Khutbat-eMahmud V22

Khutbat-eMahmud V22

خطبات محمود (جلد 22)

خطبات جمعہ ۱۹۴۱ء
Author: Hazrat Mirza Bashir-ud-Din Mahmud Ahmad

Language: UR

UR
Miscellaneous

حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے خطبات علوم و معارف کا ایک انمول خزانہ ہیں اور پیش گوئی کے الہامی الفاظ ’’وہ علوم ظاہری و باطنی سے پُر کیاجائے گا‘‘ پر شاہدناطق ہیں۔ آپؓ کا دور خلافت نصف صدی سے زیادہ عرصہ پر محیط ہے جو ایک تاریخ ساز دور تھا۔ اس نہایت کامیاب اور طویل دور میں آپؓ نے اپنے خطبات جمعہ کے ذریعہ جماعت کی تعلیم و تربیت میں نہایت اہم کردار ادا کیا۔ سیاسی، سماجی اور مذہبی افقوں پر نمودار ہونےوالے ہر معاملے پر بروقت اور درست رہنمائی عطافرمائی۔ الغرض یہ خطبات جمعہ جماعت احمدیہ کا ایک بہت ہی قیمتی خزانہ اور سرمایہ ہیں۔ جسے فاؤنڈیشن نے یکجا کرکے کتابی شکل دی ہے۔


Book Content

Page 1

* 1941 1 1 خطبات محمود جلسہ سالانہ کے اختتام پر اظہار تشکر، وعدہ جات تحریک جدید بھجوانے اور غیر مبائعین کو تبلیغ کی تحریک (فرمودہ 3 جنوری 1941ء) تشہد، تعوذ اور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:.“سب سے پہلے تو میں اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتا ہوں کہ اس نے باوجود اس کے کہ میری طبیعت جلسہ سے قبل بیماری اور کام کی زیادتی کی وجہ سے بہت حد ضعیف تھی اور میں اپنے نفس میں سمجھتا تھا کہ غالباً میں جلسہ کے موقع پر اس تک بھی تقریریں نہ کر سکوں گا جس حد تک کہ پہلے کیا کرتا تھا اور دوسرے کاموں میں بھی غالباً کمی کرنی پڑے گی.مگر اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ کسی کام میں کوئی کمی نہیں کرنی پڑی بلکہ پہلے جلسوں کے بعد میں جس قدر کوفت محسوس کیا کرتا تھا اس سال اس سے بہت کم کوفت محسوس ہوئی ہے اور یوں معلوم ہوتا ہے کہ گویا جلسہ آیا ہی نہیں بلکہ کئی لحاظ سے میں اس وقت اپنی طبیعت کو جلسہ سے پہلے کی نسبت بہت بہتر پاتا ہوں.گویا ایک قسم کا علاج ہو گیا.بے شک جلسہ کے بعد کھانسی ضرور ہوئی ہے مگر یہ کھانسی حلق کی معلوم ہوتی ہے اور اس کھانسی سے ضعف نہیں ہوتا.اور پھر پہلے سالوں کی نسبت اس سال کھانسی میں بھی کمی رہی ہے.گو دو چار روز قبل

Page 2

$1941 2 خطبات محمود کھانسی کچھ زیادہ تھی مگر کل قریب نہیں اٹھی.آج کچھ کچھ اٹھ رہی ہے.مگر اس دفعہ کا حملہ اس کے مقابلہ میں کچھ نہیں جو پہلے سالوں میں جلسہ کے بعد ہوا کرتا تھا.پہلے تو جلسہ کے بعد ایسی شدید کھانسی ہو ا کرتی تھی کہ مجھے رات کے ایک ایک دو دو بجے تک بستر میں بیٹھ کر وقت گزارنا پڑتا تھا اور نیند نہیں آتی تھی.اس سال گو صبح شروع ہوتی ہے مگر دس بجے تک ہٹ جاتی ہے اور پھر شام کو کچھ شروع ہو کر سونے کے وقت تک رک جاتی ہے.اس کے علاوہ سردی لگنے کی وجہ سے متلی کی بھی کچھ شکایت ہوئی اور جگر کی خرابی کا کچھ دورہ ہوا.مگر مجموعی لحاظ سے اور توقع کے بالکل خلاف میری طبیعت بہت اچھی رہی ہے اور اللہ تعالیٰ نے ایسی نصرت کی ہے کہ کام بھی ہو گیا اور طبیعت میں بھی کوئی خرابی نہیں ہوئی.بلکہ طبیعت پہلے کی نسبت اچھی ہے.اس میں کچھ دخل ایک اور بات کا بھی ہے مگر وہ بھی خدا تعالیٰ کا فضل ہی ہے اور وہ یہ کہ میں ہمیشہ عام طور پر جلسہ کی تقریروں کے نوٹ دوران جلسہ میں لیا کرتا ہوں.چونکہ فرصت نہیں ہوتی اس لئے میرا قاعدہ ہے کہ سفید کاغذ تہہ کر کے جیب میں رکھ لیا کرتا ہوں اور دوسرے کاموں کے دوران جو وقت مل جائے اس میں کاغذ نکال کر نوٹ کرتا رہتا ہوں.مثلاً ڈاک دیکھ رہا ہوں دفتر والے کاغذات پیش کرنے کے لئے لانے گئے اور اس دوران میں نوٹ کرنے لگ گیا یا نماز کے لئے تیاری کی، سنتیں پڑھیں اور جماعت تک جتنا وقت ملا اس میں نوٹ کرتا رہا.اس طرح میں یہ تیاری پندرہ سولہ دسمبر سے شروع کر دیتا تھا اور قریباً 22، 23 دسمبر تک کرتا رہتا اور اس کے بعد دوسرے کاموں سے فراغت حاصل کر کے نوٹوں کی تیاری میں لگ جاتا.لیکن ان کو درست کر کے لکھنے کا کام میں بالعموم 27، 28 کو کرتا تھا اور اس کے لئے وقت انہی تاریخوں میں ملتا تھا.اس وجہ سے طبیعت میں کچھ فکر بھی رہتا تھا کہ صاف کر کے لکھ بھی سکوں گا یا نہیں.لیکن اس دفعہ قرآن کریم کی تفسیر کا کام رہا اور اس کے لئے وقت نہ تھا.22 کی شام کو ہم تفسیر کے کام سے فارغ ہوئے.23 کو بعض اور کام کرنے تھے وہ کئے.24 کی شام کونوٹوں کا کام شروع کیا اور فکر تھا کہ یہ کس طرح کروں گا مگر اللہ تعالیٰ کا ایسا فضل ہوا کہ نوٹوں کی

Page 3

$1941 3 خطبات محمود گی مہر تیاری میں بہت آسانی ہو گئی.حوالے وغیرہ بہت جلد جلد ملتے گئے اور 25 کی شام کو تینوں لیکچروں کے نوٹوں سے میں فارغ ہو چکا تھا.یہ بھی ایک وجہ ہے کہ مجھے زیادہ کوفت نہیں ہوئی کیونکہ زیادہ محنت نہ کرنی پڑی.اگر مضمون پیچیدہ ہو جاتا تو مجھے زیادہ محنت کرنی پڑتی اور پھر بوجھ بھی زیادہ محسوس ہوتا اور تکلیف ہوتی مگر اللہ تعالیٰ نے اس سے بچا لیا.اس کے بعد میں احباب کو تحریک جدید کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں.گو اس بات سے زیادہ تر فائدہ قادیان کے دوستوں کو ہی پہنچ سکے گا کیونکہ یہ بات ان تک آج ہی پہنچ جائے گی.میں نے تحریک جدید کے وعدوں کے لئے آخری تاریخ 7 جنوری 1941ء مقرر کی تھی.آج 3 ہے اور اس لحاظ سے صرف چار روز باقی ہیں اور اس تنگ وقت میں یہ بات بیرونی جماعتوں کو پہنچنی مشکل ہے.بیرونی جماعتوں کے لئے حسب قاعدہ سابق 8 جنوری کی تاریخ آخری ہے یعنی جن خطوط پر 8 جنوری کی وہ وعدے میعاد کے اندر سمجھے جائیں گے.آخری تاریخ تو سات ہے مگر سات کی شام کو چونکہ ڈاک نہیں نکل سکتی.اس لئے 8 کی مہر والے خطوط میعاد کے اندر سمجھے جائیں گے.اس دفعہ میں نے چونکہ میعاد بہت کم مقرر کی تھی اس لئے جو لوگ پوری طرح کام نہیں کر سکے اور جلسہ کی وجہ سے ان کو موقع بھی کم مل سکا ہے.دس دن تو کم سے کم جلسے میں چلے گئے.اس لئے ایسے لوگوں کے لئے میں اس میعاد میں توسیع نہیں کرتا البتہ جن کے لئے مجبوریاں تھیں ان کے لئے 17 جنوری دوسری میعاد مقرر کرتا ہوں.یہ میعاد قادیان کے لوگوں کے لئے نہیں کیونکہ ان کے حالات دوسروں سے مختلف ہیں.یہاں کے دوستوں کو اگر جلسہ میں کام کرنا پڑا ہے تو معا بعد ان کے لئے فراغت بھی ہو گئی.انہوں نے کہیں آنا جانا نہ تھا یہیں کام شروع کرنا تھا اور یہیں ختم کر دینا تھا.پس یہ دوسری میعاد قادیان اور قادیان کے ارد گرد یعنی جو جماعتیں جماعت قادیان کے تابع ہیں کے لئے نہیں.ان کے لئے میعاد 8 جنوری کو ختم ہو جائے گی باہر کی جن جماعتوں کے لئے مشکلات تھیں اور جلسہ کی وجہ سے یا

Page 4

$1941 4 خطبات محمود اور وجوہ سے جن کے لئے مجبوری تھی ان کے لئے میں پہلی میعاد کو تو لمبا نہیں کرتا البتہ دوسری میعاد مقرر کر دیتا ہوں.جو دوست اپنے خطوط 18 کو ڈاک میں ڈال دیں گے ان کے وعدے میعاد کے اندر سمجھے جائیں گے.ہندوستان سے باہر کی جماعتوں کے لئے حسب دستور سابق وعدوں کی آخری تاریخ آخر مارچ تک اور یونائیٹڈ سٹیٹس آف امریکہ یا امریکہ کے دوسرے ملکوں کے لئے اگر وہاں کوئی احمدی ہوں تو یہ میعاد جون تک ہے.ہے میعاد کو مختصر کرنے کی وجہ سے دوستوں نے چستی سے کام کیا ہے مگر ابھی بہت بڑی مقدار وعدوں کی باقی ہے اور دوستوں کو چاہئے کہ باقی دنوں میں اس کمی کو پورا کریں تا یہ سال پہلے سالوں کی نسبت بہتر رہے اور ان سے پیچھے نہ رہے.اس کے بعد میں یہ اطلاع دینا چاہتا ہوں کہ تفسیر کبیر کی1730 جلدیں بک چکی ہیں اور 280 کے وعدے ہو چکے ہیں اور اس طرح گویا اگر یہ وعدے ے ہو جائیں تو دو ہزار دس جلدیں فروخت ہو جائیں گی اور قریباً ایک ہزار باقی ہ جائیں گی اور ابھی بعض بڑی بڑی جماعتیں باقی ہیں جنہوں نے اپنی ذمہ داری کو ادا کرنا ہے.انہوں نے ابھی خود خریدنا ہے اور دوسروں کے پاس بھی فروخت مثلاً لاہور، امرتسر، گجرات، راولپنڈی، جہلم، پشاور، ڈیرہ اسماعیل خاں، ہے.کراچی، بمبئی، مدراس، کلکتہ، بھاگلپور، پٹنہ، لکھنؤ وغیرہ کی جماعتیں ہیں.پھر یو.پی کی اکثر جماعتیں ہیں، حیدر آباد اور سکندرآباد کی جماعتیں ہیں، پھر ہندوستان سے باہر کی جماعتیں ہیں اور یہ سب کوشش کریں تو بالکل معمولی کوشش سے چار پانچ ہزار جلدیں فروخت ہو سکتی ہیں.میں سمجھتا ہوں اگر صرف لاہور کی جماعت ہی محنت سے کام کرے تو وہاں ہزار دو ہزار جلدیں ضرور لگ سکتی ہیں.مگر یہ دیکھتے ہوئے کہ ساری جماعت پوری طرح کام نہیں کرتی اگر لاہور کی جماعت احمدیوں میں اور دوسروں میں ملا کر پانسو نسخے بھی چونکہ یہ خطبہ آٹھ دن تک شائع نہیں ہو سکا.اب یہ میعاد 31 جنوری 1941 ء تک بڑھائی جاتی ہے.امید ہے کہ اس عرصہ تک سب دوست اور جماعتیں اپنے وعدے دفتر میں بھجوا دیں گے.منہ کرنا

Page 5

$1941 5 خطبات محمود لگوادے تو سمجھا جا سکتا ہے کہ اس نے کم سے کم ذمہ داری ادا کر دی ہے.حیدر آباد اور سکندر آباد وغیرہ میں امراء کی کثرت اور جماعت کے مخلصین کی حالت کو دیکھ کر میں سمجھتا ہوں پانسو سے کم وہاں نہیں فروخت ہونی چاہئیں.اور اس طرح ایک ہزار جلدیں تو انہی دو جگہوں میں فروخت ہو جانی چاہئیں.پھر ہندوستان سے باہر بھی کم سے کم پانسو لگنی چاہئیں اور اگر ساری جماعت پوری ذمہ داری کے ساتھ کام کرے تو اس کے دس ہزار نسخے فروخت ہو جانے چاہئیں.سر دست صرف ایک ہزار نسخے باقی ہیں اس لئے جماعتیں اگر جلدی نہ کریں گی تو انہیں بالکل محروم رہنا پڑے گا اس لئے دوستوں کو اس طرف جلد توجہ کرنی چاہئے اور اپنے اپنے علاقوں میں اس کی اشاعت کرنی چاہئے تا آئندہ کے لئے وہاں قرآن کریم کا بیج بو دیا جائے.اگر انہوں نے جلدی نہ کی تو پھر دوسرے ایڈیشن تک انتظار کرنا پڑے گا جو پہلے کے ختم ہونے پر ہی شائع ہو سکتا ہے اور اس لئے ممکن ہے سال دو سال بعد شائع ہو سکے اور اتنا لمبا وقفہ پڑ جانے سے اپنے دل پر بھی زنگ لگ جاتا ہے اور دوسروں کا جوش بھی ٹھنڈا پڑ جاتا ہے.بعض دوستوں نے تفسیر کی مفت اشاعت کے لئے قیمتیں دی ہیں.ایک دوست نے سو جلدوں کی، ایک نے ہیں کی اور ایک نے گیارہ کی قیمت دی ہے.مجھے صرف انہی تین کا ہے.ہم نے ان کی قیمتیں شکریہ کے ساتھ لے لی ہیں مگر میں اس بات کو پسند نہیں کرتا کہ ایک ہی آدمی ڈیڑھ دو سو جلدوں کی قیمت دے دے اور اس طرح مخلصین اپنے اوپر چار چار پانچ پانچ سو کا بوجھ ڈال لیں بلکہ میں یہ پسند کرتا ہوں کہ دوسروں میں کتب فروخت کی جائیں ، دوسروں کو مفت دے دینے سے اپنے اوپر تو بوجھ پڑ جاتا ہے مگر فائدہ نہیں ہوتا.ایسے لوگ جن کو مفت دے دی جائے ان میں سے نوے فیصدی اسے کھول کر بھی نہ دیکھیں گے لیکن جو شخص پانچ چھ روپیہ خرچ کرے گا وہ اسے پڑھے گا بھی.پس جن دوستوں نے رقوم دی ہیں ان کو ہم نے لے لیا ہے مگر میں یہ نہیں سمجھتا کہ انہوں نے اپنی ذمہ داری کو ادا کر دیا ہے.یہ ان کی طرف سے زائد نیکی ہے اور نفل ہے.ان کی ذمہ داری ابھی باقی ہے جو انہیں ادا کرنی چاہئے اور

Page 6

* 1941 6 خطبات محمود خریدار پیدا کرنے سے ہی ادا ہو سکتی ہے.جلسہ سے قبل مجھے یہ رپورٹ ملی تھی کہ قادیان کے لوگوں نے اپنی ذمہ داری کو اس بارہ میں ادا نہیں کیا.یہاں سینکڑوں نسخے لگنے چاہئیں تھے کیونکہ یہاں تعلیم زیادہ ہے اور لوگوں میں قرآن کریم کو سمجھنے کی اہلیت زیادہ ہے.مگر ابھی یہاں کے دوستوں نے اس طرف توجہ نہیں کی انہیں جلد سے جلد اپنے فرض کو ادا کرنا چاہئے.اس کے بعد میں نئے سال کے متعلق دوستوں کو توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ اس سال انہیں خصوصیت کے ساتھ پیغامیوں میں تبلیغ کرنی چاہئے.میں نے پچھلے سال بھی اس کے متعلق تحریک کی تھی مگر وہ دورانِ سال تھی اور گو بعض دوستوں نے اس طرف توجہ کی مگر ایسا اچھا کام نہیں ہوا.بعض دوستوں نے نئے نئے مضامین لکھے ، بعض نے تبلیغ کی اور ان میں سے بعض نے بیعت بھی کی مگر ان کی تعداد بہت کم تھی.میرا اندازہ ہے کہ زیادہ سے زیادہ دس بارہ بیعت میں شامل ہوئے ہیں اور گو پیغامیوں کی تعداد بھی تین چار ہزار ہی ہے اور اسی لحاظ سے ان میں سے احمدی ہو سکتے ہیں.مگر میرے نزدیک یہ تعداد کافی نہیں ہے اور اگر ہم پوری طرح ان پر ٹوٹ پڑیں اور سارا زور لگا کر تبلیغ کریں تو جلد از جلد کامیابی ہو سکتی ہے.ان میں ایک طبقہ تو ایسا ہے جو بہت بگڑ چکا ہے اور اس کی حالت ایسی ہے اب میرے نزدیک ان کی اصلاح ناممکن ہے انہوں نے اپنے دل کو بہت گندہ کر لیا ہے.اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں پر انہی کے دلوں کے تیار کردہ تالے لگا دیئے ہیں.انہوں نے سچائی کو قبول کرنے سے ایسا اعراض کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل نے بھی ان سے منہ موڑ لیا ہے اور جب تک ان کے اندر نئی تبدیلی نہ پیدا ہو، نئے سلمان ان کی ہدایت کے پیدا نہ ہوں ان کو ہدایت نہیں ہو سکتی.لیکن ایک طبقہ ان میں ایسا بھی ہے جو واقعی دل میں اپنے آپ کو ہدایت پر کو ہدایت پر سمجھتا ہے اور صداقت سمجھ کر اسے اختیار کئے ہوئے ہے.یہ طبقہ خود بھی گمراہ ہے اور دوسروں کو بھی گمراہ کرنے کی کوشش کرتا رہتا ہے.ان لوگوں کا حق ہم پر مقدم ہے اور جماعت کو ان کی ہدایت

Page 7

$1941 7 خطبات محمود.کے لئے کوشش کرنی چاہئے.یہ لوگ احمدی کہلاتے ہیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام کے سارے کلام پر ایمان رکھتے ہیں گو اس کے بعض حصوں کے معنے اور کرتے ہیں.اور دوسروں کی نسبت ہمارے زیادہ قریب ہیں.گو ان کے دلوں میں ہم سے دشمنی ہے مگر وہ اپنے ائمہ کی پیروی میں ہے جن کے دل ہمارے خلاف بغض سے بھرے ہوئے ہیں اور ان کے اس بغض کا پرتو ہی عوام پر پڑتا ہے.ان کے اپنے دل کی یہ کیفیت نہیں اس لئے ان کا زیادہ حق ہے کہ ہم ان ہدایت کے لئے کوشش کریں.پس میں دوستوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ اپنی اپنی جگہ پر جہاں جہاں بھی پیغامی ہوں مثلاً لاہور، سیالکوٹ، راولپنڈی، فیروز پور، پشاور وغیرہ ان سب کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ خصوصیت کے ساتھ ان کی طرف متوجہ ہوں اور اس سال کوشش کریں کہ ان میں سے زیادہ سے زیادہ کو ہدایت نصیب ہو.گزشتہ سالوں میں ان لوگوں نے ہم پر ناواجب طور حملے کئے ہیں.پر انہوں نے ہمارے ایسے دشمنوں کی مدد کی ہے اور ان کو چندے دیئے ہیں جنہوں نے بلا وجہ ہم پر حملے کئے اور ہم پر ناواجب اتہامات لگائے.گو وہ انکار کرتے ہیں کہ ہم نے ان کی مدد نہیں کی مگر ان کے اپنے کئی لوگوں نے اس بات کا اقرار کیا ہے.دراصل ان کا انکار ایسا ہی ہے جیسے بعض پرانے مولویوں نے بعض ناجائز باتوں کو جائز کرنے کے لئے بعض حیلے تراش رکھے ہیں.مثلاً عید کی نماز کے بعد قربانی کا حکم ہے.وہ کہتے ہیں کہ اگر کسی کا دل چاہے کہ نماز سے پہلے اپنی قربانی کا گوشت کھائے تو وہ یوں کر سکتا ہے کہ کسی گاؤں میں جانور لے جا کر ذبح کر لے کیونکہ جہاں عید کی نماز نہ ہوتی ہو وہاں یہ شرط نہیں.عید کی نماز تو شہر میں ہوتی ہے دیہات میں نہیں.پس کسی گاؤں میں جاکر جہاں عید کی نماز نہ ہوتی ہو نماز سے قربانی کر کے اپنے گھر میں لائی جا سکتی ہے.ظاہر ہے کہ یہ اسی صورت میں ہو سکتا ہے جب قربانی کو آدمی چٹی سمجھے.

Page 8

$1941 8 خطبات محمود پیغامیوں کا ہمارے دشمنوں کو مدد دینے سے انکار بھی دراصل اسی قسم کا ہے.وہ حیلے بنا لیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ انجمن کے روپیہ سے ہم نے کوئی مدد نہیں دی.وہ ید، بکر سے چندہ کر کے دے دیتے ہیں.جب مستریوں نے فتنہ انگیزی شروع کی تو اس وقت بھی ان لوگوں نے ان کی مدد کی.مگر ساتھ ہی ساتھ انکار بھی کرتے رہے.لیکن ان کی پارٹی کے بغداد کے سیکرٹری نے ہمیں لکھ کر دیا کہ مجھے اپنے سنٹر سے ان لوگوں کے ٹریکٹ اور اشتہار وغیرہ تقسیم کے لئے آتے رہے ہیں.اب بھی انہوں نے ہمارے مخالفوں کی مدد کی ہے مگر اس سے انکار کرتے ہیں اور انکار سے ان کا مطلب یہ ہے کہ ہم نے انجمن کے روپیہ سے روپیہ سے ان کی مدد نہیں کی مگر کرتے ضرور ہیں اور وہ اس طرح کہ چھوٹی سی جماعت ہے مسجد میں بیٹھے ہوئے چند لوگوں کو تحریک کر دی اور ان سے روپیہ سے روپیہ لے کر دے دیا تو یہ لوگ اس قسم کے حیلے بنا بنا کر ہمارے دشمنوں کو مدد دیتے ہیں جو ہم پر ناواجب حملے کرتے ہیں مگر ہمیں اس کی پرواہ نہیں.ان لوگوں میں سے ایک مالدار خاندان کا ایک فرد مصری صاحب کے فتنہ کے شروع میں یہاں آیا اور اس نے مصری صاحب کو ایک معقول رقم دی کہ ان لوگوں کا خوب مقابلہ کرو ہم تمہاری مدد کرتے رہیں گے.پھر مصری صاحب کے ساتھی مثلاً حکیم عبد العزیز اور عبد الرب پٹھان وغیرہ بھی اس خاندان کے پاس جاتے رہے اور ان سے مدد لیتے رہے.مگر خدا تعالیٰ کی قدرت کہ اسی سال اس خاندان کا ایک نوجوان پھر یہاں آیا اور مجھے کہا کہ ہمیں فلاں بڑا کام مل سکتا ہے آپ ہماری سفارش کر دیں.کوئی اور ہوتا تو ان کو جتاتا اور کہتا کہ تم تو ہماری اس طرح مخالفت کرتے رہے ہو مگر مومن کا بدلہ اور رنگ کا ہوتا ہے اور وہ یہی کہ جو لوگ سالہا سال گالیاں دلواتے رہے وہ ان کے بھلے کا کام کرے.چنانچہ میں نے ان کی سفارش کی اور مجھے خوشی ہے کہ میں نے وہی بدلہ لیا جو محمد صلی اللی علم کی سنت کے مطابق ہے ہمیں ان لوگوں سے کوئی دشمنی نہیں بلکہ خیر خواہی ہے.بے شک وہ دشمنی میں انتہاء.بڑھے ہوئے ہیں مگر اصل دشمنی چند ائمہ کو ہے باقیوں میں ان کی دشمنی کا انعکاس

Page 9

خطبات محمود 9 $1941 ہے.وہ اصل مجرم نہیں ہیں اس لئے ہم ان سے مایوس نہیں.اور اگر پوری توجہ سے تبلیغ میں لگ جائیں تو ضرور ان کو ہدایت ہو سکتی ہے.پس اس سال کے لئے جماعت کا بڑا مقدم کام یہی ہے کہ خصوصیت سے ان لوگوں میں تبلیغ کی جائے.مگر ساتھ ہی یہ بھی خیال رکھیں کہ دوسری تحریکیں نظر انداز نہ ہوں ہماری عمریں بہت گزر چکی ہیں اور تھوڑی باقی ہیں.ہمیں کوشش کرنی چاہئے کہ اپنی زندگیوں میں احمدیت کو کم سے کم ہندوستان میں مضبوط حالت میں قائم شدہ دیکھ سکیں.ہر دن اور ہر رات ہمیں موت سے قریب کرتی جارہی ہے اور صحابیوں کے بعد جنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام کو دیکھا یہ کام تابعین کے ہاتھ میں اور پھر ان کے بعد تبع تابعین کے ہاتھوں میں جائے گا.ہمیں کوشش کرنی چاہئے کہ آئندہ احمدی سمیں ہونے والے جنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام کو نہیں دیکھا وہ یہ تو کہہ کہ ہم نے آپ کے دیکھنے والوں کو دیکھایا یہ کہ آپ کے دیکھنے والوں کے دیکھنے والوں کو دیکھا.پس جن لوگوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو دیکھا ان کی زندگیاں بہت قیمتی ہیں اور جتنا کام وہ کر سکتے ہیں دوسرے نہیں کر سکتے.اس لئے ان کو کوشش کرنی چاہئے کہ مرنے سے قبل احمدیت کو مضبوط کر دیں تا دنیا کو معلوم ہو کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابہ نے ایسی محنت سے کام کیا کہ احمدیت کو دنیا میں پھیلا کر مرے.اگر جماعتیں اس طرف پوری طرح متوجہ ہوں تو چند سال میں ہی دنیا میں تغیر عظیم پیدا ہو سکتا ہے.اس کے بعد میں یہ اعلان کرتا ہوں کہ میں عنقریب تفسیر کبیر کی پہلی جلد کا کام شروع کرنے والا ہوں.احباب دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ہر قسم کی روکوں کو دور کر کے اس کی تکمیل کی توفیق عطا فرمائے اور دنیا کی ہدایت کا موجب بنائے.چونکہ جمعہ کی نماز کے بعد.مہمانوں نے جانا ہے بارش بھی ہو رہی ہے اور نمازیں جمع ہوتی ہیں اس لئے میں اسی پر خطبہ کو ختم کرتا ہوں.” (الفضل 14 جنوری 1941ء)

Page 10

* 1941 10 2 خطبات محمود روحانی جماعتوں کی غیر معمولی ترقی بے سر و سلانی کی حالت میں ہی ہوتی ہے فرمودہ 24 جنوری 1941ء) تشہد، تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:.“روحانی جماعتیں ہمیشہ روحانی اسباب سے فتح پاتی ہیں.ظاہری اسباب ہمیشہ روحانی جماعتوں کو کم میسر آتے ہیں اور ان کا میسر آنا ان جماعتوں کے لئے مفید بھی نہیں ہوتا کیونکہ روحانی جماعتوں کے قیام کی غرض اللہ تعالیٰ کی ہستی کو ظاہر کرنا اور اس لوگوں کے دلوں میں یقین اور ایمان پیدا کرنا ہوتا ہے.اور اگر کوئی قوم ظاہری سامانوں کے ساتھ ترقی کرتی چلی جائے تو اس کی ترقیات کو دیکھ کر اللہ تعالیٰ کی پر ذات پر یقین اور ایمان پیدا نہیں ہو سکتا.اللہ تعالیٰ کی ذات پر اسی وقت یقین ایمان پیدا ہوتا ہے جب ایک جماعت خدا تعالیٰ کے حکم کے ماتحت قائم کی جائے.اس کی ترقیات کی خبر دنیوی سامانوں کے مفقود ہوتے ہوئے بلکہ ان کے خلاف ہوتے ہوئے دی جائے اور پھر باوجود دنیوی سامانوں کے میسر نہ آنے کے وہ برابر ترقی کرتی چلی جائے.سب سے بڑا ذریعہ اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات کو دنیا کے سامنے پیش کرنے کا یہی اختیار فرمایا ہوا ہے اور جب سے کہ حضرت آدم علیہ السلام کو خدا تعالیٰ نے مامور فرمایا اُس وقت سے لے کر آج تک وہ اسی طریق کو اختیار کرتا چلا آیا ہے.www.

Page 11

$1941 11 خطبات محمود دنیوی لوگ اس ذریعہ کو بظاہر بے اثر قرار دیتے ہیں لیکن ان کے یہ دعوے اُسی وقت تک ہوتے ہیں جب تک کہ وہ پیشگوئیاں اس جماعت کے حق میں پوری نہیں جاتیں جس کو اللہ تعالیٰ اس کام کے لئے کھڑا کرتا ہے.جب تک وہ پیشگوئیاں پوری نہیں ہوتیں اور کمال و تمام کو نہیں پہنچ جاتیں اس وقت تک تو ماننے والوں میں سے بھی بعض جو کمزور دل اور کمزور ایمان کے ہوتے ہیں شبہ میں مبتلا رہتے ہیں.گو کامل یقین اور کامل ایمان رکھنے والے مومن ان پیشگوئیوں کے پورا ہو جانے وجہ سے جو درمیانی عرصہ میں پوری ہوتی ہیں اپنے ایمان اور یقین میں بڑھتے جاتے ہیں.لیکن کمزور دل لوگ جن کی خلقی حالت ہی ایسی ہوتی ہے کہ وہ جلد شبہ میں مبتلا ہو جاتے ہیں.یا اعصابی کمزوری والے انسان جو کبھی بھی یقین کے مقام پر کھڑے نہیں ہو سکتے یا ایسے لوگ جو منہ سے تو ایمان کا اظہار کرتے ہیں لیکن ان کے دل میں ایمان نہیں ہوتا.وہ تو اس زمانہ میں بھی جب خدا پے در پے نشانات نازل کرتا ہے کمزوری دکھاتے، شبہات میں مبتلا ہو جاتے ہیں اور قسم قسم کی باتیں بناتے ہیں اور جو غیر ہیں وہ بھی درمیانی نشانات سے کم ہی فائدہ اٹھاتے ہیں إِلَّا مَا شَاءَ اللہ.کوئی کوئی آدمی جس کے دل میں خدا تعالیٰ کی خشیت ہوتی ہے اِکا دُکا.ایک یہاں ایک وہاں اور کوئی اور زیادہ پرے صداقت کو صحیح تسلیم کرتا ہو مان لیتا ہے.لیکن جس وقت خدا تعالیٰ کی طرف سے آخری نتیجہ نکلتا ہے اور نشانات اپنا مجموعی اثر دکھاتے ہیں یکدم غیب کی سے ایسا دروازہ کھل جاتا ہے کہ ایک دن یا چند ایام میں ہی دنیا کی کایا پلٹ جاتی ہے اور وہ جو مقہور اور مغلوب ہوتے ہیں دنیا پر غالب آ جاتے ہیں.اس وقت وہ لوگ جو بار بار یہ سنتے چلے آتے ہیں کہ اس جماعت کی ترقی الہی نشانات سے ہو رہی ہے ان کے قلوب بھی صاف ہو جاتے ہیں اور وہ جوق در جوق اس سلسلہ میں داخل ہو جاتے ہیں.تب اس زمانہ کے لوگوں کے لئے صداقت کی سب سے قوی تر دلیل یہی ہوتی ہے کہ مخالف حالات کے باوجود یہ جماعت دنیا پر غالب آ گئی.اس کی مثال میں فتح مکہ کو دیکھ لو.مکہ ایک دن میں فتح نہیں ہوا.مکہ کی فتح اس جنگ کا طرف

Page 12

$1941 12 خطبات محمود ہواان نتیجہ نہیں تھی جو رسول کریم صلی ا م کے بعض صحابہ کو مکہ کی بعض گلیوں میں کرنی پڑی.مکہ کی فتح اس لشکر کی آمد کا نتیجہ نہیں تھی جس کو لے کر رسول کریم صلی لینی اس سفر پر روانہ ہوئے تھے بلکہ مکہ فتح ہوا بدر کے ذریعہ سے، مکہ فتح ہوا احد کے ذریعہ سے مکہ فتح ہوا خیبر کے ذریعہ سے، مکہ فتح ہوا احزاب کے ذریعہ سے، مکہ فتح ہوا اُن دسیوں چھوٹی بڑی جنگوں کے ذریعہ سے جو وقتا فوقتا رسول کریم صلی العالم آپ کے صحابہ کو کفار سے لڑنی پڑیں.پس مکہ کی فتح صرف اس لشکر کی وجہ سے نہیں تھی جس لشکر کو رسول کریم صلی ال کی آخری سفر پر لے کر چلے تھے بلکہ وہ نتیجہ تھی اُن بیسیوں واقعات کا جو پہلے نو (۹) سال میں متواتر پیش آتے رہے ، وہ نتیجہ تھی اُن واقعات کا بھی جو تیرہ سالہ مکی زندگی میں آپ کو پیش آتے رہے لیکن ان میں سے کوئی واقعہ بھی تو لوگوں کی آنکھیں اس طرح کھولنے کا موجب نہیں ہوا جس طرح مکہ کی فتح لوگوں کی آنکھیں کھولنے کا موجب ہوئی.بدر کی جنگ فتح ہوئی اور دراصل مکہ کا ایک دروازہ فتح ہو گیا مگر مکہ کے لوگوں اور عرب کے لوگوں کو نظر نہیں آیا کہ بے سرو سامان مسلمانوں کی یہ فتح، فتح مکہ کا پیش خیمہ ہے.اُحد مسلمانوں کو معجزانہ فتح ہوئی اور دراصل مکہ کا دوسرا دروازہ ہو گیا لیکن عرب کے لوگوں کو یہ نشان نظر نہیں آیا.جنگ احزاب میں فتح نصیب ہوئی اور گویا مکہ کا تیسرا دروازہ فتح ہو گیا مگر باوجود اس کے مکہ والوں کو یہ نظر نہیں آیا اور نہ ہی عرب والوں کو کہ مکہ فتح ہو گیا.پھر خیبر کی جنگ میں مسلمانوں نے یہود پر غلبہ حاصل کیا اور ان ریشہ دوانیوں کا خاتمہ کر دیا جو یہود عرب میں کرتے تھے اور اس طرح گویا مکہ کا چوتھا دروازہ فتح ہو گیا لیکن یہ فتح عربوں کو نظر نہیں آئی.اسی طرح ہر وہ جنگ جو مسلمانوں کو کفار کے مقابلہ میں لڑنی پڑی اس کے نتیجہ میں در حقیقت مکہ کا ہی ایک حصہ فتح ہوتا تھا لیکن کسی ایک یا دو یا چار لوگوں کو ہی یہ نشان نظر آیا تو آیا ورنہ عرب پھر بھی فخر کرتے تھے اور کہتے تھے کہ مکہ ہمارے قبضہ میں ہے.لیکن جب اس کے نتیجہ میں سب سے گھٹیا جنگ مسلمانوں نے کی جو فتح مکہ

Page 13

$1941 13 خطبات محمود الل ولم کا کہلاتی ہے جس میں صرف اتفاقی طور پر چند آدمی مارے گئے تھے ورنہ رسول کریم صلى ال ل الر کا حکم یہی تھا کہ کوئی لڑائی نہ کی جائے.چنانچہ ان اتفاقی مارے جانے والوں علیحدہ کر کے جو انفرادی طور پر منفرد مسلمانوں سے لڑ پڑے تھے اگر دیکھا جائے حقیقت صاف طور پر نمایاں نظر آتی ہے کہ فتح مکہ کے وقت نہ تلواریں میانوں سے نکالی گئیں، نہ گردنیں کٹیں اور نہ ہی خونریزی ہوئی.پس فتح مکہ کے وقت مسلمانوں کا حملہ جنگ کے لحاظ سے کمزور ترین حملہ تھا آخر خود ہی غور کرو کیا انہوں نے کسی زبر دست حریف کے مقابلہ میں کوئی خونیں جنگ کی؟ کیا انہوں نے دشمن کے سو دو سو یا ہزار آدمیوں کو مارا؟ یا کیا خود ان کے لشکر میں سے سو دو سویا ہزار آدمی مارے گئے ؟ کچھ بھی نہیں ہوا.مگر یہ جو حقیر سی جنگ تھی جس میں کوئی خونریزی نہیں ہوئی ، کوئی قابل ذکر لڑائی نہیں اس کا نتیجہ کیا نکلتا ہے.ادھر آپ مکہ میں داخل ہوتے ہیں اور ادھر مکہ والے ہیں ہم ہار گئے پس گو فتح مکہ جنگ کے لحاظ سے ایک ادنی ترین جنگ تھی مگر اس کے نتائج نہایت عظیم الشان نکلے.ایسا کیوں ہوا؟ صرف اس لئے کہ مکہ کے سفر کی ایک ایک منزل پر کہیں بدر کھڑا تھا، کہیں احد کھڑا تھا، کہیں احزاب کھڑا تھا، کہیں خیبر کھڑا تھا.اور مکہ والے سمجھتے تھے کہ یہ بدر میں سے بدر میں سے بھی گزر چکے ہیں، احد میں سے بھی گزر چکے ہیں، احزاب میں سے بھی گزر چکے ہیں، خیبر میں بھی گزر چکے ہیں اب خالی مکہ رہ گیا ہے اس کے سوا ہمارے پاس کوئی چیز نہیں رہ گئی.تو جن جنگوں سے لوگوں نے کوئی فائدہ نہیں اٹھایا تھا ان کے معمولی سے نتیجہ سے سارا عرب مسلمان ہو گیا.بدر جس نے مکہ کو فتح کیا اس سے عرب نے کوئی فائدہ نہ اٹھایا.احد جس نے مکہ فتح کیا اس سے عرب نے کوئی فائدہ نہ اٹھایا.احزاب جس نے مکہ کو فتح کیا اس سے عرب نے کوئی فائدہ نہ اٹھایا.خیبر جس نے مکہ کو فتح کیا اس سے عرب نے کوئی فائدہ نہ اٹھایا.غزوۂ بنو مصطلق جس نے مکہ کو فتح کیا اس سے عرب نے کوئی فائدہ نہ اٹھایا.اسی طرح اور کئی چھوٹی بڑی جنگوں سے جو ހނ.

Page 14

$1941 14 خطبات محمود نہ ہیں تیس کے قریب ہیں اور جو مکہ کی فتح کا موجب ہوئیں اہل عرب نے کوئی فائدہ اٹھایا مگر جب مکہ میں امن اور سکون کے ساتھ لشکر اسلام دا اسلام داخل ہوا تو انہوں نے خود ہی کہہ دیا کہ آج ہم ہار گئے.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ دنیا دار لوگ نتائج کے ظہور کے وقت فائدہ اٹھایا کرتے ہیں.کیونکہ گزشتہ فتوحات ان کے دلوں پر کوئی نہ کوئی نشان چھوڑ چکی ہوتی ہیں.بدر کی ضرب نے اہل مکہ کے دل پر ایک نشان ڈالا.پھر احد میں فتح ہوئی تو اس ضرب نے ان کے دل پر ایک اور نشان ڈال دیا.احزاب کی ضرب نے ان کے قلور تیسرا نشان ڈالا اور خیبر کی ضرب نے ایک چوتھا نشان ان کے دل پر قائم کر دیا.جب یہ ساری ضربیں اپنے اپنے نشان ان کے قلوب پر چھوڑ گئیں تو ان کا مکمل نتیجہ فتح مکہ کی صورت میں ظاہر ہو گیا اور عرب کے لوگوں کو اسلام نصیب پر ہو گیا.پس انسان کو سب سے زیادہ خدا تعالیٰ کا یقین دلانے والی بات خصوصاً ان لوگوں کو جو ایمان نہیں رکھتے اور دنیا دار ہوتے ہیں بے سر و سامانی کی حالت میں الہی سلسلوں کی کامیابی ہوتی ہے.درمیانی کامیابیاں اعلیٰ تقویٰ والے لوگوں کو ایمان بخشتی ہیں اور آخری کامیابی ادنی تقویٰ والوں کو ایمان بخشتی ہیں.پھر کچھ عرصہ تک تو یہ اثر باقی رہتا ہے مگر جیسا کہ قاعدہ ہے جب کسی قوم کو لمبے عرصہ تک کامیابیاں اور فتوحات ملیں تو وہ یہ خیال کرنے لگ جاتی ہے کہ یہ فتوحات اور کامیابیاں ہمارا ورثہ ہیں اور ان فتوحات کے حاصل کرنے کا ہماری قوم کو حق حاصل تھا.تب رفتہ رفتہ ایمان کی طاقت جو تمام کامیابیوں کا موجب ہوتی ہے کمزور ہونی شروع ہو جاتی ہے.چنانچہ دیکھ لو لو عرب کی فتح شام کی فتح کے مقابلہ میں کیا حیثیت رکھتی ہے؟ عربوں کی نہ منظم فوج تھی نہ ان کے پاس خزانہ تھا نہ پولیس تھی اور نہ ان کے پاس قضاء تھی کہ سارے ملک کے جھگڑوں کا وہ فیصلہ کر سکتے.مختلف قبائل گو اپنے اپنے حاکموں کے ماتحت تھے مگر ہر فرد آزاد تھا.صرف موٹی موٹی غلطیوں کے متعلق

Page 15

$1941 15 خطبات محمود باز پرس کی جاتی تھی.مثلا کسی نے قتل کر دیا تو اس سے جواب طلبی کی گئی یا کسی نے ڈاکہ ڈالا تو پنچائت نے اس کے متعلق کوئی فیصلہ کر دیا.اس سے زیادہ نہ ان میں کوئی حکومت تھی اور نہ ہی کوئی نظام مگر عرب کی فتح نے جو ایمان پیدا کیا وہ شام کی فتح پیدا نہ کر سکی جو روم جیسی زبر دست حکومت کے مقابلہ میں حاصل ہوئی تھی.کی فتح ایسی ہی تھی جیسے اس زمانہ میں افغانستان کے لوگ روس کا کوئی علاقہ کر لیں یا افغانستان کے لوگ انگلستان یا جرمنی کا کوئی علاقہ لے لیں.اگر ایسا واقعہ ہو تو تم خود ہی سوچ لو دنیا میں کتنا شور مچ جائے.فرض کرو افغانستان کے لوگ روس کو سائبیریا کے باہر نکال دیں تو کس طرح ایک غلغلہ برپا ہو جائے اور لوگ کہنے لگ جائیں کہ حد ہو گئی افغانستان والوں نے تو کمال کر دیا.یہی حال اہل عرب کا قیصر کے مقابلہ میں تھا.اور شام کی فتح ایسی ہی تھی جیسے افغانستان روس، انگلستان یا جرمنی کے کسی علاقہ کو فتح کر لے مگر باوجود اس کے مکہ کی فتح نے جو ایمان پیدا کیا وہ شام کی فتح پیدا نہ کر سکی.مکہ کی فتح نے لاکھوں انسانوں کے دلوں میں ایسا ایمان پیدا کر دیا تھا کہ ان کی گردنوں پر تلواریں رکھی گئیں مگر ان کے ایمان میں تزلزل پیدا نہ ہوا.ان لوگوں کے دلوں سے دنیا کا رعب بالکل مٹ گیا تھا اور دنیا کی محبت ان پر ایسی سرد ہو گئی تھی کہ سوائے خدا کے انہیں کوئی چیز ڈرانے والی نہیں رہی تھی.کیا ہی عجیب نظارہ نظر آتا ہے کہ وہ لوگ جو کچھ سال پہلے اسلام کے خلاف تلواریں اٹھائے ہوئے تھے، جو اخلاقی اور علمی لحاظ سے بہت ہی گرے ہوئے تھے ان کے وفود آتے ہیں اور خلفائے اسلام ان سے کہتے ہیں کہ شام میں دشمن کی طرف سے بڑے زور کا حملہ ہو گیا ہے اور ہماری فوج کے آدمی کم ہیں تم جاؤ اور دشمن کے لشکر کا مقابلہ کرو.ان کو معلوم ہے کہ دشمن کی تعداد دو یا چار لاکھ ہے، ان کو یہ بھی معلوم ہے کہ اس کی منظم فوجیں رات اور دن لڑنے کی مشقیں کرتی رہتی ہیں، ان کو یہ بھی پتہ ہے کہ ان کے افسر سالہا سال سے حکومتیں کرتے چلے آتے ہیں، وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ فوجیں اپنے افسروں کے اشاروں کو سمجھتی ا

Page 16

$1941 16 خطبات محمود ان کے حکموں پر جان دینے کے لئے تیار رہتی ہیں، انہیں اس بات کا بھی علم ہے کہ رات اور دن کی مشقوں کی وجہ سے وہ لڑائی کے قابل بنا دی گئی ہیں، وہ اس بات سے بھی آگاہ ہیں کہ ان کے پاس ایسے ایسے سامانِ جنگ موجود ہیں جن کے ناموں سے بھی عرب کے لوگ واقف نہیں.غرض وہ اس بات کو اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ ہمارا دشمن وہ ہے جس کا رعب دنیا کے چاروں طرف پھیل رہا ہے، وہ آدھی متمدن دنیا پر حکمران ہے، اس کے گورنر بیسیوں دور دراز علاقوں پر حکومت رہے ہیں اس کی تعداد بہت زیادہ ہے، اس کے پاس سامان جنگ بکثرت موجود ہے اور اس میں لڑنے کی قابلیت بہت زیادہ پائی جاتی ہے.مگر جب ایسی حکومت کے مقابلہ میں خلفائے اسلام سو یا دو سو یا چار سو آدمیوں کو بھیجتے ہیں تو ایک ایک، دو دو، چار چار لاکھ کی فوج کا مقابلہ کرنے کے لئے وہ دو یا چار سو آدمی تیار ہو جاتے ہیں اور کہتے ہیں ہم دشمن کا مقابلہ کریں گے.پھر وہ سو یا دو سو دشمن کے مقابلہ میں جاتا اور اس یقین اور وثوق سے جاتا ہے کہ لاکھ یا دو لاکھ کی فوج ہمارے مقابلہ میں ایسی ہی ہے جیسے مولیوں یا گاجروں کا کھیت ہوتا ہے اور ہمارا کام اتنا ہی ہے کہ ان پر ہاتھ ڈالیں اور اُکھیڑ اُکھیڑ کر باہر پھینک دیں اور وہ مسلمان کمانڈر جو دربار خلافت میں یہ فریاد کر رہا ہوتا ہے کہ عیسائیوں کا بڑا بھاری آگیا ہے اور میرے پاس ہیں یا تیں یا چالیس ہزار کا لشکر ہے جلد ہی مجھے اور مدد پہنچائی جائے.اسے اطلاع جاتی ہے کہ گھبراؤ نہیں ہم پانچ سو آدمی تمہاری مدد کے لئے بھیج رہے ہیں.اگر آج کسی کمانڈر کو جو پانچ پانچ سال کالجوں میں ٹرینگ حاصل کرتے ہیں اور ہیں بیس سال چھاؤنیوں میں کام کرتے ہیں اتنے بڑے لشکر کے مقابلہ میں اتنے قلیل آدمی بھجوائے جائیں تو وہ عَلَى الإِعْلان فوج کے سامنے اپنا سر پیٹ لے اور کہے مجھے کیسے بدھوؤں سے واسطہ پڑا ہے.میں لکھتا ہوں کہ ایک لاکھ منظم فوج، ساز و سامان سے آراستہ فوج، چھاؤنیوں میں ٹریننگ حاصل کرنے والی فوج ہمارے مقابلہ میں ہے اور مدینہ سے مجھے چٹھی پہنچتی ہے کہ گھبراؤ نہیں پانچ سو آدمی آ رہے ہیں.لشکر ہمارے مقابلہ میں

Page 17

خطبات محمود مگر 17 $1941 اگر آج ایسا ہی کوئی واقعہ ہو تو کمانڈر استعفیٰ دے کر الگ ہو جائے اور کہے کہ ایسی جاہل منسٹری کے تابع میں کام نہیں کر سکتا.اگر ایک لاکھ منظم فوج کو فتح کرنے کے لئے مجھے بھیجا جاتا ہے تو کم سے کم سوا لاکھ آدمی تو چاہئے اور اگر دفاعی جنگ ہو تب بھی ستر اسی ہزار آدمیوں سے کم تو کسی صورت میں نہیں ہونا چاہئے.یہاں پانچ سو ہزار بلکہ بعض دفعہ سو، دو سو آدمی بھیج دیئے جاتے ہیں اور مسلمان ان کو دیکھ کر خوشی سے نعرہ بلند کرتے ہیں کہ الله اكتر.مگر انہی نظاروں میں سے ایک نظارہ تو بہت ہی حیرت انگیز ہے.ایک جگہ اسلامی ہے.ایک جگہ اسلامی لشکر پر بہت دباؤ پڑ گیا اور ہزارہا آدمی دشمن کی فوج کا حملہ آور ہو گیا.اس وقت اسلامی کمانڈر نے شکایت کی کہ ہمارے پاس فوج کافی نہیں حضرت عمرؓ نے دیکھا تو مدینہ میں اس وقت جنگ بھیجنے کے لئے کوئی آدمی نہیں تھا اور باہر سے لوگوں کو بلانے میں دیر لگتی تھی.معدی کرب ایک صحابی تھے حضرت عمرؓ نے ان کو بلایا اور کہا میرا یہ خط کمانڈر انچیف کے پاس لے جاؤ اور جا کر لڑائی میں شامل ہو جاؤ.اس خط میں کمانڈر انچیف کے نام پ نے لکھا تھا تمہاری امداد کی درخواست پہنچی میں معدی کرب کو بھیج رہا ہوں.میں نے اس کو رسول کریم صلی الم کے ساتھ لڑتے دیکھا آدمی دو ہزار کے قائمقام ہے.تاریخ شاہد ہے کہ جب معدی کرب لشکرِ اسلامی اور حضرت عمر کا خط انہوں نے کمانڈر انچیف کو جا کر دیا تو مسلمانوں نے کوئی شکوہ نہیں کیا، انہوں نے کوئی گلہ نہیں کیا بلکہ سارے مسلمانوں میں خوشی کی ایک لہر دوڑ گئی اور وہ کہنے لگ گئے کہ معدی کرب آ گیا اب ہماری فتح اور بھی یقینی ہو گئی ہے.غرض اسلامی تاریخ میں اس قسم کی کئی مثالیں پائی جاتی ہیں جن سے پتہ ہے کہ عرب کے لوگوں نے جب فتح مکہ کا نظارہ دیکھا تو ان کے دل کی ایمانی حالت ایسی بدل گئی کہ ان کی نگاہ میں دنیا کی کسی چیز کی کوئی حقیقت نہ رہی.انہوں نے سمجھ لیا کہ جو کچھ کر سکتا ہے ایمان کر سکتا ہے کیونکہ محمد صلی الیم نے ایمان سے ہی ย " ہے اور یہ ایک

Page 18

$1941 18 خطبات محمود بے سامان ہوتے ہوئے مکہ فتح کیا.جب تک مسلمانوں میں یہ ایمان موجود رہا انہیں دنیا کی کوئی طاقت اپنی جگہ سے ہلا نہ سکی مگر شام کی فتح کے وقت چونکہ کچھ نہ کچھ ظاہری سامان پیدا ہو چکے تھے اس لئے شام کی فتح وہ ایمان پیدا نہ کر سکی جو مکہ کی فتح نے پیدا کیا.اسی طرح عراق کی فتح مسلمانوں میں وہ ایمان پیدا نہ کر سکی جو مکہ فتح نے پیدا کیا تھا.حالانکہ عراق کسری کے ماتحت تھا اور کسریٰ کی حکومت اتنی سیع تھی کہ چین اس کے ماتحت تھا، سائبیریا اس کے ماتحت تھا، عراق اس کے ماتحت تھا، افغانستان اس کے ماتحت تھا، ہندوستان کے کچھ حصے بھی اس کے ماتحت تھے، بلوچستان اس کے ماتحت تھا، یمن وغیرہ بھی اس کے قبضہ میں تھا.غرض اپنی وسعت کے لحاظ سے انگریزی حکومت بھی اتنی بڑی نہیں جتنی کسری کی حکومت تھی.اس حکومت سے مسلمانوں نے عراق فتح کیا لیکن اتنی عظیم الشان فتح کے باوجود عراق کی فتح نے وہ ایمان پیدا نہیں کیا جو مکہ کی فتح نے پیدا کیا اس لئے کہ اب لوگ فتح کے عادی ہو چکے تھے وہ عراق کی فتح کو شام کی فتح کا اور شام کی فتح کو مکہ کی فتح کا نتیجہ سمجھتے تھے.مگر مکہ کی فتح کو مکہ سے سے رسول کریم صل الم کے نکالے ނ جانے کا نتیجہ سمجھتے تھے.اسی لئے عراق کی فتح باوجود اس کے کہ مکہ کی فتح سینکڑوں نہیں ہزاروں گنے بڑھ کر تھی اس کا فاتح دنیا میں وہ تغیر پیدا نہ کر سکا جو مکہ فتح کرنے والے نے دنیا میں تغیر پیدا کیا.اسی طرح شام اور مصر کے فتح کرنے والے دنیا میں وہ تغیر پیدا نہ کر سکے جو مکہ کو فتح کرنے والے نے دنیا میں تغیر پیدا دیا.اس لئے کہ مکہ کی فتح ایک بے سامان فوج کے نتیجہ میں ہوئی اور بعد کی فتوحات اُس وقت ہوئیں جب سامان کسی قدر پیدا ہو چکے تھے.مسلمانوں کے پاس خزانہ تھا، ان کے پاس غلہ تھا، ان کے پاس سواریاں تھیں، ان کے پاس روپیہ تھا، ان کے پاس ہتھیار تھے.غرض دنیا کو انسان کا ہاتھ کام کرتا نظر آتا تھا مگر محمد صل اليوم کا مکہ میں داخلہ ایسا تھا کہ اس میں کسی انسان کا ہاتھ کام کرتا نظر نہیں آتا تھا.پس خدا تعالیٰ کی ذات پر جو ایمان مکہ کی فتح نے پیدا کیا وہ شام اور مصر اور عراق کی

Page 19

$1941 19 خطبات محمود فتوحات نے پیدا نہ کیا.اس کے بعد جب اسلامی حکومت سپین تک وسیع ہو گئی تو سپین فتح کرنے والوں کا کام بھی کتنا عظیم الشان تھا.سپین کو جانے والا افریقی راستہ ایسا ہے کہ اس میں دو دو، تین تین سو میل تک کہیں پانی میسر نہیں آتا.پھر سپین میں خود ایک زبر دست حکومت تھی مگر چند ہزار مسلمان سپاہی جن کی تعداد میں ہزار سے کم تھی انہوں نے مصر سے اپنے گھوڑوں کی باگیں اٹھائیں اور سپین میں فرانس کے ساحل پر آکر دم لیا.راستہ میں انہوں نے کسی جگہ دولاکھ کے لشکر سے مقابلہ کیا اور کسی جگہ تین لاکھ کے لشکر سے.مگر ان کی فتح نے بھی وہ ایمان پیدا نہ کیا جو مکہ کی فتح نے پیدا کیا تھا.کیونکہ ان کے اندر وہ باتیں پیدا ہو چکی تھیں جو فاتح قوم کا جزو ہوتی ہیں.اور دنیا اس بات کو سمجھتی ہے کہ فاتح قوم کے دل بالکل اور قسم کے ہوتے ہیں.مگر محمد صلی ال نیلم کے ساتھ مکہ میں داخل ہونے والے ایک مغلوب قوم کا جزو تھے اور وہ ایسے تھے جن کو کفار نے اپنے گھروں سے نکال دیا تھا.طارق 1 کے ساتھ جانے والے لشکر کا ہر شخص کہتا تھا کہ ہم باقی ساری دنیا فتح کر چکے ہیں حصہ وہ اب اسی علاقہ کو فتح کرنارہ گیا ہے مگر مکہ کی طرف بڑھنے والے لشکر کا بیشتر تھا جن کے سامنے یہ واقعات تھے کہ وہ کبھی رات کو پوشیدہ طور پر مکہ سے بھاگ نکلتے تھے اور کبھی دن کو کفار کی نظر بچا کر ہجرت کے لئے چل پڑتے.انہیں اپنی آنکھوں کے سامنے وہ گلیاں نظر آ رہی تھیں جن میں انہیں پیٹا جاتا، انہیں پتھروں پر گھسیٹا جاتا اور انہیں عبادت کرنے سے روکا جاتا.پس جس شہر کو وہ فتح کرنا چاہتے تھے اس میں رعب کے سارے سامان ان کے خلاف تھے.لیکن طارق کی فوج رعب کے سارے سامان اپنے ساتھ رکھتی تھی اس لئے طارق کی فتح جو مکہ کی فتح سے ہزاروں گنے بڑھ کر ہے وہ نتیجہ پیدا نہ کر سکی جو مکہ کی فتح نے پیدا کیا.کیونکہ دونوں کے حالات مختلف تھے.پس ہماری جماعت کو بھی یاد رکھنا چاہئے کہ اس کی فتوحات اور کامیابیوں میں بھی وہی فتوحات اور کامیابیاں بابرکت ہیں جو بغیر ظاہری سامانوں کے ہوں.

Page 20

$1941 20 خطبات محمود آج ہماری حالت بھی درحقیقت وہی ہے جو بدر اور احد کی جنگوں میں صحابہ کی تھی.ہمیں خدا تعالیٰ نے تلوار نہیں دی بلکہ روحانی ہتھیار دیئے ہیں اور انہی روحانی ہتھیاروں سے ہم قلوب پر فتح حاصل کر رہے ہیں.پس چونکہ ہماری لڑائی تلوار والی لڑائی نہیں اس لئے ہماری بدر بھی یہی ہے اور ہماری احد بھی یہی.جب کسی گاؤں میں مخالفت کے باوجود کچھ لوگ احمدی ہو جاتے ہیں تو وہی تبلیغی جنگ ہماری بدر کی جنگ کہلائے گی.کیونکہ ہماری ساری جنگیں تبلیغی اور روحانی ہیں.اس جنگ کے نتیجہ میں بھی کچھ لوگوں کو تو ایمان نصیب ہو جاتا ہے اور بہت سے ایمان لانے سے محروم رہتے ہیں.مولوی ثناء اللہ صاحب یہی اعتراض کرتے رہتے ہیں کہ ابھی تو کروڑوں عیسائی اور کروڑوں غیر احمدی موجود ہیں احمدیت کو کونسی فتح حاصل ہوئی؟ مگر یہ ایسی بات ہے جیسے بدر یا احد کی فتح کے وقت کوئی شخص کہتا کہ ابھی تو لاکھوں عرب مخالف ہیں اور یہ بدر اور احد کی فتح کو ہی اپنا بہت بڑا کارنامہ قرار دے رہے ہیں.مگر جاننے والے جانتے ہیں، پہچاننے والے پہچانتے ہیں اور سمجھنے والے سمجھتے ہیں جنگ بدر، بدر کی فتح نہیں بلکہ مکہ کی فتح تھی اور احد، احد کی فتح نہیں بلکہ مکہ کی تھی.ویسے ہی جن کو خدا تعالیٰ نے آنکھیں دی ہیں وہ جانتے ہیں کہ پہاڑی دامن میں ایک چھوٹے سے گاؤں کے دو چار لوگوں کو ہم احمدی بنا لیتے ہیں تو در حقیقت یہ اس گاؤں کی فتح نہیں ہوتی بلکہ خدا تعالیٰ کے دفتر میں تمام دنیا کی ہے.بے شک اس وقت وہ فتح بعض احمدیوں کے ایمان کی ترقی کا موجب بھی نہیں بنتی بلکہ بعض کہہ بھی دیتے ہیں کہ اگر فلاں جگہ دو چار احمدی ہو گئے ہیں تو کیا ہوا.مگر جب ان چھوٹی چھوٹی فتوحات کا مجموعی نتیجہ پیدا ہو گا تو یک دم دنیا یوں گرنے لگے گی جیسے دریا کے کنارے کی زمین گرنے لگتی ہے اور اُس وقت کمزور ایمان والے گردنیں اٹھا اٹھا کر کہیں گے کہ ہم پہلے ہی اس بات پر ایمان رکھتے تھے کہ احمدیت ایک دن ساری دنیا پر غالب آ جائے گی اور دوسرے لوگ بھی کہیں گے کہ آثار تو ہمیں بھی دیر سے نظر آ رہے تھے.اُس وقت کے آنے تک ہوتی

Page 21

$1941 21 خطبات محمود مخالف ہنسی کرے گا، دشمن ٹھٹھے کرے گا اور کمزور ایمان والا طعنہ دے کر کہے گا کہ قربانیوں کا مطالبہ کر کے جماعت کو کمزور کیا جا رہا ہے.مگر مبارک ہیں وہ جن کے ایمان اُس وقت تقویت پاتے ہیں جس وقت ابھی خدا تعالیٰ کی طرف سے آخری نہیں نکلتا کیونکہ وہی ہیں جو خدا تعالیٰ کی درگاہ میں بڑے سمجھے جانے والے دیکھ لو جب مکہ فتح ہوا تو رسول کریم ال لا لم نے فرما دیا لا هِجْرَةَ بَعُدَ الْفَتْحِ 2 اب اس فتح مکہ کے بعد کوئی ہجرت نہیں.ہجرت تو لوگ پھر بھی کرتے رہے ہیں او رکئی لوگ بعد میں بھی مدینہ میں مہاجر بن کر گئے.رسول کریم صلی الله علم تھا کہ وہ جو مہاجرین کے متعلق قرآن کریم نے خبر دی ہے کہ ان کے لئے اللہ تعالیٰ کے حضور بڑے بڑے انعام مقرر ہیں وہ اب سیح مکہ کے بعد ایمان لانے والوں کو نہیں مل سکتے.اب کوئی نیا ابو بکر پیدا نہیں ہو سکتا، کوئی نیا عمر پیدا نہیں ہو سکتا، کوئی نیا عثمان پیدا نہیں ہو سکتا، کوئی نیا علی پیدا نہیں ہو سکتا، کوئی نیا طلحه پیدا پیدا نہیں ہو سکتا، کوئی نیا زبیر پیدا نہیں ہو سکتا.غرض وہ لوگ جو اپنے ایمانوں تقویت دیتے اور اپنی زندگیاں خدا تعالیٰ کے لئے وقف کر دیتے ہیں وہی ہیں جن پر برکات کے دروازے کھولے جاتے ہیں.میرا یہ مطلب نہیں کہ وہ تجارت نہیں کرتے.صحابہ بھی تجارت کیا کرتے تھے.میرا یہ مطلب نہیں کہ وہ زراعت اور نہیں کرتے صحابہ بھی زراعت کیا کرتے تھے.میرا یہ مطلب نہیں کہ وہ کوئی دنیوی کام کیا کرتے تھے بلکہ میرا مطلب یہ ہے کہ وہ تجارتیں تو کرتے ہیں مگر ان کے دل خدا تعالیٰ کے ذکر میں مشغول ہوتے ہیں اور ان کے کان خدا تعالیٰ کی آواز سننے کے منتظر ہوتے ہیں جو نہی ان کے کان میں مؤذن کی آواز آتی ہے وہ اپنی تجارت کو چھوڑ کر، وہ اپنی زراعت کو چھوڑ کر ، وہ اپنی صنعت وحرفت کو چھوڑ کر دوڑتے ہوئے مسجد میں حاضر ہو جاتے ہیں.اسی طرح جب رات آتی ہے تو یہ نہیں ہوتا کہ وہ اس خیال سے کہ دن کو ہم نے ہل چلانا ہے یا کوئی اور مشقت کا کام

Page 22

$1941 22 خطبات محمود کرنا ہے سوئے ہی رہیں اور اللہ تعالیٰ کی عبات کے لئے نہ اٹھیں بلکہ جب تہجد کا وقت آتا ہے تو وہ فوراً بستر سے الگ ہو جاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے ذکر اور اس کی عبادت کے لئے کھڑے ہو جاتے ہیں.یہی وہ لوگ ہیں جو دین کے لئے اپنے آپ کو وقف کرنے والے ہیں.وقف کرنا اسی کو نہیں کہتے کہ انسان نوکری نہ کرے یا تجارت نہ کرے یا زراعت نہ کرے اور ہمہ تن دینی کاموں میں مشغول رہے بلکہ وہ شخص بھی واقف زندگی ہی ہے جس کے تمام اوقات خدا تعالیٰ کے منشاء کے ماتحت گزرتے ہیں، او روہ ہر آن اور ہر گھڑی خدا تعالیٰ کے حکم پر لبیک کہنے کے لئے تیار رہتا ہے.اگر وہ تجارت کرتا ہے تو اس لئے کہ خدا نے کہا ہے تجارت کرو.اگر وہ زراعت کرتا ہے تو اس لئے کہ خدا نے کہا ہے زراعت کرو.اگر وہ کسی اور پیشہ کی طرف توجہ کرتا ہے تو اس لئے کہ خدا نے کہا ہے تم پیشوں کی طرف بھی متوجہ ہو.پس اُس کی تجارت، اُس کی زراعت اور اس کی صنعت لَا تُلْهِيهِمْ تِجَارَةٌ وَلَا بَيْعٌ عَنْ ذِكْرِ اللهِ 3 کی مصداق ہے جو خدا تعالیٰ کے ذکر سے اسے غافل نہیں کرتی.نہیں کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے آواز آئے اور وہ یہ کہنے لگ جائے کہ میں کیا کروں میری تجارت کو نقصان پہنچے گا، میری زراعت میں حرج واقع ہو گا بلکہ اسے اللہ تعالی کی آواز پر لبیک کہنے کے سوا اور کچھ سوجھتا ہی نہیں.وہ جانتا ہی نہیں کہ میں تاجر ہوں، وہ جانتا ہی نہیں کہ میں زمیندار ہوں، وہ جانتا ہی نہیں کہ میں صناع ہوں بلکہ وہ سمجھتا ہے کہ میں ساری عمر ہی خدا تعالیٰ کے سپاہیوں میں شامل رہا ہوں اور اس کی تنخواہ کھاتا رہا ہوں.اب وقت آگیا ہے کہ میں حاضر ہو جاؤں اور اپنی جان اس کی راہ میں قربان کر دوں.پس باوجود تجارت کرنے کے وہ واقف زندگی ہے، باوجود زراعت کرنے کے وہ واقف زندگی ہے اور باوجود کوئی اور پیشہ اختیار کرنے کے وہ واقف زندگی ہے مگر وہ جو ایسا نہیں کرتا جس کے کانوں میں خدا تعالیٰ کی یا اس کے مقرر کردہ کسی نائب کی آواز آتی ہے اور بجائے اس کے کہ وہ اپنے دل میں بشاشت محسوس کرے اور کہے کہ وہ وقت آگیا ہے جس کا میں منتظر تھا وہ

Page 23

$1941 23 خطبات محمود اپنے دل میں قبض محسوس کرتا ہے اور قربانی کرنے سے ہچکچاتا ہے اور لئے ایک تکلیف اور دکھ سمجھتا ہے تو ایسا انسان در حقیقت خدا تعالیٰ کی فوج میں ہے شامل نہیں اور نہ اسے ایمان حاصل ہے.اس کو اُسی وقت ایمان میسر آ جب آخری نتیجہ ظاہر ہو.مگر رسول کریم صلی ام فرماتے ہیں لَا هِجْرَةَ بَعْدَ الْفَتْحِ اگر فتح آگئی تو اس کے بعد جو شخص ایمان لائے گا اسے اس ہجرت کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کے قرب کے اعلیٰ مراتب حاصل نہیں ہو سکیں گے.ہجرت صرف مدینہ کی ہجرت کا نام نہیں بلکہ ہجرت اپنے اندر اور مفہوم بھی رکھتی ہے چنانچہ رسول کریم صلی الله فرماتے ہیں مَنْ كَانَتْ هِجْرَتُهُ إِلَى اللّهِ وَ رَسُولِهِ فَهِجْرَتُهُ إِلَى اللَّهِ وَرَسُوْلِهِ 24 کوئی انسان ایسا بھی ہوتا ہے جو خدا اور اس کے رسول کی طرف ہجرت کرتا پس اُس کی ہجرت اللہ اور اس کے رسول کی طرف ہی ہے.تو ہجرت صرف مدینہ کی ہجرت کا نام نہیں، ہجرت صرف قادیان کی ہجرت کا نام نہیں بلکہ ہجرت نام ہے تمام دنیوی علائق سے آزاد ہو کر اپنے آپ کو خدا تعالیٰ کے لئے وقف کر دینے کا.اس وقف کے معنے نہیں کہ انسان تجارت چھوڑ دے یا زراعت چھوڑ دے یا ملازمت چھوڑ دے.ایک حصہ کے لئے یہ بھی ضروری ہے مگر باقیوں کے لئے نہیں.ان کا وقف وہی ہو گا جس کا اس آیت میں ذکر آتا ہے کہ مِنْهُمْ مَّنْ قَضَى نَحْبَهُ وَمِنْهُمْ مَّنْ يَنْتَظِرُ 5 کہ کئی تو ایسے ہیں جنہوں نے اپنے آپ کو خدا تعالیٰ کے دین کے لئے کلیة وقف کر دیا ہے اور انہوں نے تمام کام چھوڑ کر خدا تعالیٰ کے دین کی خدمت کے لئے اپنے آپ کو پیش کر دیا ہے اور کوئی ایسا بھی ہے جو مَنْ يَنْتَظِرُ کے ماتحت ہے.وہ سودا بیچ رہا ہوتا ہے اور کہتا ہے اب آدھ سیر ہو گیا ہے مگر اُس کے کان اِس طرف لگے ہوئے ہوتے ہیں کہ کب خدا کی آواز آتی ہے.وہ دال تول کر گاہک کی جھولی میں ڈال رہا ہوتا ہے اور اُس کے کان اس بات کے منتظر ہوتے ہیں کہ کب خدا تعالیٰ کی آواز آتی ہے تا میں اپنا مال اور اپنی جان اس کی راہ میں قربان کر دوں.

Page 24

$1941 24 خطبات محمود جاتا.تم میں سے کئی کہہ دیں گے کہ ہم ایسے ہی ہیں کیونکہ انسان کا نفس ایسے موقع پر ہمیشہ اسے دھوکا دیا کرتا ہے.مگر تم سمجھ لو کہ اسی حقیقت کو تم پر ظاہر کرنے کے لئے خدا تعالیٰ نے پانچ نمازیں مقرر کی ہیں.ہر روز پانچ وقت خدا تمہارا امتحان لیتا اور پانچ وقت خدا تم پر تمہارے ایمان کی حقیقت آشکار کرتا ہے.پانچ وقت جب مُكَبّر کھڑا ہوتا اور کہتا ہے حَيَّ عَلَى الصَّلوةِ حَيَّ عَلَى الصَّلوةِ - اے لوگو! آؤ نماز کی طرف.اے لوگو! آؤ نماز کی طرف.تو اس وقت جب تمہارے کانوں میں یہ آواز آتی ہے اگر تمہارے ہاتھوں پر لرزہ طاری ہو جاتا ہے، تمہارے جسم میں کپکپی طاری ہو جاتی ہے اور تمہیں بھول جاتا ہے کہ تم تاجر ہو، تمہیں بھول ہے کہ تم زمیندار ہو، تمہیں بھول جاتا ہے کہ تم صناع ہو، تمہیں بھول جاتا ہے کہ تم ملازم ہو، تمہیں بھول جاتا ہے کہ تم نجار ہو، تمہیں بھول جاتا ہے کہ تم معمار ہو، تمہیں بھول جاتا ہے کہ تم لوہار ہو.تمہیں صرف ایک ہی بات یاد رہ جاتی اور وہ کہ تم خدا کے سپاہی ہو تب اور صرف تب تم اپنے دعویٰ ایمان میں بچے سمجھے جا سکتے ہو لیکن اگر تمہارے اندر یہ کیفیت پیدا نہیں ہوتی اور خدا تعالیٰ کی آواز تو تمہیں یہ کہتی ہے کہ حَيَّ عَلَى الصَّلوةَ اے میرے بندو! میری عبادت کے لئے آؤ اور تمہارا نفس تمہیں کہہ رہا ہوتا ہے کہ اور دو گاہک دیکھ لوں اور چند پیسے کما لوں.بعض دفعہ تو یہ بھی کہنے لگ جاتا ہے کہ مسجد میں جا کر نماز کیا پڑھنی ہے اسی جگہ پڑھ لیں گے.بلکہ کئی دفعہ واقع میں تم مسجد میں نہیں آتے اور گھر پر یا دکان پر ہی نماز پڑھ لیتے ہو تو تم سمجھ لو کہ پانچ وقت خدا نے تمہارا امتحان لیا اور پانچوں وقت تم فیل ہو گئے.مجھے خوشی ہے کہ جب سے خدام الاحمدیہ نے کام شروع کیا ہے جماعت میں بہت حد تک نماز باجماعت ادا کرنے کی رغبت پیدا ہو چکی ہے مگر ابھی ایک طبقہ ایسا ہے جس کے دل میں یہ رغبت پیدا نہیں ہوئی اور ابھی ایک طبقہ ایسا ہے جو نمازیں باجماعت ادا کرنے میں جو فوج کی حاضری کے برابر ہے سستی اور غفلت سے کام لیتا ہے.ہے

Page 25

خطبات محمود 25 $1941 جو لوگ صرف خدام الاحمدیہ کے نظام کے ماتحت باجماعت نمازیں ادا کرتے ہیں میں ان سے کہتا ہوں کہ تم اپنے اندر ایسا ایمان پیدا کرو کہ اگر دنیا کی سطح سے خدام الاحمدیہ کا وجود مٹ جائے تب بھی تم نماز باجماعت ادا کرنے میں کبھی غفلت سے کام نہ لو.اور جو لوگ اس فریضہ کی ادائیگی میں کوتاہی سے کام لینے کے عادی ہیں ان سے میں کہتا ہوں کہ روزانہ پانچ وقت خدا تعالیٰ تمہارا امتحان لیتا ہے اگر تم بغیر کسی معقول غذر کے باجماعت نمازیں ادا کرنے میں سُستی سے کام لیتے ہو اور اگر تمہارے دنیوی مشاغل اس فریضہ کی ادائیگی میں روک بنتے ہیں تو تم سمجھ لو کہ کس طرح تم روزانہ پانچ وقت اپنی شکست اور ایمان کی کمزوری کا اقرار کرتے ہو.ہر مومن جو پانچ وقت تمہارے گھر کے دروازے یا دکان کے قریب سے اور نماز کے لئے گزرتا ہے اور تمہیں نماز کے لئے اٹھتے نہیں دیکھتا وہ اس یقین وثوق سے تمہارے گھر یا دکان کے پاس سے گزرتا ہے کہ یہاں ایک منافق رہتا ہے پرواہ.تو جسے رسول کریم صلی الی ایم نے بھی منافق قرار دیا ہے.تم بعض دفعہ جب تمہیں کوئی منافق کہتا ہے تو اس سے لڑ پڑتے ہو مگر تمہیں خود ہی سوچنا چاہئے کہ جب محمد صلی علیکم کے منافق کہنے سے تم نہیں گھبراتے تو ہمارے منافق کہنے سے تم کیوں گھبراتے ہو.اِس سے تو معلوم ہوا کہ محمد صلی ال ولیم کی قدر تمہارے دلوں میں کچھ نہیں مگر ہماری قدر تمہارے دل میں ہے.کیونکہ محمد صلی الی ایم کے منافق کہنے کی تو تمہیں کوئی نہیں ہوتی لیکن اگر کوئی اور معمولی حیثیت والا آدمی تمہیں منافق کہتا تمہارے تن بدن میں ایک آگ سی لگ جاتی ہے اور کہنے لگ جاتے ہو کہ وہ بڑا ہے.دوسرے لفظوں میں اس کا یہ مطلب ہے کہ محمد صلی السلام کی حیثیت تمہارے دلوں میں اس ادنی ترین آدمی کی حیثیت سے بھی کم ہے کیونکہ جس کی وقعت انسانی قلب میں ہوتی ہے اُسی کی ناراضگی سے خوف کھاتا ہے.ایک چھوٹا بچہ گالی دے تو انسان مسکراتا ہوا گزر جاتا ہے لیکن اگر کوئی بڑا آدمی گالی دے تو دوسرا شخص چلتے چلتے ٹھہر جاتا ہے اور اس سے پوچھتا ہے کہ میں نے تمہارا کیا بگاڑا تھا کہ جھوٹا

Page 26

* 1941 26 خطبات محمود تم نے مجھے گالی دے دی.پس میں جماعت کے دوستوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ وہ اور بھی زیادہ اپنی اصلاح کی طرف متوجہ ہوں.نہ صرف قادیان کے دوست ہی بلکہ باہر کی جماعتوں کے دوست بھی.اور دعاؤں پر زور دیں کیونکہ جیسا کہ میں نے بتایا ہے روحانی جماعتوں کی ترقی محض خدا تعالیٰ کے فضل سے ہوتی ہے اور خدا تعالیٰ کے فضل دعاؤں سے نازل ہوتے ہیں.پس باجماعت نمازیں ادا کرنے کی عادت ڈالو.دعائیں مانگو اور اپنے دلوں میں اللہ تعالیٰ کی محبت اور اس کی خشیت پیدا کرو تا تمہارے اللہ تعالیٰ کا عشق ایسا غالب آ جائے کہ تم مجسم دعا بن جاؤ.تم نماز پڑھ رہے ہو تو دعا مانگ رہے ہو ، کام کر رہے ہو تو دعا مانگ رہے ہو، سفر کر رہے ہو تو دعا مانگ رہے ہو، سفر سے واپس آ رہے ہو تو دعا مانگ رہے ہو.غرض اس قدر دعائیں کرو کہ خدا اپنے فرشتوں سے کہے کہ میرا یہ بندہ تو مجسم سوال بن گیا ہے اب ہمیں شرم آتی ہے کہ اس کے سوال کو رڈ کر دیں.اور وہ سوال جو خدا تعالیٰ کی درگاہ سے کبھی رد نہیں ہوتا.مجسم سوال بن جانے والے کا ہی سوال ہوتا ہے.پر اس کا اپنا وجود مٹ جاتا ہے اور وہ سوال ہی سوال بن جاتا ہے.پس دعائیں کرو اور اپنے اندر نیک تبدیلی پیدا کرو تا خدا ان بلاؤں اور ابتلاؤں سے جو درمیانی عرصہ میں آنے ضروری ہیں ہماری جماعت کو محفوظ رکھے اور اپنے فضل اور رحم سے ایمان اور یقین کے ہم پر وہ دروازے کھول دے جو انبیاء " کے بھیجنے کا اصل مقصود ہوتے ہیں.الفضل 8 فروری 1941ء ) 1 طارق: خلافت بنو امیہ کے عہد کا پہلا اسلامی جرنیل جس نے یورپ میں اسلامی پرچم لہرایا.سپین کو فتح کیا اور اسے اسلامی عملداری کا حصہ بنادیا.بخارى كتاب الجهاد والسَّيْرِ بابِ لَا هِجْرَةَ بَعْدَ الْفَتْحِ 3 النور : 38 4 بخاری کتاب الایمان بابِ مَا جَاءَ أَنَّ الْأَعْمَالَ بِالنَّيَّةِ 5 الاحزاب : 24

Page 27

* 1941 27 3) خطبات محمود روحانیت میں ترقی حاصل کرنے کا طریق (فرموده 31 جنوری 1941ء بمقام لاہور) تشہد، تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:.ضعف “میری نیت تو قادیان جا کر جمعہ پڑھانے کی تھی مگر گھر سے چونکہ زیادہ بیمار ہو گئے اور کل سے میری کھانسی میں بھی شدت پیدا ہو گئی اس لئے میں نہیں جا سکا لیکن آج میری کھانسی کی جو حالت ہے اس کی وجہ سے یہاں بھی زیادہ دیر تک بلند آواز سے نہیں بول سکتا.خصوصاً آج صبح کے وقت تو مجھے اس قسم کا محسوس ہوتا تھا کہ بعض دفعہ بالکل بیٹھنا بلکہ لیٹنا بھی دوبھر معلوم ہوتا تھا.ہماری لاہور کی جماعت اس طرح مختلف علاقوں میں پھیلی ہوئی ہے کہ اسے کسی ایک نظام کے نیچے لانا آسان کام نہیں.کسی محلہ میں دس پندرہ آدمی ہیں، کسی میں ہیں، کسی میں پچاس، کسی میں دو چار اور کسی میں ایک ہی ہے اور اس وجہ سے باجماعت نمازوں میں باقاعدگی بہت مشکل ہے.گو ایک لحاظ گو ایک لحاظ سے مشکل نہیں بھی.کیونکہ اگر آدمی ارادہ کر لے تو اس کے پورا کرنے میں زیادہ دقت محسوس نہیں ہوتی.مگر اس زمانہ میں لوگ نماز باجماعت کو زیادہ ضروری نہیں سمجھتے.رسول کریم صلی الی یوم کے زمانہ میں یہ حال تھا کہ ایک نابینا حضور کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ يَا رَسُولَ اللہ ! میں نابینا ہوں لوگوں نے گلیوں میں پتھر رکھے ہوئے ہیں.اُس وقت کچے مکان ہوتے تھے اور جس طرح ہمارے ملک میں بھی لوگ کچے مکانوں کے ساتھ ساتھ پتھر وغیرہ رکھ چھوڑتے ہیں تاکہ پرنالہ وغیرہ سے گلیں نہیں عرب

Page 28

$1941 28 خطبات محمود میں بھی لوگ پتھر وغیرہ رکھ چھوڑتے تھے.اس نابینا نے عرض کیا کہ رستوں میں پتھر وغیرہ ہوتے ہیں اندھیرے میں دوسرے لوگوں کو بھی ٹھوکریں لگتی ہیں اور ان کے پاؤں بھی زخمی ہو جاتے ہیں اور میں تو نابینا ہوں.اگر اجازت ہو تو رات کی نمازیں گھر میں ہی پڑھ لیا کروں.آپ نے فرمایا اچھا اجازت ہے.مگر جب وہ چلا تو فرمایا اسے بلاؤ اور وہ دوبارہ آیا تو فرمایا تمہارے گھر تک اذان کی آواز پہنچتی ہے یا نہیں؟ اس نے عرض کیا پہنچتی ہے.تو آپ نے فرمایا کہ پھر گھر میں پڑھنے کی اجازت نہیں جس طرح بھی ہو مسجد میں آکر باجماعت نماز ادا کیا کرو.1.غرض آنحضرت صلی ال ل ل ا ل م نے تو نابینا کے لئے بھی صحت کی حالت میں مسجد میں باجماعت نماز ادا کرنا ضروری قرار دیا ہے مگر اب لوگ اس بات کی زیادہ پرواہ نہیں کرتے.مگر ساتھ یہ شکایت ضرور کرتے ہیں کہ وہ روحانیت نظر نہیں آتی جو پہلے بزرگوں میں تھی اور جس کا ذکر پہلی کتابوں میں ملتا ہے.حالانکہ وہ روحانیت کس طرح حاصل ہو سکتی ہے جب تک وہ کام نہ کئے جائیں جو وہ کرتے تھے.وہ کثرت سے ذکر الہی کرنا، درود شریف پڑھنا، مساجد میں بیٹھ کر اللہ کو یاد کرنا اور نمازوں کو باجماعت ایسی پابندی سے ادا کرنا کہ جس کے نتیجہ میں خدا تعالیٰ کے فضل نازل ہوتے تھے.اب بالکل نہیں.مثل مشہور ہے کہ ہندوستان میں افغانستان کے ایک بادشاہ وہاں سے بھاگ کر آئے ہوئے تھے.یہ مہاراجہ رنجیت سنگھ صاحب 2 کا زمانہ تھا.مہاراجہ صاحب ان کی مدد کرتے تھے تا ان کے ملک میں بھی اثر و نفوذ بڑھ جائے.چنانچہ وہ یہاں سے مدد لے کر گئے اور پھر وہاں اپنی حکومت قائم کی.یہاں قیام کے دوران ایک دن مہاراجہ صاحب نے ان سے فرمایا کہ آپ کے افغانستان میں لوگوں کی اولادیں بڑی ہوتی ہیں.ہمارے ہاں اتنی نہیں ہوتیں اس کی کیا وجہ ہے؟ اس کا کوئی نسخہ ہمیں بھی بتائیں.بادشاہ نے کہا کہ اس کا جواب میں افغانستان جا کر ہی دے سکتا ہوں.آپ میرے ساتھ اپنا کوئی آدمی بھیج دیں میں اسے بتا دوں گا.چنانچہ جب وہ واپس جانے لگے تو مہاراجہ صاحب نے اپنا ایک

Page 29

*1941 29 خطبات محمود آدمی ساتھ بھیجا کہ نسخہ معلوم کر آئے.وہاں وہ جا کر دو چار روز رہا اور پھر کہا کہ بتائیے کیا نسخہ ہے؟ بادشاہ نے کہا کہ آپ کل صبح آ جائیں میں بتاؤں گا.چنانچہ وہ اگلی چلا گیا.بادشاہ اپنے کام میں مشغول رہا جب ناشتہ کا وقت آیا تو بادشاہ نے قریباً آدھ سیر بادام، پستہ، کشمش اور مرغ مسلّم کے کباب کھائے اور اس کے بعد کچھ اور کاموں میں مشغول ہوگئے.دوپہر کے کھانے کا وقت آیا تو پھر دنبے کا پلاؤ اور اس کی چکی اور اسی قسم کے آٹھ دس کھانے اور کھائے.عصر کے وقت پھر مرغ مسلّم کھایا اور بادام اور پستہ پھانکا.اسی طرح شام کو بھی کھایا مگر مہاراجہ صاحب کے آدمی سے کوئی بات نہ کی.عشاء کے وقت اس نے کہا کہ آپ نے فرمایا تھا نسخہ بتائیں گے بتایا کوئی نہیں.بادشاہ نے کہا کہ سارا دن بتاتا تو رہا ہوں.مہاراجہ صاحب سے سے کہہ دیں کہ ان کے ملک میں لوگ غذا ہی ایسی نہیں کھاتے جس سے کثرت اولاد پیدا ہو.اس سوال کا ایک دوسرا پہلو بھی ہے اور وہ یہ کہ ایک انسان سارا دن ہل چلاتا ہے، ہاتھ سے اپنے جانوروں کے لئے چارہ لاتا اور اسے کرتا ہے، دودھ دوہتا ہے اور اسی طرح مشقت کے کام سارا دن کرتا اور پھر اس کے بعد سوکھی روٹی لتی کے ساتھ یا دودھ یا مکھن کے ساتھ کھا لیتا ہے تو اس کے جسم میں جس قسم کی طاقت پیدا ہو گی وہ ایسے شخص میں کہاں ہو سکتی ہے جو دس پندرہ مر جو دس پندرہ مرغن غذائیں کھا کر سارا دن چار پائی پر بیٹھا رہتا ہے.قوت زیادہ کھانے سے نہیں بلکہ ہاضمہ پیدا ہوتی ہے.بالکل یہی حال روحانیات میں ہے.جو لوگ ذکر الہی تو کرتے ہیں مگر نفس کی تربیت نہیں کرتے ان کو بھی کوئی فائدہ نہیں پہنچتا اور جو ذکر الہی نہیں کرتے اور صرف تربیت نفس کی طرف ہی متوجہ رہتے ہیں وہ بھی محروم رہتے ہیں.جس طرح جسمانیات میں اگر کوئی شخص ورزش تو کرے مگر کھائے کچھ نہیں بیمار ہو جاتا ہے اور جو زیادہ کھاتا تو رہے مگر ورزش نہ کرے وہ بھی بیمار ہو جاتا ہے.صحت کی درستی اور طاقت کے لئے دونوں چیزوں کی ضرورت ہے.یہی حال روحانیت ایک طرف قلب، خیالات اور ارادوں کو پاک و صاف کرنا ضروری ہے اور ہے.

Page 30

$1941 30 خطبات محمود اور دوسری طرف ذکر الہی کرنا، کثرت سے درود شریف پڑھنا اور خدا تعالیٰ کی یاد میں کچھ وقت خاموش بیٹھنا اور اس کی صفات پر غور و فکر کرنا ضروری ہے.پھر نمازوں کی باقاعدگی اور نماز میں دعائیں کرنا بھی ضروری ہے.نفسانی تربیت ایسے ہی ہے جیسے جسمانی غذا، نماز کی ظاہری حرکات، روزے یا دوسرے ضروری امور مثلاً چندے وغیرہ دینا، تبلیغ کرنا بھی روحانیت کی طاقت کو مضبوط کرتے ہیں.دعا دل اور ارادوں تطہیر اور ذکر الہی نئی طاقتیں پیدا کرتے ہیں اور پہلی طاقتوں کو نشو و نما دیتے ہیں سب چیزیں مل کر ہی روحانیت کو طاقت دے سکتی ہیں.دونوں میں انسان ترقی کرے تو اس کی روحانیت میں ترقی ہو سکتی ہے اس کے بغیر نہیں مگر میں دیکھتا ہوں کہ اس زمانہ میں مغربی تعلیم کے زیر اثر ذکر الہی اور دل کی تطہیر کی طرف توجہ بہت کم ہے او رلوگ بالعموم اللہ تعالیٰ کے ساتھ تعلق کو ایک سودا سمجھتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ جب ہم نے فرض ادا کر دیا تو اور کوئی ذمہ داری ہم پر باقی نہیں رہی.حالانکہ فرائض کی ادائیگی صرف انسان کو سزا سے بچا صرف انسان کو سزا سے جا سکتی ہے.انعام کا مستحق : اسے صرف نوافل ہی بنا سکتے ہیں.حکومتیں کئی قسم کے ٹیکس لگاتی ہیں.مثلاً بعض میونسپل ٹیکس ہیں، انکم ٹیکس ہے یا بعض اور ٹیکس ہوتے ہیں جنہیں انسان ادا کرتا ہے یا منی آرڈر وغیرہ پر فیس ہوتی ہے.کیا کوئی جاہل سے جاہل بھی کبھی افسروں سے کہتا ہے کہ میں نے منی آرڈروں کی فیس کے طور پر ہزاروں روپے حکومت کے خزانے میں داخل کئے ہیں مجھے خطاب دیا جائے؟ اگر کوئی یہ کہے بھی تو وہ کہہ دیں گے کہ تم نے فیس دی اور ہم نے تمہار اروپیہ پہنچا دیا بات ختم ہو گئی.خطاب کس بات کا؟ پس فرائض کی ادائیگی کسی انعام کا مستحق نہیں بنا سکتی.انعام کے طالب وہی ہو سکتے ہیں جو کوئی زائد کام کریں.محض ٹیکس کا ادا کرنا کسی خطاب کا مستحق نہیں بنا سکتا.ہاں اگر کسی ملک یا شہر میں فساد ہو اور کوئی شخص اسے فرو کرنے میں مدد دے تو وہ کہہ سکتا ہے کہ فرض کے طور پر میرا کام صرف یہ تھا کہ میں کسی فساد میں حصہ نہ لوں.مگر میں نے اسی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ پولیس کے ساتھ مل کر

Page 31

$1941 31 خطبات محمود میں نے اسے دور کیا اور اس طرح اپنے فرض سے زائد کام کیا.فرض صرف یہی تھا کہ میں فساد میں خود حصہ نہ لوں لیکن اس سے زائد کام کرنے کی وجہ سے میں انعام کا مستحق ہوں تو اس کا مطالبہ معقول ہو گا.غرض انعام کے لئے یہ ضروری ہوتا ہے کہ فرض سے بڑھ کر کام کیا جائے.فرائض کو ادا کر دینا انسان کو سزا سے تو بچا سکتا ہے مگر قرب الہی کا موجب نہیں ہو سکتا.قرب نوافل سے ہی ملتا ہے اور نماز باجماعت بھی فرائض میں داخل ہے.اس کے بعد وہ چیزیں ہیں جو نوافل کا درجہ رکھتی ہیں مثلاً ذکر الہی کرنا، استغفار کرنا، صفات الہی پر غور کرنا.دن میں، اپنے کام کے دوران میں جب بھی وقفہ ملے تسبیح، تحمید اور تکبیر کرتے رہتا بلند آواز سے ہی ضروری نہیں بلکہ آہستہ آہستہ بھی یہ ذکر کیا جا سکتا ہے.یہ چیزیں روح میں طاقت پیدا کرتی ہیں اور انسان کو اللہ تعالیٰ کے قریب کرتی ہیں.رسول کریم صلی نیلم نے فرمایا ہے کہ مومن نوافل سے ہی خدا تعالیٰ کا قرب حاصل کرتا ہے اور جوں جوں وہ نوافل میں ترقی کرتا ہے خدا تعالیٰ کے زیادہ قریب ہوتا جاتا ہے.اگر وہ ایک قدم خدا تعالیٰ کی طرف اٹھاتا ہے تو خدا تعالیٰ دو قدم اس کی طرف آتا ہے.اگر وہ چل کر خدا تعالیٰ کی طرف جاتا ہے تو خدا تعالیٰ اس سے تیز چل کر اس کی طرف آتا ہے.اگر وہ تیز چل کر جاتا ہے تو خدا تعالیٰ دوڑ وہ کر اس کی طرف آتا ہے یہاں تک کہ نوافل کے ذریعہ ایک دن ایسا آ جاتا ہے کہ خدا تعالیٰ اس کے ہاتھ بن جاتا ہے جن سے وہ کام کرتا ہے ، خدا تعالیٰ اس کے پاؤں بن جاتا ہے جن سے وہ چلتا ہے، خدا تعالیٰ اس کی زبان بن جاتا ہے جس سے وہ بولتا ہے اور خدا تعالیٰ اس کی آنکھیں بن جاتا ہے جن سے وہ وہ دیکھتا ہے اور خدا تعالیٰ اس کے کان بن جاتا ہے جن سے وہ سنتا ہے.3 مگر یہ مقام سوائے اس حالت کے حاصل نہیں ہو سکتا جو عشق کی ہوتی ہے.عاشق کے معنی عام طور پر پاگل کے ہی سمجھے جاتے ہیں جن کا قصوں میں ذکر ہے مثلاً مجنوں، فرہاد وغیرہ.مگر عشق دراصل شدید محبت کا نام ہے.جیسے ماؤں کو

Page 32

$1941 32 خطبات محمود اپنے بچوں سے ہوتی ہے یا باپ کو بچوں سے ہوتی ہے، خاوند کو بیوی سے اور بیوی کو خاوند سے ہوتی ہے.ان کے قلوب کی جو کیفیت ہوتی ہے کیا وہ فرائض والی حالت ہوتی ہے؟ فرائض والی کیفیت تو نوکر اور آقا کی ہوتی ہے جس میں بسا اوقات شرائط ہوتی ہیں کہ میں یہ کام کروں گا اور یہ نہیں کروں گا مگر گھروں میں کبھی یہ باتیں نہیں ہوتیں.کیا بچوں کے معاملہ میں یا خاوند اور بیوی کے معاملہ میں کوئی شرائط ہوتی ہیں ؟ دس پندرہ روپیہ تنخواہ لینے والے نوکر سے بھی اگر کہو کہ پاخانہ اٹھائے تو کبھی خوشی اور بشاشت سے نہیں اٹھائے گا.مگر دس ہزار روپیہ ماہوار کمانے والے انسان کی بیوی جو اس کے درجہ میں برابر کی شریک ہے اگر کوئی ایسا موقع آ جائے تو بغیر کسی ہچکچاہٹ کے خاوند کا پاخانہ اٹھا دے گی اور اسی طرح خاوند بیوی کا اٹھا دے گا.خواہ وہ گورنر ، وائسرائے بلکہ بادشاہ ہی کیوں نہ ہو.اگر کوئی ایسا موقع آئے کہ نوکر پاس نہ ہو اور بیوی کو قے ہو جائے تو کیا وہ انتظار کرے گا کہ نوکر کو بلائے اور وہ اسے صاف کرے.وہ اس وقت یہ خیال نہیں کرے گا کہ کام چوہڑوں کا ہے بلکہ وہ خود اسے صاف کرے گا.تو محبت کے موقع پر فرائض کو نہیں دیکھا جاتا.مولویوں نے شریعت کی حقیقت کو نہ سمجھنے کی وجہ سے فقہ کی کتابوں میں عجیب مسائل لکھ دیئے ہیں مثلاً خاوند پر فرض یہی ہے کہ بیوی کو دو جوڑے کپڑے دے دے اور کھانا مہیا کر دے خواہ کوئی غریب ہو یا بادشاہ بس اس پر دو جوڑے ہی فرض ہیں حالانکہ بعض لوگ چاہتے ہیں کہ ان کی بیوی کئی کئی جوڑے دن میں بدلے اور بعض دو بھی نہیں سکتے تو ایسے فتووں پر انسان کس طرح عمل کر سکتا ہے؟ بعض گھروں میں کام زیادہ ہوتا ہے عورتیں کپڑے خود نہیں دھو سکتیں اور بعض مرد نفاست پسند ہوتے ہیں وہ چاہتے ہیں کہ بیوی دوسرے تیسرے روز کپڑے بدلے.اب یہ دو جوڑوں سے تو سکتا اور اس لئے وہ بغیر اس خیال کے کہ فقہ کی کتابوں میں کیا لکھا ہو کافی کپڑے بنا دیتے ہیں.ہے

Page 33

خطبات محمود 33 $1941 پھر بعض لوگ دو جوڑے بھی نہیں بنا کر دے سکتے اس لئے یہ کوئی پابندی نہیں کی جا سکتی.بعض لوگ بیوی کو پچاس سو بلکہ ہزاروں روپیہ ماہوار جیب خرچ دے دیتے ہیں مگر کئی لوگ ہیں جو روٹی بھی مہیا نہیں کر سکتے.اب اس معاملہ میں کون یہ دیکھتا ہے کہ فقہاء کیا کہتے ہیں.میاں بیوی کے تعلقات میں ان باتوں کو نہیں دیکھا جا سکتا بلکہ اس تعلق کی بنیاد محبت پر ہوتی ہے.ہر ایک کی یہی خواہش ہوتی ہے کہ جتنا بھی ہو سکے ایک دوسرے کے زیادہ قریب ہوں.غرض جوڑوں کی قید صرف فرائض کی ادائیگی تک تو ہو سکتی ہے مگر محبت کے تعلقات میں اسے قائم نہیں رکھا جا سکتا بلکہ میاں یہ دیکھتا ہے کہ اپنی بیوی کو زیادہ سے زیادہ آرام پہنچائے اور بیوی یہ کہ زیادہ سے زیادہ خدمت خاوند کی کر سکے اور وہ ایسی خدمت کرتی ہے کہ بعض اوقات چار پانچ روپیہ کا نوکر بھی نہیں کر سکتا.میں دوسروں کا نہیں کہتا خود اپنے گھر کا تجربہ بیان کرتا ہوں.کئی بار شدید بیماری کی حالت میں ایسے مواقع بھی آئے ہیں کہ چارپائی کے قریب ہی کموڈ پاخانہ یا پیشاب کرنا پڑا اور ملازمہ وغیرہ کو جب اٹھانے کو کہا گیا تو اس نے کہا کہ ابھی چوہڑی آتی ہے وہ اٹھا لے جائے گی.مگر بیوی نے فوراً اٹھا کر باہر رکھ دیا اسے یہ احساس تک بھی نہیں ہوا کہ یہ چوہڑی کا کام ہے بلکہ اس وقت اسے یہ پتہ بھی نہیں لگ سکا کہ یہ ایسا کام ہے جو میرے کرنے والا نہیں.یہی حال خاوند کا ہوتا ہے.تو محبت کے تعلقات ایسی ہی بنیادوں پر قائم ہوتے ہیں.فرائض کی ادائیگی پر نہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام فرمایا کرتے تھے کہ کسی صوفی سے کسی نے پوچھا کہ مجھے کوئی ایسا کلمہ بتا دو جس کا میں ذکر کیا کروں.انہوں نے کوئی کلمہ بتا دیا.اس نے پھر پوچھا کہ کتنی دفعہ روزانہ یہ ذکر کیا کروں؟ وہ صوفی خدا رسیدہ تھے یہ سوال سن کر حیرت میں پڑ گئے.تھوڑی دیر بالکل خاموش رہے اور پھر فرمایا کہ “یار دا ناں لینا تے گن گن کے ؟ ” یعنی کیا محبوب کے ذکر پر بھی گنتی اور شمار کی قید لگائی جا سکتی ہے ؟ اگر محبت ہو تو جو بھی فرصت کا وقت ہو اس میں اس کی

Page 34

* 1941 34 خطبات محمود یاد آگئی.گننے کا کیا مطلب؟ تو سوائے ان عبادتوں کے جو فرض ہوتی ہیں اور جن کا گننا بھی ضروری ہے نوافل میں سے بھی بعض نوافل سنت کا رنگ رکھتے ہیں.ان کے سوا جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام سے کوئی پوچھتا کہ فلاں ذکر کتنی بار کرنا چاہئے تو آپ فرماتے کہ جب تک طبیعت میں بشاشت پیدا ہو.تعداد آپ نے نہیں بتائی.تو یہ نوافل ہیں جو انسان کے اندر حقیقی محبت پیدا کرتے ہیں.عبادت کو صرف فرائض تک محدود رکھنے کے معنے تو صرف یہ ہیں کہ خدا تعالیٰ آتا ہے اور اس کا نوکر ہوں اس سے زیادہ نہیں.اور نوکر و آقا کے تعلقات خواہ کیسے بھی کیوں نہ ہوں محبوب اور محب اور عاشق و معشوق کے پاکیزہ تعلقات کا مقابلہ ہر گز نہیں کر سکتے.محب اور محبوب کا تعلق امن و راحت کا تعلق ہوتا ہے اور یہ تعلق اسی وقت پیدا ہو سکتا ہے جب انسان کے اندر محبت کا رنگ ہے جب انسان کے اندر محبت کا رنگ پیدا ہو اور وہ حدود و قیود کو نظر انداز کر دے اور ہر وقت دل میں یہ احساس رہے کہ میں نے اس تعلق میں قی کرنی ہے.یہ نہیں کہ صبح کی نماز پڑھنے کے بعد صرف یہ احساس ہو کہ اب میں نے صرف ظہر کی نماز پڑھنی ہے اور ظہر کے بعد یہ کہ عصر کی پڑھنی ہے بلکہ ہر وقت خدا تعالیٰ کی طرف دھیان رہے.صبح کی نماز کے بعد جب ایک دکاندار دکان کا دروازہ کھولے تو اس وقت بھی خدا تعالیٰ کی یاد دل میں ہو اور دل و زبان خدا تعالیٰ کی تسبیح و تحمید کر رہے ہوں اور جب کسی کو سودا دے رہا ہو تو اس وقت بھی دل اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ ہو.اور جب گاہک کو سودا دے لے تو دل میں اطمینان ہو کہ میں نے اس کا حق نہیں مارا.مگر پھر بھی اَسْتَغْفِرُ اللہ پڑھتا رہے کہ شاید مجھ سے کوئی کمی رہ گئی ہو تو اللہ تعالیٰ اسے معاف کر دے.وزن پورا دیا ہو، سودا بھی ناقص نہ ہو.سب کچھ ٹھیک کرنے کے بعد بھی یہ خیال ہو کہ کوئی ایسی بات مجھ سے نہ ہو گئی ہو کہ جو میرے محبوب کی ناراضگی کا موجب ہو اور اس لئے

Page 35

خطبات محمود 35 $1941 ہے تو استغفار کرتا رہے.یہی حال زمیندار کا ہو وہ پورے زور کے ساتھ ہل چلا رہا ہو مگر دل میں ذکر الہی کرتا رہے.یہ دونوں کام ایک ہی وقت ہو سکتے ہیں.صرف یہ کافی نہیں کہ صبح کی نماز پڑھ لی ہے اور اب ظہر کی پڑھنی ہے اور ظہر کی پڑھ لی اب عصر کی پڑھنی ہے بلکہ جب بھی موقع ملے خدا تعالیٰ کو یاد کرتا رہے.یہی وہ چیز ہے جو روح کو طاقت دیتی اور دل کو صاف کرتی ہے اور اسی کے نتیجہ میں خدا تعالیٰ کا قرب حاصل ہو سکتا ہے.پس اس زمانہ میں شہروں اور قصبوں میں جو دقتیں ہیں ان کے لحاظ سے ان جگہوں کے رہنے والوں کو ان امور کی طرف بہت توجہ کی ضرورت ہے.ہے.خصوصاً لاہور میں جہاں میلوں کا فاصلہ ہے.بے شک اس زمانہ میں ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچنے کے لئے سواریاں بھی ہیں مگر وہ سب کو میسر نہیں اور لاہور میں تو وہ ابھی رائج بھی نہیں.یورپ میں شہروں کے اندر بھی ریلیں چلتی ہیں، بیں ہیں اور بھی کئی قسم کی سواریاں ہیں مگر یہاں گلیوں کی تنگی کی وجہ سے ایسا انتظام ہو جاتے ہیں.لاہور بھی مشکل ہے.اس لئے لوگ باجماعت نمازوں میں سے میں بعض ایسے لوگ بھی ہیں جو میں نے سنا ہے جمعہ میں بھی سستی کرتے ہیں مگر لوگ بالکل مردہ دل ہوتے ہیں اور اس موقع پر میں ان کا ذکر نہیں کر رہا ان کے لئے اور قسم کی نصیحت کی ضرورت ہوتی ہے.اس وقت تو میرے مخاطب وہ ہیں جو باقاعدہ نمازیں ادا کرتے ہیں اور باجماعت نماز کی کوشش بھی کرتے ہیں.میں ان سے کہتا ہوں کہ ان کی یہ حالت بھی قابل تسلی نہیں.ان کو اور آگے بڑھنا چاہئے اور ذکر اذکار کی عادت ڈالنی چاہئے.میں نے دیکھا ہے کہ تعلیم یافتہ لوگ ذکر اذکار کو غیر ضروری اور حقیر کام سمجھتے ہیں.بہت ہی کم ہیں جن کو میں نے اس طرف متوجہ دیکھا ہے.بیشک ایسے لوگ ہیں جو مساجد میں بیٹھ کر تسبیح و تحمید کرتے ہیں مگر ان کی تعداد کم ہے.تسبیح و تحمید کے لئے یہ ضروری نہیں کہ ہاتھ میں ضرور تسبیح پکڑ لی جائے بلکہ زبان سے اور دل و دماغ سے خدا تعالیٰ کی یاد کرنی چاہئے.مگر بہت کم لوگ ایسا کرتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ دلوں میں صفائی پیدا لوگ

Page 36

$1941 36 خطبات محمود نہیں ہوتی اور جلدی ٹھوکر کھا جاتے ہیں.خدا تعالیٰ سے ان کا تعلق کمزور ہوتا ہے اور ان کی مثال ایسی ہی ہوتی ہے جیسے کوئی شخص سر پر برتن رکھ کر جا رہا ہو.ایسے کو اگر ذرا سی ٹھوکر لگے تو برتن بھی نیچے گر جائیں گے ایسے لوگوں کا تعلق خدا تعالیٰ سے ایسا ہی ہوتا ہے.اسی لئے وہ ذرا سی ٹھوکر کے ساتھ خدا تعالیٰ سے الگ ہو جاتے ہیں لیکن محبت ایک ایسی چیز ہے جو بندے اور خدا تعالیٰ کو باندھ دیتی ہے اور جو چیز دوسری سے باندھ دی جائے وہ گرا نہیں کرتی.اسے جب پھیکا بھی جائے تو وہ بندھی رہتی ہے.تو نوافل خدا اور بندے کو اسی طرح باندھ دیتے ہیں جس طرح ایک چیز دوسری سے رسی یا زنجیر کے ساتھ باندھ دی جاتی ہے یا جس طرح ویلڈنگ کرتے ہیں.نوافل سے خدا تعالیٰ اور بندے کے درمیان ویلڈنگ ہو جاتا ہے ہے اور ایسے انسان کو جب ٹھوکر لگے اور وہ گرے تو خدا تعالیٰ بھی ساتھ گرتا تفرقہ نہ ہو اور اگر اسے کوئی اوپر پھینکتا ہے تو خدا تعالیٰ بھی ساتھ ہی اوپر جاتا جب تک یہ ویلڈنگ نہ ہو ذرا سی ٹھوکر سے وہ ادھر جا پڑتا ہے اور یہ ادھر.اس زمانہ میں ابتلاؤں کی جو کثرت ہے وہ اسی وجہ سے ہے کہ لوگوں نے نوافل اور ذکر اذکار کو بھلا دیا.پس میں احباب کو خصوصیت سے نصیحت کرتا ہوں کہ نوافل اور ذکر الہی جو فرائض اور نماز باجماعت کے بعد ضروری چیزیں ہیں ان کی عادت ڈالیں تا اللہ تعالیٰ اور ان کے درمیان ایسا مضبوط رشتہ قائم ہو جائے جو ذراذرا سی ٹھوکروں سے نہ ٹوٹ سکے.رسول کریم صلی علیم نے اپنے صحابہ کو مخاطب کر کے فرمایا کہ تم سے پہلی قوموں پر ایسے عذاب آئے ہیں کہ ان میں سے بعض آروں سے چیرے گئے مگر وہ مرتد نہیں ہوئے.4.الله سة عیسائیوں کی تاریخ میں ایسی مثالیں ملتی ہیں کہ روم کے بادشاہوں نے ان میں سے بعض کو آروں سے چروا دیا مگر انہوں نے اپنے ایمان کو نہ چھوڑا.مگر اب ، دیکھ لو کتنی جلدی ٹھوکر لگ جاتی ہے.یہ فلسفہ اور دہریت کا زمانہ ہے اس وجہ سے اللہ تعالیٰ کے ساتھ محبت پیدا کرنے والے ذرائع کو لوگوں نے نظر اندا ز کر دیا ہے.

Page 37

$1941 37 خطبات محمود اس لئے قلوب میں صفائی پیدا نہیں ہوتی اور اللہ تعالیٰ کے ساتھ اس قسم کا جوڑ اور تعلق پیدا نہیں ہوتا جو ایسے بد اثرات سے انسان کو بالا کر دے.یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ جب تک قلب، دماغ اور خیالات میں صفائی نہ ہو ذکر اذکار بھی مفید نہیں ہوتا.یہ ایسی ہی بات ہوتی ہے جیسے کوئی انسان عمدہ عمدہ مرغن کھانے تو کھائے مگر سارا دن چارپائی پر ہی بیٹھا رہے.ذکر الہی اس وقت تک قرب الہی کا موجب نہیں ہو سکتا جب تک اس کے ساتھ دل و دماغ میں صفائی نہ ہو.محض زبان سے بعض الفاظ کہہ دینا کافی نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی نظر دل کی صفائی پر ہوتی ہے اس کے بغیر بسا اوقات ذکر الہی عذاب کا موجب ہو جاتا ہے جیسے پیشاب کی بوتل میں اگر کوئی عمدہ شربت ڈال لے تو وہ اسے کوئی بشاشت نہیں پہنچا سکتا یا کوئی عمدہ کھانا پاخانہ کے برتن میں ڈال لے تو وہ اسے کوئی بشاشت نہیں پہنچاسکتا یا کوئی عمدہ کھانا پاخانہ کے بر تن میں ڈال لے تو وہ کوئی طاقت نہیں پیدا کرے گا بلکہ صحت کو اور خراب کر دے گا.عمدہ غذا اسی وقت مفید ہو سکتی ہے جبکہ وہ برتن بھی صاف ہو جس میں وہ ڈالی جائے.بعض لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ فلاں شخص بڑے وظائف کیا کرتا تھا مگر مرتد ہو گیا اور یہ نہیں سوچتے کہ عمدہ سے عمدہ شربت بھی پیشاب کے برتن میں پڑ کر خراب ہو جاتا ہے جس کا دل اور دماغ صاف نہیں اسے ذکر اذکار کوئی فائدہ نہیں دے سکتے.جس طرح کہ اچھی غذا خراب بر تن میں پڑ کر خراب ہو جاتی ہے یا جیسے اچھے برتن میں خراب غذا ڈال دی جائے تو وہ اچھی نہیں بن جاتی.یہ دونوں چیزیں ضروری ہیں یعنی اپنے دل و دماغ اور خیالات کی صفائی اور پھر ذکر الہی کی عادت.شاہ ولی اللہ صاحب بہت بڑے بزرگ گزرے ہیں ان کی ایک یوتی بہت ذکر کیا کرتی تھیں.ایک دفعہ ان کے ایک بھائی شاید ان کا نام شاہ عبد الغنی تھا ان سے ملنے آئے تو دیکھا کہ وہ مصلی پر بیٹھی ہیں.انہوں نے کہا بہن تم مصلی پر بہت بیٹھی رہتی ہو.انہوں نے کہا کہ مجھے ذکر الہی میں بڑی لذت آتی ہے.شاہ صاحب نے فرمایا کہ مجھے تو یوں نظر آتا ہے کہ تم اس میں غلو کرنے لگی ہو ایسا نہ ہو کہ

Page 38

$1941 38 خطبات محمود فرائض میں سستی ہو جائے.یہ نصیحت کر کے وہ چلے آئے.اگلے جمعہ کے بعد پھر ملنے گئے.جمعہ کے جمعہ جاتے تھے تو بہن نے کہا کہ اب تو مجھے فرائض سے زیادہ نفلوں میں لذت آتی ہے اور یوں معلوم ہوتا ہے کہ یہی اصل چیز ہے.بھائی نے کہا ہشیار رہو شیطان خدا تعالیٰ.سے دور لے جا رہا ہے.اگلے جمعہ کو وہ پھر آئے تو بہن نے کہا بھائی بات تو آپ نے ٹھیک کہی تھی اب تو بعض دفعہ مجھے طبیعت پر جبر کر کے فرائض ادا کرنے پڑتے ہیں کوئی علاج بتاؤ.بھائی نے کہا لا حَول پڑھا کرو.اگلے جمعہ وہ پھر آئے تو بہن نے کہا بھائی! خدا آپ کا بھلا کرے میں نے کشف میں دیکھا ہے کہ شیطان بندر کی صورت میں بیٹھا غصہ سے دانت پیس رہا ہے اور پ کی طرف اشارہ کر کے کہتا ہے کہ اس نے تمہیں بچا لیا ورنہ میں تو تمہیں جہنم لے جاتا.تو جب تک دماغ اور قلب کی صفائی نہ ہو اور اس کے ساتھ فرائض پابندی، ذکر الہی بھی عذاب بن جایا کرتا ہے.پس یہ دونوں چیزیں بہت ضروری ہیں.ایک ہی طرف لگ جانا بے وقوفی کی بات ہے اور اس سے قرب الہی حاصل نہیں ہو سکتا.بیک وقت دونوں چیزیں ضروری ہیں اور جب یہ دونوں مل جائیں تو خدا تعالیٰ سے ایسی پیوستگی ہو جاتی ہے اور ایسا لگاؤ پیدا ہو جاتا ہے کہ دنیا کی کوئی چیز پھر ایسے انسان کو خدا تعالیٰ سے جدا نہیں کر سکتی.اس کامل محبت کی ایک مثال اسی لاہور میں ظاہر ہو چکی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جب دعویٰ کیا تو مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی نے بہت مخالفت کی اور سارے ملک میں پھر کر آپ کے خلاف کفر کے فتوے حاصل کئے بلکہ یہاں تک کہہ دیا کہ میں نے ہی اس شخص کو اوپر اٹھایا تھا اور اب میں ہی اسے گراؤں گا.وہ یہاں لاہور میں آکر بیٹھ گئے اور خوب زور سے مخالفت شروع کر دی.لدھیانہ کے ایک ان پڑھ سے دوست میاں نظام الدین صاحب تھے بہت ہنس مکھ آدمی تھے حج کا ان کو بے انتہا شوق تھا اور باوجود اس کے کہ ریلیں نہ تھیں اور جہاز بھی دُخانی نہ تھے پھر بھی انہوں نے 8، 10 حج کئے تھے.اس زمانہ میں

Page 39

$1941 39 خطبات محمود بہت سا سفر پیدل کرنا پڑتا تھا اور ایک ایک حج میں دو دو سال لگ جاتے تھے.ان کی طبیعت میں مذاق بہت تھا اور بچوں میں بہت خوش رہتے تھے.ہمیں بھی وہ اپنے لطائف سنایا کرتے تھے اور ہم ہنس ہنس کر لوٹ لوٹ جاتے تھے بہت سادہ آدمی تھے اور چائے کے بہت عادی تھے.چونکہ لدھیانہ میں افغان شہزادے رہتے ہیں اس لئے وہاں چائے کا عام رواج ہے.وہ کہا کرتے تھے کہ میاں! معلوم ہے حج کو جاتے ہوئے ہم چائے کس طرح پیتے ہیں؟ وہاں رستہ میں سماوار وغیرہ کہاں ہوتے ہیں میں تو یوں کرتا تھا کہ جہاں چائے کا وقت آیا اور چائے نہ ملی تو چائے کی پتی لی اور پھانک لی پھر جب کہیں گرم پانی ملا اوپر سے وہ پی لیا بس پیٹ میں جا کر آپ ہی چائے بن گئی.ان کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے بہت محبت تھی اور وہ مولوی محمد حسین صاحب کے بھی بڑے مداح تھے ان کے اوپر بھی اہلحدیث کا رنگ چڑھا ہوا تھا.انہوں نے جب سنا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر کفر کا فتویٰ لگایا گیا ہے تو کہا کہ نہیں مرزا صاحب کفر کی بات نہیں کر سکتے ان کو کوئی غلطی لگی ہو گی ہ قرآن کے عاشق ہیں.وہ یہ شور سن کر قادیان آئے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے پوچھا کہ یہ کیا بات ہے؟ لوگ کہتے ہیں آپ قرآن کریم کے خلاف عقائد رکھتے ہیں.آپ نے فرمایا میاں نظام دین! آپ نے کبھی دیکھا ہے کہ میں نے قرآن کریم کے خلاف کوئی بات کہی ہو ؟ انہوں نے کہا اللہ آپ کا بھلا کرے نے تو پہلے ہی کہا تھا کہ لوگ غلط کہتے ہیں یہ بھی تو جھوٹ ہے نا کہ آپ کہتے ہیں حضرت عیسی علیہ السلام فوت ہو گئے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا یہ تو سچ ہے مگر قرآن کریم میں یہی لکھا ہے.میاں نظام الدین صاحب نے کہا کہ قرآن بیسیوں آیات ان کے زندہ ہونے کی شاہد ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ اگر ایک بھی ہو تو میں مان لوں گا.وہ کہنے لگے کہ بس میں نے پہلے ہی تھا کہ کوئی غلط فہمی ہو گئی ہو گی اب معاملہ صاف ہو گیا.میں ایک سو آیات مسیح علیہ السلام کی زندگی کے ثبوت میں لکھوا لاتا ہوں.حضرت مسیح موعود علیه السلام :

Page 40

خطبات محمود 40 $1941 نے فرمایا کہ نہیں سو کی تو کوئی ضرورت نہیں ہم تو ایک بھی ہو تو مان لیں گے.انہوں نے کہا کہ اچھا پچاس لے آؤں؟ آپ نے فرمایا میں تو ایک کو بھی ماننے کو تیار ہوں.آخر میاں نظام الدین صاحب نے کہا اچھا میں دس آیات لکھوا لاتا ہوں کیا آپ ان کو دیکھ کر اپنے خیال سے رجوع کر لیں گے؟ آپ نے فرمایا کہ ہم تو ایک آیت بھی دیکھ کر رجوع کر لیں گے.اس پر وہ اٹھے اور کہا پھر یہ وعدہ کریں کہ لاہور چل کر شاہی مسجد میں اپنی غلطی کا اعتراف کریں گے تاکہ سب ملک کو ہو جائے.آپ نے فرمایا بہت اچھا.وہ خوش خوش لاہور کی طرف روانہ معلوم.ہو گئے جہاں اُس وقت مولوی محمد حسین صاحب اُن دنوں مخالفت کا شور بلند کر تھے اور چینیاں والی مسجد میں جہاں اہلحدیثوں کا جمعہ ہوتا ہے اس میں مقیم تھے.اتفاق سے حضرت خلیفہ اول بھی ان دنوں چھٹی لے کر یہاں آئے ہوئے تھے اور مولوی محمد حسین صاحب نے ان کے خلاف بھی اشتہار بازی شروع کر رکھی تھی کہ کافر کا چیلا یہاں آگیا ہے اور اعتراض کر رہے تھے.حضرت خلیفہ اول بھی جواب یتے تھے.مولوی محمد حسین صاحب کہتے تھے کہ قرآن کریم کی جو تفسیر احادیث میں ہو وہی قابل قبول ہے اور آپ فرماتے تھے کہ بعض احادیث غلط بھی ہو سکتی ہیں.آخر آپ نے مان لیا کہ اچھا قرآن کریم اور بخاری میں جو بات ہو وہ میں مان لوں گا اور مولوی محمد حسین صاحب اپنے معتقدین میں بیٹھے بڑے زور سے یہ کہہ ہے تھے کہ دیکھا میں نے کس طرح نور الدین کو قابو کیا اور آخر حدیث کی طرف لے آیا ہوں.انہیں اپنی تعریف آپ کرنے کی بہت عادت تھی اور اس بات کو بڑے فخر سے بیان کر رہے تھے کہ اُدھر سے میاں نظام الدین پہنچ گئے اور کہا کہ بس چھوڑیئے اب فیصلہ ہو گیا.میں قادیان گیا تھا مرزا صاحب میرے دوست مجھے یقین تھا کہ وہ قرآن کریم کو نہیں چھوڑ سکتے.اب میں آیا ہوں اور اُن سے فیصلہ کر آیا ہوں کہ دس آیات وفات مسیح کی تائید میں میں ان کو دکھا دوں گا اور وہ شاہی مسجد میں آکر اپنے خیالات سے توبہ کر لیں گے.بس آپ مجھے

Page 41

$1941 41 خطبات محمود دس آیات لکھ دیں.یہ بات سن کر مولوی محمد حسین صاحب کی آنکھیں سرخ ہو گئیں اور بڑے غصہ سے کہا کہ تم جاہل آدمی ہو تمہیں کس نے کہا ہے کہ علمی باتوں میں دخل دو.میں تین ماہ تک کوشش کر کے نور الدین کو حدیث کی طرف لایا تھا یہ پھر قرآن کی طرف لے جا رہا ہے.یہ بات مولوی محمد حسین صاحب نے غصہ میں کہہ دی اور یہ خیال نہ کیا کہ اس سے ان کی کمزوری کا اظہار ہوتا میاں نظام دین تھے تو بیشک ان پڑھ مگر جب یہ بات سنی تو ان کی آنکھیں کھل گئیں.تھوڑی دیر خاموش رہے اور پھر یہ کہہ کر مولوی صاحب! “اچھا جدھر قرآن وو ہے.اُدھر ہم.” اٹھ کر چل پڑے اور قادیان میں آکر بیعت کر لی.ان کا خدا تعالیٰ کے ساتھ تعلق محبت کا تھا.وہ یہ محسوس کرتے تھے کہ میں ہر چیز کو چھوڑ سکتا ہوں مگر خدا تعالیٰ کے کلام کو نہیں چھوڑ سکتا.اس لئے جب دیکھا کہ مولوی محمد حسین قرآن کریم کو چھوڑ رہے ہیں تو کسی اور دلیل کی ضرورت ہی نہ رہی.اور جب مومن کی یہ حالت ہو جائے اور اللہ تعالیٰ کے ساتھ اسے محبت کا ایسا تعلق ہو جائے تو پھر اسے کوئی ابتلاء پیش نہیں آ سکتا وہ یہی کہتا ہے کہ اچھا جدھر قرآن اُدھر ہی ہم.دوسرا کلمہ اس کی زبان سے نہیں نکلتا اور جو شخص خدا تعالیٰ کا قرب چاہتا ہے اسے یہی مقام حاصل کرنا چاہئے اور خدا تعالیٰ کے ساتھ مضبوطی سے بندھا ہوا ہونا چاہئے.یہ نہیں کہ تعلق کمزور ہو اور ذرا سی ٹھوکر لگنے پر یہ ادھر اور وہ ادھر جا پڑے.یہی اصل اطمینان کا مقام ہوتا ہے.اور اسی سے خدا تعالیٰ کے وہ فضل نازل ہوتے ہیں جن کے بغیر نجات حاصل نہیں ہو سکتی.جب خدا تعالیٰ کے ساتھ ایسا مضبوط تعلق قائم ہو جائے تو ایسے انسان کو گو دنیا بھی چھوڑ دے، لوگ کتنا اسے بد نام کریں مگر خدا تعالیٰ اسے نہیں چھوڑتا.جس دن حضرت مسیح ناصری علیہ السلام صلیب دیا گیا اس دن کون کہہ سکتا تھا کہ ان کے بعد بھی کوئی ان کا نام لے گا حتی کہ حواری بھی ان کو چھوڑ گئے.مگر ان کا خدا تعالیٰ سے مضبوط تعلق تھا.پس خدا تعالیٰ نے ان کو نہ چھوڑا اور آخر ان کا نام عزت سے دنیا میں قائم ہو گیا.

Page 42

$1941 42 خطبات محمود ہوتا دشمنوں نے جب حضرت امام حسین علیہ السلام کو کربلا کے میدان میں شہید کیا تو کون کہہ سکتا تھا کہ ان کا نام دنیا میں عزت سے یاد کیا جائے گا.اس وقت دشمن کتنے فخر سے کہتے ہوں گے کہ ہم نے موذی کی نسل کا ہی صفایا کر دیا اور دیکھ لو کیسا برا انجام ان لوگوں کا ہوا.مگر زمانہ نے آخر کیا ثابت کیا؟ یہی کہ خدا تعالیٰ کے ساتھ تعلق رکھنے کی وجہ سے خاندان کی تباہی کے باوجود بھی ان کا نام ہمیشہ عزت کے ساتھ زندہ ہے.اور اولاد بھی اتنی پھیلی ہے کہ دنیا کے ہر گوشہ میں سادات موجود ہیں اور دوسری طرف دیکھ لو آج بھی کہ جو ایمانی تنزل کا زمانہ ہے کسی کو یہ جرات نہیں کہ اپنے بیٹے کا نام یزید رکھ سکے.جس طرح بعض زمانوں میں خدا تعالیٰ کا نام بھی دنیا سے مٹ جاتا ہے بیشک اس کے بندوں کا بھی مٹ جاتا ہے مگر جب بھی پھر خدا تعالیٰ کا نام ابھرتا ہے ساتھ ہی ان کا بھی ابھر آتا ہے.اگر انسان خدا تعالیٰ کے نام کو دل سے نکالتا ہے تو ان کا بھی نکل تو ان کا بھی نکل جاتا ہے مگر جب خدا تعالیٰ کا نام زندہ ہے ان کا بھی ساتھ ہی ہو جاتا ہے.پس اپنی حالت کو اس رنگ میں سنوارو کہ خدا تعالیٰ کے ساتھ مستقل رشتہ پیدا ہو جائے اور اس رشتہ کے پیدا کرنے کا طریق میں نے بتا دیا ہے.اس کے بعد میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ بے شک لاہور کی جماعت بڑھ رہی ہے مگر لاہور کا شہر ان سے بہت زیادہ نسبت سے بڑھ رہا ہے.پہلے کبھی جمعہ میں میں نے اتنے آدمی نہیں دیکھے جتنے آج ہیں مگر پہلے شہر بھی اتنا بڑھا ہوا نہیں دیکھا جتنا آج ہے اور اگر شہر زیادہ بڑھے اور جماعت اس شہر زیادہ بڑھے اور جماعت اس نسبت سے کم بڑھے تو یہ جماعت کی کمی پر دلالت کرتی ہے.اس لئے احباب کو تبلیغ کی طرف بھی خاص طور پر توجہ کرنی چاہئے.اب تو تبلیغ کے لئے ایک بہانہ بھی پیدا ہو گیا ہے.ہر شخص تفسیر کبیر لے کر اپنے دو دو چار چار دس دس ہیں ہیں بلکہ پچاس پچاس اور سو سو دوستوں کے پاس جائے اور اس کی خریداری کی تحریک کرے.یہ میں کسی ذاتی نفع کے لئے نہیں کہہ رہا کیونکہ یہ تفسیر سلسلہ کا مال ہے میرا ذاتی نہیں.نیز اس تفسیر کی اشاعت پر اس قدر زور دینے کی بھی مجھے ضرورت نہیں کیونکہ اس کا اکثر حصہ

Page 43

خطبات محمود 43 *1941 فروخت ہو چکا ہے.پس میں اس کی فروخت کے لئے نہیں بلکہ تبلیغ کے لئے ایک موثر ذریعہ ہونے کی وجہ سے اس کی تحریک کر رہا ہوں اور اس سے تبلیغ کے لئے موقع پیدا ہو سکتا ہے.بعض لوگ اسے ہتک سمجھتے ہیں کہ اسے دوسروں کے پاس فروخت کریں.حیدر آباد کے بعض دوستوں کو میں نے تحریک کی تو انہوں نے کہا ہم خرید کر امراء کو بطور تحفہ پیش کر دیں گے مگر میں نے کہا کہ مجھے یہ منظور نہیں اور مجھے پیسوں کی ضرورت نہیں بلکہ میں چاہتا ہوں کہ تحریک کی جائے کہ لوگ خود خریدیں.انہوں نے کہا یہ بڑی مشکل بات ہے.میں نے کہا جب تک اسے بیچو گے نہیں تمہارا نفس بھی نہیں مرے گا اور اگر خود خرید کر کسی کو دے دو گے تو یہ خدا تعالیٰ کی خاطر نہیں بلکہ انسان کی خاطر نیکی ہو گی.پس اگر لاہور کے دوست دس دس ہیں ہمیں دوستوں کے پاس جائیں تو اسی ذریعہ سے ہزاروں لوگوں کو تبلیغ کا موقع مل جائے گا.کوئی گالیاں دے گا، کوئی برا بھلا کہے گا ، مگر کوئی خرید بھی لے گا اور کسی نہ کسی کے کان میں آواز پڑے گی تو کسی نہ کسی کو ہدایت بھی ہو جائے گی.ہم نے دیکھا ہے کئی لوگوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کوئی کتاب خریدی تو اسی کے ذریعہ ان کے پوتے نے بیعت کر لی اور اس نے بیان کیا کہ اس طرح کتاب پڑی تھی میں نے اسے پڑھا تو مجھے سمجھ آگئی اور میں نے مان لیا.پس دوستوں کو تبلیغ کی طرف بھی توجہ کرنی چاہئے کیونکہ یہ مرکزی مقام ہے اور اس میں جماعت جتنی ترقی کرے گی اور جتنی مضبوط ہو گی اتنا ہی اس کا اثر سارے صوبہ پر اچھا ہو گا.پس تبلیغ مقامی لحاظ سے بھی اور جماعت کے لحاظ سے بھی لاہور کی جماعت کے لئے بہت ضروری ہے اور اس طرف ان کو خاص توجہ کرنی چاہئے." (الفضل 22 مارچ 1941ء) 1 مسند احمد بن حنبل جلد 3 صفحه 423 مطبوعہ بیروت 1978ء، مسلم کتاب المساجد باب يَجِبُ اِثْيَانِ الْمَسْجِدِ عَلَى مَنْ سَمِعَ النِّدَاءَ 2 مہاراجہ رنجیت سنگھ پنجاب میں سکھ سلطنت کا بانی.(اردو انسائیکلو پیڈیا)

Page 44

* 1941 44 خطبات محمود بخاری کتاب الرقاق باب التَّوَاضُع 4 بخاری کتاب المناقب باب مَا لَقِيَ النَّبِيُّ وَأَصْحَابُهُ مِنَ الْمُشْرِكِيْنَ بِمَكَّةَ

Page 45

* 1941 45 4 خطبات محمود بعض حکام کے افسوسناک رویہ پر صبر اور دعاؤں سے کام لو فرموده 7 فروری 1941ء) تشہد، تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:.مجھے کھانا کھانے کے بعد چونکہ شدید متلی کی تکلیف ہو گئی ہے اس لئے میں زیادہ دیر تک نہیں بول سکتا لیکن موقع اور اہمیت کے لحاظ سے میں ضروری سمجھتا ہوں کہ ایک اہم امر کی طرف جماعت کو توجہ دلا دوں او ر وہ یہ ہے کہ گزشتہ چند ہفتوں سے حکام کا رویہ پھر کچھ ایسا ہو رہا ہے جو اس نیت پر دلالت کرتا ہے کہ وہ جماعت احمدیہ کو بدنام کرنا چاہتے ہیں یا اسے بلا وجہ دِق کرنا چاہتے ہیں.ابھی تک میں اس نتیجہ پر نہیں پہنچ سکا کہ اس کی اصل ذمہ داری کس حاکم پر عائد ہوتی ہے لیکن بہر حال لیکن بہر حال سکھوں کے دیوان کے بعد سے لے کر اب تک باوجود اس بات کو تسلیم کرنے کے کہ جماعت احمدیہ کا نمونہ نہایت اعلیٰ درجہ کا تھا اور تحریری طور پر اس کا اظہار کرنے کے عملی کارروائی یہی ہو رہی ہے کہ مختلف مواقع پیدا کر کے جماعت احمدیہ کو دق کرنے کی کوشش کی جاتی ہے.گو میں نہیں سمجھ سکا کہ اگر اس حالت کا موجب کوئی انگریز ہے تو انگریز قوم جو اتنی ہوشیار ہے اور جو اس بات کو سمجھتی ہے کہ ایام جنگ میں کسی قسم کا فتنہ پیدا کرنا بالخصوص ایسی جنگ کے دنوں میں جس میں خود انگلستان کی ہستی معرضِ خطر میں ہے کوئی دانائی کی بات

Page 46

خطبات محمود 46 $1941 نہیں ہو سکتی.وہ کس طرح اس قسم کی فتنہ انگیزی کو جائز سمجھ رہی ہے؟ اس قسم کا فعل کسی قوم کا فرد اُس وقت تک نہیں کر سکتا جب تک وہ اپنی قوم کا د قوم کا دشمن نہ ہو یا حد درجہ احمق اور بیوقوف نہ ہو لیکن چونکہ میں نہیں کہہ سکتا کہ اس کی ذمہ داری ہندوستانیوں پر ہے یا انگریزوں پر ہے یا کسی اور پر ہے.اس لئے باوجود اس بات کو نہایت ہی ناپسند کرنے کے میں اس کے متعلق کسی قسم کے خیالات کا اظہار کرنا نہیں چاہتا لیکن میں یہ بھی جانتا ہوں کہ یہ واقعات ہر ایک کو نظر آ رہے ہیں.صرف یہی نہیں کہ میرے سامنے ہیں بلکہ جماعت کے دوستوں نے بھی ان واقعات وہ کو دیکھا ہے.مثلاً یہ کوئی پوشیدہ بات نہ تھی کہ سکھوں کا یہاں دیوان ہوا اور تلواریں اور کلہاڑے ہلاتے ہوئے ہماری گلیوں میں سے گزرے.آخر ایک مذہبی دیوان کے ساتھ اس قسم کے پروسیشن (PROSESSION کا کیا تعلق ہو سکتا تھا جس میں وہ نیزے، تلواریں اور کلہاڑے لے کر نکلتے اور جب وہ ہ تلواریں اور کلہاڑے لے کر نکلے اور انہیں ہلاتے ہوئے ہماری گلیوں میں سے گزرے تو اس کے سوائے اس کے اور کیا معنے تھے کہ وہ یہ بتانا چاہتے تھے کہ ہم تلواروں اور کلہاڑوں سے لڑنے کے لئے تیار ہیں اگر آنا ہے تو آ جاؤ.گویا یہ ایک خاموش اشتعال انگیزی تھی.مگر ہماری جماعت نے صبر کیا اور اس نے سکھوں کے اس رویہ کے باوجود اپنے جذبات کو قابو میں رکھا.لیکن اب جبکہ خدام الاحمدیہ کا جلسہ ہوا اور اس میں اتفاقی طور پر بعض لوگ کلہاڑیاں لے کر آگئے تو باوجود اس کے کہ خدام الاحمدیہ نے اس قسم کا کوئی پروسیشن نہیں نکالا تھا جس قسم کا سکھوں نے نکالا.حکام نے یہ نوٹس دے دیا کہ اس جلسہ میں بعض لوگ کلہاڑے لے کر آئے ہیں جو امن عامہ کے ہے اسے روکا جائے.گویا اس وقت حکومت کے دو قانون جاری ہیں.ایک قانون منافی ہے.

Page 47

$1941 47 خطبات محمود وہ ہے جو سکھوں کے لئے ہے اور دوسرا قانون وہ ہے جو احمدیوں کے لئے ہے.سکھوں کے متعلق تو یہ قانون ہے کہ وہ ڈپٹی کمشنر، سپرنٹنڈنٹ پولیس، ریذیڈنٹ مجسٹریٹ اور پولیس کی ایک بہت بڑی جمعیت کے سامنے احمدیوں کے محلوں میں سے کلہاڑیاں اور تلواریں ہلاتے ہوئے جلوس کی صورت میں گزریں تو یہ بالکل جائز اور درست ہے لیکن احمدیوں کے لئے یہ قانون ہے کہ وہ اس قسم کا پروسیشن نکالیں یا نکالیں اگر ان میں سے کچھ لوگ عادتاً جیسا کہ زمینداروں کی عام طور پر عادت ہے کہ وہ اپنے ہاتھ میں سونٹا یا کلہاڑی وغیرہ رکھتے ہیں.ایسے طور پر نہیں کہ کسی کو اشتعال دلانا مقصود ہو یا گلیوں میں سے وہ کلہاڑیوں کو ہلاتے ہوئے گزریں، جگہ جائیں تو ان کے لئے یہ بات ناجائز ہے.جس کے معنے سوائے اس کے کچھ نہیں کہ بعض حکام کی ذہنیت یہ ہے کہ جو طاقتور ہو اس کے آگے جھک جاؤ اور جو کمزور ہو اس کو دباؤ.احمدی چونکہ تھوڑے ہیں اس لئے ان کے لئے اور قانون ہے لیکن سکھ چونکہ زیادہ ہیں اور ان کے متعلق گورنمنٹ کو یہ خطرہ ہے کہ اگر ان سے مقابلہ کیا تو بھرتی بند ہو جائے گی اور ملک میں اشتعال پیدا ہو جائے گا اس لئے ہوتی ان کے لئے اور قانون ہے.میری غرض ان واقعات کو خطبہ میں بیان کرنے سے یہ ہے کہ اس قسم کے حالات کو دیکھ کر بسا اوقات جماعتوں میں بے چینی اور بے اطمینانی پیدا ہو جاتی ہے.میں نے کل خدام الاحمدیہ کو اسی لئے مخفی طور پر اس امر کی طرف توجہ دلائی تھی کہ صبر سے کام لو اور اپنے جذبات کو قابو میں رکھو.کچھ مواقع اس قسم کے ہوتے ہیں کہ اگر کوئی نادان نادانی بھی کرے تو انسان کو صبر سے کام لینا پڑتا ہے.یہ زمانہ جس میں سے ہم گزر رہے ہیں ایسا نازک ہے کہ خواہ ہندوستانی حماقت کریں یا انگریز کسی بیوقوفی کا ارتکاب کریں ہم میں سے ہر شخص کا فرض ہے کہ وہ اس قسم

Page 48

$1941 48 خطبات محمود کی انگیخت اور شرارت پر صبر کرتے ہوئے اپنے نفس کو دبائے اور جذبات کو بے قابو نہ ہونے دے.آج ہندوستان کے لئے زندگی اور موت کا سوال در پیش ہے اور ہمارے ملک کی قسمت انگلستان سے اس طرح وابستہ ہو چکی ہے کہ جب تک ہو دونوں جہاز الگ الگ نہ ہو جائیں اور جب تک یہ دونوں حکومتیں علیحدہ علیحدہ نہ : جائیں اُس وقت تک انگلستان کو جو نقصان پہنچے گا اس سے بہت زیادہ سخت نقصان ہندوستان کو پہنچے گا.پس بنی نوع انسان کی خیر خواہی اور ملک کی محبت اسی میں ہے کہ ہم اپنے جذبات کو قابو میں رکھیں اور سب سے مقدم اس امر کو سمجھیں کہ جو شخص فوج میں بھرتی ہو سکتا ہے وہ فوج میں بھرتی ہو جائے، جو مالی مدد دے سکتا وہ مالی مدد دے اور جو کچھ بھی نہیں کر سکتا وہ دعا کرے کہ اللہ تعالی اس فتنہ سے ہم سب کو بچائے اور ہمارے طفیل انگلستان کو بھی محفوظ رکھے.پس ان عارضی باتوں پر جوش میں آ جانا عقلمندی کے خلاف ہے.بیشک مجھے ان باتوں کی وجہ سے شکوہ ہے اور بے شک تمہارے دل میں بھی غصہ پیدا ہوتا ہو گا مگر غصہ نکالنے کا موقع گا جب جنگ ختم ہو جائے گی.اس وقت تمہارا کام یہی ہے کہ تم اپنے جذبات کو دبا کر صرف اس امر کی طرف متوجہ رہو کہ یہ عظیم الشان تباہی جو جنگ کی صورت میں آ رہی ہے اس سے اللہ تعالیٰ ہمیں بھی بچائے اور انگلستان کو بھی محفوظ رکھے.یاد رکھو ہماری اور ان بے وفا حکام کی مثال ان دو عورتوں کی سی ہے جو ایک ہی خاوند کی بیویاں تھیں اور دونوں کے پاس ایک ایک لڑکا تھا.خاوند کچھ عرصہ کے لئے باہر چلا گیا تو وہ دونوں اپنے اپنے رشتہ داروں کو ملنے کے لئے گئیں جب وہ واپس آ رہی تھیں تو راستہ میں ان میں سے ایک کا لڑکا بھیڑیا کھا گیا جس کے لڑکے کو بھیڑیا کھا گیا تھا اس کے دل میں خیال پیدا ہوا کہ جب خاوند واپس آیا تو جس کے پاس بیٹا دیکھے گا اس کی طرف زیادہ توجہ کرے گا اور جس کے پاس بیٹا ہو گا اس کی طرف کم توجہ کرے گا.معلوم ہوتا ہے وہ خاوند ایسے وقت میں باہر چلا گیا تھا جب وہ بچے بہت ہی چھوٹے تھے اور اسے خیال تھا کہ جب وہ واپس آیا تو

Page 49

خطبات محمود 49 $1941 اسے یہ یاد ہی نہیں رہے گا کہ یہ کس بیوی کا بچہ ہے.چنانچہ اس نے جھٹ دوسری عورت کا لڑکا اٹھا لیا اور کہنے لگی کہ یہ میرا بیٹا ہے تیرے بیٹے کو بھیڑیا کھا گیا ہے.وہ کہنے لگی یہ تمہارا نہیں میرا بیٹا ہے.اس پر تکرار بڑھ گئی اور دونوں گھتم گتھا ہو گئیں.قریب ہی یروشلم تھا جب ان کی لڑائی بہت بڑھ گئی تو انہوں نے یروشلم میں السلام کے آکر قضاء میں دعویٰ دائر کر دیا.ایک نے کہا کہ یہ میرا بیٹا ہے اور دوسری نے کہ یہ میرا بیٹا ہے اور دونوں اس پر قسمیں کھاتی تھیں.گواہ کوئی تھا نہیں کہ پتہ لگے کہ یہ لڑکا واقع میں کس کا ہے.آخر یہ معاملہ حضرت داؤد علیہ سامنے پیش ہوا.انہوں نے چاہا کہ کوئی گواہی مل جائے مگر کوئی گواہی نہ ملی اور ان عورتوں کی یہ حالت تھی کہ دونوں اس بات پر قسمیں کھاتی تھیں کہ لڑکا ان کا ہے.ایک کہتی میرا ہے اور دوسری کہتی میرا ہے.حضرت داؤد علیہ السلام کو کچھ پتہ نہ چلتا تھا کہ وہ اس مقدمہ کا کس طرح فیصلہ کریں.آخر یہ معاملہ حضرت سلیمان علیہ السلام تک بھی پہنچ گیا جو خود قاضی تھے.وہ ان دنوں نوجوان تھے اور بعض دفعہ جوانی میں نئے نئے خیالات سوجھ جاتے ہیں.انہوں نے حضرت داؤد علیہ السلام کو کہلا بھیجا کہ اگر آپ برا نہ منائیں تو یہ مقدمہ میرے سپرد کر دیں.میں اس کا بڑی آسانی سے فیصلہ کر دوں گا.چنانچہ حضرت داؤد علیہ السلام نے مقدمہ ان کے پاس بھیج دیا.انہوں نے بھی پہلے کوئی گواہی معلوم کرنی چاہی مگر ج جب کوئی گواہی معلوم نہ ہوئی نہ ہوئی تو ان دونوں عورتوں سے کہا بات یہ ہے کہ پہلا لڑکا اگر بھیڑیا کھا گیا تو نقصان دراصل باپ کا ہوا ہے کیونکہ لڑکا اس کا تھا.اب صرف ایک لڑکا اور یہ بھی اسی کا ہے.بہتر ہے کہ اس کو بھی قتل کر کے دو ٹکڑے ہے دیئے جائیں اور آدھا آدھا تم دونوں میں بانٹ دیا جائے.اس طرح تم دونوں برابر ہو جاؤ گی اور کسی کے پاس بھی کوئی بچہ نہیں رہے گا.چنانچہ حضرت سلیمان علیہ السلام نے حکم دیا کہ چھری لاؤ.میں اس بچے کو کاٹ کر ابھی ان دونوں عورتوں میں آدھا آدھا تقسیم کر دیتا ہوں.جب چھری لائی گئی اور آپ دکھاوے کے طور پر رہتا

Page 50

خطبات محمود 50 $1941 اس بچے کو کاٹنے لگے تو وہ جو اس بچہ کی اصلی ماں تھی چلا اٹھی کہ بچے کو نہ ماریں.میں نے دراصل جھوٹ بولا تھا بچہ میرا نہیں بلکہ اس کا ہے اور دوسری کہنے لگی انصاف یہی ہے کہ بچے کو آدھا آدھا تقسیم کر دیا جائے.یہ دیکھ کر حضرت سلیمان علیہ السلام نے بچے کو اٹھایا اور اس عورت کی گود میں ڈال دیا جس نے کہا تھا کہ یہ ا بچہ نہیں میں نے جھوٹ بولا تھا اور جس نے کہا تھا بچے کو کاٹ کر نصف نصف کر دیا جائے اس کے خلاف فیصلہ دیا.تو سچے خیر خواہ کی علامت یہ ہوتی ہے کہ وہ اپنے نقصان کو برداشت کر لیتا ہے مگر جس سے محبت ہوتی ہے اس کے متعلق یہ پسند نہیں کر سکتا کہ اسے کوئی تکلیف پہنچے.اسی طرح ہم ملک اور حکومت کے خیر خواہ ہیں مگر اس قسم کے حکام ملک اور حکومت کے بد خواہ ہیں.اس وقت ہمارا کام یہی ہے کہ ہم کہہ دیں کہ ہمارا کوئی حق نہیں انہی کا حق ہے کہ جلوس نکالیں، انہی کا حق ہے کہ کلہاڑیاں، تلواریں اور چھریاں لے کر جلوس نکالیں اور انہی کا حق ہے کہ کلہاڑوں، تلواروں اور چھریوں کو ہلاتے ہوئے احمدی آبادی میں سے گزریں.پس ہمارا فرض ہے کہ ہم لڑائی کے ختم ہونے تک اس قسم کے تمام جھگڑوں کو بالائے طاق رکھ دیں کیونکہ بنی نوع انسان کی ہمدردی اس بات کا تقاضا کرتی ہے اور خدائی جماعتوں سے بڑھ کر ہمدردی اور کسی میں نہیں ہو سکتی.ہمیں خدا تعالیٰ نے دنیا میں اس لئے کھڑا کیا ہے کہ ہم سب سے بڑھ کر بنی نوع انسان کی ہمدردی کا نمونہ دکھائیں اور ہم انگلستان کے اس سے بھی زیادہ خیر خواہ ہوں جتنا ایک انگریز انگلستان کا خیر خواہ ہو اور ہم ہندوستان کے اس سے بھی زیادہ خیر خواہ ہوں جتنا کوئی دوسرا ہندوستانی ہندوستان کا خیر خواہ ہو سکتا ہے.اگر ہم ایسا کریں تو ہر انسان تسلیم کرے گا کہ دنیا کے سچے خیر خواہ ہم ہیں اور یہ کہ ہم اگر سگی ماں ہیں تو وہ سوتیلی ماں ہیں.کیونکہ ہم ہی ہیں جو فساد نہیں ہونے دیتے اور امن کو ہر حالت میں قائم رکھتے ہیں.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ہمارے اس رویہ سے بعض نادان حکام یہ خیال سکتا ہے

Page 51

$1941 51 خطبات محمود مبر کر لیں گے کہ اب جو کچھ ان کی مرضی میں آئے وہ کر سکتے ہیں.مگر سوال یہ ہے کہ وہ ایسا کب تک کرتے چلے جائیں گے.یہ دنیا نہ پنجاب کے وزراء کے قبضہ میں ہے نہ پنجاب کے گورنر کے قبضہ میں ہے، نہ وائسرائے کے قبضہ میں ہے، نہ وائسرائے کی کونسل کے قبضہ میں ہے، نہ انگلستان کے قبضہ میں ہے نہ انگلستان کی پارلیمنٹ کے قبضہ میں ہے.اسی طرح نہ انگلستان کے بادشاہ کے قبضہ میں ہے نہ جرمنی کے قبضہ میں ہے اور نہ اٹلی کے قبضہ میں ہے بلکہ یہ اس خدا کے قبضہ میں ہے جو آسمان و زمین کا مالک ہے اور جس کی مٹھی میں دنیا کی ہر چیز ہے.وہ ہمارے کو آسمان پر سے دیکھے گا اور ہمیں اس صبر کی جزا دے گا.مگر جس دن ہمارا پیمانہ صبر لبریز ہو گیا جس دن اس نے سمجھا کہ حکام ہمارے صبر سے ناجائز فائدہ اٹھا رہے ہیں اس دن وہ انہیں آسمانی ہتھیاروں سے خود ہی مروڑ کر رکھ دے گا.پس تم گھبراؤ نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ سے دعائیں کرو کیونکہ اس وقت صرف انگریزوں کی ہستی نہیں، صرف ہندوستان کی ہستی ہی نہیں بلکہ تمام دنیا کی ہستی خطرہ میں ہے.اگر تم روپیہ سے مدد دینے کی طاقت رکھتے ہو تو روپیہ سے مدد دو.اگر فوج میں بھرتی ہو سکتے ہو تو فوج میں بھرتی ہو جاؤ اور اگر ان دونوں طریقوں میں سے کسی طریق بر بھی عمل نہیں کر سکتے تو اللہ تعالیٰ سے اس جنگ کے بُرے اثرات کے دور ہونے دعائیں کرو اور خوب کرو.باقی رہے ایسے حکام سو ان کو یا تو ان کے حال پر چھوڑ دو یا پھر خود کوئی قدم اٹھانے کی بجائے ان کے متعلق بھی دعا کرو کہ یا تو خدا تعالیٰ ان کے دلوں کو بدل کر ان کی اصلاح کر دے یا پھر جس طرح خدا تعالیٰ کا عذاب آتا ہے تو وہ آعِزّة کو آذِلّة بنادیتا ہے اور جو لوگ تکبر سے اکٹراکٹر کر چلتے ہیں ان کے لئے اپنی کمر سیدھی کرنی بھی مشکل ہو جاتی ہے.اسی طرح وہ ان کے ساتھ سلوک کرے.ہی پس یہ مت خیال کرو کہ تمہارا صبر رائیگاں جائے گا.اسی طرح حکام یہ مت خیال کریں کہ وہ ہم پر ظلم کر کے سکھ پا سکتے ہیں.ہم ان سے بے انصافی

Page 52

$1941 52 خطبات محمود نہیں چاہتے، ہم ان سے کسی غیر پر ظلم کرنے کا مطالبہ نہیں کرتے ہم صرف یہ کہتے ہیں کہ ہم سے بھی وہی سلوک کرو جو تم غیروں سے کرتے ہو اور اگر اس مطالبہ کے بعد بھی وہ اپنی حرکتوں سے باز نہ آئیں تو تم مت گھبراؤ اور تسلی رکھو کہ ہم سب کے سروں پر ایک اور عظیم الشان بادشاہ موجود ہے اور وہ اتنا بڑا بادشاہ ہے کہ اس کے سامنے یہ دنیوی حکام اتنی حیثیت بھی نہیں رکھتے جتنی ایک نوکر آقا کے سامنے رکھتا ہے.وہ خود ان سے بدلہ لے گا اور ایسا لے گا کہ یہ تو کیا ان کی اولادیں تک بھی اس کی چوٹ کی شدت سے چلائیں گی.پس یہ ایک ضروری بات تھی جس کے متعلق خطبہ میں میں نے جماعت کو ہدایت دینا مناسب سمجھا کیونکہ جماعت کے افسر جو مجھ سے ملتے ہیں ان کی طبیعت میں بھی میں جوش دیکھتا ہوں اور لوگوں کے متعلق بھی میں محسوس کر رہا ہوں کہ ان کی طبائع میں جوش ہے.میں ان سب سے کہتا ہوں کہ یہ جوش دکھانے کا وقت نہیں تم اس وقت اپنے دانتوں تلے زبان دے کر بیٹھ جاؤ اور اپنی ساری طاقت موجودہ جنگ میں فتح حاصل کرنے کے لئے صرف کر دو.جو مال دے سکتا ہے وہ مال دے اور جو فوج میں بھرتی ہو کر یا والنٹیرز دے کر مدد کر سکتا ہے وہ ہے وہ فوج میں بھرتی ہو کر اور والنٹیرز بہم پہنچا کر مدد کرے.اگر ان امور کی طرف توجہ کرنا ضروری ہوا تو جنگ کے بعد دیکھا جائے گا.کہتے ہیں یار زندہ صحبت باقی.یہ وزراء بھی بھی ابھی باقی ہیں، حکام بھی ابھی باقی ہیں اور افسر بھی ابھی باقی ہیں.اور ہم خدا تعالیٰ کے فضل سے باقی ہوں گے بلکہ ہم تو ہر سال پہلے سے زیادہ طاقتور ہوتے جائیں گے مگر موجودہ وقت شور کرنے کا نہیں.اگر اس وقت بعض حکام تمہارا حق غصب بھی کرتے ہیں تو جس طرح اس ماں نے کہہ دیا تھا کہ میرا بچہ نہیں اسی طرح تم بھی کہہ دو کہ ہمارا کوئی حق نہیں." (الفضل 9 فروری 1941ء)

Page 53

* 1941 53 5 خطبات محمود ان باتوں کی طرف توجہ کرو جن کے نتیجہ میں روحانی یا مادی فوائد حاصل ہو سکیں (فرموده 14 فروری 1941ء) تعوذ اور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:.اللہ تعالیٰ کا اپنے بندوں پر احسان ہے اور بہت ہی بڑا احسان ہے.اتنا بڑا احسان کہ انسان اس کی قدر و قیمت کا اندازہ ہی نہیں لگا سکتا کہ اس نے اپنے فضل اور کرم سے انسانی دماغ کو ان الجھنوں اور پریشانیوں سے بچا لیا ہے جن کا شکار ہونا کی مدد کے بغیر اس کے لئے لازمی اور ضروری تھا.اور واقعات اس امر کی تصدیق کرتے ہیں کہ جنہوں نے خدا تعالیٰ کی مدد لینے سے انکار کر دیا ان کے دماغ انہی الجھنوں اور پریشانیوں میں مبتلا ہیں.صرف وہی ان الجھنوں محفوظ ہیں جنہوں نے الہی مدد کو قبول کرتے ہوئے اپنے آپ کو اس مرض سے بچایا ہے.انسان اس دنیا میں جسے وہ کسی وقت سب سے بڑی چیز سمجھا کرتا تھا پیدا ہوا تو سورج اسے ایک تھال نظر آتا تھا چاند اسے تھالی کی مانند دکھائی دیتا اور ستارے اسے کوئی دانوں کے برابر، کوئی بیروں کے برابر اور کوئی اخروٹوں اور کوئی سیبوں کے برابر نظر آتے تھے.زمین کی جھاڑیاں اور درخت بھی اسے سورج چاند اور ستاروں سے بڑے معلوم ہوتے تھے.اس کے لئے یہ بات حیرت انگیز تھی کہ دور جہاں تک اس کا ہاتھ نہیں پہنچ سکتا تھا، پہاڑوں پر چڑھ کر بھی نہیں پہنچ سکتا تھا ایک چھوٹی سی ٹکیا نمودار ہو کر ساری دنیا کو روشن کر دیتی ہے اور رات کے وقت ایک چھوٹی سی سفید تھالی ظاہر ہو کر سارے عالم کو چاندنی سے بھر دیتی ہے.ہزاروں ہزار ٹمٹمانے

Page 54

$1941 54 خطبات محمود پہلا والے ستارے جو میں پھیل جاتے ہیں اور چمک چمک کر اس کی آنکھوں کو خیرہ کرتے ہیں.اس کی نظر کے لئے دلفریب نظارہ پیدا کرتے اور جب دن آتا تو غائب ہو جاتے ہیں.یقینا یہ چیزیں اسے حیرت میں ڈالنے والی تھیں اور حیرت میں ڈالنے والی ہو تیں اگر خدا تعالیٰ کا ہاتھ ابتدا میں ہی اسے پکڑ کر سیدھا رستہ نہ دکھا دیتا.ہم دیکھتے ہیں گھر میں کوئی معمولی ساکھٹکا ہوتا ہے تو گھر والے اٹھ کر مجس شروع کر دیتے ہیں.کوئی کہتا ہے چوہا ہو گا اور کوئی کہتا ہے چور ہو گا.ایک معمولی ساکھٹکا چھپکلی اور چوہے سے لے کر چور تک پہنچا دیا جاتا ہے تو ظاہر ہے کہ ایسے نظارے اسے کس طرح حیران کر سکتے تھے مگر جو نہی کہ انسانیت سن شعور کو پہنچی اور جو نہی انسان سن شعور کو پہنچا اللہ تعالیٰ نے اس کے کان میں یہ آواز ڈال دی کہ میں تیرا اللہ ہوں جس نے یہ سب دنیا پیدا کی ہے.اور جو کچھ تجھے نظر آتا ہے یہ سب میری مخلوق ہے جس طرح کہ تو مخلوق ہے.اور تو ایک دن مر کر میرے سامنے آنے والا ہے.یہ سب چیزیں جو تجھے نظر آتی ہیں خواہ قریب ہوں خواہ دور میں نے تیرے فائدے اور تیرے کام آنے کے لئے پیدا کی ہیں اور سب تجھے نفع پہنچانے کے کاموں میں لگی ہوئی ہیں.اس آواز نے اسے کتنی پریشانیوں سے بچا لیا.اگر پہلا انسان یعنی آدم اپنے سن شعور کو پہنچنے کے بعد اس آواز کو نہ سنتا تو اس کے لئے کس قدر مصیبت ہوتی اور وہ کتنی پریشانیوں میں مبتلا ہو جاتا.دن چڑھتا تو اس کے لئے ایک تکلیف کا آغاز ہو جاتا کہ سورج کی کُنہ کو معلوم کرے اور رات ہوتی تو ایک پریشانی کا دروازہ کھل جاتا کہ چاند کی حقیقت کو معلوم کرے اور پھر یہ پتہ لگائے کہ ان چیزوں کا اس سے کیا تعلق ہے؟ یہ اسے کوئی نفع یا نقصان پہنچا سکتی ہیں یا نہیں؟ اس سے خوش یا ناراض ہو سکتی ہیں یا نہیں؟ اور ہم دیکھتے ہیں کہ جنہوں نے اس آواز سے فائدہ نہیں اٹھایا وہ ان چکروں میں پڑ گئے ہیں.ہزارہا بُت پرست قومیں ان الجھنوں میں مبتلا ہیں.کوئی کہتی ہے کہ چاند اور سورج پر ارواح چھا جاتی ہیں اور وہ ناراض یا خوش ہوتی ہیں.نہ ہم سورج اور چاند تک پہنچ سکتے ہیں اور نہ وہ اپنا منشاء ہم پر ظاہر کر سکتے ہیں.نہ ہم یہ پتہ لگا سکتے ہیں کہ وہ کس طرح خوش اور کس طرح ناراض ہوتی ہیں.آج کسی شخص نے کوئی کام کیا جس کا نتیجہ خراب نکل آیا

Page 55

$1941 55 خطبات محمود تو اس نے خیال کر لیا کہ چاند پر چھائی ہوئی ارواح کو یہ بات پسند نہیں آئی اور کسی نے کوئی کام کیا جس کا نتیجہ اچھا نکلا تو اس نے سمجھ لیا کہ سورج کی روح کے نزدیک کام اچھا ہے.نہ تو چاند نے خود بولنا ہے اور نہ سورج نے اور نہ ان ارواح نے جن کے متعلق کہا جاتا ہے کہ وہ ان پر چھا جاتی ہیں.مگر آدم کیسا مطمئن تھا اور بشاشت قلب سے بیٹھا تھا کیونکہ اسے خدا تعالیٰ نے بتا دیا تھا کہ یہ سب چیزیں اس نے اس کے لئے مسخر کر دی ہیں اور یہ اس کی خدمت پر لگی ہوئی ہیں.اس لئے اسے سورج اور چاند کی ناراضی یا خوشنودی کے سامانوں کی تلاش میں پریشان ہونے کی کوئی ضرورت نہ تھی.موحد اور خدا رسیدہ آدم ان سب پریشانیوں سے مامون و محفوظ تھا اور ان سامانوں سے فائدہ اٹھانے اور خدا تعالیٰ کی عبادت میں لگا ہوا تھا نہ سورج کا چڑھنا اور نہ اس کا ڈوبنا اس کے دل میں کوئی گھبراہٹ پیدا کر سکتا تھا.سورج اور چاند کا چڑھنا اور غروب ہونا اس کے لئے ایسا ہی تھا جیسا اس کا اپنا سونا اور جاگنا کیونکہ وہ جانتا تھا کہ یہ سب مادی چیزیں ہیں جو خدا تعالیٰ نے میرے فائدہ کے لئے پیدا کی ہیں.بھی ویسی ہی ہیں جیسے گھوڑے، گائیں وغیرہ ہیں.نہ ان کی خوشی میرے لئے کسی نفع کا اور نہ ناراضگی کسی نقصان کا موجب ہو سکتی ہے.مگر دوسروں نے کس کس رنگ میں ان چیزوں کے وجود پر بخشیں کی ہیں.ہندوستان کے فلسفیوں کو ہی لے لو حیرانی ہوتی ہے کہ کس طرح ایک ایک چیز کے متعلق انہوں نے مختلف نظریات قائم کئے ہیں اور وہ کس کس قسم کی الجھنوں میں پڑے رہے ہیں.یونانی فلسفہ کو دیکھو یہی حالت وہاں ہے.قیاس اور وہم باتیں ان کو پریشان کرتی رہی ہیں.اگر تو یہ تجسس ہو کہ سورج ایک مادی چیز ہے اس کی شعاعوں میں اللہ تعالیٰ نے کیا کیا فائدے رکھے ہیں تو یہ ایک سائنس تحقیقات ہے اس میں گھبراہٹ کی کوئی وجہ نہیں کیونکہ جو اس میں لگا ہے اگر تو وہ تاجرانہ ذہنیت کا ہے تو سمجھتا ہے کہ اگر کامیاب ہو گیا تو اس تحقیقات کو فروخت کر کے مالی فائدہ حاصل کروں گا.اگر علمی مذاق رکھتا ہے تو سمجھتا ہے کہ علمی کتاب شائع کروں گا لوگ میری قدر کریں گے.لیکن اگر کامیاب نہ ہوا اور معلوم نہ کر سکا تو بھی کوئی نقصان نہیں ہو گا.میرے باپ دادوں کو بھی تو یہ علم نہ تھا اور اس کے سے پیدا شدہ مختلف

Page 56

$1941 56 خطبات محمود نہ ہونے سے ان کو کوئی نقصان نہیں پہنچا.لیکن اگر وہ ان چیزوں کو ہی خدا کا مرتبہ دیتا اور سمجھتا ہے کہ ان کا تعلق اس کی زندگی موت سے ہے یہ اس کے اور اس کے بیوی بچوں کے آرام و راحت پر اثر انداز ہوتی ہیں تو اسے دن رات ایک خلش گی کہ پتہ نہیں مجھے یہ چیزیں کیا نقصان پہنچائیں غیر معروف چیزیں معروف کی نسبت ہمیشہ زیادہ گھبراہٹ کا موجب ہوتی ہیں.انسان سامنے آنے والے دشمن سے اتنا نہیں ڈرتا جتنا پوشیدہ سے.لوگ تلوار کے ساتھ سامنے سے حملہ کرنے والے اتنا نہیں ڈرتے جتنا چور سے ڈرتے ہیں.اس کی وجہ یہ نہیں کہ چور بڑا بہادر ہوتا ہے بلکہ بعض چور مسلول ہوتے ہیں بعض ایسے ہوتے ہیں کہ اگر ایک تندرست آدمی تھپڑ مارے تو چھ سات دانت ٹوٹ جائیں مگر پھر بھی لوگ چور سے بہت ڈرتے ہیں.اس کی وجہ یہی ہے کہ علم نہیں ہوتا کہ وہ کہاں سے آئے گا کس طرح آئے گا، کس طرح نقصان پہنچائے گا.ایک شخص بیمار ہوتا ہے ڈاکٹر بتا دیتا ہے کہ اسے پتھری ہے اور سب متعلقین کو گونہ اطمینان ہو جاتا ہے.وہ سمجھ لیتے ہیں کہ بیماری کا پتہ لگ گیا اب ہسپتال جا کر اپریشن کرائے گا اور آرام ہو جائے گا.لیکن ایک اور شخص کو معمولی بخار ہوتا ہے ڈاکٹر کہتا ہے کچھ پتہ نہیں لگتا کہ بخار کیوں ہوا؟ اور سب والے پریشان ہو جاتے ہیں.یہ گھبراہٹ اس وجہ سے ہوتی ہے کہ بخار کی وجہ معلوم نہیں ہو سکی مگر پتھری سے اتنی گھبراہٹ نہیں ہوتی کیونکہ اس کا پتہ لگ چکا ہے اور آدمی سمجھتا ہے کہ علاج سے اور آدمی سمجھتا ہے کہ علاج سے آرام ہو جائے گا.اسی طرح اللہ تعالیٰ کے ماننے والوں کو بھی بعض دفعہ گو گھبراہٹ ہوتی ہے کہ فلاں نافرمانی گئی ہے اس کی سزا نہ مل جائے.ہم اپنے خالق کے منشاء کو اچھی طرح پورا کر سکیں گے یا نہیں مگر یہ معین حد تک ہوتی ہے لیکن جسے پتہ ہی نہیں کہ خدا تعالیٰ کیونکر ناراض ہوتا ہے اور اسے خوش کرنے کے ذرائع کیا ہیں؟ وہ کیا ذرائع اور اعمال ہیں جن سے انسان اللہ تعالیٰ سے قریب اور بعید ہو جاتا ہے ؟ اس کی مثال اس شخص کی سی ہے جو اکیلا جنگل میں بیٹھا ہو، چاروں طرف سے آوازیں آ رہی ہوں کہ اس پر چور ڈاکو اور جانور حملہ کرنے والے ہیں مگر اسے پتہ نہ ہو کہ اس پر حملہ کب ہو گا؟ کس طرف سے ہو گا؟ شیر کرے گا یا بھیڑ یا، چور کرے گا یا کوئی درندہ؟ ہو

Page 57

خطبات محمود 57 * 1941 ایک مثال لڑائی کی ہمارے سامنے ہے.تجربہ سے ظاہر ہے کہ جو قوم حملہ کرتی ہے وہ زیادہ مطمئن ہوتی ہے بہ نسبت اس کے جو دفاع کرتی ہے.اٹلی کو اس لڑائی میں پے در پے شکستیں ہو رہی ہیں.ماہرین کی رائے اس کے متعلق یہ ہے کہ اٹلی کی فوجوں کو حملہ کرنا نہیں آتا وہ صرف دفاع کر سکتی ہیں اور اسی طرف متوجہ رہتی ہیں.حملہ آور اگر دس ہوں اور دفاع کرنے والے ایک ہزار تو بھی ان کا پہلو کمزور رہے گا ان کو کھٹکا لگا رہے گا کہ معلوم نہیں دس حملہ آور کس طرف سے حملہ کریں.جنوب سے کریں، شمال سے کریں، مشرق سے کریں یا مغرب سے.اور پھر ان اطراف کے بھی کس گوشہ سے کریں.ان میں سے ہر دس آدمی ہوشیار رہیں گے اور ڈرتے رہیں گے.لیکن اگر ہزار نے دس پر حملہ کرنا ہو تو وہ اتنے پریشان نہیں ہوں گے.دس پندرہ آدمی بھیج دیں گے کہ جا کر حملہ کر دو اور باقی اطمینان کے ساتھ بیٹھے رہیں گے مگر دفاع کرنے والے خواہ زیادہ ہی ہوں گھبراہٹ میں رہیں گے کیونکہ وہ نہیں جانتے کہ حملہ کس طرف سے ہو گا.یہی فرق خدا تعالیٰ کے ماننے اور نہ ماننے والوں میں ہے.جو مانتا ہے اسے پتہ ہے کہ خطرہ کہاں سے آئے گا اور اس سے بچنے کا کیا طریق ہے.مگر جو نہیں مانتا وہ صرف قیاسی گھوڑے دوڑاتا ہے.وہ ہر ذرہ کو خدا سمجھتا اور اس سے ڈرتا ہے.وہ قدم قدم پر امیدیں باندھتا اور قدم قدم پر ان کو مٹاتا ہے اور قدم قدم پر خوف اس کی جان نکالتا پس یہ اللہ تعالیٰ کا بڑا احسان ہے کہ اس نے آدم کے سن شعور کو پہنچنے کے ساتھ ہی اس پر الہام نازل کر کے اسے بتا دیا کہ یہ سب کچھ میری مخلوق اور تمہارے فائدہ کے لئے ہے اور پھر ہر نبی کے ذریعہ یہ پیغام پہنچاتا رہا اور اس زمانہ میں بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ اس نے یہ آواز سنائی ہے.بے شک کے ماننے والوں کو بھی خطرات پیش آتے ہیں مگر وہ جانتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کو دور کرنے اور اس کے انعامات کے وارث بننے کے کیا ذرائع ہیں.ان کو اپنی غلطی کا علم ہو جائے تو وہ جانتے ہیں کہ اس کی اصلاح کیسے ہو سکتی ہے ا ہے.اور

Page 58

$1941 58 خطبات محمود کس طرح ترقی کی جا سکتی ہے مگر جن لوگوں نے اپنی عقل سے کام لیا وہ جس گھبراہٹ کا شکار ہوتے ہیں اس کا اندازہ اسی وقت ہو سکتا ہے جب انسان اس کا کوئی نظارہ دیکھے.کل ایک ہندو صاحب مجھ سے ملنے آئے نہ معلوم اس کی کیا وجہ وہ کانپور کے رہنے والے تھے ان کے لڑکے کو پھانسی کی سزا ہو چکی ہے.بعض لوگ غلطی سے یہ سمجھ لیتے ہیں کہ چونکہ چوہدری سر ظفر اللہ خان صاحب اس.جماعت میں ہیں میں ان کے پاس سفارش کر دوں گا اور ان کا کام ہو جائے گا اور وہ شاید سمجھتے ہیں کہ ساری دنیا کا کام چوہدری صاحب کے ہی سپرد ہے اس لئے ایسے لوگوں سے ملا نہیں کرتا.مگر ان کے متعلق بتایا گیا کہ وہ صرف دعا کرانا چاہتے ہیں سفارش نہیں.اس لئے میں نے ان کو ملاقات کا موقع دے دیا.وہ آئے اور بیٹھ گئے اور ذکر کیا کہ ان کا لڑکا کانگرسی تھا، زمینداروں کے معاملات میں بہت دلچسپی لیتا تھا اور کسانوں کی زمینداروں کے مقابلہ میں بہت حمایت کیا کرتا تھا.کسی جگہ کسانوں نے ایک زمیندار کو ہلاک کر دیا اور چار کسانوں کے ساتھ اس کو بھی اس الزام میں پکڑ لیا گیا اسے بھی پھانسی کی سزا ہوئی جو ہائی کورٹ تک بحال رہی اور اب رحم کی اپیل بھی مسترد ہو چکی ہے.یہ ان کا بیان تھا.میں نہیں کہہ سکتا کہ ہے یا محض والد ہونے کی وجہ سے وہ ایسا سمجھتے تھے کہ ان کا لڑکا اس جرم میں شریک نہ تھا.محض اس وجہ سے اسے دھر لیا گیا کہ وہ کانگرسی تھا اور زمینداروں کے خلاف کسانوں کا ہمدرد تھا.وہ جب باتیں کر رہے تھے تو میں نے دیکھا کہ ان کی آخری امید بھی قریباً جاتی رہی تھی اور ان کے اندر ایک گھبراہٹ اور اضطراب تھا اور میں نے پوچھا تو نہیں مگر میرا قیاس ہے کہ شاید ان کا یہی ایک لڑکا تھا.وہ بوڑھے آدمی ہیں.اسی گھبراہٹ اور اضطراب میں باتیں کرتے کرتے انہوں نے کہا کہ معلوم نہیں بھگوان کہاں سو رہے ہیں؟ پھر تھوڑی دیر خاموشی کے بعد کہا معلوم نہیں مجھے کس جنم کے کون سے گناہ کی سزا مل رہی ہے.

Page 59

$1941 خطبات محمود 59 ان کے ان دونوں فقروں نے مجھے ایسی حیرت میں ڈال دیا کہ میں ان کے متعلق اپنے معمولی فرض کو بھی بھول گیا.میں نے ان سے ہمدردی کا اظہار تو کیا اور ان سے کہا کہ میں دعا کروں گا مگر جس قدر ہمدردی ظاہر کرنی چاہئے تھی نہ کر سکا.کیونکہ ان دونوں فقروں کی گہرائیوں میں میرے خیالات اُلجھ گئے اور میں سوچنے لگا کہ الہامی اور غیر الہامی مذاہب میں کتنا فرق ہے.قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے لَا تَأْخُذُهُ سِنَةٌ وَلا نَوْمٌ 1 یعنی اسے نہ اونگھ آتی ہے اور نہ نیند.مگر بعض دوسرے مذاہب والے یہ سمجھتے ہیں کہ خدا تعالیٰ سوتا بھی ہے اور جاگتا بھی.اس لئے یہ شخص حیران ہے کہ میرا بیٹا پھانسی پا رہا ہے اور خدا معلوم نہیں کس جگہ سویا ہوا اسے امداد کے لئے بلاؤں بھی تو کیسے؟ معلوم نہیں وہ کس جگہ سو رہا ہے.جانتا ہے کہ اگر مجھے کوئی سزا بھی مل رہی ہے تو اس میں میرا کوئی قصور ہو گا.اور اگر قصور نہیں ہے تو میرا خدا سویا ہوا نہیں بلکہ سب کچھ دیکھ رہا ہے اور وہ ضرور میری مدد کرے گا اور اس سے اس کا دل مطمئن ہوتا ہے.ہے.میں مسلمان ماؤں کے بچے مر بھی جاتے ہیں اور گم بھی ہو جاتے ہیں مگر جس کا بچہ جائے وہ چند روز میں غم کو بھول جاتی اور کام کاج کرنے لگتی ہے مگر جس کا بچہ گم ہو گیا ہو وہ ہر وقت اس کے غم میں پریشان رہتی ہے کیونکہ اسے ہر وقت یہی گھبراہٹ رہتی ہے کہ معلوم نہیں وہ کس حال میں ہو گا کسی ظالم کے پنجہ میں ہو گا.معلوم نہیں وہ اسے کتنی تکلیف دے رہا ہو گا، اسے مارتا پیٹتا ہو گا یا اگر کوئی لڑکی ہو تو وہ ہر وقت اسی خیال میں رہتی ہے معلوم نہیں کہ کن ظالموں سے اس کو پالا پڑا ہو گا جو تمام دن اس سے کام لیتے ہوں گے اور رات کو اس سے دبواتے ہوں گے.خواہ وہ مر ہی چکی ہو مگر چونکہ اسے علم نہیں ہوتا اس لئے وہ ہر وقت یہی خیال کرتی ہے کہ وہ تکلیف میں ہو گی اور اس لئے پریشان رہتی ہے اور ہر وقت اسے یہی غم لگا رہتا ہے.امید کا منقطع ہو جانا بھی ایک لحاظ سے آرام کا موجب ہو جاتا ہے.

Page 60

$1941 60 خطبات محمود اسی طرح جو شخص جانتا ہے کہ میرا خدا جاگتا ہے اور سب کچھ دیکھتا ہے وہ وہ کسی وقت سوتا نہیں.وہ سمجھتا ہے کہ خدا تعالیٰ نے شاید مجھے سزا دینے کا فیصلہ کر لیا ہے مطمئن ہو اور اس طرح وہ اس ماں کی طرح جو جانتی ہے کہ اس کا بچہ مر چکا ہے ہے.مگر جو لوگ خیال کرتے ہیں کہ خدا تعالیٰ سو بھی جاتا ہے وہ اسی تردد میں رہتے ہیں کہ خدا تو شاید سو رہا ہے اور اس کے جگانے کی کوئی ترکیب ہمیں معلوم : نہیں.پھر یہ معلوم نہیں کہ وہ کہاں سو رہا ہے؟ کونسا دروازہ کھٹکھٹائیں اور کس مکان پر جا کر اسے جگائیں ؟ ادھر ہمارے بچہ کے پھانسی پانے کا وقت قریب آ رہا ہے.یہ کیسی اضطراب کی کیفیت ایسے لوگوں پر طاری ہوتی ہے.اور وہ کیسی مصیبت میں مبتلا ہوتے ہیں؟ اور یہ سارا ظلم ان کم بخت فلاسفروں نے ان پر کیا ہے جنہوں نے خیالات ان کے اندر پیدا کئے.ایسے لوگ سخت سے سخت سزا کے مستحق ہیں جنہوں نے جاہل لوگوں کو ایسے خیالات میں مبتلا کر کے ان کا چین اور سکھ برباد کر دیا.وہ تو اپنے خیال میں ایک علمی مشغلہ میں لگے تھے اور دنیا کی پہیلی حل کرتے تھے مگر دراصل انہوں نے لاکھوں انسانوں پر شدید ترین ظلم کیا اور ان کا اطمینانِ قلب چھین کر ان کو ہلاکت کے گڑھے میں دھکیل دیا.ایک شخص کا بچہ اگر سخت بیمار ہو اور ڈاکٹر علاج کے لئے پاس بیٹھا ہو تو گو اس کے بچہ کی حالت کیسی خطرناک ہو پھر بھی اسے ایک اطمینان ہوتا ہے اور گو اس کی حالت بھی قابلِ رحم ہوتی ہے مگر اس سے بہت زیادہ قابلِ رحم حالت اس انسان کی ہے جس کا بچہ خطرناک طور پر بیمار ہو اور وہ ڈاکٹر کے مکان پر پہنچے تو معلوم ہو کہ وہ سیر کو چلا گیا ہے.وہ اس کے پیچھے جائے تو پتہ لگے کہ گھر واپس چلا گیا ہے اور جب وہ پھر اس کے مکان پر پہنچے تو معلوم ہو کہ وہ کسی او رمریض کو دیکھنے چلا گیا ہے.ایسے شخص کی حالت بہت قابل رحم ہوتی ہے کیونکہ ایک طرف تو اکٹر کی تلاش میں حیران ہو رہا ہوتا ہے اور دوسری طرف اسے یہ اضطراب ہوتا ہے کہ بچہ میرے بعد فوت ہی نہ ہو گیا ہو.اسی طرح جو شخص جانتا ہے کہ میرا خدا

Page 61

$1941 61 خطبات محمود سکتا سوتا نہیں بلکہ جاگتا ہے اور میں اس سے مدد مانگوں تو اگر کسی مصلحت کے خلاف نہ ہو تو وہ ضرور میری مدد کرے گا اس کی مثال ایسی ہی ہے جیسے کسی کے بیمار بچے کے پاس ڈاکٹر موجود ہو.ایسے شخص کا بچہ بھی مر ہے مگر پھر بھی اسے ایک اطمینان ہوتا ہے لیکن جو سمجھتا ہے کہ خدا ممکن ہے میری مدد کے وقت کہاں سویا ہوا ہو.اس کی مثال ایسی ہے جیسے کسی کا بچہ خطرناک بیمار ہو اور اسے ڈاکٹر نہیں ملتا.پس اس شخص کا یہ کہنا کہ معلوم نہیں بھگوان کہاں سوئے ہوئے ہیں بتا رہا تھا کہ اس کے دل میں ایک خلجان ہے کہ یہ کیسی مصیبت ہے کہ بھگوان یہ بھی نہیں بتاتے کہ وہ کہاں سو رہے ہیں.میں ان کے پاس مدد کے لئے جاؤں بھی تو کہاں جاؤں؟ ادھر میرے بچہ کی پھانسی کا وقت مقرر ہو چکا ہے اور حکومت اس وقت پر ضرور پھانسی دے دے گی.پھر یہ معلوم نہیں کہ یہ کس جنم کے قصور کی سزا ہے مگر ایک مسلمان جانتا ہے کہ اس کا خدا سوتا کبھی نہیں ہر وقت جاگتا اور دیکھتا ہے.پھر وہ یہ بھی جانتا ہے کہ جو سزا بھی ملتی ہے اسی جنم کی ملتی ہے.بلکہ ضروری نہیں کسی گناہ کی ہی سزا ہو.دنیا میں ایک شریعت کا قانون ہے اور ایک طبعی قانون بعض حالتوں میں انسان کو طبعی قانون کے ماتحت دکھ پہنچ جاتا ہے.وہ کسی گناہ ہے.کی سزا نہیں ہوتی اور جس شخص کا ان باتوں پر ایمان ہو اس کا دل اطمینان سے بھرا ہے وہ جانتا ہے کہ خدا تعالیٰ نے بتا دیا ہے کہ استغفار کرو، توبہ کرو، دعائیں ہوتا کرو تو یہ گناہ معاف ہو سکتے ہیں.مگر جو سمجھتا ہے کہ خدا تعالیٰ بھی ایک بنے طرح ہے اس نے ہمارے سب گناہوں کا بھی کھاتہ بنا رکھا ہے اور ضرور ہے کہ ہر گناہ کی کسی نہ کسی جنم میں سزا مل کر رہے.خدا تعالیٰ گناہ کی سزا دیئے بغیر چھوڑتا نہیں.اس کی حالت کیسی قابل رحم ہے اسے ہر وقت فکر رہتا ہے کہ میرا کوئی گناہ معاف تو ہونا نہیں بلکہ ضرور اس کی سزا ملنی ہے معلوم نہیں کس جنم میں کس گناہ کی ے.اب تو بنیوں کی زیادتیاں روکنے کے لئے حکومت نے بعض قوانین بنائے ہیں مگر پہلے یہ نہ تھے اور سینکڑوں ہزاروں لوگوں کو انہوں نے تباہ کیا.کئی لوگوں نے

Page 62

$1941 62 خطبات محمود مجھے ایسے واقعات بتائے اور میں نے تحقیقات کی تو وہ درست ثابت ہوئے کہ کسی نے کسی بننے سے کسی وقت تیس چالیس روپے لئے اور تین تین سو روپے ادا کر دیئے پھر بھی اتنی ہی رقم کی ڈگری ان پر ہو گئی.انہوں نے ایک وقت روپیہ دے دیا اور بنیے نے کہہ دیا کہ بس حساب صاف ہو گیا.انہوں نے غفلت کی اور سمجھ لیا کہ بس حساب صاف ہو چکا لیکن کچھ عرصہ کے بعد بنیا پھر آ گیا.اول تو انکار کر دیا کہ میں نے حساب صاف ہو جانے کا کہا ہی نہ تھا او راگر مانا بھی تو کہہ دیا مجھے غلطی لگ گئی تھی.دراصل دس روپے باقی رہ گئے تھے جو اب 25 ہو گئے ہیں.معمولی زمیندار دس پانچ روپیہ سے زیادہ ایک وقت نہیں دے سکتے.اتنے دے دیئے اور بنیا چلا گیا مگر آٹھ دس سال کے بعد بڑھتے بڑھتے پھر وہ روپے سینکڑوں ہو گئے.غرضیکہ مشہور ہے کہ بنیے کا حساب کبھی ختم نہیں ہوتا.یہی حال خدا تعالیٰ کا ہندو مذہب پیش کرتا ہے.وہ بھی حساب صاف نہیں ونے دیتا بلکہ کچھ نہ کچھ ضرور بقایا رکھتا ہے.پھر بندے کو یہ بھی علم نہیں ہونے ہے دیتا کہ جو سزا اسے مل رہی ہے وہ اس کے پہلے جنم کے کسی ابتدائی گناہ کی آخری کی.وہ صرف یہ کہتا ہے کہ جیل جاؤ مگر یہ نہیں بتاتا کہ جرم کیا ہے نہ یہ کہ جرم کی شدت کیسی ہے، سزا کتنی ہے اور نہ یہ بتاتا ہے کہ سزا سے بچنے کا کوئی ذریعہ بھی ہے یا نہیں.یہ بالکل بنیوں والا طریق ہے.معلوم نہیں بنیوں نے پر میشور سے یہ طریق سیکھا یا پر میشور نے بنیوں سے.تو ایسے خیالات نے لاکھوں انسانوں کے قلوب میں بے اطمینانی پیدا کر رکھی ہے.آجکل کے تعلیم یافتہ آریہ سماجی جن کے دلوں میں کچھ اطمینان معلوم ہوتا ہے حقیقت یہی ہے کہ وہ تناسخ کو نہیں مانتے.بے شک وہ مناظرے کرتے ہیں، بخشیں کرتے ہیں، مگر دل سے ایسے عقائد کے قائل نہیں.ورنہ ان کو کبھی اطمینان قلب حاصل نہ ہو سکتا یا اگر مانتے بھی ہیں تو محض فلسفیانہ مسئلہ کی حیثیت سے ورنہ ان کے عقائد وہی ہیں جو مسلمانوں کے ہیں.وہ محض دماغی تعیش کے لئے ان بحثوں میں پڑتے ہیں.ان کی عملی زندگی پر اس کا

Page 63

$1941 خطبات محمود 63 کوئی اثر نہیں ہوتا.اور اگر غور سے دیکھا جائے تو تناسخ ماننے والوں کے عقیدہ کے مطابق خدا اور بننے میں کوئی فرق نہیں.بلکہ ایک لحاظ سے بنیا زیادہ نیکی کرتا ہے کیونکہ خواہ وہ دھوکا سے ہی سہی وہ چند سال تو اپنے مقروض کے اطمینان سے گزرنے دیتا ہے.جب اسے کہہ دیتا ہے کہ تمہارا حساب اب صاف ہو گیا.مگر جس پر میشور کو یہ مذہب پیش کرتا ہے وہ تو کبھی دھوکا سے بھی نہیں کہتا کہ اب تمہارے گناہوں کا حساب صاف ہو چکا ہے.تو ان فلسفیوں نے اتنا ظلم مخلوق پر کیا ہے کہ جس کی کوئی نہیں.دنیا میں ایک انسان کے مارنے والے کو پھانسی کی سزا دی جاتی ہے اور ان نالائقوں نے کروڑوں کروڑ آدمی مار ڈالے ہیں اور پھر ان کو ایک ہی دفعہ نہیں مارا بلکہ گند چھریوں سے ذبح کیا ہے.کسی کو اسی سال میں، کسی کو ساٹھ اور کسی کو پچاس اور کسی کو چالیس سال میں ذبح کیا ہے.صرف اور صرف وہی ہیں جو ان تمام لوگوں کی گھبراہٹ اور اطمینان قلب چھیننے کا موجب ہوئے ہیں.کیا عجیب بات ہے کہ یہ کہتے ہیں کہ معلوم نہیں کون سے جنم کی سزا مل رہی ہے.یہ غور نہیں کرتے حد شخص کہ یہی اعمال ہیں جو ہمارے سامنے آ رہے ہیں.کیا ہم دیکھتے نہیں کہ آج ایک زیادہ مرچیں کھاتا ہے اور کل اسے پیچش ہو جاتی ہے.آج ہی پانی پیتا تو پیاس بجھتی اور روٹی کھاتا ہے تو پیٹ بھرتا ہے.یہ سب اسی زندگی کے اعمال کے نتائج ہیں.سب اعمال کی وجوہ اور نتائج یہیں نظر آتی ہیں.ہاں اگر دوچار کی وجوہ کو ہم نہیں سمجھ سکے تو باقی پر ان کا قیاس بھی کیا جا سکتا ہے جو باقی کی تشریح ہے وہی ان کی سمجھ لینی چاہئے.اگر زندگی میں انسان کو گزشتہ اعمال کا ہی نتیجہ ملتا ہے تو چاہئے کہ وہ شادی نہ بھی کرے پچھلے جنم کے کسی عمل کے نتیجہ میں اگر اس کے ہاں بچے ہونے ہیں تو ہو جائیں.مگر ہم دیکھتے ہیں کہ انسان شادی کرے تب ہی بچہ پیدا ہوتا ہے، پانی ہے تو پیاس بجھتی ہے، روٹی کھاتا ہے تو پیٹ بھرتا ہے.یہ سب اعمال کے نتائج ہیں جو ساتھ ساتھ ظاہر ہوتے ہیں اور طبعی قانون کے نتائج ہیں.مثلاً کوئی شخص آگ کے پاس بیٹھے تو اس کے کپڑے گرم ہو جائیں گے.اسی طرح اگر ماں باپ کی

Page 64

خطبات محمود 64.$1941 صحت خراب ہے تو بیٹا اندھا پیدا ہو گا.ماں کے رحم میں کوئی نقص ہے تو بیٹے کے ہاتھ کی دو ہی انگلیاں ہوں گی یا پاؤں میں کوئی نقص ہو گا یا اسی طرح کوئی اور نقص ہو گا اور جب تک ماں کے رحم میں وہ نقص رہے جو بچہ پیدا ہو گا اس کا اثر اس پر ہو گا.ہاں وہ دور ہو جائے تو پھر تندرست بچے پیدا ہوں گے.غرض طبعی نتائج ورثہ میں بھی ملتے ہیں.تندرست ماں باپ کا بچہ تندرست اور بیمار کا بیمار پیدا ہو گا اسی طرح آگ کے پاس بیٹھنے والے کے کپڑے گرم ہو جائیں گے اور برف ہاتھ میں پکڑنے والے کا ہاتھ سرد ہو گا.مگر ان سیدھی باتوں کو فلسفیوں نے کیسی پریشان گن الجھنیں بنا دیا اور افسوس ہے کہ مسلمانوں میں بھی بدقسمتی سے یہ خیالات رائج گئے.اس کی بنیاد دراصل یہ خیال ہے کہ انسان کی روح باہر سے آتی ہے.باہر سے روحیں آنا ماننے کے نتیجہ میں ہی تناسخ وغیرہ عقائد نکلے ہیں.لیکن قرآن کریم نے بیان فرمایا ہے کہ روح کہیں باہر سے نہیں آتی بلکہ انسان کے اندر سے پیدا ہوتی ہے.یہی وجہ ہے کہ بیمار جسم سے بیمار بچہ اور تندرست سے تندرست بچہ پیدا ہوتا ہے.باہر سے آنا مانیں تو پھر تو بے شک اعتراض ہو سکتا ہے کہ خدا تعالیٰ نے اسے بری جگہ کیوں رکھ دیا لیکن جب اس کا باہر سے کوئی تعلق ہی نہ ہو تو پھر اعتراض کی کوئی بات نہیں.ایک شخص غریب ہے اور اپنے معمولی سے مکان میں رہتا ہے لیکن اس پر کوئی اعتراض نہیں کرتا مگر کسی کے ہاں کوئی معزز مہمان آئے ہو شخص اور وہ اسے پاخانہ میں جگہ دے تو ہر ایک اس پر اعتراض کرے گا.غریب کے گھر پر کوئی اعتراض اس لئے نہیں آتا کہ وہ سمجھتا ہے اس نے تو یہیں رہنا تھا لیکن جو باہر سے آیا ہے اسے پاخانہ میں ٹھہرانے پر ہر کوئی اعتراض کرے گا اور کہے گا کہ وہ تو مہمان تھا اس کی عزت کرنی چاہئے تھی.تو روحوں کا باہر سے آنا تسلیم کرنے سے ہی یہ اعتراض پیدا ہوتا ہے کہ اسے خراب جگہ کیوں رکھا گیا؟ لیکن اگر اس کا اندر سے پید اہونا ہی مانا جائے تو پھر کوئی اعتراض نہیں.ہر قوم کا یہ طریق ہے کہ جب وہ مذہب سے غافل ہو جائے تو ایسے خیالات میں پڑ جاتی ہے.

Page 65

*1941 65 خطبات محمود ور نہ کوئی اصل مذہب یہ نہیں سکھاتا.میں ایک منٹ کے لئے یہ نہیں مان سکتا کہ کرشن، رامچندر اور بدھ جیسے خدا رسیدہ لوگ ایسے لغو خیالات میں مبتلا تھے.ان کے سامنے تو بہت بڑا کام یعنی دنیا کی اصلاح تھا وہ ان باتوں کی طرف دھیان ہی کیسے دے سکتے تھے ؟ انہوں نے دنیا کی اخلاقی، دماغی اور سیاسی اصلاح کرنی تھی اور آئندہ نسلوں کی بھی اصلاح کا کام ان کے سپرد تھا.اور ظاہر ہے کہ اس قدر بڑے کام سے ایک منٹ کی بھی فراغت نہیں ہو سکتی کہ ایسے لغو خیالات کی طرف توجہ کی جا سکے.انبیاء کے زمانہ میں یہ خیالات پیدا نہیں ہوتے بلکہ بعد میں جب ترقیات حاصل جاتی ہیں تو یہ سلسلہ شروع ہوتا ہے.تیز طبیعت لوگ پامال رستہ کو پسند نہیں کرتے اگر اس رستہ پر چلتے جائیں تو انہیں رام چندر یا کرشن کا شاگرد ہی کہا جائے گا لیکن اگر پتنجلی کا یوگ شاستر بن جائے تو اس آزادی علم کی وجہ سے لوگ مصنف کی تعریف کریں گے اور اس کی خوب شہرت ہو گی.پس اس جھوٹی شہرت اور عزت کی خاطر لوگ ایسے رستے تجویز کرتے، خود ٹھوکر کھاتے، گمراہ ہوتے اور دوسروں کو گمراہ کرتے ہیں.ایسے ہی لوگوں کے متعلق قرآن کریم فرماتا ہے کہ قَدْ ضَلُّوا مِنْ قَبْلُ وَأَضَلُّوا - 2 یہی حال سامی مذاہب میں ہمیں نظر آتا ہے.حضرت موسیٰ ایک سیدھی سادی تعلیم لائے تھے مگر بعد میں یہودیوں نے اس میں عجیب الجھنیں پیدا کر دیں.پھر حضرت عیسی آئے اور انہوں نے کہا کہ اصلی تعلیم تو وہی ہے جو موسیٰ لائے تھے.صرف زمانہ کے حالات کا تقاضا ہے کہ نرمی سے کام لیا جائے اور باطنی صفائی کی طرف توجہ زیادہ دی جائے.مگر دیکھو نکالنے والوں نے اس میں بھی کیا کیا باتیں نکالیں.کسی نے ان کو خدا بنا دیا او رکسی نے خدا کا بیٹا.پھر اقانیم ثلاثہ کا گورکھ دھندا گھڑ لیا گیا.جسے نہ گھڑنے والے خود سمجھیں او رنہ کوئی اور سمجھ سکے.مسلمانوں کو آنحضرت صلی ل ل ل ا ل م نے جو تعلیم دی تھی اس کے مطابق وہ سمجھتے تھے کہ ولیم ہمارا کام دنیا کی اصلاح کرنا ہے.اس لئے وہ ان باتوں کی طرف توجہ ہی نہ کر سکتے تھے.کیونکہ اتنا بڑا کام جس کے ذمہ ہو اسے ایسی باتوں کے لئے وقت ہی کہاں مل

Page 66

*1941 66 خطبات محمود سکتا ہے.اب ہم وہی کام کرتے ہیں دیکھ لو سر کھجلانے کی بھی فرصت نہیں ملتی.تو اگر کوئی قوم دیانتداری سے دنیا کی اصلاح میں لگ جائے تو ایسی باتوں کے لئے اسے فرصت ہی نہیں مل سکتی.مگر جب مسلمانوں نے اس کام سے غفلت کی تو یونانی فلاسفروں کی کتابوں کے تراجم کرنے لگ گئے.اپنے خیال میں تو وہ علمی ترقی کر رہے تھے مگر میرے خیال میں وہ بد ترین جہالت پھیلا رہے تھے.خدا تعالیٰ کی صفات پر بخشیں اسی زمانہ میں شروع ہوئیں.خدا تعالیٰ کا کلام عارضی ہے یا ہمیشہ سے؟ ایسی ایسی بے ہودہ اور لغو باتیں ہونے لگیں.پھر خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو مبعوث فرمایا اور آپ کے ذریعہ پھر وہی سیدھا سادہ اسلام دنیا میں آیا اور آپ نے پھر ہمیں یہ بتایا کہ خدا تعالیٰ نے جن چیزوں کو پیدا کیا ہے ان کی تحقیقات بیشک کرو.یہ سائنس کی ترقی ہے لیکن خدا تعالی خالق لیکن خدا تعالی خالق ہے اسے اگر پھاڑ کر دیکھنا چاہو گے تو کامیاب نہ ہو سکو گے.اگر اسے دیکھنا چاہتے ہو تو اس کا یہی طریق ہے کہ اس کی عبادت کرو اور اس کا قرب حاصل کرو.لیکن اسے پھاڑنے کا خیال بھی دل میں نہ لاؤ.ہماری جماعت اگر ان باتوں کو اچھی طرح سمجھ لے اور ان پر عمل کرے تو وہ گرنے سے بچ سکتی ہے.مگر میں نے دیکھا ہے اب بھی بعض اوقات ایسی بخشیں شروع ہو جاتی ہیں کہ مادہ ازلی ہے یا نہیں.مادہ سے تمہیں کیا کہ کب تھا اور کیسے تھا.اس مسئلہ کا حل نہ زراعت کو کوئی فائدہ پہنچا سکتا ہے اور نہ تجارت یا صنعت و حرفت کو.پس ایسی لغو باتوں کی طرف توجہ کی کیا ضرورت ہے؟ اور نہ ان کو کوئی حل کر سکتا بھلا یہ تو کوئی حل کرے کہ دنیا محدود ہے یا غیر محدود! مادہ تو ہمارے سامنے نہیں دنیا تو سامنے ہے.پہلے یہ تو طے کرو کہ یہ دنیا محدود ہے یا غیر محدود.اگر محدود ہے تو حد کہاں ہے اور جب حد قائم ہو گئی تو پھر اس حد کے متعلق سوال پیدا ہو گا کہ وہ کیا ہے اور محدود ہے یا غیر محدود.یہ ہمارے سامنے کے سوالات ہیں جو حل نہیں ہو سکتے.تو مادہ کی بحثوں میں وقت ضائع کرنے کا کیا فائدہ؟ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کیا خوب فرمایا ہے کہ کوئی احمق کبھی ہے.

Page 67

$1941 67 خطبات محمود نہیں کہتا کہ میں اپنے بیٹے سے اس وقت تک محبت نہیں کر سکتا جب تک اس کا پیٹ چیر کر یہ نہ دیکھ لوں کہ اس کا دل کہاں ہے اور جگر کہاں او رگر دے کہاں ہیں.پھر خدا تعالیٰ سے محبت کرنے سے قبل کیوں اسے پھاڑ کر دیکھنا چاہتے ہو؟ اس کی شان و عظمت بالکل جدا گانہ ہے اور تمہاری یہ اہلیت اور قابلیت کہاں کہ اسے سمجھ سکو.پس جس طرح ایک بھینس غالب کے اشعار کو نہیں سمجھ سکتی تم اس سے بھی کم اللہ تعالیٰ کے متعلق تفاصیل کو سمجھنے کے اہل ہو.تمہیں تو بس یہی سمجھنا چاہئے کہ خدا تعالیٰ کا تمہارے ساتھ کیا تعلق ہے وہ تم سے کس طرح خوش ہو سکتا ہے او رکس طرح ناراض.بس اتنی ہی بات تمہارے کام کی ہے.باقی سب باتیں لغو ہیں اور ان میں وقت ضائع کرنا بالکل بے فائدہ ہے.اگر اللہ تعالیٰ ہماری جماعت کو توفیق دے اور وہ ان باتوں سے بچے تو ایسی مثال دنیا میں قائم کر سکتی ہے جو بے نظیر یاد گار ہو.مگر کون کہہ سکتا ہے کہ جب جماعت ترقی کرے گی تو آئندہ نسلیں اس طرف نہ لگ جائیں گی کہ دنیا ک ہے کہاں سے ہے اور پید اکس طرح ہوئی ہے.کم بختو! وہ کس طرح پیدا ہوئی ہے تمہیں یہ کیا فکر ہے؟ تم تو یہ فکر کرو کہ خد اتعالیٰ نے تمہیں پیدا کیا ہے.تو زندگی سے اچھے فوائد حاصل کرو.ایسے لغو خیالات میں پڑنے والوں نے ہی پہلے مسلمانوں کو تباہ کیا ہے.اس لئے ان کے خیالات سے بچو.صرف ان باتوں کی طرف توجہ کرو جن کے نتیجہ میں روحانی یا مادی فوائد حاصل ہو سکیں.دین کے علاوہ زراعت، تجارت اور صنعت و حرفت کی ترقی میں مدد مل سکے.ان باتوں کی طرف توجہ کرنے کی تو قرآن کریم بار بار ہدایت کرتا ہے مگر لغو باتوں پر وقت ضائع کرنے سے روکتا ہے.پس ہماری جماعت خصوصاً نوجوانوں کو یہ نقطہ نگاہ مضبوطی سے پکڑ لینا چاہئے کہ ایسی لغو بحثوں سے بچنا ضروری ہے.میں نے دیکھا ہے آریوں کی کسی مجلس میں بیٹھے ایسی باتیں سنیں تو خود بھی اسی طرف لگ جاتے ہیں.وہ بھی پاگل اور یہ بھی

Page 68

$1941 68 خطبات محمود پاگل.ایسے لوگوں کو یاد رکھنا چاہئے کہ وہ بھی خدا سے ویسے ہی دور رہیں گے جیسے آریہ وغیرہ ہیں.تم اس رستہ پر چل کر کیا حاصل کر سکتے ہو جس پر چلنے سے پہلے کوئی کچھ حاصل نہ کرسکا.پس ان باتوں سے بچو.بہترین طریق وہی ہے جو حضرت مسیح موعود السلام نے بیان فرمایا ہے کہ خدا تعالیٰ کی صفات پر غور کرو وہی تمہیں بتا سکتا ہے کہ وہ کس طرح ناراض ہوتا ہے اور کس طرح خوش.تمہاری اپنی کوششیں بے ہیں.اگر وہ تمہاری کوششوں سے تمہارے قابو میں آ جائے تو وہ خدا نہیں تمہارا غلام ہے.پس یہی رستہ صحیح ہے اسے مضبوطی سے پکڑو، لغو باتوں سے خود بھی بچو علم نما جہالت سے دوسروں کو بھی دھوکا میں نہ ڈالو کیونکہ جو شخص کوئی بدعت جاری کرتا ہے آئندہ جن لاکھوں کروڑوں کے دلوں میں اس سے بے اطمینانی پیدا ہوتی ہے ان سب کا گناہ اسی کی گردن پر ہوتا ہے.” 1: البقرة: 256 2 : المائدة : 78 الفضل 22 فروری 1941ء)

Page 69

* 1941 69 6) خطبات محمود ایک عدالتی بیان کے متعلق غیر مبائعین کا اعتراض اور اس کا جواب (فرمودہ 21 فروری 1941ء) تشہد، تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:..“ایک ہفتہ پہلے میری کھانسی کچھ کم ہو گئی تھی مگر گزشتہ جمعہ کے بعد پھر زیادہ ہو گئی ہے جس کی وجہ سے آج میرے لئے زیادہ بولنا مشکل ہے تاہم آج میں ایک ایسے مضمون کے متعلق کچھ کہنا چاہتا ہوں جو اخبارات میں کئی دفعہ آچکا ہے اور وہ پیغامیوں کے ایک اعتراض کا جواب ہے.میں جہاں تک میرا خیال ہے اس کے متعلق پہلے بھی کسی خطبہ میں یا شاید جلسہ سالانہ کے موقع پر کچھ بیان کر چکا ہوں لیکن چونکہ ابھی وہ اعتراض بار بار دوہرایا جا رہا ہے اس لئے دوبارہ اس کے متعلق بیان کر دیتا ہوں.اس اعتراض کا جواب دینے کی غرض سے نہیں بلکہ یہ بتانے کے لئے کہ جب انسان تقویٰ کو چھوڑتا ہے تو کس طرح خدا تعالیٰ کا خوف اس کے دل سے جاتا رہتا ہے اور وہ کس حد تک گر جاتا ہے.اور جماعت کو بیدار کرنے اور ایسی باتوں بچے رہنے کے لئے اس ذکر کو دوبارہ چھیڑتا ہوں.یہ اعتراض اخبار “پیغام صلح ” میں ایک صاحب میاں محمد صادق صاحب ریٹائرڈ ڈپٹی.سپرنٹنڈنٹ پولیس کی طرف سے کچھ ماہ ہوئے شائع کیا گیا تھا اور اس کا خلاصہ ہے کہ میں نے کسی عدالت میں گواہی دیتے وقت یہ بیان کیا کہ میں نہیں جانتا کہ

Page 70

* 1941 70 خطبات محمود مستری محمد حسین صاحب بٹالہ کے رہنے والے نے (جو کہا جاتا ہے کہ محمد علی خان صاحب احمدی مرحوم جو پشاور کی طرف کے رہنے والے تھے.ان کے ہاتھ سے مارے گئے تھے ( مستری عبد الکریم صاحب کی ضمانت دی تھی.میاں محمد صادق صاحب کا اعتراض یہ ہے کہ اس سے پہلے میں بعض خطبات میں یہ بیان کر چکا تھا که مستری محمد حسین صاحب نے مستری عبد الکریم صاحب کی ضمانت دی اور چونکہ میں یہ بیان کر چکا ہوا تھا اس لئے عدالت میں میرا یہ کہنا کہ مجھے علم نہیں ہے خلاف واقعہ بات تھی.میں اختصار ا پہلے بھی بیان کر چکا ہوں کہ عدالتی علم اور عام سوسائٹی کا علم دونوں میں فرق ہوتا ہے.عدالت میں علم کے اور معنے ہیں اور سوسائٹی میں علم کے اور معنے لئے جاتے ہیں.مثلاً کوئی شخص یہ خبر مشہور کرتا ہے کہ زید فوت ہو گیا.بکر خالد سے آکر پوچھتا ہے کہ کیا آپ کو معلوم ہے کہ زید فوت ہو گیا ہے؟ اگر تو خبر دینے والا ان لوگوں کے نزدیک قابل اعتبار آدمی تو وہ کہے گا کہ ہاں بہت افسوس ہے مجھے بھی معلوم ہو چکا ہے کہ وہ فوت چکا ہے.یہاں علم کے معنے صرف یہ ہیں کہ میں نے ایک یا ایک سے زیادہ لوگوں سے جو بظاہر قابل اعتبار ہیں یہ بات سنی ہے لیکن اگر عدالت میں متوفی کی جائداد کے متعلق کوئی دعویٰ چل رہا ہو اور بکر یا خالد کو کوئی کہے کہ چل کر گواہی دے دو کہ زید شخص فوت ہو چکا ہے تو وہ یہ نہیں کہہ سکتے کہ ہمیں علم ہے کہ وہ فوت ہو چکا ہے کیونکہ عدالتہ وہ یہ اسی صورت میں کہہ سکتے ہیں جب وہ ان کے سامنے فوت ہوا ہو یا انہوں نے اس کی لاش کو دیکھا ہو.یہ کہنا کہ میں نے فلاں سے سنا ہے تھا کہ وہ فوت ہو چکا ہے عدالت کے نزدیک علم نہیں کہلا سکتا.گو عرفِ عام میں کہلاتا ہے.عام دستور سوسائٹی کا یہی ہے کہ جب ہم دو چار معتبر آدمیوں سے کوئی بات جو راز کی قسم کی نہیں ہوتی سنتے ہیں تو اسے درست مان لیتے ہیں.مستری محمد حسین صاحب کا ضمانت دینا ایک عدالتی فعل تھا اور میں اس عدالت میں موجود نہیں تھا.بہر حال میں نے یہ بات سنی ہو گی کہ اس شخص نے مستری عبد الکریم کی

Page 71

$1941 71 خطبات محمود ضمانت دی ہے.ممکن ہے جو کچھ میں نے سنا صحیح ہو اور ممکن ہے غیر صحیح ہو جس حد تک جماعت کو نصیحت کا تعلق تھا اور میں نے اسے یہ بتانا تھا کہ ایسے مواقع پر اسے اشتعال میں نہیں آنا چاہئے اس سنی ہوئی بات پر اپنے وعظ کی بنیاد رکھنا میرے لئے کافی تھا کیونکہ اگر وہ بات غلط بھی ہوتی تب بھی کوئی ہرج نہ تھا.کیونکہ میں نے تو صرف یہی کہنا تھا کہ جماعت کو ایسی باتوں پر جوش میں نہیں آنا چاہئے.اگر مستری محمد حسین نے ضمانت نہ دی ہوتی تب بھی یہ نصیحت ٹھیک تھی لیکن عدالت میں جاکر بات اور ہو جاتی ہے.اس کے معنی یہ ہوتے کہ میرے سامنے یہ ضمانت دی گئی تھی مجھے اس قسم کی باتوں سے ایک سے زیادہ مرتبہ واسطہ پڑا ہے.ایک دفعہ مجھے اچھی طرح یاد ہے ہم غالباً ڈاک بنگلہ میں یا کسی کو ٹھی میں ٹھہرے ہوئے سر ظفر اللہ خان صاحب بھی ساتھ تھے.جب کچہری کو جانے لگے تو میں نے ان سے دریافت کیا کہ ایسے سوالات ہوا کرتے ہیں مجھے کیا جواب دینا چاہئے.یہ کہنا چاہئے کہ علم ہے یا یہ کہ علم نہیں.چوہدری صاحب نے بتایا کہ ایسے مواقع ނ عدالت میں علم کا مطلب یہی ہوتا ہے کہ کوئی بات خود دیکھی یا اگر وہ سننے تعلق رکھتی ہے تو براہ راست سنی ہو.کسی واسطہ سے سنی ہوئی یا دیکھنے والی بات کسی دیکھنے والے سے سنی ہوئی عدالتی لحاظ سے علم نہیں کہلا سکتا.میں نے ان سے کہا کہ ہمارے چاروں طرف دشمن ہیں ، مخالف ہیں، بعض باتیں مشہور ہیں اور ہم نے بھی سنی ہوئی ہیں گو دیکھی نہیں یا براہ راست نہیں سنیں اگر میں کہہ دوں کہ علم نہیں تو مخالف شور مچا دیں گے کہ جھوٹ بولا ہے.کیا یہ بہتر نہ ہو گا کہ میں عدالت کے سامنے کھول کر یہ صورت رکھ دوں.چوہدری صاحب نے کہا کہ ہاں اس میں کوئی ہرج نہیں.شیخ بشیر احمد صاحب بھی غالباً ساتھ تھے.ان سے بھی میں نے ذکر کیا تو انہوں نے بھی یہی کہا کہ عدالتی طور پر یہ علم نہیں کہلاتا.چنانچہ ایسے سوالات مجھ سے کئے گئے تو میں نے عدالت سے کہا کہ یہ بات میں نے براہ راست دیکھی اس شخص سے سنی نہیں جس سے یہ متعلق ہے لیکن یوں میں نے سنی ہوئی ہے.یا

Page 72

خطبات محمود کہ اس پر 72 $1941 ایسی صورت میں مجھے کیا جواب دینا چاہئے؟ آیا کہوں مجھے علم ہے یا یہ کہ علم نہیں.عدالت نے مجھے کہا کہ آپ یہی کہیں کہ مجھے علم نہیں ہے.مجھے اچھی طرح یاد ہے میں نے پھر کھول کر یہ بات بیان کی کہ ہمارے بہت سے مخالف ہیں وہ اس کے معنی یہ لیں گے کہ میں نے جھوٹ بولا اور گو مجھے ذاتی طور پر علم نہیں اور میں نے آپ فلاں بات نہیں دیکھی یا سننے سے تعلق رکھنے والی براہ راست متعلقہ آدمی سے نہیں سنی.مگر یوں مجھے معلوم ہے.اس لئے ایسی صورت میں میرا کیا جواب صحیح ہو گا؟ اس پر عدالت نے پھر یہی جواب دیا کہ صحیح جواب یہی ہے کہ مجھے علم نہیں.حالانکہ عُرفِ عام کے لحاظ سے میں کہہ سکتا تھا کہ علم ہے.میں نے اخبار الفضل میں پڑھا ہے کہ میاں محمد صادق صاحب نے لکھا ہے کہ میں نے عدالت میں یہ جواب لکھوایا کیوں نہیں؟ وہ پولیس کے محکمہ سے تعلق رکھتے ہیں اور میں نہیں سمجھ سکتا کہ ان کا یہ کہنا کہ میں نے یہ بات لکھوائی کیوں نہیں ناواقفیت یا غفلت کی وجہ سے ہو سکتا ہے.کیا وہ نہیں جانتے کہ گواہ عدالت کو مجبور نہیں کر سکتا کہ چاہے سرکاری قانون اجازت دے یا نہ دے ضرور اسی طرح لکھا جائے.میرا کام صرف یہی تھا کہ میں نے ساری صورت حالات عدالت کے سامنے رکھ دی.باقی ایسے مجبور کر کے اپنی مرضی کے مطابق لکھوانا میرے اختیار میں نہ تھا.واقعہ کی گواہی پر بیشک عدالت پر زور دیا جا سکتا ہے لیکن ایسے امور کے متعلق جو گواہی سے تعلق نہیں رکھتے ان کا تعلق صرف میاں محمد صادق صاحب کی قسم کے لوگوں سے ہوتا ہے عدالت کو مجبور نہیں کیا جا سکتا.یہ گواہی کا واقعہ ایک دفعہ دیوان سکھانند صاحب کی عدالت میں پیش آیا ہے اور ایک دفعہ اس سے پہلے ایک اور عدالت میں.میں خیال کرتا ہوں کہ خود مجسٹریٹ صاحبان کو بھی یہ امور یاد ہوں گے.پولیس افسر سے امید کی جاتی ہے کہ وہ عدالتوں کے ضابطہ سے واقف سے واقف ہے اور اس سے اس علم کی بھی امید کی جا سکتی ہے کہ کسی عدالت کو سوالات کے جواب کے سوا اور کسی بات کے لکھنے پر مجبور نہیں کیا جا سکتا.پس میاں محمد صادق صاحب کا

Page 73

$1941 73 خطبات محمود ان امور کو جانتے ہوئے اس اعتراض پر اصرار کرنا صرف یہ بتاتا ہے کہ وہ سچ کو جھوٹ اور جھوٹ کو سچ بنانا چاہتے ہیں.جس وقت تک بات کھلی نہ تھی اس وقت تک تو یہ خیال ہو سکتا تھا کہ یہ اعتراض نادانستہ کیا گیا تھا اور وہ غلطی میں مبتلا تھے.مگر پوری وضاحت اور تشریح کے باوجود اس پر اصرار کے یہ معنے ہیں کہ وہ جان بوجھ کر لوگوں کو مغالطہ میں ڈالنا چاہتے ہیں اور اس صورت میں میں ان کے اعتراض کا جواب سوائے اس کے اور کچھ نہیں دے سکتا کہ اللہ تعالیٰ ان کو اس ظلمت سے نجات دے.اس قسم کے معترضین کو خاموش کرانا کسی انسان کے اختیار میں نہیں.جب ایسے لوگ حد سے سے بڑھ جایا کرتے ہیں تو اللہ تعالیٰ خود ان کو خاموش کر دیا کرتا ہے.مگر کیا ہی بدقسمت ہے وہ انسان جو اللہ تعالیٰ کے غضب کو بھڑکا کر ان نعمتوں سے بھی محروم ہو جائے جو اسے پہلے حاصل تھیں.پس میں میاں صاحب موصوف کو کچھ نہیں کہنا چاہتا ان کا معاملہ اب میں نے اللہ تعالیٰ کے سپرد کر دیا ہے جو سب سے بہتر فیصلہ کرنے والا ہے.اس اس وقت میں جماعت کو یہ نصیحت کرنا چاہتا ہوں کہ دیکھو اہل پیغام جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام کے ماننے والے کہلاتے ہیں.اور بعض ان میں سے صحابی بھی کہلاتے ہیں.شروع دن سے ہی ان کے سر کردوں کی یہ حالت رہی ہے کہ میرے خلاف غلط بیانی کرتے رہے ہیں.مجھے وہ زمانہ خوب یاد ہے جبکہ بھیرہ کا ایک مکان حکیم فضل دین صاحب نے انجمن کو وصیت میں دیا اور انجمن نے اسے بیچنا چاہا اس کی قیمت سات آٹھ ہزار روپیہ تک ملتی تھی.وہ مکان حکیم صاحب مرحوم کا ذاتی نہ تھا بلکہ انہوں نے خود یا ان کے خاندان نے کسی اور سے خرید کیا تھا اور جن سے وہ مکان خریدا گیا تھا وہ بھی بھیرہ کے ہی معزز لوگ تھے.کسی مصیبت میں مبتلا ہو کر ایسے وقت میں جب وہ کوئی رقم ادا نہیں کر سکے، وہ یا نیلام ہو گیا تھا، یا رقم ادا کرنے کے لئے انہوں نے خود فروخت کر دیا تھا اور پانچ ہزار روپیہ میں نیلام یا بیع ہوا تھا.جب انہوں نے سنا کہ انجمن اس مکان کو نیلام کرنے لگی ہے تو انہوں نے

Page 74

$1941 74 خطبات محمود حضرت خلیفہ اول کو لکھا کہ یہ مکان ہمارا ہے مصیبت کے وقت ہمارے ہاتھ سے نکل گیا تھا.اب ہم سے پانچ ہزار روپیہ لے لیا جائے اور یہ ہمیں ہی دے دیا جائے.ہم نے بھی پانچ ہزار میں دیا تھا اور مکان زیادہ قیمت کا ہے اور اس وجہ سے کہ ہم نے بھی مصیبت کے وقت اور قرضہ کی ادائیگی کے لئے اسے فروخت کر دیا تھا ہم اس رعایت کے مستحق ہیں اور اگر یہ مکان اب ہمیں اسی قیمت پر دے دیا جائے تو یہ ایک طرح کا ہم پر رحم ہو گا.یہ بات حضرت خلیفہ اول کے دل کو لگی آپ نے سفارش کی اور فرمایا کہ یہ مکان ان لوگوں کو پانچ ہزار روپیہ میں دے دیا جائے.ان کارپردازانِ انجمن نے حضرت خلیفہ اول کو لکھا کہ مکان زیادہ قیمت کا ہے اور زیادہ قیمت مل سکتی ہے.اگر پانچ ہزار میں دے دیا گیا تو سلسلہ کو نقصان ہو گا.اس پر حضرت خلیفہ اول نے فرمایا کہ بے شک یہ زیادہ مالیت کا ہے مگر دیکھنا ہے کہ ان لوگوں نے مصیبت کے وقت قرضہ کی رقم پوری کرنے کے لئے دے ނ دیا تھا اور ہمارے سلسلہ کی بنیاد چونکہ اخلاق پر ہے اس لئے ہمیں ان لوگوں حسن سلوک کرنا چاہئے مگر ان لوگوں نے پھر اصرار کیا کہ بعض لوگ سات آٹھ ہزار دیتے ہیں اور ممکن ہے تو ہزار ہی مل جائے.اور جب انہوں نے زیادہ اصرار کیا تو حضرت خلیفہ اول نے ناراض ہو کر تحریر فرما دیا کہ جس طرح مرضی ہو کرو میں اس میں دخل نہیں دیتا.انجمن کا اجلاس بلایا گیا.مسجد مبارک کے ساتھ جو کو ٹھڑی ہے جس میں مولوی محمد اسماعیل صاحب مرحوم بیٹھا کرتے تھے ، مولوی شیر علی صاحب بھی بیٹھ کر کام کرتے رہے ہیں یہاں مولوی محمد علی صاحب نے دفتر بنایا ہوا تھا اور انجمن کے اجلاس یہیں ہوا کرتے تھے.یہ کسی زمانہ میں غسلخانہ بھی رہا ہے اور اس سے پہلے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام کی بیٹھک بھی رہی ہے اور اسی جگہ سرخ چھینٹوں والا نشان ظاہر ہوا تھا.خیر اس جگہ سب ممبر جمع ہوئے.سوال اس رنگ میں پیش ہوا کہ اس مکان کو زیادہ سے زیادہ قیمت پر فروخت کر دیا جائے.یہ لوگ

Page 75

*1941 75 خطبات محمود باتیں کرتے رہے میں بیٹھا رہا.میری عمر اس وقت 22، 23 سال کی تھی.وہاں مولوی محمد علی صاحب، شیخ رحمت اللہ صاحب، ڈاکٹر یعقوب بیگ صاحب اور ڈاکٹر سید محمد حسین صاحب بھی تھے.خواجہ کمال الدین صاحب کے متعلق یاد نہیں کہ تھے نہیں.باتیں ہوتی رہیں اور میں خاموش بیٹھا رہا آخر مجھ سے پوچھا گیا کہ آپ کی کیا رائے ہے.میں نے کہا میری رائے آپ لوگ کیا پوچھتے ہیں.حضرت خلیفۃ المسیح کی مرضی ہے کہ سابق مالکوں کو اسی رقم میں مکان دے دیا جائے اور میری بھی یہی رائے ہے.میرے جواب میں ان میں سے کسی نے کہا کہ میاں صاحب خليفة نے اجازت دے دی ہے.ان لوگوں نے جب حضرت خلیفۃ المسیح اول کے خلاف کوئی بات کرنی ہوتی تو ان کا قاعدہ تھا کہ آپ کے تقویٰ و طہارت کی بہت تعریف کرتے تھے.چنانچہ کہنے لگے کہ اللہ تعالیٰ کا ہم پر کتنا احسان ہے کہ اس نے ہمیں ایسا خلیفہ دیا ہے جو بہت متقی اور دین کے اموال کا بہترین محافظ ہے.چنانچہ آپ نے اجازت دے دی ہے.میں نے کہا خوب.پھر تو بہت اچھی بات ہے مگر وہ اجازت ذرا مجھے بھی دکھائیے.چنانچہ مجھے آپ کی تحریر دکھائی گئی.اسے دیکھ کر میں نے کہا کہ یہ اجازت تو نہیں یہ تو ناراضگی کا اظہار ہے.میرا یہ کہنا تھا کہ سب کے - میرے پیچھے پڑ گئے اور کہنے لگے کہ میاں صاحب! تقویٰ اختیار کریں.یہ قوم کا مال ہے، خدا تعالیٰ کا مال ہے، خدا تعالیٰ کو کیا جواب دیں گے؟ میں نے کہا کہ ہم سب سے زیادہ تقویٰ کا خیال حضرت خلیفة المسیح کو ہے اور خدا تعالیٰ کو جواب دینے کی فکر بھی ان کو سب سے زیادہ ہے اور وہ خدا تعالیٰ کے سامنے ہم سب سے زیادہ ذمہ دار ہیں.جب ہم مانتے ہیں کہ وہ علم میں ہم سب سے زیادہ ہیں اور جماعت کا خلیفہ اللہ تعالیٰ نے ان کو بنایا ہے تو سلسلہ کے اموال کے متعلق سب سے زیادہ درد اور تقویٰ کا معیار انہیں کو حاصل ہے.اس لئے وہ جو فرماتے ہیں وہی درست ہے اور میرے نزدیک ہمارے لئے تقویٰ کی راہ یہی ہے کہ ان کی بات مان لی جائے.اس پر سب نے مل کر تقویٰ کرو تقویٰ کرو کی بوچھاڑ شروع کر دی.میں نے کہا میں نے اپنی رائے

Page 76

$1941 76 خطبات محمود دے دی ہے اور میں تو اکیلا اس رائے کا ہوں آپ لوگوں کی کثرت ہے جس عبد طرح چاہیں کریں.غرض انہوں نے اس قسم کا ریزولیوشن پاس کر دیا کہ اس مکان کو زیادہ سے زیادہ قیمت پر فروخت کر دیا جائے.اسی دن یا غالباً ایک دو روز بعد میں اپنے گھر میں بیٹھا تھا کہ حکیم میر احمد صاحب قریشی جو حضرت خلیفہ اول کے بھتیجے یا بھانجے ہیں آئے اور دروازہ پر دستک دی اور مجھے کہا کہ حضرت خلیفۃ امیج بلاتے ہیں.حضرت خلیفة المسیح الاول اس کمرہ میں بیٹھے تھے جو مسجد کے اوپر ہے اور جہاں آجکل شیخ بشیر احمد صاحب پلیڈر آکر ٹھہرتے ہیں.ایک زمانہ میں وہاں مولوی الكريم صاحب مرحوم بھی رہا کرتے تھے.اس وقت ہمارے مکان کی شکل اور جس دروازہ سے میں گرمیوں میں مسجد میں آیا کرتا ہوں اس جگہ اس زمانہ میں چھوٹی سی کھڑ کی ہوتی تھی.اب اس کے آگے ہمارے گھر کی طرف صحن ہے مگر اس وقت وہاں صرف ایک راستہ بنا ہوا تھا.باقی جگہ چھتی ہوئی نہ تھی بلکہ وہ کھلی ہوئی تھی اور اور اس کے نیچے دوسری منزل کا ایک صحن تھا جس میں لکڑی کی سیڑھیاں لگی ہوئی تھیں اور جہاں مسجد مبارک کی اوپر کی حد ختم ہوتی ہے سیڑھیوں سے چڑھ کر وہاں سے ہوتے ہوئے مسجد میں سے گزر کر اس کمرہ میں پہنچتے تھے.میں اسی راستہ سے آیا اور اس کمرہ میں داخل ہوا.حضرت خلیفہ اول کی پیٹھ شمال کی طرف تھی اور منہ جنوب کی طرف تھا یہ سب وہاں بیٹھے تھے.ان لوگوں کائنہ شمال کی طرف پیٹھ جنوب کی طرف تھی.مغرب کی جانب کچھ جگہ تھی میں اس طرف بیٹھ گیا.حضرت خلیفہ اول نے میری طرف منہ کر کے بہت ناراضگی میں فرمایا کہ میاں اب ہماری مخالفت شروع ہو گئی ہے.میں طرز سے بھانپ گیا کہ ضرور کوئی فساد کی بات ہوئی مگر میرا ذہن اصل بات کی طرف نہیں گیا.میں نے کہا کہ میں ہے نے تو کوئی مخالفت نہیں کی.آپ نے فرمایا کہ ہم نے حکم دیا تھا کہ اصل مالکوں کو پانچ ہزار روپیہ میں یہ مکان دے دیا جائے مگر ہماری مرضی کے خلاف یہ فیصلہ

Page 77

* 1941 77 خطبات محمود فرمایا کیا گیا ہے کہ اسے زیادہ قیمت پر فروخت کر دیا جائے.میں نے کہا کہ فیصلہ تو بے شک ہوا ہے مگر میری یہ رائے نہیں تھی.حضرت خلیفہ اول نے ان لوگوں کی طرف ہاتھ کر کے فرمایا کہ آپ لوگ تو کہتے تھے کہ میاں صاحب کی بھی یہی رائے تھی.ان لوگوں نے کہا کہ ان کے مشورہ سے ہی فیصلہ ہوا تھا.میں نے کہا یہ بالکل غلط ہے.میں نے تو کہہ دیا تھا کہ میری رائے وہی ہے جو حضرت خلیفۃ امسیح کی ہے.انہوں نے کہا کہ آپ نے اجازت دے دی ہے اس پر میں نے کہا کہ مجھے اجازت دکھاؤ اور اسے دیکھ کر میں نے صاف کہہ دیا کہ یہ اجازت تو نہیں یہ تو اظہار ناراضگی ہے.اور میری رائے یہی ہے کہ جس طرح حضرت خلیفة المسیح نے ہے اسی طرح کیا جائے.حضرت خلیفہ اول نے ان لوگوں سے فرمایا کہ اب بولو یہ تو انکار کرتے ہیں.اس پر شیخ رحمت اللہ صاحب نے کہا کہ انہوں نے زور دے کر یہ فیصلہ کرنے سے ہم کو روکا نہیں تھا.اس پر حضرت خلیفہ اول نے غصہ سے فرمایا کہ تم انہیں بچہ بچہ کہتے رہتے ہو یہ تو میری تحریر کو سمجھ گئے مگر تمہاری سمجھ میں نہ آئی.یہ کس طرح روکتا ؟ تمہارے ہاتھ پکڑ لیتا؟ انہوں نے پھر یہی کہا کہ انہوں نے زور دے کر نہیں روکا تھا.میں نے کہا کہ میرے پاس روکنے کے لئے کیا اختیار تھا؟ آپ لوگ بھی ممبر تھے اور میں بھی ایک ممبر تھا.میں کیا کر سکتا تھا؟ یہ لوگ ہیں جو صحابی کہلاتے ہیں مگر افسوس میرے خلاف ہمیشہ جھوٹ سے کام رہے ہیں.پس ہماری جماعت کو یہ سبق حاصل کرنا چاہئے کہ صرف منہ سے کوئی صحابی نہیں بن سکتا.صحابی بننے کے لئے صداقت پر عمل بہت ضروری ہے مگر ان لوگوں نے میرے معاملہ میں ہمیشہ یہی راہ اختیار کی ہے اور جھوٹ بولا ہے.اس قسم کے بہت سے واقعات ہیں صرف یہی نہیں.اس زمانہ میں تو ایک نہ ختم ہونے والا فساد تھا جو چلتا ہی جاتا تھا.مگر میں ان باتوں سے گھبراتا نہیں.میں جانتا ہوں کہ ان لوگوں کی طرف سے ایسی باتیں ہمیشہ سے ہوتی رہی ہیں.یہ برادرانِ یوسف ہیں.پہلے برادرانِ یوسف کو تو توبہ نصیب ہو گئی تھی.خدا جانے ان کو تو بہ نصیب ہو گی

Page 78

$1941 78 خطبات محمود یا گناہوں کی وجہ سے اس سے محروم ہی رہ جائیں گے.بہر حال میں اپنی جماعت سے کہتا ہوں کہ دیکھو تمہارے لئے اس میں بہت بڑا سبق ہے.ان واقعات سے نتیجہ نکلتا ہے کہ محض کوئی نام اختیار کر لینا کوئی کام آنے والی چیز نہیں.نام کے لحاظ سے تو ان میں صحابی بھی ہیں مگر واقعات بتاتے ہیں کہ جب بھی موقع ملا انہوں نے خواہ مخواہ نیش زنی کی اور کبھی غلط بیانی سے باز نہیں رہے.ایک اور واقعہ حضرت خلیفہ اول کی وفات کے وقت کا ہے جب آپ کی وفات کا وقت قریب آیا تو میں نے ایک اشتہار لکھا کہ حضرت خلیفة المسیح کی بیماری شدید ہے.یہ شاید وفات سے ایک دو روز پہلے کی بات ہے.میں نے اس میں جماعت کو یہ نصیحت لکھی کہ ہم لوگوں کو اس وقت سارے جھگڑے مٹا دینے چاہئیں کیونکہ حضرت خلیفة المسیح کو بیماری کی حالت میں ان باتوں سے تکلیف ہوتی ہے اس لئے ہمیں قربانی کرنی چاہئے کہ خاموش رہیں.میں نے یہ اشتہار لکھ کر مولوی محمد علی صاحب کے پاس بھیجا کہ اس پر دستخط کر دیں اور ہم دونوں کی طرف سے یہ شائع ہو جائے اور یہ بھی کہلا بھیجا کہ چاہیں تو اس میں مناسب اصلاح بھی کر دیں.مگر مولوی صاحب نے جواب دیا کہ باہر کی جماعت تو ان جھگڑوں کو جانتی بھی نہیں.یہ تو قادیان کے چند لوگوں تک محدود ہیں.خواہ مخواہ باہر کی جماعتوں کو ان سے آگاہ کرنے کی کیا ضرورت ہے مگر ادھر حضرت خلیفہ اول فوت ہوئے اور ادھر ان لوگوں کی طرف سے سب جماعتوں میں چھپے ہوئے اشتہار اشتہار تقسیم دیئے گئے.جب میں نے اشتہار مولوی صاحب کے پاس بھیجا تھا اس وقت وہ اپنے اشتہار لکھ کر لاہور میں چھپوانے کے لئے بھجوا چکے تھے.مگر مجھے یہ جواب دیا کہ بیرونی جماعتوں کو ان جھگڑوں سے آگاہ نہیں کرنا چاہئے اور جو سے آگاہ نہیں کرنا چاہئے اور جو شخص اس طرح صداقت کا خون کر سکتا ہے اس سے دنیا میں اور کیا امید ہو سکتی ہے؟ میرے اشتہار پر دستخط تو اس خوف سے نہ کئے کہ لوگ کہیں گے کہ ایک طرف تو خود باتیں پھیلا رہے ہو اور دوسری طرف کہتے ہو کہ ان جھگڑوں کو بند کر دیا جائے.سیہ

Page 79

خطبات محمود 79 $1941 مگر میرے پاس یہ عذر کر دیا کہ بیرونی لوگوں کو تو ان جھگڑوں کا پتہ نہیں ان کو آگاہ کرنے سے کیا فائدہ.اسی طرح مولوی محمد علی صاحب یہ کہہ کر سلسلہ کی بہت سی کتب قادیان سے لے گئے کہ میں پہاڑ پر جا کر ان کی مدد سے ترجمہ قرآن کروں گا لیکن آج تک وہ کتب واپس نہیں کیں اور ان کی مدد سے کیا ہوا ترجمہ اور سلسلہ سے تنخواہ لے کر کیا ہوا ترجمہ اپنا اور اپنے بیوی بچوں کی ملکیت قرار دے دیا.یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے واقع میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام کی محبت پائی ہے.پس ہماری جماعت کو سمجھ لینا چاہئے کہ خالی صحبت فائدہ نہیں پہنچا سکتی.نام کا صحابی ہونا یا نام کی احمدیت یا اسلام کسی فائدہ کا موجب نہیں بلکہ انسان کو چاہئے کہ ہمیشہ اللہ تعالیٰ سے ڈرتا رہے کہ معلوم نہیں کہ کس قصور اور کس گناہ کی کس عذاب میں مبتلا ہو جائے.خوب یاد رکھو کہ اصل جڑ تقویٰ ہے.ہمیشہ وجہ سے بات خدا تعالیٰ کا خوف دل میں رکھنا چاہئے.خدا تعالیٰ کا خوف جس دل میں نہ ہو وہ ہے.یہ خیال کر لینا کہ ہم بہت نمازیں پڑھتے ہیں یا بہت چندے دیتے ہیں یا بہت روزے رکھتے ہیں اور اس طرح اللہ تعالیٰ پر احسان کرتے ہیں بہت خطرے ہے اور ایسا خیال کرنے والوں کا انجام ہمیشہ برا ہی ہوتا ہے.میں نے ایک شخص کو دیکھا وہ صحابی تھا مگر نماز نہیں پڑھتا تھا.باہر کسی جگہ رہتا تھا، میں وہاں گیا (خلافت اولیٰ کے وقت) تو میں نے محسوس کیا کہ یہ نمازوں میں باقاعدہ نہیں.میں نے وہاں کے دوستوں سے کہا کہ مجھے شبہ ہے یہ شخص نمازوں میں غافل ہے.انہوں نے بتایا کہ یہ آپ کے سامنے تو نماز پڑھ لیتا ہے مگر ویسے نہیں پڑھتا اور چندہ بھی نہیں دیتا بلکہ جب کہا جائے تو کہہ دیتا ہے کہ ہم نے بہت نمازیں پڑھی ہیں، بہت چندے دیئے ہیں.خدا تعالیٰ کا خزانہ کافی بھر دیا ہے.اب ہمیں نمازوں کی اور چندے دینے کی ضرورت نہیں.ایسا خیال اسی وقت پیدا ہوتا ہے جب انسان خیال کر لے کہ میرا نمازیں پڑھنا یا چندے دینا اللہ تعالیٰ پر احسان ہے اور اب میں نے کافی احسان کر دیا کب تک کرتا جاؤں.حالانکہ اگر وہ نیکیوں کی توفیق ملنے کو اپنے اوپر اللہ تعالیٰ کا

Page 80

$1941 80 خطبات محمود احسان سمجھتا تو کبھی اس سلسلہ کو بند نہ کرتا.کیونکہ کوئی انسان اپنے اوپر احسان کا دروازہ بند کرنا نہیں چاہتا کیونکہ وہ سمجھتا ہے کہ مجھے کچھ مل ہی رہا ہے میرا نقصان نہیں ہو رہا.میں نے دیکھا ہے ہمارے بعض دوست ان لوگوں کی ایسی باتوں سے چڑتے ہیں حالانکہ چڑنے کی کوئی وجہ نہیں بلکہ ہوشیار اور بیدار ہونے کی بات ہے.ان باتوں کو دیکھ کر اللہ تعالیٰ کے حضور گر جاؤ اور ہمیشہ استغفار کرتے رہو.کسی نے کہا ہے کہ ، تب بھی ڈر ، نہ کر ، تب بھی ڈر.اللہ تعالیٰ کے ساتھ بندے کا معاملہ بہت ہی نازک معاملہ ہے کیونکہ ایک طرف تو احسان ہی احسان ہے اور دوسری طرف ناشکری ہی ناشکری ہے.انسان کتنی نمازیں پڑھے ، کتنے روزے رکھے، کتنے حج کرے کتنی زکوتیں دے، کتنا ذکر الہی کرے پھر بھی اللہ تعالیٰ کا احسان وہ نہیں اُتار سکتا.ایک طرف تو احسان ہی احسان ہے اور دوسری طرف کو تاہیاں ہی کو تاہیاں ہیں اور اگر دل میں ذرا بھی کبر پیدا ہو جائے تو بس بیڑا تباہ ہے.یہ لوگ تمہارے لئے عبرت کا مقام ہیں.جس طرح آباد گھروں کے پاس اجڑے ہوئے گھر عبرت کے لئے ہوتے ہیں.کہتے ہیں کسی بادشاہ نے کسی بزرگ سے کہا کہ ہمیں تو آپ پر بہت حسن ظنی ہے مگر آپ کبھی نصیحت کے لئے ہمارے پاس نہیں آئے.وہ بزرگ بادشاہ کو لے کر اس قلعہ کی ایک کھڑکی کے پاس گئے اور فرمایا وہ دیکھئے! آپ کے سامنے آپ سے پہلے بادشاہ کے قلعہ کے کھنڈرات ہیں جس کے سامنے اس قدر عبرت کا سامان ہو اس کے پاس میرے آنے کی کیا ضرورت ہے.کیا اس بادشاہ کے پاس سامان آپ سے کم تھے؟ یہی حال آپ کا بھی ہو سکتا ہے.تو ہمیں ان لوگوں سے عبرت حاصل کرنی چاہئے اور اللہ تعالیٰ کے حضور استغفار کرتے رہنا چاہئے.سة نادان معترض کہتے ہیں کہ کیا محمد مصطفی صلی اللہ نیم گناہ کرتے تھے جو استغفار کرتے تھے حالانکہ اللہ تعالیٰ کے سامنے بندے کا مقام ہی استغفار کا ہے کوئی کتنی قربانیاں کرے، کتنی عبادات بجا لائے پھر بھی اس کا عمل اللہ تعالیٰ کے احسان سے کم ہی

Page 81

$1941 81 خطبات محمود رہتا ہے.پس جتنا زیادہ کوئی استغفار کرے اتنا ہی زیادہ وہ خدا تعالیٰ کی شان کو سمجھنے والا ہے اور اتنا ہی زیادہ وہ اس کا فرمانبر دار ہے.پس ہر وقت استغفار کرتے رہو اور توبہ میں لگے رہو.اور روحانیت کے گرے ہوئے کھنڈرات یعنی پیغامی جو تم کو نظر آتے ہیں ان کو دیکھ کر عبرت حاصل کرو کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صحبت بھی ان کو تقویٰ پر قائم نہ کر سکی اور ان کے دلوں میں احمدیت کے نام لیواؤں کا بغض اتنا بڑھ گیا کہ یہ ہر انسان کے ساتھ حسن ظنی کر سکتے ہیں مگر احمدیت کے نام لیواؤں کے ساتھ نہیں کر سکتے.جب غیر احمدیوں کے کفر کا سوال آتا ہے تو یہ کہتے ہیں کہ اگر کسی میں 99 وجوہ کفر کی اور ایک ایمان کی ہو تو پھر بھی اس کے متعلق حسن ظنی سے کام لینا چاہئے اور اسے کافر نہیں کہنا چاہئے.مگر ہمارے متعلق اگر 99 وجوہ حسن ظنی کی اور ایک بد ظنی کی ہو تو اس وقت بھی یہ امام ابو حنیفہ کا یہ قول بالکل بھول جاتے ہیں اور بدظنی سے کام لیتے ہیں.یہ حالت کیوں ہوئی؟ محض اس وجہ سے کہ ان کی طرف سے کوئی اندرونی گستاخی ہوئی جس سے یہ اللہ تعالیٰ کی نصرت سے محروم ہو گئے.اور یاد رکھو! کہ ایسے خطرات میں تم بھی اور میں بھی گرفتار ہو سکتا ہوں.پس استغفار کرتے رہو اور اللہ تعالیٰ سے مدد مانگتے رہو تا وہ اس مقام سے بچائے اور ہمیشہ اپنی حفاظت میں رکھے." (الفضل 5 مارچ 1941ء) ہمیشہ بد

Page 82

* 1941 82 7 خطبات محمود روحانیت کی ترقی کے لئے اخلاق فاضلہ کا حصول نہایت ضروری ہے (فرمودہ 28 فروری 1941ء) تشہد ، تعوذ اور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:.“دنیا میں ہر ایک چیز کا ایک ظاہر ہوتا ہے اور ایک باطن ہوتا ہے.ظاہر اپنی جگہ پر ایک ضروری چیز ہے اور باطن اپنی جگہ پر ایک ضروری چیز ہے اور ان دونوں کی اہمیت ایسی ہی ہے جیسے انسان کے لئے جسم اور روح.دونوں کا وجود نہایت اہم ہوتا ہے.روح بغیر کسی جسم کے خواہ وہ کتنا ہی لطیف کیوں نہ ہو کوئی کام نہیں کر سکتی اور جسم بغیر کسی روح کے کوئی اختیاری فائدہ نہیں پہنچا سکتا.بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ کسی قسم کا بھی فائدہ نہیں پہنچا سکتا.کیونکہ جس قسم کے فوائد جسم میں پائے جاتے ہیں وہی اس کی روح بھی کہلائیں گے مثلاً پاخانہ ایک فضلہ ہے جو پھینک دیا جاتا ہے مگر فضلہ میں بھی ایک روح موجود ہوتی ہے اور وہ روح زمین کی قوتِ پرورش کو بڑھانے کی طاقت ہے جو اس میں پائی جاتی ہے.پس وہ خالی جسم نہیں بلکہ اس میں روح بھی ہے ہاں اگر کھاد بلحاظ کھاد کے مر چکی ہو یعنی وہ ایسے رنگ میں خراب ہو چکی ہو کہ وہ کھاد کا کام بھی نہ دے سکے تو وہ بے شک جسم بے روح کہلائے گی ورنہ ہر روح جسم کے ساتھ مل کر کام کرتی ہے.یہاں تک کہ جب لوگ خواب دیکھتے ہیں تو اس وقت بھی صرف روح کوئی نظارہ نہیں دیکھتی

Page 83

$1941 83 خطبات محمود بلکہ خواب میں اس روح کو ایک نیا جسم مل جاتا ہے اور روح اس جسم کے ساتھ مل کر کام کرتی ہے.مثلاً جب تم خواب میں دیکھتے ہو کہ تم لاہور جا رہے ہو یا خواب میں دیکھتے ہو کہ تم ہوا میں اڑ رہے ہو یا خواب میں دیکھتے ہو کہ تم دریا میں تیر رہے ہو یا خواب میں دیکھتے ہو کہ تم کسی دور دراز کے سفر پر جا رہے ہو یا خواب میں دیکھتے ہو کہ تم کوئی چیز کھا رہے ہو تو اس وقت تمہارا جسم چار پائی پر ہی ہوتا ہے تم بے شک اپنے آپ کو دیکھتے ہو کہ تم دریا میں تیر رہے ہو لیکن تمہارا جسم اس وقت کسی دریا میں نہیں بلکہ چارپائی پر ہوتا ہے.اسی طرح تم بے شک دیکھتے ہو کہ تم سفر پر جا رہے ہو لیکن تمہارا جسم چارپائی پر ہی پڑا ہوا ہوتا ہے مگر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جب تم خواب میں اپنے آپ کو تیرتے دیکھتے ہو یا یہ دیکھتے ہو نم کہیں سفر پر جا رہے ہو تو تم خالی روح نہیں دیکھتے بلکہ اپنے ساتھ اپنا ایک بھی دیکھتے ہو.اسی طرح جب تم اپنے آپ کو ہوا میں اڑتے دیکھتے ہو تو اس وقت خالی روح نہیں ہوتی بلکہ ایک جسم کو بھی تم اپنے ساتھ دیکھتے ہو.اسی طرح خواب میں جب تم کوئی چیز کھاتے ہو یا کوئی چیز پیتے ہو یا کسی سے لڑتے ہوئے اپنے آپ کو دیکھتے ہو یا کسی سے صلح کرتے ہوئے اپنے آپ کو دیکھتے ہو تو تم اپنا ایک جسم بھی محسوس کرتے ہو.یہ نہیں ہوتا کہ صرف روح ہی ہو اور جسم اس کے ساتھ کوئی نہ ہو.پس وہ جسم ایک علیحدہ چیز ہوتا ہے تمہارا ظاہری جسم نہیں ہوتا کیونکہ جسم تو اس وقت چارپائی پر پڑا ہوا ہوتا ہے اور یہ بالکل ناممکن ہے کہ ایک ہی جسم ایک وقت میں چارپائی پر بھی ہو اور دریا میں بھی تیر رہا ہو یا چارپائی پر بھی ہو اور پہاڑ کی چوٹی پر بھی ہو یا چارپائی پر بھی ہو اور دور دراز کا سفر بھی کر رہا ہو یا چارپائی پر پڑا سو بھی رہا ہو اور کسی سے لڑ جھگڑ بھی رہا ہو یا ایک ہی وقت میں وہ تندرست بھی ہو اور بیمار بھی ہو.غرض وہ ایک نیا جسم ہوتا ہے جو روح کو ملتا ہے کیونکہ روح بغیر جسم کے نہیں رہ سکتی.اسی طرح مرنے کے بعد ہر شخص کو ایک نیا جسم ملے گا.وہاں خالی روح نہیں ہو گی بلکہ ایک جسم بھی اس کے ساتھ ہو گا اور وہ

Page 84

* 1941 84 خطبات محمود لطیف ہو گا جیسے خواب میں انسان کو ایک لطیف جسم ملتا ہے.خواب کا جسم تو ایسا لطیف ہوتا ہے کہ انسان تو یہ دیکھ رہا ہوتا ہے کہ وہ ہزاروں کا مقابلہ کر رہا ہے یا دریا میں تیر رہا ہے یا پہاڑوں سے گزر رہا ہے یا بڑے بڑے ہاتھیوں اور گھوڑوں کو وہ ایک چیپت رسید کرتا ہے اور وہ تمام اس کے مطیع اور فرمانبر دار ہو جاتے ہیں.مگر اس کے پاس لیٹی ہوئی بیوی اور اس کے بچے ان نظاروں میں سے کوئی نظارہ بھی نہیں دیکھ رہے ہوتے.یہ تو دیکھ رہا ہوتا ہے کہ میں ہزاروں انسانوں کے ساتھ لڑ رہا ہوں اور وہ یہ دیکھ رہے ہوتے ہیں کہ اس کے ناک پر لکھی بھن بھن کر رہی ہے اور یہ اسے اڑا بھی نہیں سکتا.یہ تو دیکھتا ہے کہ میں سفر کر کے ہزاروں میل دور نکل گیا ہوں اور یہ دیکھ رہے ہوتے ہیں کہ اس نے ایک کروٹ تک نہیں بدلی.پس وہ جسم جو انسان کو خواب میں ملتا ہے ایک روحانی جسم ہوتا ہے جسے وہ خود تو دیکھ رہا ہوتا ہے مگر اس کے بیوی بچوں کو نظر نہیں آتا کیونکہ انسان کی مادی آنکھیں صرف کثیف جسم دیکھنے کی طاقت رکھتی ہیں.اسی وجہ سے جن باتوں کو ایک ہے سے سنتا خواب دیکھنے والا شخص اپنی روحانی آنکھوں سے دیکھتا یا اپنے روحانی کانوں انہیں جسمانی آنکھیں نہیں دیکھتیں اور نہ جسمانی کان ان باتوں کو سن سکتے ہیں.پس وہ ایک جسم تو ہوتا ہے مگر اس جسم سے بہت اعلیٰ.اور وہ ان آنکھوں سے نظر نہیں آسکتا.پھر صرف خواب پر ہی منحصر نہیں اس دنیا میں بھی اس قسم کی کئی چیزیں پائی جاتی ہیں مثلاً میں نے اس وقت عینک لگائی ہوئی ہے.اگر اس عینک کے شیشہ میں سے میں ایک سلائی گزاروں تو وہ نہیں گزرے گی مگر میری آنکھ کی بینائی اس میں سے گزر رہی ہے اور مجھے پتہ بھی نہیں چلتا کہ میری آنکھوں اور لوگوں کے درمیان کوئی چیز حائل ہے.پس باوجود اس کے کہ میری آنکھوں اور لوگوں کے درمیان ایک روک حائل ہے.اور 1/10 یا 1/12 انچ کا شیشہ آنکھ کے سامنے ہے میں سب کو دیکھ رہا ہوں.حالانکہ بظاہر چاہئے یہ تھا کہ مجھے اس روک

Page 85

$1941 85 خطبات محمود رہے کی وجہ سے کچھ نظر نہ آتا.مگر حالت یہ ہے کہ مجھے اس شیشہ کی وجہ سے بجائے کچھ نظر نہ آنے کے زیادہ نظر آ رہا ہے.اس کی وجہ یہی ہے کہ شیشے کا جسم کثیف نہیں بلکہ وہ ایک شفاف جسم ہے اور وہ میری بینائی کے رستہ میں روک نہیں.بلکہ بوجہ اس کے کہ اس کی ساخت اور اس کا شیشہ میری آنکھ کے مطابق ہے وہ میری بینائی کو تیز کر رہا ہے.تو دنیا میں خدا تعالیٰ نے ایسی مادی چیزیں بھی رکھی ہوئی ہیں کہ جن میں سے دوسری چیز نظر آ جاتی ہے اور وہ روک نہیں بنتیں.مثلاً اگر تم جلاؤ اور اس پر چمنی نہ ہو تو تمہیں اندھیرا سا دکھائی دے گا اور اس سے دھواں اٹھتا گا لیکن جو نہی تم اس پر چمنی رکھو اس کی روشنی بیبیوں گنے بڑھ جائے گی حالانکہ چمنی بظاہر اس کی روشنی میں روک بنتی ہے مگر چونکہ اس کو جو جسم ہے وہ نہایت شفاف قسم کا ہوتا ہے اس لئے بوجہ شفاف ہونے کے وہ اس روشنی کو روکتا نہیں بلکہ اسے زیادہ اچھا بنا دیتا ہے.اسی طرح خواب میں انسان کو جو روحانی جسم ملتا ہے وہ بھی ایک شفاف چیز ہوتی ہے اور اس وجہ سے گو وہ جسم کا ہی کام دیتی ہے مگر اس دنیا کے لوگ اسے دیکھ نہیں سکتے.وہ صرف ظاہری جسم کو دیکھنے کی طاقت رکھتے ہیں.ان کی بینائی ایسی تیز نہیں ہوتی کہ وہ ان مادی آنکھوں سے روحانی جسم کو بھی دیکھ سکیں.یہی حال اگلے جہان میں ہو گا اور وہاں ہر انسان کو لطیف قسم کا ایک روحانی جسم ملے گا بلکہ وہاں کا جہان چونکہ اس جہان سے بہت زیادہ لطیف اور وسیع ہے اس لئے خواب کی حالت میں انسان کو جو جسم ملتا ہے وہ جسم اس سے بھی زیادہ شفاف اور مصفی ہو گا اور اسی لئے وہ جسم ان آنکھوں اور قوی سے نظر نہیں آسکتا.تو ہر چیز کے لئے ایک جسم کی ضرورت ہوتی ہے مگر وہ جسم اپنی اپنی حالت کے مطابق بدلتے چلے جاتے ہیں.جتنی روح کثیف ہوتی ہے اتنا ہی اس کو جسم کثیف ملتا ہے اور جتنی روح شفاف ہوتی ہے اتنا ہی اس کو جسم بھی شفاف ملتا ہے.چنانچہ روح کی حالت جو خواب میں ہوتی ہے وہ اس سے زیادہ صاف ہوتی ہے جو

Page 86

$1941 86 خطبات محمود جاگتے ہوئے روح کی حالت ہوتی ہے اور مرنے کے بعد جو حالت ہو گی وہ خواب کی حالت سے بھی زیادہ مصفی اور زیادہ اعلیٰ ہو گی اور انسان کو خواب کے جسم سے بھی زیادہ شفاف جسم اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا کیا جائے گا.بہر حال ہر روح کے لئے ایک جسم ضروری ہوتا ہے اور کوئی جسم روح کے بغیر کارآمد نہیں ہو سکتا.جس طرح دنیا میں ہر انسان کا ایک مادی جسم ہوتا ہے اور جسم میں روح ہوتی ہے اسی طرح مذہب اور روحانیت کے بھی جسم ہوتے ہیں اور انسان کی ذہنی اور دماغی ترقیات کے بھی جسم ہوتے ہیں.مثلاً اسلام نے نماز کی ادائیگی کے لئے بعض خاص حرکات مقرر کی ہوئی ہیں.اب اصل غرض تو نماز کی یہ ہے کہ انسان کے دل میں خد اتعالیٰ کی محبت پیدا ہو اس کی صفات کو انسان اپنے ذہن میں لائے اور ان کے مطابق اپنے آپ کو بنانے کی کوشش کرے اس کا قرب اسے حاصل ہو اور اس کا عشق اس کی غذا ہو.ان باتوں کا ہاتھ باندھنے یا سیدھا کھڑا ہونے یا زمین پر جھک جانے کیا تعلق ہے؟ ظاہر ہے کہ انسان اگر سرسری نگاہ سے اس بات کو دیکھے تو اسے نماز کی اصل غرض کے مقابلہ میں یہ باتیں بظاہر بے جوڑ دکھائی دیں گی مگر چونکہ کوئی روح جسم کے بغیر قائم نہیں رہ سکتی اس لئے خدا تعالیٰ نے جہاں نماز کا حکم دیا وہاں بعض خاص قسم کی حرکات کا بھی حکم دے دیا.جن مذاہب نے اس حقیقت کو نہیں سمجھا اور انہوں نے اپنے پیروؤں کے لئے عبادت کرتے وقت حرکات کو ضروری قرار نہیں دیا وہ رفتہ رفتہ عبادت سے ہی غافل ہو گئے ہیں.اور اگر ان میں کوئی نماز ہوتی بھی ہے تو ایک تمسخر سے زیادہ اس کی کوئی حقیقت نہیں ہوتی.مثلاً عیسائیوں میں یہ طریق ہے کہ وہ ہفتہ میں ایک دن عبادت کے لئے گرجا میں اکٹھے ہوتے ہیں پادری لیکچر دیتا ہے اور وہ ایک دوسرے کی طرف دیکھتے رہتے ہیں.بلکہ بعض تو لکھتے ہیں کہ گرجوں میں نوجوان مرد صرف نوجوان عورتیں دیکھنے کے لئے جاتے ہیں اس سے زیادہ ان کے جانے کی اور کوئی غرض نہیں ہوتی.گویا

Page 87

$1941 87 خطبات محمود ان کے مذہب نے عبادت کا ایک تھوڑا سا حصہ جو رکھا تھا اسے بھی ان لوگوں نے ملاقات کا ذریعہ اور مقام بنا لیا اور عبادت کی غرض و غایت کو بالکل فراموش کر دیا.یہی وجہ ہے کہ صحیح رنگ میں خدا تعالیٰ کی عبادت کرنے والے عیسائیوں میں بہت تھوڑے ہوتے ہیں.اس کے مقابلہ میں مسلمانوں کے لئے روزانہ پانچ وقت کی نمازیں مقرر ہیں اور باوجود اس کے کہ ایک مسلمان کو دن رات میں پانچ مرتبہ مسجد میں جانا پڑتا ہے اور عیسائی ہفتہ میں ایک دن گرجا میں جاتے ہیں، مسجدیں گرجوں کی نسبت زیادہ بھری ہوئی ہوتی ہیں.بلکہ اس گئی گزری حالت میں بھی مسجد میں جانے والے مسلمان زیادہ ملیں گے اور گرجا میں جانے والے عیسائی کم ملیں گے.اس لئے کہ ان کے لئے بعض قواعد اور اصول وضع کر دیئے گئے ہیں اور ان قواعد اور اصول کو پورا کرتے ہوئے جو شخص مسجد میں جاتا ہے وہ لازماً اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ رہتا ہے.اگر خالی دل کی عبادت ہی کافی سمجھ لی جاتی تو نتیجہ یہ ہوتا کہ مسلمان بھی عیسائیوں کی طرح شست ہو جاتے اور تھوڑے ہی عرصہ میں وہ نماز سے بالکل غافل ہو جاتے.کیونکہ کسی کو یہ کہنے کے لئے کہ میں دل میں خدا تعالیٰ کو یاد کر رہا ہوں انسان جھوٹ سے بھی کام لے سکتا ہے مگر ایک مسلمان ایسا نہیں کہہ سکتا کیونکہ پہلے وضو کرنا پھر چل کر مسجد میں آنا اور پھر تمام لوگوں کا اکٹھے ہونا اور اس طرح اجتماعی رنگ میں سب کا عبادت کرنا ایسی باتیں ہیں جو نماز سے غافل ہونے ہی نہیں دیتیں اور اگر کوئی غفلت کرے تو وہ فوراً نظر آ جاتا ہے.چنانچہ غور کر کے دیکھ لو مسلمانوں میں ایسے لوگ بہت ہی کم ہوں گے جو کبھی بھی مسجد میں نہ جائیں.بہت سے لوگ تو ایسے ہیں جو پانچ وقت مسجد میں جاتے اور اللہ تعالیٰ کی عبات کرتے ہیں اور جو اس میں کسی قدر سست ہیں وہ تین یا چار نمازوں میں چلے جاتے ہیں اور جو اس سے بھی زیادہ سست ہیں وہ دو وقت کی نماز میں شامل ہو جاتے ہیں اور جو اس کے بھی پابند نہیں وہ ایک نماز میں شامل ہو جاتے ہیں.اور اگر کوئی

Page 88

$1941 88 خطبات محمود کسی نماز کے لئے بھی مسجد میں نہ جائے تو جمعہ پڑھنے کے لئے ضرور چلا جاتا ہے اور جو جمعہ کا بھی پابند نہیں ہوتا وہ عیدین میں شامل ہو جاتا ہے.بہر حال کسی نہ کسی نماز میں وہ ضرور شامل ہوتا ہے اور ایسے لوگ مسلمانوں میں بہت ہی کم ملیں گے جنہوں نے دو دو یا چار چار سال تک کوئی ایک نماز بھی نہ پڑھی ہو.اس کے مقابلہ میں عیسائیوں میں لاکھوں لوگ ایسے مل جائیں گے جنہوں نے چالیس چالیس سال تک گرجے کامنہ نہیں دیکھا ہو گا.یہی حال ہندوؤں وغیرہ کا ہے.ان میں بھی عبادت کا بہت کم رواج ہے.جنہوں نے بت خانے بنا کر ان پر پھول چڑھانا اور ان کے آگے سجدہ کرنا عبادت قرار دے دیا ہے.ان میں تو پھر بھی عبادت زیادہ پائی جاتی ہے مگر آریوں نے چونکہ اس طریق کو غلط قرار دے دیا اس لئے اب ہزاروں میں سے کوئی ایک آریہ ہی ہو گا جو دیانند جی کے بتائے ہوئے طریق کے مطابق عبادت کرتا ہو.اخباروں میں وہ شور مچائیں گے، جلسوں میں وہ تقریریں کریں گے، مذہب کی سچائی پر وہ دھواں دھار لیکچر دیں گے مگر ان میں سے شاید کوئی ایک سورما اور قومی خادم ایسا نکلے گا جو سال بھر میں ایک دفعہ دیانند جی کے بتائے ہوئے طریقوں کے مطابق عبادت کرنے والا ہو.تو ظاہری جسم بھی ایک بڑی مفید اور کارآمد چیز ہے اور جن قوموں نے عبادت میں جسم کو شامل نہیں کیا وہ رفتہ رفتہ عبادت سے بالکل غافل ہے ہو گئی ہیں.اسی طرح عبادت میں روزہ شامل ہے اور ظاہر ہے کہ بھوکا پیاسا رہنا ایک الله سة ہے روح نہیں.چنانچہ رسول کریم صلی علی کرم فرماتے ہیں کہ اصل روزہ تو دل کا روزہ مگر چونکہ خالی دل کا روزہ کوئی انسان نہیں رکھ سکتا اس لئے خدا تعالیٰ نے بھوکا ہے اور پیاسا رہنا بھی ضروری قرار دے دیا.پھر حج ایک عبادت ہے اور اس کی اصل غرض ہے کہ انسان ہر قسم کے تعلقات کو توڑ کر دل سے خدا کا ہو جائے مگر اس غرض کو پورا کرنے کے لئے خدا تعالیٰ نے ایک ظاہری حج بھی رکھ دیا اور صاحب استطاعت یہ "

Page 89

$1941 89 خطبات محمود شک لوگوں پر یہ فرض قرار دے دیا کہ وہ گھر بار چھوڑ کر مکہ جائیں.سب مسلمان جمع ہوں اور اس طرح اپنے وطن اور عزیز و اقرباء کی قربانی کا سبق سیکھیں..حقیقی حج یہی ہے کہ انسان ہر قسم کے تعلقات کو منقطع کر کے خدا کا ہو جائے اس کے لئے خدا تعالیٰ نے ایک ظاہری جسم بھی رکھ دیا.یہی حال صدقہ و خیرات کا ہے.حقیقی طہارت اور پاکیزگی تو انسان کے خیالات کی ہے لیکن اس کے ساتھ خدا تعالیٰ نے مال کی پاکیزگی بھی ضروری قرار دے دی کیونکہ اس کے بغیر اسے جسم حاصل نہیں ہو سکتا.اگر خالی لوگوں کی خیر خواہی کا حکم دے دیا جاتا تو لوگ اس حکم کو بھول جاتے مگر اب چونکہ خدا تعالیٰ نے اس خیر خواہی کا یہ نشان رکھ دیا ہے کہ انسان غریبوں کو صدقہ و خیرات دے.اس لئے جب بھی وہ روپیہ دینے لگتا ہے اسے یہ حکم یاد آ جاتا ہے اور وہ سمجھ جاتا ہے کہ اصل حکم یہ ہے کہ میں سب کا خیر خواہ بنوں اور حتی المقدور انہیں فائدہ پہنچاؤں.ورنہ انسان ان سے تو محبت کیا ہی کرتا ہے جن سے اس کے دوستانہ تعلقات ہوں.اسلام یہ ایک زائد حکم دیتا ہے کہ انسان ان سے بھی حسن سلوک کرے جن سے اسے کوئی فائدہ نہ پہنچا ہو بلکہ جن سے فائدہ پہنچنے کی کوئی امید بھی نہ ہو اور یہ نیکی قائم نہیں رہ سکتی تھی جب تک وہ صدقہ و خیرات نہ دے اور جب تک وہ عملاً غرباء اور مساکین سے حسن سلوک نہ پس غریبوں کی محبت کا خیال اور ان سے حسن سلوک کرنے کی تعلیم جو ہے اسے قائم رکھنے کے لئے خدا تعالیٰ نے صدقہ و خیرات کا حکم دے دیا.اب جو شخص سال بھر میں ایک دفعہ زکوۃ دیتا ہے یا وقتاً فوقتاً صدقہ و خیرات دیتا رہتا ہے اس کے دل میں تو غریبوں کی محبت رہ سکتی ہے مگر جو ایسا نہیں کرتا اس کا دل بھی غریبوں کی محبت سے خالی ہو جاتا ہے.اسی طرح خدا نے روحانیت کے جو جسم بنائے ہیں ان میں سے ایک جسم اخلاق ہیں.اخلاق روحانیت کا نام نہیں اور نہ روحانیت

Page 90

$1941 90 خطبات محمود اخلاق کا نام ہے مگر اخلاق روحانیت کے لئے بمنزلہ جسم ضرور ہیں.اصل بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ذات انسان کو نظر نہیں آتی صرف اس کا حسن اس کی صفات پر غور کر کے نظر آسکتا ہے.پس چونکہ اللہ تعالیٰ کی ذات مخفی اور وراء الوراء ہے اس لئے اس نے اپنی محبت بندوں کی محبت اور ان کے ساتھ نیک تعلقات رکھنے سے وابستہ کر دی ہے.جب ان میں سے ایک چیز کو تم حاصل کر لو گے تو لازماً دوسری چیز بھی تمہیں حاصل ہو جائے گی.گویا یہ دونوں چیزیں لازم ملزوم ہیں.جسے براہِ راست خدا تعالیٰ کی محبت حاصل ہو گی وہ خدا تعالیٰ کی محبت اپنے دل میں پیدا ہونے کے بعد بندوں الله سة کی محبت سے اپنے دل کو لبریز پائے گا جیسے رسول کریم صلی الم کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ دنا فتدلی 1 یعنی ہمارا یہ رسول پہلے خدا کے قریب ہوا اور پھر نیچے اترا.گویا خدا کی محبت محمد صلی ا لی ایم کو پہلے حاصل ہوئی اور پھر اس کے ساتھ ہی بنی نوع انسان کی محبت آپ کے دل میں ایسی پیدا ہوئی کہ آپ اس جذبہ کو برداشت نہ کر سکے اور ان کی ہدایت کی طرف متوجہ ہو گئے.مگر کچھ انسان ایسے ہوتے ہیں جنہیں پہلے بنی نوع انسان کی محبت حاصل ہوتی ہے اور پھر وہ خدا تعالیٰ کی محبت کی طرف لوٹتے ہیں.گویا روحانی کمال کے حصول کے دونوں ذریعے ہیں.خدا سے پہلے محبت ہوتی ہے اور اس کا لازمی نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ انسان کے دل میں بندوں کی محبت پیدا ہو جاتی ہے اور کبھی بندوں سے پہلے محبت ہوتی ہے اور خدا سے محبت اس کے بعد پیدا ہوتی ہے.محمد صلی لی ایم کی نسبت اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ پہلے ان کے دل میں اللہ تعالیٰ کی محبت پیدا ہوئی اور پھر بنی نوع انسان کی.یہ محبت وہی ہوتی ہے مگر جن کو کسب سے محبت حاص سے محبت حاصل ہوتی ہے ان کے دل میں پہلے بنی نوع انسان سے محبت پیدا ہوتی ہے اور وہ ان کے لئے ہر قسم کی قربانی کرتے چلے جاتے ہیں.یہاں تک کہ جب ان کے تعلقات بنی نوع انسان سے کامل ہو جاتے ہیں تو خدا تعالیٰ سے بھی ان کا تعلق پیدا ہو جاتا ہے.پس خدا تعالیٰ کو

Page 91

$1941 91 خطبات محمود کے یہ دونوں ذرائع ہیں.کوئی خدا کو اس طرح پالیتا ہے اور کوئی اس طرح.کوئی خدا سے مل کر بندوں کو پالیتا ہے اور کوئی بندوں سے مل کر خدا کو پالیتا ہے.جہاں وہب ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ کا فضل انسان کے شامل حال ہوتا ہے وہاں پہلے خدا کی محبت ملتی ہے اور پھر بندوں کی محبت دل میں پیدا ہوتی ہے اور جہاں کسب اور محنت کا دخل ہو وہاں پہلے بندوں کی محبت پیدا ہوتی ہے اور پھر خدا کی محبت.گویا ایک تو نیچے سے اوپر جاتا ہے اور دوسرا اوپر سے نیچے آتا ہے.تو ان اخلاق کا اپنے اندر پیدا کرنا دین کی حفاظت کے لئے نہایت ضروری ہوتا ہے.یہ اخلاق آگے کئی قسم کے ہوتے ہیں.بعض براہ راست بنی نوع انسان سے تعلق رکھتے ہیں اور بعض بالواسطہ تعلق رکھتے ہیں.مثلاً غریب کی مدد کرنا یہ تو ہر شخص کو نظر آتا ہے کہ ایک ثواب کا کام ہے اور اس کا دوسروں کو فائدہ پہنچتا ہے مگر سچ کے متعلق انسان نہیں سمجھتا کہ اس کے بولنے سے بنی نوع انسان کا کیا فائدہ حاصل ہو گا.حالانکہ سچ بولنا بھی انہی نیکیوں میں سے ہے جن سے بنی نوع انسان کو فائدہ پہنچتا ہے جو شخص سچ نہیں بولے گا وہ لازماً دوسرے کو دھوکا دے گا اور دھوکا ایک ایسی چیز ہے جس سے لوگوں کو نقصان پہنچتا ہے.مثلاً ایک شخص کسی سے پوچھے کہ فلاں شخص قادیان میں ہے یا لاہور گیا ہوا ہے.اسے معلوم ہو کہ وہ لاہور گیا ہوا ہے مگر جھوٹ بول اور کہہ دے کہ قادیان میں ہی ہے تو اب دوسرا شخص اس سے ملنے کے لئے جائے گا فرض کرو اس کا مکان میل بھر دور ہے تو وہ ایک میل کا چکر کاٹ کر اس کے مکان پر پہنچے گا اور جب اس کے متعلق دریافت کرے گا تو گھر سے پتہ لگے گا کہ وہ توکل کا لاہور گیا ہوا ہے.اب خود ہی سوچو کہ اس نے جھوٹ بول کر ایک شخص کو کتنا نقصان پہنچایا یا فرض کرو ایک شخص مثلاً زید سے معاہدہ کیا ہوا تھا کہ تم لاہور چلو میں وہاں تم سے کل چل کر مل جاؤں گا.اب جب کل آتا ہے اور وہ دے

Page 92

خطبات محمود 92 $1941 شخص ایک تیسرے شخص سے اس بارہ میں پوچھتا ہے کہ کیا وہ لاہور چلا گیا ہے؟ سمجھتا خص تعلق ہے.اور وہ جھوٹ بول کر کہتا ہے کہ نہیں تو لازماً یہ بھی اب لاہور نہ جائے گا اور دوسرے شخص کے سامنے جھوٹا بنے گا اور اس دوسرے شخص کا سفر بھی ضائع جائے گا.تو بظاہر انسان یہ خیال کرتا ہے کہ سچ بولنے کا کسی دوسرے کے ساتھ کیا تعلق ہے.حالانکہ اگر ایک شخص سچ بولتا ہے تو وہ سب کو آرام پہنچاتا ہے اور اگر ایک شخص جھوٹ بولتا ہے تو وہ سب کو تکلیف پہنچاتا ہے.اسی طرح محنت کرنا بھی انہی اخلاق میں سے ہے جن کا دوسروں کے ساتھ تعلق ہوتا ہے.بظاہر انسان ہے کہ میں کام کروں یا نہ کروں دوسروں کا اس کے ساتھ کیا حالانکہ وہ مشین کا ایک پرزہ ہوتا ہے اور اس کی خرابی کے ساتھ ساری مشین کی خرابی اور اس کی عمدگی کے ساتھ ساری مشین کی عمدگی وابستہ ہوتی ہے اگر یہ پرزہ ناکارہ ہو گا تو مشین پر لازماً اثر پڑے گا.جیسے دو بیل ایک گاڑی میں بجتے ہوئے ہوں تو کیا ایک کہہ سکتا ہے.یہ امر میری مرضی پر منحصر ہے کہ میں چلوں یا نہ چلوں.وہ دونوں چلیں گے تو گاڑی چلے گی اور اگر ان میں سے کوئی ایک بھی رہ جائے گا تو گاڑی نہیں چل سکے گی.اسی طرح تمام بنی نوع انسان مشین کے پرزے ہیں.ایک ملک کے رہنے والے اپنی حدود میں مشین کے پرزے ہیں.اور ایک شہر کے رہنے والے ان پرزوں سے زیادہ قریب کے پرزے ہیں.اگر ان میں سے ایک بھی صحیح طور پر اپنے فرائض کو سر انجام نہیں دے گا اور محنت سے جی چرائے گا تو لازماً اس کا دوسروں پر بھی اثر پڑے گا.قادیان میں اس کی مثالیں کثرت سے ملتی رہتی ہیں.ایک شخص محنت نہیں کرتا اور نہ اپنے بیوی بچوں کے گزارہ کی کوئی صورت اختیار کرتا ہے لوگ اسے سمجھاتے ہیں کہ دیکھو مزدوری کرو، محنت کرو اور اپنا اور اپنے بیوی بچوں کا انتظام کرو.مگر وہ کہتا ہے تم کو کیا میں محنت کروں یا ہے کہ

Page 93

$1941 93 خطبات محمود نہ کروں یہ میرا اختیار ہے تمہیں اس میں دخل دینے کی کیا ضرورت ہے؟ اب بظاہر یہ جواب صحیح معلوم ہوتا ہے رجب نتیجہ دیکھا جائے تو اس کی حقیقت معلوم ہو جاتی ہے اور وہ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ تھوڑے ہی عرصہ کے بعد اس کے بیوی بچے کہتے پھرتے ہیں کہ ہم بھوکے مر گئے ، ہمارا کوئی خیال کرے.اب ایک تو وہ غریب ہوتے ہیں جن کو کما کر کھلانے والا کوئی نہیں ہوتا.اور ایک یہ غریب ہوتے ہیں کہ ان کا کمانے والا موجود ہے مگر وہ کماتا نہیں اور محنت سے جی چراتا ہے.اگر وہ محنت سے کام کرتا اور خود کما کر بیوی بچوں کو کھلاتا تو صدقہ و خیرات کا ایک حصہ اس کے بیوی بچوں پر خرچ کرنے کی بجائے ان غرباء پر خرچ کیا جاتا جن کو کما کر کھلانے والا کوئی نہیں.اور حق بحقدار رسید پر عمل ہوتا.لیکن اگر بعض گھروں میں کمانے والے تو موجود ہوں مگر وہ کما کر نہ لائیں تو نتیجہ یہ ہو گا کہ صدقہ و خیرات کی رقم بٹ جائے گی اور کچھ تو ان غرباء کو ملے گی جن کا کمانے والا کوئی نہیں اور کچھ ان کو ملے گی جن کے کمانے والے تو ہیں مگر وہ محنت نہیں کرتے اور اس طرح اصل مستحقین کی روٹی آدھی ہو جائے گی.آخر محلے والوں کے پاس کوئی جادو تو نہیں ہوتا کہ وہ جتنا روپیہ چاہیں دوسروں کو دے دیں وہ اپنے اخراجات میں سے تنگی برداشت کر کے کچھ روپیہ بچاتے اور غرباء کو دیتے ہیں مگر یہ نکے لوگ غرباء کے حصہ کو کھا جاتے اور اپنی قوم اور اپنے محلہ والوں پر ایک بوجھ بنے رہتے ہیں.اگر اس قسم کے لوگوں کے بیوی بچے دوسروں سے کچھ مانگیں نہ اور یہ نہ کہیں کہ ہمیں کچھ دو ہم بھوکے مر رہے ہیں تو کم از کم یہ ضرور کہیں گے کہ ہمیں اتنا ادھار دے دو.جو لوگ شریف ہوتے ہیں وہ ان کو دے تو دیتے ہیں مگر دل میں یہ سمجھ رہے ہوتے ہیں کہ نہ ان لوگوں نے روپیہ کمانا ہے اور نہ ان سے ہمیں واپس ملنا ہے.اب دیکھ لو محنت نہ کرنے کا اثر قوم پر پڑا یا نہیں؟ پھر بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں

Page 94

* 1941 94 خطبات محمود کہ وہ بیوی بچوں کو قادیان میں چھوڑ کر آپ کہیں باہر بھاگ جاتے ہیں.نتیجہ ہوتا ہے کہ ان کے بیوی بچے سلسلہ پر بار بن جاتے ہیں اور پریذیڈنٹوں اور سیکرٹریوں کے پاس چٹھیوں پر چٹھیاں آنی شروع ہو جاتی ہیں کہ ہم بھوکے مر گئے ہمارا کوئی انتظام کیا جائے.اب بظاہر تو ایسا شخص جو بیوی بچوں کو قادیان میں بٹھا کر آپ کہیں غائب ہو جائے کہہ سکتا ہے کہ کسی کو مجھ پر اعتراض کرنے کا کیا حق ہے.بیوی بچے چھوڑے ہیں تو میں نے اور اگر بھوکے مریں گے تو میرے بیوی بچے مریں گے کہ کسی اور کے.لیکن اگر یہی اصل قوم اختیار کر لے اور ان کی طرف توجہ نہ کرے تو آیا تمام جماعت ایک ملامت کے نیچے آئے گی یا نہیں کہ فلاں فلاں آدمی بھوکے مر گئے اور جماعت نے ان کی طرف کوئی توجہ نہ کی.تو یہ کہنا بالکل غلط ہے کہ لوگوں کا اس کے ساتھ کیا تعلق ہے ؟ ان کا تعلق ہے اور ضرور ہے کیونکہ اگر وہ ان کی خبر نہ لیں تو بدنام ہو جائیں.پس قوم ان کی خبر گیری کرنے پر مجبور ہوتی ہے.حالانکہ اگر ایسے لوگ خود محنت کریں اور مشقت کا کام کر کے اپنی روزی کمائیں تو کوئی وجہ نہیں کہ وہ اور ان کے بیوی بچے قوم پر بار ثابت ہوں.پس محنت نہ کرنا بھی کسی کا ذاتی فعل نہیں بلکہ ایک قومی جرم ہے.اسی طرح گو آجکل یہ بات کسی قدر کم ہو گئی ہے مگر پہلے بالعموم مسلمان تاجر اور کارخانہ دار بھی ہندوؤں کو ملازم رکھتے تھے مسلمانوں کو نہیں.اور جب پوچھا جائے کہ مسلمانوں کو کیوں ملازم نہیں رکھتے تو ہمیشہ یہی جواب دیتے کہ کوئی مسلمان دیانتدار ملتا نہیں.حالانکہ یہ بالکل غلط ہے.مسلمانوں میں بھی بڑے بڑے دیانت دار لوگ پائے جاتے ہیں مگر جانتے ہو اس کی تہہ میں کیا بات ہے.اصل بات یہ ہے کہ جب مسلمانوں کا ایک حصہ بددیانت ہو گیا تو اس نے باقیوں کو بھی بد دیانت مشہور کر دیا اور نتیجہ یہ ہوا کہ چند بد دیانت اور خائن مسلمانوں کی

Page 95

$1941 95 خطبات محمود وجہ سے سب مسلمانوں کو نوکری ملنا مشکل ہو گئی.گویا ان بد دیانتوں نے صرف اپنا ہی رزق بند نہ کیا بلکہ دوسرے مسلمانوں کے رزق کو بھی بند کیا.لوگوں میں یہ عام رواج ہوتا ہے کہ جب انہیں کسی شخص سے نقصان پہنچتا ہے تو وہ اس کی تمام قوم کا نام لے کر کہتے ہیں کہ وہ سب قوم ایسی ہی ہے.ہم اپنے کاموں میں بھی دیکھتے ہیں کہ جہاں کسی احمدی سے کوئی غفلت ہوتی ہے.سب لوگ یہ کہنے لگ جاتے ہیں کہ.بس جی دیکھ لیا.احمدی ایسے ایسے ہوتے ہیں.بلکہ خود بعض دفعہ احمدی بھی اس قسم کے الفاظ اپنی زبان سے نکال دیتے ہیں.اس کا اثر یہ ہوتا ہے کہ ایسے مقامات میں بعض کار خانے دار اوروں کو ملازم رکھ لیتے ہیں مگر احمدیوں کو نہیں رکھتے اور کہتے ہیں کہ احمدی اچھے نہیں ہوتے.اب کوئی احمدی ایسا ہوا ہو گا جس نے اپنا برا نمونہ لوگوں کے سامنے پیش کیا ہو گا مگر اس ایک کی وجہ سے بدنام ساری قوم ہوئی.لیکن اگر اس میں محنت کی عادت ہوتی اگر وہ دیانت اور امانت کے ساتھ کام کرنے کا عادی ہوتا تو نہ صرف وہ اپنی روٹی کما سکتا بلکہ کئی دوسرے احمدیوں کی روٹی کا بھی انتظام ہو جاتا.کیونکہ لوگ کہتے یہ احمدی تھا جس نے بڑی دیانتداری سے کام کیا اب اور کاموں پر بھی ہم احمدیوں کو ہی مقرر کریں گے.تاکہ ہمارے کام خوش اسلوبی سے ہوتے رہیں.غرض اگر ایک آدمی اچھا کام کرتا ہے تو دوسرے کی روٹی کا دروازہ بھی کھل جاتا ہے اور اگر ایک آدمی فرائض کی ادائیگی میں غفلت اور کوتاہی سے کام لیتا ہے تو اور لوگوں کی روٹی بھی بند ہو جاتی ہے.تو اخلاق میں سے بعض بظاہر انسان کی اپنی ذات کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں لیکن در حقیقت ان کا تعلق تمام قوم کے ساتھ ہوتا ہے جیسے جھوٹ ہے یا سستی ہے.یا غفلت ہے یا دھوکا اور فریب ہے.یہ ساری بدیاں ایسی ہیں کہ جن کے متعلق بظاہر انسان یہ سمجھتا ہے کہ ان کا صرف اس کی ذات کے ساتھ تعلق ہے حالانکہ ویسے ہی قوم کے ساتھ تعلق رکھتی ہیں جیسے ان کا تعلق اس کی ذات کے ساتھ ہوتا ہے وہ

Page 96

خطبات محمود 96 * 1941 اور اگر وہ ان اخلاق کی درستی نہ کرے تو تمام قوم کو نقصان پہنچتا ہے.میں دیکھتا ہوں کہ مسلمانوں میں اخلاق کی طرف بہت ہی کم توجہ ہے بلکہ ابھی تک احمدیوں نے بھی اخلاق کی اہمیت کو پوری طرح نہیں سمجھا.میرے سامنے اس وقت بچے بیٹھے ہیں جو تحریک جدید کے بورڈنگ میں رہتے ہیں.میں نے تحریک جدید کے مطالبات میں ایک شق اخلاق فاضلہ کی بھی رکھی ہوئی ہے.مگر میں نہیں سمجھتا کہ ان بچوں کے سپرنٹنڈنٹ اور اساتذہ وغیرہ اخلاق کی اہمیت کو ان پر پورے طور پر ظاہر کرتے ہوں.اس لئے کہ تحریک جدید کے بورڈنگ سے نکل کر جو طالب باہر گئے ہیں ان کے متعلق بھی کوئی زیادہ اچھی رپورٹیں نہیں آ رہیں.حالانکہ ان کے باپ کی اپنے بچوں کو تحریک جدید کے بورڈنگ میں داخل کرنے کی اصل غرض تھی کہ تعلیم کے علاوہ ان کی اعلیٰ تربیت ہو، ان میں محنت کی عادت ہوتی، ان میں اعلیٰ درجہ کی دیانت پائی جاتی، ان میں ہمدردی کا مادہ ہوتا، ان میں سچ کا مادہ ہوتا، ان میں قربانی اور ایثار کا مادہ ہوتا.اسی طرح وہ ہر کام کے کرتے وقت عقل سے کام لیتے اور وقت کی پابندی کرتے.اور یہ تمام باتیں ایسی ہیں کہ جب تک ان کو بار بار دہرایا نہ جائے اور جب تک بچوں کو ان باتوں پر عمل نہ کرایا جائے اس وقت تک وہ قوم اور دین کے لئے مفید ثابت نہیں ہو سکتے.یہ اخلاق ہی ہیں جو انسان کو کہیں کا کہیں پہنچا دیتے ہیں چنانچہ جن لوگوں کو محنت سے کام کرنے کی عادت ہوتی ہے وہ خواہ کسی ملک میں چلے جائیں انہیں کامیابی ہی کامیابی حاصل ہوتی چلی جاتی ہے.مگر جو ست ہوتے ہیں انہیں گھر بیٹھے بھی کوئی کام نظر نہیں آتا.میں نے دیکھا ہے بعض افسر سارا دن فارغ بیٹھے رہتے ہیں اور کہہ دیتے ہیں کہ ہمارے محکمہ میں کوئی کام ہی نہیں.انہیں کبھی یہ سوچنے کی توفیق ہی نہیں ملتی کہ ہمارے سپرد جو کام ہوا ہے اس کی کیا کیا شاخیں ہیں اور کس طرح وہ اپنے کام کو زیادہ وسیع طور پر پھیلا سکتے اور اس کے شاندار نتائج پیدا کر سکتے ہیں؟ وہ صرف اتنا ہی کام جانتے ہیں کہ رجسٹروں اور کاغذات پر دستخط کئے اور فارغ ہو کر بیٹھ رہے

Page 97

$1941 97 خطبات محمود لیکن اسی جگہ اور اسی دفتر میں جب کوئی کام کرنے والا افسر آتا ہے تو وہ اپنے کام ہزاروں شاخیں نکالتا چلا جاتا ہے اور اسے ہر وقت نظر آتا رہتا ہے کہ میرے سامنے یہ کام بھی ہے میرے سامنے وہ کام بھی ہے.یوروپین قوموں کو دیکھ لو یہ جہاں جاتی ہیں انہیں کام نظر آ جاتا ہے.ہندوستانی کہتے ہیں کہ ہم بھوکے مر گئے مگر یوروپین لوگوں کو ہندوستان میں بھی دولت نظر آ رہی ہے اور وہ اس دولت کو سمیٹتے چلے جاتے ہیں.اسی طرح سیلونی کہتے ہیں کہ ہم بھوکے مر گئے مگر انگریزوں کو سیلون میں بھی دولت دکھائی دیتی ہے.افغانی کہتے ہیں کہ ہم بھوکے مر گئے مگر انگریزوں کو افغانستان میں بھی دولت دکھائی دیتی ہے.پھر عرب جیسے سنگلاخ خطہ اور اس کے جنگلوں میں بھی انگریزوں کو دولت دکھائی دیتی ہے.مصر جیسی وادی میں بھی انہیں دولت دکھائی دیتی ہے.چین جاتے ہیں تو وہاں دولت کمانے لگ جاتے ہیں مگر چینی کہتے ہیں کہ ہمیں کچھ نہیں ملتا.تو یہ انگریزوں کی نظر کی تیزی کا ثبوت ہے کہ وہ جہاں جاتے ہیں انہیں دولت دکھائی دینے لگ جاتی ہے اور یہ نظر کی تیزی اخلاق فاضلہ سے ہی حاصل ہوتی ہے.اگر کسی قوم میں اخلاق فاضلہ پیدا ہو جائیں تو اس کے افراد کی نظر اسی طرح تیز ہو جاتی ہے.غرض قربانی اور ایثار کا مادہ ایسی چیز ہے جو انسان کی ہمت کو بڑھاتا ہے اور سچ بولنا ایک ایسا وصف ہے جو انسان کا اعتبار قائم کرتا ہے اور محنت کی عادت ایک ایسی چیز ہے جو کام کو وسعت دیتی ہے اور جب کسی شخص میں یہ اخلاق فاضلہ پیدا ہو جائیں تو ایسا آدمی ہر جگہ مفید کام کر سکتا اور ہر شعبہ میں ترقی حاصل کر سکتا ہے.پس میں تحریک جدید کے کارکنوں کو خصوصیت سے اس امر کی طرف توجہ تا ہوں کہ وہ یہ امر طالب علموں کے ذہن نشین کرتے رہیں کہ انہیں ہمیشہ سے کام لینا چاہئے اور محنت کی عادت اپنے اندر پیدا کرنی چاہئے اور اس امر کو ان کے اتنا ذہن نشین کریں کہ یہ امر ان کے دل کی گہرائیوں میں اتر جائے کہ دلاتا سچائی.

