور مثال بھی ہے.ایک دفعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم خطبہ ارشاد فرمارہے تھے.بعض لوگ کناروں پر دیواروں کے ساتھ ساتھ کھڑے تھے.اس لیے پیچھے کے لوگ آواز کو سن نہ سکتے تھے.آپ نے فرمایا بیٹھ جاؤ.جب آپ کے منہ سے یہ الفاظ نکلے تو حضرت عبد اللہ بن مسعود گلی میں آرہے تھے وہیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہے کے یہ الفاظ کہ "بیٹھ جاؤ" آپ کے کان میں پڑے اور آپ وہیں بیٹھ گئے اور پھر جس طرح بچے گھسٹ گھسٹ کر چلتے ہیں گھسٹنے لگے اور اسی حالت میں خطبہ گاہ کی طرف آنے لگے.پیچھے سے ایک اور صحابی آئے اور اُنہوں نے کہا عبد اللہ ! یہ کیا بے ہودہ حرکت کر رہے ہو ؟ تم تندرست اور توانا آدمی ہو یہ کیا حرکت کر رہے ہو ؟ حضرت عبد اللہ نے کہا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا یہ ارشاد میرے کان میں پڑا تھا کہ بیٹھ جاؤ اور میں نے سوچا کہ اگر ہے خطبہ گاہ تک پہنچنے سے قبل میری موت واقع ہو جائے تو میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس حکم پر عمل کیے بغیر ہی مر جاؤں گا.اس لیے میں نے ضروری سمجھا کہ فوراً ہی اِس حکم پر عمل کرلوں.حالانکہ یہ صاف بات ہے کہ یہ حکم حضرت عبد اللہ کے لیے نہ تھا بلکہ اُن لوگوں کے لیے تھا جو کناروں پر کھڑے تھے.مگر پھر بھی جو نہی آپ کے یہ الفاظ کہ بیٹھ جاؤ"

Page 752

$1944 752 خطبات محمود اُن کے کان میں پڑے ایک عاشق صادق کی طرح وہ گلی میں ہی بیٹھ گئے اور اس طرح چلنے لگے کہ جس طرح سنجیدہ لوگ عام طور پر نہیں چلتے.اور یہی مناسب سمجھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا منشاء مبارک مجھے بھی پورا کرنا چاہیے.گو آپ کی مراد مجھ سے نہیں.قرآن کریم میں حکم ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کوئی مشورہ لو تو پہلے صدقہ دے لیا کر و.7 کہتے ہیں حضرت علی نے اس حکم سے پہلے کبھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی مشورہ نہ لیا تھا.مگر جب یہ حکم نازل ہوا تو حضرت علیؓ آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کچھ رقم بطور صدقہ پیش کر کے عرض کیا کہ میں کچھ مشورہ لینا چاہتا ہوں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے الگ جا کر حضرت علیؓ سے باتیں کیں.کسی دوسرے صحابی نے حضرت علی سے دریافت کیا کہ کیا بات تھی جس کے متعلق آپ نے مشورہ لیا؟ حضرت علیؓ نے جواب دیا کہ کوئی خاص بات تو مشورہ طلب نہ تھی مگر میں نے چاہا کہ قرآن کریم کے اس حکم پر بھی عمل ہو جائے.شیعہ اس واقعہ سے دوسرے صحابہ کی تنقیص کا پہلو نکالتے ہیں.مگر اُن کی یہ بات بالکل لغو ہے.یہ واقعہ حضرت علی کی محبت کا ثبوت ضرور ہے مگر اس میں دوسرے صحابہ کی تنقیص کا کوئی پہلو نہیں.شیعہ لوگ اس سے یہ نتیجہ نکالتے ہیں ہیں کہ قرآن کریم میں وَاشْفَقْتُمْ کا جو لفظ آیا ہے یعنی کیا تم اس بات سے ڈر گئے ہو کہ مشورہ لینے سے پہلے صدقہ دے لیا کرو.8 اس سے مراد یہ ہے کہ صحابہ صدقہ کے حکم سے ڈر گئے ہو تھے.عام طور پر یہ خیال کیا جاتا ہے کہ یہ حکم پہلے دن نازل ہوا کہ مشورہ لینے سے پہلے صدقہ دے لیا کرو اور دوسرے دن اسے منسوخ کرنے والا حکم نازل ہو گیا.کیونکہ صحابہ اِس بات سے ڈر گئے تھے کہ اب انہیں صدقہ دینا پڑے گا مگر حضرت علی نے اس حکم پر عمل کیا.حالانکہ وہ اتنا نہیں سوچتے کہ حضرت علی نے زیادہ سے زیادہ ایک دینار صدقہ دے دیا ہو گا.مگر صحابہ میں ایسے لوگ تھے جنہوں نے بہت بڑی بڑی قربانیاں کیں.ایک دفعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے چندہ کی تحریک فرمائی.حضرت عمرؓ نے چاہا کہ اس تحریک میں میں ابو بکر سے بڑھ جاؤں.چنانچہ وہ اپنا نصف مال لے آئے.وہ آئے تو حضرت ابو بکر پہلے سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں پہنچ چکے تھے اور

Page 753

$1944 753 خطبات محمود اپنا چندہ پیش کر چکے تھے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُن سے کہا ابو بکر ! گھر میں کیا چھوڑ آئے ہو ؟ انہوں نے عرض کیا اللہ اور رسول کا نام ہی گھر میں چھوڑا ہے اور کچھ نہیں.یہ سن کر حضرت عمرؓ نے دل میں کہا کہ میں ان سے بڑھ نہیں سکتا.2 تو جن لوگوں نے اپنے سارے مال اور نصف مال پیش کر دیے کوئی اندھا اور نادان ہی یہ کہہ سکتا ہے کہ وہ ایک دینار پیش کرنے سے ڈر گئے.ایک غزوہ کی تیاری کے لیے ایک دفعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے چندہ کی تحریک کی تو حضرت عثمان نے بارہ ہزار دینار پیش کیے.10 پھر کون کہہ سکتا ہے کہ یہ لوگ ایک دینار بطور صدقہ پیش کرنے سے ڈر گئے.شیعوں کی یہ بات صرف صحابہ سے بغض اور کینہ کا نتیجہ ہے.اس میں شبہ نہیں کہ ایک نیکی کا خیال حضرت علی کو آیا اور اُنہوں نے اس پر عمل کیا.مگر یہ نہیں کہ اس واقعہ سے دوسرے صحابہ کی تنقیص ثابت ہوتی ہے.بعض دفعہ کسی کو ایک نیکی کا خیال آجاتا ہے اور وہ اس پر عمل کر لیتا ہے مگر اس سے دوسروں پر اُس کی فضیلت ثابت نہیں ہو سکتی.ایک دفعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مجلس میں بیٹھے تھے.آپ نے فرمایا کہ جنت کا ایک مقام ایسا ایسا ہے اور مجھے امید ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے مجھے وہ مقام عطا کرے گا.یہ بات سنتے ہی ایک صحابی کھڑے ہو گئے اور عرض کیا یارسول اللہ ! دعا فرمائیں میں بھی آپ کے ساتھ ہوں.آپ نے فرمایا تم بھی ہم میرے ساتھ ہو گے.یہ سن کر ایک اور صحابی کھڑے ہوئے اور کہا یار سول اللہ ! میرے لیے بھی دعا فرمائیں کہ میں بھی آپ کے ساتھ ہوں.آپ نے فرمایا جس نے اس سے فائدہ اٹھانا تھا اٹھالیا.11 اب تو ہر کوئی یہ کہ سکتا ہے.تو کسی نیکی کا خیال بعض اوقات کسی کو آجاتا ہے اور کسی دوسری نیکی کا خیال کسی دوسرے کو آجاتا ہے.یہ موقع اس آیت کی تفسیر کا نہیں ہے اس لیے میں اس کی تفصیل میں نہیں جاسکتا.مگر بہر حال یہ اعتراض خلاف عقل اور خلاف واقعہ ہے.ہاں ہم یہ جانتے ہیں کہ حضرت علی کو ایک نیکی کا خیال آگیا اور انہوں نے اس سے فائدہ بھی اٹھالیا.مگر یہ بات بالکل غلط ہے کہ دوسرے صحابہ ڈر گئے تھے.جن لوگوں نے اپنے نصف اموال پیش کر دیے بلکہ جنہوں نے سارے اموال دے دیے اور ایک ایک تحریک میں

Page 754

$1944 754 خطبات محمود بارہ بارہ ہزار دینار دیے کیونکر کہا جاسکتا ہے کہ وہ ایک دینار پیش کرنے سے ڈر گئے.تو مومن یہ نہیں دیکھا کرتا کہ حکم کیا ہے.بلکہ یہ دیکھتا ہے کہ بات کی غرض و غایت کیا ہے اور پھر اُس پر عمل کرتا ہے اور اس غرض کو پورا کرنے کی کوشش کرتا ہے.سینما کے متعلق میر اخیال ہے کہ اس زمانہ کی بد ترین لعنت ہے.اس نے سینکڑوں شریف گھرانے کے لوگوں کو گونیا اور سینکڑوں شریف خاندانوں کی عورتوں کو ناچنے والی بنا دیا ہے ہے.میں ادبی رسالے وغیرہ دیکھتارہتا ہوں اور میں نے دیکھا ہے کہ سینما کے شوقین اور اس سے تعلق رکھنے والے نوجوانوں کے مضامین میں ایسا تمسخر ہوتا ہے اور اُن کے اخلاق اور اُن کا مذاق ایسا گند ہوتا ہے کہ حیرت ہوتی ہے.سینما والوں کی غرض تو روپیہ کمانا ہے نہ کہ اخلاق سکھانا.اور وہ روپیہ کمانے کے لیے ایسے لغو اور بے ہودہ فسانے اور گانے پیش کرتے ہیں کہ جو اخلاق کو سخت خراب کرنے والے ہوتے ہیں اور شر فاء جب ان میں جاتے ہیں تو ان کا مذاق بھی بگڑ جاتا ہے اور ان کے بچوں اور عورتوں کا بھی جن کو وہ سینما دیکھنے کے لیے ساتھ لے جاتے ہیں.اور سینما ملک کے اخلاق پر ایساتباہ کن اثر ڈال رہے ہیں کہ میں سمجھتا ہوں میر امنع کرنا تو الگ رہا اگر میں ممانعت نہ کروں تو بھی مومن کی روح کو خود بخود اس سے بغاوت کرنی چاہیے.اسی طرح سادہ زندگی اختیار کرنے کی تحریک ہے.گو یہ بھی حکم نہیں بلکہ بعض ہے حالات میں قرآن کریم کا حکم ہے کہ وَ أَمَّا بِنِعْمَةِ رَبِّكَ فَحَدِثْ 12 اور رسول كريم صلى الله علیہ وآلہ وسلم نے بھی فرمایا ہے کہ اگر خدا تعالیٰ کی طرف سے کوئی نعمت ہے تو انسان کے بدن می بھی اُس کا اثر ظاہر ہونا چاہیے.13 مگر آج اسلام کے لیے قربانیوں کا زمانہ ہے اور ایسا زمانہ ہے کہ ہمیں چاہیے کہ اسلام کی خاطر قربانی کرنے کی غرض سے جائز خواہشات کو بھی جہاں ہے تک چھوڑ سکیں چھوڑ دیں.جب تک ایسا نہ کیا جائے اسلام کو ترقی حاصل نہیں ہو سکتی.آج میں ہمیں جائز خواہشات کو بھی اسلام کے لیے ترک کر دینا چاہیے.اسلام میں نے نازل نہیں کیا بلکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف سے بھی یہ نہیں یہ تو خدا تعالیٰ نے نازل کیا ہے.میں تو صرف اس کی خدمت کرنے والا ہوں.خود رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم

Page 755

خطبات محمود 755 $1944 خدا تعالیٰ کے پیغامبر تھے.اس کی ذمہ داری صرف مجھ پر نہیں بلکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر بھی نہیں خود قرآن کریم آپ کو مخاطب کر کے فرماتا ہے کہ تو داروغہ نہیں 14 حالانکہ آپ اسلام لانے والے تھے اور آپ کو حکم تھا کہ بلغ مَا أُنزِلَ إِلَيْكَ 15 اور اس لحاظ سے اسلام کی اشاعت کی ذمہ داری سب سے پہلے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ہے.اور جب ان کے متعلق اللہ تعالی خود فرماتا ہے کہ تو نگران، محافظ اور ذمہ دار نہیں تو میں کس نے طرح ذمہ دار ہو سکتا ہوں.میں تو صرف بات پہنچاتا ہوں.جن کے دل میں عشق اور محبت ہے اُن کو خود بخود اس پر عمل کرنا چاہیے.لیکن جس کے دل میں محبت اور عشق نہیں اُن کو اگر ہزار حکم بھی دیے جائیں تو بھی وہ عمل نہیں کریں گے.اثر تو عشق اور محبت کے نتیجہ میں ہوتا ہے کسی کے حکم دینے یازور دینے سے نہیں ہو سکتا.ایک دفعہ ایک چندہ کے لیے تحریک کرنی تھی.میں نے ایک دوست سے کہا کہ اس کے لیے تحریک لکھیں.اور چونکہ وہ نرم طبیعت کے آدمی تھے میں نے کہا کہ ذرا زور دار ہے تحریک لکھیں.اُن کی تو طبیعت ہی نرم تھی زور دار انہوں نے کیا لکھنا تھا انہوں نے تحریک ہے لکھی وہ شائع ہوئی تو بعض دوستوں نے مجھے آکر کہا کہ یہ عجیب بات ہے کہ اس تحریک میں بار بار یہ الفاظ آئے ہیں کہ میں زور سے کہتا ہوں.تو اس طرح زور دینے سے کچھ نہیں بنتا بلکہ جو کچھ ہوتا ہے دل کی محبت اور عشق سے ہوتا ہے.جس کے دل میں محبت ہے اس کے لیے تو یہ اشارہ ہی کافی ہے اور جس کے دل میں محبت ہی نہیں اُسے خواہ کتنے زور سے تحریک کی جائے ہے اُس پر اثر نہ ہو گا.بلکہ جس کے دل میں محبت ہی نہیں اس پر تو لاٹھی سے بھی کوئی اثر نہیں ہے ہو سکتا.پس جن لوگوں کے قلوب میں محبت ہے، اسلام کی خدمت کا احساس ہے اُن کو چاہیے کہ وہ اپنی زندگیوں کو سادہ بنائیں.اور ایسا بنائیں کہ زیادہ سے زیادہ خدمت اسلام کرنے ہیں کے قابل ہو سکیں اور دنیا میں حقیقی مساوات قائم کر سکیں جس کے بغیر دنیا میں کبھی امن قائم نہیں ہو سکتا.اور جب تک حقیقی مساوات قائم نہیں ہوتی دنیا سے مفاسد، تفرقے اور میں عیاشی کا خاتمہ نہیں ہو سکتا.پس جن لوگوں کے دلوں میں محبت ہے وہ الفاظ کو نہیں دیکھتے.

Page 756

$1944 756 محمود یہ نہیں دیکھتے کہ کیا حکم دیا گیا ہے یا حکم نہیں دیا گیا بلکہ وہ بات کی غرض و غایت کو سمجھتے اور اسے پورا کرنے کی کوشش کرتے ہیں.وہ اپنے اس اقرار کو دیکھتے ہیں جو انہوں نے بیعت کے وقت کیا تھا.مگر جن کے دلوں میں محبت نہیں ان پر میرے الفاظ کیا اثر کر سکتے ہیں اُن پر تو قرآن کریم بھی اثر نہیں کر سکتا.قرآن کریم آہستہ آہستہ نازل ہوا تا دلوں پر اثر کرے.ابو جہل نے قرآن سنا مگر اُس پر کوئی اثر نہ ہوا، عقبہ وشیبہ پر کوئی اثر نہ ہوا.مگر ہزاروں لوگ ہیں ایسے ہیں کہ ایک ایک آیت کو ہی سُن کر ایمان لے آئے.پس ایمان تو تمہارے دلوں سے ہی پید اہو گا میرے الفاظ سے نہیں.میں تو صرف معلم ہوں اور میں نے بات پہنچانی ہے.اس پر عمل کرنے کا جوش تمہارے اندر سے پیدا ہو گا.اور یہ جوش محبت اور عشق کے نتیجہ میں ہی ا پیدا ہو سکتا ہے.اگر محبت ہی نہیں تو ہزار حکم بھی بیکار ہیں.ارشادات کا بھی کوئی فائدہ نہیں ہے اور توجہ دلانا اور زور دینا بھی بے سود ہے.لیکن اگر حقیقی محبت اور عشق پیدا ہو جائے تو میں ایک لفظ بھی نہ بولوں پھر بھی تم پروانوں کی طرح دوڑے آؤ گے.پس اصل سوال تو دل کی ہے محبت کا ہے احکام کا نہیں.اگر محبت نہیں تو سارا قرآن سنانے سے بھی کوئی فائدہ نہ ہو گا.لیکن اگر محبت پیدا ہو جائے تو دنیا خواہ تمہیں روکنے کے لیے پورا زور لگائے پھر بھی تمہارا قدم اُسی ہے طرف اٹھے گا جس طرح کہ روکتے روکتے بھی پروانے شمع پر ہی آگر تے اور اپنی جانیں خدا الفضل 12/ دسمبر 1944ء) کر دیتے ہیں".1 بخاری کتاب الرقاق باب التواضع 2 :آل عمران: 98 3 : سیرت المہدی روایت نمبر 257 4 : سیرت ابن ہشام جز و 3 صفحہ 331 332 مطبوعہ قاہرہ 1965ء(مفہوم) 5 : تاریخ طبری جلد 3 صفحہ 1546.بیروت لبنان 6 : اسدالغابة جلد 3 صفحہ 157.مطبوعہ ریاض 1286ھ ابوداؤد ابواب الجمعة بَاب الْإِمَامِ يُكَلِّمُ الرَّجُلَ فِي خُطْبَتِهِ

Page 757

خطبات محمود 757 : إِذَا نَاجَيْتُمُ الرَّسُوْلَ فَقَدِمُوا بَيْنَ يَدَى نَجُويكُمْ صَدَقَةً (المجادلة: 13) $1944 : وَاشْفَقْتُمْ أَنْ تُقَدِّمُوا بَيْنَ يَدَى نَجُوبِكُمْ صَدَقَةٍ (المجادلة:14) 9 : ترمذی ابواب المناقب باب رِجَاءَه صلى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يَكُونَ أَبُو بَكْرٍ 10 : تاریخ الخمیس جلد 3 صفحہ 12 زیر عنوان غزوة تبوک دارالکتب العلمیہ بیروت لبنان 1971ء میں "بعشرة الاف دینار" کے الفاظ ہیں.11: بخارى كتاب الرِّقَاقِ بَاب يَدْخُلُ الْجَنَّةَ سَبْعُونَ أَلْفًا بِغَيْرِ حِسَابٍ 12: الضُّحى: 12 13: جامع الترمذی ابواب الادب باب ماجاء انَّ اللهَ يُحِبُّ أَنْ يَّرَى اثْرَ نِعْمَتِهِ علَى عَبْدِهِ 14 : لَسْتَ عَلَيْهِمْ بِمُصَيْطِرِ (الغاشية : 23) 15: المائدة: 68 -----------

Page 758

$1944 758 44 خطبات محمود جلسہ سالانہ کے متعلق ضروری ہدایات فرمودہ 15 دسمبر 1944ء) تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: " اللہ تعالیٰ نے توفیق بخشی تو دس دن تک ہمارا جلسہ سالانہ شروع ہونے والا ہے.گزشتہ ایام میں بوجہ جنگ کے نئے مکانات کا بنا قریباً ناممکن ہو گیا ہے اور اس وجہ سے قادیان میں بہت ہی کم مکانات کی زیادتی ہوئی ہے جو نہ ہونے کے برابر ہے.دوسری طرف جنگ پر جانے والے لوگوں میں سے ایک خاصی تعداد ایسے لوگوں کی ہے جنہوں نے اپنے بیوی بچوں کو میں قادیان بھجوادیا ہوا ہے جس کی وجہ سے قادیان کی آبادی زیادہ ہو گئی ہے اور مکانوں کی تنگی پہلے سے بہت بڑھ گئی ہے.ان حالات میں جلسہ سالانہ کے لیے مکانوں کا انتظام ایک نہایت ہی مشکل امر ہو جاتا ہے.میری طبیعت پر یہ اثر ہے کہ کچھ عرصہ سے شہریت کا بھی اثر قادیان میں ہو رہا ہے.جس تنگی کو قادیان کے لوگ پہلے خوشی سے برداشت کر لیتے تھے اب میں اسے برداشت کرنے کی عادت کم ہوتی جاتی ہے.جلسہ کے دنوں میں قادیان کے لوگ پہلے جو قربانی کرتے تھے اب شہری تمدن کے باعث اس میں کچھ کمی آتی جاتی ہے.پہلے تو اس می طرح ہوتا تھا کہ جس گھر کے دو کمرے ہوں اُس کے ایک کمرہ میں عورتیں ہو جاتی تھیں