Page 98

$1941 98 خطبات محمود ان باتوں کو چھوڑنا ایسا ہی ہے جیسے طاعون میں گرفتار ہونا.آخر وجہ کیا ہے کہ ایک چور مل جاتا ہے تو وہ دوسرے کے دل میں چوری کی محبت پیدا کر دیتا ایک جھوٹا اور کذاب انسان مل جاتا ہے تو وہ دوسرے کو جھوٹ اور کذب بیانی کی عادت ڈال دیتا ہے ایک سست اور غافل انسان کسی دوسرے کے پاس رہتا ہے تو اسے بھی اپنی طرح سست اور غافل بنا دیتا ہے.اگر ان بدیوں کے مرتکب اثر پیدا کر لیتے ہیں تو کیا وجہ ہے کہ کارکنوں کے دلوں میں سوز اور گداز پیدا ہو جائے اور وہ اخلاق کی اہمیت کو سمجھ جائیں.تو بچوں میں سچ بولنے کی عادت پیدا نہ کر سکیں، ان میں محنت کی عادت پیدا نہ کر سکیں اور کیوں بچے ان اخلاق فاضلہ سے دوری کو ایک عذاب سمجھنے لگیں.اگر متواتر طالب علموں کو بتایا جائے کہ جھوٹ بولنا ایک عذاب ہے اور ایسا ہی ہے جیسے طاعون یا ہیضہ میں مبتلا ہو جانا.اگر متواتر طالب علموں کو بتایا جائے کہ سستی اور غفلت ایک عذاب ہے اور ایسا ہی ہے جیسے طاعون یا ہیضہ میں گرفتار ہونا یا بھڑکتی ہوئی آگ میں گر جانا.اسی طرح تمام اخلاق فاضلہ ان کے ذہن نشین کرائے جائیں تو کیا وجہ ہے کہ ان میں بیداری پیدا نہ ہو اور وہ صحیح اسلامی اخلاق کا نمونہ نہ بنیں.مگر اس کے لئے ضرورت اس بات کی ہے کہ طالب علموں کے سامنے متواتر لیکچر دیئے جائیں اور انہیں بتایا جائے کہ جھوٹ کیا ہوتا ہے؟ سچ کیا ہوتا ہے؟ سچ بولنے کے کیا فوائد ہیں؟ اور جھوٹ بولنے کے کیا نقصانات ہیں؟ میرے نزدیک سو میں سے توے انسان یہ سمجھتے ہی نہیں کہ سچ کیا ہوتا ہے.یہ ایک عام قاعدہ ہے کہ جتنا زیادہ کسی بات کو دہرایا جائے اتنا ہی لوگ اس کو کم سمجھتے ہیں.تم کسی شخص سے پوچھو حتٰی کہ کسی گاؤں کے رہنے والے شخص سے بھی دریافت کرو کہ سنیما کیا ہوتا ہے تو وہ ضرور اس کی کچھ نہ کچھ تشریح کر دے گا.لیکن اگر تم اس سے پوچھو کہ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللَّهِ کی کیا تشریح ہے کو تم نے کیوں مانا ہے تو وہ ہنس کر کہہ دے گا کہ یہ باتیں مولویوں سے دریافت کریں.آخر یہ فرق کیوں ہے؟ اور کیوں وہ سنیما کی تشریح تو کسی قدر کر سکتا اسلام ہے

Page 99

$1941 99 خطبات محمود سے نہیں بتا سکتا کہ اس نے اسلام کو کیوں قبول کیا.اسی لئے کہ وہ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ مُحَمَّدٌ رَّسُولُ الله کو ہر وقت رہتا رہتا ہے اور خیال کرتا ہے کہ مجھے اس کے سمجھنے کی ضرورت نہیں مگر سنیما کا لفظ وہ کبھی کبھی سنتا ہے اور اس ہے اور اس لئے لوگوں پوچھ لیتا ہے کہ یہ سنیما کیا چیز ہے.مگر لا الہ الا الله کو چونکہ اس نے بچپن سے سنا ہوتا ہے اس لئے وہ خیال کر لیتا ہے کہ مجھے اس کے متعلق کسی سے کچھ پوچھنے کی ضرورت نہیں.تم میں سے کسی کے بچہ نے اگر ریل کو نہیں دیکھا اور کسی دن تم اسے ریل دکھانے کے لئے لے جاؤ تو وہ جاتے ہی تم پر سوالات کی بوچھاڑ کر دے گا.اگر پنجابی ہو گا تو اپنے باپ سے کہے گا کہ باپو ایہہ کس طرح چلدی ہے؟ کبھی کہے گا کہ کیا یہ دھوئیں کے ساتھ چلتی ہے اور کبھی یہی خیال کرنے لگ جائے گا کہ اس کے اندر کوئی جن بیٹھا ہے جو اسے حرکت میں لاتا ہے.غرض وہ تھوڑے سے وقت میں تم سے بیسیوں سوالات کر دے گا لیکن کیا اس نے کبھی تم سے یہ پوچھا کہ سورج کیوں بنا ہے؟ اس کی روشنی کہاں سے آتی ہے؟ اس کے اندر گرمی کس طرح پیدا ہوتی ہے؟ اور اس کی روشنی اور گرمی ختم کیوں نہیں ہو جاتی؟ وہ کبھی تم سے یہ سوالات نہیں کرے گا لیکن انجن کے متعلق تم سے بیسیوں سوالات کر دے گا اس لئے کہ انجن اس نے ایک نئی چیز کے طور پر دیکھا ہے اور سورج کو اپنی پیدائش سے ہی وہ دیکھتا چلا آیا ہے.اور وہ سمجھتا ہے کہ مجھے اس کے متعلق کچھ.ہے پوچھنے کی ضرورت ہی نہیں.پس جتنی زیادہ کوئی چیز کسی انسان کے سامنے آتی اتنا ہی وہ اس کی حقیقت اور ماہیت سے ناواقف ہوتا ہے.یہ ایک قانون ہے کہ جو فطرت انسانی میں داخل ہے کہ جو چیز کبھی کبھار سامنے آئے گی اس کے متعلق وہ سوالات کی بوچھاڑ کر دے گا اور جو بار بار سامنے آتی رہے گی اس کے متعلق وہ کبھی کوئی سوال نہیں کرے گا.کیونکہ بار بار سامنے آنے سے دریافت کرنے کی حس ہی ماری جاتی ہے اور انسان یہ خیال کرنے لگ جاتا ہے کہ مجھے اس کا علم ہے حالانکہ اسے علم نہیں ہوتا.چنانچہ تم کسی سے پوچھ کر دیکھ لو کہ سچ کیوں بولنا

Page 100

خطبات محمود 100 $1941 چاہئے.وہ کبھی تم کو اس سوال کا صحیح جواب نہیں دے سکے گا.تم اپنے محلہ میں ہی کسی دن لوگوں سے دریافت کر کے معلوم کر سکتے ہو کہ آیا وہ اس سوال کا جواب دے سکتے ہیں یا نہیں.جب تم کسی سے پوچھو گے کہ سچ بولنا چاہئے یا نہیں تو وہ کہے گا کہ ضرور سچ بولنا چاہئے مگر جب پوچھا جائے کہ سچ کیوں بولنا چاہئے تو وہ ہنس کر کہہ دے گا کہ یہ بھی کوئی پوچھنے والی بات ہے.اس کی وجہ یہی ہے کہ سچ کا لفظ بار بار سن کر لوگوں کے دلوں میں یہ خیال پیدا ہو گیا ہے کہ یہ چیز کسی دلیل کی محتاج نہیں.حالانکہ یہ بھی ویسی ہی دلیل کی محتاج ہے جیسے اور باتیں دلیل کی محتاج ہیں.تو لوگ سچ کی تعریف سے بھی واقف نہیں ہوتے، وہ سچ کی ضرورت سے بھی واقف نہیں ہوتے، وہ سچ کے فوائد سے بھی واقف نہیں ہوتے، وہ سچ کو چھوڑنے اور جھوٹ بولنے کے نقصانات سے بھی واقف نہیں ہوتے.مگر جب ان سے سچ کے بارے میں کچھ پوچھا جائے تو وہ کہہ دیں گے کہ یہ بھی کوئی پوچھنے والی بات ہے.میرے پاس کئی لوگ آتے ہیں اور کہتے ہیں کہ احمدیت کی صداقت کا کیا ثبوت ہے.میں نے حضرت خلیفہ اول کو دیکھا کہ آپ سے جب بھی کوئی شخص یہ سوال کرتا آپ ہمیشہ اسے یہ جواب دیا کرتے کہ تم نے دنیا میں کسی سچائی کو قبول کیا ہوا ہے یا نہیں؟ اگر کیا ہوا ہے تو جس دلیل کی بناء پر تم نے اس سچائی کو قبول کیا ہے وہی دلیل احمدیت کی صداقت کا ثبوت ہے.اس کے جواب میں پوچھنے والا بسا اوقات یا تو ہنس کر خاموش ہو جاتا یا جو دلیل پیش کرتا اسی سے آپ اس کے سامنے احمدیت کی صداقت پیش فرما دیتے.میرا بھی یہی طریق ہے اور میں نے اپنے تجربہ میں اسے بہت مفید پایا ہے.چنانچہ مجھ سے بھی جب کوئی شخص سوال کرتا ہے کہ احمدیت کی صداقت کا کیا ثبوت ہے.تو میں اسے یہی کہا کرتا ہوں کہ تم پہلے یہ بتاؤ کہ تم محمد صل ا ل لی ایم کو کیوں مانتے ہو اور کن دلائل سے آپ کی صداقت کے قائل ہو.جو دلائل رسول کریم صلی ال نیم کی صداقت کے تمہارے پاس ہیں وہی دلائل حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے میں پیش کرنے کے لئے تیار ہوں.اس کے

Page 101

*1941 101 خطبات محمود الله سة الله سة جواب میں کئی لوگ تو خاموش ہی ہو جاتے ہیں اور کئی یہ کہہ دیتے ہیں کہ رسول کریم صلی علیکم کی صداقت کے دلائل ہم کیا بتائیں وہ تو ظاہر ہی ہیں.پھر جب ان کے اس جواب پر جرح کی جاتی ہے تو صاف کھل جاتا ہے کہ انہیں پتہ ہی نہیں کہ وہ رسول کریم سلامی ملک کو کیوں سچا سمجھتے ہیں.میرے پاس آج تک اس قسم کے جتنے لوگ آئے ہیں ان میں سے نوے فیصدی کا میں نے یہی حال دیکھا ہے.سو میں سے دو چار ایسے بھی ہوئے ہیں جنہوں نے کوئی جواب دیا ہے مگر ان کا وہ جواب بھی بہت ہی ادھورا تھا.مثلاً یہی کہہ دیتے ہیں کہ چونکہ رسول کریم صلی الم کی پیشگوئیاں پوری ہوئیں اس لئے ہم آپ کو سچا ، کو سچا سمجھتے ہیں اور اس طرح وہ خود ہی قابو میں آجاتے ہیں کیونکہ ہم کہہ دیتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بھی بہت سی پیشگوئیاں پوری ہو چکی ہیں.تو جو سچائی ہر وقت انسان کے سامنے رہتی ہے اسے وہ کریدنے کا عادی نہیں ہوتا اور نہ اس کے دلائل اسے معلوم ہوتے ہیں.اس لئے کہنا کہ سچائی وغیرہ کے بارہ میں کسی کو سمجھانے کی کیا ضرورت ہے یہ عام باتیں ہیں جو تمام لوگ جانتے ہی ہیں بہت بڑی غفلت ہے.کیونکہ جو چیزیں زیادہ سامنے آتی ہیں وہی اس بات کا حق رکھتی ہیں کہ ان کے متعلق بار بار سمجھایا جائے اور بار بار ان کے دلائل بیان کئے جائیں.کیونکہ لوگ بار بار سامنے آنے والی چیزوں کے متعلق سوال نہیں کیا کرتے.بلکہ وہ غیر معروف چیزوں کے متعلق زیادہ سوال کیا کرتے ہیں.قادیان میں قرآن کریم کا درس تو اکثر ہوتا ہی رہتا ہے تم غور کر کے کہ وہ لوگ جو رسول کریم صلی ال نیلم کے متعلق سوالات کرنے والے ہوں وہ بہت ہی تھوڑے ہوتے ہیں.حضرت عیسی علیہ السلام کے متعلق اس سے زیادہ سوال کرتے ہیں اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کے معجزوں کا ذکر آ جائے تو اور زیادہ سوالات کرتے ہیں لیکن جب آدم کا قصہ آ جائے تو بے تحاشہ سوالات کرنے لگ جاتے ہیں.اور یوں معلوم ہوتا ہے کہ گویا دل میں بے اختیار گد گدیاں ہونی شروع ہو گئی ہیں.اس کی وجہ یہی ہے کہ آدم کا واقعہ بہت دور کا ہے اور محمد صلی علیم کے معجزات کا بار بار ذکر سن کر لو

Page 102

$1941 102 خطبات محمود اعتراض کا خیال دل میں پیدا نہیں ہوتا.میرا یہ مطلب نہیں کہ ان باتوں کے دلائل موجود نہیں بلکہ مطلب یہ ہے کہ لوگوں کو دلائل سے ناواقفیت ہے اور اس کی کسی بات کا بار بار سامنے آتے رہنا ہے.لوگ اس چیز کے بار بار سامنے آنے کی وجہ سے دلائل پر غور نہیں کرتے اور اس کی حقیقت معلوم کرنے سے غافل رہتے ہیں.پس تم مت خیال کرو کہ جب تم کہتے ہو کہ سچ بولنا چاہئے تو تمہارا بچہ بھی جانتا ہے کہ سچ کیوں بولنا چاہئے.وہ اس بات کو ہر گز نہیں جانتا کہ سچ کیوں بولنا چاہئے.تم مجھے یہ کہنے میں معاف کرو کہ تم جو کہتے ہو کہ ہمارا بچہ جانتا ہے کہ اسے سچ کیوں بولنا چاہئے تم خود بھی نہیں جانتے کہ سچ کیوں بولنا چاہئے.اسی طرح تم میں سے وہ لوگ جو کہتے ہیں کہ ہمیں اپنے بچوں کو یہ کہنے کی کیا ضرورت ہے کہ وہ محنت کریں.یہ بات تو سب جانتے ہیں وہ مجھے یہ کہنے میں معاف کریں کہ ان کے بچے تو کیا وہ خود بھی نہیں جانتے کہ محنت کس قدر ضروری چیز ہے.کہ ان چیزوں کے متعلق بہت زیادہ زور دینے، بار بار توجہ دلانے اور زیادہ سے زیادہ ان کی اہمیت لوگوں کے ذہن نشین کرانے کی ضرورت ہے.ہے ماں باپ کا فرض ہے کہ وہ اپنے بچوں کے کانوں میں بار بار یہ باتیں ڈالیں.اسی طرح اساتذہ کا فرض ہے کہ وہ طالب علموں کے دماغوں میں ان چیزوں کو راسخ کر دیں.اور ان باتوں کی گرید، تلاش اور جستجو کا مادہ ان میں پیدا کریں.کیونکہ لوگ سچائی کو نہیں جانتے کہ وہ کیا چیز ہوتی ہے.وہ صرف سچ کا لفظ جاننا ہی وہ کافی سمجھ لیتے ہیں.اسی طرح وہ نہیں جانتے کہ محنت کتنی ضروری چیز ہے.بلکہ صرف محنت کے لفظ کو رٹ لینا اپنے لئے اور اپنے بچوں کے لئے کافی سمجھتے ہیں.اسی طرح لوگ جھوٹ سے بچنے کے الفاظ تو سنتے ہیں مگر جانتے نہیں کہ جھوٹ کیا ہو تا ہے.اسی طرح انہوں نے بنی نوع انسان کی محبت اور خیر خواہی کے الفاظ سنے ہوئے ہوتے ہیں مگر جانتے نہیں کہ محبت اور خیر خواہی کیا ہوتی ہے.اسی طرح انہوں نے غیبت کا لفظ سنا ہوا ہوتا ہے مگر جانتے نہیں کہ غیبت کیا ہوتی ہے.یہ

Page 103

$1941 103 خطبات محمود نہیں کہ ہماری شریعت میں ان چیزوں کا حل موجود نہیں.حل موجود ہے قرآن کریم نے ان امور کی وضاحت کر دی ہے.احادیث میں رسول کریم صلی ا ہم نے تمام باتوں کو کھول کر بیان کر دیا ہے.مگر لوگ ہیں کہ ان باتوں کی طرف توجہ ہی نہیں کرتے.حدیثوں میں آتا ہے ایک دفعہ رسول کریم صلی ا ہم نے فرمایا کہ غیبت نہیں کرنی چاہئے اس پر ایک شخص نے کہا یا رسول اللہ ! اگر میں اپنے بھائی کا وہ عیب بیان کروں جو اس میں فی الواقع موجود ہو تو آیا یہ بھی غیبت ہے؟ رسول کریم صلی للی ام نے فرمایا غیبت اسی کا تو نام ہے کہ تم اپنے بھائی کا اس کی عدم موجودگی میں کوئی ایسا عیب بیان کرو جو فی الواقع اس میں پایا جاتا ہے.اور اگر تم کوئی ایسی بات کہو جو اس میں نہ پائی جاتی ہو تو یہ غیبت نہیں بلکہ بہتان ہو گا.2 اب دیکھو رسول کریم صلی ال نی نے اس مسئلہ کو حل کر دیا اور بتا دیا کہ غیبت اس بات کا نام نہیں کہ تم کسی کا وہ عیب بیان کرو جو اس میں پایا ہی نہ جاتا ہو.اگر تم ایسا کرو تو تم مفتری ہو، تم جھوٹے ہو، تم کذاب ہو.مگر تم غیبت کرنے والے نہیں.غیبت یہ ہے کہ تم اپنے کسی بھائی کا کوئی سچا عیب اس کی عدم موجودگی میں بیان کرو.یہ بھی منع اسلام نے اس سے سختی کے ساتھ روکا ہے.مگر باوجود اس کے کہ محمد صلی ا ہم نے اس بات کو ساڑھے تیرہ سو سال سے حل کر دیا ہے اور قرآن میں اس کا ذکر موجود ہے.اگر اب بھی کوئی غیبت کر رہا ہو اور اسے کہا جائے کہ تم غیبت مت کرو تو وہ جھٹ کہہ دے گا کہ میں غیبت تو نہیں کر رہا میں تو بالکل سچا واقعہ بیان رہا ہوں.حالانکہ ساڑھے تیرہ سو سال گزرے رسول کریم صلی یکم یہ فیصلہ سنا چکے اور عَلَى الْإِعْلان اس کا اظہار فرما چکے ہیں.مگر اب بھی اگر کسی کو روکو تو وہ کہہ دے گا کہ یہ غیبت نہیں یہ تو بالکل سچی بات ہے حالانکہ کسی کا اس کی عدم موجودگی میں سچا عیب بیان کرنا ہی غیبت ہے اور اگر وہ جھوٹ ہے تو تم غیبت کرنے والے نہیں بلکہ مفتری اور کذاب ہو.یہ چیزیں ہیں جن کی طرف توجہ کرنے کی ضرورت ہے مگر بوجہ اس کے

Page 104

$1941 104 خطبات محمود کہ بار بار ان کے الفاظ کانوں میں پڑتے رہتے ہیں لوگ حقیقت معلوم کرنے کی جستجو نہیں کرتے.پس ان باتوں پر بار بار زور دو اور اس امر کو اچھی طرح سمجھ لو کہ جب تک یہ جسم مکمل نہیں ہو گا اس وقت تک مذہب کی روح بھی قائم نہیں ر.گویا ایمان ایک روح ہے اور اخلاق فاضلہ اس روح کا جسم ہیں.پس میں ره تحریک جدید کے تمام کارکنوں اور خدام الاحمدیہ کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ نوجوانوں میں ان باتوں کو پیدا کرنے کی کوشش کریں.سپر نٹنڈنٹ کو چاہئے کہ وہ بچوں کے کانوں میں یہ باتیں بار بار ڈالیں اور ماں باپ کو چاہئے کہ وہ اپنی اولاد کو ان باتوں پختگی کے ساتھ قائم کریں اور کوشش کریں کہ ان میں جھوٹ کی عادت نہ ہو، بت کی عادت نہ ہو، چغل خوری کی عادت نہ ہو، ظلم کی عادت نہ ہو، دھوکا اور فریب کی عادت نہ ہو.غرض جس قدر اخلاق ہیں وہ ان میں پید اہو جائیں اور جس قدر بدیاں ہیں ان سے وہ بچ جائیں تاکہ وہ قوم کا ایک مفید جسم بن سکیں.اگر ان میں یہ بات نہیں تو وفات مسیح پر لیکچر دینا یا منہ سے احمدیت زندہ باد کے نعرے لگاتے رہنا کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکتا کیونکہ کوئی روح بغیر جسم کے نہیں رہ سکتی اور کوئی جسم بغیر روح کے مفید کام نہیں کر سکتا.جسم کی مثال ایک پیالے کی سی ہے اور روح کی مثال دودھ کی سی.جس طرح دودھ بغیر پیالہ کے زمین پر گر جاتا ہے اسی طرح اگر اخلاق فاضلہ کا جسم تیار نہیں ہو گا تو تمہارے لیکچر اور تمہاری تمام تقریریں زمین گر کر مٹی میں دھنس جائیں گی لیکن اگر اخلاق فاضلہ کا پیالہ تم ان کے دلوں میں رکھ دو گے تو پھر وعظ بھی انہیں فائدہ دے گا اور تقریریں بھی ان میں نیک تغیر (الفضل 14 مارچ 1941ء) پیدا کر دیں گی." 1 النجم : 9 23 ترندی اَبْوَابُ الْبِرِّ وَالصَّلَةِ بِابِ مَا جَاءَ فِي الْغِيْبَةِ

Page 105

105 * 1941 8 خطبات محمود حقیقی کامیابی رسول کریم صلی الم کی کامل اطاعت اور فرمانبرداری میں ہے (فرمودہ 7 مارچ1941ء) تشہد، تعوذ اور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:.“ میں نے بہت دفعہ جماعت کو توجہ دلائی ہے کہ مذہب ایک ایسی چیز ہے جو صرف اقرار کے ساتھ ہی مکمل نہیں ہو جاتی بلکہ وہ اپنے ساتھ کئی شرائط رکھتی ہے اور جب تک ان تمام شرائط کو مد نظر نہ رکھا جائے اُس وقت تک مذہب سے پورا فائدہ نہیں اٹھایا جا سکتا.میں نے کئی دفعہ مثال دی ہے کہ تم ایک مکان کی تین دیواریں بنا کر محفوظ نہیں رہ سکتے.اگر تین دیواریں بناؤ گے تو چوتھی طرف سے ہوا بھی آئے گی ، دھوپ بھی آئے گی، بارش بھی آئے گی.اسی طرح چور بھی آ سکتا ہے اور دشمن بھی اس طرف حملہ کر سکتا ہے.غرض وہ سب چیزیں جن وہ سب چیزیں جن سے بچنے کے لئے مکان بنایا جاتا ہے اس چوتھی دیوار کے نہ ہونے کی وجہ سے آجائیں گی اور تین دیواریں کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکیں گی صحابہ کرام کی ترقی کی وجہ یہی تھی کہ انہوں نے اس راز کو سمجھ لیا تھا اور وہ رسول کریم صلی للی کمی کی چھوٹی سے چھوٹی بات کو بھی بڑا سمجھتے تھے.مگر آجکل لوگوں کی کوشش یہ ہوتی ہے کہ بڑی باتوں کو بھی چھوٹا قرار سے

Page 106

$1941 106 خطبات محمود دے دیں.بہت سے لوگ دین کے احکام کو ایک چٹی خیال کر لیتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ اس سے بھی بچ جائیں اس سے بھی بچ جائیں.مگر صحابہ کی یہ حالت ہوا کرتی تھی کہ وہ چاہتے تھے ہم کو یہ بھی مل جائے ہم کو وہ بھی مل جائے، ہم اس حکم کی بھی فرمانبرداری کریں اور ہم اس کی بھی فرمانبرداری کریں.یہی وجہ ہے کہ وہ بہت جلد ترقی کر گئے اور بعد میں آنے والے ویسی ترقی حاصل نہ کر سکے کیونکہ رسول کریم صلی املی کام کے پر حکمت کلام کی قدر ان کے دلوں میں نہ رہی.اگر ان کے دلوں میں بھی رسول کریم صلی الی یوم کے احکام کی وہی قدر ہوتی جو صحابہ کے دلوں میں تھی تو کوئی وجہ نہیں تھی کہ وہ صحابہ سے پیچھے رہتے.صحابہ رسول کریم صلی الم کے بتائے ہوئے امور پر چلنے کے لئے ایسے مشتاق تھے کہ معلوم ہوتا ہے وہ اس بات کو اچھی طرح سمجھتے تھے کہ ہماری ساری نجات رسول کریم صلیم کی فرمانبر داری میں ہے.حدیثوں میں ایک واقعہ آتا ہے جس سے پتہ لگتا ہے کہ ان میں کس قدر فرمانبر داری کی روح پائی جاتی تھی بظاہر وہ ایک ایسی بات ہے جسے سن کر کوئی انسان کہہ سکتا ہے کہ یہ کیسی بے وقوفی کی بات ہے لیکن جیسا کہ میں نے بتایا ہے ان کی ترقی کا راز اسی میں مضمر تھا کہ وہ رسول کریم صلی لم کی زبان سے جب کوئی حکم سنتے تو اسی وقت اس پر عمل کرنے کے لئے آمادہ ہو جاتے.احادیث میں آتا ہے حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ ایک دفعہ رسول کریم کی مجلس کی طرف آ رہے تھے.آپ ابھی گلی میں ہی تھے کہ آپ کے کانوں میں رسول کریم صلی علیکم کی یہ آواز آئی کہ ”بیٹھ جاؤ معلوم ہوتا ہے ہجوم زیادہ ہو گا اور سة کچھ لوگ کناروں پر کھڑے ہوں گے.رسول کریم صلی اللہ کریم نے انہیں فرمایا.بیٹھ جاؤ حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ جو ابھی مجلس میں نہیں پہنچے تھے اور گلی میں آ رہے تھے.جب انہوں نے رسول کریم صلی الی یوم کی یہ آواز سنی تو وہ وہیں بیٹھ گئے 1 گئے 1 اور

Page 107

$1941 107 خطبات محمود بیٹھے بیٹھے جیسے بچے چلتے ہیں، گھسٹ گھسٹ کر مسجد میں پہنچے.کسی شخص نے جو اس راز نہیں سمجھتا تھا کہ اطاعت اور فرمانبرداری کی روح دنیا میں قوموں کو کس طرح میاب کیا کرتی ہے جب حضرت عبد اللہ بن مسعود کو اس طرح چلتے دیکھا تو اس نے اعتراض کیا اور کہا کہ یہ کیسی بے وقوفی کی بات ہے.رسول کریم صلی الم کا مطلب تو یہ تھا کہ مسجد میں جو لوگ کناروں پر کھڑے ہیں وہ بیٹھ جائیں مگر آپ گلی میں ہی بیٹھ گئے اور گھٹتے ہوئے مسجد میں آئے.آپ کو چاہئے تھا کہ آپ جب مسجد میں پہنچ جاتے تو اس وقت بیٹھتے گلی میں ہی بیٹھ جانے کا کیا فائدہ تھا.حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ نے جواب دیا.ہاں یہ ہو تو سکتا تھا لیکن اگر مسجد میں پہنچنے سے پہلے ہی میں مر جاتا تو رسول کریم لی لی نام کا یہ حکم میرے عمل میں نہ آتا اور کم سے کم ایک بات ایسی کا ضرور رہ جاتی جس پر میں نے عمل نہ کیا ہوتا.اس لئے میں نے مناسب نہ سمجھا کہ میں چلتا ہوا آؤں اور پھر مسجد میں آکر بیٹھوں.میں نے خیال کیا کہ زندگی کا کیا اعتبار ہے شاید میں مسجد میں پہنچوں یا نہ پہنچوں اس لئے ابھی بیٹھ جانا چاہئے تاکہ اس حکم پر بھی عمل ہو جائے.انہی عبد اللہ بن مسعودؓ کا واقعہ ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے اپنے زمانہ خلافت میں ایک دفعہ حج کے ایام میں مکہ مکرمہ میں چار رکعتیں پڑھیں.رسول کریم لی ای ام جب حج کے لئے تشریف لائے تھے تو آپ نے وہاں دو رکعتیں پڑھیں تھیں کیونکہ مسافر کو دو رکعت نماز پڑھنے کا ہی حکم ہے.پھر حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ اپنے زمانہ خلافت میں تشریف لائے تو آپ نے بھی دو ہی پڑھیں.حضرت عمر رضی اللہ عنہ حج کے لئے تشریف لائے تو انہوں نے بھی دو ہی پڑھی تھیں.مگر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے چار رکعتیں پڑھا دیں.اس پر لوگوں میں ایک شور برپا ہو گیا اور انہوں نے کہا کہ عثمان نے رسول کریم صلی ایم کی سنت کو بدل دیا ہے.چنانچہ حضرت عثمان کے پاس لوگ آئے اور انہوں نے دریافت کیا کہ آپ نے چار رکعتیں کیوں پڑھی ہیں؟ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے فرمایا بات یہ ہے کہ میں نے ایک اجتہاد کیا ہے اور ها الله سة علیہم

Page 108

$1941 خطبات محمود 108 کا وہ یہ کہ اب دور دور کے لوگ مسلمان ہو گئے ہیں اوران میں سے اکثر کو اب اسلامی مسائل اتنے معلوم نہیں جتنے پہلے لوگوں کو معلوم ہوا کرتے تھے.اب وہ صرف ہمارے افعال کو دیکھتے ہیں اور جس رنگ میں وہ ہمیں کوئی کام کرتے دیکھتے ہیں اسی رنگ میں خود کرنے لگ جاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہی اسلام لوگ چونکہ مدینہ میں بہت کم جاتے ہیں اور انہیں وہاں رہ کر ہماری نمازیں دیکھنے کا موقع نہیں ملتا اس لئے میں نے خیال کیا کہ اب حج کے موقع پر اگر انہوں نے مجھے دو رکعت نماز پڑھاتے دیکھا تو اپنے اپنے علاقوں میں جاتے ہی کہنے لگ جائیں گے خلیفہ کو ہم نے دو رکعت نماز پڑھاتے دیکھا ہے.اس لئے اسلام کا اصل حکم یہی ہے.اس ، کہ دو رکعت نماز پڑھی جائے اور لوگ چونکہ اس بات سے ناواقف ہوں گے کہ یہ دو رکعت نماز سفر کی وجہ سے پڑھی گئی ہے اس لئے اسلام میں اختلاف پیدا ہو جائے گا اور لوگوں کو ٹھوکر لگے گی.پس میں نے مناسب سمجھا کہ چار رکعت نماز پڑھا دوں تاکہ نماز کی چار رکعتیں انہیں بھولیں نہیں.باقی رہا یہ کہ میرے لئے چار رکعت پڑھانا جائز کس طرح ہو گیا سو اس کا جواب یہ ہے کہ میں نے یہاں شادی کی ہوئی ہے اور چونکہ بیوی کا وطن بھی اپنا وطن ہی ہوتا ہے اس لئے میں سمجھتا ہوں کہ میں مسافر نہیں ہوں اور مجھے پوری نماز پڑھنی چاہئے.غرض حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے چار رکعت نماز پڑھانے کی یہ وجہ بیان فرمائی اور اس توجیہہ کا مقصد آپ نے یہ بتایا کہ باہر کے لوگوں کو دھوکا نہ لگے اور وہ اسلام کی صحیح تعلیم کو سمجھنے میں ٹھوکر نہ کھائیں.ان کی یہ بات بھی بڑی لطیف تھی اور جب صحابہ نے تو اکثر سمجھ گئے اور بعض نہ سمجھے مگر خاموش رہے.مگر دوسرے لوگوں نے شور مچا دیا اور کہنا شروع کر دیا کہ حضرت عثمان نے رسول کریم صلی امی کی سنت کے خلاف عمل کیا ہے.چنانچہ انہی میں سے کچھ لوگ حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ کے پاس بھی پہنچے اور کہنے لگے آپ نے دیکھا کہ آج کیا ہوا.رسول کریم صلی لی کام کیا کیا کرتے تھے اور عثمان نے آج کیا کیا.رسول کریم صلی ا لم تو حج کے دنوں میں مکہ آکر صرف دور کے لعتیں

Page 109

* 1941 109 خطبات محمود پڑھایا کرتے تھے مگر حضرت عثمان نے چار رکعتیں پڑھائیں.انہوں نے کہا دیکھو ہمارا یہ کام نہیں کہ ہم فتنہ اٹھائیں کیونکہ خلیفہ وقت نے کسی حکمت کے ماتحت ہی ایسا کام کیا ہو گا.پس تم فتنہ نہ اٹھاؤ.میں نے بھی ان کی اقتداء میں چار رکعتیں ہی پڑھی ہیں.مگر نماز کے بعد میں نے ہاتھ اٹھا کر اللہ تعالیٰ سے دعا مانگ لی تھی کہ خدایا تو ان چار رکعتوں میں سے میری وہی دو رکے رکعتیں قبول فرمانا جو رسول کریم ہے.کے ساتھ ہم پڑھا کرتے تھے اور باقی دو رکعتوں کو میری نماز نہ سمجھنا.یہ کیسا عشق کا رنگ ہے جو حضرت عبد اللہ بن مسعود میں پایا جاتا تھا کہ انہوں نے چار رکعتیں پڑھ تو لیں مگر انہیں وہ ثواب بھی پسند نہ آیا جو محمد صلی الی کم کی پڑھی ہوئی دو رکعتوں سے زیادہ تھا اور دعا مانگی کہ الہی دو رکعتیں ہی قبول فرمانا چار قبول کرنا.اور پھر خلافت کی اطاعت کا بھی اس میں کیسا عمدہ نمونہ پایا جاتا ان کو معلوم نہ تھا کہ حضرت عثمان نے کس وجہ سے دو کی بجائے چار رکعتیں پڑھائی ہیں.حالانکہ یہ وجہ ایسی ہے جسے بہت سے لوگ صحیح قرار دیتے ہیں.وہ بیوی کے گھر جاتے ہیں تو اسے سفر نہیں سمجھتے، بیٹے کے گھر جاتے ہیں تو اسے سفر نہیں سمجھتے ماں باپ کے گھر جاتے ہیں تو اسے سفر نہیں سمجھتے.پس یہ مسئلہ ٹھیک تھا اور پھر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی یہ احتیاط کہ باہر کے لوگوں کو دھوکا نہ لگے اور اسلام میں کوئی رخنہ نہ پڑ جائے ان کے اعلیٰ درجہ کے تقویٰ کا ثبوت ہے.مگر حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ کو اس وقت تک اس حکمت کا علم نہیں تھا لیکن انہوں نے یہ نہیں کیا کہ نماز چھوڑ دی ہو بلکہ انہوں نے نماز بھی پڑھ لی اور خلافت کی اطاعت بھی کر لی اور بعد میں خدا تعالیٰ کے حضور عرض کر دیا کہ یا اللہ میری دو رکعتیں ہی قبول ہوں چار نہ ہوں.یہ کیسی فرمانبرداری اور رسول کریم صلی الم کے قدم بقدم چلنے کی روح تھی جو اُن میں پائی جاتی تھی.یہی وجہ تھی کہ باوجود اس بات کے کہ صحابہ بالکل ان پڑھ تھے (سارے مکہ میں کل سات آدمی پڑھے لکھے تھے) ساری دنیا پر چھا گئے.لیکن اب ہم دیکھتے ہیں کہ ایک شخص بی.اے ہوتا ہے،

Page 110

$1941 110 خطبات محمود اگر ہے ایم.اے ہوتا ہے، مولوی فاضل ہوتا ہے اور وہ سب دنیا کے علوم کو کھنگال ڈالتا مگر قوت عملیہ اس میں بالکل مفقود ہوتی ہے.اس کی وجہ یہی ہے کہ رسول کریم صلی اللہ کے عمل کی نقل اور اس کی اتباع کا پورا خیال دل میں نہیں ہوتا.مگر جیسا کہ میں نے بتایا ہے صحابہ میں یہ اہتمام انتہا درجہ کا پایا جاتا تھا.ایک دفعہ لوگ ایک جنازہ لئے جا رہے تھے کہ ایک صحابی نے دوسرے صحابی سے کہا میں نے رسول کریم صلی للی نیم سے سنا ہوا ہے کہ بھائی کے جنازہ میں شامل ہو تو جب کوئی مسلمان اپنے " اسے ایک قیراط ثواب ملتا ہے اور ایک قیراط ثواب احد پہاڑ کے برابر ہو گا.لیکن جنازہ پڑھنے کے بعد اسے دفن کرنے کے لئے قبر تک جائے تو اسے دو قیراط حاصل ہوتا ہے.دوسرے صحابی یہ بات سن کر اس صحابی پر ناراض ہوئے اور کہنے لگے کہ تم نے یہ بات ہمیں پہلے کیوں نہ بتائی.نہ معلوم ہم اب تک ثواب کے کتنے قیراط ضائع کر چکے ہیں 2 تو چھوٹی چھوٹی باتوں میں بھی وہ لوگ رسول کریم صلی الی یوم کے بتائے ہوئے طریق کی نقل کرتے.آپ کے احکام کی اتباع کرتے اور سمجھتے کہ اسی میں ان کی ترقی اور اسی میں ان کی عزت ہے.اور در حقیقت یہ ہے بھی صحیح.آخر کونسی بات ہے جو رسول کریم صلی اللہ ہم نے ہمیں بتائی ہو اور اس میں کوئی فائدہ نہ ہو.ایک بات بھی کوئی شخص ایسی بتا نہیں سکتا.اس کے مقابلہ میں دوسرے مذاہب کی سو میں سے توے باتیں ایسی ہوں گی جن کی حکمت یا تو ان کے مذاہب نے بتائی ہی نہیں یا اس کے اندر کوئی حکمت نہیں.مگر رسول کریم صلی ال ولم نے ہمیں جو احکام دیئے ہیں وہ ایسے ہیں کہ سو میں سے سو کی حکمتیں ہی بیان کی جا سکتی ہیں، سو میں سے سو کی ہی غرض و غایت ہے ہی الله سة بیان کی جا سکتی ہے اور سو میں سو کے ہی فوائد بیان کئے جا سکتے ہیں.پس کوئی وجہ نہیں کہ مسلمانوں کے دلوں میں یہ جوش پیدا نہ ہو کہ ہم رسول کریم صلی ا لی ایم کے احکام کی اتباع کریں اور ایک ایک بات جو ہمیں نظر آئے خواہ وہ بظاہر چھوٹی سے چھوٹی ہو اس کو بھی نہ چھوڑیں لیکن افسوس کہ مسلمانوں میں

Page 111

$1941 111 خطبات محمود ادھر توجہ بہت کم ہے صرف فرقہ اہل حدیث نے اس طرف توجہ کی ہے مگر وہ بھی لفظی طور پر اور انہوں نے بھی قشر کو تو لے لیا مگر مغز کو چھوڑ دیا.الله سة انہی باتوں میں سے جو رسول کریم صلی علی کرم نے بیان فرمائی ہیں اور جن کو قسمتی سے مسلمانوں نے یہ سمجھ کر کہ وہ چھوٹی باتیں ہیں چھوڑ دیا ہے ایک بات یہ بھی ہے کہ جب مسلمان کسی اجتماع میں شامل ہوں تو انہیں صاف کپڑے پہن کر آنا چاہئے.مجلس کی جگہ کو بھی صاف رکھنا چاہئے اور ہو سکے تو عطر لگا کر آنا چاہئے آج جمعہ کا دن ہے اس دن مسلمانوں کا ہر جگہ اجتماع ہوتا ہے اور مسلمانوں کا فرض ہے کہ جب وہ جمعہ پڑھنے کے لئے آئیں تو نہا دھو کر آئیں کپڑے صاف پہنیں اور عطر استعمال کریں.اسی طرح رسول کریم صلی الم نے یہ حکم بھی دیا ہے کہ اجتماع کے مواقع پر کوئی بدبو دار چیز کھا کر نہیں آنا چاہئے مثلاً کچا پیاز ہوا یا گندنا وغیرہ ہوا.ان کو کھا کر مسجد میں آنے کی رسول کریم صلی ال ولیم نے ممانعت فرمائی ہے.اسی طرح اور بہت سی چیزیں ہیں جو بدبودار ہوتی ہیں یا بد بو پیدا کر دیتی ہیں ان سب کو استعمال کرنے سے رسول کریم صلی ا ہم نے منع فرمایا ہے.خود رسول کریم صلی نیم اس قدر احتیاط فرمایا کرتے تھے کہ دن میں کئی کئی مرتبہ آپ مسواک کرتے تھے.اس میں بھی دراصل یہی حکمت تھی کہ آپ کے منہ سے بو نہ آئے.رسول کریم صلی نیم سے چونکہ ہر شخص نے بات کرنی ہوتی تھی اور ہر ایک نے آپ سے مسائل پوچھنے ہوتے تھے اس لئے آپ دن میں کئی کئی دفعہ مسواک کیا کرتے تھے تا ایسا نہ ہو کہ کے منہ سے بدبو آئے اور دوسرے کو تکلیف محسوس ہو.صحابہ کہتے ہیں آپ دن میں اتنی دفعہ مسواک کیا کرتے تھے کہ ہم سمجھتے مسواک رسول کریم صلی علم کے نزدیک بہترین پسندیدہ چیز ہے پھر یہ شغف اس قدر تھا کہ جب آپ کی وفات کا وقت قریب آیا تو اس وقت آپ نے دیکھا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے بھائی کے ہاتھ میں مسواک ہے.اس وقت آپ اچھی طرح بول بھی نہیں سکتے تھے.آپ نے ہاتھ سے اشارہ کیا جس کا مطلب

Page 112

*1941 112 خطبات محمود یہ تھا کہ مجھے مسواک دو حضرت عائشہ نے مسواک لے کر آپ کو دے دی دی مگر چونکہ آپ میں اس وقت طاقت نہیں تھی اور آپ مسواک کو چبا نہیں سکتے تھے لئے آپ نے پھر اشارہ فرمایا کہ اس کو چبا دو.چنانچہ انہوں نے مسواک کو چبا کر رسول کریم صلی اللہ نیلم کی خدمت میں پیش کی اور آپ نے اس وقت بھی مسواک کی.حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں مجھے خوشی ہے کہ رسول کریم صلی ایم کی زندگی کے آخری لمحات میں میرا لعاب دہن آپ کے لعاب دہن سے ملا.3 لیکن اس زمانہ میں میرا اندازہ ہے کہ شائد سو میں سے نوے آدمیوں کے ممنہ سے بدبو آتی ہے اور پھر ان نوے فیصدی لوگوں میں سے بھی ایک کثیر حصہ اس بے وقوفی میں مبتلا ہے کہ وہ سمجھتا ہے شاید بات سننے والا کان کی بجائے ناک سنتا ہے.ہمارے ملک میں یہ ایک عام رواج ہے.خصوصاً ان لوگوں میں جن پر صوفیاء کا اثر چلا آتا ہے کہ وہ بات کرتے وقت بجائے اس کے کان کی طرف منہ کریں دوسرے کی ناک کے پاس مُنہ لے جا کر بات شروع کریں گے.جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ تمام سنڈ اس جو ان کے منہ میں بھرا ہوا ہوتا ہے دوسرے کے ناک میں چلا جاتا ہے.میں نے ان علاقوں میں یہ مرض بہت دیکھا ہے جو ایک عرصہ سے پیروں کے ماتحت چلے آتے ہیں مثلاً گجرات ہے اس ضلع کے رہنے والے جب بھی بات کرنے لگیں گے دوسرے کے عین ناک کے قریب اپنا منہ لے جائیں گے اور آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اس سے بات کریں گے.میں اس ذریعہ سے اپنی جماعت کے لوگوں میں ہمیشہ سے گولیکی اور سدو کی کے رہنے والوں کو پہچان لیتا ہوں.جب بھی ان میں سے کوئی مجھ سے بات کرنے لگے میں اس سے پوچھ لیتا ہوں کہ آپ گولیکی کے ہیں یا سدو کی کے.اور شاید سو میں سے ایک دفعہ غلطی ہو ورنہ ننانوے دفعہ میرا قیاس صحیح ہوتا ہے اوروہ ان دونوں جگہوں میں سے ایک جگہ کے رہنے والے ثابت ہوتے ہیں.حالانکہ خدا تعالیٰ نے سننے کے لئے ناک تو نہیں بنائی خدا نے تو سننے کے لئے کان بنایا ہے.پس اگر کوئی شخص اپنے منہ کو

Page 113

$1941 113 خطبات محمود صاف نہیں رکھ سکتا تو دوسرے پر اتنا تو رحم کرے کہ بات کرتے وقت اپنا منہ اس کے کان کی طرف لے جائے اس کی ناک کے سامنے نہ رکھے.غرض یہ عیب مسلمانوں میں شدید طور پر پایا جاتا ہے کہ وہ صفائی کی طرف توجہ نہیں رکھتے اور اجتماع کے مواقع پر بالخصوص رسول کریم صلی الم کی بیان کردہ ہدایات کو ملحوظ نہیں رکھتے.حالانکہ رسول کریم صلی الم نے نہایت لطیف رنگ میں اس مسئلہ کی طرف اپنی امت کو توجہ دلائی ہے.آپ فرماتے ہیں تم جب کسی اجتماع میں شامل ہونے کے لئے آؤ تو کوئی بودار چیز کھا کر نہ آؤ.اس کے یہ معنے نہیں کہ کہ بد بودار چیز کھا کر تو نہ آؤ لیکن خوشبودار چیز کو ممنہ میں سڑا کر اور اسے بدبودار بنا کر مسجد میں بیشک آ جایا کرو.اگر کوئی ایسے معنے کرتا ہے تو وہ حد درجہ کا نالائق انسان ہے.جب آپ نے فرمایا ہے کہ کچا پیاز اور گندنا وغیرہ کھا کر مسجد میں آؤ تو اسی میں یہ بات بھی آ جاتی ہے کہ اگر کوئی اچھی چیز انسان کھائے اور پھر اپنے مُنہ کو صاف نہ کرے اور اس کی سڑاند ممنہ میں پیدا ہو جائے تو اس صورت میں بھی اسے اجتماع سے دور رہنا چاہئے.پھر رسول کریم صلی الم نے اس کی کیا ہی لطیف حکمت بیان فرمائی ہے.آپ فرماتے ہیں بدبودار چیزوں سے فرشتوں کو تکلیف ہوتی ہے.اب فرشتہ کوئی جسمانی چیز تو ہے نہیں کہ بدبو سے اسے تکلیف ہو.مراد یہی ہے کہ ہر نیک فطرت انسان اس سے اذیت محسوس کرتا ہے اور پاک لوگوں کو اس طرح تکلیف ہوتی ہے اس لئے تم مسجد میں ایسی چیزیں کھا کر نہ آیا کرو جن سے انہیں تکلیف ہو.ہاں گندے لوگوں کو بد بو سے بے شک کوئی تکلیف نہیں ہو سکتی کیونکہ وہ شخص جو چیزوں کو سڑا کر اپنے منہ میں رکھتا ہے اور اس کی بُو محسوس نہ کرتا ہو اسے کسی اور کے منہ سے کس طرح بُو آ سکتی ہے.تکلیف تو اسے ہی ہو گی جو فرشتہ خصلت ہو گا اور پاک صاف رہنے والا ہو گا.اسی لئے رسول کریم صلی میریم نے فرمایا کہ جمعہ کے لئے آؤ تو کپڑے بدل کر آؤ.اس کی حکمت تو ظاہر ہی ہے.کپڑے کو پسینہ لگتا رہتا ہے اور پسینہ میں چونکہ زہر بھی ہوتی ہے اور جو بھی.پس.

Page 114

$1941 114 خطبات محمود اس کا انسان کی اپنی صحت پر بھی برا اثر پڑتا ہے اور دوسروں کو بھی بُو سے اذیت پہنچتی ہے.اس لئے رسول کریم صلی ا ہم نے ہدایت دے دی کہ کپڑے بدل کر آیا کرو.ہمارے ملک میں عام طور پر لوگ نہانے دھونے کے بہت کم عادی ہیں لیکن عرب میں اس کا بڑا رواج تھا.میں نہیں جانتا یہ رواج اس وقت ہے یا نہیں مگر حضرت خلیفہ اول فرمایا کرتے تھے کہ جب ہم مکہ میں گئے تھے تو اس وقت تک عرب لوگوں میں یہ رواج تھا کہ رات کے وقت وہ اپنا تمام لباس اُتار کر شب خوابی علیحدہ لباس پہن لیتے اور عورتیں روزانہ رات کے وقت دن کے پہنے ہوئے کپڑوں کو دھو لیتیں.اس طرح سوتے وقت وہ روزانہ اپنے کپڑوں میں سے پسینہ دھو ڈالتے تھے حالانکہ وہاں پانی کی کمی تھی مگر ہمارے ملک میں بعض امراء تو روزانہ بھی کپڑے بدل لیتے ہیں لیکن بعض دوسرے تیسرے دن بدلتے ہیں اور معمولی حیثیت کے لوگ آٹھویں دن کپڑے بدلتے ہیں اور غرباء کپڑا پہن کر اس کے پھٹنے تک اسے نہیں اتارتے.حالانکہ اگر کسی شخص کو صابن سے کپڑے دھونے کی توفیق ہے تو اسے چاہئے کہ صابن سے کپڑے دھو لیا کرے اور اگر کسی کو صابن خریدنے کی توفیق نہیں تو وہ یہ تو کر سکتا ہے کہ رات کے وقت کپڑوں کو پانی میں ڈال دے اور صبح انہیں اچھی طرح مل کر اور نچوڑ کر دھوپ میں لٹکا دے.اس طرح چاہے وہ کپڑا سفید نہ ہو مگر پسینہ جو ضرر رساں چیز ہے اور اس کی بُو جو دوسروں کے لئے اور خود اس کے لئے اذیت کا موجب بنتی ہے وہ اور دوسرے لوگ اس سے محفوظ ہو جائیں گے.میں نے بتایا ہے کہ عرب میں کم سے کم اس وقت تک یہ رواج ضرور تھا جب حضرت خلیفہ اول حج کے لئے مکہ تشریف لے گئے تھے اور پھر پڑھنے کے وہیں ٹھہر گئے.ممکن ہے یہ رواج اب بھی ہو کیونکہ قومی رواج جلدی نہیں مٹ جایا کرتے.لیکن اگر اب مغربی اثر کے ماتحت اس میں کمی آگئی ہو تو پھر بھی کچھ نہ کچھ رواج اہل عرب میں ضرور ہو گا.بہر حال اسلام نے جسم اور کپڑوں کی صفائی کے متعلق جو احکام دیئے ہیں وہ معمولی نہیں مگر کتنے ہیں جو ان پر غور کرتے ہیں، لئے

Page 115

$1941 115 خطبات محمود کتنے ہیں جو لباس کو صاف رکھنے کی کوشش کرتے ہیں، کتنے ہیں جو اپنے مونہوں کو صاف رکھتے ہیں، کتنے ہیں جو پسینہ وغیرہ کی بو اور دوسری بدبو دار چیزوں سے مسجد بچانے کی کوشش کرتے ہیں؟ میں نے ایک دفعہ جماعت کو مساجد میں صفائی رکھنے کی طرف توجہ دلائی تو بعض لوگوں نے میری تحریک پر یہ کام شروع کر دیا اور مسجد کی صفائی کا وہ خیال رکھنے لگے.چنانچہ مدرسہ احمدیہ کے طالب علم بھی اس صفائی میں حصہ لیا کرتے تھے مگر کچھ عرصہ کے بعد یہ بات جاتی رہی حالانکہ مساجد کو صاف رکھنے کا رسول کریم صلی ا ہم نے خاص طور پر حکم دیا ہے.کیونکہ جو مذہب اجتماع پر اپنی بنیاد رکھتا ہو اور مدنیت سے اس کے کثیر احکام کا تعلق ہو وہ.تک ہو خیال نہ رکھے کہ اجتماع کے موقعوں پر حفظانِ صحت کے خلاف کوئی بات اس وقت تک وہ اپنی جماعت کو کبھی ترقی کی طرف نہیں لے جا سکتا.اسی طرح رسول کریم صلی ای کریم نے فرمایا ہے کہ جب کسی کو طاعون نکل آئے تو وہ اپنی جگہ سے نے نکل کر کسی اور جگہ نہ جائے اور نہ باہر والے وہاں جائیں.4 اس طرح اسلام طاعونی ضرر سے لوگوں کو بچانے کی کوشش کی ہے.غرض جو چیزیں صحت پر بُرا اثر ڈالنے والی ہیں ان سب سے اسلام نے سختی کے ساتھ منع کیا ہے.مثلاً اسلام نے بتایا ہے کہ ہوا خارج ہونے سے وضو ٹوٹ جاتا ہے.اب اگر یہ مسئلہ نہ ہوتا اور ایک اصول قائم نہ کر دیا جاتا تو کئی لوگ مسجدوں میں آتے اور ہوائیں خارج کرتے رہتے.نتیجہ یہ ہوتا کہ بدبو سے لوگوں کا دماغ خراب ہو جاتا.پس اس میں بھی اسلام نے حکمت رکھی ہے.اسی طرح رسول کریم صلی اللہ ﷺ نے فرمایا کہ مسجد میں تھوکنا یا بلغم پھینکنا گناہ ہے.اور اگر کوئی شخص تھوک دے یا بلغم پھینکے تو اس کا کفارہ یہ ہے کہ وہ اپنے ہاتھ سے اس تھوک کو اٹھا کر زمین میں دفن کرے.اس کی وجہ بھی یہی ہے کہ مسجد ایک ایسی جگہ ہے جہاں سب مسلمانوں نے اکٹھا ہونا ہوتا ہے اگر تھوک یا بلغم پڑا ہو تو لوگوں کو تکلیف ہو.نمازیں پڑھنی ہوتی ہیں ایسی صورت میں نمازیوں کو جو تکلیف پیش آسکتی تھی وہ ہر شخص سمجھ سکتا ہے.مسجد میں

Page 116

$1941 116 خطبات محمود تھوکنے کی عادت تو مسلمان اب چھوڑ بیٹھے ہیں لیکن مسجد میں بے احتیاطی سے کھانا کھانے کی عادت ابھی ان میں سے نہیں گئی.جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ سالن گر جاتا ہے اور پھر اس سالن پر یا دال پر لکھیاں بیٹھتیں اور بُو پیدا ہوتی ہے.حالانکہ اگر وہ اس بات کو سمجھتے کہ مسجد میں تھوکنے کو رسول کریم صلی الم نے منع فرمایا ہے تو وہ مسجد میں دال وغیرہ گرا کر تھوک سے بھی زیادہ غلاظت نہ پھیلاتے.تھوک بیشک ایک کراہت کی چیز ہے مگر اس کی سڑاند بعد میں قائم نہیں رہتی لیکن سالن اور دال وغیرہ جب مسجد میں گر جائے تو چونکہ ان چیزوں میں گھی ہوتا ہے اس لئے اس کی سڑاند بعد میں بڑھتی رہتی ہے.مگر لوگ تھوک تو مسجد میں نہیں پھینکتے اور دال یا سالن گرا کر اس سے بہت زیادہ سڑاند پیدا کر دیتے ہیں.مسجد میں بے شک کھانا کھانا منع نہیں مگر اتنی احتیاط تو ضرور کر لینی چاہئے کہ انسان کھاتے وقت کوئی کپڑا بچھا لے اور پھر احتیاط سے کھائے تاکہ مسجد میں چیونٹیاں اور مکھیاں اکٹھی نہ ہوں اور نمازیوں کو تکلیف نہ ہو.غرض مساجد غرض مساجد کو صاف رکھنا اور اپنے کپڑوں کو صاف کر کے اور عطر وغیرہ لگا کر اجتماع میں شامل ہونا کیا بلحاظ ایک مذہبی حکم کے اور کیا بلحاظ دوسرے لوگوں پر اس کے اثرات کے ایک نہایت ضروری مسئلہ ہے اور اس کا صحت پر شدید اثر پڑتا ہے.مجھے، جیسا کہ قریب بیٹھنے والے دوستوں کو معلوم ہے آج اس مضمون کی اس طرح تحریک پیدا ہوئی کہ جب میں مسجد میں پہنچا تو چونکہ سائبان لگا ہوا تھا لیکن مشرق کی طرف سے زمین کی طرف جھک گیا تھا اور کھڑکیاں بند تھیں اس لئے لوگوں کے سانسوں کی وجہ سے اس قدر شدید بو پیدا ہو چکی تھی کہ جیسے برسات میں گھر کے اندر گیلے کپڑے پڑے ہوئے ہوں اور منبر پر کھڑے ہوتے ہی میرے سر میں درد شروع ہو گیا حالانکہ احکام شریعت کے ماتحت میرے آنے سے پہلے ہی دوستوں کو فوراً اس کا انسداد کرنا چاہئے تھا.آخر ہر ایک کو خدا تعالیٰ نے ناک دی ہے اور ہر ایک کو یہ مسئلہ بھی معلوم ہے.آج دھوپ نہیں تھی اس لئے

Page 117

$1941 117 خطبات محمود فوراً سائبان کو اتروا دینا چاہئے تھا اور کھڑکیوں کو ہوا کی آمد و رفت کے لئے کھول دینا چاہئے تھا مگر ہمارے ملک کے لوگوں کو چونکہ عادت نہیں خوشبو کے استعمال کی اور چونکہ انہیں عادت نہیں بو سے بچنے کی اس لئے بہتوں کو شاید اس بُو کا پتہ بھی نہیں لگا ہو گا حالانکہ انسانی سانس اتنا زہریلا ہوتا ہے کہ اگر دو آدمی اکٹھے لحاف میں ٹمنہ ڈال کر سوئیں تو دونوں بیمار ہو جاتے ہیں.بلکہ اکیلا آدمی اگر لحاف میں منہ ڈال کر سوئے تو اپنے سانس کی زہر سے ہی وہ بیمار ہو جاتا ہے جن لوگوں کو دائمی نزلہ ہوتا ہے وہ بالعموم وہی لوگ ہوتے ہیں جو لحاف میں سر چھپا کر سونے کے عادی ہوتے ہیں.ہے جو لوگ لحاف سے سر نکال کر سوتے ہیں یا کم سے کم ناک کا حصہ ننگا رکھتے انہیں نزلہ کی دائمی شکایت بہت کم ہوتی ہے مگر تعجب ہے یہ ہزاروں آدمیوں کا مجمع اس طرح بیٹھا تھا گویا لحاف میں اس نے اپنا منہ چھپا رکھا تھا.اور سب کے سانسوں سے شدید بد بو پیدا ہو گئی تھی.اگر اس بارہ میں احتیاط سے کام نہ لیا جائے تو کمزور آدمیوں کی صحت پر بہت برا اثر پڑ سکتا ہے.پھر مساجد میں بیماروں نے بھی آنا ہوتا انہی لوگوں میں وہ بھی ہوتے ہیں جنہیں نزلہ کی شکایت ہوتی ہے اور شاید بعض ایسے لوگ بھی ہوں جنہیں سل کی شکایت ہو.ایسی حالت میں سائبان کو ایک برقع کی طرح اوڑھ کر بیٹھ رہنے اور تنفس کی بدبو سے نہ بچنے کا مطلب یہ ہے کہ مسلول کا سانس تندرستوں کے سینہ میں جائے اور انہیں بھی بیمار کر دے.میں سمجھتا ہوں کہ یہ نقص اسی وجہ سے ہے کہ لوگوں نے عام طور پر یہ سمجھ لیا ہے کہ رسول کریم صلی یی کم کی بعض باتیں معمولی ہیں حالانکہ یہ بالکل غلط ہے.رسول کریم صلی ال نیم کی کوئی بات معمولی نہیں، سب کے اندر فوائد ہیں، سب کے اندر ہیں اور سب کے اندر اغراض اور مقاصد ہیں.ایک چھوٹے سے چھوٹا حکم بھی رسول کریم صلی الم نے بے وجہ اور بغیر حکمت کے بیان نہیں فرمایا.حکمتیں ہمیں دوسرے مذاہب پر جو فوقیت اور افضلیت حاصل ہے وہ یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں جو کتاب دی ہے وہ پر حکمت ہے اور جو رسول ہماری رہنمائی

Page 118

$1941 118 خطبات محمود کے لئے اس نے بھیجا وہ بھی پر حکمت ہے.پس ہمارے پاس جو کتاب ہے اس میں کوئی بات ایسی نہیں جس کے متعلق ہم کہہ سکیں کہ ہم اسے کیوں کریں یا کیوں نہ کریں.اسی طرح ہمارے رسول نے جو کچھ فرمایا ہے اس میں کوئی بات بھی ایسی نہیں جس کے متعلق ہم کہہ سکیں کہ چونکہ رسول کریم صلی الیم نے ایسا فرما دیا ہے اس لئے ہم کرتے ہیں ورنہ اس میں حکمت کوئی نہیں.ہر چھوٹی سے چھوٹی بات سے لے کر بڑی سے بڑی بات تک پر حکمت ہے.بیشک بعض باتوں کی حکمت ایک وقت سمجھ میں نہ آئے مگر دوسرے وقت اس کی حکمت ضرور سمجھ میں آجاتی ہے.پس قرآن اور رسول کریم صلی ال نیم کی کوئی بات بھی حکمت سے خالی نہیں ہر بات ہمارے فائدہ کے لئے ہے اور ہر حکم ہماری ترقی کے لئے دیا گیا ہے.دوستوں کو چاہئے کہ اخلاقی اور روحانی ترقی کے لئے رسول کریم صلی ا نام کے احکام کی طرف زیادہ توجہ کریں اور ہمیشہ ان پر عمل کرنے کی کوشش کریں.میں نے شروع خطبہ میں فرقہ اہلحدیث کا ذکر کیا ہے.مگر میں نے یہ نہیں کہا کہ تم اہلحدیث کی طرح بن جاؤ.وہ خشک لوگ ہیں انہوں نے رسول کریم صلی الیم باتوں کی حکمتوں کو نہیں سمجھا مگر تم رسول کریم صلی للی یا ملک کے ہر حکم کی حکمت کو سمجھو اور اس پر حکمت کلام کو سمجھ کر اس پر عمل کرو.رسول کریم صلی للی نیم کے پر حکمت کلام ہے سب سے بڑی خوبی یہی ہے کہ وہ بنی نوع انسان کی ہر ضرورت کو پورا کرتا مگر اہلحدیث سے یہ غلطی ہوئی کہ انہوں نے جب دو حدیثوں کو بظاہر آپس میں متضاد دیکھا تو کہہ دیا کہ فلاں حدیث ضعیف ہے اور فلاں قوی.حالانکہ بسا اوقات وہ دونوں صحیح ہوتی ہیں البتہ دونوں کے مواقع مختلف ہوتے ہیں.جیسے مشہور ہے کہ کوئی مالدار شخص حد سے زیادہ موٹا ہو گیا.اس نے دور دور تک اپنے آدمی بھجوائے ہوئے تھے اور انہیں ہدایت دی تھی کہ کھانے کی جو بھی اچھی چیز نظر آئے وہ فوراً مجھے بھجوا دیا کرو.کروڑ پتی آدمی تھا اور جب کسی کا شغل ہی یہ ہو کہ ہر وقت چاروں طرف اس کے گماشتے پھرتے رہیں اور کھانے کے لئے عمدہ سے عمدہ چیزیں بھجواتے رہیں تو

Page 119

$1941 119 خطبات محمود خود ہی سمجھ لو کہ کھا کھا کر اس کی کیا کیفیت ہو گئی ہو گی.وہ مالدار آدمی بھی آخر اتنا موٹا ہو گیا کہ چلنا پھرنا اور زندگی کے دن گزارنا اس کے لئے مشکل ہو گیا.وہ اپنے علاج کے لئے ایک ڈاکٹر کے پاس گیا اس نے کہا میرا مشورہ آپ کو یہ ہے کہ آپ فلاں ڈاکٹر کے پاس جائیں وہ بڑے مشہور آدمی ہیں اور علاج میں اچھی مہارت رکھتے ہیں میرے علاج سے آپ کو فائدہ نہیں ہو گا.آپ اگر صحت چاہتے ہیں تو اسی کے پاس جائیے.چنانچہ وہ اس ڈاکٹر کے شہر کی طرف گیا اور وہاں پہنچ کر بمشکل و نوکروں کا سہارا لیتا اور قدم بقدم چلتا ہوا وہ اس ڈاکٹر کے پاس پہنچا اور اس نے دیکھا کہ ڈاکٹر نے دستر خوان بچھایا ہوا ہے اور مریضوں کو پاس بٹھا کر انہیں کہہ رہا ہے کہ یہ بھی کھاؤ اور وہ بھی کھاؤ.کسی سے کہتا ہے کہ تمہیں یہ شوربہ کی پیالی ضرور پینی پڑے گی دوسرے سے کہتا کہ تیتر کی ٹانگیں تم نے چھوڑ دی ہیں یہ بھی ، کھا کر اٹھو، کسی سے کہتا کہ یہ کباب تمہیں ضرور کھانے پڑیں گے اور کسی سے کہتا کہ جب تک انڈے نہ کھا لو میں تمہیں اٹھنے نہیں دوں گا.وہ امیر یہ دیکھ کر بڑا خوش ہوا اور کہنے لگا وہ کیسے بیوقوف ڈاکٹر تھے جو مجھے فاقہ کرنے کی نصیحت کرتے تھے.علاج تو یہ ہے کہ زور دے کر مریض کو اچھی چیزیں کھلائی جائیں.غرض جب ڈاکٹر انہیں کھلا کر فارغ ہو گیا تو یہ پیش ہوا.اس نے کہا میں آپ کا علاج کرنے کے لئے تو تیار ہوں مگر شرط یہ ہے کہ ایک مہینہ کے لئے آپ اپنے نوکر واپس بھجوا دیں اور جس طرح میں کہوں اس طرح عمل کریں.وہ کہنے لگا ڈاکٹر صاحب میں آپ کے مزاج کو سمجھ گیا ہوں اور مجھے نوکروں کو واپس بھجوا دینے میں کوئی عذر نہیں.اس نے خیال کیا کہ میں اگر دو مرغ کھانے کے لئے مانگوں گا تو یہ تین مرغ دے گا اور اگر میں چار انڈے مانگوں گا تو یہ چھ دے گا.غرض اس نے خوشی خوشی نوکر واپس بھیجوا دیئے اور انہیں کہہ دیا کہ فلاں تاریخ آ جانا.جب نوکر چلے گئے تو اس ڈاکٹر نے پہلے دن تو اسے خوب اچھا کھانا کھلایا اور وہ بڑا خوش رہا.مگر دوسرے دن صبح کے وقت اس نے ایک سوکھا ٹوسٹ چائے کے ساتھ اپنے نوکر کے ذریعہ

Page 120

$1941 120 خطبات محمود بھجوا دیا.وہ کہنے لگا پاگل : ہوئے ہو یہ تو میرے ملازم بھی نہیں کھاتے.اس نے کہا ڈاکٹر صاحب نے آپ کے لئے یہی کچھ بھیجوایا ہے.خیر تھوڑی دیر کے بعد ڈاکٹر آیا تو اس سے کہنے لگا.ڈاکٹر صاحب آپ نے یہ میرے لئے کیا بھجوا دیا؟ اس نے کہا صاحب گھبرائیے نہیں اور یہی کھا لیجئے سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا ابھی تو پہلا دن ہے.خیر اس نے وہ ٹوسٹ کھایا اور پھر ڈاکٹر اسے اپنے ساتھ ایک کمرہ میں لے گیا اور کھڑا کر کے جلدی سے باہر نکل کر دروازہ بند کر لیا وہ کمرہ جس میں اس نے اسے کھڑا کیا حمام تھا.تھوڑی ہی دیر میں حمام گرم ہونے لگا اور اس نے اپنے پاؤں اٹھانے شروع کر دیئے.کبھی ایک پاؤں اٹھاتا اور کبھی دوسرا اور جب فرش بہت زیادہ گرم ہو گیا تو بے اختیار اچھلنے کودنے لگ گیا اور آخر تھک کر اور نڈھال ہو کر فرش پر گر گیا.ڈاکٹر نے دروازہ کھولا اور اسے باہر نکال دیا.وہ گالیاں دینے لگ گیا مجھے تم نے مار ڈالا ہے.مگر اس نے کوئی پرواہ نہ کی اور وہ روزانہ ایک طرف اسے فاقہ سے رکھتا اور دوسری طرف حمام میں کھڑا کر دیتا اور وہ خوب اچھلتا کودتا.مہینہ ختم ہوا اور اس کے نوکر آئے تو وہ بغیر اجازت لئے ان کے ساتھ چلا گیا اور سیدھا اس ڈاکٹر کے پاس پہنچا جس نے اسے اس ڈاکٹر کے پاس آنے کا مشورہ دیا تھا اور کہا کہ تو نے مجھ سے بڑا فریب کیا جو ایسے ظالم قصاب کے پاس مجھے بھیج دیا.وہ بھی کوئی ڈاکٹر ہے وہ تو سخت دھو کے باز انسان ہے.اس نے پہلے میرے نوکر نکلوا دیئے اور پھر مجھے فاقوں پر فاقے دینے شروع کر دیئے.خیر وہ سنتا رہا سنتا رہا جب اس کا غصہ کسی قدر ٹھندا ہوا تو اس نے کہا کہ بجائے اس کے کہ میں آپ کو کوئی جواب دوں آپ شیشے کے سامنے کھڑے ہو کر ذرا اپنی شکل تو دیکھ نے شکل دیکھی تو نظر آیا کہ چہرے پر رونق آئی ہوئی ہے اور جس قدر نحوست تھی سب جاتی رہی ہے.نہ پہلے کی طرح.رہے ہیں اور نہ جسم بھدا اور بھاری ہے.جب وہ آئینہ دیکھ چکا تو ڈاکٹر اسے کہنے لگا.مجھے بڑا افسوس ہے کہ آپ جلدی ہلے کی طرح کھلے لٹک اس چلے آئے اگر آپ ایک مہینہ اور ٹھہر جاتے تو آپ کی صحت بالکل درست ہو جاتی.

Page 121

$1941 121 خطبات محمود کی وجہ سے پیدا وہ کہنے لگا یہ تو بتاؤ کہ اس نے یہ کیوں کیا کہ وہ بعض کو تو زور دے کر کھانا کھلاتا تھا اور مجھے اس نے فاقے دینے شروع کر دیئے.وہ ڈاکٹر کہنے لگا جن کو وہ زور دے کر کھانا کھلاتا تھا وہ غرباء تھے اور ان کی بیماریاں ان کی فاقہ کشی کی وجہ ہوئی تھیں مگر آپ کی بیماری زیادہ کھانے کا نتیجہ تھی اس لئے اس نے آپ کا علاج تو فاقہ سے کیا اور ان کا علاج کھانا کھلا کر کیا.اسی طرح رسول کریم صلی علیم کے تمام احکام حکمت پر مبنی ہیں.نادان اور بے وقوف انسان سمجھتے ہیں کہ اس قسم کی باتوں وجہ سے حدیثوں میں اختلاف ہو گیا اور اس وجہ سے وہ کسی کو ضعیف اور کسی کو حسن قرار دیتے ہیں اور وہ یہ نہیں جانتے کہ دونوں ہی رسول کریم صلی ایم کے قول ہیں.البتہ وہ دو مختلف حالات کے لئے ہیں ایک ہی حالت کے لئے نہیں.مسلمانوں نے اسی نادانی کی وجہ سے ایک دوسرے کے سر پھوڑے ہیں کہ الامان.محض اس بناء پر یہ کہ فلاں سینہ پر ہاتھ باندھتا ہے ناف کے نیچے نہیں باندھتا یا ناف کے نیچے باندھتا ہے اور سینہ پر نہیں باندھتا.اسی طرح انہوں نے ایک دوسرے کی انگلیاں توڑی ہیں محض اس بات پر کہ بعض لوگ رفع یدین کیوں کرتے ہیں.اسی طرح مسلمانوں میں آمین بالجہر کہنے پر لڑائیاں ہوئیں اور علماء میں ان مسائل پر بڑی بڑی بحثیں ہوئیں اور ان بحثوں میں انہوں نے چار پانچ سو سال ضائع کر دیئے کہ وہ حدیثیں صحیح ہیں جن میں رفع یدین کا حکم آتا ہے یا وہ حدیثیں صحیح ہیں جن میں رفع یدین کا کوئی ذکر نہیں.اسی طرح علماء نے اپنی قلمیں گھیا دیں، دواتوں کی سیاہیاں خشک کر دیں اور اپنی عمریں برباد کر دیں محض اس بات پر کہ آمین بالجہر کہنی چاہئے یا آمین بِالسّر.پھر انہوں نے اپنے اوقات اور اپنے اموال سینکڑوں سال تک اس جھگڑے میں ضائع کر دیئے کہ نماز پڑھتے وقت ہاتھ اوپر باندھنے چاہئیں یا نیچے.پھر کس طرح انہوں نے صدیوں تک اس لغو بحث کو جاری رکھا کہ تشہد کے وقت انگلی اٹھانی چاہئے یا نہیں اٹھانی چاہئے.یہ ساری بحثیں ایسی ہی تھیں جیسے مثنوی رومی والے لکھتے ہیں کہ چار فقیر تھے

Page 122

$1941 122 خطبات محمود انہوں نے کسی سے خیرات مانگی تو اس نے ایک پیسہ دے دیا اور کہا کہ چاروں مل کر کوئی چیز کھا لو.اب ایک نے کہا میں تو انگور کھاؤں گا ، دوسرا کہنے لگا کہ میں تو داکھ کھاؤں گا، تیسرا کہنے لگا کہ میری خواہش تو عِنَب کھانے کی کی ہے اور چوتھا ترکی تھا اس نے اپنی زبان میں کوئی انہی الفاظ کے ہم معنی لفظ کہا اور کہا کہ میری تو خواہش وہ چیز کھانے کی ہے.اب چاروں آپس میں لڑنے لگ گئے ایک کہے کہ دو گھنٹے مانگ مانگ کر ایک پیسہ ملا ہے اس سے تو میں انگور ہی کھاؤں گا، دوسرے نے کہا میں تو عِنَب کھاؤں گا تیسرے نے داکھ پر زور دیا اور چوتھے نے اپنی زبان کا کوئی لفظ استعمال کیا.آخر وہاں سے کوئی زبان دان گزرا اور اس نے ان چاروں کو جو لڑتے دیکھا تو ٹھہر گیا اور پوچھا کہ کیوں لڑ رہے ہو.انہوں نے بتایا کہ ہماری لڑائی کی یہ وجہ ہے.اس نے کہا پیسہ تم مجھے دے دو میں تم سب کے لئے ایک ایسی چیز لاؤں گا جس سے تم سب خوش ہو جاؤ گے.چنانچہ انہوں نے اسے پیسہ دے دیا اور وہ انگور لے آیا.عنب مانگنے والا کہنے لگا یہی میرا مطلب تھا.داکھ چاہنے والا کہہ اٹھا یہی تو میں مانگتا تھا اور ترکی کہنے لگا میری بھی یہی خواہش تھی.غرض چاروں خوش ہو گئے اور ان کی لڑائی ختم ہو گئی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی ان جھگڑوں کو ایسا مٹایا ہے کہ اب کسی احمدی کے دل میں خیال بھی نہیں آتا کہ آمین بالجہر کہنی چاہئے یا آمین بالسر، ہاتھ اوپر باندھنے چاہئیں یا نیچے ، رفع یدین کرنا چاہئے یا نہیں کرنا چاہئے.آپ نے ایک اصول لوگوں کے سامنے رکھ دیا اور فرمایا کہ یہ بھی ٹھیک ہے اور وہ بھی ٹھیک ہے.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام سے ایک دفعہ کسی نے ان مسائل کے بارہ میں پوچھا تو آپ نے فرمایا اللہ تعالیٰ کے انبیاء حکمت سے کلام کیا کرتے ہیں.کئی لوگ ایسے ہوتے ہیں جن کی طبائع میں جوش ہوتا ہے.ان کا جوش جب نکلتا نہ رہے ان میں استقلال پیدا نہیں ہو سکتا اور کئی لوگ خاموش طبیعت ہوتے ہیں وہ اگر اظہار جذبات کرنے لگ جائیں تو ان کا جوش مدھم پڑ جاتا ہے.

Page 123

*1941 123 خطبات محمود اس لئے دونوں قسم کی طبائع کو مد نظر رکھ کر رسول کریم صلی یم نے دو مختلف احکام دے دیئے.وہ لوگ جو اپنی طبیعت میں جوش رکھتے ہیں وہ آمین بالجہر کہہ لیا کریں اور جو خاموش طبیعت ہیں ان کے لئے شریعت نے دل میں ہی آمین کہہ لینے کا دروازہ کھول دیا.اسی طرح بعض لوگ حرکات سے اظہار عقیدت میں زیادہ لذت محسوس کرتے ہیں ان کے لئے شریعت نے رفع یدین کا حکم رکھ دیا مگر بعض طبائع ایسی ہوتی ہیں جنہیں حرکات کی ضرورت نہیں ہوتی بلکہ سکون کی ضرورت ہوتی ہے ان کے لئے شریعت نے رفع یدین کی صورت کو اڑا دیا.اسی طرح ہاتھ باندھنا ہے کوئی شخص سپاہیانہ طبیعت رکھنے والا ہوتا ہے اور وہ چاہتا ہے کہ ہاتھ اونچے باندھے.اس کے لئے شریعت نے نماز میں ہاتھ اونچے باندھنے کا مسئلہ رکھ دیا اور کوئی ایسا ہوتا ہے جو بڑھا اور بیمار ہوتا ہے اس کے ہاتھ اوپر اٹھتے ہی نہیں اور خود بخود نیچے ڈھلک جاتے ہیں ایسے لوگوں کے لئے شریعت نے یہ آسانی رکھ دی کہ وہ نیچے ہاتھ باندھ لیا کریں.غرض رسول کریم صلی اللہ کریم نے دونوں طبائع کا خیال رکھ لیا اور ہر ایک کے حسب حال حکم دے دیا.مجھے ایک دفعہ ان معنوں کا بڑا لطف آیا.میں بیمار تھا اور نماز پڑھ رہا تھا کہ یکدم مجھے محسوس ہوا کہ ضعف کی وجہ سے میں نے ہاتھ نیچے باندھے ہوئے ہیں.اُس وقت مجھے خیال آیا کہ شریعت کی یہ اجازت دراصل اسی لئے ہے کہ ہر طبیعت کا آدمی فائدہ اٹھا سکے.ایک بیمار آدمی جو ہاتھ اوپر باندھ ہی نہیں سکتا اس سے شریعت یہ کس طرح مطالبہ کر سکتی ہے کہ وہ اپنے ہاتھ ضرور اوپر باندھے.پس بیمار اور کمزور یا سکون رکھنے والی طبیعت کے انسان کے لئے ہاتھ نیچے باندھنے کی رسول کریم صلی اللہ کریم نے اجازت دے دی مگر جو ہمت والا اور قوی اور اور سپاہیانہ روح اپنے اندر رکھتا ہے اس کے لئے ہاتھ اوپر باندھنے کا حکم دے دیا.اس طرح ایک ہی کلمہ سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے تمام جھگڑے طے کر دیئے اور ان نادانوں کو جو رسول کریم صلی ایم کی ایک حدیث کو تندر ہے سة الله ضعیف اور دوسری کو قوی قرار دیتے تھے بتا دیا کہ دونوں حدیثیں ہی قوی ہیں البتہ

Page 124

$1941 124 خطبات محمود تم ان کا مفہوم سمجھنے میں ضعیف ہو.غرض رسول کریم صلی الم کے کلام پر نظر ڈالنے معلوم ہوتا ہے کہ وہ سب کے فائدے کے لئے ہیں، ہر زمانہ کے لئے ہیں اور ہر حالت کے لئے ہیں اور ان میں بڑی بڑی حکمتیں ہیں.ان حکمتوں کے نہ سمجھنے کی وجہ سے ہی لوگ ان بحثوں میں پڑ جاتے ہیں کہ فلاں حدیث ضعیف ہے اور فلاں قوی.حدیثوں میں سے بعض ضعیف بھی ہوتی ہیں مگر وہی حدیثیں ضعیف ہوتی ہیں جو اصول دین یا اصول اخلاق کے خلاف ہوں.ان حدیثوں کو ضعیف قرار دینا جو ایک ہی وقت میں قابل عمل ہوں حماقت اور نادانی ہے اور اہل حدیث اس حماقت میں سب سے زیادہ گرفتار ہیں.جتنا زیادہ وہ اپنے آپ کو اہل حدیث کہتے ہیں اتنا ہی انہوں نے رسول کریم صلی اللی علم کے جائز اور درست کلام پر جرح کی ہے اور انہوں نے رسول کریم صلی اہل علم کے جائز، درست، صحیح اور پر حکمت کلام کو ضعیف قرار دے کر رسول کریم صلی ال نیم کے کلام کے ایک ٹکڑہ کو بالکل باطل کر دیا ہے.اتنے حصہ میں میرے نزدیک حنفی ان سے بہت زیادہ بہتر ہیں.انہوں نے یہ اصول قرار دے دیا ہے کہ قرآن مقدم ہے اور حدیث مؤخر.اس وجہ سے جن حدیثوں کو اہل حدیث کمزور کہتے ہیں ان کو بھی انہوں نے صحیح قرار دے دیا.ہاں ان سے غلطی یہ ہوئی کہ اہل حدیث کی مخالفت میں انہوں نے ان حدیثوں کی طرف زیادہ توجہ دے دی جن کو اہل حدیث کمزور کہتے تھے اور اس طرح اہلحدیث اور حنفی دونوں صحیح راستہ پر قائم نہ رہے.: پس رسول کریم صلی ال نیلم کے کلام کی حکمتوں کو سمجھو ان کا احترام اپنے دل میں پیدا کرو اور کسی چھوٹی سے چھوٹی بات کو بھی نظر انداز مت کرو کہ وہ فوائد کے لحاظ سے در حقیقت بہت بڑی ہوتی ہے.انہی چھوٹی باتوں سے جن کو لوگ بالعموم نظر انداز کر دینے کے عادی ہیں مگر ان کے فوائد بہت بڑے ہیں رسول کریم صلی علی نام کا ایک حکم یہ ہے کہ مساجد کو صاف رکھو اور جب جمعہ کے لئے مسجد میں آؤ تو اپنے کپڑوں کو صاف کر کے آؤ اور اگر ہو سکے تو عطر بھی لگاؤ.6

Page 125

خطبات محمود 125 $1941 رسول کریم صلی یی کم گو ہمیشہ غربت سے گزارہ کیا کرتے تھے مگر آپ عطر کا ضرور استعمال فرمایا کرتے تھے.مجھے یاد ہے جب میں حضرت خلیفہ اول سے بخاری پڑھا کرتا تھا تو حضرت خلیفہ اول اپنی سادہ طبیعت اور کام کے غلبہ کی وجہ سے جمعہ کے دن بعض دفعہ انہی کپڑوں میں جو آپ نے پہنے ہوئے ہوتے تھے اُٹھ کر جمعہ کے لئے آ جاتے تھے.میں اپنی بغل میں بخاری دبائے کمرہ سے نکل رہا تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مجھے دیکھ لیا اور فرمایا محمود یہ کیا ہے؟ میں نے کہا.حضرت مولوی صاحب سے بخاری پڑھنے چلا ہوں.دراصل آپ نے ہی مجھے فرمایا تھا کہ محمود قرآن پڑھ لو، بخاری پڑھ لو اور طب بھی پڑھ لو کیونکہ طب ہمارا خاندانی پیشہ ہے یہ تمہارے لئے کافی ہے.غرض جب میں نے کہا کہ میں مولوی صاحب سے بخاری پڑھنے جا رہا ہوں تو آپ نے فرمایا مولوی صاحب سے کہنا.یہ حدیث بخاری میں آتی ہے یا نہیں کہ رسول کریم صلی علی یکم جمعہ کے دن نئے کپڑے پہنتے اور خوشبو لگایا کرتے تھے.میں نے اسی طرح جا کر کہہ دیا.حضرت خلیفہ اول نے یہ سنا تو ہنس پڑے اور فرمانے لگے ٹھیک ہے آتی تو ہے پر ہم لوگوں سے کچھ سستی ہی ہو جاتی ہے.غرض رسول کریم صلی الی ایم نے جمعہ کے دن صفائی کا خاص طور پر حکم دیا ہے اور اس احتیاط کی وجہ یہی ہے کہ مجمع میں کمزور لوگ بھی ہوتے ہیں.اگر صفائی نہ ہو تو ان کی صحتوں پر برا اثر پڑے اور وہ اور بھی زیادہ کمزور اور بیمار ہو جائیں.ممکن ہے کوئی شخص کہہ دے کہ جب حضرت خلیفہ اول نے بھی اس پر عمل نہیں کیا تو ہم اگر عمل نہ کریں تو کیا اعتراض ہو سکتا ہے.مگر یہ کہنا صحیح نہیں کیونکہ ان کی وجہ اور تھی.شخص زیادہ کام ہ بہت زیادہ دینی کام میں مشغول رہتے تھے اور جو کرنے والا ہو اس سے ایسے امور میں بعض دفعہ سستی ہو ہی جاتی ہے.پھر انہوں نے بھی یہ نہیں کہا کہ میں جو کچھ کر رہا ہوں ٹھیک کر رہا ہوں.بلکہ انہوں نے یہی فرمایا کہ سستی ہو جاتی ہے.لیکن اگر کسی کی اس جواب سے تسلی نہ ہو تو میں

Page 126

$1941 126 خطبات محمود میں ایسے شخص کی عقل پر تعجب ہی کروں گا جسے رسول کریم صلی الم کی بات سنائی جائے اور وہ کہے کہ حضرت مولوی صاحب نے ایسا نہیں کیا.بعض انسان ایسے ہوتے ہیں کثرت سے کام کرنے کے عادی ہوتے ہیں.آپ چونکہ طبیب تھے اس لئے دن کا اکثر حصہ بیماروں کے دیکھنے میں صرف ہو جاتا.پھر سارا دن وہ قرآن و حدیث پڑھاتے رہتے تھے اور درس بھی دیتے تھے.اس وجہ سے ان سے بعض دفعہ سستی جاتی تھی.مگر بہر حال وہ اس قدر محتاط ضرور تھے کہ کپڑوں میں بُو پیدا نہیں ہونے دیتے تھے.میں تو ان سے پڑھتا رہا ہوں مجھے یاد نہیں کہ کبھی ان کے کپڑوں سے بُو آئی ہو.بعض دفعہ بُو پیدا ہونے لگتی تو آپ جھٹ نیا کرتہ منگوا کر بدل لیتے.آپ چونکہ طبیب تھے اور جانتے تھے کہ بدبو کا انسانی صحت پر کیا اثر ہوتا ہے اس لئے اس بات کا خیال رکھتے تھے.بہر حال رسول کریم صلی یم کا یہ حکم ہے کہ مساجد کو صاف رکھا جائے.جمعہ کے موقع پر کپڑے بدلے جائیں اور ہو سکے تو خوشبو لگائی جائے تاکہ جن کے جسم میں کوئی بیماری ہو اور ان کے سانس سے دوسروں کے بیمار ہو جانے کا خطرہ ہو ان کے مقابلہ میں لوگوں کے جسموں اور ان کے کپڑوں میں سے خوشبو آتی رہے اور اس طرح بیماری کا ازالہ ہوتا چلا جائے.زمینداروں کو یہ کہنا کہ وہ عطر لگا کر آیا کریں یہ تو ایک ایسا مطالبہ ہے جسے وہ پورا نہیں کر سکتے.جنہیں کھانے کے لئے روٹی بھی میسر نہ ہو وہ عطر کس طرح خرید سکتے ہیں.ان کے لئے صرف اتنا ہی حکم ہے کہ وہ اپنے کپڑوں کو صاف رکھا کریں.ان میں بعض بے شک اچھی حیثیت رکھنے والے ہوتے ہیں ان کے لئے عطر لگانا ضروری ہے اور پھر عطر کوئی ایسی چیز بھی نہیں جو بہت زیادہ خرچ چاہتی ہو.پس غرباء کے لئے گو عطر خریدنا مشکل ہو مگر جو آسودہ حال ہیں وہ آسانی سے خرید سکتے ہیں.اور پھر عطر کا خرچ بھی بہت تھوڑا ہوتا ہے.ذرا سا انگلی سے اگر لگا لیا جائے تو اتنی خوشبو آنے لگ جاتی ہے جو جمعہ میں آنے کے لئے کافی ہو سکتی ہے.لیکن اگر کوئی شخص عطر خرید ہی نہ سکتا ہو تو اس کے لئے اس بات میں تو کوئی بھی مشکل نہیں کہ وہ کپڑے دھو لیا کرے.

Page 127

$1941 127 خطبات محمود اسی طرح جو مساجد کے نگران ہیں انہیں بھی میں اس امر کی طرف توجہ دلاتا ہوں کہ جمعہ کے دن مسجدوں کی صفائی کرایا کریں اور جیسا کہ رسول کریم صلی الم کی سنت سے ثابت ہے کوئی نہ کوئی خوشبو مسجد میں جلا دینی چاہئے.7 ہماری انجمن کا لاکھوں کا بجٹ ہوتا ہے پھر کیا ہم چند پیسے خرچ کر کے رسول کریم صلی اللہ نام کے ایک حکم کو پورا نہیں کر سکتے.ایک مسجد میں لوبان اگر جلا دیا جائے تو ایک دھیلے یا پیسے کا کافی ہو سکتا ہے اور ہمارے قادیان ہے اور ہمارے قادیان کی تمام مساجد میں سارے سال کا خرچ دو تین روپیہ سے زیادہ نہیں ہو سکتا.آخر ہماری مالی حالت اتنی تو گری ہوئی نہیں کہ ہم اپنی مسجدوں کے لئے دو تین روپیہ کا سالانہ خرچ بھی برداشت نہ کر سکیں.غریب سے غریب زمینداروں کی جماعت بھی یہ خرچ بآسانی پورا کر سکتی ہے.پندرہ ہیں یا تیس چالیس نمازی ہوں تو ذرا سی توجہ سے یہ خرچ پورا ہو سکتا ہے.صرف اہتمام کی ضرورت ہے اور صرف اس خیال کو اپنے دل میں پیدا کرنے کی ضرورت ہے کہ رسول کریم صلی لی ایم نے جو کچھ فرمایا ہے ہمارے فائدہ کے لئے فرمایا ہے اور اس کا چھوڑنا ہمارے لئے مضر ہے.” (الفضل 18 مارچ 1941ء) الله سة 1 ابوداؤد ابوابُ الْجُمُعَةِ باب الْاِمَامُ يُكَلِّمُ الرَّجُلَ فِي خُطْبَتِهِ 2 بخاری کتاب الجنائز باب فَضْلُ اِتِّبَاعِ الْجَنَائِزِ بَابِ مَنْ انْتَظَرَ حَتَّى يُدفَنَ بخاری کتاب الجمعة باب مَنْ تَسَوَّكَ بِسِوَاكِ غَيْرِهِ 4 مسلم کتاب السلام باب الطَّاعُون (الخ) 5 بخاری کتاب الصلوۃ باب كَفَّارَةُ الْبَزَاقِ فِي الْمَسْجِدِ 6 بخاری کتاب الصلوة باب الدُّ هُنَّ بِالْجُمُعَةِ ابوداؤد كتاب الصلوة باب اِتِّخَاذُ الْمَسَاجِدَ فِي الدُّورِ

Page 128

1941 129 9 خطبات محمود نیک وہی ہیں جو عُسر اور ٹیسر دونوں حالتوں میں خدا تعالیٰ کے منشاء کو پورا کرنے کی کوشش کریں ) فرمودہ 14 مارچ1941ء ) تشہد، تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:.اللہ تعالیٰ کے قرآن کریم سے دو نام معلوم ہوتے ہیں.میرا یہ مطلب نہیں کہ اس کے دو ہی نام ہیں بلکہ یہ ہے کہ جس مضمون کے متعلق میں اس وقت بیان کرنا چاہتا ہوں اس کے متعلق دو نام ہیں.اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں فرمایا ہے کہ وَ الله يَقْبِض وَ يَبْضُطُ 1 ہے.یعنی وہ قبض کرتا ہے اور پھر بسط بھی کرتا ہے.یعنی کبھی تو اپنے بندوں سے اس کا معاملہ اس قسم کا ہوتا ہے کہ وہ ان کے ساتھ مہربانی، شفقت اور رحم سے پیش آتا ہے، ان کو ترقیات بخشتا ہے، ان کے کاموں میں برکت دیتا ہے اور ان کی کوششوں کے اعلیٰ درجہ کے نتائج پیدا کرتا ہے اور کبھی اس کے قابض ہونے کی صفت ظہور میں آتی ہے اور وہ اپنے بندے پر تکالیف، ابتلاء اور مصائب نازل کرتا ہے اور دیکھتا ہے کہ ان ابتلاؤں اور تکالیف کے زمانہ میں اس کے بندے کا معاملہ کیسا ہے.اللہ تعالیٰ کا یہ معاملہ افراد اور اقوام دونوں کے متعلق ہوتا ہے مومنوں کے ساتھ یا مومن جماعتوں کے ساتھ.اس کا معاملہ کبھی تو قبض کا اور کبھی بسط کا ہوتا ہے.یا تو وہ قبض کے بعد بسط کا سلوک

Page 129

1941 130 خطبات محمود کرتا ہے یا یہ دونوں معاملے بدلتے رہتے ہیں اور اگر وہ کبھی لمبے زمانہ تک قبض کا معاملہ کرتا ہے تو آخر میں ضرور بسط کا معاملہ کرتا ہے اور انجام کار کشائش عطا کر ہے اور بالعموم انجام اچھا ہوتا ہے.سوائے اس کے کہ دنیا کے مصائب اس کے علم میں اس مومن کے لئے آخرت کے لحاظ سے بہتر ہوں.ایسی حالت میں تو بعض اوقات انجام بھی تکلیف کا ہی ہوتا ہے.مگر اس کا عام طریق یہی ہے کہ مومن سے وہ ابتداء قبض کا اور آخر کار بسط کا معاملہ کرتا ہے اور مومن جماعتوں سے بھی عام طور پر اس کا معاملہ اسی رنگ میں ہوتا ہے.یعنی ابتداء قبض کا ہوتا ہے مگر آخر ایک دن ایسا آتا ہے کہ بسط کا معاملہ ہو جاتا ہے اور ترقیات عطا کر دیتا ہے اور ان دونوں حالتوں میں وہ اپنے بندے کا امتحان کر کے دنیا کو دکھاتا ہے کہ دیکھو میرا بندہ دونوں حالتوں میں اچھا رہا.دنیا میں کچھ لوگ تو ایسے ہوتے ہیں کہ وہ مصیبت کے ایام میں زیادہ اچھے اور شاندار اعمال کرتے ہیں مگر کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں جو مصائب کے وقت گھبرا جاتے ہیں اور خوشیوں کے زمانہ میں اچھے رہتے ہیں.یہ دراصل فطری نقائص ہوتے ہیں ان کو نیکی نہیں کہا جا سکتا.بعض کی بناوٹ ہی ایسی ہے کہ جب ان پر مصیبت کا وقت آئے تو ان کے اخلاق نمایاں طور پر اُبھر آتے ہیں یا جب خوشی کا وقت آئے تو ان کے اخلاق زیادہ اُبھر آتے ہیں.بعض ایسے ہوتے ہیں کہ ان کو کھانے کو ملتا رہے، بیوی بچے اچھے رہیں تو وہ خوب نمازیں پڑھتے، روزے رکھتے اور نیک اعمال بجا لاتے ہیں لیکن جب ذرا بھی مصیبت آ جائے تو نمازیں چھوڑ دیتے ہیں، روزہ رکھنا ترک کر دیتے ہیں اور کہنے لگ جاتے ہیں کہ بس بہت نمازیں پڑھ کر اور روزے رکھ کر دیکھ لیا ہے کچھ نہیں بنتا.لیکن بعض طبائع ایسی ہوتی ہیں کہ جو نہی ذرا کھانے کو ملا نمازوں میں سست ہو جاتے ہیں، نیک اعمال سے غافل ہو جاتے ہیں، لیکن جب کوئی گھر میں بیمار ہوا فوراً مصلی بچھا کر بیٹھ جاتے ہیں.لیکن نہ تو وہ لوگ جو خوشی کے وقت میں اچھے اخلاق دکھاتے اور اپنی حالت کو درست رکھتے ہیں شریعت یا اخلاق کے مطابق عمل کرنے والے ہوتے ہیں ہوتی.

Page 130

1941 131 خطبات محمود اور نہ وہ جو مصیبت کے وقت ایسا کرنے والے ہوتے ہیں بلکہ مومن کا کمال یہ ہوتا ہے کہ خوشی اور مصیبت دونوں وقت خدا تعالیٰ کو راضی رکھنے کی کوشش کرے اور اس کے منشاء کو پورا کرے.ایسے ہی لوگوں کے متعلق یہ کہا جا سکتا ہے کہ وہ فطرت پر عمل کرنے والے نہیں بلکہ شریعت پر عمل کرنے والے ہیں.فطرت کے مطابق عمل کرنے کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اس انسان میں استقلال نہیں.جب تک حالات اس کی فطرت کے مطابق ہوں وہ ٹھیک چلتا جاتا ہے اور جب حالات میں تبدیلی ہو نیکی کو چھوڑ دیتا ہے.جس شخص کی فطرت ایسی ہے کہ وہ خوشی میں خدا تعالیٰ یاد کرتا ہے جب تک حالات اس کی فطرت کے مطابق ہوں یعنی خوشی اور راحت کے سامان پیدا رہیں وہ ایسا کرتا ہے مگر جب حالات اس کی فطرت کے مطابق نہ رہیں وہ خدا تعالیٰ کو بھول جاتا ہے یا جس کی فطرت ایسی ہے کہ مصیبت کے وقت میں اسے خدا تعالیٰ یاد آتا ہے جب تک اس پر مصائب رہیں وہ خدا تعالیٰ کو یاد ہے مگر جب ذرا خوشی کا زمانہ آئے وہ سمجھ لیتا ہے کہ نمازوں وغیرہ کی کوئی ضرورت نہیں.ایسے لوگ گویا اندھا دھند اپنی فطرت کے مطابق چلتے جاتے ہیں اور نتائج کو مد نظر نہیں رکھتے اور جب وہ اس راستہ سے ہٹ جائیں جو ان کی فطرت کے مطابق ہے تو وہ حیران و پریشان ہو جاتے ہیں اور قوت عملیہ بالکل معطل ہو کر رہ جاتی ہے لیکن جو شخص سوچ سمجھ کر کام کرتا ہے وہ جانتا ہے کہ سب حالتیں خدا تعالیٰ کی طرف سے ہیں.اس لئے ہر حال میں اس کے منشاء کے مطابق چلنے کی کوشش کرتا ہے اور ہم دیکھتے ہیں کہ صحابہ کرام کو ابتداء ہر قسم کے مصائب پیش آئے اور پھر ہر قسم کی ترقیات بھی حاصل ہوئیں مگر انہوں نے دونوں حالتوں میں خدا تعالیٰ کو خوش کرنے کی کوشش کی اور یہ امر بتاتا ہے کہ ان کی نیکیاں اپنے فطری میلان کے مطابق نہ تھیں بلکہ خدا تعالیٰ کی خوشنودی کے لئے تھیں.مکہ کی زندگی میں ان کتنی مصیبتیں آئیں ان کا خیال کر کے بھی انسان کانپ جاتا ہے.آپ لوگ غور کریں کہ کتنے ہیں جو ایسے مصائب کو برداشت کر سکتے ہیں؟ ان کو گرم ریت پر

Page 131

1941 132 خطبات محمود لکھا ہے اور عین دو پہر کے وقت لٹا دیا جاتا اور پھر رسیاں باندھ کر گھسیٹا جاتا اور کنکریلی زمین پر بے تحاشہ کھینچا جاتا تھا حتی کہ جسم سے خون بہنے لگتا مگر وہ سب کچھ صبر سے برداشت کرتے اور یہ حالت ایک لمبے عرصہ تک جاری رہی.ایک صحابی کے متعلق کہ ایک دفعہ انہوں نے غسل کے لئے اپنا کرتا اتارا تو اس وقت کچھ اور لوگ بھی وہاں تھے.انہوں نے دیکھا کہ ان کی پیٹھ کا چمڑا بالکل بھینس کے چمڑے کی طرح سخت، گھر درا اور سیاہ تھا.انہوں نے دریافت کیا کہ کیا یہ کوئی بیماری ہے تو اس صحابی نے بتایا کہ بیماری کوئی نہیں بلکہ جب ہم اسلام لائے تو ہمارے مالک (یہ سلوک عام طور پر غلاموں سے کیا جاتا تھا) ہم کو تپتی ہوئی ریت پر ننگا کر کے دو پہر کے وقت لٹا دیتے تھے اور اس سے خون پک پک کر جل گیا اور یہ حالت ہو گئی 2 اگر ان کا زمانہ اس پر ختم ہو جاتا تو کوئی کہہ سکتا تھا کہ بعض لوگ طبعاً ضدی ہوتے ہیں اور ان کو جتنا ڈانٹا اور دبایا جائے وہ اتنا ہی زیادہ مقابلہ کرتے ہیں.اس لئے صحابہ کی یہ حالت کسی نیکی کی وجہ سے نہ وجہ سے نہ بھی بلکہ ان کے فطری میلان کے مطابق تھی.ان کی فطرت ہی ایسی تھی.اس لئے جب ان پر ظلم ہوئے تو وہ مقابلہ کے لئے کھڑے ہو گئے مگر پھر اللہ تعالیٰ اسلام کا زمانہ لایا اور مسلمانوں کو غلبہ اور فتوحات حاصل ہوئیں اور ہم دیکھتے ہیں کہ ان لوگوں نے اس وقت بھی اسی تقویٰ کا نمونہ دکھایا اور نماز، روزہ، حج، زکوۃ اور دوسری نیکیوں میں کوئی کمی نہیں آنے دی.اسی طرح قربانیاں کرتے رہے.اس لئے کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ وہ ضدی طبیعت کے تھے بلکہ ماننا پڑتا ہے کہ مصائب کے وقت میں بھی وہ خدا تعالیٰ کی خاطر نیک اعمال بجا لاتے تھے اور خوشیوں میں بھی اسی کے لئے نیکیاں کرتے تھے.یا اگر اللہ تعالیٰ شروع سے ہی اسلام کو مدنی زندگی عطا کر دیتا ادھر رسول کریم صلی ا ہم دعویٰ کرتے اور ادھر خدا تعالیٰ کی تائید و نصرت حاصل ہو جاتی تو صحابہ کے نیک نمونہ کو دیکھ کر کوئی کہہ سکتا تھا کہ ان لوگوں کو آرام پہنچا اس لئے وہ نیکیاں کرتے رہے.کیا - پتہ کہ اگر ان کو مصائب پیش آتیں تو ان کا ایمان کیسا رہتا.ان کی طبیعت ہی ایسی

Page 132

1941 133 خطبات محمود کہ خوشی میں خدا تعالیٰ کو یاد کرنے والے تھے مگر اللہ تعالیٰ نے ان کو دونوں زمانے دیئے اس لئے کوئی یہ اعتراض نہیں کر سکتا اور ان کے حالات کو دیکھتے ہوئے ہر ایک کو یہ ماننا پڑتا ہے کہ انہوں نے جو کچھ کیا تقویٰ اور دینداری کے ماتحت کیا.کیونکہ دونوں حالتوں میں خدا تعالیٰ کو نہ چھوڑا.مجھے اس امر کی ایک مثال یاد آئی ہے کہ کس طرح بعض لوگ نرمی سے ہر قسم کا کام کرنے کو تیار ہو جاتے ہیں مگر ذراسی سختی کو برداشت نہیں کر سکتے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام کے زمانہ میں یہاں ایک شخص جو عرب کہلاتے تھے آئے.وہ رہنے والے تو برما کے تھے مگر عرب کہلاتے تھے.ابوسعید ان کا نام تھا وہ یہاں رہے مگر بعد میں کچھ ابتلاء آیا اور چلے گئے.پھر سیاسی آدمی بن گئے اور ہندوستان سے شاید ترکی چلے گئے تھے اور غالباو ہیں فوت ہو گئے.بہر حال پھر کبھی ان کا ذکر نہیں سنا.وہ بڑے اخلاص سے یہاں آئے تھے مگر بعد میں بعض باتوں کی وجہ سے ابتلاء آگیا اور چلے گئے.جب آئے تو اس زمانہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر گورداسپور میں ایک مقدمہ 3 شروع ہو گیا جو مولوی کرم دین بھیں والے کے مقدمہ کے نام سے مشہور ہے.اس کے سلسلہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام کو اکثر گورداسپور جانا پڑتا تھا اور آپ بعض اوقات دس دس پندرہ پندرہ دن بلکہ مہینہ مہینہ وہاں رہتے تھے.وہ بھی ساتھ رہتے اور خواجہ کمال الدین صاحب اور دوسرے لوگ جو مقدمات کا کام کرتے تھے ان سے خوب خدمت لیتے تھے اور وہ بڑی خدمت کرتے تھے.حتٰی کہ مجھے بعض لوگوں نے سنایا کہ وہ ان کے پاخانہ والے پاٹ بھی دھو دیتے تھے.حالانکہ وہ کسی زمانہ میں اچھے تاجر اور آسودہ حال آدمی رہ چکے تھے لیکن ایک دن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام مجلس میں تشریف فرماتھے میں بھی وہیں تھا.خواجہ صاحب آئے شاید اپنے لئے یا شاید ان کے ساتھ کوئی ایسا آدمی تھا جس سے وہ اچھا سلوک کرنا چاہتے تھے.انہوں نے آتے ہی کہا کہ عرب صاحب وہ چٹائی گھسیٹ کر ادھر لے آئیے مگر خواجہ صاحب کا لہجہ قدرے تحکمانہ تھا اور طریق خطاب میں کچھ حقارت کا رنگ بھی تھا.اس لئے ان کے جواب میں عرب صاحب نے باوجودیکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة و السلام

Page 133

1941 134 خطبات محمود بھی وہیں تشریف رکھتے تھے.بڑے جوش سے کہا کہ کیا میں تمہارے باپ کا نوکر ہوں.گویا جو شخص محبت سے پاخانہ تک اٹھا دیتا تھا جب اسے خطاب کرتے وقت حکومت کا رنگ آیا تو اس کی فطرت نے بغاوت کی اور اس نے بڑے جوش سے کہا کہ کیا میں تمہارے باپ کا نوکر ہوں.اس کے بالمقابل بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں محبت سے نہیں مانتے.مگر جب ان کو مارا جائے تو بڑے فرمانبردار ثابت ہوتے ہیں.مگر جو نہی ان سے نرمی کا برتاؤ کیا جائے فوراً بگڑ جاتے ہیں.اس کی بھی ایک مثال مجھے یاد آگئی ہے وہ شخص ابھی زندہ ہے جب وہ بچہ تھا اور غالباً یتیم تھا.ہمارے نانا جان مرحوم اس جوش میں کہ اسے پالیں گے اور اس طرح ثواب حاصل کریں گے اسے گھر میں لے آئے.اور باوجودیکہ آپ کی طبیعت بڑی جو شیلی تھی ثواب حاصل کرنے کے شوق میں اس کی بہت خاطر و مدارت کرنے لگے.اسے کھلائیں، پلائیں، اس کے لئے بستر کریں اور پھر اسے سلائیں.ایک دو روز تو وہ ٹھیک طرح کھاتا پیتا رہا مگر تیسرے چوتھے روز اس نے بگڑنا شروع کیا.میر صاحب مرحوم اسے کہیں کھانا کھا لو تو وہ کہے میں نہیں کھاؤں گا.نماز کے لئے چلو تو کہے جاؤں گا حتی کہ اس نے کھانا چھوڑ دیا.اب میر صاحب مرحوم کھانا لے کر بیٹھے ہیں کہ میاں کھا لو بڑی خوشامد کر رہے ہیں مگر وہ یہی کہتا جاتا ہے کہ نہیں میں نہیں کھاؤں گا.شام کے کھانے کا وقت اس طرح گزرا اور اس نے نہ کھایا.صبح ہوئی تو پھر آپ نے اسی طرح اس کی خوشامد شروع کی کہ میاں فضل الہی کھانا کھا لو تمہیں اچھے اچھے کپڑے بنوا دیں گے، یہ لے دیں گے، وہ لے دیں گے مگر اس نے ایک نہ مانی اور اپنی ضد پر اڑا رہا.اور اس طرح دوسرا وقت بھی فاقہ سے ہی رہا.تیسرا وقت آیا تو پھر یہی حالت رہی.بہت منت خوشامد کی مگر اس نے ایک نہ مانی.نانا جان مرحوم کی طبیعت جو شیلی تو تھی ہی آخر ان کو جلال آگیا اور انہوں نے سوئی لے کر کہا کہ کھاتا ہے یا نہیں؟ جب اس نے دیکھا کہ آپ مارنے لگے ہیں تو جھٹ کہنے لگا کہ میں کھانا کھا لیتا ہوں.تین وقت کی منت و سماجت سے تو نہیں

Page 134

1941 135 خطبات محمود نہ کھایا مگر جب دیکھا کہ مار پڑنے لگی ہے تو جھٹ کھا لیا اور اس دن سے خوش رہنے لگا.تو بعض طبائع مار کے آگے جھکتی ہیں اور بعض پیار کے آگے مگر یہ دونوں طاقتیں نیکی نہیں کہلا سکتیں.یہ فطرت کی مختلف حالتیں ہیں.لیکن اگر کوئی شخص اللہ تعالیٰ اپنا محسن سمجھتا اور خواہ وہ پیار کرے یا ناراض ہو اس کا ساتھ نہیں چھوڑتا تو ہے.کیونکہ اس نے دونوں صورتوں میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ اپنا تعلق ثابت کر دیا.رسول کریم صلی ال نیم کے زمانہ میں ایک دفعہ منافقین کی طرف سے یہ افواہیں بہت پھیلائی گئیں کہ روما کا قیصر مسلمانوں پر حملہ کرنے کے لئے فوجیں جمع کر رہا ہے.ان کا مطلب یہ تھا کہ یہ سن کر رسول کریم صلیا اور اس کے مقابلہ کے لئے جائیں گے اور جاتے ہی حملہ کر دیں گے اور اس طرح مسلمانوں اور رومیوں میں زور سے لڑائی شروع ہو جائے گی.یہ منافقین کی ایک شرارت تھی.رسول کریم صلی ا تم کو افواہیں پہنچیں تو آپ نے حکم دیا کہ بجائے اس کے کہ رومی ہم پر چڑھ آئیں اور حملہ کر دیں ہمیں چاہئے کہ سرحد پر ہی جا کر ان کو روکیں.آپ نے مسلمانوں کو تیاری کا حکم دیا.حکم بڑا سخت تھا کہ کوئی پیچھے نہ رہے.میں ہزار کے قریب تیار ہوا جسے لے کر آپ روانہ ہوئے.سب مسلمان ساتھ گئے صرف منافقین پیچھے رہ گئے یا تین مسلمان.ان میں سے ایک اپنا واقعہ خود بیان کرتے ہیں کہ میں نے سمجھا کہ میں تیاری کر لوں.رسول کریم صلی و کم تو فوراً چل پڑے تھے مگر میں نے سمجھا میں امیر آدمی ہوں سامان رکھتا ہوں کل چلوں گا تو جا ملوں گا.دوسرے روز بھی اسی خیال میں رہا کہ کیا ہے.کل چل کر بھی مل سکتا ہوں مگر تیسرے دن بھی نہ جا سکا اور چونکہ حالات خطرناک تھے.رسول کریم صلی ا لم اس قدر تیزی سے بڑھتے جاتے تھے کہ تین دن کے بعد میں نے سمجھا کہ اب نہیں مل سکتا اور رہ گیا.رسول کریم صلی السلم واپس تشریف لائے تو جو لوگ نہیں گئے تھے ان کی حاضری کا حکم دیا.ایک ایک غیر حاضر آپ کے سامنے جاتا.آپ نہ جانے کی وجہ پوچھتے وہ

Page 135

1941 خطبات محمود 136 کوئی عذر پیش کر دیتا آپ ہاتھ اٹھا کر اس کے لئے دعا کر دیتے اور اسے رخصت دیتے.میں بھی پہنچا تو جو صحابی پہرے پر تھے ان سے دریافت کیا کہ اب تک کیا ہوا ہے.انہوں نے بتایا کہ اس طرح لوگ جاتے ہیں عذر پیش کر دیتے ہیں رسول کریم صل الالم ہاتھ اٹھا کر دعا کرتے اور پھر رخصت کر دیتے ہیں.یہ سن کر میرے دل میں خیال آیا کہ یہ تو چھٹکارے کی آسان راہ ہے.میں بھی کوئی عذر کر دوں گا مگر پھر خیال آیا کہ معلوم کروں کہ کوئی ایسے بھی ہیں جنہوں نے عذر نہ کیا ہو.میں نے پوچھا تو اس صحابی نے بتایا کہ ہاں فلاں فلاں دو شخص ایسے ہیں جنہوں نے کوئی عذر نہیں کیا اور کہہ دیا ہے کہ ہم سے غلطی ہوئی اور ہم قصور وار ہیں اور میں نے دیکھا کہ وہی دو مخلص تھے.باقی عذر کرنے والے سب ایسے تھے جن کو ہم پہلے ہی منافق سمجھتے تھے اور میں نے دل میں فیصلہ کیا کہ میں بھی مخلصین کے ساتھ رہوں گا.چنانچہ میں پیش ہوا.آنحضرت صلی اللہ نیلم نے فرمایا.مالک تم بھی نہیں گئے.کیا عذر تھا.میں نے کہا یا رَسُولَ اللہ ! کوئی عذر نہ تھا.صرف نفس کا دھوکا تھا.آپ نے فرمایا تم ٹھہر و تمہارے متعلق بعد میں فیصلہ کیا جائے گا اور پھر اللہ تعالیٰ کی طرف شخص کے مطابق آپ نے ان تینوں کے بائیکاٹ کا اعلان فرمایا اور حکم دیا کہ کوئی ان سے سلام کلام نہ کرے.پھر کچھ دن کے بعد حکم دیا کہ ان کی بیویاں بھی ان سے قطع تعلق کر لیں.مالک کہتے ہیں کہ میری بیوی نے کہا کہ فلاں کی بیوی نے اجازت لے لی ہے تم کہو تو میں بھی لے آؤں.میں نے کہا کہ وہ تو کمزور اور بیمار ہے اس وجہ سے اس کی بیوی نے اجازت لی ہے.میں کوئی اجازت لینا نہیں چاہتا اور چونکہ خطرہ ہے کہ کسی وقت تم مجھے بلا لو یا میں تمہیں بلا لوں اس لئے تم اپنے میکے چلی جاؤ تا یہ حکم پوری طرح ادا ہو سکے.وہ کہتے ہیں میرے دل میں ایک درد تھا، دکھ تھا کہ منافق تو سزا سے بچ گئے اور ہمیں سزا مل گئی.کہیں یہ تو بات نہیں کہ ہم پر بہت بڑے منافق ہونے کا شبہ ہو.میرا ایک رشتہ دار تھا اور ہم دونوں میں باہم اس قدر محبت تھی کہ اکٹھے ہی کھانا کھاتے اور اکثر اکٹھے رہتے تھے.ایک دوسرے سے

Page 136

1941 137 خطبات محمود دو گویا عشق تھا.جب یہ خیال میرے دل میں آیا تو وہ اپنے باغ میں کام کرتا تھا.میں گھبراہٹ کے عالم میں اس کے پاس گیا اور کہا کہ بھائی دیکھو اور لوگوں کو تو ہو سکتا ہے کہ اچھی طرح سب حالات معلوم نہ ہوں مگر تمہیں تو سب کچھ معلوم ہے.صرف یہ بتاؤ کہ کیا تم سمجھتے ہو کہ میں منافق ہوں.مگر اس نے میری طرف منہ کر کے دیکھا بھی نہیں اور اپنے کام میں لگا رہا.میں نے پھر کہا کہ میں صرف اتنا پوچھتا ہوں کہ تم تو میرے حال سے واقف ہو " کیا میں منافق ہوں“؟ میں چاہتا تھا کہ وہ کہہ دے نہیں اور میرا کلیجہ ٹھنڈا ہو جائے مگر اس نے پھر کوئی جواب نہ دیا اور آسمان کی طرف سر اٹھا کر کہا کہ اللہ اور اس کا رسول بہتر جانتے ہیں.ایک ایسے شخص سے جو میرے حالات کا پوری طرح واقف تھا، رشتہ دار تھا اور اس سے نہایت گہرے تعلقات تھے یہ جواب سن کر گویا زمین اور آسمان مجھ پر تنگ ہو گئے اور مجھ پر جنون کی حالت طاری ہو گئی.یہاں تک کہ میں باغ کے دروازہ کی طرف بھی نہیں گیا بلکہ دیوار پھاند کر پاگلوں کی طرح شہر کو چل پڑا.جب میں شہر میں داخل ہوا تو ایک یہودی نے کہا کہ ایک شخص تمہیں تلاش کرتا پھرتا ہے میں ذرا آگے بڑھا تو وہ ایک اور شخص سے میرا پتہ پوچھ رہا تھا اور وہ شخص میری طرف اشارہ کر کے بتا رہا تھا کہ وہ ہے.وہ میرے پاس آیا اور کہا کہ یہ غسان کے بادشاہ نے آپ کے نام خط بھیجا ہے.میں نے اسے کھولا تو اس میں لکھا تھا کہ میں نے سنا تمہارے سردار نے تمہارے ساتھ بہت سختی کا معاملہ کیا ہے حالانکہ تم اپنی قوم کے سردار اور رئیس تھے تمہیں بہت ذلیل کن سزا دی گئی ہے جسے ہم بھی سخت نا پسند کرتے ہیں اور ہمیں تمہارے ساتھ بہت ہمدردی ہے اگر تم ہمارے پاس آ جاؤ تو ہم تمہاری شان کے مطابق عزت کریں گے.مالک کہتے ہیں یہ خط پڑھ کر میں نے کہا کہ شیطان کا آخری حملہ ہے.میں چلتا گیا آگے ایک تنور جل رہا تھا وہ خط میں نے اس میں ڈال دیا اور اس قاصد سے کہا کہ اپنے آقا سے کہہ دینا کہ تمہارے خط کا یہ جواب ہے.وہ کہتے ہیں میں نمازوں میں جاتا، جا کر السّلامُ عَلَيْكُمْ کہتا اور کان لگا کر ہے

Page 137

1941 138 خطبات محمود سنتا کہ شاید رسول کریم صلی علیم نے جواب آہستہ دیا ہو.مگر جب معلوم کرتا کہ آپ نے جواب نہیں دیا تو تھوڑی دیر بیٹھ کر مجلس سے باہر چلا جاتا اور باہر یونہی تھوڑی دیر نے ادھر ادھر پھرنے کے بعد مجلس میں آتا اور پھر السَّلَامُ عَلَيْكُمْ کہتا اور رسول کریم کے ہونٹوں کی طرف دیکھتا کہ شاید آپ نے آہستہ سے جواب دیا ہو مگر آ.جواب نہیں دیتے تھے ہاں یہ میں نے کئی دفعہ دیکھا کہ میں نظریں نیچی کئے بیٹھا ہوں.آنکھ اٹھا کر جو دیکھا تو رسول کریم صلی علیم کو اپنی طرف دیکھتے ہوئے پایا اور یہ دن اسی طرح گزرتے گئے.یہاں تک کہ غسان کے خط کا واقعہ ہوا.اور اللہ تعالیٰ نے ان کے اخلاص کو دیکھ کر آنحضرت صلیا لیلی کیم کو الہام فرمایا کہ تینوں کو معاف کر دیا جائے.مالک کہتے ہیں کہ میں نماز پڑھ کر جلد گھر آ گیا تھا اور بعد میں مجلس میں فرمایا یہ سنتے ہی ایک صحابی تو گھوڑے پر سوار ہو کر مالک کو خبر دینے گئے مگر ایک ان سے بھی ہشیار نکلے اور انہوں نے ایک ٹیلے پر چڑھ کر بلند آواز پکارا کہ مبارک ہو خدا تعالیٰ اور اس کے رسول نے تم کو معاف کر دیا.مالک کہتے ہیں یہ پیغام پہنچا تو میں رسول کریم صلی الم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا يَا رَسُولَ اللهِ ! آپ نے ہمیں معاف کر دیا؟ آپ نے فرمایا ہاں.میں نے عرض کیا کہ اس معافی کے بعد میں سب سے پہلا کام یہ کرتا ہوں کہ میری دولت نے ہی مجھے غافل کر رکھا تھا.اس لئے میں ساری دولت اور جائداد خدا تعالیٰ کی راہ میں دیتا ہوں تا نہ یہ پاس ہو اور نہ پھر کبھی ایسی غفلت میں مبتلا ہو سکوں 4 اور اس کے بعد یہ خوشخبری پہنچانے والے کو اپنے کپڑے انعام دیئے اور خود کسی سے مانگ کر پہنے.تو دیکھو کس قدر مصیبت کے وقت میں شاندار اخلاص کا نمونہ دکھایا.آنحضرت صلی ا م بیعت کے وقت یہ عہد لیتے تھے کہ عُسر یسر دونوں حالتوں میں فرمانبرداری کروں گا اور ان لوگوں نے اس عہد کو پورا کر دکھایا.پس نیک وہی ہے جو خوشی اور مصیبت دونوں حالتوں میں خدا تعالیٰ کے منشاء کو پورا کرنے کی کوشش ہے اور کسی حالت میں بھی گھبراہٹ ظاہر نہیں ہونے دیتا.بلکہ اللہ تعالیٰ کے کرتا

Page 138

1941 139 خطبات محمود دین سے سچا تعلق رکھتا ہے اور ہر حال میں خدا تعالیٰ کا ساتھ دیتا ہے.یہی لوگ ہیں کہ اللہ تعالیٰ بھی ہر وقت ان کا ساتھ دیتا ہے.اور ایسے ہی بہادر لوگ ہیں جو حال میں قربانیاں کرتے ہیں.جن کے ناموں کو دنیا ہمیشہ یاد رکھتی ہے.مسلمانوں میں گرے ہوئے زمانہ میں بھی ایسے لوگوں کی کافی مثالیں پائی جاتی ہیں.یہی لوگ حقیقی بہادر ہوتے ہیں.بہادر وہ نہیں جو صرف تکلیف کے وقت قائم رہتا ہے.یہ بہادری نہیں تہور کہلا سکتا ہے اور اسی طرح وہ بھی نہیں جو خوشی میں بات مانتا ہے.اسے ہم صرف نرم اور کمزور دل کہہ سکتے ہیں.بہادر وہی ہے جو نہ ڈر کے وقت ساتھ چھوڑتا ہے اور نہ خوشی کے وقت.اسلامی تمدن کے زمانہ میں اس کی بہترین مثال سپین کے ایک سردار کی نظر آتی ہے.سپین کو پہلی صدی کے آخر میں مسلمانوں نے فتح کر لیا تھا.چنانچہ جبل الطارق جسے اب جبرالٹر کہا جاتا ہے ایک مسلمان جرنیل طارق بن زیاد کے نام پر ہی ہے.یہ یورپ اور امریکہ سے بحیرہ روم : میں داخل ہونے کا دروازہ ہے.بنو امیہ کے زمانہ میں ایک اسلامی لشکر افریقہ سے ہوتا ہوا یہاں پہنچا اور ایسی ہمت کے ساتھ سپین کو فتح کیا کہ حیرت آتی ہے.اس لشکر کی تعداد صرف ہیں ہزار تھی.جب یہ فوج کشتیوں سے اتری تو طارق نے اپنے سپاہیوں سے کہا کہ دیکھو ہم بہت تھوڑے ہیں سارا ملک ہمارا دشمن ہے.لڑائی اگر شدید ہو تو ممکن ہے بعض کے دل میں یہ کمزوری پیدا ہو کہ لوٹ جائیں.اس لئے بہتر یہی ہے کہ ہم ان کشتیوں کو جلا دیں تا واپسی کا خیال ہی نہ رہے.بعض نے کہا کہ یہ خطرہ کی بات ہے مگر طارق نے کہا کہ اگر ڈرنا تھا تو گھر سے ہی کیوں نکلنا تھا.آخر کشتیاں جلا دی گئیں سپین پر حملہ کیا اور اس کے اکثر حصہ کو فتح کر لیا گیا اور وہاں ایک زبر دست حکومت قائم کی اور بڑے بڑے فقیہہ اور علماء جن کے مسلمان یہ جانتے بھی نہیں کہ وہ عربی نہیں بلکہ یورپین تھے وہیں پیدا ہوئے ہیں.متعلق.محی الدین ابن عربی بڑے بلند پایہ صوفی گزرے ہیں.فتوحات مکیہ ان کی مشہور کتاب ہے وہ یورپین اور سپین کے رہنے والے تھے.اسی طرح بہترین تفاسیر

Page 139

خطبات محمود 140 * 1941 جو ہیں ان میں قرطبی فقہی مسائل کے لحاظ سے اور بحر محیط نحوی لحاظ سے بہترین تفسیریں سمجھی جاتی ہیں.اس میں رطب و یابس اور لغو باتیں نہیں بلکہ قرآن کریم پر قرآن کریم سے بحث کی گئی ہے اور یہ دونوں مفسر یورپ کے رہنے والے تھے.ابن حجر کا نام ایسا ہے جسے عام طور پر مسلمان جانتے ہیں.حضرت خلیفہ اول تو گویا ان کے عاشق تھے اور فرمایا کرتے تھے کہ ابن حجر اسلام کے لئے ننگی تلوار تھے یہ بھی سپین کے رہنے والے تھے.تو سپین ایک زمانہ میں اسلام کا مرکز تھا کیا بلحاظ فقہی مسائل کی تحقیق و تدقیق کے اور کیا بلحاظ فقہ، علم کلام، تفسیر قرآن اور احادیث پر عبور کے.پھر دنیوی علوم میں سے طب، فلسفہ اور علم ادب کے لحاظ سے بھی وہاں چوٹی کے علماء گزرے ہیں لیکن عام لوگ غلطی سے سمجھتے ہیں کہ یہ سب بڑے بڑے علماء و فقہاء F عرب اور بغداد وغیرہ کے رہنے والے تھے.سپین میں مسلمانوں کی حکومت آٹھ سو سال تک قائم رہی اور بڑی شان سے رہی.فرانس کے بعض علاقے بھی مسلمانوں نے فتح کئے.یورپ کے بہت سے جزائر بھی ان کے قبضہ میں تھے، جنوبی اٹلی کے بعض حصوں پر بھی ان کی حکومت تھی.مگر یہ ساری حکومت آہستہ آہستہ باہمی مخالفتوں اور عداوتوں کی وجہ سے کمزور ہوتی گئی حتی کہ صرف دار السلطنت غرناطہ اور ارد گرد کے بعض دیہات تک ہی اسلامی حکومت محدود رہ گئی.اس وقت سپین کے ایک حصہ کا بادشاہ فرڈیننڈ خامس اور ایک کی ایک عورت از بیلا تھی.دونوں نے باہم شادی کر لی اور ساری طاقت اکٹھی کر کے غرناطہ پر حملہ کر دیا.مسلمان بہت تھوڑے تھے مگر پھر بھی ہمت والے تھے اور اسلامی اثر ان پر تھا.مقابلہ بڑا سخت کیا مگر آخر محاصرہ کی حالت ہو گئی سات ماہ تک محاصرہ جاری رہا اور پھر خوراک میں بھی کمی ہونے لگی اس وقت وہاں کے بادشاہ ابو عبد اللہ محمد بن سلطان ابو الحسن ناصری تھے انہوں نے مجلس مشاورت منعقد کی کہ یا کیا جائے.اکثر لوگوں کا مشورہ یہی تھا کہ صلح کر لی جائے مقابلہ فضول ہے کیونکہ ہم مقابلہ کر نہیں سکتے.www

Page 140

خطبات محمود 141 1941 ت سے موسیٰ بن عسان سوار فوج کے جرنیل تھے انہوں نے کہا کہ صلح کی بات فضول ہے.عیسائیوں کو بتا دو کہ مسلمان تلوار اور حجر اور گھوڑے پر چڑھ کر لڑنے کے لئے ہی پیدا ہوا ہے.اگر مسیحی بادشاہ ہمارے ہتھیاروں کا مطالبہ کرتا ہے تو وہ آکر ہم سے جبراً چھین لے لیکن اسے معلوم ہو جائے گا کہ ہمارے ہتھیار اسے بہت مہنگے پڑیں گے.میرا تو یہ حال ہے کہ غرناطہ کی فصیل کے نیچے کی قبر مجھے غرناطہ کے پر تکلف مکانوں کی رہائش سے زیادہ عزیز ہے.جس میں مجھے کفار کی اطاعت میں رہنا پڑے.لوگوں پر ان کی باتوں کا اثر ہوا اور جنگ جاری رکھنے کا فیصلہ ہوا اور باہر نکل کر حملے شروع کئے مگر کجا ایک شہر اور کجا سارا ملک.مسلمان کثرت شہید ہونے لگے اور محاصرہ لمبا ہو گیا یہاں تک کہ سردی کا موسم آگیا او رخوراک کا ذخیرہ ختم ہونے لگا آخر ابو القاسم گورنر غرناطہ نے رپورٹ کی کہ ذخائر خوراک ختم ہونے کو ہیں اور لوگوں میں گھبراہٹ پیدا ہو رہی ہے لیکن موسیٰ نے پھر صلح کی مخالفت کی اور باہر نکل کر دشمن کا مقابلہ کرنے کی رائے دی اور پھر باہر نکل کر مقابلہ شروع ہوا لیکن پیدل سپاہ کو شکست ہوئی اور لشکر اسلام پھر قلعہ میں محصور ہو گیا.پھر صلح کی کانفرنس ہوئی.پھر موسیٰ نے مخالفت کی اور کہا کہ ہتھیار دو کہ وہ نکل کر مقابلہ کرے اور میں تو غرناطہ کی حفاظت میں لڑ کر مر جانا پسند کروں گا مگر مغلوب ہونے کو ہرگز برداشت نہ کروں گا لیکن اس دفعہ ان کی بات کا اثر نہ ہوا اور ابو القاسم وزیر کو صلح کی شرطیں طے کرنے کو بھجوایا گیا اور وہ یہ شرائط طے کر کے آئے کہ ستر دن لڑائی بند رہے گی.اس اثناء میں اگر مسلمانوں کو افریقہ سے مدد پہنچ گئی تو وہ لڑائی جاری کر دیں گے ورنہ ہماری ماتحتی میں رہیں گے.ان کی مساجد کا احترام کیا جائے گا، اسلامی مدارس جاری رکھے جائیں گے، کسی عیسائی یا یہودی کو ان پر حاکم نہیں مقرر کیا جائے گا.وزیر جب یہ شرائط معلوم کر کے واپس آیا تو سب نے ان کو پسند کیا مگر ہزار سال کی حکومت کے بعد اس طرح حکومت کھونے کے خیال سے کئی عمائد رو پڑے.ہر مرد کو www

Page 141

1941 خطبات محمود کھلا 142 موسیٰ کھڑے ہوئے اور کہا کہ اے سردارانِ قوم اس رونے کے کام کو عورتوں اور بچوں کے لئے رہنے دو ہم مرد ہیں ہمارا کام مرد ہیں ہمارا کام آنسو بہانا نہیں خون بہانا ہے.بے شک لوگوں میں مایوسی پھیلی ہوئی ہے مگر ابھی ایک راستہ شرفاء کے لئے ہے اور وہ یہ کہ لڑ کر مر جائیں.زمین ہماری لاشوں کو سنبھالنے کے لئے موجود ہے اور اگر وہ بھی نہ ملے تو آسمان ہماری قبر بننے کے لئے کافی ہے.خدا تعالیٰ ہم کو اس طعنے سے بچائے کہ یہ لوگ اسلامی حکومت کے بچانے سے موت کے ڈر کی وجہ سے رک گئے.ان کی یہ تقریر سن کر بادشاہ نے کہا کہ یہ میری بد قسمتی ہے کہ اس ملک میں اسلام کی تباہی میرے ہی زمانہ میں مقدر تھی مگر امراء پر اس پر حسرت کلام کا بھی کوئی اثر نہ ہوا اور وہ صلح نامہ پر دستخط کرنے کے لئے تیار ہو گئے تب موسیٰ پھر جوش سے کھڑے ہوئے اور کہا کہ اپنے آپ کو دھوکا نہ دو اور یہ خیال نہ کرو کہ عیسائی صلح کے شرائط کی پابندی کریں گے.موت تو سب سے کم خطرہ والی ہے.صلح کے بعد ہمارے شہروں کا تباہ کیا جانا، مسجدوں کی بے حرمتی، گھروں کی تباہی، ہماری بیویوں اور لڑکیوں کی عصمت دری، ظلم اور بے انصافی، زنجیریں اور کوڑے اور قید خانے، دہکتی ہوئی آگ میں جلایا جانا مجھے نظر آ رہا ہے.اور وہ لوگ جو زندہ رہیں گے ان امور کو اپنی آنکھوں سے دیکھیں گے.باقی رہا میں سو خدا کی قسم ہرگز اس دن کو نہیں دیکھوں گا.یہ کہہ کر موسیٰ بن عسان اٹھے اور بغیر کسی مخاطب ہوئے اپنے گھر گئے اور ہتھیار لگا کے گھوڑے پر سوار ہوئے اور شہر باہر نکل گئے.اسلامی تاریخ کہتی ہے کہ اس کے بعد پھر کسی نے ان کو نہ دیکھا مگر مسیحی مورخ فرے انٹونیو گائیڈا لکھتا ہے کہ اسی دن ایک دستہ پندرہ سواروں کا دریا کے کنارے چکر لگا رہا تھا کہ انہوں نے دیکھا کہ ایک مسلمان ہتھیار لگا کے ان کی طرف بڑھا چلا آ رہا ہے انہوں نے اسے کھڑا ہونے اور اپنے آپ کو ان کے الے کرنے کے لئے کہا لیکن اس نے کوئی جواب نہ دیا او ربڑھ کر ایک سوار کو مار گرایا اس پر لڑائی شروع ہو گئی اور یہ سوار زخموں اور چوٹوں سے بالکل بے پرواہ تھا

Page 142

1941 143 خطبات محمود اس کی ایک ہی غرض معلوم ہوتی تھی کہ جس قدر عیسائی سواروں کو مار سکے مار دے.اسے فتح کا خیال نہ تھا اسے صرف دشمن کو مارنے کا خیال تھا.قریباً آدھا دستہ سواروں کا اس نے مار گرایا آخر سخت زخمی ہوا اور اس کا گھوڑا بھی زخمی ہو کر گر گیا لیکن وہ پھر بھی لڑتا رہا اور زمین پر گرا ہوا گھٹنوں کے بل اس نے لڑائی جاری رکھی اور آخر جب بالکل چور ہو گیا تو دریا میں کود کر ڈوب گیا.یہ ماننا کہ موسیٰ دریا میں خود گودے ناممکن ہے کیونکہ مسلمان خود کشی کو جائز نہیں سمجھتے.پس بات یہ معلوم ہے کہ یا تو وہ تڑپ کر گر گئے یا ذلیل مسیحی سپاہیوں نے اُن کو غصہ میں دریا جاری رہے میں دھکیل دیا.یہ تھا سپین کا آخری مخلص جس نے آرام کے دنوں میں ہی خدا تعالیٰ کے ساتھ تعلق نہ رکھا بلکہ مصیبت کے وقت بھی اُس کو نہ چھوڑا.خدا تعالیٰ کی رحمت اس اسلام کے سپاہی پر ہو.مسلمان بادشاہوں کو بھول سکتے ہیں مگر اسلام کے اس بہادر سپاہی کو نہیں بھول سکتے.جب تک ایک سچے مسلمانوں کی رگوں میں ایمان کا خون جاری ہے اس وقت تک موسیٰ بن غسان کا ذکر بھی نیکی اور دعا کے ساتھ گا.ایسے ہی لوگوں کے حالات نوجوانوں کے اندر ہمت اور عزم پیدا کرتے ہیں اور میں جماعت کے نوجوانوں سے خصوصاً اور دوسرے احباب سے عموماً یہ کہوں گا کہ اعلیٰ درجہ کا خلق یہی ہے جس کی مثال موسیٰ نے پیش کی اور وہ اسے اپنے اندر پیدا کریں.خوشی اور مصیبت دونوں حالتوں میں خدا تعالیٰ کو خوش رکھنے کی کوشش کریں.رسول کریم صلی کم تو صحابہ سے بیعت میں یہ عہد لیتے تھے کہ عُسر اور ٹیسر ا دونوں حالتوں میں فرمانبرداری کروں گا اور یہی سچا ایمان ہے اور جس کے اندر یہ نہیں وہ منہ سے تو مومن ہونے کا دعویٰ کر سکتا ہے مگر حقیقت میں وہ ایماندار (الفضل 27 مارچ 1941ء) نہیں ہے.دو 1 البقرة: 246 2 یہ حضرت خباب بن الارت تھے.الاستیعاب جلد 2 صفحہ 21-22 مطبوعہ بیروت 1995ء 3 یہ مقدمہ 28 جنوری 1903ء کو رائے سنسار چند مجسٹریٹ کی عدالت میں دائر ہوا

Page 143

* 1941 144 خطبات محمود جو بعد میں لالہ چندو لال مجسٹریٹ درجہ اول گورداسپور کی عدالت میں منتقل ہو گیا.اس مقدمہ میں مجسٹریٹ نے حضور کو پانچ سو روپیہ جرمانہ کی سزا دی.ہائیکورٹ میں اپیل پر حضور کو باعزت طور پر رہا کر دیا گیا اور جرمانہ واپس کر دیا گیا.(تاریخ احمدیت جلد سوم صفحہ 289 تا 310) 4 بخاری کتاب المغازی باب حديث كعب بن مالك

Page 144

1941 145 (10) خطبات محمود دعائیں کرو کہ اللہ تعالیٰ جنگ کے بد اثرات سے اسلام اور احمدیت کو محفوظ رکھے فرموده 21،مارچ1941ء) تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:.“ سردیوں کا موسم گزر چکا ہے اور گرمیوں کا موسم آ رہا ہے.جہاں یہ موسم بیماریوں کے اسباب کو بھڑ کانے کا موجب ہوتا ہے وہاں یہ موسم لڑائیوں اور فسادوں کے بھڑ کانے کا بھی موجب ہوتا ہے.چنانچہ کل پرسوں سے خبریں آ رہی ہیں کہ بنگال کے مشرقی حصہ کے صدر مقام ڈھاکہ میں مسلمانوں اور ہندوؤں میں خونریزی ہو سینکڑوں آدمی زخمی ہو گئے ہیں اور بہت سے مارے جا چکے ہیں.جو پرائیویٹ اطلاعات ہیں ان کی رُو سے تو زخمیوں اور مرنے والوں کی تعداد بہت زیادہ ہے لیکن گورنمنٹ نے بھی مرنے والوں اور زخمیوں کی تعداد ڈیڑھ سو کے قریب ظاہر کی رہی ہے.ہے.میں نے دیکھا ہے اس موسم میں فساد اور جھگڑے کچھ زیادہ ہو جاتے ہیں ہے شاید اس لئے کہ خون میں جوش پیدا ہو جاتا ہے.سردی میں خون گاڑھا ہوتا اور جلدی جوش میں نہیں آتا.مگر گرمی میں خون پتلا ہو جاتا اور جلدی ہی رگوں میں دوڑنے لگتا ہے جس کی وجہ سے انسان آپے سے باہر ہو جاتا ہے لیکن یورپ میں تو یہ وجہ بھی ہوتی ہے کہ وہاں سردیاں اتنی شدید ہوتی ہیں کہ لوگ آسانی سے

Page 145

1941 146 خطبات محمود ایک جگہ سے دوسری جگہ نہیں جا سکتے.سمندروں میں بعض جگہ برفوں کے تودے پھرنے لگتے ہیں، دریا منجمد ہو جاتے ہیں اور ہوائی جہازوں کی مشینوں کے انجن بھی جا کر اتنا عمدہ کام نہیں کر سکتے جتنا وہ گرمیوں میں کام کر سکتے ہیں.اس وجہ یورپ میں جو لڑائیاں ہوتی ہیں وہ سردی میں کم ہو جاتی ہیں اور گرمی میں نئے سرے سے تیز ہو جاتی ہیں.پچھلے سال کا تجربہ بھی یہی ہے کہ نومبر، دسمبر، جنوری، فروری اور مارچ میں لڑائی کم رہی.مارچ کے آخر میں بیداری شروع ہوئی ، اپریل، مئی میں لڑائی نے زور پکڑا اور جون میں وہ قومیں جو اس وقت جرمنی کے مقابلہ میں سر پر کار تھیں ختم ہو گئیں.اب پھر وہ دن قریب آ رہے ہیں.گزشتہ سال تو اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے اس عظیم الشان تباہی سے جو بالکل قریب نظر آ رہی تھی بچا لیا مگر اب پھر حالات بدل رہے ہیں اور پھر اس امر کی ضرورت ہے کہ اللہ تعالیٰ کے حضور کثرت سے دعائیں کی جائیں.نادانوں کے نزدیک تو ان حالات کی کوئی اہمیت نہیں مگر جاننے والے جانتے ہیں کہ یہ حالات کس قدر خطرناک ہیں.میں نے اگست 1939ء میں ایک خواب دیکھی تھی جس میں مجھے بتایا گیا تھا کہ انگلستان کی حالت خطرے میں ہے.میں یہ خواب پہلے بھی بیان کر چکا ہوں بلکہ الفضل 1 میں شائع بھی ہو چکی ہے.میں نے دیکھا کہ میں ایک جگہ بیٹھا ہوا ہوں اور کوئی فرشتہ میرے سامنے بعض کا غذات پیش کر رہا ہے.وہ کاغذات انگلستان اور فرانس کی باہمی خط و کتابت سے تعلق رکھتے تھے.مختلف کاغذات پڑھنے کے بعد ایک کاغذ میرے سامنے پیش کیا گیا میں نے اسے دیکھا تو مجھے معلوم ہوا کہ وہ ایک چٹھی ہے جو حکومت انگریزی کی طرف سے حکومت فرانس کو لکھی گئی ہے اور اس چٹھی کا مضمون یہ ہے کہ جنگ کے خطرناک صورت اختیار کر لینے کا سخت اور ڈر ہے کہ جرمنی انگلستان پر قبضہ کر لے.ان حالات میں ہم فرانس کے سامنے یہ تجویز پیش کرتے ہیں کہ فرانس اور انگلستان کی حکومتیں ایک نظام کے ماتحت ہو جائیں اور دونوں کو آپس میں ملا دیا جائے.یہ اس وقت کی رؤیا تھی جب

Page 146

1941 147 خطبات محمود جنگ ابھی شروع بھی نہیں ہوئی تھی.دو ایسی حکومتوں کا آپس میں مل جانا اور ان کا اپنے نظاموں کو بدل کر ایک ہو جانا جو دنیا کی سب سے بڑی حکومتیں سمجھی جاتی یں کسی انسان کے خیال اور واہمہ میں بھی آنے والی بات نہیں تھی.یہ ایسے ہی حالات میں ہو سکتا تھا جو نہایت خطرناک ہوں.اور جب انسان باقی تمام جذبات اور احساسات کو قربان کرنے کے لئے تیار ہو جائے اور صرف یہی بات اس کے سامنے رہے کہ کسی طرح جان بچ جائے.میں نے جب اس چٹھی کو پڑھا تو رویا میں ہی میں سخت گھبرا گیا مگر اسی حالت میں یکدم مجھے آواز آئی کہ یہ چھ مہینے پہلے کی بات ہے یعنی اس حالت کے چھ ماہ بعد حالات بدل جائیں گے.جب میں نے یہ رؤیا دیکھی تو اس وقت لوگوں کو ابھی تک جنگ کے شروع ہونے کے متعلق بھی یقین نہیں آتا تھا اور لوگ عام طور پر سمجھتے تھے کہ ہٹلر ڈراوے دے رہا ہے.اس کے بعد جنگ شروع ہوئی.مارچ تک کوئی خیال بھی نہیں کر سکتا تھا کہ ہٹلر غالب آ جائے گا.بالعموم یہ خیال کیا جاتا تھا کہ یہ برابر کی ٹکر ہے.بے شک پولینڈ مٹ چکا تھا مگر فرانس کے ساحلوں پر نہ یہ آگے بڑھ رہے تھے نہ وہ.بعض جگہ فرانسیسی اگر میل دو میل آگے بڑھتے تو جرمن بھی ایک میل آگے نکل آتے.اس طرح دونوں میں ایک رنگ کی مساوات رہتی تھی کوئی رو نمایاں تغیر پیدا نہیں ہوتا تھا.عام طور پر ایسا ہی ہوتا تھا کہ پہلے میل دو میل علاقہ فرانس والوں نے لے لیا اور پھر جرمنی نے مقابلہ کر کے اسے واپس لے لیا یا ایک دو میل میل علاقہ ان کے ہاتھ سے گیا تو اتنا ہی علاقہ جرمنی کے ہاتھ سے نکل گیا.اور ایسے ممالک جو ہزاروں لاکھوں مربع میل کے رقبہ میں ہوں ان میں سے ایک دو علاقہ کا چلے جانا کوئی بڑی بات نہیں ہوتی بلکہ اتنا علاقہ تو بعض دفعہ خود ملک والے ہی چھوڑ دیتے ہیں تاکہ فوجیں آسانی سے حرکت کر سکیں.بہر حال مارچ کے آخر تک یہی حالت رہی.اس کے بعد جرمنی نے نہایت شدت سے حملہ کیا اور ڈنمارک، ناروے، اور پھر ہالینڈ اور بیلجئم پر قبضہ کر لیا.پھر وہ فرانس کی طرف بڑھا اور اسے بھی

Page 147

1941 148 خطبات محمود.مغلوب کر لیا.9 مئی کو اس نے حملہ کیا تھا اور تین ہفتہ کے اندر اندر مئی کے آخر تک یہ تمام طاقتیں بالکل مضمحل ہو چکی تھیں اور جون میں تو فیصلہ ہی ہو گیا تھا.اس وقت بظاہر یہ نظر نہیں آتا تھا کہ انگریز کوئی مقابلہ کر سکیں گے گویا وہی حالت جو رویا میں مجھے دکھائی گئی تھی کہ انگلستان سخت خطرہ میں گھر جائے گا رونما ہو گئی.مگر ساتھ ہی اللہ تعالیٰ کی طرف سے مجھے بتایا گیا تھا کہ چھ ماہ کے بعد یہ حالات بدل جائیں گے.جب میں نے یہ خواب اپنے خطبہ میں بیان کی تو اس وقت پیغامی لوگ جن کو ہمارے خلاف ہمیشہ کسی نہ کسی مشغلہ کی ضرورت ہوتی ہے اُن کے ایک ایجنٹ نے جو مصری صاحب کے ساتھیوں میں سے تھا میری دعاؤں کی قبولیت کے خلاف ایک ٹریکٹ شائع کیا اور اُس میں لکھا کہ “ اس وقت خلیفہ صاحب حکومت کے مصائب میں اور اضافہ کرنے کا باعث بن رہے ہیں اور انہیں الٹا اپنے سامنے جھکانا چاہتے ہیں اور ان کی کامیابی کو مشکوک نظروں سے دیکھ رہے ہیں حالا نکہ ہمارے بادشاہ کی کامیابی یقینی ہے." یہ بات یوں تو غلط تھی کیونکہ اُس وقت ہر شخص اندر سے گھبرا رہا تھا اور اس علاقہ کے سیکھ کیا اور ہندو کیا اور مسلمان کیا سب یہ خیال کرتے تھے کہ انگریزوں کی حکومت اب چند روزہ ہے.بلکہ سکھوں نے تو ہتھیار بھی جمع کرنے شروع کر دیئے تھے اس خیال سے کہ جب انگریزوں کی طاقت کمزور ہو جائے گی ہم ملک پر قبضہ کر لیں گے.چنانچہ لاہور میں بعض دوست کارتوس لینے کے لئے وو گئے تو انہوں نے بتایا کہ سارے لاہور میں سے جہاں لاکھوں کا اسلحہ ہوا کرتا میں روپے کے کارتوس بھی نہ مل سکے.وہ تمام دکانوں پر پھرے مگر کسی کے پاس کارتوسوں کا ایک ڈبہ نکلا اور کسی کے پاس دو حالانکہ وہاں اسلحہ کی دس بارہ دکانیں ہیں اور بڑی بڑی دکانیں ہیں.تو یہ بات غلط ہے کہ انگریزوں کے متعلق اس وقت کسی کو یہ خیال نہیں تھا کہ یہ ہار جائیں گے.اس وقت عام طور پر یہی سمجھا جاتا تھا کہ انگریز جرمنی کا زیادہ دیر تک مقابلہ نہیں کر سکتے.

Page 148

1941 149 خطبات محمود پس اس کا یہ لکھنا تو غلط تھا لیکن کل ایک انگریز مدبّر کے الفاظ پڑھ کر مجھے ہے.بہت ہی خوشی ہوئی کہ اس نے کیا ہی لطیف طور پر اس بات کی تردید کی انگریزوں کے جو وزیر بحری ہیں ان کی ایک تقریر حال ہی میں چھپی ہے.اس تقریر کے دو الفاظ پڑھ کر یوں معلوم ہوتا ہے کہ گویا وہ مصریوں اور پیغامیوں کے رڈ کے لئے ہی کہے گئے ہیں.ان کا نام مسٹر الیگزنڈر ہے وہ کہتے ہیں جون، جولائی میں (یعنی جب حکومت برطانیہ نے حکومت فرانس کو تار دیا تھا کہ دونوں ملکوں کی حکومت ایک کر دی جائے اور فرانس کا برطانیہ سے الحاق ہو جانا چاہئے) ہر وہ شخص جو جنگی فنون سے ذرا بھی واقفیت رکھتا ہے یہ نہیں کہہ سکتا تھا کہ ہم پھر امن میں آ جائیں گے اس نے تو یہ لکھا تھا کہ “ہمارے بادشاہ کی کامیابی یقینی ہے ” مگر مسٹر الیگزنڈر انگلستان کے وزیر بحری کہتے ہیں کہ کوئی جاہل ہی یہ سمجھ سکتا تھا کہ ہم جیت جائیں گے.ورنہ ہماری حالت ایسی خراب تھی کہ کوئی عالم اور جنگی فنون سے واقفیت رکھنے والا انسان ایسی بات نہیں کہہ سکتا تھا.گویا اس نے مصری پارٹی کے اس شخص کے اعتراض کا جواب دے دیا کہ جاہل بے شک کہتا ہو کہ انگریز شکست نہیں کھا سکتے مگر کوئی عالم ایسا خیال نہیں کر سکتا تھا.اس کے الفاظ یہ ہیں کہ ہر وہ شخص جسے جنگی فنون سے ذرا بھی مس ہے، جانتا تھا کہ ہماری حالت کتنی خطرناک ہے.نہیں پس جاہل تو یہ امید رکھ سکتا تھا مگر جنگی فنون سے واقف ایسی امید کر سکتا تھا.اس کے بعد وہ لکھتے ہیں مگر اب حالت بہت بدل چکی ہے اور ہم پہلے سے بہت زیادہ مضبوط ہیں.یہ بات میں نے صرف ضمناً بیان کی ہے درحقیقت میں اس بات کا ذکر کر رہا تھا کہ اب حالات پھر خطرناک صورت اختیار کرتے جا رہے ہیں.جلسہ سالانہ کے موقع پر میں نے موجودہ جنگ کے متعلق اپنی بعض خواہیں بیان کی تھیں.ان کے علاوہ بعض اور خواہیں بھی ہیں جو منذر ہیں.ہم نہیں کہہ سکتے کہ وہ مُنذر رویا پوری ہو چکی ہیں یا ابھی ان کا کوئی حصہ پورا ہونا باقی ہے.اور پھر بعض دفعہ دوری طور پر

Page 149

1941 150 خطبات محمود خواہیں ظہور میں آتی رہتی ہیں.ایک دفعہ کسی رنگ میں پوری ہوتی ہیں اور دوسری دفعہ کسی رنگ میں.پس میں نہیں کہہ سکتا کہ وہ تمام خواہیں پوری ہو چکی ہیں یا ابھی بعض خواہیں جو اپنے اندر انذاری پہلو رکھتی ہیں پوری نہیں ہوئیں.بہر حال اب چونکہ جنگ کے بھڑکنے کے ایام پھر قریب آ رہے ہیں ہماری جماعت کو دعاؤں کی طرف توجہ کرنی چاہئے.اگلے چار مہینے جنگ کے لحاظ سے نہایت خطرناک ہیں.اپریل مئی جون جولائی اگست بلکہ اگر ستمبر بھی شامل کر لو تو چار ماہ بجائے چھ ماہ نہایت خطرناک ہیں.ان میں پھر رستوں کی آسانیاں پیدا ہو جائیں گی.پھر حملوں کے لئے سہولتیں میسر آ جائیں گی پھر جرمن آبدوز کشتیاں زیادہ شدت سے انگریزی انگریزی جہازوں پر حملے کر سکیں گی اور پھر انگریزوں کو خوراک پہنچنے کے رستے دشمن بند کر سکے گا.اسی طرح جرمن ہوائی جہاز زیادہ آسانی سے انگلستان پر حملہ کر سکتے ہیں.اس کی فوجیں سرعت سے حرکت میں آسکتی اور وہ مشرق کی طرف بھی بڑھ سکتا ہے اور انگلستان کی طرف بھی.غرض وہ ہر قسم کے حالات پھر جمع ہونے والے ہیں جو دنیا کا امن برباد کرنے کے لئے نہایت خطرناک ہیں.یہ سال اگر خیریت سے گزر گیا تو امید کی جا سکتی ہے کہ 1942ء میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے حالات زیادہ بہتر ہو جائیں گے.وہ لوگ جنہوں نے میرے خطبات سنے ہوئے ہیں وہ جانتے ہیں کہ 1938ء میں میں نے ایک خطبہ 2 پڑھا تھا جس میں میں نے بتایا تھا کہ 1942ء یا 1944ء خطروں کا آخری سال معلوم ہوتا ہے.اس کے بعد حالات میں تبدیلی پیدا ہو جائے گی.اسی طرح 1927ء کی مجلس شوریٰ میں میں نے بیان کیا تھا:.“ آج سے دس سال کے اندر اندر ہندوستان میں اس بات کا فیصلہ ہو جانے والا ہے کہ کونسی قوم زندہ رہے اور کس کا نام و نشان مٹ جائے.حالات اس سرعت اور تیزی کے ساتھ بدل رہے ہیں کہ جو قوم یہ سمجھے کہ آج سے بیس پچیس سال بعد کام کرنے کے لئے تیار ہو گی وہ زندہ نہیں رہ سکے گی اور جو قوم یہ خیال رکھتی ہے

Page 150

1941 151 خطبات محمود قبول وہ اپنی قبر آپ کھودتی ہے.اگر دس سال کے اندر اندر ہماری جماعت نے فتح نہ پائی اور وہ تمام راہیں جو ارتداد کی ہیں بند کر کے وہ تمام دروازے جو اسلام کرنے کے ہیں کھول نہ دیئے تو ہماری جماعت کی زندگی کی کوئی صورت نظر نہیں آتی.3 1928ء کی مجلس مشاورت میں بھی میں نے کہا تھا کہ :.66 اسلام کے لئے نہایت خطرناک دن ہیں.قریب ہے کہ چند سال کے اندر اندر قو میں فیصلہ کر لیں کہ کون زندہ رہنے کے قابل ہے اور کسے برباد ہو جانا چاہئے.“4 غرض میں نے بتا دیا تھا کہ اگر دس سال کے اندر اندر ترقی نہ کی گئی تو اس کے بعد ایک ایسی مصیبت کا دروزہ کھلنے والا ہے جس کا اسلام اور احمدیت کو خطرہ گا.چنانچہ اس کے عین دس سال کے بعد 1939ء میں موجودہ جنگ کا آغاز ہو گیا.جہاں تک میں سمجھتا ہوں 1942ء ہی ایسا سال ہے جو فیصلہ کن معلوم : ہے.اس لحاظ سے نہیں کہ جنگ بند ہو جائے گی بلکہ اس لحاظ سے کہ ممکن ایک قوم ایسی غالب آ جائے کہ اس کے بعد جنگ صرف دفاعی رہ جائے.یہ امر مشتبہ نہ رہے کہ کونسی قوم جیتے گی اور کونسی ہارے گی.ނ پس ان حالات کو دیکھتے ہوئے جماعت کے دوستوں کو خصوصیت دعائیں کرنی چاہئیں.اس وقت ہماری سب سے زیادہ قیمتی چیز خطرہ میں ہے اور وہ ہمارا دین اور ہمار امذہب ہے.بے شک انگلستان خطرے میں ہے کیونکہ ڈر ہے کہ جرمنی انگلستان پر قبضہ نہ کر لے.بے شک فرانس خطرے میں ہے کیونکہ گو وہ شکست کھا چکا ہے مگر ایک ابھی ایسا ہے جو جرمنی کے ماتحت نہیں اور اس وجہ سے جرمنی اسے پورے طور پر دبا نہیں سکتا.اگر وہ حصہ وہ حصہ بھی جرمنی کے قبضہ میں چلا جائے تو وہ پورے طور پر اسے کچل سکتا ہے.اسی طرح بے شک مشرقی یورپین ممالک خطرے میں ہیں کیونکہ جرمنی ان پر غالب آ سکتا اور انہیں اپنا تابع بنا سکتا حص ہے.

Page 151

1941 152 خطبات محمود بے شک جرمنی بھی خطرہ میں ہے کیونکہ انگلستان اور امریکہ کو اگر طاقت حاصل ہو گئی تو جرمنی اور اٹلی کی اپنی ترقی کی خواہیں سب باطل ہو جائیں گی مگر جو چیز ان کے ہاتھ سے جاتی ہے وہ ایسی نہیں کہ آج کی بجائے کل بھی کام آنے والی ہو یا ایسی نہیں کہ وہ زندگی کے بعد بھی کام آنے والی ہو مگر جس مال اور جس دولت کی حفاظت کے لئے احمدیت کھڑی ہے وہ ایسی ہے کہ وہ آج ہی کام آنے والی نہیں بلکہ کل بھی کام آنے والی ہے اور وہ دنیا میں ہی کام آنے والی چیز نہیں بلکہ اگلے جہان میں بھی کام آنے والی چیز ہے.پس جس مال کی حفاظت کے لئے احمدیت کھڑی ہے وہ بہت زیادہ قیمتی ہے بہ نسبت ان چیزوں کے جن کی حفاظت کے لئے دنیا کی حکومتیں برسر پیکار ہیں.اور جتنی زیادہ کوئی چیز قیمتی ہوتی ہے اتنی ہی اس کی حفاظت بھی زیادہ ضروری ہوتی ہے.وہ چیز جو انسان کو آج ہی فائدہ دے سکتی ہے کل نہیں، اس ہو کے متعلق ایک انسان اپنے دل کو یہ کہہ کر تسلی دے سکتا ہے کہ اگر وہ ضائع تو کیا ہوا؟ آج میں تکلیف اٹھا لوں گا کل تو آرام سے گزرے گا.اسی طرح صرف کل فائدہ پہنچانے والی ہو اس کے ضائع ہونے پر بھی ایک انسان کہہ کر اپنے دل کو تسلی دے سکتا ہے کہ آج آرام سے گزر رہا ہے پرسوں بھی آرام سے گزرے گا درمیان میں ایک دن اگر تکلیف آتی ہے تو اسے برداشت کر لوں گا مگر جو چیز آج اور کل اور پرسوں اور ہر کل اور پرسوں کو کام آنے والی ہو اور انسان کا تمام مستقبل اس کے ساتھ وابستہ ہو اسے وہ آسانی کے ساتھ ضائع کرنے کے لئے تیار نہیں ہو سکتا.وہ سمجھے گا کہ اگر یہ چیز ضائع ہو گئی تو میرا آج کا دن بھی مصیبت سے گزرے گا، کل کا دن بھی مصیبت سے گزرے گا ، پرسوں کا دن بھی مصیبت سے گزرے گا ، اترسوں کا دن بھی مصیبت سے گزرے گا اور ہر آنے والا دن میرے لئے تکلیف دہ ہو گا.پھر انسان بعض دفعہ یہ خیال بھی کر سکتا اگر میری زندگی کے دن ہی مصیبت سے گزریں تو بھی میں انہیں گزار لوں گا.کم از کم میری اولاد تو اس مصیبت سے حصہ نہیں لے گی لیکن اگر کوئی چیز ایسی ہو جس کے

Page 152

1941 153 خطبات محمود ضائع ہونے کا نقصان صرف اس کو نہ ہو بلکہ اس کی اولاد کو بھی نقصان پہنچانے والا ہو تو ایسی حالت میں اس چیز کی اہمیت اور بھی بڑھ جائے گی اور اگر وہ چیز ایسی ہو که صرف اس کی اولاد پر ہی اس کا اثر نہ ہو بلکہ اولاد کی اولاد اور اس اولاد کی وہ اولاد بھی قیامت تک اس کے نتیجہ میں دکھ اور تکلیف میں مبتلا رہنے والی ہو تو خیال کرے گا کہ میں اس چیز کو کیوں ترک کروں جبکہ قیامت تک میری نسل کے افراد اس کی وجہ سے دکھ اٹھاتے چلے جائیں گے.اور اگر کوئی چیز ایسی ہو جو مستقبل سے تعلق رکھنے والی ہو اور اس کی اولاد در اولاد کو اس کے نہ ہونے کی وجہ سے کلیف پہنچنے کا خطرہ ہو تو پھر بھی کوئی انسان یہ خیال کر سکتا ہے کہ دنیا ایک قید خانہ ، اگر اس جہان میں تکلیف پہنچی بھی تو کیا ہوا اگلے جہان کا سکھ تو حاصل ہو جائے گا لیکن اگر کوئی چیز ایسی ہو کہ اس کے ذریعہ امن اور آرام صرف اس دنیا میں ہی حاصل نہ ہوتا ہو بلکہ اگلے جہان میں بھی حاصل ہوتا ہو تو وہ ہر قسم کی موت، ہر قسم کی تکلیف اور ہر قسم کی تنگی برداشت کر لے گا مگر اس بات کو برداشت نہیں کرے گا کہ وہ چیز اس کے ہاتھ سے نکل جائے کیونکہ وہ سمجھ لے گا کہ اگر وہ چیز اس کے ہاتھ سے گئی تو اس کا اور اس کی اولاد کا امن بھی گیا.اس جہان میں بھی اور اگلے جہان میں بھی.میں جانتا ہوں کہ قرآن کو نہ پڑھنے اور اس کو سمجھنے کا اپنے اندر نہ رکھنے کی وجہ سے بہت سے لوگ اس اہمیت کو نہیں سمجھتے بلکہ احمدیوں میں بھی بعض لوگ ایسے موجود ہیں جو احمدیت کی ضرورت کو نہیں سمجھتے.یہی وجہ ہے کہ چھوٹی چھوٹی بات پر انہیں ٹھوکر لگ جاتی ہے، چھوٹی چھوٹی بات پر انہیں دھکا لگ جاتا ہے اور چھوٹی چھوٹی بات پر وہ احمدیت کو چھوڑنے کے لئے تیار ہو جاتے ہیں.ان کی مثال بالکل ان چار نابینوں کی سی ہے جو ہاتھی کو دیکھنے کے لئے گئے تھے ان میں سے ایک نے سونڈ پر ہاتھ مارا اور سمجھ لیا کہ اس نے ہاتھی دیکھ لیا.دوسرے نے دم پر ہاتھ مارا اور سمجھ لیا کہ اس نے ہاتھی دیکھ لیا.تیسرے نے پاؤں پر ہاتھ مارا اور سمجھ لیا کہ اس نے ہاتھی دیکھ لیا.چوتھے نے پیٹھ پر ہاتھ لگایا اور سمجھ لیا ملکہ

Page 153

1941 154 خطبات محمود کہ اس نے ہاتھی دیکھ لیا.جب بعد میں وہ سب ایک جگہ جمع ہوئے تو آپس میں بحث کرنے لگ گئے.ایک نے کہا کہ ہاتھی نرم نرم لچکدار اور موٹی سی چیز ہوتی ہے اور اس کے آگے ایک سوراخ ہوتا ہے.دوسرے نے کہا کہ بالکل غلط وہ تو ایک پتلی اور باریک سی چیز ہوتی ہے اور اس کے آگے بالوں کا گچھا ہوتا ہے.تیسرے نے کہا ہرگز نہیں وہ تو سیدھی آسمان کی طرف جاتی ہوئی ایک موٹی سی چیز ہوتی ہے.چوتھے نے کہا ہاتھی تم میں سے کسی نے بھی نہیں دیکھا وہ تو ایک ڈھول کی طرح چپٹی سی چیز ہوتی ہے.جس نے پیٹھ پر ہاتھ مارا تھا اس نے سمجھ لیا کہ ہاتھی ڈھول کی طرح چپٹی سی چیز ہوتی ہے، جس نے دم پر ہاتھ مارا تھا اس نے خیال کر لیا کہ وہ ایک پتلی اور باریک سی چیز ہوتی ہے جس کے آگے بالوں کا گچھا ہوتا ہے.جس نے سونڈ پر ہاتھ رکھا تھا اس نے سمجھ لیا کہ وہ ایک نرم نرم لچکدار اور موٹی سی چیز ہوتی ہے اور اس کے آگے ایک سوراخ ہوتا ہے اور جس نے اس کی ٹانگوں پر ہاتھ مارا تھا اس نے سمجھ لیا کہ وہ آسمان کی طرف جاتی ہوئی ایک موٹی سی چیز ہوتی ہے.یہی الله حال ان احمدیوں کا ہے جنہوں نے قرآن اور رسول کریم صلی ایم کی احادیث اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام کی کتابوں کو اچھی طرح نہیں پڑھا.انہوں نے احمدیت کو بھی نہیں دیکھا بلکہ احمدیت کے کسی کونے کو دیکھا ہے.جب ہم لیکچر دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ احمدیت ایک نہایت ہی قیمتی چیز ہے اسے ضائع مت کرو اور اس کی قدر و قیمت کو سمجھو تو وہ حیران ہوتے ہیں اور اپنے دلوں میں کہتے ہیں کہ یہ کیوں ہمیں دھوکا دے رہے ہیں.احمدیت تو ایک معمولی سی چیز ہے.رہی رہی، رہی نہ رہی.ان کا احمدیت کے ساتھ اخلاص صرف اتنا ہی ہوتا ہے جتنا کسی کو اپنی قوم کی بیچ ہوتی ہے.وہ اپنے آپ کو احمدی کہیں گے.احمدیت کے لئے بعض دفعہ لڑنے کے لئے بھی تیار ہو جائیں گے مگر یہ نہیں سمجھیں گے کہ احمدیت ایک ایسی چیز ہے جس کے ساتھ نہ صرف ان کا، نہ صرف ان کی اولادوں کا بلکہ قیامت تک ان کی تمام نسل کا سکھ اور آرام وابستہ ہے اور نہ صرف اس جہان کا سکھ اور آرام

Page 154

1941 155 خطبات محمود رو احمدیت سے ہے بلکہ اگلے جہان کا سکھ اور آرام بھی احمدیت سے ن ہی ہے.ان کے نزدیک احمدیت صرف اس بات کا نام ہے کہ زید نے ان کے ساتھ کیسا سلوک کیا.اور بکر نے ان کے ساتھ کیسا سلوک کیا اور جب ان کے ساتھ کوئی حسن سلوک سے تو پیش نہیں آتا تو کہنے لگ جاتے ہیں کہ ہم نے احمدیت کو دیکھ لیا اور اس ایک یا شخصوں پر قیاس کر کے کہنے لگ جاتے ہیں کہ سارے احمدی ہی ایسے ہوتے ہیں گویا وہی نابینوں والی بات ان میں پائی جاتی ہے جن میں سے ایک نے سونڈ پر ہاتھ لگا کر سمجھ لیا تھا کہ اس نے ہاتھی بھی دیکھ لیا، دوسرے نے بھی دم پر ہاتھ لگا کر سمجھ لیا کہ اس نے ہاتھی دیکھ لیا، تیسرے نے ٹانگوں پر ہاتھ لگا کر سمجھ لیا تھا کہ اس نے ہاتھی دیکھ لیا اور چوتھے نے پیٹھ پر ہاتھ لگا کر سمجھ لیا تھا کہ اس نے ہاتھی دیکھ لیا.انہوں نے بھی نہ احمدیت کو دیکھا ہے اور نہ اس کی شکل و صورت کو.البتہ انہوں نے احمدیت کے ہاتھی کے کسی حصہ پر اپنا ہاتھ رکھا ہے اور یہ سمجھ لیا ہے کہ انہوں نے احمدیت کو دیکھ لیا مگر وہ لوگ جنہوں نے قرآن کو سمجھا ہے جو احادیث کو جانتے ہیں اور جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتابوں کو پڑھتے ہیں وہ جانتے ہیں کہ احمدیت ایک ایسی قیمتی چیز ہے کہ جس طرح ایک اکلوتے بچے والی ماں کو جو آپ بڑھیا ہو چکی ہو، اس اکلوتے بچے والی ماں کو جس کا بچہ چھوٹا ہو، اس اکلوتے بچے والی ماں کو جس کے پاس اپنے بچہ کے لئے چھوڑ جانے کے لئے کوئی مال و دولت نہ ہو رات دن اپنے بچہ کے متعلق دھڑکن لگی رہتی ہے اسی طرح بلکہ اس سے سے بھی زیادہ احمدیت کے متعلق ہر احمدی کے دل کو دھڑکن لگی رہنی چاہئے.وہ جنہوں نے نابینوں کی طرح احمدیت کو دیکھا، جنہوں نے دم کو ہاتھ لگایا یا سونڈ کو ہاتھ لگایا یا پیٹھ کو ہاتھ لگایا یا ٹانگوں کو ہاتھ لگایا اور سمجھ لیا کہ انہوں نے احمدیت کو دیکھ لیا.وہی ہیں جو ٹھوکریں کھاتے پھرتے ہیں اور آج اگر کچھ عقیدہ رکھتے ہیں تو کل کوئی تو کل کوئی اور عقیدہ رکھنے لگ جاتے ہیں اور بعض دفعہ تو اس قسم کے نابینا احمدی ایسی مضحکہ خیز حرکت کرتے ہیں کہ وہ کسی مخلص احمدی کی زندگی کو بھی

Page 155

1941 156 خطبات محمود نہیں دیکھتے بلکہ کسی منافق کی زندگی پر قیاس کر کے خیال کر لیتے ہیں کہ یہی احمدیت ہے جس کے معنے یہ ہیں کہ انہوں نے ہاتھی کی دم کو بھی ہاتھ نہیں لگایا، انہوں نے ہاتھی کے سونڈ کو بھی ہاتھ نہیں لگایا، انہوں نے ہاتھی کے پاؤں کو بھی ہاتھ نہیں لگایا ، انہوں نے ہاتھی کی پیٹھ کو بھی ہاتھ نہیں لگایا بلکہ انہوں نے ہائی کے گوبر کو ہاتھ لگا کر سمجھ لیا کہ انہوں نے ہاتھی دیکھ لیا.پس تم ان لوگوں کو جانے دو.ان کے سوا جو لوگ سچے طور پر احمدیت کو قبول کئے ہوئے ہیں وہ جانتے ہیں کہ احمدیت ایک ایسا قیمتی مال ہے کہ اس کی حفاظت کے لئے اگر ہمیں اپنی جانیں بھی قربان کرنی پڑیں تو یہ ایک معمولی قربانی ہو گی.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ احمدیت خدا تعالیٰ کا قائم کردہ سلسلہ ہے اور اس میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ اسلام اور احمدیت کی ترقی کا خدا نے وعدہ کیا ہوا ہے لیکن اگر کیا ہوا ہے لیکن اگر احمدیت ہمارے ہاتھ سے نکل جائے تو اس کے دنیا میں رہ جانے سے ہمیں کیا خوشی ہو سکتی ہے.پھر یہ بات بھی بالکل غلط ہے کہ سچائیاں ہر حالت اور ہر صورت میں ہمیشہ قائم رہتی ہیں.سچائیاں اسی وقت تک قائم رہتی ہیں جب تک ان کو قائم رکھنے کی لوگ کوشش کرتے رہتے ہیں.آخر اسلام اپنے پہلے نزول میں کب ہمیشہ رہا؟ اور کیا رسول کریم صلی الیم کے بعد یزید جیسے لوگوں نے اسے کھیل نہیں بنا لیا اور کیا بعد میں آنے والے فقہاء اور علماء نے فقہ اور علم کے نام سے اسلام کے پرخچے نہیں اڑائے؟ یہ پہلے بھی ہوا اور اب بھی ہو سکتا ہے بلکہ اس وقت بھی ہو رہا ہے.چنانچہ پیغامی یہی کچھ کر رہے ہیں، مصریوں نے بھی یہی کچھ کیا اور کر رہے ہیں.چند سال ہوئے اسی ممبر پر رے ہو کر میں نے مصری صاحب کا ایک اشتہار دوستوں کو پڑھ کر سنایا تھا جس میں انہوں نے لکھا تھا کہ عقائد وہی صحیح ہیں جو جماعت احمدیہ قادیان کے ہیں اور میں ان عقائد پر قائم ہوں.میرا اختلاف صرف موجود خلیفہ سے ہے لیکن ابھی اس پر زیادہ عرصہ نہیں گزرا.ہم بھی زندہ ہیں مصری صاحب بھی زندہ ہیں.ان کا وہ اشتہار بھی موجود ہے مگر آج ان کی یہ حالت ہے کہ اسی سال لاہور میں پیغامیوں

Page 156

* 1941 157 خطبات محمود کے جلسہ پر انہوں نے تقریر کی جس میں کہا کہ مرزا صاحب اور پہلے اولیاء امت کی نبوت ایک سی ہے صرف زیادہ اور تھوڑے نمبروں کا فرق ہے.پھر یہی وہ شخص تھا جس نے کہا تھا کہ میں مسئلہ خلافت کے خلاف نہیں صرف نئے خلیفہ کے انتخاب پر میں زور دیتا ہوں.مگر اب وہی شخص یہ عقیدہ رکھتا ہے کہ خلافت کوئی چیز نہیں.آخر وجہ کیا ہے کہ میری عداوت کی وجہ سے ان کا مذہب بدل گیا اور ان کے عقائد میں ایسا عظیم الشان تغیر پیدا ہو گیا.قرآن نہیں بدلا، حدیثیں نہیں بدلیں، حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتابیں نہیں بدلیں.وہی آیات جو پہلے قرآن میں موجود تھیں اب بھی ہیں، وہی حدیثیں جن سے پہلے اجرائے نبوت ثابت جاتی تھی اب بھی ہیں اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وہی تحریریں جن سے پہلے خلافت کا مسئلہ ثابت ہوتا تھا اب بھی ہیں پھر وجہ کیا ہے کہ ان کے عقائد بدل گئے اور میری مخالفت کی وجہ سے انہیں قرآن کے بھی اور معنے نظر آنے لگ گئے، حدیثوں کا بھی اور مفہوم دکھائی دینے لگ گیا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تحریروں کا بھی کچھ اور مطلب بتایا جانے لگا.آخر یہ کیا بات ہے کہ قرآن کی وہ حصہ آیتیں جن سے پہلے وہ ہماری تائید میں استدلال کیا کرتے تھے اب ان کے معنے ان کے نزدیک کچھ اور ہو گئے ہیں اور وہی حدیثیں جن سے پہلے ہمارے دعاوی کی تصدیق کی جاتی تھی اب ان کا مفہوم ان کے نزدیک کچھ اور ہو گیا ہے.صاف پتہ لگتا ہے کہ ان کے دل کے زنگ کی وجہ سے خدا تعالیٰ نے یہ فیصلہ کیا کہ نیکی کا ایک جب انہوں نے خود چھوڑ دیا ہے تو نیکی کا دوسرا حصہ جو اعتقاد کے ساتھ تعلق رکھتا ہے وہ ہم چھڑا دیتے ہیں جیسے فرماتا ہے طَبَعَ الله عَلى قُلُوبِهِمْ -5 یہی پیغامیوں کا حال ہے.انہوں نے بھی اپنی تحریروں میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بار بار نبی، مقدس نبی، برگزیده رسول اور نجات دہندہ وغیرہ لکھا بلکہ پیغمبر آخر الزمان اور نبی آخر الزمان“ 6 کے الفاظ بھی آپ کے متعلق استعمال کئے جو ہم بھی استعمال نہیں کرتے مگر اب ان کا سارا زور اس بات پر صرف ہو رہا ہے

Page 157

خطبات محمود 158 1941 کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام نبی نہیں تھے.تو ایمان میں بگاڑ بھی پیدا ہو جاتا ہے اور مومنوں کا یہ فرض ہوتا ہے کہ وہ ایمان کو زور سے قائم رکھیں.ایمان صرف خدا ہی قائم نہیں رکھتا بلکہ انسان کی اپنی جد و جہد کا بھی اس میں دخل ہوتا ہے.جب تک کسی کے اندر ایمان رہتا ہے اس وقت تک اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایقان کی صورت بھی پیدا ہوتی رہتی ہے اور جب کسی کا ایمان متزلزل ہو جاتا ہے تو ایقان کی صورت بھی جاتی رہتی ہے یہی وجہ ہے کہ انسان ایک وقت تو سمجھتا ہے کہ اگر میرے جسم کی بوٹیاں بوٹیاں بھی اڑا دی جائیں تو میں اپنے عقیدہ کو نہیں چھوڑ سکتا مگر دوسرے وقت یہ حالت نہیں رہتی.صاف پتہ لگتا ہے کہ کوئی چیز ہوتی ہے جو غائب ہو جاتی ہے.آخر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نبوت پر مصری صاحب کو جو پہلے ایمان تھا یا مولوی محمد علی صاحب کو جو پہلے ایمان تھا اس کی موجودگی میں وہ یہ کس طرح کہہ سکتے تھے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نبی نہیں یا ایسے ہی ہیں جیسے باقی مجدد ہیں یا یہ کس طرح ہو سکتا تھا کہ ایک وقت تو کہتے کہ خلافت ضروری ہے اور حضرت خلیفہ اول کی بیعت بھی کرتے مگر دوسرے وقت کہہ دیتے کہ خلیفہ کی کوئی ضرورت نہیں.آخر جو حالات پہلے تھے وہ تو نہیں بدل گئے، جو حوالجات پہلے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نبوت کو ثابت کر رہے تھے اب بھی موجود ہیں اور جس ضرورت کی بناء پر حضرت خلیفہ اول کی خلافت کو تسلیم کیا گیا تھا وہی اب بھی ہے پھر جبکہ حالات وہی ہیں اور ان کے عقائد وہ نہیں ہیں تو معلوم ہوا کہ ان کے دل کی حالت ہی بدل گئی ہے اور خدا تعالیٰ نے ان کے دلوں سے وہ یقین نکال لیا ہے جو ایمان کا نتیجہ ہوتا ہے.پس ایمان کی حفاظت کرنا بندوں کا بھی کام ہے.اس شخص سے زیادہ کوئی جاہل اور احمق نہیں جو یہ کہے کہ یہ خدا کی چیز ہے اور خدا اس کی آپ حفاظت کرے گا.یہ ایک خطرناک نادانی ہے جب خدا نے ایک چیز کی حفاظت ہمارے سپرد کی ہے اور ہم اس کی حفاظت نہیں کرتے تو ہم غدار اور باغی ہیں نہ کہ خدا تعالیٰ پر توکل کرنے والے.وہ

Page 158

خطبات محمود 159 1941 پس احمدیت چاہتی ہے کہ ہم ہر قسم کی قربانی کریں.آجکل جنگ کی وجہ سے چونکہ خطرہ بہت زیادہ بڑھ گیا ہے اس لئے قربانیوں میں بھی پہلے سے بہت زیادہ حصہ لینے کی ضرورت ہے مگر ہمارے پاس کون سے ہوائی بیڑے ہیں کہ جن سے ہم اس خطرہ کو دور کر سکتے ہیں.ہمارے پاس نہ فوجیں ہیں، نہ تو ہیں ہیں، نہ ہوائی جہاز ہیں، نہ گولہ بارود ہے.ہمارے پاس صرف دعا کا ہتھیار ہے اور اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اس سے بڑا ہتھیار اور کوئی نہیں بشرطیکہ دعا اخلاص کے ساتھ کی جائے، بشر طیکہ انسان کے دل میں تڑپ ہو اور بشر طیکہ اسے یہ فہم ہو کہ احمدیت خطرے میں ہے.اگر یہ حالت ہو تو دعاؤں کی قبولیت بہت زیادہ یقینی ہوتی ہے لیکن یونہی ہاتھ اٹھا لینا یا زبان سے چند الفاظ کہہ دینا دعا نہیں ہوتی.ایسی دعا انسان کے ٹمنہ پر ماری جاتی ہے.پس اس خطرہ کے زمانہ میں میں پھر جماعت کے دوستوں کو ہوشیار کرتا ہوں اور انہیں توجہ دلاتا ہوں کہ وہ دعاؤں میں مشغول ہو جائیں.حکومت کی طرف سے ہندوستان میں دعا کے لئے ایک دن مقرر کیا گیا ہے اس دن بھی بے شک جلسہ کر لیا جائے اور دعائیں مانگی جائیں لیکن وہ دن اتوار کا ہے اور کوئی وجہ نہیں کہ ہم اپنی دعا کے لئے بھی اتوار کو ہی مخصوص کریں.اگر عیسائی اس دن کو مقدس سمجھتے ہیں تو یہ اس بات کی کوئی دلیل نہیں کہ ہم بھی اسی دن کو ترجیح دیں.اور میں تو سمجھتا ہوں اب وقت آگیا ہے کہ ہمیں عیسائیوں سے صاف طور پر کہہ دینا چاہئے کہ ہمارا مذہبی احترام جمعہ کے ساتھ وابستہ ہے اور اگر وہ ہمارا تعاون حاصل کرنا ہتے ہیں تو ان کا فرض ہے کہ وہ ہمارے مذہبی احساسات کو ملحوظ رکھیں.مگر حالت ہے کہ پنجاب میں جہاں مسلمانوں کی آبادی باقی تمام اقوام سے زیادہ ہے اور جس کا وزیر اعظم بھی مسلمان ہے جس کے متعلق ہندو یہ شور مچاتے رہتے ہیں کہ وہ ہندو کش ہے اس پنجاب میں مسلمانوں کو جمعہ کی نماز کے لئے بھی عام چھٹی نہیں دی جاتی.آخر اسلام اور مسلمانوں کے ساتھ یہ حقارت کا سلوک کب تک چلا جائے گا

Page 159

1941 160 خطبات محمود اور کیا وجہ ہے کہ عیسائیوں اور ہندوؤں کے تو ان جذبات کا احترام کیا جائے جو اتوار کے ساتھ وابستہ ہیں مگر مسلمانوں کے ان جذبات کا احترام نہ کیا جائے جو جمعہ کے ساتھ وابستہ ہیں.پس اس دن بھی بے شک جلسہ کرو مگر ہم الگ بھی دعا کے لئے جمعہ کا کوئی دن مقرر کریں گے جو ہمارے لئے قبولیت دعا کا دن قرار دیا گیا ہے.رسول کریم صلی علی کرم فرماتے ہیں کہ ہر جمعہ کی نماز سے لے کر خطبہ کے ختم ہونے تک ایک ایسی گھڑی آتی ہے کہ جس میں بندے کے دل سے جو دعا بھی نکلتی ہے وہ قبول ہو جاتی ہے.7 پس حکومت کے نظام کے ساتھ تعاون کرتے ہوئے اتوار کے دن بھی جلسے کئے جائیں مگر کسی جمعہ کو بھی خاص طور پر دعا کی جائے کہ اللہ تعالیٰ فتنہ و فساد کی آگ سے تمام دنیا کو بچائے خصوصاً اسلام اور احمدیت کی حفاظت کرے اور ان خطرات کو مٹا دے جو اسلام اور احمدیت کی ترقی اور آسانی اور سہولت کے ساتھ ترقی میں روک ہوں.میں آئندہ دعا کے لئے چار اپریل جمعہ کا دن تجویز کرتا ہوں دوستوں کو چاہئے کہ جمعرات کو روزہ رکھیں اور اس دن تہجد میں خاص طور پر الگ الگ یا مل کر دعا کریں اور پھر جمعہ کے دن جمعہ کی نماز میں خصوصیت کے ساتھ دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ اس جنگ کے بد اثرات سے سب دنیا اسلام اور احمدیت کو محفوظ رکھے اور انگریزوں کی مشکلات کو بھی دور فرمائے.یہ دعا جمعہ کی آخری رکعت میں رکوع سے قیام کے وقت مانگی جائے تاکہ ایک وقت میں سب نمازی اس دعا میں شامل ہوں اور اخلاص کے ساتھ اور دیر تک مانگی جائے.” الفضل 28 مارچ 1941ء ) الفضل 28 جون 1940ء 2 الفضل 13 جنوری 1938ء رپورٹ مجلس مشاورت 1927ء صفحہ 179 4 رپورٹ مجلس مشاورت 1928ء صفحہ 139 5 النحل: 109 ، محمد : 17

Page 160

1941 161 خطبات محمود 6 ریویو جلد 6 صفحہ 81 ، 99 1 بخارى كتاب الجمعة باب الساعة التي فِي يَوْمِ الجمعة

Page 161

1941 162 (11) خطبات محمود بعض شکایات اور ان کے جوابات (فرمودہ 28 مارچ 1941ء) تشہد، تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:.“ آج میرے پاس ایک دوست نے کچھ شکایات بھجوائی ہیں جو ایک ناظر کے متعلق ہیں.ان کا کچھ حصہ تو ذاتی ہے اور کچھ دفتری.دفتری شکایات کے متعلق صدر تو قاعدہ یہ ہے کہ اگر کوئی کارکن اپنے افسر کے فیصلہ کے خلاف اپیل کرنا انجمن احمدیہ کے پاس کرے اور اس کے فیصلہ کے خلاف اپیل کرنا چاہے تو خلیفہ وقت کے پاس کر سکتا ہے.خلیفہ کے پاس اپیل کے متعلق قواعد سے بھی بعض لوگ واقف نہیں.اور میں نے دیکھا ہے کہ بعض کارکن بھی انجمن کے فیصلہ کے خلاف اپیل براہ راست مجھے بھیج دیتے ہیں حالانکہ قاعدہ یہ ہے ایسی اپیل بھی انجمن کے واسطہ سے آنی چاہئے.بعض خیال کرتے ہیں کہ انجمن چونکہ خلاف فیصلہ اس لئے شاید اپنے فیصلہ کے خلاف اپیل میرے پاس نہ پہنچنے دے اور روک لے.حالانکہ قانون یہ ہے کہ وہ ایسی اپیل کو روک نہیں سکتی.اس کی وساطت سے آنے کے معنے صرف یہ ہیں کہ وہ اپنا جواب بھی ساتھ شامل کر دے اور وقت ضائع نہ ہو.ورنہ صدر انجمن کو یہ اختیار نہیں کہ وہ میرے پاس کسی اپیل کو آنے ہے سے روک دے اور کہہ دے کہ ہم یہ اپیل اوپر نہیں اس دوست کی شکایات کا جو حصہ دفتری ہے اس کے متعلق تو نہ میں کچھ کہہ سکتا ہوں اور نہ کہنا چاہتا ہوں اس لئے کہ وہ خلاف قاعدہ بھی ہے اور اس کا

Page 162

1941 163 خطبات محمود اور تعلق دوسروں کے ساتھ بھی نہیں مگر بعض باتیں ایسی ہیں کہ ممکن ہے بعض لوگوں کے دلوں میں بھی ویسے خیالات ہوں.اس لئے میں نے مناسب سمجھا کہ خطبہ میں ان کے متعلق بعض باتیں بیان کر دوں.ایک شکایت یہ ہے کہ ایک ناظر نے مسجد میں فلاں آدمی سے کہا کہ میرے پیر دبا دو.اگر تو یہ شکایت ہوتی کہ ناظر جہاں بیٹھتے ہیں لوگوں کو اکٹھا کر لیتے ہیں کہ آؤ ہمارے پیر دباؤ تو یقینا یہ قابل اعتراض بات تھی اور میرے لئے اس کے تدارک کا فکر کرنا لازمی ہوتا لیکن کسی ایک ناظر کا ایک مرتبہ کسی خاص شخص.ایسا کہنا ایک ایسی بات ہے کہ میری سمجھ میں نہیں آ سکتا کہ اس میں شکایت کی کیا بات ہے.دبوانے کا رواج ہمارے ملک میں عام ہے.بیمار بھی دبواتے ہیں، دوستوں کو دوست اپنی خوشی سے بھی دباتے ہیں.ہم نے سینکڑوں کو ایک دوسرے کو دباتے دیکھا ہے.جو شکایت کی گئی ہے ممکن ہے جس نے کہا ہو وہ ناظر کا دوست ہی ہو یا اس کے ساتھ اور کسی رنگ میں ایسے تعلقات ہوں کہ دبانے کو کہہ دیا.ناظر قطع نظر اس سے کہ وہ ناظر ہے انسان بھی ہے اور ہر انسان کے دوست ہوتے ہیں.دوست دوستوں کو دباتے بھی ہیں، ملنے والے بھی دبا دیتے ہیں.ایک آدمی کمزور ہوتا ہے تو بعض دفعہ دوسرے سے کہہ دیتا ہے کہ مجھے ذرا دبا دو.ہم نے تو بیسیوں دفعہ دیکھا ہے کہ ایک شخص دوسرے سے کہہ دیتا ہے کہ میری کمر میں درد ہے ذرا دبا دو.اس میں تکبر ، حکومت کا رعب، ناجائز دباؤ یا نظارت کا کوئی تعلق نہیں اور اس میں شکایت کا کوئی پہلو میں نہیں سمجھ سکا.ہاں اگر تو وہ ناظر یا دوسرے ناظر جہاں بیٹھیں لوگوں کو بلائیں کہ آکر ہمیں دباؤ تو شکایت کی بات ہے.یا ایسے لوگوں سے دبوائیں جن سے ان کا کوئی تعلق نہ ہو صرف ناظر ہونے کی وجہ سے وہ احمدیوں کو دبوانے کو کہیں تب بھی ان کا یہ رویہ قابل اعتراض کہلا جو بات عام انسان کرتے ہیں ویسے ہی حالات میں وہ بات ایک ناظر کے متعلق شکایت کیونکر بن سکتی ہے.ایک زمیندار ڈنٹر پیلتا ہے تو کسی دوست سے سکتا ہے.مگر

Page 163

1941 164 خطبات محمود کہہ دیتا ہے مجھے مالش کر دو.اس طرح لوگ ہر روز ایک دوسرے کے ساتھ کرتے ہیں مگر اس میں نہ کوئی ناجائز دباؤ ہے نہ تکبر ہے اور نہ حکومت کے رعب کی کوئی بات ہے.کسی ناظر کا دوست ہو، واقف ہو یا اس سے اور کوئی لین دین کا تعلق ہو اسے اگر اس نے کہہ دیا کہ ذرا میرے پیر دبا دو تو یہ کوئی شکایت کی بات نہیں.اس شخص نے اس ناظر کا بھی ایک ہی ایسا واقعہ لکھا ہے.گویا ساری عمر میں اس نے ایک ہی مرتبہ اور ایک ہی شخص سے ایسا کہا اور یہ بات بھی دو سال کی ہے.اسے شکایت کا رنگ دینا ایسی بات ہے جو میری سمجھ میں نہیں آ سکی.اگر یہ تکبر ہے تو اس سے کوئی بھی خالی نہیں شاید ہزار میں سے ایک ہو جو کبھی بھی اپنے دوستوں یا واقفوں سے ایسی خدمت نہ لیتا ہو.طبیعت خراب ہو تو بیویاں خاوندوں کو دباتی ہیں اور خاوند بیویوں کو.سینکڑوں مرتبہ میری بیوی نے مجھے دبایا ہو گا اور بیسیوں مرتبہ میں نے ان کو دبایا ہو گا.دوست دوستوں سے سلوک کرتے ہیں اور اگر یہ سلوک نہ رہے تو انسان انسان نہیں بلکہ وحشی بن جائے.انسانوں کے انسانوں سے تعلقات ہوتے ہیں.کیا ایسا ہونا چاہئے کہ جو ناظر بن جائے وہ ہر ایک کو گتے کی طرح بھونکتا پھرے.ہم اسے تکبر سے تو روک سکتے ہیں مگر انسانیت سے خارج نہیں کر سکتے.وہ بھی اسی طرح کا انسان ہے جیسے دوسرے اور اسے بھی اپنے دوستوں سے خدمت لینے ، فائدہ اٹھانے یا فائدہ پہنچانے کا اسی طرح حق ہے جیسے دوسرے انسانوں کو.اس میں نہ کوئی تذلیل ہے نہ تحقیر.ساری دنیا میں یہ کام ہو رہا ہے.بچہ ماں باپ سے ماں باپ بچوں سے، دوست دوستوں سے چھوٹے بھی اور بڑے بھی اس قسم کے سلوک ایک دوسرے سے کرتے ہیں.اس میں اعتراض کی کوئی بات نہیں بلکہ بعض لوگ تو ایسے ہوتے ہیں کہ ان سے اگر خدمت نہ لی جائے تو وہ ہتک اور تکلیف محسوس کرتے ہیں.یہاں بھائی عبد الرحمان صاحب قادیانی ہیں میں جب سے ان کو جانتا ہوں میں نے دیکھا ہے کہ ان کو دوستوں کی خدمت کا شوق اور جوش ہے.اب تو یہاں کی

Page 164

1941 165 خطبات محمود آبادی وسیع ہو گئی ہے اور حالت بدل گئی ہے مگر جب یہاں احمدی تھوڑے تھے مجھے یاد ہے کوئی شادی بیاہ ہو یا اور کوئی تقریب ہو.بھائی جی وہاں خدمت کے لئے موجود ہوتے اور دوست بھی ان سے کہتے کہ بھائی جی! یہ کام کر دیں.اس کا یہ مطلب نہیں کہ یہاں متواضع صرف وہی تھے باقی سب متکبر تھے بلکہ ان میں خدمت کرنے کی خواہش اور شوق تھا اور وہ اسے حقیقی بھائی ہونے کی علامت سمجھتے اور لوگ بھی اپنے کام کے لئے یا ان کے دلی شوق کو دیکھتے ہوئے ان سے دیتے.سالہا سال تک یہی حالت رہی کہ کوئی مجلس ہو یا کوئی دعوت ہو بھائی جی وہاں کھڑے کام کر رہے ہیں.ان کی طبیعت کا میلان اسی طرف ہے کہ وہ خدمت کے رنگ میں دوستوں سے سلوک کرنا چاہتے ہیں اور لوگ بھی ان کے جوش یا اپنے کام کے لئے ان کو کہہ دیتے تھے.میں مسجد میں بیٹھتا ہوں تو بیسیوں لوگ دبانے کی کوشش کرتے ہیں اور ان کو اس سے روکا جائے تو وہ تکلیف محسوس کرتے ہیں.ایسے لوگ خدمت کرنے کو تکلیف اور ہتک نہیں سمجھتے بلکہ اگر ان کو اس سے روکا جائے تو ہتک سمجھتے اور تکلیف محسوس کرتے ہیں.آجکل تو میں نے دعوتیں بند کی ہوئی ہیں.مگر پھر بھی بعض لوگ خط لکھتے رہتے ہیں اور پیچھے پڑ جاتے ہیں کہ ضرور منظور کریں.اور میں کہتا ہوں کہ اگر ایک کی منظور کروں تو دوسرے کو کیا جواب دوں.دو ہی صورتیں ہو سکتی ہیں یا تو اسے کہوں کہ فلاں شخص اخلاص میں بہت بڑھا ہوا تھا اس لئے اس کی دعوت منظور کر لی اور یا یہ کہ وہ منافق تھا اس لئے منظور کر لی کہ اسے ابتلاء نہ آئے.اور دونوں صورتیں دونوں میں سے ایک کے لئے تکلیف دہ ہیں.اس لئے میں نے یہ سلسلہ ہی بند کیا ہوا ہے سوائے اس کے کہ کوئی میرا جسمانی رشتہ دار بھی ہو.بعض لوگ اس پر بھی اعتراض کر دیتے ہیں کہ آپ فلاں رشتہ دار کے ہاں گئے تھے.ان کو معلوم نہیں کہ رشتہ داروں کے بھی اللہ تعالیٰ نے حقوق رکھے ہیں اور روحانی و جسمانی دونوں رشتے جہاں ہوں وہاں رشتہ داری کے لحاظ سے بعض حقوق بھی ادا کرنے ضروری ہیں اور ان پر اعتراض کرنا

Page 165

خطبات محمود نادانی.ہے.166 1941 آنحضرت صلى ال عالم اپنی ازواج مطہرات کے ہاں روز جاتے تھے مگر کیا دوسرے لوگوں کے ہاں بھی روز جاتے تھے ؟ جس طرح دوسرے لوگ بیٹوں کی خدمت کرتے ہیں میرا بھی فرض ہے کہ اپنے بیٹوں کی خدمت کروں اور اس پر کسی کو اعتراض کا حق نہیں.قریبی رشتہ داروں سے حسن سلوک صلہ رحمی میں داخل ہے جس کا اسلام نے خاص طور پر حکم دیا ہے اور اس لئے میں مجبور ہوں کہ ان کو مستثنیٰ رکھوں.جو لوگ مجھے دعوت دیتے ہیں وہ کھانا کھلانے کے لئے ہی دیتے ہیں مجھ سے کچھ مانگتے تو نہیں.زیادہ نہیں تو مجھ پر دو تین آنے تو ضرور خرچ ہوتے ہوں گے مگر ان کو یہ خرچ کرنے میں زیادہ راحت ملتی ہے اور نہ کرنے میں تکلیف.اب اگر کوئی یہ شور مچانے لگے کہ بڑا اندھیر ہو گیا آپ نے فلاں شخص کی دعوت منظور کر کے اس کا خرچ زیادہ کرا دیا تو یہ اس کی حماقت ہو گی.یہاں ایک غریب احمدی تھا وہ سالہا سال میرے پیچھے پڑا رہا کہ میری دعوت منظور کریں اور میں ٹالتا رہاتا اسے تکلیف نہ ہو.مگر پھر میں نے محسوس کیا کہ اسے یہ احساس ہو رہا ہے کہ اس کی غربت کی وجہ سے میں انکار کرتا ہوں اس لئے میں مان گیا.اس کے مکان پر گیا اس بے چارے کے ہاں کوئی سامان وغیرہ بھی نہ تھا چٹائی تھی جس اس نے مجھے بٹھا دیا.میرے اکیلے کی دعوت تھی.اس نے ایک کٹورے میں سالن لا کر میرے آگے رکھ دیا.میں جب کھا کر باہر نکلا تو دروازہ پر ہی ایک دوست مل گئے ان کو اعتراض کرنے کی بہت عادت تھی کہنے لگے کہ آپ ایسے غریبوں کی دعوت بھی قبول کر لیتے ہیں.ان کا مطلب یہ تھا کہ آپ نے اس غریب پر خواہ مخواہ بوجھ ڈالا ہے حالانکہ وہ کئی سال پیچھے پڑا رہا اور میں ٹالتا رہا اور پھر جب اس کے اندر احساس پیدا ہوا کہ غریب سمجھ کر میں نہیں مانتا تو میں اس کے ہاں گیا مگر باہر نکلتے ہی اس دوسرے دوست نے اعتراض کر دیا کہ آپ ایسے غریبوں کی دعوت بھی مان لیتے ہیں.میں نے کہا کہ ہاں ماننی پڑ ہی جاتی ہے.

Page 166

1941 167 خطبات محمود تو دیکھو دونوں کے نقطہ نگاہ میں کتنا اختلاف ہے.ایک میرے نہ ماننے سے تکلیف محسوس کرتا تھا اور دوسرے نے ماننے کو قابل اعتراض سمجھ لیا اور میں دونوں کو تو خوش نہیں کر سکتا تھا ایک کو ہی کر سکتا تھا.تو ایسے اعتراضات عقل کے خلاف ہیں.انسانوں کے ساتھ انسانوں کے تعلقات ہوتے ہی ہیں اور ناظر بھی انسان ہیں.ناظر بنتے ہی کوئی شخص جانور تو نہیں بن جاتا.ہاں اگر یہ ثابت ہو کہ ناظر یہاں بیٹھتے ہیں لوگوں کو اکٹھا کرتے ہیں کہ آؤ ہمارے پیر دباؤ تو اعتراض کی بات ہو سکتی ہے.مگر کسی ناظر کا ایک مرتبہ کسی ایسے شخص کو جس پر ممکن ہے اس کے احسان ہوں ایسا کہنا کوئی شکایت کی بات نہیں.وہ دوسری شکایت یہ ہے کہ اس ناظر نے فلاں کلرک کے متعلق کہا کہ خود کاغذ لے کر آئے اور میرے سامنے خود پیش کرے.اب تو یہ بات ظاہر ہو چکی ہے اس لئے میں بتا دیتا ہوں کہ یہ جھگڑا میرے تک آ چکا ہے اور اس کا فیصلہ میں نے ہی کیا تھا.میرے نزدیک کسی کلرک کو یہ حق نہیں کہ وہ کہ ناظر چپڑاسی بھیج کر کاغذ منگوا لیا کرے میں خود لے جا کر پیش نہیں کروں گا.بعض دفعہ ان کاغذات میں سے کوئی بات سمجھنے والی ہوتی ہے اور کلرک جس نے وہ کام کیا ہو وہی سمجھا سکتا ہے.پس یہ بات عقل کے بالکل خلاف ہے کہ کاغذات چپڑاسی لے جائے اور کلرک خود پیش نہ کرے.بعض دفعہ میرے پاس بعض کاغذات آئے ہیں میں کہتا ہوں کہ ناظر اعلیٰ خود پیش کریں کیونکہ سمجھنے کی ضرورت ہوتی ہے اسی طرح ناظر کو بھی کوئی کاغذ بھیجنے کی ضرورت پیش آ سکتی ہے وہ عالم الغیب تو ہوتا نہیں اور سمجھا بھی وہی سکتا ہے جس کے ہاتھ سے کاغذ نکلا ہو اور اس پر کسی کلرک کو اعتراض کرنے کا کوئی حق نہیں.میرے پاس جو معاملہ آیا تھا اور میں نے ہی فیصلہ کیا تھا کہ اگر ناظر ضروری سمجھتا تھا تو کلرک کو ضرور جانا چاہئے تھا.ایسی باتوں کو ہتک سمجھنے والے کے لئے دفتر میں کام کرنے کی ضرورت نہیں.اسے چاہئے کہ

Page 167

1941 168 خطبات محمود اپنے گھر میں بیٹھا رہے.ایسی باتوں کو ہتک سمجھنے والا دفتر میں کام کرنے کے اہل ایک اور شکایت یہ کی گئی ہے کہ ایک دفعہ فلاں شخص دفتر میں بیٹھا تھا ناظر وہاں آیا اور اس سے کہا کہ تم کھڑے کیوں نہیں ہوئے جس شخص کے متعلق یہ واقعہ ہے وہ آجکل میرے ہی ماتحت ایک جگہ ملازم ہے میری ہی زمین پر ہے.اس لئے گویا میرا ہی ملازم ہے.میں نہیں کہہ سکتا کہ اس واقعہ کے وقت وہ دفتر میں ملازم تھا یا نہیں.اگر وہ ملازم نہ تھا اور ناظر نے یہ بات اسے کہی تو تکبر سے کام لیا.ناظروں کے لئے میرا یہ حکم ہے کہ اگر کوئی ان سے ملنے آئے تو کھڑے ہوں دوسروں کو نہیں.اور کسی ناظر کا کسی مہمان سے یہ کہنا کہ تم کھڑے کیوں نہیں ہوئے تکبر اور آداب کے خلاف ہے.لیکن اگر وہ شخص اس وقت انجمن کے دفتر میں کلرک تھا تو پھر اگر ایسا کہا تو درست کہا.یا تو ہم جماعتی لحاظ سے یہ فیصلہ کر دیں کہ کسی کا کسی کی تعظیم کے لئے کھڑا ہونا جائز نہیں اور یہ شرک ہے.ورنہ ہمیں یہ ماننا پڑے گا کہ افسر کے آنے پر کھڑا ہونا چاہئے ورنہ نظام قائم نہیں رہ سکتا.بعض علماء کا خیال ہے کہ کسی کی تعظیم کے لئے کھڑا ہونا جائز نہیں اور ہے.قاضی امیر حسین صاحب مرحوم بھی اسے شرک سمجھتے تھے.حضرت مسیح موعود علیه الصلوة و السلام تشریف لاتے تو دوست تعظیم کے لئے کھڑے ہو جاتے مگر قاضی صاحب مرحوم اسے شرک کہتے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام کے سامنے تو نہیں مگر بعد میں دوستوں کو الگ الگ اس سے روکتے تھے.ایک دفعہ آپ نے میری معرفت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام کو یہ پیغام بھجوایا کہ یہ شرک کی بات ہے آپ اس کو روک دیں.حضرت مسیح موعود و السلام نے یہ پیغام سن کر فرمایا کہ قاضی صاحب سے کہہ دو کہ بعض ایسے ہوتے ہیں کہ نیت ہو یا نہ ہو وہ شرک ہی رہتے ہیں اور بعض کام نیت کے ساتھ شرک بنتے ہیں اور تعظیماً کھڑا ہونا ان شرکوں میں سے نہیں کہ نیت ہو یا الصلوة

Page 168

1941 169 خطبات محمود کہنا کہ نہ ہو یہ شرک بن جائے.بعض شرک بے شک ایسے ہیں کہ نیت کے بغیر بھی شرک ہی رہتے ہیں مثلاً کسی انسان کو سجدہ کرنا یا گیارھویں دینا وغیرہ.مگر تعظیم کے لئے کھڑا ہونا ایسی بات نہیں کہ نیت کے بغیر بھی شرک ہو جائے.شرک اس وقت ہوتا ہے جب ارادہ مشرکانہ ہو محض محبت سے مجبور ہو کر شرک کے ارادہ اور نیت کے بغیر آپ ہی آپ کسی فعل کے سرزد ہونے کا نام شرک نہیں رکھا جا سکتا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام نے فرمایا کہ قاضی صاحب سے آنحضرت صلی الم کی وفات پر حضرت عائشہ کا ہاتھ بے اختیار ممنہ پر پڑا جیسے پیٹا جاتا ہے مگر معا آپ کو یاد آگیا کہ آنحضرت صلی علی کریم نے اس سے منع فرمایا ہے اور آپ فوراً رُک گئیں اور ان کے اس ہاتھ مارنے کو گناہ قرار نہیں دیا جا سکتا کیونکہ یہ ایک غیر ارادی فعل تھا جسے آپ نے خیال آتے ہی معاً چھوڑ دیا.پس اگر کوئی شخص یہ خیال کئے بغیر کہ اس انسان کے اندر خدا کی صفات جلوہ گر ہیں ملکی دستور کے مطابق تعظیم کے لئے بے اختیار کھڑا ہوتا ہے تو یہ شرک نہیں بلکہ آداب اور نیکی کا طریق ہے.میں نے یہ جواب قاضی صاحب کو پہنچا دیا اور وہ خاموش ہو گئے گو ان کے دل میں یہ بات کھٹکتی رہی.میرا اپنا طریق یہ ہے کہ مجھے کوئی بھی ملنے آئے میں کھڑا ہوتا ہوں.بعض اوقات نو مسلم دوست جو پہلے چوہڑے تھے ملنے آئے ہیں اور میں ان کے لئے بھی کھڑا ہوا ہوں.کوئی چپڑاسی بھی آئے اس کے لئے بھی کھڑا ہوتا ہوں.وہی میرے دفتر کا کلرک جو روز کاغذات پیش کرتا ہے اور ضرور تا عرصہ تک کھڑا رہتا ہے جب کسی ذاتی کام کے لئے ملنے آئے تو میں کھڑا ہو جاتا ہوں کاغذات دکھانے کے وقت تو وہ کھڑا رہتا ہے کیونکہ سامنے بیٹھ جائے تو کاغذات دکھا نہیں سکتا اس لئے پہلو میں کھڑا ہو کر دکھاتا ہے مگر وہی جب کسی ذاتی بات کے لئے آئے تو میں ضرور کھڑا ہوتا ہوں.ہزاروں لوگ مجھ سے ملتے ہیں.کوئی بتائے کہ کبھی ایسا ہوا ہو کہ مجھ سے کوئی ملنے آیا اور میں کھڑا نہ ہوا ہوں.سوائے اس کے کہ میں حد سے زیادہ بیمار ہوں اور کھڑا نہ ہو سکوں اور ایسے مواقع بھی

Page 169

1941 170 خطبات محمود ساری عمر میں پانچ سات ہی آئے ہوں گے.یا پھر جلسہ کے موقع پر کہ ہزاروں آدمی ملنے والے ہوتے ہیں اور اس پر عمل ناممکن ہوتا ہے.تو یہ ایک آداب کا يق ہے اور اس سے توجہ کا اظہار ہوتا ہے.اس لئے ناظروں کو بھی میرا یہی ہے کہ کسی کے آنے پر وہ اٹھ کر اسے ملیں اور اس لئے اگر افسر کے آنے پر کلرک کھڑا نہیں ہوتا تو افسر کے اسے پوچھنے پر شکایت کی کوئی وجہ نہیں اس کے لئے تو کھڑا ہونا زیادہ ضروری ہے کیونکہ وہ ناظر اس کا بھائی بھی ہے اور افسر بھی.اس لئے بلا کسی دغدغہ کے کھڑا ہونا چاہئے.ہاں جماعتی طور پر یہ قرار دے دیں کہ کے لئے کھڑا نہیں ہونا چاہئے تو اور بات ہے لیکن جبکہ یہ ایک آداب کا طریق ہے جس پر عمل ہوتا ہے.تو افسر کے آنے پر جو کلرک کھڑا نہیں ہوتا اگر وہ نادانستہ طور پر ایسا کرتا ہے تو بے سمجھ ہے اور اگر دانستہ کرتا ہے تو گستاخ ہے اور ناظر نے اگر اسے ٹوکا تو درست کیا اور اس کا اعتراض جائز تھا.خصوصاً جبکہ میں نے ناظروں کو بھی یہ ہدایت کی ہوئی ہے کہ کھڑے ہوں تا یہ احساس پیدا ہو کہ ناظر اپنے آپ کو بڑا نہیں سمجھتے اور جبکہ میں ہر ایک کے لئے کھڑا ہوتا ہوں اس کے باوجو د بھی اگر کوئی کلرک کام کے لئے اپنے افسر کے پاس کھڑا ہونے کو ہتک سمجھتا ہے تو وہ بے وقوف ہے.ایک اور شکایت یہ ہے کہ ایک شخص نے اس ناظر کو سلام نہ کیا تو اس نے اسے کہا کہ تم نے سلام کیوں نہیں کیا.اگر یہ بات درست تو یہ یقینا تکبر نہیں تو ناظر کی بے وقوفی ضرور ہے.وہ لوگوں سے زبر دستی سلام ہے پچاس نہیں کرا سکتا میں خود سیر کے لئے جاتا ہوں اور میں نے دیکھا ہے کہ اگر آدمی رستہ میں ملتے ہیں تو ان میں سے 25 سلام کرتے ہیں اور 25 نہیں.اگر آدمی ہر ایک سے پوچھتا پھرے کہ تم نے سلام کیوں نہیں کیا تو وہ تو باؤلہ کتا ہو جائے.رسول کریم صلی الی امر کا حکم یہی ہے کہ تم کسی کو پہچانو یا نہ پہچانو اسے السَّلَامُ عَلَيْكُمْ کہو.1 مگر اس میں کیا شک ہے کہ اس حکم کا نہ اس قدر وسیع مفہوم ہے اور نہ مسلمان ایسا وسیع عمل اس پر کرتے ہیں.اس کی وجہ یہ نہیں کہ اس حکم کی قدر نہیں کرتے

Page 170

1941 خطبات محمود ایک شخص 171 بلکہ بعض دفعہ خیال بھی نہیں ہوتا کہ کوئی پاس سے گزر گیا ہے اور جب ہم اپنے خیال میں بعض دفعہ گزر جاتے ہیں اور دوسرے کو دیکھتے بھی نہیں تو دوسرے کے متعلق یہ خیال کیوں نہ کریں کہ وہ بھی اپنے خیال میں گزر گیا ہو گا.میں نے دیکھا ہے کہ میں سیر کے لئے جاتا ہوں تو کئی دفعہ بعض لوگ پاس سے گزرجاتے ہیں اور مجھے پتہ بھی نہیں لگتا اور کسی کے بتانے سے علم ہوتا ہے کہ فلاں شخص گیا ہے.اگر میری یہ حالت ہو سکتی ہے تو دوسرے کی بھی ہو سکتی ہے.یہ خیال کرنا کہ دوسرا ضرور سلام کرے ورنہ وہ گستاخ ہے بے وقوفی کی بات ہے.اس صورت میں ناظر خود ہی سلام کیوں نہ کر دیں اور اس طرح دوسروں کے لئے نمونہ بنیں.یہاں تھا جو دماغی مریض تھا اور اسے یہ خیال تھا کہ میں بڑا آدمی ہوں اور کسی کو سلام نہیں کہتا تھا.بعض دوستوں نے مجھے بتایا کہ وہ کسی کو سلام نہیں کہتا تو میں نے ان سے کہا کہ تم خود اسے کیوں سلام نہیں کہہ دیتے.میں نے پہلے تو اس بات کا کوئی خیال نہ کیا تھا مگر اس شکایت کے بعد غور کیا تو دیکھا کہ وہ میرے پاس سے بھی گزرا اور سلام نہ کہا اس پر میں نے یہ کیا کہ جب وہ میرے سامنے آتا میں خود السَّلَامُ عَلَيْكُمْ کہتا اور تین چار بار ایسا کرنے کے بعد میں نے دیکھا کہ وہ جو نہی سامنے آتا فوراً السَّلَامُ عَلَيْكُمْ کہہ دیتا.تو اگر کوئی شخص سلام نہیں کہتا تو ناظر خود کیوں نہ اسے سلام کہیں.خدا تعالیٰ نے ہم کو معلم بنایا ہے اور ہمارا کام یہ ہے کہ دوسروں کو اخلاق سکھائیں.یہ کیا کہ کوئی سلام نہ کرے تو اسے پکڑیں کہ کیوں تم نے سلام نہیں کیا.یہ شکایت صحیح ہے تو اسے میں ناظر کی غلطی سمجھتا ہوں اور یہ ایسی غلطی ہے کہ اس خطبہ کو پڑھتے ہوئے بھی مجھے تو شرم سے پسینہ آ گیا کہ اسے یہ ضرورت کیونکر ہوئی کہ کسی سے ایسی بات کہے.یہ توایسی ہی بات ہے جیسے کسی سے کہا جائے کہ میری دعوت کرو.یہ نہایت ادنی اور ذلیل بات ہے اور اس معاملہ میں ناظر کی اتنی غلطی ہے کہ اسے پڑھتے ہوئے بھی مجھے ہوئی.آنحضرت صلی اللہ نام کے احکام سب کے لئے یکساں طور پر واجب العمل ہیں.T محسوس

Page 171

1941 172 خطبات محمود اگر کوئی دوسرا عمل نہیں کرتا تو خود کیوں نہ کریں؟ یہ احکام دوسروں کے لئے ہی نہیں بلکہ ہمارے لئے بھی ہیں.اگر تو آپ کا یہ حکم ہوتا کہ ضرور چھوٹا سلام کرے بڑا نہ کرے تو ہم مجبور ہوتے کہ عمر یا درجہ یا علم میں جو چھوٹا ہو اس کو سلام نہ کرنے پر پوچھیں کہ تم نے کیوں عمل نہیں کیا.مگر جب چھوٹے بڑے سب کے لئے یکساں حکم ہے تو یہ کیوں امید رکھیں کہ دوسرا کرے ہم نہ کریں.نیکی میں خود ابتدا کیوں نہ کریں؟ صحابہ تو نیکی میں پہل کرنے کا اس قدر خیال رکھتے تھے کہ میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے سنا ہے کہ ایک دفعہ حضرت امام حسن اور امام کسی بات پر آپس میں لڑ پڑے.دونوں بھائی بھائی تھے مگر بعض دفعہ کوئی ہو جھگڑے کی بات ہو جاتی ہے حضرت امام حسین کی طبیعت تیز تھی ان سے سختی گئی اور امام حسن برداشت کر گئے.رات کو کسی ذکر پر ایک صحابی نے بیان کیا کہ میں نے آنحضرت صلی الم سے سنا ہے کہ اگر کوئی اپنے بھائی سے صلح کرنے میں پہل کرے تو وہ پانسو سال پہلے جنت میں جائے گا.یہ بات سنتے ہی حضرت امام حسن ٹھے اور راتوں رات امام حسین کے مکان پر پہنچے اور دستک دی.امام حسین باہر آئے اور پوچھا کہ بھائی اس وقت کیسے آئے.امام حسن نے کہا کہ معافی مانگنے آیا ہوں.یہ سن کر ان کے دل میں بھی ندامت محسوس ہوئی اور کہا کہ معافی تو مجھے مانگنی چاہئے تھی مگر امام حسن نے کہا کہ ابھی میں نے یہ حدیث سنی تھی اور مجھے خیال آیا کہ سختی بھی آپ نے کی تھی اب ایسا نہ ہو کہ معافی مانگنے کا ثواب آپ ہی لے جائیں.اس لئے میں معافی مانگنے آ گیا ہوں.تو نیکی اس طرح قائم نہیں ہو سکتی کہ جہاں دونوں کو حکم ہو وہاں بھی ہم دوسرے کو پکڑ کر کہیں کہ تم نے اس حکم عمل کیوں نہیں کیا اور خود نہ کریں.قرآن کریم میں ایسے لوگوں کے متعلق آتا ہے کہ يُحِبُّونَ أَن يُحْمَدُوا مَا لَمْ يَفْعَلُوا 2 کہ وہ ایسی تعریف کرانا چاہتے ہیں جس پر خود عمل نہیں کرتے.دوسرے پر بھی اسی بات کا اثر ہو سکتا ہے جس پر اپنا عمل اگر کوئی غریب آدمی کسی امیر کو کہے کہ آپ زکوۃ کیوں نہیں دیتے تو وہ یہ نہیں ہو.

Page 172

1941 173 خطبات محمود سکتا کہ تم خود کیوں نہیں دیتے بلکہ اس پر اس نصیحت کا اثر ہو گا لیکن اگر کوئی ایسا شخص جس پر زکوۃ فرض ہے خود تو نہ دے مگر دوسرے سے کہے کہ کیوں نہیں دیتے تو وہ یہی کہے گا کہ تم خود کیوں نہیں دیتے پس اس ناظر کو اگر کسی نے سلام نہیں کہا تھا تو بجائے اس کے کہ اس پر اعتراض کرتا اسے چاہئے تھا کہ خود سلام کہنے میں پہل کرتا کیونکہ سلام کرنے کا حکم دونوں کے لئے یکساں ہے.میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے ایک شعر سنا ہوا ہے کہ:.وہ نہ آئے تو تُو ہی چل اے میر تیری کیا اس میں شان گھٹتی ہے اگر رسول کریم صلی این نام کا حکم ایک بھائی نہیں مانتا تو کیوں نہ ہم خود اس پر عمل کر لیں.پس اگر شکایت درست تو یہ فعل عقل کے خلاف اور اخلاق سے گرا ہوا ہے.یہ کہیں حکم نہیں کہ سلام صرف چھوٹا کرے بڑا نہ کرے.اگر ماتحت میرا اپنا یہ طریق ہے کہ جب خیال ہوتا ہے کر دے.میرا اپنا نے نہیں کیا تو افسر خود پہلے تو میں خود پہلے سلام کہہ دیتا ہوں.بعض دفعہ خیال نہیں ہوتا تو دوسرا کر دیتا ہے ایسی باتوں میں ناظروں کو اعتراض کرنے کی بجائے خود نمونہ بننا چاہئے.ایک اور شکایت مجھے امور عامہ کے واسطہ سے پہنچی ہے.اس کے متعلق بھی میں بیان کرنا ضروری سمجھتا ہوں اور وہ یہ ہے کہ کسی شخص نے کہا ہے کہ یہاں انصاف نہیں ہوتا.ایک ہی جرم پر بعض لوگوں کو سزا ہو جاتی ہے اور بعض کو نہیں ہوتی.فلاں آدمی نے یہی جرم کیا تو اسے سزا نہیں ہوئی اور فلاں کو ہو و گئی.ایسے اعتراض بھی کئی لوگوں کے لئے ٹھوکر کا موجب ہو جاتے ہیں لیکن ایسے اعتراض کرنے والے دراصل انسانیت کے سمجھنے سے عاری ہوتے ہیں.یہ اگر جرم ہے تو یہ آنحضرت صلی الم کے زمانہ میں بھی ہوا حضرت موسیٰ علیہ السلام، حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور دوسرے انبیاء کے زمانہ میں بھی ہوا اور ہمیشہ ہوتا جائے گا.ہر ایک کو ایک ہی جرم پر سزا دینا انصاف کے لئے ضروری نہیں.اللہ تعالیٰ بھی کسی کو

Page 173

1941 174 خطبات محمود ها الله سزا دے دیتا ہے اور کسی کو معاف کر دیتا ہے.اصل بات یہ ہے کہ کسی کو سزا نہ دینا رحم کی بات ہے نا انصافی نہیں.بعض اوقات بعض مصالح یا کسی حکمت کی بناء پر ایسا کرنا ضروری ہوتا ہے.رسول کریم صلی نیم کے پاس ایک دفعہ ایک شخص آیا اور کہا يَا رَسُولَ الله ! آپ نے فلاں شخص کو مال دے دیا اور فلاں کو نہیں دیا حالانکہ وہ بھی مومن ہے.آپ یہ سن کر خاموش رہے.اس نے پھر کہا يَا رَسُولَ اللہ ! آپ نے فلاں شخص کو مال دیا اور فلاں کو نہیں دیا حالانکہ وہ اس سے اچھا مومن ہے.مگر آپ پھر خاموش رہے اور اس نے پھر تیسری بار یہی اعتراض دُہرایا اور کہا کہ فلاں شخص جسے آپ نے مال نہیں دیا فلاں سے جسے دے دیا اچھا مومن ہے.آپ نے فرمایا کہ یہ ضروری نہیں کہ میں ایمان کی وجہ سے کسی کو مال دوں.میں بعض اوقات کمزوروں کو مال دے دیتا ہوں تاوہ ڈگمگا نہ جائیں.3 فتح مکہ کے موقع پر آنحضرت صلی ال ہم نے جب اموال تقسیم کئے تو بعض مکہ والوں کو بڑے بڑے گلے دے دئے.کسی کو سو اونٹ، کسی کو پچاس، کسی کو ہیں اور وہ انہیں لے کر خوش ہو کر چلے گئے.ایک نوجوان آیا اور آپ کی پشت کی طرف تلوار ٹیک کر کھڑا ہو گیا اور کہا کہ خدا کی قسم اس تقسیم میں انصاف سے کام نہیں لیا گیا.آپ نے اس کی طرف دیکھا اور فرمایا کہ اگر میں انصاف نہیں کرتا تو دنیا میں اور کون انصاف کرے گا اور آپ نے فرمایا کہ اس شخص کی نسل سے ایسے لوگ ے لوگ پیدا ہوں گے کہ وہ منہ سے قرآن کریم پڑھیں گے مگر وہ ان کے حلقوں سے نیچے نہیں اترے گا.وہ نمازیں پڑھیں گے مگر وہ نمازیں ان کے لئے لعنت کا موجب ہوں گی.ان سے اسلام میں تفرقہ اور بغاوت پیدا ہو گی.عمر اس وقت شاید پرے بیٹھے تھے یا شاید بعد میں آئے اور یہ بات سنی تو تلوار کھینچ لی کہ میں اس شخص کو قتل کر دوں گا مگر رسول کریم صلی ا ہم نے یہ بھی فرمایا تھا کہ اسلام میں تفرقہ پیدا کرنے والی جنگ ہو گی اور اس میں یہ شخص پکڑا جائے گا تو اس کے بازو پر گوشت کا لوتھڑا ہو گا جیسے عورت کا پستان ہوتا ہے.

Page 174

1941 175 خطبات محمود حضرت عمر نے اسے مارنے کا ارادہ کیا مگر اللہ تعالیٰ نے اسے بچانا تھا اس لئے حضرت عمرؓ کو ملا نہیں اور آخر اس کی لاش جنگ صفین کے بعد ملی.4 تو اس کے بازو پر بالکل عورت کے پستان کی طرح گوشت کا لوتھڑا پایا گیا.وہ تو نظاموں اور سلسلوں کا کام چلانے کے لئے بعض حکمتوں کو مد نظر رکھنا پڑتا ہے جن کو مد نظر رکھنا خلیفہ کا فرض ہے.ورنہ خلافت کی کوئی ضرورت ہی نہیں رہ جاتی.اگر ہر ایک کو سزا ہی دینی ہو تو خلیفہ کی کیا ضرورت ہے.اس کے لئے تو مشین ہی کافی ہے.خلیفہ کی ضرورت تو یہی ہوتی ہے کہ وہ مصلحت اور حکمت کو دیکھتا ہے.اگر وہ دیکھے کہ ایسے جرائم میں جن کے لئے حد شرعی مقرر نہیں دوسروں کے حقوق تلف نہیں ہوتے.کسی کو سزا نہ دینے میں سلسلہ کا کوئی نقصان نہیں اور اس کا ایمان بچتا ہے تو اسے سزا نہ دینا نا انصافی نہیں بلکہ اگر کسی کو مال دینے میں سلسلہ کا نقصان نہ ہوا اور کسی کا ایمان سلامت رہے تو مال دے دینا بھی کوئی نا انصافی نہیں.پس سزا نہ دینا اور کسی کو معاف کر دینا شرعاً جائز ہے.سامانہ کا ایک شخص آجکل لوگوں میں یہ پروپیگنڈا کرتا پھرتا ہے کہ میں نے فلاں فلاں لوگوں کے متعلق اطلاع دی تھی کہ وہ منافقوں کے ساتھ ملے ہوئے ہیں اور ان کو سزا نہیں دی گئی.یہ شخص مجھ سے خود خواہش کر کے اور اجازت لے کر ملتا رہا جن سے ملنے کی اجازت نہیں اور خود اس نے مجھ سے یہ خواہش کی کہ اس کی کسی رپورٹ پر کارروائی نہ کی جائے ورنہ اس کا راز فاش ہو جائے گا.میں نے اسے کہا کہ بعض اوقات کارروائی کرنا ضروری ہو جاتا ہے.اس لئے یہ طریق اختیار کرو کہ جب تم یہ سمجھو کہ فلاں بات ایسی ہے جس کے متعلق تم گواہی پیش کر سکتے ہو تو اسے رپورٹ میں نہ لکھنا بلکہ اسے الگ کاغذ پر لکھ کر لفافہ میں رپورٹ کے ساتھ رکھ دینا اور میں وہ کاغذ امور عامہ میں بھیج دیا کروں گا.مگر اب وہ کہتا پھرتا ہے کہ میں نے رپورٹیں کیں اور کوئی کارروائی نہیں کی گئی حالانکہ اس نے خود یہ خواہش کی تھی کہ اس کی رپورٹوں پر کارروائی نہ کی جائے ورنہ اس کا راز فاش ہو جائے گا.اگر میں اس کی یا

Page 175

1941 176 خطبات محمود رپورٹوں پر کارروائی کرتا تو وہ کہہ دیتا کہ وعدہ کے خلاف کیا جا رہا ہے لیکن اگر یہ بات نہ بھی ہوتی تو بھی یہ میرا کام ہے کہ دیکھوں کس رپورٹ پر کارروائی کرنی چاہئے یا نہیں اور کس کو سزا دینی چاہئے یا نہیں.رسول کریم صلی الم کے زمانہ میں عبد اللہ بن ابی بن سلول اندرونی دشمنوں میں سے سب سے بڑا دشمن تھا.واقعہ افک کے متعلق قرآن کریم نے یہ فرمایا ہے کہ وہ سب سے بڑا مجرم ہے مگر رسول کریم صلی علی یم نے اسے کوئی سزا نہیں دی اور دوسروں کو دے دی.سوچنا چاہئے کہ اگر میں کسی کو سزا نہیں دیتا تو کیا اپنے کسی فائدہ کے لئے نہیں دیتا.اگر سلسلہ کے مصالح کا تقاضا و کہ اسے سزا نہ دی جائے تو میں تو تعریف کا مستحق ہوں کہ سلسلہ کے مفاد کے لئے میں اپنے جذبات کو قربان کرتا ہوں اور دینی مصالح کو ذاتی جذبات پر مقدم رکھتا ہوں.پس ایسا اعتراض کرنے والا نادان ہے اور دین کی باتوں کو نہیں سمجھتا.یہ میرا حق ہے کہ دیکھوں کس کو سزا دینی چاہئے اور کس کو نہیں.کس کو سزا دینے میں سلسلہ کا نقصان ہے اور کس کو چھوڑ دینے سے اس کی اصلاح ہو سکتی.واقعہ افک کے سلسلہ میں آنحضرت صلی علیم نے حسان کو تو کوڑے لگوائے 5 مگر عبد اللہ بن ابی جس کے متعلق قرآن کریم نے فرمایا ہے کہ وہ سب سے بڑا مجرم تھا اور جس کے متعلق تولی کبرہ 6 فرمایا اُسے ایک جوتا بھی نہیں لگوایا.کتنے تعجب کی بات ہے کہ قرآن کریم میں ایک مسئلہ ایسی وضاحت سے بیان ہو اور کوئی احمدی سمجھ نہ سکے.اللہ تعالیٰ کا سلوک بھی ایسا ہی ہے.ایک شخص کی زبان سے کوئی بات نکلتی.ہے اور وہ فوراً پکڑا جاتا ہے اور ایک خدا تعالیٰ کو بھی عمر بھر گالیاں دیتا ہے اور اسے کوئی گرفت نہیں ہوتی.ہے.میں ایک دفعہ لکھنو گیا وہاں ندوہ میں ایک مولوی عبد الکریم صاحب افغان تھے انہوں نے ہمارے خلاف جلسے کئے اور ایک جلسہ میں کہا کہ مرزا صاحب نبی بنے پھرتے ہیں اور حالت یہ ہے کہ مجھے مرزا حیرت دہلوی نے سنایا کہ مرزا صاحب دتی میں آئے اور مجھے علم ہوا تو میں انسپکٹر پولیس بن کر اس مکان پر گیا جہاں آپ

Page 176

1941 177 خطبات محمود سکتا ٹھہرے ہوئے تھے اور نوکر سے کہا کہ مرزا صاحب کو جلدی اطلاع دو کہ پولیس افسر آیا ہے.نوکر نے جا کر اطلاع دی اور مرزا صاحب گھبراہٹ میں جلدی جلدی نیچے اترے اور آخری سیڑھی پر پہنچ کا ان کا پاؤں پھسل گیا اور گر پڑے.یہ واقعہ سنا کر وہ مولوی خوب ہنسا کہ ایسا شخص بھی نبی ہو ہے.اب یہ تمسخر تو ہے مگر کیا اتنا بڑا جو مولوی ثناء اللہ صاحب ہمیشہ کرتے ہیں؟ لیکن دیکھ لو مولوی ثناء اللہ صاحب کو اتنی لمبی عمر ملی ہے اور مولوی عبد الکریم صاحب تیسرے ہی دن کو ٹھے سے گرا اور مر گیا.بالکل اسی طرح جس طرح اس نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی طرف غلط واقعہ منسوب کیا تھا اللہ تعالیٰ نے اسے سزا دے دی.پس یہ تو ایسی بات ہے جو خدا تعالیٰ بھی کرتا ہے، اس کے نبی بھی کرتے رہے ہیں اور مجھے بھی کرنی پڑتی ہے.بعض اوقات میں دیکھتا ہوں کہ ایک ایسا بے حیا ہے کہ اس پر گرفت کرنے کے کا کوئی فائدہ نہیں اور اس کے برے نمونہ کا دوسروں پر بھی اثر نہیں ہوتا.کیونکہ سب پر اس کی حالت عیاں ہوتی ہے اور سب جانتے ہیں کہ وہ بے حیا ہے اس لئے اسے چھوڑ بھی دیتا ہوں.مگر دوسرا وہی جرم کرتا ہے تو چونکہ لوگوں کو اس سے حسن ظنی ہوتی ہے میں سمجھتا ہوں کہ اگر اسے سزا نہ دی گئی تو دوسروں پر بُرا اثر ہو گا.اسے چونکہ لوگ اچھا آدمی سمجھتے ہیں وہ خیال کریں گے کہ شاید یہ کام بھی اچھا ہو.اس لئے اسے سزا دے دی جاتی ہے یا بعض اوقات خیال ہوتا ہے کہ سزا سے اس کی اصلاح ہو جائے گی اس لئے سزا دے دی جاتی ہے.سزا دینے یا نہ دینے کے متعلق بیسیوں وجوہ ہو سکتے ہیں.کبھی اس کا خیال رکھنا ہوتا ہے کبھی اس کے دوستوں اور رشتہ داروں کا اور سلسلہ کا.اور خلیفہ کا حق ہے دیکھے کس موقع پر کیا طریق عمل اختیار کرنا مناسب ہے.یہ ایسی باتیں ہیں کہ ہر ایک کے متعلق ان کو ظاہر نہیں کیا جا سکتا کیونکہ اس طرح حکمت باطل ہو جاتی ہے.اگر ہر ایک واقعہ کے متعلق جلسہ کیا جائے جس میں بتایا جائے کہ فلاں ایسا بُرا ہے کہ اس کی اصلاح کی کوئی صورت نہیں اس لئے اسے سزا نہیں دی گئی تو

Page 177

1941 178 خطبات محمود نہ سزا نہ دینے کا مقصد ہی فوت ہو جاتا ہے.یہ چیزیں ایسی نہیں کہ عام لوگوں کو بتائی جا سکیں.اسلام نے معمولی انسان پر بھی حسن ظنی کا حکم دیا ہے تو کیا خلیفہ ہی کا وجود ایسا ہے کہ اس پر کوئی حسن ظنی نہیں کی جا سکتی؟ لوگ اپنے رشتہ داروں اور دوستوں کے متعلق حسن ظنی سے کام لیتے ہیں، بیٹوں کے متعلق حسن ظنی کرتے ہیں ہمارا بیٹا جھوٹ نہیں بول سکتا.تو کیا پھر بدظنی خلیفہ کے لئے ہی ہے؟ اگر کوئی شخص بیعت کی اہمیت اور خلیفہ کی حیثیت کو سمجھے تو خلیفہ کا حق اسے دینا پڑے گا اور یہ خلیفہ کا حق ہے کہ سوائے ایسے شرعی حدود والے جرائم کے جن میں سزا دینا اس کے اختیار میں ہے باقی امور میں چاہے تو کسی کو سزا دے اور چاہے دے.رسول کریم صلی الم کے متعلق آتا ہے کہ آپ ایک دفعہ ایک شخص کے متعلق ذکر فرما رہے تھے کہ وہ بہت برا آدمی ہے کہ اتنے میں وہ شخص وہیں آ گیا آپ اس کے لئے کھڑے ہو گئے.اپنا گڈا دے دیا اور عزت سے بٹھایا.جب وہ چلا گیا تو حضرت عائشہ نے دریافت کیا کہ یا رَسُولَ اللہ ! آپ بھی ایسا کرتے ہیں.آپ نے فرمایا اس کے شر کو دور کرنے کے لئے مصلحت کا تقاضا یہی تھا.7 یعنی اگر اسے پتہ لگ جائے کہ مجھے اس کی برائیوں کا علم ہو چکا ہے تو شرارت میں بڑھ جائے گا بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ کسی کو علم ہو جائے کہ اس کے بھائی یا باپ کو علم ہو چکا ہے کہ وہ چور ہے تو وہ اور بھی دلیر ہو جاتا ہے لیکن اگر سمجھے کہ علم نہیں تو کوشش کرتا ہے کہ چوری چھوڑ دے تا ان کو پتہ نہ لگ سکے.اس لئے عظمند جب اس قسم کی مصلحت دیکھیں تو دوسرے کی کمزوری کو اس پر ظاہر نہیں کرتے تا وہ بے حیا نہ ہو جائے.پس سزا دینے میں کئی باتوں کو مد نظر رکھنا پڑتا ہے اور ان حکمتوں کو اگر تم سمجھ نہیں سکتے تو خواہ مخواہ اعتراض نہ کرتے رہو.بے شک بعض کو سزا نہیں دی جاتی مگر اس میں حکمت ہوتی ہے.بعض اوقات اسے سزا دینے ے ایسے فتنہ کا دروازہ کھل جاتا ہے جو سلسلہ کے لئے مضر ہوتا ہے اور بعض اوقات مد نظر رکھنا پڑتا ہے کہ اگر اسے پتہ لگ گیا کہ اس کی کمزوری ظاہر ہو چکی ہے تو

Page 178

* 1941 179 خطبات محمود وہ بے حیا ہو جائے گا.کبھی سزا نہ دینے سے ہی کسی کی اصلاح ہو سکتی ہے اور کبھی دینے سے ہو سکتی ہے.اس لئے جیسا موقع مناسب ہو کیا جاتا ہے اور جب تک کسی کو حکومت نہ مل جائے ان مصلحتوں کو مد نظر رکھنا ضروری ہے.ہاں جن جرائم کی حدیں شریعت نے مقرر کر دی ہیں ان کے متعلق اور صورت ہے.مگر ان میں بھی تمام شرائط کو جو شریعت نے رکھی ہیں مد نظر رکھنا ضروری ہوتا ہے.ایک جرم کے اثبات کے لئے شریعت نے اگر چار گواہ ضروری قرار دیئے ہیں تو دو ہونے کی صورت میں سزا نہیں دی جا سکتی.خواہ وہ دو کتنے ہی بڑے پارسا اور نیک کیوں نہ ہوں اور جہاں وہ گواہ ضروری ہیں وہاں ایک کی گواہی پر سزا نہیں دی جا سکتی خواہ وہ کتنا بڑا متقی کیوں نہ ہو.بعض لوگ کہہ دیتے ہیں کہ اتنے بڑے معتبر کی بات بھی نہیں مانی جاتی.ان کو معلوم ہونا چاہئے کہ سب سے بڑا معتبر خدا ہے اور اس ہے کہ اس موقع پر ایک معتبر کی مانو.پس خدا تعالیٰ کے مقابلہ میں اس کی بات کیسے مان لی جائے.پس اگر کوئی اپنے آپ کو بڑا معتبر سمجھتا ہے تو وہ اپنے گھر ہو گا.میرے نزدیک سب سے معتبر خدا ہے اور جب اس نے حکم دیا ہو کہ فلاں موقع پر چار کی گواہی مانو تو دو خواہ سورج کی طرح روشن اور آسمان کے تارے کیوں نہ ہوں میں ان کی بات کیسے مان لوں اور جہاں اس نے دو کی گواہی ضروری ہے وہاں ایک کی نیکی خواہ زمین و آسمان پر حاوی کیوں نہ ہو میں اس کی گواہی نہیں مان سکتا.پس ایسے امور کے سوا جن میں بعض شرائط کے موجود ہونے کی صورت میں شریعت نے خاص سزا مقرر کر دی ہے باقی امور میں سزا دینا یا نہ دینا خلیفہ کا اختیار ہے اور اگر وہ خدا تعالیٰ کے لئے یا سلسلہ کے مفاد کے لئے کسی کو چھوڑتا ہے تو اس پر اعتراض کرنے والا نادان ہے.ہاں اگر میں ذاتی طور پر کسی سے ڈر کر چھوڑتا ہوں تو بھی ان کو گھبرانے کی ضرورت نہیں کیونکہ میرے اوپر مجھ بہت بڑا حاکم ہے جس کے سامنے مجھے جواب دینا ہو گا مگر میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ میں نے کبھی ذاتی طور پر یا کسی سے ڈر کر کسی کو نہیں چھوڑا.ہاں رکھی سے

Page 179

1941 180 خطبات محمود سلسلہ کے مفاد کے لئے اگر کوئی حکمت اور مصلحت سمجھوں تو ان امور میں جن کی سزا شریعت نے مقرر نہیں کی اور سزا دینا یا نہ دینا مجھ پر چھوڑ دیا ہے بعض اوقات چھوڑ بھی دیتا ہوں.جن امور میں شریعت نے سزا مقرر کر دی ہے ان میں کبھی ایسا نہیں ہوا کہ پورا ثبوت موجود ہو اور میں نے چھوڑ دیا ہو لیکن اگر کوئی یہ کہے کہ چونکہ میں یہ بات کہتا ہوں یہ ثابت ہے صحیح نہیں کیونکہ ثبوت وہی ہے جسے خدا تعالیٰ نے ثبوت قرار دیا ہے باقی وہم ہے.” (الفضل 10 اپریل 1941ء) 1 بخاری کتاب الاستئذان باب السلام لِلْمَعْرِفَةِ وَ غَيْرِ الْمَعْرِفَةِ 2 آل عمران: 189 بخاری کتاب الايمان باب إِذَا لَمْ يَكُنِ الْإِسْلَامُ عَلَى الْحَقِيقَةِ (الخ) بخاری کتاب المناقب باب عَلَامَاتُ النَّبُوَّةِ فِي الْإِسْلَامِ 5 سنن ابی داؤد كتابُ الْحُدُوْدِ بَاب فِي حَدِ الْقَذْفِ 6 النور: 12 7 بخاری کتاب الادب، باب مَا يَجُوزُ مِنْ اِغْتِيَابِ أَهْلِ الْفَسَادِ وَ الرَّيْبِ

Page 180

1941 181 (12) خطبات محمود اہمیت حکومت برطانیہ کی کامیابی کے لئے دعا کی تحریک (فرمودہ 4، اپریل 1941ء) تشہد، تعوذ اور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:.“میں نے پچھلے سے پچھلے جمعہ کے موقع پر یہ کہا تھا کہ علاوہ اس دعا کی تحریک میں حصہ لینے کے جو حکومت کی طرف سے کی گئی ہے اور جس کے لئے اس نے اتوار کا دن مقرر کیا ہے.ہم چونکہ مسلمان ہیں اور اتوار کا دن ہمارے لئے وہ نہیں رکھتا جو جمعہ کا دن رکھتا ہے.اس لئے ہم اپنے طور پر بھی دعا کے لئے جمعہ کا کوئی دن مقرر کریں گے.اتوار کا دن عیسائیوں اور ہندوؤں کا مذہبی تہوار ہے اور کوئی وجہ نہیں کہ ہم مسلمان جو اپنے مذہب کو ان کے مذاہب سے فائق اور اعلیٰ سمجھتے ہیں اور یقین رکھتے ہیں کہ ہماری الہامی کتاب میں جمعہ کو برکت کا دن دیا گیا ہے ان کے دامن کے ساتھ بندھے بندھے پھریں اور جس دن کو وہ متبرک قرار دیں اسی دن کو ہم بھی متبرک سمجھنے لگیں.خواہ اس قسم کی تحریک حکومت کی طرف سے ہی کیوں نہ ہو کیونکہ حکومت کے احکام بھی مذہب کے تابع ہوتے ہیں.پس میں نے کہا تھا کہ بے شک اس دن بھی دعائیں مانگی جائیں اور حکومت سے تعاون کرتے ہوئے جلسہ کر لیا جائے مگر ہم اپنے طور پر بھی دعا کے لئے جمعہ کا کوئی خاص دن مقرر کریں گے.چنانچہ میں نے تجویز کیا تھا کہ جمعہ کے دن خصوصیت سے روزہ رکھنا چونکہ پسندیدہ امر نہیں اس لئے آنے والے جمعہ یعنی

Page 181

خطبات محمود 182 پیران 1941 آج کے جمعہ سے ایک دن پہلے جمعرات کو تمام دوست روزہ رکھیں اور تہجد میں خاص طور پر ان فتن کے متعلق دعائیں کریں جو موجودہ جنگ میں پوشیدہ ہیں اور نماز جمعہ کی آخری رکعت میں رکوع سے قیام کے وقت سب دوست اجتماعی طور پر دعائیں کریں کہ اللہ تعالیٰ ان فتنوں سے دنیا کو بچائے.اسلام اور احمدیت کو محفوظ رکھے اور ہماری جماعت کو بھی ہر قسم کے شرور اور مفاسد سے محفوظ رکھ کر ترقی اور کامیابی عطا کرے.میں نے جیسا کہ پہلے بھی کئی دفعہ بیان کیا ہے اور اس دن بھی اختصاراً بیان کیا تھا موجودہ فتنہ میں جہاں تک عقل کام کرتی ہے اور جہاں تک حقائق ہمارا ساتھ دیتے ہیں انگریزی حکومت کی فتح اسلام اور احمدیت کے لئے زیادہ مفید نظر آتی ہے.کیا بلحاظ اس کے کہ انگریزی حکومت کے قوانین کے اندر یہ امر مخفی ہے کہ لوگوں کو مذہبی آزادی ملنی چاہئے اور کیا بلحاظ اس کے کہ اس وقت تک وہ ایک حد تک اس پر عمل بھی کرتی رہی ہے.میں یہ نہیں کہتا کہ اس نے اس کے خلاف کبھی عمل نہیں کیا.میرا مطلب صرف یہ ہے کہ اس نے کھلے بندوں مذہب میں کبھی دست اندازی نہیں کی.اس کے خلاف گو ہمیں واقعات پورے طور پر معلوم نہیں تاہم میں نے ہٹلر کی کتاب پڑھی ہے اور اس کے پڑھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ مذہب میں دست اندازی کو جائز سمجھتا ہے.اگر یہ بات محض روائتوں تک محدود ہوتی تو میں سمجھ لیتا کہ ممکن ہے یہ روائتیں غلط ہوں.یا ممکن ہے ان کے بیان کرنے میں مبالغہ آمیزی سے کام لیا گیا ہو مگر اس بات کو کس طرح نظر انداز کیا جا سکتا ہے کہ اس نے خود اپنی کتاب مائنے کامف میں لکھا ہے کہ ایسے مذہب کو کبھی برداشت نہیں کیا جا سکتا جس میں تفصیلی شرعی قوانین موجود ہوں اور جو اس طرح عملاً حکومت کے ہاتھوں کو بند کرتا ہو اور کہتا ہو کہ یہ قانون بناؤ اور وہ قانون نہ بناؤ.جس کے صاف معنی یہ ہیں کہ اسلام اور یہودی مذہب اور اسی طرح کے وہ تمام مذاہب جن میں ایسے احکام بیان کئے گئے ہیں جو انسانی زندگی کے ساتھ

Page 182

1941 183 خطبات محمود تعلق رکھتے ہیں وہ ہٹلر کے نزدیک قابل برداشت نہیں ہیں.بعض بے وقوف مسلمان بلکہ بعض نادان احمدی تک یہ خیال کرتے ہیں کہ وہ صرف یہودیوں کا دشمن ہے.حالانکہ اس کا یہود پر مظالم ڈھانا کسی اور وجہ سے نہیں بلکہ محض اس وجہ سے ہے کہ ان کی ایک شریعت ہے اور وہ یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ شرعی احکام پر عمل کرنا ضروری ہے.پس یہ خیال کر لینا کہ وہ یہودیوں پر تو ظلم کرتا ہے لیکن احمدیوں ظلم نہیں کرے گا یا مسلمانوں پر وہ ظلم نہیں کرے گا کمال درجہ کی حماقت ہے.اگر یہ صحیح ہے جیسا کہ اس نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ کوئی ایسا مذہب جس میں شریعت کی تفصیلات موجود ہوں اور جو حکومت کے قانون کو مجبور کرتا ہو کہ وہ فلاں حد تک رہے اور اس حد سے آگے نہ بڑھے قطعی طور پر قابل برداشت نہیں.جب تک ہٹلر کا یہ خیال موجود ہے، جب تک جرمنی اس نظریہ پر قائم ہے اس وقت تک احمدیوں یا مسلمانوں کا یہ خیال کر لینا کہ وہ کسی وقت نائسی ازم کے ماتحت امن سے رہ سکتے ہیں یا فاشزم کے ماتحت امن سے رہ سکتے ہیں قطعی طور پر احمقانہ اور جاہلانہ خیال ہے اور ہر شخص جو اس بات کو جانتے ہوئے نازیوں سے ہمدردی رکھتا ہے وہ یا تو منافق ہے یا پرلے درجہ کا جاہل اور احمق ہے.میں جانتا ہوں کہ قادیان میں بعض ایسے لوگ موجود ہیں جو جرمنی سے ہمدردی رکھتے ہیں بلکہ میں اس امر کے اظہار میں بھی کوئی باک نہیں سمجھتا کہ خود ہمارے خاندان میں بعض ایسے موجود بتائے جاتے ہیں.(میرا ذاتی علم نہیں) مگر ایسے تمام لوگوں کی نسبت میرا یہ یقین ہے کہ یا تو وہ بے وقوفی سے اس خیال میں مبتلا ہیں اور یا پھر وہ منافق ہیں اور احمدیت کی نسبت انہیں اپنا نفس زیادہ اہم معلوم ہوتا ہے اور اپنے گندے جذبات کو وہ احمدیت پر ترجیح دیتے ہیں.یہ کوئی چھپی ہوئی بات نہیں.ایک شخص ایک کتاب لکھتا ہے اور وہ آج تک نازیوں کے مذہب کے طور پر شائع کی جاتی ہے.مائنے کامف اس کا نام ہے یعنی میری کوشش، میری جد و جہد، میرے مقاصد یا میں کیا کرنا چاہتا ہوں.اس کتاب میں وہ صاف طور پر لکھتا ہے کہ یہودیوں کے متعلق لوگ

Page 183

1941 184 خطبات محمود لوگوں نے مجھے کئی رنگ میں غصہ دلانا چاہا اور ان کے خلاف انہوں نے یہ بات پیش کی، وہ بات پیش کی مگر میں ان سب باتوں کو رد کرتا چلا گیا.آخر جب میں نے دیکھا کہ ان کا مذہب ایسا ہے جو اپنے اندر تفصیلی تعلیم رکھتا ہے تو میں نے سمجھا کہ بس یہ ایک بات ایسی ہے جس کی وجہ سے یہودیت کو برداشت نہیں کیا جا سکتا.کیونکہ اگر ہم کوئی قانون بنائیں اور وہ یہودی قانون سے ٹکرا جائے تو لازماً یہودی اپنی شریعت کے قانون کو مد نظر رکھیں گے اور حکومت کے قانون کو نظر انداز کر دیں گے اور یہ بات ایسی ہے کہ جس مذہب میں بھی پائی جاتی ہو اسے صورت میں برداشت نہیں کیا جا سکتا.اسی طرح یہ بات بھی اس کی نسبت بیان کی جاتی ہے کہ ایسے مذہب کو بھی کسی صورت میں برداشت نہیں کیا جا سکتا جس کا مرکز کسی اور حکومت کے ماتحت ہو.یہ بات بھی ایسی ہے جس کی اسلام اور مسلمانوں پر زد پڑتی ہے.کیونکہ اسلام کا مرکز مکہ ہے اور ہم اس بات کو کسی طرح برداشت نہیں کر سکتے کہ مکہ عیسائیوں کے ماتحت آ جائے یا ہٹلر کے ماتحت آ جائے یا مسولینی کے ماتحت آ جائے.پس اگر کوئی باغیرت مسلمان مکہ کو آزاد رکھنا چاہے گا تو وہ کسی صورت میں بھی اس ت سے تعاون کرنے کے لئے تیار نہیں ہو گا جس کا یہ عقیدہ ہو کہ ایسے مذہب کو برداشت نہیں کیا جا سکتا جس کا مرکز کہیں باہر ہو.حکوم گا اسلام کا مرکز تو بہر حال غیر حکومتوں کے دائرہ اثر سے ہمیشہ باہر رہے جب تک کہ مسلمان بے غیرت اور بے حیا نہیں بن جاتے.ہاں اگر اسلام اور قرآن کی محبت ان کے دلوں میں نہ رہی، رسول کریم صلی ال نام کے اقوال کی عظمت ان کے دلوں سے اُٹھ گئی اور انہوں نے اپنے مونہوں سے بے شرم اور بے حیا بن کر کہہ دیا کہ ہم ہٹلر کے ماتحت ہی رہنا چاہتے ہیں اور اگر اسے ہمیں اپنے ماتحت رکھنے میں کوئی اعتراض ہے تو بے شک مکہ پر قبضہ کر لے یا ہم مسولینی کے ماتحت ہی رہنا چاہتے ہیں اور اگر اسے ہمیں اپنے ماتحت رکھنے میں کوئی اعتراض ہے تو بے شک

Page 184

1941 185 خطبات محمود مکہ پر قبضہ کر لے.جس دن ایسے بے حیا اور بے غیرت مسلمان پیدا ہو جائیں گے اس دن وہ بے شک مکہ پر قبضہ کر سکے گا.لیکن جب تک مسلمانوں کی غیرت اس امر کو برداشت نہیں کرے گی اس وقت تک اگر ان میں ذرا بھی عقل کا مادہ ہوا تو وہ فیسی ازم یا نازی ازم کو کبھی برداشت کرنے کے لئے تیار نہیں ہوں گے.انسانی خیالات بدلتے رہتے ہیں اگر کوئی شخص یہ ثابت کر دے کہ ہٹلر نے اب ان خیالات سے توبہ کر لی ہے تو ہم بھی اپنی اس رائے کو بدل لیں گے لیکن بغیر اس کے کہ کسی کو ذاتی علم یا دلائل کی بناء پر یہ دعویٰ ہو کہ ہٹلر ان خیالات کا موید نہیں.اگر کوئی مسلمان یا احمدی ان واقعات کی موجودگی میں ہٹلر سے ہمدردی رکھتا ہے تو میں یقینا کہہ سکتا ہوں کہ وہ یا تو پرلے درجہ کا احمق ہے اور یا پھر پرلے درجہ کا منافق انسان ہے.باوجود اس کے کہ گزشتہ چھ سات سال سے پنجاب میں بعض انگریز افسروں کے ہمارے ساتھ اچھے تعلقات نہیں، باوجود اس کے کہ انہوں نے ہمارے متعلق شدید بے انصافیاں کی ہیں او رباوجود اس کے کہ انہوں نے ہمیں نقصان پہنچانے کی پوری پوری کوشش کی ہے میں اس قسم کی حماقت کا ارتکاب نہیں کر سکتا جس کے متعلق کہا جاتا ہے کہ پرائے شگون میں اپنا ناک کٹوانا.ہندوؤں میں یہ رواج ہے کہ بعض قسم کی عورتیں اگر نکاح یا شادی یا زچگی کے موقع پر آ جائیں تو وہ برا مناتے اور اسے اپنے لئے بدشگونی سمجھتے ہیں.مثلاً جس عورت کا بچہ تازہ مرا ہوا ہو اگر وہ زچگی کے ایام میں کسی دوسرے کے گھر ایسی تقریب میں چلی جائے تو اسے منحوس خیال کیا جاتا ہے.اسی طرح اگر شادی بیاہ کے موقع پر کوئی نکئی عورت آ جائے تو اسے بھی وہ اپنی نحوست کی علامت سمجھتے ہیں.اسی رواج کے متعلق کہا جاتا ہے کہ ایک احمق عورت تھی اس کی کسی دوسری عورت سے لڑائی ہو گئی.اتفاقاً چند دنوں کے بعد دوسری عورت کے ہاں کوئی شادی کی تقریب آگئی.اس نے سوچا کہ بدلہ لینے کا طریق یہ ہے کہ میں اپنا ناک کٹوا کر

Page 185

1941 186 خطبات محمود اس کی شادی میں چلی جاؤں تاکہ اس کی بدشگونی ہو.چنانچہ اس نے اپنا ناک کٹوا دیا دوسری کے ہاں چلی گئی.اب بے شک اس کی دوسری عورت کے ساتھ لڑائی دشمن عورت کے دل میں نحوست کا احساس پیدا کرنے اور اپنا ناک کاٹ ینے میں بھلا کوئی بھی نسبت تھی.بے شک اس عورت کو بھی صدمہ ہوا ہو گا جس کے ہاں یہ نکئی عورت گئی ہو گی مگر اس عورت کو اپنا ناک کاٹ کر جو نقصان پہنچا و اس سے ہزاروں درجے بڑھ کر تھا.وہ ہیں پس بے شک ہمارا حکومت پنجاب سے جھگڑا ہے مگر ہم ایسے احمق نہیں کہ دوسروں کی بدشگونی میں ہم اپنا ناک کاٹ لیں.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ہمیں حکومت سے شکایات ہیں، اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ہم یہ یقین رکھتے ہیں کہ اس نے ہم پر ظلم کیا ، اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ہم یہ یقین رکھتے ہیں کہ اس نے دشمن کے ساتھ مل کر ہمارے خلاف قدم اٹھایا اور یہ سب امور سب امور یقینی اور قطعی اور ہمارے پاس ایسے واضح ثبوت موجود ہیں کہ اگر ہم دنیا کے کسی ایسے حج کے سامنے ان کو رکھیں جس کا نہ ہمارے ساتھ تعلق ہو اور نہ انگریزوں کے ساتھ تعلق ہو تو توے فیصدی مجھے یہی یقین ہے کہ وہ ہمارے حق میں فیصلہ دے گا.ان کی تحریریں ہمارے پاس موجود ہیں، ان کے بیانات ہمارے پاس موجود ہیں، عدالتوں کے فیصلے ہمارے پاس موجود ہیں، کئی تصاویر ہمارے پاس موجود ہیں جن سے ان کا جرم ثابت ہوتا ہے.غرض اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایسے رنگ میں ہم نے حکومت کے کارندوں کا اس وقت مقابلہ کیا کہ ہمارے پاس ایسا قطعی اور یقینی مواد جمع ہو چکا ہے کہ اگر کسی منصف مزاج جج کے سامنے اس تمام ریکارڈ کو رکھا جائے تو وہ یقینا ہمارے حق میں ہی فیصلہ کرے گا.یہ الگ بات ہے کہ انگریزی عدالتوں میں ہمارے خلاف فیصلہ ہو.یہ تو ایسی ہی بات ہے جیسے کہتے ہیں ”آپے میں رقی پیچی آپے میرے بچے جیون“.لیکن میں سمجھتا ہوں اگر مثلاً کسی سمجھدار امریکن کے سامنے وہ تمام واقعات

Page 186

1941 187 خطبات محمود رکھ دیئے جائیں تو وہ ہمارے حق میں ہی فیصلہ دے گا.لیکن باوجود اس کے بہ مخالفتیں اس عظیم الشان نتیجہ کے مقابلہ میں کوئی حقیقت نہیں رکھتیں جو اس جنگ سے وابستہ ہے.اس جنگ میں یہ خواہش کرنا کہ انگریزوں کو سزا مل جائے ایسا ہی جیسے پرائے شگون میں اپنا ناک کٹوا لیا جائے اور یا پھر یہ حرکت ویسی ہی ہو گی جیسے بعض لوگ اپنے بچے کو مار کر دشمن کے گھر میں پھینک دیتے ہیں تا یہ ثابت ہو کہ ان کے بچہ کو دشمن نے مارا ہے.پس باوجود ان تمام باتوں کے جاننے کے میں سمجھتا ہوں کہ اس وقت ہمیں انگریزوں سے ہمدردی ہونی چاہئے اور ان کی کامیابی کے لئے ہمیں ہر ممکن کوشش کرنی چاہئے.جو شخص ان باتوں میں مجھ سے زیادہ غیرت مند ہونے کا دعویٰ رکھتا ہو وہ غیرت مند نہیں بلکہ پھیپھا کٹنی کہلانے کا مستحق ہے.کیونکہ مثل مشہور ہے ”ماں سے زیادہ چاہے، پھیپھا کٹنی کہلائے“ جو شخص اس خلیفہ سے زیادہ جماعت کے متعلق غیرت کا مدعی ہے جس نے ہر قسم کے خطرے کا مقابلہ کیا، جس نے رات اور دن اس جنگ میں حصہ لیا اور جس نے جماعت کی عزت اور اس کے وقار کو قائم کرنے کے لئے ہر طرح کی تکلیف اٹھائی اسے ہم ایک کٹنی تو کہہ سکتے ہیں مگر غیرت مند نہیں کہہ سکتے.آخر یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ کام تو سب میں نے کیا ہو اور سلسلہ سے محبت کا دعویٰ اسے ہو.اگر ایسا انسان یہ کہتا ہے کہ کی بڑی غیرت رکھتا ہے اس لئے وہ حکومت سے تعاون نہیں کر سکتا تو میں اسے کہوں گا کہ تم بڑی کٹنی ہو.اگر ان واقعات پر غیرت آ سکتی تھی تو مجھے آنی چاہئے تھی نہ کہ تم کو.غرض میرے نزدیک اگر کوئی شخص سچا احمدی ہے اور وہ اسلام سے دلی محبت رکھتا ہے، منافق یا احمق نہیں تو اس کے لئے سوائے اس کے اور کوئی چارہ نہیں کہ وہ جس حد تک ہو سکے کوشش کرے کہ موجودہ جنگ میں انگریزوں کو فتح اور کامیابی حاصل ہو.میں نے بتایا ہے کہ عقلاً اور سیاستاً میں یہی سمجھتا ہوں کہ مسلمانوں کا بلکہ وہ سلسلہ

Page 187

1941 188 خطبات محمود ہندوستان میں رہنے والی تمام اقوام کا فائدہ انگریزوں کی فتح میں ہے.مجھ سے ایک دفعہ ایک سیاسی آدمی نے سوال کیا.وہ سوال ایسا ہے جو اور بھی کئی لوگوں نے مجھ سے پوچھا ہے.حتی کہ بعض احمدیوں نے بھی دریافت کیا ہے.مگر یہ دوست جن کا میں ذکر کرنے لگا ہوں سکھ تھے، انہوں نے مجھ سے سوال کیا کہ کیا آ.انگریزوں سے ہمدردی رکھتے ہیں؟ میں نے کہا ہاں.وہ کہنے لگے اس کی کیا وجہ ہے؟ میں نے کہا آپ کے لئے تو اتنی وجہ ہی کافی ہو سکتی ہے کہ انگریزی قوم اب بوڑھی ہو چکی ہے یہ لوگ آج نہیں تو کل گئے لیکن اگر ہندوستان پر حکومت کرنے کے لئے کوئی اور جوان قوم آگئی اور اس نے ہندوستان پر قبضہ کر لیا تو وہ کم از پچاس ساٹھ بلکہ مزید سو سال تک ہندوستانیوں کو اپنی غلامی کے اندر رکھے گی اور ہندوستانی اپنے حقوق کے حاصل کرنے کی جدو جہد میں بہت پیچھے رہ جائیں گے.یہ بات سن کر انہوں نے میرے سامنے اس وقت یہی کہا کہ آپ کی یہ بات مجھے معقول معلوم ہوتی ہے.اسی طرح اور کئی دوستوں نے وقتاً فوقتاً مجھ سے یہ سوال کیا ہے اور میں ہمیشہ انہیں یہی کہا کرتا ہوں کہ کوئی اول درجہ کا احمق ہی یہ خیال کر سکتا ہے کہ اٹلی اور جرمنی والے اگر جیت گئے تو وہ ہندوستانیوں سے کہہ دیں گے کہ تم اپنی جگہ خوش رہو اور ہم اپنی جگہ خوش ہیں.آج تک گورنمنٹوں نے کبھی ایسا نمونہ نہیں دکھایا اور ناممکن ہے کہ وہ ایسا نمونہ دکھا سکیں.یقینا اگر جرمنی اور اٹلی والے جیت گئے تو جتنے ممالک پر وہ قبضہ کر سکتے ہیں ان پر وہ قبضہ کر لیں گے اور پھر ان کا قبضہ نئے سرے سے اور نئے اصول کے ماتحت ہو گا جیسے انگریزوں نے جب ہندوستان پر قبضہ کیا تو انہوں نے یہاں کے لوگوں پر بڑی بڑی سختیاں کیں اور جب غصہ نکل گیا تو اعتدال پر لے آئے.ورنہ غدر کے بعد انگریزوں نے جو جو کارروائیاں کی ہیں ان کا ذکر سن کر انسان کانپ اٹھتا ہے.اس وقت کے کئی چشم دید واقعات کا ذکر میں نے بھی سنا ہے.ہمارے اپنے پڑنانا کا حال ہماری نانی صاحبہ سنایا کرتی تھیں کہ غدر کے دنوں میں وہ سخت بیمار تھے.ایک دن اچانک انگریزی فوج کے

Page 188

1941 خطبات محمود 189 بعض سپاہی مکان کے اندر گھس آئے اور ان میں سے ایک نے ان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا اس شخص کو بھی میں نے لڑتے دیکھا ہے.وہ بیچارے گھبرا کر کھڑے ہوئے تو ان سپاہیوں نے وہیں گولیوں سے ان کو مار ڈالا.تو ہم کب کہتے ہیں کہ انگریزوں نے ظلم نہیں توڑے.انگریزوں نے غدر کے بعد ایسے ایسے ظلم توڑے ہیں کہ ان کا ذکر سن کر انسان کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں.ہماری نانی کے والد جو ایک دن بھی لڑائی کے لئے باہر نہیں گئے تھے.محض اس بناء پر کہ ایک نے کہہ دیا کہ میں نے انہیں بھی لڑتے دیکھا تھا گولیوں سے مار ڈالے گئے.اسی طرح کے اور بیسیوں واقعات ہیں.کوئی شخص دتی چلا جائے اور پرانے لوگوں ملے تو اسے فوراً معلوم ہو جائے گا کہ کس قسم کے دردناک واقعات لوگوں کی زبانوں پر ہیں.تو جب کوئی قوم کسی ملک کو فتح کرتی ہے تو اپنی فتح کے غرور میں وہ بڑی بڑی کرتی ہے.پھر غرور کے علاوہ اس قوم کو یہ ڈر بھی ہوتا ہے کہ اگر مفتوحین کو جلد کچلا نہ گیا تو ممکن ہے یہ پھر بغاوت کر دیں گے.گویا ان کے قلوب میں اطمینان نہیں ہوتا اور ہر وقت بغاوت کا خطرہ رہتا ہے.اس لئے وہ حد سے زیادہ مظالم ڈھاتے او ربڑی بڑی سختیاں لوگوں پر کرتے ہیں لیکن جو حکومت دیر سے قائم ہو وہ لوگوں کی عادات سے آگاہ ہوتی ہے اس لئے وہ زیادہ سختی سے کام نہیں لیتی.مثلاً انگریز اب گاندھی جی کو خوب جانتے ہیں.اور وہ سمجھتے ہیں کہ فلاں مواقع پر مقابلہ کرتے ہیں اور فلاں مواقع پر نہیں کرتے اس لئے وہ ان کے مقابلہ میں کا طریق اختیار نہیں کرتے.لیکن اگر نئی حکومت ہو اور اس کے ماتحت کوئی اس قسم کی حرکات کرے تو وہ فوراً کہے گی کہ اس شخص کو مار ڈالو کیونکہ اس سے ملک میں بغاوت پیدا ہوتی ہے.اسی طرح جب کوئی زبان ہلائے گا فوراً حکومت کے ارکان کہیں گے کہ اب اس کے قتل کے سوا کوئی چارہ ہی نہیں.جیسے اٹلی نے جب لیبیا پر قبضہ کیا تو اس نے بڑے بڑے ظلم کئے عرب لوگ ان مظالم کو کثرت سے سختی شخص

Page 189

1941 190 خطبات محمود بیان کیا کرتے ہیں.ان کا بیان ہے کہ اٹلی نے لیبیا پر قبضہ کرنے کے بعد ہزاروں آدمی بلا وجہ مروا ڈالے اور بعض دفعہ لوگوں پر اپنی حکومت کا رعب جمانے کے لئے گھروں کے دروازوں پر لوگوں کو پھانسی پر لٹکا دیا جاتا حالانکہ ان کا کوئی قصور ہوتا تھا.تو ہر قوم جس کی بنیاد مذہب پر نہیں ملکوں کے فتح کرنے کے بعد اسی قسم کے مظالم کیا کرتی ہے.آخر دنیا میں ہزاروں سال کی تاریخ موجود ہے تم محمد صل الیم اور آپ کے اتباع کو چھوڑ کر یا ایک دو اور بادشاہوں کو منتقلی کر کے بتاؤ تو سہی کہ کسی قوم نے کسی ملک پر قبضہ حاصل کیا ہو اور اس نے وہاں ظلم و ستم کا بازار گرم کر دیا ہو.تورات پڑھ کر دیکھ لو وہاں بھی یہی احکام ہیں کہ:.66 جبکہ خداوند تیرا خدا انہیں تیرے حوالے کرے تو تو انہی ماریو اور حرم کیجو نہ تو ان سے کوئی عہد کریو اور نہ ان پر رحم کریو 1 “ تم ان کے مذبحوں کو ڈھا دو، ان کے بتوں کو توڑو، ان کے گھنے باغوں کو کاٹ ڈالو اور ان کی تراشی ہوئی مورتیں آگ میں جلا دو.” 2 اسی طرح لکھا ہے:.“ جب خداوند تیرا خدا اسے تیرے قبضے میں کر دیوے تو وہاں کے ہر ایک مرد کو تلوار کی دھار سے قتل کر "3 4"-L “ اور جو کچھ اس شہر میں ہو اس کا سارا لوٹ اپنے لئے غرض جب کوئی قوم فاتح ہو تو وہ یہی کچھ کیا کرتی ہے اور میں تو نہیں سمجھ سکتا کہ کون ایسا احمق ہے جو باوجود اس کے کہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے وضاحت سے فرما دیا ہے کہ إِنَّ الْمُلُوكَ إِذَا دَخَلُوا قَرْيَةً أَفْسَدُوْهَا وَجَعَلُوا أَعِزَّةَ أَهْلِهَا أَذِلَةً 5 یعنی دستور اور قانون یہی ہے کہ جب کسی ملک میں نئے بادشاہ آتے ہیں تو معزز

Page 190

1941 خطبات محمود 191 لوگوں کو ذلیل کر دیتے ہیں.پھر بھی وہ یہی کہے کہ ہمیں حکومت میں تبدیلی کی ضرورت ہے.دنیا میں دو قسم کی تبدیلیاں ہوا کرتی ہیں.ایک اندرونی تبدیلی ہوتی ہے اور ایک بیرونی تبدیلی.اندرونی تبدیلی کا مطالبہ تو ہمارا حق ہے اور ہم خود کہتے ہیں کہ انگریزوں نے بہت عرصہ حکومت کر لی ہے اب ہندوستانیوں کو بھی حکومت کے اختیارات ملنے چاہئیں لیکن یہ کہنا کہ انگریز چلے جائیں اور جر من آجائیں یہ قرآن کریم کی اس تہدید کو نظر انداز کرنا ہے کہ اِنَّ الْمُلُوكَ إِذَا دَخَلُوْا قَرْيَةً أَفْسَدُوهَا وَجَعَلُوا أَعِزَّةَ أَهْلِهَا أَذِلَّةٌ یہ خدائی قانون ہے جو کبھی نہیں بدل سکتا.سوائے اس کے کہ داخل ہونے والا دنیوی اصطلاح میں ملک نہ ہو جیسے کہ محمد صلی ا لم یا آپ کے خلفاء تھے.وہ روحانی بادشاہ تھے دنیوی اصطلاح میں ملک نہیں تھے.اسی طرح دو چار اورلوگ جنہیں بطور استثناء پیش کیا جا سکتا ہے.وہ گو بادشاہ کہلاتے ہوں مگر وہ ان معنوں میں بادشاہ نہیں تھے جن معنوں میں دنیا دار بادشاہ ہوتے ہیں بلکہ در حقیقت وہ خدا تعالیٰ کے نیک بندے تھے.چنانچہ ساری یورپین تاریخ میں صرف ایک مثال ایسی نظر آتی ہے او روہ مثال بھی ایسی ہے جس میں فاتح نے غیر قوموں کے مقابلہ میں اپنے آپ کو ظلم سے نہیں بچایا بلکہ اپنی قوم کے ہی ایک حصہ کے مقابلہ میں اس نے عفو اور درگزر کا سلوک کیا.یہ مثال ابراہیم لنکن کی ہے جو امریکہ کا پریذیڈنٹ تھا.اس کے عہد حکومت میں ایک دفعہ یونائیٹڈ سٹیٹس امریکہ کے ایک حصہ نے کے خلاف بغاوت کر دی.جب شمالی یونائیٹڈ سٹیٹس نے جنوبی یونائیٹڈ سٹیٹس پر فتح پالی اور وہ ایک فاتح کی حیثیت میں داخل ہونے لگا تو جرنیلوں نے فتح کا مظاہرہ کرنے کی بہت بڑی تیاری کی ہوئی تھی اور ان کی تجویز تھی کہ بینڈ بجاتے ہوئے ہم شہر میں داخل ہوں گے مگر جب ابراہیم لنکن نے ان انتظامات کو دیکھا تو اس نے اپنے جرنیلوں کو ڈانٹ دیا اور کہا کہ کیا یہ خوشی کا مقام ہے کہ امریکنوں نے امریکنوں کو قتل کیا ہے.لڑائی تو ہمیں مجبوراً کرنی پڑی تھی ورنہ اپنی قوم کا خون بہانا کوئی پسندیدہ بات نہیں ہو سکتی.پھر اس نے اپنے جرنیلوں سے کہا کہ تم پیچھے آتی ہے حصہ

Page 191

1941 192 خطبات محمود کھڑے رہو میں اکیلا شہر میں داخل ہوں گا.چنانچہ وہ اکیلا شہر میں داخل ہوا او رباغی فوج کے افسر کے دفتر میں جا کر اس کے ڈسک پر سر جھکا کر بیٹھ گیا اور تھوڑی دیر پر نم آنکھوں کے ساتھ دعا میں مشغول رہ کر اٹھ کھڑا ہوا.نام یورپین تاریخ میں صرف ایک مثال ہے جہاں فاتح نے مفتوح کو ذلیل کرنے کی کوشش نہیں کی.لیکن محمد مصطفی صلیم کی زندگی تو اس قسم کے واقعات سے بھری پڑی ہے آپ نے جب مکہ فتح کیا تو باوجود اس کے کہ کفار مکہ سالہا سال تک آپ کو اور آپ کے صحابہ کو سخت سے سخت تکالیف پہنچاتے رہے تھے.آپ نے ان سب کو کہہ دیا کہ لا تَقرِيبَ عَلَيْكُمُ الْيَوْمَ 6 جاؤ میں تم پر کوئی رفت نہیں کرتا.پھر محمد صلی الی و کمی کا عفو و در گذر یہیں تک محدود نہیں بلکہ آپ نے محمد ایک دفعہ صحابہ سے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ تمہارے ہاتھ پر مصر کو فتح کرے گا.جب تم فاتحانہ حیثیت میں اُس میں داخل ہو تو اُس وقت تم اس بات کو یاد رکھنا کہ تمہاری دادی ہاجرہ مصر کی تھی.اب کہاں حضرت ہاجرہ کا زمانہ اور کہاں صحابہ کا زمانہ.مگر اتنی دوری کے باوجود رسول کریم صلی ا ہم نے صحابہ کو ہدایت فرمائی کہ تم اس تعلق کی بناء پر مصر کے لوگوں کے ساتھ نرمی سے پیش آنا.تم خود ہی سوچو کہ کیا تمہیں کبھی اپنے پردادا کا خیال آیا؟ کبھی نکڑ دادا کے متعلق تمہارے دل میں محبت کا کوئی جذبہ پیدا ہوا؟ بھلا آدم کا ذکر سن کر کیا تمہارے دل میں ویسا ہی جذبہ محبت پیدا ہوتا ہے اپنے باپ یا دادا کا ذکر سن کر پیدا ہوتا ہے؟ یہ اور بات ہے کہ چونکہ حضرت آدم علیہ السلام اللہ تعالیٰ کے نبی تھے اس لئے اور نبیوں کی طرح تم ان سے بھی محبت رکھو مگر جس طرح اپنے باپ یا دادا سے انسان کو محبت ہوتی ہے ویسی محبت تمہارے دل میں حضرت آدم علیہ السلام کے متعلق پیدا نہیں ہوتی.باوجود اس کے کہ انسانی نسل کے لحاظ سے حضرت آدم علیہ السلام تمہارے دادا ہیں تمہیں کبھی ان کا ویسا خیال نہیں آیا جیسے اپنے باپ یا دادا کا خیال آجاتا ہے.تمہارے دل میں ان کا نام سن کر صرف ایسے ہی جذبات پیدا ہوتے ہیں جیسے حضرت کرشن یا حضرت رام چندر کا نام

Page 192

1941 193 خطبات محمود سن کر پیدا ہوتے ہیں مگر حضرت رسول کریم صلی لی کم بائیس سو سال پہلے کی دادی ہاجرہ کا ذکر کر کے اپنے صحابہ کو نصیحت فرماتے ہیں کہ دیکھنا! اہل مصر سے نرم سلوک کرنا.تو اس قسم کا نمونہ دکھانا انبیاء کا ہی کام ہوتا ہے ورنہ عام دستور دنیا کے بادشاہوں کا یہی ہے کہ جب وہ کسی ملک میں فاتح بن کر داخل ہوتے ہیں بڑے بڑے ظلم کرتے اور ہزاروں لوگوں کو بے دریغ قتل کر دیتے ہیں.پس ان واقعات کے ہوتے ہوئے اگر کوئی شخص یہ خیال کرے کہ انگریزوں کی شکست ہمارے لئے فائدہ رکھتی ہے اور ہندوستان کو کوئی نقصان نہیں سکتی تو یہ بڑی بیوقوفی کی بات ہو گی.سیاسی طور پر نئی حکومتیں اس بات پر مجبور ہوتی ہیں کہ وہ لوگوں سے سختی کریں اور اس وقت حالات میں ایسا تغیر اور قلوب میں ایسی بے اطمینانی ہوتی ہے کہ چھوٹی چھوٹی بات پر وہ بڑی بڑی سخت سزا دے دیتی ہیں.اور مذہبی لحاظ سے میں نے بتایا ہے کہ ہٹلر نے جو اعتقاد اپنی کتاب مائنے کامف میں بیان کیا ہے وہ ایسا خطرناک ہے کہ اس کی موجودگی میں اسلام اور احمدیت اور ہٹلر کی آپس میں کبھی صلح نہیں ہو سکتی.وہ اپنے خیالات کو بدل لے تو اور بات ہے پھر ہمیں انگریزوں اور ہٹلر میں کوئی فرق دکھائی نہیں دے گا.بلکہ ہٹلر انگریزوں سے ہمیں زیادہ بہتر نظر آئے گا کیونکہ انگریز عیسائی ہیں اور ہٹلر اور اس کے ساتھی لامذہب اور ان کے جلد اسلام قبول کرنے کی امید کی جا سکتی ہے.مگر موجودہ صورتِ حالات میں تو اس کا عقیدہ ایسا خطرناک ہے کہ اس کی موجودگی میں ہماری اس سے صلح ہو ہی نہیں سکتی.پھر میرے لئے تو اس کا عملی ثبوت موجود ہے.مجھے کثرت سے اللہ تعالیٰ نے رویا دکھائی ہیں جن سے صاف پتہ لگتا ہے کہ اس وقت تک موجودہ جنگ میں اللہ تعالیٰ انگریزوں کے حق میں ہے.ممکن ہے وہ کل انگریزوں کی کسی حرکت پر ناراض ہو جائے مگر اس وقت تک مجھے جو رؤیا ہوئی ہیں ان سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ انگریزوں کے ساتھ ہے.مثلاً مجھے یہ دکھایا جانا کہ میرے سپر د انگلستان کی حفاظت کا کام کیا گیا ہے اور میں رویا میں ہی تو

Page 193

خطبات محمود 194 1941 برطانیہ کی کامیابی کے لئے دعا کر رہا ہوں، بتاتا ہے کہ اللہ تعالی اسلام اور احمدیت کے لئے انگریزوں کی فتح کو مفید سمجھتا ہے.اب احمدی یا تو یہ سمجھیں کہ یہ خواہیں میں نے جھوٹے طور پر بنا لی ہیں اور اگر وہ یہ سمجھنے کے لئے تیار نہیں تو انہیں ہے اپنے خیالات کی اصلاح کرنی چاہئے.مجھے متواتر خوابیں آئی ہیں اور متواتر بتایا گیا کہ اللہ تعالیٰ اس وقت انگریزوں کے حق میں ہے.مثلاً وہی خواب جس میں مجھے امریکہ سے اٹھائیس سو جہاز بھیجے جانے کی خبر دی گئی تھی بتا رہا ہے کہ الہی منشاء کیا ہے.اسی طرح خواب میں یہ سن کر کہ انگلستان خطرہ میں ہے میرا گی ہے میرا گھبرا جانا اور پھر اس آواز کا آنا کہ یہ چھ مہینے پہلے کی بات ہے اور پھر عین چھ ماہ کے بعد انگریزوں کی متواتر تائید اور نصرت ہوتے چلے جانا اس امر کا ثبوت ہے کہ اس وقت تک اللہ تعالیٰ انگریزوں کے ساتھ ہے.یہ خوابیں ہیں جو گزشتہ عرصہ میں مجھے متواتر آئیں.اب ان کے خلاف مبائع ہوتے ہوئے وہی شخص طریق اختیار کر سکتا ہے جو اوپر سے تو مبائع ہو اور اندر سے منافق ہو.ہو.ورنہ جو سچی بیعت کرنے والا ہے وہ تو ان خوابوں کی صداقت میں ایک لمحہ بھر کے لئے بھی شک نہیں لا سکتا.بلکہ اس میں سچی بیعت کا بھی سوال نہیں، ایک ہندو، ایک عیسائی اور ایک سکھ بھی جو اپنے اندر تعصب کا مادہ نہیں رکھتا ان خوابوں پر غور کر کے سمجھ سکتا ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہیں.مگر وہ احمدی جو میری بیعت میں شامل ہیں انہیں تو ان خوابوں کی سچائی پر ایسا ہی خص یقین ہونا چاہئے جیسے سورج اور چاند پر یقین ہوتا ہے.پس ان تمام حالات میں کیا مذہبی لحاظ سے اور کیا سیاسی لحاظ سے ہمارا فرض ہے کہ ہم پورے طور پر انگریزوں کی مدد کریں.ہمارے مقامی افسروں سے جو ہیں وہ اس عرصہ میں یا تو طے ہو جائیں گے اور اگر طے نہ ہوئے تو لوگ جھگڑ کہتے ہیں یار زنده صحبت باقی

Page 194

خطبات محمود 195 1941 لڑائی کے بعد ہم پھر اپنے حقوق کا سوال پیدا کر دیں گے.مگر موجودہ صورت حالات ایسی ہے کہ میں خیال کرتا ہوں اگر اس جنگ کے دوران انگریز حکام ہماری مذہبی آزادی میں بھی دست اندازی کریں جیسا کہ مجھے بعض حکام کی نیتوں کے بارہ میں خوف ہو رہا ہے کہ وہ ایسا کریں گے تب بھی ہم ان کی اس دست اندازی کو برداشت کریں گے.ہاں جنگ کے بعد ہم ان سے قطع تعلق کر لیں گے..پس میرے نزدیک اگر اس وقت وہ ہماری مذہبی آزادی میں بھی دخل اندازی کریں (ایسی دخل اندازی نہیں جس سے ہمیں اپنا مذہب چھوڑنا پڑے) تو ہم اس کو برداشت کر لیں گے.البتہ جنگ کے بعد اپنے مذہب کی تائید میں شریعت کے قوانین کے اندر رہ کر ہمار اجو بس چلے گا ہم کریں گے.لیکن اگر یہ صورت نہ ہو اور وہ ہمارے مذہب میں کسی قسم کی دست اندازی نہ کریں تو میں سمجھتا ہوں باوجود ان کی کئی قسم کی مخالفتوں کے ہمارا مذہبی، سیاسی اور اخلاقی فرض یہ ہے کہ اگر مال کے ساتھ انگریزوں کی مدد کر سکتے ہوں تو مال کے ساتھ مدد کریں، زبان کے ساتھ مدد کر سکتے ہوں تو زبان سے مدد کریں، قلم سے مدد کر سکتے ہوں تو قلم سے مدد کریں، وقت کی قربانی کر کے مدد کر سکتے ہوں تو وقت کی قربانی کر کے مدد کریں اور اس طرح ایسا ماحول پیدا کر دیں جو انگریزوں کی فتح کا موجب بن جائے.کل میری ہدایت کے ماتحت قادیان میں بھی دوستوں نے روزہ رکھا باہر کی جماعتوں نے بھی روزے رکھے ہوں گے.قادیان میں میں نے گنتی کرائی تھی جس سے مجھے معلوم ہوا کہ قادیان کے چار پانچ سو آدمیوں نے روزہ رکھا تھا.میں سمجھتا ہوں کہ دنیا میں شاید ہی کسی اور جگہ حکومت برطانیہ کی کامیابی کے لئے اتنے لوگوں نے ایک دن روزہ رکھا ہو اور اللہ تعالیٰ سے دعائیں کی ہوں.مگر میں بھی سمجھتا ہوں کہ قادیان کی آبادی کے لحاظ سے یہ تعداد بہت کم ہے.بہت دوستوں کو یا تو روزہ رکھنا یاد نہیں رہا یا انہوں نے اس روزہ کی اہمیت کو پورے طور پر ہے اور

Page 195

1941 196 خطبات محمود سة سمجھا نہیں.قادیان میں آٹھ ہزار احمدی آبادی ہے.بے شک ان میں نابالغ بھی ہیں، معذور بھی ہیں، بیمار بھی ہیں، بوڑھے بھی ہیں، عورتیں بھی ہیں اور پھر کچھ لوگ سفر پر گئے ہوئے ہوں گے مگر پھر بھی پانچ سو بہت تھوڑی تعداد ہے.میرے پاس جو رپورٹ پہنچی تھی وہ تو چار سو لوگوں کے متعلق تھی مگر چونکہ بعض رپورٹوں میں عورتوں کو گنتی میں شامل نہیں کیا گیا تھا اور بعضوں کی رپورٹ میرے پاس بعد میں بھی آتی رہی ہیں اس لئے میں نے اپنے ذہن میں یہ اندازہ لگایا ہے کہ قادیان میں قریباً 500 لوگوں نے روزہ رکھا ہے.مگر میرے نزدیک یہ تعداد اس بات کو ظاہر نہیں کرتی کہ لوگوں نے میری ہدایت پر پوری طرح عمل کیا ہے.شاید اس کی وجہ ہو کہ اخبار والوں نے لوگوں کو بار بار جگایا اور ہوشیار نہیں کیا.مگر میں سمجھتا ہوں مومن کو بار بار جگانے اور ہوشیار کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی آخر رسول کریم صلی الل نظم کے زمانہ میں کون سے اخبار ہوا کرتے تھے مگر لوگ پھر بھی شوق سے عمل کرتے تھے بلکہ اخباروں نے تو موجودہ زمانہ میں میرے نزدیک لوگوں کو سست کر دیا ہے.بہر حال قادیان میں سے قریباً پانچ سو آدمیوں نے روزہ رکھا اور گو یہ تعداد قادیان کی آبادی کے لحاظ سے کم ہو مگر دنیا میں شاید ہی کسی اور جگہ بیک وقت اتنے آدمیوں نے حکومتِ برطانیہ کی کامیابی کے لئے کبھی روزہ رکھا ہو.میں تو خیال کرتا ہوں کہ شاید لنڈن میں بھی ایک دن میں پانچ سو آدمیوں نے اس غرض کے لئے روزہ نہیں رکھا ہو گا اور اگر ساری جماعت کے روزے شمار کئے جائیں تو ہزاروں تک تعداد پہنچ گئی ہو گی.پس ہماری یہ قربانی معمولی قربانی نہیں بلکہ دنیا کی تمام قوموں یہاں تک کہ انگریزوں کی قربانی سے بھی بڑھی ہوئی ہے.جیسا کہ اعلان کیا جا چکا ہے آج جمعہ کی نماز کی آخری رکعت میں رکوع کے بعد کے قیام میں میں دعا کروں گا کہ اللہ تعالیٰ موجودہ جنگ کے شدید نتائج سے دنیا کو محفوظ رکھے اور ایسے نتائج پیدا فرمائے جو اسلام اور احمدیت کے لئے مفید ہوں.نیز ہماری جماعت کو ان ابتلاؤں سے بچائے جو ہماری حد برداشت سے باہر ہوں اور ایسی سہولتیں پیدا فرمائے کہ ہم ان کاموں کے

Page 196

1941 197 خطبات محمود کرنے سے پیچھے نہ رہ جائیں جو اسلام اور احمدیت کی ترقی کے لئے خدا تعالیٰ نے مقرر فرمائے ہیں.ہمارا خیال یہی ہے کہ اسلام اور احمدیت کا فائدہ انگریزوں کی فتح میں ہے اگر ہمارا یہ خیال غلط نہیں تو خدا انگریزوں کو فتح دے اور لڑائی کو ایسی حالت میں ختم کرے جو اسلام اور احمدیت کے لئے مفید ہو.پس میں اس رنگ میں دعا کروں گا دوستوں کو چاہئے کہ وہ بھی میرے ساتھ اس دعا میں شامل ہوں.رسول کریم صلی ال ولم نے فرمایا ہے کہ ہر جمعہ کے روز خطبہ کے شروع ہونے سے لے کر نماز جمعہ کے اختتام تک ایک گھڑی ایسی آتی ہے کہ جس میں مومن بندہ اللہ تعالیٰ سے جو دعا بھی کرتا ہے وہ قبول کرلی جاتی ہے8.اسی لئے میں نے اس دعا کے لئے نماز جمعہ کی دوسری رکعت رکھی ہے اور میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ جمعہ کے دن قبولیت دعا کی جو گھڑی آتی ہے آج وہ اپنے فضل سے اسی وقت لائے جب ہم سب مل کر اس کے حضور دعا کر رہے ہوں." (الفضل 11، اپریل 1941ء) 1 استثناء باب 7 آیت 2 برٹش اینڈ فارن بائبل سوسائٹی لنڈن 1887ء استمناء باب 7 آیت 5 برٹش اینڈ فارن بائبل سوسائٹی لنڈن 1887ء استغناء باب 20 آیت 13 برٹش اینڈ فارن بائبل سوسائٹی لنڈن 1887ء 4 استناء باب 20 آیت 14 برٹش اینڈ فارن بائبل سوسائٹی لنڈن 1887ء 5 النمل: 35 6 السِّيرَةُ الْحَلبية جلد 3 صفحہ 89 مطبوعہ مصر 1935ء 1 طبقات ابن سعد جلد ۱.صفحہ 50 مطبوعہ بیروت 1985ء بخاری کتاب الْجُمُعَةِ باب السَّاعَةُ الَّتِي فِي يَوْمِ الْجُمُعَةِ

Page 197

1941 198 (13) خطبات محمود آتا یہ دن بہت گھبراہٹ اور خطرہ کے ہیں دعائیں کرو ، دعائیں کرو اور دعائیں کر و تشهد فرموده 11، اپریل 1941ء) تعوذ اور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:.“اللہ تعالیٰ کی یہ سنت ہے اور اس کی تمام مخلوق میں یہ قاعدہ ہمیں ہے کہ اس نے ہر ایک مخلوق کو اس کے حالات کے مطابق ایک بچاؤ کا سامان دیا ہوا ہے.جانوروں میں ہم دیکھتے ہیں کہ بعض کو اللہ تعالیٰ نے ایسے پنجے دیئے ہیں جن کے ذریعہ وہ اپنے پر حملہ کرنے والوں سے اپنی حفاظت کر سکتے ہیں، بعض کو اس نے ایسی چونچیں دی ہیں جن سے وہ اپنا بچاؤ کر لیتے ہیں.بعضوں کو اس نے ڈنک دیئے ہیں جن سے وہ اپنی حفاظت کر لیتے ہیں، بعض کی لاتوں میں اس نے اتنی طاقت پیدا کر دی ہے کہ جب کوئی حملہ کرے تو وہ زور سے لات مارتے ہیں بعض کے سر میں ایسی طاقت دی ہے کہ اس سے دشمن کو زیر کر لیتے ہیں یا کم سے کم اپنا دفاع کر لیتے ہیں ، بعض کو اس نے ایسے چکنے جسم دیئے ہیں کہ ہاتھ سے پکڑا جائے تو فوراً چھوٹ جائیں، بعض کو پر دیئے ہیں جن سے وہ ہوا میں اڑ جاتے ہیں بعض کو پانیوں میں رکھا ہے کہ انسانوں کی نظروں سے اوجھل رہیں، بعض کو اتنا چھوٹا بنایا ہے کہ وہ چھوٹی سے چھوٹی چیز کے پیچھے چھپ کر جان بچا لیتے ہیں پھر بعض ایسے ہیں جو زمین پر چلتے ہیں اور ان کے پاؤں کے نیچے دب جانے کا خطرہ

Page 198

1941 199 خطبات محمود ہوتا ہے.ان کو اس نے ایسی طرز پر سمٹنے کی طاقت دی ہے کہ پاؤں کے نیچے آکر بھی وہ زندہ رہتے ہیں.بیر بہوٹی کتنا چھوٹا سا کیڑا ہے.بچپن میں ہم اس سے کھیلا کرتے تھے اور برسات کے موسم میں بچے بالعموم اس کو پکڑنے کی کوشش کرتے ہیں.اسے خدا تعالیٰ نے ایسی سمٹنے کی طاقت دی ہے کہ پکڑنے لگیں تو مُردہ کی طرح گر پڑتا ہے اور پاؤں کے نیچے آکر بھی بچ جاتا ہے.چیونٹا کیا چھوٹی سی چیز مگر اس کے منہ میں اللہ تعالیٰ نے ایسی طاقت دی ہے کہ جب وہ آدمی کو کاٹتا تو قوی سے قومی آدمی بھی بلبلا اٹھتا ہے.اس کے منہ میں ایسی طاقت جب وہ کسی کو کاٹے تو انسانی جسم سے اس کا چھڑانا قریباً ناممکن ہو جاتا ہے.مجھے بچپن کا اپنا ہی ایک واقعہ یاد ہے.میری عمر کوئی پانچ چھ سال کی ہو گی میرے ہاتھ میں مٹھائی تھی غالباً پیڑا تھا جو میں کھا رہا تھا.کوئی شخص ہماری ڈیوڑھی کے آگے جانور ذبح کر رہا تھا اور بچے وہاں بیٹھ کر دیکھ رہے تھے.میں بھی وہاں بیٹھا دیکھ رہا تھا اور ساتھ ساتھ مٹھائی بھی کھاتا جاتا تھا.معلوم ہوتا ہے میں نے اپنا ہاتھ کہیں نیچا کیا اور کوئی چیونٹا چڑھ گیا.جب میں نے بغیر دیکھے مٹھائی کو منہ میں ڈالنا چاہا تو اس نے میرے ہونٹ پر کاٹ لیا.جو شخص جانور ذبح کر رہا تھا اس نے اسے چھڑانے کی بہت کوشش کی مگر اس نے نہ چھوڑا اور آخر اس نے چھری کے ساتھ اسے کاٹ دیا.گویا وہ مر کر وہاں سے چھوٹا.تو دیکھو کتنا چھوٹا سا کیڑا ہے مگر اس کی بھی حفاظت کا سامان اللہ تعالیٰ نے پیدا کر دیا ہے.گھونگا کتنا نازک ہوتا ہے اس کے ننگے جسم پر پاؤں پڑ جائے تو فوراً مر جائے مگر اللہ تعالیٰ نے اس کے لئے ایک سخت خول بنا دیا ہے جس کے اندر وہ چھپ جاتا ہے.مچھلی کتنا نازک جانور ہے مگر دیکھو اللہ تعالیٰ نے اسے کیسا سخت کانٹا ہے دیا ہے جب وہ کانٹا مارتی ہے تو بڑے سے بڑا آدمی بلبلا اٹھتا ہے.بلی گھر یلو جانور مگر عورتیں اور بچے بالعموم اس سے ڈرتے رہتے ہیں کہ کہیں آنکھیں نہ نوچ لے.اسے اللہ تعالیٰ نے چھلانگ لگانے کی طاقت اور تیز پنجے دیئے ہیں اور جب وہ

Page 199

1941 200 خطبات محمود چھلانگ لگا کر کسی پر حملہ کرے تو وہ اپنا بچاؤ نہیں کر سکتا.بٹیر تلیر وغیرہ کیسے چھوٹے چھوٹے پرندے ہیں لیکن جب کوئی شخص انہیں پنجرے سے نکالنے لگے اور وہ چونچ ماریں تو آدمی گھبرا کر ہاتھ باہر کھینچ لیتا ہے.تو کوئی چیز ایسی نہیں جس کی حفاظت کا سامان اللہ تعالیٰ نے نہ کیا ہو.انسان ہی ایک سے جس کی حفاظت کا کوئی ظاہری سامان نہیں یعنی اسے نہ تو اللہ تعالیٰ نے ہے ویسے ہاتھ دیئے ہیں جیسے بعض جانوروں کو پنجے، نہ ویسے ہونٹ دیئے ہیں جیسے بعض کو چونچ، نہ ویسی لاتیں دی ہیں جیسی دوڑ کر جان بچانے والے جانوروں کو دی ہیں، نہ اس کا قد اتنا چھوٹا بنایا ہے کہ وہ چھپ کر اپنا بچاؤ کر سکے، نہ پر دیئے ہیں کہ ہوا میں اڑ جائے اور نہ اسے پانی کے نیچے رہنے والا بنایا ہے کہ اس کی سطح کے نیچے جائے.سب سے ننگا وجود یہی ہے اور سب سے ننگا رہنے کا اسے ہی دیا حکم گیا ہے.اسے سطح زمین پر رہنے کا حکم ہے اور قانون قدرت ہی ایسا ہے کہ اس کی صحت کے لئے جو سامان ہیں مثلاً سورج اور ہوا وغیرہ یہ بھی سطح زمین پر رہنے سے.ہی وابستہ ہیں.سانپ اور گھیسیں وغیرہ کئی ایسے جانور ہیں جو چھ چھ ماہ تک زمین ره کے نیچے ہوا اور پانی کے بغیر رہتے ہیں مگر انسان تین دن بھی ایسی جگہ نہیں سکتا.مچھلی پانی میں بہت لمبا غوطہ لگا سکتی ہے، پرندے ہوا میں کس طرح اڑتے ہیں مگر انسان نہ زمین کے نیچے رہ سکتا ہے، نہ پانی میں دیر تک غوطہ لگا سکتا ہے اور نہ ہوا میں اڑ سکتا ہے.اس کی حفاظت کا سامان اللہ تعالیٰ نے اس کے دماغ میں رکھا اور یہ دماغ سے کام لے کر چونچوں اور پنجوں کی جگہ ، مچھلی کے کانٹے کی جگہ، ہاتھی کے سونڈ کی جگہ، گھوڑے اور گدھے کے گھر کی جگہ تلوار نکالتا ہے، نیزے اور خود استعمال کرتا ہے اور گھونگے کے خول کی بجائے زرہ بکتر پہنتا ہے.تو ہیں، بندوقیں، مشین گنیں ، ہم اور ہوائی جہاز کام میں لاتا ہے اور ان ذرائع سے اپنی حفاظت کرتا ہے مگر انسانی تمدن ایسا ہے کہ باوجودیکہ ایسی ایجادات کی قابلیت اللہ تعالیٰ نے اس کے دماغ میں رکھی ہے پھر بھی کبھی ایسا ہوتا ہے کہ کچھ حصہ مخلوق کا

Page 200

خطبات محمود 201 1941 ان چیزوں سے محروم کر دیا جاتا ہے.یہ محکوم قومیں ہوتی ہیں جن کو حاکم اقوام بندوق، توپ، تفنگ اور دیگر آلات حرب رکھنے سے روک دیتی ہیں.اللہ تعالیٰ نے تو انسان کو بغیر سامان حفاظت کے بنا کر بتایا ہے کہ اسے اپنی حفاظت کے لئے بیرونی سامان درکار ہیں.مگر غالب حکومتیں حکم دیتی ہیں کہ محکوم قوم کو ان سامانوں کے اپنے پاس رکھنے کی اجازت نہیں.مثلاً بندوقوں کی اجازت نہیں، توپوں کی اجازت نہیں یا مثلاً یہ ہوائی جہازوں کا زمانہ ہے ان کی اجازت نہیں.غرض ہر زمانہ کے لحاظ سے جو سامان حفاظت کے ہیں حاکم اقوام محکوم اقوام کو ان سے محروم کر دیتی ہیں اور وہ کوئی بھی سامان اپنی حفاظت کا نہیں رکھ سکتیں.اس لئے سوال یہ ہے کہ پھر ایسے لوگوں اور ایسی قوموں کی حفاظت کا کیا ذریعہ ہے؟ وہ خدا جس نے گھونگے کی حفاظت کے لئے خول دیا ہے، طوطے کو کاٹنے والی چونچ دی ہے، مرغی بٹیر اور تلیر تک کو چونچ دی ہے ، جس نے بلی کو تیز ناخن اور کودنے کی طاقت دی ہے، جس نے کو پانی کی سطح کے نیچے چھپا دیا ہے اور پرندوں کو ہوا میں اڑنے کے لئے ہیں اس نے بے شک انسان کو دماغی قابلیت دی ہے مگر اس کے نتیجہ میں ایسی قومیں بھی ہیں جنہوں نے دماغی طاقتوں سے کام لیتے ہوئے اپنے آپ کو محفوظ کر لیا اور بعض دوسری قوموں کو محروم کر دیا.دنیا میں باقی جو جاندار ہیں ان میں سے کسی ایک کو کبھی بحیثیت قوم کوئی حفاظت کے سامان سے محروم نہیں کر سکتا.کسی بڑے سے بڑے بادشاہ میں یہ طاقت نہیں کہ حکم دے سکے کہ آئندہ کے لئے کبوتروں یا چڑیوں کے پر نہیں ہوں گے یا یہ کہ آئندہ مچھلیاں پانیوں میں نہیں رہیں گی یا سانپ اور گھیسیں زمین کے نیچے نہ رہ سکیں گے.دنیا کی کوئی حکومت یہ فیصلہ نہیں کر سکتی کہ بلیوں کے پنجے نہیں ہوں گے.مگر دنیا میں ایسے انسان ضرور ہیں جو دوسرے انسانوں کو ان کی حفاظت کے سامانوں سے محروم کر دیتے ہیں.اس لئے سوال یہ ہے کہ ایسے حالات پیدا ہو سکتے ہیں کہ قوموں کی قومیں حفاظت کے ظاہری سامان کے استعمال سے محروم کی جاسکتی ہیں تو ایسے لوگ کیا کریں.اس کے تو بخشے

Page 201

1941 202 خطبات محمود یہ معنی ہوئے کہ کوؤں ، تلیروں، بٹیروں اور کبوتروں کی حفاظت کے سامان تو ہیں، سانپ اور بچھو کے بچاؤ کے سامان قدرت نے رکھے ہیں مگر انسان کو ایسا بنایا ہے کہ اس کے ایک طبقہ کو حفاظت کے سامانوں سے محروم کیا جا سکتا ہے مگر کیا اللہ تعالیٰ ایسا کر سکتا ہے؟ کیا یہ ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو اشرف المخلوقات بنایا اور پھر اسے حفاظت کے سامانوں سے محروم کر دیا ہو.قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ ایسا نہیں ہو سکتا.اللہ تعالیٰ بے انصاف نہیں اس نے ہر قوم کی حفاظت اور ترقی کے سامان مہیا کر دیئے ہیں.پھر سوال ہوتا ہے کہ جب یہ ممکن ہے کہ بعض قومیں دوسری قوموں کو ان سامانوں سے محروم کر دیں تو پھر ان کی حفاظت کا کیا سامان ہے.لا قرآن کریم نے ایسے لوگوں کی حفاظت کا سامان بھی بتایا.چنانچہ فرمایا أجيب دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ فَلْيَسْتَجِيْبُوا لِي وَلْيُؤْمِنُوا بِي لَعَلَّهُمْ يَرْشُدُونَ - 1 غالب اقوام کمزوروں کو حفاظت کے سامانوں سے محروم کر دیتی ہیں اور ان کو دبا لیتی ہیں، بہتا کر دیتی ہیں.گویا ان کے پر کاٹ دیتی ہیں اور یہ افراد کے ساتھ بھی ہوتا ہے اور قوموں ملکوں کے ساتھ بھی.جانوروں کے ساتھ کوئی یہ سلوک نہیں کر سکتا.تو ہو سکتا ہے کہ کوئی دس ہیں یا سو پچاس کبوتروں کے پر کاٹ دے.یہ بھی ہو سکتا ہے کہ جو مچھلی پکڑی جائے اس کے کانٹے اڑا دیئے جائیں.یہ بھی ممکن ہے کہ جو سانپ پکڑا جائے اس کی کچلیاں توڑ دی جائیں.مگر یہ ممکن نہیں کہ کسی ملک کے سارے کبوتروں کے پر کاٹے جا سکیں.کسی ملک کے پانیوں میں رہنے والی سب مچھلیوں کے کانٹے اڑا دئے جائیں اور کسی ملک کے سارے سانپوں کو زہر کی کھلیوں سے محروم کر دیا جائے.مگر انسانوں کے متعلق یہ ممکن ہے اس لئے اس کے واسطے اللہ تعالیٰ نے علیحدہ طاقت بھی عطا فرمائی ہے.چنانچہ فرمایا کہ جب ایسی حالت ہو تو اس وقت ایسے لوگوں کی توپ، بندوق، بم، مشین گن اور ہوائی جہاز دعا ہے.دعا ہی ایسے وقت میں اس کا ہتھیار بن جاتا ہے.وہی اس کی حفاظت کا سامان بن جاتا ہے.قرآن کریم نے فرمایا

Page 202

1941 203 خطبات محمود سنتا یعنی ہے آمَنْ يُجِيبُ الْمُضْطَر اذا دعاه 2 یعنی کون ہے جو مضطر اور بے بس کی دعا کو سنتا ہے جس کی حفاظت کے سارے سامان اس سے چھین لئے جاتے ہیں اس کی آواز کو کون ہے؟ فرمایا اللہ.فرمایا ایک وقت ایسا آتا ہے کہ انبیاء اور ان کی جماعتیں دنیا کے ظلموں سے تنگ آجاتی ہیں اور گھبرا کر پکارتی ہیں کہ متلی نصر الله 3 یعنی ہمارے سامان جاتے رہے ہیں ہمارے ہتھیار چھین لئے گئے ہیں.اب خدا تعالیٰ کی مدد ہماری نصرت کب کرے گی؟ اب خدا تعالیٰ کہاں ہے؟ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جب یہ آواز انسان کے دل سے نکلتی ہے تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے الآإِنَّ نَصْرَ اللهِ قَرِيب 4.سن لو کہ اللہ تعالیٰ کی مدد قریب آ پہنچی ہے.یہ صحیح ہے کہ انسانی نسل بعض اوقات ان سامانوں سے محروم ہو جاتی ہے جو بظاہر حفاظت کے لئے ضروری ہیں مگر اس وقت ان کے لئے دعا کا ہتھیار ہوتا ہے.انبیاء کی جماعتوں کے قیام میں اللہ تعالیٰ کو چونکہ قدرت نمائی مقصود ہوتی ہے اور وہ چونکہ بتانا چاہتا ہے کہ میں نے ہی انہیں کیا ہے میں ہی ان کی حفاظت کروں گا اس لئے وہ ان کو ظاہری سامانوں سے محروم کر دیتا ہے تا وہ ایک ہی ہتھیار کو سامنے رکھیں یعنی خدا تعالیٰ کی امداد کا ہتھیار.ہماری جماعت بھی اللہ تعالیٰ کے نبی اور مامور کے ذریعہ قائم ہوئی ہے اس لئے سنت اللہ کے مطابق خاص طور پر کمزور ہے.بے شک ہندوستان میں باقی قومیں بھی ظاہری ہتھیاروں سے محروم ہیں.ہندو، سکھ ، دوسرے مسلمان کسی کو بھی اجازت نہیں لیکن پھر بھی ان کو ایک اور ہتھیار حاصل ہے.یعنی جتھہ کا ہتھیار.مگر ہم اس بھی محروم ہیں.ان کے بڑے بڑے جتھتے ہیں اور حکومت کو ان کو خوش رکھنے کی ضرورت ہوتی ہے.دوسری حکومتیں بھی ان کو خوش رکھنا چاہتی ہیں مگر ہمارا کوئی جتھہ بھی نہیں اور اس لئے ہمیں خوش رکھنے کی کسی کو بھی ضرورت نہیں.کہتے ہیں کسی بیل کے سیٹنگ پر کوئی مچھر بیٹھ گیا تھا تھوڑی دیر کے بعد خود ہی لگا کہ میاں بیل! میں تمہارے سینگ پر بیٹھا ہوں اگر تمہیں تکلیف محسوس

Page 203

1941 204 خطبات محمود ہوتی ہو تو اُڑ جاؤں؟ بیل نے کہا مجھے تو یہ بھی پتہ نہیں لگا کہ تم بیٹھے کب ہو.یہی حالت ہماری ہے ہمارا کھڑا ہونا اور بیٹھنا کسی کو محسوس بھی نہیں ہوتا.اس لئے کہ ہمارا جتھہ کوئی نہیں.دنیا جس چیز کا ادب و احترام کرتی ہے وہ ہمارے پاس نہیں.دنیا میں یا تو طاقت اور قوت کا احترام کیا جاتا ہے اور یا پھر جتھوں کا.جتنے والی قومیں بھی جب کھڑی ہو جائیں تو حکومت کے لئے مشکلات پیدا کر دیتی ہیں مگر ہمارے پاس تو یہ بھی نہیں اس لئے ہمارا ہتھیار صرف دعاؤں کا ہی ہتھیار ہے اور ہمیں دعاؤں پر خاص زور دینا چاہئے.ہمارا واحد ہتھیار دعا ہے اور جس شخص کے پاس ایک ہی ہتھیار ہو وہ اگر اسے بھی پھینک دے تو اس سے زیادہ بدنصیب اور کون ہو سکتا ہے؟ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے کہ تُخُذُوا حِذْرَكُمْ 5 یعنی اپنے ہتھیار ہمیشہ اپنے پاس رکھا کرو.جن کے پاس تلواریں اور بندوقیں ہیں ان کو تلواریں اور بندوقیں اپنے پاس رکھنے کا حکم ہے لیکن جن کے پاس یہ نہیں ان کے لئے یہی حکم ہے کہ وہ ہمیشہ دعاؤں میں لگے رہیں.یہ بات ظاہر ہے کہ ہتھیار اسی صورت میں مفید ہوتا ہے جب اسے استعمال کیا جائے.کسی شخص کے پاس اگر اچھی سے اچھی تلوار ہو لیکن وہ اسے دور پھینک دے اور دشمن حملہ کرے تو وہ تلوار اسے کیا فائدہ دے سکتی ہے؟ کسی کے پاس بہت اعلیٰ بندوق ہو لیکن وہ غلافوں میں بند گھر میں پڑی ہو اور ڈاکو اسے جنگل میں گھیر لیں تو وہ بندوق اس کے کس کام کی؟ اسی طرح کسی کے پاس تو ہیں اور ہوائی جہاز بھی ہوں لیکن وہ صندوقوں میں بند ہوں اور ان کو استعمال میں نہ لایا جائے تو ان کا کیا فائدہ؟ اسی طرح دعا ، گو ایک زبردست ہتھیار ہے مگر اس کے لئے ضروری ہے کہ مانگی جائے.جس طرح تلوار، بندوق، توپ وغیرہ ہتھیاروں کے لئے ضروری ہے ان کو استعمال کیا جائے.جس طرح ہم اُس وقت مفید ہو سکتے ہیں جب وہ دشمن پر پھینکے جائیں اسی طرح دعا بھی اسی وقت کام دے سکتی ہے جب وہ مانگی جائے.

Page 204

1941 205 خطبات محمود صرف منہ سے کہتے رہنا کہ ہمارے پاس دعا کا ہتھیار ہے کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکتا.اس سے فائدہ اٹھانے کے لئے ضروری ہے کہ رات دن دعاؤں میں لگے رہیں.دن بہت نازک ہیں ایسے نازک کہ اس سے زیادہ نازک دن دنیا پر پہلے کبھی نہیں آئے اور پھر ہمارے جیسی نہتی اور کمزور قوم کے لئے تو یہ بہت ہی نازک ہیں.ایک جہاز بھی اگر آکر بم پھینکے تو ہم تو اس کا بھی مقابلہ نہیں کر سکتے.کیا ہم اس پر تھوکیں گے؟ موجودہ جنگ کی تباہی و بربادی کا ایک نیا پہلو ہمارے سامنے آیا ہے.یعنی بلگریڈ 6 کی بربادی، کئی لاکھ کی آبادی کا شہر 24 گھنٹوں کے اندر اندر تباہ ہو گیا اور وہاں سوائے لاشوں اور اینٹوں کے ڈھیروں کے کچھ نظر نہیں آتا.ایک بچہ سوراخ سے سر نکال کر دیکھتا ہے کہ میرے ماں باپ کہاں ہیں مگر اسے ہر طرف سوائے اینٹوں کے ڈھیر کے کچھ نظر نہیں آتا.عورتیں جھانکتی ہیں کہ ہمارے خاوند یا باپ یا بھائی کہاں ہیں مگر سوائے تباہ شدہ مکانوں اور عمارتوں کے کچھ دکھائی نہیں دیتا.میلوں میں آباد شہر اب سوائے کھنڈرات کے کچھ نہیں.اس زمانہ میں انسان کی طاقت مقابلہ کی حیثیت ہی کیا رہ گئی ہے؟ اور جب لاکھوں انسانوں کی آبادیوں والے شہر اس طرح اڑ سکتے ہیں تو گاؤں کا ذکر ہی کیا؟ ایسے ایسے بم ایجاد ہو ہیں جو دو دو سو بلکہ چار چار سو گز تک مار کر جاتے ہیں.ہمارے ملک میں اتنے بڑے گاؤں کتنے ہیں؟ بالعموم ایسے چھوٹے چھوٹے گاؤں ہیں کہ ایک ایک بم سے اڑ جائیں نہ کسی انسان کا پتہ لگے اور نہ کوئی جانور باقی رہے.چکے پس یہ ایسے خطرناک حالات ہیں کہ اب بھی جو شخص اس واحد ہتھیار کو جو ہمارے پاس ہے استعمال نہ کرے اس سے زیادہ غافل کون ہو سکتا ہے؟ پس دن رات یہی فکر رہنا چاہیئے، دل پر ایسا بوجھ ہو کہ اضطرار کی حالت طاری ہو جائے کہ اللہ تعالیٰ ہماری دعاؤں کو سن لے.مگر میں نے دیکھا ہے کہ غفلت اور سنگدلی اس حد تک پہنچ چکی ہے کہ بعض لوگ ایسے مزے لے لے کر جنگ کی خبریں بیان کرتے ہیں کہ گویا دنیا پر کوئی آفت آئی ہی نہیں.بڑے مزے سے بیان کرتے ہیں کہ

Page 205

1941 206 خطبات محمود فلاں شہر پر یوں حملہ ہوا اور فلاں جگہ اس طرح لوگ مارے گئے.ان کو سوچنا چاہئے کہ جو مارے جاتے ہیں وہ بھی کسی کے باپ ہیں، کسی کے بیٹے ہیں اور کسی کے بھائی ہیں.کوئی اپنے پیچھے روتی ہوئی بیوہ، کوئی ماں اور کوئی یتیم بچے چھوڑ رہا ہے.ان حالات میں ان خبروں کو پڑھتے ہوئے تو یوں محسوس ہونا چاہئے کہ گویا کسی قریبی رشتہ دار کی لاش پر انسان کھڑا ہو.یہ گریہ و زاری کرنے کے دن ہیں.ایسی گریه و زاری جو عرش الہی کو ہلا دے.ہمارا خدا زندہ خدا ہے اور اگر زندہ خدا کی موجودگی میں ہم ان بلاؤں سے بچنے کی کوشش نہ کریں تو ہم سے زیادہ غافل کون ہو سکتا ہے.دنیا کو اپنے اسباب اور جنگ کے سامانوں یعنی توپوں، مشین گنوں اور ہوائی جہازوں پر بھروسہ ہے مگر ہمارا بھروسہ صرف اللہ تعالیٰ پر ہے.وہ لوگ ان سامانوں کی طرف دوڑ رہے ہیں.انگلستان کیا اور جرمنی کیا، جاپان کیا اور امریکہ کیا سب مرد اور عورتیں دن اور رات بم، تو ہیں، ہوائی جہاز اور دوسرے سامان جنگ بنانے میں لگے ہوئے ہیں مگر ہمارا کام یہ ہے کہ ہم خدا تعالیٰ کے فضلوں کے بنانے میں لگ جائیں.جس طرح وہ لوگ دن رات چھوٹے بھی اور بڑے بھی یہ سامان بنانے میں لگے ہوئے ہیں اسی طرح ہم بھی سب کے سب رات اور دن خدا تعالیٰ دعائیں مانگنے میں لگ جائیں کیونکہ جب تک مقابلہ کے سامان ویسے ہی زبر دست نہ ہوں کامیابی نہیں ہو سکتی.ہر دعا توپ و بندوق کا مقابلہ نہیں کر سکتی.ضروری ہے کہ دعا بھی اتنی ہی شاندار ہو جتنے سامانِ جنگ ہیں.جس طرح ان سامانوں کے بنانے میں ان لوگوں کا زور لگ رہا ہے اسی طرح دعائیں کرنے میں ہمیں زور لگانا ہئے تا اللہ تعالی اسلام اور احمدیت کی ان چیزوں سے حفاظت کرے.یا درکھو کہ ہم پر بہت بڑی ذمہ داری ہے اللہ تعالیٰ کی مقدس امانت اور اس کے تازہ شعائر ہماری حفاظت میں ہیں ہم کس طرح ان کی حفاظت کر سکتے ہیں؟ اگر ہمارے مقابر پر ایک بھی بم گرے تو ہم کیا کر سکتے ہیں اور ان کو کیسے بچا سکتے ہیں؟ ہم اسی وقت حفاظت کر سکتے ہیں جب ہم آسمان پر ان سے بہت زیادہ سخت بم بنانے میں لگ ނ

Page 206

1941 207 خطبات محمود جائیں.وہ طیارے، وہ بحری اور ہوائی جہاز اور وہ گولہ بارود تیار کریں جو ان بموں، تو پوں، جہازوں اور گولوں کو اڑا کر پھینک دیں اور یہ چیزیں ہم آسمان پر دعاؤں کے ذریعہ ہی تیار کر سکتے ہیں اور دعائیں بھی وہ جو رات اور دن گھبراہٹ، کرب اور اضطراب سے کی جائیں اور جو اسی کوشش اور التزام سے کی جائیں جس طرح دوسرے لوگ سامان تیار کرتے ہیں.جب تک ہماری یہ حالت نہ ہو، مقابلہ میں کامیابی کی امید فضول ہے.ان دنوں کو غفلت میں نہ گزارو.خبریں پڑھو تو چاہئے کہ تمہارے دل کانپ جائیں اور ان سے عبرت حاصل کرو اور اس طرح نہ ہو جس طرح قرآن کریم میں ہے کہ کافر لوگ جب عبرت کے سامان دیکھتے ہیں تو اندھوں کی طرح ان پر سے گزر جاتے ہیں.7 چاہئے کہ رات دن گریہ و زاری میں گزریں آج وہ زمانہ نہیں کہ ہنسو زیادہ اور روؤ کم.انسان کو چاہئے کہ آج روئے زیادہ اور ہنسے کم.بلکہ چاہئے کہ انسان روئے ہی روئے اور جنسی اس کے لبوں پر بہت ہی کم آئے تا آسمان سے وہ سامان پیدا ہوں جو ہماری بھی اور دوسرے لوگوں کی بھی کہ بھی ہمارے بھائی ہیں ان تباہ کن سامانوں سے حفاظت کر سکیں.ذرا غور کرو کہ ایک منٹ میں آکر گولہ لگتا ہے یا مائن پھٹتی ہے اور چشم زدن میں ہزار دو ہزار انسان سمندر کی تہ میں پہنچ کر مچھلیوں کی خوراک بن رہے ہوتے ہیں.اگر انسان کو کہیں ایک لاش بھی باہر پڑی ہوئی مل جائے تو دل دہل جاتا ہے.ہزاروں لاشیں روزانہ سمندر میں غرق ہو رہی ہیں.انگریزی بحری جہازوں کے ڈوبنے کی اوسط ہفتہ وار ساٹھ ہزار ٹن ہے اور بعض دفعہ تو دو لاکھ بیس ہزار ٹن تک بھی جہاز ڈوبے ہیں.یہ جہاز جو کراچی اور بمبئی وغیرہ میں چلتے ہیں عام طور پر چودہ پندرہ سو ٹن کے ہوتے ہیں.اور یہ عام طور پر سامان لے جانے کے لئے استعمال ہوتے ہیں مگر پھر بھی ان میں چار پانسو سواریاں ہوتی ہیں.پس ساٹھ ہزار ٹن جہازوں کے غرق ہونے کے معنی یہ ہوئے کہ چھ ہزار جانیں ہر ہفتہ سمندر کی تہہ میں پہنچ جاتی ہیں.اتنے برطانوی لوگ گویا ہر ہفتہ ڈوبتے ہیں.گو ان میں سے یہاں تو

Page 207

1941 208 خطبات محمود بہت سے بچا لئے جاتے ہیں مگر وہ امید نہیں چھوڑتے.پھر کتنے افسوس کا مقام ہو گا اگر ہم جو زندہ قوم ہیں امید چھوڑ دیں.پس بہت گریہ و زاری کرو.سمجھو کہ ہم آرام سے ہیں.ایک زمیندار جو اپنی زمین میں ہل چلاتا ہے یہ مت سمجھے کہ مجھ تک کون پہنچ سکتا ہے.وہ سمجھتا ہے کہ یہ ہل ہی میری دنیا ہے باقی دنیا سے مجھے کیا سروکار.بموں نے اب دور و نزدیک کا سوال ہی نہیں رہنے دیا.کیا پتہ کہ کل اس کا ہل سلامت رہ سکے یا نہ اور کون کہہ سکتا ہے کہ کل اس کے ماں باپ اور بیوی بچے اس کی آنکھوں کے سامنے زخمی نہ پڑے ہوں گے.پس دعائیں کرو، دعائیں کرو اور دعائیں کرو اور جنگ کی خبروں کو ہنسی سے نہ پڑھو.بلکہ اگر کوئی اس طرح پڑھے تو اسے کہو کہ تو کیا سنگدل اور غافل ہے.خود بھی دعائیں کرو اور اسے بھی تحریک کرو اور اتنی دعائیں کرو کہ عرش الہی ہل جائے اور خدا تعالیٰ کا فضل دنیا کو بھی اور ہمیں بھی بچا لے.بے شک یہ عبرت کے سامان ہیں جن سے لوگوں کو ہدایت ہو سکتی ہے لیکن اللہ تعالیٰ چاہے تو وہ دنیا کو تباہ کئے بغیر بھی ہدایت دے سکتا ہے.پس آج میں یہ باتیں واضح طور پر بیان کر کے اپنی ذمہ داری سے سبکدوش ہوتا ہوں.گو اس کا یہ مطلب نہیں کہ پھر کبھی نہ کہوں گا مگر آج میں نے وضاحت سے بتا دیا ہے کہ یہ دن بہت گھبراہٹ اور خطرہ کے دن ہیں ان کو رو رو کر گزارو اور ایسا اضطراب تمہارے اندر ہونا چاہئے کہ کھانا کھانا مشکل ہو جائے اور پانی حلق میں پھنسے اور نیندیں حرام ہو جائیں اور تم سے ایسا اضطرار ظاہر ہو کہ اللہ تعالیٰ فیصلہ کر دے کہ اس مومن کے اضطرار نے میرے عرش کو ہلا دیا ہے اور وہ اپنے عرش کو تسکین دینے اور ٹھہرانے کے لئے دنیا پر رحم فرمائے." خطبہ ثانیہ میں فرمایا: “ یوں تو میرا ارادہ پہلے ہی اس مضمون پر بیان کرنے کا تھا مگر جب میں آ رہا تھا تو مجھے معلوم ہوا کہ ایک احمدی جو فوج میں ڈاکٹر تھا جہاز میں جا رہا تھا کہ تار پیڈو

Page 208

خطبات محمود لگنے 209 1941 سے جہاز ڈوب گیا اور وہ بھی اور دوسرے سب جہازی بھی غرق ہو گئے اور ہمیں کیا خبر کہ اور کتنے احمدی جو ہمارے لئے بچوں سے بھی زیادہ عزیز ہیں کہاں کہاں ان کی لاشیں سمندر کے نیچے پڑی مچھلیوں کی خوراک بن رہی ہیں.اور ان وو باتوں کو دیکھتے ہوئے بھی اگر ہم نچست نہ ہوں تو پھر اور کونسا وقت آئے گا.(الفضل 14 جون 1941ء ) 1 البقره: 187 2 : النمل: 63 3،4 : البقره: 215 النساء : 72 6 بلگریڈ : یوگو سلاویہ کا دار الخلافہ جو دریائے سیو اور دریائے ڈینیوب کے سنگھم پر واقع ہے.(اردو انسائیکلو پیڈیا) وَالَّذِينَ إِذَا ذُكِّرُوا بِأَيْتِ رَبِّهِمْ لَمْ يَخِرُّوا عَلَيْهَا صُمَّا وَعُمْيَانًا (الفرقان: 74) حملا بعد میں معلوم ہوا کہ اس احمدی ڈاکٹر کے متعلق خبر غلط تھی.اَلْحَمْدُ لِلَّهِ کہ وہ صحیح سلامت ہیں.

Page 209

خطبات محمود 1941 210 (14 دعائیں کرو کہ خدا تعالیٰ آنے والی ہولناک تباہی سے دنیا کو بچالے عقلمند فرمودہ18، اپریل 1941ء) تشہد، تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:.شخص سے پہلے میں دوستوں کو پھر اس امر کی طرف توجہ دلاتا ہوں کہ زمانہ نہایت ہی نازک ہے اور ہزاروں آدمیوں کی جانیں روزانہ ضائع جا رہی ہیں.وہ ہوتا ہے جو دوسروں کی حالتوں کو دیکھ کر عبرت حاصل کرے.وہ عظمند نہیں ہوتا جو اس دن کا انتظار کرے جب مصیبت خود اس کو گھیر لے.کئی لوگ دوسروں کی مصیبتوں پر ہنسی اڑاتے رہتے ہیں.یہاں تک کہ خدا تعالیٰ کا عذاب خود انہیں پکڑ لیتا ہے تب وہ رونے اور پیٹنے لگتے ہیں اور خدا تعالیٰ کے حضور گریہ و زاری کرنے لگ جاتے ہیں.مگر ان کی اس وقت کی دعائیں قبول نہیں ہوتیں کیونکہ خدا تعالیٰ کے فرشتے کہتے ہیں کہ جب دوسرے مر رہے تھے اس وقت تو تم خوش تھے اور جب اپنے اوپر موت آنے لگی ہے تو رونے لگ گئے ہو.کیا وہ لوگ خدا تعالیٰ کے بندے نہیں تھے ؟ پس ہر گز اس شخص کی دعا قبول نہیں ہوتی جو دوسروں کی موت پر خوش ہوتا یا اس کی پرواہ نہیں کرتا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة و السلام ایسے ہی لوگوں کے متعلق ایک واقعہ سنایا کرتے تھے.فرماتے تھے ایک دفعہ کہیں ہیضہ پڑا لوگ مرے اور بے تحاشا مرتے چلے گئے جب کسی شخص کا جنازہ آتا اور لوگ

Page 210

1941 211 خطبات محمود نماز جنازہ کے لئے اکٹھے ہوتے تو ایک شخص صفوں میں کودتا پھرتا اور کہتا کہ لوگ بس کھاتے ہیں اور کھاتے چلے جاتے ہیں ذرا پر ہیز نہیں کرتے.ہمیں دیکھو ہم تو بس ایک پھلکا کھاتے ہیں مگر لوگ ہیں کہ کھانے بیٹھتے ہیں تو ٹھونستے چلے جاتے ہیں.نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ہیضہ سے مر جاتے ہیں.اب بجائے اس کے کہ اس کے دل میں جنازہ کو دیکھ کر خشیت پیدا ہوتی یا بجائے اس کے کہ اس کے دل میں مرنے والے کے اعزاء و اقرباء کے متعلق ہمدردی کے جذبات پیدا ہوتے اور اسے خیال آتا کہ مجھے اس کے بیٹوں بھائیوں یا دوسرے رشتہ داروں کی دلجوئی کرنی چاہئے وہ اور زیادہ ان کے زخموں پر نمک پاشی کرتا اور کہتا کہ یہ بڑا کھاؤ پیو اور بد پر ہیز ہو گا تبھی ہیضہ سے ہلاک ہوا.آخر جس شخص کی لاش پڑی ہوئی ہوتی لازماً جنازہ میں زیادہ تر اسی کے رشتہ دار ہوتے ہوں گے.انہیں کیسی تکلیف ہوتی ہو گی کہ ایک تو ہمارے ہاں موت ہو گئی اور دوسرے ہمیں یہ سننا پڑا کہ وہ بڑا لالچی، حریص اور کھاؤ پیو تھا.آخر کچھ دنوں کے بعد ایک لاش آئی اور جنازہ کے لئے لوگ جمع ہوئے کسی نے پوچھا کہ یہ کس کا جنازہ ہے؟ انہی لوگوں میں ایک دل جلا بھی بیٹھا تھا وہ کہنے لگا یہ اس ایک بُھل کا کھانے والے کا جنازہ ہے.تو جس قسم کا فقرہ کوئی شخص دوسروں کی مصیبت کے وقت استعمال کرتا ہے ویسا ہی فقرہ خدا تعالیٰ کے فرشتے اس کے لئے اس وقت استعمال کرتے ہیں جب وہ خود کسی مصیبت میں مبتلا ہوتا ہے.پھر وہ لوگ جو دوسروں کی مصیبت پر خوش ہوتے ہیں خود ان کی اپنی یہ ہوتی ہے کہ جب ان پر کوئی مصیبت آتی ہے تو وہ حد سے زیادہ اس مصیبت پر شور مچانے اور چیخنے چلانے لگ جاتے ہیں.ایک بے درد اور ظالم انسان جب دوسروں کے متعلق یہ سن کر کہ وہ لڑائی میں تباہ اور برباد ہوتے جا رہے ہیں خوش ہوتا ہے اور کہتا ہے کہ خوب ہوا.اس کا اپنا بیٹا جب پیٹ درد سے بیمار ہوتا ہے تو سارے محلہ کو وہ اپنے سر پر اٹھا لیتا ہے اور کہتا ہے ہائے میں مر گیا میرے پیٹ میں درد ہے جو اچھا ہونے میں نہیں آتا.اب کیا تم سمجھتے ہو کہ خدا تعالیٰ کے حالت

Page 211

خطبات محمود 212 1941 فرشتے ایسے شخص کی فریاد خدا تعالیٰ تک پہنچا کر اس کی سفارش کرتے ہوں گے کہتے ہوں گے کہ اس کے بچے کا پیٹ درد دور ہو جائے وہ تو اس پر لعنتیں ڈالیں گے کہ بدبخت تو نے دوسروں کی موت کو تو بے حقیقت سمجھا اور اپنے بیٹے کے پیٹ درد پر شور مچاتا ہے.اسی طرح خدا تعالیٰ کی طرف سے بھی اس پر بر برکت نہیں بلکہ لعنت نازل ہو گی کیونکہ وہ دوسروں کی تکالیف سے تو متاثر نہ ہوا اور اپنی معمولی سی تکلیف نے بھی اسے بے چین بنا دیا.فضلوں.الله سة پس مومن کو ہمیشہ اپنے اندر خشیت اللہ پیدا کرنی چاہئے او رجب دنیا میں آفات آئیں تو ان سے ڈر جانا چاہئے.ہم میں سے کون ہے جو محمد صلی ا یکم سے زیادہ خدا تعالیٰ کے عذابوں سے محفوظ ہو اور ہم میں سے کون ہے جو اللہ تعالیٰ کے فضلوں کا رسول کریم صلی ای کمی کی طرح وارث ہو ؟ ہم تو عشر عشیر کیا ہزارویں بلکہ لاکھویں حصہ کے برابر بھی اللہ تعالیٰ کے ان فضلوں کے وارث نہیں ہو سکتے جن کے رسول کریم صلی علیکم وارث ہیں اور نہ ہم عذابوں سے اس طرح محفوظ ہیں جس طرح رسول کریم صلى الله ال م محفوظ تھے مگر رسول کریم صل ال علم کی شان دیکھو جب بادل آتے، بجلی چمکتی اور بادل گرجتے تو آپ گھبرا کر کبھی اپنے کمرہ کے اندر تشریف لے جاتے اور کبھی باہر نکلتے.ایک دفعہ کسی نے پوچھا یا رسول اللہ ! یہ آپ کیا کرتے ہیں کہ بادل آنے پر آپ گھبرا کر کبھی کمرہ کے اندر تشریف لے جاتے ہیں اور کبھی باہر آتے ہیں.آپ نے فرمایا کہ ایسے ہی بادلوں سے کبھی کبھی خدا تعالیٰ کا غضب نازل ہو جاتا ہے.1 غور کرو کتنی بڑی خشیت الہی ہے جو آپ کے قلب میں تھی حالانکہ آپ خدا تعالیٰ کے نبی تھے اور دوسروں کو اللہ تعالیٰ کے عذابوں سے ڈرانے آئے تھے.اگر بالفرض عذاب نازل بھی ہوتا تو وہ دوسروں کے لئے عذاب ہوتا آپ کے لئے نہیں.مگر وہ جن پر عذاب نازل ہو سکتا تھا وہ تو اپنے گھروں میں مطمئن بیٹھے رہتے تھے اور وہ جس کی تائید کے لئے غضب الہی نازل ہونا تھا وہ گھبرا کر کبھی اندر جاتا اور کبھی باہر آتا اور اس وقت تک گھبراہٹ دور نہ ہوتی ، تک

Page 212

خطبات محمود ہے.2 213 1941 بھی بادل برس نہ جاتا.اسی طرح اللہ تعالیٰ کے فضلوں کی محبت آپ میں ایسی بڑھی ہوئی تھی کہ ایک دفعہ بادل کچھ عرصہ تک رکے رہے اور بارش نہ ہوئی.کچھ مدت کے بعد ایک دن آسمان پر بادل چھایا، کڑکا ہوا اور بارش کا ایک چھینٹا پڑا.آپ صحن میں تشریف لائے اور اپنی زبان نکال کر اس پر بارش کا چھینٹا لیا اور فرمایا کہ یہ میرے رب کا تازہ فضل ہے.2 یہ ہے مومن کی علامت جس کے نتیجہ میں خدا کا فضل نازل ہوتا اور انسان اس کے غضب سے بچ جاتا ہے.مگر وہ شخص جو اللہ تعالیٰ کے بڑے بڑے فضلوں کی کوئی قدر نہیں کرتا جو امن کے بیسیوں سالوں کی اتنی بھی قیمت نہیں سمجھتا جتنی رسول کریم صلی ا ہم نے بارش کے ایک قطرہ کی قیمت اسے اللہ تعالیٰ کے غضب سے ڈرنا چاہئے.رسول کریم صلی ال یا تو بادل کی ایک کڑک سے خوف زدہ ہو جاتے تھے اور خیال کرتے تھے کہ ایسا نہ ہو کہ اس کڑک کے پیچھے اللہ تعالیٰ کا کوئی غضب مخفی ہو وہ ہو کہ تمہاری آنکھوں کے سامنے ہزاروں لوگ ہلاک ہو رہے ہیں، ہزاروں شہر برباد ہو رہے ہیں، ہزاروں جانیں ضائع جا رہی ہیں، بڑی خوفناک تباہی اور بربادی ہے جو دنیا پر چھائی ہوئی ہے.مگر تمہیں اس کی ذرہ بھی پرواہ نہیں اور تم اس دن کا انتظار کر رہے ہو جب تمہارے شہروں پر بم گریں، تمہارے گھر برباد ہوں، تمہارے بیٹے ہلاک ہوں اور تم خود اپنی آنکھ سے ان نظاروں کو دیکھو.پس یہ دن بڑی تباہی اور بربادی کے ہیں اور ان میں بڑی خشیت اور بڑی انابت سے کام لینے کی ضرورت ہے.مومن کو یہ ہر گز نہیں دیکھنا چاہئے کہ یہ بلا اس پر نہیں بلکہ دوسروں پر وارد ہے.کیا محمد صلی الی یوم نے بادل دیکھ کر گھبراہٹ اس لئے ظاہر کی تھی کہ آپ نَعُوذُ بِاللهِ ڈرتے تھے کہ کہیں خدا تعالیٰ کا عذاب مجھ پر نازل نہ ہو تم جائے.آپ جانتے تھے کہ عذاب اگر نازل ہو گا تو دوسروں پر ہی ہو گا.مگر آر جانتے تھے کہ میں بھی اسی دنیا میں ہوں جس میں میرے دوسرے بھائی ہیں اس لئے آپ گھبراتے تھے اور اضطراب کے عالم میں کبھی کمرہ کے اندر تشریف لے جاتے

Page 213

1941 214 خطبات محمود تھے اور کبھی باہر آتے تھے.پھر ہم جو آپ کے متبعین ہیں کیا اتنے بڑے غضب کے نازل ہونے پر جو فی الواقع نازل ہو چکا ہے اور بڑھتا چلا جا رہا ہے خوش ہو سکتے ہیں؟ اور کہہ سکتے ہیں کہ ہمیں اس کی کیا پرواہ ہے.یہ عذاب دوسروں پر ہے ہم پر تو نہیں.کیا جس گھر میں آگ لگی ہوئی ہو اس کا ساکن اس بات پر خوش ہو سکتا ہے کہ آگ ابھی فلاں کمرہ میں ہے فلاں کمرہ میں نہیں.پھر ہم کس طرح مطمئن ہو سکتے ہیں جبکہ ہم یہ دیکھ رہے ہیں کہ دنیا کے ایک حصہ پر ایسا غضب نازل ہو رہا ہے جس کی مثال دنیا میں نہیں ملتی.اس عذاب کی بالکل وہی کیفیت ہے جو قرآن کریم نے اس جگہ بیان فرمائی ہے جہاں عیسائیوں کے مائدہ مانگنے کا ذکر ہے.وہاں اللہ تعالیٰ فرمایا تھا کہ اگر ان لوگوں نے میرے مائدہ کی ناقدری کی تو میں ان پر ایسا عذاب نازل کروں گا جس کی مثال روئے زمین پر اس سے پہلے کبھی نظر نہ آئی ہو گی.3 یہ عذاب آج ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں اور دنیا اس بات کا اقرار کر رہی ہے کہ اس سے ، پہلے دنیا پر اتنی بڑی تباہی کبھی نہیں آئی.نے قرآن کریم کی صداقت کا اس سے بڑھ کر اور کیا ثبوت ہو سکتا ہے کہ وہی الفاظ جو قرآن کریم نے استعمال کئے ہیں آج عیسائی قریباً روزانہ استعمال کرتے اور اس بات کا اقرار کرتے ہیں کہ دنیا پر وہ عذاب نازل ہے جس کی نظیر تاریخ پیش کرنے سے قاصر ہے اور یہ ایک بار نہیں، دو بار نہیں، تین بار نہیں، ہزاروں بار اعتراف کیا جا چکا ہے.پھر صرف آسٹریلیا میں نہیں، صرف امریکہ میں نہیں، صرف کینیڈا میں نہیں، بلکہ ہر ملک میں اس بات کو تسلیم کیا گیا ہے کہ آج زمین پر خدا تعالیٰ کا وہ قہر اترا ہوا ہے اور وہ تباہی اور بربادی ہو رہی ہے جس کی مثال نہیں ملتی.پس ایسے موقع پر بہت دعاؤں کی ضرورت ہے اور اگلے چھ ماہ نہایت خطرناک ہیں.اگر دنیا اگلے چھ ماہ کی ہولناک تباہی سے بچ جائے تو سمجھ لو کہ خدا تعالیٰ نے اپنے بندوں پر ایسا کرم فرمایا کہ جس کی کوئی نظیر نہیں.جس طرح اس عذاب کی پہلے کوئی مثال نہیں ملتی.اسی طرح اگر اگلے چھ ماہ خیریت سے گزر جائیں

Page 214

1941 215 خطبات محمود تو اللہ تعالیٰ کے اس کرم کی بھی پہلے کوئی مثال نہیں ملے گی.کیونکہ اتنے بڑے غضب کے بعد دنیا کو بچا لینا اسی رحیم کریم خدا کا ہی کام ہو سکتا ہے.کسی انسان کی طاقت میں یہ بات نہیں کہ وہ اس عذاب کو دور کر سکے.پس دعائیں کرو اور بہت دعائیں کرو تا اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے تم وارث بنو اوراس بات کو اچھی طرح یاد رکھو کہ جو شخص دوسروں پر رحم کرتا ہے اس پر بھی رحم کیا جاتا ہے.اور جو شخص دوسروں کی طرف سے اپنے دل کو سخت کر لیتا ہے اس کی طرف سے بھی خدا اور اس کے فرشتے اپنے دل کو سخت کر لیتے ہیں.اس کے بعد میں اس امر کی طرف احباب جماعت کو توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ جیسا کہ مجلس شوریٰ کے موقع پر میں نے بیان کیا تھا اس جنگ میں ہماری جماعت کے بھی بہت سے دوست شامل ہیں.میں ابھی جمعہ کے لئے آ رہا تھا کہ مجھے ایک احمدی دوست کا جو اسی جنگ میں ایک مقام پر گیا ہوا ہے تار ملا کہ میرے لئے دعا کی جائے.مجھے اس تار کو پڑھ کر خیال آیا کہ ہمارے وہ احمدی بھائی جو ہزاروں ہزار میل دور اس خطرناک جنگ میں شامل ہیں.کس طرح یہ امیدیں باندھے ہوئے ہوں گے کہ رات اور دن ان کی کامیابی کے لئے دعائیں کی جاتی ہوں گی مگر تم، ہاں تم اپنے دلوں میں غور کرو کہ کیا تم ان کی امید وں کو پورا کر رہے ہو، تم ان کی حُسنِ ظنیوں کو پورا کر رہے ہو اور کیا تم واقعی ان کے لئے دن اور رات ایک اضطراب کے عالم میں دعائیں مانگتے رہتے ہو؟ وہ ان مقامات پر ہیں جہاں چاروں طرف بم برس رہے ہیں، جہاں ہزاروں آدمی ایک ایک دن میں ہلاک ہو رہے ہیں اور جہاں بعض دفعہ ایک ایک بم ایسا گرتا ہے کہ وہ بچھتر پچھتر اور سو سو گز زمین کو اڑا کر لے جاتا ہے.ایسے خطرہ کے مقام پر گیا ہوا ہر احمدی تم میں سے ہر کے متعلق یہ امید رکھتا ہے کہ تم قادیان میں بیٹھے ہوئے اس کے متعلق دعائیں کر رہے ہو گے.پھر کیسا بد قسمت ہے وہ انسان کہ جس کے اپنے بھائی جنگ میں شامل ہوں اور پھر بھی وہ لوگوں کی موت پر خوش ہو پھر بھی وہ اس بربادی پر ہنسے اور

Page 215

1941 216 خطبات محمود پھر بھی یہ کہتے ہوئے اسے شرم نہ آئے کہ خوب مزا آیا.کیا ایسے شخص سے زیادہ سنگدل اور قسی القلب کوئی اور انسان ہو سکتا ہے؟ اور کیا اس سے بھی زیادہ خدا تعالیٰ کے غضب کو بھڑ کانے والا کوئی اور ہو سکتا ہے؟ پس ان کی اس حُسن طنی کو دیکھو، ان کے اس اعتماد کو دیکھو، ان کے اس یقین کو دیکھو اور اپنے میں سے بعض کے اس ظالمانہ فعل کو دیکھو کہ جب ہزاروں ہزار میل دور ایک شخص اپنی حفاظت کا ذریعہ ان کی دعاؤں کو سمجھ رہا ہے تو وہ ایسے افعال کر رہے ہوں جو ان کی پوری بے دردی اور ظالمانہ رویہ کو ظاہر کرنے والے ہوں.آجکل تو ہمارے دلوں میں ایک لمحہ کے لئے بھی چین نہیں ہونا چاہئے اور ہر وقت دعائیں ہماری زبان پر جاری رہنی چاہئیں.کجا یہ کہ ہم ہلاک ہونے والوں کی ہلاکت کی خبریں مزے لے لے کر پڑھیں اور اپنی مجلسوں میں کہیں کہ خوب ہوا.میری اپنی یہ حالت ہے کہ جب میں رات کو لیٹتا ہوں تو میرا دل دھڑکنے اور ر گھنٹوں میری نیند اڑ جاتی ہے اور میں دعائیں کرنے لگ جاتا ہوں.مگر باوجود ان دعاؤں کے میرا دل تسلی نہیں پاتا کہ میں خدا کے حضور سرخرو ہو گیا ہوں اور مجھے کبھی اطمینان نہیں ہوا کہ اس خطرہ اور مصیبت میں مبتلا بھائیوں کے جاتا ہے لئے میں نے ویسی ہی دعائیں کی ہیں جیسی مجھ سے امید کی جا سکتی تھی.اس کے بعد میں ایک اور شکایت کی طرف توجہ کرتا ہوں جو آج ہی میرے سامنے پیش ہوئی ہے اور وہ یہ کہ محلہ مسجد فضل میں بالعموم لوگ نماز باجماعت کے تارک ہیں.(یہ محلہ دار الفضل نہیں بلکہ وہ محلہ ہے جسے مقامی لوگ ارائیوں کا محلہ کہتے ہیں) اور جب ان سے پوچھا جاتا ہے کہ تم نماز میں کیوں شامل نہیں ہوتے تو کوئی کہتا ہے کہ میری فلاں سے لڑائی ہے کوئی کہتا ہے مجھے فلاں نے کھانے کی پرچی نہیں دی تھی.غرض کوئی کسی وجہ سے اور کوئی کسی وجہ سے مسجد میں نماز پڑھنے کے لئے نہیں آتا.اگر یہ شکایت صحیح ہے تو مجھے مسجد فضل کے حلقہ کے احمدیوں پر نہایت ہی تعجب ہے.نماز اور پھر باجماعت نماز اللہ تعالیٰ کے خاص

Page 216

1941 217 خطبات محمود فضلوں میں سے ایک فضل ہے اور اس نے اپنے بندوں پر یہ بہت بڑا احسان کیا ہے کہ انہیں پانچ وقت اپنے حضور حاضر ہونے کا شرف بخشا ہے.ان پانچ وقتوں میں اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے لئے دعاؤں کی قبولیت کا موقع بہم پہنچایا ہے اور اس حضوری کا مقام اس نے مسجد کو قرار دیا ہے.پس سوائے بیمار اور معذور کے ہر وہ شخص جو نماز کے لئے مسجد میں حاضر نہیں ہوتا وہ گویا خدا کے حضور حاضر نہیں ہوتا.آخر خدا کوئی مادی یا جسمانی چیز تو ہے نہیں کہ تم یہ خیال کر لو کہ ہم اس جسمانی چیز کے پاس جس وقت چاہیں گے پہنچ جائیں گے.وہ ہمیشہ اپنی صفات کے ظہور سے ہی نظر آتا ہے اور وہ یوں تو اپنی قدرت سے ہر جگہ ہے اور کوئی مقام ایسا نہیں جہاں خد اتعالیٰ کی قدرت کا اظہار نہ ہو مگر اس کا ہر جگہ ہونا ہمارے لئے کارآمد نہیں ہو سکتا جب تک ہم اس جگہ نہ جائیں جہاں اس نے حاضر ہونے کا حکم دیا ہوا ہے.پس جب تک انسان اس جگہ حاضر نہ ہو جس جگہ کے متعلق خدا تعالیٰ نے کہ میں وہاں اپنا جلوہ دکھاؤں گا اس وقت تک وہ خدا تعالیٰ کے جلوے کو ہے دیکھ نہیں سکتا کیونکہ خدا تعالیٰ نے ہی یہ فرمایا ہے کہ وہ اپنا جلوہ فرض نمازوں میں مسجد میں ظاہر کرتا ہے اور گو خدا تعالیٰ ہر جگہ ہے مگر اس کا یہ فرمانا ایسا ہی ہے جیسے کوئی بادشاہ کہہ دے کہ فلاں مقام پر سب لوگ جمع ہو جائیں میں وہاں آؤں اب اگر کوئی شخص اس جگہ نہ جائے اور کہیں اور چلا جائے اور یہ خیال کرے میں بادشاہ سے ملاقات کر لوں گا تو وہ حماقت کا ارتکاب کرے گا.اسی طرح جب خدا تعالیٰ نے یہ فرما دیا ہے کہ میں صبح کی نماز کے وقت مسجد میں ہر ایک کو اپنا جلوہ دکھاؤں گا.سوائے بیمار اور معذور کے اور جب خدا تعالیٰ نے یہ فرمایا دیا ہے کہ میں ظہر کی نماز کے وقت مسجد میں ہر ایک کو اپنا جلوہ دکھاؤں گا سوائے بیمار اور معذور کے اور جب خدا تعالیٰ نے یہ فرما دیا ہے کہ میں عصر کی نماز کے وقت مسجد میں ہر ایک کو اپنا جلوہ دکھاؤں گا سوائے بیمار اور معذور کے اور جب خدا تعالیٰ نے

Page 217

1941 218 خطبات محمود فرما دیا ہے کہ میں مغرب کی نماز کے وقت مسجد میں ہر ایک کو اپنا جلوہ دکھاؤں گا سوائے بیمار اور معذور کے اور جب خدا تعالیٰ نے یہ فرما دیا ہے کہ میں عشاء کی نماز کے وقت مسجد میں ہر ایک کو اپنا جلوہ دکھاؤں گا سوائے بیمار اور معذور کے.تو اب جو شخص صبح کی نماز کے وقت چاہتا ہے کہ خدا تعالیٰ اس کے گھر پر جلوہ دکھائے سوائے اس کے کہ وہ بیمار اور معذور ہو، وہ خدا تعالیٰ کا جلوہ دیکھنے سے محروم رہے گا.جو شخص ظہر کی نماز کے وقت چاہتا ہے کہ خدا تعالیٰ اس کے گھر پر جلوہ دکھائے سوائے اس کے کہ وہ بیمار اور معذور ہو وہ خدا تعالیٰ کا جلوہ دیکھنے سے محروم رہے گا.جو شخص عصر کی نماز کے وقت چاہتا ہے کہ خدا تعالیٰ اس کے گھر پر جلوہ دکھائے سوائے اس کے کہ وہ بیمار اور معذور ہو وہ خدا تعالیٰ کا جلوہ دیکھنے سے محروم رہے گا.جو شخص مغرب کی نماز کے وقت چاہتا ہے کہ خدا تعالیٰ اس کے گھر پر جلوہ دکھائے سوائے اس کے کہ وہ بیمار اور معذور ہو وہ خدا تعالیٰ کا جلوہ دیکھنے.محروم رہے گا.جو شخص عشاء کی نماز کے وقت چاہتا ہے کہ خدا تعالیٰ اس کے گھر جلوہ دکھائے سوائے اس کے کہ وہ بیمار اور معذور ہو وہ خدا تعالیٰ کا جلوہ دیکھنے سے محروم رہے گا.پس ہر وہ صبح کی نماز جو تم نے اپنے گھر پر پڑھی سوائے اس کے کہ تم بیمار تھے یا معذور تھے وہ نماز تم نے ضائع کر دی کیونکہ نماز کے معنے خدا تعالیٰ کی ملاقات کے ہیں اور وہ تم نے نہیں کی.اسی طرح ہر وہ ظہر کی نماز جو تم نے گھر پر پڑھی سوائے اس کے کہ تم بیمار تھے یا معذور تھے تو وہ نماز تم نے ضائع کر دی.کیونکہ خدا تعالیٰ اس وقت مسجد میں تھا اور تم گھر پر تھے.یہی حال اس عصر کی نماز کا ہے جو بیماری اور معذوری کے بغیر تم نے اپنے گھر پر پڑھی اور یہی حال اس مغرب کی نماز کا ہے جو بیماری اور معذوری کے بغیر تم نے اپنے گھر پر پڑھی اور یہی حال نے اس عشاء کا ہے جو بیماری اور معذوری کے بغیر تم نے اپنے گھر پر پڑھی اور اگر نے پانچوں نمازیں ہی اپنے گھر پر پڑھیں تو گویا پانچوں نمازوں میں خدا تعالیٰ کی ملاقات تمہیں نصیب نہیں ہوئی.اور جبکہ نماز خدا کی ملاقات کے لئے ہی پڑھی جاتی ہے

Page 218

خطبات محمود 219 لڑائی ہے ہ ہے 1941 اور وہ اور یہ ملاقات تمہیں نصیب نہیں ہوئی تو تم نے خواہ مخواہ اپنا وقت ضائع کیا.اگر تم وہی دس یا پندرہ منٹ دنیا کے کسی کام میں صرف کر لیتے تو تمہیں کوئی فائدہ بھی ہو جاتا.مگر ان نمازوں کے پڑھنے سے تمہیں کچھ بھی حاصل نہیں ہو گا.پس اگر نمازیں پڑھنی ہوں اور ان سے وہ فوائد حاصل کرنے ہوں جو شریعت نے نمازوں کے بیان کئے ہیں تو تمہیں نمازوں کو ان کی شرائط کے ساتھ ادا کرنا چاہئے.اور جبکہ نماز کی غرض محض خدا تعالیٰ کی ملاقات ہے تو میں نہیں سمجھ سکتا کہ کوئی شخص کس طرح کہہ سکتا ہے کہ فلاں امام الصلوۃ کے ساتھ چونکہ میری لڑائی ہے اس لئے میں نماز میں شامل نہیں ہو سکتا یا چونکہ میری فلاں سے اور وہ سیکرٹری ہے اس لئے میں نماز میں شامل نہیں ہو سکتا یا چونکہ میری فلاں سے لڑائی پریذیڈنٹ ہے اس لئے میں نماز میں شامل نہیں ہو سکتا یا چونکہ میری فلاں سے لڑائی ہے اور وہ قاضی یا محتسہ اس لئے میں نماز میں شامل نہیں ہو سکتا.آخر میں یہ تو خیال نہیں کر سکتا کہ یہ تمام لڑائیاں امام الصلوۃ کے ساتھ ہی ہیں.لازماً کسی کی لڑائی امام الصلوۃ کے ساتھ ہو گی، کسی کی قاضی کے ساتھ ، کسی کی سیکرٹری کے ساتھ ، کسی کی پریذیڈنٹ کے ساتھ اور کسی کی محتسب کے ساتھ.یہ تو ہو نہیں سکتا کہ امام ہی قاضی ہو، امام ہی محتسب ہو ، امام ہی سیکرٹری ہو، امام ہی پریذیڈنٹ ہو اور امام ہی پرچی خوراک تقسیم کرنے والا ہو.اور چونکہ امام سے دشمنی ہو گئی اس لئے نماز میں بھی آنا چھوڑ دیا گیا.لازماً لوگوں کے دلوں میں یہی شکوہ ہو گا کہ چونکہ فلاں محتسب یا فلاں قاضی یا فلاں امور عامہ کا کارکن یا فلاں پرچی خوراک تقسیم کرنے والا مسجد میں نماز پڑھنے کے لئے آتا ہے اور اس سے ہماری دشمنی ہے اس لئے ہم مسجد میں نماز پڑھنے کے لئے نہیں جا سکتے.مگر کیا ایسے لوگوں سے خدا تعالیٰ قیامت کے دن یہ نہیں کہے گا کہ اب میری جنت میں قاضی یا محتسب یا سیکرٹری یا پریذیڈنٹ آنے لگا ہے اور چونکہ جہاں وہ ہو وہاں تم نہیں آ سکتے اس لئے تم جنت میں نہ آؤ بلکہ دوزخ میں چلے جاؤ.پھر کیا خدا ان لوگوں کو یہ نہیں کہے گا کہ

Page 219

1941 220 خطبات محمود فلاں صبح کی نماز کے وقت میں مسجد میں گیا مگر تم میری ملاقات کے لئے نہ آئے اور اس لئے نہ آئے کہ فلاں قاضی اس مسجد میں نماز پڑھا کرتا تھا اور میں فلاں ر کی نماز کے وقت مسجد میں گیا مگر تم میری ملاقات کے لئے نہ آئے کیونکہ فلاں پرچی خوراک بانٹنے والا اس مسجد میں نماز پڑھا کرتا تھا.اور میں فلاں عصر کی نماز کے وقت مسجد میں گیا مگر تم میری ملاقات کے لئے نہ آئے کیونکہ فلاں محتسب اس مسجد میں نماز پڑھا کرتا تھا اور میں فلاں مغرب کی نماز کے وقت مسجد میں گیا مگر تم میری ملاقات کے لئے نہ آئے کیونکہ فلاں شخص جو تعلیم کا انتظام کرنے والا ہے وہ امام الصلوۃ تھا اور اس سے تمہاری دشمنی تھی.اور میں فلاں عشاء کی نماز کے وقت مسجد میں گیا مگر تم پھر بھی میری ملاقات کے لئے نہ آئے کیونکہ تم نے کہا کہ جو امور عامہ سے تعلق رکھتا ہے مسجد میں موجود ہے.اور چونکہ میری اس سے دشمنی ہے اس لئے میں مسجد میں نہیں جا سکتا.تب خدا تعالیٰ فرمائے گا اب وہی محتسب، وہی قاضی، وہی امور عامہ کا نمائندہ ، وہی امام الصلوۃ اور وہی خدام الاحمدیہ کے کارکن میری جنت میں جا رہے ہیں.اب بولو میں مہیں کس طرح جنت میں لے جاؤں اور ان لوگوں کی مجلس میں شریک کر کے تمہارا دل دُکھاؤں جن کی موجودگی کی وجہ سے تم میری ملاقات کے لئے بھی مسجد میں نہ آئے.اب میرے لئے سوائے اس کے کیا چارہ ہے کہ میں تمہیں دوزخ میں بھیج دوں جہاں تم ان لوگوں کی شکل نہ دیکھ سکو.مگر کیا تم اس بات کو پسند کرو گے؟ فلاں.پھر مجھے بتاؤ تو سہی کہ اللہ تعالیٰ نے ہم پر کتنا عظیم الشان فضل کیا کہ اس نے محمد صلی اللہ وسلم کو جو اس کا آخری شرعی رسول ہے کامل کتاب اور کامل ہدایت اور کامل شریعت دے کر مبعوث کیا اور اسے مبعوث فرما کر دنیا میں مسجد میں قائم کیں اور محمد صلی علیم سے یہ اعلان کرا دیا کہ مَسْجِدِى أَخِرُ الْمَسَاجِدِ 4 یعنی میری مسجد آخری مسجد ہے اور کوئی نہیں جو اس کے مقابلہ میں اپنی مسجد بنا سکے.اس نے عیسی علیہ السلام کی بتائی ہوئی مسجد کو منسوخ کر دیا اور اس نے موسیٰ علیہ السلام کی بنائی

Page 220

1941 221 خطبات محمود ہوئی مسجد کو منسوخ کر دیا اور اس نے کرشن علیہ السلام کی بنائی ہوئی مسجد کو منسوخ کر دیا اور اس نے رام چندر جی علیہ السلام کی بنائی ہوئی مسجد کو منسوخ کر دیا اور اس نے زرتشت علیہ السلام کی بنائی ہوئی مسجد کو منسوخ کر دیا اور اسی طرح اس نے ان تمام انبیاء کی مسجدوں کو منسوخ کر دیا جو آگے پیچھے آچکے ہیں اور دنیا میں یہ اعلان کرا دیا کہ اب محمد صلی علیکم کی بنائی ہوئی مسجد ہی قائم رہے گی.پس تم بتاؤ کہ کیا تم حضرت کرشن علیہ السلام سے زیادہ خدا کو پیارے ہو ؟ یا کیا تم حضرت رام چندر علیہ السلام سے زیادہ خدا کو پیارے ہو ؟ یا تم آدم علیہ سے زیادہ خدا کو پیارے ہو؟ یا تم نوح علیہ السلام سے زیادہ خدا کے پیارے ہو؟ یا تم موسیٰ علیہ السلام سے زیادہ خدا کے پیارے ہو؟ یا تم عیسی علیہ السلام سے زیادہ خدا کے پیارے ہو کہ خدا نے ان کی مسجدوں کو تو منسوخ کر دیا مگر وہ تمہارے گھر کی بنی مسجد کو قبول کرے گا.اس نے تو صاف طور پر کہہ دیا تھا کہ میں محمد صلی الی یوم کی مسجد کو ہی قبول کروں گا.مگر تم کہتے ہو جی ہاں.یہ آدم کے متعلق ہے ہمارے متعلق نہیں.آدم کی مسجد بے شک خدا تعالیٰ قبول نہیں کر سکتا مگر محمد صلی الم کے مقابلہ میں ہماری مسجد کو وہ ضرور قبول کرے گا.اسی طرح نوح علیہ السلام کی مسجد اس نے بے شک منسوخ کر دی مگر ان بے چاروں کی کیا حیثیت تھی ان کی مسجد تو في الواقع اس قابل تھی کہ محمد صلی ال نیم کی مسجد کے مقابلہ میں منسوخ کر دی جاتی مگر کو ہماری مسجد منسوخ نہیں ہو سکتی.اسی طرح اس نے عیسی علیہ السلام کی مسجد منسوخ کر دیا مگر ہماری مسجد کو منسوخ نہیں کیا، اس نے موسیٰ علیہ السلام کی مسجد کو منسوخ کر دیا مگر ہماری مسجد کو منسوخ نہیں کیا، اس نے رام چندر کی مسجد کو منسوخ کر دیا مگر ہماری مسجد کو منسوخ نہیں کیا، اس نے کرشن کی مسجد کو منسوخ کر دیا مگر ہماری مسجد کو منسوخ نہیں کیا، اس نے زرتشت کی مسجد کو منسوخ کر دیا مگر ہماری کو منسوخ نہیں کیا.گویا دنیا جہان کی ساری مسجدیں محمد صلی ال نیم کی مسجد کے آگے پھیکی پڑ گئیں.لیکن اس ایرے غیرے کی مسجد قائم ہے.اور یہ خیال کرتا ہے کہ

Page 221

1941 222 خطبات محمود اسی مسجد میں نماز پڑھ کر وہ خد اتعالیٰ کا قرب حاصل کر سکتا ہے.گویا دوسرے الفاظ میں وہ یہ کہتا ہے کہ آدم علیہ السلام اور نوح علیہ السلام اور دوسرے انبیاء کی کیا حیثیت تھی.وہ معمولی انسان تھے اور ان کی بنائی ہوئی مسجدیں خدا تعالیٰ نے منسوخ کر دیں.موسیٰ بھی ایک مسکین بندے تھے جن کی مسجد منسوخ کر دی گئی، داؤد علیہ السلام اور سلیمان علیہ السلام وغیرہ بھی بے حقیقت تھے جن کی مسجدیں خدا نے منسوخ کر دیں.اسی طرح حضرت عیسی علیہ السلام بھی ایک معمولی انسان تھے جن کی مسجد منسوخ کر دی گئی.مگر میں اتنی شان کا آدمی ہوں کہ میری مسجد کبھی منسوخ ہی نہیں ہو سکتی اور اگر منسوخ ہو جائے تو خدا کی خدائی کس طرح باقی رہے.اب بتاؤ کیا تم سمجھتے ہو کہ تمہارا یہ نقطہ نگاہ صحیح ہے اور کیا تم اسے خدا تعالیٰ کے سامنے پیش کر سکتے ہو.پھر سوچو قیامت کے دن جب محمد صلی اللہ ہم یہ سوال کریں گے کہ میں نے مسجدیں اس لئے بنائی تھیں تاکہ مسلمان اکٹھے ہوں ان کے شکوے اور گلے دور ہوں اور گو وہ آپس میں جھگڑ بھی لیں مگر میرے ہاتھ پر اور میرے نام پر وہ دن رات میں پانچ دفعہ ایک مقام پر اکٹھے ہو جایا کریں پھر تم کیوں مسجدوں میں نہیں آیا کرتے تھے تو کیا اس سوال کے جواب میں تم یہ کہہ سکتے ہو کہ اے صلی ام آپ ہمیں پیارے تو ہیں مگر اتنے نہیں کہ فلاں دشمن کے مقابلہ میں ہم آپ کے پیار کو ترجیح دے سکتے.اس کا بغض ہمارے دل میں اتنا زیادہ تھا کہ ہم نے آپ کی محبت کو نظر انداز کر دیا اور اس بغض کی وجہ سے مسجد میں جانا پسند نہ کیا.بتاؤ کہ کیا اس جواب کے بعد محمد صلی لل ل ل لم تمہیں اپنے حوض کوثر پر لے جائیں گے؟ اور کیا وہ تمہاری شفاعت کرنے کے لئے تیار ہو جائیں گے؟ کیا تم کہہ سکو گے کہ یا رسول اللہ فلاں عبد الرحمان یا فلاں فضل الہی کا بغض ہمارے نزدیک پیار کے مقابلہ میں بہت اہمیت رکھتا تھا اور اسی وجہ سے ہم نے آپ کے پیار کو تو رڈ کر دیا اور اس کے بغض کو اختیار کر لیا.اب يَا رَسُول اللہ ہماری شفاعت کیجئے اور ہمیں کوثر کے انعامات میں سے حصہ دیجئے.محمد صلی ا ہم تو تمہیں یہی کہیں گے کہ جاؤ اور اپنا کے

Page 222

خطبات محمود 223 1941 حصہ ان لوگوں کے پاس تلاش کرو جن کی محبت یا بغض کے مقابلہ میں تم نے میری محبت کو قربان کر دیا.میری محبت تو تمہارے دلوں میں اتنی ہی تھی کہ تم نے عبد الرحمان یا کسی فضل الہی یا کسی رشید احمد کے مقابلہ میں اسے ٹھکرا کر رکھ دیا اور جس مقام کو میں نے اجتماع کا ذریعہ قرار دیا تھا اس میں آنا تم نے پسند نہ کیا.پس اب تم مجھ سے کیا امید رکھتے ہو؟ آخر بتلاؤ کہ محمد صلی ا نام کی اس بات کا تم کیا جواب دو گے اور کس طرح تم اللہ تعالیٰ کے حضور سرخرو ہو سکو گے.میں نے یہ باتیں تمہیں اتنی کثرت اور اتنے تواتر کے ساتھ بتائی ہیں کہ اگر میں یہ باتیں پتھروں سے کہتا تو وہ پگھل جاتے، اگر میں دریاؤں سے یہ باتیں کہتا تو وہ لرز جاتے، اگر میں خشک ریگستانوں سے یہ باتیں کہتا تو ان کے کلیجے پھٹ جاتے مگر تم میں سے کچھ انسان ایسے ہیں کہ ان پر میری ان باتوں کا کوئی اثر نہیں.میں تمہیں اپنی باتیں نہیں سنا رہا بلکہ خدا کی باتیں سنا رہا ہوں.مجھے تم پر حکومت کا کوئی شوق نہیں.میں کچھ کہتا ہوں تمہاری بھلائی اور تمہارے فائدہ کے لئے کہتا ہوں.آخر دنیا میں نے مسجدیں نہیں بنائیں اور نہ میں نے نمازیں پڑھنے کا حکم دیا ہے.یہ تمام احکام خدا اور اس کے رسول کے ہیں.میں ان باتوں کے معاوضہ میں تم سے کوئی فیس وصول نہیں کرتا کہ تم یہ کہو کہ ہمیں باتیں بتا کر یہ خود فائدہ اٹھاتا ہے.میں خالص تمہاری بہبودی اور خیر خواہی کے لئے یہ باتیں کہتا ہوں مگر تم ہو کہ سمجھتے ہو خبر نہیں ان باتوں سے اسے کیا فائدہ ہو رہا ہے؟ آخر تمہارے پاس کوئی پارس نہیں اور نہ میں نے کوئی پیتل کی تختیاں بنوا کر مسجدوں میں رکھی ہوئی ہیں کہ مبادا تمہیں خیال ہو کہ ان تختیوں پر تم پاؤں رکھتے ہو تو وہ سونے کی بن جاتی ہیں.اور میں انہیں اپنے مصرف میں لے آتا ہوں.اگر تمہیں یقین نہ ہو تو تم مسجدوں کو اچھی طرح دیکھ لو.وہاں کوئی پیتل کی تختیاں پڑی ہوئی نہیں کہ تمہیں یہ خیال ہو کہ میں تمہیں نماز پڑھنے کی اس لئے تحریک کرتا ہوں کہ ان تختیوں پر تمہارا پاؤں پڑنے سے وہ پیتل سونا بن جائے گا اور پھر میں اسے اٹھا کر اپنے گھر لے آؤں گا.

Page 223

1941 224 خطبات محمود بھلا جس بلکہ سچ تو یہ ہے کہ جو شخص مسجد میں نماز پڑھنے کے لئے نہیں جاتا اس کے پیر تو اگر سونے پر بھی پڑیں گے تو وہ لوہا بن جائے گا کجا یہ کہ پیتل کو وہ سونا بنا دے.شخص کے دل میں خدا اور اس کے رسول کی محبت نہیں اور جو اپنی قیمت تو زیادہ لگاتا ہے مگر خدا اور اس کے رسول کے احکام کی قیمت ادنیٰ قرار دیتا ہے اس کی خدا کے حضور کیا وقعت ہو سکتی ہے.وہ تو سونے کو بھی ہاتھ لگائے گا تو پیتل بن جائے گا.ایسا انسان بھلا مجھے کیا فائدہ پہنچا سکتا ہے اور خود اسے کیا فائدہ ہو سکتا ہے.پس میں جو کچھ کہتا ہوں تمہارے فائدہ کے لئے کہتا ہوں تاکہ مرو تو خدا تعالیٰ تمہیں یہ جواب نہ دے کہ ان کو میرے پاس سے نکال دو.ان کا جب مقام میری جنت نہیں بلکہ دوزخ ہے.ورنہ تمہارے جنت میں جانے سے مجھے کیا فائدہ ہو سکتا ہے؟ یا اگر تم دوزخ میں چلے جاؤ تو اس سے مجھے کیا نقصان ہو سکتا ہے؟ میں تو تمہاری بھلائی اور تمہاری خیر خواہی کے لئے کہہ رہا ہوں کہ اپنے ریق عمل پر غور کرو اور خدا کے احکام کو پس پشت نہ ڈالو.آخر کب تک تم میں جھگڑے چلے جائیں گے ؟ کب تک تم اپنی ذاتی عداوتوں کی وجہ سے اپنی روح کو م الله سة نقصان پہنچاتے چلے جاؤ گے اور کب تک تم یہ سمجھو گے کہ واعظ جو کچھ کہتا ہے تمہارے فائدہ کے لئے کہتا ہے اپنے لئے نہیں کہتا.اگر انسان کا خدا پر ایمان ہو، محمد صلی للی کنم پر ایمان ہو اور اس ایمان میں کسی قسم کے نفاق کی آمیزش نہ ہو تو ایک دفعہ کا وعظ بھی اسے مدت العمر کے لئے کافی ہو سکتا ہے مگر تم میں سے بعض ہیں کہ انہیں روزانہ خدا تعالیٰ کے احکام سنائے جاتے ہیں اور پھر بھی وہ ان کی بجا آوری میں غفلت سے کام لیتے ہیں.پس تو بہ کرو اور اگر غفلت کی وجہ سے تم نے نماز باجماعت چھوڑ رکھی ہے تو اپنی اس غفلت کو دور کرو اور اگر بے دینی کی وجہ سے تم نماز باجماعت ڑھتے تو استغفار کرو تاکہ خدا تعالیٰ تمہیں اس بے دینی سے بچائے.مسجدوں سے تو تمہیں اتنی محبت ہونی چاہئے کہ اگر کوئی شخص تمہیں جو تیاں مار مار کر بھی مسجد سے نہیں

Page 224

1941 225 خطبات محمود نکالنا چاہے تو پھر بھی تم نہ نکلو اور اگر کوئی سیکرٹری یا قاضی یا محتسب یا پریذیڈنٹ تمہیں دھکے دے کر بھی مسجد سے نکالنا چاہے تو تم اس کے آگے ہاتھ جوڑو اور کہو کہ میں ہر ذلّت برداشت کرنے کے لئے تیار ہوں مگر خدا کے لئے تم مجھے مسجد سے نہ نکالو.جب تم مسجدوں کے ساتھ اس رنگ میں اپنی محبت کا اظہار کرو گے اور جب ہر دکھ اور ہر درد تم بخوشی برداشت کرنے کے لئے تیار ہو جاؤ گے مگر مسجد سے علیحدگی ایک لمحہ کے لئے بھی برداشت نہیں کرو گے تب بے شک قیامت کے دن خدا تمہیں جنت میں داخل کرے گا اور اس قاضی یا محتسب یا سیکرٹری کو اپنی جنت سے نکال دے گا جس نے تمہیں مسجد سے دھکے دے کر باہر نکالا ہو گا.مگر وہ شخص جو کسی کے ساتھ عداوت رکھنے کی وجہ سے مسجد میں نہیں جاتا وہ اپنے دشمن کے لئے تو جنت کے دروازے کھولتا ہے اور اپنے لئے دوزخ کے.گویا اس کا دشمن دونوں طرح فائدہ میں رہا.اس جہان میں بھی اس نے اسے دکھ پہنچالیا اور اگلے جہان میں بھی جنت لے لی.لیکن یہ اس جہان میں بھی مسجد سے باہر رہا اور اگلے جہان میں بھی خدا تعالیٰ کی جنت کا مستحق نہیں بن سکے گا.پس ہر وہ شخص جو دوسرے شخص کو سوائے اس کے کہ کسی فتنہ یا خونریزی یا لڑائی کا اندیشہ ہو مسجد سے نکالتا ہے وہ اپنے لئے خدا تعالیٰ کی رحمت کا دروازہ بند کرتا ہے لیکن وہ شخص جو کسی کی عداوت کی وجہ سے مسجد میں نہیں جاتا وہ اپنے لئے تو اللہ تعالیٰ کی رحمت کے دروازے بند کرتا ہے اور دوسرے کے لئے اس کی رحمت کے دروازے کو کھولتا ہے.پس میں مسجد فضل سے تعلق رکھنے والے تمام لوگوں سے کہتا ہوں کہ وہ اپنی اصلاح کریں.شکایت کرنے والے دوست نے لکھا ہے کہ ہم ایسے لوگوں کے پاس واعظوں کو بھی لے گئے مگر ان پر کوئی اثر نہ ہوا.میں کہتا ہوں کہ اس معاملہ میں واعظوں کی کوئی ضرورت ہی نہیں تھی یہ تو ایسی یز تھی کہ اگر کوئی واعظ اس سے روکتا تب بھی وہ اس کا مقابلہ کرتے.کُجا یہ کہ واعظ کہتا اور وہ اس کی بات کو ماننے سے انکار کر دیتے.بہر حال یہ انہیں کے فائدہ 2

Page 225

1941 226 خطبات محمود کی بات ہے.اگر وہ اس کو سمجھ لیں تو خود فائدہ اٹھائیں گے اور اگر نہیں سمجھیں گے تو یہ اس بات کا ایک ثبوت ہو گا کہ ان کا احمدیت کا دعویٰ محض جھوٹا ہے اور وہ خدا تعالیٰ کی درگاہ میں ہرگز احمدی نہیں.میں نے دیکھا ہے جب میں کسی شخص کو کسی دینی نقص کی وجہ سے جماعت سے خارج کر دیتا ہوں تو وہ میری منتیں کرنے لگ جاتا ہے اور خط پر خط آنے شروع ہو جاتے ہیں کہ مجھے دوبارہ جماعت میں شامل کر لیا جائے حالانکہ میرا نکالا ہوا تو ہو سکتا ہے کہ خد اکے حضور جماعت میں شامل ہو اور میں نے غلط فہمی سے اسے نکال دیا ہو مگر کیسا بدقسمت ہے وہ انسان جس کا نام خدا کی درگاہ میں تو احمدیت کی لسٹ میں سے کٹا ہوا ہے مگر وہ اپنے آپ کو احمدی ہی سمجھتا ہے.پس تو بہ کرو اور اپنی اصلاح کرو اور آج سے یہ قطعی فیصلہ کرلو تم نے مسجد میں آنے سے نہیں رکنا.اگر تمہارا کوئی دشمن اس مسجد میں نماز پڑھنے کے لئے آتا ہے تو خدا کے حضور اپنی نیکیاں اس کی نیکیوں سے زیادہ کرنے کے لئے تمہیں تو چاہئے کہ اگر وہ ایک دفعہ مسجد میں نماز کے لئے آتا ہے تو تم دفعہ آؤ.اگر وہ ظہر میں آتا ہے تو تم ظہر میں بھی آؤ اور عصر میں بھی آؤ اور اگر ظہر اور عصر میں آتا ہے تو تم ظہر میں بھی آؤ ، عصر میں بھی آؤ اور مغرب میں بھی آؤ.اور اگر وہ ظہر، عصر اور مغرب تین نمازیں مسجد میں پڑھتا ہے تو تم ظہر، عصر، مغرب اور عشاء چار نمازیں مسجد میں پڑھو.اور اگر وہ چار نمازیں مسجد میں تم پانچوں نمازیں مسجد میں پڑھو.اور اگر وہ پانچوں نمازیں مسجد میں پڑھتا ہے تو تم تہجد بھی مسجد میں آکر پڑھا کرو تاکسی طرح تم خدا کے حضور اس سے بڑھ جاؤ اور خدا کے فضلوں کے اس سے زیادہ وارث بن جاؤ.لیکن اگر وہ تو مسجد میں آتا رہے اور تم مسجد میں نماز پڑھنا چھوڑ دو تو یہ اپنے ہاتھ سے اپنا ناک کاٹ لینے والی بات ہو گی.اس طرح تو اس نے دنیا میں بھی تمہیں دکھ دے لیا اور جنت میں بھی اپنا گھر بنا لیا.پس وہ جیتا یا تم جیتے؟ وہ ہے رو تیسری بات میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ آج ہی ایک اخبار میں میں نے پڑھا ہے

Page 226

1941 227 خطبات محمود کہ احمدیوں کی بھی عجیب حالت ہے وہ کئی سال سے یہ سوچ رہے ہیں کہ انہیں مسلم لیگ میں شامل ہونا چاہئے یا کانگرس میں.وہ اخبار نویس لکھتے ہیں جب احمدی ایک واجب الاطاعت امام مانتے ہیں تو اس سے کیوں نہیں پوچھ لیتے کہ وہ مسلم لیگ میں شامل ہوں یا کانگرس میں.اس پر سوچنے اور غور کرنے کی کیا ضرورت ہے.معلوم ہوتا ہے مضمون نگار صاحب کو اس بارہ میں کچھ غلط فہمی ہوئی ہے اور وہ خیال کرتے ہیں کہ شاید میرے منشاء کے بغیر مجلس شوریٰ میں یہ بحث ہو رہی ہے.حالانکہ یہ بحث میری پریذیڈنٹی اور میری صدارت میں میرے کہنے اور میری اجازت سے ہوتی ہے.پھر انہیں دوسری غلطی یہ لگی ہے کہ انہوں نے یہ سمجھ لیا ہے کہ جب کسی جماعت کا کوئی واجب الاطاعت امام ہو تو اسے مشورہ لینے کی کوئی ضرورت نہیں ہوتی.حالانکہ رسول کریم صلی علی کرم فرماتے ہیں لا خِلَافَةَ إِلَّا بِالْمَشْوَرَةِ 5 یعنی کوئی خلافت خلافت نہیں کہلا سکتی جس میں لوگوں سے مشورہ نہ لیا جاتا ہو.بے شک خلیفہ کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ مشورہ کو رد کر دے مگر اسے یہ اختیار حاصل نہیں کہ وہ مشورہ لے ہی نہیں.مشورہ کے صرف یہی معنے نہیں ہوتے کہ امام ان کی بات کو مان لے بلکہ مشورہ سے قوم کی دماغی حالت ترقی کرتی ہے.آخر رسول کریم صلی علیکم سے بڑھ کر خدا تعالیٰ سے علم پانے والا اور کون ہو سکتا ہے.آپ خدا تعالیٰ سے الہام پاتے تھے اور وحی الہی آپ کی راہنمائی فرماتی تھی مگر اس کے باوجود آپ بھی مشورہ لیا کرتے تھے اب کیا اس بات پر تعجب کا اظہار کیا جا سکتا ہے کہ ایک رسول موجود ہے اور وہ بھی ایسا رسول جو تمام رسولوں کا سردار ہے اور خدا تعالیٰ کا آخری ہدایت نامہ اسی کے ذریعہ دنیا تک پہنچا ہے مگر پھر بھی وہ لوگوں سے مشورہ لیتا ہے.تاریخ میں ایسے کئی امور موجود ہیں جن میں رسول کریم صلی الم نے لوگوں.مشورہ لیا اور بعض دفعہ تو مشورہ کو آپ نے اتنی اہمیت دی کہ اپنے منشاء کے خلاف عمل کیا.مثلاً جنگ احد سے پہلے رسول کریم صلی الیم نے ایک خواب دیکھا جس کے معنے آپ نے یہ سمجھے کہ اس موقع پر ہمیں باہر نکل کر دشمن کا مقابلہ اس پر

Page 227

1941 228 خطبات محمود نہیں کرنا چاہئے بلکہ مدینہ میں ٹھہر کر مقابلہ کرنا چاہئے آپ یہ رویا دیکھنے کے بعد باہر تشریف لائے اور صحابہ سے فرمایا کہ میں نے ایک خواب دیکھا ہے جس کا مفہوم سمجھتا ہوں کہ ہمیں دشمن کا مقابلہ باہر نکل کر نہیں کرنا چاہئے ورنہ ہمیں نقصان ہو گا.اس پر کئی جو شیلے نوجوان کھڑے ہو گئے اور کہنے لگے یا رسول اللہ نہیں ہونا چاہئے.ہم تو کفر میں بھی کسی سے نہیں ڈرے اب اسلام لانے کے بعد کس طرح ڈر سکتے ہیں؟ آپ مدینہ سے ہمیں باہر لے چلیں، ہم دشمن کا مقابلہ کریں گے.غرض انہوں نے خوب زور سے تقریریں کیں.جب تقریریں ہو چکیں تو رسول کریم صلی العلم اندر گئے اور جنگ کا لباس پہن کر باہر تشریف لے آئے.اتنے میں جو بڑھے اور سمجھدار لوگ تھے انہوں نے نوجوانوں سے کہا کہ نا سمجھو تم نے کیا حرکت کی.محمد صلی ال لیلی نے جب ایک بات کہی تھی اور اپنے ایک خواب کا ذکر الله کیا تھا تو تمہیں جوش میں نہیں آنا چاہئے تھا اور مشورہ دیتے وقت سوچ لینا تھا کہ کہیں وہ رسول کریم صلی ال نیلم کے منشاء کے خلاف تو نہیں.جب رسول کریم صلی ا ہم نے اپنا عندیہ قبل از وقت ظاہر کر دیا تھا تو تمہیں ٹھنڈے دل سے اس پر غور کرنا چاہئے تھا نہ یہ کہ جوش میں آکر ایسی بات کہہ دیتے جو رسول کریم صلی الم کے منشاء کے خلاف ہے.یہ بات ان کی سمجھ میں بھی آگئی.مخلص تو وہ تھے ہی صرف جوش محبت میں انہوں نے یہ کہہ دیا تھا.چنانچہ جب رسول کریم صلی الم باہر تشریف لائے تو سب کھڑے ہو گئے اور کہنے لگے یا رَسُولَ اللہ ! ہم سے سخت غلطی ہوئی ہے جو کچھ آپ نے فرمایا وہی درست ہے دشمن کا مقابلہ مدینہ سے باہر نکل کر نہیں بلکہ مدینہ میں رہتے ہوئے کرنا چاہئے.اس پر رسول کریم صلی ال نیلم نے فرمایا جب خدا کا رسول ہتھیار لگا لیا کرتا ہے تو پھر وہ واپس نہیں لوٹتا.چنانچہ آپ باہر گئے اور وہ نقصان جس کی رؤیا میں خبر دی گئی تھی وقوع میں آگیا.6 اب بتاؤ کیا میں محمد صلى الله علم سے زیادہ اپنی جماعت سے فرمانبرداری کی امید کر سکتا ہوں کہ وہ تو اپنی جماعت سے مشورہ لے لیا کریں اور میں مشورہ نہ لیا کروں.

Page 228

1941 229 خطبات محمود.ہماری جماعت کی تو ساری عظمت ہے ہی اسی بات میں کہ وہ محمد صلی علیکم اور آپ کے صحابہ کی نقل کرے.پس جب صحابہ سے رسول کریم صلی الم نے یہ معاملہ فرمایا کہ ان سے کئی موقعوں پر مشورہ لیا اور بعض دفعہ ان کا مشورہ اپنے منشاء کے خلاف ہونے کے باوجود قبول کر لیا تو کیا وجہ ہے کہ میں اپنی جماعت سے مشورہ نہ لیا کروں.حقیقت یہ ہے کہ اس کے بغیر جماعتوں کے دماغ مردہ ہو جاتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ خدا نے نبوت کے وقت بھی مشورہ ضروری قرار دیا اور خلافت کے وقت بھی مشورہ ضروری قرار دیا.اگر نبوت کے زمانہ میں لوگ اسی طرح کرتے چلے جائیں جس طرح نبی کہے اور اس کی وفات کے بعد جس طرح خلیفہ کہے اسی طرح کرتے چلے جائیں اور ذاتی غور اور فکر سے کام نہ لیں تو ان کے دماغ تھوڑے ہی عرصہ میں بالکل بیکار ہو جائیں اور ان کی ذہنی قوتوں کا نشو و نما بالکل رک جائے.اسی لئے نبوت اور خلافت دونوں حالتوں میں مشورہ ضروری قرار دیا گیا ہے.ہاں نبی اور خلیفہ کو خدا تعالیٰ نے یہ اختیار بھی دیا ہے کہ جب وہ دیکھیں کہ کوئی بات ایسی پیش کی جا رہی ہے جو صریح طور پر دین کے خلاف ہے تو اسے رڈ کر دیں اور ان مشوروں پر عمل کریں جو مفید ہوں.غرض ایک واجب الاطاعت امام اور خلیفہ مان لینے ہرگز مطلب نہیں ہوتا کہ جماعت اہم امور کے متعلق مشورہ نہ کیا کرے خلیفہ اہم امور میں ان سے مشورہ نہ لیا کرے.مشورہ ایک نہایت ضروری چیز ہے اور اس سے قوم کے اندر تفقہ کا مادہ بڑھتا اور ذہنی قوتوں سے کام لینے اور سوچنے اور غور کرنے کی عادت پیدا ہونے کی وجہ سے اس کا دماغ ترقی کرتا ہے اور یہی فرق ہے ایک ڈکٹیٹر اور نبی میں یا ڈکٹیٹر اور ایک خلیفہ میں.ڈکٹیٹر لوگوں کے ذہنوں کو مارنا چاہتے ہیں مگر خدا تعالیٰ کے نبی اور اس کے خلفاء لوگوں کے ذہنوں کو تیز کرنا چاہتے ہیں اور باوجود اس کے کہ وہ حکم دے سکتے ہیں کہ ایسا کرو اور ایسا نہ کرو وہ اس طرح حکم نہیں دیتے بلکہ ان سے مشورہ لینے کے بعد کام کرتے ہیں تاکہ ان کی دماغی قوتیں مُردہ نہ ہو جائیں اور جماعت میں غور اور فکر کرنے کی عادت

Page 229

1941 230 خطبات محمود پیدا ہو.چنانچہ اگر کسی وقت غلط مشورہ ان کے سامنے پیش کر دیا جائے تو خلفاء اپنی جماعت کے افراد کو سمجھاتے ہیں کہ اس معاملہ میں تم نے فلاں غلطی کی ہے.گویا یہ ایک مدرسہ ہے جس میں روزانہ لوگوں کی تربیت ہوتی چلی جاتی ہے اور یہ اسلام کی برکات میں سے ایک بہت بڑی برکت ایک بہت بڑی برکت ہے جو ہمیں حاصل ہے.ہماری جماعت چونکہ ایک غیر اسلامی گورنمنٹ کے ماتحت ہے اور چھٹیاں گورنمنٹ کے اختیار میں ہیں اس لئے ہم اپنی جماعت کے دوستوں کو مشورہ کے لئے سال میں صرف ایک دفعہ بلاتے ہیں لیکن میں سمجھتا ہوں سال میں صرف ایک مجلس شوری کا انعقاد ہمارے لئے کافی نہیں ہو سکتا اگر ہر مہینے ہم ایک مجلس مشاورت منعقد کر سکیں بلکہ ہر مہینے کیا ہر پندرھویں دن ایک مجلس مشاورت منعقد کر سکیں تو یقینا ہمارے کام زیادہ اعلیٰ رنگ میں ہونے شروع ہو جائیں.حقیقت یہ ہے کہ سال میں ایک دفعہ کا مشورہ ہمارے لئے کافی نہیں.یہ تو مجبوری کی وجہ سے ہم سال میں ایک دفعہ مجلس مشاورت منعقد کرتے ہیں ورنہ اگر ہم ہر مہینے یا ہر پندرھویں دن مجلس شوریٰ منعقد کر سکیں تو یقینا ہمارے کام زیادہ اعلیٰ رنگ میں ہونے شروع ہو جائیں اور ہماری جماعت کی دماغی تربیت بھی زیادہ اعلیٰ ہو جائے.پس دوسروں کو تو یہ شکوہ ہے کہ سال میں ایک دفعہ مشورہ کیوں لیا جاتا ہے اور ہمیں یہ افسوس ہے کہ سال میں بارہ یا چوہیں دفعہ اپنی جماعت سے کیوں مشورہ نہیں لیا جاتا.اسی طرح ایک اور غلطی بھی ان اخبار نویس صاحب کو لگی ہے مگر میں اس میں انہیں معذور خیال کرتا ہوں اور میں سمجھتا ہوں کہ یہ ہمارے اخبارات کی غلطی ہے کہ انہوں نے اس بات کو واضح نہیں کیا.انہوں نے یہ سمجھا ہے کہ ہماری جماعت آجکل یہ فیصلہ کر رہی ہے کہ جماعت احمديد مِنْ حَيْثُ الْجَمَاعَةِ کانگرس میں شامل ہو یا مِنْ حَيْثُ الْجَمَاعَةِ مسلم لیگ میں شامل ہو حالانکہ ایسا کوئی سوال ہمارے زیر غور نہیں.انہوں نے اس بات پر حیرت اور تعجب کا اظہار کرتے ہوئے لکھا ہے کہ کیا یہ ممکن ہے کہ جماعت احمدیہ کا خلیفہ گاندھی جی کی

Page 230

1941 خطبات محمود 231 اتباع کرے گا؟ انہوں نے یہ بالکل سچ لکھا ہے اور واقعہ یہ ہے کہ جماعت احمدیہ کا خلیفہ، گاندھی جی کی کبھی اتباع نہیں کر سکتا بلکہ دنیا نے اگر کبھی اتباع کی تو جماعت ریہ کے کسی خلیفہ کی اتباع کرے گی.پس ان کی یہ بات بالکل صحیح ہے گاندھی جی کی اتباع جماعت احمدیہ کا خلیفہ ہر گز نہیں کر سکتا اور اگر کبھی اتباع کریں گے تو دوسرے لوگ ہماری جماعت کے خلیفہ کی کریں گے خلیفہ ان کی اتباع نہیں کرے بعض کے گا.لیکن یہ تو سوال ہی پیش نہیں کہ خیال کیا جا سکے کہ اب جماعت احمدیہ خلیفہ کو گاندھی جی کی اطاعت کرنی پڑے گی.ہماری جماعت کے سامنے ہرگز یہ سوال نہیں کہ وہ مِنْ حَيْثُ الْجَمَاعَةِ کانگرس میں شامل ہو یا مسلم لیگ میں.اس بارہ میں انہیں غلط فہمی ہوئی ہے اور میں نے دیکھا ہے کہ ہماری جماعت کے دوست بھی اس غلط فہمی میں مبتلا ہیں حالانکہ ہمارے سامنے ہرگز یہ سوال نہیں کہ ہم کانگرس میں مِنْ حَيْثُ الْجَمَاعَةِ شامل ہوں یا ہم مسلم لیگ میں من حَيْثُ الْجَمَاعَةِ شامل ہوں.ہم ایک مذہبی جماعت ہیں اور سیاسی نقطہ نگاہ سے ہماری کسی خاص جماعت سے وابستگی نہیں ہو سکتی سوائے اس کے کہ کوئی جماعت ایسی ہو کہ جس کے مفاد اور جس کے اغراض اور مقاصد ہماری جماعت کے اغراض اور مقاصد کے خلاف نہ ہوں.ایسی حالت میں ہم بے شک کلی طور پر ایسی جماعت سے وابستہ ہو سکتے ہیں مگر پھر بھی مِنْ حَيْثُ الْجَمَاعَةِ نہیں بلکہ ہم اپنی جماعت کے بعض افراد کو یہ اجازت دے سکتے ہیں کہ وہ اگر چاہتے ہیں تو فلاں سیاسی جماعت میں شامل ہو جائیں.ورنہ ہماری جماعت ایک مذہبی جماعت ہے اور طور پر ناممکن ہے کہ بحیثیت جماعت ہم کانگرس یا مسلم لیگ میں شامل ہو جائیں.یہ سوال تو چند سالوں سے ہمارے سامنے ہے اس پر غور کرنے کی ہمیں اس لئے ضرورت پیش آئی کہ جماعت کے بعض نوجوانوں میں جو سیاست سے دلچسپی رکھتے ہیں یہ خیال پیدا ہوا کہ انہیں کسی نہ کسی سیاسی جماعت کے کاموں میں حصہ لینا چاہئے.بعض نے اپنے طور پر غور کر کے یہ نتیجہ نکالا کہ مسلم لیگ کی پالیسی اچھی ہے قطعی

Page 231

1941 232 خطبات محمود وہ اور بعض نے غور و فکر سے یہ نتیجہ نکالا کہ کانگرس زیادہ بہتر ہے.مذہبی جماعت ہونے کے لحاظ سے ہمارا اس سے کوئی تعلق نہیں ہو سکتا تھا کہ وہ انفرادی حیثیت میں کانگرس میں شامل ہوں یا مسلم لیگ میں شامل ہوں لیکن ایک سوال تھا جو ہمارے سامنے تھا اور وہ یہ کہ آیا کانگرس اور مسلم لیگ میں کوئی ایسی بات تو نہیں جو مذہبی لحاظ سے ہمارے اصول کے خلاف ہو اور اگر ہو تو ہمارا حق ہے کہ ہم اپنی جماعت کے افراد کو ایسی جماعت میں شامل ہونے سے منع کر دیں اور کہہ دیں کہ کانگرس یا مسلم لیگ میں شامل نہ ہوں کیونکہ اس کے فلاں اصول ہمارے فلاں مذہبی اصول کے خلاف ہیں.پس یہ جو ہمارا حق ہے کہ ہم اپنی جماعت کے کسی فرد کو کسی ایسی سیاسی جماعت میں شامل نہ ہونے دیں جس کے اصول ہمارے اصول سے ٹکراتے ہوں.اس حق سے صحیح رنگ میں فائدہ اٹھانے کے لئے ہم نے یہ سوال اپنی مجلس شوریٰ میں پیش کر دیا تاکہ اس کے تمام پہلوؤں پر غور ہو جائے.اور ہم اپنی جماعت کے افراد کو بتا سکیں کہ فلاں جماعت میں شامل ہونے میں کوئی حرج نہیں اور فلاں جماعت میں شامل ہونے میں حرج ہے.مجھے یاد ہے مسٹر مانٹیگو وزیر وزیر ہند جب ہندوستان میں آئے تو اس وقت ایک بہت بڑے احمدی زمیندار ہماری جماعت کی طرف سے ایک وفد میں پیش ہوئے.چاہا اسی طرح زمینداروں نے بھی اپنا ایک وفد بھجوانے کی تجویز کی اور انہوں نے وہ زمیندار احمدی بھی ان کے وفد میں شامل ہو جائیں.انہوں نے چونکہ بعض فوجی خدمات کی ہوئی تھیں اس لئے زمیندار دوست چاہتے تھے کہ انہیں اپنے وفد میں شامل کریں.وہ تھے تو ان پڑھ مگر ان میں اخلاص بہت تھا.جب زمینداروں نے ان سے اپنے وفد میں شامل ہونے کے لئے کہا تو انہوں نے جواب دیا کہ تک مجھے خلیفة المسیح اجازت نہ دیں میں اس وفد میں شامل نہیں ہو سکتا زمینداروں کے وفد کے سیکرٹری جو آجکل پنجاب میں بہت بڑی حیثیت (میں ان کا نام نہیں لیتا) میرے پاس آئے اور کہنے لگے کہ آپ راجہ صاحب کو چنانچہ

Page 232

1941 233 خطبات محمود ہمارے وفد میں شامل ہونے کی اجازت دیں.میں نے کہا میں اجازت تو دے دوں مگر میں ڈرتا ہوں کہ ہماری جماعت کے میمورنڈم میں تو کچھ اور لکھا ہوا ہو اور آپ کے میمورنڈم میں کچھ اور لکھا ہوا ہو اور جب یہ دونوں طرف سے وفد میں پیش ہوں تو وزیر ہند کہیں کہ یہ عجیب آدمی ہیں کہ فلاں وفد میں بھی شامل ہو کر آ گئے ہیں اور اس وفد میں بھی شریک ہو گئے ہیں.پس میں نے کہا اگر آپ کی یہ خواہش ہے کہ وہ آپ کے وفد میں شریک ہوں تو آپ اپنا میمورنڈم مجھے دیں تاکہ میں دیکھ لوں کہ اس میں کوئی بات ہمارے میمورنڈم کے خلاف تو نہیں.چنانچہ انہوں نے میمورنڈم دیا اور میں نے پڑھنے کے بعد انہیں کہا کہ اس میں ایک دو باتیں ہمارے خلاف ہیں ان کو کاٹ دیں تو میں انہیں شامل ہونے کی اجازت دے سکتا ہوں.انہوں نے ان باتوں کو کاٹ دیا اور میں نے انہیں شمولیت کی اجازت دے دی.تو اگر کسی پارٹی کی پالیسی ہماری جماعت کی پالیسی کے خلاف ہو اور پھر بھی ہمارے آدمی اس میں شامل ہوں تو یہ بات عقل کے بالکل خلاف ہو گی مثلاً ایک طرف تو وہ جماعت احمدیہ میں داخل ہوں جس کا مقصد اور ہے اور دوسری طرف وہ ایک ایسی سیاسی جماعت میں شامل ہوں جس کا مقصد احمدیت سے ٹکراتا ہو تو ٹکراتا ہو تو ہر شخص انہیں احمق اور بیوقوف قرار دے گا پس ان حالات میں ہمارے لئے ضروری تھا کہ ہم ایسا انتظام کرتے کہ ہمیں دونوں جماعتوں کی پالیسی کے متعلق صحیح علم حاصل ہو جاتا.اگر ہمیں یقین ہو جاتا کہ یہ دونوں جماعتیں اسلام اور احمدیت کے اصول کے خلاف نہیں تو ہم اپنی جماعت کے دوستوں سے کہہ سکتے تھے کہ وہ جس میں چاہیں شامل ہو جائیں.چاہیں تو مسلم لیگ میں شامل ہو جائیں اور چاہیں تو کانگرس میں شامل ہو جائیں اور اگر ایک جماعت کے مقاصد ہمارے مطابق ہوتے اور دوسری کے نہ تے تو ہم کہہ سکتے تھے کہ فلاں جماعت میں تو تمہیں شامل ہونے کی اجازت ہے مگر فلاں جماعت میں شامل ہونے کی اجازت نہیں کیونکہ اس کے مقاصد ہمارے مقاصد کے خلاف ہیں اور اگر دونوں جماعتوں کے مقاصد ہمارے خلاف ہوتے تو

Page 233

1941 234 خطبات محمود ہم دونوں میں شامل ہونے سے روک دیتے.بہر حال تین صورتیں ہمارے سامنے تھیں یا تو ہم دونوں میں شامل ہونے کی اجازت دے دیتے اس صورت میں کہ دونوں کے مقاصد ہمارے مقاصد کے مطابق ہوتے یا ہم دونوں میں شامل ہونے سے روک دیتے اس صورت میں کہ دونوں کے مقاصد ہمارے مقاصد کے خلاف ہوتے اور یا ہم دونوں میں سے کسی ایک میں اپنی جماعت کے افراد کو شامل ہونے اجازت دے دیتے اس صورت میں کہ ایک کے مقاصد تو ہمارے خلاف ہوتے اور دوسری کے مقاصد ہمارے خلاف نہ ہوتے.اب ہم نے اس کے متعلق جو زین تجویز کی وہ یہ ہے کہ ہم نے دو بڑے بڑے امور کے لئے ایک ایسا تھا مسلم لیگ سے تعلق رکھتا تھا اور ایک ایسا تھا جو کانگرس سے تعلق رکھتا تھا.مسلم لیگ سے تعلق رکھنے والا امر یہ تھا کہ پنجاب مسلم لیگ کی پارلیمنٹری کمیٹی نے یہ فیصلہ کیا تھا کہ کوئی احمدی مسلم لیگ کی طرف سے ممبر نہیں بن سکتا.اس کے ساتھ ہی ہر ممبر سے یہ اقرار لیا جاتا تھا کہ وہ اسمبلی میں جا کر یہ تحریک کرے گا کہ احمدی لوگ مسلمان نہیں ہیں اور انہیں مسلمانوں سے الگ فرقہ سمجھا جائے.اب یہ بات بالکل ظاہر ہے کہ اس قانون کی موجودگی میں کوئی احمدی مسلم لیگ میں شامل نہیں ہو سکتا.جب مسلم لیگ کی طرف سے ہر ممبر سے یہ عہد لیا جاتا تھا کہ وہ اسمبلی میں جاکر اس بات کا فیصلہ کرائیں کہ احمدی مسلمان نہیں ہیں تو کون بے غیرت احمدی ہو گا جو ایسی پارٹی میں شریک ہو اور کیا احمدی اسمبلی میں جا کر یہ کوشش کرے گا کہ اپنے احمدیوں کو ہی مسلمانوں سے الگ قرار دے.دوسری طرف کانگرس سے ہم نے سوال کیا کہ تم ہمیں یہ تسلی دلا دو کہ کانگرسی حکومت میں مذہب کی تبدیلی کی اجازت ہو گی یعنی ایک ہندو کو یہ اجازت ہو گی کہ وہ اگر چاہے تو ہندو مذہب کو ترک کر کے مسلمان ہو جائے ایک عیسائی کو یہ اجازت ہو گی کہ وہ اگر چاہے تو عیسائی مذہب کو ترک کر کے مسلمان ہو جائے اور ایک سکھ کو بہ اجازت ہو گی کہ وہ اگر چاہے تو سکھ مذہب کو ترک کر کے مسلمان ہو جائے.غرض

Page 234

1941 235 خطبات محمود تبدیلی مذہب پر کوئی پابندی عائد نہیں ہو گی.ہم نے یہ دونوں سوال ان کے سامنے رکھ دیئے مسلم لیگ کے سامنے بھی اور کانگرس کے سامنے بھی.ہماری غرض یہ تھی یہ ثابت ہو جائے کہ کانگرس مذہب میں دخل اندازی کرنا نہیں چاہتی اور مجھتی بھی ہمیں مسلم لیگ کے داخلہ کے حق کی حد تک ہمیں مسلمان ہے تو ہم انفرادی رنگ میں اپنی جماعت کے دوستوں کو اجازت دے دیں کہ وہ اس شرط کے ماتحت کہ احمدی اصولوں کے خلاف نہ چلیں جس جماعت میں چاہیں شامل ہو جائیں اور اگر یہ ثابت ہو جائے کہ کانگرس مذہب میں دخل اندازی کرنا چاہتی ہے اور مسلم لیگ ہمیں مسلمان نہیں سمجھتی تو پھر دونوں میں شامل ہونے کی اجازت نہ دیں.میرا مطلب یہ تھا کہ اس طرح کانگرس اور مسلم لیگ دونوں کا پول کھل جائے گا.ورنہ میں جانتا تھا کہ نہ کانگرس اس طرف آئے گی اور نہ مسلم لیگ اس طرف آئے گی.چنانچہ تین سال کانگرس سے خط و کتابت کرتے کرتے گزر گئے مگر آج تک وہ یہ کہنے کے لئے تیار نہیں ہوئی کہ کانگرسی حکومت میں مذہب تبدیل کرنے کی اجازت ہو گی.وہ یہی کہے چلے جاتے ہیں کہ ہمارا فلاں ریزولیوشن دیکھ لو.ہم ان سے کہتے ہیں یہ ریزولیوشن تم نے بنایا ہے اور تم ہی اس کے مطلب کو اچھی طرح جانتے ہو.پس تم ہمیں یہ بتاؤ کہ آیا اس ریزولیوشن کے یہی معنے ہیں کہ ہر شخص کو تبدیلی مذہب کی اجازت ہو گی ؟ مگر وہ کہتے ہیں ہم کچھ نہیں کہہ سکتے خود ریزولیوشن پڑھ کر نتیجہ نکال لو.اس کا مطلب کانگرس ہی بیان کر سکتی ہے.ہم کہتے ہیں کانگرس کے ہم سیکرٹری نہیں بلکہ تم ہو.پس تم کانگرس سے پوچھ کر ہی ہم کو بتا دو کہ اس ریزولیوشن کا کیا مفہوم ہے اور آیا تبدیلی مذہب کی اجازت اس میں آتی ہے یا نہیں وہ نہ تو ریزولیوشن کا مفہوم بتاتے ہیں نہ ہمارے سوال کا صحیح جواب دیتے ہیں اور نہ کانگرس کے سامنے ہی یہ معاملہ پیش کرتے ہیں.یہی حال مسلم لیگ کا ہے جب ان سے کہا جاتا ہے کہ تمہاری ایک کمیٹی نے یہ قانون بنایا ہوا ہے اس کا کوئی علاج کرو تو کہتے ہیں یہ قانون صرف پنجاب میں ہے اور کہیں نہیں.مگر جب ہم مگر

Page 235

1941 236 خطبات محمود کہتے ہیں کہ اس قانون کی موجودگی میں ہمیں کس طرح اعتبار آ سکتا ہے کہ آئندہ کوئی ایسا قانون دوسری مجالس نہیں بنائیں گی.صاف طور پر کیوں یہ اعلان نہیں کر دیتے کہ جو شخص اپنے آپ کو مسلمان کہتا ہے مسلم لیگ کے داخلہ کے لحاظ سے وہ مسلمان سمجھا جائے گا تو کہتے ہیں مصلحت نہیں کہ اس قسم کا اعلان کیا جائے.ہم : کہتے ہیں اس مصلحت کے یہی معنے ہیں کہ جب کام کا موقع آئے تو ہم سے کام لیتے چلے جاؤ اور جب حقوق کا سوال پیدا ہو تو کہہ دو کہ ہم تمہیں مسلمان نہیں سمجھتے.غرض ان دونوں جماعتوں نے اپنے رویہ سے یہ ثابت کر دیا ہے کہ ان کی نیک نہیں.کانگرس نے ہماری تین سال کی متواتر خط و کتابت کے بعد آج تک تسلیم نہیں کیا کہ تبلیغ کی اجازت کو وہ تسلیم کرتی ہے اور تبدیلی مذہب پر کوئی پابندی عائد نہیں کرتی.در حقیقت وہ جانتے ہیں کہ اگر تبلیغ کی اجازت ہوئی تو نیت ہندوؤں نے ہی مسلمان ہونا ہے مسلمانوں نے ہندو نہیں ہونا.پس وہ تبدیلی مذہب کی اجازت دیتے ہوئے ڈرتے ہیں لیکن بہر حال جب تک وہ اس کا کھلے بندوں اقرار نہیں کرتے کہ تبدیلی مذہب پر وہ کوئی پابندی عائد نہیں کرتے اس وقت تک کوئی احمدی کانگرس میں شامل نہیں ہو سکتا.اسی طرح جب تک مسلم لیگ کے ارکان صاف طور پر یہ اعلان نہیں کر دیتے کہ احمدیوں کو بھی وہ مسلمان سمجھتے ہیں اور اسی طرح ہر اس حص کو جو کہلاتا ہو اغراض مسلم لیگ کے لئے وہ مسلمان قرار دیتے ہیں اس وقت تک مسلمان کوئی احمدی مسلم لیگ میں شامل نہیں ہو سکتا.وہ بہانہ بناتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اس قسم کا اعلان مصلحت کے خلاف ہے حالانکہ مصلحت کے خلاف ہونے کے معنے یہی ہیں کہ اگر انہوں نے ایسا اعلان کیا تو کثرت سے مسلمان مخالف ہو جائیں گے اور اگر مسلم لیگ کے اکابر کے نزدیک مسلمانوں کی کثرت نے ہماری مخالفت ہی کرنی ہے تو ایسی جماعت میں شامل ہونے کی ہمیں دعوت دینا ان کے لئے جائز ہی کس طرح ہو سکتا ہے؟ اور احمدیوں میں سے 6

Page 236

1941 237 خطبات محمود کسی کا اس میں داخل ہونا مناسب ہی کس طرح ہو سکتا ہے؟ حق یہ ہے کہ جب مسلمانوں کے متعلق اکابر مسلم لیگ یہ سمجھتے ہیں کہ ان کی کثرت نے کل شور مچا دینا ہے کہ احمدی مسلمان نہیں ان کو لیگ سے باہر نکال دیا جائے تو ان کی دیانت داری کا یہ تقاضا ہونا چاہئے کہ وہ مسلمانوں کی کثرت سے فیصلہ کرائے بغیر احمدیوں و مسلم لیگ میں شامل ہی نہ کریں.وہ یہ سب کچھ جاننے کے باوجود ہمیں لیگ میں شامل کرنا چاہتے ہیں.جب وہ سمجھتے ہیں کہ مسلمانوں کی اکثریت ہمارے مسلم لیگ میں شامل ہونے کو پسند نہیں کرتی اور جب وہ سمجھتے ہیں کہ ہمارے شامل ہونے سے ان میں فتنہ پڑ جائے گا تو آخر کیوں ہم کو مسلم لیگ میں شامل کرنا چاہتے ہیں.ان کو چاہئے کہ وہ یہ اعلان کر دیں کہ مسلم لیگ کے کارکن تو چاہتے ہیں کہ احمدی لیگ میں شامل ہو جائیں اور مسلم لیگ کے کارکن احمدیوں کو سیاسی نقطہ نگاہ سے مسلمان ہی سمجھتے ہیں مگر چونکہ مسلمان احمدیوں کو مسلمان نہیں سمجھتے اور وہ ان کی مسلم لیگ میں شمولیت کو پسند نہیں کرتے اس لئے کارکن بھی احمدیوں کو لیگ میں شامل نہیں کرسکتے.دیانت داری نہیں کہ دونوں نے ایسا رویہ اختیار کیا ہوا ہے جو لوگوں کو دھوکا میں ڈالنے والا ہے.چنانچہ کانگرس نے تو اپنے ایک ریزولیوشن کی پناہ لی ہوئی ہے اور جب مذہبی آزادی کا سوال ان کے سامنے رکھا جاتا ہے تو کہہ دیا جاتا ہے کہ اس ریزولیوشن میں کانگرس کی پالیسی بیان ہو چکی ہے اور جب ہم کہتے ہیں کہ اس ریزو لیوشن کا مفہوم واضح کرو تو کہہ دیتے ہیں کہ مفہوم خود سمجھتے رہو الفاظ آپ کے سامنے ہیں.مسلم لیگ کی یہ حالت ہے کہ وہ ہمیں مسلمان سمجھنے کے لئے بھی تیار نہیں.بلکہ مسلم لیگ نے ہمیں یہاں تک لکھا کہ آپ مسلمان کی تعریف مبہم ہی رہنے دیں تو زیادہ بہتر ہے کیونکہ اس میں ہی مصلحت ہے.اس کے صاف معنے یہ ہیں کہ انہیں مسلمانوں کا خوف ہے اور وہ ڈرتے ہیں کہ اگر ہم نے احمدیوں کو بھی مسلمان قرار دے دیا تو فساد پید اہو جائے گا اور جبکہ ان کے نزدیک احمدیوں کو مسلمان

Page 237

1941 238 خطبات محمود قرار دینے سے فساد پیدا ہونے کا اندیشہ ہے تو آخر وجہ کیا ہے کہ ہم مسلم لیگ میں شامل ہوں اور کیوں ہم آج ہی اس فساد کی فکر نہ کریں جس نے کل پیدا ہونا ہے.پس ہماری غرض پوری ہو چکی ہے.ہم کانگرس سے بھی خط و کتابت کر چکے ہیں اور مسلم لیگ سے بھی.ہماری جماعت میں سے جو لوگ انفرادی طور پر کانگرس میں شامل ہونے کے خواہشمند تھے انہیں یہ معلوم ہو چکا ہے کہ کانگرس مذہبی آزادی کی حامی نہیں اور وہ تبدیلی مذہب کو جائز نہیں سمجھتی.اور اس بات کی موجودگی میں وہ کبھی کانگرس میں شامل نہیں ہو سکتے.اسی طرح مسلم لیگ میں شامل ہونے کے جو لوگ خواہشمند تھے انہیں یہ بات معلوم ہو چکی ہے کہ مسلم لیگ ہمیں سیاسی طور پر بھی مسلمان سمجھنے کے لئے تیار نہیں.پس جب تک مسلم لیگ اپنے اس قانون کو نہیں بدلتی اور اغراض لیگ کے لحاظ سے ان تمام لوگوں کو مسلمانوں نہیں سمجھتی جو اپنے آپ کو مسلمان سمجھتے ہیں اس وقت تک احمدی مسلم لیگ میں شامل نہیں ہو.اور مسلم لیگ والوں کا یہ کوئی حق نہیں کہ وہ اس قانون کی موجودگی میں ہمیں اپنے اندر شامل کرنے کی تحریک کریں.اگر وہ سمجھتے ہیں کہ ملک کی رائے عامہ کو وہ قابو میں رکھ سکتے ہیں تو انہیں دلیری کے ساتھ اس امر کا اظہار کرنا چاہئے کہ جو لوگ محمد صلی ی یم کی طرف اپنے آپ کو منسوب کرتے اور اپنے آپ کو مسلمان.قرآن کریم کو اپنی شرعی کتاب تسلیم کرتے ہیں ان تمام کو مسلم لیگ اپنے قواعد و ضوابط کے لحاظ سے مسلمان سمجھتی ہے اور ان لو اپنے اندر داخل کرنے کے لئے تیار ہے اور اگر مسلم لیگ کے ارکان یہ خیال کرتے ہیں کہ وہ عوام الناس کو اپنے پیچھے نہیں چلا سکتے تو دیانت یہ چاہتی ہے کہ وہ ایسا دعویٰ نہ کریں جس کو پورا کرنے کی ان.میں طاقت نہ ہو.ہے یہ بات میں نے کھول کر اس لئے بیان کر دی ہے کہ میں نے دیکھا جماعت کے بعض دوست بھی اس غلط فہمی میں مبتلا ہیں کہ گویا بحیثیت جماعت کانگرس یا مسلم لیگ میں شامل ہونے کا کوئی سوال ہمارے زیر غور ہے.حالانکہ

Page 238

خطبات محمود 239 1941 بحیثیت جماعت کانگرس یا مسلم لیگ میں شامل ہونے کا کوئی سوال ہمارے زیر غور نہیں.ہم ایک مذہبی جماعت ہیں سیاسی جماعت نہیں.پھر ہمارا پروگرام کانگرس یا مسلم لیگ کا پروگرام کس طرح ہو سکتا ہے.دنیا میں وہی جماعت کسی اور جماعت میں بحیثیت جماعت شریک ہو سکتی ہے جس کا پروگرام کلی طور پر دوسری جماعت کے پروگرام کے مطابق ہو مگر ہمارے پروگرام اور کانگرس اور مسلم لیگ کے پروگرام میں تو زمین و آسمان کا فرق ہے.ہمارا کام یہ ہے کہ ہم تبلیغ کریں، رسول کریم صلی الی یوم کے احکام لوگوں تک پہنچائیں.قرآن کریم کے علوم سے لوگوں کو واقف کریں.مسلمانوں کے دلوں میں خدا تعالیٰ کی محبت پیدا کریں اور اسلام اور احمدیت کی اشاعت کریں.یہ نہ کانگرس کا پروگرام ہے اور نہ مسلم لیگ کا پروگرام ہے.پھر بحیثیت جماعت ہم کس طرح کانگرس یا مسلم لیگ میں شامل ہو سکتے ہیں؟ میں نے جیسا کہ بتایا ہے صرف افراد کا سوال زیر غور ہے مگر اس کے متعلق بھی تین سال کی خط و کتابت کے بعد یہ ظاہر ہو چکا ہے کہ کانگرس دنیا کو دھوکا دے رہی ہے اور وہ مذہبی آزادی کی ہر گز قائل نہیں.اسی طرح مسلم لیگ کے متعلق بھی یہ امر ظاہر ہو چکا ہے کہ اس کے کرتاؤں دھرتاؤں میں یہ ہرگز ہمت نہیں کہ وہ عوام کی اصلاح کے لئے کوئی قدم اٹھا سکیں اور ان تمام لوگوں کو اغراض سیاست کے لئے مسلمان قرار دیں جو اپنے آپ کو مسلمان سمجھتے ہیں اور شریعت اسلامیہ کو اپنے لئے واجب العمل قرار دیتے ہیں ان کے جوابات ہمارے پاس موجود ہیں ان کو جب ہم نے شائع کیا تو دنیا کو پتہ لگ جائے گا کہ مسلم لیگ کے بعض ارکان صرف وقت کو ٹالنا چاہتے ہیں اور نہ صرف وقت کو ٹالنا چاہتے ہیں بلکہ دنیا کو یہ بھی معلوم ہو جائے وو گا کہ مسلم لیگ کے دفتر میں ایک ایسا عنصر موجود ہے جو بڑا ہی بد تہذیب ہے.الفضل 23.اپریل 1941ء ) 1 ابن ماجہ کتاب الدعاء باب مَا يَدُعُو بِهِ الرَّجُلِ إِذَا رَأَى السَّحَابَ وَ الْمَطَرَ

Page 239

1941 240 خطبات محمود 2 ابوداؤد ابواب النَّوْمِ بَابِ فِي الْمَطَرِ 116 فَمَنْ يَّكْفُرُ بَعْدُ مِنْكُمْ فَإِنِّي أُعَذِّبُهُ عَذَا بَلَّهُ عَنْبُهُ أَحَدًا مِّنَ الْعَلَمِيْنَ المَائده: 4 مسلم كتاب الحج باب فَضْلُ الصَّلوةِ بِمَسْجِدِ مَكَّةَ وَمَدِينَةَ کنز العمال جلد 5 صفحہ 648 مطبوعہ حلب 1971ء میں لَا خِلَافَةَ إِلَّا عَنْ مَّشْوِرَةٍ کے الفاظ ہیں.6 السيرة الحلبية جلد 2 صفحہ 230 تا 232 مطبوعہ مصر 1936ء

Page 240

1941 241 (15) خطبات محمود موجودہ نازک حالات میں ایک پرانی تحریر کے ذریعہ فتنہ پیدا کرنے کی کوشش فرمودہ 23 مئی 1941ء) تشہد، تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:.“انسان کی عقل اور سمجھ کا امتحان ہمیشہ ایسے ہی موقع پر ہوتا ہے جبکہ اس کے جذبات ابھرے ہوئے ہوں.جذبات کے اشتعال کے موقع پر جو شخص نفس کو قابو میں رکھتا ہے اور وہ چیز جسے خدا نے اہم بنایا اسے اہم سمجھتا اور جسے خدا نے ادنی بنایا اسے ادنیٰ قرار دیتا ہے، وہی دراصل عقلمند ہوتا ہے.یہ وقت دنیا کی تاریخ پر ایسا تاریک اور خطرناک ہے کہ اس سے پہلے کبھی ایسا وقت نہیں آیا.قطع نظر سے کہ کوئی شخص جرمنی کا موید ہے یا برطانیہ کا.اور جرمنی کی فتح چاہتا ہے یا برطانیہ کی.کوئی سلیم الفطرت اس امر سے انکار نہیں کر سکتا کہ انسانی خون کی ارزانی جو آج ہے پہلے کبھی نہیں ہوئی.جرمن ہوں یا انگریز دونوں انسان ہیں اور تمام بنی نوع انسان ہماری ہمدردی کے مستحق ہیں.یہ علیحدہ بات ہے کہ کوئی جرمنی کا ہم خیال ہو اور اس کی فتح چاہے اور کوئی برطانیہ کا ہم خیال ہو اور اس کی فتح کا خواہاں ہو.لیکن جو بھی سچا انسان ہے وہ خواہ کسی کی فتح کا خواہاں ہو اس خواہش کے ساتھ وہ یہ بھی چاہے گا کہ انسان کی اتنی قربانی نہ ہو جتنی آج ہو رہی ہے.ہمارے لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا نمونہ راہ نما ہے.آپ کے اعلیٰ اخلاق کا

Page 241

1941 242 خطبات محمود پڑھ سکتے ایک نمونہ مولوی عبد الکریم صاحب مرحوم نے بیان فرمایا ہے.سب لوگ جانتے ہیں کہ جماعت احمدیہ کی ترقی میں طاعون کا بڑا حصہ ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے طاعون کے بڑے زور سے پھیلنے، دیر تک قائم رہنے اور اس سے لاکھوں جانوں کے تلف ہونے کی پیشگوئی فرمائی تھی اور رسول کریم صلی ا یکم اور دیگر انبیاء سابق کے کلام میں بھی یہ بات پائی جاتی ہے کہ مسیح موعود کے زمانہ میں ایک ایسا مرض پھوٹے گا.پس جب ملک میں طاعون پھوٹا اور سخت زور سے چھوٹا تو دلوں میں اللہ تعالیٰ کا خوف پیدا ہوا اور ہزاروں لوگ جماعت احمدیہ میں داخل ہو گئے.گویا طاعون کی شدت، اس کا دیر تک رہنا اور لاکھوں جانوں کی اس سے ہلاکت جماعت ترقی کا باعث ہوئی.پھر پیشگوئی کا پورا ہونا اپنی ذات میں خوشی کی بات ہے.مگر ایسے موقع پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جو نمونہ پیش کیا وہ عجیب اور مومنوں کے لئے اسوہ ہے.آپ نے مکان میں ایک جگہ بیت الدعا بنایا ہوا تھا وہ اب بھی موجود ہے.چھوٹی سی جگہ ہے جہاں دو آدمی کھڑے ہو کر نماز ہیں.آپ رات یا دن کے وقت جب بھی دعا کرتے بالعموم یہیں کرتے تھے.جب یہ جگہ تعمیر ہونے لگی تو مولوی عبد الکریم صاحب مرحوم نے عرض کیا کہ اگر ایسا ہی کمرہ اس کی چھت پر اور بن جائے تو میں بھی وہاں حضور کے ساتھ دعا میں ہو جایا کروں.چنانچہ آپ نے اس کے اوپر بھی کمرہ بنوا دیا اور مولوی بھی وہاں جا کر دعا کیا کرتے تھے.مولوی صاحب کا بیان ہے کہ ایک دفعہ کے کمرہ سے رونے اور گریہ و زاری اور کراہنے کی آواز آ رہی تھی اور یوں معلوم ہوتا تھا کہ جیسے کوئی عورت دردِ زہ سے کراہ رہی ہے.میں نے کان لگا کر سننا شروع کیا کہ کیا بات ہے تو معلوم ہوا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام دعا کر رہے ہیں اور گریہ و زاری کرتے ہوئے آہستہ آہستہ عرض کر رہے ہیں کہ الہی اگر تیرے بندے اسی طرح طاعون سے مرتے گئے تو پھر ایمان کون لائے گا؟ کتنے احمدی ہیں جو کسی انداری پیشگوئی کے پورا ہونے پر ایسا نمونہ دکھاتے ہیں.عام طور پر شریک.

Page 242

1941 243 خطبات محمود ایسے موقع پر ایک ہی پہلو سامنے ہوتا ہے یعنی پیشگوئی پورا ہونے پر خوشی کا پہلو.مگر طریق غلط ہے.یہ خوشی کا ہی موقع نہیں ہوتا بلکہ متضاد جذبات کا وقت ہوتا.ایک طرف تو خوشی ہوتی ہے کہ پیشگوئی پوری ہو رہی ہے اور دوسری طرف رنج کہ اللہ تعالیٰ کے بندے عذاب میں مبتلا ہو رہے ہیں.پس ایسے وقت میں مومن کے دل میں متضاد جذبات پیدا ہونے چاہئیں.خوشی کے جذبات اس لئے کہ پیشگوئی پوری ہو رہی ہے اور رنج و الم کے جذبات اس لئے کہ ہمارے بھائی جو ایک ہی آدم کی اولاد ہیں اور جن کے لئے اللہ تعالیٰ نے ہماری ہی طرح جنت بنائی تھی اور اپنے فضلوں کے دروازے کھولے تھے، انہوں نے اپنے ہاتھوں سے فضل کے یہ دروازے بند کر کے اس کے غضب " کھڑکیوں کو اپنے لئے کھول لیا.عذاب کے موقع پر وہی لوگ جن کے دل میں خشیت نہیں ہوتی ایک پہلو یعنی خوشی کا پہلو لیتے ہیں.ہی نہیں کی پس انسان کو ہمیشہ دونوں پہلو مد نظر رکھنے چاہئیں لیکن بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ نہایت اہم باتوں کو نظر انداز کر کے چھوٹی چھوٹی باتوں میں پڑ جاتے ہیں اور انہیں یہ پتہ بھی نہیں ہوتا کہ دنیا کس مصیبت میں مبتلا ہے.وہ ادھر ادھر و اور سیدھے ایک ہی طرف چلے جاتے ہیں.جس طرح سور سیدھا ہی چلتا جاتا ہے خواہ آگے سے کوئی نیزہ مار دے یا کوئی اور خطرہ ہو وہ رستہ بدلتا نہیں بلکہ سیدھا ہی چلتا جاتا ہے.اسی طرح یہ لوگ بھی رستہ نہیں بدلتے اور پھر بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں جو چھوٹے چھوٹے فتنوں سے بڑی تباہیوں کے سامان پیدا کر لیتے ہیں.شیعہ سنیوں کو دیکھ لو ان میں کیسی چھوٹی چھوٹی باتوں پر جھگڑا ہے کوئی بڑی بات نہیں.یہ نہیں کہ شیعہ حضرت علیؓ کو بزرگ سمجھتے ہیں اور سنی نہیں سمجھتے.یہ نہیں کہ شیعہ ان کو امت اسلامیہ میں اعلیٰ مرتبہ کا سمجھتے ہیں اور سنی نہیں سمجھتے.بھی ان کو بزرگ سمجھتے ہیں اور سنی بھی.شیعہ ان کو امام کہتے ہیں اور ستی خلیفہ مانتے ہیں.بات ایک ہی ہے خلیفہ بھی تو امام ہی ہوتا ہے.سنی بھی اہل سنی بھی اہل بیت سے

Page 243

* 1941 244 خطبات محمود محبت رکھتے ہیں اور شیعہ بھی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے:.خاکم نثار کوچه آلِ محمد است ہے یعنی میری جان آلِ محمد کے کوچہ پر نثار ہے اور اس سے بڑھ کر محبت کیا سکتی ہے ؟ در حقیقت دونوں میں کوئی بڑا جھگڑا نہیں، کوئی خاص لڑائی نہیں مگر پھر بھی اختلاف کس قدر بڑھا لیا ہے.اسی سفر کے دوران کراچی کے ایک شیعہ رئیس سے ایک دوست کسی کام کے سلسلہ میں ملنے گئے.وہ مذہباً شیعہ ہیں مگر متعصب بالکل نہیں ہیں.اس وقت ایک شیعہ ایڈیٹر ان سے ملنے کے لئے باہر بیٹھے تھے.انہوں نے ہمارے دوست سے کہا کہ میں نے اس شخص کو بہت سمجھایا ہے یہ روز شور مچاتا رہتا ہے کہ فلاں سنی کو شیعہ نے سلام کیوں کہہ دیا اور ایسی ہی معمولی : باتوں کے جھگڑے پیدا کرتا رہتا ہے.میں نے اسے کئی دفعہ کہا ہے کہ میں بھی شیعہ ہوں مگر مجھے ان باتوں پر کوئی غصہ نہیں آتا.باغ فدک 1 پر تمہارا بڑا جھگڑا مگر جن سنیوں نے وہ لیا تھا وہ تو اب ہیں نہیں.موجودہ سٹی ان کی اولاد بھی نہیں ہیں.اس لئے اس واقعہ کی وجہ سے ان کے ساتھ دشمنی کے کیا معنی ہو سکتے ہیں؟ لیکن اگر بہر حال تم لوگوں نے جھگڑا جاری ہی رکھنا ہے تو باغ فدک کی قیمت ڈلوا لو اور وہ مجھ سے لے لو اور پھر اس جھگڑے کو ختم کر دو.تو در حقیقت یہ سب جھگڑا معمولی باتوں پر ہی ہے اور یو نہی دست و گریباں ہو رہے ہیں.یہی حال احمدیوں اور غیر احمدیوں کا ہے.بہے شک دونوں میں اختلاف ہے مگر ایسا نہیں جیسا ہندوؤں اور سے ہے.ہندو اور سکھ تو رسول کریم صلی ا ورم کو نَعُوذُ بِاللهِ جھوٹا سمجھتے ہیں.قرآن کریم کو نہیں مانتے، احکام اسلام کو جھوٹا سمجھتے ہیں، اسلامی تمدن اور اس کے اقتصادی نظام کے خلاف ہیں مگر احمدیوں اور غیر احمدیوں میں ایسا اختلاف نہیں لیکن پھر بھی مسلمان مذہبی باتوں میں بھی ہمارے مقابلہ میں غیروں کا ساتھ دیتے ہیں.قرآن کریم میں بھی ایسے لوگوں کا ذکر ہے.مشرکین یہود کو مسلمانوں پر ترجیح دیتے تھے حالانکہ مسلمان حج بیت اللہ کے قائل اور حضرت اسماعیل اور ان کی اولاد کی سکھوں

Page 244

1941 245 خطبات محمود بڑی عزت کرتے ہیں.یہودی کفار کو مسلمانوں پر ترجیح دیتے تھے حالانکہ مسلمان حضرت موسیٰ کو، حضرت داؤد کو سچا نبی مانتے ہیں اور بھی یہود کے بیسیوں نبیوں کو پر مانتے ہیں اور ان کا ادب و احترام کرتے ہیں ان کی کتابوں کو سچا مانتے ہیں.مذہبی احکام کی تفاصیل میں بھی بہت حد تک دونوں میں اتفاق ہے مگر پھر بھی یہود مسلمانوں کے خلاف مشرکین مکہ سے مل جاتے تھے.یہی حال آج اکثر مسلمانوں کا ہے.اول تو ہم دوسری قوموں کے ساتھ جھگڑے سے بچتے ہیں.لیکن اگر ہندؤوں، سکھوں یا عیسائیوں وغیرہ سے کہیں کوئی جھگڑا ہو جائے تو مسلمان ہمارے خلاف فوراً ان سے مل جاتے ہیں.ایک پادری نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نالش کی کہ آپ نے مجھے قتل کرانے کی سازش کی ہے.یہ دراصل اسلام اور عیسائیت کا جھگڑا تھا کوئی جائداد کا جھگڑا نہ تھا، کوئی تجارتی جھگڑا حضرت مسیح موعود عليه الصلوة و السلام و السلام اور پادریوں میں نہ تھا.پادری صرف اس وجہ سے آپ کے مخالف تھے کہ آپ عیسائیت کی مخالفت اور اسلام کی تائید کرتے ہیں مگر مسلمان آپ کے خلاف اس پادری کے ساتھ ہو گئے حتی کہ مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی تو آپ کے خلاف یہ گواہی دینے کے لئے آئے کہ یہ شخص ایسا ہی ہے اس نے ضرور ایسی بات کی ہو گی.حالانکہ چاہئے تھا کہ مسلمانوں کے دل میں غیرت ہوتی.اس کے بالمقابل ایک مخلص مسلمان کا واقعہ ہے جب آتھم کی پیشگوئی اللہ تعالیٰ کے کے مطابق ٹل گئی تو مخالف ہنسی ٹھٹھا کرتے تھے.ایک دن نواب صاحب وعده بہاول پور کے دربار میں جو موجودہ نواب صاحب کے دادا تھے یہی تذکرہ ہونے لگا اور امراء و درباریوں نے تمسخر و استہزاء شروع کیا.اس وقت پیر غلام فرید صاحب چاچڑاں والے بھی جو بڑے بزرگ اور نیک انسان تھے موجود تھے.ان پر اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام کی صداقت کھول دی تھی اور وہ آر ایمان لے آئے تھے، لوگ بیٹھے ہنسی مذاق کرتے رہے اور پیر صاحب چپ چاپ بیٹھے ان کی باتیں سن رہے تھے.تھوڑی دیر بعد نواب صاحب نے بھی اس استہزاء میں

Page 245

1941 246 خطبات محمود حصہ لینا شروع کیا جب تک تو درباری ایسی باتیں کرتے رہے پیر صاحب چپ رہے مگر جب نواب صاحب نے حصہ لیا تو آپ جلال میں آ گئے.آپ نواب صاحب کے پیر تھے اس لئے نواب صاحب ان کی بہت عزت کرتے تھے.آپ نے فرمایا کہ میں تو حیران ہوں کہ تم لوگ کس بات پر ہنستے ہو ؟ کیا اس پر کہ اسلام ہار گیا اور عیسائیت جیت گئی؟ تم لوگوں کو غیرت سے کام لینا چاہئے.مرزا صاحب نے آٹھم سے مقابلہ محمد رسول اللہ صلی اللی علم کی عزت کو قائم کرنے کے لئے کیا تھا یا اپنی عزت کے لئے؟ پھر آپ نے بڑے جلال میں آکر فرمایا کہ تم کہتے ہو کہ آتھم زندہ ہے السلام مجھے تو اس کی لاش سامنے پڑی دکھائی دیتی ہے.2 آخر حضرت مسیح موعود علیہ کی پیشگوئی کے ماتحت وہ مر بھی گیا.پیر صاحب مرحوم نے ان لوگوں کو یہ سبق دیا کہ جب غیرت کا سوال ہو تو انسان کو چھوٹی چھوٹی دشمنیوں کو بھلا دینا چاہئے اور اس سے بھی بڑھ کر جب کوئی ملکی سوال در پیش ہو تو ہندوستان اور سکھ عیسائی کا سوال بھی پیدا نہیں ہونا چاہئے.یہ وقت ہندوستان کے لئے بہت نازک قسمتی یا ہے بد خوش قسمتی سے سب ملک ہندوستان کو سونے کی چڑیا سمجھتے ہیں.ہمیں تو یہاں وہ سونا کہیں اور - نظر نہیں آتا لیکن دوسرے ملک یہ سمجھتے ہیں کہ جو دولت یہاں ہے وہ نہیں اس لئے مختلف قومیں چاہتی ہیں کہ اس پر قبضہ کر لیں.جاپان، روس، اٹلی اور جرمنی ہر ایک چاہتا ہے کہ یہ ملک اس کے قبضہ میں آ جائے اور اس کے وسیع ذرائع اسے مل جائیں اور قدرتی طور پر جنگ کے موقع پر ان کی نظریں اور بھی زیادہ حرص اور لالچ کی وجہ سے اس ملک پر لگی ہوئی ہیں.ایسے وقت میں ہندوستانیوں کے لئے بہت بڑے خطرہ کا مقام ہے اور انہیں سوچنا چاہئے کہ اپنی، اپنے رشتہ داروں اور دوستوں کی عزت کو بچانے کے لئے انہیں کیا کرنا چاہئے.چاہئے تو یہ تھا کہ ایسے نازک وقت میں سب مل کر ملک کی حفاظت کی تدابیر کرتے.مگر میں دیکھتا ہوں کہ کئی لوگ ایسے ہیں جو جائز و ناجائز باتوں سے خواہ مخواہ مختلف اقوام میں فتنہ پیدا کرنا چاہتے ہیں.مثلاً آجکل ہی ایک فتنہ پیدا کیا جا رہا ہے.

Page 246

1941 247 خطبات محمود کو ایک سکھ اخبار نے بارہ سال کی ایک پرانی تحریر اس رنگ میں شائع کی کہ گویا یہ کوئی مخفی سر کلر ہے جو نظارت اعلیٰ کی طرف سے جماعتوں کو بھیجا گیا ہے اور اب دوسرے اخبار بھی اسے اس رنگ میں شائع کر رہے ہیں کہ گویا جماعت احمدیہ سکھوں کے خلاف مسلح کیا جا رہا ہے حالانکہ یہ بات ہی حماقت ہے.دینی نقطہ نگاہ کو جانے دو کیونکہ سکھ تو یہ نہیں مانتے کہ ایک مومن سو پر غالب آ سکتا ہے وہ تو صرف ظاہری حالات کو ہی دیکھتے ہیں اور وہ شور بھی اسی لئے مچا رہے ہیں کہ سمجھتے ہیں ان کے خلاف دنیوی تیاری کی جا رہی ہے لیکن وہ سوچیں تو سہی کہ تیس لاکھ قوم کا چند ہزار آدمی مقابلہ کر کیسے سکتے ہیں؟ اور تیس لاکھ بھی ایسے جو مال و دولت کے لحاظ سے، زمین کی ملکیت کے لحاظ سے اور طاقت کے لحاظ سے ان چند ہزار سے ہزاروں گنا زیادہ ہیں.کیا کوئی عظمند یہ سمجھ سکتا ہے کہ چند ہزار کی چھوٹی سی جماعت دنیوی سامانوں کے ساتھ ایسی تیس لاکھ قوم سے لڑ سکتی ہے جس کے پاس کئی ریاستیں ہیں اور دولت ہے.روحانی نقطہ نگاہ علیحدہ ہے اسے تو جانے دو.بے شک ہے.روحانی روحانی لحاظ سے تو ایک آدمی ساری دنیا سے بھی لڑ سکتا ہے مگر یہاں تو دنیوی سامانوں سے جنگ کا سوال ہے.جب روحانیت کے ساتھ مقابلہ کا سوال ہو اس وقت اخبار کیا کر سکتے ہیں؟ ایسے وقت میں تو حکومتیں بھی کچھ نہیں کر سکتیں.چہ جائیکہ اخباری پروپیگنڈا سے کچھ ہو سکے.مگر یہاں تو دنیوی لحاظ سے لڑائی کا سوال ہے اور کوئی عقلمند یہ تسلیم نہیں کر سکتا کہ دنیوی لحاظ سے احمد یہ جماعت سکھوں کا مقابلہ کر احمدیہ سکتی ہے.سکھوں کی آبادی تیس لاکھ ہے.ان کی پنجاب میں چھ سات ریاستیں بھی ہیں، ہماری نسبت لاکھوں گنا زیادہ دولت ان کے پاس ہے اور زمینیں بھی بہت زیادہ ہیں.اور ان حالات میں سکھوں کا یہ شور مچانا کہ گویا احمدی ان پر حملہ کرنے والے ہیں ایسی ہی بات ہے جیسے کوئی بڑا پہلوان ایک نوزائیدہ بچہ کے متعلق کہے کہ یہ مجھے قتل.کر دے گا.ظاہر ہے کہ ایسے پہلوان کو ہر شخص پاگل کہے گا.اسی طرح جو کہتا ہے کہ جماعت احمد یہ سکھوں پر حملہ کرنے والی ہے وہ بھی عقلمند نہیں کہلا سکتی.

Page 247

خطبات محمود 248 1941 یہ تحریر اپنی ذات میں بھی ایسی نہ تھی کہ اس کی بناء پر سکھ اس قدر شور مچاتے.ان کو یہ تو سمجھنا چاہئے تھا کہ کیا یہ بات ممکن بھی ہے.یہ تو شرارت ہے جو ان کو بے وقوف بنانے کے لئے کی گئی ہے.گزشتہ مردم شماری کی رُو سے پنجاب میں ہماری تعداد صرف 56 ہزار تھی اور سکھ قریباً تیس لاکھ تھے.پھر ہمارے پاس تو دس گاؤں کی بھی کوئی ریاست نہیں اور ان کی کئی بڑی بڑی ریاستیں ہیں.پٹیالہ، نابھ ، جیند، کپور تھلہ ، فرید کوٹ اور بعض اور بھی چھوٹی چھوٹی ریاستیں ہیں.ان ریاستوں کے پاس فوجیں، توپ خانے اور ہوائی جہاز بھی ہیں.پھر اس ملک میں انگریزوں کی حکومت ہے اور ان کے پاس بھی بہت کچھ سامانِ جنگ اور طاقت ہے.بہت سے سکھ فوج میں ملازم ہیں.اندرونی تنظیم ان کی مکمل ہے اور وہ دو کروڑ مسلمانوں کو آئے دن دھمکاتے رہتے ہیں.پھر یہ کیونکر ممکن ہے کہ 56 ہزار احمدی ان پر حملہ کریں.یہ تو ایسی بات ہے کہ اگر کوئی ان سے کہتا تو ان کو اسے یہ کہنا چاہئے تھا کہ ہم ایسے بے وقوف نہیں کہ ایسی باتوں کو درست سمجھ سکیں.ان کو تو ایسے شخص سے لڑنا چاہئے تھا کہ تم ہمیں بے وقوف بنا رہے ہو اور ذلیل کرنا چاہتے ہو.تو عبد الرحمان مصری کی کارستانی ہے کہ اس نے ایک ایسی تحریر کو لے کر جس لی کوئی حیثیت ہیں خواہ مخواہ لوگوں کو ورغلایا اور شور مچایا لیکن سکھوں اعتبار نہ کرنا چاہئے تھا اور سمجھنا چاہئے تھا کہ یہ شخص ان کا نادان دوست ہے.اگر ہے کہ 56 ہزار احمدی تیس لاکھ ایسی قوم پر جس کے پاس کئی ریاستیں، مال و دولت اور سامان ہے حملہ کر سکتی ہے تو سکھوں کے لئے تو واقعی بہت خطرہ کا مقام ہے.حیرت تو یہ ہے کہ بعض مسلم اخبار سکھوں سے بھی زیادہ شور مچا رہے ہیں.ان کو سوچنا چاہئے تھا کہ یہ تو بارہ سال کی پرانی تحریر ہے اس بارہ سال کے عرصہ میں احمدیوں نے کتنی چڑھائیاں سکھوں پر کی ہیں.اگر ہمارا یہ ارادہ ہوتا تو 1928ء سے لے کر آج تک اس کے کوئی آثار تو ظاہر ہوتے اور اب تک کئی چڑھائیاں سکھوں پر ہو چکی ہوتیں.حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ آج سکھوں کے ساتھ واقعہ کو اس پر

Page 248

1941 249 خطبات محمود ہمارے تعلقات اس زمانہ سے بہت اچھے ہیں.اس میں ایک اور قابل غور بات ہے جسے ہمارے اخباروں نے بھی پیش نہیں کیا کہ اگر کوئی ایسا سرکلر بھیجا جاتا تو وہ ناظر امور عامہ کی طرف سے ہونا چاہئے تھا.نہ کہ ناظر اعلیٰ کی طرف سے.ہمارے نظام کے لحاظ سے اس کا تعلق ناظر امور عامہ سے ہے ناظر اعلیٰ سے نہیں.یہ امر بھی اس بات کا ثبوت ہے کہ ایسا کوئی سرکلر ہے ہی نہیں.ناظر اعلیٰ تو آئینی لحاظ سے ایسا سرکلر بھیجنے کا مجاز ہی نہیں.ناظر اعلیٰ کی طرف سے ایسے سرکلر کا بھیجا جانا تو ہمارے کانسٹی ٹیوشن کے ہی خلاف ہے.اگر ایسا سرکلر بھیجا جاتا تو ناظر امور عامہ کی طرف سے بھیجا جاتا.پس یہ بات سرے سے بناوٹی ہے.حقیقت صرف اتنی ہے کہ جس زمانہ میں سکھوں نے ہمارا مذبح گرایا تو مختلف اشخاص نے ایسی تجاویز لکھیں کہ ایسے واقعات کے انسداد کے لئے کیا کرنا چاہئے اور ایک افسر نے اپنی ذاتی حیثیت میں وہ تجاویز نوٹ کیں جو اخبار میں شائع کی گئی ہیں لیکن نہ وہ کبھی انجمن میں پیش ہوئیں اور نہ اس نے انہیں منظور کیا.یہ ایک فرد کے خیالات تھے اور ایک فرد کے خیالات کی ذمہ داری ساری قوم پر کس طرح عائد ہو سکتی ہے؟ کیا سکھ اس اصول کو تسلیم کرنے کے لئے تیار ہیں کہ اگر کوئی سکھ کوئی بات کہے یا کسی کو دھمکی دے تو اس کے معنے یہ ہیں کہ وہ دھمکی ساری قوم کی طرف سے ہے.یہ بھی ایک شخص کے خیالات ہیں جنہیں قوم نے کبھی منظور نہیں کیا.قوم کی ذمہ داری اس صورت میں ہو سکتی تھی کہ انجمن ان باتوں کو منظور کرتی یا خلیفہ وقت منظور کرتا.پس ایسے وقت میں جبکہ ملک کو اس بات کی ضرورت ہے کہ سب قومیں مل کر حفاظت کی تدابیر اختیار کریں.ایسی بے بنیاد باتوں کی بناء پر شور مچانا اور فتنہ پیدا کرنا عقلمندی نہیں.اور عجیب بات یہ ہے کہ سکھ تو ایک دفعہ بیان کر کے چپ ہو گئے ہیں مگر بعض مسلمان اخبار برابر شور مچاتے جا رہے ہیں اور ان کی مثال ویسی ہی ہو رہی ہے کہ “ ماں سے زیادہ چاہے کٹنی کہلائے ” وہ سکھوں.بھی زیادہ ان کے ہمدرد بنے ہوئے ہیں.مصری کو مرتد ہوئے بھی چار سال ہو چکے ہیں www.

Page 249

1941 250 خطبات محمود اور یہ کاغذ اب اخبارات میں شائع کیا جا رہا ہے.پہلے تو اس کے ایجنٹ علاقہ کے سکھوں کو یہ کاغذ دکھاتے رہے مگر وہ چونکہ حالات سے واقف تھے اور اپنے ساتھ ہمارے عمل کو دیکھ رہے تھے اس لئے ان پر تو اس کا کوئی اثر ہوا نہیں.وہ جانتے تھے کہ محض ایک فرد کی تجاویز ہیں جنہیں جماعت نے قبول نہیں کیا اور جن پر عمل نہیں ہوا اور یہ تجاویز بھی ایک اشتعال کے وقت کی ہیں.ایسے اشتعال کے وقت کی کہ اگر کبھی سکھوں پر ایسا وقت آئے تو وہ اس سے لاکھوں گنا زیادہ سخت تجاویز کریں یا سکھوں کے کسی مقدس مقام پر جا کر کوئی عمارت گرا دی جائے تو ہزاروں سکھ ایسے ہی خیالات کا اظہار نہ کریں گے؟ اگر کریں گے اور ضرور کریں گے تو یہ تو احمدیوں کی شرافت ہے کہ ان میں سے صرف ایک شخص کے ذہن میں ایسی تجاویز آئیں، صرف ایک سے اشتعال ظاہر ہوا اور باقی ساری قوم نے اس اشتعال کو دبا لیا اور اس شخص کی تحریک کو قوم نے قبول نہ سکھوں کو تو اس پر خوش ہونا چاہئے تھا کہ ایسے جوش کے خیالات کو قوم نے قبول نہیں کیا.مگر عجیب بات ہے کہ وہ بجائے ممنون ہونے کے الٹا شور مچا رہے ہیں.میرے نزدیک تو حکومت کے لئے بھی یہ شکریہ کا موقع تھا.یقینا اس کی کوئی اور مثال نہیں مل سکتی کہ کسی قوم نے ایسے اشتعال کے موقع پر ایسے محتمل اور صبر کا نمونہ دکھایا ہو.صرف ایک احمدی جماعت ہی ہے جس نے ایسے شدید اشتعال کے موقع پر ایسے صبر کا نمونہ دکھایا ہے.مگر افسوس ہے کہ اس پر اس کی تعریف کرنے کی بجائے الٹا شور مچایا جا رہا ہے.آج ہر عظمند تسلیم کرتا ہے کہ یہ بہت نازک موقع ہے اور جو لوگ آج ایک بارہ سال کی پرانی بات کو لے کر خواہ مخواہ فتنہ انگیزی کرتے ہیں ان کے عمل سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ موقع کی نزاکت کو نہیں سمجھتے.چاہئے تو یہ تھا کہ اگر کوئی اتنی پرانی بات واقع میں بھی ہوتی تو بھی اسے نظر انداز کر دیتے اور کہہ دیتے کہ ایسی باتوں کا وقت نہیں پھر دیکھا جائے گا.مگر یہاں تو کوئی بات بھی نہیں اور

Page 250

خطبات محمود 251 1941 خواہ مخواہ کا فتنہ پیدا کیا جا رہا ہے.جو اس بات کا ثبوت ہے کہ ان لوگوں کو ملک سے کوئی ہمدردی نہیں اور اس کی مصیبت کا انہیں کوئی احساس نہیں.حضرت سلیمان کا واقعہ ہے کہ ان کے زمانہ میں ایک شخص کی دو بیویاں تھیں اور دونوں کا ایک ایک لڑکا تھا.وہ شخص باہر گیا ہوا تھا اور کئی سال باہر رہا تھا اس کی بیویاں : کہیں سفر سے واپس آ رہی تھیں کہ رستہ میں ایک کے لڑکے کو بھیڑیئے نے کھا لیا.اس نے خیال کیا کہ میرا خاوند آئے گا تو دوسری بیوی کی گود میں چونکہ لڑکا ہے اس سے زیادہ محبت کرے گا اور میری قدر نہیں کرے گا.پھر اس نے سوچا کہ خاوند تو جب گیا تھا بچے چھوٹے ہی تھے اور وہ تو ان کی شکل سے بھی واقف نہیں.کیوں نہ میں دوسری کا لڑکا اٹھا لوں کہ یہ میرا ہے اور جسے بھیڑیے نے کھایا وہ دوسری کا تھا.چنانچہ اس نے ایسا ہی کیا اور دوسری عورت کے بچہ کو اٹھا کر کہا کہ کے پاس یہ میرا ہے.دونوں میں اس پر بھکڑا ہوا اور مقدمہ حضرت داؤد علیہ السلام - گیا.انہوں نے اسے حضرت سلیمان علیہ السلام کی طرف منتقل کر دیا.حضرت سلیمان علیہ السلام نے بہت کوشش کی مگر اصل بات معلوم نہ کر سکے اس پر انہوں نے کہا کہ اچھا چھری لاؤ.میں لڑکے کو آدھا آدھا کر کے دونوں میں تقسیم کر دیتا ہوں.اب اصل ماں کی تو مامتا تھی دوسری کو کیا درد تھا؟ وہ کہنے لگی کہ یہ بہت اچھا انصاف ہے اسی طرح کر دیں.اس نے سوچا کہ جب دونوں کا ہی بچہ نہ رہے گا تو دونوں کی حیثیت ایک سی ہو گی مگر حقیقی ماں نے جب یہ فیصلہ سنا تو کہنے لگی کہ یہ بچہ دوسری کا ہے اسے ہی دے دیں اور ٹکڑے ٹکڑے نہ کریں.تو جہاں خیر خواہی ہوتی انسان جائز جذبات کو بھی دبا دیتا ہے.ان لوگوں کے دل میں اگر ملک کی خیر خواہی ہے وہاں پر ہوتی تو ان کو چاہئے تھا کہ کہتے ان باتوں کو ابھی رہنے دیں اس وقت ملک مصیبت ہے یہ باتیں بعد میں دیکھی جائیں گی.مگر افسوس کہ ان لوگوں نے ایک بے بنیاد بات کو لے کر ایسے نازک وقت میں فتنہ پیدا کرنے کی کوشش کی خصوصیت کے ساتھ مسلمانوں پر افسوس ہے کہ جو اس دھوکا میں آ گئے.یہ بات نہ ہے اور

Page 251

1941 252 خطبات محمود سکھوں نے سوچی اور نہ مسلمانوں نے کہ یہ ممکن بھی ہے کہ احمدی سکھوں پر حملہ کر سکیں.ہندوستان میں انگریزوں کی اتنی بڑی طاقت کی موجودگی میں ۵۶ ہزار احمدی تیس لاکھ سکھوں پر حملہ کر کیسے سکتے ہیں.مگر افسوس ہے کہ کسی نے بھی اس فریب کو نہ سمجھا.مسلمانوں پر زیادہ افسوس اس لئے ہے کہ یہ اسلامی شعار کا سوال تھا.سکھوں نے پہلے تو یہ دھمکیاں دیں کہ ہم یہاں مذبیح بننے نہ دیں گے اور اگر بنا تو گرا دیں گے اور اس طرح ساری قوم میں یہ احساس پیدا کیا کہ ہم مذبح گرا سکتے ہیں.مگر مسلمان محض ہماری مخالفت کی وجہ سے سکھوں کی تائید کر رہے ہیں اور یہ نہیں سوچتے کہ ہمارے ساتھ دشمنی کرنے کے جوش میں وہ اپنے ساتھ دشمنی کر رہے ہیں اور ان پر وہی مثال صادق آتی ہے کہ پرائی بدشگونی میں اپنی ناک کٹوانا اور اس طرح یہ مسلمان اخبار پنجاب میں مسلمانوں کے لئے کانٹے بو رہے ہیں اور مشکلات پیدا کر رہے ہیں.اس کے علاوہ ایسی باتوں سے ملک کو بھی نقصان پہنچے گا.یہ ایسا وقت ہے کہ اپنے جذبات کو دبانا چاہئے اور تمام طاقت ملک کی حفاظت کی تدابیر پر صرف کرنی چاہئے اور اللہ تعالیٰ سے ایسی دعائیں کرنی چاہئیں کہ زمین و آسمان بل جائیں.اگر دوسرے لوگ اپنے فرض سے غافل ہیں تو کم سے کم ہماری جماعت کو چاہئے کہ ایسی باتوں کو نظر انداز کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کے حضور دعاؤں میں لگی رہے.رسول کریم صلی یا نیلم نے فرمایا ہے کہ یتیم کے دل سے نکلی ہوئی دعا عرشِ الہی کو ہلا دیتی ہے اور ہم سے زیادہ یتیم آج کون ہے جن کے پیچھے ساری دنیا پڑی ہوئی ہے.ہم بھی اگر دعا کریں تو ضرور عرش الہی ہلے گا مگر شرط یہی ہے کہ دعا دل سے نکلی ہوئی ہو اور ہم دعا کرنا جانتے ہوں.اناڑی کی طرح نہ کیونکہ اناڑی جب ہتھیار لے کر کھڑا ہو تو دوسرے کو مارنے کے بجائے اپنے کو زخمی کر لیتا ہے.پس دعا بھی ایک فن ہے جو ہمیں سیکھنا چاہئے اور اس کے مطابق دعا کرنی چاہئے.اللہ تعالیٰ کی مختلف صفات ہیں اور انسان کی ضرورت جس صفت سے متعلق ہو اسی کا نام لے کر دعا کرنی چاہئے.جو شخص اس طرح دعا مانگتا ہے

Page 252

1941 253 خطبات محمود اللہ تعالیٰ اسے سنتا ہے مگر بعض لوگ اس فرق کو نہیں سمجھتے.وہ بعض دفعہ یوں دعا کرتے ہیں کہ اے آرحَمَ الرَّاحِمِینَ میرے دشمن کا بیڑا غرق کر دے یا اے شَدِيدُ الْعِقَاب! مجھے بیٹا عطا کر.یہ دعا کا غلط طریق ہے.پس دوستوں کو چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کی صفات کو صحیح طور پر سمجھیں اور پھر دعائیں کریں اور اخلاص سے دعائیں کریں.جنگ بالکل ہندوستان کے قریب پہنچ گئی ہے اور ہمیں یقین ہے کہ اللہ تعالیٰ ضرور مومن کے لئے بہتری کی صورت پیدا کرے گا بشر طیکہ وہ اس کے آستانہ پر گرے اور اس کی طرف رجوع کرے." (الفضل یکم جون 1941ء ) 1 باغ فدک: باغ فدک یہودیوں سے زر صلح کے طور پر مسلمانوں کو ملا تھا.رسول کریم صلی ام اپنی زندگی میں اس کی آمدنی سے اپنے اخراجات پورے کرتے تھے اور جو بچ رہتا اس سے بنو ہاشم کے غرباء کی مدد فرماتے.حضرت ابو بکر کے زمانہ میں حضرت فاطمہ نے بطور ورثہ انہیں دیئے جانے کا مطالبہ کیا.حضرت ابو بکر نے ایسا کرنے سے انکار فرمایا اور اسے وقف قرار دیا.(اردو انسائیکلو پیڈیا) الحكم 28/21 جون 1943ء و تاریخ احمدیت جلد 2 صفحہ 340 3 ا.سلاطین باب 3 آیات 16 تا 28 بخاری کتاب الانبیاء باب قول الله تعالى ووهبنالد اؤ د سلیمان نعم العبدانہ اوّاب.

Page 253

1941 254 (16) خطبات محمود تشهد غیر مبائعین کا ایک منصوبہ فرمودہ 30 مئی 1941ء) تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:.“شاید گرمی کی شدت کی وجہ سے دو چار دن سے مجھے تنفس کی خرابی کی تکلیف ہے.رات کے وقت یہ تکلیف زیادہ ہو جاتی ہے اور بعض دفعہ کئی کئی گھنٹے جاری رہتی ہے.ابھی میں خطبہ کے لئے چل کر آیا تو میرا سانس اتنا پھول گیا تھا کہ پیٹ میں سماتا نہیں تھا.منبر پر بیٹھنے سے کچھ آرام آیا تھا مگر کھڑے ہوتے ہی پھر وہی دورہ شروع ہو گیا ہے اس لئے میں مختصر اور آہستہ بول سکوں گا.دوستوں نے اخبارات میں پڑھا ہو گا اپنوں نے بھی اور غیروں نے بھی کہ پیغامی لوگ قادیان میں اپنا تبلیغی مشن قائم کرنا چاہتے ہیں.ایک مخلص احمدی عورت نے جس کا خاوند غیر مبائع ہے باہر کے ایک مقام سے مجھے سندھ میں بہت ہی گھبراہٹ کا خط لکھا کہ نہ معلوم اب کیا ہو جائے گا.یہ لوگ تو ایسے ایسے بد ارادے رکھتے ہیں اور ساتھ ہی اس نے بہت سی دعائیں بھی مانگیں کہ اللہ تعالیٰ ان کے شر کو دور کرے اور جماعت کی حفاظت فرمائے.مجھے اس عورت کے اس اخلاص کو دیکھ کر بہت خوشی ہوئی اور میں نے اپنے دل میں کہا کہ گو یہ ایک عورت ہے جس کے اندر یہ طاقت نہیں کہ ان کا مقابلہ کر سکے.اس کا خاوند خود غیر مبائع ہے لیکن اس کے اندر ایک جوش پایا جاتا ہے اور اسی جوش کی وجہ سے وہ فکر مند ہوئی ہے.میں یہ ذکر کر رہا تھا کہ ایک احمدی عورت نے جس کا خاوند غیر مبائع ہے

Page 254

1941 255 خطبات محمود اپنے مجھے باہر سے چٹھی لکھی کہ غیر مبائعین قادیان میں اپنا مشن کھولنے کا ارادہ رکھتے ہیں اور ساتھ ہی اس نے بہت کچھ گھبراہٹ کا اظہار کیا.میرے پاس اس سے پہلے ہی کسی احمدی دوست نے وہ ایجنڈا بھی بھجوا دیا تھا جس میں غیر مبالعین نے قادیان میں اپنا مشن کھولنے کی تحریک کا ذکر کیا ہے.اس ایجنڈا کا مضمون یہ تھا کہ ہمارے دوست مدت سے قادیان میں تبلیغی مشن کھولنے کی خواہش رکھتے تھے اب لائل پور کے ایک خاندان کے تین نوجوانوں نے تین سو روپیہ ماہور دینے کا وعدہ کیا ہے تاکہ قادیان میں مشن قائم کیا جائے.اس طرح اللہ تعالیٰ نے دوستوں کی اس خواہش کو پورا کرنے کا سامان پیدا فرما دیا ہے.خارجی ذرائع سے یہ بھی سنا گیا ہے کہ وہ مولوی صدر دین صاحب کو یہاں بھجوانے کا ارادہ رکھتے ہیں.انہوں نے تو ذہن میں اس تجویز کو خدائی تجویز سمجھا ہے اور انہیں خوشی ہوئی ہے کہ بعض نوجوانوں نے اس غرض کے لئے انہیں تین سو روپیہ ماہوار دینے کا وعدہ کیا ہے اور اس طرح خدا نے ان کی خواہش کو پورا کرنے کا سامان پیدا فرما دیا ہے.لیکن ہم نے بھی اس تجویز کو خدائی تجویز ہی سمجھا ہے اس لئے کہ ان کی اس تجویز کے معلوم ہونے سے پہلے ہی مجھے اللہ تعالیٰ نے رویا میں یہ دکھایا تھا کہ غیر مبائعین کا ایک مشنری قادیان میں آیا ہے.وہ رویا میں نے چوہدری ظفر اللہ خان صاحب اور بعض اور دوستوں کو بھی سنا دی تھی.پس ان کی اس تجویز سے ہمیں بھی خوشی ہوئی.اس لئے کہ اللہ تعالیٰ کی بات پوری ہونے لگی ہے.انہوں نے تو سمجھا ہو گا کہ چونکہ انہیں اس غرض کے لئے تین سو روپیہ ماہوار ملنے لگا ہے اس لئے یہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ایک سامان ہے حالانکہ محض روپیہ کا مل جانا اس بات کی کوئی علامت نہیں ہوتی جس کام پر اس روپیہ کو خرچ کیا جائے گا وہ بھی اللہ تعالیٰ کے منشاء کے مطابق ہو گا بلکہ کسی کام کی اللہ تعالیٰ کی طرف قبل از وقت خبر مل جانا اس بات کی علامت ہوتی ہے کہ وہ کام اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے.میں.نہیں کہتا کہ ان کے اس مشن کے کھولنے کے معنے یہ ہیں کہ آپ

Page 255

1941 256 خطبات محمود لوگوں میں خدانخواستہ کوئی کمزوری پائی جاتی ہے جس کی وجہ سے انہیں اس بات کی جرآت ہوئی ہے.بے شک ایک نقطہ نگاہ یہ بھی ہوتا ہے مگر اس موقع پر یہ صحیح نہیں.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ بعض کمزور لوگ ہماری جماعت میں پائے جاتے ہیں مگر اس قسم کے چند کمزور طبع لوگ ہر جماعت میں پائے جاتے اور ہر جگہ ہوتے ہیں.خود رسول کریم صلی یا نیلم کے زمانہ میں ایسے لوگ موجود تھے جنہوں نے مدینہ کے قریب اپنا مشن پھیلانے کی جرات کی.چنانچہ قرآن کریم میں جس مسجد ضرار کا ذکر آتا ہے اور جس کے متعلق خدا تعالیٰ کی طرف سے حکم دیا گیا تھا کہ اسے گرا دیا جائے وہ اسی قسم کے لوگوں نے بنائی تھی.وہاں منافقین جمع ہوتے تھے اور اسلام کے خلاف مشورے کیا کرتے تھے.پس اگر رسول کریم صلی الم کے زمانہ میں اس قسم کے لوگ تھے تو یہاں کیوں نہ ہوں.میں نے خود ایک دفعہ رویا میں دیکھا کہ میں اس مکان میں ہوں جس میں میری بڑی بیوی رہتی ہیں کہ اچانک مجھے نیچے گلی میں کچھ کھڑ کا معلوم ہوا اور ایسا القاء ہوا کہ گویا نیچے منافقین ہیں.میں نے نالی کے سوراخ میں سے د دیکھا تو معلوم ہوا کہ کچھ لوگ دیواروں سے لگے کھڑے ہیں اور اندر جھانک کر کچھ دیکھنا چاہتے ہیں یا کان لگا کر سننا چاہتے ہیں.جب انہیں معلوم ہوا کہ میں دیکھ رہا ہوں تو وہ بھاگے وہ تعداد میں جہاں تک یاد ہے کو تھے.بھاگتے ہوئے ان میں سے بعض کو میں نے پہچان بھی لیا اور ایک کا علم تو اب تک ہے.مگر بعض کے متعلق اللہ تعالیٰ نے عفو سے کام لیا اور میں ان کو دیکھ نہ سکا.”1 اس رؤیا کے بعد جیسا کہ قرآن کریم میں آتا ہے کہ جنات آسمانی باتوں کی ٹوہ لگاتے ہیں اور کوئی خبر مل جائے تو اس میں جھوٹ ملا کر آگے پھیلاتے ہیں اور حدیثوں میں ہے کہ کئی کئی گنے زیادہ جھوٹ ملا کر وہ باتیں پھیلاتے ہیں.مولوی علی صاحب نے بھی جو صحابی ہونے کے مدعی ہیں مبالغہ سے کام لینا شروع کر دیا اور کہہ دیا کہ میاں صاحب خطبہ پر خطبہ دے رہے ہیں کہ قادیان میں ہزاروں کی

Page 256

1941 257 خطبات محمود وو سو تعداد میں لوگ منافق بن چکے ہیں.” 2 اسی طرح پیغام صلح ” نے اس تعداد کو پانچ سو تک بڑھا دیا.اور لکھا کہ “خلیفہ قادیان نے فرمایا کہ قادیان میں پانچ منافقین ہیں اور خدا نے ان پانچ سو منافقین کی شکلیں بھی خلیفہ صاحب کو خواب میں دِکھلا دیں.3 حالانکہ میں نے جو رویا دیکھا تھا اُس میں مجھے صرف 9 منافقین دکھائے گئے تھے.مگر یہ 9 نو منافقین مولوی محمد علی صاحب کو تو ”ہزاروں“ کی تعداد میں اور باقی غیر مبائعین کو پانچ سو ” کی تعداد میں نظر آئے.گو مجھے اس سے بھی خوشی ہوئی اور میں نے سمجھا کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہمارا رُعب اس قدر ہے کہ ہمارے منافقوں سے بھی یہ لوگ ڈرتے ہیں اور 9 منافق ان کو پانچ سو یا ہزاروں نظر آتے ہیں.جب یہ حال ہے تو 9 مومن انہیں 9 لاکھ کیوں نہ دکھائی دیں گے؟ غرض میں نے تو رویا میں صرف نو منافق دیکھے تھے مگر غیر مبالعین نے یہ کہنا شروع کر دیا کہ گویا مجھے پانچ سو منافقین کی شکلیں خواب میں دکھائی گئی ہیں آگے اور ان کے سردار کے اس خیال سے کہ اس مبالغہ میں میرے مرید کہیں مجھ نہ بڑھ جائیں 9 کے ہزاروں کر دیئے.اور پھر اپنی صداقت پسندی کا مزید بھی دیا کہ میاں صاحب ان ہزاروں منافقوں کے متعلق جو قادیان میں ہیں پر خطبہ پڑھ رہے ہیں.میں نہیں سمجھتا کہ اس سے زیادہ صاف اور خطرناک جھوٹ کی مثال دنیا کی کسی اور قوم میں بھی اس وقت مل سکتی ہو.بار بار ان سے با کہ تم بتاؤ ہم نے یہ کہاں لکھا ہے کہ خواب میں پانچ سو منافقین دکھائے تھے مگر وہ بالکل خاموش ہیں اور اس جھوٹ کو شیر مادر کی طرح بی گئے ہیں.شروع شروع میں تو ہماری جماعت کے دوست بھی کچھ خاموش رہے اور انہوں نے خیال کیا کہ ممکن ہے ایسا کہیں لکھا ہی ہو.آخر جماعت کے ایک عالم کو میں نے بلا کر کہا کہ بندہ خدا ان سے پوچھو تو سہی کہ میں نے یہ بات کہاں کہی ہے.چنانچہ انہوں نے غیر مبائعین کو چیلنج دیا او رکہا کہ ہم نے کہاں لکھا ہے کہ پانچ سا منافقین کی شکلیں خواب میں دکھائی گئی ہیں.اس چیلنج کے بعد غیر مبانی سو بالکل

Page 257

1941 258 خطبات محمود خاموش ہو گئے اور اب تک وہ اس کا کوئی ثبوت پیش نہیں کر سکے.اصل بات یہ ہے کہ میں نے تو صرف 9 منافق دیکھے تھے مگر ہمارے رعب کی وجہ سے ہمارے 9 منافق بھی انہیں پانچ سو نظر آتے ہیں اور یہ بالکل وہی بات ہے جس کا قرآن کریم میں ذکر آتا ہے کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے جب کلام اُترتا ہے اور جنات اسے سنتے ہیں تو وہ اس میں اور کئی جھوٹی باتیں ملا لیتے اور لوگوں کو دھوکا و فریب میں مبتلا کرتے ہیں.چنانچہ بعض حدیثوں میں تو آتا ہے کہ وہ سو سو گنا جھوٹ ملاتے ہیں.بہر حال قادیان میں پانچ سو منافقین کا ہونا تو بالکل غلط ہے.لیکن اس میں کیا شبہ ہے کہ کچھ نہ کچھ منافق قادیان میں موجود ہیں اور ہم ان میں سے بعض کو جانتے بھی ہیں.بعض منافق تو آہستہ آہستہ نکل جاتے ہیں اور بعض دفعہ ان کی جگہ کچھ اور کمزور لوگ آ جاتے ہیں.اسی طرح کبھی کسی کو ابتلاء آ جاتا ہے اور کبھی کسی کو.رسول کریم صلی الیم کے زمانہ میں بھی اس قسم کے لوگ موجود تھے اور وہ شرارتیں کیا کرتے تھے.پس ایسے منافقین کا ہم میں پایا جانا ہماری کسی کمزوری کی علامت نہیں بلکہ رسول کریم صلی اللہ کے صحابہ سے ہماری مشابہت کا ایک اور ثبوت ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام رسول کریم صلی الی یوم کے مشابہ تھے اور آپ کی جماعت رسول کریم صلی ایم کی جماعت کے مشابہہ ہے.پس ہماری جماعت میں بعض منافقین کا پایا جانا اس بات کا ثبوت ہے کہ ہماری جماعت رسول کریم صلی علیم کی جماعت سے مشابہت رکھتی ہے.یہ خیال کرنا کہ اس قسم کے لوگوں کی وجہ سے غیر مبائعین کو قادیان میں اپنا مشن کھولنے کی جرات ہوئی ہے صحیح نہیں.کیونکہ ایسے لوگ بہت ہی قلیل ہیں اور پھر ہم ان میں بعض کو جانتے بھی ہیں.یہ منافق اپنے ذہن میں یہ سمجھ رہے ہوتے ہیں کہ انہیں کوئی نہیں جانتا حالانکہ ہم انہیں خوب جانتے ہیں.لیکن ہم ان پر رحم کرتے اور انہیں کچھ نہیں کہتے.بلکہ بعض دفعہ تو ہم ان سے مہربانی کا سلوک کرتے اور ان مصیبت کے وقت ان کے کام آتے ہیں.اس خیال سے کہ شاید اللہ تعالیٰ ان کی آنکھیں کھول دے اور انہیں ہدایت نصیب ہو جائے مگر وہ ہماری مہربانی اور نیک سلوک سے ނ

Page 258

1941 259 خطبات محمود.یہ نتیجہ نکال لیتے ہیں کہ ہم انہیں مخلص سمجھتے ہیں اور جب ہم ان سے حسن سلوک کرتے ہیں تو وہ اپنی مجالس میں ہنس ہنس کر کہتے ہیں کہ ہم نے ان کو کیسا چکمہ دیا کیسا الو بنایا.گویا وہ خیال کرتے ہیں کہ انہوں نے ہم کو الو بنایا.حالانکہ الو وہ آپ بن رہے ہوتے ہیں ہم تو اپنے خدا کو خوش کرنے کے لئے ان پر رحم کرتے ہیں مگر وہ اپنی نادانی سے یہ سمجھتے ہیں کہ انہوں نے ہم کو الو بنایا.حالانکہ اللہ تعالیٰ کا طریق بھی یہی ہے کہ وہ باوجود لوگوں کی مخالفت کے ان پر تم کرتا چلا جاتا ہے.ابو بہل کو دیکھ لو وہ کتنا شدید دشمن تھا مگر اللہ تعالیٰ آخر اسے کھانا دیتا تھا یا نہیں؟ اسی رح عتبہ، شیبہ اور ابو لہب وغیرہ اسلام کے شدید مخالف تھے مگر اللہ تعالیٰ انہیں کھانا دیتا تھا.اسی طرح ہم بھی منافقین پر رحم کرتے اور ان سے حسن سلوک کے ساتھ پیش آتے ہیں.مگر وہ یہ سمجھ لیتے ہیں کہ انہوں نے ہم کو خوب چکمہ دیا.حالانکہ جیسے خدا نے ابو جہل، عتبہ اور شیبہ کو کھانا دیا.جس طرح خدا نے فرعون کو بادشاہ بنا دیا اسی طرح ہم ان منافقوں پر رحم کرتے ہیں مگر وہ اپنی تنگ نظری اور حماقت کی وجہ سے اپنی مجالس میں یہ کہنے لگ جاتے ہیں کہ کیسا اتو بنایا، یہ تو ہمیں مخلص سمجھتے ہیں حالانکہ ہم ان سے رحم کا سلوک کر رہے ہوتے اور کبھی اس لئے پردہ پوشی سے کام لیتے ہیں کہ شاید خدا تعالیٰ انہیں کل جرآت دے دے اور وہ ہمارے بھائی بن جائیں.ہم خیال کرتے ہیں کہ اگر انہوں نے کل کو ہمارا بھائی بننا تو آج ہم انہیں کیوں ذلیل کریں.جس نے کل ہمارا بھائی بن جانا ہے اس کے ہے متعلق ہمارا فرض ہے کہ ہم اس کی عزت کو مناسب حد تک قائم رکھیں تاکہ کل وہ ہمارا بھائی بنے تو معزز بھائی بنے.اسی طرح اس حسن سلوک میں اور کئی حکمتیں پوشیدہ ہوتی ہیں.بہر حال نہ ساری جماعت، نہ جماعت کا بیشتر حصہ اور نہ جماعت کا معتد کمزور ہے.کوئی نوجوان سزا برداشت نہ کر کے پیغام بلڈ نگس میں چلا گیا اور اس نے یہ شور مچانا شروع کر دیا کہ قادیان میں ظلم ہو رہا ہے وہاں اپنا مشن کھولیں سب لوگ آپ کی امداد کریں گے.تو اس کو دیکھ کر یا بعض اور اگر به حصہ

Page 259

1941 260 خطبات محمود کمزور لوگوں کو دیکھ کر انہوں نے سمجھ لیا ہے کہ شاید سارا قادیان ہی ان کی باتیں ماننے کے لئے تیار ہے اور وہ یہ نہیں جانتے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے قادیان کے متعلق کئی وعدے ہیں اور ان وعدوں کی موجودگی میں وہ اپنے ارادوں میں کبھی کامیاب نہیں ہو سکتے.بے شک میں خود بھی قادیان کے لوگوں کو ان کی کمزوریوں کی طرف توجہ دلاتا ہوں اور میں جانتا ہوں کہ کوئی نماز باجماعت پڑھنے میں سست ہے، کوئی چندے ادا کرنے میں شستی دکھاتا ہے، کوئی دوسروں سے لڑ جھگڑ پڑتا ہے اور میں ہمیشہ دوستوں کو اپنے اخلاق کی درستی کی نصیحت کرتا رہتا ہوں مگر اللہ تعالیٰ کی ایک خبر ہے جو اس نے اپنے رسول کی زبان سے دی ہے اوروہ یہ ہے کہ قادیان “خدا کے رسول کا تخت گاہ ہے 4 یہ خبر ضرور پوری ہو گی اور قادیان ہمیشہ خدا کے رسول کا ہی تخت گاہ رہے گا.کسی محدث یا مجدد کا تخت گاہ نہیں بن سکتا.پس مولوی محمد علی صاحب اور ان کے ساتھی ایڑی چوٹی کا زور لگا لیں، ان کے ماتھے گھس جائیں، ان کے ناک رگڑے جائیں، ان کے سارے مبلغ قادیان میں جمع جائیں پھر بھی قادیان خدا کے رسول کا ہی تخت گاہ رہے گا.وہ اس کو اگر کسی ایسے مجدد یا محدث کا تخت گاہ بنانا چاہیں گے جو نبوت کے مقام پر کھڑا نہیں کیا گیا تو وہ اس میں کامیاب نہیں ہو سکیں گے.یہ خدا کی تقدیر ہے جو پوری ہو کر رہے گی.پس لائل پور کے نوجوان تین سو نہیں تین ہزار روپیہ ماہوار دیں.وہ اپنے کارخانے اس غرض کے لئے لگا دیں، وہ اپنے گھروں کے زیورات تک فروخت کر دیں پھر بھی انہیں سوائے ناکامی اور نامرادی کے کچھ نہیں ملے گا اور اصحاب فیل والے انجام کو وہ دیکھیں گے اور رجعت قہقری کی تلخی انہیں چکھنی پڑے گی اور اپنی قائم شدہ عزت کو وہ کھو دیں گے.اللہ تعالیٰ نے مجھے اس کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام مجھے کے الہامات اور آپ کی پیشگوئیوں کے علاوہ ذاتی طور پر بھی خبر دی ہے اور غیر مبائعین کے اس ارادہ کا خدا تعالیٰ کی طرف سے پہلے ہی علم ہو چکا تھا.چنانچہ خدا تعالیٰ نے مجھے رؤیا میں دکھایا کہ غیر مبائعین کا ایک شخص جو اُن کا مبلغ بھی ہے

Page 260

1941 261 خطبات محمود (اور جسے میں جانتا ہوں) ہمارے گھر میں بیٹھا ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ اجازت لے کر ملنے آیا ہے.اس وقت میں یہ سمجھتا ہوں کہ ہمارے گھر میں کوئی بیمار ہے اور میں نے اس کے متعلق یہ تجویز کی ہے کہ اسے کونین دی جائے.خواب میں میں نے دیکھا کہ جس جگہ وہ شخص بیٹھا ہے وہ حضرت (اماں جان) کا کمرہ ہے.وہاں مستورات کوئی نہیں میں کونین کی تلاش میں حضرت اماں جان) کے دالان میں گیا اور میں نے دیکھا کہ وہاں میرا ایک داماد ، دو بیٹے اور ایک وہ پیغامی شخص بیٹھا ہوا ہے (میں نے دوستوں کو اس پیغامی شخص کا نام بھی بتا دیا تھا مگر اس وقت نام نہیں لیتا) جب میں دالان میں داخل ہوا تو میں نے کونین کی شیشی کو کارنس پر پڑے ہوئے دیکھا.اس وقت چونکہ حضرت اماں جان) وہاں موجود نہیں اور اپنے گھر میں کسی مریض کے لئے کوئی دوا لے لینے میں کسی اجازت کی ضرورت محسوس نہیں کی جاتی دنیا میں قریبی رشتہ دار معروف طور پر بغیر پوچھے ایسا کر لیا کرتے ہیں اس لئے میں اپنے داماد سے مذاق کے طور پر کہتا ہوں کہ میاں اماں جان کی شیشی میں سے ایک گولی تو کچرا دو.مطلب یہ تھا کہ اماں جان تو یہاں موجود نہیں تم ان کی شیشی میں سے ایک گولی نکال دو.میرے اس فقرہ پر وہ پیغامی مسلغ بول پڑا اور کہنے لگا ”جی ہاں یہ چرایا ہی کرتے ہیں.“ مجھے اس کا یہ فقرہ بہت برا لگا کہ اس نے کیسی ناپسندیدہ بات کی ہے.یہ بچہ تو تھا نہیں کہ میرے مطلب کو نہ سمجھ سکتا.جانتا تھا کہ میرا کیا مطلب ہے.پھر اسے کیا حق تھا کہ ایسا فقرہ استعمال کر سکتا.میں آنے کی اجازت اس لئے تو نہیں دی گئی تھی کہ ایسی لغو حرکت کرتا.چنانچہ میں نے اس سے کہا کہ آپ نے یہ بہت ہی ناپسندیدہ بات کہی ہے.آپ کو گھر میں آنے کی اجازت اس لئے نہیں دی گئی تھی کہ اس قسم کے ناشائستہ فقرات استعمال کریں.اس پر وہ کھڑا ہو گیا اور ایسا معلوم ہوا کہ گویا وہ مقابلہ کرنے کا ارادہ رکھتا ہے.میرے بچے بھی گھبرا کر کھڑے ہو گئے مگر میرے ادب کی وجہ سے وہ خود آگے نہیں بڑھے.وہ صرف یہ دیکھ رہے ہیں کہ میں کیا کرتا ہوں.اس پیغامی مبلغ کی اسے

Page 261

1941 262 خطبات محمود شکل اس وقت ایسی معلوم ہوتی جیسے وہ حملہ کرنا چاہتا ہے اور اس نے ہاتھ آگے بڑھایا ہے.اتنے میں میں آگے بڑھا اور اپنی کلائی اس کی کلائی کے سامنے رکھ کر اسے پیچھے ہٹایا ہے.میرے ہاتھ کا جھٹکا ایسا ہی تھا جیسے اپنے ہاتھ سے کسی کو پیچھے ہٹایا جاتا ہے اس سے زیادہ ہر گز نہ تھا.اس پیغامی مبلغ کا قد ممکن ہے مجھ سے کچھ چھوٹا ہی ہو.تاہم میرے جسم اور اس کے جسم میں بظاہر کوئی زیادہ فرق نہیں مگر جب میں نے اسے جھٹکا دیا تو اس وقت وہ مجھے ایسا معلوم ہوا جیسے موم کی گڑیا ہوتی ہے.جھٹکے سے یکدم زمین پر جا پڑا اور اس کا قد بالکل چھوٹا سا ہو گیا اور وہ میری طرف اس طرح پھٹی ہوئی آنکھوں سے دیکھنے لگا گویا وہ سمجھتا ہے کہ میں اسے مار ڈالوں گا.میرے بچے بھی یہ نظارہ دیکھ کر گھبرا گئے ہیں کیونکہ یہ بات میری عادت کے خلاف تھی اور وہ حیران ہیں کہ میں اس پر سختی کیوں کرنا چاہتا ہوں.حالانکہ میرا ارادہ اس کو کوئی سزا دینے کا نہیں.صرف میں حیرت سے اس کی حالت کو دیکھ رہا ہوں کہ کس طرح گڑیا کی طرح بن کر زمین پر چت لیٹ گیا ہے.اس وقت میں نے اسے کہا کہ میں تمہیں کچھ نہیں کہتا تم میرے گھر سے ابھی نکل جاؤ چنانچہ وہ گھر نکل گیا.اتنے میں خواب میں ہی نماز کا وقت ہو جاتا ہے اور میں نماز پڑھانے کے لئے باہر جانے لگتا ہوں کہ میاں بشیر احمد صاحب گھبرائے ہوئے مکان کے اندر داخل ہوتے ہیں اور کہتے ہیں چوک میں کچھ پیغامی جمع ہیں اور وہ شور مچا رہے ہیں کہ فلاں شخص پر انہوں نے سختی کی ہے.اب ہم ان پر نالش کریں گے.نہیں تو اس کا ازالہ کیا جائے اور اگر یہ ازالہ کے لئے کچھ اور نہیں کر سکتے تو صرف اتنا کہہ دیں کہ مجھ سے غلطی ہو گئی ہے.اس وقت میاں بشیر احمد صاحب کی یہ رائے معلوم ہوتی ہے کہ کیا حرج ہے.اگر یہ الفاظ کہہ دیئے جائیں مگر میں کہتا ہوں یہ بالکل غلط ہے.جاؤ اور ان سے کہہ دو کہ مجھے تمہاری کوئی پرواہ نہیں.اس شخص نے ہمارے گھر پر آکر ایک بے ہودہ حرکت کی تھی اور وہ اس بے ہودگی کا خود ذمہ دار ہے.وہ حملہ کی نیت سے آگے بڑھا اس پر میں نے اسے معمولی جھٹکا دیا جس پر وہ چت

Page 262

1941 263 خطبات محمود جا گرا اس میں میری کوئی غلطی نہیں.میں نے جو کچھ کیا ہے ٹھیک کیا ہے چنانچہ میاں بشیر احمد صاحب چلے گئے.اس وقت مسجد میں بہت بڑا ہجوم معلوم ہوتا ہے اور یوں محسوس ہوتا ہے جیسے جلسے کے دن ہوتے ہیں.نماز کا وقت ہے.میں یہ بات کہہ کر مسجد میں نماز پڑھانے کے لئے چلا جاتا ہوں.تھوڑی دیر کے بعد میاں بشیر احمد صاحب پھر واپس آئے اور میں نے ان سے کہا کہ کیا ہوا؟ وہ کہنے لگے کہ کچھ بھی نہیں ہوا وہ تو یونہی فریب تھا.میں نے جاتے ہی ان سے کہہ دیا تھا کہ وہ کہتے ہیں میں نے جو کچھ کیا ہے ٹھیک کیا ہے.میں معذرت کرنے کے لئے تیار نہیں اس پر وہ کہنے لگے اچھا جب ان کی مرضی نہیں تو نہ سہی اور یہ کہہ کر چلے گئے.یہ رؤیا نے چوہدری ظفر اللہ خان صاحب کو سنا دیا تھا اسی طرح بعض اور دوستوں کو بھی سنایا اور غالباً شوری کی ایک تقریر میں بھی اس کا ذکر کیا تھا اور کہا تھا کہ معلوم ہوتا ہے غیر مبائعین اس قسم کی کوئی تجویز کرنا چاہتے ہیں کہ قادیان میں اپنا کوئی مبلغ بھیجیں.ایک موقع پر جب میں یہ رویا سنا رہا تھا تو ایک دوست جو پاس ہی بیٹھے تھے کہنے لگے کہ بات تو ٹھیک معلوم ہوتی ہے کیونکہ مجھے غیر مبائعین کی ایسی ہی تجویز کا علم ہے اور جس شخص کو آپ نے خواب میں دیکھا ہے اسی کے متعلق تجویز ہو رہی ہے کہ اسے قادیان بھیجا جائے.میں تو سمجھا تھا کہ اس سے مراد کوئی پیغامی مبلغ ہے.یہ ضروری نہیں کہ وہی شخص مراد ہو جسے میں نے خواب میں دیکھا تھا مگر عجیب بات یہ ہے کہ جس شخص کو میں نے خواب میں دیکھا اسی کے متعلق یہ تجویز بھی سننے میں آگئی کہ ان کا ارادہ اسے قادیان میں بطور مبلغ بھیجنے کا ہے.اس کے بعد ان کا ایجنڈا بھی میرے پاس پہنچ گیا اور اس طرح یہ بات اور بھی پختہ ہو گئی.غرض ہمیں تو اللہ تعالیٰ نے پہلے سے بتا رکھا ہے کہ وہ ہم پر حملہ کرنے کی کوشش کریں گے مگر اللہ تعالیٰ انہیں ناکام کرے گا.اسی طرح مجھے متواتر اللہ تعالیٰ کی طرف سے بتایا گیا ہے کہ مولوی محمد علی صاحب قادیان میں آئے ہیں اور انہوں نے مجھ سے مصافحہ کیا ہے اور بڑے ادب سے میرے سامنے بیٹھے ہیں.پس میں تو ئے

Page 263

1941 264 خطبات محمود یقین رکھتا ہوں کہ مولوی صاحب کی پارٹی کے افراد آہستہ آہستہ میری بیعت میں شامل ہوتے چلے جائیں گے اور اگر وہ نہیں تو ان کی اولادیں ہمارا شکار بنیں گی.ان سے بظاہر یہ امید کم ہے کہ وہ پھر کسی وقت ہم میں شامل ہو جائیں مگر کیا تعجب ہے کہ اللہ تعالیٰ موت سے پہلے پہلے انہیں بھی ہدایت دے دے اور وہ پھر بیعت میں شامل ہو جائیں.بہر حال خدا تعالیٰ نے ان کو ہمارا شکار بنایا ہے ہمیں ان کا شکار نہیں بنایا.یہ الگ بات ہے کہ استثنائی رنگ میں بعض لوگ ہم میں سے نکل کر ان میں شامل ہو جائیں.ورنہ عام طور پر انہی میں سے نکل نکل کر لوگ ہم میں شامل ہوتے ہیں اور میں ان کو چیلنج دیتا ہوں کہ وہ بالمقابل فہرست شائع کر کے دیکھ لیں کہ ہم میں سے زیادہ آدمی ان کی طرف گئے ہیں یا ان میں سے زیادہ آدمی ہماری طرف آئے ہیں.ان آنے والوں میں سے ایک صاحب ان کے داماد بھی تھے وہ بعد تحقیق میری بیعت میں شامل ہوئے اور میں نے ان کو ہمیشہ یہی نصیحت کی کہ مولوی صاحب سے اچھے اخلاق کے ساتھ پیش آئیں.جاننے والے جانتے ہیں کہ ان کی طبیعت میں بعض وجوہ سے جوش تھا مگر میں نے ہمیشہ انہیں یہی کہا کہ ان سے حسن سلوک کا معاملہ کرو اور کوئی ایسی بات نہ کرو جس کو دیکھ کر وہ یہ خیال کریں کہ مبائع ہو کر تمہارے اخلاق بگڑ گئے ہیں.بلکہ ہمیشہ ایسا نمونہ دکھاؤ کہ سمجھنے وہ مجبور ہوں کہ بیعت کے بعد تمہارے اخلاق پہلے سے زیادہ اچھے ہو گئے ہیں.غرض ان کا ہم پر حملہ کبھی کامیاب نہیں ہو سکتا.ممکن ہے وہ ہمارے چند آدمیوں کو لے جائیں اور ان میں سے کسی کو ملازمت کا اور کسی کو رشتہ کا لالچ دے دیں لیکن بالعموم جماعت ان کو ممنہ بھی نہ لگائے گی انشاء اللہ تعالیٰ.کیونکہ جس شخص کو خدا کے مامور اور اس کے مرسل کی شناخت نصیب ہو جائے اس کے متعلق یہ خیال کر لینا کہ وہ کبھی دیانتداری کے ساتھ اس راستہ کو ترک کر سکتا ہے بالکل ناممکن ہے.پر کوئی بدبخت انسان ہی ہو گا.ازلی بدبخت جو نور کے سرچشمہ پر پہنچ کر پھر گمراہی اور ضلالت کی طرف چلا جائے.بے شک لالچ، حرص اور قسم قسم کی تاریکیاں انسان کو

Page 264

1941 265 خطبات محمود گمراہی کی طرف لے جاتی ہیں.اسی طرح کبھی غصہ، کبھی کینہ اور کبھی لڑائی جھگڑے ابتلاؤں کا باعث بن جاتے ہیں لیکن اس قسم کی ٹھوکریں کھانے والے وہی لوگ ہوتے ہیں جنہوں نے صداقت کو صحیح طور پر قبول نہیں کیا ہوتا.ورنہ جو شخص ایک دفعہ سچائی کو مان لیتا ہے اسے اگر قتل بھی کر دیا جائے تو وہ اسے نہیں چھوڑ سکتا.بے شک قادیان میں غریب بھی بستے ہیں، ان میں کمزوریاں بھی ہیں، وہ آپس میں لڑ جھگڑ بھی لیتے ہیں مگر پھر بھی یہ خیال کر لینا کہ ان معمولی جھگڑوں کی وجہ سے معتد به جماعت ان سے جا ملے گی یہ ایک فریب خیال ہے جس کی حقیقت نہیں.عنقریب معلوم ہو جائے گا.اِنْشَاءَ الله.بلکہ خدا کے فضل سے ان کا یہاں آنا ان کے لئے شکست اور کمی کا موجب اور ہمارے لئے عزت اور ترقی کا موجب ہو گا.الفضل 11.احسان 1320 ہش).1 الفضل 28 اپریل 1937ء 2 پیغام صلح 26 جولائی 1937ء 3 پیغام صلح 21 ستمبر 1937ء 4 دافع البلاء صفحہ 14 روحانی خزائن جلد 18 صفحہ 230

Page 265

* 1941 266 (17) خطبات محمود حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نبوت کے متعلق اللہ تعالٰی، آنحضرت صلی ال ، حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور خود مولوی محمد علی صاحب کی شہادت (فرمودہ 6،جون 1941ء ) ا تشہد، تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:.گو آج میری طبیعت حرارت کی وجہ سے خراب ہے مگر اس کے باوجود میں اس اختلاف کے متعلق جو ہمارے اور پیغامیوں میں ہے بعض ایسی باتیں بیان کرنا چاہتا ہوں جن سے ہر عقلمند راہنمائی حاصل کر سکتا ہے.دنیا میں کوئی ایسی چیز نہیں جس کے متعلق لوگوں میں اختلاف نہ ہو.اللہ تعالیٰ کی ذات سے لے کر انسان کے اپنے وجود تک ہر چیز کے متعلق لوگوں میں اختلاف رہا ہے.ہر زمانہ میں سینکڑوں ہزاروں لوگ ایسے ہوتے رہے ہیں جو کہتے ہیں کہ دنیا میں قوتِ واہمہ ہی اصل چیز ہے.کے سوا دنیا میں کسی اور چیز کا کوئی وجود ہے ہی نہیں.ایک قوتِ واہمہ ہے جو ہی آپ خیال دوڑاتی ہے اور اس کے اس خیال دوڑانے کے ماتحت مختلف وجود اپنے آپ کو محسوس کرنے لگتے ہیں.ورنہ اس کے سوا دنیا میں نہ کوئی سورج ہے، نہ چاند، نہ ستارے اور نہ ہی انسان موجود ہے.جیسے ہم دیکھتے ہیں کہ آندھی چلتی ہے تو آگے چلتی جاتی ہے.اسی طرح ایک وہم سے دوسرا پیدا ہوتا جاتا ہے ایسے لوگوں

Page 266

* 1941 267 خطبات محمود کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام ایک واقعہ سنایا کرتے تھے کہ ایک شخص کسی بادشاہ کے دربار میں گیا اور کہا کہ یہ دنیا سب وہم ہی وہم ہے آپ بھی وہم ہیں، میں بھی وہم ہوں، بادشاہت اور حکومت بھی وہم ہیں.بادشاہ اسے بہت عرصہ تک سمجھاتا رہا کہ یہ بات درست نہیں اور اس سے خوب بحث مباحثے ہوتے رہے مگر وہ اپنی رائے پر قائم رہا.بادشاہ نے خیال کیا کہ اسے کسی ایسی آزمائش میں ڈالنا چاہئے کہ اس کا یہ خیال دور ہو.ایک دن اس نے اپنا دربار اوپر کی منزل پر منعقد کیا اور سب درباریوں اور امراء وغیرہ کو اوپر ہی بلوا لیا مگر اسے نیچے ہی رہنے دیا.اس کے بعد جانوروں کے افسروں کو حکم دیا کہ ایک مست ہاتھی لا کر وہاں چھوڑ دیں اور ایک سیڑھی اوپر کی منزل پر آنے کے لئے لگی رہنے دی.جب ہاتھی آیا اور نظر ماری تو اسے وہاں ایک آدمی کھڑا دکھائی دیا اور معاً اس پر حملہ آور ہوا.وہ شخص اِدھر اُدھر جان بچانے کے لئے بھاگتا رہا مگر جدھر وہ جاتا ہاتھی پیچھے جاتا.آخر وہ گھبرا کر سیڑھیاں چڑھنے لگا.بادشاہ نے اسے دیکھ کر کہا کہ تم گھبرا کر اوپر کیوں چڑھنے لگے ؟ یہ تو محض وہم ہے.ہاتھی بھی وہم ہے اور تم پر اس کے حملہ کا خیال بھی وہم ہے اور جب سب کچھ وہم ہے تو بھاگتے کیوں ہو؟ وہ بھی کوئی ہوشیار اور چالاک آدمی تھا.اس نے فوراً جواب دیا کہ سیڑھیوں پر چڑھ کون رہا ہے؟ یہ بھی وہم ہی ہے.تو اس قسم کے لوگوں کا کوئی علاج دنیا میں نہیں.یہ در حقیقت مریض ہوتے ہیں اور قوت فیصلہ ان میں نہیں ہوتی.اس لئے جو بات سنتے ہیں اس کے متعلق آسان طریق یہی نظر آتا ہے کہ کہہ دیں یہ وہم ہے.ان کی مثال اس کبوتر کی طرح ہوتی ہے جو آنکھیں بند کر کے سمجھ لیتا ہے کہ اب بلی اس پر حملہ نہ کر سکے گی.بیماریاں دنیا میں پڑتی ہیں لوگ احتیاطیں کرتے ہیں.مثلاً کسی کو بخار آنے لگا جس کا علاج اس زمانہ میں کونین کو قرار دیا گیا ہے اور وہ فائدہ کرتی ہے یا اگر فائدہ نہ کرے تو کم سے کم سخت حملہ اس کے کھانے کے بعد نہیں ہوتا.لیکن ایسے لوگوں سے اگر کہا جائے تو کہہ دیں گے کہ یہ سب باتیں ہیں کونین میں کیا رکھا ہے.