Page 759

$1944 759 خطبات محمود اور مہمان عورتوں کو اپنے ساتھ لے لیتی تھیں اور ایک کمرہ میں مرد مہمان مردوں کو اپنے ساتھ لے کر گزارہ کر لیتے تھے.مگر اب میں محسوس کرتا ہوں کہ اس قسم کا تمدن نہیں رہا اور مہمانوں کے لیے تکالیف اُٹھانا کسی قدر کم ہو رہا ہے جو اچھی علامت نہیں.اگر چہ ابھی تغیر بہت تھوڑا ہے مگر جب بیماریاں شروع ہوتی ہیں تو پہلے تھوڑی تھوڑی شروع ہوتی ہیں اور بہت معمولی معمولی نظر آتی ہیں اور دیکھنے والے انہیں دیکھ کر یہی کہہ دیتے ہیں کہ کیا حرج ہے.مگر پھر وہی بڑھتے بڑھتے ایسی صورت اختیار کر لیتی ہیں کہ ان کا مقابلہ کرنا اور ان کو مٹانا مشکل ہو جاتا ہے.وہی تمدن جو آج ہندوستان کے گاؤں میں رائج ہے آج سے تین چار سو سال قبل یورپ میں یہی تمدن رائج تھا.پرانی تاریخیں اور کتابیں پڑھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ مسافر کی بر گیری کرنا، ہمسائیوں کے آرام کا خیال رکھنا اور مہمانوں کے آنے پر گھر والوں کا ایک ہی کمرہ میں جمع ہو جانا یہ سب باتیں یورپ والوں میں پائی جاتی تھیں.مگر آج ایسا تغیر ان کے تمدن می میں ہو چکا ہے کہ اگر ماں باپ کے پاس بیٹا بھی آئے تو وہ نا پسند کرتے ہیں کہ وہ اجازت لیے بغیر اور یہ پوچھے بغیر کہ وہ اسے کتنے دن اپنے پاس مظہر اسکیں گے آ جائے.اور بسا اوقات اگر وہ یہ آکر ٹھہرے تو اُس کے ٹھہرنے کے بعد اُسے خرچ کا بل پیش کر دیا جاتا ہے کہ تمہارے کھانے وغیرہ پر اتنا خرچ آیا ہے یہ رقم ادا کرو.امراء کی حالت تو اور ہے.ان کی مہمان نوازی تو ساری ہے سیاسی ہوتی ہے اور پھر اُن کے پاس سرمایہ بھی ہوتا ہے.مگر معمولی طبقہ کے لوگوں کے درمیان اور اوسط طبقہ کے لوگوں کے درمیان یہ طریق رائج ہو گیا ہے کہ قریبی رشتہ داروں میں سے بھی خرچ لے کر ان کو اپنے پاس رکھتے ہیں اور ان کا کوئی قریب ترین رشتہ دار بھی اگر میں آئے تو وہ ایک حد بندی کے ساتھ اسے اپنے پاس ٹھہراتے ہیں.ماں بیٹی کو خط لکھے گی کہ تمہیں ہم ملنے کو دل چاہتا ہے اور اس لیے ہم نے یہ انتظام کیا ہے کہ تم تین روز کے لیے یہاں آ جاؤ.اگر می اس طرح ہندوستان میں کوئی ماں اپنی بیٹی کو وقت معین کر کے بلائے تو وہ شاید آنا بھی پسند نہ کرے.یہاں اگر کسی کا بیٹا، بیٹی یا اور کوئی رشتہ دار آئے تو وہ اصرار کرتے ہیں کہ ابھی اور ٹھہر و.مگر وہاں یہ حال نہیں.وہاں اگر کوئی آسودہ حال آدمی ہے تو اس نے مہمانوں کے لیے

Page 760

خطبات " محمود 760 $1944 الگ کمرہ رکھا ہو گا اور اُسی میں رشتہ داروں کو باری باری ٹھہرائیں گے.یہ نہیں کہ جو کوئی چاہے آجائے اور جتنا عرصہ چاہے ٹھہرا رہے.یہ تمدن کہ ہر ایک کے لیے الگ کمرہ، الگ غسل خانہ اور الگ پاخانہ ہونا چاہیے اور یہ تمدن کہ مہمانوں کو آرام پہنچانے کے لیے گھر کی عورتیں ایک کمرہ میں ہو جائیں اور مہمان عورتوں کو ساتھ لے لیں اور مرد الگ ہو کر مہمان مردوں کے ساتھ گزارہ کر لیں ان دونوں تمدنوں کا آپس میں کوئی جوڑ نہیں معلوم ہوتا.اور اگر ہمارے اس تمدن میں تغیر پیدا ہو جائے تو ہمارے لیے بہت مشکل پیش آئے گی.پس میں وقت پر قادیان کی جماعت کو ہوشیار کرتا ہوں.اب تک وہ جس قسم کی ہے قربانی کرتی آئی ہے آئندہ اس میں زیادتی ہونی چاہیے کمی نہ ہونی چاہیے.جو تمدن اس میں حائل ہیں ہوتا ہے، جو تمدن قربانیوں میں روک بنتا ہے وہ شیطانی ہے آسمانی نہیں اور وہ ناجائز ہے جائز نہیں.جو چیز نیکی سے محروم کرتی اور جماعت کی ترقی کے رستہ میں روک بنتی ہے وہ شیطانی ہے خدائی نہیں ہو سکتی.اس میں شبہ نہیں کہ اگر قادیان کے دوست انتہائی قربانی سے کام نہ لیں تو ہمارا جلسہ سالانہ جو خدا تعالیٰ کے فضل سے ہر سال ترقی کرتا جاتا ہے اُس کا انتظام کرنانا ممکن ہو جائے گا.جوں جوں جماعت خدا تعالیٰ کے فضل سے ترقی کرتی جاتی ہے ہمارا سالانہ اجتماع بھی زیادہ ہوتا جاتا ہے.وہ بیبیوں سے سینکڑوں تک پہنچا اور سینکڑوں سے ہزاروں تک اور اب وہ در جنوں ہزاروں تک پہنچ چکا ہے.اور کوئی زمانہ آئے گا جب وہ لاکھوں اور شاید کروڑوں تک پہنچ جائے گا.اور ظاہر ہے کہ اتنے لوگوں کے لیے نئے مکانات تیار نہیں کرائے جاسکتے.اگر جلسہ کے مہمانوں کے لیے الگ مکانات بنوائے جائیں تو اس کے معنے یہ ہوں گے کہ بعض نئے محلے صرف جلسہ کے لیے تعمیر ہوں جو سال میں تین چار روز آباد اور پھر سارا سال ویران پڑے رہیں.ممکن نہیں کہ جلسہ کے لیے الگ محلے بنوائے جائیں.پس ہماری حالت دو صورتوں سے خالی نہیں.یا تو یہ کہ جلسہ میں آنے والوں کی تعداد میں اضافہ کرنے کی کوشش کرنے کی بجائے یہ کوشش کریں کہ لوگ کم سے کم آئیں اور یا پھر قربانی کے معیار کو بلند کرتے جائیں اور جتنے بھی مہمان آئیں دوست اُن کی رہائش کے لیے اپنے گھروں میں انتظام کرنے کے لیے تیار ہوں.پس میں دوستوں کو خصوصیت سے نصیحت کرتا ہوں کہ اس موقع پر جبکہ آبادی بڑھ چکی ہے اور ہم اور یہ

Page 761

خطبات محمود 761 $1944 مکانات نہیں بڑھے اور جبکہ مہمان جنگ سے پہلے زمانہ کی نسبت زیادہ آتے ہیں مکانوں کی تنگی کی وجہ سے اپنے دلوں کو زیادہ پھیلائیں.اور اگر وہ اپنے دلوں کو زیادہ پھیلا لیں تو مکانوں کی تنگی محسوس نہ ہوگی.لیکن اگر وہ اپنے دلوں کو نہ پھیلائیں گے تو مکانوں کی تنگی اُن کو بھی ہے محسوس ہو گی اور آنے والے مہمانوں کو بھی.اور منتظمین کو بھی تنگی محسوس ہو گی.اور اگر مکانوں کی تنگی کی وجہ سے تکلیف ہونے کے باعث جلسہ کے موقع پر مہمانوں کے آنے میں کمی ہے ہو گئی تو یہ گناہ عظیم قادیان کے باشندوں کے سر ہو گا.- دوسری نصیحت جو میں جلسہ کے سلسلہ میں کرنا چاہتا ہوں اور جو گزشتہ سال بھی کی ہے تھی یہ ہے کہ یہ سخت گرانی کا زمانہ ہے.ایک روپیہ کی چیز کی قیمت اس وقت پانچ روپیہ تین ہے.پہلے جلسہ سالانہ کا خرچ نہیں اکیس ہزار روپیہ ہوتا تھا.مگر اب جلسہ سالانہ کا بجٹ ہے چھپن ہزار روپیہ ہے.یہ چھپن ہزار روپیہ کی رقم اگر جماعتیں اپنی ذمہ داری کو محسوس کریں تو چندہ سے وصول ہو سکتی ہے.ہمارے چندہ عام کی رقم چھ لاکھ روپیہ کے برابر ہوتی ہے اور یہ اگر چندہ جماعت کی آمد کا سولہواں حصہ بھی سمجھا جائے تو اس کے معنے یہ ہوں گے کہ آمد چھیانوے لاکھ روپیہ ہے.مگر اس چندہ میں چونکہ وصیت وغیرہ کی رقم بھی ہوتی ہے اسے اگر می الگ کر دیا جائے تو اس کے معنے یہ ہوں گے کہ جماعت کی آمد استی لاکھ روپیہ ہے.گو یہ اندازہ ہے بالکل غلط.میرے خیال میں ہماری جماعت کی گل آمد دو کروڑ روپیہ کے قریب ہے.لیکن ہے اگر اسی لاکھ ہی سمجھ لی جائے تو اس کا مطلب ساڑھے چھ لاکھ روپیہ کے قریب ماہوار ہے.اور اگر اس کا دسواں حصہ چندہ جلسہ سالانہ میں وصول کیا جائے تو یہ چندہ ساٹھ ہزار روپیہ سے زائد ہو سکتا ہے.پس جلسہ سالانہ کے اخراجات کا جو بجٹ ہے اتنی رقم کا وصول کرنا میرے نزد یک مشکل نہیں.مگر چونکہ چندہ جلسہ سالانہ میں عام طور پر سستی کی جاتی ہے، قادیان کے دوست بھی اپنی پوری ذمہ داری محسوس نہیں کرتے اور زمیندار دوست بھی پوری ذمہ داری محسوس نہیں کرتے اور شہری جماعتیں بھی پوری ذمہ داری محسوس نہیں کرتیں اس لیے ہے وصول بہت کم ہوتا ہے.حالانکہ اگر جماعت کے دوست ماہور آمد کا دس فیصدی بھی دیں تو بھی ساٹھ ستر ہزار روپیہ وصول ہو سکتا ہے.مگر حالت یہ ہے کہ اس وقت تک صرف یہ.

Page 762

$1944 762 خطبات محمود اٹھارہ ہزار روپیہ چندہ کے وعدے آئے ہیں اور گزشتہ سال غالبا گل وعدے ستائیس ہزار کے آئے تھے.اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر اس سال بھی ستائیس ہزار ہی آمد سمجھ لی جائے تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ سلسلہ کے دوسرے کاموں کا تیس ہزار روپیہ جلسہ سالانہ پر خرچ کرنا پڑے گا اور تیس ہزار روپیہ کی رقم ایک غریب جماعت کے لیے معمولی نہیں.پس جہاں اس بوجھ کو کم کرنے کا ایک ذریعہ یہ ہے کہ جماعتیں اپنی ذمہ داری کو پوری طرح سمجھیں اور جلسہ سالانہ ہے کا چندہ پوری شرح کے ساتھ ادا کریں، اور جہاں ایک اور ذریعہ اس بوجھ کو کم کرنے کا یہ ہے کہ بیت المال بھی اِس چندہ کی وصولی کی خاص طور پر کوشش کرے اور زور سے اس کی تحریک کرے اسے عام تحریک سمجھ کر نہ چھوڑ دے وہاں ایک اور ضروری ذریعہ اس بوجھ کو کم کرنے کا یہ بھی ہے کہ قادیان کی جماعت کے افراد اور کارکن اخراجات کی تخفیف کی انتہائی کوشش کریں.ورنہ یہ بار بڑھتے بڑھتے دوسرے کاموں کو سخت نقصان پہنچائے گا.اور اگر ہر سال یہ تیس ہزار کا بوجھ پڑتا جائے تو اس کے معنے یہ ہوں گے کہ دس سال کے عرصہ میں یہی رقم ہے تین لاکھ ہو جائے گی.اور اگر جائیداد رہن رکھ کر یہ تین لاکھ روپیہ حاصل کیا جائے تو گویا قریبا پندرہ ہزار روپیہ کا خرچ اور بڑھ جائے گا اور اس طرح یہ سالانہ بوجھ پینتالیس ہزار روپیہ کا ہو گا.بعض سوراخ چھوٹے چھوٹے ہوتے ہیں لیکن اگر اُن کو بند نہ کیا جائے تو پل ٹوٹ جاتے ہیں، عمارتیں گر جاتی ہیں، علاقے ویران ہو جاتے ہیں اور شہر برباد ہو جاتے ہیں.پس مومن کو اپنے کاموں میں ہوشیار ہونا چاہیے اور بہت زیادہ احتیاط سے کام لینا چاہیے.جب آدمی اپنے گھر کے کاموں میں احتیاط سے کام لیتا ہے اور سمجھتا ہے کہ اگر خرچ بڑھتا گیا تو میری جائیداد تباہ ہو جائے گی اور میرے لیے مشکلات پیدا ہوں گی تو خدا تعالیٰ کے کاموں میں تو مومن کو بہت ہی زیادہ احتیاط سے کام لینا چاہیے.پس میں قادیان کی جماعت کے دوستوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ خصوصیت سے عزم اور ارادہ کے ساتھ یہ فیصلہ کر لیں کہ خرچ زیادہ نہ ہونے دیں گے.جہاں تک ایسے گھروں کا سوال ہے جن میں مہمان اِس کثرت کے ساتھ اترتے ہیں کہ ان کے لیے گھر میں اپنے لیے کھانا پکانا ناممکن ہو جاتا ہے اُن کے گھروں میں بے شک میں تین چار دنوں میں کھانا لنگر سے آنا چاہیے.گو جو صاحب توفیق ہیں ان کے لیے میں یہ

Page 763

$1944 763 خطبات محج محمود تجویز کرتا ہوں کہ وہ اپنے اخراجات کے برابر آٹایا اجناس لنگر خانہ میں دے دیں.کیونکہ اگر وہ ایسا کیے بغیر لنگر سے کھانا لیں گے تو اس کے یہ معنے ہوں گے کہ وہ اپنی خدمت کا معاوضہ لیتے ہیں.اور گو شریعت نے یہ جائز رکھا ہے کہ وہ لوگ جو غریب ہوں اور جن کے گزارہ کی کوئی صورت نہ ہو وہ اپنی خدمت کا معاوضہ لے سکتے ہیں اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی بعض مواقع پر خدمت کا معاوضہ لینا جائز قرار دیا ہے.1 مگر صاحب توفیق کے لیے ایسا معاوضہ لینا اُس کے ایمان کی ہتک ہے.پس جب وہ مہمانوں کی کثرت کی وجہ سے اور ان کی خدمت میں مصروفیت کی وجہ سے اور اِس وجہ سے کہ مہمانوں کی کثرت کے باعث اُن کے گھروں کا انتظام خراب ہو جاتا ہے اور وہ اپنے لیے کھانا نہیں پکا سکتے اپنے لیے بھی کھانا لنگر لیں تو ان کو چاہیے کہ اپنے اخراجات کے مطابق آنا اور دالیں وغیرہ انگر میں بھجوا دیں.گو ایسے لوگوں کے لیے لنگر سے کھانا لینا جائز ہے.مگر ایک کامل ایمان والے انسان کے لیے ـ نامناسب ہے کہ وہ زائد بوجھ لنگر پر ڈالے.ہاں جو صاحب توفیق نہیں ہیں اور بعض تو ایسے ہی ہوتے ہیں کہ وہ مزدوری وغیرہ کر کے گزارہ کرتے ہیں اور ان ایام میں اُن کو کام بھی چھوڑنا پڑتا ہے اور اس طرح اُن کو نقصان ہوتا ہے اُن کے لیے جائز ہے کہ وہ کھانا لنگر سے لے لیں ہیں اور معاوضہ بھی نہ دیں.میرے نزدیک اس غلطی کے ازالہ کی بہترین صورت یہ ہے کہ جس جس گھر میں مہمان ٹھہرتے ہیں ان کے اپنے افراد کی فہرستیں پہلے سے حاصل کر لی جائیں اور میں اُن کے ہاں ٹھہرے ہوئے مہمانوں کے کھانے سے اتنے افراد کا کھانا زیادہ ان کو دے دیا جائے.اس طرح جو بے حساب کھانا گھروں میں جاتا ہے وہ نہ جاسکے گا.بعض لوگ کھانا لیتے ہیں وقت تعداد زیادہ لکھوا دیتے ہیں اور اس جھوٹ کا نام وہ احتیاط رکھتے ہیں مگر یہ احتیاط نہیں بلکہ جھوٹ اور اسراف ہے.وہ با قاعدہ حساب سے کھانا نہیں لیتے بلکہ اگر اُن کے ہاں چالیس مہمان ہوں تو کہہ دیتے ہیں کہ ستر آدمیوں کی پرچی دے دی جائے.اگر اُن کے گھر کے افراد کی صحیح تعداد معلوم ہو تو مہمانوں کی تعداد کے ساتھ اُن کے گھر کے افراد کی تعداد ملا کر ایک حساب کے مطابق اُن کو پر چی دی جاسکتی ہے.اور یہ اسی طرح ہو سکتا ہے کہ اُن کے گھر کے افراد کی صحیح تعداد پہلے سے معلوم ہو.اس طرح بہت سا کھانا بیچ سکتا ہے.مگر جب حساب کوئی نہ ہو اور ہے

Page 764

$1944 764 خطبات محمود بے حساب تعداد کا کھانا ایک شخص مانگے تو منتظمین مجبور ہوتے ہیں کہ اُسے اُتنا ہی کھانا دیں.چونکہ کوئی حساب وغیرہ ہوتا نہیں بعض لوگ تعداد کو حد سے بڑھا دیتے ہیں مگر حساب میں آکر زیادہ پابندی ہو جاتی ہے.پس افسروں کو چاہیے کہ جن لوگوں نے اپنے مکان مہمانوں کے لیے پیش کیے ہیں یا جن گھروں میں مہمان اُتریں گے اُن کے افراد کی فہرست پہلے سے حاصل کر لیں اور یہ معلوم کر لیں کہ اُن کو اپنے گھر کے لیے کتنے آدمیوں کا کھانا درکار ہو گا.ایسی ہیں فہرستیں حاصل کر کے وہ اُن کو وقت سے پہلے چیک بھی کر سکتے ہیں اور دیکھ سکتے ہیں کہ واقعی اُن کے افراد اتنے ہی ہیں جتنے انہوں نے بتائے ہیں اور انہوں نے اس تعداد میں کوئی زیادتی تو نہیں کی.جلسہ کے بعد دیکھا گیا ہے کہ بچی ہوئی سینکڑوں من روٹیاں جانوروں وغیرہ کے لیے فروخت ہوتی ہیں.اس کی وجہ یہی ہے کہ لوگ بے احتیاطی سے کھانا منگوالیتے ہیں.پس ایک تو اس احتیاط کی ضرورت ہے.دوسرا طریق یہ ہے کہ پبلک کی اچھی طرح تربیت کی جائے اور ان کو اچھی طرح ہیں سمجھایا جائے کہ اس بے احتیاطی سے سلسلہ کو کتنا نقصان پہنچتا ہے.صحیح تربیت کے بغیر کچھ نہیں ہو سکتا.میرا ایک خطبہ میں ایک بات بیان کر دینا کافی نہیں ہو سکتا.چاہیے کہ ان ایام میں میں متواتر جلسے کیے جائیں اور ضروری ہدایات ہر چھوٹے بڑے کے اچھی طرح ذہن نشین کی جائیں.اس کے بغیر تربیت نہیں ہو سکتی.اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں بار بار نماز پڑھنے کا حکم دیا ہے.اب اگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم یہ کہتے کہ جب خدا تعالیٰ نے حکم دے دیا ہے تو اب میرے کہنے کی کیا ضرورت ہے جو اللہ تعالیٰ کی بات نہیں مانتاوہ میری کب مانے گا.اور اگر صحابہ یہ کہتے کہ اللہ تعالیٰ نے نماز کا حکم دیا ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی تاکید فرمائی ہے پس جس نے خدا تعالیٰ کی نہیں مانی، رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نہیں مانی وہ ہماری کب مانیں گے تو کیا اسلام پھیل سکتا اور دنیا میں اتنے لوگ نماز پڑھنے والے پیدا ہو جاتے ؟ ہر گز نہیں.خدا تعالیٰ نے حکم دیا، رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم برابر اس کی تاکید فرماتے رہے.پھر ابو بکر، عمر، عثمان، علی اور ہزاروں دوسرے صحابہ.پھر ان کے بعد تابعین اور تابعین کے بعد نتبع تابعین اور پھر اُمت کے اولیاء.مثلاً سید عبد القادر جیلانی، معین الدین چشتی،