Page 267

* 1941 268 خطبات محمود اصل مطلب اس کا صرف یہ ہوتا ہے کہ کونین کون کھائے ٹائیفائڈ کے ٹیکے نکل آئے ہیں.لیکن ایسے آدمی سے اگر کہا جائے کہ ٹیکہ کرا لو تو کہہ دے گا کہ بہ سب باتیں ہیں جو ڈاکٹروں نے اپنی دوائیاں بیچنے کے لئے مشہور کر رکھی ہیں.مگر جب ٹائیفائڈ آن پکڑتا ہے تو پھر علاج کے لئے ڈاکٹروں کے پیچھے پھرتے ہیں.ہیضہ پھیلتا ہے ان سے کہا جائے کہ حفظ ما تقدم کے طور پر علاج کراؤ تو کہیں گے کہ کیا ہیضہ سب کو ہوتا ہے مگر جب ان پر حملہ ہوتا ہے تو پھر گھبراتے ہیں.تو اس قسم کے خیالات دراصل نفس کی بیماری سے پیدا ہوتے ہیں.کام کرنے کو دل نہیں چاہتا اور قوتِ فیصلہ ہوتی نہیں اس لئے ایسا انسان اپنے آپ کو طفل تسلی دے لیتا ایسے لوگ دنیا میں ہمیشہ ہوتے رہے ہیں اور ہوتے رہیں گے.میر امطلب یہ ہے کہ اگر انسان کسی مسئلہ پر خواہ مخواہ بحث جاری رکھنا چاہے اور کوئی بڑی سے بڑی دلیل بھی پیش کی جائے تو وہ اس پر کوئی نہ کوئی اعتراض کر دے گا اور وہ اعتراض خواہ کتنا نامعقول کیوں نہ ہو اسے پیش کر کے سمجھ لے گا کہ میں نے اس دلیل کو رد کر دیا.دنیا میں کہا جاتا ہے کہ آفتاب آمد دلیل آفتاب مگر جس کا یہ عقیدہ ہو کہ دنیا میں سب کچھ وہم ہے.نور بھی وہم اور اندھیرا بھی وہم ہے وہ اس دلیل کو بھی رد کر دیتا ہے.وہ سمجھتا ہے نہ کوئی سورج تھا، نہ روشنی، نہ چاند، نہ ستارے.تو اس قسم کی بحثیں کبھی بھی ختم ہونے میں نہیں آتیں.سلسلہ چلتا جاتا ہے ایک بات چھوڑی دوسری پکڑی.آگے وہ چھوڑی تو کوئی اور لے لی.اور ایسے ہی لوگ ہوتے ہیں جنہوں نے جھگڑوں کو دنیا میں جاری رکھا ہوا ہے.بھلا وہ کونسی چیز تھی جس نے حضرت نوح علیہ السلام کے مخالفوں کو ضد پر قائم رکھا تھا؟ اور وہ کونسی بات تھی جس نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے مخالفوں کو ان کے مقابل پر کھڑا کر رکھا تھا؟ پھر وہ کونسی دلیل تھی جس سے حضرت داؤد اور سلیمان علیہما السلام کا مقابلہ ان کے مخالفوں نے کیا؟ حضرت عیسی علیہ السلام اور پھر آنحضرت صلی علیم کا مقابلہ کرایا؟ ان کے پاس کوئی دلیل نہ تھی کوئی ثبوت نہ تھا.قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ

Page 268

* 1941 269 خطبات محمود ان کے نفسوں کی خواہشات تھیں.کوئی نہ کوئی نفسانی غرض، کوئی پوشیدہ مقصد اور یا پھر کوئی دماغی کمزوری اس کا سبب ہوتا ہے.قربانی کرنے یا دوسروں کا مقابلہ کرنے کی طاقت اور ہمت ان میں نہیں ہوتی اور اس لئے صداقت پر اعتراض کرتے جاتے ہیں.خواہ وہ سورج کی طرح عیاں کیوں نہ ہو چکی ہو اور یہ ان کی عادت ہو جاتی ہے.یہی حال ہمارے پیغامی دوستوں کا ہے.بار یک دلائل کو جانے دو میں ایک موٹی بات پیش کرتا ہوں اسے ہی لے لو.رسول کریم صلی ال کلیم نے جہاں بہت سے آنے والے وجودوں کی خبر دی ہے وہاں ایک خاص وجود کی بھی خبر دی ہے اور نبی اللہ 1 فرمایا ہے.آپ نے فرمایا کہ میری اُمت میں مجد دین آئیں گے2.بھی فرمایا ہے کہ میری امت میں منافق بھی ہوں گے مگر کیا اس کے یہ معنے ہیں کہ ہمارے سامنے جو شخص بھی آئے ہم اسے منافق قرار دے دیں.اس وجہ سے کہ آپ نے فرمایا ہے میری امت میں منافق بھی ہوں گے.حدیث میں آتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ کریم نے فرمایا کہ قیامت کے روز میں حوض کوثر پر کھڑا ہوں گا کہ فرشتے میرے بعض صحابہ کو لے کر دوزخ کی طرف جائیں گے تو میں پکاروں گا.أَصَيْحَابِي أَصَيْحَابی 3 کہ یہ تو میرے اصحاب ہیں.اس پر فرشتے جواب دیں گے کہ آپ کو معلوم نہیں آپ کے بعد ان اصحاب نے کیا کیا کام کئے مگر اس کے معنی نہیں کہ ہر صحابی کو منافق کہہ دیا جائے.دراصل ان لوگوں کو جو آپ نے سة اپنے اصحاب بیان فرمایا تو یہ محض ان کی ظاہری حالت پر قیاس کر کے.صحابہ نہ تھے مگر کیا آپ کے اس ارشاد کی وجہ سے ہم حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ وغیرہ بزرگوں کو بھی منافق کہہ سکتے ہیں؟ اسی طرح بے شک آپ نے فرمایا ہے کہ میری امت میں مجددین آئیں گے مگر یہ بھی تو فرمایا کہ نبی بھی ہو گا.اس حدیث کو بعض لوگ ضعیف قرار دے دیتے ہیں مگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اسے استعمال کیا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ کم سے کم اس کا یہ حصہ ضعیف نہیں.اور وجوہ سے اس کے دوسرے حصے ضعیف ہوں

Page 269

* 1941 270 خطبات محمود تو بے شک ہوں یہ حصہ جس میں نبی کا لفظ مسیح موعود کے لئے بولا گیا ضعیف نہیں ہو سکتا کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے خود اسے استعمال فرمایا ہے.پیغامی کہتے ہیں کہ یہ لفظ جو ہے اس کے کچھ اور معنی ہیں.ہم کہتے ہیں بہت اچھا ہم مان لیتے ہیں کہ آپ نے یہ لفظ مجدد یا محدث کے معنوں میں استعمال فرمایا اور فرض کر لیتے ہیں کہ ان معنوں میں یہ لفظ استعمال ہو بھی سکتا ہے مگر سوال تو یہ ہے کہ کیا آنے والے مسیح کے لئے آپ نے کہیں مجدد کا لفظ بھی بولا ہے کہ دنیا میں بعض اوقات بعض الفاظ استعارہ کے رنگ میں استعمال کر لئے جاتے ہیں مثلاً بہادر کو شیر ، سخی کو حاتم کہہ لیا جاتا ہے مگر جن کے متعلق استعارہ استعمال ہو اس کا اصلی نام بھی تو لیا جاتا اور حقیقی مرتبہ بھی تو بیان کیا جاتا ہے.سخی کو بے شک حاتم کہہ دیتے ہیں مگر اس کا اصلی نام بھی تو لیتے ہیں.اسی طرح مان لیا کہ آنے والے مسیح کے متعلق آپ نے نبی یا رسول کا لفظ استعارہ کے طور پر استعمال فرمایا اور اس کے معنی مجدد کے ہیں مگر کیا آپ نے اپنی ساری نبوت کے زمانہ میں ایک دفعہ بھی آنے والے مسیح کے لئے مجدد کا لفظ بولا؟ آپ نے تمام عرصہ ہے؟ ہے ایک ہی لفظ استعمال فرمایا اور وہ نبی کا تھا.یہ اگر استعارہ تھا تو اس کا مطلب کہ آپ نے ساری عمر آنے والے کے اصل مرتبہ کا ذکر ہی نہیں فرمایا.اور اس طرح نَعُوذُ بِاللهِ خود لوگوں کی گمراہی کے سامان کر دیئے کہ استعارہ ہی استعارہ استعمال کیا.حقیقت اور اصلیت کا ذکر تک بھی نہ کیا.ایک جگہ بھی آنے والے کے حقیقی مقام کا ذکر نہ کیا.ایک ہی جگہ اس کا مرتبہ بیان فرمایا اور وہیں اسے نبی اللہ قرار دیا.اگر بحث سے الگ ہو کر اور آنحضرت صلی علیم کے بلند مقام کو سامنے رکھ کر غور کیا جائے تو صاف معلوم ہوتا ہے کہ آپ کے نبی اللہ فرمانے کے معنی ہی یہ ہیں کہ آنے والا نبی ہو گا.اگر اس کا اور کوئی مفہوم ہوتا تو آب دوسری جگہ اس کے صحیح مرتبہ کا بھی تو ذکر فرماتے.آنحضرت صلی ا ہم نے استعارات بھی استعمال فرمائے ہیں مگر ایسی چیزوں میں جن کا ایمان سے تعلق نہیں.ہے شک

Page 270

خطبات محمود 271 * 1941 اور مثلاً پیشگوئیاں ہیں کسی پیشگوئی کے کسی حصہ کا پتہ نہ بھی لگے تو کوئی حرج نہیں ! نہ ان پر جب تک سمجھ نہ آئے ایمان لانا ضروری ہے.اس لئے آپ نے استعارے استعمال فرمائے حقیقت کا اظہار نہیں فرمایا.لیکن ایمان کے ساتھ تعلق رکھنے والی کسی بات میں آپ نے ایسا نہیں کیا.اگر کہیں استعارہ استعمال فرمایا ہے تو دوسری جگہ اس کی وضاحت بھی فرما دی.مثلاً جہاں حضرت مسیح کے آسمان سے آنے کا ذکر فرمایا وہاں اِمَامُكُمْ مِنْكُمْ 4 فرما کر اس طرف توجہ دلا دی کہ وہ آنے والا مسیح تم میں سے ہی ہو گا.یعنی امت محمدیہ کا فرد ہو گا اور اس طرح مِنْكُمْ فرما کر اس بات کو حل کر دیا مگر مسیح موعود کے لئے آپ نے مجدد یا محدث کا لفظ کبھی استعمال السلام نہیں فرمایا.اس کے بعد ہم یہ دیکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کا حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے کلام بھی یہی ظاہر کرتا ہے کہ آپ نبی تھے.حضرت مسیح موعود علیہ اپنے ابتدائی زمانہ کا ایک الہام بیان فرماتے ہیں کہ دنیا میں ایک نذیر آیا پر دنیا نے اس کو قبول نہ کیا لیکن خدا اسے قبول کرے گا اور بڑے زور آور حملوں سے اس کی سچائی ظاہر کر دے گا.5 حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ اس الہام دو قراء تیں ہیں.ایک یہ کہ دنیا میں ایک نذیر آیا اور دوسری کہ دنیا میں ایک نبی آیا.6 گویا اللہ تعالیٰ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ کلام ابتدا ہی میں اس طرح شروع کرتا ہے کہ دنیا میں ایک نذیر اور نبی آیا.نذیر کا لفظ بھی قرآن کریم میں جہاں استعمال ہوا ہے نبی کے معنوں میں ہی ہوا ہے.اس لئے نذیر کے لفظ سے کوئی شبہ پیدا نہیں ہو سکتا.پھر تذکرہ نکال کر دیکھو کہ کتنی جگہ آپ کے الہامات آپ کے لئے مجدد یا محدث کا لفظ ہے؟ اور کتنی جگہ نبی اور رسول کا؟ یہ صحیح ہے کہ ہر نبی محدث بھی ہوتا ہے.جیسے ایم.اے، بی.اے بھی ہوتا ہے.ہم کے متعلق کہہ سکتے ہیں کہ جب اس نے بی.اے پاس کیا تھا بلکہ یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ جب وہ مدرسہ میں داخل ہوا تھا.مگر اس کے یہ معنی نہیں ہوتے کہ وہ

Page 271

* 1941 272 خطبات محمود الله سة ایم.اے نہیں.اسی طرح نبی مومن بھی ہوتا ہے، صالح اور شہید بھی اور صدیق بھی.یہ سب لفظ اس کے لئے استعمال ہو سکتے ہیں.مگر اس کا یہ مطلب نہیں ہوتا کہ وہ نبی نہیں.عجیب بات ہے کہ آنحضرت صلی الہ وسلم نے تو نَعُوذُ بالله غلطی کی کہ آنے والے کا صحیح روحانی مرتبہ ایک بار بھی بیان نہ فرمایا.ایک ہی دفعہ اس کے مرتبہ کا ذکر فرمایا.مگر وہاں بھی نبی اللہ کے نام سے اسے یاد کیا.اب چاہئے تو یہ تھا کہ اللہ تعالیٰ اس غلطی کا ازالہ فرما دیتا اور کہہ دیتا کہ اس حدیث سے غلطی نہیں کھانی چاہئے.آپ کا اصل مقام محدث ہے آپ نبی نہیں.مگر ابتدائی باتیں جو اس نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے کیں ان میں ہی یہ فرمایا کہ دنیا میں ایک نبی آیا پھر آپ کے الہامات کا مجموعہ جو شائع شدہ ہے اس میں کئی سو جگہ آپ کے لئے نبی کا لفظ استعمال ہوا ہے.وضاحت کے ساتھ یا تشبیہ کے ساتھ.اور یہ خدا تعالیٰ کا قول ہے.اور اگر یہ بھی صحیح نہیں تو کہنا پڑے گا کہ اللہ تعالیٰ نے نَعُوذُ بِاللهِ پھر لوگوں کو اسی گمراہی میں ڈال دیا.عجیب بات ہے کہ اصل مرتبہ کا ذکر یہاں بھی نہیں.نبی اللہ نبی اللہ ہی بار بار فرمایا ہے.حتی کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام فرماتے ہیں کہ بعض اوقات میں رات کو سونے کے لئے لیٹتا ہوں تو تکیہ پر سر رکھتے ہی یہ الہام ہونا شروع ہوتا ہے کہ اِنّى مَعَ الرَّسُولِ أَقُومُ 7.میں اپنے رسول کے ساتھ کھڑا ہوں.یعنی میں تمہارے ساتھ ہوں اور تمہاری تائید پر ہوں.آپ نے فرمایا ہے کہ تکیہ پر سر رکھنے سے لے کر سر اٹھانے تک برابر یہ الہام ہوتا رہتا ہے اور کس قدر عجیب بات ہے کہ یہاں بھی اللہ تعالیٰ آپ کے اصل مرتبہ کو چھوڑ ہی دیتا ہے اور جو مرتبہ محض مشابہت کے لئے ہے اسے بیان کرتا جاتا ہے.تذکرہ کو دیکھ لو مجدد یا محدث سے سینکڑوں گنے زیادہ نبی اور رسول کے الفاظ آپ کے لئے استعمال ہوئے ہیں.بلکہ اگر ان الہامات کو شامل کر لیا جائے جو سر تکیہ پر رکھنے کے وقت سے سر اٹھانے تک جاری رہتے تو کہنا پڑے گا کہ لاکھوں گنے زیادہ دفعہ لفظ استعمال ہوا ہے اور کیا ایک سمجھدار انسان کے سمجھنے کے لئے یہ کافی نہیں کہ

Page 272

* 1941 273 خطبات محمود اللہ تعالیٰ جسے دنیا کی ہدایت کے لئے بھیجتا ہے.رسول کریم صلی ا ہم اس کے اصل مرتبہ کو بیان نہیں فرماتے بلکہ صرف نبی اللہ ہی فرماتے ہیں.اللہ تعالیٰ شروع کے الہامات میں ہی اس کو نبی اللہ فرماتا ہے اور آخری الہامات جو وفات کے قریب ہوتے ہیں ان میں بھی رسول اور نبی کے الفاظ ہی اس کے لئے استعمال فرماتا ہے.غرض شروع سے آخر تک یہی الفاظ اس کے لئے استعمال ہوتے ہیں.پس سمجھنے والے کے لئے اس بات کو سمجھنا نہایت آسان ہے کہ اگر آپ کا اصل درجہ مجدد یا محدث ہوتا تو اللہ تعالیٰ اسی پر زیادہ زور دیتا اور اگر کہیں استعارہ کے طور پر آرہ کے لئے نبی کا لفظ استعمال ہوتا (استعارہ سے مراد وہ تشبیہ ہے جس میں حقیقت جنسی نہیں پائی جاتی.ورنہ ظلی نبوت جو تشریعی نبوت کے تابع ہوتی ہے.بوجہ اس کے آتا کہ اصل سے بہ طریق فیض اخذ کی جاتی ہے طریق فیض اخذ کی جاتی ہے ، مستعار کہلا سکتی ہے مگر اس کے معنے نہیں ہوتے کہ وہ نبوت نہیں ہے) تو دوسری جگہ اس کی وضاحت کر دیتا.مثلاً قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ رسول کریم صلی لی ایم کو مخاطب کر کے فرماتا ہے کہ تیرا ہاتھ خدا تعالیٰ کا ہاتھ ہے.اس میں آپ کے وجود کو الہی وجود.سے تشبیه دی گئی ہے اور اس سے غلط فہمی ہو سکتی ہے.اسی طرح ایک دو اور ایسی آیات ہیں.مثلاً ایک دوسری جگہ فرمایا ہے قُل لِعِبَادِئ 9.اور وہاں یہ آنحضرت صلی ا کرم کا کلام ہے اور بعض مفسرین کا خیال ہے کہ یہاں آپ سے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ تو کہہ.اے میرے بندو! مگر یہ آیت تشریح طلب ہے او ربعض مفسرین نے اس کے اور معنے بھی کئے ہیں.بہر حال دو تین مقامات قرآن کریم میں ایسے ہیں اور چونکہ اس سے سے آپ کے درجہ کے متعلق غلط فہمی ہو سکتی تھی اس لئے بشر اور رسول کا لفظ آپ کے متعلق اتنی مرتبہ فرمایا کہ غلط فہمی کا کوئی احتمال باقی نہ رہا اور جب کوئی مخالف اعتراض کرتا ہے کہ دیکھو قرآن کریم میں شرک کی تعلیم ہے ہیں کہ یہ تو تشبیہی کلام ہے جس میں آنحضرت صلی الم کی خدا تعالیٰ یگانگت بیان کی گئی ہے.ورنہ آپ کے لئے رسول، نبی، عبد اور بشر کے الفاظ سے

Page 273

* 1941 274 خطبات محمود قرآن کریم بھرا پڑا ہے.قرآن کریم کے شروع میں بِسْمِ اللہ ہے 10 یعنی میں اللہ تعالیٰ سے مدد مانگتا ہوں.اس کا مطلب ہی یہ ہے کہ میں بندہ ہوں اور خدا تعالیٰ کی مدد کا محتاج پھر آخر میں اَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ 11 ہے اس میں بھی اسی طرف اشارہ ہے کہ میں بندہ ہوں خدا نہیں ہوں.گویا بسم اللہ سے لے کر آخر تک آپ کی طرف الوہیت کی نسبت کو غلط بتایا گیا ہے اور بار بار کہا گیا ہے کہ آج (صلى ال صرف بشر رسول ہیں، عبد ہیں.تو قرآن کریم میں اگر دو تین ایسی آیات ہیں جن میں آنحضرت صلی اللہ علم کا خدا تعالیٰ کے ساتھ اتحاد اور تعلق ظاہر کیا گیا ہے اور ایسے الفاظ بیان ہوئے ہیں جن سے عوام کو شبہ ہو سکتا ہے تو دوسری آیات میں کثرت کے ساتھ اصلیت بیان کر دی گئی ہے.مگر یہ کیا اندھیر ہے کہ محمد صلی الم کو تو اللہ تعالیٰ نے دو تین جگہ اپنی ذات سے تشبیہ دی اور پھر اس اشتباہ کو دور کرنے کے لئے بار بار آپ کو بشر اور عبد کہہ کر یاد کیا ہے مگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة و السلام کے متعلق بار بار وہی الفاظ بیان کئے جو دراصل آپ کا صحیح مقام نہ تھا.تیس پینتیس سال تک برابر آپ کو نبی اور رسول کے لفظ سے پکارتا رہا.اس حقیقت کو مد نظر رکھتے ہوئے کیا کوئی معقول انسان کہہ سکتا ہے کہ آپ کا اصل مرتبہ محدثیت کا ہے.اگر آپ کا یہ درجہ ہوتا تو چاہئے تھا کہ بار بار اسی کا ذکر ہوتا.جیسے رسول کریم صلی ال نیم کے متعلق بشر کا لفظ بار بار فرمایا ہے اور الوہیت سے تشبیہ شاذ کے طور پر دی ہے.پھر چاہئے تھا کہ اسی کی تائید آنحضرت صلی ال نیلم کے ارشاد سے ہوتی اور یہی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام کے کلام میں ہوتا.کوئی نادان کہہ سکتا کہ آنحضرت صلی الم کا مرتبہ بڑا تھا اور وہ زیادہ محتاط تھے اس لئے قرآن کریم میں بشریت اور رسالت پر خاص زور دیا گیا ہے.مگر یاد رہے کہ قرآن کریم رسول کریم صلی ا کرم کا کلام نہیں ہے بلکہ خدا تعالیٰ کی وحی ہے اور وہ اسی ذات پاک اتارا ہوا ہے جس نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام پر الہام نازل کیا.وہاں تو الوہیت کے ساتھ معمولی سی تشبیہ کے بعد بشر اور عبد بار بار فرمایا اور ہے

Page 274

* 1941 275 خطبات محمود اس پر اتنا زور دیا کہ آپ کے بشر ہونے میں کوئی شبہ ہی نہ رہا.اور یہاں یہ حال ہے کہ الہامات میں بار بار نبی اور رسول ہی کہا گیا ہے.پھر رسول کریم صل الل علم بھی نبی ہی کہتے ہیں.اب اس سے آگے چلو.مان لیا کہ نَعُوذُ بِاللهِ مِنْ ذَالِكَ اللہ تعالیٰ نے بھی بے احتیاطی کی اور رسول کریم صلی الی ایم نے بھی.اور یہ کام حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام پر چھوڑ دیا کہ وہ خود اس سوال کو حل کریں اب سب بحثوں کو چھوڑ دو اور آپ کی کتابوں میں دیکھ لو کہ کیا آپ نے اپنے مجدد ہونے کی بخشیں کی ہیں؟ اور منہاج مجددیت کو دشمنوں کے سامنے پیش کیا ہے یا منہاج نبوت کو؟ آپ نے کثرت سے یہی الفاظ استعمال فرمائے ہیں کہ میں نبی ہوں، رسول ہوں.باقی رہا محدثیت کا سوال، اس پر صرف ابتدائی زمانہ میں اصولی طور پر کچھ بحث کی ہے ورنہ بعد میں مسیحیت اور نبوت پر ہی بحث کی ہے اور یہاں تک فرمایا ہے کہ میرے دعوی کی مشکلات میں سے ایک مشکل نبوت کا دعویٰ ہے گویا آپ کی تحریرات سے جو غلط فہمی دور ہو سکتی تھی اس کا بھی امکان باقی نہیں رہا.اس کے بعد ایک اور ذریعہ یہ باقی رہ جاتا تھا کہ آپ کے زمانہ کے مصنف اور علماء اس بات پر زور دیتے اور کہتے کہ آپ نے اپنے لئے لفظ نبی جوش میں استعمال فرمایا ہے ورنہ آپ کا اصل مرتبہ محدث کا ہے مگر یہ بات بھی نہیں.اس زمانہ میں مولوی محمد علی صاحب سب سے اہم رسالہ کے ایڈیٹر تھے.اسی رسالہ کے جس میں خود حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة و السلام مضمون لکھا کرتے تھے اور جن میں سے بعض مضمونوں کو باوجود حقیقت کا علم رکھنے کے محض خوشامد اور چاپلوسی کے طور پر پیغام کا عملہ متعدد بار مولوی محمد علی صاحب کی طرف منسوب کرتا چلا آیا ہے اور مولوی صاحب اس عظیم الشان افتراء کو شیر مادر کی طرح پیتے چلے آئے ہیں اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام کے مضامین کو اپنی طرف منسوں منسوب ہوتے دیکھ کر خاموش رہے ہیں.اس اہم رسالہ میں اس کے ایڈیٹر صاحب جن کے قول کو اس وقت بعض پیغامی خدا اور رسول اور امام وقت

Page 275

خطبات محمود 276 * 1941 کے قول پر ترجیح دیتے ہیں متواتر اس رسالہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة و السلام کو نبی لکھتے رہے ہیں اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام کی وفات تک نبوت بکر پر ہی زور دیتے رہے ہیں.کہیں چیلنج دیتے ہیں کہ آپ کا مقابلہ حضرت ابو حضرت عمررؓ اور حضرت حسنؓ یا حسین سے نہیں کیا جا سکتا.ان بزرگوں کو آپ کے مقابلہ میں پیش کرنا غلطی ہے کیونکہ یہ نبی نہ تھے اور آپ نبی ہیں.کہیں لکھا ہے کہ آپ کی صداقت معیارِ نبوت پر پر کھنی چاہئے.غرض وہ اہل قلم جو اس زمانہ میں سلسلہ کا پیغام دنیا کو پہنچاتے رہے آپ کا نبوت کا مقام ہی پیش کرتے رہے مگر آج ہمیں بتایا جاتا ہے کہ ان سب الفاظ سے مراد محد ثیت تھی.جب اللہ تعالیٰ نے آپ کو بار بار نبی اور رسول فرمایا تو اس کی مراد اس سے محدثیت تھی.جب آنحضرت صلی الی یم نے نبی اللہ فرمایا تو اس سے بھی محدثیت مراد تھی.جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام خود اپنے آپ کو نبی اللہ لکھتے رہے 12 تو اس سے مراد بھی محدثیت تھی اور جب لکھتا تھا تو اس سے مراد بھی محدثیت تھی.مگر ہم کہتے ہیں کہ بہت اچھا جناب اگر نبوت اور رسالت کے الفاظ جو آپ استعمال کرتے رہے اس سے مراد محدثیت تھی تو پھر آپ نے ان الفاظ کا استعمال اب کیوں ترک کر دیا.اگر نبوت کے معنی محدثیت کے ہیں تو اب بھی وہی لفظ استعمال کریں اور اسی زور سے استعمال کریں.اس زمانہ میں تو آپ خدا کا رسول، خدا کا آخری رسول، آخری زمانہ کا رسول آپ کو لکھتے تھے مگر اب “پیغام صلح 13 کو دیکھ لو کبھی یہ الفاظ نظر نہ آئیں گے.اگر ان الفاظ کے معنی وہی تھے جو آج آپ بتاتے ہیں تو پھر آج ان کے استعمال میں کیا حرج ہے.کیوں آج انہیں استعمال نہیں کرتے؟ غرض آج آپ کا ان الفاظ کو استعمال نہ کرنا اس بات کا ثبوت ہے کہ جب آپ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی زندگی میں آپ کو نبی اور رسول لکھتے تھے تو ان سے مراد نبی اور رسول ہی سمجھتے تھے.اس طرح جب خد اتعالیٰ آپ کو نبی کہتا تو وہ نبی ہی سمجھتا تھا.جب محمد مصطفی صلی ا ہم نے آپ کو نبی کہا تو اس سے مراد نبی ہی تھی اور جب آپ نے

Page 276

* 1941 277 خطبات محمود مقام الصلوة اپنے لئے یہ الفاظ استعمال کئے تو ان سے مراد بھی نبوت ہی تھی.یہ نہیں کہا جا سکتا تھا کہ سب نے غلطی کی.یہ تو کوئی کہہ سکتا ہے کہ میں نے غلطی کی یا میں فلاں بات کرنے یا لکھنے کے وقت کسی اور خیال میں مشغول ہوں گا مگر یہ کہ جو الفاظ خدا تعالیٰ نے فرمائے، آنحضرت صلی ا نیلم نے فرمائے، حضرت مسیح موعود علیه الصلوة و السلام نے خود فرمائے، اور آپ کی زندگی میں مولوی محمد علی صاحب بھی استعمال کرتے رہے ان کے متعلق آج یہ کہا جائے کہ ان سب سے مراد وہ نہیں تھی جو لفظوں سے ظاہر ہے بلکہ ان سے مراد کچھ اور ہی تھا.تو یہ ایسی بات ہے جسے کوئی معقول انسان کبھی نہیں مان سکتا.ہمیں ماننا پڑے گا کہ جو لفظ اس طرح بار بار استعمال ہوا دراصل وہی مقام آپ کا ہے.ہے.اور جو دو ایک بار استعمال ہوا وہ دراصل ادنی تھا.اللہ تعالی کی گواہی، رسول کریم صلی الم کی گواہی، حضرت مسیح موعود علیہ و السلام کی گواہی اور خود مولوی محمد علی صاحب کی اُس زمانہ کی گواہی جس کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام کے رویا میں یہ کہا گیا ہے کہ آپ بھی صالح تھے اور نیک ارادہ رکھتے تھے 14 ایک عقلمند کے لئے بالکل کافی ہے.اور وہ گواہی جو اس وقت دی جا رہی ہے جب آپ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام سے دور ہو گئے اور آپ کے پاس سے اٹھ کر چلے گئے اور آپ کو افسوس سے کہنا پڑا کہ آپ بھی صالح تھے اور نیک ارادے رکھتے تھے آؤ ہمارے پاس بیٹھ جاؤ قابل قبول سکتی.ان حالات میں صرف ایک سوفسطائی 15جو وہم میں مبتلا ہو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام کے نبی ہونے کا انکار کر سکتا ہے.اور ایسے کوئی علاج کسی کے پاس نہیں.حضرت خلیفة المسیح الاوّل فرمایا کرتے تھے کہ ایسے لوگوں کی مثال وہی ہوتی ہے.جیسے ایک نٹ باریک رسی پر چڑھ کر ناچتا، کودتا، چھلانگیں لگاتا اور اپنی جان کو خطرات میں ڈال کر کوئی کھیل دکھاتا ہے تو نیچے سے ایک بڑھا کہہ دیتا ہے میں نہ مانوں.ایسے لوگوں کا کوئی علاج ہمارے پاس نہیں.ہاں سوچنے والے کے لئے اللہ تعالیٰ، آنحضرت صلی للی یم اور خود مولوی محمد علی صاحب کی وہ ہو کا

Page 277

* 1941 278 خطبات محمود شہادت جو انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام کی زندگی میں دی راہ نمائی کے لئے کافی ہے.لیکن اگر کوئی انسان نہ سمجھنا چاہے تو ایسے انسان کا علاج اللہ تعالیٰ الفضل 18 جون 1941ء) ہی کر سکتا ہے.کوئی بندہ نہیں کر سکتا." 1 مسلم کتاب الفتن باب ذكر الدجال وصفته وما معه 2 ابو داؤ دکتاب الملاحم باب ما يذكر في قرن المائة بخاری کتاب التفسیر تفسیر سورہ المائدة باب قَوْلِهِ وَكُنْتُ عَلَيْهِمْ شَهِيدًا.مسند احمد بن حنبل جلد 1 صفحہ 453 بیروت 1978ء 4 بخاری کتاب الانبياء باب نزول عیسی ابن مریم 6،5 تذکرہ صفحہ 104.ایڈیشن چہارم تذکرہ صفحہ 395، 459، 462.ایڈیشن چہارم إِنَّ الَّذِيْنَ يُبَايِعُونَكَ إِثْمَا يُبَايِعُونَ اللَّهَ يَدُ اللَّهِ فَوْقَ أَيْدِيهِمْ (الفتح:11) قُلْ يُعِبَادِيَ الَّذِينَ أَسْرَفُوا عَلَى أَنْفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوا مِنْ رَّحْمَةِ اللَّهِ إِنَّ اللَّهَ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِيعًا إِنَّهُ هُوَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ - (الزمر: 54) 10 الفاتحة: 1 11: الناس : 2 12 ایک غلطی کا ازالہ صفحہ 2 روحانی خزائن جلد 18 صفحہ 206 13 غیر مبائعین کا ترجمان جو 10 جولائی 1913ء کو لاہور سے جاری ہوا.( تاریخ احمدیت جلد 4 صفحہ 485) 14 تذکرہ صفحہ 518.ایڈیشن چہارم 15 سوفسطائی: یونان کے وہ حکماء جن کے عقائد کی بنیاد وہم پر تھی.یہ لوگ حقائق الاشیاء کے منکر تھے.اب اس شخص کو بھی سوفسطائی کہتے ہیں جو ہر بات میں خواہ مخواہ اُلجھاؤ ڈالے.(اردو انسائیکلو پیڈیا)

Page 278

* 1941 279 (18) خطبات محمود چنده تحریک جدید جلد ادا کرنے کی کوشش کی جائے فرموده 20 جون 1941ء) تشہد، تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:.تحریک جدید کے مالی سال میں سے بہت سے مہینے گزر چکے ہیں اور اب ساتویں سال کے قریباً پانچ مہینے باقی ہیں.سوائے ان مستثنیات کے کہ بعض لوگ مجبوریوں کی وجہ سے زیادہ مہلت لے لیتے ہیں یا دوسرے ممالک میں رہنے والے ہیں یا ہندوستان کے دوسرے صوبوں میں رہتے ہیں.باقی سب کے نومبر کے آخر تک بارہ مہینے پورے ہو جائیں گے.ایک معتد حصہ مجھے خوشی ہے کہ اس سال تحریک جدید میں چندہ لکھانے والوں میں سے نے یہ کوشش کی ہے کہ ان کا وعدہ مئی میں پورا ہو جائے.چنانچہ سال گزشتہ سال کی نسبت مئی کے مہینہ تک پندرہ ہزار روپیہ کی آمد زیادہ ہوئی مگر سال کو مد نظر رکھتے ہوئے در حقیقت ابھی وعدوں کا نصف حصہ وصول ہوا ہے.حالانکہ سات مہینے گزر چکے ہیں اور پانچ مہینے باقی ہیں.اس ہے ہے جن پھر اس وصولی میں بیرونی جماعتوں کا بھی ایک حد تک چندہ شامل مہلت نومبر کے بعد بھی جاری رہتی ہے.ان کو اگر نکال دیا جائے تو ہندوستان کے چندہ میں سے ابھی نصف بھی وصول نہیں ہوا مگر بہر حال بعض گزشتہ سالوں سے اس سال اچھی وصولی ہوئی ہے اور وقت پر ہوئی ہے لیکن جیسا کہ میں نے بتایا ہے ابھی کثیر حصہ چندہ دینے والوں کا ایسا ہے جن کی رقوم وصول نہیں ہوئیں اور

Page 279

* 1941 280 خطبات محمود دن بہت تھوڑے رہ گئے ہیں اس لئے میں جماعت کے دوستوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ اس چندہ کو جلد سے جلد ادا کرنے کی کوشش کریں.جبر یہ چندہ جیسا کہ میں نے بار بار توجہ دلائی ہے طوعی ہے.اس میں کسی پر نہیں کیا جاتا، کوئی تعیین نہیں ہوتی، کوئی زور نہیں دیا جاتا بلکہ ہر شخص اپنی مرضی، اپنی خواہش اپنے ظرف اور اپنے ایمان کی وسعت کے مطابق چندہ ہے.لکھواتا ہزاروں ہزار ہماری جماعت میں ایسے لوگ موجود ہیں جو تحریک جدید میں چندہ نہیں لکھواتے اور انہوں نے سات سالوں میں سے ایک سال میں بھی حصہ نہیں لیا مگر ان کو کوئی بُرا نہیں کہتا اس لئے کہ یہ فرضی چندہ نہیں کہ اگر کوئی نص اس میں اپنا وعدہ نہ لکھائے تو اسے کہا جائے کہ اس نے جماعت کے فرائض کو ادا نہیں کیا بلکہ جو شخص بھی چندہ دیتا یا چندہ ادا کرنے کا وعدہ کرتا ہے وہ اپنی.خوشی سے یہ ذمہ داری اپنے اوپر عائد کرتا ہے اور اس لئے کرتا ہے تا نوافل کے ثواب میں وہ شریک ہو جائے.رسول کریم صلی اللہ ولیم فرماتے ہیں کہ انسان نوافل کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے قریب ہوتا جاتا ہے یہاں تک کہ ہر حرکت جو وہ خدا تعالیٰ کی طرف کرتا ہے اس کے جواب میں خدا اس سے زیادہ حرکت کرتا ہے اگر وہ ایک قدم چلتا ہے تو خدا دو قدم چل کر آتا ہے اور اگر وہ تیز چلتا ہے تو خدا دوڑ کر اس کی طرف آتا ہے.پھر آپ نے فرمایا اسی طرح بندہ خدا کے قریب ہوتا چلا جاتا ہے یہاں تک کہ خدا اس کے ہاتھ بن جاتا ہے جن سے وہ پکڑتا ہے اور خدا اس کی آنکھیں بن جاتا ہے جن سے وہ دیکھتا ہے اور خدا اس کے پاؤں بن جاتا ہے جن سے وہ چلتا ہے.1 گویا ایسے بندے اور خدا کے درمیان ایسا اتصال اور اتحاد پیدا ہو جاتا ہے کہ اس کی خواہشات خدا تعالی کی خواہشات ہو جاتی ہیں بنده خدا نہیں بن سکتا.بندہ بندہ ہی ہے اور خدا خدا ہی.مگر الوہیت کوئی

Page 280

* 1941 281 خطبات محمود کی چادر اوڑھنے کا ذریعہ یہ ہے کہ انسان خدا کے ساتھ متصل ہو جائے اور اس کی روح خدا کی صفات میں منظم ہو جائے حتی کہ اس کے ارادے وہی ہو جائیں جو خدا کے ارادے ہیں، اس کی خواہشات وہی ہو جائیں جو خدا کی خواہشات ہیں اور اس کے مقاصد وہی ہو جائیں جو خدا کے مقاصد ہیں.تب بندہ ایک رنگ میں خدا ہی بن جاتا اور جو کچھ وہ چاہتا ہے وہی کچھ ہو جاتا ہے.نادان لوگ اسے دیکھ کر بعض دفعہ ہے کہنے لگ جاتے ہیں کہ وہ بندہ اپنے اندر خدائی صفات رکھتا ہے.حالانکہ بات ہوتی کہ اس کے اندر خدائی صفات آ جاتی ہیں.بلکہ بات یہ ہوتی ہے کہ اس نے اپنی مرضی کو قربان کر کے خدا کی مرضی کو اختیار کیا ہوا ہوتا ہے اور گو بظاہر یہ نظر آتا ہے کہ وہ جو چاہتا ہے وہی ہو جاتا ہے مگر دراصل وہ اپنی ذات میں کچھ چاہتا ہی نہیں.وہ وہی کچھ چاہتا ہے جو خدا چاہتا ہے اور چونکہ جو کچھ وہ چاہتا ہے وہ در حقیقت خدا کا ارادہ اور اس کا منشاء ہوتا ہے اس لئے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اس کی بات پوری ہوئی حالانکہ اس کی بات نہیں بلکہ خدا کی بات پوری ہوتی ہے.لوگ تو صرف اتنا دیکھتے ہیں کہ فلاں شخص کی زبان سے بات نکلی اور وہ پوری ہو گئی اور وہ سمجھتے ہیں کہ اس کی زبان میں بڑی تاثیر ہے حالانکہ اس کی زبان میں کوئی تاثیر نہیں ہوتی بلکہ تاثیر اس لئے ہوتی ہے کہ اس نے اپنی زبان کاٹ دی ہوتی ہے، اس نے اپنے وجود کو مٹا دیا ہوتا ہے، اور اس کی اپنی کوئی خواہش رہتی ہی نہیں.اس لئے جب وہ بولتا ہے تو اس کی زبان نہیں بولتی بلکہ خدا کی زبان بولتی ہے اور جب اس کی بات پوری ہوتی ہے تو اس کی بات پوری نہیں ہوتی بلکہ خدا کی بات پوری ہوتی ہے.یہی مطلب رسول کریم صلی اہل علم کی اس حدیث کا ہے کہ اس کے ہاتھ خدا کے ہاتھ ہو جاتے ہیں.یعنی وہ اپنے ہاتھوں کو معطل کر دیتا اور انہیں ایک آلہ کی طرح خدا کے ہاتھ میں دے دیتا ہے جس طرح قلم نہیں لکھتی بلکہ ہاتھ لکھتا ہے.اسی طرح جو کچھ اس کے ہاتھ کرتے ہیں وہ اس کے ہاتھ نہیں کرتے بلکہ خدا کے ہاتھ

Page 281

خطبات محمود 282 * 1941 کرتے ہیں.اسی طرح اس کے پاؤں خدا کے پاؤں ہو جاتے ہیں، اس کی آنکھیں خدا کی آنکھیں ہو جاتی ہیں ا جاتی ہیں اور اس کی زبان خدا کی زبان ہو جاتی ہے.ایسا انسان جب کسی ملک میں جاتا ہے تو وہاں خدا تعالیٰ کی برکتیں نازل ہونی شروع ہو جاتی ہیں اور جب بات کرتا ہے تو زمین و آسمان میں تغیر پیدا ہونا شروع ہو جاتا ہے اور جب ہاتھ اٹھاتا ہے تو اس کے ساتھ ہی آفاق میں تغیر رونما ہونے لگ جاتا ہے.اس لئے کہ اس نے اپنے ہاتھ معطل کئے ہوئے ہوتے ہیں، اس نے اپنے پاؤں معطل کئے ہوتے ہیں اور اس نے اپنی زبان معطل کی ہوئی ہوتی ہے اور جو کچھ اس سے صادر ہوتا ہے وہی خدا تعالیٰ کا منشاء اور اس کا ارادہ ہوتا ہے.یہی وہ مقام ہے جس پر پہنچ کر انسان دنیا کے مصائب اور ابتلاء سے اس رنگ میں محفوظ ہو جاتا ہے کہ وہ اسے کچل نہیں سکتے.یہ نہیں کہ ایسے انسان پر مصیبتیں نہیں آتیں یا بیماریاں نہیں آتیں یا دشمن اسے یہ تکلیفیں نہیں پہنچاتے یا حکومتیں اسے گرفتار یا قید نہیں کرے ہے بیماریاں بھی آتی ہیں، مصیبتیں بھی آتی ہیں، دشمن بھی ستاتے ہیں کچھ ہوتا اور حکومتیں بھی گرفتار کرتی اور قید کرتی ہیں.چنانچہ دیکھ لو حضرت عیسی علیہ السلام اللہ تعالیٰ کے نبی تھے مگر گورنمنٹ نے ان کو گرفتار کیا قید میں رکھا اور پھر پھا پھانسی لٹکا دیا.حضرت موسیٰ علیہ السلام اللہ تعالیٰ کے رسول تھے مگر فرعون کے مقابلہ میں انہیں اپنا ملک چھوڑنا پڑا.رسول کریم صلی املی کمک خدا تعالیٰ کے سب سے زیادہ مقرب اور رسول اور تمام نبیوں کے سردار تھے مگر آپ کو اپنا وطن چھوڑنا پڑا.اسی طرح آپ کو مارا گیا، آپ کو پیٹا گیا، آپ کو زخم بھی لگے، آپ کے دانت بھی شہید ہوئے اور آپ پر ایسا وقت بھی آیا کہ آپ ایک گڑھے میں گر گئے اور کئی صحابہ کی لاشیں گئے پر آ پڑیں اور کفار نے یہ خیال کر کے خوشیاں منائیں کہ آپ فوت ہو ہیں.پھر آپ بیمار بھی ہوئے اور بعض دفعہ لمبے عرصہ تک بیمار رہے.جیسا کہ احادیث سے ثابت ہے.اسی طرح وفات کے وقت آپ کو اتنی شدید تکلیف ہوئی کہ حضرت الله سة عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں جب تک رسول کریم صلی الل علم کی جان کنی کی تکلیف کو

Page 282

* 1941 283 خطبات محمود ނ میں نے نہیں دیکھا، میں یہی سمجھتی تھی کہ جسے جان کنی کے وقت شدید تکلیف ہو اس کا ایمان کمزور ہوتا ہے.مگر جب میں نے رسول کریم صلی الم کی جان کنی کی تکلیف دیکھی تو میں نے اپنے اس خیال توبہ کی اور میں نے سمجھا کہ جان کنی کی تکلیف کا ایمان سے کوئی تعلق نہیں ہو تا.2 ہمارے ملک میں بھی عام طور پر یہ خیال کیا جاتا ہے کہ جسے جان کنی کے وقت زیادہ تکلیف ہو وہ برا آدمی ہوتا ہے.حالانکہ یہ تکلیف جسمانی طاقت کے لحاظ سے ہوتی ہے.کوئی شخص بہت مضبوط اور قوی ہوتا ہے اور کوئی کمزور اور نحیف ہوتا ہے.اب یہ بات ظاہر ہے کہ قوی چیز میں کوئی چیز گڑی ہوئی ہو تو اس کا نکالنا مشکل ہوتا ہے اور کمزور میں سے اس کا نکالنا آسان ہوتا ہے.مثلاً کسی کے مسوڑھے کمزور اور گلے سڑے ہوں اور ان میں پیپ پڑی ہوئی ہو تو ایسے مسوڑھوں میں سے دانت آسانی سے نکل آئیں گے لیکن جس شخص کے مسوڑھے مضبوط اور قوی ہوں اور اس کے دانتوں کی جڑیں مسوڑھوں کی عمدگی کی وجہ سے مضبوط ہوں تو ڈاکٹر بعض دفعہ کئی کئی منٹ زور منٹ زور لگا کر اس کے دانت نکالتے ہیں.اب اگر جس شخص کا آسانی سے دانت نکل آئے اس کے متعلق کوئی کہنا شروع کر دے کہ اس کا دانت اس لئے آسانی سے نکلا تھا کہ وہ نیک تھا اور جس کا تکلیف سے دانت نکلے اس کے متعلق کہنا شروع کر دے کہ اس کا دانت اس لئے تکلیف سے نکلا تھا کہ وہ بُرا تھا تو یہ اس کی غلطی ہو گی.کیونکہ اس کا تعلق کسی کی نیکی یا بدی کے ساتھ نہیں بلکہ مسوڑھوں کی مضبوطی یا کمزوری کے ساتھ ہے.وہ شخص جس کا دانت آسانی سے نکل آیا تھا اس کے مسوڑھے گلے سڑے تھے اور وہ جس کا دانت تکلیف سے نکلا اس کا جسم تندرست اور مسوڑھے مضبوط تھے.جب مضبوط مسوڑھوں میں سے دانت نکالا ئے گا تو لازماً زیادہ زور لگے گا اور جب کمزور مسوڑھوں میں سے دانت نکالا جائے گا تو زور کم لگے گا.جیسے کیچڑ میں اگر کیلا گڑا ہوا ہو تو ایک بچہ بھی آسانی سے اسے نکال لیکن اگر پتھر میں گڑا ہوا ہو تو ایک مضبوط جوان بھی اسے نہیں نکال سکتا.سکتا.-.

Page 283

* 1941 284 خطبات محمود اسی طرح مضبوط جسم میں سے جب جان نکلتی ہے تو بڑی مشکل سے نکلتی ہے ہے جیسے پتھر میں سے کیلا نکالنا مشکل ہوتا ہے لیکن کمزور جسم میں سے آسانی کے ساتھ نکل جاتی ہے.اسی حقیقت کا ایک دوسرا پہلو بھی ہے اور وہ یہ کہ وہ انسان جس کے دل میں دنیا کی محبت ہو اس کی جان سخت تکلیف سے نکلتی ہے.لیکن دوسری طرف وہ لوگ جو دنیا کی خیر خواہی میں گھل رہے ہوتے ہیں ان کی جان بھی مشکل سے نکلتی ہے.جو لوگ دنیا کی محبت میں گھل رہے ہوتے ہیں ان کی جان تو اس لئے مشکل سے نکلتی ہے کہ وہ سمجھتے ہیں ہمیں جو چیز سب سے زیادہ پیاری تھی اب وہ ہمارے ہاتھ سے چھوٹ رہی ہے اور انبیاء کی جان اس لئے تکلیف سے نکلتی ہے کہ ان کے دل و دماغ پر اس وقت یہ خیال غالب ہوتا ہے کہ لوگ بغیر نگرانی کے رہ جائیں گے معلوم نہیں بعد میں ان کا کیا حال ہو اور وہ چاہتے ہیں کہ بنی نوع انسان میں کچھ اور مدت رہیں.اس لئے نہیں کہ وہ مزے اڑائیں بلکہ اس لئے کہ لوگ نیک بن جائیں.پس دنیا کو چھوڑنا دونوں کے لئے ہی تکلیف دہ ہوتا ہے مگر ایک روح تو اس لئے تکلیف محسوس کرتی ہے کہ وہ دنیا کے عیش اور آرام سے حظ اٹھانا چاہتی ہے اور دوسرے کی روح اس لئے تکلیف محسوس کرتی ہے کہ لوگ بغیر نگرانی کے رہ جائیں گے.پس بظاہر دونوں کو ہی تکلیف ہوتی ہے اور ایک نادان اور احمق انسان جو نہیں جانتا کہ یہ تکلیف کیوں ہوتی ہے یا وہ جسے حقائق کا تجربہ نہیں ہوتا، خیال کرتا ہے کہ شاید ایمان کی کمی کی وجہ سے یہ تکلیف ہو رہی ہے مگر جب اس کی عقل تجربہ سے راہنمائی حاصل کر لیتی ہے تو وہ سمجھ لیتا ہے کہ جان کنی کی تکلیف کی کئی وجوہ ہوتی ہیں.کبھی ایک نیک شخص جان کنی کی تکلیف اٹھاتا ہے اور بد جان کنی کی تکلیف نہیں اٹھاتا ہے اور کبھی بد جان کنی کی تکلیف اٹھاتا ہے اور نیک جان کنی کی تکلیف نہیں اٹھاتا.اور اس کی وجہ وہی ہوتی ہے جو میں بیان کر چکا ہوں کہ ایک کا جسم مضبوط ہوتا ہے اور دوسرے کا کمزور اور کمزور جسم میں سے آسانی کے ساتھ جان نکل جاتی ہے لیکن مضبوط جسم میں سے آسانی کے ساتھ جان نہیں نکلتی.مثلاً

Page 284

* 1941 285 خطبات محمود ایک بوڑھا شخص جس کا جسم گھل چکا ہو بعض دفعہ باتیں کرتے کرتے اس کی جان نکل جاتی ہے اور لوگ کہتے ہیں کہ فلاں شخص کتنا نیک تھا کہ باتیں کرتے کرتے اس کی جان نکل گئی.حالانکہ باتیں کرتے کرتے اس کی جان اس لئے نہیں نکلی کہ وہ نیک تھا بلکہ اس لئے نکلی کہ اس کی جان پہلے ہی مری ہوئی تھی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرمایا کرتے تھے کہ ایک اندھے سے کسی نے کہا کہ سو جاؤ تو وہ کہنے لگا ہمارا سونا کیا ہے چپ ہو جانا.یعنی سونا کس کو کہتے ہیں؟ اس کو کہ انسان آنکھیں بند کرے اور خاموش ہو جائے اب آنکھیں تو اس کی پہلے ہی بند تھیں.اس نے کہا کہ آپ جو کہتے ہیں کہ سو جاؤ تو میں نے اور کیا کرنا خاموش ہو جاتا ہوں.تو کسی بوڑھے کی جان اگر آرام سے نکلتی ہے تو اس کے یہ معنی نہیں ہوتے کہ وہ بڑا نیک ہوتا ہے بلکہ یہ معنی ہوتے ہیں کہ اس کا جسم گھل چکا ہوتا ہے اور جان آسانی نکل جاتی ہے.جیسے بوسیدہ دانت گلے سرے مسوڑھوں سے آسانی کے ساتھ الگ ہو جاتا ہے.بلکہ بعض دفعہ روٹی کھاتے ہوئے لقمہ میں آجاتا ہے.اسی طرح وہ انسان جس کا جسم گھل چکا ہوتا ہے جب عزرائیل اس کی جان نکالنے آتا ہے تو بوسیدہ اور ہلے ہوئے دانت کی طرح آسانی کے ساتھ اسے الگ کر لیتا ہے لیکن جس کا جسم مضبوط ہوتا ہے اسے جان کنی کی سخت تکلیف ہوتی ہے او ہے اور دوسری وجہ تکلیف کی یہ ہے کہ دنیا سے شدید محبت ہو یا دنیا میں اس کے سپرد کوئی ایسا اصلاح کا کام ہو جس کا چھوڑنا اس پر اپنی ذات کے لئے نہیں بلکہ دوسروں کی اصلاح کے خیال سے شاق گزرتا ہو.غرض حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں پہلے یہی سمجھتی تھی جیسے آج کل عوام میں خیال پایا جاتا ہے کہ جس کی جان تکلیف سے نکلتی ہے وہ بُرا ہوتا ہے.اور جس کی جان آرام سے نکلتی ہے وہ نیک ہوتا ہے.مگر جب رسول کریم صلی کم کی جان کنی کی تکلیف کو میں نے دیکھا تو اس خیال سے توبہ کی اور میں نے سمجھا کہ اس کا تعلق ایمان کے ساتھ نہیں ہے.تو اللہ تعالیٰ کے تمام انبیاء کو دنیا میں تکالیف پہنچی ہیں www.

Page 285

* 1941 286 خطبات محمود اور کوئی نبی اور ولی ایسا نہیں گزرا جن پر مصیبتیں نہ آئی ہوں.مگر جو چیز ان پر نہیں آتی اور جس میں انبیاء دوسروں سے مستثنیٰ ہوتے ہیں وہ یہ ہے کہ ان پر کوئی ایسی تکلیف نہیں آتی جو انہیں مایوس کر دے یا خدا تعالیٰ کی رحمت سے انہیں محروم کر دے.ورنہ تکالیف ان پر بھی آتی ہیں اور بعض دفعہ تو بڑی بڑی تکلیفیں آتی ہیں.چنانچہ دیکھ لو ابو جہل بے شک مر گیا اور خدا نے اسے دنیا و آخرت میں ذلیل دیا لیکن جسمانی زندگی اور دنیا کے آرام کو اگر دیکھا جائے تو ابو جہل کی زندگی رسول کریم صلی ال نیلم کی زندگی سے زیادہ آرام میں گزری ہے.بے شک اس کی زندگی کے آخری لمحات میں خدا تعالیٰ نے یہ فیصلہ کر دیا کہ اس کی آرام کی زندگی خدا تعالیٰ کے کسی فضل کا نتیجہ نہیں تھی بلکہ وہ ایسی ہی تھی جیسے شیطان کو ڈھیل دی گئی ہے.م الله سة لیکن اس سے پہلے لوگ یہی سمجھتے تھے کہ ابو جہل آرام میں ہے اور رسول کریم صلی علی یم تکلیف میں ہیں.تو اللہ تعالیٰ کا انسان کے ہاتھ بن جانا یا پاؤں بن جانا یا زبان بن جانا معنے نہیں رکھتا کہ ایسا انسان مصیبتوں سے حفوظ ہو جاتا ہے بلکہ اس کا مفہوم یہ ہوتا ہے کہ ایسا انسان ان مصائب سے محفوظ ہو جاتا ہے جو تباہ کرنے والی ہوتی ہیں.ورنہ ظاہری تکالیف انبیاء کو بھی پہنچتی ہیں ، صدیقوں کو بھی پہنچتی ہیں، شہیدوں کو بھی پہنچتی ہیں اور صالحین کو بھی پہنچتی ہیں بلکہ شہید تو کہتے ہی اسے ہیں خدا تعالیٰ کی راہ میں مارا جائے.پھر ہم شہید کو شہید کیوں کہتے ہیں؟ اور ان دشمنوں کے متعلق جو لڑائی میں مارے جاتے ہیں یہ کیوں کہتے ہیں کہ وہ خد اتعالیٰ کے سے مارے گئے ہیں؟ اسی لئے کہ شہید کی شہادت خدا تعالیٰ کے فضلوں کے نیچے ہوتی ہے اور اس کے دشمنوں کی موت خدا تعالیٰ کی لعنت کے نیچے ہوتی ہے.دشمن کی موت کو تو ہم عذاب قرار دیتے ہیں مگر شہید کی موت کو انعام سمجھتے ہیں.چنانچہ بدر میں مارے جانے والے صحابہ کی ہم کتنی عزت کرتے ہیں لیکن بدر میں مارے جانے والے کفار کے متعلق کہتے ہیں کہ خدا نے محمد صلی ایم کی مخالفت کی وجہ سے ان پر عذاب نازل کیا.حالانکہ ایک ہی جگہ اور ایک ہی لڑائی میں الله

Page 286

* 1941 287 خطبات محمود دونوں مارے گئے تھے.کفار بھی اسی لڑائی میں ہلاک ہوئے اور صحابہ بھی اسی لڑائی میں شہید ہوئے.مگر ایک کے متعلق تو ہم کہتے ہیں کہ خدا تعالیٰ نے ان پر بڑا فضل انعامات سے نوازا اور دوسروں کے متعلق کہتے ہیں کہ ان پر کیا اور انہیں اپنے انعامات تعلق ہے غضب نازل ہوا.اس کی وجہ یہی ہے کہ ایک گروہ تو خدا تعالیٰ کے فضلوں کے مرا اور دوسرا گروہ اس کی لعنتوں کے نیچے مرا.تو اللہ تعالیٰ کا انسان کے ہاتھ ہو جانا یا پاؤں بن جانا یہ معنے نہیں رکھتا کہ ایسے انسان تکلیفوں سے بچ جاتے ہیں بلکہ یہ معنے ہوتے ہیں کہ ایسے انسان اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے نیچے آجاتے ہیں اور ان کا اللہ تعالیٰ کے ساتھ ایسا اتصال ہو جاتا ہے کہ ان کی خواہشات خدا کی خواہشات بن جاتی ہیں اور ان کی آرزوئیں خدا کی آرزوئیں بن جاتی ہیں.اس لئے وہ کبھی کوئی ایسی خواہش نہیں کر سکتے جس نے رد ہو جانا ہو.مگر اس کے یہ معنے بھی نہیں کہ گھروں میں روز مرہ پیش آنے والے امور کے متعلق بھی ان کی ہر خواہش پوری ہو جاتی بلکہ اس سے مراد صرف وہ خواہشات ہیں جو انسانی زندگی کے مقاصد کے ساتھ رکھتی ہیں.مثلاً یہ تو ہو سکتا ہے کہ خدا تعالیٰ کے ایک مقرب انسان کو پیچش کی شکایت ہو اور اس کی طبیعت خشکے 3 کو چاہے تو وہ گھر میں تیار نہ ہو مگر ہو مگر یہ نہیں ہو سکتا کہ اس کی وہ خواہشات پوری نہ ہوں جو اس کی زندگی کے مقاصد کے ساتھ تعلق رکھتی ہیں.ورنہ بشریت کے ماتحت تو ایسا ہوتا ہی رہتا ہے کہ ایک انسان بعض دفعہ ایک چیز کی خواہش کرتا ہے اور وہ گھر میں موجود نہیں ہوتی.یا چاہتا ہے کہ فلاں کام ہو جائے مگر وہ حسب منشاء نہیں ہوتا لیکن ایسی خواہشات اپنے اندر کوئی خاص اہمیت نہیں رکھتیں.اور بعض دفعہ تو ایک گھنٹہ گزرنے کے بعد انسان کو یاد بھی نہیں رہتا کہ اس کے دل میں کیا خواہش پیدا ہوئی تھی.پس جو خواہشات ایسے انسان کی لازماً پوری ہوتی ہیں وہ وہی ہوتی ہیں جو اس کی زندگی کے مقاصد کے ساتھ تعلق رکھتی ہیں اور جن کے پورا نہ ہونے سے اس کا آرام دکھ سے بدل جاتا ہے.عام خواہشات اس میں شامل نہیں اور نہ ہی وہ اتنی اہم ہوتی ہیں بلکہ بعض دفعہ تو

Page 287

خطبات محمود 288 * 1941 حصہ انسان ایسی خواہش کے پورا ہونے پر اسی وقت ہنس پڑتا اور ملال جاتا رہتا ہے.پس اس کے یہ معنی نہیں کہ ایسے انسان کی ہر خواہش پوری ہو جاتی ہے بلکہ صرف وہ خواہشیں پوری ہوتی ہیں جو اس کی زندگی کے مقاصد کے ساتھ تعلق رکھتی ہیں.تحریک جدید کی غرض بھی یہی ہے کہ وہ لوگ جو اس کے چندہ میں لیں خدا ان کے ہاتھ بن جائے، خدا ان کے پاؤں بن جائے، خدا ان کی آنکھیں بن جائے، اور خدا ان کی زبان بن جائے اور وہ ان نوافل کے ذریعہ خدا تعالیٰ سے ایسا اتصال پیدا کر لیں کہ ان کی مرضی خدا کی مرضی اور ان کی خواہشات خدا کی خواہشات ہو جائیں.اس عظیم الشان مقصد کو اپنے سامنے رکھتے ہوئے تم غور کرو کہ جب تمہارا اس تحریک میں حصہ لینے سے مقصد یہ ہے کہ خدا تمہارے ہاتھ بن جائے، خدا تمہارے پاؤں بن جائے، خدا تمہاری آنکھیں بن جائے اور خدا تمہاری زبان بن جائے تو کیا خدا کبھی سست ہوتا ہے؟ اگر نہیں تو تمہیں سمجھ لینا چاہئے کہ اگر تمہارے اندر سستی پیدا ہو گئی ہے تو تمہارا نفل کوئی اچھا نفل نہیں اور اس میں ضرور کوئی نہ کوئی نقص رہ گیا ہے.ورنہ یہ کس طرح ممکن تھا کہ نوافل کے ذریعہ خدا تمہارے ہاتھ بن جاتا اور پھر بھی تمہارے ہاتھوں میں کوئی تیزی پیدا نہ ہوتی.خدا کا طریق تو یہی ہے کہ وہ اپنے کاموں میں جلدی کرتا ہے اور جس کام کے کرنے کا ارادہ کرتا ہے وہ فوراً ہو جاتا ہے.پس جو شخص تحریک جدید کے چندہ میں تو لیتا ہے مگر اس چندہ کی جلد ادائیگی کا فکر نہیں کرتا اسے سمجھنا چاہئے کہ اس کا فعل ناقص ہے.ورنہ یہ کس طرح ہو سکتا تھا کہ خدا اس کے ہاتھ اور پاؤں بن جاتا اور پھر بھی وہ نیکی میں پیچھے رہ جاتا.کیا یہ ممکن ہے کہ خدا کسی کے ہاتھ بن جائے اور وہ نیکی میں پیچھے رہ جائے یا خدا کسی کے پاؤں بن جائے اور پھر بھی وہ ثواب کے کاموں کے لئے حرکت نہ کرے اور خدا اس کی زبان بن جائے اور پھر بھی وہ جھوٹا وعدہ کرے.جس شخص کے ہاتھ اور پاؤں خدا بن جاتا ہے وہ کبھی نیکی میں پیچھے نہیں رہ سکتا اور جس شخص کی زبان خدا بن جاتا ہے وہ کبھی جھوٹا وعدہ

Page 288

* 1941 خطبات محمود کہ 289 نہیں کر سکتا.پھر یہ کس طرح تسلیم کیا جا سکتا ہے کہ ایک شخص کی زبان تو خدا کی زبان ہو گئی مگر وہ سارا سال اپنی زبان سے جھوٹا وعدہ کرتا رہایا اس کے ہاتھ تو خدا تعالیٰ کے ہاتھ بن گئے مگر وہ ہمیشہ شل اور مفلوج رہے اور کبھی انہیں توفیق وہ اپنے وعدہ کے پورا کرنے کے لئے آگے بڑھتے.یہ ناممکن اور قطی طور پر ناممکن ہے اور اگر کسی شخص کے اندر یہ بات پائی جاتی ہے تو اس کے متعلق سوائے اس کے اور کیا سمجھا جا سکتا ہے کہ اس کا یہ دعویٰ کہ اس کی زبان خدا کی زبان ہے، اس کے ہاتھ خدا کے ہاتھ ہیں اور اس کے پاؤں خدا کے پاؤں ہیں محض جھوٹ ہے.اگر اس کی زبان خدا کی زبان ہوتی تو وہ کوشش کرتا کہ اپنے وعدہ کو وقت پر پورا کرے.کیونکہ خدا کی زبان جھوٹی نہیں ہو سکتی اور اگر اس کے ہاتھ خدا کے ہاتھ ہوتے تو وہ کبھی دین کے کاموں میں حصہ لینے کے موقع پر شل نہ ہو جاتے.کیونکہ خدا کے ہاتھ مغلول نہیں ہوتے.قرآن کریم میں آتا ہے کہ یہود ہنسی کے طور پر کہا کرتے تھے کہ کیا خدا کے ہاتھ شل ہیں او روہ مغلول ہے کہ ہم سے چندہ طلب کرتا ہے.قرآن کریم اس کا جواب دیتے ہوئے فرماتا ہے کہ خدا کے ہاتھ شل نہیں بلکہ تمہارے اپنے ہاتھ شل ہیں کیونکہ اگر تم سمجھتے کہ ہمارا دینا خدا کا دینا ہے تو تم خوشی سے چندے دیتے لیکن جب تم اپنے دل میں انقباض محسوس کرتے ہو تو معلوم ہوا کہ تمہارا ہاتھ خدا کا ہاتھ نہیں اور جب تمہارا ہاتھ خدا کا ہاتھ نہیں تو تمہارے اپنے ہاتھ مفلوج ہوئے نہ کہ خدا کے ہاتھ.4 پس میں ان تمام دوستوں کو جنہوں نے تحریک جدید کا چندہ ادا کرنے کا وعدہ کیا ہوا ہے تو جہ دلاتا ہوں کہ اگر وہ اپنے چندہ کو مئی میں ادا نہیں کر سکے تو اب اس کی ادائیگی کا فکر کریں کیونکہ انسان کی نیکی اور تقویٰ کا معیار یہ ہوتا ہے کہ ہے کہ جب اس سے اس سے کوئی غفلت یا سستی ہو جائے یا بعض مجبوریوں کی وجہ سے کسی نیک تحریک میں جلد حصہ نہ لے سکے تو وہ نیکی کو اور بڑھا کر کرتا ہے تاکہ اس کی غلطی اور شستی کا کفارہ ہو جائے.دنیا میں کئی مجبوریاں بھی گناہ کی وجہ سے پیدا ہوتی ہیں اور بسا اوقات دل پر

Page 289

* 1941 290 خطبات محمود گناہوں کا زنگ لگ جانے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ ظاہر میں مجبوریاں پیدا کر دیتا ہے تا وہ ثواب کے اعلیٰ مقام کو حاصل نہ کر سکے.پس وہ دوست جو مئی تک اپنے وعدوں نہیں کر سکے انہیں کوشش کرنی چاہئے کہ وہ اپنے وعدوں کو جون یا جولائی وہ میں پورا کر دیں تاکہ ان کی پچھلی غفلت کا کفارہ ہو سکے.اگر کوئی سمجھتا ہے کہ اکتوبر میں اپنا چندہ ادا کر سکتا ہے لیکن اس وجہ سے کہ وہ مئی میں ادا کر کے سابِقُونَ میں شامل نہ ہو سکا.اب کفارہ کے طور پر اگست میں ادا کر دیتا ہے تو وہ بھی اللہ تعالیٰ کے حضور ویسا ہی ثواب کا مستحق ہے جیسے مئی میں ادا کرنے والے اور اگر کوئی شخص جولائی میں چندہ ادا کرنے کی طاقت رکھتا ہے لیکن وہ اپنی غفلت کے کفارہ کے طور پر اور اپنے نفس پر تکلیف برداشت کر کے جون میں چندہ ادا کر دیتا ہے تو وہ بھی اللہ تعالیٰ کے حضور ویسا ہی سمجھا جائے گا جیسے مئی میں ادا کرنے والے کیونکہ جب کسی سے غفلت ہو جائے تو بعد میں خواہ مقدار کے لحاظ سے زیادہ قربانی کرے اور خواہ تکلیف اٹھا کر میعاد سے قبل اپنے وعدے کو پورا کر دے.دونوں صورتوں میں اس کی کوتاہی کا کفارہ ہو جاتا ہے اور وہ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کا مستحق بن جاتا ہے.مجھے افسوس ہے کہ بعض لوگ یہ خیال کر لیتے ہیں کہ چونکہ اب مقررہ وقت گزر گیا ہے اس لئے جلدی کی کیا ضرورت ہے؟ ایسے لوگ وقت کے گزر جانے وجہ سے اور بھی سست ہو جاتے ہیں اور خیال کرتے ہیں کہ اب انہیں جلدی کوئی ضرورت نہیں.مگر میرے نزدیک اس سے زیادہ بد قسمتی کی اور کوئی بات نہیں ہو سکتی کہ انسان پہلے تو کسی مجبوری کی وجہ سے نیکی سے محروم رہے اور بعد میں بے ایمانی کی وجہ سے نیک کام میں حصہ نہ لے سکے.حالانکہ جو لوگ مجبوری کی وجہ سے کسی نیک کام میں شریک ہونے سے ایک وقت محروم رہتے ہیں.وہ بعد میں اگر اپنی کوتاہی کا ازالہ کر دیں تو بہت کچھ ثواب حاصل کر لیتے ہیں لیکن اپنی کوتاہی کا ازالہ نہ کرنے والے اللہ تعالیٰ کی رحمت سے حصہ نہیں لے سکتے.مثلاً

Page 290

* 1941 291 خطبات محمود وہ لوگ جنہوں نے مئی میں چندہ ادا کیا ہے بالکل ممکن ہے کہ ان میں کوئی شخص ایسا ہو جو دس ہزار روپیہ دینے کی توفیق رکھتا ہو مگر اس نے دیئے صرف دس روپے ہوں.اب ہمارے نزدیک تو وہ مئی میں چندہ ادا کرنے کی وجہ سے سَابِقُونَ میں سمجھا جائے گا مگر خدا تعالیٰ کے نزدیک اس کی کوئی قیمت نہیں ہو گی کیونکہ وہ دس ہزار روپیہ دینے کی طاقت رکھتا تھا مگر اس نے صرف دس روپے دیئے.دوسری طرف ممکن ہے کہ ایک شخص اکتوبر میں چندہ دے سکتا ہے مگر وہ اپنے نفس پر تکلیف برداشت کر کے جون یا جولائی میں چندہ ادا کر دیتا ہے.اب ہمارے نزدیک تو وہ مئی میں چندہ ادا کرنے والوں سے باہر سمجھا جائے گا لیکن خدا تعالیٰ کے نزدیک ہے وہ مئی کے مہینہ میں چندہ ادا کرنے والے کئی لوگوں سے بہتر ہو کیونکہ اس نے اپنی طاقت سے زیادہ قربانی کی.پس کسی کا اس ابتلاء میں مبتلا ہونا کہ جب مئی میں میں وعدہ پورا نہیں کر سکا تو اب جلدی کی کیا ضرورت ہے؟ اس کی بہت بڑی بدقسمتی کی علامت ہے اور اس کے یہ معنی ہیں کہ اس کا پہلا کام جو بندوں کی نظر میں برا لیکن خدا کی نظر میں اچھا تھا اب وہ خدا کی نگاہ میں بھی برا بن گیا ہے.پس اس قسم کا خیال اگر کسی کے دل میں پیدا ہو تو اسے جلد سے جلد دور کر دینا چاہئے اور جہاں تک ہو سکے تکلیف اٹھا کر وقت سے پہلے اپنا چندہ ادا کرنے کی شش کرنی چاہئے.میں نے بار بار بتایا ہے کہ یہ روپیہ سلسلہ کے لئے جائداد پیدا کرنے پر لگایا جاتا ہے اور اس روپیہ سے جو زمینیں خریدی گئی ہیں اگر وقت پر ہم اس کی قسط ادا نہ کریں تو دس فی صدی حرجانہ پڑ جاتا ہے.پس جتنی جتنی کوئی شخص چندہ ادا کرنے میں دیر لگاتا ہے اتنی ہی وہ اپنے ثواب میں کمی کرتا اور سلسلہ پر دس في صدى حرجانہ ڈالنے کا باعث بنتا ہے.میں امید کرتا ہوں کہ جو دوست اب تک تحریک جدید کا چندہ ادا نہیں کر سکے وہ اب جلد سے جلد ادا کرنے کی کوشش کریں گے.اول تو وہ کوشش کریں کہ جون میں ہی ان کا چندہ ادا ہو جائے اور اگر جون میں ادا نہ کر سکیں تو جولائی میں

Page 291

* 1941 292 خطبات محمود ادا کرنے کی کوشش کریں اور اگر جولائی میں ادا نہ کر سکیں تو اگست میں ادا کرنے کی کوشش کریں تا خدا تعالیٰ کے حضور وہ ان لوگوں میں شامل ہو جائیں جو سباق کی روح اپنے اندر رکھتے اور نیکیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں.ہمارے نزدیک تو اب مئی میں ادا کرنے والوں کی لسٹ میں نہیں آ سکتے مگر خدا کے نزدیک ممکن ہے کہ وہ اپنے اخلاص کی وجہ سے مئی میں ادا کرنے والوں کی فہرست میں آ جائیں بلکہ ممکن ہے ایک شخص جون یا جولائی یا اگست میں چندہ ادا کر کے خدا کے حضور اپریل بلکہ مارچ میں ادا کرنے والوں کی لسٹ میں آ جائے.اس کے بعد میں زمینداروں کو بھی اس تحریک کی طرف توجہ دلاتا ہوں.دفتر کی غلطی کی وجہ سے اس دفعہ زمیندار دوستوں کے لئے بھی مئی کے آخر تک چندہ ادا کرنے کی تاریخ مقرر کر دی گئی تھی حالانکہ زمیندار مئی کے مہینہ میں کوئی چندہ نہیں دے سکتے.کیونکہ مئی میں ان کی کوئی فصل نہیں نکلتی.وہ خریف کی فصل کی وجہ سے یا تو جنوری اور فروری میں ادا کر سکتے ہیں اور یا پھر ربیع کی فصل کی وجہ سے جون اور جولائی میں چندہ ادا کر سکتے ہیں.پس دفتر کو چاہئے تھا کہ زمینداروں کے لئے تیس جون یا 15 جولائی تک کی تاریخ مقرر کرتا مگر اس نے غلطی سے زمینداروں کے لئے بھی 31 مئی تک کی تاریخ مقرر کر دی لیکن پھر بھی بعض مخلص زمینداروں نے اپنا چندہ ادا کر دیا ہے خواہ انہیں کہیں سے قرض لے کر ہی ادا کرنا پڑا ہے.بہر حال چونکہ زمینداروں کے لئے یہ تاریخ موزوں نہیں تھی جس کی وجہ وجہ سے اکثر زمیندار دوست چندہ ادا نہیں کر سکے اس لئے باقی زمیندار دوست کوشش کریں کہ جون کی 30 تاریخ تک یا جولائی کی 15 تاریخ تک اپنا چندہ ادا کر دیں.اس عرصہ میں ان کی فصل فروخت ہو جائے گی اور انہیں اپنی رقم کے کرنے کا موقع مل جائے گا.اس کے ساتھ ہی جو لوگ تحریک جدید کے بقایا دار ہیں انہیں بھی میں بقایوں کی ادائیگی کی طرف توجہ دلاتا ہوں.اس وقت تک گزشتہ سالوں کا

Page 292

* 1941 293 خطبات محمود پچیس تیس ہزار کے قریب روپیہ وصول کے قابل رہتا ہے.مگر ان بقایا داروں میں سے بعض دوست کچھ ایسے مستقل مزاج واقع ہوئے ہیں کہ باوجود اس کے کہ اب جدید کا ساتواں سال گزر رہا ہے.انہوں نے وعدہ کے باوجود کسی ایک سال بھی ادا نہیں کیا یا صرف ایک یا دو سال میں چندہ ادا کیا ہے اور باقی سالوں میں کوئی رقم ادا نہیں کی.فرض کرو انہوں نے تیسرے سال چندہ لکھوایا تھا تو وہ سال گزر گیا اور انہوں نے چندہ میں ایک پیسہ بھی ادا نہ کیا.پھر چوتھا سال شروع ہوا تو انہوں نے اصرار کر کے چوتھے سال میں اپنا چندہ لکھوایا اور کہا کہ اب وہ تیسرے سال کا بھی چندہ ادا کریں گے اور چوتھے سال کا بھی.مگر چوتھا سال بھی گیا اور انہوں نے نہ تیسرے سال کا چندہ ادا کیا نہ چوتھے سال کا.پھر پانچواں سال شروع ہوا اور انہوں نے اصرار کر کے کہا کہ پانچویں سال میں ہمارا اتنا وعدہ لکھ لیا جائے.ہم پچھلے سالوں کا چندہ بھی ادا کریں گے اور اس سال کا بھی.مگر نہ انہوں نے تیسرے سال کا چندہ دیا، نہ چوتھے سال کا چندہ دیا اور نہ پانچویں سال کا چندہ دیا.پھر چھٹا سال شروع ہوا تو انہوں نے اپنا چندہ لکھوا دیا، مگر چھٹے سال میں بھی نہ انہوں نے تیسرے سال کا چندہ دیا، نہ چوتھے سال کا چندہ دیا، نہ پانچویں سال کا چندہ دیا اور نہ چھٹے سال کا چندہ دیا.اب ساتواں سال شروع ہوا توا نہوں نے پھر اصرار کر کے اپنا وعدہ لکھوایا مگر ان کی حالت اب بھی وہی ہے کہ نہ تیسرے سال کا انہوں نے چندہ دیا ہے، نہ چوتھے سال کا چندہ دیا ہے، نہ پانچویں سال کا چندہ دیا ہے، نہ چھٹے سال کا چندہ دیا ہے، نہ ساتویں سال کا چندہ دیا ہے.ایسے لوگ چونکہ متواتر اور مسلسل ایک لمبے عرصہ تک جھوٹ کے مرتکب ہوئے ہیں اور چونکہ انہوں نے دین سے تمسخر اور استہزاء کیا ہے.اس لئے میں دفتر کو ہدایت کرتا ہوں کہ ایسے لوگوں کی لسٹ بھی وہ شائع کر دے تاکہ اگر ایک طرف ان لوگوں کے نام یادگار رہیں جنہوں نے سچائی اور دیانت کے ساتھ اپنے عہد کو پورا کیا تو دوسری طرف ان لوگوں کے نام بھی بطور یادگار محفوظ رہیں جنہوں نے جان بوجھ کر سلسلہ سے

Page 293

* 1941 294 خطبات محمود دھوکا کیا اور ایک جھوٹی عزت حاصل کرنے کے لئے وہ سالہا سال تک جھوٹ بولتے رہے.میرے نزدیک اگر ایک طرف مخلصین کا اخلاص ایسا ہے جو یاد رکھنے کے قابل ہے تو دوسری طرف یہ دھوکا بازی بھی ایسی ہے جو عبرت کے طور پر یاد رکھنے کے قابل ہے.اگر کسی چیز کے متعلق لوگوں کو مجبور کیا جائے اور کہا جائے کہ وہ اس میں ضرور حصہ لیں تو اگر ان میں سے کوئی سستی کرے تو وہ درگزر کے قابل سمجھی جا سکتی ہے اور خیال کیا جا سکتا ہے کہ اس کی اپنی مرضی شامل ہونے کی نہیں تھی.اسے چونکہ مجبور کیا گیا تھا اس لئے اس نے سستی دکھائی.مگر جس قربانی کے متعلق بار بار کہا جاتا ہے کہ وہ طوعی اور نقلی.اور اس میں شمولیت جبری نہیں بلکہ ہر شخص کی مرضی اور رضا و رغبت پر منحصر ہے اس میں اگر کوئی شخص اپنا نام پیش کر دیتا ہے اور پھر عملی رنگ میں کوئی قربانی نہیں کرتا اور نہ اپنے وعدے کو پورا کرتا ہے تو اس کے متعلق سوائے اس کے اور کیا سمجھا جا سکتا ہے کہ ایک جھوٹی عزت کا دلدادہ ہے اور چاہتا ہے کہ وہ کام بھی نہ کرے اور اس کا بھی ان لوگوں میں آ جائے جو مخلصین ہیں.پس چونکہ ایسے لوگوں نے ایک جھوٹی عزت حاصل کرنے کی کوشش کی تھی اس لئے میرے نزدیک یہ لوگ تعزیری طور پر اس بات کے مستحق ہیں کہ ان کے نام شائع کر دیئے جائیں تاکہ دوسروں کے لئے یہ نام عبرت کا موجب ہوں اور وہ کبھی اپنے آپ کو تطوع کے طور پر اس کام کے لئے پیش نہ کریں جس کے کرنے کے لئے وہ دل ہوں.اور اگر وہ خوشی سے کسی قربانی کے لئے اپنے آپ کو پیش کرتے ہیں تو پھر چاہے جان جان چلی جائے جائے انہیں اپنے عہد کو مرتے دم تک نبھانا چاہئے اور کسی قسم کی میں مبتلا نہیں ہونا چاہئے.ہاں ایسے لوگ جن کے ذمہ صرف ایک یا دو سال ہو ان کے نام شائع نہ کئے جائیں.ان کو بھی اور مہلت دی جائے تاکہ اگر مجبوری سے ایسا انہوں نے کیا ہے تو معافی لے لیں اور اگر جان بوجھ کر غفلت کی ہے تو اصلاح کر لیں.رقم : سے تیار نہ

Page 294

خطبات محمود 295 * 1941 میں امید کرتا ہوں کہ اب جبکہ تحریک جدید کے بہت سے سال گزر چکے ہیں دوست اس چندہ کو جلد ادا کرنے کی کوشش کریں گے.اب ساتواں سال گزر رہا ہے اور اگلے سال دو تہائی سے زیادہ سفر طے ہو جائے گا اور ایک تہائی باقی رہ جائے گا.اب بھی ساٹھ فیصدی حصہ گزر چکا ہے اور ساتواں دھا کہ شروع ہے.ایسے وقت میں بہت زیادہ ہوشیاری اور بیداری کی ضرورت ہوتی ہے اور ایسے وقت کا کام بہت زیادہ ثواب کا موجب ہوتا ہے.یہی وجہ ہے کہ تہجد کی عبادت بڑی مقبول ہوتی ہے کیونکہ اس وقت انسان تھک کر چور ہو چکا ہوتا ہے اور جب ایسی حالت میں انسان عبادت کے لئے کھڑا ہوتا ہے تو خدا کے حضور اس کی عزت بہت بڑھ جاتی ہے.تحریک جدید کے یہ دن بھی ایسے ہی ہیں جیسے بارہ بجے رات کے بعد کا وقت شروع ہوتا ہے.ایسے اوقات میں جو شخص بشاشت کے ساتھ دین کے کاموں میں حصہ لیتا اور مسلسل قربانی کرتا چلا جاتا ہے اس کی قربانی خدا تعالیٰ کے حضور بہت زیادہ مقبول ہوتی ہے کیونکہ وہ قربانی کر کے چور ہو چکا ہوتا ہے.پہلے سالوں میں ابھی اس کے ذخیرے خرچ نہیں ہوئے تھے مگر آخر میں وہ چندے دے دے کر تھک چکا ہوتا ہے اس لئے آخری سالوں میں وہ پہلے سالوں کے مقابلہ میں بہت زیادہ ثواب حاصل کر لیتا ہے.پس اس سال اور اگلے سال ہماری جماعت کے دوستوں کو چاہئے کہ وہ اپنے چندوں کو جلد سے جلد ادا کریں تاکہ اس کے نتیجہ میں وہ اللہ تعالیٰ سے زیادہ سے زیادہ ثواب حاصل کر سکیں." 1 بخاری کتاب الرقاق باب التَّوَاضُعِ الفضل 27 جون 1941ء) 2 السيرة الحلبية جز 3 صفحه 389 مطبوعہ مصر 1935ء 3 کہ: پھیکے اُبلے ہوئے چاول.سوکھا آٹا 4 وَقَالَتِ الْيَهُودُ يَدُ اللَّهِ مَغْلُولَةٌ غُلَتْ أَيْدِيهِمْ وَلُعِنُوا بِمَا قَالُوا (المائده :65)

Page 295

* 1941 296 (19) خطبات محمود جھوٹے مدعیان نبوت اور مدعیان الوہیت کی حالت فرمائی:.(فرمودہ 27، جون 1941ء) ، تعوذ اور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حسب ذیل آیات کی تلاوت وَمَا اخْتَلَفْتُمْ فِيْهِ مِنْ شَيْءٍ فَحْكُمُةَ إِلَى اللهِ ذَلِكُمُ الله رَبِّي عَلَيْهِ تَوَكَّلْتُ وَإِلَيْهِ أَنِيْبُ فَاطِرُ ط السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ جَعَلَ لَكُمْ مِنْ أَنْفُسِكُمْ أَزْوَاجًا وَ مِنَ الْأَنْعَامِ أَزْوَاجًا يَذْ قُكُمْ فِيْهِ لَيْسَ ج ج كَمِثْلِهِ شَيْءٍ وَهُوَ السَّمِيعُ البَصِيرُ.لَهُ مَقَالِيدُ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ يَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ يَشَاءُ وَ يَقْدِرُ إِنَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ 1..اس کے بعد فرمایا:.“ اللہ تعالیٰ کے قوانین بہت سے ہیں جو اس نے جاری فرمائے ہیں.ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ جب اس کی بارش نازل ہوتی ہے تو جہاں دانے اگتے ہیں، پھل اور سبزیاں پیدا ہوتی ہیں، درخت بڑھتے اور کھیتیاں لہلہاتی ہیں جن سے انسان فائدہ اٹھاتے ہیں، وہاں قسم قسم کی گندی روئید گیاں بھی پیدا ہو جاتی ہیں.چنانچہ ہمارے ملک میں ایک ایسی ہی روئیدگی بکثرت ہوتی ہے جسے پنجابی میں“ پر بہیڑا کہتے ہیں.یہ اتنی جلدی پیدا ہو جاتا ہے کہ رات کو جس جگہ کچھ بھی نظر نہیں آتا بارش کے بعد دن چڑھنے تک وہاں بیسیوں ”پر بہیڑے“ پیدا ہو جاتے ہیں.یہ بالعموم روڑیوں یعنی میلے کے

Page 296

خطبات محمود ہے.297 * 1941 ڈھیروں پر اُگتے ہیں.تو جہاں بارش کے بعد اچھی چیزیں پیدا ہوتی ہیں وہاں گندی بھی پیدا ہو جاتی ہیں.یہی قانون خدا تعالیٰ کا روحانی بارش کے متعلق ہے.جب انبیاء آتے ہیں تو ان کی بعثت کے ساتھ کئی کمزور طبیعت کے لوگ جو یہ خیال کرتے ہیں کہ شاید محض دعویٰ کر دینے سے ہی انسان اپنی بات منوا سکتا اور کامیاب ہو جاتا بعض دفعہ دانستہ اور بعض دفعہ نادانستہ طور پر ان مخفی خیالات کے ماتحت اس غلط فہمی میں مبتلا ہو جاتے ہیں کہ وہ بھی خدا تعالیٰ کے مامور اور مرسل ہیں.ہم دیکھتے ہیں کہ رسول کریم صلی ایم کی وفات کے بعد قریب کے زمانہ میں ہی چھ سات مدعیان نبوت پیدا ہو گئے.جب تک تو آفات و مصائب کا زمانہ تھا اور مشکلات در پیش تھیں اس وقت تک کوئی مدعی نبوت نہ تھا.جب تک آپ مکہ میں تھے اور نظارہ دکھائی دیتا تھا کہ مسلمانوں کو ماریں پڑ رہی ہیں، بائیکاٹ ہو رہے ہیں، گھر سے بے گھر کئے جاتے ہیں کوئی مدعی نبوت پیدا نہیں ہوا.کیونکہ ان حالات میں دماغ میں یہ حسرت ہی پیدا رت ہی پیدا نہیں ہو سکتی تھی کہ ہم بھی ایسے دعوے سے عزت حاصل کریں.لیکن جب اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت سے فتوحات حاصل ہوئیں، اسلام کو غلبہ عطا ہوا تو لانچی طبائع نے جھوٹ بنا کر یا اپنے گندے خیالات سے متاثر ہو کر یہ خیال کیا کہ ترقیات کی یہ آسان راہ ہے اور یہ بات ہی دراصل ایک بہت بڑا ثبوت ہوتا ہے اس بات کا کہ یہ مدعی یا تو بناوٹ سے کام لیتے اور جھوٹ بولتے ہیں اور یا اپنے لالچ اور حرص کے خیالات سے متاثر ہوتے ہیں اور انہی خیالات کے زیر اثر ان کو ایسے الہام بھی ہو جاتے ہیں.تکلیف کے زمانہ میں کسی ایسے مدعی کا نہ ہونا ان کے باطل پر ہونے کا زبر دست ثبوت ہے.مکہ کے زمانہ میں کوئی ایسا مدعی نہ تھا اور کوئی اس زندگی کو برداشت کرنے کے لئے تیار نہ تھا کہ ماریں کھائے، گھر سے نکالا جائے وغیرہ وغیرہ.اس وقت تک تو کسی کو یہ پتہ نہ تھا کہ رسول کریم صلى ال مدینہ میں جائیں گے، اللہ تعالیٰ کی نصرت حاصل ہو گی اور آپ دشمنوں پر غلبہ پائیں گے.اس لئے کسی کے دل میں بھی یہ جوش نہ پیدا ہوتا تھا کہ آپ کی مثل بنا

Page 297

* 1941 خطبات محمود 298 جائے.لیکن جب کامیابیاں شروع ہوئیں تو بعض پاجیوں نے تو خدا تعالیٰ پر جھوٹ بنا کر اور بعض لالچی طبائع نے اپنے دماغی خیالات کے زیر اثر الہام وغیرہ کی بناء پر ایسے دعوے کرنے شروع کر دیئے.یہی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں ہوا.کے زمانہ میں بھی جس وقت تک تکالیف اور دکھوں کا زمانہ تھا کوئی مدعی نبوت پیدا نہیں ہوا.لیکن جب کامیابیوں کا دور شروع ہوا تو کئی ایسے مدعی پیدا ہو گئے.بعض ایسے لوگوں نے جن کے نزدیک دنیوی عزت ہی اصل چیز ہوتی ہے یہ سمجھ لیا کہ ہم بھی دعویٰ کرتے ہیں اور اس طرح عزت پا جائیں گے.یا بعض کو ان کے خیالات نے متمثل ہو کر ایسے خواب دکھائے کہ وہ سمجھنے لگے کہ واقعی وہ مامور ہیں.یہ خواب وہی حیثیت رکھتے ہیں جیسے کہتے ہیں کہ بلی کو چھیچھڑوں کے خواب.چونکہ ان کے خیالات اس قسم کے ہوتے ہیں اس لئے ان کو خواب بھی ویسے ہی آنے لگتے ہیں.چراغ الدین جمونی اور ڈاکٹر عبد الحکیم وغیرہ ایسے ہی لوگوں میں سے تھے اور به سب اسی زمانہ کی پیداوار ہیں جب جماعت کامیابی کے رستہ پر چل پڑی تھی.1892ء، 1893ء اور 1894ء میں کوئی ایسا مدعی نظر نہیں آتا.چونکہ یہ وہ زمانہ تھا جب ماریں پڑتی تھیں، بائیکاٹ ہوتے تھے، دنیا کی لعن طعن سہنی پڑتی تھی.اس لئے کسی کو یہ لالچ اور حرص نہ پیدا ہوتی تھی کہ ہم بھی ایسا دعویٰ کریں لیکن کامیابی شروع ہوئی تو بعض لالچی طبائع نے اپنے خیالات کے نتیجہ میں آنے والے خوابوں کی بناء پر اور بعض نے جھوٹ ہی ایسے دعوے کرنے شروع کر دیئے.ایسے ہی ایک شخص کے متعلق ایک دوست نے مجھے ایک واقعہ سنایا جو اس نے خود ان سے بیان کیا تھا.یہ شخص ان میں سے تھا جو بناوٹ سے دعویٰ نہیں کرتے بلکہ جن کے خیالات متمثل ہو کر الہام کی صورت اختیار کر لیتے ہیں.اس نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام کی وفات پر اشتہار دے دیا کہ جو لوگ سمجھتے ہیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام کی وفات بے موقع ہوئی ہے وہ صحیح نہیں سمجھتے.مجھے الہام ہوا ہے کہ جماعت کو اس اس طرح ترقی ہونے والی ہے.حضرت خلیفہ اول نے حُسنِ ظنی سے کام لیتے ہوئے بھی

Page 298

* 1941 299 خطبات محمود اور یہ سمجھ کر کہ اس شخص نے جھوٹ تو بنایا نہیں وہ الہام بھی شائع کر دیئے.اس سے اس کے دل میں یہ خیال پیدا ہوا کہ اب تو میرے الہام خلیفہ وقت نے بھی شائع کر دیئے اس لئے ان کو بہت اہمیت حاصل ہو گئی اور اس نے اپنی علیحدہ پٹڑی جمانی وع کر دی اور اس نے خود اس دوست سے جس نے مجھے یہ بات سنائی کہا کہ ایک دفعہ انہی خیالات کی وجہ سے مجھے نماز میں ہنسی آگئی.میں نماز پڑھ رہا تھا کہ مجھے خیال آیا کہ اس طرح مجھے اللہ تعالیٰ کی طرف سے الہام ہوتے ہیں.اب مجھے بھی تائید و نصرت الہی حاصل ہو گی اور ترقیات حاصل ہوں گی.میرا گاؤں بھی قادیان کی طرح ترقی کرے گا یہاں بھی لنگر خانہ ہو گا، انجمن قائم ہو گی، روپیہ آئے گا او رہر طرف مجھے شہرت حاصل ہو گی.انہی خیالات میں اسے یہ یاد ہی نہ رہا کہ میں نماز میں کھڑا ہوں اور ہنسی آگئی.یہ اس بات کی علامت تھی کہ اسے جو الہام وغیرہ ہوتے تھے وہ دراصل اس کی حرص اور لالچ کا نتیجہ تھے.تو بعض لوگوں کو اپنے دماغی خیالات کے زیر اثر ایسے الہام بھی ہو جاتے ہیں جن کی بناء پر وہ ایسے دعوے کر دیتے ہیں اور بعض جھوٹ بولتے ہیں مگر یہ ہوتا اُسی وقت ہے جب وہ ہے، موسیٰ سلسلہ کی کامیابی کو دیکھ کر سمجھ لیتے ہیں کہ یہ ایک کامیابی کا آسان راستہ ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام کے زمانہ میں ایک ایسا شخص یہاں آیا، مہمان خانہ میں ٹھہرا، اس وقت ترقی شروع ہو چکی تھی.اس نے بعض لوگوں سے بیان کیا کہ مجھے بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے الہام ہوتا ہے کہ تو محمد ہے، عیسی ہے.بعض لوگوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام سے اس کا ذکر کیا.وہ مسجد میں آیا تو آپ نے دریافت فرمایا کہ سنا ہے آپ کو ایسے الہام ہوتے ہیں؟ اس نے کہا ہاں جس طرح آپ کو اللہ تعالیٰ محمد، موسیٰ، عیسی اور نوح وغیرہ ناموں کے ساتھ پکارتا ہے مجھے بھی پکارتا ہے.آپ نے فرمایا میاں یہ بھی خیال رکھو کہ شیطان جھوٹ بولا کرتا ہے خدا تعالیٰ نہیں.وہ ہمیشہ سچ بولتا ہے.جب اللہ تعالیٰ کسی کو محمد کہتا ہے تو وہ قرآن کریم کے معارف بھی اس پر کھولتا ہے اور

Page 299

* 1941 300 خطبات محمود اسے ایک نور عطا کرتا ہے اور رسول کریم صلی یا نیلم کے معجزات کی طرح اسے بھی معجزات عطا کرتا ہے.جب وہ کسی کو موسیٰ کہتا ہے تو اس کے لئے حضرت موسیٰ علیہ السلام جیسے حالات بھی پیدا کرتا ہے.جب کسی کو نوح کہتا ہے تو اس کے دشمنوں کی ہلاکت کے سامان بھی پیدا کر دیتا ہے.تم کو جب الہام ہوتا ہے کہ تو محمد ہے، موسیٰ ہے، نوح ہے، تو ساتھ کوئی چیز بھی ان انبیاء جیسی ملتی ہے یا نہیں؟ اس نے کہا کہ ملتا ملاتا تو کچھ نہیں صرف نام ہی ملتا ہے.آپ نے فرمایا کہ بس یہی ثبوت ہے اس امر کا کہ شیطان تمہارے ساتھ مذاق کرتا ہے، خدا تعالیٰ کی طرف یہ الہام نہیں.اگر خدا تعالیٰ کی طرف سے یہ نام عطا ہوتے تو وہ اس کے ساتھ ان نبیوں والے نشان بھی عطا کرتا.معلوم ہوتا ہے کہ یہ شیطان ہے جو تمہیں دھوکا دیتا ہے.قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے فرما دیا ہے کہ شیطان دھوکا دیا کرتا ہے لیکن خدا تعالیٰ سچے وعدے کرتا ہے.2 غرض ترقیات کے زمانہ میں کئی ایسے لوگ پیدا ہو جاتے ہیں جو دعوے کو ترقیات کا ایک ذریعہ سمجھ کر ایسے دعوے کر دیا کرتے ہیں.یہ گویا اس مامور الہی کی صداقت پر نفوس کی شہادت ہوتی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام کے زمانے میں بھی ایسے دعوے اس بات کا ثبوت تھے کہ ان لوگوں کے نفس تسلیم کرتے ہیں کہ آپ کو کامیابی حاصل ہو گئی ہے ورنہ انہیں ایسا دعویٰ کرنے کا خیال بھی نہ آتا اور اگر وہ نیک نیتی سے دعوے کرتے ہیں تو انہیں ایسے خواب نہ آتے کیونکہ جب تک عمدہ اور خوش نما نظارہ محرک نہ ہو ایسے خواب نہیں آتے.کئی ایسے مدعیان اپنے اشتہار وغیرہ مجھے بھجواتے رہتے ہیں.پرسوں کی ڈاک میں بھی ایک ایسا اشتہار آیا.اس میں ایک مدعی نبوت دوسرے کا جواب لکھ رہا ہے اور دوسرا دوسرا پہلے کو اپنا مرید بتا اپنا ا مرید بتاتا ہے اور لکھتا.کہ تو نے میری بیعت کی تھی.ایسے پاگل لوگوں کی باتوں کا اثر گو عام طور پر نہیں ہے وہ اسے اپنا مرید ظاہر ر کرتا ہے ہوتا تاہم ایسے خیالات چونکہ پیدا ہوتے رہتے ہیں اور بعض نام نہاد صوفی بھی ایسی

Page 300

* 1941 301 خطبات محمود باتیں کرتے رہتے ہیں اس لئے اس اشتہار میں سے ایک بات کے متعلق کچھ بیان کر دینا میں نے مناسب سمجھا.میں اس روز بیمار تھا اور کوئی غور و فکر کا کام تو کر نہ سکتا تھا اس لئے اس رسالہ کو اٹھا کر پڑھنے لگا.جس شخص نے یہ اشتہار لکھا ہے وہ دوسرے کو کہتا ہے کہ تم نے خدائی کا دعویٰ کیا ہے اور اپنے آپ کو خدا تعالیٰ کا مثیل قرار دیا ہے اور لکھا ہے کہ اللہ کا نام پانے کے لئے میں ہی مخصوص کیا گیا ہوں اور کسی کو اس امت میں سے یہ نام حاصل نہیں.اور جب لوگوں نے یہ اعتراض کیا کہ یہ نہایت ناپاک گندا دعویٰ ہے تو اس نے اس کا جواب دیا کہ دعویٰ تو میں نے احمدیوں کو چپ کرانے کے لئے کیا ہے.کیونکہ ان کے مرزا صاحب نے لکھا ہے کہ اس امت میں سے نبی کا نام پانے کے لئے میں ہی مخصوص کیا گیا ہوں.اگر تو اشتہار لکھنے والے نے یہ بات اپنے پاس سے کہی ہے تو وہ خود اس کا ذمہ دار ہے لیکن اگر یہ صحیح ہے تو اس کی مثال ایسی ہی ہے جیسے کہتے ہیں کہ کسی گاؤں کے نمبردار کے ہاں شادی تھی اس نے دوسرے لوگوں کے ہاں سے برتن منگوائے.ایک بے وقوف آدمی تھا اس کے ہاں سے بھی ایک کٹورا منگوایا اور شادی کے بعد باقی لوگوں کے برتن تو واپس ہوگئے مگر اتفاق سے اس بے وقوف کا کٹورا رہ گیا.کچھ روز انتظار کے بعد وہ بے وقوف اس نمبر دار کے گھر اپنا کٹورا لینے آیا.اور اتفاق کی بات بھی کہ اس وقت وہ نمبر دار اس کے کٹورے میں ساگ ڈال کر کھا رہا تھا.یہ دیکھ کر اسے بہت غصہ آیا اور جوش کی حالت میں کہنے لگا کہ چوہدری یہ بات تو ٹھیک نہیں.ایک تو تم نے میرا کٹورا اب تک واپس نہیں کیا، دوسرے اس میں ساگ ڈال کر کھا رہے ہو.اچھا میں بھی کبھی تمہارا کٹورا مانگ کر لے جاؤں گا اور اس میں پاخانہ ڈال کر کھاؤں گا.تو یہ شخص بھی ایسا ہی جابل ہے جس نے کہا کہ چونکہ مرزا صاحب نے لکھا ہے کہ نبی کا نام پانے کے لئے میں ہی مخصوص کیا گیا ہوں اس لئے میں نے یہ کہہ دیا کہ خدا کا نام پانے کے لئے میں ہی مخصوص کیا گیا ہوں.بلکہ یہ تو اس سے بھی زیادہ بے وقوف ہوا جس نے کہا تھا کہ میں.

Page 301

* 1941 302 خطبات محمود تمہارے کٹورے میں پاخانہ ڈال کر کھاؤں گا.پاخانہ کھانا بھی تو بہت گندی بات ہے مگر اتنی نہیں جتنی کسی کا یہ کہنا کہ میں خدا ہوں.اس رسالہ کے مصنف نے بعض دلائل بھی دئے ہیں جن سے وہ مدعی الوہیت یا اس کے مرید اس کے اللہ تعالیٰ کے مثیل ہونے پر استدلال کرتے ہیں.ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ اس کے ایک مرید پر کسی نے اعتراض کیا کہ قرآن کریم تو شرک کی تردید کرتا ہے اور تم اپنے پیر کو خدا کا مثیل کہتے ہو.اس نے جواب دیا کہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْءٍ یعنی اس کی مثل کی مانند کوئی نہیں.پس اس سے ثابت ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ کا کوئی مشیل ضرور ہونا چاہئے.ہاں پھر اس مثیل جیسا کوئی اور نہ ہو سکے گا.اس رسالہ کا مصنف کہتا ہے کہ میں نے اسے کہا کہ اس آیت میں ک کے معنے یہ ہیں کہ خدا تعالیٰ کی ذات میں اس کا کوئی مشابہ نہیں اور مثل کے یہ معنے ہیں کہ اس کی صفات میں اس کا کوئی مشیل نہیں مگر معنے بھی غلط ہیں اور دونوں طرف سے جہالت کا مظاہرہ کیا گیا.چونکہ ہمارے ملک میں بعض جھوٹے صوفیاء بھی ہیں جو ایسے دعوے کرتے ہیں اس لئے میں نے مناسب سمجھا کہ اس کے متعلق کچھ بیان کر دوں.ایسے صوفیاء زمینداروں کے پاس عام طور پر آتے رہتے ہیں اور ان کو گمراہ کرتے رہتے ہیں اور انہیں ایسی باتیں بتاتے ہیں جن سے پتہ لگتا ہے کہ انسان خدا ہے اور خدا کا ہے.اس قسم کے کئی اباحتی لوگ پھرتے رہتے ہیں اور گندے خیالات لوگوں میں پھیلاتے رہتے ہیں.میں کئی دفعہ سنا چکا ہوں کہ اسی طرح کا ایک آدمی میرے پاس بھی ایک دفعہ اسی مسجد میں آیا تھا اور اس نے کہا تھا کہ نماز تو خدا تعالیٰ تک کا ذریعہ ہے پھر عارف کو نماز کی کیا ضرورت؟ جب دریا کا کنارہ آ جائے تو کشتی میں بیٹھے رہنے سے کیا فائدہ؟ میں نے اسے جو جواب دیا وہ میں کئی بار بیان کر چکاہوں.پس ایسے لوگوں کے خیالات کی وجہ سے میں نے مناسب سمجھا کہ اس کے متعلق کچھ بیان کر دوں.مثیل ہے.wwwwwwww

Page 302

خطبات محمود کا 303 * 1941 قرآن کریم ایسی زبر دست کتاب ہے کہ کوئی شخص اس کے غلط معنے کر ہی نہیں سکتا.لیسَ كَمِثْلِهِ شَيْءٌ کے معنے اس شخص نے جہالت کی وجہ سے یہ کئے کہ اس کی مثل کی مانند کوئی نہیں.مگر دیکھو کس طرح اسی آیت کے سیاق و سباق میں ہی اس کے بے ہودہ خیال کی تردید کر دی گئی ہے.اس آیت سے پہلی آیات میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَمَا اخْتَلَفْتُمْ فِيْهِ مِنْ شَيْءٍ فَحُكْمُةَ إِلَى اللَّهِ ذَلِكُمُ اللَّهُ رَبِّي عَلَيْهِ تَوَكَّلْتُ وَ إليه أنيب - اللہ تعالیٰ کی توحید کے متعلق جب بھی کوئی اختلاف کرتا ہے تو یاد رکھو کہ حکم اس موقع پر اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہوتا ہے یعنی یہ کوئی ایسی چیز نہیں کہ جس کا فیصلہ انسانی عقل سے تعلق رکھتا ہو.ایسے تعلق رکھتا ہو.ایسے امور میں اللہ تعالیٰ کا فیصلہ ظاہر ہے.اس نے اپنی صفات کو ظاہر کیا ہوا ہے.ان پر قیاس کر کے دیکھ لو کہ کوئی اس نا شریک ہو سکتا ہے یا نہیں؟ کہتے ہیں کسی نے خدائی کا دعویٰ کیا تھا ایسے لوگوں کو بعض پاگل ساتھی بھی مل جاتے ہیں.ایک زمیندار روز دیکھتا تھا کہ بعض لوگ اس کے ارد گرد جمع رہتے.مولوی آتے اور اس سے فلسفے چھانٹتے اور بحث مباحثہ کر کے چلے جاتے مگر اس پر کوئی اثر نہ ہوتا.زمیندار کو یہ دیکھ کر کہ یہ شورش روز بروز بڑھتی ہی جاتی ہے، بہت غصہ آتا.اس فقیر کا ڈیرا بھی زمیندار کے کھیت کے پاس تھا.سالہا سال کے بعد ایک دن اس زمیندار نے اس شخص کو اکیلا پایا اس کا کوئی مرید وغیرہ پاس نہ تھا یہ دیکھ کر وہ اس کے پاس پہنچا اور ادب سے گھٹنے ٹیک کر بیٹھ گیا اور دریافت کیا کہ کیا آپ خدا ہیں؟ اس نے کہا ہاں.زمیندار نے اُٹھ کر اسے گردن سے پکڑ لیا اور ایک گھونسہ رسید کر کے کہا تم نے ہی میرے باپ کو مارا تھا پھر ایک اور لگایا اور کہا تم نے ہی میری ماں کو مارا تھا میں تو بہت دیر سے تمہاری تلاش میں تھا، تم نے ہی میرے فلاں رشتہ دار کی جان لی تھی.پھر ایک اور گھونسہ لگایا اور کہا تم نے ہی میرے بیٹے پر موت وارد کی تھی.اس طرح وہ مارتا جاتا اور ایک ایک کر کے مرے ہوئے رشتہ داروں کے متعلق کہتا جاتا کہ کیا تم نے ہی ان کو مارا تھا.پھر اسی طرح اپنے مویشیوں کے مرنے اور فصلوں وغیرہ کے خراب ہونے پر ہی

Page 303

* 1941 304 خطبات محمود اس سے باز پرس کرتا گیا اور ساتھ ساتھ اسے پیٹتا بھی گیا.جب اسے پندرہ ہیں گھونسے اچھی طرح پڑے اور اس نے دیکھا کہ کسی طرح یہ سلسلہ ختم ہونے میں نہیں آتا چلا اٹھا کہ نہیں میں خدا نہیں ہوں.پس فرمایا محکمۂ إِلَى اللهِ.خدا تعالیٰ کی ہستی غالب اور وراء الوراء ہے کہ اس پر کسی کا قابو نہیں چلتا.اس کے تمام افعال حکمت کے ماتحت ہوتے ہیں اور اس کے لئے کسی دلیل کی ضرورت نہیں ہوتی، اس کی صفات ظاہر ہیں.اگر کوئی بندہ اپنے اندر وہ صفات ثابت کر دے تو ہم مان لیں گے.اگر کوئی اس کی طرح مُخی بن جائے، مُمِيت بن جائے، قَهَّار، جَبَّار، مُهَيْمِن الْعَزِیز اپنے آپ کو ثابت کر دے تو ہم مان لیں گے.لیکن اگر وہ ان صفات کا مالک نہیں تو اس کا خدائی کا دعویٰ محض بکواس ہے.پہلی آیت میں یہی بتایا ہے کہ یہاں ان لوگوں کا ذکر ہے جو خدا تعالیٰ کا شریک بناتے تھے.اور پھر فرمایا لیکم الله لي عليه وتلت اليه أنيب اے محمد (صلى ا) تو کہہ دے کہ یہ میرا رب ہے جس نے اپنی صفات کو ظاہر کیا ہے جو انسان خدائی کا مدعی ہے اسے تو دوسرا انسان پکڑ کرمار بھی سکتا ہے.مگر میرے خدا کو کوئی کہاں پکڑے گا.تم کہتے ہو کہ فلاں خدا تھا، فلاں خدا کا مظہر تھا اور خدا کا بیٹا تھا.مگر ان میں وہ صفات تم کہاں سے لاؤ گے جو میرے خدا نے ظاہر کی ہیں.وہ مُحْی ، مُمِیت ، قدوس، مُهَيْمِن، جَبَّارٍ ، قَتَار اور خدا تعالیٰ کی ان گنت صفات کہاں سے پیدا کریں گے؟ کیا وہ یہ صفات ظاہر کر سکتے ہیں ؟ اگر یہ صفات تم کسی کے اندر دکھا دو گے تو میں مان لوں گا.لیکن اگر یہ صفات نہیں تو پھر محض دعویٰ بکو اس ہی بکواس ہے.فرمایا تو کہہ دے میرا رب تو وہ صلے دیتا ہے.ہے جو زندہ ہے اور ایسے امور میں خود فیصلہ کر کے جھوٹے کو ذلیل کر عَلَيْهِ تَوَكَّلْتُ وَإِلَيْهِ أَنِيبُ.میرا انحصار اسی پر ہے اور اسی کی مدد سے میں جیئوں گا.تم ا جھوٹے خدا بنتے ہو اور میں سچے خدا کا پرستار ہوں اور اسی کا سہارا رکھتا ہوں.ایک شخص منہ سے اپنے آپ کو ہاتھی کہے اور دوسرا ہاتھی پر چڑھا ہو تو دونوں میں سے کس کی طاقت زیادہ ہو گی.اگر کوئی ممنہ سے کہے میں عربی گھوڑا ہوں اور اس کے

Page 304

* 1941 305 خطبات محمود مقابل کوئی بچہ ایک معمولی سی گھوڑی پر سوار ہو تو وہ بچہ اس سے آگے بڑھ جائے گا.اسی طرح فرماتا ہے کہ اے میرے رسول! تم ان سے کہہ دو کہ میں خدا نہیں ہوں مگر حقیقی خدا پر میرا سہارا ہے اور تم خود خدا بنتے ہو.اب دیکھیں دونوں میں سے کون جیتتا ہے؟ پھر فرمایا وَالَيْهِ أُنيب - تم کیا طاقت رکھتے ہو کمزور بندے ہو مگر میں اس خدا کی طرف جھکتا ہوں جو سب طاقتوں کا مالک ہے.جو شخص خدائی کا دعویٰ کرتا ہے وہ ہر قسم کی دعاؤں سے محروم ہو جاتا ہے.سچے خدا کا پرستار جب کسی تکلیف میں پڑتا ہے اس کا بچہ بیمار ہوتا ہے تو وہ خدا تعالیٰ کے آستانہ پر گر جاتا اور اس سے دعا کرتا ہے کہ میری تکلیف دور کر دے، میرے بچے کو شفا دے دے.قرض خواہ تنگ کرتے ہیں تو وہ خدا تعالیٰ کی طرف متوجہ ہوتا اور اس سے التجا کرتا ہے کہ میرا قرض خواہ مجھے ذلیل کرنا چاہتا ہے تو میری فریاد سن اور اس ذلت سے نجات کے سامان پیدا کر دے.اس سے ایک تو اس کے دل کی بھڑاس نکل جاتی ہے اور دوسرے ایک اطمینان حاصل ہو جاتا ہے کہ میرا ایک رب اور خدا ہے جو میری مدد کرے گا یا وہ گورنمنٹ کے کسی قانون کی زد میں آ جاتا ہے.تو خدا کے حضور جھکتا اور اس سے دعا کرتا ہے کہ میں کمزور ہوں حکومت طاقت ور ہے اس کے فوجیں ہیں اور ان کے گھمنڈ پر وہ مجھ پر ظلم کرتی ہے.میں بالکل بے بس اور بے کس ہوں اور حکومت کے ساتھ مقابلہ کی طاقت نہیں رکھتا.اے میرے خدا تو ہی میری مدد کر.اس سے اس کے دل کی بھڑاس بھی نکل جاتی ہے اور اگر صحیح طور پر دعا کی گئی ہو تو ز ہو تو زندہ خدا اس کی مدد بھی کرتا ہے.لیکن جو خود مدعی ہے کہ میں خدا ہوں.جب اس کے بیوی بچے بیمار ہوں اس کے دل میں ایک آگ لگی ہوئی ہوتی ہے وہ چاہتا ہے کہ میں چیخوں اور چلاؤں.مگر شر مندہ ہوتا ہے کہ کس طرح ایسا کروں جبکہ میں خدائی کا یا خدا کا مثیل ہونے کا مدعی ہوں جبکہ وہ سمیع،

Page 305

خطبات محمود 306 * 1941 بَصِير ، مُحْي ، مُمِيت، الشَّافِئ وغیرہ دعوے کرتا ہے تو بیوی یا بچہ کی بیماری کے وقت کسی دوسرے کے آگے کس طرح چلا سکتا ہے اور دعا کر سکتا ہے.اگر وہ خدا کے سامنے جھکے تو کیا لوگ تمسخر نہ کریں گے کہ تم تو خود خدا بنتے تھے اب کیوں کسی خدا کے سامنے جھکتے ہو.اور اگر وہ خدا کا مثیل ہونے کا مدعی ہو تو پھر بھی وہ خدا کے سامنے نہیں جھک سکتا کیونکہ جیسا خدا ویسا ہی وہ.پھر اسے خدا تعالیٰ دعا کرنے کی کیا ضرورت ہے.پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اے محمد ( صلی ) تو کہہ دے کہ ذلِكُمُ اللَّهُ رَبِّي عَلَيْهِ تَوَكَّلْتُ وَإِلَيْهِ أَنيب.یہ میرا رب ہے اسی پر میرا تو گل ہے اور اسی کی طرف مصیبت کے وقت میں جھکتا ہوں.عیسائی حضرت مسیح علیہ السلام کو خدا کہتے ہیں مگر انہیں یہودیوں نے صلیب پر لٹکایا تو انہوں نے کہا ایلی ایلی لما سبقتانی.3اے میرے رب، اے میرے رب، تو نے مجھے کیوں چھوڑ دیا؟ یہ فقرہ عیسائیوں چھنے والا ہے کیونکہ حضرت مسیح کے متعلق ان کے عقائد کو باطل قرار دیتا جب کو کتنا چھنے ہے.یہی وجہ ہے کہ اب بعض اناجیل میں سے اسے نکال دیا گیا ہے.حضرت حضرت مسیح خود تو الوہیت کے مدعی نہ تھے وہ تو اپنے آپ کو خدا تعالیٰ کا بندہ ہی سمجھتے تھے ان کا دل تو صلیب پر بھی مطمئن تھا کہ ابھی میرے لئے اپیل کی ایک اور جگہ باقی ہے.پیلاطوس نے گو مجھے یہود کے رحم پر چھوڑ دیا اور یہود نے میرے خلاف فیصلہ کر دیا مگر ان سب سے ان سب سے بالا ابھی ایک اور حکومت ہے اور میں اس کے پاس چلاؤں گا.چنانچہ انہوں نے نہایت تضرع سے خد اتعالیٰ کو مخاطب کر کے فرمایا کہ ايلى ايلى لما سبقتانی.اور اللہ تعالیٰ نے ان کو بچا بھی لیا اگر وہ صلیب سے نہ بھی بچتے تب بھی ان کا دل مطمئن تھا کہ میرا ایک نگران ہے جو یا تو مجھے بچالے گا یا اس کا بدلہ اگلے جہان میں انعامات کی صورت میں دے گا.مگر عیسائی اس فقر.کو پڑھ کر بہت گھبراتے ہیں کیونکہ وہ تو ان کو خدا بناتے ہیں اور یہ نہیں سوچتے کہ اگر ان کے اندر خدائی ہوتی، دنیا پر تصرف حاصل ہوتا تو وہ صلیب پر کسی

Page 306

خطبات محمود 307 * 1941 اور کو کیوں پکارتے؟ وہ تو ایک پھونک مارتے اور سب دشمنوں کو تباہ و برباد کر دیتے.تو یہ فقرہ حضرت مسیح کے لئے تو تسلی کا موجب تھا مگر ان کو خدا ماننے والوں کے لئے عذاب کا موجب ہے.اور وہ دل میں کہتے ہیں کہ کاش یہ فقرہ نہ ہوتا اور یہ کاش کاش انیس سو سال تک کہتے رہے ہیں گو اب اسے اڑا دیا ہے.پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اے محمد ! تو کہہ دے کہ میرا تو رب موجود ہے اور میں اسی کی طرف مصائب اور مشکلات کے وقت جھکتا ہوں اور اسی پر میرا سہارا ہے.اس لئے مجھے کوئی گھبراہٹ نہیں ہو سکتی.میں جانتا ہوں کہ میرے خدا نے رے لئے جو قانون بنایا ہے اسی پر عمل ہو گا تم میرا کچھ نہیں بگاڑ سکتے.اور جب مجھ پر ظلم کرتے ہو تو میں اس کی طرف جھکتا ہوں اور کہتا ہوں کہ اے میرے رب! مجھ پر ظلم ہوا.اس سے میرے دل کی بھڑاس نکل جاتی ہے اور تسلی ہو جاتی ہے کہ میرا خدا ضرور میری مدد کرے گا.مگر تم لوگ جسے خدا کا شریک بناتے ہو اور جسے دنیا کی پیدائش میں حصہ دار بناتے ہو جب یہ پڑھتے ہو کہ اس نے خود مصیبت کے وقت خدا تعالیٰ سے دعا کی، اور زاری کی تو تمہارا دل کتنا نادم ہوتا ہو گا اور ان کی یہ حالت دیکھ کر تمہارا کیا حال ہوتا ہو گا؟ میرے لئے تو میری دعائیں مصائب کے دور ہونے کا موجب ہوتی ہیں.مگر جنہیں تم خدا سمجھتے ہو ان کی ہر دعا تمہارے منہ پر تھپڑ بن کر لگتی ہے.ان کو جب بھوک پیاس لگتی ہو گی اور وہ خدا سے غذا اور پانی مانگتے ہوں گے تو وہ تو خدا سے کھانے اور پینے کی چیز پا کر اس کا شکر ادا کرتے ہوں گے کہ اس نے یہ نعمت انہیں عطا کی مگر ان کا کھانا اور پینا تمہارے منہ پر چپت بن کر لگتا ہے اور اس طرح تمہارے معبود تمہاری ذلت اور رسوائی کا موجب ہوتے ہیں.پھر فرمایا فَاطِرُ السَّمواتِ وَالْأَرْضِ.میرا خدا تو وہ ہے جو زمین اور آسمانوں کا پیدا کرنے والا ہے جس نے بغیر مادہ کے زمین و آسمان پیدا کر معبودانِ باطلہ تو خود پیدا ہونے والے ہیں.ان سے پوچھو تمہارے باپ کا کیا نام ہے، دادا کا کیا نام ہے، نانا اور نانی کا کیا نام ہے تو وہ نام بتائیں گے.مگر میرا خدا لیے مگر

Page 307

* 1941 308 خطبات محمود تو وہ ہے جس نے زمین و آسمان کو پیدا کیا اور دنیا کی ہر چیز کو پیدا کیا.جَعَلَ لَكُمْ مِّنْ أَنْفُسِكُمْ أَزْوَاجًا وَ مِنَ الْأَنْعَامِ أَزْوَاجًا.ہر چیز کے جوڑے بنائے ہیں.مرد کے لئے عورت جوڑا بنایا ہے اور عورت کے لئے مرد جوڑا بنایا ہے پھر جانوروں کے بھی جوڑے بنائے ہیں.يَذْرَدُّكُم فيهِ.اس تدبیر سے وہ تم کو کثرت بخشتا ہے نسل میں بھی اور مال میں بھی.لیکن اللہ تعالیٰ خودلَمْ يَلِدْ وَلَمْ يُولَدُ 4 ہے.نہ کسی نے اس کو جنا اور نہ اس نے کسی کو جنا.مگر انسانوں اور جانوروں کے لئے اس نے جوڑے بنائے ہیں اور اس ذریعہ سے ان کو کثرت بخشتا ہے اور اس طرح نسل ترقی کرتی ہے، مال رقی کرتا ہے.اگر جوڑے پیدا نہ کرتا تو نسل نہ بڑھ سکتی، سواری کے لئے گھوڑے مل سکتے ، گوشت کھانے کے لئے بکریاں نہ مل سکتیں، زراعت کے لئے بیل نہ مل سکتے اور اس طرح نہ تو دولت بڑھ سکتی اور نہ نسل چل سکتی.اس نے تمہارے لئے یہ کثرت کے سامان پیدا کر دیئے ہیں اور یہ کثرت ہی دلیل ہے اس بات کی کہ خدا نہیں ہو سکتے کیونکہ جس چیز کے بڑھنے کے سامان پیدا ہوں وہ محتاج الی الغیر ہوتی ہے.بڑھنے کا قانون جاری ہی ان اشیاء پر ہوتا ہے جنہوں نے اپنی ضرورت کے ختم ہونے سے پہلے فنا ہو جاتا ہو لیکن جو اشیاء اس وقت تک موجود رہتی ہیں کہ جس وقت تک ان کی ضرورت ہے ان کے متعلق بڑھنے کا کوئی قانون جاری نہیں ہو تا.انسان کی جس وقت تک اس دنیا میں ضرورت ہے اس وقت تک وہ زندہ نہیں رہ سکتا.اس لئے انسان کے اندر بڑھوتی کا قانون جاری کیا گیا ہے اور تناسل کا دروازہ اس کے لئے کھولا گیا ہے لیکن سورج چاند زمین چونکہ اس وقت تک قائم رہنے والے ہیں جب تک کہ ان کی ضرورت ہے.ان میں کوئی تناسل کا سلسلہ جاری نہیں.غرض جس چیز نے اپنی ضرورت کے مطابق قائم رہنا اور پھر ختم ہو جانا ہے اس کے لئے بیوی اور اولاد کی ضرورت ہے.جوڑے، اولاد اور تدقمر کا سلسلہ انہی کے لئے ہے جنہوں نے فنا ہو جانا ہوتا ہے.پہاڑوں کے لئے اس کی ضرورت نہیں.چاند، سورج اور ستاروں کے لئے نہیں.بیوی بچوں کی ضرورت ان کے لئے

Page 308

* 1941 309 خطبات محمود ہوتی ہے جنہوں نے فنا ہونا اور مٹ جانا ہوتا ہے.اس سال کی گندم پچھلے سال کی گندم کی نسل ہے اور گندم عام طور پر دس پندرہ سال سے زیادہ محفوظ نہیں رہ سکتی.ہزار سال تک ایک گندم کا سلسلہ جاری نہیں رہ سکتا اس لئے اس کے واسطے اولاد رو سلسلہ جاری کیا ہے.گو یہ تناسل ایک دوسرے قاعدہ کے ماتحت ہے مگر بہر حال ناسل کا سلسلہ جاری ضرور ہے.غرض جن چیزوں نے ہمیشہ کے لئے فائدہ نہیں دینا ہوتا اور ان کے اندر فنا کا سلسلہ جاری ہوتا ہے انہی کے لئے اولاد کا سلسلہ ہے.یہ سلسلہ کبھی نر اور مادہ کے ملنے سے اور کبھی بیچ اور زمین کے ملنے سے جاری ہوتا ہے.چنانچہ یہ قانون بیان فرما کر فرماتا ہے ليسَ كَمِثْلِهِ شَيْءٌ خدا تعالیٰ کا مثل کوئی نہیں یعنی باقی سب مخلوق جن قوانین کے ماتحت چل رہی ہے خدا تعالیٰ پر وہ قانون اثر انداز نہیں.سو اس بات سے نتیجہ نکلتا ہے ہے کہ اس جیسی کوئی چیز نہیں.باقی چیزیں جوڑوں سے ترقی کرتی ہیں ترقی کرتی ہیں اور اس لئے دوسروں کی محتاج ہوتی ہیں.اور یہ ثبوت ہوتا ہے اس بات کا کہ وہ خدا نہیں ہو سکتیں کیونکہ ان پر موت بھی وارد ہوتی ہے اور انہیں احتیاج بھی ہے.غرض كَمِثْلِہ سے یہ معنے لینا کہ اس کی ایک مثل ہو سکتی ہے جہالت کی بات ہے.اگر یہ معنے کرنے والا عربی لغات سے ذرا بھی واقف ہوتا تو ایسے معنے گز نہ کر سکتا.قرآن کریم عربی زبان میں ہے اردو میں نہیں کہ اس آیت کے معنے ہو سکیں کہ اس کی مثل کی مثل کوئی نہیں ہو سکتا.اس کا یہ ترجمہ کرنا ایسا ہی ہے جیسے آریہ کہتے ہیں کہ قرآن کا خدا مکار ہے.کیونکہ اس نے فرمایا ہے کہ واللہ خَيْرُ الْمَكِرِينَ 5 اردو میں تو مکار بُرے معنوں میں استعمال ہوتا ہے مگر عربی میں اس کے معنے تدبیر کے ہیں.پنجابی اور اردو کا مکر اور ہے اور عربی کا اور.اسی طرح لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْءٌ کے یہ معنے نہیں کہ اس کی مثل کی مثل نہیں ہو سکتی.عربی میں بعض حروف زائد ہوتے ہیں اور ان کے معنے صرف تاکید کے ہوتے ہیں.یہ ی" بھی ایسے حروف میں سے ایک ہے اگر عربی میں کہیں کہ لیسَ مِثْلُهُ شَيْءٌ تو اس کے - وو

Page 309

* 1941 310 خطبات محمود معنے ہوں گے کہ خدا کی مثل کوئی نہیں لیکن جب کہا جائے گا ليْسَ كَمِثْلِهِ شَيْءٍ تو اس کے معنے یہ ہوں گے کہ خدا تعالیٰ کی مثل ہونا تو بڑی بات ہے مثل بننے کے قریب بھی کوئی نہیں پہنچ سکتا غرض ہی ” نے مثل کا وجو د ثابت نہیں کیا بلکہ اس کی قطعی وو نفی کر دی ہے اور نفی میں تاکید کے معنے پیدا کر دیئے ہیں.عرب شعراء کے کلام میں بھی اس کی مثالیں ملتی ہیں چنانچہ ایک عرب شاعر نے کہا کہ : أَصْبَحْتَ مِثْلَ عَصْفٍ مَأْكُوْلٍ کہ تو کھائے ہوئے چارہ کی مانند ہو گیا یعنی بالکل ویسا ہی ہو گیا.پس اگر کسی فقرہ تو کید کا کوئی لفظ آئے تو اگر مثبت ہو تو اس کے معنے ہوتے ہیں کہ بالکل ہی ویسا ہو گیا اور اگر منفی ہو تو اس کے معنے ہوں گے کہ اس کے قریب بھی نہیں پہنچ سکا.پس ليسَ كَمِثْلِهِ شَيْءٌ کے معنے ہیں کہ خدا تعالیٰ کے مثل ہونا تو الگ رہا اس کی مثل ہونے کے قریب بھی کوئی نہیں پہنچ سکتا.بعض دفعہ ناقص مشابہت دو چیزوں میں سکتی ہے.پس مثل پر ہی ” کو بڑھا کر یہ مفہوم پیدا کیا گیا ہے کہ خدا تعالیٰ !.اور دوسرے وجودوں میں ناقص مشابہت بھی نہیں ہو سکتی.فرض کرو زید اچھا کاتب بھی ہے، صرفی نحوی بھی اور طبیب بھی ہے.اب اگر کوئی اور شخص اچھا کاتب ہو تو کہہ سکتے ہیں کہ وہ شخص زید کی طرح ہے.یہ ناقص تشبیہہ ہو گی جو صرف ایک خوبی کے اشتراک کی وجہ سے دی جا سکتی ہے.مگر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْءٌ ہم ایسے نہیں ہیں کہ کسی کو ناقص مشابہت بھی ہمارے ساتھ ہو سکے.گویا صرف یہ نہیں کہ میرے جیسا بَصِير ، سَمِيْع ، مُحْيِ مُمِيت اور قدوس کوئی نہیں بلکہ میری کوئی ایک صفت لے لو وہ بھی کسی دوسرے میں نہ پاؤ گے.صرف سمیع کی صفت لے لو.سب صفات میں تو کسی کا میرے جیسا ہونا الگ رہا صرف سمیع بھی میرے جیسا کوئی اور نہ ہو گا.پس ادھوری مشابہت بھی میرے ساتھ نہیں ہو سکتی.جیسا کہ میں نے اوپر مثال دی ہے کہ زید طبیب بھی ہے، کا تب بھی ہے اور صرفی اور نحوی بھی

Page 310

* 1941 311 خطبات محمود.اب یہ یہ ممکن ہے کہ اس کی طرح یہ تینوں صفات کوئی دوسرا نہ رکھتا ہو.مگر ایک صفت اس جیسی کسی میں ہو تو گو وہ سب صفات میں زید سے مشابہ نہیں تاہم ایک مشابہت کی بناء پر اسے اس جیسا کہا جا سکتا ہے.مگر ليسَ كَمِثْلِهِ شَيْءٍ سے مراد یہ ہے کہ ساری صفات میں شرکت تو الگ رہی ایک صفت میں بھی کوئی اس کا شریک نہیں.یہ تو الگ رہا کہ خدا جیسا کوئی بھی مُجِیب ،قُدُّرُس، جَبَّارِ، قَتَارِ، سَمِيع، بصیر ہو.اس سے تو ایسی مماثلت ہی ناممکن ہے کہ کسی ایک صفت کے لحاظ سے ہی کوئی اس جیسا ہو.ان آیات سے پہلے بھی یہی مضمون بیان کیا گیا ہے کہ خدا تعالیٰ کا کوئی مثل نہیں ہو سکتا اور خدا تعالیٰ کی بہت سی صفات بیان کرنے کے بعد فرمایا ہے کہ لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْءٌ جس سے صاف ظاہر ہے کہ اس آیت میں مثل کی نفی کی گئی ہے نہ کہ اس کا اثبات کیا گیا ہے.پس جس نے اس کے یہ معنے کئے ہیں کہ اس کی مثل کی مثل کوئی نہیں ہو سکتی وہ جاہل ہے.اس نے یہ سمجھ لیا ہے کہ شاید قرآن اردو زبان میں ہے اگر وہ عربی زبان سے واقف ہوتا تو اسے معلوم ہوتا کہ حرف تشبیہ کی تکرار عربی قاعدہ کے مطابق تو کید کے لئے آتی ہے.اور وہ آیت کے مضمون پر زور دیتی ہے نہ کہ نفی کرتی ہے اور بعد کا مضمون اس مفہوم کو اور پکا کرتا ہے کیونکہ اس سے آگے فرمایا وَهُوَ السَّمِيعُ البصير یعنی یہ کس طرح ممکن ہے کہ کوئی اس کی صفات میں اس سے مشابہ ہو سکے.دوسری صفات کو جانے دو صرف سمیع و بصیر کی صفات کو ہی لے لو.خدا جیسا سمیع اور بصیر بھی کوئی نہیں سکتا.یہ جو خدائی کے مدعی ہیں یہ سو رہے ہوتے ہیں اور بیوی پاس تکلیف سے ان کراہ رہی ہوتی ہے مگر ان کو کچھ پتہ نہیں ہوتا جب تک کہ اس کی چیخ نہ نکلے کے بچہ کی جان نکل رہی ہوتی ہے مگر ان کو کچھ علم نہیں ہوتا لیکن خدا تعالیٰ سَمِيع اور بصیر ہے اسے ذرہ ذرہ کی خبر ہے.اور دنیا میں لاکھوں کروڑوں انسان ایسے گزرے ہیں جنہوں نے اس کے سَمِیع اور بصیر ہونے کا تجربہ کیا ہے.ایک انسان اپنے بیوی بچوں سے چھپا کر دوستوں سے بھی پوشیدہ رکھ کر خدا تعالیٰ ނ

Page 311

* 1941 312 خطبات محمود ایک درخواست کرتا اور اسے پکارتا ہے تو وہ آسمان سے اس کے لئے سامان مہیا کر دیتا حالانکہ اس نے کسی کو بھی اپنی خواہش نہیں بتائی ہوتی، وہ صرف ایک ہی ہستی ہے کے سامنے اسے ظاہر کرتا ہے مگر وہ پوری ہو جاتی ہے.ایک مشہور بزرگ کے متعلق ایک واقعہ ہے کہ بادشاہ کسی دور دراز کے سفر پر اس بزرگ کے شہر سے کئی منزلوں کے فاصلوں پر تھا وہاں ایک وقت وہ غصہ کی حالت میں بیٹھا تھا کہ کسی مخالف نے موقع پا کر اس بزرگ کی شکایت کر دی کہ وہ ہمیشہ آپ کے خلاف منصوبے کرتا رہتا ہے اور بہت سے لوگ اس کے مرید ہیں.بادشاہ نے فوراً حکم دیا کہ انہیں حاضر کیا جائے.وہ بیچارے اپنے گھر میں آرام سے بیٹھے تھے کہ یہ حکم نامہ پہنچ گیا.وہ بہت حیران ہوئے کہ کیا معاملہ ہے.کہتے ہیں حکم حاکم مرگِ مفاجات.چار و ناچار روانہ ہوئے راستہ میں شام کا وقت ہو گیا اور ہر طرف جنگل ہی جنگل تھا اوپر سے بارش اور تیز آندھی آگئی اور وہاں کوئی جائے پناہ نہ تھی سوائے ایک جھونپڑی کے جس میں ایک لولا لنگڑا ایا بج رہتا تھا.انہوں نے اس سے جھونپڑی میں پناہ لینے کی اجازت مانگی.جب اس کی اجازت سے جھونپڑی میں بیٹھ گئے تو آپس میں باتیں ہونے لگیں.اس اپانچ نے کہا کہ میں تو سالوں سے یہیں پڑا ہوں.میل دو میل کے فاصلہ پر گاؤں ہے وہاں کے لوگ روٹی وغیرہ پہنچا دیتے ہیں اور پھر اس نے اس بزرگ سے پوچھا کہ آپ کہاں سے آئے ہیں.انہوں نے بتایا کہ میرا یہ نام ہے اور فلاں شہر کا رہنے والا ہوں.بادشاہ کا حکم پہنچا تھا کہ جس حال میں بھی ہو فوراً حاضر ہو جاؤ.چنانچہ میں چل پڑا.اس اپانچ نے یہ بات سنی تو کہا اچھا السّلام علیکم میں تو کئی سالوں سے آپ سے ملاقات کے لئے اللہ تعالیٰ سے دعائیں کر رہا تھا.آپ کی شہرت سنی تھی اور زیارت کی خواہش تھی مگر معذور تھا.میں تو پاخانہ پیشاب کے لئے بھی نہیں اٹھ سکتا اتنی دور کیسے جا سکتا ؟ ہاں دعا کرتا تھا کہ اللہ تعالیٰ زیارت کرا دے.یہ بادشاہ کے حکم والی بات تو یونہی ہے اور مجھے یقین ہے کہ یہ کوئی غلطی نکلے گی.آپ کو خدا تعالیٰ صرف میرے لئے

Page 312

* 1941 خطبات محمود 313 یہاں لایا ہے.وہ ابھی یہ باتیں کر رہے تھے کہ کسی نے باہر سے آواز دی کہ بارش ہو رہی ہے اجازت ہو تو اندر آ جاؤں.انہوں نے اجازت دے دی وہ اندر آیا تو اس سے بھی اپانچ نے پوچھا کہ تم کہاں سے آئے ہو اور کہاں جانا ہے.اس نے کہا کہ میں تو بادشاہ کا ایک حکم لے کر فلاں شہر میں فلاں بزرگ کے پاس جا رہا انہیں پہلے بادشاہ نے ایک حکم کے ذریعہ طلب کیا تھا اور اب اس نے کہا ہے کہ وہ حکم غلطی سے دیا گیا تھا آپ تکلیف نہ کریں.ہوں تھی اس سے بھی بڑھ کر میرا اپنا ایک مشاہدہ ہے جس سے معلوم ہوتا خدا تعالیٰ کس طرح بچوں کی بات بھی پوری کر لیتا ہے.ایک دفعہ بارش ہو رہی میں ابھی بچہ ہی تھا اور سخت پیچش لگی ہوئی تھی.میں کھڑ کی میں کھڑا بارش کا نظارہ رہا تھا اور اس سے بہت لذت پا رہا تھا کہ پیٹ میں درد اٹھا.نہ معلوم میر.دل میں کیا خیال آیا.میں نے کہا یا اللہ ! ابھی اس نظارہ سے میرا دل نہیں بھرا اس لئے تو ایسا کر کہ اب تو یہ نظارہ بند ہو جائے اور جب میں پاخانہ سے واپس آؤں تو پھر ہونے لگے.چنانچہ بارش فوراً بند ہو گئی اور جب پندرہ بیس منٹ کے بعد واپس آکر میں اس کھڑکی میں کھڑا ہوا تو پھر فوراً شروع ہو گئی.دیکھو کیا چھوٹی سی خواہش تھی اتنی معمولی کہ اسے کسی اور کے سامنے بیان کرنے سے بھی میں شرماتا.میرے خدا نے اسے آسمان پر سُنا اور پورا کر دیا.اسی طرح ہم نے ہزاروں لاکھوں بار اس کے سمیع و بصیر ہونے کا مطالعہ کیا ہے.یہ تو ہیں ثبوت اس کے سَمِيع و بَصِير ہونے کے.بھلا کون انسان ایسا ہو سکتا ہے؟ مگر میہ شخص خدا یا خدا کا مثیل ہونے کا دعویٰ کرنے والے کے سامنے کوئی کے کان میں بات کرے تو وہ سن نہیں سکتا بلکہ کہے گا کہ مجھے بھی بتاؤ تم نے کیا کہا.پھر خدا بصیر ہے وہ ہر چیز کو دیکھتا ہے اور جانتا ہے کہ کیا کیا چیز کہاں کہاں لود.چھپی ہے.اور پھر کوئی چیز جہاں بھی ہے اسے وہیں خوراک پہنچاتا ہے.برسات میں لاکھوں کروڑوں کیڑے مکوڑے پیدا ہو جاتے ہیں مگر وہ سب کو خوراک پہنچاتا ہے.

Page 313

* 1941 314 خطبات محمود کسی درخت کی جڑھ کے نیچے بھڑوں کا چھتہ ہوتا ہے یا کہیں زمین کے نیچے لاکھوں چیونٹیاں ہوتی ہیں مگر خدا تعالیٰ سب کو ان کی جگہ پر ہی خوراک پہنچاتا ہے.سکتا کیا کوئی انسان خواہ وہ خدا یا خدا کا مثیل ہونے کا مدعی کیوں نہ ہو ایسا بصیر ہو ہے؟ پھر فرمایا لَهُ مَقَالِيدُ السَّمواتِ وَالْأَرْضِ زمین و آسمان کی کُنجیاں اس کے پاس ہیں.خدائی کے مدعی تو الگ رہے جن کو لوگ افتراء مدعی بنا دیتے ہیں وہ بھی دنیا میں مصائب میں مبتلا ہوتے ہیں.حضرت مسیح علیہ السلام کو لوگوں نے خدا بنایا مگر یہود نے انہیں صلیب پر لٹکا دیا.حضرت امام حسین کو بعض لوگ خدا بناتے ہیں مگر وہ کربلا میں شہید ہوئے.اس زمانہ میں بہاء اللہ نے دعویٰ کیا اور وہ قید خانہ میں ہی مر گیا.اور جس شخص کا میں ذکر کر رہا ہوں یہ بھی نظر بند ہے.تو یہ لوگ ایسی حالتوں میں سے گزرے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ وہ ہے جس کے پاس زمین و آسمان کی کنجیاں ہیں اسے قید کرنا تو در کنار اس کے بندوں کو بھی کوئی قید نہیں کر سکتا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام مشکلات کے وقت دوسروں کو بھی دعا کے لئے کہا کرتے تھے.جب پادری مارٹن کلارک والا مقدمہ تھا تو اس وجہ سے کہ وہ ایک انگریز پادری تھا اور وہ افسر بھی جس کے روبرو مقدمہ پیش تھا انگریز اور پادری منش آدمی تھا.آپ نے بہت سے لوگوں کو دعا کے لئے کہا.گھر میں والدہ صاحبہ سے بھی کہا.میری عمر اس وقت 9، 10 سال کی ہو گی مجھے بھی آپ نے دعا کے لئے کہا.میں نے اس رات ایک رؤیا دیکھا کہ میں اس گلی سے آ رہا ہوں جو ہمارے گھر کے مشرق کی طرف ہے اور جو آگے مرزا سلطان احمد صاحب مرحوم کے گھر کی طرف چلی جاتی ہے.ہمارے مکان کی پرانی گلی وہی تھی.میں نے دیکھا کہ میں آ رہا ہوں اور آگے پولیس کے سپاہی کھڑے ہیں وہ مجھے اندر جانے سے روکتے ہیں مگر میں چلا گیا ہوں.ہمارے مکان میں ایک تہ خانہ ہوا کرتا تھا جو ہمارے دادا صاحب مرحوم نے گرمیوں میں آرام کے لئے بنوایا ہوا تھا اس کی کھڑکیاں گلی میں بھی کھلتی تھیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس خیال سے کہ بچے اندر جا کر کھیلتے ہیں اور اندھیری

Page 314

* 1941 315 خطبات محمود جگہ ہونے کی وجہ سے سانپ بچھو وغیرہ کا خطرہ ہو سکتا ہے اس کی سیڑھیاں نصف تک بند کر ادی تھیں اور باقی جگہ میں گھر کی رڈی اشیاء عام طور پر رکھی جاتی تھیں.میں نے خواب میں دیکھا کہ اس جگہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو کھڑا کیا ہوا ہے اور آپ کے سامنے سپاہی اُپلے رکھ رہے ہیں اور وہاں اُپلوں کا ڈھیر لگا دیا ہے.پھر دیا سلائی سے آگ لگاتے ہیں یہ نظارہ دیکھ کر میں خواب کی حالت میں ہی گھبراتا ہوں اور اس سپاہی کو وہاں سے ہٹانا چاہتا ہوں مگر دوسرے سپاہی مجھے روکتے ہیں.اتنے میں میری نظر اوپر اٹھی تو ایک عبارت موٹے حرفوں سے لکھی ہوئی نظر آئی جو یہ تھی “خدا کے بندوں کو کون جلا سکتا ہے؟” پھر کیا دیکھتا ہوں کہ یا تو اس سپاہی نے خود ہی اپہلے ہٹا دئے یا وہ خود بخود ہٹ گئے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام باہر تشریف لے آئے.پس خدا تعالیٰ پر کسی تکلیف کا آنا تو در کنار وہ تو اپنے بندوں پر بھی ایسے مصائب نہیں آنے دیتا.لیکن جو لوگ جھوٹے دعوے کرتے ہیں ان کے ساتھ ضرور ایسے سامان لگے ہوتے ہیں کہ جو اُن کی خدائی کے کو باطل کر دیں.آگے فرمایا يَبْسُطُ الرِّزْقَ میرا خدا تو دنیا کو رزق دیتا ہے مگر یہ مدعیان تو خود محتاج ہیں.روٹی کی ضرورت ہے، پانی کی احتیاج ہے.پھر روٹی کھاتے ہیں تو کہتے ہیں نمک زیادہ کیوں ہو گیا یا پھیکا کیوں ہے، روٹی کیوں جل گئی، سالن کو داغ کیوں لگ گیا پھر ان کو پیاس بھی لگتی ہے.گویا وہ خود ہر وقت محتاج ہیں دوسروں کو رزق کہاں سے دیں گے اور اس لئے خدا کیونکر ہو سکتے ہیں؟ پھر فرمایا.إِنَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ.وہ ہر چیز کو جانتا ہے اور اسے سب کا علم ہے.وہ خوب جانتا ہے کہ رزق کہاں ہے.مگر انسان کو کیا علم لاکھوں کروڑوں پونڈ کا سرمایہ پاس دبا ہوا ہو، زیور، نقدی مدفون ہو مگر اسے کیا علم ہے.زمین کے نیچے کا نیں پوشیدہ ہیں مگر انسان کو کیا علم.مگر خدا کو سب کچھ نظر آتا ہے.وہ جانتا ہے کہ اگر فلاں جگہ کو پچاس ہم ساٹھ گز گہرا کھودا جائے تو نیچے سے اشرفیوں کے بھرے ہوئے مٹکے نکلیں گے.مگر روز اس جگہ پر سے گزر جاتے ہیں مگر کچھ علم نہیں ہوتا.اور یہ سب باتیں ثبوت

Page 315

خطبات محمود 316 * 1941 ہیں اس بات کا کہ کوئی انسان خدا نہیں ہو سکتا.ایسے لوگوں پر جو خدائی کے مدعی ہوں تنگیاں بھی آتی ہیں.اگر وہ علیم ہوں تو کیوں یہ دفن شدہ خزانے نکال کر مالا مال نہ ہو جائیں؟ اور جب وہ عَلِیم نہیں تو خدا کس طرح ہو سکتے ہیں؟ خدا تعالیٰ کی ہزاروں صفات ہیں: وہ حَمِيْد ہے، مجید ہے، مُحي، مُمِيت، قُدوس، جَبَّارٍ، قرار ، غَفَّار ہے لیکن جس کے اندر ان میں سے ایک بھی صفت نہیں وہ احمق خدائی کا دعویٰ کس طرح کر سکتا ہے.عجیب بات یہ ہے کہ قرآن کریم نے جو الفاظ اس امر کے بتانے کے لئے استعمال کئے ہیں کہ کوئی غیر اللہ خدا نہیں ہو سکتا.وہی جاہل لوگوں نے اپنی خدائی کے لئے دلائل بنا لئے ہیں.جیسا کہ سورۃ النجم تو شرک کے ہے مگر بعض احمقوں نے یہاں تک کہہ دیا کہ اس کی تلاوت کے وقت رسول کریم صلی اہل علم نے بعض تعریفی کلمات بتوں کے بارے میں کہے تھے جن پر کفار نے مسلمانوں کے ساتھ مل کر سجدہ کیا.نَعُوذُ بِاللهِ مِنْ ذَالِگ.پس یہ بالکل غلط ہے کہ کوئی انسان خدا تو در کنار کسی ایک صفت میں بھی اس کا شریک بن قرآن کریم کا معجزہ ہے کہ کوئی شخص اس کی ایک آیت کا بھی مفہوم بگاڑ کر پیش نہیں کر سکتا کیونکہ اس سے اگلا ہی فقرہ اس کے منہ پر چیریں مارے گا اور یہ بھی خدا کے علیم ہونے کی ایک دلیل ہے.وہ چونکہ جانتا تھا کہ کہاں معنے بگاڑے جائیں گے اس لئے وہیں تردید بھی کر دی.ہمارے رنگ 6 میں مشہور ہے کہ بڑے بڑے میں سکتا ہے.خزانوں کے نگران اللہ تعالیٰ نے بڑے بڑے اثر دہا رکھے ہیں.یہ تو خیر ایک کلام ہے مگر قرآن کریم ایک ایسا خزانہ ہے کہ اس کی اگلی اور پچھلی آیات ہر آیت کے لئے اثر دہا بن جاتی ہیں اور اس لئے اس کی کسی آیت کے غلط معنے کوئی کر ہی نہیں سکتا.یہ ایک موتیوں کی لڑی ہے جس میں سے کوئی موتی چرایا نہیں جا سکتا کیونکہ فوراً نظر آ جائے گا کہ فلاں جگہ موتی کم ہے اور فلاں قد اور شکل کا موتی گم ہے.موتیوں کے ہار پروئے ہی اس طرح جاتے ہیں کہ شروع کے موتی سب سے باریک ہوتے ہیں اور درمیانی سب سے بڑا ہوتا ہے اور پہلے موتیوں کے بعد کا ہر موتی

Page 316

* 1941 317 خطبات محمود پہلے سے بڑا اور اگلے سے چھوٹا ہوتا ہے.اس لئے کس طرح ممکن ہو سکتا ہے کہ ہار میں سے کوئی ایک موتی پچرایا جا سکے.پس قرآن کریم بھی موتیوں کا ایک ایسا ہار ہے کہ اگر کوئی اس میں سے ایک بھی موتی پچرانا چاہے تو اگلے پچھلے موتی اسے چور ثابت کر دیں گے اور بتا دیں گے کہ موتی کہاں سے نکالا گیا ہے.1 الشورى: 1711 دو (الفضل 3 جولائی 1941ء ) وَمَا يَعِدُهُمُ الشَّيْطَنُ إِلَّا غُرُورًا (بنی اسرائیل : 65) وَعْدَ اللهِ حَقًّا ( النساء: 123) 3 متی باب 27 آیت 46 4 الاخلاص : 4 5 آل عمران: 55 رنگ: (Ring)، دائرہ، چکر

Page 317

* 1941 318 (20) خطبات محمود ہے تشهد غیر مبائعین اور مسئلہ کفر و اسلام (فرمودہ 4 جولائی 1941ء) تعوذ اور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:.“میرے لئے دنیا کے حیرت انگیز انقلابات میں سے ایک انقلاب وہ بھی ہے بلکہ یوں کہنا چاہئے کہ میرے نزدیک سب سے بڑے انقلابوں میں سے ایک انقلاب جو جماعت احمدیہ کے چند افراد کی وجہ سے اس دنیا میں پیدا ہوا ہے.ایک جماعت جو آج سے چالیس سال پہلے بلکہ تینتیس سال پہلے تک حضرت مسیح موعود عليه الصلوة والسلام کی زندگی میں آپ کو خدا کا نبی، خدا کا مرسل اور دنیا کا نجات دہندہ قرار دیتی تھی آج اس کی ساری زندگی ہی اس مسئلہ کے خلاف کوششوں میں صرف ہو رہی ہے.میں ہمیشہ انسانی دماغ کے اس تغیر پر غور کرتا ہوں اور حیران رہ جاتا ہوں کہ آیا وہ سب کے سب بد دیانت ہیں اور جانتے بوجھتے ہوئے جھوٹ بول رہے ہیں یا یہ کہ انسانی دماغ بعض غلطیوں کی وجہ سے ایسے چکر میں پڑ جاتا ہے کہ وہ پھر اس بات کو محسوس بھی نہیں کر سکتا کہ چند سال پہلے اس کی کیا حالت تھی.یہ تو میری سمجھ میں آسکتا ہے اور دنیا میں ہمیشہ ہوتا رہتا ہے کہ لوگ اپنی رائے کو بدل لیتے ہیں.آخر جو لوگ رسول کریم صلی اللہ تم پر ایمان لانے والے تھے کسی زمانہ میں اسلام کے پر شدید ترین مخالف تھے.چنانچہ عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ نے اپنی وفات کے وقت

Page 318

* 1941 319 خطبات محمود رو کر بیان کیا کہ میں رسول کریم صلی الا یہ کام کا حلیہ بیان نہیں کر سکتا کیونکہ مجھ پر دو زمانے آئے ہیں اور دونوں زمانے ہی جذبات کے لحاظ سے شدید تھے.ایک زمانہ تو وہ تھا کہ میں رسول کریم صلی اللہ نام کا شدید ترین دشمن تھا اور میں آپ کو نَعُوذُ بِاللهِ مخلوقات میں سے بدترین مخلوق سمجھتا تھا اور اس قدر میرے دل میں آپ کی نسبت نبغض اور اس قدر غضب تھا کہ میں آپ کی شکل تک دیکھنا گوارا نہیں کرتا تھا.چنانچہ اس غضب اور غصہ کی وجہ سے میں نے آپ کی شکل نہیں دیکھی اور میں نہیں کہہ سکتا کہ آپ کی صورت کیسی تھی.پھر ایک زمانہ مجھ پر ایسا آیا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے ہدایت دی اور میں آپ پر ایمان لے آیا اور میرے دل میں اتنا تغیر پیدا ہوا اور میں رسول کریم صلی ال اسلام کے وجود کو اتنا قیمتی، اتنا اعلیٰ اور اتنا ارفع سمجھنے لگا کہ آپ کے رعب کی وجہ سے میں آپ کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھ سکتا تھا.اس لئے میں نہیں بتا سکتا کہ رسول کریم صلی الم کا کیا حلیہ تھا.1 کتنا عظیم الشان تغیر ہے جو حضرت عمرو بن العاص میں پیدا ہوا مگر بہر حال یہ ایک طبعی تغییر ہے اور بالکل ممکن ہے کہ انسان کے خیالات ایک وقت کچھ ہوں اور دوسرے وقت کچھ.پھر اس قسم کے لوگ جیسے حضرت عمرو بن العاص تھے اور بھی مسلمانوں میں سینکڑوں پائے جاتے تھے.چنانچہ خالد بن ولید کو ہی دیکھ لو جنہیں ” سیف اللہ “ کا خطاب ملا ہے.وہ احد کی جنگ میں ان لوگوں میں سے تھے جنہوں نے پیچھے ہٹ کر مسلمانوں پر حملہ کیا اور انہیں بہت سخت نقصان پہنچایا.ایک شدید ترین دشمن کی اولاد میں سے تھے اور اسلام کا ایک لمبے عرصہ تک مقابلہ کرتے رہے مگر اس کے بعد جب انہوں نے اسلام قبول کیا تو وہ ایسے فدائی ہوئے کہ یا تو اپنی تمام کوششیں اسلام کو تباہ کرنے میں صرف کر رہے تھے یا جب فوت نے لگے تو اپنی زندگی کی آخری گھڑیوں میں نہایت کرب و اضطراب کی حالت میں بار بار کروٹیں بدلتے تھے.کسی نے کہا خالد ! تم ایسا کیوں کرتے ہو؟ تم کو اسلام کی اتنی بڑی خدمت کی توفیق ملی ہے کہ بہت کم لوگ ایسی خدمت کر سکے ہیں.تم اگر

Page 319

خطبات محمود 320 * 1941 فوت ہو رہے ہو تو اپنے رب کے پاس انعام لینے کے لئے جا رہے ہو اس میں کرب اور اضطراب کی کیا بات ہے؟ وہ یہ سن کر رو پڑے اور کہنے لگے ذرا میرے جسم پر سے گرتا تو اٹھاؤ.اس نے گرتا اٹھایا تو آپ نے پوچھا میرے جسم پر تم کیا دیکھتے ہو؟ وہ کہنے لگا اوپر سے لے کر نیچے تک تمام جگہ تلواروں کے زخم لگے ہوئے ہیں.انہوں نے کہا اچھا اب ذرا میرے ازار کو لاتوں تک اٹھا کر دیکھو.اس نے دیکھا تو وہاں بھی تلوار کے زخموں کے نشانات لگے ہوئے تھے.یہ نشانات دکھا کر حضرت خالد بن ولید کہنے لگے تم دیکھ سکتے ہو کہ میں شہادت کے شوق میں کس طرح جنگوں میں شامل ہوا یہاں تک کہ میرے سر سے لے کر پیر تک ایک انچ جگہ بھی ایسی نہیں جہاں تلواروں کے زخم کا نشان موجود نہ ہو مگر افسوس مجھے شہادت نصیب ہوئی اور میں آج بستر پر جان دے رہا ہوں.2- یہ وہ شخص تھا جس نے احد میں نہ الله سة پہاڑ کے پیچھے سے مسلمانوں پر حملہ کیا.اسی حملہ کے نتیجہ کے طور پر رسول کریم صلی المینیوم ایک گڑھے میں زخمی ہو کر گر گئے تھے اور کفار کو ظاہری طور پر کسی قدر کامیابی بھی ہو گئی تھی.پھر وہ ابو جہل جس کا نام ابو الحکم تھا مگر رسول کریم صلی ایم کی مخالفت کی وجہ سے اس کا نام ابو جہل پڑ گیا.آج شاید اس کی اولاد میں سے بھی بہت سے لوگ نہیں جانتے ہوں گے کہ ہمارے پردادا کا نام ابو جہل نہیں بلکہ ابو الحکم تھا.اس کا ابو جہل نام اسلام اور رسول کریم صلی اہل علم کی مخالفت کی وجہ سے مسلمانوں نے رکھا یکم تھا.یہ ظاہر کرنے کے لئے کہ یہ شخص بڑا جاہل ہے اس نے اسلام کی صداقت پر کچھ بھی غور نہیں کیا لیکن اس کے ماں باپ نے اس کا نام ابو الحکم رکھا تھا اور مکہ والے بھی اسے ابو الحکم ہی کہا کرتے تھے.یعنی بڑا دانا، بڑا سمجھدار اور بڑا فہیم انسان ہے.اس ابو جہل کا بیٹا عکرمہ ایک لمبے عرصہ تک اپنے باپ کے نقش قدم پر چلتا رہا اور جنگوں میں پیش پیش رہا.احد کی جنگ میں بھی یہ خالد کے ساتھ مل کر مسلمانوں پر حملہ کرنے والوں میں تھا اور بدر کی جنگ میں بھی اپنے باپ کے ساتھ تمام

Page 320

* 1941 321 خطبات محمود حفاظت کے لئے موجود تھا.غرض جتنی جنگیں ہوئیں ان میں یہ شامل ہوا اور اس نے مسلمانوں کا مقابلہ کیا.پھر اس کے دل میں اس قسم کا بغض بھرا ہوا تھا کہ جب مکہ فتح ہوا تو وہ عرب کو چھوڑ کر افریقہ بھاگ گیا اور کہنے لگا کہ میں اب اس ملک میں بھی نہیں رہ سکتا جس میں مسلمانوں کو غلبہ حاصل ہو گیا ہے مگر اس کی بیوی جس کے دل کو اللہ تعالیٰ نے ہدایت قبول کرنے کے لئے کھول دیا تھا وہ رسول کریم صلی العلیم سے عکرمہ کے متعلق معافی مانگ کر اسے بلانے کے لئے چل پڑی.اتفاق ایسا ہوا کہ وہ جہاز جس پر سوار ہو کر عکرمہ نے افریقہ جانا تھا اس کو نہ ملا.اتنے میں اس کی بیوی پہنچ گئی اور وہ اسے اپنے ساتھ لے آئی.رسول کریم صلی الی یوم کے اس احسان کا اس کی طبیعت پر اثر ہوا اور اس کے دل میں نرمی پیدا ہونی شروع ہوئی اس کے بعد جب اس نے مزید غور کیا تو اللہ تعالیٰ نے اسے ہدایت دے دی اور وہ مسلمان ہو گیا.پھر کوئی موقع ایسا نہیں آیا جب اسلام کی خاطر اس نے اپنے آپ کو قربانی کے لئے پیش نہ کیا ہو اور خطرناک سے خطرناک جنگوں میں اپنے آپ کو ہلاکت میں نہ ڈالا ہو.ایک جنگ جو عیسائیوں سے ہو رہی تھی جس میں عیسائیوں کی بہت بڑی تعداد شامل تھی اس میں عکرمہ نے اسلامی سرداروں سے کہا ہمیں موقع دیا جائے کہ ہم تھوڑے سے آدمیوں کو اپنے ساتھ لے کر دشمن پر حملہ کر دیں تاکہ ہمارا رعب ان پر قائم ہو.عیسائیوں کے لشکر کی کم سے کم تعداد تین لاکھ اور زیادہ سے زیادہ دس لاکھ بتائی جاتی ہے اگر اوسط نکال لی جائے تو بہر حال پانچ لاکھ سے کم اس کی تعداد نہیں تھی اس کے مقابلہ میں مسلمانوں کا لشکر صرف ساٹھ ہزار تھا.ایسے خطرناک موقع پر اس نے تجویز پیش کی کہ اسلامی لشکر میں سے صرف چند آدمیوں کو حملہ کرنے اجازت دی جائے تاکہ مسلمانوں کا رعب قائم ہو.جب اسلامی سرداروں کے سامنے یہ معاملہ پیش ہوا تو انہوں نے کہا ہم کس طرح مسلمان بہادروں کو خطرہ کے میں دھکیل دیں یہ تو ان کو اپنے ہاتھوں ہلاکت کے گڑھے میں گرانے والی بات ہے.منہ

Page 321

* 1941 322 خطبات محمود صا الله سة اس پر عکرمہ نے نہایت ہی درد کے ساتھ اپیل کی اور کہا کہ آپ لوگ ہماری قلبی کیفیات کو نہیں سمجھ سکتے.آپ نہیں جانتے کہ ہمارے دلوں میں کیا آگ لگ رہی ہے.رسول کریم صلی و کرم پر ایمان لائے اور آپ نے سالہا سال تک ان کا ساتھ دیا مگر ہم ایک لمبے عرصہ تک رسول کریم صلی نیم کی مخالفت کرتے رہے.پس اب ہمیں اپنے گناہوں کا کفارہ تو کرنے دو اور ہمیں اجازت دو کہ ہم چند سپاہی لے کر د دشمن ٹوٹ پریں.آخر انہی کی بات غالب آئی دو سو سپاہی بچنے گئے جن میں بعض صحابہ بھی تھے اور انہوں نے قلب لشکر پر حملہ کر دیا اور ایسی شدت کے ساتھ حملہ کیا کہ جہاں جرنیل کھڑا تھا وہاں پہنچ گئے اور بہتوں کو تہ تیغ کر دیا.اس کے معاً بعد اسلامی لشکر نے حملہ کر دیا اور باوجود اس کے کہ عیسائی مسلمانوں سے کئی گنا زیادہ تھے اور باوجود اس کے کہ عیسائیوں کا کمانڈر ایک ایسا شخص تھا جس کے ساتھ قیصر روما نے یہ وعدہ کیا تھا کہ اگر تم جیت گئے تو میں اپنی بیٹی کا نکاح تم سے کر دوں گا اور اپنی آدھی بادشاہت تمہیں دے دوں گا.انہوں نے عیسائیوں کو شکست دی.جنگ کے بعد کئی مسلمان میدان میں زخمی پڑے تھے جن میں سے ایک عکرمہ بھی تھے.تنے میں کسی شخص نے دیکھا کہ عکرمہ کے ہونٹ خشک ہو رہے ہیں اور ان پر جان کنی کی حالت طاری ہے اس کے پاس پانی کی چھاگل تھی.عکرمہ کی نظر اس چھاگل پر پڑی اور وہ شخص سمجھ گیا کہ انہیں پیاس لگی ہوئی ہے چنانچہ وہ چھاگل ان کے پاس لے گیا ا تفاقاً اسی وقت عکرمہ کے پاس ایک اور صحابی زخموں سے تڑپ رہے تھے اور انہیں بھی شدید پیاس تھی انہوں نے اس صحابی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ مجھ سے زیادہ حق ان کا ہے یہ رسول کریم صلی ا نیلم کے دیرینہ صحابی ہیں پہلے انہیں پانی پلاؤ.وہ ان کے پاس پانی لے گیا تو اس صحابی کے قریب فضل جو حضرت عباس کے لڑکے اور عبد اللہ بن عباس کے بھائی تھے وہ زخمی پڑے ہوئے تھے.انہوں نے کہا مجھ سے زیادہ فضل کو پیاس معلوم ہوتی ہے تم پہلے انہیں پانی پلاؤ.وہ ان کے پاس لے گیا تو انہوں نے ایک اور کی طرف اشارہ کر کے کہا کہ پہلے اسے پانی پلایا جائے.الله سة

Page 322

* 1941 323 خطبات محمود تھا کہ غرض اسی طرح وہ ایک کے بعد دوسرے اور دوسرے کے بعد تیسرے کے پاس پانی لے گیا اور ہر ایک نے یہ کہہ کر پانی پینے سے انکار کر دیا کہ پہلے دوسرے کو پلاؤ.جب وہ آخری شخص کے پاس پہنچا تو وہ فوت ہو چکا تھا اور جب واپس پانی لے کر لوٹا تو سب کے سب فوت ہو چکے تھے.3 یہ تغیر بھی ہماری سمجھ میں آ سکتا ہے کہ ایک ایسا شدید دشمن جس نے فتح مکہ رسول کریم صلى الله ل رل مل کے ساتھ لڑائیاں کیں اور جس نے مسلمانوں کے غلبہ کی وجہ سے مکہ میں رہنا بھی برداشت نہ کیا وہ آخر رسول کریم صلی الم کا فدائی اور غلام بن گیا.یہ سب کچھ ممکن ہے اور یہ تغیر انسانی سمجھ میں آ سکتا ہے بلکہ اس تغیر کے وہ خود بھی قائل تھے.چنانچہ عمرو ابن العاص جب اسلام کے عاشق ہوئے اس وقت انہیں یاد تھا کہ ایک زمانہ میں وہ سخت مخالف رہ چکے ہیں.خالد کو آخری زمانہ تک یاد زمانہ میں انہوں نے اسلام کی بڑی دشمنی کی ہے.عکرمہ کو آخری عمر تک یاد تھا کہ وہ اسلام کی کیسی کیسی مخالفتیں کرتے رہے ہیں بلکہ ان کی قربانیوں کا باعث ہی یہی تھا کہ وہ سمجھتے تھے اب مجھے پہلے گناہوں کا کفارہ ادا کرنا چاہئے مگر یہ تغیر سمجھ میں نہیں آتا کہ ایک جماعت کی جماعت پہلے تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام کو نبی اور رسول کہتی رہی ہو اور پھر وہ یہ کہنے لگ جائے کہ اس نے آپ کو نبی اور رسول نہیں کہا.اگر وہ یہ کہہ دیتے کہ پہلے ہم بے شک حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کو اللہ تعالیٰ کا نبی اور رسول سمجھتے تھے مگر یہ ہماری غلطی تھی اب ہمیں معلوم ہو گیا کہ آپ نبی اور رسول نہیں تھے تو ہمارے لئے اس میں تعجب کی کوئی بات نہیں تھی.جیسے خالد نے کہا کہ میں پہلے اسلام کا دشمن تھا اور میں مسلمانوں کے خلاف لڑتا رہا تھا مگر یہ میری غلطی تھی اب میں آپ پر ایمان لاتا ہوں یا جیسے عکرمہ نے کہا کہ میں رسول کریم صلی العلم بے شک مخالفت کرتا تھا مگر اب مجھ پر اپنی غلطی واضح ہو گئی ہے.لیکن دنیا میں ایک مثال بھی ایسی نہیں ملتی کہ کسی نے اتنی شدت اور اتنی کثرت کے ساتھ نبی اور رسول کہنے کے بعد یہ کہہ دیا ہو کہ ہم نے کبھی

Page 323

* 1941 324 خطبات محمود ایسا کہا ہی نہیں.معمولی معمولی باتوں میں اختلاف ہونا اور بات ہے ایک ایسا یا ایسے اشخاص جنہوں نے تالیف و تصنیف کا کام کیا ہو اور جنہوں نے دس ہیں مرتبہ نہیں بیسیوں مرتبہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام کو خدا تعالیٰ کا نبی اور رسول لکھا ہو اور ان کا یہ کہہ دینا کہ ہم آپ کو نبی نہیں کہتے رہے، یہ ایسا عظیم الشان انقلاب ہے کہ دنیا کی تاریخ میں اپنی مثال آپ ہی ہے.اس مسئلہ کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام کی تحریروں کو ہم دیکھتے ہیں تو وہ اتنی واضح ہیں کہ کسی جھگڑے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا.چنانچہ تھوڑے ہی دن ہوئے کسی حوالہ کے لئے میں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام کی کتاب ”تجلیات الہیہ “ کو نکالا، یہ ایک چھوٹی سی کتاب ہے اور نامکمل رہ گئی ہے، اس کے صفحات صرف بتیں ہیں.میں نے اس وقت خیال کیا اگر حضرت مسیح موعود عليه الصلوة و السلام کی کسی اور کتاب سے استنباط نہ کیا جائے اور صرف اس کتاب کو لیا جائے تو اس چھوٹی سی کتاب سے ہی وہ تمام اختلافی مسائل حل ہو جاتے ہیں جو ہم میں اور غیر مبائعین میں پائے جاتے ہیں.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام تحریر فرماتے ہیں.مجھے خدا نے فرمایا ہے کہ چو دورِ خسروی آغاز کردند مسلمان را مسلمان باز کردند 4 یعنی جس جب دورِ خسروی کا آغاز ہو گا تو مسلمانوں کو پھر مسلمان بنایا جائے گا.اس کی تشریح کرتے ہوئے آپ فرماتے ہیں:.“ دورِ خسروی سے مراد اس عاجز کا عہدِ دعوت ہے مگر اس جگہ دنیا کی بادشاہت مراد نہیں بلکہ آسمانی بادشاہت مراد ہے جو مجھ کو دی گئی.خلاصہ معنی اس الہام کا یہ ہے کہ جب دورِ خسروی یعنی دورِ مسیحی جو خدا کے نزدیک آسمانی بادشاہت کہلاتی ہے ششم ہزار کے آخر میں شروع ہوا جیسا کہ خدا کے پاک نبیوں نے پیشگوئی کی تھی تو اس کا یہ اثر ہوا کہ وہ جو صرف ظاہری مسلمان

Page 324

* 1941 325 خطبات محمود تھے وہ حقیقی مسلمان بننے لگے.” 5 اب یہ کتنی واضح بات ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام فرماتے ہیں کہ حقیقی مسلمان وہ ہیں جو مجھ پر ایمان لاتے ہیں باقی سب ظاہری مسلمان ہیں اور یہی ہم کہتے ہیں.یہ تو تو نہیں کہ ظاہری مسلمانوں کو نام کے لحاظ سے ہم مسلمان نہیں کہتے ہم بھی ان کو مسلمان ہی کہتے ہیں.چنانچہ میری تحریروں میں سینکڑوں نہیں ہزاروں مرتبہ یہ آیا ہو گا کہ آجکل مسلمانوں کا یہ حال ہے یا مسلمانوں کی حالت ہے.پس ہم ان کو مسلمان ہی کہتے ہیں اور جو شخص بھی اپنے آپ کو مسلمان کہے گا ہم اس کو مسلمان ہی کہیں گے.سوال صرف یہ ہے کہ آیا وہ حقیقت میں خدا تعالیٰ کے نزدیک بھی مسلمان ہیں یا نہیں؟ یہی بحث ہے جو ہماری طرف سے ہوتی ہے ورنہ جن کو لوگ مسلمان کہتے ہیں یا جو لوگ اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں، ہم ان کو مسلمان ہی کہتے ہیں.چنانچہ مولوی ثناء اللہ صاحب اور دوسرے مخالف مسلمانوں کو ہم مسلمان کہتے اور مسلمان ہی لکھتے ہیں.ہم یہ تو نہیں کہتے ہند و ہیں یا عیسائی ہیں یا سکھ ہیں.پس جس وقت ہم مسلمان کا لفظ استعمال کرتے ہیں اس لفظ میں ہم ان تمام لوگوں کو شامل کرتے ہیں جو اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں.جس بات میں ہمارا اور ان کا اختلاف ہے وہ یہ ہے کہ ہم کہتے ہیں آجکل کے مسلمان حقیقی مسلمان نہیں.خدا کے نزدیک مسلمان نہیں اور یہی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام فرماتے ہیں یہاں کسی مکفر، مکذب یا متردد کا سوال نہیں بلکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام صاف طور پر فرماتے ہیں کہ اس وقت دو جماعتیں ہیں.ایک تو میری جماعت ہے اور وہ ان لوگوں کی ہے جو حقیقی مسلمان ہیں.اور ایک جماعت دوسرے مسلمانوں ہے جو صرف ظاہری مسلمان ہیں.چنانچہ فرماتے ہیں:.“ وہ جو صرف ظاہری مسلمان تھے وہ حقیقی مسلمان بننے لگے.جیسا کہ اب تک چار لاکھ کے قریب بن چکے ہیں.” 6 وہ

Page 325

خطبات محمود اب 326 * 1941 سوال یہ ہے کہ غیر مبائعین جن لوگوں کو مسلمان کہتے ہیں، وہ ان چار لاکھ حقیقی مسلمانوں میں شامل ہیں یا نہیں.اگر نہیں تو پھر ہمارا اور ان کا کوئی جھگڑا ہی نہیں اور اگر ان کی مراد یہ ہے کہ وہ کروڑوں کروڑ لوگ جو اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں سب سیفی مسلمان ہیں تو پھر حضرت مسیح موعود عليه الصلوة والسلام کے اس کلام کی تردید ہوتی ہے کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة و السلام تو فرماتے ہیں کہ ایسے لوگ چار لاکھ کے قریب ہیں اور یہ چار لاکھ بھی وہ ہیں جو میرے ہاتھ پر مسلمان ہوئے.اب کیا وہ مکفر یا مکذب نہیں یا جنہوں نے یہ فیصلہ نہیں کیا کہ وہ جماعت احمدیہ میں شامل ہوں یا نہ ہوں، کیا وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام کے ہاتھ پر قبول کرنے والے قرار دیئے جا سکتے ہیں؟ وہ تو ابھی مانتے ہی نہیں.زیادہ زیادہ تم ان کے متعلق یہ کہہ سکتے ہو کہ وہ کہتے ہیں ابھی ہم نے حضرت مسیح موعود اسلام علیہ ނ وہ الصلوة و السلام کے متعلق کوئی فیصلہ نہیں کیا.مگر کیا ایسے لوگوں کے متعلق سکتے ہیں کہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام کے ہاتھ پر مسلمان ہوئے ہیں، وہ تو ابھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام کے قریب بھی نہیں آئے.کجا یہ کہ ان کے متعلق یہ کہا جائے کہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام کے ہاتھ پر مسلمان ہوئے ہیں.غرض حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام نے صاف طور پر فرما دیا ہے کہ اس وقت مسلمانوں کے دو گروہ ہیں.ایک گروہ تو وہ ہے جو ظاہری مسلمانوں کا ہے.دوسرا گروہ ان مسلمانوں کا ہے جو میرے ہاتھ پر حقیقی مسلمان یعنی احمدی بن گئے.پھر آپ حد بندی کر کے اس بات کو اور زیادہ واضح کر دیتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ اس قسم کے حقیقی مسلمان جو میرے ہاتھ پر ایمان لائے صرف چار لاکھ کے قریب ہیں.اس طرح یہ بات اور بھی واضح ر بھی واضح ہو جاتی ہے کہ ان چار لاکھ حقیقی مسلمانوں سے احمدیہ جماعت ہی مراد ہے.غرض اس ایک فقرہ سے ہی معلوم ہوتا

Page 326

خطبات محمود ہے کہ:.* 1941 327 الف: عام مسلمان صرف ظاہری مسلمان ہیں.ب حقیقی مسلمان صرف احمدی ہیں.ج ان حقیقی مسلمانوں کی تعداد چار لاکھ کے قریب ہے.اب غیر مبائعین جو کروڑوں مسلمان کہلانے والوں کو مسلمان سمجھتے ہیں وہ انہیں ظاہری مسلمانوں میں شامل کرتے ہیں یا حقیقی مسلمانوں میں؟ اگر وہ انہیں حقیقی مسلمان سمجھتے ہیں تو یہ غلط ہے کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة و السلام نے حقیقی مسلمانوں کو صرف چار لاکھ کے قریب قرار دیا ہے اور اگر وہ انہیں صرف ظاہری مسلمان سمجھتے ہیں تو پھر ہمارا اور ان کا جھگڑا ہی کیا ہے.ہم نے بھی عام مسلمانوں کو مسلمان کہنے سے کبھی انکار نہیں کیا.چنانچہ میری تحریریں دیکھ لی جائیں ان میں باقی مسلمانوں کے لئے مسلمان کا لفظ یقینا استعمال ہوا ہو گا بلکہ ہزاروں مرتبہ میرے خطبات، میری تقریروں اور میری تحریروں میں سے ان لوگوں کے متعلق جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام پر ایمان نہیں لائے مسلمان کا لفظ نکل آئے گا تو ان لوگوں کو ظاہری مسلمان سمجھنے سے ہم نے کبھی انکار نہیں کیا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام بھی ان کے متعلق ظاہری مسلمان کے الفاظ استعمال فرماتے ہیں.پھر فرماتے ہیں.ان ظاہری مسلمانوں میں سے چار لاکھ کے قریب “حقیقی مسلمان” یعنی احمدی بن چکے ہیں.پس اس سے ظاہر ہے کہ ”حقیقی مسلمان“ صرف احمدی ہی ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام پر ایمان لائے اور ان کی تعداد چند لاکھ سے زیادہ نہیں.لطیفہ یہ ہے کہ اس حوالہ میں ایک طرف تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام نے اس الہام کو کہ چو دورِ خسروی آغاز کردند مسلمان را مسلمان باز کردند اپنی صداقت کے ثبوت میں پیش کیا ہے اور دوسری طرف ان مسلمانوں کو

Page 327

* 1941 328 خطبات محمود جو اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں صرف ظاہری مسلمان قرار دیا ہے.پھر یہ نہیں فرمایا کہ ان تمام ظاہری مسلمانوں نے آپ کے دعویٰ کو قبول کرنے سے انکار کر دیا بلکہ فرماتے ہیں “ وہ جو صرف ظاہری مسلمان تھے.وہ حقیقی مسلمان بننے لگے جیسا کہ اب تک چار لاکھ کے قریب بن چکے ہیں." اسی طرح فرماتے ہیں : “ میرے لئے یہ شکر کی جگہ ہے کہ میرے ہاتھ پر چار لاکھ کے قریب لوگوں نے اپنے معاصی اور گناہوں اور شرک سے توبہ کی.” 7 گویا چار لاکھ حقیقی مسلمان صرف وہ ہیں جنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام کو قبول کیا.کتنی واضح بات ہے جو اس حوالہ میں بیان کی گئی ہے اور کس طرح دو گروہوں کا مقابلہ کیا گیا ہے.ایک کو صرف ظاہری مسلمان قرار دیا گیا ہے اور دوسرے گروہ حقیقی مسلمان قرار دیا گیا ہے اور پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام نے تعداد بھی بتا دی ہے کہ یہ حقیقی مسلمان صرف چار لاکھ کے قریب ہیں.اب غیر مبائعین جن کے متعلق کہتے ہیں کہ انہیں کافر کہنا جائز نہیں اور وہ حقیقی معنوں میں مسلمان ہیں وہ چار لاکھ ہیں یا چار کروڑ یا چالیس کروڑ ہیں؟ صاف ظاہر ہے کہ روئے زمین کے تمام مسلمانوں کو حقیقی مسلمان قرار دیتے ہیں.اس صورت میں انہیں یا تو یہ ثابت کرنا چاہئے کہ چار لاکھ کے الفاظ غلط لکھے گئے ہیں.اصل الفاظ چار کروڑ یا چالیس کروڑ کے تھے یا پھر انہیں ماننا چاہئے کہ ظاہری مسلمان کو کروڑوں ہوں مگر حقیقی مسلمان چند لاکھ ہی ہیں اور وہ بھی وہی ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر ایمان لائے.پھر اس سے بھی بڑھ کر لطیفہ اور حیرت انگیز بات یہ ہے کہ آجکل پیغامیوں کا سارا زور اس بات پر صرف ہو رہا ہے کہ جماعت احمدیہ مسلمانوں کو کافر قرار دے کر خود کافر بن چکی ہے گویا وہ چار لاکھ جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام کے ہاتھ پر حقیقی مسلمان بنے تھے وہ تو اس طرح کافر بن چکے ہیں اور جو باقی مسلمان ہیں

Page 328

* 1941 329 خطبات محمود ان کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام کا فتویٰ موجود ہے کہ وہ صرف ظاہری مسلمان ہیں.اس کے معنی یہ ہوئے کہ وہ ہم پر تو یہ اعتراض کرتے ہیں کہ نے کروڑوں مسلمانوں کو کافر اور دائرہ اسلام.دائرہ اسلام سے خارج قرار دے دیا ہے حالانکہ ہم نے اگر کروڑوں کو کافر کہا تھا تو ان کروڑوں میں سے چار لاکھ کی جماعت کو الگ بھی کر لیا تھا اور ان کے متعلق ہمارا یہ دعویٰ تھا کہ وہ حقیقی مسلمان ہیں.مگر ان کی یہ حالت ہے کہ انہوں نے سوائے اپنے دو چار ہزار آدمیوں کے باقی سب کو کافر بنا دیا.وہ جو عام مسلمان تھے ان کے متعلق تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فیصلہ فرما دیا کہ وہ حقیقی مسلمان نہیں صرف ظاہری مسلمان ہیں.اور جو آپ کے ہاتھ پر حقیقی مسلمان بنے تھے انہیں پیغامیوں نے کافر قرار دے دیا.گویا اب کوئی بھی مومن نہ رہا سوائے چند ہزار پیغامیوں کے.پھر عجیب بات ہے کہ اللہ تعالیٰ تو فرماتا ہے.چو دورِ خسروی آغاز کردند مسلماں را مسلمان باز کردند یعنی جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا زمانہ آئے گا تو مسلمانوں کو دوبارہ مسلمان کیا جائے گا اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام اس کے معنی بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ظاہری مسلمان میرے ہاتھ پر حقیقی مسلمان بننے لگے ہیں جیسا کہ اب تک چار لاکھ کے قریب بن چکے ہیں مگر کیا یہ عجیب بات نہیں کہ جن لوگوں کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام کے ہاتھ پر مسلمان ہونے کی پیشگوئی تھی وہ تو اس لحاظ سے کافر ہوئے کہ انہوں نے آپ کو قبول نہ کیا اور جو لوگ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام کے ہاتھ پر مسلمان بن چکے تھے وہ دوسروں کو کافر قرار دے کر خود پکے کافر بن گئے.اب سوال یہ ہے کہ جب دونوں ہی کافر ہو گئے تو یہ الہام کس طرح پورا ہوا اور اسے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت کے ثبوت میں پیش کس طرح کیا جا سکتا ہے؟ مولوی محمد علی صاحب تو ہمیں یہ بتانا چاہتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ہاتھ پر جو لوگ حقیقی مسلمان بنے

Page 329

* 1941 330 خطبات محمود تھے وہ مسئلہ کفر و اسلام پر ایمان رکھنے کے ذریعہ ، وہ خلافت کو تسلیم کرنے کے ذریعہ، وہ نبوت پر ایمان رکھنے کے ذریعہ اپنے ایمان میں رخنہ ڈال کر کافر بن ہیں.رہ گئے عام مسلمان، سو ان کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام کے فتویٰ موجود ہے کہ وہ صرف ظاہری مسلمان ہیں گویا کوئی بھی مسلمان نہ رہا اور پیشتر اس کے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام کو ماننے والوں کی ایک نسل بھی فوت ہوتی وہ سب کے سب کافر بن گئے اور راہِ ہدایت سے دور جا پڑے.کیا کوئی بھی عقل مند مان سکتا ہے کہ خدا تعالیٰ کا یہ عظیم الشان الہام جس پر خدا کا مسیح فخر کرتا اور فرماتا ہے کہ “میرے لئے یہ شکر کی جگہ ہے کہ میرے ہاتھ پر چار لاکھ کے قریب لوگوں نے اپنے معاصی اور گناہوں اور شرک سے توبہ کی.” اس رنگ میں صحیح سمجھا جا سکتا ہے؟ اس صورت میں تو شکر ادا کرنے کے کوئی معنی ہی نہیں رہتے کیونکہ جب سب کافر بن گئے تو شکر کس بات کا ہوا؟ پھر ہم دیکھتے ہیں اسی کتاب میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:.66 ނ پانی خدا تعالیٰ نے مجھے بار بار خبر دی ہے کہ وہ مجھے بہت عظمت دے گا اور میری محبت دلوں میں بٹھائے گا اور میرے سلسلہ کو تمام زمین میں پھیلائے گا اور سب فرقوں پر میرے فرقہ کو غالب کرے گا.اور میرے فرقہ کے لوگ اس قدر علم اور معرفت میں کمال حاصل کریں گے کہ اپنی سچائی کے نور اور اپنے دلائل اور نشانوں کے رُو سے سب کا منہ بند کر دیں گے.اور ہر ایک قوم اس چشمہ پٹے گی اور یہ سلسلہ زور سے بڑھے گا اور پھولے گا یہاں تک کہ زمین پر محیط ہو جاوے گا.بہت سی روکیں پیدا ہوں گی اور ابتلاء آئیں گے مگر خدا سب کو درمیان سے اٹھادے گا اور اپنے وعدہ کو پورا کرے گا.اور خدا نے مجھے مخاطب کرکے فرمایا کہ میں تجھے برکت پر برکت دوں گا یہاں تک کہ بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے.سو اے سُننے والو! ان باتوں کو یاد رکھو.اور ان پیش خبریوں کو اپنے

Page 330

خطبات محمود 331 * 1941 صندوقوں میں محفوظ رکھ لو کہ یہ خدا کا کلام ہے جو ایک دن پورا ہو گا.میں اپنے نفس میں کوئی نیکی نہیں دیکھتا.اور میں نے وہ کام نہیں کیا جو مجھے کرنا چاہئے تھا.اور میں اپنے تئیں صرف ایک نالائق مزدور سمجھتا ہوں.یہ محض خدا کا فضل ہے جو میرے شامل حال ہوا.پس اُس خدائے قادر اور کریم کا ہزار ہزار شکر ہے کہ اس مُشتِ خاک کو اس نے باوجود ان تمام بے ہنریوں کے قبول کیا.” 8 وو یہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ایک عظیم الشان پیشگوئی ہے جو پیغامیوں کے رڈ کا اپنے اندر سامان رکھتی ہے اور ان مدعیان کی تردید بھی کرتی ہے جو وقتاً فوقتاً مختلف دعوے کرتے رہتے ہیں.اسی طرح ہمارے سلسلہ کی سچائی کا بھی یہ ایک زبر دست ثبوت ہے.اس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام صاف طور پر فرماتے ہیں کہ “ خدا تعالیٰ نے مجھے بار بار خبر دی ہے کہ وہ مجھے بہت عظمت دے گا اور میری محبت دلوں میں بٹھائے گا اور میرے سلسلہ کو تمام زمین میں پھیلائے گا اور سب فرقوں پر میرے فرقہ کو غالب کرے گا”.اس سے پتہ لگتا ہے کہ غلبہ کے زمانہ تک جماعت کے لئے تباہی مقدر نہیں بلکہ یہی مقدر ہے کہ جب تک کامل غلبہ حاصل نہ ہو جائے یہ جماعت بڑھتی چلی جائے.مگر پیغامی کیا بتاتے ہیں؟ وہ یہ بتاتے ہیں کہ پیشتر اس کے کہ جماعت احمدیہ پر غلبہ کا دن آتا، صرف چند ہزار لوگ حق پر رہ گئے اور باقی ، کے سب مرتد اور کافر ہو گئے.حالانکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں “ خدا تعالیٰ نے مجھے بار بار خبر دی ہے کہ وہ مجھے بہت عظمت دے گا اور میری محبت دلوں میں بٹھائے گا اور میرے سلسلہ کو تمام زمین میں پھیلائے گا اور سب فرقوں پر میرے فرقہ کو غالب کرے گا.” یعنی یہ سلسلہ اس وقت تک ترقی کرتا چلا جائے گاجب تک تمام دنیا پر چھا نہ جائے اور سب فرقوں فرقوں پر یہ نمایاں طور پر غالب نہ آجائے.مگر پیغامی یہ کہتے ہیں کہ جو جماعت چاریا چھ لاکھ تھی وہ 1914ء میں صرف چار ہزار رہ گئی اور وہ چار ہزار کی جماعت بھی ایسی ہے کہ ستائیس سال

Page 331

* 1941 332 خطبات محمود گزر گئے مگر اب تک وہ چار ہزار ہی ہے اور اس کی تعداد میں کوئی اضافہ ہونے میں نہیں آتا.بلکہ اگر اس کا قدم اٹھتا ہے تو تنزل اور کمی کی طرف.چنانچہ میں نے بار ہا چیلنج کیا ہے کہ وہ لوگ جو تم میں سے نکل کر ہم میں شامل ہوئے ہیں ان کی بھی گنتی کر لو اور جو لوگ ہم میں سے نکل کر تم میں شامل ہوئے ہیں ان کی بھی گنتی کر لو.پھر تمہیں خود بخود معلوم ہو جائے گا کہ کون بڑھ رہا ہے اور کون گھٹ رہا ہے مگر انہوں نے کبھی اس چیلنج کو قبول نہیں کیا.اسی طرح میں نے بار بار چیلنج ہے کہ تم اس بات میں بھی ہمارا مقابلہ کر لو کہ تمہارے ذریعہ سے کتنے لوگ سلسلہ احمدیہ میں داخل ہوتے ہیں اور ہمارے ذریعہ سے کتنے لوگ سلسلہ احمدیہ میں داخل ہوتے ہیں مگر انہیں کبھی اس مقابلہ کی توفیق بھی نہیں ملی.کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ اگر انہوں نے مقابلہ کیا تو ان کا پول کھل جائے گا.حالانکہ حضرت مسیح موعود السلام فرماتے ہیں “خدا نے مجھے بار بار خبر دی ہے کہ وہ اس سلسلہ کو ترقی گا اور اسے ، باقی تمام فرقوں پر غالب کرے گا.” بعد میں جو خرابیاں پیدا ہیں اور جن میں مبتلا ہو کر لوگ خدا تعالیٰ کو ناراض کر لیتے ہیں وہ کسی سلسلہ کی صداقت پر حرف نہیں لاتیں کیونکہ اس وقت تک سلسلہ پر غلبہ کا زمانہ آ چکا مگر اس سے پہلے خدا تعالیٰ کی سنت یہی ہوتی ہے کہ اگر پانچ دس مرتد ہوتے ہیں تو ان کی جگہ سو دو سو آدمیوں کو اللہ تعالیٰ لے آتا ہے لیکن پیغامی ہمیں بتانا چاہتے ہیں کہ چار لاکھ جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ہاتھ پر حقیقی مسلمان بنے تھے اور جو ترقی کرتے کرتے دس لاکھ تک پہنچ گئے تھے وہ حضرت خلیفہ اول کی وفات پر معا چند ہزار رہ گئے اور باقی سب کافر اور مرتد ہو گئے.گویا وہ پیشگوئی جو خد اتعالیٰ نے بار بار کی تھی اور جس کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اس نے بار بار خبر دی تھی وہ بُری طرح ناکام ہوئی اور نَعُوذُ بِاللهِ بالکل جھوٹی ثابت ہوئی.بعض دفعہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ ابتلاؤں کے طوفان کا ایک ریلا آتا ہے جس میں عارضی طور پر بعض لوگ ڈگمگا جاتے ہیں.اگر ایسا ہوتا تو بھی یہ بات کسی حد تک ہے

Page 332

* 1941 333 خطبات محمود وو تسلیم کی جا سکتی تھی.مگر حالت یہ ہے کہ وہ چار ہزار پیغامی جو اس ابتلاء کے وقت ثابت قدم رہے.ان “صادقوں”، “راستبازوں” اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ماننے والوں کو ہمیشہ ذلت کا منہ دیکھنا پڑتا ہے.اور نہ تو وہ غیر احمدیوں میں سے اتنے لوگ کھینچ سکتے ہیں جتنے ان کے قول کے مطابق مرتد ہوئے اور نہ اپنوں میں ، وہ کسی قابل ذکر تعداد کو اپنے ساتھ شامل کر سکے ہیں.حالانکہ خدا تعالیٰ قرآن کریم میں صاف طور پر فرماتا ہے کہ اگر تم میں سے ایک بھی مرتد ہو جائے گا تو میں اس کی جگہ دسیوں لاؤں گا اور میں ایک قوم اور جماعت کو اس کی بجائے دین میں سے وہ داخل کروں گا.مگر یہ جو “خالص مسلمان” تھے ان کے ساتھ خدا تعالیٰ نے سلوک کیا کہ اگر یہ ہم میں سے ایک آدمی کو لے جاتے ہیں تو خدا تعالیٰ ان کے دو یا چار لوگوں کو توڑ کر ہمارے ساتھ شامل کر دیتا ہے اور غیر احمدیوں میں سے تو ایک مرتد ہونے والے کے مقابلہ میں پچاس ساٹھ بلکہ سو سو آدمی شامل ہو جاتے ہیں.کس قدر خوشی ان لوگوں کو مصری جلد کے مرتد ہونے پر ہوئی تھی.مگر وہ کتنے آدمی تھے ؟ صرف پانچ یا چھ تھے اور اگر ان کے بیوی بچوں کو ملا لیا جائے تو ہیں پچپیں بن جاتے ہیں.اس کے مقابلہ میں جتنے لوگ ہماری جماعت میں ایک سال کے اندر اندر شامل ہوئے کیا ان کے مقابلہ میں ان ہیں پچپیں آدمیوں کی کوئی بھی نسبت ہے؟ اسی سال اس وقت تک تین ہزار آدمی بیعت کر چکے ہیں جن میں سے ہزار کے قریب آدمیوں کی لسٹ اخبار میں شائع ہو چکی ہے اور ابھی چھ مہینے باقی ہیں جن میں خدا تعالیٰ کے فضل سے اور بہت سے لوگ احمدیت میں داخل ہوں گے.پس کس طرح ہماری جماعت کے ذریعہ خدا تعالیٰ کا وہ کلام شاندار طریق پر پورا ہو رہا ہے کہ اگر تم میں سے ایک شخص مرتد ہوگا تو میں اس کے بدلہ میں ایک قوم لاؤں گا.مگر کیا یہ بات پیغامی بھی کہہ سکتے ہیں کہ ان میں سے اگر کوئی ایک مرتد ہو تو اس کے بدلے انہیں قوم ملتی ہے.پس اگر اس وقت کے شیخ عبد الرحمان صاحب مصری مراد ہیں.

Page 333

* 1941 334 خطبات محمود سمجھ بھی لیا جائے کہ عارضی طور پر جماعت پر ایک ابتلاء آ گیا تھا تو ستائیس سال گزرنے پر تو ان کی تعداد لاکھوں تک پہنچ جانی چاہئے تھی.مگر ہوا یہ کہ وہ تو چار ہزار ہی رہے اور جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ہاتھ پر ایمان لا کر حقیقی مسلمان بنے تھے ان میں سے ہزاروں ہزار لوگ انہی عقائد پر فوت ہو گئے جن پر ہماری جماعت ہے.گویا ان کے خاتمہ نے ان کی تمام زندگی کے اعمال پر مہر لگا دی اور بتا دیا کہ صحیح راستہ وہی ہے جس پر قائم رہتے ہوئے وہ ہزاروں لوگ فوت ہوئے جنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ہاتھ پر حقیقی اسلام قبول کیا تھا.میرے نزدیک گزشتہ ستائیس سال کے عرصہ میں صرف دس ہزار آدمی ان لوگوں میں سے فوت ہو چکے ہوں گے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ہاتھ پر ایمان لائے تھے بلکہ ممکن ہے فوت ہونے والوں کی تعداد اس سے بھی زیادہ ہو اور یہ دس ہزار وہ ہیں جو موجودہ پیغامیوں کی مجموعی تعداد سے بہت زیادہ ہیں.گویا ان لوگوں کی موجودہ تعداد سے بہت زیادہ لوگ انہی عقائد پر فوت ہو چکے ہیں جو ہماری جماعت کے ہیں.مگر وہ ستائیس سال کا عرصہ گزرنے کے باوجود ابھی تک چار ہزار ہی ہیں حالانکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا تھا کہ :.66 خدا تعالیٰ نے مجھے بار بار خبر دی ہے کہ وہ مجھے بہت عظمت دے گا اور میری محبت دلوں میں بٹھائے گا اور میرے سلسلہ کو تمام زمین میں پھیلائے گا اور سب فرقوں پر میرے فرقہ کو غالب کرے گا.” یہ بیان پھر اس حوالہ میں ایک اور بات حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ “میرے فرقہ کے لوگ اس قدر علم اور معرفت میں کمال حاصل کریں گے کہ اپنی سچائی کے نور اور اپنے دلائل اور نشانوں کے رو سے سب کا مُنہ بند کر دیں گے.” یعنی علاوہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے معجزات اور نشانات کے.جماعت احمدیہ میں ایسے لوگ پیدا ہوں گے جن کا براہ راست خدا تعالیٰ کے ساتھ

Page 334

خطبات محمود 335 * 1941 معاملہ ہو گا اور جن کے ہاتھ پر اس کے نشانات ظاہر ہوں گے مگر مولوی محمد علی صاحب کو دیکھ لو وہ خشک فلسفی کی طرح الہام کی ہمیشہ مخالفت کریں گے اور کبھی کوئی ایسا نشان بتا نہیں سکیں گے جو ان کے ہاتھ پر خدا تعالیٰ نے ظاہر کیا ہو.حالانکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں میرے فرقہ کے لوگوں کی علامت یہ ہو گی کہ “اپنے دلائل اور نشانوں کے رو سے سب کا منہ بند کر دیں گے.” یعنی ان کے پاس صرف وہی دلائل نہیں ہوں گے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام کی صداقت کے ظاہر ہوئے بلکہ ان کے پاس ایسے نئے دلائل اور نئے نشانات بھی ہوں گے جو ان کی ذات میں ظاہر ہوئے ہوں گے.نشانات معجزات کو ہی کہا جاتا ہے.پس مطلب که قبل از وقت ان پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے غیب کی خبریں ظاہر کی جائیں اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام فرماتے ہیں کہ یہ میری جماعت کی علامت ہو گی مگر مولوی محمد علی صاحب الہامات پر ہنسی اڑاتے ہیں اور خود انہیں الہام کا کوئی دعویٰ نہیں.ان کی حالت بس ایک خشک پتا کی سی ہے.خود تو انہوں نے کبھی کوئی الہام پیش نہیں کیا اور اگر کوئی دوسرا انہیں اپنا الہام بتائے تو اس پر ہنسی اڑانے لگ جاتے ہیں.اس لحاظ سے بھی ہم میں اور غیر مبائعین میں کیسا عظیم الشان فرق ہے.دونوں طرف کے لیڈروں کو ہی لے لو میرے صرف ایک سال کے رؤیا و کشوف اور الہامات اگر جمع کئے جائیں تو وہ مولوی محمد علی صاحب کی ساری عمر کے خوابوں سے بڑھ جائیں گے.پھر اگر ان رؤیا و کشوف اور الہامات کولے لیا جائے جو پورے ہونے سے پہلے غیر مذاہب والوں کو بتا دیئے گئے تھے تو اس میں بھی مولوی محمد علی صاحب میرا مقابلہ نہیں کر سکتے.موجودہ جنگ کو ہی دیکھ لو.ابھی لڑائی شروع بھی نہیں ہوئی تھی کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے ایک رؤیا کے ذریعہ بتا دیا تھا کہ جنگ شروع ہونے والی ہے اور اس جنگ میں ایسے حالات پیدا ہوں گے کہ انگریز فرانسیسی حکومت سے یہ درخواست کریں گے

Page 335

* 1941 336 خطبات محمود کہ انگریزی حکومت اور فرانسیسی حکومت کا الحاق کر دیا جائے اور دونوں ایک نظام کے ماتحت آ جائیں مگر چھ ماہ کے بعد انگریزوں کی یہ حالت بدل جائے گی.10 اس رؤیا کے عین مطابق جنگ شروع ہوئی.فرانس نے اس جنگ میں خطرناک شکست کھائی اور انگریزوں کو ایسا ڈر پیدا ہو گیا کہ مسٹر چرچل نے اپنی ایک تقریر میں کہا کہ ہم انگلستان کے ہر گاؤں میں دشمن سے لڑائی کریں گے اور اگر اس کا انگلستان پر قبضہ ہو گیا تو ہم کینیڈا یا آسٹریلیا میں جا کر اس سے لڑیں گے.گویا برطانیہ کے وزیر اعظم نے بھی تسلیم کیا کہ اس بات کا امکان ہے کہ جرمنی انگلستان پر قبضہ کرلے اور انہیں کینیڈا یا آسٹریلیا میں جا کر دشمن کا مقابلہ کرنا پڑے.پھر کس طرح اللہ تعالیٰ نے رؤیا کے اس دوسرے حصہ کو پورا کیا جس میں.ذکر آتا تھا کہ انگریز فرانسیسی حکومت سے یہ درخواست کریں گے کہ دونوں حکومتوں کا الحاق کر دیا جائے.آج تک دنیا کی تاریخ میں اس بات کی کوئی مثال نہیں ملتی کہ کسی حکومت نے دوسری حکومت سے یہ درخواست کی ہو کہ ہم دونوں کی حکومت ایک ہو جائے، پارلیمنٹیں بھی ملا دی جائیں اور خوراک کے ذخائر اور خزانہ بھی ایک ہی سمجھا جائے.مگر اللہ تعالیٰ کی بات پوری ہو کر رہی اور 15 جون 1940ء کو حکومتِ برطانیہ نے فرانسیسی حکومت کو تار دیا کہ دونوں ملکوں کی حکومت ایک کر دی جائے کیونکہ خطرہ بہت زیادہ ہے.پھر جیسا کہ خواب میں ہی بتا دیا گیا تھا کہ چھ ماہ کے بعد یہ حالت بدل جائے گی.اس واقعہ کے قریباً چھ ماہ بعد 9 دسمبر کو لیبیا کی لڑائی شروع ہوئی اور 15 دسمبر کو عین چھ ماہ کے بعد برطانیہ کے مقابلہ میں اٹلی کو شکست ہو گئی.یہ وہ خواب ہے جس کے احمدی بھی گواہ ہیں، غیر احمدی بھی گواہ ہیں، عیسائی بھی گواہ ہیں.میں نے یہ رویا چوہدری ظفر اللہ خان صاحب کو بھی بتا دیا تھا اور وہ ہمیشہ اپنے ملنے والوں سے کہا کرتے تھے کہ مجھے تو 15 دسمبر کا انتظار ہے.کیونکہ 15 جون کو برطانیہ نے فرانس کو دونوں حکومتوں کے الحاق کی پیشکش کی

Page 336

خطبات محمود 337 * 1941 اور چونکہ چھ ماہ کے بعد اللہ تعالیٰ کی طرف سے حالات کے بدل جانے کی اطلاع ہے اس لئے لازماً 15 دسمبر کو یہ خطرے کی حالت جاتی رہے گی چنانچہ وہ ہر انگریز افسر سے یہی کہتے کہ مجھے تو 15 دسمبر کا انتظار ہے جبکہ ایسے حالات پیدا ہو جائیں گے کہ انگریزوں کے لئے یہ خطرہ جو اس وقت در پیش ہے نہیں رہے گا.میں نے اس بات کو معلوم کر کے ایک دفعہ ان سے کہا کہ چھ مہینے - مراد بعض دفعہ سات ماہ اور بعض دفعہ پانچ ماہ بھی ہو سکتے ہیں.اس لئے آپ کو اس قدر تعیین نہ کرنی چاہئے تھی کہ 15 دسمبر کے بعد حالات بدل جائیں گے.انہوں نے جواب دیا کہ میں تو ظاہری لفظوں کی بناء پر ہر ایک سے چھ مہینے کا ہی ذکر کرتا ہوں کہ 15 دسمبر کے بعد یہ حالت بدل جائے گی.چنانچہ ایسا ہی ہوا اور اللہ تعالیٰ نے ان چھ مہینوں کے بعد انگریزوں سے اس وقت کے خطرہ کی حالت کو دور کر دیا.پھر اسی مسجد میں میں نے بتایا تھا کہ ایک بادشاہ میری آنکھوں کے سامنے سے گزارا گیا اور مجھے الہام ہوا کہ ایب ڈی کیٹیڈ (ABDICATED)11 اس الہام ابھی تین دن نہیں گزرے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے بیلجئم کے بادشاہ لیو پولڈ کو ناگہانی طور پر ایب ڈی کیٹ کرا دیا.اس الہام کی پہلے تو ہم یہ تشریح کیا کرتے تھے بیلجیئم گورنمنٹ نے خود یہ اعلان کر دیا تھا کہ ہمارا بادشاہ جرمن قوم کے ہاتھ ہے اور اب وہ اپنے فرائض کو ادا نہیں کر سکتا اس لئے بیلجیئم کی قانونی گورنمنٹ ہم ہیں نہ کہ لیوپولڈ.مگر اب قریب میں ایک اور ثبوت اس بات کا ملا ہے اور وہ یہ کہ معلوم ہوا ہے کہ لیو پولڈ خود بھی اپنے آپ کو ایب ڈی کیٹ ہی سمجھتا ہے چنانچہ خبر آئی ہے کہ جرمن افسر اس سے بعض ایسے کاغذات پر دستخط کرانا چاہتے ہیں جن میں بیجیم کے لوگوں سے یہ اپیل کی گئی ہے کہ وہ جرمن قوم کے ساتھ تعاون کریں مگر وہ کسی کاغذ پر دستخط کرنے کے لئے تیار نہیں ہوتا اور کہتا ہے کہ میں اپنی حکومت کے قانون کے ماتحت اب بادشاہ رہا ہی نہیں اس لئے میں کسی کاغذ پر دستخط نہیں کر سکتا.گویا وہ خود بھی یہ سمجھتا ہے کہ اب وہ بادشاہ نہیں رہا اور پر

Page 337

* 1941 338 خطبات محمود ایب ڈی کیٹ ہو گیا ہے.اسی طرح مجھے بتایا گیا تھا کہ تار آئی ہے امریکہ نے برطانیہ کی امداد کے لئے اٹھائیس سو ہوائی جہاز دیا ہے.یہ خبر بھی ایسی تھی جسے کوئی انسانی دماغ وضع نہیں کر سکتا تھا کیونکہ اس میں ایک طرف تار کا لفظ تھا دوسری طرف امریکہ کا لفظ تھا تیسری طرف اٹھائیس سو ہوائی جہازوں کا ذکر تھا.میں نے یہ خواب بھی چوہدری ظفر اللہ خان صاحب کو لکھ کر بھیج دی تھی اور انہوں نے کئی وزراء کے آگے اسے بیان کر دیا.شاید گزشتہ اکتوبر کی بات ہے کہ میں اپنے گھر میں بیٹھا تھا کہ کسی نے مجھے اطلاع دی کہ باہر سے فون آیا ہے.میں گیا اور امرت سر کے دفتر سے پتہ لگایا کہ کہاں سے فون آیا ہے.انہوں نے بتایا کہ شملہ سے آیا ہے.میں نے کہا کنکشن ملا دو.تھوڑی دیر کے بعد مجھے چوہدری ظفر اللہ خان صاحب کی آواز آئی جو جوش اور خوشی سے کانپ رہی تھی.انہوں نے کہا مبارک ہو.میں نے کہا خیر مبارک مگر یہ تو بتائیں کہ یہ مبارک کیسی ہے.انہوں نے کہا آپ کو یاد ہے نے فلاں مہینہ میں مجھے ایک چٹھی لکھی تھی جس کا مضمون یہ تھا کہ مجھے اللہ تعالیٰ نے بتایا ہے کہ امریکہ سے تار آئی ہے کہ امریکہ نے اٹھائیس سو ہوائی جہاز انگریزوں کو بھجوایا ہے.میں نے کہا مجھے یاد ہے.وہ کہنے لگے پھر آج یہ خواب پوری ہو گئی ہے اور امریکہ سے انگریزی نمائندہ کی تار آئی ہے کہ امریکہ نے اٹھائیس سو ہوائی جہاز انگریزوں کو دیئے ہیں.چوہدری ظفر اللہ خان صاحب نے یہ بھی بتایا کہ جب مجھے یہ خبر پہنچی میں نے اسی وقت اپنے پرائیویٹ سیکرٹری کو جو غیر احمدی تھا بلایا اور کہا کہ تم کو یاد ہے میں نے تمہیں امام جماعت احمدیہ کی ایک خواب سنائی تھی.وہ کہنے لگا کونسی خواب، کیا وہی جو اٹھائیس سو ہوائی جہازوں والی تھی؟ میں نے کہا ہاں وہی خواب.چنانچہ اس کے بعد میں نے تار اس کے سامنے کر دیا کہ لو پڑھ لو، اس میں کیا لکھا ہے.پھر وہ کہتے ہیں میں نے اسی وقت سر کلو (جو غالباً ریلوے کے وزیر ہیں) کو فون کیا اور کہا کہ آپ کو یاد ہے میں نے آپ کو امام جماعت احمدیہ کی

Page 338

* 1941 339 خطبات محمود ایک خواب سنائی تھی جس میں امریکہ سے ہوائی جہاز بھیجے جانے کا ذکر تھا.وہ کہنے لگے ہاں مجھے یاد ہے مگر تعداد صحیح ثابت نہیں ہوئی.تم نے تو 28 سو ہوائی جہاز بتائے تھے مگر تار میں 25 سو ہوائی جہازوں کا ذکر ہے.اللہ تعالیٰ کی حکمت ہے کہ انہوں نے تار کو جلدی میں صحیح طور پر نہ پڑھا اور اٹھائیس سو کو پچیس سو سمجھ لیا.معلوم ہوتا ہے اللہ تعالیٰ ان پر اس خواب کے متعلق اتمام حجت کرنا چاہتا تھا.چنانچہ انہوں نے کہا تم نے تو کہا تھا کہ امریکہ اٹھائیس سو ہوائی جہاز بھیجے گا مگر تار میں تو چھپیں سو ہوائی جہاز بھیجے جانے کا ذکر ہے.چوہدری صاحب کہتے ہیں کہ میں نے انہیں کہا کہ آپ تار کو دوبارہ نکال کر پڑھیں.چنانچہ انہوں نے دوبارہ تار پڑھی تو کہنے لگے حیرت انگیز بات ہے واقع میں اٹھائیس سو ہوائی جہاز دیئے جانے کی خبر ہے.تو دیکھو قریب قریب کے اہم واقعات ہیں جن کے بارہ میں اللہ تعالیٰ نے قبل از وقت امور غیبیہ کا مجھ پر اظہار فرمایا.اسی طرح ابھی گزشتہ دنوں میں سندھ میں تھا کہ مجھے انگریزی میں ایک الہام ہوا جس کا مفہوم یہ تھا کہ انگریزی فوج کی صف توڑ کر جر من فوج اندر داخل ہو گئی ہے.دوسرے ہی دن میں نے میاں بشیر احمد صاحب کو بھی ایک خط میں اس خواب کی اطلاع دے دی اور غالباً چوہدری ظفر اللہ خان صاحب کو بھی خواب لکھ دی.اس کے بعد یہ خبر آگئی جو ریڈیو پر ہم نے خود بھی سن لی کہ طبرق کے مقام پر انگریزی صفوں کو چیر کر جرمن فوج آگے بڑھ گئی ہے.تو میری ایک سال کی خواہیں ہی اگر جمع کر لی جائیں تو وہ مولوی محمد علی صاحب کی ساری عمر کی خوابوں سے بڑھ جائیں گی.پھر یہ وہ خوابیں ہیں جن کے گواہ صرف احمدی ہی نہیں بلکہ غیر احمدی بھی ہیں ، ہندو بھی ہیں، سکھ بھی ہیں، عیسائی بھی ہیں.غرض قسم قسم کے گواہ ان خوابوں کی تصدیق کرنے والے مل سکتے ہیں اور وہ شہادت دے سکتے ہیں کہ ان کو قبل از وقت یہ باتیں بتائی گئیں اور پھر اسی طرح پوری ہوئیں جس طرح انہیں بتایا گیا تھا.تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں.“میرے فرقہ کے لوگ اس قدر علم اور معرفت میں کمال حاصل کریں گے

Page 339

* 1941 340 خطبات محمود ہے.کہ وہ اپنی سچائی کے نور اور اپنے دلائل اور نشانوں کے رو سے سب کا منہ بند کر دیں گے.” یعنی میری جماعت کے لوگوں کو خود خدا تعالیٰ کی طرف سے دلائل اور نشانات دیئے جائیں گے اور وہ ان دلائل اور نشانات کے ذریعہ سب کا منہ بند کر دیں گے.مگر مولوی محمد علی صاحب کا طریق یہ ہے کہ وہ ہمیشہ الہامات پر ہنسی اڑاتے ہیں اور کبھی سنجیدگی سے ان پر غور نہیں کرتے.بلکہ بعض پیغامیوں نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ یہ الہامات بعد میں بنا لئے جاتے ہیں حالانکہ بعض الہامات کے پورا ہونے کے خود بعض پیغامی بھی گواہ ہیں.مثلاً یہی رؤیا جو اٹھائیس سو جہازوں والا یہ چوہدری ظفر اللہ خان صاحب نے میاں غلام رسول صاحب ریٹائرڈ ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ کے بیٹے میاں غلام عباس صاحب کو بھی بتا دیا تھا جو غیر مبائع ہیں.پس اس سے نتیجہ نکلتا ہے کہ غیر مبائعین جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جماعت میں سے ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں آپ کی اس جماعت میں شامل نہیں جس کا ذکر تجلیات الہیہ میں کیا گیا ہے.کیونکہ جماعت کے افراد کی یہ علامت بتائی گئی تھی کہ وہ اپنی سچائی کے نور اور اپنے دلائل اور نشانوں کے رو سے سب کا منہ بند کر دیں گے اور علامت غیر مبائعین میں نہیں پائی جاتی.میں نے کہا تھا کہ آجکل جو مختلف مدعی ہیں ان کا بھی اس تحریر سے رد ہوتا ہے.وہ اس طرح ہے کہ اس پیشگوئی سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ ترقی اور غلبہ کے زمانہ تک حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام کی اپنی جماعت ہی چلتی چلی جائے گی.کسی اور مدعی یا مامور کی جماعت کھڑی نہیں گی.مگر آج ان مدعیان کی یہ حالت ہے کہ ان میں سے کوئی تو یہ کہتا ہے کہ مرزا صاحب مسیح تھے اور میں مہدی ہوں اور کوئی یہ کہتا ہے کہ حضرت مرزا صاحب احمدیت کے جامہ میں آئے تھے اور میں محمدیت کے جامہ میں آیا ہوں اور اور کوئی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام کی جماعت کی تنسیخ کر کے کوئی سلسلہ قائم کرنا چاہتا ہے.پس اس قسم کے تمام مدعی اس پیشگوئی کے مطابق جھوٹے ہیں کیونکہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام کی جماعت کو غلطی پر قرار دے کر

Page 340

* 1941 341 خطبات محمود ایک اور جماعت قائم کرنا چاہتے ہیں اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة و السلام فرماتے ہیں کہ دنیا میں خدا میرے سلسلہ کو پھیلائے گا اور میرے فرقہ کو ہی علیہ دنیا پر یہ السلام فرقوں پر غالب کرے گا.ایسے مدعیان الہام تو بے شک ہو سکتے ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ کے احکام اور آپ کی تعلیم کو مانتے ہوں، آپ کی غلامی کا دم بھرتے ہوں اور یہ عقیدہ رکھتے ہوں کہ حکم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام ہی ہیں اور فتویٰ وہی گا جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام کا ہو گا اور آپ کی جماعت حق پر ہے وہ صرف اس کی خدمت کے لئے کھڑے ہوئے ہیں.مگر باقی تمام مدعی جو اپنی ایک علیحدہ پیڑی قائم کرنا چاہتے ہیں، جھوٹے ہیں کیونکہ حضرت مسیح موعود الصلوة و السلام فرماتے ہیں.یہ دور ترقی اس وقت تک جاری رہے گا جب تک تمام سلسلہ غالب نہ آجائے.اس کے بعد اگر پھر خرابیاں پیدا ہو جائیں اور پھر کسی اور مامور کی بعثت کی ضرورت محسوس ہو تو اس وقت وہ بے شک حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة و السلام کی متابعت میں آ سکتا ہے مگر اس وقت تک احمدیت کی براہِ راست کمان حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ہاتھ میں ہی رہے گی.بہر حال حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ کوئی ایسا شخص خدا تعالیٰ سے الہام پا کر ایک نئی جماعت کی بنیاد رکھنے کے لئے اس وقت تک پیدا نہیں ہو سکتا جب تک تمام دنیا پر یہ سلسلہ غالب نہ آ جائے.اس کے بعد اگر عالمگیر گمراہی کے پھیل جانے پر کوئی آئے تو بے شک آجائے مگر اب جو لوگ اپنے آپ کو مدعی اور مامور کہتے ہیں اور دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ جماعت کو ہدایت دینے کے لئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے کھڑے کئے گئے ہیں وہ سب جھوٹے ہیں کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة و السلام کی اس تحریر سے ظاہر ہوتا ہے کہ جماعت اس وقت تک گمراہ نہیں ہو سکتی جب تک تمام دنیا پر غالب نہ آ جائے.پس جب تک کہ احمدیہ جماعت کو کامل غلبہ حاصل نہ ہو جائے اس وقت تک کمان براه راست حضرت مسیح موعود علیه الصلاة و السلام ایسا مامور

Page 341

خطبات محمود 342 * 1941 کے ہاتھ میں رہے گی.پھر بے شک جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام نے لکھا ہے ایک خرابی کا دور بھی آئے گا 12.اور پھر ایک نیا سلسلہ شروع ہو گا مگر بہر حال وہ سلسلہ تابع ہو گا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام کا.جیسے حضرت مسیح موعود علیہ السلام تابع ہیں رسول کریم صلی اللہ نام کے.اب دیکھ لو تجلیات الہیہ کتنی چھوٹی سی کتاب ہے مگر اس چھوٹی سی کتاب میں ہی تمام اختلافی مسائل کا حل رکھ دیا گیا ہے.اور میں تو سمجھتا ہوں کہ شاید تجلیات الہیہ حکمت الہی کے ماتحت پیغامیوں کے رد میں ہی لکھی گئی ہے.اس کتاب کے بڑے سائز کے صرف سولہ صفحات ہیں اور چھوٹے سائز کے بتیں.مگر ان چند صفحات میں ہی اس قدر مواد موجود ہے جو پیغامیوں کے عقائد کی تردید کے لئے کافی ہے.اسی طرح اس کتاب میں نبوت کے مسئلہ پر بحث موجود ہے اور کفر و اسلام کے مسئلہ پر بھی.غرض ہمارے اور غیر مبائعین کے درمیان جس قدر اختلافی مسائل ہیں ان تمام کا حل اس چھوٹی سی کتاب میں موجود ہے اور اگر کوئی اس سے فائدہ اٹھانا چاہے تو اٹھا سکتا ہے مگر ماننے کے لئے ایسا دل چاہئے جو نشانات کی قدر و قیمت کو سمجھتا ہو اور وہ آنکھیں چاہئیں جو اپنے اندر بصیرت کی روشنی رکھتی ہوں ورنہ وہ لوگ جنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام کے نشانات کو دیکھ کر ان کی قدر نہیں کی، ان سے یہ امید رکھنا کہ وہ ہمارے پیش کردہ نشانات پر غور کریں گے اور ان سے اور ان سے صحیح رنگ میں فائدہ اٹھائیں گے ایک بہت بڑی امید ہے.بہر حال ہم مایوس نہیں اور ہم ان کی ہدایت کے لئے دعائیں کرتے ہیں.مگر بڑی عبرت کا مقام ہے.بڑی عبرت کا مقام ہے بڑی عبرت کا مقام ہے کہ دنیا میں ایک قوم سالہا سال تک حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام کو خدا تعالیٰ کا نبی اور رسول قرار دیتی رہی ہے مگر اب وہ دیانت داری کا دعویٰ کرنے کے باوجود یہ کہتی ہے کہ اس نے آپ کو کبھی نبی اور رسول نہیں کہا.” (الفضل 13 جولائی 1941ء) 1 مسلم کتاب الایمان بابِ كَوْنُ الْإِسْلَامِ يَهْدِمُ مَا قَبْلَهُ 2 الاستيعاب في مَعْرِفَةِ الْاَصْحَابِ جلد 2 صفحہ 14 مطبوعہ بیروت 1995ء

Page 342

* 1941 343 خطبات محمود 3 الاستيعاب جلد 3 صفحہ 191 مطبوعہ بیروت 1995ء 4 تذکرہ صفحہ 601 ایڈیشن چہارم 5 تجلیات الہیہ صفحہ 4 روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 396-397 6 تجلیات الہیہ صفحہ 5 روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 397 7 تجلیات الہیہ صفحہ 5 روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 397 تجلیات الہیہ صفحہ 17-18 روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 409-411 أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوْا مَنْ يَّرْتَدَّ مِنْكُمْ عَنْ دِينِهِ فَسَوْفَ يَأْتِي اللَّهُ بِقَوْمٍ ( المائده : 55) 10 الفضل 28 جون 1940ء 11 ABDICATED : ذمہ داری سے علیحدہ ہونا 12 تذکرہ صفحہ 213 ایڈیشن چہارم

Page 343

* 1941 344 (21) خطبات محمود اپنے اندر غیرت پیدا کر و مگر بے رحم نہ بنو اور اپنے اندر رحم پیدا کر و مگر بے غیرت نہ بنو (فرمودہ 11 جولائی 1941ء) تشہد، تعوذ اور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:.انسانی جذبات بسا اوقات اس کی عقل کے ساتھ ٹکرا جاتے ہیں اور بسا اوقات اس کی عقل پر اس طرح پردہ پڑ جاتا ہے کہ وہ عقل کے مطالبات کو محسوس ہی نہیں کر سکتا اور اگر عقل کے مطالبات اس کے ذہن میں آتے بھی ہیں تو ان کو ناممکن قرار دے دیتا ہے.ہزاروں ہزار واقعات دنیا میں ایسے پائے جاتے ہیں کہ لوگ اشتعال کی حالت میں خود اپنے فائدہ کو بھول جاتے ہیں اور اپنا نفع ان کی نظروں سے اوجھل ہو جاتا ہے.سینکڑوں مائیں ایسی پائی گئی ہیں کہ جنہوں نے اپنے ہمسایہ کو نقصان پہنچانے کے لئے اپنے بچوں کو قتل کر دیا اور سینکڑوں مائیں پائی جاتی ہیں جنہوں نے دوسروں کے بچوں یا عورتوں کو قتل کرنے کے بعد اپنے بچوں کو قتل کر دیا تا معلوم ہو کہ کسی اشتعال کے ماتحت انہوں نے ایسا کیا ہے.پھر ہزاروں ہزار انسان ایسے پائے جاتے ہیں جو ذاتی رنجشوں اور اختلافات کی بناء پر مذہب یا قوم کو چھوڑ دیتے ہیں.ہزاروں لاکھوں انسان ایسے پائے جاتے ہیں.جو اشتعال میں اپنے ماں باپ کو گالیاں دیتے ہیں ایک نہیں دو نہیں، سینکڑوں نہیں، ہزاروں نہیں، لاکھوں نہیں، کروڑوں مثالیں ایسی ملتی ہیں کہ اشتعال کے وقت لوگ

Page 344

خطبات محمود 345 * 1941 عقل کے تقاضوں اور مذہب کے تقاضوں کو بھول جاتے ہیں.رسول کریم صلی اللیل ولیم نے جو ہمارے لئے ہر امر میں ہدایت مہیا کرنے والے ہیں اور جنہوں نے ہماری ہر ضرورت کو مد نظر رکھا ہے.ایسے مواقع کے لئے نہایت اچھا نسخہ بتایا ہے.چنانچہ فرمایا کہ جب اشتعال آئے تو اگر کھڑے ہو تو بیٹھ جاؤ اور بیٹھے ہو تو لیٹ جاؤ اور اگر پھر بھی اشتعال باقی رہے تو ٹھنڈا پانی پی لو.اس میں دو باتیں بتائی ہیں اور دو حکمتیں بیان فرمائی ہیں.ایک تو یہ کہ جگہ کے بدلنے سے اشتعال میں کمی آ جاتی ہے اور وقت کے تبدیل ہو جانے کی وجہ سے بھی اشتعال میں کمی آجاتی ہے.دوسرے یہ کہ بعض اوقات اشتعال کا موجب ظاہری اور مادی اسباب بھی ہوتے ہیں.ٹھنڈا پانی پینے کی ہدایت جو آپ نے فرمائی اس کے معنے یہ ہیں کہ جوش اور غصہ کی وجہ سے خون کھول رہا ہوتا ہے اور خون کے کھولنے سے دماغ کی وہ حس جس سے انسان سوچتا اور سمجھتا ہے باطل ہو جاتی ہے.جوش کی وجہ سے بعض اوقات دماغ کی رگ پھٹ جاتی ہے اور فالج گر جاتا ہے جس کے نتیجہ میں نہ عقل باقی رہتی ہے، نہ ذہن کام کے قابل رہتا ہے اور نہ قوت حافظہ باقی رہتی ہے.اور انسان ایک لٹھ کی طرح پڑا رہتا ہے.بعض دفعہ آدمی بول بھی نہیں سکتا یا اگر بول سکتا ہے تو اس کی عقل ٹھکانے نہیں ہوتی یا اگر عقل ٹھکانے ہو تو وہ ہاتھ پاؤں نہیں ہلا سکتا.تو خون میں جوش کی وجہ سے ظاہری حواس مارے جاتے ہیں اور اسی کی وجہ سے بعض اوقات فالج گر جاتا ہے اور وہی خون جس سے انسان کی عقل قائم ہوتی ہے اور جس کی وجہ سے وہ سوچتا سمجھتا اور سب کام کرتا ہے جوش کی وجہ سے رگ پھٹ کر اگر اس کی تھوڑی سی مقدار بھی دماغ کی طرف نکل جائے تو حواس مارے جاتے ہیں اور ہلاکت تک نوبت پہنچ جاتی ہے.اس قسم کی حالت کو روکنے کے لئے رسول کریم صلی ا ہم نے فرمایا کہ اگر انسان کھڑا ہو تو بیٹھ جائے.بیٹھا ہو تو لیٹ جائے اور غصہ کی وجہ خون زیادہ جوش مار رہا ہو اور لیٹنے سے بھی دور نہ ہو تو ٹھنڈا پانی پی لے.1.اس سے اس کی حالت اچھی ہو جائے گی اور عقل عود کر آئے گی.کھڑا ہوا انسان اگر بیٹھ جائے

Page 345

* 1941 346 خطبات محمود تو اشتعال میں کمی آ جائے گی اور اگر بیٹھنے سے کمی نہ ہو تو اس کے معنے یہ ہوں گے کہ جوش اتنا زیادہ ہے کہ بیٹھنے سے بھی ٹھنڈا نہیں ہوا.اس صورت میں آپ نے جانے کی ہدایت فرمائی ہے.لیکن اگر اس سے بھی آرام نہ ہو تو ٹھنڈا پانی پی لینے سے حالت درست ہو جائے گی کیونکہ اس سے معدہ سرد ہو جائے گا اور چاروں طرف سے خون اسے گرم کرنے کے لئے جمع ہو جائے گا اور اس طرح اشتعال میں کمی ہو جائے گی.طبی طور پر بھی یہ نہایت لطیف بات ہے جس سے خون کی حدت دور ہو جاتی ہے ا جاتی ہے اور علم النفس کی رو سے بھی یہ بہت عجیب بات ہے کیونکہ وقت اور حالت کی تبدیلی سے ان جذبات کا قبضہ کمزور ہو جاتا ہے جو پہلی حالت کے لئے ذمہ دار ہوتے ہیں.بعض لوگ جب کسی خاص مقام پر پہنچتے ہیں تو کوئی دوست یاد آ جاتا ہے مگر وہاں سے چلے جائیں تو وہ یاد بھی بھول جاتی ہے.اسی طرح اگر کسی کو کسی مقام پر کوئی گالی دے اور وہ حالت کو تبدیل کرے یعنی اگر کھڑا ہو تو بیٹھ جائے، بیٹھا ہو تو لیٹ جائے تو حالت کی اس تبدیلی کے ساتھ ہی اس کی دماغی کیفیات میں بھی تغیر پیدا جائے گا اور اشتعال میں کمی آجائے گی.قرآن کریم نے اس بات کو اور بھی لطیف رنگ میں بیان فرمایا ہے.چنانچہ فرمایا کہ اس جگہ سے ہٹ جاؤ جہاں گالیاں دی جاتی ہیں.یہ اشتعال کو دور کرنے کا انتہائی نسخہ ہے جو قرآن کریم نے بتایا ہے یعنی اگر کھڑے ہونے کی حالت میں بیٹھنے سے اور بیٹھنے کی حالت میں لیٹنے سے آرام نہیں ہوتا تو اس مجلس سے ہی چلے جاؤ.جگہ کی تبدیلی سے دماغی کیفیت میں بہت بڑا تغیر ہو جاتا ہے اس سے ایک تو وہ شخص سامنے نہیں رہتا جس پر غصہ آ رہا ہو.دوسرے وہ نظارہ بھی سامنے نہیں رہتا.بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ یوں تو انسان کی طبیعت میں غصہ پیدا نہیں ہوتا.ایک شخص اسے گالی دے رہا ہے مگر یہ اسے بیوقوف سمجھ کر ہنس دیتا ہے ہے لیکن معا اس کی نظر اپنے پہلو پر پڑتی ہے تو اسے ایک ایسا دوست وہاں کھڑ انظر آتا ہے جو پہلے ہی اسے بزدل کہا کرتا تھا اسے دیکھ کر معاً اسے خیال ہوتا ہے کہ اگر میں چپ رہا اور اس گالی کا انتقام نہ لیا تو میری بزدلی کے متعلق

Page 346

* 1941 347 خطبات محمود میرے اس دوست کی رائے پکی ہو جائے گی اور وہ اس شخص کی گالی سے نہیں بلکہ اس دوست کو دیکھ کر غضب میں آ جائے گا کیونکہ وہ سمجھے گا کہ اس وقت میرا رہنا آئندہ کے لئے میرے واسطے مشکلات پیدا کر دے گا.بعض دفعہ اس کا چپ عزیز یا بیوی بچے سامنے ہوتے ہیں.جن کے سامنے وہ ہمیشہ اپنی بہادری بتایا کرتا ہے اور ان کو ہر روز ڈانٹتا رہتا ہے اور کہتا رہتا ہے کہ میں تمہاری خبر لوں گا.اس لئے ان کی موجودگی میں اگر کوئی اسے گالی دے تو وہ سمجھتا ہے کہ اگر میں چپ رہا تو یہ لوگ خیال کریں گے کہ یہ تو بالکل زنخا ہے.ہم پر تو ہر وقت رعب ڈالتا رہتا ہے مگر دوسروں کے سامنے چپ ہو جاتا ہے.پس وہ گالی سننے کی وجہ سے نہیں بلکہ بیوی بچوں پر رعب قائم رکھنے کے خیال سے جوش میں آجاتا ہے.پس کئی دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ دوسرے موجبات اصل بات سے بھی زیادہ جوش دلانے والے ثابت ہوتے ہیں اور اس مقام یا نظارہ کی وجہ سے جوش آ جاتا ہے.ایسی حالت میں اگر آدمی اس جگہ سے ہٹ جائے تو چونکہ وہ بیوی بچے جن کی موجودگی اس کے لئے وجہ اشتعال ہو سکتی تھی.سامنے نہ ہوں گے اور نظارہ بدل جائے گا اس لئے اس کا جوش بھی ٹھنڈا پڑ جائے گا.نہ اس کے بیوی بچے سامنے ہوں گے اور نہ اس کو ان پر اپنا رعب قائم رکھنے کے لئے غصہ آئے گا یا اس کا دوست سامنے نہ ہو گا.تو بزدلی کے الزام سے بچنے کے لئے اس کے اندر کوئی جوش بھی پیدا نہ ہو گا.اسی طرح اسے گالی دینے والا بھی اس کے سامنے نہ رہے گا تو جوش کم ہو جائے گا.اور صرف وہاں سے ہٹ جانے کی وجہ سے خود بخود ایسے سامان پیدا ہو جائیں گے کہ اس کا جوش ٹھنڈا ہو جائے گا.پس اشتعال کے دور کرنے کے لئے قرآن کریم نے یہ نسخہ بتایا ہے کہ انسان اس جگہ سے ہٹ جائے 2 اور رسول کریم صلی الیم نے اس کی تشریح میں جو کچھ فرمایا ہے وہ بھی دراصل وہاں سے ہٹ جانے کے ہی مترادف ہے آپ نے جو یہ فرمایا کہ آدمی کھڑا ہو تو بیٹھ جائے.بیٹھا ہو تو لیٹ جائے اور پھر بھی غصہ دور نہ ہو

Page 347

خطبات محمود دور ہو 348 * 1941 ہے.تو ٹھنڈا پانی پی لے.یہ بھی دراصل وہاں سے چلے جانے کے ہی مترادف ہے اور یہ بھی دراصل قرآن کریم کے وہاں سے چلے جانے کے حکم کی تشریح ہے اور اس کے چھوٹے درجے بیان کئے گئے ہیں.اور یہ بھی ایک قسم کا غصہ کے مقام سے ہٹ جانا ہی ہے کہ کھڑا ہوا آدمی بیٹھ جائے یا بیٹھا ہوا لیٹ جائے یا ٹھنڈا پانی پی لے.تھوڑے اشتعال کے وقت بیٹھ جانا یا لیٹ جانا یا ٹھنڈ اپانی پی لینا ہی کافی یہ تھوڑے جوش کے وقت فائدہ دیتا ہے لیکن اگر اشتعال زیادہ ہو تو قرآن کریم کا بتایا ہوا نسخہ فائدہ دے جاتا ہے اور حقیقی طور پر وہاں سے چلے جانے سے اشتعال سکتا ہے.قرآن کریم کے اس حکم کی حکمت یہی ہے کہ اشتعال کے نتائج ہمیشہ بُرے ہوتے ہیں.اشتعال کی وجہ سے اگر کوئی ایسی بات کی جائے جو نیکی ہو تو وہ بھی انسان کو فائدہ نہیں پہنچا سکتی اور نہ اسے خدا تعالیٰ کے قریب کر سکتی ہے.حدیث میں آتا ہے کہ ایک لڑائی کے موقع پر ایک شخص بڑے جوش کے ساتھ لڑ رہا تھا.صحابہ نے دیکھا تو کہا اللہ تعالیٰ اسے جنت نصیب کرے اس نے آج مسلمانوں کی اتنی خدمت کی ہے کہ کسی نے نہ کی ہو گی.رسول کریم صلی ا ہم نے اسے لڑتے دیکھا تو فرمایا.اگر کسی نے دنیا میں چلتا پھرتا دوزخی دیکھنا ہو تو اسے دیکھ لے.صحابہ نے جو اس کی اتنی تعریف کرتے تھے یہ بات سنی تو بہت حیران ہوئے اور بعض کمزور طبائع نے کہا کہ عجیب بات ہے کہ ایسی خدمت کرنے والے کو رسول کریم صلی الم نے دوزخی فرمایا ہے.ایک صحابی بیان کرتے ہیں کہ میں نے دل میں خیال کیا کہ اگر اس شخص کے حالات ظاہر نہ ہوئے تو بعض لوگوں کے لئے یہ بات ابتلاء کا موجب ہو گی اس لئے میں نے کہا خدا کی قسم میں اس شخص سے جدا نہ ہوں گا جب تک کہ اس کا انجام نہ دیکھ لوں تا رسول کریم صلی علیم کی صداقت ظاہر ہو چنانچہ ئیں اس کے ساتھ ہو لیا.وہ بڑی بہادری سے لڑتا رہا حتی کہ سر سے پاؤں تک زخمی ہو ر گر پڑا اور شدتِ درد کی وجہ سے کراہنے لگا.لوگ اس کے پاس جنت کی مبارک دینے آتے اور کہتے کہ تمہارا انجام کیسا اچھا ہو رہا ہے کہ تم دین کے لئے ایسی بہادری

Page 348

خطبات محمود 349 * 1941 سے لڑتے ہوئے جان دے رہے ہو.مگر اس نے کہا مجھے جنت کی نہیں بلکہ دوزخ کی مبارک دو کیونکہ میں نے دین کی خاطر لڑائی نہیں کی بلکہ ان لوگوں سے مجھے ذاتی دشمنی تھی.بعض لوگوں کے اطمینان دلانے کے لئے تو یہی بات کافی تھی مگر اس بات کا بھی امکان تھا کہ وہ توبہ کر لے.اس لئے وہ صحابی کہتے ہیں.میں پھر بھی اس کے ساتھ ہی رہا حتی کہ جب درد کی شدت نے اسے اور بھی بے قرار کر دیا تو اس نے نیزہ مار کر خود کشی کر لی.رسول کریم صلی العلم مجلس میں تشریف فرما تھے کہ یہ صحابی وہاں پہنچے اور کہا يَا رَسُولَ اللهِ اَشْهَدُ أَنْ لَّا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ.آپ نے فرمایا کیا بات ہے؟ اس نے عرض کیا کہ نے فلاں شخص کے متعلق فرمایا تھا کہ جس نے دوزخی کو دیکھنا ہو اسے دیکھ لے.وہ وہ چونکہ بڑی بہادری سے لڑ رہا تھا اس لئے بعض لوگوں کو شبہ ہوا کیونکہ سمجھتے تھے یہ بڑا مخلص ہے اور بڑی قربانی کر رہا ہے.ایسے کمزور لوگوں کی حالت کو دیکھ کر میں نے فیصلہ کیا کہ میں اس کے ساتھ رہوں گا جب تک کہ اس کا انجام لوں چنانچہ میں نے دیکھا کہ درد کی برداشت نہ کرتے ہوئے آخر اس نے نیزہ مار کر خود کشی کر لی.یہ سن کر آپ نے بھی کلمہ شہادت پڑھا اور گواہی دی کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں اور یہ کہ آپ اللہ تعالیٰ کے بندے اور رسول ہیں.3 تو اشتعال کی وجہ سے اس کی یہ لڑائی جو اس کے لئے بہت بڑی نیکی بن سکتی تھی اس کے لئے عذاب کا موجب بن گئی.اگر وہ اپنے دل سے بغض کو دور کر کے لڑتا اور یہ فیصلہ کر لیتا کہ مجھے غصہ تو ان لوگوں کے خلاف ہے ہی.مگر لڑائی کی نیت میں خدا تعالیٰ کے لئے کرتا ہوں تو کیا اس کی تلوار اس کے دشمنوں کو زخمی نہ کرتی.کیا وہ اس کے ہاتھ سے قتل نہ ہوتے.پھر بھی وہی ہوتا جواب ہوا مگر یہ لڑائی اس کے لئے اللہ تعالیٰ کے قرب کا ذریعہ بن جاتی اور وہ بہت بڑے ثواب کا حقدار جاتا مگر اشتعال کی صورت میں یہ اس کے لئے عذاب کا موجب ہو گئی اور اشتعال کے اثر کے ماتحت دیکھ لو.اس نے کس طرح اپنے اوپر رحمتِ الہی کا دروازہ

Page 349

* 1941 350 خطبات محمود بند کر لیا.اگر وہ دانائی اور عقل سے کام لیتا اور نیت کو بدل لیتا اور سمجھتا کہ میری طرف سے خدا تعالیٰ میرے دشمنوں سے بدلہ لے رہا ہے اور اپنی لڑائی اسلام کے لئے لڑتا ہے تو پھر بھی اس کی تلوار اس کے دشمنوں کو زخم لگاتی اور پھر بھی وہ اس کے ہاتھ سے ہلاک ہوتے پھر بھی وہ اپنے دل کا جوش نکال سکتا مگر اس کے ساتھ اس کی لڑائی عبادت میں داخل ہوتی.وہ جہاد کے ثواب کا مستحق ٹھہرتا.دوزخ کی بجائے جنت میں جاتا اور فرشتوں کی لعنت کی بجائے رحمت کا مستحق ہوتا.رسول کریم صلی ال یم بھی بجائے یہ فرمانے کے کہ جس نے دوزخی زمین پر چلتا پھرتا دیکھنا ہو اسے دیکھ لے.فرماتے کہ جس نے جنتی زمین پر چلتا پھرتا دیکھنا ہو دیکھ لے.دیکھو کتنا چھوٹا سا فرق ہے.عقل کے ذرا سے پھیر سے کچھ کا کچھ ہو سکتا تھا مگر اشتعال کی وجہ سے وہ کہاں سے کہاں چلا گیا.تو ایک ذرا سے تغیر کے ساتھ انسان کچھ کا کچھ بدل جاتا ہے.وہی کام اس کے لئے نیکی بن جاتا ہے اور وہی بدی ہو جاتا ہے.وہی کام خدا تعالیٰ تک پہنچا دیتا ہے.اور وہی دوزخ میں گرا دیتا ہے.دیکھو ایک طرف تو یہ شخص ہے جسے خدا تعالیٰ نے آنحضرت صلی ال ولیم کی کمان میں لڑنے کی توفیق دی.حضرت ابو بکر حضرت عمر کے دوش بدوش لڑائی کرنے کا موقع دیا اور جہاد میں شریک ہونے کی توفیق دی مگر اس نے اشتعال کی وجہ سے اتنی عظیم الشان نعمت کو ردی کر کے پھینک دیا.اس کے بالمقابل ایک ایسا ہی موقع حضرت علی رضی اللہ عنہ کو پیش آیا.جنگ احزاب ( یا جنگ خیبر کے موقع پر ان کی ایک کافر کے ساتھ لڑائی ہوئی اور حضرت علیؓ نے اسے زمین پر گرا لیا.اسے گرانے سے پہلے آپ کو بہت دیر تک اس سے کشتی کرنی پڑی لیکن جب گرانے کے بعد اسے قتل کرنے کے لئے آپ اس کے سینہ پر بیٹھ گئے تو اس نے آپ کے منہ پر تھوک دیا.جب اس نے تھوکا تو حضرت علی فوراً اسے چھوڑ کر الگ ہو گئے.اس پر وہ بہت حیران ہوا اور حیرت سے پوچھا کہ یہ کیا بات ہے.تم میری تلوار سے تو نہ ڈرے حالانکہ میں ایک مشہور زن ہوں.پہروں لڑائی ہوتی رہی اور تم نے بڑی مصیبت اور مشکل سے مجھے

Page 350

* 1941 351 خطبات محمود الگ گرایا.اس لڑائی کے دوران میری تلوار اور نیزہ سے ڈر کر پیچھے نہ ہٹے مگر میرے تھوک دینے سے مجھے چھوڑ کر الگ ہو گئے.یہ بات کیا ہے؟ حضرت علی نے جواب دیا کہ اصل بات یہ ہے کہ جب تم نے میرے منہ پر تھوکا تو مجھے غصہ آگیا اور میں نے سمجھا کہ اس غصہ کی حالت میں اگر میں نے تم کو مار دیا تو میں خدا تعالیٰ کا گنہگار ہوں گا کیونکہ اس کے معنے یہ ہوں گے کہ میں نے غصہ کی وجہ سے اپنے دشمن کو قتل کر دیا.حالانکہ میں یہاں اس لئے لڑنے نہیں آیا کہ تم سے میری کوئی ذاتی دشمنی ہے بلکہ اس لئے آیا ہوں کہ تم خدا تعالیٰ کے دشمن ہو اور اس کے دین کو مٹانا چاہتے ہو اور اگر ذاتی غصہ کی حالت میں میں تمہیں قتل کر دیتا تو بجائے مجاہد بننے کے قاتل ٹھہرتا.اس لئے میں نے مناسب سمجھا کہ اس وقت تک تم سے رہوں جب تک کہ میرا غصہ دور ہو کر عقل کا توازن درست ہو جائے اور میری ساری خواہشات خدا تعالیٰ کے تابع ہو جائیں.دیکھو دونوں کو ایک سے حالات پیش آئے.دونوں کو غصہ آیا.ایک نے تو لڑائی ہی اس غصہ کی وجہ وجہ سے اور دوسرے نے غصہ کی حالت میں لڑائی بند کر دی اور نیچے گرائے ہوئے دشمن کو چھوڑ کر الگ ہو گیا حتی کہ غصہ دور ہو کر خدا تعالیٰ کے لئے لڑائی کرنے کی حالت پیدا ہو جائے.غرض ایک ہی کام اگر اشتعال کے ماتحت کیا جائے تو انسان نیکی سے محروم ہو جاتا ہے اور وہی اگر اشتعال سے الگ ہو کر کیا جائے تو نیکی بن جاتا ہے پھر اس سے بھی اعلیٰ مدارج ہوتے ہیں وہاں نفس کو اور بھی دبانا پڑتا ہے حتی کہ ان کاموں میں نفس کا کوئی دخل ہی نہیں رہتا اور وہ خالص دین ہی دین ہو جاتے ہیں.ہم میں سے بعض لوگ ہیں کہ جب ان کو غصہ آتا ہے تو اشتعال کی وجہ سے ان کا دل چاہتا ہے کہ دشمن کو پیس ہی ڈالیں وہ اللہ تعالیٰ سے دعائیں بھی یہی کرتے ہیں کہ ہمارے مخالفوں کو مار ڈال، پیس دے، ان کا بیڑہ غرق کر ان کا کچھ بھی باقی نہ رہنے دے اور وہ اپنے دل میں سمجھتے ہیں کہ ہم دین کے لئے و اور

Page 351

* 1941 352 خطبات محمود بڑی غیرت دکھاتے ہیں.ہم میں بڑا تقویٰ ہے کہ دوسروں کو مٹا دینا چاہتے ہیں.مگر ہم ایک طرف اس ہستی کو دیکھتے ہیں جس نے ہمیں دین سکھایا جس کے بغیر ہم دین کو ہر گز نہ جان سکتے تھے کہ لوگ اسے مارتے ہیں.گتے پیچھے ڈالتے ہیں.ایک طرف کتے کاٹنے کو دوڑتے ہیں اور دوسری طرف سے لڑکے پتھر مارتے جاتے ہیں اور آپ زخمی ہونے کی حالت میں بھاگے جاتے ہیں کہ رستہ میں ایک فرشتہ ملتا اور کہتا ہے کہ آپ کے ساتھ ان لوگوں نے جو سلوک کیا وہ خدا تعالیٰ کو بہت ناپسند ہوا اور اس نے مجھے حکم دیا ہے کہ اگر آپ کہیں تو ان لوگوں کے ساتھ لوط کی بستی والا سلوک کیا جائے.یعنی اس بستی کو اُلٹا کر پھینک دیا جائے.مگر آپ جواب دیتے ہیں کہ اگر یہ شہر اس طرح تباہ ہو گیا تو مجھ پر ایمان کون لائے گا.4 میں یہ نہیں چاہتا.میں تو ان لوگوں کی ہدایت چاہتا ہوں.مکہ والوں نے بھی آنحضرت صلی الله اعلم کے ساتھ بڑی سختیاں کی تھیں.مگر اس قسم کا وحشیانہ سلوک صرف طائف والوں کا سة علیدوم ہی حصہ تھا.شاید یہی وجہ ہے کہ طائف کو سب سے آخر میں ایمان نصیب ہوا.مکہ بھی آخر میں مسلمان ہوا اور طائف اس کے بھی بعد مگر رسول کریم صلی الم نے ان کے لئے بھی بد دعا نہیں کی بلکہ جب خدا تعالیٰ کی طرف سے عذاب نازل ہونے لگا تو پھر بھی سفارش ہی کی اور یہی کہا کہ اے میرے خدا یہ لوگ جانتے نہیں کہ یہ کیا کرتے ہیں.ہم لوگوں کو سوچنا چاہئے کہ ہم میں رسول کریم صلی الی سے بڑھ کر تو غیرت نہیں ہو سکتی.دین کے لئے جو غیرت آپ کے دل میں ہو سکتی تھی وہ ہم میں سے کس کے دل میں ہو سکتی ہے.کئی نادان بعض کمزور حدیثوں کی بناء پر کہا کرتے ہیں کہ حضرت عمرؓ کا مشورہ یہ تھا کہ بدر کے قیدیوں کو قتل کر دیا جائے مگر رسول کریم صلی ال ولیم نے فرمایا کہ نہیں.فدیہ لے کر ان کو چھوڑ دیا جائے.اور وہ کہتے ہیں کہ نَعُوذُ بِاللهِ الله تعالیٰ کو اس بات پر اتنا غصہ آیا کہ قریب تھا کہ مسلمانوں کو تہ و بالا کر دیا جائے مگر پھر اللہ تعالیٰ نے معاف کر دیا.حضرت عمر

Page 352

* 1941 353 خطبات محمود کے لئے اور بہت سی بڑائیاں ہیں.وہ مسلمانوں کے اندر ایک ایسے گوہر تھے کہ ان کی قدر نہ کرنا بہت بڑی ناشکری ہے مگر میں بچپن سے لے کر اب تک کبھی یہ بات نہیں سمجھ سکا کہ یہ لوگ کس طرح حضرت عمرؓ کو بڑھانے کے لئے رسول کریم کے مقام کو گھٹانے کی جرات کرتے ہیں.اگر آج حضرت عمر زندہ ہوں اور احادیث ان کے سامنے پیش کی جائیں.تو وہ کہیں کہ کاش! زمین پھٹ جائے اور میں یہ سننے کی بجائے اس میں سما جاؤں یہ نادان دیکھتے نہیں کہ قرآن کریم نے صاف فرمایا ہے کہ فَإِمَّا مَنَا بَعْدُ وَإِمَّا فِدَاء ) یعنی اول تو احسان کر کے قیدی چھوڑ دیئے جائیں نہیں تو فدیہ لے کر چھوڑ دیئے جائیں.یہ کیونکر ہو سکتا ہے کہ جس بات خدا تعالیٰ کو پہلے اس قدر غصہ آیا کہ وہ مسلمانوں کو تباہ کرنے پر تیار ہو گیا.بعد پر میں وہی حکم خود دے دیا اس کے تو یہ معنے ہیں کہ گویا بعد میں خدا تعالیٰ پچھتایا اور کہا کہ پہلے میں غلطی پر تھا.دراصل بات وہی صحیح تھی جو محمد (صلی ال نے کہی.یہ بات خدا تعالیٰ کی ہتک ہے.ہم مانتے ہیں کہ بعض احکام بدل بھی جایا کرتے ہیں مگر وہ عارضی حالات کے ماتحت ہوتے ہیں اور اگر ان میں کسی سے غلطی ہو جائے تو اس پر خدا تعالیٰ کو اتنا غضب نہیں آتا کہ قوم کی قوم کو تباہ کرنے کے لئے تیار ہو جائے.ایسا غضب صرف ان باتوں پر آتا ہے جو ازلی طور پر گناہ ہوں.مصلحتی کے سلسلہ میں اس کا غضب اس طرح نہیں بھڑکا کرتا اور یہاں تو یہ حالت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جو حکم دیا وہ آنحضرت صلی للی کام سے بھی زیادہ نرم ہے.چنانچہ فرمایا کہ اول تو احسان کر کے یونہی چھوڑ دو اور اگر اس طرح نہیں چھوڑ سکتے تو فدیہ لے لو.پھر عجیب بات یہ ہے کہ جس آیت کو اس بات کی تائید میں پیش کیا جاتا ہے کہ جنگ کے قیدیوں کو مار ڈالنا چاہئے.اس کا مطلب یہ ہے کہ جب تک خونریزی نہ ہو نبی کے لئے جائز نہیں کہ قیدی بنائے اور بدر کی جنگ میں خونریزی ہو چکی تھی.اس لئے اعتراض کیسا؟ اللہ تعالیٰ یہی فرماتا ہے کہ پہلے خونریزی ہو احکام تب قیدی بنانے جائز ہیں 7.اور اس پر آنحضرت صلی علی رام نے عمل کیا تھا.پھر آپ پر

Page 353

* 1941 354 خطبات محمود ناراضگی کے کیا معنے؟ بہر حال حق یہ ہے کہ آنحضرت صلی ال ا م سے زیادہ دین کے لئے کوئی غیر غیرت مند نہیں ہو سکتا.حضرت عمرؓ ہوں یا اور کوئی.اور آپ کا عمل ہر جگہ بخشش، مہربانی اور نرمی کا رہا ہے اور آپ کے صحابہ کے اعمال بھی بخشش، مہربانی اور رحم کے تھے.انہوں نے کبھی شدید سے شدید دشمنوں سے بھی انتقام لینے کا خیال نہیں کیا.اور اگر کبھی صحابہ کو ایسا خیال آیا تو رسول کریم صل ا ل ل ل ل ولیم نے اس کی اصلاح فرما دی.احادیث میں آتا ہے کہ اگر کبھی صحابہ جوش میں آکر کسی دشمن پر لعنت کرتے تو آنحضرت صلی ا ولم ان کو منع فرما دیتے.8 پس مومن کو ہمیشہ نرمی کا پہلو اختیار کرنا چاہئے.دشمن کی یہ شرارت ہوتی ہے کہ وہ انگیخت کرتا ہے.کبھی کوئی گالی دے دیتا ہے کبھی کوئی طنز کر دیتا ہے.کبھی اعتراض ایسے رنگ میں کرتا ہے کہ جس سے اشتعال پیدا ہو.مگر مومن کا یہ کام ہے کہ اسے غصہ آئے تو پی جائے اور ایسی مجلس میں کبھی نہ جائے جو شخص مخالفوں کی ایسی باتیں سنتا ہے اور پھر بھی ان سے سے ملتا، ان سے باتیں کرتا اور ان سے تعلق رکھتا ہے.وہ مومن نہیں.وہ بے غیرت اور بے ایمان ہے.اور جو جوش میں آکر قانون کو اپنے ہاتھ میں لیتا ہے اسے بھی مومن نہیں کہا جا سکتا، وہ وحشی اور نافرمان ہے.مومن وہی ہے کہ جب کوئی ایسی بات سنتا ہے تو غیرت کی وجہ سے اسے جوش تو آتا ہے مگر وہ کہتا ہے کہ میں اپنے خدا کے حکم کے ماتحت اپنے جوش ٹھنڈا کرتا ہوں.جو شخص ایسی باتیں کرنے والوں سے تعلق رکھتا ہے.وہ بے حیا اور بے غیرت ہے.مومن ہرگز نہیں اور جو ایسی بات سن کر جوش میں آتا اور قانون کو اپنے ہاتھ میں لیتا ہے.وہ وحشی اور نافرمان ہے.مومن کا رستہ درمیانہ ہوتا ہے اور وہ جب ایسی بات سنتا اور غیرت کی وجہ سے اسے جوش آتا ہے تو وہ خدا تعالیٰ کے حکم کے ماتحت اسے دباتا اور ایسے لوگوں سے قطع تعلق کر لیتا ہے کئی لوگ بے غیرت اور بے حیا ہوتے ہیں کہ وہ ایسی باتیں سننے کے باوجود دشمنان سلسلہ سے ایسے

Page 354

خطبات محمود جاتا ہے.355 * 1941 تعلق رکھتے ہیں اور قرآن کریم کی بعض آیات بے موقع سنا سنا کر اپنے رحیم کریم ہونے کا استدلال کرتے ہیں اور اپنی اس بے غیرتی اور بے حیائی کو چھپانا چاہتے ہیں.مگر ایسے لوگ ہر گز مومن نہیں ہوتے بلکہ یہ بے شرمی اور بے غیرتی ہے.گو ایسے لوگ ایمان کے کتنے دعوے کریں مگر وہ ہرگز مومن نہیں ہوتے.اسی طرح جو لوگ جوش میں آکر قانون کو ہاتھ میں لیتے ہیں وہ بھی مومن نہیں بلکہ وحشی اور نافرمان ہیں.کامل مومن وہی ہے جس کا دل ہر ایسی بات کو سن کر غیرت میں بھر.مگر خدا تعالیٰ کے حکم کو سامنے رکھ کر وہ چپ ہو جاتا ہے.اور خدا تعالیٰ سے اپیل کرتا ہے کہ مجھے جوش تو بہت آتا ہے مگر چونکہ تیرا حکم ہے کہ اپنے جوش کو بند رکھو.اس لئے میں اسے بند رکھتا ہوں.تو خود ان دشمنوں سے انتقام لے.ایسے ہی مومن کے لئے خدا تعالیٰ غیرت دکھاتا ہے اور کیا تم سمجھتے ہو کہ خدا تعالیٰ سے زیادہ غیرت کوئی انسان دکھا سکتا ہے.اگر خدا تعالیٰ غیرت نہیں دکھاتا تو اس کی دو وجوہ ہو سکتی ہیں.ایک تو یہ کہ ہمارے اندر غیرت نہیں ہوتی.اس لئے خدا تعالیٰ بھی غیرت نہیں دکھاتا یا پھر ہمارے اندر جھوٹی غیرت ہوتی اور اس کی وجہ سے ہم قانون کو اپنے ہاتھ میں لے لیتے ہیں.رسول کریم صلی ایم کی مجلس میں ایک دفعہ ایک شخص نے حضرت ابو بکر کو بُرا بھلا کہنا شروع کیا.آپ خاموش رہے.وہ شخص دیر تک آپ کو بُرا کہتا رہا.آخر آپ نے جواب دیا.اس پر رسول کریم صلی الم نے فرمایا.اب تک تو فرشتے آپ کی طرف سے جواب دے رہے تھے لیکن اب جو آپ نے خود جواب دینا شروع کر دیا.تو میں نے دیکھا کہ فرشتے یہ کہتے ہوئے آسمان کو واپس جا رہے تھے کہ اب یہ خود جواب دینے لگ گیا ہے اب ہماری یہاں ضرورت نہیں.9 تو اللہ تعالیٰ کی غیرت یا تو ایسے بے غیرتوں کے لئے نہیں بھڑکتی جو اصل میں شعائر اللہ اور دین کے ساتھ ہنسی کرنے والوں کے خلاف سچی غیرت نہیں رکھتے اور یا ان لوگوں کے لئے نہیں بھڑکتی جو ایسے جو شیلے ہوں کہ اپنے آپ کو خدا تعالیٰ سے بھی بڑا غیرت مند ظاہر کرنا چاہیں.کہتے ہیں ہے

Page 355

* 1941 356 خطبات محمود ہے.ماں سے زیادہ چاہے کٹنی کہلائے.جو لوگ خدا تعالیٰ سے بھی زیادہ غیرت دکھانا چاہتے ہیں اور اس سے پہلے قانون کو اپنے ہاتھ میں لیتے ہیں.ان کے لئے بھی خدا تعالیٰ غیرت نہیں دکھاتا.وہ کہتا ہے یہ اپنا کام خود کرتا ہے ہمیں ہے یہ اپنا کام خود کرتا ہے ہمیں اس کے لئے کچھ کرنے کی ضرورت نہیں.خد اتعالیٰ اسی کے لئے غیرت دکھاتا ہے جس کے دل میں دین کے لئے سچی غیرت ہو.جو ہر بدگو، ہر طنز کرنے والے، ہر طعن کرنے والے اور سلسلہ کے خلاف ہر منصوبہ کرنے والے سے اجتناب کرتا ہے اور ایسے لوگوں سے کوئی تعلق : نہیں رکھتا.اگر کسی مجلس میں دین سے استہزاء ہو رہا ہو تو فوراً اٹھ کر چلا جاتا اس کے دل میں جوش آتا ہے مگر وہ خدا تعالیٰ کے حکم کے ماتحت اسے دبا لیتا ہے.اور کہتا ہے کہ چونکہ خدا تعالی نے جوش کی وجہ سے قانون کو ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں دی اس لئے میں اپنے جوش کو دباؤں گا.ایسے شخص کے لئے خدا تعالیٰ خود آسمان سے اترتا ہے اور کہتا ہے کہ میرے بندے کو تکلیف پہنچی مگر اس نے میرے لئے صبر کیا لیکن میں صبر نہیں کروں گا بلکہ بدلہ لوں گا اور اسے تکلیف پہنچانے والے کو میں خود سزا دوں گا اور خدا تعالیٰ سے بڑھ کر بدلہ لینے والا اور کون ہو سکتا ہے؟ جسے خدا تعالیٰ سزا دے اس کے لئے کوئی چارہ گر بھی نہیں ہو سکتا.لوگ لاٹھی مار کر ایک دوسرے کا سر پھوڑ دیتے ہیں مگر ڈاکٹر اس کا علاج کر کے اچھا کر دیتے ہیں.پیٹ میں خنجر گھونپ دیتے ہیں مگر ڈاکٹر علاج کر کے بچا لیتے ہیں اور اگر وہ مر بھی جائے تو گورنمنٹ انتقام لیتی ہے اور مجرم کو سزا دیتی ہے بعض اوقات ایک شخص کے قتل پر دس میں لوگوں کو پھانسی دے دیا جاتا ہے مگر دیکھو خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام کے لئے غیرت دکھائی اور طاعون سے ایک کروڑ انسان ہلاک کر دیئے.کیا اتنی اموات کے نتیجہ میں گورنمنٹ کسی ایک شخص کو بھی پھانسی دے سکی.کتنا عظیم الشان فرق ہے خدا تعالیٰ اور بندے کی سزا میں.بندے کی سزا اس کے مقابلہ میں حقیقت ہی کیا رکھتی ہے.

Page 356

* 1941 357 خطبات محمود فرض کرو کسی مومن نے ایک کافر کو مار دیا اور اس وجہ سے ایک مومن کو بھی موت کی سزا ہو گئی.فائدہ کیا ہوا.قرآن کریم نے ایک مومن کو دس کافروں کے برابر قرار دیا ہے.10 اس لئے گویا ایک کافر کو مارنے سے دس مومن ضائع ہوئے.دس گنا نقصان ہے.مگر خدا تعالیٰ نے گزشتہ جنگ عظیم میں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئی کے مطابق ہوئی، کروڑوں جانیں تلف کر دیں.یہ جنگ بھی خدا تعالیٰ کا نشان تھا.پھر انفلوئنزا پھوٹا.یہ بھی خدا تعالیٰ کا نشان تھا.اس میں کروڑوں جانیں ضائع ہوئیں.کابل میں ہیضہ پھوٹا جس سے 85 ہزار جانیں ضائع ہو گئیں اور اللہ تعالیٰ نے ایک سید عبد اللطیف صاحب شہید کے بدلہ میں وہاں 85 ہزار آدمی مار دیئے.افغانستان کی کل آبادی 70، 80 لاکھ ہے ان میں سے 85 ہزار کے مر جانے کے یہ معنی ہیں کہ گویا ہر سو میں سے ایک مر گیا اور اس قدر تباہی کے عوض کسی کو پھانسی پر لٹکانا تو در کنار کسی کے پاؤں میں کانٹا بھی نہ چھا.ہندوستان میں دس پندرہ سال کے اندر طاعون سے ایک کروڑ آدمی مرے.انفلوئنزا سے سال بھر میں دو کروڑ آدمی خدا تعالیٰ نے مار دیا.اور یہ سب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام کی پیشگوئیوں کے مطابق ہوا.پھر زلزلہ آیا اور ایک منٹ کے اندر اندر کانگڑہ اور اس کے نواحی علاقہ میں ہیں ہزار آدمی مر گئے.11 پھر اور بھی کئی زلازل آپ کی پیشگوئیوں کے مطابق آئے اور لاکھوں جانیں ضائع ہوئیں.لیکن ان سب کے بدلہ کسی ایک شخص کو بھی سزا نہ دی جا سکی.کیونکہ یہ انتقام لینے والا خدا تھا اس لئے کسی کو کوئی گرفت نہ کر سکا.پس میں جماعت کے دوستوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ یہ ایام بہت نازک ہیں.ہماری کامیابی اور ترقی کو دیکھ کر دشمن ذلیل باتوں پر اتر آیا ہے اور ہمیں اشتعال دلاتا ہے.قادیان میں بھی اور باہر بھی ایسی کوشش کی جا رہی ہے اس لئے دوست اپنے جذبات پر قابو رکھیں اور جن مجالس میں ایسی باتیں ہوں وہاں سے اٹھ چلے جائیں.بکثرت استغفار کریں اور ایسی مجالس سے جہاں اشتعال دلانے کی

Page 357

خطبات محمود 358 * 1941 کوشش کی جائے دور رہیں.بجائے اس کے کہ قانون کو ہاتھ میں لے کر خدا تعالیٰ سے زیادہ باغیرت بننے کی کوشش کریں.جب خدا تعالیٰ کا حکم ہو کہ خاموش رہو تو بولنے کے یہ معنے ہیں کہ گویا یہ شخص بہت غیرت والا ہے اور خدا تعالیٰ غیرت والا نہیں.اور کیا عظمند ایک منٹ کے لئے بھی یہ سمجھ سکتا ہے کہ نَعُوذُ باللهِ : خدا تعالیٰ بے غیرت ہے اور یہ باغیرت ہیں؟ پس اپنے نفسوں کو قابو میں رکھو اور دعائیں کرتے رہو کہ خدا تعالیٰ خود ان باتوں کا بدلہ لے.ہماری دعاؤں میں بھی کبھی سزا کا پہلو مد نظر نہیں ہونا چاہئے.مجھے تو یاد نہیں کہ میں نے بچپن سے لے کر اب تک کبھی کسی شدید سے شدید دشمن کے لئے بھی بغیر شرط کے بد دعا کی ہو اور رطی طور پر بھی بد دعا ساری عمر میں دو تین بار ہی کی ہو گی اور وہ بھی کسی خاص موقع پر جب سلسلہ کا بہت نقصان ہوتا نظر آرہا ہو.ایسے وقت میں بھی میں نے یہ پر نہیں کہا کہ اے خد ادشمن کو تباہ کر دے بلکہ یہی کہا کہ اگر اس کی اصلاح ممکن نہیں اور سلسلہ کو اس کی زندگی سے نقصان ہے تو اسے ہمارے رستہ سے ہٹا دے.ایسی بد دعا بھی دو تین مواقع کے سوا میں نے کبھی نہیں کی اور بد دعا تو کبھی بھی ہیں کی حتٰی کہ میں نے تو مولوی ثناء اللہ صاحب کے لئے بھی کبھی بد دعا نہیں کی اور اگر کبھی ان کے متعلق جذبہ بھڑ کا ہے تو یہی دعا کی ہے کہ الہی اگر یہ احمدی ہو جائے تو یہ تیرا بہت بڑا نشان ہو گا لیکن اگر ایسا مقدر نہیں تو پھر تو اس کے شر سے اپنے سلسلہ کو بچا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی میں ایک دفعہ ایک شخص نے آپ کو لکھا کہ میری بہن پر جن آتے ہیں وہ یہ یہ طاقتیں رکھتے ہیں.ایسی کرامات دکھاتے ہیں.آپ نے جواب میں اسے لکھا جو گھر میں ہمیں بھی سنایا کہ ان جنوں سے کہو کہ اس غریب عورت پر کیوں آتے ہیں.کیوں مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی اور مولوی ثناء اللہ صاحب امرتسری کے سر پر چڑھ کر انہیں قادیان لا کر احمدی نہیں کرا دیتے.اس جواب سے ایک رنگ میں یہ بتانا مقصود تھا کہ خیال

Page 358

* 1941 359 خطبات محمود محض ایک وہم ہے ورنہ جن وغیرہ کچھ نہیں مگر پھر بھی یہ نہیں کہا کہ وہ جن مولوی محمد حسین صاحب اور مولوی ثناء اللہ صاحب کو مار دیں بلکہ یہی فرمایا کہ ان سے کہو ان کو قادیان لے آئیں اور بیعت کرا دیں.اس عورت بیچاری کو کیوں ستاتے ہیں.پس مومن کے دل میں رحم کا پہلو غالب رہنا چاہئے.مگر ساتھ ہی غیرت کا بھی ضروری ہے.یہ مقام کو بہت نازک ہے مگر مومن کو یہی مقام پیدا کرنا چاہئے.بعض لوگ رحم پیدا کرتے ہیں تو بے غیرت بن جاتے ہیں اور کئی غیرت پیدا کرتے ہیں تو بے رحم بن جاتے ہیں.کامل مومن وہی ہو سکتا ہے جس نے ان دونوں کو ایک جگہ جمع کر لیا اور ایسے ہی شخص کی طرف سے خد اتعالیٰ خود اس کے دشمنوں کا مقابلہ کرنے کے لئے کھڑا ہوتا ہے." (الفضل 19 جولائی 1941ء) 1 ابو داؤد کتاب الادب باب مَا يُقَالُ عِنْدَ الْغَضَبِ وَقَد نَزَّلَ عَلَيْكُمْ فِي الْكِتَبِ أَنْ إِذَا سَمِعْتُمُ أَيتِ اللهِ يُكْفَرُ بِهَا وَيُسْتَهْزَأُ بِهَا فَلَا تَقْعُدُوا ط مَعَهُمْ حَتَّى يَخُوضُوا فِي حَدِيثٍ غَيْرِةَ إِنَّكُمْ إِذًا مِثْلُهُمْ إِنَّ اللَّهَ جَامِعُ الْمُنفِقِينَ وَ الْكَفِرِينَ فِي لا جَهَنَّمَ جَمِيعًا...( النساء:141) بخاری کتاب المغازی باب غزوة خيبر 4 مسلم كتاب الجهاد باب مَا لَقِيَ النَّبِ و الله مِنْ آذَى الْمُشْرِكِينَ وَ الْمُنَافِقِينَ 5 زرقانی جلد 2 صفحہ 324 مطبوعہ بیروت 1994ء 6 محمد : 5 مَا كَانَ لِنَبِيَّ أَنْ يَكُونَ لَفَ أَسْرَى حَتَّى يُشْخِنَ فِي الْأَرْضِ ( الانفال : 68 ) ترمذی ابواب البر والصلة باب ما جاء فى اللعنة ، ابو داؤد كتاب الادب باب في اللعن و مسند احمد بن حنبل جلد 2 صفحہ 436 مطبوعہ بیروت 1978ء

Page 359

* 1941 360 خطبات محمود 10 يَأَيُّهَا النَّبِيُّ حَرْضِ الْمُؤْمِنِينَ عَلَى الْقِتَالِ اِنْ تَكُنْ مِنْكُمْ عِشْرُوْنَ صَبِرُوْنَ يَغْلِبُوا مِائَتَيْنِ (الانفال:66) 11 تاریخ احمدیت جلد سوم صفحہ 393

Page 360

* 1941 361 (22) خطبات محمود مولوی محمد علی صاحب کی تعلی کا جواب (فرمودہ 18 جولائی 1941ء) تشہد، تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:.رات چونکہ مجھے انتڑیوں میں درد کی شکایت رہی ہے اس لئے آج میں زیادہ تو بیان نہیں کر سکتا لیکن مولوی محمد علی صاحب کا جو جواب میرے ایک خطبہ شائع ہوا کے متعلق مختصراً کچھ بیان کرتا ہوں.باقی کا اس کے ایک ہے اب میرا خیال ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ توفیق دے تو ایک مضمون کے ذریعہ دوں.آج میں صرف اس امر کو لیتا ہوں کہ انہوں نے اپنے جواب میں لکھا ہے کہ :.حصہ وو “ میاں صاحب نے جو دلائل حضرت مسیح موعود کی نبوت کے متعلق دیئے ہیں میں ان تمام کو قارئین پیغام کے سامنے لانے کو تیار ہوں بشرطیکہ جناب میاں صاحب میرے اس جواب کو جو اصل مضمون کے متعلق میں اب لکھتا ہوں.اپنے اخبار “الفضل میں شائع کرا دیں...لیکن اس کے ساتھ میں یہ بھی کہہ دیتاہوں جناب میاں صاحب اس تجویز کو کبھی منظور نہ کریں گے.اس کی ؟ اپنے مخالف کے دلائل کو اپنی جماعت کے سامنے لانے سے وجہ وہی حص ڈرتا ہے جسے یہ خوف ہو کہ اس کی جماعت مخالف کے دلائل سے متاثر ہو کر پھسل جائے گی.سو یہی خوف جناب میاں صاحب.

Page 361

* 1941 362 خطبات محمود کے دل میں ہے.ممنہ سے جناب میاں صاحب جس قدر بلند دعاوی چاہیں کریں مگر ان کا طرزِ عمل یہ بتا رہا ہے کہ ان کا دل ہمارے دلائل کی مضبوطی کے خوف سے کانپ رہا ہے.اور ان کے نزدیک اس کے سوائے اپنی جماعت کی حفاظت کا اور کوئی طریق نہیں کہ وہ ہمارے دلائل کو ان کے سامنے نہ آنے دیں.”1 پیشتر اس کے کہ میں ان کی اس تجویز کا جواب دوں.مجھے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ مولوی محمد علی صاحب کو جو عادت صدر انجمن احمدیہ قادیان میں حکومت کرنے کی پڑ گئی تھی وہ اب تک قائم ہے.وہ صرف یہی سمجھتے ہیں کہ جو بات وہ کہہ دیں وہ ضرور پوری ہونی چاہئے اور اگر وہ پوری نہیں ہوتی تو دنیا میں جو دوسرے لوگ ہیں ان سب پر حجت تمام ہو گئی.دوسروں کی بات پر کان دھرنا یا اس کا جواب دینا ان کو بالکل بھول جاتا ہے.وہ آج یہ تجویز پیش کرتے ہیں کہ میں اگر ان کے اس جواب کو اپنے اخبار “ الفضل ” میں شائع کرا دوں تو وہ ان تمام دلائل کو جو میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نبوت کے متعلق دیئے ہیں.لفظ بلفظ قارئین پیغام" کے سامنے لانے کو تیار ہیں اور اپنی طرف سے یہ تجویز پیش کرنے کے بعد وہ بڑے دھڑلے کے ساتھ یہ کہتے ہیں کہ “جناب میاں صاحب اس تجویز کو کبھی منظور نہ کریں گے ”.اس کی وجہ وہ یہ بتاتے ہیں کہ میں نہیں چاہتا کہ جماعت ان کے دلائل اور خیالات سے آگاہ ہو.کیونکہ مجھے ڈر ہے کہ ہماری جماعت ان کے دلائل سے متاثر ہو کر پھسل جائے گی لیکن اپنی طرف سے یہ تجویز پیش کرتے وقت وہ اس بات کو بھول گئے ہیں کہ آج سے ایک سال قبل یعنی 19 جولائی 1940ء کو میں نے ایک خطبہ پڑھا تھا جو 24 جولائی 1940ء کے ”الفضل“ میں شائع : ہو چکا ہے.اس میں میں نے یہ کہا تھا کہ :.66 صحیح عقائد وہی ہو سکتے ہیں جن کا ہم حضرت مسیح موعود عليه الصلوۃ و السلام کے زمانہ میں علی الاعلان اظہار کیا کرتے تھے

Page 362

* 1941 363 اس زمانہ میں وہ جن عقائد کا اظہار کیا کرتے تھے میں ان کی تحریروں سے نکال کر ان کے سامنے رکھ دیتا ہوں اور وہ ان کے نیچے لکھ دیں کہ آج بھی میرا یہی عقیدہ ہے اور وہ میری اس زمانہ کی تحریروں.سے میرے عقائد نکال دیں اور میں لکھ دوں گا کہ آج بھی میرے عقائد یہی ہیں.ہم دونوں ممنہ سے یہی کہتے ہیں کہ ہمارے عقائد آج بھی وہی ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں تھے.پس اس طرح اس زمانہ کی تحریرات سے ہم ایک دوسرے کے عقائد نکال کر پیش کر دیں اور دونوں اپنے اپنے عقائد کے نیچے لکھ دیں کہ آج بھی ہمارے عقائد یہی ہیں اور پھر دونوں کے عقائد کتاب کی صورت میں شائع کر دیئے جائیں اور ساتھ ہی دونوں کی یہ تحریریں بھی چھپ جائیں کہ ہمارے عقائد آج بھی یہی ہیں...چونکہ ممکن ہے کہ کسی کی تحریر کا کوئی اقتباس ناقص ہو اس لئے ہر فریق کو حق ہو گا کہ وہ مطالبہ کرے کہ میری تحریر کا اقتباس ناقص ہے.فلاں حصہ اس کے ساتھ شامل کیا جائے یا فلاں دوسری جگہ پر میرے اس کلام کی شرح موجود ہے اسے شامل کیا جائے.اس کا یہ مطالبہ پورا کیا جائے گا ان تشریحی عبارتوں کے لئے بھی یہ شرط ہو گی کہ حضرت مسیح موعود نہ ہو علیہ السلام کے زمانہ کی شائع شدہ ہوں.اس طرح کسی پر ظلم نہ گا.ان کو حق ہو گا کہ ان کی کسی تحریر کا حل اگر کسی دوسری جگہ موجود ہو تو اس کے ساتھ شامل کرنے کا وہ مطالبہ کریں اور اسی طرح میری کسی تحریر کا حل اگر دوسری جگہ ہو تو میرا حق ہو گا کہ اس کے ساتھ شامل کرنے کا میں مطالبہ کروں اور یہ حل بھی ساتھ شامل کر لئے جائیں)." خطبات محمود

Page 363

خطبات محمود آج وہ 364 * 1941 جہاں انہوں نے آج یہ تجویز پیش کی ہے وہاں میری یہ تجویز ایک سال پہلے کی تھی.مگر مولوی صاحب نے اس کو اب تک منظور نہیں کیا اور اپنی طرف سے ایک نئی تجویز پیش کر دی ہے.اگر وہ میری تجویز کو منظور کر لیتے تو چونکہ یہ دونوں کی تحریرات کے مجموعہ کی اشاعت کا خرچ دونوں کو آدھا آدھا دینا تھا اس لئے فائدہ انہی کو رہتا.ان کی ایسی تحریرات میری نسبت بہت زیادہ ہو تیں.میں تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی میں صرف سال ڈیڑھ سال تک ایک سہ ماہی رسالہ کا ایڈیٹر رہا ہوں.اور وہ سالہا سال تک ایک ماہوار رسالہ کے ایڈیٹر رہے ہیں اور اس لئے میری ایک صفحہ کی تحریرات کے مقابلہ میں ان کی تحریرات بیسیوں صفحات کی ہوں گی جنہیں گویا ہم اپنے خرچ پر شائع کرتے.کیونکہ میری ایک صفحہ کی تحریرات کے ساتھ ان کی ہیں صفحات کی تحریرات شائع ہو جاتیں مگر انہوں نے اس تجویز کو نہ مانا.ہیں کہ میں ان کا مضمون " الفضل ” میں شائع نہیں کراؤں گا.کیونکہ میں ڈرتا ہوں کہ جماعت کے لوگ ان کی تحریرات سے متاثر نہ ہو جائیں.حالانکہ اس میں ڈرنے کی کوئی بات ہی نہیں.اگر میں ڈرتا ہوتا تو خود اپنی طرف سے ان تحریرات کو شائع کرنے کی تجویز کیوں پیش کرتا اور اگر وہ ایسے ہی نڈر ہیں تو انہوں نے میری تجویز کو منظور کیوں نہ کیا.اس میں ان کو صرف اتنی تکلیف کرنی پڑتی کہ میرے اُس زمانہ کے عقائد نکال دیتے اور میں ان کے عقائد کے متعلق اس زمانہ کے حوالے نکال دیتا.ان کی تحریرات چونکہ زیادہ تھیں اس لئے مجھے ان سے زیادہ تکلیف کرنی پڑتی.بلکہ ہم دونوں کو اتنی بھی تکلیف کی ضرورت نہ تھی.وہ میرے حوالے نکالنے کے لئے اپنے کسی مبلغ کو مقرر کر دیتے اور اسی طرح ان کے حوالے نکالنے کے لئے میں بھی اپنا کوئی مبلغ مقرر کر دیتا اور اس کے بعد ان کو صرف اتنا کرنا تھا کہ وہ ان تحریرات کے نیچے لکھ دیتے کہ آج بھی میرے عقائد یہی ہیں اور میں بھی ان کے تلاش کردہ حوالوں کے نیچے لکھ دیتا کہ آج بھی میرے یہی عقائد ہیں.پھر یہ تحریریں شائع کرنے پر جو خرچ آتا تھا وہ دونوں کو نصف نصف ادا

Page 364

* 1941 365 خطبات محمود کرنا تھا اور اس میں بھی ان کا ہی فائدہ تھا.جیسا کہ میں کہہ چکا ہوں ان کی تحریرات میری نسبت بہت زیادہ ہیں فرض کرو کل 25 صفحات ہوں تو میری تحریرات تو صرف ایک دو صفحات کی ہوں گی اور باقی سب ان کی.گویا میری تحریرات کی نسبت ان کی دس گنا زیادہ ہیں اور حوالوں کی نسبت سے اگر خرچ تقسیم کیا جائے تو ان کی تحریرات پر ہمارا خرچ بہت زیادہ ہوتا.کل خرچ اگر ایک ہزار روپیہ فرض کر لیا جائے تو پانچ پانچ سو دونوں کے حصہ میں آتا.لیکن 25 صفحات میں سے میری تحریرات صرف دو صفحہ کی اور ان کی 23 صفحات کی ہوتیں.اور اس طرح انہیں تو اپنی 23 صفحات کی تحریروں کی اشاعت کے لئے پانچ سو روپیہ دیز سو روپیہ دینا پڑتا اور ہمیں دو صفحات کی تحریرات کے لئے.گویا ہمارے پانچ سو روپیہ میں سے زیادہ سے زیادہ پچاس روپے تو میری تحریرات کی اشاعت پر خرچ آتے اور باقی ساڑھے چار سو ان کی تحریروں کی اشاعت پر.اور ان کا روپیہ کا بہت زیادہ حصہ ان کی اپنی تحریروں کی اشاعت پر خرچ ہوتا.غرض میں جو پانچ سو روپیہ دیتا اس میں سے بھی ساڑھے چار سو ان کی ریروں کی اشاعت کا خرچ ہوتا اور ان کا اپنا روپیہ بھی انہی کی تحریروں پر خرچ ہوتا.اس سے زیادہ انصاف کی بات کیا ہو سکتی تھی کہ ہم ان کی تحریروں کی اشاعت کے لئے روپیہ اپنے پاس سے دیں اور اگر یہ بھی مان لیا جائے کہ وہ جو پانچ سو روپیہ دیتے اس میں سے بھی پچاس روپے میری تحریروں کی اشاعت پر خرچ ہوتے تو بھی یہ ماننا پڑے گا کہ ان کا اپنا بھی ساڑھے چار سو روپیہ ان کی تحریروں کی اشاعت کا خرچ ہوتا اور میں جو پانچ سو روپیہ دیتا اس میں سے سو روپیہ دیتا اس میں سے بھی ساڑھے چار سو انہی کی تحریرات کی اشاعت میں خرچ ہوتا اور اس طرح یہ تجویز سراسر ان کے فائدہ کی تھی.پھر اس لحاظ سے بھی یہ تجویز ان کے لئے مفید تھی کہ ان کی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ مبارک کی تحریریں شائع ہو جاتیں.وہ تحریریں جنہیں خود حضرت مسیح موعود علیہ السلام پڑھتے تھے یہ ایسے مبارک ایام کی تحریریں ہیں جنہیں

Page 365

* 1941 366 خطبات محمود وہ خود بھی مبارک مانتے ہیں اور ان کا خیال یہی ہے کہ وہ زمانہ بہت اچھا تھا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام خود ان تحریروں کو پڑھتے اور ان کی نگرانی کرتے تھے.حضرت خلیفۃ المسیح الاول گو اس زمانہ میں خلیفہ نہ تھے مگر ان تحریروں کو آپ بھی پڑھتے تھے او ر نگرانی کرتے تھے.مولوی عبد الکریم صاحب بھی زندہ تھے.آپ کی وفات 1905ء میں ہوئی ہے.اور رسالہ ریویو 1902ء میں جاری ہوا ہے اس لئے ایک عرصہ تک آپ کی نظر سے بھی وہ تحریریں گزرتی رہیں.تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور وہ بزرگ جن کی تعریف حضور علیہ السلام نے کی ہے سب اس زمانہ میں زندہ تھے.ان کی نگرانی میں وہ ایام گزرے ہیں.اس زمانہ میں مولوی محمد علی صاحب جو کچھ لکھتے رہے ہیں ان کے متعلق ہمارا بھی یہی عقیدہ ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کے منشاء کے مطابق تھا.خود خدا تعالیٰ نے اس کے متعلق گواہی دی ہے.چنانچہ مولوی محمد علی صاحب کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا الہام ہے کہ “آپ بھی صالح تھے اور نیک ارادہ رکھتے تھے آؤ ہمارے ساتھ بیٹھ جاؤ.2 اور اس الہام کے خواہ کچھ بھی معنی کئے جائیں.بہر حال اس سے انکار نہیں ہو سکتا کہ وہ زمانہ مولوی محمد علی صاحب کے لئے بھی اچھا او رمبارک زمانہ تھا اور بعد کا دونوں فریق میں مختلف فیہ ہے اور پھر میرا بھی وہ زمانہ اچھا تھا اور خود مولوی محمد علی صاحب کی شہادت اس کے متعلق موجود ہے.چنانچہ میرے ایک مضمون پر انہوں نے لکھا تھا کہ :.“ اس رسالہ کے ایڈیٹر مرزا بشیر الدین محمود احمد حضرت اقدس کے صاحبزادے ہیں اور پہلے نمبر میں چودہ صفحوں کا ایک انٹروڈکشن ان کی قلم سے لکھا ہوا ہے.جماعت تو اس مضمون کو پڑھے گی مگر میں اس مضمون کو مخالفین سلسلہ کے سامنے بطور ایک بین دلیل کے پیش کرتاہوں جو اس سلسلہ کی صداقت پر گواہ ہے.وہ سیاہ دل لوگ جو حضرت مرزا صاحب کو مفتری کہتے ہیں اس بات کا جواب دیں کہ اگر یہ افتراء ہے تو یہ سچا جوش اس بچہ کے دل میں کہاں سے آیا.

Page 366

* 1941 367 خطبات محمود غور کرو جس کی تعلیم و تربیت کا یہ پھل ہے وہ کاذب ہو سکتا ہے.اگر وہ کاذب ہے تو پھر صادق کا دنیا میں کیا نشان ہے.” 3 گویا وہ میرے اس زمانہ کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت کا معیار قرار دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ میرا ایسے پاکیزہ مطالب بیان کرنا ثبوت ہے اس بات کا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام سچے ہیں اوراس کے یہ معنی ہیں کہ وہ مانتے ہیں کہ میرا وہ زمانہ اچھا تھا اور خیالات پاکیزہ تھے.پس ایسے مبارک زمانہ کی تحریروں کا شائع ہونا ایسا عمدہ کام تھا کہ جو کئی لوگوں کی ہدایت کاموجب بن جاتا مگر افسوس که مولوی صاحب نے میری تجویز کو نہ مانا اور اسے رد کر دیا.لیکن دوسری طرف وہ اپنی ایک تجویز پیش کر کے بڑی تعلی سے کہتے ہیں کہ میں اسے کبھی نہیں مانوں گا کیونکہ میں نہیں چاہتا کہ ان کے خیالات ہماری جماعت کے دوستوں تک پہنچیں.حالانکہ جیسا کہ میں بتاچکا ہوں میں نے خود یہ تجویز پیش کی تھی اور ان کے خیالات کی اشاعت پر قریباً پانچ سو روپیہ اپنے پاس سے خرچ کرنے کو تیار تھا.اور ظاہر ہے کہ یہ روپیہ خرچ کر کے جو کتاب چھپتی اسے ہم کہاں لے جاتے.آخر جماعت کے دوستوں کے پاس ہی وہ فروخت ہوتی یا بانٹ دی جاتی بلکہ ہم تو پہلے بھی اپنے پاس سے روپیہ خرچ کر کے ان کے خیالات کی اشاعت کرتے رہے ہیں.مولوی محمد اسماعیل صاحب مرحوم نے جو رسالہ تبدیلی عقیدہ مولوی محمد علی صاحب شائع کیا ہے اس میں ساری کی ساری عبارتیں انہی کی ہیں.تو ان کے خیالات پھیلنے میں میں کبھی روک نہیں ہوا بلکہ میں نے ہمیشہ ان کے خیالات جماعت تک پہنچائے ہیں مگر مگر وہ کہتے ہیں کہ ان کے مضمون کو ”الفضل“ میں شائع کرا دینے کی تجویز کو میں نہیں مانوں گا کیونکہ میں نہیں چاہتا کہ ان کے خیالات جماعت تک پہنچیں.ان کے اس خیال کے غلط ہونے کی ایک دوسری مثال قریب کے زمانہ کی ہے.مولوی ابو العطاء صاحب نے یہ تجویز پیش کی تھی کہ :.

Page 367

خطبات محمود 368 * 1941 “سورہ کہف کی تفسیر جناب مولوی محمد علی صاحب نے بیان القرآن میں اور حضرت (خلیفة المسیح) نے تفسیر کبیر میں شائع فرمائی ہے.اگر غیر مبائعین تیار ہوں تو دونوں تفسیروں کو مشتر کہ خرچ پر اکٹھا شائع کر دیا جائے تا پڑھنے والے اندازہ لگا سکیں کہ کسے تائید الہی حاصل ہے اور کون اس سے محروم ہے”.4 اس سے بھی ان کے خیالات کی اشاعت ہوتی مگر انہوں نے اسے بھی نہ مانا.گو یہ میری تجویز نہ تھی مگر ایک احمدی کی تھی جسے باوجود علم ہو جانے کے میں نے رد نہیں کیا.اور اسے رد نہ کرنے کے معنے یہ ہیں کہ میں نے اسے برا نہیں سمجھا.میرے نزدیک یہ پسندیدہ نہ سہی مگر میرے سامنے آئی اور میں نے اسے رد نہ کیا جس کے معنے یہ ہیں کہ میں نے اسے ایسا برا نہیں سمجھا مگر اسے بھی مولوی صاحب نے نہ مانا اور اس کا جواب یہ دیا کہ:.امور اگر کسی کو مقابلہ کے لئے بلاتا ہے تو وہ خدا کے حکم سے ایسا کرتا ہے لیکن ایک غیر مامور کا وہی طریق اختیار کرنا دین کو بچوں کا کھیل بنانا ہے”.5 حالانکہ اگر اس تجویز کو مان لیا جاتا اور دونوں تفسیروں کو اکٹھا شائع کیا جاتا تو اشاعت پر آدھا خرچ ہمارا بھی ہوتا اور اس طرح اپنے پاس سے روپیہ خرچ کر کے ہم ان کے خیالات کی اشاعت کرنے والے بنتے.تو ہماری طرف سے دو تجاویز پیش کی گئیں جن میں ان کے خیالات کی اشاعت کا موقع تھا اور ہم اس کے لئے نصف خرچ بھی دینے کو تیار تھے.پہلی تجویز کو مان لینے کی صورت میں نبوت کے متعلق ان کے خیالات پھیلتے اور دوسری کو ماننے کی صورت میں قرآن کریم کے جو علوم انہوں نے بیان کئے ہیں ان کی اشاعت ہوتی.مگر مولوی صاحب نے دونوں کو رڈ کر دیا اور اپنی طرف سے ایک تجویز پیش کر کے اس پر اتنا زور دیا کہ لکھ دیا میں اسے نہیں مانوں گا کیونکہ میں نہیں چاہتا کہ ان کے خیالات کی اشاعت ہماری جماعت میں ہو.حالانکہ میں نے کبھی مخالف کے خیالات کی اشاعت میں روک پیدا نہیں کی.

Page 368

* 1941 369 خطبات محمود جو لوگ میرے خطبات سنتے ہیں وہ اس بات سے اچھی طرح آگاہ ہیں اور دوسرے لوگ بھی جو میرے خطبات کو پڑھتے ہیں یہ جانتے ہیں کہ میں نے کبھی مخالف کے خیالات کی جماعت میں اشاعت میں روک پیدا نہیں کی..ابھی ڈیڑھ دو سال کی ہی بات ہے کہ جماعت کے بعض دوستوں نے مجھ سے کہا کہ بعض احمدی مصری صاحب کی کتابیں پڑھتے ہیں.ان کو روکا جائے مگر میں نے جواب دیا کہ روکنے کی کوئی بات نہیں.جو پڑھنا چاہے بے شک پڑھے بلکہ اگر انہیں نہ پڑھا جائے تو ہمارے عقائد کی فضیلت ان پر کس طرح ظاہر ہو.یہ بات نے اسی مسجد میں اور اسی منبر پر کہی تھی.میں نے تو ان لوگوں کو ملامت کی جو چاہتے تھے کہ مصری صاحب کی کتابیں پڑھنے سے جماعت کے دوستوں کو روک دیا جائے مگر ان سب باتوں کی موجودگی میں مولوی محمد علی صاحب کا یہ کہنا کہ میں ان کے خیالات کی اشاعت جماعت میں نہیں چاہتا بالکل خلاف واقعہ بات ہے.میں نے اپنی خلافت کے زمانہ سے لے کر آج تک بھی بھی جماعت کو مخالفوں کے خیالات پڑھنے سے نہیں روکا.ہاں فتنہ کی مجالس میں جانے سے ضرور روکا ہے اور اس سے قرآن کریم نے بھی روکا ہے اور کہا ہے کہ جہاں فتنہ کا احتمال ہو اور دین سے استہزاء ہو رہا ہو وہاں نہ جاؤ.6 پس جس بات سے قرآن کریم نے روکا اس سے میں بھی روکتا ہوں اور جس سے قرآن کریم نے نہیں روکا اس سے میں نے کبھی نہیں روکا اور اگر مخالف کے خیالات معلوم نہ ہوں تو تبلیغ کیسے کی جا گزشتہ پچیس سال کے عرصہ میں “ الفضل ” اور “ فاروق ” میں سینکڑوں دوستوں نے غیر مبائعین کے متعلق مضامین لکھے ہیں.میرا خیال ہے ایسے لوگوں کی تعداد تین چار سو ہو گی.اگر وہ ان کے خیالات نہیں پڑھتے تو کیا مولوی محمد علی صاحب یا ان کے رفقاء کے خیالات کی تردید بغیر پڑھنے کے ہی کرتے ہیں اور اپنے پاس حوالے بنا کر ان کے متعلق مضامین لکھ دیتے ہیں؟ پس اس بات کے ہوتے ہوئے یہ کہنا کہ ہم ان کے خیالات پڑھنے سے ہے سے

Page 369

خطبات محمود 370 * 1941 جماعت کو روکتے ہیں کس طرح صحیح ہو سکتا ہے؟ یہ مضمون لکھنے والے متفرق مقامات کے رہنے والے ہیں.لاہور اور ملک کے دوسرے شہروں کے ہیں.صرف قادیان کے ہی نہیں کہ کہا جا سکے علماء کو خاص طور پر پڑھائے جاتے ہیں.یہ لوگ مختلف جگہوں کے رہنے والے ہیں.اس لئے کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ یہ سب علماء کے طبقہ سے تعلق رکھنے والے ہیں.ابھی ایک بچہ ان کے رد میں مضامین لکھ رہا ہے جس کا نام خورشید احمد حملہ ہے اور اس وقت لاہور میں رہتا ہے.اس کے مضمون ایسے اعلیٰ درجہ کے ہوتے ہیں کہ پہلے میں سمجھتا تھا کہ یہ کوئی بڑی عمر کا آدمی ہے مگر بعد میں معلوم ہوا ہے کہ خان صاحب مولوی فرزند علی خان صاحب کا نواسہ ہے.اور 18،17 سال عمر ہے.وہ ان لوگوں کی کتابیں اور اخبار پڑھتا ہی ہے تو ان کا رڈ ہے ورنہ کیسے لکھ سکتا؟ اور ہم نے اسے ان کے پڑھنے سے کبھی نہیں روکا اور کبھی نہیں کہا کہ تم ابھی بچے ہو ان کی کتابیں نہ پڑھا کرو ایسا نہ ہو ابتلاء آ جائے.لکھتا اور نہ ہی کسی اور کو روکتے ہیں.مولوی صاحب کو یونہی یہ وہم ہے.مولوی محمد علی صاحب کی عادت ہے کہ خود تو کسی کی بات کو نہیں مانتے اور جو بات وہ خود پیش کریں اسے اگر کوئی نہ مانے تو اسے مجرم قرار دیتے ہیں.پس ان کی تجویز کے جواب میں سب سے پہلی بات تو میں یہ کہتا ہوں کہ پہلے وہ ان دونوں تجاویز کو تو مانیں جو ہماری طرف سے پہلے پیش ہو چکی ہیں.ان کی تجویز کا منشاء یہی ہے اور یہی سوال انہوں نے اٹھایا ہے کہ ان کے اور ہمارے عقائد اور دلائل اکٹھے لوگوں تک پہنچیں اور سب سے پہلے میں نے جو تجویز پیش کی تھی اس میں بھی یہی سوال تھا کہ ان کے مضامین ان کے الفاظ میں اور میرے مضامین میرے الفاظ میں لوگوں تک پہنچیں اور جب دونوں تجاویز کا مقصد وہی ہے تو اس کا کیا مطلب کہ وہ تو ہماری تجویز کو رڈ کر دیں اور ہم ان کی مانیں.اس بات کا مطلب سوائے اس کے کیا ہو سکتا ہے کہ ان کا خیال ہے کہ جو کچھ وہ کہیں وہی شیخ خورشید احمد صاحب نائب ایڈیٹر الفضل امراد ہیں.

Page 370

* 1941 371 خطبات محمود مانا جائے.پہلی دو تجویزیں ہماری طرف سے ہیں اور تیسری ان کی طرف سے ہے اور میں ان کو یقین دلاتا ہوں کہ جس دن وہ میری پہلی تجویز کو مان لیں گے یعنی کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام کے زمانہ میں ان کے عقائد کے متعلق ان کی تحریرات ہم جمع کر کے دے دیں.تو وہ نیچے لکھ دیں کہ آج بھی میرے عقائد یہی ہیں.ان کو اجازت ہو گی کہ اگر اُسی زمانہ کی تحریروں میں سے کوئی تشریح بھی ساتھ پیش کرنا چاہیں تو نیچے نوٹ دے دیں کہ میں نے عبارت کی تشریح فلاں جگہ کر دی ہے.اسی طرح اُس زمانہ میں میرے عقائد کے متعلق میری تحریرات جمع کر دیں اور میں ان کے نیچے لکھ دوں گا کہ آج بھی میرے عقائد یہی ہیں اور مجھے بھی اجازت ہو گی کہ اگر میں اُس زمانہ کی شائع شدہ کوئی وہ تشریحی عبارت ساتھ پیش کرنا چاہوں تو اس کے متعلق نوٹ دے دوں.اور پھر دونوں تحریریں نصف نصف خرچ ادا کر کے اکٹھی شائع کر دی جائیں اس سے دنیا کو معلوم ہو جائے گا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام کے زمانہ میں ہمارے خیالات کیا تھے اور ان کے کیا.اور کہ کس نے اپنے خیالات اور عقائد میں اب تبدیلی کر لی ہے.وہ اگر میری اس تجویز کو مان لیں تو مجھے بھی ان کی تجویز کو ماننے میں عذر نہ ہو گا.لیکن اگر وہ میری تجویز کو نہیں مانتے تو ان کو کیا حق ہے کہ مجھ الزام لگائیں کہ میں نہیں چاہتا ان کے خیالات جماعت کے دوستوں تک پہنچیں.کیا عجیب بات ہے کہ میں تو اگر پہلے ایک تجویز پیش کروں اور وہ اسے نہ مانیں تو اس میں کوئی الزام کی بات نہیں لیکن اگر وہ کوئی تجویز پیش کریں اور میں اسے نہ مانوں تو وہ کہیں کہ میں ان کے خیالات کی اشاعت کو روکنا چاہتا ہوں اور لوگوں کو گمراہ کرنا چاہتا ہوں.مگر ان سب باتوں کے باوجود میں ان کی پیش کردہ تجویز کو بھی ماننے کے لئے تیار ہوں لیکن عام قاعدہ یہ ہے کہ جو پہلی تقریر کرے اسے آخری تقریر کا موقع دیا جاتا ہے یعنی اسے جواب الجواب کا حق ہوتا ہے کیونکہ جو پہلے تقریر کرتا ہے وہ تو عام دلائل دے دیتا ہے مگر اس کا جواب دینے والا

Page 371

* 1941 خطبات محمود مضمون 372 کئی نئی باتیں بیان کر دیتا ہے اور ان کا جواب ضروری ہوتا ہے.اس لئے قاعدہ یہ ہے کہ جو پہلی تقریر کرے اسے آخری تقریر کا بھی حق ہوتا ہے.پس میں ان کے ن کو “ الفضل ” میں شائع کرانے کو تیار ہوں بشر طیکہ وہ میرا جواب الجواب بھی پیغام صلح ” میں شائع کرائیں.یا اگر وہ پسند کریں تو یہ سب یعنی میرا خطبہ، ان کا جواب اور میرا جواب الجواب کتابی صورت میں شائع کر دیا جائے.جس پر خرچ دونوں کا آدھا آدھا ہو اور کتابیں بھی آدھی آدھی لے لیں.اس سے بھی بڑھ کر میں ان کے لئے ایک اور آسانی کر دیتا ہوں.پہلے تو میں نے کہا تھا کہ وہ اگر میری اس تجویز کو مانیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ کی دونوں کی تحریریں اکٹھی شائع کر دی جائیں تو میں ان کی اس تجویز کو مان لوں گا مگر ان پر اتمام حجت کے لئے میں یہ بھی مان لیتا ہوں کہ چلو میں اس کو بھی چھوڑ دیتا ہوں بشر طیکہ وہ میری اس تجویز کو مان لیں یعنی میرا جواب الجواب بھی ساتھ شائع ہو تو گو ہمارا ان سے یہ مطالبہ تو رہے گا کہ ان کو کیا حق ہے کہ ہم جو کہیں اسے تو وہ نہ مانیں اور خود جو بات کہیں اس کا ماننا ہمارے لئے ضروری ہو.مگر ان کی اس تجویز کو ماننے کے لئے میں پہلے اپنی پہلی تجویز منوانے پر اصرار نہ کروں گا بلکہ ایک اور بھی آسانی ان کے لئے پیدا کر دیتا ہوں اور وہ یہ کہ اگر وہ میرا جواب الجواب شائع کرنے پر تیار ہوں تو خرچ کے دو حصے ہم دے دیں گے اور صرف ایک حصہ وہ دیں اور دو حصے کتب ہم لے لیں اور ایک حصہ وہ.اور میری طرف سے اتنی رعایتوں کے باوجود اگر وہ میری بات کو ماننے کے لئے تیار نہ ہوں تو ہم سوائے اس کے کیا کہہ سکتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ انہیں سچ کو سچ سمجھنے کی توفیق دے.اور ان کا وہ غصہ دور ہو جو ان کے لئے صداقت کے سمجھنے میں روک ہو رہا ہے.میں امید کرتا ہوں کہ مولوی صاحب تحمل کے ساتھ غور کریں گے اور ان تجاویز پر عمل کر کے لوگوں کے لئے صداقت کے معلوم کرنے میں آسانی پیدا کریں گے.میں اپنی تجاویز کا خلاصہ پھر ایک دفعہ پیش کر دیتا ہوں.پہلی تجویز تو وہی ہے

Page 372

خطبات محمود علیہ ' 373 * 1941 جو میں 18 جولائی 1940ء کے خطبہ جمعہ میں پیش کر چکا ہوں.یعنی حضرت مسیح موعود الصلوۃ و السلام کے زمانہ کی تحریرات سے میں ان کے عقائد نکال دوں اور اسی زمانہ کی میری تحریرات سے وہ میرے عقائد نکال دیں اور ان کو اکٹھا شائع کر دیا جائے.اگر وہ اسے منظور کر لیں تو ان کو حق ہو گا کہ اپنی پیش کردہ تجویز کے ماننے کا مجھ سے مطالبہ کریں.اور میں اسے مان لوں گا.دوسری بات میں نے یہ کہی ہے کہ اگر وہ میری اس تجویز کو نہ بھی مانیں تب بھی میں ان کی تجویز کو مان لیتا ہوں مگر ضروری شرط یہ ہو گی کہ وہ میرا جواب الجواب بھی ساتھ شائع کرنا منظور کر لیں.اگر بصورت کتاب شائع کرنا ان کو پسند ہو تو خرچ کے دو حصے ہم دیں گے اور ایک وہ دے دیں اسی طرح دو حصے کتابیں ہم لے لیں گے اور ایک نصہ وہ لیں گے.ان کتابوں کو خواہ فروخت کر دیا جائے یا بانٹ دیا جائے جس طرح کسی کی مرضی ہو کرے.ان کے مضمون کے باقی حصہ کا جواب میں اِنْشَاءَ اللہ پھر دوں گا لیکن جیسا کہ میں بتا چکا ہوں.ان کو یہ غلط فہمی ہے کہ میں ان کے خیالات اپنی جماعت تک پہنچنے میں روک بنتا ہوں.شاید وہ میرے خطبات پڑھتے ہی نہیں یا اگر پڑھتے ہیں تو بھول جاتے ہیں.انہیں معلوم ہونا چاہئے کہ میں نے اس سے کسی کو کبھی نہیں روکا.جماعت کے سینکڑوں لوگ ان کی کتابوں کو پڑھتے ہیں.خود میری لائبریری میں یہ کتابیں ہیں اور لوگ پڑھنے کے لئے لے جاتے ہیں اور میں نے کبھی کسی کو منع نہیں کیا کہ یہ کتابیں نہ پڑھو.ہماری دوسری لائبریریوں میں بھی ان کی کتابیں ہیں اور انہیں بھی لوگ پڑھتے ہیں.لیکن اگر ان کا یہ وہم کسی طرح بھی دور نہیں ہوتا تو میں اس کے لئے بھی تیار ہوں کہ وہ قادیان میں آ جائیں.میں یہاں ان کے تین لیکچر اپنی جماعت میں کرا دوں گا اور ان لیکچروں میں وہ دل کھول کر اپنے عقائد اور دلائل بیان کر لیں اور اس بات کی تسلی کر لیں کہ ان کے خیالات اچھی طرح ہماری جماعت تک پہنچ گئے ہیں اور اگر وہ کسی طرح بھی ماننے کو تیار نہ ہوں اور اپنی ہی بات دہراتے چلے جائیں تو اس کا علاج میرے پاس کوئی نہیں.اس کا علاج

Page 373

* 1941 خطبات محمود 374 خدا تعالیٰ ہی کے پاس ہے." (الفضل 26 جولائی 1941ء) 1 پیغام صلح 12 جولائی 1941ء 2 تذکرہ صفحہ 518.ایڈیشن چہارم ریویو اردو بابت مارچ 1906ء 4 الفضل 18 جون 1941ء پیغام صلح 30 جون 1941ء 6 وَإِذَا رَأَيْتَ الَّذِينَ يَخْوضُوْنَ فِي أَيتِنَا فَأَعْرِضْ عَنْهُمْ حَتَّى يَقُوْضُوْا فِي حَدِيثٍ غَيْرِهِ وَإِمَّا يُنْسِيَنَّكَ الشَّيْطَنُ فَلَا تَقْعُدُ بَعْدَ اللَّهِ كُرَى مَعَ الْقَوْمِ الظَّلِمِينَ (الانعام: 69)

Page 374

* 1941 375 (23) خطبات محمود احمدی طالب علموں سے خطاب (فرمودہ 25 جولائی 1941ء) تشہد، تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:.“ ایک ہفتہ تک قادیان کے سکولوں اور کالجوں میں چھٹیاں ہونے والی ہیں.کل اسی تقریب پر میں تحریک جدید کے بورڈنگ ہاؤس میں گیا تھا مگر تحریک جدید کے طالب علم اس تعداد کے مقابلہ میں جو قادیان کے مدارس میں تعلیم پاتے ہیں ہت کم ہیں اس لئے وہاں میں طالب علموں اور استادوں کے ایک حصہ کو ہی مخاطب کر سکا تھا.اس وقت قادیان کی مختلف درسگاہوں میں قریباً ڈیڑھ ہزار لڑکے یا اس سے زیادہ تعلیم پاتے ہیں.اسی طرح پانچ چھ سو یا اس سے کچھ زیادہ لڑکیاں پڑھتی ہیں.گویا قریباً دو ہزار طالب علم پڑھتے ہیں.چھٹیاں طالب علموں کے لئے کچھ ایسی خوشکن ہوتی ہیں کہ آپ ہی آپ دل میں مسرت کے جذبات کھیلنے لگتے ہیں.یہاں کثیر حصہ ایسے طالب علموں کا ہے جن کے ماں باپ دوسرے علاقوں کے رہنے والے ہیں.ماں باپ کی محبت اور ان سے ملنے کی خواہش کی وجہ سے ان کو چھٹیوں کا انتظار رہتا ہے اور جب چھٹیاں آتی ہیں تو ان کے دل خوشی سے بھر جاتے ہیں.ایک اور حصہ طالب علموں کا وہ ہے جن کے ماں باپ قادیان میں ہی رہتے ہیں مگر ان کے دل بھی چھٹیوں کی وجہ سے خوشی سے کچھ کم نہیں بھرتے.وہ بھی اپنے دلوں میں ایسی ہی خوشی محسوس کرتے ہیں جتنی وہ جنہوں نے ماں باپ کی ملاقات کے لئے

Page 375

* 1941 376 خطبات محمود واپس جانا ہوتا ہے.ایسے طالب علموں میں سے کچھ تو اس لئے خوش ہوتے ہیں کہ پڑھائی سے فراغت ہو جائے گی اور خوب کھیلیں گے اور کچھ اس لئے خوش ہوتے وجہ نہیں ہے ہیں کہ جب دوسرے بچے باہر جائیں گے تو ہمارے ماں باپ بھی ہمیں کہیں باہر دیں گے چونکہ چھٹیوں کے موقع پر طالب علموں کے لئے ریلوے کنسیشن وغیرہ ملتے ہیں اس لئے ایسے بچوں کو بھی ان کے ماں باپ اپنے دوستوں اور رشتہ داروں کے پاس کہیں باہر بھیج دیتے ہیں تا چھٹیوں میں سیر کر آئیں.پھر کچھ طالب علم ایسے ہوتے ہیں جنہوں نے نہ تو پڑھائی سے غافل ہونا ہوتا ہے اور نہ انہیں باہر جانے کی کوئی امید ہوتی ہے.مگر وہ چھٹی کے لفظ سے ہی خوش ہوتے ہیں جیسے عید کے دن سینکڑوں وہ لوگ بھی خوش ہوتے ہیں جن کے لئے بظاہر خوشی کی کوئی ہوتی.وہ غریب ہوتے ہیں اس لئے نہ تو ان کے ہاں کوئی اچھا کھانا پک سکتا اور نہ انہیں نئے کپڑے مل سکتے ہیں.وہ اسی لئے خوش ہوتے ہیں کہ ان کے ہمسائے خوش نظر آتے ہیں.اسی طرح کئی طالب علم اس لئے خوش ہوتے ہیں کہ ان کے ساتھی خوش ہیں.بہر حال یہ طالب علموں کے لئے خوشی کے ایام ہوتے ہیں.اگر وہ غور کریں تو انہیں معلوم ہو کہ خوشی کیا چیز ہے.حقیقی خوشی ہی کامیابی کا موجب ہو سکتی ہے.مصنوعی خوشیاں بسا اوقات دوسرے کے دل میں رقت پیدا کر دیتی ہیں.کہتے ہیں کسی بیوہ عورت کا ایک ہی بچہ تھا جو دودھ پیتا تھا.مگر ایسی عمر کو پہنچ چکا تھا جب بچہ کچھ کچھ بولنے لگتا اور حرکت کرنے اور چلنے پھرنے لگتا ہے اور اس کا دودھ چھڑانے لگتے ہیں.اس کی ماں بیمار تھی اور رات کو مر گئی.جب صبح دروازہ نہ کھلا تو ہمسائے آئے اور جب دروازہ کھلا تو دیکھا کہ ماں مری پڑی ہے اور بچہ کبھی اس کے پستان ممنہ میں ڈالتا ہے.کبھی اس کے ماتھے پر پیار سے تھپڑ مارتا ہے اور جب وہ اس پر بھی نہیں بولتی تو کھلکھلا کر ہنسنے لگتا ہے.وہ سمجھتا تھا کہ میری ماں میرے ساتھ مذاق کرتی ہے.اس لئے نہیں بولتی اور میرے ہنسنے ہنس پڑے گی.لوگ اگر صرف اس کی ماں کو مُردہ دیکھتے تو شاید ان کو اتنا رونا ا سے وہ بھی

Page 376

* 1941 377 خطبات محمود وہ نہ آتا جتنا کہ اس حالت میں اس کے بچہ کو ہنستا دیکھ کر انہیں آیا ہو گا.تو کئی خوشیاں ایسی ہوتی ہیں جو دراصل رونے کا موجب ہوتی ہیں.جہالت، نادانی اور ناواقفی کی خوشیاں ہوتی ہیں.ان میں حصہ لینے والا جانتا نہیں کہ دنیا مجھ پر رو رہی ہے اور میں مصیبتوں میں مبتلا ہوں.آج مسلمانوں کی خوشیاں دیکھ لو.کیا آج مسلمان خوش نہیں ہوتے ، کیا آج مسلمان قہقہے نہیں لگاتے.وہ خوش بھی ہوتے ہیں، قہقہے بھی لگاتے ہیں اور ہر وہ کام جو کامیاب قوموں کو زیب دیتا ہے کرتے ہیں.وہ میلوں اور تماشوں میں بھی جاتے ہیں.ان سب جلسوں وغیرہ میں جو خوشیوں کے اظہار کے لئے ہوتے ہیں شامل ہوتے ہیں.وہ شعر و شاعری کا مذاق بھی رکھتے ہیں.شعر کہتے اور ایک دوسرے کے شعر سن کر سر دھنتے اور داد دیتے ہیں.خوب قہقہے لگاتے ہیں بلکہ ہندوؤں ، سکھوں اور عیسائیوں سے زیادہ ہنستے ہیں اور ہنستے ہوئے ان کی باچھیں، ان قوموں کے لوگوں کی نسبت زیادہ کھلتی ہیں جو ران ہیں.مگر کیا مسلمانوں کی یہ ہنسی، یہ قہقہے اور یہ مسکراہٹیں حقیقی خوشی کی وجہ سے پیدا ہوتی ہیں.کہاں وہ زمانہ تھا کہ مسلمانوں کا سر دین اور دنیا دونوں لحاظ سے سب سے اونچا تھا.ایک مسلمان کے قول کو سب سے زیادہ معتبر سمجھا جاتا تھا.دوسرے بادشاہوں کی بات پر اتنا اعتبار نہ کیا جاتا تھا جتنا ایک عامی مسلمان کی بات پر.مسلمان اگر کوئی بات کہہ دیتا تو لوگ سمجھتے تھے یہ ضرور ہو کر رہے گی.ایک مرتبہ اسلامی لشکر شام میں آرمینیا کے کنارے پر عیسائیوں سے سخت جنگ لڑ رہا تھا.بڑی لمبی جنگ کے بعد مسلمانوں کو یہ معلوم ہوا کہ کل ہم فتح حاصل کر لیں گے عیسائیوں کو بھی جو محصور تھے یہ سمجھ آگئی کہ اب وہ مقابلہ نہیں کر سکتے.ان کی مقابلہ ومقاومت کی آخری کوشش بھی ناکام ہو چکی ہے اور اب مسلمانوں کی فتح کے راستہ میں کوئی روک نہیں اور وہ کل تک ضرور فتح پالیں گے.ایک مسلمان حبشی غلام چشمہ سے پانی بھر رہا تھا.عیسائیوں کا ایک افسر اس کے پاس آیا اور کہا کہ لو میاں اگر ہم قلعہ چھوڑ دیں تو بتاؤ کن شرطوں پر صلح کر لو گے.اگر تم یہ یہ باتیں مان لو تو ہم ہتھیار ڈال دیتے ہیں.

Page 377

* 1941 خطبات محمود 378 بتاؤ کیا یہ شرائط منظور ہیں.وہ بے چارہ آن پڑھ آدمی تھا.اس نے سمجھا یہ باتیں منظور ہی ہوں گی.جب لڑائی ختم ہو رہی ہے تو ان کے ماننے میں کیا حرج ہے اور اس لئے اس نے کہہ دیا کہ ہاں منظور ہیں.اس پر عیسائیوں نے اعلان کر دیا کہ مسلمانوں کے ساتھ صلح ہو گئی ہے اور دروازے کھول دیئے.جب اسلامی جرنیل تو انہوں نے کہا کہ ہم نے تو کوئی صلح کی نہیں.تم لوگوں نے کس کے ساتھ صلح کی ہے.عیسائیوں نے کہا کہ فلاں حبشی نے ہم سے یہ معاہدہ کیا ہے.مسلمانوں افسروں نے کہا کہ وہ کوئی افسر نہ تھا اور اسے صلح کی شرائط طے کرنے کا کوئی اختیار نہ تھا.عیسائیوں نے جواب دیا کہ ہمیں کیا علم تمہارا کون افسر ہے اور کون نہیں.ہم سے معاہدہ ہو چکا ہے.اور اب تم لوگوں کو اس کی پابندی کرنی چاہئے.اسلامی سپہ سالار.نے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو سارے واقعہ کی اطلاع دے دی اور لکھا کہ عجیب واقعہ ہوا ہے.عیسائیوں نے ہمارے ساتھ چالا کی کی ہے اور ایک حبشی سے بات چیت ن کر کے دروازے کھول دیئے ہیں.اب ہم حیران ہیں نہ ان کی شرطوں کو مبر مان سکتے ہیں اور نہ لڑائی کر سکتے ہیں.شرطیں ایسی ہیں جو ہمارے لئے قابل نہیں.سارا معاملہ آپ کے پیش کیا جاتا ہے.آپ اجازت دیں کہ ہم اس ملک پر اسی طرح قبضہ کریں جس طرح ایک فاتح قبضہ کرتا ہے.حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جواب دیا کہ آپ نے جو کچھ لکھا درست ہے بے شک مسلمانوں نے سخت جنگ کی اور اس ملک کو فتح کیا اور بے شک عیسائیوں نے دھوکا کیا ہے.مگر میں تمہاری رائے کو تسلیم کر کے اسی طرح ملک پر قبضہ کرنے کی اجازت دے دوں جس طرح فاتح قبضہ کرتا ہے تو لوگ کہیں گے کہ مسلمانوں کے قول کا کوئی اعتبار نہیں.وہ حبشی بہر حال مسلمان ہے اور میں اس کی بات کو جھوٹا نہیں کر سکتا.اس کے منظور کردہ شرائط کے مطابق ہی عیسائیوں سے صلح کی جائے.1 اگر حضرت عمر چاہتے تو اس معاہدہ کو رد کر سکتے تھے اور اس صورت میں دنیا کی کوئی قوم آپ پر اعتراض نہ کر سکتی تھی کیونکہ عیسائیوں نے جو کچھ کیا وہ سراسر دھوکا تھا.مگر پھر بھی آپ نے

Page 378

* 1941 379 خطبات محمود اسے قبول کر لیا اور فرمایا میں نہیں چاہتا کہ لوگ کہیں کہ مسلمان کی بات جھوٹی ہو گئی اور یہ کہ مسلمانوں میں ایک حبشی کی بات قابل اعتبار نہیں اور عرب کی ہے.کوئی فلسفی کہہ سکتا ہے کہ پھر ایسی مثالیں تو روز پیش آ سکتی ہیں اور حکومت کی تباہی کا موجب ہو سکتی ہیں مگر یہ درست نہیں.اس قسم کی بات ایک ہی دفعہ ہو ہے.اسے اصول کے طور پر تسلیم نہیں کیا جا سکتا.رسول کریم صلی ا ہم ایک مرتبہ مجلس میں تشریف فرما تھے اور جنت کی نعماء کا ذکر فرما رہے تھے اور بتا رہے تھے کہ وہاں اس طرح روحانی ترقیات عطا ہوں گی یوں علوم کی ترقی ہو گی یوں فرشتے نازل ہوں گے اور یہ کہ فلاں فلاں انعامات اللہ تعالیٰ نے میرے لئے مقدر فرمائے ہیں.معاً ایک صحابی کھڑے ہوئے اور يَا رَسُول اللہ کہا! دعا کریں کہ جنت میں اللہ تعالیٰ مجھے بھی آپ کے ساتھ رکھے.آپ نے دعا کی اور فرمایا اللہ تعالیٰ تمہیں بھی ساتھ رکھے گا.اب خدا جانے اس صحابی کا درجہ کیا تھا.اس کے اعمال رسول کریم صلی ال نیلم کے اعمال کا لاکھواں کروڑواں حصہ بھی نہ ہوں گے.وہ نہ کبھی ایسے اعمال بجا لایا جو رسول کریم صلی کم بجا لاتے اور نہ وہ عبادتیں کیں جو آپ کرتے تھے.صرف ایک فقرہ کہا اور اللہ تعالیٰ نے اس کی خواہش کو قبول فرما لیا.اب کوئی معترض کہہ سکتا ہے کہ یہ تو بڑا آسان کام ہے جو اٹھا اس نے یہ فقرہ کہہ دیا.مگر یہ بات نہیں.جب رسول کریم صلی ا ولم نے اس صحابی کی بات کو سن کر دعا کی اور فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے اس کی خواہش کو قبول فرما لیا ہے تو ایک اور صحابی اٹھے اور کہا يَا رَسُولَ اللہ ! میں بھی چاہتا ہوں کہ جنت میں آپ کا ساتھ حاصل ہو.مگر آپ نے فرمایا کہ نہیں وہ پہلی بات تھی جو پوری ہو گئی.اب اس کی نقل میں بات کرنے والوں کو یہ مقام حاصل نہیں ہو سکتا.غرض ایسے امور میں جو فیصلہ ہو وہ بطور سبق کے ہوتا ہے نہ کہ بطور دوامی دستور کے.حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس حبشی مسلمان کی بات صرف اس لئے مان لی کہ اس سے پہلے کوئی اصل قائم نہ ہوا تھا اور آپ ڈرے کہ ایک مسلمان کا قول بے وقعت نہ ہو.

Page 379

* 1941 380 خطبات محمود مگر اس کے یہ معنی نہ تھے کہ آئندہ بھی ایسا فیصلہ تسلیم کیا جایا کرے.بہر حال حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ایک مسلمان کی بات کی اتنی قیمت قرار دے دی جس کی مثال نہیں مل سکتی.کجا تو وہ زمانہ تھا اور کجا آج یہ زمانہ ہے کہ مسلمان کی بات ماننے کو کوئی تیار نہیں ہوتا.مسلمان کوئی بات کہے تو لوگ کہتے ہیں یہ مسلمان نے کہی ہے معلوم نہیں پوری ہو یا نہ ہو.میں ایک دفعہ کشمیر گیا.حضرت خلیفہ اول کا زمانہ تھا.کشمیر میں لوئیوں کے ٹکڑے رنگ رنگ کر فرش پر بچھانے کے لئے ایک کپڑا بناتے ہیں.جسے گتا کہتے ہیں.اسلام آباد میں ایک مشہور گتا ساز تھا.ہم نے بھی ، ایک گتا بنانے کا آرڈر دیا اور سائز وغیرہ اچھی طرح بتا دیا.جب ہم سیر کرتے کراتے واپس اس شہر میں آئے تو پتہ کیا کہ گتا تیار ہوا ہے یا نہیں.اس نے کہا تیار ہے مگر جب اسے دیکھا تو سائز میں 25 فیصدی کا فرق تھا.مگر وہ کہے کہ سائز وہی ہے جو آپ نے بتایا تھا.غالباً اس کے ساتھ تحریر بھی ہو چکی تھی جس میں سائز درج تھا مگر وہ پھر بھی یہی کہتا جاتا تھا کہ یہ آپ کے بتائے ہوئے سائز کے مطابق تیار ہوا ہے.محلہ کے لوگ بھی وہاں جمع ہو گئے اور سب نے کہا کہ سائز وہ نہیں جو انہوں نے بتایا تھا.مگر ان سب باتوں کے جواب میں اس کا ایک ہی جواب تھا کہ میں مسلمان ہندی.کشمیری مرد کو مونث کے طور پر بولتے ہیں.وہ مذکر کو مؤنث اور مؤنث کو مذکر بولتے ہیں.مثلاً کہیں گے چور آئی.میں آئی، میری بیوی آیا.تو وہ صرف یہی جواب دیتا تھا کہ میں مسلمان ہندی یعنی میں مسلمان ہوں مجھے اس کی یہ بات سن کر بہت غصہ آیا اور میں نے کہا کہ تم یہ کیوں کہتے ہو میں مسلمان ہوں اس لئے یہ بد دیانتی میرے لئے جائز ہے.تم صاف کہو مجھ سے غلطی ہوئی ہے یا میں نے دھوکا کیا ہے.تم اپنے فعل کو مسلمان ہونے کی طرف کیوں منسوب کرتے ہو.تو آج یہ حالت ہے کہ نہ مسلمانوں کے کسی معاہدہ کا اعتبار ہے اور نہ ان کے کسی معاملہ کا لین دین ان کا خراب ہو چکا ہے.کسی سے قرض لیں گے تو واپس نہ کریں گے، مصیبت زدہ لوگوں کے ساتھ ان کا سلوک ہمدردانہ نہیں، ہمسائیوں سے

Page 380

* 1941 381 خطبات محمود تھوڑا ہی عرصہ سلوک اچھا نہیں، جوش میں آجائیں تو بے شک قربانی کریں گے مگر یہ صرف ایک دو دن یا ایک دو گھنٹہ تک ہی ہو گی اس سے زیادہ نہیں.آج سے ہوا شہید گنج کے گوردوارہ کے متعلق ان میں کتنا جوش پایا جاتا تھا اور ایسا معلوم ہوتا اب یہ اس کی اینٹ سے اینٹ بجا کر ہی دم لیں گے اور جب تک اس جگہ پر قبضہ نہ کر لیں گے چین سے نہ بیٹھیں گے مگر آج وہی شہید گنج موجود ہے وہی ا سکھوں کا اس پر قبضہ ہے اور حرام ہے کہ مسلمانوں میں اتنی بھی حرکت ہوتی ہ جتنی چیونٹی کے چلنے سے ہوتی ہے.بس بات ختم ہو گئی.ہو تو آج دیکھو مسلمانوں کی حالت کہاں سے کہاں جا پہنچی ہے.وہ زمانہ جو اسلامی تاریخ کا گرا ہوا زمانہ سمجھا جاتا ہے.آج مسلمانوں میں اُس زمانہ کے مسلمانوں جیسے اخلاق بھی نہیں ہیں.خلافت عباسیہ کا آخری زمانہ بڑا دردناک اور بہت تنزل کا زمانہ سمجھا جاتا ہے.اس وقت خلفائے عباسیہ کی حیثیت قیدیوں کی سی تھی.کبھی ترک، کبھی سلجوقی اور کبھی گرد اصل حاکم ہوتے تھے.جس طرح ایک زمانہ میں دہلی کے بادشاہ انگریزوں کے ماتحت ہوتے تھے.یہ ترک، سلجوقی، یا گرد حاکم جو چاہتے حکم دے دیتے اور کہہ دیتے کہ خلیفہ نے یوں فرمایا ہے جس طرح دہلی کے بادشاہوں کو وظائف ملتے تھے اسی طرح خلفائے عباسیہ کو بغداد میں وظائف ملتے تھے مگر اس زمانہ میں بھی اسلامی غیرت باقی تھی کیونکہ محمد مصطفی صلی ا م کا جو تمام خوبیوں اور محاسن کے منبع ہیں زمانہ قریب تھا.اس زمانہ میں عیسائیوں نے شام پر حملہ کر کے کچھ علاقہ فتح کر لیا.عکہ اور اس کے گرد ونواح پر قابض ہو گئے.اس علاقہ میں مسلمان بھی آباد تھے.بلکہ سارا علاقہ مسلمان ہو چکا تھا سوائے ان برطانوی، اطالوی، جرمن اور آسٹرین فوجوں کے جو وہاں تھیں.انہوں نے پاس کے اسلامی علاقہ پر حملہ کیا.وہاں کوئی مسلمان عورت تھی.کسی عیسائی سے اس کا جھگڑا ہوا اور عیسائی نے اس کی بے حرمتی کی اور اس کا برقعہ، یا نقاب اتارا گیا اور مارا گیا.جب اس کی ہتک کی گئی تو

Page 381

* 1941 382 خطبات محمود ہے اس عورت نے جو بالکل ناواقف تھی اور جسے کچھ پتہ نہ تھا کہ خلیفہ عباسی اور کس حالت میں ہے.اس نے اپنے کسی رشتہ دار سے اتنا سنا ہوا ہو گا کہ مسلمانوں کا کوئی خلیفہ ہے جو بغداد میں رہتا ہے.یہ کہ اس کی حالت کیا ہے، وہ محض ایک قیدی ہے اور اس کی کوئی طاقت نہیں.یہ اسے علم نہ تھا.، مار پیٹ کے وقت وہ چلائی.مسلمانوں میں رواج تھا کہ جب نعرہ لگاتے تو يَا لَلْمُسْلِمِینَ کہتے.یعنی اے مسلمانو! ہم تمہیں پکارتے ہیں.اسی طرح اس عورت نے کہا کہ اے مسلمانو! اے بغداد کے خلیفہ ! میں تم کو پکارتی ہوں.جب اس نے یہ نعرہ لگایا.مسلمان تاجروں کا کوئی قافلہ اپنے رستہ پر گزر رہا تھا.اسے یہ آواز عجیب معلوم ہوئی کہ کہاں بغداد کا خلیفہ جو بالکل کمزور ایک قیدی کی طرح ہے او ر کہاں شام کا یہ علاقہ.خلیفہ یہاں اس عورت کی کیا مدد کر سکتا ہے.مگر اہل قافلہ کے دل پر ایک چوٹ لگی.قافلہ جب بغداد میں پہنچا تو بازار میں اپنا اسباب وغیرہ اتارنے لگا.اس زمانہ میں تجارت چونکہ قافلوں کے ذریعہ ہی ہوتی تھی.جب کوئی قافلہ سامان تجارت لے کر آتا توسب امیر و غریب تجارتی چیزوں کو دیکھنے کے لئے بازار میں جمع ہو جاتے تھے.وہیں چیزیں دیکھتے اور قافلہ والوں سے سفر کے حالات سنتے تھے.قافلہ والوں میں سے سے کسی نے یہ بات بھی بیان کی کہ اس طرح شام میں ہم نے ایک مسلمان عورت کی آواز سنی جسے کسی عیسائی نے مارا اور اس کی بے حرمتی کی تھی.اس نے خلیفہ کو پکارا اور کہا میں تجھے مدد کے لئے پکارتی ہوں.جس طرح دہلی کے بادشاہوں کے دربار لگتے تھے باوجودیکہ وہ برائے نام بادشاہ ہوتے تھے اسی طرح عباسی خلفاء بھی دربار میں بیٹھتے تھے.اس زمانہ میں جو خلیفہ تھا وہ اپنے دربار میں بیٹھا تھا کہ کسی درباری نے بازار سے یہ بات سن کر اس کے سامنے بھی بیان کر دی.اور کہا کہ حضور! یہ عجیب بات اہل قافلہ سے معلوم ہوئی ہے.عیسائیوں نے آگے بڑھ کر چھاپہ مارا، کسی عیسائی نے ایک مسلمان عورت کی بے حرمتی کی اور اس عورت نے اس طرح دُہائی دی باوجودیکہ اس وقت اس خلیفہ کی حالت شطر نج کے بادشاہ کی تھی.اس نے یہ بات سنی تو یہ

Page 382

* 1941 383 خطبات محمود اسے کھا گئی.وہ فوراً تخت سے نیچے اتر کر ننگے پاؤں چل پڑا اور کہا کہ میں اب واپس نہیں لوٹوں گا جب تک کہ اس مسلمان عورت کا بدلہ نہ لے لوں.اس نے سے باہر آکر خیمے لگا دیئے.شہر میں اور علاقہ میں آگ کی طرح یہ بات پھیل شہر.گئی اور مسلمان نوجوان اس کے جھنڈے تلے جمع ہونے لگے.آخر یہ لشکر شام طرف چلا.عیسائیوں پر حملہ کیا اور عیسائیوں نے مسلمانوں سے جو علاقے نئے نئے لئے تھے وہ ان سے واپس لئے اور اس طرح اس عورت کی داد رسی کر کے خلیفہ عباسی واپس آیا.یہی دردِ اسلامی تھا جس نے سینکڑوں سال اسلام کے نام کو اونچا کئے رکھا.یہ گرے ہوئے زمانہ کا حال ہے جب عیسائیت پھر سر نکال رہی تھی جب اسلامی نظام ٹوٹ چکا تھا بلکہ پارہ پارہ ہو چکا تھا.مگر آج کیا ہے؟ نہ بادشاہوں کے دل میں یہ اسلامی درد پایا جاتا ہے اور نہ رعایا کے دل میں.ایک اسلامی حکومت بھی تو ایسی نہیں جس نے کبھی اسلامی جذبہ کے ماتحت کسی دوسری اسلامی حکومت کا ساتھ دیا کبھی نہیں ہوا کہ ترکوں پر کسی دشمن نے چڑھائی کی تو ایران اور افغانستان مدد نے اس کا ساتھ دیا ہو یا ایران پر حملہ ہوا اور افغانستان اور ترکوں نے اس کی کی ہو.یورپ کی عیسائی حکومتوں میں یہ بات نظر آتی ہے مگر اسلامی حکومتوں میں نہیں.پولینڈ پر حملہ ہوا تو برطانیہ اور فرانس اس کی طرف سے لڑے.چیکو سلواکیہ پر حملہ ہونے لگا تھا تو برطانیہ، فرانس اور روس اس کی طرف سے لڑنے کو تیار ہو گئے تھے.جرمنی پر حملہ ہوا تو اٹلی اس کی طرف سے لڑنے کو تیار ہو گیا.تو دوسری قوموں میں تو یہ بات ہے مگر مسلمانوں میں نظر نہیں آتی.انہوں نے کبھی بھی وہ ہمدردی نہیں دکھائی جو مسلمانوں کے لئے ایک دوسرے سے سے رکھنی رکھنی ضروری ہے رسول کریم صلی اللہ کریم نے فرمایا ہے کہ مسلمان آپس میں ایک جسم کی طرح ہیں.جب ایک عضو میں تکلیف ہو تو سارا جسم درد محسوس کرنے لگتا ہے.3 ہاتھ کی انگلی میں درد ہو ، منہ کے کسی حصہ میں تکلیف ہو یا پنڈلی پر بھڑ کاٹ جائے تو کیا باقی جسم حالانکہ

Page 383

* 1941 384 خطبات محمود درد محسوس نہیں کرتا.دیکھو آدمی کو نزلہ تو ہوتا ہے ناک میں مگر کس طرح سارا جسم بے چین ہو جاتا ہے.کھانسی سینہ میں ہوتی ہے مگر کیا لاتوں اور پیروں کو اس سے کوئی تکلیف نہیں ہوتی.جسم کے کسی حصہ پر پھوڑا ہو تو کیا باقی جسم آرام میں ہوتا ہے.اگر مسلمان اس چیز کو پیش نظر رکھتے اور رسول کریم صلی نیلم نے جو مثال دی تھی اسے صحیح تسلیم کرتے اور جس طرح جسم کے کسی حصہ پر پھوڑا نکلنے سے تمام جسم بے چین ہوتا ہے یا نزلہ ہونے کی حالت میں سار اجسم تکلیف محسوس کرتا ہے.مسلمان سارے عالم اسلامی کی تکلیف کو اپنی تکلیف محسوس کرتے تو مسلمانوں کو آج یہ دن دیکھنا نصیب نہ ہوتا مگر میں کہتا ہوں.چھوڑ دو پرانے قصوں کو، چھوڑ دو ان لوگوں کو جنہوں نے مرکز اسلام سے منہ موڑ لیا اور رسول کریم صلی نیم کی محبت دل نکال دی.تم جو آنحضرت صلی اللی علم سے نیا تعلق پیدا کر رہے ہو جو خدا تعالیٰ نیا رشتہ جوڑ رہے ہو تم سوچو کہ کیا تمہارے دلوں کی یہی کیفیت ہے جو رسول کریم صلی الیکم نے فرمائی تھی.تم میں سے کتنے ہیں جن کے دل اپنے بھائی کی تکلیف پر اسی طرح دکھ محسوس کرتے ہیں جس طرح جسم کے ایک حصہ پر پھوڑا ہونے سے تمام جسم محسوس کرتا ہے.آج میں ساری جماعت کو مخاطب نہیں کرتا بلکہ صرف طالب علموں کو مخاطب کرتا ہوں جو چھٹیاں منانے والے ہیں اور ان سے کہتا ہوں کہ تم قوم کی آئندہ اساس بننے والے ہو.تم وہ بنیادی پتھر ہو جس پر قوم کی نئی عمارت بننے والی ہے.ہمارے مکانات کتنے وسیع ہیں مگر باوجود اس کے کہ کئی بچوں کی شادیاں ہو چکی ہیں اور وہ علیحدہ مکانوں میں چلے گئے ہیں اور اپنے گھر بنا لئے ہیں پھر بھی بعض اوقات صحن میں سب کے سونے کے لئے جگہ نہیں ہوتی.اور یہ بچے جو اب چھوٹے ہیں جب ان کی شادیاں ہو جائیں گی تو پھر تو شاید بیٹھنے کی بھی جگہ نہ ہو گی.یہی حالت قوموں کی ہوتی ہے.آنے والی ہے.آنے والی نسلیں اپنے لئے اور گھر بنائی ہیں.وہ پہلوں کے ایمان پر ہی اکتفا نہیں کرتیں بلکہ ایمان کی نئی عمارت تعمیر کرتی ہیں.اگر تو ان کے

Page 384

* 1941 385 خطبات محمود ایمان کی عمارت پہلوں سے اچھی ہو تو قوم کی عزت بڑھتی ہے، نہیں تو کم ہو جاتی ہے.کل بورڈنگ تحریک جدید میں میں نے جو تقریر کی اس میں بتایا تھا کہ ہم سات طالب علم تھے جنہوں نے مل کر رسالہ تشخیز الاذہان جاری کیا.کسی سے کوئی مدد ہم نے نہیں لی.ایک پیسہ بھی چندہ کسی سے نہیں مانگا.اپنے پاس ہی سے رقوم دیں.ہاں بعد میں اگر بعض دوستوں نے اپنے طور پر کوئی مدد دی تو وہ لے لی.ورنہ سب بوجھ خود ہی اٹھایا.کسی سے مضمون بھی نہیں مانگا.خود ہی رسالہ کو ایڈٹ کرتے خود ہی چھاپتے اور خود ہی بھیجتے تھے.سب کام خود کرتے تھے اور اگر اس زمانہ میں وہ سات طالب مل کر یہ کام کر سکتے تھے تو اب ہمارے سکولوں کے 1500 لڑکے مل کر ان سے دو اڑھائی سو گنا زیادہ کیوں نہیں کر سکتے.یقینا کر سکتے ہیں بشر طیکہ ان کے دلوں میں وہی جوش ہو بلکہ ان میں پہلوں سے زیادہ جوش ہونا چاہئے کیونکہ جسے بنا بنایا کام مل جائے اسے اس کو آگے چلانے میں بہت سی سہولتیں اور آسانیاں ہوتی ہیں..پس میں آج طالب علموں اور استادوں سے بھی کہ ان کی ذمہ داریاں بھی سے، بہت زیادہ ہیں کہتا ہوں کہ اپنی ذمہ داریوں کو سمجھیں جو خدا تعالیٰ کی طرف سلسلہ کی طرف سے، صدر انجمن احمدیہ کی طرف سے اور خلیفہ وقت کی طرف سے ان پر عائد ہوتی ہیں.اب جو تم چھٹیوں پر جاؤ تو وہ ایمان اور جوش لے کر جاؤ کہ جہاں بھی تم جاؤ، جب وہاں سے واپس آؤ تو وہاں کی جماعت میں ایک بیداری پیدا و چکی ہو.تمہارے اس جانے اور آنے کی مثال چھوٹی سی پیدائش اور انتقال کی ہو.انتقال کے معنی مرنا ہی نہیں ہوتے بلکہ جگہ بدلنے کے بھی ہوتے ہیں اور جب علم کسی نئی جگہ جاتا ہے تو گویا اس کی نئی ولادت ہوتی تو گویا اس کی نئی ولادت ہوتی ہے.مثلاً جب کوئی طالب چھٹیوں پر یہاں سے لاہور پہنچے گا تو ان چند ہفتوں کے لئے لاہور میں وہ گویا نیا جنم لے گا اور جب وہاں سے واپس آئے گا تو گویا وہاں سے انتقال کرے گا.دنیا کی ولادت بھی ایسی ہی ہوتی ہے.جب اللہ تعالیٰ ایک روح کو دنیا میں منتقل کر دیتا ہے تو یہ اس کی

Page 385

* 1941 386 خطبات محمود پیدائش ہوتی ہے اور پھر جب وہ روح اگلے جہان کو جاتی ہے تو اس جہان سے اس کا انتقال ہوتا ہے اور ایک بڑی پیدائش بھی ہوتی ہے.ایک عرب شاعر نے کہا ہے کہ يَاذَا الَّذِي وَلَدَتْكَ أُمُّكَ بَاكِيًّا وَ النَّاسُ حَوْلَكَ يَضْحَكُونَ سُرُورا فَا حُرِصْ عَلَى عَمَلٍ تَكُونَ إِذَا فِي وَقْتِ مَوْتِكَ ضَاحِكًا مَسْرُورًا 4 بگوا یعنی اے انسان تو وہی تو ہے کہ جب تو پیدا ہوا تو تو روتا تھا.پیدائش کے وقت چونکہ بچہ کے سینہ پر دباؤ پڑتا ہے اور وہ روتا ہے اور یہ امر اس کے سانس کے چلنے کا موجب ہو جاتا ہے اور جو بچہ پیدائش کے وقت نہ روئے.اس پر پانی کے چھینٹے دینے پڑتے ہیں تاکہ وہ ہچکی لے اور سانس چلنے لگے.شاعر کہتا ہے کہ جب تو پیدا ہوا تو رو رہا تھا اور لوگ تیرے ارد گرد خوشی سے ہنس رہے تھے.بچہ کی پیدائش کے وقت لوگ خوشی کرتے ہی ہیں.مبارک بادیں دیتے ہیں کہ لڑکا ہو گیا.اسی کی طرف اشارہ کر کے شاعر انسان کی غیرت کو اکساتا ہے کہ جب تُو روتا تھا تو لوگ تیرے ارد گرد ہنس رہے تھے.پس تجھے چاہئے کہ ان سے اس کا بدلہ لے.وہ کس طرح؟ اس کا جواب وہ یوں دیتا ہے کہ.فَاخْرِصُ عَلَى عَمَلٍ تَكُونَ إِذَا فِي وَقْتِ مَوْتِكَ ضَاحِكًا بگوا مَسْرُورًا اب تو ایسے عمل کر اور اس کا بدلہ اس طرح لے کہ جب تیری موت کا وقت آئے تو تیرے ارد گرد سب لوگ رو رہے ہوں کہ ہمارا محسن اور ہمدرد دنیا سے چلا جا رہا ہے.اب ہمارے کام کون کرے گا اور تُو ہنس رہا ہو کہ میں اپنے رب کے پاس چلا ہوں.جہاں مجھے بڑے بڑے انعام ملیں گے.تو میں طالب علموں اور استادوں سے کہتا ہوں کہ یہی نمونہ دکھاؤ.یعنی جب

Page 386

* 1941 387 خطبات محمود تم کسی جگہ جاؤ تو لوگ تمہارے آنے پر ہنسیں مگر جب واپس آؤ تو تمہارے ہمجولی اور ملنے والے روئیں.اس لئے نہیں کہ انہیں تمہارے ساتھ جسمانی محبت ہے بلکہ اس.لئے کہ یہ ہمارے لئے نیک نمونہ تھا اور اس کی وجہ سے ہمیں نیکیوں کی توفیق ملتی تھی اور اب یہ اور اب یہ ہمارے پاس سے جا رہا ہے.پس جہاں جاؤ اپنا نیک نمونہ دکھا کر وہاں کی جماعت میں ایسی بیداری پیدا کرو کہ جب تم وہاں سے آنے لگو تو اس شہر یا قصبہ کے لوگ سمجھیں کہ ہمارے اندر سے روحانیت کھنچی چلی جا رہی ہے.اگر تم ان چھٹیوں میں یہ نمونہ دکھا کر واپس آؤ تو اللہ تعالیٰ تمہیں توفیق دے گا کہ آئندہ بھی قادیان کی رہائش سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھا سکو.بورڈنگ تحریک جدید میں بچوں کو نماز کی باقاعدگی سکھائی جاتی ہے اور نماز ایک ایسی نیکی ہے کہ جو ایک بھی چھوڑے وہ مسلمان نہیں رہ سکتا اور اگر ان بچوں میں سے باہر جا کر کوئی ایک بھی نماز چھوڑے تو گویا وہ تحریک جدید کی ہتک کرنے والا ہو گا.جس کا وقار قائم رکھنا سے ہر ایک کا فرض ہے.پس یہاں جو بھی نیک عادات تم کو ڈالی جاتی ہیں ان پر باہر جا کر اچھی طرح قائم رہو.جو بورڈر ہیں وہ بھی اور جو نہیں وہ بھی ہر بات میں باہر جا کر نیک نمونہ دکھائیں.نمازیں باقاعدگی سے ادا کرو اور ہو سکے تو تہجد بھی پڑھو اور اپنے ارد گرد نیک اثرات چھوڑو.تم میں.ہے.پھر یاد رکھو کہ اس وقت کی مسلمانوں کی تباہی میں چار باتوں کا بڑا دخل (1) معاملات کی خرابی (2) سچ نہ بولنا (3) ہمدردی کا نہ پایا جانا اور ایک دوسرے سے تعاون نہ ہونا.(4) قوت عملیہ کی کمزوری.چار امور مسلمانوں کی تباہی کا بڑا موجب ہیں اور تحریک جدید کی غرض انہی نقائص کو دور کرنا ہے.آج صبح ہی جو مٹی ڈالی گئی ہے وہ بھی اسی لئے ہے کہ

Page 387

* 1941 388 خطبات محمود کام کی عادت ڈالی جائے.مسلمانوں میں کام کرنے کی عادت بھی نہیں رہی اور ان کے امراء ایسی جھوٹی عزت کے خیال میں پڑ گئے ہیں کہ اٹھ کر پانی پینا بھی دوبھر معلوم ہوتا ہے.اسی لئے تحریک جدید میں یہ بات میں نے رکھی ہے کہ کوشش کی جائے دوستوں میں ہاتھ سے کام کرنے کی عادت پیدا ہو.معاملات کی صفائی بھی بہت ضروری ہے اور اس کی آزمائش کا بھی یہ ایک موقع آیا ہے.بعض لوگ بغیر کرایہ ادا کئے اور ٹکٹ لئے ریل میں سفر کر لیتے ہیں.یاد رکھنا چاہئے کہ یہ بات ایمان کے سراسر خلاف ہے.مومن کبھی بد معاملہ نہیں ہوتا.ہے.خیال کرنا کہ انگریزوں کی چوری کرنے میں کوئی حرج نہیں بالکل غلط خیال ریز چھوڑ کالے چور کا مال کھانا بھی جائز نہیں.مومن کو معاملات کا بہت کھرا ہونا چاہئے.ہم لوگ اپنے آپ کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلو و السلام کی طرف منسوب کرتے ہیں.آپ کا عملی نمونہ ہمارے سامنے ہے جس سے انسان کو زیادہ محبت ہو ہے.اس کی طرف سے زیادہ نصیحت کا وہ محتاج نہیں ہوتا بلکہ اس کے نمونہ کو دیکھتا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں جماعت کے بعض دوست داڑھی منڈواتے تھے کسی نے حضور علیہ السلام سے شکایت کی کہ فلاں شخص داڑھی منڈواتا ہے آپ نے فرمایا کہ اگر تو ان میں اخلاص نہیں تو ہماری نصیحت کا ان پر کیا اثر ہو سکتا ہے اور اگر اخلاص ہے تو ہماری داڑھی کو دیکھ کر خود ہی داڑھی رکھ لیں گے.تو اصل بات یہی ہے کہ جس سے محبت ہو اُس کا نمونہ ہی کافی ہوتا ہے.حضرت مسیح موعود السلام کے پاس کوئی احمدی آیا کسی نے آپ کو بتایا کہ یہ بغیر ٹکٹ کے آ گئے ہیں.یہ ہمارے ملک میں ایک عام رواج ہے.بغیر ٹکٹ کے سفر کرنا ایک کارنامہ سمجھا جاتا ہے.جیسے چیتے کا شکار کر لیا اسی طرح بغیر ٹکٹ کے سفر کر لیا.حضرت مسیح موعود الصلوۃ و السلام نے جب یہ بات سنی تو جیب سے ایک روپیہ نکال کر اسے دیا اور فرمایا کہ کسی کا مال استعمال کرنا گناہ ہے.آپ اب واپس جائیں تو اس روپیہ سے خرید لیں.پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام کا یہ طریق ہے جس سے ہمیں علیہ ٹکٹ

Page 388

* 1941 389 خطبات محمود سبق حاصل کرنا چاہئے.مجھے ایک احمدی دوست کی بات بہت پیاری معلوم ہوئی.اگرچہ انہوں نے کی تو غلطی ہی تھی اور مجھ پر بدظنی کی.جب عزیزم ناصر احمد یورپ سے آخری بار واپس آنے سے پہلے ایک بار چھٹیوں میں یہاں آئے.تو اتفاقاً یا شاید ارادتاً چوہدری ظفر اللہ خاں صاحب بھی ملاقات کے خیال سے قادیان آ رہے تھے.یہاں سے میں موٹر پر استقبال کے لئے امر تسر گیا تھا.وہاں میں نے کسی دوست سے کہا کہ ٹکٹ لے آؤ.چوہدری صاحب نے کہا کہ میرے سیلون میں بیٹھ جائیں.میں نے کہا کہ ہمارے لئے اس میں بیٹھنا کس طرح جائز ہو سکتا ہے.انہوں نے غالباً یہ جواب دیا که قانون یہ ہے کہ اگر کوئی ہمارا مہمان ہو تو اس کے لئے فرسٹ کلاس کا ٹکٹ خرید کر اسے سیلون میں بٹھایا جا سکتا ہے.خیر ہم سیلون میں بیٹھ گئے.جب میں قادیان پہنچا اور گھر جانے لگا تو امرت سر کے ایک دوست نے کہا کہ میں ایک بات کرنا چاہتا ہوں اور الگ ہو کر کہنے لگے کہ میں نے یہ دو ٹکٹ خرید لئے تھے (ایک میرے لئے ایک پرائیویٹ سیکرٹری کے لئے) اس خیال سے کہ شاید آپ کو ٹکٹ خریدنے کا خیال نہیں رہا.آپ سیلون میں بیٹھ گئے تھے اور میں نے سمجھا کہ اس میں بغیر ٹکٹ کے بیٹھنا آپ کے لئے جائز نہیں اور ٹکٹ خریدنے کا آپ کو خیال نہیں رہا.اس لئے میں نے یہ دو ٹکٹ خرید لئے تھے.ان کے خریدے ہوئے ٹکٹ ضائع ہی نے گئے کیونکہ چوہدری صاحب نے ہمارا کرایہ ادا کر دیا تھا مگر اس دوست کی یہ بات بہت پسند آئی کہ انہوں نے یہ بھی گوارا نہ کیا کہ مجھ سے بھولے سے بھی بغیر ٹکٹ کے سفر کرنے کی غلطی ہو.یہ احمدیت کا سچا نمونہ ہے اور یہی نمونہ ہمارے نوجوانوں کو پیش کرنا چاہئے.پس اچھی طرح یاد رکھو کہ کبھی بغیر ٹکٹ کے سفر نہ کرو اور کبھی کسی کو بغیر ٹکٹ کے سفر کرتا دیکھ کر خاموش نہ رہو بلکہ اسے نصیحت کرو اور اگر وہ نصیحت پر بھی عمل نہ کرے تو سمجھ لو کہ وہ بیمار ہے اور متعدی بیمار ہے.ایسے لڑکے کی صحبت سے الگ رہو.اگر تم اسے دوست کہتے ہو تو گویا اپنی بھی مجھے

Page 389

خطبات محمود 390 * 1941 ہتک کرتے ہو.اور اس کے معنے یہ ہیں کہ تم اس کے فعل کو پسند کرتے ہو.پھر آپس میں ہمدردی کرو اور دوسروں سے بھی ہمدردی کرو.اگر گاڑی میں کوئی بوڑھا آ جائے تو اس کے لئے قربانی کا نمونہ دکھاؤ.خود کھڑے ہو جاؤ اور اسے بیٹھنے دو.اگر اسے پانی کی ضرورت ہو تو لا دو.بیمار ہو تو اسے دبا دو.ممکن ہو تو دوائی بھی لا دو.غرضیکہ ایسا نمونہ دکھاتے جاؤ اور دکھاتے آؤ کہ سب دیکھنے والے کہیں کہ یہ وہ لوگ ہیں جن کے ہاتھوں میں اگر طاقت آ جائے تو دنیا میں امن قائم ہو سکتا ہے.خوب یاد رکھو کہ دنیا میں امن قربانی سے قائم ہوتا ہے.زور اور طاقت سے نہیں.پس جتنی زیادہ قربانی تم کرو گے.اتنی ہی جلدی خدا تعالیٰ تمہارے ہاتھوں میں دنیا کی باگ دے گا.اور اتنی ہی جلدی تم دنیا میں امن قائم کر سکو گے.سستی کی عادت نہ ڈالو اور کبھی یہ نہ سمجھو کہ اب چھٹیاں ہوئی ہیں خوب سوئیں گے.چھٹیاں سونے کے لئے نہیں ہوتیں بلکہ اس لئے ہوتی ہیں کہ استاد نیا سبق نہ پڑھائے اور پچھلا پڑھا ہوا یاد کر لیں.پس یہ نہ کہو کہ چھٹیوں میں سوئیں گے بلکہ کہو کہ پہلے جو غفلت ہوتی رہی ہے اب چھٹیوں میں اس کا ازالہ کریں گے او رسبق اچھی طرح یاد کر لیں گے.سکول میں تو مدرس روز نیا سبق دے دیتا ہے اور اسے باد کرنا ہوتا ہے.اس لئے اگر کوئی سبق یاد کرنے سے رہ جائے تو کمزوری رہ جاتی ہے اور چھٹیاں ان کمزوریوں کو دور کرنے کا بہترین موقع ہوتی ہیں.سچائی کا بھی اعلیٰ نمونہ دکھاؤ.جو کہو سچ کہو.یہ ضروری نہیں کہ ہر بات ضرور کہو.مثلاً کوئی کہے کہ میں نے فلاں شخص کو کانا کہا تھا کیونکہ یہ سچی بات ہے اور سچ بولنے کا حکم ہے.تو یہ درست نہ ہو گا.ہر سچی بات کا کہنا ضروری نہیں ہوتا.حکم یہ ہے کہ جو کہو سچ کہو.شریعت تمہیں یہ نہیں کہتی کہ ہر سچی بات ضرور کہو.شریعت کا حکم یہی ہے کہ جب ضرورت نہ ہو، چپ رہو.مگر جب بولو تو سچ بولو.سینکڑوں باتیں ایسی ہوتی ہیں کہ انسان ان کو بیان نہیں کر سکتا اور شریعت ان کے بیان پر مجبور نہیں کرتی.اگر کوئی ایسا عیب کسی میں دیکھو کہ جس کے متعلق شریعت

Page 390

خطبات محمود 391 * 1941 کہتی ہے کہ اسے بیان نہ کرو تو اسے مت بیان کرو.مگر کوئی بات کرو اور جھوٹ بولو یہ جائز نہیں.سچ بولنے کے یہ معنے نہیں کہ ہر بات جو تم کو معلوم ہے ضرور بیان کر دو.تمہیں یہ حق ہے کہ بعض باتوں کے متعلق کہہ دو کہ میں بیان نہیں کرنا چاہتا.بعض باتیں خواہ وہ سچ ہوں بیان کرنے سے قانون نے بھی روکا قانون نے بھی روکا ہے مثلاً قانون یہی ہے کہ جو بات دوسرے کو بُری لگے اس کی بناء پر ہتک عزت کا مقدمہ ہو سکتا ہے.پس یہ ضروری نہیں کہ ہر سچی بات ضرور بیان کرو.ہاں جو بیان کرو وہ سچ سچ بیان کر دو.پس یہ باتیں ضرور اپنے اندر پیدا کرو.خدمت خلق، چیستی، سچائی اور معاملات کی درستی.اگر ایک پیسہ بھی کسی سے لیا ہے تو جب تک اسے واپس نہ کرو تمہیں چین نہ آئے.محنت کی عادت ڈالو.اپنا سبق اچھی طرح یاد کرو.رستہ میں مسافروں سے اچھا سلوک کرو.ماں باپ کی خدمت کرو اور ایسا نمونہ دکھاؤ کہ جس طرح پھول لے کر کوئی شخص ایک جگہ سے دوسری جگہ جاتا ہے تو تمام رستہ میں ان کی خوشبو پھیل جاتی ہے اسی طرح اب جو تم اپنے اپنے گھروں کو جو ہندوستان کے ہر گوشہ میں ہیں جاؤ تو تمام ہندوستان تمہاری خوشبو سے مہک اٹھے اور جس طرح پھولوں کی خوشبو پھیلتی ہے تمہاری خوشبو بھی سارے ملک میں پھیل جائے اور تمام ملک تمہاری خوشبو سے ایک سرے سے لے کر دوسرے سرے تک مہک اٹھے.اگر تم ان باتوں پر عمل کرو گے تو واقعی تمام ملک تمہاری خوشبو سے مہک اٹھے گا اور لوگ کہیں گے کہ کیسا خوش قسمت ہے ہمارا ملک کہ جس میں ایسے بچے پیدا ہوئے ہیں.اور ملک کی کتنی خوش قسمتی ہے کہ اس کی باگیں اب ان کے ہاتھوں میں آنے والی ہیں." الفضل 30 جولائی 1941ء) 1 تاریخ طبری جلد 5 صفحہ 72 مطبوعہ بیروت 1987ء 2 مسلم كتاب الايمان باب الدليل على دخول طوائف المسلمين الجنة بغير حساب ولا عذاب 3 مسلم كتاب البر والصلة باب تراحم المومنين و تعاطفهم و

Page 391

* 1941 خطبات محمود تعا ضدهم 392 4 مجاني الادب جز ثانی صفحہ 43 مطبوعہ بیروت

Page 392

* 1941 393 (24) خطبات محمود ان پیر جماعت احمدیہ کے لئے مشکلات کے ایام (فرموده یکم اگست 1941ء) تشہد، تعوّذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:.مجھے کھانسی اور گلے کی خرابی کی شکایت ہے اس لئے زیادہ بول نہیں سکتا لیکن جماعت کو اس امر کی طرف متوجہ کرنا چاہتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کی سنت کے مطابق کبھی دن آتا ہے اور کبھی رات آتی ہے اسی طرح الہی جماعتیں جو ہوتی ہیں بھی کبھی دن کی کیفیت آتی ہے اور کبھی رات کی کیفیت آتی ہے.کبھی اللہ تعالیٰ ان کے لئے سہولت بہم پہنچا دیتا ہے اور کبھی ان کے لئے مشکلات پیدا کر دیتا ہے.مومن کافر اور منافق میں یہی فرق ہوتا ہے کہ ایسی تکالیف کے دنوں میں اور ایسی مشکلات کے وقتوں میں جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کافر مایوس ہو جاتا ہے اور کافروں کے لئے زیادہ تر ایسے ہی وقت آتے ہیں.کامیابیوں کے وقت کفار کے لئے محدود اور تھوڑے ہوتے ہیں.میری مراد ان کفار سے ہے جو انبیاء یا ان کی جماعتوں کے مقابلہ پر کھڑے ہوتے ہیں.ان کے سوا جو کفار ہوتے ہیں ان سے اللہ تعالیٰ کا معاملہ اور ہوتا ہے اور وہ اپنی دنیوی جدو جہد اور محنت کے مطابق نتائج دیکھ لیتے ہیں لیکن جو کفار انبیاء اور ان کی جماعتوں کا مقابلہ کرتے ہیں ان کی محنتیں بہت کم نتیجہ خیز ہوتی ہیں.وہ اگر سوروپیہ خرچ کریں تو ایک روپیہ کا نتیجہ نکلتا ہے اور اگر سو آدمی ایک کام پر لگائیں تو ایک آدمی کے برابر کام ہوتا ہے.مگر الہی جماعتوں کے لئے اللہ تعالیٰ کی سنت یہ ہے کہ بالعموم ان کاموں میں اللہ تعالیٰ برکت دیتا ہے.

Page 393

* 1941 394 خطبات محمود ترقیات عطا کرتا ہے اور سہولتیں بہم پہنچاتا ہے.یہ سہولتیں نتائج کے لحاظ سے ہوتی ہیں.ورنہ قربانیاں تو ان کو دوسروں سے زیادہ کرنی پڑتی ہیں اور قربانیاں زیادہ کرنے کی وجہ یہ ہے کہ وہ تھوڑے ہوتے ہیں اور ان کے مخالفین زیادہ ہوتے ہیں.انہیں اس لئے زیادہ قربانیاں نہیں کرنی پڑتیں کہ ان کی قربانیوں کا کوئی نتیجہ نہیں نکلتا بلکہ اس لئے کہ وہ تھوڑے ہوتے ہیں اور ان کے مقابل پر زیادہ طاقت خرچ ہو رہی ہوتی ہے.پس اللہ تعالی نتائج کے لحاظ سے ان کے لئے سہولت بہم پہنچاتا ہے اور ان کے کاموں میں برکت دیتا ہے اور اس حد تک ان کو ترقیات عطا کرتا ہے کہ ان کو ھ کر بھی دشمن کے دل میں حسد اور جلن پیدا ہونے لگتی.ہے.لیکن اس کے ساتھ ہی جیسا کہ میں نے بتایا ہے مومنوں کے لئے بھی مشکلات کے وقت آتے ہیں.ایسے وقت کبھی تو اللہ تعالٰی مومنوں کے امتحان کے لئے لاتا ہے اور کبھی دشمنوں کو ایک جھوٹی خوشی دکھانے کے لئے مومنوں کو تکلیف میں ڈالتا ہے اور ایسے ہی وقت میں مومن اور منافق میں امتیاز ہو جاتا ہے.و من صرف کامیابیوں کی امید کے وقت میں ہی قربانیاں نہیں کرتے بلکہ اس وقت بھی کرتے ہیں جب بظاہر حالات کامیابی کی کوئی امید نہیں ہوتی.مگر منافق کی یہ حالت ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے جب تو راحت اور آسائش کا سامان ہو تو وہ آگے ہوتا ہے مگر جب رنج یا تکلیف کا موقع آئے تو اس کی یہ کیفیت ہو جاتی ہے کہ ڈر کے مارے اس طرح پیچھے ہٹ جاتا ہے جیسے سامنے موت کھڑی ہے.چونکہ وہ مومنوں کے ساتھ ملا ہوا ہوتا ہے اس لئے مومنوں کی خوشیاں اسے بھی میسر آتی ہیں.مگر مصیبت کے وقت میں اس کے اور مومن کے درمیان امتیاز ہو جاتا ہے.ومن کی تو یہ حالت ہوتی ہے کہ جب اللہ تعالیٰ کی طرف سے کامیابیاں آئیں تو وہ خوش ہوتا ہوتا ہے.اس لئے نہیں کہ اس کی کسی کوشش کا نتیجہ نکلا بلکہ اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے فضل کیا ہے.مگر جب مشکلات کا وقت آئے تو بھی وہ مایوس نہیں ہوتا کیونکہ وہ

Page 394

* 1941 395 خطبات محمود جانتا ہے کہ میرا خدا مجھے چھوڑے گا نہیں اور جو خدا تعالیٰ کا اس طرح ہو جاتا ہے کہ سمجھتا ہے کہ میرا خدا مجھے کبھی ضائع نہیں کرے گا اسے اپنی کسی طاقت یا قابلیت پر گھمنڈ نہیں ہوتا.بلکہ اس کا بھروسہ اللہ تعالیٰ پر ہوتا ہے اور عسر و لیسر، ترقی و کمزوری اور عزت و ذلت ہر حالت میں اسے یقین ہوتا ہے کہ میرا خدا مجھے ضائع نہیں کرے گا.وہی مومن کہلانے کا مستحق ہوتا ہے اور اسی کا نام ایمان ہے جو سمجھتا ہے کہ میرا خدا مجھ پر مہربان ہے اور کہ میں نے اس کی بھیجی ہوئی صداقت کو قبول کر لیا ہے اور یہ کبھی ہو نہیں سکتا کہ میرا خدا مجھے ضائع کر دے.اگر خدا تعالیٰ نے لئے کوئی مشکلات پیدا کی ہیں تو یہ میری کسی غلطی کی چھوٹی سی سزا دینے یا میرے ایمان کے امتحان کے لئے ہے اور یا پھر دشمن کو جھوٹی خوشی دکھانے کے امید لئے تا اس کی ناکامی اور بھی بھیانک نظر آئے کیونکہ جب انسان کو کامیابی کی ہو اور پھر اسے ناکامی ہو تو یہ ناکامی بہت زیادہ بھیانک ہوا کرتی ہے.اسی واسطے اللہ تعالیٰ کبھی کبھی کسی کام کے دوران کافروں کو جھوٹی خوشی بھی دکھا دیتا ہے تا وہ اپنی کامیابی کی امید باندھ لیں اور بعد میں انہیں ناکام کر دیتا ہے اور اس طرح ان کی ناکامی ان کے لئے بہت رنج وہ ہو جاتی ہے.جس طرح کسی شخص کا کوئی عزیز سخت بیمار ہو اور بیچ میں اس کی صحت کی امید پیدا ہو جائے مگر بعد میں مر جائے تو زیادہ صدمہ ہوتا ہے.بعض سخت بیمار موت سے تھوڑا عرصہ قبل کچھ تندرست نظر آنے لگتے ہیں.جسے ہمارے ملک میں سنبھالا کہتے ہیں.بعض ناواقف اس سنبھالے کو دیکھ کر خوش ہو جاتے ہیں کہ ہمارا عزیز تندرست ہو رہا ہے مگر جب یکدم موت واقع ہو جاتی ہے تو صدمہ بہت زیادہ ہوتا ہے.یہی سلوک اللہ تعالیٰ کا کفار سے ہوتا ہے.کبھی وہ ان کو جھوٹی خوشی دکھاتا ہے اور وہ سمجھتے ہیں ہم کامیاب ہو جائیں گے اور وہ کامیابی کے سرے پر پہنچ بھی جاتے ہیں مگر وہاں پہنچ کر اللہ تعالیٰ ان کی ذلت، ان کی زک اور ان کی شکست کے سامان پیدا کر دیتا ہے اور ایسی حالت میں ان کو اپنی شکست اس سے بہت زیادہ بھیانک نظر آتی ہے جتنی کہ وہ دراصل ہوتی ہے

Page 395

خطبات محمود 396 کیونکہ پہلے ان کے دل میں کامیابی کی امید بندھ گئی تھی.* 1941 پس یہ اللہ تعالیٰ کی سنت ہے کہ وہ مومنوں کے لئے کبھی ابتلاء کے سامان پیدا کر دیتا ہے اور کبھی آرام و آسائش کے، کبھی قبض کی حالت پید اکر دیتا ہے اس اور کبھی بسط کی.او بسط کی.اور ہمارے لئے بھی یہ حالتیں پیدا ہوتی رہتی ہیں اور ان ایام میں بھی مختلف رنگوں میں اللہ تعالیٰ نے ایسے سامان پیدا کر دیئے ہیں جو بظاہر تکلیف دہ نتائج پیدا کرنے والے ہیں تا وہ ہماری کمزوریوں کو دور کرے.یا شاید مخالفوں کو جھوٹی خوشی دکھانے کے لئے، تا وہ سمجھیں کہ اب ہمارا ہاتھ اچھی طرح پڑ گیا ہے.قسم کی کئی باتیں ہیں جن کے بیان کرنے کی ضرورت نہیں.کئی مشکلات پیدا ہو رہی ہیں ہمارے عام دشمنوں کی طرف سے ہی نہیں بلکہ بعض گورنمنٹ کی طرف سے بھی ہیں.بعض اور حوادث بھی ہیں جن کے بیان کی ضرورت نہیں.میں اس وقت صرف دوستوں کو خاص طور پر دعاؤں کی تاکید کرتا ہوں تا اللہ تعالیٰ جماعت کو دشمنوں کی شرارتوں اور مخالف کوششوں سے محفوظ رکھے.اور وہ جس طرح ہمیشہ ان کو ناکامی اور ذلت کا منہ دکھاتا رہا ہے اب بھی ناکامی اور ذلت کا منہ دکھائے اور ہمیں کسی قسم کی مدد کی امید نہیں وہی ہمارا رب ہے اور ہم اس کے بندے ہیں اور اسی سے ہم نے مانگنا اور طلب کرنا ہے.دنیا میں کسی کو اپنے جتھے پر گھمنڈ ہوتا ہے، کسی کو مال و دولت پر، کسی کو اپنی طاقت و قوت پر گھمنڈ ہوتا ہے اور کسی کو اپنے سامانوں پر مگر ہمارے لئے گھمنڈ کی کوئی چیز نہیں سوائے خدا تعالیٰ کی ذات کے ہمارے لئے اور کوئی جگہ نہیں.وہی ہے جس نے ابتدا میں تھوڑے سے احمدیوں کو اٹھایا اور اس حد تک ترقی دی اور وہی ہے جو اب ہمیں دشمنوں کے شر سے محفوظ رکھتے ہوئے اور ترقیات عطا کرے گا اور اور بڑھائے گا.إِنْشَاءَ اللَّهُ تَعَالٰی.پس میں دوستوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ خصوصیت سے دعائیں کریں.جو دوست نمازوں میں دعائیں کرنے میں سست ہیں وہ اب نمازوں میں بہت دعائیں کریں اور جو نمازوں میں پہلے ہی خوب دعائیں کرتے ہیں وہ دوسرے اوقات میں بھی کریں نہیں

Page 396

* 1941 397 خطبات محمود ہے تا اللہ تعالیٰ ہمارے دشمنوں کو ناکام و نامراد کرے ، ہماری مشکلات کو دور فرمائے اور اپنی رحمت کے دروازے ہمارے لئے کھول دے.ایسے وقت میں مسنون دعائیں بھی کرنی چاہئیں.قرآن کریم کی دعائیں بھی بہت فائدہ دینے والی ہیں اس لئے انہیں خصوصیت کے ساتھ استعمال کیا جائے.پھر وہ دعا بھی جو میں نے پہلے بتائی ہوئی يعنى اللّهُمَّ إِنَّا نَجْعَلكَ فِي نُحُورِهِمْ وَنَعُوذُ بِكَ مِنْ شُرُورِهِمْ 1 خاص طور پر مانگنی چاہئے.یہ رسول کریم صلی کام کی دعا ہے جسے آپ دشمنوں کے مقابلہ کے خاص مواقع پر مانگا کرتے تھے اور ہم پہلے بھی اس کا تجربہ کر چکے ہیں اور اس سے فوائد بھی حاصل کئے ہیں اس لئے پھر اسے خصوصیت کے ساتھ مانگنا چاہئے.پھر بھی دعا کرنی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ ان مشکلات کے وقت میں اپنے فضل سے ہمارے لئے ترقی کے سامان پیدا کر دے اور آرام و راحت کے سامان پیدا کر دے اور ان مشکلات کو بھی دور فرمائے جو زمانہ کے حالات کے لحاظ سے جماعت یا افراد جماعت کی ترقی اور ان کی راحت و آسائش میں حائل ہیں.اس کے بعد میں مسجد کے منتظمین سے یہ کہنا چاہتا ہوں کہ عورتیں تین جمعوں سے محروم ہیں کہا جاتا ہے کہ لاؤڈ سپیکر خراب ہے مگر اس خرابی کی وجہ میں نہیں سمجھ سکتا.جہاں تک مجھے علم ہے عورتوں نے بہت سا چندہ جمع کر کے دیا تھا کہ آواز بڑھانے والے آلے ان کے لئے لگا دیئے جائیں مگر بے سود.انہوں نے رقم بھی جمع کی مگر پھر بھی ان کا حصہ خرابی کی حالت میں انہیں ملتا ہے.اگر لاؤڈ سپیکر خراب ہو چکا ہے تو اسے ٹھیک کرانا چاہئے تھا یا اگر وہ درست ہونے کے قابل نہیں رہا تو پھر بھی ان کو بتانا چاہئے تھا تا وہ ہمت کر کے اور چندہ جمع کر کے نیا خریدنے کا انتظام کر لیتیں اور اس طرح تین جمعوں سے محروم نہ رہتیں." الفضل 3 اگست 1941ء) 1 ابو داود كتاب الوتر باب مَا يَقُولُ الرَّجُلُ إِذَا خَافَ قَوْمًا

Page 397

* 1941 397 (25) خطبات محمود دل کا اطمینان کر کے سچائی کو قبول کرو اور قبول کرنے کے بعد استقلال سے کام لو ) فرمودہ 8 اگست 1941ء) تشہد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: “انسانی فطرت میں یہ امر داخل ہے کہ جب کبھی اس کے دل میں کوئی جوش پیدا ہوتا ہے تو وہ اپنے ماحول کے باہر سب چیزوں کو بالکل بھول جاتا ہے اور اس وقت اسے صرف یہی نظر آتا ہے کہ جو چیز میرے سامنے ہے.بس دنیا کی ساری خوبیاں اور ساری ترقیاں یا سارے تنزل اور ساری تباہیاں اسی سے وابستہ ہیں.گویا بچپن کی یہ خصلت بڑے ہو کر بھی انسان میں موجود رہتی ہے کہ جب کسی کھلونے بچے کا دل آتا ہے تو اس وقت وہ یہ سمجھتا ہے کہ بس اس کھلونے کے ملے بغیر میری زندگی ناممکن ہے.وہ روتا ہے، وہ چڑتا ہے وہ ماں کے ساتھ لڑتا ہے.وہ باپ سے اصرار کرتا ہے کہ بس مجھے یہ کھلونا مل جائے اور بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ اگر وہ کھلونا اس کو نہ ملے تو اسے بخار چڑھ جاتا ہے بلکہ بعض دفعہ تو بچے بیمار ہو کرمر جاتے ہیں جب ان کی کوئی خواہش پوری نہ ہو.اور بچے کی یہ کھلونے کی خواہش اتنی زبر دست ہوتی ہے کہ ہم تو دیکھتے ہیں بچہ جب ماں کے پیٹ میں ہوتا ہے تو ماں بھی بچہ بن جاتی ہے.ایام حمل میں ماؤں کو ایک شدید خواہش پیدا ہوتی ہے

Page 398

خطبات محمود 398 * 1941 جسے پنجابی زبان میں “اروئے ” کہتے ہیں.یوں تو ان کو اس طرح کی شدید خواہش نہیں ہوا کرتی مگر جب حاملہ ہوتی ہیں کسی ایک چیز کی خواہش جو بعض دفعہ غیر معمولی طور پر مشکل الحصول ہوتی ہے ان کے دل میں پیدا ہو جاتی ہے اور بعض دفعہ تو وہ خواہش اتنی مضحکہ خیز ہوتی ہے کہ انسان سن کر حیران ہو جاتا ہے.اگر اس وقت عورت کی وہ خواہش پوری نہ کی جائے تو سو میں سے پانچ سات یا دس کیس ایسے ہوتے ہیں کہ حمل گر جاتا ہے.بالعموم عورتوں کو کسی نہ کسی کھانے کی خواہش ہوتی ہے مثلاً کبھی ایسا ہو گا کہ وہ کہے گی میرا سیب کھانے کو دل چاہتا ہے اور پھر اس کا دل اتنا چاہے گا اتنا چاہے گا کہ اسے خوشبو بھی سیب کی آئے گی اور کہے گی کہ مجھے کی خوشبو آ رہی ہے اور جب تک اس کی یہ خواہش پوری نہ ہو اس وقت تک قرار اور مضطرب رہے گی.دوسرے ملکوں میں یہ بات ہے یا نہیں مگر ہمارے ملک میں بالعموم عورتوں کو ایام حمل میں مٹی کھانے کی خواہش پیدا ہو جاتی ہے.پھر اس کی بھی کئی قسمیں ہیں.کسی کو اس جگہ کی مٹی اچھی لگتی ہے جہاں کیچڑ نیا نیا لیپا گیا ہو، کسی کے دل میں یہ خواہش ہوتی ہے کہ وہ چولھے کی مٹی کھائے، کسی کا یہ جی چاہتا ہے کہ اگر کوئی کچا آبخورہ ہو تو اس کی ٹوٹی ہوئی مٹی کھاؤں.حتی کہ چند دن ہوئے ایک شخص سے میں نے سنا جس سے مجھے سخت حیرت ہوئی کہ ایک عورت نے ایام حمل میں گتے کو پاخانہ چاٹتے دیکھا او راس کا جی چاہا کہ وہ بھی اسی طرح کوئی چیز کھائے.چنانچہ اس کے دل میں اس کی اتنی شدید خواہش پیدا ہوئی کہ اس نے چولہا بنا کر اور اس میں کڑھی ڈال کر گتے کی طرح چاٹی.میں سمجھتا ہوں بچے کے دل میں چونکہ شدید خواہش ہوتی ہے اور جب وہ کسی چیز کے پیچھے تو اسے چھوڑتا نہیں.اس لئے ماں کے دل میں بھی بچے جیسی خواہش پیدا ہو جاتی ہے اور ایام حمل میں بچہ کے اثرات کی وجہ سے ماں بھی بچہ بن جاتی ہے.بچوں کے دل میں جب وہ چھوٹے ہوتے ہیں کھلونے کی اتنی شدید خواہش ہوتی کہ بعض دفعہ اس خواہش کے پورا نہ ہونے کی وجہ سے وہ بیمار ہو کر مر جاتے ہیں.ہے غرض ہے

Page 399

* 1941 399 خطبات محمود وہ اس مگر دوسری طرف ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ ان کے ماں باپ جب انہیں کھلونا لے دیتے ہیں تو یہ نہیں ہوتا کہ وہ انہیں سنبھال کر رکھیں، ان کی قدر دانی کریں اور سمجھیں کہ ان کی وہ خواہش جس کے لئے انہوں نے گھر بھر کو سر پر اٹھایا ہوا تھا.کھلونے کے ذریعہ پوری ہوئی ہے تو وہ اسے احتیاط سے رکھیں بلکہ اسی وقت اسے توڑنے لگ جاتے ہیں اور بعض دفعہ تو آدھ گھنٹہ بھی نہیں گزرتا کہ وہ کھلونے کو اٹھا کر پرے پھینک دیتے ہیں اور ماں سے کہتے ہیں ہمیں یہ مطلوب نہیں.یہی فطرت بعض انسانوں میں بھی جب ان کی صحیح تربیت نہیں ہوتی جوانی کے ایام میں بھی پائی جاتی ہے.وہ بڑے ہو جاتے ہیں مگر فطرتا بچے ہی ہوتے ہیں جب دنیا میں مختلف کام ان کے سامنے آتے ہیں تو کوئی نہ کوئی خواہش ان کے دل میں پیدا ہو جاتی ہے.اس وقت وہ یہ نہیں دیکھتے کہ ان کی خواہش جائز ہے یا ناجائز، پسندیدہ ہے یا ناپسندیدہ بلکہ وہ دیوانہ وار اس کے حصول میں لگ جاتے ہیں اور بسا اوقات جب وہ چیز ان کو حاصل ہو جاتی ہے تو اس کے بعد انہیں اس کی ذرہ بھر بھی پرواہ نہیں رہتی بلکہ بعض دفعہ تو اس کے ساتھ ایک قسم کی نفرت پیدا ہو جاتی ہے.ہمارے قادیان میں ایک دوست ہیں.ہم چھوٹے ہوتے تھے تو وہ نیم مجنون ہونے کی حالت میں قادیان آئے اور انہیں مدرسہ میں لڑکوں کو پڑھانے پر لگا دیا گیا.میرے ایک ساتھی نے مجھے ایک دفعہ خاص طور پر ان کے متعلق بتایا کہ انہیں جنون ہے کہ وہ ایک خاص لڑکی سے شادی کرنا چاہتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ اگر اس جگہ میری شادی نہ ہوئی تو بس تباہی آ جائے گی.پھر اس کے بعد میں نے دیکھا کہ وہ روزانہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام کو رقعے لکھتے کہ دعا کریں میری اس جگہ شادی ہو جائے.حضرت خلیفہ اول ان کا علاج بھی کرتے دوست ان سے تمسخر بھی کرتے اور انہیں منع بھی کرتے.مگر ان کا جنون نہ جانا تھا نہ گیا.آخر ان کی شادی ہوئی اور وہیں ہوئی جہاں وہ چاہتے تھے.پھر اس عورت سے رہے اور

Page 400

* 1941 400 خطبات محمود ان کی اولاد بھی پیدا ہوئی مگر مجھے ہمیشہ یہ دیکھ کر گزشتہ تمام نظارہ یاد آ جاتا ہے کہ باپ اب اپنی اولاد کی شکل تک دیکھنے کا روادار نہیں.ان کا ایک ہی بیٹا ہے اور وہ اچھا نیک اور مخلص احمدی ہے.ایک دفعہ یہاں آیا اور اس نے مجھے لکھا کہ میں بیمار ہوں اور مسلول ہوں.اس بیماری اور مسلول ہونے کی حالت میں مجھے خیال آیا.قادیان کی زیارت کر آؤں.معلوم نہیں کتنی زندگی باقی ہے.وہ اپنے باپ کے ر گیا تو باپ نے اسے گھر میں ٹھہرنے نہ دیا.پھر وہ مہمان خانہ میں گیا تو اس کے باپ نے مہمان خانہ والوں کو لکھا کہ میرے اس لڑکے کو فوراً مہمان خانہ سے نکال جائے.یہ نہیں کہ اس لڑکے میں کوئی عیب پایا جاتا تھا جس کی وجہ سے اس نے ایسا سلوک کیا.وہ لڑکا نہایت اچھا اور نیک ہے مگر اس کے باپ کے دماغ کی کوئی کل ایسی بگڑی ہے کہ وہ اسے اپنے ہاں نہیں ٹھہرا سکتے حالانکہ ہمیں معلوم ہے یا تو پاگل حالت میں قادیان میں ہجرت کر کے آئے تھے اور ہجرت بھی انہوں نے ایک عورت کی خاطر کی تھی.جیسا کہ حدیث میں آتا ہے مَنْ كَانَتْ هِجْرَتُهُ إِلَى دُنْيَا يُصِيبُهَا أَوْ إِلَى امْرَأَةٍ يَنْكِحُهَا فَهِجْرَتُهُ إِلَى مَا هَاجَرَ إِلَيْهِ - 1 کہ جو دنیا کی خاطر یا کسی عورت سے شادی کرنے کے لئے ہجرت کرے اس کی ہجرت خدا اور رسول کے لئے نہیں بلکہ دنیا اور عورت کے لئے سمجھی جائے گی.انہوں نے بھی اس لئے ہجرت کی کہ کسی طرح اس عورت سے شادی ہو جائے.پھر حضرت مسیح موعود عليه الصلوۃ و السلام سے دعائیں کرائیں اور بار بار لکھا کہ حضور دعا کریں میری پیدا فلاں جگہ شادی ہو جائے.پھر شادی ہو گئی اور اس شادی کے نتیجہ میں اولاد بھی ہوئی مگر اسی محبوبہ کی اولاد سے پھر ان کی اتنی دشمنی ہوئی کہ وہ اس کا سامنے آنا تک پسند نہیں کرتے.اب یہ وہی مرض ہے جو بچپن مرض ہے جو بچپن کی حالت میں انسان کے اندر پہلے بچہ شور مچاتا ہے کہ میں نے کھلونا لینا ہے اور جس طرح بھی ہو اُسے حاصل کرنا ہے پھر جب وہ کھلونا اسے مل جاتا ہے تو نہایت بے پروائی کے ساتھ اسے توڑ پھوڑ ڈالتا ہے.اسی قسم کی اور ہزاروں ہزار مثالیں دنیا میں ملتی ہیں اور ایسے

Page 401

* 1941 401 خطبات محمود ہے جس ہے ایسے عجیب واقعات نظر آتے ہیں کہ دیکھ کر حیرت آتی ہے.خود مجھے جماعت کے کئی لوگ دعاؤں کے لئے لکھتے رہتے ہیں اور ایسے شدید اضطراب کے ساتھ لکھتے ہیں کہ یوں معلوم ہوتا ہے اگر ان کی خواہش پوری ہو گئی تو ہمیشہ کے لئے ان کو سکون قلب اور اطمینان حاصل ہو جائے گا مگر جب ان کی خواہش پوری ہو جاتی ہے اور جس چیز کے حصول کے لئے وہ پے در پے دعاؤں کے لئے لکھتے ہیں انہیں مل جاتی تو انہیں اس کی کچھ بھی پرواہ نہیں رہتی.تمام ولولے ختم ہو جاتے ہیں، تمام جوش سرد پڑ جاتے ہیں اور ان کی تمام خواہشیں مٹ جاتی ہیں.یہی وہ مرض سے بے استقلالی پیدا ہوتی ہے.بے استقلالی در حقیقت اسی قسم کی حالت کا جو جنون کی حد تک پہنچی ہوئی ہوتی ہے ایک چھوٹا درجہ ہے اور بے استقلالی اسی کا نام ہے کہ ایک شخص کسی دوسرے کو دیکھتا ہے اور سمجھتا ہے کہ وہ بڑا اچھا آدمی ہے.پھر اس سے دوستی پیدا کر لیتا ہے مگر چند دنوں کے بعد ہی اس دوستی کو توڑ دیتا ہے.ایک عقیدہ کو دیکھتا ہے اور سمجھتا ہے کہ یہ بڑا اچھا عقیدہ ہے چنانچہ اس عقیدہ کو اختیار بھی کر لیتا ہے مگر چند دنوں کے بعد ہی اس عقیدہ کو ترک کر دیتا ہے.ایک مذہب کو دیکھتا ہے تو اس کی خوبیوں کا فریفتہ ہو جاتا ہے مگر چند دنوں کے بعد ہی اس کا تمام جوش و خروش جاتا رہتا ہے اور اسی مذہب میں اسے سینکڑوں نقائص اور عیوب نظر آنے لگ جاتے ہیں.سینکڑوں مثالیں اس قسم کی ملتی ہیں کہ لوگ آئیں گے اور بڑے جوش سے اپنی عقیدت کا اظہار کریں گے.کہیں گے ہمیں تو ایک موتی مل گیا، ایک لاثانی جوہر ہم کو حاصل ہو گیا، اطمینانِ قلب جو برسوں سے ہمیں میسر نہیں تھا آج خدا نے ہمیں عطا کر دیا.دل کو تسکین حاصل ہو گئی.خدا نے ایک نور ہمارے اندر بھر دیا اور ہمیں احمدیت کیا ملی ہمیں تو خدا مل گیا، ہمیں خدا کا رسول ملگ غرض ان کی حالت کو اس وقت دیکھنے سے یوں معلوم ہوتا ہے کہ ایک نیا ابو بکر ہمارے سلسلہ میں داخل ہو رہا ہے، ایک نیا عمر ہمیں خدا دے رہا ہے.ایک نیا عثمان ظاہر ہو رہا ہے یا ایک نیا علی ہمیں دکھائی دے رہا ہے.مگر تین چار ماہ کے بعد

Page 402

* 1941 402 خطبات محمود ہی اسے اس جوہر میں شگاف دکھائی دینے لگ جاتا ہے.موتی اسے گدلا نظر آنے لگ جاتا ہے.اطمینانِ قلب اس کے ہاتھوں سے کھویا جاتا ہے.نہ اس کی نمازوں میں جوش رہتا ہے نہ نہ اسے عبادت میں رغبت رہتی ہے نہ اسے جماعت کے افراد میں کوئی خوبیاں دکھائی دیتی ہیں.اگر اسے دکھائی دیتا ہے تو بس یہ کہ فلاں میں یہ نقص ہے، فلاں میں وہ عیب ہے، فلاں ایسا بُرا ہے اور فلاں ایسا بُرا ہے.گویا جہاں سے چلا تھا وہیں آ جاتا ہے.پھر اس کی طبیعت چاہتی ہے کہ اب مجھے کوئی اور کھلونا مل جائے.یہ نہیں کہ ایسے لوگ مرتد ہو جاتے ہیں.کئی مرتد بھی ہو جاتے ہیں مگر جو رتد تو نہیں ہوتے ان کے دل کا اخلاص جاتا رہتا ہے.انہوں نے اپنے ذہن میں چیز کا نقشہ بنایا ہوا ہوتا ہے.پھر ان کے اس جنون کا دو طرح اظہار ہوتا ہے.ایک تو اس طرح کہ مجنونانہ طور پر انہوں نے کوئی غلط معیار قائم کیا ہوا ہوتا ہے اور وہ خیال کرتے ہیں کہ اگر ان کے معیار پر کوئی چیز اتری تو اسے وہ مان لیں گے اور اگر ان کے معیار کے مطابق نہ ہوئی تو اسے رد کر دیں گے.حالانکہ وہ معیار ان کے خود تراشیدہ ہوتے ہیں.مثلاً دنیا میں جب خدا تعالیٰ کسی دینی سلسلہ کو قائم وہ کرے گا تو لازماً اسے اپنی سنت کے مطابق چلائے گا.یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ اسے لوگوں کی خواہشات کے مطابق چلائے.جو طریق خدا تعالیٰ کا نوح کے وقت رہا، طریق خدا تعالیٰ کا ابراہیم کے وقت رہا، جو طریق خدا تعالیٰ کا موسیٰ" کے وقت رہا، جو طریق خدا تعالیٰ کا عیسی کے وقت رہا اور جو طریق خدا تعالیٰ کا رسول کریم صلی علی دلم کے وقت رہا وہی طریق اس کا اب بھی ہو گا اور جس منہاج پر پہلے سلسلوں کو خدا تعالیٰ نے قائم کیا اسی منہاج اور طریق پر اب الہی سلسلے قائم ہوں گے اور الہی جماعتوں پر نظر ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ان میں اچھے بھی ہوتے ہیں اور برے بھی ہوتے ہیں.نیک بھی ہوتے ہیں اور بد بھی ہوتے ہیں.پھر ان کمزور لوگوں میں سے کچھ تو پھسل جاتے ہیں.کچھ پھسلتے پھسلتے سنبھل جاتے ہیں.کچھ مصائب کے تھپیڑے کھا کر اصل راستہ پر چل پڑتے ہیں اور کچھ مرتد ہو جاتے ہیں.یہی طریق خدا تعالیٰ کا

Page 403

* 1941 403 خطبات محمود ہمیشہ سے چلا آیا ہے.اور ہمیشہ چلتا چلا جائے گا مگر وہ جو اپنے آپ کو ہٹلر زماں سمجھتے ہیں.ان کا خیال یہ ہوتا ہے کہ تمام افراد نیکی کے ایک معیار پر ہوں ان کا ایک لیول ہو، ان سب میں ایک قسم کی قربانی کی خواہش پائی جاتی ہو.سب میں نیکیوں کا ایک جیسا جوش ہو.اور کوئی نقص اور کمزوری ان میں سے کسی میں دکھائی نہ دیتی ہو.غرض ان کا پہلا جنون تو یہ ہوتا ہے کہ وہ خدا پر حاکم بننا چاہتے ہیں اور ان کی خواہش یہ ہوتی ہے کہ الہی سلسلے ان کے معیار کے مطابق ہوں.خدائی طریق کے مطابق نہ ہوں.پھر دوسرا جنون ان کا یہ ہوتا ہے کہ جب وہ ایک سلسلہ کو ہیں تو اندھے ہو جاتے ہیں اور باوجود اس کے کہ جو باتیں ان کے ذہن میں ہوتی ہیں وہ اس سلسلہ کے تمام افراد میں موجود نہیں ہوتیں.پھر بھی وہ کہتے ہیں کہ ہم نے دیکھ لیا.یہ سلسلہ بالکل سچا اور خدا تعالیٰ کا قائم کردہ ہے پھر مہینہ ڈیڑھ مہینے کے بعد جب ان کا جنون دور ہوتا ہے تو انہیں لوگوں میں وہ کمزوریاں بھی نظر آنے لگ جاتی ہیں جو مومنوں کی جماعتوں میں بھی ہوتی ہیں، انہیں وہ منافق بھی آنے لگ جاتے ہیں جو ہر جماعت میں پائے جاتے ہیں، انہیں وہ مرتد بھی نظر آنے لگ جاتے ہیں جو ہمیشہ الہی جماعتوں سے کٹ کر علیحدہ ہوتے رہے ہیں اور ہیں ہم سے بڑا دھوکا ہوا ہم سمجھے کچھ اور تھے اور نکلا کچھ اور.حالانکہ قرآن موجود ہے.تم اسے پڑھ کر دیکھ لو کیا دنیا میں کبھی کوئی جماعت ایسی ہوئی ہے جس میں کمزور لوگ نہ پائے گئے ہوں جس میں منافق نہ ہوں اور جس میں مرتدین کا وجود نہ پایا جاتا ہو.رسول کریم صلی علیم کی جماعت سے بڑھ کر اور کونسی جماعت ہو مگر ہمیں تو رسول کریم صلی اللی علم کی جماعت میں بھی منافق نظر آتے ہیں.ہے.بھی آپ کی جماعت میں بھی ست لوگ دکھائی دیتے ہیں.آپ کی جماعت میں گالیاں دینے والے نظر آتے ہیں مگر اس کے ساتھ ہی چست اور مخلص لوگ بھی آپ کی جماعت میں نظر آتے ہیں.پھر اگر یہی باتیں کسی اور جماعت میں پائی جائیں

Page 404

خطبات محمود 404 * 1941 تو یہ امر اس کے جھوٹا ہونے کی کس طرح دلیل ہو سکتا ہے.آخر دین منتر جنتر تو ہوتا نہیں کہ پھونک ماری اور انسان کو ولی بنا دیا.دین تو متواتر اور پے در پے قربانی کرنے کا نام ہے.جس طرح ہیرے کو ایک ماہر فن چھیل چھیل کر درست کرتا ہے اور بعض دفعہ ایک ایک ہیرا سال سال میں ٹھیک ہوتا ہے اسی طرح انسانوں کی اصلاح پر وقت لگتا ہے بلکہ ہیرا تو پتھر کا ہوتا ہے اسے اگر درست کرنے میں ایک سال لگ سکتا ہے تو انسان استقلال سے اگر اپنے نفس کی درستی اور اصلاح میں لگ جائے اور اس پر دس ہیں سال بھی صرف ہو جائیں تو اس میں حرج کیا ہے.مگر وہ لوگ قلوب کی اصلاح کے لئے اتنا وقت بھی نہیں دینا چاہتے جتنا ایک ہیرے کی درستی پر صرف ہوتا ہے حالانکہ ہیرا ایک پتھر ہوتا ہے جس کے نقائص نظر آ رہے ہوتے ہیں.کہیں پوشیدہ نہیں ہوتے پھر بھی باریک ریتی سے اس کی درستی پر سال سال لگ جگ جاتا ہے بلکہ بعض ہیروں کو درست کرنے تو کئی سال صرف ہو جاتے ہیں.لیکن انسان اپنے متعلق یہ چاہتا ہے کہ جب وہ سلسلہ میں داخل ہو تو اسے ایسی پھونک ماری جائے کہ اسی وقت اس کی اصلاح جائے پھر ہیرا تو مقابلہ نہیں کرتا.وہ یہ نہیں کہتا کہ مجھے مت چھیلو میں اس کے لئے تیار نہیں مگر انسان بسا اوقات مقابلہ پر تیار ہو جاتے ہیں.ایک شخص غلطی کرتا ہے ہے اور اس کی اصلاح کی صورت یہ ہوتی ہے کہ اسے سزا دی جائے مگر وہ کہتا میں سزا برداشت نہیں کروں گا.ایک اور شخص غلطی کرتا ہے اور اس کی اصلاح کی صورت یہ ہوتی ہے کہ اس سے سلسلہ کا زیادہ کام لیا جائے مگر وہ انکار کر دیتا ہے اور کہتا ہے میں زیادہ کام کرنے کے لئے تیار نہیں.ایک اور شخص غلطی کرتا ہے اور اس کی اصلاح کی صورت یہ ہوتی ہے کہ وہ خاص رنگ میں مالی قربانی کرے مگر وہ مالی قربانی کرنے سے انکار کر دیتا ہے.اسی طرح ایک اور شخص غلطی کرتا ہے اور نظام سلسلہ چاہتا ہے کہ وہ اپنے اخلاق کو بعض خاص قیود کے ماتحت لائے مگر وہ کسی قسم کی قید برداشت کرنے کے لئے تیار نہیں ہوتا.اب بتایا جائے کہ ایسے انسان سے

Page 405

* 1941 405 خطبات محمود ها الله سة کوئی کس طرح کام لے سکتا اور کس طرح اس کی اصلاح کر سکتا ہے.ایسے لوگوں کی درستی کی جب خدا بھی ذمہ داری نہیں لیتا تو بندہ کس طرح ان کی اصلاح کی ذمہ داری لے سکتا ہے؟ یوں تو بندہ کسی کا بھی ذمہ دار نہیں لیکن اگر بندہ کسی کی ذمہ داری لے سکتا ہے تو اسی شخص کی جو اپنے آپ کو بے جان کی طرح ڈال دے اور جماعتی فیصلہ کو صحیح تسلیم کرے.اگر کوئی شخص اپنے آپ کو اس رنگ میں اصلاح کے لئے سپرد نہ کرے اور بیس سال تک بھی صحبت میں رہے تو اس کی وہ صحبت اسے کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکتی.آخر مدینہ کے منافقین آٹھ آٹھ نو نو سال رسول کریم صل ال ظلم کی صحبت میں رہے تھے مگر ان کی اصلاح نہ ہوئی اس لئے کہ انہوں نے اپنے آپ کو رسول کریم صلی الم کے سپرد نہیں کیا تھا.یہ نہیں کہا تھا کہ آپ جس طرح چاہیں اصلاح کریں بلکہ ہمیشہ ان کا یہی طریق رہا کہ جو بات ان کے منشاء کے مطابق ہوتی اسے مان لیتے اور جو منشاء کے مطابق نہ ہوتی اسے رد کر دیتے.اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام بھی ایسے لوگوں کی اصلاح کا ذمہ نہیں لے سکتے تھے.چنانچہ باوجود اس بات کے کہ جماعت کے بعض لوگ پندرہ پندرہ ہیں ہیں سال آپ کی صحبت میں رہے وفات کے قریب آپ نے فرمایا کہ ہماری جماعت میں تین قسم کے لوگ پائے جاتے ہیں.ایک تو وہ ہیں جنہوں نے ہم کو دیکھا ہمارے دعوی کو سمجھا اور ہمیں سچے دل سے مان لیا مگر ایک دوسرا گروہ وہ ہے جس نے ہمیں نہیں دیکھا بلکہ مولوی نور الدین صاحب کو دیکھا اور ان کے علم، ان کی خدمات اور ان کی بنی نوع انسان سے ہمدردی کو دیکھ کر سینکڑوں آدمی جو اُن کے دوست تھے احمدیت میں شامل ہو گئے اور انہوں نے سمجھا کہ جب مولوی نور الدین صاحب احمدی گئے ہیں تو ضرور یہ سلسلہ سچا ہو گا.پس ان کا ہمارے ساتھ تعلق مولوی صاحب کے طفیل ہے.اگر خدانخواستہ مولوی صاحب کسی ابتلاء میں آ جائیں تو ان کو بھی ابتلاء آجائے گا.پھر فرمایا تیسرا گروہ اُن نوجوانوں کا ہے جو اِدھر اُدھر پھر رہے تھے.ان کے دلوں میں جوش تھا اور وہ چاہتے تھے کہ کوئی کام کر کے دکھائیں مگر انہیں کوئی

Page 406

* 1941 406 خطبات محمود جماعت نظر نہیں آتی تھی جس میں شامل ہو کر وہ اپنی اس خواہش کو پورا کر سکیں.جب انہوں نے دیکھا کہ جماعت احمدیہ کی صورت میں ایک بنا بنایا جتھہ موجود ہے اور اس میں قربانی اور ایثار کا مادہ پایا جاتا ہے تو وہ اس جماعت میں شامل ہو گئے تاکہ اس سامان سے فائدہ اٹھا کر جو اس جماعت کے پاس ہیں وہ ایک مضبوط انجمن بنائیں اور دنیوی انجمنوں کی طرح سلسلہ کے کاروبار کو چلائیں.غرض آپ نے فرمایا.تین قسم کے گروہ ہماری جماعت میں پائے جاتے ہیں اور واقعات نے بھی ثابت کر دیا کہ یہی تین قسم کے گروہ ہماری جماعت میں تھے.ނ پس یہ بات کہ انسان اپنے آپ کو اصلاح کے لئے سپرد نہ کرے.ترقی میں بہت بڑی روک ہوتی ہے اور اگر کوئی شخص ایسا ہو تو اس کی اصلاح بہت مشکل ہوتی ہے مثلاً وہی گروہ جس کا جماعت سے تعلق حضرت خلیفہ اول کی وجہ سے تھا.اس کے لئے ٹھوکر کا امکان تھا.یہ تو اتفاق کی بات ہے کہ ان کا تعلق ایک ایسے آدمی کے ساتھ تھا جو خدا کا پیارا تھا اور چونکہ حضرت خلیفہ اول خود خدا تعالیٰ کے پیارے تھے اس لئے ان کے ساتھ تعلق رکھنے والے لوگ بھی ٹھوکر بچ گئے لیکن فرض کرو ان کا تعلق کسی اور شخص مثلاً عبد الحکیم مرتد سے ہوتا تو جب عبد الحلیم کو لو ٹھوکر لگی تھی اسی وقت ان کو بھی لگ جاتی.یہ تو حسن اتفاق ہے کہ ان کا تعلق ایک ایسے شخص کے ساتھ ہوا جو خدا تعالیٰ کا محبوب بندہ تھا اور جس نے اس قسم کی ٹھوکروں اور ابتلاؤں سے محفوظ رہنا تھا.لیکن دوسری جماعت پھسلی اور بُری طرح پھلی.جب اس جماعت کے افراد نے دیکھا کہ اب ان کا وہ جوش و خروش کہ جماعت ایک انجمن کے ماتحت ہو اور اس کا نظام ویسا ہی ہو جیسے یورپین اقوام کا نظام ہوتا ہے پورا نہیں ہوا تو انہوں نے ایک نیا مشغلہ اختیار کر لیا چنانچہ اب رات اور دن وہ قادیان اور قادیان والوں کو گالیاں دیتے رہتے ہیں اور کُجا تو یہ حالت کہ وہ قادیان سے ایک دن کی جدائی بھی برداشت نہیں کر سکے تھے اور کجا ان کی حالت ہو گئی ہے کہ وہ کہتے ہیں (نعوذ بالله ) قادیان دمشق ہے.قادیان میں

Page 407

* 1941 407 خطبات محمود یزیدی رہتے ہیں.قادیان میں ہر قسم کی خرابیاں پیدا ہو چکی ہیں.قادیان والے ختم نبوت کے منکر ہیں.قادیان والے قرآن کریم کی کوئی خدمت نہیں کر رہے.اور “ قادیانی ہے خلیفہ (نعوذ بالله) محمد رسول اللہ صلی الم کا بد ترین دشمن ہے ”2 گویا وہی مثال جس طرح بچہ ایک کھلونے کو بڑے اشتیاق سے لیتا ہے اور جب دیکھتا ہے کہ اس کا مقصد اس کھلونے سے حاصل نہیں ہوا تو اسے توڑ کر الگ ہو جاتا ہے.اسی طرح ان لوگوں کے مقاصد بھی جب پورے نہ ہوئے تو ہٹ گئے.میں نہیں کہہ سکتا کہ باقی بچوں کو بھی اپنے بچپن کے اس قسم کے واقعات یاد ہیں یا نہیں مگر مجھے خوب یاد ہے کہ میں نے بچپن میں ریل کی شدید خواہش کی.میں اپنے اندازہ کے مطابق سمجھتا ہوں کہ بچہ کو دور سے جو کھلونا نظر آتا ہے اس کے متعلق وہ یہ خیال کرتا ہے کہ وہ کوئی حقیقی چیز ہے مگر جب اسے حاصل کر کے معلوم کرتا ہے کہ وہ حقیقی چیز نہیں تو اسے پھینک دیتا ہے.میں نے بھی چونکہ ریل دیکھی ہوئی تھی اس لئے میرا اندازہ تھا کہ جس ریل کی میں خواہش کر رہا ہوں وہ بھی ریل کا کچھ نہ کچھ کام ضرور کرے گی اور میں اپنے بچپن کی سادگی سے یہ خیال کرتا تھا کہ اگر زیادہ نہیں تو وہ ایک آدمی کو تو ضرور اٹھا لے گی چنانچہ مجھے یاد ہے میں نے اسے کنجی دے کر اس پر پیر رکھنے کی کوشش کی مگر اس پر آ نہ سکا.وہ ریل بھی کچھ بڑی تھی اس لئے میں نے اس پر ایڈی رکھ دی مگر میرے ایڑی رکھتے ہی وہ گاڑی کچل کر ٹکڑے ٹکڑے ہو گئی.اس پر میں نے سمجھ لیا کہ یہ چیز میرے کام کی نہیں.چنانچہ نے اس کو پرے پھینک دیا.اپنے ذہن میں میں یہ خیال کرتا تھا کہ ہم مٹی کے گھر بنانے کے لئے اس پر مٹی ڈھو کر لایا کریں گے.میں سمجھتا ہوں یہی خیال پر بچوں کے دلوں میں پیدا ہوتا ہے.جب وہ دور سے سے کسی کھلونے کو دیکھتے ہیں تو سمجھتے ہیں کہ ہم اس سے کام لیں گے.ریل کو دیکھ کر سمجھتے ہیں کہ یہ کچھ نہ ریل کا کام ضرور دے گی اور اگر زیادہ آدمی نہیں تو ایک آدمی تو اس میں ضرور بیٹھ سکے گا.گھوڑے کو دیکھ کر سمجھتے ہیں کہ وہ کچھ نہ کچھ بوجھ ضرور اٹھائے گا مگر طور.

Page 408

* 1941 408 خطبات محمود جب دیکھتے ہیں کہ یہ کھلونے نہ سواری کے کام آتے ہیں نہ بوجھ اٹھانے کے تو دل برداشتہ ہو جاتے ہیں.مجھے یاد ہے بچپن میں میں نے ایک دفعہ مٹی کی چھوٹی سی چگی خریدی اور کے لئے اس میں چند دانے ڈال دیئے پھر میں نے اسے چلایا تو دانے اندر ہی پھنس گئے اس پر جب مجھے معلوم ہو گیا کہ یہ چکی دانے نہیں پہیں سکتی تو اسے اٹھا پینے.اصرار ہے کر پھینک دیا.میں سمجھتا ہوں کہ باقی بچوں کے دلوں میں بھی یہی خیال آتا ہو گا اور چونکہ جو مقصد انہوں نے اپنے ذہن میں رکھا ہوتا ہے وہ پورا نہیں ہوتا اس لئے کھلونوں کو توڑ پھوڑ دیتے ہیں حالانکہ یہ بچوں کی اپنی غلطی ہوتی ہے.کیا کوئی کھلونے بیچنے والا یہ کہا کرتا ہے کہ یہ چکیاں دانے پیسیں گی یا گھوڑے چلیں گے یا ریل بوجھ اٹھائے گی.وہ ان کو کھلونے ہی کہتا ہے مگر نادان بچہ یہ سمجھ کر کہ ان کھلونوں سے سواری کا یا بوجھ اٹھانے کا یا دانے پینے کا کام میں گے ان کے حصول پر ا اور جب دیکھتا ہے کہ وہ اس کے خیال کے مطابق نہیں نکلے تو انہیں پھینک دیتا ہے.اسی طرح مذہبی جماعتوں میں داخل ہوتے وقت بھی بعض لوگ عجیب و غریب خیالات لے کر آتے ہیں.کئی لوگ ہماری جماعت میں داخل ہوتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ادھر وہ جماعت میں داخل ہوئے اور جماعت کے تمام لوگ ایک ایک یا دو دو روپیہ چندہ جمع کر کے انہیں آٹھ دس ہزار روپیہ دے دیں گے.چنانچہ میں نے دیکھا ہے بعض لوگ جب بیعت کر کے جاتے ہیں تو آٹھویں دن ہی ان کی طرف سے خط آ جاتا ہے کہ ہمیں روپیہ کی سخت ضرورت ہے اگر آپ آٹھ آٹھ آنے یا بھی تمام جماعت کے لوگوں سے ہمارے لئے چندہ جمع کروا دیں تو ایک ایک روپیہ دس ہزار روپیہ اکٹھا ہو سکتا ہے اور ہماری تمام ضروریات پوری ہو سکتی ہیں.گویا وہ پہلے ہی اپنے خیال میں جماعت کا ایک نقشہ کھینچ لیتے ہیں اور اسی خیال کے زیر اثر جماعت میں شامل ہوتے ہیں لیکن جب ان کی امید پوری نہیں ہوتی تو کہتے ہیں ہم نے

Page 409

* 1941 409 خطبات محمود جماعت کو خوب دیکھ لیا ہم تو اس کے اندر رہ کر اس کی حقیقت معلوم کر چکے ہیں.سارے ابتلاء در حقیقت بے استقلالی کی وجہ سے پیدا ہوتے ہیں.اگر انسان اپنے نفس کو روکے اور اسی وقت کسی عقیدہ اور مذہب کو تسلیم کرے.جب وہ سمجھے کہ واقع میں فلاں عقیدہ یا فلاں مذہب صحیح ہے.جذبات کے ماتحت کام نہ کرے تو اس قسم کی ٹھوکریں اسے ہر گز نہ لگیں.یہی وجہ ہے کہ جب میرے پاس کوئی شخص بیعت کرنے کے لئے آتا ہے تو میں ہمیشہ اسے کہا کرتا ہوں کہ ابھی سوچو اور غورو فکر سے کام لو اور اللہ تعالیٰ سے استخارہ بھی کرو.لیکن جماعت کے عام لوگوں کا یہ دستور ہے کہ ادھر وہ تبلیغ کرتے ہیں اور اُدھر کہتے ہیں بیعت کر لو.اس لغویت کا سب سے بڑھ کر نمونہ ایک دفعہ سفر سندھ میں میں نے دیکھا.گجرات کے ایک دوست تھے جن کو دفتر والوں نے خدمت کے لئے اپنے ساتھ لے لیا جہاں گاڑی اس پر کھڑی ہوتی وہ حفاظت اور پہرہ کے لئے میرے قریب آ جاتے.اتفاقاً کسی سٹیشن انہیں ایک گجراتی مل گیا.اس نے کسی دوسرے سے کوئی بات کی جس پر انہوں نے اس کی آواز اور لب و لہجہ سے پہچان لیا کہ یہ گجراتی ہے.چنانچہ انہوں نے اسے بلایا اور جس طرح ہمارے ملک میں طریق ہے کہ پوچھا جاتا ہے تم کدھر جا رہے ہو دوسرا کہتا ہے تم کدھر جا رہے ہو.اسی طرح انہوں نے ایک دوسرے سے پوچھا.شخص نے بتایا کہ میں نوکری کی تلاش میں ادھر آیا ہوں.اور انہوں نے میرا نام لیا اور کہا کہ میں ان کے ساتھ آیا ہوں.پھر انہوں نے اس شخص کا ہاتھ پکڑا اور لگے چلو حضرت صاحب کو اپنے لئے دعا کرنے کے لئے کہو.اب اس بے چارے کو نہ یہ پتہ کہ دعا کیا ہوتی ہے اور نہ یہ علم کہ میں کون ہوں.مگر یہ خیال کر کے کہ اس کا ایک ہم وطن اس کو یہ تحریک کر رہا ہے اس کے ساتھ چل پڑا اور میرے قریب آکر وہ دوسرے کی طرف مخاطب ہو کر کہنے لگے.یہ دعا کے لئے عرض کرتے ہیں.اس نے بھی شرم سے ایک دو فقرے کہہ دیئے.اس کے بعد وہ بڑے اطمینان سے اسے کہنے لگے بیعت کر لینی اچھی ہوتی ہے بیعت کر لو.میں نے

Page 410

خطبات محمود 410 * 1941 بعد میں انہیں سمجھایا کہ یہ کتنے افسوس کی بات ہے اسے تو کچھ بھی پتہ نہیں کہ احمدیت کیا ہوتی ہے.اس کی بیعت تو سلسلہ کے لئے ایک وبال بن جائے گی.مگر وہ جوش میں یہی کہتے چلے جائیں کہ ” نہیں جی بیعت چنگی ہی ہوندی ہے.“ یعنی جناب بیعت بہر حال اچھی ہوتی ہے.یہ وہی بچپن والی خاصیت ہے جو عدم تربیت کی وجہ سے بڑے ہو کر بھی ظاہر ہو جاتی ہے اور انسان کے دل میں جب کوئی خواہش پیدا ہو تو قطع نظر اس کے کہ اس خواہش کے پورا ہونے کا کوئی موقع اور محل ہو یا نہ ہو وہ چاہتا ہے کہ پیدا جس طرح بھی ہو اس کی خواہش پوری ہو جائے.حالانکہ ایسی خواہش کوئی نیک نہیں کیا کرتی.مثلاً اگر کسی کا پیٹ بھرا ہوا ہو او ر پھر بھی وہ اور کھانے کی خواہش کرے تو وہ کھانا اس کے جسم کو لگے گا نہیں بلکہ بسا اوقات اسے قے ہو جائے گی.اسی طرح ایک شخص نے کپڑے پہنے ہوئے ہوں اور اس کے دل میں خواہش پیدا ہو کہ وہ اور کپڑے پہن لے تو اگر گرمی کا موسم ہو گا تو وہ گرمی مرے گا اور اگر سردی کا موسم ہو گا تو بوجھ سے مرے گا.غرض ہر خواہش کا پورا ہونا ضروری نہیں ہوتا اور نہ ہر خواہش اچھی ہوتی ہے.انسان کے لئے ضروری ہے کہ وہ ہر خواہش کے پیدا ہونے پر سوچے اور غور کرے کہ وہ اچھی خواہش ہے یا بری.اگر بری ہے تو اس کو ترک کر دے اور اگر اچھی ہے تو اس وقت کا انتظار کرے جب اس کی خواہش پوری ہو سکتی ہو اور جب اس کی خواہش پوری ہونے لگے تو وہ یہ سوچے کہ جو چیز اسے حاصل ہوئی ہے کیا یہ وہی ہے جس کی اس کے دل میں خواہش تھی یا اس کے علاوہ کوئی اور چیز ہے کیونکہ جو خواہش مادیات کے ساتھ تعلق نہ رکھتی ہو اس کے متعلق یہ پہچاننا بہت مشکل ہے کہ وہ خواہش صحیح رنگ میں پوری ہوئی ہے یا نہیں.مثلاً ایک آدمی کے دل میں اگر کپڑے کی خواہش پیدا ہو تو وہ آسانی کے ساتھ دکان پر جا ا کر لٹھا یا خرید سکتا ہے مگر جو چیزیں قلوب کے ساتھ تعلق رکھتی ہیں وہ آسانی کے ساتھ معمل

Page 411

خطبات محمود 411 * 1941 پہچانی نہیں جا سکتیں.تم آسانی کے ساتھ لٹھا پہچان سکتے ہو، تم آسانی کے ساتھ مکمل پہچان سکتے ہو مگر تم آسانی کے ساتھ عقائد اور روحانیت کو نہیں پہچان سکتے بلکہ بعض ہے دفعہ تو دو دو چار چار سال کی تحقیق کے بعد انسان پر اصل حقیقت منکشف ہوتی اسی لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام لوگوں کو استخارہ کا حکم دیا کرتے تھے جب کوئی شخص بیعت کرنا چاہتا تو فرماتے اور سوچو.میرا بھی یہی طریق ہے کہ میں بیعت میں شامل ہونے والوں کو مزید غور و فکر اور استخارہ کی تاکید کیا کرتا ہوں.کچھ عرصہ ہوا ایک دوست جو فوج میں ڈاکٹر تھے میرے پاس آئے اور لگے میں آپ کی بیعت کرنا چاہتا ہوں میں نے ان سے کہا آپ کو ہمارے سلسلہ کا کس طرح بیتہ لگا.انہوں نے بتایا کہ ان کے بعض احمدی دوست ہیں جن کی وجہ سے انہیں سلسلہ کا پتہ لگا.میں نے کہا اس طرح تو مکمل علم حاصل نہیں ہو سکتا یہاں آنے کی آپ کو اور کس طرح تحریک پیدا ہوئی.اس پر انہوں نے کہا کہ میں نے سلسلہ کی بعض کتابیں بھی پڑھی ہیں.چنانچہ چند کتابوں کا انہوں نے نام لیا.میں نے کہا ابھی آپ اور کتابیں پڑھیں اور استخارہ بھی کریں.اس کے بعد بیعت کریں.وہ کہنے لگے میری یہ شدید خواہش ہے کہ میں آپ کی بیعت کر لوں اور اس کی وجہ یہ ہے کہ چونکہ میں جنگ پر جانے والا ہوں اور موت کا کچھ نہیں ہوتا کہ کب آ جائے اس لئے میں چاہتا ہوں کہ آپ کی بیعت کر لوں ممکن ہے میں جنگ میں ہی مر جاؤں اور پھر اس سعادت سے محروم رہوں.میں نے کہا آپ کی یہ خواہش تو بڑی نیک ہے مگر اس کے لئے اس وقت بیعت کرنے کی ضرورت نہیں.آپ سر دست سلسلہ کی کتابوں کا مطالعہ جاری رکھیں اور اللہ تعالیٰ دعائیں کرتے رہیں جس وقت بھی آپ کو یقین پیدا ہو گیا کہ احمدیت سچی ہے اور جس وقت بھی آپ کو یقین پیدا ہو گیا کہ بیعت خلافت ضروری ہے اسی وقت آپ خدا تعالیٰ کے نزدیک مومنوں کی جماعت میں شامل ہو جائیں گے.پس جلدی کی

Page 412

* 1941 412 خطبات محمود ضرورت نہیں.آپ بے شک میدان جنگ میں چلے جائیں اور تحقیق کرتے رہیں.جہاں بھی آپ کو احمدیت کی صداقت پر دلی یقین آجائے گا.آپ خدا تعالیٰ کے حضور اسی وقت احمدی شمار ہونے لگیں گے.بیعت در حقیقت دل کی ہوتی ہے.یہ ظاہری بیعت تو محض نظام کے قیام کے لئے ہے.اگر ظاہری بیعت نہ ہو تو ممکن ہے کوئی شخص دھوکا سے دوسرے کو کہہ دے کہ وہ احمدی ہے حالانکہ وہ احمدی نہ ہو.یا ممکن ہے وہ رشتے لینے کے لئے احمدیت کا اظہار کر دے حالانکہ وہ سچے دل سے احمدی نہ ہو.پس یہ ظاہری بیعت نظام کو قائم رکھنے کے لئے ہے لیکن اس کے یہ معنی نہیں کہ ظاہری بیعت کے بغیر کوئی شخص احمدی نہیں ہو سکتا.جس دن کوئی شخص یہ سمجھ لیتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام سچے ہیں اسی دن وہ احمدی ہو جاتا ہے اور جس دن کوئی شخص یہ فیصلہ کر لیتا ہے کہ خلیفہ وقت کی بیعت ضروری ہے اسی دن وہ مبائعین میں شامل ہو جاتا ہو جاتا ہے خواہ اسے بیعت کا خط لکھنے کا موقع ملے یا نہ ملے اور خواہ اس کی احمدیت کا کوئی گواہ ہو یا نہ ہو.کیونکہ فیصلے قلوب کی حالت پر ہوتے ہیں.اس ڈاک پر نہیں ہوتے جو انگریز پہنچاتے ہیں.فرض کرو آج انگریزی حکومت ڈاک کی آمد و رفت بند کر دے اور لوگ بیعت وغیرہ کے لئے خطوط نہ لکھ سکیں تو کیا اس وقت جماعت کی ترقی رک جائے اور لوگ احمدی نہیں ہوں گے؟ لوگ پھر بھی احمدی ہوں گے اور جماعت کی ترقی پھر بھی ہوتی رہے گی کیونکہ خدا دل کی حالت کے مطابق فیصلہ کرتا ہے.اگر شخص کو یقین کامل کے بعد ظاہری بیعت کا موقع ملے اور وہ پھر بھی نہ کرے تو بے شک یہ اس کی ضد سمجھی جائے گی لیکن اگر کسی شخص کو خط لکھنے کا موقع نہ ملے اور احمدیت کی صداقت اس کے دل میں گھر کر جائے تو وہ اسی وقت سے احمدی سمجھا جائے گا.خواہ ہمیں اس کا علم ہو یا نہ ہو اور خواہ دنیا میں اس کی احمدیت کا کوئی گواہ ہو یا نہ ہو.دنیا میں کئی ایسے علاقے ہیں جہاں ڈاک کا کوئی چین کے بعض حصے ایسے ہیں جہاں ڈاک کا انتظام نہیں، صوبہ سرحد کے بعض انتظام نہیں،

Page 413

خطبات محمود 413 * 1941 علاقوں میں بھی ڈاک کا کوئی انتظام نہیں.اب کیا اس کے یہ معنی ہیں کہ ان علاقوں میں کوئی احمدی نہیں ہو سکتا.اگر کوئی شخص ایسا سمجھتا ہے تو وہ غلطی کرتا ہے کیونکہ جس دن کوئی شخص اپنے دل میں یہ فیصلہ کر لیتا ہے کہ میں نے احمدیت کو قبول کر لیا اسی دن سے وہ خدا کے نزدیک احمدی سمجھا جاتا ہے اور جس دن کوئی شخص فیصلہ کر لیتا ہے کہ خلیفہ وقت کی بیعت ضروری ہے اسی دن سے خدا تعالیٰ کے نزدیک وہ مبائع سمجھا جاتا ہے.غرض عقائد اور ایمان کا معاملہ بہت نازک ہوتا ہے اور انسان ان کے بارہ میں جلدی فیصلہ نہیں کر سکتا اس لئے ہر انسان کو سوچ کر اور غور و فکر کرنے کے بعد کوئی راستہ اختیار کرنا چاہئے اس کے بعد اگر وہ اس عقیدہ اور مذہب پر مضبوطی سے قائم نہیں رہ سکتا تو در حقیقت اس کے یہ معنی ہیں کہ اس نے پہلے بھی صداقت پر غور نہیں کیا تھا.اگر وہ سوچتا اور غور کرتا تو کس طرح ممکن تھا کہ وہ ایک قیمتی چیز کو یونہی رائیگاں کھو دیتا.میں نے جیسا کہ بتایا ہے میرا خیال یہ ہے کہ بچپن میں جب انسان کی صحیح رنگ میں تربیت نہیں ہوتی تو اس کے اندر بے استقلالی کا مادہ پیدا ہو جاتا ہے.جس طرح بچوں کے دل میں کھلونوں کے متعلق شدید خواہش پیدا ہوتی ہے اور پھر وہ ان کو توڑ پھوڑ کر رکھ دیتے ہیں.اسی طرح بڑے ہو کر جب زندگی کے اہم مسائل اس کے سامنے آتے ہیں تو وہ ان سے بھی کھلونوں جیسا سلوک کرنا چاہتا ہے لیکن چھوٹی عمر میں تو اس کے سامنے کھلونے ہوتے ہیں جن کے ٹوٹنے سے کوئی زیادہ نقصان نہیں ہوتا اور بڑی عمر میں ایسی اہم اور ضروری چیزوں سے جن کے ساتھ ان کی ابدی یا سفلی زندگی وابستہ ہوتی ہے وہ کھلونوں کا سا سلوک کرتا اور ان کو توڑ کر اپنے آپ کو نقصان پہنچا لیتا جس طرح بچپن میں وہ کبھی گھوڑے کے لئے روتا اور چلاتا ہے اور جب وہ اسے مل جاتا ہے تو اسے توڑ دیتا ہے کبھی ریل کے لئے روتا اور چلاتا ہے اور وہ اسے مل جاتی ہے تو اسے توڑ دیتا ہے.کبھی چکی کے لئے روتا اور چلاتا ہے اور جب وہ اسے مل جاتی ہے تو اسے توڑ دیتا ہے.اسی طرح بڑے ہو کر وہ خدا اور اس کے رسول

Page 414

* 1941 414 خطبات محمود اور اس کے دین اور اس کے قرآن اور دوسری اہم چیزوں سے جو نہایت ہی پاکیزہ ہوتی ہیں اور جن کے ساتھ اس کی روحانی زندگی وابستہ ہوتی ہے یہی سلوک کرتا ہے.کبھی کہتا ہے خدا مل جائے اور جب وہ مل جاتا ہے تو اسے پھینک دیتا ہے.کبھی کہتا ہے رسول مل جائے اور جب وہ مل جاتا ہے تو اسے پھینک دیتا ہے.کبھی کہتا ہے امام وقت مل جائے اور جب وہ مل جاتا ہے تو اسے پھینک دیتا ہے.گویا اسے یہ عادت ہوتی ہے کہ وہ ایک جگہ نہیں ٹھہرتا.پس مومن کو اپنی عادات میں پختگی پیدا کرنی چاہئے اور جب وہ دیانتداری کے ساتھ کسی سچائی کو قبول کر لے تو اس کے بعد فاسد خیالات اور غفلتوں کا اسے مقابلہ کرنا چاہئے.سچائیاں سورج کی طرح چمکتی پس مومن کو چاہئے کہ وہ سچائی کو اسی وقت مانے جب سورج کی طرح اسے کسی سچائی پر یقین پیدا ہو جائے پھر جس طرح سورج پر کسی کو یقین پیدا ہو جاتا ہے تو شکوک و شبہات سے وہ اس یقین کو باطل نہیں کیا کرتا اور نہ لوگوں سے دلیلیں پوچھنے جاتا ہے کہ سورج چڑھنے کی کیا دلیل ہے اسی طرح مومن کو معمولی معمولی عذرات کی بناء پر سچائی کو ترک نہیں کرنا چاہئے.اس کا فرض ہے کہ جب وہ کسی سچائی کو قبول کرنے لگے تو خوب غور کرے، استخارہ کرے، نمونہ دیکھے، دعاؤں سے کام لے، دلائل کا موازنہ کرے.غرض اپنے دل کا کامل اطمینان کر کے سچائی قبول کرے.جب وہ ان چاروں دلائل سے کام لے لے گا، وہ نمونہ بھی دیکھ لے گا، وہ مشاہدہ سے بھی کام لے لے گا، وہ دلائل عقلیہ کا بھی جائزہ لے لے گا اور پھر خدا سے بھی پوچھ لے گا تو ان چار شواہد کے بعد جو چیز اسے ملے گی وہ ایسی یقینی اور قطعی ہو گی جیسے سورج.اس کے بعد اگر پھر کسی وقت اس کے دل میں شبہ پیدا ہو تو وہ خدا سے استغفار کرے اور اپنے گناہوں کی معافی طلب کرے کیونکہ ہو نہیں سکتا کہ یہ چاروں شواہد غلط ہوں.اب یہ سچائیوں کا کام نہیں کہ وہ اس کے پاس جائیں اور اپنی سچائی ثابت کریں بلکہ اس کا فرض ہے کہ وہ اپنی اصلاح کرے

Page 415

* 1941 415 خطبات محمود اگر گناہ کی وجہ سے اس کے دل میں یہ نقص پیدا ہوا ہے تو توبہ کرے اور اگر کسی اور بیماری کی وجہ سے اس کے اندر یہ خرابی پیدا ہوئی ہے تو اس بیماری کا علاج کرے.بہر حال اب یہ آفتاب کا کام نہیں کہ اسے اپنے وجود کا ثبوت دے بلکہ آفتاب کو تسلیم کرنے کے بعد جب یہ منکر ہو گیا تو اب اس کا اپنا فرض ہے کہ آنکھوں کی بیماری کو دور کرے.اسی لئے کہتے ہیں ع آفتاب آمد دلیل آفتاب خدا تعالیٰ کی طرف سے جو سچائیاں آتی ہیں وہ بھی اپنی ذات میں اپنی صداقت کا آپ ثبوت ہوتی ہیں.لوگوں کو کوئی مجبور نہیں کرتا کہ ان کو مانیں.ہاں جب کوئی شخص ان کو ماننے کے بعد انکار کرتا ہے تو وہ مجرم ہوتا ہے.کیونکہ اگر اس نے جانتے بوجھتے ہوئے ان کو رڈ کر دیا ہے تو یہ بھی جرم ہے اور اگر اس نے پہلے ان کے متعلق غور سے کام نہیں لیا تھا تو یہ بھی اس کا اپنا قصور ہے.بہر حال یہ ان چیزوں کا کام نہیں ہوتا کہ وہ اس کے سامنے آئیں اور اپنی سچائی کا ثبوت پیش کریں بلکہ اس کا اپنا کام ہوتا ہے کہ دیکھے کس نقص کی وجہ سے اس میں یہ تغیر پیدا ہوا ہے.اگر اس کی وجہ اس کے گناہ ہوں تو وہ ان کا علاج کرے اور اگر کوئی اور نقص ہو تو اس کی اصلاح کرے.پس استقلال پیدا کرو او ریاد رکھو کہ استقلال کے بغیر قطعی ایمان حاصل نہیں ہو سکتا.وہ ایمان بھی کیا ہے کہ صبح کو انسان اِدھر ہو اور شام کو اُدھر.بچوں والی بات ہے.جس طرح ایک چھوٹا بچہ مٹی کا گھوڑا لے کر اسے توڑ دیتا ہے.اسی طرح تم خدا لے کر اسے توڑنے کی کوشش کرتے ہو، تم خدا کا رسول لے کر اسے توڑنے کی کوشش کرتے ہو، تم مسیح موعود لے کر اسے توڑنے کی کوشش کرتے ہو، تم دین اور مذہب کے احکام اور نظام کی نعمت حاصل کرنے کے بعد اسے توڑنے کی کوشش کرتے ہو.مگر بچہ تو پھر بھی کھلونوں کو توڑ سکتا ہے لیکن تم ان چیزوں کو نہیں توڑ سکتے اور اگر تم ان چیزوں کو توڑنے کی کوشش کرو گے تو خود اپنے آپ کو یہ

Page 416

* 1941 416 خطبات محمود توڑ لو گے.تم دیکھ سکتے ہو کہ کتنے آدمی ہماری جماعت کے اندر سے نکل کر ہمارے مقابلہ میں کھڑے ہوئے پھر ان کا کیا حشر ہوا اور کس طرح وہ جماعت کو توڑنے کی بجائے خود ہی ٹوٹ کر رہ گئے.مصری صاحب کو ہی دیکھ لیا جائے جب وہ ہمارے مقابلہ میں کھڑے ہوئے تو جماعت کے کئی دوست گھبرا گئے تھے اور وہ خیال کرتے تھے کہ اتنے بڑے عالم کا جو مدرسہ احمدیہ کا ہیڈ ماسٹر ہے اور اکثر نوجوان علماء اس کے شاگرد ہیں، جماعت کے مقابلہ میں کھڑا ہونا جماعت کے لئے مشکلات پیدا کر دے گا مگر پھر کیا ہوا ؟ جماعت تو اسی طرح قائم ہے جس طرح پہلے قائم تھی مگر خود ان کی یہ حالت ہے کہ وہ اپنے پہلے عقائد کو ترک کر چکے ہیں.گویا جماعت کو توڑنے کی بجائے وہ ٹوٹ گئے ہیں.چنانچہ ایک وقت وہ تھا کہ مصری صاحب نے لکھا دنیا میں کوئی ایسی جماعت نہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے لائے ہوئے صحیح عقائد و تعلیم پر قائم ہو بجز اس جماعت کے جس نے آپ کو خلیفہ تسلیم کیا ہوا وو ہے.” 3 گویا مصری صاحب کے نزدیک حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی لائی ہوئی تعلیم اور عقائد کی صحیح حامل ہماری جماعت ہی تھی.مگر اب ان کی یہ حالت ہے کہ وہ یہ تقریریں کرتے پھرتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام کی صحیح ستین جماعت لاہور ہے.چنانچہ 13 جولائی کو انہوں نے دہلی میں تقریر کرتے ہوئے کہا:.حضرت مسیح موعود کی صحیح جانشین جماعت احمدیہ لاہور ہے.اسی جماعت کے ذریعہ حضرت مسیح موعود کا مشن پورا ہو رہا ہے.”4 پھر گزشتہ سال 25 دسمبر کو انہوں نے غیر مبائعین کے سالانہ جلسہ میں تقریر کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نبوت سے صاف انکار کر دیا اور کہا کہ :.

Page 417

خطبات محمود 417 “ حضرت مسیح موعود کی کتب کے مطالعہ سے میں اس پر پہنچا کہ آپ نے ہرگز نبوت کا دعویٰ نہیں کیا.آپ کا ""* دعویٰ محدثیت کا ہے گو آپ کو محدثین میں خاص اور امتیازی درجہ حاصل ہے.” 5 5”-4 * 1941 اب کوئی بتائے کہ مصری صاحب کے دعوے کہاں چلے گئے.وہ تو کہا کرتے تھے کہ میں جماعت کا باقاعدہ فرد ہوں.جماعت سے میں الگ نہیں وو سکتا ” میں خلافت کا قائل ہوں ” حق کی قوت میرے ساتھ ہے.” 6 ہو پھر اگر واقع میں حق کی قوت ان کے ساتھ تھی اور اگر واقع میں وہ ہماری جماعت کے عقائد کو درست تسلیم کرتے اور خلافت پر ایمان رکھتے تھے تو وجہ کیا ہے کہ پہلے وہ کچھ کہا کرتے تھے اور اب وہ کچھ کہنے لگ گئے ہیں.آج سے چند سال پہلے تو وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نبوت پر ایمان رکھتے تھے، خلافت کو درست تسلیم کرتے تھے، ہماری جماعت کے عقائد کو عقائد صحیحہ مانتے تھے مگر چند سال کے بعد ہی انہیں نظر آنے لگ گیا کہ یہ سب کچھ جھوٹ اور باطل تھا اور انہوں نے کوشش کی کہ جماعت کو توڑ دیں مگر جماعت کو انہوں نے کیا توڑنا تھا خود ہی عقائد کے لحاظ سے وہ ٹوٹ گئے.تو اللہ اور رسول اور اس کی جماعتیں کبھی ٹوٹ نہیں سکتیں.ہاں جو لوگ ان سے کھیل کھیلنے کی کوشش کرتے ہیں وہ بے شک ٹوٹ جاتے ہیں.پہلوں کے واقعات ہم نے قرآن میں پڑھے تھے اور اس زمانہ کے واقعات ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھ لئے ہیں.آج تک میں نے کسی شخص کو نہیں دیکھا جو سلسلہ اور اس کے نظام پر حملہ کرنے کے لئے کھڑا ہوا ہو اور پھر خدا نے اس کی طاقت کو توڑ نہ دیا ہو.تھوڑے ہی دن ہوئے ایک حص نے مجھے لکھا کہ ! پنجاب کے ایک بہت بڑے آدمی کے ایک قریب ترین رشتے دار نے اس سے ذکر کیا کہ جب احرار اپنے فتنہ میں ناکامی کا منہ دیکھ چکے تو پیغامیوں کا ایک بہت بڑا آدمی ان کو ملا (سب نام مجھے معلوم ہیں مگر مصلحتاً شائع نہیں کرتا) اور کہا کہ آپ نے

Page 418

خطبات محمود 418 * 1941 ہزاروں روپیہ احرار کی تحریک پر صرف کیا ہے.اگر اس سے نصف بھی آپ ہمیں دیتے تو ہم احمدیوں کو کچل کر رکھ دیتے.وہ کہتے ہیں.میرے خسر نے یہ سن کر دلچسپی کے ساتھ باتیں کرنی شروع کر دیں اور دریافت کیا کہ وہ احمدیوں کا کس طرح مقابلہ کرنا چاہتے ہیں اور اس بارہ میں کیا انتظام کرنا چاہئے.ا ان لوگوں نے ہمیں مٹانے کے لئے بڑی بڑی کوششیں کیں اور احمدیہ انجمن اشاعت اسلام لاہور نے ہزاروں روپیہ مسلمانوں سے اس غرض کے لئے وصول کیا مگر اس کا نتیجہ کیا نکلا؟ نتیجہ یہ نکلا کہ وہ کبھی تو اپنے متعلق یہ فخر کے طور پر کہا کرتے تھے کہ ہم پچانوے فی صدی ہیں اور یہ پانچ فی صدی چنانچہ غیر مبائعین کے چھ سر کردہ احباب نے “ضروری اعلان” کے ماتحت لکھا بھی بمشکل قوم کے بیسویں حصہ نے خلیفہ تسلیم کیا ہے.7 گویا پانچ فی صدی لوگ ہمارے ساتھ تھے اور پچانوے فی صدی لوگ ان کے ساتھ.مگر اب پچانوے فی صدی لوگ ہمارے ساتھ ہیں اور پانچ فی صدی ان کے ساتھ.پھر بھی ان کے یک ہم جھوٹے بھی ہیں جب وہ اپنے آپ کو زیادہ اور ہمیں تھوڑے بتاتے تھے تو کہا کرتے تھے کہ چونکہ ہم زیادہ ہیں اس لئے ہم سچے ہیں اور چونکہ تم تھوڑے ہو اس لئے تم جھوٹے ہو مگر اب چونکہ ہمارے مقابلہ میں وہ تھوڑے ہو گئے ہیں اس لئے کہا کرتے ہیں کہ مومن تھوڑے ہی ہوا کرتے ہیں.اکثریت گمراہ لوگوں کی ہوا کرتی ہے.یہ ایک عجیب منطق ہے جس کو وہی سمجھ سکتے ہیں کہ کسی دن ہم اس لئے غلطی پر تھے کہ ہم تھوڑے تھے اور آج ہم اس لئے غلطی پر ہیں کہ ہم زیادہ ہیں.مگر یہ سب خیالی باتیں ہیں.ہم نے اپنی آنکھوں سے تجربہ کر کے دیکھ لیا ہے کہ خدائی سلسلہ کو کوئی شخص توڑ نہیں سکتا.یہ انسان کی اپنی غلطی ہوتی ہے کہ وہ ایک سچائی کو قبول کرتا اور پھر معمولی معمولی شبہات میں مبتلا ہو کر اس کو رد کر دیتا ہے.اگر وہ سچائی پر سورج کی طرح یقین رکھتا تو ناممکن تھا کہ وہ اسے ماننے کے بعد اس سچائی کو رد کر دیتا.مگر جیسا کہ میں نے بتایا ہے یہ وہی بچپن کی عادت ہے

Page 419

* 1941 419 خطبات محمود جو بڑے ہو کر بھی بعض انسانوں میں قائم رہتی ہے.مگر اُس وقت تو وہ جن چیزوں کو توڑتا ہے وہ معمولی کھلونے ہوتے ہیں لیکن بڑے ہو کر جن چیزوں کو کھلونا سمجھتے ہوئے توڑنے کی کوشش کرتا ہے وہ بڑی بڑی اہم اور مہتم بالشان ہوتی ہیں اور ان کو توڑنے کی کوشش کرتے ہوئے خود ٹوٹ جاتا ہے گویا اس کی مثال اس چیتے کی سی ہوتی ہے جس نے ایک سل کو دیکھا اور اسے چاٹنے لگ گیا چاہتے چاٹتے اس کی زبان سے خون بہنے لگ گیا اور وہ اس خون کو غذا سمجھ کر چاٹتا گیا یہاں تک کہ اس کی تمام زبان کھائی گئی.ایسے لوگ بھی سمجھتے ہیں کہ ہم سلسلہ کو تباہ کر دیں گے مگر جب وہ اپنا کام ختم کر کے بیٹھتے ہیں تو انہیں پتہ لگتا ہے کہ وہ اپنے آپ کو ختم کر ہیں لیکن مومن اگر اس قسم کی لغزشوں کے بعد وقت پر توبہ کرے تو اللہ تعالیٰ کا یہ وعدہ ہے کہ وہ ایسے مومن کی مدد کرتا اور اس کا ساتھ دیتا ہے.” الفضل 20 اگست 1941ء ) 1 بخاری کتاب الوحی باب كيف كان بدء الوحي الى رسول الله 2 پیغام صلح 3 اگست 1937ء صفحہ 3 اشتہار 13 جولائی 1937ء بعنوان جماعت کو خطاب 4 پیغام صلح 30 جولائی 1941ء پیغام صلح 8 جنوری 1941ء 6 اشتہار 13 جولائی 1937ء پیغام صلح 5 مئی 1914ء

Page 420

* 1941 420 26 خطبات محمود حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے سچے عاشقوں کی والہانہ محبت اور اس کے ایمان افزاء نظارے (فرمودہ 22 اگست 1941ء) تشہد، تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:.اس ہفتہ جماعت کو ایک نہایت ہی درد پہنچانے والا اور تکلیف میں مبتلا کرنے والا واقعہ پیش آیا ہے یعنی منشی ظفر احمد صاحب جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة و السلام کے ابتدائی صحابہ میں سے ایک تھے وہ اس ہفتہ میں فوت ہو گئے ہیں.مجھے افسوس ہے کہ میں اس وقت ڈلہوزی میں تھا.جب ان کی نعش یہاں لائی گئی اور میں اس جنازہ میں جو اُن کی لاش پر پڑھا گیا شامل نہیں ہو سکا.مجھے ایسے وقت میں اطلاع ہوئی جبکہ میں کل صبح ہی آ سکتا تھا.پہلے تو میرے ذہن میں یہ بات آئی کہ تار دوں کہ جنازہ کو اس وقت تک روک لیا جائے جب تک میں نہ پہنچ جاؤں لیکن گرمی کی وجہ سے اور اس خیال سے کہ کہیں اس عرصہ تک روکنے سے نعش کو نقصان نہ پہنچے میں نے تار دینا مناسب نہ سمجھا اور اس بات کو مقامی لوگوں پر چھوڑ دیا کہ اگر نعش رہ سکتی ہے تو وہ میرا انتظار کریں گے کیونکہ انہیں علم ہے کہ میں آنے والا ہوں اور اگر مناسب نہ ہوا تو وہ انتظار نہیں کریں گے.چنانچہ جب میں یہاں پہنچا تو مجھے معلوم ہوا کہ پرسوں رات ہی انہیں دفن کیا جا چکا ہے.سو میں جمعہ کے بعد اِنْشَاءَ اللهُ تَعَالٰی ان کا جنازہ پڑھوں گا.مجھے نہیں معلوم کہ کس حد تک یہاں کے لوگوں کو اس جنازہ کا علم ہوا اور وہ کس حد تک اس میں شامل ہوئے لیکن

Page 421

* 1941 خطبات محمود 421.ہے اور بہر حال جو لوگ ان کے جنازہ میں شامل نہیں ہو سکے تھے.اب ان کو بھی موقع مل جائے گا اور جو لوگ شامل ہو چکے ہیں انہیں دوبارہ دعا کا موقع مل جائے گا.مومن کے لئے دعا اسی کے لئے دعا نہیں ہوتی بلکہ خود اپنے لئے بھی دعا ہوتی ہے.بعض لوگ جنازہ کے متعلق یہ خیال کر لیتے ہیں کہ یہ صرف مرنے والے کے لئے دعا.وہ اس پر احسان کرنے چلے ہیں حالانکہ خدا تعالیٰ کو مومن کے لئے اتنی غیرت ہوتی ہے کہ وہ کسی کے احسان کو برداشت نہیں کر سکتا.خدا تعالیٰ کے فرشتوں کی دعا زیادہ سنی جائے گی.حدیثوں میں آتا ہے کہ جب کوئی مومن نماز میں اپنے بھائی کے لئے دعا کرتا ہے تو اس وقت وہ اپنے لئے دعا سے محروم نہیں ہوتا بلکہ اس وقت فرشتے اس کی طرف سے کھڑے ہو جاتے ہیں اور جو کچھ خدا تعالیٰ سے وہ اپنے بھائی کے لئے مانگتا ہے اور کہتا ہے کہ خدایا! اسے فلاں چیز دے وہی دعا فرشتے اس کے لئے مانگتے ہیں اور کہتے ہیں یا اللہ ہم تجھ سے دعا کرتے ہیں کہ تو اس دعا کو مانگنے والے کو بھی وہ چیز دے جو یہ اپنے بھائی کے لئے مانگ رہا ہے.مثلاً اگر کوئی اپنے ہمسایہ کے لئے دعا کرتا ہے کہ یا اللہ ! اس کے بچے نیک ہو جائیں تو خدا تعالیٰ کے فرشتے کہتے ہیں کہ یا اللہ ! اس شخص کے اپنے بچوں کو بھی تو نیک بنا دے.جب وہ کہتا ہے کہ یا اللہ ! فلاں شخص کی مالی مشکلات کو دور فرما تو خدا تعالیٰ کے فرشتے کہتے ہیں کہ یا اللہ ! اس کی مالی مشکلات کو بھی تو دور فرما دے.اسی طرح جب وہ کہتا ہے کہ یا اللہ ! فلاں کی عزت پر جو حملہ ہو رہا ہے اس سے اس کو محفوظ رکھ.تو خدا تعالیٰ کے فرشتے کہتے ہیں یا اللہ ! اس کی عزت کو بھی ہر حملہ سے محفوظ رکھ.1 غرض جو دعا وہ دوسرے کے لئے کرتا ہے.خدا تعالیٰ کے فرشتے وہی دعا ساتھ ساتھ اس کے لئے بھی کرتے جاتے ہیں.یہی حال جنازہ کی دعا کا ہے جو مرنے والے کے لئے آخری دعا ہوتی ہے اس میں بھی خدا تعالیٰ کے فرشتے بہت زیادہ جوش کے ساتھ نماز جنازہ پڑھنے والوں کے لئے دعائیں کرتے ہیں.پس جب کوئی جنازہ پر دعا مانگتا ہے تو وہ صرف اس کے لئے دعا نہیں کر رہا ہوتا بلکہ وہ ایک شخص سودا

Page 422

* 1941 422 خطبات محمود کر رہا ہوتا ہے جس میں یہ خود بہت زیادہ فائدہ میں رہتا ہے.وہ میت کے لئے دعا کرتا ہے اور فرشتے اس کے لئے دعا کرتے ہیں.جب حضرت مولوی عبد الکریم صاحب نے وفات پائی اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جنازہ پڑھایا تو آپ بہت دیر تک ان کے لئے دعا کرتے رہے اور جب نماز جنازہ سے فارغ ہوئے تو آپ نے فرمایا کہ آج ہم نے اپنی ساری جماعت کے لوگوں کا جنازہ پڑھا دیا ہے.میں سمجھتا ہوں اس کا بھی یہی مفہوم تھا کہ آپ نے فرشتوں والا کام کیا یعنی جس طرح فرشتے جب کسی اپنے بھائی کے لئے دعا کرتا دیکھتے ہیں تو خود اس کے لئے اللہ تعالیٰ کے حضور دعا کرنے لگ جاتے ہیں.اسی طرح جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے دیکھا کہ جماعت کے لوگ خدا تعالیٰ کے ایک نیک بندے کی وفات پر اس کے لئے یہ دعا کر رہے ہیں کہ خدا اس کے مدارج کو بلند کرے، اسے اپنے قرب میں جگہ دے اور اسے اپنی رضا کا مقام عطا کرے تو آپ نے بھی ان سب کے لئے اللہ تعالیٰ کے حضور دعا مانگنی شروع کر دی کہ اے خدا! تُو ان دعا کرنے والوں کے مدارج کو بھی بلند فرما، انہیں اپنے قرب میں جگہ دے اور انہیں اپنی رضا کی نعمت سے متمتع فرما.گویا فرشتوں والا معاملہ آپ نے اپنی جماعت کے تمام افراد سے کیا اور اس طرح سب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام کی دعا سے حصہ مل گیا.غرض یہ دعا نہیں ہوتی.اس لئے میں امید کرتا ہوں کہ دوست اس جنازہ میں میرے ساتھ شریک ہوں گے.مجھے کسی شخص نے بتایا نہیں کہ جماعت کو کس حد تک ان معمولی مگر کے جنازہ کی خبر سے واقف کیا گیا تھا اور کس قدر لوگ جنازہ میں شامل ہوئے.میرے نزدیک ہر مخلص اس بات کو بآسانی سمجھ سکتا ہے کہ اگر ایسے جنازہ میں شامل ہونے کی انسان کو مقدرت ہو تو اس کے لئے میلوں میل سفر کرنا بھی دوبھر نہیں ہو سکتا.یہ محض ایک نفع مند سودا ہے اور اپنے فرض کی ادائیگی ہے.بہر حال جن دوستوں کو ان کے جنازہ میں شریک ہونے کا موقع نہیں ملا.ان کو اب جمعہ کے بعد انشاء اللہ مل جائے گا اور چونکہ یہ ایک اہم واقعہ ہے اس

Page 423

* 1941 423 خطبات محمود لئے میں آج کا خطبہ بھی اسی مضمون کے متعلق پڑھنا چاہتا ہوں اور جماعت کے دوستوں کو بتانا چاہتا ہوں کہ وہ لوگ جنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ابتدائی زمانہ میں خدمات کی ہیں ایسی ہستیاں ہیں جو دنیا کے لئے ایک تعویذ اور حفاظت کا ذریعہ ہیں.چونکہ یہ مغربیت کے زور کا زمانہ ہے اس لئے لوگ اس کی قدر نہیں جانتے اور وہ یہ نہیں سمجھتے کہ خدا تعالیٰ کا کس طرح یہ قانون ہے کہ پاس کی چیز بھی کچھ حصہ ان برکات کا لے لیتی ہے جو حصہ برکات کا اصل چیز کو حاصل ہوتا ہے.قرآن کریم نے اس مسئلہ کو نہایت ہی لطیف پیرایہ میں بیان فرمایا اور لوگوں کو سمجھایا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے نبی کی بیویاں تمہاری مائیں ہیں.یہ بات تو ظاہر ہی ہے کہ نبی کی بیویاں نبی نہیں ہوتیں پھر ان کو مومنوں کی مائیں کیوں دیا گیا ہے.اسی لئے کہ اللہ تعالیٰ یہ بتانا چاہتا ہے کہ ایسے آدمی جو خدا تعالیٰ کی طرف سے خاص طور پر برکات لے کر آتے ہیں ان کے ساتھ گہرا تعلق رکھنے والا انسان بھی کچھ حصہ ان برکات سے پاتا ہے جو اسے حاصل ہوتی ہیں.چنانچہ ہم دیکھتے ہیں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں جب کبھی بارش نہیں ہوتی تھی اور نماز استسقاء ادا کرنی پڑتی تھی تو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس طرح دعا کیا کرتے تھے کہ اے خدا پہلے جب کبھی بارش نہیں ہوتی تھی اور ہماری تکلیف بڑھ جاتی تھی تو ہم تیرے نبی کی برکت سے دعا مانگا کرتے تھے اور تو اپنے فضل بارش برسا دیا کرتا تھا مگر اب تیرا نبی ہم میں موجود نہیں.اب ہم اس کے چچا حضرت عباس کی برکت سے تجھ سے دعا مانگتے ہیں.چنانچہ حدیثوں میں آتا ہے ایک دفعہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے یہ دعا کی تو ابھی آپ نے اپنے ہاتھ نیچے نہیں کئے تھے کہ بارش برسنی شروع ہو گئی.3 اب حضرت عباس خدا تعالیٰ کی طرف سے کسی عہدے پر قائم نہیں کئے گئے تھے.ان کا تعلق صرف یہ تھا کہ وہ رسول کریم صلی الم کے چچا تھے اور جس طرح بارش جب برستی ہے تو اس کے چھینٹے ارد گرد بھی پڑ جاتے ہیں.بارش صحن میں ہو رہی.

Page 424

خطبات محمود 424 * 1941 ہوتی ہے تو برآمدہ وغیرہ بھی گیلا ہو جاتا ہے.اسی طرح خدا کا نبی ہی اس کا نبی تھا مگر اس سے تعلق رکھنے والے، اس کی بیویاں، اس کے بچے، اس کی لڑکیاں، اس کے دوست اور اس کے رشتہ دار سب ان برکات سے کچھ نہ کچھ حصہ لے گئے جو اس پر نازل ہوئی تھیں.کیونکہ یہ خدا کی سنت اور اس کا طریق ہے کہ جس طرح بیویاں، بچے اور رشتہ دار برکات سے حصہ لیتے ہیں اسی طرح وہ گہرے دوست بھی برکات سے حصہ لیتے ہیں جو نبی کے ساتھ اپنے آپ کو پیوست کر دیتے ہیں.یہ لوگ خدا کی طرف سے ایک حصن حصین ہوتے ہیں اور دنیا ان کی وجہ سے بہت سی بلاؤں اور آفات سے محفوظ رہتی ہے.مجھے جو شعر انتہائی پسند ہیں ان میں سے شعر وہ بھی ہیں جو حضرت جنید بغدادی رحمۃ اللہ علیہ کی وفات کے وقت ایک مجذوب نے کہے.تاریخوں میں آتا ہے کہ حضرت جنید بغدادی جب وفات پا گئے تو ان کے جنازہ کے ساتھ بہت بڑا ہجوم تھا اور لاکھوں لوگ اس میں شریک ہوئے.اس وقت بغداد کے قریب ہی ایک مجذوب رہتا تھا.بعض لوگ اسے.پاگل اور بعض ولی اللہ سمجھتے.وہ بغداد کے پاس ہی ایک کھنڈر میں رہتا تھا.کسی سے کوئی تعلق نہیں رکھتا تھا اور نہ لوگوں سے بات چیت کرتا مگر لوگ یہ دیکھ کر حیران رہ جب جنازہ اٹھایا گیا تو وہ بھی ساتھ ساتھ تھا.راوی کہتا ہے کہ میں نے دیکھا وہ نماز جنازہ میں شریک ہوا، قبر تک ساتھ گیا اور جب حضرت جنید بغدادی کو لوگ دفن کرنے لگے تو اُس وقت بھی وہ اسی جگہ تھا.جب لوگ حضرت جنید بغدادی کو گئے دفن کر چکے تو اُس نے آپ کی قبر پر کھڑے ہو کر یہ چار شعر کہے.وَا أَسَفًا عَلَى فِرَاقِ قَوْمٍ هُمُ الْمَصَابِيحُ وَالْحُصُوْنَ وَالْمُدْنُ وَالْمُزْنُ وَالرَّوَاسِي وَالْخَيْرُ وَالْحَمْنُ وَالسُّكُونَ لَمْ تَتَغَيَّرُ لَنَا اللَّيَالِي حَتَّى تَوَفَّهُمُ الْمَنُونَ

Page 425

خطبات محمود فَكُلُّ جَمْرٍ لَنَا قُلُوْبْ 425 وَكُلُّ مَاءٍ لَنَا عُيُونَ 4 * 1941 اس کے معنی یہ ہیں کہ :.وَا أَسَفًا عَلَى فِرَاقِ قَوْمٍ هُمُ الْمَصَابِيحُ وَالْحُصُونَ ہائے افسوس ان لوگوں کی جدائی پر جو دنیا کے لئے سورج کا کام دے رہے تھے اور جو دنیا کے لئے قلعوں کا رنگ رکھتے تھے.لوگ ان سے نور حاصل کرتے تھے اور انہی کی وجہ سے خدا تعالیٰ کے عذابوں اور مصیبتوں سے دنیا کو نجات ملتی تھی.وَالْمُدْنُ وَالْمُزْنُ وَالرَّوَاسِي وَالْخَيْرُ وَالْحَمْنُ وَالسُّكُونَ وہ شہر تھے جن سے تمام دنیا آباد تھی.وہ بادل تھے جو سوکھی ہوئی کھیتیوں کو ہرا کر دیتے تھے، وہ پہاڑ تھے جن سے دنیا کا استحکام تھا.اسی طرح وہ تمام بھلائیوں کے جامع تھے اور دنیا ان سے امن اور سکون حاصل کر رہی تھی لَمْ تَتَغَيَّرُ لَنَا اللَّيَالِي حَتَّى تَوَفَّاهُمُ الْمَنُونُ ہمارے لئے زمانہ تبدیل نہیں ہوا.مشکلات کے باوجود ہمیں چین ملا، آرام حاصل ہوا اور دنیا کے دکھوں اور تکلیفوں نے ہمیں گھبراہٹ میں نہ ڈالا مگر جب وہ فوت ہو گئے تو ہمارے سکھ بھی تکلیفیں بن گئے اور ہمارے آرام بھی دکھ بن گئے فَكُلُّ جَمْرٍ لَنَا قُلُوبٌ وَكُلُّ مَاءٍ لَنَا عُيُونَ پس اب ہمیں کسی آگ کی ضرورت نہیں کیونکہ ہمارے دل خود انگارا بنے ہوئے ہیں اور ہمیں کسی اور پانی کی ضرورت نہیں کیونکہ ہماری آنکھیں خود بارش برسا رہی ہیں.ایک نہایت ہی عجیب نقشہ ایک صالح بزرگ کی وفات کا ہے.اور کہنے والا کہتا ہے یہ اشعار اس مجذوب نے کہے اور پھر وہ وہاں سے چلا گیا جب دوسرے دن اس کھنڈر کو دیکھا گیا تو وہ خالی تھا اور مجذوب اس ملک کو ہی چھوڑ کر چلا گیا تھا.تو یہ لوگ جنہیں خدا تعالیٰ کے انبیاء کی صحبت حاصل ہوتی ہے.یہ لوگ جو خدا تعالیٰ کے انبیاء کا قرب رکھتے ہیں.خدا تعالیٰ کے نبیوں اور اس کے قائم کردہ خلفاء کے بعد

Page 426

خطبات محمود.426 * 1941 دوسرے درجہ پر دنیا کے امن اور سکون کا باعث ہوتے ہیں.یہ ضروری نہیں کہ ایسے لوگ بڑے لیکچرار ہوں، یہ ضروری نہیں کہ ایسے لوگ خطیب ہوں.یہ ضروری نہیں کہ ایسے لوگ پھر پھر کر لوگوں کو تبلیغ کرنے والے ہوں.ان کا وجود ہی لوگوں کے لئے برکتوں اور رحمتوں کا موجب ہوتا ہے اور جب کبھی خدا تعالیٰ کی طرف سے بندوں کی نافرمانی کی وجہ سے کوئی عذاب نازل ہونے لگتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس عذاب کو روک دیتا ہے اور کہتا ہے ابھی اس قوم پر مت نازل ہو کیونکہ اس میں ہمارا ایسا بندہ موجود ہے جسے اس عذاب کی وجہ سے تکلیف ہو گی.پس اس کی خاطر دنیا میں امن اور سکون ہوتا ہے.مگر یہ لوگ جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام پر ایمان لائے یہ تو اس عام درجہ سے بھی بالا تھے ان کو خدا نے آخری زمانہ کے مامور اور مرسل کا صحابی اور پھر ابتدائی صحابی بننے کی توفیق عطا فرمائی اور ان کی والہانہ محبت کے نظارے ایسے ہیں کہ دنیا ایسے نظارے صدیوں میں بھی دکھانے سے قاصر رہے تم میں سے بہت ہیں جو اپنے آپ کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة و السلام کا عاشق سمجھتے ہیں مگر عشق کی آگ اپنے دھوئیں سے پہچانی جاتی ہے اور یہ ایک حقیقت ہے کہ ہم نے ان کے دلوں میں سے عشق کی آگ کا جو دھواں اٹھتا دیکھا وہ اور لوگوں کے دلوں میں سے اٹھتا نہیں دیکھا.اس لئے صرف ممنہ کے دعویٰ پر ہم یقین نہیں کر سکتے.بے شک ہم اتنی بات مان سکتے ہیں کہ کہنے والا اپنے نقطہ نگاہ سے اپنے آپ کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام کا عاشق ہی سمجھتا ہے اور اس میں وہ جھوٹ سے کام نہیں لے رہا مگر موازنہ کرنا تو ہمارا کام ہے اور ہم جنہوں نے پہلوں کی محبت کے نظارے دیکھے اور بعد کے لوگوں کے دعوے بھی نے بآسانی فیصلہ کر سکتے ہیں کہ ان میں سے سچا عاشق کون ہے ورنہ یوں تو ہر اپنی محبت کو دوسروں سے فائق سمجھا ہی کرتا ہے.علیہ مجھے وہ نظارہ نہیں بھولتا اور نہ بھول سکتا ہے کہ حضرت مسیح موعود الصلوۃ و السلام کی وفات پر ابھی چند ماہ ہی گزرے تھے کہ ایک دن باہر سے

Page 427

* 1941 427 خطبات محمود مجھے کسی نے آواز دے کر بلوایا اور خادمہ یا کسی بچے نے بتایا کہ دروازہ پر ایک آدمی کھڑا ہے اور وہ آپ کو بلا رہا ہے.میں باہر نکلا تو منشی اروڑے خان صاحب مرحوم کھڑے تھے.وہ بڑے تپاک سے آگے بڑھے، مجھ سے مصافحہ کیا اور ا سکے بعد انہوں نے اپنی جیب میں ہاتھ ڈالا جہاں تک مجھے یاد ہے انہوں نے اپنی جیب سے دو یا تین پونڈ نکالے اور مجھے کہا کہ یہ اماں جان کو دے دیں اور یہ کہتے ہی ان پر ایسی رقت طاری ہوئی اور وہ چیخیں مار کر رونے لگ گئے اور ان کے رونے کی حالت اس قسم کی تھی کہ یوں معلوم ہوتا تھا جیسے بکرے کو ذبح کیا جا رہا ہے.میں کچھ حیران سا رہ گیا کہ یہ رو کیوں رہے ہیں.مگر میں خاموش کھڑا رہا اور انتظار کرتا رہا کہ وہ خاموش ہوں تو ان سے رونے کی وجہ دریافت کروں.اسی طرح وہ کئی منٹ تک روتے رہے.منشی اروڑے خاں صاحب مرحوم نے بہت ہی معمولی ملازمت سے ترقی کی تھی.پہلے کچہری میں وہ چپڑاسی کا کام کرتے تھے.پھر انکمد کا عہدہ آپ کو مل گیا، اس کے بعد نقشہ نویس ہو گئے.پھر اور ترقی کی تو سررشتہ دار ہو گئے اس کے بعد ترقی پاکر نائب تحصیلدار ہو گئے اور پھر تحصیلدار بن کر ریٹائر ہوئے.ابتداء میں ان کی تنخواہ دس پندرہ روپے سے زیادہ نہیں ہوتی تھی.جب ان کو ذرا صبر آیا تو میں نے ان سے پوچھا کہ آپ روئے کیوں ہیں؟ وہ کہنے لگے میں غریب آدمی تھا.مگر جب بھی مجھے چھٹی ملتی میں قادیان آنے کے لئے چل پڑتا تھا.سفر کا بہت سا حصہ میں پیدل ہی طے کرتا تھا تاکہ سلسلہ کی خدمت کے لئے کچھ پیسے بیچ جائیں.مگر پھر بھی روپیہ ڈیڑھ روپیہ خرچ ہو جاتا.یہاں آکر جب میں امراء کو دیکھتا کہ وہ سلسلہ کی خدمت کے لئے بڑا روپیہ خرچ کر رہے ہیں تو میرے دل میں خیال آتا کہ کاش! میرے پاس بھی روپیہ ہو اور میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں بجائے چاندی کا تحفہ لانے کے سونے کا تحفہ پیش کروں.آخر میری تنخواہ کچھ زیادہ ہو گئی اس وقت ان کی تنخواہ شاید میں پچیس روپیہ تک پہنچ گئی تھی اور میں نے ہر مہینے کچھ رقم جمع کرنی شروع کر دی اور میں نے اپنے دل میں

Page 428

* 1941 428 خطبات محمود یہ نیت کی کہ جب یہ رقم اس مقدار تک پہنچ جائے گی جو میں چاہتا ہوں تو میں اسے پونڈوں کی صورت میں تبدیل کر کے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں پیش کروں گا.پھر کہنے لگے جب میرے پاس ایک پونڈ کے برابر رقم جمع ہو گئی تو وہ رقم دے کر میں نے ایک پونڈلے لیا پھر دوسرے پونڈ کے لئے رقم جمع کرنی وع کر دی اور جب کچھ عرصہ کے بعد اس کے لئے رقم جمع ہو گئی تو دوسرا پاؤنڈ لے لیا.اسی طرح میں آہستہ آہستہ کچھ رقم جمع کر کے انہیں پونڈوں کی صورت میں تبدیل کرتا رہا اور میرا منشاء یہ تھا کہ میں یہ پونڈ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام کی خدمت میں پیش کروں گا.مگر جب میرے دل کی آرزو پوری ہو گئی اور پونڈ میرے پاس جمع ہو گئے تو یہاں تک وہ پہنچے تھے کہ پھر ان پر رفت کی حالت طاری ہو گئی اور وہ رونے لگ گئے.آخر روتے روتے انہوں نے اس فقرہ کو اس طرح پورا کیا کہ جب پونڈ میرے پاس جمع ہو گئے تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام کی وفات ہو گئی.یہ اخلاص کا کیسا شاندار نمونہ ہے کہ ایک شخص چندے بھی دیتا ہے، قربانیاں بھی کرتا ہے، مہینہ میں ایک دفعہ نہیں دو دفعہ نہیں بلکہ تین تین دفعہ جمعہ پڑھنے کے لئے قادیان پہنچ جاتا ہے.سلسلہ کے اخبار کتابیں بھی خریدتا ہے.ایک معمولی سی تنخواہ ہوتے ہوئے، جب کہ آج اس تنخواہ سے بہت زیادہ تنخواہیں وصول کرنے والے اس قربانی کا دسواں بلکہ بیسواں حصہ بھی قربانی نہیں کرتے.اس کے دل میں یہ خیال آتا ہے کہ امیر لوگ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں سونا پیش کرتے ہیں تو میں ان سے پیچھے کیوں رہوں.چنانچہ وہ ایک نہایت ہی قلیل تنخواہ میں سے ماہوار کچھ رقم جمع کرتا اور ایک عرصہ دراز تک جمع کرتا رہتا ہے.نہ معلوم اس دوران اس نے اپنے گھر میں کیا کیا تنگیاں برداشت کی ہوں گی، کیا کیا تکلیفیں تھیں جو اس نے خوشی سے جھیلی ہوں گی.محض اس لئے کہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی خدمت میں اشرفیاں پیش کر سکے.

Page 429

* 1941 429 خطبات محمود سے مگر جب اس کی خواہش کے پورا ہونے کا وقت آتا ہے تو اللہ تعالیٰ کی حکمت اس کو اس رنگ میں خوشی حاصل کرنے سے محروم کر دیتی ہے جس رنگ میں وہ اسے دیکھنا چاہتا تھا.میں نے کئی دفعہ سنایا ہے کہ منشی اروڑے خان صاحب مرحوم فرمایا کرتے تھے کہ مجھے بعض غیر احمدی دوستوں نے کہا.تم ہمیشہ ہمیں تبلیغ کرتے رہتے ہو فلاں جگہ مولوی ثناء اللہ صاحب آئے ہوئے ہیں.تم بھی چلو اور ان کی باتوں کا جواب دو.منشی اروڑے خان صاحب مرحوم کچھ زیادہ پڑھے لکھے نہیں تھے دوران ملازمت ہی انہیں پڑھنے لکھنے کی جو مشق ہوئی وہی انہیں حاصل تھی.وہ کہنے لگے جب ان دوستوں نے اصرار کیا تو میں نے کہا اچھا چلو.چنانچہ وہ انہیں جلسہ لے گئے مولوی ثناء اللہ صاحب نے احمدیت کے خلاف تقریر کی اور اپنی طرف ، خوب دلائل دیئے.جب تقریر ختم کر کے وہ بیٹھ گئے تو منشی اروڑے خان صاحب سے ان کے دوست کہنے لگے کہ بتائیں ان دلائل کا کیا جواب ہے.منشی اروڑے خان صاحب فرماتے تھے.میں نے ان سے کہا یہ مولوی ہیں اور میں ان پڑھ آدمی ہوں.ان کی دلیلوں کا جواب تو کوئی مولوی ہی دے گا.میں صرف اتنا جانتا ہوں کہ میں نے حضرت مرزا صاحب کی شکل دیکھی ہوئی ہے وہ جھوٹے نہیں ہو سکتے.اسی طرح ایک دفعہ کسی دوست نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة و السلام کی خدمت میں ایک واقعہ سنایا جس پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام بھی ہنسے اور مجلس میں بیٹھے ہوئے دوسرے لوگ بھی بہت محظوظ ہوئے.منشی اروڑے خان صاحب شروع میں قادیان بہت زیادہ آیا کرتے تھے.بعد میں چونکہ بعض اہم کام ان کے سپرد ہو گئے اس لئے جلدی چھٹی ملنا ان کے لئے مشکل ہو گیا تھا.مگر پھر بھی وہ قادیان اکثر آتے رہتے تھے.ہمیں یاد ہے جب ہم چھوٹے بچے ہوا کرتے تھے تو ان کا آنا ایسا ہی ہوا کرتا تھا جیسے کوئی مدتوں کا بچھڑا ہوا بھائی سالہا سال کے بعد اپنے کسی عزیز سے آکر ملے.کپور تھلہ کی جماعت میں سے منشی اروڑے خان صاحب، منشی ظفر احمد صاحب اور منشی محمد خان صاحب جب بھی آتے تھے تو ان کے آنے

Page 430

* 1941 430 خطبات محمود سے ہمیں بڑی خوشی ہوا کرتی تھی.غرض اس دوست نے بتایا کہ منشی اروڑے خان صاحب تو ایسے آدمی ہیں کہ یہ مجسٹریٹ کو بھی ڈرا دیتے ہیں پھر اس نے سنایا کہ ایک دفعہ انہوں نے مجسٹریٹ سے کہا میں قادیان جانا چاہتا ہوں.مجھے چھٹی دے دیں اس نے انکار کر دیا.اس وقت وہ سیشن جج کے دفتر میں لگے ہوئے تھے.انہوں نے کہا قادیان میں میں نے ضرور جانا ہے مجھے آپ چھٹی دے دیں.وہ کہنے لگا کام بہت ہے اس وقت آپ کو چھٹی نہیں دی جا سکتی.وہ کہنے لگے بہت اچھا آپ کا کام ہوتا رہے میں تو آج سے ہی بد دعا میں لگ جاتا ہوں.آپ اگر نہیں جانے دیتے تو نہ جانے دیں.آخر اس مجسٹریٹ کو کوئی ایسا نقصان پہنچا کہ وہ سخت ڈر گیا اور جب بھی ہفتہ کا دن آتا وہ عدالت والوں سے کہتا کہ آج کام ذرا جلدی بند کر دینا کیونکہ منشی اروڑے خان صاحب کی گاڑی کا وقت نکل جائے گا.اس طرح وہ آپ ہی جب بھی منشی صاحب کا ارادہ قادیان آنے کا ہوتا انہیں چھٹی دے دیتا اور وہ قادیان پہنچ جاتے.پھر ان کی محبت کا یہ نقشہ بھی مجھے کبھی نہیں بھولتا جو گو انہوں نے مجھے خود ہی سنایا تھا مگر میری آنکھوں کے سامنے وہ یوں پھرتا رہتا ہے کہ ایسا معلوم ہوتا ہے اس واقعہ کے وقت میں بھی وہیں موجود تھا.انہوں نے سنایا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام سے ایک دفعہ ہم نے عرض کیا کہ حضور کبھی کپور تھلہ تشریف لائیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام نے وعدہ فرمالیا کہ جب فرصت ملی تو آجاؤں گا.وہ کہتے تھے کہ ایک دن کپور تھلہ میں میں ایک دکان پر بیٹھا ہوا تھا کہ ایک شدید ترین دشمن اڈے کی طرف سے آیا اور مجھے کہنے لگا.لو تمہارا مرزا کپور تھلے آگیا ہے.معلوم ہوتا ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو جب فرصت ملی تو وہ اطلاع دینے کا وقت نہ تھا اس لئے آپ بغیر اطلاع دیئے ہی چل پڑے.منشی اروڑے خان صاحب نے یہ خبر سنی تو وہ خوشی میں ننگے سر اور ننگے پاؤں اڈے کی طرف بھاگے مگر چونکہ خبر دینے والا شدید ترین مخالف تھا اور ہمیشہ احمدیت سے تمسخر کرتا رہتا تھا اس لئے ان کا بیان تھا کہ تھوڑی دور جاکر مجھے خیال آیا کہ یہ بڑا خبیث دشمن ہے اس نے

Page 431

* 1941 431 خطبات محمود ضرور مجھ سے ہنسی کی ہو گی.چنانچہ مجھ پر جنون سا طاری ہو گیا اور یہ خیال کر کے کہ نامعلوم حضرت مسیح موعود علیہ السلام آئے بھی ہیں یا نہیں.میں کھڑا ہو گیا اور میں نے اسے بے تحاشہ برا بھلا کہنا شروع کر دیا کہ تُو بڑا خبیث اور بدمعاش ہے تو کبھی میرا پیچھا نہیں چھوڑتا اور ہمیشہ ہنسی کرتا رہتا ہے بھلا ہماری قسمت کہاں کہ حضرت صاحب کپور تھلہ تشریف لائیں.وہ کہنے لگا کہ آپ ناراض نہ ہوں اور جاکر دیکھ لیں مرزا صاحب واقع میں آئے ہوئے ہیں.اس نے یہ کہا تو میں پھر دوڑ پڑا مگر پھر خیال آیا کہ اس نے ضرور مجھ سے دھوکا کیا ہے چنانچہ پھر میں اسے کوسنے لگا کہ تو بڑا جھوٹا ہے ہمیشہ مجھ سے مذاق کرتا رہتا ہے ہماری ایسی قسمت کہاں کہ حضرت مسیح موعود الصلوۃ والسلام ہمارے ہاں تشریف لائیں.مگر اس نے پھر کہا منشی صاحب وقت ضائع نہ کریں مرزا صاحب واقع میں آئے ہوئے ہیں.چنانچہ پھر اس خیال سے کہ شاید آہی گئے ہوں میں دوڑ پڑا مگر پھر یہ خیال آجاتا کہ کہیں اس نے دھوکا ہی نہ دیا ہو.چنانچہ پھر اسے ڈانٹا.آخر وہ کہنے لگا.مجھے برا بھلا نہ کہو اور جاکر اپنی آنکھوں سے دیکھ لو واقع میں مرزا صاحب آئے ہوئے ہیں.غرض میں کبھی دوڑتا اور کبھی یہ خیال کرکے کہ مجھ سے مذاق ہی نہ کیا گیا ہو ٹھہر جاتا.میری یہی حالت تھی کہ میں نے سامنے کی طرف جو دیکھا تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام تشریف لارہے تھے.اب یہ والہانہ محبت اور عشق کا رنگ کتنے لوگوں کے دلوں میں پایا جاتا ہے.یقیناً بہت ہی کم لوگوں کے دلوں میں.میاں عبداللہ صاحب سنوری بھی اپنے اندر ایسا ہی عشق رکھتے تھے.ایک دفعہ وہ قادیان میں آئے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے ملے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام ان سے کوئی کام لے رہے تھے اس لئے جب میاں عبداللہ صاحب سنوری کی چھٹی ختم ہو گئی اور انہوں نے حضرت مسیح موعود عليه الصلوة والسلام سے جانے کے لئے اجازت طلب گی تو حضور نے فرمایا.ابھی ٹھہر جاؤ.چنانچہ انہوں نے مزید رخصت کے لئے درخواست بھجوا دی مگر محکمہ کی طرف سے جواب آیا کہ اور چھٹی نہیں مل سکتی تو

Page 432

خطبات محمود 432 * 1941 انہوں نے اس امر کا حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے ذکر کیا تو آپ نے پھر فرمایا کہ ابھی ٹھہرو.چنانچہ انہوں نے لکھ دیا کہ میں ابھی نہیں آسکتا.اس پر محکمہ والوں نے انہیں ڈس مس (DISMISS) کر دیا.چار یا چھ مہینے جتنا عرصہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے انہیں رہنے کے لئے کہا تھا وہ یہاں ٹھہرے رہے.پھر جب واپس گئے تو محکمہ نے یہ سوال اٹھا دیا کہ جس افسر نے انہیں ڈس مس کیا تھا اس افسر کا یہ حق ہی نہیں تھا کہ وہ انہیں ڈس مس کرتا.چنانچہ وہ پھر اپنی جگہ پر بحال کئے گئے اور پچھلے مہینوں کی جو وہ قادیان میں گزار گئے تھے تنخواہ بھی مل گئی.اسی طرح منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی کے ساتھ واقعہ پیش آیا جو کل ہی ڈلہوزی کے راستہ میں میاں عطاء اللہ صاحب وکیل سلمہ اللہ تعالیٰ نے سنایا.یہ واقعہ الحکم 14 اپریل 1934ء میں بھی چھپ چکا ہے اس لئے منشی صاحب کے اپنے الفاظ میں اسے بیان کر دیتا ہوں.مسلیں “ میں جب سررشتہ دار ہو گیا اور پیشی میں کام کرتا تھا تو ایک دن وغیرہ بند کر کے قادیان چلا آیا.تیسرے دن میں نے اجازت چاہی تو فرمایا ابھی ٹھہریں.پھر عرض کرنا مناسب نہ سمجھا کہ آپ ہی فرمائیں گے.اس پر ایک مہینہ گزر گیا.ادھر مسلیں میرے گھر میں تھیں کام بند ہو گیا اور سخت خطوط آنے لگے مگر یہاں یہ حالت تھی کہ ان خطوط کے متعلق وہم بھی نہ آتا تھا.حضور کی صحبت میں ایک ایسا لطف اور محویت تھی کہ نہ نوکری کے جانے کا خیال تھا اور نہ کسی باز پرسی کا اندیشہ آخر ایک نہایت ہی سخت خط وہاں سے آیا.میں نے وہ خط حضرت کے سامنے رکھ دیا.پڑھا اور فرمایا لکھ دو ہمارا آنا نہیں ہوتا.میں نے وہی فقرہ لکھ اس پر ایک مہینہ اور گزر گیا.تو ایک دن فرمایا کتنے دن ہو گئے ؟ پھر آپ ہی گننے لگے اور فرمایا اچھا آپ چلے جائیں.میں چلا گیا اور کپور تھلہ پہنچ کر لالہ ہر چرن داس ریٹ کے مکان پر گیا تاکہ معلوم کروں کیا فیصلہ ہوتا ہے.انہوں نے کہا منشی جی! آپ کو مرزا صاحب نے نہیں آنے دیا ہو گا.میں نے کہا کہ ہاں.تو فرمایا ان کا دیا.

Page 433

خطبات محمود حکم مقدم ہے." 433 * 1941 میاں عطاء اللہ صاحب کی روایت میں اس قدر زیادہ ہے کہ منشی صاحب مرحوم نے فرمایا کہ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ لکھ دو ہم نہیں آسکتے تو میں نے وہی الفاظ لکھ کر مجسٹریٹ کو بھجوا دیئے.یہ ایک گروہ تھا جس نے ایک ایسا اعلیٰ درجہ کا نمونہ دکھایا کہ ہماری آنکھیں اب پچھلی جماعتوں کے آگے نیچی غفلتیں نہیں ہو سکتیں.ہماری جماعت کے دوستوں میں کتنی ہی کمزوریاں ہوں کتنی ہی ہوں لیکن اگر موسیٰ کے صحابی ہمارے سامنے اپنا نمونہ پیش کریں تو ہم ان کے سامنے اس گروہ کا نمونہ پیش کر سکتے ہیں.اسی طرح عیسی کے صحابی اگر قیامت کے دن اپنے اعلیٰ کارنامے پیش کریں تو ہم فخر کے ساتھ ان کے سامنے اپنے ان صحابہ کو پیش کر سکتے ہیں اور یہ جو رسول کریم صلی نیلم نے فرمایا کہ میں نہیں کہہ سکتا میری امت اور مہدی کی امت میں کیا فرق ہے.میری اُمت زیادہ بہتر ہے یا مہدی کی امت زیادہ بہتر 5 تو در حقیقت ایسے ہی لوگوں کی وجہ سے فرمایا ہے.یہ وہ لوگ تھے جو ابو بکر اور عمر اور عثمان اور علی اور دوسرے صحابہ کی طرح ہر قسم کی قربانیاں کرنے والے تھے اور خدا تعالیٰ کی راہ میں ہر قسم کے مصائب برداشت کرنے کے لئے تیار رہتے تھے.حضرت خلیفہ اول کو ہی دیکھ لو.ان کو خدا نے چونکہ خود جماعت میں ایک ممتاز مقام بخش دیا ہے اس لئے میں نے ان کا نام نہیں لیا.ورنہ ان کی قربانیوں کے واقعات بھی حیرت انگیز ہیں.آپ جب قادیان میں آئے تو اس وقت بھیرہ میں پریکٹس جاری تھی.مطب کھلا تھا اور کام بڑے وسیع پیمانہ پر جاری تھا.مسیح موعود علیہ السلام سے جب آپ نے واپس جانے کی اجازت طلب کی تو آپ نے فرمایا.کیا جانا ہے، آپ اسی جگہ رہیں.پھر حضرت خلیفہ اول خود اسباب لینے کے لئے بھی نہیں گئے بلکہ کسی دوسرے آدمی کو بھیج کر بھیرہ سے اسباب منگوایا.یہی وہ قربانیاں ہیں جو جماعتوں کو خدا تعالیٰ کے حضور ممتاز کیا کرتی ہیں اور

Page 434

خطبات محمود 434 * 1941 یہی وہ مقام ہے جس کے حاصل کرنے کی ہر شخص کو جد و جہد کرنی چاہئے.خالی فلسفیانه ایمان انسان کے کسی کام نہیں آسکتا.انسان کے کام آنے والا وہی ایمان ہے جس میں عشق اور محبت کی چاشنی ہو.فلسفی اپنی محبت کے کتنے ہی دعویٰ کرے.ایک دلیل بازی سے زیادہ ان کی وقعت نہیں ہوتی کیونکہ اس نے صداقت کو دل کی آنکھ سے نہیں بلکہ محض عقل کی آنکھ سے دیکھا ہوتا ہے مگر وہ جو عقل کی آنکھ سے نہیں بلکہ دل کی نگاہ سے خدا تعالیٰ کی طرف سے آئی ہوئی صداقت اور شعائر اللہ کو پہچان لیتا ہے اسے کوئی شخص دھوکا نہیں دے سکتا.اس لئے کہ دماغ کی طرف سے فلسفہ کا ہاتھ اٹھتا ہے اور دل کی طرف سے عشق کا ہاتھ اٹھتا ہے اور عشق کا بندھن ہی وہ چیز ہے جسے کوئی توڑ نہیں سکتا.فلسفہ سے تم صرف قیاس کرتے ہو اور کہتے ہو کہ فلاں چیز ہے مگر عشق سے تم اس چیز کو اپنی آنکھ سے دیکھ لیتے ہو اور مشاہدہ اور رویت کے مقام کو حاصل کر لیتے ہو جیسے میں نے مثال بھی بتائی ہے کہ مولوی ثناء اللہ صاحب نے اپنی تقریر میں احمدیت کے خلاف کئی دلائل پیش کئے مگر منشی اروڑے خان صاحب مرحوم نے ان کو ایک فقرہ میں ہی رڈ کر دیا.انہوں نے کہا مولوی صاحب کے دلائل کا جواب تو کسی مولوی سے پوچھیں.میں صرف اتنا جانتا ہوں کہ جو چہرہ میں نے دیکھا ہے وہ کسی جھوٹے کا چہرہ نہیں ہو سکتا.یہ دل کی آنکھ سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت کو مشاہدہ کرنے کا نتیجہ تھا اور دل کی آنکھ سے مشاہدہ ہی ایک ایسی چیز ہے جس کے بعد فلسفیانہ دلائل انسان کو دھوکا نہیں دے سکتے.تم سورج کو اگر اپنی آنکھوں سے دیکھ لو تو پھر کوئی لاکھ دلائل دے کہ سورج اس وقت چڑھا ہوا نہیں.تم اس کے دلائل سے متاثر نہیں ہو گے حالانکہ کئی امور ایسے ہیں جن میں انسان دوسروں کے کہنے پر دھوکا کھا جاتا اور شبہ میں مبتلا ہو جاتا ہے.مگر سورج دیکھنے کے بعد کوئی شخص اس کے وجود سے انکار نہیں کر سکتا.خواہ اس کے خلاف اسے ہزاروں دلائل ہی کیوں نہ دیئے جائیں.اسی طرح تمہیں اور باتوں میں بے شک دھوکا لگ سکتا ہے مگر کیا کوئی شخص تمہیں یہ بھی

Page 435

خطبات محمود 435 * 1941 دھوکا دے سکتا ہے کہ تمہاری بیوی اور بچے نہیں.تم ایسا کبھی نہیں سمجھو گے اور اگر کوئی تمہیں اس فریب میں مبتلا کرنا چاہے تو تم اسے دھوکا باز اور بد نیت سمجھو گے.اسی طرح جو لوگ عشق کی آنکھ سے دیکھتے ہیں وہ صداقت کا مشاہدہ کر لیتے لیتے اور حقیقت تک پہنچ جاتے ہیں مگر جو لوگ محض عقل سے کام لیتے ہیں وہ ہمیشہ قیاس آرائیاں کرتے ہیں اور قیاس کرنے والے ٹھوکر کھا جایا کرتے ہیں.پس یہ وہ لوگ ہیں جن کے نقش قدم پر جماعت کے دوستوں کو چلنے کی لوشش کرنی چاہئے.کہنے والے کہیں گے کہ یہ شرک کی تعلیم دی جاتی ہے، جنون کی تعلیم دی جاتی ہے، یہ پاگل پن کی تعلیم دی جاتی ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ یاگل وہی ہیں جنہوں نے اس رستہ کو نہیں پایا اور اس شخص سے زیادہ عقلمند کوئی جس نے عشق کے ذریعہ خدا اور اس کے رسول کو پالیا اور جس نے محبت میں محو ہو کر اپنے آپ کو ان کے ساتھ وابستہ کر دیا.اب اسے خدا سے اور خدا کو اس سے چیز جدا نہیں کر سکتی کیونکہ عشق کی گرمی ان دونوں کو آپس میں اس طرح ملا دیتی ہے جس طرح ویلڈنگ کیا جاتا اور دو چیزوں کو جوڑ کر آپس میں بالکل پیوست دیا جاتا ہے مگر وہ جسے محض فلسفیانہ ایمان حاصل ہوتا ہے اس کا خدا سے ایسا ہی جوڑ ہوتا ہے جیسے قلعی کا ٹانکہ ہوتا ہے ذرا گرمی لگے تو ٹوٹ جاتا ہے.مگر جب ویلڈنگ ہو جاتا ہے تو ایسا ہی ہو جاتا ہے جیسے کسی چیز کا جزو ہو.پس اپنے اندر عشق پیدا کرو اور وہ راہ اختیار کرو جو ان لوگوں نے اختیار کی پیشتر اس کے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے جو صحابی باقی ہیں وہ بھی ختم ہو جائیں.بے شک ابتدائی تعلق رکھنے والے لوگوں میں سے منشی ظفر احمد صاحب آخری صحابی تھے مگر ابھی بعض اور پرانے لوگ موجود ہیں گو اتنے پرانے نہیں جتنے منشی ظفر احمد صاحب تھے.چنانچہ کوٹلہ میں میر عنایت علی صاحب ابھی زندہ ہیں جنہوں نے ساتویں نمبر پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت کی تھی مگر پھر بھی یہ جماعت

Page 436

* 1941 436 خطبات محمود کم ہوتی چلی جارہی ہے اور وہ لوگ جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی میں آپ سے گہرا تعلق اور بے تکلفی رکھتے تھے ان میں سے تو غالباً منشی ظفر احمد صاحب فرد ہے کہ ہے آخری آدمی تھے.کپورتھلہ کی جماعت کو ایک یہ خصوصیت بھی حاصل حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس جماعت کو یہ لکھ کر بھیجا تھا کہ مجھے یقین جس طرح خدا نے اس دنیا میں ہمیں اکٹھا رکھا ہے اسی طرح اگلے جہان میں بھی کپور تھلہ کی جماعت کو میرے ساتھ رکھے گا6 مگر اس سے کپور تھلہ کی جماعت کا ہر مراد نہیں بلکہ صرف وہی لوگ مراد ہیں جنہوں نے اُس وقت حضرت مسیح موعود السلام کا ساتھ دیا جیسے منشی اروڑے خان صاحب تھے یا منشی محمد خان صاحب تھے یا منشی ظفر احمد صاحب تھے.یہ لوگ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام کے ہزاروں نشانوں کا چلتا پھرتا ریکارڈ تھے.نامعلوم لوگوں نے کس حد تک ان ریکارڈوں کو محفوظ کیا مگر بہر حال خدا تعالیٰ کے ہزاروں نشانات کے وہ چشم دید گواہ تھے.ان ہزاروں نشانات کے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ہاتھ اور آپ کی زبان اور آپ کے کان اور آپ کے پاؤں وغیرہ کے ذریعے ظاہر ہوئے.تم صرف وہ نشانات پڑھتے ہو جو الہامات پورے ہو کر نشان قرار پائے مگر اُن نشانوں سے زیادہ وہ نشانات ہوتے ہیں جو اللہ تعالیٰ اپنے بندے کی زبان، ناک، ہزاروں گنے کان، ہاتھ اور پاؤں پر جاری کرتا ہے اور ساتھ رہنے والے سمجھ رہے ہوتے ہیں کہ خدا کے نشانات ظاہر ہورہے ہیں.وہ انہیں اتفاق قرار نہیں دیتے کیونکہ وہ نشانات ایسے حالات میں ظاہر ہوتے ہیں جو بالکل مخالف ہوتے ہیں اور جن میں ان باتوں پورا ہونا بہت بڑا نشان ہوتا ہے.پس ایک ایک صحابی جو فوت ہوتا ہے وہ ہمارے ریکارڈ کا ایک رجسٹر ہوتا ہے جسے ہم زمین میں دفن کر دیتے ہیں.اگر ہم نے ان رجسٹروں کی نقلیں کرلی ہیں تو یہ ہمارے لئے خوشی کا مقام ہے اور اگر ہم نے ان نقلیں نہیں کیں تو یہ ہماری بدقسمتی کی علامت ہے.بہر حال ان لوگوں کی قدر کرو.ان کے نقش قدم پر چلو اور اس بات کو اچھی طرح یاد رکھو کہ فلسفیانہ ایمان

Page 437

خطبات محمود 437 * 1941 انسان کے کسی کام نہیں آتا.وہی ایمان کام آسکتا ہے جو مشاہدہ پر مبنی ہو اور مشاہدہ کے بغیر عشق نہیں ہو سکتا.جو شخص کہتا ہے کہ بغیر مشاہدہ کے اسے محبت کامل حاصل ہو گئی ہے وہ جھوٹا ہے.مشاہدہ ہی ہے جو انسان کو عشق کے رنگ میں رنگین اور اگر کسی کو یہ بات حاصل نہیں تو وہ سمجھ لے کہ فلسفہ انسان کو محبت ہے کے رنگ میں رنگین نہیں کرسکتا فلسفہ صرف دوئی پیدا کرتا ہے.کرتا.وو الفضل 28 اگست 1941ء ) 1 مسلم كتاب الذكر والدعاء والتوبه باب فضل الدعا بظهر الغيب النَّبِيُّ أَوْلَى بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ اَنْفُسِهِمْ وَأَزْوَاجُهُ أُمَّهُتُهُمْ (الاحزاب: 7) 3 بخاری کتاب الاستسقاء باب سوال الناس الامام الاستسقاء اذا قحطوا 4 تاریخ بغداد.خطیب بغدادی جلد 7 صفحہ 256 مطبوعہ بیروت 1997ء 5 ترمذی ابواب الادب باب مثل امتى مثل المطر 6 مکتوب حضرت مسیح موعود علیہ السلام بنام منشی محمد خان صاحب مطبوعه بدر یکم اکتوبر $1908

Page 438

* 1941 438 (27) خطبات محمود ڈلہوزی میں حضرت خلیفة المسیح کی کو ٹھی پر پولیس کی خلاف قانون حرکات فرمودہ 12 ستمبر 1941ء) تشہد، تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:.مجھے آج خطبہ کے لئے آنے میں اس لئے دیر ہو گئی ہے کہ میں جس امر کے متعلق خطبہ دینا چاہتا تھا میں نے مناسب سمجھا کہ اس کے لئے نوٹ لکھ لوں تاکہ کوئی ایسی بات جو میں کہنا چاہتا ہوں نظر انداز نہ ہو جائے یا کم سے کم بیشتر حصہ ان امور کا جنہیں میں کہنا چاہتا ہوں آ جائے.انتظام تھے اور چند دوستوں کو یہ معلوم ہو گا کہ میرا ڈلہوزی سے کل صبح آنے کا ارادہ تھا لیکن میں کل صبح نہیں آسکا جس کی وجہ سے بعض دوستوں کو جو نہر پر استقبال یا کے لئے گئے ہوئے تھے تکلیف ہوئی مگر اس کی ایک وجہ تھی جو آج کے خطبہ سے معلوم ہو جائے گی.اور وہ وجہ پرسوں پیدا ہوئی جبکہ ہم آنے کے لئے تیار گھنٹوں میں ہی روانگی کے لئے اسباب باندھنے والے تھے.وہ وجہ جو پیدا ہوئی سلسلہ کی تاریخ میں ایک نرالا واقعہ ہے.ایسا نرالا کہ میں اسے 1934ء کے اُس واقعہ سے بھی بڑھ کر سمجھتا ہوں جبکہ گورنر پنجاب نے مجھ کو رات کے وقت نوٹس بھجوایا تھا کہ تم احمدیہ جماعت کے افراد کو روک دو کہ وہ قادیان میں نہ آئیں اور بعد میں گورنر ان کو نسل نے اس کے متعلق دو دفعہ معذرت کی اور اپنی غلطی کا اقرار کیا.مگر پیشتر اس کے کہ میں اس واقعہ کو بیان کروں میں جماعت کے

Page 439

* 1941 439 خطبات محمود دوستوں کو نصیحت کر دینا چاہتا ہوں کہ وہ اپنے جذبات کو قابو میں رکھیں کیونکہ یہ جنگ کا وقت ہے اور ایک ایسی عظیم الشان لڑائی دنیا کے پردہ پر لڑی جا رہی ہے جس کا اثر اسلام اور احمدیت پر پڑنا بھی ضروری ہے اور دنیا کے تمام ممالک اور افراد پر بھی اس کا اثر پڑنا ضروری ہے.گویا دنیا کی قسمت کا فیصلہ موجودہ زمانہ یا موجودہ صدی میں اس جنگ سے وابستہ ہے.پس چونکہ آجکل ایک ایسا نازک دور ہے جس میں وہ جنگ لڑی جا رہی ہے جس کا اثر اسلام اور احمدیت پر بھی پڑتا ہے اس لئے ہمیں دوسرے تمام واقعات کے متعلق اپنے جذبات کو قابو میں رکھنا چاہئے تاکہ اس جد و جہد میں جو ہماری جماعت کر رہی ہے ، کر سکتی ہے یا آئندہ کرے گی کسی قسم کی کوتاہی واقع نہ ہو.میں ان لوگوں میں سے نہیں ہوں جو کسی جوش کے ماتحت چھوٹی چیزوں کے لئے اہم چیزوں کو قربان کر دیا کرتے ہیں ان لوگوں کی ایسی مثال ہے کہ جیسے کوئی کشتی میں سوار ہو اور کوئی آدمی اسے گالی دے اور وہ اس سے گتھم تھا ہو جائے اور لڑھک کر سمندر میں گر کر دونوں ڈوب جائیں.اب میرے نزدیک ایسے انسان یقینی طور پر بے وقوف ہوتے ہیں.گو مجھے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہندوستان میں اس قسم کی بے وقوفی کا ارتکاب کرنے والے بہت سے لوگ پائے جاتے ہیں بلکہ بعض دفعہ میری جماعت کے لوگ بھی ایسے موقعوں پر مجھے یہ مشورہ دیا کرتے ہیں کہ اب صبر کا وقت نہیں دشمن کا مقابلہ کرنا چاہئے.مگر جہاں میں ان دوستوں کے اخلاص اور ان کی محبت اور ان کی قربانی کا قائل ہوں اور ان کے ان جذبات پر فخر کرتا ہوں جو سلسلہ کے لئے غیرت کے طور پر ان میں پیدا ہوتے ہیں وہاں مجھے یہ بھی کہنا پڑتا ہے کہ ان کی رائے صائب اور درست نہیں.اور میں اسے نہیں.اور میں اسے تسلیم نہیں کر سکتا کیونکہ میرے نزدیک خواہ کوئی کتنی ہی بڑی بات ہو اور خواہ ایسی اہم بات ہو جسے دوسرے وقتوں میں انسان قربان نہیں کر سکتا اگر اس وقت اس کے مقابل پر اس سے بڑھ کر کوئی اور

Page 440

* 1941 440 خطبات محمود بات آجائے تو آخر اس اہم بات کی قربانی دینی ہی پڑتی ہے.وپے جان کتنی پیاری چیز ہے لوگ اپنی یا اپنے کسی عزیز کی جان بچانے کے لئے بھی خرچ کرتے ہیں، تکلیفیں بھی اٹھاتے ہیں، منتیں اور خوشامدیں بھی کرتے ہیں.چنانچہ جب کسی کا کوئی عزیز بیمار ہو جاتا ہے تو سارے رشتہ دار اس کے علاج اور تیمار داری کے لئے جمع ہو جاتے ہیں، ڈاکٹروں کی فیسیں دیتے ہیں، دوائیں بیچنے والوں کو قیمت ادا کرتے ہیں، نرسیں رکھتے ہیں.بیوی بیمار ہو تو خاوند اور بچے اور اگر خاوند بیمار ہو تو بیوی اور بچے راتوں کو جاگتے اور ہر قسم کی تکالیف اپنے نفس پر برداشت کرتے ہیں.اسی طرح باپ یا ماں بیمار ہو تو تمام بچے ایسی خدمات میں لگ جاتے ہیں جو دوسرے اوقات میں نہیں کر سکتے مگر جب ملکی حفاظت کا فرض قوم پر عائد ہوتا ہے تو وہی جان جسے اتنا قیمتی خیال کیا جاتا ہے کوئی شخص کوڑیوں کے برابر بھی اس کی قیمت تجویز نہیں کرتا اور ہر محب وطن اپنی قوم اور اپنے ملک کی حفاظت کے لئے نکل کھڑا ہوتا ہے.ماں باپ کی عزت کتنی پیاری ہوتی ہے مگر جب دنیا میں خدا تعالیٰ کے انبیاء آتے ہیں تو وہ ماں باپ جن کے لئے انسان اپنی قوم سے، اپنے دوستوں اور اپنے ہمسائیوں سے لڑنے کے لئے تیار ہو جاتے ہیں ان کو بالکل قربان کر دیا جاتا ہے.تو یہی سوال نہیں ہوتا کہ کوئی امر بڑا ہے بلکہ یہ سوال بھی ہوتا ہے کہ آیا اس کے مقابلہ میں کوئی اس سے بھی بڑا معاملہ ہے یا نہیں.اور اگر ہو اور اس کے مقابلہ میں نسبتی طور پر وہ چھوٹا سمجھا جا سکتا ہو تو خواہ وہ اپنی ذات میں کتنا ہی بڑا اور اہم معاملہ کیوں نہ ہو اسے قربان کر دینا پڑے گا.پس میں خود بھی اپنے جذبات کو قابو میں رکھتے ہوئے ان باتوں کو بیان کرنا چاہتا ہوں اور جماعت کے دوستوں کو بھی نصیحت کرتا ہوں کہ وہ اپنے جذبات پر قابو رکھیں.جب وہ باتیں جن کو میں ابھی بیان کروں گا ہو رہی تھیں اس وقت بعض جو شیلے دوستوں نے مجھے کہا کہ اب وقت نہیں رہا کہ ہم حکومت کی ہر بات مانتے چلے جائیں مگر میں نے اس وقت بھی انہیں

Page 441

* 1941 441 خطبات محمود یہی کہا کہ آجکل جنگ کا زمانہ ہے اور یہ سوال بہت زیادہ اہم ہے بہ نسبت اس کے کہ پنجاب گورنمنٹ یا اس کے کسی صیغہ سے ہمارا کوئی جھگڑا ہو بے شک اس واقعہ کے ذریعہ یت کی تذلیل کی گئی ہے مگر چونکہ اس سوال سے بہت زیادہ اہم سوال وہ ہے جو جنگ کی صورت میں ہمارے سامنے ہے اور جس کے اثرات اسلام اور احمدیت پر پڑنے یقینی ہیں اس لئے میں کوئی ایسا قدم اٹھانے کے لئے تیار نہیں جس کا اثر ہماری ان کوششوں پر پڑے جو جنگ کے متعلق ہماری طرف سے کی جا رہی ہیں.دوسرے اس لئے بھی ہمیں اپنے جذبات کو قابو میں رکھنا چاہئے کہ ہمیں ابھی تک اصل مجرموں کا پتہ نہیں لگ سکا اور ہم یقینی طور پر نہیں کہہ سکتے کہ حکومت پنجاب کا اس میں دخل ہے یا نہیں.اور اگر دخل ہے تو کس حد تک.اسی طرح ابھی تک ہم یقینی طور پر یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ کسی لوکل افسر کا اس میں دخل ہے یا نہیں.جہاں تک میر اعلم ہے اور پرسوں تک جو کچھ واقعات میرے علم میں آئے ہیں ان سے نتیجہ نکال کر میں یہی کہہ سکتا ہوں کہ لوکل افسروں کا اس میں کوئی دخل نہیں.مگر بہر حال ابھی ہمیں اس بات کا کوئی علم نہیں کہ اس کی اصل ذمہ داری کس پر ہے.اس لئے جب تک یہ معلوم نہ ہو کہ اصل ذمہ دار کون ہے اس وقت تک عقلاً ہمیں اپنے جوشوں کو دبائے رکھنا چاہئے اور دیکھنا چاہئے کہ اس واقعہ کا کون ذمہ دار ہے.اب میں اصل واقعات کو بیان کرتا ہوں.ڈلہوزی میں ڈاک عموماً دس بجے تقسیم ہونے لگتی ہے تو ساڑھے نو بجے وہاں موٹر پہنچتی ہے.جو لوگ ڈاک لانے کے لئے اپنا آدمی بھیج دیتے ہیں انہیں ڈاک ذرا جلدی مل جاتی ہے اور جو لوگ اپنا آدمی نہیں بھیجتے انہیں ڈاک ذرا دیر میں تقسیم ہوتی ہے.ہماری ڈاک بالعموم وہاں دس بجے آ جاتی ہے جہاں ڈاکیا تقسیم کرنے جاتا ہے وہاں گیارہ ساڑھے گیارہ بارہ بلکہ ایک بجے بھی پہنچتی ہو گی.رجسٹریاں اور بیرنگ خطوط چونکہ ڈاکیا ہی لے کر جاتا ہے دوسرا نہیں لا سکتا اس لئے یہ ڈاک ہماری کو ٹھی پر بارہ بجے کے قریب

Page 442

* 1941 442 خطبات محمود پہنچتی ہے.بدھ کے دن ہمارا آدمی ڈاک لے کر آیا اور میں ڈاک پڑھنے بیٹھ گیا.آجکل طبیعت کی خرابی کی وجہ سے اور اس سے پہلے تفسیر القرآن کے کام میں مشغول ہونے کی وجہ سے ساری ڈاک میں خود نہیں پڑھتا بلکہ لفافے دیکھ کر خطوط جن کے متعلق میں سمجھتا ہوں کہ وہ ضروری مضامین پر مشتمل ہوں گے یا ایسے خطوط جو غیر احمدیوں کی طرف سے آئیں یا ایسے خطوط جو میرے عزیزوں کی طرف سے آئیں یا ایسے خطوط جو جماعتوں کی طرف سے آئیں اور جن کے متعلق میں سمجھتا ہوں کہ وہ سلسلہ کے نظام کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں چھانٹ کر رکھ لیتا ہوں اور باقی تمام ڈاک دفتر پرائیویٹ سیکرٹری میں بھجوا دیتا ہوں.پھر دفتر والے ان خطوط کا خلاصہ لکھ کر میرے سامنے پیش کرتے ہیں یا اگر اہم خطوط ہوں تو انہیں میرے سامنے علیحدہ طور پر پیش کر کے مجھ سے جواب حاصل کرتے ہیں.اُس دن بھی میں نے ڈاک چھانٹی اور اس قسم کے خطوط علیحدہ کر لئے.میں ان خطوط کو پڑھ رہا تھا.بارہ بجے کا وقت تھا کہ میرا لڑکا خلیل احمد جس کی عمر اس وقت پونے سترہ سال ہے.میرے پاس آیا اس کے ہاتھ میں ایک پیکٹ تھا جو بند تھا.وہ پیکٹ گول تھا اس کے باہر ایک کاغذ لپٹا ہوا تھا اور اس کاغذ پر اس کا پتہ لکھا ہوا تھا.خلیل احمد نے وہ پیکٹ مجھے دکھاتے ہوئے کہا کہ یہ پیکٹ کسی نے میرے نام بھجوایا ہے اور گورنمنٹ کے خلاف معلوم ہوتا ہے.میں نے وہ پیکٹ اس کے ہاتھ سے لے لیا اور چونکہ وہ بند تھا اس لئے طبعاً مجھے خیال پیدا ہوا کہ کیونکر معلوم ہوا کہ یہ پیکٹ گورنمنٹ کے خلاف ہے چنانچہ میں نے اس سے کہا کہ یہ پیکٹ تو بند ہے.تمہیں کیونکر معلوم ہوا کہ اس میں کوئی ایسے کاغذات ہیں جو گورنمنٹ کے خلاف ہیں.اس نے کہا کہ اس پیکٹ کا خول کچھ ڈھیلا سا ہے.میں نے بغیر اوپر کا گور پھاڑنے کے اندر سے کاغذات نکال کر دیکھے تو معلوم ہوا کہ اس میں گورنمنٹ کے خلاف باتیں لکھی ہوئی ہیں اس پر میں نے بھی دیکھا تو واقع میں گور (Cover) کچھ ڈھیلا سا تھا.پھر تجربہ کے طور پر میں نے بھی بغیر گور بھاڑنے کے اس میں سے

Page 443

* 1941 443 خطبات محمود کاغذات نکالے اور مجھے فوراً معلوم ہو گیا کہ خلیل احمد جو کچھ کہتا ہے ٹھیک ہے.میں نے وہ اشتہار سب کا سب نہیں پڑھا بلکہ صرف ایک سطر دیکھی.اس کا مضمون کچھ اس قسم کا تھا کہ گورنمنٹ نے بعض ہندوستانی سپاہیوں کو کسی جگہ مروا دیا ہے.غرض بغیر اس کے کہ میں اس اشتہار کو پڑھتا صرف ایک سطر دیکھ کر اور خلیل احمد کی بات کو درست پا کر میں نے وہ پلندہ گور میں ڈال دیا.اور درد صاحب کی طرف آدمی بھجوایا کہ وہ فوراً مجھ سے آکر ملیں.درد صاحب ایک دو منٹ کے بعد ہی سیڑھیوں پر آگئے.میں سیڑھیوں میں ان کے پاس گیا اور میں نے ان کے ہاتھ میں وہ پیکٹ دیتے ہوئے کہا کہ یہ پیکٹ خلیل احمد کے نام آیا ہے اور اس نے مجھے ابھی آکر دیا ہے.اس نے مجھے بتایا تھا کہ یہ پیکٹ گورنمنٹ کے خلاف معلوم ہوتا ہے اور جب میں نے اس سے پوچھا کہ تمہیں کس طرح پتہ لگا کہ یہ گورنمنٹ کے خلاف ہے تو اس نے بتایا کہ میں نے بغیر گور پھاڑنے کے اندر کے کاغذات نکال کر دیکھے تھے اور مجھے اس کا مضمون گورنمنٹ کے خلاف معلوم ہوا.اس پر میں نے بھی بغیر پھاڑنے کے اس میں سے کاغذات نکال کر دیکھے تو وہ آسانی سے باہر آ گئے اور اس پر نظر ڈالتے ہی مجھے معلوم ہو گیا کہ وہ گورنمنٹ کے خلاف ہیں.نہ صرف اس لئے کہ ایک سطر جو میں نے پڑھی اس کا مضمون گورنمنٹ کے خلاف تھا بلکہ اس لئے بھی کہ گورنمنٹ کے خلاف جو اشتہارات وغیرہ شائع کئے جاتے ہیں وہ دستی پریس پر چھاپے جاتے ہیں اور وہ کاغذات بھی دستی پریس پر ہی چھپے ہوئے تھے اس پیکٹ کے اوپر جو پتہ لکھا ہوا تھا وہ خوش خط لکھا ہوا تھا اور ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے کسی مسلمان نے لکھا ہے.یہ ہے.یہ تو میں نہیں کہہ سکتا کہ اس میں مرزا کا بھی لفظ تھا یا نہیں مگر ”صاحبزادہ خلیل احمد “ ضرور لکھا ہوا تھا.ص کا دائرہ بھی بڑا اچھا تھا اور ح کے گوشے بھی خوب نکالے ہوئے تھے اور یوں معلوم ہوتا تھا جیسے پتہ کسی مسلمان کے ہاتھ کا لکھا ہوا ہے.

Page 444

خطبات محمود 444 * 1941 خیر میں نے وہ پیکٹ درد صاحب کو دیا اور کہا کہ یہ کسی کی شرارت معلوم ہوتی ہے اور چونکہ ممکن ہے کہ اس قسم کے ٹریکٹ تمام پنجاب کے نوجوانوں میں عام طور پر تقسیم کئے جا رہے ہوں اس لئے آپ فوراً یہ پیکٹ ہز ایکسی لینسی گورنر صاحب پنجاب کو بھجوا دیں اور انہیں لکھ دیں کہ میرے لڑکے خلیل احمد کے نام ایسا پیکس آیا ہے اور چونکہ ممکن ہے کہ اور پنجاب کے نوجوانوں کے نام بھی اسی طرح ٹریکٹ اور اشتہارات وغیرہ بھیجے گئے ہوں اس لئے یہ پیکٹ آپ کو بھیجوایا جاتا ہے.اس کے متعلق جو محکمانہ کارروائی کرنا مناسب سمجھیں کریں.میں یہ بات کر ہے.کے واپس ہی لوٹا تھا کہ ایک آدمی نیچے سے آیا اور درد صاحب سے کہنے لگا کہ پولیس والے آئے ہیں اور وہ آپ کو بلاتے ہیں.میں نے اس آدمی کو نہیں دیکھا کیونکہ وہ سیڑھیوں کے موڑ کے پیچھے تھا.یہ بات سن کر میں نے درد صاحب سے کہا کہ آپ جائیں اور جا کر معلوم کریں کہ پولیس والے کیا کہتے ہیں.درد صاحب گئے اور تین چار منٹ کے بعد ہی واپس آگئے.انہوں نے مجھے کہا کہ پولیس کے کچھ سپاہی آئے ہوئے ہیں اور وہ کہتے ہیں کہ ہم نے مرزا خلیل احمد صاحب سے ملنا درد صاحب کہنے لگے کہ میں نے انہیں کہا کہ خلیل تو بچہ ہے اس سے آپ نے کیا بات کہنی ہے.جو کچھ آپ کہنا چاہتے ہیں وہ مجھے لکھ کر دے دیں.مگر انہوں نے اصرار کیا اور کہا کہ ہم اسی سے بات کرنا چاہتے ہیں.اور اس بارہ میں ہم کچھ لکھ کر نہیں دے سکتے.درد صاحب کچھ اور باتیں بھی کرنا چاہتے تھے مگر میں نے اس خیال سے کہ معمولی بات ہے ان سے کہا کہ کوئی حرج کی بات نہیں میں خلیل کو بھجوا دیتا ہوں.چنانچہ میں نے اُسی وقت خلیل احمد کو بھجوا دیا.چند منٹ کے بعد ہی خلیل احمد واپس آیا اور اس نے مجھے کہا کہ سپاہیوں نے مجھ سے یہ پوچھا تھا کہ کیا اس قسم کا پیکٹ تمہارے نام آیا ہے اور میں نے کہا کہ ہاں آیا ہے مگر میں نے اپنے ابا کو دے دیا ہے.پھر پولیس والوں نے اس پیکٹ کی طرف اشارہ کر کے (جو درد صاحب نیچے لے گئے تھے ) مجھے کہا کہ یہ پیکٹ اپنے ہاتھ میں لے کر کھول دو.