Page 765

$1944 765 خطبات محمود نظام الدین اولیاء وغیرہ اس کی تلقین کرتے رہے.مگر پھر بھی جو حالت ہے وہ سب کے سامنے ہے.کیا سب لوگ نمازیں پڑھتے ہیں؟ بلکہ آجکل تو اکثر مسلمان بھی نہیں پڑھتے.پس بار بار کہتے رہنا ضروری ہوتا ہے.بار بار کہنے سے ہی قوموں کی تربیت ہوتی ہے.جب کسی قوم می میں یہ خیال پیدا ہو کہ اب کہنے کی ضرورت نہیں، جب کسی قوم کے افراد کو تکرار بُرا لگنے لگتا ہے تو وہ قوم تباہ ہو جاتی ہے.تکرار سے ہی زندگی پیدا ہوتی ہے.جماعت میں ہمیشہ نئے آدمی ہے شامل ہوتے رہتے ہیں.جن کو علم نہیں ہوتا اُن کو آگاہ کرنا ضروری ہوتا ہے.ایسے لوگ اگر غفلت کریں گے تو ضروری ہے کہ اُن کا ہمسایہ بھی غفلت کرے گا.وہ یہ خیال نہیں کرے گا ہی کہ ہمسایہ واقف نہیں بلکہ اُسے دیکھ کر خود بھی اس بات کو جائز سمجھنے لگتے ہیں.پھر نئی پود بھی ترقی کرتی رہتی ہے.جو بچے آج تیرہ سال کے ہیں وہ دس سال قبل تین سال کے تھے.ان کو نی سمجھانا بھی ضروری ہے.وہ اگر نہیں سمجھیں گے تو انہیں دیکھ کر اُن کے اور ساتھی خراب ہوں گے.پس تربیت کے لیے ضروری باتوں کا دہرانا اور بار بار سکھانا ضروری ہوتا ہے.پس چاہیے کہ ہر محلہ والے متواتر جلسے کریں اور تمام افراد کو سکھائیں.عورتوں کو ، مردوں کو ، سب کو اچھی طرح ان باتوں سے آگاہ کرنا ضروری ہے.خدام الگ جلسے کریں، انصار الگ کریں، اطفال الگ کریں، لجنہ کے الگ جلسے ہوں اور محلوں والے الگ کریں.اور اچھی طرح یہ بات لوگوں کے ذہن نشین کریں کہ جماعتی بوجھ کا کم کرنا نہایت ضروری ہوتا ہے اور بہت ثواب ہے.ہر روٹی کا ٹکڑا جو ضائع ہو گا، دال کا ہر چمچہ جو ضائع ہو گا یا جو غیر حق دار کے پاس پہنچے گا اتنا ہی کلمہ شہادت کے پھیلانے میں رکاوٹ پیدا ہو گی ، اتناہی تبلیغ کے کام میں کمزوری پیدا ہو گی.اگر میں ہر ایک کے کان میں یہ بات ڈال دی جائے، جماعت میں ایسی بیداری پیدا کر دی جائے کہ ہر شخص یہ سمجھے کہ اگر ایک چیونٹی بھی سلسلہ کے خزانہ سے گندم کا ایک دانہ لے جاتی ہے تو وہ اُس کے لیے جواب دہ ہے تو بہت سا بوجھ کم ہو سکتا ہے.اگر یہ روح افرادِ جماعت میں پیدا ہو جائے تو قومی دیانت ایسے مقام پر پہنچ جاتی ہے کہ پھر ایمان کو کبھی مٹھن نہیں لگ سکتا.کیونکہ گھن ہمیشہ گندم کے دانے کو لگتا ہے، سری گندم کو کھا سکتی ہے.ایمان کے دانہ کو نہ گھن لگتا ہے اور نہ اسے سسری کھاتی ہے.پس جس قوم کے افراد کے قلب میں ایمان کی ہے

Page 766

خطبات محمود 766 $1944 روئیدگی پیدا ہو جائے وہ تباہ نہیں ہو سکتی.خدا نے وہ سسری پیدا ہی نہیں کی جو ایمان کے دانے کو کھا سکے.جب کسی قوم کی بنیاد ایمان پر قائم ہو جاتی ہے تو دنیوی ذرائع اسے تباہ نہیں کر سکے.پس یہ باتیں جماعت کے ہر فرد کو سکھائیں اور اس کے لیے محلوں والے الگ جلسے خدام، انصار ، اطفال اور لجنات کے جلسے الگ ہوں اور یہ باتیں اچھی طرح ہر ایک کے ذہن می نشین کی جائیں.یہ صحیح ہے کہ پھر بھی کچھ نہ کچھ کمزور رو جائیں گے یا منافق ہوں گے مگر اُن کا یہ کوئی علاج نہیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ میں بھی جب منافق موجود تھے تو ہمارا یہ خیال کرتا کہ ہم میں منافق نہیں رہیں گے بالکل غلط بات ہے.اگر کوئی اس امر کا سب می سے زیادہ مستحق تھا کہ اس کے زمانہ میں منافق نہ ہوتے تو وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تھے.اور جب آپ کے زمانہ میں بھی منافق موجود تھے تو کسی اور زمانہ کے لوگوں کا یہ ہے امید رکھنا کہ ان میں منافق نہ ہوں گے موہوم امید ہے.ساری خرابی اِس سے پیدا ہوتی ہے کہ بعض لوگ سمجھ لیتے ہیں کہ ہم میں منافق نہیں ہیں یا نہیں ہو سکتے.منافق ہمیشہ بھیس بدل کر تے لوگوں کے ایمان کو خراب کرتے رہتے ہیں.لوگوں میں قصہ کے طور پر یہ بات مشہور ہے.یسے قصص کو ایمان کی بنیاد سمجھنا تو غلطی ہوتی ہے البتہ ان سے سبق حاصل کیا جاسکتا ہے.کہتے ہیں کہ شیطان مور کے بھیس میں جنت میں داخل ہو ا تھا.مور کا مطلب یہی ہے کہ وہ گو بظاہر بہت خوبصورت تھا مگر اندر سے جانور تھا.تو منافق بھی اندر سے تو جاہل اور احمق ہوتا ہے مگر باہر سے بہت خوبصورت نظر آتا ہے.لوگ عام طور پر ظاہری شکل پر فریفتہ ہو جاتے ہیں مگر اندرونی حماقت کو نظر انداز کر دیتے ہیں.پس ہماری جماعت میں بھی منافقوں کا ہونا ضروری ہے اور جب تک بار بار سمجھا کر کمزوروں کو مضبوط نہ کریں اور اس طرح انہیں منافقوں کا شکار ہونے سے نہ بچائیں اور جو منافقت میں پختہ ہو چکے ہیں اُن کی غلطی کو آلہ نے نَشرخ نہ کر دیں ہم نقصان سے محفوظ نہیں ہو سکتے اور نگرانی کو نہیں چھوڑ سکتے..تیسرا ذریعہ یہ ہے کہ نگرانی اچھی طرح کی جائے.مثلاً خدام اگر یہ کام اپنے ذمہ لے لیں اور سو گھروں کو بھی روزانہ چیک کرنے کا انتظام کر لیں.اچانک پہنچ کر مہمانوں کی مبین لیسٹیں جمع کریں اور دیکھیں کہ آیا وہ کھانے کی لسٹوں کے مطابق ہیں؟ تو اس سے بھی بہت

Page 767

$1944 767 خطبات محمود فائدہ ہو سکتا ہے.اگر خدام روزانہ ایک سو گھر بھی اس طرح چیک کرنے کا انتظام کر لیں تو پانچ روز میں پانچ سو گھر چیک کر سکتے ہیں.اس کا ایک نتیجہ یہ ہو گا کہ کمزور سمجھ جائیں گے کہ ہم اپنی کمزوری کو نہیں چھپا سکیں گے اور بے احتیاطی کرنے والے محتاط ہو جائیں گے ناواقفوں کو علم ہو جائے گا.پس یہ تین ذرائع ہیں جن پر اگر عمل کیا جائے تو جلسہ کی آمد بڑھائی اور خرچ گھٹایا ہے جاسکتا ہے.میں امید کرتا ہوں کہ قادیان کی جماعت اپنے روایتی اخلاص کے مطابق اس بارہ میں بھی اصلاح کرے گی اور ایسا رویہ اختیار کرے گی کہ ہر فرد یہی سمجھے گا کہ سلسلہ کے اموال کی حفاظت میرے ذمہ ہے اور میں ہی اس کے لیے جواب دہ ہوں.اور وہ ثابت کر دیں گے کہ سلسلہ کے اموال کی نگرانی وہ اپنے اموال سے بھی زیادہ کرتے ہیں.اگر اِن باتوں پر عمل کیا جائے تو اخلاقی طور پر بھی بہت عمدہ اثر ہو سکتا ہے.مثلاً جب کوئی شخص گھر میں بے حساب روٹی منگواتا ہے اور مہمانوں کے علاوہ اُس کے گھر والے بھی وہی کھاتے ہیں تو مہمانوں کو یہی خیال ہوتا ہے کہ یہ بد دیانتی کرتا ہے.بعض لوگ بے حساب کھانا منگوا لیتے ہیں.خود تو کھاتے ہی ہیں مگر روٹی اور سالن ضائع بہت کرتے ہیں اور ارد گر دبانٹ بھی دیتے ہیں ہیں اور اس طرح دوسروں پر اپنا احسان قائم کرتے ہیں.اور ایسا کر کے جہاں سلسلہ کا نقصان کرتے ہیں وہاں اپنے ساتھ ان مہمانوں کا تقوی بھی کمزور کرتے ہیں جن کے سامنے ایسا کرتے تھے ہیں.ایسی باتوں کو دیکھ کر مہمانوں پر یقیناً بُرا اثر ہوتا ہے.لیکن اگر باہر سے آنے والے دیکھیں کہ قادیان کے ہر مرد اور ہر عورت اور ہر بچے اور ہر بوڑھے کو سلسلہ کے مال کا درد اپنے مال سے بھی زیادہ ہے اور اگر وہ دیکھیں کہ جو لوگ اپنے لیے بھی لنگر سے کھانا منگواتے ہیں وہ علی الاغلان منگواتے ہیں تو پھر اُن پر برا اثر نہیں ہو سکتا.میں امید کرتا ہوں کہ محلوں والے بھی، خدام بھی، انصار بھی، اطفال بھی اور لجنات بھی اپنے الگ الگ جلسے کر کے لوگوں کو پوری طرح یہ باتیں سمجھائیں گے کہ وہ کھانا ضائع کر کے سلسلہ کا نقصان نہ کریں.اور سب مل کر کوشش کریں گے کہ اس سال جلسہ کا خرچ کم سے کم ہو.اور نظارت بیت المال، جماعتیں اور قادیان کے دوست کو شش کریں گے کہ جلسہ کا چندہ قواعد کے مطابق اور بروقت ہے