Page 445

* 1941 445 خطبات محمود مگر میں نے کہا کہ میں اسے نہیں کھول سکتا.خلیل احمد سے جب یہ بات میں نے سنی تو میں نے کہا تم نے بہت اچھا کیا جو پیکٹ اپنے ہاتھ سے نہیں کھولا.میں سمجھتا ہوں اس کے ہاتھ سے پیکٹ کھلوانے کا منشاء یہ تھا کہ وہ شرارتا اس طرح اپنے کانشنس (CONSCIENCE) کو یہ تسلی دینا چاہتے تھے کہ انہوں نے خلیل کے ہاتھ سے یہ پیکٹ لیا ہے.خیر وہ بات کر کے ہٹا تو اسی وقت درد صاحب نے سیڑھیوں پر سے آواز دی اور میرے جانے پر انہوں نے کہا کہ ان لوگوں نے مجھ سے وہ پیکٹ مانگا تھا مگر میں نے دینے سے انکار کر دیا اور ان سے کہا کہ تم مجھے وہ نون بتاؤ جس کے ماتحت تم مجھ سے یہ پیکٹ لینا چاہتے ہو.پھر میں نے ان آپ کا نام لے کر کہا کہ مجھے خلیفة المسیح کی طرف سے یہ پیکٹ ایک بڑے افسر کو بھجوانے کے لئے ملا ہے اس لئے میں یہ پیکٹ تمہیں نہیں دے سکتا.اس پر انہوں نے وہ پیکٹ مجھ سے چھین کر باہر پھینک دیا اور ایک سپاہی اسے لے کر بھاگ گیا میں نے پھر جلدی میں ان کی پوری بات نہ سنی اور میں سمجھ گیا کہ یہ ہم یہ ہم سے شرارت کی گئی ہے چنانچہ میں نے اوپر آکر گورنر صاحب کو ایک تار لکھا جس میں اہم واقعات جو اس وقت تک ہوئے تھے لکھ دیئے.یہ تار لے کر میں پھر سیڑھیوں میں آیا تو اس وقت درد صاحب واپس جا چکے تھے میں نیچے اتر کر بیٹھک میں آیا تو میں نے دیکھا کہ ہماری کوچ اور کرسیوں پر پولیس والے اپنی لاتیں دراز کر کے یوں بیٹھے ہیں کہ گویا ان کا گھر ہے.میں جھٹ دروازہ بند کر کے برآمدہ کی طرف سے دفتر کے کمرہ میں آیا تو میں نے دیکھا کہ برآمدہ میں بھی پولیس والے کھڑے ہیں.خیر میں نے درد صاحب کو تار دیا اور کہا کہ یہ ابھی گورنر صاحب کو بھجوا دیا جائے پھر میں گورنر صاحب کو ایک مفصل چٹھی لکھنے بیٹھ گیا.اس عرصہ میں دو دفعہ مجھے پھر نیچے جانا پڑا.ایک دفعہ تو میں درد صاحب کو یہ کہنے کے لئے گیا کہ آپ اس تار کا مضمون پولیس کے سپاہیوں کو بھی سنا دیں اور ان کہ اس میں کوئی غلط بات تو بیان نہیں کی گئی اور اگر کسی واقعہ کا وہ انکار ހނ پوچھ ہیں تو

Page 446

* 1941 446 خطبات محمود مجھے بتایا جائے تا کہ اگر کسی قسم کی اس میں غلطی ہو تو اس کو دور کر دیا جائے.میرے اس کہنے کی وجہ یہ تھی کہ نیچے جو واقعات درد صاحب کو پیش آئے تھے وہ میں نے نہیں دیکھے تھے اور میرا فرض تھا کہ ان واقعات کے بیان کرنے میں دوسروں کو صفائی کا موقع دوں اور اگر کوئی خلاف واقعہ بات درج ہو گئی ہو تو اس کی تصحیح کر دوں.پھر بعد میں مجھے ایک اور بات کی نسبت خیال آیا کہ اس کا لکھنا بھی تار میں ضروری تھا اس لئے میں دوسری دفعہ پھر نیچے اترا اور میں نے درد صاحب کو اس واقعہ کو لکھنے کی بھی ہدایت کی اور ساتھ ہی پھر انہیں کہہ دیا کہ یہ واقعہ بھی ان کو سنا دینا.اس وقت تک بھی پولیس برابر ہمارے مکان کے نچلے.حص پر قبضہ جمائے بیٹھی رہی.اتفاق کی بات ہے کہ اس دن ہمارے اکثر آدمی باہر کام پر گئے ہوئے تھے.عزیزم مرزا مظفر احمد صاحب جو ڈلہوزی میں ہمارے ہاں مہمان آئے ہوئے تھے وہ بھی مرزا ناصر احمد کو ملنے کے لئے ان کی کوٹھی پر گئے ہوئے تھے.خیر کچھ دیر کے بعد مجھے خیال آیا کہ ہمیں تو قانون کی واقفیت نہیں.مرزا مظفر احمد اور مرزا ناصر احمد کو بلوا لیا جائے چنانچہ میں پھر نیچے اترا اور ایک شخص سے کہا کہ درد صاحب سے جا کر کہ فوری طور پر مرزا مظفر احمد اور مرزا ناصر احمد کو بلوا لیا جائے.اس وقت مجھے پھر معلوم ہوا کہ ابھی تک بھی پولیس مکان پر قابض تھی.خیر اس شخص نے مجھے بتایا کہ درد صاحب پہلے ہی ایک آدمی ان کی طرف بھجوا چکے ہیں.چنانچہ تھوڑی دیر کے بعد مرزا مظفر احمد اور مرزا ناصر احمد دونوں پہنچ گئے اور انہوں نے بتایا کہ پیچھے آرمڈ پولیس رائفلیں لے کر چلی آ رہی ہے.درد صاحب نے مرزا عبد الحق صاحب پلیڈر کی طرف بھی آدمی بھیجوا دیا اور وہ بھی تھوڑی دیر کے بعد آ گئے اس وقت بھی پولیس کمرہ پر اور برآمدہ پر قابض تھی مجھے اس وقت خیال گزرا کہ پولیس والوں نے ضرور تھانہ میں کوئی رقعہ بھیجا ہے اور اس کا یہ نتیجہ ہے کہ آرمڈ پولیس

Page 447

* 1941 447 خطبات محمود ހ رائفلیں لے کر ہمارے مکان پر پہنچ گئی ہے.اس کے بعد میں پھر خط لکھنے میں مشغول ہو گیا اور تھوڑی دیر کے بعد میں نے مرزا مظفر احمد سے کہا کہ مجھے تو قانون کا علم نہیں تم قانون پڑھے ہوئے ہو.کیا پولیس کا کسی کے مکان کے اندر داخل ہونا جائز ہے؟ انہوں نے کہا کہ قانون کے رو سے یہ بالکل ناجائز ہے.میں نے کہا تو پھر تم جاؤ اور پولیس والوں سے بات کرو.اتنے میں مرزا ناصر احمد بھی آ گئے اور کہنے لگے کہ پولیس والے ہمارے مکان کے اندر کیوں بیٹھے ہیں اور درد صاحب نے انہیں بیٹھنے کیوں دیا.یہ بالکل خلاف قانون حرکت ہے جو پولیس والوں نے کی ہے.پولیس والے بغیر اجازت کے کسی گھر میں داخل نہیں ہو سکتے اور اگر وہ داخل ہوں تو اس صورت میں انہیں اپنی تلاشی دینی ضروری ہوتی ہے.کیونکہ کیا پتہ کہ وہ کوئی ناجائز چیز اندر پھینک جائیں.اس لئے قانون یہی کہتا ہے کہ پولیس کی پہلے تلاشی ہونی ضروری ہے تا ایسا نہ ہو کہ وہ اپنی طرف سے کوئی ناجائز چیز پھینک دے اور گھر والوں کو مجرم بنا دے پھر انہوں نے پوچھا کہ کیا پولیس والوں کی تلاشی لے لی گئی تھی؟ میں نے کہا کہ میرے علم میں تو یہ بات نہیں آئی کہ پولیس والوں کی تلاشی لی گئی ہو.اس پر وہ کہنے لگے کہ یہ درد صاحب کا فرض تھا کہ ولیس والوں کو اندر نہ آنے دیتے.مرزا ناصر احمد نے چونکہ بیرسٹری کی بھی کچھ تعلیم پائی تھی وہ کچھ قانون سے واقف ہیں.میں نے کہا کہ جب پولیس والوں کو قانوناً یہ حق حاصل نہیں کہ وہ کسی دوسرے کے مکان میں داخل ہوں تو پھر جاؤ اور ان کو قائل کرو اس پر وہ نیچے آئے اور پولیس والوں سے اونچی باتیں کرنے لگے.مرزا ناصر احمد کی آواز ذرا زیادہ بلند تھی میں نے اس وقت خیال کیا کہ یہ بچہ ہے اور اسے ابھی پورا تجربہ نہیں ہم اس وقت چاروں طرف سے دشمنوں میں گھرے ہوئے ہیں.اگر اس نے کوئی بات کی تو ممکن ہے پولیس والے اس پر کوئی الزام لگا دیں کہ اس نے ہم پر دست درازی کی ہے اس لئے میں جلدی سے نیچے اترا.اس وقت پولیس والے اندر کے کمرہ سے نکل کر برآمدہ میں آ چکے تھے اور مرزا ناصر احمد

Page 448

* 1941 448 خطبات محمود ہے، انہیں یہ کہہ رہے تھے کہ تم جہاں اندر بیٹھے تھے وہیں جا بیٹھو میں اسی حالت میں تمہاری تصویر لینا چاہتا ہوں اور وہ یہ کہہ رہے تھے کہ ہم وہاں نہیں جاتے.میں نے جب ان کی یہ باتیں سنیں تو میں نے سپاہیوں سے کہا کہ تم سب پہلے اندر بیٹھے ہوئے تھے اور کئی بھلے مانس اس کے گواہ ہیں.میں نے خود تمہیں اند ربیٹھے دیکھا، درد صاحب نے تمہیں اندر بیٹھے دیکھا، مرزا مظفر احمد اور مرزا ناصر احمد نے تمہیں اندر بیٹھے دیکھا ہمارے عملہ کے اور کئی آدمیوں نے تم کو اندر بیٹھے دیکھا ہے.اب اس میں تمہارا کیا حرج ہے کہ پھر تم وہیں جا بیٹھو اور تمہاری اس وقت کی تصویر لے لی جائے اگر تمہارا اندر آنا قانون کے مطابق تھا تو تم اب بھی وہاں بیٹھ سکتے ہو اور اگر تمہارا اندر بیٹھنا قانون کے خلاف تھا تو تم اپنی غلطی کا اقرار کرو.اس پر وہ کہنے لگے کہ ہم تو اندر بیٹھے ہی نہیں.میں نے ان سے کہا کہ تین دفعہ تو میں نے تمہیں اندر بیٹھے دیکھا ہے.اسی طرح درد صاحب نے تمہیں اندر بیٹھے دیکھا خلیل احمد سے تم نے جو باتیں کیں وہ اندر ہی کیں اسی طرح تمہیں مظفر احمد نے دیکھا، ناصر احمد نے اندر دیکھا.اب تم کس طرح کہہ رہے ہو کہ تم اندر بیٹھے ہی نہیں اور اتنا بڑا جھوٹ بولتے ہو.مگر اس پر بھی انہوں نے یہی کہا کہ ہم اندر بالکل نہیں بیٹھے.اتنے میں مرزا مظفر احمد نے کہا کہ میں جب آیا تھا تو اس وقت بھی یہ سب سپاہی اندر بیٹھے تھے اور نہ صرف اندر بیٹھے ہوئے تھے بلکہ ایک سپاہی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ وہ خلافِ قانون اپنی پیٹی کھول کر بیٹھا تھا مگر وہ یہی کہتے چلے گئے کہ ہم اندر نہیں گئے.اس پر میں نے انہیں کہا کہ مجھے افسوس ہے.آج مجھے ذاتی طور پر اس بات کا تجربہ ہوا ہے کہ عدالتیں کن جھوٹے آدمیوں کی گواہیوں پر لوگوں کو سزائیں دیتی ہیں.میں نے ان سے کہا تم وہ ہو کہ تمہیں اس بات کا علم ہے کہ میں تمہارے پاس آیا اور میں نے تمہیں اندر بیٹھے دیکھا، ایک دفعہ نہیں بلکہ تین دفعہ.پھر تم نے درد صاحب سے یہاں باتیں کیں، تم نے خلیل احمد سے یہاں باتیں کیں، تم نے مظفر احمد سے یہاں باتیں کیں، تم نے ناصر احمد سے

Page 449

* 1941 449 خطبات محمود یہاں باتیں کیں اور تم میں سے ہر شخص جانتا ہے کہ جو کچھ میں کہہ رہا ہوں وہ درست ہے مگر اتنے گواہوں کے باوجود تم کہہ رہے ہو کہ تم اندر نہیں بیٹھے.جس کا جھوٹ تم لوگ بول رہے ہو اس قسم کی گواہیوں پر عدالتوں کی طرف سے لوگوں کو سزاؤں کا ملنا یقینا نہایت ہی افسوسناک اور ظالمانہ فعل ہے اس پر وہ کچھ کھسیانے سے ہو گئے مگر اقرار انہوں نے پھر بھی نہ کیا کہ وہ کمرہ کے اند ربیٹھے تھے.جب میں نے دیکھا کہ وہ اس طرح کھلے طور پر جھوٹ بول رہے ہیں تو نے خیال کیا کہ نہ معلوم ہمارے متعلق وہ اور کیا باتیں بنا لیں.شاید وہ یہی کہہ دیں کہ ہم پر انہوں نے حملہ کر دیا تھا اور ہمیں مارنے پیٹنے لگ گئے تھے.اس لئے میں نے مرزا مظفر احمد سے کہا کہ مظفر اس ملک میں احمدیوں کے قول پر کوئی اعتبار نہیں کرتا.تم تعلیم یافتہ ہو ، عہدہ دار ہو لیکن پھر بھی اگر کوئی واقعہ ہوا تو تمہاری کسی بات پر اعتبار نہیں کیا جائے گا.بلکہ اعتبار انہی لوگوں کی بات پر کیا جائے گا.اس لئے بہتر ہے کہ ان واقعات کی شہادت کے لئے کسی اور کو بھی بلا لیا جائے.ہمارے ہمسایہ میں ایک غیر احمدی ڈپٹی کمشنر صاحب چھٹی پر آئے ہوئے تھے.میں نے مرزا مظفر احمد سے کہا کہ فوراً ان کی طرف ایک آدمی دوڑا دیا جائے اور کہا جائے ایک ضروری کام ہے.آپ مہربانی کر کے تھوڑی دیر کے لئے تشریف لے آئیں.میرا منشاء یہ تھا کہ وہ آئیں تو اس واقعہ کے گواہ بن جائیں گے.چنانچہ مرزا مظفر احمد نے ان کی طرف ایک آدمی دوڑا دیا کہ ضروری کام ہے آپ جلدی تشریف لائیں.اس کے بعد میں پھر اوپر چلا گیا اتنے میں نیچے سے مجھے آوازیں آئیں اور میں نے آواز سے پہچان لیا کہ ڈپٹی کمشنر صاحب آ گئے ہیں.وہ ان سپاہیوں سے باتیں کر رہے تھے اور کہہ رہے تھے کہ تم نے صریحاً خلاف قانون حرکت کی ہے.یہ باتیں سن کر میں بھی نیچے اتر آیا اور میں نے ان کے سامنے تمام پہلی باتوں کو دہرانا شروع کر دیا.میں نے کہا کہ اس طرح خلیل احمد کے نام ایک پیکٹ آیا تھا

Page 450

* 1941 450 خطبات محمود جو میں نے درد صاحب کو اس لئے دیا کہ وہ گورنر صاحب پنجاب کو بھیجوا دیں.انہوں نے درد صاحب سے وہ پیکٹ چھین لیا اور پھر انہوں نے تھانہ میں کوئی جھوٹی رپورٹ بھیج دی جس پر مسلح پولیس آگئی.پھر میں نے ان سپاہیوں سے کہا کہ یہ جو مسلح پولیس آئی ہے یہ ضرور کسی تمہاری رپورٹ کے نتیجہ میں آئی ہے.تم نے لکھا ہو گا کہ یہ لوگ ہمیں مارنے اور قتل کرنے کے درپے ہیں.یقینا تم نے ایسا ہی لکھا ہے ورنہ تھانے والوں کو کیا پڑی تھی کہ وہ مسلح پولیس یہاں بھیج دیتے.پھر میں نے ان سے کہا کہ جب درد صاحب سے تم نے پیکٹ چھینا تھا تو کیا اس سے تمہاری غرض یہ نہیں تھی کہ تم یہ بات بنا سکو کہ تم نے وہ پیکٹ خلیل سے لیا ہے.اس پر وہ کہنے لگے جس طرح آپ نے کوئی بات بنانی تھی اسی طرح ہم نے بھی کوئی بات بنانی ہی تھی.یہ باتیں انہوں نے ان ڈپٹی کمشنر صاحب کے سامنے کیں اور میں نے بھی ان سے اس لئے کہلوائیں تاکہ وہ ڈپٹی کمشنر ان باتوں کے گواہ بن جائیں (گو میں نہیں کہہ سکتا کہ ان باتوں میں سے انہوں نے کتنی سنیں کیونکہ اس وقت مختلف باتیں ہو رہی تھیں) اسی طرح ابھی ڈپٹی کمشنر صاحب نہیں آئے تھے کہ مجھے نیچے سے ایک سپاہی کی آواز آئی جو کسی دوسرے سپاہی سے بات کر رہا تھا.معلوم ہوتا ہے کوئی سپاہی بد نیتی سے اندر آنا چاہتا تھا کہ ہمارے آدمیوں نے اسے اندر داخل ہونے سے روک دیا.اس پر دوسرا سپاہی اسے کہنے لگا “ایدھر آ جا اوئے انہاں دا کی اعتبار ہے جو چاہن گل بنا لین” یعنی ان کا کیا اعتبار ہے ان کا جو جی چاہے گا ہمارے خلاف بات بنا لیں گے.گویا ہمارے سب لوگ جھوٹے تھے اور وہ لوگ جو روزانہ قسمیں کھاتے اور ہمارے سامنے جھوٹ بول رہے تھے وہ سچے تھے.خیر ان ڈپٹی کمشنر صاحب نے کچھ دیر ان سے باتیں کرنے کے بعد مجھ سے کہا کہ ان سپاہیوں سے باتیں کرنی فضول ہیں.ان میں کوئی افسر نہیں ہے اور نہ ہی ان کو کوئی اختیار ہے.آپ کو چاہئے کہ ضلع گورداسپور کے ڈپٹی کمشنر صاحب کی طرف آدمی بھجوا دیں اور انہیں ان تمام حالات سے اطلاع دیں.میں نے کہا کہ اس کا

Page 451

* 1941 451 خطبات محمود میں پتہ کروا چکا ہوں.ڈپٹی کمشنر صاحب اور سپرنٹنڈنٹ صاحب پولیس دونوں اس وقت باہر ہیں.اسی وجہ سے ہم حیران ہیں کہ کیا کریں.انہوں نے کہا تو پھر یہ جو کانسٹیبل یا ہیڈ کانسٹیبل ہیں ان سے بات کرنی فضول ہے.انہیں دیکھ کر تو یہ بھی پتہ نہیں لگتا کہ ان کا افسر کون ہے.پھر انہوں نے کہا یہاں مسٹر سلیٹر ایس.ڈی.او ہیں.مرزا مظفر احمد صاحب ان کے پاس چلے جائیں.میں نے کہا مظفر احمد کا جانا ٹھیک نہیں وہ یہاں گواہ کے طور پر ہیں.میں درد صاحب اور مرزا ناصر احمد کو بھجوا دیتا ہوں.چنانچہ میں نے ان دونوں کو مسٹر سلیٹر کی طرف بھیجوا دیا اور خود ان سپاہیوں سے پوچھا کہ تم میں افسر کون ہے.اس پر وہ پہلے تو کہنے لگے کہ ہمیں پتہ نہیں ہمارا کون افسر ہے پھر جب مزید اصرار کیا تو ان میں سے کوئی کہے کہ یہ افسر ہے اور کوئی کہے وہ افسر ہے.آخر ایک کی طرف اشارہ کر کے وہ کہنے لگے کہ ہم میں سے یہ سب سے بڑا ہے اور وہ بغیر وردی کے تھا.اس سے پوچھا تو وہ کہنے لگا میں وردی میں ہی نہیں.فلاں شخص ہے.اس سے پوچھا تو اس نے کہا کہ وہ بے وردی شخص سینئر ہے میں افسر نہیں.جب اسے کہا گیا کہ وہ تو منکر ہے تو اس نے جواب دیا کہ “ جنھوں سمجھ لو " یعنی جسے چاہیں افسر سمجھ لیں.آخر ان ڈپٹی کمشنر صاحب نے ان سے پوچھا کہ تم کو یہ تو بتانا چاہئے تم میں سے بڑا کون ہے.اس پر بھی انہوں نے کچھ ایسا ہی جواب دیا.غرض اسی قسم کی آئیں بائیں شائیں کرتے رہے خیر انہوں نے کہا مسٹر سلیٹر ایس.ڈی.او ابھی آ جائیں گے.ان لوگوں سے بات کرنی فضول ہے آپ اندر چل بیٹھیں.چنانچہ وہ اور میں اور عزیزم مظفر احمد کمرہ میں گئے.تھوڑی دیر میں مسٹر سلیٹر ناصر احمد کے ساتھ آگئے.مسٹر سلیٹر نے کوٹ اتارا اور بیٹھتے ہی کہا کہ میں پولیس افسر نہیں.میرے پاس تو جب کیس آتا ہے اس وقت اسے سنتا ہوں.وہ مجھے ذاتی طور پر نہیں جانتے تھے.یو نہی یہ سن کر کہ کوئی باہر سے یہاں چند دنوں کے لئے آیا ہوا ہے اور اسے پولیس والوں کے متعلق کوئی شکایت پیدا ہوئی ہے چلے آئے.میں نے بھی ان کا شکریہ ادا کیا کہ آپ بغیر بیٹھ

Page 452

* 1941 452 خطبات محمود سنتے اس علم کے کہ کیا واقعہ ہوا ہے اور ہم پر کیا گزری ہے تشریف لے آئے ہیں.خیر انہیں تمام واقعات بتائے گئے.انہوں نے کہا.ڈیفنس آف انڈیا رولز کے ماتحت پولیس بغیر وارنٹ دکھائے گرفتار کر سکتی ہے.ڈپٹی کمشنر صاحب کہنے لگے کہ اختیارات انسپکٹر پولیس یا سب انسپکٹر پولیس کو حاصل ہیں ہر ایک کو حاصل نہیں.اس پر مسٹر سلیٹر نے بتایا کہ انسپکٹر پولیس بیمار تھا اور تھانیدار دورہ پر تھا.اس وقت انچارج ایک ہیڈ کانسٹیبل ہی ہے.اس لئے اسے اختیار حاصل ہے.پھر وہ واقعات رہے اور انہوں نے اس پر افسوس کا بھی اظہار کیا اور کہا کہ کیا آپ کے نزدیک یہ کافی نہیں ہو گا کہ میں انسپکٹر کو کہوں اور وہ ان لوگوں کے متعلق مناسب کارروائی کرے.میں نے انہیں کہا کہ میں تو اس کے متعلق گورنر صاحب کو بھی تار دے چکا ہوں.اس لئے ان کے فیصلہ کا مجھے انتظار کرنا پڑے گا.اسی دوران میں پولیس کے بعض نقائص کو بھی انہوں نے تسلیم کیا اور جب انہیں بتایا گیا کہ وہ بغیر تلاشی دیئے اندر آگئے تھے تو انہوں نے کہا کہ یہ واقع میں خلاف قانون حرکت ہے.اور انہیں اندر نہیں آنا چاہئے تھا.مگر انہوں نے کہا کہ میں مجسٹریٹ ہوں اور صرف اتنا کر سکتا ہوں کہ جب کیس میرے سامنے آئے تو اس کا فیصلہ کر دوں.پولیس کی کارروائی میں دخل نہیں دے سکتا.البتہ لڑکے کی ضمانت ابھی لے لیتا ہوں.ڈی.سی صاحب نے کہا.میں اس بارہ میں تجربہ کار ہوں.آپ بات نہ کریں کیونکہ اس طرح آپ خود الزام کے نیچے آجائیں گے.پولیس نے ابھی تک آپ کے پاس اس کے متعلق کوئی رپورٹ نہیں کی اور قاعدہ یہ ہے کہ پہلے پولیس رپورٹ کرے اور پھر اس پر کسی قسم کا ایکشن لیا جائے.انہوں نے کہا بہت اچھا.میں انچارج کو بلا لیتا ہوں ان کے ساتھ نائب تحصیلدار تھا.انہوں نے اسے بھیجا کہ جا کر تھانیدار انچارج کو بلا لاؤ.اس پر وہی شخص آیا جو بے وردی تھا.مسٹر سلیٹر نے اس سے پوچھا کہ کیا تم انچارج ہو ؟ اس نے کہا کہ میں تو وردی میں نہیں.میں کس طرح انچارج ہو سکتا ہوں؟ انہوں نے کہا.اچھا تو پھر کسی وردی والے کو بلاؤ.

Page 453

* 1941 453 خطبات محمود اس پر وہ کسی دوسرے کو بلا لایا جو وردی پہنے ہوئے تھا.اس سے جب پوچھا گیا کہ کیا تم انچارج ہو ؟ تو وہ کہنے لگا میں کس طرح انچارج ہو سکتا ہوں؟ میں تو جونیئر ہوں انچارج تو یہ ہے جو بغیر وردی کے ہے.اس پر مسٹر سلیٹر بھی حیران ہوئے اور انہوں نے اسی شخص سے جو بغیر وردی کے تھا کہا کہ تم اس کیس کے متعلق میرے پاس رپورٹ کرو پھر میں اس کا فیصلہ کروں گا.میں نے اس دوران انہیں توجہ دلائی کہ آپ دیکھیں یہ لوگ کس قسم کی حرکات کر رہے ہیں کہ اصل انچارچ بغیر وردی کے ہے اور جو وردی میں ہے وہ انچارج ہونے سے منکر ہے.اس سے وہ بہت متاثر وئے اور کہنے لگے کہ انسپکٹر بیمار تھا اگر وہ اچھا ہوتا تو شاید اس طرح واقعات نہ ہوتے.خیر وہ بے وردی شخص تو رپورٹ لکھنے کے لئے چلا گیا اور مسٹر سلیٹر انتظار کرتے رہے مگر جب دیر ہو گئی.ہم نے ان سے کہا کہ آپ تشریف لے جائیے جب رپورٹ آئے گی اگر آپ چاہیں گے تو لڑکے کو آپ کے پاس ضمانت کے لئے پیش کر دیا جائے گا.چنانچہ اس پر رضامند ہو کر چلے گئے اور کہہ گئے کہ ڈی.سی بھی شام کو آ جائیں گے میں نو بجے اطلاع دوں گا.اگر ضرورت ہوئی تو مرزا مظفر احمد، خلیل احمد کو لے کر آجائیں میں ضمانت لے لوں گا.وہ تو چلے گئے مگر پولیس والے برابر بارہ بجے سے لے کر سات بجے شام تک رائفلیں لے کر ہمارے مکان کے میں کھڑے رہے.پھر میں نے اپنے دوستوں سے کہا کہ اب تم ان سے پوچھو یہ کس قانون کے ماتحت یہاں کھڑے ہیں اور ان سے لکھوا لو تاکہ بعد میں یہ نہ کہہ دیں کہ ہم تو اس وقت تک وہاں نہیں ٹھہرے.انہوں نے کہا ہم کچھ لکھ کر دینے کے لئے تیار نہیں اس پر مرزا عبد الحق صاحب نے کہا کہ اس کا تو یہ مطلب ہے جس طرح تم نے آج جھوٹ بولا ہے اسی طرح کل جھوٹ بول دو اور کہہ دو کہ ہم تو وہاں گئے ہی نہیں تھے پھر مرزا عبد الحق صاحب پلیڈر نے ان سے کہہ دیا کہ اگر لکھ کر نہیں دیتے کہ ہم اس وقت تک بالا افسروں کے حکم سے مکان پر قبضہ کئے ہوئے ہیں تو پھر تمہارا کوئی حق یہاں ٹھہرنے کا نہیں پھر تم نکل جاؤ.میں نے

Page 454

خطبات محمود 454 * 1941 ہے.مرزا صاحب سے کہا کہ آپ انہیں یہ نہ کہیں کہ یہاں سے نکل جاؤ کیونکہ ممکن ہے یہ لوگ جا کر یہ رپورٹ کریں کہ ہمیں مارا گیا ہے اور بات آخر وہی مانی جائے جو یہ کہیں گے.آجکل چونکہ جنگ ہو رہی ہے اس لئے مجسٹریٹوں کا ذہن اسی طرف ہے کہ پولیس والوں کو کیا ضرورت تھی کہ وہ جھوٹ بولتے.پس میں نے ان سے کہا آپ یہ نہ کہیں کہ نکل جاؤ بلکہ کہیں کہ نہیں لکھ کر دیتے تو تمہاری مرضی.ہم یہ لکھ لیں گے کہ تم فلاں وقت تک یہاں ٹھہرے ہو اور دوبارہ ان کی تصویر لے لو.اور اس تصویر پر وقت بھی لکھ دو کہ اتنے بجے یہ تصویر لی گئی آخر شام کو اطلاع ملی کہ ایس.ڈی.او صاحب کے حکم کے مطابق جب پولیس نے رپورٹ کی تو معلوم ہوا کہ جس دفعہ کے ماتحت پولیس والوں نے کارروائی کرنی چاہی تھی اس کے ماتحت کارروائی کرنے کا پولیس کو اختیار ہی حاصل نہیں تھا.غرض ان کی او ر بے ضابطگیوں میں ایک بڑی بے ضابطگی یہ بھی پائی گئی کہ جس دفعہ کے ماتحت انہوں نے کارروائی کرنی چاہی اس دفعہ کے ماتحت مجسٹریٹ کے حکم کے بغیر کارروائی کرنے کا انہیں حق حاصل ہی نہیں تھا.گویا ان کا سارا فعل ہی خلاف قانون تھا اور کسی گرفتاری کا انہیں حق ہی حاصل نہیں تھا.سنا گیا ہے کہ اس رپورٹ پر ایس.ڈی.او صاحب نے انچارج ہیڈ کانسٹیبل کو بلا کر کہا کہ تم نے اس دفعہ کے ماتحت کس طرح کارروائی ہے جبکہ کارروائی کرنے کا تمہیں کوئی حق ہی حاصل نہیں تھا.انہوں نے کہا ہم یہی سمجھتے ہیں کہ ہمیں حق حاصل ہے.مجسٹریٹ نے کہا قانون تمہیں اس بات کا اختیار نہیں دیتا.البتہ مجسٹریٹ کے حکم سے تم ایسا کر سکتے ہو.اس کے بعد انہوں نے اسی وقت آدمی بھجوا دیا کہ وہاں جو پولیس کھڑی ہے اسے کہہ دیا جائے کہ وہ کو ٹھی سے واپس چلے جائیں.چنانچہ سات بجے شام کو پولیس وہاں سے ہٹی.رات کو ایس.ڈی.او صاحب کا پھر رقعہ آیا کہ صبح میں مرزا خلیل احمد کے بارہ میں اطلاع دوں گا.دوسرے دن حسب وعدہ گیارہ بجے کے قریب ان کا رقعہ آیا کہ آپ خلیل احمد کو بے شک لے جائیں.ہماری طرف سے اس میں کسی قسم کی روک نہیں.چنانچہ اس پر.

Page 455

* 1941 455 خطبات محمود ہم قادیان آ گئے.صبح کے شور و شر کے بعد جب مختلف لوگوں کی گواہیاں لینے کے لئے میں نے مرزا عبد الحق صاحب کو مقرر کیا تاکہ تازہ بتازہ شہادت قلم بند ہو جائے تو مجھے معلوم ہوا کہ پولیس ڈاک آنے سے پہلے ہی ڈاک خانہ کے پاس بیٹھی بھی حالانکہ ابھی پیکٹ نہیں آیا تھا.اسی طرح وہ سڑکوں پر بھی مختلف جگہوں پر کھڑی تھی.جس کے معنے یہ ہیں کہ پولیس پیکٹ کے منصوبہ میں شامل تھی.اس کے ساتھ ہی یہ بھی معلوم ہوا کہ ڈاکیا نے اصرار کر کے خلیل احمد کو پیکٹ دیا تھا.واقعہ یہ ہے جب ڈاکیا پیکٹ لایا تو خلیل احمد وہ پیکٹ درد صاحب کے پاس لایا اور کہنے لگا کہ یہ میرے نام بیرنگ پیکٹ آیا ہے کیا میں لے لوں.درد صاحب کہتے ہیں کہ میں نے اس سے کہا ایسا پیکٹ نہیں لینا چاہئے مگر وہ باہر جا کر پھر آیا اور اس نے دو آنے ڈاکیا کو دینے کے لئے طلب کئے.جب اس سے پوچھا گیا کہ تم نے ایسا کیوں کیا تو اس نے کہا کہ ڈاکیا اصرار کرنے لگا تھا کہ ضرور پیکٹ لے لیا جائے اور کہنے لگا کہ دو آنے خرچ کرنا کونسی بڑی بات ہے جس کے معنی یہ ہیں کہ ڈاکیا کو بھی پولیس نے یہ کہہ کر بھجوایا تھا کہ تم اصرار کرنا تاکہ خلیل احمد اس پیکٹ کو وصول کر ے.یہ واقعات ہیں جو میں نے بغیر کسی قسم کی جرح کے اور بغیر اپنے جذبات کو ظاہر کرنے کے بیان کر دیئے ہیں.میں نے یہ نہیں بتایا کہ کس کس طرح ان واقعات سے سلسلہ پر اور ہم پر حرف آیا ہے یا ان واقعات سے اور ان سے جن کو میں نے ظاہر نہیں کیا کس طرح پولیس والوں کی بد نیتی اور ان کی جماعت کو ذلیل کرنے کی کوشش ظاہر ہوتی ہے.میں ان امور کو اس وقت تک ملتوی رکھتا ہوں جب تک گورنمنٹ سے اس بارہ میں میں گفتگو نہ کر لوں اور یہ نہ معلوم کر لوں کہ اس کی ذمہ داری کس پر ہے.مگر جو چیز مجھے عجیب لگی ہے جو میرے دل میں کھٹکتی ہے اور جس کے بیان کرنے سے میں نہیں رک سکتا وہ یہ ہے کہ اگر

Page 456

* 1941 456 خطبات محمود اس ایکٹ کا وہی مفہوم ہے جو اس واقعہ سے ظاہر ہوتا ہے تو پھر اس ایکٹ کے ماتحت کسی کو بھی کوئی پیکٹ بھیجوا کر گرفتار کرا دینا بالکل آسان امر ہے اور اس طرح ہماری جماعت کا کوئی فرد اس سے محفوظ نہیں رہ سکتا.کل ممکن ہے میرے پاس اس طرح کا کوئی پیکٹ آ جائے اور پولیس مجھے گرفتار کر لے.آخر سوشلسٹوں کے لئے یا پولیس کے لئے اس قسم کا پیکٹ بھجوانا کیا مشکل ہے.سوشلسٹوں کے اشتہارات وغیرہ اس کے قبضہ میں آتے ہی رہتے ہیں.وہ آسانی سے کسی دوسرے کے نام وہی اشتہارات بصورت پیکٹ بھیج کر اسے گرفتار کرا سکتی ہے.گویا تمام معززین کی عزتیں خطرہ میں ہیں اور امن محض سی آئی.ڈی کے چند افسروں کے ہاتھ میں رہ گیا ہے.میں نے اس خط میں جو ہز ایکسی لینسی گورنر پنجاب کو بھجوایا ہے یہی لکھا ہے اور ان سے پوچھا ہے کہ کیا قانون کا یہی منشاء ہے.میں کسی بڑے افسر کا نام ادب کی وجہ سے نہیں لیتا لیکن کیا ان کو اس قسم کا پیکٹ اگر کوئی بھیج تو پولیس تین چار منٹ کے بعد ہی ان کو گرفتار کر ے گی حالانکہ تین چار میں کوئی انسان خواہ کتنا ہی سمجھدار ہو، کتنا ہی طاقتور ہو، کتنے ہی وسیع ذرائع رکھنے والا ہو یہ نہیں کر سکتا کہ اس پیکٹ کو ڈپٹی کمشنر یا سپرنٹنڈنٹ پولیس کے پاس بھجوا سکے.آخر وہ کونسا ذریعہ ہے جس کے ماتحت اس قسم کا پیکٹ پہنچنے کے تین چار منٹ بعد ہی انسان اسے کسی ذمہ دار افسر تک پہنچا سکے اور اس طرح اپنی بریت ثابت کر سکے.میں سمجھتا ہوں انگریزوں کے جرنیل اور کرنیل بھی یہ طاقت نہیں رکھتے کہ وہ باوجود بڑی طاقت رکھنے کے، باوجود ہوائی جہاز رکھنے کے اس قسم کا پیکٹ پہنچنے کے بعد تین چار منٹ کے اندر اندر اس کے متعلق کوئی کارروائی کر سکیں.پس اگر اس قانون کا یہی مفہوم ہے تو اس کے معنی یہ ہیں کہ ہندوستان کے ہر شخص کی عزت خطرہ میں ہے.فرض کرو میں اس وقت وہاں موجود نہ ہوتا تو کیا اس قانون کے ماتحت خلیل احمد مجرم نہیں تھا.یا فرض کرو وہ اس کی اہمیت کو نہ سمجھتا اور اس پیکٹ کو کمرہ میں پھینک دیتا تو کیا وہ مجرم نہ بن جاتا.میں نہیں سمجھ سکتا کہ

Page 457

* 1941 457 خطبات محمود ނ اس قانون کا یہ منشاء ہو جو پولیس نے سمجھا لیکن چونکہ میں نے اس کے متعلق گورنمنٹ کو توجہ دلائی ہے اس لئے میں دیکھنا چاہتا ہوں کہ گورنمنٹ اس کا کیا جواب دیتی ہے.اگر گورنمنٹ کا یہی منشاء ہے تو بغیر مزید تحقیق کئے ابھی کہے دیتا ہوں کہ اس کے ماتحت ہندوستان میں کسی شخص کی عزت محفوظ نہیں اور اگر اس قانون کا یہ منشاء نہیں اور گورنمنٹ نے ایسے اصول تجویز کئے ہیں جن سے اس قسم کے خطرات کا ازالہ ہو سکتا ہے تو یقینا گورنمنٹ کا فرض ہے کہ ان لوگوں کو جو اس واقعہ کے ذمہ دار اور اصل مجرم ہیں سزا دے.مقامی پولیس بھی بے شک قصور وار ہے لیکن وہ اس قدر جرات نہیں کر سکتی جب تک سی آئی ڈی کے کسی افسر کا اس میں ہاتھ نہ ہو.چنانچہ جب ہم نے ان سے پوچھا کہ تمہیں اس پیکٹ کا کیونکر علم ہوا تو انہوں نے کہا کہ ہمیں سی آئی ڈی کے افسر نے بتایا تھا.میرے پاس اس شبہ کی کافی وجوہ موجود ہیں کہ یہ پیکٹ پولیس نے ہی خلیل احمد کے نام بھجوایا تھا لیکن میں ان وجوہ کو ابھی ظاہر نہیں کرتا.میں نے سر دست ت پنجاب کو اس طرف توجہ دلائی ہے اگر اس نے توجہ نہ کی تو وہ وقت ہو گا جب ہم سمجھیں گے کہ حکومت اس قسم کے افعال کو پسندیدہ سمجھتی ہے یا اس واقعہ کے بعد اسے پسند کرنے لگی ہے ابھی اس بارہ میں میں کوئی فیصلہ نہیں کرتا.میں نے بتایا ہے کہ ابھی ہمیں اس بات کا کوئی پختہ علم نہیں کہ حکومت پنجاب کا اس واقعہ کے ساتھ تعلق ہے یا نہیں.لیکن میں سمجھتا ہوں مقامی حکام پر اس کی ذمہ داری عائد نہیں ہوتی کیونکہ جس ذمہ دار مقامی حاکم کو اس کا علم ہوا اس نے ہمارے ساتھ شریفانہ طور پر سلوک کیا.سر دست میں نے جماعت کے نمائندوں کو بلوایا ہے کہ وہ اتوار کے دن یہاں آئیں ان سے اس کے متعلق مشورہ لیا جائے گا اور تمام واقعات کو ان کے سامنے رکھا جائے گا بہت سے واقعات ایسے ایسے ہیں جن کو میں نے ابھی بیان نہیں کیا کیونکہ اگر مقدمہ ہوا تو اس وقت وہ کام آئیں گے.پھر ان کا بیان کرنا اس لحاظ سے بھی میں نے مناسب نہیں سمجھا کہ ممکن ہے جماعت میں -

Page 458

* 1941 458 خطبات محمود اشتعال پیدا ہو.میں ابھی حکومت کا رویہ دیکھنا چاہتا ہوں کہ وہ کیسا ہے.اِنْشَاءَ اللهُ اتوار کے دن دوستوں کو تمام حالات بتا دیئے جائیں گے.اور اس وقت تک تین چار دن بھی گزر چکے ہوں گے.میں نے حکومت کو توجہ دلائی ہے کہ مجھے تار کے ذریعہ جواب دیا جائے مگر ابھی تک مجھے کوئی جواب نہیں ملا.ہز ایکسی لینسی گورنر پنجاب کو جو خط میں نے لکھا ہے اس میں میں نے تحریر کیا ہے کہ ہماری جماعت لاکھوں روپیہ گورنمنٹ کی بہبودی کے لئے خرچ کر چکی ہے اور جو جماعت لاکھوں روپیہ گورنمنٹ کے لئے خرچ کر چکی ہو اس کے امام کا یہ مطالبہ کہ اس کی چٹھی کا ب دو روپے کی تار کے ذریعہ دیا جائے کوئی ناواجب مطالبہ نہیں عقلاً اور انصافاً مطالبہ بالکل جائز اور درست ہے.لیکن بہر حال چونکہ طاقت اور اقتدار حکومت کے ہاتھ میں ہے اس لئے تار کے ذریعہ جواب دینا یا نہ دینا اس کی مرضی پر منحصر ہے لیکن بہر حال اتوار تک خط کے ذریعہ بھی جواب آ سکتا ہے.اگر اس وقت تک جواب آگیا تو جماعت کے نمائندگان کے سامنے اسے رکھا جائے گا اور اگر نہ آیا تو اس کی ذمہ داری گورنمنٹ پر ہو گی.میں نے بدھ کو تار دیا تھا اس کا جواب جمعرات کو آ جانا چاہئے تھا جمعرات کو نہ آتا تو جمعہ کو آ جانا تھا جمعہ کو نہیں آیا تو ہفتہ کو آ سکتا ہے اور اگر ہفتہ کو نہ آئے تو اتوار کو آ سکتا ہے.اگر اتوار کو بھی حکومت کی طرف سے تار اور خط کا کوئی جواب نہ آیا تو اس کی ذمہ داری ہم پر نہیں بلکہ گورنمنٹ پر ہو گی.چونکہ ہماری جماعت کے بعض نمائندے قانونی مجالس میں بھی ہیں اور جب گورنمنٹ نے یہ قانون بنایا تھا تو اس وقت گورنمنٹ کی کونسل میں ہماری جماعت کا بھی ایک فرد موجود تھا.گو وہ جماعت کا نمائندہ نہیں تھا.اس لئے میں اس امر پر اظہار افسوس کئے بغیر نہیں رہ سکتا کہ اگر قانون کا وہی منشاء ہے جو ظاہر ہوا ہے اور اس قانون کے پاس کرنے میں ہمارے ان دوستوں کا بھی ہاتھ ہے جو قانون ساز مجلس میں ہیں تو یقینا انہوں نے یہ بہت بڑا ظلم کیا ہے.کانگریس والوں پر بھی بے شک

Page 459

* 1941 459 خطبات محمود اعتراض عائد ہوتا ہے جنہوں نے اپنا بد دیانت ہونا کھلے طور پر ثابت کر دیا ہے کیونکہ جب تک وہ برسراقتدار نہیں آئے تھے اسی قسم کے قوانین کو ظالمانہ کہا کرتے تھے مگر جب ان کی پارٹی برسر اقتدار آئی تو انہی ظالمانہ قوانین کے ماتحت انہوں نے حکومت کی.اور جب لوگوں نے اعتراض کیا اور کہا کہ انہیں منسوخ کیا جائے تو انہوں نے کہا کہ ان کے بغیر کام نہیں چل سکتا.تو کانگریس کی بر سر اقتدار پارٹی اول درجہ کی خائن ثابت ہو چکی ہے پہلے تو وہ بعض انگریزی قوانین کے خلاف ایجی ٹیشن کرتی رہی مگر جب خود بر سر اقتدار ہوئی تو وہی قانون جاری کر دیئے اور لوگوں کے شور مچانے پر کہہ دیا کہ ان قوانین کے بغیر کام نہیں چلتا.ایسے خائن اور بد دیانت لوگوں کی ہم پر ذمہ داری نہیں.لیکن اگر ہماری جماعت کے کسی فرد نے خواہ بحیثیت ممبر اس قانون کی تائید کی ہے اور خواہ قانون کی تشکیل میں حصہ لیا ہے یقینا اس نے اپنی عاقبت خراب کر لی ہے.اور یقینا وہ خدا تعالیٰ کے سامنے بہت بڑے مجرم کی صورت میں پیش ہو گا.کیونکہ اس نے تینتیس کروڑ باشندوں کو قانون کے ذریعہ ذلیل کرنے کا سامان تیار کیا اور ان کی عزتوں کو ایک عرصہ کے لئے خطرہ میں ڈال دیا.مجھے افسوس ہے کہ یہ قانون ایسے لوگوں کے ہاتھوں میں سے گزرا ہے جن میں سے بعض میرے نہایت ہی عزیز ہیں مگر خدا مجھے سب سے زیادہ عزیز ہے اور ہے تو مجھے اس کے مقابلہ میں کسی کی پرواہ نہیں ہو سکتی.اگر اس قانون کا یہی منشاء یقینا انہوں نے اپنی احمدیت پر ایک دھبہ لگا لیا ہے.انہیں چاہئے تھا کہ فوراً استعفیٰ دے دیتے اور کہتے کہ ہم اس قانون کی تائید کرنے یا اس پر دستخط کرنے کے لئے تیار نہیں.لیکن اگر اس قانون کا یہ منشاء نہیں تو ان کا فرض ہے کہ وہ گورنمنٹ پر اس امر کو ثابت کریں اور اسے کہیں کہ اس قانون کو خلافِ منشاء کیوں استعمال کیا گیا ہے.پس جس حد تک واقعہ کا سوال ہے میں ابھی اس کو نظر انداز کرتا ہوں لیکن جس حد تک قانون کا سوال ہے میں یہ کہے بغیر نہیں رہ سکتا کہ اگر قانون کا

Page 460

خطبات محمود 460 * 1941 یہی منشاء ہے تو ہر وہ شخص جس نے اس قانون پر دستخط کئے، ہر وہ شخص جو اس کے مشورہ میں شریک رہا وہ خدا تعالیٰ کے حضور مجرم ہے اور وہ 33 کروڑ باشندوں کو ذلیل کرنے کا مرتکب ہے.اس کی نمازیں، اس کے روزے اور اس کی قربانیاں، اس کے کسی کام نہیں آئیں گی کیونکہ اس نے دین کو دنیا پر مقدم نہیں کیا.میں قانون دان نہیں لیکن میں سمجھتا ہوں کہ اگر ہندوستانیوں میں کچھ بھی غیرت ہوتی اور اگر اپنے ملک کی ان کے دلوں میں کچھ بھی محبت ہوتی تو ایسے قانون کے پیش ہونے پر اس کے مضر حصہ کو وہ کبھی پاس نہ ہونے دیتے.میں سمجھتا ہوں کہ جنگ کے ایام میں امن کے قیام کے لئے نسبتاً سخت قانون کی ضرورت ہے مگر اس قسم کے جاہل انسانوں کے ہاتھ میں جو صحیح طور پر بات بھی نہیں سمجھ سکتے کجا یہ کہ قانون کو سمجھ سکیں یہ ایسی چیز ہے جس سے نہایت ہی خطرناک حربہ ہو جاتا ہے.لیکن فرض کرو ایسا اختیار ڈپٹی کمشنر کو دے دیا جائے تو میرے نزدیک اس میں کوئی حرج نہیں.گو اس طرح بھی غلط فہمیاں پیدا ہو سکتی ہیں.مگر موجودہ طریق کے مقابلہ میں بہت کم پیدا ہوں گی.اور پھر اور نہیں تو یہ فائدہ تو ضرور ہو گا کہ پبلک کا واسطہ کسی ایسے انسان سے پڑے گا جو معقول ہو گا اور بات کو سمجھنے کی اہلیت رکھے گا.مگر جس قسم کے انسانوں سے واسطہ پڑتا ہے اس کا اندازہ اسی سے لگایا جا سکتا ہے کہ جب ہیڈ کانسٹیبل کو درد صاحب تار سنانے لگے تو وہ کہنے لگا مجھے انگریزی نہیں آتی اب اور ترجمان کے ذریعہ سے اسے تار کا مطلب سمجھایا گیا.جسے اس نے اس وقت بتایا گو بعد میں سنا ہے کہ رپورٹ میں یہ لکھ دیا کہ مرزا خلیل احمد کے ہاتھ سے پیکٹ لیا تھا.پھر جب انہوں نے کہا کہ جو کچھ کہنا چاہتے ہو لکھ کر دو.تو پہلے تو وہ لکھنے کے لئے بیٹھ گیا لیکن پھر اس نے کہہ دیا کہ میں لکھ نہیں سکتا.یہ تو اس کا جھوٹ تھا لیکن بہر حال وہ انگریزی نہیں جانتا تھا.اب جو لوگ انگریزی نہیں جانتے تو انہوں نے بھلا قانون کا کیا سمجھنا ہے.پس قانونی لحاظ سے یہ اتنی خطرناک غلطی ہے کہ میرے نزدیک ہر ممبر کونسل جس نے اس کی تائید میں اپنا ووٹ دیا ہے اس نے

Page 461

* 1941 461 خطبات محمود قطعی طور پر اپنے فرض کو ادا نہیں کیا اور اگر کسی نے اس بارہ میں غفلت سے کام لیا ہے تب وہ خدا تعالیٰ کے حضور مجرم ہے اور اگر اس نے جانتے ہوئے اس میں تھوڑے سے تھوڑا حصہ بھی لیا ہے تو وہ خدا تعالیٰ کے حضور بہت بڑا مجرم ہے اور جن احمدیوں نے اس میں حصہ لیا ہے وہ تو بہت بڑے مجرم ہیں.ہم اخباروں میں ہمیشہ یہ خبریں پڑھا کرتے تھے کہ ڈیفنس آف انڈیا ایکٹ کے ماتحت آج فلاں کو سزا ملی ہے اور آج فلاں کو.اور میں خیال کیا کرتا تھا کہ انہیں سز اجائز طور پر ملی ہو گی مگر اب تو مجھے ساروں کے متعلق یہی شک پیدا ہو گیا ہے.اور میں خیال کرتا ہوں کہ شاید انہیں بے جا طور پر ہی جیل خانوں میں ڈال دیا گیا ہے.بہر حال میں نے اس کے متعلق ہز ایکسی لنسی گورنر پنجاب کو لکھا ہوا ہے اور آج یا کل اس چٹھی کی زائد کاپیاں ان منسٹروں کے پاس بھیجی جائیں گی جو پبلک تقریروں میں ہمیشہ یہ کہا کرتے ہیں کہ ملک میں امن کے قیام کے ہم ذمہ دار ہیں.اور ان سے پوچھا جائے گا کہ کیا اس واقعہ کے بعد بھی ان پر کوئی ذمہ داری عائد ہوتی ہے یا نہیں اور کیا قانون کا یہ جائز استعمال کیا گیا ہے یا ناجائز.اس کے بعد اگر ضرورت ہوئی تو ہم اپنے حق کے حصول کے لئے جد و جہد شروع کریں گے مگر کوئی ایسی کارروائی نہیں کریں گے جو جنگ کے کاموں میں روک پیدا کرنے کا باعث ہو.جنگ نہ ہمارے وزیر اعظم صاحب نے چھیڑی ہے اور نہ گورنر صاحب نے.یہ جنگ تو ہمارے بادشاہ اور ان کے وزراء کے حکم کے ماتحت لڑی جا رہی ہے اور ہندوستان کے گورنر یا یہاں کے وزراء اس جنگ کی عمارت کے نیچے کی چھوٹی سی اینٹیں ہیں.اگر اس میں حکومت پنجاب یا اس کے بعض افسروں کا دخل ثابت بھی ہو جائے تو اس عمارت کے خلاف ہمارا کھڑا ہو جانا نادانی ہو گی.کیونکہ جنگ کا آغاز ہٹلر نے کیا اور ہمارے بادشاہ اور وزراء نے اس کے مقابلہ کا اعلان کر دیا.ہم نے جہاں تک غور کیا ہے ہم اسی نتیجہ پر پہنچے ہیں کہ ہمارے بادشاہ اور وزراء حق پر ہیں

Page 462

خطبات محمود تو اور 462 * 1941 ہٹلر ظالم ہے.پس جس فعل کو ہم ظالمانہ سمجھتے ہیں اگر اس کے مقابلہ میں ہم کوئی کوتاہی والی صورت پیدا کریں تو ہم مجرم ہوں گے اس لئے ہم کوئی ایسی کارروائی نہیں کر سکتے جس سے جنگ کے کاموں میں روک پیدا ہو.میں نے دیکھا ہے جب کبھی کوئی ایسی بات ہو بعض پرجوش نوجوان کہہ دیتے ہیں کہ جب گورنمنٹ کا ہم سے یہ سلوک ہے تو ہمیں کیا ضرورت ہے کہ ہم فوج میں بھرتی ہوں یا گورنمنٹ کی مالی مدد کریں اور وہ یہ نہیں سمجھتے کہ جو لوگ ہماری جماعت میں سے بھرتی ہو رہے ہیں.وہ نہ ہیڈ کانسٹیبلوں کی خاطر جان دے رہے ہیں اور نہ پنجاب کے وزراء وغیرہ کی خاطر جان دے رہے ہیں بلکہ وہ جو جان دے رہے ہیں اپنے بادشاہ کے لئے بلکہ اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ وہ جماعت احمدیہ کی تعلیم کے ماتحت جان دے رہے ہیں.پس اس قسم کی کوششوں میں کوئی کمی نہیں آنی چاہئے.مومن جو کام بھی کرتا ہے عقل کے مطابق کرتا ہے.یہ نہیں کہ لڑائی ایک طرف تو وہ حملہ دوسری طرف کر دے.فرض کرو ہمیں اپنی تحقیق کے بعد یہ ثابت ہو ہے کہ اس فتنہ میں بعض بالا حکام کا دخل تھا یا سی آئی.ڈی کے کسی افسر کا خل تھا تو پھر بھی ہماری ان کوششوں میں کوئی فرق نہیں آنا چاہئے بلکہ ہر دفعہ ہماری کوششوں کی رفتار پہلے سے زیادہ تیز ہونی چاہئے.میں نے ذاتی طور پر جتنا چندہ گورنمنٹ کی امداد کے لئے پچھلے سال دیا تھا اس سے زیادہ چندہ اس سال دیا ہے اور جتنا چندہ پچھلے سال انجمن سے دلوایا تھا اس سے زیادہ اس سال دلوایا ہے اور اگر خدا تعالیٰ نے توفیق دی اور افلاس نے مجھے مجبور نہ کر دیا تو میرا یہی ارادہ ہے کہ ہر سال پہلے سال سے زیادہ چندہ دیتا چلا جاؤں.اسی طرح جتنے رنگروٹ ہماری جماعت سے ایک مہینہ میں بھرتی ہوں.اس سے زیادہ رنگروٹ دوسرے مہینہ میں بھرتی ہونے چاہئیں.اور اس سے زیادہ رنگروٹ تیسرے مہینہ میں بھرتی ہونے چاہئیں کیونکہ پنجاب کی حکومت یا اس کے افسران میں سے کسی افسر کا کوئی قصور ایمپائر یا دنیا کے حقوق کے مقابلہ میں کوئی حیثیت نہیں رکھتا اور وہ ہماری ہو جاتا.

Page 463

خطبات محمود 463 * 1941 ان کوششوں میں جو ہم جنگ میں فتح حاصل کرنے کے لئے کر رہے ہیں روک نہیں بن سکتا بلکہ اسلام اور احمدیت کے حقوق پر بھی اگر کوئی عارضی اثر پڑے تب بھی ہماری ان کوششوں میں کوئی کمی نہیں آ سکتی کیونکہ جیسا کہ نظر آ رہا ہے اس جنگ کا ایک دائمی اثر اسلام اور احمدیت کی تائید میں یا خلاف پڑنے والا ہے لیکن اگر ایسا وقت آیا کہ اسلام اور احمدیت کے حقوق کا نقصان اس فائدہ سے زیادہ ہوا جو جنگ کے نتیجہ کے طور پر دنیا کو حاصل ہو سکتا ہے تو تم جانتے ہو کہ میں خدا تعالیٰ کے فضل سے بزدل نہیں اس وقت میں تمہیں خود کہوں گا کہ تم اپنے رویہ کو بدل لو.لیکن اب تک میں اسی یقین پر قائم ہوں کہ ہمیں اس جنگ میں حکومت مدد کرنی چاہئے اور نہ صرف اس یقین پر قائم ہوں بلکہ اتنے زور سے قائم ہوں کہ میں سمجھتا ہوں اگر ان کوششوں میں ذرہ بھی کوتاہی ہوئی تو میں بھی اور جماعت بھی خدا تعالیٰ کے حضور مجرم ٹھہریں گے.اس لئے ان کاموں کو کرتے چلے جاؤ اور اس وقت کا انتظار کرو جب معلوم ہو جائے کہ حکومت اس بارہ میں کیا رویہ اختیار کرتی ہے.اس کے بعد پھر جو مناسب قدم ہو گا وہ اٹھایا جائے گا.لیکن بہر حال ہم ایسا قدم ہی اٹھائیں گے جس سے ہماری جنگی کوششوں پر کوئی اثر نہ پڑے اور ایسی تدابیر اختیار کریں گے جن سے ان کوششوں پر اثر پڑے بغیر ہماری ناراضگی گورنمنٹ پر ظاہر ہو جائے.مثلاً الیکشنوں کا ہی سوال ہے.گو اب جنگ کی وجہ سے اسمبلیوں کی اسمبلیوں کی مدت بڑھا دی گئی مدت بڑھا دی گئی ہے اور اس کی وجہ یہ بتائی گئی ہے کہ انتخابات کی وجہ سے فسادات ہوتے ہیں لیکن بہر حال اگر آج نہیں تو آج ނ سال کے بعد پھر انتخاب ہوں گے ممکن ہے اس عرصہ میں میں مر جاؤں جماعت خدا تعالیٰ کے فضل سے اس وقت زندہ ہو گی اور اس وقت وہ کوشش کر کے ان ظالموں کو سزا دلا سکے گی جن کی نسبت ثابت ہو کہ وہ خلاف انصاف حرکات کے مرتکب ہوئے ہیں اور ان کے مقابلہ میں کھڑے ہونے والوں کی مدد کر سکتی ہے اور یاد رکھو کہ اس بارہ میں جماعت احمدیہ کو بڑی طاقت حاصل ہے.اگر

Page 464

* 1941 464 خطبات محمود سب جماعت ایسے موقع پر ان لوگوں کا ساتھ دے جن سے انصاف کی امید ہو تو یقینا وہ حیرت انگیز نتیجہ پیدا کر سکتی ہے.اسی طرح اور بھی کئی قسم کے ذرائع ہیں جن سے کام لے کر جنگ کے دوران بھی اور جنگ کے بعد بھی ہم ان لوگوں کو سزا دے سکتے ہیں جو انصاف کے قیام میں روک ہوں.پس تم ان باتوں کو مجھ پر چھوڑ دو بلکہ مجھ پر بھی نہیں خدا پر چھوڑ دو کیونکہ وہی ہمیں ہدایت دیتا ہے.اور وہی ایسی تدابیر بتاتا ہے جن سے بغیر اس کے کہ ہم قانون شکنی کریں اپنی شکایات کا ازالہ کرا سکتے ہیں اس دن بعض اور واقعات بھی ہوئے ہیں.مثلاً ایک سپاہی نے زنانہ میں گھنے کی کوشش کی.اگر اسی جگہ کسی اور کے ساتھ اس قسم کا واقعہ ہوتا اور اس کے ساتھ اس قسم کی عقیدت رکھنے والے لوگ نہ بھی ہوتے جس قسم کی عقیدت رکھنے والے لوگ ہماری جماعت میں شامل ہیں بلکہ اگر کسی معمولی جاٹ کے ساتھ ہی یہ واقعہ ہوتا تو سپاہیوں کے سر پھوڑ دیئے جاتے مگر پولیس والے سات گھنٹہ تک اس دن میرے مکان پر رائفلیں لے کر کھڑے رہے.جس کے معنے ہیں کہ انہوں نے مجھے باغی سمجھا اور خیال کیا کہ خلیل کی گرفتاری پر ہم پڑیں گے حالانکہ ہم اصول کے ایسے پابند ہیں کہ خلیل احمد کی گرفتاری تو کیا میری گرفتاری کے لئے اگر وہ آئیں تو اس وقت بھی ہماری جماعت میں سے کوئی شخص ان سے نہیں لڑے گا.ہم تو جانتے ہیں ہمیں خدا نے تلوار دی ہی نہیں.پس ہمارا کسی سے لڑنا حماقت ہے اگر خدا نے ہمیں تلوار دی ہوتی تو تلوار سے لڑنا ہمارے لئے جائز بھی ہوتا مگر ہمیں تو خدا نے نہ تلوار دی ہے اور نہ رائفل.پس ہم ان ہتھیاروں سے کس طرح لڑ سکتے ہیں اور اگر ہم میں سے کوئی لڑے تو یقینا وہ احمق ہو گا کیونکہ اس نے دنیا کو بھی اپنا دشمن بنا لیا اور خدا کو بھی.ہمارے پاس جو ہتھیار ہے وہ ہماری دعائیں ہیں جو ہماری زبان سے نکلتی اور خدا تعالیٰ کے عرش تک پہنچ جاتی ہیں.فرض کرو وہ سپاہی اس وقت رائفل چلا بھی دیتے اور گولی میرے دل پر آ لگتی تو گو میں اس گولی کو نہیں روک سکتا تھا مگر اس گولی کے لگتے وقت جو دعا میری زبان سے

Page 465

* 1941 465 خطبات محمود اسلام اسے دنیا کے تمام بادشاہ مل کر بھی پورا ہونے سے نہیں روک سکتے تھے.چنانچہ دیکھ لو محمد کے بادشاہ تھے اور آپ وفات پا گئے مگر کیا آپ کی وفات کے بعد اسلام کے ساتھ خدا تعالیٰ کی تائید جاتی رہی؟ اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام اللہ تعالیٰ کے رسول تھے مگر کیا آپ کی وفات کے بعد احمدیت کے ساتھ خدا تعالیٰ کی تائید نہیں رہی؟ اسی طرح بے شک ہم فوت ہو جائیں مگر وہ دعائیں جو ہمارے دل سے نکلتی ہیں، وہ آہیں جو ہمارے سینہ سے بلند ہوتی ہیں اور وہ خیالات جو ہمارے دماغ میں اٹھتے ہیں وہ اتنی بڑی تلواریں، اتنی بڑی رائفلیں اور اتنی بڑی تو ہیں ہیں کہ دنیا کی کوئی تلواریں، دنیا کی کوئی رائفلیں اور دنیا کی کوئی تو ہیں ان کا مقابلہ نہیں کر سکتیں.انہیں سوچنا چاہئے تھا کہ کیا ہم نے ان تلواروں اور بندوقوں مقابلہ کرنا تھا کہ وہ رائفلوں سے مسلح ہو کر سات گھنٹہ تک ہمارے مکان پر کھڑے رہے.گویا ہم مجرم اور ڈاکو تھے جن کے لئے وہ اکٹھے ہوئے تھے اور گویا احمد کے لئے ہم سب نے ان سے لڑائی شروع کر دینی تھی.خلیل احمد تو ایک میرے سارے بچوں کو بھی وہ پکڑ کر لے جائیں تو ہم میں سے کوئی شخص ان پر ہاتھ نہیں اٹھائے گا کیونکہ ہمیں خدا نے ہاتھ اٹھانے کا حکم نہیں دیا.اسی طرح اگر یہ واقعات جاری رہے تو ممکن ہے کل کو وہ مجھے بھی پکڑ لیں مگر اس صورت میں بھی وہ ہم میں سے کسی کو اپنے مقابلہ میں اٹھتے ہوئے نہیں دیکھیں گے کیونکہ اس معاملہ میں خدا نے ہمارے ہاتھ باندھ رکھے ہیں اور جس معاملہ میں خدا مومن کے ہاتھ کو باندھ لے اس میں وہ ہیجڑا بن جاتا ہے.ہمیں خدا نے کہا ہے کہ تم اپنے ہاتھ بند رکھو ہمیں خدا نے یہ کہا ہے کہ تم حکومت کی اطاعت کرو.1 پس اس معاملہ میں ہم ہمیشہ اپنے خدا کے حکم کے ماتحت چلیں گے اور کسی قسم کی قانون شکنی کا ارتکاب نہیں کریں گے.خلیل ہے اگر اپنے بھلا وہ لوگ جنہوں نے افغانستان میں پتھروں کی بوچھاڑ کے آگے سینے تان دیئے تھے اور اُف نہ کی وہ کانگریس کے ان لوگوں کی طرح ہو سکتے ہیں

Page 466

* 1941 466 خطبات محمود جن پر قانون کی جب ضرب پڑی تو انہوں نے قانون کو ہی چھوڑ دیا.ہم خدا تعالیٰ کے فضل سے ان کانگرسیوں کی طرح نہیں ہیں اور ہم قانون کے احترام کو کسی صورت میں ترک نہیں کر سکتے.ہم ہمیشہ اطاعت اور فرمانبرداری کے مقام پر کھڑے رہیں گے اور اگر وہ ہم پر رائفلیں بھی چلائیں گے تو ہم ان کا مقابلہ نہیں کریں گے.کیونکہ ہماری رائفل ہمارا خدا ہے، ہماری تلوار ہمارا خدا ہے اور ہماری توپ ہمارا خدا ہے.اس رائفل، اس تلوار اور اس توپ کے مقابلہ میں اگر دنیا کی تمام رائفلیں، دنیا کی تمام تلواریں اور دنیا کی تمام تو پیں بھی رکھ دی جائیں تو وہ تباہ اور برباد ہو جائیں گی.ہیر خطبہ کو صاف کرتے ہوئے مجھے ضروری معلوم ہوا کہ میں یہ بھی ظاہر کر دوں کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے رنج کے وقت ان کی خوشی کا بھی سامان کر دیتا انچہ جب میں سارا دن کی کوفت کے بعد زنانہ میں آیا تو میری بیوی نے مجھ سے ذکر کیا کہ امة القیوم سلمہا اللہ تعالیٰ میری لڑکی نے سنایا کہ اس بارہ میں ابا جان کی ایک رؤیا اس واقعہ کے بارہ میں تھی جو انہوں نے مجھے سنائی تھی اور بعض دفعہ بہن سے راد بھائی ہوتا ہے.تب مجھے وہ رؤیا یاد آ گئی جو ایک دو سال پہلے کی ہے.میں نے خواب میں دیکھا کہ میں مدرسہ احمدیہ کے ایک کمرہ میں ہوں اور وہاں عزیزه امة القيوم سلمہا اللہ تعالیٰ اور میری چھوٹی بیوی مریم صدیقہ بیگم سلمها اللہ تعالیٰ بھی میرے ساتھ ہیں.دروازہ بند ہے مگر دروازہ میں بڑی بڑی دراڑیں ہیں.میری نظر جو پڑی تو میں نے دیکھا کہ ان دراڑوں میں سے پولیس کے کچھ سپاہی جھانک رہے ہیں.میں نے ان دونوں کو چھپا دیا اور باہر نکل کر ان پولیس والوں سے کہا کہ تم کیوں جھانک رہے تھے ؟ اس پر وہ کمرہ کے اندر آ گھسے.اس وقت میں دل میں کہتا ہوں کہ اندر میری بیوی اور لڑکی ہیں.ان کی بے پردگی ہو گی مگر پھر کہتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ سب باتوں پر قادر ہے.وہ خود ان کی حفاظت کرے گا چنانچہ جب وہ کمرہ میں گھس آئے اور ادھر ادھر تلاش کرنے لگے تو میں نے دیکھا

Page 467

* 1941 467 خطبات محمود اور کہ دونوں بقیہ حاشیہ : وہاں سے غائب ہو گئی ہیں اور میں کہتا ہوں کہ رے رب کا احسان کہ اس نے اس ذلت سے ہمیں بچا لیا اور خود ان کو غائب کر دیا.ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جیسے اللہ تعالیٰ نے بغیر اس کے کہ کوئی دروازہ اس کمرہ میں ہو.ان کو غائب کر دیا.عجیب بات ہے کہ جس کمرہ میں میں نے اپنے آپ کو دیکھا وہ شمال کی طرف تھا اور صحن جس میں سے پولیس آئی وہ جنوب کی طرف تھا.اسی طرح یہ کوٹھی جس میں ہم تھے اس کا صحن جنوب کی طرف تھا اور اسی طرف سے پولیس داخل ہوئی.میں وہاں سے گھر آیا اور حیرت سے امة القیوم سے کہتا ہوں کہ میں تو بڑا ڈرا تھا مگر اللہ تعالیٰ تم کو وہاں سے نکال لایا اور بے پردگی سے ہم بچ گئے چونکہ امۃ القیوم بیگم سلمہا اور خلیل احمد ایک ہی والدہ سے ہیں اور بہن بھائی ہیں.اس لئے خدا تعالیٰ نے کسی مصلحت سے خلیل کی جگہ امة القیوم سلمہا اللہ تعالیٰ کو دکھا دیا جیسا کہ عالم رؤیا میں کثرت سے ہوتا ہے.پھر یہ بھی عجیب بات ہے کہ اس وقت امة القیوم بیگم اور مریم صدیقہ دونوں کو ٹھی میں موجود تھیں حالانکہ مریم صدیقہ واپس آ رہی تھیں اور پھر کسی وجہ سے وہاں ٹھہر - گئیں اور امۃ القیوم سلمہا اللہ تعالیٰ کی شادی ہو چکی ہے اور وہ سرگودھا میں تھیں.مگر خاوند کی چند دن کی رخصت کی وجہ سے میرے پاس مہمان ہو کر آئی ہوئی تھیں.فَالْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي أَخْبَرَنِي بِهَذِهِ الْبَلِيَّةِ قَبْلَ وُقُوعِهَا وَسَلَّائِي قَبْلَ نُزُولِ الْآلَمِ هُوَ مَوْلَایَ وَ عَلَيْهِ تِكْلَانِى إِلَيْهِ أَفَوِّضُ أَمْرِئُ وَأَرْجُوْا مِنْهُ كُلَّ (الفضل 14 ستمبر 1941ء) 1 اَطِيْعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُوْلَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنْكُمْ (النساء: 60) الْخَيْر”

Page 468

* 1941 468 28 خطبات محمود رمضان کے بابرکت مہینہ کے فیوض سے فائدہ حاصل کریں ہے تشهد (فرموده 19 ستمبر 1941ء) تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:.“ چونکہ عنقریب رمضان شریف کا مہینہ شروع ہونے والا ہے اس لئے سب میں دوستوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ وہ جہاں تک ہو سکے اس بابرکت مہینہ کے فیوض سے فائدہ حاصل کرنے کی کوشش کریں.میرے نزدیک قرآن کریم کی آیت که شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِي أُنْزِلَ فِيْهِ الْقُرْآنُ 1 اس مہینہ کی برکات اور اس کے فیوض کو ایسا واضح کرتی ہے کہ انسان کے دل میں اس کی اہمیت خود بخود پیدا ہو جس مہینہ کا اللہ تعالیٰ نے اس بات کے لئے انتخاب فرمایا ہو کہ ابتدائے قرآن اس میں نازل ہو اور جس میں جبریل اس وقت تک کے نازل شدہ قرآن کو ہمیشہ دہراتے رہتے ہوں.2 اس مہینہ کے بارہ میں مومنوں کے دلوں میں جتنا جوش پیدا ہو اور جتنی قرآن کریم کی تلاوت اس مہینہ میں کی جائے کم ہے خدا تعالیٰ کا یہ فعل اور جبریل کا نزول اور رسول کریم صلی اللی علم کا اس کے ساتھ تلاوت فرمانا بتلاتا ہے کہ رمضان کا تعلق صرف روزوں سے ہی نہیں بلکہ قرآن کریم کی تلاوت، اس پر غور و خوض اور اُس کے معانی پر تدبر کرنا بھی روزوں کے ساتھ تعلق رکھنے والے ضروری امور ہے.یہی وجہ ہے کہ قادیان میں رمضان کے موقع پر درس القرآن کا انتظام کیا جاتا ہے.جب میری طبیعت اچھی ہوا کرتی تھی تو میں درس دیا کرتا تھا مگر اب جبکہ میری صحت اس بات کی اجازت نہیں دیتی.بعض اور علماء سے درس دلایا جاتا ہے اور قادیان کے مخلصین اس میں شامل ہوتے ہیں اور جو لوگ شامل نہیں ہوتے میں

Page 469

* 1941 469 خطبات محمود وہ کم سے کم درس قرآن کی جو قضاء عمری ہوتی ہے اس میں شامل ہو جاتے ہیں.مسلمانوں میں عام رواج ہے کہ وہ سارا سال نمازیں نہیں پڑھتے یا کم سے کم باقاعدگی اور التزام کے ساتھ نہیں پڑھتے مگر رمضان کے آخری جمعہ میں شامل ہو جاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ قضاء عمری ہو گئی.اس دن وہ کچھ زائد نفل پڑھ لیتے ہیں اور سمجھ لیتے ہیں کہ ان نمازوں کے بدلہ میں جو اُن سے چھوٹ گئی تھیں وہ نفل کافی ہو گئے ہیں.اسی طرح جو غافل اور سست لوگ سارا مہینہ درس میں شامل نہیں ہوتے وہ قرآن کریم کی آخری ایک دو سورتوں کے اس درس میں جو مجھ سے دلوایا جاتا ہے اور آخری دعا میں شامل ہو جاتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ درس کی قضائے عمری و گئی.گو نہ نمازوں کی قضائے عمری ہوتی ہے اور نہ درس کی.بہر حال ایک ایسا شخص جسے اس بات کی اہلیت نہیں کہ وہ ذاتی طور پر قرآن کریم کے مطالب کو سمجھ سکے اسے اگر سارے سال میں چند دن ایسے میسر آجائیں جن میں اسے تمام قرآن کریم کا ترجمہ اور تفسیر سننے کا موقع مل جائے اور پھر بھی وہ اس میں حصہ نہ لے تو اس زیادہ بدبخت اور کون ہو ر کون ہو سکتا ہے.یوں انسان محبت کے بڑے بڑے دعوے کیا کرتا ہے لیکن سوال صرف دعووں کا نہیں بلکہ عمل کا ہوتا ہے.اگر کوئی شخص قرآن کریم سے محبت کا دعویٰ کرتا ہے تو اسے اپنے عمل سے اس محبت کا ثبوت بھی دینا چاہئے.مگر عام طور پر دیکھا جاتا ہے کہ محبت کے صرف زبانی دعووں پر اکتفا کی جاتی ہے اور عملی رنگ میں کوئی ثبوت پیش نہیں کیا جاتا.حضرت خلیفہ اول کی مثال مجھے ہمیشہ یاد رہتی ہے.آپ فرمایا کرتے تھے کہ جب لوگوں سے پوچھا جاتا ہے کہ تم نے قرآن پڑھا ہے تو وہ جواب دیتے ہیں کہ ہم ان پڑھ ہیں ہمیں قرآن پڑھنا نہیں آتا.آپ فرمایا کرتے تھے کہ یہ دلیل میری سمجھ میں کبھی نہیں آتی کہ ان پڑھ ہونے کی وجہ سے ایک شخص قرآن کریم کے سمجھنے سے کس طرح بری الذمہ ہو سکتا ہے.آپ فرماتے تھے دنیا میں ہم دیکھتے ہیں کہ جب کسی کے پاس اپنے کسی عزیز کا خط آتا ہے سے.

Page 470

* 1941 470 خطبات محمود تو جو شخص پڑھا ہوا ہوتا ہے وہ تو ایک دفعہ خط کو پڑھ کر رکھ دیتا ہے مگر ان پڑھ جب تک پانچ سات دفعہ وہ خط لوگوں سے پڑھا نہ لے اسے تسلی نہیں ہوتی.آپ فرمایا کرتے تھے کہ اگر بیٹی یا بھائی یا بیوی یا خاوند یا باپ یا ماں کی خیریت کا خط آنے پر پڑھوں اور ان پڑھوں میں یہ فرق نظر آتا ہے کہ پڑھا ہوا شخص تو خط کو ایک دفعہ پڑھ کر مطمئن ہو جاتا ہے.ان پڑھ جب تک چار پانچ متفرق لوگوں سے خط نہ پڑھا لے اسے تسلی نہیں ہوتی کیونکہ وہ خیال کرتا ہے کہ شاید ایک شخص سے کوئی بات رہ گئی ہو.اس لئے جب وہ ایک سے خط کا مضمون سن لیتا ہے تو دوسرے کے پاس جاتا ہے اور دوسرے کے بعد تیسرے اور پھر چوتھے اور پانچویں کے پاس.تو اسی طرح اگر لوگوں کو خدا تعالیٰ سے بھی سچی محبت ہوتی تو قرآن کریم کے مطالب کو سمجھنے کے لئے ان پڑھ پڑھے ہوئے لوگوں سے زیادہ بیقرار ہوتے اور وہ کئی کئی بار لوگوں سے اس کو سن چکے ہوتے.ہے.یہ ایک نہایت ہی معرفت کا نکتہ ہے جس میں انسانی فطرت کا گہرا مطالعہ نظر آتا اور اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ہمارا اپنا تجربہ بھی یہی ہے.چنانچہ ہم ہیں کہ ان پڑھ اپنی جیب میں ایسے خط رکھ لیتے ہیں اور جہاں انہیں اپنا کوئی ایسا دوست نظر آتا ہے جو پڑھا لکھا ہو یا کسی اور شخص کو دیکھتے ہیں جو گو ان کا دوست نہ ہو مگر نرم طبیعت کا ہو اور وہ سمجھتے ہوں کہ یہ خط پڑھنے سے انکار نہیں کرے گا تو اس کے سامنے وہ خط پیش کر کے کہتے ہیں کہ ذرا اسے پڑھ کر سنا دیں.پھر اس پر بھی ان کی تسلی نہیں ہوتی اور وہ اوروں سے پڑھواتے ہیں.یہاں تک کہ آٹھ دس متفرق آدمیوں سے خطوط سن سن کر ان کا مضمون انہیں حفظ ہو جاتا ہے.تو ان پڑھ ہونا اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ ایسا شخص قرآن پڑھنے یا سننے.ہے.بلکہ آن پڑھوں کو زیادہ فکر سے قرآن کریم کو بار بار سننا چاہئے کیونکہ ممکن ہے وہ ایک سے قرآن کریم سنیں اور وہ بعض آیات کا انہیں غلط مطلب بتا دے.جس طرح ان پڑھ پہلے ایک شخص سے خط پڑھواتا ہے تو اس سے اس کی تسلی نہیں ہوتی آزاد.: ނ

Page 471

خطبات محمود جاتا 471.* 1941 بلکہ وہ خیال کرتا ہے کہ مبادا اس سے کوئی بات رہ گئی ہو.اس لئے وہ دوسرے کے پاس جاتا ہے اور جب دوسرا بھی اسے وہی مضمون سناتا ہے جو پہلے نے سنایا تو اس کسی قدر تسلی ہوتی ہے مگر پورا اطمینان اسے پھر بھی میسر نہیں آتا.اور وہ تیسرے کے پاس جاتا ہے.پھر چوتھے اور پھر پانچویں کے پاس جاتا ہے اور اس طرح پانچ سات متفرق آدمیوں سے مختلف موقعوں پر وہ خط پڑھواتا ہے اور چونکہ ان میں سے کسی کو بھی پتہ نہیں ہوتا کہ پہلے یہ کسی اور سے خط کا مضمون سن چکا ہے اس لئے جب سب اسے خط کا ایک ہی مضمون بتاتے ہیں تو اسے اطمینان ہو ہے اور وہ خیال کرتا ہے کہ اب اس نے خط کو اچھی طرح سمجھ لیا ہے اسی طرح اگر کسی شخص کو عربی نہیں آتی تو محض اس عذر کی بناء پر وہ قرآن کریم کے ڑھنے اور اس کے مطلب کو سمجھنے سے آزاد نہیں ہو سکتا.اس کا فرض ہے کہ وہ کسی پڑھے لکھے انسان سے قرآن سنے اور جب ایک دفعہ سن چکے تو مطمئن نہ ہو بلکہ خیال کرے کہ شاید اس نے کوئی بات غلط بتائی ہو.اس لئے وہ دوسرے کے پاس جائے تو اس سے قرآن سنے.پھر تیسرے کے پاس جائے اور اس سے قرآن سنے.پھر چوتھے کے پاس جائے اور اس سے قرآن سنے.یہاں تک کہ بار بار قرآن کو سننے کے بعد اسے یہ یقین حاصل ہو جائے کہ اس نے خدا کے کلام کو سمجھ لیا ہے مگر اس کے علاوہ قرآن کریم میں ایک اور بات بھی ہے اور وہ یہ کہ کارڈ کا مضمون تو صرف اس وقت کے لئے ہوتا ہے اور بعد میں اس کا کوئی اثر نہیں ہوتا.مگر قرآن کریم خدا تعالیٰ کا وہ کارڈ ہے جو ایک دفعہ ہی آیا ہے اور اب دوبارہ نہیں آئے گا.ایسے کارڈ کو سننا اور اس کے مضامین کو یاد رکھنا تو بہت ہی ضروری ہے.پڑھے پڑھے لکھے لوگوں کے لئے جو قرآن کریم کے مطالب سمجھنے کی بھی توفیق رکھتے ہیں.ان کے لئے تو یہ آسانی ہوتی ہے کہ وہ گھر میں بیٹھ کر قرآن کریم کو پڑھ سکتے ہیں جیسے میں درس میں شامل نہیں ہوتا.اور اس کی وجہ یہ ہے کہ میں گھر پر قرآن کریم کو پڑھ لیتا ہوں.اور مجھے خدا تعالیٰ نے یہ توفیق دی ہے کہ میں اس کو سمجھ سکوں.

Page 472

* 1941 خطبات محمود 472 پس مجھے ضرورت نہیں کہ میں ایسے درسوں میں شامل ہوں.لیکن وہ شخص جو پڑھا ہوا نہیں اور وہ گھر میں بیٹھ کر قرآن کریم پر غور کر کے اس کے مطالب کو سمجھنے کی اہلیت نہیں رکھتا.اس کے لئے تو بہت ہی ضروری ہے کہ وہ درس میں شامل ہو.گو ہمیں ان تمام پڑھے لکھے لوگ بھی اس قابل نہیں ہوتے کہ وہ قرآن کریم کو سمجھ بعض لوگ اچھے تعلیم یافتہ ہوتے ہیں اور علوم ظاہری انہیں خوب آتے ہیں مگر کے اندر ایسا ملکہ نہیں ہوتا کہ وہ قرآن کریم پر غور کر سکیں.ایسے لوگوں کے لئے بھی باوجود عالم اور پڑھے لکھے ہونے کے ضروری ہے کہ درس میں شامل ہوں.پھر بعض دفعہ ایک شخص عالم قرآن تو ہوتا ہے مگر دوسرا شخص جو قرآن سنا رہا ہوتا ہے.وہ اس سے بھی زیادہ قرآن کریم کو جاننے والا ہوتا ہے.ایسی حالت میں.خص عالم قرآن کے لئے بھی درس میں شامل ہونا ضروری ہو گا.اور اگر دوسرا قرآن کریم کو زیادہ جاننے والا نہ ہو اور سننے والا زیادہ عالم ہو تو اس حالت میں بھی درس میں شامل ہونا فائدہ سے خالی نہیں ہوتا کیونکہ اسے خالی نہیں ہوتا کیونکہ اسے بھی باوجود زیادہ علم رکھنے کے دوسرے کے درس میں بعض دفعہ ایسی باتیں معلوم ہو جاتی ہیں جو اس کے ذہن میں نہیں ہو تیں.ہمارے ایک استاد تھے میں نے ان کو دیکھا ہے کہ جب میں درس دیتا تو وہ با قاعدہ میرے درس میں شامل ہوتے لیکن اس کے مقابلہ میں میرے ایک اور استاد تھے جب کبھی وہ درس دے رہے ہوتے تو پہلے صاحب مسجد میں آ کر انہیں درس دیتے ہوئے دیکھتے تو چلے جاتے.اور کہتے کہ اس کی باتیں کیا سُننی ہیں یہ تو سنی ہوئی ہیں مگر میرے درس میں باوجود اس کے کہ میں ان کا شاگرد تھا بوجہ اس کے کہ مجھ پر حُسنِ ظنی رکھتے تھے ضرور شامل ہوتے اور فرمایا کرتے تھے کہ میں اس کے درس میں اس لئے شامل ہوتا ہوں کہ اس کے ذریعہ قرآن کریم کے بعض نئے مطالب مجھے معلوم ہوتے ہیں.یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہوتا ہے کہ بعض لوگوں چھوٹی عمر میں ہی ایسے علوم کھول دیئے جاتے ہیں جو دوسروں کے وہم اور گمان میں بھی پر

Page 473

* 1941 473 خطبات محمود نہیں ہوتے.اسی مسجد میں 1907ء میں سب سے پہلی دفعہ میں نے پبلک تقریر کی.جلسہ کا موقع تھا بہت سے لوگ جمع تھے.حضرت خلیفہ اول بھی موجود تھے.میں نے سورہ لقمان کا دوسرا رکوع پڑھا اور پھر اس کی تفسیر بیان کی.میری اپنی حالت اس وقت یہ تھی کہ جب میں کھڑا ہوا تو چونکہ اس سے میں کھڑا ہوا تو چونکہ اس سے پہلے میں نے پبلک میں کبھی لیکچر نہیں دیا تھا اور میری عمر بھی اس وقت صرف ۱۸ سال کی تھی.پھر اس وقت حضرت خلیفہ اول بھی موجود تھے انجمن کے ممبران بھی تھے اور بہت سے اور دوست بھی آئے ہوئے تھے اس لئے میری آنکھوں کے آگے اندھیرا چھا گیا.اس وقت مجھے کچھ معلوم نہیں تھا کہ میرے سامنے کون بیٹھا ہے اور کون نہیں.تقریر آدھ گھنٹہ یا پون گھنٹہ جاری رہی.جب میں تقریر ختم کر کے بیٹھا تو مجھے یاد ہے حضرت خلیفہ اول نے کھڑے ہو کر فرمایا.میاں! میں تم کو مبارک باد دیتا ہوں کہ تم نے ایسی اعلیٰ تقریر کی.میں تمہیں خوش کرنے کے لئے یہ نہیں کہہ رہا میں تمہیں یقین دلاتا ہوں کہ میں بہت پڑھنے والا ہوں اور میں نے بڑی بڑی وہ تفسیریں پڑھی ہیں مگر میں نے بھی آج تمہاری تقریر میں قرآن کریم کے مطالب سنے ہیں جو پہلی تفسیروں میں ہی نہیں بلکہ مجھے بھی پہلے معلوم نہیں تھے.اللہ تعالیٰ کا محض فضل تھا ورنہ حقیقت یہ ہے کہ اس وقت تک نہ میرا اب یہ مطالعہ وسیع تھا اور نہ قرآن کریم پر لمبے غور کا کوئی زمانہ گزرا تھا.پھر بھی اللہ تعالیٰ پر نے میری زبان پر اس وقت ایسے معارف جاری کر دیئے جو پہلے بیان نہیں ہوئے تھے.تو دوسروں سے سن کر انسان کے علم میں بہت کچھ زیادتی ہوتی ہے.صحابہ کرام ہمیشہ آپس میں ملا کرتے اور حدیثوں میں آتا ہے کہ جب وہ اکٹھے ہوتے تو ایک دوسرے سے کہتے کہ آؤ ہم تھوڑی دیر کے لئے رسول کریم صلی الم کے زمانہ کی باتیں کریں تاکہ ہمارا ایمان تازہ ہو جائے.3- چنانچہ جب بیٹھتے تو ایک کہتا میں نے رسول کریم صلی العلیم سے یہ بات سنی ہے اس پر دوسرے کو بھی کوئی بات یاد آ جاتی اور وہ کہتا.ہاں میں بھی اُس وقت موجود تھا اور رسول کریم صلی الم نے اس کے

Page 474

* 1941 474 خطبات محمود ساتھ ہی یہ بھی فرمایا تھا.پھر کوئی اور بات سناتا.اور دوسرے صحابہ اسے سن کر اپنے ایمان کو تازہ کرتے.تو مومنوں کا ایک دوسروں سے ملنا اور دینی باتوں میں لینا ایمان کی تازگی کے لئے ضروری ہوتا ہے.حضرت خلیفہ اول فرمایا کرتے تھے کہ میرے ایک استاد تھے انہوں نے آپ کو درسی کتب نہیں پڑھائی تھیں بلکہ روحانی طور پر بزرگ سمجھ کر حضرت خلیفہ اول ان سے ملا کرتے تھے.اور ان کے روحانی علوم.مستفیض ہوتے تھے) ان سے ایک دفعہ ملاقات میں کچھ وقفہ ہو گیا اور تعلیم میں مشغول رہنے کی وجہ سے میں جلدی ان سے مل نہ سکا.چند دنوں مشغول کے بعد ان سے جا کر ملا تو وہ کہنے لگے.نور الدین.تم ہمیں اتنے دن ملے نہیں.حضرت خلیفہ اول فرماتے کہ میں نے کہا.حضور سبق کچھ زیادہ تھے ان میں رہنے کی وجہ سے دیر ہو گئی ہے.وہ کہنے لگے کیا تم نے کبھی قصاب کی دکان دیکھی ہے؟ میں نے کہا کیوں نہیں.بہت دفعہ دیکھی ہے.انہوں نے کہا کبھی تم نے دیکھا ہے.که قصاب گوشت کاٹتے کاٹتے تھوڑی دیر کے بعد چھریاں آپس میں رگڑ لیتا آپ فرمانے لگے ہاں میں نے دیکھا ہے قصاب ایسا ہی کیا کرتا ہے.انہوں نے کہا تمہیں کچھ پتہ ہے.قصاب ایسا کیوں کرتا ہے.قصاب دو چھریوں کو آپس میں اس لئے رگڑتا ہے کہ گوشت کاٹتے کاٹتے چُھری کی دھار پر چربی لگ جاتی ہے جس سے وہ کند ہو جاتی ہے اس پر قصاب اس چھری کو دوسری چھری سے رگڑ لیتا ہے اور وہ پھر تیز ہو جاتی ہے.یہ مثال دے کر وہ کہنے لگے دیکھو نور الدین ہم کو تمہاری ملاقات کا بھی اسی لئے شوق ہے.ہم سارا دن کئی قسم کے کام کرتے رہتے ہیں.ان کاموں میں مشغول رہنے کی وجہ سے چُھریوں کی طرح ہماری دھار بھی کند ہو جاتی ہے.تم آتے ہو تو ہماری اور تمہاری چُھریاں آپس میں رگڑی جاتی ہیں اور تمہاری چُھری بھی تیز ہو جاتی ہے اور ہماری چھری بھی تیز ہو جاتی ہے.پس میں جماعت کے دوستوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ وہ جہاں رمضان کے روزے رکھیں وہاں گھروں میں بھی کثرت سے قرآن کریم کی تلاوت کریں اور

Page 475

* 1941 475 خطبات محمود درس میں بھی مرد اور عورتیں زیادہ سے زیادہ تعداد میں شامل ہوں.اَن پڑھ اس سے مستثنیٰ نہیں بلکہ ان پر پڑھے ہوئے لوگوں کی نسبت زیادہ ذمہ داری ہے کیونکہ اس کے علاوہ انہیں سارا سال قرآن کریم کو سننے کا اور کوئی موقع نہیں ملتا پھر میں کارکنوں کو بھی نصیحت کرتا ہوں کہ وہ عورتوں کے لئے درس سننے کا خاص طور پر انتظام کریں کیونکہ قرآن پڑھی ہوئی عورتیں کم ہیں.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ہماری جماعت میں خدا تعالیٰ کے فضل سے ایسی عورتیں موجود ہیں جو قرآن کریم پڑھی ہوئی ہیں مگر پھر بھی مردوں کے مقابلہ میں کم ہیں اور اس بات کی ضرورت ہے کہ ان کے لئے خاص طور پر انتظام کیا جائے.پھر میں بیرونی جماعتوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ وہ بھی اپنی اپنی جگہ درس کا ہے انتظام کریں.اب تو درس دینے میں اس لحاظ سے بہت کچھ سہولت پیدا ہو چکی.کہ قرآن کریم کے ایک حصہ کی تفسیر ہماری طرف سے شائع ہو گئی ہے.پس اگر جماعتیں سارے قرآن کے درس کا انتظام نہ کر سکتی ہوں تو انہیں اس مہینہ میں تفسیر کبیر کے درس کا انتظام کرنا چاہئے.جنہوں نے یہ تفسیر ابھی تک نہیں پڑھی اس ذریعہ سے وہ اس تفسیر کو سن سکیں گے اور جنہوں نے ایک دفعہ اس کو پڑھا ہوا ہے انہیں اس ذریعہ سے اس کے مضامین دوبارہ تازہ ہو جائیں گے.کیونکہ خالی ایک دفعہ پڑھ لینے سے کوئی چیز یاد نہیں رہتی بلکہ بار بار پڑھنے سے یاد رہتی ہے.مدرسوں میں ہی دیکھ لو.کس طرح بار بار سبق یاد کرائے جاتے ہیں اسی طرح کسی کتاب سے صحیح رنگ میں اسی وقت فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے جب اس کے مضامین یاد ہوں.ایک کتاب کو پڑھ کر رکھ دینا اور پھر اس سے کبھی بطور ریفرنس کام لے لینا کتاب کا صحیح استعمال نہیں کہلاتا.کتاب کا صحیح استعمال یہی ہوتا ہے کہ اسے بار بار پڑھا جائے اور اس کے مطالب کو یاد رکھا جائے اور یہ صرف دوسروں کی لکھی ہوئی کتابوں کے متعلق ہی ضروری نہیں ہوتا بلکہ اپنی تصنیف بھی اسی نقطہ نگاہ کے ماتحت انسان کو پڑھنی پڑتی ہے.چنانچہ میں نے خود اس رنگ میں کئی دفعہ اس تفسیر کے بعض حصوں کو ހނ

Page 476

خطبات محمود 476 * 1941 پر پڑھا ہے تاکہ بعض وہ مطالب جو تفسیر لکھتے وقت خدا تعالیٰ کی طرف سے مجھ کھولے گئے تھے.وہ میرے ذہن سے اتر نہ جائیں.پس جہاں پورے درس کا انتظام نہ ہو سکے وہاں تفسیر کبیر کا درس دے کر اسے اس مہینہ میں ختم کر دینا چاہئے.اسی طرح ان دنوں میں دوستوں کو تہجد کے لئے جگانا اور تراویح کی طرف توجہ دلانا بھی ضروری ہے مگر تراویح سے مراد وہی تراویح ہیں جو رسول کریم صلی یکم سے مسنون ہیں اور جو در حقیقت تہجد کی نماز ہی ہے.یہ جو عشاء کے وقت تراویح ھی جاتی ہیں.یہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ست لوگوں کے لئے جاری کی نے دیکھا کہ بہت سے لوگ نیند کے انتظار میں بیٹھ کر گپیں مارتے رہتے ہیں اور اس طرح اپنے وقت کو لغو اور فضول باتوں میں ضائع کرتے ہیں چنانچہ آپ نے مناسب سمجھا کہ ان کو گپوں کی بجائے نماز میں مشغول کر دیا جائے.پس یہ تراویح سست لوگوں کے لئے جاری کی گئی تھیں.مگر آجکل ہر شخص یہ سمجھتا ہے کہ ت ہونا ہی بڑے ثواب کی بات ہے اس کا نتیجہ یہ ہے کہ تہجد پڑھنے کی عادت لوگوں کو کم ہو گئی ہے اور شروع وقت کی تراویح زیادہ پڑھی جاتی ہیں حالانکہ درست نہیں.وہ تراویح جو رمضان میں عشاء کے بعد پڑھی جاتی ہیں مسنون نہیں ہیں بلکہ وہ قائم مقام مقرر کی گئی ہیں مسنون تراویح کی.اصل چیز تہجد کی نماز ہے جس کی خدا تعالیٰ نے قرآن کریم میں تعریف کی ہے 4 اور جس پر رسول کریم صلی یم کا بھی عمل تھا.آپ ہمیشہ تہجد پڑھا کرتے تھے اور بعض ایام میں آپ نے تہجد کی نماز باجماعت بھی ادا کی ہے.5 اسی طریق پر ان لوگوں کے لئے جو یوں تہجد سے زیادہ فائدہ نہیں اٹھا سکتے.بعض نے یہ طریق رائج کر دیا کہ تہجد کے وقت ایک امام لوگوں کو نماز پڑھا دے اور اس طرح وہ قرآن کریم سن لیا کریں مگر جو سست لوگ تھے اور اس وقت وہ شامل نہیں ہوا کرتے تھے ان کے لئے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے یہ انتظام کر دیا کہ عشاء کے وقت وہ ایک امام کی متابعت میں تراویح پڑھ لیا کریں.مگر بہر حال یہ انتظام سب کے لئے نہیں بلکہ سستوں کے لئے ہے اور یا پھر

Page 477

* 1941 477 خطبات محمود ان معذوروں کے لئے ہے جو پچھلی رات اٹھ نہیں سکتے مثلاً کوئی بیمار ہے یا بوڑھا ہے اور وہ سمجھتا ہے کہ تہجد کے وقت اس کے لئے اٹھنا مشکل ہے وہ تراویح میں شامل ہو سکتا ہے مگر ان معذروں اور بیماروں کے علاوہ جو تراویح میں شامل ہوتا ہے وہ خدا تعالیٰ کے رجسٹر میں اپنی شستی کا انگوٹھا لگا کر آتا ہے.ہاں جو بیمار یا معذور ہیں.انہیں تراویح میں شامل ہونے سے نہیں ڈرنا چاہئے یا مثلاً بچے ہیں ان کے متعلق یہ امید نہیں کی جا سکتی کہ وہ تہجد کے لئے اٹھیں گے.سحری سے پندرہ ہیں منٹ پہلے کھانا کھانے کے لئے تو وہ اٹھ سکتے ہیں مگر تہجد کے لئے اٹھنا ان پر گراں گزرتا ہے.ایسوں کے سوا باقی سب کو تہجد کی نماز میں شامل ہونا چاہئے یا تو وہ اپنے گھر پر تہجد ادا کریں اور یا پھر اس نماز میں شامل ہوں.جو تہجد کے وقت باجماعت ادا کی جائے اور خصوصیت سے اپنے لئے اور تمام جماعت کے لئے دعائیں کریں.ہماری جماعت ایسے فتنوں میں گھری ہوئی ہے کہ اسے دعاؤں کی بہت ہی ضرورت ہے اور یوں تو مومن ہر وقت ہی دعا کرتا ہے خواہ کوئی فتنہ ہو یا نہ ہو.لوگوں میں مثل مشہور ہے چور چوری سے جائے گا ہیرا پھیری سے نہیں جائے گا یعنی چوری کی عادت بے شک اس سے چھوٹ جائے گی مگر اِدھر اُدھر تاکتا جھانکتا ضرور رہے گا کیونکہ اس کی اسے عادت پڑ چکی ہوتی ہے.محبت بھی ایک قسم کی عادت ہی ہے اور جب کوئی شخص اللہ تعالیٰ سے محبت کرتا ہے تو خواہ وہ کیسی ہی کیفیات میں سے گزرے ہیرا پھیری سے وہ نہیں جاتا.چنانچہ دیکھ لو رسول کریم صلی ال کلم نے فرمایا ہے اگر تم کسی دن تہجد نہ پڑھ سکو تو اشراق ہی پڑھ لو.یہ وہی ہیرا پھیری والی بات ہے یعنی محبت کے اظہار کا ایک دوسرا ذریعہ نکال لیا گیا ہے.اگر کسی وقت کسی وجہ سے مومن محبت کا پورا اظہار نہیں کر سکتا تو وہ اس کے لئے اظہار کا کوئی اور موقع کسی اور صورت سے ها الله سة نکال لیتا ہے.اسی طرح مومن کو دعاؤں کی عادت پڑ جاتی ہے.تو اس کے دل میں تڑپ رہتی ہے کہ کسی نہ کسی بہانے سے خدا تعالیٰ سے بات کرے اور اس کے لئے وہ دعاؤں کے بہانے تلاش کرتا رہتا ہے.بعض دفعہ تو اسے کوئی حقیقی احتیاج ہوتی ہے اور

Page 478

* 1941 478 خطبات محمود وہ اللہ تعالیٰ کے سامنے کھڑا ہو کر دعا کرنے لگتا ہے کہ یا اللہ میری فلاں ضرورت کو پورا کر دے.اب اس کا یا اللہ کہنا اپنے محبوب سے باتیں کرنا ہی ہے اور یہ ایسی ہی بات ہے جیسے چور چوری کرنے جاتا ہے مگر کبھی ایک مومن کو حقیقی ضرورت کوئی نہیں ہوتی تو اس وقت وہ اپنے لئے احتیاج تلاش کرتا ہے اور معمولی معمولی باتوں کے لئے دعاؤں میں مشغول ہو جاتا ہے اور اپنے رب سے باتیں کرنے کا بہانہ نکال لیتا ہے.یہ عاشق کی ہیرا پھیری ہوتی ہے اور وہ چاہتا ہے کہ کوئی غرض ہو یا نہ ہو، ضرورت ہو یا نہ ہو کسی طرح اپنے محبوب سے باتیں کر لوں.یہی محبت کا اصل مقام ہوتا ہے اور اسی محبت کے نتیجہ میں انسان کو اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل ہوتی ہے.رسول کریم صلی الم کے زمانہ کا ایک نہایت ہی دردناک واقعہ ہے جس سے چلتا ہے کہ سچی محبت رکھنے والا انسان کس طرح بہانے تلاش کر کر کے جذبات محبت کی تسکین کا سامان مہیا کرتا ہے.الله سة رسول کریم صلى ا ل ل ل ورم کو اپنی عمر کے آخری ایام میں بار بار الہام ہونے شروع ہوئے کہ اب آپ کا زمانہ وفات نزدیک ہے.آپ نے مسجد میں تمام صحابہ کو جمع کیا اور ان کے سامنے ایک تقریر کی.آپ نے فرمایا اے لوگو! خدا تعالیٰ کا ایک نیک بندہ تھا اسے خدا تعالیٰ کی طرف سے یہ اختیار دیا گیا کہ اگر وہ چاہے تو دنیا میں رہنا پسند کرے اور اگر چاہے تو خدا تعالیٰ کے پاس جانا پسند کر لے.اس نے دنیا میں رہنا پسند کیا بلکہ یہی چاہا کہ وہ اپنے خدا کے پاس چلا جائے.لوگوں نے جب یہ بات سنی تو انہوں نے خیال کیا کہ رسول کریم صلی ا لی ہم اپنے وعظ میں کسی خدا کے بندے کی ایک مثال بیان فرما رہے ہیں مگر حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے جب اس بات کو سنا تو وہ رو پڑے.حضرت عمر رضی اللہ عنہ پاس ہی بیٹھے ہوئے تھے وہ کہتے ہیں میں نے حضرت ابو بکر کو جب روتے ہوئے دیکھا تو میں نے کہا اس بڑھے کی مت ماری گئی ہے.رسول کریم صلی اللہ کیا تو ایک مثال بیان فرما رہے ہیں اور فرماتے ہیں کہ ایک بندہ تھا جس سے خدا نے یہ پوچھا کہ تو دنیا میں رہنا پسند کرتا ہے یا ہمارے پاس آنا

Page 479

* 1941 479 خطبات محمود پسند کرتا ہے اور اس نے خدا کے پاس جانا پسند کر لیا.یہ ایک مثال ہے جو آپ نے مومن کی بیان فرمائی ہے.ابو بکر کو کیا ہوا ہے کہ وہ خوامخواہ رونے لگ گئے ہیں مگر حضرت ابو بکر کے آنسو بند نہ ہوئے.وہ اتنا روئے اتنا روئے کہ اور لوگوں نے انہیں تسلی دینی شروع کر دی مگر وہ برابر روتے چلے گئے.آخر رسول کریم صلی الی یوم نے فرمایا.اے لوگو سنو ہر ایک شخص کا ایک بڑا گہرا اور انتہاء درجہ کا دوست ہوتا ہے اور ابو بکر میرا ویسا ہی دوست ہے.پھر آپ نے فرمایا خدا میرا خلیل ہے.اگر خدا کے سوا کسی اور کو خلیل بنانا جائز ہوتا تو میں ابو بکر کو بناتا.میں حکم دیتا ہوں مسجد کی ساری کھڑکیاں بند کر دی جائیں سوائے ابو بکر کی کھڑکی کے.7 یہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کی خلافت کی ایک پیشگوئی تھی.کیونکہ خلیفہ کو نماز پڑھانے کے لئے مسجد میں آنا پڑتا ہے.بعد میں رسول کریم صلی ا ہم نے اور کئی باتیں بیان کیں یہاں تک کہ صحابہ پر بھی یہ بات منکشف ہو گئی کہ رسول سی ایلم کی اب جلد وفات ہونے والی ہے اسی دوران میں چند دنوں کے بعد آپ بیمار ہو گئے.ایک دن آپ باہر تشریف لائے مجلس میں بیٹھے اور صحابہ سے فرمایا کہ اب میری موت قریب ہے، میں نہیں چاہتا کہ اللہ تعالیٰ کے سامنے میں مجرم کی حیثیت میں پیش ہوں.مجھے ہمیشہ تم سے معاملات پیش آتے رہے ہیں.ممکن ہے کہ کسی معاملہ میں مجھ سے غلطی ہو گئی ہو اور میرے ہاتھ سے تم میں سے کسی کو اذیت پہنچی ہو.اگر تم میں کوئی شخص ایسا ہے جو سمجھتا ہے کہ میں نے اس کا حق مارا ہے تو وہ آج مجھ سے اس کا بدلہ لے لے.صحابہ کو رسول کریم سے جو عشق تھا.اسے دیکھتے ہوئے تمہاری سمجھ میں آ سکتا ہے کہ یہ فقرہ سن کر ان کی کیا حالت ہوئی ہو گی.جس طرح ذبح کیا ہوا مرغ تڑپتا ہے اسی طرح وہ بے تاب ہو کر رونے لگ گئے.مگر ایک شخص کھڑا ہوا اور کہنے لگا يَا رَسُولَ اللہ ! مجھے آپ سے ایک تکلیف پہنچ چکی ہے اور چونکہ آپ نے اس وقت فرمایا ہے کہ اگر کسی کو مجھ سے کوئی تکلیف پہنچی ہو تو وہ اس کا بدلہ لے لے اس لئے میں اپنی تکلیف کا بدلہ لینا چاہتا ہوں.آپ نے

Page 480

* 1941 480 خطبات محمود پر فرمایا تمہیں مجھ سے کیا تکلیف پہنچی ہے.اس نے کہا یا رسول اللہ فلاں جنگ کے آپ صف بندی کرا رہے تھے کہ آپ کو ایک صف میں سے گزر کر آگے جانے کی ضرورت پیش آئی.اُس وقت جب آپ صف کو چیر کر آگے گئے تو آپ کی کہنی مجھے لگی تھی.رسول کریم صلی ا مریم نے فرمایا بہت اچھا تم بھی مجھے اس جگہ کہنی مار لو.اس نے کہا یا رسول اللہ جس وقت مجھے آپ کی کہنی لگی تھی.اس وقت میرا جسم ننگا تھا اور آپ نے اس وقت کرتہ پہنا ہوا ہے.اس وقت صحابہ کی یہ کیفیت تھی کہ ان کی آنکھوں میں سے خون ٹپکنے لگا اور اگر انہیں رسول کریم صلی اللہ کا خوف نہ ہوتا تو ہر شخص اس کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیتا.مگر رسول کریم صلی الیم نے اس بات کی کوئی پرواہ نہیں کی.اپنی پیٹھ سے کرتہ اونچا کر دیا اور فرمایا لو اب کہنی مار لو.وہ شخص آگے بڑھا اس کی آنکھوں میں آنسو تھے اس کے ہونٹ کانپ رہے تھے اور اس کا دل دھڑک رہا تھا.پھر وہ نیچے جھکا اور اس نے محبت سے رسول کریم صلی الیم کی پیٹھ پر ایک بوسہ دیا اور کہنے لگا يَا رَسُول اللہ ! اس کہنی لگنے کے واقعہ کو تو میں نے محض ایک بہانہ بنایا ہے ورنہ بدلہ کیسا.میں نے سوچا کہ اب جبکہ آپ کی وفات کا وقت قریب ہے.میں آخری دفعہ آپ کا بوسہ تو لے لوں.پھر وہی صحابہ جو اسے غصہ کی نگاہ سے دیکھ سے دیکھ رہے تھے رشک کی نظروں تھے رشک کی نظروں سے دیکھنے لگ گئے اور انہوں نے چاہا کہ کاش! ہمیں بھی کہنی لگی ہوتی اور ہم بھی رسول کریم صلی ال نیم کے بابرکت جسم کا بوسہ لے سکتے.8 دیکھو یہ ایک بہانہ تھا جو اس نے بنایا اور اسی کو عاشق کی ہیرا پھیری کہتے ہیں.یہ تو نہیں کہ اس کے دل میں رسول کریم صلی الم سے بدلہ لینے کا خیال تھا یا رسول کریم صلی ا ل ل ا م نے اسے نَعُوذُ باللهِ عمداً مارا تھا.بدلہ تو اس فعل کا لیا جاتا ہے جو عمداً دوسرے کو نقصان پہنچانے کے لئے سرزد ہو.پس نہ رسول کریم صلی یم نے الله سة اس کو کوئی نقصان پہنچایا تھا اور نہ اس صحابی کا مقصد یہ تھا کہ وہ رسول کریم صلی الی یکم سے بدلہ لے.یہ محض اس نے ایک بہانہ بنایا کہ جب رسول کریم صلی علیکم کہتے ہیں بدلہ

Page 481

* 1941 481 خطبات محمود لے لو.تو کیوں نہ میں بھی اسی ذریعہ سے اپنی محبت کے جذبات کا اظہار کر دوں.تو جس جگہ محبت ہوتی ہے وہاں بیسیوں تجاویز ذہن میں آ جاتی ہیں اور انسان اپنے محبوب کے پاس جانے اور اس سے باتیں کرنے کے لئے کئی قسم کے مواقع پیدا کر لیتا ہے.پس مومن دعاؤں میں کبھی کوتاہی نہیں کرتا بلکہ اس محبت کی وجہ سے جو اسے خدا تعالیٰ سے ہوتی ہے وہ خدا تعالیٰ کے پاس جانے اور اس سے باتیں کرنے کے لئے ہر وقت بہانے تلاش کرتا رہتا ہے.مومن خود بیمار ہو یا اس کا کوئی اور عزیز بیمار ہو تو وہ دعا کرتا ہے.مالی مشکلات ہوں تو دعا کرتا ہے اسی طرح کوئی اور تکلیف پیش آئے تو وہ دعا کرتا ہے لیکن اس کا اصل مقصد یہ ہوتا ہے کہ کسی نہ کسی طرح خدا تعالیٰ سے باتیں ہوتی رہیں.بچوں کو ہی دیکھ لو.ماں تھوڑی دیر ان کی طرف توجہ نہ کرے تو وہ منہ بسورنے لگ جاتے ہیں اور کہتے ہیں ہمیں بھوک لگ گئی ہے.ہمیں یہ چاہئے ہمیں وہ چاہئے اور مطلب یہ ہوتا ہے کہ ماں اپنی گود میں اٹھا لے.پس جسے سچا عشق ہوتا ہے وہ ایسا ہی کرتا ہے اور وہ اپنے محبوب کی ملاقات کے لئے بہانے تلاش کرتا ہے.محبت بھی ایک بیماری ہے جو علاج چاہتی ہے اور وہ بھی ایک زخم ہے جو مرہم چاہتا ہے.اسی لئے انسان کبھی بیمار بن کر خدا کے پاس جاتا ہے اور کہتا ہے یا اللہ فضل کر اور کبھی اگر جسمانی طور پر وہ بیمار نہ ہو تو اپنی روحانی تکالیف اس کے سامنے پیش کرتا ہے اور اس طرح ہر وقت اللہ تعالیٰ کے آستانہ پر گرا رہتا ہے.غرض مومن بجائے اس کے کہ دعاؤں کی طرف سے منہ پھیرے، بہانے بنا بنا کر اللہ تعالیٰ سے دعائیں کرتا اور ہمیشہ اس کے دروازہ کو کھٹکھٹاتا رہتا ہے.پس دوستوں کو ان ایام سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانا چاہئے.ڈلہوزی کے واقعہ کے متعلق حکومت کا جواب: اس کے بعد میں اُس واقعہ کے متعلق کچھ کہنا چاہتا ہوں جسے پچھلے خطبہ جمعہ میں میں نے بیان کیا تھا.دوستوں کی طرف سے اس بارہ میں کثرت کے ساتھ خطوط اور تاریں آئی ہیں اور

Page 482

* 1941 482 خطبات محمود بعض نے اپنی خدمات بھی پیش کی ہیں.میں دوستوں کو بتا چکا ہوں کہ اس معاملہ میں اول او ر مقدم بات میں یہ سمجھتا ہوں کہ ہماری طرف سے کوئی ایسی بات نہ ہو جو وجہ جنگ کی مساعی میں حرج پیدا کرنے والی ہو.پھر میں اس بات کی بھی کوئی نہیں دیکھتا کہ کسی رنگ میں جلد بازی سے کام لیا جائے.جیسا کہ میں اخبار میں شائع کرا چکا ہوں.گورنمنٹ کی طرف سے جواب یہ آیا ہے کہ اس معاملہ کی ڈپٹی کمشنر صاحب تحقیقات کر رہے ہیں.گو میں یہ نہیں سمجھ سکا کہ بغیر اس کے کہ ہم سے گواہ طلب کئے جائیں اور بغیر اس کے کہ ہمارے دلائل معلوم کئے جائیں ان کی تحقیقات کے معنے ہی کیا ہیں.اگر تو تحقیقات کے صرف اتنے معنے ہیں کہ انہوں نے پولیس والوں سے پوچھ لینا ہے کہ کیا معاملہ ہوا تو یہ تحقیقات نہیں کہلا سکتی کیونکہ پولیس کی طرف سے اس بارہ میں جھوٹی رپورٹ پہلے ہی موجود ہے.تحقیقات کا طریق یہ تھا کہ وہ ہم سے گواہ طلب کرتے، ہمارے دلائل معلوم کرتے اور پھر فیصلہ کرتے کہ شرارت کس کی ہے.ہمارے پاس خدا تعالیٰ کے فضل سے گواہ موجود ہیں بلکہ خود گورنمنٹ کے بعض افسر اس بارہ میں گواہ ہیں.مگر ڈپٹی کمشنر صاحب کو ان کا کیا پتہ لگ سکتا ہے جب تک ہم نہ بتائیں.پس میں نہیں سمجھ سکا کہ وہ کیا تحقیق رہے ہیں اگر ان کی تحقیق اسی رنگ کی ہوئی تو پھر ان کی تحقیقات کا ہونا نہ ہونا برابر ہے.مگر پھر بھی کوئی وجہ نہیں کہ ہم جلدی کریں.میں سمجھتا ہوں جو شخص جلدی جوش میں آ جاتا ہے وہ مستقل مزاج اور قابل اعتبار نہیں ہوتا.کام کے قابل وہی شخص ہوتا ہے جسے ایک دفعہ جب علم ہو جائے کہ فلاں بات کرنی ضروری ہے تو اگر بیس سال کے بعد بھی اسے وہ بات کرنے کے لئے کہا جائے تو اس کے دل میں ویسا ہی جوش موجود ہو جیسا میں سال پہلے موجود تھا.چنانچہ دیکھ لو.صحابہ نے کس طرح مکی زندگی میں مسلسل تیرہ سال تکالیف برداشت کیں.مگر اس تیرہ سال کے لمبے عرصہ میں ان کے سینے ٹھنڈے نہیں ہو گئے اور نہ ان کے دلوں کے جوش سرد ہوئے.چنانچہ

Page 483

* 1941 483 خطبات محمود ہوا ہے ہے مدینہ میں جانے کے بعد جب ان کو لڑائی کی اجازت ملی تو اس وقت بھی وہ ویسے ہی جوش سے بھرے ہوئے تھے.جیسے مکی زندگی میں.تو ایمان کی علامت یہ ہوتی کہ مومن کے سینہ کی آگ ٹھنڈی نہیں ہوتی.پس میں اس معاملہ میں جماعت کے دوستوں کو یہی نصیحت کرتا ہوں کہ وہ صبر کریں اور استقلال کے دامن کو کبھی اپنے ہاتھ سے نہ چھوڑیں.میں نے اپنے دل میں یہ فیصلہ کیا ہوا ہے کہ سات اکتوبر تک ہم گورنمنٹ کی تحقیق کا انتظار کریں گے اور اس وقت تک ہم کوئی مزید یاد دہانی کسی قسم کی نہیں کرائیں گے.سات اکتوبر تک اس واقعہ پر قریباً 25 دن گزر چکے ہوں گے.اس کے بعد اگر ضرورت محسوس ہوئی تو یاد دہانی کرائی جائے گی.باقی خبریں ہم کو ملتی ہی رہتی ہیں.اس لحاظ سے جس حد تک کام گورنمنٹ کی طرف اور جو کچھ وہ کرنے کا ارادہ رکھتی ہے اس کا ایک حد تک ہمیں علم ہے.مگر یہ چیزیں اس قسم کی نہیں ہوتیں کہ ان کو بنیاد قرار دے کر مومن کسی امر کا فیصلہ کر دے.خدا کہتا ہے کہ ایک شخص اگر گناہ کرنے اور خدا اور اس کے رسول کی مخالفت کرنے کے باوجود غرغرہ موت سے پہلے توبہ کر لے تو میں اس کے گناہ معاف کر دیتا ہوں.9 تو جبکہ خدا کسی بندے کے متعلق اس وقت تک کوئی آخری فیصلہ نہیں کرتا جب تک اس کی جسمانی زندگی ختم نہ ہو جائے تو بندے کس طرح ایسا کر سکتے اور کسی کا فعل مکمل ہونے سے پہلے اسے اچھا یا بُرا کہنے کا فیصلہ کر سکتے ہیں.بلکہ اچھا کہنے میں تو پھر بھی کوئی حرج نہیں لیکن کسی فعل کو بُرا اس وقت تک نہیں کہا جا سکتا جب تک اس فعل کا مرتکب اپنے فعل کو مکمل نہ کر دے.مثلاً فرض کرو کوئی شخص کسی دوسرے کو قتل کرنے کی نیت سے جا رہا ہے.اب جہاں تک نیت کا سوال ہے.ہم کہیں گے کہ وہ بری ہے مگر جہاں تک فعل کا سوال ہے ہم اس بارہ میں اس وقت تک کچھ نہیں کہہ سکتے جب تک وہ اپنے فعل کو مکمل نہیں کر لیتا یا اس فعل سے باز نہیں آ جاتا.فرض کرو وہ شخص جاتا تو قتل کی نیت سے.

Page 484

خطبات محمود 484 * 1941 ہی ہے مگر دوسرا شخص اسے ملتا نہیں اور وہ واپس گھر آ جاتا ہے تو ہم اسے قاتل نہیں کہیں گے یا اگر وہ تلوار لے کر دوسرے کے سر پر بھی پہنچ جاتا ہے اور پھر قتل کرنے سے پیشتر اپنے ہاتھ کو نیچے گرا دیتا ہے تو اس وقت بھی اسے ہم قاتل نہیں کہیں گے بلکہ اگر وہ تلوار سے دوسرے پر حملہ کر بھی دیتا ہے لیکن حملہ کرتے وقت اس کے دل میں خدا تعالیٰ کا خوف پیدا ہو جاتا ہے اور وہ اپنی ضرب کو کمزور کر دیتا ہے تو اس وقت بھی ہم اسے قاتل نہیں کہیں گے کیونکہ ہمارا کوئی حق نہیں کہ کسی کا فعل مکمل ہونے سے پہلے اس کے متعلق کسی آخری فیصلہ کا اظہار کریں.ایسا وہی کرتا ہے جو جلد باز ہو اور جو سمجھتا ہو کہ اس وقت تو جوش کی حالت ہے پھر نہ معلوم جوش رہے یا نہ رہے.بہتر ہے کہ اسی وقت کام کر لیا جائے.مگر ایسے انسان کی مدد یا ہمدردی کوئی فائدہ پہنچانے والی نہیں ہوتی.خط ایک خط اور اس کا جواب: پس اس معاملہ کے متعلق تو میں اتنی ہی بات کہتا ہوں.ہاں ایک اور معاملہ ہے جو اس کی شاخ کے طور پر پیدا ہوا ہے اور میں اس کے متعلق کچھ کہنا چاہتا ہوں.وہ معاملہ یہ ہے کہ مجھے کل ایک خط موصول ہوا ہے وہ خط ایک ایسے شخص کی طرف سے ہے جو اپنے آپ کو احمدی ظاہر کرتا ہے.اس ٹکٹ نہیں بلکہ مقامی ڈاک کے ذریعہ سے ملا ہے جس سے میں سمجھتا ہوں کہ کوئی مقامی آدمی اس خط کا لکھنے والا ہے.اس خط میں اس نے بجائے اپنا نام لکھنے کے اپنے آپ کو مخلص احمدی ” قرار دیا ہے.اس کے احمدی اور پھر مخلص احمدی ہونے کا تو اسی سے پتہ چلتا ہے کہ اس نے اپنا نام ہی نہیں لکھا حالانکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں.میں اسی کو مومن قرار دیتا ہوں جو خدا تعالیٰ کے تازہ نشانات پر ایمان رکھتا ہو اور نفاق کا کوئی شائبہ تک اس کے اندر نہ پایا جاتا ہو 10 مگر اس “ مخلص احمدی ” کی یہ حالت ہے کہ ڈر کے مارے اس نے اپنا نام تک ظاہر نہیں کیا.ایسے شخص کو ہم احمدی بھی کیونکر سمجھ سکتے ہیں کجا یہ کہ اسے مخلص احمدی ”سمجھا جائے.پھر یہ تمام خط عجیب و غریب اضداد سے بھرا ہوا ہے.مجھے لکھتا ہے تم

Page 485

* 1941 485 خطبات محمود اپنے آپ کو بڑا بہادر کہتے ہو تم بہادر نہیں بلکہ بزدل ہو.مگر لطیفہ یہ ہے کہ میں جس نے منبر پر کھڑے ہو کر گورنمنٹ کی غلطی بیان کر دی تھی.وہ تو اس کی نگاہ میں بزدل ہو انگر خود اس اعتراض کرنے والے کی یہ حالت ہے کہ ڈر کے مارے اس نے اپنا نام تک نہیں لکھا.کہتے ہیں بر عکس نهند نام زنگی کافور مخلص یہی اس شخص کی حالت ہے اگر وہ اپنے متعلق لکھ دیتا کہ میں چونکہ منافق ہوں اس لئے اپنا نام ظاہر نہیں کرتا.اور پھر میرے متعلق یہ لکھتا ہے کہ تم بزدل ہو تب بھی یہ بات آپس میں کسی قدر بجڑ جاتی.گو میرے متعلق بزدلی کا الزام پھر بھی غلط ہوتا کیونکہ میں نے گورنمنٹ کی غلطی کو چھپایا نہیں بلکہ علی الاعلان بیان کیا ہے مگر لطیفہ لطیفہ یہ ہے یہ ہے کہ اپنے آپ کو تو وہ بہادر کہتا پھر احمدی اور ہے احمدی بننے کا دعویدار ہے اور حالت یہ ہے کہ ایسا بہادر اور مخلص احمدی خط کے نیچے اپنا نام تک لکھنے کی جرات نہیں کر سکتا.مگر میں جس نے منبر پر ر پر کھڑے ہو کر تمام باتیں بیان کر دی تھیں اس کے نزدیک بزدل ہوں.گویا وہ شخص جو يُوسُوِسُ في صُدُورِ النَّاسِ 11 کے مطابق مخفی طور پر وسوسہ اندازی کرے اور گمنام خط لکھے وہ تو مومن اور ”مخلص احمدی“ ہے مگر جو منبر پر کھڑے ہو کر اپنے خیالات کا اظہار کر دے وہ بزدل ہے.غرض پہلا لطیفہ تو اس نے یہی کیا مگر اسی ایک لطیفہ پر ہی بس نہیں.اس کا تمام خط اضداد سے بھرا ہوا ہے.پھر بڑے غصہ سے گویا وہ گورنر صاحب کا بڑا جانثار ہے.مجھے لکھتا ہے تم گورنر کے متعلق کیا کہتے ہو.کیا گورنر تم سے زیادہ شریف نہیں.مگر ساتھ ہی اس نے اسی خط مجھے لکھا ہے“ بخدمت پر اشرف ” یعنی میں اس خط کے ذریعہ سب سے شریف آدمی کو مخاطب کرتا ہوں.گویا تو مجھے سب سے زیادہ شریف قرار دے دیا اور خط میں یہ لکھا کہ کیا گورنر صاحب تم سے زیادہ شریف نہیں ہیں.پھر اس نے اپنے خط میں ناظر امور عامہ کو کوسا ہے اور لکھا ہے کہ سب سے بڑا ظالم جس سے زیادہ ظلم دنیا میں خط کے اوپر کبھی

Page 486

خطبات محمود 486 * 1941 کسی پولیس نے نہیں کیا.زین العابدین ہے جو اپنے آپ کو ولی اللہ بھی کہتا ہے.پھر لکھتا ہے پولیس والوں کو کوئی سزاملے یا نہ ملے تم نے خطبہ میں یہ بات بیان کر کے ، کو ہمیشہ کے لئے ذلیل کر لیا ہے.اگر تمہارے اندر عقل ہوتی تو تم اس بات کو چھپاتے مگر تم نے اس بات کو چھپایا نہیں بلکہ خطبہ میں بیان کر دیا ہے اور اس طرح ہمیشہ کے لئے اپنے آپ کو ذلیل کر لیا ہے.میں ان باتوں میں سے جو بات اس نے ولی اللہ شاہ صاحب کے متعلق لکھی ہے اسے چھوڑتا ہوں کیونکہ اس کا جواب وہی دے سکتے ہیں.اس نے کوئی واقعات نہیں لکھے جن سے ان کا ظلم ثابت ہوتا.پس میرے لئے بھی ضروری نہیں کہ میں اس کا جواب دوں.البتہ اس نے ایک بات لکھی ہے کہ دفتر والے خطوں کا جواب نہیں دیتے.ممکن ہے غلطی سے کسی خط کا انہوں نے جواب نہ دیا ہو مگر اس قسم کی جب بھی میرے پاس کوئی شکایت آتی ہے.میں دفتر والوں سے باز پرس کیا کرتا ہوں اور کوشش کرتا ہوں کہ خط کا جواب جلد دیا جائے اور جب میں دیکھتا ہوں کہ دفتر کی غلطی کی وجہ سے کسی کی بہت دل شکنی ہوئی ہے.تو میں اپنے ہاتھ سے اسے خط لکھ کر بھیج دیتا ہوں اور ساتھ ہی معذرت کرتا ہوں کہ دفتر کی وجہ سے آپ کو تکلیف ہوئی ہے.ممکن ہے ولی اللہ شاہ صاحب کے متعلق بھی اسے کوئی ایسی ہی شکایت ہو مگر بہر حال اس نے چونکہ کوئی واقعہ نہیں لکھا جس سے ان کا ظلم ثابت ہوتا اس لئے اس بارہ میں میں کچھ نہیں کہہ سکتا.اگر ان کے متعلق کوئی الزام قائم کیا جائے تو پھر میں اس کی تحقیق کرا سکتا ہوں اور جاننے والے جانتے ہیں کہ نظارتوں کو میں ہمیشہ ڈانٹتا رہتا ہوں لیکن پھر بھی اگر معین رنگ میں ان پر کوئی الزام قائم کیا جائے تو جیسا الزام ہو گا اس کے متعلق ویسی ہی تحقیق کرنے کے لئے تیار ہوں.مگر چونکہ اس نے کوئی واقعہ نہیں لکھا اس لئے اس بارہ میں میں کچھ نہیں کہتا.اگر وہ کوئی واقعات لکھے تو ان کے متعلق ولی اللہ شاہ صاحب ہی جواب دے سکتے ہیں.میں صرف دو باتیں لے لیتا ہوں اور انہی کا اس خطبہ کے ذریعہ

Page 487

* 1941 487 خطبات محمود جواب دیتا ہوں.اس نے لکھا ہے کہ اول: تم نے خطبہ میں یہ باتیں بیان کر کے اپنے آپ کو ذلیل کر لیا.دوم کیا گورنر تم - ورنر تم سے زیادہ شریف نہیں.پہلی بات جو ہے کہ خطبہ میں اس واقعہ کو بیان کر کے میں نے اپنے آپ کو ذلیل کر لیا.یہ در حقیقت اس نے اپنے اوپر قیاس کر لیا ہے.دنیا میں دو قسم کے گروہ ہوتے ہیں.ایک گروہ تو وہ ہوتا ہے جس کی انسان بے عزتی کر سکتے ہیں.مگر دوسری قسم کا گروہ وہ ہوتا ہے جس کی انسان بے عزتی نہیں کر سکتے بلکہ اپنے خیال میں لوگ اس کی جتنی زیادہ بے عزتی کرتے ہیں اُتنی ہی زیادہ اس کی عزت بڑھتی ہے.اس مخلص احمدی ” کو (ہمیں ایک شخص کے متعلق شبہ ہے کہ اس نے یہ ، خط لکھا ہے اور جمعہ سے پہلے میں نے ایک شخص کو وہ خط دیا تھا اور کہا تھا کہ وہ اس بارہ میں تحقیق کر کے خطبہ سے پہلے مجھے اطلاع دے.مگر وہ خط لے کر ہی غائب ہو گیا.اب وہ بے چارا اپنی تحقیق مکمل کر کے اس وقت آئے گا جب خطبہ ختم ہو جائے گا.حالانکہ میں نے اسے کہہ دیا تھا کہ اگر پتہ نہ لگے تب بھی جمعہ سے پہلے مجھے خط واپس کر دیا جائے.مگر خیر اس خط کو چونکہ میں نے دو دفعہ پڑھا ہے اس لئے اس کا مضمون مجھے اچھی طرح یاد ہے ) میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ ہر ایک نقطہ نگاہ سے عزت کا معیار الگ ہوتا ہے جس گروہ میں وہ شامل ہوتا ہے اس گروہ میں اگر اس کی عزت ہو تو دوسرے کے نزدیک یہ ذلت ہوتی ہے اور اگر وہاں اس کی بے عزتی ہو تو دوسرے کے نزدیک یہ عزت ہوتی ہے.مثلاً یہی جنگ جو اس وقت جاری ہے.اس میں جو انگریز جرنیل فاتح ہوتا ہے اس کی عزت انگریزوں کے دلوں میں بہت بڑھ جاتی ہے مگر جرمن اور اٹلی والوں کے نزدیک وہ بڑا مغضوب خطبہ کے بعد تحقیق ہو گئی ہے کہ جس شخص کے متعلق مجھے شبہ تھا وہی خط لکھنے والا تھا اور.اب اس نے اقرار بھی کر لیا ہے مگر اس بارہ میں میں الگ اعلان کروں گا.

Page 488

خطبات محمود ہے 488 * 1941 اور اس کو وہ گالیاں دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ فلاں جرنیل بڑا خبیث ہے اس نے یہ ظلم کئے ہیں.اس کے مقابلہ میں جرمنوں میں سے جو جرنیل بہادری دکھلاتا اور انگریزوں اور ان کے ساتھیوں کو کسی مقام پر شکست دیتا ہے وہ جرمنوں میں عزت پا جاتا ہے مگر انگریزوں کی نگاہ میں ذلیل ہو جاتا ہے.اسی طرح روس میں جہاں جہاں جرمن فوجیں پہنچی ہیں وہاں جرمنوں کے نزدیک وہ جرنیل جو شہروں کو تباہ کر رہے ، عمارتوں کو گرا رہے، آبادیوں کو ویران کر رہے اور بڑی بڑی تو پوں اور گولوں اور بموں سے ہر جگہ آگ لگاتے جا رہے ہیں وہ بہت بڑی عزت کے مالک ہیں مگر روسیوں کے نزدیک وہ لوگ جو تباہ ہو رہے ہیں جو جرمنوں کی گولیاں کھا رہے ہیں جن کی لاشوں کے میدانوں اور شہروں میں ڈھیر پڑے ہوئے ہیں وہ عزت کے مستحق ہیں.تو عزت اور بے عزتی کسی گروہ سے تعلق رکھنے یا نہ رکھنے کے لحاظ سے ہوتی ہے اور ہمیشہ ایسا ہوتا ہے کہ ایک گروہ کے نزدیک ایک چیز ذلت کا موجب ہوتی ہے مگر دوسرے کے نزدیک وہی چیز عزت کا موجب ہوتی ہے.یہی شروع سے دنیا کا حال چلا آیا ہے.حضرت آدم علیہ السلام آئے تو شیطان نے انہیں اپنے گھر سے نکلوا دیا اور بڑی بڑی تکلیفیں دیں اور شیطان نے سمجھا کہ اس طرح میری بڑی عزت ہو گی اور آدم ذلیل ہو گا مگر آدم جس گروہ میں سے تھا اس میں اس کی عزت ان تکلیفوں سے اور بھی بڑھ گئی.اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ چونکہ آدم نے عزم سے بدی نہیں کی تھی اور چونکہ اسے شیطان کی طرف سے تکلیف پہنچی اس لئے ہم نے اسے بڑی عزت دی.12 پھر نوح علیہ السلام آئے تو انہیں بھی لوگوں نے بڑے بڑے دکھ دیئے انہیں جھوٹا بھی کہا، انہیں گالیاں بھی دیں، انہیں بُرا بھلا بھی کہا اور لوگوں کے نزدیک ان کی بڑی ذلت ہوئی.وہ جب دیکھتے کہ نوح کو گالیاں پڑ رہی ہیں، انہیں کافر اور کذاب کہا جا رہا ہے کہتے ہیں کہ خدا ایسا دن کسی کو نہ دکھائے یہ تو بہت ذلیل ہوا ہے مگر نوح علیہ السلام کی یہ حالت تھی کہ ہر پتھر جو اُن پر پڑتا، ہر گالی جو انہیں دی جاتی اسے وہ تو وہ

Page 489

* 1941 489 خطبات محمود بڑی خوشی سے قبول کرتے اور کہتے اللہ اللہ خدا یہ دن ہمیں اور بھی دکھائے.پھر ابراہیم علیہ السلام آئے.انہیں دشمنوں نے گالیاں بھی دیں، انہیں جھوٹا بھی کہا، انہیں مارا پیٹا بھی گیا بلکہ دشمنوں نے انہیں گھسیٹ کر آگ میں ڈال دیا.13 اب اس وقت کے دیکھنے والے یہی کہتے ہوں گے کہ کیا ہی وہ بری ماں تھی جس نے ایسا بچہ جنا اور کیسا ہی وہ بد قسمت باپ تھا جس کے ہاں ایسا لڑکا پیدا ہوا.ہمارے گھر کے دروازه پر تو صرف آرمڈ پولیس چند گھنٹے کھڑی رہی تھی مگر وہاں تو دشمنوں نے گھسیٹ کر حضرت ابراہیم علیہ السلام کو آگ میں ڈال دیا تھا.اب بتاؤ کیا وہاں زیادہ ذلت ہوئی تھی یا میری زیادہ ذلت ہوئی ہے.یہ نصیحت کرنے والا مجھے لکھتا ہے کہ نے کتنی بڑی بیوقوفی کی کہ منبر پر کھڑے ہو کر اس واقعہ کو بیان کر دیا اور وہ نادان یہ نہیں دیکھتا کہ میں نے تو صرف منبر پر کھڑے ہو کر اسے بیان کیا تھا مگر ابراہیم کے واقعہ کو خدا تعالیٰ نے عرش پر بیان کیا ہے.پس وہی فعل جو نمرود 14 اور اس کے ساتھیوں کے نزدیک ذلت کا موجب تھا خدا کے نزدیک ابراہیم کی عزت کا باعث تھا.اسی لئے خدا نے عرش پر اس کا ذکر کیا اور کہا کہ دنیا کی نگاہ میں بے شک ابراہیم ذلیل ہوا مگر ہماری نگاہ میں وہ ذلیل نہیں ہوا بلکہ پہلے سے کئی گنا زیادہ اس کی عزت ہمارے ہاں بڑھ گئی ہے اور اصل عزت وہی ہوتی ہے جو خدا اور رسول اور مومنوں کی نگاہ میں کسی کو حاصل ہو.پس جب ابراہیم کو دنیا میں گالیاں دی گئیں تو خدا تعالیٰ کے نزدیک ابراہیم کی عزت اور بھی بڑھ گئی اور یہاں عرش پر ابراہیم کا پہلے نام لکھا تھا.خدا نے اس نام کو مٹا کر فرشتوں سے کہا کہ ابراہیم کا نام لکھو.پھر جب انہیں گھسیٹ کر آگ میں ڈالا گیا تو خدا تعالیٰ نے اپنے فرشتوں سے پھر کہا کہ یہاں سے بھی ابراہیم کا نام مٹاؤ اور اوپر لکھو.پس منبر پر اس واقعہ کو بیان کرنے سے میری کہاں ذلت ہوئی.جب خدا نے ابراہیم کے واقعات کو عرش پر بیان کیا بلکہ قرآن میں ان کا ذکر کیا ہے اور بتایا ہے کہ انہیں یہ ماریں پڑی تھیں اور یہ یہ گالیاں دی گئی تھیں.اور اوپر

Page 490

خطبات محمود 490 * 1941 پھر موسیٰ علیہ السلام آئے اُس وقت کیا کیا طعنے تھے جو فرعون 15 نے انہیں دیئے.اور کس طرح اس نے آپ کو اپنی طرف سے ذلیل کیا.قرآن میں لکھا ہے فرعون نے انہیں طعنے دیئے اور کہا کہ تو ہماری روٹی کھاتا رہا، ہمارے دیئے ہوئے کپڑے پہنتا رہا، ہم نے تجھے پالا پوسا اور بڑا کیا اب تو ہمارا ہی نمک خوار ہو کر ہمارے سامنے باتیں کرتا ہے.کتنی تذلیل ہے جو دنیا کی نگاہ میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کی ہوئی کہ جس کے گھر وہ پلے تھے، جس کے مکان میں وہ رہے تھے، جس کے دیئے ہوئے کپڑوں کو وہ پہنتے رہے تھے اور جس کی دی ہوئی روٹی وہ کھاتے رہے تھے وہی انہیں کہتا ہے کہ کیا تجھے شرم نہیں آتی.اب تو ہمارے سامنے ہی باتیں کرتا ہے مگر پھر خدا نے ان باتوں کو چھپایا تو نہیں بلکہ اس نے مزے لے لے کر عرش پر ان کو بیان کیا اور اپنے فرشتوں میں ان کا ذکر کیا.کیا اس لئے کہ موسیٰ کی بے عزتی ہو یا اس لئے کہ فرعون کی گالیاں موسیٰ کی عزت کا موجب تھیں.یقیناً خدا نے اسے عرش پر ان باتوں کو اسی لئے بیان کیا کہ فرعون کی گالیوں میں خدا تعالیٰ کے نزدیک موسیٰ کی ذلت نہیں بلکہ عزت تھی کیونکہ موسی فرعون کی بادشاہت میں نہیں رہتے تھے بلکہ خدا تعالیٰ کی بادشاہت میں رہتے تھے.فرعون جس قدر موسیٰ کی تذلیل کی کوشش کرتا اسی قدر موسیٰ کی عزت بڑھتی اور خدا تعالیٰ خوش ہوتا.اسی لئے مومنوں کو حکم دیا گیا کہ وہ ان باتوں کو بار بار بیان کریں چنانچہ اب رمضان میں جب تم قرآن کریم کی تلاوت کرو گے تو اس میں بار بار یہی باتیں آئیں گی کہ فرعون نے موسی کو یوں گالیاں دیں اور یوں بُرا بھلا کہا.اسی طرح تم نمازوں میں ان آیات کو بار بار پڑھو گے مگر اس لئے نہیں کہ موسیٰ کی بے عزتی ہو بلکہ اس لئے کہ موسیٰ کی عزت بڑھے کیونکہ دشمنوں کی گالیاں گو دنیا کی نگاہ میں ذلت کا موجب ہوں مگر خدا تعالیٰ کے نزدیک عزت کا موجب ہوتی ہیں.پھر حضرت عیسیٰ علیہ السلام آئے.ان کی کتاب انجیل کو پڑھنے والے جانتے ہیں کہ یہودیوں نے ان کے منہ پر تھوکا.16 اُن کے سر پر کانٹوں کا تاج بنا کر

Page 491

* 1941 491 خطبات محمود رکھا.17 انہیں گالیاں دیں.انہیں مارا پیٹا گیا 18 اور پھر صلیب پر انہیں لڑکا دیا.میرا خطبہ تو کہاں تک شائع ہو گا.انجیل وہ کتاب ہے جو ہر سال دس کروڑ کی تعداد میں شائع ہوتی ہے.اب اللہ ہی جانتا ہے کہ اس وقت تک کتنے ارب دفعہ یہ واقعات دنیا کے سامنے بیان ہو چکے ہیں کہ لوگوں نے حضرت عیسی کے منہ پر کے سر پر کانٹوں کا تاج بنا کر رکھا، ان کے جسم میں برچھیاں ماریں یہاں تک کہ الله سة تھوکا، ان تکلیفیں خدا تعالیٰ نے یہودیوں کے اس جھوٹے الزام کو بھی نہیں چھپایا کہ عیسی کی ماں (نعوذ بالله) فاسقہ ، فاجرہ اور بدکار تھی اور حضرت عیسی کی ولادت ناجائز تھی.پھر رسول کریم صلی ال ایم آئے تو آپ کو بھی دشمنوں نے بڑی بڑی دیں.ایک دفعہ ایک کافر نے آپ کے گلے میں پڑکا ڈال کر اس زور کے ساتھ کھینچا کہ آپ کی آنکھیں سرخ ہو گئیں اور آپ کا دم رکنے لگا.19 ایک دفعہ آپ سجدہ میں تھے کہ کفار نے آپ پر غلاظت ڈال دی 20 مگر ان واقعات کو نہ رسول کریم صلی یکم چھپایا اور نہ مسلمانوں نے بلکہ انہوں نے ان واقعات کو بیان کیا اور بار بار بیان کیا یہاں تک کہ بخاری اور مسلم اور حدیث کی دوسری کتابوں میں مسلمانوں نے ان باتوں کو نقل کیا اور لوگ ہمیشہ انہیں پڑھتے رہتے ہیں.پھر قرآن نے بھی ان باتوں چھپایا نہیں بلکہ وہ بھی بار بار کہتا ہے کہ یہ کافر تجھے ساحر کہتے ہیں، تجھے کذاب کہتے ہیں، تجھے متفنی کہتے ہیں، تجھے مفتری کہتے ہیں.کیا دشمنوں کی یہ ذلیل حرکات زیادہ ہیں یا وہ واقعات زیادہ سخت ہیں جو میرے ساتھ پیش آئے.میں نے تو صرف بیان کیا تھا کہ ایک موقع پر ان سپاہیوں نے مجھے کہا کہ “انہاں دا کی اعتبار ہے جو چاہن گل بنا لین ” یعنی ان کا کیا اعتبار ہے جو جی چاہے گا ہمارے خلاف بات بنا لیں گے مگر قرآن تو اس سے بہت زیادہ سخت کفار کے الفاظ نقل کرتا ہے اور فرماتا ہے کہ ان کفار نے کہا کہ رسول کریم صلی ا لم نعوذ بالله ) کذاب ہیں، مفتری ہیں، فریبی ہیں، ساحر ہیں.اب کیا یہ عجیب بات نہیں کہ اس ایک فقر ہتک ہو گئی مگر محمد صلی الله علم کو مفتری اور کذاب کہے جانے سے ان کی ہتک نہ ہوئی.الله ނ تو ہماری

Page 492

* 1941 خطبات محمود معلوم 492 ہے بلکہ خدا نے ان کو اپنی آخری کتاب میں جو قیامت تک بار بار پڑھی جانے والی نقل کر دیا اور اس طرح ان گالیوں کو چھپایا نہیں بلکہ سب کے سامنے ان کو رکھ دیا.پس اس مخلص احمدی ” کو یاد رہے کہ ہمارا قبیلہ بڑا سخت جان ہے.ہمیں گالیاں تریاق ہو کر لگا کرتی ہیں.البتہ جس خاندان کا وہ آدمی ہے اسے گالیاں بہت بُری ہوتی ہیں.چنانچہ یہ گالیاں ابو جہل اور یزید وغیرہ کو تو بُرا لگا کرتی تھیں مگر محمد علی کی اور آپ کے صحابہ کو بری نہیں لگتی تھیں.بس ہمار اخاندان ان گالیوں کو چھپاتا نہیں اور نہ ہی اسے بُری لگتی ہیں بلکہ ہمیں جتنی زیادہ گالیاں دی جائیں اتنی ہی زیادہ خدا تعالیٰ کے حضور ہماری عزت بڑھتی اور اس کے رجسٹر میں ہمارا نام زیادہ اعزاز کے ساتھ لکھا جاتا ہے.ہتک اس کی ہے جو ہمارے ساتھ ٹکراتا ہے اور ذلت اس کی ہے جو ہمارے مقابلہ میں بدگوئی اختیار کرتا ہے.پس اس میں ہماری ہتک کا کوئی سوال نہیں البتہ وہ شخص جو ہمارے ساتھ ٹکرائے گا وہ اپنی ہتک آپ کرے گا ورنہ ہماری تو دنیا کے سارے بادشاہ مل کر بھی ہتک نہیں کر سکتے.جس طرح ربڑ کا کیند جب زمین پر پھینکا جاتا ہے تو وہ اور زیادہ اچھلتا ہے اسی طرح خدا تعالیٰ کے بندوں کو جب برا بھلا کہا جاتا ہے تو ان کی عزت پہلے سے بڑھ جاتی ہے اور اگر ان کی کوئی ہتک کرنا چاہے تو نہیں کر سکتا.چنانچہ دیکھ لو حضرت موسیٰ علیہ السلام کی لوگوں نے اپنے خیال میں جو ہتک کی اسے خدا نے ہتک قرار نہیں دیا.اگر ہتک قرار دیتا تو قرآن کریم میں ان واقعات کا ذکر کیوں کرتا.اسی طرح حضرت ابراہیم، حضرت عیسی اور رسول کریم صلی للی کم کی جنہوں نے اپنے خیال میں ہتک کی اسے خدا نے ہتک نہیں سمجھا حالانکہ اس واقعہ سے بیسیوں گنا زیادہ ذلت پہنچانے کی وہاں کوشش کی گئی تھی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ہی دیکھ لو آپ پر پتھر بھی پڑے ، آپ کو گالیاں بھی دی گئیں، آپ کے خلاف بد زبانی بھی کی گئی، آپ کے خلاف مقدمات بھی کئے گئے اور آپ کے خلاف بڑے بڑے اشتہار ، رسائل اور کتابیں بھی لکھی گئیں.مگر آپ نے ان باتوں کو چھپایا نہیں بلکہ سب باتیں اپنی کتابوں میں بیان

Page 493

* 1941 493 خطبات محمود کر دیں یہانتک کہ آپ نے ”کتاب البریہ“ میں وہ تمام گالیاں بھی جمع کر دیں جو رسول کریم صلی الیم کو ہندوؤں، عیسائیوں اور سکھوں کی طرف سے دی گئی تھیں.اسی طرح آپ نے ان گالیوں کو بھی جمع کر دیا جو ہندوؤں عیسائیوں اور عام مسلمانوں کی سے آپ کو دی گئی تھیں.اس وقت اسی قسم کے بعض “مخلص” غیر احمدیوں الله سة نے آپ پر کفر کا فتویٰ لگا دیا محض اس بناء پر کہ حضرت مرزا صاحب نے عیسائیوں ہندوؤں اور سکھوں کی ان گالیوں کو نقل کیوں کیا جو رسول کریم صلی ا ہم کو دی گئی تھیں.انہیں تو چاہئے تھا کہ ان گالیوں کو چھپاتے.ان نادانوں نے یہ نہ سمجھا کہ رسول کریم صلی نیلم کے متعلق مخالفین کی گالیاں جمع کرنے سے آپ کی عزت بڑھتی ہے گھٹتی نہیں کیونکہ عزت وہی ہے جو خدا کی طرف سے ملے.مجھ سے کئی دفعہ انگریز افسروں نے خواہش کی ہے کہ اگر آپ پسند کریں تو حکومت سے آپ کو کوئی خطاب دلوا دیا جائے.مگر میں نے ہمیشہ انہیں یہی کہا ہے کہ مجھے خدا تعالیٰ کی طرف سے خطاب ملا ہوا ہے.وہی میرے لئے کافی ہے.اس کے سوا مجھے کسی خطاب کی ضرورت نہیں.اگر میں گورنمنٹ کے خطابات کو اپنے لئے عزت کا موجب سمجھتا تو اس قسم کی پیشکش کو کیوں ٹھکرا دیتا.میرا ایسا کرنا بتلاتا ہے کہ میں گورنمنٹ کی دی ہوئی کسی عزت کو اپنے لئے عزت نہیں سمجھتا بلکہ میں تو سمجھتا ہوں جس طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے لکھا ہے.ترک حرمین کے محافظ نہیں بلکہ حرمین ترکوں کے محافظ ہیں.اسی طرح خدا تعالیٰ نے گو ظاہر میں جماعت احمدیہ کی حفاظت کا کام انگریزوں کے سپرد کیا ہوا ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ ہم اس کے محافظ ہیں اور ہماری خاطر ہی خدا تعالیٰ ان سے نرمی کا معاملہ کر رہا ہے.مگر کہتے ہیں ع فکر ہر کس بقدر ہمت اوست ہر شخص کی ہمت اور استعداد کے مطابق اس کے فکر کی بلندی ہوتی ہے.یہ نادان بھی سمجھتا ہے کہ انگریزوں کی پولیس چونکہ اس دن ہماری کو ٹھی میں گھس آئی تھی اور کئی گھنٹے تک ہمارے دروازہ پر کھڑی رہی.اس لئے اس واقعہ سے ہماری ہتک ہو گئی

Page 494

* 1941 494 خطبات محمود حالانکہ ہماری ہتک صرف خدا تعالیٰ کی ناراضگی سے ہوتی ہے اور کسی چیز سے نہیں ہوتی بلکہ اس قسم کے واقعات سے ہماری عزت خدا تعالیٰ کے حضور بڑھتی ہے.پھر اگر یہ ہتک ہے تو ہم سے بڑھ کر حضرت عیسی علیہ السلام کی ہتک ہوئی ہے کیونکہ ان کے ہاتھوں اور پاؤں میں کیل گاڑے گئے تھے اور انہیں بھی دشمنوں نے صلیب پر لٹکا دیا تھا.مگر پھر خدا نے اس بات کو چھپایا تو نہیں بلکہ اس نے اپنی کتاب میں اس کو بیان کیا.پس ہماری ہتک کا کوئی سوال نہیں.ہمارا قبیلہ بہت سخت جان ہے البتہ جس قبیلہ سے وہ تعلق رکھتا ہے وہ یہ سمجھا کرتا ہے کہ اگر نمبر دار بول پڑا تو ہو جائے گی، تھانیدار بول پڑا تو ہتک ہو جائے گی.ڈپٹی کمشنر بول پڑا تو ہتک ہو جائے گی مگر ہمارے لئے یہ باتیں کوئی اہمیت نہیں رکھتیں اور نہ ہم ان کی عزت کی کوئی پرواہ کرتے ہیں.ہماری عزت وہی ہے جو ہمیں خدا تعالیٰ کے دربار میں حاصل ہے اور ہماری بے عزتی بھی اگر ہو سکتی ہے تو خدا تعالیٰ کی ناراضگی سے ہی.اس کے علاوہ اور کوئی بات ہماری ہتک کا موجب نہیں ہو سکتی.باقی رہا اس کا ایک طرف مجھے اشرف کہنا اور دوسری طرف یہ لکھنا کہ کیا گورنر تم سے زیادہ شریف نہیں اس کا جواب یہ ہے کہ شرافت بھی ایک نسبتی چیز ہے اور ہر قوم کے نزدیک شرافت کا الگ الگ معیار ہوا کرتا ہے.انگریزوں کے نزدیک بڑا اشرف وہ ہے جو نہایت معزز انگریز ہو.مگر وہ معزز انگریز فرانسیسیوں کے نزدیک اشرف نہیں ہو سکتا.بلکہ فرانسیسیوں کے نزدیک اشرف وہ ہوگا جو نہایت معزز فرانسیسی ہو.پھر وہ معزز فرانسیسی بے شک فرانسیسیوں کی نگاہ میں اشرف ہو گا مگر جرمنوں کے نزدیک اشرف نہیں ہو گا.بلکہ جرمنوں کے نزدیک اشرف وہ ہو گا جو نہایت معزز جرمن ہو.دور کیوں جاتے ہو اپنی اپنی قوموں کو ہی دیکھ لو کہ ایک قوم کے نزدیک ایک اشرف ہوتا ہے تو دوسری قوم کے نزدیک را.ایک کشمیری عورت تھی اور اس کی ایک جوان لڑکی تھی.اس لڑکی کی شادی کا سوال پیدا ہوا تو اس نے مجھے کہا کہ آپ اس کے لئے کوئی رشتہ تلاش کر دیں.

Page 495

* 1941 495 خطبات محمود ہماری جماعت کے ایک احمدی دوست جو غالباً سید تھے یا کسی اور معروف قوم سے تعلق رکھتے تھے مجھے اب صحیح طور پر یاد نہیں رہا.میں نے ان کے متعلق وہاں تحریک کی تو اس لڑکی کی والدہ اپنے دانتوں تلے انگلی دبا کر کہنے لگی.“ساڈے لئی ایسی کمینی ذاتاں ہی رہ گیاں ہن ” یعنی ہمارے لئے کیا اب ایسی ہی کمینہ ذاتیں رہ گئی ہیں.گویا اس کے نزدیک یہ اس کی شدید ترین ہتک تھی کہ وہ اپنی لڑکی سے بیاہ دے.سید اسی طرح ایک اور نوجوان دوست ایک دفعہ میرے پاس آئے وہ اب فوت ہو چکے ہیں اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے.کہنے لگے کہ میری ایک ہمشیرہ ہیں اس کے رشتہ کا آپ کہیں انتظام کر دیں اور یہ معاملہ کلیہ اپنے ہاتھ میں لے لیں.میرے والد صاحب کی بھی یہی خواہش ہے کہ اس کا رشتہ آپ کے ذریعہ ہو.میں نے کہا.رشتہ کے متعلق آپ کی کوئی شرط ہو تو مجھے بتا دیں.ایسا نہ ہو کہ بعد میں آپ کو کوئی اعتراض پیدا ہو.کہنے لگے قومیت کی کوئی شرط نہیں کسی شریف کا نوجوان ہو.میں نے کہا شریف کا جو مطلب میں سمجھتا ہوں ممکن ہے وہ مطلب آپ نہ سمجھتے ہوں.اس لئے بہتر ہے کہ اس کی بھی تشریح کر دی جائے.کہنے لگے.شریف سے مراد وہی لوگ ہیں جنہیں عرف عام میں شریف سمجھا جاتا ہے.یہ کوئی شرط نہیں کہ فلاں قوم میں سے ہو اور فلاں قوم میں سے نہ ہو.نہ ہو.میں نے کہا ہمارے ملک میں دو قسم کے لوگ شرفاء کہلاتے ہیں.ایک تو وہ ہیں جو باہر سے آئے ہوئے ہیں جیسے سید ہیں، مغل ہیں، پٹھان ہیں، قریشی ہیں اور ایک وہ ہیں پہلے ہی یہاں رہتے تھے جیسے براہمن یا راجپوت وغیرہ ہیں.آپ کو کوئی اعتراض تو نہیں ہو گا اگر ان قوموں میں سے کسی قوم کا رشتہ آپ کو مل جائے.وہ کہنے لگے بالکل نہیں.کوئی ہو مغل ہو، پٹھان ہو ، قریشی ہو، برہمن ہو، راجپوت ہو.میں نے اس پر پھر اپنی بات کو دہرایا اور کہا کہ آپ اچھی طرح سوچ لیں.عرفِ عام میں

Page 496

* 1941 496 خطبات محمود ہو، شریف قومیں باہر سے آنے والوں میں سے تو سید ہیں، مغل ہیں، پٹھان ہیں، قریشی ہیں اور اس ملک کے باشندوں میں سے براہمن یا راجپوت ہیں.جن میں جاٹ بھی شامل ہیں وہ کہنے لگے بالکل درست ہے.کوئی ہو مغل ہو، پٹھان ہو، قریشی براہمن ہو، راجپوت ہو.مجھے اس پر خیال آیا کہ میں نے دو دفعہ ان کے سامنے اپنی بات کو دہرایا ہے اور دونوں دفعہ ہی جواب میں یہ سیدوں کو چھوڑ گئے ہیں.اس کی کیا وجہ ہے.چنانچہ میں نے ان سے کہا کہ میں نے آپ کے سامنے دو دفعہ اپنی بات دہرائی ہے اور دونوں دفعہ جواب دیتے ہوئے آپ سیدوں کو چھوڑ گئے ہیں.آیا یہ اتفاق کی بات ہے یا جان بوجھ کر آپ نے ان کا نام نہیں لیا؟ اس پر وہ ہنس کر کہنے لگے میں نے جان بوجھ کر ان کا نام نہیں لیا.کیونکہ ہمارے علاقہ میں سیدوں کو ذلیل سمجھا جاتا ہے اور عام طور پر لوگ انہیں فقیر سمجھتے ہیں.اب بتاؤ شریف ہونے کا کوئی ایک معیار کس طرح مقرر کیا جا سکتا ہے.پس اگر شرافت قومی مراد ہے اور یہ اعتراض کرنے والا اگر انگریز زادہ ہے تو اس کے نزدیک انگریز ہی اشرف ہوں گے.اگر ہندوستانی ہے تو ہندوستانی اور اگر جرمن یا فرانسیسی ہے تو جرمن یا فرانسیسی.مگر ہمارے قرآن نے قومیت کو شرافت کا معیار نہیں مقرر کیا بلکہ تقویٰ کو شرافت کا معیار مقرر کیا ہے.چنانچہ قرآن کریم میں آتا ہے اِنَّ اكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللهِ اتَّقَى كُمْ 21 یعنی اللہ تعالیٰ کے نزدیک جو بڑا مومن ہو گا وہی زیادہ شریف ہو گا.اس نکتہ نگاہ سے دیکھا جائے تو پھر اس خط کے لکھنے والے کو اس امر کا فیصلہ کرنا پڑے گا کہ کیا عیسائی زیادہ عقائد صحیحہ اور اسلامی اصول پر قائم ہیں یا احمدی.اگر اس کے نزدیک عیسائی اسلام کے بتائے ہوئے اصول تقویٰ پر قائم ہیں تو اس کے عقیدہ کے مطابق وہی زیادہ شریف ہوں گے لیکن اگر ہم عقائد صحیحہ نسبتاً زیادہ قائم ہیں تو ہم عیسائیوں کی نسبت زیادہ شریف ہوں گے.میں یہ نہیں کہتا کہ وہ ہمیں دینی لحاظ سے عقائد صحیحہ پر کامل طور پر قائم سمجھے.میں صرف یہ کہتا ہوں

Page 497

* 1941 497 خطبات محمود کہ اگر احمدیت کی سچائی پر اس کا ایمان ہے اور وہ نسبتی طور پر عیسائیوں کی نسبت مجھے عقائد صحیحہ پر زیادہ قائم سمجھتا ہو.چاہے یوں وہ مجھے کتنا ہی بُرا اور گندا خیال کرتا ہو تو بہر حال عیسائیوں کی نسبت اسے مجھے اتقی قرار دینا پڑے گا اور قرآنی فیصلہ کے مطابق اکرم بھی.یہ الگ بات ہے کہ اس کے نزدیک مجھ میں بعض غلطیاں ہیں.پس میں اس بات کا فیصلہ اسی پر چھوڑتا ہوں.اگر اس کے نزدیک قرآن کریم کی بات صحیح ہے تو جس میں وہ بات زیادہ پائی جائے گی جسے قرآن کریم نے بیان کیا ہے مسلمانوں کے نزدیک وہی زیادہ شریف ہو گا.اگر عیسائیوں میں پائی جاتی ہو گی تو وہ زیادہ شریف ہوں گے اور اگر مجھ میں پائی جاتی ہو گی تو میں زیادہ شریف ہوں گا.ہاں عیسائیوں کے عقیدہ کی رُو سے ایک عیسائی زیادہ شریف ہو گا اور اس کے مقابل پر ایک مسلمان خواہ کیسا ہی اسلام کا پابند ہو ہو کم شریف ہو گا.پس اس کی ان دو باتوں کا جواب میں نے دے دیا ہے.باقی باتوں کا میں جواب نہیں دے سکتا.اگر وہ واقعات لکھتا اور بتاتا کہ فلاں فلاں پر ناظر امور عامہ کی طرف سے یہ ظلم ہوا ہے تو میں ان کے متعلق تحقیق کرتا مگر چونکہ اس نے کوئی واقعات بیان نہیں کئے اس لئے اس کے متعلق میں کچھ نہیں کہہ سکتا.باقی جیسا کہ میں نے بتایا ہے اس کا خط اضداد سے بھرا ہوا ہے.ایک طرف وہ مجھے “ بخدمت اشرف ” لکھتا ہے اور دوسری طرف مجھے ذلیل قرار دیتا ہے.اسی طرح ایک طرف وہ اپنے آپ کو “ مخلص احمدی ” اور بڑا بہادر قرار دیتا ہے اور دوسری طرف وہ اپنا نام تک ڈر کے مارے ظاہر نہیں کر سکتا.میں نے بتایا ہے کہ اس خط کے متعلق ہمیں بعض شبہات ہیں اور ایک شخص کے متعلق ہمارا خیال ہے کہ اس نے یہ خط لکھا ہے.مگر ابھی یقینی طور پر نہیں کہا جا سکتا.اس خطبہ کے بعد یقینی طور پر ثابت ہو گیا ہے کہ وہی شخص ہے جس کے بارہ میں مجھے شبہ تھا اور اس نے اقرار کر لیا ہے.

Page 498

خطبات محمود 498 * 1941 البتہ اس قدر بات بالکل واضح ہے کہ یہ کسی منافق کا لکھا ہوا خط ہے اور قادیان میں اس قسم کے بعض منافق پائے جاتے ہیں.ہمیں ان کا اچھی طرح علم ہے.ہم ان کی پارٹیوں کو جانتے ہیں.ہمیں ان مجلسوں کا علم ہے جہاں وہ بیٹھتے ہیں مگر ہم رحم کی وجہ سے گرفت نہیں کرتے اور خیال کرتے ہیں کہ شاید ان کی اصلاح ہو جائے لیکن وہ ہمارے رحم سے ناجائز فائدہ اٹھاتے ہیں اور یہ نہیں سمجھتے کہ رحم بھی ایک حد تک ہی ہوتا ہے اور کوئی وقت ایسا بھی آجاتا ہے جب اس قسم کے آدمی پکڑے جاتے ہیں اور انہیں اپنے کئے کی سزا بھگتنی پڑتی ہے.1 البقره : 186 الفضل 26 ستمبر 1941ء) 2 بخاری کتاب الصوم باب اجود ما كان النبي و لا يكون في رمضان بخاری کتاب الایمان باب قول النبي و الله بنى الاسلام على خمس (الخ) 4 بنی اسرائیل :80، الذاريات: 18، إنَّ لَكَ فِي النَّهَارِ سَبْحًا طَوِيلًا (المزمل: 7) 65 بخاری کتاب الصوم باب فضل من قام رمضان صَدَ اللَّهِ عَلِيهِ بخاری کتاب المناقب باب قول النبي و سدوا الابواب الاباب ابی بکر لا 8 سیرت ابن ہشام جلد 2 صفحہ 17 مطبوعہ مصر 1295ھ ابن ماجہ کتاب الزهد باب ذكر التوبة 10 الحكم 24 جنوری 1906ء صفحہ 5 ، البدر 27 فروری 1903ء صفحہ 46 11 الناس: 6 12 وَلَمْ نَجِد لَهُ عَزْما ( : 116) ثُمَّ اجْتَبَهُ رَبُّه (ط :123) 13 الانبياء : 69، العنكبوت: 25 ، الصافات: 98 14 نمرود: بابل کا ایک بادشاہ.4000 سال قبل مسیح (اردو انسائیکلو پیڈیا.اخبار الطوال)

Page 499

خطبات محمود 499 * 1941 15 حضرت موسیٰ کے پرورش کرنے والے فرعون کا نام رعمسیس اور مقابلہ میں آنے والے فرعون کا نام منفتاح تھا.16 متی باب 27 آیت 30 17 متی باب 27 آیت 29 18 یوحنا باب 19 آیت 1 و 3 19 بخاری کتاب المناقب باب لَوْ كُنْتُ مُتَّخِذًا خَلِيلًا (الخ) 20 بخاری کتاب الصَّلوة باب الْمَرْأَة تَطْرَحُ عَنِ الْمُصَلَّى شَيْئًا مِّنَ الْآذَى 21 الحجرات : 14

Page 500

* 1941 500 (29) خطبات محمود خدا تعالیٰ کے ہر قانون کو رحمت سمجھو اور اس سے بچنے کی کوشش نہ کرو فرمودہ 26 ستمبر 1941ء) تشہد، تعوذ اور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد سورۃ الرحمن کی حسب ذیل آیات کی تلاوت فرمائی:.يمَعْشَرَ الْجِنَّ وَالْإِنْسِ إِنِ اسْتَطَعْتُمْ أَنْ تَنْفُذُوا مِنْ أَقْطَارِ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ فَانْفُذُوا لَا تَنْفُذُونَ ج الَّا بِسُلْطَنٍ فَبِأَيِّ آلَاء رَبِّكُمَا تُكَذِ بْنِ يُرْسَلُ عَلَيْكُمَا شُوَاظٌ مِنْ نَاءٍ، وَ تُحَاسٌ فَلَا تَنْتَصِرْن..فَبِأَيِّ آلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِ بْنِ 1 یوں تو مسلمان کے سارے ہی خطبے قرآن کریم کے مطالب پر ہی مبنی ہوتے ہیں کیونکہ اسلام میں جو کچھ ہے اور احمدیت میں جو کچھ ہے وہ یا تو نص صریح سے قران کریم سے ملتا ہے یا استدلالات سے قرآن کریم سے نکلتا ہے اور بہر حال قرآن کریم کی تعلیم کا نچوڑ اور خلاصہ ہوتا ہے.مگر رمضان شریف کی نسبت کے لحاظ سے میں نے مناسب سمجھا کہ رمضان کے خطبات میں قرآن کریم کی کسی نہ کسی آیت پر پڑھا کروں تاکہ وہ بھی ایک قسم کا درس بن جائے.گو اس طرح خطبہ پڑھا جائے تو سارے رمضان میں چار ہی آیات آتی ہیں مگر قرآن کریم کی چار آیتیں بھی چاروں کوٹ کی برکتیں اپنے اندر رکھتی ہیں اور بعض اکیلی اکیلی آیات یا مختصر سورتوں کے متعلق رسول کریم صلی ایم نے فرمایا ہے کہ وہ نصف قرآن کے برابر یا

Page 501

* 1941 501 خطبات محمود قرآن کا خلاصہ ہیں تو ہو سکتا ہے کہ کوئی ایک ہی آیت بعض لوگوں کے لئے ہدایت کا موجب ہو جائے اور ان کی طبیعت کی اصلاح میں محمد ہو جائے.یہ آیات جو میں نے ابھی پڑھی ہیں سورہ رحمن کی ہیں اور شاید ان چند آیتوں میں سے ہیں جن کے متعلق قریباً سب مفسرین ایک ہی رائے رکھتے ہیں.میں نے اس بارہ میں چند مشہور تفاسیر کو دیکھا ہے جو احادیث سے لکھی گئی ہیں جیسے ڈر منثور.یا عقل سے لکھی گئی ہیں جیسے کشاف یا جو عقلی استدلال کے ساتھ بزرگوں کے اقوال کو بھی لیتی ہیں جیسے امام شوکانی کی تفسیر ہے.یہ سب کی سب اس آیت کے بارہ میں متفق ہیں اور وہ اس کے معنے یہ کرتی ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے عذاب سے کوئی بھاگ نہیں سکتا.وہ کہیں بھی بھاگ کر جانا چاہے خدا تعالیٰ کا عذاب اسے مل جاتا ہے.اس بچنے کا ایک ہی علاج ہے اور وہ یہ کہ خدا تعالیٰ کی فوجوں پر انسان غلبہ حاصل کر لے اور پھر وہ اس میں محذوف نکالتے ہیں کہ یہ غلبہ انسان کہاں حاصل کر سکتے ہیں.پس اس کے معنے یہ ہوئے کہ خدا تعالیٰ کے عذاب سے کوئی شخص بچ نہیں سکتا.آج سے نہیں گزشتہ سالہا سال سے شاید 20،25 سال سے میں اس آیت کے متعلق ان مفسرین کی رائے سے اختلاف رکھتا ہوں.اول تو میرے نزدیک یہاں عذاب کا ذکر نہیں.بے شک بعد میں عذاب کا ذکر آتا ہے مگر اس عذاب سے بھاگنے کا جس کو بعد میں بیان کیا گیا ہے پہلے ذکر کرنا قرآن کریم کی شان کے خلاف ہے.یہ صحیح ہے کہ تحسین کلام میں کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ نتائج کو پہلے بیان کر دیا جاتا ہے.مگر اس صورت میں جملہ میں جوڑ اور نسبت قائم کی جاتی ہے یہاں تو دو متفرق آیات ہیں اور ان دونوں کے بیچ میں فَبِأَيِّ آلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّ بْنِ رکھا ہے.پھر میں یہ بھی نہیں سمجھ سکتا کہ قرآن کریم جیسی کتاب حکیم خالی عذاب کو جس کے ساتھ کوئی پہلو آرام و آسائش اور راحت کا نہ ہو بیان کرنے کے بعد فَبِأَيِّ آلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِ بنِ فرمائے جس کے معنی یہ ہیں کہ تم اپنے رب کی کون کون سی لیکن

Page 502

* 1941 502 خطبات محمود نعمتوں کا انکار کرو گے.یہ تو ایسی ہی بات ہے کہ کوئی کہے میں مار مار کر تمہارا بھر کس نکال دوں گا تم میرے کون کون گا تم میرے کون کون سے انعام کا انکار کرو گے.میں تمہیں قید کر دوں گا پس تم میرے کون کون سے انعام کا انکار کرو گے.طرز بیان قرآن کریم کی شان کے خلاف ہے.اس میں شک نہیں کہ بعض عذاب بھی رحمت کا موجب ہوتے ہیں.جیسے سورۂ فاتحہ کو اَلْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ 2 سے شروع کیا مگر بعد میں ملِكِ يَوْمِ الدِّينِ 3 فرمایا اور اس میں سزا بھی داخل ہے.یعنی کلام الحمد کے ساتھ شروع کیا گیا اور سزا کو شامل کر لیا گیا ہے.مگر اس میں رحمت کا پہلو موجود ہے.ابتدائی عمر میں میں نے ایک دفعہ ستیارتھ پرکاش کے بعض اعتراضات کا جواب لکھنا شروع کیا تھا اور سورۂ فاتحہ پر اعتراضات کا جواب لکھا تھا.اس زمانہ میں سوامی دیانند صاحب کے ایک بڑے مقرب دوست زندہ تھے جن کا نام اس وقت مجھے یاد نہیں البتہ تشخیز کے پرچوں میں محفوظ ہو گا.انہوں نے اعتراض لکھ کر بھیجا تھا کہ ملِكِ يَوْمِ الدِّينِ میں تو موت اور سزا دونوں شامل ہیں.پھر شروع میں اَلحَمدُ لِلَّهِ اور رَبِ العَلَمِينَ کہنے کا کیا مطلب ہوا.اَلْحَمْدُ لِلَّهِ کے معنی ہیں کہ سب تعریفیں خدا کے لئے ہیں اور تب العلمین کے معنی ہیں وہ سب کی ربوبیت کرتا ہے پھر اس کے ساتھ سزا کے ذکر کے کیا معنی ہوئے.میں نے اس کا جواب دیا تھا کہ یہاں رحمت کا پہلو موجود ہے.ملِكِ يَوْمِ الدِّينِ کے معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ اپنے حق مغفرت کو قائم رکھتا ہے اور جب خدا تعالیٰ کا یہ اور جب خدا تعالیٰ کا یہ حق ہے تو الْحَمد کہنے کا موقع موجود ہے.دنیا میں ہم دیکھتے ہیں کہ بیسیوں مجسٹریٹ ایسے ہوتے ہیں جو منصف اور نرم دل ہوتے ہیں اور ان کے متعلق کئی مجرم آپس میں بات چیت کرتے ہیں تو کہتے ہیں شکر ہے ہمارا مقدمہ فلاں مجسٹریٹ کے پاس ہے اور فلاں کے پاس نہیں گیا تو پھر اللہ تعالیٰ کے متعلق جو ملِكِ يَوْمِ الدِّينِ کہہ کر رحم کی امید دلاتا ہے.باوجو د سزا اور موت کا ذکر ہونے کے انسان کیوں نہ الْحَمْدُ لِلَّهِ کہے.اگر ہمارا مقدمہ کسی ایسے مجسٹریٹ کے سپرد ہو جاتا جو رحم کرنا جانتا ہی نہ ہوتا تو پھر سزا میں

Page 503

خطبات محمود 503 * 1941 کیا شبہ رہ جاتا.اس صورت میں سزا سے بچنا محال تھا.اگر کسی کا انجام توبہ پر بھی ہوتا تو بھی وہ سزا سے نہ بچ سکتا کیونکہ وہ جانتا کہ خدا تعالیٰ تو رحم کر ہی نہیں سکتا.اس نے سزا بہر حال دینی ہے.مگر یہاں ملِكِ يَوْمِ الدِّينِ کہہ کر یہ امید دلا دی کہ اگر انجام بھی خراب ہو تو بھی نا امیدی کی کوئی بات نہیں کیونکہ خدا تعالیٰ پھر بھی معاف کر سکتا ہے.پس یہاں اَلحَمدُ لِلهِ کہنے کے یہ معنی ہیں کہ شکر ہے ہمارا مقدمہ کسی ایسے مجسٹریٹ کے پیش نہیں ہو رہا جو رحم کرنا نہیں جانتا.یہاں ملِكِ يَوْمِ الدِّينِ کہہ کر بتایا کہ اللہ تعالیٰ رحم کر سکتا ہے اور رحم کی امید دلاتا ہے.ایسی صورت میں روزانہ ہم مجرموں کو الحمدُ للهِ کہتے دیکھتے ہیں.مگر جہاں اللہ تعالیٰ یہ فرمائے کہ تم نے جتنا دوڑنا ہو دوڑ لو.اپنی تمام تدابیر اختیار کر لو پھر بھی تم ہماری سزا سے سے نہیں بچ سکتے.ہم تم کو ضرور سزا دیں گے اور ایسا عذاب دیں گے کہ بھون کے رکھ دیں گے.اس کے بعد کہنا کہ فَبِأَيِّ آلَاء رَبِّكُمَا تُكَذِ بْنِ ایک بے جوڑ سی بات ہے.مگر نئے ممکن اور پرانے مفسرین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ اس آیت کے معنی یہی ہیں.ہے کسی کو اختلاف بھی ہو.میں نے ساری تفاسیر نہیں دیکھیں مگر جو دیکھی ہیں ان سب کا ان معنوں پر اتفاق اور جیسا کہ میں نے بتایا ہے مجھے ان معنوں سے ہے اختلاف ہے اور ان وجوہ سے جو اوپر بیان کی گئی ہیں.میرے نزدیک اس کے معنی ہے سیدھے سادے ہیں اور ان الفاظ کے اندر بھاری حکمت ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا يمَعْشَرَ الْجِنِّ وَالْإِنْسِ إِنِ اسْتَطَعْتُمُ أَنْ تَنْفُذُوا مِنْ أَقْطَارِ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ فَانْفُذُوا یعنی اے بڑے لوگوں کے گروہ اور اے چھوٹے لوگوں کے گروہ اور اے حکام کے گروہ اور اے عوام کے گروہ.دنیا میں دو ہی قسم کی حکومتیں ہوتی ہیں ایک آسمانی یعنی مذہبی اور اخلاقی اور دوسری زمینی یعنی قانون فطرت اور قانون سائنس کی.یہ دو حکومتیں جاری ہیں جن کو بسا اوقات انسان اپنی نادانی سے اپنے لئے بوجھ سمجھتا ہے.خدا تعالیٰ نے موت بنائی ہے اور قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ بھی رحمت ہے اور اس میں کیا شبہ ہے کہ یہ رحمت ہے.لوگ عام طور پر اس سے گھبراتے ہیں.مگر موت.

Page 504

* 1941 504 خطبات محمود کو اڑا کر دیکھ لیں.پھر کس طرح اپنے آپ پر ساری دنیا اور زمین و آسمان پر لعنتیں ڈالنے لگتے ہیں.دنیا میں انسان والد، والدہ، دادا، دادی، نانا، نانی، وغیره قریبی رشته داروں کی موت کے صدمہ کو کتنا محسوس کرتے ہیں اور یہ احساس ایک طبعی تقاضا لیکن اگر یہ احساس اتنا بڑھ جائے کہ انسان سمجھے خدا نے بڑا ظلم کیا ہے جو موت پیدا کی.میں اسے اڑا دوں گا اور وہ اسے اڑانے میں کامیاب ہو جائے.تو ذرا تصور کرو کیا حالت ہو.کوئی چھوٹے سے چھوٹا گاؤں لے لو.قادیان کے ارد گرد چھوٹے چھوٹے گاؤں ننگل، بھینی اور کھارا ہیں.آج بھی ان گاؤں کے زمینداروں کی حالت بہت غربت کی ہے کسی کے پاس چار گھماؤں زمین ہے.کسی کے پاس پانچ، کسی کے پاس آٹھ اور کسی کے پاس دس گھماؤں ہے.جس سے موجودہ افراد بھی بڑی تنگی سے گزارہ کرتے ہیں اور بعض نے تو تنگ آکر جو تھوڑی بہت زمین تھی فروخت کر دی اور اب محنت و مزدوری کر کے گزارہ کر رہے ہیں.اب ذرا غور کرو اگر ان کے باپ دادا، پر دادا اور پھر آدم تک سات ہزار سال میں جتنے لوگ تھے سب زندہ ہوتے پھر ان کی مائیں دادیاں، پر دادیاں بھی آخر تک زندہ ہوتیں پھر ان کے بیچے چچیاں آخر تک زندہ ہوتے تو کیا ان کے پاس ایک گھماؤں چھوڑ ایک ایک مرلہ زمین بھی ہوتی؟ ایک مرلہ تو کجا ناخن کے کاٹے ہوئے حصہ کے برابر زمین بھی کسی کے حصہ میں نہ آسکتی.اور جب یہ حالت ہوتی تو یہ لوگ کھاتے کہاں سے پھر راتوں کے سونے کے لئے بھی جگہ نہ ملتی.راتوں کو ایک کے اوپر دوسرا، دوسرے کے اوپر تیسرا اور تیسرے کے اوپر چوتھا حتی کہ ایک ایک پر پچاس پچاس آدمی سوتے.تب بھی شاید سب کے لئے لئے جگہ نہ مل سکتی.سائنس والے دنیا کی عمر دو کروڑ سال بتاتے ہیں اور ہندوؤں کی تو ہر چیز بے حساب ہوتی ہے.اس لئے ان کے نزدیک دنیا کی عمر اربوں ارب سال ہے اور مسلمانوں کے نزدیک چھ ہزار سال ہے.اربوں ارب سال کو جانے دو.دو کروڑ سال کو بھی جانے دو صرف چھ ہزار سال ہی لے لو.اگر چھ ہزار سال کے لوگ سب کے سب زندہ ہوتے تو کیا حال ہوتا.سب

Page 505

خطبات محمود 505 * 1941 کے سب زمین پر لیٹ کر سو بھی نہ سکتے.جس طرح جنگ میں لاشیں ایک دوسری کے اوپر ڈالی جاتی ہیں.اس طرح ایک دوسرے کے اوپر اگر سب کو ڈالا جاتا تو شاید سونے کی جگہ مل سکتی.بے شک دم تو گھٹتا مگر موت تو آنی نہ تھی.اگر یہ حالت ہوتی تو غور کرو کس طرح لوگ اپنے آپ پر اپنے ماں باپ اور دادا پردادا پر بلکہ زمین و آسمان پر لعنتیں بھیجتے اور کس طرح موت کو ایک رحمت سمجھا جاتا.اگر موت نہ ہوتی تو ساری دنیا کے عظمند ایسی ایجادوں میں لگے ہوتے کہ کس طرح : موت ایجاد کی جا سکے جس چھوٹے سے گھر میں ہزاروں سال کے تمام لوگ زندہ ہوتے اور اس کا صحن 20x10 فٹ ہوتا.اس میں کیا حال ہوتا.نہ کھانے کو برتن مل سکتے نہ پینے کو پانی جوان بوڑھوں کے اور بوڑھے بچوں کے گلے گھونٹتے کہ کسی طرح مر جائیں مگر موت پھر بھی نہ آتی.اس وقت تو اگر کسی کا باپ یا دادا فوت ہو جائے تو روتے ہیں مگر موت نہ ہونے کی صورت میں لوگ راتوں کو اٹھ اٹھ کر ایک وسرے کا گلا گھونٹتے اور کہتے کہ کم بخت مرتا بھی نہیں اور قانون قدرت اور مذہب کو گالیاں دیتے.تو موت بھی اللہ تعالیٰ کی رحمتوں میں سے ایک رحمت ہے اور قرآن کریم ہی ایک کتاب ہے جو صفائی سے سے اس امر کو پیش کرتی ہے.بے شک انسان کوشش کرے کہ تندرست رہے، بیماریوں سے بچا رہے مگر چاہئے کہ موت کے لئے بھی تیار رہے اور امید رکھے کہ میں نے ایک نہ ایک دن مرنا ہے.یہ موت اگر نہ ہوتی تو انسان کو اس کے لئے دعا کرنی پڑتی.یہ خدا تعالیٰ کی رحمت ہے جب انسان پر ایسا وقت آتا ہے کہ اگلی نسل اس سے تنگ آ جائے تو ایسے وقت میں اللہ تعالیٰ اسے موت دے دیتا ہے مگر انسان جوں جوں سائنس میں ترقی کرتا ہے موت کو اڑانے کی زیادہ سے زیادہ کوشش کرتا ہے.کبھی اس امر کی تحقیق ہوتی ہے کہ انسان کے دل کو دوبارہ کس طرح حرکت میں لایا جا سکتا ہے اور کبھی اس کی کہ بجلی کے ذریعہ انسان کو کس طرح زندہ رکھا جا سکتا ہے اور یہ خیال نہیں کرتا کہ اگر موت پر قابو پا لیا جائے تو اس کے بعد دنیا کے لئے جو ایجاد سب سے اہم سمجھی جائے گی وہ یہی ہو گی کہ کس طرح موت کو.

Page 506

* 1941 506 خطبات محمود واپس لایا جا سکتا ہے.پس موت دراصل اللہ تعالیٰ کی رحمتوں میں سے ایک رحمت ہے.لیکن انسان ان تمام قوانین سے جو اللہ تعالیٰ نے انسان کے فائدہ کے لئے بنائے ہیں ان سب سے بچنے کی کوشش کرتا ہے.ده آجکل رمضان ہے.روزہ سے ہوں تو پتہ لگتا ہے کہ بھوک کتنی تکلیف چیز ہے.میرے جیسے کمزور آدمی کے لئے تو خاص طور پر تکلیف دہ ہے.اس وقت میں جوش میں اتنا بول گیا ہوں ورنہ جب میں کھڑا ہوا تو میرا خیال تھا کہ پانچ سات منٹ سے زیادہ نہ بول سکوں گا.یہ بھی اللہ تعالیٰ کا ایک قانون ہے کہ جب طبیعت میں جوش پیدا ہو تو انسان پہلی تکلیف کو بھول جاتا ہے.غرض روزہ میں بھوک لگتی ہے، پیاس لگتی ہے.آجکل مجھے بھوک تو نہیں لگتی، پیاس لگتی ہے اور عصر کے بعد تو اتنی پیاس لگتی ہے کہ میں نڈھال ہو جاتا ہوں ایسی حالت میں دو ہی صورتیں ہوتی ہیں یا تو میں سونے کی کوشش کروں اور یا پھر ٹہلنے لگوں.ٹہلنا ہمارے خاندان کی ایک عادت ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بھی ٹہلنے کی عادت تھی.عصر کے بعد مجھے پیاس کا اور کوئی علاج نظر نہیں آتا.سوائے اس کے کہ میں ٹہلوں.تو بھوک اور پیاس بہت تکلیف دہ چیزیں ہیں مگر دنیا کی لذتوں کا بہترین حصہ بھوک اور پیاس سے ہی تعلق رکھتا ہے.قرآن کریم میں میں نے پڑھا کہ شہد میں بڑی برکت ہے.ایک دوست شہد لے آئے پہلے ہی روزہ میں میں نے خیال کیا کہ اس میں اتنی برکتیں ہیں، اسی سے کیوں نہ روزہ کھولیں.چنانچہ شہد میں پانی ڈال کر رکھ دیا اور جب اس سے روزہ کھولا تو یوں معلوم ہوا کہ یہ شہد نہیں بلکہ جنت سے کوئی چیز آئی ہے.اگر پیاس نہ ہو تو یہ مزا کیسے آئے.میرا معدہ خراب ہے اس لئے پانی پینے کے بعد مجھے بھوک تو لگتی نہیں مگر رمضان نہ ہو تو میں نے دیکھا ہے سیر کر کے واپس آئیں اور بھوک لگی ہوئی ہو تو کھانے کا بہت ہی مزا آتا ہے.مجھے بہت سے کھانے کھانے کا اتفاق ہوا ہے.یورپ کے سفر کے دوران مجھے مصری کھانے کھانے کا بھی موقع ملا، اطالوی کھانے کھانے کا بھی، فرانسیسی کھانے کھانے کا بھی اور انگلستان کے

Page 507

* 1941 507 خطبات محمود کھانے کھانے کا بھی.ہماری والدہ دہلی کی رہنے والی ہیں.اس لئے اس علاقہ کے کھانے بھی کھائے ہیں.پھر ہم مغل ہیں اور بعض کھانے مغلوں کے خاص ہیں وہ بھی کھائے ہیں اور اس طرح بہت سے کھانے کھائے ہیں مگر بچپن سے جس کھانے کے مزیدار ہونے کا مجھ پر اثر ہے اور جو بھوک کے نتیجہ میں تھا وہ مجھے کبھی نہیں بھولتا.میں چھوٹا تھا.تین چار سال کی عمر تھی اور آنکھیں دُکھتی تھیں کھانے کا پر ہیز کرایا جاتا تھا اور صرف دودھ دیا جاتا تھا.میری ایک کھلائی تھی.میری آنکھوں میں تکلیف تھی رڑک ہو رہی تھی اور وہ کھلائی مجھے اٹھا کر دالان میں ٹہلاتی اور بہلاتی تھی.وہ غریب عورت تھی اور اسے بھوک لگی ہوئی تھی اس لئے رات کا باسی ٹکڑا ہاتھ میں لئے کھاتی جاتی تھی اور مجھے بہلاتی بھی جاتی تھی.مجھے یاد ہے کہ مجھے اس باسی ٹکڑے سے زیادہ خوشبو دار اور لذیذ چیز کوئی اور نہیں لگی.اس کے ساتھ کوئی سالن یا دال بھی نہ تھی.خالی روٹی کا ٹکڑا تھا اور وہ بھی باسی مگر اس کی سوندھی سوندھی خوشبو ہزاروں مرغوں سے زیادہ دل پسند تھی بلکہ اب بھی یاد کر کے وہ خوشبو مجھے آنے لگتی ہے.تو یہ بھوک کا ہی کمال ہے جس سے کھانے کا مزا آتا ہے.ایک قصہ مشہور ہے کہتے ہیں کوئی پٹھان محنت و مزدوری کے لئے اپنے سے ہندوستان آیا.وہ کسی جگہ مزدوری پر لگا ہوا تھا گھر تو یہاں تھا نہیں کہ روٹی کا کوئی انتظام ہوتا.اس نے خیال کیا کہ کھانے کا وقت آئے گا تو کوئی چیز لے کر کھا لوں گا.جب کھانے کا وقت آیا تو کوئی عورت خربوزے بیچتی ہوئی ادھر سے گزری.اس نے اس سے دو چار آنے کے خربوزے لے لئے جو بہت سے آ گئے.اور وہ انہیں کھانے لگا.کھاتے کھاتے جب پیٹ بھر گیا تو کہنے لگا کہ یہ بھی کوئی کھانے کی چیز ہے جو میں کھا رہا ہوں.ان کا سردہ بہت زیادہ میٹھا اور لذیذ ہوتا ہے اور ہمارے ہاں کا خربوزہ اس کی نسبت بہت پھیکا.تو اس نے خیال کیا کہ یہ بھی کوئی کھانے کی چیز ہے.ہندی خربوزہ ہر گز کھانے کے قابل نہیں چنانچہ وہ اٹھا اور کھڑے ہو کر ان پر پیشاب کر دیا اور چلا گیا.کام پر جا کر جب ایک دو گھنٹہ کہی چلائی تو پھر بھوک وطن.

Page 508

* 1941 508 خطبات محمود لگ گئی.اس پر اسے پھر خربوزوں کا خیال آیا چنانچہ آیا اور ان کو دیکھا مگر ان پر پیشاب کر چکا تھا اس لئے خربوزوں کو حسرت سے دیکھنے لگا.آخر ان میں سے ایک کو اٹھایا اور کہا کہ اس پر تو پیشاب نہیں پڑا اور اسے کھا گیا.مضبوط اور جوان آدمی کو ایک خربوزے سے کیا ہوتا ہے.دس پندرہ منٹ میں ہی پھر بھوک لگ گئی.پھر آیا اور دوسرا خربوزہ اٹھا کر کہنے لگا کہ اس پر بھی نہیں پڑا تھا اور اسے بھی کھا گیا.اسی طرح کرتے کرتے سوائے ایک کے سب کھا گیا اور وہ ایک بھی اس لئے چھوڑ دیا کہ کسی ایک پر تو پیشاب پڑنا ماننا ہی پڑتا تھا.شام کو جب بہت بھوک لگی اور وہ زیادہ تنگ ہوا تو کہنے لگا کہ میں بھی کیسا عجیب آدمی ہوں جن خربوزوں پر پیشاب پڑا تھا وہ تو کھا گیا اور جس پر بالکل نہیں پڑا تھا اسے چھوڑ دیا اور یہ کہہ کر اسے بھی اٹھا کر کھا لیا.تو بھوک اور پیاس سے ہی کھانے اور پینے میں مزا آتا ہے.جب بھوک ہو تو ادنیٰ سے ادنی چیز بھی مل جائے تو اس کا بھی مزا آتا ہے.ایسی حالت میں اگر آدمی کو کہیں سے گنا مل جائے تو اسے بھی وہ لطف لے لے کر چوستا ہے.بھنے ہوئے دانے مل جائیں یا مکئی کا بھٹا مل جائے تو ایسی لذت آتی ہے کہ وہ کہتا ہے کہ لوگ مرغ بھون کر کیوں کھاتے ہیں اس سے زیادہ لذیذ تو وہ نہیں ہوتا حالانکہ یہ سب بھوک کی وجہ سے ہے مگر کبھی انسان بھوک کی شکایت کرنے لگتا ہے اور کہتا ہے خدا تعالیٰ نے بھوک کیا بنا دی ہے، پیاس کیا بنا دی ہے، بیماریاں کیا بنا ئی ہیں، موت کیا بنائی ہے حالانکہ یہ سب دراصل اللہ تعالیٰ کی رحمتیں ہیں.غریبوں کے لئے بیماریاں بھی رحمت ہو جاتی ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنا بچپن کا ایک واقعہ سنایا کرتے تھے فرماتے ایک چوہڑا ہمارے ہاں ملازم تھا آ.ایک دفعہ کھیلتے کھیلتے اس کے گھر چلے گئے اور لڑکے بھی تھے.ایک دوسرے سے لگے کہ تمہیں کیا چیز سب سے زیادہ پسند ہے اس چوہڑے سے پوچھا تو اس کہا کہ مٹھا مٹھا تاپ ہووے.مینہ پیدا ہووے تے بھیجے ہوئے دو سیر چھولے ہون اُتے رضائی ہووے.” یعنی ہلکا ہلکا بخار ہو ، بارش ہو رہی ہو، بھنے ہوئے دو سیر چنے

Page 509

* 1941 509 خطبات محمود پاس پڑے ہوں اور اوپر اوڑھنے کے لئے رضائی ہو.آپ فرماتے تھے.ہم نے پوچھا کہ چنے تو کھانے کی چیز ہے، رضائی اوڑھنے کی، ان سے تو آرام ملتا ہے مگر یہ ہلکا ہلکا جو بخار جو تم چاہتے ہو اس کا کیا مطلب ہے.اس نے کہا کہ اگر بخار زیادہ ہو تو اس تکلیف ہو و گی اور اگر بالکل نہ ہو تو کام سے چھٹکارا نہیں ہو سکتا.ابھی آدمی آ جائے گا که چلو مرزا جی بلاتے ہیں.تو غریبوں کے لئے بیماری بھی بعض اوقات رحمت ہو ہے.ان میں اور بھی فوائد ہیں.بیماری ان زہروں کا ازالہ کر دیتی ہے انسان کے اندر جمع ہو رہے ہوتے ہیں ورنہ ایسی حالت پیدا ہو جائے کہ انسان کھڑے کھڑے مر جائے.اندر صفرا پیدا ہوتا ہے تو قے آ جاتی ہے، دست آنے لگتے ہیں اور اس طرح صفرا نکل جاتا ہے جو اگر اندر رہتا تو کئی بیماریاں پیدا کرتا، استسقاء ہو جاتا اور انسان مر جاتا.ہر بیماری جو انسان کو آتی ہے وہ کیا ہے.اگلی بیماری کا نوٹس ہے.نزلہ نوٹس ہے سل کا.ہلکا ہلکا بخار نوٹس ہے سل اور دق کا.وہ خدا تعالیٰ کی طرف سے گویا ایک چٹھی ہے.خدا تعالیٰ ڈاک میں چٹھی نہیں بھیجتا بلکہ جسم کے اند رہی ایسی تبدیلی کر دیتا ہے کہ جس سے پتہ لگ جائے.نزلہ ہونا گویا خدا تعالیٰ کی طرف سے ایک کارڈ ہے.ایک مہینہ دو مہینہ کے بعد سل ہونے والی ہے.کھانسی نوٹس ہے اس بات کا کہ سل ہونے والی ہے.ہلکا ہلکا بخار نوٹس ہے اس امر کا کہ تپ دق ہونے والا ہے.تو یہ سب اللہ تعالیٰ کی طرف سے رحمتیں ہیں.مگر انسان ان سب سے گھبرا کر ان سے باہر نکلنا چاہتا ہے.وہ کوشش کرتا ہے کہ حکومتوں سے بھی آزاد ہو جاؤں.حکومتیں تلواروں اور نیزوں سے کام لیتی ہیں.اس لئے ان کا مقابلہ کرنے کے لئے انسان نے بندوق ایجاد کی پستول نکالا مگر جب حکومت کو علم ہوا تو اس نے کہا اس ایجاد کے لئے تمہارا شکریہ.تم نے ایسا اچھا ہتھیار دریافت کیا جو پہلے نہ تھا اور اس نے اپنی فوج اور پولیس کو بندوق اور پستولوں سے مسلح کر دیا.پھر انسان نے کہا حکومتیں ظالم ہیں اور ان کے مقابلہ کے لئے اس نے توپ ایجاد کی اور کہا کہ

Page 510

* 1941 510 خطبات محمود ہتھیار بندوق کو اڑا دے گا مگر اسے بھی حکومت نے سنبھال لیا اور اپنی فوجوں کو ނ تو پوں سے مسلح کر دیا.عوام پھر بھی بغیر ہتھیار کے رہ گئے اور حکومتیں پہلے بھی زیادہ طاقت ور ہو گئیں.پھر انسان نے ہوائی جہاز نکالے، بم نکالے اس پر حکومت اور بھی خوش ہوئی اور اس نے سمجھ لیا کہ اب رعایا ہمارا مقابلہ بالکل ہی نہ سکے گی.غرض بعض لوگ حکومتوں کو ایک مصیبت خیال کرتے ہیں اور ان سے بچنا چاہتے ہیں مگر اور زیادہ مصیبتوں میں پھنس جاتے ہیں.زار کی حکومت جو روس میں تھی اور اس زمانہ کے ڈکٹیٹروں کی حکومتیں بھی اس سے کم نہیں.یہ سب اس بات کا نتیجہ ہیں کہ انسان نے خد اتعالیٰ کی حکومت سے آزاد ہونے کی کوشش کی.اگر لوگ خدا تعالیٰ کے قانون کے ماتحت چلتے تو یہ مصائب کبھی نہ آتیں.آج سے 25،30 سال قبل سائنسدان اس بات پر کتنے مغرور تھے کہ انہوں نے دنیا کی پیدائش کا سوال حل کر لیا.مگر آج ہم دیکھتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ پیدائش کا سوال تو حل نہیں ہوا البتہ موت کا سوال بڑا اچھا حل کیا گیا ہے.وارسا جیسا شہر جس کی آبادی دس لاکھ تھی.تین دن کی بمباری سے بالکل تباہ ہو گیا.تو زندگی کا سوال تو ویسا کا ویسا ہی رہا البتہ موت کا سوال خوب حل ہوا.یہ کتنی واضح بات ہے جو اللہ تعالیٰ نے بیان فرمائی کہ اے میرے بندو! تم وہ رستے تلاش نہ کرو کہ جن سے میرے قانون سے باہر جا سکو.اگر تم ایسی کوشش کرو گے تولا تَنفُذُونَ إِلَّا بِسُلْطنٍ یعنی سلطان تمہارے ساتھ ساتھ ہو گا اور تم خدا تعالیٰ کے قانون سے کسی صورت میں باہر نہ جا سکو گے.دیکھ لو کیسے سیدھے سادے معنے ہیں جن میں کوئی محذوف بھی نکالنا نہیں پڑتا.اسی طرح مِنْ أَقْطَارِ السَّمواتِ میں آسمانی قانون کا ذکر کیا ہے.اس سے بھی بھاگنے کی لوگوں نے کتنی کوشش کی ہے.بڑی کوشش کی گئی ہے کہ کسی طرح مذہب کا قائمقام عقل سے نکالیں اور بعض قائم مقام نکالے بھی گئے مگر دیکھ لو ان سے کیا سکھ ملا ہے.روسیوں نے بولشو ازم4 نکالا.جرمنوں نے نائسی ازم.مگر کیا

Page 511

خطبات محمود ہو کیپیٹلزم 511 * 1941 ان سے لوگوں کے دکھ کم ہوئے.ہر گز نہیں بلکہ اور بڑھ گئے.ان سے شکایات اور تکالیف اور بھی بڑھ گئیں.انسان نے خد اتعالیٰ کی غلامی سے نکلنا چاہا مگر اس سے بھی بدتر غلامی میں مبتلا ہو گیا پھر انسان نے کیا کیا قوانین نکالے.حضرت موسیٰ اور حضرت عیسی کے صحابہ تک تو یہ قانون مانتے آئے ہیں کہ بعض ضرورتوں کے ماتحت ایک سے زیادہ بیویاں کرنا نہ صرف جائز بلکہ ضروری ہے مگر یورپ نے یہ قانون بنایا کہ ایک ہی بیوی ہونی چاہئے.ایک سے زیادہ حرام کاری ہے اور اس کے نتیجہ میں یورپ ہزارہا سال تک ایسی بدکاری میں مبتلا ہوا کہ جسے دور کرنا اس کے اختیار میں نہ تھا اور آج پھر یہ آوازیں آنے لگی ہیں کہ ایک سے زیادہ بیویوں کی ضرورت خدا تعالیٰ نے کیسا فطرت کے مطابق قانون بنایا تھا کہ ساری اولاد ہے.جائداد اور ترکہ کی وارث ہو مگر یورپ نے اسے چھوڑا تو دیکھو کیسی خطرناک کی لعنت کا شکار ہوا اور کس طرح اس قانون نے جہاں ایک گروہ سرمایہ داروں کا پیدا کر دیا وہاں دوسری اولاد کو سوسائٹی کے لئے لعنت بنا دیا.سرمایہ چند ہاتھوں میں جمع ہو گیا.اگر خدا تعالیٰ کے قانون پر عمل کیا جاتا تو ایسا کبھی سکتا.فرض کرو کسی کے پاس پچاس ہزار ایکڑ زمین ہوتی اور اب تک اگر دس نسلیں بھی مان لی جائیں اس کے دو لڑکے ہوتے تو ان کو 25،25 ہزار ایکڑ زمین مل جاتی پھر اگلی نسل میں بھی دو دو ہی لڑکے ہوتے تو % 12-% 12 ہزار ایکٹر ہو جاتی اور اسی طرح اگر ہر نسل میں دو دو ہی لڑکے فرض کئے جائیں تو تیسری نسل میں 66 ہزار.چوتھی میں قریباً 31،31 سو.پانچویں میں پندرہ پندرہ سو.چھٹی میں % 7- 7.ساتویں میں قریباً / 3/ 3 سو.آٹھویں میں ڈیڑھ ڈیڑھ سو.نویں میں 75،75 اور دسویں میں 37، 137ایکڑ اور اس طرح وہ ایک معمولی حیثیت کے زمیندار ہوتے.مگر یورپ نے قانون سے تمام پچاس ہزار ایکڑ بڑے لڑکے کے لئے ہی مخصوص کر کے باقی تمام اولاد کو غریب کر دیا اور اس طرح چند لوگ تو بڑے بڑے لارڈ بن گئے مگر باقی غریب رہ گئے.اگر اسلامی قانون پر عمل کیا جاتا تو آج کوئی لارڈ ہو

Page 512

* 1941 512 خطبات محمود نہ ہوتا.پچاس ہزار ایکڑ اراضی بھی دس نسلوں کے بعد 35،35 ایکٹر رہ جاتی اور وہ بھی اس صورت میں کہ دو دو ہی لڑکے فرض کئے جائیں حالانکہ بعض لوگوں کے لڑکے تین، چار ، پانچ، چھ ، سات، آٹھ ، نو، دس تک بھی ہو سکتے ہیں اور اگر اتنے اتنے لڑکے ہوتے تو آج ایک ایک کنال زمین بھی ان کے حصہ میں نہ آتی.تو یورپ نے خدائی قانون کو تو اس لئے چھوڑا تھا کہ اس سے ان کی عظمت اور وقار میں اضافہ ہو گا.مگر ایسا غلامی کا طوق ان کے گلے پڑا کہ آج پچھتاتے پھرتے ہیں.بچے مذہبی یعنی اسلام میں بھی مولویوں نے کئی باتیں داخل کر دیں اور کئی بہانے نکالے کہ خدا تعالیٰ کے احکام سے کس طرح بچا جا سکتا ہے انہوں نے کہا کہ فلاں حکم سے بچنے کا فلاں حیلہ ہے اور فلاں سے بچنے کا فلاں.اور پورا زور لگایا کہ کسی طرح ایسے حیلے تراش لئے جا سکیں جن سے خدا تعالیٰ کے احکام کو نہ ماننا پڑے.اس آیت میں اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کو مخاطب کر کے فرماتا ہے کہ خوب یاد رکھو تم اس سے باہر نہیں نکل سکتے اور جب بھی نکلو گے خدائی سلطان کے ساتھ نکلو گے ورنہ اپنے حیلے بہانوں سے اور بھی تکالیف میں مبتلا ہو جاؤ گے.چنانچہ دیکھ لو.مولویوں نے جو حیلے بہانے نکالے ان کا نتیجہ یہ ہوا کہ اسلام چھوٹا اور ساتھ ہی وہ عزت بھی جاتی رہی جو مسلمانوں کو حاصل تھی.وہ دنیوی لحاظ سے بھی ایسے ذلیل ہو گئے کہ آج جوتیاں چٹخاتے پھرتے ہیں.کجا یہ حالت تھی کہ ایک مسلمان بادشاہ ذرا کا اظہار کرتا تو سارا یورپ تھرا اٹھتا تھا اور کُجا یہ کہ آج اگر ساری اسلامی حکومتیں مل کر بھی کسی ایک بڑی یوروپین حکومت کا مقابلہ کرنا چاہیں تو نہیں کر سکتیں.افغانستان، عراق، عرب، ایران، مصر اور ترکی سارے مل کر بھی اگر انگریزوں کا مقابلہ کرنا چاہیں تو چھ ماہ نہیں کر سکتے.اگر سارے مل کر روس کا مقابلہ کرنا چاہیں تو چھ ماہ نہیں کر سکتے.سارے مل کر جرمنی کا مقابلہ کرنا چاہیں تو چھ ماہ نہیں کر سکتے، امریکہ کا مقابلہ کرنا چاہیں تو چھ ماہ نہیں کر سکتے.ایشیائی طاقت جاپان کا مقابلہ بھی چھ ماہ نہیں کر سکتے.یہ کتنا بڑا تغیر ہے.کجا یہ حالت تھی کہ مسلمانوں کا بھی

Page 513

خطبات محمود 513 * 1941 خلیفہ مدینہ میں بیٹھا ہوا کوئی بات کہتا تو قیصر روم قسطنطنیہ میں تھر تھر کانپ اٹھتا تھا اور کُجا آج یہ حالت ہے کہ باوجود اس کے کہ بادشاہت نے خلافت کی جگہ لے لی مگر سارے مسلمان ممالک مل کر یورپ کی کسی ایک بڑی طاقت کا مقابلہ بھی نہیں کر سکتے.انہوں نے کوشش کی کہ قرآن کا جوا پھینک کر آزاد ہو جائیں مگر اور بھی اس سے زیادہ غلام ہو گئے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے لَا تَنْفُذُونَ إِلَّا بِسُلْطَنٍ کہ تم اس قانون سے نکل نہیں سکتے.حتی کہ اسلام جو سچا مذہب ہے اس میں اگر کوئی خرابی تم خود بھی داخل کر لو بھی خود بخود نہ نکل سکو گے.اس سے بھی کوئی مامور ہی آکر تمہیں نکالے گا.دیکھ لو وہابیوں نے کتنا زور مارا کہ حنفیوں نے جو رطب و یابس اسلام میں داخل کر دیا ہے اسے نکال دیں مگر کامیاب نہ ہو سکے بلکہ اسے صاف کرتے ہوئے ساتھ ہی قرآن کریم پر بھی ہاتھ صاف کر دیا.اور صرف بخاری ہی بخاری رہ گئی.فرما یا لَا تَنفُذُونَ الَّا بِسُلْطن.اگر خدا تعالیٰ کے دین میں تم خود کوئی بات داخل کر لو تو اس سے بھی تمہیں خدا تعالیٰ کی طرف سے کوئی سلطان یعنی مامور ہی آکر نکالے گا.تم خود اس سے بھی نہ نکل سکو گے.اگر تم نے سچے مذہب میں کوئی گمراہی بھی داخل کر لی ہے تو چونکہ وہ دین کا جزو بن چکی ہے اس لئے اپنے دین کی عظمت کے پیش نظر خدا تعالیٰ تمہیں وہ گمراہی بھی نہیں نکالنے دے گا.ورنہ تم میں یہ غرور پیدا ہو سکتا ہے کہ شاید ہم بھی دین بنانے کی اہلیت رکھتے ہیں.اس لئے ہم نے یہ قانون بنا دیا ہے کہ سچے دین سے خرابیوں کو دور کرنے کے لئے بھی مامور کی ضرورت ہے.گو وہ خرابی جسے اس نے نکالنا ہے بندوں نے ہی پیدا کی ہو.مگر احتیاط کا پہلو یہی ہے کہ اسے خود نہ نکال سکو بلکہ وہ خرابی بھی الّابِ سُلْطنٍ ہی نکل سکتی ہے یعنی ہم اس کی اصلاح کے لئے مامور بھیجتے ہیں.اس گمراہی سے نجات بھی سلطان کے ذریعہ ہی ہو سکتی ہے.تم خود اس سے نجات نہیں پاسکتے اور یہ احتیاط اس لئے کی جاتی ہے کہ تا تم دودھ میں سے مکھی نکالتے نکالتے دودھ بھی ضائع نہ کر دو.خدا تعالیٰ

Page 514

* 1941 514 خطبات محمود کے دین کو تم نے منسوخ کر دیا اور اس میں گند ملا لیا اور اس طرح خدا تعالیٰ کے قانون سے بچنے کی کوشش کی مگر اب اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ تمہیں اسی کی غلامی کرنی پڑے گی جب تک کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے کوئی مامور آکر اس کی اصلاح نہ کر دے.پس اس آیت کے یہ معنی ہوئے کہ اگر تم مذہب کے قانون سے آزاد ہونے کی کوشش کرو گے تو بھی آزاد نہیں ہو سکتے بلکہ اس سے اور مصائب میں مبتلا ہو جاؤ گے.اب دیکھ لو یہ معنی کرنے کے بعد فَبِأَيِّ آلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِ بْنِ کیسا مطابق بیٹھتا ہے یعنی تم خدا تعالیٰ کی کون کون سی نعمت کا انکار کرو گے.اگر ہم نے یہ قانون نہ بنایا ہوتا تو تم کیسے گڑھوں میں گر جاتے.یہ حد بندی اگر نہ ہوتی، اگر مذہب کی اصلاح کا اختیار انسان کو ہوتا تو پتہ نہیں کہ وہ سچے دین کو کیا سے کیا بنا دیتا یا اگر اس کے اختیار میں ہوتا تو قانون قدرت کو بدل دیتا اور سائنس کی مدد سے موت کو اڑا دیتا اور اس طرح خطرناک مصائب کا شکار ہو جاتا.اگر قانون فطرت یا قانون شریعت کو بدلنے کا اختیار انسان کو ہوتا تو وہ اپنے لئے ایسی ایسی مصیبتیں پیدا کر لیتا کہ جن سے پھر نکل نہ سکتا.مثلاً فرض کرو موت کو اڑانے کا اختیار اسے ہوتا تو کس طرح مشکلات پیش آتیں.تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ موت کو اپنے اختیار میں رکھ کر ہم نے تم پر رحم کیا ہے.اگر مارنا یا جلانا انسان کے اختیار میں ہوتا تو یہ دونوں چیزیں اس کے لئے مصیبت بن جاتیں.پھر فرمایا يُرْسَلُ عَلَيْكُمَا شُوَاظٌ مِنْ نَّاءٍ وَ تُحَاسُ فَلَا تَنْتَصِرانِ یعنی دنیا جب کبھی ان قانونوں سے بچنے کی کوشش کرے گی.دنیا میں لڑائی اور جھگڑے زیادہ ہوں گے.جب انسان قانون قدرت سے بچنے کی کوشش کرے گا تب بھی اور جب قانون ہب سے بچنے کی کوشش کرے گا تب بھی وہ سخت مصیبت میں مبتلا ہو گا.موجودہ جنگ بھی اسی قانون کے ماتحت ہو رہی ہے.ہو رہی ہے.سائنسدانوں نے کوشش شروع کی کہ وہ انسان کو خدا تعالیٰ سے آزاد کر دیں مگر اس کوشش کا نتیجہ

Page 515

خطبات محمود 515 * 1941 کیا نکلا؟ ہم اور ہوائی جہاز اور اس طرح موت پہلے سے بھی زیادہ بڑھ گئی.خدائی مذہب نے انسان کی نجات کا جو راستہ تجویز کیا تھا اسے نظر انداز کر کے لوگوں نے بالشو ازم اور ناٹسی ازم نکالے مگر ان سے غلامی اور بھی بڑھ گئی.یہی شُوَاظٌ مِن نَّارٍ ہے.فرمایا بھی تم کہو گے کہ سائنس کی ترقی سے ہم خدا تعالیٰ کو بے دخل کر دیں یا خدا تعالیٰ کے قانون کی جگہ خود کوئی قانون بنا لیں تو تم پر اور زیادہ مصائب آئیں گے ہم گریں گے اور آزادی حاصل کرنے کی بجائے اور بھی غلامی میں پڑ جاؤ گے.اگر واقعی مذہب میں خرابی پیدا ہو جائے تو بھی تم اس سے آزاد نہیں ہو سکتے جب تک کہ خدا تعالیٰ کا نبی آکر تمہیں اس سے نہ نکالے.اگر بگاڑ تم نے خود پیدا کیا ہے تو دور اسے خود نہیں کر سکتے بلکہ خدا تعالیٰ کا مامور آکر ہی اسے دور کر سکتا ہے.اسی طرح سائنس جب مذہب سے جدا ہو کر چاہے گی کہ خدا کو پنشن دے دے تو اس کی تحقیقات کے نتیجہ میں بم اور طیارے ایجاد ہوں گے.آرام اور سکھ کے سامان نہیں.آرام اور سکھ کے سامان اسی صورت میں ایجاد ہوں گے جب خدا تعالیٰ پر یقین ہو اور اس کے قانون کو اپنے لئے راحت کا موجب سمجھتے ہوئے تم کہو کہ اللہ تعالیٰ نے ہر چیز میں مخفی طاقتیں بھی رکھی ہیں.آؤ ان کی تحقیقات کریں.ان حالات میں جو ایجادیں ہوں گی وہ آرام و راحت اور آسائش کا موجب ہوں گی لیکن جب خدا تعالیٰ پر ایمان نہ ہو گا اور اس کے قانون سے بچنے کی کوشش کی جائے گی تو اس صورت میں ذہن ہمیشہ تکلیف دہ چیزوں کی طرف جائے گا.دیکھو مسلمانوں کی ایجادیں دنیا کے سکھ اور راحت کا موجب ہوا کرتی تھیں کیونکہ ان کا خدا پر ایمان تھا.غرض خدا تعالیٰ پر ایمان رکھتے ہوئے اس کی دی ہوئی مخفی طاقتوں کی تحقیقات کرنے والے کا ذہن ایسی چیزوں کی طرف جائے گا جو انسان کے لئے سکھ اور راحت کا موجب ہوں لیکن جب خدا تعالیٰ پر ایمان نہ ہو بلکہ اس کے قانون سے بچنے کی کوشش کی جا رہی ہو تو ایسا انسان خواہ دوائیاں ہی کیوں نہ بنانے کی کوشش کرے اس کی کوششوں کا نتیجہ بم اور ہلاکت آفرین ایجادیں ہی ہوں گی.وہ خواہ

Page 516

* 1941 516 خطبات محمود کوئی آرام دہ چیز ہی ایجاد کرنا چاہے مگر نتیجہ بمبار طیارہ کی دریافت ہی ہو گا.کیونکہ جب دل میں خدا تعالیٰ کی رحمت کا یقین نہ ہو تو یہ ہو نہیں سکتا کہ ذہن کسی ایسی چیز کی طرف جا سکے جو انسان کے لئے رحمت کا موجب ہو سکے.ایسی حالت میں جو تحقیقات ہو گی اس کا نتیجہ فساد کے سوا کچھ نہ ہو گا اور اس سے بچنے کا صرف ایک ہی طریق ہے اور وہ یہ کہ خدا تعالیٰ کے قانون کو رحمت سمجھو اور اس سے بچنے کی کوشش نہ کرو.پھر تمہارا ذہن ایسی ایجادوں کی طرف جائے گا جو دنیا کے لئے رحمت کا موجب ہوں گی.اسی طرح اگر مذہب میں تمہیں کوئی دقت پیش آتی تو اس کا یہ طریق نہیں کہ خود اس سے نکلنے کی کوشش کرو بلکہ اس کا ایک ہی علاج ہے کہ دعائیں کرو تا خدا تعالیٰ اپنا مامور بھیجے جو آکر اصلاح کرے اور ان آغلال کو کاٹ دے اگر خود ان کو کاٹنے کی کوشش کرو گے تو وہ اور پڑ جائیں گے.یہ ہے اس آیت کا مضمون میرے نزدیک.جسے عذاب الہی تک محدود کر کے مفسرین نے اس سے اگلی آیت فَبِأَي الاء ربكمالكَذِینِ کا مضمون بھی بگاڑ دیا ہے." (الفضل 29 اکتوبر 1941ء) 1 الرحمن : 34 تا 37 2 الفاتحه : 2 3 الفاتحه : 3 4 بالشوازم کمیونزم کا روسی نام.اس اصطلاح کا استعمال پہلی بار 1903ء میں لنڈن میں ہوا جبکہ روسی سوشل ڈیمو کریٹک پارٹی کے اجلاس میں کارل مارکس کے پیروؤں کو اکثریت حاصل تھی.اس کے مقابلہ میں اقلیت کو بولشویک کہا گیا.1917ء کے انقلاب کے بعد بولشویک پارٹی کا نام کمیونسٹ پارٹی ہو گیا.(ایوری میں انسائیکلو پیڈیا، اردو انسائیکلو پیڈیا)

Page 517

* 1941 517 (30) خطبات محمود خوب دعائیں کرو کہ ہم بحیثیت جماعت خدا تعالیٰ سے اور ہمارا رب ہم سے راضی ہو جائے تشهد فرمودہ 24اکتوبر 1941ء) تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:.“مسنون طریق خطبہ کھڑے ہو کر پڑھنے کا ہے مگر بوجہ اس کے کہ ابھی بیماری کی کمزوری کافی ہے میں کھڑے ہو کر خطبہ نہیں پڑھ سکتا.ہماری شریعت کا یہ ایک احسان ہے اور اس کے کامل ہونے کی دلیل کہ اس نے ہر حالت کے انسان کے لئے ایک جواز کی صورت پیدا کر دی ہے.نماز کھڑے ہو کر پڑھنے کا حکم ہے مگر کوئی شخص بوجہ بیماری کھڑا نہ ہو سکے تو اسے بیٹھ کر پڑھنے کی بھی اجازت ہے اور اگر کوئی بیٹھ کر نہ پڑھ سکے تو لیٹ کر ہی پڑھ لینے کی اجازت ہے.اگر کوئی لیٹ کر بھی کروٹ نہ بدل سکے تو اسے اجازت ہے کہ دل میں ہی نماز کی عبارتیں دہرالے اور اگر کوئی بے ہوشی کی حالت میں ہو اور بیماری نے اسے بالکل مضمحل کر رکھا ہو اور حالتِ صحت میں باقاعدہ نماز پڑھنے والا ہو تو شریعت کا فیصلہ یہ ہے کہ جب بھی نماز کا وقت آئے گا اس کے نام نماز لکھ دی جائے گی.یہ اسلام کے فضائل میں سے ایک فضیلت ہے کہ وہ ہر قسم کے حالات میں انسان کے لئے سہولتیں بہم پہنچاتا ہے.آج میں اس امر کو بیان کرنا چاہتا ہوں کہ بوجہ بیماری اس سال کے

Page 518

* 1941 518 خطبات محمود روزوں کے متعلق میں کوئی اعلان نہیں کر سکا.ہماری جماعت چونکہ دور دور پھیلی ہوئی ہے اس لئے پہلے سے ایسا اعلان ضروری ہوتا ہے مگر میں چونکہ بیمار تھا اس لئے پہلے اعلان نہ کر سکا.یہ بھی ہو سکتا تھا کہ میں اس کے متعلق مضمون لکھوا کر الفضل ” میں شائع کرا دیتا مگر بیمار کا ذہن بھی چونکہ صاف نہیں ہوتا اس لئے ہر قسم کی تجاویز بھی نہیں سوچ سکتا.وہ بہر حال جو ہو چکا.سو ہو چکا.اب اس جمعہ میں میں یہ اعلان کرتا ہوں کہ سب سابق ہماری جماعت کے دوست اس شوال میں بھی سات روزے رکھیں.پہلا روزہ اس ہفتہ کی جمعرات سے شروع ہو.پھر ہر پیر اور جمعرات کو رکھتے ہوئے سات روزے پورے کئے جائیں چونکہ یہ روزے بھی نفلی ہیں اور دعاؤں کے لئے ہیں.اس لئے شوال کے مہینہ میں آنحضرت صلی لی یکم جو چھ روزے رکھتے تھے.1 وہ بھی چونکہ نفلی ہیں اس لئے وہ چھ روزے بھی ان کے اندر شامل کئے جا سکتے ہیں اگر یہ روزے رکھ لئے جائیں تو سمجھ لیا جائے گا کہ آنحضرت میلی لی ایم کی جو سنت شوال میں روزے رکھنے کے متعلق ہے اس پر بھی عمل ہو گیا.وہ روزے چھ ہیں اور اس طرح ایک ا الله سة روزہ زیادہ ہو گا.جیسا کہ میں نے پہلے بھی کئی بار بیان کیا ہے.یہ زمانہ جو گزر رہا ہے سخت مشکلات کا زمانہ ہے اور بہت نازک ہے.دنیا پر بھی مصائب پر مصائب آ رہی ہیں اور ہماری جماعت بھی بوجہ اقلیت ہونے کے سخت مشکلات میں سے گزر رہی ہے اور اس واسطے ہمارے لئے دعاؤں کا موقع مل جانا خواہ وہ خدا تعالیٰ کی طرف سے پیدا کیا گیا ہو یا نظام کی طرف سے مقرر شدہ ہو.ایک برکت کی چیز ہے.جس سے فائدہ اٹھا کر ہم بہت سی مشکلات سے بچ سکتے ہیں اور خدا تعالیٰ کے بہت سے فضلوں کے وارث ہو سکتے ہیں.جو مصائب بندوں کی طرف لائی جانی ہیں ان سے بچنے کے لئے اور جو فضل خدا تعالیٰ کی طرف سے ہمارے لئے مقدر ہیں ان کو حاصل کرنے کے لئے یہ روزے بہت مفید ہیں.کیونکہ ان کی غرض یہی ہے کہ جماعت کے ނ

Page 519

* 1941 519 خطبات محمود دوستوں کو زیادہ دعائیں کرنے کا موقع ملے اور اس بات کو مد نظر رکھتے ہوئے دوست خصوصیت کے ساتھ تہجد کے لئے اٹھا کریں اور خصوصیت سے یہ دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ سلسلہ کی مشکلات کو خواہ وہ رعایا کی طرف سے ہوں خواہ حکومت کی طرف سے اور خواہ دوسری حکومتوں کی طرف سے ہوں دور فرمائے اور سلسلہ کی عظمت کو قائم کرے اور اسے ترقی عطا فرمائے.کچھ عرصہ سے میں دیکھتا ہوں کہ بلا وجہ اور ہلا سبب ہماری جماعت کے خلاف کارروائیاں کی جاتی ہیں اور اس کی بنیاد جہاں تک میں سمجھتا ہوں اس بات پر ہے کہ حکومت کا خیال ہے کہ کوئی منظم جماعت ملک میں نہیں ہونی چاہئے.اخلاقی طور پر ایسا گرا ہوا خیال ہے کہ کسی مہذب کہلانے والی گورنمنٹ کو اس کا شکار نہیں ہونا چاہئے.مگر چونکہ دنیوی حکومتیں ہر بات کو دنیوی نقطہ نگاہ سے دیکھتی ہیں اور الہی اخلاق ان کے سامنے نہیں ہوتے اس لئے وہ ایسی حرکات کر جاتی ہیں اور یہی کہ متواتر سات آٹھ سال سے ایسی کارروائیاں ہو رہی ہیں.قسم قسم کے ہے الزام تراش کر اور بہتان باندھ کر جماعت یا اس کے معزز افراد مثلاً مبلغین وغیرہ کو متہم کیا جاتا ہے.اس کی وجہ سمجھ میں نہیں آتی اور حیرت ہوتی ہے کہ حکومت کو ہو کیا گیا ہے.جو لوگ آج ہمارے خلاف جھوٹی باتیں کرتے ہیں وہ پہلے بھی کرتے تھے.جب گزشتہ سالوں میں ہمارے خلاف شورش اٹھائی گئی تو لارڈ ہیلی نے چٹھی لکھ کر دی کہ جب میں پنجاب کا گورنر تھا اس وقت بھی اس جماعت کے خلاف ایسی باتیں ہوتی رہتی تھیں.حتی کہ انہی باتوں کی تحقیقات کے لئے مجھے دو تین بار گورداسپور جانا پڑا تا معلوم کر سکوں کہ یہ باتیں کہاں تک صحیح ہیں اور میں نے ہمیشہ ان باتوں کو جھوٹا پایا اور یہی ثابت ہوا کہ وہ صرف دشمنی کی وجہ سے کی جاتی تھیں اور انہوں نے اپنے آپ کو شہادت کے لئے پیش کیا اور کہا کہ اگر یہ معاملہ وزیر ہند کے پاس تحقیقات کے لئے آیا تو میں گواہی دوں گا.تو یہ چیزیں جو آج دشمنوں کی طرف سے پیش کی جاتی ہیں پہلے بھی تھیں.یہ کہ لوگ ہمارے خلاف باتیں بناتے ہیں

Page 520

* 1941 520 خطبات محمود کوئی نئی بات نہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام کے زمانہ میں مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی نے وائسرائے اور گورنر تک یہ باتیں پہنچائی تھیں کہ یہ لوگ باغی ہیں اور اس انتظار میں ہیں کہ طاقت حاصل ہو تو حکومت کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں اور اس بات کا ثبوت یہ ہے کہ مرزا صاحب مہدی ہونے کے مدعی ہیں اور مہدی کے لئے جنگ لازمی چیز ہے مگر فرق صرف یہ ہے کہ اس زمانہ میں حکام کی ذہنیت اور تھی اور اس وقت کے حکام کی ذہنیت اور ہے.ایک قصہ مشہور ہے.کہتے ہیں کوئی تاجر شہر کے قاضی کے پاس اپنا روپیہ امانت رکھ کر کہیں دور دراز کے سفر پر گیا.جب واپس آکر مانگا تو قاضی نے انکار کر دیا اور کہا کہ میرے پاس تم نے کوئی امانت نہیں رکھی تھی.تاجر بادشاہ کے پاس گیا اور قاضی کی شکایت کی.بادشاہ نے کہا کہ چونکہ قاضی ایک دفعہ انکار کر چکا ہے تو اسے تسلیم نہ کرے گا.اب یہی علاج ہے کہ اس پر اثر ڈالا جائے کہ میں تمہارا دوست ہوں.اور شاید تمہاری بات پر زیادہ اعتبار کروں گا.میرا جلوس فلاں وقت نکلنے والا ہے اور میں قاضی کے مکان کی طرف سے گزروں گا.تم بھی اس مکان کے قریب ہی کھڑے رہنا.میں تمہارے ساتھ اس طرح گفتگو کروں گا جیسے بے تکلف دوست سے کی جاتی ہے.تم گھبرانا نہیں اور دلیری سے باتیں کرنا.چنانچہ جلوس کے وقت وہ تاجر قاضی کے مکان کے قریب ہی آکر کھڑا ہو گیا.بادشاہ وہاں پہنچا تو پہچان کر کہنے لگا کہ فلاں تاجر صاحب سنائیے کیا حال ہے.مدت آپ ملے ہی نہیں.تاجر نے جواب دیا حضور اچھا ہوں.میں باہر گیا ہوا تھا واپس آیا تو بعض پریشانیاں لاحق ہو گئیں.لین دین کے معاملات میں کچھ خرابی تھی.اسی میں لگا رہا.بادشاہ نے کہا کہ یہ کیا بات ہے.آپ یہ کیا بات ہے.آپ ہمارے دوست ہیں.چاہئے تھا فوراً ہمارے پاس پہنچتے.وہ کونسی پریشانی تھی جسے ہم دور نہ کر سکتے.تاجر نے کہا.نہیں حضور وہ خود ہی دور ہو جائیں گی.حضور کو تکلیف دینے کی ضرورت نہیں.تاہم اگر کوئی موقع ہوا تو حاضر ہو کر عرض کروں گا.بادشاہ تو یہ باتیں کر کے ހނ

Page 521

* 1941 521 خطبات محمود آگے چلا گیا اور قاضی فوراً اس کے پاس آیا اور کہنے لگا کہ میاں سناؤ تم ایک دفعہ آئے تھے اور کہتے تھے کہ تم نے کچھ روپیہ میرے پاس امانت رکھا تھا.اس کے بعد تم آئے ہی نہیں.آکر اس کا کچھ اتہ پتہ بتاتے تو یاد آ سکتا تھا.تاجر نے پھر وہی باتیں جو کئی بار پہلے بھی کہہ چکا تھا دوہرا دیں کہ آپ یوں بیٹھے تھے اس طرح کی تھیلی تھی ایسا رنگ تھا اور اس میں روپے رکھے تھے.یہ سن کر قاضی نے کہا کہ اوہو! تم نے یہ سب باتیں پہلے کیوں نہ یاد کرائیں.ایسی تھیلی تو میرے پاس پڑی ہے.آکر لے جاؤ.چنانچہ اپنی امانت واپس لے آیا.تو یہ ذہنیت کا سوال ہے.ایک وقت اس نے سمجھا کہ مجھے کوئی پوچھنے والا نہیں اس تاجر کا کوئی مددگار نہیں.میں اس کی امانت ہضم کر لوں گا تو اس نے انکار کر دیا.مگر جب دیکھا کہ بادشاہ اس کا دوست ہے اور یہ روپیہ ہضم نہ ہو سکے گا تو فوراً واپس کر دیا.اسی طرح جب ماتحت حکام کو خیال ہو کہ حکومت کی ذہنیت کسی جماعت کے موافق ہے تو وہ شرارت سے رکے رہتے ہیں لیکن جب ان کا خیال ہو جائے کہ اعلیٰ حکام کی رائے اس جماعت کے خلاف ہے تو وہ اس کی مخالفت کرنے لگ جاتے ہیں.باتیں تو وہی ہوتی ہیں مگر جب حکام کی ذہنیت خراب نہ ہو تو وہ ان باتوں کی پرواہ نہیں کرتے اور کہتے ہیں کہ مخالف ایسی باتیں بنایا ہی کرتے ہیں.مگر جب حکام کی ذہنیت خراب ہو جائے تو وہ انہی باتوں کو بہت اہمیت دے دیتے ہیں.باتیں جہاں تک ہم سمجھتے ہیں پنجاب گورنمنٹ سے ہی تعلق رکھتی ہیں.انگریز قوم سے نہیں.انگریز قوم میں بعض لوگ ہمارے دوست ہیں.اور گزشتہ شورش کے ایام میں انہوں نے ہماری مدد بھی کی تھی اور برطانوی حکومت نے ان باتوں میں دخل ہی نہ دیا تھا.لیکن اس میں بھی شک نہیں کہ پنجاب گورنمنٹ یا اس کے بعض عہدہ داروں کی طرف سے ہمارے خلاف کارروائیاں ضرور کی جاتی ہیں اور ہمارے لئے ایک اور مشکل بھی ہے اور وہ یہ کہ ہماری شریعت ہمیں حکومت کا

Page 522

* 1941 522 خطبات محمود وفادار رہنے کا حکم دیتی ہے.دوسرے لوگوں کو اگر ایسے حالات پیش آئیں تو وہ خلاف قانون حرکات سے اپنا غصہ نکال لیتے ہیں مگر ہمیں اس کی بھی اجازت اسلام نہیں دیتا.اور یہ بات ظاہر ہے کہ ناجائز دکھ پہنچانے والے دلائل سے نہیں مانا کرتے.کہتے ہیں لاتوں کے بھوت باتوں سے نہیں مانا کرتے اور یہ ذریعہ خدا تعالیٰ نے ہم سے چھین لیا ہے.ہمیں یہی حکم ہے کہ یا تو جس ملک میں رہو اس کی حکومت کی فرمانبرداری کرو یا پھر اس ملک کو چھوڑ دو.ہمارے مقدس مذہبی مقامات قادیان اور پنجاب میں ہیں.اس لئے ہم ملک کو بھی نہیں چھوڑ سکتے اور حکومت کی مخالفت بھی نہیں کر سکتے.پس اس صورت میں ہمارے لئے سوائے اس کے کوئی چارہ نہیں کہ اللہ تعالیٰ کے حضور گر جائیں اور اس سے عاجزانہ دعائیں کریں اور کہیں کہ اے خدا دشمن ہم پر حملے کر رہا ہے اور ہمارے ہاتھ تو نے باندھے ہوئے ہیں اور ہم مقابلہ نہیں کر سکتے.اس لئے ہمارے دشمن کے ہاتھ بھی تو ہی باندھ دے ہمارے لئے جو مشکلات ہیں وہ بھی تیری کسی حکمت اور مصلحت کے ماتحت ہی ہیں اور تیرا فضل ہو تو انہی مشکلات سے بہت اعلیٰ نتائج ہمارے لئے نکل سکتے ہیں یہ مشکلات گو سخت ہیں مگر ہم تجھ سے درخواست کرتے ہیں کہ اپنے فضل سے ان کو دور فرما دے.ہماری جماعت نے ہمیشہ اللہ تعالیٰ کے تازہ نشانات دیکھے ہیں اور حال ہی میں ایک نشان حیرت انگیز طور پر پورا ہوا ہے.مجھے حیرت ہے کہ بعض لوگ خود غور نہیں کرتے اور پوچھتے ہیں کہ فلاں رؤیا کس طرح پورا ہوا.میں نے اکتوبر 1940ء میں رویا دیکھا تھا کہ میرے سامنے کچھ کاغذات پیش کئے گئے ہیں جو پٹیان گورنمنٹ کے متعلق ہیں اور ان کو دیکھ کر مجھے معلوم ہوتا ہے کہ وہ کچھ حرکات انگریزوں کے خلاف کر رہی ہے.اور انگریز پہلی دوستی کے لحاظ کی وجہ سے کچھ کر نہیں کر سکتے اور میں خواب میں ہی گھبراتا ہوں کہ اب کیا بنے گا.تو میرے دل میں ڈالا جاتا ہے کہ یہ صرف ایک سال کی بات ہے.سال کے

Page 523

خطبات محمود 523 * 1941 اندر اندر یہ حالت بدل جائے گی.بعض دوستوں کو یہ رؤیا سنایا اور یہ بھی کہا کہ اس کی چار تعبیریں ہو سکتی ہیں.یا تو مارشل پٹیان مر جائیں گے یا ان کی حکومت بدل جائے گی یا پٹیان گورنمنٹ پورے طور پر جرمنی سے مل جائے گی اور اس طرح برطانیہ کو جو کچھ اس کا لحاظ ہے وہ جاتا رہے گا اور وہ پوری طاقت کے ساتھ اس کا مقابلہ کر سکے گی یا پھر وہ انگریزوں کے ساتھ مل جائے گی اور یہ رویا حیرت انگیز طور پر پورا ہوا ہے.فرانس کی شکست سے ٹھیک ایک سال کے بعد عراق میں جرمنوں نے بغاوت کرائی اور ایسے نازک حالات پیدا ہو گئے کہ خطرہ تھا ہفتہ عشرہ میں ہی جنگ ہندوستان تک آپہنچے گی اور اس بغاوت کے سلسلہ میں شام کی فرانسیسی حکومت نے جرمنوں کو مدد دی اور اس طرح انگریزوں کے لئے جو پہلے فرانس کے ساتھ اس وجہ سے جنگ نہ کرنا چاہتے تھے کہ دنیا میں ان کی بدنامی ہو گی اور لوگ کہیں گے کہ اپنے سابق حلیف کے ساتھ جنگ کر رہے ہیں اس کا مقابلہ کرنے کا موقع خود بخود پیدا ہو گیا اور انہیں فرانس کو نوٹس دینا پڑا اور جب پھر بھی فرانس کے رویہ میں تبدیلی نہ ہوئی تو انہوں نے اس کا مقابلہ کیا اور اسے شکست دی.دیکھو کس طرح بہ رؤیا ایک سال کے اندر اندر پورا ہو گیا ورنہ اس وقت دونوں کی طرف سے اعلان ہوتے تھے کہ وہ ایک دوسرے کے ساتھ لڑنا نہیں چاہتے.فرانس والے کہتے تھے کہ ہم انگریزوں سے لڑائی نہیں چاہتے اور انگریز کہتے تھے کہ ہم فرانس کے کسی علاقہ پر قبضہ کے خواہاں نہیں اور دونوں میں جنگ ناممکن نظر آتی تھی.مگر 8،7 ماہ کے بعد ایسے سامان پیدا ہو گئے کہ عراق میں شرارت پھیلی اور انگریزوں نے وہ علاقہ اپنے اقتدار میں لے لیا جسے اڈا بنا کر جرمن حکومت سب سے زیادہ انگریزوں کو نقصان پہنچا سکتی تھی.پھر قریباً دو ماہ سے فرانس میں کبھی جرمن افسر قتل کئے جاتے ہیں اور بھی پٹیان گورنمنٹ کے افسروں پر حملے ہوتے ہیں.گویا فرانس میں انگریزوں کے حامیوں کا اتنا زور بڑھ رہا ہے کہ اب پٹیان گورنمنٹ ان کو دق نہیں کر سکتی.ایک سال کے اندر اندر اللہ تعالیٰ نے اس رؤیا کو ایسے رنگ میں پورا کر دیا ہے کہ

Page 524

* 1941 524 خطبات محمود حیرت ہوتی ہے.میں نے یہ رویا بعض دوستوں کو سنایا تھا.چوہدری سر ظفر اللہ خان صاحب کو بھی سنایا تھا.انہوں نے سن کر کہا کہ معلوم ہوتا ہے کہ مارشل پٹیان مر جائے گا.مگر میں نے کہا کہ نہیں اس کی چار تعبیریں ہو سکتی ہیں.جلسہ سالانہ پر بھی سنایا تھا.یہ اللہ تعالیٰ کے نشانات ہیں جو ہم دیکھتے ہیں ورنہ سیاسیات سے ہمارا کیا تعلق.ہمیں تو ہندوستان بلکہ پنجاب کی سیاسیات کی بھی سمجھ نہیں چہ جائیکہ انگلستان اور فرانس کے سیاسی معاملات کو سمجھ سکیں اور پتہ لگا سکیں کہ ایک سال بعد کیا ہو گا.اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے یہ خبریں پہلے سے بتا دیتا ہے تا ایک نشان ہو.عام خیال تھا کہ کریٹ پہنچ کر جر من اپنی فوجیں شام میں اتار دیں گے اور یہ ایک بہت بڑا خطر تھا مگر اللہ تعالیٰ نے ایسے سامان پیدا کر دیئے کہ خطرہ کا یہ مقام بھی دور ہو گیا.ہے جیسا کہ اس خواب میں بتایا گیا تھا.یہ نشانات بتاتے ہیں کہ ہمارا خدا بہت طاقتور - اور انسانی حکومتیں اس کے مقابلہ میں کوئی حیثیت نہیں رکھتیں.جب ہر ہمیں انگلستان میں اترا، میں سندھ میں تھا.رات کو میں نے ریڈیو پر خبریں سنیں.ان میں اس کے اترنے کا کوئی ذکر نہ تھا.یوں وہ اتر چکا تھا.رات کو میں نے خواب دیکھا کہ ایک بڑا جرمن لیڈر ہوائی جہاز سے انگلستان میں اترا ہے.صبح میں نے بعض دوستوں کو خطوط لکھے تو ان میں اس کا ذکر دیا کیونکہ صبح کی خبروں میں ریڈیو پر یہ خبر بھی آگئی تھی.میں نے خواب میں جو جرمن لیڈر دیکھا اس کا اور نام تھا مگر خواب میں بعض اوقات ایک سے مراد دوسرا ہوتا ہے.بعض اوقات باپ سے مراد بیٹا ہوتا ہے.آنحضرت صلی علی رام نے خواب میں دیکھا کہ ابو جہل کے ہاتھ میں جنت کے انگوروں کا خوشہ ہے.آپ فرماتے ہیں کہ میں بہت گھبرایا اور دل میں کہا کہ کیا خدا تعالیٰ ہو کا رسول اور اس کا دشمن دونوں ایک جگہ ہوں گے مگر بعد میں عکرمہ مسلمان گئے تو معلوم ہوا کہ اس رویا میں ابو جہل سے مراد اس کا بیٹا تھا.2 بعض دفعہ خواب میں بیٹا دکھایا جاتا ہے تو مراد اس سے باپ ہوتا ہے.یہ بہت وسیع مضمون ہے جس کے بیان کا یہ موقع نہیں.خواب میں میں نے اور جرمن لیڈر دیکھا تھا مگر

Page 525

* 1941 525 خطبات محمود ہے اس کی ایک تعبیر یہ تھی کہ ہیں ہوائی جہاز سے اترا ہے اور ابھی ایک اور تعبیر جو ابھی پوری ہونے والی ہے.اس خواب میں اللہ تعالیٰ نے مجھ پر بعض اور باتیں بھی ظاہر فرمائیں جو بہت مخفی ہیں اور کسی پر میں نے ان کو ظاہر نہیں کیا.غرض اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہر وقت ہماری مدد ہوتی ہے.اس لئے ہم وہ ہتھیار کیوں نہ استعمال کریں جو اس نے ہمیں دیا ہے اور جو دعا کا ہتھیار ہے.دنیوی لحاظ سے ہم بے بس اور بے کس ہیں مگر دراصل نہیں ہیں.سچی بات یہ ہے کہ ہم سے زیادہ طاقت ور اور کوئی نہیں ہے.کیونکہ ہمارے ساتھ اللہ تعالیٰ کی مدد اور نصرت ہے.اور جس کے ساتھ خدا تعالیٰ کی مدد ہو وہ بے بس اور بے کس نہیں ہوتا.رسول کریم صلی ا لم ظاہری لحاظ سے بالکل بے بس تھے اور ایسی بے بسی تھی کہ مکہ کے لوگ جن کے پاس کوئی بڑی طاقت یا حکومت نہ تھی مدینہ پر چڑھ آتے تھے.ایسی بے بسی کی حالت میں ایران کے بادشاہ نے آپ کی گرفتاری کا حکم یمن کے گورنر کو بھیجا اور اس نے اپنے آدمی آپ کے پاس بھیجے.انہوں نے آپ کو سمجھانا شروع کیا.وہ خیال کرتے تھے کہ یہ عرب کے لوگ ایران کے بادشاہ کی طاقت سے واقف نہیں ہیں.اس لئے آپ سے کہا کہ آپ ہمارے ساتھ چلے چلیں.گورنر نے وعدہ کیا ہے کہ وہ آپ کی سفارش بادشاہ کے پاس کر دے گا اور کہے گا کہ آپ قصور وار نہیں ہیں.اور اس طرح آپ کو بچانے کی کوشش کرے گا.لیکن نے انکار کیا اور ساتھ نہ گئے تو بادشاہ تمام عرب کو تباہ کر دے گا.آپ نے ان قاصدوں سے کہا کہ تین دن تک جواب دیں گے.آپ کی کوئی ذاتی طاقت تو نہ تھی.آپ نے دعا کی اور آپ کو الہام ہوا کہ ہم نے ایران کے بادشاہ کو اس کے بیٹے کے ہاتھ سے قتل کرا دیا ہے.ایرانی لوگ اپنے بادشاہ کو خدا اور خداوند کر خطاب کرتے تھے.اس لئے مقررہ دن جب اس کے قاصد جواب کے لئے پ کے پاس آئے تو آپ نے فرمایا کہ آج رات میرے خدا نے تمہارے خدا کو مار دیا ہے.انہوں نے پھر آپ کو سمجھانا شروع کیا اور کہا کہ آپ ایسا جواب نہ دیں.

Page 526

* 1941 526 خطبات محمود ے دو.وہ ہمارے ساتھ چلے چلیں.گورنر سفارش کر دے گا.ورنہ تمام ملک پر آفت آ جائے اور عرب برباد ہو جائے گا.آپ نے فرمایا کہ تم جاؤ اور گورنر کو میرا یہی جواب چلے گئے اور گورنر یمن کو یہ جواب پہنچا دیا.اس نے کہا میں کچھ دن انتظار کروں گا حتی کہ ایران سے ڈاک آ جائے.اگر یہ بات درست بات درست ہوئی تو میں بھی اس شخص پر ایمان لے آؤں گا اور اگر غلط ہوئی تو اللہ ہی عرب پر رحم کرے.کیونکہ کسری تمام عرب کو تباہ کر دے گا.چند روز کے بعد اسے اطلاع ملی کہ ایران سے ایک پیغامبر خاص جہاز میں آیا ہے اور اس کے نام بادشاہ کا خط لایا ہے.اتنے میں پیغامبر خط لے کر آیا.جب دستور کے مطابق گورنر اسے بوسہ دینے لگا تو اس نے دیکھا کہ اس پر مہر نئی تھی.جب اسے کھولا تو معلوم ہوا کہ وہ نئے بادشاہ کی طرف سے تھا جو پہلے بادشاہ کا بیٹا تھا.اس نے لکھا تھا کہ ہمارے باپ نے لوگوں پر بہت ظلم کئے تھے اور ملک کو تباہ کر رہا تھا اس لئے اپنے وطن کی مجبور ہو کر ہم نے فلاں رات اسے نے فلاں رات اسے قتل کر دیا.(یہ وہی رات تھی آنحضرت صلی ا ظلم کو الہام ہوا تھا.اب ہم بادشاہ ہیں.اس لئے اب ہماری اطاعت کا سب سے اقرار لو.نیز ہمارے باپ نے بے وقوفی سے عرب کے ایک شخص کی گرفتاری کا حکم دیا تھا حالانکہ اس کا کوئی قصور نہ تھا اس لئے ہم اس حکم کو بھی سے منسوخ کرتے ہیں.3 تو جس کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی مدد ہو اسے کوئی بڑی سے بڑی حکومت بھی کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتی.اس لئے ہمیں ہر وقت اللہ تعالیٰ کے حضور دعائیں کرنی چاہئیں.انگریزوں کی کامیابی کے لئے بھی ہمیں دعائیں کرنی چاہئیں گو پنجاب گورنمنٹ کے بعض افسروں کا سلوک ہم سے اچھا نہیں مگر برطانوی قوم میں ہمارے ست موجود ہیں اور جب تک اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کی ممانعت نہ ہو ہمیں اس قوم کے لئے دعائیں کرنی چاہئیں.دنیا کا کوئی قانون کسی کو اس بات پر

Page 527

* 1941 527 خطبات محمود مجبور نہیں کر سکتا کہ وہ حکومت کے لئے دعا بھی کرے.حضرت مسیح ناصری سے پوچھا گیا کہ قیصر کو جزیہ دینا روا ہے یا نہیں.ہم دیں یا نہ دیں.مسیح نے جواب میں کہا کہ جو قیصر کا ہے قیصر کو اور جو خدا کا ہے خدا کو ادا کرو.”4 مگر انسانی دماغ کو اللہ تعالیٰ نے آزاد رکھا ہے اور وہ قید میں بھی آزاد ہوتا ہے.دنیا کے بادشاہ ہتھکڑیاں لگا دیتے ہیں.پاؤں میں بیڑیاں ڈال دیتے ہیں.گلے میں طوق پہنا دیتے ہیں اور تنگ و تاریک کوٹھڑیوں میں بند کر دیتے ہیں.مگر اس حالت میں بھی انسانی دماغ آزاد ہوتا ہے.چاہے وہ 24 گھنٹہ بادشاہ کو گالیاں دے اسے کوئی نہیں روک سکتا.پس اگر ہم چاہیں تو انگریزوں کے لئے بد دعا بھی کر سکتے ہیں اور کوئی قانون ہم کو ایسا کرنے سے روک نہیں سکتا بلکہ یہ جان بھی نہیں سکتا مگر باوجود اس کے کہ ہم ایسا کرنے میں آزاد ہیں اور کوئی قانون ہم سے ایسا نہ کرنے کا مطالبہ بھی نہیں کرتا پھر بھی ہم انگریزوں کے لئے دعائیں ہی کرتے ہیں اور انہیں اس کی پرواہ بے شک نہ ہو مگر ہم چاہیں تو بد دعا کر کے اپنے عقیدہ کی رُو سے ان کو نقصان پہنچا سکتے ہیں.مگر ہم ایسا کرتے نہیں اور میں اب بھی جماعت کو یہی نصیحت کرتا ہوں کہ ان ایام میں بھی وہ برطانیہ کی فتح کے لئے ہی دعائیں کریں کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تعلیم سے ہمیں یہی معلوم ہوتا ہے کہ ہمیں ان کے لئے دعائیں کرنی چاہئیں اور جب تک ہمیں خدا تعالیٰ کی طرف سے یہ معلوم نہ ہو جائے کہ اب ان کے اس حق کا جس کی وجہ سے وہ دعاؤں کے مستحق تھے خاتمہ ہو چکا ہے دعائیں کرتے رہنا چاہئے.پھر یہ بھی دعا کرنی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ جہاں ان کو طاقت دے وہاں ان کے دماغ بھی ٹھیک رکھے اور ظالم افسروں کو انصاف کی طرف مائل کر دے.جب ہم کسی کے لئے یہ دعا کرتے ہیں کہ خدا تعالیٰ اسے طاقت اور تلوار دے تو ساتھ ہی یہ دعا بھی ضرور کرنی چاہئے کہ اس کے صحیح استعمال کی توفیق بھی اسے ے.ورنہ طاقت دلوا کر ہم لوگوں پر ظلم کرانے والے ہوں گے.اسی لئے شریعت کا یہ حکم ہے کہ جب مسلمانوں کے ذریعہ کسی کو طاقت ملے تو اس کے لئے دعا بھی

Page 528

* 1941 528 خطبات محمود.کرتے رہیں تا وہ اس طاقت کو غلط طور پر استعمال نہ کرے.درود میں بھی یہی حکمت ہے.یہ بھی ایک دعا ہی ہے جو نبی کے لئے کی جاتی ہے.انبیاء کے بھی فوائد ہوتے ہیں.گو اپنے اپنے مدارج کے لحاظ سے کسی کے کم اور کسی کے زیادہ اور وہ اگر چہ معصوم ہوتے ہیں مگر پھر بھی ان پر درود بھیجنے کا حکم ہے.خلفاء اگرچہ انبیاء کی طرح معصوم تو نہیں ہوتے مگر ان کو بھی ایک عصمتِ صغریٰ حاصل ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ ان کو ایسی غلطی میں پڑنے سے بچاتا ہے جس کے نتیجہ میں دین کو نقصان پہنچ سکتا ہو.نبی کا ہر فعل اپنی ذات میں معصوم ہوتا ہے مگر خلفاء کے افعال بحیثیت مجموعی خد اتعالیٰ کی حفاظت کے نیچے ہوتے ہیں.مگر پھر بھی انبیاء کے لئے بھی اور خلفاء کے لئے بھی دعائیں کرنے کا حکم ہے جس کی ایک واضح مثال درود ہے.جس میں نبی اور اس کی آل کے لئے جس میں خلفاء سب سے زیادہ حق کے ساتھ شامل ہیں دعا کی جاتی ہے.اسی طرح جو دنیوی حاکم ظالم ہو اس کے لئے بھی خدا تعالیٰ دعائیں کرنی چاہئیں کہ وہ اسے ہدایت دے اور جب کسی کو طاقت ملنے کی دعا کی جائے تو ساتھ ہی یہ دعا بھی ضروری ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ اسے انصاف کرنے کی توفیق عطا فرمائے.پھر یہ بھی دعا کرنی چاہئے کہ سلسلہ ہر لحاظ سے ترقی کرے اور احباب جماعت کو بھی ہر طرح کی ترقی حاصل ہو.اللہ تعالیٰ ہمارے دلوں پر ملائکہ نازل کرے.تا ہماری ایمانی قوت میں اضافہ ہو اور اللہ تعالیٰ کے ساتھ ہمارے تعلقات ایسے بڑھیں کہ ہم اس سے ، خوش ہو جائیں اور وہ ہم سے خوش ہو جائے اور ہماری زندگیاں آلائشوں سے پاک ہو جائیں اور ہمیں وہ مقام حاصل ہو جائے کہ اللہ تعالیٰ کی حفاظت میں آ جائیں.اور اگر یہ حالت پیدا ہو جائے تو گو ہمیں دنیوی برتری حاصل نہ ہو مگر دل کی خوشی انتہائی طور پر حاصل ہو جائے گی.دنیا میں مائیں کتنے دکھ اور تکالیف اٹھاتی ہیں مگر جب بچے یا خاوند کی طرف سے محبت کا ایک لفظ بھی بولا جائے تو ان کے سب دکھ دور ہو جاتے ہیں اور جسے اللہ تعالیٰ کی محبت حاصل ہو جائے اس کی خوشی کا کون اندازہ کر سکتا ہے.پس دوستوں کو چاہئے ہم

Page 529

* 1941 529 خطبات محمود کہ کوشش کریں.انہیں اللہ تعالیٰ کی محبت کا مقام حاصل ہو جائے اور ان کا خدا ان سے راضی ہو.صحابہ کے بہترین قوم ہونے کی دلیل یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے لئے رَضِيَ الله عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ 5 فرما دیا.یہ کتنی اعلی درجہ کی خوشی ہے کہ ان کا خدا ان سے راضی ہو گیا اور وہ اس سے راضی ہو گئے.یہ ایک ایسی فضیلت ہے کہ جسے بحیثیت قوم یہ حاصل ہو جائے اس کے اندر ایسی خوبی اور ایسا کمال پیدا ہو جاتا ہے کہ اس کے سامنے دنیا کی کوئی اور قوم ٹھہر نہیں سکتی.ہمیں دعائیں کرنی چاہئیں کہ خدا تعالیٰ کی یہ رضا ہمیں بھی حاصل ہو جائے.خدا تعالیٰ کے خزانے تنگ نہیں ہیں وہ بڑے سے بڑے انعام بھی کر سکتا ہے اس لئے اس سے مانگتے رہنا چاہئے اور کوئی بھی چیز مانگنے میں تامل نہ کرنا چاہئے.وہ چاہے تو سب کچھ دے سکتا ہے.احادیث میں آتا ہے کہ سب سے آخری انسان جو دوزخ میں رہ جائے گا.خدا تعالیٰ اسے فرمائے گا کہ ہم تمہیں دوزخ سے نکال کر باہر کھڑا کر دیتے ہیں.بتاؤ اور کچھ تو نہ مانگو گے وہ کہے گا حضور اس سے بڑھ کر مجھے اور کیا چاہئے.چنانچہ اسے نکال کر باہر کھڑا کر دیا جائے گا.کچھ عرصہ بعد ڈور اسے ایک سبز سایہ دار درخت دکھائی دے گا اور وہ چاہے گا کہ اگر اس کے نیچے رہنے کا موقع مل جائے تو اس دھوپ اور گرمی سے نجات ہو جائے.کچھ دن تو وہ اپنے وعدہ کی وجہ سے چپ رہے گا مگر آخر بے تاب ہو کر کہے گا کہ خدایا گو میں نے وعدہ کیا تھا مگر یہاں دھوپ ستاتی ہے اگر اس درخت کے نیچے رکھ دیا جائے تو پھر ٹھیک ہے.خدا تعالیٰ فرمائے گا کہ پھر تو کچھ اور نہ مانگو گے وہ کہے گا.نہیں حضور پھر کیا مانگنا ہے.خدا تعالیٰ فرشتوں کو حکم دے گا اور اسے اس درخت کے نیچے جگہ مل جائے گی.وہاں کچھ عرصه پر رہے گا اور خوش ہو گا کہ میری جنت یہی ہے پھر خدا تعالیٰ اور کچھ فاصلہ ایک اور درخت پیدا کرے گا.جو پہلے سے بہت زیادہ سر سبز ہو گا اور جس کے نیچے پانی کے چشمے بہہ رہے ہوں گے اور وہ چاہے گا کہ اس کے نیچے اسے جگہ مل جائے.مگر اپنے وعدہ کی وجہ سے کچھ دیر تو وہ صبر کرے گا لیکن آخر برداشت

Page 530

* 1941 530 خطبات محمود نہ کر سکے گا اور کہے گا کہ خدایا! میرا کوئی حق تو نہیں اور میں وعدہ بھی کر چکا ہوا ہوں لیکن اب رہا نہیں جاتا.مجھے اگر اس درخت تلے رکھ دیا جائے تو بہت مہربانی ہو گی.اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ پھر تو اور کچھ نہ مانگو گے؟ وہ کہے گا نہیں اور اسے وہاں رکھا جائے گا.وہاں سے اسے جنت نظر آئے گی اور اس کی نعمتیں دکھائی دیں گی اور کچھ عرصہ صبر کرنے کے بعد وہ کہے گا کہ مجھے جنت کی ذلیل ترین جگہ میں رہنے کی اجازت دے دی جائے اور پھر میں کبھی کچھ نہ مانگوں گا.حدیث میں آتا ہے کہ اس پر اللہ تعالیٰ ہنسے گا اور فرمائے گا کہ دیکھو میرے بندے کو جتنی زیادہ نعمت ملتی ہے اتنی ہی اس کی حرص بڑھتی ہے اور فرشتوں کو حکم دے گا کہ اسے جنت میں جو جگہ پسند ہو اُسے رہنے دیا جائے.6 تو دیکھو دوزخ میں سب سے آخر رہنے والا انسان اور خدا تعالیٰ کی رحمت اس کے دل میں کس طرح خود ہی لالچ پیدا کرتی اور پھر اسے انعامات دیتی ہے.درخت اگانے کے معنی دراصل یہی ہیں کہ انسان مانگے اور مانگتا جائے.یہاں تک کہ اس مقام کو پالے جس کے لئے پیدا کیا گیا ہے جیسا کہ فرمایا وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ إِلا لِيَعْبُدُونِ 7 یہ تمام واقعہ دراصل ایک تمثیل ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ انسان کے بڑی سے بڑی نعمت سے بھی محروم رہنے کی کوئی وجہ نہیں.خدا تعالیٰ کی رحمت بہت وسیع ہے.حدیث میں آتا ہے کہ قیامت کے روز اللہ تعالیٰ ایک شخص کو بلائے گا اور اسے کہے گا کہ تو نے یہ بدی کی یہ کی اور اس کی چھوٹی چھوٹی بدیاں گنوائے گا حالانکہ وہ اس سے بہت بڑے بڑے گناہ کر چکا ہوا ہو گا اور جب خدا تعالیٰ معمولی ا معمولی بدیاں گنوائے گا تو وہ دل میں ڈر رہا ہو گا کہ اب میرے بڑے بڑے گناہوں کی باری بھی آئے گی اور وہ اس تصور سے شرمندگی محسوس کر رہا ہو گا مگر اللہ تعالیٰ وہ چھوٹی چھوٹی بدیاں ہی گنوا کر فرمائے گا کہ جاؤ میں نے یہ سب معاف کیں اور ہر ایک کے بدلہ تمہیں دس گنا زیادہ ثواب بھی دیا.اس پر وہ عرض کرے گا کہ حضور آپ تو میری بہت سی بدیاں بھول گئے.میں نے تو فلاں قتل بھی کیا، فلاں ڈاکہ ڈالا، فلاں

Page 531

* 1941 531 خطبات محمود گناہ کیا، فلاں کیا.اس پر اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ دیکھو میرا بندہ جب میں نے اس پر احسان کیا تو اتنا دلیر ہو گیا کہ خود بخود اپنے گناہ گنوا رہا ہے اور فرمائے گا کہ جاؤ ان کے بدلے بھی دس دس نیکیاں تمہیں دیں.تو اللہ تعالیٰ کی رحمت بہت وسیع ہے.صرف مانگنے کی ضرورت ہے اور اس سے بہت زیادہ انعامات مانگنے چاہئیں.جب انسان مانگنے جائے تو ڈرے نہیں.پس خوب دعائیں کرو کہ ہمیں قومی طور پر یہ مقام حاصل ہو جائے.اس کے لئے خوب دعائیں کرو.خواہ ماتھے رگڑے جائیں کبھی کو تاہی نہ کرو اور اس مقام کے لئے خصوصیت سے دعائیں مانگو کہ ہم بحیثیت جماعت اپنے رب سے راضی ہو جائیں اور ہمارا رب ہم سے بحیثیت جماعت راضی ہو جائے.میں اخبار والوں کو بھی ہدایت کرتا ہوں کہ جلد سے جلد یہ اعلان کر دیں اور پھر بھی چوکٹھے میں نمایاں طور پر اس کا بار بار اعلان کرتے رہیں.اس ہفتہ کی جمعرات کو پہلا روزہ رکھا جائے پھر پیر کو پھر جمعرات کو اسی طرح سات روزے پورے کئے جائیں." (الفضل 9 نومبر 1941ء) وو 1 مسلم کتاب الصیام باب اِسْتِحْبَابِ صَوْمِ سِتَّةِ أَيَّامٍ 2 السيرة الحلبية جلد 3 صفحه 106-107 مطبوعہ مصر 1935ء تاریخ طبری الجزء الثالث صفحہ 247 تا 249 دار الفکر بیروت 1987ء مرقس باب 12 آیت 17.پاکستان بائبل سوسائٹی لاہور 1994ء 5 التوبة : 100 6 بخاری کتاب الرقاق باب الصراط جسر جہنم 7 الذاريات: 57 8 صحیح مسلم کتاب الایمان باب آخر اهل النار خروجًا

Page 532

* 1941 532 (31) خطبات محمود ہر کام خدا تعالیٰ کے مقرر کردہ قانون کے ماتحت اچھایا بُرا بنتا ہے ) فرمودہ 31 اکتوبر 1941ء ) تشہد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:.“ اللہ تعالیٰ کی دو صفات مُخی اور مُمِیت ہیں.وہ زندہ بھی کرتا ہے اور مارتا بھی ہے.اس کے زندہ کرنے کا ثبوت تو وہ ہزاروں لاکھوں بچے ہیں جو روزانہ دنیا میں پیدا ہوتے ہیں اور ایسے حالات میں پیدا ہوتے ہیں جو انسان کے اختیارات سے باہر ہوتے ہیں.اور ایسے حالات میں سے گزر کر بڑھتے ہیں کہ اگر کسی بالا ہستی کا اثر نہ ہو تو ان کے بڑھنے کی کوئی صورت نہیں ہو سکتی.ایک جانور کا بچہ صرف چند دن میں ہی اپنی ضرورتوں کو خود پورا کرنے کے قابل ہو جاتا ہے.چڑیوں کے بچے ایک یا ڈیڑھ ہفتہ میں اُڑنے لگ جاتے ہیں، مرغیوں کے بچے تین چار ہفتہ میں اپنی ضرورتوں کو پورا کرنے لگ جاتے ہیں.چوپایوں کے بچے پیدا ہوتے ہی تھوڑی دیر میں دوڑنے کودنے لگ جاتے ہیں.مگر انسان کا بچہ چھ چھ سات سات مہینے بلکہ بعض دفعہ نو نو ماہ تک گودی میں اٹھائے وہ رکھنے کے قابل ہوتا ہے.اور بعض اوقات تو چھ سات آٹھ بلکہ نو مہینہ تک گھٹنوں کے بل چلنے کے بھی قابل نہیں ہوتا.پھر اس کی غذا جس سے وہ پرورش پا سکتا ہے اس کی ماں کی چھاتیوں میں ہوتی ہے.کہیں دو تین سال میں جا کر وہ دانت

Page 533

* 1941 533 خطبات محمود نکالتا ہے.ایسے بچے بھی ہوتے ہیں جو چھ یا سات مہینہ میں اپنے دانت نکال لیتے یا نکالنے شروع کر دیتے ہیں مگر بالعموم ایسے دانت جن سے بچہ کسی قدر غذا حاصل کر سکتا ہے وہ ڈیڑھ دو بلکہ اڑھائی سال کے بعد مکمل ہوتے ہیں.اتنے لمبے عرصہ تک اپنی جان کو دکھوں میں ڈال کر ایک عورت جو اپنے بچہ کی خدمت کرتی ہے یہ بغیر اس کے کبھی ممکن ہی نہیں تھا جب تک خدا تعالیٰ کی طرف سے اس کے دل میں پرورش کا خیال اور بچہ کی محبت پیدا نہ کر دی جاتی.یہ مت خیال کرو کہ صرف ماں ہونا ہی اس محبت کا موجب ہو سکتا ہے کیونکہ ماں کے جذبات اس کے اپنے اختیار کی چیز نہیں ہوتے.اور اختیاری چیز ہی کسی انسان کی طرف منسوب کی جا سکتی ہے.جو چیز کسی انسان کے اختیار کی نہیں وہ اس کی طرف منسوب کس طرح کی جا سکتی ہے.وہ تو لازماً کسی اور ہستی کی طرف منسوب کرنی پڑے گی اور وہ ہستی اللہ تعالیٰ کی ہی ہے جس نے ماں کے دل میں اپنے بچوں کی محبت پیدا کی اور اسے پیدائش اور پرورش کی تکالیف برداشت کرنے کی طاقت دی.چنانچہ سالہا سال تک وہ اپنے بچوں کو پالتی رہتی ہے.پہلے نو ماہ تو وہ اپنے بچہ کو پیٹ میں اٹھاتی ہے پھر دوسال اسے گود میں اٹھاتی ہے.گویا اوسطاً اڑھائی سال تک ماں اپنے بچہ کے لئے ہی ہو رہتی ہے.تب کہیں وہ پرورش پاتا ہے.مگر اس کے بعد وہ فارغ نہیں ہو جاتی.بلکہ بالعموم اس وقت ایک دوسرے بچہ کی آمد شروع ہو جاتی ہے.اور اس طرح اپنی زندگی کا بہترین حصہ عورت اپنے بچوں کی پرورش میں لگا دیتی ہے.ہے پس یہ جذبہ محبت جو ہر عورت کے دل میں اپنے بچوں کے متعلق پایا جاتا اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہی پیدا کیا گیا ہے.ورنہ اتنی محنت کی برداشت انسانی عقل کے ماتحت نہیں ہو سکتی تھی.اگر خدا تعالیٰ یہ جذبات ماں کے دل میں پیدا نہ کرتا تو آہستہ آہستہ فلسفہ اور عقل کے ماتحت یا تو انسان اولاد پیدا کرنا ہی بند کر دیتے اور یا پھر ان کی پرورش کی طرف سے اپنی توجہ کلیہ ہٹا لیتے.پھر خدا تعالیٰ کے ممیت ہونے کا نظارہ بھی روزانہ نظر آتا ہے.بڑے بڑے

Page 534

* 1941 534 خطبات محمود شہروں میں سینکڑوں آدمی روزانہ مرتے ہیں.چنانچہ کسی سڑک پر چلے جاؤ تمہیں جنازے گزرتے دکھائی دیں گے.چھوٹے قصبات میں بھی پانچویں دسویں کوئی نہ کوئی موت ہوتی رہتی ہے.چھوٹے چھوٹے گاؤں میں بھی سال میں دو تین موتیں ہو جاتی ہیں.پس موت کا یہ نظارہ بھی ہمیں کثرت سے دنیا میں نظر آتا ہے.غرض خدا کی یہ دونوں صفات کہ وہ مُخی بھی ہے اور مُمِيت بھی ہے.اس رنگ میں لوگوں کے سامنے آتی رہتی ہیں کہ کوئی ان کا انکار نہیں کر سکتا.حیات انسان کے لئے خوشی کا موجب ہوتی ہے اور موت لوگوں کے لئے رنج موجب ہوتی ہے.دشمن کی بھی لاش پڑی ہوئی ہو تو سوائے ایک شقی القلہ انسان کے دوسرے انسانوں کے دلوں میں رحم کا مادہ پیدا ہو جاتا ہے.بہیں نہیں تھیں تیں سال کی دشمنیاں اس وقت دلوں سے نکل جاتی ہیں اور دشمن کی لاش دیکھ کر انسان کے دل میں سے اس وقت دعا ہی نکلتی ہے یا اس کے رشتہ داروں اور ہر عزیزوں کے لئے دل میں رحم اور ہمدردی کے جذبات پیدا ہوتے ہیں کیونکہ انسان جانتا ہے کہ جو دن اس پر آیا ہے وہ مجھ پر بھی آنے والا ہے.جس طرح یہ اپنے عزیزوں، رشتہ داروں اور دوستوں سے جدا ہوا ہے.اسی طرح میں ایک دن اپنے عزیزوں اور رشتہ داروں اور دوستوں سے جدا ہو جاؤں گا.جس طرح اس کے رشتہ داروں، عزیزوں اور دوستوں کو اس کی موت سے تکلیف پہنچی ہے اسی طرح میرے رشتہ داروں، عزیزوں اور دوستوں کو میری موت سے تکلیف پہنچے گی اور جس وجہ طرح وہ بہت سے کام جو اس کے ساتھ وابستہ تھے اب ان کے پورا نہ ہو سکنے کی و سے اس کے پسماندگان کو تکلیف پہنچی ہے.اسی طرح جو کام مجھ سے وابستہ ہیں وہ بھی میری وفات کے بعد پورے نہ ہو سکنے کی وجہ سے میرے پسماندگان کو تکلیف ہو گی.غرض ان جذبات اور خیالات کے ماتحت دشمنوں کی دشمنیاں بھی اس وقت بھول جاتی ہیں.خواہ اس وقت کے گزر جانے کے بعد دشمنی اور بھی بڑھ جائے مگر اس وقت طبیعت میں ضرور نرمی پیدا ہو جاتی ہے.پس یہ اللہ تعالیٰ کی دو صفات ہیں

Page 535

* 1941 535 خطبات محمود جن میں سے ایک خوشی پیدا کرتی ہے اور ایک رنج پیدا کرتی ہے.مگر یہ نقطہ نگاہ انسانوں کے لحاظ سے ہے ورنہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک جو عالم الغیب ہے یہ دونوں مواقع نہ کلی طور پر خوشی کا موجب ہوتے ہیں اور نہ کلی طور پر غم کا موجب ہوتے ہیں.جب کوئی بچہ کسی کے گھر میں پیدا ہوتا ہے تو اس کے ماں باپ اور عزیز سمجھتے ہے.ہیں کہ ایک نیا چاند دنیا میں نکلا ہے.ایک رحمت کا نیا دروازہ ہمارے لئے کھلا حالانکہ بسا اوقات پیدا ہونے والی روح دنیا کے لئے کسی قسم کے مصائب اور دکھوں کا موجب ہوتی ہے.اس کے رشتہ دار تو اس کی پیدائش پر خوش ہو رہے ہوتے ہیں لیکن آسمان پر خدا کے فرشتے اس کی پیدائش سے غمگین ہو رہے ہوتے ہیں.ابو جہل کی پیدائش پر مکہ خوشی سے اچھل رہا تھا لیکن آسمان کے فرشتے اگر ان کے لئے رونا ممکن ہے تو وہ آسمان پر رو رہے تھے.اس کے مقابلہ میں محمد صلی ایم کی پیدائش پر مکہ والوں کو کوئی احساس بھی نہ تھا کیونکہ ایک یتیم بچہ تھا جو پیدا ہوا.قریبی رشتہ داروں کے دلوں پر ضرور خوشی ہوئی ہو گی ورنہ باقیوں کو احساس بھی نہ تھا کہ آج کون پیدا ہوا ہے.مگر جب دنیا کے لوگ اس کی پیدائش پر خاموشی سے وقت گزار رہے تھے اور سوائے قریبی رشتہ داروں کے کسی کے دل میں خوشی کے جذبات پیدا نہیں تھے اس وقت آسمان کے فرشتے خوشی سے اچھل رہے تھے کیونکہ ان کو خدا کی طرف سے یہ علم دیا گیا تھا کہ دنیا کا نجات دہندہ پیدا ہو گیا ہے اور جس مقصد کے لئے خدا نے دنیا کو پیدا کیا تھا اس مقصد کو تعمیل تک پہنچانے والا انسان ظاہر ہو گیا ہے.تو پیدائش دنیا کے نزدیک ایک ہی نکتہ رکھتی ہے یعنی خوشی.کسی کی پیدائش پر تھوڑے لوگ خوش ہوتے ہیں.کسی کی پیدائش پر ایک ہی آدمی یعنی ماں خوش ہوتی ہے، کسی کی پیدائش پر ہزاروں آدمی خوش ہوتے ہیں، کسی کی پیدائش لاکھوں آدمی خوش ہوتے ہیں اور کسی کی پیدائش پر کروڑوں آدمی خوش ہوتے ہیں لیکن آسمان کے فرشتے کسی کی پیدائش پر اگر ان کے لئے رونا ممکن ہو تو آنسو بہاتے یا

Page 536

* 1941 536 خطبات محمود دوسرے الفاظ میں اپنے رنج کا اظہار کرتے ہیں اور کسی کی پیدائش پر خواہ دنیا کے لوگ خوشی نہ منائیں، فرشتے بڑی خوشی کا اظہار کرتے ہیں.یہی حال موت کا ہے.موت کے وقت بھی دنیا کے ہر انسان کے رشتہ دار اور دوست تھوڑے ہوں یا بہت، رنج محسوس کرتے ہیں.ایک ڈاکو مرتا ہے تو اس کے بیوی بچے خوش نہیں ہوتے کہ ہمارا باپ ڈاکو تھا، قاتل تھا، فتنہ و فساد پھیلاتا تھا، اچھا ہوا کہ وہ مر گیا بلکہ ان کی اسی طرح چیخیں نکل جاتی ہیں جس طرح بڑے سے بڑے محسن اور نیک باپ کے بچوں کی اس کی وفات پر نکل جاتی ہیں اور وہ دنیا کے لئے اس کی موت کو ایسا ہی خطرناک سمجھتے ہیں جیسے کسی بڑے سے بڑے مصلح کی وفات کو.بلکہ شاید اس سے بھی زیادہ.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام بارہا ایک لطیفہ سنایا کرتے تھے کہ جب مہاراجہ رنجیت سنگھ کی وفات ہوئی تو چونکہ ان کے دورِ حکومت میں امن قائم ہوا تھا اور وہ طوائف الملو کی جو پہلے پھیلی ہوئی تھی جاتی رہی تھی اس لئے سکھوں کے علاوہ جو اُن کے ہم مذہب اور ہم قوم تھے ہندو اور مسلمان بھی عام طور پر سمجھتے تھے کہ اب ان کی وفات کے بعد پھر فتنے پیدا ہونے شروع ہو جائیں گے.اس لئے لوگوں میں ایک کہرام مچا ہوا تھا اور ہر شخص کے آنسو رواں تھے جن کے زیادہ گہرے تعلقات تھے وہ چیچنیں مار رہے تھے.فرماتے تھے کہ کوئی چوہڑا لاہور کے سے گزرا اورا س نے جب دیکھا کہ ہر شخص ماتم کر رہا ہے تو اس نے کسی قریب چھا کہ آج لاہور والوں کو کیا ہو گیا ہے کہ جس کو دیکھو رو رہا ہے جس کو دیکھو رو رہا ہے.اس نے کہا تمہیں پتہ نہیں مہاراجہ رنجیت سنگھ فوت ہو گئے ہیں.وہ بڑی حیرت کا اظہار کر کے کہنے لگا.اچھا رنجیت سنگھ مر گیا ہے اور اس پر لوگ رو رہے ہیں.پھر کہنے لگا.باپو ہوراں جیسے مر گئے تے رنجیت سنگھ بچارا کس شمار وچ " جب میرے باپ جیسا آدمی مر گیا تو رنجیت سنگھ بھلا کس شمار میں تھا.اب مہاراجہ رنجیت سنگھ کے ذریعہ بے شک امن قائم ہوا تھا.مگر چونکہ اس چوہڑے کا تعلق 66

Page 537

خطبات محمود 537 * 1941 اپنے باپ سے تھا وہ مہاراجہ رنجیت سنگھ سے نہیں تھا اور سیاسی فوائد کو وہ سمجھنے کے قابل نہیں تھا.اس لئے اس کے نزدیک سب سے بڑی رنج کی بات اپنے باپ کی وفات تھی.اسی طرح کئی بادشاہ بڑے ظالم ہوتے ہیں مثلاً ہلاکو خان بڑا ظالم مشہور ہے مگر جب ہلاکو خان مرا ہو گا تو کیا تم سمجھتے ہو کہ اس کے بیوی اور بچوں کو دوسروں کی بیویوں اور بچوں سے کم صدمہ ہوا ہو گا.یقینا انہیں ہلاکو خان کی وفات پر ویسا ہی صدمہ ہوا ہو گا جیسا نوشیرواں عادل کی وفات پر اس کے بیوی اور بچوں کو ہوا تھا.حالانکہ نوشیرواں عدل کی وجہ سے مشہور ہے اور ہلاکو خان ظلم کی وجہ سے.مگر دونوں کے بیوی بچوں کو یکساں صدمہ ہوا ہو گا.بلکہ ممکن ہے ہلاکو خان کے بیوی بچوں کو احساسات کے زیادہ تیز ہونے کی وجہ سے نوشیر واں کے بیوی بچوں سے بھی زیادہ صدمہ ہوا ہو.مگر آسمان پر دنیا میں سارے بندے خوش ہوتے ہیں.گو کسی کی پیدائش پر زیادہ لوگ خوش ہوتے ہیں مگر آسمان پر یہ بات نہیں.وہاں کسی کی پیدائش پر خوشی کا اظہار کیا جاتا ہے اور کسی کی پیدائش پر رنج کا اظہار کیا جاتا ہے.اسی طرح موت کا حال ہے.موت پر سب لوگ رنج کا اظہار کرتے ہیں.و کسی کی موت پر تھوڑے لوگ رنج کرتے ہیں اور کسی کی موت پر زیادہ رنج کرتے ہیں مگر آسمان پر یہ بات نہیں.وہاں کسی کی موت پر رنج کا اظہار کیا جاتا ہے در کسی کی موت پر خوشی کا اظہار کیا جاتا ہے.پھر یہ جذبہ بھی اموات کے لحاظ سے نسبتی طور پر تقسیم ہو جاتا ہے اور فرشتوں کا رنج اور ان کی خوشی بعض دفعہ مرکب جاتی ہے.یعنی فرشتے صرف رنج یا صرف خوشی کا اظہار نہیں کرتے بلکہ ان کی خوشی اور ان کا رنج ملا جلا ہوتا ہے.مثلاً جب کوئی بدقسمت اور گنہگار انسان مرتا ہے یا ایسا ظالم انسان مرتا ہے جس نے دنیا کے امن کو برباد کیا ہوا ہوتا ہے تو خدا تعالیٰ کے ملائکہ خوش بھی ہوتے ہیں کہ بندوں کو اس ظالم انسان سے نجات ملی اور وہ بھی کرتے ہیں کہ اپنے مولیٰ کو راضی کرنے سے پہلے وہ شخص مر گیا.رنج اسی طرح جب اللہ تعالیٰ کے بزرگ اور نیک لوگ فوت ہوتے ہیں اور دنیا میں

Page 538

خطبات محمود 538 * 1941 ان کی وفات کی وجہ سے کہرام مچا ہوا ہوتا ہے تو خدا تعالیٰ کے فرشتے ان کی صحبت کے خیال سے خوشی منا رہے ہوتے ہیں.موت کیا ہے؟ موت اس دنیا سے اگلے جہان جانے کا ایک دروازہ ہے.جس طرح جب کوئی مصلح یا محسن انسان لاہور میں نکلتا داخل ہوتا ہے تو وہاں کے رہنے والے خوشی مناتے ہیں لیکن جب لاہور سے تو لاہور والے رنج کا اظہار کرتے ہیں مگر آگے جب امرت سر میں داخل ہوتا ہے ہے تو امر تسر والے خوشی محسوس کرتے ہیں.اسی طرح جب خدا تعالیٰ کے برگزیدہ اور چنندہ لوگ جو اپنی نیکی اور تقویٰ اور مقام قرب میں ملائکہ سے بڑھ کر بلکہ ملائکہ کو سبق دینے والے ہوتے ہیں.جیسے حضرت آدم علیہ السلام کے واقعہ سے ظاہر ہے وفات پا جاتے ہیں تو دنیا کے لوگ تو ان کی وفات پر رنج کا اظہار کرتے ہیں اور اس بات پر عمگین ہوتے ہیں کہ وہ اپنا دور ختم کر کے اگلے جہان چلے گئے مگر فرشتے اس بات سے خوش ہوتے ہیں کہ اب وہ ہمارے ملک میں آ گئے ہیں.رسول کریم صلی علیم کی وفات پر جب مدینہ میں کہرام پڑا ہوا تھا جنت کے لوگوں میں کتنی خوشی منائی جا رہی ہو گی.لوگ خدا تعالیٰ کے کلام اور فرشتوں سے سنتے ہوں گے کہ خدا تعالیٰ کا ایک برگزیدہ دنیا میں پیدا ہو چکا ہے اور وہ بہت بلند روحانی مقامات رکھتا ہے.ان باتوں کو سن سن کر جنتیوں کے دلوں میں کتنی خواہش پیدا ہوتی ہو گی اور وہ کس طرح اس بات کے تصور سے خوش ہوتے ہوں گے کہ کبھی یہ مبارک انسان ہم میں بھی آئے گا.پس جب فرشتوں نے آپ کی روح قبض کی ہو گی اور جب جنتیوں کو پتہ لگا ہو گا کہ اب ان کی سالہا سال کی امیدیں بر آنے لگی ہیں تو انہوں نے کیسی خوشی ظاہر کی ہو گی.مگر بہر حال یہ آسمان کی بات ہے.زمین پر یہی ہوتا ہے کہ موت پر رنج کا اظہار کیا جاتا ہے اور ولادت پر خوشی کا اظہار کیا جاتا ہے.جس طرح خدا تعالیٰ کی یہ دو صفات ہمیں دنیا میں کام کرتی نظر آتی ہیں اسی طرح کئی انسان ایسے ہوتے ہیں جو دنیا کے لئے ولادت کا موجب بنتے یا اس کی

Page 539

* 1941 539 خطبات محمود حیات کا موجب ہوتے رہتے ہیں.مثلاً ماں باپ ہی ہیں.وہ نئی نسلیں دنیا میں لاتے ہیں.ڈاکٹر اور اطباء ہیں.وہ مریضوں کا علاج کرتے ہیں.اسی طرح قومی خدمات کرنے والے لوگ ہیں.جو ڈوبتے ہوئے لوگوں کو بچاتے ہیں.کہیں آگ لگ جائے تو بجھاتے ہیں.اسی طرح اور کئی واقعات اور حادثات جو رونما ہوتے رہتے ہیں ان میں لوگوں کی مدد کرتے ہیں.یہ لوگ خدا تعالیٰ کی مخی صفت کے مورد ہوتے اور اس کی ایک مثال اور نمونہ ہوتے ہیں لیکن کئی لوگ دنیا میں ایسے بھی ہوتے ہیں جن کا کام ہی یہ ہوتا ہے کہ وہ تباہیاں اور بربادیاں اور ہلاکتیں لاتے رہیں.کہیں ان کی وجہ سے قتل ہو رہے ہوتے ہیں، کہیں فساد ہو رہے ہوتے ہیں، کہیں غارت گری کے واقعات رونما ہو رہے ہوتے ہیں.یہ لوگ خدا تعالیٰ کی ممیت صفت کو ظاہر کرنے والے ہوتے ہیں مگر خدا کی ہر صفت کی نقل کرنے والا انسان ضروری نہیں کہ خدا کا مقبول ہو.خدا بے شک ہمیت ہے مگر یہ نہیں ہو سکتا کہ ایک قاتل کسی کو بلا وجہ قتل کر دے تو وہ یہ کہے کہ میں نے چونکہ فلاں شخص کو قتل کر کے خدا تعالیٰ کی صفت مُمِیت کا اپنے آپ کو مظہر ثابت کیا ہے.اس لئے میں بڑا مقرب ہوں.اگر وہ ایسا کہے گا تو اس کا دعویٰ بالکل غلط ہو گا کیونکہ بندے کو جن حالات میں ممیت بننے کا حق حاصل ہے.ان حالات میں اگر وہ ممیت بنتا ہے.تب تو بے شک وہ خدا تعالیٰ کا مقرب بن سکتا ب بن سکتا ہے لیکن اگر ان حالات میں وہ ہمیت نہیں بنتا تو وہ مقرب نہیں ہو سکتا.اسی طرح ولادت خدا تعالیٰ کی احیاء کی صفت ہے مگر ناجائز ولادت کا موجب خد اتعالیٰ کی صفتِ مُحْی سے سے نسبت دے کر اپنے آپ کو خدا تعالیٰ کا مقرب نہیں کہہ سکتا.غرض وہی شخص خدا تعالیٰ کی صفت کو پورا کرنے والا قرار پا سکتا ہے جو اللہ تعالیٰ کے بنائے ہوئے قوانین کے ماتحت اس صفت کا مظہر بنتا ہے اگر وہ خدا تعالیٰ کے بنائے ہوئے قانون کے ماتحت مخی بنتا ہے.تو بے شک وہ خدا تعالیٰ کا اس صفت میں مظہر بن سکتا ہے.اسی طرح اگر وہ خدا تعالیٰ کی صفت ممیت کا مظہر اس رنگ میں

Page 540

* 1941 540 خطبات محمود بنتا ہے.جو خدا تعالیٰ کے بنائے ہوئے قواعد کے مطابق ہو تو خدا تعالیٰ کا مقرب ہو سکتا ہے ورنہ نہیں.چنانچہ دیکھ لو.جس وقت جہاد ہوتا ہے.دونوں فریق ایک سا کام کر رہے ہوتے ہیں.وہ بھی تلوار چلا رہا ہوتا ہے اور یہ بھی تلوار چلا رہا ہوتا ہے.کافر، مومن کو مارتا ہے اور مومن کافر کو مارتا ہے.پس بظاہر ان دونوں کا فعل یکساں ہوتا ہے مگر جب کافر کی تلوار سے ایک مومن گرتا ہے تو اللہ تعالیٰ کا عرش کانپ جاتا ہے اور فرشتے اس کافر پر لعنتیں ڈالتے ہیں لیکن جب کسی مومن کی تلوار سے ایک کافر گرتا ہے تو فرشتے خوش ہوتے اور مومن پر اللہ تعالیٰ کی رحمتیں نازل کرتے ہیں حالانکہ فعل ایک ہوتا ہے، مقام ایک ہوتا ہے اور ذریعہ قتل ایک ہوتا ہے مگر ایک کے فعل پر تو برکتیں اور رحمتیں نازل ہوتی ہیں اور دوسرے کے فعل پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے لعنتیں اور ملامتیں نازل ہوتی ہیں.پس اپنی ذات میں ممیت ہونا یا مخی ہونا کوئی اچھی یا بری بات نہیں اگر مخی ہونا خدا تعالیٰ کے قانون کے ماتحت ہو تو اچھا ہوتا ہے.اور اگر ممیت ہونا خدا تعالیٰ کے قانون کے ماتحت ہو تو اچھا ہے لیکن اگر مُمِیت یا مُخی ہونا خدا تعالیٰ کے مقرر کردہ قانون کے خلاف ہو تو یہی بات بُری بن جاتی ہے.آجکل جو لڑائی لڑی جا رہی ہے اس کو اگر ہم لڑائی کے لحاظ سے دیکھیں تو یقینا اسے بُرا نہیں کہہ سکتے.کیونکہ لڑائی رسول کریم صلی الم نے بھی ہے، حضرت موسیٰ علیہ السلام نے بھی کی ہے ، حضرت داؤڈ اور حضرت سلیمان علیہ السلام نے بھی کی ہے، حضرت کرشن علیہ السلام اور حضرت رام چندر نے بھی کی ہے.اسی طرح اور کئی انبیاء ہیں جنہوں نے لڑائیاں کیں.پس ہم لڑائی کو برا نہیں سکتے.جو چیز بری ہے وہ یہ ہے کہ ایسی لڑائی لڑی جائے جو خدا تعالیٰ کے مقرر کردہ قواعد کے خلاف ہو.ورنہ دنیا میں کئی لڑائیاں ایسی ہوتی ہیں جو رحمت کا موجب ہوتی ہیں.قرآن کریم میں ہی آتا ہے کہ اگر ہم لڑائی کی اجازت نہ دیتے تو بعض ظالم ایسے تھے جو مسلمانوں کی مساجد، عیسائیوں کے گرجے اور ہندوؤں کے مندر وغیرہ گرا دیتے.1 اس وقت بھی کئی ایسے ظالم مسلمان موجود ہیں جن کو اگر اختیار مل جائے تو

Page 541

* 1941 541 خطبات محمود عیسائیوں کے گرجوں اور ہندوؤں کے مندروں کو گرا دیں.کئی ایسے ظالم عیسائی موجود ہیں جن کو اگر اختیار مل جائے تو وہ مسلمانوں کی مسجدوں اور ہندوؤں کے مندروں کو گرا دیں.کئی ایسے ظالم ہندو راجے موجود ہیں جن کو اگر اختیار مل جائے تو وہ مسلمانوں کی مسجدیں اور عیسائیوں کے گرجے گرا دیں.پس بے شک یہ درست ہے کہ دنیا میں امن قائم رہنا چاہئے.مگر یہ بھی درست ہے کہ امن کے قیام کے لئے بعض دفعہ تلوار بھی چلانی پڑتی ہے.اگر اس قسم کے ظالم لوگ دنیا میں نہ رہیں تو بے شک کسی کو تلوار چلانے کی ضرورت نہ رہے.مگر چونکہ دنیا میں ایسے لوگ موجود ہوتے ہیں جو فتنہ و فساد پھیلاتے ہیں.اس لئے خدا تعالیٰ چاہتا ہے کہ مومن بھی ان کے مقابلہ میں وہی ہتھیار استعمال کریں جو وہ استعمال کرتے ہیں.جیسے ڈاکٹر بیماریوں کے دفعیہ کے لئے مریضوں کو بعض دفعہ کڑوی دوائیں پلاتے ہیں.اگر یونہی کسی کو کہا جائے کہ تم کڑوی دوائی استعمال کرو تو وہ کبھی استعمال نہیں کرے گا مگر جب ڈاکٹر کسی بیماری کی وجہ سے اسے کڑوی دوائی استعمال کرنے کی ہدایت کرتا ہے تو وہ خوشی سے کڑوی دوائی پی لیتا ہے کیونکہ وہ سمجھتا ہے کہ میرے جسم میں بیماری کا جو زہر ہے اس کے لئے کڑوی دوائی کی ہی ضرورت ہے.اسی طرح کئی جنگیں ضروری ہوتی ہیں.گو کئی جنگیں ایسی بھی ہوتی ہیں جو بری ہوتی ہیں.پس مومن کو اپنے کاموں میں ہمیشہ یہ امر مد نظر رکھنا چاہئے کہ کوئی کام اپنی ذات میں اچھا یا برا نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کے مقرر کردہ قانون کے ماتحت وہ اچھا یا بُرا بنتا ہے.دیکھ لو نماز کتنی اچھی چیز ہے لیکن اللہ تعالی بعض نماز پڑھنے والوں کے متعلق ہی فرماتا ہے کہ دیلٌ لِلْمُصلين 2 یعنی ایک نماز پڑھنے والا انسان ہوتا ہے جس پر لعنت پڑتی ہے.الَّذِينَ هُمْ يُرَاعُونَ 3 یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو ریاء کے طور پر نمازیں پڑھتے ہیں.اسی طرح صدقہ اللہ تعالیٰ کیسا پسند کرتا ہے مگر قرآن کریم میں ہی اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جو لوگ دکھاوے کے لئے صدقہ و خیرات کرتے ہیں یا صدقہ کرنے کے بعد احسان جتاتے ہیں وہ اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کے مورد بنتے ہیں.