Page 768

$1944 768 خطبات محمود وصول ہو تا ایسا نہ ہو کہ جلسہ سالانہ کا چندہ وصول نہ ہونے کی وجہ سے ناجائز بوجھ سلسلہ کے دوسرے کاموں پر پڑے".(الفضل 120 دسمبر 1944ء) 1 : بخارى كتاب الاجارة بَاب مَا يُعْطَى فِي الرُّقْيَةِ ---------------------------

Page 769

خطبات محمود $1944 769 (45) جلسہ سالانہ بہت دُعا اور گریہ وزاری کرنے کا موقع ہے فرمودہ 22 دسمبر 1944ء) تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: اللہ تعالیٰ کی طرف سے جتنے کام دنیا میں جاری کیے جاتے ہیں خواہ وہ اُس کی روحانی شریعت کے مطابق ہوں یا اُس کے بنائے ہوئے طبعی قانون کے مطابق ہوں سب میں ایک لہر پائی جاتی ہے.یعنی ان میں اُتار چڑھاؤ کا سلسلہ جاری ہوتا ہے.خدا تعالیٰ نے سمندر بنائے ہیں تو اُن میں بھی لہروں کا ایک سلسلہ جاری ہے، خدا تعالیٰ نے پہاڑ بنائے ہیں تو اُن میں بھی لہروں کا ایک سلسلہ جاری ہے ، خدا تعالیٰ کی ہوائیں چلتی ہیں تو ان میں بھی لہروں کا سلسلہ جاری ہے، خد اتعالیٰ کی بنائی ہوئی آگ جلتی ہے تو اس میں بھی لہروں کا ایک سلسلہ جاری ہے.کبھی شعلہ اوپر اٹھتا ہے اور کبھی نیچے آتا ہے.اسی طرح اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو روحانی سلسلے قائم ہوتے ہیں اُن کا بھی یہی حال ہے.بعض دن خدا تعالیٰ کے خاص فضلوں کے ہوتے ہیں اور بعض دن ابتلاؤں اور ٹھوکروں کے آتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے ایک الہام میں فرمایا ہے کہ اُفَطِرُ وَآصُومُ 1 یعنی اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں کبھی افطار کرتا ہوں اور کبھی روزہ رکھتا ہوں.یعنی کبھی میری طرف سے دنیا پر ابتلاء آتے ہیں اور کبھی میں ان ابتلاؤں اور ان ٹھوکروں کو

Page 770

خطبات محمود 770 $1944 واپس لے لیتا ہوں اور ان کو ہٹا دیتا ہوں.اللہ تعالیٰ کے ناموں میں اَلْقَابِضُ اور الْبَاسِطُ بھی نام ہیں.یعنی وہ قبض بھی کرتا ہے اور بسط بھی کرتا ہے.یہ لہروں کا سلسلہ جو ہے اس کی حکمت وہی ہے جو اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں رات اور دن کی حکمت بیان فرمائی ہے.چنانچہ فرمایا و جَعَلْنَا الَّيْلَ لِبَاسًا وَ جَعَلْنَا النَّهَارَ مَعَاشَا 2 یعنی رات کا وقت انسان کے لیے لباس کے رنگ میں آتا ہے جو اُس کی کمزوریوں کو ڈھانپ لیتا ہے.انسان اپنی فطرت کے لحاظ سے متواتر کام نہیں کر سکتا.اگر اسے متواتر کام پر لگا دیا جائے تو ایک وقت ایسا آئے گا کہ وہ تھک جائے گا اور پھر بے ہوش ہو کر گر پڑے گا.انسان کی اس کمزوری کو ڈھانپنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے رات بنائی ہے.انسان کی یہ جو کمزوری ہے کہ وہ متواتر کام نہیں کر سکتا اور تھک جاتا ہے رات اِس کمزوری کو ڈھانپ لیتی ہے اور دن چڑھنے پر وہ پھر کام کرنے کے قابل ہو جاتا ہے.یہی حالت روحانی ترقی اور ترقیات کی ہے.انسان پر بھی ایسے وقت آتے ہیں جب اُس کی روحانیت قبض کی حالت میں ہوتی ہے اور اس پر ایسے وقت بھی آتے ہیں جب اس کی روحانیت پر بسط کی می حالت ہوتی ہے.ایک معمولی درجہ کے مومن پر بھی کوئی وقت ایسا آتا ہے جب وہ سمجھتا ہے ؟ کہ وہ خدا سے مل گیا ہے اور اُس کا خدا اُس کے سامنے ہے اور اپنے سارے جلال اور ساری شان و شوکت کے ساتھ اس پر ظاہر ہو رہا ہے.اور دوسرے وقت میں وہی مومن اپنی نماز کو کھڑا کرنے میں لگا ہوتا ہے.وہ اُسے کھڑا کرتا ہے مگر وہ گرتی ہے.وہ اُسے پھر کھڑا کرتا ہے اور وہ پھر گرتی ہے.وہ پھر کھڑا کرتا ہے مگر وہ پھر گرتی ہے.اور یہ حالت معمولی درجہ کے مومن کے ساتھ ہی مخصوص نہیں بلکہ اونچے درجہ کے مومن بھی اپنے اپنے مدارج کے لحاظ سے اس حالت میں سے گزرتے ہیں.ایمان و روحانیت کے اعلیٰ مقامات میں بھی انسان پر یہ حالت گزرتی ہے.گو اس حد تک نہیں جس حد تک کہ معمولی درجہ کے مومنوں پر گزرتی ہے.مگر اس میں شک نہیں کہ اعلیٰ درجہ کے مومن پر بھی قبض اور بسط کی حالت آتی ہے اور یہ حالت انسان کو جگانے اور بیدار کرنے کے لیے آتی ہے.جیسے نماز میں کبھی انسان می قیام کرتا ہے، کبھی رکوع کرتا ہے، کبھی سجدہ کرتا ہے اور کبھی قعدہ.اگر ایک ہی حالت ہو میں یصل مسودہ میں یہاں لفظ پڑھا نہیں جاتا.(مرتب)

Page 771

خطبات محمود 771 $1944 انسان پر غفلت طاری ہو جائے اور کمزوری پیدا ہو جائے.یہ مختلف حالتیں اس لیے رکھی ہیں کہ انسان پر غفلت طاری نہ ہونے پائے اور قیام میں ہی رہنے کی وجہ سے عادت کے طور پر وہ ہے الفاظ کو ادانہ کرتا رہے.یار کوع میں اگر ہو تو عادت کے طور پر ہی وہ نماز کے الفاظ کو نہ ادا کرتا جائے.یا سجدہ کی عادت کے ماتحت وہ غافل ہو کر الفاظ منہ سے نہ نکالتا ر ہے.اور ایک حالت سے دوسری بدلنے کی وجہ سے اُس کی غفلت دور ہو جائے اور وہ سوچ سمجھ کر نماز کو ادا کرے.اسی طرح انسان کی روحانیت میں بھی قبض اور بسط کی حالت ہوتی ہے تا وہ کسی حالت کا عادی ہو کر ترقی سے محروم نہ ہو جائے.اگر یہ حالتیں بدلتی نہ رہیں اور انسان پر ایک ہی حالت رہے تو یہ اگر یہ حالت قبض کی ہے اور یہی حالت ہمیشہ رہے تو اُس کا دل مر جائے گا.اور اگر بسط کی حالت ہی رہے تو وہ عادتاً عبادت کرنے لگ جائے گا اور اُس کو نیکیوں میں عزم و ارادہ اور خواہش باقی نہ رہے گی.کبھی پس انسانی مقام کو قائم رکھنے کے لیے اور اس لیے کہ نیکی کرتے ہوئے اُس کا ارادہ اور عزم بھی قائم رہے اور اُس کی توجہ بھی قائم رہے ہر مومن پر خواہ اُس کا مقام بڑا ہو یا چھوٹا لہروں کا زمانہ آتا رہتا ہے.اور ہر مومن اپنے اپنے مقام کے لحاظ سے بھی اونچا اٹھتا ہے اور کبھی نیچے گرتا ہے اور کبھی درمیانی حالت میں ہوتا ہے.اور ہر مومن اپنے اپنے مقام کے لحاظ سے لہروں کے نیچے چلتا ہے.اور یہ لہروں کا سلسلہ تمام قانونِ قدرت میں چلتا ہے.یہ سلسلہ انفرادی حالات میں بھی ہوتا ہے اور قومی حالات میں بھی ہوتا ہے.قوموں پر بھی کی حالت آتی ہے اور بھی بسط کی، بھی قوم پر ابتلاؤں کی گھٹائیں چھائی ہوئی ہوتی ہیں اور بھی ہیں اُس پر اللہ تعالیٰ کی رحمت کی بارش ہو رہی ہوتی ہے، کبھی اُس پر کامیابی کا سورج طلوع ہوتا ہے کبھی رات کی تاریکی چھائی ہوئی ہوتی ہے، کبھی قوم کے اندر نشو و نما اور نمو کا جوش ہوتا ہے اور کبھی غفلت طاری ہو جاتی اور اُس کے اندر آرام کرنے کی خواہش پیدا ہو جاتی ہے.اور ان دونوں حالتوں میں جو قوم یا جو انسان زنجیر کو نہیں چھوڑتا اور تسلسل کو قائم رکھتا ہے وہ ترقی کہ جاتا ہے.اور جو اس تسلسل کو قائم نہیں رکھ سکتا وہ گر جاتا ہے.جو اپنی زنجیر کو چھوڑ دیتا ہے وہ توازن کھو دیتا ہے اور پھر اپنے درجہ سے نچلے درجہ میں گر جاتا ہے.پھر وہاں سے اور نچلے درجہ ہے