Page 542

* 1941 خطبات محمود 542 یہی حال روزوں کا ہے.یہی حال زکوۃ کا ہے.یہی حال حج کا ہے.جب میں حج کرنے کے لئے گیا تو سورت کے علاقہ کے ایک نوجوان تاجر کو میں نے دیکھا.جب وہ منی کی طرف جا رہا تھا تو بجائے ذکر الہی کرنے کے اردو کے نہایت ہی گندے عشقیہ اشعار پڑھتا جا رہا تھا.اتفاق کی بات ہے کہ جب میں واپس آیا تو جس جہاز میں میں سفر کر رہا تھا اسی جہاز میں وہ بھی واپس آ رہا تھا.مگر وہی نوجوان جس کے دل میں حج کا کچھ بھی احترام نہیں تھا اور جو عبادت اور ذکر الہی میں مشغول رہنے کی بجائے منی کو جاتے ہوئے عشقیہ اشعار پڑھتا جا رہا تھا.اسے یہ کر کے کہ میں احمدی ہوں اس قدر غصہ پیدا ہوا کہ ایک دن جبکہ میں جہاز میں ٹہل رہا تھا وہ عجیب حسرت کے ساتھ میری طرف دیکھ کر کہنے لگا.اُف! یہ جہاز بھی ڈوب نہیں جاتا جس پر یہ شخص سفر کر رہا ہے.گویا احمدیت اس کے نزدیک اتنی بڑی چیز تھی کہ اگر جہاز کے سارے مسافر ڈوب جاتے اور وہ خود بھی ڈوب جاتا قربانی کوئی بڑی نہ تھی.اگر اس قربانی کے نتیجہ میں ایک احمدی بھی غرق ہو معلوم.جاتا.اُس وقت تک اسے یہ معلوم ہو چکا تھا کہ میں کون ہوں.کچھ دنوں کے بعد موقع پا کر میں نے اس سے پوچھا کہ کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ آپ حج کے لئے کیوں آئے تھے.میں نے تو دیکھا ہے کہ آپ منی کو جاتے ہوئے بھی ذکر الہی نہیں کر رہے تھے.اس نے کہا اصل بات یہ ہے کہ ہمارے ہاں حاجی کی دکان سے لوگ سودا زیادہ خریدا کرتے ہیں.جہاں ہماری دکان ہے.اس کے بالمقابل ایک اور دکان بھی ہے.وہ حج کر کے گیا اور اس نے اپنی دکان پر حاجی کا بورڈ لگا لیا.نتیجہ یہ ہوا کہ ہمارے گاہک بھی ادھر جانے لگ گئے.یہ دیکھ کر میرے باپ نے مجھے کہا کہ تو بھی حج کر آ.تاکہ واپس آکر تو بھی حاجی کا بورڈ اپنی دکان پر لگا سکے.اب کیا سمجھتے ہو کہ اس کا حج اس کے لئے ثواب کا موجب ہوا ہو گا.ثواب کا تو کیا سوال ہے.اس کا حج یقینا اسے گناہ کے طور پر لگا ہو گا اور فرشتے اس پر لعنتیں ڈالتے ہوں گے.تو انسان کو اپنے کاموں میں ہمیشہ یہ امر ملحوظ رکھنا چاہئے کہ اچھے سے اچھا کام

Page 543

* 1941 543 خطبات محمود کرنے یا بُرے سے بُرا کام کو ترک کرنے میں خدا تعالیٰ کی مرضی اور رضا کو مد نظر رکھنا ضروری ہوتا ہے.کیونکہ بُرے کام کو ترک کرنا بھی انسان کے لئے ہر حالت میں نیکی نہیں ہوتا بلکہ نیکی کی تحریک بھی بعض اوقات بدی ہوتی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة و السلام فرمایا کرتے تھے کہ حضرت معاویہ ایک دن صبح کو دیر سے اٹھے اور فجر کی نماز باجماعت نہ پڑھ سکے.اس کا انہیں اس قدر غم ہوا کہ وہ سارا دن روتے رہے.دوسرے دن انہوں نے نماز فجر سے قبل کشفی طور پر دیکھا کہ ایک شخص انہیں جگا رہا ہے اور کہہ رہا ہے کہ نماز کا وقت قریب ہے.اٹھ کر نماز پڑھ لو.انہوں نے اس سے پوچھا کہ تو کون ہے.وہ کہنے لگا میں شیطان ہوں.انہوں نے کہا یہ عجیب بات ہے کہ شیطان دوسروں کو نماز پڑھنے کے لئے جگائے.تیرا کام تو لوگوں کو نماز سے روکنا ہے نہ کہ نماز کے لئے جگانا.وہ کہنے لگا اصل بات یہ ہے کہ کل میں نے تم کو سلائے رکھا تھا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ تمہاری ایک نماز باجماعت ضائع ہو گئی.اس پر تم اتنا روئے اتنا روئے کہ خدا تعالیٰ نے کہا میرے اس بندے کو ایک نماز باجماعت کے ضائع ہونے کا بہت ہی صدمہ ہوا ہے.اس لئے اس ایک نماز کی بجائے میں اسے دس باجماعت نمازیں پڑھنے کا ثواب دیتا ہوں.میری غرض تو تمہیں ثواب سے محروم کرنا تھی مگر تم پہلے سے بھی زیادہ ثواب لے گئے.اس لئے آج میں تمہیں خود جگانے آیا ہوں تا ایسا نہ ہو کہ آج بھی تم سوئے رہو اور رو رو کر خدا تعالیٰ سے زیادہ ثواب لے جاؤ.تو کبھی انسان کو ایک چیز نیکی نظر آتی ہے مگر وہ در حقیقت بدی ہوتی ہے اور کبھی بدی نظر آتی ہے مگر در حقیقت وہ نیکی ہوتی ہے جیسے رسول کریم صلی الیکم صحابہ کی لڑائیاں ہیں.اصل چیز خدا تعالیٰ کی رضا ہے.اگر انسان خدا تعالیٰ کی رضا کے ماتحت کام کرے تو گو بظاہر وہ ممیت نظر آتا ہے مگر اس کا قتل کا فعل بھی بُرا نہیں سمجھا جا سکتا.چنانچہ دیکھ لو رسول کریم ملی لی لی لی اور آپ کے صحابہ پر کتنے اعتراض کئے گئے کہ انہوں نے قتل کئے، لڑائیاں کیں اور دنیا میں نَعُوذُ بِاللهِ فتنہ و فساد اور

Page 544

* 1941 544 خطبات محمود الله سة پھیلایا.مگر ہم تو ان لڑائیوں پر جتنا غور کرتے ہیں اتنی ہی آپ کی عظمت اور بڑائی ظاہر ہوتی ہے.قرآن کریم میں ہی اللہ تعالیٰ صحابہ کے متعلق فرماتا ہے.وَهُوَ كُرُةٌ لكُمْ جب لڑائی کا انہیں حکم دیا گیا تو وہ انہیں بہت ہی گراں گزرا.اس لئے نہیں کہ وہ اپنی جان دینے سے گھبراتے تھے بلکہ اس لئے کہ وہ دوسروں کی جان لینے سے گھبراتے تھے.حالانکہ وہ کفار جن سے انہیں لڑنے کا حکم ملا.اتنے شدید دشمن تھے کہ انہوں نے متواتر تیرہ سال تک رسول کریم صلی علیم اور آپ کے صحابہ پر بڑے بڑے ظلم کئے تھے.انہوں نے ان پر ہنسی مذاق اڑایا.ان کے خلاف گالی گلوچ سے کام لیا.انہیں خدا کی عبادت سے روکا، ان کو بے دردانہ طور پر مارا اور بعض کو تو ظالمانہ طور پر قتل کر دیا گیا پھر جب رسول کریم صلی علی کرم اور آپ کے صحابہ مدینہ میں ہجرت کر کے آئے تو یہاں بھی دشمنوں نے انہیں چین سے بیٹھنے نہ دیا اور حملہ کر دیا.دنیا میں عام طور پر ایسے مخالف حالات کے رونما ہونے پر لوگ چاہتے ہیں کہ اگر ان کا بس چلے تو اپنے دشمنوں کو آروں سے چیر دیں.انہیں آگ میں جلا دیں.انہیں پہاڑوں سے گرا دیں، انہیں پانی میں غرق کر دیں مگر صحابہ کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.كُتِبَ عَلَيْكُمُ الْقِتَالُ وَهُوَ كُرْةٌ لَكُمْ 4 ہم نے تمہیں جنگ کا حکم تو دیا ہے مگر وہ تم پر سخت گراں گزر رہا ہے.جن لوگوں کے قلوب کی یہ کیفیت ہو تم سمجھ سکتے ہو کہ ان کی جنگ کتنی بڑی نیکی تھی.وہ اپنے دلوں میں لڑائی کو پسند نہیں کرتے تھے لیکن سمجھتے تھے کہ جب خدا نے لڑائی کا حکم دیا ہے تو ہمارا فرض ہے کہ دشمن لڑیں.پس ایک طرف وہ لڑتے تھے، جوش سے لڑتے تھے اور بڑی بڑی قربانی کرتے تھے مگر دوسری طرف ان کی یہ حالت تھی کہ ان کے دل اندر سے سے جاتے تھے.بیٹھے جب صحابہ کا یہ حال تھا تو تم سمجھ سکتے ہو کہ رسول کریم صلی ا نام کا کیا حال ہو گا.قرآن کریم اس کیفیت کا ان الفاظ میں ذکر فرماتا ہے کہ لَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَفْسَكَ أَلَّا يَكُونُوا مُؤْمِنِينَ 5 یعنی ان لوگوں کے ایمان نہ لانے اور کافر رہنے کا ہمارے رسول کو

Page 545

* 1941 545 خطبات محمود اس قدر صدمہ ہے کہ گویا اس کی گردن پر تلوار رکھ کر کسی نے ایک سرے سے لے کر دوسرے سرے تک اسے کاٹ دیا ہے.جب لوگوں کے ایمان نہ لانے کا رسول کریم صلی اللہ ہم کو اس قدر افسوس تھا تو ان کا کفر کی حالت میں مر جانا آپ پر کس قدر گراں گزرتا ہو گا.جو شخص صرف اس بات سے ہی صدمہ محسوس کرتا ہے کہ ایک شخص خدا تعالیٰ ایمان نہیں لایا.اس کے دل پر اس وقت کیا گزرتی ہو گی جب اسے یہ معلوم پر ہوتا ہو گا کہ اب کفر پر اس کا خاتمہ بھی ہو گیا ہے..تو جو چیز دنیا کو مکروہ نظر آتی ہے وہی چیز رسول کریم صلی ا ہم اور آپ کے صحابہ کے چہرہ کو ایسا حسین ثابت کرتی ہے کہ ان کے صدقہ و خیرات سے ان کا اتنا حسن ظاہر نہیں ہوتا جتنا لڑائیوں سے ان کا حسن ظاہر ہوتا ہے.صدقہ و خیرات کرتے وقت ہر انسان کے دل میں رحم کا جذبہ پیدا ہوتا ہے مگر انتقام کے جذبہ کی موجودگی میں اور پھر اس انتقامی جذبہ کو پورا کرنے والے تمام سامانوں کی موجودگی میں دل میں اتنی رافت، رحمت اور نرمی کا پیدا ہونا سوائے خدا رسیدہ اور ولی اللہ انسان کے اور کسی سے ممکن نہیں.ہم نے تو دیکھا ہے دنیا میں ایک شخص دوسرے کو تھپڑ مار دے تو دوسرا جواب میں اسے دس تھپڑ مار کر بھی خوش نہیں ہوتا اور سال سال تک دل میں اس کے متعلق کینہ رکھتا چلا جاتا ہے.اسی طرح اگر کوئی شخص دوسرے کے متعلق سخت لفظ استعمال کر دے تو میں نے دیکھا ہے کہ دوسرا شخص جھٹ میرے پاس اس کی شکایت پہنچا دیتا ہے اور شکایت کرتے کرتے پندرہ میں گالیاں اسے دے دیتا ہے کہ وہ ایسا خبیث، ایسا بے دین اور ایسا مرتد ہے مگر ساتھ ہی لکھتا ہے کہ میں تو اسے کچھ نہیں کہتا.اللہ ہی ہے جو اس سے بدلہ لے.گویا دس بیس گالیاں دینے کے باوجود پھر بھی اس کی تسلی نہیں ہوتی اور وہ مجھے لکھتا ہے کہ آپ چونکہ خلیفہ ہیں.اس لئے آپ کا فرض ہے کہ اسے سزا دیں اور پھر لکھ دیتا ہے کہ میں نے تو اسے کچھ بھی نہیں کہا.خدا ہی ہے جو اس سے بدلہ لے.تو دنیا میں بسا اوقات ہم دیکھتے ہیں کہ چھوٹے چھوٹے قصوروں پر لوگ اتنا غصہ

Page 546

* 1941 546 خطبات محمود ظاہر کرتے ہیں کہ اس کی کوئی حد ہی نہیں ہوتی.مگر صحابہ کو جو تکلیفیں پہنچی تھیں ان کا تو قیاس کر کے بھی انسان کا دل کانپ جاتا ہے.ہٹلر کے متعلق لوگ کہتے ہیں کہ وہ بڑا ظالم ہے مگر اس کے ظلم بھی قریش مکہ کے مظالم کے آگے کیا حقیقت رکھتے ہیں.ایک غریب صحابیہ عورت تھی.کفار نے اس کی شرمگاہ میں نیزہ مار کر اسے مار دیا.6 ایک اور صحابی تھے ان کی ایک ٹانگ ایک اونٹ سے باندھ دی اور دوسری ٹانگ دوسرے اونٹ سے اور پھر ان دونوں اونٹوں کو مخالف سمتوں میں دوڑا دیا گیا اور اس طرح ان کو چیر کر مار ڈالا گیا.ایک اور صحابی جو پہلے غلام تھے انہوں نے ایک دفعہ نہانے کے لئے گرت اُتارا تو کوئی شخص پاس کھڑا تھا اس نے دیکھا کہ ان کی پیٹھ کا چمڑا اوپر سے ایسا سخت اور گھر درا ہے جیسے بھینس کی کھال ہوتی ہے.وہ یہ دیکھ کر حیران رہ گیا اور انہیں کہنے لگا تمہیں یہ کب سے بیماری ہے.تمہاری تو پیٹھ کا چمڑا ایسا سخت ہے جیسے جانور کی کھال ہوتی ہے.یہ سن کر وہ ہنس پڑے اور کہنے لگے.بیماری کوئی نہیں جب ہم اسلام لائے تھے تو ہمارے مالک نے فیصلہ کیا کہ ہمیں سزا دے.چنانچہ تپتی دھوپ میں ہمیں لٹا کر ہمیں مارنا شروع کر دیتا اور کہتا کہ کہو ہم محمد (صلی الیم) کو نہیں مانتے.ہم اس کے جواب میں کلمہ شہادت پڑھ دیتے.اس پر وہ پھر مارنے لگ جاتا اور جب اس طرح بھی اس کا غصہ نہ تھمتا تو ہمیں پتھروں پر گھسیٹا جاتا.عرب میں کچے مکانوں کو پانی سے بچانے کے لئے مکان کے پاس ایک قسم کا پتھر ڈال دیتے ہیں جسے پنجابی میں بھنگر کہتے ہیں.یہ نہایت سخت، گھر درا اور نوکدار پتھر ہوتا ہے اور لوگ اسے دیواروں کے ساتھ اس لئے لگا دیتے ہیں کہ پانی کے بہاؤ سے انہیں کوئی نقصان نہ پہنچے تو وہ صحابی کہنے لگے کہ جب ہم اسلام سے انکار نہ کرتے اور لوگ ہمیں مار مار کر تھک جاتے تو پھر ہماری ٹانگوں میں رسی باندھ کر ان گھر درے پتھروں پر ہمیں گھسیٹا جاتا تھا اور جو کچھ تم دیکھتے ہو اسی مار پیٹ اور گھسٹنے کا نتیجہ ہے.غرض سالہا سال تک ان پر ظلم ہوا.آخر حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ

Page 547

* 1941 547 خطبات محمود بات برداشت نہ ہو سکی اور انہوں نے اپنی جائداد کا بہت سا حصہ فروخت کر کے انہیں آزاد کرا دیا مگر اتنے مظالم کے بعد جس وقت ان کو حکم ہوا کہ جاؤ اور دشمنوں سے لڑائی کرو تو ان کو اس خیال سے تکلیف محسوس ہوئی کہ اب ہمیں لوگوں کو اپنے ہاتھ سے قتل کرنا پڑے گا.بعض صحابہ کی بے شک ایسی مثالیں بھی ملتی ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان کے دلوں میں غصہ تھا مگر ان کا یہ غصہ بھی کسی ذاتی تکلیف کی وجہ سے نہیں بلکہ رسول کریم صلی للی نام پر کفار کے مظالم کی وجہ سے تھا.پھر یہ مثالیں بھی زیادہ تر پر انصار میں نظر آتی ہیں اور انصار کی طرف سے اس غصہ کا اظہار ان کی نیکی کا ثبوت ہے.کیونکہ انصار مدینہ میں رہتے تھے اور وہ قریش مکہ کے مظالم کا تختہ نہیں بنے تھے.اگر مہاجرین کی طرف سے غصہ کا اظہار ہوتا تو خیال کیا جا سکتا تھا کہ انہیں چونکہ ذاتی طور پر کفار سے تکالیف پہنچی تھیں اس لئے ان کے دلوں میں غصہ پایا جاتا تھا مگر انصار کے متعلق یہ خیال ہی نہیں کیا جاسکتا کیونکہ انہیں ذاتی طور پر کوئی تکلیف نہیں پہنچی تھی.پس ان کا غصہ محض خدا اور اس کے رسول کے لئے تھا اور یہ بذاتِ خود ایک بہت بڑی نیکی ہے.چنانچہ انصار کے اس جوش کا ثبوت اس واقعہ سے بھی ملتا ہے جو میں بارہا سنا چکا ہوں کہ جنگ بدر میں دو انصاری نوجوانوں نے حضرت عبد الرحمان بن عوف سے کہا کہ اے چا وہ ابو جہل کونسا ہے جو رسول کریم صلی علیکم پر ظلم کیا کرتا ہے.ہمار اجی چاہتا ہے کہ اسے قتل کریں.7 پس اس غصہ کا اظہار کرنے والے انصاری لوگ تھے.مگر ان کا غصہ بھی خدا کے لئے ہی تھا.مکہ والے جن کو ذاتی طور پر کفار سے تکالیف پہنچی تھیں ان کی یہ حالت تھی کہ انہیں لڑائی کرنا سخت ناپسند تھا.(بعض فقرات حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے متعلق بھی ایسے پائے جاتے ہیں جن سے ان کے غصہ کا اظہار ہوتا ہے مگر وہ غصہ بھی عارضی تھا.دوسرے کئی مواقع پر ان کے متعلق بھی یہ امر ثابت ہے کہ وہ لڑائی کو پسند نہیں کرتے تھے) مگر باوجود اس کے انہیں لڑائیاں کرنی پڑیں کیونکہ خدا نے کہا کہ اس کے

Page 548

* 1941 548 خطبات محمود بغیر اصلاح نہیں ہو سکتی.پس بے شک انہوں نے تلوار اٹھائی اور بے شک انہوں نے لڑائی کی مگر محض خدا تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے.پس مومن کو اپنے کاموں کا ہمیشہ جائزہ لیتے رہنا چاہئے اور یہ دیکھنا چاہئے کہ جو کام وہ کر رہا ہے وہ خدا تعالیٰ کی رضا کے مطابق ہے یا نہیں.بعض باتیں بظاہر خوبی اور نیکی دکھائی دیتی ہیں مگر شریعت انہیں خوبی نہیں سمجھتی.جیسے سزائیں دینا ہے قرآن کریم نے بعض سزاؤں کے متعلق یہ فیصلہ کیا ہے کہ انہیں مومنوں کی جماعت دیکھے اور ان کے دلوں میں رحم پیدا نہ ہو.ایسے موقع پر بظاہر یہ نظر آتا ہے کہ سزا کو نہ دیکھنا اچھا ہے مگر اللہ تعالیٰ یہ بتاتا ہے کہ اس وقت سزا کو دیکھنا ہی رہے رحمت کا موجب ہوتا ہے.پس اپنے کاموں کو ہمیشہ اللہ تعالیٰ کی رضا کے ماتحت رکھنے کی کوشش کرو اور اس بات سے عبرت حاصل کرو کہ دنیا میں لوگ محی ہو کر بھی ظالم ہوتے ہیں اور ممیت ہو کر بھی ظالم ہوتے ہیں کئی ایسے ہیں جو احیاء کے سامان کر ہیں مگر پھر بھی وہ ظالم ہیں اور کئی ایسے ہیں جو امانت کے سامان کر رہے ہیں مگر پھر بھی وہ ظالم ہیں.لیکن مومن کی یہ حالت نہیں ہوتی.وہ محی بنتا ہے تب بھی اس پر رحم کیا جاتا ہے اور ممیت بنتا ہے تب بھی اس پر رحم کیا جاتا ہے.وہ قتل کرتا ہے تب بھی اسے ثواب ملتا ہے اور پیدائش کا موجب بنتا ہے تب بھی اسے ثواب حاصل ہوتا ہے.پس ایسے انسان بننے کی کوشش کرو تاکہ تم سے کوئی ایسا فعل سرزد نہ ہو جس کے نتیجہ میں تمہیں خدا تعالیٰ کی رضا حاصل نہ ہو." وو (الفضل 12 نومبر 1941ء) 1 وَلَوْ لا دفع اللهِ النَّاسَ بَعْضَهُمْ بِبَعْضٍ دِمَتْ صَوَامِعُ وَبِيَعٌ وَصَلَواتٌ وَمَسْجِدٌ (الحج: 41) 2 الماعون: 5 الماعون : 7 4 البقرة: 217 5 الشعراء : 4 6 اسد الغابة جلد 5 صفحہ 481 مطبوعہ ریاض 1280ھ

Page 549

* 1941 خطبات محمود 549 بخاری کتاب الْمَغَازِيٍّ بَابِ فَضْلُ مَنْ شَهِدَ بَدْرًا

Page 550

* 1941 550 (32) خطبات محمود اڑھائی ہزار سال کی پیشگوئیاں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں پوری ہو رہی ہیں (فرموده 7 نومبر 1941ء) تشہد، تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:.المدرسة قرآن کریم اور رسول کریم صلیال نیلم کے کلمات طیبات سے اور پچھلی کتب کی پیشگوئیوں سے معلوم ہوتا ہے کہ آخری زمانہ میں بعض خطرناک جنگیں ہونے والی ہیں.ایسی جنگیں جو دنیا کو بالکل تہہ و بالا کر دیں گی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام کے الہامات نے بھی اس بات کو واضح کر دیا ہے کہ وہ پیشگوئیاں جو قرآن کریم میں بیان ہوئی ہیں اور وہ پیشگوئیاں جو حدیثوں میں بیان ہوئی ہیں اور وہ پیشگوئیاں جو چھلی کتب میں بیان ہوئی ہیں ان کے پورا ہونے کا وقت یہی ہے.تیرہ سو سال.پیشگوئیاں قرآن اور احادیث میں بیان ہو چکی تھیں اور پھر دو ہزار سال سے زائد عرصہ سے بعض دوسری کتب میں بھی درج تھیں مگر اس وقت تک کوئی شخص ایسا نہیں ہوا تھا جس نے یہ دعویٰ کیا ہو کہ خدا تعالیٰ کے الہام کے ذریعہ مجھے یہ خبر دی ا ہے کہ میرا زمانہ ہی ان پیشگوئیوں کے پورا ہونے کا ہے اور جبکہ ہم دیکھتے ہیں کہ تمام پیشگوئیاں بعثت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام کے ساتھ تعلق رکھتی ہیں تو میں نہیں سمجھ سکتا کہ کوئی شخص خواہ کتنا ہی متعصب کیوں نہ ہو اگر وہ تھوڑی دیر کے لئے دلیل کی طرف توجہ کرے تو اسے اس بات کے تسلیم کرنے میں

Page 551

خطبات محمود 551 * 1941 کوئی شبہ ہو سکے کہ ان پیش گوئیوں سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام کی صداقت یقینی طور پر ثابت ہوتی ہے.گزشتہ دو اڑھائی ہزار سال میں سینکڑوں مدعی آئے ہیں مگر کسی نے بھی یہ نہیں کہا کہ یہ پیش گوئیاں میرے زمانہ سے رکھتی ہیں.غور کر کے دیکھ لو.کتنی پرانی خبریں ہیں جو اس بارہ میں دی گئی ہیں.سة تعلق رسول کریم صلى الله ام فرماتے ہیں نوح کے زمانہ سے لے کر اب تک جتنے بھی انبیاء آئے ہیں وہ سارے ہی آخری زمانہ کے فتنوں کو بیان کرتے چلے آئے ہیں.ان انبیاء کی تمام پیش گوئیاں محفوظ نہیں.مگر کم سے کم دانیال اور یسعیاہ کی پیشگوئیاں اب تک موجود ہیں.اور ان پر بھی اڑھائی ہزار سال کا عرصہ گزر چکا ہے.گویا اڑھائی ہزار سال سے یہ پیشگوئیاں بیان ہوتی آرہی تھیں.مگر کسی کو یہ جرات نہ ہوئی کہ وہ یہ کہے کہ یہ میرے زمانہ میں پوری ہونے والی پیشگوئیاں ہیں.آخر وجہ کیا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام نے ہی اس امر کا دعویٰ کیا.اور پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام کے زمانہ میں ہی ان پیش گوئیوں کے پورا ہونے کے آثار ظاہر ہونے شروع ہو گئے.کیا یہ عجیب بات نہیں کہ چھپیں چھیں سو سال سے جن پیش گوئیوں کو اپنی طرف منسوب کرنے کی کسی کو جرات نہ ہوئی ہو.نہ سچے کو نہ جھوٹے کو.ان تما م پیشگوئیوں کو اس زمانہ میں اس شخص نے جو مخالفوں کے نزدیک اپنے دعویٰ میں بالکل جھوٹا تھا اپنی طرف منسوب کیا اور پھر خدا تعالیٰ نے ان پیشگوئیوں کے پورا ہونے کے سامان بھی پیدا فرما دیئے.یہ کوئی معمولی بات نہیں کہ ایک نبی نہیں ، دو نبی نہیں، تین نبی نہیں، چار نبی نہیں متواتر اور مسلسل اللہ تعالیٰ کے انبیاء ایک فتنہ کی خبر دیتے ہیں.اتنے تواتر اور تسلسل کے بعد ہو سکتا تھا بلکہ ہونا چاہئے تھا کہ کوئی شخص یہ کہہ دیتا کہ یہ پیش گوئیاں میرے زمانہ سے تعلق رکھتی ہیں جیسے بعض اور پیشنگوئیاں تاویل کے طور پر لوگ اپنی طرف منسوب کرتے رہے ہیں.مگر اللہ تعالیٰ نے فتنه یاجوج و ماجوج کو اتنا اہم بنایا تھا کہ کسی شخص کو جھوٹے طور پر بھی یہ جرات نہ ہوئی کہ وہ ان پیشگوئیوں کو اپنی طرف منسوب کرے.بعض باتیں ایسی ہوتی ہیں

Page 552

خطبات محمود 552 * 1941 جن میں تاویل سے کام لے لیا جاتا ہے.مثلاً کسی بڑے قحط کی پیشگوئی ہو اور دنیا میں فی الواقع قحط پڑنا شروع ہو جائے تو گو وہ معمولی قحط ہو اور پیشگوئی کے مطابق بہت بڑا قحط نہ ہو.مگر انسان تاویل کے طور پر اُسے کسی مدعی کی طرف منسوب کر ہیں اور کہہ سکتے ہیں کہ بڑا قحط نہیں پڑا تو چھوٹا قحط تو پڑا ہے.اسی طرح کسی پیشگوئی کے مطابق اگر بڑی موت نہ آئے تو چھوٹی موت کسی کے دعویٰ کی سچائی کی طرف منسوب کی جا سکتی ہے.مگر یاجوج و ماجوج کا فتنہ جس کی قرآن نے خبر دی تھی، جس کی حدیثوں میں خبر موجود تھی اور جس کے متعلق پہلی کتب میں بھی پیشگوئیاں پائی جاتی تھیں اور بعض جگہ نام لے کر اور بعض جگہ بے نام اس کی خبر دی گئی تھی.اتنا بڑا فتنہ تھا کہ لوگوں کو یہ جرات ہی نہیں ہوئی کہ وہ جھوٹے طور پر اسے کسی کی طرف منسوب کریں یا تاویل کے طور پر کسی اور فتنہ پر اس فتنہ کی نگوئیوں کو چسپاں کر دیں.پرانے زمانے میں بھی بعض بڑے بڑے فتنے ہوئے ہیں.مثلاً ہلاکو خاں کا فتنہ بہت بڑا فتنہ تھا.اس نے بغداد اور اسلامی سلطنت کو تباہ کر دیا تھا.اسی طرح امیر تیمور کے حملوں کو لوگ نہایت ظالمانہ قرار دیتے ہیں اور وہ بڑی دور تک حملہ کرتے نکل آیا تھا مگر باوجود ان فتنوں کی اہمیت کے یاجوج و ماجوج سے تعلق رکھنے والی پیشگوئیوں کو لوگوں نے ان واقعات پر چسپاں نہیں کیا.اس لئے یاجوج و ماجوج دو قومیں بیان کی گئی تھیں اور بتایا یہ گیا تھا کہ وہ دونوں بڑی طاقتور اور جتھے والی ہوں گی اور وہ دونوں طاقتور جتھے باقی ساری دنیا کو مغلوب کرنے کی کوشش کریں گے تاکہ دنیا یا تو ایک گروہ کے ماتحت آ جائے یا دوسرے گروہ کے ماتحت آ جائے.اس پیشگوئی کو لوگ بھلا اور کہاں چسپاں کر سکتے تھے.اگر وہ ہلاکو خاں یاجوج بناتے تو ماجوج کہاں سے لاتے اور اگر ماجوج بناتے تو یاجوج کہاں سے لاتے.پس اللہ تعالیٰ نے اس فتنہ کو ایسا رنگ اور ایسی شکل دے دی تھی کہ کوئی شخص گزشتہ زمانہ میں ایسا نہیں گزرا جس نے ان پیشگوئیوں کو اپنے زمانہ کی طرف منسوب کیا ہو نہ سچے طور پر نہ جھوٹے طور پر اور اس طرح یہ پیشگوئی ہر زمانہ میں که

Page 553

* 1941 553 خطبات محمود بچتی چلی آئی یہاں تک کہ جو اس کا صحیح معنوں میں مصداق تھا اس نے ان پیشگوئیوں کو اپنے زمانہ پر چسپاں کیا.ممکن ہے کوئی شخص کہہ دے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة و السلام تھے تو نعوذ بالله جھوٹے ہیں مگر چونکہ آپ زیادہ ہوشیار تھے اس لئے آپ نے ان پیشگوئیوں کو اپنے زمانہ پر چسپاں کر لیا مگر سوال یہ ہے کہ اگر آپ نے ان پیشگوئیوں کو جھوٹے طور پر اپنے زمانہ پر چسپاں کر لیا تھا تو خدا نے ان پیشگوئیوں کے پورا ہونے کے سامان کیوں کر دیئے؟ غرض یاجوج و ماجوج کے فتنہ سے تعلق رکھنے والی جو پیشگوئیاں قرآن و احادیث اور پہلی کتب میں پائی جاتی تھیں.وہ آج پوری ہو رہی ہیں.چنانچہ گزشتہ جنگوں کا رو اس جنگ سے مقابلہ کر کے دیکھ لو.تمام دنیا یہ اقرار کر رہی ہے کہ یہ جنگ گروہوں کی جنگ ہے اور اخبارات میں ہمیشہ یہ لکھا ہوتا ہے کہ یہ جنگ در حقیقت ڈیما کریسی کا ڈکٹیٹر شپ سے مقابلہ ہے.یعنی آزادی رائے سے جو حکومت کی جاتی ہے اس کا جبری حکومت.مقابلہ ہے.ڈکٹیٹر شپ کے ماتحت حکومت کرنے کے ނ جرمنی اور اٹلی والے حامی ہیں اور ڈیما کریسی یعنی جمہوریت اور آزاد رائے.حکومت کرنے کے حامی برطانیہ اور امریکہ وغیرہ ہیں.یہی دو اصول ہیں جن کی اس وقت جنگ ہو رہی ہے.ایک فریق ایک اصل کو دنیا میں قائم کرنا چاہتا ہے اور دوسرا فریق دوسرے اصل کو دنیا میں قائم کرنا چاہتا ہے اور چونکہ اللہ تعالیٰ انبیاء کے کاموں کو ان کے خلفاء کے ذریعہ تکمیل تک پہنچایا کرتا ہے اس لئے اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے مجھے ہی یہ توفیق عطا فرمائی کہ میں نے دنیا کے سامنے یہ حقیقت بیان کی کہ یاجوج اور ماجوج دو قوموں کے نام نہیں بلکہ دو اصول کے نام ہیں چنانچہ تین چار سال ہوئے اسی منبر پر کھڑے ہو کر میں نے ایک خطبہ پڑھا تھا جس میں کہا تھا کہ :.66 یا جوج اور ماجوج دو اصول ہیں جو اس زمانہ میں دنیا پر

Page 554

* 1941 554 خطبات محمود غالب آنے کی کوشش کر رہے ہیں.ایک اصل تو وہ ہے جو جمہوریت کو اس کے تمام عیوب سمیت دنیا میں ترقی دینے کی کوشش کر رہا ہے.اور دوسرا اصل وہ ہے جو قابلیت اور لیاقت کو دینا چاہتا ہے اور جمہوریت کی روح کو دبانا چاہتا ہے.یہ دو ترقی اصول اس وقت دنیا میں ایک دوسرے کے مقابلہ میں غلبہ حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں.ایک اصل تو اس بات کی جدو جہد ہے کہ افراد کی طاقت کو بڑھا کر دنیا میں غلبہ حاصل میں مشغول کیا جائے اور ایک اصول اس غرض کے لئے کوشاں ہے کہ اعلیٰ قابلیت کو راہ نمائی کی باگ ڈور دے کر دنیا پر غلبہ حاصل کیا جائے.ان دونوں گروہوں نے دنیا پر کامل طور پر غلبہ حاصل کیا اور ساری دنیا ان دو گروہوں میں تقسیم ہو کر رہ گئی ہوا ہے ہے.”1 خطبہ جمعہ جنگ سے قریباً سوا سال پہلے کا چھپا ہواموجود ہے.اور آج اس جنگ میں سب دنیا اقرار کر رہی ہے کہ یہ جنگ دو اصول کی ہے.ایک طرف ڈیما کریسی اور دوسری طرف ڈکٹیٹر شپ ہے.تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ اتنا عظیم الشان نشان ظاہر ہوا ہے کہ اگر دنیا کے سامنے اسے صحیح طور پر پیش کیا جائے تو میں نہیں سمجھ سکتا کہ متعصب سے متعصب انسان بھی اس پر کوئی اعتراض کر سکے.آخر وہ اس امر کا کیا جواب دے گا کہ کیوں اڑھائی ہزار سال تک ان پیشگوئیوں کو کسی نے اپنے زمانہ پر چسپاں نہ کیا اور پھر وہ اس بات کا کیا جواب دے گا کہ کیوں گزشتہ اڑھائی ہزار سال میں یہ باتیں پوری نہ ہوئیں اور اس وقت پوری ہوئیں ایک شخص نے یہ دعویٰ کیا کہ یہ پیشگوئیاں میرے زمانہ سے تعلق رکھتی ہیں.اب تو زمانہ بہت کچھ بدل چکا ہے ورنہ پہلے یہ حالت تھی کہ عیسائیوں کو دجال کہنے پر ہی سارے مسلمان ہمارے مخالف ہو گئے تھے اور کہتے تھے کہ احمدی.جب

Page 555

* 1941 555 خطبات محمود پیشگوئیوں کی تاویلیں کرنے کے عادی ہیں.مگر اب مسلمانوں کے اخبارات اور رسالوں میں بھی بسا اوقات یہ لکھا ہوتا ہے کہ عیسائی دجال ہیں.آج آہستہ آہستہ دنیا میں خدا تعالیٰ کے فضل سے وہی خیالات اور وہی اعتقادات قائم ہو رہے ہیں.جن کو احمدیت دنیا میں قائم کرنا چاہتی ہے.غرض ہمارے لئے یہ ایک بہت بڑا خوشی کا مقام ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اتنی بڑی پیشگوئی کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں پورا کیا اور اس طرح آپ کی صداقت کا ایک عظیم الشان ثبوت بہم پہنچا دیا.اگر یہ سب کچھ انسانی منصوبہ ہوتا تو بھلا سوچو کیا کسی انسان کی یہ طاقت تھی کہ وہ آج سے اڑھائی ہزار سال پہلے سے یہ پیشگوئیاں کرا دیتا.قرآن کریم میں جہاں رسول کریم صلی ال نیلم کے کے انبیاء سے.متعلق حضرت موسیٰ علیہ السلام کی پیشگوئیوں کا ذکر ہے وہاں اللہ تعالیٰ مخالفین فرماتا ہے کہ کیا تم یہ سمجھتے ہو کہ ہمارے اس بندہ نے دو ہزار سال پہلے موسیٰ سے مشورہ کر لیا تھا کہ وہ اس کے متعلق پیشگوئیاں کر دے تاکہ جب یہ دعویٰ کرے تو ان پیشگوئیوں کو اپنی صداقت کے ثبوت میں پیش کر سکے.جب اس کے پاس کوئی ایسی طاقت نہیں تھی جس سے کام لے کر یہ دو ہزار سال پہلے کے ایک نبی کے منہ سے.اپنے متعلق پیشگوئی نکلوا سکتا تو تم کیوں نہیں سمجھتے کہ یہ خدا کا کام ہے کسی انسان کا کام نہیں.اسی طرح ہم کہتے ہیں کہ یہ کیا بات ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام نے اپنے زمانہ کے متعلق دانیال سے بھی پیشگوئیاں کرا لیں، یسعیاہ سے بھی پیشگوئیاں کر الیں، رسول کریم صلی الل علم سے بھی پیشگوئیاں کر الیں اور پھر ان تمام پیشگوئیوں صل کے پورے ہونے کے سامان بھی پیدا کرا لئے.کیا کسی انسان کی طاقت ہے کہ وہ ایسا کر سکے؟ اور کیا یہ اس امر کا ثبوت نہیں کہ آپ اپنے دعوے میں صادق اور راستباز ہیں؟ غرض اس طرح ان قوموں کا ابھار کسی انسان کے خیال میں بھی نہیں آ سکتا تھا.سوائے اس کے کہ قرآن کریم نے اس امر کی وضاحت کر دی تھی کہ عیسائیوں کی طاقت www

Page 556

* 1941 556 خطبات محمود ایک دفعہ اسلام کے مقابلہ میں بالکل تباہ ہو جائے گی.مگر پھر دوبارہ ترقی کر کے وہ تمام دنیا پر چھا جائیں گے.جیسا کہ سورہ کہف کی تفسیر میں میں نے اس مضمون کو بیان بھی کیا ہے.اور واقعہ یہی ہے کہ عیسائیوں کے تنزل کو دیکھ کر کسی انسان کے وہم میں بھی یہ بات نہیں آ سکتی تھی کہ وہ دوبارہ ترقی کر جائیں گے.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اسلام سے پہلے عیسائیت کا مغربی کرہ پر غلبہ تھا.چنانچہ روما کی حکومت عیسائیوں کے قبضہ میں تھی، عرب کے کچھ حصہ پر بھی قابض تھے.شام اور فلسطین میں بھی ان کا غلبہ تھا یہاں تک کہ انگلستان اور ہسپانیہ بھی ان کے ماتحت تھا مگر جس وقت اسلام نے ترقی شروع کی تو عیسائیوں کی حکومت اتنی زوال پذیر ہو گئی کہ روما کا قیصر ایک عرصہ تک مسلمان بادشاہوں کو خراج دیتارہا.گویا وہ ایسا ہی کمزور تھا جیسے آجکل ہندوستان کی ریاستیں انگریزوں کے مقابلہ میں کوئی حیثیت نہیں رکھتیں.مثلاً ، مثلاً ریاست جے پور ہے، جودھپور ہے، گوالیار ہے، میسور ہے.ان ریاستوں کے راجوں مہاراجوں کو گو ان کی رعایا حضور اور آقا اور ان داتا وغیرہ کہے مگر دنیا جانتی ہے کہ ایک معمولی انگریز افسر کے سامنے بھی ان کی کوئی حیثیت نہیں.اسی طرح روما کا قیصر مسلمانوں کو خراج دیا کرتا تھا اور اس کی اسلامی سلطنت کے مقابلہ میں کوئی حیثیت ہی نہیں تھی.پھر مسلمانوں نے اس سلطنت کو بھی تباہ کر دیا اور آخر ہسپانیہ وغیرہ کو بھی فتح کر لیا.عیسائیت کی اس کمزوری کے زمانہ میں کوئی شخص و ہم بھی نہیں کر سکتا تھا کہ یورپ پھر ترقی کر جائے گا.قیدیوں کی سی ان کی حالت تھی اور صرف ایک بڑ اعظم میں وہ گھرے ہوئے تھے اور اس کے بھی دائیں اور بائیں اسلامی سلطنتیں موجود تھیں.پھر یورپ کی کمزوری کی یہ حالت تھی کہ سپین والوں نے جب انگلستان پر حملہ کیا تو انگلستان کی ملکہ الزبتھ نے ترکوں کے بادشاہ سے مدد کی درخواست کی اور لکھا کہ ترک بڑے بہادر ہوتے ہیں اور وہ عورتوں کی حفاظت کیا کرتے ہیں.میں عورت ذات ہوں اور ایک ظالم بادشاہ میرے ملک پر حملہ آور ہو گیا ہے میری مدد کی جائے.

Page 557

خطبات محمود یورپ 557 * 1941 پر اب کجا تو وہ حالت تھی اور کجا یہ حالت ہے کہ آج سب جگہ یورپ ہی نظر آتا ہے.امریکہ ایک نیا بر اعظم نکلا تھا مگر وہاں بھی عیسائیوں کا غلبہ ہے.مشرقی یورپ میں بھی مسلمانوں کو کوئی طاقت حاصل نہیں اور سپین کی حالت تو ایسی خطرناک ہے کہ آجکل وہاں ایک مسلمان بھی نظر نہیں آتا.حالانکہ وہ بغداد کے مد مقابل کی حکومت تھی اور اسلام کے متعلق بعض اعلیٰ درجہ کی تصانیف سپین میں لکھی گئی تھیں مگر اب کتابوں کے لکھنے والوں کی قبروں تک کا نشان نہیں ملتا.شاید اس لئے کہ حکومت کے اثر سے وہاں کے علماء آزاد تھے.انہوں نے تصنیف کا کام نہایت اعلیٰ درجہ کا کیا ہے.چنانچہ صوفیاء میں سے حضرت محی الدین صاحب ابن عربی جنہوں نے فتوحات مکیہ لکھی ہے وہ وہیں پیدا ہوئے تھے.اسی طرح فلسفہ طب اور تفسیر کی نہایت اعلیٰ د درجہ کی کتابیں وہاں لکھی گئیں.روائتی طور پر قرطبی کی تفسیر بہت اعلیٰ درجہ کی ہے اور یہ ہسپانیہ کے ہی ایک شخص نے لکھی ہے.درائتی طور اور ادبی لحاظ سے بحر محیط کی تفسیر نہایت اعلیٰ درجہ کی ہے.اور یہ بھی ایک ہسپانیہ کے رہنے والے نے ہی لکھی ہے.مشہور فلسفیوں میں سے جو دو بڑے فلسفی گزرے ہیں.ان میں سے ابن رشد ہسپانیہ کا ہی رہنے والا تھا.غرض سپین میں مسلمانوں نے اتنی عظیم الشان ترقی کی تھی کہ اگرچہ ہندوستان کے رہنے والے اس ترقی سے زیادہ آگاہ نہیں مگر مصری اور اردگرد کے علاقوں والے جانتے ہیں کہ مسلمانوں کی ترقی نظیر تھی.جب مسلمانوں پر انحطاط کا دور آیا تو وہ تمام کتابیں جو انہوں نے لکھی تھیں یورپ کے کتب خانوں میں چلی گئیں اور انہوں نے ان کتابوں سے فائدہ اٹھا کر ترقی کرنی شروع کر دی حتی کہ اب مسلمانوں کو یہ علم تک نہیں رہا کہ ان کے آباء نے کیا کیا تصانیف کی تھیں.حالانکہ واقعہ یہ ہے کہ یورپ کی ساری ترقی ہسپانیہ والوں سے میل جول کا نتیجہ ہے.میں نے کچھ عرصہ ہوا بعض کتابیں منگوائیں جو مسلمانوں کی گزشتہ ترقی کی تاریخ پر مشتمل تھیں.انہیں پڑھ کر مجھے بہت ہی خوشی ہوئی ، مذہبی لحاظ سے بے نہیں

Page 558

* 1941 558 خطبات محمود بلکہ اس وجہ سے کہ علمی لحاظ سے ان میں بہت دلچسپ باتیں درج تھیں.ان کتابوں میں یہ ثابت کیا گیا تھا کہ یورپ کے بہت سے علوم سپین والوں سے نقل کئے گئے اور ہیں.چنانچہ موسیقی کے متعلق لکھا تھا کہ جو چیز آج یورپ کا آرٹ سمجھا جاتا ہے جس کے متعلق لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ موسیقی کے اصول یورپین لوگوں نے وضع کئے ہیں وہ در حقیقت یورپ کے وضع کردہ نہیں بلکہ مسلمانوں کی نقل ہیں.اسی طرح بہت سے باجے اور موسیقی کے طریق سپین والوں سے لئے گئے ہیں یہاں تک کہ ان میں سے ایک کتاب میں ایک خط و کتابت بھی درج کی گئی ہے جو موسیقی کے متعلق ایک بہت بڑے پادری اور عیسائی میں ہوئی.اور مصنف نے لکھا ہے کہ یہ خطوط اب تک برٹش میوزیم میں محفوظ ہیں.اس کتاب کا مصنف لکھتا ہے کہ ایک انگریز سپین میں گیا اور اس نے مسلمانوں سے موسیقی کا علم سیکھا.جب وہ علم سیکھ چکا تو اس نے اپنے بڑے پادری کو خط لکھا.جس کے متعلق کہا جاتا ہے کہ وہ تک محفوظ ہے کہ ہمارے ہاں جو موسیقی کا طریق ہے وہ نہایت رڈی ہے.لیکن مسلمانوں کا طریق نہایت اعلیٰ اور مکمل ہے.میرا جی چاہتا ہے کہ اگر آپ اجازت دیں تو کافروں کا یہ علم اپنے ملک میں رائج کیا جائے تاکہ ہمارے گرجوں میں بھی جاری ہو اور لوگ فائدہ اٹھائیں.اس خط کا پادری نے جو جواب دیا.اس سے اس کی دیانتداری بھی ظاہر ہو جاتی ہے.اس نے لکھا کہ بڑی اچھی بات ہے تم ضرور ایسا کرو مگر لوگوں سے یہ نہ کہنا کہ میں نے یہ علم مسلمانوں سے سیکھا ہے بلکہ کہنا کہ میں نے خود ایجاد کیا ہے.باجے واجے سے ہمیں کوئی دلچپسی تو نہیں مگر اس سے یہ پتہ ضرور چلتا کہ ظاہری اور باطنی اور دینی اور دنیوی حتی کہ تعیش کے معاملات میں بھی مسلمانوں نے اتنی ترقی کی تھی کہ آج یورپ میں موسیقی کا جو علم رائج ہے وہ بھی مسلمانوں کی نقل ہے.اسی طرح طب میں انہوں نے مسلمانوں کے علوم کی نقل کی.چنانچہ یہ بات ثابت ہے کہ آج سے ڈیڑھ سو سال پہلے تک فرانس اور دوسرے

Page 559

* 1941 559 خطبات محمود یورپین ممالک میں ہسپانیہ کی لکھی ہوئی طب کی کتابیں ہی کالجوں میں پڑھائی جاتی تھیں اور ابھی کئی نئی چیزیں نکلتی آ رہی ہیں اور معلوم ہو رہا ہے کہ اس زمانہ کی بعض ایجادات ایسی ہیں کہ یا تو وہ مسلمانوں نے ایجاد کی تھیں مگر یوروپیز نے اپنی رف منسوب کر لیں اور یا پھر یوروپینز نے گو اپنے طور پر ہی بعض چیزوں کو ایجاد کیا.مگر اب معلوم ہوا کہ یہ ایجادات مسلمان بھی کر چکے تھے لیکن اتنی عظیم الشان کامیابی اور یورپ پر قبضہ و تصرف کے بعد آج مسلمانوں کی کیا حالت ہے.آج کے “الفضل ” میں ہی ہمارے ایک مبلغ نے یوگو سلاویہ کے مسلمانوں کے حالات شائع کرائے ہیں.گو اس مضمون میں ایک غلطی بھی ہے اور وہ یہ کہ اس مضمون کو پڑھ کر یوں معلوم ہوتا ہے کہ یوگو سلاویہ کی حکومت ابھی تک قائم ہے حالانکہ کئی مہینے ہوئے جرمن والے اسے فتح کر چکے ہیں.بہر حال یہ یوگو سلاویہ علاقہ کسی زمانہ میں ترکوں کے ماتحت ہوا کرتا تھا.پھر یورپین لوگوں نے مل کر مسلمانوں کو یہاں سے نکال دیا.اب مولوی محمد الدین صاحب نے اس علاقہ کے جو حالات شائع کرائے ہیں وہ کتنے درد ناک ہیں.وہ لکھتے ہیں کہ وہاں مسلمان بالعموم مزدوروں یا چوہڑوں کا کام کرتے ہیں اور سڑکوں پر مزدوری کرنا یا جھاڑو دینا ان کا کام ہے.اب کجا تو یہ حالت تھی کہ وہ یوگو سلاویہ کے بادشاہ تھے اور اب کُجا یہ حالت ہے کہ چودہ ملین آبادی میں سے صرف تین ملین مسلمان ہیں اور ان میں سے بھی سوائے چند لوگوں کے باقی سب ذلیل اور ادنیٰ حالت میں ہیں.حکومت نے مسلمانوں سے یہ سلوک کیا کہ اس نے جبراً ان کی زمینیں چھین کر عیسائیوں کو دے دیں اور پھر ان سے کہا کہ اگر تم اپنا حق سمجھتے ہو تو عدالت میں دعویٰ دائر کر کے زمینیں واپس لے لو.وہ غریب آدمی بھلا مقدمے کیسے کرتے.نتیجہ یہ ہوا کہ وہ پہلی حالت سے بھی بدتر حالت میں جا گرے.یہ کیسے دردناک حالات ہیں کہ ایک زمانہ میں تو مسلمان حاکم تھے مگر آج ان کو کوئی پوچھتا بھی نہیں.غرض اس زمانہ میں کوئی شخص یہ قیاس بھی نہیں کر سکتا تھا کہ یورپ کبھی تر

Page 560

* 1941 560 خطبات محمود کر کے اتنا بڑھ جائے گا کہ تمام دنیا پر چھا جائے گا.آج مسلمانوں کی جو کچھ حالت ہے اس سے بھی زیادہ کمزور حالت اُس زمانہ میں عیسائیوں کی تھی.پھر جس طرح گاڑی کے سفر میں سوتے سوتے انسان کی آنکھ کھلے تو وہ کہیں کا کہیں پہنچا ہوا ہوتا ہے.اسی طرح مسلمان رات کو ایسی حالت میں سوئے کہ تمام یورپ ان کے ماتحت تھا مگر جب ان کی آنکھ کھلی تو انہوں نے دیکھا کہ یورپ ان کی گردن پر سوار ہے اور وہ اس کے غلام بنے ہوئے ہیں.مگر ہمارے لئے ان حالات میں بھی مایوسی اور گھبراہٹ کی کوئی وجہ نہیں کیونکہ جس خدا نے عیسائیت کی ترقی کی وہ خبر دی تھی جو انسانی واہمہ اور قیاس میں بھی نہیں آ سکتی تھی.اُسی خدا نے یہ خبر بھی دی ہے یہ تبدیلی اور تغیر اسلام کے لئے مفید ہو گا.پس ہمارے لئے ڈرنے اور گھبرانے کی کوئی وجہ نہیں.لیکن یہ خدا کے خوف کا مقام ضرور ہے.کیونکہ حدیثوں سے یہ ایسی گمراہی کا زمانہ ثابت ہوتا ہے کہ رسول کریم صلی اللی کرم فرماتے ہیں.رات کو انسان کسی گا مومن ہونے کی حالت میں سوئے گا اور صبح کافر اٹھے گا.2 گویا کفر کا اتنا غلبہ ہو کہ ایمان کا دعویٰ کرنے والے گھنٹوں میں اپنے ایمان کو ضائع کر دیں گے.اور لالچ یا خوف کی وجہ سے اپنے مذہب کو ترک کر دیں گے.چنانچہ صبح کو وہ مومن ہوں گے اور شام کو کافر ہوں گے.شام کو مومن ہوں گے اور صبح کو کافر ہوں گے.یہ عیسائیت کا غلبہ اور اس کے رعب کی ایک علامت ہے بلکہ عیسائیت کو جانے دو اس وقت عیسائیت کا سوال نہیں حکومتوں کا سوال ہے اور رسول کریم صلی الیم نے بتایا ہے کہ ان حکومتوں کا اتنا رعب ہو گا کہ وہ لالچ دے کر یا ڈرا دھمکا کر لوگوں کو مذہب سے منحرف کر دیں گی.غرض اس فتنہ کی رسول کریم صلی اللہ ہم نے اس قدر اہمیت بیان فرمائی ہے کہ اپنے اگر مسلمان کچھ بھی سوچتے تو آج ان کی وہ حالت نہ ہوتی جو نظر آ رہی ہے.- آج وہی زمانہ ہے جس کے متعلق رسول کریم صلی الم نے اس خطرہ کا اظہار فرمایا ہے کہ شام کو انسان مومن ہو گا اور صبح کو کافر.صبح کو مومن ہو گا اور شام کو کافر.

Page 561

* 1941 561 خطبات محمود ایسے خطرناک فتنہ سے بچنے کے لئے انسان جس قدر بھی دعائیں کرے کم ہے.اور اب تو یہ خطرہ بڑھتے بڑھتے ہندوستان کے قریب پہنچ گیا ہے.چنانچہ تازہ خبروں سے معلوم ہوتا ہے کہ کریمیا 3 کے علاقہ میں جرمن داخل ہو گئے ہیں.کریمیا سے پندرہ بیس میل کے فاصلہ پر ایشیا ہے اور گو یہ پندرہ بیس میل سمندر کا علاقہ ہے مگر ایک قوم کے لئے جو اتنی بڑی قربانیاں کر چکی ہے پندرہ بیس میل کے علاقہ کو عبور کرنا کونسا مشکل کام ہے.جب اس علاقہ کو جرمنوں نے طے کر لیا تو آگے کوہ قاف آئے گا اور پھر چند سو میل کے فاصلہ پر ایران اور ایران کے بعد افغانستان اور بلوچستان آ جاتے ہیں.پس وہ جرمن جو لوگوں کو ہزاروں میل پر دکھائی دیتے تھے اب وہ اپنا آدھا سفر طے کر چکے ہیں بلکہ بعض لحاظ سے وہ آدھے سے بھی زیادہ سفر طے کر چکے ہیں.اور وہ لحاظ یہ ہے کہ اب ان کے رستہ میں کوئی ایسی طاقت نہیں جو ان کا مقابلہ کر سکے.روس والوں نے جو مقابلہ کیا ہے.بے شک وہ حیرت انگیز ہے.مگر ایران اور افغانستان کی بھلا کیا طاقت ہے کہ وہ جرمن والوں کا مقابلہ کر سکیں.وہ تو ان ہتھیاروں کے ساتھ جو آجکل یوروپین طاقتوں کے پاس ہیں.دو چار ہزار سپاہی بھجوا کر ہی ان ملکوں پر اپنا تسلط قائم کر سکتے ہیں.انگریزوں کی طاقت بے شک بڑی ہے مگر ہندوستان میں ان کی طاقت نہیں.ہندوستان سے متعلق اس وقت انگریزوں کی دس لاکھ فوج ہے.جن میں سے باقاعدہ سیکھے ہوئے اور مسلح سپاہی صرف تین چار لاکھ ہیں لیکن جرمنی اور اس کے ساتھی ممالک کی فوج ایک کروڑ ہے.اس ایک کروڑ میں سے دس پندرہ بیس لاکھ سپاہی بھجوا دینا ان کے لئے کوئی مشکل کام نہیں.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ہندوستان کی آبادی تینتیس کروڑ ہے اور اگر یوروپین ممالک کے طریق پر بھرتی کی جائے تو تین کروڑ سپاہی تیار ہو سکتے ہیں.مگر مشکل یہ ہے کہ ہندوستان صنعتی ملک نہیں اور آجکل لڑائی آدمیوں سے نہیں ہوتی بلکہ آجکل بارود کی لڑائی ہوتی ہے، توپوں کی لڑائی ہوتی ہے، ٹینکوں کی لڑائی ہوتی ہے، ہوائی جہازوں کی لڑائی ہوتی ہے اور ہندوستان میں نہ اتنے ٹینک ہیں، نہ اتنے ہوائی جہاز ہیں جو ان سپاہیوں کے کام

Page 562

* 1941 562 خطبات محمود آ سکیں بلکہ ہندوستان ضرورت کے مقابلہ میں ٹینکوں اور ہوائی جہازوں کا سواں حصہ بھی تیار نہیں کر سکتا.باہر سے جو سامان آتا ہے وہ بھی اتنا محدود ہے کہ اس سے کوئی بڑی فوج تیار نہیں کی جا سکتی.ایسے خطرناک حالات میں ہندوستان کو بہت زیادہ خطرہ ہے.یہی وجہ ہے کہ واقف لوگ ہندوستانیوں کو بار بار جگا رہے ہیں کہ اٹھ کر اپنی حفاظت کا سامان کر لو ایسا نہ ہو کہ بعد میں پچھتانا پڑے.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ زیادہ تر یہ تحریک حکومت کے نمائندگان کی طرف سے ہوتی ہے اور قدرتی طور پر ان کی تحریک سن کر خیال پیدا ہوتا ہے کہ شاید وہ اپنے فائدہ کے لئے کہہ رہے ہیں مثلاً جب کوئی ڈپٹی کمشنر یا وزیر ، جنگ کے لئے تقریر کرتا ہے تو بے شک لوگ اس وقت دس دس ہیں ہیں ہزار روپیہ چندہ دے دیتے ہیں مگر اس لئے نہیں کہ وہ سمجھتے ہیں خطرہ قریب آ رہا ہے.بلکہ اس لئے کہ وہ سمجھتے ہیں یہ دس بیس ہزار روپیہ ایسا ہی ہے جیسے بیج ڈالا جاتا ہے.وہ خیال کرتے ہیں کہ اس کے نتیجہ میں یا تو انہیں کوئی خطاب مل جائے گا یا انہیں آنریری مجسٹریٹ بنا دیا جائے یا ان کے بیٹے کو ہی کہیں ملازم کرادیا جائے گا.پس وہ خطرہ کی اہمیت کو سمجھ کر قربانی نہیں کرتے بلکہ گورنمنٹ میں عزت اور رسوخ حاصل کرنے کے لئے اپنا روپیہ خرچ کرتے ہیں.ان کے علاوہ جو پبلک کے نمائندے ہیں ان میں سے بہت کم ہیں جو سچے طور پر خطرہ کی اہمیت کو سمجھتے ہوں اور جو لوگ سمجھتے ہیں وہ بھی بعض مصالح کی وجہ سے خاموش ہیں.مثلاً گاندھی جی نے کچھ عرصہ ہوا جنگ کی تائید میں اعلان کیا تھا مگر معلوم ہوتا ہے کہ بعد میں وہ ڈر گئے اور کسی نے ان سے کہہ دیا کہ گاندھی جی آپ نے یہ کیا مصیبت سہیڑ لی ہے؟ اگر انگریز جیتے تب تو کوئی بات ہی نہیں لیکن اگر جرمنی جیت گیا تو وہ کھال ادھیڑ کر رکھ دے گا.اس لئے بہتر یہی ہے کہ اس مو رہیں.چنانچہ اب ان کی پالیسی یہی ہے کہ وہ نہ انگریزوں کی تائید کرتے ہیں، نہ جرمنوں کی اور سمجھتے ہیں کہ اگر انگریز جیت گئے تو ہم ان سے کہہ دیں گے کہ ہم پر چپ

Page 563

* 1941 563 خطبات محمود آپ کے دشمن نہیں تھے اور اگر جرمن جیت گئے تو ان سے کہہ دیں گے کہ ہم کے دشمن نہیں تھے.بہر حال ان کا پہلا اعلان صاف بتاتا تھا کہ وہ خطرہ کی اہمیت کو سمجھتے ہیں مگر اب اُن کے دل میں شبہ ڈال دیا گیا ہے کہ انگریزوں کی کامیابی یقینی نہیں.ہو سکتا ہے کہ جرمن ہی جیت جائیں.اس لئے آپ اپنی جان بچانے کی کوشش کریں اور کسی ایک طرف نہ جھکیں.اور لوگ بھی ہیں جو خطرہ کی اہمیت کو سمجھتے ہیں مگر ان کی آواز کا اثر بہت کم ہے.حالانکہ حالات نہایت نازک ہیں اور خطرہ روز بروز بڑھتا چلا جا رہا ہے مگر افسوس کہ وہ لوگ جو ملک کو بیدار کر سکتے ہیں انہیں اس کی طرف کوئی توجہ ہی نہیں.صرف ہماری جماعت کے لوگ ہی ہیں جنہیں اس خطرہ کی طرف توجہ ہے اور یہ بات تو اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے کہ ہمارے لئے کونسی بات زیادہ مفید ہے مگر جہاں تک ہمارے علم کا تعلق ہے ہمیں انگریزوں کی نسبت زیادہ حسن ظنی ہے اور ہم سمجھتے ہیں کہ یہ جرمنوں سے زیادہ بہتر ہیں.پس ہمارا اپنے علم کی بنیاد پر یہی فرض ہے کہ ہم انگریزوں کی مدد کریں گو یہ بھی ایک حقیقت ہے ہے کہ اس قدر جنگ اور خون ریزی کے بعد بھی انگریزوں کے دلوں میں خدا کا خوف پیدا نہیں ہوا اب بھی حکومت کی طرف سے ہم پر ظلم جاتے ہیں اور بجائے اس کے کہ گورنمنٹ ان ظلموں کا ازالہ کرے وہ اپنی جھوٹی عزت کو بچانے کے لئے بہانے بناتی رہتی ہے.اور غرض یہ ہوتی ہے کہ ہم اس وقت جواب دیں گے جب کوئی بہانہ مکمل ہو جائے گا.یہی وجہ ہے کہ ہماری جماعت کے بعض نوجوان گو میرے کہنے پر فوج میں بھرتی ہو رہے ہیں مگر جب وہ مجھ سے ملنے کے لئے آتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم آپ کے کہنے پر فوج میں جا رہے ہیں ورنہ سچی بات یہی ہے کہ ہمارے دل انگریزوں کے ساتھ نہیں ہمارا تجربہ بھی کتے یہی ہے کہ ابھی تک ان میں خدا کا خوف پیدا نہیں ہوا.وہ یہی چاہتے ہیں کہ طرح لوگ ان کی اطاعت کرتے جائیں اور انہی جی حضور کہتے رہیں.ورنہ اگر کوئی سچائی لے کر کھڑا ہو جائے اور ان کی غلطی پکڑ لے تو وہ اپنی غلطی ماننے کے لئے

Page 564

* 1941 564 خطبات محمود.تیار نہیں ہوتے.انگریزی حکومت کے ماتحت کم سے کم پنجاب میں ہم سے یہی سلوک ہو رہا ہے.اور جب اس قسم کے حالات پیدا ہو جائیں تو دلوں میں سے دعائیں نکلنی مشکل ہو جاتی ہیں.لیکن بہر حال عظمند وہی ہوتا ہے جو دوسرے کے فعل کو دیکھنے کی بجائے اصل واقعات کو دیکھے اور وہ راہ اختیار کرے جو صحیح اور درست ہو.ہم اگر صرف حکومت کے بعض افسروں کے رویہ کو دیکھیں تو بے شک کوئی کہہ سکتا ہے کہ ان حالات میں ہم حکومت کی کیوں مدد کریں لیکن اگر ہم حالات کو اس نقطہ نگاہ سے دیکھیں کہ اس وقت دنیا پر جو مصیبت چھائی ہوئی ہے اس کا اثر صرف انگریزوں پر ہی نہیں بلکہ ہم پر بھی پڑنے والا ہے تو ہماری عقل یہی فیصلہ کرے گی کہ ہمیں انگریزوں کی زیادہ سے زیادہ مدد کرنی چاہئے اور دعائیں کرنی چاہئیں کہ اللہ تعالی اس فتنہ کو جلد دور کرے.اللہ تعالیٰ کے اختیار میں سب کچھ ہے.بیسیوں مواقع اس جنگ میں ایسے پیدا ہوئے جب یہ خیال کیا جاتا تھا کہ اب انگریز جرمنوں کا مقابلہ نہیں کر سکیں گے بلکہ ایک وقت تو ایسا آیا کہ خود انگریز یہ سمجھتے تھے کہ اب ہمارے لئے جرمنی کا مقابلہ کرنا مشکل ہے مگر اللہ تعالیٰ نے قبل از وقت مجھے یہ خبر دے دی تھی کہ انگریزی حکومت ختم نہیں ہو گی بلکہ اس کے بعد پہلے سے زیادہ مضبوط ہو جائے گی.انگریز اگر سوچتے تو ان کے لئے یہی نشان کافی تھا.چنانچہ کتنی دردناک تقریر تھی مسٹر چرچل وزیر اعظم کی، جب انہوں نے کہا کہ اب وہ دن آ گیا ہے کہ ہماری قوم پر جرمن حملہ آور ہوں.ہم سمندر کے کناروں پر جرمنوں کا مقابلہ کریں گے اور اگر سمندر کے کناروں پر مقابلہ نہ ہو سکا اور وہ اندر داخل ہو گئے تو ہم اپنے شہروں میں ان کا مقابلہ کریں گے، پھر لنڈن کی گلیوں میں ان کا مقابلہ کریں گے، اور اگر پھر بھی ہم دشمن کا مقابلہ نہ کر سکے اور وہ ہمارے ملک پر قابض ہو گیا تو ہم کینیڈا چلے جائیں گے اور وہاں سے اس کا مقابلہ کریں گے.گویا وزیر اس بات کا امکان سمجھتے تھے کہ جرمنی ساحل انگلستان پر حملہ کرے گا اور پھر اس میں

Page 565

* 1941 565 خطبات محمود وہ کامیاب ہو کر آگے بڑھے گا.اور لنڈن میں اس کا مقابلہ کرنا پڑے گا اور پھر وہ اس بات کا بھی امکان سمجھتے تھے کہ حکومت لنڈن سے بھاگ جائے اور کینیڈا میں جا کر دشمن کا مقابلہ کرنا پڑے.4 اس وقت خدا تعالیٰ نے مجھے یہ خبر دی تھی کہ یہ چھ مہینے پہلے کی بات ہے.یعنی چھ مہینے کے بعد انگریزوں کی حالت بدل جائے گی اور پھر وہ اپنے پاؤں پر کھڑے ہو جائیں گے.چنانچہ ٹھیک چھ ماہ کے بعد ان کی حالت تبدیل ہوئی اور وزیر جنگ نے ایک تقریر کرتے ہوئے کہا کہ آج سے چھ ماہ پہلے سوائے بیوقوف کے اور کوئی شخص یہ خیال بھی نہیں کر سکتا تھا کہ ہم اس جنگ میں حاصل کر لیں گے اب کجا تو انگریزوں کی یہ حالت تھی کہ وزیر اعظم تک کہہ رہا تھا کہ اگر حالات بگڑے تو ہم لنڈن چھوڑ کر کینیڈا چلے جائیں گے اور کجا یہ حالت ہوئی کہ جیسا کہ خدا تعالیٰ نے مجھے بتایا تھا.چھ ماہ کے بعد ان کی حالت پہلے سے بہت مضبوط ہو گئی.غرض انگریز اگر سوچتے تو ان کے لئے یہی نشان کافی تھا.مگر افسوس ہے کہ ان کی سمجھ میں اب تک یہ بات نہیں آئی کہ ہمارے ساتھ ان کا مقابلہ کرنا خدا سے مقابلہ کرنا ہے.اور وہ اس بات کو نہیں سمجھتے کہ اگر انہوں نے اپنے رویہ کو نہ بدلا تو وہ خدا تعالیٰ کے غضب کے مورد ہو جائیں گے.بہر حال وہ جو کچھ چاہتے ہیں کریں.ہم نے ان کا معاملہ خدا پر چھوڑا ہوا ہے.انہوں نے سلسلہ کی جو تازہ ہتک کی ہے.اس کے متعلق ہم اس بات کا انتظار کر رہے ہیں کہ حکومت کی طرف جواب آجائے.ان کی کارروائیوں کا ہمیں درمیان میں علم بھی ہوتا رہتا ہے.مگر بہر حال جو ہمارا فرض ہے وہ ہمیں ادا کرنا چاہئے اور اس جنگ میں انگریزوں کی کامیابی کے لئے دعائیں کرتے رہنا چاہئے.اگر کوئی دن ایسا آیا جب خدا نے یہ فیصلہ کر دیا کہ انگریز بھی ویسے ہی بڑے ہو گئے ہیں جیسے جرمنی والے بُرے ہیں تو خدا خود میں کہے گا کہ اب انگریزوں کی کامیابی کے لئے دعائیں کرنا چھوڑ دو اور غیر جانبدار ہو بیٹھ جاؤ اور جب اس نے فیصلہ کیا کہ انگریز، جرمن سے بھی بدتر ہو گئے ہیں

Page 566

* 1941 566 خطبات محمود تو خدا ہمیں خود حکم دے گا کہ اب جرمنوں کی کامیابی کے لئے دعائیں مانگنا شروع کر دو مگر جب تک خدا تعالیٰ کی طرف سے ہمیں کوئی ایسا حکم نہیں ملتا اس وقت ہمارا یہی فرض ہے کہ انگریزوں کی کامیابی کے لئے دعائیں کرتے رہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے انگریزوں کے لئے دعا کی ہے.پس جب تک وہ دعا قائم ہے اور جب تک خدا تعالیٰ ہمیں یہ نہیں بتاتا کہ اب حالات بدل گئے ہیں اور اس دعا کا زمانہ ختم ہو چکا ہے، اُس وقت تک ہمارا فرض ہے کہ ہم اپنی دعاؤں کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی دعا کے ساتھ ملائیں.ہمیشہ کے لئے تو کوئی چیز قائم نہیں رہتی.وہی مدینہ کی گلیاں جن کے متعلق رسول کریم صلی ال ولیم نے فرمایا تھا کہ وہ امن کی جگہ ہیں ایک وقت ایسا آیا کہ ان میں فساد ہوا.پس پیشگوئیاں وقتی ہوتی ہیں اور ایک وقت ایسا آ سکتا ہے جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی دعا کا زمانہ ختم ہو جائے مگر یہ خدا تعالیٰ ہی بتا سکتا ہے کہ وہ وقت آیا ہے یا نہیں.ہمارا کوئی حق نہیں کہ ہم آپ ہی آپ یہ فرض کر لیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی دعا کا زمانہ ختم ہو چکا ہے.یہ انتہا درجہ کی گستاخی اور بے ادبی ہو گی کہ ہم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الہامات پر حکومت کریں.جو چیز حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام کو الہام سے معلوم ہوئی ہے.یا تو اسی الہام میں کوئی ایسی مخفی بات ہو سکتی ہے جو اپنے وقت پر ظاہر ہو کر بتا دے کہ اب اس دعا کا زمانہ ختم ہو چکا ہے اور یا پھر تازہ الہام ہی کسی پہلے الہام کو بدل سکتا ہے.بہر ہے.بہر حال جب تک اللہ تعالیٰ ہمیں کوئی ایسی بات نہیں بتاتا ہماری جماعت کا فرض ہے کہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی دعاؤں سے اپنی دعاؤں کو ملائے تاکہ اللہ تعالیٰ اس فتنہ سے ہمارے ملک کو بھی بچائے اور انگریزوں کو بھی محفوظ رکھے اِس وقت بعض اس قسم کے خطرناک حالات پیدا ہو چکے ہیں کہ اند رہی اندر سخت تشویش پیدا ہو رہی ہے اور ایسے نازک حالات مجھے جاتے ہیں کہ ڈر پیدا ہو گیا ہے کہ جس طرح یکدم بند ٹوٹ اسی طرح اچانک کوئی ایسی صورت پیدا نہ ہو جائے جس کا مقابلہ کرنا مشکل ہو.جاتا ہے

Page 567

خطبات محمود 567 بھی * 1941 دوسری طرف ہم دیکھتے ہیں کہ ہمارے ملک میں اندرونی طور پر کوئی امن نہیں.اگر حکومت کمزور ہو گئی تو قومیں ایک دوسرے کا گلا گھونٹنے کے لئے اٹھ کھڑی ہوں گی.سچا تقویٰ لوگوں کے تقویٰ لوگوں کے قلوب میں نہیں پایا جاتا.ہندو مسلمان کے خون کا پیاسا ہے اور مسلمان ہندو کے خون کا پیاسا.سکھ عیسائیوں کے دشمن ہیں.اور عیسائی سکھوں کے دشمن ہیں یہی حال دوسری قوموں کا ہے.ایک دوسرے کی ہمدردی اور محبت کے جذبات مٹ چکے ہیں اور دشمنی اور عناد دلوں میں کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے.ایسے حالات میں اگر حکومت کمزور ہو جائے تو باہمی عناد بہت بڑھ جائے گا اور ہماری جماعت کے لئے تو غیر معمولی خطرات پیدا ہو جائیں گے.ہمارے ارد گرد مختلف قومیں چوری چوری ہتھیار جمع کر رہی ہیں.چوری چوری گولہ بارود جمع کر رہی ہیں.اور ان کی دلیری یہاں تک بڑھی ہوئی ہے کہ بعض لوگ احمدیوں کے پاس اور ان سے سے کہنے لگے کہ اپنی بندوقیں زیادہ قیمت پر ہمارے پاس بیچ ڈالو.ایسے خطرہ کے موقع پر بالخصوص چھوٹی جماعتوں کے لئے خدا کے سوا اور کوئی سہارا نہیں ہوتا.مگر افسوس ہے ابھی تک ہماری جماعت کے دوستوں کو بھی اس فتنہ کی اہمیت کا پوری طرح احساس نہیں ہوا.بیسیوں لوگ ہیں جو باوجود میرے خطبات سننے کے آنے والے خطرہ سے بالکل غافل ہیں اور دل میں سمجھتے ہیں کہ انگریزوں سے ہمارا کیا تعلق ہے.انگریز بھی ہمارے دشمن ہیں اور جرمن بھی ہمارے دشمن ہیں اور وہ اس بات کو نہیں سمجھتے کہ انگریزوں سے ہماری کوئی قومی دشمنی نہیں بلکہ اِس وقت تک پنجاب کی حکومت کے صرف چند افراد ہیں جن سے ہمیں شکایت ہے اور ان چند افراد کی دشمنی کو تمام قوم کی دشمنی قرار دینا بہت بڑی حماقت ہے.اگر ہم ایسا کریں تو یہ وہی ہجوم والی روح ہو گی جو شہروں میں بالعموم نظر آتی ہے.کوئی ہے اور اس لڑائی میں مثلاً مسلمان مارا جاتا ہے.اب مسلمان کسی ہندو سے لڑ بیہ پڑر منا مسلمان نہ یہ دیکھتے ہیں کہ جو مسلمان مارا گیا ہے وہ کیسے اخلاق رکھتا تھا، نہ دیکھتے ہیں کہ وہ کس جگہ کا رہنے والا تھا، نہ یہ دیکھتے ہیں کہ وہ ظالم تھا یا مظلوم کی

Page 568

* 1941 568 خطبات محمود یہ دیکھتے ہیں کہ لڑائی کس بات پر ہوئی.بس یہ دیکھ کر کہ ایک ہندو کے ہاتھ مسلمان مارا گیا ہے جوش میں کھڑے ہو جائیں گے اور ہندوؤں کو مارنے لگ جائیں گے.فرض کرو راستہ میں کوئی ہندو چلا آ رہا ہے.اس کی بیوی سخت بیمار ہے اور وہ اس کے علاج کے لئے کسی ڈاکٹر کی طرف جا رہا ہے اسے دیکھ کر مسلمان جھٹ کھڑا ہو جائے گا اور بغیر اس کے کہ یہ جانتا ہو وہ ہندو کون ہے، کہاں کا رہنے والا ہے اور اس کی مسلمانوں سے کوئی دشمنی بھی ہے یا نہیں.جھٹ الله اكبر کہہ کر خنجر اس کے پیٹ میں اتار دے گا.حالانکہ اس فعل سے اللهُ اكْبَرُ کہاں ہوا.اس سے تو الشَّيْطَانُ اكْبَرُ ہو کہ خدا کی بڑائی تو تب تھی کہ کسی مظلوم اور بے گناہ پر ہاتھ نہ اٹھایا جاتا بلکہ اس کی مدد کی جاتی.مگر جب ایک بے گناہ اور مظلوم کو قتل کر دیا جاتا ہے تو یہ خدا کی بڑائی کہاں ہوئی.یہ تو شیطان کی بڑائی ہوئی.یہی حال ہندوؤں کا ہے اس قسم کے فسادات کے موقع پر ہندوؤں کو اگر کوئی مسلمان نظر تو خواہ وہ بے چارہ امرتسر سے اپنا کوئی سودا لینے کے لئے ہی لاہور گیا ہو.اسے ہرے رام کہہ کر موت کے گھاٹ اتار دیتے ہیں.یہ ہجوم کی سپرٹ کہلاتی.اور اس میں بغیر یہ جاننے کے کہ مقابل میں کون ہے انسان دوسرے پر حملہ کر دیتا ہے.جب ایک آدمی دوسرے آدمی کے سامنے آتا ہے تو وہ جانتا ہے کہ میرے مقابلہ میں کون ہے.مگر جب ہجوم ہجوم کے مقابلہ میں ہو تو کچھ پتہ نہیں ہوتا کہ کون کس پر حملہ کر رہا ہے.اسی وجہ سے اس قسم کے اندھا دھند حملوں کو ہجومی روح کے ماتحت قرار دیا جاتا ہے کیونکہ اس میں بھی گو ایک آدمی دوسرے آدمی کو مارتا ہے مگر چونکہ بلا وجہ اور بلا سبب کے مارتا ہے اس لئے اس کی سپرٹ ہجوم والی سپرٹ کہلاتی ہے.پس اگر ہم بھی بعض افسروں کی وجہ سے تمام انگریز قوم کو دشمن سمجھنے آتا ہے ہے.لگیں تو ہجومی روح کا ہی مظاہرہ کریں گے.جو کوئی پسندیدہ بات نہیں ہو سکتی.ہمارا طریق یہی ہے کہ جب تک ساری قوم پر اتمام حجت نہ کر لیں اُس وقت تک تمام قوم کو اپنا دشمن نہیں سمجھ سکتے.بلکہ جو فرد ہماری دشمنی کرے گا ہم صرف

Page 569

* 1941 خطبات محمود 569 اس کا مقابلہ کریں گے یا اگر مناسب سمجھیں گے تو اسے معاف کر دیں گے.اگر سلسلہ کا مفاد یہ چاہتا ہو کہ اسے معاف کر دیا جائے تو ہم معاف کر دیں گے اور اگر سلسلہ کا مفاد یہ چاہتا ہو کہ اسے معاف نہ کیا جائے تو ہم اسے معاف نہیں کریں گے.بہر حال ہم فرد کو ہی اپنے سامنے رکھیں گے.قوم کو نہیں.اور اگر ان افراد کے معاملہ میں ہماری بات نہ سنی جائے تو ہم بالا حکام کے سامنے اپنا معاملہ رکھیں گے اور اگر انہوں نے بھی نظر انداز کر دیا تو ہم ساری قوم کے سامنے اسے سمیں رکھیں گے اور اگر قوم نے بھی اس کی طرف کوئی توجہ نہ کی تو پھر ہم کہہ گے کہ وہ قوم کی قوم ہمارے ساتھ انصاف کرنے کے لئے تیار نہیں اور اس وقت ہمارا حق ہو گا کہ ہم ان کی مدد کرنے سے انکار کر دیں لیکن اس سے پہلے ہمارے لئے مدد سے انکار کرنا جائز نہیں.اور گزشتہ واقعات میں ہمارا تجربہ یہی ہے کہ جب ہم نے بالا حکام کے پاس اپیل کی تو وہ رائیگاں نہیں گئی البتہ کچھ عرصہ سے انہوں نے الزام سے بچنے کا ایک نیا طریق نکالا ہے کہ انگریز وزراء پر ذمہ داری ڈال دیتے ہیں اور وزراء انگریزوں پر ڈال دیتے ہیں.یہ شتر مرغ والا ایک نیا ڈھنگ انہوں نے نکالا ہے اور ہر شخص اپنی جان بچانے کی کوشش کرتا ہے.اگر حالات یہی رہے تو کم سے کم ہمیں سمجھنا پڑے گا کہ کانگرس اپنے اس مطالبہ میں بالکل حق بجانب ہے کہ ہندوستان کی حکومت کلیۂ ہندوستانیوں کے ہاتھ میں ہونی چاہئے.یہ دوغلی حکومت اچھی نہیں کہ انگریز حکام سے کوئی بات پوچھی جائے تو وہ اس کی ذمہ داری وزراء پر ڈال دیں اور وزراء سے دریافت کیا جائے تو وہ انگریز حکام پر اس کی ذمہ داری اگر ڈال دیں.یہ شتر مرغ والی چال ملک کے لئے سخت نقصان رساں ہے اور واقعات اسی طرح ہوتے رہے تو کم سے کم ہم اس نتیجہ پر ضرور پہنچ جائیں گے کہ دوغلی حکومت نہیں ہونی چاہئے اور انگریزوں کا حکومت میں بالکل کوئی دخل نہیں ہونا چاہئے.گورنر صرف “صاحب سلامت ” کہنے کے لئے ہو جیسے کینیڈا یا آسٹریلیا میں اس کی مثال ملتی ہے.

Page 570

خطبات محمود 570 * 1941 بہر حال جیسا کہ میں نے بتایا ہے جب تک قومی طور پر انگریزوں پر کوئی ذمہ داری عائد نہ ہوتی ہو.اس وقت تک اس واقعہ کو انگریز قوم کی طرف منسوب کرنا درست نہیں.اِس وقت ہمارے اور ان کے فوائد مشترکہ ہیں.اگر خدانخواستہ ہندوستان پر حملہ ہو جائے تو جرمن فوجیں صرف انگریزوں کو ہی نہیں ماریں گی بلکہ وہ ہر غریب سے غریب اور امیر سے امیر شخص کو لوٹیں گی.اگر کسی غریب کے گھر صرف دس سیر دانے پڑے ہوں گے تو وہ ان دس سیر دانوں کو بھی اٹھا کر لے جائیں گی کیونکہ انہیں کھانے کے لئے چیزوں کی ضرورت ہو گی.یہ تو نہیں کہ وہ اپنے کھانے کے لئے جرمنی سے چیزیں منگوائیں گی.لازما فوجیں اپنے کھانے کے لئے ہندوستان کے لوگوں کو ہی لوٹیں گی.پھر جس طرح بھیڑیں اور بکریاں دوڑتی پھرتی ہیں اسی طرح وہ آگے آگے ہوں گے اور پیچھے پیچھے جرمن فوجیں ہوں گی.نہ کسی کو یہ پتہ ہو گا کہ اس کی بیوی کہاں ہے، نہ کسی کو یہ پتہ ہو گا کہ اس کے بچے کہاں ہیں، نہ کسی کو یہ پتہ ہو گا کہ اس کے دوست کہاں ہیں.پس ان خطرات کو محسوس کرو اور ان کی اہمیت کے مطابق ان کے لئے دعائیں کرو.اور یاد رکھو کہ خالی دعا قبول نہیں ہوتی بلکہ وہ دعا قبول ہوا کرتی ہے جو حالات کے مطابق ہو اس وقت ہمارے پاس دنیوی لحاظ سے کوئی ایسے سامان نہیں جن سے ہم انگریزوں کی مدد کر سکتے ہوں.ہم زیادہ سے زیادہ یا تو چندہ دے سکتے ہیں یا اپنے نوجوانوں کو فوج میں بھرتی کرا سکتے ہیں.اس کے علاوہ دنیوی سامانوں میں سے ہمارے پاس کوئی سامان نہیں.لیکن ہمارا بھروسہ ان سامانوں پر نہیں بلکہ دعا پر ہے اور وہ ایک بہت بڑا ہتھیار ہے جو خدا تعالیٰ نے ہمیں عطا کیا ہوا ہے.اگر ہم سچے دل کے ساتھ اللہ تعالیٰ سے دعائیں کرتے رہیں تو یقینا اللہ تعالیٰ کے نزدیک ہمارے لئے جو بات بہتر ہے وہ ہو کر رہے گی.اگر خدا تعالیٰ کے نزدیک بہتر بات یہ ہوئی کہ دونوں قومیں تباہ ہو جائیں تو وہ دونوں قوموں کو تباہ کر دے گا اور اگر خدا تعالیٰ کے نزدیک یہ بات بہتر ہوئی کہ کسی ایک کو فتح دے تو جس کی فتح اس کے نزدیک زیادہ بہتر ہو گی اس کو فتح حاصل ہو گی

Page 571

خطبات محمود 571 * 1941 مگر تم کو صرف وہی دعا کرنی چاہئے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام نے مانگی ہے.آگے خدا اسے جس خانہ میں چاہے گا ڈال دے گا کیونکہ خدا دعا کے الفاظ کو نہیں دیکھتا بلکہ مومن کی نیت کو دیکھتا ہے.جب تم خدا تعالیٰ سے یہ دعا مانگو گے کہ وہ انگریزوں کو فتح دے اور جب تمہاری یہ دعا محض اس لئے ہو گی کہ حضرت مسیح موعود عليه الصلوۃ و السلام نے بھی یہ دعا مانگی ہے لیکن خدا کے نزدیک حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی دعا کا زمانہ ختم ہو چکا ہو گا تو وہ دعا کے الفاظ کے مطابق نہیں بلکہ اس کی روح کے مطابق تم سے سلوک کرے گا اور اس بات کو دیکھ کر کہ تمہارا اصل منشاء اس دعا سے یہ ہے کہ دنیا میں امن قائم ہو وہ دنیا میں امن قائم کر دے گا.چاہے وہ کسی صورت میں ہو.اس کی مثال ایسی ہی ہے جیسے مثنوی میں مولانا روم نے لکھا ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام ایک دفعہ جنگل میں سے گزر رہے تھے کہ انہوں نے دیکھا ایک گڈریا بیٹھا ہے وہ اپنی گدڑی میں سے جوئیں نکالتا جاتا تھا اور کہتا جاتا تھا کہ یا اللہ اگر تو مجھے مل جائے تو میں اپنی بکریوں کا تازہ تازہ تجھے پلاؤں.اے اللہ اگر تو مجھے مل جائے تو میں تیرے پیر دباؤں تجھے کانٹے چبھ جائیں تو تیرے پاؤں میں سے کانٹے نکالوں.تجھے جوئیں پڑ جائیں تو تیرے کپڑوں میں سے جوئیں نکالوں.حضرت موسیٰ علیہ السلام نے جب یہ سنا تو اسے سونٹا مارا اور کہا احمق خدا کی ہتک کرتا ہے.کیا اللہ بھی بھوکا اور پیاسا ہو رازق ہے سارے جہان کو روزی دیتا ہے لیکن اگر اسے بھوک بھی لگے تو کیا وہ تیری بکریوں کا دودھ ہی پئے گا اور وہ تو طاقتور خدا ہے مگر تیرے نزدیک وہ ننگے پاؤں پھر رہا ہے اور اسے جوتی تک نصیب نہیں اور کانٹے اس کے پاؤں میں چھ نچھ جاتے ہیں.پھر تو یہ سمجھتا ہے کہ تیری طرح اس نے سڑی ہوئی گدڑی پہنی ہوئی ہے اور اس میں جوئیں پڑی ہوئی ہیں.وہ بے چارہ تو جوش محبت میں خدا تعالیٰ سے اس طرح پیار کی باتیں کر رہا تھا کہ گویا خدا ایک معصوم بچہ ہے جو اس نے اپنی گود میں اٹھایا ہوا ہے مگر جب اسے سونٹا پڑا تو دل پکڑ کر اور مایوس ہو کر بیٹھ رہا.اُسی وقت دودھ سکتا ہے.وہ تو

Page 572

* 1941 572 خطبات محمود اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام پر الہام نازل کیا کہ اے موسیٰ ! تُو نے آج ہمارے بندے کا دل بہت دُکھایا.اے موسیٰ! تو اپنے علم کے مطابق ہم سے محبت کرتا ہے اور وہ اپنے علم کے مطابق ہم سے محبت کا اظہار کر رہا تھا.تیرا کیا حق تھا کہ تو اس کی باتوں میں دخل دیتا ہمیں تو اس کی یہی باتیں پیاری لگ رہی تھیں.5 اسی طرح حدیثوں میں آتا ہے.ایک بندہ اللہ تعالیٰ سے دعا کر رہا تھا کہ تو میرا اللہ ہے اور میں تیرا بندہ ہوں مگر اسے دعا کرتے کرتے کچھ ایسا جوش آیا کہ وہ حالت بے اختیاری میں کہنے لگا اے اللہ میں تیرا رب ہوں اور تو میرا بندہ ہے.رسول کریم صلی ا کرم فرماتے ہیں کہ جب اس نے یہ کہا کہ تو اللہ تعالیٰ کو اس کی یہ بات بڑی ہی پیاری معلوم ہوئی کیونکہ جوش محبت میں اسے یہ ہوش ہی نہ رہا کہ وہ کیا کہنا ا ہے اور کیا کہہ رہا ہے تو اللہ تعالیٰ مومن کی نیت اور اس کے ارادہ کو دیکھتا ہے.یہ نہیں دیکھتا کہ اس کے منہ سے الفاظ کیا نکل رہے ہیں.مثلاً وہی الفاظ جن کا میں نے ابھی ذکر کیا ہے اگر کوئی دانستہ کہے گا تو وہ گنہگار ہو گا لیکن اگر کسی کی زبان سے جوش محبت میں مدہوشی کی حالت میں نکل جائیں تو وہ گنہگار نہیں ہو سکتا.تو اللہ تعالیٰ صرف لفظوں کو نہیں دیکھتا بلکہ اُس روح کو دیکھتا ہے جو الفاظ کے پس پردہ کام کر رہی ہوتی ہے.جب ایک شخص اللہ تعالیٰ کے سامنے دعا کرنے کے لئے جاتا ہے اور وہ پوری طرح اپنے نفع اور نقصان کو سمجھ کر جاتا ہے تو ایسی حالت میں اگر وہ کوئی غلطی بھی کر بیٹھتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے اس طرح قبول نہیں کرتا جس طرح وہ دعا مانگ رہا ہوتا ہے بلکہ اس رنگ میں قبول کرتا ہے جس رنگ میں اس دعا کا قبول ہونا اس کے لئے بہتر ہوتا ہے.اس طرح گو بعض دفعہ اسے یہ خیال گزرتا ہے کہ میری دعا قبول نہیں ہوئی مگر حقیقت یہ ہے کہ اس کی دعا قبول ہو چکی ہوتی ہے کیونکہ اس کے نتیجہ میں خدا تعالیٰ اُس کے لئے وہ امر ظاہر کرتا ہے جو اس کے لئے مفید ہوتا ہے.گو بظاہر وہ اس کی مراد کے خلاف ہی کیوں نہ نظر آئے مثلاً ایک شخص کا بیٹا سخت بیمار ہے اور وہ دعا کرتا ہے کہ یا اللہ میرے بیٹے کو صحت دے دے.

Page 573

* 1941 573 خطبات محمود جب ہو اب بظاہر دعا اسی رنگ میں پوری ہونی چاہئے کہ اس کا بیٹا تندرست ہو جائے مگر اللہ تعالیٰ کے علم میں یہ بات ہوتی ہے کہ اگر اس کا بیٹا زندہ رہا تو وہ بڑا ہو کر چور یا ڈاکو یا فسادی بنے گا اور اس طرح اپنے باپ اور خاندان کی بدنامی کا موجب ہو گا.اُس وقت جب وہ یہ دعا کر رہا ہو گا کہ یا اللہ میرے بیٹے کو صحت دے اللہ تعالیٰ اپنے فرشتوں کو حکم دے گا کہ یہ میرا بندہ مجھے بڑا پیارا ہے ہم نے اس کی دعا قبول کر لی ہے.جلدی جاؤ اور اس کے بیٹے کی روح قبض کر لو.تا ایسا نہ ہو کہ بڑا ہو کر وہ خود بھی گنہگار بنے اور اپنے خاندان کی بدنامی کا بھی موجب بنے.پس وہ دعا تو یہ کر رہا ہے کہ میرا بیٹا بچ جائے مگر چونکہ خدا یہ جانتا ہے کہ اگر یہ زندہ رہا تو بدنامی کا گا اس لئے وہ دعا کو اس رنگ میں قبول کر لیتا ہے کہ اسے وفات دے دیتا ہے اور اس طرح اسے بدنامی سے بچا لیتا ہے.دنیا مجھتی ہے کہ اس کی دعا قبول نہیں ہوئی مگر واقعہ یہ ہوتا ہے کہ اس کی دعا قبول ہو چکی ہوتی ہے پس تم اس بات سے مت ڈرو کہ تمہارا مستقبل کیا ہے.مستقبل کا کام خدا سے تعلق رکھتا ہے تمہارا کام ظاہر پر فیصلہ کرنا ہے اور ظاہر میں ہمیں یہی نظر آتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام نے انگریزوں کی کامیابی کے لئے دعا کی ہوئی ہے.پس تم یہی دعائیں کرو کہ اللہ تعالی انگریزوں کو فتح دے.اگر انگریزوں کی فتح میں تمہارے لئے بہتری ہے تو اللہ تعالیٰ انگریزوں کی فتح کے سامان پیدا کر دے گا اور اگر ان کی فتح میں بہتری نہیں تو پھر جس بات میں بھی تمہارے لئے بہتری ہے اللہ تعالیٰ اسے پیدا کر دے گا.مگر تم بہر حال اُسی صف میں کھڑے ہو جاؤ گے جس صف میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام کھڑے ہیں..پس دعائیں کرو اور اس شان سے کرو جس شان کا یہ فتنہ ہے.یہ نہیں کہ کسی وقت خیال آیا تو دعا کر لی بلکہ اتنی توجہ اور اتنے درد سے دعائیں کرو کہ تمہاری نیندیں تم پر حرام ہو جائیں.تم بیٹھو تو اس وقت بھی، لیٹو تو اس وقت بھی، اٹھو تو اس وقت بھی.غرض ہر حرکت اور ہر سکون کے وقت یہ دعائیں تمہاری زبان پر

Page 574

خطبات محمود 574 * 1941 جاری رہیں.میرا تجربہ ہے کہ جب کسی دعا کی طرف میری اتنی توجہ ہو کہ جب میں سو کر اٹھوں تو اس وقت بھی وہ دعا میری زبان پر جاری ہو تو مجھے یقین ہو جاتا ہے کہ اب وہ دعا قبول ہو کر رہے گی.کیونکہ خدائی تصرف کے ماتحت وہ میری زبان پر جاری ہوتی ہے.جب میں سو جاتا ہوں تو وہ دعا برابر میرے قلب میں سے رہتی ہے اور جب میں اٹھتا ہوں تو وہ میری زبان پر جاری ہوتی ہے.اس وقت میں سمجھ لیتا ہوں کہ یہ خدا تعالیٰ کی اٹل تقدیر ہے.پس ایسی ہی دعائیں کرو سوتے جاگتے چلتے پھرتے اٹھتے بیٹھتے غرض ہر حالت میں گڑ گڑا گڑ گڑا کر دعائیں کرو تا اللہ تعالیٰ پنے فضل سے ان فتنوں کو جلد سے جلد دور کر دے.”(الفضل 15 نومبر 1941ء) 1: الفضل 17 جون 1938ء اپنے 2 ترمذی ابواب الفتن باب ما جاء ستكون فتنة كقطع الليل المظلم 3: کریمیا: سوویت یونین کے جنوب میں ایک جزیرہ - 1475ء سے 1783 ء تک ترکی کے زیر نگیں رہا.1918ء میں آزاد ہو کر کریمیا کا قیام عمل میں آیا.1921ء میں آزاد جمہوریہ کریمیا کی حیثیت سے سوویٹ یونین میں شامل ہو گیا.اردو انسائیکلو پیڈیا :4 Into the Battle مرتبہ Rahdolfh S.Churchill M.P صفحه 223 5 مثنوی رومی دفتر دوم بحوالہ الہام منظوم دفتر دوم صفحه 188 :6 مسلم كتاب التَّوْبَةِ بِابِ فِي الْحَقِّ عَلَى التَّوْبَةِ

Page 575

* 1941 575 (33) خطبات محمود جہاد اکبر کو کسی وقت بھی فراموش نہیں کرنا چاہئے فرموده 14 نومبر 1941ء) تشہد، تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:.“لڑائیاں اس وجہ سے کہ ان میں ہزاروں، لاکھوں انسان بعض دفعہ مارے جاتے ہیں ہزاروں، لاکھوں خاندان برباد ہو جاتے ہیں، ہزاروں، لاکھوں عورتیں بیوہ ہو جاتی ہیں اور ہزاروں، لاکھوں بچے یتیم ہو جاتے ہیں.نہایت ہی مکروہ، ناپسندیدہ اور خطرناک سمجھی جاتی ہیں لیکن جب لڑائی کی غرض لڑائی کو دور کرنا ہو اور جنگ دفاعی ہو تو وہی اچھی سمجھی جاتی ہے.جیسے اسلام میں جہاد کا حکم ہے مگر باوجود اس کے کہ دفاع نہایت ضروری چیز ہے.اس کے بغیر دنیا میں امن قائم نہیں ہو سکتا اور دنیا ظلم کو روکا نہیں جا سکتا.جب تک دنیا میں ایسے انسان موجود ہیں جو طاقت پر گھمنڈ کرتے ہیں جو اس امر کا فرق محسوس نہیں کرتے کہ دنیا میں اصل طاقت اخلاق کی جنگ ضروری ہے.ہم دیکھتے ہیں کہ دنیا میں ایک مضبوط اور تندرست آدمی کسی کمزور آدمی سے لڑ پڑتا ہے یا کسی بچے سے اس کا جھگڑا ہو جاتا ہے تو وہ کہتا ہے کہ میں ایک تھپڑ مار کر تمہارے سارے دانت نکال دوں گا.مجھے اس فقرہ پر ہمیشہ حیرت ہوتی ہے کہ یہ کہنے والا شخص یہ نہیں سمجھتا کہ اس کا زور آور یا طاقتور ہونا اس کی اخلاقی فضیلت کی دلیل نہیں چونکہ وہ طاقتور ہے اس لئے لازمی طور پر اس کی ضرب زیادہ زور سے پڑے گی اور جو کمزور ہے اس کی ضرب کم زور سے پڑے گی.طاقتور کی ضرب کا زور سے پڑنا اس کی کوئی فضلیت نہیں.لوہا اگر پیتل پر

Page 576

* 1941 576 خطبات محمود یا تانبے پر، یاتین پر ڈالا جائے تو اسے پھل دے گا اور یہ لوہے کی کوئی فضیلت کچل نہیں جو تعریف کے قابل ہو.پس طاقتور انسان کا کمزور کو کہنا کہ میں تمہیں ایسا ماروں گا اس بات کا ثبوت ہے کہ گویا اس کا طاقتور ہونا اس کے نزدیک کوئی ایسی فضیلت ہے جو اسے اخلاقی فضیلت بخش دیتا ہے اور ایسا خیال بڑی حماقت ہے.ہاں اگر وہ یہ ثابت کر دے کہ میں مظلوم ہوں اور میرا مد مقابل ظالم ہے تو یہ ایسی ت ہے جس کے مقابلہ میں دشمن نہیں بول سکتا کیونکہ اس کا مظلوم بننا بھی اس کے اختیار میں تھا اور اس کے مد مقابل کا ظالم بننا بھی اس کے اختیار میں تھا.یہی وجہ ہے کہ جو شخص جان بوجھ کر مظلوم بنتا ہے وہ زیادہ قیمت پاتا ہے بہ نسبت کے جو جان بوجھ کر ظالم بنتا ہے ایک شخص میں اتنی طاقت ہے کہ وہ تھپڑ کے مقابلہ میں تھپڑ مار سکے لیکن ایسا شخص اگر تھپڑ کھا کر آگے سے مارتا نہیں تو وہ مظلوم ہے.قانون بھی اگر وہ منصف لوگوں کے ہاتھ میں ہے اس کی تائید میں ہو گا.مگر اس کے علاوہ یہ بات بھی اسے حاصل ہو گی کہ خدا تعالیٰ کی کتاب میں اس کے نام ثواب لکھا جائے گا اور ہر شخص کہے گا کہ تھپڑ کا حق اسے دلایا جائے.پس علاوہ اس کے کہ قانون بھی تھپڑ مارنے والے کو سزا دے گا.خدا تعالیٰ کے ہاں بھی اس مظلوم کے نام ثواب لکھا جائے گا.لیکن یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ایک شخص کمزور اس ہو اور بوجہ مد مقابل کے طاقتور ہونے کے اسے مار ہی نہ سکتا ہو اور اس کا آگے سے نہ مارنا اس کی کمزوری کی وجہ سے ہو.ایسی صورت میں اگر وہ لوگوں کے سامنے شکوہ و شکایت کرتا پھرتا ہے تو گو اللہ تعالیٰ اس کا بدلہ لے گا اور دنیا بھی اس کے ساتھ انصاف کرے گی.مگر اسے ثواب حاصل نہیں ہو گا کیونکہ اس نے کوئی قربانی نہیں کی.گو اس نے مد مقابل کو مارا نہیں مگر اس کی وجہ یہ ہے کہ اس میں مارنے کی طاقت ہی نہ تھی.لیکن فرض کرو وہ تھپڑ تو نہیں مار سکتا تھا مگر شکوہ شکایت کر سکتا تھا لیکن اس نے خیال کیا کہ مجھے چاہئے کہ اچھا نمونہ پیش کروں اور دنیا سے فساد کا خاتمہ کروں اس لئے خاموش رہا اور فیصلہ کیا کہ وہ مارنے والے کو گالی بھی نہ دے گا

Page 577

* 1941 577 خطبات محمود کا اور لوگوں میں اس کی بدنامی بھی نہ کرے گا.تو باوجود اس کے کہ اس نے مد مقابل کو نہیں مارا اور باوجود اس کے کہ وہ مار نہیں سکتا تھا.پھر بھی اسے ثواب حاصل ہو گا.کیونکہ گو وہ مار تو نہ سکتا تھا مگر اسے بدنام کر کے کچھ نہ کچھ بدلہ تو لے ہی سکتا تھا.مگر وہ بھی اس نے نہیں لیا.اس لئے اللہ تعالیٰ کے ہاں اسے ثواب حاصل ہو گا.اللہ تعالیٰ کہے گا کہ یہ جتنا بدلہ لے سکتا تھا اتنا بھی اس نے نہیں لیا.صرف یہ کہ قانون اس کا حق اسے دلوائے گا، نہ صرف یہ کہ خدا تعالیٰ اس پر ظلم کرنے والے کو سزا دے گا بلکہ اس کے علاوہ اسے ثواب بھی ملے گا.لیکن فرض کرو وہ گونگا بھی تھا اور بول بھی نہ سکتا تھا اور اس وجہ سے اس نے نہ تو تھپڑ جواب کھپڑ سے دیا اور نہ زبان سے کسی کے پاس شکایت کی.لیکن دل میں کہتا رہا کہ تم مجھ سے طاقتور تھے اس لئے مار لیا.اگر مجھ میں بھی طاقت ہوتی یا میرے بند اور عزیز رشتہ دار یہاں ہوتے تو میں بھی ضرور بدلہ لیتا.یا اگر میری زبان وتی تو تمہیں سارے جہان میں بدنام کر دیتا.تو گو اس نے بدلہ لیا نہیں مگر پھر بھی کوئی ثواب نہ ہو گا کیونکہ گو وہ بدلہ لیتا نہیں مگر بدلہ لینے کی خواہش ضرور دل میں کرتا ہے اور انتقام کے جذبات کی پرورش کرتا رہتا ہے.تو گو اس کا بدلہ خدا تعالیٰ لے گا.قانون بھی اسے مارنے والے کو سزا دلوائے گا مگر خدا تعالیٰ کی بارگاہ میں اسے کوئی ثواب حاصل نہ ہو گا لیکن فرض کرو اس نے مقابلہ پر ہاتھ نہیں اٹھایا اور نہ وہ اٹھا سکتا تھا اور بد نام بھی نہیں کیا اور نہ کر سکتا تھا کیونکہ اس کی زبان نہ تھی مگر وہ دل میں کہہ سکتا تھا کہ گو مجھے طاقت نہیں تھی کہ میں مقابلہ کر سکتا ، گو میرے رشتہ دار نہ تھے کہ جن کی مدد سے میں بدلہ لے سکتا، گو میری زبان نہ تھی کہ میں بدنام کر سکتا لیکن اگر مجھ میں طاقت ہوتی تو بھی میں مقابلہ نہ کرتا، اگر میری زبان ہوتی تو بھی میں اسے بدنام نہ کرتا.تو اس صورت میں وہ خدا تعالیٰ کے ہاں ثواب پانے والا ہو گا.کیونکہ وہ دل میں تو اپنا غصہ نکال سکتا تھا مگر اس نے ایسا نہیں کیا.غرض مظلوم بننا ظالم بننے سے بدرجہا بہتر ہے اور نہ صرف دنیا میں نیک بناتا

Page 578

* 1941 578 خطبات محمود بلکہ آخرت میں بھی عزت بخشتا ہے.لیکن باوجود اس کے یہ فیصلہ نہیں کیا جا سکتا کہ ہمیشہ عفو اسی صورت میں ظاہر ہونا چاہئے کہ ظالم کا مقابلہ نہ کیا جائے کیونکہ تجربہ بتاتا ہے کہ دنیا میں ایسے لوگ موجود ہیں جو عفو سے ناجائز فائدہ اٹھاتے ہیں اور بعض دفعہ ان کے اعمال دنیا کے امن کو برباد کرنے والے اور نیکیوں کو مٹانے والے ہو جاتے ہیں، پس جب تک دنیا میں ایسے لوگ موجود ہیں جو ظلم کرنے میں خوش وتے ہیں اور متواتر عفو کے نتیجہ میں شرارتوں میں بڑھتے جاتے ہیں.اس وقت تک جنگ کی ضرورت بھی باقی رہے گی اور دین یہی ہے کہ ایسے موقع پر صبر نہ کرو.موجودہ جنگ کو دیکھ لو.جرمنی نے دوسری طاقتوں کو جنگ کے لئے مجبور کر دیا ہے اور اس وقت رحم اسی میں ہے کہ تلوار اٹھائی جائے، بخشش اسی میں ہے کہ دفاع کیا جائے مگر ایسے وقت میں بھی جنگ بہترین چیز نہیں گو اچھی ہے.حتی کہ جہاد بھی بہترین نیکی نہیں گو وہ اعمال میں سے اعلیٰ درجہ کا عمل ہے مگر اعلیٰ سے اعلیٰ نہیں.ایک دفعہ رسول کریم صلی ال کی ایک جنگ سے واپس ہوئے تو فرمایا.جہادِ اصغر ہو چکا.اب آؤ جہاد اکبر میں مصروف ہوں.صحابہ نے عرض کیا کہ جہاد اکبر کیا ہے؟ تو آپ نے فرمایا جہاد اکبر اپنے نفسوں کا جہاد ہے.1 پس گو لڑائی کا جہاد بڑی اعلی چیز حتی کہ جو اس میں شامل نہ ہو وہ ایمان سے خارج ہو جاتا ہے مگر نیکیوں سے اعلیٰ نہیں.اعلیٰ درجہ کا جہاد وہ ہے جو انسان شیطان سے کرے.شیطان سے لڑائی اللہ تعالیٰ کے نزدیک زیادہ قابل قدر ہوتی ہے اور جب رسول کریم صلی الی یم نے خود فیصلہ فرما دیا کہ جہاد اکبر کیا ہے اور آپ نے اپنا نمونہ اس بارہ میں دکھا دیا تو ہماری جماعت کے دوستوں کو یاد رکھنا چاہئے کہ ان کے لئے اصل جہاد نفس کے ساتھ جہاد ہی ہے.اس وقت لڑائی ہو رہی ہے.بڑے خطرات کا وقت ہے.میں بھی یہی کہتا رہتا ہوں کہ جو لوگ جنگ میں جا سکیں وہ جائیں اور جنگ میں شریک ہوں.رشتہ دار اور دوست بھی کہتے ہیں کہ جاؤ گورنمنٹ بھرتی کر رہی ہے اس میں شریک ہو جاؤ.یہ لڑائی گو دینی نہیں مگر برطانیہ جو لڑائی لڑ رہا ہے وہ چونکہ جہاں تک

Page 579

خطبات محمود 579 * 1941 برطانیہ کا تعلق ہے مظلومیت کی لڑائی ہے.اس لئے اس میں حصہ لینا بھی ثواب کا موجب ہے.پھر بھی جہادِ اکبر کے مقابلہ میں اس کی کچھ حقیقت نہیں.اگر دینی جہاد ہوتا تو اس میں حصہ لینے والے تو بہت ہی زیادہ ثواب کے مستحق ہوتے مگر پھر بھی جہاد اکبر جیسا درجہ اس کا نہ ہو سکتا بے شک اس وقت لڑائی کی وجہ سے بہت مصروفیت ہے.جو لوگ اس میں حصہ لے رہے ہیں وہ ہر وقت مصروف رہتے ہیں اور ہر طرف اس لڑائی کی وجہ سے شورش اور ہنگامہ بپا ہے.مگر پھر بھی ہمارے دوستوں کو اس کی وجہ سے جہادِ اکبر کو کسی وقت بھی فراموش نہیں کرنا چاہئے.کیونکہ اس شخص سے زیادہ احمق کون ہو سکتا ہے جو چھوٹی چیز کے لئے بڑی کو قربان کر دے.اللہ تعالیٰ نے جہاں آنحضرت صلی ال یکم اور پہلے انبیاء کے ذریعہ بھی یہ اطلاع دی تھی کہ آخری زمانہ میں شدید جنگیں انسانوں کی انسانوں کے ساتھ ہوں گی.وہاں رسول کریم صلی ال لما بلکہ پہلے انبیاء نے یہ خبر بھی دی تھی کہ اس زمانہ میں مسیح موعود کی فوجوں کی شیطانی طاقتوں کے ساتھ جنگ ہو گی.بنی اسرائیل کے انبیاء کے علاوہ حضرت زرتشت کی بھی ایسی پیشگوئی موجود ہے ان کے ایک شاگرد جاماسک نام لکھا لکھی گزرے ہیں جو اُن کے داماد بھی تھے.انہوں نے پیشگوئیوں کی ایک کتاب ہے.جس میں ان کی اپنی پیشگوئیاں بھی ہیں اور حضرت زرتشت کی بھی.اس میں ہے کہ آخری زمانہ میں ایک موعود آئے گا.آسمان سے فرشتے اس کی مدد کو اُتریں گے اور تمام شیطان بھی اکٹھے ہوں گے اور پھر ان میں آخری لڑائی ہو گی جس میں شیطان مارا جائے گا.پس ہمیں اس ظاہری لڑائی کے شور و شغب میں باطنی لڑائی کو جو ہماری اصل لڑائی ہے کسی وقت بھی نہیں بھولنا چاہئے.ہماری جماعت کو ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ ہم ہر وقت جنگ کے میدان میں ہیں.یہ لڑائیاں تو ہمیشہ نہیں رہتیں.گزشتہ جنگ سے قبل امن تھا.پھر اس کے بعد قریباً چوبیس سال امن رہا مگر مومن کی لڑائی شیطان کے ساتھ ہر وقت جاری رہنی چاہئے اور مومن کے لئے

Page 580

* 1941 خطبات محمود 580 وہ لڑائی بہت زیادہ اہم ہونی چاہئے جو اخلاق یا اصول کے لئے اپنے نفس یا شیطان کے ساتھ لڑنی پڑے.لڑائی جو اس وقت روس میں ہو رہی ہے.کیا تم سمجھتے ہو کہ وہاں لڑنے والے لوگ رات کو آرام سے سو جاتے ہوں گے یا وہاں اپنا کاروبار کرتے رہتے ہوں گے.کوئی وہاں چھابڑی اٹھائے پھرتا ہو گا، کوئی گنڈیریاں بیچتا ہو گا، کوئی کپڑا فروخت کرتا ہو گا.وہاں تو ایک منٹ کی فرصت نہیں ملتی.بعض خبروں سے پایا جاتا ہے کہ سپاہیوں کو چھ چھ سات سات دن سونے کا موقع نہیں ملتا.ذرا غور کرو جہاں اتنے ٹینک ہوں او ر جہاں سینکڑوں ہزاروں موٹریں اور لاریاں حملہ کرنے کے لئے سے اُدھر پھر رہی ہوں.وہاں اگر کوئی فوج سونا چاہے بھی تو کیسے سو سکتی ہے اور کتنا پیچھے ہٹ کر سو سکتی ہے.ٹینکوں کی رفتار بہت تھوڑی ہوتی ہے پھر بھی وہ آٹھ نو میل فی گھنٹہ چلتے ہیں.گویا چار گھنٹے میں وہ 36 میل تک بڑھ جاتے ہیں.اب اگر کسی فوج کو چار گھنٹے آرام کا وقت مل بھی جائے تو وہ کہاں اتنا پیچھے ہٹ کر سو سکتی ہے کہ جہاں کم سے کم اس عرصہ میں ٹینکوں کے پہنچنے کا اندیشہ نہ ہو.فرض کرو کسی محاذ پر ایک ہزار سپاہی لڑتے ہیں.ان میں سے اگر پانسو کو فارغ بھی کر دیا جائے کہ کچھ وقت آرام کر لیں تو وہ کتنا پیچھے ہٹ کر سو سکتے ہیں.زیادہ سے زیادہ سو دو سو گز پیچھے ہٹ کر سو سکتے ہیں.اب اگر وہ اتنے فاصلہ پر سونے کی کوشش بھی کریں تو نیند نہ آئے گی کیونکہ یہی دھڑکا رہے گا کہ ابھی ٹینک آئیں گے اور ہمارے اوپر سے گزر جائیں گے اور اگر چار گھنٹے آرام کا وقت ہو تو ایک دو گھنٹے تو اسی ادھیڑ بن میں گزر جائیں گے پھر جہاں اتنے زور سے تو ہیں چل رہی ہوں وہاں نیند کیسے آسکتی.پہلے زمانہ کی لڑائیاں ایسی نہ ہوتی تھیں بلکہ لڑائی صبح شروع ہو کر شام کو ختم ہو جاتی تھی.صحابہ کرام کی لڑائیوں میں سے غزوہ خندق سب سے لمبی تھی اور.پندرہ روز تک رہی تھی اور صحابہ شکایت کرتے تھے کہ اس لڑائی میں ہماری نیندیں ہے.

Page 581

خطبات محمود 581 ہر * 1941 وقت حرام ہو گئیں.مگر اس وقت جو جہنم کھل گئی ہے اس کا ذرا اندازہ کرو.روس میں لڑائی شروع ہوئے قریباً چار ماہ کا عرصہ ہو گیا ہے اور اس عرصہ میں ایک دن بھی تو کسی کو آرام سے سونا نصیب نہیں ہو سکا.آرام کی نیند تو کوئی اسی صورت میں سو سکتا ہے کہ میدان سے ڈیڑھ دو سو میل پیچھے ہٹ کر سوئے کیونکہ اگر بارہ گھنٹے کی بھی رات ہو تو ٹینکوں کے راتوں رات چھیانوے بلکہ ایک سو آٹھ میل تک تو پہنچ جانے کا احتمال رہتا ہے اور اتنے فاصلہ تک تو اطمینان کی نیند نہیں آ سکتی کیونکہ خطرہ رہتا ہے کہ معلوم نہیں کب ہمارا مورچہ ٹوٹ جائے اور دشمن کے ٹینک آگے بڑھ آئیں.پھر ٹینکوں کے علاوہ ہوائی جہاز ہیں.گو ان کے حملوں سے ایسی تباہی نہیں ہوتی کیونکہ وہ کسی کسی جگہ بم پھینکتے ہیں اور بیچ میں بڑے بڑے شگاف رہ جاتے ہیں مگر پھر بھی ان کے حملوں کا خطرہ لاحق رہتا ہے.لنڈن پر جن دنوں ہوائی حملے ہوتے تھے لوگ ہر شب خندقوں میں جا کر بسر کرتے تھے اور جو گھروں میں بھی سوتے وہ معمولی بستر لے کر سوتے تھے اور جو نہی حملہ کا الارم ہوتا بستر بغل میں دبا کر پناہ گاہ میں چلے جاتے اور ظاہر ہے کہ ایسے حالات میں آرام اپنا کام کاج کرنا تو الگ رہا، سونے کا موقع نہیں مل سکتا.بلکہ کھانے پینے کا بھی نہیں.وہاں لڑنے والے کتنی تکلیف کے ساتھ کھاتے پیتے ہوں گے.اول تو ہر جگہ اشیائے خورد و نوش کا پہنچنا مشکل ہے.بعض جر من سپاہی جب پکڑے گئے تو معلوم ہوا وہ چھ سات روز کے بھوکے تھے.جو فوجیں اپنے مرکز سے ہزار دو ہزار میل کے فاصلہ پر لڑ رہی ہوں ان تک ہر روز کھانے پینے کا سامان پہنچانا کتنا مشکل ہے.ذرا سوچو تو سہی کہ قادیان والوں کو پشاور میں لے جا کر کھانا کھلانا پڑے تو کیا حال ہو.بے شک لاریاں اور موٹریں ہیں مگر پھر بھی سپلائی کے انتظام میں خلل پڑ سکتا ہے.اپنے جلسہ سالانہ پر ہی قیاس کر لو.میں نے دیکھا ہے کہ اگر چند سو یا ہزار لوگوں کو کھانا ملنے میں دیر ہو جائے تو ہمیں سخت پریشانی ہوتی ہے.میری طرف سے دفتر کو اور دفتر کو میری طرف رقعہ پر رقعہ بھجوانا پڑتا ہے.انسپکٹر ادھر سے ادھر دوڑتے

Page 582

* 1941 582 خطبات محمود ہیں، نگران عملہ پریشان ہوتا ہے اور بعض دفعہ گھنٹوں میں جا کر اس کمی کو پورا کیا جا سکتا ہے.روس اور جرمنی کی اس جنگ میں بعض اوقات پچاس پچاس لاکھ سپاہیوں نے حصہ لیا ہے.ایک کروڑ سپاہیوں کو مرکز سے ہزار میل کے فاصلہ پر کھانا پہنچانا کس قدر مشکل ہے اس کا اندازہ کرو.پھر کئی لوگ لشکر سے الگ بھی ہو جاتے ہیں.بیچ میں دشمن گھس آتا ہے اور اس طرح ان تک تو کھانے پینے کی کسی چیز کا پہنچانا نا ممکن ہو جاتا ہے.گویا جو لوگ اس لڑائی میں شریک ہیں.ان کے لئے اپنا کوئی کام کرنا تو الگ رہا کھانا پینا بھی مشکل ہوتا ہے مگر پھر بھی لڑائی جاری ہے.لیکن اللہ تعالیٰ کا یہ کتنا بڑا احسان ہے کہ ہمیں اس نے اجازت دی ہے کہ اپنے کام کاج بھی کرو، تجارت اور زمینداری بھی کرو، کھاؤ پیو بھی اور پھر کچھ وقت نکال کر شیطان کے ساتھ جنگ بھی کرو.گو رسول کریم صلی الیوم بلکہ تمام پہلے انبیاء نے خبر دی ہے کہ لڑائی پچھلی تمام جنگوں سے زیادہ خطرناک ہے لیکن اس کے لئے بہت تھوڑا وقت لگانا پڑتا ہے.مگر کتنے افسوس کی بات ہے کہ ہم سے بہت ہیں جو پھر بھی پرواہ نہیں کرتے.رو.میں نے نہایت افسوس کے ساتھ دیکھا ہے کہ بعض احمدی ابھی ایسے ہیں تو سچ بولتے ہیں مگر جب ان پر یا ان کی اولاد یا رشتہ داروں پر کوئی الزام آئے یا کوئی اعتراض ہو تو جھوٹ بولنے لگ جاتے ہیں اور لوگوں پر رعب ڈالتے ہیں کہ ہمارے حق میں گواہی دو.حالانکہ قرآن کریم کی تعلیم یہ ہے کہ گواہی ہمیشہ سچی د خواہ وہ تمہارے نفسوں پر ہو یا تمہارے ماں باپ یا اولاد پر ہو.2 ایسے لوگ خدا تعالیٰ کے سپاہی ہونے کا دعویٰ کیسے کر سکتے ہیں.وہ تو اس وقت شیطان کے سپاہی ہوتے ہیں.خدا کا سپاہی تو وہ ہے جو کسی حالت میں بھی صداقت کو نہ چھوڑے بعض باتیں ایسی ہوتی ہیں کہ ان میں کوئی اتنی بڑی سزا بھی نہیں ہو سکتی مگر پھر بھی میں نے دیکھا ہے کہ بعض احمدی ایسے ہیں کہ جب ان کے بیٹے پر یا بھائی پر یا باپ پر

Page 583

خطبات محمود 583 * 1941 یا بیوی پر یا کسی اور رشتہ دار پر کوئی الزام آئے تو وہ یہی کوشش کرتے ہیں کہ اسے بے قصور ثابت کریں.بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ بظاہر ان کی عقل اور ان کا نفس یہی کہتا ہے کہ ان کا عزیز قصور وار نہیں اور وہ سمجھتے ہیں کہ وہ مجرم کی امداد نہیں کر رہے مگر دراصل ان کے نفس کا یہ فیصلہ ان کے تعصب کی وجہ سے ہو.اور اس لئے وہ خدا تعالیٰ کے نزدیک گنہگار ہوتے ہیں کیونکہ انہوں ہے نے اپنے دل میں ایسے تعصب کو جگہ دی جس سے وہ حقیقت کو سمجھنے سے محروم ہو گئے اور جس کی وجہ سے وہ اپنے عزیز کے مُجرم کو دیکھنے کی توفیق نہ پا سکے.بعض اوقات بعض دوسرے لوگ بھی سمجھتے ہیں کہ وہ بری ہے مگر در حقیقت وہ بری نہیں ہوتا اور اگر صرف اپنے یا کسی کے یہ خیال کر لینے سے کہ فلاں شخص بری ہے.اس کے واقعی بڑی ہونے کا اصول صحیح تسلیم کر لیا جائے تو اس کا کیسا خطرناک نتیجہ نکل سکتا ہے.کیا وہ لاکھوں کروڑوں ہندو اور عیسائی جو سمجھتے ہیں کہ آنحضرت کی لی لی لی اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام سچے نہیں ہیں اور ان کا مذہب ہی سچا ہے.ان کو خدا تعالیٰ سزا نہیں دے گا.اسلام یہی بتاتا ہے کہ ایسے لوگوں کو اللہ تعالیٰ سزا دے گا خدا تعالیٰ ان سے کہے گا کہ بے شک تم سچا نہ سمجھتے تھے مگر جب میں نے ایسے ذرائع تمہارے لئے مہیا کر دیئے تھے کہ تم سچائی کو سمجھ سکتے تھے تو پھر کیوں نہ سمجھا اور ان ذرائع سے فائدہ کیوں نہ اٹھایا.وہی شخص سزا سے بچے گا جو واقع میں معذور تھا اور جس تک صداقت نہ پہنچ سکی.اسی طرح جو شخص اپنے کسی عزیز رشتہ دار کے بارہ میں صداقت کو معلوم کرنے والے ذرائع کو استعمال میں لا کر حقیقت کو معلوم نہیں کرتا وہ خواہ خود یہی سمجھتا ہو کہ اس کا عزیز اس الزام سے بری ها الله سة ہے.ہے اور اس لئے اس کی مدد کرنے میں گناہ نہیں مگر اللہ تعالیٰ کے حضور وہ گنہگار.لوگوں میں سے کتنے ہیں جو غیر احمدیوں میں سے نکل کر آئے ہیں اور وہ جانتے ہیں کہ غیر احمدیوں میں اکثر ایسے لوگ ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام کو فعى ( نَعُوذُ بِاللهِ ) جھوٹا سمجھتے ہیں.پھر کیا اس وجہ سے وہ مجرم نہیں؟ کیا اللہ تعالیٰ

Page 584

* 1941 584 خطبات محمود انہیں سزا نہیں دے گا؟ دے گا اور ضرور دے گا اور وہ ان سے کہے گا کہ گو تم جھوٹا سمجھتے تھے مگر لیکھرام کی پیشگوئی کے پورا ہونے کے بعد تم نے کس طرح جھوٹا سمجھا؟ آتھم کی پیشگوئی کے بعد کس طرح سمجھا آپ کی پیشگوئیوں کے ماتحت زلزلے آنے کے بعد کس طرح جھوٹا سمجھا؟ اور اس طرح آپ کی صداقت کا ایک ایک نشان بیان کرنے کے بعد دریافت کرے گا کہ اس کے ہوتے ہوئے تم کس طرح آپ کو جھوٹا سمجھتے رہے؟ اسی طرح خدا تعالیٰ یہ بھی کہے گا کہ بے شک تم اپنے بیٹے یا بھائی یا باپ یا کسی اور رشتہ دار کو مجرم نہیں سمجھتے تھے مگر فلاں فلاں مومن گواہ تھے.فلاں واقعات تھے جن سے صداقت معلوم ہو سکتی تھی.تم نے کیوں معلوم نہ کی.صداقت معلوم ہو سکنے کے ذرائع ہونے کے باوجود جو اِن سے فائدہ نہیں اٹھاتا وہ یقینا مجرم ہے.سورج طلوع ہونے کے بعد بھی جو شخص خود اپنے دروازے اور کھڑکیاں بند کرلے اور کہے ابھی رات ہے کیا تم اسے مجرم نہ کہو گے.پس یہ کوئی دلیل نہیں کہ چونکہ تمہارا نفس کہتا ہے کہ تمہارا بھائی یا بیٹا یا کوئی اور رشتہ دار سچا ہے اس لئے وہ ضرور سچا ہے مگر میں نے دیکھا ہے کہ ہم میں ایسے احمدی ہیں جو محض اس وجہ سے کہ کسی سے ان کی رشتہ داری ہوتی ہے.جب اس پر کوئی الزام آتا ہے تو خواہ مخواہ اس کی تائید کرنے لگ جاتے ہیں اور اپنے نفس کو اس طرح تسلی دے لیتے ہیں کہ یہ مجرم نہیں.مگر خدا تعالیٰ ان سے کہے گا کہ سچ اور جھوٹ میں امتیاز کے لئے میں نے تم کو جو آنکھیں دی تھیں اور جو ذرائع مہیا کئے تھے.ان سے تم نے کیوں کام نہیں لیا.میں نے ہمیشہ سچائی پر بڑا زور دیا ہے اور اگر ہماری جماعت سچائی پر ہی قائم ہو جائے تو شیطان کا لشکر پوری طرح شکست کھا سکتا بشر طیکہ یہ حالت پیدا ہو جائے کہ دنیا میں ہر شخص یہ کہے کہ احمدی ہمیشہ سچ بولتے ہیں.بے شک ہماری جماعت میں اکثر لوگ سچ بولتے ہیں بلکہ بعض ایسے احمدیوں نے جو قانون کی نگاہ میں مجرم تھے ان سے غلطی ہو گئی اور عدالت نے تسلیم کیا کہ انہوں نے سچ بولا.گو اور گواہ نہ تھے مگر انہوں نے خود سچ کہہ دید مثلاً قاضی محمد علی صاحب کی صرف ہے.

Page 585

خطبات محمود 585 * 1941 بھی جو لڑائی ہوئی وہ اندھیرے میں ہوئی اور جو آدمی مارا گیا تھا اس کے سائے قاضی صاحب پر حملہ کر رہے تھے.اور اس حالت میں یہ ضروری نہیں تھا کہ وہ شخص انہی کے ہاتھ سے مارا گیا ہو.وہ یہ بھی کہہ سکتے تھے کہ ممکن ہے کسی اور کے ہاتھ سے وہ قتل ہو گیا ہو.مگر انہوں نے مومنانہ سادگی سے کام کیا اور یہی کہا کہ اور لگتے میں نے مارا ہے.اسی طرح عزیز احمد صاحب 3 کا واقعہ ہے.انہوں نے جب فخر الدین ملتانی پر حملہ کیا تو ہم نے ان کو یہی کہلوایا کہ جھوٹ نہ بولنا اور انہوں نے نہ بولا اور اس طرح ان لوگوں نے جان دے کر اپنے گناہ کا کفارہ کر دیا.بعض اور احمدیوں سے بھی جب قانونی اور اخلاقی غلطیاں ہوئیں تو انہوں نے سچائی سے کام لیا.تو جماعت میں مخلص بھی ہیں جو ہر حال میں سچائی سے کام لیتے ہیں مگر ابھی کچھ احمدی ایسے بھی ہیں جن کے دلوں میں سچائی کی قدر نہیں.جب بھی کوئی موقع آئے وہ بہانے بنانے آئیں بائیں شائیں کرنے لگ جاتے ہیں.معمولی سی بات ہوتی ہے مگر وہ پہلو بچانے ہیں اور ایسا جواب دیتے ہیں کہ جس سے بچ جائیں.اگر ہماری جماعت پوری طرح سچائی پر کاربند ہو جائے تو ایسا رعب قائم ہو سکتا ہے کہ ہزاروں ہزار لوگ اسی کی وجہ سے احمدی ہو جائیں.ایک دفعہ تم یہ نمونہ قائم کر کے دیکھ لو کہ ہر شخص یہ کہے کہ احمدی جھوٹ نہیں بولتے.پھر دیکھو کس طرح کامیابی ہوتی ہے.ایک زمانہ میں یہ نمونہ زیادہ تھا اور اُس زمانہ میں ترقی بھی زیادہ تھی.اب کچھ ایسے لوگ بھی جماعت میں داخل ہو گئے ہیں جو سیاسی احمدی ہیں اور ایسے لوگ جماعت بدنامی کا موجب ہو رہے ہیں.جیسے کہتے ہیں ایک مچھلی تالاب کو گندا کر دیتی ہے.میں نے تبلیغ والوں کو بھی بار بار کہا ہے کہ سیاسی احمدی کسی کو نہ بنایا جاۓ.بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ گو وہ سمجھ بھی چکے ہوں کہ عقائد درست ہیں مگر جماعت میں داخل اُس وقت ہوتے ہیں جب سمجھتے ہیں کہ اب احمدی ہو کر گاؤں میں وہ ہماری طاقت زیادہ ہو جائے گی.ایسے لوگوں کا کوئی فائدہ نہیں بلکہ یہ جماعت کے لئے

Page 586

خطبات محمود 586 * 1941 نقصان کا موجب ہوتے ہیں.یہ ایسے ہوتے ہیں جیسے کوئی کوڑھی ہو.یہ نہیں ہو سکتا کہ جو شخص کہے میں نے سوچ سمجھ لیا ہے اور میں بیعت کرنا چاہتا ہوں ہم اسے داخل نہ کریں.سوائے اس کے کہ کسی شخص کے متعلق ہمیں علم ہو چکا ہو کہ وہ.شرارت کے لئے احمدی ہونا چاہتا ہے.باقی ہم کسی پر بدظنی نہیں کر سکتے.ہمیں اختیار نہیں کہ کسی کو جماعت میں داخل کرنے سے انکار کر دیں.اس لئے ایسے لوگ بھی داخل ہو جاتے ہیں جن کی مثال کوڑھی یا مدقوق و مسلول کی ہوتی ہے.مگر کیا تم میں سے کوئی شخص یہ پسند کر سکتا ہے کہ کسی کوڑھی یا مدقوق و مسلول کو اسی حالت میں اپنے گھر میں رہنے دے.ہر گز نہیں کیونکہ وہ جانتا ہے کہ اگر یہ اسی طرح رہا اور اسے صحت نہ ہوئی تو میری بیوی میرے بچوں اور دیگر متعلقین کی صحت بھی خطرہ میں پڑ جائے گی.پس اگر وہ کسی ایسے بیمار کو گھر میں رکھنے پر مجبور ہو تو پوری کوشش کرے گا کہ وہ اچھا ہو جائے تا گھر کے دوسرے لوگوں پر اثر نہ پڑے.اسی طرح جو لوگ نئے جماعت میں داخل ہوں ان کی تربیت و اصلاح کی پوری پوری کوشش کرتے رہنا چاہئے.قادیان میں بعض لوگ ایسے بھی آ جاتے ہیں ان کے رشتہ دار احمدی ہو گئے تو انہوں نے کہا کہ تم بھی آ جاؤ بیعت کر لو.رہیں گے اور وہ بھی آگئے پھر بعض ڈر کر بھی آ جاتے ہیں.اور ایسے لوگ ہمیشہ گندہ نمونہ دکھاتے ہیں.ہم مجبور ہیں.ان کو کسی مجرم کے ثابت ہونے تک رڈ بھی نہیں کر سکتے کیونکہ ایسا کرنے کی خدا تعالیٰ نے ہمیں اجازت نہیں دی.اس لئے ان کے ضرر سے بچنے کا ایک ہی ذریعہ ہے کہ ان کی تربیت پر پورا پورا زور دیں اور شش کر کے ان کو بھی صحیح معنوں میں احمدی بنالیں اور ان کی تربیت پر زیادہ توجہ کریں.مگر اب تو میں نے دیکھا ہے کہ بہت لوگوں میں نفسا نفسی ہے.اول تو مبلغین کو بھی اس طرف پوری توجہ نہیں اور دوسرے لوگوں میں سے ایک حصہ میں کمزوریاں ہیں.یاد رکھنا چاہئے کہ ہر مبلغ جس محلہ میں رہتا ہے اسے چاہئے کہ محلہ سے واقف ہو اور اس کے اخلاق کا نگران ہو.وہ خدا تعالیٰ کے نزدیک اکٹھے کے ہر

Page 587

* 1941 587 خطبات محمود اس بات کے ذمہ دار ہیں.جب انہوں نے علم دین پڑھنا شروع کیا تو گویا خدا تعالیٰ سے عہد کیا تھا کہ وہ دین کے سپاہی بنیں گے اور کسی کو دین کا علم خدا تعالیٰ کی طرف سے دیا جانا گویا خدا تعالیٰ سے اس کا معاہدہ ہے کہ وہ دوسروں کی اصلاح میں لگا گا اور اس کو توڑ کر وہ اس کے عذاب کا مستحق ہو گا.سارے محلہ کی اخلاقی رہے نگرانی اس کے ذمہ ہے.خصوصاً نئے آنے والوں کی.بیرونی جماعتوں کو بھی ان باتوں کا خیال رکھنا چاہئے.اب بیرونی جماعتوں میں بھی خدا تعالیٰ کے فضل سے لوگ بکثرت بڑھ رہے ہیں اور جب زیادہ لوگ دین میں شامل ہونے لگیں تو تربیت کی طرف بہت زیادہ توجہ کی ضرورت ہوتی ہے.یہی وجہ ہے کہ جہاں اللہ تعالیٰ نے رسول کریم صلی السلام کو دین میں لوگوں کے بکثرت داخل ہونے کی خبر دی وہاں زیادہ استغفار کا بھی حکم دیا.جیسا کہ فرمایا إِذَا جَاءَ نَصْرُ اللهِ وَ الْفَتْحُ.وَرَأَيْتَ النَّاسَ يَدْخُلُونَ فِي دِينِ اللهِ أَفْوَاجًا...فَسَبِّحُ بِحَمْدِ رَبِّكَ وَ اسْتَغْفِرُهُ إِنَّهُ كَانَ تَوَّابًا 4 یعنی اے محمد صلی ) وہ زمانہ اب قریب آگیا ہے کہ دین میں فوج در فوج لوگ داخل ہوں.مگر اس کثرت کو دیکھ کر یہ غلطی نہ کرنا کہ خوش ہو جاؤ کہ اب تو کام ہو گیا.بلکہ ها الله سة ان اس بات کا خیال رکھنا کہ یہی دن خطرہ کے ہیں.پہلے مسلمان تھوڑے تھے مگر میں سے ہر ایک ہمارا سپاہی تھا.اب بظاہر مسلمان زیادہ ہو گئے مگر ایک تعداد ایسے لوگوں کی ہو گی جو پوری طرح مسلمان نہیں ہوں گے.باطنی طور پر ان میں کمزوری گی.پس جب کثرت حاصل ہو تو اس پر خدا تعالیٰ کی حمد بھی کرو اور کہو کہ خدایا تیرے انعام کی میں ناقدری نہیں کرتا.لوگوں نے اسلام کو قبول کیا اس پر میں تیرا شکر ادا کرتا ہوں.مگر ساتھ ہی استغفار بھی کرتا ہوں اور کہتا ہوں کہ خدایا اب ان کی اصلاح میرے بس سے بڑھ گئی ہے.تو خود ہی اس کام کو کر.فرمایا.إِنَّهُ كَانَ تَوَّابًا الله تعالى رجوع بہ رحمت کرنے والا ہے.وہ رحمت کے ساتھ تیری مدد کو پہنچے گا اور خود تیرے ساتھ ہو کر ان کی تربیت کرے گا اور جب خدا تعالیٰ بھی استاد ہو جائے تو یہ کام کس قدر آسان ہو سکتا ہے.

Page 588

خطبات محمود 588 * 1941 ہماری جماعت کے دوستوں کو ان باتوں کی طرف ہمیشہ توجہ رکھنی چاہئے.یاد رکھو کہ منہ سے اپنے آپ کو احمدی اور صحابی کہنے سے کچھ نہیں بنتا.بعض لوگ فخریہ کہتے ہیں کہ ہم فلاں وقت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام کی خدمت میں حاضر ہوئے لیکن حالت یہ ہے کہ اگر ان کے ہمسایہ پر شیطان حملہ کر رہا ہو اور روحانی قتل ہو رہا ہو تو کبھی وہ ٹس سے مس نہیں ہوتے.خدا تعالیٰ کے بندوں پر شیطان حملہ کر رہا ہوتا ہے اور یہ مسیح کا حواری اور خدا کا سپاہی آرام سے گھر میں بیٹھا رہتا ہے.کیا تم سمجھتے ہو کہ اگر جرمن فوج حملہ کرے تو برطانوی فوج خاموش بیٹھی رہے گی.اسی طرح جب شیطان حملہ آور ہو رہا ہو تو خدا کا سپاہی کس طرح چپ چاپ بیٹھ سکتا ہے اور اگر وہ چپ بیٹھے رہیں تو اس کے معنے یہ ہیں کہ وہ خدا کے سپاہی نہیں ہیں.کوئی شخص خدا تعالیٰ کا سپاہی نہیں ہو سکتا جب تک کہ وہ دیوانہ وار شیطان مقابلہ نہ کرے اور جب تک اس طرح مقابلہ نہ کیا جائے شیطان نہیں مارا جا سکتا.اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام کی بعثت کا مقصد پورا نہیں ہو سکتا.اور تم خدا تعالیٰ کے سپاہی نہیں ہو سکتے جب تک شیطان کے قاتل نہ بنو.اس کے بغیر خواہ کوئی.سر سے پیر تک احمدیت کے تمغے پہن کر آ جائے اسے کوئی فائدہ نہ ہو سکے گا.اس کی مثال ایسی ہو گی جیسے کسی نے تمغے چرائے ہوئے ہوں.گورنمنٹ کسی کو خان بہادر بناتی ہے تو اس کی عزت بھی ہوتی ہے لیکن اگر کوئی اس کے تمغے چرا کر پہن لے تو اس کی کوئی عزت نہیں ہو سکتی.صرف منہ سے اپنے آپ کو صحابی اور احمدی اور مومن کہنے سے کچھ نہیں ہوتا اور منہ کے دعووں سے انعام نہیں مل سکتا.ایسے شخص کی مثال ایسی ہی ہے جیسے کوئی پچرا کے تمغے پہن لے.جب تک کوئی شخص اپنے فعل سے قربانی نہیں کرتا.اس کی مثال ایک بھگوڑے کی ہے.وہ میدان میں ٹھہرنے والے اور انعام پانے والے سپاہی کی طرح ہر گز نہیں ہو سکتا." (الفضل 20 نومبر 1941ء).

Page 589

* 1941 589 خطبات محمود 1 موضوعات کبیر اردو حدیث نمبر 480 صفحہ 184 مطبوعہ لاہور 2008ء 2 يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُونُوا قَوْمِينَ بِالْقِسْطِ شُهَدَاءَ لِلهِ وَ لَوْ عَلَى أَنْفُسِكُمْ أَوِ الْوَالِدَيْنِ وَالْأَقْرَبِينَ (النساء: 136) 3 جماعت احمدیہ کا ایک مخلص نوجوان جس نے اشتعال میں آکر فخر الدین ملتانی کو چاقو مار کر زخمی کر دیا وہ بعد میں مر گیا.عزیز احمد نے امام جماعت سے اپنی غلطی کی معافی مانگی اور اپنے جرم کا اعتراف کیا.8 جون 1938ء کو پھانسی دیا گیا.(الفضل 10 جون 1938ء صفحہ 10) 4 النصر : 2 تا آخر

Page 590

* 1941 590 (34) خطبات محمود کی:.مستقل اور دائمی ترقی حاصل کرنے کا گر فرموده 21 نومبر 1941ء) تشہد، تعوذ اور سورہ فاتحہ کے بعد حضور نے حسب ذیل آیت قرآنیہ کی تلاوت 66 يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اصْبِرُوا وَصَابِرُوا وَرَابِطُوا وَاتَّقُوا اللَّهَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ 1 اس کے بعد فرمایا:.اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کے لئے اس آیت میں تین نصیحتیں بیان کی ہیں.فرماتا ہے.يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اصْبِرُوا.دنیا میں جب کوئی شخص مومن بنتا ہے تو پہلا مقابلہ اس کو اپنے نفس سے پیش آتا ہے اور نفس کے ساتھ جو مقابلہ ہوتا ہے اس میں ہر انسان اپنے بوجھ کو آپ ہی اٹھا سکتا ہے.نماز انسانی نفس کے ساتھ تعلق : رکھنے والی ایک عبادت ہے.اس کے پڑھنے میں کوئی دوسرا شخص کسی نمازی کی کیا مدد کر سکتا ہے.روزے کے وقت جو تکلیف انسان کو ہوتی ہے اس کو کوئی اس کا ساتھی کس طرح ہٹا سکتا ہے.انسان کے دل میں جو شبہات اور وساوس پیدا ہوتے رہتے ہیں.ان میں اس کی بیوی، اس کے بچے اور اس کے قریب ترین رشتہ دار اس کی کیا مدد کر سکتے ہیں.غرض نفس کے اندر پیدا ہونے والے وساوس اور لالچ حرص اور اسی قسم کے اور بیسیوں امراض جن کو دور کئے بغیر انسان خدا کو نہیں اور سکتا اور نہ دین کی حقیقت اور مغز سے وہ آگاہ ہو سکتا ہے.سب ایسی چیزیں ہیں کہ - ان میں دوسرے لوگ اس کے ممد نہیں ہو سکتے.پس شیطان کے ساتھ جنگ

Page 591

خطبات محمود 591 * 1941 جو در حقیقت نفسانی جنگ ہوتی ہے صرف اکیلے ہی لڑی جا سکتی ہے.اسی وجہ سے حضرت یح ناصری نے ایک موقع پر فرمایا کہ ہر حص اپنی صلیب آپ اٹھا کر چلے.2 صلیب اٹھانے کے معنے دراصل یہی ہیں کہ اپنے نفس کو خدا کے لئے قربان کر دیا جائے اور شیطان کا پوری طرح مقابلہ کیا جائے اور حضرت مسیح فرماتے ہیں کہ یہ مقابلہ ایسا ہے جس میں کوئی شخص کسی دوسرے کی صلیب نہیں اٹھا سکتا.بلکہ انسان جب تک اپنے نفس کو آپ نہ مارے اس وقت تک نجات حاصل نہیں کر سکتا.یہی وہ امر ہے جس کی وجہ سے ہم عیسائیوں پر اعتراض کرتے اور کہا کرتے ہیں کہ انہوں نے کفارہ کا غلط مسئلہ ایجاد کر لیا کیونکہ جو گناہ انسان کے نفس کے اندر پیدا ہوتے ہیں.ان کو کوئی دوسرا شخص اٹھا نہیں سکتا.دوسرے انسان صرف ان امور میں مدد دے سکتے ہیں جو باہر سے پیدا ہوں.کسی انسان کی ذات سے تعلق رکھنے والے اور قلب کے اندر پیدا ہونے والے گناہوں میں دوسرے سا ساتھی نہیں آ سکتے.کام پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اصْبِرُوا جب کبھی تم ایمان لاؤ تو تمہیں یہ امر یاد رکھنا چاہئے کہ پہلا مقابلہ تمہارا اپنے آپ سے ہو گا اور اس مقابلہ میں تمہاری کوئی مدد نہیں کر سکتا.تمہارے پاس تمہاری بیوی سوئی ہوئی ہوتی ہے مگر وہ نہیں جانتی کہ تمہارے دل میں کیا شبہات اور وساوس پیدا ہو رہے ہیں.تمہارے بچے تمہارے پاس لیٹے ہوئے ہوتے ہیں مگر وہ نہیں جانتے کہ تمہارے دل میں کیا خیالات پیدا ہو رہے ہیں اور تم نہیں جانتے کہ ان کے دلوں میں کیا خیالات پیدا ہو رہے ہیں.کثرت کے ساتھ اس قسم کے واقعات ہوئے ہیں کہ میاں بیوی اکٹھے رہے تھے اور بظاہر ان میں سے ایک جو دوسرے کی قلبی کیفیات سے ناواقف تھا سمجھتا تھا کہ ہمارے آپس کے تعلقات بڑے اچھے ہیں.مگر رات کو اٹھ کر میاں نے بیوی کو یا بیوی نے میاں کو قتل کر دیا.جب تک اس میاں نے اپنی بیوی کو قتل نہیں کیا تھا یا جب تک اس بیوی نے اپنے میاں کو قتل نہیں کیا تھا اس وقت تک سو

Page 592

* 1941 592 خطبات محمود وہ دوسرا فریق یہی سمجھتا تھا کہ اس کے دل میں میرے متعلق محبت کے جذبات پائے جاتے ہیں.کیونکہ کئی لوگ ہوشیاری کی وجہ سے اپنے خیالات کو اس طرح چھپاتے ہیں کہ باوجود اس کے کہ اللہ تعالیٰ نے انسانی خیالات کو ظاہر کرنے کے لئے چہرے میں بہت کچھ سامان رکھ دیا ہے پھر بھی وہ ان آثار کو دبا دیتے ہیں اور اپنے خیالات کو ایسا مخفی رکھتے ہیں کہ دوسرا شخص قرائن سے بھی نہیں سمجھ سکتا کہ ان کے اندر کینہ ہے یا بغض ہے یا وہ کوئی بد ارادہ رکھتے ہیں.تو پاس لیٹے ہوئے میاں بیوی کو ایک دوسرے کے خیالات کا پتہ نہیں ہوتا ، پاس لیٹے ہوئے ماں اور بیٹی کو ایک دوسرے کے خیالات کا پتہ نہیں ہوتا، پاس لیٹے ہوئے باپ اور بیٹے کو ایک دوسرے کے خیالات کا پتہ نہیں ہوتا اور جب ایک دوسرے کے خیالات کو انسان سمجھ ہی نہیں سکتا تو ان امور میں ایک دوسرے کی مدد کیا کر سکتا ہے اور وہ خیالات جو انسانی قلب کی گہرائیوں میں پیدا ہوتے ہیں ان کو کس طرح درست کر سکتا ہے.انسان دوسرے کو سمجھا کر اُس کی عقل تو درست کر سکتا ہے مگر انسان دوسرے کو سمجھا کر اس کے ایمان اور جذبات کو درست نہیں کر سکتا کیونکہ ایمان اور جذبات کی درستی اپنے ارادہ سے ہوتی ہے اور یہ ارادہ لوگوں کے دلوں میں اُس وقت تک پیدا نہیں ہوتا جب تک انہیں خود تجربہ نہ ہو.جب ایک انسان جنگ میں کود پڑتا ہے اسے زخموں پر زخم لگتے ہیں.اس کی عادات اسے کسی طرف لے جانا چاہتی ہیں اور حالات اسے کسی طرف لے جاتے ہیں.تب اس کے دل میں اپنی عادات کے متعلق افسوس پیدا ہوتا ہے اور گو بظاہر وہ یہ سمجھتا ہے کہ میری خواہشات پوری نہیں ہوئیں مگر جب وہ ان زخموں کو برداشت کر لیتا ہے تب اس کے اندر اپنے نفس کا مقابلہ کرنے کی قوت پیدا ہوتی ہے.اگر انسانی ترقی کے راستہ میں اس قسم کی قربانیاں نہ ہو تیں تو محض عقلی لحاظ سے انبیاء کا ماننا کوئی مشکل کام نہیں تھا.ایک ادنی تدبر سے قرآن کریم کی بتائی ہوئی علامات کے مطابق محمد صلی الم کو سچا اور راستباز مانا جا سکتا تھا لیکن محمد صلی الل علم کے ماننے کے نتیجہ میں چونکہ بیویاں چھوڑنی پڑتی تھیں، بچے

Page 593

* 1941 593 خطبات محمود چھوڑنے پڑتے تھے، عزیز اور اقارب چھوڑنے پڑتے تھے، وطن چھوڑنا پڑتا تھا، مال چھوڑنا پڑتا تھا، جائدادیں چھوڑنی پڑتی تھیں اس لئے ان چیزوں کی محبت قبول حق کے رستہ میں روک بن جایا کرتی تھی.اس روک کو وہ دلیلیں بھلا کیا مٹا سکتی تھیں جو انسان کو صرف عقل کے دروازہ تک لے جاتی ہیں.ہاں جو شخص عقلی دلائل فائدہ اٹھا کر اپنے نفس کا مقابلہ کرنے کے لئے تیار ہو جاتا تھا اور اپنے دل سے ہر قسم کے خدشات کو دور کر کے قربانی پر آمادہ ہو جاتا تھا.اس کے لئے محمد صلی الی و کم کا ماننا بالکل آسان ہو جاتا تھا.تو دماغ سے کوئی بات منوانا مشکل نہیں ہوتا.جس چیز کو منوانا سخت مشکل ہے وہ انسان کا دل ہے اور دل ہی مختلف قسم کی روکیں محسوس کرتا ہے.کبھی کہتا ہے فلاں ضرورت پوری ہو جائے، کبھی کہتا ہے فلاں روک دور ہو جائے تو حق کو قبول کروں گا.تو انسانی نفس کی یہ حالتیں صداقت کے قبول کرنے کے رستہ میں ہمیشہ روک رہی ہیں، روک ہیں اور روک رہیں گی.اسی لئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اصْبِرُوا.اے مومنو جب تم صداقت تسلیم کر لو گے تو فوراً شیطان تم پر حملہ کر دے گا اس لئے ہم تمہیں نصیحت کرتے ہیں کہ جس بات کو، تمہارے دماغ نے صحیح تسلیم کر لیا ہے جس بات کو تم نے دلائل اور مشاہدات سے صحیح مان لیا ہے اسے خوب مضبوطی سے پکڑ کر بیٹھ جاؤ اور پھر اسے چھوڑنا نہیں.چاہے شیطان تم پر کس قدر حملے کرے.پھر اصبرُ ڈا میں ایک اور عظیم الشان حکمت کی بات اللہ تعالیٰ نے یہ بیان فرمائی ہے کہ شیطان کا حملہ بھی حقیقی نقصان : نہیں پہنچاتا شیطان کا حملہ صرف دھوکا ہوتا ہے اور گو بظاہر وہ سب حملوں سے زیادہ سخت نظر آتا ہے مگر دراصل وہ سب حملوں سے زیادہ نرم ہوتا ہے.بلکہ ایک چھوٹا بچہ جو کسی دوسرے کے منہ پر تھپڑ مار دیتا ہے اس تھپڑ سے بھی شیطان کا حملہ نرم ہے گو بظاہر وہ بڑا خطرناک نظر آتا ہے چنانچہ ہم دیکھتے ہیں شیطان کو خدا تعالیٰ نے کوئی ایسا ہتھیار نہیں دیا جس سے وہ کسی انسان کو جانی یا مالی نقصان پہنچا سکے.دنیا میں شیطان کے جو انسان چیلے ہیں ان کو یہ بے شک اختیار حاصل ہے

Page 594

* 1941 594 خطبات محمود وہ دوسروں کا مال کھا لیتے ہیں، ان کی جائدادوں کا نقصان کر دیتے ہیں مگر خود شیطان اور اس کے حقیقی نمائندہ نفس کو یہ اختیار حاصل نہیں.اسی لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے.اصبر ڈا.یہ نہیں فرمایا کہ دشمن کا مقابلہ کرو بلکہ فرمایا ہے صبر کرو اس لئے کہ وہاں مقابلہ کی ضرورت ہی نہیں مقابلہ کی وہاں ضرورت ہوتی ہے جہاں حملہ حقیقی ہو.مثلاً کوئی شخص کسی دوسرے کو پکڑ کر پہاڑ کی چوٹی سے نیچے گرانا چاہتا ہو تو وہاں حقیقی مقابلہ کی صورت ہو گی.اور اگر وہ مقابلہ نہیں کرے گا تو دوسرا شخص اسے کھڈ میں پھینک دے گا یا مثلاً تنور جل رہا ہو اور کوئی شخص کسی دوسرے کو پکڑ کر اس میں گرانا چاہتا ہو اور وہ اپنی چاہتا ہو اور وہ اپنی مدد کے لئے لوگوں کو آوازیں دے رہا ہو تو اس وقت اگر ہم دور ہوں گے تو اسے فوراً آواز دیں گے کہ اس شخص کا خوب مقابلہ کرو ہم بھی تمہاری مدد کے لئے آ رہے ہیں لیکن اگر کسی جگہ باہر کا دشمن کوئی نہ ہو صرف انسان کا دل خوف زدہ ہو اور وہ ڈر رہا ہو تو اس وقت ہم اسے یہ نہیں کہیں گے کہ دشمن کا مقابلہ کرو بلکہ کہیں گے کہ اپنے دل کو مضبوط کرو کیونکہ کر دل کا خوف بھی ایسی چیز ہے کہ اس کے نتیجہ میں کئی لوگ اپنے آپ کو ہلاک لیتے ہیں.حالانکہ ان کے سامنے کوئی حقیقی خطرہ نہیں ہوتا.صرف ان کے دل میں خوف پیدا ہو چکا ہوتا ہے.جن دنوں میں حج کے لئے گیا تھا ایک شخص نے ایک ریل ایجاد کی ہوئی تھی جس سے اس کا مقصد لوگوں کو یہ بتانا تھا کہ اگر ہمالیہ پہاڑ پر ریل لے جانی ہو تو کس طرح پہنچائی جا سکتی ہے.پہاڑ کے چکروں میں اگر ریلوے لائن بنائی جائے تو چونکہ بہت زیادہ خرچ ہوتا ہے اس لئے اس نے ایسی ایجاد کی تھی کہ ریل سیدھی پہاڑ پر چڑھ جائے اور چکر کھا کھا کر اوپر نہ جانا پڑے.اس غرض کے لئے اس نے ریل اور پہاڑ کا نمونہ تیار کیا تھا.جب گورنمنٹ نے اس کی طرف کوئی توجہ نہ کی تو بعد میں اس نے اپنی رقم نکالنے کے لئے بڑے بڑے شہروں میں اس کی نمائش روع کر دی.میں ان دنوں بمبئی میں تھا جب اس کی نمائش کی جا رہی تھی

Page 595

* 1941 595 خطبات محمود ایک دن میں بھی گیا اور میں نے دیکھا کہ اس ریل کے دروازوں اور کھڑکیوں کے آگے روکیں بنی ہوئی ہیں.میں نے لوگوں سے دریافت کیا کہ یہ روکیں کیوں بنائی ہیں تو انہوں نے بتایا کہ ایک دن کچھ فوجی اس ریل کا نظارہ دیکھنے کے لئے آئے تھے.جب وہ ریل کے اندر سوار ہوئے اور اس نے پہاڑ پر چڑھنا شروع کر دیا تو ایک فوجی کو جو گورا سپاہی تھا اتنا ڈر پیدا ہوا کہ اس نے اوپر سے چھلانگ لگا دی نیچے گرتے ہی ٹکڑے ٹکڑے ہو گیا.اس لئے اب ریل کے دروازوں اور کھڑکیوں کے آگے روک بنا دی گئی ہے.اسی طرح انہوں نے بتایا کہ پہلے ریل کے ارد گرد بہت سی غاریں بنائی گئی تھیں اور ہمالیہ پہاڑ کا نظارہ دکھانے کے لئے کسی جگہ مصنوعی شیر بنائے گئے تھے جو منہ کھولے کھڑے تھے، کئی جگہ چیتے بنائے گئے تھے، کئی جگہ ہاتھی بنائے گئے تھی.اس کی وجہ سے لوگوں پر اتنی دہشت طاری ہوتی تھی کہ وہ اس کی برداشت نہیں کر سکتے تھے.مگر اب کئی غاریں ہٹا دی گئی ہیں.پھر جب وہ ٹرین نیچے کی طرف آتی تھی تو ایسی شدت کے ساتھ گرتی تھی کہ یوں معلوم ہوتا تھا انسان موت کے منہ میں جا رہے ہیں.اب اس فوجی نے جو چھلانگ وہ اس لئے نہیں لگائی تھی کہ اس کے لئے کوئی بیرونی خطرہ پیدا ہو گیا تھا بلکہ اس نے اس لئے چھلانگ لگائی تھی کہ اس کا دل خوفزدہ ہو گیا تھا اور وہ سمجھتا تھا کہ شاید چھلانگ لگا کر میں اس خطرہ سے بچ جاؤں گا.اسی طرح بیسیوں لوگ ہر سال ہلاک ہوتے ہیں.کوئی پہاڑ سے اپنے آپ کو گرا دیتا ہے ، کوئی مینار کی چوٹی سے گر کر ہلاک ہو جاتا ہے.مگر اس لئے نہیں کہ ان کا ارادہ خود کشی کا ہوتا ہے بلکہ صرف اس لئے کہ بلندی پر پہنچ کر انہیں ایسا خوف معلوم ہوتا ہے کہ انہیں یوں محسوس ہوتا ہے کوئی شخص انہیں نیچے کھینچ رہا ہے اور وہ گر کر ہلاک ہو جاتے ہیں.جن لوگوں کے معدے خراب ہوں ان کے ساتھ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ بلندی پر پہنچ کر ان کا سر چکرانے لگتا ہے اور اگر معدہ زیادہ کمزور ہو تو بعض دفعہ اس حالت کے نتیجہ میں ہلاکت تک نوبت پہنچ جاتی ہے.میری اپنی یہ حالت ہے کہ میرا معدہ لگائی

Page 596

* 1941 596 خطبات محمود چونکہ شروع سے کمزور ہے اس لئے میں کبھی زیادہ اونچی جگہ نہیں جا سکتا.قطب صاحب کی لاٹ پر میں کئی دفعہ گیا ہوں مگر کبھی اس کی چوٹی پر نہیں چڑھ سکا.صرف بچپن میں ایک دفعہ بیٹھے بیٹھے اس کی چوٹی کے جنگلے تک پہنچا تھا.اسی طرح پہاڑوں پر جہاں پاس کھڑ ہو اور منڈیر نہ ہو میرا سر چکرانے لگ جاتا ہے.تو جن لوگوں کے معدے کمزور ہوں ان کی کیفیت اکثر اسی قسم کی ہوتی ہے اور بعض جن کے اعصاب زیادہ کمزور ہوں ان پر ایسی حالت میں جنون کی کیفیت طاری ہو جاتی ہے اور عواقب کو سوچے سمجھے بغیر وہ نیچے کود پڑتے ہیں حالانکہ جس خطرہ سے وہ ڈر رہے ہوتے ہیں وہ کوئی حقیقی خطرہ نہیں ہوتا.صرف ان کے دل کا خوف ہوتا ہے.ایسی خوف کی حالت میں ہم دوسرے کو یہ نہیں کہہ سکتے کہ دشمن کا خوب مقابلہ کرو کیونکہ وہاں کوئی بیرونی خوف تو ہوتا نہیں صرف نفس کے اندر کمزوری پیدا ہو جانے کی وجہ سے خوف کی ایک صورت رونما ہوتی ہے.اس لئے ایسی صورت میں ہم دوسرے کو یہی نصیحت کریں گے کہ صبر کرو اور اپنے نفس کو - قابو میں رکھو.پس اضبرُ ڈا کہہ کر اللہ تعالیٰ نے اس امر کی طرف اشارہ کیا ہے شیطان کا حملہ حقیقی نہیں ہوتا.صرف ڈراوا ہوتا ہے.انسان خیال کرتا ہے کہ اگر فلاں خواہش کا میں نے مقابلہ کیا تو تباہ ہو جاؤں گا.مگر جب وہ مقابلہ کر لیتا ہے تو سمجھتا ہے کہ اوہو! بات تو کچھ بھی نہیں تھی.تو شیطان کا حملہ چونکہ حقیقی نہیں ہوتا اس لئے اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں کہا کہ شیطان کا مقابلہ کرو بلکہ صرف یہ کہا ہے کہ اصبروا صبر کرو اور اپنے نفس کو اپنے قابو میں رکھو.پھر فرماتا ہے.وَصَابِرُوا.جب انسانی نفس شیطانی حملہ کا مقابلہ کر لے تو پھر شیطان باہر سے حملہ کر دیتا ہے اور باہر سے جو حملہ ہو اس میں شیطان کے مقابلہ کی ضرورت ہوتی ہے کیونکہ وہ حملہ دوسروں کے ذریعہ سے کروایا جاتا ہے.یہاں صَابِرُوا کا لفظ استعمال کیا گیا ہے.صَابِرُوا کے معنے ایک دوسرے کو مقابلہ کی تلقین کرنے کے ہیں.یعنی زید بکر کو کہے.بکر، عمرو کو کہے.عمرو خالد کو کہے اور اسی لئے

Page 597

* 1941 597 خطبات محمود اس طرح وہ شیطان کے مقابلہ کے لئے ایک جتھہ بندی کر لیں.گویا صَابِرُوا کا حکم دے کر اللہ تعالیٰ نے یہ بتایا ہے کہ جب تم نفس کا مقابلہ کر لو گے تو اس وقت شیطان پھر جوش میں آئے گا اور کہے گا.اوہو! ان پر تو کوئی اثر ہی نہیں ہوا.یہ تو بڑھتے چلے جا رہے ہیں.چنانچہ وہ اپنے چیلوں کو حکم دے گا کہ ان پر اکٹھے ہو کر حملہ کر دو.اس وقت یاد رکھو کہ وہ اکیلے اکیلے لڑنے کا وقت نہیں ہو گا بلکہ جماعتی صورت میں دشمن کا مقابلہ کرنے کی ضرورت ہو گی.اس لئے تم اکٹھے ہو جاؤ اور سب مل کر دشمن کا مقابلہ کرو.اسی لئے فرمایا.صابِرُوا.یعنی جب صبر کا نتیجہ نکلے گا اور تم اندرونی دشمن کو زیر کر لو گے تو شیطان اپنے چیلوں کو اکسائے گا اور تمہیں قوم کا مقابلہ کرنا پڑے گا.پھر تمہیں اپنے آپ کو بھی ایک قوم کی صورت میں منظم کرنا پڑے گا.اگر قوم کی صورت میں دشمن کا مقابلہ نہیں کرو گے تو شکست کھا جاؤ گے.گویا پہلی حالت تو ایسی تھی کہ اس میں انفرادی طور پر اکیلا اکیلا شخص شیطان کا مقابلہ کر سکتا تھا.دو نہیں کر سکتے تھے.مگر یہ حالت ایسی ہے جس میں ایک شخص شیطان کا مقابلہ نہیں کر سکتا بلکہ ساری قوم کو شیطان کے مقابلہ کے لئے تیار ہونا پڑتا ہے.پھر صَابِرُوا کہہ کر اللہ تعالیٰ نے اس امر کی طرف بھی اشارہ کیا ہے کہ تمہیں شیطان کے مقابلہ کے لئے اپنے اندر ایک نظائم قائم کرنا چاہئے کیونکہ کوئی قوم اس وقت تک ترقی نہیں کر سکتی.جب تک اس کے اندر ایک نظام نہ ہو.یہی حکمت ہے جس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں میں نظام قائم رکھا ہے.پہلے نبوت ہوتی ہے اور پھر نبوت کے بعد خلافت آ جاتی ہے تا مسلمان اکٹھے رہیں اور وہ مل کر دشمن کا مقابلہ کر سکیں.آخر یہ صَابِرُوا کے حکم پر عمل کرنے کی برکت ہی ہے جو تبلیغ کی صورت میں ہمیں اس وقت دکھائی دیتی ہے.ہماری جماعت کتنی چھوٹی سی ہے مگر باوجود اس کے کہ ہماری جماعت کی تعداد نہایت قلیل ہے اور باوجود اس کے کہ ہماری جماعت نے

Page 598

* 1941 598 خطبات محمود ابھی وہ اعلیٰ نمونہ پیش نہیں کیا جو خدا تعالیٰ چاہتا ہے پھر بھی ساری دنیا میں ہماری جماعت تبلیغ کر رہی ہے اور دنیا کے لوگ اس بات کے معترف ہیں کہ اگر آج دنیا کے آبادی ہے حالانکہ پردہ پر کوئی جماعت اسلام کی تبلیغ کر رہی ہے تو وہ احمدیہ جماعت ہی ہے ہماری جماعت کی تعداد کتنی ہے.کہتے ہیں " کیا پدی اور کیا پدی کا شور با“ سارے ” ہندوستان میں اتنے احمدی بھی تو نہیں جتنی ضلع گورداسپور کی آبادی ہے مگر باوجود اس کے ہماری جماعت کی تعداد ہندوستان میں اتنی بھی نہیں جتنی ضلع گورداسپور کی ، پھر بھی ہماری جماعت وہ کام کر رہی ہے جو سارے ہندوستان کے مسلمان مل کر بھی نہیں کر رہے.امریکہ میں ہمارا مشن قائم ہے، انگلستان میں ہمارا مشن قائم ہے، گولڈ کوسٹ میں ہمارا مشن قائم ہے، نائیجیریا میں ہمارا مشن قائم ہے، سیر الیون میں ہمارا مشن قائم ہے.اسی طرح ملایا، سنگا پور ، چین، سماٹرا، جاوا اور دوسرے ممالک میں ہمارے مشن قائم ہیں.اس کے مقابلہ میں مسلمان کروڑوں کی تعداد میں ہیں بلکہ اب بھی کئی مسلمان بادشاہ موجود ہیں.چنانچہ ایران کا بادشاہ مسلمان ہے، افغانستان کا بادشاہ مسلمان ہے.عرب کا بادشاہ مسلمان ہے.اسی طرح مصر اور عراق کے بادشاہ مسلمان ہیں.پھر ترکوں کی حکومت ہے اور یہ تمام حکومتیں اربوں ارب روپیہ سالانہ آمد رکھتی ہیں مگر بتاؤ کیا ان میں سے کوئی سلطنت بھی اسلام کی تبلیغ کر رہی ہے اور کیا ان کی جد و جہد سے کبھی ایک شخص بھی مسلمان ہوا.مسلمان کرنا تو در کنار ان کی طرف سے ہمیشہ یہ اعلان ہوتا رہتا ہے کہ ہماری حکومتوں کو مذہب کوئی واسطہ نہیں.حالانکہ حکومت عیسائیوں کو بھی حاصل ہے مگر انہوں نے اپنے مذہب کی تبلیغ کو کبھی نظر انداز نہیں کیا.انگریزی حکومت یوں آزادی مذاہب کی بڑی حامی ہے مگر ہمیشہ اپنے مشنریوں کی مدد کرتی رہتی ہے.ظاہر بھی اور مخفی بھی.کھلے طور پر بھی اور پوشیدہ بھی.ہندوستان میں بھی پادریوں کی تنخواہوں کے لئے بجٹ میں گنجائش رکھی گئی ہے اور اس کا یہ حصہ وائسرائے کے قبضہ میں ہے اور اس میں کوئی دوسرا دخل نہیں دے سکتا.تو انگریزی حکومت اپنے مذہب کی

Page 599

خطبات محمود 599 * 1941 تبلیغ کے لئے ہمیشہ روپیہ خرچ کرتی رہتی ہے مگر مسلمان بادشاہ یہی کہتے رہے کہ ہم بادشاہ ہیں، ہمارا مذہب کی تبلیغ سے کیا تعلق.اس کے مقابلہ میں خد اتعالیٰ نے ہماری چھوٹی سی جماعت کو تبلیغ کی ایسی توفیق بخشی ہے کہ سوائے پیغامی گروہ کے، اور سب اس بات کے معترف ہیں کہ ہماری جماعت سے بڑھ کر اور کوئی تبلیغ نہیں کر رہا.ایک پیغامی گروہ ہی ہے جو کہتا ہے کہ جماعت احمدیہ کا قادیانی حصہ تبلیغ اسلام نہیں کرتا.مگر ان کے اس اعتراض کی اگر تشریح کی جائے تو یہ ہو گی کہ انگلستان میں قادیانیوں کا مشن ہے، ہمارا کوئی مشن نہیں.مگر انگلستان میں تبلیغ قادیانی نہیں کرتے بلکہ ہم کرتے ہیں.امریکہ میں ہمارا کوئی مشن نہیں صرف قادیانیوں کا مشن ہے.اور ہیں بچیں ان کے مقامی مبلغ بھی ہیں مگر امریکہ میں تبلیغ ہم کرتے ہیں قادیانی نہیں کرتے.پھر ان کے اس اعتراض کی تشریح یہ ہو گی کہ گولڈ کوسٹ میں قادیانیوں نے مبلغ رکھا ہوا ہے ہمارا کوئی مبلغ نہیں مگر وہاں بھی تبلیغ ہم کرتے ہیں قادیانی نہیں کرتے.نائیجیریا میں قادیانی کوئی تبلیغ نہیں کرتے کیونکہ انہوں نے وہاں مبلغ بھجوایا ہوا ہے.صرف ہم کرتے ہیں.گو ہمارا وہاں کوئی مبلغ نہیں.اسی طرح الیون میں قادیانی مبلغ موجود ہے اور ہمارا کوئی مبلغ نہیں مگر سیر الیون میں تبلیغ ہم ہی کر رہے ہیں قادیانی نہیں کر رہے.غرض اسی طرح پھیلاتے چلے جاؤ اور دیکھو کہ مصر میں ، فلسطین میں، شام میں، سماٹرا میں، جاوا میں، ملایا میں.غرض جہاں جہاں ہمارے مشن قائم ہیں.وہاں ان کے اس اعتراض کی یہی تشریح ہو گی کہ قادیانی بالکل تبلیغ نہیں کرتے.جس کا ثبوت یہ ہے کہ انہوں نے اپنے مشنری ان میں بھیجے ہوئے ہیں.مگر پیغامی تبلیغ کرتے ہیں کیونکہ ان کا ان ملکوں میں کوئی مبلغ نہیں اور سچی بات تو یہ ہے کہ پیغامیوں کا بیرونی ممالک میں کہیں مشن ہے ہی نہیں ایک مشن جرمنی میں تھا مگر وہ بند ہو چکا ہے.پھر انہوں نے سیر الیون میں اپنا مشنری بھیجا مگر وہ ہمارے وہ ہمارے مشنری کے مقابلہ کی تاب نہ لا کر وہاں سے بھاگ آیا.یہاں تک کہ اسے کرایہ بھی ہمارے مشنری نے ہی لوگوں سے چندہ کر کے دیا.ملکوں

Page 600

* 1941 600 خطبات محمود اگر ہمارا مشنری اس کی مدد نہ کرتا تو وہ واپس بھی نہ آ سکتا.مگر باوجود اس کے پیغامی ہمیشہ یہی کہتے رہتے ہیں کہ تبلیغ وہی کر رہے ہیں قادیانی جماعت کوئی تبلیغ نہیں کر رہی.غرض پیغامیوں کے سوا باقی ساری دنیا تسلیم کر رہی ہے کہ اس وقت احمد یہ جماعت ہے ہے ہی تبلیغ اسلام کا کام کر رہی ہے.بلکہ بعض مسلمان اخبارات نے تو یہاں تک لکھا کہ جس کام کی بڑے بڑے بادشاہوں کو توفیق نہیں ملی.وہ آج یہ چھوٹی سی جماعت بڑی عمدگی سے کر رہی ہے.تو یہ صابِرُوا پر عمل کرنے کا ہی نتیجہ ہے.اگر احمدی ایک دوسرے کے ساتھ تعاون نہ کرتے.اگر ان میں اتحاد نہ ہوتا، اگر ان میں نظام نہ ہوتا اور اگر دشمن کا مقابلہ کرنے کے لئے وہ ایک جتھہ کی شکل میں نہ ہوتے.تو وہ صورت کبھی پیدا نہ ہو سکتی جو آج نظر آ رہی ہے.اس کے بعد فرماتا ورابطوا.جو قومیں یہ سمجھتی ہیں کہ ان کے لئے اتنا ہی کافی تھا کہ شیطان کا مقابلہ کر لیا اور اسے شکست دے دی.وہ بھی بسا اوقات کچھ مدت کے بعد شیطان کے مقابلہ میں ہار جاتی ہیں.اس لئے کہ وہ تیسرے قدم میں ست ہو سست ہو جاتی ہیں اور اس امر کا خیال نہیں رکھتیں کہ گو دشمن ایک دفعہ شکست کھا چکا ہے مگر امکان ہے کہ وہ دوبارہ حملہ کر دے اور فتح کو شکست سے بدل دے.اللہ تعالیٰ اس نقص کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرماتا ہے کہ ایسا ممکن ہے تم دشمن کو کلیۂ شکست دے دو یا ایک علاقہ سے اسے بالکل نکال دو اور اس پر خود قبضہ کر لو لیکن یاد رکھو.ہو سکتا ہے کہ دشمن کچھ عرصہ کے بعد پھر اس پر قابض ہو جائے اس لئے فرمایا جب تم دشمن کو شکست دے دو اور تم سمجھ لو کہ اب صابِرُوا کا وقت جاتا رہا تم مطمئن ہو کر نہ بیٹھ رہو.کیونکہ ابھی ایک اور مقام رہتا ہے اور اگر تم نے اس مقام کا خیال نہ رکھا تو دشمن تمہیں جب بھی غافل پائے گا حملہ کر دے گا.چنانچہ فرماتا ہے ورابطوا جب تم کوئی علاقہ فتح کر لو یا روحانی طور پر شیطان کو کسی علاقہ سے نکال دو جیسے جگہ گاؤں کا گاؤں احمدی ہو جاتا ہے تو ایسے موقع پر اللہ تعالیٰ یہ نصیحت کرتا کہ مومنوں کو غافل نہیں ہونا چاہئے بلکہ ہمیشہ اپنی سرحدوں کی حفاظت کے لئے

Page 601

* 1941 601 خطبات محمود بوکس اور ہوشیار رہنا چاہئے.رباط کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ جہاں سرحدیں ملتی ہوں وہاں چوکیاں قائم کی جائیں تاکہ دشمن اچانک ملک میں داخل نہ ہو جائے.تو اللہ تعالیٰ اس آیت میں لوگوں کو اس امر کی طرف توجہ دلاتا ہے کہ قوموں کی بڑی بھاری غلطی یہ ہوتی ہے کہ جب وہ کامیابی حاصل کر لیتی ہیں تو سمجھ لیتی ہیں کہ اب وہ کلی طور پر جیت گئی ہیں حالانکہ کلی طور پر جیت دنیا میں ہو نہیں سکتی اور اگر کوئی قوم دنیا کو کلی طور پر جیت لے اور پھر ہمیشہ اپنی سرحدوں کی نگرانی رکھے تو اسے کبھی شکست ہی نہ ہو مگر دنیا میں سینکڑوں قومیں ہیں جو فاتح ہوئیں اور پھر انہوں نے یہ خیال کیا کہ اب وہ کلی طور پر فاتح ہو گئی ہیں لیکن کچھ عرصہ کے بعد ان میں غفلت پیدا ہو گئی اور وہی فاتح قومیں مفتوح اور ذلیل ہو گئیں.کسی زمانہ میں ایران کی مملکت ایسی وسیع اور عظیم الشان تھی کہ ہندوستان اس کے قبضہ میں تھا، چین اس کے قبضہ میں تھا، عرب کا ایک اس کے قبضہ میں تھا، عراق شام اور فلسطین اس کے قبضہ میں تھا.اناطولیہ اور آرمینیا اس کے قبضہ میں تھا بلکہ روس کے کچھ حصے بھی اس کے قبضہ میں تھے مگر اب ایران کی اس حکومت کا نام و نشان تک مٹ چکا ہے.بلکہ اب تو ایرانیوں کو دیکھ کر حیرت آتی ہے کہ گجا تو وہ حالت تھی کہ دنیا کے ، بہت بڑے حصہ کے وہ فاتح تھے اور کجا یہ حالت ہے کہ ایرانیوں کے اندر ایسی ہی نزاکت نظر آتی ہے جیسے دِتی اور لکھنو والوں کے اندر ہے.چلیں گے تو لچے گی اور بات کریں گے تو اس طرح مٹک مٹک کر کہ یوں معلوم ہو گا تمام زنانہ صفات ان میں جمع ہو گئی ہیں.کوئی شخص ان کو دیکھ کر یہ خیال بھی نہیں کر سکتا کہ کسی زمانہ میں یہ ساری دنیا کے فاتح تھے اور سینکڑوں سال تک حکومت کرتے رہے تھے.یہی لکھنو والے جن کا میں نے ابھی نام لیا ہے ایک زمانہ میں دتی تک ان کا عب تھا اور گو انہیں ہیں تیس سال ہی حکومت ملی مگر ان کا چاروں طرف رعب تھا.ایک طرف بنگال تک ان کی حکومت کی سرحد جاتی تھی اور دوسری طرف دہلی کا بادشاہ ایک حصہ

Page 602

* 1941 602 خطبات محمود بھی ان سے مرعوب تھا مگر ہیں تیس سال کے بعد ہی ان کی حکومت ایسی غائب ہوئی کہ اب لکھنؤ کے معنی محض نزاکت کے سمجھے جاتے ہیں.بے شک ادب میں لکھنو والوں نے کمال حاصل کیا ہے.بے شک زبان کو انہوں نے خوب مانجھا ہے.بیشک انہوں نے علم میں اچھی ترقی کی ہے اور ان میں بڑے بڑے عالم گزرے ہیں جیسے میں فرنگی محل کا مدرسہ مشہور ہے.مگر وہ فوجی اور سپاہیانہ ہنر جن کے ماتحت کسی لکھنو ہو کے زمانہ میں ہندوستان میں ان کا رعب تھا وہ اب ان میں نہیں رہے.فوجی بھرتی کو دیکھا جائے تو غالباً سارے ہندوستان کی فوج میں پانچ چھ لکھنوی بھی نہیں ملیں گے.اس کے مقابلہ میں قادیان ایک قصبہ ہے مگر فوج میں قادیان کے ہی ڈیڑھ سو قریب نوجوان مل جائیں گے.تو لکھنو والوں میں سے فوجی کام کی قابلیت بالکل مٹ گئی ہے حالانکہ کسی زمانہ میں ان کا بڑا رعب تھا.اسی طرح ہندوستانیوں کو عام طور پر دیکھ لو اب ان میں فوجی کام کی پہلے کی سی روح نظر نہیں آتی.حالانکہ کہا یہ جاتا ہے کہ ہندوستان کی کسی زمانہ میں اپنی حکومت تھی.گو واقعہ یہ ہے کہ ہندوستان انگریزوں کے ہاتھ پر ہی جمع ہوا ہے کسی اور حکومت کے ماتحت تمام ہندوستان کبھی نہیں آیا.اگر چہ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ انگریزوں کے ماتحت بھی سارا ہندوستان نہیں.شاید اللہ تعالیٰ ہندوستان کو ایک چھوٹا عالم بنانے کا ارادہ رکھتا ہے یا شاید خدا نے اس کے لئے یہ مقدر رکھا ہوا ہے کہ وہ روحانی طور پر احمدیت کے ذریعہ اکٹھا ہو.بہر حال انگریزوں کے قبضہ میں بھی تمام ہندوستان نہیں.کچھ پرتگیزی علاقہ ہے اور کچھ فرانسیسی حصہ ہے.عام لوگ سمجھتے ہیں کہ سارے ہندوستان پر انگریزوں کا ہی قبضہ ہے مگر حقیقتاً یہ درست نہیں.گووا کا علاقہ کہاں انگریزوں کے قبضہ میں ہے پانڈی چری کا علاقہ کہاں انگریزوں کے قبضہ میں ہے.چندر نگر کا علاقہ کہاں انگریزوں کے قبضہ میں ہے.غرض سارا ہندوستان انگریزوں کے ماتحت بھی نہیں.اسی طرح پہلی حکومتوں میں سے مغلوں کی حکومت بہت بڑی تھی مگر مغلوں کے قبضہ میں بھی ہندوستان پورے طور پر نہیں آیا اور برابر اُن کے زمانہ میں

Page 603

+ 1941 603 خطبات محمود بغاوتیں ہوتی رہتی تھیں.ادھر مسلمان بادشاہوں نے دکن فتح کیا تو اُدھر بنگال باغی ہو گیا.اس طرح پھر ایک حصہ ان کے قبضہ سے نکل گیا.شاید دو تین سال تک ایسا ہوا ہے کہ ظاہر میں یہ دکھائی دیتا تھا کہ سارا ہندوستان مغلوں کے ماتحت بھی اور نگ زیب کی آخری عمر میں لیکن اس تھوڑے سے عرصہ کے سوا کبھی بھی ہے اور وہ تمام ہندوستان ایک حکومت کے ماتحت نہیں آیا.حالانکہ بڑی بڑی حکومتیں گزری ہیں.مغلوں کی حکومت بہت بڑی تھی.ان سے پہلے پٹھانوں کی حکومت بہت بڑی - تھی.پھر ان سے پہلے ہندوؤں میں سے اشو کا خاندان کی حکومت بہت بڑی تھی اور اس کے ماتحت اتنا بڑا علاقہ تھا کہ اگر ایسی حکومت ہندوستان سے باہر ہوتی تو اس کی بہت بڑی عظمت ہوتی.اشوکا کی حکومت اتنی بڑی تھی کہ اگر جرمنی، فرانس اور اٹلی کو اکٹھا کر دیا جائے تو اس سے بھی اس کی حکومت زیادہ وسیع تھی مگر اب اس حکومت کا نشان تک موجود نہیں.اسی طرح ہندوستان سے باہر جو حکومتیں ہیں.ان میں سے مصر کی حکومت کسی زمانہ میں بہت بڑی تھی.لوبیا کی حکومت کسی زمانہ میں بہت بڑی تھی.روما نے بھی ایک وقت بڑی بھاری حکومت کی ہے.سپین کی حکومت بھی بہت بڑی حکومت تھی.آسٹریا کو بھی ایک زمانہ میں بڑی بھاری طاقت حاصل تھی.مگر اب ان حکومتوں کا نام و نشان تک نہیں ملتا.آخر یہ کیوں ہوا اور کیوں اتنی بڑی حکومتیں بے نام و نشان گئیں.محض اس لئے کہ انہوں نے مرابطہ نہیں کیا.جب انہیں حکومت ملی تو انہوں نے یہ خیال کر لیا کہ اب ہم بالکل محفوظ ہو گئے ہیں.حالانکہ یہی وقت قوموں کی زندگی میں خطرناک ہوتا ہے.اور ان کا فرض ہوتا ہے کہ جب انہیں غلبہ میسر آ جائے تو وہ اس کی حفاظت میں لگی رہیں.انگریزوں کو دیکھ لو ان کو خدا نے ایک لمبے عرصہ تک حکومت بخشی ہے مگر اس کی وجہ یہی ہے کہ یہ ہمیشہ اپنی سرحدوں کی حفاظت کرتے ہیں اس جنگ میں ہی وہ ہندوستان کی سرحدیں پکڑ کر بیٹھے ہیں اور لاکھوں فوجیں انہوں نے وہاں جمع کر رکھی ہیں.یہی مرابطہ ہے جس

Page 604

خطبات محمود 604 * 1941 قوموں کے غلبہ کو پائداری حاصل ہوتی ہے.خواہ یہ غلبہ جسمانی ہو یا روحانی.روحانی دنیا میں بھی کئی لوگ جب انہیں فتح ہوتی ہے.یہ خیال کر لیتے ہیں کہ اب شیطان بالکل مر گیا ہے.حالانکہ وہ مرا نہیں ہوتا بلکہ قریب ہی چھپا بیٹھا ہوتا ہے تاکہ جب بھی مومن غافل ہوں وہ ان پر حملہ کر دے.پس مومنوں کو چاہئے کہ وہ ہمیشہ مرابطہ سے کام لیں اور ہر وقت چوکس اور ہوشیار رہیں.ایسے ہی علاقوں میں سے جن پر روحانی طور پر ہمیں غلبہ حاصل ہے ایک قادیان بھی ہے.اور ہماری جماعت کا فرض ہے کہ وہ اس جگہ خصوصیت سے ہوشیار رہے کیونکہ جن علاقوں میں کوئی قوم غالب آ جائے ان میں وہ سست ہو حملہ کرتا پیدا جاتی ہے اور سستی اور غفلت ہی ایسی چیز ہے جو شیطان کے لئے حملہ کا موقع دیتی ہے.قادیان میں ہی لوگوں کی سرکشی نئے سے نئے رنگ میں ظاہر ہوتی رہتی حملے تو دشمن کی طرف سے ہوا کرتے تھے مگر اب شیطان اس رنگ میں ہے کہ لوگوں کی اولاد کو خراب کرتا ہے اور ہمیں یہ شکائتیں پہنچتی رہتی ہیں کہ فلاں کے بیٹے کو نشہ کی عادت ہو گئی ہے، فلاں کے بیٹے کو جھوٹ کی عادت ہے فلاں میں یہ خرابی ہے اور فلاں میں وہ دھوکا بازی ہے اور بعض احمدی جو دوسروں کے چھوٹے چھوٹے نقائص پر ان سے لڑا کرتے تھے اب اپنے رشتہ داروں کی تائید کرنے لگ جاتے ہیں.یہ وہی جنگ ہے جس کا خدا تعالیٰ نے اس آیت میں ذکر فرمایا ہے کہ جب کسی قوم کو فتح حاصل ہوتی ہے تو شیطان ایک نئے رنگ میں حملہ کر دیتا ہے.ایسی حالت میں اگر مومن مرابطہ نہ کریں اور اپنی سرحدوں کو محفوظ نہ کریں تو جو فتح نظر آ رہی ہوتی ہے وہی شکست میں تبدیل ہو جاتی ہے اور ان کی کامیابی تباہی کا پیش خیمہ بن جاتی ہے کیونکہ غلبہ کے نتیجہ میں قوموں میں غفلت اور سستی پیدا ہو جاتی ہے اور غفلت اور سستی تباہ کر دیتی ہے.وہی قومیں کامیاب ہوتی ہیں جو ہر وقت ہوشیار رہیں اور ایک لمحہ کے لئے بھی دشمن سے غافل نہ ہوں.وہ غلبہ کے وقت یہ سمجھ لیتی ہیں کہ گو اب اصبروا کا وقت نہیں گو اب

Page 605

* 1941 605 خطبات محمود صَابِرُوا کا وقت نہیں مگر رابطوا کا وقت ہے اور جب وہ اس طرح چوکس اور ہوشیار رہتی ہیں تو شیطان جس راہ سے بھی ان پر حملہ کرتا ہے اس راہ سے وہ ناکام و نامراد واپس لوٹتا ہے.اس پر شیطان مایوس ہو کر ایک لمبے عرصہ کے لئے خاموش ہو جاتا ہے اور اس قوم پر کوئی حملہ نہیں کرتا مگر اس عرصہ میں وہ اپنے کام کو بھولا نہیں ہوتا بلکہ اس بات کا منتظر ہوتا ہے کہ کب قوم غافل ہو اور میں اس پر حملہ کروں.چنانچہ پندرہ بیس سال انتظار کرنے کے بعد جب وہ خیال کرتا ہے کہ اب یہ قوم غافل ہو گئی ہو گی تو پھر اس پر حملہ کر دیتا ہے.اس وقت بھی اگر قوم ہوشیار ہو اور ہ رابطوا پر عمل کر رہی ہو تو پھر وہ شیطان کو ایسی ضرب لگائے گی کہ وہ خاموش ہو کر بیٹھ جائے گا مگر چالیس پچاس سال کے بعد وہ پھر سر اٹھائے گا اور اگر کی دفعہ بھی قوم ہوشیار ہو گی تو پھر وہ ساٹھ ستر سال کے لئے خاموش ہو جائے گا اور ہر وقفہ اس کا پہلے وقفہ سے زیادہ لمبا ہو گا.جیسے تم دیکھتے ہو کہ چور جب چوری کے لئے آئے اور وہ مالک مکان کو ہوشیار پائے تو پھر دوسرے ہی دن وہ چوری کرنے کے لئے نہیں آ جاتا بلکہ دو چار راتیں چھوڑ کر آتا ہے اور اگر اس دن بھی مالک مکان ہوشیار ہو تو وہ دو چار دن کا وقفہ نہیں ڈالتا بلکہ دو چار ہفتوں کا وقفہ ڈال دیتا ہے اور خیال کرتا ہے کہ شاید اس وقفہ میں یہ غافل ہو جائے.اس وقفہ کے بعد وہ پھر آتا ہے اور اگر اب بھی مالک مکان ہوشیار ہو تو وہ چار مہینے تک نہیں آتا لیکن دو چار ماہ گزرنے کے بعد وہ پھر آ جائے گا اور اگر پھر بھی وہ اسے ہوشیار ئے گا تو کئی سال کا وقفہ ڈال دے گا اور سمجھے گا کہ اب مجھے زیادہ عرصہ انتظار کرنا چاہئے تاکہ لمبے عرصہ کی وجہ سے یہ غافل ہو جائے اور مجھے اپنا کام کرنے کا موقع مل جائے.وقفہ یہی حال شیطان کا ہے.وہ ہمیشہ وقفہ ڈال ڈال کر حملہ کرتا ہے اور ہر وفـ اس کا پہلے وقفہ سے زیادہ لمبا ہوتا ہے کیونکہ وہ سمجھتا ہے کہ یہ قوم ہوشیار ہے مجھے لمبا وقفہ دینا چاہئے تاکہ یہ سو جائے اور میرے حملہ سے غافل ہو جائے.

Page 606

خطبات محمود 606 * 1941 پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.اے مومنو! ہماری تیسری نصیحت یہ ہے کہ غلبہ کے بعد تم مرابطہ کیا کرو.اگر تم مرابطہ کرو تو پھر حد بندی کوئی نہیں.قیامت تک مرابطہ کر سکو تو قیامت تک تمہارا غلبہ رہے گا اور اگر دنیا کے پردہ پر کوئی ایسی قوم مل سکے جو غلبہ کے بعد ہمیشہ مرابطہ کرے تو اسے کبھی شکست نہیں ہو سکتی کیونکہ وہ ہر وقت مرابطہ کر رہی ہو گی.اگر شیطان نظام کی بغاوت کی صورت میں اپنا سر نکالے گا تو اسے کچل دے گی، اگر شستی اور غفلت کی صورت میں اپنا سر نکالے گا تو اسے کچل دے گی، اگر نشوں کی عادت کی صورت میں اپنا سر نکالے گا تو اسے کچل دے گی، اگر لہو و لعب کی صورت میں اپنا سر نکالے گا تو اسے کچل دے گی.ایسی قوم کو شیطان بھلا برباد کس طرح کر سکتا ہے.پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اگر تم اصبروا پر بھی عمل کر لو.اگر تم صَابِرُوا پر بھی عمل کر لو.تو پھر تمہارے سامنے تیسرا مقام رابطوا کا آئے گا.اس وقت تمہارا فرض ہو گا کہ تم چوکس اور ہوشیار رہو کیونکہ شیطان تمہیں غافل پا کر کناروں سے آنا چاہے گا اور تمہارا فرض ہو گا کہ اس کی مدافعت کرو.نادان اس آیت کو پڑھتے اور یہ خیال کرتے ہیں کہ اس میں جسمانی ملکوں کا ذکر ہے حالانکہ جسمانی ملکوں کی حفاظت کی اتنی ضرورت نہیں ہوتی جتنی روحانی ملکوں کی حفاظت کی ضرورت ہوتی ہے.کیا دنیا میں کوئی بھی عقلمند ایسا ہے جو روح کو تو تباہ ہونے دے مگر جسم کو بچالے.ہر عقلمند یہ چاہے گا کہ اس کی روح بیچ جائے جسم اگر ہلاک ہوتا ہے تو ہلاک ہو جائے.اسی طرح ہر عظمند اس بات پر بھی متفق ہو گا کہ جسمانی ملک اگر ہاتھ سے جاتا ہو تو بے شک چلا جائے مگر روحانی ملک ہاتھ نہیں جانا چاہئے.پس اس آیت میں قرآن کریم نے دائگی ترقی حاصل کرنے کا ایک بے نظیر گر بتایا ہے.فرمایا ہے جو شخص اضیڈڈا پر عمل کرے گا.شیطان اس کے نفس کے لئے مر جائے گا مگر اس کے ہمسایہ کے لئے رہ جائے گا.پھر جو Ceris صَابِرُوا پر عمل کرے گا وہ اپنے ہمسایہ کو بھی شیطان کے حملہ سے بچالے گا.اس کے بعد دشمن نکل تو جائے گا مگر وہ کہیں دور نہیں جائے گا بلکہ باہر چھپ کر بیٹھ رہے گا

Page 607

* 1941 607 خطبات محمود ہو اور اس کی اولاد پر حملہ کرنے کی تاک میں رہے گا اور اس بات کا انتظار کرتا رہے گا کہ کب یہ قوم غافل قوم غافل ہو اور میں اس پر حملہ کروں.اس لئے فرمایا اس کے بعد تمہارے لئے ضروری ہے کہ ترابطؤا کے حکم کو مد نظر رکھو.اگر تم ہمیشہ مرابطہ کرتے رہو اور ہمیشہ اپنی سرحدات کی حفاظت کرتے رہو تو دشمن کبھی تم پر حملہ آور نہیں سکتا اور تم ہمیشہ کے لئے اس کے فتنہ سے محفوظ ہو جاؤ گے.پس اس آیت میں خدا تعالیٰ نے مستقل اور دائمی ترقی کا راز بتایا ہے.مگر افسوس کہ قومیں اور حکومتیں اصبروا پر عمل کر لیتی ہیں.وہ صابِرُوا پر عمل کر لیتی ہیں مگر ابگڑا پر عمل نہیں کرتیں.ہوتا ہے کہ پھر روحانیت دنیا سے مٹ جاتی ہے پھر کفر کا غلبہ ہو جاتا ہے.پھر گناہ دنیا میں پھیل جاتا ہے.پھر صداقت نا پید ہو جاتی ہے اور پھر خدا دنیا کی اصلاح کے لئے ایک نیا نبی مبعوث کرتا ہے.اس پر پھر اضبوڈا کی جنگ لڑی جاتی ہے پھر صَابِرُوا کی جنگ لڑی جاتی ہے پھر تا بطوا کی جنگ لڑی جاتی ہے.مگر پھر کچھ عرصہ کے بعد لوگ یہ خیال کرنے لگ جاتے ہیں کہ اب تو دشمن مر گیا.آؤ ہم اپنی سرحد کے سپاہیوں کو واپس بلا لیں.وہ ان سپاہیوں کو واپس بلاتے ہیں اور ان کے ساتھ ہی چوروں کی طرح دشمن فاتح قوم کے اندر داخل ہو جاتا ہے.جس کے نتیجہ میں پھر اس قوم کا تختہ الٹ جاتا ہے پھر اس کی ترقی مٹ جاتی ہے پھر اس کی عزت ذلت سے اور اس کی نیک شہرت بدنامی سے بدل جاتی ہے.پس رابطوا کا معاملہ سخت نازک ہوتا ہے اور قومیں اس حکم پر عمل کرنے میں سب سے زیادہ کمزوری دکھایا کرتی ہیں.بیسیوں احمدی اس وقت قادیان میں ایسے ہیں جو کہتے ہیں کہ نظام کی طرف سے فلاں سختی کی جاتی ہے.نظام کی طرف سے فلاں سختی کی جاتی ہے جس سے ان کی غرض یہ ہوتی ہے کہ ہم تا بطوا پر عمل کرنا چھوڑ دیں اور ہمیں قادیان میں اور بعض دوسرے گاؤں میں جو روحانی غلبہ حاصل ہے وہ بھی جاتا رہے.پس شیطان ہمیشہ ایسی آوازیں نکالتا رہتا ہے اور اس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ تابِطُوا پر عمل کرنا چھوڑ دیا جائے مگر جب تک ہماری جماعت کے لوگ مرابطہ کو قائم رکھیں گے، جب تک وہ

Page 608

* 1941 608 خطبات محمود سمجھتے رہیں گے کہ اگر مرابطہ کے خلاف کوئی آواز اٹھتی ہے تو یا تو وہ شیطان کی آواز ہے یا ہمارے کسی ایسے بھائی کی ہے جس پر شیطان نے قبضہ کیا ہوا ہے.یعنی یا تو ایسی شکایت کرنے والا منافق ہے اور جھوٹے طور پر احمدی بنا ہوا ہے یا ہے تو سچا احمدی مگر بے وقوف ہے اور جب تک ہماری جماعت اس قسم کے اعتراضات کے باوجود دلیر اور نڈر ہو کر مرابطہ کا کام جاری رکھے گی اس وقت تک ہماری جماعت کو برابر فتوحات حاصل ہوتی رہیں گی.مگر جس دن ہماری جماعت کے دوستوں میں کمزوری پیدا ہو گئی کہ لوگوں کے اعتراضات سے ڈر کر انہوں نے مرابطہ کا کام کرنا ترک کر دیا تو یہ ان کے اس بات پر دستخط ہوں گے کہ ہم اب دنیا میں غلبہ حاصل کرنے کے قابل نہیں رہے.ہمارا تختہ الٹ دیا جائے اور کسی اور قوم کو ہماری جگہ لایا جائے لیکن اگر تم تا بطوا پر عمل کرتے رہو گے تو یقینا تم ہمیشہ کامیاب رہو گے.میں نہیں کہہ سکتا کہ تم اس پر عمل کر سکو گے یا نہیں کیونکہ آج تک دنیا کی کسی قوم نے اس پر ہمیشہ کے لئے عمل نہیں کیا.ایک لمبے عرصہ کے بعد تمام قومیں ست ہو جاتی رہی ہیں مگر ہم تو ابھی ابھر رہے ہیں ہمارے لئے ست ہونے کا ابھی کونسا وقت ہے اگر تمام دنیا پر غلبہ حاصل کرنے کے سینکڑوں سال بعد ہم میں سستی پیدا ہو تب بھی ہم صرف پہلی قوموں کے ساتھ مشابہہ ہوں گے.ہاں دنیا پر کامل غلبہ کے بعد، اگر ہزاروں ہزار سال تک ہم مرابطہ کی ذمہ داری کو ادا کرتے رہیں اور دشمن کے حملوں سے ہر وقت چوکس اور ہوشیار رہیں تو پھر ہم ایسی قوم بنیں گے جس کی مثال روئے زمین نہیں مل سکے گی.کوئی قوم تاریخ میں سے ایسی نظر نہیں آتی جس نے ہزاروں سال مرابطہ کیا ہو.بعض جماعتیں تو ابتدائی چند سالوں میں ہی مرابطہ کے فرض کو بھول کر تباہ ہو گئیں اور بعض نے تین چار سو سال تک اس فرض کو ادا کیا اور پھر بھول گئیں.مگر بہر حال پچھلوں کو پہلوں سے بڑھنے کی کوشش کرنی چاہئے اور ان کے زمانہ سے زیادہ لمبے عرصہ تک اس فرض کو او رہنا چاہئے لیکن اس میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ ابھی ہمارا مرابطہ کا اصل کام کرتے پر ادا

Page 609

خطبات محمود 609 * 1941 شروع نہیں ہوا.ہمارا مرابطہ کا اصل کام اس دن شروع ہو گا جس دن دنیا پر روحانی طور پر ہمیں کامل غلبہ حاصل ہو جائے گا.ہاں چھوٹے پیمانہ پر اب بھی بعض جگہ ہم نے یہ کام شروع کیا ہوا ہے.جیسے قادیان میں یہ کام جاری ہے.مگر اصل دن ہمارے کام کی ابتداء کا وہی ہو گا جب ساری دنیا پر ہمیں روحانی غلبہ حاصل ہو جائے گا.اس دن سے شروع کر کے اگر ہم مرابطہ کو صرف تین چار سو سال تک قائم رکھیں گے تو زیاہ سے زیادہ ہم عیسائیوں کے مشابہہ ہو سکیں گے کیونکہ انہوں نے بھی تین چار سو سال تک اپنے غلبہ کو قائم رکھا تھا.ہاں اگر ہم سات آٹھ سو یا ہزار سال تک اس عرصہ کو بڑھا دیں تب بے شک ہم ایک ایسی قوم ہوں گے جس کی مثال تاریخ میں نہیں ملے گی.پس یہ ہماری موجودہ اور آئندہ نسلوں کا کام ہے کہ وہ اپنے عمل سے دنیا کو بتائیں کہ وہ کن لوگوں میں شامل ہونا چاہتے ہیں.ان لوگوں میں جو پھسڑی ثابت ہوئے یا ان لوگوں میں جو اچھے ثابت ہوئے یا ان لوگوں میں جو سب سے بڑھ جائیں اور جن کی نظیر تاریخ عالم میں ڈھونڈنے سے بھی ملے." 1 آل عمران: 201 مرقس باب 8 آیت 34 (الفضل 28 نومبر 1941ء )

Page 610

* 1941 610 (35) خطبات محمود خدا تعالیٰ نے فیصلہ کیا ہے کہ احمدیت کے ذریعہ رسول کریم صلی للی ملک کی حکومت دنیا میں پھر قائم کرے کی (فرمودہ 28 نومبر 1941ء) تشہد، تعوذ اور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:.بنی نوع انسان نے اپنے تجربہ سے یہ بات معلوم کی ہے کہ دنیا کی ترقی کا راز یہ ہے کہ جو بہترین چیزیں ہیں انہیں قائم رکھا جائے اور ان کو پہلے سے زیادہ بڑھانے اور ترقی دینے کی جد و جہد کی جائے.دنیا کی ہر چیز کے متعلق انسان نے اس رنگ میں کوشش کی ہے اور اس کے نتیجہ میں دنیا کو پہلے سے زیادہ بہتر بنا دیا گیا ہے.غلہ انسان کے کھانے کی چیز ہے مگر غلہ کے بیجوں کو ہی ترقی دے کر انسان نے کہیں کا کہیں پہنچا دیا ہے.گندم کو ہی لے لو آج سے چالیس پچاس سال پہلے گندم کی جو پیداوار فی ایکٹر ہمارے ملک میں ہوتی تھی اب اس سے کہیں زیادہ ہوتی ہے.کیونکہ فن زراعت کے ماہرین نے گندم کے بیجوں کو ترقی دے کر انہیں ایسا اعلیٰ بنا دیا ہے کہ اب دانہ پہلے سے زیادہ اچھا ہوتا ہے.دانوں سے آٹا زیادہ اچھا نکلتا ہے اور پیداوار فی ایکڑ پہلے سے بہت زیادہ ہوتی ہے حالانکہ ہمارے ملک بالخصوص پنجاب کے لوگ عام طور پر نئی ایجادوں سے بہت گھبراتے ہیں مگر آہستہ آہستہ ہم دیکھتے ہیں کہ اس معاملہ میں زمیندار گورنمنٹ کی ہدایات اور اس کی راہ نمائی کو قبول کرنے پر تیار ہو گئے ہیں.چھوٹے چھوٹے گاؤں میں چلے جاؤ.تمہیں زمیندار

Page 611

* 1941 611 خطبات محمود آپس میں یہ باتیں کرتے نظر آئیں گے کہ آٹھ الف گندم بونی ہے، 591 بونی ہے، 518 بونی ہے.کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ اگر اچھا بیج زمین میں ڈالیں گے تو پیداوار زیادہ ہو ہو گی، دانہ اچھا ہو گا اور آٹا زیادہ نکل سکے گا.اسی طرح گنا ہے.ہمارا گنے کے لئے خاص طور پر مشہور ہے حالانکہ یہ میرے اپنے ہوش کی بات ہے کہ بالعموم یہاں ایسا گنا ہوتا تھا کہ اس میں اور سرکنڈے میں کوئی زیادہ فرق محسوس نہیں ہوتا تھا.نہایت باریک اور سخت گنا ہوتا تھا اور جب بچپن میں ہم اسے چوستے تھے تو چوستے وقت ہمارے ہونٹوں اور زبان پر زخم ہو جاتے تھے مگر دیکھ لو اب اس گنے میں ہی کتنی ترقی ہوئی ہے.جب گنے کے بیج کی حفاظت کی گئی اور اسے بڑھایا گیا تو نہایت اعلیٰ قسم کے گئے پیدا ہونے شروع ہو گئے اور پیداوار بھی آگے سے بہت بڑھ گئی.اسی طرح کپاس ہے.اس میں بھی زراعت والوں نے بہت ترقی کی ہے.پھلوں اور پھولوں کو دیکھا جائے تو انہیں بھی ترقی دے کر کہاں سے کہاں پہنچا دیا گیا ہے.یہی چھوٹے چھوٹے گٹھلیوں والے آم جنہیں لوگ چوستے پھرتے ہیں جو پیسے پیسے دو دو پیسے سیر مل جاتے ہیں انہی کو ترقی دے کر کوئی لنگڑا نکل آیا ، کوئی فجری نکل آیا ہے کوئی دوسیری نکل آیا ہے، کوئی بمبئی نکل آیا ہے.غرض قسم قسم کے آم ایجاد کر لئے گئے ہیں اور ابھی ان کو اور زیادہ بڑھایا جا رہا ہے اور ترقی یافتہ آموں میں سے اور آم پیدا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے.پھولوں کو ہی دیکھ لو.ہمارے ملک میں پہلے ایک ہی گلاب کا سرخ پھول ہوا کرتا تھا مگر اب بیسیوں قسم کے پھول نکل آئے ہیں.کوئی گلاب کا سیاہ رنگ کا پھول ہے، کوئی گلاب کا زرد رنگ کا پھول ہے.اسی طرح کوئی سفید رنگ کا گلاب ہے اور کوئی کاسنی رنگ کا گلاب ہے.پھر کوئی چھوٹے حجم کا ہے اور کوئی اتنے بڑے حجم کا ہے کہ پرانے زمانہ کے کئی کئی پھول اس میں آ جاتے ہیں.اسی طرح گائیوں، بیلوں، بکریوں اور مرغیوں کی نسلوں کو دیکھ لو.وہ کیسی ترقی کر رہی ہیں اور کس طرح انسان نے کوشش کر کے ان کو پہلے سے زیادہ اعلیٰ بنا دیا ہے اور اس ساری ترقی کا گر ہے

Page 612

* 1941 612 خطبات محمود کہ پہلے ایک عمدہ نسل کو چن لیا جاتا ہے پھر اس میں سے عمدہ حصہ کو چن لیا جاتا ہے اور پھر اس میں سے اور عمدہ حصہ کو چن لیا جاتا ہے اور اس طرح دنیا ترقی کرتی چلی جا رہی ہے.غرض دنیا کے ہر شعبہ میں انتخاب اور انتخاب کے بعد مزید تگ و دو اور محنت کے ساتھ اسے بڑھانا ہمیں دکھائی دیتا ہے اور یہی وجہ اس کی ترقی کی ہے.اور جبکہ دنیا میں باقی تمام چیزوں کے متعلق ہمیں یہ نظارہ نظر آتا ہے تو کس طرح ممکن ہے کہ انسان جو اشرف المخلوقات بنایا گیا ہے اس کی ترقی کے راستے اللہ تعالیٰ نے نہ کھولے ہوں.اُس نے کھولے ہیں اور یقینا کھولے ہیں مگر انسان اپنے گرد و پیش کی اشیاء کی ترقی کی طرف تو توجہ کرتا ہے لیکن وہ اپنی نسل کی ترقی کی طرف کبھی توجہ نہیں کرتا.ہر زمیندار چاہتا ہے کہ وہ اچھا مرغا لا کر زیادہ انڈے دینے والی اور زیادہ خوبصورت اور کارآمد مرغیاں پیدا کرے.ہر زمیندار چاہتا ہے کہ وہ اچھا بیل لائے تاکہ اس سے بیلوں کی عمدہ نسل چلے.ہر زمیندار چاہتا ہے کہ وہ گورنمنٹ فارم سے اچھے سے اچھا بیج خرید کر لائے تاکہ اس کی پیداوار زیادہ ہو.ہر زمیندار چاہتا ہے کہ وہ اچھی کپاس بوئے تاکہ اس سے اعلیٰ فصل پیدا ہو.ہر زمیندار چاہتا ہے کہ وہ باغ لگانے سے پہلے عمدہ سے عمدہ پودے لائے تاکہ اس کا باغ نہایت اعلیٰ ہو.لیکن اس تمام کوشش کے بعد جب وہ اپنی ذات کی طرف آتا ہے تو وہ اس امر کی کوئی کوشش نہیں کرتا کہ اچھی نسل تیار کرے.وہ اس امر کی کوئی پرواہ نہیں کرتا کہ ایسی نسل پیدا کرے جو خاندان کے لئے عزت کا موجب ہو.گویا اس کو اس کی تو ضرورت ہے کہ اس کی مرغیاں اچھی ہوں، اسے اس بات کی تو ضرور ہے کہ اس کی بکریاں اچھی ہوں، اسے اس بات کی تو ضرورت ہے کہ اس کے بیل بات رورت اچھے ہوں، اسے اس بات کی تو ضرورت ہے کہ اس کی گندم اچھی ہو لیکن اس بات کی کوئی ضرورت نہیں کہ دنیا میں جو انسان پیدا ہونے والے ہیں وہ بھی اچھے ہوں اور خاندان کی نیک نامی اور عزت کا موجب ہوں.حالانکہ جسمانی اور روحانی

Page 613

* 1941 613 خطبات محمود دونوں لحاظ سے انسان کے لئے ترقی کی بہت بڑی گنجائش ہے.مجھے ہمیشہ انگریزی قوم کی پرانی تصویریں اور آجکل کے انگریزوں کی شکلیں دیکھ کر حیرت آتی ہے کہ ان میں کس قدر فرق پیدا ہو گیا ہے.پرانی تصویروں سے معلوم ہوتا ہے کہ انگریز کسی زمانہ میں بالکل چھوٹے قد کے تھے مگر اب انگریزوں کو دیکھ لو ان کے اتنے لمبے قد ہوتے ہیں کہ ہمارے ملک کے اچھے قد آور لوگ بھی ان کی طرف نظریں اٹھا کر دیکھتے ہیں.ہمارے موجودہ وائسرائے اور ان کے بیوی بچے سارے اتنے لمبے قد کے ہیں کہ ہمارے ملک کے قد آور مرد بھی ان سے نیچے رہ جاتے ہیں.حالانکہ اسی قوم پرانی تصویریں دیکھی جائیں تو معلوم ہوتا ہے کہ پہلے انگریز معمولی چھوٹے قد کے تھے لیکن اس قوم نے اپنی نسل کی ترقی کی طرف توجہ کی اور ایسے سامان پیدا کئے کہ جن سے آئندہ نسل زیادہ بہتر ہو سکتی تھی.چنانچہ اب انگریز پہلے.زیادہ قد آور اور مضبوط ہوتے ہیں.یہی حال اور متمدن ممالک کا ہے.لیکن ہمارے ملک میں گورنمنٹ بھی گھوڑوں کی بہتری کے لئے تو کوشش کرتی ہے، گدھوں کی سے بہت ہے، بہتری کے لئے تو کوشش کرتی ہے، مرغوں کی بہتری کے لئے تو کوشش کرتی بیلوں کی بہتری کے لئے تو کوشش کرتی ہے، بکریوں کی بہتری کے لئے تو کوشش کرتی ہے مگر انسانی نسل کی بہتری کے لئے کوئی کوشش نہیں کرتی اور ہمارے ملک کے لوگ تو بالکل آنکھیں بند کئے بیٹھے ہیں اور انہیں اپنی نسلوں کی ترقی کی طرف کوئی توجہ نہیں.انہیں صرف یہ خیال رہتا ہے کہ روٹی پیٹ بھر کر مل جائے.چاہے وہ روٹی کھانے والا کتنا ہی ذلیل وجود کیوں نہ ہو.حالانکہ اچھی روٹی کے لئے اچھے کھانے والوں کی بھی تو ضرورت ہوتی ہے.جس طرح اچھے گھوڑے کے لئے اچھے سوار کی ضرورت ہوتی ہے اگر ایک انسان کو ناگوری بیل کی خواہش ہے تو اس ناگوری بیل کے لئے ایک چوڑے چکلے سینہ والے مضبوط آدمی کی بھی تو ضرورت ہو گی.آخر خود ہی سوچو وہ آدمی کیسا بد نما معلوم ہو گا جو خود تو ٹھنگنا سا اور دبلا پتلا ہو اور کھانستا چلا جا رہا ہو مگر اس کے آگے آگے ناگوری بیل جارہا ہو.اسی طرح روٹی

Page 614

* 1941 614 خطبات محمود پیٹ بھر کر مل جانا بے شک ایک اچھی بات ہے مگر اس سے بھی زیادہ ضروری ہے کہ روٹی کھانے والا اچھا ہو.لیکن ہمارے ملک میں بیلوں کی طرف تو توجہ کی جاتی ہے، گھوڑوں کی طرف تو توجہ کی جاتی ہے، بکریوں کی طرف تو توجہ کی جاتی گندم کے بیچ اور اس کے دانوں کی طرف تو توجہ کی جاتی ہے لیکن اگر نہیں توجہ کی جاتی تو انسان کی طرف، حالانکہ بیل اور انسان میں کوئی نسبت ہی نہیں ہوتی.ایک انسان کی صحت کی عمدگی اور گندم کے دانوں کی عمدگی میں کوئی نسبت ہی نہیں ہوتی.کپاس کے اچھا ہونے اور انسان کے اچھا ہونے میں کوئی نسبت ہی نہیں ہوتی مگر لوگ ان چیزوں کو تو اچھا بنانے کی کوشش کرتے ہیں مگر جس کی خاطر خدا تعالیٰ نے ان تمام چیزوں کو بنایا ہے اس کی طرف کوئی توجہ نہیں کرتے.گھوڑے خدا نے کیوں بنائے ہیں اسی لئے کہ انسان کے کام آئیں.بیل خدا نے کیوں بنائے ہیں اس لئے کہ انسان کے کام آئیں، گندم خدا نے کیوں بنائی ہے اسی لئے کہ انسان کے کام آئے، کپاس خدا نے کیوں بنائی ہے اسی لئے کہ انسان کے کام آئے.مگر جس کی خاطر خدا تعالیٰ نے ان تمام چیزوں کو بنایا ہے اس کی طرف تو کوئی توجہ نہیں کی جاتی وہ اور اور جو چیزیں انسان کی خادم ہیں ان کی طرف توجہ کی جاتی ہے.حالانکہ جسمانی روحانی ترقی کے لئے خدا تعالیٰ نے غیر محدود راستے رکھے ہوئے ہیں.جس طرح ایک انسان یہ خواہش کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ مجھے ٹھنگنے اور چھوٹے سے قد کے بیل کی بجائے ناگوری بیل دے جو میرے بیل سے کئی گنا زیادہ ہل چلا دے.جس طرح چاہتا ہے کہ ایک ٹھنگنی اور چھوٹی سی گائے کی بجائے اللہ تعالیٰ مجھے ایسی گائے دے جو دس دس میں ہمیں سیر دودھ دینے والی ہو.اور یہ کوئی تعجب کی بات نہیں.ہمارے ملک میں ہی ایسی گائیں ہیں جو من من دودھ دیتی ہیں.پھر جس طرح انسان خواہش کرتا ہے کہ ایک چھوٹی سی بھینس کی بجائے جو نہایت رڈی اور دبلی پتلی ہو اور دودھ تو صرف دو تین سیر دیتی ہو مگر کھاتی بہت ہو.خد اتعالیٰ اسے ایسی بھینس دے جو دس پندرہ سیر دودھ دینے والی ہو اور جس سے دو سیر مکھن نکل آئے.

Page 615

* 1941 615 خطبات محمود اسی طرح ہر انسان کو یہ خواہش کرنی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ مجھے بھی اور میری آئندہ نسلوں کو بھی اعلیٰ درجہ کی روحانی ترقیات عطا کرے.اور ہمیشہ ہمارا قدم روحانی ترقیات کے میدان میں بڑھتا چلا جائے.چنانچہ دیکھ لو ہمارے دلوں میں خدا تعالیٰ نے کس طرح بار بار اس خواہش کو پیدا کرنے کی تدبیر کی ہے.جب ہم سورہ فاتحہ پڑھتے ہیں اور اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ 1 کہتے ہیں تو اس کے کیا معنی ہوتے ہیں؟ یہی معنے ہوتے ہیں کہ جس طرح دنیا میں بعض جسمانی دیو ہیں.یعنی بڑے بڑے مضبوط ناگوری بیل ہیں، بڑے بڑے خوبصورت اور عمدہ گھوڑے ہیں، بڑے بڑے قد آور مرغے ہیں.بڑی بڑی اعلیٰ نسل کی بکریاں ہیں.اسی طرح انسانوں میں بعض بڑے بڑے روحانی وجود ہیں.جیسے نوح ہوئے، ابراہیم ہوئے، موسی ہوئے، داؤد ہوئے، سلیمان ہوئے ، عیسی ہوئے ، آنحضرت صلیلی لیلی کام ہوئے اور صرف انہی پر بس نہیں.اور ہزاروں انبیاء ہوئے.بلکہ بعض حدیثوں سے تو معلوم ہوتا ہے کہ ایک لاکھ بیس ہزار نبی ہوئے ہیں.2 یہ انسانوں میں سے بڑے بڑے قد آور روحانی وجود تھے جن کے سامنے دوسرے لوگ ایسے ہی ہوتے ہیں جیسے گٹھ مٹھیے یا باشتے ہوتے ہیں.پس جب خدا تعالیٰ یہ کہتا ہے کہ تم یہ کہا کرو کہ اهْدِنَا الصِّرَاط الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ تو دوسرے الفاظ میں وہ انسان سے یہ کہتا ہے کہ مجھ سے یہ دعا کرو کہ اے خدا! میری گٹھ مٹھیا اور بالشتیا روح کو بڑھا کر تو نوح جتنا لمبا قد دے دے، ابراہیم جتنا لمبا قد دے دے، موسیٰ جتنا لمبا قد دے دے، داؤد جتنا لمبا قد دے دے، سلیمان جتنا لمبا قد دے دے، عیسی جتنا لمبا قد دے دے.اب دیکھ لو کس طرح خدا تعالیٰ نے ہمارے دل میں بنی نوع انسان کی ترقی کے متعلق خواہش پیدا کر دی ہے اور کس طرح اس دعا میں یہ سبق سکھلایا گیا ہے کہ ہر انسان کو یہ جدو جہد کرنی چاہئے کہ اس کا روحانی قد اس کی روحانی عظمت اور اس کی روحانی بڑائی ویسی ہی ہو جائے جیسے نوح کی تھی، جیسے ابراہیم کی تھی، جیسے موسی اور داؤد اور سلیمان اور یعقوب اور یوسف اور عیسی کی تھی.اور جیسے ان سب سے بڑھ کر ہمارے

Page 616

* 1941 616 خطبات محمود آنحضرت صلی الم کی تھی.لیکن باوجود اس کے کہ مسلمانوں کے سامنے یہ مقصدِ عالی رکھا گیا تھا اور انہیں مجبور کیا گیا تھا کہ وہ پانچ وقت یہ دعا کریں پھر بھی ان کے دلوں میں اپنی اور بنی نوع انسان کی روحانی ترقی کے لئے کوئی تڑپ نہیں پائی جاتی.اور یہی وجہ ان کے روحانی تنزیل کی ہے.بھلا سوچو اگر تم کوئی رڈی قسم کا نہایت پرانا اور گلا سڑا گندم کا بیج زمین میں بو دو اور دعا یہ کرنے لگ جاؤ کہ یا اللہ ! آٹھ الف گندم پیدا ہو جائے.یا اللہ ! 591 پیدا ہو جائے.یا اللہ 518 پیدا ہو جائے تو کیا اس دعا کے نتیجہ میں تمہیں اعلیٰ قسم کی گندم مل سکے گی یا تمہارے پاس تو پرانی قسم کے ٹینی مرغے ہوں اور تم دعا یہ کرو کہ یا اللہ! ان سے لیگ ہارن ( Leg horn پیدا ہو جائیں.یا اللہ! ان سے وائیٹ سیکس (White Sussex) پیدا ہو جائیں.یا اللہ ! ان سے منارک (Monarch) پیدا ہو جائیں.یا اللہ ان سے (Rhodes Island) رھوڈز آئی لینڈ پیدا ہو جائیں.تو کیا تمہاری یہ دعا قبول ہو جائے گی؟ اسی طرح اگر تم دیسی کپاس بو کر بیٹھ جاؤ اور دعا کرنے لگ جاؤ کہ یا اللہ اس سے امریکن کپاس نکل آئے تو کبھی امریکن کپاس پیدا نہیں ہو گی.یا اگر تم چھوٹے چھوٹے تخمی آموں کو بو کر یہ دعا کرنے لگ جاؤ کہ یا اللہ لنگڑے نکل آئیں.یا اللہ فجری اور دوسیری نکل آئیں.تو کیا تم سمجھتے ہو کہ اس دعا کے نتیجہ میں تخمی آموں سے لنگڑے اور فجری اور دوسیری نکل آئیں گے؟ یہ دعا تو اسی وقت کام آئے گی جب تم لنگڑے کا پیوند لگاؤ گے یا امریکن کپاس بوؤ گے یا اعلیٰ قسم کے رنے رکھو گے یا عمدہ قسم کی گندم کا بیج بوؤ گے.کیونکہ دعا عمل کے ساتھ شروع ہوتی ہے.عمل کے بغیر دعا قبول نہیں ہوتی.پس جب خدا تعالیٰ نے تمہیں یہ دعا سکھا کر کہ اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ یہ کہا تھا کہ تم نوح بننے کی کوشش کرو، تم ابراہیم بننے کی کوشش کرو، تم موسی اور عیسی بننے کی کوشش کرو.تو اس کے صاف معنے یہ تھے کہ

Page 617

* 1941 617 خطبات محمود تم اپنے دل میں وہ بیج لگاؤ جس کے نتیجہ میں نوح کے ثمر پیدا ہوں، تم اپنے دل میں وہ بیج لگاؤ جس کے نتیجہ میں ابراہیم کے ثمر پیدا ہوں، تم اپنے دل میں وہ بیج لگاؤ جس کے نتیجہ میں موسیٰ کے ثمر پیدا ہوں، تم اپنے دل میں وہ بیج لگاؤ جس کے میں عیسی کے ثمر پیدا ہوں پھر تمہاری دعا کامیاب ہو دگی، اور تب تم ان انعامات کو حاصل کر سکو گے جو پہلے لوگوں نے حاصل کئے.مگر باقی جگہوں پر تو تم ہمیشہ عقل اور ہوش سے کام لیتے ہو اور اچھا بیج بونے کی کوشش کرتے ہو مگر یہاں یہ کرتے ہو کہ بد دلی کے ساتھ منہ سے صرف یہ الفاظ نکال دیتے ہو کہ اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ اور اس انعام یافتہ گروہ کے نقش قدم پر چلنے کے لئے تیار نہیں ہوتے.گویا بیج تو تم وہ ہوتے ہو جو نہایت رڈی قسم کا ہے اور امید یہ کرتے ہو کہ اس سے اچھا پھل پیدا ہو.حالانکہ اچھے پھل کے حصول کے لئے یہ نہایت ضروری ہوتا ہے کہ عمدہ بیج ہو اور پھر اس بیچ کے نشو و نما کے لئے جو سامان اللہ تعالیٰ نے پیدا کئے ہوں ان سے کام لے کر اس پیج کو بڑھایا جائے کیونکہ خدا نے ایک ہی قانون بنایا ہے کہ جو حسین چیز پیدا ہو اسے اگر ترقی دی جائے تو وہ بڑھتی چلی جاتی ہے اور اگر اس کی ترقی کے لئے کوئی کوشش نہ کی جائے تو وہ چیز اپنے معیار پر قائم نہیں رہتی بلکہ گر جاتی ہے.مثلاً میں یہ نہیں سمجھتا کہ اس زمانہ میں جو اچھی گندم یا اچھی کپاس ہے وہ گزشتہ ترقی یافتہ گندم اور کپاس سے ضرور بہتر ہے بلکہ میرا یہ عقیدہ ہے کہ جس طرح کسی زمانہ میں انسان اچھے ہوتے ہیں مگر پھر بُرے ہو جاتے ہیں اسی طرح جانوروں اور کھیتوں وغیرہ کا حال ہے.کسی وقت قوم میں بیداری ہوتی ہے تو وہ مثلاً گھوڑے کی نسل کو ترقی دینے کی طرف متوجہ ہو جاتی ہے جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ گھوڑے کی نسل بہت اعلیٰ جاتی ہے مگر پھر جب اس قوم پر جمود طاری ہو جاتا ہے اور وہ اپنی بیداری کو ترک کر دیتی ہے تو ترقی یافتہ نسل تنزل کی طرف پھر جاتی ہے.ہندوستان کے ہی کئی علاقے ایسے ہیں جہاں کے گھوڑے بہت مشہور تھے.مگر اب ان علاقوں کو یہ شہرت

Page 618

* 1941 618 خطبات محمود حاصل نہیں.اسی طرح اور کئی چیزیں ہیں جو پہلے بہت اعلیٰ تھیں.پس میرا یہ مطلب نہیں کہ جو کچھ ترقی کی ہے انگریزوں نے ہی کی ہے بلکہ میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ ہے ملک نے جب بھی ترقی کی ہے.اس نے اچھے بیج بھی پیدا کئے ہیں، اچھے گھوڑے ہر بھی پیدا کئے ہیں، اچھے بیل اور اچھے مرغے بھی پیدا کئے ہیں مگر جب ملک کی توجہ ان چیزوں کو ترقی دینے کی طرف نہ رہی تو ان کی عمدگی کا معیار قائم نہ رہا اور پھر پہلی سی خرابیاں پیدا ہو گئیں.بہر حال ترقی پذیر زمانہ کی علامت یہ ہے کہ وہ اپنے سے سابق معیار کو بڑھا دیتا ہے اور بڑھاتا چلا جاتا ہے اور جب وہ اس کام سے غافل ہو جاتا ہے تو پھر تنزل شروع ہو جاتا ہے اور تاریکی کا دور دنیا پر غالب آ جاتا ہے.یہی حال انسانوں کا ہے انسان ایک زمانہ میں ترقی کرتے اور ترقی کرتے کرتے بڑے بلند مقام پر پہنچ جاتے ہیں مگر جب آئندہ نسل کی حفاظت نہیں کی جاتی تو وہ بھی گر جاتے ہیں اور وہ اپنے ساتھ اپنی نسل اور اپنے زمانہ کو بھی لے گرتے ہیں.وہ انسان جو ایسی ترقی سے گرنے والے ہوتے ہیں وہ بڑے ہی بدبخت ہوتے ہیں.اس لئے کہ وہ اپنے آپ کو بھی تباہ کرتے ہیں اور دوسروں کو بھی تباہ کرتے ہیں.حقیقت یہ ہے کہ جو ترقی کرنے والے وجود ہوتے ہیں وہ دنیا کے لئے عمود اور ستون کے طور پر ہوتے ہیں اور یہ صاف بات ہے کہ جب ستون گرے گا تو چھت بھی گر پڑے گی پس ایسے لوگوں کا گرنا صرف انہی کی ذات سے تعلق رکھنے والا ایک فعل نہیں ہوتا بلکہ دوسروں پر اثر انداز ہونے والا فعل ہوتا ہے اس لئے وہ خدا کے حضور جواب دہ ہوتے ہیں کیونکہ خدا ان سے کہے گا کہ تم ایسی حالت میں تھے کہ تم پر اور لوگوں کا بھی انحصار تھا.پس تم نے اپنے آپ کو گر اکر باقی دنیا کو بھی تباہ کر دیا.جیسے عربی میں ضرب المثل مشہور ہے کہ مَوْتُ الْعَالِمِ مَوْتُ الْعَالَمِ یعنی جب کوئی عالم مر جاتا ہے تو سار اجہان ہی مر جاتا ہے.اس لئے کہ اس کے مرنے سے علم مٹ جاتا ہے، روحانیت مٹ جاتی ہے اور ان فوائد کا سلسلہ منقطع ہو جاتا ہے جو لوگوں کو پہنچ رہے ہوتے ہیں.یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم نے

Page 619

* 1941 619 خطبات محمود یہودیوں کے ان مظالم کو بیان کرتے ہوئے جو وہ رسول کریم صلی علیم پر کیا کرتے تھے فرمایا ہے کہ دیکھو! ہم نے پہلے سے تمہیں خبر دے دی تھی کہ ایک ایسا انسان دنیا میں پیدا ہونے والا ہے کہ اگر تم اسے مارو گے تو تم سارے جہان کو مارنے والے قرار پاؤ گے.کیونکہ تمام دنیا کی نجات اور بھلائی اس سے وابستہ ہو گی.پس فرماتا ہے محمد صلی الم کے خلاف جو تمہاری کوششیں ہیں وہ ایسی نہیں کہ صرف ایک فرد کے خلاف ہوں بلکہ تم ان کوششوں کے ذریعہ سارے عرب کو مار رہے ہو، سارے ایران کو مار رہے ہو، سارے عراق کو مار رہے ہو، سارے ایشیا کو مار ایشیا کو مار رہے ہو، سارے افریقہ کو مار رہے ہو، سارے یورپ کو مار رہے ہو کیونکہ دنیا کی روحانی زندگی محمد صلى الل ولم محمد سے وابستہ ہے.پس تمہاری دشمنی اس سے نہیں بلکہ سارے جہان ہے.غرض ہر ایک جو ترقی کرتا ہے اس کے ظرف اور اس کی کوشش کے مطابق اس کے متعلقین بھی ترقی کرتے ہیں اور ہر ایک جو کرتا ہے اور اس کے گرنے سے اس کے مگر یہ صرف جسمانی طور پر ہے.متعلقین بھی کرتے ہیں اُخروی زندگی کو مد نظر رکھتے ہوئے اس طرح نہیں ہوتا کہ ایک شخص کے گرنے سے اس کے آباء اور رشتہ داروں کو بھی نقصان پہنچ جائے.مثلاً یہ نہیں ہو گا کہ کوئی شخص بڑا کافر ہو تو اس کی اولاد بھی اگر وہ کافر ہو اسی کے برابر عذاب پائے لیکن ایک کی ترقی سے دوسروں کو فائدہ ضرور پہنچے گا اور یہ قرآن کریم سے ثابت کہ اگر ایک انسان خود اچھا ہو تو اس کے ماں باپ اور دوسرے رشتہ داروں کو بھی اس کا فائدہ ہوتا ہے.چنانچہ قرآن کریم میں آتا ہے کہ جو لوگ اعلیٰ درجہ کے روحانی مقامات رکھنے والے ہوں گے.خدا تعالیٰ ان کے ماں باپ اور بیوی بچوں کو بھی اگر وہ مومن ہوں ان کے پاس ہی رکھے گا.3 حالانکہ ان کے عمل تھوڑے ہوں گے.اب دیکھو جو شخص اپنی زندگی میں اچھے اعمال بجالاتا ہے وہ ان اعمال سے صرف

Page 620

خطبات محمود 620 * 1941 اپنے آپ کو ہی روحانی لحاظ سے بلند نہیں کرتا بلکہ اپنے ماں باپ کو بھی بلند کرتا ہے.دنیا میں لوگ کتنی خواہش کرتے ہیں کہ کاش کوئی ایسا ذریعہ ہوتا جس سے ہم اپنے ماں باپ کی روحانی ترقی میں حصہ لے سکتے.اور کئی ہیں جو پوچھتے رہتے ہیں کہ ہمارے ماں باپ فوت ہو گئے ہیں یا بیوی فوت ہو گئی ہے یا بچے فوت ہو گئے ہیں ان کو ثواب پہنچانے کے لئے ہم کیا طریق اختیار کریں.ان کا جی چاہتا ہے کہ وہ دس روپے غریبوں کو دے دیں اور اس کے بدلہ میں ان کے ماں باپ کو جنت کے بلند ترین مقام پر پہنچا دیا جائے.ان کا جی چاہتا ہے کہ وہ کپڑوں کا ایک جوڑا صدقہ دے دیں اور اس کے نتیجہ میں ان کی بیوی یا ان کے بچوں کو جنت کے اعلیٰ ترین مقامات میسر آ جائیں.حالانکہ یہ عارضی راحت پہنچانے والی چیزیں ہیں اور ان کے بدلہ میں اگر اتنا بھی ثواب مل جائے کہ جنت کی خوشبو کسی کو سونگھا دی جائے تو یہی ثواب بہت بڑا ہے مگر جو گر خدا تعالیٰ نے قرآن مجید میں بتا دیا ہے اس کی طرف لوگ کوئی توجہ نہیں کرتے.کتنے ہیں جو کہتے رہتے ہیں کہ ہمارے ماں باپ مر گئے ہیں.ان کو کس طرح ثواب پہنچایا جائے.کتنے ہیں جو کہتے رہتے ہیں کہ ہمارے بچے فوت ہو گئے ہیں ہم ان کو کس طرح ثواب پہنچائیں.کتنے ہیں جو کہتے رہتے ہیں کہ ہماری بیویاں فوت ہو گئی ہیں.ہم کیا کریں جس کے نتیجہ میں انہیں جنت کے اعلیٰ مقامات حاصل ہوں.میں ان سب سے کہتا ہوں کہ آؤ میں تمہیں بتاؤں قرآن کریم میں لکھا ہے تم جنت کے جس درجہ میں ہو گے اسی درجہ میں تمہارے ماں باپ اور بیوی بچوں کو رکھا جائے گا.پس اگر تم ماں باپ کو فائدہ پہنچانا چاہتے ہو تو اپنے ماں باپ سے زیادہ نیک بنو، متقی بنو اور اللہ تعالیٰ کے قرب کی راہوں میں غیر معمولی طور پر بڑھنے کی کوشش کرو.پھر جنت کے جس اعلیٰ مقام کو لو گے.اللہ تعالیٰ تمہارے ماں باپ اور تمہارے بیوی بچوں کو اسی جگہ لا کر رکھ دے گا.مگر جو گر خدا نے بتایا ہے اس کی طرف تو لوگ توجہ نہیں کرتے اور چاہتے ہیں معمولی سی قربانی کے نتیجہ میں ان کے متعلقین کو جنت میں بہت بلند مقام حاصل ہو.

Page 621

خطبات محمود 621 : * 1941 جائیں.حالانکہ یہ ایسی ہی بات ہے جیسے کوئی مکھی مار کر دنیا کی فتح کا دعوی کرے.بے شک یہ بھی ایک اچھی چیز ہے اور مکھی جسم پر جب بیٹھتی ہے اور اس سے جو ناگواری پیدا ہوتی ہے وہ اس کے نتیجہ میں دور ہو سکتی ہے.مگر چند مکھیاں مارنے سے دنیا میں امن قائم نہیں ہو سکتا اور نہ چند مکھیاں مار کر دنیا کو فتح کیا جا سکتا ہے.اسی طرح صدقہ و خیرات سے مردہ ماں باپ کو فائدہ پہنچایا جا سکتا ہے، صدقہ و خیرات سے مردہ بیوی کو فائدہ پہنچایا جا سکتا ہے، صدقہ و خیرات سے مردہ خاوند کو فائدہ پہنچایا جا سکتا ہے، صدقہ و خیرات سے مردہ اولاد کو فائدہ پہنچایا جا سکتا ہے مگر جو چیز مرنے والے کو جنت کے بلند مقامات تک پہنچا سکتی ہے وہ یہی ہے کہ اولاد اپنے اولاد اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کا زیادہ مقرب بنائے تاکہ جس مقام پر اسے رکھا جائے اسی مقام پر اس کے ماں باپ کو بھی لا کر رکھ دیا جائے.اسی طرح بیوی اپنے آپ کو زیادہ نیک بنائے تاکہ جس مقام پر اسے رکھا جائے اسی مقام پر اس کے خاوند کو بھی لا کر رکھ دیا جائے.خاوند اپنے آپ کو زیادہ نیک بنائے تاکہ جس اعلیٰ مقام پر وہ پہنچے اسی تقام پر اس کی بیوی کو بھی خدا تعالیٰ لا کر رکھ دے.اگر اس رنگ میں ترقی کی جائے اور اللہ تعالیٰ کے قرب کو حاصل کیا جائے تو جو اعلیٰ مقام کسی انسان کو حاصل ہو گا اسی مقام پر اس کے والدین اور بیوی بچوں اور دوسرے رشتہ داروں کو بھی خدا تعالیٰ پہنچا دے گا.بشر طیکہ ان میں ایمان ہو اور انہوں نے اللہ تعالیٰ کی رضا کو حاصل کیا ہوا ہو.یہ گر ہے جو خدا تعالیٰ نے مردہ ماں باپ اور دوسرے رشتہ داروں کو فائدہ پہنچانے کے لئے قرآن کریم میں بیان کیا ہوا ہے.جب تک کوئی اس کی طرف توجہ نہیں کرتا اُس وقت تک اُس کا دوسرے طریقوں سے کام لینا ایسا ہی ہوتا قید خانہ میں کسی قیدی کو ان دنوں میں جبکہ گورنمنٹ کی طرف سے اجازت ہوتی ہے جیسے ہے تھوڑی سی مٹھائی پہنچا دی جائے.اس مٹھائی کے کھانے سے اسے وقتی طور پر تو راحت حاصل ہو جائے گی مگر پوری راحت حاصل نہیں ہو گی.پوری راحت اسے

Page 622

* 1941 622 خطبات محمود اسی وقت میسر آئے گی جب وہ قید سے آزاد ہو جائے گا.اسی طرح صدقہ و خیرات سے مرنے والے کو جو فائدہ پہنچتا ہے وہ عارضی ہوتا ہے.مستقل فائدہ اسی وقت حاصل ہوتا ہے جب وہ قریبی رشتہ دار جن سے وہ وابستہ ہوتا ہے اللہ تعالیٰ کے قرب میں اس سے زیادہ ترقی کر جائیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جب کوئی شخص اس طرح میرے قرب کو حاصل کر لے تو بشر طیکہ اس کے ماں باپ اور دوسرے رشتہ دار مومن ہوں ان کو بھی جنت میں ترقی دے دی جائے گی اور ان کو اسی مقام پر رکھا جائے گا جس مقام پر وہ ہے.روحانی ترقیات کے حصول کے متعلق ہمیں قرآن کریم سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اس کے دو دُور ہوتے ہیں.ایک انفرادی ترقی کا دور ہوتا ہے اور ایک دور وہ ہوتا ہے جب بندے کے ارادہ سے خدا تعالیٰ کا ارادہ مل جاتا ہے.جب انسان کی جد و جہد منفرد حیثیت رکھتی ہے اور انفرادی ترقی کا دور ہوتا ہے اس وقت اگر کوئی شخص کوشش کرتا ہے تو وہ اپنی کوشش کے مطابق ترقی تو کر لیتا ہے اور اس کی کوششوں کا پھل بھی اسے مل جاتا ہے مگر اُس وقت اس کی کوششیں ایسی ہوتی ہیں جیسے دریا کے بہاؤ کے خلاف کوئی تیرنے کی کوشش کرے.تم سمجھ سکتے ہو کہ جب کوئی شخص دریا کے بہاؤ کے خلاف تیرنے کی کوشش کرے گا اور اُدھر جانا چاہے گا جدھر سے پانی آ رہا ہو گا تو اسے کتنی مشکل در پیش آئے گی.اسی طرح انفرادی ترقی سخت محنت چاہتی ہے اور اس کے نتیجہ میں جو فائدہ حاصل ہوتا ہے وہ بہت معمولی ہوتا ہے.لیکن ایک دور وہ ہوتا ہے جب خدا یہ فیصلہ کر دیتا ہے کہ وہ دنیا کو بڑھائے اور اسے ترقی دے.اُس وقت جو شخص روحانی دریا میں تیرتا ہے اس کے تیرنے اور اس شخص کے تیرنے میں جو بہاؤ کے خلاف تیرتا ہے کوئی نسبت ہی نہیں ہوتی.جب کوئی شخص دریا کے بہاؤ کے خلاف تیرے گا تو خواہ وہ کتنا بڑا تیراک ہو گھنٹہ بھر میں سو دو سو گز سے زیادہ تیر نہیں سکے گا.لیکن اگر کوئی شخص بہاؤ کے رُخ پر تیرے تو وہ گھنٹہ بھر میں دو تین میل نکل جائے گا.اسی طرح جب بندے کے ارادے سے خدا تعالیٰ کا ارادہ مل جاتا ہے اُس وقت اس کی

Page 623

* 1941 623 خطبات محمود ترقی کے امکانات بہت بڑھ جاتے ہیں اور انسان کی معمولی کوشش کے نتائج بھی بہت شاندار نکلتے ہیں.گویا اس دور سے فائدہ اٹھانے والوں کی مثال ایسی ہی ہوتی جیسے کوئی ریل میں سفر کر رہا ہو.اور دوسرے دور والوں کی مثال ایسی ہی ہوتی ہے جیسے کسی نے بوجھ اٹھایا ہوا ہو اور پیدل سفر کر رہا ہو.پھر جس شخص کے لئے خد اتعالیٰ نے ریل میں سفر کرنے کے سامان مہیا کر دیئے ہوں وہ اگر اس میں سفر کرنے سے کوتاہی کرے تو اس سے زیادہ بد بخت اور کون ہو سکتا ہے.یہ دور جس میں بندوں کا ارادہ خدا تعالیٰ کے ارادہ کے ساتھ مل جاتا ہے اور خدا تعالیٰ خود چاہتا ہے کہ دنیا کو ترقی عطا کرے.انبیاء علیہم السلام کا دور ہوتا ہے جب خدا تعالیٰ کے انبیاء آتے ہیں اس وقت خدا تعالیٰ یہ فیصلہ کرتا ہے کہ وہ دنیا کو بڑھائے گا اور اسے روحانیت میں ترقی عطا کرے گا.پس ایسے وقت میں تھوڑی سی جد وجہد اور تھوڑی سی کوشش بھی انسان کو کہیں کا کہیں پہنچا دیتی ہے اور ذرا سی محنت کے نتیجہ میں بڑے بڑے شاندار نتائج پیدا ہو جاتے ہیں.چنانچہ دیکھ لو.آج سے پچاس ساٹھ سال پہلے بعض صوفیاء کہلانے والے بڑے بڑے مجاہدات کیا کرتے تھے.راتوں کو جاگتے، دنوں کو عبادتیں کرتے اور بڑی بڑی چلہ کشیاں کرتے مگر ان تمام ریاضتوں، تمام عبادتوں اور تمام کوششوں کے باوجود خالی ہاتھ رہتے اور خدا تعالیٰ کے الہام سے مشرف نہیں ہوتے تھے.مگر اب یہ ہے کہ اگر کوئی احمدی دو نفل بھی زیادہ پڑھ لے تو اس پر الہام نازل ہونے شروع ہو جاتے ہیں.یہ کتنا بڑا فرق ہے جو دکھائی دیتا ہے.ایک طرف تو وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنی عمریں عبادت اور مجاہدات میں صرف کر دیں مگر وہ الہام سے محروم رہے اور دوسری طرف احمدی ہیں کہ وہ چند نفل پڑھ کر ہی الہام سے مشرف ہو جاتے ہیں.یہ امتیاز اور تفاوت اسی وجہ سے ہے کہ اس وقت خدا بھی دنیا کو اپنی طرف لانا چاہتا ہے اور اُس کا منشاء ہے کہ دنیا میں روحانی حکومت قائم کی جائے.پس پہلے زمانہ کے لوگوں کی مثال ایسی تھی جیسے کوئی بوجھ اٹھا کر آسمان کی طرف حالت

Page 624

* 1941 624 خطبات محمود چڑھنا چاہے اور یہ وہ زمانہ ہے جس میں خدا نے خود آسمان سے رسی چھینکی ہے اور اس نے لوگوں سے کہہ دیا ہے کہ بس رستی پکڑ لو میں فوراً تمہیں آسمان پر کھینچ لوں گا.پس اب بندے کا کام صرف اُس رشتی کو ہاتھ ڈالنا ہے باقی تمام کام خدا تعالیٰ نے خود اپنے ذمہ لیا ہوا ہے.انبیاء علیہم السلام کا زمانہ خاص برکات کا زمانہ ہوتا ہے اور جو قومیں اس زمانہ میں کوتاہی سے کام لیتی ہیں وہ خطرناک الزام کی مورد بن جاتی ہیں.ہمارا یہ زمانہ بھی وہی ہے جبکہ روحانی ترقی کی طرف قدم اٹھانے والا بہاؤ کی طرف تیرنے والے کا حکم رکھتا ہے کیونکہ اس وقت خدا تعالیٰ کا منشاء ہے کہ خاص طور پر روحانی حکومت قائم کی جائے اسی روحانی حکومت کے قیام کے لئے خدا تعالیٰ اپنا مامور بھیجا ہے.اتنے لمبے انتظار کے بعد کہ دنیا اس کا انتظار کرتے کرتے تھک گئی تھی.رسول کریم صلی نیلم کی وفات کے بعد لوگوں نے انتظار کرنا شروع کیا کہ اب مسیح آتا ہے، اب مسیح آتا ہے.جب بھی ان پر کوئی بلا آئی انہوں نے سمجھا کہ اس کو دور کرنے کے لئے مہدی اور مسیح آئے گا.جب بھی وہ کسی مصیبت میں پھنسے ان کی نظریں اس امید کے ساتھ آسمان کی طرف اٹھیں کہ شاید ہمیں اس مصیبت سے نکالنے کے لئے مسیح آ جائے لیکن خدا نے اس نعمت کو تمہارے زمانہ کے لئے مقدر کیا ہوا تھا.پس یہ کتنا عظیم الشان فضل ہے کہ بغیر اس کے کہ ہماری طرف سے کوئی کوشش ہو بغیر اس کے کہ ہمارا کوئی استحقاق ہو اللہ تعالیٰ نے اس نعمت کو ہم میں نازل کیا جس طرح تمام دنیا محمد صلی علی کریم کی آمد کی منتظر تھی مگر اس شدید انتظار کے بعد عرب کے لوگوں کو یہ نعمت عطا کی گئی اور یہودی اس حسد کی وجہ سے جل اٹھے کہ یہ نعمت انہیں کیوں ملی ہمیں کیوں نہیں ملی.حالانکہ یہ خدا کی دین الله سة تھی اور وہ جسے چاہتا ہے دیتا ہے.اسی طرح خدا تعالیٰ کے فضل نے ہم میں وہ بھیجا جس کے زمانہ کا انبیاء تک شوق سے انتظار کرتے چلے آئے تھے.دوسروں کا کیا کہنا خود رسول کریم صلی اللیل ولیم کے شوق کو دیکھو.آپ فرماتے ہیں.اگر تمہیں مہدی ہے.