Page 772

$1944 772 خطبات محمود میں گرتا ہے اور پھر اُس سے بھی نچلے درجہ میں چلا جاتا ہے.یہی حال قوموں کا ہوتا ہے.بسا اوقات کوئی قوم غفلت اور قبض کے زمانہ میں اپنا توازن کھو بیٹھتی ہے اور نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ قبض کی حالت سے سقوط کی حالت میں آجاتی ہے.اور بجائے اس کے کہ اپنے مقام کی بلندی اور پستی کے درمیان قبض اور بسط کی حالت میں چکر کھائے وہ اپنے مقام سے نچلے مقام میں گر جاتی ہے اور یہی چیز ہے جس کا نام قومی منزل ہے.جب تک تو کوئی قوم اپنے مقام کی بلندی اور ہے پستی کے درمیان چکر کھاتی رہتی ہے وہ گر نہیں سکتی.کیونکہ یہ قبض اور بسط کی حالت ہر انسان اور ہر قوم کے لیے مقدر ہے اور کوئی اس سے بچ نہیں سکتا.مگر جب کوئی قوم یا انسان اپنے ہی مقام سے گر کر نچلے درجہ میں چلا جائے تو پھر حالت خراب ہو جاتی ہے.یہی وہ چیز ہے جس کے لیے قوموں میں بیداری پیدا کرنا ضروری ہوتا ہے اور اس کے لیے بہت دعاؤں کی ضرورت ہوتی ہے.یہ روحانی مقامات ایسے ہیں کہ بعض دفعہ پتہ بھی نہیں لگتا اور قوم اپنے درجہ سے گر جاتی ہے.اس سے بچنے کے لیے ضروری ہوتا ہے کہ مومن دعاؤں میں لگے رہیں.خصوصاً جب اجتماعی حالت ہو تو دعاؤں پر خاص طور پر زور دینا ضروری ہوتا ہے.بعض نقائص انفرادی ہوتے ہیں اور انفرادی حالت سے پیدا ہوتے ہیں قومی نقائص اجتماعات کی حالت میں پیدا ہوتے ہیں.قوم کبھی خلوت میں تباہ نہیں ہوتی ہمیشہ جلوت میں تباہ ہوتی ہے.اسی لیے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کسی جلسہ یا مجلس میں تشریف فرما ہوتے تو کم سے کم ستر بار استغفار پڑھتے.3 اب ہمارا جلسہ سالانہ آنے والا ہے جس میں شامل ہونے کے لیے لوگ جمع ہوں گے.اِن آنے والوں میں کمزور بھی ہوں گے اور مخلص و جوشیلے بھی، سموئی ہوئی طبیعت کے لوگ بھی ہوں گے اور ڈھیلی طبیعت کے بھی، نچست اور ہوشیار بھی ہوں گے اور شست اور غافل بھی، متقی اور تقوی کی راہ پر چلنے والے بھی ہوں گے اور اِس راہ سے دُور رہنے والے بھی.اور وہ ایک دوسرے کو اپنی باتیں سنائیں گے.ا کئی بسط کی حالت میں ہوں گے اور کمزوروں کو اپنی باتیں سنا کر چست اور ہوشیار بنادیں گے اور کئی اپنی قبض کی حالت میں ہوں گے وہ کمزوروں کو ملیں گے اور جس طرح گنڈی مچھلی کو اپنی طرف کھینچ لیتی ہے ان کو اپنی طرف کھینچ لیں گے.پس یہ موقع بہت دعاؤں کا اور بہت ہے

Page 773

خطبات محج محمود 773 $1944 گریہ و زاری کا ہے.قادیان کے دوست بھی دعائیں کرتے رہیں اور باہر سے آنے والے بھی دعاؤں میں لگے رہیں کہ اللہ تعالیٰ سب کو اس اجتماع کی برکات سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانے کی توفیق دے اور ابتلاؤں اور ٹھوکروں سے بچائے.قادیان والے بھی دعائیں کریں کہ اللہ تعالیٰ باہر سے آنے والوں کے ایمان اور تقوی کو اِس اجتماع کے نتیجہ میں بڑھائے اور ٹھوکروں اور ابتلاؤں کا شکار ہونے سے بچائے اور اللہ تعالیٰ انہیں باہر سے آنے والوں کے لیے ہے ٹھوکر کا موجب نہ کرے کہ وہ بد قسمت جو کسی کے لیے روحانیت میں ترقی کا باعث بننے کی بجائے اور کسی کو نیکی کی طرف لانے کی بجائے اُس کے لیے ٹھو کر اور ابتلاء کا موجب بنتا ہے اس میں سے زیادہ اللہ تعالیٰ کی درگاہ سے راندہ ہوا کوئی نہیں ہوتا.یہ جمعہ ہمارے سالانہ جلسہ سے پہلے آخری جمعہ ہے اِس لیے میں باہر کی جماعتوں کو بھی اور قادیان کی جماعت کو بھی اس طرف توجہ دلاتا ہوں کہ وہ باقی ماندہ ایام اور جلسہ کے ایام کو بھی اور اس کے بعد کے چند ایام کو بھی خصوصیت کے ساتھ دعاؤں میں گزاریں اور اپنی اور اپنے بھائیوں کی اصلاح کے لیے دعائیں کریں، سلسلہ کے کاموں کی کامیابی کے لیے بھی دعائیں کریں اور یہ بھی دعائیں کریں کہ اللہ تعالیٰ اِس اجتماع کو اُن کے لیے بھی اور سلسلہ کے لیے بھی زیادہ سے زیادہ برکات کا موجب بنائے.اُن کے لیے بھی اور اُن کے رشتہ داروں، دوستوں بلکہ ساری دنیا کے لیے برکات کا موجب بنائے.اُن کا آنا بھی برکت کا موجب ہو اور اُن کا جانا بھی برکت کا موجب ہو.یہاں بھی اور یہاں سے جانے کے بعد بھی آئندہ جلسہ تک اُن کی روح اس برکت کو اور اُن کے قلوب ایمان کی حرارت کو محسوس کرتے رہیں.اور یہ جلسہ اُن کے اندر کوئی ایسا نقص نہ رہنے دے جو غفلت، سستی اور تباہی کا سامان پیدا کرنے کا (الفضل 25 دسمبر 1944ء) موجب ہو سکے.امین".1 : تذکرہ صفحہ 660 ایڈیشن چہارم 2 : النبأ: 12،11 3 :ابوداؤدکتاب الوتر باب فی الاستغفار میں "مِائَةَ مَرَّةٍ" کے الفاظ ہیں.

Page 774

$1944 774 46 خطبات محمود جلسہ سالانہ کے موقع پر مخالفین کی نہایت گندی اور غلیظ گالیاں اور حکام کی فرض ناشناسی فرموده 29 دسمبر 1944ء بمقام قادیان) تشہد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: "چونکہ شام کی گاڑی سے بہت سے مہمانوں نے جانا ہے اور انہوں نے ابھی تیاری وغیرہ کرنی ہے ، کارکنوں نے بھی کھانا وغیرہ تیار کرانا ہے اس لیے میں جمعہ کے ساتھ ہی عصر کی نماز بھی جمع کر کے پڑھاؤں گا.یہاں سے خطبہ پڑھنے کے بعد میں مسجد نور میں جاؤں گا اور وہاں جاکر نماز پڑھاؤں گا.مکمترین احتیاط سے تکبیریں کہیں تا کہ نماز پڑھنے والوں کی نماز میں ہے خرابی پیدا نہ ہو.ایک آدمی مستورات کی طرف بھی تکبیر کے لیے مقرر کر دیا جائے تاکہ تکبیروں کے ساتھ نماز کی اتباع میں سہولت پید اہو.اللہ تعالی کے فضل و کرم سے ہمارا جلسہ سالانہ کثیر و خوبی ختم ہو چکا ہے.لیکن اس می دفعہ ایک ایسی بات پیدا ہو گئی ہے جس سے بعض طبائع میں بہت جوش پیدا ہوا ہے.اور وہ بات یہ ہے کہ مخالفین کی طرف سے غلیظ گالیاں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو دی گئی ہیں

Page 775

$1944 775 خطبات محمود اور لاؤڈ سپیکر لگا کر دی گئی ہیں.اور اس کی وجہ سے بعض احمدی جن کے کانوں میں وہ گالیاں پڑی ہیں نہایت ہی جوش میں آگئے اور دوسرے نمبروں کو انہیں دبا کر رکھنا پڑا.اس کی ہے ذمہ داری گورنمنٹ پر ہے.میں حیران ہوں کہ یہ کس طرح کی دوغلی پالیسی ہے کہ باہر تو مثلاً امرتسر میں ہماری جماعت کو پر امن جلسہ کرنے اور باجازت جلسہ کرنے سے روکا گیا جو کسی دوسرے کے جلسہ میں رخنہ انداز نہیں تھا اور آئندہ کے لیے ڈی سی نے کہا ہے کہ میں احمدیوں کا جلسہ غیر معین وقت تک نہیں ہونے دوں گا.مگر اس جگہ جہاں عین ہمارے سالانہ جلسہ کے ایام میں دشمن کے جلسہ میں ہمیں غلیظ گالیاں دی گئیں اس کو گورنمنٹ نہیں روکتی.قادیان ہمارا مذہبی مرکز ہے اور قادیان میں ہمارا سالانہ اجتماع عبادت کا رنگ اپنے اندر رکھتا ہے جو اللہ تعالی کے خاص منشاء سے قائم ہوا اور 53 سال سے ہو رہا ہے.عین اس اجتماع کے موقع پر گورنمنٹ کی طرف سے ہمارے مخالفین کو اجازت دی جاتی ہے کہ وہ جلسہ کریں اور لاؤڈ سپیکر لگا کر ہمیں گندی گالیاں نے دیں اور حکام خاموشی سے یہ سب کچھ سنتے رہیں اور اس پر کوئی اقدام نہ کریں.میرے نزدیک ایک وحشی اور غیر مہذب گورنمنٹ کے سوا اس حرکت کی اجازت کوئی نہیں دے سکتا.اس میں لیے گورنمنٹ کو چاہیے کہ اُن حکام کے خلاف کارروائی کرے جنہوں نے اس قسم کی صورت حالات پیدا ہونے کی اجازت دی ہے.میں نہیں جانتا کہ اس متضاد پالیسی کی ذمہ داری ہے انگریز افسران پر ہے یا وزراء پر جو کہ اکثر صوبوں میں تقریروں وغیرہ میں تو بہت کچھ کہتے رہتے ہیں لیکن اندرونی طور پر مستقل حکام کی مرضی پر چلتے ہیں.میں نہیں سمجھ سکتا کہ احرار کو جو شورش پیدا کرنے کی جرآت از سر نو ہو رہی ہے یہ پالیسی وزراء کی ہے یا مستقل حکام کی.بہر حال یہ فعل نہایت ناپسندیدہ ہے اور دنیا کا ہر عظمند اور شریف انسان اس فعل کو ناجائز قرار دے گا اور اس قسم کی رعایت کو بزدلی یا اخلاق کی کمزوری کا نتیجہ سمجھے گا.ہم لوگوں نے اللہ تعالیٰ کے فضل کے ماتحت صبر اور حوصلہ کی تعلیم پائی ہے اور اس کے مطابق خدا تعالی نے عمل کرنے کی تم بھی توفیق بخشی ہے.لیکن ہمارا خدا اس بات کو خوب دیکھ رہا ہے.یقیناًوہ افسر جن کی نرمی اور خاموشی اس صورتِ حالات کی ذمہ دار ہے خواہ وزارت سے تعلق رکھتے ہوں یا مستقل حکام سے

Page 776

$1944 776 خطبات محمود تعلق رکھتے ہوں خدا تعالیٰ کے سامنے جواب دہ ہیں.اور خدا تعالیٰ کے سوا سب بادشاہ، ئیں، وزیر ، گورنر اور ماتحت افسر اُسی طرح جواب دہ ہیں جس طرح کہ معمولی آدمی.جب خد اتعالیٰ نے اُن کو اعلیٰ مقام پر کھڑا کیا ہے تو ان کے لیے ضروری ہے کہ انصاف کریں.اور اگر وہ انصاف نہیں کریں گے تو ہم تو پھر بھی اس پر صبر کریں گے مگر ہمارا خد اصبر نہیں کرے گا اور یقینا کسی نہ کسی رنگ میں وہ لوگ جو اس صورت حالات کے ذمہ دار ہیں اس کی سزا خد اتعالیٰ ہے کی طرف سے بھگتیں گے.جو حاکم یہ خیال کرتا ہے کہ چونکہ میں حاکم ہوں مجھے کوئی کچھ نہیں کر سکتا و نیوی نقطہ نگاہ سے خواہ صحیح ہو دینی نقطہ نگاہ سے ہر گز صحیح نہیں ہو سکتا.خدا تعالی کا پکڑنا ایسے رنگ میں ہوتا ہے کہ اُس میں انسان کا دخل ہی نہیں ہوتا.پس میں حکام بالا کو ان کے فرائض کی طرف توجہ دلاتا ہوں.اُن کا فرض ہے کہ وہ مجسٹریٹ یا پولیس کے افسر جو اس صورت حالات کے ذمہ دار ہیں اُن کو سزا دیں اور آئندہ کے لیے اس قسم کی شرارت کا ازالہ کریں.جب سر ایمرسن جو پنجاب کے گورنر تھے اُن کے زمانہ میں احمدیت کی مخالفت شروع ہوئی تھی.کچھ عرصہ کے بعد جب وہ اپنی ٹرم (Term) پوری کر کے ریٹائر ہونے والے تھے تو ہوم گورنمنٹ نے اُن کی مدت کو اور بڑھا دیا تھا.جماعت کی طرف سے مجھے خطوط آئے کہ تو ظلم ہے ایسا نہیں ہونا چاہیے تھا.میں نے اُن کو لکھا کہ میں نے تو سر ایمرسن کو مبارکباد دی ہے اس لیے کہ میرے ساتھ گورنمنٹ کا مقابلہ نہیں.اس کا مقابلہ تو خدا تعالیٰ سے ہے.پس اگر ان کی میعاد میں توسیع ہو گئی ہے تو اس میں بھی خدا کی کوئی حکمت ہو گی اِس میں گھبرانے کی کونسی بات ہے.خدا کی قدرت گورنمنٹ نے اُن کی میعاد میں توسیع کر دی.مگر کچھ ہی دیر بعد وہ بیماری کی چھٹی لے کر ولایت چلے گئے.ڈاکٹروں نے انہیں کہہ دیا کہ آپ قطعی طور پر کام میں کرنے کے قابل نہیں، آپ کام سے فارغ ہو جائیں، آپ کا آپریشن ہو گا.چنانچہ وہ مستعفی ہوتی گئے اور ڈاکٹری رائے کے مطابق چند ہفتے آرام کرتے رہے.اس کے بعد جب وہ ڈاکٹروں کے پاس آپریشن کے لیے آئے تو ڈاکٹروں نے کہا کہ آپ تو اچھے بھلے ہیں، خبر نہیں ہم نے اُس نے وقت کس طرح یہ کہہ دیا تھا کہ آپ کام کے قابل نہیں.دیکھو کہ بغیر اس کے کہ ہم ایک لفظ بھی کہتے خدا تعالیٰ نے خود ہی ہماری طرف سے جواب دے دیا.پس جماعت کو صبر کرنا چاہیے

Page 777

خطبات محمود 777 $1944 اور جوش میں ہر گز نہیں آنا چاہیے.یہ خدا تعالیٰ کا کام ہے اور وہی اِس کا ذمہ دار ہے.ہمیں خدا تعالیٰ نے حاکم نہیں بنایا کہ ہم ایسی شرارتوں کا علاج کریں.جن کو حاکم بنایا ہے وہ ذمہ دار ہیں.اور اگر وہ رعایت کریں گے تو جس خدا نے انہیں حاکم بنایا ہے وہ خدا ان سے پوچھے گا.پھر یہ بھی سوچو کہ کونسا نبی ہے جس کو گالیاں نہیں دی گئیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو گالیاں دی گئیں.ایک یہودی شاعر تھا جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے متعلق شعروں میں کہا کرتا تھا نَعُوذُ باللہ آپ کے خاندان کی فلاں عورت سے میرے ایسے ایسے تعلقات ہیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور صحابہ ایسے گند سُنتے تھے اور اُن کو صبر سے برداشت کرتے تھے.پس اگر ایسی ہی گالیاں ہمیں دی جائیں تو ہمارے جوش میں آنے کی کیا معقول وجہ ہو سکتی ہے.آخر ہماری عزت رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عزت سے زیادہ تو نہیں.پس اگر اس قسم کی گالیاں سُن کر کسی کو غصہ آتا ہے تو میں یہ نہیں سمجھوں گا کہ وہ شخص بڑا غیرت مند ہے بلکہ میں اس کے معنے یہ سمجھوں گا کہ وہ کمزور ہے اور اُس کے اندر قوت برداشت نہیں.پس صبر سے کام لو اور اس بات کو خوب یاد رکھو کہ ہمیں خدا تعالیٰ کے سامنے ہی اپنی فریاد پہنچانی ہے.دنیا کے قانون میں تو ایک کانسٹیبل چاہے اُس کا ایک بڑے سے بڑے عالم سے مقابلہ ہو، بڑے سے بڑے تاجر کے ساتھ اُس کا مقابلہ ہو، بڑے سے بڑے صناع کے ساتھ اُس کا مقابلہ ہو، بڑے سے بڑے موجد کے ساتھ اُس کا مقابلہ ہو اور چاہے کانسٹیبل نے ظلم ہی کیا ہو گور نمنٹ یہی کہے گی کہ ایک سرکاری آدمی کو اس کی ذمہ داری سے روکا گیا ہے.لیکن خدا کی گرفت سے کانسٹیبل ہی نہیں بلکہ بڑے سے بڑا بادشاہ بھی نہیں بچ سکتا.پس تم خدا تعالیٰ کے سامنے اپنی التجا پیش کرو.چنانچہ میں یہ تجویز کرتا ہوں کہ یکم جنوری 1945ء سے چالیس دن تک ہماری جماعت کے دوست متواتر اور باقاعدہ اللهُمَّ إِنَّا نَجْعَلُكَ فِي نُحُوْرِهِمْ وَنَعُوْذُبِكَ مِنْ شُرُوْرِهِمْ کی دعا عشاء کی آخری رکعت میں پڑھا کریں.اِس دعا کے معنے یہ ہیں کہ اے خدا! ہم پر دشمن حملہ آور ہوا ہے ہمارے پاس تو مقابلہ کی طاقت نہیں اس لیے ہم دشمن کے مقابلہ میں تجھے پیش کرتے ہیں.تو ہی اُن کے حملہ کا جواب دے.وَنَعُوذُبِكَ مِنْ شُرُوْرِهِمْ ہمیں تباہ کرنے کے لیے دشمن جو شرارت کرتا ہے

Page 778

خطبات محمود 778 $1944 اُس کے بد اثرات سے ہمیں بچا.یہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا ہے.احرار کے فتنہ کے زمانہ میں ہم نے یہ دعا کی اور اسی دعا کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے احرار کو کچل کر رکھ دیا.اب دشمن پھر سر نکال رہا ہے.ہمیں چاہیے کہ ہم اللہ تعالی کے حضور باقاعدگی سے دعا مانگیں.اگر خدا تعالیٰ چاہے گا تو دشمن کو تباہ کر دے گا اور اگر خدا تعالیٰ اُس کو ڈھیل دے گا تو پھر اسی میں دین کا فائدہ ہو گا.اور ہمارا فائدہ اسی بات میں ہے جس میں دین کا فائدہ ہو.پس میں جماعت کو کسی اور بات کی اجازت نہیں دے سکتا.صرف اس بات کی اجازت دیتا ہوں بلکہ تحریک کر تا ہوں کہ یکم جنوری 1945 ء سے متواتر چالیس دن تک الله ی إِنَّا نَجْعَلُكَ فِي نُحُوْرِهِمْ وَنَعُوْذُبِكَ مِنْ شُرُورِ ھیم کی دعا مانگیں کہ اے خدا! حاکموں میں یارعایا میں سے ، غیر مسلموں میں سے یا مسلمان کہلانے والوں میں سے جو بھی ہمارے خلاف قدم اُٹھاتا ہے اور ہم پر حملہ آور ہوتا ہے ہماری طرف سے تو ہی اُس کا مقابلہ کر اور اُن کی شرارتوں سے ہمیں محفوظ رکھ.پس یہ طریقہ ہے اور یہی ہتھیار ہے جو دوسرے تمام ہتھیاروں سے مفید ہے.صبر و برداشت سے کام نہ لینا اور گالی کا جواب گالی سے دینا یہ اچھا ہتھیار نہیں.اور خداتعالی مذہبی جماعت سے اس کی امید نہیں کرتا.خدا تعالیٰ ہمیشہ نبیوں کی جماعت کو صبر کا دیتا ہے کہ صبر کرو گے تو کامیابی ملے گی.فرماتا ہے اِنَّ اللهَ مَعَ الصَّابِرِينَ 2 کہ الله تعالى صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے.پس جبکہ ساری دنیا سے ہماری لڑائی ہے اور دشمن ہمیں برا بھلا ہے کہتا ہے اگر ہم صبر کرنے والے نہ ہوں تو ہم وہ نہ ہوں گے جن کے ساتھ خد ا ہو تا ہے.اور جن کے ساتھ خدا نہ ہو اُن سے بڑھ کر بد قسمت اور کون ہو گا.پس صبر کرو اور صبر کرو اور صبر کرو اور دعائیں کرو اور دعائیں کرو اور دعائیں کرو.تمہارے لیے تو گھبرانے کی کوئی بات ہی نہیں.جب بچہ ماں کی گود میں نہیں گھبراتا تو تم خدا کی گود میں ہوتے ہوئے کیونکر گھبر ا سکتے ہو؟" (الفضل 30 دسمبر 1944ء) 1 : ابوداؤ دكتاب الصلوة باب ما يقول اذا خاف قوما 2 :البقرة: 154

Page 778