Page 625

* 1941 625 خطبات محمود کے مبعوث ہونے کی خبر ملے تو اس کے پاس اگر تمہیں گھٹنوں کے بل چل کر بھی جانا پڑے تو جاؤ اور اس کی بیعت کرو.4 پھر آپ نے فرمایا.اگر تمہیں مسیح مل جائے تو میرا بھی اس سے سلام کہنا.5 اس خادم کی کیا شان ہے جس کو سلام کہنے کا آقا اتنا مشتاق ہے کہ وہ لوگوں سے کہتا ہے میرا سلام یاد رکھنا اور اسے بھول نہ جانا.پھر سوچو.جس شخص کو سلام کہنے کا محمد صلی ال کلام کو اس قدر اشتیاق تھا اُس کی امت کے دلوں میں اس کے متعلق کتنا بڑا اشتیاق پیدا ہونا چاہئے تھا اور اس نعمت کے ملنے پر انہیں کتنا خوش ہونا چاہئے تھا.مجھے یاد ہے ایک دفعہ کوئی شخص باہر سے آیا.غالباً وہ گجرات کے ضلع کا رہنے والا تھا یا کسی اور ضلع کا مجھے اچھی طرح یاد نہیں.بہر حال وہ آیا اور اس نے بڑے شوق سے آگے بڑھ کر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو کہا السَّلَامُ عَلَيْكُمْ اور آپ سے مصافحہ کیا.تھوڑی دیر کے بعد اس نے پھر اپنے ہاتھ آگے بڑھائے اور السَّلَامُ عَلَيْكُمْ.لوگوں کو حیرت ہوئی کہ یہ کیسا عجیب انسان ہے اس نے پہلی دفعہ السَّلَامُ عَلَيْكُمْ کہہ دیا تھا تو اب دوبارہ اسے سلام کہنے کی کیا ضرورت تھی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام بھی اس پر حیران سے ہوئے اور آپ نے اس سے پوچھا کہ جب آپ ایک دفعہ السَّلَامُ عَلَيْكُمْ کہہ چکے تھے تو اب دوبارہ آپ نے کیوں سلام کیا ہے؟ وہ کہنے لگا.حضور پہلا سلام محمد صلی اللہ نام کی طرف سے تھا کیونکہ آپ نے فرمایا تھا کہ جب تم مسیح سے ملو تو اسے میر اسلام کہہ دینا.پس میں نے پہلی دفعہ رسول کریم صلی الم کا سلام آپ کو پہنچایا اور دوسری مرتبہ میں نے اپنی طرف سے آپ کو السَّلَامُ عَلَيْكُمْ کہا ہے.میں نہیں جانتا کہ اس شخص کا کیا نام تھا.میں اس وقت بچہ تھا جب یہ واقعہ ہوا.مگر میں جانتا ہوں کہ اس سادہ سے فعل سے اس نے اپنے لئے بہت بڑی برکتیں جمع کر لیں کیونکہ بعض دفعہ چھوٹی سی بات بڑے بڑے ثواب کا موجب بن جاتی ئب بن جاتی ہے اور بعض دفعہ چھوٹی سی بات بڑے بڑے عذاب کا موجب بن جاتی ہے.کیا چھوٹی سی بات تھی جو ایک مدینہ کے نوجوان کے

Page 626

* 1941 626 خطبات محمود ہونا ممنہ سے نکلی کہ خون تو ہماری تلواروں سے ٹپک رہا ہے مگر محمد صلی ا ہم نے غنیمت کے اموال مکہ والوں میں تقسیم کر دیئے.قوم میں جاہل بھی ہوتے ہیں، دینی تعلیم سے ناواقف بھی ہوتے ہیں، جلد باز بھی ہوتے ہیں.مگر بعض مواقع اس قسم کے فضلوں کے نزول کے ہوتے ہیں کہ خدا تعالیٰ چاہتا ہے قوم کا ہر فرد اچھی بات کرے.فتح مکہ کا وقت بھی ایسا ہی تھا.جب قوم کا ہر فرد خدا تعالیٰ کے حضور گرا ہوا چاہئے تھا اور دنیا کے مال کا خیال اس وقت کسی ایک فرد کے دماغ میں بھی نہیں آنا چاہئے تھا.رسول کریم صلی یی کم کو جب یہ بات پہنچی تو آپ نے انصار کو بلایا اور فرمایا اے انصار مجھے یہ خبر پہنچی ہے کہ تم میں سے بعض نے یہ کہا ہے کہ خون تو ہماری تلواروں سے ٹپک رہا ہے مگر محمد صلی اللہ کریم نے اموال اپنے رشتہ داروں میں تقسیم کر دیئے.انصار کو جو عشق رسول کریم صلی علیم سے تھا اس کا اندازہ دوسرے لوگ نہیں لگا سکتے.رسول کریم صلی اللی عوام کے منہ سے یہ فقرہ سننا تھا کہ بعض روایتوں میں آتا ہے کہ وہ ہچکیاں مار مار کر رونے لگ گئے اور انہوں نے کہا.یا رسول اللہ ہم میں سے ایک نادان نوجوان کے منہ سے یہ فقرہ نکلا ہے.آپ نے فرمایا اے انصار ! گو ایک نوجوان کے منہ سے نکلا مگر نکل تو گیا.پھر آپ نے فرمایا.اے انصار! تم کہہ سکتے ہو کہ محمد صلی الم کو اس کی قوم نے اپنے گھر سے نکال دیا تب ہم نے اسے پناہ دی اور جب اس کی قوم کے لوگ اسے قتل کرنے کے لئے آئے تو ہم نے اپنی جانیں دے کر اس کی حفاظت کی اور اپنی ہر چیز اس کے راستہ میں قربان کر دی.پھر ہماری مدد سے ہی اس نے ایک لشکر تیار کیا جس نے مکہ کو فتح کیا.مگر جب جب مکہ فتح ہو گیا تو محمد صلی الم نے اموال غنیمت تو اپنے رشتہ داروں کو بانٹ دیئے اور ہمیں کچھ نہ دیا.انصار نے پھر روتے ہوئے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ہم یہ نہیں کہتے.ہم میں سے ایک نادان نوجوان نے یہ الفاظ کہے ہیں.آپ نے فرمایا اے انصار! اس بات کا ایک را پہلو بھی تھا اور تم اگر چاہو تو یہ بھی کہہ سکتے تھے کہ اللہ تعالیٰ کا ایک رسول آیا جسے قبول کرنے کی خدا نے ہمیں توفیق عطا فرمائی پھر اس نے ہمیں اس بات کی بھی

Page 627

* 1941 627 خطبات محمود پر توفیق بخشی کہ ہم نے اس کی مدد اور نصرت کی.یہاں تک کہ خدا نے اپنے دین کو غالب کیا اور وہ مکہ جو مخالفت کا گڑھ تھا فتح ہو گیا.جب مکہ فتح ہوا تو مکہ کے لوگوں کے دلوں میں خیال آیا کہ شاید ان کی کھوئی ہوئی نعمت پھر انہیں واپس مل جائے گی اور وہ رسول جس کو انہوں نے رڈ کر دیا تھا پھر ان کے شہر میں واپس آ جائے گا.مگر ہوا یہ کہ مکہ کے لوگ تو اونٹ ہانک کر اپنے گھروں میں لے گئے اور مدینہ کے لوگ خدا کے رسول کو اپنے ساتھ لے گئے.پھر آپ نے فرمایا اے انصار !بے شک تم میں سے ایک نوجوان نے یہ بات کہی ہے مگر اس کے نتیجہ میں اب یہی مقدر ہے کہ دنیا میں تم کو کوئی نعمت نہیں ملے گی.تم اپنا حصہ اب مجھ سے اب مجھ سے حوض کوثر ہی آکر لینا.چنانچہ آج تک انصار میں سے کسی کو حکومت نہیں ملی.تو وقت وقت کی بات ہوتی ہے بعض دفعہ ایک چھوٹی سی خدمت انسان کو بہت بلند مدارج تک پہنچا دیتی ہے اور بعض دفعہ ایک چھوٹی سی بات انسان کو تحت الثریٰ میں گرا دیتی ہے.پس ایسے وقت میں جب خدا دنیا کی اصلاح کے لئے کسی نبی کو بھیجتا ہے.ترقی کے دروازے بہت کُھلے ہوتے ہیں اور جو لوگ تھوڑی سی خدمت بھی کرتے ہیں ان کی خدمت کو وہ خوب بڑھاتا اور انہیں مدارج پر مدارج عطا کرتا ہے.مگر ساتھ ہی سزا کے دروازے بھی بہت کھلے ہوتے ہیں کیونکہ اس وقت جو شخص سستی کرتا ہے وہ خدا تعالیٰ کے ارادہ کے رستہ میں روک بنتا ہے اور وہ اس کچی دیوار کے مشابہہ ہوتا ہے جو دریا کے بہاؤ کے منہ پر بنائی جائے.تم جانتے ہو کہ دریا کے مقابلہ میں اس کا کیا حال ہو گا.اس کا تو کیچڑ بھی نظر نہیں آئے گا اور کوئی چیز اسے برباد ہونے سے بچا نہیں سکے گی.پس ایسے زمانہ میں جہاں اللہ تعالیٰ کے انعامات کے دروازے کھلے ہوتے ہیں.وہاں اگر کوئی ایسے کام کرتا ہے جن سے ترقی میں روک واقع ہوتی ہے تو وہ خدا تعالیٰ کی گرفت میں آ جاتا ہے.اس وقت بھی خدا تعالیٰ کا ایک خاص ارادہ ظاہر ہوا ہے اور اُس نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ احمدیت کے ذریعہ رسول کریم صلی ایم کی حکومت کو پھر دنیا میں قائم کرے.

Page 628

* 1941 628 خطبات محمود پس آج اسلام کے مٹے ہوئے نقشوں کو پھر تازہ کرنے کا خدا تعالیٰ نے تہیہ کر لیا ہے.پھر اس کی گری ہوئی دیواروں کو فرشتے نئے سرے سے کھڑا کر رہے ہیں.چنانچہ یا حالت تھی کہ دشمن کا ہر حملہ جو اسلام کی دیواروں پر ہوتا تھا کامیاب ہوتا نظر آتا تھا اور خیال کیا جاتا تھا کہ اگر وہ ایک طرف سے دھکا دے گا تو دیوار کی دوسری طرف کو بھی نقصان پہنچ جائے گا اور یا یہ حالت ہے کہ اب اسلام کی دیواریں پھر مضبوط ہو رہی ہیں اور پھر اس میں ایسی طاقت پیدا ہو گئی ہے کہ دنیا کے سر اس سے ٹکرا ٹکرا کر ٹوٹ جائیں گے.مگر اس کو نقصان نہیں پہنچا سکیں گے.بے شک اس وقت اس کی نشو و نما ایک کونپل کی طرح ہے مگر وہ چٹان بھی جس کو توڑنے کے لئے انجن لگا دیئے جائیں خطرہ میں ہوتی ہے اور وہ کونپل جس کی حفاظت کے لئے خدا تعالیٰ کے فرشتے پہرہ دے رہے ہوں خطرہ میں نہیں ہوتی.پس بے شک اسلام اس وقت ایک کونپل کی شکل میں ہے اور دشمن کی طاقت چٹانوں کی طرح مضبوط ہے.مگر ان چٹانوں کو فرشتے توڑ رہے ہیں اور اس کونپل کی وہ ننگی تلواروں سے حفاظت کر رہے ہیں.پس اب اسلام روز بروز بڑھتا چلا جائے گا.اور کیا عیسائیت اور کیا یہودیت اور کیا ہندو مت اور کیا بدھ مت سب اس سے ٹکرا ٹکرا کر پاش پاش ہو جائیں گے.اور روحانی طور پر پھر اس کے نفوذ کو دنیا کے کناروں تک پہنچایا جائے گا اور پھر تمام ادیان پر یہ دین غالب آئے گا اور پہلے سے زیادہ شان اور زیادہ عظمت کے ساتھ غالب آئے گا.کیونکہ یہی وہ زمانہ ہے جس کی نسبت قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ هُوَ الَّذِي أَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدَى وَدِينِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِهِ یعنی خدا نے محمد صلی ال نیم کو اس لئے مبعوث کیا ہے تا اس کے لائے ہوئے دین کو تمام دنیا کے مذاہب پر غالب کرے اور دلائل و براہین کی رو سے اسلام کی برتری اور فوقیت تمام مذاہب پر ثابت کر دے.دیکھو اس آیت میں بھی کیا ہی لطیف طور پر اس امر کی طرف اشارہ کیا گیا تھا کہ یہ غلبہ اُس زمانہ میں ہو گا جب مسلمانوں کے ہاتھ میں صرف تبلیغ کا

Page 629

* 1941 629 خطبات محمود ہتھیار ہو گا، تلوار نہیں ہو گی.محمد صلی ال نیلم کے زمانہ میں مسلمانوں کی ظاہری فتوحات مذہبی فتوحات سے پہلے ہوا کرتی تھیں.مکہ کو مسلمانوں نے پہلے فتح کیا اور بعد میں سة مکہ کے لوگوں نے اسلام قبول کیا، مسجد کو پہلے رسول کریم صلی الم نے فتح کیا مگر مجد کے رہنے والے بعد میں مسلمان ہوئے.اسی طرح شام کو مسلمانوں نے پہلے فتح کیا اور شام کے رہنے والے بعد میں مسلمان ہوئے، عراق کو مسلمانوں نے پہلے فتح کیا اور عراق کے رہنے والے بعد میں مسلمان ہوئے مگر اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں یہ وعدہ کیا تھا کہ اسلام کی یہ فتح دینوں پر ہو گی اور دینوں پر فتح تبلیغ سے ہی ہوتی ہے دو ނ تلوار سے نہیں ہوتی.پس اس آیت میں ایسے ہی زمانہ کا ذکر تھا جس میں تبلیغ.کام لیا جانے والا تھا.اور وہ زمانہ یہی ہے جس میں سے ہم اس وقت گزر رہے ہیں.میں نے محمد رسول اللہ صلی اللی عوام کے حق میں اس پیشگوئی کے پورا کرنے میں مدد دینے کے لئے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ جو خدائی وعدہ ہے کہ “میں تیری تبلیغ کو زمین کے کناروں تک پہنچاؤں گا.” 8 اس کو پورا کرنے کے لئے تحریک جدید کا اجراء آج سے سات سال پہلے کیا.اور میں نے اپنی طرف سے بغیر کسی نفس کی ملونی کے وہ تمام باتیں جن کو میں قرآن کریم، احادیث اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تعلیم کی روشنی میں اسلام کے لئے مفید اور محمد سمجھتا تھا چن کر جماعت کے سامنے پیش کر دیں.اب یہ اللہ تعالیٰ کا کام ہے کہ وہ اس تحریک کو پہلے تمہارے اندر اور پھر باقی تمام دنیا میں کامیاب کرے.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ یہ راستہ ہے اور اس پر چلنا ہمت طلب کام ہے اور اس میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ بعض دوستوں نے پہلے جوش کا اظہار کیا مگر بعد میں اپنے جوش اور قربانی کی روح کو انہوں نے قائم نہیں رکھا.گویا ایسے بھی ہیں جو صداقت اور راستی سے اس راستہ پر چلتے چلے جاتے ہیں جس کو انہوں نے اختیار کیا.مگر بعض ایسے بھی ہیں جن سے اس راستہ میں کو تاہیاں سرزد ہوئیں.مگر بہر حال ہمارا فرض یہی ہے کہ جس کام کی ذمہ داری خدا نے ہم پر ڈالی ہے ہم اسے کئے جائیں اور راستہ کی مشکلات اور

Page 630

خطبات محمود 630 * 1941 صعوبتوں سے نہ گھبر ائیں.سپاہی کا کام یہ نہیں ہوتا کہ وہ فتح پا کر لوٹے.فتح خدا کے اختیار میں ہوتی ہے سپاہی کا کام لڑنا ہوتا ہے.چاہے لڑائی میں اسے فتح حاصل ہو یا لڑتا لڑتا مارا جائے.پس فتح میرے اختیار میں نہیں.جس چیز کی میرے خدا نے مجھے مقدرت دی ہے وہ یہ ہے کہ میں اس کے فضل سے اس لڑائی کو جاری رکھوں.یہاں تک کہ موت آ جائے یا اس لڑائی کے نتیجہ میں فتح حاصل ہو جائے.عواقب کا مجھے خیال نہیں، نتیجہ کی مجھے پرواہ نہیں.یہ خدا کی چیز ہے اور اس کا ذمہ دار وہ آپ ہے.مجھے صرف اس امر کا خیال ہے کہ میں اور دوسرے وہ لوگ جنہوں نے اس لڑائی میں حصہ لیا ہے ایسی دیانتداری کے ساتھ اپنے فرض کو ادا کریں کہ ہم خدا سے یہ کہہ سکیں کہ اے خدا! ہم تیرے جلال کے اظہار اور تیرے دین کے غلبہ کے لئے اپنی ہر ممکن کوشش صرف کرتے رہے ہیں.اب ہماری کوششوں کا انجام تیرے ہاتھ میں ہے.تو اپنے فضل سے ہمارے غلبہ کے سامان پیدا فرما دے.میرا یہ مطلب نہیں کہ ممکن ہے ہمیں کبھی شکست ہو جائے.یہ قطعی طور پر ناممکن ہے مگر پھر بھی میں یہ کہتا ہوں کہ ہمارے دل کے کسی گوشہ میں بھی یہ خیال نہیں آنا چاہئے کہ ہم فتح حاصل کرنے کے لئے لڑرہے ہیں.ہم صرف اس لئے لڑ رہے ہیں کہ اپنا حق ادا کر دیں اور اس عہد کو پورا کر دیں جو ہم نے اپنے خدا سے کیا ہے.باقی اس کے نتائج اگر ہماری زندگی میں نکل آئے تو ہم اپنی آنکھوں انہیں دیکھ لیں گے اور اگر زندگی میں نہ نکلے تو ہماری موت کے بعد خدا کا منشاء پورا ہو سے جائے گا اور مجاہد ہونے کا جو ثواب ہمیں خدا نے عطا کرنا ہے وہ اس کی بارگاہ ہمیں آخرت میں مل جائے گا.بہر حال آج اس تحریک کے مالی مطالبات کا آٹھواں سال شروع ہوتا ہے اور میں اس خطبہ کے ذریعہ اس کے آغاز کا اعلان کرتا ہوں.سات سال تحریک جدید پر گزر چکے ہیں اور اب آٹھواں سال شروع ہوتا ہے.میں نے اس تحریک کا دس سال کے لئے اعلان کیا تھا.جس میں سے سات سال گزر چکے ہیں.گویا دو تہائی سے زیادہ عرصہ گزر گیا ہے اور اب ایک تہائی سے بھی کم وقت باقی رہ.

Page 631

* 1941 631 خطبات محمود گیا ہے.پس اب اس حصہ عمل کی منزل خدا تعالیٰ کے فضل سے قریب آگئی ہے.گو مومن کا عمل دنیا میں کبھی ختم نہیں ہوتا.وہ لوگ جو اپنے آگے نکل جانے والے بھائیوں سے سات سال پیچھے رہ گئے ہیں.اگر ان کے دلوں میں ایمان پایا جاتا ہے تو آج وہ کس حسرت سے یہ دیکھ رہے ہوں گے کہ قافلہ سات سال آگے نکل گیا اور ہم پیچھے رہ گئے.آج انہیں خیال آتا ہو گا کہ ان سات سالہ قربانیوں کے نتیجہ میں یہ لوگ مرے تو نہیں، یہ لوگ تباہ اور برباد تو نہیں ہوئے.دنیوی لحاظ سے بھی ان کے گزارہ میں کوئی خاص مشکلات پیدا نہیں ہوئیں.پس آج ان کے دلوں میں کس قدر حسرت پیدا ہو رہی ہو ہم قافلہ میں شامل نہ ہوئے اور وہ سات سال آگے نکل گیا.مگر وہ لوگ جو اس تحریک میں شامل ہوئے آج خوش ہیں کیونکہ ان کی منزل ان کے قریب تر ہو گئی ہے.لیکن ان لوگوں کی اس حسرت کا علاج میرے پاس کوئی نہیں.ہاں ان لوگوں پر بہت بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے جو ابتدا سے اس تحریک میں شامل رہے ہیں کیونکہ اگر وہ اپنی غفلت اور کوتاہی سے سرے پر پہنچ کر گر جائیں گے تو یہ بہت بڑے افسوس کا مقام ہو گا.کسی شاعر نے کہا ہے.قسمت میری دیکھئے ٹوٹی کہاں کمند رو چار ہاتھ جبکہ لب بام رہ گیا پس بے شک ان لوگوں کو بھی بڑی حسرت ہو گی جو اس سفر میں شریک نہیں ہوئے اور پیچھے رہ گئے ہیں.وہ آج اپنے ارد گرد نظر ڈالتے ہوں گے تو خیال کرتے ہوں گے کہ اس تحریک میں شامل ہونا کونسی بڑی بات تھی مگر اس سے بھی زیادہ حسرت اُس شخص کو ہوتی ہے جو لب بام پہنچ کر گر جائے.وہ تو یہ خیال کر رہا ہو کہ اب میں صرف ہاتھ اوپر کروں گا تو چھت پر پہنچ جاؤں گا مگر عین اُس وقت رتی ٹوٹے اور وہ نیچے گر جائے اور پھر ناکامی کا منہ دیکھنے لگ جائے.اس پیاسے کو بھی بڑی تکلیف ہوتی ہے جسے پانی نہ ملے.مگر اُس شخص کو تو بہت ہی تکلیف ہوتی :

Page 632

* 1941 632 خطبات محمود ہے جو پانی پینے کے لئے آبخورا اپنے مُنہ سے لگا لے اور اچانک کوئی دوسرا اس سے آبخورا چھین کر لے جائے.پس وہ لوگ جنہوں نے اس میدان میں اپنا قدم بڑھایا ہوا ہے اور جو گزشتہ سات سال سے قربانی کرتے چلے آ رہے ہیں میں ان کو بتاتا ہوں کہ ان کے لئے یہ بہت نازک ایام ہیں.اب ایک لمبے عرصہ کا بھیانک خیال کہ ہمیں دس سال مسلسل قربانی کرنی پڑے گی ان کے دلوں سے جاتا رہا ہے اب وہ زمانہ آ گیا ہے جس کے متعلق ان کے ذہن میں یہی آسکتا ہے کہ اب حصہ گزر چکا ہے اور منزل قریب آگئی ہے.آج اس منزل میں تین سال کا عرصہ اور رہتا ہے.پھر جن کو خدا تعالیٰ نے توفیق عطا فرمائی اور زندگی دی انہیں ایک سال گزرنے کے بعد دو سال باقی نظر آئیں گے اور جنہوں نے دو سال گزار لئے انہیں صرف ایک سال جو آخری سال ہو گا دکھائی دے گا اور پھر اس ایک سال کے بعد وہ دن آئے گا جب تمام سال گزر چکے ہوں گے.تب ان کا دل خوشیوں سے معمور ہو گا اور وہ اس بات پر خدا تعالیٰ کا شکر بجا لائیں گے کہ اس نے اپنے فضل سے انہیں اس لمبی قربانی میں شمولیت کی توفیق عطا فرمائی.مگر وہ لوگ جنہوں نے دس سال پہلے اس تحریک میں شمولیت کے لئے قدم نہیں اٹھایا ہو گا ان کے دل حسرت و اندوہ سے بھر جائیں گے.اس تحریک کے پہلے تین سالوں میں جماعت نے بہت بڑھ چڑھ کر حصہ لیا تھا اس کے بعد جب اسے دس سال میں پھیلا دیا گیا تو میں نے اس قدر زور نہ دیا اور نہ جماعت نے اس تیز گامی کو قائم رکھا جو سالوں میں تھی.میں نے یہ سمجھا کہ ہر تحریک میں قبض و بسط کا زمانہ ہوتا ہے.ان درمیانی چار سالوں کو قبض کا زمانہ ہی سمجھ لو.چنانچہ میں نے ایسے قانون بنا دیئے جن کے نتیجہ میں ہر سال چندہ میں معمولی زیادتی کر کے بھی انسان سَابِقُونَ میں شامل ہو سکتا ہے.مثلاً میں نے کہا کہ اگر کسی نے پہلے سال پانچ روپے دیئے ہوں تو رے سال وہ پانچ روپے ایک پیسہ، تیسرے سال پانچ روپے دو پیسے.اور چوتھے سال پانچ روپے تین پیسے دے سکتا ہے.اور میں نے چندہ میں خاص طور پر زیادتی کرنے کے

Page 633

* 1941 633 خطبات محمود متعلق زور نہ دیا.لیکن اب جبکہ 2/3 حصہ سے زیادہ گزر چکا ہے.میں آٹھویں سال کی تحریک کا اعلان کرنے کے ساتھ پھر جماعت کو نصیحت کرتا ہوں کہ اب ان تین سالوں اور میں وہ پھر سابقون کی سی تیز گامی اختیار کریں.اب منزل قریب آ رہی ہے قربانی کے ان بابرکت ایام کا دوبارہ میسر آنا ان کے لئے بہت مشکل ہو گا کیونکہ اس قسم کی تحریک بہت کم ہوتی ہے اور بہت ہی نازک دوروں میں ہو سکتی ہے.شاید اللہ تعالیٰ اس عرصہ میں جنگ کا خاتمہ کر دے اور اسی عرصہ میں ایسے حالات پیدا کر دے جو اسلام اور احمدیت کے لئے مفید ہوں.اور پھر ہمیں اس قسم کے چندوں کی ضرورت نہ رہے.اُس وقت خواہ کوئی شخص کتنی بڑی مالی قربانی کرے گا اور خواہ دس لاکھ روپیہ سلسلہ کے سامنے لا کر رکھ دے گا اس روپیہ کا اسے وہ ثواب نہیں ملے گا جو آج چند روپے دینے والوں کو ثواب مل سکتا ہے.پس میں ان آخری تین سالوں کی تحریک میں سے پہلے سال کی تحریک کرتے ہوئے پھر دوستوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ وہ بیدار ہو جائیں اور سمجھ لیں کہ ان کی منزل ان کے قریب آ گئی ہے.اب کسی لمبی قربانی کا سوال نہیں بلکہ صرف تین سال قربانی کرنے کا مطالبہ ہے.اس لئے وہ صرف اتنی کوشش نہ کریں جو انہیں قربانی کے کم سے کم معیار پر رکھے بلکہ تین سال کا عرصہ چونکہ نہایت محدود عرصہ ہے اور جلدی ختم ہو.اور جانے والا ہے اس لئے ان کو چاہئے کہ وہ زیادہ زور اور زیادہ ہمت سے کام لیں اس سال پھر وہ اپنی قربانی کی رفتار کو بڑھا دیں جیسے دن ڈوبتے وقت گھر کا کام کرنے والا مزدور زیادہ محنت سے کام کرتا ہے.اجرت پر کام کرنے والا مزدور تو سارا دن ہی سستی سے کام کرتا ہے مگر جن کے اپنے گھر کا کام ہو وہ جب دیکھتے ہیں کہ سورج غروب ہونے والا ہے تو زیادہ تن دہی اور زیادہ محنت سے کام کرنے لگ جاتے ہیں اور خیال کرتے ہیں کہ اب تو دن ڈوبنے والا ہے.اب ہمیں زیادہ محنت کام کر کے اسے جلدی ختم کر دینا چاہئے.اسی طرح اس تحریک کا دن بھی اب ڈوبنے والا ہے.یعنی وہ کام ختم ہونے والا ہے جس میں شمولیت کی جماعت کے

Page 634

* 1941 خطبات محمود 634 دوستوں کو تحریک کی جا رہی تھی ورنہ یوں قربانیاں کبھی ختم نہیں ہو سکتیں.وہ جاری رہیں گی اور کسی نہ کسی صورت میں جماعت سے ان قربانیوں کا مطالبہ ہمیشہ گا.اس وقت سوال ایک معین قربانی کا ہے اور یہ قربانی تین سال کے رہے ، کام بعد ختم ہو جائے گی.پس جس طرح دن ڈوبتے وقت مزدور زیادہ محنت سے کرنے لگ جاتا ہے اسی طرح چونکہ تحریک کے مالی قربانی کے حصہ کا دن اب ڈوبنے والا ہے اس لئے پہلے سے بھی زیادہ زور سے کام کرو تاکہ شام سے پہلے کام ختم ہو جائے.دنیا میں انسان جب یہ سمجھتا ہے کہ اب وہ اپنی زندگی کے آخری لمحات میں گزر رہا ہے تو وہ خدا تعالیٰ کو خوش کرنے کی زیادہ کوشش کیا کرتا ہے.اسی طرح ان تین سالوں میں خدا تعالیٰ کو جس قدر خوش کرنا چاہتے ہو خوش کر لو کہ نہ معلوم پھر ایسا موقع میسر آئے یا نہ آئے.میں نے جماعت کے دوستوں کو بارہا بتایا ہے کہ اس سرمایہ سے ایک بہت بڑی جائداد پیدا کی جا رہی ہے جس کی آمد تحریک جدید کے اغراض اور اشاعت دین پر صرف کی جائے گی.پس ہمیں کوشش کرنی چاہئے کہ تحریک جدید کی میعاد کے ختم ہوتے ہی یہ جائداد کلی طور پر آزاد ہو جائے.اس جائداد کو ہم نے اقساط پر خریدا ہوا ہے اور تمام اقساط کی ادائیگی اسی صورت میں ہو سکتی ہے جب پھر ہماری جماعت کے تمام دوست کمر ہمت گس کر کھڑے ہو جائیں اور ان آخری تین سالوں میں زیادہ سے زیادہ مالی قربانی کا نمونہ پیش کریں.وعدوں کے لحاظ سے بھی اور پھر ان وعدوں کو بروقت پورا کرنے کے لحاظ سے بھی.میں نے اس تحریک میں جیسا کہ شخص میں نے بتایا ہے بعض قواعد مقرر کئے تھے اور میں نے کہا تھا کہ جو چندہ کوئی سال دے اس پر ہر سال اگر معمولی زیادتی بھی کرتا چلا جائے تو وہ سَابِقُونَ میں شامل ہو جائے گا.میں سمجھتا ہوں میری اس تحریک پر قریباً ہر احمدی نے اپنے چندے کو اس رنگ میں بدل دیا ہے کہ وہ اپنے چندہ میں ہر سال کچھ نہ کچھ اضافہ کرتا.گو وہ اضافہ کیسا ہی معمولی کیوں نہ ہو اور اگر بعض نے ابھی تک اس رنگ میں

Page 635

* 1941 635 خطبات محمود اپنے چندوں کو نہیں بدلا تو میں خیال کرتا ہوں کہ وہ اب بدل دیں گے اور انہی لوگوں کی لسٹ میں آنے کی کوشش کریں گے جو ہر سال پہلے سال سے اضافہ کے ساتھ پیش کرتے ہیں.مگر بعض لوگوں نے اس کے مفہوم کے سمجھنے میں سخت غلطی کی ہے ہے اور انہوں نے اس قانون سے ایسے رنگ میں فائدہ اٹھانا چاہا ہے جو نہیں.یعنی انہوں نے اتنے الفاظ کو تو لے لیا کہ ہر دفعہ چندہ بڑھا دیا جائے انہوں نے اس امر کو مد نظر نہیں رکھا کہ ان کا چندہ قربانی والا چندہ ہے یا نہیں.مثلاً ہماری جماعت میں بعض ایسے لوگ بھی پائے جاتے ہیں جن کی آمد سو یا ڈیڑھ سو روپیہ ماہوار ہے مگر انہوں نے پہلے سال کا چندہ پانچ روپیہ دے دیا ہے.دوسرے سال انہوں نے پانچ روپے ایک آنہ دے دیا.تیسرے سال انہوں نے پانچ روپے دو آنے دے دیئے اور چوتھے سال پانچ روپے تین آنے دے دیئے.اب بظاہر تو وہ بھی سابقون میں ہی شامل ہیں اور دسویں سال پانچ روپے نو آنے چندہ دے کر وہ سَابِقُونَ کی اس ظاہری لسٹ میں شامل ہو جائیں گے جو ہم تیار کریں گے.مگر اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے کہ ان کی قربانی کی کیا حقیقت ہے.یہ لوگ بظاہر بڑھا کر چندہ دینے والے ہیں مگر خدا تعالیٰ کی نگاہ میں بڑھا کر دینے والے نہیں ہو سکتے کیونکہ وہ اپنی سالانہ آمد کا ایک فیصدی حصہ چندہ میں دیتے ہیں جو ایک نہایت ہی ادنیٰ قربانی ہے.اب تو ہم نے سینما دیکھنے کی ممانعت کی ہوئی ہے لیکن اس سے پہلے یہی سو اور ڈیڑھ سو روپیہ ماہوار آمد رکھنے والے سال بھر میں پانچ دس روپے سینما دیکھنے پر ہی خرچ کر دیا کرتے تھے.پھر کئی چھوٹی چھوٹی چیزیں ہوتی ہیں جن پر وہ اس سے بہت زیادہ روپے خرچ کر دیا کرتے ہیں مگر جب اللہ تعالیٰ کی راہ میں قربانی کا سوال آتا ہے تو وہ پانچ یا دس روپے سے زیادہ قربانی نہیں کر سکتے.ایسے لوگوں کو بیشک میں قاعدہ کی رو سے کچھ نہیں کہہ سکتا مگر ان کے تقویٰ کی طرف ان کو توجہ دلاتا وں.بے شک وہ ظاہری طور پر اپنا چندہ زیادہ کرنے والے تو ہیں لیکن وہ سوچیں کہ کیا خدا تعالیٰ کی نگاہ میں بھی وہ اعلیٰ درجہ میں شامل ہیں؟ جب وہ سینما پر اس سے

Page 636

خطبات محمود 636 * 1941 زیادہ خرچ کر دیا کرتے تھے، جب وہ گھر کی اور بیسیوں چھوٹی چھوٹی ضروریات پر اس سے بہت زیادہ روپیہ خرچ کر دیا کرتے ہیں.تو اللہ تعالیٰ کے حضور ان کی یہ قربانی کس طرح قبول کی جا سکتی ہے جو ادنیٰ سے ادنیٰ قربانی ہے.در حقیقت وہی لوگ قربانی کرنے والے ہیں جو قربانی کے بوجھ کو محسوس کریں لیکن اگر کوئی شخص سو یا ڈیڑھ سو روپیہ ماہوار آمد رکھتا ہو اور وہ پانچ روپے خدا تعالیٰ کے رستہ میں دے دے تو کس طرح کہا جا سکتا ہے کہ اس نے ایسی مالی قربانی کی ہے جس کے بوجھ کو اس نے محسوس کیا ہے.اس کے معنے تو یہ ہیں کہ وہ سو یا ڈیڑھ سو روپیہ ماہوار لے کر سات آنے ماہوار کی قربانی کرتا ہے حالانکہ اس سے زیادہ وہ اپنی چوڑھی کو دے دیتا ہے.مگر باوجود اس کے کہ وہ خدا تعالیٰ کے سامنے وہ چیز پیش کرتا ہے جو اس کا چوڑھا بھی قبول کرنے کے لئے تیار نہیں ہو سکتا.وہ خدا تعالیٰ کے سامنے وہ چیز پیش کرتا ہے جو اس کا دھوبی بھی قبول کرنے کے لئے تیار نہیں ہو سکتا.پھر بھی وہ سمجھتا ہے کہ اس کا نام خدا تعالیٰ کی بارگاہ میں ان لوگوں میں لکھا ہونا چاہئے جنہوں نے اس کا قرب حاصل کیا اور جن پر اس کے غیر معمولی فضل نازل ہوں گے.تو یہ ایک بڑی بھاری غلطی ہے جو بعض دوستوں کو لگی ہوئی ہے کہ انہوں نے پہلے سال کا چندہ اپنی استطاعت سے بہت کم دے کر اسے بڑھانا شروع کر دیا.حالانکہ یہ رعایت صرف ان لوگوں کے لئے تھی جنہوں نے پہلے تین سالوں میں بہت زیادہ چندہ دے دیا تھا.اور اب ان کے لئے اسی نسبت سے مسلسل دس سال قربانی کرتے چلے جانا مشکل تھا.پس ایسے لوگ جنہوں نے اپنی تمام کی تمام پونجی سال یا ابتدائی تین سالوں میں دے دی تھی یا وہ لوگ جنہوں نے اپنی حیثیت سے بڑھ کر چندہ دے دیا تھا ان کو آئندہ اس تحریک میں شامل رکھنے کے لئے ضروری تھا کہ ان سے رعایتیں کی جاتیں تاکہ وہ لوگ جنہوں نے قربانی کا نہایت اعلیٰ نمونہ دکھایا تھا وہ اپنی مجبوری کی وجہ سے دوسروں سے پیچھے نہ رہ جائیں مگر اس

Page 637

* 1941 637 خطبات محمود سے ان لوگوں کا فائدہ اٹھا لینا جو اپنی حیثیت اور اپنی مالی وسعت کے مقابلہ میں بہت کم قربانی کر رہے ہیں.یہ انسانوں کی نگاہ میں تو بے شک اچھا بن جانے والی بات ہے مگر خدا تعالیٰ کی نگاہ میں انہیں اچھا نہیں بنا سکتی.جیسا کہ میں نے بتایا ہے اس چندہ میں حصہ لینے والے وہ لوگ بھی تھے جنہوں نے ایک سال میں دو دو ماہ کی آمد دے دی تھی.اسی طرح اس میں ایسے لوگ بھی شامل تھے جنہوں نے اپنا اندوختہ دے دیا تھا.ان لوگوں کے ساتھ میں نے یہ رعایت کر دی تھی کہ وہ اپنا سارا اندوختہ دے چکے ہیں یا اپنی حیثیت سے بہت بڑھ کر مالی قربانی کر تمام چکے ہیں اس لئے ان کے چندوں کو یا تو باقی سالوں میں پھیلا لیا جائے اور یا پھر سال انہوں نے جس قدر چندہ دیا تھا اسی قدر چوتھے سال دے دیں اور پھر ہر سال اس پر زیادتی کرتے چلے جائیں.مگر ان کے علاوہ ہماری جماعت میں خدا تعالیٰ کے فضل سے ایسے لوگ بھی ہیں جو اپنی ایک ماہ کی آمد سے زیادہ چندہ دیتے ہیں بلکہ ایسے بھی ہیں جو قریباً دو ماہ کی آمد کے برابر اس میں چندہ دیتے ہیں.اسی طرح بعض اپنی ماہوار آمد کا نوے فیصدی چندہ دیتے ہیں بعض اپنی ماہوار آمد کا اسی فیصدی چندہ دیتے ہیں.بعض اپنی ماہوار آمد کا ستر فیصدی چندہ دیتے ہیں.بعض اپنی ماہوار آمد کا ساٹھ فیصدی چندہ دیتے ہیں اور بعض اپنی ماہوار آمد کا پچاس فیصدی چندہ دیتے ہیں.مگر جیسا کہ میں نے بتایا ہے بعض ایسے لوگ بھی ہیں جنہوں نے صرف پانچ روپے چندہ دے ے کر اسے بڑھانا شروع کر دیا اور سمجھ لیا کہ وہ سَابِقُونَ میں شامل ہو گئے ہیں.ایسے لوگوں کی اگر سو روپیہ ماہوار آمد ہے اور وہ پانچ روپیہ چندہ دیتے ہیں تو اس کے معنے یہ ہوئے کہ وہ بارہ سو روپیہ سالانہ آمد پر صرف پانچ روپے چندہ دیتے ہیں.اگر وہ فی سینکڑہ صرف آٹھ آنے چندہ دیتے تب بھی چھ روپے بنتے مگر وہ پانچ روپے دیتے ہیں.جس کا مطلب یہ ہے کہ وہ ایک سو روپیہ آمد کے مقابلہ میں آٹھ آنے کی بھی قربانی نہیں کرتے اور اگر کسی کی ڈیڑھ سو روپیہ ماہوار آمد ہے اور وہ صرف پانچ روپے چندہ دیتا ہے تو اس کے معنے یہ بنتے ہیں کہ وہ ڈیڑھ سو روپیہ لے کر

Page 638

* 1941 638 خطبات محمود صرف تین چار آنے خدا تعالیٰ کو دیتا اور پھر اس کا نام قربانی رکھتا ہے.حالانکہ ادنیٰ سے ادنی کاموں پر بھی اگر کوئی شخص تین چار آنے خرچ کر دے تو وہ اسے قربانی نہیں کہتا.عام انسانی ضروریات پر ہی ہر شخص اس سے بہت زیادہ خرچ کر دیا کرتا ہے.اسی طرح صدقہ و خیرات کے طور پر انسان ماہوار اس سے زیادہ خرچ کر دیتا ہے.مگر کبھی اس کا نام قربانی نہیں رکھتا.کجا یہ کہ وہ عظیم الشان قربانی جس سے اشاعت دین کے لئے ایک مستقل بنیاد رکھی جانے والی ہے.اس میں ایک شخص سو یا ڈیڑھ سو روپیہ ماہوار آمد رکھتے ہوئے اتنا قلیل حصہ لے اور پھر یہ خیال کرے کہ وہ خدا تعالیٰ کے حضور سابقون میں شمار کیا جائے گا ایسے لوگوں میں بالعموم وہ ہیں جو بعد میں شامل ہوئے.اگر وہ اس طرح نام کی قربانی کرنے کی بجائے یہ خیال کرتے کہ ہم بعد میں شامل ہوئے ہیں ہمیں زیادہ زور دینا چاہئے تاکہ پہلوں کے برابر ہو سکیں.تو یہ ان کے لئے اچھا ہوتا.بے شک اکٹھا چندہ دینا ان کے لئے مشکل ا تھا.مگر وہ یہ کر سکتے تھے کہ اپنے گزشتہ چندہ کو اگلے سالوں میں پھیلا کر ادا کرتے اور اگر پھر بھی بوجھ ان کی طاقت سے بالا ہوتا تو تحریک کے سالوں کے بعد ایک و سال میں اسے ادا کر دیتے کیونکہ آخر وہ بعد میں شامل ہوئے تھے اور یہ حق ان کو مل سکتا تھا کہ گزشتہ چندہ کو بعد کے سالوں میں پھیلا دیتے.بہر حال قربانی وہی کہلا سکتی ہے جو واقع میں قربانی ہو.اب جبکہ صرف تین سال تحریک جدید کے رہ گئے ہیں.میں ایسے لوگوں کو بھی ان کی غلطی کی اصلاح کی طرف توجہ دلاتا ہوں اور انہیں نصیحت کرتا ہوں کہ وہ اب بھی اپنے چندوں کو درست کر لیں جس کی سکتی ہے کہ وہ گزشتہ چندے آئندہ سالوں میں پھیلا کر ادا کر دیں.تحریک جدید کی میعاد کے اختتام پر ان کے ذمہ جو بقایا رہ جائے گا اسے وہ بعد کے دو تین سالوں میں ادا کر سکتے ہیں.بہر حال انہیں اپنی اصلاح کرنی چاہئے اور اس غلطی کی تلافی کی کوشش کرنی چاہئے.میں ان کو بھی توجہ دلاتا ہوں جو اب تک اس تحریک میں شامل نہیں ہوئے رو ہو

Page 639

* 1941 639 خطبات محمود - ہر اور ان سے کہتا ہوں.خدا تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے.اَلَمْ يَأْنِ لِلَّذِينَ آمَنُوا أَنْ تَخْشَعَ قُلُوبُهُمْ لِذِكْرِ اللهِ و یعنی کیا مومنوں کے لئے ابھی وہ وقت نہیں آیا کہ خدا کے ذکر کے لئے ان کے دل جھک جائیں.صوفیاء نے لکھا ہے کہ ایک بزرگ تھے جن کے ہمسایہ میں ایک سخت او باش اور آوارہ مزاج امیر رہتا تھا.اس کی مجلس میں وقت ناچ اور گانا بجانا ہوتا رہتا تھا.شراب نوشی کا دور بھی چلتارہتا.چونکہ لوگوں کے اخلاق پر اس کا بہت بُرا اثر پڑ رہا تھا اس لئے انہوں نے اس امیر آدمی کو بارہا روکا مگر وہ اپنے فعل سے باز نہ آیا.ایک دن وہ کہتے ہیں میں مکہ کا حج کر رہا تھا کہ میں نے سامنے اسی امیر شخص کو دیکھا اور اس کے چہرے سے اس قدر انکسار اور فروتنی ظاہر ہو رہی تھی کہ یوں معلوم ہوتا تھا کہ وہ روحانیت سے گداز ہو چکا ہے.چونکہ انہیں اس شخص سے جدا ہوئے مدت ہو چکی تھی اس لئے وہ اُس سے ملے اور کہنے لگے میں تم میں یہ کیا تبدیلی دیکھتا ہوں تم کو تو گانے والی لڑکیوں شراب نوشی کے دور اور رقص و سرود کی محفلوں میں بیٹھا ہونا چاہئے تھا اور میں تو سمجھتا تھا کہ تمہاری ہدایت بالکل ناممکن ہے کیونکہ میں نے تم کو بڑے بڑے وعظ کئے تھے.تمہیں خدا نے کس طرح ہدایت دے دی؟ وہ کہنے لگا.آپ بالکل سچ کہتے ہیں مجھے آپ نے بھی اور دوسرے واعظوں نے بھی مجھے بہت سمجھایا.مگر کسی وعظ کا مجھ پر اثر نہ ہوا.یہانتک کہ وہ سمجھا سمجھا کر تھک گئے.ایک دن میں اپنے کوٹھے پر بیٹھا تھا بزم طرب لگی ہوئی تھی.خوبصورت اور حسین عورتیں گانا گا رہی تھیں اور شرا کا دور چل رہا تھا کہ نہ معلوم خدا کا کونسا بندہ میرے لئے فرشتہ رحمت بن گیا.و میرے مکان کے قریب کی گلی میں سے گزر رہا تھا اور یہ آیت پڑھتا جا تا تھا اکھ يَأْنِ لِلَّذِينَ آمَنُوا أَنْ تَخْشَعَ قُلُوبُهُمْ لِذِكْرِ اللهِ ارے مومنو! کیا وہ وقت نہیں آیا کہ تمہارے دل خدا تعالیٰ کے ذکر کے لئے جھک جائیں.جس وقت اس نے یہ آیت پڑھی مجھے یوں محسوس ہوا کہ یہ آیت ابھی نئے سرے سے نازل ہوئی ہے.یکدم میری چیخ نکل گئی.شراب کا گلاس میرے ہاتھ سے گر گیا اور میں توبہ کرکے نیک اعمال بجا لانے کی وعظ کتے وہ

Page 640

* 1941 640 خطبات محمود طرف متوجہ ہو گیا.اس آیت میں جو ذکر الله کا لفظ آتا ہے اس کے معنے صرف منہ سے اللہ تعالیٰ کا ذکر کرنے کے نہیں بلکہ وہ خدا کا ذکر جس کے ساتھ عمل نہ ہو انسان کے لئے عذاب کا موجب ہو جاتا ہے.اصل ذكر الله یہی ہے کہ انسان منہ کے ساتھ عملاً بھی ذکر الہی کرے اور دین کی ترقی کے لئے وہ قربانیاں کرے جن کے نتیجہ میں خدا تعالیٰ کا ذکر بلند ہو.ایک شخص جو منہ سے ذکر الہی کرتا ہے مگر اپنے عمل خدا تعالیٰ کے ذکر کو بلند کرنے کے لئے کوئی قربانی نہیں کرتا وہ ہر گز ذکر الہی کرنے والا قرار نہیں پا سکتا.پس جو لوگ اس تحریک میں اب تک شامل نہیں ہوئے میں ان سے بھی کہتا ہوں کہ اَلَمْ يَأْنِ لِلَّذِينَ آمَنُوا أَنْ تَخْشَعَ قُلُوبُهُمْ لِذِكْرِ اللَّهِ کیا اب بھی وہ وقت نہیں آیا کہ ان کے دل خدا تعالیٰ کے ذکر کو بلند کرنے کی اہمیت کو محسوس کریں اور اس ذکر اللہ کی طرف جلدی.اللہ کی طرف جلدی سے اپنے قدم بڑھائیں.قافلہ اب منزل کے قریب پہنچ رہا ہے.کیا اب بھی ان کے دلوں میں حسرت پیدا نہیں ہوتی.کیا اب بھی ان کے دلوں میں جوش پیدا نہیں ہوتا اور کیا اب بھی ان کے دلوں میں خواہش پیدا نہیں ہوتی کہ وہ اپنی گزشتہ کوتاہیوں کا ازالہ کر کے اپنے آگے بڑھنے والے بھائیوں کے ساتھ شامل ہو جائیں.میں ان کو بھی توجہ دلاتا ہوں جو گو پہلے چندے دیتے رہے ہیں لیکن انہوں نے اس قدر قربانی نہیں کی جس قدر کہ ان کے دوسرے بھائی کرتے رہے ہیں کہ وہ ان تین سالوں سے فائدہ اٹھا کر معمولی زیادتی کی جگہ خاص زیادتی کے ساتھ ان تین سالوں میں حصہ لیں تاکہ ان کا انجام اعلیٰ کے لوگوں والا ہو اور خواتیم اعمال کے مطابق ہی انسان کا درجہ ہوتا ہے.پس اب بھی وقت ہے کہ جو دوست پہلے کم چندہ دیتے رہے ہیں یا چندہ دیتے رہے ہیں یا قربانی کے مقام کو انہوں نے پہلے صحیح طور پر نہیں سمجھا تھا یا ان دوستوں کی قربانی اور عمل کو دیکھ کر جن کے حالات ان سے زیادہ اچھے نہیں مگر انہوں نے قربانی ان سے زیادہ کی ہے.درجه ، اب ان کے اندر بھی یہ احساس پیدا ہو چکا ہے کہ انہیں زیادہ قربانی کرنی چاہئے.وہ اپنی اصلاح کی طرف توجہ کریں اور آئندہ تین سالوں میں زیادہ قربانیاں کر

Page 641

خطبات محمود 641 * 1941 کے اس آخری دور میں اپنے آپ کو آگے نکالنے کی کوشش کریں.میں ان کو بھی توجہ دلاتا ہوں جو اخلاص کے ساتھ اس میں حصہ لیتے رہے ہیں کہ اب یہ دور ختم ہونے والا ہے.وہ تھکیں نہیں اور جو مقام ان کو اللہ تعالیٰ نے سات سال تک دیا ہے اسے قائم رکھنے کی کوشش کریں اور اسے مضبوطی سے پکڑ لیں.تم اپنے باپ کی جائداد کسی کو چھینے نہیں دیتے ، تم اپنا مال کسی کو چھیننے نہیں دیتے، تم اپنا عہدہ کسی کو چھیننے نہیں دیتے.پھر کس طرح ہو سکتا ہے کہ ایمان کے ہوتے ہوئے تم اپنا اعلیٰ روحانی مقام دوسرے کو چھیننے دو گے.وہ میں ان کو بھی توجہ دلاتا ہوں جو آب احمدیت میں داخل ہوئے ہیں کہ بھی اس تحریک میں شامل ہو کر اپنے بھائیوں سے آ ملیں.جیسا کہ میں کہہ چکا ہوں وہ اپنے سابق سالوں کا چندہ نئے سالوں کے ساتھ ادا کر دیں بلکہ اگر ان پر زیادہ بوجھ ہو تو تحریک کے ایک دو سال بعد تک بھی ادا کر سکتے ہیں اور اس غرض کے لئے وہ مہلت حاصل کر سکتے ہیں.میں ان کو بھی توجہ دلاتا ہوں جن کو خدا تعالیٰ نے نئی نوکریاں دی ہیں سینکڑوں اور ہزاروں ایسے لوگ ہیں جن کو فوجی کاموں کی وجہ وجہ سے ملازمتیں ملی ہیں اور اس طرح خدا تعالیٰ نے ان کے لئے دنیوی فضل کا دروازہ کھولا روحانی دنیا کے لئے بھی کھولنے کی کوشش کریں اور اس کے شکریے میں ایسی قربانیاں کریں جو انہیں روحانی فضلوں کا وارث کر دیں.ہے.وہ اسے میں یہ بھی توجہ دلاتا ہوں کہ جو لوگ وعدے کریں وہ جلد سے جلد ان کو پورا کرنے کی کوشش کریں تاکہ ان کی قربانی سے سلسلہ کو زیادہ سے زیادہ فائدہ پہنچے.چاہئے کہ جو دوست سابقون میں شامل ہونا چاہیں وہ مارچ تک اپنے چندے ادا کر دیں.جن سے یہ نہ ہو سکے ان کے لئے دوسرا دور جولائی کے آخر تک ہے.وہ جولائی کے آخر تک اپنے چندے ادا کر دیں اور جن سے یہ بھی نہ ہو سکے وہ اگلے سال کے نومبر کے آخر تک اپنے چندے ادا کر دیں.میں ان کو بھی جو اب تک سابق سال کا چندہ

Page 642

* 1941 642 خطبات محمود ادا نہیں کر سکے توجہ دلاتا ہوں کہ ان سے جو کوتاہی ہو چکی ہے اس کا دسمبر اور جنوری کے مہینہ میں ازالہ کرنے کی کوشش کریں.اور دسمبر اور جنوری میں اپنا چندہ ادا کر دیں تاکہ نیا سال انہیں وعدہ کے ایفاء میں اور بھی پیچھے نہ ڈال دے.میں ان کارکنوں کو بھی جنہوں نے تحریک جدید کے کام کو اپنے ذمہ لیا ہوا ہے توجہ دلاتا ہوں کہ ان کو خدا تعالیٰ نے بہت بڑے ثواب کا موقع دیا ہے.وہ بھی بیدار ہوں اور اپنے مقام کی عظمت کو سمجھیں.انہیں خدا تعالیٰ نے دوہرے بلکہ تہرے ثواب کا موقع عطا کیا ہوا ہے کیونکہ وہ اس چندہ میں خود بھی شامل ہوتے ہیں اور دوسروں سے بھی چندہ وصول کرتے ہیں.پس انہیں صرف اپنے چندہ کا ہی ثواب نہیں ملتا بلکہ دوسروں سے چندہ وصول کرنے کا بھی ثواب ملتا ہے اور یہ وہ امر ہے جس کا رسول کریم صلی اللی کا فیصلہ فرما چکے ہیں.چنانچہ آپ نے فرمایا جو شخص نیکی کرتا ہے اسے بھی ثواب ملتا ہے اور جو دوسرے کو نیکی کی تحریک کرے اُسے دُہرا ثواب ملتا ہے.ایک خود نیکی کرنے کا اور دوسرا نیکی کی تحریک کرنے کا.10 اسی طرح تحریک جدید کا جو کار کن اپنا چندہ ادا کرنے کے علاوہ دس آدمیوں سے چندہ وصول کر کے بھجواتا ہے اسے ان دس آدمیوں کا ثواب ملتا ہے اور جو میں آدمیوں سے چندہ وصول کر کے بھجواتا ہے اُسے ان میں آدمیوں کا ثواب ملتا ہے.جب اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت کے دروازوں کو اس طرح کھول رکھا ہے تو جو شخص اب بھی سستی سے کام لیتا ہے اس کی حالت کس قدر افسوس ناک ہے.پس میں تحریک جدید کے کارکنوں بھی توجہ دلاتا ہوں کہ وہ دسمبر کی ہیں تاریخ تک اپنی جماعتوں سے چندے کی فہرستیں مرتب کر کے بھجوا دیں اور جو کام باقی رہ جائے اس کی تاریخ 31 جنوری تک ہو کیونکہ جلسہ سالانہ کے بعد اپنے اپنے گھروں کو جا کر لوگ 10.15 جنوری سے شروع کرتے ہیں.پس پنجاب اور ان دوسرے علاقوں کے لئے جہاں اردو بولی اور سمجھی جاتی ہے وعدے بھیجنے کی آخری تاریخ 31 جنوری ہے.مگر وہ لوگ یقینا ہمارے کام میں سہولت پیدا کرنے والے ہوں گے جن کے وعدے میں دسمبر تک.

Page 643

خطبات محمود آ جائیں گے.643 * 1941 جن علاقوں میں اردو زبان بولی نہیں جاتی مثلاً بنگال ہے یا مدراس ہے یا اسی طرح زبان بولنے والے اور صوبجات ہیں.ان کے وعدوں کی آخری میعاد 30، اپریل اسی طرح ہندوستان کے باہر دوسرے ممالک میں رہنے والے ہندوستانیوں کے لئے بھی 30 اپریل آخری تاریخ ہے.البتہ غیر ملکی لوگوں کے لئے جیسے امریکہ وغیرہ کے رہنے والے ہیں 30 جون تک وعدوں کی میعاد ہے.ہے میں امید کرتا ہوں کہ جماعت کے دوست اس تحریک کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے اس میں حصہ لیں گے.یاد رکھو دنیا میں وہی قومیں ترقی کیا کرتی ہیں جو اپنا قدم ہمیشہ آگے بڑھاتی ہیں.اگر گندم کو ترقی دے کر اسے بڑھایا جا سکتا ہے، اگر سبزیوں اور ترکاریوں کو ترقی دے کر انہیں بڑھایا جا سکتا ہے ، اگر آموں کو ترقی دے کر انہیں بڑھایا جا سکتا ہے، اگر گھوڑوں، گدھوں، بیلوں اور بکریوں کو ترقی دے کر انہیں بڑھایا جا سکتا ہے تو سوچو کہ خدا تعالیٰ کی اشرف المخلوقات کو ترقی دے کر کیوں بڑھایا نہیں جاسکتا.یقینا جس طرح اور چیزیں ترقی کر رہی ہیں اسی طرح بنی نوع انسان بھی ترقی کر سکتے ہیں اور وہ اپنے روحانی کمالات سے دنیا کو محو حیرت کر سکتے ہیں بالخصوص ہماری جماعت تو وہ ہے جسے خدا نے ترقی کے لئے ہی پیدا کیا ہے اور وہ چاہتا ہے کہ تمام دنیا پر ہماری جماعت کو غالب کرے.پس ہماری جماعت کو اپنے اندر ایسا تغیر پیدا کرنا چاہئے کہ جس طرح اچھے بیچ قدر کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں اس طرح ہماری جماعت کو دیکھ کر لوگ اس کی قدر کرنے لگ جائیں اور وہ کہہ اٹھیں کہ دنیا ایسی قیمتی جماعت کو دیکھنے سے آج تک محروم رہی ہے." (الفضل 7دسمبر 1941ء) 1 الفاتحه : 76 2.مسند احمد بن حنبل جلد 5صفحه 265-266 مطبوعہ بیروت وَالَّذِينَ آمَنُوا وَاتَّبَعَتَهُمْ ذُرِّيَّتُهُمْ بِإِيمَانِ اَلْحَقْنَا بِهِمْ ذُرِّيَّتَهُمْ وَمَا التُنْهُمْ مِّنْ عَمَلِهِمْ مِّنْ

Page 644

* 1941 خطبات محمود 644 شَيْءٍ كُلُّ امْرِيَّ بِمَا كَسَبَ رَهِين- ( الطور :22) 4 ابن ماجہ ابواب الفتن باب خروج المهدی 5 مسند احمد بن حنبل جلد 2 صفحہ 299،298 6 بخاری کتاب المغازی باب غزوة الطائف 7 التوبة : 33، الصف: 10 8 تذکرہ صفحہ 312.ایڈیشن چہارم 9 الحديد : 17 10 مسلم كتاب الزكوة باب الْحَثُ عَلَى الصَّدَقَةِ (الخ)

Page 645

* 1941 645 (36) خطبات محمود 1.تحریک جدید اور جلسہ سالانہ کی بابت ہدایات 2.مولوی محمد علی صاحب کی کھلی چٹھی کا جواب فرموده 5 دسمبر 1941ء) تشہد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:.میرا ارادہ تو آج جلسہ سالانہ کے متعلق اور تحریک جدید کے متعلق کچھ کہنے کا تھا مگر خطبہ سے کچھ منٹ پہلے قریباً 20، 25 منٹ پہلے مجھے ایک رجسٹری خط ملا ہے جس میں مولوی محمد علی صاحب کی طرف سے ایک کھلی چٹھی میرے نام ہے.اس لئے اس کے ایک سوال کو بھی میں نے خطبہ میں شامل کرنا مناسہ سمجھا.پس آج کا خطبہ متفرق باتوں پر مشتمل ہو گا.بعض سب سے پہلے تو میں اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتا ہوں کہ اس نے ہماری جماعت کو اس بات کی توفیق عطا فرمائی کہ دوست تحریک جدید کے سلسلہ میں چندے ادا کرنے والے یا اس کے لئے وعدے کرنے والے بنے.خدا تعالیٰ کے فضل سے اب تک 25 ہزار روپیہ تک کے وعدے آ چکے ہیں.ان میں سے ایسے بھی ہیں جنہوں نے خطبہ کو سن کر اپنے چندوں میں زیادتیاں کی ہیں اور ایسے بھی سعید ہیں جن کو خطبہ ابھی نہیں پہنچا مگر باوجود اس کے انہوں نے اپنے چندہ سے کافی زیادتی کی ہے اور بہت سے ایسے ہیں جنہوں نے خطبہ پڑھنے سے پہلے ہی اپنے چندے لکھوا دیئے ہیں اور خطبہ کے مضمون سے ناواقف ہونے کی ا وجہ سے

Page 646

* 1941 خطبات محمود وعد.646 اس سے فائدہ نہیں اٹھا سکے اور حسب دستورِ سابق تھوڑی سی زیادتی کے ساتھ لکھوا دیئے ہیں حالانکہ اگر وہ قربانی کی کوشش کرتے تو اور بھی کر سکتے تھے.پھر ایسے بھی ہیں جو پہلے کوتاہی کر رہے تھے اور اپنی حیثیت سے کم چندے تھے اور انہوں نے میر اخطبہ پڑھنے کا انتظار نہ کیا اور اس سال بھی حسب سابق ہی چندہ لکھوا دیا جو ان کے لئے قربانی نہیں کہلا سکتی.مجھے امید ہے کہ خطبہ کی اشاعت کے بعد دوست اس کے مضمون کو اچھی طرح ذہن میں رکھ لیں لکھوا رہے گے.ہمیں.قادیان کے دوستوں کو یہ فضیلت حاصل ہے کہ وہ ہر تحریک کو پہلے سن لیتے ہیں اور باہر والے جب خطبہ اخبار میں چھپ کر جاتا ہے تو اسے پڑھتے ہیں.خطبہ کل شائع ہو جائے گا کیونکہ میں نے گزشتہ خطبہ کل ہی دیکھ کر دیا ہے.چاہئے تو یہ تھا کہ پہلے شائع ہو جاتا مگر مجھے بعض ضروری کام تھے.“الفضل ” والوں نے یاد دہانی نہ کرائی اور پرسوں میں نے اتفاقاً ایک جگہ پڑا دیکھا تو خیال آیا کہ اسے دیکھ دوں.ایسے خطبات کے متعلق جلدی جلدی یاد دہانی کرائی جانی چاہئے تا وہ جلد از جلد چھپ بہر حال تحریک شائع ہو چکی ہے اور جماعت کا ایک حصہ وعدے لکھوا بھی چکا ہے ان میں سے کثیر حصہ تو ایسا ہے جو قربانی کرنے والا ہے اور ایک قلیل حصہ جس کے چندے یا وعدے قربانی نہیں کہلا سکتے.میں ان کو بھی توجہ دلاتا ہے ہوں کہ وہ صحیح معنوں میں قربانی کرنے کی کوشش کریں.یہ دینی کام ہے اور ہمارے تمام کام دراصل دعاؤں سے ہی تعلق رکھتے ہیں مگر دوست واقف نہ ہونے کی وجہ سے بہت بڑے ثواب سے محروم رہ جاتے ہیں.انہیں یاد رکھنا چاہئے کہ جب بھی کوئی دینی تحریک ہو انہیں فوراً دعائیں کرنے میں لگ جانا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ اسے زیادہ سے زیادہ کامیاب بنائے، انفرادی طور پر بھی اور اجتماعی طور پر بھی.اس کے دو فائدے ہوتے ہیں ایک تو یہ کہ دعائیں اللہ تعالیٰ کے فضل کو بھینچتی ہیں اور جماعت کے کمزور اور طاقتور دونوں کو قربانی کا موقع مل جاتا ہے اور انفرادی طور پر

Page 647

خطبات محمود 647 * 1941 یہ فائدہ ہوتا ہے کہ ایسے دوستوں پر بھی اللہ تعالیٰ کا فضل نازل ہوتا ہے جو دینی تحریکات کی کامیابی کے لئے اللہ تعالیٰ سے دعائیں کرتے ہیں.جب تم خدا تعالیٰ کے سامنے ہاتھ پھیلاتے ہو اس لئے کہ وہ کسی دینی کام کو پورا کرے (دینی کام دراصل خدا تعالیٰ کا اپنا کام ہے) تو تم گویا اس سے دعا کرتے ہو کہ وہ اپنا کام کرے اور جب تم خدا تعالیٰ کے کام کے لئے اس سے دعا کرتے ہو تو اللہ تعالیٰ کہتا ہے کہ میرا بندہ میرا کام کر رہا ہے.لاؤ میں بھی اس کا کام کروں.اللہ تعالیٰ کے بہترین فضلوں کو جذب کرنے والی دعاؤں میں سے ایک یہ بات بھی ہے کہ جب بھی کوئی دینی تحریک ہو مومن دعاؤں میں لگ جائے کہ اللہ تعالیٰ اسے کامیاب کرے اور اگر کوئی مومن کسی دینی تحریک کی کامیابی کے لئے دعا کرتا ہے اور رقت و زاری کے ساتھ کرتا ہے اور اس کے نتیجہ میں کسی کو اس میں حصہ لینے کی توفیق مل جاتی تو خواہ وہ دنیا کے کسی کنارے پر رہنے والا ہو اس کا ثواب اسے بھی ملے گا.ہے جب کوئی مومن کسی دینی تحریک کی کامیابی کے لئے بڑی دعا کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اس بندے نے بڑی دعا کی ہے اس کے نتیجہ میں اسے کچھ ضرور دینا ہے اور وہ کسی دور مقام پر رہنے والے کسی شخص کے دل میں یہ جوش پیدا کر دیتا ہے کہ وہ اس میں زیادہ حصہ لے اور اس کا ثواب اس کے نام بھی لکھا جاتا ہے کیونکہ اس کی روحانی تحریک سے اسے خدمت دین کا موقع ملا.مگر اس کے علاوہ بھی اللہ تعالیٰ کہے گا کہ ہمارے بندے نے ہمارے کام کی خاطر دعا کی ہے اور ہمارے پاس آیا ہے کہ ہم اپنا کام کریں.اس نے ہمارے کام کی فکر کی ہے ہم اس کے کاموں کی فکر کیوں نہ کریں.تو اس دعا کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ خود اس کے کاموں کا بھی متکفل ہو جائے گا اور اس کے کام خود کرنے لگے گا.اگر کوئی سچے دل گر آزمائے تو اسے ولایت کا مقام حاصل ہو جائے گا.ولایت اسی کا نام ہے.اولیاء اور صلحاء کے کاموں کے خدا تعالیٰ کے متکفل ہو جانے کی کیا وجہ ہے ؟ یہی کہ وہ خدا تعالیٰ کے کاموں میں لگ جاتے ہیں اس لئے خدا تعالیٰ ان کے کاموں کا.

Page 648

خطبات محمود.648 * 1941 متکفل ہو جاتا ہے اور اسی کا نام ولایت ہے.وہ خدا تعالیٰ کے کام کرتے ہیں اور خدا تعالیٰ ان کے کرتا ہے اور جو انسان خدا تعالیٰ کا کام تو نہ کر سکے مگر اس کے مکمل ہو جانے کی دعا کرتا رہے تو اس کا مطلب بھی کام کرنے کا ہی ہے اور اس کے نتیجہ میں بھی خدا تعالیٰ اس انسان کے کام کرنے لگ جاتا ہے.غرض جو بندہ خدا تعالیٰ کے کاموں کو اپنا لیتا ہے وہ گویا خدا تعالیٰ کا ولی بن جاتا ہے اور اس کے نتیجہ میں خدا تعالیٰ اس کے کاموں کو اپنا لیتا اور اس کا ولی بن جاتا ہے.خدا تعالیٰ کی ولایت کے یہ معنی نہیں کہ جس طرح دو شخص باہم فیصلہ کرتے ہیں کہ آؤ ایک دوسرے کے دوست بن جائیں اور پھر دعوت کرتے ہیں بلکہ خدا تعالیٰ کی ولایت اسی طرح ہوتی ہے کہ بعض بندے خدا تعالیٰ کے کاموں میں لگ جاتے ہیں اور خدا تعالیٰ ان کے کاموں کا کفیل ہو جاتا ہے اسی کا نام ولایت ہے.پس دوستوں کو اس موقع پر بھی دعائیں کرنی چاہئیں اور ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ جب کوئی نئی تحریک ہو تو خواہ کوئی کہے یا نہ کہے وہ خدا تعالیٰ سے دعائیں کرنے میں لگ جائیں کہ اللہ تعالیٰ اسے زیادہ سے زیادہ کامیاب کرے.پھر وہ دیکھیں گے کہ اللہ تعالیٰ کس طرح ان کے مصائب اور مشکلات کو دور کرتا ہے.یہ نہیں کہ پھر ان پر کوئی مشکل یا مصیبت آئے گی نہیں.مصائب اور مشکلات دنیا میں آتی تو ضرور ہیں، اللہ تعالیٰ کے انبیاء پر بھی مشکلات آتی ہیں حتی کہ آنحضرت صلی علیم پر بھی مصائب اور مشکلات آئیں.تو پھر یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ تم پر نہ آئیں.مگر یہ مصائب اور مشکلات کوئی چیز نہیں ہیں.اصل مصیبت وہ ہوتی ہے جو انسان کو تباہ کر دے اور ایسی مشکلات تم پر کبھی نہ آئیں گی.ایک دفعہ مجھے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک نوٹ ملا جو شاید میں تشخیز الاذہان میں شائع بھی کروا چکا ہوں.اس میں آپ نے لکھا ہے کہ خواہ ساری دنیا میری مخالف ہو مجھے اس کی کیا پرواہ ہو سکتی ہے جبکہ اللہ تعالیٰ کا مجھ پر اتنا فضل ہے کہ جب دنیا سو جاتی ہے وہ آسمان سے اتر کر مجھے تسلی دیتا ہے کہ میں تیرے ساتھ ہوں

Page 649

* 1941 649 خطبات محمود اور جس شخص کو خدا تعالیٰ یہ تسلی دے کہ میں تیرے ساتھ ہوں اس کے دل میں غم کہاں آ سکتا ہے.دنیا کا سب سے زیادہ مظلوم وجود محمد رسول الله صلى ال عالم کا تھا مگر سے زیادہ خوش وجود بھی آپ کا ہی تھا.سب سے زیادہ مشکلات میں گھرا ہوا وجود آپ کا تھا مگر قیامت تک آپ سے زیادہ خوش وجود بھی اور کوئی نہ ہو سکتا.پس میں یہ نہیں کہتا کہ آپ لوگوں پر مشکلات نہ آئیں گی.بعض نادان ایسے ہوتے ہیں کہ دو تین روز نمازیں پڑھیں یا چند روز دعائیں کیں تو کہنے لگ جاتے ہیں کہ جی نہیں بڑی نمازیں پڑھیں، بڑی دعائیں کیں مگر کچھ نہیں بنتا، پھر بھی مشکلات دور ہوتیں حالانکہ مشکلات تو انبیاء پر بھی آتی ہیں اور مومنوں پر بھی ضرور آتی ہیں.پس میں یہ نہیں کہتا کہ آپ پر مشکلات یا مصائب نہ آئیں گی بلکہ میرا مطلب به ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کو تباہ نہیں کرے گا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام کا ایک واقعہ ہے جو گورداسپور میں ہوا.میں تو اس مجلس میں نہ تھا گو اس وقت گورداسپور میں موجود تھا.مجھ سے ایک اُس مجلس میں موجود راوی نے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة و السلام چارپائی پر لیٹے ہوئے تھے اور دوست پاس دری پر بیٹھے تھے.خواجہ کمال الدین صاحب اور دوسرے دوست جو مقدمہ کی پیروی کر رہے تھے، بہت گھبرائے ہوئے آئے اور کہا کہ حضور بہت خطرناک خبر سنی ہے.ہم لاہور گئے ہوئے تھے وہاں سے معلوم ہوا ہے کہ وہاں آریوں کی خاص مجلس منعقد ہوئی اور یہ مجسٹریٹ جس کے پاس مقدمہ ہے یہ بھی اس میں شامل تھا.آریوں نے اس پر بہت زور دیا ہے کہ مرزا صاحب ہمارے مذہب کے سخت مخالف ہیں انہیں ضرور سزا دے دو خواہ ایک دن کے لئے ہی کیوں نہ ہو، انہیں جیل میں ضرور بھیج دو یہ تمہاری ایک قومی خدمت ہو گی اور وہ وہاں یہ وعدہ بھی کر آیا ہے کہ میں ضرور ایسا کروں گا.مجھ سے راوی نے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام پہلے لیٹے ہوئے تھے پھر کہنی پر ٹیک لگا کر پہلو کے بل ہو گئے.آپ کا چہرہ سرخ ہو گیا اور آپ نے فرمایا.خواجہ صاحب "

Page 650

خطبات محمود 650 * 1941 آپ کیا کہتے ہیں.خدا تعالیٰ کے شیر پر بھی کوئی ہاتھ ڈال سکتا ہے؟ تو مومن کو مشکلات تو آتی ہیں مگر یہ مشکلات ایسی نہیں ہوتیں کہ اسے تباہ کر دیں.بڑی مشکل وہ ہوتی ہے جو انسان کو تباہ کر دے ورنہ دنیا میں مشکلات آتی ہی ہیں.زمیندار کو دیکھو سخت سردی میں ہل چلاتا ہے، کھیتوں کو پانی لگاتا ہے مگر وہ اسے مشکل نہیں سمجھتا کیونکہ وہ جانتا ہے کہ اس کے بدلہ میں اسے فائدہ ہو گا.مشکل انسان اسے سمجھتا ہے جس کے بدلہ میں وہ سمجھے کہ اس پر تباہی آ جائے گی.عورت کو دیکھو اپنے بچہ کو وہ کس طرح پالتی ہے، کتنی مصیبتیں اس کے لئے جھیلتی ہے مگر ایک بچہ ابھی اس کی گود سے اترتا نہیں کہ دعائیں کرنے لگ جاتی ہے کہ خدا پھر میری گود ہری کرے اور اس کی اس دعا کے یہی معنے ہوتے ہیں کہ خدایا میں پھر پیشاب سے بھیگوں، پھر میرا خون چوسنے والا کوئی پیدا ہو.اسی طرح اگر باپ ایسی دعا کرے تو اس کے معنے یہ ہوں گے کہ ایک اور روٹی کھانے والا پیدا ہو جائے، ایک اور کمرہ سنبھالنے والا ہو، ایک اور تعلیم پر خرچ کرانے ولا ہو، ایک اور رو رو کر اس کے آرام میں خلل ڈالنے والا ہو.تو ماں باپ کے لئے اولاد کا ہونا بظاہر تکلیف کا موجب ہوتا ہے مگر کیا ان مشکلات کو کوئی مشکل کہتا ہے.اگر کوئی اسے مشکل کہے تو ہر شخص کہے گا کہ اس بیچارے کا دماغ خراب ہو گیا ہے.تو ان باتوں کا نام مشکل نہیں.مشکل اسے کہتے ہیں جس کے نتیجہ میں انسان کو تباہی کا ڈر ہو.جس کے بدلہ میں انعام ملنے والا ہو اُسے کوئی مشکل نہیں کہتا اور اسے مشکل کہنے والے کو کوئی باہوش انسان نہیں سمجھتا.غرض میری بات سے یہ دھوکا نہ کھاؤ کہ کوئی مشکل آئے گی ہی نہیں.ایسا نہ ہو کہ چند روز دعائیں کرو اور پھر کہو کہ جی دیکھ لیا بڑے خطبے پڑھتے تھے کہ مشکلات دور ہو جائیں گی مگر وہ بدستور ہیں.بعض لوگ چند دن نمازیں پڑھ لیں تو کہنے لگ جاتے ہیں بہت نمازیں پڑھیں، بڑے روزے رکھے مگر ملا ملایا کچھ بھی نہیں دراصل “ کچھ ” کے معنے ان کے نزدیک اور ہوتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے نزدیک کچھ اور.

Page 651

* 1941 651 خطبات محمود ان کی مثال اس میراثی کی سی ہوتی ہے جس کی نسبت کہتے ہیں کہ اس نے کسی مولوی کا وعظ سنا کہ نمازیں پڑھنے میں بڑے فائدے ہیں.دیہاتیوں کے نزدیک تو “ فائدہ ” اسی کو کہتے ہیں جو فوراً مل جائے.اس نے مولوی صاحب سے پوچھا کہ نماز - ہے.کیا فائدہ ہوتا ہے.وہ کچھ اور تو نہ بتا سکا صرف یہ کہا کہ منہ پر نور برسنے لگتا اس نے سوچا کہ چلو نور ہی سہی اور نماز شروع کر دی.صبح کی نماز کا وقت آیا تو سردی بہت تھی.اس نے مولوی سے سنا کہ تیم سے بھی نماز ہو جاتی ہے.اس نے اندھیرے میں ہی تیم کر کے نماز پڑھ لی اور جب ذرا روشنی ہوئی تو بیوی سے کہا کہ دیکھو تو سہی میرے چہرہ پر کوئی نور ہے.اس نے کہا کہ مجھے تو پتہ نہیں نور کیا ہوتا ہے لیکن تمہارے منہ پر سیاہی آگے سے زیادہ ہے.اصل بات یہ تھی کہ اس نے اندھیرے میں تیم کرنے کے لئے جو ہاتھ مارے تو وہ توے پر پڑے اور ہاتھوں پر بھی اور منہ پر بھی سیاہی لگ گئی.جب بیوی نے کہا کہ منہ پر سیاہی زیادہ ہے تو اس نے اپنے ہاتھوں کو دیکھا اور کہا کہ اگر نور کالا ہوتا ہے تو پھر تو گھٹا باندھ کر آیا ہے.دیکھو لو میرے ہاتھ بھی کالے ہیں.تو دنیا میں ایک طبقہ ایسا بھی ہوتا ہے جو خدا تعالیٰ کی باتوں کو بھی جسمانیات کی طرف لے جاتا ہے اور ایسے لوگوں کو میں متنبہ کرتا ہوں کہ میری اس بات سے وہ دھوکا میں نہ پڑیں.مصائب اور مشکلات انبیاء کا خاصہ ہے.حدیث میں آتا ہے کہ جتنا کوئی شخص خدا تعالیٰ کا پیارا ہوتا ہے اتنا ہی وہ زیادہ مشکلات میں گھرا ہوا ہوتا ہے1 خدا تعالیٰ کی طرف سے برکات کے وعدہ سے میرا مطلب وہ ہے جو خدا تعالیٰ کے لئے برکت دینے کا رنگ ہے.میرے خطبہ کی دوسری بات یہ ہے کہ ہمارا جلسہ سالانہ سر پر آ گیا ہے اور اس موقع پر بہت سے آدمیوں اور بہت سے مکانوں کی ضرورت ہوتی ہے.پچھلے سال مکانات کی بہت تکلیف ہو گئی تھی مگر پھر اللہ تعالیٰ نے فضل کر دیا اور احباب جماعت کے دلوں میں جوش پیدا کر دیا اور انہوں نے مکانات خالی کر دیئے.اب کے میں

Page 652

* 1941 652 خطبات محمود پھر دوستوں کو خصوصیت کے ساتھ نصیحت کرتا ہوں کہ اول تو کام کے لئے جتنے زیادہ سے زیادہ دوست اپنے آپ کو پیش کر سکیں، کریں.اس موقع پر ہزاروں لوگ باہر سے آتے ہیں اور ان کی مہمان نوازی کے لئے بہت سے آدمیوں کی ضرورت ہوتی ہے.کسی کے گھر میں چار پانچ مہمان آ جائیں تو کس طرح وہ خود، اس کی بیوی اور بچے کام میں لگے ہوتے ہیں تب جا کر انتظام درست ہوتا ہے.تو جہاں 30،25 ہزار بلکہ بعض مواقع پر اس سے بھی زیادہ مہمان آئیں ان کے لئے کس قدر آدمیوں کی ضرورت ہو سکتی ہے.اس کا اندازہ کرنا مشکل نہیں.ہماری جماعت کے لئے تو اللہ تعالیٰ نے مشق کا سامان کر دیا ہے اور انہیں ہر سال مشق ہوتی رہتی ہے.ہر سال مہمان آتے ہیں اور وہ ہر سال مہمان نوازی کرتے ہیں اور اس کے نتیجہ میں انہیں ہر سال مشق ہو جاتی ہے اور اس وجہ سے کام میں سہولت ہو جاتی ہے.اس مشق کا موقع باہر کسی جگہ حاصل نہیں ہوتا.جس طرح فوج کو باقاعدہ مشق کرائی جاتی ہے اسی طرح ہمارے ہاں بھی ہر سال مشق ہو جاتی ہے.فوج میں لاکھوں انسانوں کو کھانا مہیا کرنا ہوتا ہے اور کوشش کی جاتی ہے کہ ہر وقت کی روٹی ان کو مل سکے.اس کے لئے متریٹ (COMMISSARIAT) 2 کا علیحدہ محکمہ قائم ہوتا ہے جسے کھانا ر کرنے اور وقت پر پہنچانے کی مشق کرائی جاتی ہے، کھانا پہنچانے کے طریق بتائے جاتے ہیں اور ان کو لاریاں، موٹریں اور دیگر ضروری سامان مہیا کیا جاتا ہے.حتی کہ اتفاقی حوادث کا مقابلہ کرنے کا بھی انتظام کیا جاتا ہے اور اس وجہ سے ان لاکھوں لوگوں کو خوراک پہنچ جاتی ہے.اسی طرح یہاں کے لوگوں کو بھی چونکہ ہر سال مشق کا موقع ملتا ہے اس لئے کام میں سہولت ہو جاتی ہے.اتنی مہمان داری جتنی یہاں ہوتی ہے اور کسی جگہ نہیں ہوتی.بڑے بڑے عُرسوں پر بھی زیادہ سے زیادہ ایک وقت کی روٹی دی جاتی ہے اور وہ بھی بعض جگہ تو صرف دو دو روٹیاں دے دی جاتی ہیں اور بعض جگہ دو دو روٹیاں اور ساتھ دال دے دی جاتی ہے.عرسوں کے علاوہ بڑے اجتماع کانگرس وغیرہ کے جلسوں پر ہوتے ہیں

Page 653

* 1941 653 خطبات محمود وہاں دکانیں کھلوا دی جاتی ہیں کہ لوگ مول لیں اور کھائیں.یہ صرف ہمارا ہی جلسہ ہوتا ہے جہاں قریباً پندرہ بیس دنوں تک اتنے مہمانوں کو باقاعدہ کھانا کھلایا جاتا ہے اور اس طرح اگر حساب کیا جائے تو لاکھوں کی حاضری ہو جاتی ہے اور یہ کوئی معمولی بات نہیں.ایسے مواقع پر بعض دفعہ رنجشیں بھی ہو جاتی ہیں.کسی کو کھانا بروقت نہ مل سکا یا فوراً کوئی جگہ نہ مل سکی تو رنجش پیدا ہو جاتی ہے.ہر کام کے لئے الگ الگ منتظم مقرر ہوتے ہیں.ان کو چاہئے کہ پیش آمدہ مشکلات اور ان کے حل سوچے جائیں ان کا ریکارڈ رکھتے جائیں جو آئندہ کے لئے رہنمائی کا کام دے.سرکاری محکموں کی ترقی اسی طرح ہوتی ہے وہ رپورٹیں مرتب کرتے رہتے ہیں جن میں آئندہ کے لئے فیصلے بھی درج ہوتے ہیں.اگر ہم بھی ایسا انتظام کریں تو بہت جو فائدہ ہو سکتا ہے.اس وقت میں کارکنوں سے خاص طور پر یہ بات کہنا چاہتا ہوں کہ وہ اپنے نفسوں کو مار کر کام کریں اور خدا تعالیٰ کے لئے قربانی کرنے والے بنیں.مہمان کی سختی برداشت کرنا بھی ثواب کی بات ہے.وہ ناواقف ہوتے ہیں اور باہر سے آتے ہیں.پھر بعض نئے ہوتے ہیں جو بعض دفعہ سختی بھی کرتے ہیں.جب لاؤڈ سپیکر کا نیا نیا انتظام ہوا تو چونکہ عورتوں میں بھی میری آواز آسانی سے پہنچ جانے کا انتظام گیا تھا منتظمات نے عورتوں سے کہا کہ گھل کر بیٹھیں آواز ہر جگہ پہنچے گی.زنانہ جلسہ گاہ میں لڑکیاں انتظام کا کام کرتی ہیں اور آنے والی عورتوں کو بٹھاتی ہیں ان میں میری لڑکیاں بھی ہوتی ہیں.باہر سے جو بہت سی دیہاتی عورتوں کا ایک گروہ آیا تو میری ایک لڑکی نے ان سے کہا کہ آپ یہیں بیٹھ جائیں آواز پہنچتی رہے گی وہ اس پر اتنی ناراض ہوئیں کہ انہوں نے میری لڑکی کو نیچے گرا لیا اور اس کے اوپر سے روندتی ہوئی گزر گئیں اور کہا کہ تم ہم کو دھوکا دیتی ہو کہ ان لکڑیوں میں سے آواز آجائے گی.تو ناواقفی میں مہمانوں سے ایسی حرکتیں ہو جاتی ہیں مگر چاہئے کہ ایسے مواقع پر

Page 654

* 1941 654 خطبات محمود ناراض ہونے کی بجائے صبر و تحمل سے کام لیا جائے اور مہمانوں کی سختی کو برداشت کیا جائے.بعض احمدیوں کے ساتھ غیر احمدی بھی ہوتے ہیں اور ان احمدیوں کو احساس ہوتا ہے کہ یہ ہمیں میزبان سمجھتے ہیں اور ان کے آرام کی خاطر مہمان نوازوں سختی بھی کر لیتے ہیں اس لئے وہ اگر کسی منتظم کے ساتھ سختی سے بھی پیش آئیں تو چاہئے کہ وہ آگے سے محبت اور پیار سے ہی جواب دیں، چہرہ پر بشاشت ہو، یہ بھی بہت برکت کا موجب ہوتا ہے کہ آدمی کا چہرہ بشاش ہو.ایسا بشاش چہرہ انسان کے اپنے لئے بھی اور دوسروں کے لئے بھی خوشی کا موجب ہوتا ہے.خشک چہرہ والا اپنے آپ کو بھی جلاتا ہے اور دوسروں کو بھی جلاتا ہے.پس چاہئے کہ کوئی سختی بھی کرے تو آگے سے یہی کہا جائے کہ آپ جو فرمائیں ٹھیک ہے.آپ جس طرح کہیں ہم اسی طرح کریں گے اور چہرہ پر کوئی گھبراہٹ نہ ہو بلکہ بشاشت ہو.جلسہ سالانہ کے موقع پر دوسری ضرورت مکانوں کی ہوتی ہے.دوستوں کو چاہئے کہ زیادہ سے زیادہ مکان منتظمین کے حوالے کر دیں اور جہاں تک ہو سکے اپنے مکان فارغ کر دیئے جائیں.تیسری بڑی ضرورت کھانے کے انتظام کی ہے.اس وقت ہر چیز گراں ہو رہی ہے اس وقت پانچ روپیہ من آتا ہے اور اگر بارش نہ ہوئی تو ساڑھے پانچ چھ روپیہ تک ہو جانے کا خطرہ ہے.اس لئے حالات بہت نازک ہیں، ہر چیز مہنگی ہو رہی ہے.لکڑی جو پہلے دس بارہ آنہ من تھی اب چودہ آنہ اور ایک روپیہ من ہو گئی ہے بلکہ بعض جگہوں سے تو مجھ کو اطلاع ملی ہے کہ ڈیڑھ روپیہ من تک لکڑی کی قیمت ہو ہے.اس لئے اس بات کا خاص طور پر انتظام ہونا چاہئے کہ کھانا کہیں زائد نہ جائے.اس کے لئے انسپکٹر مقرر ہونے چاہئیں.وہ یہ دیکھیں کہ کسی جگہ کھانا زیادہ نہ جائے اور یہ بھی کہ کم نہ دیا جائے.اس وجہ سے کہ فی پرچی کھانے کی ایک مقدار معین ہوتی ہے.بعض لوگ دس مہمان ہوتے ہیں تو ہمیں لکھ دیتے ہیں.پس کھانا بر تانے والے بھی کھانا پورا دیں.اگر ایک مہمان پانچ یا دس روٹیاں کھانے والا ہے

Page 655

* 1941 655 خطبات محمود تو وہ قانون کو کیا کرے.پس تعداد صحیح بتائی جائے اور کھانا بھی پورا دیا جائے.اس سے ایک فائدہ تو یہ ہو گا کہ صحیح مردم شماری ہو سکے گی اور دوسرا یہ کہ فریب بھی نہ ہو سکے گا.دس مہمان ہوں تو ہیں بتا دینا یوں بھی جھوٹ ہے.اس لئے جو ایسا کرتا ہے وہ گناہ کرتا ہے ا اور جو دس کی بجائے آٹھ کا کھانا دیتا ہے وہ بھی غلطی کرتا ہے.پس ایسے انسپکٹر مقرر کئے جائیں جو اس بات کی نگرانی کریں کہ مہمانوں کی تعداد غلط نہ بتائی جائے اور یہ بھی دیکھیں کہ کھانا پورا ملے.پرچی لکھوانے والوں کو کہہ دیا جائے کہ مہمانوں کی تعداد صحیح بتاؤ.ہاں اگر کھانا زیادہ درکار ہو تو اتنا ہی دے دیا جائے گا.اس سے یہ فائدہ بھی ہو گا کہ بعض مقامی غیر احمدی جو شرارت کرتے ہیں وہ نہ کر سکیں گے اور دھوکا دے کر کھانا لے جانے والوں کی تعداد بہت کم ہو جائے گی.جو شخص جتنی روٹی کھاتا ہے اسے اتنی ہی دی جائے.اگر کوئی نہیں کھانے والا ہے تو اسے ہیں ہی دی جائیں.ان باتوں کا بہت خیال رکھا جائے.میں نے گزشتہ سال اس کی بعض حکمتیں بتائی تھیں اور بھی بتا سکتا ہوں مگر یہ موقع نہیں.پس انسپکٹر ضرور مقرر کئے جائیں اور جس کی پرچی جھوٹی ثابت ہو اُسے سزا دی جائے.مگر اس کے ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ کھانا پورا ملے.اگر کھانا پورا ملنے انتظام کر دیا جائے تو پھر جو جھوٹ بولے اسے وہی سزا دی جائے جو جھوٹ بولنے والوں کو ایک سچی قوم کو دینی چاہئے.جھوٹ بولنے والا تو مذہب سے بھی خارج ہوتا ہے اور ایسے شخص کو اگر ہم جماعت سے بھی خارج کر دیں تو یہ کوئی بڑی بات نہیں.پس جھوٹی پرچیوں کو روکا جائے.ہر ایک مہمانوں کی تعداد صحیح بتائے.اگر کسی کے گھر میں دس مہمان ہیں اور وہ دس دس روٹیاں کھانے والے ہیں تو وہ بے شک سو روٹیاں لے جائے مگر تعداد اتنی ہی بتائے جتنے در حقیقت مہمان ہیں..اس سلسلہ میں چوتھی بات وہی ہے جو میں پہلے کہہ چکا ہوں کہ دوست دعائیں کریں.جیسا کہ میں کہہ چکا ہوں یہ بہت نازک زمانہ ہے ہر چیز گراں ہو رہی ہے.پھر جماعت پر تحریک جدید کا بھی بوجھ ہے.اس لئے دعائیں کریں اور یہ بھی دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ بارش برسائے.اس سے جلسہ سالانہ پر بھی آرام ملے گا اور

Page 656

* 1941 656 خطبات محمود کر گو جلسہ کے لئے تو گندم خریدی جا چکی ہے لیکن اگر بارش نہ ہوئی تو ایسا قحط پڑنے کا اندیشہ ہے کہ ممکن ہے لوگ پچھلے سالوں کی طرح جلسہ پر نہ آ سکیں.پس دعائیں کرو کہ اللہ تعالیٰ قحط کے سامان دور کرے.گورنمنٹ دھمکیاں تو بہت دیتی رہتی ہے که گندم مہنگی نہ کی جائے اور اس پر کنٹرول کے اعلان بھی کرتی رہتی ہے مگر عملاً کرتی کچھ نہیں.اس کی مثال بالکل اس بنئے کی سی ہے جو لڑتے وقت کہتا ہے کہ اب تم گالی دے کر دیکھو میں پنیری ماروں گا مگر مارتا کبھی نہیں.اسی طرح گورنمنٹ بھی دھمکی تو دے دیتی ہے مگر پھر خاموش ہو جاتی ہے.وہ قریباً ڈیڑھ ماہ سے بنیوں والی لڑائی لڑ رہی ہے.وہ دھمکی دیتی ہے کہ اب اگر بھاؤ بڑھا تو کنٹرول دیا جائے گا مگر بیوپاری اور بڑھا دیتے ہیں اور وہ پھر خاموش ہو جاتی ہے.جب اس نے یہ دھمکیاں شروع کیں اُس وقت بھاؤ قریباً چار روپے نو آنے من تھا.مگر اب پانچ روپے پانچ آنے بلکہ اس سے بھی زیادہ چڑھ گیا ہے.بعض نادان زمیندار ممبروں نے اسمبلی میں یہ سوال اٹھایا ہے کہ گندم مہنگی کی جائے اور وہ اس میں زمینداروں کا فائدہ سمجھتے ہیں مگر انہیں یہ شاید نہیں کہ آجکل کی مہنگائی کا فائدہ زمینداروں کو نہیں ہو سکتا بلکہ تاجروں کو ہوتا ہے.آجکل کس زمیندار کے گھر میں گندم ہوتی ہے ؟ اس موسم میں تو بعض زمینداروں کے گھروں میں بیج کے لئے بھی گندم نہیں ہوتی اور زمیندار بے چاروں کی تو یہ حالت ہوتی ہے کہ ان کا غلہ نکلتا بعد میں ہے اور بک پہلے جاتا ہے.تاہم جیٹھ ہاڑ کی گرانی سے زمینداروں کو کچھ فائدہ پہنچ سکتا ہے.آجکل کی گرانی کا فائدہ ان کو نہیں بلکہ تاجروں کو پہنچتا ہے.تاجروں کا قاعدہ ہے کہ جب زمینداروں کے ہاں گندم ہوتی ہے اس وقت سستی خرید لیتے ہیں اور جب ان کے پاس نہ رہے تو مہنگی کر دیتے ہیں اور اس طرح لوگوں کو تنگ معلوم کرتے اور ملک کو خوب لوٹتے ہیں.پس دوست دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ قحط کے آثار دور کر دے اور مالی مشکلات

Page 657

* 1941 657 خطبات محمود کو رفع فرمائے.ہمارے جلسہ کو بھی کامیاب بنائے اور ہمیں توفیق دے کہ اس کی راہ میں زیادہ سے زیادہ قربانیاں کر سکیں.اس کے بعد میں اب اُس چٹھی کو لیتا ہوں جو مولوی محمد علی صاحب کی طرف سے شائع ہوئی ہے اور جسے میرے نام کھلی چٹھی قرار دیا گیا ہے.اس میں.مولوی صاحب لکھتے ہیں کہ :.ہوتی چند ماہ ہوئے آپ نے مجھے دعوت دی تھی کہ میں قادیان میں آکر آپ کی جماعت کے سامنے وہ دلائل پیش کروں جن کی بناء پر جماعت لاہور کا یہ عقیدہ ہے کہ حضرت مسیح موعود نے اپنے دعوے کے نہ ماننے والے مسلمانوں کو کافر نہیں ٹھہرایا اور نہ خود نبوت کا دعویٰ کیا.اسے میں نے خوشی سے منظور کیا اور صرف اس قدر درخواست کی تھی کہ جماعت تو جلسہ سالانہ کے موقع پر ہی جمع لئے اُس وقت مجھے یہ موقع دیا جائے.اس کے اس ہے اب میں آپ نے یہ لکھا کہ جلسہ سالانہ پر آپ یہ موقع نہیں دے سکتے.البتہ جلسہ سالانہ کے بعد دو دن دے سکتے ہیں بشر طیکہ آپ کے مہمانوں کا خرچ بحساب تین ہزار روپیہ یومیہ میں ادا کروں.یعنی چھ ہزار روپیہ آپ کی خدمت میں پیش کروں.جواباً میں نے لکھا تھا کہ قادیان میں جا کر ہم آپ کے مہمان ہوں گے اور آپ اور آپ کی جماعت کی حیثیت میزبان کی ہو گی اور میزبان کا یہ مطالبہ کہ مہمان اپنا ہی نہیں میزبان کا خرچ بھی ادا کرے مہمان نوازی کے اسلامی خُلق کی بالکل ضد ضد ہے آپ نے اب تک اس کا کوئی جواب نہیں دیا اور اب چونکہ جلسہ سالانہ قریب آرہا ہے اس لئے یاد دہانی کے طور پر عرض کرتا ہوں کہ خود دعوت دے کر اب آپ کا اس طرح خاموشی اختیار کرنا مناسب نہیں."

Page 658

خطبات محمود پر 658 * 1941 میں نے مولوی صاحب کو یہاں آکر دوسرے دنوں میں تقریریں کرنے کی دعوت دی تھی اور یہ صحیح ہے کہ ان کی طرف سے یہ مطالبہ ہوا تھا کہ جلسہ کے دنوں میں انہیں موقع دیا جائے.جلسہ سالانہ کے موقع پر لوگ ہزاروں میلوں سے آتے ہیں اور ہزاروں جماعتوں اور قوموں کے لوگ آتے ہیں اور ہماری جماعت کا جلسہ 25، 30 ہزار روپیہ خرچ ہو جاتا ہے اور جو لوگ آتے ہیں وہ بھی لاکھوں روپیہ خرچ کر کے آتے ہیں.کلکتہ اور بنگال کے دوسرے شہروں یا بہار وغیرہ سے یہاں تک ایک آدمی کا ایک طرف کا کرایہ 20، 25 روپیہ لگتا ہے اور اگر یو.پی کے پرے سے آنے والوں کی تعداد دو سو بھی سمجھ لی جائے اور وہ سب تھرڈ کلاس میں ہی سفر کریں تو دس پندرہ ہزار روپیہ تو صرف ان کا ہی خرچ ہو جاتا ہے.حالانکہ آنے والوں کی تعداد اس سے بہت زیادہ ہوتی ہے.پھر اگر سندھ ، مدراس، بمبئی، کنانور وغیرہ علاقوں سے آنے والوں کا کرایہ اور سفر کے دوسرے اخرجات دیکھے جائیں تو یہ رقم بہت بڑی بن جاتی ہے اور دو سو میل سے زیادہ دور سے آنے والوں مثلاً صوبہ سرحد، راولپنڈی اور دہلی وغیرہ سے جو دوست آتے ہیں ان کا خرچ بھی 20، 25 روپیہ سے کم نہیں ہوتا اور ان کی تعداد ہزار پندرہ سو بھی سمجھ لی جائے تو ہمیں پچیس ہزار روپیہ تو ان کا خرچ ہی بن جاتا ہے.قریب کے علاقوں سے آنے والے لوگ اس کے علاوہ ہیں.اور اس طرح آنے والوں کا خرچ ایک لاکھ بلکہ اس سے بہت زیادہ ہو جاتا ہے.پس یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ میں اپنی جماعت کے دوستوں کا اتنا روپیہ جو میری اور میرے معاونین کی باتیں سننے کے لئے خرچ کرتے ہیں ضائع کرا دوں.کیا مولوی صاحب بتا سکتے ہیں کہ ایسی مثال پہلے بھی کہیں ملتی ہے؟ میں نے جو دعوت دی تھی وہ ایسے موقع کے لئے تھی جب میرے لئے سہولت ہو.مولوی صاحب کا مطالبہ جلسہ سالانہ کے موقع پر تقریر کا ہے لیکن جلسہ کے موقع پر ہماری جماعت کے لوگ لاکھوں روپیہ خرچ کر کے یہاں پر میری اور میرے ساتھ کام کرنے والوں کی باتیں سننے کے لئے آتے ہیں مولوی صاحب کی نہیں.اگر انہیں ان کی باتوں کا شوق

Page 659

* 1941 659 خطبات محمود ہوتا تو یہاں نہ آتے بلکہ لاہور جاتے.پس جو لوگ لاکھ ڈیڑھ لاکھ روپیہ خرچ کر کے میری اور میرے ساتھ کام کرنے والوں کی باتیں سننے آتے ہیں انہیں میں مولوی صاحب کی خاطر کیوں مایوس کروں اور کیوں تکلیف میں ڈالوں؟ البتہ میں نے یہ کہا تھا کہ اگر وہ اس موقع پر ہی باتیں سنانا چاہیں تو ہم جلسہ کی تاریخوں آگے یا پیچھے دو دن بڑھا دیں گے اور میں اعلان کر دوں گا کہ دوست کوشش کر کے ان دنوں کے لئے ٹھہر جائیں مگر ان مہمانوں کو چونکہ مولوی صاحب کی باتیں سننے کے لئے ہی ٹھہرایا جائے گا اس لئے ان دنوں کا خرچ بھی انہی کو دینا چاہئے.مولوی صاحب کہتے ہیں کہ میرا یہ مطالبہ کہ “ مہمان اپنا ہی نہیں میزبان کا خرچ بھی ادا کرے.مہمان نوازی کے اسلامی خُلق کی بالکل ضد ہے.” لیکن میں کہتا ہوں کہ میزبان تو میں ہوں اور میں نے تو اپنا خرچ نہیں مانگا باہر سے آنے والے تو مہمان ہیں اور جن مہمانوں کو ان کی دعوت پر اور ان کی باتیں سننے کے لئے ٹھہرایا جائے گا ان کا خرچ تو بہر حال انہی پر پڑنا چاہئے اور یہ اسلامی خلق کے بالکل خلاف بات نہیں.مہمان کا خود کہنا کہ میرے لئے پلاؤ پکایا جائے، قورمہ پکایا جائے یہ تو مہمانی نہیں بلکہ بے حیائی سمجھی جاتی ہے.اگر تو مولوی صاحب کہیں کہ میں خود آتا ہوں ان کی مہمان نوازی کریں گے لیکن یہ کہ مہمان کہے میرے ساتھ اتنے ہزار آدمیوں کی بھی دعوت کرو اور ان کے لئے بھی کھانے کا انتظام کرو یہ کوئی اسلامی خلق نہیں ہے اور ایسی بات نہ کر سکنے کا نام اسلامی خُلق کی ضد میں نے تو کسی جگہ نہیں پڑھا.اگر جیسا کہ وہ کہتے ہیں یہی اسلامی خُلق ہے تو وہ ہمیں اجازت دیں کہ ہم بھی اس طرح مہمان نوازی کی دعوت دے دیا کریں اور لکھ دیا کریں کہ آپ اس قدر آدمیوں کی مہمان نوازی کا انتظام کریں.ہمارے آدمی آپ کو کچھ باتیں سنانے کے لئے آتے ہیں.ہم دیکھیں گے کہ وہ کس طرح اس اسلامی خلق پر عمل کرتے ہیں.ہماری تو لاہور کی جماعت ہی خدا تعالیٰ کے فضل سے کافی ہے باہر سے بھی لے جانے کی ضرورت نہیں.اگر وہی ان کے اس اسلامی خلق کا امتحان کرنے لگے تو

Page 660

* 1941 660 خطبات محمود ان کو دو چار دفعہ میں ہی پتہ لگ جائے.غرض مہمان کا یہ حق نہیں کہ وہ کہے میری تقریر سننے کے لئے ہیں، پچیس ہزار آدمی جمع کئے جائیں اور ان کو کھانا بھی کھلایا جائے اور ایسا مطالبہ پورا نہ کر سکنے کا نام اسلامی خُلق کی ضد رکھنا زبر دستی اور دھینگا مشتی ہے.اگر مولوی صاحب ثابت کر دیں کہ یہ بھی مہمان نوازی میں شامل ہے کہ کوئی شخص کہے میں اپنی تقریر سنانے آ رہا ہوں اور اسے سننے کے لئے ہیں پچیس ہزار آدمی جمع کئے جائیں اور ان کے لئے کھانے وغیرہ کا انتظام کیا جائے تو وہ ایسی آیت اور حدیث جس میں اسے مہمان نوازی کا حصہ قرار دیا گیا ہو لکھ کر بھیج دیں تو میں مان لوں گا.چاہے مجھے کتنا نقصان ہو میں فوراً تسلیم کر لوں گا لیکن اگر واقعی ان کا یہ عقیدہ ہے کہ اس قسم کی مہمان نوازی اسلامی خلق میں داخل ہے تو اس خلق کا تجربہ ہمیں ایک سال کے لئے کر لینے دیں اس کے بعد ہم سے مطالبہ کریں.ہاں مولوی صاحب اگر میری دعوت کے مطابق آنا چاہتے ہیں تو اپنی سہولت کے لحاظ سے جس موقع پر انہیں میں دعوت دوں آ جائیں لیکن ان کا ہمارے جلسہ کے وقت کو اپنے لئے حاصل کرنے کا مطالبہ کرنا اور یہ کہنا کہ زائد وقت دے کر اپنے بھی اور ان کے بھی ہزاروں آدمیوں کے کھانے کا انتظام کروں یہ کوئی اسلامی خلق میں شامل بات نہیں.یہ تو ایسی ہی بات ہے کہ کوئی شخص کسی کے ہاں مہمان جائے اور پھر خود ہی کئی ہزار لوگوں کو بھی اس کے ہاں مدعو کرنے کا آرڈر بھیج دے.ایسے آدمی کو تو ہر شخص ڈھیٹ کہے گا اسلامی مہمان نہیں کہے گا.پس یہ بات اسلامی خلق میں داخل نہیں کہ ہم مولوی صاحب کی تقریریں سننے کے لئے ہیں پچیس ہزار آدمیوں کو روک کر ان کا زائد خرچ برداشت کریں.جو جائز صورت وہ تو میں نے خود پیش کر دی تھی اور اس کے لئے میں اب بھی تیار ہوں.اس صورت میں میرے لئے صرف اتنا کام ہوتا کہ میں قادیان کے لوگوں کو جمع کر دیتا مگر ان کا یہ مطالبہ کہ جلسہ کے دنوں میں ہم ہزاروں لوگوں کو روکیں اور ان پر خرچ کریں یہ مہمان نوازی کا طریق اسلام کی کسی تعلیم میں میں نے نہیں پڑھا.ہاں

Page 661

* 1941 661 خطبات محمود میری دعوت موجود ہے جلسہ کے موقع کے سوا جب وہ آسکیں اور مجھے سہولت ہو وہ تشریف لے آئیں.میں قادیان کے لوگوں کو جمع کر دوں گا بلکہ باہر بھی اعلان کر دوں گا کہ جو دوست آنا چاہیں آ جائیں.وہ اپنی باتیں سنا دیں اور میں یا میرا نمائندہ اپنی سنا دے گا مگر جو دعوت وہ چاہتے ہیں وہ تو زبر دستی کی دعوت ہے اور بالکل ایسی ہی بات ہے کہ مہمان نہ صرف خود آ جائے بلکہ کارڈ چھپوا کر دوسروں کو بھی بھیج دے.لوگ ایٹ ہوم دیا کرتے ہیں جو کسی کے اعزاز میں دعوت ہوتی ہے.ایسی دعوت پر جسے جتنے آدمیوں کو بلانے کی توفیق ہو بلا لیتا ہے کوئی دس کو بلا سکا تو دس بلا لئے اور کوئی سو کو بلا سکا تو سو کو بلا لیا مگر یہ تو نہیں ہوتا کہ کوئی خود ہی کارڈ چھپوا کر دو ہزار لوگوں کو بھیج دے کہ فلاں شخص کے ہاں میرا ایٹ ہوم ہے تم بھی اس میں شریک ہو یا کسی کے ہاں شادی ہو لوگ جمع ہوں اور مولوی صاحب بہت سے لوگوں کو ساتھ لے کر وہاں پہنچ جائیں اور کہیں کہ میں نے اسلام کے متعلق تقریر سنانی ہے تم اپنی تقریب کو چھوڑ دو اور میری تقریر سنو اور پھر مہمانوں کے لئے جو کھانا تیار ہوا ہو اس پر اپنے ساتھیوں سمیت ہاتھ صاف کرنے لگ جائیں.یہ کوئی اسلامی تعلیم اور اسلامی خلق نہیں بلکہ اسلامی تعلیم کے سراسر خلاف بات ہے.اور ایک سوال کا رنگ ہے جسے اسلام بے شرمی قرار دیتا ہے.ہم نے تو اتنی شرم کی کہ انہوں نے سوال کیا اور وَأَمَّا السَّابِلَ فَلَا تَنْهَرُ 3 کے حکم کے ماتحت ہم نے ان کو دعوت دے دی کہ آپ آئیے ہم آپ کی میزبانی کریں گے اور آپ کے ساتھ جو چند لوگ ہوں گے ان کی بھی کیونکہ وہ دیر سے کہہ رہے تھے کہ آپ اپنی جماعت کو میری باتیں سننے نہیں دیتے.میں نے کہا کہ اچھا آپ آ جائیے میں قادیان کے لوگوں میں آپ کی تقریر کرا دوں گا.مگر انہوں نے اس کا یہ جواب دیا کہ اچھا تمہاری میز بانی منظور ہے مگر میری تقریر سننے کے لئے اپنا بیس ہزار آدمی بھی جمع کرو.اب اگر ہم اتنے لوگوں کو ان کے لئے جمع کریں پھر دو تین ہزار وہ ساتھ لے آئیں تو یہ تو کوئی مہمانی اور میزبانی کی صورت نہیں بلکہ یہ تو ٹوٹ ہے.

Page 662

خطبات محمود 662 * 1941 اگر اس کا نام مہمانی ہے تو وہ پہلے ہمیں اس کا تجربہ کرا دیں لیکن ہم اگر ایسا تجربہ کرائیں تو وہ شور مچانے لگ جائیں.مجھے مولوی صاحب کا جواب دینے کی تو کوئی ضرورت نہ تھی کیونکہ میں پہلے جواب دے چکا ہوا ہوں.مگر پھر بھی میں نے دے دیا ہے تا ان کو حسرت نہ رہے کہ جواب نہیں دیا.اگر وہ جلسہ کے موقع پر آکر تقریریں کرنا چاہتے ہیں تو اس کی صورت یہی ہے جو میں پہلے بیان کر چکا ہوں.گو اب ریٹ بہت بڑھ گئے ہیں اور ہر چیز مہنگی ہو چکی ہے.بعض قیمتیں تو ڈیوڑھی سے بھی زیادہ ہو گئی ہیں اور اس طرح پہلے تین ہزار کا مطالبہ تھا اب % 4 ہزار کا ہونا مگر میں پہلے ہی مطالبہ پر قائم ہوں.وہ تین ہزار روپیہ یومیہ کے حساب سے ہی چاہئے چھ ہزار روپیہ بیت المال میں بھیج دیں اور ہم جلسہ کے دو دن بڑھا دیں گے اور بھی کہہ دیں گے کہ جو دوست بھی ٹھہر سکیں ضرور ٹھہر جائیں اور اگر وہ دوسرے دنوں میں آنا چاہیں تو پھر کوئی خرچ ان سے نہ لیا جائے گا.ہم قادیان کے دوستوں کو جمع کر دیں گے اور باہر بھی اعلان کر دیں گے کہ جو دوست آنا چاہیں یا آ ہمیں وہ آجائیں.مولوی صاحب کو معلوم ہونا چاہئے کہ ان کے جلسہ پر بھی اتنے آدمی نہیں وتے جتنے یہاں عام جمعہ کے دن جمع ہوتے ہیں.چنانچہ اس وقت بھی جمعہ کے لئے جتنے لوگ بیٹھے ہیں اتنے کبھی بھی انہیں اپنے جلسہ میں نصیب نہیں ہوتے.اگر میں ان کے جلسہ پر جاؤں یا میرا نمائندہ جائے.فرض کرو مولوی ابو العطاء صاحب جائیں تو انہیں وہاں اتنے سامعین تو نہیں مل سکتے جتنے یہاں جمعہ میں بیٹھے ہیں.پس انہیں اس پر اعتراض نہیں ہونا چاہئے اور حق تو یہ ہے کہ باتیں ایک دوسرے کی سننے والے سنتے اور پہنچانے والے پہنچاتے ہی رہتے ہیں اس انتظام کی بھی کوئی خاص ضرورت نہ تھی یہ تو ہم نے ان کی خواہش کو پورا کرنے کے لئے بطور احسان دعوت دی تھی مگر انہوں نے اس احسان کی قدر نہ کی اور غیر معقول مطالبات شروع کر دیئے.پھر ایک اور بات بھی میری تجویز میں ان کے فائدہ کی ہے.وہ کہا کرتے ہیں کہ قادیان میں میرے قول کے مطابق (میرے اس قول کے مطابق جو

Page 663

خطبات محمود 663 * 1941 مولوی محمد علی صاحب کے منہ سے نکلا) قادیان میں پانسو منافقین ہیں اور ان کے بعض ساتھیوں کی زبانی ہزاروں منافق یہاں موجود ہونے کا میں نے اظہار کیا ہے.پس جب وہ عام دنوں میں یہاں آکر تقریر کریں گے تو قادیان کے لوگوں کی کثرت ہو گی اور یہ سب منافق بھی چھاتی پر ہاتھ رکھ کر کہہ اٹھیں گے کہ مولوی صاحب نے جو کچھ کہا ہے ٹھیک کہا ہے.منافق تو قادیان میں ہی ہیں باہر نہیں ہیں.اس لئے اگر سامعین میں باہر کے لوگ بھی ہوئے تو منافقین کی نسبت کم ہو جائے گی لیکن اگر صرف قادیان کے ہی لوگ ہوئے تو ان میں سے اگر پانسو بھی کھڑے ہو کر کہہ دیں گے کہ مولوی صاحب کے دلائل بہت وزنی ہیں اور ہم جماعت سے نکل کر ان کے ساتھ شامل ہوتے ہیں تو اس میں ان کو کتنا فائدہ پہنچے گا.بشر طیکہ ان کا یہ قول صحیح ہو کہ قادیان میں پانسو منافق ہیں.لیکن اگر یہ جھوٹ ہے اور فی الواقع جھوٹ ہے تو جھوٹ کا وبال جھوٹ بولنے والے کی گردن پر ہے.ہم اس کے کسی طرح ذمہ دار نہیں ہو سکتے." الفضل 12 دسمبر 1941ء ) 1: ابن ماجہ ابواب الفتن باب الصَّبْرُ عَلَى الْبَلَاءِ 2 کم مسریٹ (COMMISSARIAT) سپاہیوں کی رسد رسانی کا محکمہ.(فرہنگ آصفیہ) 3: الضحى :11

Page 664

* 1941 664 (37) خطبات محمود (1) موجودہ نازک ایام میں خصوصیت سے دعائیں کرو! (2) جماعت احمدیہ قادیان پر مولوی محمد علی صاحب کا بہت بڑا اتہام اور بہتان تشهد (فرمودہ 12 دسمبر 1941ء) تعوذ اور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:.“ یہ ہفتہ اپنے ساتھ پھر بہت سی ہولناک خبریں لایا ہے اور گزشتہ جمعہ اور اس جمعہ کے دوران میں انگلستان اور جاپان کی لڑائی شروع ہو چکی ہے.ساتھ ہی ممالک متحدہ امریکہ بھی لڑائی میں شامل ہو گئے ہیں.گویا اب یہ جنگ پچھلی جنگ کی طرح عالمگیر ہو گئی ہے.چنانچہ اٹلی اور جرمنی نے بھی امریکہ کے خلاف اعلانِ جنگ کر دیا ہے اور امریکہ نے بھی اٹلی اور جرمنی کے خلاف اعلان جنگ کر دیا ہے.گویا اب ایشیا، امریکہ، یورپ، افریقہ اور آسٹریلیا سارے براعظم ہی اس جنگ میں شریک ہو چکے ہیں.یہ جنگ اپنی تباہی اور ہولناکی کے لحاظ سے شروع سے ہی پہلی جنگ سے زیادہ تھی کیونکہ جو سامانِ جنگ گزشتہ پچیس سالوں میں ایجاد ہوئے ہیں وہ پہلے نہیں تھے.کئی نئی قسم کے بارود ایجاد ہوئے ہیں، کئی نئے طریق جہازوں اور شہروں کو تباہ کرنے کے نکالے گئے ہیں.اسی طرح ٹینکوں اور ہوائی جہازوں میں اس قدر ترقی ہوئی ہے کہ پہلے ٹینکوں اور ہوائی جہازوں کی ان کے مقابلہ میں کوئی نسبت ہی نہیں.

Page 665

خطبات محمود ہے.665 * 1941 غرض تباہی کے سامانوں کے لحاظ سے یہ جنگ پہلے ہی بہت خطرناک تھی لیکن بہت سے نادان اس وقت یہ سمجھا کرتے تھے کہ یہ جنگ یورپ میں لڑی جا رہی ہے اور ان ہوائی جہازوں، ٹینکوں، توپوں اور گولہ بارود سے انگریزوں کو نقصان پہنچ رہا ہے، فرانسیسیوں کو نقصان پہنچ رہا ہے، جرمنی اور اٹلی والوں کو نقصان پہنچ رہا.ہمیں اس جنگ سے کیا واسطہ ہے؟ لیکن اب یہ ساری دنیا میں ہی پھیل رہی ہے جس کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ وہ تباہی کے سامان جو پچھلے دو سالوں میں یورپ میں استعمال ہوئے اب یورپ امریکہ اور ایشیا سب جگہ استعمال ہوں گے اور یہ جنگ ہندوستان کے تو اس قدر قریب پہنچ چکی ہے کہ اب کلکتہ وغیرہ کو آسانی کے ساتھ بمبارڈ کیا جا سکتا ہے.فاصلہ کے لحاظ سے بے شک کلکتہ پنجاب سے دور نظر آتا ہے لیکن اگر ہم اس بات کو دیکھیں کہ ہمارے ملک میں دفاع کے سامان بہت کم ہیں تو یہ فاصلہ کی زیادتی کوئی زیادہ اہمیت نہیں رکھتی.باقی ساری قومیں ہندوستان سے تعداد میں بہت کم ہیں مگر ان کے پاس دفاع کے سامان ہندوستان سے بہت زیادہ ہیں.اٹلی ایک چھوٹا سا ملک ہے جس کی آبادی ہندوستان کی آبادی کا ساتواں حصہ ہے مگر اٹلی کی فوج ہندوستان کی فوج سے دس گنے زیادہ ہے.گویا ہندوستان سے دس گنے زیادہ فوج کو ہندوستان سے ہیں گنے کم علاقہ کی حفاظت کرنی پڑتی ہے.اگر اتنی ہی اگر فوج ہندوستان کے پاس ہو.مثلاً ان کی فوج کا اندازہ ستر لاکھ کیا جاتا ہے اب ستر لاکھ فوج ہندوستان کے پاس ہو تب بھی وہ اس خوش اسلوبی سے ہندوستان کا دفاع نہیں کر سکتی جس خوش اسلوبی سے اٹلی کی فوج اپنے ملک کا دفاع کر سکتی ہے کیونکہ اٹلی کے ایک ایک میل پر اگر دس دس سپاہی کھڑے ہو سکتے ہیں تو ہندوستان کے ایک ایک میل پر بمشکل آدھا سپاہی کھڑا ہو گا.تو کئی لوگ پہلے اس غلط فہمی میں مبتلا تھے بلکہ اب تک بعض لوگ اس غلطی فہمی میں مبتلا ہیں کہ یہ جنگ ہندوستان سے بہت دور ہے.حالانکہ وہ یہ نہیں جانتے کہ اب تو یہ جنگ یوں بھی قریب آچکی ہے اور پھر حالات کے لحاظ سے تو ہندوستان کو بہت زیادہ خطرہ ہے کیونکہ اس کے پاس

Page 666

* 1941 666 خطبات محمود دفاع کا کوئی سامان نہیں.ہندوستان کی حالت بالکل ایسی ہی ہے جیسے بعض لوگ کتے کی دم میں پیپر باندھ دیتے ہیں.کتا دوڑتا جاتا ہے اور پیپہ ہر جگہ ٹکراتا پھرتا ہے.خود ہندوستان میں یہ طاقت نہیں کہ وہ اپنی حفاظت کر سکے ورنہ اسے اس بات کی آزادی ہے کہ وہ دفاع کے متعلق خود کوئی تجویز سوچ سکے، وہ مُردہ بدست زندہ کے طور پر انگریزوں کے ہاتھ میں ہے، وہ ہندوستان سے جتنی فوج بھرتی کرنا چاہیں اتنی ہی فوج بھرتی ہو سکتی ہے پھر جتنا سامانِ جنگ تیار کرنا چاہیں اتنا ہی تیار ہو سکتا ہے اور جس جگہ مقابلہ کرنا چاہیں اسی جگہ مقابلہ ہو سکتا ہے.اگر وہ ہندوستان کی فوجوں کو باہر بھیجنا چاہیں تو باہر بھیج سکتے ہیں اور اگر ہندوستان کے اندر رکھنا چاہیں تو اند ررکھ سکتے ہیں.خود ہندوستانیوں کی آواز کا اس میں کوئی دخل نہیں.ایسی صورت میں تھوڑے بہت سامان جو ہندوستانیوں کو حاصل ہیں ان کو بھی استعمال نہ کرنا در حقیقت بہت بڑی حماقت ہے.یہ خیال کر لینا کہ یہ صرف انگریزوں کی جنگ ہے اور اس میں اگر نقصان ہوا تو انگریزوں کا ہی ہو گا درست نہیں.اس لئے کہ اگر ہندوستان پر حملہ ہوا تو انگریزوں سے بہت زیادہ ہندوستانیوں کو نقصان پہنچے گا.اگر ہندوستان پر بمباری ہو تو انگریزوں کی بڑی سے بڑی آبادی کلکتہ میں ہے مگر وہاں بھی ہندوستانیوں کے مقابلہ میں ان کی کوئی نسبت ہی نہیں انگریز وہاں زیادہ سے زیادہ ایک فی صدی ہوں گے.کلکتہ کی آبادی اس وقت پندرہ لاکھ سے اوپر ہے اور انگریز زیادہ سے سو زیادہ پندرہ ہزار ہوں گے.پس یہ یقینی بات ہے کہ اگر وہاں بمباری کے نتیجہ میں آدمی مریں گے تو ان میں سے ایک انگریز ہو گا اور ننانوے ہندوستانی ہوں گے مگر پھر بھی ہم میں سے کئی ہیں جو حماقت سے یہ سمجھتے ہیں کہ ہمیں اس جنگ سے سے کیا ہے؟ اور میں خیال کرتا ہوں کہ ابھی تک ہماری جماعت میں بھی ایسے لوگ موجود ہیں جن کے دلوں میں اس جنگ کی اہمیت کا احساس پورے طور پر پیدا نہیں ہوا.ان میں تبدیلی ضرور ہوئی ہے اور میرے متواتر خطبات کی وجہ سے ان کے خیالات ضرور بدل رہے ہیں مگر ابھی تک جماعت کے تمام افراد کے دلوں میں یہ احساس

Page 667

* 1941 667 خطبات محمود پیدا نہیں ہوا کہ وہ اس خطرہ کو محسوس کریں.یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ اس جنگ کے شروع سے ہی اُس نے مجھے ایسی خبریں بتائیں جن میں سے اکثر بالکل واضح تھیں اور اپنے وقت پر نہایت شاندار رنگ میں پوری ہوئیں اور بعض دفعہ وہ ایسے اشاروں میں بھی تھیں کہ میں نے اُس وقت ان کے مفہوم کو نہیں سمجھا.مگر بعد میں جب واقعات ظاہر ہوئے تو ان خبروں کی صداقت روشن ہو گئی.مثلاً یہی جاپان کی جنگ ابھی شروع نہیں ہوئی تھی کہ میں نے گزشتہ ہفتہ میں جمعرات یا جمعہ کی رات کو ایک رؤیا دیکھا جس کی تعبیر میں تو کچھ اور کرتا رہا مگر بعد میں جب اس جنگ کا آغاز ہوا تو معلوم ہوا کہ اس کی تعبیر اور تھی.میں نے رویا میں دیکھا کہ ایک کوٹھڑی میں ایک شخص بیٹھا ہے اور وہ کچھ کاغذات جلا رہا ہے اور میں رویا میں ہی ایک اور شخص سے کہتا ہوں کہ یہ شخص نہایت ضروری کاغذات جلا رہا ہے.خواب سے بیدار ہو کر میں نے اس کی کئی قسم کی تعبیریں کیں مگر جو اصل تعبیر تھی وہ میرے ذہن میں نہ آئی.حقیقت یہ ہے کہ بھی حکومتوں کی آپس میں جنگ چھڑتی ہے تو چونکہ ہر ملک میں دوسرے ملک کے سفیر ہوتے ہیں اس لئے وہ سفیر اس وقت ضروری کاغذات جلا دیتے ہیں تاکہ وہ کاغذات دوسری حکومت کے قبضہ میں نہ آئیں.ان کاغذات میں ان لوگوں کے نام ہوتے ہیں جنہیں انہوں نے پیسے دے دے کر خریدا ہوا ہوتا ہے یا دوسرے ملک کی ان تجاویز کا ذکر ہوتا ہے جو جنگ کے متعلق عمل میں لائی جانے والی ہوتی ہیں.مثلاً انگلستان میں جو جاپانی سفیر تھا اس کا صرف یہی کام نہیں تھا کہ وہ اپنی حکومت کی چٹھیاں دوسری حکومت تک پہنچا دے بلکہ اس کا یہ بھی کام تھا کہ وہ کمزوروں کو ، دے دے کر خریدے.اسی طرح انگریزوں کی جنگ کی تجاویز معلوم اس وجہ سے ان لوگوں کے پاس کئی قسم کی لسٹیں ہوتی ہیں کیونکہ کئی لوگ انہوں نے ایسے تیار کئے ہوئے ہوتے ہیں جن کا کام یہ ہوتا ہے کہ وہ کارخانوں میں آگ لگا دیں اور اس طرح حکومت کو نقصان پہنچائیں.کئی لوگ انہوں نے ایسے تیار کئے ہوئے

Page 668

* 1941 668 خطبات محمود ہوتے ہیں جن کا کام یہ ہوتا ہے کہ وہ جہازوں وغیرہ کے کارخانوں میں کام کرتے ہوئے کسی ضروری پرزے میں نقص پیدا کر دیں تاکہ جب جہاز تیار ہو کر جنگ کے لئے آئیں تو انہیں آسانی سے تباہ کیا جا سکے.غرض سفیر مختلف کام کرتے رہتے ہیں اور جب جنگ کا اعلان ہوتا ہے تو وہ ان کا غذات کو جلا دیتے ہیں تاکہ کسی کے قبضہ میں نہ آ جائیں.چنانچہ پہلے دن جب جنگ کی خبر شائع ہوئی تو ساتھ ہی یہ خبر آئی کہ جاپانی سفارت خانہ میں جاپانیوں کو کاغذ جلاتے دیکھا گیا ہے.اس خبر کا یہ مطلب نہیں کہ یہ کام صرف جاپانیوں نے ہی کیا ہے بلکہ اس قسم کے کاغذات انگریزوں نے بھی جلائے ہوں گے، امریکنوں نے بھی جلائے ہوں گے.خبروں میں صرف ایک ملک کے سفارت خانہ کا حال بیان ہو گیا ہے کیونکہ کاغذات جلاتے وقت کسی اخباری رپورٹر کی نگاہ اس پر پڑ گئی ہو گی.بہر حال اس جنگ کے شروع میں اللہ تعالیٰ نے یہ نظارہ دکھا کر مجھے بتایا کہ اب کوئی نئی حکومت جنگ میں شامل ہونے والی ہے اور اس کے سفارت خانوں میں ضروری کاغذات جلائے جائیں گے.چنانچہ ایسا ہی ہوا.اسی طرح جس دن جنگ کا آغاز ہوا اور ہم کو اس کی اطلاع آئی اس سے پہلی رات مجھے ایک جنگ کا نظارہ خواب میں دکھایا گیا مگر جیسا کہ اللہ تعالیٰ کی سنت ہے اس نے خواب کا نظارہ مجھے مقامی ماحول میں دکھایا.اسی رنگ کے نظارے مجھے پہلے بھی دکھائے جا چکے ہیں.مجھے دکھایا گیا کہ ہمارے باغ اور قادیان کے درمیان جو تالار ہے اس میں قوموں کی لڑائی ہو رہی ہے مگر بظاہر چند آدمی رسہ کشی کرتے نظر آتے ہیں کوئی شخص کہتا ہے کہ اگر یہ جنگ یونان تک پہنچ گئی تو اس کے بعد یکدم حالات متغیر ہوں گے اور جنگ بہت اہم ہو جائے گی.اس کے بعد میں نے دیکھا کہ یکدم اعلان ہوا ہے کہ امریکہ کی فوج ملک میں داخل ہو گئی ہے اور میں دیکھتا ہوں کہ امریکہ کی فوج بعض علاقوں میں پھیل گئی ہے مگر وہ انگریزی حلقہ اثر میں آنے جانے میں کوئی رکاوٹ نہیں ڈالتی.اب یہ نظارہ دکھایا تو قادیان کے ماحول میں گیا مگر اس میں جنگ کی قریباً تفصیلات بتا دی گئی ہیں حتی کہ امریکہ کے انگریزوں کی

Page 669

* 1941 669 خطبات محمود.تائید میں جنگ میں شامل ہونے کا بھی ذکر ہے.غرض یہ اللہ تعالیٰ کا طریق ہے کہ وہ کبھی ایک قریب کی چیز دکھاتا ہے اور مراد اُس سے دُور کی چیز ہوتی ہے اور کبھی دُور کی چیز دکھاتا ہے اور مراد اُس سے قریب کی چیز ہوتی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام نے اس نہایت ہی لطیف مضمون کو آئینہ کمالات اسلام ” میں بیان فرمایا ہے اور بتایا ہے کہ ایک چھوٹی چیز کو بڑی شکل میں یا قریب کی چیز کو دور کی چیز کی صورت میں دکھائے جانے کی مثال یہ ہے کہ حضرت یوسف علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے بتانا صرف یہ تھا کہ آپ کے گیارہ بھائی اور ماں باپ آپ کے تابع فرمان ہو جائیں گے دکھایا یہ گیا کہ گیارہ ستاروں اور سورج اور چاند نے آپ کو سجدہ کیا ہے.اب کتنا بڑا نظام عالم حضرت یوسف علیہ السلام کو دکھایا گیا مگر مراد یہ تھی کہ ان کے بھائی اور ماں باپ ان کے تابع ہوں گے.اسی طرح کبھی ایک بڑی چیز کو چھوٹا کر کے دکھا دیا جاتا ہے.اس کی مثال میں بھی آپ نے حضرت یوسف علیہ السلام کے زمانہ کے ایک واقعہ کو ہی پیش کیا ہے کہ بادشاہ نے خواب میں دیکھا کہ سات موٹی گائیں ہیں جنہیں سات دبلی گائیں کھا رہی ہیں.اسی طرح سات سبز اور چند خشک بالیں اسے خواب میں دکھائی گئیں.1 یہ نظارہ بظاہر بالکل معمولی ہے مگر اس سے مراد یہ تھی کہ ایک اتنا عظیم الشان قحط پڑے گا جس کا اثر سات سال تک رہے گا.یہ کتنا ہولناک نتیجہ ہے جو خواب سے ظاہر ہوتا ہے مگر اللہ تعالیٰ نے خواب میں گائیں دکھا دیں حالانکہ گائیوں کا کیا ہے تیس چالیس روپے تک میں آ جاتی ہیں مگر ان گائیوں وغیرہ سے اللہ تعالیٰ کی مراد یہ تھی کہ ملک کے رفاہ اور اس کی ترقی کو وجہ سخت نقصان پہنچے گا.سات سال تک قحط پڑے گا اور ہزاروں لوگ بھوک کی سے مر جائیں گے تو بعض دفعہ ایک چھوٹی چیز دکھائی جاتی ہے اور مراد اس سے بڑی ہوتی ہے اور بعض دفعہ ایک بڑی چیز دکھائی جاتی ہے اور مراد اس سے اس سے چھوٹی ہوتی ہے.مجھے بھی اسی قسم کا ایک رویا ہوا.میں نے دیکھا کہ میں ایک مکان میں ہوں

Page 670

* 1941 670 خطبات محمود جو ہمارے مکانوں سے جنوب کی طرف ہے اور اس میں ایک بڑی بھاری عمارت ہے جو کئی منزلوں میں ہے.اس کئی منزلہ عمارت میں میں بھی ہوں اور یوں معلوم ہوتا کہ یکدم غنیم حملہ کر کے آگیا ہے اور اس غنیم کے حملہ کے مقابلہ کے لئے ہم لوگ تیاری کر رہے ہیں.میں اس وقت اپنے آپ کو کوئی کام کرتے نہیں دیکھتا مگر میں یہ محسوس کرتا ہوں کہ میں بھی لڑائی میں شامل ہوں.یوں اس وقت نے نہ تو ہیں دیکھی ہیں، نہ کوئی اور سامانِ جنگ.مگر میں سمجھتا یہی ہوں کہ قسم کے آلات حرب استعمال کئے جارہے ہیں.اسی دوران میں میں نے محسوس کیا کہ وہاں پٹرول کا ذخیرہ ختم ہو گیا ہے.میں تیزی سے اتر کر نچلی منزل میں آتا ہوں اور کہتا ہوں پٹرول ختم ہو گیا ہے.اس وقت میں خیال کرتا ہوں کہ ہمیں پٹرول موٹروں کے لئے نہیں چاہئے بلکہ دشمن پر پھینکنے کے لئے پٹرول کی ضرورت ہے.چنانچہ مجھے کسی شخص نے بتایا کہ نیچے ایک تہہ خانہ ہے جس میں پٹرول موجود ہے اس پر ایک شخص اس تہہ خانہ میں گیا اور چھ گیلن پٹرول کی بیرل لے کر آ گیا.ساتھ ہی اس کے دوسرے ہاتھ میں ایک سیڑھی ہے تاکہ سیڑھی کی مدد سے وہ اوپر چڑھ کر دشمن پر پٹرول پھینک سکے.یہ دونوں چیزیں اٹھا کر اس نے اوپر چڑھنا شروع کر دیا اور اتنی تیزی سے وہ چڑھنے لگا کہ یوں معلوم ہوتا تھا کہ گر جائے گا.چنانچہ میں اسے کہتا ہوں سنبھل کر چڑھو، ایسا نہ ہو کہ گر جاؤ اور خواب میں میں حیران بھی ہوتا ہوں کہ یہ کیسا بہادر آدمی ہے کہ اس کے ایک ہاتھ میں چھ گین یعنی تیس سیر پٹرول ہے، دوسرے ہاتھ میں سیڑھی وسرے ہاتھ میں سیڑھی ہے اور یہ اس بہادری سے چڑھتا چلا جاتا ہے.پھر یہ نظارہ بدل گیا اور مجھے یوں معلوم ہوا کہ جیسے ہم اس مکان سے نکل آئے ہیں اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ دشمن غالب آگیا ہے اور ہمیں وہ جگہ چھوڑنی پڑی ہے.باہر نکل کر ہم حیران ہیں کہ کس جگہ جائیں اور کہاں جا کر اپنی حفاظت کا سامان کریں.اتنے میں ایک شخص آیا اور اس نے کہا کہ میں آپ کو ایک جگہ بتاتا ہوں آپ پہاڑوں پر چلیں وہاں ایک اٹلی کے پادری نے گرجا بنایا ہوا ہے

Page 671

* 1941 671 خطبات محمود اور ساتھ ہی اس نے بعض عمارتیں بھی بنائی ہوئی ہیں جنہیں وہ کرایہ پر مسافروں کو دے دیتا ہے.وہاں چلیں، وہ مقام سب سے بہتر رہے گا.میں کہتا ہوں بہت اچھا..چنانچہ میں گائیڈ کو ساتھ لے کر پیدل چل پڑتا ہوں.ایک و دو دوست اور بھی میرے ساتھ ہیں.چلتے چلتے ہم پہاڑوں کی چوٹیوں پر پہنچ گئے مگر وہ ایسی چوٹیاں ہیں جو ہموار ہیں.اس طرح نہیں کہ کوئی چوٹی اونچی ہو اور کوئی نیچی.جیسے عام پہاڑوں کی چوٹیاں ہوتی ہیں بلکہ وہ سب ہموار ہیں جس کے نتیجہ میں پہاڑ پر ایک طور پر میدان سا پیدا ہو گیا ہے.وہاں میں نے دیکھا کہ ایک پادری کالا سا کوٹ پہنے ہے اور پاس ہی ایک چھوٹا سا گر جا ہے.اس آدمی نے پادری سے کہا کہ باہر سے کچھ مسافر آئے ہیں انہیں ٹھہرنے کے لئے مکان چاہئے.وہاں ایک مکان بنا ہوا نظر آتا ہے اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ پادری لوگوں کو کرایہ پر جگہ دیتا ہے.اس نے ایک آدمی سے کہا کہ انہیں مکان دکھا دیا جائے.وہ مجھے مکان دکھانے کے لئے لے گیا.ایک دو دور دو دوست اور بھی ہیں.میں نے دیکھا کہ وہ کچا مکان ہے اور جیسے فوجی بار کیں سیدھی چلی جاتی ہیں اسی طرح وہ مکان ایک لائن میں سیدھا بنا ہوا ہے مگر کمرے صاف ہیں.میں ابھی غور ہی کر رہا ہوں کہ جو شخص مجھے کمرے دکھا رہا تھا اس نے خیال کیا کہ کہیں میں یہ نہ کہہ دوں کہ یہ ایک پادری کی جگہ ہے ہم اس میں نہیں رہتے.ایسا نہ ہو کہ ہماری عبادت میں کوئی روک پیدا ہو.چنانچہ وہ خود ہی کہنے لگا آپ کو یہاں کوئی تکلیف نہیں ہو گی کیونکہ یہاں مسجد بھی ہے.میں نے کہا کہ اچھا مجھے مسجد دکھاؤ.اس نے مجھے مسجد دکھائی جو نہایت خوبصورت بنی ہوئی تھی مگر چھوٹی سی تھی.ہماری مسجد مبارک سے نصف ہو گی لیکن اس میں چٹائیاں اور دریاں وغیرہ بچھی ہوئی تھیں.اسی طرح ایک امام کی جگہ ایک صاف قالینی مصلی بھی بچھا ہوا تھا.مجھے اس مسجد کو دیکھ کر بڑی خوشی ہوئی اور میں نے کہا کہ ہمیں یہ جگہ منظور ہے.ہے.خواب میں میں نے یہ خیال نہیں کیا کہ مسجد وہاں کس طرح بنائی گئی ہے مگر بہر حال مسجد دیکھ کر مجھے مزید تسلی ہوئی اور میں نے کہا کہ اچھا ہوا

Page 672

* 1941 672 خطبات محمود مکان بھی مل گیا اور ساتھ ہی مسجد بھی مل گئی.تھوڑی دیر کے بعد میں باہر نکلا اور میں نے دیکھا کہ اِکا دُکا احمدی وہاں آ رہے ہیں.خواب میں میں حیران ہوتا ہوں کہ میں نے تو ان سے یہاں آنے کا ذکر نہیں کیا تھا.ان کو جو میرے یہاں آنے کا پتہ لگ گیا ہے تو معلوم ہوا کہ یہ کوئی محفوظ جگہ نہیں.چاہے یہ دوست ہی ہیں لیکن بہر حال اگر دوست کو ایک مقام کا علم ہو سکتا ہے تو دشمن کو بھی ہو سکتا ہے.محفوظ.مقام تو نہ رہا.چنانچہ خواب میں میں پریشان ہوتا ہوں اور میں کہتا ہوں کہ ہمیں پہاڑوں میں اور زیادہ دور کوئی جگہ تلاش کرنی چاہئے.اتنے میں میں نے دیکھا کہ شیخ محمد نصیب صاحب آ گئے ہیں.میں اس وقت مکان کے دروازے کے سامنے کھڑا ہوں.انہوں نے مجھے سلام کیا میں نے ان سے کہا کہ لڑائی کا کیا حال ہے؟ انہوں نے کہا دشمن غالب آگیا ہے.میں کہتا ہوں کہ مسجد مبارک کا کیا حال ہے.انہوں نے اس کا یہ جواب دیا کہ مسجد مبارک کا حلقہ اب تک لڑ رہا ہے.میں نے کہا اگر مسجد مبارک کا حلقہ اب تک لڑ رہا ہے تب تو کامیابی کی امید ہے.میں اس وقت سمجھتا ہوں کہ ہم تنظیم کے لئے وہاں آئے ہیں اور تنظیم کرنے کے بعد دشمن کو پھر شکست دے دیں گے.اس کے بعد میں نے دیکھا کہ کچھ اور دوست بھی وہاں پہنچ گئے ہیں ان کو دیکھ کر مجھے اور پریشانی ہوئی اور میں نے کہا کہ یہ تو بالکل عام جگہ معلوم ہوتی ہے.حفاظت کے لئے یہ کوئی خاص مقام نہیں.ان دوستوں میں ایک حافظ محمد ابراہیم صاحب بھی ہیں اور لوگوں کو میں پہچانتا نہیں.صرف اتنا جانتا ہوں کہ وہ احمدی ہیں.حافظ صاحب نے مجھ سے مصافحہ کیا اور کہا کہ بڑی تباہی ہے، بڑی تباہی ہے.پھر ایک شخص نے کہا کہ نیلے گنبد میں ہم داخل ہونے لگے تھے مگر وہاں بھی ہمیں داخل نہیں ہونے دیا گیا.میں نے تو نیلا گنبد لاہور کا ہی سنا ہوا ہے.وَاللَّهُ أَعْلَمُ.کوئی اور بھی ہو بہر حال اس وقت میں نہیں کہہ سکتا کہ نیلے گنبد کے لحاظ سے اس کی کیا تعبیر ہو سکتی ہے.البتہ اس وقت بات کرتے کرتے میرے دل میں خیال پیدا ہوا

Page 673

* 1941 673 خطبات محمود کہ نیلا سمندر کا رنگ ہوتا ہے.ممکن ہے کوئی خلیج ایسی ہو جسے انگریز محفوظ سمجھتے ہوں مگر وہاں بھی تباہی ہو.اس کے بعد حافظ صاحب نے کوئی واقعہ بیان کرنا شروع کیا اور اسے بڑی لمبی طرز سے بیان کرنے لگے جس طرح بعض لوگوں کی عادت ہوتی ہے کہ وہ بات کو جلدی ختم نہیں کرتے بلکہ اسے بلا وجہ طول دیتے چلے جاتے ہیں.اسی طرح حافظ صاحب پہلے ایک لمبی تمہید بیان کی اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ جالندھر کا کوئی واقعہ بیان کر رہے ہیں اور کہتے ہیں کہ وہاں بھی بڑی تباہی ہوئی ہے اور ایک منشی ” کا جو غیر احمدی ہے اور پٹواری یا گرداور ہے، بار بار ذکر کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ جی ملے اور انہوں نے بھی اس طرح کہا میں خواب میں بڑا گھبراتا ہوں کہ موقع تو حفاظت کے لئے انتظام کرنے کا ہے اور اس بات کی ضرورت ہے کہ کوئی مرکز تلاش کیا جائے.انہوں نے منشی جی کی باتیں شروع کر دی ہیں.چنانچہ میں ان سے کہتا ہوں کہ آخر ہوا کیا؟ وہ کہنے لگے منشی جی کہتے تھے کہ ہماری تو جماعت پر ہی نظر ہے.میں نے کہا بس اتنی ہی بات تھی نا! کہ منشی جی کہتے تھے کہ اب ان کی جماعت احمدیہ پر نظر ہے.یہ کہہ کر میں انتظام کرنے کے لئے اٹھا اور چاہا کہ کوئی مرکز تلاش کروں کہ میری آنکھ کھل گئی.خواب سے بیدار ہونے کے بعد اس کی تعبیر میرے ذہن میں یہ آئی کہ اس سے مراد کوئی مقامی فتنہ ہے جس میں دشمن سے ہماری جماعت کو کوئی نقصان پہنچے گا کیونکہ سارے نام اپنی جماعت سے تعلق رکھنے والے دوستوں کے ہی تھے مگر نو بجے کے قریب جب ریڈیو کی خبروں کی رپورٹ مجھے ملی اس وقت معلوم ہوا کہ جاپان نے یکدم حملہ کر دیا ہے اور وہ بہت سا آگے بڑھ آیا ہے.میں نے جیسا کہ بتایا ہے بعض دفعہ مقامی نظارے دکھائے جاتے ہیں مگر اُن سے مراد ڈور کے نظارے ہوتے ہیں.مسجد مبارک کے حلقہ کی طرف سے لڑائی جاری رہنے کا غالباً یہ مفہوم ہے کہ بعض انگریزی علاقے جاپانی گھیر لیں گے مگر انگریز برابر لڑتے رہیں گے

Page 674

* 1941 674 خطبات محمود چنانچہ اب بھی بعض علاقے ایسے ہیں جن کے چاروں طرف جاپانی فوجیں پہنچ گئی ہیں.اگر ایسی حالت میں انگریزوں نے مقابلہ کو جاری رکھا تو امید ہے کہ ان کی شکست فتح سے بدل جائے گی.تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہمیں کثرت سے غیب کی خبریں دی جاتی ہیں ނ جن میں خطرات کی بھی خبریں ہوتی ہیں اور فتوحات کی بھی.مگر ان خوابوں امر ضرور واضح ہوتا ہے کہ موجودہ جنگ کا احمدیت سے تعلق ہے.آخر وجہ کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے بار بار مجھے خبریں دی جاتی ہیں.آخر کوئی نہ کوئی ہماری جماعت سے بھی ان خبروں کا تعلق ہونا چاہئے.ورنہ بظاہر ہمارا اس جنگ سے جو پ یا افریقہ یا امریکہ یا فرانس یا جرمنی وغیرہ میں ہو رہی ہے کیا تعلق تھا.اس قسم کی خبروں کا متواتر بتایا جانا اور ہر مرحلہ پر بتایا جانا ایک یقینی اور قطعی ثبوت اس بات کا کہ اس جنگ کے خاتمہ کا احمدیت سے خاص تعلق ہے.آخر جب کوئی شخص کسی دوسرے کو کوئی خبر دیتا ہے تو اسی وجہ سے کہ اس خبر کا اس شخص سے کوئی تعلق ہوتا ہے.بغیر تعلق کے کبھی کوئی دوسرے کو خبر نہیں دیتا.کیا تم نے کبھی سنا کہ کوئی شخص دوسرے کو کہے کہ فلاں گاؤں میں جس کو تم نہیں جانتے، فلاں شخص جس کو تم نہیں جانتے، اس کا فلاں پوتا جس سے تم واقف نہیں فوت ہو گیا ہے.جب ایک عقلمند انسان بھی دوسرے کو وہی خبر دیتا ہے جس کا اس کے ساتھ تعلق ہو تو کس طرح خیال کیا جا سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ جو حکیم ہے وہ ہمیں ایسی خبریں دے رہا ہے جن کا ہمارے ساتھ کوئی تعلق نہیں.پس لازماً ان خوابوں کا ہماری جماعت کے ساتھ تعلق ہے اور ہماری جماعت کا ان سے گہرا واسطہ ہے.اس ہے.اس لئے ہمارے لئے بہت ہی ہوشیاری اور بیداری کی ضرورت ہے کیونکہ ضرور ہے کہ وہ خطرات جن کی طرف خوابوں میں اشارہ کیا گیا ہے ہماری جماعت پر بھی کسی نہ رنگ میں اثر انداز ہوں.پھر جب ہم دیکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کس طرح ہماری باتوں کو پورا کرتا اور ہماری دعاؤں کو سنتا ہے تو ہمیں اور بھی توجہ پید اہو جاتی ہے کہ

Page 675

* 1941 675 خطبات محمود جب خدا تعالیٰ نے ہمیں دعا کا عظیم الشان ہتھیار دیا ہوا ہے تو کیوں نہ اس موقع پر بھی ہم اس کو استعمال کریں اور اللہ تعالیٰ کے فضلوں کا مشاہدہ کریں.کیا چھوٹی سی بات تھی جو گزشتہ خطبہ جمعہ میں میرے منہ سے نکلی اور خدا تعالیٰ نے اسے چند دنوں کے اندر اندر پورا کر دیا.پچھلے جمعہ میں اسی منبر پر کھڑے ہو کر میں نے کہا تھا کہ ملک میں قحط کے آثار پائے جاتے ہیں جس کی ذمہ داری بہت حد تک گورنمنٹ پر ہے کیونکہ وہ دھمکیاں تو دیتی رہتی ہے کہ گندم مہنگی نہ کی جائے مگر عملاً کچھ نہیں کرتی.پس ایک طرف میں نے گورنمنٹ کو اس امر کی طرف توجہ دلائی تھی اور دوسری طرف جماعت کو یہ کہا تھا کہ دوستوں کو دعائیں کرنی چاہئیں کہ اللہ تعالیٰ بارش برسا دے.آج جبکہ میں جمعہ کا دوسرا خطبہ پڑھنے کے لئے کھڑا ہوں دوست دیکھ رہے ہیں کہ یہ دونوں باتیں پوری ہو گئی ہیں.گورنمنٹ نے بھی گندم کے نرخ پر کنٹرول کر لیا ہے اور اللہ تعالیٰ نے بارش بھی بھیج دی ہے.اب کتنی چھوٹی چھوٹی باتوں میں بھی اللہ تعالیٰ ہماری دعائیں سنتا اور اس طرح سنتا ہے کہ لطف آ جاتا ہے.ایک لمبے عرصہ سے بارش رُکی ہوئی تھی مگر ادھر میں نے خطبہ پڑھا اور ادھر اس خطبہ کے چوتھے دن بارش ہو گئی.اسی طرح میں نے ادھر خطبہ پڑھا اور اُدھر جمعہ کی شام کو گورنمنٹ کی طرف سے اعلان ہو گیا.غرض اللہ تعالیٰ نے دوسرے جمعہ کے آنے سے پہلے پہلے ہماری دونوں خواہشوں کو پورا فرما دیا.ایک طرف گورنمنٹ سے اُس نے وہ بات منوالی جو ہم چاہتے تھے اور دوسری طرف بارش نازل فرما دی.بہر حال ہمارا تجربہ بتاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہماری دعاؤں کو سنتا اور انہیں غیر معمولی طور پر قبول فرماتا ہے اور اس طرح ہمارے ایمانوں کی تازگی کے سامان بہم پہنچاتا رہتا ہے.پھر خدا تعالیٰ کی طرف سے جس حد تک انبیاء کے درجہ سے نیچے اتر کر صلحاء و اولیاء کو کثرت سے غیب کی خبریں ملتی ہیں.اس کثرت کے ساتھ وہ ہمیں بھی اپنے غیب کی خبروں سے اطلاع دیتا رہتا ہے.دنیا میں بعض ایسے ایسے اولیاء بھی کہلاتے ہیں جنہیں تمام عمر میں صرف دو چار الہام ہوئے ہیں مگر ہمیں

Page 676

* 1941 676 خطبات محمود علیہ تو خدا تعالیٰ ایک سال میں ہی بعض دفعہ سو سو خواہیں دکھا دیتا ہے یا الہام کر دیتا ہے یا کشوف ظاہر کرتا ہے.خدا تعالیٰ کا ہم سے یہ سلوک حضرت مسیح موعود الصلوة و السلام کی صداقت کا ایک بہت بڑا ثبوت ہے.میں فطرتاً اور طبعاً دوسروں کو اپنی خواہیں سنانے کا عادی نہیں مگر اب جنگ کے حالات کی وجہ سے مجبوراً مجھے ان خوابوں کو بیان کرنا پڑتا ہے ورنہ ساری عمر ہی میں نے اپنی خواہیں دوسروں کو بہت کم سنائی ہیں.بعض دفعہ اپنی کسی بیوی یا دوست کو میں خواب بتا دیتا ہوں اور بیسیوں دفعہ میں اپنی بیویوں اور اپنے دوستوں کو بھی خواہیں نہیں بتاتا.میں سمجھتا ہوں یہ ماموروں کا کام ہوا کرتا ہے کہ وہ اپنی خواہیں دوسروں کو سنائیں.پس مجھے جو خوابیں آتی ہیں میں انہیں خدا تعالیٰ کا ایک راز سمجھتا ہوں جو میری ذات تک محدود ہوتا ہے اور میں اسے بالعموم اپنی ذات تک ہی محدود رکھتا ہوں.مگر اس زمانہ میں مجبوری پیدا ہو گئی ہے کہ جماعت کے دوستوں کو بیدار کرنے کے لئے مجھے اپنی خواہیں بیان کرنی پڑتی ہیں ورنہ طبعاً میں اپنی خواہیں بیان کرنے کا عادی نہیں.غرض میں دوستوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ ان نازک ایام میں وہ خصوصیت - دعائیں کریں کہ اللہ تعالیٰ ان فتنوں اور مصائب کی تلخی کو ساری دنیا کے لئے ہی کم کرے اور ہماری جماعت کو خصوصیت سے ان تلخیوں سے محفوظ رکھے.پھر یہ بھی دعائیں کرو کہ اللہ تعالیٰ اس جنگ کو اسلام اور احمدیت کے لئے مفید ثابت کرے.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ مومن بغیر تلخیوں کے اپنے کمال کو نہیں پہنچتا مگر خدا تعالیٰ نے جہاں یہ کہا ہے کہ مومن تلخیوں کے بغیر روحانیت میں ترقی نہیں کر سکتا وہاں اس نے میں یہ دعا مانگنے کے لئے بھی کہا ہے کہ ایسی تلخیاں ہم پر وارد نہ ہوں جو ہماری حدِ برداشت سے باہر ہوں.چنانچہ وہ فرماتا ہے تم یہ دعا کیا کرورَبَّنَا وَلَا تُحَمِّلْنَا مَا لَا طَاقَةَ لَنَا 2 پس بے شک یہ صحیح ہے کہ تلخیوں کے بغیر مومن اپنے ایمان میں کامل نہیں سکتا مگر جس خدا نے یہ کہا ہے اسی خدا نے یہ بھی کہا ہے کہ تم یہ دعائیں کیا کرو کہ الہی ہم پر ایسی تلخیاں نہ آئیں جو ہماری طاقت برداشت سے باہر ہوں.پس ان ایام

Page 677

* 1941 677 خطبات محمود میں بہت ہی عجز اور انکسار کے ساتھ دعائیں کرو اور اپنے اندر خاص تبدیلی پیدا کرو.نمازوں میں با قاعدگی کے ساتھ جاؤ اور ہمیشہ نماز باجماعت پڑھنے کی کوشش کرو.اگر کوئی شخص ان ایام میں بھی نماز باجماعت پڑھنے میں سستی کرتا ہے تو یہ کتنے افسوس مقام ہے.آجکل تو وہ دن ہیں کہ ہر شخص کے لئے موقع ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کی ہے طرف توجہ کر کے ولی اللہ بن جائے.یوں تو ولایت کا دروازہ ہمیشہ ہی کھلا ہوتا مگر تلخیوں کے اوقات میں ولایت کا دروازہ اور زیادہ کھل جاتا ہے.چنانچہ دیکھ لو آرام کے وقت ماں بغیر کسی قسم کے خدشہ کے ڈور چلی جاتی ہے.کئی ماں باپ یورپ میں اپنے بچوں کو تعلیم وغیرہ کے لئے بھیج دیتے ہیں.ہمارے ملک کے لوگ آرام کے دنوں میں حج کے لئے چلے جاتے ہیں مگر جس وقت بچہ تکلیف میں مبتلا ہو تو ماں اس کے سرہانہ سے نہیں اٹھتی.یہی حال اللہ تعالیٰ کا ہے جب اس کا کوئی بندہ مصیبت میں مبتلا ہوتا ہے تو وہ اس کے پاس آ بیٹھتا ہے.پس در حقیقت وہی موقع اللہ تعالیٰ کے وصال کا ہوتا ہے.جو لوگ ہوشیار اور ذہین ہوتے ہیں وہ اس موقع فائدہ اٹھا لیتے ہیں اور جب خدا اُن کے قریب آ جاتا ہے تو جس طرح پنجابی جیھا مارنا ” کہتے ہیں وہ خد تعالیٰ کو جتھا مار لیتے ہیں اور اس کے دامن کو ایسا مضبوطی سے پکڑتے ہیں کہ پھر اسے مرتے دم تک نہیں چھوڑتے.آجکل کے ایام بھی ایسے ہی ہیں آج بھی مشکلات کا زمانہ ہے اور خدا تعالیٰ تمہارے قریب آ رہا ہے.پس وقت ہے کہ اللہ تعالیٰ کو مضبوطی سے بھینچ لو اور اسے کہو کہ اب تو تو مل گیا ہے اب ہم تجھے کبھی جانے نہیں دیں گے.اس کے بعد میں ایک اور امر کی طرف دوستوں کو توجہ دلانا چاہتا ہوں.نے خود تو نہیں دیکھا مگر “الفضل ” میں میں نے ایک نہایت ہی ناپسندیدہ بات دیکھی ہے جو مولوی محمد علی صاحب کی طرف منسوب کر کے لکھی گئی ہے.میں جہاں تک ہو سکے دوسروں کی سخت کلامی برداشت کیا کرتا ہوں.اپنی نسبت دعویٰ کرنا تو فضول ہوتا ہے مگر آئندہ تاریخ یقینا اس بات کا فیصلہ کرے گی کہ میں نے

Page 678

* 1941 678 خطبات محمود ہوتا اپنے مد مقابل سے سختی کی ہے یا اس نے مجھ پر سختی کی ہے.بلکہ اگر لوگ چاہیں تو اس وقت بھی حالات کا مطالعہ کر کے فیصلہ کر سکتے ہیں.بہر حال میں اپنی طرف سے یہی کوشش کیا کرتا ہوں کہ جہاں تک ہو سکے مخالفوں کے متعلق کبھی سخت الفاظ استعمال نہ کئے جائیں.مگر دو چیزیں ہیں جن کو میرا نفس اس قدر برداشت نہیں کر سکتا جس قدر اپنی ذات کے متعلق اگر کوئی بات ہو تو میں برداشت کر لیا کرتا ہوں.ان میں سے ایک بات یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة و السلام کے درجہ میں اگر کمی کی جائے تو قدرتاً اور مذہبی طور پر بھی میرے لئے ضروری ہے کہ اس کا مقابلہ کیا جائے.دوسری بات جو میرے لئے ناقابلِ برداشت ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ اگر جماعت احمدیہ پر بحیثیت جماعت کوئی شخص حملہ کرے تو اس کی برداشت میرے لئے مشکل ہو جاتی ہے.مجھے اپنی زندگی میں چند مواقع ہی ایسے پیش آئے ہیں جہاں ایسے معاملات میں مجھے جوش آیا ہے.ایک واقعہ تو اسی وقت یاد آ گیا جو بہت پرانا ہے.جب ہمارا دفتر بن رہا تھا تو اس وقت اس کے لئے بہت سی چقیں منگوائی گئیں جو بانس کی کھیچیوں کی بنی ہوئی ہوتی ہیں.وہ چقیں بہت بھاری ہوتی ہیں اور اب بھی جس بر آمدہ میں میں بیٹھا کرتا ہوں اس کے آگے پڑی ہوئی ہیں.وہ چقیں ایک گڑے میں بھر کر منگوائی گئی تھیں.جو شخص چقیں لانے کے لئے بھیجا گیا اس نے قادیان پہنچ کر رپورٹ کی کہ کسی نے راستہ میں چقیں چرا لی ہیں.اب یہ ایک عجیب بات تھی اور ہمیں حیرت ہوئی کہ وہ چھیں چرائی کس طرح گئی ہیں.چھ فٹ کے قریب وہ چوڑی تھیں، لمبائی بھی ان کی بہت کافی تھی اور اونچائی تو اس قدر تھی کہ گڑا اُن سے بھرا ہوا تھا.ایسی حالت میں اگر دو بلکہ تین آدمی بھی ہاتھوں کو پھیلا کر.انہیں اٹھانا چاہتے تو نہیں اٹھا سکتے تھے.پس یہ خیال کر لینا کہ ان چقوں کو کوئی چرا کر لے گیا ہے کسی طرح صحیح معلوم نہیں ہوتا تھا.چنانچہ میں نے امور عامہ والوں سے کہا کہ اس معاملہ کی تحقیق کی جائے کہ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ ایک شخص بٹالہ سے

Page 679

* 1941 679 خطبات محمود اپنے گڑے میں چھیں بھر کر روانہ ہو اور انہیں کوئی شخص چرا کر لے جائے اور اسے پتہ نہ لگے.انہوں نے تحقیق کے بعد اس پر ہر جانہ ڈال دیا.مجھے یاد نہیں کہ اس پر کتنا ہر جانہ ڈالا گیا.شاید وہ چقیں آتی روپیہ کی تھیں اور اس پر نصف رقم ہرجانہ کے طور پر ڈالی گئی یا اس سے کم قیمت کی تھیں اور ان کی نصف رقم اس پر بطور ہر جانہ ڈالی گئی.وہ ایک گاؤں کا رہنے والا تھا جب اس پر یہ ڈنڈ پڑا تو اس کی بیوی میرے پاس شکایت لے کر آئی اور کہنے لگی کہ ہم پر بڑا ظلم ہوا ہے اتنی رقم ڈال دی گئی ہے.میں نے کہا کہ تم خود ہی سوچو کہ یہ کتنے اندھیر کی بات ہے کہ اتنی بڑی چیز جس سے گڈا بھرا ہوا تھا وہ رستہ میں ہی گم ہو جائے.لازمی بات کہ یا تو اس نے خود وہ چھیں فروخت کر دی ہیں اور یا پھر وہ گڈا چھوڑ کر کہیں چلا گیا ہو گا اور کئی گھنٹے غائب رہا ہو گا بعد میں ان چقوں کو کئی افراد اٹھا کر لے گئے.اس صورت میں بھی تم پر ہی غفلت کا الزام آتا ہے.وہ کہنے لگی یہ بالکل غلط ہے.نہ اس نے چھیں فروخت کی ہیں اور نہ وہ گڑے کو چھوڑ کر کئی گھنٹے غائب رہا.صرف پانی پینے کے لئے ایک کنوئیں پر گیا تھا دو منٹ کے بعد واپس آیا تو چقیں غائب تھیں.میں نے کہا یہ بات میری سمجھ میں نہیں آسکتی اور میں تمہاری سفارش کرنے کے لئے تیار نہیں ہوں.اس پر اُس عورت نے جوش میں کہہ دیا “ تہاڈے احمدی ہی چور ہوندے ہیں، انہاں نے ہی چُھرائیاں ہین ” یعنی احمدی ہی چور ہوتے ہیں اور انہوں نے ہی چقوں کو چُرایا ہو گا.اب باوجود اس کے کہ میں ایک عورت سے گفتگو کر رہا تھا اس وجہ سے کہ اس نے جماعت پر حملہ کیا تھا مجھے طیش آ گیا اور میں نے کہا مائی تم عورت ہو ورنہ میں اسی وقت تمہیں اپنے گھر سے نکلوا دیتا.خیر وہ چلی گئی مگر اس کے بعد مجھے اس فقرہ کا سخت صدمہ ہوا اور میں نے خیال کیا کہ گو اس عورت نے نادانی سے ایک بات کہی تھی مگر مجھے یہ فقرہ نہیں کہنا چاہئے تھا.بعد میں میں نے اس کی طرف اپنا ایک آدمی بھیجوایا اس سے معافی مانگی اور اسے کچھ روپیہ بھی دیا.اب اس غصہ کی وجہ یہی تھی کہ جماعت پر اس نے ناواجب حملہ

Page 680

خطبات محمود 680 * 1941 کیا تھا ورنہ میرے متعلق اگر وہ کوئی بات کہتی تو میں اس کی پرواہ بھی نہ کرتا.مولوی محمد علی صاحب نے بھی حال ہی میں جماعت احمدیہ پر ایسا ہی حملہ کیا ہے.چنانچہ انہوں نے قادیان کی جماعت کے متعلق جو دس ہزار کے قریب ہے کہا ہے کہ قادیان کے رہنے والے تو منافق ہیں.جماعت کے اصل لوگ وہ ہیں جو باہر رہتے ہیں قادیان کے رہنے والے تو تمہارے لڑ لگے ہوئے اور ممنونِ احسان ہیں، وہ تمہیں چھوڑ نہیں سکتے.مولوی صاحب کے الفاظ جو “الفضل ” نے نقل کئے ہیں ہیں: “ ان کی جماعت وہ تو نہیں جو قادیان میں ہے.وہ تو ان کے ملازمین اور ایسے لوگ ہیں جن کی ضروریات ان سے وابستہ ہیں.جماعت تو وہ چیز ہے جو اس سلسلہ کو قائم رکھنے والی ہے.بیرونی لوگ جو جلسہ پر آئے ہیں اصلی جماعت وہ ہیں.” الفضل ” نے اس کا نہایت ہی معقول جواب دیا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے تو قادیان میں رہنے کی تعلیم دی ہے اور آپ نے فرمایا ہے کہ جو شخص سب کچھ چھوڑ کر اس جگہ آکر آباد نہیں ہوتا یا کم سے کم یہ تمنا دل میں نہیں رکھتا وہ منافق ہے.اور مولوی محمد علی صاحب کے نزدیک جو لوگ قادیان میں آبسے ہیں وہ منافق ہیں.گویا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام نے جتنی باتیں بیان فرمائی تھیں.غیر مبائعین کے نزدیک وہ سب بدلتی جاتی ہیں.نبوت کے مسئلہ میں انہوں نے تبدیلی کی کفر و اسلام کے مسئلہ میں انہوں نے تبدیلی کی، خلافت کے مسئلہ میں انہوں نے تبدیلی کی اور اب قادیان کی رہائش کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے جو ارشادات ہیں ان کی انہوں نے بے قدری کرنی شروع کر دی ہے.حالانکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے قادیان کی محبت اتنی ضروری قرار دی ہے کہ آپ فرماتے ہیں جو شخص قادیان میں آ نہیں سکتا اُسے کم سے کم یہاں آنے کی خواہش اور تمنا اپنے دل میں ضرور رکھنی چاہئے.مگر مولوی محمد علی صاحب کے نزدیک قادیان میں آنا منافقت میں مبتلا ہونا ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام نے نعوذ باللہ اپنی جماعت کے لوگوں کو منافق بننے کا یہ گر بتایا تھا اور بجائے اس

Page 681

* 1941 681 خطبات محمود کے کہ آپ لوگوں کے دلوں میں ایمان قائم کرتے آپ نے قادیان آنے کی تعلیم دے کر ان کے لئے منافقت کا رستہ کھول دیا تھا.آخر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ریک کا ہی یہ نتیجہ ہے کہ آج قادیان میں دس ہزار کے قریب جماعت احمدیہ کے افراد پائے جاتے ہیں.ان میں سے کس کی یہاں جائدادیں تھیں یا کس کے ماں باپ یہاں کے رہنے والے تھے؟ وہ اسی لئے آئے کہ خدا تعالیٰ کے مامور اور مرسل نے کہا تھا کہ قادیان آؤ اور یہاں آکر رہو.3 مگر یہاں آکر بقول مولوی محمد علی صاحب انہیں منافقت کا تمغہ مل گیا اور یہ انہیں اس بات کی سزا ملی کہ انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بات کیوں مانی تھی.غرض قادیان میں رہنے والوں کے متعلق یہ اتنا بڑا اتہام اور بہتان ہے کہ خود مولوی محمد علی صاحب بھی اچھی طرح جانتے ہیں کہ یہ جھوٹ ہے.اول تو یہی دیکھ لو کہ قادیان میں انجمن کے ملازم کتنے ہیں.قادیان میں دس ہزار احمدی بستے ہیں ان میں سے ملازم زیادہ سے زیادہ سو دو سو ہوں گے.اگر ان کے ساتھ ان کے بیوی بچوں کو بھی شامل کر لیا جائے تو پانچ چھ سو بن جائیں گے.ان کے علاوہ چھ سات ہزار وہ لوگ ہیں جو زمیندار ہیں یا پیشہ ور ہیں اور ایک اچھی خاصی تعداد اُن لوگوں کی ہے جن کے باپ بھائی یا خاوند وغیرہ گورنمنٹ کی ملازمت میں ہیں اور انہوں نے اپنے بچوں یا دوسرے عزیزوں کو قادیان میں تعلیم حاصل کرنے کے لئے بھیج دیا ہے.ان پر بھلا انجمن کا کیا دباؤ ہو سکتا ہے یا میرا ان پر کیا دباؤ ہو سکتا ہے؟ وہ تو خود چندے دیتے اور سلسلہ کے لئے قربانیاں کرتے ہیں.بہر حال کثرت ان لوگوں کی ہے جو پنشن یافتہ ہیں یا پیشہ ور ہیں یا زمیندار وغیرہ ہیں یا پھر قادیان میں وہ لوگ رہتے ہیں جن کے باپ اور بھائی وغیرہ گورنمنٹ کی ملازمت میں ہیں اور وہ انہیں تعلیم کے لئے اخراجات بھیج دیتے ہیں یا اگر وہ پڑھتے نہیں تو ان کا گزارہ بہر حال اپنے باپ یا بھائی کی آمد پر ہے.اس قسم کے تمام لوگ کون سے جماعت کے دباؤ کے ماتحت ہیں اور کس طرح یہ سمجھ لیا گیا ہے کہ قادیان کی جماعت

Page 682

* 1941 682 خطبات محمود نعوذ بالله اتنی گندی ہو گئی ہے کہ محض چند پیسوں کی خاطر اس نے اپنے دین اور ایمان کو بیچ دیا ہے.گویا ساری قوموں میں یہ طاقت ہے کہ وہ کسی کی نوکری کریں تو اپنے عقائد کو بھی قائم رکھ سکیں مگر احمدیوں میں یہ طاقت نہیں ہے.باقی لوگ تو غیر احمدیوں کی بھی نوکریاں کرتے ہیں، آریوں کی بھی نوکریاں کرتے ہیں، سکھوں کی بھی نوکریاں کرتے ہیں، انگریزوں کی بھی نوکریاں کرتے ہیں اور پھر اپنے عقائد پر مضبوطی سے قائم رہتے ہیں مگر مولوی محمد علی صاحب کے نزدیک احمدی اتنی طاقت بھی نہیں رکھتے.وہ کسی کی نوکری کرنے کے ساتھ ہی اپنے دین اور ایمان کو بھی فروخت کر دیتے ہیں.خود پیغامیوں میں ایک خاص طبقہ ایسے لوگوں کا ہے جو گورنمنٹ کی ملازمت میں ہے.مگر ان کے نزدیک گورنمنٹ کی ملازمت ان کے اعتقادات پر کوئی اثر نہیں ڈال سکتی.میاں غلام رسول صاحب تمیم، میاں محمد صادق صاحب، ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب، ڈاکٹر سید محمد حسین شاہ صاحب، ڈاکٹر بشارت احمد صاحب یہ سب عیسائی حکومت کے ملازم تھے.کیا یہ سب ان ایام میں عیسائی ہو گئے تھے یا عیسائیوں کی ہاں میں ہاں ملانے لگ گئے تھے ؟ کیا اس وقت جو لوگ انجمن اشاعت اسلام کے کر کے.وہ ملازم ہیں وہ سب کے سب مولوی صاحب کے تجربہ کے مطابق منافق ہیں کیونکہ مولوی صاحب اور ان کی انجمن کے لڑ لگے ہوئے ہیں.اگر مولوی صاحب کے نزدیک یہ لوگ منافق نہیں تو کیا وجہ ہے کہ وہ لوگ تو انگریزوں یا انجمن اشاعت اسلام کی ملازمت کر کے منافق نہ ہوئے مگر قادیان کے احمدی صدر انجمن احمدیہ کی ملازمت اپنے ایمان کو سلامت نہیں رکھ سکتے.اگر صدر انجمن احمدیہ کی نوکری کرنے سے عقیدہ بھی بدل جاتا ہے تو پیغامیوں میں سے جتنے لوگ گورنمنٹ کے ملازم ہیں کے متعلق یہ سمجھا جانا چاہئے کہ وہ عیسائی ہیں.کیونکہ مولوی محمد علی صاحب کے اصل کے مطابق یہ تسلیم نہیں کیا جا سکتا کہ گورنمنٹ کے ملازم ہو کر انہوں اپنے ایمان کو محفوظ رکھا ہو.پھر میں کہتا ہوں مولوی محمد علی صاحب کو اپنا تجربہ بھی یاد ہونا چاہئے.اب تو قادیان کی آبادی کا ایک کثیر ایسا ہے جو صدر

Page 683

* 1941 683 خطبات محمود انجمن احمدیہ کا ملازم نہیں مگر جب مولوی محمد علی صاحب قادیان میں رہتے تھے تو یہاں کے اسی فیصدی انجمن کے نوکر یا ان نوکروں سے تعلق رکھنے والے لوگ تھے اور مولوی محمد علی صاحب کو یاد ہو گا کہ باوجود اس کے کہ وہی سیکرٹری تھے اور باوجود اس کے کہ خزانہ ان کے پاس تھا قادیان کے لوگوں نے مولوی صاحب کے ساتھ سلوک کیا تھا.جب ایمان کا معاملہ آیا تو انہی قادیان والوں نے جس طرح دودھ سے نکال کر باہر پھینک دیا جاتا ہے اسی طرح انہوں نے مولوی محمد علی صاحب کو نکال کر باہر کر دیا.حالانکہ یہ وہ لوگ تھے جن کے مال اور جن کی جانیں اسی طرح مولوی محمد علی صاحب کے قبضہ میں تھیں جس طرح اب وہ ہمارے متعلق کہتے ہیں کہ ہمارے قبضہ میں لوگوں کے مال اور ان کی جانیں ہیں.اگر اس وقت قادیان والوں نے ایمان کے معاملہ میں کسی قسم کی کمزوری نہیں دکھائی تو اب وہ کس طرح خیال کر سکتے ہیں کہ قادیان کے رہنے والے ایمان کے معاملہ میں کمزوری دکھاتے اور منافقت سے کام لیتے ہیں.ان کو تجربہ ہے کہ قادیان والوں نے اپنے ایمان کو فروخت نہیں کیا تھا بلکہ جب انہیں معلوم ہوا کہ اب دین اور ایمان کا سوال پیدا ہو گیا ہے تو انہوں نے مقابلہ کیا اور اس بات کی انہوں نے کوئی پرواہ نہ کی کہ وہ صدر انجمن احمدیہ کے ملازم ہیں.پھر میں مولوی محمد علی صاحب سے کہتا ہوں مولوی صاحب! آپ بھی قادیان کی نوکری کرتے رہے ہیں.کیا اس وقت آپ کا ایمان بگڑا ہوا تھا یا سلامت تھا؟ آپ تو اس وقت اڑھائی سو روپیہ ماہوار تنخواہ لیا کرتے تھے.جن پر آپ اعتراض کر رہے ہیں ان میں سے اکثر تو ہیں تیس چالیس لینے والے ہیں مگر آپ اڑھائی سو روپیہ ماہوار وصول کیا کرتے تھے.پس آپ بتائیں کے اعتقاد کا اس وقت کیا حال تھا.پھر ہمارے اعتقادات کے بدلنے کا تو ان کے پاس کوئی ثبوت نہیں مگر مولوی محمد علی صاحب کے متعلق ہمارے پاس اس بات کا اور یقینی ثبوت موجود ہے کہ جب تک وہ قادیان تک وہ قادیان سے اڑھائی سو روپیہ ماہوار تنخواہ لیتے رہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام کو نبی کہتے کہتے ان کی زبان خشک

Page 684

* 1941 684 خطبات محمود ہوتی تھی مگر جب وہ اڑھائی.سو روپیہ ماہوار ملنے بند ہو گئے تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام کو مجدد کہنے لگ گئے.گویا خدا تعالیٰ نے دونوں نمونے ان کے سامنے پیش کر دیئے.یعنی جن لوگوں پر وہ اعتراض کرتے ہیں کہ وہ صدر انجمن احمدیہ کے ملازم ہیں اور اس وجہ سے وہ اصل جماعت احمدیہ نہیں ہیں ان کے سامنے تو جب ایمان کا سوال آیا وہ سینہ تان کر سامنے آ گئے اور انہوں نے کہا کہ ہم ایمان کے معاملہ میں کسی کی پرواہ کرنے کے لئے تیار نہیں.خواہ وہ صدر انجمن احمدیہ کی اکثریت یا اس کا سیکرٹری ہی کیوں نہ ہو مگر دوسری طرف مولوی صاحب کا اپنا نمونہ یہ ہے کہ جب تک وہ اڑھائی سو روپیہ ماہوار تنخواہ لیتے رہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کو نبی کہتے رہے مگر جب لاہور چلے گئے تو مجدد کہنے لگ گئے.جس شخص کے ایمان کا یہ حال ہو کہ وہ اڑھائی سو روپیہ کے بدلے کسی کو نبی کہنے کے لئے تیار ہو جائے اور عدالتوں میں قسمیں کھا کھا کر کہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة و السلام نبی تھے اسے یہ کس طرح زیب دیتا ہے کہ وہ دوسروں پر طعنہ زنی کرے.پھر جس شخص کو اُس دن کی روٹی بھی اسی ترجمہ کے طفیل ملی ہو جو اس نے قادیان میں بیٹھ کر اور جماعت احمدیہ سے تنخواہ پا کر کیا تھا اس کو کب یہ زیب دیتا ہے کہ وہ قادیان والوں کی عیب چینی کرے.حالانکہ اس نے اس روز صبح کو جو ناشتہ کیا تھا وہ بھی اسی ترجمہ کے طفیل تھا جو اس نے قادیان میں باقاعدہ تنخواہ لے کر کیا اور اس نے اس روز جو روٹی کھائی تھی وہ بھی اسی ترجمہ کے طفیل تھی جو اس نے قادیان میں تنخواہ ر کیا اور اس نے اس روز جو کپڑے پہنے تھے وہ بھی اسی ترجمہ کے طفیل تھے جو اس نے قادیان میں تنخواہ پا کر کیا.کیونکہ اس کا کون انکار کر سکتا ہے کہ جس ترجمہ کے کمیشن پر مولوی صاحب کا گزارہ ہے وہ ترجمہ مولوی صاحب نے اپنے گھر سے کھا کر نہیں کیا بلکہ صدر انجمن احمدیہ سے تنخواہ لے کر اور اس کی خریدی ہوئی لائبریری کیا تھا.(جس لائبریری کو وہ بعد میں دھوکا دے کر کہ میں چند روز کے لئے لے جاتا ہوں غصب کر بیٹھے ہیں.ایسا انسان بھلا کس منہ سے یہ کہہ سکتا ہے کہ قادیان مدد سے

Page 685

* 1941 685 خطبات محمود الے منافق ہیں.مولوی صاحب نے شاید سمجھا ہو گا کہ باہر والے اتنے کمزور ہیں جب وہ سنیں گے کہ قادیان والوں کو انہوں نے اصل جماعت احمدیہ قرار نہیں دیا بلکہ اصل جماعت احمد یہ باہر کے رہنے والوں کو قرار دیا ہے تو وہ خوش ہو جائیں گے مگر یہ ان کی غلطی ہے.ان سے پہلے اور بھی بعض لوگ اس قسم کی باتوں سے تفرقہ پیدا کرنے کی کوشش کر چکے ہیں.چنانچہ مدینہ میں ایک شخص نے ایک دفعہ انصار اور مہاجرین میں تفرقہ پیدا کرنے کے لئے کہہ دیا تھا کہ لا تُنْفِقُوا عَلَى مَنْ عِنْدَ رَسُوْلِ اللهِ حَتَّى يَنْفَضُّوا 4 ارے یہ لوگ روٹیاں کھانے کے لئے یہاں بیٹھے ہیں تم ذرا ان کی روٹیاں تو بند کرو پھر دیکھو گے کہ کس طرح یہ لوگ یہاں سے بھاگ نکلتے ہیں.مگر جانتے ہو یہ بات کہنے والے کا کیا حشر ہوا.اسی کا بیٹا رسول کریم صلى الم کی خدمت میں حاضر ہوا اور اپنے باپ کے فعل پر لعنت ڈالی.پس مولوی محمد علی صاحب کو بھی یاد رہے کہ ان کا یہ حملہ جو انہوں نے قادیان کی جماعت احمدیہ کیا ہے.اس سے باہر کے لوگ خوش نہیں ہوں گے بلکہ باہر کی جماعتیں خود اس حملہ کا جواب دیں گی اور وہ ان کی تائید نہیں کریں گی بلکہ ان کے اس دعوی کی پر زور تردید کریں گی.کیونکہ ان کا اخلاص اس بات کا تقاضا کرتا ہے اور ان کے دل اس حسرت سے پر ہیں کہ کاش انہیں بھی قادیان میں رہنے کی توفیق ملتی.وہ قادیان میں آنے کو نفاق نہیں سمجھتے بلکہ ایمان اور اخلاص کی علامت سمجھتے ہیں.پس ان کی یہ چال بھی اسی طرح رائیگاں جائے گی اور اسی طرح ان کے لئے حسرت کا سامان پیدا کرے گی جس طرح ان کی پہلی چالیں رائیگاں جاتی رہی ہیں اور ہمیشہ ان کے لئے حسرت کا سامان پیدا کرتی رہی ہیں.وو الفضل 21 دسمبر 1941ء ) 1 آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن جلد 5 صفحه 453( ترجمه از عربی) 2 البقرة: 287 3 بدر یکم دسمبر 1903ء و الحکم 30 نومبر 1903ء

Page 686

686 * 1941 خطبات محمود 4 المنافقون: 8

Page 687

* 1941 687 (38) خطبات محمود کی جلسہ سالانہ پر باہر سے آنے والے اور قادیان میں رہنے والے بہت دعائیں کریں فرمودہ 19 دسمبر 1941ء) تشہد، تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:." آج 19 تاریخ ہے اور سات دن کے بعد یعنی اگلے جمعہ کے دن انشاء اللہ ہمارا سالانہ جلسہ شروع ہونے والا ہے.سالانہ جلسہ کی بنیاد حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام نے اشاعت اسلام کی غرض سے رکھی تھی اور آپ کا منشاء یہ تھا کہ کم سے کم جماعت کے دوست سال میں ایک دفعہ قادیان آگر خدا تعالیٰ کی باتیں سنیں.دین مشکلات معلوم کریں.ان مشکلات کے ازالہ کی تدابیر سوچیں اور دوسروں سے سنیں.کیسی سنیں.کیسی چھوٹی سی بناء سے یہ جلسہ شروع ہوا تھا جبکہ چھوٹے چھوٹے گاؤں کے میلوں کے برابر بھی اس کی حیثیت نہ تھی.آج گو افراد کی تعداد کے لحاظ سے نہیں مگر تنظیم اور کام کی نوعیت کے لحاظ سے اور اس میں شامل ہونے والے افراد کے سے جو دنیا کے مختلف گوشوں سے اس میں شامل ہوتے ہیں.یہ جلسہ دنیا میں اپنی نوعیت کا ایک ہی جلسہ ہے.اول تو کوئی جگہ دنیا میں ایسی نہیں جس میں دین کی اشاعت کی خاطر اس قدر لوگ جمع ہوتے ہوں اور وہ بھی دین اسلام کی اشاعت کی خاطر.جو اس وقت دنیا میں سب سے زیادہ مطعون اور مظلوم ہو رہا ہے.پھر کوئی جگہ ایسی نہیں جہاں اتنے لوگ جمع ہوں اور اس نظام کے ساتھ ان کے کھانے اور لحاظ

Page 688

* 1941 688 خطبات محمود لحاظ رہائش کا انتظام کیا جاتا ہو جیسا کہ یہاں ہوتا ہے.پھر دنیا میں اور کوئی جگہ ایسی نہیں جہاں دین اسلام کی تبلیغ و اشاعت اور کے لئے اس رنگ میں انتظام کیا جاتا ہو.اس میں شامل ہونے والے افراد کے بھی یہ جلسہ معمولی نہیں.پچپیں، تیس ہزار لوگ اس میں شامل ہوتے ہیں.اس میں شبہ نہیں کہ ایسے جلسے بھی ہوتے ہیں جن میں بہت زیادہ لوگ جمع ہوتے ہیں.کانگرس کے جلسوں میں پچاس ساٹھ ہزار لوگ شامل ہو جاتے ہیں مگر وہ شمولیت اور قسم کی ہے.کانگرس کے جلسوں میں شامل ہونے والے اپنے فائدہ کے لئے شامل ہوتے ہیں.مگر اس میں شامل ہونے والے ساری دنیا کے فائدہ کی خاطر شامل ہوتے ہیں.یہ فرق ایسا ہی ہے کہ مثلاً کوئی شخص اپنے گھر میں پلاؤ پکاتا ہے اس لئے کہ خود کھائے اور ایک شخص اس لئے پکاتا ہے کہ غرباء کو کھلائے.کانگرس کے جلسوں میں شامل ہونے والوں کی غرض یہ ہوتی ہے کہ اپنے آپ کو آزاد کرائیں، حکومت پر ان کا قبضہ ہو اور بڑے بڑے عہدے ان کو مل جائیں.مگر جو لوگ قادیان میں جلسہ پر آتے ہیں ان کی غرض یہ ہوتی ہے کہ تھوڑی سی پونجی جو خدا تعالیٰ نے اُن کو دی ہے اسے خدا تعالیٰ کے لئے قربان کریں تاکہ دنیا کو نور اور ہدایت ملے.ایسے اجتماع میں آنے والوں کو یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ ان کی ذمہ داریاں بھی زیادہ ہوتی ہیں.جو انسان کسی نیکی کے کام کے لئے کوئی قدم اٹھاتا ہے اس کی تکمیل بھی اس پر واجب ہو جاتی ہے.نوافل کے متعلق انسان کو اختیار ہے کہ پڑھے یا نہ پڑھے مگر ساتھ ہی یہ بھی حکم ہے کہ جب ایک دفعہ نفل کا ارادہ کر لو تو اسے چھوڑ نہیں سکتے.قرآن کریم میں يُوفُونَ بِالنَّذْرِ 1 کا حکم آیا ہے.اس کا مطلب یہی ہے کہ نوافل کا بجا لانا یا نہ لانا انسان کے اختیار کی بات ہے مگر جب ارادہ کر لیا جائے تو پھر چھوڑ دینا اپنے اختیار میں نہیں.جب ایک قوم ارادہ کر لیتی ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کی خدمت کے لئے ایک جگہ جمع ہو گی تو پھر وہ ذمہ داری اپنے سر لے لے لیتی ہے

Page 689

* 1941 689 خطبات محمود اور پھر وہ نفل بھی فرض بن جاتا ہے.پس ہماری جماعت کا یہاں جمع ہونا جس غرض اور جس مقصد کے لئے اسے مد نظر رکھتے ہوئے ہر فرد جو گھر سے نکلتا ہے اس کے لئے ضروری ہے کہ پہلے نیت کو نیک کرے.قادیان میں ہزاروں لوگ باہر سے آکر آباد ہیں ان کے گاؤں اور شہروں سے جلسہ کے لئے قادیان آنے والے یہ بھی نیت کر سکتے ہیں کہ جلسہ بھی دیکھیں گے اور اپنے رشتہ داروں سے بھی ملیں گے.بعض لوگ یہ نیت بھی کر سکتے ہیں کہ جلسہ پر بھی ہو آئیں گے اور اس موقع پر اپنے یا اپنے کسی عزیز کے نکاح کا اعلان بھی کرا لیں گے.کئی تاجر پیشہ دوست بھی آتے ہیں.وہ یہ نیت کر سکتے ہیں کہ جلسہ بھی ہو جائے گا اور اس موقع پر بہت سے لوگ جمع ہوں گے اس لئے اپنی چیزیں بھی فروخت کریں گے مگر یہ خیال ایسا ہی ہے جیسے کوئی دکاندار دودھ میں پانی ملا کر فروخت کرے یا گھی میں بعض لوگ کئی قسم کی چربیاں وغیرہ ملا لیتے ہیں یا کھانڈ میں آٹا ملا دیتے ہیں.جب انسان خدا تعالیٰ کے لئے ایک کام کرتا ہے تو اس میں دوسری نیت شامل کیوں کرے.جب اللہ تعالیٰ نے یہ اجازت دی ہے کہ دوسرے کام بھی کئے جا سکتے ہیں تو اس کی نیت کرنے کی کیا ضرورت ہے.خدا تعالیٰ نے اجازت دی ہے کہ حج کے لئے جو لوگ جاتے ہیں.ان میں سے اگر کوئی تجارت بھی کر لے تو جائز ہے لیکن اگر کوئی حج کی نیت اس لئے کرے کہ حج بھی کروں گا اور تجارت بھی کروں گا تو یہ نیک عمل کو ضائع کرنے والی بات ہے.اگر وہ خالص حج کی نیت کرے تو کیا تجارت نہ ہو سکے گی.انسان یہ کیوں کہے کہ چلو جی جلسہ چلتے ہیں.وہاں فلاں نکاح بھی پڑھوائیں گے یہ نیت کیوں نہ کرے کہ جلسہ پر تو جانا ہے اور دین کے لئے جانا ہے.پھر اگر اس موقع پر شادی کا انتظام ہو سکے تو اس میں کوئی رکاوٹ تو پیدا نہ ہو جائے گی.یا اگر یہ نیت ہو کہ اس مقدس اجتماع میں ضرور شامل ہونا ہے.تو کیا اس کے رشتہ دار اسے ملنے سے انکار کر دیں گے یا وہ اسے نظر نہ آئیں گے؟ رشتہ داروں سے ملنے یا تجارت کرنے یا شادی کا انتظام ضرور پر

Page 690

* 1941 690 خطبات محمود کرنے کو نیت میں شامل کرنے کی کیا ضرورت ہے.اگر کوئی جلسہ کی نیت کے ساتھ آتا ہے.مگر ساتھ اپنا سامان بھی فروخت کرتا ہے تو اس کے کام میں اسے کوئی فرق تو نہیں پڑ سکتا.لیکن اگر جلسہ میں آنے کی نیت کے ساتھ وہ تجارت یا رشتہ داروں کی ملاقات کی نیت کو شامل کرتا ہے تو یہ دودھ میں پانی ملانے والی بات ہے.یہ بھی ، معاملہ بہت پیچیدہ معاملہ ہے.رسول کریم صلی الی یکم نے فرمایا ہے الْأَعْمَالُ بِالنِّيَّاتِ 2 یعنی اعمال کی بناء نیتوں پر ہے.اور اگر نیت کے معنی کوئی اچھی طرح سمجھ لے تو بہت بڑے فوائد حاصل کر سکتا ہے.فقہاء نے اس بات پر زور دیا ہے کہ نماز کے لئے نیت ضروری ہے اور جن لوگوں نے اس بات کی حقیقت کو سمجھا انہوں نے فائدہ بھی اٹھایا.شریعت کا اصل منشاء یہ ہے کہ جب انسان نیت کرے گا تو کام سے پہلے کرے گا اور فعل اور نیت کے درمیان جو وقفہ ہو گا اس میں بھی اسی طرف متوجہ ہو گا اور اس طرح وہ وقت بھی اس کا نماز میں ہی گویا گزرے گا.لیکن آگے بنانے والوں نے اس کا کیا نتیجہ بنا لیا.کہتے ہیں کہ کسی شخص کو وہم کی بیماری تھی.ادھر یہ شبہ ڈال دیا گیا تھا کہ اگر نماز کی نیت اس رنگ میں نہ کی جائے جو مولوی بتاتے ہیں تو نماز نہیں ہوتی.اسے وہم کی بیماری تھی اس لئے جب نماز کے لئے کھڑا ہوتا تو کہتا چار رکعت فرض نماز ظہر پیچھے اس امام کے اور یہ کہتے ہوئے انگلی کے ساتھ امام کی طرف اشارہ کرتا.لیکن پھر اس کے دل میں شبہ پیدا ہوتا کہ شاید میری انگلی کا اشارہ سیدھا امام کی طرف ہوا ہے یا نہیں.اس لئے وہ صفیں چیر کر پہلی صف میں پہنچتا اور پھر امام کی طرف انگلی کر کے کہتا پیچھے اس امام کے.پھر بھی شبہ رہتا کہ شاید انگلی کا اشارہ بالکل صحیح طور پر سیدھا نہ کیا جا سکا اور اس لئے کو انگلیاں مار مار کر کہتا پیچھے اِس امام کے.تو یہ غلط مفہوم ہے نیت کا.فقہاء نے جو لکھا اس کا مطلب یہی ہے کہ انسان نماز کو خدا تعالیٰ کے لئے خاص کر دے اور جب پڑھنے لگے تو اسے یہی خیال ہو کہ میں یہ نماز خدا تعالیٰ کی خاطر اور اس کے امام

Page 691

* 1941 691 خطبات محمود قرب اور وصال اور دیدار کی خاطر پڑھتا ہوں.اور یہ ہے اصل نیت ورنہ یہ نیت نہیں کہ چار رکعت فرض نماز ظہر.ایسا بھی کوئی ہو سکتا ہے کہ جو نماز ظہر پڑھنے کے لئے کھڑا ہو اور اسے پتہ نہ ہو کہ ظہر کے فرض چار ہیں یا دو.یہ تو اس مسئلہ کو ایک کھلونا بنا لیا گیا ہے ورنہ مفہوم اس کا صرف اتنا ہی ہے کہ انسان اپنے ارادہ اور نیت کو درست کر کے نماز پڑھے.ریاء اور لوگوں کو دکھانے کے لئے نہ پڑھے.یا محض عادتاً نہ پڑھے.بعض لوگوں کو نماز پڑھنے کی عادت ہو جاتی ہے.جیسے بعض لوگوں کو افیون کھانے کی عادت ہوتی ہے یا بعض لوگوں کو عادت ہوتی ہے کہ صبح صبح اپنے کسی دوست کے پاس جا کر بیٹھتے اور باتیں کرتے ہیں.اگر وہ دوست کسی دوسری جگہ چلا جائے تو ان کو تکلیف ہوتی ہے.اسی طرح بعض لوگوں کو نماز پڑھنے یا روزہ رکھنے کی عادت ہو جاتی ہے.پھر کئی لوگ اس لئے نمازیں پڑھتے ہیں کہ دوسرے لوگ کہیں یہ کیسا اچھا آدمی ہے.بڑا نمازی ہے.ایسا شخص خواہ ہزار دفعہ پیچھے اس امام کے.چاہے امام کو انگلیاں مار مار کر اشارہ کرے اس کی نماز نہ ہو گی کیونکہ گو وہ منہ سے کہتا ہے چار رکعت نماز فرض.مگر وہ فرض ادا نہیں کرتا وہ تو بندوں کے لئے نماز پڑھتا ہے.خدا تعالیٰ کے لئے نہیں اور جو بندوں کے لئے پڑھے وہ یہ کیونکر کہہ سکتا ہے کہ خدا تعالیٰ کا فرض ادا کرتا ہے یا جو عاد تا ادا کرتا فرض ادا نہیں کرتا.جس طرح جس شخص کو افیون کھانے کی عادت ہو وہ ہے وہ نہیں کہہ سکتا کہ وہ خدا تعالیٰ کا کوئی فرض ادا کر رہا ہے.بلکہ وہ تو اپنی عادت پوری کرتا ہے یا جو اپنے دوست کی بیٹھک میں بیٹھ کر باتیں کرتا ہے وہ کوئی فرض ادا نہیں کرتا بلکہ اپنی عادت پوری کرتا ہے.محض ممنہ سے فرض کہہ دینے سے فرض ادا نہیں ہو جاتا.نیت کا یہی مفہوم تھا جسے لوگوں نے بگاڑ لیا.یہی بات اسلام کے ہر ہے.جیسا کہ رسول کریم صلی علیم نے فرمایا ہے کہ الْأَعْمَالُ بِالنِّيَّاتِ.جب تک کسی عمل کے ساتھ نیت درست نہ ہو وہ کوئی فائدہ نہیں دے سکتا.رمضان کے دنوں میں بعض بچے بھی روزے رکھتے ہیں.وہ ماؤں سے لڑتے ہیں کہ عمل میں الله سة

Page 692

* 1941 692 خطبات محمود انہیں کیوں روزہ کے لئے نہیں اٹھایا گیا.انہیں روزہ رکھنے کا شوق ہوتا ہے مگر ان کی نیت کیا ہوتی ہے؟ صرف مقابلہ کرنے کے لئے وہ روزے رکھتے ہیں.جب ایک دوسرے سے ملتے ہیں تو ایک دوسرے سے پوچھتے ہیں کہ تم نے کتنے روزے رکھے تم نے کتنے.غرض وہ محض مقابلہ کے لئے روزے رکھتے ہیں.کوئی ادائیگی فرض کی نیت نہیں ہوتی.وہ صرف اس فقرہ کے لئے روزے رکھتے ہیں کہ ایک دوسرے کو کہہ سکیں کہ تم نے کتنے روزے رکھے اور تم نے کتنے.ان کی غرض صرف دکھاوا اور مقابلہ ہوتی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام ایسے لوگوں کی مثال میں جو دکھاوے کے لئے کام کرتے ہیں ایک لطیفہ سنایا کرتے تھے کہ کوئی عورت تھی اس نے کوئی انگوٹھی بنوائی.اسے شوق تھا کہ ہمجولیاں اس انگوٹھی کی تعریف کریں مگر کسی نے اس کی طرف کوئی توجہ نہ کی.آخر اس نے اسی جلن میں اپنے مکان کو آگ لگا دی اور ایسے رنگ میں لگائی کہ کوئی چیز صحیح سالم نہ بچ سکے.لوگ جمع ہو گئے اور آگ بجھانے میں لگ گئے.عورتیں بھی جمع ہو گئیں.جو عورت آتی اس عورت سے پوچھتی ہے ہے بہن کچھ بچا بھی اور وہ کہتی کہ بس یہی انگوٹھی بچی ہے.کسی عورت نے کہا.بہن یہ انگوٹھی تم نے کب بنوائی ہے.اس کا یہ کہنا تھا کہ وہ چیخ مار کر کہنے لگی کہ اگر پہلے تم یہ پوچھ لیتیں تو میرا گھر کیوں جلتا.تو کئی لوگ نیک اعمال بھی اس لئے کرتے ہیں کہ لوگ تعریف کریں.نمازیں اس لئے پڑھتے ہیں کہ لوگ کہیں بڑا نمازی ہے.لیکچر دیتے ہیں تو یہ غرض نہیں ہوتی کہ دین کی اشاعت ہو یا تقویٰ مد نظر نہیں ہوتا بلکہ صرف یہ مقصد ہوتا ہے کہ لوگ کہیں بڑا بولنے والا ہے، بڑا لیکچرار ہے.خواہ کوئی کچھ سمجھے یا نہ سمجھے اس کی انہیں پرواہ نہیں ہوتی.حضرت خلیفۃ المسیح الاول سنایا کرتے تھے کہ ایک دفعہ میرا ایک پرانا ملنے والا میرے پاس آیا اور درس میں شریک ہوا.میری جو شامت آئی تو میں نے درس کے بعد اس سے پوچھا کہ سناؤ کچھ لطف بھی آیا.اس نے کہا ہاں اچھا تھا.آپ قرآن کریم کے معنے بیان کرتے تھے مگر ہمارے پیر صاحب جو

Page 693

* 1941 693 خطبات محمود لیکچر دیتے یا خطبہ پڑھتے ہیں وہ کمال ہوتا ہے.میں نے پوچھا اس میں کیا ہوتا ہے تو اس نے کہا کہ ہمارے پیر صاحب کے لیکچر تین قسم کے ہوتے ہیں.ایک تو چار آنے والا ہوتا ہے وہ تو آپ جیسا ہی ہوتا ہے.خدا رسول کی باتیں کرتے ہیں.دوسرا آٹھ آنے والا ہوتا ہے اس کی کوئی بات سمجھ میں آتی ہے اور کوئی نہیں.تیسرا ایک روپیہ والا ہوتا ہے اور وہ تو حرام ہے اگر بڑے بڑے مولوی بھی کچھ سمجھ سکیں.اور ظاہر ہے کہ ایسا لیکچر دے کر اگر کوئی شخص یہ خیال کرتا ہے کہ اس کا کوئی ثواب اسے ملے گا تو یہ خام خیالی ہے.اس لیکچر کی غرض دین کی اشاعت یا تقویٰ نہیں ہوتی بلکہ لوگوں پر رُعب ڈالنا ہوتی ہے.وعظ کے معنے تو یہ ہوتے ہیں کہ وعظ کرنے والا وہی ہے بات کہے جو سننے والوں کے دل میں ہو.واعظ سننے والوں کے دل کی باتیں نکالتا اور اسی لیکچر کا ثواب ہوتا ہے لیکن جس کی غرض یہ ہو کہ دوسروں پر رعب پڑے اور ان کو بتایا جائے کہ میرے پاس کچھ ایسی باتیں ہیں جو میں نے چھپائی ہوئی ہیں اس کا کوئی ثواب نہیں ہو سکتا.میں نے ایک جلسہ سالانہ پر عرفانِ الہی کے موضوع پر تقریر کی.ایک شخص نے مجھے رقعہ لکھا.معلوم نہیں وہ احمدی تھا یا غیر احمدی.اس نے لکھا کہ آپ نے تو غضب کیا جو اتنی زیادہ باتیں بیان کر دیں.پیر لوگ تو ان میں سے ایک ایک دس دس سال خدمتیں کرانے کے بعد بتاتے تھے.حالانکہ جو شخص اس خیال کا ہو وہ پیر کیسا؟ جب وہ اس علم کو جو خدا تعالیٰ نے اسے دیا ہے چھپاتا ہے.ہر واعظ جو باتیں اس لئے کرتا ہے کہ لوگوں پر اس کا رعب پڑے اور وہ سمجھیں کہ کچھ باتیں اور بھی اس کے پاس ہیں جو یہ خدمت لے کر بتائے گا.اس کا وعظ وعظ نہیں بکواس ہے.خدا تعالیٰ کی طرف سے آنے والے تو سب کچھ بتا دیتے ہیں.سوائے اس کے کہ کوئی بات بتانے میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے روک ہو.حضرت مسیح علیہ السلام نے جو یہ فرمایا کہ کچھ باتیں ایسی ہیں جو میں بیان نہیں.وہ میرے بعد آنے والا یعنی آنحضرت صلى الله وسلم ہی سمجھائے گا.3 تو اس سے کر سکتا.وہ.

Page 694

* 1941 694 خطبات محمود آپ کی مراد ایسے علوم سے تھی جو اس زمانہ کے لوگ نہیں سمجھ سکتے تھے.ایسی باتوں کو انبیاء اس لئے نہیں چھپاتے کہ وہ بتانا نہیں چاہتے بلکہ اس لئے کہ وہ خدا تعالیٰ نے اُس زمانہ کے لئے مقدر نہیں کی ہوتیں.ایسی باتوں کو اللہ تعالیٰ بھی چھپا لیتا ہے.رؤیا و الہام ایسے کلام میں کرتا ہے کہ جس کے اس زمانہ کے لوگ سیدھے سادے معنے کر لیتے ہیں اور صحیح مفہوم نہیں سمجھ سکتے.جب وہ باتیں اپنے زمانہ میں آکر پوری ہوتی ہیں تو پھر اصل معنے ان کے کھلتے ہیں.تو ہر نیکی نیت کے ساتھ بنتی ہے.نیت اچھی نہ ہو تو کچھ نہیں.شعراء اپنے کلام میں کس قدر تکلفات کرتے ہیں.دُور دُور تشبیہات لاتے ہیں.کسی چیز کی تشبیہ کے لئے ان کی نظر ستاروں کی طرف جاتی ہے اور کسی کے لئے تحت الثریٰ کی طرف.لیکن اس سب کوشش کا کوئی اثر نہ ان کی ذات پر ہوتا ہے، نہ دنیا پر سوائے گندے اثر کے.مگر انبیاء سیدھی سادی باتیں دنیا کے سامنے کرتے ہیں.مگر چونکہ ان کی نیت یہ ہوتی ہے کہ دنیا کی ہدایت ہو جاۓ.اس لئے ان کی باتیں لوگوں پر اثر کرتی ہیں.تو نیت اور ارادہ کے ساتھ خدا تعالیٰ کے کلام میں تاثیر پیدا ہوتی ہے لیکن تکلفات اور مصنوعی باتیں جن کا مقصد صرف اپنے لئے عزت و جاہ کی تلاش ہو.ان میں برکت نہیں ہوتی.پس باہر سے جو دوست آنے والے ہیں میں ان کو نصیحت کرتا ہوں کہ وہ روانہ ہونے سے پہلے اپنی نیتوں کو نیک کریں اور جو دوست آ چکے ہیں اگر انہوں نے کوئی بھی نیت نہ کی ہو تو اب کر لیں اور اگر کی تھی، اس میں خرابی تھی تو اسے اب درست کر لیں.کیونکہ اللہ تعالیٰ کے ہاں غلطی کی اصلاح کا دروازہ ہر وقت کھلا رہتا ہے.وہ یہ نیت کر لیں کہ یہاں آنے کی غرض اعلائے کلمۃ اللہ ہو گی.اگر وہ یہ نیت کر کے آئیں گے تو انہیں اپنے اوقات یہاں صحیح طور پر خرچ کرنے کی توفیق بھی ملے گی.لیکن اگر نیت بُری ہو گی یا وہ بے نیت ہوں گے تو اس کی توفیق بھی انہیں نہ مل سکے گی.یہ جو ہر سال جلسہ کے موقع پر شکایت ہوتی ہے کہ جلسہ گاہ سے باہر اور دکانوں پر لوگ شور کرتے ہیں اس کی وجہ یہی ہوتی ہے کہ ان کی کوئی

Page 695

* 1941 695 خطبات محمود نیت نہیں ہوتی.اگر چلنے سے پیشتر یہ نیت کر لیتے کہ خدا تعالیٰ کے نام کو بلند کرنے کے لئے جا رہے ہیں تو وہ یہاں آکر اس طرح وقت کو ضائع نہ کرتے.نیت نہ ہونے کی وجہ سے ان کا ذہن اس طرف نہیں جاتا کہ وہ وقت ضائع کر رہے ہیں اور خود اپنے کام کو خراب کر رہے ہیں.اگر چلنے سے پیشتر وہ نیت کو درست کر لیتے تو یہاں آکر اپنے کام کی طرف ان کی توجہ بھی ضرور ہوتی.پس اول تو میں باہر کے دوستوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ جو دوست جلسہ آنے والے ہیں وہ اپنی نیت کو درست کریں اور دوسرے قادیان کے جن لوگوں کو خدمت کے مواقع ملتے ہیں.اُن کو بھی چاہئے کہ اپنی نیتوں کو درست کریں.ان کی خدمت میں ریاء اور دکھاوے کا کوئی پہلو نہ ہونا چاہئے.کئی لوگ اس وجہ سے مکان دے دیتے ہیں کہ دوسرے لوگ کہیں گے فلاں شخص نے اپنا مکان خالی کر دیا لیکن اگر کوئی شخص اپنے دل میں کہتا ہے کہ میرا مکان خدا تعالیٰ کا ہی دیا ہوا ہے.سال کے تین سو ساٹھ دن میں نے خود اس سے فائدہ اٹھایا ہے اب پانچ دن اللہ تعالیٰ کے لئے دیتا ہوں تو اس نیت کے ساتھ وہ مکان کتنی برکت کا موجب ہو جائے گا.لوگ دور دور سے حج کے لئے جاتے ہیں.حج بیت اللہ کا کیا جاتا ہے جو اللہ تعالیٰ کا گھر ہے.پھر لوگ نمازیں مساجد میں پڑھتے ہیں وہ بھی اللہ کا گھر کہلاتی ہیں.لیکن اگر اپنے گھر کو کوئی اللہ تعالیٰ کا گھر بنا سکے تو اسے کس طرح برکتیں ملتی رہیں گی.خدا تعالیٰ کے حکم کے ماتحت گو اسے مسجد میں بھی جانا پڑے گا کیونکہ مساجد اسی لئے بنائی گئی ہیں کہ مسلمان ان میں جمع ہوں اور اس کے گھر میں مسلمان جمع نہیں ہو سکتے.لیکن اس کے باوجود اگر وہ اپنے گھر کو خدا تعالیٰ کا گھر بنا دے تو وہ بھی اس کے لئے بہت سی برکتوں کا موجب ہو جائے گا.خدا تعالیٰ نے قرآن مجید میں ایک نبی کی مثال بیان فرمائی ہے کہ اس نے ایک اونٹنی کو چھوڑ دیا اور کہا کہ یہ نَاقَةُ اللهِ ہے کوئی کچھ نہ کہے.4 کیا اس کا یہ مطلب ہے کہ باقی اونٹنیاں خدا تعالیٰ کی نہ تھیں؟ باقی بھی اُسی کی ناقة ہیں.لیکن ان کے لئے وہ خود فرماتا ہے کہ ان کو ذبح

Page 696

* 1941 696 خطبات محمود کرو.اس اونٹنی کے متعلق جو نَاقَةُ الله کا لفظ فرمایا تو اس کا مطلب یہ ہے کہ چونکہ یہ ناقة خدا کے رسول کی ہے اور اسے تبلیغ کے سفر میں وہی اُٹھاتی ہے اور رسول، خدا تعالیٰ کی ناقة ہے کیونکہ وہ خدا تعالیٰ کی ہدایت کو اُٹھائے پھرتا ہے.پس یہ ناقہ گویا خدا ہی کو اُٹھائے پھرتی ہے.اسی طرح اگر کوئی شخص اپنی زندگی کو خدا تعالیٰ کے لئے وقف کر دیتا ہے اور جو کام بھی کرتا ہے خدا کے لئے کرتا ہے تو وہ بھی اللہ تعالیٰ کی ناقة بن جاتا ہے.جس طرح وہ اونٹنی دوسری اونٹنیوں سے ممتاز ہو گئی تھی.اسی طرح وہ دوسرے لوگوں سے ممتاز ہو جاتا ہے.اور جس طرح اس اونٹنی حملہ خدا تعالیٰ کی تلوار کے سامنے کھڑا ہونے کے مترادف تھا.اسی طرح اس پر حملہ کرنے والا بھی خدا تعالیٰ کی تلوار کے سامنے ہوتا ہے.جو اس پر حملہ کرتا ہے وہ گویا خدا تعالیٰ پر حملہ کرتا ہے.تو دیکھو چھوٹی سی نیت کے ساتھ کتنا بڑا انسان پر فرق پڑ جاتا ہے.شخص لئے پس یہاں کے دوست بھی جو خدمت کریں نیت کے ساتھ کریں.اگر کوئی کہے کہ وقت میرا اپنا ہے.اس میں سے پانچ دن میں خدا تعالیٰ کو تحفہ دیتا ہوں تو اس نیت کے ساتھ وہ کون سا تیر مارے گا.لیکن اگر وہ یہ نیت کرے کہ خدا تعالیٰ نے مجھے 365 دن دیئے تھے.میں نے غلطی کی کہ 360 صرف کر لئے.اب پانچ باقی ہیں وہ اللہ تعالیٰ کے حضور پیش کرتا ہوں تو اس سے کتنا بڑا فرق پڑ جاتا ہے.اس صورت میں انسان خدا تعالیٰ کو احسان نہیں جتا سکتا بلکہ اس کا دل شرمندگی سے بھرا ہوا ہو گا اور وہ اس خدمت کی توفیق ملنے پر اللہ تعالیٰ کا شکر کرے گا.لیکن جو یہ سمجھے گا کہ میں اپنے وقت میں سے پانچ دن خدا تعالیٰ کو دیتا ہوں اس کا دل فخر اور تکبر سے بھرا ہو گا.پس جن دوستوں کو جلسہ کے موقع پر خدمت کا موقع ملنے والا ہے وہ بھی اپنی نیتوں کو درست کریں.جس خدمت کے لئے بھی وہ اپنے آپ کو پیش سمجھ کر کریں کہ یہ وقت ان کی چیز نہیں بلکہ خد اتعالیٰ کی ہے.میں نے غلطی کی

Page 697

خطبات محمود 697 * 1941 کہ خدا تعالیٰ کے وقت کو اپنے لئے خرچ کر لیا اب میں باقی پانچ دن اس کے حضور معذرت کے ساتھ پیش کرتا ہوں.پس باہر کے دوست بھی اپنی نیتوں کو درست کر کے آئیں تا یہاں ان کو صحیح طور پر کام کرنے کی توفیق ملے اور یہاں کے دوست بھی نیتوں کو درست کر لیں کہ جن کاموں پر ان کو مقرر کیا جائے وہ ان کے لئے خدا تعالیٰ کے قرب کا موجب ہو، نہ ان کے اندر تکبر اور فخر پیدا کرنے کا.پھر میں باہر سے آنے والوں اور قادیان والوں کو بھی یہ نصیحت کرتا ہوں کہ یہ ایام سردیوں کے ہیں اور بیماریوں کے بھی دن ہیں.بعض جگہ ابھی تک ملیریا موجود ہے.حالانکہ ان دنوں میں عام طور پر ختم ہو جایا کرتا ہے.اس کے علاوہ انفلوئنزا بھی شروع ہو رہا ہے.پھر جنگیں ہو رہی ہیں.اس لئے جب گھروں نکلیں تو دعائیں کرتے ہوئے آئیں.رسول کریم صلی اللہ کریم نے فرمایا ہے کہ سفر کی دعا بہت قبول ہوتی ہے 5 اور پھر وہ سفر جو خدا تعالیٰ کے لئے کیا جائے اس کی دعا تو بہت زیادہ قبول ہو گی.پس جو دوست جلسہ کے لئے آئیں وہ اپنے لئے بھی اور اُن کے لئے بھی جن کو ہ پیچھے چھوڑ کر آئے ہیں اور جو اُن کی طرح یہاں نہیں آ سکے.ان کے لئے بھی جو خدا تعالیٰ کے دین کی خدمت کر رہے ہیں.خواہ وہ کسی جگہ ہوں اور باقی سب دنیا کے لئے بھی جو خدا تعالیٰ نے بنائی ہے.مگر ابھی اس میں ایمان پیدا نہیں ہوا.دعائیں کرتے رہیں.اسی طرح قادیان کے دوست ان کے لئے بھی دعائیں کریں جو باہر سے آئیں اور ان کے لئے بھی جو شامل نہیں ہو سکے اور جن کے دلوں میں شامل ہونے کی تحریک ہی نہیں ہو سکی.پھر ان کے لئے بھی جن کو ایمان نصیب نہیں ہو سکا دعائیں کریں.ساتھ ہی شوکتِ اسلام کے لئے بھی دعائیں کریں کیونکہ یہ ایام تو اسی غرض کے لئے مخصوص ہیں اور وہ دن جن کی غرض ہی شوکتِ اسلام ہے اسلام کا سے زیادہ حق ہے کہ ان میں اس کے لئے دعائیں کی جائیں.اپنی ضرورتوں کے لئے بھی دعائیں کی جا سکتی ہیں مگر وہ اس قدر حاوی نہیں ہونی چاہئیں کہ دینی ضرورتیں نظر انداز ہو جائیں.میں نے دیکھا ہے جلسہ کے موقع پر جب دعا ہوتی ہے تو آخر تک

Page 698

* 1941 698 خطبات محمود آوازیں آتی رہتی ہیں.کوئی کہتا ہے میرے بیٹے کے لئے دعا کی جائے، کوئی کہتا ہے میری بیوی کے لئے اور کوئی اپنے باپ کے لئے دعا کرنے کو کہتا ہے.حالانکہ بہ دعائیں تو ہو ہی جاتی ہیں.ہر مومن اپنے نفس اور اپنے عزیزوں کے لئے بھی دعائیں کرتا ہے اور رسول کریم صلی الی یوم نے فرمایا ہے کہ جب بھی کوئی دعا کرو اس میں اپنے لئے بھی ضرور کروں لیکن یہ ایام چونکہ شوکت اسلام کے لئے مخصوص ہیں اس لئے اسلام کے قیام کی دعائیں مقدم ہونی چاہئیں.اپنے لئے بھی بے شک کرو مگر ان پر زیادہ زور نہ دو.پھر یہ بھی دعائیں کرو کہ جسے تقریر کا موقع ملے خدا تعالیٰ اسے فخر و کبر سے بچائے.میں نے پہلے بھی کئی بار کہا ہے کہ جب کسی کے سپرد کوئی کام کیا جائے اس کی اصلاح بھی فرض ہو جاتی ہے.پس جن لوگوں کو جلسے پر تقریروں کا موقع دیا گیا ہے ان کے لئے دعائیں کرنا ضروری ہے کہ اللہ تعالیٰ انہیں حق بات بیان کرنے کی توفیق دے.ان کے منہ سے کوئی ایسا کلمہ نہ نکلے جو دنیا کی تباہی یا گمراہی کا موجب ہو سکے.اللہ تعالیٰ ان کو کبر اور فخر سے بچائے وہ لوگوں پر رُعب جمانے کے لئے تقریریں نہ کریں اور یہ نہ ہو کہ ان کی نیت میں خدا تعالیٰ کی رضا، اور تقویٰ نہ ہو بلکہ خود نمائی ہو.اگر ایسا ہو تو ان کے لیکچر لیکچر نہیں بلکہ سڑے ہوئے نجس گند کا ڈھیر ہیں جس سے کسی کو اچھی چیز نہیں مل سکتی.غرضیکہ دن بہت دعاؤں کے ہیں.پس خود بھی دعائیں کرو اور دوسروں کو بھی دعاؤں کی تحریک کرو.باہر کے دوست بھی اور قادیان کے بھی.اول تو اپنی نیتوں کو درست کر لیں اور پھر دعائیں بھی کریں.نیت کی درستی کے یہ معنی ہوتے ہیں کہ ایسا انسان اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کے سپرد کر دیتا ہے.گویا وہ اپنے کو اللہ تعالیٰ کا خادم بنا دیتا ہے.یہی تو کل کا پہلا مقام ہوتا ہے.تو گل دراصل نیت سے ہی شروع ہوتا ہے جو نیت کو درست کر لیتا ہے وہ گویا تو گل کے پہلے مقام پر قدم رکھتا ہے اور جو تو گل کے مقام پر آجاتا ہے خدا تعالیٰ اس کے کام کا ذمہ دار ہو جاتا ہے.اور جس کام کا ذمہ دار اللہ تعالیٰ ہو اس کی درستی اور تکمیل میں کیا شبہ ہو سکتا ہے.دنیا میں لوگ

Page 699

* 1941 699 خطبات محمود بڑے بڑے کام کرتے ہیں مگر وہ مٹ جاتے ہیں لیکن تو گل رکھنے والے چھوٹا سا کوئی کام بھی کرتے ہیں تو وہ ہمیشہ کے لئے یاد گار رہتا ہے.پس وہ چیز جو ثبات اور دوام دینے والی ہے.وہ تو گل ہے اور تو گل کا پہلا مقام نیت کی درستی اور صفائی ہے.پس باہر سے آنے والے بھی اور قادیان والے بھی اپنی نیتوں کو درست کر لیں تا خدا تعالیٰ کے فضلوں کے دروازے ان پر کھلیں.الفضل 24 دسمبر 1941ء) 1 الدھر : 8 وو بخاری کتاب بَدَءُ الوَحِي باب كَيْفَ كَانَ بَدْءُ الْوَحِي إِلَى رَسُولِ اللَّهِ الله 3 یوحنا باب 16 آیات 12 و 13 4 وَيَقَوْمِ هَذِهِ نَاقَةُ اللهِ لَكُمْ آيَةً فَذَرُوهَا تَأْكُلُ فِي أَرْضِ اللَّهِ وَلَا تَمَسُّوْهَا بِسُوءٍ فَيَأْخُذَكُمْ عَذَابٌ قَرِيبٌ (هود: 65) 5 ترندی آبوَابُ الدَّعَوَاتِ باب مَا ذُكِرَ فِي دَعْوَةِ الْمُسَافِرِ 6 ترندی كِتَابُ الدَّعَوَاتِ باب مَا جَاءَ أَنَّ الدَّاعِيَ يَبْدَءُ بِنَفْسِهِ

Page 700

* 1941 700 (39 خطبات محمود جلسہ سالانہ پر آنے والے احباب کو ضروری ہدایات فرمودہ 26 دسمبر 1941ء) تشہد، تعوذ اور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:." آجکل کے ایام سخت ابتلاؤں اور تکلیفوں کے دن ہیں.ایک خطرناک جنگ دنیا کے پردہ پر لڑی جا رہی ہے اور ہزارہا آدمی جن کی ماؤں نے نو مہینے تکلیف اٹھا کر ان کو بڑی بڑی امیدوں کے ساتھ جنا تھا روزانہ سیکنڈوں اور منٹوں میں ہلاک کئے جا رہے ہیں.وہ زمین جسے خدا تعالیٰ نے انسان کے بسنے اور بڑھنے کے لئے بنایا تھا وہ اب بھاگنے اور قتل ہونے کی جگہ بن گئی ہے اور وہ سمندر جس کو خدا تعالیٰ نے اس لئے بنایا تھا کہ اس کی مچھلیوں کو انسان کھائے اور انہیں اپنی خوراک بنائے آج انسان اس کی مچھلیوں کی خوراک بن رہے ہیں.غرض انسانی گناہوں نے خدا تعالیٰ کی غیرت کو بھڑکا کر آج دنیا کا نقشہ بالکل بدل ڈالا ہے.ان حالات میں جتنی بھی انسان خدا تعالیٰ کی طرف توجہ کرے کم ہے.مگر یہ توجہ بھی خدا تعالیٰ کی توفیق ہی میسر آتی ہے.اسی لئے اللہ تعالیٰ نے ہمیں سورہ فاتحہ میں اس امر کی طرف توجہ دلائی ہے.چنانچہ فرماتا ہے.إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِين 1 یعنی تم یہ کہو کہ اے ہمارے خدا ہم تیری عبادت کرتے ہیں.مگر ہماری یہ عبادت کامل نہیں ہو سکتی، نہ ہماری محبت تجھ سے کامل ہو سکتی ہے، نہ شرائط عبادت ہمیں کامل طور پر میٹر آ سکتے ہیں اور نہ عبادت کے لئے ہم اپنا وقت صرف کر سکتے ہیں جب تک تیری مدد اور تیری نصرت ہمارے شامل حال نہ ہو.تو ہمیں عبادت کی شرائط پورا کرنے کی توفیق دے

Page 701

* 1941 701 خطبات محمود تو ہم عبادت کر سکتے ہیں، تو ہمیں عبادت کے لئے اپنا وقت صرف کرنے کی توفیق دے تو ہم عبادت کر سکتے ہیں، تو ہمارے دل میں اپنی عبادت کا جوش پیدا کرے تو ہم عبادت کر سکتے ہیں.ہم سے یہ نہیں ہو سکتا کہ ہم اپنی ذاتی جد و جہد سے تیری کامل عبادت کر سکیں.پس ہم ایک ٹوٹی پھوٹی چیز تیرے سامنے پیش کرتے ہیں، اپنی کمزوریوں کے لحاظ سے اور اپنی مجبوریوں کے لحاظ سے اور اپنی کم فہمی کے لحاظ سے.اگر تو اس کو اچھا دیکھنا چاہتا ہے، اگر تو اس کو خوبصورت دیکھنا چاہتا ہے اگر تُو ہماری عبادت کو کامل دیکھنا چاہتا ہے تو ہم سے تو ایسی ہی بن سکتی تھی باقی کام تو خود اپنے فضل سے سر انجام دے دے.پس اس آیت میں بنی نوع انسان کو اس امر کی طرف توجہ دلائی گئی گو خدا نے تم کو نماز پڑھنے کا حکم دیا ہے، گو خدا نے تم کو روزے رکھنے کا حکم دیا ہے، گو خدا نے تم کو حج کرنے کا حکم دیا ہے، گو خدا نے تم کو صدقہ و خیرات کرنے کا حکم دیا ہے مگر یہ حکم اکیلے تم سے نبھنے کے نہیں.یہ حکم تو ایسے ہی ہیں جیسے بعض دفعہ ماں باپ اپنے چھوٹے بچے سے کہہ دیتے ہیں کہ یہ کرسی یہاں سے اٹھاؤ یا اس میز کو اٹھا کر فلاں جگہ رکھ دو.وہ اپنے بچے کو یہ حکم اس لئے نہیں دیتے کہ وہ جانتے ہیں ان کا بچہ میز اٹھا سکتا ہے یا کرسی اٹھا سکتا ہے بلکہ وہ اپنے بچے کو میز یا کرسی اٹھانے کا حکم اس لئے دیتے ہیں کہ وہ اس سے ناز کرتے یا ناز کروانا چاہتے ہیں.وہ جانتے ہیں کہ جب بچہ میز یا کرسی کو ہاتھ لگائے گا اور وہ اس سے اٹھائی نہیں جا سکے گی تو وہ کہے گا کہ اماں میز مجھ سے اٹھایا نہیں جاتا تم اٹھا دو یا کرسی مجھ سے اٹھائی نہیں جاتی تم اٹھا دو.یہی حال عبادت کا ہے.بندہ عبادت کر ہی نہیں سکتا مگر اللہ تعالیٰ یہ کام اس کے سپرد کرتا ہے کیونکہ وہ اپنے بندہ سے پیار کرنا چاہتا ہے مگر جہاں بچے اپنی فطرت کے مطابق کام کرتے ہیں وہاں بڑے انسان بسا اوقات اپنی فطرتیں مار بیٹھتے ہیں اور عجیب عجیب قسم کے خیالات میں مبتلا ہو کر جو سیدھی سادی بات ہوتی ہے اسے بھول جاتے ہیں.

Page 702

خطبات محمود 702 * 1941 انگلستان کا ایک مشہور تماشہ دکھانے والا شخص ہے اس کی ایک کتاب میں نے پڑھی اور میں نے اس میں ایک عجیب بات دیکھی.وہ لکھتا ہے کہ بڑے بڑے آدمیوں کے سامنے خواہ وہ پروفیسر ہوں یا ڈاکٹر، انجینئر ہوں یا مصنف، ایڈیٹر ہوں یا سیاست دان کبھی تماشہ دکھاتے وقت مجھے گھبراہٹ نہیں ہوتی.مگر جب بچوں کے سامنے میں تماشا دکھانے لگتا ہوں تو گھبرا جاتا ہوں اس لئے کہ وہ وہی بات ہیں جو واقع میں ہوتی ہے.مگر انجینئر اور سیاستدان اور ایڈیٹر اور پروفیسر میری وہ سیدھی سادی بات کی عجیب و غریب توجیہات کرنے کی کوشش کرتے ہیں حالانکہ بات معمولی ہتھکنڈے کی ہوتی ہے لیکن بچے کا خیال ادھر اُدھر جاتا ہی نہیں وہ فوراً اصل حقیقت کو پہچان لیتا ہے اور اس طرح بھانڈا پھوٹ جاتا ہے.اس کی وجہ یہی ہے کہ بچے اپنی فطرت کو بھولے نہیں ہوتے.بچے کو جب اس کی ماں کہتی ہے کہ میز اٹھاؤ تو اس بچے کی فطرت فوراً سمجھ جاتی ہے کہ ماں چاہتی ہے میں یہ کہوں کہ میز مجھ سے اٹھایا نہیں جاتا.چنانچہ وہ میز پر ہاتھ رکھتے ہی کہہ دیتا ہے کہ اماں مجھ سے میز نہیں اٹھایا جاتا اور ماں دوڑ کر آتی اور میز کو اٹھا لیتی ہے.مگر چونکہ بڑے آدمی اپنی فطرت کو بھول جاتے ہیں اس لئے خدا تعالیٰ کو اِيَّاكَ نَعْبُدُ کے بعد إِيَّاكَ نَسْتَعِينُ بھی کہنا پڑا.اگر انسانی فطرت گرد و پیش کے حالات کی وجہ سے مسخ نہ ہو چکی ہوتی اور وہ بالکل پاک ہوتی تو ايَّاكَ نَسْتَعِينُ کہنے کی ضرورت ہی نہیں تھی.لوگ آپ ہی سمجھ جاتے کہ اللہ میاں نے عبادت کا حکم ہمیں کیوں دیا ہے مگر چونکہ انسان عادات کی خرابی کی وجہ سے، نفسانی خواہشات کی ملونی کی نفسانی خواہشات کی ملونی کی وجہ سے اور غلط علم پڑھنے کی وجہ سے اپنی فطرت کا اصل حسن کھو بیٹھتے ہیں اس لئے اللہ تعالیٰ کو إِيَّاكَ نَعْبُدُ کے ساتھ إيَّاكَ نَسْتَعِين کہنے کی ضرورت پڑی.جس طرح بچہ جب میز اٹھانے لگتا ہے تو کہتا ہے اماں مجھ سے میز نہیں اٹھایا جاتا اسی طرح اللہ تعالیٰ نے إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ لَه کر یہ ہدایت دی ہے کہ جب تم اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے لگو تو ساتھ ہی کہا کرو کہ إيَّاكَ نَسْتَعِينُ اللہ میاں یہ عبادت ہم سے اٹھائی نہیں جاتی آپ ہماری مدد کریں تہ

Page 703

* 1941 703 خطبات محمود خدا تمہاری مدد کرے گا اور تب تمہاری عبادت حقیقی عبادت کہلا سکے گی.غرض اللہ تعالیٰ کی توفیق کے بغیر عبادت بھی صحیح طور پر سر انجام نہیں دی ا سکتی کُجا یہ کہ اور امور میں انسان کو اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ توفیق کے بغیر ہی کامیابی حاصل ہو جائے.پس ان ایام میں اللہ تعالیٰ کی طرف توجہ کرنی چاہئے اور اس توجہ کے پیدا ہونے کے لئے بھی اللہ تعالیٰ سے ہی دعا کرنی چاہئے کہ یا اللہ ہمارے دلوں کو اس توجہ کے لئے کھول دے ورنہ بسا اوقات انسان ارادہ کرتا مگر اسے پورا نہیں کر سکتا.پھر یہ دن اس لحاظ سے بھی خاص طور پر دعائیں کرنے کے ہیں کہ اس سال ہمارے ہزاروں بھائی جلسہ سالانہ میں شریک نہیں ہو سکے بوجہ اس کے کہ وہ جنگ پر چلے گئے ہیں یا بوجہ اس کے کہ جنگ کی وجہ سے انہیں چھٹیاں نہیں ملیں.چنانچہ دوستوں کی طرف سے تاریں آ رہی ہیں جن میں اس امر پر افسوس کا اظہار ہوتا ہے کہ وہ جلسہ میں شریک نہیں ہو سکے اور جو دوست یہاں آئے ہیں ان میں سے بھی ایک خاصی تعداد مجھے ایسے لوگوں کی معلوم ہوئی ہے جن کی چھٹی نہایت قلیل ہے.چنانچہ کسی کو صرف ایک دن کی چھٹی ملی ہے ، کسی کو دو دن کی چھٹی ملی ہے، کسی کی 27 کو حاضری ہے اور کسی کی 28 کو اور بعض لوگوں کی طرف سے یہ اطلاع بھی پہنچی ہے کہ وہ 26 کو نہیں آسکیں گے، شاید 27 کو آ سکیں.تو جنگ کی وجہ سے ہمارے اس تبلیغی اجتماع پر بھی اثر پڑا ہے اور یہ بھی ایک ایسی چیز ہے جس کی وجہ سے ہمیں خاص طور پر خدا تعالیٰ کی طرف توجہ کرنی چاہئے اور دعائیں کرنی چاہئیں کہ اللہ تعالیٰ اس جنگ کو جلد ختم کرے تاکہ ہماری جماعت حسب معمول زیادہ جوش اور زیادہ شوق کے ساتھ دین کی خدمت کر سکے.پھر یہ دن جلسہ سالانہ کے مبارک ایام ہیں اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ اس جلسہ کی بنیاد خود خدا نے رکھی ہے اور جس چیز کی بنیاد خدا نے رکھی ہو تم سمجھ سکتے ہو کہ وہ کتنی مبارک ہو گی.پھر ایک اور مقام پر حضرت مسیح موعود

Page 704

* 1941 704 خطبات محمود..الصلوۃ و السلام نے لکھا ہے کہ تکلیف اٹھا کر اور اپنے کاموں کا حرج کر کے بھی دوستوں کو اس جلسہ میں پہنچنا چاہئے.پس جلسہ سالانہ کے یہ ایام اپنے اندر بہت بڑی برکات رکھتے ہیں.پھر اس دفعہ کے جلسہ کو تو اللہ تعالیٰ نے ایک عجیب خصوصیت دے دی ہے جیسے مسلمانوں میں حج کے متعلق یہ خیال پایا جاتا ہے کہ جب جمعہ کو حج آئے تو وہ بڑی برکت والا ہوتا ہے.چنانچہ جب کسی سال لوگوں کو معلوم ہو کہ جمعہ کو حج ہو گا تو بڑی کثرت سے لوگ حج کرنے کے لئے جاتے ہیں اور اسے سے اپنے لئے بہت بڑی برکات کا موجب سمجھتے ہیں.اسی طرح ہمارا یہ جلسہ اپنے اندر یہ خصوصیت رکھتا ہے کہ یہ سارے کا سارا ہمارے لئے عید بن گیا ہے.چنانچہ اس جلسہ کے پہلے دن جمعہ کی عید ہے، دوسرا دن حج کے تسلسل میں آ جاتا ہے.چنانچہ کل سے حاجی حج کی تیاریاں شروع کر دیں گے اور پرسوں حج ہو جائے گا.اس کے بعد اترسوں پھر عید آ جائے گی.گویا یہ سارے ایام جمعہ اور حج میں ہی گزریں گے.پھر اس کے ایک طرف جمعہ کی عید ہے، دوسری طرف عید الاضحیہ ہے اور درمیان میں جلسہ سالانہ کی عید ہے جو اس لحاظ سے بھی ہمارے لئے عید ہے کہ وہ دن حج کے ہیں.پس یہ جلسہ اپنی برکات کے لحاظ سے بہت بڑی خصوصیت رکھتا ہے اور میں سمجھتا ہوں جو لوگ اس جلسہ سے پوری طرح فائدہ اٹھانے کی کوشش کریں گے وہ بہت سی روحانی برکات حاصل کر کے لوٹیں گے.اسی طرح جسمانی برکات بھی انہیں حاصل ہوں گی کیونکہ جسمانی برکات روحانی برکات کے تابع ہوتی ہیں.غرض جو لوگ اس جلسہ پر آئے ہیں ان کو اللہ تعالیٰ نے یہ ایک بہت بڑی نعمت بخشی ہے اور اس جلسہ کا ہر دن قبولیت دعا کے ساتھ نہایت گہرا تعلق رکھنے والا ہے.پھر جلسہ کے معا بعد عید آ جائے گی اور یہ عید قربانیوں کی عید ہو گی جس کے معنی یہ ہوں گے کہ اللہ تعالیٰ نے مومنوں کی قربانیوں کو قبول کر لیا اور چونکہ یہ عید ہمارے جلسہ سالانہ کے ساتھ آئے گی اس لئے اس عید کے ایک معنی بھی ہوں گے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمارے جلسہ کو قبول کر لیا.پس ان دنوں میں

Page 705

* 1941 خطبات محمود 705 جماعت کو خاص طور پر دعائیں کرنی چاہئیں.مجھے افسوس ہے کہ آج صبح جب میں یہاں سے دعا کر کے واپس گیا تو کثرت سے گلیاں جماعت کے دوستوں سے بھری ہوئی تھیں جس کے معنی یہ ہیں کہ دعا میں بھی بعض دوست شامل نہیں ہوئے.پھر مجھے یہ کر کے اور بھی افسوس ہوا کہ باوجود اس بات کے کہ میں نے بات معلوم خاص طور پر توجہ دلائی تھی کہ دوستوں کو تمام تقریریں سننی چاہئیں دعا کے بعد بعض اور لوگ بھی جلسہ گاہ میں سے اٹھ کر چلے گئے.حالانکہ جو لوگ یہاں آتے ہیں ان کے آنے کی غرض یہ ہوتی ہے کہ وہ دین کی باتیں سنیں.بے شک بعض لوگوں کو قادیان آنے کے سال میں اور بھی کئی مواقع مل جاتے ہیں مگر بعض کو موقع سال میں پھر کبھی میسر نہیں آتا.پھر کس قدر افسوس کی بات ہے کہ بعض شخص لوگ ایسے قیمتی موقع کو بھی اپنی غفلت کی وجہ سے ضائع کر دیتے ہیں.دیکھو جس کے دل میں اخلاص ہوتا ہے وہ کیسی قربانی کرتا ہے.حضرت ابو ہریرہ رسول کریم صلی ا یم کی وفات سے صرف تین سال پہلے ایمان لائے تھے.آپ نے دیکھا کہ اور لوگ بہت دیر سے اسلام قبول کر چکے ہیں، کوئی ہمیں سال سے اسلام میں داخل ہے، کوئی اٹھارہ سال سے اسلام میں داخل ہے، کوئی چودہ سال سے اسلام میں داخل ہے، کوئی دس سال سے اسلام میں داخل ہے.خدا نے ان کے دل میں چونکہ نیکی اور تقویٰ رکھا ہوا تھا اس لئے اسلام لانے کے بعد انہوں نے فیصلہ کر لیا کہ اب میں رسول کریم صلی علیکم کے دروازہ سے نہیں ہلوں گا اور لوگ بہت باتیں سن چکے ہیں اور میں ان کے سننے سے محروم رہا ہوں.اب اس کی تلافی اسی طرح ہو سکتی ہے کہ میں یہاں سے ہلوں نہیں اور رسول کریم صلی اللہ علم کی تمام باتیں اپنے کانوں سے سنتا رہوں.چنانچہ وہ دھرنا مار مسجد میں رسول کریم صلی علیم کے دروازہ پر بیٹھ گئے.جب بھی رسول کریم صلی اللی علم باہر تشریف لاتے حضرت ابو ہریرہ موجود ہوتے.بے شک کبھی اس وقت زید بھی ہوتا، کبھی بکر بھی ہوتا، کبھی خالد بھی ہوتا مگر اس زید بکر اور خالد کے ساتھ ابو ہریرۃ ضرور ہوتے اور چونکہ وہ ہر وقت مسجد میں بیٹھے رہتے تھے اور کماتے کچھ نہیں تھے

Page 706

خطبات محمود 706 * 1941 اس لئے ان کے بھائی نے رسول کریم صلی نیلم کے پاس شکایت کی کہ ابو ہریرہ تمام کام چھوڑ چھاڑ کر مسجد میں بیٹھ گیا ہے کماتا کچھ نہیں.وہ کچھ دن تک تو ابو ہریرہ کو روٹی پہنچاتا رہا مگر آخر کب تک پہنچاتا.ایک طرف اس کا خرچ زیادہ ہو گیا اور دوسری طرف یوں بھی اس کی تکلیف بڑھ گئی کہ اسے خود ابو ہریرہ کو کھانا پہنچانا پڑتا تھا.چنانچہ اس نے رسول کریم صلی ال نیم کے پاس شکایت کر دی.رسول کریم صلی ا ہم نے اسے فرمایا دیکھو کبھی خدا کسی اور کی وجہ سے انسان کو رزق دے دیتا ہے.تم یہ سمجھ لو تمہیں خدا تعالیٰ جو کچھ رزق دے رہا ہے وہ ابو ہریرہ کی وجہ سے ہی دے رہا ہے.2 مگر ہر شخص کو مقدرت نہیں ہوتی کہ وہ مسلسل کسی بوجھ کو برداشت کر سکے.آخر کچھ مدت کے بعد ان کے بھائی نے مدد سے ہاتھ کھینچ لیا اور ابو ہریرہ کو فاقے آنا شروع ہو گئے یہاں تک کہ بعض دفعہ سات سات وقت تک انہیں فاقہ برداشت کرنا پڑا.رسول کریم صلی ا کرم کی وفات کے بعد جب مسلمانوں کو فتوحات حاصل ہوئیں تو چونکہ مسجد میں بیٹھے رہنے کی اب کوئی ضرورت نہیں تھی اس لئے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بھی مدینہ سے باہر گئے اور انہیں ایک جگہ کا گورنر مقرر کیا گیا.انہی ایام میں ایران کی فوجوں کو شکست ہوئی اور جو اموال کسری شاہ ایران کے مسلمانوں کے ہاتھ آئے ان میں ایک وہ رومال بھی تھا جو کسری اپنے تخت پر بیٹھتے وقت استعمال کیا کرتا تھا.اموال کی جب تقسیم ہوئی تو وہ رومال حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کے حصہ میں آیا.اب بھلا ایک سیدھے سادے مسلمان کی نگاہ میں یہ چیز کیا حقیقت رکھ سکتی تھی.بے شک بادشاہ کے نزدیک وہ رومال بہت قیمتی تھا اور تبھی وہ تخت پر بیٹھتے وقت اسے استعمال کیا کرتا تھا مگر جب حضرت ابو ہریرہ کے پاس وہ رومال آیا تو اتفاقاً انہیں کھانسی ہوئی اور انہوں نے بلغم اس رومال میں پھینک دی پھر کہنے لگے بخ بخ ابو هريرة یعنی واہ بھئی ابو ہریرہ، واہ بھئی ابو ہریرۃ.لوگوں نے ہم سمجھے نہیں کہ اس بات کے کہنے کا مطلب کیا ہے.انہوں نے کہا ایک زمانہ وہ ہوا کرتا تھا کہ رسول کریم صلی ایم کی باتیں سننے کے شوق میں میں ہر وقت مسجد میں

Page 707

* 1941 707 خطبات محمود بیٹھا رہتا تھا، کھانے کو کچھ ملتا تو کھا لیتا ورنہ بھوکا رہتا.اس طرح بعض دفعہ ایک وقت کا فاقہ گزرتا، بعض دفعہ دو وقت کا فاقہ گزرتا، بعض دفعہ تین وقت کا فاقہ گزرتا، بعض دفعہ چار وقت کا فاقہ گزرتا اور انتہاء یہ کہ بعض دفعہ سات سات وقت کا مجھے فاقہ ہو جاتا اور میں شدت ضعف کی وجہ سے بے ہوش ہو کر گر جاتا 3 مومن کی غیرت چونکہ سوال کو برداشت نہیں کرتی اس لئے حضرت ابو ہریرۃ سوال نہیں کرتے تھے مگر جب بے ہوش ہو جاتے تو لوگ یہ سمجھتے کہ انہیں مرگی کا دورہ ہو گیا ہے اور عربوں میں رواج تھا کہ جب کسی کو مرگی کا دورہ ہو جاتا تو اس کے جوتیاں مارا کرتے تھے.بعد میں غلطی سے اسے مرگی کا علاج ہی سمجھ لیا گیا.مرگی والے کو جوتیاں مارنے کی اصل وجہ تھی کہ اہل عرب یہ سمجھتے تھے کہ مرگی وجہ یہ سر پر الے کے سر پر شیطان چڑھ جاتا ہے اور اس کا علاج یہ ہوتا ہے کہ اس کے جوتیاں ماری جائیں تاکہ شیطان بھاگ جائے.جیسے پرانے زمانہ میں جب کسی کو ہسٹیریا کے دورے پڑتے تھے تو ملاں اسے ڈنڈے مارا کرتے تھے اور سمجھتے تھے کہ اس طرح جن بھاگ جائے گا.مگر جن تو نہیں بھاگتا تھا اس کی روح بھاگ جایا کرتی تھی.اسی طرح عربوں کا خیال تھا کہ جسے مرگی کا دورہ ہوتا ہے اس کے سر پر شیطان سوار ہوتا ہے اور علاج یہ ہوتا ہے کہ جوتیاں ماری جائیں تاکہ شیطان بھاگ جائے.تو حضرت ابو ہریرہ نے بتایا جب میں بے ہوش ہو جاتا تو لوگ میرے سر پر جوتیاں مارنے لگ جاتے تھے اور مجھ میں اتنی ہمت اور سکت نہیں ہوتی تھی کہ میں کچھ بولوں اور ان سے کہہ سکوں کہ مجھے مرگی نہیں ہے مجھے تو بھوک کی شدت کی وجہ سے ضعف ہے.اب کُجا تو وہ دن تھا کہ بھوک کے مارے مجھے عشیوں پر غشیاں آتی تھیں اور لوگ میرے سر پر جوتیاں مارا کرتے تھے اور کُجا یہ حالت ہے کہ وہ کسریٰ جو آدھی دنیا کا مالک تھا اس کا وہ رومال جو تخت پر بیٹھتے وقت وہ استعمال یا کرتا تھا آج ابو ہریرۃ کے قبضہ میں ہے اور وہ اس میں اپنی بلغم پھینک رہا ہے.ابو ہریرۃ نے کس طرح اللہ تعالیٰ کے رسول کی باتیں سننے کے لئے تو

Page 708

* 1941 708 خطبات محمود تین سال تک اپنے اوپر فاقے برداشت کئے.سات فاقوں کے معنے یہ ہیں کہ قریباً جلسہ کے تمام ایام وہ فاقہ سے رہتے تھے.مثلاً 26 کی صبح کا فاقہ ایک،26 کی شام کا فاقہ دو، 27 کی صبح کا فاقہ تیسرا اور 27 کی شام کا فاقہ چوتھا، 28 کی صبح کا فاقہ پانچواں اور 28 کی شام کا فاقہ چھٹا اور ابھی ایک فاقہ باقی رہتا ہے.گویا اگر جلسہ سالانہ کے ان ایام میں آپ لوگوں کے لئے کھانے کا کوئی انتظام نہ ہوتا، پانی کا کوئی انتظام نہ ہوتا اور آپ دین کی باتیں سننے کے لئے بیٹھے رہتے تو کہا جا سکتا تھا کہ ابو ہریرہ کی روح آپ میں سرایت کر گئی ہے مگر پھر بھی آپ ابو ہریرہ سے دوسرے نمبر پر ہی رہتے کیونکہ آپ لوگوں کو ایک فاقہ کم کرنا پڑتا.پس ان ایام کو ضائع مت کرو دعاؤں کی قبولیت کے خاص ایام ہیں اور یہ جلسہ اپنے ساتھ نمایاں طور پر کئی قسم کی برکات رکھتا ہے.پھر ہم پر ان لوگوں کی بھی ذمہ داری ہے جو جنگ میں شامل ہیں کہ ہم خاص طور پر ان کے لئے دعائیں کریں.اسی طرح یہ بیماریوں کے بھی ایام ہیں اور کثرت سے دوستوں کی طرف سے بیماریوں کے خطوط آ رہے ہیں.پس ان ایام کو اپنے نفس پر بوجھ ڈال کر زیادہ سے زیادہ دینی باتیں سننے میں لگاؤ.یہ طریق درست نہیں کہ کسی ایک کی تقریر سننے کے لئے تو آپ بیٹھے رہیں اور دوسروں کی تقریریں نہ سنیں.مثلاً میں آیا تو آپ میری تقریر سننے کے لئے آ گئے یا اور کوئی دوست ہوا جس کا لیکچر عام طور پر پسند کیا جاتا ہو تو اس کا لیکچر سننے کے لئے بیٹھ گئے.اس کے تو یہ معنے ہیں کہ آپ تقریریں خدا کے لئے نہیں سنتے بلکہ کسی کی وجاہت یا کسی.سے تعلق کی بناء پر تقریریں سنتے ہیں.حالانکہ کیا پوپلے منہ سے خدا کی باتیں نہیں نکل سکتیں؟ ہم نے تو بعض دفعہ بچوں کے منہ سے ایسی باتیں سنی ہیں جو ہمارے لئے زندگی بھر کا سبق بن گئی ہیں.حضرت امام ابو حنیفہ کے متعلق ہی ایک واقعہ بیان کیا جاتا ہے جس سے پتہ چلتا ہے کہ جو لوگ متقی ہوتے ہیں وہ کس طرح چھوٹی چھوٹی باتوں سے نصیحت حاصل کر لیتے ہیں.کہتے ہیں ایک دفعہ حضرت امام ابو حنیفہ سے کسی نے کہا آپ تو

Page 709

* 1941 709 خطبات محمود ایسے اچھے واعظ ہیں کیا آپ کو بھی کبھی کسی نے نصیحت کی ہے؟ انہوں نے کہا ہاں ایک نصیحت کا میرے دل پر بڑا اثر ہے اور وہ نصیحت بھی ایسی ہے جو ایک چھوٹے بچے نے مجھے کی.اس نے حیران ہو کر کہا کہ کیا ایک چھوٹے بچے نے نصیحت کی تھی؟ انہوں نے کہا ہاں اس نے مجھے نصیحت کی اور ایسی کی کہ وہ مجھے آج تک نہیں بھولتی.اس نے پوچھا کہ کیا نصیحت کی تھی؟ اس پر امام ابو حنیفہ نے کہا.ایک روز سخت بارش ہو رہی تھی، میں باہر نکلا اور میں نے دیکھا کہ آٹھ دس برس کا ایک لڑکا گلی میں سے دوڑتا چلا جا رہا ہے.اُس زمانہ میں چونکہ پکی سڑکیں نہیں ہوا کرتی تھیں اور کیچڑ ہو رہا تھا اس لئے امام ابو حنیفہ کہتے ہیں مجھے ڈر پیدا ہوا کہ کہیں وہ لڑکا گر نہ جائے.چنانچہ میں نے اسے کہا میاں بچے ذرا سنبھل کر چلو ایسا نہ ہو کہ پھسل جاؤ اور تمہیں چوٹ لگے.اس بچے نے میری طرف دیکھا اور کہا امام صاحب میری فکر نہ کیجئے آپ سنبھل کر چلیں.میں اگر پھسلا تو صرف اپنی جان کو نقصان پہنچاؤں گا مگر آپ پھسلے تو سارے جہان کو نقصان پہنچائیں گے.اب اس بچے کا ہمیں نام بھی معلوم نہیں مگر اس میں کیا شبہ ہے کہ امام ابو حنیفہ جہاں پھسلے اسی جگہ سارے حنفی پھسل گئے.تو بچوں کے منہ سے بھی نصیحت کی باتیں سننے میں آ جاتی ہیں.اس لئے جو شخص اس طرز پر بیٹھتا ہے وہ خدا کے لئے نہیں بیٹھتا بلکہ صرف اچھی تقریر سننے کے لئے بیٹھتا ہے.خدا کے لئے وہی شخص بیٹھتا ہے جو اس خیال میں رہتا ہے کہ مجھے جہاں سے بھی اچھی چیز ملے گی میں لے لوں گا.رسول کریم صلی علیم بھی فرماتے ہیں كَلِمَةُ الْحِكْمَةِ ضَالَّهُ الْمُؤْمِنِ أَخَذَهَا حَيْثُ وَجَدَهَا 4 یعنی حکمت کی بات مومن کی گمشدہ اونٹنی ہے وہ جہاں بھی اسے نظر آتی ہے اس کو پکڑ لیتا ہے اور سمجھتا ہے کہ یہ میری اپنی چیز ہے کسی اور کی نہیں.تو مومن کو ہمیشہ دین کی باتیں سننے کی طرف توجہ رکھنی چاہئے.یہ نہیں دیکھنا چاہئے کہ کون سنا رہا ہے.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ انسانوں سے تعلقات بھی ہوتے ہیں مگر بہر حال وہ دوسرے نمبر پر ہوتے ہیں.پہلا نمبر ہوتی

Page 710

* 1941 710 خطبات محمود خدا کا ہی ہے اور اسی کی باتیں سننے کے لئے آپ سب دوست یہاں اکٹھے ہوئے ہیں.آخر سوچنا چاہئے کہ ہمارا یہ جلسہ تین دن کیوں ہوتا ہے.اگر صرف میری تقریریں سننا ہی کافی تھا تو تین دن جلسہ رکھنے کی کوئی ضرورت نہ تھی.اتناہی کافی تھا ایک دن جلسہ کر لیا جاتا اور اس میں میں یا آئندہ جو خلیفہ ہو وہ تقریر کر دیتا مگر ایسا نہیں بلکہ تین دن جلسہ رکھا گیا ہے اور اس میں حکمت یہی ہے کہ مختلف دماغوں سے مختلف باتیں نکلتی ہیں اور سب سے مشترکہ طور پر دوستوں کو فائدہ پہنچانا مد نظر ہوتا ہے.پس وہ دوست جو خطبہ سن رہے ہیں اس امر کو اچھی طرح یاد رکھیں کہ یہ دن سال میں صرف تین.دن سال میں صرف تین ہوتے ہیں ان کو اس طرح مضبوطی سے پکڑنا چاہئے جس طرح ایک پھسلنے والی مچھلی کو پکڑا جاتا ہے، جس طرح مچھلی اگر پھسلے تو فوراً دریا میں چلی جاتی ہے اسی طرح اگر یہ تین دن ضائع ہو گئے تو سمجھ لو کہ تمہارا سارا سال ضائع ہو گیا.کیونکہ بہت لوگ ایسے ہیں جنہیں سال میں صرف ایک دفعہ قادیان آنے کا موقع ملتا ہے اور ان دنوں کے ضائع ہونے کا ان کے سارے سال پر اثر پڑتا ہے.پس دوست اس بات کو خود بھی یاد رکھیں اور جو دوست یہاں نہیں ان سے بھی جب ملیں تو انہیں سمجھائیں یہاں تک کہ ہماری جماعت کا ہر فرد اس سے آگاہ ہو جائے اور ان تین دنوں میں ہر شخص اپنے اوپر موت وار د کر کے خدا کے دین کی باتیں سننے کے لئے بیٹھا رہے.میں نے پہلے بھی کئی دفعہ سنایا ہے کہ مولوی اسماعیل صاحب چٹھی مسیح والے جو پنجابی زبان کے بہت بڑے شاعر تھے، وہ ایک دفعہ مجھ سے ملنے کے لئے آئے اور کہنے لگے آپ تقریر چھوٹی کیا کریں.میں نے کہا لوگ تو کہتے ہیں کہ میں تقریر اور بھی لمبی کیا کروں اور آپ کہتے ہیں میں تقریر چھوٹی کیا کروں.یہ کیا بات ہے.وہ کہنے لگے کہ میرے جیسے تو آپ کی تقریر میں بیٹھے بیٹھے مر جاتے ہیں.ان کو سلسل البول کی بیماری تھی اور پانچ پانچ سات سات منٹ کے بعد ان کو پیشاب کی حاجت محسوس ہوتی تھی.وہ کہنے لگے آپ کی تقریر سننے کے لئے بیٹھتا ہوں تو خیال کرتا ہوں کہ یہ بات جو آپ کہہ

Page 711

خطبات محمود 711 * 1941 رہے ہیں بڑی اچھی ہے اسے آپ ختم کر لیں تو اٹھوں گا مگر جب آپ اس بات کو ختم کرتے ہیں تو دوسری بات شروع کر دیتے ہیں اور وہ بھی بڑی اچھی ہوتی ہے.پھر میں کہتا ہوں یہ بات بڑی اچھی ہے اسے بھی سن لوں جب یہ ختم ہو گئی تو اُٹھ کر چلا جاؤں گا مگر اس بات کے ختم ہونے کے ساتھ ہی آپ اور بات شروع کر دیتے ہیں اور وہ بھی بڑی اچھی ہوتی ہے.میں پھر اپنے دل میں کہتا ہوں کہ یہ بات بھی سن لوں مگر اس کے بعد آپ اور بات شروع کر دیتے ہیں اور وہ بھی اتنی اچھی ہوتی ہے کہ اٹھنے کو جی نہیں چاہتا.اسی طرح بیٹھے بیٹھے پانچ گھنٹے گزر جاتے ہیں.پھر پنجابی میں کہنے لگے “میرا تے پوٹہ پاٹن لگدا ہے ” یعنی میرا تو بیٹھے بیٹھے مثانہ پھٹنے لگتا ہے.پس اگر اس قسم کی بیماری والا انسان پانچ پانچ گھنٹے بیٹھ سکتا ہے تو تندرست اور مضبوط نوجوان جن کو کوئی بھی بیماری نہیں ہوتی وہ کیوں نہیں بیٹھ سکتے.بے شک یہ ایک ہلکی سی قربانی ہے مگر اس قربانی کے مقابلہ میں تم اُن لوگوں کو بھی تو دیکھو جو آجکل جنگ کے میدان میں سخت سردی کے موسم میں کھائیوں میں بیٹھے ہیں اور بعض دفعہ ان کے گھٹنوں گھٹنوں تک پانی ہوتا ہے مگر انہیں پلٹ کر کسی اور طرف دیکھنے کی بھی اجازت نہیں ہوتی.یہی حکم ہوتا ہے کہ دشمن کو دیکھو اور مارو اور دفعہ تو پانچ پانچ سات سات دن تک وہ اسی طرح بیٹھے رہتے ہیں.پس اگر دنیا گھنٹوں کے لئے لوگ اس قدر تکلیفیں اٹھا سکتے ہیں تو دین کے لئے صرف تین دن چند کے لئے بیٹھ جانا کونسی بڑی قربانی ہے.ایسے موقعوں پر تو جیسے مولوی اسماعیل صاحب نے کہا تھا خواہ کس قدر تکلیف پہنچے اور خواہ جسم شدت تکلیف کی وجہ سے پھٹنے لگے پھر بھی کوشش یہی کرنی چاہئے کہ انسان اپنی جگہ پر بیٹھا رہے اور تقریروں کو توجہ سے سنتا رہے.مگر میں نے دیکھا ہے جو لوگ ادھر ادھر پھر رہے تھے وہ بالعموم بوڑھے نہیں تھے بلکہ نوجوان تھے اور ان کی کوئی ایسی اغراض نہیں ہو سکتیں جو مجبوریاں کہلا سکیں.پس ان دنوں سے فائدہ اٹھاؤ اور کوشش کرو کہ اللہ تعالیٰ کی طرف

Page 712

* 1941 712 خطبات محمود تمہیں زیادہ سے زیادہ برکات حاصل ہوں." (الفضل 3 جنوری 1942ء ) 1 الفاتحہ:5 2 ترمذی کتاب الزهد باب في التوكل على الله بخاری کتاب الاعتصام باب ما ذكر النبي الله حَقٌّ عَلَى إِنْفَاقِ أَهْلِ الْعِلْمِ (الخ) 4 ترمذی ابواب العلم باب مَا جَاءَ فِي فَضْلِ الْفِقْهِ عَلَى الْعِبَادَةِ میں یہ الفاظ ہیں.الْكَلِمَةُ الْحِكْمَةُ ضَالَّةُ الْمُؤْمِنِ حَيْثُ وَجَدَهَا فَهُوَ أَحَقُّ بِهَا.

Page 712